Mile Ishq Muqaddar Se By Hina Asad Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Mile Ishq Muqaddar Se By Hina Asad Complete Romantic Novel |
Novel Name: Mile Ishq Muqaddar Se
Writer Name: Hina Asad
Category: Complete Novel
بون میرو ؟؟؟؟؟
اس کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔۔۔۔
ان کا بون میرو ٹرانسپلانٹ ہوگا ؟؟؟؟
ڈاکٹر نے اپنے ماہرانہ پیشہ ورانہ انداز میں کہا۔۔۔
مگر ڈاکٹر کے ان الفاظ نے تو جیسے اس کی روح قبض کر لی ہو۔۔۔۔
اس کے پورے وجود میں کپکپی سی دوڑ گئی۔۔۔
میرا پیام۔۔۔۔وہ دم سادھے دل پر ہاتھ رکھے اس ننھی معصوم سی جان کے بارے میں سوچتی ہوئی لرز کر رہ گئی۔۔۔۔
آپ کو پہلےکسی نے غلط گائیڈ کیا ہے میم۔۔۔۔۔
آج اس کی بیماری کی اصل تشخیص ہوئی ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔۔۔۔
آپ کو کوئی فیصلہ لینا ہی ہو گا۔۔۔۔۔
ک۔ک۔کتنی رقم لگے گی اس پروسیجر میں۔۔۔۔
اس نے کانپتی ہوئی آواز میں ڈاکٹر سے پوچھا۔۔۔۔
پاکستان میں اس ٹرانسپلانٹ کے لیے ایک پانچ، چھ ہاسپٹل ہے شفا انٹرنیشنل ہاسپٹل۔۔۔۔اور یہاں لاہور میں چلڈرن ہسپتال میں بھی بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے۔۔۔
ویسے زیادہ تر اس بیماری کا علاج بیرونی ممالک میں ہی کروایا جاتا ہے۔۔۔۔
اس ٹرانسپلانٹ پر غالباً پاکستانی تیس سے پچاس لاکھ تک کا خرچ آتا ہے۔۔۔۔
ڈاکٹر کی بات سن کر اس کی قدموں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔
وہ ڈوبے دل ،شکستہ قدموں سے چلتی ہوئی وہاں سے باہر نکلی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
"ریلیکس بیٹا. اتنا کیوں گھبرا رہی ہو.." حرمت نے گھبرائے ہوۓ انداز میں انہیں دیکھا جو پچھلے آدھے گھنٹے سے کمرے کا چکر کاٹ رہی تھی.. اس کے چہرے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی گھبرائی ہوئی اور پریشان ہے..
"مجھے یقین ہے کہ تم انٹرویو میں کامیاب ہو جاو گی.." انہوں نے نرم لہجے میں اسے سمجھا کر اس کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھرپور کوشش کی..
"یہ میرا پہلاانٹرویو نہیں ہے میں جانتی ہوں مما.." اس نے پریشانی سے ان کی طرف دیکھا اور دوبارہ سے کمرے کا چکر کاٹنے لگی.. اس کے ہر انداز سے اس کی گھبراہٹ ظاہر ہو رہی تھی.. کبھی وہ بےوجہ اپنی بیٹی پریشے کے بالوں میں ہاتھ چلانے لگتی تو کبھی اپنے بیٹے پیام کے چہرے پر ہاتھ پھیرتی..
مما آپ نہیں سمجھیں گی۔
میں انٹرویو دیتے ہوئے کن مشکلات کا سامنا کرتی ہوں۔۔۔۔اس نے یہ بات دل میں سوچی۔۔۔
"اتنا ہی ڈر لگ رہا ہے اس جگہ انٹرویو دینے سے تو کسی دوسری کمپنی میں کیوں نہیں ٹرائی کر لیتی.. صرف وہی ایک کمپنی تو نہیں ہے ۔۔۔۔
انہوں نے اپنی طرف سے ایک آسان سا حل پیش کیا تھا..
اپنے بچوں کے لیے یہ سب کرنا ہی تھا۔۔۔
"گھبراؤ مت سب بہتر ہوگا.. انشاء اللہ تمہارا انٹرویو اچھا ہوگا.. زیادہ ٹینشن نہ لو.." انہوں نے اس کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ اپنے سوئے ہوئے بچوں پر نگاہ ڈال کرپثمردگی سے چلتی ہوئی ان کے قریب آئی اور ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔۔۔
حرمت کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اس کے چہرے کو دیکھا جہاں گھبراہٹ واضح نظر آرہی تھی.. وہ نہیں چاہتی تھی کہ ان کی پیاری سی بیٹی زیادہ پریشان ہو.. وہ جانتی تھیں کہ یہ جاب اس کے لیے کتنی ضروری ہے اور وہ دل سے دعا گو تھیں
"اللہ کرے سب بہتر ہو.." انہوں نے دھیرے سے لب ولہجہ میں اس کے لیے دعا کی تھی..
اسے جاب کی اشد ضرورت تھی ۔ یہ ایک ایسی کمپنی تھی جو اس کی ساری پریشانی دور کر سکتی تھی.. وہ اپنے بیٹے پیام کا اچھے سے اچھا علاج تو نہیں کرا سکتی تھی۔۔مگر اس کی دوائیاں وقت پر لا سکتی تھی.. اسے اچھے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرواسکتی تھی.. اس کی گرتی ہوئی صحت واپس لا سکتی تھی.. اس کی کھوئی ہوئی مسکان، اس کی آنکھوں کی چمک واپس لا سکتی تھی.. کیونکہ اس کے بچے ہی اس کی کل کائنات تھے.. ان کے علاوہ اس کا تھا ہی کون.. پریشے اور پیام اس کے جڑواں بچے تھے۔۔۔۔پھر آتی تھیں اس کی والدہ ،اور پھر اس کی اماں بی ، ان دونوں کے سکھ دکھ کی ساتھی، انہوں نے ان ماں بیٹی کی تب مدد کی تھی جب وہ دونوں بے گھر اور بے آسرا تھیں۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
صبح جب اس کی نیند کھلی تو اس نے نیند میں ڈوبی آنکھوں سے گھڑی کی طرف دیکھا جو ساڑھے چارکا ہندسہ پار کر چکی تھی.. ہڑبڑا کر وہ بیڈ سے اتری اور واش روم میں گھس گئی.. تھوڑی دیر بعد تولیے سے منہ صاف کرتی وہ باہر نکلی دوپٹہ اوڑھے ہوئے ۔۔۔۔
جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی۔۔۔۔
آخر میں ہاتھ اٹھا کر اپنے خدائے بزرگ و برتر سے اپنے بیٹے کی صحت یابی کے لیے دعا کرنے لگی۔۔۔۔
یا اللّٰہ میرے بچوں کی حفاظت فرما۔۔۔اگرآپ مجھے اس آزمائش میں مبتلا کیا ہے تو آپ ہی اس میں سے مجھے نکالیں گے۔۔۔
میں آپ سے ہی مدد مانگتی ہوں آپ نے ہی تو اس کل کائنات کی تخلیق کی ہے۔۔۔
آپ چاہیں تو کیا نہیں ہو سکتا۔۔۔
یا اللّٰہ تو رحمٰن ہے رحیم ہے۔۔۔۔
میرے بچے پر بھی اپنا رحم کریں،،،، کرم کردیں۔۔آپ تو دونوں جہانوں کے مالک ہیں آپ کے رحمتوں کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں۔۔۔میں اپنے بچے کی صحت وتندرستی کی بھیک مانگتی ہوں وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا آنچل پھیلائے خدائے باری تعالیٰ کے حضور گڑگڑا رہی تھی۔۔۔۔
آنسو لڑیوں کی مانند اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔۔۔اسے اپنا وجود کانچ کے ٹکڑوں کی طرح بکھرا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
آپ کی واحد ذات ہی ہمیشہ ساتھ ہوتی ہے جب ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوتا۔۔۔۔
تلاوت کے بعد اس نے ساتھ والے کمرے میں جھانکا اماں بی اور اس کی والدہ بھی نماز سے فراغت کے بعد تسبیح و تقدیس میں مشغول تھیں۔۔۔۔
وہ ہلکا پھلکا ناشتہ بنا کر ٹرے میں رکھے اندر آئی اور انہیں مشترکہ سلام کیا۔۔۔۔
چند ایک گھر کے چھوٹے موٹے کام نبٹاکر اپنے کمرے میں واپس آئی اور الماری کھول کر اس میں سے اپنا عبایا نکالا۔۔۔۔
اسے پریس کرنے کے بعد وہ تیار تھی۔۔۔۔آج پھر سے ایک انٹر ویو کے لیے۔۔۔۔
اور رکشہ کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگی..
"ملک انڈسٹریز چلئے بھیا.." رکشہ میں بیٹھ کر اس نے رکشہ ڈرائیور کو ایڈریس بتایا تو اس کے بتائے ہوئے راستے پر گامزن ہوا۔۔۔۔
کل ہی اس نے اخبار میں اس کمپنی کا ضرورت برائے سٹاف کے لیے ایڈ دیکھا تو آج قسمت آزمائی کے لیے آگئی تھی۔۔۔۔
"کیا ہوا بھیا جلدی چلیں مجھے دیر ہو رہی ہے...."
"جی میڈم جی.." وہ سر ہلا کر رکشہ کی سپیڈ تیز کرنے لگا..
تھوڑی دیر بعد رکشہ ایک جھٹکے سے رکا تو اس نے کھڑکی سے سر نکال کر باہر دیکھا۔۔۔
ایک بڑی سی بلڈنگ تھی۔۔۔
"لیجئے بھیا.."اس نے روپے اس کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی اندر آئی۔۔۔۔
انٹرویو کہاں ہو رہے ہیں؟؟؟؟
ریسپیشن پر موجود ریسپشنسٹ سے پوچھا۔۔۔
سوری میم آپ لیٹ آئی ہیں انٹرویو کا وقت تو ختم ہو گیا۔۔۔۔
یہ بات سن کر اس کی امید ٹوٹی۔۔۔۔
وہ فرش کو تکنے لگی۔۔۔۔
باس جو اپنے روم میں موجود سکرین پر باہر کے مناظر دیکھ رہا تھا۔۔۔
پاس پڑا فون اٹھا کر ریسپیشن پر کال کی۔۔۔
یس سر !!! اس نے مؤدب انداز میں کہا۔۔۔۔
اس کی بات سن کر فون نیچے رکھا۔۔۔۔۔
میم آپ کو باس نے بلایا ہے اوپر جا کر فرسٹ ون کیبن میں۔۔۔۔
اس نے اسے راستہ سمجھایا۔۔۔۔۔
دل میں میں امید کی ڈور بندھی۔۔۔۔
وہ اپنی فائل لیے اسی بتائے گئے راستے پر چل کر کیبن تک آئی۔۔۔۔
May I come in Sir ?
اس نے دروازے پر دستک دے کر پوچھا۔۔۔۔
یس۔۔۔۔
وہ اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
بلیک عبایا۔۔۔سر اور چہرے پر حجاب صرف نیلی آنکھیں نمایاں تھیں۔۔۔۔
ہاتھوں میں فائل تھی اور سفید دمکتی رنگت
والے ہاتھ۔۔۔
پاؤں میں بند شوز تھے جس سے پاؤں کی رنگت کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا۔۔۔۔
اس نے سر تا پا اس کا پورا جائزہ لیا۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہوئے اس کے لبوں پر پراسرار سی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔
حرمت نے فائل اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔
ہہہم۔۔۔۔صرف بی ۔کام۔۔۔۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے سامنے رکھی گئی کرسی پر اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔۔۔۔
ہماری جاب کے لیے یہ ریکوائرمینٹ ناکافی ہیں ۔۔۔۔
اس کی بات پر حرمت کا سانس ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔
وہ اس کی فائل کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔۔
ساتھ ساتھ اس کا بھی۔۔۔۔
آپ کا ایکسپیرینس کتنا ہے؟
ہر کوئی پہلا سوال یہی پوچھتاتھا۔۔۔۔
اس نے تھوک نگلی ۔گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔
سر میرے پاس ایکسپیرینس نہیں ہے۔ کام کرنے کا
کوئی موقع دے گا تو ہی ایکسپیرینس ہو گا نا۔۔۔اس نے سر جھکائے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
اس کی فائل پڑھتے ہوئے ایک جگہ نظر رکی۔
جہاں میرڈ لکھا تھا۔۔۔۔
آپ تو کہہ رہی تھیں آپ کے پاس ایکسپیرینس نہیں۔۔۔۔
اس نے سامنے بیٹھے شخص کے سوال پر اچنبھے سے اسے دیکھا۔۔۔
آپ تو میرڈ ہیں اس لحاظ سے آپ ایکسپیرنسڈ ہوئی اس جاب کے لیے جس پر میں آپ کو رکھنا چاہتا ہوں۔اس نے خباثت سے مسکراتے ہوئے اپنی بیرڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جس آفس میں بھی جاتی اس کی کوالفکیشن کو نظر انداز کر کہ اس کی خوبصورتی پر ہی توجہ دی جاتی۔۔۔۔۔
"جی...؟" اس نے ناسمجھی سے آنکھیں پھیلائیں ۔۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چلتے ہوئے اٹھ کر آہستگی سے قدم اٹھاتے ہوئے اس کے قریب آیا اور اس کی پشت کی جانب کھڑا ہوا۔۔۔۔
وہ سانس روکے بیٹھی تھی۔۔۔
اس کا ہاتھ اپنی کمر پر رینگتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔
اس نے کسمسا کر اسے جھٹکنا چاہا۔۔۔۔
چہرہ تو دکھایا نہیں۔۔۔۔
اس کی انڈر سلپ کو عبائے سے باہر ہی ٹٹولتے ہوئے کھینچ کر ایک دم ٹک کی آواز سے چھوڑا۔۔۔۔۔
سائز ہی بتا دو۔۔۔۔۔اس نے مکروہ ہنسی ہنستے ہوئے کمینگی چھلکاتے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اس کی حرکت اور ڈیمانڈ سن کر تو گویا اس کے تن بدن میں تو جیسے آگ لگ گئی تھی۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اٹھی ۔۔۔
اس نے ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے چہرے پر نشان چھوڑتا۔۔۔۔۔
دل تو کررہا ہے تمہارا منہ توڑ دوں۔
مگر تم اس قابل بھی نہیں کہ میں اپنا بدلہ لینے کے لیے کسی نا محرم کو چھووں۔۔۔۔۔
پھر اپنی فائل اٹھا کر بولی۔۔۔۔
میرے ساتھ کوئی بھی بیہودہ بات کی نا تو مجھے پھر اپنی جوتی کا سائز بتانے میں ایک منٹ نہیں لگے گا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی حرکت کرتا وہ اسے دھکا دیتی ایک ہی سانس میں بھاگتی ہوئی آفس سے باہر نکل آئی۔۔۔۔
باہر آتے ہی اس نے ایک سکون کی سانس ہوا میں تحلیل کی تھی جیسے کسی جیل سے رہائی ملی ہو..
اب مزید فی الوقت کچھ جھیلنے کی سکت نا تھی۔۔۔اس لیے واپسی کی راہ لی۔۔۔
اس کا گرمی کے باعث تمتماتا ہوا چہرہ گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔
درشتی سے عبایا اپنے وجود سے اتارا اور اس کا گولہ سا بنا کر سامنے پڑی چارپائی پر پھینکا۔۔۔۔
آنکھیں خون چھلکا رہی تھیں۔۔۔انہوں نے اس کے چہرے پر نظر ثانی کی۔۔۔۔
جو شاید اپنا غصہ ضبط کرنے کے آخری مراحل میں تھی۔۔۔۔۔
اماں میں کچھ نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔
ہمارے حالات نہیں سدھرنے والے۔۔۔۔
میں نہیں بچا پاؤں گی اپنے بچے کو۔۔۔۔اس نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا اور دیوار کے ساتھ لگی اپنی بے بسی پر رونے لگی۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
ترکی کا دارالحکومت انقرہ میں رات کے اس پہر بزنس پارٹی اپنے عروج پر تھی
روشنیوں کی جگمگاہٹ اور کمیرہ مین کی فلیش لائٹس اس وقت ترکی کے مشہورِ ومعروف ینگ بیچلر بزنس مین آف دی ایئر اوزیم خان پر تھیں۔۔۔۔
وہ اپنے جاہ وجلال سمیت مغرورانہ چال چلتا ہوا سٹیج تک آیااور تفاخر سے اپنا ایوارڈ وصول کیا۔۔۔۔
اس نے ترکی میں پھیلےاپنے والد کے بزنس کو نئے مقام پر پہنچایا۔۔۔۔
چھ فٹ کو چھوتا قد ورزشی جسامت،سرخ وسفید رنگت گہری اوشن بلیو آئیز جن میں ہر وقت سرد پن طاری رہتا۔۔۔
دیکھنے والا بھی ایک پل کو ٹھٹھک کر رہ جاتا۔۔۔۔
صنفِ مخالف تو کیا مرد حضرات بھی اس کی پرسنالٹی کو سراہے بنا نا رہ سکتے۔۔۔
وہ بزنس مین کم اور ماڈل زیادہ دکھائی دیتا۔۔۔۔
موسٹ وانٹڈ بیچلرزمیں سر فہرست لڑکیوں کا کرش۔۔۔۔
ڈارک بلیو کلر کا برینڈ سوٹ پہنے،پاوں میں بلیک چمچاتے شوز،چہرے پر ہلکی سی بھوری بیرڈ اس کی شخصیت کو مزید سحر انگیز بنارہی تھی ۔۔۔۔
اس نے شکریہ کے چند رسمی کلمات ادا کیے اور سٹیج سے ادائے بے نیازی سے نیچے اترا۔۔۔۔
پارٹی میں موجود لڑکیوں کا جھرمٹ اس کے گرد جمع ہوا سیلفیز کے لیے۔۔۔
کومل اس کے شانے سے لگی۔۔۔
اور سیلفی لینے لگی۔۔۔
اس نے نخوت بھری نظر سے اسے اپنے اتنے قریب دیکھ کر جھٹکا۔۔۔۔
Behave yourself......
اس کی تنفر بھری آواز سے وہ چند لمحوں کے لیے تو سب کے سامنے ہوئی اپنی بے وقعتی پر منہ پھلا کر رہ گئی۔۔۔
مگر ایک ہی پل میں وہ خود کو کمپوز کر چکی تھی۔۔۔۔
ایوارڈ کا سلسلہ ختم ہوا تو ڈنر کا دور چلا۔۔۔۔پھر ترکش میوزک نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا۔۔۔۔
میوزک چلتے ہی اس کے دل و دماغ میں سکون اترنے لگا اور ماضی کی دھندھلائی ہوئی یادیں اس کے ذہن کو جکڑنے لگیں۔۔۔۔
مفن پلیز۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔پلیز!!!!!
مجھے یہ میوزک بہت پسند ہے اور ڈانس سٹائل بھی۔۔۔
آؤ نا دونوں مل کر کرتے ہیں۔۔۔۔
وہی دلکش آواز اس کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔۔۔۔
Hey Choco lava.......
مجھے ان سب میں مت گھسیٹو۔۔۔۔
مجھے یہ سب نہیں آتا۔۔۔۔
زیادہ سڑو بننے کی کوشش نا کرو ڈئیر مفن۔۔۔۔
ورنہ تمہاری نوٹ بکس کا جو حال کروں گی ساری زندگی یاد رکھو گے۔۔۔۔
اس نے ناک سکوڑتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔
خبردار جو میری کسی چیز کو ٹچ کیا۔۔۔۔
اس نے بھی اسے وارن کیا۔۔۔۔
یہ تمہاری میری چیزیں نہیں ہوتیں دوستوں میں۔۔۔
میرے بیسٹی نہیں۔۔۔۔اس نے منہ پھلا کر مان سے کہا۔۔۔
ایک تو تم ایموشنل بلیک میلنگ بہت کرتی ہو۔۔۔۔
آو۔۔۔۔تم ایسے نہیں ٹلنے والی۔۔۔۔۔
اس نے پھر سے ترکش میوزک سٹارٹ کیا۔۔۔۔
اور ایل_ ای_ ڈی پر موجود کپل کو دیکھتے ہوئے ڈانس مووز لینے لگے۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو مفن؟؟؟؟
کوئی ایسے بھی بے دلی سے ڈانس کرتا ہے؟؟؟
اس نے اس کی بیزاری محسوس کرتے ہوئے اسے ٹوکا۔۔۔۔
کر تو رہا ہوں یار۔۔۔۔
دفعہ ہو جاؤ۔۔۔۔
ایسا بکواس ڈانس نا ہی کرو تو بہتر ہے ۔۔۔
میں کہہ رہی ہوں تمہیں یہ ڈانس سیکھنا ہی ہو گا میرے لیے۔۔۔۔
اس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر لڑاکا انداز میں کہا۔۔۔
Sir a pic please......
وہ جھٹ سے ماضی کی یادوں سے باہر نکلا۔۔۔۔
وہ شان ِبے نیازی سے چلتا ہوا بنا ساری پارٹی اٹینڈ کرتا گیدرنگ سے باہر نکلا۔۔۔۔
اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔۔۔۔
کومل اس کے پیچھے باہر نکل آئی۔۔۔
اوزیم دیکھو تمہیں سب کے سامنے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔
کتنی انسلٹ ہوئی میری۔۔۔سب لڑکیاں مجھ پر ہنس رہی تھیں۔۔۔
اس نے اوزیم کی بازو پکڑ کر اسے جانے سے روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں نے کتنی بار کہا ہے دور رہا کرو مجھ سے مگر یہ بات تمہارے دماغ میں ُگھستی کیوں نہیں ایک بار۔۔۔
اور اپنے ہاتھوں کو کنٹرول میں رکھا کرو۔۔۔
میرا ہاتھ اٹھ گیا نا تو برداشت نہیں کر پاؤ گی۔۔۔۔
اس نے قہرآلود لہجے میں کہا۔۔۔
وہ کہتا ہوا اپنے کوٹ کا واحد بند بٹن کھول کر گاڑی میں بیٹھا۔۔۔۔
ہم یونیورسٹی سے دوست ہیں اوزیم تم ابھی بھی مجھے نہیں سمجھے کہ میں کیا چاہتی ہوں۔۔۔
اس نے نم لہجے میں کہا۔۔۔۔
اپنے الفاظ پر غور کرو۔۔۔۔۔
میں بھی یہی کہنا چاہتا ہوں تمہیں۔۔۔۔۔
اس نے نپے تلے الفاظ میں ابرو اچکا کرکہا۔۔۔
اور ڈرائیور کو اشارہ کیا گاڑی آگے بڑھانےکا۔۔۔۔
ڈرائیور نے اس کی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔۔۔
پیچھے کھڑی کومل جاتی گاڑی کو دیکھ کر تلملا کر رہ گئی۔۔۔۔
وہ جو خاص آج کے فنکشن کے لیے ترکی کی بیسٹ ڈیزائنر کا ڈریس پہن کر مہنگے ترین بیوٹی سیلون سے تیار ہو کر آئی۔۔۔۔
اس دشمن جان نے ایک نظر بھی اس پر ڈالنا گوارا نا کیا۔۔۔
اسے اپنی ساری تیاری اکارت جاتی دیکھ شدید دکھ نے آگھیرا۔۔۔۔
تمہارا پیچھا میں بھی نہیں چھوڑنے والی اوزیم خان یہ بات یاد رکھنا۔۔۔۔
وہ رندھی ہوئی آواز میں خود
حریم آج میں بھائی سے ہمارے رشتے کی بات کرنے والا ہوں۔۔۔بلال نے اس کو بتانا مناسب سمجھا۔۔۔۔
تم بھی گھر میں بات کرو دیکھو تمہاری بہن کیا کہتی ہے۔۔۔۔
آپی تو مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں وہ ضرور مان جائیں گی مگر فلک بھائی نہیں مانیں گے۔۔۔شاید۔۔۔اس نے سوچنے کے انداز میں گہری سانس بھر کر کہا۔۔۔۔
تمہارے بہنوئی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا اس رشتے سے؟؟؟
اچھا خاصا ہینڈسم بندہ تمہیں مل رہا ہے۔۔۔اور کیا چاہیے بلال نے تفاخر کالر اچکاتے ہوئےسے کہا۔۔۔۔
خالی ہینڈسم ہونے سے کام نہیں چلے گا پہلے کچھ کر تو لو ۔۔۔
شادی سے پہلے ہی کرلوں؟؟؟کتنی براڈ مائنڈڈ ہو تم۔۔۔۔
بلال نے اسے شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
بہت ہی کوئی واہیات انسان ہو تم۔۔۔
میں کام کی بات کر رہی تھی۔۔۔جب بھائی پوچھیں گے کہ کیا کام کرتے ہو ۔۔۔۔تو کیا بتاؤ گے انہیں کہ میرا بڑا بھائی جج ہے وہی کماتا ہے میں صرف پڑھائی کر کہ فارغ ہوا ہوں۔۔۔
واہ واہ ایسے تو انہوں نے دے دیا رشتہ تمہیں۔۔۔۔
حریم نے منہ پھیر کر بے کہا۔۔۔۔
میں نے جاب کے لیے اپلائی کر دیا ہے تم فکر مت کرو ان شاءاللہ جلد ہی جاب بھی مل جائے گی اور پھر تم بھی۔۔۔
شیخ چلی والی باتیں ہیں۔۔۔دیکھ لو سہانے خواب۔۔۔۔
خواب دیکھنے پر کون سے پیسے لگتے ہیں۔۔۔۔
حریم نے اسے چڑایا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں کر لو جتنی باتیں کرنی ہیں کر لو آج تمہارا وقت ہے کل جب میرا وقت آئے گا تو پھر بتاؤں گا تمہیں۔۔۔۔بلال اس کے ساتھ قدم سے قدم ملاتا ہوا یونیورسٹی سے باہر نکلا۔۔۔۔۔
حریم اور ناز دونوں بہنیں تھیں۔۔۔ناز بڑی تھی اور حریم چھوٹی۔۔۔۔
ان کی والدہ کی وفات کو کافی عرصہ بیت چکا تھا۔۔۔
ناز کی شادی اس کے والد نے اپنی زندگی میں فلک شیر سے کرادی تھی۔۔۔
ایک دن دل کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکے۔۔۔اور فانی دنیا سے کوچ کر کہ ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے۔۔۔۔
فلک شیر اور ناز کی ایک ہی اولاد تھی۔۔۔۔
والد کی وفات کے بعد ناز حریم کو اپنے پاس لے آئی تھی۔۔۔
اب وہ اور فلک شیرہی اس کے تعلیمی اخراجات اٹھا رہے تھے۔۔۔۔
فلک شیر کا اپنا بزنس تھا۔۔۔وہ کوئٹہ میں رہتے ہوئے خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔۔۔۔
حریم کی خواہش کے مطابق اس کا داخلہ لاہور کی یونیورسٹی میں کروا دیا گیا تھا۔۔۔۔
وہ وہیں کہ ایک ہاسٹل میں رہائش پذیر تھی۔۔۔سمیسٹر کے اختتام پر ہی اپنے شہر واپس آتی۔۔۔
وہاں اس کی ملاقات بلال سے ہوئی۔۔۔شروع میں سٹڈی کے لیےکی گئی دوستی جانے کب پیار جیسے جذبے میں بدلی انہیں خود بھی خبر نا ہوئی۔۔۔۔
اب تو دونوں کا ایک پل بھی ایک دوسرے کے بغیر گزارنا سوہان روح بن رہا تھا۔۔۔۔
کیونکہ آج سٹڈی کمپلیٹ ہونے پر حریم کوئٹہ واپس جا رہی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی جدائی سے اداس تھے۔۔۔۔
مگر یہ جدائی وقتی ثابت ہوئی۔۔۔۔
حریم نے گھر پہنچ کر اپنی بڑی بہن ناز کو بلال کے بارے میں اپنے جذبات سے آگاہ کر دیا۔۔۔۔
ادھر بلال کے بڑے بھائی فائز سلطان نے بھی
اپنے لاڈلے بھائی کی بات مان کر اس کا رشتہ لے کر کوئٹہ گئے۔۔۔۔۔
ان دنوں میں بلال کو ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر ملازمت مل چکی تھی۔۔۔۔
فلک شیر کے پاس بھی کوئی جواز نا تھا انکار کرنے کا ۔۔۔۔
بس اتنا ہی کہا کہ ہمارے خاندان میں اپنی ہی برادری میں شادی کرتے ہیں ۔۔۔۔اگر آج حریم کے بابا زندہ ہوتے تو شاید اس شادی کے لیے کبھی راضی نہیں ہوتے۔۔۔۔
مگر مجھے حریم کی خوشی زیادہ عزیز ہے ناکہ فرسودہ روایات۔۔۔۔۔
انہوں نے کچھ دنوں کی مہلت مانگی انہیں جواب دینے کے لیے۔۔۔۔
ان دنوں میں انہوں نے ان کی فیملی کے بارے میں ساری معلومات حاصل کر لی تھیں۔۔۔۔۔
فائز جج کے عہدے پر فائز تھا۔۔۔اور اپنے کھرے فیصلوں کی وجہ سا خاصا مقبول تھا۔۔۔وہ شادی شدہ اور ایک بیٹے کا باپ تھا۔۔۔
جبکہ بلال نے حال ہی میں تعلیم مکمل کر کہ ملازمت اختیار کی تھی۔۔۔۔
اچھی طرح ساری جانچ پڑتال کرنے کے بعد انہوں نے حریم کے لیے بلال کے رشتے پر مثبت جواب دے دیا۔۔۔۔
فلک شیر حریم کو اپنی بہنوں کی طرح رکھتا تھا ۔۔اور سمجھتا بھی تھا۔۔۔اس لیے وہ اس کے معاملے میں کوئی بھی رسک نہیں لینا چاہتا تھا۔۔۔۔
بالآخر بلال اور حریم کی خواہش پوری ہوئی۔۔۔بلال حریم کو کوئٹہ سے رخصت کروا کر لاہور لے آیااور وہ دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہو گئے۔۔۔۔۔
شادی کے ایک سال بعد ہی ان کی گود میں اک ننھی سی پری آ گئی۔۔۔۔جس کی آنکھیں بالکل اپنی مما حریم پر تھیں۔۔۔نیلی گہری آنکھیں۔۔۔
سرخ وسفید رنگت بالکل پٹھانی گڑیا۔۔۔۔
اس کی تھوڑی پر خم تھا۔۔۔جو اسے سب سے پیارا اور منفرد بناتا تھا۔۔۔۔۔
بلال نے اس کا نام "حرمت" رکھا جس کا مطلب تھا "عزت"۔۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
سر آپ کے انٹرویو کے لیے کافی دفعہ سب اصرار کر چکے ہیں۔۔۔۔
اس کے مینجر نے مؤدب انداز میں کھڑے ہو کر اسے آگاہ کیا۔۔۔۔۔
کتنی بار کہا ہے کہ مجھے اپنی پسند نا پسند اپنی پرسنلز کسی سے بھی شئیر نہیں کرنی۔۔۔
اس بار بھی میرا جواب تم اچھے سے جانتے ہو۔۔۔۔
اس کی پیشانی پر بل پڑے ۔۔۔۔جسے وہ اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے مسلنے لگا۔۔۔۔اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔۔
مینجر نے وہاں سے کھسک جانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔۔۔۔
ٹیبل پر میگزین پڑا تھا جس کے فرنٹ پیج پر اس کی فل سائز تصویر تھی۔۔۔۔
جس میں ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے کھڑے مغرور تنے نقوش لیے وہ پورے آب و تاب سے چھایا ہوا تھا۔۔۔۔
اتنی ترقی اتنی دولت اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی وہ بے چین تھا۔۔۔۔
اس نے ریوالونگ چئیر کی پشت پر اپنا سر ٹکایا۔۔۔۔
اس کے سلکی بال اس کی پیشانی پر بکھرے۔۔۔
اس نے آنکھیں موند لیں۔۔۔۔
زندگی میں گزرے وہ میٹھے پل جو اس کی کُل متاع تھے۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے پردوں کے سامنے لہرانے لگے۔۔۔۔۔
جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ اس کے بابا اسے چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اس کی مما بھی ان کے غم میں اسے بھولی بیٹھیں ہیں اس نے زیادہ سے زیادہ وقت اس کے ساتھ گزارتا۔۔۔
اس کے بال بناتا اسے ہوم ورک میں مدد کرتا ۔۔۔
دونوں ساتھ مل کر کھیلتے۔۔۔۔
حلانکہ ان کی عمر میں پانچ سال کا فرق تھا مگر پھر بھی وہ اس فرق کو مٹائے ایسےبیسٹ فرینڈ بن چکے تھے جیسے یکجان اور دو قالب۔۔۔۔
مفن تم کہاں جا رہے ہو؟؟؟؟
وہ جو اسی سے چھپ کر بیٹ پکڑے گھر سے باہر نکل رہا تھا ۔۔۔۔
اس کی آواز سن کر پیچھے مڑا۔۔۔۔۔
اسے کیسے پتہ چل جاتا ہے؟؟؟اس نے دھیمی آواز میں خود سے کہا۔۔۔۔۔
مجھے سب پتہ چل جاتا۔۔۔۔۔
چھچھوندر۔۔۔۔۔
مجھے چھوڑ کر ان کالے ،نیلے،پیلوں کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کا رہے تھے نا؟؟؟
اس نے ابرو اچکاتے ہوئے انگلی اٹھا کر سوال کیا۔۔۔۔
وہ سب دوست میرا انتظار کررہے ہیں۔۔۔۔
پلیز جانے دو نا ۔۔۔۔شام کو آکر پکا تمہارے ساتھ بھی کھیلوں گا۔۔۔۔
تمہیں مجھ سے زیادہ وہ دوست پیارے ہیں نا ۔۔۔تو ٹھیک ہے جاؤ ان کے پاس۔۔۔۔
دوبارہ میرے پاس آئے نا تو پھر دیکھنا۔۔۔۔
ختم دوستی۔۔۔۔
وہ دھپ سے فرش پر آلتی پالتی مارے ہوئے بیٹھ کر رونے لگی۔۔۔۔
کٹی مفن۔۔۔۔۔میں نئیں بولتی تم سے۔۔۔۔۔
اس نے دانتوں سے انگوٹھے کو زور سے ٹچ کرتے ہوئے اپنی ناراضگی کا کھلم کھلا اظہار کیا۔۔۔
خالہ یہ دیکھیں مفن مجھے چھوڑ کر جا رہا ہے۔۔۔۔اس نے اونچی آواز میں اس کی شکایت لگائی۔۔۔۔
اس نے بیٹ زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔
اور چلتے ہوئے اس کے پاس آیا۔۔۔۔
نیچے بیٹھ کر اس کے آنسو پونچھے۔۔۔۔
رو مت ۔۔۔اچھا۔۔۔
کہیں نہیں جا رہا تمہیں چھوڑ کر۔۔۔۔
""""سچی""""""۔۔۔۔۔
اس نے اس کے دونوں گالوں کو زور سے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے دبا کر جوش اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے کہا۔۔۔
You are my best ..best ...best friend muffin.
ان یادوں کا سلسلہ شروع ہی ہوا ۔
اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح ان میں کھو جاتا۔۔۔۔۔۔ باہر سے آتے ہوئے شور نے اس کی یادوں میں روکاوٹ ڈالی۔۔۔۔
وہ اٹھ کر باہر کہ طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
باہر میڈیا اکٹھا تھا۔۔۔۔۔
وہ سخت بیزاری لیے۔۔۔۔اپنے کیبن سے باہر نکلا۔۔۔۔
اور لفٹ میں داخل ہوئے گراؤنڈ فلور کا بٹن پریس کرتے چند لمحوں میں ان تک پہنچا۔۔۔۔
ساری میڈیا اسے سامنے دیکھ اس پر جھپٹ پڑی۔۔۔۔۔
سب کے مائیک کا رخ اس کی طرف تھا۔۔۔۔
ہر کسی کا اپنا سوال تھا۔۔۔۔
سر ہمیں آپ کے بارے میں جاننا ہے۔۔۔۔
آپ کے فینزاور عوام آپ کے بارے میں جاننا چاہتی ہے۔۔۔۔
آپ نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟
آپ میڈیا کے سامنے کیوں نہیں آتے؟
آپ اپنی پرسنل لائف کسی سے شئیر کیوں نہیں کرتے؟؟؟؟
ہر طرح کے سوالات کی بوچھاڑ کردی گئی تھی اس پر۔۔۔۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر سب کو مزید بولنے سے روکا۔۔۔۔۔
Just wait a minute.....
اس کی بھاری گرجدار آواز نے سب کو بولنے سے روکا۔۔۔۔
ماحول میں خاموشی پھیل گئی۔۔۔۔
ایسے کیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔۔۔۔
میں کوئی سلیبرٹی نہیں ہوں جس کہ بارے میں عوام جاننا چاہے۔۔۔۔
میں اپنے پرسنلز کسی سے شئیر نہیں کرتا۔۔۔۔
So,.....
For the sake of God .....
Just leave me alone.....
اس نے کڑے تیوروں سے کہا۔۔۔۔
پھر ایک ہاتھ کے جھٹکے سے اپنے آگے کیے ہوئے مائیک کو پیچھے دھکیلتے ہوئے لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
حرمت نے ایک سکول میں ٹیچنگ شروع کی تھی۔۔۔
اسی میں پریشے کو بھی داخل کروا دیا۔۔۔۔
پیام بیماری کے باعث گھر ہی رہتا اپنی نانی اماں کے پاس۔۔۔۔
وہ دونوں ایک قصبے میں رہتی تھیں۔۔۔۔
پریشے اور پیام دونوں جڑواں تھے۔۔۔شادی کے ایک سال بعد وہ دونوں ایک ساتھ ہی اس کی زندگی میں آئے۔۔۔۔
پیام ایک سال تک کمزور سا ہی رہا جبکہ پریشے بالکل ٹھیک نارمل بچوں کی طرح صحت مند تھی۔۔۔۔
حرمت نے اس کا چیک اپ کروایا تھا وہیں کے ایک کلینک سے ڈاکٹر نے جو بھی اسے میڈیسن اسے لکھ کر دیں تھیں وہ ان کا اسے باقاعدگی سے استعمال کرواتی مگر کوئی بھی افاقہ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
بچوں کے لیے دودھ پیمپرز گھر کے بل اور راشن سب وہ بمشکل پورا کر رہی تھی۔۔۔۔
سکول کی جاب سے وہ اتنا نہیں حاصل کر پا رہی تھی کہ گھر کے اخراجات پورے کر سکے۔۔۔
کبھی کبھار وہ ادھار ادویات بھی لے آتی ۔۔۔
مگر اب تو میڈیکل سٹور والے نے بھی ادھار دینے سے انکار کردیا تھا۔۔۔۔
اسی لیے اس نے کسی اور جگہ جاب کرنے کے بارے میں سوچا۔۔۔۔
اس ماہ وہ سکول کی جاب چھوڑ چکی تھی۔۔۔
اور مختلف فیکٹریوں اور کمپنیوں میں انٹرویوز دے کر آئی تھی مگر کہیں بھی حوصلہ افزا جواب نہیں ملا۔۔۔۔
جو بھی کچھ رقم تھی وہ مختلف جگہوں پر جانے کے لیے کرایوں پر خرچ ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
مما میں نے کچھ سوچا ہے۔۔۔۔۔
حرمت نے انہیں کہا۔۔۔۔
مگر آنکھیں بند رکھیں۔۔۔۔
جیسے وہ کسی گہری سوچ میں ہو۔۔۔۔
کیا میری جان ؟؟؟؟کیا سوچا ہے؟؟؟
انہوں نے پیار بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
مما میں نے سوچا ہے کہ میں کڈنی بیچ دوں گی۔۔۔۔۔
اس نے آنکھیں کھول کر فضا میں سانس چھوڑی۔۔۔۔
پاگل ہو گئی کیا؟؟؟؟
وہ اس کی بات پر فق نگاہوں سے اسے دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔
میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔۔۔۔
میں اپنے بچے کے لیے کچھ بھی کر گزروں گی۔۔۔۔
اس نے اٹل لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
حرمت فضول مت سوچو۔۔۔۔
اللّٰہ تعالیٰ ضرور کوئی نا کوئی راہ نکالے گا
وہ اپنے بندوں کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔۔۔۔
اگر ایک در بند ہو جاتا ہے تو وہ ایک نیا در کھول دیتا ہے۔۔۔۔
مایوسی کفر ہے۔۔۔۔ایسی باتیں دوبارہ میں تمہارے منہ سے نا سنوں۔۔۔۔انہوں نے پیار بھرے لہجے میں مگر زرا ڈپٹ کر کہا۔۔۔۔
اور زرا یہ سوچو۔۔۔اگر تم بیمار ہو جاؤ گی
یا خدا نخواستہ اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو بچوں کو کون سنبھالے گا؟؟؟؟
ہمت مت ہارو۔۔۔۔کسی اور جگہ ٹرائی کرو اللّٰہ مسب الاسباب ہے کوئی نا کوئی وسیلہ ضرور بنائے گا ہماری مدد کے لیے۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
مما آپ کہاں جا رہی ہیں؟؟؟
پریشے نے اس سے سوال کیا ۔۔۔
وہ جو عبایا پہن کر آج پھر سے نئے عزم کے ساتھ ایک جاب کے لیے جا رہی تھی اس کے سوال پر اسے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
اپنی پری کو پہلے سکول چھوڑوں گی پھر مجھے ایک ضروری جگہ پر جانا ہے۔۔۔۔
مما بھیا سکول کیوں نہیں جاتا؟؟؟
وہ تو روز بستر پر لیٹا رہتا ہے اور آپ مجھے صبح جلدی اٹھا دیتی ہو۔۔۔۔
کتنی بڑی نا انصافی کرتی ہو۔۔۔۔اس نے منہ پھلا اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر اسی سے اس کی شکایت کی۔۔۔۔
"نا انصافی" پری یہ اتنی بڑی بڑی باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں آپ نے؟؟؟؟ اس نے اپنے حجاب کو پن اپ کرتے ہوئے اس کے قریب گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ کر حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
پری نے ہونٹوں کو گھما کر دوسری طرف کیا۔۔۔۔
جیسے اس سے اپنی ناراضگی ظاہر کر رہی ہو۔۔۔
اچھا جی میں نا انصافی کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں پری؟؟؟؟
صحیح کہا نا میں نے۔۔۔۔حرمت نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھنا چاہا مگر وہ رخ پھیر گئی۔۔۔۔
اور بتائیں کیا کیا شکایتیں ہیں آپ کو مجھ سے۔۔۔۔؟
آج بتا ہی دیں ساری حرمت نے اس کا رخ اپنی جانب موڑ کر کہا۔۔۔۔
آپ مجھے صبح جلدی اٹھا دیتی ہیں۔
مجھے زبردستی برش بھی کرواتی ہیں۔
میرا کیوٹ سا منہ ٹھنڈے پانی سے دھلواتی ہیں۔۔۔
اور مجھے زبردستی ناشتہ بھی کرواتی ہیں جبکہ میرا بالکل بھی دل نہیں کرتا۔۔۔۔
اور لنچ بھی گھر کا دیتی ہیں کینٹین کا کچھ بھی نہیں کھانے دیتی۔۔۔۔
وہ اپنی فنگر ٹپس پر اس کی شکائیت گنوا رہی تھی۔۔۔۔
ارے۔۔۔ارے۔۔بس۔۔۔۔۔اتنی شکایتیں۔۔۔۔۔
اپنی مما سے۔۔۔۔۔
ابھی آپ نے پوری سنیں کہاں ہیں۔۔۔۔۔پری نے اپنی معصوم مگر صاف آواز میں کہا۔۔۔۔
اچھا میری تین سالہ دادی اماں۔۔۔باقی کی شکایتیں پھر سہی۔۔۔ابھی ہم لیٹ ہو رہے ہیں نا سکول سے۔۔۔حرمت نے اس کی توجہ وال کلاک پر دلائی۔۔۔۔
جلدی چلو۔۔۔۔۔۔
اس کا ہاتھ تھاما اور ایک ہاتھ میں اس کا سکول بیگ لیے وہ گھر سے باہر نکلی۔۔۔۔۔
سکول کے باہر اسے چھوڑ کر وہ جانے لگی۔۔۔۔
مما۔۔۔اس سے پہلے کے وہ آگے بڑھتی۔۔۔۔
پری نے اس کے عبائے کا ایک کونا تھام کر اس سے کہا۔۔۔۔۔
اس کی نظریں سکول میں داخل ہونے والے دوسرے بچوں پر تھیں۔۔۔۔۔
جو اپنے والد کے ساتھ سکول آئے تھے۔۔۔۔اور ان کے والد انہیں پیار کر کہ اندر بھیج رہے تھے۔۔۔۔
حرمت نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔۔۔۔۔
مما میرے بابا کہاں ہیں؟؟؟؟
پری کے سوال پر اس کی نیلی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
کومل اس کے شاندار آفس میں داخل ہوئی۔۔۔۔
اس کی ہیل کی ٹک ٹک کی آواز سن کر لیپ ٹاپ پر جھکے میلز چیک کرتے ہوئے اوزیم خان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر سے پوری طرح نظر انداز کیے اپنے کام میں مشغول رہا۔۔۔۔
کومل ٹو سیٹر صوفے پر بیٹھ کر اس کی فراغت کا انتظار کرنے لگی۔۔۔۔
دس منٹ۔۔۔پندرہ منٹ۔۔۔۔آدھا گھنٹہ وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی رہی۔۔۔۔
آخر کار تھک کر اس نے اپنی جگہ چھوڑی۔۔۔۔
اور اس کے قریب آئی۔۔۔۔
"ایسی کونسی مصروفیات ہیں جو ختم ہی نہیں ہو رہیں"؟؟؟؟
پتہ بھی ہے میں کب سے تمہارے فری ہونے کا ویٹ کر رہی ہوں ۔
جان بوجھ کر اگنور کر کہ ذلیل کرنے کا کیا مقصد ہے؟؟؟؟؟
کومل نے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔۔۔۔۔
آنکھیں اگر ساتھ ہیں تو ان سے کام بھی لیا کرو۔۔۔۔
دیکھ نہیں رہی کام میں بزی ہوں۔۔۔۔۔
اور ساتھ ساتھ دماغ کا بھی استعمال کرو یقین جانو بالکل بھی خرچ نہیں ہوگا کیونکہ یہ زنگ آلود ہو چکا ہے۔۔۔
اتنی سے بھی عقل نہیں دیتا تمہیں کہ آفس میں کام کیا جاتا ہے ناکہ فضولیات۔۔۔۔۔۔
اس نے سر اٹھائے بغیر نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر مرکوز رکھے ہوئے طنزیہ لب ولہجہ میں کہا۔۔۔۔
اس کے سخت الفاظ اسے نشتر کی طرح چبھے۔۔۔۔وہ سلگ اٹھی۔۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو؟؟؟؟اس نے انگلی اٹھاتے ہوئے طیش میں آکر کہا۔۔۔۔
اوزیم کی انگلیاں ابھی بھی کی پیڈ پر مہارت لیے تیزی سے حرکت کر رہی تھیں۔۔۔۔
"میں اپنے آپ کو انسان کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھتا"۔۔۔۔
اس کی انگلیوں کی حرکت تھمی۔۔۔۔
اور وہ جھکا ہواسر اٹھا کر بولا۔۔۔۔
کاش تم بھی انسان ہوتی جسے اپنی عزت بے عزتی کی زرا سی بھی پرواہ ہوتی ۔۔۔۔
ہر بار انکار سننے کے باوجود بھی یوں منہ اٹھا کر پھر سے نا چلی آتی۔۔۔۔۔
وہ تھوڑا پیچھے ہوا اور چئیر کی پشت سے لگا۔۔۔۔۔
وہ تیز قدموں سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔۔۔۔
تم کیا سوچتے ہو تمہارے اس بی ہیوئیر سے تم مجھے خود سے بدظن کرنے میں کامیاب ہو جاو گے تو تمہاری سوچ غلط ہے۔۔۔۔۔
میں کبھی بھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑوں گی۔۔۔۔
وہ اس کی چئیر پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اس پر جھکی۔۔۔۔۔۔
کومل کو اپنے اتنے قریب دیکھ کر اس کی آنکھیں جیسے آگ اگلنے لگیں۔۔۔۔۔
اوزیم خان نے چند پل اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنے غصے کو پیتے ہوئے ضبط کرنے کے مراحل سے گزرا۔۔۔۔۔
اس نے اپنی دونوں مٹھییوں کو زور سے بھینچ لیا۔۔۔۔۔
صنف مخالف پر ہاتھ اٹھانا اس کی سرشت میں شامل نہیں تھا اور نا ہی اس کی تربیت میں۔۔۔۔۔
اوزیم خان تمہارے دل میں جو بھی ہے اسے باہر نکال پھینکو۔۔۔۔۔
کومل نے تنفر سے کہا۔۔۔۔۔
مشورے کا شکریہ۔۔۔۔اوزیم نے سرد مہری سے کہا۔۔۔۔۔
اس دل میں میری جگہ ہے اور کسی کی نہیں۔۔۔۔
وہ جو بھی ہے بھول جاؤ اسے۔۔۔۔۔کومل نے منت بھرے لہجے میں پھر سے کہا۔۔۔۔۔
""""اس کی جدائی نے اوزیم خان کے دل میں جو لاوا بھر دیا ہے،
وہ ہر گزرتے پل کے ساتھ آتش فشاں کا روپ اختیار کر گیا ہے۔۔۔۔
وہ لاوا مجھ میں پھٹا تو ،مجھے ہی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔۔۔
اور اگر تم نے اسے چھونے کی کوشش بھی کی تو یہ تمہیں جلا کر بھسم کردے گا۔۔۔۔
اس نے خود پر جھکی ہوئی کومل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اس کی اوشن بلیو آئیز اس وقت انگاروں کی مانند دہکتی ہوئی حد درجہ سرد تاثرات سے بھرپور اس پر جمی تھیں۔۔۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں موجود غیر معمولی سرد پن پر ٹھٹھکی۔۔۔۔۔
پل بھر کے لیے اس کے پورے وجود میں ڈر کی بدولت سنسی سی دوڑ گئی۔۔۔۔
خود کو سنبھالتے ہوئے اپنی حد درجہ ذلت پر آنسو بہاتے ہوئے وہاں سے نکلی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس کے آفس سے باہر نکلتی ۔۔۔
دروازے پررُکی۔۔۔۔
پھر پلٹ کر گہری سانس خارج کی۔۔۔۔
جس کے لیے تم نے مجھے بے عزت کیا ۔۔۔
جس کے لیے تم یوں تڑپ رہے ہو۔۔۔۔
کبھی نا ملے وہ تمہیں۔۔۔۔۔
میری بدعا ہے۔۔۔۔وہ قہر زدہ لہجے میں چیخی۔۔۔۔
اور بھاگتی ہوئی وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
اس کی بات پر اوزیم خان نے میز پر موجود ایپل کے لیپ ٹاپ کو جارہانہ انداز میں ایک ہاتھ مار کر جھٹکے سے دور پھینکا۔۔۔۔
جو فرش کی زینت بنا دو حصوں میں منقسم ہو چکا تھا۔۔
اوزیم خان کے کیبن سے کچھ ٹوٹنے اور گرنے کی آوازیں سن کر اس کا پی۔ اے اندر آیا۔۔۔۔۔
کیبن کی ہر قیمتی چیزوں کو بے دردی سے توڑا گیا تھا ہر شے اپنی ناقدری پر ماتم کناں تھی۔۔۔۔۔
عماد اس کا پی ۔اے ہونے کے ساتھ اس کا دوست یونی فیلو بھی تھا۔۔۔۔اس کے معاشی حالات دیکھتے ہوئے اوزیم خان نے اسے اپنے آفس میں کام دیا تھا۔۔۔۔۔
عماد !!!!!!
عمادجو اس کی حالت کے پیشِ نظر چپ چاپ یہاں سے باہر نکلنے لگا تھا اس کی آواز سن کر وہیں رکا اور واپس پلٹا۔۔۔۔۔
وہ اپنی پیشانی پر ہاتھ رکھے بند آنکھوں سے اس سے گویا ہوا۔۔۔۔
میری ٹکٹس بک کرواؤ۔۔۔۔۔۔
میں کچھ دن کے لیےیہاں سے دور جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔
سر کہاں کی ٹکٹس؟؟؟؟
اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔۔۔
وہ اوزیم کے جواب کا منتظر تھا۔۔۔۔۔
اس کا جواب سنتے ہی عماد وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
کل سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔۔۔اپنی اس کیفیت کے زیر اثر وہ کئی بار کھانا کھانا ہی بھول جاتا تھا۔۔۔۔
مفن مجھے بھوک لگی ہے۔۔۔۔
وہ جو اپنے میٹرک کے امتحان کی تیاری میں مصروف تھا رات گئے پڑھائی کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ کمرے کے دروازے میں جھانکتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئی۔۔۔۔
تمہیں نیند نہیں آتی چڑیل کہیں کی۔۔۔
آدھی رات کو چڑیلوں کی طرح گھومتی ہو کھانے کے لیے۔۔۔۔
یہ تم نے مجھے چڑیل کہا۔۔۔۔۔اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹ ٹیڑھے میڑھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
نہیں تمہارے فرشتوں کو۔۔۔اس نے جل کر کہا۔۔۔۔
مجھے پڑھنے دو جاؤ جا کر سو جاؤ۔۔۔۔۔
وہ دوبارہ سے اپنی کتاب پر جھکا۔۔۔۔۔
تم مجھے کچھ بنا کر دو گے یا نہیں؟؟؟؟
اس نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
وہ خاموش رہا۔۔
میں آخری بار پوچھ رہی ہوں۔۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔اس نے سر جھکائے ہوئےصاف جواب دیا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد دروازے پر دیکھا وہ وہاں موجود نہیں تھی۔۔۔۔
لگتا ہے نیند میں تھی۔۔۔جا کر سو گئی ہو گی اس نے خود ہی اندازہ لگایا اور پھر سے توجہ اپنی کتاب پر مبذول کر لی۔۔۔۔
وہ دبے قدموں سے چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور آئس کیوبز سے بھرا باؤل اس کی شرٹ کا کالر ہٹا کر اس کی شرٹ کے اندر کیوبز ڈال دئیے۔۔۔۔
وہ جو اپنے کام میں بالکل محو تھا۔۔۔۔
اچانک پڑی افتاد پر بوکھلا کر رہ گیا۔۔۔۔
اتنی ٹھنڈ میں برف نے اس کی پشت کا جو حال کیا، ایک بار تو اس کا دماغ گھوم ہی گیا۔۔۔۔
مگر وہ اس پر سچ میں غصہ کرے ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
چھوٹی موٹی نوک جھوک تو ان کی دوستی کا خاصہ تھی۔۔۔
اسی نوک جھوک سے تو ان کی دوستی میں رنگ تھے۔۔۔۔۔
وہ اسے کچھ بھی کہے بنا اس کا ہاتھ تھام کر اپنے ساتھ کچن کےاندر لایا
اور اس کی کمر سے پکڑ کر اسے سلیب پر بٹھایا۔۔۔۔
کیا کھاؤ گی؟؟؟؟؟
اممممممم۔۔۔۔نوڈلز۔۔۔۔اس نے سوچنے کے انداز میں کہا۔۔۔۔۔
ویسے تمہیں تو پتہ ہے کہ مجھے چاکلیٹ پسند ہے مگر تم اس وقت وہ کہاں سے لاؤ گے اسی لیے یہی بنا دو۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اس نے گرما گرم بھاپ اڑاتے ہوئے نوڈلز اس کے سامنے رکھے۔۔۔۔
تھینک یو سو مچ فار نوڈلز۔۔۔
اینڈ سوری۔۔۔۔اس نے اپنے کان دونوں ہاتھوں سے پکڑتے ہوئے معزرت خواہانہ انداز میں معصومیت سے کہا۔۔۔
اٹس اوکے۔۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر کہ کھولیں اور پھر بولا ۔۔۔
اس قیمتی یاد نے اس کی آنکھوں میں نمی سی بھر دی۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
وہ اپنی معصوم سی بیٹی کا دل کسی بھی قیمت پر نہیں ٹوٹنے دے سکتی تھی۔۔۔۔۔
آپ کے بابا کسی کام سے دوسرے کنٹری گئے ہوئے ہیں جیسے ہی ان کا کام ختم ہوگا وہ واپس آجائیں گے۔۔۔۔۔
حرمت نے پریشے کو تسلی دی۔۔۔۔۔
اس کی نم آنکھوں میں یہ بات سن کر خوشی بھری چمک نمودار ہوئی۔۔۔۔
وہ اس انمول چمک کو کبھی بھی ماند پڑتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی۔۔۔۔
اس نے پیار سے اس کے پھولے ہوئے گال پر بوسہ دیا تو وہ ہاتھ ہلا کر اسے بائے کہتی ہوئی اندر چلی گئی۔۔۔۔
اور وہ بھی چلتی ہوئی کافی دور نکل آئی اس آفس میں انٹر ویو کا وقت بارہ بجے تک ہے۔۔۔۔ایک گھنٹہ پیدل چلوں گی تو وقت رہتے پہنچ ہی جاؤں گی ۔۔۔۔
اس نے خود کی ہمت بندھائی اور اپنی منزل کی طرف قدم بڑھائے۔۔۔۔۔
سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔۔۔۔چل چل کر پاؤں تھکنے لگے تھے۔۔۔۔
گلا گرمی کے باعث پیاس کی شدت سے سوکھتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
بس حرمت آفس آنے ہی والا ہے۔۔۔۔۔
وہ پھر سے دھیمی آواز میں خود سے بولی۔۔۔۔
آج تو آفس پہنچتے پہنچتے اسے دن میں بھی تارے نظر آگئے۔۔۔۔
سب لڑکیاں اپنی اپنی باری پر ہو کر باہر آتی جا رہی تھیں۔۔۔۔۔
وہ آخر میں پہنچی تو اس لیے اس کی آخری باری تھی۔۔۔۔
کیا ہوا اندر؟؟؟بالآخر اس نے اندر سے آنے والی ایک لڑکی سے پوچھ لیا۔۔۔۔۔
انٹرویو تو ہو گیا مگر کہہ رہے ہیں کل اناؤنس کریں گے کہ کس کو یہ جاب ملی ہے۔۔۔۔
حرمت کو کچھ ڈھارس ملی۔۔۔۔۔
آہستہ آہستہ سب انٹرویو دینے کے بعد وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔۔
وہ انٹرویو کے لیے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔۔
سامنے ہی چئیر پر ایک شخص براجمان تھا اس کی عمر کچھ تیس پینتیس کے لگ بھگ لگ رہی تھی۔۔۔۔
شکل سے تو سوبر سا لگا۔۔۔۔
اس نے اندر قدم رکھا تو اس شخص نے ایک نظر اس پر ڈالی۔۔۔۔
آپ کی کوالفکیش؟؟؟؟
اس نے سوال کیا۔۔۔
بی۔کام۔۔۔اس یہ کہتے ہی اپنی سی۔وی اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔
کوئی ایکسپیرینس؟؟؟
نہیں سر۔۔۔۔اس نے مختصر جواب دیا۔۔۔۔۔
آپ یہ جاب گھریلو مجبوری کے باعث کرنا چاہ رہی ہیں یا ویسے ٹائم پاس؟؟؟؟
اس نے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے نروس انداز میں اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
سر بس پرسنل ریزن کی وجہ سے۔۔۔۔۔
سامنے بیٹھے شخص نے پاس پڑے سگار کو منہ میں رکھ کر سلگایا۔۔۔۔۔
چند لمحوں کے لیے گہرا سکوت چھا گیا۔۔۔۔۔
حرمت اس کے اگلے سوال کی منتظر تھی۔۔۔۔۔
اس نے سگار کا دھواں اس کی طرف ہوا میں اڑایا۔۔۔۔۔
جو گھومتا ہوا اس کے ناک میں گھسنے لگا۔۔۔۔
نقاب میں سے بھی وہ اندر جا رہا تھا۔۔۔۔
جیسے ہی وہ دھواں اس کے گلے میں لگا۔۔۔۔
وہ زور سے کھانسنے لگی۔۔۔۔
اس نے ٹیبل پر موجود پانی سے بھرے ہوئے جگ میں سے پانی ایک کانچ کے گلاس میں انڈیل کر اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
اوہ سوری ۔۔۔۔
یہ کہتے ہی اس نے سگار ایک طرف رکھا۔۔۔۔
حرمت نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
اور ایک ہاتھ سے اسے روکا پانی دینے سے ۔۔۔۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں سر۔۔۔۔۔
یہ کھانسی ایسے نہیں رکنے والی پانی پئیں گی تو ہی ٹھیک ہو گی۔۔۔۔
اس نے اسے پانی پینے پر اصرار کیا۔۔۔۔۔
پانی پینے کے لیے اسے چہرے سے نقاب اتارنا پڑنا تھا۔۔۔۔۔
کھانسی تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔۔۔گلے میں شدید درد ہو رہا تھا۔۔۔۔
کھانس کھانا کر اس کے پھیپھڑے دکھنے لگے تھے۔۔۔۔
اس نے چہرہ دوسری طرف کر کہ گلاس اٹھایا۔۔۔اور نقاب ہلکا سا نیچے کیے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔۔۔۔۔
ابھی چند گھونٹ ہی لیے تو گلے کو تھوڑی تراوٹ ملی۔۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے قریب آیا۔۔۔
اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔۔۔۔۔
اس کے گلابی لبوں پر اس کی نظر ٹہر سی گئی۔۔۔۔۔
حرمت نے یوں اسے نزدیک دیکھ کر اپنے چہرے پر نقاب درست کرنا چاہا۔۔۔۔
اس نے حرمت کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر اسے ایسا کرنے سے روکا۔۔۔۔۔۔
وہ پھٹی نظروں سے ایک دم اس کی جراءت پر اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔
چھوڑیں میرا ہاتھ۔۔۔۔۔ایک عورت میں یہ خوبی ہوتی ہے وہ اپنے اوپر اٹھی ہر اچھی اور بری نظر بخوبی پہچان سکتی ہے۔۔۔۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں موجود ایک دم نئی ابھرنےوالی تحریر کو پڑھ چکی تھی۔۔۔۔
وہ فورا اپنا ہاتھ چھڑوا کر اپنی جگہ سے اٹھی باہر جانے کے لیے۔۔۔۔
اس نے حرمت کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے کھینچا اور دیوار کے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔
یہ کیا بیہودگی ہے؟؟؟؟وہ اس کی حرکت پر زور سے چیخی۔۔۔۔۔
اور اس کی گرفت میں سے اپنے آپ کو آزاد کروانے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
وہ اس کے لبوں کو فوکس کیے ہوئے تھا۔۔۔۔
حرمت نے اس کی نظروں کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اسے پوری قوت سے دھکا دیا۔۔۔۔
مگر وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔۔
بلکہ مزید گرفت سخت کیے اس کے چہرے پر جھک رہا تھا۔۔۔۔۔
یا اللّٰہ مدد۔۔۔۔اس نے آنکھیں بند کر کہ شدت دل سے بارگاہ الٰہی سےدعا کی ۔۔۔۔۔
ٹیبل پر موجود فون رنگ کرنے لگا۔۔۔۔
سکرین پر نظر آنے والے نام کو دیکھ کر۔۔۔۔
وہ اسے چھوڑ فون کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔
یہ لمحہ غنیمت جان کر اس نے ٹیبل پر موجود اپنی سی وی اٹھائی اور مگر جانے سے پہلے اپنا غصہ اتارنا نا بھولی۔۔۔۔۔
پانی والا گلاس ہاتھ میں لیے سار پانی اس کے منہ پر اچھالا۔۔۔۔۔
ذلیل کمینے انسان!!!!!لعنت ہو تجھ پر خدا کی۔۔۔۔
اور پھر عرصے میں خالی گلاس زور سے زمین پر پھینک دیا۔۔۔۔جو گر کر چکنا چور ہو گیا۔۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ کھڑا فریز ہو گیا۔۔۔۔۔
اسے کہاں امید تھی۔۔۔۔ دبو سی ڈری سہمی ہوئی لڑکی سے اس عمل کی توقع کی۔
فون پر اس کی بیوی تھی۔۔۔۔وہ اس سے بدلا تو خوب لیتا اس بات کا ۔۔۔۔۔
مگرکال کی وجہ سے
وہ پیچ و تاب کھا کر رہ گیا۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔اونچی دکان پھیکا پکوان۔۔۔۔۔۔جتنی بڑی کمپنی اتنے ہی کالے کرتوت کے مالک۔۔۔۔اس نے عالم طیش میں سوچا۔۔۔۔
وہ اپنا حجاب درست کرتی ہوئی وہاں سے باہر نکلی۔۔۔۔۔
پھر سے لمبی مسافت طے کرنی تھی۔۔۔۔۔
یہ سوچ کر اس کا دماغ ابھی سے شل ہو رہا تھا۔۔۔۔
واپسی کا راستہ بہت لمبا تھا
پیسے بھی ختم ہو چکے تھے۔۔۔وہ تھکے ہوئے قدموں سے گھر کی طرف چلنے لگی۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
فائز سلطان !!!!!
اپنے فیصلے پر ایک بار پھر سے غور کر لو یہ نا ہو کہ تمہارا یہ فیصلہ تمہیں عمر بھر پچھتانے پر مجبور کردے۔۔۔۔
تبریز درانی نے اسے دھمکی دی فون پر۔۔۔۔
تم جیسے بہت دیکھے ہیں۔۔۔
کئی آئے ایسی دھمکیاں دینے والے اور کئی گئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے۔۔۔۔
میں تمہاری گیدڑ بھپکیوں سے نہیں ڈرنے والا۔۔۔
میں اپنا فیصلہ کسی صورت بھی نہیں بدلوں گا۔۔۔۔جاو جو کرنا ہے کرلو۔۔۔۔۔
فائز نے اٹل لہجے میں کہتے ہوئے فون بند کیا۔۔۔
آیا بڑا مجھے دھمکیاں دینے والا۔۔۔۔۔
بے شک وہ ایک قابل اور ذہین ترین انسان تھے عدل و انصاف کے معاملے میں کسی کہ نہ سنتے ۔۔۔
مگر بات جب اپنی فیملی کی آتی تو وہ بھی کسی عام انسان کی طرح پریشان ہو جاتے۔۔۔۔
تبریز درانی کے کالے دھندوں کے ثبوتوں کی بنیاد پر اسے سزا سنائی جانے والی تھی۔۔۔۔
اسی لیے وہ اسے دھمکیاں دے رہا تھا۔۔۔۔
اپنی جان کی بات ہوتی تو وہ بالکل بھی پرواہ نا کرتے مگر انہیں اپنے گھر کے مکینوں کی پرواہ تھی۔۔۔۔۔
ان کی بیوی بیٹا اور اب تو اس کے چھوٹے بھائی بلال کی بیوی حریم اور حرمت بھی تو تھے۔۔۔۔
کیا کروں ان سب کی پروٹیکشن کے لیے؟۔۔۔۔
وہ گہری سوچ میں پڑ گئے۔۔۔۔۔تاکہ اس مسلئے کا کوئی حل نکال سکیں۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
حرمت بیٹا تم نے مجھ سے کسی کام کا پتہ کرنے کے لیے کہا تھا ۔۔۔
نئی کالونی میں ایک بیگم صاحبہ نے کہا تھا کہ ان کی بیٹی کی شادی میں کام کرنے کے لیے ایک لڑکی کی ضرورت ہے۔دو تین کے کام کے اچھے خاصے پیسے دینے کی بات کر رہی تھیں۔۔۔
تم چلو گی ؟؟؟
جی اماں بی ابھی چل کر مل لیتے ہیں۔۔۔اس نے پاؤں میں چپل اڑسی اور عبایا پہن کر ان کے ساتھ چل پڑی۔۔۔۔
کچھ دور کی مسافت طے کرنے کے بعد وہ ایک بنگلے کے سامنے پہنچ چکیں تھیں۔۔۔
نام کیا ہے تمہارا لڑکی؟؟؟
جی حرمت۔۔۔
اس کے سفید پاؤں پر ایک عجیب سی نظر ڈالی۔۔۔
اپنا چہرہ دکھاو؟؟؟
ان کے عجیب وغریب حکم پر اس نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔
مجھ سے گھر کے کام کروانے ہیں انہوں نے یا کہ میرا رشتہ لینا ہے۔۔۔اس نے دل میں کڑھتے ہوئے کر سوچا۔۔۔۔
ارے بھئی گھر کے کام یہ عبایا پہن کر م٘لانی بن کر تھوڑا کرو گی۔۔۔۔
اتارو اسے ۔۔۔۔۔
حرمت نے چہرے سے نقاب اتارا۔۔۔۔
اماں بی یہ آپ کس کو لے آئیں۔۔۔
کسی پختہ عمر کی کام والی ماسی کو ڈھونڈھیں۔۔۔۔۔
انہوں نے اسے دیکھتے ہوئے نخوت سے کہا۔۔۔۔
کیوں بیگم صاحبہ کیا ہوا؟؟؟؟
لو بھلا یہ بھی کوئی بتانے والی بات ہے؟؟؟
اتنی حسین کام والی کو دیکھ کر سب شادی کو بھول بھال کر اسی پرنظریں جمائے رکھیں گے۔۔۔۔
اور کیا بتاؤں اپنے میاں کا سب سے بڑے ٹھرکی اور دل پھینک انسان تو اس عمر تک وہ خود ہیں ۔اسے دیکھ لیا تو بیٹی کی شادی کی تیاریوں کو چھوڑ اس بیٹی کی عمر جیسی کے آگے پیچھے گھومتے نظر آئیں گے۔۔۔۔
نا۔۔۔بابا۔۔۔۔نا۔۔۔۔
نا منظور۔۔۔۔
اے لڑکی جلدی سے منہ ڈھانپ کر نکلو یہاں سے جلدی۔۔۔۔
یہاں تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
کبھی کبھی زیادہ حسن بھی انسان کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا آج اس نے یہ بات جان لی تھی۔۔۔۔
اس نے ایک افسردہ نگاہ اماں بی پر ڈالی اور ان کے ساتھ خاموشی سے وہاں سے باہر نکل آئی۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖
مختصر خلاصہ۔
فائز سلطان اور بلال بھائی ہیں۔فائز سلطان پیشے کے لحاظ سے جج ہیں۔انکو ایک مجرم فیصلہ اس کے حق میں دینے کے لیے دھمکیاں دے رہا ہے۔فائز کی بیوی وشمہ ہے۔ان کا ایک بیٹا ہے۔
جبکہ بلال کی بیوی حریم ہے اور انکی ایک بیٹی حرمت ہے۔
حرمت کی پاسٹ اور پرزنٹ سٹوری ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔
اوزیم خان ترکی کا بزنس مین ہے جسے کسی کے ساتھ گزارے دن یاد آتے رہتے ہیں۔اب آگے پڑھیے۔
👇
فائز سلطان نے بہت سوچنے سمجھنے کے بعد فیصلہ لیا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو امریکہ اس کے بھائی کے پاس بھجوا دیں گے کچھ عرصے کے لیے۔۔۔۔
اور حریم اور بلال کو بھی کوئٹہ بھجوا دیں گے۔۔۔۔
کورٹ کا فیصلہ صبح تھا ۔۔۔اسی عرصے کے اندر اندر انہوں نے سب کو محفوظ مقام پر بھیجنے کا بندوبست کر لیا۔۔۔۔
آج رات دو بجے کے ہی امریکہ کی فلائٹ تھی۔۔۔
وہ اپنی بیوی وشمہ کو اور اپنے بیٹے کو ائیر پورٹ چھوڑنے آئے۔۔۔۔
اور کتنی دیر ہمیں ایسے ہی الگ الگ جینا پڑے گا؟؟؟؟
وشمہ نے سوالیہ انداز سے پوچھا ۔۔۔۔
تم فکر مت کرو جلد ہی سب ٹھیک ہو جائے گا پھر ہم سب ساتھ ہوں گے۔۔۔ان شااللہ۔۔۔۔
انہوں نے وشمہ کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اسے تسلی دی۔۔۔۔
ہمارے بیٹے کا خیال رکھنا۔۔۔۔وہ اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار دیتے ہوئے بولے۔۔۔۔
وہ انہیں رخصت کر کہ اپنے گھر واپس لوٹے۔۔۔۔
بلال تم لوگ ابھی تک یہیں ہو؟؟؟؟
انہوں نے بلال کو گھر آتے ہی سامنے ٹی وی لاونج میں موجود دیکھ کر حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
بھائی کل میری ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔۔۔
باس کا حکم ہے میں اسے ہر گز نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔۔
اس لیے کل واپس آکر نکل جائیں گے۔۔۔۔
بلال تم سمجھ کیوں نہیں رہے ؟؟؟؟انہوں نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہ تم میری بات کو سیریس نہیں لے رہے۔۔۔۔
تم ایسا کرو ابھی کہ ابھی جاؤ اور حریم اور حرمت دونوں کو کوئٹہ جانے والی بس میں بٹھا کر آؤ۔۔۔۔
ان دونوں کی زندگی کا میں بالکل بھی رسک نہیں لے سکتا۔۔۔۔اور تم بھی کل میٹینگ اٹینڈ کرکہ وہیں سے سیدھا وہاں روانہ ہو جانا۔۔۔۔
مگر بھائی ایسے کیسے؟؟؟؟
ٹھیک ہے میں حریم کو بھیج دیتا ہوں مگر میں آپ کو قطعاً اکیلا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔۔۔۔
بلال نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوتا مجھے ۔۔۔۔تم میری فکر مت کرو۔۔۔۔۔
بس تم ابھی کے ابھی جاؤ اور حریم اور حرمت کے جانے کا بندوبست کرو۔۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔وہ ان کا حکم مانتے ہوئے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آیا جہاں حریم اپنی گود میں حرمت کو لیے سلانے میں مصروف تھی۔۔۔۔
حریم تمہیں یہاں سے ابھی کے ابھی نکلنا ہوگا۔۔۔۔
بلال کی بات سن کر حریم پریشان ہوئی۔۔۔
یہ کہا کہہ رہے ہیں؟؟ہمیں سب کو ساتھ میں کل صبح نکلنا تھا۔۔۔
اب صرف میں کیوں؟؟؟؟
حریم فی الحال یہ سوال وجواب کرنے کا وقت نہیں جو بھائی کہہ رہے ہیں ہمیں ویسا ہی کرنا ہے اس وقت۔۔۔۔وہ بہتر جانتے ہیں ہم سے کہ کیا کرنا ٹھیک ہو گا۔۔۔
جلدی سے اپنی اور حرمت کی پیکنگ کرو ۔۔۔۔
بلال خود ہی الماری کے اوپر پڑا بیگ اتار کر اسے کھولنے لگا ۔۔۔
پھر کبرڈ میں موجود ان دونوں کے کپڑے اس بیگ میں تیزی سے بھرنے لگا۔۔۔۔۔
حریم نے بھی کچھ ضروری چیزیں سمیٹیں۔۔۔
پھر منہ اندھیرے وہ گھر سے نکل گئے۔۔۔۔
بلال جا کر ٹکٹس لے آیا۔۔۔۔
اور ان دونوں کو بس میں بٹھایا۔۔۔۔
بلال مجھے بہت عجیب سا لگ رہا ہے۔۔۔
میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔۔۔حرمت نے بس میں بیٹھے ہوئے شیشے کے اس پار موجود بلال کا ہاتھ تھام کر نم لہجے میں کہا۔۔۔۔
اپنی بے چین طبیعت اس پر واضح کرنے کی کوشش کی۔۔۔
مجھے اکیلے جانا اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔۔میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ مجھے کیسا محسوس ہو رہا ہے۔۔۔۔
پریشان مت ہو ۔۔۔ایک رات کی تو بات ہےمیں کل شام تک تمہارے پاس ہوں گا۔۔۔۔
بلال نے اسے تسلی دیتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے لبوں سے لگایا۔۔۔۔
اتنے لوگوں کی موجودگی میں حریم اس کے عمل پر جھینپ گئی۔۔۔۔
کیا کرتے ہیں آپ ؟؟؟اس نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا کہیں لوگ ان کی طرف متوجہ تو نہیں تھے۔۔۔۔
اپنی بیوی کو ٹچ کیا ہے کسی کو کیا تکلیف؟؟؟
بلال آپ سے کچھ کہنا ہے۔۔۔۔بس کے سٹارٹ ہونے کی آواز آئی۔۔۔۔
میں آپ سے بے پناہ محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔
حریم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں بھی اپنی جان سے خود سے بھی زیادہ محبت کرتا ہوں۔۔۔۔
بس چلنے لگی۔۔۔۔۔بلال جلدی آئیے گا۔۔۔۔
گاڑی کے چلتے ہی دونوں کے ہاتھ چھوٹ گئے۔۔۔
دونوں کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔۔دونوں ہی اپنی کیفیت سمجھنے میں ناکام رہے۔۔۔۔
بلال جلدی آئیے گا۔۔۔ حریم کے لفظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔۔۔۔۔
وہ چلتی بس کو تب تک تکتا رہا جب تک وہ بس نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
چلڈرن ہسپتال کا بورڈ دیکھ وہیں رکی۔۔۔۔۔
سکول میں ٹیچنگ کے دوران اس کی ایک کولیگ نے اسے اپنی ایک جاننے والی نرس کا نام بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ چلڈرن ہسپتال میں جاب کرتی ہے۔۔
اگر کبھی بھی اس ہسپتال میں کام پڑے تو شفا کو بتانا اور میرا حوالہ دینا دیکھنا وہ تمہارا کام ضرور کروا دے گی۔۔۔۔
بس یہی سوچتے ہوئے وہ ہسپتال میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔
ہسپتال میں آؤٹ ڈور پر جم غفیر دیکھ کر اس کی تو آنکھیں کھل گئیں۔۔۔۔
لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں۔۔۔۔
ہر کوئی اپنے بچے سمیت وہاں چیک اپ کے لیے موجود تھا۔۔۔۔
اس نے ایک وہاں کے ایک ورکر کو روک کر اس سے شفا کے بارے میں پوچھا تھوڑی سے پوچھ گچھ کے بعد اسے شفا کے بارے میں پتہ چل ہی گیا۔۔۔۔
شفا آئی تو وہ حرمت سے ملی ۔۔۔۔
پہلے تو وہ انجان لڑکی کو دیکھ کر پریشان ہوئی پھر حرمت نے اسے حوالہ دیا تو وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی۔۔۔۔
ایک کمرے کے باہر کھڑے ہوئے اس نے باہر سے ڈور ناک کیا۔۔۔۔
یس۔۔۔۔اندر سے بھاری آواز آئی تو وہ حرمت کو اپنے ساتھ لیے اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
ڈاکٹر مجھے آپ سے ایک فیور چاہیے۔۔۔۔اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔
جی جی بتائیے کیا بات ہے؟؟؟؟
وہ پوری طرح ان دونوں کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔۔
سر یہ میری قریبی ہیں انہیں کچھ معلومات چاہیے آپ پلیز ان کی ہیلپ کر دیں گے۔۔۔میری ڈیوٹی آرز ہیں مجھے جانا ہو گا۔۔۔
معزرت۔۔۔۔۔وہ یہ کہتے ہی حرمت کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
پلیز ہیو آ سیٹ۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے اسے کہا۔۔۔۔
حرمت بیٹھی تو اس نے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔۔
ڈاکٹر میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرے ٹوئن بے بیز ہیں بیٹی تو ماشاءاللہ سے ٹھیک ہے مگر بیٹا پیام ایک سال تک تو ٹھیک رہا مگر دو سال ہونے کو آئے ہیں وہ بہت ویک ہو چکا ہے۔اب سکی عمر تین سال ہونے والی ہے۔وہ بستر پر ہی رہتا ہے اس کا رنگ زرد ہو چکا ہے کمزوری سے۔۔۔۔
دراصل میں ایک بیک ورڈ ایریا میں رہتی ہوں
اپنے بیٹے کی حالت کے پیشِ نظر میں وہیں کے ایک ڈاکٹر سے اس کا چیک اپ کروایا تھا تب سے اب تک میں اسے میڈیسن دے رہی ہوں مگر اس کی حالت میں سدھار نہیں آرہا تھا۔۔۔
کسی کہ کہنے پر میں نے اس کے کچھ ٹیسٹ شوکت خانم سے کروائے جو کہ بہت مہنگے تھے۔۔۔ان ٹیسٹ کی رپورٹ میں اسے بلڈ کینسر آیا ۔۔۔۔
یہ بات کہتے ہی اس کی زبان لڑکھڑائی۔۔۔۔
اور اب ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اس کا واحد حل بون میرو ٹرانسپلانٹ ہی ہے۔۔۔۔
میں بہت پریشان ہوں اس بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی میں کیا آپ مجھے گائیڈ کریں گے پلیز۔۔۔۔
حرمت نے اپنی بات تفصیل سے بیان کی۔۔۔۔
ڈاکٹر تھوڑے عمر رسیدہ تھے ۔۔۔۔
دیکھو بیٹا۔۔۔وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے نرم لہجے میں بولے۔۔۔۔
"ملیگنینٹ کنڈیشن میں اے پلاسٹک اینیمیا(بلڈ کینسر)بون میرو ٹرانسپلانٹ کی ایک اہم انڈیکیشن ہے"۔
اے پلاسٹک اینیمیا میں نا W.B.C نا پلیٹ لیٹس بن رہے ہوتے ہیں اور نا ہی ریڈ بلڈ سیلز۔۔۔
یہ تینوں ہماری ہڈیوں کے بون میرو میں بنتے ہیں،جب بون میرو ہی نہیں بنے گا تو بلڈ نہیں بنے گا۔۔۔۔
اگر کمپلیٹ بلڈ نہیں بنے گا تو اس میں وائٹ بلڈ سیلز نہیں بنیں گے۔۔۔
تو امیونٹی۔۔۔مطلب قوت مدافعت نا ہونے کی
مترادف ہوگی۔۔۔
اس میں انفیکشن کے چانسز بہت زیادہ ہوں گے۔کیونکہ باڈی میں لڑنے کی سکت نہیں ہو گی۔۔۔تو انفیکشن سوئیر لیول پر چلی جائے گی۔۔۔کوئی بھی انفیکشن ہو گی تو سارے آرگنز ایفیکٹڈ ہو جاتے ہیں۔جس سے باڈی سسٹم ڈسٹرب ہوجاتا ہے اور انسان کی موت واقع ہو جاتی ہے۔
کوئی بھی بیماری جس میں علامات ظاہر نا ہوں اسے A Symptomicکہتے ہیں۔
اور جس میں علامات ظاہر ہوں اسے Symptomicکہتے ہیں۔
ڈاکٹر نے اسے تفصیل سے بتایا۔۔۔۔
ڈاکٹر میرے بیٹے کی اس بیماری کی وجہ کیا ہے؟؟؟ہماری فیملی میں سے تو کسی کو بھی یہ ایشو نہیں حرمت نے کہا۔۔۔۔
ضروری نہیں یہ بیماری جینٹک ہو۔۔۔۔ایک ریسرچ کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج کل بلڈ کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہماری ماحولیاتی آلودگی ہے۔۔۔۔
ماحولیاتی آلودگی سے بون میرو کا کمپلیٹ فیل ہونا بھی سامنے آیا ہے۔۔۔۔
جو غیر ضروری ٹریٹمنٹ لی جاتی ہے وہ بھی اس کا باعث بن سکتی ہے۔۔۔۔
خون کی تبدیلی کر کہ اس بیماری سے وقتی تو بچا جاسکتا ہے مگر اس کا واحد حل صرف بون میرو ٹرانسپلانٹ ہی ہوتا ہے۔۔۔۔
ڈاکٹر کیا یہ علاج رسکی نہیں؟؟؟
اس میں بچے کے ٹھیک ہونے کے کتنے فیصد چانسز ہوتے ہیں؟؟؟اس نے ایک اور سوال پوچھا۔۔۔۔
بڑوں کی نسبت بچوں میں کینسر کا علاج جلدی اور بہتر رزلٹ دیتا ہے۔
کیونکہ بڑوں کے پھیپھڑے اور لیور ڈسٹ اور دھوئیں سے ایفیکٹ ہو چکے ہوتے ہیں جبکہ بچوں کے نہیں ۔۔۔۔اور اسی لیے بچوں میں بچوں میں 90پرسنٹ سروائیو کرنے کے چانسز ہوتے ہیں۔
مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا کب میرا بیٹا اس مہلک ترین بیماری میں مبتلا ہو گیا۔۔۔۔
اس نے افسردگی سے کہا۔۔۔۔
دیکھیں اگر بچے کا رنگ زرد ہونا شروع ہو جائے،اس کے جسم پر نیلے دھبے بننا شروع ہو جائیں تو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے
اس میں خون بننا بند ہو جاتا ہے۔
ایک ریسرچ کے مطابق ملک میں ہر سال دس ہزار لوگوں کو ٹرانسپلانٹ کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ صرف دو سو خوش نصیب ہی اس سے مستفید ہو پاتے ہیں۔
بون میرو ٹرانسپلانٹ کے فزیشن کی تعداد ہمارے ملک میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
مگر ڈاکٹر میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اپنے بیٹے کا علاج کروا سکوں اس نے افسردگی سے کہا۔۔۔۔
اس سلسلے میں آپ کیا کہیں گے؟؟؟
تیس سے پچاس لاکھ تک کا خرچ آتا ہے گورنمنٹ نے اس کے کافی فنڈز فراہم کرتی ہے۔
مگر اس کا پروسیجر یہ ہے کہ آپ کو اپلیکشن دینی ہوگی۔
اگر آپ کا نام ان لوگوں میں آجاتا ہے جنہیں اپروول ملے تو ہی آپ کے بیٹے کا علاج سرکاری طور پر ہو سکتا ہے ۔۔۔
انہوں نے اسے راہ دکھلائی۔۔۔۔
اور اگر میری اپلیکیشن کو اپروول نا ملا تو؟؟؟اس نے ڈوبے ہوئے دل سے کہا۔۔۔۔
تو پھر اس سلسلے میں میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔۔۔۔
پھر ظاہری سی بات ہے کہ آپ کو رقم کا انتظام کرنا پڑے گا۔۔۔۔
اور رقم کا انتظام ہونے کے بعد بھی بہت سے مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔۔۔۔
حرمت نے اچنبھے سے ان کی جانب دیکھا ابھی اس کے علاوہ بھی کچھ باقی ہے۔
آپ کو ڈونر کا انتظام بھی کرنا پڑے گا۔۔۔۔
جس ڈونر کے ٹشوز میچ کریں گے اس ڈونر کا
200سے250ملی لیٹر کا گودا نکال کر پیشنٹ میں انجیکٹ کیا جاتا ہے۔
پھر ہڈیوں میں موجود سٹیم سیل جڑ پکڑ کر پندرہ سے اکیس دنوں کے اندر خون بنانا شروع کردیتا ہے۔
آپریٹ کے بعد بھی 4سے6ہفتے اس الگ رکھا جاتا ہے کیونکہ اس دوران وہ کسی بھی انفیکشن سے متاثر نا ہو۔
یہ بہت پین فل پروسیجر ہے۔
حرمت کا دل دہلا ساری معلومات سن کر ۔۔۔۔
کچھ لمحوں میں وہ خود میں ہمت مجتمع کیے بولی بہت بہت شکریہ ڈاکٹر آپ کا۔۔۔۔
اور اپنی جگہ سے اٹھی۔۔۔۔
No need to thanks....
ڈاکٹر نے کہا تو وہ ان کے روم سے باہر نکل آئی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
Hey mom and dad......
What's up?????
اس نے بلیک لیدر جیکٹ اتار کر پھینکی۔۔۔۔
اور اپنی سیاہ آنکھوں سے گاگلز اتار کر وہ بھی بے پرواہی سے ہوا کہ سپرد کیے۔۔۔۔۔
وہ خود ٹانگ پر ٹانگ رکھے دھپ سے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔۔۔۔۔
یہ کیا طریقہ ہے جریر ؟؟؟؟امریکہ میں سب بھول آئے ہو؟؟؟کوئی مینرز ،ایٹیکیٹس نہیں تم میں؟؟؟؟
فائز نے اسے گھور کر دیکھتے ہوئے تاسف سے سر ہلایا۔۔۔۔۔
Just chill dad....
اب ایسا بھی کیا کردیا میں نے؟؟؟اس نے ٹیبل پر رکھے فروٹس میں سے ایپل اٹھا کر پہلے اپنی جینز کے ساتھ رگڑ کر چمکایا اور پھر ایک بھرپور بائٹ لی۔۔۔۔۔
کیا یار ڈیڈ آپ بھی۔۔۔۔۔
ایک سوفٹ ویئر انجینئر کی اتنی بے عزتی۔۔۔۔
لوگ ترس گئے ہیں میرے رخِ روشن کے دیدار کے لیے اور ایک آپ ہیں کہ ۔۔۔۔
چہ۔چہ۔۔چہ۔۔۔اس گھر میں میری کوئی ویلیو ہی نہیں۔۔۔۔
وہ کیا کہاوت تھی مام ؟؟
اس نے سامنے بیٹھی ہوئی وشمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہاں یاد آیا۔۔۔۔گھر کی مرغی دال برابر۔۔۔۔۔
بس بھی کیا کریں۔۔۔اتنے سالوں بعد بیٹا گھر واپس آیا ہے اور آپ ہر روز اسے جھاڑ پلاتے رہتے ہیں۔۔۔۔انہوں نے جریر کی طرف داری کی۔۔۔۔
ڈیڈ آپ کو پتہ ہے یہاں کی سب سے بڑی کمپنی میں مجھے جاب کی آفر ہوئی ہے۔۔۔۔
آخر کو آپ کے بیٹے کے پاس امریکہ کی ڈگری ہے۔۔۔اس نے تفاخر سے اپنے کالر اچکا کر کہا۔۔۔۔
جاب کب سے سٹارٹ کر رہے ہو؟
انہوں نے پوچھا۔۔۔
ڈیڈ ابھی کچھ دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے کا پلان ہے ان شاءاللہ نیکسٹ منتھ ۔۔۔۔
جریر سلطان نے انہیں آگاہ کیا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
کہاں چلیں؟؟؟؟
جریر نے اپنے دوست اویس سے پوچھا۔۔۔۔
ناران کاغان چلتے ہیں۔۔۔۔
نہیں یار کوئی اور جگہ بتا ۔۔۔۔جریر نے کہا۔۔۔۔
خوبصورت سی۔۔۔۔۔
اس نے تخیل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
کوئٹہ والی سائیڈ پر ہی چلیں رئیس نے مشورہ دیا۔۔۔
ہہم۔۔۔یہ ٹھیک ہے ادھر والی طرف میں کبھی گیا نہیں۔۔۔وہیں چلتے ہیں اوکے پھر ڈن؟؟؟؟
جریر نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ان کا جواب جاننا چاہا۔۔۔۔
ہاں ٹھیک ہے انہوں نے بھی اس کی تائید کی۔۔۔۔
ویٹر ان کا آرڈر لے آیا تھا انہیں کھانا سرو کرنے لگا۔۔۔۔
اور وہ تینوں آگے کی پلاننگ ترتیب دینے لگے۔۔۔۔
آگئے برخوردار !
انہوں نے اوزیم کو گھر میں داخل ہوتے دیکھا تو کہا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم ڈیڈ !
اس نے تھکے ہوئے انداز میں کوٹ صوفے کی پشت پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور خود بھی آکر بیٹھا۔۔۔۔
وعلیکم السلام !
کیسا جا رہا ہے سب ؟؟؟
سب ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔۔
اس نے اپنی مما کی طرف دیکھا۔۔۔
جو اسی کی طرف متوجہ تھیں۔۔۔
کیا بات ہے؟آج میرا بیٹا تھکا ہوا لگ رہا ہے طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں پوچھا۔۔۔
جی مام سب ٹھیک۔۔۔۔
ڈیڈ آپ سے کچھ کہنا تھا۔۔۔
ہہم بولو کیا بات ہے ؟
ڈیڈ میں مما کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے پاکستان جانا چاہ رہا تھا ۔۔۔
مما کی بھی آوٹنگ ہو جائے گی۔۔۔اور میں بھی فی الحال یہاں سے جانا چاہتا ہوں۔۔۔۔
میرے بیٹے نے تو میرے دل کی بات کہہ دی میں بھی کتنے دنوں سے یہ بات سوچ رہی تھی۔۔۔۔
انہوں نے خوشدلی سے پر مسرت لہجے میں کہا۔۔۔
مجھے بھلا کہا اعتراض ہو گا۔۔۔
تم سب چلے جاؤ۔۔۔
یہاں کا کام میں دیکھ لوں گا ۔۔۔۔
اور ہاں ایک بات تو مجھے بھی تمہیں بتانی تھی۔
میرے دوست کی کمپنی کی حالت کافی خراب تھی ہوں سمجھو ڈوب ہی چکی تھی۔۔۔
بس اس کی ہمدردی میں اس کی کمپنی کے شئیرز خرید لیے۔۔۔
جتنا عرصہ وہاں رہو گے ہو سکے تو وہاں کا سارا نظام بھی دیکھ لینا۔۔۔۔انہوں نے اوزیم سے کہا۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔۔اس نے سر جھکائے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔
وہاں بھی کام۔۔۔۔
ایک تو آپ میرے بچے کو سکون نہیں لینے دیتے۔۔۔ہم وہاں کام کرنے جا رہے ہیں کیا؟؟؟انہوں نے تیکھے لہجے میں غصہ دکھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
بس۔۔۔بس۔۔۔مام
اس سے پہلے کہ آپ دونوں کوئی جھگڑا کریں اس بات پر ۔۔۔
آپ کو پتہ ہے نا کہ میں ایک لمحہ بھی فارغ نہیں بیٹھ سکتا۔۔۔۔وہاں جا کر دیکھ لوں گا سب۔۔۔آپ پریشان نہیں ہوں ۔۔۔میں ریسٹ بھی کروں گا اور آپ کے ساتھ ٹائم بھی سپینڈ کروں گا۔۔۔
کام تو زندگی کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں ۔۔۔اس نے بات ختم کرتے ہوئے انہیں تسلی دی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
ماضی
کمرہ عدالت میں جسٹس فائز سلطان نے تبریز درانی کے کالے کرتوت اور کالے دھندوں کے ثبوتوں کے پیشِ نظر اسے سزا سنانے کے لیے لب واہ کیے۔۔۔۔
تمام ثبوتوں اور گواہوں کے بیانات کے مطابق عدالت تبریز درانی کو عمر قید کہ سزا سناتی ہے۔۔۔۔
اس نے ہمارے ملک کی بیٹیوں نا صرف عصمت فروشی کی بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی ہیروئن جیسے ناسور پر لگایا۔اور اس کے سر پر مزید بے گناہوں کے قتل کے ثبوت بھی ملے ہیں۔۔۔
اس کے تمام اثاثے ضبط کر لیے جائیں اور اس کے گروپ کے باقی ساتھیوں کو بھی کڑی سے کڑی سزا سنائی جائے گی۔۔۔۔
انہوں نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا۔۔۔۔
تبریز درانی نے شعلہ بار نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
فائز سلطان نے ایک اچٹتی سی نظر اس پر ڈالی اور اپنا فیصلہ سنا کر وہاں سے باہر نکل گئے۔۔۔۔۔
تبریز درانی نے اپنے آدمیوں کو اشارہ کیا۔۔۔۔۔
وہ تو پہلے سے ہی تیار تھے۔۔۔اور اس کے ایک اشارے کے منتظر۔۔۔۔۔
پولیس کی سخت نگرانی میں تبریز درانی کو سینٹر جیل پہنچا دیا گیا۔۔۔۔۔
تبریز درانی جیل کی سلاخوں کے پیچھے آکر بھی اپنی اکٹر نہیں بھولا۔۔۔۔
اور لبوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ سجائے۔۔۔۔
جسٹس فائز سلطان کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔
دوپہر کو وہ اپنے گھر پہنچے۔۔۔۔۔
تو اپنے انصاف سے مطمئن ہوتے ہوئے وہ اپنے بستر پر لیٹے۔۔۔۔
اچانک کچھ یاد آنے پر انہوں نے بلال کو کال ملائی۔۔۔۔
فون پر رنگنگ ہو رہی تھی۔۔۔
مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔۔۔۔
انہیں تشویش لاحق ہوئی۔۔۔۔
وہ بار بار اس کا نمبر ڈائل کرنے لگے۔۔۔مگر ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔
وہ پریشانی سے ادھر ادھر ٹہلنے لگے۔۔۔۔
کہ اچانک گھر کے باہر سے ایمبولینس کی آواز سن کر اسی طرف لپکے۔۔۔۔۔۔
ایمبولینس میں سے سٹریچر پر پڑاخون سے لت پت وجود دیکھ انہیں ان کے قدم وہیں تھم گئے۔۔۔اور جیسے وقت بھی۔۔۔۔۔
کچھ لوگوں نے اسے مل کر گھر کے اندر رکھا۔۔۔۔
ان کے قدم تو اٹھنے سے انکاری تھے۔
اس تک پہنچنے میں جیسے صدیاں درکار تھیں۔۔۔انہیں اپنے قدم من من بھر کے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔
قریب جا کر اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تو ساکت رہ گئے۔۔۔۔
ان کا ڈر یقین میں بدل گیا اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر۔۔۔۔۔
سر بہت افسوس سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ان کا بہت ہی بھیانک ایکسیڈنٹ ہوا جسکی وجہ سے یہ جائے حادثہ پر ہی دم توڑ گئے۔۔۔۔
کچھ لوگ نہیں ہاسٹل لے گئے تھے مگر یہ پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر چکے تھے۔۔۔۔۔
آس پاس کے گھروں سے سب جمع ہو چکے تھے۔۔۔۔
وہ خاموش بے آواز اس کے سینے پر سر رکھے آنسو بہانے لگے۔۔۔۔۔۔
حریم کو جب یہ خبر ملی اس کی تو پیروں تلے زمین کھسک گئی۔۔۔۔
ایسا لگا جیسے سر پر ساتوں آسمان ٹوٹ پڑے ہوں۔
اس کی محبت اس کا جیون ساتھی اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس بھری دنیا میں تنہا کر گیا۔۔۔۔
وہ حرمت کو خود میں بھینچ کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔۔۔۔۔۔
وشمہ اور اس کا جریر سلطان یہاں نہیں پہنچ سکے۔۔۔
اتنی جلدی امریکہ سےواپسی ناممکن تھی۔۔۔
حریم، حرمت کو لے کر اپنی بہن ناز کی فیملی کے ساتھ لاہور آگئی۔۔۔۔
ہفتے کے بعد فلک شیر نے واپسی کا کہا تو فائز سلطان نے کہا۔۔۔۔
بیٹھو فلک مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔
فلک شیر اس کے قریب بیٹھا۔۔۔
تم میری بات کا کچھ غلط مطلب نا لینا ۔۔۔انہوں نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
آپ کھل کر کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟فلک بولا
دراصل وشمہ بھی یہاں نہیں ۔۔۔۔۔
اس گھر پر بے شک حریم کا بھی حق ہے مگر ابھی تم حریم اور حرمت کو اپنے ساتھ لے جاؤ ۔۔۔
فلک نے حیرت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
تم سمجھ رہے ہو نا سب لوگ باتیں بنائیں گے ۔۔۔ہمیں گھر میں اس طرح دیکھ کر حریم میری بہن جیسی ہے مجھے اس کی عزت عزیز ہے۔۔۔۔
ہہم۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔فلک شیر نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں ناز سے بات کرتا ہوں وہ حریم کو سمجھائے۔۔۔۔۔عدت یہاں نہیں پوری کر سکتی وہ۔۔۔۔۔
فلک شیر یہ کہتے ہوئے وہاں سے اٹھا اور چلتے ہوئے ناز کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
ایک ماہ بعد وشمہ تو واپس آگئی۔مگر ان کا بیٹا جریر سلطان وہیں رک گیا اپنی خالہ کہ پاس۔۔۔۔۔
زندگی اپنے معمول پر آ چکی تھی۔۔۔وشمہ نے واپس آ کر اپنا گھر پھر سے سنبھال لیا ۔۔۔۔
مگر فائز سلطان ابھی تک خود کو سنبھال نہیں پا رہے تھے بھائی کی موت کا دکھ بھلائے نہیں بھول رہا تھا۔۔۔۔۔
انہوں نے بھی جریر کی واپسی کا زیادہ اصرار نہیں کیا تھا انہیں لگا جریر سلطان وہاں زیادہ محفوظ رہے گا بجائے یہاں کے۔۔
💫💫💫💫💫💫
فلک شیر کے ایک دوست نے انہیں بیرون ملک کا ویزا بھیجا تو وہ باہر جا کر سیٹ ہو گئے اور کچھ ہی سالوں میں اپنا بزنس شروع کر لیا۔۔۔۔۔
کوئٹہ میں حریم ناز اور حرمت کے ساتھ ان کا بیٹا سب وہیں تھے ۔۔۔۔۔۔
وہ ہر ماہ ان سب کے لیے اچھی خاصی رقم بھیج دیتے تھے۔۔۔۔
حریم نے بلال کی آخری نشانی حرمت کے لیے اپنے سارے غموں کو بھلا دیا اور اس کی خاطر جینے لگی۔۔۔۔۔
مگر جب کبھی تنہائی میسر آتی وہ اکیلے میں اپنے ہمسفر جو بیچ راستے میں ہی اسے چھوڑ گیا ۔۔۔۔اسے یاد کرتی رہتی۔۔۔۔۔
حریم اپنی بیٹی حرمت کے ساتھ وہیں اپنی بہن ناز کے ساتھ ہی رہنے لگی کیونکہ اس کے بہنوئی فلک شیر تو بیرون ملک جا چکے تھے وہ اپنی بہن کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکی پھر۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
"تم نے عماد کو کہہ دیا.."
وہ اپنی پلیٹ پر جھکا سکون سے بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا کہ اس مام کی آواز پر اس نے ٹھہر کر ایک تفصیلی نگاہ ان کے چہرے پر ڈالی.. پاس بیٹھے اس کے ڈیڈ نے چونک کر ناسمجھی سے باری باری ان دونوں کی طرف دیکھا..
"آپ کس بارے میں بات کر رہی ہیں..؟ انہوں نے سوال کرنا ضروری سمجھا..
"اسی مسئلے کے بارے میں بات کر رہی ہوں جس پر آپ کی اوزیم کی کافی لمبی بحث چل رہی تھی رات کو.۔۔۔
میں نے کہا ہے کہ میں سمبھال لوں گا بزنس تم لوگ کیا مجھے بڈھا سمجھ رہے ہو جو میرے پیچھے عماد کو لگا کر جا رہے ہو۔۔۔۔
ان کی بات سن کر اوزیم کے لبوں پر مسکراہٹ ایک لمحے کے لیےاپنی جھب دکھلا کر غائب ہوئی۔۔۔۔۔
ڈیڈ عماد بس آپ کی ہیلپ کرے گا ۔۔۔
مام پلیز آپ ڈیڈ کو منا لیں ۔۔۔
انہیں ناراض کر کہ مت جائیے گا۔۔۔۔
انہوں نے بےدلی سے ہاتھ میں پکڑے فورک کو پلیٹ میں رکھ کر پلیٹ پرے کھسکا دی.. اور مصنوعی ناراضگی دکھائی..
اوزیم انہیں آپسی تعلقات بحال کرنے کے لیے وقت دیتے ہوئے اٹھ کر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
آج بھی اس کا آفس جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
کہاں مرزا رانجھا ،قیس گئے
کیوں عشق کا پڑ گیا کال سائیں
کبھی عالم ہوش میں دید کرا
نہ دل میں رہ کہ ٹال سائیں
اس مرض محبت میں کام آئے
نہ دم،تعویذ نہ فال سائیں۔۔۔۔۔۔
اس نے کمرے میں آکر کھڑکی کا پردہ برابر کیا اور سست قدموں سے چلتا ہوا اپنے بیڈ پر آکر بیٹھ گیا.. ماضی کی خوبصورت یادیں تیزی سے اس کے ذہن میں چلنا شروع ہو گئی تھیں..
بریانی ان دونوں کی ہی فیورٹ تھی وہ دوپہر میں اپنے دوست کے گھر کمبائن سٹڈی کے لیے گیا تھا۔
اس لیے اس کی مما نے اس کے لیے بریانی بچا کر رکھ دی تھی تاکہ وہ شام میں کھا لے۔۔۔
سب ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا شروع کر چکے تھے۔
اس نے ابھی پہلی بائٹ منہ میں ڈالی تھی کہ اس پر نظر پڑی جو ندیدوں کی طرح اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
اور پلیٹ میں رکھے دال چاول کو چمچ سے گھما رہی تھی۔
کسی نے بھی یہ نوٹ نا کیا کہ وہ کھانا نہیں کھا رہی سوائے اس کے
اوزیم نے اپنی بریانی کی پلیٹ اس کے آگے رکھ دی اور اسکی پلیٹ اپنے آگے رکھ دی۔۔۔۔
اس کی بجھی ہوئی آنکھیں ایک دم چمک اٹھیں۔۔۔۔
اور خوشی کے مارے اپنی بتیسی کی نمائش کرنے لگی۔۔۔۔
مگر تم ؟؟؟؟اس نے اپنے ہونٹوں کو گول گھماتے ہوئے منمنا کر کہا۔۔۔۔
تم یہ کھاؤ گی تو مجھے اچھا لگے گا ڈونٹ وری۔۔۔۔۔
کھا لو۔۔۔اس نے فراخدلی سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
آہ !!! اوزیم کے منہ سے کراہ نکلی۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟ مما نے پوچھا۔۔۔۔
نہیں کچھ نہیں۔۔۔۔وہ دھیرے سے بولا۔۔۔
اور ٹیبل کے نیچے دیکھا تو خفا نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
سوری۔۔۔۔میں بس تھینکس کہنا چاہ رہی تھی تم میری طرف دیکھ ہی نہیں رہے تھے کب سے اس نے بھولے پن ایک کان کو پکڑے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم نے نرم نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے سر ہلایا جیسے کہنا چاہ رہا ہو کچھ نہیں ہو سکتا اس لڑکی کا۔۔۔۔۔
سر دونوں ہاتھوں میں گرائے، بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے، آنکھیں سختی سے میچے وہ ان یادوں کو خوبصورت کہے یا دردناک ؟؟؟؟؟
ان یادوں سے جیسے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا جو کسی زہریلے ناگ کی طرح اسے ڈسے جا رہی تھیں.. لیکن ہمیشہ کی طرح وہ آج بھی ناکام رہا تھا.. وہ کبھی کسی سے نہیں ہارا تھا لیکن اس کا ماضی اس کے مقابلے میں ہمیشہ اس سے طاقتور ثابت ہوتا تھا.. جیسے آج ہو رہا تھا۔
تیرے خیال سے دامن بچا کے دیکھا ہے
دل و نظر کو ،بہت آزما کے دیکھا ہے
نشاطِ جاں کی قسم،تو نہیں تو کچھ بھی نہیں
بہت دنوں تجھے ہم نے بھلا کہ بھی دیکھا ہے۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
اتنے سالوں بعد اپنے ملک کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اس کے دل میں اطمینان سا اترنے لگا۔۔۔
جب سے پتہ چلا وہ کسی اور کے نام لکھی جاچکی ہے دل نے اس سر زمین پر قدم نا رکھنے کی قسم کھائی تھی۔۔۔
مگر دل سچ میں پاگل ہے کوئی دلیل نہیں سنتا۔۔۔۔
بس اپنی سناتا ہے۔چاہے کچھ بھی ہو جائے وہی پانے کی چاہ رکھتا ہے جو شاید اس کے مقدر میں نہیں ہوتی۔۔۔۔
اس کا دل بھی اس معاملے
میں بے بس تھا۔ایک نظر اسے دیکھ لینے کا متمنی تھا۔۔۔۔
کاش ایک بار نظر آجائے۔دلِ بے قرار کو قرار آجائے۔۔۔۔
جس پل وہ نظر آئے اس پل کو زندگی بھر کے لیے اپنی نظروں میں قید کر لوں ۔۔۔
فلک شیر خان تو نہیں آئے اوزیم اور وہ تینوں لاہور کے ائیرپورٹ پر اتر چکے تھے۔۔۔
اوزیم کا دل تو تھا کہ کوئٹہ جاتے جہاں ان دونوں کی یادوں کا بسیرا تھا۔۔۔۔
مگر اس کے ڈیڈ نے جو کمپنی خریدی تھی وہ لاہور میں تھی۔
اور اس کی چوکو لاوا بھی تو لاہور میں رہتی تھی۔۔۔
شاید وہ یہاں رہ کر اسے ڈھونڈھ پاتا۔۔۔۔
اسی لیے اس نے یہاں کی ایک اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں خوبصورت سا گھر خرید لیا تھا۔۔۔۔
اب وہ سب وہیں جا رہے تھے۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
آج اس کی ایک ریسٹورنٹ میں ایک پرائیویٹ ڈیٹیکٹو سے میٹنگ تھی۔۔۔
اس نے اسے اس کے پرانے گھر کا ایڈریس دیا۔۔۔۔
جہاں سے وہ لوگ گھر چھوڑ کرتو جا چکے تھے۔۔۔
مگر شاید آس پاس سے کوئی ان کے متعلق خبر مل جائے اور ساری ڈیٹیلز اسے دیں کہ اسے کسی بھی صورت وہ اپنے سامنے چاہیے۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫
بی ۔کام میں اتنے اچھے مارکس آئے ہیں تم نے ٹاپ کیا ہے حرمت اس کی پارٹی کب دے رہی ہو؟؟؟؟
دعا نے اسے کے شانے پر ہاتھ رکھ کر دوستانہ لہجے میں فرمائش کی۔۔۔۔
بڑی ندیدی ہو تم ۔۔۔۔پہلے یہ تو کھا لو پیٹو۔۔۔۔
ہر وقت کھانا کھانا۔۔۔۔اتنا کیسے کھا لیتی ہو؟؟؟؟
حرمت نے دعا کو گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
یار تم مجھے اپنی ان نیلی آنکھوں سے گھور کر نا دیکھا کرو؟؟؟؟
دعا نے چہرے پر معصومیت لاتے ہوئےحرمت کو کہا۔۔۔۔
وہ کیوں؟؟حرمت نے حیران نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
مجھے ڈر لگتا ہے تم سے۔۔۔۔۔
اس کی بات پر سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔۔۔۔
بہت بڑی جھوٹی اور ڈرامے باز ہو تم دعا۔۔۔۔
حرمت نے اسے ہلکی سی پیار بھری چپت رسید کی۔۔۔۔
آج افرس اس کی خالہ زاد بہن اور دوست پلس کلاس میٹ کی برتھ ڈے پر حرمت نے سرپرائز پارٹی دی تھی جس میں کالج کی تمام دوستوں کو مدعو کیا تھا۔۔۔ان کا ٹوٹل چھ لڑکیوں کا گروپ تھا۔۔۔۔
حرمت نے ایک اچھے سے ہوٹل میں یہ پارٹی ارینج کی ۔۔۔اب وہ سب کیک کٹ کرنے کے بعد کھانا کھانے میں مصروف تھیں۔۔۔۔۔
سامنے ہی ایک کیوٹ سی سفید بالوں والی بلی نظر آئی۔۔۔۔
واؤ ہاؤ کیوٹ.............
حرمت نے اسے دیکھتے ہوئے خوشی سے کہا۔۔۔۔
تمہیں کیٹ پسند ہیں ؟؟؟؟عائشہ نے اس سے پوچھا۔۔۔۔
ہاں مجھے جانور بہت پسند ہیں ۔۔۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے نا کہ ہمارے حضور پاک بھی جانوروں سے لگاؤ رکھتے تھے۔انہوں نے بھی ان سے حسن سلوک کی تاکید کی ہے۔
پتہ ہے کہ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللّٰہ سے روایت ہے کہ ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا کیونکہ اس نے بلی کو قید کر کہ رکھا اسے کھانے پینے کے لیے کچھ نا دیا اور نا ہی آزاد کیا کہ وہ کیڑے مکوڑے ہی کھا کر گزارہ کر لے۔۔۔وہ بھوکی رہ کر مر گئی۔۔۔۔
اس نے بلی کو بھوک سے تڑپا کر مارا تھا اسی لیے وہ جہنم میں گئی۔۔۔۔
اور ایک صحابی کی کنیت ہی ابوہریرہ پڑ گئی تھی۔۔یعنی بلیوں والا۔۔۔حالانکہ ان کا نام کچھ اور تھا۔۔۔۔۔
اگرچہ بلی حلال جانور نہیں مگر پھر بھی اسے پاکیزہ اور طاہر حیوانات میں شمار کیا جاتا ہے۔
حرمت نے ان سب کو بھی اس بارے میں بتایا۔۔۔۔
وہ سب اس کی معلومات پر حیران کن نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔
وہ کیٹ شاید کسی کی پالتو تھی جو ادھر نکل آئی تھی ورنہ ہوٹل میں تو کیٹ کا آنا ناممکنات میں سے تھا۔۔۔۔
کیٹ ہوٹل کے پول سائیڈ پر جا رہی تھی۔۔۔۔
وہ سب اپنی باتوں میں مشغول ہو گئیں۔۔۔۔
جبکہ حرمت کی نگاہیں اسی پر مرکوز تھیں۔
میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ کر حرمت اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کو بچانے کے لیے اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔
کیٹ بالکل کارنر پر تھی اس سے پہلے کہ وہ پانی میں گرتی حرمت نے ہاتھ بڑھا کر اسے بچایا۔۔۔۔۔
مگر اسے بچاتے بچاتے کسی کی اچانک زور دار ٹکر سے خود کو سنبھال نہ پائی اور لڑکھڑاتے ہوئے پول میں گر گئی۔۔۔۔۔
یہ سب چند لمحوں میں ہوا۔۔۔۔۔
ایک پل کے لیے تو اسے خود بھی سمجھ نا آیا کہ اس کہ ساتھ ہوا کیا ہے ۔۔۔۔۔
مگر جب پانی میں ڈوبنے لگی تو مدد کے لیے ہاتھ پاؤں چلانے لگی۔۔۔۔
جریر سلطان نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔
وہ فون پر کسی سے بات کر رہا تھا کہ کوئی اچانک اس سے ٹکرایا۔۔۔۔۔
اسے سوئمنگ نہیں آتی تھی۔اور پانی سے ڈر بھی لگتا تھا ڈر کے باعث وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔۔
وہ بات ختم کر کے پیچھے مڑا تو حیرت سے پول میں دیکھا جہاں ایک لڑکی شاید اسی سے ٹکر لگنے کی وجہ سے اس حالت میں تھی۔۔۔۔
اس نے جلدی سے اپنی جیکٹ اتار کر ایک طرف پھینکی۔۔۔۔اور خود پول میں جمپ لگا دی۔۔۔۔
اسے اپنی بانہوں میں بھر کر پول سے باہر نکلا۔۔۔۔
وہاں موجود لوگ ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔
جریر نے اس کے بے ہوش وجود کو نرمی سے فرش پرلٹایا۔۔۔۔
پول میں سے نکالنے کے بعد اس کے چہرے پر نظر پڑی تو پلٹنا ہی بھول گئی۔۔۔۔
خوبصورتی تو بہت دیکھی تھی مگر ایسا غیر معمولی حسن آج پہلی بار دیکھا ۔۔۔۔۔
اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ دبایا۔۔۔۔۔اس کے اندر موجود پانی اس کے رس بھرے گلابی لبوں سے باہر نکلا۔۔۔۔
ارد گرد موجود لوگوں نے اسے ہوش میں لانے کے لیے اسے مصنوعی سانس دینے کا مشورہ دیا۔۔۔۔
وہ شاید اسے اس کا قریبی سمجھ بیٹھے تھے۔۔۔۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے فیصلہ لیا۔۔۔۔
اور جھک کر اپنا چہرہ اس کے تراشے ہوئے چہرے کے قریب لے گیا۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جسارت کرتا۔۔۔۔۔
اس خوبصورتی کے شاہکار کی آنکھیں کھلیں۔۔۔۔
نیلی آنکھوں میں شناسائی کی ایک رمق بھی نا تھی۔۔۔
وہ اپنے اتنےقریب کسی انجان شخص کو دیکھ کر ہر بڑا کر اٹھی۔۔۔۔
وہ پوری طرح بھیگ چکی تھی۔۔۔۔
سب لوگوں کی نظریں اس پر مرکوز دیکھ کر اس نے اپنی جیکٹ پکڑ کر کر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔
اس نے نفی میں سر ہلا کر لینے سے انکار کیا۔۔۔۔
پہن لو۔۔۔اس بار اس نے لہجے میں سختی لائے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور اپنے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے انہیں سیٹ کرنے لگا۔۔۔۔
وہ ایک انجان کی خود پر خواہ مخواہ کی دھونس دیکھ کر حق دق رہ گئی۔۔۔۔
مگر اپنی حالت کے پیش نظر اسے جیکٹ لینی ہی پڑی۔۔۔۔
اس کے گیلے بالوں سے پانی کے گرتےقطرے بیش بہا قیمتی موتیوں کی مانند لگے۔۔۔
اس نے سر پر سے ڈھلک کر اپنے شانوں پر گرا ہوا دوپٹہ درست کیا۔۔۔۔۔
کتنا مکمل حسن ہے؟؟؟؟وہ صرف دل میں ہی سوچ سکا۔۔۔۔
آخر کار رہا نا گیا تو بولا۔۔۔۔
سنا تھا کوئٹہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ جگہ ہےآج دیکھ بھی لیا۔
مگر یہاں کہ لوگ بھی اتنے خوبصورت ہوں گے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔۔جریر نے اس کی نیلی آنکھوں میں نرم نگاہوں سے دیکھتے ہوئےکہا۔۔۔۔۔
وہ اس کے حسن میں خود کو جکڑا ہوا محسوس کرتے ہوئے ایسے روانی سے بولا۔۔۔جیسے اس کا خود پر اختیار ختم ہو چکا تھا۔۔۔
اس نے بھرپور نظر اس مومی مجسمے کے سراپے پر ڈالی۔۔۔
"لگتا ہے یہاں سے کچھ چرا کر ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جانا ہوگا۔۔۔
جریر ان معنی خیز لمحوں میں ڈوب کر جذب سے بولا۔۔۔۔
حرمت نے ناسمجھی سے مقابل کی بات پر آنکھوں کی پتلیاں سکیڑ کر اسکی جانب دیکھا۔۔۔۔
Hello,My name name is Jareer sultan !
اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔۔
اس نے اس کا آگے بڑھا ہوا ہاتھ نظر انداز کیا اور بے نیازی سے آگے بڑھنے لگی جہاں اس کی دوستیں موجود تھیں۔۔۔۔
وہ بلیک کلر کے فراک اورچوڑی دار پاجامے میں ملبوس تھی۔۔۔۔
اسے پہلی بار بلیک کلر کسی صنف مخالف پر اتنا اچھا لگا۔۔۔۔
وہ اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہوا دھیرے سے مسکرا دیا۔۔۔۔۔
حرمت کو بھیگا ہوا دیکھ سب اس کی طرف بڑھیں۔۔۔۔
یہ کیا ہوا؟؟؟؟
افرس نے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
وہ۔۔۔وہ بس پاؤں سلپ ہو گیا تھا تو ۔۔۔۔۔اس نے وجہ بتانی چاہی۔۔۔۔
سوری میری وجہ سے ہوا۔۔۔۔جریر جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا اس کی بات کاٹ کر درمیان میں بولا۔۔۔۔
میں معذرت خواہ ہوں۔۔۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔۔۔۔
حرمت نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔۔۔
It's ok.....
یہ کہتے ہی اس نے کرسی کی پشت پر موجود اپنی شال اٹھا کر اپنے گرد پھیلائی اور اس کی جیکٹ اس کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔
چلو سب یہاں سے چلتے ہیں۔۔۔۔
حرمت نے ان سب سے کہا جو ابھی تک اس جریر سلطان کی شخصیت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔
اس نے ڈارک بلیو جینز پر سکائی شرٹ پہن رکھی تھی۔۔۔۔
جینز کی ایک پاکٹ میں تین انگلیاں پھنسائے ایک سٹائل سے کھڑا تھا۔۔۔۔
بھیگےبالوں کو مخصوص انداز میں سیٹ کیا گیا تھا جو اس کی پرسنالٹی پر بہت سوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔
دوسرے ہاتھ کی پوروں سے جیکٹ کو شولڈر پر پیچھے کی طرف کیے کھڑا مسکراتی ہوئی نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
حرمت نے سٹپٹا کر نظروں کا رخ بدلا۔۔۔۔
چلو یہاں سے اس نے اپنا کلچ اور موبائل اٹھاتے ہوئے پاس کھڑی ہوئی افرس کا ہاتھ کھینچا۔۔۔۔
افرس کی نظریں اس پر سے ہٹنے کو انکاری تھیں۔۔۔۔کیا اس کا آئیڈیل مین یوں بھی اس کے سامنے آسکتا ہے؟؟؟؟
اس کے دل میں سے آواز آئی۔۔۔۔
وہ حرمت کے ساتھ ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی مگر نظریں ابھی بھی پیچھے ہی تھیں جہاں وہ کھڑا تھا۔۔۔۔۔
وہ سب جریر کو بائے بولنے کے بعد حرمت کے پیچھے پیچھے باہر نکل آئیں۔۔۔۔۔۔
یار ہینڈسم بندہ تھا ۔۔۔۔
عائشہ نے دعا کو کونی سے ٹہوکا مارا۔۔۔۔
ہاں کہہ تو سچ رہی ہے
تھا تو ہینڈسم ۔۔۔۔یار اس کا نمبر ہی مانگ لیتی۔۔۔۔دعا نے عائشہ سے کہا۔۔۔۔
دفعہ ہٹ پرے مجھے ذلیل کروانا تھا۔۔۔۔
آئی بڑی ۔۔۔۔خود مانگ لیتی۔۔۔۔۔اس نے دعا کو خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تم دونوں اپنی فضول کی بحث بند کرو۔۔۔۔۔حرمت نے ان دونوں کو مزید بات کو طول دینے سے روکا۔۔۔۔۔
کیا ہوا افرس؟؟؟
حرمت نے اسے یوں گم سم دیکھا تو پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
کچھ ۔۔۔۔ن۔۔نہیں۔۔۔۔اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے
جیسےخواب کے لمحوں سے بیدار ہوتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پھر سب اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫💫
"آگے کیا کرنے کا ارادہ ہے..؟"
صوفے پر بیٹھی کومل نے عماد سے بے چینی سے پوچھا۔۔۔۔
"کیسا ارادہ..؟" بے حد سکون سے سوال کیا گیا..
"کیسا ارادہ.. یہ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کیسا ارادہ.." وہ الجھی تھی اس کے سکون کو دیکھ کر..
"تفصیلی بات کرو ذرا.." نظریں ہنوز لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئی تھیں..
"اسے بند کرو اور میری طرف دیکھو.." اس کی اگلی بات پر عماد نے فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کو بند کر کے اس کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا..
"اب بولو.."
"میں اوزیم کی بات کر رہی ہوں..
تم نے کہا اوزیم کے بارے میں پتا کرو میں نے ساری انفارمیشن تمہیں دے دی ہے۔کہ وہ پاکستان چلا گیا ۔۔۔۔۔
میری ایک بات مانو گی۔۔۔۔عماد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں تمہاری بات مانوں گی ۔۔۔۔میں نے تو کبھی اپنے پیدا کرنے والوں کی نہیں سنی تو تم کیا چیز ہو۔۔۔۔۔
کومل نے سرد مہری سے کہا۔۔۔۔
تمہارے ہی بھلے کی بات ہے سن لو۔۔۔۔عماد نے رازدارانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
پھوٹ بھی چکو منہ سے ۔۔۔۔
کومل نے حد درجہ بیزاریت سے کہا۔۔۔۔
بھول جاؤ اسے تمہارے ہاتھ نہیں آنے والا وہ۔۔۔۔
جب بھی بولنا کچھ منحوس اور زہریلا ہی بولنا۔۔۔۔۔
وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے منہ بنا کر بولی۔۔۔۔
ہاں کسی اور کی طرف توجہ دو تو بہت سے چاہنے والے نظر آجائیں گے۔۔۔۔۔
عماد نے مسکراتے ہوئے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر شرارت سے کہا۔۔۔۔
عماد کی بات سن کر تو اسے پتنگے لگ گئے۔۔۔۔
وہ بھڑک اٹھی۔۔۔۔۔
شکل دیکھی ہے اپنی کبھی؟؟؟؟اس نے حقارت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا میری شکل پر کیا کیڑے پڑے ہوئے ہیں اچھی خاصی تو ہے۔۔۔۔
اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔
حسن دیکھنے والے کی آنکھوں میں ہوتا ہے جناب۔۔۔۔۔
اس نے آنکھ بلنک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اصل خوبصورتی شکلوں کی نہیں دل کی ہوتی ہے۔۔۔۔۔
اس نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔۔۔
تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے گھٹیا انسان۔۔۔۔
سڑک چھاپ دو نمبر قسم کے عاشق زہر لگتے ہیں مجھے۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تنفر سے کہتی ہوئی پیر پٹختی ہوئی وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
پیچھے وہ تاسف سے سر جھٹک کر وہ پھر سےاپنے کام میں مشغول ہو گیا۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
پریشے سکول کے گیٹ کے پاس تنہا کھڑی ہوئی اپنی مما کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔
دھوپ میں کھڑے ہوئے اسے کافی وقت بیت گیا۔۔۔۔
دیکھتے دیکھتے سارا سکول خالی ہو گیا۔۔۔۔۔
سامنے ہی ایک ہی کی کلاس کی ایک دوست کے بابا اسے لینے آئے تھے۔۔۔۔
وہ ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔
بابا مجھے آئسکریم چاہیے۔۔۔۔اس نے پیار بھری فرمائش کی۔۔۔۔
اس کے بابا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور اس کا گال پیار سے تھپتھپاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں ابھی اپنی گڑیا کو لے دیتا ہوں ۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ اسے اپنے ساتھ قریبی شاپ سے آئسکریم لے کر دینے لگے۔۔۔۔
پریشے حسرت بھری نگاہوں سے ان دونوں کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
کاش میرے بھی بابا ہوتے وہ بھی مجھے ایسے ہی پیار کرتے ۔۔۔
مجھے سکول سے لینے آتے
مجھے ہر چیز دلاتے۔۔۔۔
وہ خود تو ننھی سی جان تھی مگر دماغی طور پر وقت سے پہلے بڑی ہو چکی تھی۔۔۔۔
وہ بہت حساس بچی تھی ہر چیز کو محسوس کرتی تھی۔۔۔۔
انہیں خیالوں میں کھوئی ہوئی وہ بے دھیانی سے سڑک کے کنارے پر چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
چلتے چلتے جانے کب سڑک کے بیچ و بیچ آگئی۔۔۔۔۔
وہ جو ایک گاڑی تیز رفتاری سے آرہی تھی۔۔۔۔
پریشے اس سے بری طرح ٹکرا گئی۔۔۔۔
اس کی دلدوز چیخ برآمد ہوئی تو وہاں موجود لوگ اس کی طرف بھاگے۔۔۔۔۔
جریر سلطان وہیں کھڑا اس پری وش کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔
اسے اپنا دل عجب لے پر دھڑکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
وہ چند لمحوں میں ہی خود پر بیتے ہوئے قیامت خیز لمحوں کے زیر اثر سن سا کھڑا تھا۔۔۔
پہلی نظر کی
پہلی محبت ہو تم❤️
وہ خود سے دھیمے سروں میں اپنے دلی جذبات کو کہہ کر مسکایا۔۔۔۔
اور ریسپیشن کی اوڑھ چل دیا۔۔۔۔۔
ایکسکیوز می !!!!
اس نے ریسپیشن پر موجود لڑکے سے مخاطب ہو کر کہا۔۔۔۔
یس سر!!!ہاؤ کین آئی ہیلپ یو؟؟؟
اس نے سر اٹھا کرشائستہ لب و لہجہے میں کہا۔۔۔۔
ایکچولی وہ ٹیبل نمبر39پر جو گیسٹ تھے۔۔۔
وہ میرے جاننے والے تھے مگر اس وقت میں بزی تھا تو ان سے کانٹیکٹ نہیں کر پایا۔۔۔۔
ہو سکے تو مجھے ان کا ایڈریس یا فون نمبر کچھ بھی آپ کے پاس ہے تو پلیز مجھے دے دیں۔۔۔۔
اس نے نارمل انداز میں کہا تاکہ اس پر کسی کو کوئی شک نا گزرے۔۔۔۔۔
سر ایسے ہم کسی کی بھی پرسنل انفارمیشن کسی کو نہیں دے سکتے پلیز۔۔۔۔
اس نے صاف انکار کر دیا۔۔۔۔
بہت ہی شاطر ہے یہ تو۔۔۔۔جریرنے سوچا۔۔۔۔
پلیز آپ سمجھ نہیں رہے۔۔۔اس نے ایک بار پھر سے کوشش کی۔۔۔۔
سمجھ تو آپ نہیں رہے۔۔۔۔آپ کہتے ہیں کہ وہ آپ کے جاننے والے ہیں پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس ان کا کوئی کانٹیکٹ نمبر نہیں یا ایڈریس نہیں۔۔۔۔
اس کی بات جریر سلطان کے سر پر لگی تلوں پر بجھی۔۔۔
مگر وہ خود پر ضبط کرتا ہوا وہاں سے نکلا۔۔۔۔
کچھ اور سوچنے کے لیے۔۔۔۔
کہاں غائب ہو گیا تھا اویس نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔۔۔۔
کہیں نہیں یار با ادھر ہی تھا۔۔۔۔
اس نے بیزاری سے کہا۔۔۔۔
کیا ہوا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے تیرا؟؟؟؟
کچھ دیر پہلے تک تو سب ٹھیک تھا اویس بولا۔۔۔
بس یار کیا بتاؤں تیری بھابھی مل گئی تھی۔۔۔
کیا بات کر رہا ہے؟؟؟
آج تک تو نے کسی بھی لڑکی کو ایسے نہیں کہا۔۔۔
میرےامریکہ پلٹ یار کو پسند آئی ہے تو اس میں ضرور کوئی بات ہو گی جسے آج تک گوریاں نا گھائل کر سکیں آج اس نے کردیا۔۔۔اس نے حد درجہ شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
میری مدد کر یار۔۔۔۔جریر نے اسے دیکھ کر افسردہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
کیسی مدد؟؟؟؟
تیری بھابھی کے بارے میں پتہ کرنا ہے مگر وہ ریسپشنسٹ بات ہی نہیں سن رہا۔۔۔۔
یار یہ پاکستان ہے ۔۔۔۔
یہاں سب کچھ پیسوں کے بل پر کروایا جا سکتا ہے ۔۔۔کبھی دیکھی ہے
Money Power?????
اس نے سوالیہ انداز میں کہا۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔جریر نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
ابھی دکھاتا ہوں۔۔۔۔
اویس نے ایک ویٹر کو اشارہ کر کہ اس کے پاس بلایا۔۔۔۔
ہزار کے نوٹ اس کی مٹھی میں دبا کر اسے کام بتایا۔۔۔۔۔
وہ سر ہلا کر چلا گیا۔۔۔۔
پورے پانچ منٹ کے بعد وہ ہاتھ میں ایڈریس لیے ان کے پاس موجود تھا۔۔۔۔
اویس نے ایڈریس والی ِچٹ جریر کی طرف بڑھائی۔۔۔۔
اور ویٹر کو تھینکس کہہ کر رخصت کیا۔۔۔۔
جریر سلطان ایڈریس پڑھتے ہوئے دل سے مسکرایا۔۔۔۔
I am coming my Sweet heart ❤️
💫💫💫💫💫💫💫💫
"وہ اپنی بی ۔ایم ۔ڈبلیو سے نکلتا ہوا شاہانہ چال چلتا ہوا عالیشان عمارت میں داخل ہوا .."
جس کے بیچ کی منزلوں پر بڑے بڑے اسٹائلش اور خوبصورت انداز میں خان انڈسٹریز لکھا ہوا تھا..
اس کی آمد سےپہلے ہی اس کے مینجر نے اوزیم خان کے ٹیک اوور لیتے ہی اس پر سے ملک انڈسٹریز ہٹا کر خان انڈسٹریز کا بورڈ لگا دیا تھا۔۔۔۔
سب اپنے نئے باس کو دیکھتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے وہ تو سر جھکا کر مؤدب انداز میں اپنے نئے باس کا ویلکم کرنا چاہتے تھے مگر اس کی سحر انگیز پرسنالٹی کے زیر اثر وہ سب یک ٹک اس کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔۔
ایسا لگا کوئی برٹش ماڈل راستہ بھول کر اس انڈسٹری میں آگیا ہو۔۔۔۔
اس کی نیلی سحر کن آنکھیں سرخ و سفید رنگت اور ستواں مغرور ناک، تنے نقوش پل بھر میں مقابل کو ٹھٹھرنے پر مجبور کردیتے ۔۔۔۔۔یہی حال وہاں موجود سے کا تھا۔۔۔۔
وہ سب پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالتے ہوئے اپنے کیبن کی طرف بڑھا۔۔۔۔
اپنے مینجر سے وہاں کی ساری معلومات حاصل کرنے کے بعد اس نے
اپنی سربراہی سیٹ پر بیٹھ کر آرام دہ انداز میں آگے پیچھے جھولتا وہ پھر سے ماضی کی یادوں میں کھونے لگا۔۔ گہری نیلی شفاف آنکھیں بار بار کبھی دروازے کی طرف اٹھتیں تو کبھی اپنے سامنے ٹیبل پر رکھی بلیک کَوَر والی پتلی سی فائل پر جس پر جلی حرفوں میں خان انڈسٹریز رولز اینڈ ریگولیشنز لکھا تھا..
پندرہ منٹ گزرنے میں پانچ منٹ سے اوپر ہو چکا تھا ۔۔ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی شفاف پیشانی پر غصے سے سلوٹیں نمودار ہونے لگیں۔۔۔۔
"کم اِن۔۔" تھوڑے وقفے کے بعد وہ سیدھا ہوتا ہوا بولا۔۔ لہجے میں بے پناہ کی سنجیدگی تھی..
سر یہ یہاں کی ساری ڈیٹیلز۔۔۔۔۔اس نے ایک فائل اس کے سامنے رکھی۔۔۔۔
اس نے فائل کھول کرایک سرسری سی نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔۔
مجھے یہاں کے لیے اپنے حساب سے نئے رولز اینڈ ریگولیشن سیٹ کرنے ہیں۔۔۔
اسے لے جائیں یہاں سے۔۔۔۔
اس فائل اس کی طرف کی۔۔۔
اوزیم نے دو ٹوک انداز میں اپنی بات کہی اور چند ثانیے خاموش رہا۔۔۔۔۔
جی سر!!!!اس نے مؤدب انداز میں کہا اور پھر وہاں سے فائل اٹھا کر باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
اسلام وعلیکم!!!
اوزیم نے آتے ہی ان کے شانوں پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دباؤ ڈال کر کہا۔۔۔۔
ان کی اوزیم کی طرف پشت تھی۔۔۔۔
انہوں نے مڑ کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھا۔۔۔۔
وعلیکم السلام!!!کیسا گزرا یہاں پر پہلا دن؟؟؟
ٹھیک تھا مام۔۔۔
اس نے کوٹ صوفے کی ایک طرف رکھ کر شرٹ کا اوپری بٹن کھولا ۔۔۔۔۔
اور آپ کو یہاں آکر کیسا لگ رہا ہے؟؟؟
اتنے سالوں بعد اپنے وطن کی مٹی کو محسوس کرنا بھلا کسے برا لگے لگا۔۔۔میری تو روح خوش ہو گئی یہاں آکر۔۔۔۔انہوں نے پر مسرت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
کھانا لگواوں؟؟؟؟
نہیں ابھی نہیں میں زرا فریش ہو جاؤں پھر۔۔۔۔
ٹھیک ہے تم فریش ہو کر آجاؤ پھر مجھے بھی تم سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
وہ جو جانے کے لیے اٹھ رہا تھا ان کی بات سن کر پھر سے بیٹھا۔۔۔۔
آپ پہلے بتائیے کہ کیا بات ہے؟؟؟
نہیں تم فریش ہو جاؤں پھر تفصیل سے بات کریں گے۔۔۔۔
پلیز مام بتائیے بھی۔۔۔اس نے اصرار کیا۔۔۔۔
اوزیم میں چاہتی ہوں کہ اب تمہاری یہاں پاکستان میں ہی شادی کردوں۔۔۔
مام آپ کو میں نے کتنی بار کہا ہے کہ میں اس ٹاپک پر بات نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔
پلیز کلوز دس ٹاپک مام۔۔۔۔اس نے ماتھے پر تیوری چڑھا کر بیزاری سے کہا۔۔۔۔
آخر کب تک نہیں کرو گے شادی؟؟؟؟
مام میں بہت تھک گیا ہوں ۔۔۔۔صبح ملاقات ہو گی۔۔۔وہ اپنا کوٹ اٹھا کر اپنے روم کی طرف چل دیا۔۔۔۔
اوزیم کھانا تو کھا لو نا۔۔۔۔
رہنے دیں مام بھوک نہیں۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
آسمان پر گہرے بادلوں نے بسیرا کر رکھا تھا۔۔۔
تیز ہوائیں چل رہی تھیں۔۔۔۔وہ ٹیرس پر کھڑی وہاں موجود پنجرے میں رنگ برنگی آسٹریلین پیرٹس کے ساتھ باتوں میں مشغول تھی۔۔۔۔
ان کی چہچہاہٹ نے ماحول میں عجب سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔۔
اس کے ادھ کھلے بال اور شانے پر پھیلایا ہوادوپٹہ بار ہوا میں لہرا رہے تھے۔۔۔۔
وہ اپنے دوست کی بائیک لیے وہیں موجود کب سے اسے دیکھنے میں محو تھا ۔۔۔۔
ارد گرد کا ہوش بھلائے اسے کی پرندوں کے ساتھ بچکانہ حرکتیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
اچانک ایک تیز ہوا کا جھونکا آیا اور اس کا ہلکا سا شانے سے ڈھلکا دوپٹہ اڑا کر دور لے گیا۔۔۔۔
وہ دوپٹے کو پکڑنے کے لیے دوڑی۔۔۔۔۔
سامنے ہی دوپٹہ لہراتا ہوا سڑک کی طرف گیا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ دوپٹہ زمین پر گرتا۔۔۔۔
جریر نے لپک کر اسے تھام لیا۔۔۔۔
حرمت نے کسی اجنبی کے ہاتھ میں اپنا دوپٹہ دیکھا۔۔۔۔
تو کڑے تیوروں سے اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔
وہ دوپٹہ پکڑے مسکرا کر اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
اچانک ہی حرمت کی آنکھوں میں کل کا واقعہ آیا تو۔۔۔۔
شدید طیش کے عالم میں بھاگتی ہوئی ٹیرس سے اندر گئی ایک دوسرا دوپٹہ اوڑھ کر سیڑھیوں سے نیچے آئی اور گیٹ سے باہر دیکھا تو وہ بائیک سٹارٹ کرنے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔
وہ بار بار بائیک کو کک مار رہا تھا۔۔۔۔
ڈیم اٹ۔۔۔۔۔
اس کو بھی اب ہی بند ہونا تھا اس نے جھنجھلا کر بائیک پر زور سے ہاتھ مارا۔۔۔۔۔
وہ وہیں ہاتھ باندھے ہوئے اس کی حرکات ملاحظہ فرما رہی تھی۔۔۔۔
چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔۔۔۔
اور اس کے ہاتھ میں موجود اپنا دوپٹہ کیھنچ کر اس کے ہاتھ سے نکالا۔۔۔۔
جریر نے کھسیانی ہنسی ہنس کر اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔
حرمت نے اس کی بائیک کی کیز گھمائی۔۔۔۔
بائیک سٹارٹ ہوگئی۔۔۔
وہ ہڑبڑی میں کیز سے بائیک سٹارٹ کرنا ہی بھول گیا تھا۔۔۔۔۔
اوہ ِشٹ۔۔۔۔
اس نے دن دہاڑے یوں اپنی بے عزتی پر دانت پیسے۔۔۔۔۔
پلیز بات سنیے۔۔۔۔
جریر نے کہا
مگرحرمت کچھ کہے بنا خاموشی سے اندر چلی گئی۔۔۔۔ایسے جیسے اس نے کچھ سنا ہی نا ہو۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔یار۔۔۔۔۔کیا کروں اب؟؟؟؟اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
فون پر بیل جا رہی تھی۔۔۔۔
فون رنگ ہو کر بند ہو گیا۔۔۔۔
اس نے پھر سے نمبر ملایا۔۔۔۔
اب کے بار پانچویں بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔۔۔۔
Hello,
How are you?
اَن ناون نمبر دیکھ کر پہلے تو کال نہیں اٹھائی مگر پھر سے دیکھ اس کے کال ریسیو کر لی۔۔۔
آپ کون ؟
آپ کا چاہنے والا۔۔۔
کیا بکواس ہے؟؟؟اس نے غصے سے کہا
اس سے پہلے وہ کال کاٹ دیتی۔۔۔
پلیز ۔۔پلیز ۔۔۔۔۔پلیز کال مٹ کٹ کرنا
میری ایک بار بات سن لو۔۔۔۔
اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
کہیے کیا مسئلہ ہے؟؟؟
ایکچولی میں آپ سے۔۔۔میرا مطلب ہے کہ آپ مجھے۔۔۔۔۔
آپ ہیں کون ؟؟؟
اور مجھے تنگ کرنے کا مقصد؟؟؟؟
اور سب سے ضروری بات ۔۔۔آپ جو کوئی بھی ہیں آپ کو میرا نمبر کہاں سے ملا؟؟؟؟
آپ کو اپنا تعارف تو کروایا تھا ۔۔۔پھر سے بتا دیتا ہوں
My name is Jareer sultan.....
اور دوسری بات ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے یہ تو پھر صرف ایک نمبر تھا۔۔۔۔
اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ بات کیا کرے۔۔۔
اب آپ بتائیں گے کال کا مقصد یا میں فون رکھوں؟؟؟
"""""مجھے آپ بہت پسند ہیں اور میں آپ کو زندگی بھر کے لیے اپنی زندگی میں شامل کر کہ اپنی زندگی بنانا چاہتا ہوں۔کیا آپ میری زندگی میں شامل ہو کر مجھے زندگی بخشیں گیں"""""""" ؟؟؟؟
یہ کیا زندگی زندگی لگائی ہے مجھے ایک لفظ کی بھی سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔
میں پڑھ رہی ہوں اور اب دوبارہ مجھے کال کر کہ میرا وقت برباد کیا نا تو اچھا نہیں ہوگا ۔۔۔
حرمت نے فون کٹ کر کے ایک بستر پر طرف پھینکا۔۔۔۔۔
اور اپنی کتاب پر توجہ دینے لگی۔۔۔
مگر دماغ میں اس کی بے تکی باتیں چل رہی تھیں۔۔۔۔
فضول انسان۔۔۔۔اس نے سر جھٹک کر کہا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
ڈرائیور ۔۔۔۔گاڑی روکو۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لیے تیز آواز میں کہا۔۔۔۔
اس نے بریک پر پاؤں رکھ کر اسے روکا۔۔۔۔۔
اور پھر تیزی سے باہر نکلا۔۔۔۔
چھوٹی سی بچی تھی۔۔۔۔
سکول یونیفارم میں ملبوس ننھی سی پری کی مانند۔۔۔۔اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔
اور بازوؤں اور جسم پر خراشیں آئیں تھیں۔
وہ باہر نکل کر اسے دیکھنے لگیں۔۔۔
اس بچی کے ساتھ کون ہے؟؟؟
انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی۔۔۔۔
مگر سب نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
مطلب وہ اکیلی تھی۔۔۔
ڈرائیور اس کو فورا کسی ہاسپٹل یا قریبی کلینک میں لے چلو۔۔۔اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے۔۔۔۔
پھر دیکھتے ہیں آگے کیا کرنا ہے...
انہوں نے جذبہ ہمدردی کے تحت اسے حکم دیا۔۔۔۔
جی میڈیم۔۔۔اس نے مودبانہ انداز میں کہا اور بچی کو اٹھا کر گاڑی میں لیٹایا۔۔۔۔۔
اور گاڑی کا رخ ہاسپٹل کی طرف کیا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
تپتی ہوئ دھوپ میں وہ ماتھے پر آئ پسینے کی بوندوں کو پونچھتی ہوئ بس سٹینڈ کے بینچ پر بیٹھی تھی۔۔
اس کا وجود بری طرح سے کانپ رہا تھا۔دل کی دھڑکن اتنی تیز تھی کہ دل کو اک جھٹکا لگتا اور وہ زمین پر گر جاتی۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے ایک ماہ سے زیادہ ہوگیا تھاکہ وہ جگہ جگہ جاب کی تلاش میں سڑکوں کی دھول چاٹ رہی تھی۔
مگر سب بے سود تھا۔۔۔۔۔۔
لیکن آج کے واقعے نے تو اسکی ذات تک کو چھلنی کرکے رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔۔
اسنے اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑ کر بینچ کی پشت سے ٹیک لگائ تھی۔۔۔
اور سرد آہ بھرے آنکھیں میچ گئی۔۔۔۔۔۔۔
ایک پرائیویٹ سکول میں انٹرویو کے لیے گئی تھی۔جاب پرکشش سیلری پیکج تھا۔۔۔۔
انٹرویو میں اس کے ڈاکیومنٹ دیکھنے سے پہلے ہی اس شخص کی آنکھوں میں شیطانیت دیکھ کر وہ کچھ کہے بنا ہی واپس باہر نکل گئی۔۔۔۔
وہاں سےگھبراہٹ میں ایسا بھاگی تھی کہ پیچھے تک مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن اب اسکی ٹانگیں جواب دیں گئیں تھیں تو وہ بینچ پر ڈھے سی گئ تھی۔۔۔۔۔۔
بےبسی کے عالم میں آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کی گالوں پر بہنے لگے۔۔۔۔۔۔
اے میرے پروردگار۔۔۔۔
مجھے اس آزمائش میں کامیاب ہونے کے لیے استقامت عطاکر۔۔۔
حرمت نے آنکھیں کھولے نظریں آسمان کی جانب کیں۔پر تپتے سورج کی روشنی کی زیادہ دیر تاب نا لا سکی اور وہ سر جھکا گئ تھی۔۔۔۔۔۔۔اس کا حجاب بھی پسینے اور آنسوؤں سے پوری طرح بھیگ چکا تھا۔۔۔۔
اسے پیسوں کی ضرورت ضرور تھی مگر اپنی عزت کا سودا قطعاً گوارا نا تھا۔اور وہ اس شخص کی نیت اچھے سے بھانپ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
وقت اور حالات نے اسے کہاں سے کہاں لا پٹخا تھا۔۔
صحیح کہتے ہیں کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔۔۔۔
سر پر چادر ٹھیک کرکہ آنسو پونچھتی ہوئی وہ شکستہ قدم اٹھاکر سکول کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔۔
مگر جب سکول کے قریب پہنچی تو سکول کوخالی اور بند دیکھ اس کے پاؤں تلے زمین کھسکی۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
سب کے اصرار پر میں نے رمضان میں ناول شروع کردیا ۔
مگر پھر بھی کوئی خاص رسپانس نہیں ہے۔
اگر اچھے سے لائکس نہیں ملے تو اگلی ایپی اب رمضان کے بعد ہی پوسٹ کروں گی۔
میں بھی وہ مینو کی طرح کہوں حنا تو بڑی کول ہے یہ دنیا بڑی فضول ہے😁
تم کب آئے؟؟؟انہوں نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے اپنا سوال داغا۔۔۔۔
ڈیڈ رات کو ہی آگیا تھا ۔۔۔
تمہارا ٹور تو ایک ماہ کا تھا پھر ایک ہفتے میں ہی واپسی؟؟؟؟
بس ڈیڈ آپ لوگوں کی یاد آرہی تھی اسی لیے۔۔۔۔اس نے وشمہ کی گود میں اپنا سر رکھتے ہوئے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
واہ بندہ جھوٹ بھی بولے تو کم از کم اس بندے کے سامنے نا بولے جس کے سامنے بڑے سے بڑا مجرم بھی جھوٹ بولنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔۔۔۔
تمہارا باپ جسٹس ہے فوراً سچ اور جھوٹ میں فرق پہچان لیتا ہے۔۔۔۔
برخوردار اتنے سال امریکہ گزار کر آئے تب ہماری یاد نا آئی اب ایک دم سے کیسے ہماری یاد ستانے لگی۔۔۔۔
انہوں نے جریر پر چوٹ کی ۔۔۔
بس بھی کریں آپ تو میرے بیٹے کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں جب سے آیا ہے۔۔۔بیٹا ہے ہمارا ہمیں یاد نہیں کرے گا تو اور کسے کرے گا آپ کو تو بس موقع ملنا چاہیے بال کی کھال اتارنے کا۔۔۔
انہوں نے مصنوعی خفگی سے کہا۔۔۔۔
مام ڈیڈ مجھے آپ دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔۔۔اس نے کان کھجاتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔۔۔۔
دیکھ لیا میں نا کہتا تھا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔۔۔۔
انہوں نے وشمہ کی طرف دیکھتے ہوئے آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے طنزیہ لب و لہجے میں کہا۔۔۔۔
پہلے اس کی پوری بات تو سن لیں۔۔۔۔انہوں نے ٹوکا۔۔۔۔
بتاؤ جریر بیٹا کیا بات ہے؟؟؟وشمہ نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔اس نے ایک گہرا سانس بھرا اور پھر سے اپنی بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
مجھے ایک لڑکی پسند ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں ۔
اور پلیز آپ لوگ میری لو سٹوری میں ولن بننے کی کوشش بالکل بھی مت کرئیے گا سیدھے سیدھے میرا رشتہ لے کر جائیں اس کے گھر اور واپسی پر لازمی مثبت جواب ہی لانا ہے آپ کو میں اس کے سوا کسی اور سے شادی نہیں کروں گا ۔۔۔۔اس نے ایک ہی سانس میں اپنی ساری بات کہہ دی۔۔۔۔
دیکھا تمہارا بیٹا کیسے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے۔۔۔فائز سلطان وشمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔۔۔۔
ہمارا اکلوتا بیٹا ہے اپنی پسند بتا دی تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟
ساری زندگی تو اس نے گزارنی ہے تو کیوں نہ اپنی پسند کے لائف پارٹنر کے ساتھ گزارے۔۔۔۔
انہوں نے اپنے بیٹے کی سائیڈ لی۔۔۔۔
ویسے بھی اس کی شادی کی عمر ہے آپ بھی اس کی بات مان لیں۔۔۔۔
وہ چند ثانیے خاموش رہے۔۔۔۔
کہاں کے ہیں وہ لوگ ذات برادری سب پتہ کیا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔
سب پتہ کر رکھا ہے میں نے میں آپ کو ان کے گھر کا فون نمبر ملا کر دیتا ہوں آپ انہیں اپنے وہاں آنے کی اطلاع دے دیں۔۔۔۔
ہہم ٹھیک ہے۔۔۔۔۔
انہوں نے وہاں کال کی۔جو کسی عورت نے اٹھائی ۔۔۔۔انہوں نے کچھ رسمی گفتگو کرنے کے بعد اپنی آمد کی وجہ بتائی ۔۔۔۔۔۔۔کہ ہم اپنے بیٹے کے رشتے کے سلسلے میں وہاں آنا چاہتے ہیں ۔آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
ناز اور حریم دونوں کی حرمت میں جان بستی تھی۔ناز کی بیٹی افرس جو حرمت کی ہی ہم عمر تھی ،اس کی کلاس میٹ اور فرینڈ بھی تھی۔
حریم کی عدت اور بلال کے موت کے غم کی وجہ سے وہ حرمت پر زیادہ توجہ نہیں دے پائی۔اس وقت ناز ، اور اس کے بیٹے دونوں نے حرمت کا بہت خیال رکھا۔ بن باپ کی بچی کو بھرپور پیار دیا اوراپنے ہاتھ کا چھالا بنا رکھا تھا حرمت نے جب ہوش سنبھالا پہلے تو اپنے بابا کی موت کی خبر پر بہت افسردہ ہوئی پر اب وہ کچھ سنبھلنے لگی تھی ۔۔۔
اسے یہاں ناز کے گھر آئے ہوئے آج جانے کتنے سال بیت چکے تھے ، اس قدر توجہ اور محبت کو پا کر اس کا غم کچھ کم ہونے لگا تھا اب بھی وہ بیٹھی حسب معمول اپنی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔
جب اس کی ممااس کے کمرے میں آئیں۔۔ ان کے کمرے میں آنے پر حرمت نے کتاب بند کر کے سائیڈ ٹیبل پر رکھی اور انہیں مسکرا کر دیکھتی سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔۔۔
کیسی ہے میری بیٹی؟ انہوں نے اس کے پاس آتے ہی اس کے بال سنوارتے اس کے ماتھے پر پیار کیا ۔۔۔ محبت کے اس مظاہرے پر وہ کھل اٹھی تھی۔۔۔ ٹھیک ہوں مما۔ ۔۔
اچھا بیٹا آج شام کو گھر میں کچھ مہمان آ رہے ہیں اس لئے تم ذرا اچھے سے تیار ہو جانا میں افرس سے بھی کہہ دوں گی وہ تمہاری مدد کر دے گی۔
حریم نے ادھر ادھر کی کچھ باتیں کرنے کے بعد اسے شام میں مہمانوں کی آمد کے بارے میں بتایا ۔۔۔
جی ٹھیک ہے اس نے بھی تابعداری سے رضامندی دے دی۔
شام میں افرس اس کے روم میں آئی تو اسے کتاب میں غرق دیکھ کر استفسار کیا۔۔۔۔۔
ارے حرمت۔۔۔۔۔ تم نے تو ابھی تک کپڑے بھی تبدیل نہیں کئے چلو جلدی سے تبدیل کر کے آو پھر میں تمہیں تیار کروں۔۔۔
وہ اسے ابھی تک ایسے ہی حلیے میں دیکھ کر کمرے میں داخل ہوتے ہی جلدی جلدی کا شور مچانے لگی۔۔۔ وہ بوکھلائی سی دیوار گیر کلاک پر نظر پڑتے ہی اپنے کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھسی۔۔۔
کپڑے تبدیل کرکے جب وہ باہر نکلی تو وہ اسے دیکھ کر ایک انگلی اور انگوٹھے کو ملا کر آنکھوں سے خوبصورت لگنے کااشارہ کرنے لگی وہ اس جدید تراش خراش کے کپڑوں میں بنا ہار سنگھار کے ہی اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ افرس کی نگاہیں اس سے ہٹنا بھول گئیں۔۔۔
لگتا ہے آج کوئی خاص مہمان آ رہے ہیں ؟افرس تم بہت پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔۔حرمت نے اس کی کھلے دل سے تعریف کی جو لائٹ پیچ کلر کے فراک اور پلازو میں بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
بہت شکریہ جی آپ کی کرم نوازی کا۔۔۔۔افرس نے اس کی تعریف پر کھکھلا کر کہا۔۔۔۔۔
افرس نے اسے پکڑ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بٹھایا اور پھر اس پر اپنی طبع آزمائی کرنا شروع کر دی۔۔۔ جب آنکھیں بند کئے بیٹھی حرمت نے اپنے چہرے پر اس کے تیزی سے چلتے ہاتھوں کو محسوس کیا تو پوچھا ۔۔
ویسے کس سلسے میں مجھے اتنا تیار ہونا پڑ رہا ہے؟ اس نے بیزاری سے کہا۔۔۔۔
ایسے کون سے خاص مہمان آنے والے ہیں؟
آج کے مہمان بہت خاص ہیں سویٹ سس۔۔۔۔
حرمت کے سر پر سے اس کی ساری باتیں گزر گئی وہ اپنے دماغ میں ہی اندازے لگانے لگی۔
ہوگیا اب دیکھو ذرا شیشے میں وہ اپنے ہی خیالوں میں کھوئی تھی جب افرس نے اسے شیشیے میں دیکھنے کے لیے کہا ۔۔۔
شیشہ دیکھتے ہی وہ کئی لمحوں تک مبہوت رہ گی اس کی اپنی آنکھیں اپنے ہی عکس سے ہٹنے سے انکاری ہوئیں۔۔۔
آج تک اس نے کبھی لپ فلوس تک نا لگایا تھا اور آج اتنا خود کو تیار دیکھ کر اسے لگا کہ شاید یہ کوئی اور ہی حرمت ہے ۔۔۔
کئی لمحے تک مسمرائز رہنے کے بعد حرمت نے اپنا دوپٹہ اٹھا کر سر پر لینا چاہا تو افرس نے چیخ مار کر کہا ۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟؟
کیا ہوا گھبرا کر اس نے افرس سے پوچھا ۔۔۔
کیا پاگل ہوگئ ہو اتنا اچھا ہیئر سٹائل برباد کرنے پر تلی ہو۔۔۔
یہ جو تم نے مجھے میک اپ کی دکان بنا دیا ہے اس دوپٹے سے کچھ تو بہتر لگے۔۔۔۔
دل تو کر رہا جا کر منہ ہی دھو لوں۔۔۔۔۔
کچھ زیادہ ہی اوور لگ رہا ہے۔۔۔۔۔
اس نے خود کو پھر سے آئینے میں دیکھتے ہوئے کہا
واہ واہ !!! میری ساری محنت کو ڈبو دو پانی میں۔۔۔افرس نے کمر پر ہاتھ رکھ کر گھوری سے نوازا۔۔۔۔۔
تب ہی باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آئی تو وہ دونوں جلدی سے باہر کی جانب لپکیں۔۔۔کیچن میں ریفریشمنٹ کا سارا سامان پڑا ہے تم پلیز تھوڑی دیر کے بعد وہ لے کر ڈرائینگ روم میں آ جانا لگتا ہے وہ لوگ آگئے ۔۔۔
افرس تیزی سے اسے وہیں چھوڑے خود روم سے باہر نکل گئی۔۔۔۔
******
حریم اور ناز نے جب آنے والے مہمانوں کو دیکھا تو چند لمحوں کے لیے وہ اپنی جگہ پر ساکت رہ گئیں۔۔۔۔۔
آج اتنے سالوں بعد وہ پھر سے آمنے سامنے تھے۔۔۔۔
فائز بھائی آپ ۔۔۔۔۔حریم نے حیرانی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!!!
وعلیکم السلام!!!!سب نے ایک دوسرے سے سلام لیا۔۔۔۔۔
وہ تینوں ان کی ہمراہی میں ڈرائینگ روم میں بیٹھے۔۔۔۔۔
سب کی آنکھوں میں خوشی کی نمی تھی۔۔۔۔
حریم تم اپنے بھائی سے ناراض تو نہیں ؟؟؟؟
فائز سلطان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر شفقت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
میں اس وقت جو حالات تھے بس ان سے مجبور تھا اسی لیے تمہیں واپس بھیج دیا آج بھی وہ گھر اتنا ہی تمہارا ہے جتنا بلال کے ہوتے ہوئے تھا۔۔۔۔
حرمت کہاں ہے ؟؟؟کیسی ہے وہ؟؟؟؟
ابھی بلاتی ہوں اسے پھر آپ اس سے مل لیجیے گا۔۔۔۔
مجھے پتہ نہیں تھا یہ نالائق مجھے یہاں لانے والا ہے۔۔۔۔
انہوں نے جریر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کیا یار ڈیڈ۔۔۔۔نالائق ؟؟؟؟کھلے عام بے انسلٹ۔۔۔۔
وہ بھی ایک سافٹ ویئر انجینئر کی؟؟؟اس نے شاک کی کیفیت میں مبتلا ہو کر کہا۔۔۔۔
حریم نے جریر کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔۔ جریر یہ تمہاری چچی ہیں بلال چاچو کی وائف۔۔۔۔
فائز سلطان نے اسے تعارف کروایا۔۔۔۔
وہ جھٹ سے اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے قریب آیا اور ان کے ساتھ بیٹھتے ہوئے ان کے شانے کے گرد بازو رکھ کر ان کے ساتھ لگا ۔۔۔
How are you gorgeous lady ????
آخری بار جب تمہیں دیکھا تھا تو اپنی مما کی گود میں تھے۔۔۔۔ماشاللہ اب تو جوان ہو گیے ہو اور بہت ہی شریر بھی۔۔۔حریم نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔
جریر نے اپنی مام کو اشارہ کیا جو اپنی باتوں میں مشغول تھیں۔۔۔۔
مام کام کی بات شروع کریں۔۔۔۔
انہوں نے جریر کو آنکھوں ہی آنکھوں میں گھور کر چپ رہنے کی دھمکی دی۔۔۔۔۔
حریم دراصل ہم یہاں جریر کے رشتے کے لیے ہیں۔۔۔۔۔
ہمیں کیا پتہ تھا ہم سب آپس میں ہوں مل جائیں گے۔۔۔۔۔
حریم اور ناز ان کی بات سن کر دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔
یہ کون ہے ؟وشمہ نے پوچھا۔۔۔۔
یہ میری بیٹی ہے افرس۔۔۔۔ناز نے بتایا۔۔۔۔
افرس جو وہیں موجود تھی اور جریر کو دیکھنے میں محو تھی۔۔۔۔۔
جریر نے بھی ایک نظر افرس پر ڈالی معصوم سی لڑکی لگی مگر اس کی آنکھوں میں تو کچھ اور ہی جذبات نظر آرہے تھے اس نے فورا نظروں کا زاویہ بدلہ۔۔۔۔
اپنی نظروں کا وہم جان کر۔۔۔۔۔
افرس نے بھی نگاہیں چرائیں۔۔۔۔
جریر نے اس کی طرف دوبارہ دیکھنے کی غلطی بھی نہیں کی کیونکہ اس کی منزل تو کوئی اور تھی۔۔۔۔۔
سب کو مہمانوں کے پاس گئے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی جب حرمت کچن میں جاکر کولڈرنک گلاسوں میں ڈال کر انہیں ٹرے میں رکھتی ٹرے اٹھا کر چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ڈرائنگ روم کی طرف بڑھی جہاں پر مہمان بیٹھے ہوئے تھے ۔۔
کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جانے پر اسے ٹھٹھک کر روکنا پڑا وہ حال نما کمرہ پورا مہمانوں سے بھرا پڑا تھا ۔۔۔۔
سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔۔۔
جریر کی نظر آنے والی ہستی ہر پڑی تو وہیں جم کر رہ گئیں۔۔۔۔۔
آج تو وہ بن سنور کر اس پر بجلیاں گرانے کے در پہ تھی۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر اسے دیکھتے ہوئے ایک آنکھ ونگ کی۔۔۔۔
یہ دیکھ کر حرمت کے جسم پر کپکپی سی دوڑی، اس کے چہرے کا رنگ یکدم بدلا۔۔۔۔۔۔
وہ تو سمجھی تھی کہ اس کی مما یا خالہ کے کوئی ملنے والی کوئی خواتین ہوں گی لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ یہاں پر مہمان وہ آوارہ بھی شامل ہو گا جس نے اسے تنگ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی ۔۔۔
اس کا دل بری طرح گھبرانے لگا تھا دماغ شدت سے کچھ غلط ہونے کے سگنلز دے رہا تھا ۔۔۔
ارے حرمت بیٹا کھڑی کیوں ہو کولڈرنگ سرو کرو ۔۔۔ اسے ابھی تک ویسے ہی بے حس و حرکت کھڑے دیکھ حریم نے اسے ٹوکا حرمت سے ہلنا دوبھر ہو رہا تھا۔
حرمت۔۔۔۔۔۔
حریم کے دوسری بار ٹوکنے پر اسنے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے سب کو سرو کیا۔۔۔۔
آخر میں گلاس جریر کی طرف بڑھایا تو اس نے گلاس کے ساتھ اس کے ہاتھ کو بھی چھو کر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔۔۔۔
اس کے ہاتھ سے تھوڑی سی کولڈ ڈرنک چھلک کر جریر کی جینز پر گری۔۔۔۔
یہ کیا کر دیا ؟؟؟؟حریم نے حرمت کو ڈپٹنے کے انداز میں کہا۔۔۔۔
اٹس اوکے ۔۔۔۔جریر بولا۔۔۔۔
افرس نے جب یہ منظر دیکھا تو اسے اپنا آپ کو سنبھالنا مشکل لگا ۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو اس منظر میں مس فٹ محسوس کرنے لگی تھی۔۔وہ آنکھوں میں نمی لیے وہاں سے چپ چاپ نکل گئی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
وہ اس بچی کی ٹریٹمنٹ کروانے کے بعد اسے گھر واپس لا چکی تھیں۔۔۔۔۔
ابھی تک وہ انجیکشن کے زیر اثر بے ہوش تھی۔۔۔۔
اوزیم خیریت آج تم جلدی آگئے۔۔۔۔انہوں نے اسے آتے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔
جی مام بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی سوچا تھوڑا ریسٹ کر لوں۔۔۔۔
اس نے ہاتھ میں پکڑا شاپنگ بیگ ایک طرف رکھا۔۔۔۔۔
اس نے صوفے پر نیم دراز ہوتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کی مدد سے اپنی کنپٹی کو سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
سر میں درد ہے ؟
جی مام مجھے ایک اچھی سی بلیک کافی تو بنوا دیں۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔یہ کہتے ہی انہوں نے ایک سرونٹ کو کافی بنانے کے لیے کہہ دیا۔۔۔۔
مام ھاد کدھر ہے؟؟؟؟
وہ اپنی ماں کے ساتھ قریبی پارک میں گیا ہے آجائیں گے کچھ دیر میں۔۔۔۔
ہہم ٹھیک ہے میں اس کے لیے کچھ لایا تھا ہر روز اس کی کوئی نا کوئی نئی فرمائش ہوتی ہے اسی لیے۔۔۔۔۔
پھراس نے آنکھیں کھول کر اپنی مام کی طرف دیکھا جن کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف جھلک رہے تھے۔۔۔۔
کیا ہوا مام آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں؟؟؟؟
ہہم۔۔۔۔پریشان تو ہوں۔۔۔۔
آج ایک حادثہ ہو گیا ۔۔۔یہ کہتے ہی انہوں نے سارا واقع اس کے گوش گزار کر دیا۔۔۔۔
مام یہ آپ نے کیا کیا؟؟؟ایسے کیسے آپ کسی کی بھی بچی کو اٹھا کر گھر لا سکتی ہیں؟؟؟؟
آپ کو پتہ بھی ہے کہ اس کے گھر والے اس کی گمشدگی کی وجہ سے کتنے پریشان ہوں گے؟۔۔۔۔
جانتی ہوں مگر میں نے پتہ کروایا تھا کچھ بھی سراغ نہیں ملا اب کیا کروں؟؟؟انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
میں صبح ہی پولیس اسٹیشن میں اس بچی کے بارے میں بتا دیتا ہوں وہی ہماری کچھ مدد کریں گے اس سلسلے میں۔۔۔۔
پریشے نے اپنی آنکھیں کھولیں تو خود کو انجان جگہ پر پایا۔۔۔۔۔
اتنا بڑا اور خوبصورت گھر ایسے لگا وہ بھول کر کسی محل میں آگئی ہو۔۔۔
یا پھر ابھی بھی خواب دیکھ رہی ہو۔۔۔۔
وہ باہر نکلی کسی کو نا پا کر رونے لگی۔۔۔۔
مما۔۔۔۔مما کہاں ہیں آپ ؟؟؟
مما مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔کہاں ہیں آپ ؟؟؟
اوزیم نے کسی کی رونے کی آواز سنی تو دیکھا ایک خوبصورت گولو مولو سفید رنگت والی بچی جو روتے ہوئے دونوں آنکھیں ملتی ہوئی ادھر ہی آرہی تھی۔۔۔۔
وہ اٹھ کر اس کے قریب گیا۔۔۔۔
کیا ہوا کیوٹ ڈول کو؟؟؟؟
کیوں رو رہی ہے پرنسز؟؟؟؟
اس نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔اور اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔
پریشے رونا دھونا بھول کر اسے دیکھنے لگی۔۔۔
اس کی آنکھیں بھی بالکل اسی کی طرح نیلی تھیں۔۔۔۔
وہ اسے گود میں بھرے پھر سے صوفے پر بیٹھا۔۔۔۔
اس کے دل میں اس بچی کو دیکھتے ہوئے ہوک سی اٹھی۔
یہ تو ہو بہو چوکو لاوا کا بچپن ہے۔۔۔
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
ویسے ہی کیوٹ معصوم سا چہرہ اور گہری نیلی آنکھیں۔۔۔۔
ہم دونوں کی آنکھیں ایک جیسی کیوں ہیں؟اس نے معصومیت سے اوزیم سے سوال کیا۔۔۔۔
کیونکہ ہم دونوں بیسٹ فرینڈز جو ہیں۔۔۔۔
جھوٹھے ہیں آپ۔۔۔ بیسٹ فرینڈز کا ایک جیسی آنکھوں سے کیا تعلق؟؟؟؟
اس نے اپنے تئیں سمجھداری سے سوال کیا۔۔۔
میری سکول میں بھی بیسٹ فرینڈز ہیں ان کی آنکھیں تو میری جیسی نہیں۔۔۔۔۔
کئی سال پہلے پوچھا گیا اس کی چوکو لاوا کا سوال آج اس انجان بچی نے دہرایا۔۔۔۔۔۔
مفن ہم دونوں کی آنکھوں کا رنگ ایک جیسا کیوں ہے؟؟؟
وہ کیا ہے نا تمہاری مما کی آنکھیں بلیو ہیں اور اسی لیے تمہاری بھی بلیو۔ میری آنکھیں اپنی خالہ پر چلی گئی اسی لیے ایک جیسی بلیو۔۔۔اور ہم پٹھان بھی ہیں نا اس لیے بھی ۔۔۔۔اوزیم نے بھی اسے سمجھانے کے لیے اپنے پاس سے بھی جو دلیلیں منہ میں آئیں بنا سوچے سمجھے بول دیں۔۔۔
اور وہ نانی اماں کی طرح سر ہلانے لگی ایسےجیسے ساری باتیں اس کے پلے پڑرہی ہوں۔۔۔۔
اور اپنے قریب رکھے بیگ کو کھول کر اس میں سے چاکلیٹ نکال کر اس کا ریپر کھولا اور اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔
یہ پرنسز کے لیے۔۔۔۔
پریشے کی تو چاکلیٹ دیکھ کر آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔
وہ کتنی بار اپنی مما کو چاکلیٹ کے لیے فرمائش کرتی مگر وہ اسے لے کر ہی نہیں دیتی تھی۔۔۔۔
آپ کو اپنی مما کی یاد آرہی تھی؟؟؟اوزیم نے پیار بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔۔
اس نے اپنے گالوں پر پھیلے آنسو اپنے چھوٹے سے ہاتھ سے صاف کرتے ہوئےاثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
ہم صبح ہوتے ہی آپ کی مما کو ڈھونڈھ لیں گے پھر آپ ان کے پاس چلی جانا ۔۔۔۔
ٹھیک ہے؟؟؟؟
اس نے چاکلیٹ کی بائیٹ لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔
اوزیم کو اس کے پھولے گال دیکھ کر پیار آیا تو اس نے اس کے گال کو چوم لیا۔۔۔۔
پریشے اس کی طرف غور سے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جو اسے دیکھتے ہوئے پھر سے اسی کے خیالوں میں کھونے لگا۔۔۔۔
آج بھی اسے وہ دن اچھے سے یاد تھا جب فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد سب لوگ پھر سو چکے تھے۔
مفن ایک بات کہوں مانو گے۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے پاس آئی اور کہا۔
ہہہہہم ۔۔۔۔بتاو کیا بات ہے؟
اس نے اپنے سر پر موجود ٹوپی اتار کر ایک طرف رکھ دی۔
مما مجھے پارک نہیں لے کہ جاتی تم لے کہ جاؤ گے؟؟؟
لے جاؤں گا۔مگر شام کو مما کو بتا کر۔۔۔
نہیں مجھے شام کو نہیں جانا مجھے صبح ہی جانا ہے بلکہ ابھی ہی جانا ہے۔۔۔
لے جاؤ نا پلیز۔۔۔۔۔اس نے پلیز کو تھوڑا کھینچ کر بولا۔۔۔
اچھا آؤ چلتے ہیں۔
اس نے گھر کا دروازہ بند کر دیا پھر دونوں باہر نکل گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوزیم فٹ پاتھ پر چل رہا تھا جبکہ وہ نیچے چل رہی تھی۔۔۔
مفن تم اتنے لمبے لگ رہے ہو ۔۔۔۔۔
اوزیم اس کی بات سن کر مسکرایا۔۔۔۔
تم نیچے آؤ ۔۔۔میں اوپر چلوں گی۔۔۔۔
پھر انہوں نے اپنی جگہ کی تبدیلی کی ۔۔۔
اب ہوئے نا برابر اس نے اپنے اور اوزیم کے سر پر ہاتھ کے اشارے سے برابر کیا۔۔۔۔۔
اب تم جب بھی میرے ساتھ چلو تو میں اوپر اور تم نیچے چلو گے۔۔
یہ بات یاد رکھنا۔۔۔اس نے انگلی کے اشارے سے اسے تنبیہہ کی۔۔۔۔
ٹھیک ہے چوکو لاوا۔۔۔۔۔
پھر وہ دونوں پارک میں کافی دیر ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہے باتیں کرتے رہے۔۔۔
یہاں تک کہ دوپہر ہونے کو آئی تو اوزیم نے ہی اسے گھر جانے کے لیے منایا۔۔۔
ورنہ وہ تو آج ساری کسریں پوری کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی۔
وہ دونوں ڈرتے ڈرتے دبے قدموں سے گھر میں داخل ہوئے۔۔۔۔
وہیں رک جاؤ۔۔۔۔۔
ناز کی آواز نے انہیں وہیں رک جانے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔
وہ دونوں دم سادھے اپنی جگہ پر ساکت کھڑے رہے۔۔۔۔۔
کہاں تھے تم دونوں صبح سے؟؟؟؟
پتہ بھی ہے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا ہم نے تم دونوں کو؟؟؟حریم نے پریشانی سے پوچھا
کتنے پریشان ہو گئے تھے ہم ۔۔۔۔
کدھر آوارہ گردیاں کرتے پھر رہے تھے ؟؟؟؟ناز نے تلخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
مما وہ میں ۔۔۔۔۔اوزیم بولنے لگا
نہیں خالہ میری غلطی تھی مفن کی نہیں۔۔۔وہ جھٹ سے صفائی پیش کرنے لگی کہیں اسے میری وجہ سے ڈانٹ نا پڑے جائے۔۔۔۔
نہیں نہیں چوکو لاوا نے کچھ نہیں کیا میں ہی اسے۔۔۔۔
خاموش ہو جاؤ دونوں ہی۔۔۔۔
اور جلدی کان پکڑو۔۔۔۔۔
مما !!!!اوزیم نے حیرت زدہ آواز میں کہا۔۔۔۔
کیوں غلطی کرتے وقت نہیں پتہ چلتا سزا سن کر ہوش کیوں اڑ گئے۔۔۔۔
چلو جلدی کان پکڑو نہیں بلکہ مرغا بن جاؤ دونوں ہی۔۔۔۔
خالہ مفن مرغا اور میں مرغی ۔۔۔۔
ہا۔۔۔۔ہا ۔۔۔۔ہا کتنا مزہ آئے گا۔۔۔اس نے سزا کو بھی ہنسی میں اڑایا۔۔۔۔
وہ اسے اشارہ کرنے لگا سوری بولو اور سزا سے جان چھڑواتے ہیں۔۔۔۔
مگر وہ اپنی ہی دھن میں مگن بولی ۔۔۔۔
پر میں تو مفن سے چھوٹی ہوں مفن مرغا اور چوزی۔۔۔۔۔۔
ہی ۔۔۔ہی ۔۔۔ہی۔۔۔وہ پھر سے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کھلکھلانے لگی۔۔۔۔۔
حرمت نے سکول کے اردگرد سب سے پریشے کے بارے میں پوچھا ہر جگہ ڈھونڈا مگر کہیں سے بھی اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔۔۔۔
رو رو کر اس کی آنکھیں سوج چکی تھیں۔۔۔۔
اسے اپنا دل بند ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔اس کی جان کا ٹکرا آج اس کی لاپرواہی سے اس سے دور ہو گیا ۔۔۔۔
کوئی راہ نہیں سجھائی دے رہی تھی۔۔۔۔
کیا کروں؟ کہاں جاوں؟ کس سے مدد طلب کروں؟؟؟؟
کہیں پریشے خود ہی گھر تو نہیں چلی گئی؟؟؟اس کے دماغ میں سوال آیا۔۔۔
نہیں اسے کیسے گھر کا پتہ ہو گا؟؟؟؟
یا اللّٰہ میری بچی کی حفاظت فرما۔۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی گھر کی جانب چل دی۔۔۔وہی اس کی آخری امید تھی۔۔۔۔
کاش کوئی معجزہ ہو جائے اور میری پریشے گھر میں ہی مل جائے مجھے۔۔۔۔
مما!!!
مما !!!اس نے دروازے سے اندر آتے ہی اونچی آواز میں کہا۔۔۔
حریم باہر نکلی۔۔۔
کیا ہوا حرمت؟؟؟
مما پریشے گھر آگئی ہے ؟؟؟؟
نہیں اسے تو تم نے ہی لانا تھا ۔۔۔وہ خود کیسے آئے گی؟؟؟
وہ یہ بات سن کر شکستہ قدموں سے وہی ڈھ گئی۔۔۔۔
کیا ہوا حرمت؟کچھ بتاؤ گی بھی۔۔۔تم مجھے بھی پریشان کر رہی ہو۔۔۔۔
مما میں اس کے سکول پہنچنے میں لیٹ ہو گئی۔۔۔اور پریشے ۔۔۔۔اور پریشے گم ہو گئی۔۔۔۔
اس نے روتے ہوئے اپنی بات کہی۔۔۔۔
اسے اپنے حلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔۔
سانس لینا دوبھر ہو رہا تھا ایک پل بھی اپنے جگر گوشے کے بغیر رہنے کے بارے میں سوچتے ہوئے۔۔۔۔
اگر اسے خدا نخواستہ کچھ ہو گیا تو؟؟؟؟
یہ سوچ کر اس کی روح بھی جنجھنا اٹھی۔۔۔
نہیں کچھ بھی نہیں ہو گا اسے۔۔۔۔
اے میرے مالک میرے پروردگار میری بچی کی حفاظت فرما مجھے لوٹا دے میری بچی وہ اپنے جھولی پھیلائے اس کے حضور گڑگڑانے لگی۔۔۔۔۔
پھر سے گھر سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
صبح سے رات ہوگئی اسے پری کو سڑکوں پر اسے ڈھونڈھتے ہوئے۔۔۔۔مگر کہیں سے بھی کوئی سراغ نا ملا۔۔۔۔ ایک ایک پل اس کے بنا گزارنا اس کے لیے سوہان روح تھا۔۔۔۔۔
وہ نڈھال وجود لیے شکستہ قدموں سے گھر واپس لوٹی۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
"بابا..!.بابا"
وہ گہری نیند میں ڈوبا ہوا تھا جب اسے اپنے چہرے پر کسی ننھے سے ہاتھ کا لمس محسوس ہوا.. وہ ہلکا سا کسمسایا اور چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ کر دوبارہ سو گیا..
"بابا.. بابا.."
اب باقاعدہ کوئی اسے ہلانے کی کوشش کر رہا تھا جس کا اس دیو ہیکل جیسے وجود پر اثر نہ کے برابر ہو رہا تھا..
اس نے جب دیکھا کہ وہ تو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہا تو۔۔۔۔۔
اوزیم پوری طرح سے نیند میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے اپنے بائیسیپس پر کوئی نوکیلی سی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی.. اس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول کر اپنے بازو کی طرف دیکھا جہاں پریشے نے اپنے نوکیلے دانت اس کے بازو میں گاڑھے ہوئے اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی..
اس کی حرکت دیکھ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی..
مگر جب اس کا طرز تخاطب یاد آیا تو اس کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
بابا۔۔۔آپ نے مجھے بابا کیوں کہا؟؟؟؟
کیونکہ آپ میرے بابا ہیں...اسی لیے۔۔۔
یہ کس نے کہا کہ میں آپ کا بابا ہوں؟؟؟
میں نے۔۔۔۔ اس اپنی طرف انگلی کرتے ہوئے سمجھداری سے کہا۔۔۔۔
کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ میری فرینڈز کے بابا ایسے ہی پیار کرتے ہیں ایسے ہی چیزیں بھی لے کر دیتے ہیں جیسے آپ نے کیا۔۔۔۔
اس لیے آپ میرے بابا ہوئے نا۔۔۔۔
اس نے اوزیم کے گال پر چھوٹی سی کسی کی۔۔۔۔گڈ مارنگ بابا۔۔۔۔
گڈ مارنگ۔۔۔۔جواب میں اوزیم نے بھی اس کے گال پر بوسہ دیا۔۔۔۔
اوزیم اس کے پیار بھرے انداز پر اسے بابا کہنے سے منع نہیں کر پایا۔۔۔۔
"ویسےاتنے خطرناک طریقے سے کوئی اپنے بابا کو جگاتا ہے کیا ؟؟؟.." سیدھا ہوتے ہوئے پشت کے بل لیٹ کر اس نے پریشے کو اپنے پیٹ پر بٹھایا۔۔۔۔
پریشے کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔۔۔۔
"بڑی ہنسی آرہی ہے میری نیند خراب کرکے پرنسس کو.."اس نے مسکرا کر کہا
بھائی آجائیں ناشتہ کرلیں۔۔۔۔وہ کمرے میں داخل ہو رہی تھی پھر گردن موڑ کر وال کلاک کی طرف دیکھاجہاں اب ساڑھے دس بجنے کو ہو رہے تھے.. رات کافی دیر تک کام کرنے کے بعد وہ اس کی یادوں میں اتنا کھو گیا کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نا چلا پھر وہ صبح نماز فجر ادا کرنے کے بعد ہی سویا جس کی وجہ سے وہ کافی دیر تک سوتا رہا۔۔۔ورنہ وہ تو صبح خیزی کا عادی تھا۔
" بس پانچ منٹ ۔۔۔۔آرہا ہوں تیار ہو کر .." پریشےکو بیڈ پر بیٹھا کر وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھا..
میں ناشتہ ٹیبل پر لگواتی ہوں جب تک آپ فریش ہو جائیں۔۔۔
ھاد اٹھ گیا؟؟؟
جی بھائی وہ اٹھ گیا ہے باہر ٹیبل پر آپ کا انتظار کر رہا ہے۔۔۔
اوکے پھر ملتا ہوں اس سے باہر آکر۔۔۔
اس کے جاتے ہی اوزیم واش روم کی طرف جانے لگا۔۔
"بابا.." اس سے پہلے کہ وہ باتھ روم میں قدم رکھتا پریشے بیڈ سے کود کر اس کی طرف دوڑتی ہوئی آئی..
"میں باتھ لے کر نکلتا ہوں پھر اپنی پرنسز کے ساتھ بریک فاسٹ کروں گا ۔ پھر ہم آپ کی ماما کو ڈھونڈنے جائیں گے.." وہ پریشے کے آگے دوزانو بیٹھا اسے بہت پیار سے اسے سمجھا رہا تھا ۔۔۔
مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔۔اس نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مما پاس بھی نہیں۔۔۔۔
مجھے اپنے بابا پاس رہنا ہے۔۔۔
اوزیم اس کی بات پر اپنے لب بھینچ کر رہ گیا۔۔۔
"اوکے.." یہ کہتے ہی وہ اٹھا اور باتھ روم میں گھس گیا فریش ہونے کی غرض سے.۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
ماضی۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم!!!
کیسے ہیں آپ ؟؟؟
وعلیکم السلام!!!!میں ٹھیک تم سب کیسے ہو؟
شکر الحمداللّٰہ ہم سب بھی ٹھیک ہیں۔۔۔۔
آپ کو ایک بات بتانی تھی اسی لیے کال کی تھی۔۔۔ناز نے فلک شیر کوکہا۔۔۔۔
میں بھی کہوں ہماری زوجہ محترمہ کو آج خود سے کیسے یاد آگئی ہماری ورنہ ہمیشہ ہمیں ہی کال کر کہ آپ کا حال دریافت کرنا پڑتا ہے۔۔۔۔
آپ بھی نا۔۔۔۔اچھا چلیں چھوڑیں میری بات سنیں پہلے۔۔۔۔۔
جی جی سنائیں ہم ہمہ تن گوش ہیں آپ کو سننے کے لیے انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔۔
فائز سلطان آیا تھا اپنی بیوی وشمہ اور بیٹے جریر کے ساتھ۔۔۔۔
ناز نے بتایا۔۔۔
اتنے سالوں بعد انہیں کیسے یاد آگئی۔۔۔۔حریم کی اور اپنی بھانجی کی ؟؟؟؟ ۔۔۔۔
وہ دراصل ۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟چپ کیوں ہو گئی ہو بتاؤ بھی کیوں آئے تھے؟۔۔۔۔
حرمت کے رشتے کے لیے ۔۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے آخر کار انہیں بتا ہی دیا۔۔۔۔
فلک شیر یہ سن کر خاموش ہو گئے۔۔۔۔۔
کیا ہوا اب آپ کیوں خاموش ہو گئے؟؟؟؟
حریم نے کیا جواب دیاانہیں؟؟؟
اس نے کہا ہے کہ وہ آپ سے بات کر کہ انہیں جواب دے گی۔۔۔
اسی لیے تو آپ سے پوچھنے کے لیے کال کی ہے کیا ِکیا جائے؟
میرے لیے حریم اور حرمت دونوں کی مرضی کی اہمیت ہے جیسا وہ دونوں چاہیں۔۔۔۔
تھینک یو۔۔۔۔ناز نے ان کے مثبت جواب پر خوشی سے کہا۔۔۔۔
حریم اور حرمت راضی ہیں اس رشتے پر؟؟؟
حریم تو راضی ہے مگر حرمت سے ابھی بات نہیں کی ۔بہت فرمانبردار بچی ہے اس نے کیا کہنا ہے اپنی ماں کی بات مان جائے گی اس کی آپ فکر نا کریں۔۔۔۔
ہہم ٹھیک ہے۔۔۔میں شادی کے لیے رقم بھجوا دوں گا اس کی تم فکر مت کرنا فلک شیر نے کہا۔۔۔۔
میرا بیٹا کیسا ہے ؟؟؟ناز نے پوچھا
ٹھیک ہے وہ۔۔۔۔انہوں نے جواب دیا۔۔۔
کہاں ہے ؟؟؟
اس کے پیپرز ہیں لاسٹ سمیسٹر کے بس اسی میں بزی ہے۔۔۔۔
اسے بتائیں گے حرمت کی شادی کے بارے میں؟؟؟
نہیں اس کے پیپرز کمپلیٹ ہو جائیں پھر بتاؤں گا ورنہ واپسی کی ضد کرے گا۔۔۔۔ابھی اسے بتانا مناسب نہیں۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے جیسے آپ کو مناسب لگے۔۔۔۔
آپ نہیں آئیں گے؟؟؟؟
میری طرف سے معزرت کر لینا اس وقت میری ایک اہم کنسائنمیٹ پھنسی ہوئی ہے ۔۔۔میں خود بہت پریشان ہوں
اور اوزیم کے پیپرز بھی ہیں۔تو مشکل ہو جائے گا تم وہاں ہو نا سب سنبھال لینا۔۔۔
اپنا اور اس کا خیال رکھیے گا۔۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫
افرس نے اس رشتے کے جڑ جانے کے بعد خود کو بہت اچھی طرح سے سنبھال لیا تھا ۔۔
اور یہ بات اچھے سے اپنے ذہن میں بٹھا لی تھی کہ وہ اس کے نہیں اس کی بہن کے مقدر میں ہے۔۔۔۔
اور اچھی طرح شادی کی تیاریوں میں مصروف رہی ۔۔۔۔۔
حرمت تمہیں پتہ ہے کہ آج جو مہمان آئے تھے کون تھے ؟؟؟
اور یہاں کیوں آئے تھے۔۔۔۔
نہیں مما۔۔۔۔اس نے ناسمجھی سے انہیں دیکھتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
وہ تمہارے تایا جان اور تائی تھی۔اور وہ لڑکا ان کا بیٹا۔۔۔۔۔
کیا تمہیں بالکل بھی یاد نہیں وہ سب؟؟؟
نہیں مما مجھے تو کچھ بھی یاد نہیں۔۔۔۔
ہہہم۔۔۔۔بہت پرانی بات ہے تمہیں کہاں یاد ہوگی۔۔۔
تم کافی چھوٹی تھی تب۔۔۔خیر کوئی بات نہیں ۔۔۔دراصل انہوں نے اپنے بیٹے جریر سلطان کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔۔۔۔
مما مجھے اپنا کوئی ہاتھ واتھ نہیں دینا کسی کو۔۔۔۔اس نے نروٹھے لہجے میں کہا۔۔۔۔
مگر میں نے فلک بھائی کی مرضی جاننے کے بعد انہیں ہاں کہہ دی ہے۔۔۔انہوں نے گویا اس کے سر پر بم پھوڑا۔۔۔۔۔
مما پلیز نا کریں ایسا میرے ساتھ۔۔۔۔اس نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔
حرمت کو جب یہ بات معلوم ہوئی کہ اس کی شادی واقعی جریر سے ہونے جا رہی ہے پہلے تو اس نے اپنی پڑھائی نامکمل رہ جانے پر آنسو بہائے۔۔۔۔
مما ابھی میری عمر ہی کیا ہے۔۔۔۔ آپ پر میں اتنی بھاری ہوں جو اس طرح سے مجھے خود سے دور کر رہی ہیں؟
ایسی بات نہیں ہے۔۔۔حرمت جریر بہت اچھا لڑکا ہے میں نے اس کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت دیکھی ہے۔۔۔۔
مما مجھے نہیں چاہیے یہ محبت وحبت۔۔۔۔
اس نے جھنجھلا کر خفگی سے کہا۔۔۔۔
مجھے ابھی شادی ہی نہیں کرنی ہے پلیز مما۔۔۔۔
اس نے خوب منت سماجت کیں۔۔۔مگر حریم نے اسے کہا کہ انکار کرنے سے ان کے اور ان کے بھائی نماجیٹھ سے تعلقات جو اتنے عرصے بعد بحال ہوئے ہیں پھر سے خراب ہو جائیں گے۔۔۔۔
حرمت کو چارو ناچار اس رشتے کے لیے حامی بھرنی ہی پڑی۔۔۔۔۔
فائز بھائی نے کہا ہے کہ وہ ہم دونوں کا گھر ہے اس لیے لاہور میں ہی شادی کی تقریب ہو گی۔۔۔
ہم سب وہاں چلے جائیں گے اور وہیں اکٹھی رسمیں کریں گے۔۔۔۔
مما خالو اور مفن نہیں آئے گا؟؟؟؟
ابھی کچھ پتہ نہیں ان کا۔۔۔اس بارے میں کوئی بات نہیں کی انہوں نے۔۔۔۔ دیکھو کیا کرتے ہیں؟؟؟؟
بہرحال تم اپنی تیاری کر لو کل ہم سب کو لاہور کے لیے نکلنا ہے۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
رات مہندی کا فنگشن گھر کے لان میں ہی کیا گیا تھا۔۔۔ سب کچھ بہترین تھا ۔مہندی کی تھیم کے مطابق گیندے کے پیلےپھولوں اور لائیٹنگ سے ڈیکوریشن کی گئی تھی۔۔
پہلےدونوں کی مہندی کا فنکشن اکھٹے ہی کئے جانے کا پروگرام فائنل ہوا تھا مگر حرمت کے کہنے پر الگ الگ سٹیج بنوا کر وہاں ہی رسم کرنے کی گزارش کی گئی تھی کہ وہ کسی صورت اکھٹے مہندی کا فنکشن نہیں رکھوانا چاہتی تھی۔۔۔اس کا کہنا تھا نکاح سے پہلے اکٹھا بیٹھنا اسے پسند نہیں۔۔
فائز سلطان نے حرمت کی بات کا مان رکھتے فنکشن کی ارینجمنٹ میں کچھ ردو بدل کروا دیں تھیں۔۔۔ دونوں کی اکھٹی مہندی کے فنکشن کی بجائے دو اسٹیج بنوا دیئے گئے تھے ایک طرف حرمت جبکہ دوسری طرف جریر کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا
ڈیزائنر کے بہترین مہندی رنگ پر سرخ و پیلے امتزاج دیدہ زیب کام سے مزین شرارہ اور شارٹ کرتی پر شیڈڈ ڈائی دوپٹہ سیٹ کیے پھولوں کے زیورات پہنے۔۔۔۔ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے، سادگی میں بھی وہ آسمان سے اتری کوئی حور ہی لگ رہی تھی ۔۔۔
جریر اس کی سادگی کا ہی تو دیوانہ تھا۔۔۔۔
وہ افرس اور حریم کی ہمراہی میں باہر آئی تو گویا جریر کے ارادوں پر پانی پھیر گئی۔۔۔۔
وہ جو کب سے اسے ایک نظر دیکھنے کے لیے بے تاب تھا اسے گھونگھٹ اوڑھے باہر آتے دیکھا تو سخت بدمزہ ہوا۔۔۔۔۔
اتنے مہمانوں کے سامنے آخر اور کر بھی کیا سکتا تھا۔۔۔۔وہ حرمت کی اس حرکت پر دانت پیس کر رہ گیا۔۔۔۔
پہلے تو سٹیج الگ الگ کروا دئیے اور اب یہ پردہ۔۔۔۔
کر لو جتنے ظلم کرنے ہیں مجھ پر کل سارے بدلے سود سمیت نا لیے تو میرا بھی نام جریر سلطان نہیں۔۔۔۔
اس نے خودی سے ہمکلامی کی۔۔۔۔
جریر نے بلیک کلر کا کرتا اور شلوار پہن کر اس پر یلو کلر کا پٹکا گلے میں ڈال رکھا تھا۔۔۔ہلکی ہلکی بیرڈ میں وہ بہت گریس فل دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔
حرمت کے لیے جھولے کو قدرتی پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔۔۔
حرمت اسی پر براجمان تھی۔۔۔
جبکہ جریر کے لیے سٹیج پر صوفہ سیٹ کیا گیا تھا۔۔۔
جریر کے سارے دوست بھی مدعو تھے۔۔۔انہوں نے جریر کو خوب تنگ کر رکھا تھا۔۔۔۔
باری باری دونوں کی مہندی کی رسم ادا کی گئی۔۔۔۔
پہلے اسے ابٹن اور مہندی لگایا ساتھ ساتھ بالوں میں تیل لگا کر دعائیں اور پیار دیتے ہوئے اس کا منہ میٹھا کروایا گیا۔۔۔۔۔
جریر کے دوستوں نے تو اس کو مٹھائی کھلا کھلا کر اس کی حالت بری کردی تھی۔۔۔۔
اب تو اس کا میٹھا کھا کھا کر دل گھبرا رہا تھا جو بھی آتا پورا کا پورا مٹھائی کا پیس منہ میں زبردستی گھسیڑ دیتا۔۔۔۔
اس نے آخر تنگ آکر سب کے آگے ہاتھ جوڑ دئیے۔۔۔۔
یہ میرے جڑے ہوئے ہاتھ دیکھ لیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ کل میرا نکاح صحیح سلامت ہو جائے تو مجھ پر تھوڑا سا رحم کریں بخش دیں مجھے۔۔۔۔
مٹھائی کھلا کھلا کر جانے میرا کتنا ویٹ بڑھا دیا ہوگا۔۔۔اب چاہے مجھے شادی کا سوٹ پورا ہی نا آئے۔۔۔۔
سب کی بات پر کھلکھلانے لگے۔۔۔۔۔
تم کب سے اتنے ویٹ کانشئیس ہوگئے؟؟؟اویس نے اسے چھیڑا۔۔۔۔
بکواس نا کر جان چھڑا ان سب سے میری۔۔۔۔اس نے جھنجھلا کر کہا۔۔۔۔۔
سب نے مل کر خوب ہلہ گلہ کیا۔۔۔۔
افرس نے حرمت کے دونوں ہاتھوں اور بازوں کو پوری طرح مہندی کے دلکش ڈیزائن سے بھر دیا۔۔۔۔۔
حرمت نے سے بہت منع کیا مگر پھر سب کے بار بار کہنے پر مجبور ہو کہ شادی ایک بار ہی ہوتی ہے ۔۔۔ اس نے بالآخر مہندی لگوا ہی لی۔۔۔
فنکشن کے اختتام پر افرس اور وہ دونوں روم میں آچکی تھیں۔۔۔۔اس کی مہندی اب کافی حد تک خشک ہو چکی تھی۔۔۔۔۔
بستر پر پڑے موبائل پر میسج بپ سنی تو اسے اٹھایا۔۔۔
جریر اسے بہت بار کال کر چکا تھا مگر اس نے جب سے شادی کی بات طے ہوئی تھی تب سے ایک بار بھی اس کی کال نہیں اٹھائی۔۔۔۔
مگر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آیا۔۔۔
کال نہیں اٹھاتی تھی تو میسجز کرتا رہتا۔۔۔۔
اس نے میسج دیکھا۔۔۔۔
زندگی۔۔۔۔۔۔پہلا میسج
بچ لو کب تک بچو گی؟؟؟دوسرا میسج
آخر کو کل آنا تو میرے پاس ہی ہے😘
ایک آنکھ ونگ کرتا بے ہودہ سی حرکت کرتا ہوا ایموجی تیسرے میسج میں سینڈ کیا گیا تھا۔۔۔۔
حرمت نے فون آف کر کہ ایک طرف ڈال دیا اور منہ پر تکیہ رکھے سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وہ اپنے مخصوص عبائے میں ملبوس پولیس اسٹیشن میں آئی۔۔۔
انسپکٹر نے ایک لیڈی کو دیکھتے ہی مؤدب انداز میں اسے سامنے رکھی چئیر پر بیٹھنے کے لیے کہا۔۔۔۔
جی فرمائیے۔۔۔آپ کی کیا خدمت کر سکتے ہیں؟؟؟؟
سر ! یہ تصویریں ہیں میری بیٹی کی۔۔۔۔حرمت نے پریشے کی چند تصاویر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔
کل سکول سے چھٹی کے بعد میری غفلت کی وجہ سے میری بیٹی گم ہوگئی یہ بات بتاتے ہوئے اپنے آپ ہی اس کا گلہ رندھنے لگا۔۔۔۔
اور وہ نم لہجے میں بولی۔۔۔
پلیز آپ میری بیٹی کو کہیں سے بھی ڈھونڈ لائیں میں تاعمر آپ کی شکر گزار رہوں گی۔۔۔۔
ٹھیک ہے بی بی۔۔۔آپ بے فکر ہو جائیں ہم کرتے ہیں کچھ۔۔۔۔
جیسے ہی کوئی بھی اطلاع ملے گی ہم فورا آپ کو بتائیں گے۔۔۔آپ اپنا نمبر کانسٹیبل کو لکھوا جائیں تاکہ آپ سے رابطہ کر سکیں کسی بھی پیش رفت پر۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے ۔۔۔حرمت نے وہاں اپنا نمبر نوٹ کروادیا۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫💫
بریانی کا بدلہ اتارنے کے لیے اس نے میرے فیورٹ مفن بیک کیے تھے۔۔۔۔
مگر گرمی میں کچن میں بیکنگ کرنے سے اسے بخار نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔۔۔۔
میڈیسن لینے کے باوجود بھی اس کا بخار کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔
وہ اس کی اچھے سے تیمارداری کر رہا تھا۔۔۔
آج دو دنوں بعد اس کی کچھ طبیعت سنبھلی تو وہ اپنے اینڑی ٹیسٹ کی تیاری کے لیے گھر سے نکلا۔۔۔۔۔
اس کی کلاس میٹس سکول ٹائم ختم ہونے کے بعد اس کی عیادت کے لیے گھر آئیں تھیں۔۔۔۔
رات کو چوکو لاوا کی برتھ ڈے تھی اس پر اس کے مفن نے اسے اپنی سیونگز سے اس کی فیورٹ چاکلیٹ کا پورا بڑا پیک گفٹ کیا تھا۔۔۔۔
جس میں سے اس نے آدھا پیک رات و رات ہی ختم بھی کر لیا تھا۔۔۔۔
اب سوچا کہ فرینڈز کو بھی کھلا دوں فریج کا ڈور کھولا تو خالی۔۔۔۔
وہاں کچھ بھی موجود نا تھا۔۔۔۔۔
وہ اندر سب سے وعدہ کر کہ آئی تھی کہ انہیں چاکلیٹ کھلائے گی مگر ایک بھی چاکلیٹ وہاں موجود نا پاکر اسے سب کی سامنے سب کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی۔۔۔۔
وہ گھر آیا تو اسے راستے میں ایستادہ پایا۔۔۔
کیا ہوا ؟
راستے میں کیوں کھڑی ہو چوکو لاوا۔۔۔۔
اس نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
ہاں جیسے تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں بڑے آئے معصوم بننے کی اوور ایکٹنگ کرنے والے۔۔۔
سچ سچ بتاؤ میری چاکلیٹس تم نے غائب کیں ہیں نا مجھے چڑانے کے لیے۔۔۔۔
جلدی واپس کرو۔۔۔۔۔
اوہ۔۔۔۔تو تمہیں پتہ چل گیا۔۔۔۔۔
اس نے کچن میں آتے ہوئے برتنوں والی الماری کا سب سے اوپر والا دراز کھولا تو اس میں سے ایک چاکلیٹ برآمد کی۔۔۔۔
اور ریپر اتارے مزے سے کھانے لگا۔۔۔۔
"وہ کیا ہے نا کہ میری پسند بھی اپنی بیسٹی پر چلی گئی ہے مجھے بھی آج سے چاکلیٹ پسند ہے"۔۔۔۔
آج تو میں پوری کی پوری کھا جاؤں گا۔۔۔۔کسی میں دم ہے تو مجھ سے لے کر دکھائے۔۔۔۔
اس کے کھلے عام چیلنج پر وہ کھول کر رہ گئی۔۔۔
اور اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگی۔۔۔۔
مفن مجھے واپس کرو۔۔۔۔۔
اوزیم آگے آگے اور وہ اس کے پیچھے پیچھے۔۔۔۔
اس بھاگنے کے دوران ساری چاکلیٹ بھی ختم کر لی آخری بائٹ منہ میں ڈالنے لگا اس نے جھپٹنے کی کوشش کی تو اس کے لبوں پر لگی۔۔۔۔
مگر وہ ساری چاکلیٹ ہڑپ کر گیا۔۔۔۔
چھوڑنے والی تو میں بھی نہیں۔۔۔۔
اس نے اسکےلبوں پر اپنے لب رکھے اس پر لگی چاکلیٹ کو کھانا چاہا۔۔۔۔
اوزیم تو اس کی اس حرکت پر صدمے میں چلا گیا۔۔۔۔۔
کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟
وہ اپنی مما کی آواز سن کر فورا اس سے دور ہوئی۔۔۔۔
مما دیکھیں نا مفن میری ساری چاکلیٹ کھا گیا۔۔۔میں اس سے واپس لے رہی تھی۔۔۔۔
کیا کروں میں اس بے وقوف لڑکی کا۔۔۔۔وہ اس کی کلائی تھامے گھسیٹتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئیں۔۔۔۔
اور اس کی خوب کلاس لی۔۔۔۔
اور ایسی کلاس لی کہ اب وہ زندگی بھر کسی کو بھی اپنے لبوں کے قریب بھی نا آنے دیتی۔۔۔
باہر صدمے میں پڑے اوزیم کے دل نے پہلی بار اپنے دل میں اس کے لیے دوستی سے کچھ بڑھ کر سوچا۔۔۔۔
دل کی دھڑکنوں کا تال میل سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
اک عجب سی سرمستی اس کے دل ودماغ پر طاری ہونے لگی۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫💫
ماضی۔۔۔۔۔
شادی کا فنکشن لاہور کے ایک شاندار سے میرج ہال میں ارینج کیا گیا تھا ۔۔۔۔
سب لوگ میرج ہال میں پہنچ چکے تھے۔۔۔
حرمت اور افرس بھی بیوٹی سیلون سے تیار ہوکر ہال کے برائیڈل روم میں موجود تھیں۔۔ جب ہر طرف سے بارات آنے کا شور اٹھا ۔۔
تو افرس حرمت کا ہاتھ کھینچ کر اسے ٹیرس پر لائی۔۔۔۔
ان کی شادی کی تقریب ہال کے سیکنڈ فلور پر تھی۔۔۔۔
اور برائیڈل روم میں گلاس وال کی وجہ سے باہر کا منظر بخوبی نظر آرہا تھا۔۔۔۔
کیا کر رہی ہو افرس؟؟؟حرمت نے اپنے بھاری لہنگے کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اگر دلہن اپنے دولہا کو آتے ہوئے دیکھے تو اچھا شگون مانا جاتا ہے۔۔۔۔
یہ کس قسم کی باتیں کر رہی ہو تم؟؟؟
تم چپ کر کہ دیکھو گی یا نہیں ؟؟؟افرس نے اسے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔۔۔۔
حرمت نے اندر آتے ہوئے جریر پر نگاہ ڈالی۔۔۔۔
جس نے آف وائٹ برینڈڈ سوٹ اور اس پر واسکٹ پہن رکھی تھی کھسہ پہنے وہ خوبرو لگ رہا تھا۔۔۔۔
جریر کو خود پر کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا تو اس نے اچانک ٹیرس کی طرف دیکھا تو وہ حسن کی ملکہ آج دوآتشہ سحر انگیز روپ لیے اس کی دل پر بجلیاں گرانے کے پورے ہتھیاروں سے لیس تھی۔۔۔۔
پل بھر کو تو وہ اسے دیکھ کر اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔۔۔۔
پھر ہوش میں آتے ہی ایک مسکراہٹ اس کی طرف اچھالتے ہوئے شرارت سے اپنی عادت کے تحت ایک آنکھ ونگ کی۔۔۔۔
ہنہہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھچھورا انسان !
حرمت نے منہ کے زاوئیے بگاڑتے ہوئے کہا اور واپس اندر کی طرف آئی۔۔۔۔۔
کچھ خدا کا خوف کرو ابھی تھوڑی دیر میں تمہارا جریر سے نکاح ہے اور تم اسے کیسے کیسے القابات سے نواز رہی ہو۔۔۔۔
افرس نے اسے لتاڑا۔۔۔۔
حرکتیں نہیں ملاحظہ فرما رہی تم اس کی۔۔۔حرمت نے جل کر کہا۔۔۔۔۔
جریر سلطان پورے طمطراق سے آج سینکڑوں لوگوں کے درمیان حرمت کو اپنے نام کروا کر پوری شان سے لینے آیا تھا ۔۔۔
افرس برائیڈل روم سے باہر نکل گئی۔۔ بہت حوصلہ اور ہمت مجتمع کرکے وہ ایک کونے میں جا کر بیٹھی تھی ۔
بہت مشکل سے وہ اپنا دھیان دوسری طرف مبذول کروانے میں کامیاب ہو پائی تھی ۔۔۔
فائز سلطان حریم ،ناز اور وشمہ سب مولوی صاحب اور گواہوں کے ساتھ اندر آئے تو نکاح جیسی پاکیزہ رسم کا آغاز ہوا۔۔۔
دونوں طرف سے قبولیت کی سند ملتے ہی ہال میں مبارکباد کا شور اٹھا۔۔۔۔۔
فائز سلطان ایک باپ کا فرض بھی نبھاتے ہوئے خود حرمت کو تھامے سٹیج تک لے کر آ رہے تھے۔۔۔۔۔
حرمت نے سفید جس میں سلور کی ملاوٹ تھی۔۔۔۔دیدہ زیب کامدار عروسی لہنگا چولی زیب تن کیے جس پر باریک موتیوں کا نفیس کام کیا گیا تھا، اس پر نیٹ کے دوپٹے کا گھونگھٹ اوڑاھا ہوا تھا ۔۔۔۔
اور دوپٹے کے فرنٹ پر جریر سلطان کی دلہن ۔۔۔۔۔
اور بارڈر پر قبول ہے ۔۔۔قبول ہے قبول ہے بہت خوبصورت طریقے سے لکھا گیا تھا۔۔۔۔۔
جریر سلطان نے آگے بڑھ کراس کا مخملی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اسے سٹیج پر آنے میں مدد دی۔۔۔۔
اب دلہا دلہن آپس میں بھی سب کے سامنے ایک دوسرے کو نکاح کی مبارکباد دیں۔۔۔۔۔
جریر کے ایک دوست نے اونچی آواز میں مشورہ دیا۔۔۔۔۔
جریر اور حرمت ابھی بھی سٹیج پر کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
نکاح کی بہت بہت مبارک ۔۔۔۔جریر نے حرمت کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔
نو۔۔۔ نو ۔۔۔۔۔نو
یہ ٹھیک نہیں۔۔۔۔ٹھیک طریقے سے مبارکباد دو بھئی۔۔۔۔اویس نے پیچھے سے ہانک لگائی۔۔۔۔۔
اوکے ۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔جسٹ ویٹ آمنٹ۔۔۔۔۔جریر نے سب سے کہا۔۔۔۔
اور حرمت کے چہرے پر پڑا گھونگھٹ اٹھا دیا۔۔۔۔۔
اس کی پیشانی پر نرمی سے اپنے لب رکھے ۔۔۔۔
حرمت تو اس کی اتنے لوگوں کے سامنے اس دیدہ دلیری پر دنگ رہ گئی۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلیں۔۔۔
دلہن بن کر اس پر ٹوٹ کر روپ آیا تھا ۔۔۔
جریر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہوئے ہولے سے مسکرایا۔۔۔۔۔اور دلکش لب و لہجہ میں بولا۔۔۔۔
"نکاح مبارک زندگی"۔۔۔۔۔
سب لوگوں نے ہوٹنگ شروع کردی۔۔۔۔۔
پھر وہ دونوں اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔
تبھی افرس اور جریر کی کزنیں دودھ پلائی کی رسم کرنے کے لیے اسٹیج پر آئیں۔۔۔
پچاس ہزار سے ایک روپیہ کم نہیں ہوگا افرس نے دودھ کا گلاس جو نیو سٹائل کا تھا اس کے آگے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔
کچھ رعایت نہیں ملے گی؟؟؟ جریر نے کہا۔۔۔۔
ایسا کریں پانچ ہزار میں بات ختم اویس نے اپنا حصہ ڈالا۔۔۔۔
ارے واہ۔۔۔ کیا بات ہے اتنے سستے میں اپنی نازوں پلی بہن نہیں جانے دیں گے قطعاً نا منظور۔۔۔۔افرس نے حتمی لہجے میں کہا۔۔۔
نہیں بھئی یہ سودا ہمیں منظور نہیں ۔۔۔۔۔
وشمہ نے کلچ میں سے پچاس ہزار نکال کر افرس کی ہتھیلی پر رکھے تو وہ مسکرا کر اپنا نیگ لیتی ہوئی تھینکس کہہ کر وہاں سے اٹھی۔۔۔۔۔
وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس دلاتے انکی محفل کو برخاست کرتے رخصتی کا شور اٹھا تھا ۔۔۔
رخصتی کےوقت حرمت سب سے گلے ملتی یوں ٹوٹ کر روئی تھی کہ ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔
حریم میں نے ایک فیصلہ کیا ہے حرمت تو ہمارے گھر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جائے گی مگر اس پر تمہارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا ہم سب کا۔۔۔
تم بھی آج سے ہم سب کے ساتھ رہو گی۔۔۔۔
مگر بھائی؟؟؟
حریم نے کچھ بولنا چاہا۔۔۔۔
بھائی بھی کہتی ہو اور بھائی کی بات کا مان بھی نہیں رکھتی۔۔۔۔انہوں نے پرشکوہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
حریم نے ساتھ کھڑی اپنی بڑی بہن ناز کی طرف دیکھا تو اس نے بھی سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے بھائی ۔۔۔حریم نے ان کی بات پر حامی بھر لی۔۔۔۔۔
گھر میں حرمت کا قدرتی پھولوں سے پرزور استقبال ہوا تھا۔۔۔ وشمہ اپنی اکلوتی بہو کی ایک ایک رسم نبھا رہی تھی۔۔۔ نجانے وہ کون کون سی رسمیں نکالے بیٹھیں تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔۔۔۔
آج ان کے لاڈلے بیٹے کی شادی پر انکے قدم زمین پر نا ٹک رہے تھے وہ ہر ہر رسم میں پیش پیش تھیں۔۔۔
مام اب بس بھی کردیں باقی کی رسمیں کل پوری کر لینا۔۔۔ جریر نے تنگ آکر کہا۔۔۔۔
بلآخر وشمہ کو بہو اور بیٹے کا خیال آیا تو انہوں نے افرس کو اس کے روم لے جانے کا عندیہ دے دیا۔۔۔۔۔
افرس کچھ دیر میرے پاس رک جاو۔۔۔ وہ اسے تازہ پھولوں سے سجے کمرے میں بیڈ کے وسط میں بٹھاتی ہوئی اسکا عروسی جوڑا اور گھونگھٹ ٹھیک کرتی بیڈ سے اتری ہی تھی جب حرمت نے بے ساختہ افرس کا ہاتھ تھام کر منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔
کیا ہو گیا ہے حرمت اتنی ٹھنڈی کیوں پڑ رہی ہو افرس نے اسکے ٹھنڈے پڑتے ہاتھوں کو تھامتے پریشانی سے پوچھا۔۔۔
مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے افرس۔۔۔ وہ رو دینے کو ہوئی۔۔۔
حرمت پاگل مت بنو میں کیسے یہاں رک سکتی ہوں تمہارے ہزبینڈ آنے والے ہوں گے انہوں نے مجھے یہاں کباب میں ہڈی بنے ہوئے دیکھ لیا تو ایک لمحہ بھی ضائع کیے بنا مجھے اٹھا کر یہاں سے باہر پھینکیں گے۔۔۔۔
پھروہ اسے تسلی دیتے ہوئے باہر نکل گئی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد کلک کی آواز کیساتھ کمرے کا دروازہ کھل کر بند ہوا ساتھ ہی حرمت کا دل بھی اچھل کر حلق میں آ گیا تھا اسنے سر مزید جھکاتے ہاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو کی سعی میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ایک دوسرے میں پیوست کیں۔۔۔اسے اپنے ہاتھوں سے پسینے چھوٹتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی جریرکی پہلی نظر ہی بیڈ کے وسط میں پورے طمطراق کیساتھ براجمان اپنی زندگی پر پڑی تو بے ساختہ ایک مسکراہٹ اسکے ہونٹوں کو چھو گئی۔۔۔ بیڈ پر آکر اس کے قریب بیٹھا۔۔۔۔
آہستگی سے اسکے چہرے پر پڑا ہوا گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔۔
آج اپنی زندگی سے سب بدلے سود سمیت چکانے کا ارادہ ہے
تو پھر کیا خیال ہے آپ کا مسسز اس بارے میں؟؟؟
۔۔۔ جریر نے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔
حرمت نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
"ہائے یہ نیلے سمندر کہیں ان میں ڈوب ہی نا جاؤں"۔۔۔۔جریر نے جذب سے اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
بہت شکریہ میری زندگی ۔۔۔۔
میری زندگی میں آنے کے لیے۔۔۔۔اس نے اس کے گال پر اپنے لب رکھ کر کہا۔۔۔۔
حرمت نے آنکھیں پھیلائیں اس کی اچانک اتنی بے باک حرکت پر۔۔۔۔
اور شاک کی کیفیت میں اپنے گال پر ہاتھ رکھا جہاں ابھی اس نے چھوا تھا۔۔۔۔۔
حرمت کو لگا اسکا دل بند ہو جائے گا۔۔۔
وہ ساکت تھی اور ابھی تک گومگوں کی کیفیت میں مبتلا تھی ۔۔۔۔
ایک دم جب خود پر سے کچھ بوجھ کم سا محسوس ہوا تو پتہ چلا کہ اس کا دوپٹہ اتنے میں اس کے مجازی خدا اس کے تن سے الگ کر چکے ہیں۔۔۔۔
اس نے گھبرا کر ادھر ادھر اپنا دوپٹہ تلاش کرنا چاہا۔۔۔۔
Relaxed yaar.....
اس نے حرمت کے ستواں ناک سے اپنا ناک رب کرتے ہوئے خمار زدہ آواز میں کہا ۔۔۔۔
سفید رنگت میں گھلتی سرخیاں اس کی قربت پر دہکتے اناری گال،اس جسمانی نشیب و فراز جریر کو مزید گستاخیوں پر اکسا رہے تھے۔۔۔۔
اس کی گھنیری خمدار مژگانوں کا دلفریب رقص اسے بے بس کیے مسمرائز کرنے کے آخری مراحل میں تھا۔۔۔
آتشی گلابی لپسٹک سے سجے بھرے بھرے کٹاؤ دار لب اسے اپیل کرہے تھے۔۔۔۔
جریر نے اس کے حسین چہرے کو اپنے ہاتھوں میں پیالوں کی صورت بھرتے ہوئے اپنے قریب تر کیا۔۔۔۔
حرمت کو اس کی گرم سانسوں سے اپنا چہرہ جھلستا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
دل تھا کہ زوروں سے دھڑک کر باہر نکلنے کو مچل رہا تھا۔۔۔۔۔
پہلی بار اتنی قربت پر اس اپنے حواس مختل ہوتے ہوئے محسوس ہورہے تھے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جسارت کرتا حرمت نے اس کے لبوں پر ہاتھ رکھ کر اسے مزید کوئی گستاخی کرنے سے روکا۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟جریر نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
اس نے سر جھکا لیا۔۔۔۔
کچھ نہیں پلیز مجھے یہ سب پسند نہیں۔۔۔۔اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔
لیکن مجھے تو پسند ہے۔۔۔۔حرمت نے اس کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔
جہاں جزبات کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر آباد تھا۔۔۔۔
حرمت نے اپنی نگاہیں چرائیں۔۔۔۔
پلیز۔۔۔۔اس ایک بار پھر مدد طلب نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اوکے یہ بات میں تمہاری مان رہا ہوں مگر اب باقی سب باتیں تمہیں میری ماننی ہوں گی۔۔۔
بولو منظور ہے۔۔۔۔
جریر نے ابرو اچکا کر سوالیہ انداز سے پوچھا۔۔۔۔
اس نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔
منہ دکھائی صبح ملے گی ابھی اچھے سے منہ دیکھ لوں ۔۔۔۔
منہ دکھائی دینے میں وقت برباد نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔
پہلے ہی آدھی رات نکل گئی ان رسموں کے چکر میں۔۔۔۔
تم اتنی دیر اس جیولری سے چھٹکارا حاصل کرو میں ابھی چینج کر کہ آتا ہوں۔۔۔۔
یہ کہتے ہی جریر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
حرمت ابھی بھی پوری طرح کانپ رہی تھی۔۔۔
کیسے سہار پائے گی مزید اس کی قربت کو؟؟؟
یہی سوچتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھی اور ڈریسنگ کے سامنے آکر جیولری اتارنے لگی۔۔۔۔
ہائی بن کو کھولا اور بالوں میں برش کر کہ انہیں ہلکے سے کیچر میں مقید کیا۔۔۔۔
کبرڈ سے اپنے لیے ایک آرام دہ سوٹ نکالا۔۔۔
اور جریر کے باہر آنے کا ویٹ کرنے لگی تاکہ وہ بھی فریش ہو سکے۔۔۔۔
جریر صرف ٹراؤزر پہنے شولڈر پر ٹاول ڈالے ایک ہاتھ سے بالوں کو رگڑتا ہوا باہر آیا۔۔۔۔
حرمت نے اسے ایسے دیکھ فورا نظریں جھکائے ہوئے اس کے قریب سے گزرتے ہوئے واش روم میں جانا چاہا۔۔۔۔۔
جریر نے اس کی کلائی تھام کر اسے جانے سے روک دیا۔۔۔۔
اس کے ہاتھ میں سے کپڑے لے کر ایک طرف پھینکے۔۔۔۔
حرمت نے فق نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
جریر نے ٹاول لپیٹ کر دور پھینکا اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر بیڈ پر لے آیا۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں مجھے چینچ کرنا ہے۔۔۔۔حرمت نے منمناتے ہوئے عذر پیش کیا۔۔۔۔
ہم کس مرض کی دوا ہیں۔۔۔۔بندہ حاضر ہے آپ کی خدمت کے لیے۔۔۔۔۔جریر نے خمار زدہ آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔
ہاتھ بڑھا کراس کی شرٹ کی زپ کھولی تو اسے اپنی جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔
جریر نے اس کا سر نرمی سے تکیے پر رکھا۔۔۔
اور اس کے شانوں سے شرٹ کھسکاتے ہوئے اس کی نازک صراحی دار گردن اور اس کے اردگرد اپنے لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔
اسے ایسا لگا دل اچھل کر ابھی حلق میں آجائے گا۔۔۔۔
اس نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر سے اسے پیچھے دھکیلنا چاہا تو جریر نے اس کے دونوں مہندی سے سجے ہوئے حنائی ہاتھوں کو اپنے قبضے میں لے کر اسے دیکھا جو زور سے اپنی آنکھیں میچے ہوئے تھی۔۔۔۔
اس کی مہندی کی خوشبو اور کمرے میں موجود گلاب اور موتیے کی ملی جلی محسور کن مہک اسے مزید بہکنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔۔۔
اس نے اس کی تھوڑی پر بنے خم پر اپنے دانت گاڑے۔۔۔۔
آہ۔۔۔۔اس کی سسکی بھری آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔
اتنے میں ہی بس ہوگئی زندگی۔۔۔۔ابھی تو آپ کو ہماری قربت میں مزید تڑپنا ہے۔۔۔۔ اس نے حرمت کے کان کے قریب آتے ہی سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔
اور اٹھ کر سوئچ بورڈ کے پاس گیا تاکہ لائٹ آف کردے۔۔۔۔
حرمت نے چند لمحے اسے پاس محسوس نا کیا تو جلدی سے اٹھ کر کمفرٹر اوڑھے ہوئے لیٹ گئی۔۔۔۔
شاید اسی سے اس کی جان خلاصی ہو جائے۔۔۔۔
جریر لائٹ آف کیے واپس آیا تو اسے یوں کمفرٹر میں چھپے ہوئے دیکھ کر ہنسا۔۔۔۔
حرمت کو اپنے اوپر سے کمفرٹر ہٹتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
مگر وہ بنا کوئی حرکت کیے جامد لیٹی رہی۔۔۔۔
یار تم میں کہیں وہ کیا نام تھا اس کارٹون کا ؟؟؟
ہاں یاد آیا نوبتا۔۔۔۔۔وہ ڈورِ مون والا۔۔۔کہیں اس کی تو روح نہیں جو لیٹتے ساتھ ہی سو جاتا ہے۔۔۔۔۔
جریر نے اس پر چوٹ کی ۔۔۔۔
میں بالکل بھی اس نالائق کی طرح نہیں۔۔۔آپ کو کیا میں ایسی لگتی ہوں۔۔۔۔اس نے فورا اپنا دفاع کیا۔۔۔۔
یعنی کہ تیر صحیح نشانے پر لگا۔۔۔۔
زندگی جی آپ جاگ رہی تھیں۔۔۔مجھے بے وقوف بنانا اتنا آسان نہیں۔۔۔۔۔
وہ خود ہی بول کر اس کے دام میں آکر بری پھنسی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ کمفرٹر میں خود کو چھپاتی۔۔۔۔
جریر نے کمال پھرتی سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔
مجھے نیند آ رہی ہے۔۔۔۔اس نے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانے کے اس کے سینے پر مکے برسائے۔۔۔۔
مگر مقابل ہر اس وقت کچھ بھی اثر نا ہونے کے برابر تھا۔۔۔۔۔
جریر نے اس کی فرار کے سارے راستے مسدود کرتے ہوئے اسے پوری طرح اپنے قبضے میں لے لیا۔۔۔۔۔۔
💫💫💫💫💫💫💫a
فجر کی اذان کے وقت اس کی جاگ معمول کے مطابق اپنے آپ ہی کھل گئی وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کپڑے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
شاور لینے کے بعد اس نے نماز ادا کی اور کمرے میں موجود صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔
بال گیلے ہونے کی وجہ سے اس نے نماز کے سٹائل میں لیا گیا دوپٹہ کھول کر شانوں پہ پھیلایا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی۔۔۔
دماغ رات میں ہوئے واقعے کی وجہ سے کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی حالت میں نا تھا۔۔۔
اپنے آپ ہی جانے کیوں اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے۔۔۔۔
دماغ نے اسے سرزنش کی کس بات کا دکھ ہے؟؟؟
وہ تمہارا شوہر ہے اگر اس نے اپنے حقوق حاصل کر بھی لیے تو اس میں برائی ہی کیا ہے؟؟
مگر دل اسے کہہ رہا تھا اسے میری مرضی کا بھی تو خیال کرنا چاہیے تھا نا۔۔۔۔
دل اور دماغ کی اس جنگ میں جانے پھر کب اس کی آنکھ لگی اسے خود بھی خبر نا ہوئی۔۔۔۔
ہوش تو تب آیا جب خود کو ہوا میں معلق کسی کے حصار میں پایا۔۔۔۔۔
اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
گڈ مارننگ زندگی۔۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہیں نیچے اتاریں مجھے۔۔۔۔
اس نے جریر سے کہا۔۔۔۔
پہلے مجھے مارننگ وش کریں اچھے سے پھر ہی یہاں سے آزادی ملے گی۔۔۔۔۔
پلیز مجھے تنگ مت کریں جانے دیں مجھے۔۔۔۔اس نے التجائیہ انداز میں کہا۔۔۔۔
جریر نے اس کے کپکپاتے ہوئےلبوں کو دیکھا جو اسے اپیل کر رہے تھے۔۔۔۔
حرمت نے اس کی نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے ہی فورا اپنے لبوں پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔
This is not fair.......Zindagi.
رات کو بھی تم نے مجھے یہاں چھونے سے روکا اب پھر؟؟؟؟
میں نے آپ سے یہی ایک ریکوسٹ کی تھی مجھے یہ نہیں پسند ۔۔۔
پلیز۔۔۔۔۔آپ میری اتنی سی بات نہیں مانیں گے؟؟؟؟اس نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔
ہال ہی میں تم کو چھونے کا فل پرمٹ حاصل کر چکا ہوں ۔۔۔۔
سارے حقوق رکھتا ہوں تم پر۔۔۔
مگر اپنی زندگی کی خوشی کے لیے یہ بھی سہی۔۔۔۔۔
آپ کو اتنے قریب دیکھ کراپنے جذبات کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے۔
حرمت اس کی بات پر ہلکا سا مسکائی۔۔۔۔
جریر نے اسے نیچے اتارا۔۔۔۔
اور اسے اپنے ساتھ ڈریسنگ تک لایا۔۔۔۔
دونوں سامنے کھڑے شیشے میں ایک دوسرے کے عکس کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔
جریر نے اپنے دونوں بازو اس کی پشت سے لے جا کر اس کے گرد حمائل کیے۔۔۔۔
اور ایک طرف سے اپنا چہرہ اس کے قریب کیےاس کے گال پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔
آپ نے تو کہا نہیں سوچا ہم خود ہی آپ کو گڈ مارننگ وش کردیں۔۔۔۔وہ شوخ انداز میں
بولا۔۔۔۔
او شٹ !
اس نے کچھ یاد آنے پر اپنے سر پر ہاتھ مارا۔۔۔۔
منہ دکھائی تو دی ہی نہیں اس نے ڈریسنگ کے فرسٹ ڈراور سے ایک مخملی کیس برآمد کیا۔۔۔۔
اسے کھول کر اس میں سے ایک نازک سی انگوٹھی نکالی۔۔۔
اور اس کا نازک سا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اس کی فنگر میں جونہی رنگ پہنانے لگا اس میں پہلے سے ہی ایک انگوٹھی موجود تھی۔۔۔
زندگی اسے نکالو فورا ہاتھ سے۔۔۔۔
یہ بہت ٹائٹ ہے نہیں اترتی ۔۔۔۔حرمت نے ڈرے ہوئے انداز میں کہا معا وہ کہیں خفا ہی نا ہو جائے اس بات پر۔۔۔۔
جریر نے باکس ایک طرف رکھ کر اس کی انگلی میں موجود انگوٹھی کو نکالنے کی کوشش کی مگر بے سود۔۔۔۔
اب کی بار اس کے چہرے کے زاویے بگڑے۔۔۔۔
یہ نکل کیوں نہیں رہی؟؟؟؟
یہ۔۔یہ کئی سالوں سے میرے ہاتھ میں ہے کبھی اتاری ہی نہیں۔۔۔
اور اب یہ پھنس چکی ہے۔۔۔۔اس نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔۔
کسں نے دی؟؟؟؟جریر نے ابرو اچکاتے ہوئے سوال کیا۔۔۔۔۔
دو۔۔دوست نے۔۔۔۔۔اگر وہ اسے یہ بتا دیتی کہ وہ دوست کون تھا تو کہیں وہ غصہ ہی نا کر بیٹھے۔۔۔۔
حرمت نے پوری بات نا بتانے میں ہی عافیت جانی۔۔۔۔۔
ابھی کے ابھی چلو میرے ساتھ۔۔۔۔
جریر اس کی کلائی تھامے تیزی سے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔اور جاتے ہوئے اپنی لی گئی رنگ اپنے ساتھ لے جانا نا بھولا۔۔۔۔
گڈ مارننگ۔۔۔ایوری ون۔۔۔۔۔
اس نے باہر آتے ہی سب کو مشترکہ طور پر کہا۔۔۔۔
اسلام وعلیکم !!!حرمت نے بھی جھکے ہوئے سر سے سب کو سلام کیا۔۔۔۔
سب کے سامنے جریر نے اسے تھام رکھا تھا اس کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی سب کی نظروں میں دیکھنے کی۔۔۔۔
آپ سب لوگ پلیز بریک فاسٹ کر لیجیے۔۔۔
مجھے ایک ضروری کام ہے میں حرمت کو لے کر کچھ دیر میں آتا ہوں۔۔۔
مگر بیٹا شام کو ریسپیشن ہے۔۔۔وشمہ نے کہا۔۔۔
مام ریسیپشن میں کافی وقت ہے ہم تھوڑی دیر تک آجائیں گے ڈونٹ وری۔۔۔۔
اور اسے اپنے ساتھ لیتا ہوا باہر پورچ تک آیا جہاں اس کی گاڑی کھڑی تھی۔۔۔۔
ڈور کھول کر اس میں حرمت کو بٹھایا اور پھر اپنی جگہ پر آیا۔۔۔۔
اگنیشن میں چابی ڈال کر گاڑی سٹارٹ کی۔۔۔
وہ سارا راستہ خاموش رہا۔۔۔
حرمت نے بھی اپنی نظریں گاڑی سے باہر مرکوز کر لیں۔۔۔اور سوچنے لگی جانے اب یہ کیا کرنے والا ہے۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد اس نے ایک شاپ کے باہر گاڑی روکی اور اسے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔۔۔۔
یہ رنگ کٹ کر کہ اتار دیں ۔۔۔۔۔
جریر نے سامنے کھڑے ہوئے شخص سے کہا۔۔۔
اور ہاں اس کے ہاتھ کو زرا سا بھی ٹچ نا ہو آپ کا ہاتھ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے سر ۔۔۔اس نے کہا اور ماہرانہ انداز میں بنا ہاتھ لگائے اس کی انگلی میں موجود انگوٹھی کو کاٹ کر الگ کر دیا۔۔۔۔
رنگ ٹوٹ کر دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔۔۔۔
اسے کبھی اتارنا مت۔۔۔۔۔
میرا انتظار کرو گی نا؟؟؟؟
اس کے دوست کی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی۔۔۔۔
اس نے آج اپنے دوست سے کیا گیا وعدہ توڑ دیا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔
آج احساس ہوا آنکھ میں آئے آنسو پینا کتنا مشکل ہوتا ہے۔۔۔۔
جریر نے وہ رنگ اٹھا کر دور پھینکی۔۔۔۔
دل کو بہت برا محسوس ہوا مگر وہ کچھ بھی کہہ کر اسے زندگی بھر کی خفگی مول نہیں لے سکتی تھی۔
اس نے خالی نظروں سے زمین کو دیکھا جہاں وہ رنگ گری ہوئی تھی۔۔۔
وہ دونوں باہر آئے اور گاڑی میں واپس بیٹھے
جریر نے اپنی لائی گئی رنگ اس کی ہاتھوں کی زینت بنائی اور اپنے لب اس پر رکھ دئیے۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟
گاڑی گھر کی بجائے کسی اور راستے پر دیکھ حرمت نے اس سے کہا۔۔۔۔
ابھی پتہ چل جائے گا۔۔۔۔
اس نے اپنی توجہ سامنے مرکوز کی اور ڈرائیونگ جاری رکھی کچھ ہی دیر میں وہ ایک شاپنگ سینٹر کے سامنے موجود تھے۔۔۔۔
دونوں ساتھ چلتے ہوئے ایک بڑی سی شاپ میں آئے جہاں صرف عبائے ہی تھے۔۔۔۔
جریر نے وہاں سے اپنی پسند کا ایک عبایا منتخب کیا اس کی پیمنٹ کی اور باہر نکل آئے۔۔۔
اس دوران حرمت خاموش رہی ۔۔۔۔
وہ کوئی بھی سین کریٹ کر کہ اپنی ماں کو دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔۔۔
جنہوں نے اسے شادی سے پہلے کئی بار سمجھایا تھا کہ شوہر کی ہر بات ماننا تم پر فرض ہے۔اسے اپنی کسی بھی بات سے ناراض مت کرنا اتنے سالوں بعد جو دوریاں مٹیں ہیں کہیں تمہاری وجہ سے پھر سے ہم سب الگ نا ہوں جائیں۔۔۔
آج سے تم یہی پہنو گی کہیں بھی آؤ جاؤ گی تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔
کہیں تم یہ تو نہیں سوچ رہی خود امریکہ سے پڑھ کر آیا ہے اور خیالات اتنے دقیانوسی؟؟؟؟
حرمت نے اس کی بات پر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
اور نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔مگر زبان سے ایک لفظ بھی نا کہا۔۔۔۔
شادی سے پہلے تو بڑی زبان چلتی تھی شادی کے بعد کہیں کرائے پر تو نہیں دے چھوڑی؟؟؟
اس نے حیرانی سموئے کہا۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں آپ کو جیسے ٹھیک لگے۔۔۔۔اس نے ہلکی آواز میں کہا۔۔۔۔
دراصل شادی کے بعد اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرنا مرد پر فرض ہے ۔میں تم پر بےجا پابندیاں لگا کر تم پر ظلم نہیں کرنا چاہتا صرف تمہاری حفاظت کرنے کی چھوٹی سی کوشش ہے۔۔۔۔
حرمت نے پھر سے سر ہلایا۔۔۔۔
کچھ بولو گی بھی کہ نہیں؟؟؟؟
میں کیا بولوں؟
کوئی گانا ہی سنا دو۔۔۔۔
جریر کی انوکھی فرمائش پر اس نے حیرت سے اپنی پوری آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اوزیم فریش ہوکر باہر آیا تو پریشے کو اپنے انتظار میں پایا۔۔۔۔
جلدی جلدی سے اپنی تیاری مکمل کیے باہر آیا جہاں ڈائینگ ٹیبل پر سب اسی کے انتظار میں تھے۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم صبح بخیر مام!
وعلیکم السلام میری جان صبح بخیر !
اپنے ماموں کے ساتھ کسی اور کو بیٹھتے دیکھ ھاد کے حسد کے مارے چہرے کے زاویے بگڑے۔۔۔۔
یہ کون ہے مما؟؟؟
یہ پریشے ہے اسے آپ اپنی بہن ہی سمجھ لو۔۔۔اوزیم نے اسے کہا۔۔۔
نہیں یہ میری بہن نہیں۔۔۔
اس نے منہ ٹیڑھا کیے غصے سے اپنے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے کہا۔۔۔
ادھر آؤ یار۔۔۔اوزیم اس کی کیفیت جان چکا تھا اسے لیے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔۔
بابا۔۔۔۔پریشے زور سے چیخی۔۔۔۔
میں آپ سے بات نہیں کرتی آپ نے اسے کیوں گود میں بٹھایا آپ صرف میرے ہیں۔۔۔
اس نے بھی خفگی سے منہ پھلائے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم نے اسے بھی اٹھا کر ھاد کے ساتھ اپنی گود میں بٹھایا۔۔۔۔
میں آپ دونوں سے ہی پیار کرتا ہوں اس لیے دونوں کا ہوں
اچھے بچے لڑائی نہیں کرتے آپ دونوں اچھے بچے ہو نا؟؟؟
دونوں نے سر زور سے ہلایا۔۔۔۔
اوزیم کے لبوں کو اتنے سالوں بعد مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔
چلو پھر دونوں فرینڈشپ کرو۔۔۔شیک ہینڈ کرو ایک دوسرے سے۔۔۔۔
دونوں نے پہلے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اوزیم کی طرف اور پھر ہنستے ہوئے ہاتھ ملا لیے۔۔۔۔
اب جلدی سے بریک فاسٹ فنش کرو یہ کہتے ہوئے ان دونوں کو ان کی جگہ پر بٹھایا۔۔۔۔۔
فارغ ہو کر اوزیم پریشے کو ساتھ لیے پولیس اسٹیشن میں آیا۔۔۔۔
انسپکٹر اتنی بڑی شخصیت کو یہاں دیکھ کر فورا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔
بیٹھیے پلیز۔۔۔اوزہم بولا۔۔۔
جی جی۔۔۔۔
جی بتائیے سر کیا خدمت کی جائے آپ کی۔۔۔اس نے چاپلوسی سے کہا۔۔۔
ایکچولی یہ بچی پریشے کل اس کا میری مدر کی گاڑی سے حادثہ ہو گیا تھا ۔۔۔۔اوزیم خان نے اسے ساری تفصیل سے آگاہ کیا۔۔۔
بچی کی شکل کچھ جانی پہچانی لگی اس نے ٹیبل کے دراز میں سے ایک تصویر نکال کر دیکھی ۔۔۔۔
اوہ یہ تو وہی بچی ہے۔۔۔اس نے حیرانی سے اونچی آواز میں کہا۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے یہ کس کی بچی ہے؟؟؟
اوزیم نے اس سے پوچھا۔۔۔
جی جی سر اس کی والدہ آئی تھیں اس کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے۔۔۔
یہ دیکھیں اس بچی ہی کی تصویر دے کر گئی تھی۔۔۔
گڈ ۔۔۔پھر آپ اسے اس کی والدہ کے حوالے کر دیں۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے سر۔۔۔۔
انسپکٹر نے تصویر کے پیچھے لکھے گئے نمبر پر کال ملائی جو دوسری بیل پر اٹھا لی گئی۔۔۔
میڈم آپ کی بیٹی مل گئی ہے۔اسے آکر یہاں سے لے جائیں۔۔۔۔
دوسری طرف یہ بات سن کر حرمت کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔
گویا ہفت قلیم مل گئی ہو۔۔۔۔
ایک صاحب لائے ہیں اسے یہاں۔۔۔۔انسپکڑ نے اسے بتایا۔
آپ پلیز انہیں روک کر رکھیے گا میں ابھی آتی ہوں مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔۔۔
جی ٹھیک ہے آپ آجائیں۔۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے فون ایک طرف رکھ دیا۔
سر آپ کیا لیں گے ٹھنڈا یا گرم ؟؟؟
نو تھینکس۔۔۔۔
وہ فون پر آنے والی کال کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
اوکے میں بس آرہا ہوں۔۔۔یہ کہتے ہی اس نے فون بند کیا۔۔۔
میں چلتا ہوں اوزیم جانے کے لیے وہاں سے اٹھا۔۔۔۔
بابا ۔۔۔۔وہ اس کی ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔
اوزیم اس کی طرف دیکھتے ہوئے پریشان ہوا۔۔۔۔
کیا بات ہے بیٹا ؟؟؟اس نے دوزانو بیٹھ کر اس سے پوچھا۔۔۔
آپ مجھے یہاں چھوڑ کر مت جائیے مجھے آپ پاس رہنا ہے۔۔۔۔
اس کی معصوم سی فرمائش پر اس کا دل دہلا۔۔۔۔
مگر وہ کسی کی بھی بیٹی کو اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتا ہے اس نے دل میں سوچا اور اس سے پہلے کہ وہ اس معصوم کی محبت میں آکر اپنے فیصلے سے بدل جاتا ۔۔۔
اس نے انسپکٹر کو اشارہ کیا۔۔۔
بیٹا آپ کی مما آرہی ہیں آپ کو لینے۔۔۔۔
انسپکٹر نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بلایا ۔۔۔
اوزیم نظریں چراتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
باہر آیا تو اپنی گاڑی میں بیٹھا ۔۔۔
ڈرائیور نے گاڑی کا رخ آفس کی طرف کیا۔۔۔۔
وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
پریشے کے معصوم چہرے میں جانے کیوں اسے اپنی چوکو لاوا کی جھلک دکھ رہی تھی۔۔۔برسوں پہلے اس نے اپنی چوکو لاوا کو کھو دیا اور آج وہ اس پری سے بھی دور ہو رہا تھا ۔۔۔۔جانے کیا کشش تھی اس بچی میں جو اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسے آج بھی وہ پل اچھے سے یاد تھا جب اس کے بابا نے اسے باقی کی تعلیم مکمل کرنے کے لیے ترکی بلایا لیا تھا اپنے پاس ۔۔۔۔۔
وہ جانے سے پہلے اس سے ملنے آیا ۔۔۔۔اس نے اپنی سیونگز سے اس کے لیے ایک نازک سی رنگ بنوائی تھی۔۔۔۔
وہ چاہے سترہ برس کا سمجھدار لڑکا تھا اس کے لیےاپنے جذبات کو جان چکا تھا۔۔۔
مگر وہ تو بارہ سال کی بچی ہی تھی۔۔۔۔
جو شاید ابھی اس کے جذبات سمجھنے کی عمر میں نا تھی۔۔۔۔
£اپنی نسبت کی انگوٹھی نہیں پہنا سکتے
تواپنی انگلیوں کی پوروں سے
میری انگلیاں چھو جاؤ۔۔۔۔۔
تمہارے لمس مختصر کی قسم
تاقیامت یہ جان تم سے منسوب رہے گی۔
اس نے جاتی بار اسے ایک دوست کی طرح اپنے واپس آنے تک اسے انتظار کرنے کا وعدہ لیا۔۔۔۔
اور اس کی انگلی میں اپنے نام کی انگوٹھی پہنا کر اپنی طرف سے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے نام کر لیا تھا۔۔۔۔
مگر وہ اس بات سے انجان تھا کہ قسمت اس کے مقدر میں کیا لکھ چکی ہے۔
💫💫💫💫💫💫💫💫💫
کچھ دیر بعدحرمت وہاں پہنچی تو پریشے کو سامنے دیکھ بھاگتی ہوئی اس کے قریب پہنچی اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر خود سے لگایا۔۔۔۔
پھر اس کے چہرے کو چومنے لگی۔۔۔
میری پری۔۔۔۔۔
حرمت نے اسے گود میں اٹھا لیا۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ انسپیکٹر صاحب۔۔۔اس نے ممنون لہجے میں کہا۔۔۔۔
وہ کدھر ہیں جو اسے ڈھونڈ کر لائے؟؟؟حرمت نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
میڈم جی ان کو کوئی کام تھا وہ چلے گئے۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
حرمت پریشے کو لے کر گھر آئی تو گھر میں چھائی سوگواری دور ہوگئی۔۔۔۔
حریم اور اماں بی سب اسے پیار کرنے لگے۔۔۔۔
اندر سے کچھ گرنے کی آواز آئی تو حرمت بھاگ کر اندر گئی جہاں پیام لیٹا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا میرے بیٹے کو؟؟؟اس نے پیام کا گال تھپتھپاتے ہوئے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔مگر وہ ہوش میں ہوتا تو جواب دیتا۔۔۔۔
اماں آپ لوگ پریشے کا خیال رکھیے گا میں پیام کو لے کر ہسپتال جا رہی ہوں اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اس نے جلدی سے کہا اور پیام کو شانے سے لگائے گود میں اٹھا کر گھر سے باہر نکلی تو کچھ دوری پر کھڑے ہوئے رکشے کو ہاتھ دے کر روکا۔۔۔۔
جس نے اسے تھوڑی دیر میں ہی ایک سرکاری ہسپتال میں پہنچا دیا۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اس کا چیک اپ کرنے کے بعد کہا اس کا بلڈ چینج ہوگا۔۔۔
آپ بلڈ اور پیسوں کا انتظام کریں۔۔۔۔
جی ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔
وہ دل مسوس کر رہ گئی۔۔۔اب کیا کروں میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔۔۔گھر میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں جسے میں بیچ کر اپنے بچے کی زندگی بچا سکوں۔۔۔۔
اس نے اپنے بہتے آنسو اپنے ہاتھوں کی پشت سے صاف کیے۔۔۔۔
مما آپ پیام کے پاس رکیں مجھے اس کے علاج کے لیے رقم کی اشد ضرورت ہے اسی کے انتظام کے لیے کچھ کرنا ہوگا۔۔۔۔
مگر حرمت تم کیسے کرو گی؟؟؟انہوں نے پریشانی سے پوچھا
مما کچھ نا کچھ تو کرنا پڑے گا میں دیکھتی ہوں ۔آپ پریشان نا ہوں بس پیام کا خیال رکھیں۔
پری کو اچھا کیا جو اماں بی کے پاس چھوڑ آئیں ، اس کا یہاں ہاسپٹل میں رہنا ٹھیک نہیں۔
ہہم۔۔۔
حرمت !!!وہ باہر نکلنے والی تھی کہ انہوں کی غمگین آواز سن کر رکی۔۔۔۔
کیا ہوا مما؟؟؟؟
اس نے ان کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
مجھے معاف کر دو میں تمہاری مدد نہیں کر پا رہی ۔۔۔۔
مما پلیز ایسا نا کہیے آپ کا ساتھ ہی میرے لیے سب کچھ ہے اور کسی چیز کی ضرورت نہیں۔۔۔۔
آپ فکرمند نا ہوں پیام کے ساتھ ساتھ میں آپ کا بیمار ہونا برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔
وہ ان کے آنسو پونچھتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
محلے کی ہی ایک عورت جو ایک کمپنی کی مختلف پروڈکٹ گھروں میں جا کر سیل کرتی تھیں۔انہوں نے کئی بار حرمت کو اس جاب کے بارے میں بتایا تھا مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔
آج وہ اسی پر طبع آزمائی کرنے کی کوشش میں تھی۔
سر پلیز مجھے پیسوں کی اشد ضرورت ہے کیا آپ مجھے ایڈوانس میں کچھ رقم نہیں دے سکتے حرمت نے جھجھکتے ہوئے اپنی بات کہی۔۔۔۔
آج آپ کا پہلا دن ہے ابھی کام شروع بھی نہیں کیا اور رقم کا تقاضا؟؟؟؟
نہایت ہی بے وقوفی کی بات ہے۔۔۔انہوں نے سرد مہری سے کہا۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپ جتنی زیادہ پروڈاکٹ سیل کرلیں گی اتنی ہی پرافٹ دی جائے گی۔۔۔۔
شام تک دیکھتے ہیں آپ کی کاکردگی۔۔۔۔۔
حرمت وہ پراڈکٹس والا بیگ کاندھے پر لٹکائے ایک اچھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے اندر آگئی۔۔۔۔
اونچے طبقے کے لوگ ہی ایسی اشیاء خریدیں گے بھلا غریب لوگوں کا ان سب سے کیا واسطہ اس نے سوچا۔۔۔۔۔
اور بھری دوپہر میں میں پسینے سے شرابور عبائے میں ملبوس تین چار گھروں کا دروازہ کھٹکھٹا کر ان سے پوچھ چکی تھی ۔۔۔
مگر وہ لوگ اسے دیکھتے ہی دروازہ بند کردیتے کہ انہیں ان سب کی ضرورت نہیں۔۔۔۔
بالآخر اس نے تھک ہار کر ایک بڑے سے گیٹ کے باہر لگی بیل بجائی تو کچھ دیر بعد اندر سے ایک لڑکا آیا۔۔۔۔
جی بتائیے؟؟؟؟
وہ دراصل ہماری کمپنی کے پراڈکٹس بہت اچھے ہیں پلیز آپ کسی فی میل کو بلادیجیے
انہیں دکھا دوں۔مجھے امید ہے کہ انہیں بہت پسند آئیں گے۔۔۔۔
اس لڑکے نے حرمت کا عبائے میں بھی اپنی نظروں سے پورا ایکسرے کر ڈالا۔۔۔۔
آپ آئیے اندر باہر بہت گرمی ہے۔۔۔۔
میں اپنی مدر کو بلاتا ہوں۔۔۔۔
وہ ضرور کچھ نا کچھ خرید لیں گی۔۔۔۔
حرمت کو اس کی بات سن کر کچھ تسلی ملی۔۔۔۔۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوئی۔۔۔
ڈرائنگ روم میں لگے صوفے پر اسے بیٹھنے کے لیے اسے کہا تو وہ ہچکچاتے ہوئے بیٹھ گئی۔۔۔۔
وہ ہاتھ میں پانی کا گلاس لیے اندر آیا۔۔۔۔
آپ کی مدر؟؟؟؟
وہ بھی آجاتی ہیں آپ پانی پئیں۔۔۔شدید گرمی میں آئی ہیں۔۔۔
آپ پلیز انہیں بلا دیں جلدی اس کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
حرمت کو اس کے ارادے کچھ نیک نہیں لگے
کچھ وہ اپنی بے وقوفی پر ماتم کرنے لگی کیوں وہ ایک انجان شخص کے ساتھ اندر تک آگئی۔۔۔۔
کیوں وہ اس کی باتوں میں آگئی۔۔۔۔
کسی انہونی کا سوچ کر ہی اس کے جسم میں کپکپی سی دوڑ گئی۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے فورا اٹھی۔۔۔اور باہر نکلنے لگی ۔۔۔۔
ارے ارے۔۔۔۔میڈم کدھر؟؟؟؟؟
اتنی جلدی کس چیز کی ہے آئی ہیں تو اس ناچیز کے نام اپنے کچھ حسین پل ہی کر جائیں۔۔۔
پیسے میں دے دوں گا جتنے تم چاہو۔۔۔۔
اس نے حرمت کی کلائی کھینچی۔۔۔
اس کے ہاتھ سے پروڈکٹس والا بیگ گرا۔۔۔۔
وہ ایک پل کے لیے اس کی بات پر متوحش ہوئی۔۔۔۔
بکواس بند کرو میں ایسی ویسی لڑکی نہیں جیسا تم سمجھ رہے ہو۔۔۔
چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔۔
اس نے اس لڑکے کی گرفت میں سے اپنا ہاتھ چھڑوانے کے لیے زور لگایا۔۔۔۔۔
اے لڑکی تم کون ہو؟؟؟؟
پیچھے سے کسی خاتون کی بھاری رعب دار آواز سن کر اس لڑکے نے فورا سے پیشتر اس کی کلائی چھوڑی۔۔۔۔
مما یہ ۔۔۔۔یہ لڑکی زبردستی گھر کے اندر گھس آئی تھی ۔۔۔۔
اس نے کمال ہوشیاری سے ایک کرسٹل کا بیش قیمتی شو پیس اس کے بیگ کی ایک طرف لگی پاکٹ میں پھینکا۔۔۔۔
اور مما میں نے خود دیکھا یہ چوری کر رہی تھی یہاں سے ۔۔۔۔۔
آپ اس کی تلاشی لے لیں بے شک۔۔۔۔۔
حرمت تو فق نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی جو سر عام کتنی دیدہ دلیری سے اس پر چوری کا الزام لگا رہا تھا۔۔۔۔۔
آنٹی یہ جھوٹ کہہ رہا ہے میں نے کچھ بھی میں کیا میں تو بس یہاں چیزیں سیل کرنے آئی تھی ۔۔۔۔
بلکہ یہ تو مجھ سے بدتمیزی کر رہا تھا۔۔۔۔
حرمت نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا۔۔۔۔
انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے بولنے سے روک دیا۔۔۔۔
میں ابھی پولیس کو کال کرتی ہوں بتاتی ہوں انہیں کیسے تم زبردستی میرے گھر میں گھسی اور پھر چوری کے بھی ارادے تھے وہ تو وقت رہتے میرے بیٹے نے تمہیں دیکھ لیا ورنہ تم تو جانے ہماری جان ہی لے لیتی۔۔۔۔
پلیز آنٹی آپ یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں؟؟؟؟
میں بے قصور ہوں وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔۔
پولیس کو کچھ مت بتائیے گا بس مجھے یہاں سے جانے دیں میرے بیٹے کو میری ضروت ہے۔۔۔۔۔
وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے تم جا سکتی ہو بس اس کے بدلے تم جو بھی اپنے ساتھ لے کر آئی تھی وہ یہیں چھوڑ کر جانا ہو گا۔۔۔۔۔
ل۔۔ل۔۔۔لیکن آنٹی یہ سب کمپنی کا ہے میں اس کی بھرپائی کیسے کروں گی۔۔۔۔
اس نے حیرت زدہ نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
جاتی ہو یہاں سے یا دھکے دے کر نکالوں۔۔۔۔
وہ ڈوبے دل اور شکستہ قدموں خالی ہاتھ لیے باہر نکل آئی۔۔۔۔۔
باہر سڑک پر چلتے ہوئے وہ اپنی بے بسی پر ماتم کناں تھی۔۔۔۔
کیا کروں میں؟؟؟؟؟
اس نے رندھی ہوئی آواز میں خود سے کہا اور اپنے آنسو پونچھنے کے لیے جیسے ہی ہاتھ اٹھایا اس کی نظر اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر پڑی۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ اپنے شوہر کی پہلی نشانی کو خود سے کیسے الگ کر سکتی تھی۔
مگر بیٹا بھی تو اس کی ہی نشانی ہے۔وہ بھی زندہ سلامت۔
کسی کی جان سے بڑھ کر کسی بے جان چیز کی کیا اہمیت؟؟؟
اس نے لمحے میں فیصلہ لیا۔۔۔۔
اس نے مارکیٹ میں جا کر وہ انگوٹھی بیچ دی ۔۔۔۔
رقم حاصل کرنے کے بعد وہ سیدھا ہاسپٹل گئی اور پیام کا علاج شروع کروایا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
زندگی اپنے معمول پر آ چکی تھی جریر نے آفس جانا شروع کر دیا تھا۔
وہ اپنا چھوٹے سے چھوٹا ہر کام حرمت سے کرواتا۔۔۔۔
صبح اٹھ کر اس کے کپڑے پریس کرنے اس کے لیے ناشتہ تیار کرنا جب تک وہ آفس کے لیے نکل نہیں جاتا اسے حرمت ہر وقت اپنے سامنے چاہیے ہوتی ۔۔۔۔
شام کو اس کے آنے پر حرمت کو نیا ڈریس پہن کر خصوصی اس کے لیے تیار ہونے کا آرڈر دیا گیا تھا۔۔۔۔
حرمت اس کا پسندیدہ پنک کلر کا شارٹ فراک اور پلازو پہنے اپنے سلکی بالوں کو ہلکے سے کیچر میں مقید کیے لائٹ سا نیچرل میک کیے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
سب ٹی وی لاونج میں موجود تھے جب جریر اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ لیے اندر آیا۔۔۔
حرمت فوراً سے کچن میں جا کر اس کے لیے پانی لائی ۔۔۔
اور اس کے آگے گلاس کیا۔۔۔
پانی پی لیں۔۔۔اس نے نرم لہجے میں کہا
پلا دو۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں شرارت تھی۔۔۔
سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔حرمت نے اسے گھور کر دھیمی آواز میں کہا۔
مام اور چچی کیا آپ کو کوئی اعتراض ہو گا کہ میں اپنی بیوی کے ہاتھ سے پانی پیوں؟؟؟
اس نے بنا کسی کا لحاظ کیے اونچی آواز میں سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
بہت شریر ہو تم۔۔۔۔حریم نے مسکرا کر کہا۔۔۔
ہمیں بھلا کیا اعتراض ہو گا۔۔۔وشمہ بولی۔
چلو زندگی اپنے مجازی خدا کی خدمت کرو۔۔۔
جریر نے حرمت سے کہا۔۔۔۔
اس نے جھجھکتے ہوئے پانی کا گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔۔۔۔
بالکل بچے ہیں آپ ۔۔۔
جریر نے پانی ختم کیا تو اس کا ہاتھ تھام کر کمرے کی طرف لے جانے لگا۔۔۔
میں زرا فریش ہو کر آتا ہوں پھر سب ڈنر ایک ساتھ کرتے ہیں۔۔۔
چلو زندگی مجھے چینجنگ ڈریس نکال کر دو۔۔۔۔۔
اس نے سب کے سامنے اسے کہا ۔۔۔
وہ دونوں بھی اس کی حرکتیں دیکھ کر مسکرانے لگیں۔
اس نے روم میں آکر دروازہ بند کیا۔۔۔۔
حرمت نے آرام دہ ٹراوزر اور ٹی شرٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔
اب مجھے فریش کون کرے گا؟؟؟
جائیں جا کر فریش آپ ہو جائیں۔۔۔
اس نے اسے واش روم میں جانے کا کہا۔۔۔
مجھے وہ والا نہیں کچھ اور والا فریش اپ ہونا ہے۔۔۔۔
اس نے حرمت کی گردن سے بال ہٹا کر وہاں اپنے لب رکھے۔۔۔۔
اسے روکنا حرمت کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔وہ بھی آہستہ آہستہ اس کی قربت کی عادی ہونے لگی تھی۔۔۔
اس کے اتنے پیار کا جواب اگر پیار سے نا دیتی تھی تو اسے روکتی بھی نا تھی۔
انسان کسی کے بھی ساتھ رہے اس سے انسیت ہو ہی جاتی ہے۔وہ تو پھر اس سے پیار کرنے کا دعویدار اور اس کا شوہر تھا۔
حرمت کے فون پر بیل ہوئی تو جریر نے اس کا فون اٹھا کر دیکھا۔۔۔
کوئی ان ناون نمبر دیکھ کر اس کے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔
یہ کون ہے؟کس کی کال آرہی پے؟
مجھے نہیں پتہ کافی دنوں سے آررہی ہے میں اگنور کر رہی ہوں ۔جو بھی ہے خود ہی خاموش ہو جائے گا جب کوئی رسپانس نہیں ملے گا تو۔۔۔۔
تم نے کس سے بات کرنی ہوتی ہے۔
جریر نے یہ کہتے ہوئے اس کے فون سے سم نکال کر دو ٹکرے کیے۔
اور اس کے فون کو فارمیٹ کے اس پر دوبارہ سے اپنا جی میل لگایا۔
واٹس ایپ تو تم یوز کرتی نہیں اس لیے اسے رہنے دو اس نے میسنجر انسٹال کر دیا۔
جب بھی کوئی میسج آئے گا پہلے مجھے آئے گا پھر تمہیں۔
کوئی بھی غلط میسج ہوگا تو میں خود ہی دیکھ لوں گا آئیندہ سے۔۔۔تمہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
اس نے خود ہی سارا پلان ترتیب دے ڈالا۔۔۔اس سے ایک بار پوچھا بھی نہیں۔۔۔۔
تمہیں اپنی فرینڈز سے بات کرنے سے میں منع نہیں کر رہا ، تم بے شک جس سے مرضی کرو ۔۔۔۔
حرمت اس کی بات سن کر خاموش رہی ۔۔۔
اور دھیمے سے اثبات میں سر ہلادیا۔۔۔۔۔
چلو آؤ باہر چلیں ڈنر کرنے ۔۔۔
اپنی منوانے کے بعد اس کا موڈ خوشگوار ہو چکا تھا۔
وہ دونوں باہر نکل گئے۔۔۔۔
حرمت نے سب کو کھانا سرو کیا۔۔۔کھانا وشمہ اور حریم مل کر بناتی تھیں۔
صبح کچھ میٹھا بنانے کی رسم ادا کر لینی چاہیے۔۔۔
کیوں کیا کہتے ہو جریر؟
انہوں نے اس سے پوچھا۔
جیسے آپ سب کی مرضی میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔۔۔
اس نے اپنی توجہ کھانے پر مرکوز کر دی۔۔۔
چلو تو پھر پکا صبح حرمت میٹھا بنائے گی۔۔۔
حرمت کو پانی پیتے ہوئے اچھو لگا۔۔۔۔
آرام سے۔۔۔کیا ہوا؟؟؟
جریر نے اس کی پشت پر تھپتھپاتے ہوئے کہا
نہیں کچھ نہیں اب ٹھیک ہوں۔۔۔اس نے اپنی مما کی طرف دیکھتے ہوئے رونے والی شکل بنا کر دیکھا۔
انہیں پتا چل گیا حرمت کس بات پر پریشان ہے۔
یہی کہ اسے کچھ بھی بنانا نہیں آتا پڑھائی کی وجہ سے اس نے کبھی بھی کچن میں جھانک کر نا دیکھا۔
حریم اور ناز نے اسے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا تھا کبھی بھی اس پر کام کا زور نہیں ڈالا۔
انہوں نے اپنی نظروں سے ہی اسے تسلی دی کہ کوئی بات نہیں میں ہوں نا۔۔۔۔۔
حرمت چہرہ جھکائے چھوٹے چھوٹے لقمے بے دلی سے منہ میں ڈالنے لگی۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
صبح ہوتے ہی حریم نے حرمت کو میٹھے کی ساری ریسپی اچھے سے سمجھا دی۔
وشمہ اور حریم نے رات کا سپیشل ڈنر تیار کیا جبکہ حرمت نے دل لگا کر رسملائی بنائی جو سب نے بہت پسند کی۔
حرمت بہت خوش تھی سب کی تعریفیں پر۔۔۔
آخر اس نے پہلی بار اتنی محنت کی تھی۔
جس پر اس نے سب سے داد بھی وصول کی۔۔۔
سب دیر رات تک لاونج میں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔۔۔
جریر نے سب سے نظر بچا کر حرمت کو آنکھ سے اشارہ کیا روم میں جانے کا۔۔۔۔۔
فائز سلطان نے جب وہاں سے اٹھ کر جانا چاہا۔۔۔
بڑے پاپا آپ کو اتنی جلدی نیند آگئی؟؟؟
ابھی کچھ دیر اور بیٹھیں نا باتیں کرتے ہیں۔۔۔اس نے انہیں جانے سے روکنے کے لیے کہا۔۔۔
وہ بیٹھ گئے تو اس نے ان کے پیچھے سے جریر کو نو۔۔۔۔کا اشارہ کیا۔۔۔۔
جریر منہ پھلا کر خفگی سے اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
اسے انتظار کرتے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔۔۔۔
جونہی ہی حرمت نے دروازہ کھولنے کے لیے ہینڈل گھمایا۔۔۔
جریر اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر سوتا بن گیا۔۔۔۔
وہ دبے قدموں سے روم میں آئی۔۔۔۔
اور اپنی جگہ لیٹ کر چہرہ دوسری طرف کر لیا۔۔۔۔
اس نے رخ موڑ کر دیکھا مگر جریر کو کوئی حرکت نا کرتے دیکھ سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔
زندگی!!!!
How cruel you are?
میں نے سوچا تھا تم آکر مجھے مناؤ گی۔۔۔۔
اس نے نروٹھے لہجے میں شکوہ کیا۔۔۔۔
اس نے کہنی کے بل لیٹے ہوئے کہا۔۔۔۔
سوری۔۔۔۔وہ ایک کان پکڑ کر معصومانہ انداز میں بولی۔۔۔۔
جریر نے اپنی بازو پھیلائی تو حرمت نے اس پر اپنا سر رکھا۔۔۔۔
آج آفس میں بہت کام تھا اس لیے بہت تھک گیا ۔۔۔
تمہیں پتہ ہے نا کہ تمہارے قریب آتے ہی میری ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
اور زندگی جی آپ نخرے دکھاتی ہیں اپنے معصوم سے شوہر کو۔۔۔یہ کوئی اچھی بات تو نہیں۔۔۔۔
اس نے اپنا ناک اس کے ناک سے مس کرتے ہوئے پیار بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے نا کہ کل ہمیں کہاں جانا ہے؟؟؟
مجھے تو نہیں پتہ ....
ارے میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ کل خالہ نے کوئٹہ بلایا ہے دعوت پر۔۔۔۔
او۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔یاد آیا ٹھیک ہے چلیں جائیں گے۔۔۔اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ لیمپ بجھا دیا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اس نے صبح نماز ادا کرنے کے بعد اپنی اور جریر کی تیاری کر لی تھی۔۔۔
اور خود ناشتہ تیار کرنے میں مدد کروانے کچن میں موجود تھی۔۔۔۔
جاؤ حرمت جریر کو بھی بلا لاؤ ناشتے کے لیے پھر کچھ دیر میں تم دونوں کو نکلنا بھی ہے۔۔۔
وشمہ نے اسے کہا
جی اچھا ۔۔۔۔میں دیکھتی ہوں تیار ہوئے یا نہیں ابھی۔۔۔۔
یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی طرف آئی۔۔۔۔
آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے ۔۔۔۔
اس نے جریر کو اسی حال میں دیکھ کر حیرانی سے کہا۔۔۔۔
تم میری مدد کرواؤ گی تو جلدی تیار ہو جاؤں گا۔۔۔۔اس نے ہاتھ میں شیفٹی پکڑ رکھی تھی۔اورچہرے پر فوگ بنا رکھی تھی ، اس کا ایک پاؤں واش روم میں تو دوسرا باہر تھا۔۔۔۔
میں کیسے آپ کی مدد کروں گی پلیز آپ زرا جلدی ہاتھ چلائیے نا۔۔۔۔
وہ آ کر ڈریسنگ مرر کے سامنے رکھے سٹول پر بیٹھا اور اسے اپنی تھائی پر بیٹھنے کے لیے اشارہ کیا۔۔۔۔
حرمت اس کی نظروں کا مفہوم جان کر سٹپٹائی۔۔۔۔
آؤ نا یار زرا میری شیو بنا دو اپنے ان نازک ہاتھوں سے ۔۔۔
میں۔میں ۔۔کیسے۔۔۔اس نے اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھیں پھیلا کر کہا ۔۔۔۔
ادھر آؤ....حرمت چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے پاس آئی تو اس نے اس کا ہاتھ تھام کر اپنی تھائی پر بٹھایا۔۔۔۔
اور اس کے ہاتھ میں شیفٹی دی ۔۔۔
چلو اب بناؤ۔۔۔۔
حرمت نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کے چہرے پر سے شیو بنانے کی کوشش کی۔۔۔۔
آہ !....
اس کی کراہ پر حرمت نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں میچیں۔۔۔۔
ہا۔ہا۔ہا۔۔۔۔اس کی ہنسنے کی آواز سن کر اس نے اپنی ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔۔۔۔
کہیں کوئی کٹ وغیرہ تو نہیں لگ گیا ۔۔۔
مگر سب ٹھیک دیکھ کر اس نے غصے سے اسے گھورا۔۔۔۔
آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔
یہ پکڑیں اسے۔۔۔۔اس نے جریر کا ہاتھ کھول کر اس کی ہتھیلی پر شیفٹی رکھی۔۔۔
خودی کریں اب۔۔۔۔میں نہیں کرنے والی ۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی جریر نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
اس کا ریشمی دوپٹہ شانے سے ڈھلک کر نیچے گرا۔۔۔۔۔
کیا سنبھالو گے تم میرے دل کو
جب یہ آنچل سنبھلتا نہیں ہے
اس نے حرمت کے کان کی لو کو ہلکا سا دانت میں دباتے ہوئے کہا
کیا کروں۔۔۔اپنی حسین بیوی سے ایک پل کے لیے بھی دور ہونے کا من ہی نہیں کرتا۔۔۔۔
اس نے اپنا گال اس کے گال سے ٹچ کیا تو چہرے پر لگی فوگ سے حرمت کا چہرہ بھی بھر گیا۔۔۔۔
یہ کیا کیا؟؟؟میں تو تیار تھی اب پھر سے ؟؟؟
اس نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔۔
مابدولت آپ کو خود تیار کردیں گے اس نے آنکھ بلنک کر کہ اسے خود سے قریب کرتے ہوئے کہا جو باہر جانے کے لیے پر تول رہی تھی۔۔۔
خود تو ابھی تک تیار ہوئے نہیں مجھے کیا تیار کریں گے۔۔۔
پلیز جلدی کریں نا فلائٹ مس ہو جائے گی۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔جو حکم ملکہ ِدل جریر سلطان۔۔۔
اس نے اپنے گلے میں موجود ٹاول سے حرمت کا چہرہ صاف کیا۔۔۔۔
وہ اس کے نئے نام لینے پر کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔۔۔۔
لو یو زندگی۔۔۔۔۔اس نے خمار زدہ آواز میں اپنا حال دل بیان کیا۔۔۔۔
تم کچھ نہیں کہو گی۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ روم سے باہر نکلتی جریر نے سوال کیا۔۔۔
اس نے دو الٹے قدم لیے اور پیچھے مڑ کر جریر پر نظر ڈالی۔۔۔۔
Me too my naughty Husband.
یہ کہتے ہی فوراً سے پیشتر چھپاک سے کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
جریر اس کی حرکت پر مسکرا کر رہ گیا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
دو خوشگوار دن انہوں نے کویٹہ میں گزارے ناز نے ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔۔۔۔
کیسے ہیں جریر تمہارے ساتھ؟؟؟
اچھے ہیں۔۔۔۔
بس اچھے ہیں یا بہت اچھے؟؟؟۔۔۔۔
افرس نے اس سے شرارتی انداز میں پوچھا۔۔۔
ہہم۔۔۔بہت اچھے۔۔۔۔
حرمت نے اسے جواب دیا۔۔۔۔
پیار کرتے ہیں نا تم سے؟؟؟؟
بہت زیادہ۔۔۔۔۔
تم بھی کرتی ہو؟؟؟؟؟
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
میں واقعی مشرقی لڑکی ہوں جسے نکاح کے بعد اپنے محرم سے پیار ہوجاتا ہے۔۔۔۔
وہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں ۔۔۔مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔۔مجھے بھی وہ دھیرے دھیرے اچھے لگنے لگے ہیں۔۔۔۔
تم تو ایسے ہی ڈر رہی تھی میں نے کہا تھا نا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔افرس ایک دل میں جانے کیوں چبھن سی ہوئی یہ سب جان کر مگر اس نے اپنے دل کو ڈپٹا اس طرح سوچنے پر۔۔۔۔۔
بس اب تم بھی جلدی سے شادی کر لو اب تمہیں بھی تو میری لائن میں آجانا چاہیے حرمت بولی۔۔۔۔
نہیں ابھی نہیں پہلے بھائی کہ پھر میری۔۔۔۔۔
افرس نے اسے کہا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
حرمت پیام کی ٹریٹمنٹ کے بعد اسے گھر لا چکی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسے کھلے انداز میں باور کروادیا تھا کہ اگر جلد سے جلد پیام کا بورن میرو ٹرانسپلانٹ نا کیا گیا تو اس کی جان کو خطرہ ہے۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ چھ ماہ۔۔۔۔
ان کی بات سن کر وہ پوری طرح سے ڈھے چکی تھی۔۔۔۔
میں یوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتی اپنے بچے کی زندگی کے لیے مجھے ہی کچھ کرنا ہے میں ماں ہوں اس کی، اس نے نیا عزم لیے خود سے کہا
آج اس نے واپسی پر اخبار خرید لیا۔۔۔
اور اب اپنے روم میں بیٹھی جاب کی ایڈز دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
خان کنسٹرکشنز کی جاب کی ایڈ اسے کافی پرکشش لگی اس نے صبح وہاں ہی جانے کا ارادہ کیا۔۔۔۔۔
آج اس نے پریشے کو سکول نہیں بھیجا تھا ۔۔۔یہی سوچ کر جانے اسے کتنا وقت لگ جائے اس لیے وہ خود ہی اخبار میں لکھے گئے ایڈریس پر پہنچی۔۔۔۔
یہ بلڈنگ شہر کے بیچ و بیچ تھی۔۔۔
بلڈنگ بہت شاندار تھی۔۔۔کیا اسے یہاں جاب مل جائے گی؟؟؟اس نے دل میں سوچا
تھوڑی دیر بعد وہ سر جھٹک کر بلڈنگ کی طرف بڑھی اور دھڑکتے دل کے ساتھ اندر داخل ہو گئی.. بلڈنگ میں داخل ہوتے ہی انسانوں کے ایک ہجوم نے اس کا استقبال کیا جو سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ادھر اُدھر پھرتے ہوئے نظر آرہے تھے.. ان کے اعلیٰ ترین کپڑوں سے اسے ان کی حیثیت کا اندازہ بخوبی ہو رہا تھا جو کہ اسے عجیب قسم کی احساسِ کمتری میں مبتلا کر رہا تھا.. اپنے پل پل بدلتے احساسات کو قابو میں کرتے ہوئے وہ ریسیپشن کی طرف بڑھ گئی جس کے دوسری طرف موجود لڑکی کے چہرے پر میک اپ کی ایک دبیز چادر چڑھی ہوئی تھی..
"جی فرمائیے میں آپ کی کیا مدد کر سکتی ہوں.." لڑکی کے چہرے کے ساتھ ساتھ آواز میں بھی مغروریت اور چڑچڑاپن تھا..
"جی.. وہ میں انٹرویو کے لئے آئی ہوں.." اس نے ہمت کرکے جواب دیا..
" اوہو.. مقابلہ کافی مشکل رہے گا تمہارے لیے عبائے والی مخلوق.." اس نے تراشیدہ ابرو اچکا کر اسے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہا..
"جی...؟" اس نے ناسمجھی سے آنکھیں پھیلائیں..
انٹرویوز کل لیے جائیں گے سر کی ایک امپورٹنٹ میٹنگ کی وجہ سے انٹرویو پوسٹ پون کیے گئے ہیں۔۔۔۔
اس کی بات سن کر حرمت شکستہ قدم لیے وہاں سے باہر نکلی۔۔۔۔۔
اپنے بچے کے لیے مجھے اس جاب کو حاصل کرنا ہی ہو گا چاہے اس کے لیے مجھے کوئی بھی قیمت کیوں نا چکانی پڑے۔۔۔۔
حریم اماں بی اور پریشے دوسرے کمرے میں سو چکی تھی۔۔حرمت پیام کے پاس تھی۔۔۔
پیام بہت کمزور ہو چکا تھا اس کے چہرے کا پیلا پن حرمت کا دل دہلا رہا تھا۔۔۔۔
کتنی بے بس ہوں میں کیا کروں تمہارے لیے۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔۔
پیام دوائیوں کے زیر اثر سو رہا تھا۔۔۔۔اس نے نرمی سے اس کی پیشانی سے بال ہٹا کر اپنے لب رکھے۔۔۔۔
اسوقت دل چاہ رہا تھا کہ وہ اونچی آواز میں پھوٹ پھوٹ کر رو دے شاید اسی سے اس کے اندر کا غبار نکل جائے۔۔۔دل میں اٹھتا درد تحلیل ہوجائے۔۔۔۔
مگر شاید یہ بھی قسمت کو منظور نا تھا۔۔۔۔
اس نے بے آواز روتے ہوئے لکڑی کی پرانی سی الماری کھولی جس میں اس کی مما کی پرانی شیفون کی بلیک کلر کی ساڑھی رکھی تھی جو شاید اس کے پاپا نے گفٹ کی تھی انہیں ۔۔۔جو انہوں نے آج تک سنبھال کر رکھی تھی۔۔۔۔
حرمت نے بلاؤز کھول کر دیکھا۔۔۔تو اس کی پیشانی پر ناگواری کی لکیریں ابھریں۔۔۔۔۔
وہاں انٹرویو کے لیے ڈریس بھی تو وہاں کے شایان شان ہونا چاہیے۔۔۔۔
دل میں بھرے غبار کا خاتمے کے لیے اس نے آج الٹا راستہ اپنانے کا فیصلہ لے لیا۔۔۔۔
سچ کہتے ہیں غصے میں انسان کو جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا چاہیے۔۔۔
کیونکہ غصے میں آکر انسان کے حواس سلب ہو جاتے ہیں۔۔۔اوراچھے برے کا فرق مٹ جاتا ہے۔۔۔
غصہ انسان کی عقل کو کھا جاتا ہے۔
اس نے روتے ہوئے وہ ساڑھی پریس کر کہ رکھی اور روتے روتے بستر کے کنارے لیٹے ہوئے وہیں سو گئی۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
تیرے نام سے محبت کی ہے
تیرے احساس سے محبت کی ہے
تم میرے پاس نہیں پھر بھی
تمہاری یاد سے محبت کی ہے
کبھی تم نے بھی یاد کیا ہو گا
میں نے ان لمحات سے محبت کی ہے
تم سے ملنا تو اک خواب سا لگتا ہے
میں نے تیرے انتظار سے محبت کی ہے۔
رات کی گہری خاموشی اپنے پر پھیلائے ہوئے تھی۔
سب نیند میں ڈوبے ہوئے تھے مگر اوزیم کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔۔۔۔
اس کے والدین نے ایک بار بھی اسے خبر نا ہونے دی کہ اس کی چوکو لاوا کی شادی ہو رہی ہے۔ورنہ وہ کبھی ایسا ہونے ہی نا دیتا۔۔۔
جب اسے اپنے پیپرز کے بعد اس کی شادی کا پتہ چلا تو ایک پل کے لیے تو ایسا لگا کسی نے اس سے اس کی جینے کی وجہ ہی چھین لی ہو۔۔۔وہ کتنی ہی دیر پتھر کے مجسمے کی طرح کھڑا رہا۔۔۔
ایسا لگا اس کا وجود ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں بکھر جائے گا۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو تہی داماں رہ جانے پر بے بسی کے آخری دہانے پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
وہ پوری طرح ٹوٹ چکا تھا۔۔۔۔
اس سے ملنے کی بے تابی ،بےقراری و سرشاری دھری کی دھری رہ گئی۔۔۔۔
امیدیں کیسے ٹوٹ جاتی ہیں،ارمان کیسے ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں،انسان جب ٹوٹتا ہے تو کیسے کرچی کرچی بکھرتا ہے۔یہ اسے آج معلوم ہوا تھا۔۔۔
بھل بھل بہتے ہوئے آنسو بھی اس کا غم ساتھ بہا کر لے جانے سے ناکام ہو گئے۔۔۔۔
زندگی جیسے اسی مقام پر رک سی گئی تھی۔۔۔آج بھی وہ اسی مقام پر کھڑا تھا جہاں وہ اس سے الگ ہوئی تھی۔۔۔۔
سارے خواب ساری توقعات دم توڑ گئیں
کس قدر ظالم ہو تم میرے وعدے کا زرا بھی پاس نا رکھا۔۔۔
ستم شعار ہو تم،میں ہی تم سے غلط توقعات وابستہ کر بیٹھا۔۔۔۔
تم میری متاع حیات تھی،میرے جینے کا مقصد،میری زیست کی خوشیاں تمہیں سے وابستہ تھیں۔۔۔۔تم نہیں تو کچھ نہیں۔۔۔۔
بہت سے اکٹھے گزرے دن اور یادیں اسے اپنی طرف بلانے لگیں۔۔۔
شاید اس میں اس وقت میرے دل کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی محبت کو سمجھنے کے لیے صلاحیت اور شعور نا تھا۔۔۔۔
مگر اس دل کا کیا کروں جو اسی کے نام کی مالا جپتا ہے۔۔۔۔۔
کل ایک ایجنٹ سے ملاقات میں اس نے اپنی چوکو لاوا کو ڈھونڈھنے کے لیے کہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس آدمی کا میسیج آیا تھا سر جو ایڈریس آپ نے مجھے دیا تھا وہاں اب اس نام کے کوئی لوگ نہیں رہتے۔۔۔۔
مگر میں کوشش کر رہا ہوں سر جلد ہی پیش رفت ہوگی ان شاءاللہ۔۔۔۔
وہ انہیں سب باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔۔۔۔۔
اے چاند کی کرنوں جاؤ نا ❤️
❤️تم اس کو چھو کر آؤ نا
وہ کب کب کیا کیا کرتا ہے❤️
❤️وہ جاگتا ہے یا سوتا ہے
وہ کس سے باتیں کرتا ہے❤️
❤️وہ شام کو کیسا لگتا ہے
جب جاگے کیسا لگتا ہے❤️
❤️تم چپکے چپکے جاؤ نا
میرے چاند کو چھو کر آؤ نا❤️
وہ عبایا پہنے سب کی نظروں سے بچ کر آج آفس کے لیے گھر سے نکل گئی۔۔۔۔
اسے کسی بھی ہال میں یہ انٹر ویو مس نہیں کرنا تھا۔۔۔۔
اس نے ٹھان لیا تھا کہ چاہے جو بھی ہو جائے آج وہ یہ جاب حاصل کر کے رہے گی۔
وہ عبایا پہنے ہوئے ہی بلڈنگ میں داخل ہوئی۔۔۔۔لڑکیوں کی لائنز لگی ہوئی تھیں انٹرویو کے لیے۔۔۔
طرح طرح کی الٹرا ماڈرن لڑکیاں جینز اور ٹاپ پہنے۔۔۔
تراشیدہ بالوں سمیت وہاں موجود تھیں۔۔۔۔
حرمت نے اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر خود کو تسلی دی۔۔۔۔
کل وہ آکر اپنا نام لکھوا کر اس ریسپیشنسٹ سے التجا کر کہ گئی تھی شاید اسے حرمت پر رحم آیا تھا یا خدا کو؟؟؟
کہ سب سے پہلے حرمت کو انٹرویو دینے کے لیے اندر جانے کا کہا گیا۔۔۔۔۔
اس نے ایک گہرا سانس لیا اور ہمت مجتمع کیے آج پہلی بار وہ کرنے کا فیصلہ لیا جو شاید وہ خود کے لیے تو کبھی نا لے پاتی مگر اپنے بیٹے کے لیے وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار تھی۔۔۔۔۔
بلیک عبایا پہنے کمپنی میں آئی تو تھی پھر۔۔۔
ایک سائیڈ پر جاکر عبایا اتارا۔۔۔۔
اس کمپنی کاہر کیبن شیشے کا بنا تھا۔۔۔۔
اس نے اسی شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے کانپتے ہاتھوں سے بیگ میں سے سرخ لپسٹک نکال کر اپنے ہونٹوں پر لگائی۔
ہائی ٹیل سے اپنے بال آزاد کرتے ہوئے کمر پر بکھرائے۔۔۔۔۔
آج وہ پوری طرح تیار تھی اس جاب کو حاصل کرنے کے لیے چاہے اسے اپنی عزت وانا کو بھی کیوں نا مارنا پڑے۔۔۔۔
جو سب چاہتے تھے آج وہ اسی روپ میں آئی تھی۔
اپنی باری پر انٹرویو کے لیے کمپنی کے مالک کے کمرے میں گئی۔۔۔۔
دھڑکتے ہوئے دل سے اس نے روم کے ہینڈل کو گھمایا۔۔۔۔
May I come in Sir....
اس نے اجازت چاہی۔۔۔
کوئی جواب نا ملنے پر وہ اندر تو آچکی تھی مگر دروازے کے پاس کھڑی تھی۔
وہ جو کوئی بھی تھا ۔۔۔۔
آفس کی بلڈنگ کے 17فلور پر کھڑا۔۔۔نظریں باہر کی جانب مرکوز کیے کھڑا تھا۔۔۔۔اس کی جانب اس کی پشت تھی۔
وہ تقریبآ چھ فٹ کو چھوتا کسرتی جسامت لیے۔۔۔کسی برینڈڈ سوٹ میں ملبوس سگریٹ سلگائے لمبے لمبے کش لیتا کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔۔۔
سر !۔۔۔۔چند لمحے گزرنے کے بعد اس نے آواز دی۔
اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
دونوں کی دنیا جیسے ایک پل کے لیے تھم گئی۔۔۔۔۔
اوزیم کے دل کی دھڑکنیں جیسے چند لمحوں کے لیے تھم گئیں ۔۔۔۔۔
ایسا لگا کہ تپتے ھوے صحرا یک لخت برسات ہونے لگی۔۔۔۔
جیسے اس کی ویراں دل میں بہار کی آمد ہوئی ہو۔۔۔۔۔۔
آج اس کی زیست کو جینے کا مقصد مل گیا ہو۔۔۔۔۔۔۔
دونوں سانس روکے اپنی آنکھوں پر یقین کر رہے تھے۔
اس نے تفصیلی نگاہ اس پر ڈالی۔۔۔۔
سلیولیس بلاؤز جس میں اس کے گورے بازو نمایاں ہو رہے تھے۔
شنگرفی گلابی لبوں پر گہری لپسٹک،جو کبھی بھی اس کی شخصیت کا خاصہ نا تھی۔نا یہ ڈریسنگ....
وہ جو بے بسی کی تصویر بنی اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی۔
کس حال میں وہ اس شخص کے سامنے آئی۔
کیا سوچے گا وہ اس کے بارے میں؟؟
مقابل نے ایک جانچتی ہوئی نگاہ اس کے وجود پر ڈالی۔۔۔۔
پل بھر میں اس کی غلافی آنکھوں کی پتلیاں اسے دیکھتے ہوئے ویران ہوئیں،کپکپاتے کٹاؤ دار لب،دودھیا لرزتامرمریں بدن،
وہ ہوش کی دنیا میں آئی اور پلٹ کر باہر جانے لگی۔۔۔۔
اس کے کھلے بھورے سلکی بال کمر پر لہرائے۔۔۔
جس سے اس کی بیک پر بنا تل مقابل کو مسمرائز کر گیا۔۔۔
اتنے پاس ہوتے ہوئے بھی کبھی اس نے یہ دیکھا نہیں تھا۔۔۔
اسے ہاتھ لگا کر چھونے کے لیے دل پورے آب وتاب سے مچل رہا۔۔۔
چھو کر دیکھے تو سہی کہیں یہ اس کا خواب تو نہیں۔۔۔وہ سچ میں آج اس کے سامنے تھی یا اس کا خیال؟
اس نے ایک ہی جست میں اس تک پہنچ کر اس کی کلائی تھامی۔۔۔۔
اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
کہاں جا رہی ہو؟؟؟؟
اس کی برسوں بعد آواز سن کر اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔۔
چہرے پر شرمندگی کے آثار صاف جھلک رہے تھے۔۔۔۔۔
یااللہ !!!ابھی اور کتنے امتحان باقی ہیں۔۔۔
اس نے دل میں ہی اللّٰہ تعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا۔۔۔۔
کیا سوچے گا یہ میرے بارے میں؟؟؟؟؟
اوزیم نے سوچا بھی نا تھا کہ کبھی اس طرح ان کا آمنا سامنا ہوگا۔۔۔۔۔
اس کے دل میں بہت کچھ چل رہا تھا۔۔۔
دماغ میں بھی سوالات کی بہتات تھی ۔۔۔
کیبن کے ڈور پر ناک ہوا تو اوزیم نے اپنے بہتے جذبات پر بندھ باندھا اور کڑے مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی کلائی چھوڑی۔۔۔۔۔
وہ ابھی بھی سکتے کی کیفیت میں جہاں کھڑی تھی وہی کی وہیں کھڑی رہ گئی۔۔۔۔
اپنے آپ ہی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی۔۔۔۔
اوزیم نے ٹشو پیپر اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
وہ سمجھی شاید آنسو پونچھنے کے لیے دیا ہے۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنے آنسو صاف کرتی۔۔۔۔
اس نے اپنے شوریدہ جذبات پر قابو پانے کی سعی کی۔۔۔۔
آنکھیں نہیں یہ پینٹ صاف کرو جلدی۔۔۔۔
اس نے حرمت کے لبوں پر لگی سرخ لپسٹک کی طرف دیکھتے ہوئے اشارہ کیا۔۔۔
اسے دنیا جہان کی شرمندگی نے آن گھیرا۔۔۔۔
خود کو وہ اس کے سامنے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔۔
اس نے جلدی سے رگڑ کر اپنے ہونٹ صاف کیے۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ ٹشو پیپر ڈسٹ بن میں پھینک دیتی اوزیم نے وہ اس کے ہاتھ سے لے کر چلتا ہواحرمت کے زرا پیچھے ہوا اور چھپ کر وہ ٹشو پیپر اپنی پاکٹ میں ڈال لیا۔۔۔۔
دونوں ہاتھوں سے اس کی ساڑھی کا پلو اٹھا کر اس کے شانوں کے گرد رکھا۔۔۔۔
جس سے اس کا ادھ برہنہ وجود چھپ گیا۔۔۔۔
یس کم ان !!!!
اس نے سب کو اندر آنے کی اجازت دی۔۔۔۔
اوزیم نے کچھ سینیرز کا پینل بنایا تھا جو آج انٹرویو لینے والے تھے اور اوزیم خان خود آخر میں حتمی فیصلہ کرنے والا تھا۔۔۔۔
سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی ۔۔۔۔
انہوں نے حرمت کو سامنے رکھی گئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
حرمت نے ایک بھی نظر اوزیم خان پر ڈالے بنا با اعتماد طریقے سے اپنا انٹرویو دیا۔
جبکہ اوزیم کی نظریں پل بھر کے لیے بھی ادھر ادھر نا بھٹکیں۔۔۔۔
بلکہ اسی پر جم کر رہ گئیں۔۔۔۔۔
ناجانے کیوں نگاہیں تھمیں رہیں
اس کے چہرے پر جمیں رہیں
کبھی چاند سمجھ کر کبھی چاندنی
ہم اسے دیکھتے رہے تہذیب سے
پر کبھی سوچا نا تھا ۔
ان کا دیدار ہوگا اتنے قریب سے۔
اسے دیکھتے ہوئے چند لمحوں میں اس کے دل نے یہ الفاظ ترتیب دے ڈالے۔۔۔۔۔
مس پلیز آپ باہر ویٹ کریں سارے انٹرویوز لینے کے بعد اناؤنس کیا جائے گا کے کسے اپنائنٹ کیا گیا ہے۔۔۔۔
وہ آخری نگاہ اوزیم پر ڈالتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔
باہر جا کر اس نے پھر سے عبایا پہن لیا اور ویٹ کرنے لگی۔۔۔۔
باری باری سب کا انٹرویو لیا جا چکا تھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ہی ان سب کے نام اناؤنس کردئیے گئے جن کو یہاں جاب پر رکھا گیا تھا۔۔۔۔ان میں سے ایک نام حرمت کا بھی تھا۔۔۔۔اسے تو اپنی قسمت پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
کہیں اس نے تو نہیں میری سفارش کی؟؟؟
اس کے دماغ میں شک کا کیڑا بلبلایا۔۔۔۔
وہ جانے کےلہےباہر نکل گئی۔۔۔۔۔روڈ ہر چلتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کہ ۔۔۔۔۔
اچانک ہی اسے اپنے پاس گاڑی کے ٹائروں کی چڑچڑاہٹ کی آواز آئی۔۔۔
اس نے مڑ کر دیکھا۔۔۔اوزیم خان تھا گاڑی میں۔۔۔
اس نے ان دیکھا کیا اور آگے کو چلنے لگی۔۔۔۔۔
اوزیم نے پھر سے اس کے پاس لا کر گاڑی روکی۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔۔اس نے سخت تیوروں سے اسے حکم دیا۔۔۔۔
آپ کون؟؟؟میں آپ کو نہیں جانتی اور اجنبی کے ساتھ میں کہیں نہیں جاتی۔۔۔۔
اس نے سرد مہری سے کہا۔۔۔
تیرا ہر انداز اچھا ہے
سوائے نظر انداز کرنے کے۔
میں نے کہا گاڑی میں بیٹھو ورنہ اٹھا کر پٹخ دوں گا۔۔۔۔
اس بار انداز جارہانہ تھا۔۔۔۔
اوزیم نے دوسری طرف کا دروازہ کھولا تو وہ پیر پٹختی ہوئی اندر آکر بیٹھ گئی۔۔۔۔
شوہر کہاں ہے تمہارا؟؟؟؟؟
نظریں ہنوز ونڈ سکرین پر مرکوز تھیں۔۔۔۔
پہلا سوال ہی جان لیوا ثابت ہوا۔۔۔۔۔
تم سے مطلب ۔۔۔۔۔۔
جو شادی پر ناآئے اسے شوہر سے کیا مطلب۔۔۔۔
اس نے غصے سے بھرپور لہجے میں کہا۔۔۔۔
جو بات پوچھ رہا ہوں اس کا جواب دو۔۔۔۔۔
اس نے سیگریٹ سلگا کر ہونٹوں میں دبایا۔۔۔۔
اور کش لیتے ہوئے دھواں ہوا کے سپرد کیا۔۔۔۔
حرمت بری طرح کھانسنے لگی۔۔۔۔
یہ بیماری کب سے چمٹ گئی تم سے؟؟؟؟اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔
جب سے تم نے چمٹنا چھوڑا۔۔۔۔۔
اس نے حرمت کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آخر کچھ نا کچھ تو چمٹانے کے لیے ہونا چاہیے تھا نا تم نہیں تو یہ سہی۔۔۔۔
باہر پھینکو اسے ابھی کے ابھی ورنہ مجھے ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ وہ پوری بات بولتی اوزیم نے درمیان سے ہی اس کا جملہ اچک لیا۔۔۔۔
ورنہ تمہیں باہر پھینک دوں ؟۔۔۔۔
حرمت نے غصے میں آکر سامنے پڑا ڈیکوریشن پیس اٹھایا اسے مارنے کے لیے۔۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو؟؟؟؟
ابھی تک تمہارا پاگل پن نہیں گیا۔۔۔۔
ابھی بھی ویسی کی ویسی ہی ہو۔۔۔۔۔
اوزیم نے گاڑی کی رفتار کو سلو کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
یہ تم نے کیا بکواس کی تھی؟؟؟کہ میں تم سے چمٹتی تھی۔۔۔۔
نہایت ہی کوئی جھوٹھے اور وعدہ فراموش دوست ہو تم۔۔۔۔۔
کوئی اپنی دوست کی شادی میں آنا کیسے بھول سکتا ہے؟؟؟؟
حرمت نے اس سے اپنی خفگی کی وجہ بتائی۔۔۔۔
اوزیم اس کی اس بات پر خاموش رہا۔۔۔۔
جب دل جل رہا ہو تو آواز بھی ساتھ چھوڑ دیتی ہے۔۔۔۔اور وہی اوزیم خان کے ساتھ بھی ہورہا تھا۔
اس نے سٹیرنگ پر اپنی گرفت اور بھی مضبوط کی تاکہ خود کو کنڑول کر سکے۔۔۔۔
ایک اور بات مجھے سچ سچ بتاؤ تم نے تو میری سفارش نہیں کی نا اندر؟؟؟؟اس نے بلا جھجھک اپنے من میں آیا سوال کر ڈالا۔۔۔۔
نہیں نہیں میں نے تو کسی سے کچھ نہیں کہا۔۔۔۔
اس نے معصوم سا چہرہ بنائے کہا۔۔۔۔
ہاں ویسے بھی اتنی بڑی کمپنی کے مالک کے ساتھ تمہارا کیا ریلیشن؟؟؟حرمت نے خود ہی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اوزیم نے اس کے خیالات کی تصیح کرنے کی کوشش بھی نہیں کی۔۔۔۔
گھر کا ایڈریس بتاؤ ؟؟؟؟
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ماضی۔۔۔۔
جریر سلطان جس کمپنی میں جاب کر رہا تھا وہیں اس کے کئی نئےدوست بن چکے تھے ۔۔۔۔
ان میں سے دائم نامی ایک دوست نے اسے باہر کی ایک بڑی کمپنی میں جاب کی آفر دی ۔۔۔
کہ وہاں گیا تو اس کے دن بدل جائیں گے۔
بے شک وہ آدھی سے زیادہ زندگی امریکہ اپنی خالہ کے گھر گزار کر آیا تھا۔۔۔
مگر کبھی فیملی کے بنا اکیلا نہیں رہا تھا۔۔۔
اور اب تو اس کے ساتھ اس کی محبت اس کی شریک حیات حرمت بھی تھی جس سے دور ہونے کا وہ ایک پل بھی نہیں سوچ سکتا تھا۔
مگر دوسری طرف اپنے بل بوتے پر کچھ کرنے کا جنون ،اپنی فیملی کو تمام آسائشیں فراہم کرنے کا خواب ،
اس نے بالآخر بہت سوچنے کے بعد بیرون ملک جانے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
سب گھر والے اس بات سے آگاہ ہو چکے تھے۔۔۔کہ جریر جاب کے سلسلے میں باہر جا رہا ہے۔
میں ایک لمحہ بھی تمہارے بغیر نہیں گزار سکتی ۔۔اتنے سالوں بعد تو تمہاری واپسی ہوئی تھی اور اب تم پھر سے جانے کی بات کرنے لگے۔۔۔۔
انہوں نے روتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑ کر رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔۔
میں نے تو سوچا تھا شادی کے بعد میرے لیے نا سہی اپنی بیوی کے لیے تو رکو گے یہاں مگر تم تو اپنی نو بیاہتا بیوی کو بھی اکیلا چھوڑ کر جارہے ہو۔۔۔۔
اس نے ایک نظر حرمت پر ڈالی جو نظریں نیچے کیے خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
اچھی خاصی جاب ہے یہاں بھلا اسے چھوڑ کر یہ پھر سے باہر جانے کا بھوت کیوں سوار ہو گیا تمہیں؟؟؟فائز سلطان نے اسے خشمگیں نگاہوں سے گھورتے ہوئے سخت لہجے میں باز پرس کی۔۔۔۔۔
میرے برائٹ فیوچر کے لیے پلیز ۔۔۔۔۔
آپ سب مجھ سے خفا نا ہوں پلیز مجھے اس وقت آپ سب کی سپورٹ کی اشد ضرورت ہے۔۔۔
جریر نے التجائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
سب دھیرے دھیرے اٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔۔۔۔
جریر کمرے میں آیا تو حرمت کروٹ لیے چہرہ دوسری طرف موڑے بند آنکھوں سے شاید رو رہی تھی۔۔۔
کیونکہ کہ اس کی سسکیوں کی آواز کمرے میں پھیل رہی تھی۔۔۔۔
جریر اسے یوں روتا دیکھ سخت پشیمان ہوا۔۔۔۔
اپنی جگہ پر لیٹ کر حرمت کو اپنی جانب کھینچ لیا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اسے خود میں سمو لیتا
حرمت نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر دوری بنائی۔۔۔۔۔
مجھے آپ سے بات نہیں کرنی ۔۔۔جائیے جہاں جانے کا شوق ہے آپ کو۔۔۔۔اس نے خفگی سے منہ پھلائے ہوئے کہا۔۔۔۔
زندگی !!!اس نے اس کو اٹھا کر اپنے اوپر گرایا۔۔۔۔
اور اس کی کمر کے گرد سخت حصار باندھ دیا۔۔۔۔۔
حرمت اس کی گرفت میں جل بن مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔۔۔۔
چھوڑیں مجھے۔۔۔۔یہ کہتے ہی اس کے سینے پر مکوں کی برسات کردی۔۔۔۔۔
پہلے میری بات سنو۔۔۔۔۔پھر رہائی ملے گی۔۔۔۔
تمیز کے دائرے میں بھی بات بتا سکتے ہیں۔۔۔۔
اس نے ٹونٹ کی۔۔۔۔
بھلا بیوی سے بات کرنے میں کیسی تمیز؟؟؟؟
اس نے حرمت کے گال پر لب رکھے تو اس نے گھبرا کر آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔
کیا یار زندگی تم ابھی بھی فرسٹ نائٹ کی طرح بلش کر رہی ہو۔۔۔۔۔
وہ اسے بیڈ پر گرا کر خود اس پر جھکا۔۔۔۔۔
پیچھے ہو جائیں مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی میں آپ کی میٹھی میٹھی باتوں میں نہیں آؤں گی۔۔۔۔
اگر آپ کو یاد نا ہو تو میں بتا دیتی ہوں کہ میں ناراض ہوں آپ سے۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے اس نے ناک سکوڑی۔۔۔۔۔
ارے یہی ناراضگی ہی تو دور کرنے کی کوشش میں ہوں۔۔۔۔
اس نے خمار آلود آواز میں کہا۔۔۔۔
آپ مجھے چھوڑ کر چلے جائیں گے؟؟؟؟اس نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔
اوہ۔۔۔۔تو میری زندگی کو بھی مجھ ناچیز سے محبت ہو ہی گئی آخر جو میرے بغیر نہیں رہ سکتی؟؟؟؟
انسان کو اتنا خوش فہم بھی نہیں ہونا چاہیے۔۔۔خودی مفروضے قائم کرنا تو کوئی جناب سے سیکھے۔۔۔۔
اس نے شوخ انداز میں کہا۔۔۔۔
یعنی کہ آپ کو ہم سے محبت نہیں؟؟؟؟اس نے سوالیہ انداز میں کہتے ہوئے اپنی جگہ لیٹ کر سینے پر پر بازو باندھے ہوئے کہا نظریں ہنوز اپنی زندگی پر تھیں۔
میں نے ایسا بھی نہیں کہا۔۔۔وہ جھٹ سے بنا سوچے سمجھے بولی۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
آخر کار وہ دن آہی گیا جس دن جریر کی فلائٹ تھی۔۔۔سب خاموش تھے جریر کی ضد کے آگے۔۔۔۔
سب اسے ائیرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے گئے۔۔۔۔
سب سے پہلے وہ اپنے پاپا فائز سلطان سے ملا۔۔۔انہوں نے اسے گلے لگایا۔۔۔
پھر حریم اور اپنی مما وشمہ سے ملا۔۔۔ان دونوں نے اسے پیار کہ ساتھ ساتھ ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیں۔
آخر میں حرمت کے پاس آیا۔۔۔
سب لوگوں کی موجودگی کی پرواہ کیے بنا اسے خود کے ساتھ لگائے اچھے سے محسوس کیا۔۔۔
پھر اس کی پیشانی پر ایک محبت بھرا لمس چھوڑا۔۔۔۔
اس کی نمی میں ڈوبی ہوئی نیلی آنکھوں کو دیکھ کر کہا ۔۔
پلیز زندگی ایسے مت الوداع کہو۔کہ میرا ارادہ بدل جائے۔۔۔۔
اس نے التجائیہ انداز میں کہا
تو بدل دیں نا۔۔۔اس نے فرمائش کی۔۔۔۔
میری طاقت بنو حرمت میری کمزوری نہیں۔۔۔۔
یہ آنسو صاف کرو۔۔۔۔
جب بھی مجھے تمہاری یاد آئےمیں وہاں ہر پل تمہارا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھنا چاہوں گا۔۔۔
چلو مجھے اچھی سی سمائل دکھا دو۔۔۔۔
وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کی خاطر ہنس دی۔۔۔۔
اس وقت دل کو عجیب سا اندیشہ لاحق تھا۔۔۔۔
اسے خود بھی اپنی کیفیت کا اندازہ نہیں ہو پارہا تھا۔۔۔۔
جریر اپنا سامان لیے اندر بڑھا تو پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔۔
سب کے مرجھائے ہوئے چہروں پر نظر ڈالی۔۔۔
ایک بار تو دل اپنے فیصلے پر ڈگمگایا۔۔۔۔
مگر پھر خود پر قابو پاتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر ہوا میں لہرایا اور بائے کہا۔۔۔۔
جواباً سب نے بھی وہی عمل دہرایا۔۔۔۔
ایک ماہ ہوچکا تھا جریر سلطان بیرون ملک گئے۔۔۔
اس دوران صرف ایک بار ہی اس کی کال آئی یہ بتانے کے لیے کہ وہ خیرو عافیت سے وہاں پہنچ چکا ہے۔۔۔۔
حرمت کے دن بوجھل اور بے کیف گزر رہے تھے۔۔۔
اسے اپنی صحت میں کچھ تبدیلی محسوس ہو رہی تھی بار بار چکر آنا اور ویکنیس فیل ہونا۔۔۔۔
اس نے یہ بات اپنی مما حریم سے شئیر کی تو انہوں نے اسے ڈاکٹر کے پاس چل کر چیک اپ کروانے کا کہا۔۔۔۔
چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے اسے خوشخبری سنائی۔کہ وہ امید سے ہے۔
ڈاکٹر کی بات سن کر اسے بہت خوشی ہوئی کہ اس کا اور جریر کا رشتہ اور بھی مضبوط ہونے جا رہا ہے۔۔۔۔
بس اب جریر کی کال کا انتظار تھا تاکہ وہ اسے بھی یہ خبر سنا سکے اور اس کے بھی تاثرات جان سکے کہ اس بارے میں وہ کیا سوچتا ہے۔۔۔۔۔
وہ بے صبری سے اس کی کال کے انتظار میں تھی۔۔۔۔۔
کچھ دنوں سےدل کو عجیب سی بے چینی نے گھیر رکھا تھا۔۔۔۔
اس نے اپنی دلی کیفیت سے اپنی مما کو آگاہ کیا تو انہوں نے اسے تسلی دی کہ اس حالت میں طبیعت ناسازی نارمل سی بات ہے۔۔۔۔
شام کا وقت تھا سب رات کے کھانے سے فارغ ہوئے تو لان میں آگئے۔۔۔۔
فائز سلطان، وشمہ اور حریم لان میں رکھی گئی کرسیوں پر براجمان تھے جبکہ حرمت وہاں بنی چھوٹی سی راہداری پر ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہلکی پھلکی واک کر رہی تھی۔۔۔۔
اچانک فائز سلطان کے فون پر بیل ہوئی ۔۔۔۔
اور کوئی بار بار کال پر کال کر رہا تھا۔۔۔
انہوں نے کال ریسیو کی۔۔۔۔
آپ جریر سلطان کے گھر سے ہیں؟؟؟دوسری طرف سے رسمی سلام دعا کے بعد پوچھا گیا۔۔۔
جی میں اس کا والد بات کررہا ہوں۔۔۔فرمائیے۔۔۔
آپ کو ان کے بارے میں خبر دینی تھی دوسری طرف سے جھجھکتے ہوئے کہا گیا۔۔۔
جو بھی بات ہے جلدی کہیں اب تو مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔۔
بتائیے جریر ٹھیک تو ہے؟؟؟
کہاں ہے وہ؟؟؟
خود بات کیوں نہیں کر رہا؟؟؟
انہوں نے پے در پے تشویش بھرے لہجے میں ایک ہی لحظہ میں سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
دراصل ان کی ایک حادثہ میں ڈیتھ ہوگئی۔۔۔اس نے بنا لگی لپٹی ہوئے اپنی بات کہہ دی۔۔۔۔
یہ بات سنتے ہی فائز سلطان کے تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟؟؟
ہوش میں تو ہیں آپ ؟؟؟انہوں نے لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں گھبرا کر کہا۔۔۔۔
دراصل یہاں بم بلاسٹ ہوا ہے جو بہت خطرناک نوعیت کاتھا۔اس حادثے میں شامل لوگوں کی مسخ شدہ لاشوں کی شناخت کر پانا بھی بہت مشکل تھا۔۔۔۔
ان کی باڈی کے پاس سے جو چیزیں برآمد ہوئی تھیں انہیں کے بیس پر آپ سے بات کی جا رہی ہے۔۔۔
وشمہ اور حریم دونوں بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئیں۔۔۔۔
ان دونوں نے دروازے میں گرتے ہوئے فائز سلطان پر نظر ڈالی ۔۔۔۔
جو اپنے دل پر ہاتھ رکھے لہرا کر زمین بوس ہوئے۔۔۔۔۔۔
حرمت ابھی پوری طرح بات کو سمجھ نا پائی اور لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے اپنے تایا جان کی حالت دیکھتے ہوئے ان کے پاس آئی اور معاملے کی سنگینی کو جاننے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔۔
مگر کوئی سرا ہاتھ نا آیا۔۔۔۔
حرمت ایمبولینس بلواو جلدی۔۔۔۔وشمہ نے ان کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے کرب زدہ آواز میں کہا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
آج پورے سات دن ہو چکے تھے فائز سلطان کو گزرے ہوئے۔۔۔۔
وشمہ کی بہن مغیرہ بھی امریکہ سے آچکی تھی۔۔۔
وشمہ تو حالت بیوگی میں اپنی سدھ بدھ بھلائے بیٹھی تھیں۔۔۔
اس وقت میں اس کی بہن نے اس کا بہت خیال رکھا۔۔۔
اپنے شوہر فائز سلطان اور بیٹے جریر دونوں کی موت کا صدمہ اتنا بڑا تھا کہ اسے ایسا لگا کہ وہ اس بھری ہوئی کائنات میں بھی تنہا رہ گئی ہے۔۔۔۔
حرمت تو غم سے نڈھال تھی ۔۔۔۔ہر وقت جریر کے ساتھ بیتے ہوئے پل یاد کر کہ روتی رہتی۔۔۔۔اکثر تو ڈپریشن میں مبتلا ہوئے بے ہوش ہو جاتی۔۔۔۔
ایسے میں حریم نے اسے تسلی دی کہ اسے اپنے آنے والے بچے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔۔۔اپنا خیال رکھے اس کے پاس اس کی شوہر کی نشانی آنے والی ہے۔۔۔۔
بھری جوانی میں بیوگی کا داغ لیے وہ بھی جس غم سے گزری ایسے ہی دکھ سے اب ان کی بیٹی بھی گزر رہی تھی۔۔۔۔
اسے اس حال میں دیکھتے ہوئے ان کے دل میں ہول اٹھتے رہتے۔۔۔۔۔
یہ پکڑو اپنا سامان۔۔۔۔۔
وشمہ اور مغیرہ نے ایک سوٹ کیس میں ان کا کچھ ضروری سامان بھر کر دروازے کے قریب رکھا۔۔۔۔
نکل جاؤ میرے گھر سے تم جیسی منحوس عورتوں کے لیے اس گھر میں کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔وشمہ نے زہر خند لہجے میں کہا۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ہم کہاں جائیں گے؟؟؟
حریم دفعتاً بولی۔۔۔
جیسی تم منحوس تھی۔
میرے بھائی جیسے دیور کو نگل گئی۔۔۔ویسے ہی تمہاری یہ بیٹی بھی منحوس ہے جس نے میرے بیٹے کے ساتھ ساتھ میرے شوہر کی بھی جان لے لی۔۔۔۔
ایسا الزام مت لگائیں میری بیٹی پر۔۔۔۔یہ سب ہونا تو شاید مقدر میں لکھا گیا تھا۔۔۔۔
میری بیٹی بے قصور ہے۔۔۔اس کے پاس آپ کے بیٹے کی نشانی ہے کچھ تو رحم کریں اس کی حالت پر۔۔۔۔حریم نے منت بھرے انداز میں کہا
وہ جو گم سم کھڑی ان کی باتوں کو سرجھکائے ہوئے سن رہی تھی اپنی صفائی میں ایک لفظ بھی نا بولی۔۔۔۔
بس زارو قطار آنسو بہائے چلی جا رہی تھی۔
صحیح کہہ رہی ہے وشمہ نکلو ابھی کے ابھی یہاں سےمغیرہ تنک کر تلخ آواز میں بولی۔۔۔۔۔۔
اس نے ان کے سامان والا سوٹ کیس دروازے سے باہر پھینکا۔۔۔۔
اور انہیں دھکے دے کر باہر نکالنے لگی۔۔۔۔
حرمت نے ایک آس بھری نظر اپنی ساس وشمہ پر ڈالی۔۔۔۔
مگر انہوں نے چہرے پر کرختگی سجائے ہوئے رخ دوسری طرف موڑ لیا۔۔۔۔
حریم اور حرمت دونوں گھر سے باہر روڈ پر کھڑی آتی جاتی گاڑیوں کی روانگی پر خالی نظریں جمائے ہوئے کھڑی تھیں۔۔۔۔
مما اب ہم کدھر جائیں گے؟؟؟
اس نے نم آنکھوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔۔۔
ناز آپی بھی کویٹہ نہیں ہمارے یہاں آنے کے بعد فلک شیر بھائی نے انہیں اور افرس کو بھی اپنے پاس ترکی بلالیا تھا۔۔۔۔
پتہ نہیں وہ گھر انہوں نے بند کررکھا ہے یا سیل کر دیا۔۔۔۔
مجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ۔۔۔۔
مما آپ خالہ کو کال کریں۔۔۔۔
بیٹا ان لوگوں نے ہمیں گھر سے کچھ لینے ہی کب دیا ہے۔۔۔۔جو میں کسی کو کال کروں۔۔۔
سارے نمبرز تو فون میں تھے۔۔۔۔
اور فون انہوں نے لینے کا موقع ہی نہیں دیا۔۔۔
تم اپنے فون سے کرو۔۔۔۔۔
مما۔۔۔۔وہ خاموش ہو گئی۔۔۔۔
اب وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس کے مرہوم شوہر نے اس کے فون سے سارے نمبرز ڈیلیٹ کر کہ صرف اپنا نمبر ہی سیو کر دیا تھا۔۔۔۔
اور حرمت نے بھی کبھی اس بات پر ناتو کبھی اعتراض کیا اور نا ہی احتجاج۔۔۔۔
کیونکہ اس کے لیے اس کے شوہر کی خوشی کی زیادہ اہمیت تھی ناکہ غیروں کی۔۔۔۔
وہ دراصل۔۔۔۔میرے فون سے سارے نمبرز ڈیلیٹ ہو گئے تھے۔۔۔اس نے آدھا سچ اور آدھے جھوٹ کی ملاوٹ کرتے ہوئے جھجھکتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اب کیا کریں کہاں جائیں؟؟؟؟؟
یا اللّٰہ مدد!!!!!!
انہوں نے صدق دل سے اس رحمان و رحیم سے مدد مانگی۔۔۔۔
حریم بیٹا بات سنو !!!
اپنے پیچھے سے جانی پہچانی آواز سن کر حریم اور حرمت دونوں نے بیک وقت پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔۔
اماں بی آپ !!!
یہ اماں بی فائز سلطان کے گھر برسوں سے ملازمہ تھیں۔۔۔۔
اور ان کے گھر کی ہر چھوٹی سے لے کر بڑی بات سب سے بخوبی واقف تھیں۔۔۔۔
اگر برا نا مناو تو میں ایک بات کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔
جی جی کہیے اماں بی۔۔۔۔حریم نے انہیں دیکھتے ہوئے مان بھرے لہجے میں کہا
مجھ غریب کا گھر بے شک تمہارے شایان شان نہیں،مگر وقت سر چھپانے کے لیے برا بھی نہیں۔۔۔۔
جب تک کوئی بندوبست نا ہوجائے تم میرے گھر رہ سکتی ہو۔۔۔۔
اماں بی آپ نہیں جانتی کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس وقت آپ کو ہمارے لیے فرشتہ بنا کر بھیجا ہے۔۔۔۔
میں نہیں جانتی کہ آپ کے اس احسان کا بدلہ میں کس طرح چکاوں گی.......
اس نے ممنونیت سے پُر لہجے میں کہا۔۔۔۔
۔۔ہدہدڈبس تب سے حریم اور حرمت دونوں اماں بی کے گھر رہنے لگیں۔۔۔۔
اماں بی نے ایک بار بھی وشمہ کو شک نہیں ہونے دیا کہ حریم اور حرمت ان کے گھر رہتی ہیں۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
شہر سے کافی دور تنگ گلیوں سے بمشکل ہوتا ہوا وہ اس کے گھر پہنچا۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم مما!!!!دیکھیں مما آپ سے ملنے کون آیا ہے۔۔۔۔
اتنے سالوں بعد حرمت کی چہکتی ہوئی آواز سنی تو سب کام چھوڑے وہ کچن سے باہر نکلیں۔۔۔۔
کون آیا ہے؟؟؟؟
یہ کہا ہی تھا کہ سامنے کھڑے خوبرو شخص کو دیکھ کر پہلے تو چونکی۔۔۔۔پھر دوسرے لمحے میں ہی اسے پہچان کر اس کی طرف بڑھیں۔۔۔۔
اسلام وعلیکم خالہ جانی!!!!کیسی ہیں آپ ؟
وہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگا۔۔۔۔
بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔
انہوں نے بھی پیار سے اس کا شانہ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
آؤ اندر چلو۔۔۔۔۔
وہ ان دونوں کی ہمراہی میں اندر آیا۔۔۔۔
حرمت چینج کرنے کے لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
ناز آپی کیسی ہیں؟؟؟
ٹھیک ہیں وہ۔۔۔۔
اور افرس ؟؟؟
وہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔
خیر سے شادی شدہ ہو گی اب تو وہ انہوں نے کہا۔۔۔۔
جی اس کی شادی کردی تھی۔۔۔
اور تمہارے کتنے بچے ہیں؟؟؟
خالہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ کو میں شادی شدہ لگ رہا ہوں کہیں سے بھی۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہہم ۔۔۔۔لگ تو نہیں رہے کیونکہ شادی کے بعد آددھے سے لڑکے گھریلو ٹینشنز کی وجہ سے گنجے ہو جاتے ہیں مگر میرے بھانجے کے بال تو صحیح سلامت اور بہت پیارے ہیں اور ماشاءاللہ سے خود بھی بہت ہینڈسم ہے۔۔۔۔
انہوں نے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری۔۔۔۔
بس کیا کریں خالہ آپ کی حسن نظر کا کمال ہے ورنہ بندہ خاکسار اس قابل کہاں۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد وہ اپنے پہلے والے اوزیم کے روپ میں لوٹا تھا۔۔۔۔
اور یہ سب شاید اس کی دلی مراد پوری ہونے کے باعث تھا کہ زندگی رہتے ایک بار وہ اپنی چوکو لاوا کو دیکھ لے۔۔۔۔
اور آج اس کی یہ حسرت اس طرح سے پوری ہو جائے گی اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔۔۔۔
وہ اس وقت خود کو جیسے ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔
پیام بستر پر تھا اور پریشے اس کے پاس بیٹھی اس کو اپنی سکول کی شرارتوں کے بارے میں بتا رہی تھی۔
حرمت نے کمرے میں آتے ہی ان دونوں کو پیار کیا اور اپنے کپڑے لیے واش روم میں چلی گئی۔۔۔۔
یہ باہر کس کی آواز آرہی ہے ؟؟؟؟؟
میں ابھی دیکھ کر آتی ہوں پھر تمہیں بھی بتاؤں گی۔۔۔۔
پری ، پیام کو کہتی ہوئی اپنی چھوٹی سی پونی ٹیل کو گھماتے ہوئے باہر نکلی۔۔۔۔
بابا !!!!!!
اس نے پر مسرت لہجے میں چیختے ہوئے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم جو حریم سے باتوں میں محو تھا پریشے کو سامنے دیکھ حیران ہوا۔۔۔۔۔
وہ بھاگتی ہوئی اس کے قریب آئی اور آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے اس کے گلے میں اپنی ننھی ننھی بانہیں ڈال کر اس سے لپٹ گئی۔۔۔۔
حریم بھی پریشے کے اس کو بابا کہنے پر ہکا بکا رہ گئی۔۔۔۔۔
پریشے بیٹا یہ کیا کہہ رہی ہو؟؟؟؟؟
حریم نے اسے دیکھتے ہوئے حیرانگی سے پوچھا۔۔۔۔
گرینی۔۔۔۔آپ کو نہیں پتہ یہ میرے بابا ہیں۔۔۔۔
اس نے اوزیم کے گال پر کس کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم نے انہیں اشارے سے منع کیا۔۔۔۔
کوئی بات نہیں اسے کہنے دیں۔۔۔۔۔
میں ابھی پیام کو بھی بتا کر آتی ہوں کہ ہمارے بابا آگئے۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ جس طرح آئی تھی اس سے دوگنی تیزی سے بھاگتی ہوئی اندر چلی گئی۔۔۔۔
خالہ حرمت کا شوہر کہاں ہے ؟؟؟؟
اوزیم نے بالآخر دل و دماغ میں آیا سوال پوچھا۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
سورج کی چمکتی ہوئی روشنی اس کی آنکھوں پر پڑتے ہی اس نے کسمسا کر منہ پھیر کر داہنے کروٹ ہو گیا پھر چندھیائی ہوئی نظروں سے دیوار گیر گھڑی کو دیکھا جہاں صبح کا دس بج رہا تھا..
اسی لمحے دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے لیٹے ہی لیٹے سر اٹھا کر دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے افرس ہاتھ میں ٹرے لئے اندر داخل ہو رہی تھی..
"اٹھ جائیں بھیا، ناشتہ کرکے پھر میڈیسن لے لینا.." اس کے چہرے پر سنجیدگی تھی..
"کیسی میڈیسن..؟ مجھے کیا ہوا ہے.." حیرانی سے کہتا ہوا وہ اپنی جگہ سے اٹھ بیٹھا..
"یہی تو میں جاننا چاہتی ہوں کہ کیا ہوا تھا اور کیا ہو رہا ہے.." کمبل سمیٹ کر وہ اس کے پاس ہی ٹرے رکھ کر بیٹھ گئی اور سنجیدگی سے اسے دیکھنے لگی..
"کیا ہوا ہے..؟ تم کیا کہہ رہی ہو مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا.." وہ الجھا تھااس کے انداز سے..
ناز بھی افرس کے پیچھے اس کے روم میں آئی۔۔۔۔اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"سب بتاتی ہوں، پہلے تم فریش ہوکر ناشتہ کر لو، اٹھو جلدی جاؤ.." اس کے کہنے پر وہ سر ہلا کر بے دلی سے اٹھا اور واشروم کی طرف بڑھ گیا.. واش بیسن پر جھک کر اس نے جوں ہی چہرے پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارے اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا اور کل والا واقعہ دھیرے دھیرے اس کے سوئے ہوئے ذہن میں بیدار ہونے لگا۔۔۔۔
چوکو لاوا۔۔۔۔
اس نے چونک کر خود کو شیشے میں دیکھا..
اور پھر باہر آکروہ وارڈروب کی طرف بڑھا اور جو بھی سوٹ اس کے ہاتھ لگا اسے نکال کر واشروم کی طرف دوبارہ بڑھ گیا۔۔۔لیکن اسے دیکھتی ہوئی ناز نے سرعت سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا..
"کیا کر رہے ہو تم اوزیم، تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، پہلے ناشتہ کرکے دوا لے لو میں تمہیں اس حالت میں کہیں جانے نہیں دوں گی.."
"کچھ نہیں ہوا مجھے,میں بالکل ٹھیک ہوں تم بس مجھے ابھی کے ابھی آپ کو کسی سے ملوانا ہے.." اس کا لہجہ بیک وقت ضدی اور الجھا ہوا تھا..
"تم بالکل ٹھیک نہیں ہو اوزیم، تمہیں یاد بھی ہے کل تم جب گھر واپس آئے تھے بخار سے کس طرح تپ رہے تھے ایسی حالت یا تو بہت دکھ میں ہوتی یا پھر؟؟؟؟،
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
ماضی خت
مام وہ سب چھوڑیں مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔۔۔
اس نے پرجوش لہجے میں کہا۔۔۔
افرس اور ناز دونوں نے اس کے لہجے میں چھائی ہوئی خوشی بخوبی محسوس کی۔۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرنے لگیں۔۔۔۔
ایسا کیا بتانا ہے جس سے میرا بیٹا اتنا خوش دکھائی دے رہا ہے۔انہوں نے بھی مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔
مام آپ بھی سنیں گی تو خوش ہو جائیں گی۔۔۔
بتا بھی دو مجھ سے تو اب مزید صبر نہیں ہو رہا۔۔۔۔
مام حریم خالہ اور حرمت مل گئیں۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ ان کے شانوں پر رکھ کر کہا۔۔۔۔
کیا واقعی ؟؟؟انہوں نے حیرانگی اور خوشی دونوں کے ملے جلے جذبات سے کہا۔۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
اب تم مجھے جلدی سے ان سے ملوانے کے لیے لے جاو۔۔۔۔
جی مما آپ ریڈی ہو جائیں پھر چلتے ہیں۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
وہ دونوں ان کے گھر میں آئے تو حریم اور ناز ایک دوسرے سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔۔۔
برسوں بعد پھر سے مل کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔۔۔۔
حرمت بھی ناز سے ملی تو انہوں نے اسے بھی خوشدلی سے اپنے گلے لگایا۔۔۔۔
حرمت کو حریم کے ساتھ یہاں اس طرح رہتے دیکھ کر ناز نے پریشانی سے پوچھا تم لوگ یہاں اس طرح کیوں رہ رہی ہو؟؟
جریر کہاں ہے؟؟؟
اور تم لوگ اپنا گھر چھوڑ کر یہاں کیوں ؟؟؟
انہوں نے اپنے من میں اٹھتے ہوئے سوالات بالآخر پوچھ لیے۔۔۔۔
حریم نے اپنی بہن کا آسرا ملتے ہی اسے خود پر بیتے ہوئے لمحوں کے بارے میں سب تفصیل سے بتا دیا۔۔۔۔
وہ بھی حرمت کی اس حالت کو دیکھتی ہوئی آبدیدہ ہوئیں۔۔۔۔
پریشے اوزیم اور ناز کی آواز سن کر کمرے سے باہر آئی تو ۔۔۔
پری ان سے ملو یہ بھی آپ کی گرینی ہیں۔۔۔
اسلام وعلیکم!!!اس نے خوب بنا سنوار کر میٹھی سی آواز میں کہا۔۔۔۔
وعلیکم السلام!!
انہوں نے بھی اسی کے انداز میں کہا تو وہ خوشی سے ِکھل اٹھی۔۔۔۔
بابا آؤ نا آپ کو بھیو سے ملواتی ہوں وہ باہر نہیں آسکتا نا بیمار ہے۔۔۔۔
وہ اوزیم کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگی۔۔۔۔
حرمت نے جب اس کی بات پر غور کیا تو غصے سے اس کے پیچھے لپکی جو اوزیم کے ساتھ تیزی سے کمرے کا دروازہ عبور کر چکی تھی۔
یہ کیا کہا تھا تم نے ابھی؟؟؟اس نے پیشانی پر بل ڈالے کڑے تیوروں سے اس سے جواب طلب کیا۔۔۔۔
جواب دو۔۔۔۔اس نے گھورتے ہوئے کہا
بابا کہا اور کیا؟؟؟؟
بکواس منہ کرو ورنہ کھینچ کر دوں گی تمہارے منہ پر ایک ۔۔۔۔اس نے غصے میں اس پر ہاتھ اٹھانا چاہا جسے اوزیم نے راستے میں ہی اچک لیا۔۔۔
کیا کر رہی ہو؟؟؟اتنی کیوٹ سی پرنسس کو بھی کوئی مارتا ہے کیا؟؟؟
پریشے جو اپنی ماں کے غصے سے خائف ہوتے ہوئے آنسو برسانے لگی تھی۔۔۔
اوزیم نے اسے اپنی گود میں لیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
خبردار جو میری پرنسس پر کسی نے ہاتھ اٹھایا ۔۔۔۔۔
مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔۔۔
اور پریشے کے گال پر پیار کیا۔۔۔۔
ماما گندی ہیں بابا اچھے ہیں۔۔۔۔اس نے اوزیم کے گلے میں بانہیں ڈال کر کر اسے زور سے جکڑ لیا۔۔۔۔
فضول مت بولو پری یہ تمہارے بابا نہیں ہیں۔۔۔نیچے اترو۔۔۔اس نے درشت لہجے میں کہا۔۔۔۔
بس بھی کرو۔۔۔چوکو۔۔۔۔۔لا۔۔۔
میرا مطلب ہے حرمت۔۔۔اس کے گلے میں سے یہ لفظ پھنس پھنس کر نکلا۔۔۔
ورنہ روانی میں شاہد وہ اسے اتنے عرصے بعد اس کے مخصوص نام سے بلاتا تو جانے وہ کیسا ری ایکٹ کرتی ۔۔۔
تم میرے بچوں سے دور رہو۔۔۔۔۔
یہ کہا کہہ رہی ہو؟؟؟؟
اس نے سرد لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
اس نے پریشے کو گود سے نیچے اتارا اور غصے سے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
مام آپ رکیں گی یہاں ؟؟؟
ہاں بیٹا میں یہاں ابھی اور رکوں گی۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں یہاں سے ۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا؟؟؟
بس مام آفس میں ضروری کام ہے۔۔۔شام کو ملتے ہیں۔۔۔
یہ کہتے ہوئے وہ چلا گیا۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
اسے اس کمپنی میں آتے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔۔۔۔
اسے باس کی سیکرٹری کی حیثیت سے رکھا گیا تھا۔۔۔۔
مگر اسے ایک ورکر نے ہی بتایا تھا کہ باس کا مین گھر اور بزنس ترکی میں ہے وہ وہیں گئے ہوئے ہیں ایک ہفتے کے لیے۔۔۔آج ان کی واپسی تھی۔۔۔
وہ اپنے نئے باس کے آنے سے پہلے ہی پہنچنا چاہتی تھی مگر پریشے کو سکول چھوڑنے کے چکروں میں پھر تھوڑا لیٹ ہو گئی۔۔۔۔
تیز تیزقدموں سے چلتی وہ باس کے کیبن کی طرف بڑھ رہی تھی کہ راستے میں اس کا ٹکراؤ فلزہ(ریسپیشنسٹ) سے ہو گیا، جسے دیکھ کر خلافِ عادت آج اس کے چہرے پر ناگواری نہیں پھیلی تھی، وہ بالکل سنجیدہ اور سپاٹ نظروں سے اپنے سامنے کھڑی فلزہ کو دیکھ رہی تھی جو طنزیہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اسے ہی دیکھ رہی تھی..
شروع دن سے ہی فلزہ کو اس سے نجانے کیوں خدا واسطے کا بیر تھا۔۔۔۔
"تمہیں نہیں لگتا کہ تم آج پہلے ہی دن کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو.." کلائی پر بندھی گھڑی کو دیکھتی فلزہ بولی، انداز چبھتا ہوا تھا..
"اور فلزہ جی آپ کو نہیں لگتا کہ آپ میری باس بننے کی کوشش کر رہی ہیں؟.." اسی کے انداز میں بول کر اس کے پاس سے نکلنے کی کوشش کی جسے اس نے راستے میں حائل ہوکر ناکام بنا دیا تھا.
حرمت نے بھی اس معاشرے میں اپنی جگہ بنانے کے لیے خود کو مضبوط کر لیا تھا۔۔۔۔
"مس فلزہ بولو مجھے.. کمپنی میں میری ایک ریپوٹیشن ہے، تمہاری طرح گری پڑی حیثیت کی مالک نہیں ہوں میں.." ایک ایک لفظ پر زور دے کر وہ ناگواری سے بولی..
"کمپنی میں کس کی کیا ریپوٹیشن ہے یہ میں اچھے سے جانتی ہوں، اور جہاں تک مجھے یاد ہے میں اس کمپنی کے باس کی اسسٹنٹ ہوں تو میری حیثیت ایک ریسپیشنسٹ سے تو کافی زیادہ بہتر ہوئی.. اب ہٹو سامنے سے ورنہ باس سے تمہاری شکایت لگا کر چھٹی بھی کروا سکتی ہوں.." آج اس کا انداز ہی بالکل الگ تھا۔۔۔۔
اپنی عزت و انا کو مجروح کرنے والے کا منہ توڑ دینے کا اچھے سے ہنر رکھتی تھی۔
"تمہاری اتنی ہمت کہ تم مجھ سے اس انداز میں بات کرو، اور تم کیا مجھے کمپنی سے نکلواؤگی، ارے تمہیں تو میں باس سے آج ہی کہہ کر نکلواتی ہوں، بس دیکھتی جاؤ.."
اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سامنے کھڑی اس مڈل کلاس لڑکی کو اٹھا کر بلڈنگ سے ہی باہر پھینک دے..
فلزہ تلخ لہجے میں گویا ہوئی۔۔۔۔
"ابھی تم نے میری ہمت اور میری حیثیت دیکھی ہی کہاں ہے مس فلزہ.." تنفر سے کہتی وہ سر جھٹک کر اس کے پاس سے آگے بڑھ گئی جبکہ غصے سے کھولتی فلزہ نے گردن گھما کر اپنے آس پاس نظریں دوڑائیں، فلور پر موجود تمام اسٹاف اپنی جگہ رک کر ان دونوں کا دلچسپ ڈرامہ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے..
"کھڑے کیا ہو سب یہاں، کوئی ڈرامہ نہیں چل رہا، جاؤ اپنا کام کرو.." وہ غصے سے چلا کر بولی تو سب اپنی ہنسی ضبط کرتے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے.
فلزہ کو شدید سبکی محسوس ہوئی۔۔۔۔
وہ دل میں ہی اسے اس کی اوقات یاد کروانے کا ارادہ باندھ چکی تھی۔۔۔۔۔
وہ باس کے کیبن میں جانے کی بجائے آکر اپنی جگہ پر بیٹھی ۔۔۔
اور اپنا غصہ ضبط کرنے لگی۔۔۔
حرمت تم اب آئی ہو؟؟؟؟
باس تمہارا پوچھ رہے تھے۔۔۔۔
باس آبھی گئے؟؟؟اس نے حیرانی سے پوچھا
جی باس تو کافی دیر کے آچکے ہیں جاؤ اب جا کر اپنی ڈیوٹی سنبھالو۔۔۔
تم بھی میرے ساتھ چلو حرمت نے ڈر کے مارے ماہا سے کہا۔۔۔
پتہ نہیں کیسے باس ہوں گے ؟؟؟اس نے سوچا پہلے ہی دن لیٹ آنے پر بے عزتی نا کردیں۔۔۔اس نے دل میں سوچا۔۔۔
ارے باس کوئی جن تھوڑی نا ہیں جو تمہیں کھا جائیں گے۔۔۔
پھر بھی تم چلو نا ماہا۔۔۔۔
میں بھی بس تمہارے پیچھے پیچھے اندر آہی رہی ہوں سر نے ایک فائل منگوائی ہے وہ لے کر آرہی ہوں۔۔۔
تم جلدی جاو۔۔۔یہ نا ہو سر سچ میں خفا ہو جائیں۔۔۔۔
ٹھیک ہے وہ اپنی جگہ سے اٹھی جانے کے لیے۔۔۔
ویسے ایک بات کہوں۔۔۔ماہا رازداری سے اس کے کان کے قریب آتے ہوئے بولی۔۔۔
کیا؟؟؟
باس شدید قسم کے ہینڈسم ہیں۔۔۔۔اس نے شرارت سے آنکھ دباتے ہوئے کہا۔۔۔
بہت ہی فضول ہو تم ماہا۔۔۔۔
ویسے بھی مجھے اب دنیا میں کسی بھی قسم کے ہینڈسم مرد سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
اس نے تیوری چڑھا کر بیزاری سے کہا۔۔۔۔
اور باس کے کیبن کے باہر ناک کیا۔۔۔۔
یس۔۔۔۔
رعب دار آواز میں جواب آیا۔۔۔
وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔۔
سامنے ہی باس کی چئیر پر اوزیم کو براجمان دیکھ کر حیران ہوئی۔۔۔
تم؟؟؟؟
سر مے آئی کم ان ؟؟؟
اس سے پہلے کہ حرمت کچھ بولتی ماہا فائلز لے کر اندر آنے کی اجازت طلب کرنے لگی۔۔۔
یس۔۔۔۔۔
اس کے جواب پر وہ بھی اندر آئی۔۔۔۔
اور فائلز اس کے میز پر رکھ دیں ۔۔
سر یہ کیانی انڈسٹریز،اور ہادی گروپ آف کمپنیز کی فائلز ہیں۔
ٹھیک ہے ۔۔۔
You may leave now.....
جی سر وہ مؤدب انداز میں سر جھکائے ہوئے ایک آخری اچٹتی ہوئی نظر حرمت پر ڈال کر باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
جی تو مس حرمت ون ویک ہو چکا ہے اس آفس میں آتے ہوئے کیا کام کیا ہے آپ نے ؟؟؟
اس نے سپاٹ لہجے میں سوال کیا۔۔۔
یہ شاید ابھی تک اس دن کے میرے رویے کی وجہ سے ناراض ہے جو اس طرح کھڑوس بن کر بات کر رہا ہے؟؟؟؟
مگر میں اس معاملے میں کسی کی بھی مداخلت برداشت نہیں کروں گی۔۔۔اس نے دل میں پختہ عزم کیا۔۔۔
ہوتا ہے ناراض تو ہو جائے۔۔۔ہنہہ۔۔۔اس نے سر جھٹک کر دل میں کہا۔۔۔۔۔
مراقبے میں کیوں چلی گئیں؟؟؟
کچھ پوچھا ہے میں آپ سے مس حرمت۔۔۔۔
اس نے ابرو اچکاتے ہوئے سوالیہ انداز میں کہا
جی جی سر۔۔۔۔
وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی۔۔۔۔
آپ جس آفس میں کام کر رہی ہیں اس کی بلڈنگ کا کلر کیا ہے ؟؟؟؟
جی ؟؟؟؟اس نے فق نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے حیرانگی سے بولی۔۔۔
مجھے اپنے سوال کو دہرانے کی عادت نہیں ۔۔۔آئیندہ سے جب بھی میرے کیبن میں آئیں کان اچھے سےکھول کر آئیں۔۔۔۔آئی بات سمجھ میں ؟؟؟
اس بلڈنگ کا کلر؟۔۔۔۔
سر سفید۔۔۔۔اممممم۔۔۔۔۔نہیں نہیں سر بلیو۔۔۔
اس نے سوچنے کے انداز میں کہا۔۔۔۔
اس فلور تک آنے میں کتنی سیڑھیاں چڑھتے ہیں؟؟؟؟۔۔اس نے ایک اور سوال پوچھا
سر ؟؟؟؟حرمت نے گھبراتے ہوئے اسے دیکھا۔۔۔
آج تو وہ اسے پاگل کر کہ چھوڑے گا ۔۔۔جانے کونسا بدلہ لے رہا ہے مجھ سے اس جلے دل سے سوچا۔۔۔۔
مس حرمت اب آپ لفٹ سے نہیں سیڑھیوں سے بلڈنگ کے باہر جائیں گی اور باہر جا کر پہلے بلڈنگ کا رنگ دیکھ کر رنگ یاد کریں گی اور پھر سیڑھیوں کی تعداد بھی آکر مجھے بتائیں گی۔۔۔۔
Your time starts now.....
اس نے ہاتھ میں موجود پین کو ٹیبل پر رکھ کر پشت ریوالونگ چئیر پر ٹکائی ۔۔۔
Go.....
اسے اپنی جگہ پر بت بنی ساکت کھڑی دیکھ کر اس نے درشت لہجے میں کہا۔۔۔
وہ ہڑبڑائی اور تیز قدموں سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔
اگر اس فلزہ کی بچی نے مجھے یوں سزا بھگتتے ہوئے دیکھ لیا تو میری درگت بنا دے گی۔۔۔
کیسے پھڑیاں مار رہی تھی میں اس سے کہ باس سے کہہ کر اسے مزہ چکھاوں گی۔۔۔۔
اور اب خود ہی۔۔۔۔
وہ تیزی سے سیڑھیاں نیچے اترنے لگی۔۔۔۔۔
اللّٰہ ہی پوچھے تمہیں اوزیم خان عرف مفن وہ بھی شدید قسم کا جلا ہوا۔۔۔۔اس نے خودی کو مخاطب کیے ہوئے غصے میں جل کر کہا۔۔۔۔
اپنا کام پورا کیے ہوئے وہ کچھ دیر بعد پھر سے اس کے کیبن میں تھی۔۔۔۔۔
سر بلڈنگ کا کلر گرے ہے۔
اور تین سو دو سیڑھیاں ہیں۔۔۔
اوکے۔۔۔۔گڈ ورک۔۔۔۔۔
اس نے سر جھکائے ہوئے کہا اور اپنے آگے پڑا ہوا لیپ ٹاپ اٹھا کر اس کے آگے رکھا۔۔۔۔
یہ فائلز میں جتنا ڈیٹا ہے سارا ٹائپ کرکہ اس لیپ ٹاپ میں سیو کرو۔۔۔۔۔
میں....۔؟؟؟؟؟۔۔۔۔اس نے حیرت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا
نہیں تو آپ کے فرشتے ۔۔۔۔
یہاں پر آپ کام کرنے آئی ہیں تو کام ہی دیا جائے گا ؟؟؟؟
جلدی سے سارا کام ختم کریں۔۔۔۔مجھے لیٹ لطیف بالکل بھی پسند نہیں۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چلتا ہوا باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔
اور ہاں کام میں مسٹیکس کی کوئی گنجائش نہیں۔۔۔مجھے ہر کام پرفیکٹ چاہیے۔۔۔۔۔
سرد مہری سے کہتا ہوا وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔۔
آیا بڑا۔۔۔۔۔مجھے یہ نہیں پسند مجھے وہ نہیں پسند۔۔۔۔۔
اس نے اس کے جاتے ہی اس کی نقل اتاری۔۔۔۔
اور خود ہی اپنی کیفیت پر ہنس دی۔۔۔۔
جانے کتنے دنوں بعد وہ یوں ہنسی تھی۔۔۔۔
کیبن ائیر کنڈیشنڈ ہونے کی وجہ ٹھنڈا تھا۔۔۔۔اسے شدید گرمی میں سکون ملا۔۔۔۔
مگر چند لمحوں میں ہی اس کی طبیعت میں یاسیت گھل گئی یہ سوچتے ہوئے کہ اس کے بچے گرمی میں ہوں گے۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
اوزیم خان نے پیام کے لیے ایک پرائیویٹ روم لیا تھا اس کی وہی ٹریٹمنٹ کی جاری رہی تھی۔
فی الوقت تو اس کی حالت میں سدھار آچکا تھا مگر بقول ڈاکٹر کے یہ وقتی ٹریٹمنٹ ہے۔
اوزیم ،حرمت اور حریم تینوں اس وقت ڈاکٹر کے روم میں موجود تھے۔
جی ڈاکٹر اب آگے کیا کرنا ہو گا؟؟؟
اوزیم نے پوچھا۔
پیشنٹ کے سبلنگز میں سے ہی ڈونر ارینج ہو جاتا ہے اکثر ۔۔۔۔
اس کے لیے سیمپل لے کر ٹشوز میچ کرنے ہوں گے۔۔۔۔
ڈاکٹر آپ پلیز ہم سب کے سیمپلز لے لیں اور جس کسی کا بھی میچ کرے آپ پلیز جلداز جلد علاج شروع کریں۔۔۔۔
حرمت اس کی بات سن کر فورا اپنی جگہ سے اٹھی ،چئیر کو دھکیل کر پیچھے کیا۔۔۔
اور تن فن کرتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
اوزیم نے اپنی خالہ حریم کی طرف حیران نظروں سے دیکھا۔
انہوں نے شانے اچکائے جیسے انہیں نہیں پتہ کہ اسے کیا ہوا۔۔۔۔۔
وہ انہیں آنکھوں کے اشارے سے تسلی دیتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے باہر نکلا۔۔۔۔
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟؟؟
اس نے کرخت لہجے میں سوالیہ انداز سے پوچھا۔۔۔۔۔
کس سے پوچھ کر یہ علاج شروع کروا رہے ہو؟؟؟
میں نے تمہیں اجازت دی؟؟؟؟
اس ابرو اچکا کر تنے نقوش لیے اسے گھورتے ہوئے کہا۔۔۔۔
میں تم سے اجازت لینا ضروری نہیں سمجھتا۔۔۔۔
وہ سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔
وہ کس خوشی میں ؟؟؟؟
پیام میرا بیٹا ہے اس کے بارے میں ہر فیصلہ لینا میرا کام ہے ۔۔۔
تم اس معاملے سے دور رہو۔۔۔۔آئی بات سمجھ میں؟؟؟؟
وہ مجھے بابا کہتا ہے۔۔۔۔اسی حق سے ۔۔۔۔
میرا بھی اتنا ہی حق ہے اس پرجتنا کہ تمہارا ۔۔۔۔اوزیم نے جتاتے ہوئے انداز میں کہا
مگر سچائی یہی ہے کہ تم اس کے بابا نہیں ۔۔۔
مت بھولو اس بات کو۔۔۔۔
اس نے بھی زہر خند لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
تمہیں ہمارے بیچ میں بولنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔یہ میرا اور میرے بیٹے کاآپسی معاملہ ہے۔۔۔۔
اس نے مجھے جس محبت سےبابا کہا ہے ، میں اس کا مان کبھی نہیں توڑوں گا۔۔۔۔اس حثیت کے ناطے میں اپنا حق اور فرض دونوں نبھاؤں گا۔۔۔
مگر میں تم سے ایک پیسہ بھی لینے کی روادار نہیں۔۔۔۔مجھے اور میرے بیٹے کو تم سے بھیک میں کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔۔سمجھے تم۔۔۔وہ اس کی طرف انگلی اٹھا کر سخت انداز میں بولی۔۔۔۔
پیام سے زیادہ اس وقت تمہیں دماغی علاج کی زیادہ ضرورت ہے۔۔۔۔
جو منہ میں آئے بولے چلی جا رہی ہو۔۔۔
کیا پیام میرا کچھ نہیں لگتا ؟؟؟
کیا تم میری کچھ نہیں لگتی؟؟؟؟
کیا تم دونوں کو میں اسی حال میں چھوڑ کر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں؟؟؟؟
کیا خاموشی سے یونہی تمہاری بے بسی کا تماشا دیکھوں بیٹھ کر؟؟؟؟
یہی چاہتی ہو تم؟؟؟؟
اگر اس معاملے میں ایک لفظ بھی بولی تو مجھ سے برا کوئی نا ہوگا۔۔۔۔۔
یہ بات کان کھول کر اچھے سے ذہن نشین کر لو۔۔۔۔وہ قریب رکھے گملے کوپاوں سے زور دار ٹھوکر رسید کرتا ہوا وہاں سے نکلا۔۔۔۔
گملا دو حصوں میں ٹوٹ کر گر چکا تھا اوراس میں موجود مٹی ارد گرد پھیل گئی۔۔۔۔۔
اس بکھری ہوئی مٹی کی طرح اسے اپنی زندگی بھی بکھری ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
ناز آج ہی ترکی سے واپس لوٹی تھیں۔۔۔۔
مما بھائی ہاسپٹل گئے ہیں۔۔۔اس نے انہیں بتانا مناسب سمجھا۔
وہ کیوں؟؟؟انہوں نے پریشانی سے پوچھا
مما حرمت کے بیٹے پیام کی طبیعت ٹھیک نہیں اسے لے کر ہی وہ کافی الجھے ہوئے ہیں ان دنوں ۔۔۔
کیوں کیا ہوا پیام کو؟؟؟
مما یہ تو مجھے بھائی نے بتایا ہی نہیں ۔۔۔
تم نے پوچھنا تو تھا اس سے
بس مما بھائی کو پریشان دیکھ کر حوصلہ ہی نہیں ہوا ان سے پوچھنے کا۔۔۔۔
میرے پیچھے تم نے اس کا خیال رکھا بہت بہت شکریہ میری پیاری بیٹی کا انہوں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔۔۔۔
مما اس میں شکریہ والی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض ہے آپ کی غیر موجودگی میں بھائی کا اور گھر کا خیال رکھنا۔۔۔۔
اس کی غلافی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟انہوں نے اس کی تھوڑی کو چھو کر پیار سے پوچھا۔۔۔۔۔
Mamma I love you so much.....
اس نے نم لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
مما بھی تم سے بہت پیار کرتی ہے۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنی پوروں سے اس کے آنسو پونچھے۔۔۔۔
مما آپ نے اور بھائی نے کبھی بھی مجھے احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں آپ کی سگی بیٹی نہیں ہوں۔۔۔
مجھے کچھ بھی نہیں یاد کہ میرے ماں باپ کون تھے ۔۔۔
جب سے ہوش سمبھالا بس آپ کو ہی اپنی ماں کے روپ میں پایا۔۔۔۔
سچ میں مما اگر میری حقیقی ماں بھی ہوتی تو وہ بھی شاید مجھے اتنا پیار نا کرتی جتنا آپ کرتی ہیں۔
آپ ضرور میری کوئی نیکی کا صلہ ہیں یا خدا داد تحفہ۔۔۔۔
اس نے ممنون لہجے میں کہا۔۔۔۔
اگر بابا مجھے میری شادی پر نا بتاتے تو مجھے کبھی پتہ نا چلتا کہ میں آپ کی سگی اولاد نہیں۔۔۔
جس دن تم پیدا ہوئی اسی دن تمہارے والدین کی ایک حادثے میں ڈیتھ ہوگئی ۔۔۔۔
فلک نے بتایا تھا کہ تمہارے والد ان کے اچھے دوست تھے ۔۔۔۔
بس جاتے ہوئے وہ تمہاری ذمہ داری انہیں دے گئے۔۔۔۔
تو وہ تمہیں یہاں میرے پاس چھوڑ گئے۔۔۔۔
میرے پاس بیٹا تو تھا مگر بیٹی کی کمی تھی جو تم نے پوری کردی ۔۔۔۔
آئندہ کبھی بھی کوئی الٹی سیدھی سوچ اپنے دماغ میں مت لانا ۔۔۔۔
تم میری ہی بیٹی ہو آئی بات سمجھ میں۔۔۔۔
انہوں نے پیار بھرے انداز میں سرزنش کی۔۔۔۔
اور اوزیم بھی تو سب کچھ جاننے کے باوجود بھی تم سے کتنا پیار کرتا ہے۔۔۔۔
اس نے کبھی بھی تمہیں محسوس ہونے دیا کہ تم اس کی سگی بہن نہیں۔۔۔۔
اس نے ڈبڈبائی نظروں سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
بھائی تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنی ہر بات بھی مجھ سے شئیر کرتے ہیں ۔۔۔
او ۔۔۔۔ہاں۔۔۔مما ایک ضروری بات یاد آئی اس نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا ؟
انہوں نے حیرانگی سے پوچھا
پلیز مما مان جائیے گا۔۔۔اس نے منت بھرے انداز میں کہا
بات تو بتاؤ ۔۔۔پہلے منوانے کا کیا چکر ہے....
انہوں نے تشویش بھرے لہجے میں استفسار کیا۔۔۔۔
مما بھائی حرمت سے ۔۔۔۔
وہ تھوڑا بولی پھر تھوڑا سا رکی۔۔۔
پوری بات بتاؤ افرس؟۔۔۔۔۔
بھائی حرمت سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔
کیا؟؟؟؟انہوں نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا
مما پلیز مان جائیے نا۔۔۔اس نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر انہیں منانے کے لیے کہا
مجھے بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟؟؟؟
مگر کہیں وہ یہ سب اپنی دوست کی ہمدردی میں آکر تو نہیں کر رہا ہے؟؟؟
آخر کار انہوں نے دل میں امڈنے والے سوال کو الفاظ کا روپ دے ہی دیا۔۔۔۔
نہیں مام مجھے تو نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہے
شاید بھائی اسے پسند ۔۔۔۔اس نے ڈرتے ڈرتے جھجھک کر کہا۔۔۔۔
اگر اوزیم کو حرمت میں کوئی انٹرسٹ تھا تو اس نے مجھے کبھی کچھ کیوں نہیں بتایا۔۔۔۔
مما بھائی نے ابھی بھی آپ سے کچھ نہیں کہا انہوں نے اپنی بات ان ڈائریکٹلی آپ سے کہنے کے لیے میرا سہارا لیا۔
انہوں نے ہی مجھے کہا کہ میں آپ سے بات کروں تاکہ آپ حریم خالہ سے اس سلسلے میں بات کریں۔۔۔
اوزیم نے حرمت سے پوچھا؟؟؟؟
نہیں مما وہ کہہ رہے تھے کہ وہ ان سے بات نہیں کریں گے۔آپ ہی خالہ سے ڈائیریکٹ بات کریں۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں موقع دیکھ کر بات کروں گی تحریم سے۔۔۔۔
او ۔۔۔۔مما آپ کتنی اچھی ہیں وہ ان کی بات سن کر فرط مسرت سے ان کے گلے لگی۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
مس حرمت آپ کا بلڈ سیمپل پیام سے میچ تو کرگیا ہے مگر آپ تو خود انیمیا پیشنٹ ہیں۔
آپ میں تو خود خون کی کمی ہے آپ یہ نہیں کر سکتیں۔۔۔۔
ڈاکٹر نے حرمت کو دیکھتے ہوئے قطعی لہجے میں کہا۔۔۔۔
میرا میچ نہیں کیا؟؟؟میرا لے لیں
حریم ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی
نہیں میڈم آپ کا میچ نہیں ہوا۔۔۔۔۔
مگر۔۔۔۔۔وہ کچھ کہتے ہوئے اچانک رکے۔۔۔۔
مگر کیا ڈاکٹر ؟؟؟؟
پاس بیٹھے ہوئے اوزیم نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
آپ کا میچ کر گیا ہے آپ ہیلتھی ہیں اس لیے آپ دے سکتے ہیں۔۔۔اگر دینا چاہیں تو۔۔۔۔
مجھے کوئی اعتراض نہیں اوزیم خان نے ایک بھی لمحہ ضائع کیے بنا کہا۔۔۔۔
آپ کی انفارمیشن کے لیے بتا دوں کہ آپ میں سے گودا انجیکٹ کر کہ پیشنٹ میں ٹرانسفر کیا جائے گا ۔۔۔
اس آپریٹ کے بعد آپ کو بھی مکمل ریسٹ کی ضرورت ہوگی۔
کافی احتیاط کرنی ہوں گی۔۔۔۔
ٹھیک ہے ڈاکٹر آپ آپریشن کی تیاری کروائیں میں تیار ہوں ۔۔۔۔اوزیم خان نے ٹھوس لہجے میں کہا۔۔۔۔
حرمت نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
مگر اوزیم اس کی طرف دیکھنے سے مکمل گریز برت رہا تھا۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
ناز بھی ہاسپٹل آچکی تھی۔
حریم اور حرمت دونوں سے ملی پھر پیام سے۔۔۔۔
خالہ جانی مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔حرمت نے نرم نگاہوں سے ناز کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے بھی تم سے کچھ بات کرنی ہے مگر پہلے تم بتاو؟
نہیں خالہ جانی پہلے آپ بتائیں؟؟؟اس نے اصرار کیا
آپ دونوں ہی پہلے میری بات سنیں....حریم نے ان دونوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم آپریٹ کے لیے چلا گیا ہے۔۔۔۔
کیا؟؟؟؟دونوں کے منہ سے بے ساختہ بیک وقت نکلا۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔
خالہ جانی مجھے آپ سے یہی بات کرنی تھی مفن ۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے اوزیم پیام کو ڈونر دے رہا ہے اور میری بات نہیں مان رہا۔۔۔۔
آپ دیکھ لیں کیا کرنا ہے آخری بات پر اس نے اپنی انگلیاں چٹخاتے ہوئے سر جھکا کر کہا۔۔۔۔
حرمت اللہ تعالی پر بھروسہ رکھو اور پیام اور اوزیم دونوں کے لیے دعا کرو کہ سب ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔
آؤ ہم تینوں مل کر ان دونوں کے لیے دعا کرتے ہیں۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
یہ اوزیم خان کے پاکستان کا کا ٹور کچھ زیادہ لمبا نہیں ہو گیا؟؟؟
اس نے سوچنے کے انداز میں پیشانی پر پڑیں لکیروں کو مسلتے ہوئے پر سوچ انداز میں کہا
ہممم۔۔۔۔
عماد نے یک لفظی جواب دیا اور لیپ ٹاپ پر جھکے ہوئے اپنا کام اکاؤنٹس کا ڈیٹا پھر سے ایک بار ری چیک کرنے لگا۔۔۔۔
تم میں بھی اس اوزیم خان کے ساتھ رہتے رہتے اس کی ہی روح حمائل کر گئی ہے۔۔۔۔
جب بھی دیکھو اسی کی طرح کام میں مصروف۔۔۔۔۔
اس نے طنزیہ لب و لہجے میں کہا
عماد نے لیپ ٹاپ بند کرتے اپنی نظریں اس کی جانب مرکوز کیں۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔اس نے گہری سانس لی۔۔۔۔
جی اب فرمائیے۔۔۔۔۔اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو باہم پیوست کرتے ہوئے کہا۔۔۔
میڈم جی ان کی غیر موجودگی میں سب کام مجھے ہی سنبھالنا ہے ۔زمہ داری ہے میری۔۔۔۔
ان کے آنے پر جواب دہ ہوں گا۔۔۔۔
اور دوسری بات آپ کو ہم جیسے غریب غربا لوگوں میں کیا توجہ؟؟؟؟
ویسے اگر آپ ایک اشارہ کریں تو جان بھی حاضر ہے آپ کے لیے۔۔۔۔اس نے فوراً سے ٹون بدلتے ہوئے زراشوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
فضول بکواس کروا لو جتنی بھی ہو سکے تم سے ۔۔۔اس نے اپنے فاروڈ کٹ ہیر سٹائل کو ایک ادا سے جھٹکتے ہوئے مغرورانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
مجھے دو ٹکے گھٹیا ڈائیلاگز کبھی بھی امپریس نہیں کرسکتے۔۔۔۔سمجھے تم۔۔۔
وہ یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی۔۔۔۔
ہاں دو گھڑی تم سے بات کیا کر لی ، اپنی اوقات نا بھولا کرو۔۔۔۔
ہہنہہ۔۔۔۔
Poor people........
وہ ہونٹوں کو گول گھماتے ہوئے تلخ لہجے میں بولی
وہ کیبن سے باہر نکلنے لگی تو عماد نے برق رفتاری سے دروازے کے قریب پہنچ کر اس کاباہر جانے کا راستہ روکا۔۔۔۔
یہ کیا بدتمیزی ہے؟؟؟؟
وہ اس کی حرکت پر جھنجھلا کر تیز آواز میں بولی۔۔۔
ہٹو راستے سے۔۔۔۔۔
اس نے اس کو شانے سے دھکیل کر پیچھے ہٹانا چاہا۔۔۔۔
اور اگر نا ہٹوں تو؟؟؟؟
وہ بھی آج اپنی ضد پر ڈٹ چکا تھا۔۔۔۔
لگتا ہے تم مجھے ابھی ٹھیک سے جانتے نہیں کہ کون ہوں میں۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا
کومل ۔۔۔۔کومل گردیزی ہوں میں میرے پاپا کی ایک کال پر
تم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے۔۔۔۔
۔تمہارا نام و نشان تک نہیں ملے گا کسی کو ڈھونڈنے سےبھی
آئی بات سمجھ میں؟؟؟؟
سب سمجھ میں آتا ہے میری ۔۔۔،تمہاری طرح آنکھوں سے اندھا اور دماغ سے پیدل نہیں ہوں میں۔۔۔۔۔۔
عماد نے یہ کہتے ہوئے اس کی نازک سی کمر پر اپنا بھاری ہاتھ رکھ کر اسے اپنے سے قریب کیا۔۔۔۔۔
تمہاری اتنی ہمت ۔۔۔۔you cheepster
کومل نے اپنا ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔۔
عماد نے چابک دستی سے اس کے ہاتھ کو اپنے دوسرے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔۔
نا ۔۔۔نا۔۔۔مس کومل ۔۔۔۔اپنے ان کومل ہاتھوں پر اتنا ظلم مت کیجیے۔۔۔۔
یہ دل برداشت نہیں کر پائے گا اس نے کومل کا وہی ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے ہوئے خمار زدہ آواز میں کہا۔۔۔۔
اس کی انگلیاں کومل کو اپنی کمر میں دھنستی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔
چھوڑو مجھے ورنہ۔۔۔۔۔اس نے اپنی پوری قوت لگائی خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانے کے لیے۔۔۔۔
ورنہ کیا؟؟؟؟عماد نے آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔۔۔
بے شک وہ کتنی ہی بولڈ کیوں نا تھی مگر پہلی بار وہ کسی لڑکے کے اتنے قریب تھی۔۔۔
اوزیم سے وہ کتنا بھی فری ہونے کی کوشش کرتی تھی مگر وہ کبھی بھی اس پر توجہ ہی نہیں دیتا تھا۔۔۔۔اور اس سے دور بھاگتا تھا۔۔۔۔
مگر عماد کو یہ اتنا قریب دیکھ کر اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رہ گئی تھی۔۔۔۔
عماد نے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے بالکل قریب ترین کیا۔۔۔۔
اتنا کہ دونوں کی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے کو جھلسا
رہی تھیں۔۔۔۔کومل نے کبوتر کی طرح آنکھیں زور سے میچ لیں۔۔۔۔
عماد نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔۔۔۔
وہ گرتی گرتے بچی۔۔۔اس نے خود کو بمشکل سنبھالا۔۔۔۔۔۔
عماد تم سے پیار کرتا ہے اور جس سے پیار کیا جائے اس کی عزت اسے اپنی جان سے بھی عزیز ہوتی ہے۔۔۔۔
وہ دن دور نہیں جب تم خود مجھ سے اپنی محبت کا اعتراف کرو گی۔۔۔۔۔
اس نے سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔
دیکھ لو خواب جتنے دیکھنے ہیں کیونکہ ایسا حقیقت میں تو ہونے سے رہا۔۔۔۔
وہ زہر خند لہجے میں تنفر سے بولی۔۔۔۔۔
میں صرف و صرف اوزیم خان سے پیار کرتی ہوں اور شادی بھی اسی سے کر کہ رہوں گی۔۔۔۔وہ انگلی اٹھا کر کہتے ہوئے وہاں سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔
عماد دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ کر اپنی کرسی پر بیٹھتا چلا گیا۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
وہ ناقابل یقین آنکھوں سے سامنے مشینوں میں جکڑے ہوئے بے حس و حرکت پڑے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں سانس لیتے ہوئے اس نیم بے ہوش وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
ایک طرف اس کا بیٹا تھا تو دوسری طرف اس کے بچپن کا دوست۔۔۔۔۔
دونوں ہی اس کی زندگی کے اہم ترین شخصیات۔۔۔۔۔
کل کا کامیاب آپریشن ہونے کے بعد دونوں کو ہوش تو آچکا تھا مگر ابھی بھی وہ دوائیوں کے زیر اثر نیم بے ہوش تھے۔۔۔۔
اسے جریر سلطان کی یاد آئی ۔۔۔۔سب کچھ تو آپ میرا اپنے ساتھ لے گئے۔۔۔
میرا چین و سکون،میرا ہمت و حوصلہ۔۔۔۔آپ کے بغیر یقین مانیے میرا کچھ بھی نہیں اس دنیا میں اگر ہمارے بچے نا ہوتے تو میں بھی کب کی آپ کے پاس آچکی ہوتی۔۔۔۔
آپ مجھے تنہا یہ ذمداریاں سونپ کر خود کہاں چلے گئے؟؟؟؟
اس نے درگوں حالت میں کرب زدہ آواز میں کہا جو مشکل سے ہی اس کے خود کے کانوں نے سنا۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی۔۔۔۔اس کے ساتھ بیتے ہوئے دن، لمحے، منظر سب پوری جزیات سے زندہ ہو کر رہ گئے۔۔۔۔۔
چوکو لاوا !!!!!!
اس کی بھاری شاید دوائیوں کے زیر اثر بوجھل آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔
حرمت نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
اس نے اپنا کینولا لگا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
حرمت نے حیران نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
آخر وہ کیا چاہتا تھا؟؟؟؟
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔
نہیں میں اس کے بارے میں کچھ بھی غلط نہیں سوچوں گی۔۔۔
شاید اب تک میرے ساتھ جتنے بھی واقعات بیت چکے ہیں ان کے باعث میں اسے بھی غلط سمجھ رہی ہوں۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوئی وہیں کھڑی رہی ۔۔۔۔
تم نے جو کیا میں اس کا احسان تو نہیں اتار سکتی مگر ۔۔۔۔۔
مگر کیا؟؟؟؟؟
وہ نقاہت زدہ آواز میں ہمت مجتمع کیے بولا۔۔۔۔
اس علاج پر جتنی بھی رقم خرچ ہوئی ہے وہ سب میں چکا دوں گی۔۔۔۔۔۔
اوزیم نے اس کی بات سن کر کرب سےآنکھیں موند لیں۔۔۔۔
کچھ توقف کہ بعد بولا۔۔۔۔
پہلی والی بات جو تم نے کہی۔۔۔اس کا بدلہ تم اتار سکتی ہو۔۔۔۔
حرمت نے اس کی بات پر غور کیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد یاد آتے ہی بولی
وہ کیسے؟؟؟؟
بس تمہاری مما جو تم سے بات کہیں ان کی بات مان جانا ۔۔۔۔
سمجھ لینا جو میں نے کیا تم نے ہاں کہہ کر اس کا بدلہ چکا دیا۔۔۔۔
کس چیز پر ہاں؟؟؟؟اس نے کشمکش میں مبتلا ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔۔
وہ تمہیں وہی بتائیں تو زیادہ بہتر ہوگا بجائے کہ میں بتاؤں۔۔۔۔
اس نے بند آنکھوں سے ہی اپنی بات کہی۔۔۔۔
وہ روم سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
پیام اور اوزیم دونوں کافی حد تک بہتر ہو چکے تھے۔۔۔
ڈاکٹر نے ان دونوں کو ابھی صاف ستھرے ماحول میں رہنے کی ترغیب دی کیونکہ زرا سی بھی انفیکشن ان کے لیے مضر ثابت ہو سکتی تھی۔۔۔۔۔
حریم اور ناز دونوں ڈاکٹر سے ابھی ابھی مل کر آئیں تھیں۔۔۔۔
حریم جس جگہ تم لوگ رہتے ہو وہ جگہ پیام کی صحت کے لیے ٹھیک نہیں اتنی مشکل سے تو پیام ٹھیک ہوا ہے ہمیں مزید کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔۔۔۔انہوں نے ناصحانہ انداز میں کہا۔۔۔
ٹھیک کہا آپا آپ نے۔۔۔۔حریم بولی
ایسا کرو تم سب ہمارے گھر شفٹ ہو جاؤ ۔۔۔۔
مگر آپا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ حریم کچھ کہتی۔۔۔
حریم ہم سب پہلے بھی تو ایک ساتھ رہتے تھے تو اب کیا مسلہ ہے؟؟؟؟
مجھے زرا بھی علم ہوتا نا کہ وہ وشمہ تمہارے ساتھ ایسا برتاؤ کرے گی تو میں کبھی بھی تمہیں اور حرمت کو وہاں اکیلا نہیں چھوڑتی۔۔۔۔
بس آپا شاید یہ سب ہونا بھی مقدر میں لکھا
تھا۔۔۔۔۔
انہوں نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا
بس اب مجھے دوسری کوئی بھی بات نہیں سننی تم اپنا سامان لے آؤ گھر سے پھر ہم سب ساتھ رہیں گے۔۔۔۔
ٹھیک ہے آپا۔۔۔اور بہت بہت شکریہ ۔۔۔وہ فرط جذبات سے ان کے گلے لگی۔۔۔۔
ناز نے بھی اس کے گرد ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ کا یقین دلایا۔۔۔۔
حریم مجھے تم سے ایک بات کرنی ہے حریم کے پیچھے ہٹتے ہی ناز نے کہا۔۔۔۔
جی بتائیں آپا کیا بات ہے ؟؟؟
وہ دراصل۔۔۔۔۔۔وہ کہتے ہوئے رکیں۔۔۔۔
آپا ایسی کونسی بات ہی جسے کہنے سے پہلے آپ اتنا ہچکچا رہی ہیں۔۔۔۔۔
کہیے نا کیا بات ہے؟؟؟حریم نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔
حریم دیکھو برا مت منانا ۔۔۔۔
نہیں آپا آپ کہیے کیا پہلے کبھی میں نے آپ کی کسی بھی بات کا برا منایا ہے جو اب مناؤں گی۔۔۔۔
میں چاہتی ہوں کہ اوزیم اور حرمت کا نکاح کردیں۔۔۔۔
حرمت کے ساتھ ساتھ پیام اور پریشے بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہمارے ساتھ رہیں۔۔۔۔
حریم نے حیران نظروں سے انہیں دیکھا۔۔۔۔
آپا ۔۔۔۔۔
کیوں کیا ہوا ؟؟؟میری صلاح اچھی نہیں لگی۔۔۔
آپا آپ نے یہ سوچا میرے لیے اس سے بڑی خوشی کی بات اور کیا ہوگی۔۔۔۔
بچوں کو بھی باپ کا سایہ میسر ہو جائے گا۔۔۔اس زیادہ اور کیا چاہیے۔۔۔۔
تم حرمت سے پوچھ لو پہلے۔۔۔۔۔
جی آپا میں بات کروں گی اس سے۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
ناز اور افرس دونوں پیام اور اوزیم کے پاس ہسپتال میں رکی تھیں ۔۔۔۔
جبکہ حریم اور حرمت دونوں گھر آئیں تھیں ۔۔۔
پہلے تو حرمت نے وہاں جانے کی نفی کی۔۔۔۔
مگر پھر حریم نے اسے سمجھایا کہ اماں بی کے محلے والے اب انہیں وہاں سے مزید ذلیل کر کہ وہاں سے نکالیں ہمیں خود ہی وہاں سے عزت سے نکل جانا چاہیے ۔۔۔
مگر اماں ہم جب غلط نہیں تو ہم کیوں نکلیں وہاں سے ؟؟؟؟
اس طرح ہمارے وہاں سے نکلنے سے تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ ہم ہی غلط تھے۔۔۔۔
حرمت تم سمجھتی کیوں نہیں؟؟؟؟
یہ دنیا تنہا عورت کو چین سے جینے نہیں دیتی۔۔۔۔
اور ایک سب سے اہم بات جو میں تم سے کرنا چاہتی تھی وہ یہ ہے کہ میں اور آپا چاہتے ہیں کہ تمہارا اور اوزیم کا نکاح کر دیا جائے۔۔۔
ان کی بات سن کر تو وہ آپے سے باہر ہو گئی۔۔۔
مما اس طرح کی بات آپ نے سوچ بھی کیسے لی؟؟؟؟
وہ صرف میرا دوست ہے اس سے بڑھ کر اور کچھ بھی نہیں۔۔
آپ کو شاید یاد نہیں میں کسی کی منکوحہ ہوں۔۔۔۔اس نے بلند آواز سے انہیں باور کروایا
منکوحہ ہو نہیں تھی۔۔۔۔۔انہوں نے بھی اتنی ہی بلند آواز میں 'تھی 'پر زور دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ اندر کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔۔
حرمت اماں بی کی گود میں سر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔
سن رہی ہیں نا اماں بی مما مجھے کیا کہہ رہی ہیں ۔۔۔۔
یہ مجھ سے شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی دوسری شادی کرنے کا کہہ رہی ہیں۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھی لڑکھڑانے لگی۔۔۔۔
حرمت بیٹا جب پہلا شوہر دنیا سے رخصت ہو جائے تو بیوہ دوسری شادی کر سکتی ہے ایسا ہمارے مذہب میں جائز ہے بیٹا۔۔۔
انہوں نے اس کے سر کے بالوں کو اپنے جھریوں زدہ ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
بیٹا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر مرد عورت سے چھ ماہ دور رہے وہ آپس میں نا ملیں مطلب ہمبستر نا ہوں تو ان کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
حلانکہ کہ یہ بالکل غلط بات ہے شوہر چاہے بیوی سے سو سال بھی دور کیوں نا رہ لے بیوی اس کے نکاح میں تب تک رہتی ہے جب تک وہ اس کو خود طلاق نا دے
یا پھر بیوی اس سے خلع نا لے۔۔۔۔
جو پیسے لے کر طلاق دی جائے اسے خلع کہتے ہیں اور جو بغیر مال کے ہو اسے صرف طلاق کہتے ہیں۔
مگر اماں بی مجھے کیوں لگتا ہے کہ وہ زندہ ہیں وہ ضرور واپس آئیں گے؟؟؟؟
اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا
بیٹا وہ شہید ہوا ہے اور شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اسی لیے تمہیں ایسا لگتا ہے۔۔۔۔۔
مگر پھر بھی اگر تمہارے من میں کوئی بات ہے تو تم نکاح کرنے سے پہلےکورٹ سے رجوع کرو دیکھو وہ لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔۔۔۔
پھر جو تمہیں ٹھیک لگے تم وہی کرنا۔۔۔۔
ہممممم۔۔۔۔اس نے دھیرے سے سوچتے ہوئے کہا۔۔۔
حرمت !!!!!
انہوں نے اسے پکارا۔۔۔
جی ۔۔۔وہ سوچوں کے گرداب سے باہر نکلی۔۔۔
اپنے سے زیادہ اپنے بچوں کے بارے میں سوچنا پھر ہی کوئی فیصلہ لینا۔۔۔۔
تمہارے بچوں کے اچھے مستقبل کے لیے اس سے بہتر اور کوئی راستہ نہیں۔۔۔۔
یہ جو تم سڑکوں پر خوار ہوتی پھر رہی ہو تمہیں بھی عزت ملے گی اور تمہارے بچوں کو پیار اور باپ کا سایہ ۔۔۔۔۔
اماں بی......
اس نے کھوئے ہوے لہجے میں کہا.....
عورت کا دل اک ایسا مکان ہے جس میں جب کوئی ایک شخص بسیرا کر لے تو وہ مکان اسی شخص کے نام لکھ دیتی ہے۔
اگر وہ شخص مر جائے یا چھوڑ کر چلا جائے تو عورت کا دل ایک آسیب زدہ مکان بن جاتا ہے۔
جس میں جانے والے کی روح تو بھٹکتی رہتی ہے۔
اور آسیب زدہ گھروں میں کسی نئے شخص کا بسیرا بہت مشکل ہے۔
جبکہ مرد کا دل ایک ایسا مکان ہے جو نئے نئے لوگوں کو کرایے دار کی طرح جگہ دیتا یے۔
جو وقت آنے پر اپنا مکین بدلتا رہتا ہے۔
جوں جوں عمر گزرتی ہے اگلا مکین اس کے دل میں خوشنما مقام پاتا رہتا ہے۔
جبکہ
عورت کی فطرت میں وفا شامل ہے ۔
میں ان سے بے وفائی کیسے کروں؟؟؟؟
اس کے لہجےمیں ٹوٹے ہوئےکانچ کی چھنک تھی۔۔۔۔۔
پھر بھی ایک بار سوچنا ضرور۔۔۔۔
انہوں نے حرمت کو نئی سوچوں کے بھنور میں الجھا دیا۔۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
"واہ کیا خوشبو ہے.." افرس صبح جب کمرے سے باہر نکلی تو پورے گھر میں تازہ ترین بنے مفن کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی..
"لگتا ہے کوئی ماسٹر شیف غلطی سے ہمارے اس غریب خانے میں گھس آیا ہے.." اس کا انداز چھیڑنے والا تھا..
"بکواس بند کرو اور ناشتہ اسٹارٹ کرو.." وہ جو اوون کے پاس کھڑی مفن بیکنگ ٹرے میں سے نکال رہی تھی افرس کی آواز پر مسکراکر بولی..
"ہائے لگتا ہے آج میں خوب پیٹ بھر کر ناشتہ کرنے والی ہوں.." حرمت کے ہاتھ سے ٹرے لے کر اس نے ایک لمبی سانس کھینچ کر اس دلفریب خوشبو کو اپنے اندر اتارا..
یہ تمہارے لیے نہیں ہیں میری سویٹ سی بہنا۔۔۔
حرمت نے واپس اس کے ہاتھ سے ٹرے اچکائی۔۔۔۔
پھر کس کے لیے؟؟؟افرس نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
واہ بھئی واہ اپنی اس کیوٹ سی دوست کو بھول گئی اور بھیا سے پرانی دوستی نبھائی جا رہی ہے ۔۔۔اس نے مصنوعی خفگی چہرے پر سجاتے ہوئے منہ پھلا کر کہا۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں دراصل اس نے پیام کے لیے اتنا کیا ہے ۔۔۔اسی لیے بس میں نے سوچا اتنے دنوں سے پرہیزی غذا کھا کر اکتا گئے ہوں گے تو کچھ ان کی پسند کا بنا لوں بس اسی لیے۔۔۔۔
اوئے۔۔۔۔بس۔۔۔بس۔۔۔بس۔۔۔یہ تم مجھے اتنی لمبی چوڑی کلیریفیکیشن کیوں دے رہی ہو۔۔۔
میں نے تو بس مذاق کیا ہے۔۔۔۔
میں نے تمہارے لیے تمہارے فیورٹ آلو کے پراٹھے بنائے ہیں ۔۔۔۔حرمت بولی
ارے واہ پھر تو زبردست ہے بھئی۔۔۔۔
اس کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔۔
یہ تم کب سے ککنگ میں اتنی ایکسپرٹ ہوئی ؟؟؟؟
افرس نے اس سے پوچھا ۔۔۔
بس کیا بتاؤں زندگی وقت کے ساتھ بہت کچھ سکھا دیتی ہے۔۔۔۔
چھوڑو اسے آو"چلیں یا سونگھ کر ہی پیٹ بھرنا ہے.." پراٹھے کی ٹرے ہاتھ میں لئے وہ کچن سے باہر نکلی تو افرس بھی اس کے ساتھ ہو لی..
"تم نا حرمت اب ہر روز ایسے ہی ٹیسٹی کھانے بنانا.."
ٹیبل پر بیٹھ کر پراٹھے کا لقمہ منہ ڈال کر اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے وہ مزے سے کہا تو حرمت نے منہ بنا کر اسے گھورا.
افرس !!!!!
کچھ توقف کے بعد حرمت نے کہا۔۔۔۔
ہمممم۔۔۔اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔
تمہاری شادی کس سے ہوئی تھی ؟؟؟
تمہارے ہزبینڈ کہاں ہیں؟؟؟؟
اس کے سوال سن کر افرس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں۔۔۔۔۔
I am sorry......
اگر تمہیں برا لگا یا میں نے کچھ غلط پوچھ لیا تو۔۔۔۔۔
حرمت نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر نرمی سے کہا۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ۔۔۔۔
پھر بتاؤں گی کبھی چلو پہلے ناشتہ کرلیں سب ٹھنڈا ہو جائے گا ورنہ۔۔۔۔اس نے بات کو فی وقت ٹال دیا۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
حرمت پیام کے لیے سوپ کا پیالہ ہاتھ میں لیے اندر آئی ۔پیام بستر پر لیٹا ہوا تھا ۔وہ اس کے آگے نیپکن رکھے اسے سوپ پلانے لگی ۔۔۔۔
پیام کی حالت اب پہلے سے کافی بہتر تھی اس کے چہرے کی رنگت بھی دھیرے دھیرے نارمل ہونے لگی تھی ۔۔۔۔
مما بابا کہاں ہیں؟؟؟
وہ مجھے ملنے نہیں آئے۔۔۔۔پیام نے اس سے سوال کیا۔۔۔
حرمت کو پیام کا اوزیم کو بابا بولنا بری طرح کِھلا۔۔۔۔
مگر وہ خود پر ضبط کرتی بولی
ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں وہ آئیں گے آپ سے ملنے آپ زیادہ مت سوچو اور آرام کرو
جلدی جلدی ٹھیک ہونا ہے نا میرے بیٹے نے۔۔۔اس نے پیار بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔توحرمت نے اس کے گال پر پیار دیا۔۔۔
اور دونوں مسکرانے لگے۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐⭐
بابا یہ دیکھیں مما نے آپ کے لیے مفن بنائے ہیں۔۔۔
پری اس کے روم میں اینٹر ہوتے ہی بولی۔۔۔
اس نے ہاتھوں میں مفن سے بھری پلیٹ پکڑی ہوئی تھی۔۔۔
وہ جو بستر پر نیم دراز تھا اسے دیکھ اٹھ کر بیٹھا ۔۔۔۔
سچ سچ بتاؤ کس نے بنائے ہیں؟؟؟اوزیم نے اس کے ہاتھ سے پلیٹ پکڑ کر اپنے پاس رکھی اور پھرپری کو بھی اپنے پاس بٹھایا۔۔۔۔
مما نے سچی۔۔۔گوڈ پرانا سچی۔۔۔اس نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے اپنی پٹر پٹر کرتی صاف آواز میں بتایا۔۔۔
انہوں نے ہی کہا ہے کہ آپ کو دے آوں۔۔۔
وہ خود کہاں ہے ؟؟؟
وہ پیام بھیا کے پاس ۔۔۔اس نے اپنے تئیں اسے ساری تفصیل بتائی۔۔۔
کہیں اس سے خالہ نے بات تو نہیں کرلی جس کی وجہ سے وہ میرے سامنے آنے سے بھی کترا رہی ہے؟؟؟
اس نے دل میں اس کے بارے میں سوچا۔۔۔۔
چلو مل کر کھائیں۔۔۔۔
اوزیم نے اسے پیشکش کی۔۔۔
میں اپنے بابا کو اپنے کیوٹ ہاتھوں سے خود کھلاوں گی۔تاکہ میرے بابا جلدی سے ٹھیک ہو جائیں پھر ہم دونوں گھومنے جائیں گے۔۔۔۔
اس نے مسکا لگاتے ہوئے ایک نئی فرمائش بھی کر ڈالی۔۔۔۔
اوزیم اس کی چالاکی پر ہنسا۔۔۔۔
بالکل ٹھیک کہا میری پرنسس نے ہم سب گھومنے جائیں گے اب آپ کے بابا بالکل ٹھیک ہیں ۔۔۔
سب مل کر کہیں جانے کا پلان بناتے ہیں ۔۔۔
واؤ بابا آپ میرے سب سے پیارے بابا ہیں ۔۔۔اس نے خوشی سے جھومتے ہوئے اس کے گال پر کِسی کی اور پھر اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس سے لپٹ گئی۔۔۔۔
⭐⭐⭐⭐⭐⭐
حریم کو رات سے بخار تھا ,اس لیے حرمت آج آفس بھی نہیں جا پائی تھی.
اس نے چائے بنا کر بمشکل انہیں ناشتہ کروایا
اور پھر اپنےلیے بھی مختصر سا ناشتہ لے کر ان کے قریب آ بیٹھی,
جب سے اوزیم کی حالت میں سدھار آیا تھا اس نے آفس جانا شروع کردیا تھا
اس نے بھی سوچ لیا کہ پیام کی طبیعیت اب پہلے سے کافی بہتر ہے تو وہ بھی اب آفس جائے گی.مگر اپنی مما کی طبیعیت کی خرابی کی وجہ سے وہ آج آفس نہیں جاپائی
حرمت بیٹا پھر کیا سوچا تم نے؟انہوں نے نقاہت زدہ آواز میں پوچھا.
کس بارے میں مما اس نے حیران ہوتے ہوئے کہا...
تم سب جانتی ہو میں کس بارے میں بات کر رہی ہوں .....پھر بھی میرے منہ سے سننا چاہتی ہو تو میں ہی بتا دیتی ہوں ...
اوزیم سے نکاح کے بارے میں ....
اس نے ہاتھ میں موجود چائے کا کپ ایک طرف رکھ کر ان کی طرف دیکھتے ہوئے تلخ لہجے میں گویا ہوئی......
"وہ میرے بیٹے کا علاج کروا کر تاوان وصولنے میں مجھ سے نکاح کرنے کا خواہشمند ہے"
حرمت اپنی زبان کو لگام دو ......یہ کس قسم کی فضول باتیں کر رہی ہو تم اس کے بارے میں؟؟؟؟؟؟
دماغ خراب ہوگیا ہے جو اس قسم کی منفی باتیں سوچ رہی ہو.....
حریم نے بھی اسی کے لب و لہجے میں جواب دیا....
اماں بی نے بتایا تھا کہ تم کورٹ جا کر معاملہ سلجھانا چاہتی ہو........
انہوں نے ایک اور سوال پوچھا..
مجھے کہیں نہیں جانا اور نا ہی کچھ کلیئر کرنا ہے.
جسے یہ نکاح رچانے کی آگ لگی ہے وہی سلجھائے.......
اور ہاں مجھ سے دوبارہ کوئی بھی اس سلسلے میں بات نا کرے....
وہ پہلی بار خاصی بدتمیزی کا مظاہرہ کر گئی.....جو اس کی شخصیت کا کبھی خاصہ نا تھا.
دروازے سے داخل ہوتی ہوئی ناز نے شاید ان کی باتیں سن لیں تھیں.....
حرمت نے ان پر ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی اور ناشتے کے برتن سمیٹ کر وہاں سے باہر نکل کر کچن کی طرف بڑھ گئی..........
سنک میں موجود برتنوں کو دھونے لگی......
وہاں موجود ملازماوں نے اسے بہت روکا......
مگر وہ ان سنی کرتی اپنے کام میں مگن رہی....
جیسے وہ یہاں ہو کر بھی یہاں نہیں تھی.
اس کا دماغ کہیں اور ہی پہنچا ہوا تھا.......
میں اوزیم سے کہتی ہوں آج وہ تمہیں ہاسپٹل لے جائے.......
ناز نے حریم کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کا بخار چیک کرتے ہوئے کہا.....
نہیں آپا میں نے میڈیسن لیں ہیں .اب میں ٹھیک ہوں ...ہسپتال جانے کی کوئی ضرورت نہیں....بس حرمت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پریشان ہوں......
میں اس کی بے وقوفی میں اس کا ساتھ ہر گز نہیں دوں گی.....
ٹھیک کہہ رہی ہو....میں اوزیم سے بات کرتی ہوں تاکہ وہی کسی وکیل سے مشورہ کر کہ اس بات کا کوئی حل نکالے....ناز نے کہا....
بس اب تم بے فکر ہو جاو اور اپنی صحت پر توجہ دو.....
بیماری کو نظر انداز کرنے سے بیماری ختم نہیں ہو جاتی.....
اس کا علاج کروانا پڑتا ہے....میری مانو تو آج اچھی طرح چیک اپ کرواو....
ٹھیک ہے آپا جیسا آپ کہیں....انہوں نے آزردگی سے کہا......
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
آفس کے کیبن کے باہردستک سن کر جہاں اس کی آنکھوں میں چمک ابھری تھی وہیں ہونٹ معنی خیزی سے مسکرا اٹھے تھے..
"کم اِن۔۔" تھوڑے وقفے کے بعد وہ سیدھا ہوتا ہوا بولا۔۔ لہجے میں بے پناہ سنجیدگی تھی..
"سر آپ کی کافی.." کافی کا مگ اس کے سامنے رکھتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی.. لہجے سے اعتمادی ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی تھی..
اوزیم نے ایک نظر اسے دیکھ کر مگ اٹھا کر لبوں سے لگایا.. ابھی اس نے پہلا گھونٹ لیا ہی تھا کہ وہ واپس جانے کے لئے مڑ گئی..
"آپ کے علم کے لئے میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں ٹھنڈی کافی نہیں پیتا ،اور مجھے بلیک کافی چاہیے مس حرمت.." اس کی بات پر حرمت نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا جو مگ ٹیبل پر پٹخنے کے انداز میں رکھ چکا تھا..
"جی سر..؟" ناسمجھی سے اسے دیکھا..
"آپ شاید اپنے خیالات میں اتنی محو تھیں کہ کافی ٹھنڈی ہو چکی ہے.. دوبارہ بناکر لائیں.." اس کا انداز تھوڑاسخت تھا ..
حرمت نے سرعت سے مگ اٹھایا اور دروازے کے قریب جاکر دھیمی آواز میں کچھ بولی تھی.. انداز بڑبڑانے والا تھا۔۔۔۔
نخرے ہی ختم نہیں ہوتے جناب کے۔۔۔
"مس حرمت آپ کو اسی کام کی پے دی جاتی ہے." اس کی سخت آواز پر اس نے گڑبڑا کر ایک لمحے کے لئے پیچھے دیکھا۔۔۔
اف سن لیا۔۔۔۔۔ خود کو ملامت کرتی تیزی سے باہر نکل گئی..
تھوڑی دیر بعد جب وہ دوبارہ کافی لے کر آئی تو اوزیم خان کو آفس کے فائلز ریک کے پاس کھڑے دیکھا..
"سر کافی.."
"بلیک کافی..؟" ریک میں موجود فائلوں پر نظریں جمائے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں بولا..
"جی بنائی تو بلیک کافی ہی ہے اب پتا نہیں آپ کو کیسی لگے.."
اوزیم نے ایک نظر اسے دیکھا اور آگے بڑھ کر مگ اٹھا لیا..
حرمت سر اٹھائے اسے ایسے دیکھ رہی تھی ۔۔
"ہممم.. پہلے سے تو بہتر ہے.."
"ایسا کیجئے مس حرمت ریک میں سے ہمدانی کنسٹرکشنز کی فائل ڈھونڈ کر دیجیۓ.."
"جی سر.." سر ہلاکر وہ ریک کی طرف بڑھی اور بڑے دھیان سے ایک ایک فائل کو نکال کر دیکھنے لگی جبکہ وہ اپنی چوکو لاوا کے ہاتھوں سے بنی گرما گرم بھانپ اڑاتی بلیک کافی کامزہ لیتااسے ہی دیکھ رہا تھا جو اس کی نظروں سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھی..
اوزیم کے دیکھنے کے انداز سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل تھا کہ اس کے اندر کیا چل رہا ہے.. آنکھیں جذبات سے پُر تھیں جبکہ چہرہ سخت...
"یہاں پر تو نہیں ہے سر کوئی اس نام کی فائل.." اس کی بات پر وہ سیدھا ہوا تھا..
"تو اوپر والے ریک میں دیکھ لیں.."
حرمت نے سر اونچا کرکے اس ریک کی طرف دیکھا جو اس کی پہنچ سے کافی دور تھا پھر آس پاس کسی اسٹول کی تلاش میں نظریں دوڑائیں جس پر چڑھ کر وہ اس ریک تک پہنچ سکے..
"ادھر ادھر کیا دیکھ رہی ہیں..؟"
"سر وہ ریک کافی اونچا ہے میں وہاں تک نہیں پہنچ پاؤں گی.." اوزیم خان نے ایک بھرپور نظر سے اسے دیکھا جس کا قد واقعی اتنا زیادہ نہیں تھا کہ اوپر والے ریک تک اس کے ہاتھ جا پائیں..
"تو یہ چئیر لے لیں.." اس نے اپنی چئیر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔
اس سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑا اوزیم خان دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بڑے غور سے اسے دیکھ رہا تھا جو چئیر پر کھڑی ہونے کے باوجود بھی دونوں ایڑیاں اونچی کئے بڑی مشقت سے ایک ایک فائل کو بمشکل سے ان تک پہنچنے والی انگلیوں کی پوروں کی مدد سے فائلز کھینچتی، اس پر ہمدانی کنسٹرکشنز کا نام ڈھونڈتی ۔۔۔مگرپھر مطلوبہ فائل نہ ہونے پر مایوسی سے انہیں دوبارہ ان کی جگہ پر رکھ دیتی.. اس کا یہ مصروف انداز اوزیم کو بہت مزہ دے رہا تھا..
"مل گئی.." تھوڑی دیر بعد وہ جب بولی تو اس کی سانس پھولی ہوئی اور چہرہ سرخ تھا جیسے کوئی پہاڑ عبور کرکے آئی ہو.. نیچے اترنے کے لئے جیسے ہی اس نے پاؤں آگے بڑھایا نہ جانے کیسے ڈِس بیلینس ہوکر وہ لڑکھڑائی۔ فائل ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر آگری اور اس کے ساتھ وہ بھی گر جاتی اگر اسے دیکھتے ہی اوزیم نے پھرتی سے آگے بڑھ کر اسے تھام نہ لیا ہوتا..
فلزہ جو اندر آنے کے لیے اوزیم کی اجازت لینے والی تھی ۔۔۔۔اندر کا منظر دیکھ کر تو گویا اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔
سٹوپڈ ۔۔۔۔جاہل ۔۔۔گنوار ۔۔۔مڈل کلاس لڑکیاں ۔۔۔یہی سب تو چالاکیاں ہیں ان کی بڑے بڑے آفس میں آکر وہاں کے باس کو پھانسنا۔۔۔۔
وہ جل کر بولی ۔۔۔۔
مگر اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ اوزیم اور حرمت دونوں سن چکے تھے۔
"تم ٹھیک ہو..؟" اپنے بازوؤں کی قید سے اسے آزاد کرتے ہوئے اوزیم نے نرمی سے اس سے پوچھا جو اب سیدھی ہوکر اپنا دوپٹہ درست کر رہی تھی جو کہ شانے سے اتر گیا تھا..
"جی.." یک لفظی جواب دے کر وہ اب زمین پر گری فائل اٹھانے کے لئے جھک گئی تھی..فائل اٹھا کر ٹیبل پر رکھی۔۔
"اب آپ جا سکتی ہیں.." فائل اس کے ہاتھ سے لے کر وہ اپنے ٹیبل کی طرف بڑھ گیا تھا جبکہ اس کی طرف سے اجازت ملتے ہی وہ دوپٹہ سنبھالتی خاموشی سے دروازے کی طرف چل دی.
مس فلزہ مائینڈ یور لینگویج۔۔۔۔
دس از یور فرسٹ اینڈ لاسٹ وارننگ۔۔۔
آپ کا شمار قابل ایمپلائیزمیں ہوتا ہے ۔ایسا بیہیوئیر آپ کو سوٹ نہیں کرتا ۔۔۔
Be careful next time۔۔۔
Otherwise ۔۔۔۔
سوری سر ۔۔۔۔میں آئندہ خیال رکھوں گی۔۔۔اس نے جھٹ سے معافی مانگی۔۔۔اپنی بنی بنائی امیج وہ کیسے لمحوں میں غارت ہونے دیتی۔۔۔۔
Sorry....
مجھ سے نہیں مس حرمت سے مانگیں۔۔۔۔
جی سر۔۔۔۔
وہ باہر نکلی تو پیر پٹختی ہوئی اپنی جگہ پر آئی ۔۔۔اسے سوری کرتی ہے میری جوتی ۔۔۔۔
ہنہہہ۔۔۔۔۔۔اس نے تنفر سے اپنے لئیر کٹ ہیرز کو جھٹک کر ہنکارا بھرا۔۔۔۔۔۔
پھر اپنے ٹیبل پر آکر جب تک فلزہ نے اپنے ساتھ لائے پانی کے بوتل سے تین چار گھونٹ پانی اپنی خشک حلق سے نیچے نہ اتارے تب تک اس کے اندر جلتی ہوئی آگ کو سکون نہیں ملا..
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
کوئی بھی نہیں جانتا کہ ہماری زندگی میں آنے والا لمحہ کیسا ہوگا....
مگر پھر انسان سب جانتے بوجھتے ہوئے اپنی آنے والی زندگی کے لیےبہت سے منصوبے بنا لیتا ہے.
بہت سے من موہنے خواب بُن لیتا ہے.
ایسا ہی کچھ افرس نے بھی کیا.....
اس نے اپنے خوابوں کی دنیا میں جریر سلطان کو بسا لیا بنا سوچے سمجھے,کہ اس کا انجام کیا ہوگا......
مگر اس کے مقدر میں شاید جریر سلطان کا ساتھ نا تھا.....
وہ اس کی بہن کے مقدر میں لکھا جا چکا تھا.
"اس نے اپنی دلی خواہشات اور جذبات کا خون کرتے ہوئے .قسمت کے در پر اپنا سر جھکا دیا".....
جب حرمت کی شادی کے بعد ناز اور افرس فلک شیر کے پاس ترکی پہنچے تو وہاں کچھ عرصے بعد فلک شیر نے اپنے ایک جاننے والے دوست کے بیٹے بالاج کے ساتھ اس کا رشتہ طے کردیا.....
آگہیِ محبت کا عذاب کیا ہوتا ہے؟ان لمحات میں وہ بخوبی محسوس کر سکتی تھی.
وہ اپنا دکھ خود جھیل رہی تھی.
اس کے پوشیدہ زخموں پر مرہم رکھنے والا کوئی نا تھا اس کے پاس.
اس کے والدین اس کی شادی کی تیاریوں میں شاداں و فرحاں تھے.ایسے جیسے انہیں ہفتِ قلیم کی دولت مل گئی ہو......
دلہن کے روپ میں ناز اس پر سے بلائیں لیتے ہوئے نا تھک رہی تھیں...
فلک شیر کے چہرے پر بھی اطیمنان تھا.
صرف اوزیم کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا.
سب کے خوشی کے باعث تمتاتے ہوئے چہرے دیکھ کر اس نے بھی حلق میں اٹکا ہوا کانٹا نگلنے کا فیصلہ لےلیا.....
اور اپنی زندگی کو وقت کےدھارے پر بہنے کے لیے چھوڑدیا.....
افرس نے شادی کے بعد گھر کا انتظام سنبھالنا چاہا تو اس کی ساس اسےمنع کر دیا۔۔۔ وہ کبھی اپنے کمرے میں تو کبھی لاؤنج میں ٹی وی دیکھ کے وقت گزارتی ،اس کی ساس اسے کسی بھی کام کو ہاتھ نہ لگانے دیتی۔
بقول ان کے یہی تو چند دن ہیں آرام کرنے کے اور گھومنے پھرنے کے ،تم دونوں انجوائے کرو ،گھر گھرہستی سنبھالنے کو تو عمر پڑی ہے۔
بالاج بھی جب گھر ہوتا تو اس کو سر آنکھوں پر بٹھائے رکھتا ، اسے گا ہے بگاہے اپنی محبت کی شدتوں سے آگاہ کرواتا رہتا،
بالاج اپنی پروموشن کے سلسلے میں زیادہ تر کام میں گزارتا،وہ بھی اپنی نئی زندگی میں مصروف ہو چکی تھی۔
سال بھر میں ہی اس کی گود میں ھاد آگیاتو رہی سہی فارغ الوقتی بھی مصروفیت میں بدل گئی۔۔۔۔۔۔
🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷
کمرہ ء عدالت میں موجود وہ جج صاحب کا حکم سننے کے منتظر تھے،
کٹہرے میں کھڑی حرمت کا رواں رواں ان کے جواب کا منتظر تھا۔
وہی حالت اوزیم خان کی بھی تھی جو سامنے لگی کرسیوں میں سب سے پہلی پر براجمان تھا،
اوزیم حرمت کو آفس کے بعد وہاں سے سیدھا کورٹ لے آیا تھا۔
حرمت کو وہاں آکر ہی علم ہوا تھا کہ اوزیم اپنے طور پر کیس دائر کر چکا ہے۔۔۔۔۔
وہ خاموشی سے سر جھکائے ہوئے اپنی جگہ جامد تھی۔
مس حرمت !
سارے ثبوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ آپ کے نکاح کو چار سال بعد منسوخ کیا جائے گا۔۔۔۔۔
کیونکہ اسلامی اصولوں اور قوانین کے مطابق
"جب کسی عورت کا شوہر گم جائے یا اس کی کسی حادثہ میں موت ہو جائے اور کوئی ٹھوس شواہد نا ملیں تو چار سال تک اس کا انتظار کیا جائے۔۔۔۔
اگر اس مدت کے دوران شوہرکی واپسی نا ہونے کی صورت میں عدالت اس شخص سے عورت کا نکاح منسوخ کر دیتی ہے۔۔۔۔
جسے فصخ نکاح یا تنسیخِ نکاح کہتے ہیں"
جج صاحب کا فیصلہ سن کر اوزیم خان فورا اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔۔
Excuse me Sir.....
معزرت خواہ ہوں درمیان میں بولنے کے لیے
اگر آپ کی اجازت ہو تو میں کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
جج صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بولنے کی اجازت دی۔۔۔۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
آنر ایبل جج صاحب!
اس کے شوہر کو گئے ہوئے آلریڈی ہی تقریبآ چار سال کا عرصہ ہونے والا ہے۔
تو پھر ایسے میں تو کچھ ماہ ہی بچے ہیں مدت پوری ہونے میں،
اوزیم خان کے سوال پر کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔۔۔۔۔۔
جج صاحب نے ایک گہری سانس لی اور اپنی بات کا پھر سے آغاز کیا۔۔۔۔۔
یہ مدت اس شخص کے گم ہونے سے شروع نہیں ہوتی بلکہ جب کورٹ میں کیس دائر کیا جائے تب سے شروع ہوتی ہے۔
جیسے آج اس کیس کا فیصلہ ہوا ہے تو آج سے اس مدت کا آغاز ہوتا ہے۔
آج سے چار سال بعد ہی اس نکاح کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
اوزیم نے آنکھیں میچ کر خود پر ضبط کیا۔۔۔۔
اور ایک نگاہ حرمت پر ڈالی۔۔۔۔
جو کسی بھی احساس سے عاری لگی۔۔۔۔اس کا چہرہ سپاٹ تھا جیسے اسے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
اوزیم خان کے مقدر میں شاید ابھی اور انتظار باقی تھا۔۔۔۔
قسمت اس کے صبر کو ابھی اور آزمانا چاہتی تھی۔
اپنی منزل کے اتنے قریب آکر خالی ہاتھ رہ جانا کسے کہتے ہیں،یہ بات آج کوئی اوزیم خان سے پوچھتا۔۔۔۔۔
#جانے کیوں ہر امتحان کے لیے
زندگی کو ہمارا پتہ یاد ہے.
اسے اپنا وجود تیز ترین آندھی و طوفان میں گھرا ہوا محسوس ہو رہا تھا،
جیسے کنارے پر لگنے والی کشتی بیچ منجھدار میں جا پھنسی ہو۔۔۔۔۔
اس کا خوابوں سے سجا کانچ کا محل چھنک کر ریزہ ریزہ بکھر گیا۔۔۔۔۔
خواہشوں سے بھرا جھومتا دل دھڑام سےجیسے کسی گہری کھائی میں جا گرا ہو۔۔۔
اک لحظہ میں سب بکھرتا ہوا لگا۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ اس کے لاوے کی مانند ابلتے ہوئے جذبات اگل کر باہر نکلتے۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا ۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
وہ کھوئے ہوئے انداز میں بولی۔۔۔۔
میں ہمیشہ سے ہی ایسی خود پسند رہی ہوں شاید،
مجھے اپنی خواہش کے آگے کسی سے کوئی سروکار نہیں رہا،
مجھے بچپن سے ہی ہر چیز بن مانگے ملی،
میرے والدین میرے کہنے سے پہلے ہی ہر چیز کا میرے آگے ڈھیر لگا دیتے، اگر کبھی کسی چیز سے مام منع بھی کرتیں تو ڈیڈ ان سے چھپ کر مجھے وہ چیز دلا دیتے۔
نت نئے ایڈوینچر کرنا،آئے دن کوئی نا کوئی نقصان کرنا میرے معمولات میں شامل ہونے لگا،
جوں جوں شعور کی منزلوں پر قدم پڑے میں دن با دن اور بھی نخریلی ہوتی چلی گئی۔۔۔۔
یہ نہیں کھانا وہ نہیں پینا،یہ چاہیے وہ نہیں چاہیے،غرض ہر اعلی سے اعلی چیز کو پانے کا جنون سوار تھا۔
میں سب کچھ تسخیر کر لینا چاہتی تھی۔
جب میں یونیورسٹی میں آئی تو میری سب سے فرینڈشپ ہو گئی سوائے اس ایک کے جس سے میں فرینڈ شپ کرنے میں انٹرسٹڈ تھی۔۔۔۔۔
چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد،اوشن بلیو آئیز،بلیو جینز پر بلیک ٹی شرٹ رف اینڈ ٹف حلیے میں ستواں ناک تیکھے نقوش کا حامل حد درجہ سفید رنگت،پڑھاکو ٹائپ ہر وقت کتابوں میں گھسا رہتا۔۔۔۔
کبھی نوٹس میں سر دئیے رکھتا تو کبھی لائیبریری میں کتابوں کے ہجوم میں اس کا اکیلا بیٹھنا۔۔۔۔
اس کی یہی بے توجہی مجھے اس کی طرف اٹریکٹ کرنے کا باعث بنی۔۔۔۔
ایک دن وہ یونی نہیں آیا میں اس کا انتظار ہی کرتی رہ گئی۔۔۔۔
اس کتابی کیڑے کو یونی نا آتے ہوئے ایک ہفتہ بیت گیا۔۔۔۔تو مجھے تشویش لاحق ہوئی۔۔
بھلا وہ پڑھاکو اتنی چھٹیاں کیونکر کر رہا ہے سب خیر تو ہے؟؟؟
پھر دسویں دن وہ ۔۔۔۔۔
بالآخر وہ چلا آیا۔۔۔اس دن وہ سر جھکائے ہوئے چلا آرہا تھا۔جسم بالکل ڈھیلا چھوڑے۔۔۔
میں بھاگ کر اس کے پاس پہنچی۔۔۔
تم ٹھیک ہو؟؟؟؟
میں نے اس سے پوچھا تو اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور چہرے پر تھکن اور آزردگی کے آثار نمایاں تھے۔۔۔
پل بھر کو میں اس کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھ کر بھونچکا رہ گئی۔۔۔۔
آپ کون ؟؟؟
اس نے لہجے میں حد درجہ بیگانگت لیے پوچھا۔۔۔
اس اس غیر متوقع سوال اور لب و لہجے پر میری تو دنیا زیر و زبر ہو گئی۔۔۔۔جسے سوچ سوچ کر میں ہلکان ہو چکی تھی وہ پوچھ رہا تھا میں کون۔۔۔۔
میرے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا،وہ تو میرا نام تک نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
میں ماہم گردیزی۔۔۔۔۔
میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا ملانے کے لیے مگر وہ جا چکا تھا۔۔۔۔۔
اس کا یوں نظر انداز کرنا مجھے بری طرح کھلا۔۔۔۔
عماد تمہیں پتہ ہے ایک دن کیا ہوا؟؟؟؟
اس کے چہرے پر چھائی چمک دیکھ کر عماد چونکا۔۔۔۔۔
ایک دن وہ کلاس میں لیٹ پہنچا۔۔۔
صرف میرے ساتھ ہی سیٹ خالی تھی۔۔۔۔
وہ۔۔۔وہ میرے ساتھ والی خالی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔میری تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔۔۔
وہ میرے اتنے قریب بیٹھا تھا۔۔۔مگر اس ٹام کروز نہیں۔۔۔بلکہ سٹون مین نے میری طرف ایک بار بھی نظر اٹھا کر دیکھنا گوارا نا کیا تھا۔
شاید وہ اپنی شخصیت کے سحر سے واقف تھا۔کہ کوئی بھی اس پر فدا ہو سکتا ہے۔۔۔
تمہیں پتہ ہے ڈیپارٹمنٹ کی ساری لڑکیاں اسے دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتیں۔۔۔اس پڑھاکو پر فدا تھیں۔۔۔۔میرے سمیت۔۔۔مگر وہ ہمیشہ یوں پوز کرتا جیسے اسے اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔
بحرحال وہ اس وقت میرے اتنے قریب بیٹھا تھا کہ میں خود کو دنیا کی سب سے خوش نصیب ترین لڑکی تصور کر رہی تھی۔۔۔
اس کے صفحات پر تیزی سے حرکت کرتیں ہوئیں مخروطی سفید انگلیاں جن میں پوائینٹر دبا تھا، مجھے اپنی طرف متوجہ کر رہی تھیں۔
میں اس کے ہاتھوں سے پین چھینا۔۔۔۔
اس نے ایک خفگی بھری نگاہ مجھ پر ڈالی۔۔۔
تو میں شرارت سے مسکرا دی۔۔۔۔
ٹام کروز تھوڑا سا ہنس کر دکھا دو سچی بڑی حسرت ہے تمہیں مسکراتا ہوا دیکھنے کی۔۔۔۔
اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے میرے ہاتھ سے اپنا پین اچک لیا۔۔۔
ویسے غصے میں بھی غضب ڈھاتے ہو۔میں نے ہنس کر کہا۔۔۔
سر !
وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔
اس نے سر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
تو میں اچنبھے سے اس کے اگلے عمل کا انتظار کرنے لگی۔۔۔کہیں سٹون مین سر کو میری شکایت نا لگادے۔
سر یہاں سے مجھے بورڈ صاف دکھائی نہیں دے رہا کیا میں چیئر آگے لا سکتا ہوں؟
اس کی بات سن کر میں نے سکون کا سانس لیا۔۔
یا شیور۔۔۔سر کی اجازت ملتے ہی وہ اپنی چئیر اور چیزوں سمیت مجھ سے دور چلا گیا۔۔۔
عماد ۔۔۔وہ مجھ سے ہمیشہ برا سلوک کرتا مجھے اگنور کرتا ۔۔۔
وہ جتنا مجھ سے اور دوسری لڑکیوں سے دور بھاگتامیں اتنا ہی اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتی۔۔۔
یونی کے سب لڑکے میری خوبصورتی کے متعرف تھے میرے آگے پیچھے بھاگتے
مگر میں۔۔۔۔اس نے سرد آہ بھری۔۔۔
عماد خاموش رہا آج وہ اسے سننا چاہتا تھا ۔۔۔تاکہ وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لے۔۔۔۔
یونی کا آخری دن تھا وہ اپنی مخصوص وجیہہ شخصیت سمیت سب کے دلوں پر اپنا اثر چھوڑے جا رہا تھا کہ میں اس کے آگے جا کر اس کا راستہ روکا۔۔۔۔
لڑکیاں بھلا اظہار محبت کرتی ہوئی اچھی لگتی ہیں؟
اس خودی کو جیسے سمجھایا ہو۔۔۔
مگر پھر بھی میں نے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر کہا۔۔۔۔
اوزیم خان مجھے تمہارے دل میں جگہ چاہیے۔۔۔۔
وہ جو جانے کو پر تول رہا تھامیری بات سن کر رکا ۔۔۔پھر بولا
میرے دل پر بہت پہلے سے کسی اور کی حکمرانی ہے،
میں اپنے اس دل کی جاگیر کو کسی اور کے نام کر چکا ہوں اس سلطنت پر اسی کا قبضہ ہے اور تاعمر رہے گا۔۔۔۔
اس دل میں کسی اور کے لیے قطعاً کوئی بھی گنجائش نہیں نکلتی۔۔۔
اپنے ان الفاظ سے اس نے میری انا پر کاری وار کیا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے دور ہو جاتا میں نے پھر سے کوشش کی۔
اوزیم خان تم ایک اچھے انسان ہو مجھ سے ایسا برتاؤ مت کرو۔۔۔۔میں نے اس کی منت کی۔
تم کیسے جانتی ہو کہ میں ایک اچھا انسان ہوں؟اس نے اسی کا سوال الٹا اسی سے کیا۔۔۔
تمہیں دیکھ کر تو یہی لگتا ہے ۔میں نے کہا۔۔۔
اگر تمہارے پاس کوئی چہرہ پڑھنے کا علم ہے تو انتہائی بے کار ہے۔۔۔۔۔۔
چہرہ دیکھ کر انسان کے اندر کیا چھپا ہے کبھی بھی کوئی ٹھیک سے اندازہ نہیں لگا پایا۔
ہاں اور ہمیشہ غلط اندازہ لگانے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔۔۔
اور مجھے خواہ مخواہ میں گلے پڑنے والی الٹرا ماڈرن بولڈ لڑکیاں کبھی بھی اٹریکٹ نہیں کرتیں۔۔۔۔اس نے سفاک لہجے میں کہا۔۔۔۔
کیا بکواس کر رہے ہو؟
پتہ بھی ہے کتنے گھٹیا الفاظ استعمال کر چکے ہو تم میرے بارے میں؟؟؟
صرف تم ہو جس نے مجھے یہ سب سنانے کی جرات کی ہے ورنہ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو ۔۔۔۔
میں عالم طیش میں اسے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔۔۔۔
بکواس میں نہیں اس وقت میرا راستہ روک کر تم کر رہی ہو۔۔۔۔
تم نے کیا سوچا تمہارے اس طرح چیپ انداز میں اظہار محبت کرنے سے میں پگھل جاؤں گا۔۔۔تو بھول ہے تمہاری۔۔۔وہ غضب ناک لہجے میں کہتا ہوا تیز قدموں سے راہ داری عبور کر گیا۔۔۔۔
کیوں کرتا ہے وہ میرے ساتھ ایسا آخر؟؟؟
ہمیشہ وہ میرے پیار کی تضحیک کرتا آیا ہے۔۔۔
میں اپنے یک طرفہ پیار کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے تھک گئی ہوں عماد۔۔۔
وہ نڈھال سے انداز میں بولی۔۔۔۔
میرا کوئی دوست نہیں جس سے میں اپنی اندرونی کیفیات شئیر کر سکوں۔
وہ رو رو کر ہلکان ہونے لگی۔۔۔۔
عماد چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور اس کے شانے پر تسلی دینے کے لیے ہاتھ رکھا۔۔۔۔
کومل نے اپنی نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔۔۔
مجھ سے دوستی کر لو یقین جانو تمہارا یہ دوست کبھی تمہیں مایوس نہیں کرے گا۔۔۔
اس نے پختہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺
اس فیصلے کے بعد اوزیم خان کے دن کیسے اذیت میں گزرے رہے تھے یہ صرف وہی جانتا تھا۔۔۔۔
وہ اندر ہی اندر گھٹ رہا تھا۔
اوزیم کیا بات ہے بیٹا کھانا کیوں نہیں کھا رہے؟
ناز نے اس کی بے توجہی نوٹ کرتے ہوئے سوال کیا۔
بس مما کچھ خاص بھوک نہیں۔۔۔۔
ناز نے اس کے تھکے ہوئے پر شکن چہرے پر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی۔۔۔اس سے مزید بحث کا ارادہ ترک کر دیا۔
تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟؟
انہوں نے اپنا ہاتھ اوزیم کے ہاتھ پر رکھ کر شفقت بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔
مجھے کیا ہونا ہے ؟,میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔اس نے اپنے چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجا کر کہا۔۔۔۔
اسے اپنی ہی مسکراہٹ اجنبی لگی۔۔۔
مام آفس کا وقت ہوگیا ہے میں نکلتا ہوں، وہ کوٹ بازو پر رکھ کر انہیں الوداعی کلمات کہتا ہوا وہاں سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ سیٹ کی پشت سے سر ٹکا گیا۔۔۔۔
سوچتے ہوئے اس کے دماغ کی شریانیں کھولنے لگیں۔۔۔۔
ایسا لگا اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ہو۔۔۔
پاکٹ میں بجتے ہوئے موبائل فون نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی۔۔۔
اس نے فون نکال کر دیکھا تو بابا کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔۔
ہیلو !!!
اوزیم بیٹا کیسے ہو؟دوسری طرف سے فلک شیر کی آواز آئی۔
اسلام وعلیکم!بابا میں ٹھیک ہوں۔
وعلیکم السلام!اوزیم بیٹا یہاں تمہارا ڈریم پروجیکٹ تمہاری توجہ کا منتظر ہے۔تو پھر بیٹا کب واپسی ہے؟
دوسری طرف اوزیم نے ان بات سن کر گہری سانس لی شاید توجہ بڑے تو ہی یہ کٹھن وقت گزرے۔
اس طرح تو ایک ایک پل گزرنا سوہان روح بن گیا ہے۔
اس نے دل میں سوچا۔
بابا میں بہت جلد واپس ترکی آرہا ہوں آپ بے فکر ہو جائیں۔
اس نے انہیں تسلی بخش انداز میں کہا۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
پیام اب بالکل صحت یاب ہو چکا تھا۔
پیام اور پریشے کو اوزیم نے ھاد کے سکول میں داخل کروا دیا تھا۔
وہ تینوں اکٹھے سکول جاتے اور کھیل کود میں مل جل کر وقت گزارتے ان تینوں میں کافی دوستی ہو چکی تھی۔
حرمت نے آفس جانا شروع کردیا تھا جبکہ افرس سارا دن گھر میں بچوں کی نگرانی میں اپنا وقت گزارتی۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
کل ہی اس کی ترکی واپسی ہوئی تھی۔
وہ اپنی مخصوص چال چلتا ہواآفس کی بلڈنگ میں داخل ہوا تو اسے دیکھ کر سارا سٹاف اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
وہ جہاں جہاں سے گزر رہا تھا سلام اور گڈ مارننگ کی ملی جلی آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھیں۔
عماد بھی اوزیم کے اتنے عرصے بعد آفس واپس آنے پر ویلکم کے لیے وہیں موجود تھا۔
اتنے میں اچانک باہر سے بھاگتی ہوئی کومل اندر آئی ۔۔۔۔اور جھٹ سے اوزیم خان کے قریب آکر اس کے گلے لگنے کی کوشش کی۔۔۔۔
تم واپس آگئے ۔۔۔۔۔
تم نہیں جانتے کہ میں کتنی خوش ہوں تمہیں دیکھ کر۔۔۔اس کے لہجے سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔
اوزیم نے فورا اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اسے خود سے دور کیا۔۔۔۔۔
کنٹرول یور سیلف۔۔۔۔اس نے برف جیسے سرد لہجے میں کاٹ دار بلندآواز میں کہا۔۔۔
چند ساعتوں میں ہی اس کی اوشن بلیو آئیز انگارے کی مانند دہکنے لگیں۔۔۔
وہ اپنی پوری آنکھیں کھولے حق دق رہ گئی۔۔۔
یوں سب کے سامنے اپنی تحقیر دیکھ اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔۔۔
وہاں موجود لوگوں کے چہروں پر تمسخرانا مسکراہٹ دیکھ کر شرم کے مارے ڈوب مرنے کا دل چاہا۔
میں نے ایسا بھی کیا کہہ دیا جو تم یوں کھلے عام میری تذلیل کر رہے ہو؟
عماد اسے باہر نکالو فورا میرے آفس سے۔۔۔۔
وہ حکم جاری کیے اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
عماد نے اس کے جانے کے بعد بیچارگی سے کومل کی طرف دیکھا۔۔۔۔
وہ ڈبڈبائی آنکھیں لیے وہاں سے بھاگتی ہوئی باہر نکلی۔
جبکہ عماد بھی اس کے پیچھے لپکا۔۔۔
اسکی چارہ جوئی کے لیے۔اس الوقت ایک دوست کو دوسرے کی اشد ضرورت تھی۔وہ اپنے فرض سے کسطرح پیچھے ہٹ سکتا تھا۔
🌺🌺🌺🌺🌺🌺
اذان ِ فجر پر اس کی آنکھ کھلی باوضو ہو کر نماز ادا کی۔۔۔اب دوبارہ سے نیند آنا مشکل تھا۔
وہ کچھ وقت لان میں گیلی گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کے لیے اور تازہ کھلی فضا محسوس کرنے کا سوچتے ہوئے وہاں تک آئی۔۔۔
گھر کا سادہ سا سی گرین اور سفید کنٹراسٹ کا سوٹ پہنے سر پر دوپٹہ جمائے وہ چہل قدمی کے لیے جونہی قدم بڑھانے لگی۔۔۔۔
اوزیم کو رات والی مخصوص جگہ پر کرسی کے ساتھ سر ٹکائے اسی پوزیشن میں سوتا ہوا دیکھ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے سبکی بھی محسوس کی۔۔۔۔
رات رات یہاں اس حالت میں جانے کس دِقت سے گزارہ ہو گی؟؟؟
اس نے شرمندگی سے سوچا۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ سب اٹھ جائیں۔۔۔اور انہیں یہاں سوتا ہوا دیکھ کر جانے کیا سوچیں؟انہیں اٹھا کر اندر بھیجنا ہو گا۔۔۔
مگر کیسے اٹھاؤں؟؟؟
اسی کشمکش میں مبتلا تھی کہ اچانک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اسے ٹھٹھرنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔
موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہوا میں خنکی کا نزول ہوا تھا۔۔۔۔
اس نے جھرجھری سی لی۔۔۔۔
باد ِ نسیم کے جھونکے سے لان میں لگے سرخ گلاب لہلہانے لگے۔۔۔۔
وہ دبے پاؤں سے چلتے ہوئے وہاں پہنچی اور ایک ادھ کھلی گلاب کی کلی توڑ لائی۔۔۔
جس پر جابجا شبنم کے قطروں نے بسیرا کر رکھا تھا۔۔۔۔
اس نے اسے آرام سے توڑا تھا معاً کہیں شبنمی قطرے گر نا جائیں۔۔۔۔۔
سوتا ہوا کتنا معصوم لگ رہا ہے۔۔۔۔اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر خیال آیا۔۔۔۔
اوزیم کے پاس آتے ہی اس کی جانے کب سے کھوئی ہوئی رگ شرارت آج پھر سے بھڑکی۔۔۔
اس نے وہ اوس سے بھرا ہوا گلاب اوزیم کے چہرے پر جھٹکا۔۔۔۔
اوزیم کو اپنے چہرے پر کچھ ٹھنڈا اور گیلا سا محسوس ہوا تو جھٹ سے ہڑبڑا کر اٹھا۔۔۔
حرمت اسے ہڑبڑاتا ہوا دیکھ کر مسکرائی۔۔۔۔
اوزیم نے ہوش میں آتے ہی دنیا کا حسین ترین منظر اپنی نگاہوں میں ہمیشہ کے لیے سمو لیا۔۔۔۔
اوزیم کی نیند سے بوجھل نیلی آنکھیں جو اس وقت سرخی مائل تھیں،ٹکٹکی باندھ کر اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔
اس کے مسکراتے ہوئے لب اپنے آپ ہی سمٹ گئے۔۔۔۔
Hey Choco Lava.........
ایک بات کہوں کبھی بہت دیر ہوگئی ،تمہیں ایسے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔
"عادت ڈال لو اچھی لگتی ہو"۔۔۔
اس نے اپنے سینے کے گرد دونوں ہاتھ باندھ کر اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کاش میری زندگی کی ہر صبح اتنی ہی حسین ہو ۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ یہاں سے جاتی۔۔۔۔اوزیم نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
اور دھیرے سے اس کے قریب آیا۔۔۔۔
اس کے اتنے قریب آنے پر حرمت نے آنکھیں میچ لیں۔۔۔۔
اسے اوزیم کی پر حدت سانسیں اپنے چہرے کا طواف کرتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں۔۔۔۔
پورے وجود میں کپکپی سی طاری ہوئی۔۔۔
اوزیم نے نرمی سے اپنے لبوں سے اس کی صبیح پیشانی کو چھو کر اپنے محبت بھرے لمس سے معتبر کر دیا۔۔۔۔
ہمارے نئے ساتھ کی پہلی صبح مبارک !!!!
اس کی بھاری آواز نے اس کے کانوں میں رس گھولا۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے اوزیم کے لب ہلکا سا اس کے کان کی لو سے مس ہوئے۔۔۔۔
حرمت نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔
وہ اپنا احساس دلائے وہاں سے جا چکا تھا۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لی اور اپنے منتشر حواس بحال کیے۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
سب کے اٹھنے سے پہلے ہی حرمت سب کی پسند کا ناشتہ تیار کر چکی تھی۔۔۔
سب تیار ہوکر ناشتے کی غرض سے ڈائینگ پر آئے تو اس نے سب کو مشترکہ طور پر سلام کیا۔۔۔۔
ناز اور حریم نے بھی اسے پیار اور دعائیں دیں۔۔۔
حرمت یہ کیا تم تیار نہیں ہوئی؟؟؟
ناز نے اس کے سادہ سے حلیے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
صحیح کہہ رہی ہیں آپا کہیں سے بھی پہلے دن کی دلہن نہیں لگ رہی۔۔۔یونہی سر جھاڑ منہ پھاڑ پھر رہی ہو۔۔۔۔
حرمت نے شکایتی نگاہوں سے اپنی مما کو دیکھا۔۔۔۔
مما بچے بڑے ہو چکے ہیں ۔۔۔سب دیکھتے ہیں اور ویسے بھی مجھے یہ سب چونچلے کرنا پسند نہیں۔۔۔۔اس نے جو دل میں آیا صاف گوئی سےکہہ ڈالا۔۔۔
حرمت بیٹا تم میری اکلوتی بہو ہو اور اپنی بہو کو لے کر میرے بھی کچھ ارمان ہیں کیا تم میرا کہا بھی نہیں مانو گی؟؟؟؟
انہوں نے بہت مان بھرے انداز میں پوچھا۔۔۔
اس نے ان کی بات پر سر جھکا دیا۔۔۔
ٹھیک ہے خالہ ناشتے کے بعد تیار ہوجاوں گی۔۔۔آپ یہ پراٹھا لیں نا۔۔۔۔اس نے گرما گرم پراٹھا ان کی پلیٹ میں رکھا۔۔۔۔
اوزیم بھائی نہیں آئے ناشتے پر؟؟؟افرس نے حرمت کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
وہ۔۔۔۔حرمت نے اس کے سوال پر نظریں چرائیں۔۔۔۔
یہاں بیٹھو۔۔۔۔افرس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ والی کرسی پر بیٹھایا۔۔۔
بھائی کیا لیٹ سوئے تھے جو ابھی تک نہیں اٹھے؟؟؟افرس نے حرمت کے کان کے پاس آکر شرارت سے کہا۔۔۔۔
حرمت نے جواباً اسے گھور کر دیکھا۔۔۔۔
وہ دانت نکالنے لگی تو حرمت بھی مسکرا دی۔۔۔
آؤ مل کر ناشتہ کرتے ہیں ۔اس نے مزید سوالات سے بچنے کے لیے اسے مصروف کرنا چاہا۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
بابا آپ نے لاسٹ ویک پرامس کیا تھا کہ ہم دونوں کو سوئمنگ سکھائیں گے۔۔۔
جی ماموں پیام ٹھیک کہہ رہا ہے۔میں بھی آپ کو یہی یاد دلانے والا تھا۔۔۔ھاد بولا۔۔۔
اوکے آو۔۔۔۔
وہ جو صوفے سے پشت ٹکائے لاؤنج میں موجود ایل۔ ای ۔ڈی پر نیوز سن رہا تھا ریموٹ ایک طرف رکھ کر بولا۔۔۔
پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا تو پری بھی اس کے ساتھ ہو لی۔۔۔۔
بابا میں بھی آپ سب کو سوئمنگ کرتے ہوئے دیکھوں گی۔۔۔۔پریشے نے چہکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اوزیم نے پری کو آنکھ سے کچھ اشارہ کیا۔۔۔۔
جواباً پری نے بھی اسے آنکھ کے اشارے سے تسلی دی۔۔۔۔
مما آپ بھی چلیں نا ہمارے ساتھ باہر پول کے پاس ہم دونوں مل کر بابا ،پیام اور ھاد کو دیکھیں گے۔۔۔۔پریشے نے حرمت کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ آنے کے لیے کہا۔۔۔۔
آپ لوگ جاؤ میرا من نہیں۔۔۔اس نے انکار کیا تو پری کا منہ بن گیا۔۔۔۔
چلی جاؤ حرمت باہر تک تو جانا ہے۔۔۔اور جا کر بیٹھنا ہی ہے تم نے کونسے پہاڑ توڑنے ہیں۔۔۔بچی کا دل مت دکھاو۔۔۔حریم نے اسے ٹوک کر زرا ڈپٹنے کے انداز میں کہا۔۔۔
وہ بے دلی سے اٹھ کر ان سب کے پیچھے پیچھے باہر آگئی۔۔۔۔
وہ دونوں پول سے زرا دور رکھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔۔۔
اوزیم نے شرٹ اتار کر ایک طرف پھینکی۔۔۔
حرمت نے اسے شرٹ لیس دیکھ کر فوراً اپنی نظروں کا زاویہ تبدیل کیا۔۔۔۔
اور منہ میں کچھ بڑبڑائی۔۔۔۔
جو کہ پری کے کانوں نے بخوبی سن لیا۔۔۔۔پریشے بھی اپنی مما کی بات سن کر ہنسنے لگی۔۔۔۔
چپ کرو تم بابا کی چمچی۔۔۔۔
اس نے پری کو ہنستے ہوئے دیکھ کر ڈپٹا۔۔۔
اوزیم نے پول میں جمپ لگائی۔۔۔پھر پیام اور ھاد کو بھی پانی میں اتار لیا۔۔۔۔
اور ان دونوں کو سوئمنگ سکھانے لگا۔۔۔۔۔
بے شک وہ کچھ دور تھا مگر دھیان اس کا سارا وہیں تھا جہاں حرمت موجود تھی۔۔۔۔
وہ اپنے کام میں مگن ،گاہے بگاہے نظر حرمت اور پری پر ڈال کر مسکراہٹ اچھال دیتا۔۔۔۔
Baba you are the best.......
وہ وہیں سے ہی چلا کر کہنے لگی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد پیام اور ھاد خود بخود ہلکی پھلکی سوئمنگ کرنے لگے تو وہ خود پانی سے باہر آیا۔۔۔۔
اور ہاتھوں کی انگلیوں کو بالوں میں پھنسائے پیشانی پر آئے بھیگے ہوئے بال پیچھے کرنے لگا۔۔۔۔
پری بھاگ کر ٹاول لیے اس کے پاس آئی۔۔۔۔
Thank you......
اوزیم نے اس کے گال پر پیار کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔
Welcome....
وہ بھی مسکرا کر بولی۔۔۔
ویسے Beauty کیا کہہ رہی تھی میرے بارے میں؟؟؟؟اوزیم نے اپنی رپورٹر سے خفیہ رپورٹ لینا چاہی۔۔۔۔
بابا ایک بات بتاؤں؟؟؟اس نے خفیہ انداز میں اس کے کان کے پاس آتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہمارے گھر میں نا زرا الٹا حساب ہے۔۔۔Beauty میرے بابا ہیں اور Beast مما۔۔۔۔
اس کی بات سن کر اوزیم بھی جی جان سے مسکرا اٹھا۔۔۔۔
یہ بات بقول تمہارے ۔۔۔تمہاری بیسٹ مما نے سن لی نا تو ہم دونوں کی خیر نہیں۔۔۔۔
چھوڑیں بابا انہیں کس نے بتانا ہے؟یہ تو ہم دونوں کا سیکرٹ ہے نا؟؟؟اس نے سمجھداری سے کہا۔۔۔۔
ہاں وہ تو ہے۔۔۔اس نے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔۔۔اور ٹاول ایک طرف رکھا۔۔۔۔
اصل بات تو بتاؤ کہ میرے بارے میں کہہ کیا رہی تھیں۔۔۔۔اس نے پھر بات یاد آمنے آتے ہی پوچھا۔۔۔۔
چھوڑیں بابا سن کر ہنسیں گے ۔۔۔۔
اگر ہنسنے والی بات ہے تو ضرور سنیں گے آخر وہ کب سے ہنسنے والی باتیں کرنے لگی۔۔۔۔
کہہ رہی تھیں۔۔۔۔سلیمان خان پارٹ ٹو شرٹ اتارے بغیر سوئمنگ نہیں ہوتی جیسے باڈی دکھانے کا بڑا شوق چڑھا ہے۔۔۔۔
اور ہاں آخر میں زور سے ہنہہہ بھی کیا تھا۔۔۔۔
باقی باتیں تو ٹھیک ہیں مگر یہ جو آخر میں ہنہہہ کیا نا یہ بڑی غلط بات کی اس نے۔۔۔کیوں پری؟؟؟
بالکل ٹھیک کہا۔۔۔دونوں نے حرمت کی طرف دیکھا۔۔۔۔
دونوں کی جانے ایسی کونسی لمبی چوڑی گفتگو تھی جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی وہ اکتا کر اندر کی طرف چلی گئی۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
افرس کو آج بھی وہ دن اچھے سے یاد تھا۔۔۔۔
وقت کی گھٹن روز بروز بڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
اس کی ایک سالہ شادی شدہ زندگی جمود کا شکار ہو چکی تھی۔۔۔
بالاج کی اجنبیت کی دیواریں گرنے کی بجائے اٹھتی چلی جا رہی تھیں۔۔۔
وہ اپنی ذات سے بے نیاز بالاج کے اس روئیے کی وجہ جاننے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی۔۔۔
مگر کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
جب سے اس کی شادی بالاج سے ہوئی تب سے اس نے اس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھایا تھا۔۔۔۔اس کے دل میں کوئی کھوٹ نا تھی۔۔۔مگر اچانک بالاج کو جانے کیا ہوا کہ اس کی ذات سے مکمل بے نیاز ہو گیا۔۔۔
اپنی شادی شدہ زندگی کی گرداب میں پھنسی ناؤ بے چین کیے دے رہی تھی۔۔۔۔افرس !!!
بالاج نے اسے تیسری بار پکارا۔۔۔۔
وہ جو سوچوں میں بری طرح غرق تھی۔۔۔۔اچانک سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔
یہ لو....اس نے ایک خاکی اینولپ افرس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔
وہ یہ دیکھ کر مخمصے کا شکار ہوئی۔۔۔۔
دماغی الجھن تھی کے بڑھتی چلی جارہی تھی۔۔۔۔
اس میں کیا ہے؟؟؟وہ بالاج کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے دل میں امڈتا ہوا سوال زبان تک لائی۔۔۔
میں تمہیں کسی دھوکے میں نہیں رکھ سکتا مگر اتنا حق تو تمہارا بنتا ہےنا۔۔۔۔کہ میں تمہیں کچھ بات تو بتا سکوں۔۔۔۔اس نے چلتے ہوئے اپنی بات کہی۔۔۔
میری پھپھو کی جائیداد جو تمہارے باپ نے تمہارے نام کی تھی ۔۔۔
وہ رکا پھر بولا۔۔۔۔
وہ میں تم سے اپنے نام لکھوا چکا ہوں۔۔۔۔
جس مقصد کے لیے میں نے تم سے شادی کی تھی وہ پورا ہو چکا ۔۔۔۔تو تمہارا یہاں رکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔۔۔۔۔اس نے سرد و سپاٹ انداز میں کہا۔۔۔۔
افرس نے فق نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔۔۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟؟؟
مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا۔۔۔۔اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔
یہ سب تم اپنے باپ سے جا کر پوچھنا۔۔۔۔
میرے پاس سمجھنے سمجھانے کی فراغت نہیں۔۔۔۔
اور یہ طلاق کے پیپرز ہیں ۔۔۔تم جا سکتی ہو یہاں سے ۔۔۔۔آخری بات تھی کہ صور اسرافیل جو اس کے کانوں میں پھونکا گیا تھا۔۔۔۔
وہ مضحمل سی اپنی جگہ پر ڈھ گئی۔۔۔۔۔
ہمارا بیٹا ھاد؟؟؟؟
کچھ دیر بعد وہ اپنی سوکھی ہوئی زبان کو تر کرتے، لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
لے جاؤ اسے ساتھ مجھے اس کی اور تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
میری پہلی شادی سے بیوی بچے موجود ہیں میرے پاس۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
سوئمنگ سے فراغت کے بعد وہ سب لان میں موجود شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ میز پر پڑے اوزیم کے موبائل پر بابا کالنگ جگمگانے لگا ۔۔۔۔
اس نے فورا کال رسیو کی.......
اسلام علیکم بابا !!!!
کیسے ہیں آپ؟ بخیرو عافیت پہنچ گئے؟
وعلیکم السلام بیٹا جی !!!میں ٹھیک ہوں اور
بخیرو عافیت پہنچ گیا ہوں ۔۔۔جس طرح اوزیم نے ایک سانس میں سوال کر ڈالے اسی طرح فلک شیر نے بھی اسی کی ٹون میں لہجے میں بشاشت لاتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔
اوزیم میں نے تمہیں کچھ خاص بتانے کے لیے کال کی ہے۔۔۔وہ مدعے کی بات پر آئے۔۔۔
جی بابا بتائیے کیا بات ہے؟؟؟
اس نے پوری توجہ ان کی جانب مبذول کی۔۔۔
کل تمہارے ڈریم پروجیکٹ کا فیصلہ ہے جس پر تم نے اتنی محنت کی ۔۔۔۔
دیکھو کل کیا فیصلہ ہوتا ہے ....
اس لیے کل تمہیں ہر صورت یہاں پہنچنا ہوگا۔۔۔
جی ٹھیک ہے ڈیڈ میں رات کی ٹکٹ کنفرم کروا کر وہاں پہنچتا ہوں۔۔۔۔
آپ بے فکر رہیں میں وقت پر پہنچ جاؤں گا۔۔
صحیح ہے پھر آنے کی تیاری کرو ۔۔۔اور ہاں بچوں کو میرا پیار دینا ۔۔۔۔۔
جی ڈیڈ ضرور۔۔۔۔
کہاں کی ٹکٹ کنفرم کروانے کی بات ہو رہی ہے؟
ناز نے پوچھا۔۔۔
مما لگتا ہے بھائی ہنی مون ٹرپ پلان کر رہے ہیں۔۔۔۔افرس بولی۔۔۔۔
حرمت نے سٹپٹا کر ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔
اوزیم اس کی سٹپٹاہٹ انجوائے کرتا ہوا دھیمے سے مسکرایا۔۔۔۔
پھر نظروں کا رخ اپنی مما کی طرف پھیرتا ہوا بولا۔۔۔۔
مما ترکی جا رہا ہوں ایک اہم پروجیکٹ کے سلسلے میں۔۔۔
لو بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی۔۔۔۔کل شادی ہوئی اور آج تم پھر سے آفس کے جھمیلوں میں پھنسنے کے لیے تیار بیٹھے ہو۔۔۔۔انہوں نے مصنوعی خفگی لاتے کہا۔۔۔۔
مام امپورٹینٹ نا ہوتا تو نہیں جاتا۔۔۔۔۔دو تین دنوں کی بات ہے۔۔۔۔
اچھا آپ بتائیں کیا کروں؟؟؟؟
وہ ان کی خفگی کے خیال سے بولا۔۔۔۔
تم۔۔۔۔۔۔ہاں تم ایسا کرو کہ حرمت کو بھی ساتھ لے جاؤ اس کی بھی آوٹنگ ہو جائے گی۔۔۔انہوں نے سوچ کر اپنا خیال پیش کیا۔۔۔
مما آپ اپنی بہو سے پوچھ لیں وہ جانا بھی چاہتی ہے یا نہیں۔۔۔۔
اس نے سارا ملبہ اس پر ڈالا۔۔۔۔
حرمت اس کی بات پر خاموش تھی مگر اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔۔۔۔
وہ اس کی اندرونی کیفیت خوب سمجھ رہا تھا۔۔۔دل ہی دل میں خوب ہنسا۔۔۔مگر چہرے کے تاثرات نارمل رکھے۔۔۔۔
اس بیچاری بچی نے کیا کہنا ہے؟نخرے تو تمہارے ہیں ۔۔
۔کیوں حرمت؟؟؟؟انہوں نے حرمت کی طرف دیکھتے ہوئے
مان سے پوچھا۔۔۔۔
توپوں کا رخ حرمت کی طرف دیکھ اس بار وہ کھل کر مسکرایا۔۔۔۔
جی ۔۔۔جی خالہ ۔۔۔بمشکل اس کی آواز نے اس کا ساتھ دیا۔۔۔
تو چلو اپنی اور اپنے شوہر کی پیکنگ کر لو۔۔۔
مگر خالہ بچے؟؟؟؟
بچے اب بڑے ہیں اپنا آپ خود سنبھال سکتے ہیں اور ویسے بھی افرس کے ساتھ ساتھ میں اور حریم بھی تو ہیں دیکھ لیں گے انہیں۔۔۔
تم بے فکر ہو کر جاؤ ویسے بھی دو تین دن کی تو بات ہے محض۔۔۔۔
انجوائے کرو۔۔۔۔۔۔
چلو شاباش جاؤ۔۔۔۔۔
حرمت کوناچاہتے ہوئے بھی اٹھنا ہی پڑا۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️
مجھے ابھی بھی یقین نہیں آرہا کہ تم میرے ساتھ ہو،ایسا لگ رہا ہے ،جیسے تمہارا یہ ساتھ ایک خوبصورت خواب کی طرح ہے جو آنکھیں کھولتے ہی ٹوٹ کر بکھر جائے گا۔۔۔
جہاز کے ٹیک آف کرتے ہی وہ حرمت کا ہاتھ تھام کر نہایت ہی نرم انداز میں بولا۔۔۔۔
آ۔۔۔آ۔۔۔آ۔۔۔۔اس نے چیختے ہی زور سےاپنی آنکھیں میچیں۔۔۔۔
اور ساتھ بیٹھے ہوئے اوزیم کے بازو کو ڈر کے مارے زور سے پکڑ لیا۔۔۔۔
سب کی توجہ حرمت کی چیخ کی وجہ سے ان پر ہوئی۔۔۔۔
اوزیم اس سچوئیشن کے لیے قطعاً تیار نا تھا۔۔۔
سب کو اپنی طرف تکتا پا کر اس نے جھٹ سے حرمت کے چیخنے کی وجہ سے اس کی منہ پر ایک ہاتھ رکھ کر اس کی چیخ کا گلا گھونٹ دیا۔۔۔
اور دوسرا بازو اس کے شانے کے گرد رکھے اسے تسلی آمیز انداز میں اپنے ساتھ لگایا۔۔۔۔
حرمت میں ہوں نا کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ڈرو مت ۔۔۔پلیز سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔اس نے حرمت کو ساتھ لگائے۔۔۔اس کے کان میں کہا۔۔۔۔
مجھے ڈر لگ رہا ہے اور ۔۔۔اور وومٹنگ بھی آرہی ہے۔۔۔اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ایکسکیوز می مس۔۔۔۔اس نے وہاں موجود ائیر ہوسٹس کو مخاطب کیے ہوئے کچھ پوچھا۔۔۔
وہ اس کی مطلوبہ چیز لے آئی اور اوزیم کے ہاتھ میں دی۔۔۔۔ساتھ پانی کا گلاس دیا۔۔۔
حرمت یہ لے لو۔۔۔۔
یہ کیا ہے؟؟؟؟
ٹیبلٹ ہے وومٹنگ کی۔۔۔حرمت نے جلدی سے وہ ٹیبلٹ منہ میں ڈال کر پانی پیا۔۔۔۔
سر اس وومٹنگ کی ٹیبلٹ سے تھوڑی غنودگی بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔
اس نے بتانا مناسب سمجھا۔۔۔۔
تھینکس۔۔۔۔اوزیم نے اس کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔
ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ حرمت ڈرتے ہوئے جانے کب نیند کی وادیوں میں پہنچ گئی۔۔۔اسے خود بھی خبر نا ہوئی۔۔۔۔اور اوزیم کے شانے کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔۔۔
اوزیم نے اس کی حرکت سوچ کر تاسف سے سر ہلایا۔۔۔۔
ڈر پوک چوکو لاوا۔۔۔۔۔
So innocent.......
اس نے سرگوشی نما آواز میں کہا۔۔۔۔۔
کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد پلین لینڈ کیا تو اوزیم نے حرمت کو جگانا چاہا ۔۔۔۔
مگر حرمت صاحبہ تو ایسے جیسے کوئی سستہ نشہ کر کہ سوئی ہیں جو اٹھنے کا نام ہی نا لے رہی تھیں۔۔۔
ساری سیٹس خالی ہو چکیں تھیں ۔۔۔اس نے بہت کوشش کی اسے اٹھانے کی ۔۔۔مگر وہ ٹس سے مس نا ہوئی۔۔۔۔
اسے کوئی راہ سجھائی نہ دے رہی تھی اس نے پریشانی سے اپنی پیشانی کو مسلا۔۔۔۔
بالآخر اور کوئی راہ نا پاتے ہوئے۔۔۔۔اسے اپنے بازوؤں میں بھر کر نیچے اترا۔۔۔۔۔
سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔۔۔۔۔
اس نے چہرہ سپاٹ رکھا مگر دل میں عجیب و غریب خیال چل رہے تھے۔۔۔۔
لوگ کیا سمجھ رہے ہوں گے کہ میں محترمہ کو اغوا کر کہ کہیں لے جا رہا ہوں۔۔۔۔۔
اس نے ویٹینگ ایریا میں آکر ایک چئیر پر حرمت کو بٹھایا۔۔۔۔اس کے گرد بازو حمائل رکھی کہیں نیند میں گر ہی نا جائے۔۔۔۔
اور دوسرے ہاتھ سے موبائل نکال کر نمبر ملایا۔۔۔۔
ہیلو عماد۔۔۔۔
کہاں ہو یار ؟؟؟
جلدی ائیر پورٹ پہنچو۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں عماد گاڑی سمیت وہاں پہنچ چکا تھا۔۔۔۔
اوزیم کو اندازہ نہیں تھا کہ ایسی سچویشن بھی پیش آ سکتی ہے۔۔۔۔
عماد آیا تو حرمت کو دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔
بھابھی کو کیا ہوا؟؟؟؟
اوہ۔۔۔سوری سر ۔۔۔۔کیا میں انہیں؟؟؟
ہاں یار تم میرے بھائی ہی ہو ۔۔۔بھابھی بول سکتے ہو۔۔۔۔اس نے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
عماد نے عقیدت مندانہ نظروں سے اسے دیکھا ۔۔۔۔
تھینک یو ۔۔۔۔۔
چلیں پھر ۔۔۔وہ بولا۔۔۔۔
ہاں چلو اس نے پھر سے حرمت کو بانہوں میں بھرا۔۔اور وہاں سے باہر نکلا۔۔۔۔
بہت سے اس کے جاننے والے بھی اسے نظر آئے جو اسے حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
عماد بھی اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔۔۔۔
ہنس لو ہنس لو کھل کر ہنس لو تم بھی مجھ پر۔۔۔۔
اوزیم نے دانت پیستے ہوئے عماد سے کہا۔۔۔۔۔
یہاں ہم ہنی مون پر آئے تھے انجوائے کرنے بقول میری مما کے۔۔۔۔
مگر مجھے یوں دیکھ کر میرا ہنی مون میں نہیں بلکہ لوگ انجوائے کر رہے ہیں۔۔۔اس نے غصے میں جل کر میں کہا۔۔۔۔
گاڑی تک پہنچ کر اس نے آرام سے حرمت سے گاڑی میں بٹھایا اور پھر خود بیٹھ کر اس کو سہارا دیا۔۔۔۔
عماد انہیں گھر تک چھوڑے جا چکا تھا۔۔۔۔
اوزیم نے شکر ادا کیا اس وقت اس کا سامنا اس کے پاپا سے نہیں ہوا۔۔۔ورنہ حرمت کو ایسے دیکھ کر سو سوال پوچھتے۔۔۔۔۔
اس نے حرمت کو لا کر بستر پر لٹایا۔۔۔۔
نجانے کونسی ٹیبلٹ کھلا دی جو اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔۔۔۔
اس نے پریشانی سے سوچا۔۔۔۔
پھر ڈاکٹر کو کال کردی۔۔۔۔
اور ان سے ٹیبلٹ کا نام بتا کر اس کے بارے میں تفصیل پوچھی۔۔۔۔
ڈاکٹر نے اسے کہا کہ جب کوئی پہلی بار ایسی ٹیبلٹ لیتا ہے تو کبھی کبھی اس پر یہ زیادہ اثر کر جاتی ہے۔۔۔۔آپ فکر نا کریں صبح تک ہوش میں آجائیں گی۔۔۔۔
ان کی بات پر اسے کچھ تسلی ہوئی۔۔۔۔
فون ایک طرف رکھ کر اس نے فریش ہونے کی غرض سے اپنے دوسرے کپڑے نکالے اور شاور لینے چلا گیا۔۔۔۔
کچن میں جا کر کافی بنائی ۔۔۔اسوقت ملازم جا چکے تھے۔۔۔۔۔
آگئے برخوردار!!!
اسلام وعلیکم ڈیڈ!!!۔۔۔۔وہ انہیں سامنے سے آتے دیکھ کر شگفتگی سے بولا
وعلیکم السلام!
جی ڈیڈ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ۔۔۔۔
حرمت کہاں ہے ؟؟؟تمہاری ماں نے بتایا تھا کہ وہ بھی آرہی ہے۔۔۔
جی ڈیڈ وہ بھی آئی ہے مگر سفر سے تھک گئی ہے تو سوگئی۔۔۔۔
اس نے بہانہ بنایا۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔۔پھر صبح ملاقات ہو گی ۔۔۔
جی ڈیڈ ۔۔۔۔
کل میرے کچھ دوستوں نے گیٹ ٹو گیدر کا پروگرام بنایا ہے۔۔۔۔
میں کل وہاں مصروف رہوں گا۔۔۔میں نے سوچا تمہیں بتا دوں ۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔۔آپ انجوائے کریں۔۔۔وہ مسکرا کر بولا۔۔۔۔اور کافی کا گھونٹ بھرا۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے تم بھی ریسٹ کرو کافی رات ہوگئی ہے۔۔۔کل تو مصروف رہو گے۔۔۔۔
وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔
وہ کافی ختم کیے مگ رکھ کر اپنے کمرے کی طرف آیا۔۔۔۔
جہاں وہ اس کے بستر کی رونق بنے پورے طمطراق سے موجود تھی۔۔۔۔
اوزیم کے لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔۔۔
اس نے لائٹ آف کی ۔۔۔۔
اس کے آرام کے خیال سے اس کے گلے میں سے دوپٹہ نکال کر ایک طرف رکھا۔۔۔۔
اس پر کمفرٹر اوڑھایا۔۔۔۔
پھر خود بھی اس کے ساتھ آکر لیٹ گیا۔۔۔۔
کھڑکی میں سے چاند کی چمکتی چاندنی اس کے سفید چہرے پر پڑرہی تھی۔۔۔جس سے اس کا چہرہ مزید سحر انگیز دکھائی دے رہا تھا۔۔۔۔
اس نے اپنے آپ پر ضبط کے کڑے پہرے لگائے۔۔۔اور اس نے بے نیاز ہونے کے لیے کروٹ بدل لی۔۔۔۔
مگر اس کے وجود اور حنائی ہاتھوں سے اٹھتی دلفریب مہک اسے پلٹنے پر مجبور کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ بلا ارادہ پلٹا۔۔۔۔
جانے کتنے ہی لمحے اس کے چہرے کو یک ٹک تکتا رہا۔۔۔۔۔
ہاتھ کی پوروں سے اس کے چہرے کو چھوا۔۔۔
خواہش تھی کہ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
پیشانی سے انگلی چھوتے ہوئے ناک ،لبوں پھر تھوڑی ،اور آخر اس کی صراحی دار گردن پر آکر رکی۔۔۔۔
اس نے اپنے ہاتھ کو واپس کھینچا۔۔۔۔
نہیں میں اس کی نیند کا فائدہ نہیں۔۔۔یہ غلط ہے۔۔۔۔
اس نے اس کے آدھے بال جو کیچر میں مقید تھے۔۔۔انہیں کیچر کی گرفت سے آزاد کروایا۔۔۔
اس کے بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسا۔۔۔۔اس کی گردن میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے اسے خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔
پہلی بار اسے اتنا قریب سے محسوس کرنے پر اس کے دل کی رفتار میں تیزی بڑھی۔۔۔۔
رگ و پے میں سکون سیرایت ہوتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔۔
اب اتنا سا حق تو بنتا ہے نا۔۔۔۔اس نے خود کو تسلی دی۔۔۔۔
پہلی بار اتنا سکون دہ لمحہ میسر ہوا ۔۔۔۔کب نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اسے بھی کچھ پتہ نا چلا۔۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖
کھڑکی سے آتی ہوئی سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو اس نے کسمسا کر اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔
اپنے اوپر کچھ بوجھ محسوس ہوا تو آنکھیں فورا پوری کھل گئیں۔۔۔۔
اس کا ایک بازو کمر کے گرد بازو حمائل تھا، اورچہرہ گردن کے قریب جہاں اس کی گرم سانسیں بخوبی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔
اس کی ٹانگوں پر ٹانگ رکھے پورا وزن اس پر ڈالے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔۔۔
اف ۔۔۔۔۔پیچھے ہٹیں۔۔۔۔۔اس نے اسے ہلانا چاہا۔۔۔۔
مگر وہ شاہد گہری نیند میں تھا۔۔۔۔
حرمت نے بمشکل اس کا بازو اٹھا کر پیچھے کیا۔۔۔۔
اور اٹھ کر بیٹھی۔۔۔۔اپنی ٹانگوں سے اس کی ٹانگ اٹھانا مشکل امر تھا۔۔۔۔
اسے وہ بہت بھاری لگی۔۔۔۔
اس نے پوری قوت لگا کر اسے اٹھا کر پیچھے کیا۔۔۔۔
اسے اپنی ٹانگیں وزن کی وجہ سےدُکھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔۔
اوزیم نے ایک آنکھ کھول کر اس کی جدوجہد پر بھرپور مزہ لیا۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ حرمت کی نظر اس پر پڑتی وہ پھر سےسوتا ہوا بن گیا۔۔۔۔۔
اس نے جب اسے پہلی بار اٹھایا تھا اٹھ تو وہ تب ہی گیا تھا ۔۔۔۔
مگر اس کی حالت کا بھی تو مزہ لینا تھا۔۔۔۔
اس کی وجہ سے کل اس نے کتنی خورای اٹھائی تھی۔۔۔۔
وہ بیگ میں سے اپنا ڈرہس لیے واش روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
اوزیم بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖
ناشتہ ان تینوں نے مل کر کیا۔۔۔۔
فلک شیر تیار ہوکر باہر نکل گئے۔۔۔۔
اب وہ دونوں ہی بچے تھے۔۔۔۔۔
شام کو ایک پارٹی میں جانا ہے تیار رہنا۔۔۔اوزیم نے اسے مخاطب کیے کہا۔۔۔۔
پلیز مجھے پارٹی میں نہیں جانا۔۔۔۔میں گھر پر ہی ٹھیک ہوں ۔۔۔
بزنس پارٹی ہے۔۔۔۔وہاں میرے ایک اہم پروجیکٹ کا فیصلہ ہونے والا ہے میں چاہتا ہوں اس اہم وقت میں میری زندگی کا سب سے اہم انسان میرے ساتھ ہو۔۔۔۔
پھر فیصلہ چاہے جو ہو مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۔۔۔
اپنے ہزبینڈ کے ساتھ نہیں تو اپنے دوست کے ساتھ تو چلو گی نا ؟؟؟؟
وہ خاموشی سے سر جھکائے ہاتھ میں موجود گلاس کو گھمانے لگی۔۔۔۔
ابھی تو شام میں بہت وقت ہے کیوں نا ہم کچھ شاپنگ کرلیں۔۔۔۔
مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔۔۔شاپنگ کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔
مانا کہ تمہیں کچھ نہیں چاہیے ہو گا مگر پہلی بار ساتھ باہر آئے ہیں گھر والوں کے لیے کچھ گفٹ نہیں لے کر گئے تو برالگے گا۔۔۔۔
ان لوگوں کے لیے کچھ نا کچھ خرید لیں گے۔۔۔۔
اور رات کی پارٹی کے لیے تمہارا ڈریس بھی۔۔۔
میں نے پہلے بھی کہا کہ مجھے کچھ نہیں چاہیے۔۔۔۔
تم چلو میرے ساتھ" مس کچھ نہیں چاہیے"۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر زبردستی اسے اپنے ساتھ کھینچتا ہوا باہر لایا۔۔۔۔
اور فرنٹ ڈور کھول کر اسے بٹھایا۔۔۔۔
ڈرائیور مؤدب انداز میں پاس کھڑا تھا۔۔۔۔
میں خود ہی ڈرائیونگ کروں گا آج تمہاری چھٹی۔۔۔۔
اوزیم کی بات سن کر ڈرائیور صاحب کی خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔۔۔۔
آدھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ دونوں انقرہ کے ایک مشہور شاپنگ مال میں تھے۔۔۔۔۔
ناز اور حریم کے لیے ایک جیسے نفیس سوٹ لیے۔۔۔
اماں بی کے لیے شال اور افرس کے لیے اس کا پسندیدہ پرفیوم ۔ہینڈ بیگ۔بچوں کے لیے ٹوائز ۔چاکلیٹس اور پری کے لیے ڈول ہاؤس جانے کیا کیا وہ سب کے لیے پیک کروا چکا تھا۔۔۔۔
مین ڈمی پر ایک خوبصورت بلیک نیٹ کی میکسی جس کے گلے پر ہلکا سا موتیوں اور نگوں کا کام تھا۔۔۔اوزیم کی نظر اس پر ٹہر سی گئی۔۔۔۔
حرمت نے اسے وہ ڈریس پیک کرواتے دیکھ کر پوچھا۔۔۔
یہ کس کے لیے؟؟؟؟
اگر میرے لیے کروا رہے ہیں تو میں یہ سب نہیں پہنتی۔۔۔۔
اور یہاں میری شاپنگ کے لیے آئے ہیں یا باقی سب کی؟؟؟۔۔۔۔وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔۔۔۔
سب میں کیا تم شامل نہیں؟؟؟
اب بیوی ہو تم میری۔۔۔۔ شوہر پر بیوی کے کچھ حقوق و فرائض واجب ہوتے ہیں۔۔۔
اب اگر بیوی کے فرائض ادا نہیں کرنا چاہتی تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟؟؟؟
اور بے شک مجھے بھی شوہر کے اصل حقوق سے بے بہرہ رکھنا چاہتی ہو۔۔۔
مگر کچھ فرائض ادا کرنے کی اجازت تو دو۔۔۔۔
ویسے تم کہو سارے حقوق و فرائض ادا کرنے میں مجھے کوئی پریشانی نہیں۔۔۔۔۔
کرنے پر آؤں تو کیا ممکن نہیں میرے لیے۔۔۔۔
مسلہ اتنا پیچیدہ بھی نہیں۔۔۔وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
حرمت نے اس کی اوشن بلیو آئیز میں دیکھا۔۔۔۔
کیا تھا وہ شخص جو پل بھر میں زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔۔
ایک بار موقع دے کر تو دیکھو۔۔۔۔اس نے حرمت کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے پیار بھرے اندازمیں کہا۔۔۔۔
بے ہودہ باتیں مت کیا کرو مجھ سے۔۔۔۔وہ ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے بولی۔۔۔۔
باچھا تو بے ہودہ باتیں تمہارے سوا کس سے کروں؟اس نے ابرو اچکا کر شرارت سے پوچھا
بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری باتیں۔۔۔وہ جھلا کر کہتی پاؤں پٹختی ہوئی آگے کو چلنے لگی۔۔۔۔
اوزیم نے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ تھا رکھے تھے وہ دونوں مال سے نکل کر پارکنگ ایریا کی طرف جانے لگے جہاں گاڑی کھڑی تھی۔۔۔
روڈ سے گزرتے ہوئے اوزیم ہمیشہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا جبکہ حرمت نیچے۔۔۔۔۔
تم اوپر آجاؤ۔۔۔۔۔اوزیم بولا۔۔۔۔
وہ پہلے تو حیران ہوئی پھر اوزیم کے ساتھ جگہ بدلی اب وہ اوپر فٹ پاتھ پر چل رہی تھی جبکہ وہ نیچے۔۔۔۔
اسکے نیچے چلنے کے باوجود بھی وہ اس سے ہائیٹ میں لمبا لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
اچانک اس کے ذہن میں وہ بچپن کی ساتھ گزری یاد تازہ ہوئی۔۔۔۔
جب اس نے کہا تھا کہ ہم جب بھی ساتھ ہوں وہ نیچے چلے گا اور حرمت اوپر۔۔۔۔
کیا اسے آج بھی میرا وہ بچکانہ حکم یاد ہے؟؟؟اس نے دل میں سوچا مگر زبان خاموش رہی ۔۔۔اسے کچھ بھی محسوس نا ہونے دیا۔۔۔۔
جبکہ اوزیم اس کی دماغی کیفیت کا حذ اٹھا رہاتھا۔۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖
گھر واپسی کے بعد ان دونوں نے فریش ہو کر نماز ادا کی اور پھر پارٹی میں جانے کے لیے تیار ہونے لگے۔۔۔۔
اوزیم اپنا ڈریس لیے دوسرے کمرے میں تیار ہونے چل دیا تاکہ حرمت آرام سے تیار ہو جائے۔۔۔۔۔
اس نے اوزیم کے بار بار کہنے پر میکسی پہن تو کی تھی مگر خود کو اس ڈریس میں ان کمفرٹیبل محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔
کیونکہ اس کی بیک کا گلہ کافی ڈیپ تھا۔۔۔۔
اس نے اپنے سامان سے بلیک نیٹ کا سکارف نکال کر اپنے شانوں کے گرد پھیلایا۔۔۔اور اپنے لمبے سٹریٹ ہیزل بال کھول کر پشت پر بکھرا دئیے۔۔۔۔
جیولری کے نام پر چھوٹے چھوٹے ڈائمنڈ ٹاپس پہن رکھے تھے جو ناز نے دئیے تھے۔۔۔۔
لائٹ پنک نیچرل کلر کا میک اپ کیے،اپنی بلیو آنکھوں میں کاجل کی باریک سی لکیر ڈالے، سفید پاؤں کو بلیک ہائی ہیلز میں مقید کیےوہ بالکل تیار تھی اس کے ساتھ جانے کے لیے۔۔۔۔
اوزیم تیار ہو کر لاؤنج میں آیا تو وہ پہلے سے ہی وہاں موجود تھی۔۔۔۔
ہر روپ میں دل پر چھا جانے کا ہنر رکھتی ہو۔۔۔
اسے یوں تیار دیکھ کر وہ دھیمے سے بڑبڑایا۔۔۔۔
حرمت کے کانوں سے اس کی بڑبڑاہٹ مخفی نا رہ سکی۔۔۔۔
مگر اس نے یوں پوز کیا جیسے کچھ سنا ہی نا ہو۔۔۔۔
دل چاہا اس کی تعریف میں دیوان لکھ ڈالے مگر دیوار گیر کلاک پر نظر پڑتے اس ارادے کو پھر کبھی پر موقوف کرتے ہوئے وہ اسے ساتھ لیے باہر نکلا۔۔۔۔
وقت پر پہنچنے کے لیے اس نے تیز ڈرائیونگ کی۔۔۔
سارا راستہ خاموشی سے کٹا۔۔۔۔
یہ اوزیم خان کے ساتھ کون ہے؟؟؟؟
ہال میں قدم رکھتے ہی ایک نے دوسری لڑکی سے پوچھا۔۔۔۔
اسے تو کبھی کسی لڑکی کے ساتھ نہیں دیکھا کہیں اس نے کسی لڑکی کو اپنی گرل فرینڈ بنا تو نہیں لیا؟؟؟
دوسری نے ہلکی آواز میں سرگوشی کی۔۔۔۔
وہ پہلی خوش نصیب میں بننا چاہتی تھی۔۔۔انہیں میں سے ایک نے کہا۔۔۔۔
حرمت اور اوزیم ان سب باتوں کو بخوبی سن رہے تھے۔مگر خاموش تھے۔۔۔۔
حرمت نے ہمت کیے اس کی جانب ایک نگاہ ڈالی۔۔۔۔
ہائی ہیلز کے باوجود بھی اس کے شانے کو چھو رہی تھی۔۔۔۔
بلیک کلر کے تھری پیس سٹائلش سوٹ میں ملبوس سفید چہرہ تازہ شیو کے باعث نیلاہٹ نمایاں تھی۔۔۔۔
پیشانی پر لاپرواہی سے بکھرے بلیک سلکی بال،نکھرا نکھرا سا ساحر پہلی نظر میں کسی کو بھی صنف مخالف کوگھائل کرنے کی تمام خوبیوں سے مالا مال تھا۔۔۔۔
اس نے اوزیم کے چہرے سے نظریں ہٹائی۔۔۔۔
یار لڑکی پتہ نہیں کون ہے ؟؟؟مگر جو کوئی بھی ہے ٹکر برابر کی ہے۔۔۔اس کی ہمراہی میں خوب جچ رہی ہے۔۔۔ہجوم میں سے ایک سر پھری بولی۔۔۔۔
وہ کہاں عادی تھی اس طرح کی پرہجوم تقریب کی اوزیم اس کی جھنجلاہٹ سمجھ پا رہا تھا ۔۔۔۔
اس لیے اس نے ایک لمحے کے لیے بھی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے الگ نا کیا۔۔۔۔
ایسے جیسے کسی بچے کے راستہ بھول جانے کے خوف سے اسے خود سے لگائے رکھے۔۔۔۔
ہجوم کا سینہ چیرتے ہوئے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا قدرے پر سکون جگہ پر آیا۔۔۔۔
وہ بھی اس کے ساتھ گھسٹتی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔
ویٹر !
ایک جگہ رک کر اس نے ویٹر کو آواز دی ۔۔۔
اس کے ٹرے میں موجود پانی کا گلاس اٹھا کر حرمت کو پکڑایا۔۔۔۔
ریلیکس۔۔۔۔۔
پی لو اسے۔۔۔۔
حرمت نے گلاس لے کر لبوں سے لگایا اور چند سانسوں میں ہی گلاس ختم کر ڈالا۔۔۔۔
اتنے لوگوں میں واقعی وہ کنفیوژن کا شکار ہو رہی تھی۔۔۔۔
وہاں موجود رنگ رنگ کی لڑکیاں اور چلتے پھرتےآدمی۔۔۔۔۔
اس نے گہری سانس لے کر خود کو نارمل کیا۔۔۔۔
عماد سامنے سے آتا ہوا نظر آیا تو حرمت نے سکون کی سانس لی۔۔۔شکر ہے کوئی تو جان پہچان والا نظر آیا۔۔۔۔۔
پارٹی اپنے عروج پر تھی۔۔۔ہر طرف رنگ و بو کا سیلاب تھا۔۔۔۔
میڈیا کوریج کے لیے موجود تھی۔۔۔۔
کومل گردیزی بھی اپنے والد فہیم گردیزی کے ساتھ وہاں موجود تھی۔۔۔۔
ڈائیس پر موجود شخص نے پروجیکٹ کے بارے میں اناونسمینٹ شروع کی تو اوزیم نے عماد کو حرمت کا دھیان رکھنے کا بول کر زرا آگے والی جگہ پر آیا۔۔۔۔
کومل کی نظر اوزیم خان پر پڑی تو وہ اپنی آنکھوں کو اپنے پسندیدہ منظر سے سیر کرنے لگی۔۔۔۔
کاش تمہاری آنکھوں میں کبھی اپنا عکس دیکھ پاؤں۔۔
۔کومل نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔۔۔۔
اس کی نظروں نے عماد کو ڈھونڈھنا چاہا۔۔۔۔
جو کافی پیچھے ہجوم میں کھڑا تھا۔۔۔۔
اس کے ساتھ بلیک ڈریس میں کوئی لڑکی تھی مگر صاف دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔
اس نے لاپرواہی سے بالوں کو جھٹک کر دوبارہ سے نظریں اوزیم خان پر جما دیں۔۔۔۔۔
جو سٹیج پر جا رہاتھا۔۔۔۔
اس دوران ہی اناونسمینٹ میں یہ کروڑوں کا پروجیکٹ اس سال کے بزنس مین آف دا ائیر اوزیم خان کے نام کیا جا چکا تھا۔۔۔۔
بھرپور تالیوں کی گونج میں اس نے پروجیکٹ کے پیپرزپر سائن کیا۔۔۔۔۔
کیمرہ مین کے کیمرے اور میڈیا کے مائکس اس کے چہرے کے قریب تھے۔۔۔۔
سر آپ کی اس کامیابی کا سہرا کس کے سر ہے؟؟؟؟
پہلا سوال پوچھا گیا۔۔۔۔
میری وائف مسسز حرمت اوزیم خان ۔۔۔۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے آگے آنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔
پل بھر کے لیے تو سب چونک گئے۔۔۔۔
یہ سب کب ہوا؟؟؟
سب کے لیے یہ کسی بریکنگ نیوز سے کم نا تھا۔۔۔۔۔
کومل جو اس کے جواب کی منتظر تھی اس کی بات سن کر سب سے پہلا شاک تو اسے لگا۔۔۔۔
اسے تو اپنی پوری ہستی ہی مٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
تن بدن میں آگ لگی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
اوزیم کے اشارے کے تعاقب میں میڈیا اور کمرہ مین نے رخ تبدیل کیا اور حرمت پر فوکس کیا۔۔۔۔
جو بمشکل چلتی ہوئی نظریں جھکائے ہوئے سٹیج تک آرہی تھی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ ہیلز کے ساتھ اوپر آتی اوزیم سٹیج سے نیچے اتر آیا۔۔۔۔
حرمت کے پاس آتے ہی اس کے شانے کے گرد اپنا حصار بنایا۔۔۔۔
My Wife Mrs.Hurmat Ozem khan.
سر آپ نے شادی بھی کر لی اور ہمیں انوائیٹ بھی نہیں کیا۔۔۔
میڈیا میں سے ہی ایک نے شکوہ کیا۔۔۔۔
اوزیم کے ہمہ وقت سپاٹ چہرے پر آج اک فسوں خیز مسکراہٹ دیکھ کر سب چونک گئے۔۔۔۔
دور کھڑی یہ سب دیکھتے ہوئے کومل گردیزی کے دل میں بھانبھڑ جل رہے تھے ۔۔۔۔۔
دل چاہ رہا تھا یہاں موجود ہر شے کو تہس نہس کردے ۔۔۔آگ لگادے سب کو۔۔۔۔۔
وہ تیز تیز سانس لیتے ہوئے خود پر قابو پانے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔۔
مگر اف یہ دل و دماغ کی جنگ۔۔۔۔۔۔
آج آپ سب کے لیے اپنی نئی شادی کی خوشی میں مسز حرمت اوزیم خان کچھ خاص کرنا چاہیں گی۔۔۔۔
کیوں مسز اوزیم خان ؟؟؟؟
کومل نے ایک صحافی سے مائیک لیتے ہوئے ڈائیریکٹ حرمت کو مخاطب کیے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
اوزیم نے تنفر بھری نگاہوں سے کومل کو دیکھا۔۔۔۔
جو ہجوم میں حرمت کو ڈی گریڈ کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی۔۔۔۔
عماد بھاگ کر کومل کے پاس پہنچا۔۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟ہوش میں تو ہو تم خاموش ہو جاؤ......
خاموش تو تم ہو جاؤ اوزیم خان کے ٹکروں پر پلنے والے دو ٹکے کے فریبی انسان ۔۔۔۔۔
وہ غرا کر بولی ۔۔۔۔۔
اس وقت وہ اپنے آپ میں نہیں تھی۔۔۔۔۔
اس کی بات سن کر عماد کو قطعاً دکھ نہیں ہوا بلکہ اس پر ترس آیا۔۔۔۔
وہ کیوں خود کو سب کی نظروں میں گرانے پر تلی ہوئی ہے۔۔۔۔
ہال کی لائٹس آف ہوئیں اور سپاٹ لائٹ حرمت پر تھیں جس کی نیلی ہرنی جیسی آنکھیں خوف کے باعث لرز رہی تھیں۔۔۔۔
اوزیم نے ڈی جے کے پاس جا کر کچھ کہا اور کوٹ اتار کر ایک طرف پھینکا ۔۔۔شرٹ کے بازو کہنیوں تک فولڈ کیے اس کے قریب آیا۔۔۔۔
اپنا ہاتھ اس کے آگے کیا۔۔۔۔
اس کے لبوں پر دھیمی سی مسکان تھی ۔۔۔حرمت کو کچھ ڈھارس ملی۔۔۔۔
جانے کب وہ اس کا ہاتھ تھام کر ڈانس فلور تک لے گیا۔۔۔۔
اتنے لوگوں کی موجودگی میں اس کا دل ڈوب کر ابھرا۔۔۔۔۔
ان دونوں کو ساتھ وہاں دیکھ کر ڈی جے نے میوزک سٹارٹ کیا۔۔۔۔۔
ترکش میوزک بجتے ہی حرمت نے حیران نظروں سے اوزیم کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
اوزیم نے اسے دیکھتے ہی شرارت سے آنکھ ونگ کی۔۔۔۔۔
آج سے کئی سالوں پہلے بولے گئے اس کے اپنے ہی الفاظ اس کے کانوں میں گونجنے لگے۔۔۔۔۔
مفن تمہیں میرے لیے ترکش ڈانس سیکھنا ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔
اسے آج تک میری نادانی میں کہی گئی ایک ایک بات یاد ہے۔۔۔۔
یہ سوچ کر اپنے آپ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بحال ہوئے۔۔۔۔
آپ کو یاد تھا۔۔۔۔اپنے آپ ہی اس کے لبوں سے یہ لفظ ادا ہوئے۔۔۔۔
آپ کے منہ سے نکلی ہوئی ایک ایک بات یہاں پر نقش ہے جناب ۔۔۔۔اوزیم خان نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھے کہا۔۔۔۔۔
ترکش میوزک سٹارٹ ہوا تو دونوں ماہرانہ انداز میں ڈانس سٹیپس لینے لگے۔۔۔۔۔
سب لوگوں کی نظریں ان پر جمی تھیں۔۔۔۔
Made for each other....
کسی نے کہا۔۔۔۔
دونوں ایک سے بڑھ کر ایک ۔۔۔نا ایک کم نا ایک زیادہ۔۔۔چاند اور سورج کی جوڑی۔۔۔۔ان کے بارے میں مختلف رائے دی جا رہیں تھیں۔۔۔
اوزیم خان کی آنکھوں میں دیوانگی دیکھ حرمت کا دل بھی عجیب لے پر دھڑکنے لگا۔۔۔۔
اس کی نظروں کے آہنی حصار سے خود کو آزاد ہی نا کروا پارہی تھی۔۔۔۔
مدھم دھن نے سب کو اپنے ساتھ باندھ رکھا تھا۔۔۔۔
ایک جادو سا فضا میں بکھرا ہوا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں پاؤں کے سٹیپس لیتے ہوئے ایک دوسرے کے بے حد قریب تھے اوزیم براہ راست اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا کیسی تپش تھی اس کی آنکھوں میں۔۔۔۔اسے اپنا وجود جھکاتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
ایک سٹیپ میں اوزیم نے بیٹھ کر فرش پر موجود اس مٹی کو ہاتھ سے لگا کر پہلے لبوں سے لگایا پھر دل سے۔۔۔۔۔
جہاں سے حرمت کے پاؤں نے گزر کر اس مٹی کو چھوا تھا۔۔۔۔
اوزیم نے اس مٹی کو چھو کر معتبر کردیا۔۔۔۔
وہاں موجود ہر شخص اوزیم خان کی دیوانگی کی حد پر ساکت ہوا۔۔۔۔۔
اور سب حرمت کی قسمت پر رشک کر رہے تھے۔۔۔۔۔
اوزیم خان کے اس عمل پر حرمت کا دل زور سے دھڑکا۔۔۔۔۔
ان دھڑکنوں کی آواز اس نے پہلے کبھی نہیں سنیں تھیں۔۔۔۔
اسے گمان ہوا اس کے سینے میں موجود دل آج پہلی بار دھڑکا ہے۔۔۔۔۔
کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ ؟
اس نے وہاں سے بھاگ جانے کی سعی کی۔۔۔۔
مگر وہ شاید اس کا ارادہ بھانپ چکا تھا اس لیے اسے اپنی مضبوط گرفت میں لیے اسے جانے سے روکا۔۔۔۔
حرمت ساکت تھی۔۔۔۔آخر کیا چاہتا تھا وہ۔۔۔۔
وہ شاید جان کر بھی اس کی آنکھوں میں نظر آتی ہوئی تحریر کو پڑھنے سے انکاری تھی۔۔۔
اوزیم کی گرم سانسیں اس کی گردن پر پڑ رہی تھیں۔۔۔۔
ایسے لگا اس کا وجود شعلوں کی لپیٹ میں ہے۔۔۔۔
اس کے تن بدن میں جیسے بھونچال سا آگیا ہو۔۔۔۔
اوزیم نے اسے کسی گڑیا کی مانند کمر سے اٹھا کر اوپر کیا تو وہ اسکے شانوں پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگی ۔۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوری طرح ڈوب چکے تھے۔۔۔۔
کہ میوزک رکتے ہی تالیوں کی گونج سے وہ ہوش میں آئے ۔۔۔
اوزیم نے دھیرے سے اسے نیچے اتارا۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖
پارٹی کے اختتام پر وہ دونوں گھر آ چکے تھے۔۔۔
حرمت آتے ہی روم میں چلی گئی چینج کرنے کی غرض سے ۔۔۔۔
اس نے سکارف اتار کر ایک طرف رکھا کھلے بالوں کو سمیٹ کر ان کا میسی سا جوڑا بنایا۔۔۔۔پاوں کو ہائی ہیلز سے آزاد کرتے ہوئے قدرے بہتر محسوس کیا۔۔۔
ٹاپس اتار کر ایک طرف رکھے اور میکسی کی زپ کھولنے لگی۔۔۔۔
اوزیم جو کبرڈ سےاپنا نائٹ ڈریس لینے اندر آرہا تھا۔۔۔۔اسے ایسے دیکھ کر وہیں رکا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔
وہ اسے کمرے میں اچانک دیکھ کر حیران ہوئی ۔۔۔۔پھر فورا دیوار کے ساتھ لگ کر اپنی پشت چھپائی۔۔۔۔۔
کچھ نہیں دیکھا میں نے ۔۔۔۔۔اس نے بند آنکھوں سے کہا۔۔۔۔
آ۔۔۔آ۔۔۔آپ میرے کمرے میں کیا لینے آئے ہیں اس نے قدرے غصے میں آکر زور سے کہا۔۔۔۔
آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کمرہ میرا ہے اور میں اپنے کپڑے لینے آیا تھا۔۔۔۔۔
اوزیم نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔۔
اسے دوپٹے کے بغیر دیکھے اپنی نظروں کا زاویہ تبدیل کیا۔۔۔۔۔
مگر اس کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔۔۔
حرمت نے جب اس کو خود کی طرف بڑھتے دیکھا تو اس کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی۔۔۔۔
اس نے بیڈ پر پڑا اس کا سکارف اٹھا کر اس پر پھیلایا۔۔۔۔
ایک چھوٹا سا مشورہ ہے اگر اجازت ہو تو عرض کروں۔۔۔۔
وہ جو آنکھیں میچے ہوئے تھی اس کی بات سن کر آنکھیں کھول دیں۔۔۔۔
ایسا کوئی کام کرنے سے پہلے بندہ ڈور لاک کرلے تو زیادہ بہتر رہتا ہے۔۔۔۔
وہ اس کے گال کو اپنی دو انگلیوں سے تھپتھپاکر کہتا ہوا روم سے باہر نکل گیا۔۔۔۔
اس جاتے ہی حرمت کی کب سے اٹکی ہوئیں سانسیں بحال ہوئیں۔۔۔۔۔
وہ چینج کیے روم سے باہر آئی کچن سے پانی لینے ۔۔۔۔۔
گلاس میں پانی بھر کر وہ لاؤنج میں آئی تاکہ صوفے پر بیٹھ کر پانی پی سکے۔۔۔۔
اوزیم کو اس کے چینج کرنے کے انتظار میں تھا کہ وہ کب فری ہو اور پھر وہ جا کر روم سے اپنا نائٹ ڈریس نکالے۔۔۔۔
اسے لاؤنج میں دیکھ کر اسی کی طرف آیا۔۔۔۔
مجھے کافی چاہیے۔۔۔۔کیا مل جائے گی۔؟
اس نے حرمت کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کے لیے کافی بنانے کچن میں چلی گئی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ اس کے لیے کافی بنا کر لائی تو وہیں لاؤنج میں ٹہلنے کا شغل فرما رہا تھا۔۔۔۔۔
اسے دیکھتے ہی کہا۔۔۔۔
میرے ہاتھوں کی لکیروں میں سمانے والے
کیسے چھینے گے تجھے مجھ سے زمانے والے
اس نے شاعرانہ انداز میں کہا۔۔۔۔
وہ سن کر ہلکا سا مسکائی۔۔۔۔
میں نے ہاتھوں کی لکیروں سے چرایا ہے تجھے
اک جہاں چھوڑ کہ آیا ہوں تو پایا ہے تجھے۔
حرمت نے بھی اس کے شعر کا جواب شعر میں دیا۔۔۔۔
یہ تمہارے حقیقی جذبات ہیں ؟؟؟؟
اوزیم نے گھمبیر لہجے میں پوچھا۔
نہیں ۔۔۔۔وہ جھٹ بولی ۔۔۔
یہ صرف آپ کے شعر کا جواب تھا۔۔۔۔
اس نے دامن چھڑایا۔۔۔۔
آپ کو بہت بہت مبارک ہو ۔۔۔۔
وہ کس چیز کی؟؟؟
آپ کے کانٹریکٹ کی۔۔۔۔
اس نے مگ اوزیم کی جانب بڑھایا۔۔۔۔
جسے اوزیم نے پکڑ کر میز پر رکھا۔۔۔۔
چوکو لاوا ہوتے ہوئے بھی اتنی روکھی پھیکی مبارک ؟؟؟؟؟
اوزیم کی بے سروپا بات پر اس نے اچنبھے سے اسے دیکھا۔۔۔۔
مطلب ؟؟؟؟وہ نا سمجھی سے بولی۔۔۔۔
وہ بھی سمجھا دیتے ہیں۔۔۔۔۔
وہ جوں جوں اس کے قریب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔
حرمت کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا ۔۔۔۔
وہ قدم پیچھے کو لینے لگی۔۔۔۔
یہاں تک قدم پیچھے لیتے ہوئے وہ صوفے کے ساتھ جا لگی۔۔۔
اوزیم اس کے بالکل قریب تھا۔۔۔۔
وہ اس سے دور ہونے کے لیے پیچھے ہوئی تو سر کے بل صوفے پر گری۔۔۔۔
اوزیم نےاس کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے اٹھنے میں مدد دے سکے۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اٹھتی ۔۔۔۔اوزیم خود گرنے کے انداز میں اس کے اوپر آیا ۔۔۔۔اور اس کے شانے کے ارد گرد ہاتھ رکھے اور خود کا وزن اس پر ڈالنے سے روکا۔۔۔۔
پ۔۔۔پ۔۔پلیز پیچھے ہو جائیں۔۔۔۔
وہ منمنانے لگی ۔۔۔اس کے لرزتے ہوئے لب اسے مسمرائز کر رہے تھے۔۔۔۔
اوزیم کی آنکھوں میں اسی پل کا جھماکا ہوا جب وہ صوفے پر گرا تھا اور چوکو لاوا نے اسے پہلی بار اپنے لمس سے آشنا کروایا تھا۔۔۔۔
Hey Choco Lava......
کبھی تو اپنے قرب کا احساس کروا کر میری شدتوں کو قرار دو۔۔۔۔۔
اس کی خمار آلود آواز سن کر حرمت کے بدن میں سنسی سی دوڑ گئی۔۔۔۔
آج دل من مانیوں پر مائل تھا۔۔۔۔
اس نے بہت بار اپنے امڈتے ہوئے جذبات کو تھپک کر سلانے کی کوشش کی تھی مگر آج وہ خود پر بندھ باندھے میں ناکام ہو رہا تھا۔۔۔۔
اپنے دلی جذبات پر لبیک کہتے ہوئے وہ اس کے گداز لبوں پر جھک کر انہیں اپنے لبوں میں قید کرگیا۔۔۔۔
حرمت کا توصدمے کے مارے برا حال تھا۔۔۔۔
اس کی شدت اس کی جنونیت برداشت کرنا اس کے لیے بہت مشکل تھا۔۔۔۔
وہ چند لمحوں میں ہلکان ہو چکی تھی۔۔۔۔
مگر اس کا اسے رہا کرنے کا شاید کوئی ارادہ نا تھا۔۔۔۔
حرمت نے خود کو چھڑوانے کے لیے پوری قوت سے اسے پیچھے دھکیلنا چاہا۔۔۔۔
مگر آج تو وہ جیسے اس کی سانسیں چھین کر اس کی جان لینے کے در پہ تھا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد منہ میں خون کا ذائقہ گھلتا ہوا محسوس ہوا اور حرمت کی طرف سے کوئی جنبش نا پاکر اسنے اسے آزاد کیا۔۔۔۔
جو شاید اس کی شدتوں سے ہلکان ہوئے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو چکی تھی۔۔۔۔
اس نے مسکرا کر اس کے لبوں پر انگوٹھا پھیرا۔۔۔۔۔
صبر کا پھل اتنا میٹھا ہوتا ہے چوکو لاوا آج پتہ چلا۔۔۔۔
اس نے اس کی پیشانی کے ساتھ اپنی پیشانی لگا کر کہا۔۔۔۔
دونوں کی سانسیں ایک دوسرے میں منتقل ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔
یہ منظر کسی کی دو حسد بھری آنکھوں نے دیکھتے ہی وہاں سے باہر کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔۔
💖💖💖💖💖
اوزیم خان اور اس لڑکی کو اتنا قریب دیکھ کر تو اسکے تن من میں آگ ہی لگ گئی۔۔۔۔
وہ جو اوزیم خان سے پوچھنے آئی تھی کہ اس کے پیار میں ایسی کیا کمی تھی جو اس نے کومل گردیزی کو چھوڑ کر کسی اور کا انتخاب کیا۔۔۔۔
آخر کیوں ؟؟؟؟؟
اوزیم خان کے گھر کے باہر کھڑے گارڈ نے اسے اندر جانے سے روکا تو اس نے اسے بھی دھمکی دے ڈالی کہ وہ اوزیم خان کی دوست ہے اگر اس نے کومل کو اندر جانے سے روکا تو وہ اوزیم خان سے کہہ کر اسے نوکری سے فارغ کروا دے گی۔۔۔۔
وہ اس کی دھمکی کے ڈر سے اسے اندر جانے کیا راستہ دے بیٹھا۔۔۔۔
اور سامنے کا آخری منظر جب اوزیم حرمت کی پیشانی کے ساتھ اپنی پیشانی ٹکائے سانس لے رہا تھا۔۔۔۔۔
وہ منظر تو اس کی آنکھوں سے جسے چپک کر رہ گیا ہو۔۔۔۔
اس نے انہیں یوں دیکھ کر واپسی کی راہ لی۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ منظر کسی فلم کی مانند اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگے۔۔۔۔
شہر کی مصروف ترین شاہراہِ پر رش ڈرائیونگ کرتے ہوئے ایک گاڑی سے زور دار ٹکر کے باعث وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی۔۔۔۔
گاڑی کا فرنٹ مرر زوردار چھناکے سے ٹوٹا۔۔۔۔
اور اس کے کانچ کومل کے چہرے اور جسم میں چبھ گئے۔۔۔۔۔
خون بہنے لگا۔۔۔۔۔
سر ڈرائیونگ سیٹ کے ڈور سے باہر کو لٹکا۔۔۔۔
راہ گیر جائے حادثہ کی طرف دوڑے۔۔۔۔۔
کچھ لوگوں نے اس کی حالت پر ہمدردی کا اظہار کیا جبکہ کچھ بے رحم اسے ہسپتال لے جانے کی بجائے موبائل پر حادثہ اور اس کی مووی بنا رہے تھے۔۔۔۔
اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ لگی تھی۔۔۔۔
بند ہوتی ہوئی آنکھوں کا یہ آخری منظر تھا جو اس نے دیکھا۔۔۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
عماد جو اسے بار بار کال کر رہا تھا اس کا حال جاننے کے لیے۔۔۔۔
مگر ہر بار بیل ہو کر بند ہو جاتی مگر وہ کال ریسیو نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔
انہیں راہ گیروں میں سے ایک نے ڈیش بورڈ پر بجتے ہوئے موبائل کو دیکھا تو اسے اس لڑکی کے ساتھ ہوئے حادثے کی اطلاع دی۔۔۔۔
عماد نے انہیں کومل کو فورا ہسپتال لے جانے کے لیے کہا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں عماد بھی ان کے بتائے گئے ہسپتال پہنچ گیا۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
حرمت کے پیے ہوئے پانی کے گلاس میں ابھی بھی کچھ پانی موجود تھا۔۔۔۔
اوزیم نے ہاتھ میں تھوڑا سا پانی بھر کر اس کے چہرے پر چھڑکا تو اس نے فورا ہوش میں آتے ہی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔
اوزیم کو اپنے پاس صوفے پر موجود دیکھ کر اس کا آخری عمل یاد آتے ہی نظریں اپنے آپ ہی جھک گئیں۔۔۔۔
لرزتی ہوئی پلکیں اٹھنے سے انکاری تھیں۔۔۔۔
اوزیم جو اس کے چہرے کے تاثرات جانچ رہا تھا کہ اس کا کیا ردعمل ہونے والا ہے ۔۔۔۔
اپنے موبائل پر اس وقت عماد کی آتی ہوئی کال دیکھ کر پریشان ہوا ۔۔۔۔
کال ریسیو کرتے ہی پوچھا ۔۔۔
کیا بات ہے سب ٹھیک تو ہے؟؟؟
سر وہ۔۔۔۔کچھ کہنے لگا مگر پھر خاموش ہو گیا۔۔۔۔
کیا عماد بتاؤ بھی ؟؟؟
سر کومل کا کافی سیریس ایکسڈنٹ ہوا ہے ۔۔۔۔
کیا ؟؟؟کیسے ہوا یہ سب؟؟؟
سر مجھے کچھ نہیں پتہ ۔۔۔۔وہ شاید آپ کو لے کر ڈیپریسڈ تھی۔۔۔۔
تمہارے کہنے کا کیا مقصد ہے عماد کہ یہ جو بھی اس کے ساتھ ہوا اس کا زمہ دار میں ہوں ؟؟؟؟
وہ تلخ لہجے میں گویا ہوا۔۔۔۔
ن۔نہیں سر میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔
سوری سر اگر آپ کو میری کوئی بات بری لگی تو۔۔۔۔
اس نے آنکھیں میچ کر خود کو پر سکون کیا پھر بولا۔۔۔۔
سوری کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ایسے مت بولا کرو۔۔۔۔
بتاؤ کہاں ہو؟؟؟کونسے ہاسپٹل؟؟؟
سر آپ یہاں آئیں گے؟؟؟اس نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
شاید اوزیم خان کو یہاں دیکھ کومل جلد ٹھیک ہو جائے۔۔۔۔۔
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔۔
وہ جیسی بھی ہے عماد مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ۔۔۔مگر انسانیت کے ناطے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں اسے دیکھنے آؤں ۔۔۔
یہ کہہ کر اس نے فون بند کیا۔۔۔۔۔
گلے میں موجود ٹائی کی ناٹ کو ڈھیلا کیا۔۔۔۔
پھر ٹائی اتار کر صوفے پر اچھالی ۔۔۔۔
ماتھے پر سوچ کی لکیریں واضح تھیں۔۔۔
وہ اپنی پوروں سے پیشانی مسلنے لگا۔۔۔۔
حرمت نے چپ چاپ وہاں سے اٹھ کر جانا چاہا۔۔۔۔۔
میرے ایک دوست کا ایکسیڈینٹ ہوگیا ہے۔۔۔
مجھے ہاسپٹل جانا ہوگا۔۔۔۔
بابا بھی گھر نہیں ۔۔۔میں تمہیں اکیلا گارڈز کے حوالے کیے وہاں نہیں جا سکتا ۔۔۔۔
میرے ساتھ چلو گی؟؟؟؟
دل تو تھا کہ انکار کردے ابھی تک وہ کچھ دیر پہلے ہوئے واقعے کے اثر سے ہی پوری طرح باہر نہیں نکلی تھی کہ اب پھر وہ اسے اپنے ساتھ لے جانے کی بات کر رہا ہے۔۔۔۔
مگر ایکسیڈنٹ کے بارے میں سن کر سوچ میں پڑ گئی۔۔۔۔
میں چادر لے کر آتی ہوں ۔۔۔۔
وہ اوزیم کی جانب دیکھے بغیر بولی۔۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖💖
جوں جوں وہ اپنی منزل کے قریب پہنچ رہا تھا رگوں میں دوڑتے ہوئے خون کی گردش تیز ہو رہی تھی۔
اس ملک سے پاکستان تک کی واپسی کا سفر جو اکیس گھنٹوں پر محیط تھا بہت مشکل سے طے کیا۔
ائیر پورٹ پر اسے کوئی بھی لینے آنے والا نہیں تھا کیونکہ اس نے گھر میں کسی کو بھی اطلاع جو نہیں دی تھی۔وہ سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔
ائیرپورٹ سے باہر نکل کر اس نے کیب لی اور اس میں بیٹھتے ہی بارش کی ہلکی پھوار گاڑی کے شیشے بھگونے لگی۔۔۔
اس نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھتے ہی ایک روح پرور سانس اپنے اندر اتاری۔۔۔۔
اپنے ملک کی فضا اس کی مٹی کی سوگند میں جو سرور تھا وہ اور کہیں نہیں۔۔۔۔
اتنے سالوں سے اپنے ملک سے دور پرائے دیس میں جو دوری کاٹی تھی وہ صدیوں پر محیط لگی۔۔۔۔۔
گھر کے باہر گاڑی کے رکتے ہی اس نے کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالی ۔۔۔
جو شام کے 8:48کا وقت دکھا رہی تھی۔
بلیو جینز ،وائٹ شرٹ پر بلیو ہی کوٹ پہنے ہوئے۔۔۔۔سیاہ آنکھوں پر نظر کا نازک سا ٹرانسپیرنٹ چشمہ لگائے وہ بہت سوبر سا لگا۔۔۔۔۔
دو تین بیل دینے پر دروازہ تو کھل گیا مگر اندر سے نکلنے والی شخصیت کو دیکھ کر حیران ہوا۔۔۔۔۔
جی آپ کون ؟؟؟؟
اندر سے آنے والی لڑکی نے سرتا پا اس کا جائزہ لیا۔۔۔۔۔
وہ اس اجنبی کی شاندار سوبر پرسنالٹی سے متاثر ہوئے بنا نا رہ سکی یک ٹک اسے دیکھے گئی۔۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖💖
چوبیس گھنٹے ان کے لیے بہت کریٹیکل ہیں ۔۔۔
آپ ان کے لیے دعا کریں۔۔۔۔ڈاکٹر نے جاتے ہوئے عماد کے شانے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔۔
اوزیم اور حرمت بھی وہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔۔
عماد نے کومل کے موبائل سے اس کے فادر کے نمبر پر کال کر کہ انہیں بھی اطلاع کر دی۔۔۔۔
اس کے والدین بھی یہ روح فرسا خبر سن کر فوراً سے پیشتر وہاں پہنچے۔۔۔۔۔
اس وقت وہ سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک وہاں موجود تھے۔۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
افرس جب ھاد کو شانے کے ساتھ لگائے گھر میں لٹی پٹی حالت میں داخل ہوئی تو سب سے پہلے اس کا سامنا اپنے بابا فلک شیر سے ہوا۔۔۔۔۔
کیا ہوا افرس بیٹا ؟؟؟؟
انہوں نے اسکے یوں اچانک آنے پر پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
اس نے ھاد کو وہیں صوفے پر لٹاتے ہوئے ان کی طرف ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھا۔۔۔۔
مما کہاں ہیں؟؟؟؟؟
بیٹا کیا بات ہے مجھے بتاو وہ مارکیٹ تک گئی ہے۔۔۔۔
وہ بھاگ کر ان کے ساتھ لگی۔۔۔۔۔
بابا بالاج نے۔۔۔۔۔
بالاج نے مجھے۔۔۔۔۔وہ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔۔
کیا کیا بالاج نے ؟؟؟؟
بتاؤ افرس؟؟؟؟
بابا اس نے مجھے گھر سے نکال دیا ۔۔۔۔
اس نے مجھے طلاق دے دی۔۔۔۔۔
وہ انہیں بتاتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔۔
میں بات کرتا ہوں اس زلیل انسان سے ۔۔۔۔
ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ میری بیٹی کے ساتھ؟؟؟وہ درشت لہجے میں بولے
بابا اس نے مجھ سے کسی جائیداد کے پیپرز پر سائن لیے ۔۔۔۔
اور کہہ رہا تھا کہ یہ اس کی پھپھو کی ہے جس پر آپ نے قبضہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔
وہ روتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں انہیں بتانے لگی۔۔۔۔
بکواس کرتا ہے وہ گھٹیا انسان ۔۔۔۔۔
میں نے کسی کی جائیداد پر کوئی قبضہ نہیں کیا ۔۔۔۔
جو اس جائیداد کی اصل حقدار تھی اسے ہی ملی ہے وہ ۔۔۔۔
ناحق قبضہ تو اس گھٹیا انسان نے کیا ہے ۔۔۔
مجھے رتی بھر بھی اس انسان کی چال کی بھنک بھی پڑ جاتی تو میں تمہارا رشتہ قطعاً اس سے نا جوڑتا۔۔۔۔۔
بابا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا ۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات سن کر چند ثانیے خاموش رہے۔۔۔۔۔
افرس ۔۔۔۔۔
کچھ دیر بعد کھوئی ہوئی آواز میں بولے ۔۔۔۔
آج میں تمہیں ایک ایسی حقیقت بتانے جا رہا ہوں جو تمہارے اور میرے سوا اللہ جانتا ہے ۔۔۔
اس سچائی کا ناز اور اوزیم ،بلکہ کسی کو کبھی بھی پتہ نہیں چلنا چاہیے۔۔۔۔
مجھ سے وعدہ کرو۔۔۔۔۔
انہوں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔۔۔۔
افرس نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے سر کو بھی جنبش دیتے ہوئے اثبات میں ہلایا۔۔۔۔
ان کی بات سن کر وہ مضحمل سی وہی رکھے ٹو سیٹر صوفے پر ڈھے گئی۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
ڈاکٹر نے صبح ہوتے ہی اس کی بہتر حالت کے بارے میں اطلاع دی تو سب کے چہروں پر اطمینان اترا۔۔۔۔
بہت شکریہ آپ لوگوں کا آپ سب نے ہمارے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔۔۔۔
فہیم گردیزی نے اوزیم اور عماد کو مخاطب کیے ہوئے کہا۔۔۔۔
اٹس اوکے آپ اپنا اور آنٹی کا خیال رکھیے گا۔۔۔ان شااللہ کومل جلدی ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔اوزیم خان نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔
انہوں نے ہولے سے سر ہلایا۔۔۔۔
اب ہم چلتے ہیں پھر آئیں گے۔۔۔۔وہ جاتے ہوئے بولا۔۔۔۔
پھر اوزیم اور حرمت دونوں گھر کی طرف روانہ ہوئے۔۔۔۔۔
ساری رات بینچ پر بیٹھ بیٹھ کر تو اس کی کمر جیسے تختہ بن چکی تھی۔۔۔۔
دونوں کی آنکھوں میں رتجگے کی وجہ سے سرخ ڈورے نمایاں تھے۔۔۔۔
سوری حرمت ۔۔۔
وہ ایک ہاتھ سے سٹئیرنگ تھامے دوسرا ہاتھ حرمت کے ملائم ہاتھ پر رکھ کر بولا۔۔۔۔
وہ کس لیے؟؟؟؟
ساری رات اپنے ساتھ تمہیں بھی خوار کیا۔۔۔۔
ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔میں ٹھیک ہوں وہ مروت نبھاتے ہوئےبولی۔۔۔۔
بیمار کی عیادت کرنا ثواب کا کام ہے۔۔۔۔۔
اس نے اوزیم کو باور کروانا چاہا۔۔۔۔
اور جو میرا دل صدیوں سے تمہارے عشق میں بیمار ہے ۔۔۔
اس کا علاج کون کرے گا؟؟؟؟۔۔۔۔
اس نے گاڑی کی رفتار کم کرتے ہوئے کہا۔۔۔
میں کیا جانو کون کرے گا؟؟؟۔۔۔یہ کہہ کر وہ ونڈو سے باہر نظر آتے ہوئے تیزی سے گزرتے ہوئےمناظر کی طرف اپنی نظروں کا زاویہ موڑ چکی تھی۔۔۔۔
اسکا علاج صرف تمہارے پاس موجود ہے ۔۔۔۔۔
تھکن کے باعث اوزیم کی آواز بھی بھاری ہو چکی تھی۔۔۔۔آنکھیں اپنے آپ ہی بند ہو رہی تھیں۔۔۔۔
گاڑی اپنے روٹ سے تھوڑا ہٹتی ہوئی محسوس ہوئی تو حرمت نے اوزیم کی طرف دیکھا جس کی ادھ کھلی آنکھوں اس کی تھکن اور آزردگی کا صاف پتہ چل رہا تھا۔۔۔۔
دھیان سے گاڑی چلائیں۔۔۔۔
نیند گھر پہنچ کر پوری کر لینا۔۔۔۔
حرمت نے اسے سخت لہجے میں سنائیں۔۔۔۔
وہ فورا ہوش میں آتے ہی خود کو نارمل کرتے ہوئے ڈرائیونگ کرنے لگا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ لوگ گھر پہنچ کر اپنے الگ الگ کمروں میں یوں سوئے جیسے صدیوں بعد انہیں سونے کا موقع ملا ہو۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
موبائل کی بار بار بجتی ہوئی بیل نے اس کی گہری نیند میں خلل ڈالا۔۔۔۔
اوزیم نے اپنا ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر موجود اپنا موبائل اٹھا کر دیکھا جس پر مما کالنگ جگمگا رہا تھا۔۔۔۔
ابھی بھی اٹھنے کا بالکل ارادہ نہیں تھا مگر وال کلاک پر نظر ڈالی جہاں شام کے چھ بجکر چوبیس منٹ ہو چکے تھے۔۔۔۔
میں اتنی دیر سویا رہا؟؟؟
کال جو اب آنا بند ہو چکیں تھیں ۔۔۔اس نے اپنی مما کو کال بیک کی۔
ہیلو!!!اسلام وعلیکم مما!!!
نیند کی وجہ سے اس کی آواز ابھی بھی بھاری تھی۔۔۔
وعلیکم السلام!!!
کیسے ہو؟؟؟
میں ٹھیک ہوں مما ۔۔۔
اور حرمت کیسی ہے؟؟؟؟
تم لوگ تو وہاں جا کر ہمیں بھول ہی گئے نا تو وہاں پہنچ کر یہ بتایا کہ خیریت سے پہنچ بھی گئے یا نہیں ۔۔۔اور نا ہی ایک بار بھی کال کی بچے اداس ہیں ۔۔۔انہوں نے چھوٹتے ہی شکوہ کناں انداز میں اظہار ِ کیا۔۔۔۔
سوری مما اس نے جمائی روک کر کہا۔۔۔۔
میں ابھی حرمت کو کہتا ہوں بچوں سے بات کرے ۔۔۔
دو اسے فون ۔۔۔۔
مما وہ یہاں نہیں ہے ۔۔۔۔
پھر کہاں ہے ؟؟؟؟
وہ ۔۔۔وہ مما وہ نا کچن میں ہے ۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔
تمہارے پروجیکٹ کا کیا بنا؟؟؟
مام وہ مجھے مل گیا۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو پھر تو۔۔۔۔
تھینکس مام۔۔۔۔
اوزیم کل دونوں بچوں پیام اور پریشے کی برتھ ڈے ہے۔۔۔وہ دونوں بہت ایکسائٹیڈ ہیں۔۔۔
تم لوگ وقت پر پہنچ جانا انہیں اچھا لگے گا۔۔۔
جی ٹھیک ہے مام ۔۔۔۔
تمہیں حرمت نے بتایا نہیں اس بارے میں؟؟؟
اب وہ انہیں کیا بتاتا کہ ان کی بہو محترمہ اس سے کوئی بھی بات شئیر کرنا پسند ہی نہیں کرتی۔۔۔۔
جی مما بتایا تھا۔۔۔ہم بس واپسی کی تیاری ہی کر رہے تھے۔۔۔۔
اس نے بات بنائی۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے اپنا اور حرمت کا خیال رکھنا۔۔۔۔
جی مام۔۔۔۔
کال بند کرتے ہی اس نے موبائل پر کچھ ٹائپ کر کہ حرمت کو سینڈ کیا۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
حرمت جو کچھ دیر پہلے ہی بھرپور نیند لے کر اٹھی تھی اب فریش ہوئے باہر آئی اور مغرب کی نماز ادا کر کہ فارغ ہوئی تھی اپنے موبائل پر میسج نوٹیفکیشن دیکھ کر اس نے اسے آن کر کہ دیکھا تو
باتیں میری ہیں،مگر الفاظ میں
💕صرف تم ہو💕
آنکھیں میری ہیں مگر ان آنکھوں میں
💕صرف تم ہو۔💕
پیار میرا ہے مگر اس پیار کی حقدار
💕صرف تم ہو۔💕
روح میری ہے مگر ہر دھڑکن
💕صرف تم ہو۔💕
تم چاہے مجھ سے خفا کیوں نا ہو جاؤ
پر میرے جینے کا ذریعہ
💕صرف تم ہو۔💕
یہ پڑھتے ہوئے اسے خود پر کسی کی نظروں کا ارتکاز محسوس ہوا تو اس نے نظریں اٹھا کر دیکھا ۔۔۔
وہ سامنے دروازے کے ساتھ زرا ترچھے انداز میں ٹیک لگائے سینے پر ہاتھ باندھے اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ حاضر تھا۔۔۔۔
کچھ چاہیے آ۔۔۔۔آ۔۔۔ آپ ۔۔کو ؟؟؟
اس نے موبائل تکیے کے نیچے کھسکاتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم تم سے پیار مانگیں۔۔۔۔
اور تم ہمیں گلے لگا کر کہو۔۔۔۔۔
اور کچھ؟؟؟؟؟
وہ پیار بھری نظریں اس کے چہرے پر سجائے ہوئے لمحہ ِآزامائش بنا کھڑا تھا۔۔۔۔
واپس کب جانا ہے ؟؟؟
اس نے اوزیم کی بات کو سرے سے ہی اگنور کیے اپنی بات کہی۔۔۔۔
وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔۔۔۔
ٹکٹس کنفرم ہو گئیں ہیں رات دو بجے کی فلائٹ ہے ۔۔۔تیاری کر لینا۔۔۔۔
💖💖💖💖💖
جریر سلطان۔۔۔۔۔
اس نے اس لڑکی کو اپنا تعارف کروایا۔۔۔۔۔
تو ؟؟؟؟
تو یہی کہ یہ میرا گھر ہے ۔۔۔فائز سلطان میرے والد ہیں۔۔۔اور آپ یہاں اس گھر میں کیا کر رہی ہیں ؟؟؟؟
ایک منٹ ۔۔۔ایک منٹ وہ لڑکی سب دید لحاظ بھلائے اس کے گھر کو اپنا کہنے پر جوش میں آئی اور لڑاکا انداز میں کمر پر ہاتھ رکھ کر بولی۔۔۔۔
واہ جی سمجھ کیا لیا ہے خود کو ایشین بیوٹی ؟؟؟؟۔۔۔
ٹھیک ہے میں انکار نہیں کرتی تمہاری اس خاصیت سے مگر اب تم پھیل رہے ہو۔۔۔یہ گھر ہمارا ہے کچھ سالوں پہلے میرے والدین نے خریدا تھا۔۔۔۔
کسی وشمہ نامی عورت سے۔۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں انہیں ؟؟؟وہ اپنی مما کا نام سن کر سرشاری سے بولا۔۔۔۔۔
نہیں زیادہ نہیں بس ان کا نام ہی پتہ ہے۔۔۔۔
وہ لاپرواہی سے بولی۔۔۔۔
پلیز آپ اپنے والدین سے پوچھ لیں شاید انہیں کچھ پتہ ہو۔۔۔۔کہ وہ اس وقت کہاں ہیں ۔۔۔
میرے گھر والے سب کہاں ہیں ؟؟؟؟اس نے منت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔
سوری میں اس سلسلے میں آپ کی کوئی مدد نہیں کر سکتی کیونکہ میرے والدین اب حیات نہیں ۔۔۔۔۔
میں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اس گھر میں رہائش پذیر ہوں۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات سن کر پژمردہ سے قدم اٹھاتا ہوا چلنے لگا۔۔۔۔
اس کا رخ اب ایک ہوٹل کی طرف تھا جہاں وہ اپنے رہنے کے لیے ایک کمرے کا انتظام کرنے والا تھا۔۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤
چوبیس گھنٹوں کا جان لیوا انتظار ۔۔۔۔
سب کی جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی۔۔۔
اوزیم اور حرمت تو جا چکے تھے مگر عماد اس کے والدین کے ساتھ وہیں موجود رہا۔۔۔۔
آئی ۔سی ۔یو کے گلاس ڈور سے باری باری سب ہی اسے دیکھ آئے۔۔۔۔
اس کا جسم جا بجا سفید پٹیوں سے جکڑا ہوا تھا۔۔۔
ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔۔۔چہرے پر بھی یہی حال تھا۔۔۔
وہ صرف سانس لے رہی تھی مگر اس کی آنکھیں بند اور جسم بے جان لگا۔۔۔۔
عماد سے اس دلربا کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی ۔۔۔
ایک نظر دیکھ کر اس نے اپنی نظریں اس سے ہٹا لیں۔۔۔۔۔
اگر ایک لمحہ بھی یہاں کھڑا رہا تو خود کو سنبھال نا پائے گا۔۔۔۔
وہ چلتا ہوا اس کی مما کے پاس آ بیٹھا جہاں پر وہ کوریڈور کے ایک کونے میں جائے نماز بچھائے سر بسجود تھیں۔۔۔ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔
دل میں بس ایک ہی دعا تھی اس کی سلامتی کی۔وہ وہاں غمزدہ حالت میں موجود تھیں۔۔۔۔
آپ فکر مت کریں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے جلد ہی ہوش آ جائے گا۔۔۔۔
میری بیٹی کا چہرہ؟؟؟؟؟
وہ یہ سب برداشت نہیں کر پائے گی۔۔۔۔
آنٹی ڈاکٹرز نے کہا ہے کہ وہ اس کے چہرے کی ایک چھوٹی سی سرجری کریں گے ۔۔۔پھر سب ٹھیک ہو جائے گا پریشانی والی کوئی بات نہیں۔۔۔۔
اس کی باتوں سے انہیں ڈھارس ملی۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
ہوٹل میں داخل ہوتے ہی اس نے ریسیپشن پر موجود ریسپیشنسٹ سے ہوٹل میں ایک روم بک کرنے کے لیے کہا۔۔۔۔
سر ہمارا ہوٹل تو فل ہے ۔۔۔اس نے کمپیوٹر پر ساری تفصیل سرچ کر کہ دیکھتے ہوئے اسے جواب دیا۔۔۔۔
ہہہہہہم۔۔۔۔۔
وہ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔
سر ویٹ آ منٹ۔۔۔
ابھی آدھ گھنٹے میں ایک روم موجود کپل چیک آؤٹ کرنے والے ہیں۔۔۔
اگر آپ کچھ دیر ویٹ کر سکتے ہیں تو۔۔۔۔
ٹھیک ہے میں وکٹ کر لوں گا دوسرا ہوٹل ڈھونڈنے میں بھی تو اتنا ہی وقت لگ جائے گا وہ بولا۔۔۔۔
سر آپ اپنی معلومات دے دیں ۔۔۔۔
My name is Jareer Sultan..........
اپنی معلومات دینے کے بعد وہ چہل قدمی کرتے ہوئےہوٹل کے اردگرد کا جائزہ لینے لگا۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
شاندار ہوٹل کے گراؤنڈ فلور پر آج پیام اور پریشے کی برتھ ڈے پارٹ ارینج کی گئی تھی۔۔۔۔
خان مینشن کے تمام افراد وہاں موجود تھے ۔۔۔
اینٹرس پر حرمت اور اوزیم گیسٹ کو ویلکم کر رہے تھے۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں مہمان جب مکمل ہوئے تو پارٹی کا آغاز ہوا۔۔۔۔۔
ہال کو پنک اور بلیو دونوں رنگوں کے بلونز اور ربنز سے سجایا گیا تھا۔۔۔۔
بہترین فلاورز اور برتھ ڈے اکسسریز اور ڈیکوریشنز نے ماحول کو چار چاند لگا رکھے تھے۔۔۔۔
ھاد پارٹی پاپرز اور افرس نے سنو سپرے ہاتھوں میں لیے کیک کٹ ہونے کے انتظار میں تھے۔۔۔۔۔
پیام اور پریشے نے ریڈ ربن سے سجی خوبصورت نائف کو پکڑا تو اوزیم خان اور حرمت دونوں نے بھی ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کیک کٹ کیا۔۔۔۔
ھاد نے ان پر پارٹی پاپرز پھاڑے تو افرس نے ان سب پر سنو سپرے کر کہ محفل کو زعفران بنا ڈالا۔۔۔۔۔
اوزیم نے کیک پیام اور پریشے کے منہ میں ڈالا۔۔۔۔
پھر حرمت نے بھی ان دونوں کو کیک کھلایا۔۔۔
مما ،بابا آپ دونوں بھی ایک دوسرے کو کھلائیں نا۔۔۔
پری نے انوکھی فرمائش کی۔۔۔
حرمت نے اسے گھوری ڈالی۔۔۔۔
کھلا دو بیٹا اس میں کیا حرج ہے۔۔۔۔ناز نے کہا
تو دونوں نے ایک دوسرے کے منہ میں کیک کا چھوٹا سا ٹکرا بڑھایا۔۔۔۔
فوٹو گرافر ان کی برتھ ڈے پارٹی کے ہر منظر کو اپنے کمرے میں قید کر رہا تھا۔۔۔۔
سر آپ چاروں کی ایک اچھی سی تصویر ہو جائے۔۔۔۔اس نے کہا۔۔۔۔
تو حرمت نے اوزیم کی طرف دیکھا۔۔۔۔
پیام اور پری آگے کھڑے ہوئے جبکہ ان کے پیچھے اوزیم اور حرمت کھڑے تھے ۔۔۔
اوزیم نے اپنے ایک بازو اس کی کمر کے گرد حمائل کیا۔۔۔
حرمت نے اس کی طرف دیکھا تو اوزیم مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔کمرے نے یہ منظر اپنی نگاہ میں ہمیشہ کے لیے قید کر لیا۔۔۔۔
اور کسی کی بے چین آنکھوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح وہاں موجود کرسی پر شکستہ وجود لیے ڈھ سا گیا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ کر گرا۔۔۔۔
آنسو قطار در قطار بہنے لگے۔۔۔۔
آج وفا کے نام سے نفرت سی ہونے لگی ۔۔۔۔۔
کیا اتنی جلدی تھی مجھ سے جان چھڑانے کی ؟؟؟
کہ میرا انتظار تک نا کر سکی۔۔۔۔۔
اور اپنی نئی دنیا بسا لی۔۔۔۔
وہ خودی سے مخاطب ہوا۔۔۔۔۔
اس کے انداز و اطوار میں برسوں کی تھکن تھی۔۔۔۔
اس کی نظر اس کے قریب سے گزرتی ہوئی اماں بی پر پڑی تو وہ ان کے پیچھے لپکا ۔۔۔
وہ جو تقریب میں شمولیت کے لیے آئیں تھیں
ہجوم کی وجہ سے گھٹن محسوس کرتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھ کر باہر کی طرف تیزی سے بڑھیں۔۔۔۔
ابھی وہ روڈ پر کسی رکشہ کو روک ہی رہی تھیں کہ پیچھے سے کسی نے ان کے شانے پر ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
انہوں مڑ کر دیکھا تو انہیں اپنی آنکھوں پر یقین کرنا مشکل لگا۔۔۔۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟
یہ یقیناً ان کا وہم ہے ۔۔۔انہوں نے یہ سوچتے ہوئے اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔
اماں بی میں ہی ہوں جریر سلطان۔۔۔۔
سچ میں تم ۔۔۔۔۔وہ حیرت سے اس کی تھوڑی کو چھو کر بولیں۔۔۔۔
اس نے کچھ کہے بغیر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
تم میرے ساتھ چلو گھر ۔۔۔
وہاں ساری بات کریں گےیہاں مناسب نہیں۔۔۔۔
انہوں نے روڈ پر چلتی ہوئی گاڑیوں کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔
وہ دونوں ایک ہی رکشہ میں سوار ہوئے۔۔۔۔
اماں بی نے رکشہ ڈرائیور کو گھر کا پتہ سمجھایا۔
اماں بی ماما بابا کہاں ہیں؟؟؟
میں گھر گیا تھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔۔۔
ہاں بیٹا اب وہاں کوئی نہیں رہا۔۔۔۔انہوں نے گہری سانس لی۔۔۔۔
تمہارے بابا تو تمہاری موت کی خبر سنتے ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ہیں آپ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟اس نے سکتے کے عالم میں کہا۔۔۔۔
بیٹا اولاد کا غم بہت بڑا ہوتا ہے ۔۔۔اس غم کو جھیل جانا کسی کسی کے بس کی ہی بات ہے۔
انہوں نے ٹہرے ہوئے انداز میں کہا۔۔۔
وہ کچھ دیر بعد اپنا غم غلط کیے پھر سے ہمت مجتمع کیے ہوئے بولا۔۔۔
اور مما؟؟؟؟
وہ اکیلی رہ گئی تھی یہاں اکیلے رہ کر کیا کرتی اس لیے کچھ عرصے بعد گھر فروخت کیے اپنی بہن مغیرہ کے پاس امریکہ چلی گئی۔۔۔۔
اس نے ان کی بات سن کر ٹوٹے ہوئے انداز میں کر رکشہ کی پشت سے سر ٹکایا۔۔۔
وہ اکیلی کیوں رہ گئیں؟؟؟۔۔۔حرمت تھی نا ان کے پاس۔۔۔
اس کا سوال سن کر پہلے تو وہ سوچ میں پڑ گئیں پھر اسے سب سچ بتانے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔
اور اسے شروع سے لے کر آخر تک سب بتا دیا کہ کیسے اس کی ماں وشمہ نے حرمت پر الزام لگا کر اسے اور حریم کو گھر سے نکالا تھا۔۔۔۔۔
پھر کتنے سال حرمت اور حریم ان کے گھر رہی اور کس حال میں رہی۔۔۔۔
آخر کار حریم کی بہن ان دونوں کو اپنے ساتھ لے گئیں۔۔۔۔۔
مجھے اس سے بے وفائی کی امید نہیں تھی۔۔۔حرمت کے بارے میں اس کے منہ سے شکوہ پھسلا۔۔۔۔
ایسی بات نہیں بیٹا ۔۔۔اس کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا مت سوچو۔۔۔
وہ تمہارے ساتھ باوفا رہی اس بات کی میں خود گواہ ہوں۔۔۔۔۔۔۔مگر حالات ہی کچھ ایسے تھے ۔۔۔۔
وہ تمہیں بہت یاد کرتی تھی۔۔۔اس چھوٹی سی عمر میں اس بچی نے بہت سے دکھ جھیلے ہیں۔۔۔۔
جس عورت کے سر پر مرد کا سایہ نا ہو وہ اس بے رحم معاشرے کے بھیڑیوں کی نظر ہو جاتی ہے۔۔۔۔
اس نے اپنے آپ کو بچا کر رکھا۔۔۔۔۔
عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔۔۔اپنے نکاح کو لے کر ۔۔۔۔مگر وہ مدت بھی پوری ہو گئی تو تم سے اس کا نکاح منسوخ ہو گیا۔۔۔۔
بیٹا اب وہ تمہاری نہیں رہی۔۔۔۔۔
تمہارے نا آنے سے تم دونوں میں جو رشتہ تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔۔۔۔
اب وہ تمہارے لیے اور تم اس کے لیے نا محرم ہو۔۔۔۔۔
بہت باہمت ہے وہ۔۔۔۔وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔مگر۔۔۔
کیا مگر ؟؟؟؟؟
انہیں سانس لینے میں دقت پیش آ رہی تھی۔۔۔
جریر نے ڈرائیور کو رکشہ کا رخ گھر کی بجائے ہسپتال کرنے کا کہا۔۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
اسے آج صبح ہی ہوش آیا تھا ۔۔
اس کی والدہ باہر شکرانے کے نوافل ادا کر رہی تھیں ۔۔۔
جبکہ یہ خبر سن کر فہیم گردیزی یتیم اور مسکین کو کھانا تقسیم کرنے گئے تھے۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا بنا آواز کیے ڈور کھول کر امداد آیا جہاں وہ لیٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
عماد کو سامنے دیکھ کر اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔۔۔۔
کیسی ہو؟؟؟؟
سمجھ نہیں آرہا تمہیں مخاطب کیسے کروں؟؟؟؟وہ جھجھکتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔
کیونکہ میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی کہ تمہیں مخاطب کر سکوں۔۔۔
جو ناروا سلوک میں نے تمہارے ساتھ کیا اس کے بعد تو تمہیں میری شکل بھی دیکھنے نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔
وہ خاموش رہا تاکہ وہ اپنے اندر کا سارا غبار نکال سکے۔۔۔۔۔
کسی سے حسد کرنے سے کچھ نہیں ملتا ۔۔۔
ملتا وہی ہے جو اللّٰہ نے ہمارے مقدر میں لکھ دیا ہوتا ہے۔۔۔
میں نے اللّٰہ تعالیٰ کے بنائے گئے اصولوں کی خلاف ورزی ۔۔۔۔
اس کی تقسیم سے اختلاف کیا۔۔۔۔ اسی لیے مجھے یہ سزا ملی۔۔۔
اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کر کہا جہاں ابھی بھی زخموں کے نشان تازہ تھے۔۔۔۔
آج میرا غرور مٹی میں مل گیا۔۔۔۔
میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نا کر سکی۔۔۔
مجھے لگا کہ میں کبھی نا کبھی اسے حاصل کرلی لوں گی۔۔۔کیونکہ مجھے اپنی من پسند چیز حاصل کرنے کی لت جو پڑ چکی تھی۔۔۔۔
آج مجھے گھن آرہی ہے اپنے وجود سے۔۔۔۔
میں نے جان لیا ہے کہ زندگی میں اتنی بھی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے جن کی معافی نا ملے۔۔۔۔۔
کیا تم مجھے معاف کرو گے؟؟؟؟؟۔۔۔اس نے سچے دل سے معافی مانگی۔۔۔۔۔اس کے دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا۔۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
جریر سلطان انہیں اپنے ساتھ قریبی ہسپتال
لا چکا تھا۔۔۔۔
چیک اپ کے بعد ان کی شوگر ٹیسٹ کی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ ان کا شوگر لیول انتہائی لو تھا جس کی وجہ سے انہیں ایسا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد اب یہ ٹھیک ہیں۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں آپ انہیں گھر لے جا سکتے ہیں۔۔۔۔
اماں بی کی طبیعت سنبھلتے ہی وہ انہیں اپنے ساتھ ان کے گھر تک چھوڑنے آیا۔۔۔۔
انہیں پانی کا گلاس لا کر دیا تاکہ وہ باقی کی میڈیسن لے لیں۔۔۔۔
پھر وہ جانے لگا تو اماں بی نے اسے روک لیا۔۔۔
کہا جا رہے ہو بیٹا؟؟؟؟
اماں بی اب آپ آرام کریں میں پھر سے ملنے آؤں گا۔۔۔۔۔
تم یہیں میرے پاس ہی کیوں نہیں رک جاتے
میں اکیلی ہوں ۔۔۔مجھے بھی سہارا مل جائے گا۔۔۔۔
اس نے اماں بی کی حد درجہ شفقت سے متاثر ہوئے وقتی طور پر وہیں رکنے کا فیصلہ لیا۔۔۔۔
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
اماں بی اٹھ کر بیٹھیں تو وہ ان کے چائے بنائے اور ساتھ بریڈ لیے اندر آیا۔۔۔
ارے بیٹا یہ تم کیا کر رہے ہو ؟؟؟
میں خود ہی کر لوں گی۔۔۔۔تم رہنے دو۔۔۔۔
انہوں نے نرمی سے اسے منع کرنا چاہا۔۔۔۔
تمہارا بیٹا پیام ہو بہو تم پر گیا ہے ۔۔۔جبکہ بیٹی ڈک ٹو حرمت کی کاپی۔۔۔۔
وہ مسکرا کر بولیں۔۔۔۔
میرے بچے؟؟؟؟یہ آپ کیا کہہ رہیں ہیں؟؟؟
وہ حیرت انگیز لہجے میں بولا۔۔۔۔
انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
ہاں تمہارے بچے۔۔۔۔
تمہارے جاتے ہی حرمت کو یہ خوشخبری ملی تھی۔۔۔۔
وہ تمہیں بتانا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے ہی تمہاری خبر یہاں تک پہنچ گئی۔۔۔۔۔
انہوں نے افسوس ذدہ لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے بتایا۔۔۔۔
اماں آپ نہیں جانتی میرے ساتھ وہاں کیا ہوا۔۔۔۔۔
ہم مغربی ممالک میں پیسہ کمانے تو چلے جاتے ہیں مگر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہودی ازل سے ہی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔۔۔۔
جہاں میں کام کرتا تھا وہیں قریب ہی ایک دن بم بلاسٹ ہوا۔۔۔۔
اور انہوں نے مجھے بھی شک کی بنا قید کر لیا۔۔۔۔
میں پھر بھی مطمئن تھا ۔۔۔
ثابت قدم رہا۔۔۔۔میں نے کچھ کیا ہی نہیں تو مجھ پر لگا الزام کیسے ثابت ہوگا۔۔۔۔۔
میرا ضمیر مطمئن تھا۔۔۔۔۔
شروع میں تو ان لوگوں نے مجھ سے صرف پوچھ گچھ کی مگر جب میں نے کسی بھی چیز کا اعتراف نا کیا۔۔۔۔
تو ان لوگوں نے مجھ پر ٹارچر کرنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔
آپ کو میں بتا نہیں سکتا وہاں کی جیلوں میں مسلمانوں پر کیا ظلم ہوتے ہیں ان پر کیسا تشدد کیا جاتا کیا ہے کہ سنیں تو روح بھی کانپ جائے۔۔۔۔
مغربی ممالک کے لوگ ہم پاکستانیوں کو دہشت گرد گردانتے ہیں۔۔۔۔
جہاں بھی کوئی خون خرابہ ہو مسلمانوں پر الزام لگایا جاتا ہے۔۔۔۔
ہر طرف مسلمان پس رہے ہیں۔۔۔۔
ان یہودیوں کے ظلم اور بربریت کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں۔۔۔
ہم مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے خود لڑنا پڑتا ہے۔۔۔۔۔
چاہے اس کے لیے کتنے ہی لوگ شہید ہوں۔ان کو حق اور اسلام کی خاطر اپنی جان قربان کرنی پڑتی ہے ۔۔۔۔
میں نے بہترین زندگی گزرانے کے لالچ میں وہاں کا رخ کیا۔۔۔۔
مگر میں نہیں جانتا تھا کہ بہترین زندگی کو تو خود ٹھوکر مارے جا رہا ہوں۔۔۔۔
زیادہ سے زیادہ پانے کے لیے جو پاس تھا وہ بھی کھو دیا میں نے ۔۔۔۔
میں خالی ہاتھ رہ گیا۔۔۔۔۔
اماں بی میں خالی ہاتھ رہ گیا۔۔۔۔
وہ گھٹنوں کے بل فرش پر گرا۔۔۔۔۔
میرے جانے سے میرےہنستے بستے گھر کا شیرازہ یوں بکھر کر رہ جائے گا میں نے سوچا نا تھا۔۔۔۔
وہ کرب ذدہ لہجے میں روتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔
سنبھالو خود کو بیٹا۔۔۔۔
انہوں نے اس کے شانے پر تھپک کر تسلی آمیز انداز میں کہا۔۔۔۔
اپنی ماں سے ملو ۔۔۔تم بہتر محسوس کرو گے۔۔۔۔انہوں نے اسے بہلانے کے لیے نئی راہ دکھائی۔۔۔۔
نہیں اماں بی انہیں بے خبر ہی رہنے دیں۔۔۔۔
کیا تم نے اپنی ماں کو معاف نہیں کہا حرمت سے برتاو کی وجہ سے ؟؟؟؟
نہیں اماں بی والدین جیسے بھی ہوں اولاد ان سے ناراض ہونے کاحق نہیں رکھتی۔۔۔۔
میں انہیں پھر سے مل کر دوبارہ بچھڑ جانے کا حوصلہ خود میں نہیں پاتا۔۔۔۔۔
دوبارہ بچھڑ جانا؟؟؟
یہ کیا بات ہوئی؟؟؟؟
🖤🖤🖤🖤🖤🖤🖤
سر باہر کوئی حرمت میڈم سے ملنے آیا ہے ۔۔۔
انٹر کام پر گیٹ کے باہر موجود گارڈ نے اسے اطلاع دی۔۔۔۔
جب سے کومل والا معاملہ ہوا تھا اوزیم نے گیٹ کیپر کو سمجھا دیا تھا کہ کوئی بھی باہر کا آدمی اندر آنے کی ضد کرے تو وہ اسے پہلے انٹر کام پر اطلاع دے۔۔۔۔
اوزیم جو اپنے روم میں تھا گلاس وال سے باہر کھڑے کسی اجنبی شخص کو دیکھ کر سوچا۔۔۔
مگر کوئی بھی گرہ ہاتھ نا آئی۔۔۔۔
حرمت جو اس کے لیے کافی بنا کر لا رہی تھی۔۔۔
اسے باہر دیکھتے ہوئے اس کی نظروں کے تعاقب میں جسے دیکھا ۔۔۔۔
تو اس کی نظریں وہیں جم کر رہ گئیں۔۔۔۔
دل ایک لمحے کے لیے رکا۔۔۔۔
سانسیں اٹکیں۔۔۔۔
اوزیم نے پیچھے مڑ کر اس کے زردی مائل چہرے پر نظر ڈالی تو پریشانی سے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔۔۔۔
تم جانتی ہو اسے ؟؟؟؟؟
اس نے اپنی سوکھی ہوئی زبان کو تر کیا۔۔۔۔
مگر بولنے کی سکت خود میں مفقود پائی۔۔۔۔
بس ہولے سے سر اثبات میں ہلا دیا۔۔۔۔
کون ہے؟؟؟؟
اس نے جانچتے ہوئے انداز میں پوچھا۔۔۔۔
آؤ میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔
وہ اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے باہر نکلا۔۔۔۔
پھر سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے گیٹ سے باہر نکلا۔۔۔۔۔
باہر جا کر اس کا ہاتھ چھوڑا۔۔۔۔۔
جریر سلطان نے ان دونوں کو ساتھ دیکھتے ہی نظریں ان پر مرکوز کیں۔۔۔۔
آپ کون ؟؟؟اس نے پھر سے اپنا وہی سوال اب کی بار سامنے موجود شخص سے دہرایا۔۔۔۔
میں جریر سلطان۔۔۔۔اس نے اپنا تعارف دیا۔۔۔۔
مجھے حرمت سے اجازت چاہیے ۔۔۔۔
کس چیز کی اجازت؟؟؟اوزیم بولا۔۔۔۔
جبکہ حرمت اپنی جگہ پرسر جھکائے ہوئے جامد کھڑی رہی۔۔۔۔
میں پہلی اور آخری بار اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہوں۔۔۔۔جریر نے سادہ سے الفاظ استعمال کیے۔۔۔۔
پہلی بار تو ٹھیک ہے مگر یہ لفظ آخری کا مطلب جان سکتا ہوں ۔۔۔اوزیم خان سرد لہجے میں بولا۔۔۔
ویسے تو اس لفظ کی بہت سی وجوہات ہیں
مگر ایک بتاتا ہوں ۔۔۔
میں نہیں چاہتا میرے بچے مجھے لے کر ڈبل مائینڈڈ ہوں اور ڈیپریشن کا شکار ہو جائیں۔۔۔۔۔
اور مجھے حرمت سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔جریر نے کہا
اوزیم اس کی بات سن کر اندر جانے کے لیے مڑا۔۔۔۔۔۔
مجھے جو بات کرنی ہے وہ تمہارے سامنے بھی ہو سکتی ہے ۔۔تمہیں یہاں سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔
جریر نے اسے جانے سے روکتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے اپنی بیوی پر پورا بھروسہ ہے۔۔۔۔۔۔
تم بات کر سکتے ہو۔۔۔۔۔اوزیم نے حد درجہ پر اعتمادیت سے کہا۔۔۔۔۔
اور اندر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔۔
حرمت ہو سکے تو مجھے معاف کر دو ۔۔۔۔
میں اپنی زمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام رہا
تمہیں چھوڑ کر جانے کا میرا فیصلہ غلط تھا ۔۔۔۔اور آج میں اپنی اس غلطی کا خمیازہ اچھی طرح بھگت رہا ہوں۔۔۔۔۔
میں اس وقت تمہارے پاس نہیں تھا جب تمہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔۔۔
میں تمہیں اپنی مجبوریاں بتا کر خود کو تمہیں معاف کرنے کے لیے کبھی مجبور نہیں کروں گا۔۔۔۔
تم نے بہت اچھا فیصلہ کیا اپنی زندگی کا۔۔۔۔
اور میرے بچوں کے بہترین مستقبل کے لیے بھی شاید یہی بہتر ہے۔۔۔۔۔
میں شاید انہیں یہ سب نہیں دے پاتا جو آج انہیں میسر ہے۔۔۔۔
شاید اس سب میں ہی خدا کی کوئی مصلحت تھی ۔۔۔۔۔
شاید یہی ہمارے مقدر میں لکھا تھا۔۔۔۔۔
حرمت خاموش رہی ۔۔۔۔۔ان باتوں کا کوئی جواب نا تھا اس کے پاس ۔۔۔۔
اس نے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اس کی جانب نا دیکھا ۔۔۔
کیونکہ اب وہ اس کے لیے نامحرم تھا۔۔۔۔۔
پیام اور پریشے دونوں اوزیم کے ساتھ باہر آئے۔۔۔۔۔
پری ،پیام ۔۔۔۔۔اس نے ان دونوں کو مخاطب کیے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
یہ آپ کے اصل والے بابا ہیں ۔۔۔۔
جاؤ جا کر ملو ان سے۔۔۔۔۔
ان دونوں نے فق نگاہوں سے اوزیم کی طرف دیکھا پھر سامنے کھڑے اجنبی شخص کو۔۔۔۔
حرمت بھاگتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔۔۔۔۔
وہ دونوں اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔۔۔۔
اوزیم نے انہیں آنکھوں سے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے جریر سلطان کے پاس آئے۔۔۔۔۔
ایک دم سے وہ یہ سب قبول نہیں کر پا رہے تھے۔۔۔۔
جریر سلطان نے خود آگے بڑھ کر اپنے جگر گوشوں کو اپنے حصار میں لے کر خود میں بھینچ لیا۔۔۔۔۔
اور ان کے چہروں پر پیار کیا۔۔۔۔
شاید خون کا اثر تھا کہ وہ دونوں بھی اس کے ساتھ لگے رہے ۔۔۔۔
ان دونوں نے بھی جواباً اس کے گال پر پیار کیا۔۔۔۔۔
اسے ایسا لگا کہ اس کی بے چین روح کو قرار مل گیا ہو۔۔۔۔۔
اس نے تشکرانہ نظروں سے اوزیم کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔
جواباً اوزیم نے بھی اس کی طرف ہلکی سی مسکراہٹ اچھالی ۔۔۔۔۔a
جریر سلطان جو بچوں سے مل کر مڑ رہا تھا اچانک کسی سے ٹکراگیا۔۔۔۔۔۔
افرس قریبی پارک میں ھاد کے ساتھ گئی تھی وہیں سے واپس آرہی تھی ۔۔۔۔
اس نے ٹکر لگ کر گرنے سے خود کو بچاتے ہوئے ۔۔۔اپنے آپ کو سنبھالا۔۔۔
اور سیدھی ہو کر کھڑی ہوئی ۔۔۔۔
مقابل موجود شخصیت کو دیکھ کر وہ
ٹھٹھک کر رکی۔۔۔۔
وہی شاندار پرسنالٹی مگر چہرہ زردی مائل،آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے،اور پہلے سے زیادہ سوبر لگا۔۔۔۔
مگر ٹرانسپیرنٹ شیشوں میں سے اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نمایاں ہو رہے تھے۔۔۔۔
پہلے سے ذرا کمزور لگا۔۔۔۔
اس نے ایک ہی نظر میں اس کا جائزہ لے ڈالا۔۔۔۔
جبکہ جریر سلطان نے ایک نظر بھی اس پر ڈالنا گوارا نا کی۔۔۔۔
اس کی نظریں بچوں پر جمیں تھیں۔۔۔۔
جو اب اس سے ملنے کے بعد اوزیم خان کے ساتھ اندر جا رہے تھے۔۔۔۔۔
جریر کی آنکھوں میں نمی گھلنے لگی ۔۔۔۔
اس نے پلٹ کر اپنا رخ بدلا۔۔۔
اور چشمہ ہٹائے اپنے آنسو پونچھے۔۔۔۔۔
اور شکستہ وجود لیے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
مگر جاتے جاتے کسی کی دنیا کو زیر و زبر کر گیا۔۔۔۔۔
افرس آ جاؤ !!!!
وہ جو اپنی جگہ ساکت تھی،اوزیم کی آواز سن کر مضحمل سی گیٹ کہ اندر چلی گئی۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
وہی ماحول ،وہی فضا،وہی ،بوجھل و بے کیف ہوائیں،وہی آسمان ،وہی ستارے ،وہی شب و روز،،،،
وہ دونوں نفوس بے چینی اور بے کلی کا راگ آلاپتے ہوئے الگ الگ کمروں میں موجود تھے۔۔۔
دونوں کے دکھ سانجھے تھے
بیتے وقت کا دکھ گمشدہ رشتوں کا دکھ اور دونوں سے ایک دوسرے کی دوری کا دکھ۔
جانے کتنے دن بیت چکے تھے ، حرمت کو بچوں کے ساتھ ان کے کمرے میں سوتے ہوئے۔۔۔۔
رات کے کھانے سے فراغت کے بعد وہ بچوں کے ساتھ ان کے روم میں چلی جاتی اور صبح سب کے اٹھنے سے پہلے ہی اٹھ کر کچن کا رخ کر لیتی کسی کو بھی معلوم نا تھا کہ وہ اوزیم کے ساتھ نہیں رہ رہی۔۔۔۔
اوزیم ایک ہفتے ترکی ہوتا تو دوسرے ہفتے پاکستان۔۔۔ایک پاؤں ادھر تو دوسرا پاؤں ادھر۔۔۔۔
وہ بھی خاموش تھا ۔۔۔۔اسے وقت دے رہا تھا
وہ چاہتا تھا کہ حرمت خود اپنی مرضی سے اس کے پاس آئے۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ہیلو !!!!
اسلام وعلیکم بابا!
مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
وعلیکم السلام !
کیا بات ہے افرس؟؟؟؟
بابا میں نے آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگا جو آپ نے کہا میں نے کیا ۔۔۔۔
مگر آج مجھے میرا حق چاہیے مجھے میرے حصے کی خوشیاں چاہیے۔۔۔۔۔
تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟؟؟؟
وہ ٹہرے ہوئے انداز میں بولے۔۔۔۔
ناز جو افرس کے کمرے کے قریب سے گزر کر نیچے جا رہی تھیں
اس کی کسی سے تھوڑی اونچی آواز میں تلخ کلامی سن کر وہیں رکیں۔۔۔۔
آپ نے سب کے سامنے مجھے اپنا نام نہیں دیا مجھے اصل پہچان نا دی ۔۔۔۔
مگر آج مجھے میری پسند کی اصل پہچان بنانی ہے۔۔۔۔
یا تو آپ یہاں آکر سب کے سامنے سچائی بتائیں گے یا پھر مجھے میری نئی پہچان بنانے کے لیے میری مدد کریں گے۔۔۔۔۔
وہ جو باہر کھڑی تھیں۔۔۔
ایک طرف کی ادھوری باتیں سن کر خود کو اندر آنے سے روک نا پائیں۔۔۔
تیز قدموں سے چلتی ہوئی اندر آئیں اور افرس کے ہاتھ سے موبائل لے کر کان کے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔
افرس انہیں یوں سامنے پا کر بھونچکا رہ گئی۔۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہے افرس کون سی پہچان کی بات ہو رہی ہے ؟؟؟
وہ قہرذدہ آواز میں بولیں۔۔۔
دیکھو ناز میں سب باتیں یوں فون پر نہیں ہوتیں۔۔۔
انہوں نے فوراً بات کو سنبھالنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
اگلی فلائٹ سے پاکستان میں ہوں آپ ۔۔۔۔۔
ناز نے حکمیہ انداز میں کہتے ہوئے فون بند کیا۔۔۔۔۔
اور ایک گہری نگاہ افرس پر ڈالی۔۔۔۔۔
تم بتاؤ گی یا نہیں؟؟؟؟؟
وہ سوالیہ انداز میں بولیں۔۔۔۔
نہیں۔۔۔۔میں نے ان سے وعدہ کیا تھا۔۔۔۔
میں کسی کو نہیں بتاؤں گی ۔۔۔
وہ آئیں گے تو آپ انہیں سے پوچھ لینا۔۔۔۔
وہ دھیمی آواز میں بولی۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بھرے انداز میں وہاں سے باہر نکلیں۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
یہ رات کیسے آنکھوں میں کٹی یہ وہی جانتی تھیں۔۔۔۔
وہ صبح سے اپنے کمرے سے باہر ہی نا نکلیں۔۔۔۔
اوزیم آفس کے لیے نکلا تو حرمت بچوں کو ڈرائیور کے ساتھ سکول چھوڑنے گئی۔۔۔۔
فلک شیر نے گھر میں قدم رکھا تو خالی گھر سائیں سائیں کر رہا تھا۔۔۔۔
افرس نے انہیں دیکھ کر سلام کیا ۔۔۔۔
پانی پینے کے بعد وہ دونوں ہی ناز کے کمرے کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔
وہ جو بستر پر نیم دراز تھیں ۔۔۔فلک شیر کو سامنے دیکھ کر اٹھ بیٹھیں۔۔۔۔
مجھے سچ جاننا ہے۔۔۔۔وہ سرد و سپاٹ لہجے میں بولیں۔۔۔
نا کوئی سلام نا دعا تم تو آتے ہی شروع ہو گئی۔۔۔۔
انہوں نے اپنے تئیں شکوہ کیا۔۔۔۔۔
جو پوچھا ہے مجھے اس کا جواب دیں میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔۔۔۔پہلے ہی ۔۔۔ناز نے اپنے دل پر ہاتھ رکھے ہوئے مضطرب انداز میں کہا۔۔۔۔
میں تمہیں سب سچ بتاتا ہوں مگر تم پلیز آرام سے بیٹھ جاؤ اور تحمل سے میری بات سننا ۔۔۔۔۔
وہ ان کی طرف جانچتی ہوئی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگیں۔۔۔۔
افرس خاموشی سے وہیں کھڑی رہی۔۔۔۔
جب میں ترکی آیا تھا تو میری ملاقات روشائے سے ایک بزنس ڈنر پر ہوئی تھی۔۔۔۔
بس آہستہ آہستہ ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔۔۔۔
یہاں تک کہ میں نے اس سے نکاح کر لیا۔۔۔۔۔
ناز نے فلک شیر کی بات سن کر اپنا ہاتھ جو ان کی گرفت میں تھا اسے جھٹک کر اپنا ہاتھ ان سے جدا کیا۔۔۔۔۔
اور شکوہ کناں نم آنکھوں سے انہیں دیکھا۔۔۔۔
افرس میرے کسی بھی دوست کی بیٹی نہیں بلکہ میری اور روشائے کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔
ڈیلیوری کے وقت ہی روشائے خالق حقیقی سے جا ملی۔۔۔۔۔
میں اتنی چھوٹی سی بچی کو کیسے سنبھالتا اسی لیے اسے اپنے دوست کا بتا کر اسےتمہارے حوالے کر دیا۔۔۔۔۔
میں جانتا تھا کہ اگر تمہیں سچائی پتہ چلے گی تو تم اس بن ماں کی بچی کو میری وجہ سے کبھی نہیں اپناؤ گی۔۔۔۔
ہو سکے تو مجھے معاف کر دو ناز۔۔۔۔۔
ہنہہہہ۔۔۔۔۔۔معافی۔۔۔۔۔
ذندہ بندے کی جان نکال لو پھر بولو سوری۔۔۔۔
بہت اچھا لفظ بنا ہے نا۔۔۔۔دوسروں کی زندگیوں سے کھیل کر اسے دھوکہ دے کر دغا بازی کر کہ آخر میں بولو سوری۔۔۔۔
وہ تنفر سے بولیں۔۔۔۔۔
یہی غلطی اگر عورت کرتی تو آپ مرد اسے معاف کرنے کا ظرف نہیں رکھتے اور ہم سے معافی کی امید رکھتے ہیں۔۔۔۔۔
مجھے نفرت ہو رہی ہے اپنے آپ سے میں نے کیسے ایک دوغلے انسان کے پیچھے ساری زندگی برباد کر دی جس نے اس عمر میں مجھے رسوا کردیا۔۔۔۔۔۔
وہ ان کا گریبان اپنے ہاتھوں میں لیے زور سے جھنجھوڑ کر چیخیں۔۔۔۔
انہوں نے اس سے اپنا گریبان چھڑوا کر بستر پر بٹھاتے ہوئے پر سکون کرنا چاہا۔۔۔۔۔
افرس جو انہیں یوں روتا ہوا دیکھ رہی تھی مزید برداشت نا کر پائی۔۔۔۔
مما ہو سکے تو مجھے معاف کردیں۔۔۔۔
میں نے یہ سچائی جانتے ہوئے بھی آپ کو انجان رکھا۔۔۔۔۔
آپ نے اپنے سگے بچوں سے بھی بڑھ کر مجھے پیار دیا۔۔۔۔میں تا عمر آپ کی مشکور رہوں گی۔۔۔۔
مگر پلیز چپ ہو جائیں۔۔۔مت روئیں۔۔۔۔وہ ان کی آنکھوں سے بھل بھل بہتے ہوئے آنسو صاف کرنے لگی۔۔۔۔۔
خود کو ہلکان مت کریں ورنہ آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔۔۔۔
چلی جاؤ یہاں سے تم ۔۔۔۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو سب۔۔۔۔
وہ زور سے بولیں۔۔۔۔
ناز یہ بے قصور ہے۔۔۔۔اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں اصل قصور وار تو میں ہوں جو سزا دینی ہے مجھے دو۔۔۔۔۔
وہ منت بھرے انداز میں بولے۔۔۔۔
تم دونوں کی ہی زندگیاں میری وجہ سے ہی برباد ہوئیں ۔۔۔۔
ان کی اس بات پر ناز نے حیران کن نظروں سے دیکھا کہ اب کون سی سچائی سننے کو باقی ہے؟؟؟؟؟
دراصل افرس کی جس سے شادی ہوئی تھی وہ روشائے کا بھانجا تھا۔۔۔۔
اس کے بھائی کا بیٹا۔۔۔۔۔
روشائے کے نام جو جائیداد تھی وہ اس نے مرنے سے پہلے ہی اپنی وصیت میں بچے کے نام کردی تھی۔۔۔
میں بالاج کو روشائے کی وجہ سے جانتا تھا۔۔۔
مگر مجھے یہ نہیں پتہ تھا کہ وہ لوگ میرے لیے اپنے دل میں بغض لیے پھر رہے ہیں۔۔۔
وہ سمجھ رہے تھے کہ میں نے روشائے سے شادی اس کی جائیداد کے لیے کی تھی۔۔۔۔
حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔
اس گھٹیا انسان نے میرا بدلہ میری بیٹی سے لیا۔۔۔۔
اس نے اس سے جائیداد ہتھیا کر اسے طلاق دے دی۔۔۔۔۔
تم اور اوزیم ہمیشہ ہم سے طلاق کی وجہ پوچھتے رہے اور ہم خاموش رہے ۔۔۔۔
اگر تمہیں سب بتاتے تو سچائی بھی بتانی پڑتی۔۔۔۔
وہ ڈھیلے سے انداز میں اپنی جگہ سے اٹھ کے کھڑے ہوئے۔۔۔۔
سچ کبھی نہیں چھپتا۔۔۔۔کبھی نا کبھی تو سامنے آکر رہتا ہے۔۔۔وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔۔
ناز ہو سکے تو مجھے میری کوتاہیوں کے لیے معاف کردو۔۔۔۔انہوں نے ایک بار پھر سے کوشش کی۔۔۔۔
ایک بیوی شاید اپنے شوہر کو معاف نا کرتی مگر ایک ماں اپنے بچے کے باپ کو معاف کردیتی ہے۔۔۔۔
اب ہم عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں یہ سب معیوب سا لگتا ہے۔۔۔۔
میرے بچے کے سامنے میں اس کے آئیڈیل باپ کی سبکی ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔۔۔۔
اپنے سفید ہوتے بالوں میں مٹی ڈلواوں گی اب سب کو یہ بتا کر کہ میرے شوہر نے مجھے تاعمر دھوکے میں رکھا۔۔۔۔۔
ناز کی باتیں ان کے دل پر لگیں۔۔۔۔۔
مجھے آپ دونوں سے بات کرنی ہے ۔۔۔
وہ جو اتنی دیر سے خاموش تھی مدعے کی بات پر آئی۔۔۔۔۔
میں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے اپنی خوشیاں قربان کیں ہیں۔۔۔۔
پہلے حرمت کی خوشی کے لیے اپنی محبت کی قربانی دی ۔۔۔
اور پھر آپ سب کی خوشیوں کے لیے میں ان چاہی زندگی کی بھینٹ چڑھ گئی۔۔۔۔
نتیجہ کیا نکلا۔۔۔؟
میں ہمیشہ تہی داماں رہی۔۔۔۔
مگر آج میں اپنی خوشیوں کے حصول کے لیے لڑوں گی آواز اٹھاؤں گی۔۔۔۔
مجھے بھی میرے حق کی خوشیاں چاہیے۔۔۔۔
مجھے جریر سلطان چاہیے ۔۔۔۔
میں اس سے نکاح کرنا چاہتی ہوں اپنی باقی ماندہ زندگی اس کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔اپنی پسند سے اپنی شناخت بناؤں گی۔۔۔
اس سب میں آپ دونوں میرا ساتھ دیں گے یا نہیں؟؟؟؟
وہ دونوں جو اس کے عجیب و غریب فرمائش پر دنگ رہ گئے۔۔۔۔فق نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے کہ اچانک فلک شیر اپنے دل پر ہاتھ رکھے وہیں ڈھ گئے۔۔۔۔۔۔
فلک شیر کی اچانک بگڑتی ہوئی حالت دیکھ کر گویا ان دونوں کے تو ہاتھ پاؤں ہی پھول گئے۔۔۔۔۔
افرس نے فورا ایمبولنس کو کال کی پھر اوزیم کو۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
وہ سب ہسپتال پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔
فلک شیر کو مائنر ہارٹ اٹیک آیا تھا۔۔۔۔
اب ان کی جان خطرے سے باہر تھی۔۔۔اور طبیعت میں بھی پہلے سے سدھار آیا گیا ۔۔۔۔
اوزیم فارمیسی سے میڈیسن لینے گیا جبکہ افرس ان کی کچھ رپورٹس کلیکٹ کرنے آئی تھی۔۔۔۔
وہ جو اماں بی کے چیک اپ کے لیے آیا تھا اور ڈاکٹر سے کچھ ضروری رپورٹس کے بارے میں جاننے آیا تھا۔۔۔۔
اس کے اور ڈاکٹر دونوں کے مابین ہونے والی تمام گفتگو افرس نے سن لی اور روتی ہوئی آنکھوں اور بجھے ہوئے دل کے ساتھ الٹے قدموں بھاگتی ہوئی واپس پلٹ گئی۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
جریر سلطان وہاں سے باہر نکلا تو کوریڈور میں موجود حریم پر نظر پڑی۔۔۔۔
اسلام وعلیکم چچی جان کیسی ہیں آپ ؟؟؟؟
حریم تو اسے سامنے دیکھ حیران ہوئی۔۔۔۔
حرمت نے انہیں جریر کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام !!!
تم یہاں کیسے ؟
بس کچھ کام تھا یہاں۔۔۔۔اسی لیے اس نے اصل بات ان سے چھپائی۔۔۔۔
آپ یہاں کیوں ہیں؟؟؟؟
فلک شیر بھائی کی طبیعت خراب تھی بس اسی لیے۔۔۔۔۔
اب کیسے ہیں وہ؟؟؟
ٹھیک ہیں اب تو تھوڑی ہی دیر میں ڈسچارج ہو جائیں گے۔۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے۔۔۔آپ ان کو میری طرف سے بھی پوچھیے گا اور اپنا خیال رکھیے گا۔۔۔۔
وہ جانے سے پہلے بولا۔۔۔۔
آپ کو جانے سے پہلے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔
وہ دھیرے سے بولا۔۔۔۔
آپ مجھے اور میری مما کو معاف کر دیجیے گا۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں نمی گھلی۔۔۔۔
حریم نے اسے اپنے ساتھ لگا کر شفقت بھرے انداز میں کہا۔۔۔۔
اس سب میں تمہارا کوئی قصور نہیں شاید یہی سب ہونا مقدر میں لکھا تھا۔۔۔۔۔
جریر نے ان کے ساتھ لگے خود کو پر سکون محسوس کیا جیسے چند لمحے ممتا کے آنچل تلے آ گیا ہو۔۔۔۔
شکریہ اس پیار بھرے احساس کے لیے وہ ہولے سے کہتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
مزید وہاں رکتا تو خود کو سنبھال نہیں پاتا۔۔۔۔
💖💖💖💖💖💖
ڈیڈ عماد کی شادی ہے اس ویک اس نے خاص انوائیٹ کیا ہے،آپ کو تو پتہ ہے اس کی کوئی فیملی نہیں مجھے ہی بھائی مانتا ہے۔ایسے میں میرا وہاں ہونا لازم ہے۔ میں ترکی جا رہا ہوں ۔۔۔۔
آپ کا واپسی کا کیا ارادہ ہے۔۔۔۔اوزیم نے پوچھا۔۔۔۔
بھئی میرا تو ابھی کوئی ارادہ نہیں طبیعت کی وجہ سے ابھی سفر نہیں کرنا چاہتا ۔
اچھا ہے تم دونوں چلے جاؤ عماد کی شادی اٹینڈ کر کہ واپس آ جانا۔۔۔۔
انہوں نے چائے بنا کر لاتی ہوئی حرمت کو دیکھتے ہوئے ان دونوں کومشترکہ کہا۔۔۔۔
جی ٹھیک ہے ڈیڈ۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️
فلک شیر کو افرس نے بتایا کہ اس دن جریر اماں بی کے ساتھ ہسپتال آیا تھا وہ ضرور انہیں کے ساتھ ہوگا۔۔۔۔
آپ پتہ کریں۔۔۔۔۔
تو فلک شیر نے اماں بی کو کال کی اور جریر کو وہاں بھیجنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔
اوزیم اور حرمت ترکی کے لیے نکل چکے تھے۔۔۔۔
اسی لیے فلک شیر نے ان کی غیر موجودگی میں جریر سلطان کو گھر مدعو کیا۔۔۔۔۔
رات کے ڈنر پر وہ وہاں موجود تھا۔۔۔اماں بی کے ساتھ۔۔۔۔۔
سب نے مل کر ڈنر کیا اس کے بعد فلک شیر نے ہی بات کا آغاز کیا۔۔۔۔
اماں بی میں بے شک ایک لڑکی کا باپ ہوں خود سے لڑکی کا رشتہ مانگنا معیوب سی بات ہے مگر ہماری خواہش ہے تو مانگنا بھی ہمیں ہی چاہیے۔۔۔۔
اماں بی اور جریر سلطان دونوں نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ جریر اور افرس کا نکاح ہو جائے۔۔۔۔۔
بات تھی یا گویا بم تھا جو اس کے سر پر پھوڑا گیا تھا۔۔۔۔۔
وہ غصے میں آکر وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔
اماں بی نے اسے ایسا کرنے سے روکا اور اس کا ہاتھ پکڑا۔۔۔۔
اور ہاتھ دباتے ہوئے آنکھوں سے تحمل مزاجی دکھانے کا کہا۔۔۔۔
وہ ان کی بات مان کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔
تو پھر بتائیے بیٹا جی کیا فیصلہ ہے آپ کا؟؟؟؟
فلک شیر نرم لہجے میں بولے۔۔۔۔
میں افرس سے پہلے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہو گا۔۔۔۔وہ حتمی انداز میں بولا۔۔۔۔
جاؤ بچے افرس باہر لان میں ہے۔۔۔۔۔
وہ گہری سانس لیتے ہوئے سب کے درمیان سے گزر کر باہر نکلا۔۔۔۔
سب اس کا رخ لان کی جانب تھا۔۔۔۔
وہ جو ایک پھولوں سے آراستہ کیاری کے پاس کھڑی جانے کس سوچ میں غرق تھی۔۔۔۔
اپنے پاس دلفریب مہک محسوس کیے پلٹی۔۔۔۔
تو اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔۔۔۔۔
یہ ہر بار تم مجھ سے ٹکرانے کے بہانے کیوں ڈھونڈھتی ہو ؟
وہ تو اس کے الزام پر تڑپ اٹھی۔۔۔
مگر نظروں میں شکوہ لیے لب آپس میں پیوست رہے۔۔۔۔۔
جیسے ساری باتیں نظریں ہی کر لیں گی۔۔۔۔
میں صاف اور سیدھی بات کرنے کا قائل ہوں۔۔۔۔لگی لپٹی باتیں مجھ سے نہیں ہوتیں۔۔۔۔
اور اصل بات یہ ہے کہ میری زندگی میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔۔۔۔
دماغ میں اگر کوئی بھی الٹا سیدھا ہے تو اسے نکال پھنکو۔۔۔کیونکہ جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہونے والا۔۔۔۔
اور ایسا کیوں نہیں ہو سکتا وجہ جان سکتی ہوں ؟؟؟؟
اب تو وہ بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی ہے اور آپ وہیں رکے ہیں۔اپنے بارے میں سوچیں۔۔۔۔
تم اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے اپنے بارے میں نہیں تو میرے بارے میں ہی سوچ لیں۔۔۔۔۔
کسی کے بھی بارے میں سوچنے کے لیے میرے پاس وقت نہیں۔۔۔اس بار وہ افسردگی سے بولا
افرس اس کا ہاتھ پکڑ کر سامنے بنے پتھر کے بینچ تک لے آئی۔۔۔
بیٹھیں یہاں۔۔۔۔۔
وہ دونوں تھوڑا فاصلے رکھے اس سنگی بینچ پر بیٹھے۔
اگر آپ کے انکار کی وجہ آ پ کی بیماری ہے تو مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
جریر نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے کیسے پتہ؟؟؟
اس دن جب آپ ہوسپٹل آئے تھے تب میں نے آپ کی اور ڈاکٹر کی ساری باتیں سن لیں تھیں۔۔۔۔۔
مجھے پتہ ہے آپ کو کینسر ہے اور وہ بھی لاسٹ سٹیج پر جس کا اب علاج ناممکن ہے۔۔۔۔
جب تم سب جانتی ہو تو پھر ایسا فیصلہ کرنے کی کیا منطق؟؟؟؟؟
چند لمحوں کے لیے دونوں کے درمیان خاموشی پھیلی۔۔۔۔۔
جریر آپ کو نہیں لگتا کہ میرا بھی اپنی زندگی میں خوشیوں پر تھوڑا حق ہے؟؟؟؟
وہ خوشیاں چاہے چند ساعتوں کے لیے ہی کیوں نا ہوں۔۔۔۔۔۔
مجھے منظور ہے۔۔۔۔۔
وہ چند پل جو آپ مجھے اپنے نام کے مجھے دان کریں گے وہ پل میری ذندگی کا حاصل ہوں گے۔۔۔۔۔
آپ کو یہاں صرف میرے لیے بھیجا گیا ۔۔۔۔
میں بہت بد نصیب ہوں ۔۔۔کبھی کسی کو خوشیاں نہیں دے پایا۔۔۔۔۔۔
تمہیں پتہ نہیں پردیس میں کیسی سزائیں کاٹیں ہیں میں نے ۔۔۔۔پوری طرح ٹوٹ چکا ہوں میں۔۔۔۔۔
آپ بد نصیب نہیں آپ خوش نصیب ہیں ۔آپ کو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے اتنے صبر و تحمل اور کڑے امتحان کے بعد اجر کے بدلے اتنی مہلت دی ہے کہ آپ اپنی اولاد سے مل سکے ۔۔۔۔
شاید تم سچ کہہ رہی ہو۔۔۔۔وہ شکستہ انداز میں بولا
اور ان یہودیوں کی بجائے اپنی ملک کی پاک مٹی میں دفن ہونے سے بڑا اور کیا اجر ہو گا۔۔۔ !!!!!
ابھی ایسی باتیں مت کریں۔۔۔۔۔پلیز۔۔۔۔۔
اس نے ٹوکا۔۔۔۔
آپ نے بچوں سے دوبارہ کیوں نہیں ملا؟؟؟؟
میں نہیں چاہتا کہ ان کے دماغ میں کوئی برا اثر پڑے۔۔۔۔
وہ ڈبل مائنڈڈ ہوجائیں۔۔۔کس کے پاس جانا ہے کس کے پاس نہیں۔۔۔۔
ویسے بھی میں اب خود چند دنوں کا مہمان ہوں ان کی ذمہ داری نہیں نبھا پاؤں گا۔۔۔۔
حرمت نے بچوں کے مستقبل کے لیے جو قدم اٹھایا ہے ۔میں اسے سراہوں گا۔۔۔
مگر پھر بھی دل کے ایک کونے کسک اور خلش باقی ہے۔۔۔۔۔
جسے میں چاہوں بھی تو کھرچ کر دل سے نہیں مٹا سکتا۔۔۔۔۔
سچی محبت ذندگی میں ایک ہی بار ہوتی ہے اور وہ میں کر چکا۔۔۔۔۔
میرا یقین مانو ابھی بھی وقت ہے اپنے راستے بدل لو۔۔۔۔۔
ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اگلا آنے والا ایک بھی پل وہ دیکھ بھی پائے گا یا نہیں۔۔۔۔
ہم کیسے اتنے آگے کی پلاننگ کر لیتے ہیں؟؟؟؟
آپ تو جانتے ہی ہیں یہ فانی ہے۔۔۔۔ختم ہوجائے گی۔۔۔۔
مگر وہ آخرت کی دنیا لافانی دنیا ہے کبھی نا ختم ہونے والی۔۔۔۔
اگر آپ مجھے آج اپنا نام دیں گے تو اس دنیا میں افرس آپ کے نام سے اٹھائی جائے گی ۔۔۔۔اس زندگی میں نا سہی مگر۔۔۔۔۔
مجھے اس لافانی دنیا میں آپ کا ساتھ ہمیشہ کے لیے چاہیے۔۔۔۔
میں وہاں آکر آپ سے ملنے کا انتظار کروں گی۔۔۔
جب انتظار کا پھل اپنی مرضی کا ہو تو انجام کی کسے پرواہ۔۔۔۔۔
پر میری ایک بات آپ کو ماننی پڑے گی۔۔۔
ہم الحمداللہ حکم ربی سے مسلمان ہیں تو ان شاءاللہ جنت میں ہی جائیں گے۔۔۔تو
جریر سلطان کے ساتھ تخت پر ملکہ عالیہ افرس بیٹھی ہوں گی۔پر خبردار جو آپ نے ان ستر حوروں کو نظر اٹھا کر بھی دیکھا۔۔۔۔
اس نے ماحول میں چھائی ہوئی افسردگی کو دور کرنے کے لیے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔۔۔۔
وہ بھی ہولے سے مسکرا دیا۔۔۔۔۔۔
آپ نے اپنی ماما کو بتایا ان سے ملے ہیں آپ ؟؟؟
نہیں میں ان سے نہیں ملا نا ہی انہیں میرے بارے میں کچھ پتہ ہے۔
میرے پاس زیادہ وقت نہیں جانے کب یہ زندگی دغا دے جائے ۔۔۔
میں ان سے مل کر پھر سے بچھڑ جاؤں گا تو ان کے اتنے سالوں سے بھر چکے زخم پھر سے ہرے ہو جائیں گے۔۔۔۔
میں انہیں مزید دکھ نہیں دینا چاہتا ۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
عماد اور کومل کی شادی کے لیے حرمت اور اوزیم دونوں اس وقت ترکی میں موجود تھے۔۔۔۔۔شادی کے لیے عماد کے ساتھ حرمت کومل کے لیے خریداری کر رہی تھی ۔۔۔۔
جبکہ اوزیم خان تو کسی اور ہی تیاریوں میں محو تھا۔۔۔۔۔
سارا دن شاپنگ کی نظر ہوگیا۔۔۔۔۔
عماد اپنے اپارٹمنٹ میں چلا گیا تو وہ دونوں تھکے ہارے گھر لوٹے۔۔۔۔۔۔
اوزیم نے گھر فون ملایا تو حریم نے ریسو کیا۔۔۔۔۔
اسلام وعلیکم خالہ کیسی ہیں؟؟؟؟
میں ٹھیک ہوں ۔۔۔حرمت ٹھیک ہے کیا کر رہی ہے؟؟؟
بس خالہ ابھی ابھی کچن میں گئی ہے آتی ہے تو بات کرواتا ہوں ۔۔۔
بچے ٹھیک ہیں؟؟؟اور باقی ماما بابا گھر میں سب ٹھیک ہے۔۔۔۔
ہاں بیٹا سب ٹھیک ہے۔۔۔۔
انہوں نے جھجھکتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
کیا ہوا خالہ سچ سچ بتائیں کوئی بات ہوئی ہے کیا؟؟؟
پلیز مجھ سے کچھ مت چھپائے گا۔۔۔
بابا تو ٹھیک ہیں نا؟؟؟؟وہ پریشانی سے بولا۔۔۔۔
ہاں وہ ٹھیک ہیں ۔۔۔مگر ۔۔۔
کیا خالہ پلیز بتائیں مجھے۔۔۔۔
ہم آج اماں بی کے گھر گئے تھے۔۔۔۔
تو پھر ؟؟؟
اماں بی تو ٹھیک ہیں؟؟؟؟
ہاں بیٹا وہ بھی ٹھیک ہیں ۔فراصل ہم اماں بی کے گھر جا کر آج افرس اور جریر کا نکاح کر آئیں ہیں۔۔۔۔
وہ ان کی بات سن کر چپ رہا اور فون بند کیے ایک طرف رکھا۔۔۔۔۔
حرمت جو اس کے کہنے پر کچن میں سے پانی لینے گئی تھی۔۔۔۔
واپس لوٹی تو اسے اپنی آنکھوں پر بازو رکھے ہوئے نیم دراز سا پایا۔۔۔۔۔
پانی۔۔۔۔۔
اس کی آواز پر اوزیم نے آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔۔
اس کی اوشن بلیو آئیز اس وقت انگاروں کی مانند دہک رہی تھیں۔۔۔۔۔
گھر والوں نے مجھے اس قابل بھی نا سمجھا کہ مجھ سے پوچھ ہی لیتے میری بہن کی زندگی کا اتنا بڑا دن اور میں اس میں شامل نہیں۔۔۔۔۔اس نے دل میں خود سے ہی شکوہ کیا۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا؟؟؟؟
اس نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
سب اپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکے ہیں۔۔۔۔۔
افرس اور جریر دونوں کا نکاح ہو گیا ہے۔۔۔۔
وہ یہ بات سن کر چپ رہی چہرہ سپاٹ رکھا۔۔۔۔۔
میرے انتظار کی مدت میں کمی کب واقع ہو گی؟؟؟؟؟
وہ ابرو اچکا کر سپاٹ لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
حرمت خاموش رہی اور اس کی بات سمجھنے کی کوشش میں تھی کہ ۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے وہ اسے کوئی جواب دیتی وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
اور اندر جا کر زور سے دروازہ بند کیا ۔۔۔۔۔
دروازے کے بند ہونے کی آواز پورے گھر میں گونجی۔۔۔۔۔۔
اس نے خود میں ہمت مجتمع کیے ہوئے اس کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔۔۔
دروازہ کھولا تو وہ اوندھے منہ بستر پر لیٹا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
شوز سمیت۔۔۔۔اسی حالت میں۔۔۔۔
اس نے دروازہ کھل کر بند ہوتا دیکھا تو چہرہ اٹھا کر حرمت کی طرف دیکھا۔۔۔۔وہ جو سر جھکائے ہوئے انگلیاں چٹخانے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔
جانے کس کشمکش کا شکار تھی۔۔۔۔
مگر آج اوزیم خان نے بھی قسم کھا رکھی تھی نا بولنے کی۔۔۔۔
آج بولنے کی باری اس کی تھی۔۔۔۔۔
وہ خاموش رہا اس کے بولنے کا منتظر تھا۔۔۔۔۔
کیا آپ ایک ایسی لڑکی کو اپنی زندگی میں جگہ دیں گے جو پہلے سے ہی ٹوٹی ہوئی ہو ایک ایسی لڑکی کو جس پر کوئی پہلے سے ہی اپنی چھاپ چھوڑ چکا ہے۔۔۔۔ایک ایسی لڑکی کو جسے پہلے سے ہی کوئی برت۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ بولتی اوزیم نے آگے بڑھ کر اس کے لبوں پر اپنی انگلی رکھ کر اسے مزید بولنے سے روکا۔۔۔۔۔۔
جو روح سے پیار کرتے ہیں نا انہیں جسموں کی حالت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔
میری محبت کو جسمانی محبت سے تشبیہہ دے کر اسے بے مول مت کرو۔۔۔۔۔
تمہارا اظہار محبت ہی میرے لیے میری زندگی گزارنے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔
اگر ساری زندگی بھی تم مجھ سے ازدواجی تعلقات قائم نا کرنا چاہو تو بھی میں اف تک نہ کروں گا۔۔۔۔۔
کیا ہمارا پیار کافی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی اوشن بلیو آئیز میں کھرے جذباتوں کی پھوٹتی چمک حرمت کو مبہوت کر گئی۔۔۔۔
اس نے آگے بڑھ کر دھیرے سے اوزیم کے سینے پر اپنا سر ٹکا دیا۔۔۔۔۔۔
میں آپ کو آپ کے حقوق سے محروم رکھ کر گناہ کی مرتکب نہیں ہونا چاہوں گی۔۔۔۔۔
حرمت تم سوچ نہیں سکتی آج میں کتنا خوش ہوں۔۔۔۔۔اس نے اسے بانہوں میں بھر گول گول گھماتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
وہ بھی اس کی دیوانگی پر مسکرا دی۔۔۔۔۔
اس خوشی کو ہم ایسے ہی سیلیبریٹ نہیں کریں گے کچھ سپیشل ہونا چاہیے نا؟؟؟؟
آج کی ساری رات میرے نام ؟؟؟ہے نا ؟؟؟؟
حرمت نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔۔
چلو تو پھر یہ پہن کر آو۔۔۔۔
اس نے کبرڈ سے ایک بڑا سا باکس نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔۔۔
اس میں کیا ہے؟؟؟؟حرمت نے اچنبھے سے دیکھ کر پوچھا۔۔۔۔
ترکش ٹریڈیشنل ویڈنگ ڈریس۔۔۔۔۔اوزیم بولا۔۔۔۔۔
ویڈنگ ڈریس کیوں؟؟؟؟
بھئی اصل ویڈنگ پر تو ہماری برائڈ نے ہمیں خود کو برائڈل روپ میں دیکھنے سے پہلے ہی ڈریس تبدیل کر لیا تھا۔۔۔۔
تو میں نے سوچا آخر مفن اور چوکو لاوا کی شادی پر کچھ ڈفرنٹ ہونا چاہیے۔۔۔۔
بس اسی لیے۔۔۔۔۔جب تم عماد کے ساتھ شاپنگ میں مصروف تھی میں نے تمہارے لیے شاپنگ کر لی۔۔۔۔۔
اس نے ڈریس کو کھول کر دیکھا۔۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ تو بہت بھاری ہے۔۔۔۔اس نے پریشانی سے کہا۔۔۔۔
اور یہ کیا ؟؟؟وہ غور کیے بولی۔۔۔۔
ویڈنگ ڈریس تو ریڈ ہوتا ہے یہ براون کیوں ؟؟؟؟
چوکو لاوا سے براؤن ہی میل کھاتا ہے۔۔۔۔۔
جلدی سے جاؤ چینج کر کہ آؤ ۔۔۔۔۔۔
وہ ڈریس لیے دوسرے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔
واپس تیار ہو کر آئی تو اوزیم بھی تیار ہوئے اسی کے انتظار میں تھا۔۔۔۔
اسے دیکھا تو یک ٹک دیکھے ہی گیا ۔۔۔۔
گاؤن میں ملبوس وہ کسی گڑیا کی مانند لگی۔۔۔۔اپنے کمر تک آتے ریشمی گیسووں کو شانے کی ایک طرف پھیلائے کسی بھی عارضی آرائش و زیبائش سے مفقود سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی جیسے یہ بیش قیمتی دیدہ زیب لباس بنا ہی اس کے لیے ہو۔۔۔۔
آج کیا مار ہی ڈالنے کا ارادہ ہے؟؟؟؟اوزیم نے اس کے کان کے پاس سرگوشی کی۔۔۔۔
وہ نظریں چرا گئی۔۔۔۔۔
اوزیم اسے گاڑی میں لیے کسی مخصوص جگہ کی مسافت طے کرنے لگا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ دونوں ایک جگہ پہنچے تو سامنے ایک عالیشان عمارت دیکھ کر حرمت نے نظر اٹھا کر دیکھا تو
Angel' s Marmaris Hotel .
دیکھ کر رہ گئی۔۔۔۔۔
وہ اسے لیے آؤٹ ڈور بنے ہٹ نما جگہ پر لے کر جا رہا تھا۔۔۔۔۔
لکڑی نما تختے سے بنی لمبی سے راہداری سے گزر کر وہ بیچ پر بنی ہوئی اس دلکش جگہ پر آئے جہاں چھتری نما چھت موجود تھی اور اس کے چاروں طرف سفید بے داغ پردے لگا کر ان کو آپس میں باندھا گیا تھا۔۔۔۔
وہاں اینٹیک ٹیبل اور چیرز موجود تھیں۔۔۔
اوزیم نے ٹیبل سے چیئر کھسکا کر اس کی پشت پر ہاتھ رکھا اور حرمت کو آنکھوں سے اس پر بیٹھنے کا اشارہ دیتے ہوئے تھوڑا سا سر کو ہلایا۔۔۔۔
حرمت اس پر بیٹھی تو اوزیم نے بھی اپنی جگہ سنبھالی۔۔۔۔
چاند کی چمکتی ہوئی چاندنی اس گہرے نیلے شفاف پانی پر پڑ کر اسے مزید سحر انگیز بنا رہی تھی۔۔۔۔
ماحول میں چھایا سکوت اور اوزیم کی نظروں میں موجود فسوں خیزی اس کے دل میں عجب ہلچل مچا رہے تھے۔۔۔۔۔
اوزیم تو اس کے چندھیا دینے والے حسن سے نظریں ہی نا ہٹا پا رہا تھا۔۔۔۔
اس نے ماحول کے مطابق اپنی دلکش اور روح پرور آواز کا جادو جگایا۔۔۔
یہ راتیں،یہ موسم ،ندی کا کنارہ،
یہ چنچل ہوا،
کہا دو دلوں نے کہ مل کر کبھی ہم
نا ہوں گے جدا !!!!!!
ستاروں کی محفل نے کر کہ اشارہ
کہا اب تو سارا جہاں ہے تمہارا۔۔۔۔
محبت جواں ہو کھلا آسماں ہو
کرے کوئی دل آرزو اور کیا؟؟؟
اس نے اپنا ہاتھ اس کے آگے کیا تو وہ اس کا ہاتھ تھامے خالی جگہ پر آئی۔۔۔۔
وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے اور اس کا ہاتھ اپنے شانے پر رکھے ہلکے پھلکے سٹیپس لینے لگا۔۔۔۔۔
یہ کیا بات ہے آج کی چاندنی میں؟
کہ ہم کھو گئے پیار کی راگنی میں
یہ بانہوں میں بانہیں،یہ بہکی نگاہیں
لو آنے لگا ذندگی کا مزہ ۔۔۔۔
یہ راتیں یہ موسم ۔۔۔۔۔
الفاظ رکتے ہی وہ اسے لیے واپس آیا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں کھانا بھی آگیا۔۔۔۔۔
حرمت نے جب لوازمات سے سجا ہوا ٹیبل دیکھا تو حیرت زدہ ہوئی۔۔۔۔
یہ اتنا سب کس کے لیے؟؟؟؟
تمہارے لیے۔۔۔۔۔
میں اتنا کھاتی ہوں کیا؟؟؟۔۔۔اس نے لہجے میں خفگی لیے پوچھا۔۔۔۔۔
پلیز خفا مت ہونا کسی بھی بات سے اب۔۔۔
یہ ترکش سپیشل کوزین ہے ۔۔۔اسی لیے سب منگوا لیا۔۔۔۔
تم ٹیسٹ کرو۔۔۔۔۔
Manti,
kofte,(Turkish meat balls)
lahmacun,(Turkish pizza)
sis kebab,(Turkish Sikhkebab)
doner,Corba(Turkish soup)
دونوں نے پرتکلف ڈنر کیا۔۔۔۔۔
پھر شوز اتارے بیچ کے کنارےپر ننگے پاؤں چلنے لگے۔۔۔۔
ٹھنڈی ہوا سے اٹھکیلیاں کرتی اس کی زلفیں بار بار اس کے حسین چہرے سے لپٹ کر اسے سلامی پیش کرتیں۔۔۔۔
دونوں خاموش تھے مگر یہ خاموشی بھی بول رہی تھی۔۔۔۔
تم تھک گئی ہو گی ۔۔۔صبح سے شاپنگ میں بزی تھی پھر یہاں آگئے۔۔۔۔
آؤ اندر چل کر آرام کرتے ہیں ۔۔۔۔یہ کہتے ہی اوزیم نے اسے بانہوں میں بھر کر اندر کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔
نیچے اتاریں مجھے سب دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔۔۔۔۔
کوئی بھی نہیں دیکھے گا ۔۔۔۔
جہاں سے گزر کر ہمارا سپیشل روم ہے وہاں کوئی بھی موجود نہیں ۔۔۔۔
اتنا سارا حصہ میں نے بکڈ کر رکھا ہے۔۔۔۔
کسی کو بھی وہاں سے گزرنے کی بھی اجازت نہیں۔۔۔۔۔
اب کی بار حیران ہونے کی باری حرمت کی تھی۔۔۔۔کیا تھا یہ شخص؟؟؟؟
عالیشان ہوٹل اپنی عمارت کا منہ بولتا ثبوت تھا ہر چیز اعلی ،عمدہ اور اپنی مثال آپ تھی۔۔۔۔
چمکتا ہوا فرش ۔۔۔چھت پر لگے بیش قیمتی فانوس۔۔۔۔اینٹک شوپیسز،جدید طرز کا فرنیچر۔۔۔۔۔۔
وہ راستے سے گزر کر ایک روم کی طرف بڑھے۔۔۔۔
ڈور کھولا تو چند لمحے تو حرمت اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی۔۔۔۔
فرش پر تقریبآ چار،پانچ فٹ کی اونچائی تک صرف گلاب کی پتیاں ہی پتیاں بھری پڑی تھیں۔۔۔۔۔
کمرے میں کوئی فرنیچر نا تھا صرف گلاب ۔۔۔۔۔سے سجاوٹ کی گئی تھی۔۔۔۔
دو بڑے سے باؤل میں پانی میں گلاب کی پتیاں ڈالی گئیں تھیں اور جدید طرز کی جلتی کینڈلز۔۔۔۔
اوزیم نے اسے نیچے اتارا اور جلدی سے ڈور بند کیا۔۔۔۔۔
ابھی وہ ماحول کے زیر اثر خود کو سنبھال ہی رہی تھی کہ اوزیم نے ڈیری ملک سلک کوٹ کے پاکٹ سے نکال کر اس کی طرف بڑھائی۔۔۔۔۔
حرمت نے اس کے ہاتھ سے چاکلیٹ لے لی۔۔۔۔
اور کوٹ اتار کر ایک طرف پھینکا۔۔۔۔
یہ تمہارے لیے نہیں۔۔۔۔۔میرے لیے ہے اوزیم بولا۔۔۔۔
میرے لیے نہیں تھی تو مجھے کیوں دی؟
اس نے منہ پھلا کر کہا۔۔۔۔
ویسے تو اسے کھانے کا میرا خود کا ارادہ تھا مگر تم بھی کھانا چاہتی ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔۔۔۔۔
مگر ایک شرط ہے اسے کھانا میرے طریقے سے پڑے گا۔۔۔۔۔
اچھا کیا تم نے اپنے ان لبوں کو لپسٹک سے نہیں سجایا۔۔۔۔
یہ تمہارے ڈریس سے بالکل میچ کرتی ہے ۔۔۔۔
میں اسے تمہارے لبوں پر لگاؤں گا۔۔۔۔
وہ ریپر کھول کر سلک چاکلیٹ کو میلٹ کیے اس کے لبوں پر لگانے لگا۔۔۔
حرمت نے دور ہونا چاہا تو اس نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی گرفت میں لیتے ہوئے خود سے قریب تر کیا۔۔۔۔۔
مفن پلیز۔۔۔۔۔۔آج اتنے عرصے بعد اس کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ چونکا۔۔۔۔۔
اسے اپنے لبوں کہ قریب آتے دیکھ وہ پچھلا واقع ابھی بھولی نہیں تھی۔۔۔۔
وہی شدت سوچ کر اس نے جھرجھری لی۔۔۔
پلیز۔۔۔۔۔وہ منت بھرے انداز میں نفی میں سر ہلانے لگی۔۔۔۔
ششششششش۔۔۔۔۔
چوکو لاوا آج تم تمہیں پورے کا پورا کھا جانے کا ارادہ ہے اور آپ ابھی سے گھبرا گئیں۔۔۔۔
اس کی بات پر اس کے گالوں پر شرم سے لالیاں گھلیں۔۔۔۔۔
گال دہک کر اناری ہوئے۔۔۔۔
وہ مسمرائز سا اسے دیکھے گیا۔۔۔۔۔
اس کے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ کر سارے فاصلوں کو مٹاتے ہوئے۔۔۔۔۔ اس کے چاکلیٹ سے سجے ہوئے لبوں کو اپنی قید میں کیے وہ ان پر اپنی شدت لٹانے لگا۔۔۔۔۔۔
حرمت کا دل تو مانو دوسو کی سپیڈ سے بھاگ رہا تھا۔۔۔۔
اس نے اس کی شرٹ کے کالر کو مٹھیوں میں بھینچا۔۔۔۔۔
خود کو اس کے جنونیت سے سنبھالنے کے لیے۔۔۔۔
جانے کتنے ہی لمحے یونہی بیت گئے۔۔۔۔اوزیم کو اس کی سانسوں کی رفتار میں سستی لگی تو اسے خود سے الگ کیے اس کی کمر میں ہاتھ ڈالے پھولوں سے سجے فرش پر گرا۔۔۔۔۔
دونوں گلاب کی پتیوں میں جیسے چھپ سے گئے۔۔۔۔۔
حرمت اس پر سے اٹھ کر دوسری طرف لیٹی۔۔۔۔
اوزیم نے مٹھی کو پتیوں سے بھرا پھر اس کے چہرے پر ہولے ہولے برسانے لگا۔۔۔۔۔
وہ اپنی آنکھیں بند کیے خود کی سانسوں کو معمول پر لانے کی کوشش میں تھی۔۔۔۔
کینڈلز کی ملگجی سی روشنی میں اس کی ناک میں موجود نازک سی نوز بن اپنے پورے آب وتاب سےجگمگا تے ہوئے اسے اپیل کر رہی تھی۔۔۔۔اس نے ہولے سے لب اس نوز بن پر رکھے۔۔۔۔۔پھر باری باری نرمی سے اس کے ملائم گالوں کو چھوا۔۔۔۔لرزتی ہوئی بند آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑا۔۔۔۔پھر
اس نے ایک چین نکال کر اس کے گلے کی زینت بنائی۔۔۔۔
حرمت نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔۔۔۔
پلاٹینم کی چمکتی ہوئی خوبصورت چین جس میں ہارٹ شیپڈ پینڈٹ تھا۔۔۔۔۔اس پینڈٹ پر ہارٹ شیپڈ کا ہی ڈائمنڈ جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔وہ اس پر ہاتھ پھیر کر رہ گئی۔۔۔۔
اسے کھول کر دیکھو۔۔۔۔وہ لیٹے ہوئے ہی دھیمے سے بولا۔۔۔۔
حرمت نے اپنے گلے میں موجود چین کو کھول کر دیکھا ۔۔۔
یہ اس کے نکاح کی تصویر تھی۔۔جس میں وہ دونوں ساتھ تھے۔۔۔اور دوسری طرف پیام اور پریشے۔۔۔۔۔
حرمت کی آنکھیں دونوں تصاویر کو دیکھ کر نم ہوئیں۔۔۔۔
مگر وہ اوزیم کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی اسی لیے رخ پھیر گئی۔۔۔۔
اس نے اس کے شانے سے بال پیچھے ہٹاتے ہوئے اپنے لب رکھے۔۔۔۔
حرمت کے جسم میں سنسنی سی دوڑی۔۔۔۔
گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی۔۔۔۔
ادھر دیکھو۔۔۔۔وہ بولا۔۔۔۔
مگر وہ رخ پھیرے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئی۔۔۔۔۔
اوزیم نے اس کی صراحی دار گردن کے قریب لو بائٹ لی تو وہ سسک اٹھی۔۔۔۔
You are hearting me muffin ......
وہ آہستگی سے بولی۔۔۔
It's not hearting behavior.
It's a sweet pain of love.....Choco Lava....
وہ خمار آلود لہجے میں بولا۔۔۔۔۔
پھر اس کے سراسراتے ہوئے ہاتھ ڈریس کی زپ کو کھولنےلگے تو گویا اس اپنے جسم سے جان نکلنے لگتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔۔
وہ جابجا اس پر اپنے پر حدت لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔
وہ سانس روکے اس کی بے باکیاں سہنے لگی۔۔۔۔
وہ شرٹ لیس ہوئے اس کا رخ اپنی طرف موڑ کر خود کے حصار میں لیے آج صحیح معنوں میں اس کی جان نکالنے کے در پہ تھا۔۔۔۔۔
گلاب کی پتیوں کی محسور کن مہک سے پورا کمرہ مہک رہا تھا اور ان کی سانسیں بھی۔۔۔
کمرے میں چھائی ہوئی معنی خیز خاموشی نے ان دونوں کے اس حسین ملن پر شرما کر اپنی آنکھیں میچ لیں۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ارے آپ آگئے؟؟؟؟
اسلام وعلیکم!وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی کمرے میں داخل ہوتے ہوئے عماد کو دیکھ کر بولی۔
وعلیکم السلام!
عماد نے اسے دیکھا تو اپنا لیپ ٹاپ والا بیگ ٹیبل پر رکھ کر اس کے قریب آیا۔۔۔۔
ہمیشہ کی طرح گورجئیس۔۔۔۔۔
وہ رک کر اپنے شوز اتار کر شوز ریک میں رکھتے ہوئے بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹا۔۔۔
کیا ہوا عماد ؟؟؟آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟؟؟وہ اسے یوں دیکھ کر پریشانی سے بولی۔۔۔۔
بس سر میں تھوڑا سا درد ہے ۔۔۔وہ پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔۔۔۔
تم کہیں جا رہی تھی ؟؟؟
ہہہمممم ۔۔۔مما ۔پاپا سے ملنے۔۔۔ کتنے ہی دن ہو گئے ہیں وہ آنے کا کہہ رہے تھے۔۔۔سوچا آپ آئیں گے کہ چلیں گے۔۔۔۔
مگر کوئی بات نہیں آپ ریسٹ کریں میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں۔۔۔۔
وہ مغرور سی جینز شارٹس پہننے والی لڑکی تو کہیں کھو چکی تھی عماد کی محبت نے اسے نیا جنم دیا تھا۔۔۔۔۔
اب وہ مکمل ایک گھریلو لڑکی کی طرح گول گھیرے والی شارٹ کرتی اور پٹیالہ شلوار پہنے پاؤں کو کھسے میں مقید کیے گلے میں دوپٹہ ڈالے رکھتی۔۔۔۔
وہ اس کا کوٹ ہینگ کیے باہر نکل گئی۔۔۔
جب تک وہ چائے بنا کر لائی وہ فریش ہوئےچینج کر چکا تھا۔۔۔۔
چائے پیتے ہوئے اس نے کومل کا مکمل جائزہ لیا۔۔۔
نازک سی جیولری پہنے کلائی میں چوڑیاں پہنے بالوں کی آوارہ لٹیں گالوں کو چھو رہی تھیں۔ہر وقت کٹنگ کیے ہوئے بال اب قدرے لمبے ہو چکے تھے۔۔۔
عماد کی فرمائش پر کیونکہ اسے لمبے بال پسند تھے تو اس نے کٹنگ کروانا چھوڑ دی تھی۔۔۔
اب وہ مکمل اس کی پسند میں ڈھلی اسے بے ایمان کررہی تھی۔۔۔۔
میں آپ کا سر دبا دوں ؟؟؟؟
اگر دقت پیش نا ہو تو دبا دو۔۔۔۔
وہ کپ خالی کیے سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لیٹ گیا۔۔۔۔
اس کے لگائے ہوئے پرفیوم سے پھوٹتی ہوئی خوشبو عماد کو اپنے حصار میں باندھ رہی تھی۔۔۔۔
اب درد کچھ ٹھیک ہوا؟؟؟
سارے درد دور ہوگئے۔۔۔وہ آنکھیں موندے ہی دھیمے سروں میں بڑبڑایا۔۔۔
کیا مطلب ؟؟؟کیا کہا مجھے سمجھ نہیں آئی۔۔۔کچھ نہیں تم دباؤ نا رک کیوں گئی۔۔۔
وہ اس کو سمجھ گئی۔۔۔اور اپنی جگہ سے اٹھ کر خالی کپ اٹھا کر باہر جانے لگی۔۔۔۔
اس سے پہلے کہ وہ اس سے دور ہوتی عماد نے اس کے دوپٹے کا کونا پکڑا۔۔۔۔
کہاں جا رہی ہو چھوڑ کر ابھی تو تمہیں ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں اور نا ہی محسوس کیا ہے۔۔۔
آپ بہت بڑے ایکٹر ہیں عماد ۔۔۔۔چھوڑیں میرا دوپٹہ۔۔۔۔
تم اپنے معصوم سے شوہر سے دور بھاگ رہی ہو۔۔۔۔
معصوم شوہر ایکٹنگ سے پرہیز کیا کرے نا۔۔۔
یار اپنی محبت سے دور رہنے کا حوصلہ نہیں۔۔۔
میں تمہارے ساتھ گزرا ہر لمحہ قید کرلینا چاہتا ہوں۔۔۔۔اور تمہیں بھی خود میں۔۔۔۔
اس نے اس کے ہاتھ سے کپ کے ایک طرف رکھا اور اسے خود میں قید کیا۔۔۔۔
کومل کا دل اس کی قربت پر دھڑک اٹھا۔۔۔۔
بے شک قید کر لینا مگر کچھ دیر کے لیے مجھے اس قید سے رہائی چاہیے۔۔۔
مما کو فون کر کہ بتا دوں کہ میں آج نہیں آ پاؤں گی۔۔۔۔۔
ایک لمحے کی بھی رہائی نہیں ملے گی میری جان۔۔۔۔
عماد چھوڑیں نا میرا فون بج رہا ہے لگتا ہے مما نے خود ہی کال کر دی پوچھنے کے لیے۔۔۔۔
بجنے دو موبائل،، گھنٹیاں ،،،جو بھی بجتا ہے۔۔۔
مما خفا ہو جائیں گی۔۔۔
سب کی فکر ہے میری نہیں؟
عماد نے اس کے گال کو چھو کر کہا ۔۔۔
میں آپ کو منا لوں اگر آپ ناراض ہوئے تو۔۔۔۔وہ ادا سے مسکائی۔۔۔
وہ کیسے؟؟؟؟
کومل نے دھیرے سے اس کی آنکھوں کو چھوا۔۔۔۔
وہ نہال ہی ہو گیا۔۔۔۔
تمہاری ان اداوں نے ہی تو ہمارا یہ حال کر رکھا ہے۔۔۔۔۔
عماد نے اسے خود میں بھینچا۔۔۔۔
موبائل بج کر خودی بند ہو چکا تھا۔۔۔۔
باہر بجلی کڑکی تو بجلی کو دورا پڑا۔۔۔۔
اور بتی گل ۔۔۔۔۔
یہ اوزیم سر کے پیچھے لگ کر پاکستان آگیا۔۔۔۔
یہاں پر تو بوند گری نہیں اور بتی گُل ۔۔۔وہ جھنجھلا کر بولا۔۔۔۔۔
میں کینڈل جلاتی ہوں۔۔۔وہ پیچھے ہونے لگی۔۔۔
کہیں مت جاؤں اچھی بات ہے آج تو اس لائٹ کا شکریہ بنتا ہے جس نے گل ہو کہ مجھے اور بھی قریب ہونے کا موقع دیا۔۔۔۔عماد کو پاکہ
آج وہ اچھے سے جان چکی تھی کہ محبت پا لینے سے زیادہ کسی کی محبت بن جانا زیادہ خوشنصیبی کی بات ہے۔۔۔۔۔
وہ اپنے پورے من سے اپنا آپ اپنے مجازی خدا کو سونپ چکی تھی۔۔۔۔
باہر برستی ہوئی تیز بارش نے جل تھل مچا رکھی تھی اور اندر ان کے جذبات نے۔۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
شہر خموشاں کے دروازے پر رکتی ہوئی گاڑی
گاڑی پل بھر میں حرمت کو ورطہ حیرت میں ڈال گئی۔۔۔۔۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئےوجود نے حرمت کو گاڑی سے باہر نکلنے کا اشارہ دیا۔۔۔۔۔
لرزتے ہوئے قدموں سے جریر کا ہاتھ تھامتے ہوئے اس نے انجانے راستے کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔۔۔۔۔
اس نے کچی مٹی پر قدموں کے نشان چھوڑتے ہوئے اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے تربتر ہوئیں۔۔۔۔۔
وقت کو اندازہ لگانے میں مشکل پیش آ رہی تھی کہ اس کی آنکھوں میں یہ پانی گاڑی کی اڑتی ہوئی دھول پڑنے سے آیا ہے یا اس منزل کی مسافت کے لیے آیا ہے۔۔۔۔
کتبے پر لکھا نام دیکھ کر اس کے قدم وہیں رکے۔۔۔۔۔
قبر کے سرہانے بیٹھ کر خود کو یہ احساس دلایا۔۔۔۔
آخری دفعہ جسے دیکھتے ہوئے نظر جھک گئی تھی کیا پتہ دوبارہ اسے دیکھنا مقدر میں نا تھا۔۔۔۔
اوزیم کی آواز نے اسے سوچوں کے گرداب سے باہر نکالا۔۔۔۔
حرمت کے ہاتھ میں پنجسورتہ پکڑایا۔۔۔
خود قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کرنے لگا اور بچے قبر کو پھولوں سے سجانے لگے۔۔۔۔
اوزیم کی نظر جریر پر پڑی جس نے اپنے دونوں ہاتھ مٹی سے بھر لیے تھے۔۔۔۔
اوزیم نے جریر کو گود میں اٹھائے ایک طرف لے جا کر پانی کی بوتل سے اس کے ہاتھ دھلوائے۔۔۔۔۔
اوزیم نے پیام اور پریشے کو اپنے بابا کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کا کہا۔۔۔۔
وہ دونوں دعا کیے فارغ ہوئے تو اوزیم نے حرمت کے چہرے پر نظر ڈالی۔۔۔
کچھ ہی لمحوں میں لمبی مسافت طے کر کہ آنے والا وہ مسافر لگی جو کچھ لمحے رک کر سکون کا متمنی ہو۔۔۔۔
وہ جو بچپن سے اس کا ساتھی تھا وہ اس کے چہرے کی اس کشمکش اور تھکن کو کیسے نا جان پاتا۔۔۔۔
اس نے اسے کچھ وقت کے لیے تنہائی دیتے ہوئے بچوں کو لیے گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
دعا کے لیے ہی ہاتھ اٹھاتے ہی آنکھوں کے سامنے مانوس سا منظر لہرایا۔۔۔
جریر سفید کپڑوں میں ملبوس اپنے پہلو میں بیٹھا نظر آیا۔۔۔۔
جیسا کہ شادی کے شروع کے دنوں میں اس کو تنگ کرنے کے لیے وہ اسے چڑاتا تھا۔۔۔۔
کیوں رو رہی ہو؟؟؟
کیا تم خوش نہیں ہو ؟؟؟
وقت تھم سا گیا۔۔۔۔
اور یہ احساس کھو گیا کہ اب وہ اس دنیا میں موجود نہیں۔
جریر کی نظر آتی ہوئی شبیہہ سے اس نے اپنے ہر پچھتاوے کا ازالہ کرنا چاہا۔۔۔۔
میں بہت خوش ہوں مگر تم مجھے معاف کردو۔۔۔
تمہاری آخری اٹھتی نظر آخری جملے ابھی تک مجھے رلاتے ہیں۔
میری زندگی کا فیصلہ وقت اور حالات پر منحصر تھا میں نے تم سے بے وفائی نہیں کی ہو سکے تو مجھے معاف کردو۔۔۔۔
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں۔۔۔
میں بہت اچھی جگہ پر ہوں ۔مگر مجھے اپنے بچوں کی بہت یاد آتی ہے۔
میں اپنے خدا کے ہر فیصلے پر راضی برضا ہوں اور تم بھی خود کو اس پچھتاوے سے نکال لو۔۔۔ہر کام میں خدا کی مصلحت ہے ۔اور خدا کا تمہارے لیے لیا گیا فیصلہ بہترین ہے۔
مؤذن کی صدا اس کے مفلوج ذہن کو حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔۔۔۔دعا کے لیے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے چہرے پر سکون تھا۔۔۔۔
وہ سکون جس کی تلاش میں اوزیم اس کو یہاں لے کہ آیا تھا۔۔۔۔۔
اس کے دماغ سے یہ خیال چھو کہ گزرا بے شک وہ ایک اچھا ہمسفر ہے۔
واپسی کا راستہ اس کے لیے انتہائی آسان تھا۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
بچوں کو افرس کے پاس گھر چھوڑنے آئے تھے پھر انہی۔ کہیں اور بھی جانا تھا۔
کل جریر کا سکول میں ایڈمیشن کروانا تھا ۔۔۔
اور پیام اور پری کا بھی سکول چینج کروانا تھا ۔۔۔۔
ھاد بھی ان کے ساتھ ہی ایڈمیشن لینے والا تھا۔۔۔۔
بھائی ایڈمیشن فارم فل کردیں۔۔۔۔
صبح سبمٹ کروانے ہیں۔۔۔۔
اوزیم نے پین پکڑے تیزی سے منٹوں میں سارے فارم فل کردئیے۔۔۔۔
حرمت نے فارم دیکھے تو اوزیم پر نظر ڈالی۔۔۔
آپ بچوں کو اپنا نہیں مانتے ؟؟؟پھر بولی
ایسا کیوں کہا تم نے؟؟؟
اس نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔۔۔
آپ نے جریر اوزیم خان لکھا ہے ۔
مگر پیام جریر اور پریشے جریر کیوں؟؟؟
ان کے ساتھ اپنا نام کیوں نہیں؟؟؟؟
اس نے گہری سانس لی۔۔۔۔
جریر سے زیادہ پیام اور پری میرے دل کے قریب ہیں۔۔۔
اور سورت احزاب میں ہےکہ۔
اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک یہی درست بات ہے کہ لے پالکوں کو ان کے اصل باپوں کے نام سے پکارو
ماخوذ( آیت نمبر 5سورت احزاب)
حرمت اس کے بات سے لاجواب ہو کہ رہ گئی۔۔۔۔
افرس بچوں کا خیال رکھنا ہم ابھی کچھ دیر میں آتے ہیں۔
وہ حرمت کوساتھ لیے کہیں جانے کے لیے نکلا۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ ایک خوبصورت گھر کے باہر رکے۔۔۔۔
حرمت خاموشی سے اس کی رہنمائی میں اندر آئی۔۔۔۔
گھر بہت شاندار تھا۔۔۔۔
کیسا لگا؟؟؟؟
بہت پیارا ہے ماشاءاللہ۔۔۔۔
کس کا ہے؟؟؟؟
میری بیٹی پریشے کا۔۔۔۔
حرمت نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔۔۔۔
میں نے دیکھا ہے بچیوں کو اکثر یہی شکوہ رہتا ہے۔
پہلے باپ کا گھر، بھائی کا گھر،پھر شوہر کا گھر آخر میں بیٹے کا گھر۔۔۔
تو پھر اس کا گھر کون سا ہوا؟؟؟؟
میں چاہتا ہوں میری بیٹی کو یہ شکوہ کبھی نا ہو۔۔۔۔
یہ اس کا گھر ہے۔اپنے بابا کی طرف سے ۔۔۔۔
اوزیم کی بات سن کر اس کی شفاف نیلی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے۔۔۔۔
جریر آپ بے شک اچھے انسان تھے مگر اوزیم بہت اعلیٰ ظرف ہیں۔
جو میرے لیے کیا میرے بچوں کے لیے یہاں تک کہ اپنے خون کو بھی آپ کا نام دے دیا۔۔۔۔
اس نے دل میں سوچا۔۔۔۔۔
اور تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس کے سینے سے لگی۔۔۔۔
بہت شکریہ آپ کا۔۔۔۔۔وہ دل کی گہرائیوں سے مسرور لہجے میں بولی۔۔۔۔
یہ جو تم اپنی مرضی سے میرے قریب آتی ہو نا چوکو لاوا میرے دل کی دنیا کو نئے سرے سے آباد کر جاتی ہو۔۔۔۔۔
ہمیشہ یونہی میرے ساتھ رہنا۔۔۔۔۔
وہ اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے محبت سے بولا۔۔۔۔
وہ آسودگی سے بولی۔۔۔۔۔۔
میری کونسی ادا میرے خدا کو پسند آئی جو اس نے آپ کومیرے مقدر میں لکھ دیا۔۔۔۔۔
سچ کہا ہے کسی نے ملے عشق مقدر سے 💖
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Mile Ishq Muqaddar Se Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mile Ishq Muqaddar Se written by Hina Asad .Mile Ishq Muqaddar Se by Hina Asad is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment