Dargah e Ishq By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
![]() |
Dargah e Ishq By S Merwa Mirza Complete Romantic Novel |
Novel Name Dargah e Ishq
Writer Name: S Merwa Mirza
Category: Complete Novel
"سیدھا راستہ۔۔۔ یہ وہ راستہ نہیں جو ہماری نظر دیکھتی ہے، سیدھا راستہ وہ ہے جو ہماری روح دیکھتی ہے۔ پس وہی سیدھے راستے پر چل پائیں گے جنکی روحیں زندہ ہوں گی ، اور مردہ روحوں کے مالک بھٹک جائیں گے۔'صراط مستقیم' یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ ہمیں ہدایت کے انعام کے بعد دیتا ہے، جس کے بعد گمراہی کا کوئی خطرہ نہیں رہتا۔ جو رب کے راستوں پر چل نکلتے ہیں انکی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے۔ اللہ مجھے اور آپ سبکو ہدایتِ کامل سے نوازیں"
وہ آواز کئی آوازوں، کئی خوبصورت ترنگوں کا مرکز تھی۔ سفید کف داری کاٹن کا سوٹ پہنے بس کسی سراپے کی پشت دیکھائی دے رہی تھی جسکے سامنے ایک بڑا مجمعہ براجمان تھا، جبکے اس آواز کا سحر پوری مسجد میں پھیلا ہوا تھا۔ نمازی سے لے کر مسجد کی دیکھ ریکھ کرنے والے ملازم تک، بڑے بڑے علماء اکرام سے لے کر امام مسجد تک ہر کوئی ساکت تھا ، کیونکہ ہر ہفتے کے معمول زدہ سلسلے کے مطابق آج بھی جمعے کا خطبہ "عبداللہ وجدان" کی سحر زدہ آواز میں سنائی اور دیکھائی دے رہا تھا۔ یہ وہ آواز تھی جو کسی شخص کی نہیں بلکے ایک روح کی تھی۔ وہ انسان جو اپنی آواز سے ہی کئی سماعتوں کو سکون اور وجدان دیتا تھا۔ وہ جو ایک شیریں زبان موذن تھا۔ اسکا چہرہ کسی بھی عام انسان جیسا نہ تھا، اس چہرے کا نور وہاں موجود ہر شخص کو دیکھائی دیتا تھا۔ اس آواز کا پوری مسجد تو کیا پورے شہر میں کوئی نعمل البدل نہ تھا۔ "ماشاء اللہ ۔ تم پر اللہ کا خاص کرم ہے عبداللہ ، ورنہ وہ رب ہر ایک کو ایسی دلفریب سی تاثیر عطا نہیں کرتا۔ تم ہر ہفتے یہاں آکر ہمارا مان رکھتے ہو ۔ اسی بہانے ہم بھی اس تاثیر سے مستفید ہو جاتے ہیں" امام مسجد نہایت شفیق لہجے میں اس سامنے والے پاکیزگی کے حسین امتزاج کے حامل شخص سے بول رہے تھے، خطبے کے بعد نمازی ایک ایک کر کے جا رہے تھے جبکہ کچھ ابھی بھی مسجد کے صحن میں براجمان تھے۔ وہ سفید رنگ میں لپٹا دلکش سا شخص ہلکے سے مسکرایا تھا جیسے نہایت ہی اعتدال پسند ہو۔ اسکے ہر طور سے یوں بھی اعتدال پسندی ہی جھلکتی تھی۔ امام مسجد کی اس پیارے اور میٹھے لہجے میں کہی بات سامنے والے پر عاجز رنگ اوڑھائے دلفریب کر چکی تھی۔ "آپ کی دعاوں کا وسیلہ ہے جو وہ رب میرا خود پے مان ٹوٹنے نہیں دیتا۔ ہزار گناہوں کے باوجود اس نے اس خاص منسب کے لیے مجھے چنا ہے ۔ ورنہ میری اتنی حیثیت نہیں ۔ آپ آج بھی میرے لیے خصوصی دعا کیجئے گا " وہ اور امام چلتے چلتے باہر آ چکے تھے جہاں ابھی بھی کچھ نمازی قران پاک کی تلاوت میں مشغول دیکھائی دے رہے تھے۔ "میں تو وہی دعا کروں گا برخوردار ، کہ اللہ تمہیں یہاں ہفتے میں ایک بار لانے کے بجائے دن میں پانچ بار لائے۔ تم یہاں کے مستقل موذن بن جاو"
وہ بھی اب ہولے سے مسکرائے تھے اور عبداللہ نے آنکھ چرائے بچ نکلنے کو سر کجھانے کی کوشش کی تو وہ دل کھول کر مسکرا دیے۔ کہاں وہ خود کو عاجز اور حقیر جاننے والا عبداللہ وجدان اور کہاں یہ بڑے سے بڑے اعلی رتبوں کا سردار رتبہ! "جانتا ہوں یہاں کا سب سے مصروف انسان ہے میرے سامنے، پر ہے تو عبداللہ ، اور جس روز وہ اپنے اس بندے کو چن لے گا پھر راستے بھی عطا کرے گا۔ تمہاری دی گئی آذان یہاں کے پرندے بھی سنتے ہیں عبداللہ۔۔۔ تم سوچو اس پر"
امام مسجد اسکے کندھے پر ایک شفقت کی تھپکی دے کر اسے ہر بار کی طرح قائل کرتے واپس مسجد کے اندر بڑھ گئے، اور وہ ایک مدھم سی آسودہ مسکان سجائے سیڑھوں پر بیٹھ کر جوتے پہننے لگا۔
"یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے وجدان"
وہ پر سوچ انداز سے خود کلامی کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔ مسجد کے داخلی دروازے کی دوسری جانب ہی اسکی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ اندر بیٹھنے سے پہلے مسجد کو رشک زدہ ہو کر دیکھ رہا تھا، یہ رتبہ پانے کی تو اسکی بھی تمنا تھی مگر وہ خود کو پہلے اس جگہ کے قابل بنانے کی جدوجہد کرنا چاہتا تھا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے بھی اسکی نظریں مسجد کے ان میناروں پر تھیں جنکی خوبصورتی اسے آج بھی اپنی جانب کھینچتی تھی، اگلے ہی لمحے اس نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔
..____________________..
دور دور تک جگمگاتی روشنیوں کا مرکز آج کوئی خاص تھا۔ تالیوں کی گونج کے بعد اب باقاعدہ نعرے بازی کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی وہ 'سٹوڈنٹ آف دی ائیر' ایوارڈ ہاتھوں میں لیے ستارے کی مانند جگمگا رہی تھی۔ ایسی کامیابیاں اب اسے زیادہ سے زیادہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ ہی دیتی تھیں۔ کیونکہ وہ کوئی عام لڑکی نہیں تھی۔ 'زالے مراد' جسکا شمار آجکل کے دور کی ہر بولڈ کیٹیگری میں ہوتا تھا اور اس نےہمیشہ اس میں بھی ٹاپ پے رہنا سیکھا تھا۔ ایک ایسی لڑکی جو کسی سے بات کر لیتی تو وہ خود کو خوش قسمت سمجے بغیر نہ رہ پاتا۔ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی تک کئی دلوں کی دھڑکن بننے والی، جو ایسوں ویسوں کو دیکھتی تک نہ تھی۔ اس سے بات کرنے کے لیے ایک زمانہ لائن میں لگنے پر بھی راضی تھا۔ جو اپنے ساتھ ستارے باندھ لینے کی دعوے دار تھی۔ وہ جسے اپنی ذہانت ،خوبصورتی اور انا پر بے شمار غرور تھا۔ سرمنی ختم ہوتے ہی زالے ایوارڈ ہاتھ میں تھامے باہر آگئی۔ کئی لوگ 'زالے مراد' کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے۔ پر وہ اپنے قدموں کی تیز رفتاری ناپتے ہوئے راہداری عبور کر چکی تھی۔ آج کے دن وہ اپنے مخصوص جینز ٹی شرٹ کے حلیے سے باہر تھی۔ کسی ھاررر مووی کی دلکش حسینہ کی طرح ساحرانہ اور فاتحانہ رنگ میں لپٹی ہوئی! گارڈز کو ایواڈ پکڑاتے ہوئے وہ گاڑی میں بیٹھ چکی تھی۔
"زالے۔۔۔۔ "
ہر بڑی خوشی کے بعد اس پے طاری فرار کی یہ بہت پرانی عادت تھی، جسے اسکے ارد گرد رہنے والے لوگ تک نہیں جانتے تھے۔
"ناٹ آگین۔۔۔ ناووو آئی اونلی وانٹ زالے"
یہ اسکے گروپ کے لوگ تھے جو اس سے آج کی اس کامیابی پر ٹریٹ لینے آ پہنچے تھے۔ "اوکے سی یو، پر زالے پارٹی تو ابھی شروع ہوئی تھی " یہ سعد تھا ،انکی ٹیم کا فرنٹ مین کہہ لینا چاہیے۔ شوخ اور پیارا ہونے کے ساتھ ساتھ زالے کے ہر حکم کی تعمیل کرنے والا، زرا بجھے اداس لہجے میں مرجھا کر بولا۔
"زالے کی پارٹی اسکی موجودگی کی محتاج ہوتی ہے ۔ بھول گئے کیا"
یہ ثانی تھی زالے کی پرسنل ایڈوائزر، اور ایک خوش اخلاق دھیمے گداز نقوش والی، اسکی بات میں رشک کی عمدہ فراوانی تھی۔ "گائیز اسے بور مت کرو، رات ملتے ہیں ناں" وہ سب آنکھ مار کر ہنسے تھے جبکہ زالے بغیر کوئی تاثر دیے اپنی دوسری ٹانگ گاڑی میں کر چکی تھی۔ وہ ایسی ہی لاپرواہ اور مفرور طبعیت کی تھی۔ یہ عاقب تھا جو ایک شریر لڑکے کے ساتھ ساتھ ایک بد اخلاق سا جذباتی انسان بھی تھا۔
"فارم ہاوس آ جانا سب۔ بائے"
گاڑی کا مرر اوپر کرتے ہوئے وہ اپنے سپاٹ انداز میں بے نیازی برتتے ہوئے بولی تھی اور اگلے ہی لمحے وہ ان سب کی نظروں سے اوجھل ہو چکی تھی۔ کسی ایسے قلیل نظارے کی طرح جو بس اپنی جھلک دیکھا کر گم جاتا ہے۔
"آج بڑا مزہ آنے والا ہے گائیز"
عاقب نے پرجوشی تو کچھ زیادہ ہی بڑھی ہوئی تھی۔ وہ لوگ اندر مڑے ہی تھے کہ کسی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر زور زور سے بے ڈھنگے قہقہے لگانے لگ گئے، ثانی بس ہلکا سا مسکرا کر ایک نظر اپنے ان تین نمونے دوستوں پر ڈالے بد مزہ ہوئی تھی۔
"یہ مجنوں پھر سے لیٹ ہو گیا"
یہ خیلہ تھی زالے کے گروپ کی نک چھڑی اور تیکھی لڑکی اور مزاق کرنے کے بجائے مزاق اڑانے پر یقین رکھنے والی۔ یہ سب جس سمت دیکھ کر ہنس رہے تھے، وہاں سامنے ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اچھے قد کاٹھ کے ساتھ ساتھ اچھی صورت رکھنے والا مگر وہ سامنے سے کہے جانے والے جملوں سے بے نیاز اس سمت دیکھ رہا تھا جہاں زالے کی گاڑی روانہ ہوئی تھی۔
"چار سال سے تو بے عزت ہو رہا ہے یہ ڈھیٹ، آج ہو جاتا تو سینچری ہو جاتی۔ بچ گیا غریب۔ چلو بیٹا جا کر موج کرو"
عاقب اس سے باقاعدہ بتتمیزی کرتے ہوئے اسکا تمسخر اڑائے بولا تھا مگر اس لڑکے نے نہایت ضبط کرتے ہوئے ناگوار چہرہ بنائے اپنے ہاتھ بھینچتے ہوئے روک لیے تھے۔
"اکٹر تو دیکھو اسکی۔۔"
خیلہ بھی تنفر سے بولتی ہوئی اسے گھور رہی تھی مگر وہ ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے مڑ گیا۔ ایک گہری ہار تھی جو اس کے روشن چہرے پر ثبت تھی۔
"اوئے، اگر اتنا ہی شوق ہے بے عزتی کی سینچری کا تو فارم ہاوس آ کے دیکھانا۔ ہم بھی کچھ انٹرٹینمنٹ انجوائے کر لیں گے۔۔۔ھاھا"
سعد بھی بت تمیزی پر اتر آیا تھا، جسکی کم ازکم ثانی کو امید نہ تھی۔اس گروپ کی ایک وجہ شہرت بدتہذیبی اور ناانصافی بھی تھی۔ "چھوڑو ناں اسے چلو اندر"ثانی نے ہی ان سب کو اندر جانے پر زور دیا کیونکہ وہ دیکھنے میں کچھ مہذب لگتی تھی۔ وہ سب اندر کی جانب بڑھ گئے اور باقاعدہ سعد اور عاقب اس لڑکے کو دھکا مار کر گئے تھے۔ مگر نہ جانے وہ کس وجہ سے چپ تھا۔
"ان بتتمیزوں کی باتیں ہوا میں اڑا دینا سمیر۔پاگل ہیں سارے۔ خیر سی یو"
وہ اسے کہتے ہوئے آگے بڑھ گئی مگر وہ تو اپنی آنکھیں دکھی تاثر سے گاڑے اسی سمت دیکھنے لگ گیا جہاں 'زالے مراد' گئی تھی۔
..____________________..
پچھلے دس منٹ سے وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے تھے۔ یہ کمرہ نیم تاریک تھا لیکن کمرے کے وسط میں ایک ادھ مرا ہوا بلب ہلکی سی روشنی کرنے میں کامیاب ہو رہا تھا۔ سامنے لکڑی کی کرسی پر ایک چنکارتے ہوئے نقوش والا سرخی مائیل آدمی بیٹھا تھا جس کے چہرے پر خباثت اور پھٹکار ابل ابل کر نکل رہی تھی اور وہ باقاعدہ پھنکار کر اپنے سامنے بیٹھے اس انسان کو کھا جانے والے انداز میں دیکھ رہا تھا جسکا چہرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔کمرے کے دروازے کے ساتھ ہونے والی آہٹ بتا رہی تھی کہ وہاں بھی کوئی موجود تھا۔
"مار دو بھلے پر تم لوگ مر کر بھی میرا منہ نہیں کھلوا سکتے۔ ہاہاہا"
اس شخص کے چہرے پر بے ڈھنگے قہقہے نے بدصورتی میں اضافہ کیا مگر وہ اب کی بار ہونے والے ریکشن سے انجان تھا، کیونکہ اگلے ہی لمحے مقابل موجود شخص اسکی گردن دبوچ چکا تھا اور لگاتار تین چار خونخوار مکے رسید کیے مگر اسکا مکرو قہقہ تھوڑی دیر تھم کر پھر سے شروع ہو چکا تھا۔
"لعنت ہو تم جیسوں پر۔۔ موت بھی تم لوگوں سے پناہ مانگتی ہے بدبخت، دل تو چاہ رہا ہے تمہاری یہ آنکھیں نکال کر باہر پھینک دوں۔ ملک کی نئی نسل کو بربادی کی طرف دھکیلتے ہوتے تم لوگوں کو رتی برابر غیرت نہیں آتی"
وجدان کی آنکھیں غصے سے لال ہو رہی تھیں، اسکا چہرہ صبح کی نسبت تن کر دہشت طاری کرتا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔اپنی آسمانی شرٹ کے بازو چڑھائے وہ لگے ہاتھوں دو مکے مزید رسید کر گیا تھا اگر عادل اسے نہ روکتا تو شاید آج وہ اس گند کا صفایہ ہی کر دیتا۔
"چھوڑو مجھے عادل، آج تو میں اسکا خاتمہ کر دوں گا۔ زلیل کے چہرے پر ابھی بھی کوئی پچھتاوا نہیں"
عادل نے بمشکل اسے دبوچ رکھا تھا کیونکہ وہ اس سے ہر طرح سے طاقت ور تھا۔
"چھوڑیں بھائی، کیوں اپنے ہاتھ گندے کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ لیں گے"
عادل نے بڑی مشکل سے معاملہ سلجھایا اور دوسرے دو اہلکار کو اشارہ دیتا ہوا وجدان کو لیے باہر آگیا۔ جو کسی بھی صورت ہلنے تک کو تیار نہ تھا۔ فرض کے معاملے میں آج تک عبداللہ وجدان کو روکنے والا پیدا نہیں ہوا تھا۔
"بھائی پانی"
وہ اسے کام ڈاون کرنے میں ناکام تھا، وجدان کی نظر ابھی بھی گلاس ڈور کے اس طرف بیٹھے سمگلنگ کے بہت بڑے ڈان پر تھی۔ جو اب وجدان کے گرجتے اور برستے جلال کے بعد ادھ مرا ہو چکا تھا اور گردن ایک طرف کو گری ہوئی تھی۔
"ہنہ، مر جاتا یہ زلیل آج۔ تم ایسا کرو دو تین بندوں کو اسکے ٹھکانے پر نظر رکھنے کا بولو، اور اس پر بھی پھینٹی سے ہاتھ تنگ کرواو۔ جب تک یہ منہ نہیں کھولے گا تب تک ہم اسکے گھٹیا ارادے نہیں جان پائیں گے۔ اور ہاں اگلی بار تم جانا اندر"
آخری بات پر عادل کے سنجیدہ چہرے پر بھی ہلکی سی خوشگواری در آئی کیونکہ اب کی بار وجدان بھی مسکرایا تھا۔
"جی بھائی میں دیکھ لوں گا"
وہ مزید مسکرایا تو اسکی شامت پکی تھی۔ "ہنسی کچھ زیادہ نہیں۔ سب خیر ہے نا"
وہ کچھ دیر پہلے والا وجدان نہ تھا، فرض کہ معاملے میں سختی دکھانے والا مگر زندگی کے دوسرے کئی معاملات میں ہنس مکھ، خوش مزاج اور خوش گفتار سا 'عبداللہ وجدان'۔
"جی بھائی، آپ کو غصے میں دیکھ کر آپکا شرارتی چہرہ یاد آ گیا تھا۔ سچ میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ آپکو اتنا غصہ بھی آتا ہے"
عادل اسکا جونئیر ہونے کے ساتھ ساتھ اسکا اچھا دوست بھی تھا اور عبداللہ وجدان تو تھا ہی قابل محبت ، دوستی اور ناجانے کیا کیا۔ "کیا کروں عادل، جب ایسے غلیظ لوگوں کو اپنے ہی ملک سے غداری کرتے دیکھتا ہوں تو دل میں شعلے جل اٹھتے ہیں۔ ورنہ تم تو جانتے ہو ہم سا خوش مزاج بھی نہ ہوگا"
وہ ہولے سے اپنے سحر انگیز انداز میں مسکرایا تھا۔ وہ دونوں ہی سول انوسیٹیگیشن آفیسرز تھے اور یہ سمگلنگ کا بہت بڑا گینگ تھا جن کا ایک بازو انکی گرفت میں تھا، اور وہ اسکے ذریعے باقیوں تک پہنچنا چاہتے تھے۔
"وہ تو ہے۔ عبداللہ وجدان جسکی آواز جب اللہ کی بارگاہ میں بلند ہوتی ہے تو وہ کسی خوش الحان پرندے کے سارے رنگ اوڑھ لیتی ہے اور یہی آواز جب ملک کے دشمنوں پر برستی ہے تو انکے لیے موت کا پیغام ثابت ہوتی ہے"
کہنے والا خود بھی کسی سے کم نہ تھا۔ عادل رضا احمد خود بھی اس ڈیپارٹمنٹ کا سب سے بہادر اور خوبرو نوجوان تھا۔ وجدان اسکی بات پر تھوڑا بے چین ہوا، تعریف اس بندے کو ہمیشہ یونہی بے آرام کرتی تھی۔ "بھئی تم زیادتی کر رہے ہو۔ بندہ اس قابل نہیں ہے" وہ عاجز ہو کر بولا تو عادل بھی رشک زدہ سا مسکرایا تھا۔ "چائے ہو جائے پھر" چائے کی آفر جناب کم ہی رد کرتے تھے، اور وہ بھی ایسے جلالی ایکشن کے بعد۔
"ٹھیک ہے جلدئ زرا مجھے گھر جانا ہے، پرنسز میرا ویٹ کر رہی ہوگی"
کوئی بہت خاص الخاص ہی تھا جسکا ذکر ہی وجدان کے چہرے کو پرنور کر گیا تھا۔ عادل نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا اور حکم بجا لانے کو آفس سے باہر نکل گیا۔
..____________________..
ہر طرف افراتفری تھی۔ پچھلے کئی منٹوں سے وہ پورے گھر میں بھاگ رہی تھی۔ کمرے سے سیڑھیوں تک آتے اور اترتے ہوئے اسکی پائل اس سے زیادہ شور مچاتی محسوس ہو رہی تھی۔ اور "لیبو" اسکے قدموں سے قدم ملاتے ہوئے اس کے آگے بھاگ رہی تھی۔ زیادہ ہلچل تو اسکے نازک سے پاوں میں پہنی پائلوں میں تھی۔ اور پھر لاونچ کی نہ ختم ہونے والی مسافت طے کرتے ہوئے وہ لاونچ میں لگی جہازی سائز پوسٹر تصویر کے سامنے رکی۔ لیبو کو اٹھا کر اس نے گود میں لیا اور اگلے ہی لمحے وہ سامنے آ چکی تھی۔ خوبصورتی تو جیسے اس پر ختم تھی۔ یا یوں کہنا چاہیے معصومیت بھی وہاں ختم تھی۔ اپنے کندھے تک آتے بالوں کو بے ڈھنگے سے پھیلائے۔ چہرہ آرٹیفیشل حسن سے عاری۔ وہ سامنے لگی تصویر کو دیکھ کر کھل کر مسکرائی۔ اسکے ہاتھوں میں مچلتی ہوئی لیبو کو مضبوطی سے پکڑے وہ ایک ہاتھ سے پوسٹر تصویر کو فلائنگ کس کر رہی تھی۔
"میرے پیارے سے پرنس۔ "
اگلے ہی لمحے وہ تصویر منظر عام پر تھی۔ "عبداللہ وجدان"
"میرے بھیا۔ دنیا کے سب سے پیارے بھیا۔ تم کو پتا ہے لیبو۔ وہ اتنے پیارے ہیں کہ ایک دنیا انکی دیوانی ہے۔ میرے بھولے سے بھیا۔ بات کرتے ہیں تو لگتا ہے کوئی میٹھے پانی کی آبشار بہہ نکلی ہو۔ پیار کرتے ہیں تو لگتا ہے کہ زندگی چاروں طرف کھڑی مسکرا رہی ہے۔ اور تو اور جب ساتھ ہوتے ہیں تو سب ڈر سب خدشے سب دکھ ساری کمیاں بھول جاتی ہیں" آخری بات پر اسکی آنکھیں ساتھ لگی بہت بڑی تصویر پر گئیں جہاں دو لوگ تھے۔ شاید انکے ماں باپ۔ "لیبو تم کو پتا ہے میرے پرنس بھیا کو پتا ہی نہیں غصہ کیسے کرتے ہیں"
رباب اپنی ہی کہی بات پر ہنس دی۔ اسکی بلی بھی ایسے متوجہ تھی جیسے وہ اپنی رباب میڈم کی ساری باتیں توجہ سے سن رہی ہو۔
"وہ میری جان ہیں"
وہ کھلھلا کر ہنسی جب اسکی نظر دروازے میں کھڑے وجدان پر گئی۔ جو ہاتھوں میں ناجانے کتنے شاپنگ بیگز لیے مسکرا کر کھڑا تھا۔ آج اسکی اکلوتی اور پیاری بہن کی سالگرہ تھی۔ جو کہ اپنے کالج کی چھٹیوں کی وجہ سے آج بھی دیر تک سو کہ اٹھی تھی۔ اور دیر بھی ایسی ویسی نہیں۔اتنی کہ وجدان اپنے دن کے آدھے کام نپٹا کر لوٹا تھا۔ "اور آپ ہماری جان ہیں۔۔ مائی لٹل پرنسیز"
وہ لیبو کو گود سے اتار کر بھائی کے گلے جا لگی۔
"ہیپی برتھ ڈے مائی لوو.جیتی رہو۔ اور ہمیشہ اپنے بھیا کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی رہو"
وہ اسے ہمیشہ سے یہی دعا دیتا تھا۔ تب سے جب اس نے اپنے ماں باپ کو کھو دیا تھا۔ تب سے جب وہ چار سال کی اسکی گود میں آئی۔ جسے اس نے ماں باپ بھائی سب بن کر پالنا تھا۔
"اتنے سارے گفٹس"
وہ تو خوشی سے اچھل پڑی تھی۔ لیبو بھی ان دونوں کے گرد چکر لگائے اپنے طرز میں خوش ہو رہئ تھی۔
"یہ سب ہماری پرنسس کے لیے ہیں اور جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے۔ ہم شام کو گھومنے جائیں گے۔ میں عادل کو بھی بتا دوں گا۔ وہ ہنا کو بھی لے آئے گا۔ تو ہم سب مل کر تمہارے اس دن کو مزیدار بنا دیں گے"
وہ پارٹی کے خلاف تھا۔ ویسے بھی اسے یہ تمام چیزیں فضول لگتیں تھیں۔ مگر وہ ان سب کا متبادل ڈھونڈ لیا کرتا تھا۔ ہنا عادل کی بہن تھی اور وہ رباب کی دوست بھی تھی۔
"واو بہت مزہ آئے گا"
رباب کی پرجوشی دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔
"چلو اب جا کر چینج کرو۔ پھر کھانا کھاتے ہیں۔ میرے پیٹ میں بھی چوہے کود رہے ہیں اب تو"
وہ شاپنگ بیگز بوا کو دیتے ہوئے بولا جو مسکراتی ہوئی دونوں کو دیکھ رہی تھیں اور دل میں انکی محبت کے قائم رہنے کی دعا بھی مانگ رہی تھیں۔ "ھی ھی ۔ اوکے میرے پرنس بھیا"
وہ بوا کے ساتھ ہی چلی گئی۔ وجدان نے سامنے لگی تصویر کو دیکھا۔ جہاں اسکے مام ڈیڈ بھی ایک مطمئین انداز میں مسکراتے ہوئے کھڑے تھے۔ یہ تصویر اس نے بہت بعد میں جا کر بنوائی تھی جو فرضی قسم کی تھی۔ وہ تب پندرہ سال کا تھا جب ماں باپ کی ایک ساتھ فرقت نصیب ہوئی تھی۔ یادیں گزرے لمحوں کی اچھی بھی تھیں پر دکھ میں گندھی تھیں۔ وہ ایک تلخ مسکراہٹ لیے اندر کی جانب بڑھ گیا۔
..____________________..
فارم ہاوس دور دور تک گہرے رنگوں کی لائٹنگ سے جگمگا رہا تھا، شام کافی دیر پہلے ہو گئی تھی اور جیسے جیسے رات ہو رہی تھی وہاں کافی چہل پہل شروع ہو چکی تھی۔ دیکھنے سے ہی لگ رہا تھا کہ وہ کوئی معیاری محفل نہ تھی۔ وہاں آنے والی لڑکیاں چھوچھوڑے انداز لیے نامناسب لباس زیب تن کیے بے ہنگم قہقہوں میں لگی تھیں۔ جن میں وہاں موجود طرز طرز کے چمکتے دمکتے مرد حضرات بھی موجود تھے۔ کوئی کہیں گروپ بنا کر باتوں کے پٹاخے پھوڑ رہا تھا تو کہیں رقص و سرور پر کئی من چلے جھومتے دکھائی دے رہے تھے۔ لان کے پورے آدھے حصے پر رنگ برنگے کھانوں کا انتظام کروایا گیا تھا جہاں پر آتے جاتے ویٹرز کھانے کے لوازمات کے ساتھ ساتھ ڈرنکس بھی کھلے عام سرو کر رہے تھے۔ نہ کوئی روک ٹوک تھی نہ کسی کو خدا کا خوف! کچھ ہی دور عاقب ، سعد اور خیلہ کھڑے گپیں ہانک رہے تھے، مگر ابھی تک پارٹی گرل کا کہیں بھی نام و نشان نہ تھا۔ اور پھر فارم ہاوس کی رہداری عبور کرتی ہوئی وہ سب کی نظروں سے بچ نہ سکی، اسکے چاہنے والوں کی ایک لمبی قطار اس جانب لپکی تھی جہاں 'زالے مراد' اپنے منفرد اور اچھوتے انداز کے ساتھ آ کر سب کا دل لوٹ چکی تھی۔ بلیک جینز کے ساتھ بلیک شرٹ جسکی آستینیں اوپر کی جانب مڑی تھیں۔ گلے میں سفید زنجیر نما گلو بند ڈالے، بالوں کو کئی طرح سے کرل کیے۔ پیروں میں اونچی کالی ہیل ، اور بازو میں کئی طرح کے کالے اور سفید بینگلز، وہ سچ میں راک سٹار تھی۔ اپنی ہر ادا سے سامنے والے کو زیر کر دینے والی وہ لڑکی آج بے حد پرکشش اور پراعتماد دیکھائی دے رہی تھی۔ اسکی محفل میں آئے ہر فرد کی نظروں کا مرکز صرف وہ تھی۔ کیوں نہ ہوتی، وہ تھی ہی قابل تعریف۔
"چشم بددووور"
ثانی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بنا متاثر ہوئے اترائی تھی۔ سعد، عاقب اور خیلہ بھی انکی طرف مسکان لیے آ گئے تھے۔ عاقب کا انداز زالے کو بے چین کر رہا تھا کیونکہ وہ باقاعدہ نیم بیہوش انداز میں لڑکھڑاتا دیکھائی دیا۔ وہ اسی نازیبا چال سے چلتا ان چاروں کی طرف آیا تھا۔
"تم سے اگر سنبھالی نہیں جاتی تو پیتے ہی کیوں ہو"
وہ سامنے جھٹکے کھاتے عاقب سے مخاطب ہوتی ہوئی غضبناک ہوئی تھی جس پر اسے شدید غصہ آ رہا تھا۔ سعد نے اسے باقاعدہ پکڑ رکھا تھا۔
"آج تو سب جائز ہے نا بے بی ڈال"
اس سے پہلے کے وہ سنبھلتا ایک تھپڑ اس کے منہ پر لگا۔ اور یہ انسلٹ نہیں تھی۔ ہوش دلانے کا ایک طریقہ تھا۔ وہ دو فٹ دور ہوا اور اگلے ہی لمحے سنبھل گیا۔
"بے ہوشی میں بھی اپنے ہوش قابو میں رکھو۔ یاد رکھو کہ میں ہوں تمہارے سامنے"
زالے نے بظاہر بہت پیار سے کہا تھا مگر سامنے والے پے اچھے سے وافع ہو چکا تھا۔ خیلہ اور سعد بھی پہلےسے سنجیدہ دیکھائی دیے تھے۔
"غصہ نہ کرو۔ ابھی میں کچھ ایسا دیکھانے والا ہوں کہ مزہ آ جائے گا"
اب وہ زالے کے عتاب کو آواز لگانے والے کام کر رہا تھا۔
"اسے لے جاو۔ "
خیلہ اب کی بار غصے سے بولی تھی۔ "کول ڈاون پرنسس۔ آو تم کو کچھ لوگوں سے ملواتی ہوں۔" اس سے پہلے کے معاملہ سنجیدہ ہوتا۔ خیلہ، زالے کو لے کر دوسرئ طرف چلی گئی۔
"بدلہ تو میں لے کر رہوں گا اس تھپڑ کا بے بی ڈال"
عاقب پہلےکی نسبت ہوش میں تھا اور اپنا گال سہلاتے ہوئے بولا۔ سعد نے اسے گھورا۔ "کیوں بے موت مرنا چاہتا ہے تو" وہ اسکی جیب سے نکلا وہ خاص پیکٹ دیکھ چکا تھا۔ جو ایک جانی پہچانی ڈرگ تھی۔ اور ایسی چیز کا "زالے مراد" کی پارٹی میں ہونا نیا نہیں تھا۔ "دیکھ سعد۔ میرا دماغ آگے ہی گرم ہے۔ اپنی فلاسفی بند کر۔ " وہ نفرت بھرے انداز میں سامنے کھڑی زالے کی طرف دیکھتے دھاڑا تھا۔
"مر جا پھر بے موت۔ مجھے کیا"
سعد بھی پیڑ پٹہتا وہاں سے چلا گیا۔
"تم نے بہت بے عزت کیا ہے مجھے بے بی ڈال۔ چھوٹا سا بدلا میری طرف سے"
وہ شیطانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا تھا۔
..____________________..
عادل ، ہنا کو لے کر ریسٹورانٹ ہی پہنچ گیا تھا۔ وجدان اور رباب پہلے ہی نکل گئے تھے۔ عادل کے والد بہت بڑے وکیل تھے جبکہ والدہ حیات نہ تھیں۔ ہنا عادل سے چھوٹی تھی وہ رباب سے بڑی تھی مگر دونوں کی اچھی اور پکی دوستی تھی۔ یوں کہنا چاہیے کہ رباب کی جان اپنے ان چند پیاروں میں بستی تھی۔ آج وہ سب رباب کی برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنے آئے تھے۔
"ہاں جی۔ کیک آ رہا ہے۔ اور کیا کھائیں گی آپ دونوں"
وجدان ریسیپشن پر کھڑا کسی سے فون پر بزی تھا جب عادل ان دونوں کے پاس گیا۔
"بھائی آپکو پتا ہے رباب آپ سے ناراض ہے۔ "
ہنا نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے کہا تو رباب نے اسے گھورا۔
"ارے رباب۔ کیا یہ سچ ہے۔ جلدی سے بتاو کیوں ناراض ہو ۔"
وہ ان دنوں کے سامنے کرسی گھسیٹتا ہوا بیٹھ گیا۔ "کیوں کہ آپ نے ابھی تک مجھے وش جو نہیں کیا"
وہ ہنا جیسا منہ بنائے بولی تو سامنے سے آتا وجدان بھی مسکرا دیا۔
"ناٹ فئیر جونیئر۔۔ تم نے ابھی تک ہماری پرنسیز کو وش نہیں کیا۔ چلو بتاو رباب ہم اسے پنیش کرتے ہیں ابھی"
وجدان نےہنا اور اسے ٹیم بناتے ہوئے بازو فولڈ کر لیے تھے۔ اور اگلے ہی لمحے سب ہنس دیے۔
"چلو بھئی ایسا کرتے ہیں کل رات کا کھانا میرئ طرف سے۔ وہ بھی میرے ہاتھوں کا بنا۔میرئ طرف سے وش سمجھ لو"
سب جانتے تھے کہ عادل ایک اچھا شیف بھی تھا۔ اس کے ہاتھ میں بہت ذائقہ تھا اور رباب ہنا اور یہاں تک کہ وجدان بھی اس بات کا قائل تھا۔ "ارے واہ پھر تو بہت مزہ آئے گا"
رباب کی خوشی دیدنی تھی۔
"بس پھر کل خیر نہیں ہم سب کی۔ پچھلی بار کی طرح اس بار بھی کچھ زیادہ کھا لیں گے۔ یاد ہے نا ہاتھ تھا کہ رک ہی نہیں پا رہا تھا۔ "
وجدان نے آڈر کرتے ہوئے پرجوشی سے کہا۔
"بھئی میرے بھیا ہیں ہی اتنے ماہر۔ "
ہنا نے مسکراتے ہوئے بھائی کا حوصلہ بڑھایا۔ وہ بھی ہلکے سے مسکرائی تھی۔
"کوئی شک نہیں۔ "
وجدان پھر سے قائل نظر آ رہا تھا۔
"اب اتنا بھی ماہر نہیں ہوں۔ تعریفوں کی سپیڈ کم کر دو سب۔ نہیں تو میں نے پھول جانا یہیں بیٹھے بیٹھے"
وہ شرارتی انداز میں بولا تھا۔
"کوئی بات نہیں پھر اور کیوٹ لگیں گے۔ کوئی ایک تو ہوگا نا ہم سب میں موٹو"
رباب اپنی بات پر خود ہی ہنس پڑی۔ کیک آ چکا تھا۔ بہت ہی خوبصورت رنگوں سے رباب لکھا ہوا تھا۔
"بھیا کینڈلز بھی"
وہ ہنستی ہوئی بولی۔ وجدان نے کیک پر لگی موم بتیاں جلا دیں اور ان سے رنگوں کے پھوارے پھوٹنے لگے۔
"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو ہیپی برتھ ڈے ڈئیر رباب۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو"
وہ ہنستی مسکراتی کیک کاٹ رہی تھی اور وہ تینوں مسکراتے ہوئے گنگناتے ہوئے اسے بے حد پیارے لگ رہے تھے۔ اسے لگا جیسے وہ ہر طرح سے مکمل ہے۔ وجدان نے اسے سینے سے لگایا اور ماتھے پے بوسہ دیا۔ وہی تو اس کی کل کائنات تھی۔ عادل نے باقاعدہ اسکے سرخ گال کھینچے اور ناک دبائی جو وہ ہمیشہ کرتا تھا۔ اور ہنا تو تھی ہی اسکی سب سے پیاری دوست۔لپٹ گئی بہت سی دعائیں۔ بے شمار محبتیں دینے کو۔ اپنی زندگی کے ان رنگوں پر وہ دل سے مطمئین اور خوش تھی۔
..____________________..
"مجھے عاقب کی نظریں ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ دیکھو کیسے دیکھ رہا ہے"
ثانی مہمانوں کو دیکھ رہی تھی۔ اس سب کا پتا چلتے ہی وہ زالے کی طرف آئی جو ڈیڈ کے کچھ دوستوں کے بچوں سے مل رہی تھی۔
"تھپڑ کھا کر کافی سکون ہے اب اسے۔ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے"
خیلہ بھی وہیں آ چکی تھی۔ جبکہ زالے سامنے کھڑے عاقب کو دیکھ رہی تھی جو عجیب انداز سے زالے کو دیکھ رہا تھا۔
"یہ ابھی یہاں کوئی تماشا کرنے والا ہے"
زالے نظروں کو پڑھنے میں ماہر تھی۔ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے ہر انداز سے واقف تھی۔
"ہمیں کیا کرنا چاہیے ۔ سیکورٹی الرٹ کروا دوں کیا"
خیلہ نے مصلحت آمیز انداز میں کہا۔
"یہ زالے مراد کی پارٹی ہے۔یہاں ہر کوئی ہمیشہ الرٹ ہے "
وہ آنکھوں سے گاگلز اتارتے ہوئے بولی تھی۔
"اچھا بھلا دوست ہے ہمارا۔ پتا نہیں کیوں دماغ سے پیدل ہو جاتا ہے۔چھوڑو اسے ۔تم مہمانوں کو دیکھو"
ثانی نے بھی بات سنبھالتے ہوئے کہا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ "میم۔۔۔۔ باہر پولیس آئی ہے"
ابھی وہ سب باتیں کر ہی رہی تھیں کے زالے کے مینجر نے آکر اسے بتایا۔ اور اگلے ہی لمحے سامنے کھڑے عاقب کے چہرے پر شیطانی ہنسی پھیل گئی تھی۔خیلہ اور ثانی دونوں پریشان ہو چکی تھیں جبکہ سعد بھی مینجر کے پیچھے ہی فکرمندی سے آ گیا تھا۔
"دیکھا ہی دی اس نے اپنی اوقات۔ گھٹیا شخص"
اس سے پہلے کہ زالے اسکا مکرو منہ نوچ لیتی سعد نے اسے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر روکا۔ وہ زالے مراد کے عتاب کو آواز دے چکا تھا۔
"کول ڈاون زالے۔۔ پہلے یہ سوچو پولیس کو کیا جواب دینا ہے۔ بات معمولی لگ رہی ہے پر معاملہ مزید سنگین ہو سکتا اگر کسی کے بھی والدین کو پتا چلا۔ "
سعد نے بہتر مشورہ دیا تھا۔
"اسکے پاس ڈرگز تھیں۔یقینا اس نے پولیس کو یہ خبر پہنچائی ہے۔ "
خیلہ نے پریشانی سے کہا۔
"کہاں ہیں ڈرگز۔۔ کہاں چھپائی ہیں۔ عاقب تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو۔ بتا دو نہیں تو تمہاری موت میرے ہاتھوں طے ہے"
زالے، عاقب کا گریبان پکڑ چکی تھی۔ وہ اس اچانک حملے سے تھوڑا چونکا مگر پھر سے وہی شیطانی ہنسی اور نشے میں دھت انداز میں لہرایا۔ "اس بار نہیں۔۔ جو ذلت تم نے مجھے دی ہے اب اسکا بدلا ضرور لوں گا۔ دوستی اپنی جگہ مگر تم مجھے یوں سب کے سامنے زلیل نہیں کر سکتی۔ جاو ڈھونڈ لو جا کے۔"
وہ لڑکھڑاتا ہوا بول رہا تھا۔
"ہنہ۔۔۔۔"
زالے نے ایک دھکے سے اسکو دور پھینکا۔ وہ مڑی ہی تھی کہ سامنے سمیر کو دیکھ کر چونکی۔ جو ہاتھ میں بکے لیے وہیں آ رہا تھا۔
"دیر آئے درست آئے"
ایک اطمینان تھا جو زالے کے چہرے پر پھیل چکا تھا۔
"زالے تم کیا کرنے والی ہو؟"
ثانی اسکے ساتھ تھی جبکہ خیلہ اور سعد دوسری طرف کھڑے تھے جہاں عاقب زمین سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے میں مصروف تھا۔
..____________________..
وجدان سب کے لیے آئس کریم لینے رکا تھا۔ دس بج چکے تھے ۔ گاڑی میں واپس آیا تو اسکا فون رنگ کرنے لگا۔
"ارے پکڑو سب اپنی اپنی آئس کریم"
وہ سب کو پکڑاتے ہوئے فون نکالنے لگا۔ عادل ڈرائیونگ سیٹ پر تھا جبکہ ہنا اور رباب پیچھے بیٹھی تھیں۔
"ٹھیک ہے وہاں سے نکلتے ہی مجھے انفارم کرو۔ میں پہنچتا ہوں"
وجدان نے اگلے ہی لمحے کہہ کر فون رکھ دیا۔ "عادل چلو۔۔ آفس پہنچنا ہے۔۔۔ مجھے یہاں ڈراپ کر کے تم بھی پہنچو"
عادل نے گاڑی سٹارٹ کر دی کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ ڈیوٹی ٹائم سٹارٹ ہو گیا ہے۔
"ناٹ فئیر بھیا۔۔ آج کے دن بھی کام۔۔ ابھی تو ہم نے جا کے کافی پینی تھی اور کیرم بھی کھیلنی تھی نا"
رباب آئس کریم کھاتے ہوئے معصوم سی خفا ہو کر بول رہی تھی۔
"کل عادل کے گھر ہم یہ بھی کر لیں گے میری جان۔ابھی کام اہم ہے۔ ابھی ویسے بھی رات کافی ہو گئ ہے آپ دونوں سو جانا۔۔ باقی کی مستی ہم کل کریں گے"
وجدان نے رباب کو پرامس کرتے ہوئے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے مان گئی۔
"سب ٹھیک ہے نا "
عادل نے اسے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پوچھا تھا ۔ "دیکھتے ہیں۔۔۔ امید تو اچھی ہے۔۔۔ "
وہ مطمئین انداز میں بولا تھا۔
..____________________..
"تو مسٹر سمیر یہاں بنا میری اجازت کے آنے کی کیا سزا دوں تمہیں؟"
وہ اسکے ہاتھوں سے بکے لے کر انکا جائزہ لیتے ہوئے بڑی سفاکی سے پوچھ رہی تھی۔
"میم ان کو کیا کہوں"
مینجر پھر آچکا تھا۔
"بلاو ان کو اندر"
زالے نے کہا تو وہاں سبھی حیرت زدہ ہوئے تھے۔ "ہاں کہو"
وہ ساکت کھڑے سمیر سے پوچھ رہی تھی جو خاموش تھا۔
"آئی ایم سوری. میں بنا سوچے چلا آیا ۔ میرا اختیار نہیں زالے"
وہ بے بس نہ تھا پر اسکے لہجے میں بے بسی تھی۔ ثانی ان دونوں کو سن رہی تھی۔
"جان دے سکتے ہو؟"
وہ سچ میں ظالم تھی۔
"ہاں"
وہ بھی تو پاگلوں کا سردار تھا۔
"ٹھیک ہے ابھی جو کچھ یہاں ہوگا وہ سب تمہیں خود پے لینا ہوگا۔ میں بدلے میں تمہاری محبت پے یقین کر لوں گی"
وہ اپنا فیصلہ ستم ظریفی سے سنا چکی تھی۔ "زالے پلیز ایسا نہیں کرو اس کے ساتھ"
ثانی نے اسے روکا مگر پولیس کو آتا دیکھ کر وہاں سب خاموش ہو گئے تھے۔
"ہیلو میم.. کیا آپ ہی زالے مراد ہیں؟"
وہ سول وردی میں ملبوس آفیسر تھا۔ اسکے پیچھے مزید تین وردی میں اہل کار تھے۔
"جی میں ہی ہوں۔۔۔ فرمائیے"
وہ پراعتماد ہو کر بولی۔ سمیر ابھی تک زالے کے کہے لفظوں میں ہی گھرا تھا۔ بلکے غرق تھا۔
"ہمیں انفارمیشن ملی ہے کہ یہاں ڈرگز ہیں اور شراب کھلے عام سرو کی جا رہی ہے۔ کیا یہ سچ ہے"
زالے نے ایک نظر اردگرد ڈالی جہاں فوری حکم پر شراب چھپوا دی گئی تھی مگر اس عاقب نے ڈرگز کہاں رکھی تھیں اسکی فل حال کوئی خبر نہ تھی۔ "شاید آپ کو کسی نے غلط اطلاع دی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے"
زالے کو سب خود ہی ہنڈل کرنا تھا۔ وہ فورا سے پہلے انکاری ہوئی۔
"ہمیں تلاشی لینی ہوگی"
آفیسر بنا کسی تاثر کے بولا تھا۔
"بنا سرچ وارنٹ کے میں آپکو اسکی اجازت نہیں دوں گی۔ یہ میرے اور میرے مہمانوں کی بے چینی کا باعث ہوگا"
وہ بھی زالے تھی۔ اپنے نام کی شاید ایک ہی۔ "اسے تو ایک گھنٹہ لگ جائے گا۔۔۔ بہت چالاک ہے یہ لڑکی"
ساحر دل میں سوچ رہا تھا۔
"اب آپ جا سکتے ہیں"
وہ کہہ کر اندر کی جانب مڑ گئی۔ خیلہ سعد ثانی اور سمیر بھی اسکے پیچھے ہی اندر بڑھ گئے۔ ساحر نے ایک تنقیدی نگاہ ان سب پر ڈالی اور کال ملا دی۔
"جی سر پلیز مہربانی کیجئے، بہت سے لوگوں کی زندگی کا سوال ہے۔ہمیں ایک گھنٹے کے اندر اندر سرچ وارنٹ چاہیے"
عادل فون پر کسی سے بہت بے چینی میں لپٹ کر بات کر رہا تھا۔
"بہت شکریہ سر، میں ابھی بھیجتا ہوں ایک آدمی"
اگلے ہی لمحے چہرے پر اطمینان لائے عادل نے فون کاٹ کر پھر سے ملانا شروع کر دیا۔
"جی ساحر بھائی۔ اپنے ایک آدمی کو ارسلان سر کے پاس بھیجیں ۔ سرچ وارنٹ کا بندوبست ہو گیا ہے "
عادل نے ایک بار پھر پیغام رسانی کا فریضہ بہت اجلت میں طے کرتے یہ کہہ کر فون رکھ دیا۔ اتنے میں چائے بھی آ چکی تھی، وہ لوگ اب آفس میں موجود تھے۔
"کون ہے یہ زالے مراد؟"
وجدان نے نہایت سوالیہ نگاہ ڈالے پوچھا تھا۔ "مراد بہلول کی چھوٹی بیٹی ہے"
اس بات نے واقعی وجدان کو تذبذب کا شکار کیا اور اگلے ہی لمحے وجدان شدید حیرت میں آچکا تھا، یہ نام وہ نام تھا جو وہ پہلے بھی کئی بار سن چکا تھا۔
"اس سال میں دو بار سمگلنگ کے الزام میں وہ جیل کے کئی چکر لگا چکا ہے، ہے تو وکیل مگر ہر طرح کا دو نمبر کام اسکی دیکھ ریکھ میں ہوتا ہے۔پولیس ہاتھ ڈالتے ڈرتی ہے کیونکہ اسکے تعلقات بہت اونچے ہیں۔ دوسرا وہ ہادی سر کے ڈیڈ ہیں"
عادل فائیل دیکھتے ہوئے بتا رہا تھا، اور آخری بات پر عادل کا لہجہ بھی کچھ مدھم سی خفگی میں لپٹ چکا تھا۔
"تو مطلب بیٹی باپ کے نقش قدم پے چل رہی ہے۔"
وجدان تو کسی گہری سوچ میں تھا، لہجے میں بے انتہا افسوس کی چمک ابھری تھی۔
"جی بھائی۔پر آپ جانتے ہیں جیسا کہ ہادی سر ہیں۔ ان سب سے بلکل الگ"
ہادی، مراد بہلول کا اکلوتا بیٹا اور وجدان کا کولیگ رہ چکا تھا۔ ان دونوں کی سول انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ میں آنے سے پہلے ٹرینگ ساتھ ساتھ تھی، وہ بلا شبہ ایک سچا اور ایماندار آفیسر تھا۔
"کہتے ہیں نا اولاد آزمائش ہوتی ہے، پر کبھی کبھی والدین بھی بن جاتے ہیں۔ اگر آج اس گھر سے کوئی ٹھوس ثبوت کچھ مل جاتا ہے تو ہادی کو یہاں بلانا لازم ہو جائے گا"
وجدان نے حتمی فیصلہ لیتے ہوئے اپنی سوچ کے زیر اثر ہو کر عادل کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو عادل نے بھی متفقہ انداز لیے اثبات میں سر ہلایا۔
..____________________..
"ایک گھنٹہ بہت کم تھا، ڈرگس کا کوئی نام و نشان نہیں ملا تھا ۔ساحر اپنے تینوں اہل کاروں سمیت سرچ وارنٹ لیے دوبارہ زالے کے فارم ہاوس میں آچکا تھا۔
"یہ رہا سرچ وارنٹ، اب اجازت ہے"
آفیسر سنجیدگی اور محتاط سے فاتح انداز میں بولا اور ساتھ ہی تینوں اہل کاروں کو اشارہ کیا اور وہ اندر بڑھ گئے۔ زالے کے تن بدن میں فل وقت بے سکونی سرائیت کر رہی تھی۔ خیلہ اور سعد کافی ڈرے لگ رہے تھے جبکہ ثانی کو رہ رہ کے شدید افسوس ہو رہا تھا، اسے سمیر کے لیے دکھ ہو رہا تھا اگر ڈرگز نکل آتی ہیں تو زالے اسکا سارا الزام بہت چالاکی سے سمیر پر ڈالنے والی تھی۔ دس منٹ کی مسلسل تلاشی کے بعد آفیسر اور اسکے پیچھے دو اہل کار باہر آتے دیکھائی دیے تو زالے نے اپنے چہرے کا زائل ہوتا اعتماد دوبارہ بحال کرتے ان پر نظریں ٹکائیں۔وہ دونوں ہی زالے اور ان سب لوگوں کی طرف آرہے تھے مگر تیسرا اہل کار ابھی بھی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ پورے لان میں سرگوشیاں جاری و ساری تھیں۔ آفیسرز کو خالی ہاتھ آتا دیکھ کر کچھ لمحے کو زالے کے چہرے پر مضحکہ خیزی نمودار ہوئی مگر یہ نہایت مختصر تھی کیونکہ ان کے پشت سے آتی آواز نے وہاں موجود تمام لوگوں کو متوجہ کیا تھا۔
"سر "
اس تیسرے اہل کار نے ایک خاکی کاغذ اس آفیسر کی جانب بڑھاتے ہوئے ہانک لگائے کہا تو ایک بار پھر سے سب کے چہرے پتھر ہوئے ، ساحر کی آنکھیں البتہ چمک چکی تھیں۔ دوسری طرف سعد ،خیلہ اور ثانی کا سانس دبا ہوا تھا، عاقب اب کہیں بھی دیکھائی نہیں دے رہا تھا جبکہ سمیر ہقا بقا ابھی بھی دم سادھے اس ساری صورت حال میں گونگے کی مانند جما کھڑا تھا۔
"کہاں ملی؟"
ساحر نے بڑے غرور سے پوچھنے کے بعد سرعت سے اپنا اور اپنی اچٹتی نگاہوں کا رخ زالے مراد کے بظاہر سپاٹ چہرے کی جانب کیا۔
"سر بائیں جانب والے بیڈروم کے بیڈ کے نیچے سے"
اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، سب کے سانس اٹکے تھے سوائے زالے مراد کے۔ اٹکتا بھی کیوں، وہ قربانی کو بکرا جو دبوچے بیٹھی تھی۔ اس نے ایک نظر بہت رازدارانہ طور پر سمیر کو دیکھا اور اسے معنی خیز سی سمائیل دیتے ہوئے آگے کی کاروائی کا حکم دیا۔
"سر یہی نہیں اس کمرے میں شراب کی بوتل بھی ملی ہے"
اہل کار نے اسی خاکی لفافے کی دوسری جانب توجہ دلائی تو ساحر نے اپنی نظریں مزیذ سخت کیے سامنے پر اعتماد کھڑی زالے مراد کو دیکھا۔ "آپ کو ہمارے ساتھ چلنا پڑھے گا مس زالے"
آفیسر کے چہرے کا اعتماد اب اس کے چہرے کے اعتماد پر حاوی تھا، ساحر نے بڑے آرام دہ طریقے سے اپنے بازو سینے پر لپٹے اطلاع گوش گزار کی۔ساحر تو زالے مراد کے کانفیڈنس کا فین ہو رہا تھا جو اس ڈھٹائی سے مطمئین تھی جیسے اسکے اس سب کی رتی پرواہ نہ تھی۔
"یہ سب ہمارا نہیں ہے، یہ ہمارے خلاف سازش ہے۔ بنا کسی ٹھوس ثبوت کے آپ مجھے ساتھ نہیں لے جا سکتے"
وہ اپنا دفاع کر رہی تھی پر بھول گئی تھی کہ اسکے سامنے ایک ٹرینڈ سول آفیسر ہے کوئی لیا دیا پولیس اہل کار نہیں۔۔۔ اور سمیر ایک پاگل شخص جو اسکے لیے غلط اور درست کی تمیز نہیں کرنے والا تھا۔ اس سے پہلے کہ ساحر ، زالے مراد کو اس کا تسلی بخش جواب دیتا۔ کسی آواز پر سبکی نظروں کا رخ پلٹ گیا۔
"یہ سب میں نے کیا ہے"
سمیر نے بھی اعتماد بحال کرنے کی کوشش کرتے ہوئے معاملے میں چھلانگ لگائی اور چند قدم آگے بڑھ کر پولیس والوں سے مخاطب ہوا اور حیرانگی کی بات یہ تھی کہ اسکے چہرے پر زرا بھی جھجک نہ تھی۔ یہ سوچے بغیر کے اس سب کا انجام کیا ہونے والا تھا، وہ آگ میں کود چکا تھا۔ ساحر نے ایک گہری مشاہداتی اور مشکوک نظر اس پر ڈالی۔ یہ بندہ اسے انداز سے ہی شریف النفس لگا تھا مگر اب معاملہ واقعی پلٹ چکا تھا۔
"معلوم تھا یہ تمہاری ہی حرکت ہے۔ ذلیل انسان"
زالے محترمہ تو ادکاری میں بھی ماہر تھی، پورے طیش زدہ انداز میں وہ سمیر کو چیر پھارنے کو دھاڑتے ہوئے لپکی مگر اسکی ٹیم نے اسے اس سے زیادہ منصوعی مہارت سے روکا تھا۔ ساحر نے ساتھ والے کو اشارہ کیا تو وہ سمیر کو لیے باہر نکل گئے۔ بدستور مشتعل سئ زالے مراد نے معاملے کو کمال کی ذہانت سے وقتی طور پر سنبھال لیا تھا۔ "مس زالے۔ مجھے امید ہے ہم دوبارہ ملیں گے"
زالے اس آفیسر ساحر کی آنکھوں میں وافع عجیب سی وارننگ دیکھ چکی تھی، وہ معمولی آفیسر تو نہیں تھا اتنا اسے یقین ہو گیا تھا۔ ساحر نے ایک محتاط سی نظر زالے اور اسکے دوستوں پر ڈالی اور پیشہ وارانہ مسکراہٹ دیتا ہوا اہل کاروں کے پیچھے ہی باہر کی طرف روانہ ہوگیا۔ زالے کی اٹکی سانس اور بے قابو ہوتا انتشار ہٹا تو وہ سر پکڑے رخ پھیرے مڑی۔ ان تینوں نے زالے مراد کے چہرے پر ہولناک گرج زدہ خفگی ابھرتی دیکھی تھی۔ "اف"
ان کے جاتے ہی سعد اور خیلہ کی سانس بحال ہوئی تو دونوں نے سکھ کا سانس بھرتے ہوئے بلا کے ٹلنے کا اظہار کیا، جبکہ اگلے ہی لمحے ساتھ میز پر پڑا گلدان فرش پے مارا گیا اور شدت ایسی خطرناک تھی کہ بچارا ریزہ ریزہ ہو کر تباہ ہو چکا تھا۔ خیلہ، سعد اور ثانی نے ڈرتے دل کے ساتھ زالے کی جانب لپکنا چاہا۔
"زالے۔۔۔ کام ڈاون"
ثانی نے اسے غصے کے اظہار سے روکا مگر آج زالے مراد کا جلال اپنے عروج پر پہنچا ہوا وہ طوفان تھا جو بس عاقب سکندر کو اسکے اس بد بخت فعل کی سزا سنانےک بعد ہی تھمنے والا تھا۔ "عاقب! وہ کمینہ جہاں بھی جا کر چھپا ہے اسے نکال کر لاو فورا "
زالے نے مہمانوں کا لحاظ کرتے ہوئے دھیمے لہجے میں گارڈز کو آڈر کرتے ہوئے دھاڑ لگائے کہا۔ اسکے بپھرے موڈ کو وہ تینوں کی ہر ممکن کوشش کر کے دھیمہ کرنے کی کوشش میں تھے۔پارٹی پھر سے وہیں سے شروع ہو چکی تھی، جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا اور زالے خیلہ اور سعد کو مہمانوں کو دیکھنے کا کہہ کر اندر چلی گئی۔ ثانی بھی اسکے ساتھ رہنے کا کہہ کر اسکے پیچھے ہی اندر بڑھ گئی۔
..____________________..
جب وہ ڈیڈ کے کمرے میں آئی تو مراد بہلول مسلسل کسی بے چینی میں غرق ہو کر ٹہل رہے تھے، اور ساتھ ساتھ فون پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ زالے گارڈز کو باہر رکنے کا اشارہ کر کے آگے آفس کی جانب آچکی تھی، چہرے پر فل وقت کوئی تاثر دیکھائی نہیں دیا تھا۔
"تم اس سب کے لیے فکر مند مت ہو ، چل کرو برخوردار"
زالے نے ایک آسودہ سی سانس خارج کی کیونکہ اسکے ڈیڈ کا موڈ اسکی سوچ کے خلاف بے حد نارمل تھا۔
"تم مجھے مت سیکھاو "
اب کی بار وہ سنجیدہ ہوئے فون پر برہم ہوئے تھے اور اگلے ہی لمحے انہوں نے زالے کو پاس آتا دیکھ کر فون سپیکر پر ڈال دیا تھا۔
"میں آپکو سیکھانے والا ہوں ہی کون پر ڈیڈ آپ پلیز زالے کو اس سب سے دور رکھیں "
ایک شفیق سی مدھم آواز فون کے سپیکر سے ابھر کر ان دونوں باپ بیٹی کے چہرے پر بدمزہ سی بیزارگی لا چکی تھی، فون پر ہادی تھا۔ اب اسکی آواز زالے بھی سن رہی تھی۔
"وہ مراد بہلول کی بیٹی ہے، اور اسکے آگے اسکا باپ ہے۔ تم اس بات کو سوچ کر ہلکان مت ہو۔ کام کرو اپنا "
وہ ہادی کو زالے سے کم ہی اہمیت دیتے تھے، بلکے اہمیت کے نام پر ہادی مراد کے حصے میں آج تک بے توجہی اور بے حسی ہی آئی تھی۔اسکی وجہ شاید زالے کا ان سے ہم مزاج ہونا اور ہادی کا مزاج کی خلاف سوچ رکھنا تھا کیونکہ ہادی ہمیشہ باپ کی مخالفت کرتا آیا تھا۔ وہ ایک سچا اور کھرا نوجوان تھا جس نے ہمیشہ غلط کو غلط اور ٹھیک کو ٹھیک کہنا ہی سیکھا تھا۔
"پلیز ڈیڈ"
اب کی بار ہادی بے حد تاسف زدہ لگا اور فقط اتنا کہہ کر خاموش ہو گیا، شاید وہ باپ کے آگے کچھ بول کر اپنے لفظوں کی کم مائیگی سے خوف کھا گیا تھا۔
"بعد میں بات ہوتی ہے "
وہ خود ہی اس خاموشی کا مفہوم سمجھتے ہوئے فون بند کر کے زالے کی طرف مڑے تھے جو اب کافی سنجیدہ تھی اور تھوڑی کنفوز بھی۔ جو معرکہ وہ کر کے آئی تھی اسکی خبر اسکے والد گرامی کو نہ ہوتی ایسا ممکن نہیں تھا۔
"ڈیڈ "
وہ اس سے پہلے کے کچھ بولتی، بہلول کے ہاتھ کے اشارے پر رک گئی۔ بظاہر بشاش لہجہ تھا مگر زالے کچھ تذبذب کی کیفیت کا شکار ہو چکی تھی۔
"مجھے تم سے شکایت تو بہت ہے پر معاملہ کنڑول کرنے پے خوش بھی ہوں، بات اگر میڈیا تک جاتی تو یقینا ناقابل تلافی نقصان ہوتا"
اپنی نگاہیں وہ زالے کے خاموش چہرے پر اٹکائے اسے کندھے سے پکڑ کر داد دینے کے موڈ میں تھے، جس پر وہ بھی اترائی ہوئی مسکان دے چکی تھی۔
"پر ڈیڈ ابھی بھی سب ٹھیک نہیں ہے"
اچانک سے زالے کے چہرے پر فکر ابھری جس پر وہ بھی اب قائل تھے کیونکہ وہ زالے کا خدشہ بخوبی سمجھ گئے تھے۔
"ہاں مجھے علم ہے۔ وہ سب میں دیکھ لوں گا تم فکر مند مت ہو"
وہ بھی تو کوئی عام انسان نہ تھا، کئی آفیسرز کو جیب میں لے کر گھومنے والا مراد بہلول، جس کے لیے دولت ہر آسانی پیدا کرنے پر قادر تھی۔ جو غلط کو ٹھیک اور ٹھیک کو غلط کرنے پر بلا کسی شرمندگی کے آمادہ تھا۔ گو ایک وکیل مگر انصاف کے محکمے پر ایک سیاہ دھبہ، اور ویسے بھی کسی کو خریدنا اس کے لیے کون سا ناممکن تھا۔
"لیکن کچھ ٹائم اختیاط ٹھیک ہے ناں ۔ اپنے دوستوں سے بھی کہہ دو، اور اس عاقب کو بھی میں دیکھ لوں گا"
وہ تمام واقعہ سے باخبر ہو چکے تھے۔ لہجے میں زالے کو پرسکون کرنے والی ساری چمک موجود تھی مگر عاقب کے زکر پر کھولتی ہوئی نظریں نفرت کا برملا اظہار کرتی دیکھائی دی تھیں۔ "نہیں ڈیڈ، اسے میں خود دیکھ لوں گی۔۔۔
" زالے نے رکھائی سے ڈیڈ کی بات سے برملا اختلاف کرتے ہوئے یہ نازک معاملہ اپنے ذمے لینے کی حامی بھرتے کہا، جس پر مراد کچھ بے یقین سے لگے۔
"شیور؟"
بہلول کے پوچھنے پر اس نے جھٹ سے اعتماد کے سنگ اثبات میں سر ہلایا۔
"ٹھیک ہے۔ ویسے جو بھی ہے۔۔۔ وقت آنے پر کسے کس طرح استعمال کرنا ہے یہ تم جلد سیکھ گئی ہو"
وہ اپنی بیٹی کا اعتماد مزید بڑھاتے ہوئے پھر سے تحسین زدہ ہو کر بولے تھے، مگر اسے تو اس بات پر اچانک سے وہ وقت پڑنے پر استعمال کیا جانے والا گدھا، سمیر یاد آیا۔
"ویل ڈن"
ایک اور شاباشی دیے اب وہ اپنے نقش قدم پر چلتی اس بیٹی کو جگر کا گوشہ بنائے بولے تو وہ بھی ہولے سے مسکرا دی تھی، گویا مسکرانے کا کام اس جیسی کے لیے سہل نہ تھا مگر چاروناچار کرنا پڑتا تھا۔
"نو پرابلم مائی ڈئیر، جب تک تمہارے ڈیڈ ہیں تب تک تمہیں کسی چیز کو سوچنے کی ضرورت نہیں۔ تم اپنے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرو ہاں تھوڑی اختیاط۔ اب تم جاو تمہاری مام فکر مند ہوں گی۔ ان دونوں ماں بیٹے کو ہمارے کسی بھی کارنامے کی زرا خوشی نہیں ہوتی "
زالے کا سوچ میں ڈوبا تاثر دیکھ کر وہ اسے مزید کمفرٹیبل فیل کرواتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں لوٹے تھے، آخری بات وہ مسکرا کر مضحکہ خیزی کا عنصر لیے ان ماں بیٹے کے ذکر پر روشنی ڈال کر مڑ چکے تھے، وہ بھی ہلکے پھلکے انداز میں مسکرا کر باہر نکل گئی باہر نکلتے ہی گارڈز بھی اسکے ہمراہ چل دیے۔
"کیا صورت حال ہے سمی"
زالے کے جاتے ہی مراد بہلول دوبارہ فون ملا چکے تھے۔
..____________________..
سمیر کو ڈائریکٹ انویسٹیگیشن روم میں لایا گیا تھا، ڈرگز یا اس سے جڑا کوئی بھی معاملہ انسپیکٹر ساحر اور وجدان ہی کے سپرد کیا جاتا تھا کیونکہ یہ خاص آرڈز تھے۔ عام پولیس لے دے کہ کہیں نہ کہیں معاملہ دبا دیتی تھی تبھی ڈیپارٹمنٹ کے انچارج اور اے سی پی صاحب کے آرڈز کے مطابق شہر کے ایسے تمام ڈرگز بیس کیسیز انہی سول آفیسرز کے سپرد کیے گئے تھے۔ وجدان اور ساحر گلاس ڈور کے دوسرے جانب اپنی کھوجتی نگاہیں اندر کے منظر پر ڈالے بیٹھے تھے جبکہ عادل دو آدمیوں کے ساتھ سمیر کی ڈیٹیلز لکھوا رہا تھا۔
"کیا لگتا ہے تمہیں"
وجدان کی نظریں سمیر پر بڑے پراسرار انداز میں گڑی تھیں۔ اسی انداز سے اس نے ساحر سے سوال کیا۔
"جھوٹ بول رہا ہے، کسی اور کا الزام اپنے سر لے رہا ہے "
ساحر نے چائے کا سپ بھرتے ہوئے بلا کے یقین میں لپٹے بتایا، جس پر وجدان ایک حیرت زدہ نظر ساحر کے مطمئین چہرے پر ڈال چکا تھا۔
"کوئی کسی کا الزام اپنے سر کیوں لے گا ۔ وہ بھی ایسے کیس میں جس میں فرار کی کوئی صورت نہیں ہوتی"
وجدان کی بات بھی درست تھی، ساحر نے بھی تائید میں سر اثبات میں ہلایا۔ دونوں اندر بیٹھے سمیر کے بے تاثر چہرے پر گہری تحقیق کر رہے تھے۔
"یہ تو یہی بتائے گا، مجھے تو افسوس ہے ایسے لوگوں پر۔ اچھا تو اس ڈان کا کیا بنا، کچھ اگلا اس نے یا نہیں"
ساحر نے پہلی بات کہنے کے فورا بعد زرا موڈ بدلتے ہعئے اب سمگلنگ کے ڈان کا پوچھا جو بچارا ابھی بھی دوسرے انویٹیگیشن روم میں ابھی بھی نیم بیہوش پڑا تھا۔
"دیکھو میں نے اپنے حصے کی ڈوز دے دی ہے میرے یار،اب تمہاری عنایت درکار ہے۔ شاید کچھ اگل ہی دے"
وجدان کی سنجیدہ مگر کمال کی لطیف انداز میں لپٹی بات پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑا۔
"ھاھا ، چلو پہلے اس مہان کی خبر لیتے ہیں"
چائے کا خاتمہ کرتے ہی وہ دونوں بھی اس کمرے میں چلے گئے جہاں سمیر اور عادل پہلے سے موجود تھے ۔
"جی تو مسٹر سمیر! سچ بولیں گے یا اپنے جھوٹ پر برقرار رہنے کا ارادہ ہے؟"
وجدان اسکے سامنے والی کرسی گھسیٹ کر اسکے تھوڑے مزید قریب کیے بیٹھتے ہی اپنی سخت نگاہیں اس خاموشی کے شہکار سمیر پر گاڑے بولا جبکہ ساحر بھی دوسری کرسی گھسیٹ کر کچھ دور ان دونوں کے مقابل طرف بیٹھ گیا۔ سمیر کا چہرہ حد درجہ سنجیدہ تھا، جبکہ عادل اب کمرے سے باہر جا کر کمپوٹر کی آنکھ اس شیشے کے پار جمائے ہیڈ فون لگا چکا تھا۔
"وہ سب میں نے رکھا تھا میں بتا چکا ہوں"
وہ آتے ساتھ یہ بیان عادل کو دے چکا تھا ابھی بھی اسکی وہی رٹ جاری تھی جو اب وجدان اور ساحر دونوں کو بور کر چکی تھی۔
"آہاں، تو کوئی وجہ؟"
میرا مطلب ہے زالے مراد یا انکے والد صاحب سے کوئی خاص دشمنی؟" اب کی بار ساحر اسکا چہرہ کھوجتے ہوئے بڑی سوالیہ نظریں جمائے بولا تھا۔سمیر نے سر اٹھا کر باری باری ان دونوں آفیسرز کے چہرے بغور آنکھ بھرنے تک دیکھے، جیسے ان دونوں کے مزاج کی سختی کا اندازہ لگا رہا ہو۔
"انسلٹ کا بدلا لیا ہے، زالے اور اسکے دوستوں سے"
وہ بنا آنکھیں ملائے صاف صاف بلا جھجک بولا تھا۔ ساحر اور وجدان نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
"شکل سے تو تم اچھے شریف لگتے ہو، پڑھے لکھے بھی لگ رہے ہو۔ ایسا بدلا ہی کیوں؟؟؟ تم نے اسکا انجام نہیں سوچا تھا؟"
وجدان حیرت اور تجسس لیے اسے مزید کریدتے بولا تھا، سمیر نے اب ایک گھبرائی ہوئی نظر ان دونوں پر ڈالی۔
"ہاں۔ ہو سکتا عمر قید، یا پھر کئی لاکھوں جرمانہ"
وجدان نے اسے مزید گھبراہٹ میں غرق کرنے کو وافع کیا اور اگلے ہی لمحے سمیر کے پسینے چھوٹ گئے تھے۔
"میں نے کہا ہے نا میں نے کیا ہے سب، بھلے پھانسی دے دیں آپ"
اب کی بار سمیر کی آواز میں ہلچل تھی، گویا اسے تو پتنگے لگ گئے تھے۔ ساحر نے اب ایک نظر وجدان کو مسکرا کر دیکھا، گویا انکا شکار تو نہایت ہی کمزور واقع ہوا تھا۔
"پھانسی تو نہیں ہوگی، ہاں دوسری سزائیں متوقع ہیں"
ساحر نے لطف لیتے ہوئے کہا اور دونوں نے بڑے غور سے اسکے ردعمل اور چہرے پے آئے تاثرات دیکھے جو انھیں بتا رہے تھے کہ آخر سچ کیا ہے۔
"ٹھیک ہے سوچ لو، کوئی جلدی نہیں۔ ویسے بھی ہم بہت اچھے مہمان نواز ہیں"
اب کی بار وجدان نے لطف اندوز ہوتے ہوئے بظاہر چہرے پر آئی ہنسی کا گلا گھونٹا اور اٹھ کھڑا ہوا، سمیر کے چہرے کے اڑے رنگ اور ہونق زدہ تحریر سب کچھ وافع کر چکی تھی۔ یہ ان کی انویسٹیگیشن کا پہلا سٹیپ تھا، باہر کھڑے عادل کو اشارہ کر کے وہ دونوں ہی روم سے باہر نکل آئے، عادل اب دو اہل کار کے ساتھ اندر جا چکا تھا۔
"بولے گا یہ، اسکے منہ پے لکھا ہے "
ساحر نے شیشے کی دوسری جانب سمیر کو دیکھتے ہوئے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے رائے دی۔
"بس اسکے بولنے کا انتظار ہے، مراد بہلول کی گردن پے ہاتھ پہنچ جائے گا۔ ہاں یاد آیا ہادی کو انفارم کیا ہے تم نے ؟"
ارادوں کی تکمیل کا عہد باندھے وجدان کو ایک دم کچھ یاد آیا۔ "وہاں سے نکلتے ہی اسکو تمام صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا" ساحر نے اسے ایک اور برق رفتاری سے طے کیے گئے معاملے کی آگاہی دی تو وجدان نے سر ہلایا۔
"ٹھیک ہے پھر ہم نکلتے ہیں۔ اسلم سیکورٹی الرٹ رکھو۔ اور ہاں اسے کھانا پوچھ لو"
وجدان نے وہاں موجود اہل کار کو ہدایت دی اور خود باہر نکل گئے۔ ساحر کو بھی اپنے آفس نکلنا تھا۔ویسے بھی صبح ہو چکی تھی۔۔۔ کچھ دیر تک انکی دوبارہ واپسی تھی۔
..____________________..
"مام"
وہ روم میں آئی تو کنزہ ریڈی ہو کر کہیں جانے کو تیار تھیں، زالے کی آمد پر وہ خاصی شاکی نگاہیں اس پر ثبت کیے مڑی تھیں۔
"کہیں جا رہی ہیں "
وہ منہ بناتی ہوئی ماں کی ناراضگی سے بے نیاز بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بہت لاپرواہی سے پوچھ رہی تھی۔ کنزہ نے اپنی ساڑھی کا پلو آگے کیا اور ایک خفا نظر زالے پر ڈالی۔
"میں واپسی پے ملتی ہوں تم سے، جاو جا کر اپنا خلیہ درست کرو۔ کبھی انسانی روپ میں بھی دیکھائی دے دیا کرو "
کنزہ کا اشارہ زالے کی جینز اور ٹی شرٹ کی طرف تھا۔ باپ نے تو فخر سے بیٹی کے کارنامے کو سراہا تھا مگر ابھی اسکی کنزہ سے کلاس لینی باقی تھی۔ کنزا کے الفاظ اسے جی بھر کر بے زار کر گئے تھے تبھی وہ انکی ناراض نظروں کا مفہوم سمجھتے ہوئے چپ ہی رہی۔
"میں تم سے بہت ناراض ہوں زالے، خیر رات ڈنر پے ملتی ہوں"
کنزا نے ہنوز روٹھا انداز اپنائے اب کی بار دکھ میں کہا اور اس پر ایک خفت زدہ نظر ڈالتی ہوئیں اپنا بیگ لیے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
" کون ناراض نہیں ہوتا زالے سے، ملنے کے لیے بھی ان کی آپائنٹمنٹ لینی پڑتی ہے۔ زالے تم کن وی آئی پی انسانوں میں رہ رہی ہو"
ماں کی پس پردہ غیر ذمہ داری اسے آج بھی سخت گراں گزری تھی مگر اب اسے کسی کی پراوہ نہیں تھی۔وہ خود کلامی کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ، ڈریسنگ ٹیبل کے پاس رک کر ایک نظر خود کے من پسند اور بہترین سراپے کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔
وجدان فجر کی نماز پڑھ کر سیدھا رباب کے کمرے کی طرف آیا تھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ رباب کو دیکھ کر اسکے چہرے پر ہمیشہ ہی ایک ٹھنڈک زدہ اور آسودہ مسکراہٹ آتی تھی۔ کچھ دیر اپنی اس موہنی کائنات کو بنا پلکیں جھپکائے دیکھنے کے بعد وہ اسکے روم کا دروازہ ویسے ہی بند کرتا باہر نکل آیا۔اسے یاد آیا کہ آج کا دن بھی بہت بزی ہونے والا ہے، کئی کام تھے جو اسے نمٹانے تھے۔ اسے یہ بھی یاد آیا کہ وہ بہت کوشش کے بعد بھی سویا نہیں تھا، آنکھوں میں چبتی سی تھکن محسوس ہوئی۔ رباب کو دیکھنے کے بعد کر وہ لاونچ میں آیا جہاں بوا بھی نماز پڑھ کر اب اسکے لیے ناشتہ بنا رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو دیکھ کر ان دونوں چہروں پف شفیق مسکان بکھر کر اجالا کر گئی تھی۔
"میں آپ کو صبح صبح کچن میں لگا دیتا ہوں بوا ، ہے ناں"
عظمت بوا کا ساتھ ان دونوں کے ساتھ بہت پرانا تھا۔ وہ وجدان کی والدہ کے ساتھ ہی اس گھر میں آئی تھیں، شادی کی مگر شوہر دو سال بعد وفات پا گئے۔ کوئی اولاد تو تھی نہیں، اور حارث اور ساریہ(وجدان کے والدین)کی وفات کے بعد اسی گھر کو اپنا گھر اور انکے بچوں کو اپنی اولاد بن کر پالتی رہیں۔وجدان اور رباب نے بھی بوا کو ہمیشہ ماں والی ہی محبت دی تھی اور بدلے میں بے حد لاڈ بھی سمیٹا تھا۔ وجدان کی معصومیت اور محبت میں لپٹی بات پر وہ سادہ لوحی سے مسکرا دیں اور انکا جھریوں والا چہرہ بھی مزید چمک اٹھا۔
"ہر گز نہیں، مجھے تو بہت خوشی ہوتی ہے۔ آپ دونوں بچوں نے ہی تو مجھے یہ احساس دلا رکھا کہ خوشیاں اور زندگی کیا ہے "
وہ پراٹھا پلیٹ میں رکھ کر اب انڈا بنا رہی تھیں، وجدان کو دیکھ کر انکے چہرے اور لہجے میں دلفریبی امڈ کر وجدان کا دل بھی جی بھر کر مطمئین کر گئی تھی۔
"آپ کا سایہ سلامت رہے۔ ویسے یہ تو میں خود بھی بنا سکتا ہوں، آپ اب آرام کیا کریں، اور وہ رباب ہے ناں آپ سے نھہرے اٹھوانے کے لیے"
وجدان نے چائے کپ میں ڈالتے ہوئے شگفتگی اور اپنائیت سے اپنی شرارتی جان کا ذکر کیے کہا۔ وہ سفید کاٹن کے سوٹ میں تھا، نفیس سا انداز لیے جاذب دیکھائی دیتا ہوا بے انتہا سادہ مگر دلکشی سے لبریز۔ وجدان کے لہجے کا بشاش پن نیا نہیں تھا، اسکی زندگی تو بوا اور رباب کے گرد ہی گھومتی تھی۔
"میرے لیے تو آپ دونوں ایک سے پیارے ہو۔ آپکے لاڈ اٹھانا بھی مجھے پیارا لگتا ہے، جس طرح آپ نے میرا جان سے بڑھ کر خیال رکھا ہے، وہ کب کوئی کرتا ہے بچے۔ میرے لیے یہی میری خوشیاں ہیں، بس خوش رہو"
وہ شفقت بھرے لہجے میں بولیں تو انکے لہجے کی لرزش کبھی خلش بنی اور کبھی رشک بن کر نکھرتی چلی گئی۔ وجدان نے بھی اس بار اپنی مسکراہٹ سے میانہ روئ کا عنصر ہٹائے پورے مان اور عزت کے ساتھ بوا کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کے بعد بوا ہی تو تھیں جو رباب کی حفاظت پر معمور تھیں۔
"آمین۔اچھا آجائیں دونوں ماں بیٹا ناشتہ کرتے ہیں"
وہ ناشتہ ٹیبل پر اب خود پورے تپاک زدہ خوش اخلاق انداز سے لگا رہا تھا بوا بھی مسکراتی ہوئی آ گئیں، ناشتہ کرنے کے بعد وہ فورا سے ریڈی ہونے چلا گیا تھا، کیونکہ اسے آفس نکلنا تھا۔
..____________________..
کمرے میں مکمل سیاہ اندھیرا تھا، اچانک سے اسکا فون چنکارتی رنگ ٹون بجانے لگا۔ کافی بیلز کے بعد بیڈ پر موہوم سی حرکت محسوس ہوئی اور اگلے ہی لمحے سائیڈ ٹیبل پر پڑے چمکتے لیمپ کی ملگجی روشی سے کمرہ نیم روشن ہو گیا۔
"کسے موت پڑی ہے، ابھی تو سوئی تھی"
زالے نے موبائل تک رسائی حاصل کرتے ہوئے بیزارگی سے کہا، لہجے میں بلاشبہ نیند اور ناپسندیدگی کا رنگ بھی عود آیا تھا۔
"میم! ہم نے عاقب کو پکڑ لیا ہے، کیا کرنا ہے اسکا؟"
فون اسکے پرسنل گارڈز میں نے ایک کا تھا، سنتے ہی زالے کے چہرے پر ناگواری نے گہرا سایہ کیا۔
"ہنہ، اسے رات تک اچھے باندھ کر رکھو۔ہاں پانی وغیرہ پوچھتے رہنا آخر دوست ہے، میں رات کو آوں گی"
زالے نے گارڈز کو تمام لائحہ عمل سمجھاتے ہوئے حکم کیا تو گارڈ نے فرمابرداری سے اثبات میں سر ہلایا، دوسرے گارڈ نے عاقب کو بہت مضبوطی سے بھینچے پکڑ رکھا تھا۔
"جی میم۔۔۔"
گارڈ نے فوری حکم پر عمل درآمد کو فون رکھ دیا، اور ایک مشتعل نظر عاقب پر ڈالے اسکا منہ کھول دیا، آنکھوں پر بدستور پٹی بندھی تھی۔ زالے نے بیڈ پر گرتے ہوئے لیمپ بجھایا اور پھر سے ویسی ہی سو گئی۔
"تم لوگ اچھا نہیں کر رہے، میری بات کرواو زالے سے۔ چھوڑو مجھے مر جاو گے میرے ہاتھوں"
عاقب کا نشہ تو اب پوری طرح اتر کر پریشانی، غضبناک طیش اور اضطراب میں بدل چکا تھا۔ عاقب کی زبان سے نکلتی بک بک نے دونوں بلیک تھری پیس جمائے گارڈز کو حاضا بے چین کیا تھی ایک اتارا کپڑا اٹھایا اور دوبارہ اسکے منہ پر باندھ دیا۔ کافی مزاحمت کے باوجود وہ خود کو چھڑا نہ پایا، وہ اسے گاڑی میں بیٹھا چکے تھے اور اگلے ہی لمحے گاڑی سٹارٹ ہو گئی۔ دس بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک سنسان سڑک کے کنارے رک گئی۔ ایک گارڈ نے عاقب کو گھسیٹ کر باہر نکالا اور وہ دونوں اسے کچھ فاصلے پر موجود سڑک کی دائیں جانب بنے ایک کاٹیج میں لے گئے۔ وہ ٹوٹا پھوٹا سا ایک بوسیدہ ترین کمرہ تھا ، سڑک سنسان تھی کوئی آتا جاتا نہ تھا، ایک گارڈ نے عاقب کو کرسی پر گرانے کے انداز میں بیٹھایا اور دوسرے نے اسکی لاکھ مزاحمت کے باوجود اسے کرسی پر رسیوں سے باندھنا شروع کر دیا۔ خود عاقب ایک طاقتور نوجوان تھا مگر ان سانڈ نما آدمیوں کے آگے اس خونخوار اور بدحواس کی ساری طاقت بے کار دیکھائی دے رہی تھی۔ عاقب کے پورے وجود کا خون اسکے چہرے پر سمٹ کر تباہی کا استعارہ بنا مگر دونوں گارڈز اعلی پائے کی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اب اسے مکمل اور مضبوطی سے باندھنے کا کام کرتے رہے۔
"چلو "
وہ دونوں اسے باندھ کر ایک دوسرے کی طرف فاتحانہ اور اس بندھے بے بس کو مضحکہ خیر نظر عطا کیے فورا باہر نکل گئے، عاقب سکندر کی جان بہت بڑے عذاب میں غرق ہوتی دیکھائی دے رہی تھی۔
..____________________..
"ہاں بھئی کیا صورت حال ہے ، کچھ بیان بدلا اس نے یا نہیں"
وہ اپنے ڈیپارٹمنٹ میں داخل ہوتا ہوا آفس میں آیا تو ایک اہل کار انویسٹیگیشن روم کے اندر سے ناشتے کی ٹرے اٹھائے باہر آ رہا تھا، وجدان کے آتے ہی اب عادل آرام کے لیے گھر جا چکا تھا، کیونکہ رات عادل آفس میں ہی رکا تھا، اور صبح صبح گھر گیا تھا اور ابھی تک تو اسکی دوبارہ آفس واپسی بھی ہونے والی تھی۔ ساحر کا اپنا آفس تھا لہذا وجدان کے بعد ساری ذمہ داری عادل پر عائد ہو جاتی تھی۔
"نہیں سر، وہ بلکل چپ ہے ، ناشتہ بھی نہیں کیا"
اہل کار نے جھٹ سے صورت حال بتائی تو وجدان ناشتے کی ٹرے پر ایک سرد نگاہ ڈالے اندر کمرے میں چلا گیا، آہٹ پر سمیر نے اپنا گرا سر اوپر اٹھایا۔
"ہاں جی مسٹر سمیر ناشتہ کیوں نہیں کیا؟ دیکھو ہم انویسٹیگیشن آفیسرز ضرور ہیں لیکن ظالم بلکل نہیں ہیں، رفیق ناشتہ لے آو"
وجدان نے اسے بڑی ہی زندہ دل مسکان کے سنگ کہتے ہوئے باہر کھڑے اہل کار کی جانب ہانک لگائی، رفیق ایک سیکنڈ کے اندر ناشتہ لے کر پہنچ چکا تھا۔ وجدان نے اشارہ کیا تو رفیق نے وہ ٹرے میز پر رکھی اور باہر نکل آیا۔ دونوں کی نظریں ملیں تو وجدان نے اسے ناشتہ کرنے کی طرف مائیل کیا۔ وجدان کے ایک بار کہنے پر ہی وہ اب کی بار ناشتہ کرنے لگ گیا، شاید اسے واقعی بھوک لگ رہی تھی۔اس دوران وجدان کی مشاہداتی نظریں سمیر پر بہت گہرائی سے درج رہی تھیں، وہ سمیر کے ہر انداز پر بہت دھیمے مطمئین انداز میں غوروفکر کر رہا تھا۔ ناشتہ ختم کرتے ہی رفیق برتن لینے آیا اور لے کر اسی رفتار سے باہر نکل گیا۔وجدان کی تیز نظر اب سمیر کے بے تاثر چہرے پر تھی۔
"اپنا مستقبل داو پے لگانا آسان کام نہیں ہے، یقینا بڑی وجوہات ہوتی ہیں۔دیکھو سمیر! تم ہم سے کاپریٹ کرو اور سچ بولو۔ ہم تمہیں بچانے کی بھرپور کوشش کریں گے، سچ بتا دو کہ کس لیے اور کس کا الزام اپنے سر لے رہے ہو؟"
وجدان نے کسی بھی بے جا سختی سے پہلے نرمی برتنے کا ارادہ کیا تھا، سمیر اسکی بات پر ابھی بھی چپ تھا، اسکی نظریں اب کی بار ہارے انداز میں جھکی ہوئی تھیں۔
"میں آپکو سب بتا چکا ہوں ، مزید بتانے کو کچھ نہیں ہے۔ مجرم آپکے سامنے ہے جو سزا دینی ہے دے دیں"
تو گویا وہ بھی کسی اعلی درجے کا ڈھیٹ تھا، آخر موصوف کو محبت میں قربانی دینے کا تازہ تازہ شوق چڑھا تھا، اتنی جلدی کیسے اتر جاتا۔ وجدان کا دھیما پن بھک سے غائب ہو گیا۔ گویا اب تھوڑی سختی کا وقت ہو گیا تھا۔
"اپنے ماں باپ کا سوچو، کیا وہ اس دن کہ لیے تمہیں پالتے رہے ہیں "
وجدان نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے غضب کو ہر ممکنہ حد تک ضبط کیے کہا اور اب کی بار لہجے میں سختی نمایاں تھی۔
"بیٹا مر جائے گا تو خود ہی صبر کر لیں گے"
وہ سچ میں ایک پاگل شخص تھا، وجدان کو دل تک افسوس ہوا۔
"اپنے کان اور اپنا دماغ کھول کر سنو؟ ان کیسز میں پھانسی جیسی آسان موت نہیں ہوتی۔ زندگی بھر کے دھکے، رسوائی اور ذلت ہوگی، ماں باپ کی جگ ہنسائی الگ۔ تمھارا کیا گیا ایک جذباتی فیصلہ کتنوں کی زندگی خراب کرے گا، اور اصل مجرم کھلے عام گھومیں گے۔ کیا اس سب کے بعد بھی تم اپنے جھوٹ پر قائم رہنا چاہتے ہو؟"
وجدان نہایت خفا سنجیدہ مگر لہجے میں ایک ہلکا سا دکھی تاثر لیے اس پر تمام معاملات وافع کرتے بولا تھا، جس پر سمیر کی آنکھیں بے یقینی میں سمٹتی دیکھائی دی تھیں۔
"دیکھو عقل سے کام لو "
وجدان نے اسے بے حس سا خاموش دیکھ کر اب مصلحت آمیز لہجا اوڑھا۔
"میں تمہیں دو دن کا وقت دیتا ہوں، اگر اس مفت کی ذلت سے بچنا چاہو تو بتا دینا۔دو دن کے بعد معاملہ ہمارے ہاتھوں سے نکل کر مزید اوپر چلا جائے گا، پھر ہم چاہ کر بھی تمہارے لیے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ تم سمجھ رہے ہو نا"
وجدان اسے جو سمجھانا چاہ رہا تھا وہ سمیر سمجھ رہا تھا۔ وجدان کے لہجے میں اب کی بار تمام تر اپنائیت کے غصہ دیکھائی دیا تھا۔
"اچھے سے سوچو "
وجدان اسے کہتا ہوا اپنی نشست پر اٹھ کھڑا ہوا، لیکن سمیر ضرور کسی تذبذب سی سوچ میں ڈوب چکا تھا۔
"سر چائے پیئیں گے"
وہ باہر آیا تو رفیق اسے آتے دیکھ کر فورا بولا۔
"نہیں یار کچھ دیر آرام کروں گا، اچھا وہ اس کام کا کیا ہوا؟"
وجدان نے میز پر پڑھی فائیلیں دیکھتے ہوئے ساتھ ساتھ چائے کو بھی بہت بے دلئ سے منع کیا اور پراسراری قائم کیے کچھ پوچھا۔
"سر ہمارے دو بندے مسلسل وہاں موجود ہیں، پچھلے بارہ گھنٹوں میں نہ اس گھر میں کوئی داخل ہوا نہ نکلا۔ چھت پر انکے پانچ چھ لوگ ہیں ، تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں بھرپور تیاری کے ساتھ جانا ہوگا"
رفیق وجدان کی ٹیم کا اسسٹنٹ آفیسر اور شارپ شورٹر تھا جو عام اہل کاروں سے ایک درجے اوپر کا رینک تھا۔ رفیق کی اس اطلاع پر عبداللہ وجدان کی پیشانی کسی مانوس سے خدشے کے زیر اثر آکر تن چکی تھی۔
"مطلب وہاں ضرور ایسا کچھ ہے جس کی اتنی سخت پہرہ داری کی جا رہی ہے"
وجدان نے معاملے کی باریکی بھانپتے ہوئے فیصلہ کن انداز اختیار کیے رفیق سے نظریں ملائیں جو متفقہ انداز لیے سر ہلا رہا تھا۔
"جی سر، اگر یہ ڈان منہ کھول دے تو ہمارا کام کافی آسان ہو جائے گا۔مگر وہ کچھ بولنے کو تیار نہیں"
رفیق نے جیسے ایک موہوم سی امید کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور طاقتور کڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا۔
"بلکل، خیر تم ایک کام کرو"
وجدان نے فائیل بند کرتے ہوئے اسے دیکھے کہا جس پر وہ چوکس ہوا۔
"اپنے دو مزید لوگ اسکے اڈے پر بھیج دو، اور پل پل کی خبر لو ان سے۔ کچھ بھی ہلچل ہو تو مجھے انفارم کرو، باقی اس ڈان کا جسمانی ریمانڈ تیار کرواتا ہوں، ارسلان سر سے بات کرتا ہوں"
وجدان اسے گہری سوچ میں ڈوبا ہداہت دے رہا تھا، عادل بھی اسی لمحے اپنی کچھ نیند پوری کرنے کے بعد آفس میں آ چکا تھا۔
"جی سر "
رفیق سر ہلاتے ہی نکل گیا، عادل فریش لگ رہا تھا، شاید محترم سو کر آئے تھے۔
"آپ سوئے نہیں ہیں، جائیں کچھ دیر آرام کر لیں"
عادل اسکی تھکی ہوئی آنکھیں دیکھ کر اندازہ لگائے بولا تو مقابل مسکان سی سجی۔ گھر جا کر کتنی کوشش کے بعد بھی وہ سو نہیں پایا تھا۔ فرض کے معاملے میں اسے نیند کم ہی آتی تھی۔
"آرام کو مجھ سے مسئلہ ہے یار، میں کیا کروں"
وجدان نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تو وہ دونوں ہی اب مسکرا دیے۔
"میری مانیں تو کر لیں، رات کو پھر موقع نہ ملے گا۔ ویسے میرئ طرف آنے کا پلین تو پکا ہے نا؟"
وہ اسے لگے ہاتھوں یاد دہانی کرتے ہوئے مزے سے بولا تھا کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ وجدان کافی تھکا ہوا ہے اور ہو سکتا ہے نہ آ پائے۔
"ہاں بھئی وہ تو پکا ہے، بدل نہیں سکتے۔ آخر معاملہ ہی ایسا ٹچی ہے "
وہ کینسل کر دیتے پر ہنا اور رباب سے آج رات کی بقایا انجوائمنٹ کے لیے پرامس ہو چکا تھا۔ بہنوں کے لیے کم سہی مگر بہت حسین وقت نکالنا تو بے حد ضروری تھا۔
"چلیں پھر آپ یہیں آرام کر لیں تھوڑا میں زرا کچھ فائیلز کا کام مکمل کر لوں"
عادل خود ہی خیرسگالی کے جذبات کے سنگ اسے آرام کرنے کا کہتا ہوا مین آفس سے باہر نکل گیا۔ وجدان نے سر کرسی پر ٹکا دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ آخر زندگی ہی کچھ ایسی تیز اور مصروف تھی کہ اسے یونہی آرام کرنے کا موقع ملتا تھا، فرض نبھانے آسان نہیں ہوتے۔
..____________________..
"ہاں ٹھیک ہے میں آدھے گھنٹے تک تم سے بات کرتا ہوں"
بہلول نے لاونچ میں آتے ہی فون پر کسی کو کہا اور فون کوٹ کی جیب میں رکھتے ہوئے ڈائنگ ٹیبل کی طرف بڑھ آئے۔ جہاں کنزا تیکھے پن سے ان کا بہت ہی گہری نگاہ سے جائزہ لے رہی تھیں، اور کنزا کی یہ نظر تو انکو خطرناک حد تک ازبر تھی۔
"خیریت ہے، نظر لگانے کا ارادہ ہے کیا تمہارا"
بہلول کافی ریلکس موڈ میں تھے، اس شگفتی میں لپٹے طنز پر کنزا کی حیرانگی میں دکھی طرح کا اضافہ ہو گیا۔
"کاش میں لگا پاتی"
یہ شاید انکا ،باپ بیٹی پر موجود غصہ بولا تھا۔ بہلول کی نگاہیں رخ بدلتے ہوئے چڑچڑی ہوئیں۔
"کیوں ایسا منہ بنا رکھا ہے، خوشی تو تم جیسے کبھی پاس بھٹکنے نہیں دیتیں۔ بس کرو اب معاملہ کنڑول میں ہے"
بہلول نے لاپرواہی کی حد ختم کرتے ہوئے اچٹتی نگاہیں مرکوز کیے کہا۔
"کس چیز کا بدلا لے رہے ہیں آپ بہلول، زالے کو اپنا جیسا بنا کر آپ اپنے اور اس کے لیے بہت گہرا گڑھا کھود رہے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جائیں"
کنزا بھلے اچھی ماں نہیں تھیں، مگر وہ ظالم اور سفاک بھی نہیں تھیں۔ ساری زندگی اپنی سوشل لائف کو دی مگر وہ بہلول کی طرح غلط راستے پر نہ تھیں، کبھی کبھی تو دونوں بچوں کو میسر آ ہی جاتیں تھیں۔
"اپنے جیسے سے کیا مراد ہے تمہاری؟ تمہاری یہی باتیں ہیں جو مجھے تم سے بے زار رکھتی ہیں۔ کتنی بار کہا ہے میرے معاملات میں ٹانگ اڑانا چھوڑ دو۔ہادی کو خود جیسا محدود سوچ والا بنا تو دیا ہے تم نے اب کم ازکم زالے کی جان تو بخش دو"
بہلول کے لہجے میں کنزا کے لیے یہ حقارت نئی نہ تھی، وہ کبھی بھی انکی ہم مزاج نہ بن سکی تھیں۔ بہلول میز سے اٹھ جاتے مگر زالے کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اپنے چہرے کے غصے کو ہٹا کر مسکرانے کی منصوعی کوشش کرتے نظر آئے تھے۔
"آ جاو پرنسس، تمہارا ہی ویٹ ہو رہا تھا"
زالے شاید ابھی سو کر جاگی تھی، نارمل سے خلیے میں بھی وہ خطرناک حد تک حسین اور پیاری لگ رہی تھی۔ خود کنزا کا خوبصورتی میں کوئی ثانی نہ تھا۔ بہلول بھی سرخی مائیل رنگت کے ساتھ ساتھ اچھے تیکھے اور غضب نقوش کے حامل تھے۔ ہادی کی شکل زالے سے بہت ملتی تھی مگر اسکے چہرے کی نرمی کا مقابلہ ان تینوں سے نہیں کیا جا سکتا تھا، باقی کی کسر اس شیر جوان کی وردی پورا کر دیتی تھی۔
"گڈ ایوننگ"
زالے نے بیٹھتے ہی لیے دیے انداز میں لپٹے کہہ کر ایک نظر وہاں کی سنجیدہ لہر پر ڈالی۔ کنزا کا چہرہ بغیر کوئی چمک دھمک لیے رنج زدہ تھا۔
"آپ دونوں انجوائے کیجئے"
کنزا اٹھ گئی تھیں شاید اس نے باقی کا زالے کے حصے کا سمجھانا مناسب نہیں سمجھا تھا، اور ویسے بھئ باپ بیٹی میں اسکی کبھی جگہ تھی بھی نہیں۔
"انھیں کیا ہوا اب؟"
زالے نے لاپرواہی سے جوس گلاس میں ڈالتے ہوئے اس فرار کی بوعیت کو معمولی سا نوٹ کیے پوچھا مگر وہ منہ بنا چکی تھی کیونکہ بہلول کے چہرے کے بدلتے تاثرات سب کہانی بتا رہے تھے۔
"جانتی تو ہو ان ماں بیٹے کی پرانی عادتیں ہیں "
وہ شاید لطف اندوز ہوئے تھے۔ ان ماں بیٹوں کی کسی عادت کی ان کو پرواہ تھی ہی کب، زالے نے ڈیڈ کے لہجے کی کھنک پر مسکرانا ضروری سمجھا۔
"وہ جو سمیر ہے، کیا اعتماد کا بندہ ہے زالے؟میرا مطلب ہے اپنا منہ تو نہیں کھولے گا"
زالے، بہلول کی بات کا کیا جواب دے یہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا، وہ تو سمیر کو فراموش کئے بیٹھی تھی۔ اسے سمیر کے پراعتماد اور بندہ ہونے دونوں پر ہی شک تھا۔ پہلا تو اس بندے سے اعتماد والا سلوک نہ زالے نے کبھی کیا تھا نہ اسکا آگے ارادہ تھا۔ دوسرا وہ بندہ نہیں بلکے ایک نمبر کا دیوانہ شخص تھا جس نے زالے کے ایک اشارے پر فورا سے دم ہلائی تھی۔ وہ یہ سب سوچ کر دل ہی دل میں اس دیوانے پر ہنسی تھی۔ مطلب پرستی تو اس لڑکی نے خوبخو اپنے باپ جیسی دیکھائی تھی۔
"ہنہ ، میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ زبان کھول بھی سکتا ہے
" زالے خوش فہم نہیں تھی، نہ ہی وہ غلط فہمیاں پال کر اپنا معیار گرانا پسند کرتی تھی۔ اسکی اس بے نیازی میں کہی بات سن خر بہلول کے چہرے پر تشویش ظاہر ہوئی۔
"ٹھیک ہے میں اس معاملے کو بھی دیکھ لوں گا، اگر وہ منہ کھول بھی دیتا ہے تو دنیا بھکاو لوگوں سے بھری پڑی ہے۔ پیسہ ہونا چاہیے بس"
ان بڑے لوگوں کے لیے شاید انکے مطابق ہر مشکل سے نجات کا حل بس پیسہ تھا۔ یہ کہہ کر بہلول شاید خود کو تسلی دے رہے تھے۔ زالے کو تو جیسے ابھی بھی اس معاملے کو لے کر کوئی پرواہ ہئ نہیں تھی۔
"آپ کو خومخواہ ٹنشن میں ڈال دیا ہے ڈیڈ "
کل سے آج تک پہلی بار اسے تھوڑی پشیمانی ہوئی تھی جس پر بہلول یوں مسکرائے جیسے یہ بہت ہی معمولی بات ہے۔
"ایسی بات نہیں ہے پرنسس! بس زرا تھرل کہہ لو اور یو نو اس تھرل کے بنا زندگی کا کیا مزہ"
بہلول نے یک دم ہی شرارتی انداز اوڑھا تو وہ بھی ڈیڈ کی پرلطف نظروں کا مفہوم سمجھتی ہوئی بھی ہلکے سے ہنس دی۔
"چلو تم کھانا کھاو پھر ملتے ہیں، مجھے ایک کال کرنی ہے "
وہ کھانا کھائے بنا ہی اپنے دیگر معاملات پر نظر ثانی کا کہہ کر اٹھے تو ایک مسکرائی نظر زالے پر ڈالتے ہوئے اپنے روم کی سمت چل دیے۔ بہلول کے جاتے ہئ وہ بھی اٹھ گئی، دوبارہ کمرے میں گئی۔ فون پے کسی کو اسی جگہ پر پہنچنے کا کہا، اسی جینز شرٹ کے خلیے میں ہی اپنے کھلے بالوں کو پونی سے باندھنے لگی۔ ایک ستائشی نظر اپنے لازوال حسن پر ڈالتی ہوئی وہ فون اور گاڑی کی چابی لے کر نکل گئی، مین راہداری سے اترنے کی دیر تھی کہ اسے مزید دو عدد گارڈز اسکے ہمرا چل دیے جو ہمیشہ سے اسکے ساتھ اسکی حفاظت پر معمور کیے گئے تھے۔
..____________________..
"اف میں اسے مکس کر کر کے تھک گئی، یہ ہو ہی نہیں رہا"
پچھلے دس منٹ سے وہ معصوم سے چہرے والی چاند کی تمسیل دیکھائی دیتی رباب، بیٹر کو مکس کر رہی تھی۔ سب کے بقول رباب کو نہایت آسان کام سونپا گیا تھا، مگر وہ نازک مزاج سی کومل پری اس میں بھی اب تھک کر نڈھال تھی۔ ہنا کے تو پورے دانت باہر نکل آئے۔ سلاد بناتا ہوا وجدان بھی اپنی لاڈلی کی لاڈ زدہ شکایت پر مسکرا دیا، جبکہ عادل تو بریانی کو نہایت مصروف انداز میں دم لگا رہا تھا، اس نے اپنا کام مکمل کرنے کے بعد اپنے حصے کی مسکراہٹ ہر سو پھیلانے کا نازک فریضہ سرانجام دیا تھا۔
"ویسے مہمانوں کو کون کام پے لگاتا ہے؟ "
ہنا نے اس سے سیلڈ کا باول لیا تو وہ منہ بناتے ہوئے بڑی ہی شکوہ کرتی ترنگ میں بولی۔
"کوئی مہمان نہیں ہو، بھئی میرے ہاتھ کا مزیدار کھانا یونہی تھوڑا ملتا"
عادل آج باقاعدہ ایپرن پہنے کوئی اعلی پائے کا شیف لگ رہا تھا، جبکہ وجدان بازو چڑھائے سلاد کاٹ کم ان پر حملہ زیادہ کر رہا تھا۔ رباب کی بات پر عادل صاحب فورا میدان میں اتر کر اپنے ہاتھ کے بہترین پکوانوں کی اہمیت اجاگر کرتے مسکرائے۔ وجدان پر ان تینوں کی نظر پڑی تو خود ساختہ طور پر دلنشین ہوئی۔
"ہاں رباب، اس بات پر میں تو عادل کے ساتھ ہوں۔پر یار یہ مجھے کونسا مائیوں والا کام دے دیا ہے"
باقی ہر معاملے سے راضی دیکھائی دیتا وجدان ،اب اپنی حاصل ذمہ داری پر نہایت معصومانہ اور عاجزانہ اجتجاج بلند کیے ان تینوں کو ہنسانے کے ساتھ ساتھ خود بھی شریر ہو چکا تھا۔ عمدہ طرز کی دلفریبی اور شرارت سے کہی بات پر سب کے دانت نمائش کو نکل آئے تھے۔
"ھاھا وجدان بھیا یہ اتنے موٹے ٹماٹر تو مارنے کے کام آئیں گے"
ہنا نے سلاد کے لیے کاٹے ٹماٹروں کے میگا سائز کو دیکھ کر بمشکل ہنسی دبائی ، اور اس توجہ دلانے کے عمل پر وجدان نے غور کیا تو واقعی سائز کچھ بڑا تھا ، رباب بھی دانت دبائے ہنس رہی تھی۔
"یہ چھری ہی ایسئ ہے بھئی میرا کیا قصور "
وجدان نے سارا ملبہ چھری پے ڈالتے ہوئے صاف دامن بچاتے ہوئے کہا، قوفتے تیار تھے۔ عادل نے بریانی کو بھی دم لگا دیا تھا۔ وجدان بھی اب کن آکھیوں سے سبکی اپنے اوپر پڑتی ہنسی سے لطف اندوز ہوا تھا۔
"ارے ماشاء اللہ کیا خوشبوئیں آ رہی ہیں "
احمد صاحب بھی مسکراتے ہوئے اور خوشبووں کا پیچھا کرتے ہوئے کچن کی طرف بڑھ آئے تھے۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے بچوں کو کمپنی نہیں دے پائے تھے ورنہ پانچواں شیف وہ خود ہوتے۔ آج حسب وعدہ رات کا ڈنٹر جناب عادل صاحب کے ہاتھوں سے تیار شدہ ہونے کے بعد دلپسند اور مزیدار ہونے والا تھا۔
"بس انکل آج ہماری سمارٹنس کی خیر نہیں، آپکے بیٹے نے خوب تیاری پکڑ رکھی ہے"
وجدان نے شرارت سے عادل کی حوصلہ آفزائی کیے کہا تو وہ بھی وجدان کی بات اور گھر میں اس رونق زدہ ڈنٹر کی خوشی میں جی بھر کر مسکرائے تھے۔
"ھاھا برخوردار آج کے دن سمارٹنس کو بھول جاو، کیونکہ عادل کے ہاتھ کے ذائقے کا تو میں بھی قائل ہوں "
گویا عادل کی طرح وہ بھی کافی خوش اخلاق اور خوش مزاج تھے۔ کھانا باہر لان میں لگایا گیا تھا، اور بلاشبہ سب نے ہی خوب کھایا تھا۔ وہ سب کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ احمد صاحب نے کھانے کے بعد کافی میں بھی سب کا ساتھ دیا اور پھر وہ سونےچلے گئے۔
"تو اب تو کوئی شکایت نہیں ہے نا برتھ ڈے گرل کو"
وہ سب اب لان میں دوسرے وعدے کے مطابق کیرم کھیل رہے تھے۔ وجدان بس ان تینوں کو دیکھ کر ساتھ ساتھ شدید جمائیاں لے رہا تھا، بچارا ٹماٹر کاٹ کاٹ کر تھک جو گیا تھا۔
"ہاں اب میں خوش"
رباب نے ہنستے ہوئے اپنی والہانہ خوشی کا اظہار کیا تو عادل نے بھی اپنی مسکرائی نظر مزید دلفریب کی۔
"ہاں جی آئس کریم کا وعدہ ابھی بھی باقی ہے بھیا"
ہنا نے اپنی باری کرتے ہوئے ایک اور یاد دہانی کرائی۔ اگلے ہی لمحے تینوں کی نظر بیک وقت وجدان پر گئی ، اور وہ تینوں ہنس دیے۔ کیونکہ وہ جناب بیٹھے بیٹھے سو چکے تھے۔
"میرے پیارے بھیا تھک گئے ہیں"
رباب نے فکر مندی سے اداس سا منہ بنائے اپنے جان سے پیارے بھیا کو دیکھتے روہانسا ہوتے کہا جس پر ہنا اور عادل بھی پیارا سا مسکرائے۔
"بلکل، لیکن خوش قسمت ہوتے ہیں ایسے بندے جو کہیں بھی آرام سے سو جاتے ہیں"
ہنا نے سراہتے ہوئے کہا کیونکہ وہ ان تینوں کی باتوں اور گپوں کے باوجود مزے سے سو گیا تھا۔
"میں بلینکٹ لے کر آتی ہوں "
ہنا نے فورا سے کہا اور وہ اندر چلی گئی۔ رباب وجدان کو ہی دیکھ رہی تھی، وہ واقعی پرسکون انداز میں سویا ہوا تھا۔
"آپ بھی ایسے سو جاتے ہیں کیا میرے بھیا کی طرح"
وہ اب اپنی گردن واپس موڑے بڑے تجسس سے عادل سے پوچھ رہئ تھی۔
"نہیں ۔ ہر کوئی نہیں کر سکتا ایسا، بھائی لکی ہیں۔ ہم تو سونے کے لیے پراپر دعائیں مانگتے ہیں"
عادل نے آخری بات لطیف سی شرارت سے کہی اور مسکرایا تو رباب نے اسے تحیر انداز سے دیکھا۔
"تو کیا آپ لوری سن کر سوتے ہیں "
رباب کی ہنوز تجسس سے پوچھے جانے والے سوال پر وہ ہنسا۔
"نہیں نہیں، اب ایسا بھی نہیں ہے"
ہنا نے آکر اپنے ہاتھ میں پکڑا بلینکٹ وجدان پر اوڑھا دیا اور خود مسکراتی ہوئی ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔
"تمہیں پتا ہے رباب، بھیا مجھے لوری سنایا کرتے تھے، ابھی بھی جب میرا دل کرتا تو یہ مجھے سناتے ہیں"
ہنا نے لوری کے ذکر پر پرجوشی سے بتایا تو رباب نے ایک بار پھر تجسس سے عادل کو دیکھا، اب تو ہنستی ہوئی حیرت بھی چہرے پر درج تھی۔
"کیا سچ میں"
رباب کی بات پر عادل نے فوری اثبات میں سر ہلایا۔
"آپ میرے بھیا کو بھی سیکھا دیں نا، پھر میں بھی سنوں گی"
رباب نے کہا تو ہنا اور عادل دونوں اسکی معصومیت پر مسکرا دیے۔ گویا وہ واقعی بچی لگتی تھی۔ اسکے چہرے کی گداز نرمی نے اسے بے حد حسین بنا رکھا تھا۔
"تو تم عادل بھیا سے ہی سن لینا ناں "
ہنا نے مشکل حل کرتے ہوئے مزیدار حل پیش کرتے کہا، جس پر رباب بھی دلفریب سا مسکائی۔
"وہ ایک بہت پیارا سا گانا ہے، تم سننا تم کو بہت اچھا لگے گا"
ہنا نے محترمہ کی خوشی کو بڑھانے کے لیے مزید بتایا۔ "آپ مجھے سنائیں گے؟" وہ عادل سے پوچھتے ہوئے بولی جو اب ایک ساتھی کے کم ہونے پر کیرم سمیٹ رہا تھا، رات کی اترتی تیزی بھی اب نیند کا مشورہ دے رہی تھی۔
"ہاں کیوں نہیں۔ابھی تم دونوں سو جاو جا کر، کافی ٹائم ہو گیا ہے۔ میں یہیں ہوں بھائی کے پاس"
عادل نے کہا تو رباب اور ہنا دونوں ہی فرمابرداری سے اٹھ گئیں، کیونکہ اب وجدان سو چکا تھا تو آج گھر جانے کا کوئی چانس نہیں تھا۔ اور نیند تو اب رباب کو بھی آ گئی تھی۔
"گڈ نائیٹ بھیا"
رباب نے وجدان نے کان میں کہا اور اسکی گال پے پیار دیتی بہت فرمابرداری سے ہنا کے ساتھ اندر چلی گئی۔ عادل بھی ہلکی سی مسکان لیے ان دونوں کو جاتا دیکھنے کے بعد وجدان پر نگاہ ڈالے کرسی پر نیم دراز ہو گیا۔
صبح سے رسیوں کی جسم میں گڑھتی گرفت کے خلاف مزاحمت کر کر کے عاقب کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ منہ پر بندھی پٹی کے باعث اسکی مری مری آواز نکل رہی تھی۔ پھر اچانک سے کسی نے اسکے منہ کی پٹی ہٹا کر اسے اس ہولناک بے زبانی سے رہائی دی، پر آنکھوں پر موجود پٹی ویسی ہی رہنے دی تھی۔
"کھولو مجھے نہیں تو زندہ نہیں چھوڑوں گا، میں کہہ رہا ہوں کھولو مجھے"
پٹی ہٹتے ہی زبان اپنی پوری تلملاہٹ کے سنگ چالو ہو گئی تھی، اور پھر آنکھوں کی پٹی بھی ہٹ کر اسے آخر کار ضبط کیے اندھیرے سے بھی رہائی دلا گئی۔ اسکی آنکھیں معمولی بلب کی روشنی سے بھی چندھیا گئی تھیں۔سامنے بلاشبہ زالے مراد تھی، اور اس سے کچھ فاصلے پر خیلہ، سعد اور ثانی بیٹھے تھے۔
ان سب کے چہرے تنے ہوئے اور آنکھوں میں خطرناک چبتی سنجیدگی صاف دیکھائی دے رہی تھی۔ عاقب نے زالے کے چہرے کی ناگواری بھانپ کر اپنی انکھیں پھاڑ کر ہونٹ بھینچ ڈالے، گویا وہ زالے مراد کو اپنی آنکھوں کے عتاب سے ہی جلا کر راکھ کر دینا چاہتا تھا۔
"کتنی بار بتاوں کہ تم اپنا دماغ اور زبان بہت غلط چلاتے ہو، دیکھ لو بے یارو مددگار یہاں پڑے ہو "
زالے کرسی گھسیٹتے ہوئے عین روبرو بیٹھتے ہوئے اسے جتاتے ہوئے بیٹھی تو مقابل بھی خونخواری میں لمحے بھر کو کمی آئی۔ثانی چہرے سے تھوڑی الجھی لگ رہی تھی جبکہ خیلہ اور سعد مزے سے اپنی بے نیازی کا منہ بولتا ثبوت پیش کرتے ہوئے چپس کھا رہے تھے۔
"دیکھو زالے جو کچھ ہوا غلطی سے ہو گیا، تم جانتی ہو میں ہوش میں نہیں تھا۔سعد سمجھاو اسے، خیلہ تم بتاو زالے کو کہ میں ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا"
عاقب تڑپتی ہوئی آواز میں زالے کے پتھر دل کو نرم کرنے کی کوشش میں بولا تھا، مگر اسکے سامنے فی الوقت ایک بے رحم زالے بیٹھی تھی جو اسے اس حرکت کے بدلے پوری سزا دینے کے حق میں تھی۔ زالے نے سر کو جنبیش دیے اشارہ دیا کہ وہ مزید بول سکتا ہے۔
"ہم دوست ہیں، صبح سے مجھے یہاں باندھ کر تم حساب برابر کر چکی ہو زالے۔ دیکھو اب بس کرو، کھول دو مجھے"
وہ کسی پتھر کو پگھلانے کی سعی کر رہا تھا، زالے کی پیشانی پر تناو کچھ مزید بڑھا۔
"تم نے بہت گھٹیا حرکت کی ہے عاقب، معافی تو تمہیں مر کر بھی نہیں ملے گی"
زالے نے آنکھوں میں آئی غضبناک سرخی سے اسے بہت صاف لفظوں میں اسکی سزا کے اٹل ہونے کی اطلاع دی تھی۔ اب کی بار ایک انجانا خوف عاقب سکندر کی آنکھوں میں لہراتا ہوا صاف دیکھائی دیا تھا۔
"دیکھو میں بتا رہا ہوں ناں، میں اپنے سینسیز میں نہیں تھا۔ ویسے بھی تمہیں وہ سمیر تو مل گیا نا قربانی کا بکرا، تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ لہذا مجھے چھوڑ دو"
خود غرضی تو ان سب پر ہی ختم تھی۔ کس بے رحمی اور سفاکی سے اس نے زالے کو ایک مزید کوشش کر کے پگھلانا چاہا۔ کوئی اور دکھی ہوا تھا یا نہیں اسکا اندازہ لگانا مشکل تھا مگر ثانی کے چہرے کی الجھن اب طیش زدہ ضرور ہوئی تھی۔
"بڑے افسوس کی بات ہے، اس بچارے سمیر کے ناحق اس سب میں پھنسنے اور صرف تمہاری وجہ سے پھنسنے کی تمہارے آگے زرا بھی اہمیت نہیں۔ نہایت گھٹیا ہو تم عاقب"
ثانی کو یک دم غصہ آیا تھا اور وہ باقاعدہ دھاڑنے کے انداز میں بولی تھی، زالے نے اب حیران ہوتے ہوئے ثانی کو دیکھا۔ ثانی نے زالے کی مشکوک نگاہوں میں آتے ہی اپنا غصہ دبایا۔
"اور کیا زالے، سہی تو کہہ رہی ہوں"
زالے کو خفگی اور حیرانگی سے خود پر نظریں جمائے دیکھ کر وہ فورا سے پہلے دھیمی ہوتے منمنائی۔
"وہ سمیر یہی ڈیزرو کرتا تھا"
زالے کی اب کی بار سخت آواز آئی، سعد اور خیلہ بھی کن آکھیوں سے سب پر نظریں ڈالتے اٹھ کر ان تینوں کی سمت آگئے۔
"اور کیا، وہ کس قدر اریٹیٹنگ تھا ۔ چار سال سے وہ زالے کو اریٹیٹ کرتا رہا، یہی ہونا چاہیے تھا اسکے ساتھ"
خیلہ کو تو موقع چاہیے تھا زالے کی سائیڈ لینے کا، اپنی حمایت میں بولتی خیلہ پر وہ مغرور حسینہ بھی کچھ غصے کے خول سے باہر آئی۔
"لیکن، محبت کوئی جرم تو نہیں ہے کہ ایسی بری سزا ملے"
ثانی کا لہجہ یک دم تاریک ہو گیا تھا، زالے کے دل تک اتری یہ سرد آواز ہلچل مچا گئی تھی۔ اپنے اندر کی بے چینی چھپانے کے لیے وہ انتہا کی غضبناک ہو کر دوبارہ ثانی کی سمت گردن موڑ چکی تھی۔
"تم مجھ سے اختلاف کر رہی ہو ثانی؟"
زالے نے اس پر اچٹتی نگاہ ڈالے باراضگی سے پوچھا۔
"نہیں، میرے دل کے اندر ابھی کہیں تھوڑا سا احساس زندہ ہے۔ جو بھی ہوا ہے، مجھے ٹھیک نہیں لگتا زالے اور نہ میں اسے ٹھیک کہوں گی"
ثانی بلاشبہ ان سب میں تھوڑی الگ تھی، اور آج تو اس نے پہلی بار اپنی رائے دیتے ہوئے ان سب سے برملا اختلاف بھی کیا تھا۔
"ارے گائیز اب اتنا بھی بڑا ایشو نہیں ہے، چل کرو یار"
سعد کی بات پر ثانی نے آنکھیں نکال کر اسے گھورا۔ اس سب کے بیچ عاقب کے اندر نفرت سے بھری وہشت ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔ اسکا بس چلتا تو ان سب کو ایک ہی قبر میں اتار دیتا۔
"ہاں، سمیر کی جگہ خود کو رکھ کر سوچو ایک بار۔خیر میں چلتی ہوں، ڈیڈ کے ساتھ جانا تھا مجھے۔ پھر ملتے ہیں"
ثانی گہری بات کر کے گئی تھی، اور سعد سوچ میں بھی پڑھ چکا تھا۔
"اسے کھانا دے دینا، اور زیادہ منہ چلائے تو ایک گولی بھی ٹانگ پر ٹھوک دینا"
عاقب کا خلق سوکھ گیا جب زالے نے گارڈ کو کہا۔ حقیقت میں وہ ثانی کی بات پر الجھ چکی تھی۔
"زالے پلیز چھوڑ دو مجھے، یہ تم اچھا نہیں کر رہی"
اب وہ باقاعدہ دھاڑا تھا، عاقب کی آنکھیں شعلہ بن کر دہک اٹھی تھیں۔
"تم نے جس قدر اچھا کیا ہے، یہ بس اسکا چھوٹا سا جواب ہے۔ خاموشی سے رہو یہاں ورنہ بے موت مارے جاو گے"
زالے نے اسکا گریبان پکڑ کر اسکی آنکھوں میں سختی بھرے مشتعل انداز لیے وارن کرتے کہا۔
"مجھ سے دشمنی تمہیں مہنگی پڑھے گی"
عاقب کے اندر بھی ایک شیطان تھا، اسکی آنکھیں بھی حقارت کا برملا اعتراف کرتی ہوئی زرد ہوئیں جس پر زالے کا سمٹا قہقہ ابھر کر بہت جلدی غروب ہوا۔
"دوستی کونسا سستی پڑھی ہے، زالے مراد کو یہ مہنگی دشمنی بھی قبول ہے ۔ ویسے بھی دشمن کو تو چھوڑا جا سکتا ہے، پر دوست نما دشمن اور آستین کے سانپ کو چھوڑنا زالے مراد کو زیب نہیں دیتا۔سمجھے؟"
لہجے میں شدید زہر لیے وہ اسے غرور سے کہہ کر ایک ہی جھکٹے سے چھوڑ چکی تھی، دونوں کی آگ برساتی آنکھیں ایک دوسرے پر ابھی تک ویسی ہی موجود تھیں۔ اس پورے معاملے کے سلجھنے تک وہ عاقب کو یہیں رکھنا چاہتی تھی۔
"زالے!"
زالے کو اشارہ کر کے باہر کی سمت جاتے دیکھ کر عاقب کی آنکھوں میں بھی خون اتر آیا تھا، اسکی دھاڑ پر زالے نے مڑ کر متوخش نظر سے اسے دیکھا، اور پھر دونوں گارڈز کی جانب متوجہ ہوجی۔
"اچھی سی مہمان نوازی کرو اسکی۔ چلو سب "
وہ جونہی حکم کرتی نکلی گارڈ نے اسکے منہ میں سرعت سے کپڑا ٹھونس کر پٹی باندھ دی۔
"میں کھانا لاتا ہوں اسکے لیے"
دوسرا گارڈ بھی کہہ کر باہر نکل گیا، عاقب کے پاس سوائے کڑھنے ، جلنے اور سلگنے کے سوا کچھ باقی نہ بچا تھا۔
..____________________..
دو دن تک دوبارہ وجدان نے سمیر سے کچھ بھی نہیں پوچھا تھا، ان دوران ساحر ہی سمیر سے پوچھ گچھ کرتا رہا۔ دوسری طرف وجدان ان دو دنوں تک ڈان کے آڈے سے ملنے والی انفارمیشن پر کام کر رہا تھا جس میں عادل اسکے ساتھ تھا۔ ارسلان سر جو انکے ہیڈ تھے، انہوں نے فارس مانی جو ڈرگ کا ڈان تھا اسکے جسمانی ریمانڈ کے آرڈر بھی بنوا لیے تھے۔ یہ لوگ نہایت خطرناک حد تک سفاک قسم کے ہوتے ہیں، انکی ٹرینگ کا حصہ رکھا جاتا ہے کہ کسی بھی طرح کے حالات میں یہ زبان نہیں کھولتے کیونکہ انکے پیچھے بہت بڑے بڑے بظاہر معزز لگنے والے لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
"بھائی، آگے کا کیا پلین ہے؟"
عادل نے سرکھجاتے پوچھا جب وجدان شیشے سے اس بار فارس مانی کا مکرو چہرہ بنا آنکھیں ہٹائے دیکھ رہا تھا۔
"کل اسکے اڈے پر ریٹ کریں گے، تم اپنی ٹیم تیار رکھنا۔ اس معاملے کو ہم زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ آخر بہت سے لوگوں کی زندگی کا سوال ہے"
وجدان نے آخر کار اپنی سوچ کو ایک مرکز پر لا کر فیصلہ سنانے کے ساتھ ساتھ اپنی فکرمندی کا بھی اظہار کیا جس پر عادل مکمل متفق تھا۔
"ٹھیک ہے، میں سب تیاری کر لوں گا۔ لیکن ہمیں اس معاملے میں کافی محتاط رہنا پڑے گا"
عادل نے بھی دبے لفظوں میں معاملے کی سنگینی کا ادراک کیے کہا تو وجدان نے متفقہ سر ہلایا، وہ کافی سنجیدہ کسی سوچ میں غرق تھا۔
"سمیر نے کچھ بتایا؟"
وجدان نے فورا سے یاد آنے پر پوچھا۔
"ڈٹا ہوا ہے اپنے بیان پر، اب تو مجھے لگ رہا ہے واقعی سب اسی نے کیا ہے"
عادل کو تو ان دو دنوں کے بعد بھی وہی پہلے والے بیان کے آنے پر قائل سا ہو چکا تھا۔
"میں نے اسے دو دن کا وقت دیا تھا، آج رات اپنی آخری کوشش کروں گا۔ میں نہیں چاہتا کسی بے قصور کو سزا ہو"
وجدان نے گہری فکر مندی اور تشویش لیے کہا۔
"دیکھتے ہیں پھر"
عادل نے پر امید ہوئے کہا تو اسی وقت رفیق اپنی خاص ڈیوٹی پوری کرتا اندر آیا۔
"ہاں رفیق کیا خبر ہے، کون ہے یہ سمیر سب بتاو"
وجدان نے سمیر کی مکمل معلومات منگوائی تھیں۔
"سر سمیر احمد۔ دو بہنوں کا اکلوتا بھائی ہے، باپ سر پر نہیں ہے۔ ایم بی اے کیا ہے اس نے ابھی، ساتھ ساتھ جاب بھی کرتا ہے۔ اپنی ماں بہنوں کا اکلوتا سہارا ہے"
وجدان کو یہ سب سن کر حقیقت میں افسوس ہوا تھا کیونکہ اگر سمیر واقعی محض کسی کا الزام سر لے رہا تھا تو وہ پاگل واقعی قابل رحم تھا۔
"یونیورسٹی سے کیا پتا چلا؟"
اصل تجس وجدان کو اسی بات میں تھا کیونکہ اسی خبر میں کوئی سراغ مل سکتا تھا۔
"سر یونورسٹی میں اسکا اچھا ریکارڈ رہا ہے، برائیٹ سٹوڈنٹ ہے۔ زالے مراد اور اسکے دوستوں سے کئی بار جھگڑا ہوا ہے۔ وہاں کے انچارج نے بتایا ہے کہ قصور زیادہ تر زالے گینگ کا ہوتا تھا اور وہ کئی بار اس معاملے کو دبا دیتے تھے کیونکہ وہ پورا گروپ امیر ماں باپ کے بچوں کا تھا"
رفیق نے دو دن میں کافی کچھ پتا کروا لیا تھا۔
"بھائی اس سب سے تو یہی لگتا ہے کہ سمیر نے ہی یہ سب کیا ہے، بدلا لینے کے لیے"
عادل نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اپنی عاجزانہ رائے پیش کی۔
"نہیں عادل، معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ وہ مجھے آج بتا دے، ورنہ گڑ بڑ ہو جائے گی"
وجدان کی سوچ یہ ماننے کو ہرگز تیار ہی نہ تھی۔
"ٹھیک ہے رفیق گڈ جاب۔ چائے بھیجو دو عدد"
وجدان نے رفیق کو سراہتے ہوئے ساتھ ہی چائے کا کہا تو وہ ہلکی سی فاتحانہ سمائیل دیتا ہوا سر ہلا گیا۔
"جی سر"
وہ فرمابرداری سے کہتے ہوئے چلا گیا، جبکہ اب عادل اور وجدان دونوں ہی کسی کھوجتی ہوئی خاموشی میں مبتلا ہو چکے تھے۔
..____________________..
"واو ، تمہیں نیل پینٹ لگانا آ ہی گیا"
ہنا نے ستائشی انداز میں رباب کے رنگے ناخن والے ہاتھوں کو دیکھ کر داد دی تو وہ اپنی پیاری آنکھیں گمائے ہنس پڑی، اسکی بلی محترمہ بھی دم ہلائے کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی۔ دونوں کو کالج سے چھٹیاں تھیں، بھائی صاحب بھی اپنے فرضوں کو لے کر ہی اتنے مصروف تھے تو ہنا اور رباب کو ہی ایک دوسرے کو کمپنی دینی پڑتی تھی۔
"ہاں نا، اچھی لگی ہے "
رباب نے مسکراتے ہوئے داد سمیٹے ہوئے ہاں ملائی ،وہ دونوں لاونچ میں ہی تھیں۔
"بچو یہ لو آپکی پسند کے سینڈوچ"
بوا ملک شیک اور سینڈوچ وہیں لے آئیں تھیں، دونوں ہی چمکیلی ہنسی لیے ہنس دیں۔
"ارے واہ بوا، کیا بات ہے آپکی"
ہنا کی بھوک تو دیکھتے ہی جاگ گئی تھی، بوا بھی دونوں کی خوشی دیکھ کر مسکرا دیں۔
"ٹھیک سے کھانا، میں زرا نماز پڑھ لوں۔ پھر ہم مل کر مووی دیکھیں گے"
بوا کی فکر مندی پر تو وہ دونوں نثار ہوئیں مگر آخری بات پر تو رباب اور ہنا کے ساتھ ساتھ بوا جی کے بھی سارے دانت باہر آ چکے تھے۔
"ہاں بھئی ماڈرن بوا ہیں ہماری، کوئی مزاق تھوڑی ہے"
رباب کی شریر بات پر ہنا ہنسی تو بوا بھی شرمیلی سی مسکرا دیں۔
"سچی یار بہت بورئیت ہو رہی ہے، میرا دل کرتا ہے دنیا کی سیر کو نکل جاوں"
بوا کو چھیرتی ہوئی ہنا نے سینڈوچ پکڑتے ہوئے اگلی بات بڑی افسردگی اور حسرت سے کہی۔
"بورئیت تو مجھے بھی ہو رہی ہے اور دنیا کی سیر کی اجازت ہمارے بھائی حضرات دے ہی نہ دیں"
رباب نے سڑی شکل بناتے ہوئے کہا تو ہنا نے متفق ہو کر اداسی سے سر ہلایا۔
"ڈیڈ کو کہتی ہوں عادل بھیا کی شادی کروا دیں، یار کچھ تو انجوئمنٹ آئے لائف میں"
ہنا کی بات پر رباب نے اسے ایسے دیکھا جیسے اس نے کوئی انہونی بات کہہ دی تھی، گویا رباب محترمہ کے چہرے کا گلابی رنگ سفید پڑتا ہوا مکمل اڑ چکا تھا جبکہ ہنا تو رباب کا یہ انکشاف زدہ کھلا منہ دیکھ کر بے ساختہ ہنس پڑھی۔
"ھاھا تمہیں کیا ہوا ہے، میں نے ایسا خوفناک تو کچھ نہیں کہا۔ شادی کا کہا ہے میں نے انکی یار "
ہنا نے ہنستے ہوئے بات دہرائی کیونکہ اسے لگا تھا رباب نے کچھ اور سنا ہے، مگر رباب کا دل ضرور لرز چکا تھا۔
"ویسے وجدان بھیا کی بھی اب ہو جانی چاہیے، وہ تو عادل بھیا سے کافی بڑے ہیں ناں"
ساتھ ہی اس نے سوچتے ہوئے مزید رائے دی جس پر اب رباب نے اپنے چہرے پر آئی بے قراری کو غائب کرتے سر نفی میں ہلا کر گردن موڑی۔
"چھوڑو شادیوں کو، یہ بھابیاں ہمارے بھائی چھین لیں گی"
رباب نے منہ بناتے ہوئے نئی منتق پیش کی تو ہنا پھر سے اسکی فکر میں ہلکان صورت دیکھ کر ہنس دی۔
"ارے نہیں، میں تو عادل بھیا کے لیے بہت پیاری سی دلہن لاوں گی تم دیکھنا"
ہنا نے اب کی بار کن اکھیوں سے رباب کی تذبذب سے اٹی صورت دیکھ کر پرجوش ہوتے ہوئے بتایا مگر رباب کو یہ سب زرا بھی اچھا نہیں لگا۔
"لے آنا مجھے کیا ہے"
ہنا نے رباب کے چہرے پر اپنی شریر نظریں سختی سے جما کر ہر رنگ کو ازبر کیا اور اگلے ہی لمحے ہنسی وہ میں لوٹ پوٹ ہو گئی۔
"اف کیا تم جیلس ہو رہی ہو؟ ھاھاھا رباب ہے ناں۔ یہاں دیکھو، ہوئی ہو ناں؟"
ہنا نے سینڈوچ رکھ کر اسے پکڑ کر سیدھا کرتے گما ہی ڈالا تھا، رباب تو اس اچانک افتاد پر بوکھلائی ہوئی آنکھیں پھیلا کر فورا سے ناں میں گردن ہلا رہی تھی۔
"مجھے کیا ضرورت ہے جیلس ہونے کی وہ بھی تمہاری خیالی بھابھی سے، کچھ بھی بولتی ہو"
رباب نے بنا نظر ملائے اسے ڈانٹتے ہوئے اپنا دفاع کرتے کہا مگر ہنا کا دھیان تو لازوال سی پراسرار خوشی میں جا اٹکا تھا۔ رباب کے دل میں عادل کے لیے کچھ نئے جذبات دیکھ کر وہ تو خوشی سے باولی ہو رہی تھی۔
"اہم اہم۔ دیکھو رباب تم کھل کر بتا دو، بعد میں شکایت نہ کرنا کہ دوست نے پوچھا نہیں"
ہنا شرارتی انداز میں اب اسے تنگ کر رہی تھی، اور مزے کی بات تھی کہ پس پردہ سی ہنسی دبائے وہ اب ہنا کو گھور رہی تھی۔
"تم مار کھاو گی ہنا"
رباب نے ساتھ پڑھا کشن اٹھاتے ہوئے باقاعدہ گھبرائی ہوئی دھمکی دیتے کہا۔
"تمیز کرو تم سے بڑی ہوں، ھائے رباب تمہارا چہرہ بلش کر رہا سچی "
ہنا باز آنے والوں میں نہیں تھی۔ اور اب سچ میں کشن ہنا کے سر پر لگا تھا۔ اب کی بار دونوں کے چہروں پر دلگیر سی ہنسی پھیل کر ہر منظر معطر کر گئی تھی۔
..____________________..
"اگر ایسا ہو جائے تو کتنا اچھا ہو"
ہنا چائے بنا کر ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی اکیلے اکیلے خود کلامی کیے مسکراتے ہوئے کسی اور ہی سفر پر گامزن تھی۔
"ہمارا بچہ کیا سوچ سوچ کر مسکرا رہا ہے"
احمد صاحب کچن میں شاید پانی لینے آئے تھے، مگر ہنا کو اس قدر موہنے انداز میں مسکراتا دیکھ کر بڑی خوشگوار حیرت کے سنگ رک گئے۔
"ڈیڈ، کچھ نہیں۔ بس ایسے ہی رباب کی بات یاد آ گئی تھی"
وہ چونکتے ہوئے اپنی مسکراہٹ مزید دلفریب کیے بولی تو احمد صاحب کی آنکھوں میں بھی متبسم رنگ لہرایا۔
"آہاں، کوئی خاص بات تھی کیا؟"
احمد صاحب نے ہنوز اپنا تجسس برقرار رکھتے ہوئے اس حسین سے معاملے کی گہرائی سے واقفیت حاصل کرنے کو پوچھا تواب کی بار ہنا ان سے نظریں ملائے شرارتی سا کھلکھلا دی۔
"یہی سمجھیں، پر ڈیڈ ابھی نہیں۔ میں خود پہلے کنفرم ہو جاوں پھر آپکو بتاوں گی۔ٹھیک ہے نا"
ہنا کی والہانہ پرجوشی دیکھ کر احمد صاحب کے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دیکھائی دے رہا تھا۔ دونوں باپ بیٹی نگاہوں کا شریر تبادلہ کیے ناجانے کیا کہہ رہے تھے مگر مسکراہٹ دونوں طرف اب بہت پیاری آسودگی کا رنگ اوڑھ چکی تھی۔
"ٹھیک ہے، لیکن مجھے شدت سے انتظار رہے گا"
وہ پانی کا گلاس واپس رکھتے ہوئے پرشوق نگاہیں جمائے بولے تو ہنا بھی راضی ہو کر سر اثبات میں ہلائے انکے انتظار کے جلد خاتمے کی امید دلا چکی تھی۔
"ھاھا اوکے"
ہنا نے بھی جان دار سی ہنسی پھیلائی۔
"چلو سوجاو پھر، رات ہو گئی ہے کافی"
احمد صاحب نے اسے ہدایت کی اور باہر نکل گئے جس پر وہ بھی فرمابرداری سے اپنا چائے کا مگ لیے اٹھ گئی۔
"بھیا نہیں آئے"
کچن کی لائیٹ آف کر کے وہ دونوں ساتھ ہی باہر آ گئے۔
"نہیں وہیں رکے گا "
احمد صاحب نے بتایا اور اپنے کمرے کی سمت روانہ ہو گئے۔
"چلیں شب بخیر ڈیڈ"
وہ ڈیڈ کو کہہ کر خود بھی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
زالے کمرے تک آئی پھر دروازہ تھوڑا سا کھول کر اندر جھانکنے کو آگے بڑھی، کنزا سو چکی تھیں۔ کمرے میں زیرو بلب جل رہا تھا۔ سٹڈی کا دروازہ بھی بند تھا جسکا مطلب تھا کہ اسکے ڈیڈ وہیں ہیں۔ دروازے کو دوبارہ بند کر کے وہ الٹے قدموں مڑ گئی ،آج پھر سے دن بھر سوئے رہنے کی وجہ سے نیند اس سے کوسوں دور تھی، دو دن زالے نے بھی گھر رہ کر گزار دیے تھے۔ عاقب کی ساری ذمہ داری اسکے دو گارڈز بخوبی سنبھال رہے تھے۔ کمرے میں جانے کے بجائے وہ ٹیرس کی طرف بڑھ گئی، فضا میں ہلکی ہلکی ٹھنڈک تھی اور آسمان بے شمار ستاروں سے مکمل بھرا ہوا تھا۔ ایک دم ذہن میں ثانی کی دو دن پہلے کہی جانے والی بات ابھر آئی، دو دن سے وہ اپنے ذہن تک الجھی ہوئی تھی تبھی اس نے اپنی تمام تر سرگرمیاں بھی روک رکھی تھیں۔
"محبت کوئی جرم تو نہیں"
زالے نے ایک نظر آدھے چاند کو دیکھا، اسکا چہرہ پتھر سے بھی زیادہ تنا ہوا تھا۔ اس چاند کی تنہائی اسے اپنی تنہائی سے آج بھی افضل لگی تھی۔ اسکے پاس سچی خوشی کی مانند چمکتے ستارے تھے مگر زالے مراد کے پاس ایسی کوئی چمک موجود نہ تھی۔
"زالے مراد سے محبت کرنا جرم ہے"
اسکے اندر سے کوئی زالے جیسی بے حسی کے سنگ بولا تھا۔
"اور ہر ایسے مجرم کو سزا ملنی چاہیے"
دماغ نے بھی زالے مراد کی بھرپور طرف داری کرتے ہوئے ٹانگ اڑائی تھی۔ کیا پتھر نما دیکھائی دینے والی زالے سچ میں ایک پتھر تھی؟ یہ تو راز تھا، ایک گہرا پراسرار سا راز۔
"محبت میں تو جان چلی جاتی ہے، اسکی تو بس زرا سی عزت جائے گی۔ ڈونٹ وری زالے"
اسکے اندر کی وحشی زالے مراد پوری سفاکی سے گویا ہو کر اسکا حوصلہ بڑھا رہی تھی۔
"بھلے کسی کی جان لے لو، عزت مت چھیننا۔ ورنہ اسکا انجام بہت برا ہوگا"
کوئی تھا جو اسکے اندر بھی مثبت آواز لیے تھا، شاید اسکا بے حد ٹوٹا ہوا ضمیر۔
"خاموش ہو جاو تم سب"
وہ ان مخالف اور طرفدار سی سب سرگوشیوں کا تانہ بانہ توڑتے ہوئے باقاعدہ دھاڑی تھی، بس اتنی سئ آواز میں جسے وہ بس خود سن سکتی تھی۔ ہر طرف سے آنے والی آوازیں زالے کے لیے ساکت ہو گئیں۔ پورے جسم میں ایک درد پھیلاتی لہر سئ پھیل گئی، زالے کو لگا اسکے اندر عجیب سی بے چینی پھیل اتر رہی ہے۔
"یہ بے سکونی میری جان لے جائے گی"
اپنے ماتھے پے آئی پسینے کی نمی کو صاف کرتے اس نے تکلیف سے سوچا تھا۔ زالے مراد کا یہ روپ کوئی نہیں جانتا تھا سوائے اسکے اور اسکی ارد گرد کی خاموشی کے۔ زالے کے چہرے پر بے چینی نمایاں ہوتی گئی، اتنی کہ اس نے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑ لیا، اور اسکے ماتھے کی رگیں پھٹ پڑنے کی حد تک ابھر آئیں۔ وہ جھٹ سے ٹیرس پر بنی سیڑھی پر سے اٹھی اور تیز تیز قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ کر دروازہ پورے زور سے بند کرنے کے بعد بیڈ پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ اسکے کمرے میں بلا کی تاریکی کا راج اسے مزید خوفناک بنا رہا تھا۔
"آہ۔ یہ کیا ہو رہا ہے"
اس نے اپنے سر کو پوری شدت سے دبوچ رکھا تھا، جو شدید تکلیف میں لپٹ کر درد دیتی تکلیف کا مرکز بن چکا تھا۔کچھ دیر اس اچانک کی شدید درد زدہ لہر کو برداشت کرنے کے بعد وہ بے سدھ ہو کر بیڈ پر لیٹ گئی۔ لیٹنے سے وہ تھوڑی دیر تک نارمل ہو تو گئی، لیکن اس اٹیک سے اسکا چہرہ ایک دم زرد پڑھ گیاتھا۔سائیڈ ٹیبل سے نیند کی گولی اٹھا کر نکالی اور کھائی ، پھر سے وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئی۔ وہ سونے کے لیے بہت عرصے سے نیند کی گولی کھاتی تھی، سکون کی تلاش میں بھٹکتی زالے مراد کی آنکھیں جلد ہی نیند کی گرفت میں جا چکی تھیں۔
"سر چائے"
رفیق اسے چائے دے کر باہر نکل گیا تھا، عادل اور وجدان آفس میں ہی موجود تھے۔
"اگر آج بھی یہ اسی پر ڈٹا رہا تو کل تک یہ کیس ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا"
وجدان کو اب حقیقی تشویش تھی، عادل نے بھی متفقہ سر ہلایا۔
"آپ پھر کریں بات اس سے"
عادل نے بے لچک لہجہ اختیار کیے کہا، جس پر وجدان بھی یہ اہم معرکہ سر کرنے کی تیاری پکڑ چکا تھا۔
"ہاں، ٹھیک ہے جاتا ہوں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے"
وجدان ایک پختہ نظر کے ساتھ کندھے اچکائے اٹھ کھڑا ہوا، عادل اور رفیق ان دونوں کو باہر سے دیکھ رہے تھے۔ وجدان اسکے قریب جا کر ایک بار پھر کرسی گھسیٹے سامنے بیٹھ گیا، اس آہٹ پر سمیر نے نظر اٹھا کر وجدان کا چہرہ دیکھا، اسکی آنکھوں میں بلاشبہ آج تو وافع تھکن تھی۔
"کیسے ہو؟"
دو دن سے اسکی سمیر سے ملاقات نہیں ہوئی تھی، وہ خود چاہتا تھا کہ اس سے ایک ہی بار ختمی بات کرے۔ "آپ دیکھ سکتے ہیں"
سمیر کے بے دلی سے مختصر جواب کی بازگشت سنائی دی تو وجدان بھی کچھ سنجیدہ ہوا۔
"میں نے تمہیں کہا تھا دو دن ہیں، سوچو۔ میں تمہارا جواب سننا چاہوں گا اب، کیا فیصلہ ہے تمہارا؟"
وجدان کے دوٹوک انداز سے پوچھنے پر وہ بس خاموش تھا، کافی لمحے یونہی اس الجھن زدہ خاموشی کی نظر ہو گئے۔
"اس بیوہ ماں اور ان دو بہنوں کا سوچا ہوگا تم نے، کس لیے۔۔ آخر تم نے یہ سب خود پر لیا، بولو؟"
یہ بات سمیر کو تڑپانے کے لیے کافی تھی، وجدان کی آنکھیں اب صاف صاف تلملاتا سایہ اپنے اندر لیے سمیر پر درج تھیں۔
"سمیر،آج تمہارے پاس آخری موقع ہے "
وجدان اپنا ہر حربہ آزمانا چاہتا تھا، تبھی ایک وارننگ مزید دیے تلخ ہوا اور سمیر کے چہرے کے رنگ بدلتے دیکھائی دینے لگ گئے۔
"سچ بولوں یا جھوٹ، دونوں میں میرا ہی نقصان ہے سر۔ پلیز مجھے خاموش رہنے دیں، میں آپکی منت کرتا ہوں"
وہ مرد ہو کر بھی بے بسی کی انتہا پر کھڑا اپنی آنکھیں نم کر کے التجاء کرتے بولا تھا، وجدان نے اپنے لہجے کی سختی قابو کی۔ عادل اور رفیق سارا کچھ باہر سے دیکھ رہے تھے۔
"ٹھیک ہے، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں۔ تمہیں بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا۔۔۔ تم اعتماد کرو، اور ساری بات سچ بتاو؟"
کہتے ہیں ان پولیس والوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے، سمیر کے ذہن میں بھی فی الوقت یہی ابھر آیا تھا۔ وجدان کو تو اب شدید جھنجھلاہٹ اور تجسس لاحق تھا۔ "یقین کرو، ہم جنتے بھی سخت کیوں نہ ہو۔ انسانیت ہماری اولین ترجیح ہے، بے قصور کو سزا ہونے دینا ہمیں زیب نہیں دیتا۔ تم سچ بتاو سب"
وجدان کی نظر بے حد گہرائی رکھتی ہوئی اسکے اندر تک اتری تھی جو منہ میں زبان کے ہوتے ہوئے بے زبان رہنے پر آمادہ تھا۔
"وہ سب میں نے نہیں رکھا تھا"
وجدان کی شفیق سی تسلی کے آگے سمیر نے آخر ہار مان لی تھی۔ وجدان کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی، باہر کھڑے عادل اور رفیق بھی ایک دوسرے کا چہرہ دیکھے حیران ہوئے۔
"ٹھیک ہے، پھر کس نے کیا تھا یہ سب"
وجدان نے نرمی سے سوالات جاری رکھتے پوچھا۔
"زالے مراد کے دوست نے، اسی کے گروپ کا ایک لڑکا ہے عاقب"
سمیر کی بات سن کر وجدان مزید سنجیدہ ہوا، چہرے پر کئی رنگ لہرائے اور ماتھا تنا۔
"تو کیا وہ لڑکا تمہارا بھی دوست ہے، جس کہ لیے تم نے قربانی دینے کا سوچا"
وجدان کو ابھی بات سمجھ نہیں آئی تھی، وجدان کے حیرت زدہ استفسار پر سمیر نے نفی میں سر ہلایا۔
"زالے مراد کو تو کچھ نہیں ہوگا نا سر، پلیز "
سمیر کی اس بے چینی میں لپٹی بات پر وجدان سارا معاملہ سمجھ گیا تھا، سارا کچھ ایک دم وافع ہو چکا تھا۔
"زالے مراد کے لیے تم نے یہ سب کیا ؟وجہ جان سکتا ہوں"
وجدان نے اسکی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے اگلا سوال داغا، وجدان کی نظریں سختی سے سمیر کے بوجھل چہرے کا جائزہ لے رہی تھیں۔
"سمیر وجہ بتاو"
اسکی خاموشی اب وجدان کو غصہ دلا رہی تھی،
"میں نے 'زالے مراد' سے محبت کی ہے، اس کے لیے مر بھی سکتا ہوں۔ آپ مجھے جو بھی سزا دے دیں لیکن زالے کو کچھ نہیں ہونا چاہیے، پلیز سر میں آپ سے منت کرتا ہوں"
سمیر کی آگلی ساری باتیں وہ فراموش کر گیا تھا، وجدان نے مطمئین انداز میں کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ایک گہرا سانس خارج کیان باہر کھڑے عادل اور رفیق یہ سب بہت کامیابی سے ریکارڈ کر چکے تھے۔
"افسوس ہے، چند دنوں کی محبت کے پیچھے آجکل کی نسل وہ محبتیں بھلا دیتی ہے جو ایک عمر سے ہمارے ساتھ ہوتیں ہیں۔ جب تم اس چیز کے پیچھے جاو گے جو تمہارے لیے حلال نہیں تو زلت ہی تمہارا مقدر بنے گی" وجدان کا مدھم سی افسردگی میں کہا ہر ہر لفظ سمیر کے دل کے پار ہو رہا تھا۔
"سر اسے کچھ نہ____"
اس سے پہلے کے سمیر بات مکمل کرتا وجدان نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا۔ وجدان کے نزدیک اب بات ختم ہو چکی تھی، انویسٹیگیشن کامیابی سے مکمل ہو گئی تھی۔
"ڈونٹ وری، ہم اصل مجرم کو ہی پکڑیں گے۔ اعتماد کیا ہے تو اسے بحال بھی رکھو"
وجدان نے اسکی طرف جھکتے ہوئے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دیتے ہوئے نظریں ملائے کہا۔
"تھینک یو سر"
سمیر کی آنکھیں پھر سے نم ہوئی تھیں۔
"اس سب سے نکلو تو پہلا کام اپنی ماں بہنوں کی قدر ہے ، وہ کرنا۔ اسکے بعد محبت نہیں، اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق نکاح کر کے اپنی زندگی درست کرنا۔ سمجھ رہے ہو ناں؟"
اب وہ عبداللہ وجدان تھا، ایک اللہ کا بندہ۔ اللہ کا حکم ماننے والا، اور اسکا سیکھایا پیغام آگے دینے والا۔
"جی"
سمیر کا سر شرمندگی سے جھکا ہوا تھا۔
"اللہ مجھے اور تمہیں ہدایت دیں"
وجدان اپنی ساحرانہ وجاہت اور دل موہ لینے والے میٹھے انداز میں یہ کہہ کر رکا نہیں تھا، لیکن سمیر کو بہت کچھ سیکھا گیا تھا۔
"یہ کام تو ہو گیا"
باہر آکر اس نے عادل اور رفیق کو مسکراتے ہوئے کہا، جس پر وہ دونوں بھی کافی مطمئین لگ رہے تھے۔
"اب آگے کیا کرنا ہے بھائی"
عادل آفس میں بھی اسے بھائی ہی کہتا تھا۔ حالانکہ وجدان، عادل کا سینئر تھا۔
"آگے کا ہم کل سوچیں گے، فی الحال تو زوروں کی نیند آ رہی ہے مجھے جوانو!"
وجدان کی اس لطیف بات اور انداز پر عادل تو ہنس ہی دیا، مگر اسکے ساتھ ساتھ رفیق کے بھی ہلکے سے دانت نکلے تھے۔
"اوکے سر آپ ریسٹ کریں، شب بخیر"
رفیق نے جھٹ سے کہا اور باہر چلا گیا
۔ "تم بھی سو جاو، کیونکہ کل ایک تھکا دینے والا دن ہوگا "
وجدان جاتے ہوئے عادل سے بھی کہہ گیا تھا، وجدان کے اپنے آفس کی طرف جاتے ہی عادل بھی وہیں صوفے پر نیم دراز ہو کر لیٹ گیا۔
..___________________..
"سر مال آج رات تک شپ کے ذریعے جرمنی پہنچ جائے گا"
سمی ، مراد بہلول کا پرسنل گارڈ تھا۔ اسکے تمام دو نمبر کاموں میں وہ اسکا دائیاں ہاتھ تھا، سمی کو وہ کم ہی ملتا تھا۔ وہ اس سے فون پر رابطے میں رہتا تھا، لیکن آج وہ آفس آیا تھا۔
"دیکھو ایک بات ذہن میں رکھو۔۔۔ کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہیے، اور اپنے ان لوگوں کو کہو کہ اس جگہ کی پہرہ داری چھپ کر کریں۔ خوامخواہ کسی کو شک نہ ہو جائے"
بہلول نے بڑے رازدارانہ انداز میں اپنا کھٹکتا خدشہ ظاہر کیا تو سمی نے لاپرواہی سے مزین مسکان دی۔
"سر وہ جگہ سنسان ہے۔ وہاں انسان تو کیا، پرندے بھی کم آتے ہیں۔ آپ بے فکر رہیں، وہاں مکمل سیکورٹی ہے"
سمی نے مزید مطمئین کرنے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا۔ "ہاں کام ہوتے ہی مجھے اطلاع کرنا، میں تو چاہ رہا تھا ابھی کچھ ہفتے ہم اس کام کو روک دیتے کیونکہ ان آفیسرز کی ہم پر گہری نظر ہے۔ لیکن آڈرز سخت ہیں ،دیر نہیں کر سکتے"
بہلول نے سوچتے ہوئے فکر مندی سے بتایا، ناجانے یہ لوگ اب کس چیز کی سمگلنگ کا ارادہ بنا رہے تھے۔
"جی سر ٹھیک رہے گا سب، آپ بے فکر رہیں، میں خود جا کر سارا معاملہ دیکھوں گا"
سمی نے انکی فکر مکمل ہٹاتے ہوئے تسلی دی۔
"ہاں پر دیکھو گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیے۔ فی الحال میں کوئی سکینڈل افورڈ نہیں کر سکتا۔تم جانتے ہو مجھے جج بنانے کا سوچا جا رہا ہے۔ اس دن کا ناجانے کب سے مجھے انتظار تھا"
اگلے ہی لمحے بہلول کی آنکھیں ایک دلفریب خوشی سے چمکیں۔ سمی میں عام تنی سنجیدگی چھوڑ کر مسکرایا۔
"میں ہوں نا، آپ بے فکر رہیں"
سمی نے فخریہ اپنے آپ کا سہارہ پیش کیا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔ جاو تم اب "
بہلول نے اسے جانے کا کہا تو وہ فرمابرداری سے آفس سے نکل کر باہر چلا گیا۔
"ایک تو یہ مانی پتا نہیں کہاں مر گیا ہے، اسے کہا تھا چھپ جانا ۔ پتا نہیں کس کونے میں جا کر گھسا ہے"
اگلے ہی لمحے جنجھلاہٹ زدہ فکر کے زیر اثر اسے کچھ یاد آیا اور اس نے فورا سے آفس سے باہر نکلتے سمی کو دوبارہ فون ملا دیا۔
"سمی۔ بات سنو، اس کام کے ساتھ ساتھ تم اپنے دو بندے فارس کی تلاش پر لگاو۔ وہ کافی دن سے غائب ہے، رابطہ نہیں کیا اس نے۔ کہیں پکڑا نہ گیا ہو، سمجھ گئے ہو "
بہلول کے چہرے پر اپنے دوسرے بازو کی لمبی گمشدگی پر پریشانی سئ ابھری تھی۔
"ہاں اور مجھے انفارم کرو"
بہلول نے اسے نیا حکم جاری کرتے کہہ کر فون بند کر دیا۔ اور وہ اب کسی بہت خطرناک سی گہری سوچ میں مبتلا ہو چکا تھا۔
..__________________..
" کہاں ہو پرنسس"
وجدان گھر میں داخل ہوا تو ہر طرف خاموشی تھی، رباب کہیں نظر نہیں آ رہی تھی نہ بوا۔ وہ اوپر اسکے کمرے کی طرف چلا گیا تھا۔دو دن سے وہ رات کو گھر نہیں آیا تھا۔ وہ کمرے میں دیکھنے کے بعد ٹیرس کی طرف گیا تو اسے دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی رباب نظر آ ہی گئی، مسکراہٹ اسکے چہرے پر نکھر کر آ چکی تھی۔
"ہماری پرنسس یہاں ہے"
وہ اسے پکڑے اپنے سینے سے لگا کر اسکا ماتھا چومتے ہوئے دلفریبی لیے بولا تھا مگر اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ رباب مسکرائی ہی نہیں تھی۔
"کیا ہوا بچے، اداس کیوں ہو "
وہ فکر مند ہو کر بولا تھا، جانتا تھا کہ دو دن گھر نہ آنے کی وجہ سے اسکی یہ جان سے پیاری رباب اداس ہے مگر وہ یہ دو دن کئی ادھورے کام مکمل کرنے کی کوشش میں گھن چکر بنا ہوا تھا۔ ایک تو اسے ناجانے سمیر کے معاملے کی ٹنشن تھی دوسرا ریٹ کرنے کے معاملے پر کام کرنا اور پرمیشن کے تمام معاملات طے کرنا بھی ضروری تھا۔
"بھیا میں نے آپکو کتنا مس کیا، آپ اب تو گھر بھی نہیں آتے "
رباب کی رنجیدہ ترین معصومت پر وہ فدا ہی ہو گیا تھا، اسے رباب کی صورت دیکھ کر حقیقی آسودگی ملتی تھی۔
"میں نے بھی اپنی پرنسس کو بہت یاد کیا، اور گھر نہ آنے کے لیے سورئ۔آگے سے نہیں ہوگا ٹھیک ہے ناں، اب اپنے بھیا کو ایک سمائیل دو"
وہ اسے بہت پیار اور لاڈ سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے بولا تو اسکے چہرے کی بجھی اداسی بھی روشن مسکان بنی۔
"ٹھیک ہے۔ آپ میرے پاس رہا کریں، مجھے ڈر لگتا ہے"
وہ پھر سے بھائی کے ساتھ لگ کر اداسی سے بولی تو اسکی اس بات پر وجدان کو اب تھوڑی پریشانی ہوئی تھی۔
"بوا ہیں ناں تمہارے پاس، وہ ہنا بھی تو ہے۔میں بھی تو ہوں پاس، ایسے نہیں سوچنا اب۔۔۔ ویسے بھی ایک پولیس آفیسر کی بہن ہو، تھوڑی بہادر ہو جاو اب"
آخری بات پر وہ مغرور سا ہنسا تھا تو رباب بھی بھیا کے اس اترانے پر کھلکھلائی سی لگی۔ وجدان کی تو جان جسم میں دوبارہ لوٹ آئی تھی۔
"مجھے بوا اور ہنا بھی چاہئیں ، پر آپ سب سے زیادہ۔ میں گھبرا جاتی ہوں آپ سے"
وجدان اسے لاڈ سے ساتھ لگائے چلتا ہوا اس انوکھی بات پر شکے روم میں آیا اور اسے پاس بیٹھا کر خود بھی بیٹھ گیا، وجدان کی شفیق نرم نگاہیں رباب کے پر رونق مگر اداس سے چہرے پر سایہ فگن تھیں۔
"جیسا ہماری پرنسس کا حکم ، لیکن بھیا کی ایک بات یاد رکھنا"
وجدان نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اسکا اور اسکی نگاہوں کا رخ اپنی طرف کیا تو وہ بھی بھیا کو سننے کے لیے متوجہ ہوئی۔
"وہ کیا"
رباب نے تاسف زدہ ہو کر پوچھا۔
"میں چاہتا ہوں تم بہادر بنو، اتنی جتنی میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں "
وہ اب بے حد پر امید اور سنجیدہ تھا۔
"وہ تو میں ہوں ناں بھیا، میں کاکروچ سے آج تک نہیں ڈری۔۔ اور آپکو یاد ہے نا جب ہم نے مل کر سانپ کو مارا تھا"
رباب نے اچانک سے پر جوش ہو کر بتایا تو اسکی اس بہادری کی داستان پر وجدان بھی بے ساختہ مسکرا دیا۔
"بھئی، اس معاملے میں تو بلاشبہ آپ بہت بہادر ہیں جناب "
وہ سر جھکاتے ہوئے سینے پر ہاتھ باندھے بولا تو وہ بھی ہنستی ہوئی بھیا کے سینے سے جا لگی۔
"میرے پگلے بھیا"
وہ خود ہی کہہ کھلکھلا کر ہنس دی، اور وجدان تو اسکی یہ مسکراہٹ دیکھ کر جی اٹھتا تھا
"ایسے ہی ہنستی رہا کرو، اداس نہیں ہونا اب۔ بھیا ہمیشہ تمہارے پاس ہیں، میرا پیارا بچہ"
وہ اپنی اس اکلوتی کائنات سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن اسکی آنکھوں میں ایک فکر اور پریشانی بھی تھی۔ اس نے رباب کو بہت لاڈ سے پالا تھا، اسے ہر دکھ سے بچائے رکھا تھا۔ یہی دعا کرتا تھا کہ رباب تک آئیندہ بھی کسی دکھ کی تپش نہ پہنچے مگر پھر بھی وہ اسکی زندگی کو سیٹل کرنے کا خواہشمند تھا۔ وہ اسے ایک مضبوط لڑکی بنانا چاہتا تھا، جو دکھوں اور تکلیفوں سے لڑنا جانتئ ہو۔وہ مسکراتی ہوئی اس سے ناجانے کیا کیا باتیں کر تی رہی مگر وجدان کی سوچ کسی اور ہی سمت چلتی رہئ تھی، اسے رباب کی فکر اب پہلے سے مزید ہو رہی تھی۔
..____________________..
"مام۔ ابھی بھی آپ مجھے اگنور کر رہی ہیں، اب بس کریں پلیز"
وہ لان میں تھی جہاں کنزا لیپ ٹاپ پر کسی کام میں مصروف تھی۔ زالے کی بےزارگی سے آکر بیٹھتے ہوئے کہی جانے والی بات پر انہوں نے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹائی اور زالے کو دیکھا۔ جو آج گھر کے نارمل جینز شرٹ کے ڈھیلے ڈھالے خلیے میں تھی۔ جینز کے اوپر ہاف بازو والی ڈھیلی سی شرٹ اور بال کھلے تھے جو ہوا سے ہر طرف اڑ رہے تھے۔
"اگنور کے علاوہ اور کر بھئ کیا سکتی ہوں، میں تمہارے لیے کوئی سٹینڈ تو لے نہیں سکتی اور نہ تم نے اور بہلول نے مجھے کبھی اس قابل سمجھا ہے کہ میری کسی بات کی اہمیت ہو۔تو مجھے چپ ہی رہنے دو"
کنزا خاصی دل برداشتہ لگی تھیں، زالے کے چہرے پر مزید سختی اتر آئی تھی۔
"آپ تو ایسے کر رہی ہیں جیسے میں نے کسی کا قتل کر دیا ہو، کم آن مما سٹاپ دس "
زالے کی متذبذب اور الجھے انداز میں کہی بات سن کر کنزا نے اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے خفگی اور ناراضگی سے اس پر نگاہیں جمائے دیکھا۔
"وہ دن بھی دور نہیں۔۔۔ دیکھو زالے"
اس سے پہلے کہ کنزا مزید کچھ بولتیں، ملازم ہاتھ میں لینڈ لائن کا فون لیے سر پر آ پہنچا۔
"میم۔ ہادی سر کی کال ہے، وہ زالے میڈم سے بات کرنا چاہتے ہیں"
ملازم کے بتانے پر زالے نے منہ کا زاویہ خطرناک حد تک بگھاڑا، وہ ہادی کی کالز اپنے سیل فون پر نہیں پک کر رہی تھی تبھی وہ وہاں گھر کے فون پر کر رہا تھا۔
"مجھے نہیں لینا کوئی لیکچر "
وہ اس معاملے کو جان سے اتارے اٹھنے لگی تھی مگر کنزا کی طرف دیکھ کر بیٹھ گئی کیونکہ انکا چہرہ خاصا دکھی تاثر لیے اسکی جانب اٹھا تھا، چاروناچار زالے دوبارہ سے بیٹھ گئی۔
"لاو ادھر"
زالے نے منہ بناتے ہوئے فون پکڑ کر بے دلی لیے کان سے لگا لیا۔
"زالے۔ دو دن سے میں نے تمہیں کتنی کالزکی ہیں، تم نے ایک کا بھی جواب نہیں دیا۔ بہت دکھ ہے مجھے"
دوسری طرف لہجے میں شکستگی اور ناراضگی عود آئی تھی۔
"سوری میں فون دیکھ نہیں سکی، سائلنٹ کیا ہے"
زالے کی لاپرواہی کا ہادی کو بخوبئ علم تھا کیونکہ وہ بلکل بہلول جیسئ تھی۔ لاپرواہی اور بےحسی کا شہکار۔
"ہاں ظاہر ہے، اتنا بڑا کارنامہ کر کے فون سائلنٹ کرنا تو بنتا ہی تھا"
ہادی کے لہجے میں اب کی بار غصہ ہمکتا محسوس ہوا تو زالے کے چہرے پر بھی تناو پھیلا۔
"آپ نے بھی یہ طنز ہی کرنے ہیں تو میں رکھ دوں فون"
زالے کی اس بے مروتی پر تو ہادی کا دل چاہا اپنا ہی سر دیوار پے دے مارے۔
"تم جانتی ہو تم تباہی کی طرف جا رہی ہو، اور تمہارا یہ نافرمان لہجہ اس بات کا ثبوت ہے زالے۔ابھی بھی پلٹ آو، یہ راستہ صرف دلدل کی سمت جاتا ہے"
ہادی کو شدید افسوس تھا۔
"ٹھیک ہے بھائی، میں اپنے ہر کام کی خود ذمہ دار ہوں آپ ٹنشن نہ لیں"
زالے کے بھائی کی مخلصانہ فریاد پر اپنے زہریلے لفظوں سے پانی پھیرا تو ہادی سمیت کنزا بھی سامنے بیٹھیں افسوس میں ڈوبی دیکھائی دی تھیں۔
"میں تمہیں اس تباہئ میں جانے نہیں دے سکتا، میں جلد واپس آ رہا ہوں۔ بہت ہو گیا، اس سے زیادہ نہیں "
ہادی نے بھی اب کی بار غصے سے فون بند کر بمد کر دیا تھا۔ زالے نے مشتعل انداز اور ناگواری سے فون ٹیبل پٹخ کر اپنی آنکھیں شعلہ کیں اور اٹھ گئی۔
"آپ کا لاڈلہ اب میری پہرہ داری کرے گا۔،واہ"
وہ اچانک شدید طیش میں آ چکی تھی، کنزا نے اس پر ایک تلخ نظر ڈالی۔ اپنا لیپ ٹاپ اور فون آٹھایا اور زالے کو بنا دیکھے اندر چلی گئیں۔
"زندگی عذاب ہو گئی ہے، ان سب کہ منہ کبھی سیدھے ہو ہی نہیں سکتے"
زالے نے میز کو زور دار ٹانگ مار کر گرایا اور پیر پٹہتی خود بھی اندر چلی گئی۔
..____________________..
رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا، رفیق اور عادل دوربین کی مدد سے سامنے تاریکی میں ڈوبی عمارت کا معائنہ کر رہے تھے۔ عمارت کی سامنے کی طرف چار پانچ بلب لگے تھے، باقی اطراف میں کوئی روشنی موجود نہیں تھی۔ کچھ دیر پہلے ہی دو گاڑیاں گیڈ سے اندر گئی تھیں، اور خبر کے مطابق آج یہاں کوئی بڑی سمگلنگ ہونے والی تھی۔
"سر، ہم اندر جائیں؟"
رفیق نے اپنی پانچ رکنی ٹیم کے ہمراہ اجازت لینے کو سر گمائے وجدان کو دیکھتے کہا جس پر وجدان نے دوربین ہٹائے ایک گہری سانس لی۔
"ہاں۔ تم باہر سنبھالو، اور ہاں کچھ بھی گڑ بڑ نہیں ہونی چاہیے۔ آج ہمیں یہاں سے ثبوت ملیں گے، اس لیے سب اپنی نظریں اور اپنا دماغ کھول کر رکھو۔عادل تم میرے ساتھ آو گے، سب اپنی پوزیشن سنبھال لو "
وجدان نے اپنی گن لوڈ کرتے ہوئے سبکو ہدایت دیتے ہوئے محتاط رہنے کی تاکید کرتے ہوئے اپنے قدم بھی بڑھا دیے۔عادل اور وہ سول فل بلیک وردی میں تھے جبکہ باقی ٹیم رفیق سمیت عام وردی میں ملبوس تھی۔ وہ لوگ بلڈنگ کے قریب جا رہے تھے، سبکی نظریں سو فیصد الڑٹ تھیں۔ وہ لوگ پچھلی طرف سے اندر داخل ہوئے تھے، دو لوگ انھیں وہاں ٹہلتے نظر آئے تھے۔ وجدان نے اپنے آگے جانے والے کا تعاقب کیا اور جیسے ہی وہ مڑا اسکے منہ پر ہاتھ رکھے اسے اپنی بازو میں بھینچے دبوچ لیا۔ ہڈی ٹوٹنے کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے وہ آدمی زمین بوس ہو گیا۔ دوسرا آدمی ٹھیک ویسے ہی عادل کا نشانہ بنا۔رفیق اپنی ٹیم کے ساتھ بیرونی دروازے کے پاس تھا،انکا ٹارگٹ بلڈنگ کی چھت تھی جہاں پر معمولی ہلچل ہو رہی تھی۔
"اندر تو کافی لوگ موجود ہیں"
عادل نے کھڑکی کہ ایک کونے سے اندر جھانکا جہاں ایک تھری پیس سوٹڈ آدمی پشت کیے کھڑا تھا جبکہ اسکے سامنے دس بارہ لوگ تھے جو کاٹن کے ڈبے اٹھا کر باہر کی طرف لے جا رہے تھے، عادل کی تشویش بڑھی۔
"کوئی گڑ بڑ ہے، باہر دو آدمی مرے ہیں"
اندر سے کسی آدمی کی آواز وجدان اور عادل کو سنائی دی۔ وہ دونوں کھڑکی کے نیچے ہو گئے، اگلے دس سیکنڈ کے اندر اندر گولیوں کی آوازیں سنائی دیں۔ چھت پر موجود لوگ گولیاں برسا رہے تھے جبکہ باہر سے بھی بھرپور جوابی کاروائی سنائی دے رہی تھی۔ دس منٹ تک گولیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔
"سر چھت پر سبکو کلئیر کر دیا ہے"
رفیق نے کال کر کے وجدان کو اطلاع دی جس پر وجدان نے مزید آگے جانے کو قدم بڑھا دیے۔
"بھائی آپ رکیں، میں جاتا ہوں اندر"
عادل نے اپنی ٹیم کو اشارہ کرتے آگے بڑھنے کو کہا مگر وجدان نے نفی میں سر ہلایا۔
"ساتھ چلیں گے عادل، فالو می۔ ابھی میں تمہارا سینئر ہوں"
عادل نے ناچاہتے ہوئے بھی وجدان کی بات کے آگے سر ہلا دیا۔ اسی دوران بلڈنگ سے چھ سات آدمی باہر آئے ۔ عادل اور اسکی ٹیم نے بروقت کاروائی کی، وہ سب لوگ وہیں ڈھیڑ ہو گئے۔ اندر ابھی بھی کافی لوگ موجود تھے، وہ لوگ راستہ صاف کرتے ہوئے بلڈنگ میں داخل ہوئے، عادل اور اسکی ٹیم نے اپنی کاروائی جاری رکھی۔ اسی دوران وجدان کو گاڑی سٹارٹ ہونے کی آواز آئی تو وہ وہ چوکس ہوتا ہوا فورا باہر دوڑا، جہاں تین چار لوگ گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے جن میں وہ بلیک تھری پیس سوٹ والا آدمی بھی تھا۔ وجدان نے اپنی گن اس سوٹڈ آدمی پر تانی، وہ آدمی اسکے نشانے پر تھا مگر وجدان نے اسکی ٹانگ کو نشانہ بناتے ہوئے فائر کیا۔ وہ آدمی گر پڑا مگر اس سے پہلے وجدان اس تک پہنچتا ایک اڑتی ہوئی گولی وجدان کے آر پار ہو گئی، اسی دوران رفیق بھی باہر پہنچ چکا تھا۔ اس نے گاڑی کو کئی گولیاں ماریں مگر وہ آدمی اس تھری پیس سوٹ والے کو اٹھا کر گاڑی میں بٹھا چکے تھے، اور ہر ممکنہ کوشش کے باوجود وہ گاڑی فرار کرنے میں کامیاب ہو گئے، رفیق نے مڑ کر وجدان کو دیکھا جو خون میں لت پت ہو کر زمین بوس ہو چکا تھا۔ وہ پوری رفتار سے وجدان تک آیا مگر گولی نے اس شیر جوان پر بڑا ظالمانہ وار کر کے اسے دنیا سے بے گانہ کر دیا تھا۔ گولی اسکے چوڑے سینے کو چیڑ چکی تھی۔ رفیق کی آنکھوں میں نمی امڈی تو اس طرف آتی عادل کی ٹیم بھی صدمے میں غرق ہو گئی۔ انکے لیے تو بیٹھے بیٹھے قیامت برپا ہو گئی تھی۔
"سر بلڈنگ میں کئی لوگ زندہ گرفتار کر لیے ہیں، مال بھی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔۔۔ مگر"
عادل بے حد نڈھال سا ایمولنس میں تھا، اسکے سامنے وجدان تھا، بے جان سا۔ گولی ناجانے کہاں لگی تھی مگر اسکی آسمانی شرٹ خون سے سرخ ہو چکی تھی۔ اپنے سامنے اپنے جگر جیسے بھائی کو یوں دیکھ کر عادل کی آنکھیں نم سی ہو گئیں، فون پر بات کے دوران اسکی آواز کا اتار چڑھاو خاصی لرزش لے آیا تھا۔
"مگر کیا عادل؟۔۔۔۔۔ ٹیل می"
ساحر نے محتاط انداز لیے دل کے خدشے کو دل و دماغ سے جھٹکتے ہوئے پریشانی سے سوال کیا۔
"وجدان بھائی کو گولی لگ گئی ہے، بہت خون بہہ گیا ہے۔ میں انھیں ہوسپٹل لے کر جا رہا ہوں"
عادل نے اپنی آنکھوں کی نمی اپنے اندر اتارتے ہوئے ایک نظر بےحال وجدان پر ڈالی جسے ایک ڈاکٹر اور نرس ابتدائی ٹریٹمنٹ دے رہے تھے۔
"واٹ۔۔۔! او مائی گارڈ، ٹھیک ہے جلدی پہنچو، میں بھی آ رہا ہوں"
ساحر بھی اپنے چہرے کی رنجیدگی چھپا نہ پایا، فورا سے فون رکھ کر آفس سے باہر نکل گیا۔ وجدان کو آئی سی یو لے جایا گیا تھا،ڈاکٹرز کے مطابق خون کافی بہہ چکا تھا ۔گولی بھی دل کے بہت قریب لگی تھی، عادل کی حالت تو وہاں پہنچتے پہنچتے نہایت غیر ہو چکی تھی، اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے، اپنا ماتھا مسلتے ہوئے جیب سے فون نکالا اور ہنا کا نمبر ڈائیل کر دیا۔
"ہنا، تم رباب کے پاس چلی جاو"
ہنا نے بھائی کی آواز سے گڑبڑ کا اندازہ لگا لیا تھا، اسکی آواز کا بجھا پن تو ہنا کو بھی تشویش اور خوف میں مبتلا کر گیا تھا۔
"بھائی کیا ہوا ہے"
ہنا نے اپنے ڈوبتے دل کو ہر ممکنہ کوشش سے بحال کیے استفسار کیا۔
"وجدان بھائی کو گولی لگی ہے، تم ابھی رباب کو مت بتانا ۔ اس کے پاس چلی جاو، میری کال کا ویٹ کرنا تب تک اسے کچھ مت بتانا"
ہنا تو سنتے ہی وہیں گرنے کے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئی، عادل کہہ کر فون بند کر چکا تھا۔
"یااللہ وجدان بھائی کو اپنی حفاظت میں رکھیے گا، پلیز اللہ انھیں کچھ نہ ہو۔ رباب، بوا کو تو بتانا ہوگا"
اپنے دہلتے دل کے ساتھ ہنا نے روتے ہوئے دعا کی اور اپنی آنکھیں رگرتی ہوئی باہر نکل گئی۔
.._____________________..
"بوا۔۔۔۔۔ بوا"
ہنا آوازیں دیتی گھر کے اندر داخل ہوئی تو اسے فی الحال کوئی دیکھائی نہیں دیا تھا، مزید اندر گئی تو بوا آواز سنے فکر میں ہلکان ہوئی باہر آرہی تھیں۔
"بوا ۔۔۔ رباب کہاں ہے"
ہنا نے بوا کو دیکھتے ہی بے قراری سے پوچھا، بوا بھی اسکے چہرے کی اڑی رنگت اور بھیگی آنکھیں دیکھ کر دم سادھے اسکی جانب لپکیں۔
"وہ سو رہی تھی، ہوا کیا ہے ہنا بیٹا"
بوا نے اسے بتاتے ہوئے ساتھ اس بے قراری کی وجہ دریافت کرنی چاہی۔ ہنا نے ایک سرد آہ بھری۔
"شکر ہے وہ سو رہی ہے نہیں تو میں خود کو سنبھال نہ سکتی"
ہنا یہ کہتے ہی اگلے ہی لمحےرو دی، اب تو بوا کی بھی جان ہی نکل گئی۔
"ہنا تم میرا دل دہلا رہی ہو، بتاو تو ہوا کیا ہے"
بوا نے صوفے کا سہارا لے کر اس کی روتی آنکھیں دیکھتے ہوئے کہا۔
"وہ وجدان بھیا کو گولی لگ گئی ہے بوا۔۔۔۔۔"
ہنا کی آواز یہ بتاتے ہوئے لرز کر بوا کو بھی پتھر کر چکی تھیں مگر وہ دونوں ہی ہڑبڑا گئیں۔ایک زور دار چینخ نے ہنا اور بوا دونوں کا دل دہلا دیا تھا، سامنے رباب بے یقینی سے روتی ہوئی زمین پر گھٹنوں کے بل گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔
"رباب "
اسے یوں بے جان ہو کر گرتا دیکھ کر وہ دونوں بے اختیار اس کی طرف لپکیں۔
"نہیں، بھیا۔۔۔ کچھ نہیں ہوا۔۔۔ تم جھوٹ مت بولو، وہ مجھ سے مل کر گئے تھے دن کو۔۔۔ وہ ٹھیک ہیں سنا تم نے"
رباب کو ذہنی حالت اس خبر نے خطرناک تک تک رنجیدہ کر دی تھی جسے دیکھ کر بوا بھی آنکھیں نم کیے اسے سینے میں سمو گئیں۔
"ہاں میری جان وہ ٹھیک ہو جائیں گے، ایسے نہیں رو۔ ہم مل کر دعا کرتے ہیں"
ہنا نے بھی اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے اٹھا کر اوپر صوفے پر بٹھایا اور اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں میں بھرتے اپنی نم آواز کے سنگ تسلی دی تو وہ سہمی سی ہنا کے سینے سے لگ گئی تھی۔
"مجھے بھیا کے پاس لے جاو"
رباب کی ضد پر آخر ہنا اسے ہوسپٹل لے گئی تھی، سارے راستے رباب نے رو رو کر اپنا برا حال کر دیا تھا۔ہسپتال میں عادل ہنا کے ساتھ اس رورو کر اپنی آنکھیں اور ناک لال کرتی رباب کو دیکھ کر حیران اور خفا ہوا کیونکہ اس نے ہنا کو رباب سے یہ بات چھپانے کو کہا تھا۔ رباب تو آئی سی یو کے قریب کھڑے عادل کو دیکھ کر اپنی پوری رفتار سے اسکی سمت بھاگی۔
"میرے بھیا کہاں ہیں، وہ ٹھیک ہیں ناں۔ مجھے بھیا سے ملنا ہے "
عادل نے ہنا کو دیکھا تو خفا ہوا مگر وہ اسے اشارے میں اپنے ناکام ہونے کا بتا رہی تھی اور عادل کو بھی اس سے کچھ ایسی ہی امید تھی۔ رباب کا متورم چہرہ اور ڈوبی آواز سن کر تو عادل مزید رنجیدہ ہوا تھا۔ فورا سے پہلے عادل اسکا ہاتھ پکڑے ساتھ لگائے ایک موہوم سی تسلی دے رہا تھا۔
"ٹھیک ہو جائیں گے، ایسے رو نہیں رباب۔ بس دعا کرو"
وہ اسے بہت پیار سے کہنے کے بعد وہیں کرسی پر بیٹھاتے بولا اور ہنا بھی روتی ہوئی بھائی کے ساتھ آکر کندھے سے سر ٹکا گئی۔ ایک تو ٹنشن کی صورت حال اور اب وہ ان دونوں کا رونا دیکھ کر مزید بے چین ہو رہا تھا، اسے تو خود ابھی حوصلے کی اشد ضرورت تھی۔
"میرے بھیا، پلیز مجھے ان کو دیکھنا ہے۔ میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے"
رباب نے نظریں اٹھا کر عادل کو دیکھا جو اب بے بس سا دونوں کے درمیان بیٹھا ہوا خود بھی ہلکان ہو رہا تھا۔
"یہاں آو دونوں، پریشان نہیں ہو۔ ہم بھائی سے جلد ملیں گے"
اپنی دونوں بازو پھیلائے ان کو خود سے لگائے وہ انھیں سمجھانے کی کوشش میں تھا مگر فی الوقت وہ دونوں ہی بس روئے جا رہی تھیں۔
"تم تو ایسے ناں کرو ہنا، حوصلہ کرو "
اب تو عادل ہنا کی طرف رخ پھیرے باقاعدہ تاسف سے بولا تو ہنا نے بمشکل اپنی آنکھوں کی نمی ہٹا لی مگر حقیقت میں وہ دونوں ان معاملوں میں ایک جیسی نازک تھیں ۔
"پلیز یار بس کرو،سب خیر ہوگی۔ ہنا اسکا دھیان رکھو میں آتا ہوں"
ہنا کو رباب کے ساتھ بٹھائے، کھڑا ہو کر اسکی بدستور روتی پاگل نمی ہٹائے وہ اسے دیکھ کر تسلی دیتے ہوئے خود آئی سی یو روم کے قریب چلا گیا، کافی دیر ہو گئی تھی۔جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا رباب کے رونے میں اضافہ اور ہنا اور عادل کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی، آئی سی یو روم کے قریب جانے کی دیر تھی کہ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آئے۔
"ڈاکڑ کیسے ہیں بھائی"
عادل نے بے قرار ہوتے پوچھا تو ہنا اور رباب بھی دوڑ کر وہیں آ گئیں۔
"وہ بہت لکی ہیں، گولی دل کے بہت قریب لگی ہے پر اللہ نے بہت کرم کیا ہے۔ ہڈی بھی بچ گئی ہے، اگلے بارہ گھنٹے کریٹیکل ہیں۔ دعا کریں، فی الحال وہ کومہ میں ہیں"
ڈاکٹر اپنی طرف سے بہتری کی خبر سنا گیا تھا مگر اب تو خود عادل کی آنکھیں ضبط ہار گئی تھیں۔ ہنا اور رباب کی روتی مسکرائی آنکھیں دیکھ کر وہ بھی شکرگزاری کا کلمہ ادا کیے دونوں کے قریب آیا۔
"رباب وہ ٹھیک ہیں، مت رو۔۔ ہنا تم اسے گھر لے جاو یہاں تو اس نے رو رو کے خود کو آدھا کر لیا ہے"
عادل نے مصلحت انگیز فکر مندی کا اظہار کیا مگر رباب تو یہاں سے ہلنے تک کے لیے رضامند نہ تھی۔ عادل کی بات پر روئی سی ناں میں سر ہلا تھا۔
"میں بھیا کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی، میرے بھیا اتنی تکلیف میں ہیں"
پھر سے لہجے میں نمی گھلتی گئی۔
"جان سب ٹھیک ہو جائے گا، مت پریشان ہو"
اس روتو کو اب ہنا نے گلے لگا کر حوصلہ دیتے کہا مگر ابھئ یک لخت رباب کی تسلی ممکن نہ تھی، جب تک وہ وجدان کو ٹھیک دیکھ نہ لیتی تب تک اس نے صرف رونا تھا۔ عادل کو رباب کی فکر ہو رہی تھی کیونکہ وہ پھر سے بہت سخت طریقے سے روئے جا رہی تھی، ہنا کے بار بار کہنے کے باوجود بھی وہ ایک لمحے کے لیے بھی چپ نہیں ہو پائی تھی۔
..____________________..
زالے اور بہلول لاونچ میں ہی تھے، آج زالے کا ارادہ دوبارہ عاقب کی خبر گیری کا تھا، حقیقت میں وہ اسکی بے بسی کا تماشہ دیکھنا چاہتی تھی۔ مراد بہلول صاحب اپنے کسی کام کے سلسلے میں لیپ ٹاپ پر مصروف تھے، جبکہ زالے صوفے پر بیٹھی بے دلی سے چینل بدل رہی تھی۔
"زالے یہ ایک چینل پیچھے کرو"
بہلول کی اپنے کام سے ہٹی نظر اچانک ٹی وی پر پڑی تو وہ اسے بڑی حکمانہ ٹون میں مخاطب کیے بولے مگر زالے چینل بدل چکی تھی، پیچھے کرتے ہوئے وہ ڈیڈ کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات بھی بڑے انہماک سے دیکھ رہی تھی۔
"ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ آج سمگلنگ کی ایک بہت بڑی کوشش ناکام کر دی گئی ہے، ملک کے نادر ہتھیار اور اسلحہ دوسرے ممالک میں سمگل کیے جانے والے تھے۔ اسی آپریشن کے دوران سول انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے جانباز آفیسر شدید زخمی بھی ہو گئے ہیں"
ناجانے اس خبر میں ایسا کیا تھا کہ بہلول کے چہرے پر پسینہ آ چکا تھا، زالے تو سکرین پر کچھ دیر پہلے لائے جانے والے اس زخمی آفیسر کو بڑی توجہ طلب نگاہیں درج کیے دیکھ رہی تھی۔ بہلول نے جھٹ سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلتے ہوئے جیب سے اپنا فون نکالا مگر وہ آف تھا، ناجانے کب سے۔ اسکے چہرے پر شدید جھنجھلاہٹ اتری جو زالے نے بھی بخوبی دیکھی۔
"زالے چارجر لا کے دو جلدی"
بہلول تو باقاعدہ چلایا تھا، زالے نے بنا دیر کیے فورا ٹی وی کے قریب جا کر چارجر اٹھا کر بہلول کو تھمایا مگر وہ ابھی بھی ٹی وی ہی دیکھ رہی تھی۔
"جی ناظرین، ہم آپ کو دوبارہ بتاتے چلیں گے انسپکٹر عبداللہ وجدان کے سینے پر گولی لگی تھی۔ ابتدائی معلومات کے مطابق خون کافی بہہ چکا تھا، ملک کے تمام غداروں پر بھاری یہ آفیسر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔آپ سب سے دعاوں کی اپیل ہے"
زالے اب ٹی وی کے ساتھ ساتھ ڈیڈ کے تاثرات بھی دیکھ رہی تھی، جو بہت پریشانی کے عالم میں اپنا چارج پر لگایا فون آن کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے تھے۔
"ڈیڈ سب ٹھیک ہے ناں؟ یہ خبر سنتے ہی آپ اتنے پریشان کیوں ہو گئے ہیں"
زالے نے دل میں پلتے سوال کو زبان دیتے ہوئے اپنی نگاہیں ڈیڈ پر ثبت کیےاستفہامیہ ہوئے پوچھا مگر وہ تو یوں ہونق زدہ تھے کہ جیسے انھیں زالے کی آواز سنائی ہی نہیں دی تھی۔
"ابھی ہمارے ساتھ انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک اور اہل کار موجود ہیں ، آئیے ہم ان سے وجدان سر کے بارے میں جانتے ہیں"
وہ نیوز کا نمائندہ اب وردی میں ملبوس آفیسر رفیق کی طرف بڑھا تھا جو ہوسپٹل کے باہر کھڑا تھا۔ بہلول نے فون آن ہوتے ہی دیکھا وہاں سمی کی ستائس مس کالز تھیں، اور بھی کئی نمبروں سے مس کالز آئی تھیں۔ اس کا ماتھا ٹھنکا اور چہرے پر ناگواری لپیٹے کئی خوفزدہ رنگ پھیلتے چلے گئے۔
"ڈیڈ آپ مجھے پریشان کر رہے ہیں"
زالے نے کوئی جواب نہ پا کر اب اٹھ کر ڈیڈ کے قریب جاکر اپنی مشکوک سی نگاہیں ڈالے کریدا۔
"سب برباد ہو گیا ہے"
بہلول کی دھاڑ پر زالے بھی حیرت زدہ سی بہلول کو دیکھ رہی تھی جو اب بڑی بے تابی سے اپنا سر جکڑتا ہوا فون کان سے لگا چکا تھا۔
"ہم نے یہ آپریشن کامیابی سے پورا کیا ہے، مگر ہم اصل مجرم کو پکڑ نہیں سکے۔ لیکن ہم نے تمام اسلحہ اپنے قبضے میں کر لیا ہے، اس دوران ہی ہمارے آفیسر شدید زخمی ہوئے ہیں۔ مزید ہم وقت آنے پر آپ سے شئیر کریں گے شکریہ"
رفیق نے نیوز رپورٹر کو سرسری سا کہہ کر ٹالا اور کیمرے کی پہنچ سے نکل گیا۔ اب تو زالے بھی تشویش ناک سی ڈیڈ پر ایک خفا نظر ڈالے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی تھی۔
"ہیلو ،ہاں بولو۔ یہ کیا سن رہا ہوں میں"
زالے کی ہر بات اور شاید مکمل زالے تک کو فراموش کیے، بہلول وہاں سے دھاڑتا ہوا چلا گیا۔زالے تو اب شدید کوفت زدہ سی ڈیڈ کو جاتے دیکھ رہی تھی، نگاہیں پھر سے سامنے گئیں تو ابھی بھی وہی نیوز بار بار چل رہی تھی۔
"ڈیڈ نے میری بات سنی تک نہیں"
زالے کو رہ رہ کر غصہ آرہا تھا، مگر وہ اب غضبناک ہونے کے بجائے شک میں مبتلا ہوتے ہوئے اٹھ کر ڈیڈ کے روم کی طرف بڑھ گئی۔ اسے معاملے کی گہرائی جاننے کے لیے شدید تجسس گھیر چکا تھا۔
..____________________..
"کسی کام کے نہیں ہو تم ۔۔۔ سمی کہاں ہے۔۔۔ برباد کر دیا سب"
وہ اپنی سڈی روم میں آیا اور سخت تڑختے ہوئے فون پر دھاڑ کر دروازہ بند کر دیا۔ دوسری طرف ایک آدمی سمی کی گولی نکال کر اب مرہم پٹی کر رہا تھا.
"سر انھیں ٹانگ پر گولی لگ گئی تھی۔ پر ہم وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے، وہ میرے سامنے ہی ہیں۔ ڈاکٹر دیکھ رہا ہے"
وہ آدمی نے اپنے اڈے کی صورت حال بتاتے ہوئے خاصا محتاط تھا، وہ ایک خفیہ ملگجی اندھیرے میں ڈوبا ایک ٹوٹی پھوٹی اشیاء سے لدا کمرہ تھا۔
"اس انسپکٹر کو گولی کس نے ماری"
بہلول کی آنکھیں سرخ اور ماتھا بھیگ رہا تھا، خوف اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت تھی۔ گویا جسم میں اس بات کے باعث چیونٹیوں نے لوٹ کھسوٹ مچا رکھی تھی۔
"سمی سر نے۔۔۔۔"
بہلول نے اس ناقابل قبول بات پر اپنا سر ہاتھوں میں تھام لیا۔
"موت پڑے تم سب کو، اگر وہ بچ گیا تو تم سب کی موت پکی ہے۔ ہوش میں آئے تو اسے کہو فون کرے"
بہلول نے غصے سے فون دیوار پے دے مارا، مگر دروازے پر ہونے والی دستک پر وہ چونکا۔
"ڈیڈ۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک ہیں"
زالے کہاں جان چھوڑنے والوں میں سے تھی، عین اندر جھانکے خاصی جواب طلب ہوئے پوچھنے لگی۔
"کون تھا وہ آفیسر، اور کیا اس سمگلنگ کا آپ سے کوئی تعلق ہے۔ پلیز مجھے سچ بتائیے گا"
زالے کی آنکھوں میں الجھن دیکھ کر اسے اپنے ردعمل پر غصہ آیا جو وہ زالے کے سامنے پیش کر چکا تھا، اور اب اسے اپنی پوزیشن بھی کلئیر کرنی تھی۔
"کیسی باتیں کر رہی ہو۔بھلا میرا کیا تعلق ہوگا اس سب سے، ظاہر ہے بری خبر ہے۔اور وہ بچارا آفیسر نجانے کیسا ہوگا بس مجھے افسوس ہو رہا ہے۔میں بس اپنے لوگوں سے اس خبر کی تصدیق کروانا چاہ رہا تھا"
بہلول نے بظاہر نارمل ہوتے ہوئے تمام معاملے کو ہر ممکنہ حد تک دباتے بتایا مگر زالے کو ناجانے یقین نہیں آ پایا تھا۔
"ہممم۔۔ ہوپ سو ایسا ہی ہو"
وہ ہاں ناں کی کیفیت میں غیر مطمئین سی بولی تھی۔
"ایسا ہی ہے پرنسس، تم جاو سو جاو اب مجھے کچھ کام ہے"
آج تو زالے کو لگا کہ وہ اس سے جان چھڑواتے ہوئے بولے ہیں، مگر وہ چپ کر کے باہر آگئی تھی۔ٹی وی لاونچ میں دیکھا تو ملازم ٹی وی آف کر گیا تھا، تنھی اپنے کمرے تک آتے آتے وہ انہی سوچوں میں گم تھی۔ اس آفیسر کی شکل اسے ٹھیک سے نظر نہیں آئی تھی پر اسکی شرٹ خون سے بھری تھی۔ موت کا ایک نام سا اسکے ذہن میں لہرایا، ایسی دردناک موت کا سوچتے ہوئے اسکا بھی ماتھا تر ہونے لگا۔ کمرے میں پہنچ کر سائیڈ ٹیبل سے نیند کی ٹیبلٹ نکال کر کھائی اور لیٹ گئی مگر جب تک وہ سو نہیں گئی یہی سب اسکے دماغ میں گھوم رہا تھا۔
.._____________________..
"وجدان سر پر گولی چلانے والا جس گاڑی میں بھاگا تھا ہم نے اسکا نمبر نوٹ کر لیا تھا، اس نمبر پلیٹ کا فی الحال کوئی ریکارڈ نہیں مل رہا لیکن کوشش جاری ہے"
ساحر تمام تر تفصیل جمع کرانے کے بعد وجدان کو دیکھنے جانا چاہ رہا تھا مگر رفیق کہ بقول ابھی وہ قومہ میں تھا اور اس سے ملنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔
"اور کیا انفارمیشن ملی"
ساحر نے رفیق سے مزید پوچھا۔
"سر یہ بہت بڑی سمگلنگ ہونے جا رہی تھی، یہ لوگ اسلحہ جرمنی بھجوا کر وہاں سے خطرناک قسم کی ڈرگ یہاں منگوانے والے تھے۔ جس کے بعد تباہی یقینی تھی، ہم سب کی تیاری پکی تھی مگر یہ حادثہ ہو گیا"
تمام بات جواں مردی سے بتاتے نتاتے آخری بات پر رفیق کے لہجے میں بھی اداسی در آئی تھی۔
"پریشان مت ہو، وجدان ہمارا شیر ہے۔ یہ معمولی گولیاں اسکا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ یہ بتاو وہ جو بھاگا تھا وہ انکا ہیڈ تھا یا کوئی اسکے اوپر بھی تھا، اسکے لوگوں نے کچھ بتایا یا نہیں"
ساحر نے حوصلہ دینے کے ساتھ مزید معلومات لیتے اپنا ماتھا مسلتے استفسار کیا۔
"سر یہ سارے بےکار ہیں، انکو کسی کا نام نہیں پتا۔ ہاں جو بھاگا تھا وہ سمی تھا، شاید وہی انکا باس بھی ہو اور اسکے علاوہ ان سب کو کچھ نہیں پتا"
رفیق نے مایوس ہو کر بتایا تو ساحر بھی کچھ سوچتے ہوئے سر ہلانے لگا۔
"یہ لوگ اپنی انفارمیشن ان جیسوں کو نہیں دیتے رسک کا کام ہے، اس سمی کو پکڑیں گے تبھی معاملہ حل ہوگا کیونکہ ہو سکتا ہے سمگلنگ اور ڈرگ مافیا کا دوسرا ہاتھ یہ سمی نامی انسان ہو"
ساحر اپنے مطابق بہترین سوچ رہا تھا، ویسے بھی وہ ہر چیز کو بہت باریک بینی سے پرکھنے کے عادی تھے اور رفیق بھی پرسوچ سے انداز میں متفق تھا۔
"سر ہو سکتا ہے وجدان سر نے اس سمی کا چہرہ دیکھا ہو کیونکہ میں جب پہنچا تو وہ گاڑی میں بیٹھایا جا چکا تھا"
رفیق کی بات پر ساحر کی آنکھیں چمکیں، یہ ممکن ہو سکتا تھا۔
"بالکل مجھے بھی لگتا ہے وجدان ہی اس معاملے کو سلجھا سکتا ہے، بس وہ جلدی سے ٹھیک ہو جائے"
ساحر نے بھی دل سے دعا کی تھی، وہ کبھی بھی ناامید اور مایوس نہیں ہوتے تھے۔
"آمین۔۔۔۔ میں آپکے لیے چائے بھجواتا ہوں"
رفیق کے جاتے ہی ساحر دوبارہ سے کسی سوچ میں گم ہو چکا تھا۔
"وہیں لے چلو"
گارڈ نے زالے کو بیرونی طرف پورچ کی سمت آتے دیکھا تو سیدھے مودب ہو کر اسکے حکم پر کھڑے ہو گئے وہ شاید عاقب کو ملنے جا رہی تھی۔ دن چڑھ چکا تھا مگر ہر طرف گہرے بادل اپنا سایہ کیے ہوئے تھے تبھی دن کے وقت بھی شام سا سماں تھا۔ وہ بیک سیٹ پر براجمان ہو چکی تھی جبکہ آگے اسکے دونوں گارڈز تھے جو سفید اور کالے تھری پیس میں ہی ملبوس رہتے تھے، یہ شاید انکا یونیفارم تھا زالے نے گاڑی سے باہر دیکھا جہاں منظر تیزی سے بدلتےجا رہے تھے۔ کچھ دور جا کر زالے کی گاڑی کی سپیڈ کم ہوئی، سامنے سے دو تین بھیڑیں آ رہی تھیں جنکو بچانے کے لیے اسکے گارڈ نے سپیڈ بلکل کم کر دی تھی، اور اگلے ہی لمحے زالے کے کانوں میں ایک آواز پڑی۔سڑک کے دوسرے کنارے پر ہی شاید کوئی مسجد تھی جہاں سے وہ آواز آ رہی تھی۔
"گاڑی روکو"
زالے کے منہ سے بے اختیار نکلا، گارڈ نے مسجد سے کچھ فاصلے پر گاڑی روک دی۔آواز ابھی بھی آ رہی تھی مگر نہایت مدھم، زالے گاڑی سے اتر گئی۔ادھر ادھر دیکھا تو سامنے ایک مسجد دیکھائی دی جس پر زالے کے چہرے پر اک تلخی سی نمودار ہوئی، اس وقت وہ سیاہ لباس میں موجود تھی، یہ مسجد کی سمت سے آتی آواز نے اسے ناچاہتے ہوئے بھی جکڑ سا لیا۔
"تم لوگ یہیں رکو"
زالے نے باہر نکلتے ہوئے بے تاثر انداز سے کہا اور خود سڑک کو عبور کرتے ہوئے دوسری طرف چلی گئی۔
"نیکی کا راستہ اور بدی کا راستہ، یہ ہم ہیں جو ان کے درمیان تمیز کر کے اپنے لیے بہترین راہ چنتے ہیں۔ ایک طرف اللہ کا راستہ ہے جس کی منزل نا ختم ہونے والے انعام ہیں تو دوسرا راستہ بدی کا ہے جو ہمیں گمراہی کی دلدل میں بڑے سہل طریقے سے پہنچا دیتا ہے"
یہاں موجود ہر کوئی اس آواز سے آشنا تھا سوائے زالے مراد کے، وہ آواز جو صرف آواز نہ تھی، اسے لگا جیسے اسکے اندر کی تمام تر بے سکونی اس آواز نے یک لخت ہی جذب کر لی ہو۔ وہ اسی ٹرانس میں غرق چلتی چلتی مسجد کے دروازے تک پہنچ گئی تھی، اوراسکے پہنچتے ہی وہ آواز تھم چکی تھی۔
"اے اللہ اپنے اس عبداللہ پر اپنا رحم کر، یہ آواز جو تیری بارگاہ میں بلند ہوتی رہی ہے اسے بجھنے سے بچا لے"
اب آنے والی آواز کوئی اور تھی، زالے کے اندر کی بے چینی پہلے سے مزید تیز ہوئی۔
"بیٹی یہ مسجد ہے"
وہ اسی آوازکے سحر میں چلتی جا رپی تھی جب کسی شفیق سی آواز نے اسے متوجہ کیا۔زالے نے اس بزرگ کو دیکھا جو تین چار نمازیوں کے ساتھ باہر آئے تھے اور اب اپنی توجہ مکمل طور پر اس کھوئی سی بچی کی سمت مبذول کیے متوجہ تھے، زالے نے انکو ہونق بنے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیا مطلب۔
"یہاں دل کھول کر اور سر ڈھانپ کر آتے ہیں میرا بچہ، لو"
امام مسجد نے اپنی میٹھی سی آواز اور رسانیت سے تر لہجے میں کہہ کر اپنے کندھے پر رکھا اسکارف زالے کے سر پر اوڑھایا زالے کو لگا جیسے وہ بے جان پتھر ہے اور وہ جنبیش تک کی روادار نہیں رہی۔
"کیا بات ہے بیٹی، تم کسی کی تلاش میں آئی ہو"
امام مسجد نے شفقت سے اس نڈھال، اور زرد پڑتی لڑکی کی طرف دیکھتے ہوئے ملائم پن سے پوچھا مگر وہ تو شاید وہاں تھی ہی نہیں۔
"یہ آواز کس کی تھی"
لفظ بمشکل اسکی زبان سے ادا ہوئے، امام مسجد ہولے سے مسکرا دیے کیونکہ وہ سمجھ گئے تھے کہ وہ عبداللہ کی آواز کا کہہ رہی تھی۔ آج انہوں نے عبداللہ کا پرانا خطبہ ہی چلایا تھا، اسکی آواز میں ریکارڈ ہوا اور آج انہوں نے اسکی صحت یابی کے لیے خصوصی دعا بھی کروائی تھی۔
"اللہ کے بندے کی"
امام مسجد کی بات اسے واضع نہیں لگی تھی، جیسے وہ اس آواز کے مالک کا بتانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔
"تم کسی الجھن میں ہو، نماز پڑھا کرو۔۔۔ اللہ دل کا سکون دینے پر قادر ہے، جیتی رہو"
امام مسجد نے اسکے پتھرائے چہرے کو اور خاموشی کو کچھ دیر تسلی سے جانچا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہہ کر واپس اندر کی جانب بڑھ گئے ۔زالے وہاں موجود نہیں تھی، گہرا سناٹا پھٹ کر پھیلا اور اسکے سر میں اک ٹھیس سی اٹھی۔ بمشکل تھکے قدموں کے ساتھ وہ گاڑی تک واپس آئی، ربورٹ بنے سر سے وہ سکارف اتار کر گاڑی کے اندر رکھا۔
"میم آپ ٹھیک ہیں"
ایک گارڈ اسکی طرف آتے ہوئے اسکا بے جان چہرہ دیکھ کر فکر مندی سے بولا جس پر زالے نے مڑ کر اس مسجد کی سمت نگاہیں اٹھائیں۔
"تم لوگوں نے وہ آواز سنی تھی، جو اس مسجد سے آئی تھی۔ جلدی بتاو"
یک لخت زالے اپنے آپ میں آ گئی تھی، سختی سے وہ دونوں پر اچٹتی نگاہیں گاڑے سوال کر رہی تھی جس دونوں گارڈز نے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھا۔
"منہ سے پھوٹو بھی"
زالے انکے خاموشی پر چڑ گئی اور غصے سے ڈھاری۔
"جی میم میں نے سنی تھی، وہ جمعے کا خطبہ تھا۔۔ کیوں کیا ہوا"
گارڈ نے ڈرتے ڈرتے منمناتے ہوئے بتایا کیونکہ زالے کا موڈ ایک دم آگ برسانے لگ چکا تھا۔
"پتا کرو وہ کس کی آواز ہے، کون ہے وہ۔۔۔۔۔ فورا۔تم لوگوں نے نہ پتا کروایا تو میں تم دونوں کو یہیں شوٹ کر دوں گی"
زالے کی آنکھیں برہمی اور عتاب لال ہو رہی تھیں، گارڈز فرمابرداری سے سر ہلاتے مسجد کی طرف چلے گئے۔ زالے نے ان کے جاتے ہی اپنے سر کو دونوں ہاتھ سے پکڑ لیا اور گاڑی کے ساتھ درد میں مبتلا ہوئے بمشکل بیٹھی، وہی کیفیت۔۔۔۔ اسے لگا جیسے اسکا سر دردناک تکلیف سے پھٹ رہا ہو۔ وہ گاڑی کے دروازے سے لگی وہیں زمین پر بیٹھی ہوئی سر کو جکڑ رہی تھی، اپنے ہاتھوں سے ان نے اپنے سر کو جتنا دبایا، درد سر کی پھڑکتی شریانوں سے اسی شدت سے پھٹ کر باہر نکلا تھا۔
..______________________..
"ہنا تم اسے سمجھاو کہ یہ گھر چلی جائے"
عادل دونوں کے لیے چائے لایا تھا جس پر دونوں نے دھڑلے سے انکار کر دیا تھا، رباب تو اب بالکل ہی نڈھال ہو چکی تھی، دل و جان سے وہ بس وجدان کی زندگی اور عافیت چاہتی تھی۔
"بھیا رہنے دیں یہ نہیں مانے گی"
ہنا نے اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا، رباب ہنا کے کاندھے پر سر رکھے کبھی چپ ہوتی اور کبھی رو رہی تھی، ہنا کی اداسی سے کہی بات پر عادل نے بھی اک دکھی نگاہ رباب پر ثبت کی اور ایک آخری کوشش کرنے اسکے پاس بیٹھا۔
"رباب تم میری بات نہیں مانو گی کیا، میں ہوں ناں یہاں۔ تم دونوں گھر جاو، میں رات کو لینے آ جاوں گا پھر۔ بھائی تمہیں ایسے دیکھیں گے تو پریشان ہو جائیں گے"
عادل نے اپنی مزید کوشش کیے اس ننھی پری کی نازک بوجھل آنکھوں میں دیکھتے نرمی سے کہا مگر وہ تو ہنوز اپنے موقف پر ڈٹی تھی۔
"نہیں۔بھیا کب ٹھیک ہوں گے، مجھے ان سے ملنا ہے"
رباب کی آواز میں اسکے دل کا سارا قرب سمٹ آیا تھا، عادل نے ایک نظر ہنا کو دیکھا جو خود دلبرداشتہ سی ہو چکی تھی۔
"رات تک یا صبح تک دیکھنا وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے،حوصلہ رکھو"
عادل تو تسلی دے دے کر تھک چکا تھا، مگر وہ رباب کی تکلیف میں کمی نہیں کر سکا تھا۔
"مجھے ڈر لگ رہا ہے، میں نہیں رہ سکتی ان کے بغیر۔۔ آپ انکو کہیں ناں وہ ٹھیک ہو جائیں "
رباب کی حالت اب اس سے دیکھی نہیں جا رہی تھی، اس نازک پر اسکی ہمت سے بڑا دکھ تھا اسکا اندازہ عادل اور ہنا کو بخوبی تھا۔
"رباب ہم ہیں ناں تمہارے ساتھ اور کچھ نہیں ہوگا بھیا کو تم دیکھنا۔ایسی الٹی باتیں نہیں سوچو"
ہنا نے بھی اسے تھوڑے منصوعی مضبوط لہجے میں سمجھایا مگر وہ بس روئے جا رہی تھی۔ڈاکٹرز نے آج کی رات وجدان کے لیے اہم قرار دی تھیں بس دعائیں تھیں اور وہ یقینا قبول ہونے والی تھیں۔ دوسری طرف زالے کے گارڈز باہر آئے تو وہاں نہ زالے موجود تھی نہ گاڑی وہ دونوں ایک دوسرے کو پھٹے تاثرات سے دیکھ کر رہ گئے۔
.._____________________..
"کیا ہوا سعد"
سعد نے اچانک بریک لگائے گاڑی روکی تھی وہ فون پر کچھ دیکھ رہا تھا،خیلہ اسکے ساتھ ہی تھی تبھی تشویشناک ہوئے بولی۔
"زالے کا میسج آیا ہے کہہ رہی ہے عاقب کو دیکھ آو، اور اسکے گھر والوں کو اطلاع کرو کہ ہم سب گھومنے کے لیے نکلے ہیں اور یہاں سگنلز ویک ہونے کی وجہ سے رابطہ نہیں ہو پا رہا"
سعد نے لکھا ہوا میسج ترکی بہ ترکی تھوڑے حیران انداز میں اسے پڑھ کر سنایا جو خیلہ کو بھی تھوڑا شاک کر گیا۔
"ہمم، زالے کو اب چھوڑ دینا چاہیے۔ وہ خوامخواہ اس عاقب سے دشمنی مول لے رہی ہے"
سعد دوبارہ فون رکھے گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا اور کوئی نمبر بھی ملا رہا تھا، اسکی اس بات میں ہلکی پھلکی پریشانی تھی۔
"عاقب کے گھر اطلاع کر دیتا ہوں، ویسے ضرورت تو نہیں تھی"
عاقب بھی ایک امیر باپ کا اکلوتا اور بگھڑا بیٹا تھا، جس پر باپ نے پیسہ تو خوب لٹایا تھا مگر توجہ نہ دے سکا۔
"ہاں "
خیلہ نے رکھائی سے کہا جس پر سعد نے کوئی کال کی اور سارا معاملہ بتا کر فون بند کر دیا۔
"زالے کو سمجھاتے ہیں"
سعد بھی اب اس معاملے کو لے کر فکر مند تھا۔
"ہاں تم سمجھانا پلیز، اس سے پہلے کے اس سب کا انجام بھیانک ہو ہمیں اسے روک لینا چاہیے"
ان دونوں نے گاڑی عاقب کی طرف گما لی تھی، زالے کا آرڈر تھا لہذا فوری عمل درامد لازمی تھا۔
"تم جانتی ہو وہ سنتی ہم سبکو ہے پر کرتی وہی ہے جو وہ بہتر سمجھتی ہے۔ ہوسکتا ہے سمیر کا کیس حل ہونے تک وہ عاقب کو وہاں رکھنا چاہتی ہو، دیکھو ناں ہر اچھی اولاد بھی تو یہی چاہتی ہے کہ اپنے والد کی ریپوٹیشن کو خراب ہونے سے بچائے"
سعد نے گاڑی ایک سنسان سڑک کی طرف موڑتے ہوئے خیلہ کی فکر کے جواب میں مطمئین ہو کر کہا، موسم بھی خراب ہو رہا تھا۔ بادل چھا چکے تھے۔
"ہاں پر سب بکھر گیا سعد، ثانی بھی خفا ہے۔ اسکی کال آئی تھی وہ اپنے ڈیڈ کے ساتھ ہے۔کچھ دن تک وہ واپس چلے جائیں گے پھر ہی ملے گی"
خیلہ نے اداس ہوتے ہوئے بتایا.
"بھئی تم اور ایسی سڑی شکل، یہ کچھ ہضم نہیں ہوتا۔۔ تم لڑتی مرتی اچھی لگتی ہو یار"
سعد کی تلخ حالات کی کشیدگی کم کرنے کو کہی بات پر خیلہ نے اسے گھور کر دیکھا جیسے ابھی اسے کچا چپا جائے گی۔
"تم تو یہی چاہتے ہو مر جاوں، مریں میرے دشمن"
وہ ایسے بولی جیسے بس اس کے کہنے کی دیر ہو اور دشمن مرنے کے لیے لائن میں لگے ہوں۔ کیا رشک تھا کیا ادا اور تفاخر سے گردن اونچا کر کے اترانے کا انداز تھا، سعد بے ساختہ ہنس پڑا۔ کچھ دیر کی ڈرائیو پر وہ مقررہ جگہ پر پہنچ چکے تھے۔
" چلو اترو۔۔۔ عاقب صاحب کا دیدار کر لیں"
سعد نے گاڑی روکتے ہوئے مخظوظ ہوتے کہا، اور خیلہ کی شریر مسکان وصول کرتے ہی وہ لوگ اندر آئے جہاں دو گارڈز دروازے پر ہی چوکس کھڑے تھے۔عاقب نے سر جھکایا ہوا تھا، آہٹ پر غرانے کی کوشش کی گئی مگر وہ بندھا ہوا تھا اور منہ بھی بند تھا۔
"منہ کھولو اسکا"
خیلہ نے گارڈ کو کہا تو گارڈ نے فوری عاقب کا منہ کھول دیا جو اب حقارت سے دونوں کو گھور رہا تھا۔
"مجھے جانے دو ، وہ کمینی کہاں ہے۔مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں اس میں تبھی مجھے باندھ رکھا ہے۔ ایک دفعہ میں یہاں سے نکل جاوں قسم کھا رہا ہوں، تمہاری جان لے لوں گا زالے"
عاقب کے اندر اب نفرت پلنا شروع ہو چکی تھی، وہ ویسے بھی جذباتی تھا، تمام تر ہتک آمیزی اور حقارت لیے وہ تلملایا۔
"وہ نہیں آئی۔۔۔۔۔"
سعد نے بہت آرام دہ انداز میں یہ کہہ کر عاقب کو جبڑے بھینچنے پر اکسایا، عاقب کو رہ رہ کر زالے پر نفرت محسوس ہوئی جن میں اب ان دو کا بھی حصہ تھا۔
"اور تم دونوں آ گئے عاقب سکندر کا تماشہ دیکھنے "
اب کی بار عاقب کی آنکھوں میں شکایت سی تھی، اک بے بسی اور اک ہار جس نے خلیہ اور سعد کو بھی کچھ پل بوجھل کر کے رکھ دیا۔
"دیکھو عاقب! زالے جو کر رہی ہے ٹھیک ہے۔ ایک دفع یہ کیس ختم ہو جائے پھر وہ تم کو چھوڑ دے گی"
سعد نے اپنی طرف سے رسانیت کے سنگ اس خونخوار کو دھیما کرنا چاہا مگر عاقب نے پاوں کے ساتھ پڑے گلاس کو پوری قوت سے کک لگائے دیوار کو دے مارا۔
"تم لوگ بھی مر جاو، کیڑے پڑیں تم سب کو۔زالے کے زر خرید غلام بن گئے ہو سب"
عاقب کا بس چلتا تو انکا بھی گلا دبا دیتا، بلکے ہر ایک کو جلا کر بھسم کر دیتا۔
" ہم سب دوست ہیں"
خیلہ نے اس بپھرے آتش فشان کی سمت اداس سا ہو کر دیکھتے کہا تو عاقب کی آنکھیں غضبناک سرخ ہو گئیں۔
"بھاڑ میں جاو"
عاقب خلق تک چلا کر بولا تھا۔
"پہل تم نے کی تھی عاقل، دھوکہ دینا آسان ہوتا ہے لیکن اسکا انجام برداشت کرنا ویسے ہی تکلیف دہ جیسا تمہارے لیے ہے فی الحال "
سعد نے اسے اب آئینہ دیکھانا مناسب سمجھا تھا، اور مزید وہ اس بلا سے سر کھپانے کی کوئی ہمت نہ رکھتے تھے۔
"اسے کوئی تکلیف نہ ہو، اچھے سے خیال رکھو"
خیلہ یہ کہہ کر باہر نکل گئی مگر سعد جاتے جاتے سنجیدگی سے پلٹا۔
"عاقب! زالے بری نہیں ہے۔ اسکا انصاف کرنے کا طریقہ برا ہے، خیر میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ اپنے دل اور دماغ کو ٹھنڈا رکھو۔ جلد تم باہر آ جاو گے"
سعد کی بات پر وہ صرف جلبلا ہی سکتا تھا اور تو وہ ہر طرح سے بے بس ہی تھا۔
"دیکھ کیا رہے ہو کر دو منہ بند۔۔ "
سعد کے جانے کے بعد عاقب نے جل کر خاک ہوتے گارڈز کو بت بنا دیکھ کر کہا تو گارڈ منہ بناتے ہوئے اسکا منہ باندھنے لگا۔
.._____________________..
"وجدان صاحب کو ہوش آ چکا ہے لیکن پلیز آپ لوگ ان سے زیادہ باتیں مت کیجئے گا، انھیں ابھی کچھ وقت ریسٹ درکار ہے"
نو بجے کے قریب ڈاکٹر نے آکر ان تینوں کو بتایا تھا، دوسری طرف رفیق بھی موجود تھا ۔ سب کے لیے یہ بہت بڑی خوشی کی بات تھی کہ وجدان کو ہوش آچکا ہے۔
"یا اللہ تیرا شکر ہے"
عادل نے شکر گزار ہوتے ہوئے سر اٹھائے بے حد خوشی کا اظہار کیا مگر نظر ابھی پھر سے روتی رباب پر جا کر اسے اداس کر گئی۔
"بھیا کے پاس لے جائیں پلیز"
رباب کی بے چینی اب حد سے بڑھ گئی تھی، ڈاکٹر کے منع کرنے کے باوجود وہ چاروں کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے۔ ایک ہی دن میں وہ کافی مرجھایا لگ رہا تھا۔ آنکھیں بند تھیں، آہٹ پر کھلیں تو روتی رباب دوڑ کر احتیاط کے سنگ وجدان کے سینے سے لگ گئی۔ درد کی وجہ سے وہ تھوڑا بے چین ہوا مگر محسوس نہ ہونے دیا، اور وہ نان سٹاپ رونا شروع کر چکی تھی جبکہ ہنا عادل کے ساتھ لگی نم آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی ، رفیق بھی انہی کے ساتھ تھا.
"بھیا آپ نے تو میرئ جان نکال دی، بھیا آپ ٹھیک ہیں ناں۔ درد تو نہیں ہو رہا ۔آپ ۔۔"
اس سے پہلے کے وہ ہلکان ہو کر مزید کچھ پوچھتی وہ بمشکل سہی پر اپنی جھلی روتو پرمسکرا دیا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں میری جان، دیکھو ایک دم ہٹا کٹا ہوں۔کیوں بھئی جوانو! "
وجدان نے پہلے رباب کا ہاتھ پکڑ کر چومتے پورے بشاش پن سے کہا اور پھر ان تینوں کو دیکھ کر چہکا جو بدلے میں مسکرا رہے تھے۔
"بالکل ، ایک دم فٹ لگ رہے ہیں بھائی"
عادل بھی پاس آکر بیٹھ گیا اور اپنے پیارے سے وجدان کی بجھی صورت دیکھنے کے باوجود پورے ولولے سے مسکرایا، ہنا اور رفیق بھی مسکراتے ہوئے بیٹھ چکے تھے۔
"بھیا سچ بتائیں ناں آپکو پتا ہے میں کتنا ڈر گئی تھی۔ آپ کو میری زندگی بھی لگ----"
اس سے پہلے کے رباب یہ بے حد دلخراش بات کہتی، وجدان نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے روکا، اسکی بھی تو اس نازک سی رباب میں ہی جان تھی۔
"آئیندہ یہ بات سوچنا بھی مت، بس اب یہ رونا ختم۔ ۔۔ ٹھیک ہے"
وہ اسے پیار سے سمجھاتے بولا تو نا چاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
"میرے بہادر بھیا"
وہ بھی رباب تھی، روئی سی مسکرا دی اور اس دھوپ چھاوں کے امتزاج کا یہ حسین منظرسب کے ہونٹوں پر تبسم کی کرن جگا گیا تھا۔ وہ بھی جی اٹھا تھا لیکن اسکی مسکراہٹ تھوڑی تھکی سی تھی۔ کچھ دیر تک بوا بھی آئی تھیں، انکا بھی وجدان کو دیکھے بنا چین میں آنا ناممکن تھا۔ ڈاکٹرز کے مطابق اسے ایک دن مزید وہاں رکھنا تھا کیونکہ بہت مشکل سے اسے بچایا گیا تھا، زرا سی گولی آگے پیچھے ہو جاتی تو خدانخواستہ وجدان ان سب میں موجود نہ ہوتا۔
..____________________..
"میم۔۔۔ میم دروازہ کھولیں"
کمرے میں گھپ اندھیرا تھا جب کسی آہٹ پر وہ گویا مردہ پن سے بیدار ہوئی ، یک دم کمرہ ہلکی روشنی سے منور ہو گیا۔
"ہنہ۔۔۔۔۔ کیا ہے"
زالے نے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کے سنگ فرش سے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے تنی شکل لیے گارڈ کھڑا تھا۔
"میم آپ بنا بتائے آ گئی تھیں، بہلول سر غصہ ہو رہے تھے کہ ہم آپکو اکیلا چھوڑ آئے"
گارڈ نے سر جھکائے ہوئے پریشانی اور فکر برسائی جس پر زالے کی اکتاہٹ فطری تھی۔
"میں دیکھ لوں گی انھیں، کام کا کیا ہوا"
وہ بوجھل قدموں سے واپس اندر آ چکی تھی گارڈ بھی ہاتھ باندھے پیچھے پیچھے آ گیا تھا۔ زالے کے لہجے کا سوالیہ پن خاصا الجھا اور بے جان تھا۔
"میم وہ کسی عبداللہ نامی آدمی کی آواز تھی، جو وہاں اکثر خطبہ دینے اور کبھی اذان دینے آتا ہے"
گارڈ نے اپنی مسجد سے اکھٹی کی ہوئی معلومات سامنے پیش کرتے ہوئے کہا، زالے کے ماتھے پر تنفر اور برہمی نے پھر سے لکیریں نمودار کیں۔
"دل تو کر رہا ہے یہی گلدان اٹھا کر تمہارے منہ پے دے ماروں، یہ سب تو مجھے پتا ہے۔۔۔۔۔۔ کون ہے کہاں ہے کہاں ملے گا؟"
زالے نے اپنی بے چینی چھپاتے ہوئے لہجے کو زہر خند کر کے چینختے ہوئے کہا، اور گارڈ اسکے عتاب سے اب خوفزدہ تھا۔
"میم وہ۔۔۔۔ یہی پتا چلا ہے"
گارڈ نے ڈرتے ڈرتے بتایا۔
"لعنت ہو تم سب پر ، بےکار کچرا جمع کر رکھا ہے ڈیڈ نے۔۔۔ تم لوگ ایک آواز کا پتا نہیں کروا سکتے، چوڑیاں پہن لو پھر"
زالے کا غصہ آگ کی طرح شدت پکڑتا تھا، اور یہ شدت اسکے تاثرات بگھاڑنے لگتی تھی۔
"میم میں پتا کرواتا ہوں دوبارہ"
گارڈ نے منمناتے ہوئے مزید بے عزتی کا سامان بناتے کہا، اور وہ اس انداز پر مزید بھڑک گئی تھی۔
"دو دن کہ اندر اندر مجھے وہ انسان اپنے سامنے چاہیے، پکڑ کر لاو، اٹھا کر لاو یا جیسے بھی کر کے۔۔۔۔۔۔ سمجھے تم"
اب تو گارڈ کو بھی زالے کی دماغی حالت پر شبہ ہوا تھا، وہ دم بخود سا زالے کو اور اسکے حکم کو ہضم کرنے میں غرق تھا۔
"میم میں پوری کوشش کروں گا"
گارڈ فرمابرداری سے کہہ کر نکل گیا کیونکہ زالے کے ہاتھ کہ قریب ہی بہت بڑا گملا پڑا تھا۔
"کیا تھا تمہاری آواز میں، وہ سکون۔ہاں وہی جس کی تلاش میں نے چار سال کی عمر سے کرنی شروع کی تھی "
گارڈ کے جاتے ہی وہاں وہ آگ برساتی زالے نہیں تھی، ایک چپ سی زالے۔۔۔ سر جھکائے بیٹھتی ہوئی بے بس جسکی گویا چلتی کائنات رک گئی تھی۔ ایک ہاتھ سے دل کو سہلائے ،دوسرا ہاتھ ساتھ رکھے میز پر۔ ایک سرد آہ بھرتی ہوئی وہ چار سالا زالے۔ جس عمر میں کوئی غم کوئی فکر نہیں ہوتی لیکن اسے کئی غم کئی فکریں تھیں۔ اسے غم تھا اکیلا ہونے کا، اسے فکر ہوتی تھی کہ کہیں وہ اپنے کسی دوست کو زخمی نہ کر دے۔ اسے اس عمر میں بھی صرف بے سکونی میسر تھی۔راتوں کو ڈر جانے والی زالے مراد اپنے قریب چند کھلونے اور بے جان تکیے ہی دیکھتی تھی۔ نہ ماں نہ باپ کی تھپکی، اس سے پہلے تک وہ ہادی ایک کمرے میں رہتے تھے۔ پھر دونوں کا کمرہ الگ کر دیا گیا اور زالے سے یہ آخری تسلی بھی چھین لی گئی۔ پہلی بار جب وہ پانچویں جماعت میں تھی تو اس نے نیند کی گولی لی اور سکون تلاش کرنے کا یہ سفر آج تک جاری تھا مگر وہ آواز! زالے کو محسوس ہوا جیسے وہ سن ہو جائے گی۔ اسکی نبض تھم جائے گی، اسکا وجود خلاء میں منتشر ہو جائے گا۔لیکن وہ آواز اسے اپنے اندر سمیٹنے لگی، اسکے اندر سکون دوڑنے لگا۔مگر یہ انتہائی مختصر عمل تھا کیونکہ اس آواز کے تھمتے ہی وہی بے سکونی تھی وہی فرار تھا۔ زالے نے سر دیوار سے لگا لیا، یہی تو تھی اسکی واحد غمگسار۔
"کچھ دیر گھر جا کر ریسٹ کر لو پرنسس، دیکھو تمہاری وجہ سے ہنا بھی جانے کو تیار نہیں"
صبح صبح وہ سب پھر سے وجدان کو دیکھنے آئے تھے۔ آج کی رات پھر وہ سب وہیں رکے تھے، بس عادل کچھ دیر کے لیے گھر اور پھر آفس گیا تھا کیونکہ سمیر کی کورٹ میں ہیرنگ تھی۔
"بھیا آپ کو چھوڑ کر نہیں جاوں گی"
رباب اسکا ہاتھ پکڑے ناجانے کی ہنوز ضد پکڑے منہ پھلائے بیٹھی تھی اور ہنا فروٹ کاٹ کر وجدان کو دے رہی تھی۔
"تم پہنچو میں بھی دیکھنا رات تک آ جاوں گا"
وجدان نے اسے سمجھایا جو اپنے فیصلے سے زرا بھی نہیں ہل رہی تھی، اب تو اسکی نازک آنکھیں متورم ہو کر وجدان کو بھی فکر مند کر رہی تھیں۔
"رباب، بھائی ٹھیک کہہ رہے ہیں۔میں انکو آج لے آوں گا، تم اور ہنا رفیق کے ساتھ گھر جاو"
عادل نے بھی اپنی ایک اور کوشش کی، اور توقع کے برعکس رباب کو قائل دیکھ کر سبھی کو تسلی ہوئی۔
"ٹھیک ہے لیکن اگر آپ نہ آئے تو میں نے دوبارہ آجانا ہے، ٹھیک ہے ناں"
وہ معصومت سے وارننگ دیتے ہوئے بولی تو وجدان اس کل کائنات کی اس حسین دھمکی پر شریر سا مسکا دیا۔
"ٹھیک ہے محترمہ جو آپکا حکم"
وجدان نے بھی پوری محبت لٹائے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ رفیق ان دونوں کو لے کر چلا گیا۔
"ساحر سر آئے تھے آپ سے ملنے،آپ سو رہے تھے"
عادل نے ان دو کے جاتے ہی وجدان کو ہلکی سی ٹیک لگواتے بتایا۔
"جگا لیتے ناں"
وجدان نے سیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے فکر سے کہا، ضرور ساحر سے وہ خود بھی ملنا چاہتا تھا۔
"ڈاکٹرز کے سخت آرڈر ہیں کہ آپکو نیند سے نہ جگایا جائے اور ہادی بھائی کی بھی کال آئی تھی۔ وہ ایک دو ہفتے تک واپس آ رہے ہیں"
عادل کی بات پر سنجیدہ سے وجدان کو ہنسی سی آگئی، جس پر عادل کو خوشگوار سی حیرت نے گھیرا۔
"ہنسی کس لیے جناب"
عادل نے تجس سے گوڈے گوڈے ڈوبتے پوچھا، ویسے اسکے بوجھل چہرے پر اس ہنسی نے آکر اک خوبصورت کام سرانجام دیا تھا۔
"بھئی میں تمہاری بی بی نیوز سی والی کوالٹی پر مسکرا رہا ہوں، یہ جو خبریں دے رہے ہو"
وجدان کا گدگدی دیتا تبسم اب عادل کو بھی ہنسا گیا۔
"ہاں وہ سمیر کے کیس کا کیا ہوا؟"
وجدان کو اچانک ہی ہنسی سے فارغ ہوتے ہوئے کچھ یاد آیا، جس پر وہ اب سنجیدہ ہو چکا تھا۔
"آج اس نے کورٹ میں بیان دے دیا ہے، اس عاقب کی تلاش کا حکم دیا گیا ہے۔اور اس سب میں زالے مراد اور اسکے والد سے پوچھ گچھ کرنے کا بھی آرڈر ملا ہے"
عادل نے ہئیرنگ کا بتایا تو وجدان کے چہرے پر یہ خبر سن کر اطمینان سا آیا۔
"بھائی ایک اور نیوز بھی ہے، مراد بہلول کو جج کے عہدے کے لیے نامینیٹ کیا گیا ہے لیکن آج کے آرڈز کے بعد وہ لوگ اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کا سوچ رہے ہیں"
عادل واقع اسے فل ابڈیٹ کر رہا تھا، جسکی ابھی وجدان کو بھی اشد ضرورت تھی۔
"ہمم، لگتا ہے مراد بہلول سے ملاقات کا وقت آ گیا ہے"
وجدان کی اس بات پر عادل تھوڑا چونکا، جناب ابھی سے کاموں کو پیارا ہونے کئ حسرت میں ڈوبے جا رہے تھے جو سراسر ممنوع تھا۔
"ابھی تو آپ دو ہفتے گھر پے ہیں، کوئی کام نہیں۔۔ ارسلان سر کے سخت آرڈز ہیں"
عادل اپنے روایتی انداز میں منصوعی دادی امی بنا نہایت کیوٹ لگا، اور دو ہفتے کا سن کر تو مقابل غش آ چکا تھا۔
"ھائے دو ہفتے۔۔۔۔ نہیں یار یہ تو بہت زیادہ ہیں، آج تو میں کافی بہتر فیل کر رہا ہوں، دو ہفتوں میں تو زنگ لگ جانا مجھے"
وجدان کی معصومت پر وہ بھی ہنس دیا، تبسم کی چاشنی حسین تر ہوئی۔
"ارے اب ایسی بھی کوئی بات نہیں آرام آپ کے لیے اہم ہے بھائی، چلیں اب آپ آرام کریں میں آپکے ڈسچارج ہونے کی بات کر کے آتا ہوں"
عادل اچھے سے حکم دیے کہہ کر باہر نکل گیا، اور اسکے جاتے ہی وجدان نے بھی اپنی آنکھیں موندھ لیں۔
.._____________________..
"کتنا ٹائم ہو گیا ہے تمہیں میرے ساتھ سمی"
بہلول سمی سے ملنے اڈے پے آیا تھا، آج کا تو دن ہی منحوس تھا کیونکہ صبح صبح بری خبر ملی تھی۔ بہلول کا لہجہ تیکھا اور ناپسند تھا۔
"میں بہت شرمندہ ہوں"
وہ کرسی پر اپنی ایک ٹانگ پھیلائے زخمی اور ہارا انداز لیے بیٹھا تھا ، بہلول نے اس معافی کی درخواست کو چنداں اہمیت نہ دیتے ہوئے کھا جانے والے انداز میں اسے گھورا۔
"نہیں، شرمندہ تو میں ہوں کہ تم سب نکمے پال رکھے ہیں۔ تمہیں کیا ضرورت تھی اس پر گولی چلانے کی اور اگر چلائی بھی تھی تو تمہارا نشانہ کیسے چوک گیا۔۔۔۔ جواب دو"
بہلول کو اپنی گردن اب تنگ ہوتی واضع دیکھائی دے رہی تھی، تیوری چڑھائے وہ اس سے جواب چاہتا تھا جو اتنا بہترین شارپ شوٹر ہونے کے باوجود اپنی درگت کے ساتھ بہلول پر بھی مصیبت سایہ فگن کرنے کے بعد پشیمانی میں مبتلا تھا۔
"سر نشانہ تو ٹھیک تھا"
سمی منمنایا، جیسے اپنے آپ کو بری الذمہ کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ بھول رہا تھا کہ وہ کس فرعون صفت کے روبرو یہ نہایت غیر منظور بہانہ بنا بیٹھا تھا۔
"ہاں بالکل،یہ تو گولی نے سوچا ہوگا کہ چلو تھوڑی ڈسکو کرتے ہوئے ٹیڑھی ہو جاوں۔۔۔۔۔ "
بہلول کی طنزیہ بات اسے شرمندہ کر گئی تھی، واقعی پہلی بار اسکا نشانہ چوک گیا تھا۔
"وہ بچ گیا ہے، اب دیکھنا ہماری بربادی کے دن شروع۔اس نے تمہیں دیکھا تھا، اب یہ مت کہنا کہ تم نے منہ نہیں چھپایا تھا"
بہلول کی آنکھوں میں غضب نظر آ رہا تھا، دل میں الگ ہول اٹھ رہے تھے۔ خود پر بہلول کی اچٹتی نگاہ پائے سمی کے چھکے چھوٹ چکے تھے کیونکہ وجدان نے اسے دیکھ لیا تھا اور یہ بات بہلول کو بتاتے اسے موت آرہی تھی۔
"سر وہ----"
وہ پھر سے منمنایا، اور بہلول کا دل چاہا اب اس ادھ موئے کو بالکل زمین کے اندر گاڑ دے۔
"لعنت ہو تم سب پر، مال بھی چلا گیا اور پارٹی کو الگ ہاتھ جوڑ کر منانا پڑ رہا ہے اور تو اور میرا جج بننے کا خواب بھی دھواں کر دیا تم سب نے، عزت الگ خطرے میں ہے"
بہلول نے سر ہاتھوں میں لے کر اپنے لاوئے جیسے غضب کو روکے اپنی قسمت کو کوسا، اسکی آنکھوں میں وافع خوف و یاس تھا۔
"سر آپ ٹنشن نہ لیں، سب کنٹرول میں آجائے گا"
مالک کی ایسی خون آشام نگاہوں کے باوجود سمی نے بولنے کی جسارت کی۔
"تم اپنی بکواس بند کرو، اور کان کھول کر سنو۔ اگر تمہاری اس غلطی کا نقصان مجھے ہوا تو تمہاری موت میرے ہاتھوں ہو گی سمی سمجھ گئے ہو"
بہلول خون خوار نظروں سے اپنی انگشت شہادت ہوا میں لہرائے دبنگ انداز سے تنبیہی ہوئے غرایا اور سمی کے بس میں ابھی سر جھکا کر سر ہلانے کے سوا کچھ نہ تھا۔
"چلو"
وہ آگ برساتا ہوا ڈرائیور کو بولتے ہوئے وہاں سے نکلا اور سمی کے چہرے کا سارا لہو اسکے چہرے پر ناچا، ناجانے کس ضبط سے وہ اپنی بے بسی برداشت کر گیا۔
"سر آپ ٹھیک ہیں"
سمی کا آدمی اسکی غیر ہوئی حالت بھانپتے مصالحت سے اسکی سمت بڑھا جو جبڑے بھینچے اپنے بال نوچتے ہوئے بے ربط سانسیں لے رہا تھا۔
"زلیل ہو کر رہ گیا ہوں، ٹھیک کیا ہونا ہے"
وہ بھی ٹانگ ہلاتے ہوئے کراہ کر رہ گیا، اب گردنوں کے دبوچے جانے کا وقت عنقریب تھا۔
.._____________________..
"کیا واقعی؟"
زالے کے چہرے پر اسقدر حیرانگی نہیں تھی جتنی ہونی چاہیے تھی، وہ اس بات کو بہت معمولی لیے بے نیاز سی لگی۔ ڈارک گرے اینڈ لیمن ٹاپ اینڈ بلیک جینز میں وہ گھر کے عام سے خلیے میں بھی حسین لگ رہی تھی۔
"ہاں وہ سمیر تو پیٹ کا نہایت ہلکا نکلا، سب سچ سچ پھوٹ دیا اس نے۔عاقب کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے ہیں، کہاں ہے وہ"
مراد بہلول چہرے سے خاصا فکر مند دیکھائی دے رہا تھا، بلکے فکر کے بجائے اب وہ کہیں اندر سے سہما ہوا تھا۔
"عاقب وہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہیے، اس نے زالے مراد کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اس لیے اسے سزا دینے کا حق بھی میرا ہے"
وہ نہایت نارمل لہجے میں بول رہی تھی، بہلول اب مزید کوئی رسک لینے کی پوزیشن میں ہرگز نہ تھا۔
"نہیں تم اسے چھوڑ دو، اچھا ہے اسے سزا ملے، ہماری جان تو چھوٹے۔ ورنہ یہ انویسٹیگیشن آفیسرز ہماری جان کو آ جائیں گے"
بہلول نے پہلے ہی خطرے سے آگاہ کیا، اسکے ہر انداز کو زالے نے حیرت سے ہضم کیا، اسے واقعئ ہنسی آئی۔
"ڈیڈ آپ ان سے ڈر رہے ہیں"
زالے نے لطف اندوز ہوتے پوچھا، وہ پہلی بار ڈیڈ کے چہرے کی اڑئی رنگت کو ملاحظہ کر رہی تھی لہذا تجسس تو فطری تھا۔
"دیکھو پرنسس، جب معاملہ کئیریر اور عزت کا ہو تو ڈرنا پڑتا ہے۔ اور تم تو جانتی ہو ان پولیس والوں کی نا دوستی اچھی نہ دشمنی"
وہ بھی نارمل لہجے میں بات کو حد درجہ معمولی پیش کیے تفاخر سے اپنی گردن اکڑائے بولا۔
"تبھی ہادی بھیا سے آپکی اور میری نہیں بنتی"
اس بے ساختہ درآمد ہوئی بات پر وہ دونوں ایک سا ہنسے اور ان دونوں کو گھورتی کنزا اپنا دل جلائے اندر کو مڑ گئی۔
"عین موقع پر تمہاری مدر کی انٹری بھئ قابل داد ہے"
بہلول اب لطف لیتے بولا تو زالے نے بھی مزے سے ہنس کر سر ہلا دیا۔
..____________________..
وجدان کو ڈاکٹرز نے ڈسچارج تو کر دیا تھا مگر ہدایات کی ایک لمبی فہرست بھی تھما دی تھی۔ وجدان کے گھر آنے سے پہلے ہی تمام لوگ وہاں موجود تھے۔ ساحر بھی اپنی وائف اور بیٹی کے ہمراہ عیادت کے لیے آیا تھا۔احمد صاحب بھی عادل اور ہنا کے ساتھ آئے تھے۔ رفیق کیونکہ ابھی کنوارا تھا اس لیے وہ اکیلا ہی آیا تھا۔ کھانے کے بعد وہ سب لان میں بیٹھے تھے۔بوا بھی آج مطمئین تھیں اور رباب بھائی کو مسکراتا اور اچھے سے باتیں کرتا دیکھ کر خوش تھی۔ ڈاکٹرز نے وجدان کو ابھی بھی زیادہ بیٹھنے اور چلنے سے منع کیا تھا مگر وہ کافی دیر سب کے ساتھ انھیں کمپنی دیتا رہا تھا۔
"ویسے یہ موقع تو نہیں ہے مگر کیا تم نے اس گولی چلانے والے کو دیکھا تھا"
اب لان میں صرف مرد حضرات ہی تھے، باقی خواتین اندر کچن میں سوئیٹ ڈش لینے گئی تھیں۔ ساحر اس معاملے کو زیادہ طول دینا مناسب نہ سمجھ رہا تھا تبھی پوچھ رہا تھا اور جواب انکی توقع کے عین مطابق تھا۔
"ہاں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔ "
وجدان کا جواب سب کے لیے اچھی خبر تھا، یعنی سمی پر گھیرا تنگ کرنے کا ایک بڑا سراغ مل چکا تھا۔
"مطلب تم اسکا سکیچ بنوا سکتے ہو، تو ٹھیک ہے کل رفیق سکیچ آرٹسٹ کو لے آئے گا یہیں"
ساحر نے کہا تو وجدان نے ہاں میں سر ہلایا، باقی سب بھی اس سے متفق تھے۔ خود وجدان چاہتا تھا کہ جتنی جلدی یہ گھٹیا لوگ عبرت کو پہنچیں اتنا اچھا تھا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ پھر اسکے بعد"
وجدان نے مزید آگے کا لائحہ عمل بھی بے تابی سے دریافت کیا۔
"اسکے بعد ہمیں اس گاڑی کی مکمل انفارمیشن بھی مل چکی ہے، وہ کسی سمی خان کے نام پر رجسٹر ہے۔اگر اسکا اسکیچ مل جائے تو کافی کچھ ہمارے ہاتھ لگ جائے گا"
احمد صاحب انکی باتیں بڑے انہماک سے سن رہے تھے، معاملہ تو بہت سبک روئی سے طے پا رہا تھا جو ایک اچھی خبر تھی۔
" یہ کیا، آج بھی آپ سب نے یہ بورنگ باتیں شروع کر دیں۔۔ دو ہفتے تک آپ نے سوچنا بھی نہیں ان مرنے مارنے والے کاموں کو"
خواتین سویٹ ڈشز لے کر آچکی تھیں، اور رباب کی اس دبنگ بات ہر پر ہر طرف پھیلی سنجیدگی بہت خوبصورتی سے ہٹ کر مسکراہٹ بن چکی تھی۔
..____________________..
"تم گھر جا سکتے ہو لیکن شہر چھوڑنے کا مت سوچنا، جب تک اصل مجرم نہیں مل جاتا تب تک ہماری نظریں تم پر رہیں گی"
سمیر کو آج جیل سے رہا کیا جا رہا تھا لیکن اس کا کیس ابھی مکمل بند نہیں ہوا تھا۔
"وجدان کی وجہ سے تمہیں کافی رعایت دی گئی ہے ورنہ کسی اور کا الزام اپنے سر لینے کی بھی ایک سزا ہے"
ساحر اسے سختی سے پیشہ وارانہ انداز میں قانونی اطوار بتا رہا تھا اور سمیر غائبانہ سا اس فرشتہ صفت آفیسر کے متعلق سوچ رہا تھا، جس نے اسے سیدھا راستہ دیکھایا تھا۔
"وہ ٹھیک ہیں ناں"
سمیر نے دھیمے سے پوچھا، لہجے میں اک احساس تھا.
"ہاں بہتر ہے"
ساحر کا لہجہ سنجیدہ اور سپاٹ ترین تھا پر پھر بھی سمیر کو تسلی دے گیا۔
"میں ان سے مل کر انکا شکریہ ضرور ادا کروں گا، انکا مجھ پر بہت بڑا احسان ہے"
سمیر کی عقل کافی حد تک ٹھکانے پے آچکی تھی، ساحر کو یہ بات سن کر خوشی ہوئی۔
"کرنا بھی چاہیے اور آگے سے اس سب سے دور رہنے کی کوشش بھی کرنا۔ان کیسیز میں جو کوئی ایک بار پھنستا ہے تو نکل نہیں سکتا۔ تم خوش قسمت تھے کہ تمہیں وجدان کی نصیحت وقت پر سمجھ آگئی، جاو "
ساحر نے اسے رسانیت سے تمام تر بات کہی اور ساحر کے بھیجنے پر وہ کچھ دیر خاموشی سے کھڑا رہا اور پھر سر جھکائے باہر نکل گیا۔
"اسلام علیکم "
عادل آج لیٹ آیا تھا، وہ وجدان کے ساتھ تھا۔
"معافی چاہتا ہوں سر دیر ہوگئی"
عادل نے دیری کی معذرت کے سنگ کہا تو ساحر اس سادگی پر مسکرا دیا۔
"تم مجھے بھی بھائی کہہ سکتے ہو، اور لیٹ ہونے کی اجازت ہے ویسے بھی وجدان کو تمہاری زیادہ ضرورت ہے آجکل۔۔۔ ٹھیک ہے وہ؟"
ساحر بھی ان سب کی طرح کافی خوش مزاج تھا مگر وہ زیادہ تر سنجیدہ رہتا تھا۔
"کافی بہتر ہیں ۔۔۔ جناب واک کر رہے تھے جب میں گیا"
اس بات پر وہ دونوں مسکرا دیے، رفیق دونوں کے لیے ناشتہ بھی لے آیا۔
"بھئی اب اس میں چین سے بیٹھے والا مادہ نہیں ہے تو کیا کیا جا سکتا ہے"
ساحر بھی ہلکے پھلکے انداز میں بول کر مسکرا دیا، دونوں پیارے سے وجدان صاحب کی بے آرام مٹی کی قصیدہ گوئی کرتے خاصے شریر اور پیارے لگے۔
صبح اسکی آنکھ کھلی تو کوئی سرہانے بیٹھا نرمی سے اسکے ماتھے پر ڈھلکے بال سہلا رہا تھا، دیکھا تو کنزا تھیں۔ زالے حیران ہوئی پھر مسکرا کر سر تکیے سے اٹھا کر کنزا کے گھٹنے پر رکھ دیا۔
"آج کہیں میں مرنے والی تو نہیں"
وہ ایسے ہی مزاق کیا کرتی تھی، کنزا نے اسے اس دل چیڑتی بات پر اداسی و کرب سے گھورا۔
"کتنی بار کہا ہے بولنے اور کرنے سے پہلے سوچا کرو"
وہ خفا ہو رہی تھیں، زالے کو تو یاد بھی نہیں تھا کہ کب آخری بار اسے ماں کا لمس نصیب ہوا تھا۔ تبھی تو وہ ہنسی ہنسی میں طنز مار بیٹھی تھی، اب تو اسے کسی لمس کی طلب ہی نہ رہی تھی۔
"سوچنے کا کام آپ اور بھائی جو اچھے سے کرتے ہیں، ویسے بھی کیوں خوامخواہ سوچ کہ اپنے دماغ کو تھکانا ہے"
وہ سنجیدہ تھی، پر یوں لگا اسکے الفاظ مزاق اڑا رہے ہیں۔ کنزا نے اسکے ماتھے پر آئے بال ہٹاتے ہوئے اسے پیار سے دیکھا، جو سنگدلی سہہ سہہ کر پتھر دل ہو چکی تھی۔
"ویسے آج میری یاد کیسے آ گئی آپ کو"
وہ پوچھ کم جتا زیادہ رہی تھی، مسلسل خود پر کنزا کی نظر اسے بے چینی میں مبتلا کر رہی تھی۔
"کیا کروں بے حس نہیں بن سکتی"
کنزا بہت اداس تھیں اور یہ نیا نہیں تھا۔بقول زالے وہ کب اداس نہیں ہوتی تھیں، زالے ہمیشہ انھیں اداس ہی دیکھتی آئی تھی۔
"پھر بھی آپکا بے حسی میں ثانی نہیں کوئی "
زالے ہنوز طنزیہ نشتر برسائے برہمی سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔
"تم سے بہت پیار کرتی ہوں زالے "
کنزا نے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرے تاسف کے سنگ یقین دلانا چاہا مگر اس نے بے دردی سے ماں کے ہاتھ جھٹک ڈالے، نگاہیں یوں تھیں کہ دل کے پار ہو گئی ہوں۔
"میں نے بھی آج تک آپ سے بت تمیزی نہیں کی"
تو گویا زالے مراد کے پیار کا یہ ثبوت تھا بتتمیزی نہیں کرتی، ورنہ وہ ساری دنیا کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھتی آئی تھی۔
کنزا تو اس بے جوڑ بات لب بستہ ہو کر رہ گئیں۔
"زالے تم مجھے معاف نہیں کر سکتی"
کنزا کے لہجے میں ایک درد تھا، اک خلش اور اک حسرت موجزن تھی جس نے زالے کو بھی درد میں جاگزیں کر دیا۔
"ابھی نہیں، لیکن ایک دن کر دوں گی"
وہ نارمل انداز میں بول کر بیڈ سے نیچے اتر گئی، جیسے اپنی طرف سے ناجانے کونسی آسانی دان کر گئی ہو۔
"میں تمہیں خوش دیکھنا چاہتی ہوں زالے، تم میری طرح اللہ سے دور مت رہو۔ اسے پکارنا سیکھ لو "
کنزا کی بات ناجانے کیوں اسے اندر سے ہلا گئی، زخمی کر گئی تبھی کچھ ٹوٹا تھا اسکے اندر، چٹخنے کا شور باہر تک سنائی دیا۔
"یہی وجہ ہے میں آپکو یک دم معاف نہیں کر سکتی"
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں تھی اور کنزا کی آنکھوں سے ڈھلکتے کئی آنسو اسکے چہرے کو بھیگو گئے، دوسری سمت بھی گالوں پر شفق اتری جسے وہ بے حس بنی زالے بے دردی سے رگڑ کر منہدم کرگئی۔
"مجھے معاف کر دو زالے، میں ایک ماں ہونے کا فرض ادا نہیں کر پائی"
اگلے ہی لمحے کنزا پھوٹ پھوٹ کر رو دیں، ناجانے اپنی کون کون سی کوتاہی یاد آگئی تھی۔
..___________________..
"آااااا کریں۔۔۔۔ خبردار جو اب آپ نے کارٹون جیسا منہ بنایا"
رباب پچھلے پانچ منٹ سے وجدان کو سوپ پلا رہی تھی جبکہ وجدان کی شکلیں دیکھ کر ہنا اور بوا ہنس ہنس کر دہری ہو رہی تھیں۔ جبکہ رباب اب آنکھیں نکالے بڑی آپا بنی تھی.
"ایک تو اس میں نمک زرا بھی نہیں ہے اوپر سے رنگ تو دیکھو اپنے سوپ کا"
وجدان کو بھی اسے تنگ کرنے میں بہت مزہ آ رہا تھا۔ وہ بھی لطف اندوز ہو رہا تھا۔
"اوہ۔۔۔ اگلی بار نا اس میں تین چار کلرز ملا کر لاوں گی تاکہ آپکو رین بو والی فیلنگ آئے"
رباب کے علاوہ وہ تینوں بھی ہنس رہے تھے.
"کاش اس باول میں نیچے سوراخ ہو جائے"
وجدان نے سوپ نامی ٹارچر سے نجات کو اتنی لاچاری سے کہا تھا کہ رباب بھی ہنس پڑی۔
"بھیا۔۔۔۔ ناٹ فئیر"
وہ منہ بنا کر بولی تو وجدان نے مسکراتے ہوئے اسکی گال کھینچی۔
"چلو کافی ہو گیا ہے،آدھے سے زیادہ تو فینش ہو گیا۔ بس کرو اب، نہیں تو واقعی باول میں سوراخ کر دینا انہوں نے"
ہنا بھی مسکراتے ہوئے وجدان کی سائیڈ میں بول اٹھی۔
"شکر ہے کوئی تو مجھ غریب کے حق میں بولا"
وجدان نے معصومت سے کہا تو کمرے میں آتے ہوئے ساحر، عادل اور رفیق بھی اس منظر پر مسکرا دیے۔
"ارے واہ جی واہ۔۔۔۔ میرا بچاو کرنے والے بھی آ گئے"
وجدان کی بات پر سب نے تائید کی ، انکے پیچھے ہی ایک اور آدمی بھی روم میں داخل ہوا تھا جو سکیچ ماسٹر تھا۔رباب اور ہنا بوا کے ساتھ باہر چلی گئیں، کیس پر کام روکنا ممکن نہیں تھا لہذا یہ سکیچ کا کام بھی جلد سے جلد نمٹانا ضروری تھا۔
وہ آدمی وجدان کی بتائی انفارمیشن کے مطابق سکیچ بنانا شروع ہو گیا تھا، اس پر دو گھنٹے لگ گئے کیونکہ ہر چھوٹی چھوٹی ڈیٹیل کو بہت اختیاط کے ساتھ ڈرا کیا جانا تھا۔ آخر کار مطلوبہ تصویر انکے پاس آچکی تھی، سیکیچ بنتے ہی رفیق اس آرٹسٹ کو لے کر باہر چلا گیا۔ "فائنلی "
وجدان نے سکیچ کو دیکھتے ہوئے چمک کر سراہا۔
"اب آگے"
عادل نے اگلے لائحہ عمل کے متعلق پوچھا۔
"سب سے پہلے اس اسکیچ کی فوٹو کاپیاں بنوا کر ہر اس جگہ بھیجنی ہے جہاں سے اس آدمی کا سراغ مل سکتا ہے، یہ یقیننا بڑا گواہ ہوگا۔ ایک فوٹو کاپی ارسلان سر کو ہیڈ کوارٹر پہنچا دو عادل، اسکے علاوہ اس شہر کے ہر تھانے اور انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھیجو اور اپنے خبریوں اور مخبروں کو بھی کام پے لگاو۔امید تو پوری ہے کہ ہم اس فارس مانی اور اسکے پورے گینگ کو ضرور جلد نشانہ عبرت بنائیں گے"
ساحر نے تمام تر پلاننگ سے انھیں آگاہ کیا تھا جسکے بعد وجدان خاصا مطمئین اور پرامید نظر آ رہا تھا۔
"لیکن میں اب مزید یہاں نہیں رہنا چاہتا، سچی ایسا لگ رہا ہے مجھے کسی نے باندھ دیا ہو"
کام کی باتوں کے بعد اب ہنسی مزاق شروع ہونے کو تھا۔
"آرام لازمی ہے یار، ہم تو بعد میں سہی پہلے تمہاری لاڈلی رباب ہی تمہیں ہلنے نہیں دے گی۔۔ اس لیے اپنے ارمانوں پے آنسو بہا کے سوپ پیو کچھ اور دن"
ساحر اب کی بار لطف لیتے بولا تو عادل بھی متفقہ ہنسا جبکہ وجدان کیا کرتا چوائز نہ تھی سو بیچارگی بھرا ری ایکشن دیے خود بھی مسکرانے میں ساتھ دے بیٹھا۔
..____________________..
وہ اداس ہو کر بھی اتنی اداس نہیں تھی، گاڑی سڑک کنارے روک کر وہ سامنے پتھروں کے اس طرف نیلے پانی کی جھیل دیکھ رہی تھی، موسم آج بھی ابر آلود تھا۔ کہیں کہیں گہرے سیاہ بادل آسمان کی وسعت پر صاف دیکھائی دے رہے تھے، اپنے مخصوص لباس جینز ٹاپ پہنے، گلے میں رول کیا اسکارف اور جابجا اڑتے کڑل بال ہوا کے جھونکوں سے سنبھالتی گاڑی سے ٹیگ لگائے کھڑی وہ چپ چاپ سامنے غیر مرئی نقطوں کو دیکھ رہی تھی۔ جہاں صرف اور صرف خاموشی تھی، خاموشی تو اسکے بھی چار سو تھی۔
زالے نے اپنی آنکھیں بند کر کے اس آواز کو محسوس کرنا چاہا، وہ اسی جگہ مسجد کے باہر خود کو کھڑا محسوس کر رہی تھی۔ وہ یاد کر رہی تھی اس آواز کے ٹھہراو کو، خوش الحانی کو، شاید وہ مزید گہرا پہنچ جاتی مگر اسکے فون کی چنکارتی خوفناک سی ٹون نے اسے واپس حال میں لا کر چھوڑا، عام حالات میں وہ جب اپنے ساتھ ہوتی تو کوئی کال نہیں اٹھاتی تھی مگر آج اس نے دیکھے بنا کال اٹھا کر فون کان سے لگا دیا۔
"زالے!"
اسے لگا آواز جانی پہچانی سی ہے مگر اس نے اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹکا۔
"کون؟"
زالے نے مقابل کو جاننے کے لیے پوچھا۔
"سمیر"
اور اگلے ہی لمحے زالے کے چہرے پر خفگی سے اتر آئی۔
"تمہاری اتنی جرت کہ تم مجھے کال کرو۔۔۔۔۔۔ "
وہ نارمل مگر پر حقارت انداز میں بولی، سمیر کی طرف سے خاموشی کا وقفہ آیا۔
"زالے!" وہ اسکا نام پکارتا زہر لگا۔
"ایک بار پھر میرا نام لیا تو تمہارا منہ ٹوٹ جائے گا، اپنی اوقات مت بھولو۔نام لینا بند کرو"
زالے اب بھی پرسکون تھی لیکن اسکے الفاظ اسکے جلال کی جھلک ضرور عیاں کر گئے۔
"اوقات سب کی ایک جیسی ہے، تم بھی انسان ہو میں بھی۔ یہ پیسہ اور حسب نصب تو دنیاوی سہارے ہیں، یہیں رہ جائیں گے۔ سیدھی بات کرتا ہوں، میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"
اب کی بار تو زالے کو اسکی دلیری پر ہنسی آ گئی تھی جسے اس نے مشکل سے حلق مخں دبایا، سمیر سامنے ہوتا تو یقینا ادھ مرا ہو چکا ہوتا۔
"ہمت ہے تو سامنے آکر کہنا، قسم کھاتی ہوں زندہ نہیں بچو گے۔"
وہ ہنس کر بولی تھی، اسے لگا سمیر کی ذہنی رو جیل کی ہوا کھاتے ہی ناکارہ ہو گئی۔
"مرنا میرے لیے کوئی بڑی بات نہیں لیکن اس نے کہا تھا محبت کرنے کے بجائے نکاح کرو، میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ محبت اور نامحرم رشتوں میں زلت ہے سو میری محرم بن جاو۔ میں محبت کرتا ہوں اور کرنا چاہتا ہوں"
زالے اسکی ہر بات رد کیے ٹھٹکی تو "دوسرے" کے حوالے پر، آنکھوں میں چمک سی چھائی۔
"اپنے اس کو بھی ساتھ لانا، دونوں کی قبریں ساتھ کھودوں گی اور مجھے بہت خوشی ہوگی۔ تم اور عاقب ایک جیسے نکلے ہو، اس نے دوست بن کر دھوکہ کیا اور تم نے محبت کا لبادہ اوڑھ کر لیکن گڈ پوائنٹ یہ کہ دونوں کو سزا دینے کا اختیار بھی میرے پاس ہے۔۔۔۔ تم بھی اپنی سزا کے لیے تیار رہنا"
زالے کا لہجہ اب تپش لیے تھا باقی اسے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی۔
"دھوکہ وہ تھا جو تم نے مجھے دیا زالے، قربانی کے نام پر میری محبت کو دو کوری کر دیا۔ اس سب کے بعد میرے دل میں تمہارے لیے زرا بھی محبت نہیں رہنی چاہیے تھی۔ پر وہ کیا ہے ناں میں وہ محبت نہیں کر سکا جو لباس کی طرح تبدیل ہو جاتی ہے۔۔میں زالے مراد کے اندر کی اس لڑکی سے محبت کر بیٹھا جو خود زالے سے بھی پہچانی نہیں جاتی"
سمیر کی ہر بات اس نے اس تحمل سے سنی جسکی وہ عادی نہ تھی مگر اسکی آخری بات پر زالے کو لگا اسکا دم گھٹنے لگا ہو۔
"اپنی بکواس بند کرو"
وہ چلائی تھی، بھلا اسکے اندر تک کوئی کیسے جھانک سکتا ہے۔
"زالے ایک بار سوچ لینا اچھے سے، پھر جو بھی تمہارا فیصلہ ہوا مجھے منظور ہے۔ تمہیں اپنا بنانا نہیں، تمہارا ہونے کی تمنا ہے۔۔۔۔۔ چاہے تو دھتکار دو ہمیشہ کی طرح اور چاہے تو قبول کر لو۔۔۔"
مزید وہ سن نہیں سکی کیونکہ اس نے فون پوری قوت سے پتھریلی زمین پے دے مارا تھا، اسکی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، جیسے انگارے دھرے ہوں ، شعلے ہوں اور آگ ہو بس اور ضبط کی طنابین چھوٹنے والی ہوں۔
..____________________..
ساحر اور رفیق چلے گئے تھے تو عادل وجدان کو لان میں لے آیا کیونکہ موسم بہت اچھا ہو رہا تھا۔
"تم بھی میرے ساتھ بندھے ہو عادل، تمہیں بھی کسی کام جوگا نہیں چھوڑا میری تیمارداری نے"
وجدان نے اسکا سہارا لیا اور بیٹھتے ہوئے خفیف سی ندامت کے سنگ بولا تو وہ خوش دلی سے مسکا دیا.
"کوئی بات نہیں، آپ جلد دوڑنے لگیں گے اور یہ میرا فرض ہے، درد تو نہیں ہے ناں؟ ڈاکٹرز نے کہا ہے اپکو کافی دن تک اختیاط کرنی ہے، کندھے پر بھی بوجھ نہیں ڈالنا"
عادل اسے اختیاطی تدبیر بتا رہا تھا ساتھ اسکے لیے متفکر بھی ہوا۔۔
"ہممم۔"
عادل نے محسوس کیا کہ وجدان کسی سوچ میں ہے تبھی اسکے خیالات جاننے کی تمنا عادل کو ہوئی۔
"کیا سوچ رہے ہیں بھائی"
بوا اسی دوران چائے بھجوا چکی تھیں۔
"بس رباب کا سوچ رہا ہوں، پہلے سے زیادہ اسکی فکر ہے ۔مجھے کچھ ہو جائے تو اسے کون سنبھالے گا۔۔۔۔"
زندگی میں پہلی بار وجدان تھوڑا ڈرا لگا تھا
"آپ ایسا الٹا مت سوچیں، کچھ نہیں ہوتا آپکو۔۔۔"
عادل نے خفا ہوتے ہوئے چائے کا کپ اٹھایا۔
"ہاں لیکن تمہارے روکنے سے میں رک تھوڑا سکتا ہوں، سوچ رہا ہوں اسکی زندگی کا اہم فیصلہ کر دوں۔ کوئی تو ہو جو میرے بعد اسکا خیال رکھنے والا ہو۔۔۔۔ "
وجدان اپنی طرف سے حالات کے پیش نظر مناسب سوچ رہا تھا، پر عادل کو اضطراب گھیرنے لگا۔
"ابھی وہ چھوٹی ہے بھائی، آپ فکر مند نہ ہوں۔ہم سب ہمیشہ اسکے ساتھ رہیں گے۔۔۔۔"
عادل کے لہجے میں ڈھیروں اپنائیت تھی۔
"ہاں تبھی تو ڈرتا ہوں، کوئی ایسا کہاں ملے گا جو اسکا اچھے سے خیال رکھے۔اسکی نرم طبعیت اور معصومیت برقرار رکھنے والا۔یہ ایک لمبا امتحان ہے، ماں باپ کی فکریں اب سمجھا ہوں کہ وہ کیوں بیٹیوں کے لیے فکرمند رہتے ہیں"
وجدان کی آواز میں پریشانی و بے بسی ڈھلی تو عادل کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔
"اگر آپ مجھے اس قابل سمجھیں تو میں آپکی یہ فکر خوشی خوشی ختم کرنا چاہوں گا"
وجدان کو عادل کی بات سمجھ تو آگئی تھی پر اسکے چہرے پر ایک خوشگوار سا تجسس ابھرا تھا۔۔ بھلا رباب کے لیے عادل کا اس نے کیوں نہ سوچا، اوپر سے عادل کی آنکھوں میں یکدم چلی آتی عقیدت تو بہت خاص تھی، بیٹھے بیٹھے وجدان پر یہ کھلا جیسے اسکی بہن کے لیے کچھ خاص چنا گیا ہے۔
"تم پر تو میں آنکھیں بند کر کے بھی اعتبار کر سکتا ہوں عادل، یقین مانو یہ رباب کی خوش قسمتی ہوگی۔لیکن تم یہ فیصلہ کسی بھی دباو کی وجہ سے مت لینا۔ اگر تمہارا دل راضی ہوا تو میں رباب کا ہاتھ تمہیں دینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاوں گا"
وجدان کی آنکھوں میں ایک اطمینان تھا لیکن اک خدشہ بھی ہلکورے لے اٹھا تھا، کیسے برداشت کرتا کہ اسکی لاڈ اور انس میں پلی رباب کسی پر بوجھ یا ذمہ داری بنے۔
"میرا دل اس فیصلے کے لیے ہمیشہ سے راضی ہے۔۔۔"
وہ بدلے میں آمادگی سے بولا تھا اور وجدان کی مسکراہٹ کے بعد وہ بھی مسکرا دیا، کچھ بہت خاص تھا اس الوہے تبسم میں، ابھی وہ لوگ باتیں کر ہی رہے تھے کہ دور سے رباب اور ہنا ، سر پر دوپٹے اوڑھے امام مسجد صاحب کے ساتھ وہیں چلی آ رہی تھیں۔
وجدان عادل کے ہاتھ کا سہارا لے کر انکے استقبال کے لیے تعظیما اٹھ کھڑا ہوا تو مقابل بھی شفقت آنکھوں سے چھلکی۔
انھیں دیکھ کر وہ خوشگوار انداز میں مسکرایا تھا۔
"بھیا امام انکل آپ سے ملنے آئے ہیں"
رباب نے کہا تو وجدان ان سے بغل گیر ہوا، ہنا رباب کے ساتھ چائے کا کہنے اندر چلی گئی جبکہ امام مسجد عادل سے ملنے کے بعد دونوں پر انس بھری نگاہ ڈالے کرسی سنبھالے بیٹھ گئے۔
"کیسے ہو برخوردار! اللہ کا لاکھ لاکھ کرم ہے کہ اس نے تمہیں نئی زندگی دی"
وہ وجدان کو دیکھ کر کافی خوش تھے۔
"الحمداللہ! اسکا کرم ہے۔"
وہ بھی اپنی سلامتی پر دل سے شکرگزار تھا۔
"مسجد کے درودیوار سے لے کر درختوں کے پرندے بھی تمہاری آواز کے بنا بے حد اداس ہیں، بس جلدی سے صحت یاب ہو کر واپس آ جاو"
امام مسجد کی بات پر عادل اور وجدان بھی مسکرا اٹھے پر وجدان کے متبسم انداز میں دلنشیی بھری پڑی تھی۔
"ان شاء اللہ! جلد ہی ملاقات ہوگی، گھر والے فی الحال تو مجھے کمرے سے بھی نکلنے نہیں دیتے۔ "
وہ رکھائی سے بتاتے ہوئے بولا، پس پردہ شکائیت سی ہو گئی۔
"ہاں برخوردار! پہلے ٹھیک ہو جاو۔ اللہ کا تم پر خاص کرم ہے عبداللہ، یہ لاکھوں میں کوئی ایک ہوتا ہے جو تم ہو۔۔"
وہ شفقت آمیز لہجے میں بولے تھے۔
"پروردگار کا بے حد کرم ہے، آپکی دعا چاہیے"
وجدان نے عاجزی سے اعتراف کہا تو وہ مسکرا دیے۔ "تمہارے لیے نا جانے کس کس نے دعائیں مانگ رکھی ہیں، بہت دے گا وہ رب تمہیں کہ دامن تنگ پڑ جائے گا"
عادل بھی انکی باتیں سن کر بہت خوش ہو رہا تھا، مسجد کی ذمہ داری کے باوجود وہ وقت نکال کر وجدان کو دیکھنے آئے تھے، لیکن وہ جلدی ہی چلے گئے تھے لیکن وجدان کو اسکے حصے کی دعائیں پہنچا گئے تھے۔
بہت خاص سی دعائیں جنکو پا کر عبداللہ وجدان کے درد کو شفاء ملنے لگی تھی۔
..____________________..
"پولیس عاقب کی تلاش میں اسکے گھر گئی تھی، اسکے ڈیڈ کی مجھے کال آئی تھی وہ کافی غصے میں تھے۔ پوچھ رہے تھے کہ عاقب کہاں ہے"
وہ سب آج زالے کی طرف آئے تھے، ثانی بھی آج انکے ساتھ تھی، سعد فکرمندی سے سبکو بتا رہا تھا۔
"تو تم نے کیا کہا؟"
زالے نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے پرسکون ہوئے پوچھا۔
"کہنا کیا تھا، جھوٹ بول دیا کہ وہ ہم سے بھی رابطے میں نہیں ہے اب۔کل ہی کہیں اور نکل گیا"
سعد نے سر کھجاتے ہوئے اپنے جھوٹ کے بارے بتایا۔
"تم پاگل ہو کیا؟ تم نے کہا اور وہ مان گئے۔ نہیں۔۔ وہ یقینا ہم سب کے والدین سے رابطہ کریں گے۔اف اگر ماما کو پتا لگا تو میری خیر نہیں"
خیلہ کو اپنی فکر پڑ چکی تھی، یہ معاملہ اب جان نکالنے لگا تھا۔
"خیر تو اب کسی کی نہیں، ڈیڈ بھی مجھ سے کل کہہ رہے تھے کہ میں اپنی سرگرمیاں چھوڑ دوں اور بزنس کے لیے سنجیدہ ہو جاوں ورنہ وہ مجھے اپنے ساتھ ہمیشہ کے لیے لے جائیں گے"
ثانی کا تو رونے والا منہ بنا تھا۔
"زالے تم عاقب کو چھوڑ دو تاکہ ہم سب کی جان تو چھوٹے، دیکھو اگر ہمارے والدین کو پتا چلا تو وہ ہمارا گھر سے نکلنا تک بند کر دیں گے۔ تمہاری خیر ہے کیونکہ تمہارے ڈیڈ تمہارے ساتھ ہیں"
سعد کی بات پر زالے نے نظر اٹھا کر اسے خشمگیں نگاہون سے دیکھا اور یہ زالے کی نظر کا کمال تھا کہ سعد کا حلق سوکھنے لگا۔
"سمیر کیسا ہے"
یہ نام زالے کے لیے ناگوار تھا، مگر وہ ضبط کر گئی۔
"ٹھیک ہے، چھوڑ دیا ہے پولیس نے اسے۔ اپنے گھر ہوگا"
خیلہ نے اسکا زکر کرتے ہوئے منہ بنا لیا تھا۔
"میں اس سے ملنے جاوں گی، اچھا ہوا کہ وہ چھوٹ گیا ورنہ ایک بے گناہ کو سزا ملنے کا افسوس میرے دل سے کبھی نہ جاتا"
ثانی کے لہجے میں سمیر کے لیے ہمیشہ ہی نرمی تھی، اب کی بار سعد اور خیلہ نے بھی بیزار منہ بناتے ہوئے ثانی کو مایوس نظروں سے دیکھا جبکہ زالے کافی دیر سے چپ بس سبکو سن رہی تھی۔
"زالے کیا سوچ رہی ہو؟"
سعد نے خاموش سی سر صوفے کی پشت سے ٹکائے ہوئی زالے سے پوچھا۔
"کل تم پولیس سٹیشن کال کر دینا اور عاقب کی لوکیشن بتا دینا۔ یاد رکھنا یہ اطلاع تم کسی پی سی او سے دو گے۔ دن دو کہ بعد ۔۔ تب تک میرے گارڈز وہاں سب سیٹ کر دیں گے۔ سمجھ گئے"
وہ بس آرڈر دیتی تھی اور وہ اس پر عمل کرتے تھے۔
"ٹھیک ہے، ہو جائے گا"
سعد کو کچھ تسلی ہوئی مگر خیلہ ابھی بھی الجھی ہوئی تھی۔
"اگر وہ دوست ہونے کا ایک بھی فرض نبھاتا تو میں آج تو کیا پولیس کبھی اس تک پہنچنے نہ دیتی۔۔۔ لیکن دھوکہ دینے والوں کو زالے مر کر بھی معاف نہیں کر سکتی"
اس بات کے بعد خیلہ بھی متفق نظر آئی جبکہ ثانی تو ان کو بس مجبورا سن رہی تھی وہ لوگ کھانا کھا کر گئے تھے اور اس بیچ بھی زالے نے زیادہ بات نہ کی۔
..___________________..
"ارے میرے بھیا آج گھر پر کیسے نظر آ رہے ہیں"
ہنا اپنے اور احمد صاحب کے لیے ملک شیک بنا کر لائی تو عادل بھی اچانک گھر آ چکا تھا.
"چلیں یہ لیں۔۔۔ مزیدار قسم کا شیک"
ہنا نے دونوں کو گلاس پکڑائے اور مسکراتے ہوئے بابا کے ساتھ بیڈ پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔
"آتے ہی شیک دے رہی ہو اسے، پہلے کھانا پوچھ لو" احمد صاحب کی فکر پر وہ دونوں ہی ہنس دیے۔
"بابا یہ وجدان بھائی کہ گھر سے آ رہے ہیں، بھلا ایسا ممکن ہے کہ وہ اور انکی لاڈلی انھیں بنا کھانے کے ہلنے بھی دیتے۔ تسی نا ٹنشن لیا کرو"
اپنی بات پر ہنا خود ہنس دی۔
"ھاھا ٹھیک ہے " احمد صاحب نے کہا تو عادل بھی ہنس دیا۔
"ماشاء اللہ دونوں بچے ایک سے بڑھ کر پیارے ہیں، اللہ دونوں کی قسمت روشن کرے"
احمد صاحب کے لیے بھی وہ انکے بچوں جیسے ہی تھے۔
"آمین آمین۔۔۔۔۔۔ ثم آمین"
ہنا نے شرارتی انداز میں مسکراتے ہوئے ہاتھ بلند کیے۔
"بابا مجھے ایک بات کرنی تھی آپ سے"
عادل نے مکمل سنجیدہ ہوتے ہوئے بابا کی جانب رخ پھیرا تو احمد صاحب نے بچے کے مشکوک انداز پر اچانک ہنا کی طرف دیکھا جو آگے سے دانت دیکھا گئی۔
"ہاں عادل کہو، بھئی پوچھنے کی کیا بات ہے برخوردار"
احمد اور ہنا دونوں کا دل گویا کانوں میں آگیا۔
"میں چاہتا ہوں آپ میرے لیے رباب کا رشتہ لینے جائیں"
عادل نے بلا تاخیر بات کہی اور اگلے ہی لمحے ہنا کا منہ اور احمد صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
"آپ شاک مت ہوں، یہ ایک نہایت سیدھی بات ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے وجدان بھائی بھی ایسا ہی چاہتے ہیں"
وہ تھوڑا کنفوز تھا کیونکہ وہ دونوں آنکھیں کھولے اسے یوں دیکھ رہے تھے جیسے وہ آٹھواں عجوبہ ہو۔
"ارے بھیا یہ خوشی ہے جو ہم دونوں کے منہ پے ہے، ھائے میرا تو دل خوش ہو گیا یہ سن کر"
اگلے ہی لمحے ہنا بیڈ سے اچھلتی آئی اور عادل کو گھیر لیا، احمد صاحب کے چہرے پر بھی خوشی کے تاثرات تھے۔
لیکن عادل ابھی بھی متذبذب تھا۔
"اچھا تو کیا یہ وجدان کی چاہت میں ہو رہا یا تم بھی ایسا ہی چاہتے ہو؟"
وہ باپ تھے، اپنی اولاد کی سچی خوشی سے آگاہ ہونا انکا حق تھا۔
"میں بھی چاہتا ہوں، آج سے نہیں۔۔۔ شاید جب خواہش کرنا سیکھا تھا تب سے"
عادل کے اس اعتراف پر احمد صاحب دل نشین انداز میں مسکرائے تھے جبکہ ہنا تو عادل کے ساتھ لپٹ گئی تھی۔
وہ یہ اظہار دیتا دنیا کا خوبصورت مرد لگ رہا تھا، ایسا مرد جو نیک اور باکردار اوصاف کا مالک تھا، جسکی خواہش کوئی بھی عورت بلاجھجھک کر سکتی تھی۔
"ھائے میرے بھیا اتنے رومینٹک ہوں گے میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا"
ہنا شرارتی انداز میں چھیڑ گئی تو عادل نے بھی زرا آنکھیں چرائیں۔
"ہاں لیکن رباب کی مرضی کے بنا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔"
وہ اگلے ہی لمحے سنجیدہ ہوا تھا۔
"چلو جی ایک سرپرائز میں بھی بریک کر دیتی پھر، ڈیڈ آپکو یاد ہے نا میں نے اس دن کہا تھا کچھ۔ رباب بھی بھیا کو پسند کرتی ہے، مجھے 100% شیور ہے لیکن میں ایک بار پھر اپنی تسلی ضرور کروں گی"
ہنا کی بات پر بھی وہ سنجیدہ ہی رہا لیکن باخدا دل نے کئی بیٹس مس کی تھیں جبکہ احمد صاحب اش اش کر اٹھتے مسکرا دیے۔
"یہ تو پھر کمال ہو جائے گا، تم جب کہو ہم باپ بیٹی چلنے کو تیار ہیں۔اللہ تمہاری خوشیوں کو نظر بد سے بچائے"
احمد صاحب نے مسکرا کر اسے اجازتا کہا تو اب جا کر وہ ہلکا سا مسکرا دیا، جبکہ ہنا تو کافی پرجوش تھی کہ ہنسی لبوں کو چھوڑنے کا نام نہ لے رہی تھی۔
"بھیا آپکو درد تو نہیں ہو رہا ناں"
رباب وجدان کے دوسرے کندھے پر سر رکھے بیٹھی تھی جبکہ وہ بیڈ سے ٹیک لگائے اسے کوئی کتاب پڑھ کر سنا رہا تھا۔
"بلکل نہیں، اب تو ایک دم فٹ ہو گیا ہوں۔۔ کل سوچ رہا ہوں آفس کا چکر لگا لوں۔۔ دیکھوں تو سہی کیا صورت حال ہے "
اسی دوران بوا دونوں کے لیے کافی اور شیک لے آئیں۔
"بوا کریمی والی بنائی ہے ناں انکی کافی"
اس سے پہلے وجدان کپ اٹھاتا، رباب نے اچک کر تسلی کو پوچھا تو وجدان اور بوا دونوں ہنس دیے، آجکل وہ سخت پہرہ دے رہی تھی بھائی کا۔
"اور کیا، وہ سڑی کالی والی تو میں آپکو کبھی نہ پینے دوںآپ جیسی سوئیٹ کافی ہے یہ۔۔۔"
رباب کافی کا مگ وجدان کو پکڑاتے ہوئے لاڈ کیا۔
"چلو بچو جلدی سو جانا جا کے، کافی ٹائم ہو گیا۔۔ شب بخیر"
بوا دونوں کو شفقت سے کہتی ہوئی چلی گئیں۔
"تم چھوٹی سی ٹیچر بنی ہوئی ہو آجکل، میں تمہارا بڑا سا سٹوڈنٹ"
بڑا سا پر رباب ہنس پڑی کیونکہ وہ پہاڑ جیسے بھائی کے سامنے تنکا ہی لگتی تھی، وجدان تو اسے مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیتا تھا۔
"میرے جھلے بھیا"
وہ ابھی بھی ہنستے ہوئے بولی تھی۔
"اور میرئ کھڑوس استانی"
گال کھینچتے رباب میں خوشی بھری۔
"ہمیشہ ایسے ہی مسکراتی رہو اور بھیا کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنی رہو"
وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے بولا تو وہ سر جھکا گئی۔
"آپ ہیں تو میں ہوں، میرے لیے اپنا خیال رکھا کریں، پھر مجھے کھڑوس ہونے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی"
وہ اسکے کندھے سے لگی ملک شیک پیتے ہوئے سمجھاتے اسے تاکیدی انداز میں بولی تھی۔
"ٹھیک ہے میری جان۔۔ جو حکم آپکا"
وہ اسکا سر چوم کر بولا تو رباب کھلھلائی۔
"بھیا آپ نے شادی کب کرنی ہے؟"
رباب کی بات پر وہ تھوڑا حیران ہوا پھر مسکرا دیا۔
"اس مہینے کی 32 کو"
پہلے تو رباب شاک ہوئی پھر بات سمجھ آئی تو ہنس ہنس کر دہری ہو گئی، اسکی ہنسی اس سونے ویران گھر کی چمک تھی۔۔
"بھابیاں اچھی نہیں ہوتیں ناں، مجھے ڈر لگتا ہے کوئی آپکو مجھ سے دور نہ کر دے"
ہنسی سے فرصت ملی تو رباب اداسی لیے بولی تو وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور اسکا جھکا سر اوپر کیا۔
"ارے کسی کی مجال جو وجدان کو اسکی چھوٹی سی رباب سے دور کرے، دیکھنا ہم اسے ہی کسی اور سیارے میں چھوڑ آئیں گے۔ مشتری ٹھیک رہے گا"
وہ اسے ہنسا رہا تھا اور کامیاب بھی تھا، مشتری والا آئیڈیا اس ننھی پری کو بہت ہی پسند آیا۔
"آ! بچاری بھابھی"
وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنس دی "اور کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ " وہ بھی اسی انداز سے ہنسا۔
"پھر ٹھیک ہے لیکن اگر اچھی والی ہوئیں تو میں انکو دوست بنا لوں گی، پھر آپ مجھے جان نہ کہنا بلکے ایسے کریے گا مجھے جان اور اسے زندگی کہہ لیجئے گا"
اب کی بار وجدان کو رباب کی باتوں پر ہنسی اور پیار دونوں آیا
"کبھی نہیں، میری جان اور زندگی دونوں تم ہو اور کوئی نہیں۔ اس لیے بے فکر رہو"
وہ اسے پیار سے کہتے ہوئے بولا تو وہ مطمئین انداز میں ہنس دی اور وجدان اسکا اطمینان دیکھ کر جی اٹھا۔
"میرے جان سے پیارے بھیا"
لاڈ تو اسے فورا آ جاتا تھا جبکہ ایسے لاڈ ہی تو وجدان کی راحت تھے۔
..__________________..
اگلے ہی دن وجدان کا آفس جانا کافی شاکنگ تھا مگر وہ اب مزید گھر نہیں رکنا چاہتا تھا، ساحر تو باقاعدہ اس سے خفا ہو رہا تھا جبکہ وہ رباب کو بتائے بنا آیا تھا ورنہ ایک ناراض ہونے اور منانے کا سیشن وہاں بھی ہوتا۔
"عاقب کا کچھ پتا چلا؟"
وجدان کیس کی فائل چیک کرتے ہوئے پوچھنے لگا۔
"ابھی تک تو نہیں، ناجانے کس بل میں جا کر چھپا ہے"
ساحر نے بتایا تو وہ کسی سوچ میں مبتلا ہوا تھا۔
دوسری طرف زالے کے آرڈز کے مطابق تمام معاملہ سیٹ کرنے کی تیاری ہو گئی تھی، اس نے سمیر کو جنگل کے ساتھ جاتی سڑک کے قریب درختوں سے بندھوا دیا تھا اور پولیس کے آنے تک اپنے گارڈز کو اس پر نظر رکھنے کا کہا تھا، سعد اپنا کام کرنے پی سی او پہنچ چکا تھا۔
"اسکے گھر سے کیا پتا چلا؟"
وجدان نے مزید پوچھا۔
"اسکے والد ملک سے باہر ہیں اور گھر میں صرف ملازم تھے۔۔ جن سے یہی پتا چلا کہ وہ کافی بگڑا ہوا ہے، کئی کئی دن گھر سے غائب رہنا اسکا معمول ہے"
ساحر نے تمام صورت حال سے آگاہ کیا اسی دوران فون بجا، ساحر نے ہی ریسور اٹھایا۔
"جی انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ ہے"
ساحر نے دوسری طرف سے سن کر کہا۔
"کون ہو تم؟"
ساحر کے چہرے کے بدلتے تاثرات وجدان دلچسپی سے دیکھ رہا تھا، اس سے پہلے کے ساحر پوچھتا فون کٹ گیا۔
"کیا ہوا؟"
وجدان نے فورا پوچھا۔
"عاقب کہاں ہے پتا چل گیا، رفیق گاڑی نکالو"
ساحر نے فون اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے بتایا۔
"میں بھی چلوں"
وجدان نے کھڑے ہوتے کہا مگر ساحر نے صاف انکار کر دیا، وہ آفس آگیا تھا لیکن اس سے زیادہ ساحر اسکی طبعیت پر رسک نہیں لے سکتا تھا۔
"تم یہاں کا کام دیکھو اور اپنا خیال رکھو ملتے ہیں"
ساحر تیزی سے کہتا باہر نکل گیا، وجدان پھر سے بیٹھ گیا مگر اسے فی الحال اپنا خیال رکھنے کی فرصت نہیں تھی، وہ کوئی فائیل ڈھونڈنے لگا، اس کے ملتے ہی وہ اسے لیے آفس روم سے باہر نکل گیا۔
..___________________..
"سر آپکا فون"
وہ کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا جب گارڈ نے اسے فون دیتے ہوئے پکارا، کال سمی کی تھی۔
"آج میرا موڈ اچھا ہے۔۔ کوئی منحوس خبر مت سنانا"
مراد بہلول نے پرفیوم خود پر انڈیلتے ہوئے بیزاریت سے فون پار موجود سمی کو جھاڑا۔
"سر آپکو بتانا اہم ہے"
سمی کی بات پر وہ سنجیدہ ہوا۔
"فارس مانی گرفتار ہو چکا ہے اور کئی دن ہو گئے۔ وہ انہی انسپیکٹرز کی کسٹڈی میں ہے۔ "
اور یہ سچ میں مراد بہلول کے لیے منحوس خبر تھی اور وہ بھی آج کہ دن جب وہ بورڈ کی میٹنگ کے لیے جانے والا تھا۔
"تم مجھے اب بتا رہے ہو، اب تک تو اس نے سب پھوٹ دیا ہوگا، برباد ہو گئے ہم۔"
بہلول اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے تقریبا چلاتے پیٹتے بولا ،گھبراہٹ اور بے چینی اسکے چہرے پر عود آئی تھی۔
"سر وہ پکا بندہ ہے، مر سکتا ہے لیکن منہ نہیں کھول سکتا۔آپ بتائیں اسکے لیے کیا آرڈر ہے"
سمی کے پوچھنے پر بہلول سوچ میں ڈوبا۔
"اسے نکلواو کیسے بھی کر کے اور سنو اگر ایسا نہ کر سکو تو اسے مار دینا۔ میں کوئی رسک نہیں لے سکتا۔۔۔اور اگر اس بار تم نے کوئی گڑبڑ کی تو تم مجھ سے نہیں بچ سکو گے۔۔۔۔۔ "
وہ اسے قہر کے سنگ وارننگ دیتے ہوئے بولا تھا۔
"وہاں جانا ناممکن ہے، وہ عام پولیس نہیں ہے۔ اسے کیسے نکالنا ہے یہ میں جانتا ہوں۔۔۔۔ آپ مجھے ایک موقع دیں"
سمی نے اس بار یقین دہانی کرانی چاہی۔
"جب تک سب کر نہ لو مجھے کال مت کرنا"
وہ فون بند کر گیا۔
"کیسے کیسے کتے پال رہا ہوں، جو نہ تو وفاداری دکھا رہے نہ ہی وقت پر بھونک رہے ہیں۔۔۔ "
کچھ دیر پہلے تک کی ساری خوشی ہوا ہو چکی تھی۔
..___________________..
"اف لڑکی کیا جان لو گی انڈے کی"
ہنا اپنی ہنسی دباتے بولی جب وہ منہ پھلائے انڈا فرائے کر رہی تھی، بوا کے کہنے کے باوجود آج اسکا دل ناشتہ بنانے کا تھا اس لیے انھیں آرام کرنے بھیج دیا۔ ہنا بھی صبح ہی آ گئی تھی۔
"ہنس لو ، مجھے بہت غصہ آ رہا"
رباب منہ پھلائے بولی تو ہنا کو مزید ہنسی آئی۔
"ہاں نا بچارے انڈے کی شامت آئی ہے، ہوا کیا ہے بتاو تو"
ہنا نے جگ سے جوس گلاسز میں ڈالتے ہوئے آخر اس ننھے منھے غصے کا سبب دریافت کر ہی لیا۔
"بھیا آفس چلے گئے، وہ بھی مجھے بتائے بنا۔ آگے ہی انکی طبعیت نہیں ٹھیک"
رباب نے انڈا پلیٹ میں ڈالتے ہوئے گلوگیر ہوتے اطلاع دی۔
"ھا! یہ تو غلط بات ہے۔ آنے دو، مل کر غصہ اتاریں گے ان پے اور کم ہوا تو عادل بھیا کو بھی ملا لیں گے"
ہنا نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مسکرا دی، عادل کا نام ہی موڈ بحال کر گیا۔۔
"ٹھیک ہے۔۔۔"
وہ ناشتہ لگانے لگی تو دونوں ڈائنگ ٹیبل کے گرد کرسیاں گھسیٹے بیٹھ گئیں۔
"ارے میں تو تم کو ایک نیوز بتانا بھول ہی گئی"
ہنا نے اچھلتے ہوئے کہا تو رباب بھی متوجہ ہوئی، اسے تجس نے گھیرا جبکہ ہنا کچھ ڈرامہ کریٹ کیے اسکے ایکسپریشن دیکھنا چاہتی تھی۔
"اچھا وہ کیا۔۔۔ بتاو"
رباب نے پوری توجہ ہنا کی طرف کیے بے قراری سے پوچھا۔
"تم کو پتا ہم نے عادل بھیا کے لیے لڑکی ڈھونڈ لی، کچھ دن تک ہم باقاعدہ رشتہ لینے جا رہے"
ہنا نے پرجوشی سے بتایا مگر جیسا کہ وہ کنفوز تھی مگر رباب کے چہرے کا اڑا ہوا رنگ دیکھ کر دل کی گہرائی تک خوش ہو گئی، رباب کو لگا دل کو کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا ہو، چاہ کر بھی اس سے مسکرایا نہ جا سکا۔
"بہت پیاری ہے سچی، تم ملو گی تو فین ہو جاو گی"
ہنا نے اپنی دھن میں بتاتے ہوئے کہا اور رباب کی تو لگتا تھا دنیا ہی ویران ہو گئی۔
"مجھے نہیں ملنا"
رباب اٹھ کر باہر چلی گئی تو ہنا بھی پیچھے پیچھے گئی۔
"رباب سنو تو، لاکھوں میں ایک ہے وہ۔۔۔۔ "
ہنا کا دل کیا اسے سچ بتا دے مگر اسے رباب کو تنگ کرنے کا مزہ آ رہا تھا۔
"مجھے سونا ہے، بعد میں ملتے"
اس سے پہلے کہ ہنا باہر آتی وہ کہہ کر سیڑھیاں چڑھ گئی جبکہ رباب کی آواز آخر تک ڈوبی بھی تھی جو ہنا کو پریشان کر گئی۔
"یہ تو معاملہ سیریس ہو گیا"
ہنا بھی اسکے کمرے کی طرف چلی گئی، دروازہ بند تھا۔
"جان کیا ہوا؟ تم کو برا لگا کیا کہ ہم نے پہلے نہیں بتایا لیکن کل ہی ہم نے لڑکی دیکھی اور دیکھتے ہی عادل بھیا نے ڈن کر دی۔۔ "
وہ باہر سے ہی اپنی ہنسی دبائے بولی تھی، مگر اندر سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
"دیکھتے ہی ڈن"
اندر کاوچ پر بیٹھی رباب نے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے ہنا کا جملہ تکلیف سے دہرایا۔
"دیکھو میں عادل بھیا کو لانے لگی ہوں، وہ ابھی گھر ہی تھے۔۔ کہتی ہوں انکو کہ جا کر رباب کو منائیں۔۔۔ "
اس سے پہلے کہ ہنا کچھ اور کہتی وہ دروازہ کھول کر باہر آگئی، آنکھوں میں ہلکی ہلکی نمی تھی، مگر مسکرا رہی تھی۔
"مبارک دینا انکو۔۔۔ لانے کی ضرورت نہیں"
ہنا کو رباب کی جیلسی پر اتنا پیار آیا کہ فورا سے اس کو گلے لگائے بھینچ گئی۔
"ھائے میری جھلی رباب! پگلی پوری بات تو سن لو پہلے"
الگ کرتے ہوئے ہنا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی جبکہ رباب کا دل چاہا اونچا اونچا چلائے۔
"مجھے نہیں سننی۔۔۔۔"
اداسی و ناراضی عیاں تھی۔
"وہ لڑکی کون ہے پتا ہے تم کو؟"
ہنا نے دلنشین انداز میں مسکرا کر کہا مگر رباب ابھی بھی سپاٹ تھی، دل رو رہا تھا۔
"وہ میری پیاری سی رباب ہے"
ہنا نے اسکی گال کھینچتے ہوئے بتایا تو رباب کو لگا جیسے اس نے غلط سنا ہو۔
چہرے پر سفیدی چھا گئی، دل جو سکڑ گیا تھا پھیلا، پوری آب و تاب سے دھڑک اٹھا۔
"یس! ہم بہت جلد اپنی رباب کو لینے آ رہے ہیں لیکن دیکھو یہ سرپرائز تھا تمہارے لیے جسے میں نے برے طریقے سے تباہ کر دیا ہے۔"
ہنا ہنستے ہوئے بتا رہی تھی اور رباب پتھرائی ہوئی تھی۔
"وہ سچ میں مجھ سے شادی کریں گے؟"
کیا معصومت تھی، ہنا تو فدا ہی ہو گئی۔
"اور کیا، تم کو کوئی اعترض تو نہیں ہے نا۔۔۔ "
ہنا نے سب جانتے ہوئے بھی ایک بار پوچھنا بہتر سمجھا تھا۔
"کبھی نہیں"
بے اختیار بڑبڑائی لیکن پھر اپنی بے خودی پر جھینپ سی گئی، ہنا نے پھر سے اسکے بھرے گال چھوئے۔
"ہنا؟"
رباب نے کچھ پوچھنا چاہا۔
"میں جانتی ہوں تم کیا پوچھنا چاہتی ہو کہ وہ تمہیں پسند کرتے ہیں یا نہیں لیکن اس کا جواب عادل بھیا تمہیں خود دیں گے، چلو اب سمائیل دو۔۔۔۔۔۔"
ہنا پورا سرپرائز کھولنا نہیں چاہتی تھی، رباب بلش کیے مسکرا دی، یعنی کچھ تو تھا جو عادل بتانے والا تھا یہ سوچتے ہی دل الگ لے پر دھڑکا، یہ احساس ہی خوبصورت تھا۔
"ھائے کڑی دا شرمانا تے ویکھو"
ہنا نے اسکی سرخیوں میں ڈھلتی صورت نہارے چھیڑا وہ اب کی بار کھل کر ہنسی تھی۔
..____________________..
"میں تم سے ملنے آنا چاہتا تھا پر مصروفیات ہیں کہ ختم نہیں ہو رہیں، اب تو کافی فٹ لگ رہے ہو"
وہ سمی کی سکیچ فائیل لے کر ارسلان سر کے پاس آیا تھا، یہ انکے ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ارسلان تھے۔
"اللہ کا شکر ہے سر، اب میں بلکل ٹھیک ہوں"
وجدان نے بتایا تو وہ مسکرا دیے۔
"سر یہ سمی کا سکیچ ہے، یہ وہی ہے جو اس دن وہاں اس سمگلنگ کو سیٹ کروا رہا تھا"
وجدان نے فائیل دیتے ہوئے کہا تو ارسلان صاحب نے فائیل کھول کر دیکھا۔
"ہمم ہو سکتا ہے تمہیں گولی بھی اسی نے ماری ہو مگر میرے خیال میں یہ انکا اصل باس نہیں ہوگا۔لیکن میں پھر بھی اپنے چند خفیہ لوگوں کی ڈیوٹی لگاتا ہوں" ارسلان صاحب نے انکے ڈیپارٹمنٹ کو اس کیس کے لیے کافی وقت دے رکھا تھا۔
"آج دراصل بورڈ آف جسٹس کی میٹنگ ہو رہی ہے، مجھے بھی بلایا گیا ہے۔ مراد بہلول کو جج بنانے کے متعلق اہم فیصلہ متوقع ہے۔"
ارسلان صاحب کی بات پر وجدان تھوڑا بے چین ہوا۔
"افسوس ہے کہ انصاف کے محکموں میں ایسے لوگ قابض ہو رہے ہیں۔، اس سب کہ بعد وہ مضبوط پوزیشن پے ہوگا، کسی مضبوط ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ دن دیکھنا پڑا۔ فارس مانی سے بھی ہر ممکن کوشش کر لی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہمیں ہر قدم بہت سوچ کر رکھنا ہوگا"
وجدان کی رائے پر وہ بھی متفق تھے۔
"بلکل! فارس مانی کے لیے نئے آرڈز آ چکے ہیں، اسے علاقائی جیل میں منتقل کروا دو۔جب تک اس کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ وہیں رہے گا۔ ویسے بھی جب تک ہم اسکے باقی گینگ کو پکڑ نہیں لیتے،وہ ہمارے کسی کام کا نہیں"
ارسلان صاحب نے نئے آرڈز دیے۔
"سر میں ایک کوشش مزید کرنا چاہتا ہوں"
وجدان کی بات سہی تھی مگر آرڈرز کو ماننا بھی اہم تھا۔
"ٹھیک ہے دو دن لے لو، یہ کیس پہلے ہی کافی وقت لے چکا ہے۔ مجھے اب اسکا رزلٹ چاہیے"
وہ مطمئین نہیں تھے پھر بھی موقع دیا۔
"تھینک یو سر، سمی کہ متعلق کوئی بھی انفارمیشن ملے تو آپ فورا انفارم کیجئے گا"
وہ مشکور تھا اور اب اس معاملے میں ان بھی۔
"ہاں ! کچھ دن تک تم لوگوں کو ہادی بھی جوائن کرے گا۔ مجھے امید ہے تم سب اس کیس کو جلد حل کر لو گے"
وہ کہیں جانے کے لیے آٹھ کھڑے ہوئے تھے، ہادی کی آمد خوش آئند تھی جبکہ انکے جاتے ہی وجدان بھی انکے پیچھے ہی آفس سے نکل گیا۔
..___________________..
"آو اندر بیٹھو"
زالے نے ثانی کو اسکے گھر کے باہر سے پک کیا تھا۔ انکا پلین لانگ ڈرائیو کا تھا۔
"سعد اور خیلہ نہیں آئے"
وہ بیٹھتے ہی پوچھتے بولی.
"دونوں گھومنے نکلے ہیں، یو نو واٹ آئی مین"
زالے نے معنی خیزی سے ڈیٹ کا بتایا تو وہ ہلکے سے مسکرا دی۔
"چلو اچھا ہے"
ثانی نے رکھائی سے کہا تو زالے نے گاڑی چلاتے ہوئے سرسری سا اسے دیکھا۔
"تمہیں کیا ایشو ہے مجھ سے؟ تمہیں لگتا ہے میں نے سمیر کے ساتھ غلط کیا۔۔۔ بٹ ہی از فری ناو "
زالے نے سامنے دیکھتے ہوئے ثانی کی سرد مہری بھانپے مخاطب کیے خود کو جسٹیفائی کیا۔
"چھوڑو وہ بات اب ختم ہو گئی، تم نے ٹھیک ہی سوچا ہوگا۔ بس کسی کے ساتھ ناانصافی مت کرنا زالے۔۔ "
آخری بات پر ثانی کا لہجہ نرم ترین ہوا تھا۔
"تم تو جانتی ہو انصاف پسند ہوں۔ آج عاقب کو بھی سزا مل گئی، سچ میں ریلیکس فیل ہو رہا"
ثانی نے مسکرا کر زالے کو دیکھا جو آج کسی اور ہی موڈ میں تھی، اگلے ہی لمحے کوئی زالے کی گاڑئ کے آگے آکر مرتے مرتے بچا۔ زالے نے عین وقت پر بریک لگائی جبکہ ثانی نے زوردار آواز یعنی چینخ لگائی۔
"سمیر"
زالے نے بریک لگاتے ہوئے ثانی کو دیکھا جو گاڑی کا دروازہ کھولتی ہوئی سمیر کے لیے پاگلوں کی طرح باہر نکل رہی تھی۔ ٹھکنے سے اسکے گھٹنے پر لگی تھی جسکی وجہ سے وہ زمین پر بیٹھا تھآ، زالے کے اندر آگ بھڑک چکی تھی۔ جبکہ ثانی سمیر کو سہارا دے کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"تمہیں مرنے کے لیے اس سے بہتر جگہیں بھی مل سکتی تھیں"
لاپرواہی چہرے پر سجائے وہ اسکا جائزہ لیتے بولی تھی جبکہ ثانی اسکو کھڑا ہونے میں مدد کر رہی تھی۔۔ سمیر نے ایک بے بس نظر زالے مراد پر ڈالی جو مرہم تو دور ہمدردی کرنے کی بھی روادار نہ لگ رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔ تھینکس"
وہ ثانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کھڑا ہو چکا تھا جبکہ زالے اب ان دونوں کو مشاہداتی نظروں سے دیکھ رہئ تھی، ثانی کا سمیر کے لیے تڑپنا نہ زالے کی نظروں سے چھپا تھا نہ سمیر کی۔
"دیکھو اگر تمہیں زیادہ لگی ہے تو ہم تمہیں ہوسپٹل لے جاتے ہیں"
ثانی کی متفخر بات پر زالے کو اب حیرانگی ہوئی تھی، دل چاہا ثانی کو اسکا ڈاکٹر ہی مقرر کر دے۔
"نہیں اس کی ضرورت نہیں"
وہ کہہ اسے رہا تھا پر دیکھ اس بے حس زالے کو رہا تھا جو اب تنقیدی نظروں سے اسے دیکھ رہئ تھی۔
"دیکھو یہ بطور نرس تمہارا بھر پور خیال بھی رکھے گی۔۔ آفر مت ٹھکراو"
زالے کی بات پر ان دونوں نے اسے شاکی نظروں سے ایک ساتھ مڑ کر دیکھا۔
"ہمممم۔۔۔۔زالے ہم بات کر سکتے ہیں؟"
وہ بھی ڈھیٹ تھا مرتے مرتے بچا تھا پھر بھی وہ زالے کے عتاب کو آواز دے رہا تھا۔
"مجھے تمہاری کسی بھی بکواس بات میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔۔ چلو ثانی"
وہ گاگلز آنکھوں پر لگائے گاڑی میں واپس بیٹھ گئی جبکہ ثانی نے ایک افسردہ نظر سمیر کو دیکھا جو انتہائی بے بس نظر آ رہا تھا۔ مگر وہ اسے ایک مسکراہٹ دیے گاڑی میں بیٹھ گئی، ثانی کے بیٹھتے ہی زالے نے گاڑی فل سپیڈ سے چلا دی، چند ہی پل میں سمیر انکی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
"تمہیں گھر چھوڑ دیتی ہوں۔۔۔۔ مجھے کام ہے"
زالے نے سامنے دیکھتے کہا تو ثانی نے ہلکے سے سر ہلا دیا مگر وہ سمیر کو دیکھ کر بے حد اداس ہو چکی تھی تو نوٹس نہ کر سکی کہ زالے کس قدر غصے میں ہے۔
..___________________..
"بہت ہی اچھا کیا برخوردار!
تمہیں یوں دیکھ کر یہاں کی ہر چیز جیسے مسکرا دی ہے"
وجدان واپسی پر مسجد آیا تھا۔ اس نے خود بھی اس جگہ کو مس کیا تھا۔ امام صاحب اور باقی مسجد کے لوگ عبداللہ وجدان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔ل "آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں
" وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے بولا تو امام صاحب مسکرا دیے۔
"تم کیوں شرمندہ ہوتے ہو، اسکے گھر میں سب بہت خاص ہی آتے ہیں۔۔ وہی جنکو وہ یہاں آنے کا شرف دیتا ہے اور اس سے بڑھ کر خوش نصیب تو وہ ہیں جو یہاں آتے تو خالی ہیں مگر واپسی پر انکا دامن بھرا ہوتا ہے۔ تم جو ہو میں تمہیں وہی کہتا ہوں"
وہ دھیمی لے میں بول رہے تھے، ظہر کی نماز اس نے امام صاحب کے ساتھ ہی پڑھی تھی، تب سے وہ برامدے میں زمین پر بچھی دری پر عاجزی و انکساری کی مثال بنے ساتھ بیٹھے تھے۔
"میری طرح۔۔۔۔ آپ جانتے ہیں نا کتنا خالی تھا"
وہ پرانے دن کبھی بھی ذہن سے نہیں نکلتے تھے۔
"بس وہ خالی بھی اسے کرتا ہے جسے بھرنا چاہتا ہے"
امام صاحب کی بات اسے لگا اسکے اندر اتر گئی، درختوں پر بیٹھے پرندے چہچہانے میں مصروف تھے، ہر طرف ہر کوئی اس مسجد کا حصہ معلوم ہو رہا تھا۔۔ اور صحن کے عین وسط میں بیٹھا سفید شلوار قیمص میں ملبوس وہ پاکیزہ، نیک، باکردار اور خوبصورت و خوبسیرت عبداللہ وجدان، تمام تر دلفریبی کو مات دیتا ہوا اسکا سحر۔
یہاں آکر اسے ہمیشہ سے ہی ایک پرسکون احساس گھیر لیتا تھا، جاتے وقت امام صاحب نے اسے اگلا خطبہ دینے اور اپنی صحت کا خیال رکھنے کی تاکید کی تھی۔ جاتے وقت کوئی تھا جو اس پر نظر رکھے ہوئے تھا، جب تک عبداللہ کی گاڑی وہاں سے چلی نہ گئی وہ خفیہ نظر وہیں مرکوز تھی, پھر کوئی تھا جو مسجد کی جانب بڑھ گیا
"تو آپ کی کیا رائے ہے ارسلان صاحب"
بورڈ کے ہیڈ اب ارسلان سے مخاطب تھے، یہ میٹنگ سترہ رکنی ارکان پر مشتمل تھی جن میں کچھ قانونی لوگ شامل تھے، کچھ سابقہ جج اور انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کے چند لوگ۔
مراد بہلول اور اسکا جونئیر وکیل بھی سامنے بیٹھے تھے۔ ارسلان اور اسکی ٹیم کہ پاس آج کوئی پکا ثبوت نہیں تھا۔
"میرے خیال میں یہ بہت اہم عہدہ ہے، اسکے لیے مکمل جانچ پڑتال لازمی ہے۔ کیونکہ جب انصاف کہ محکمے شفاف ہوں گے تو پورا ملک بہترین سمت گامزن ہو جائے گا"
ارسلان نے مراد بہلول کو دیکھ کر کہا جو بدلے میں اسی سمت چمکتی امید افزاء نظر ڈالے دیکھ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے ہم آپ سبکو ووٹ کا حق دیتے ہیں، یہاں موجود تمام لوگ اپنی اپنی رائے اپنے سامنے رکھی چٹ پر لکھ کر باکس میں ڈال دیجئے"
جج نے سب کی رائے کے بعد کہا تو سب نے اپنے سامنے رکھی چٹ پر ہاں اور نہیں لکھ کر باکس میں ڈالنا شروع کر دیا۔
ارسلان نے واضع بڑا کر کے "نہیں" لکھا تھا۔
جلد ہی سب نے اپنا اپنا جواب جج تک پہنچا دیا، گنتی کی گئی۔
"مراد بہلول کو جج بنانے کے لیے "ہاں"کہ نو ووٹ ہیں جبکہ "نہیں" کے آٹھ۔۔۔ تو فیصلہ آپ سب کے سامنے ہے۔۔۔ ہم آپ سب کی رائے اور تمام قانونی کاروائی کے بعد مسٹر مراد بہلول کو یہ عہدہ سونپتے ہیں"
فاضل جج نے قہر ناک فیصلہ سنایا اور مراد بہلول کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ ابھری مگر ارسلان سنجیدہ تھا۔
"آپ عہد کریں کہ اس عہدے کا غلط استعمال نہیں کریں گے۔۔ ہم اور ہمارا پورا بورڈ آپکو مبارکباد پیش کرتے ہیں"
جج نے اپنے دو تین ساتھیوں کہ ہمراہ اٹھ کر اسے مبارک دی۔
"میں عہد کرتا ہوں"
ارسلان کو لگا جیسے وہ بے حد بے بس ہے، ایک غدار کو اسقدر اونچا عہدہ ملنا وہ برداشت نہیں کر رہا تھا۔
کاغذی کاروائی کے بعد تمام لوگوں نے باری باری مراد بہلول کو مبارکباد دی۔
"امانت میں خیانت نہ ہو، ورنہ مجھ جیسی کئی دیواریں اپنے سامنے پائیں گے آپ"
ارسلان نے اسکے بڑھے ہاتھ سے کچھ دیر کی تاخیر کے بعد ہاتھ ملاتے ہوئے دبی سی دھمکی دی، جبکہ ارسلان کے اندر اٹھتے آگ کے شعلوں کی تپش بہلول بآسانی محسوس کر رہا تھا۔
"دیواریں بہادروں اور شیروں کے لیے معنی نہیں رکھتیں"
وہ فی الحال اپنے عروج پر نازاں تھا، خود کو بہادر کہہ رہا تھا جو کافی مضحکہ خیز تھا۔
"جلد ملیں گے"
ارسلان نے جاتے ہوئے بگھڑ کر آنکھیب ملائیں اور میٹنگ روم کا دروازہ عبور کر گئے اور وہ شیطانی انداز میں اس قانون والے کی نے بسی پر خباثت سے ہنس پڑا۔
..___________________..
"تو تم ہو عاقب؟"
وجدان اور عادل آفس میں تھے جہاں عاقب کو گرفتاری کے بعد لایا گیا تھا، اسکی ابتر و بے حال حالت سے لگ رہا تھا کئی دن سے وہ کسی قید میں تھا، گھنے بالوں میں باقاعدہ مٹی بھری تھی، جبکہ پینٹ بھی پائنچوں سے پھٹی تھی۔
"عاقب سکندر"
اس نے اکٹرتے ہوئے کہا۔
"بھئی نام کے سکندر تو بہت دیکھے ہم نے، نام میں کیا رکھا ہے۔"
وجدان کا لہجہ مست ہوا۔
"کیوں لایا گیا ہے مجھے"
عادل کو اسکی لاعلمی پر ہنسی آ گئی جبکہ وجدان اس قسم کے فضول سوال پر سنجیدہ ہو چکا تھا۔
"زالے مراد کو جانتے ہو؟ اسکے گھر ہیروئین رکھنے کا جرم کیا تم نے۔ کچھ یاد ہے یا یاد دلاوں"
عاقب کا چہرہ اس یاد دہانی پر لال ہو چکا تھا۔
"نام مت لو اس کمینی کا، دھوکے باز کہیں کی۔۔۔ مجھے اغوا کر رکھا تھا اس نے اور تم لوگوں کو اطلاح دے کر مجھے پکڑوا بھی دیا۔ اب تو اسکی موت میرے ہاتھوں لکھی ہے"
وہ ڈھارتے ہوئے پھنکار اٹھا تھا جبکہ عادل اور وجدان کو اس پر ایک جیسا حیرت کا جھٹکا لگا۔
"سب کو سب کے جرم کی سزا ملے گی، تم اپنے کی بھگتو۔ کل تمہارا فیصلہ ہو جائے گا"
وجدان نے اسے کڑے تیوروں سے باور کروایا اور رفیق کو اشارہ کیا جو اسے لاکر میں لے گیا، ناجانے کیوں پر عاقب نے کچھ تو ایسا کہا تھا جو وجدان کو عجیب سی اذیت دے گیا۔
"مطلب بیٹی بھی قانون سے کھیلنے کی شوقین لگتی ہے"
عادل کی بات پر وجدان کسی سوچ سے باہر آیا کیونکہ اسکا فون بج رہا تھا، عادل کو سر ہلا کر دیکھتے ہی کال پک کی۔
"جی سر"
وجدان نے مودب ہوتے پوچھا مگر اگلے ہی لمحے خاموشی سے فون بند کر کے ٹیبل پر رکھ دیا، اسکے نرم تاثرات والے چہرے میں تلخی و بے بسی گھلتی عادل نے صاف محسوس کی۔
"وہ بہلول! جج کے عہدے پر فائز ہو گیا، کاش ہم کوئی ثبوت لے پاتے۔ یہ ایک بڑی ناکامی ہے عادل۔۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا"
وہ اس ناکامی پر ضرورت سے زیادہ سٹریسڈ ہوا۔
"ہممم برا ہوا"
عادل بھی تائید میں ہنکارا
"کوئی بات نہیں، اب یہ کیس ہر صورت حل کرنا ہوگا۔ اب یہ ہمارے ملک کی اور ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی عزت کا سوال ہے"
وجدان یہ کہتا ہوا ڈان کے لاکر روم کی طرف بڑھ گیا، جبکہ وجدان کیا کرنے کا سوچ رہا ہے یہ بھانپے عادل بھی اس کی پیروی میں آفس سے باہر نکل گیا۔
..___________________..
"ھاھاھا اس آفیسر کا منہ دیکھنے والا تھا، مجھے تو بہت مزہ آیا۔ شکر ہے اتنی ساری منحوس چیزوں میں کوئی ایک تو اچھی ہوئی"
مراد بہلول اپنے جونیئر وکیل سے کہہ رہا تھا جو بدلے میں گلاس ہوا میں لہراتا ہوا داد دے رہا تھا۔
"سر آپ کے آگے یہ سارے تو پانی بھرتے ہیں۔ ایمانداری کا بھوت انکی عقل کھا چکا، چھوڑیں انھیں آپ چل کریں"
وکیل بھی اسی جیسا تھا، خوشامدی چاپلوسی پر مراد بہلول بھی چہک اٹھا۔
"ہاں لیکن ابھی بھی خطرہ نہیں ٹلا۔ تم بس یہ قانونی معاملات دیکھو، عاقب والا کیس جلد ختم کرواو۔۔۔"
اگلے ہی لمحے اس طاقتطکے غرور میں ڈوبے بہلول کو فکر مندی نے آ گھیرا تھا۔
"ٹسر میں دیکھ لوں گا۔۔ ٹھیک ہے اجازت دیں"
زالے کو آتا دیکھ کر وہ اجازت لیتا ہوا نکل گیا جو اپنے تمام تر حسن کے سنگ ازلی جینز ٹاپ اور ہائی ہیلز پہنے پرکشش کے ساتھ مغرور حسینہ بھی لگ رہی تھی۔
"مائی پرنسس۔۔۔ "
بیٹی کی بدگمانی بھی تو ہٹانی تھی تبھی لپکتے لاڈ چھلکاتے انداز میں ویلکم کیے اٹھ کر باہیں پھیلائیں جس میں وہ خوشگوار حیرت سے آسمائی۔
"میں نے سنا ہے آپ جج بنا دیے گئے ہیں، بہت مبارک ہو ڈیڈ آپکو "
اس وقت وہ نارمل بیہو کر رہی تھی الٹا حیران تھی۔
"یس۔۔۔۔ تھینکس مائی ڈئیر"
وہ تو ہواوں میں تھا۔
"تو پارٹی تو بنتی ہے ناں"
وہ بھی رکھائی سے مسکاتے بولی۔
"کیوں نہیں، کچھ دن تک میرے کچھ دوست آ رہے امریکہ سے۔۔ تب تک ہادی بھی آ جائے گا، پھر ایک زبردست پارٹی ہوگی"
وہ اسے پرجوش ہو کر بتا رہا تھا جو کافی غیر متاثر سی تھی، خود ہی پارٹی کا کہہ کر خود ہی اکتاہٹ فیل ہوئی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ "
وہ اسے پیار کرتا ہوا فون کان سے لگائے باہر نکل گیا جبکہ زالے نے سامنے سے آتے گارڈ کو دیکھا جو اسکی طرف ہی آ رہا تھا۔
"میم آپکا کام ہو گیا ہے"
وہ ہاتھ باندھے بولا تھا۔
"اٹھا لائے ہو اسے؟"
زالے کی بات پر گارڈ نے بسوری شکل سے اس سر پھری لیڈی باس کو دیکھا، اک لمحہ لگا کہ وہ پاگل ہو گئی ہے۔
"میم وہ کون ہے کہاں رہتا ہے، یہ سب معلوم ہو گیا ہے۔ ابھی اٹھوایا نہیں اسے"
گارڈ نے درستگی کی تو زالے کو لگا جیسے اسکا سر گرم ہونا شروع ہو گیا ہے۔
"پھر یہ بھی معلوم کرو کہ تم نے کس طرح میرے ہاتھوں مرنا ہے۔"
وہ اسے جلالی انداز میں کہتے ہوئے پیڑ پٹخے آفس روم سے نکل کر چلی گئی جبکہ گارڈ نے واقعی اپنا سر تھام لیا۔
..___________________..
"تم مجھے خریدنا چاہتے ہو؟"
وہ وجدان کے سامنے تھا جبکہ وجدان کی تازہ کاروائی کے نشان فارس مانی کے چہرے پر نیل اور کھروچوں کی صورت نمودار تھے۔
"میں تم جیسے گند کو صرف صاف کرنا پسند کروں گا"
وجدان کی آنکھوں میں غصہ تھا جبکہ ڈان فارس مانی کے چہرے پر گھناؤنی ہنسی۔
"تم اچھے انسان ہو لیکن میری بات غور سے سنو انسپیکٹر! ہم جو غداری کرتے ہیں نا بلکل خالص اور ایک نمبر کی کرتے ہیں۔ پھر کسی میں ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ہمیں جان سکے، بھلے جان سے مار دو۔ میں اپنے پیشے کے ساتھ غداری نہیں کر سکتا"
وجدان کا دل چاہا اس درجہ گری وفاداری پر اسکا منہ توڑ دے۔
"جس ملک نے تم جیسے ناسوروں کو برداشت کیا ہے اس سے غداری کیوں۔۔۔۔ "
وجدان کی آنکھوں میں اب کی بار تپش تھی،گویا جہنم دہک رہا تھا۔
"کیونکہ ہمیں دو وقت کی روٹی ہمارا پیشہ دیتا ہے انسپکٹر! یہ ملک نہیں۔"
وہ بھی اس بار روہانسا سا تھا۔
"تمہیں سدھرنے کا موقع دیتا ہوں، میرا ساتھ دو۔۔۔ "
وجدان نے کاروباری بنے پیشکش کی مگر اس مکرو چہرے پر پھر سے وہ کرخت مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔
"کاش میں تمہارا ساتھ دے سکتا انسپکٹر۔ تم سچے ہو لیکن افسوس یہ دنیا سچی نہیں ہے۔"
وہ قہقہہ مار کر ہنسنا شروع ہو چکا تھا، مزید مار کا کوئی اثر نہیں تھا اس لیے وجدان باہر آ گیاں کن پٹی کی پھولی رگیں انگلیوں کی پوروں سے سہلانے کے ساتھ سن پڑتے دماغ کو کام لانے لگا۔
"کل اسے سنٹرل جیل پہنچا دو"
وہ رفیق کو ہدایت کرتے ہوئے اپنا فون دیکھ رہا تھا جہاں رباب کی تین مس کالز تھیں۔۔اسے یاد آیا کہ صبح سے رات ہو چکی ہے، عادل بھی وجدان کے غصے کو گھبراہٹ بنتا دیکھ کر مبہم سا مسکرا دیا۔
"اب میری کلاس پکی"
وجدان نے کال بیک کرتے ہوئے بڑبڑایا اور دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔
"بھیا کہاں ہیں؟ آپ کو پتا ہے نا میں آپکو یاد کر رہی ہوتی۔صبح بھی بنا ملے چلے گئے، اب میرے لیے آئس کریم، پیزا اور لیبو کے لیے اسکا فیورٹ چاکلیٹ سیرپ لے کر آئیے گا آپکی سزا ہے"
وہ رباب کی چہکتی آواز سن کر جی اٹھا۔
"ارے ارے بریک لگاو گڑیا! سب آ جائے گا بھیا سمیت۔ بس میں اور عادل نکلنے لگے تھے"
وہ رفیق کی لائی چائے دیکھتا اپنا کپ اٹھائے رباب کی تشفی کروانے لگا۔
"جلدی آ جائیں باہر بارش ہو رہی آپکو پتا ہے نا مجھے اکیلے ڈر لگتا"
انھیں تو اندر رہ کر بارش کا علم ہی نہیں تھا تبھی حیرانگی ہوئی۔
"ٹھیک ہے میری جان بھیا آ رہے ہیں تم روم میں ہی رہو"
وہ اسے کہہ کر فون بند کر چکا تھا۔
"بھائی آج ہی آپ آئے اور سارا دن کام کیے، پتا ہے نا ڈاکٹر نے بھی آپکی کلاس لینی اب"
وجدان اسے اب تھکا لگ رہا تھا، عادل کے فکر جتانے پر اسے شفیق نظروں میں محصور کیا۔
"ارے ابھی تو جانے کتنی کلاسیز باقی"
وہ کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے بولا۔۔۔ کھڑکی سے کوور ہٹائے تو باہر کوریڈور دیکھا، واقعی بارش زوروں کی ہو رہی تھی۔
"بھائی نکلتے ہیں پھر بارش تیز نہ ہو جائے"
عادل نے تجویز دی تو وہ بھی سر ہلا گیا، چائے ختم کرتے ہی دونوں نکل پڑے۔
..____________________..
بارش اور رات کا سماں تھا اور رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے اور آج معمول سے کم ٹریفک تھا۔
عادل نارمل سپیڈ پر گاڑی ڈرائیور کر رہا تھا اچانک ہی انھیں لگا گاڑی کے آگے کوئی بارش میں بھیگا انسان ہاتھ ہلا رہا ہے، عادل نے گاڑی کی سپیڈ کم کر دی۔
"بھائی صاحب مدد کر دیں، میرے دوست کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اسے ہسپتال لے کر جانا ہے"
شیشہ ہٹانے پر ایک آدمی چادر اوڑھے اندر جھانکتے ہوئے بے حد مسکینی سے مخاطب ہوا۔
اندھیرے کی وجہ سے اسکا چہرہ صاف دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔
"نہیں بھائی مجھے یہ آدمی مشکوک لگ رہا"
عادل نے ادھر ادھر سنسان جگہ دیکھ کر اپنی رائے دی مگر وجدان سیٹ بیلڈ کھول کر باہر نکلنے لگا، وجدان کے نکلنے کی دیر تھی کہ اس آدمی نے وجدان کو پوری قوت سے دبوچا اور پیچھے سے آنے والی گاڑی میں ڈال کر فرار ہو گیا، یہ سب اتنا اچانک تھا کہ عادل جب تک باہر آیا وہ گاڑی سٹارٹ کر کے جا چکے تھے، عادل کے چہرے کی باہر نکلتے ہی ہوائیاں اڑیں، بارش اتنی شدید تھی نہ سڑک دیکھائی دے رہی تھی نہ آسمان، عادل باہر نکل کر کھڑا ہونق بنا مکمل بھیگ چکا تھا۔
"یا اللہ! یہ کیا ہو گیا۔ کون تھے یہ لوگ؟"
وہ گاڑی کے اندر بیٹھا اور گاڑی سٹارٹ کر دی، کچھ دور جاتے ہی اسے انکی گاڑی نظر آ گئی تھی مگر موسم بہت خراب تھا، عادل نے ہر ممکن طور پر اس گاڑی کا پیچھا کیا مگر موڑ کے قریب اسے وہ گاڑی نظر نہ آئی تو عادل کو ایسا لگا جسم سے جان سے نکل گئی ہو۔
"کون ہو سکتے ہیں یہ لوگ! یا اللہ بھائی کی حفاظت کیجئے گا"
وہ بارش کے دوران کتنی ہی دیر سڑکوں پر گھومتا رہا مگر اسے پھر وہ گاڑی نظر نہ آئی۔۔۔ اس نے رفیق کو اطلاح کر دی اور خود گھر کی طرف گیا کیونکہ ان دو کی غیر موجودگی پر سب پریشان ہو چکے ہوتے۔
..__________________..
"بھیا"
ہارن کی آواز پر رباب گھر سے باہر آئی مگر سامنے عادل گاڑی سے نکل کر اسکی طرف بڑھ رہا تھا تو اسے اکیلا آتا دیکھے رباب پریشان ہو گئی
"تم سوئی نہیں رباب"
نرمی سے قریب رکتے پوچھا مگر رباب اسے بھیگا ہوا دیکھ کر الجھی، اوپر سے اسکے ساتھ وجدان بھی نہ تھا۔
"بھائی کا ویٹ کر رہی تھی، کیا وہ نہیں آئے؟ اور آپ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے کیسے گیلے ہو گئے؟"
رباب نے سوال کے ہمراہ عادل کو جائزہ لیتی نظر سے تکتے پوچھا تو وہ سر ہلا کر رہ گیا۔
۔"اندر چلو بتاتا ہوں"
وہ اسے کہے گھر میں داخل ہوا تو رباب بھی حیران سی اسکے پیچھے چل دی۔۔
"بھائی کو ضروری کام ہے، کل شام تک آ جائیں گے۔ انہوں نے مجھے کہا ہے تمہیں جا کر بتا دوں، وہاں سگنلز کا ایشو ہے"
وہ اسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا تبھی جھوٹ بول گیا اور وہ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مان بھی گئی، بھلا عادل کیوں جھوٹ بولتا۔
"ٹھیک ہے! آپ جائیں جا کر چینج کریں ورنہ بیمار ہو جائیں گے"
سر ہلاتے ہی مقابل کے بھیگے ہونے کا احساس دلاتے فکر نچھاور کی تو وہ ٹھیک سے اس لمحے کو محسوس بھی نہ کر سکا، ورنہ رباب کی ملائم سی فکر مبہوت کر دیتی۔
"ٹھیک ہے میں جاتے ہی کر لوں گا، تم سو جانا بے فکر ہو کر، میں ہنا کو بھیج دوں گا۔ڈرنا نہیں ہے اوکے"
عادل نے نرمی سے اسے تکتے کہا تو وہ آخری تاکید پر بلش کی، تو گویا وہ بھی جانتا تھا رباب اکیلے پن سے گھبراتی ہے۔
"ٹھیک ہے"
رباب کو مطمئین دیکھتے ہی وہ پلٹ گیا اور گھر سے باہر نکل آیا، چہرے پر پریشانی عیاں تھی رفیق کو اس نے وجدان کا فون ٹریس کرنے کا کہا تھا، گاڑی تک آتے آتے وہ اسے کال ملا چکا تھا۔
"سر فون ٹریس ہو گیا ہے"
رفیق نے ترنت بتایا۔
"ٹھیک ہے تم مجھے لوکیشن سینڈ کرو"
کہتے ہوئے عادل نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی سٹارٹ کر دی۔
"واٹ!"
کال پر ملتی اطلاع سنتے ہی وہ خوف و حیرت کے مارے اٹھ بیٹھی، چہرے پر ہزاروں رنگ لہرا گئے۔
"تم اسے اغوا کر لائے ہو؟ موت آ جائے تم کو"
زالے کا بس نہ چل رہا تھا اپنے گارڈز کو زندہ زمین میں گاڑ دیتی۔
"میم آپ نے ہی تو کہا تھا"
وجدان کو بے ہوش کر کے بیڈ پر لٹایا گیا تھا، وہ اسے کسی چھوٹے سے گھر میں لائے تھے، زالے کے بھڑکنے پر گارڈ منمنا کر رہ گیا۔
"میری ہر بات پر عمل کرنا لازمی تھا کیا؟ اگر اسے زرا بھی تکلیف ہوئی تو تمہاری جان لے لوں گی۔ میں آتی ہوں، تب تک دور رہنا اس سے۔سمجھے"
اپنے ہی حکم پر ملامت کیے وہ برس کر غرائی جبکہ جلدی سے بستر سے نکلی، چینج کیا اور بالوں کو یونہی رول کر کے باندھا، اک سرسری سی نظر آئینے میں دیکھائی دیتے اپنے عکس پر ڈالی اور فون اور گاڑی کی چابی اٹھاتی کمرے سے نکلی۔
آدھے گھنٹے تک وہ مطلوبہ گھر پہنچی، اسکے گارڈز اسے گھر کے دروازے میں ہی دیکھائی دیے جو زالے کی برہم نظروں سے خائف سر جھکا گئے۔
"دل تو چاہ رہا ہے تمہارا گلا دبا دوں۔کہاں ہے وہ؟"
گھر میں گھستے ہی گاڑی کی چابیاں میز پر پٹخ کر آگے بڑھتے بڑبڑائی تو گارڈ نے ساتھ ہی لپکتے اسے کمرے کا راستہ دیکھایا۔
"میم آپ نے ہی کہا تھا وہ جہاں ہے اسے اٹھا لاو۔
آپ غصہ کیوں ہیں اب؟"
زالے چلتے چلتے اپنے گارڈ کی زبان پر ہوتی کھجلی پر پلٹی، ایسی نظر ڈالی جو سامنے والے کو حلق تک جھلسا گئی۔
جانے کیا ہوا تھا کہ زالے کو اس شخص کی خود سے زیادہ فکر لاحق ہوئی، اسکی آواز کا احترام ہر جذبے پر سبقت لے گیا۔
"اٹھانے کا مطلب تھا اسے تمیز و احترام سے لاتے۔ بیوقوف "
جھاڑ ڈالتی اس سے پہلے وہ کمرے میں داخل ہوتی، گارڈ پھر بولا۔
"میم وہ بے ہوش ہے۔"
گارڈ کو شاید اپنی جان عزیز نہ تھی۔
"اور میرا دل چاہ رہا ہے تمہیں سیدھا اوپر پہنچا دوں، بات سنو اب غور سے، صبح ہی اسے اسکے گھر پہنچا دینا اور اپنئ تمام کاروائی روک دو اس کے حوالے سے، میں خود دیکھ لوں گی اب یہ معاملہ"
وہ گارڈ کو وہیں رکنے کا اشارہ کیے کمرے میں داخل ہوئی جبکہ دونوں گارڈز اپنا سر تھام کر رہ گئے۔
وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی،؛ہاں وہ کیسا دکھتا ہے۔۔۔ وہ جسکی آواز اسکے اندر سکون بھر دیتی ہے وہ خود بھی اسکے نزدیک پرسکون سمندر جیسا ہونا چاہیے۔
کوئی جنون سوار تھا سر پر، اسکے نزدیک جس آواز میں درد و درماں ہوں وہی خوبصورت چہرے کی مستحق ہوتی ہے۔
وہ بیڈ کے قریب چلی آئی جہاں وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا، زالے نے اسے دیکھا، وہ آواز جس قدر خوش الہان تھی، اسکا چہرہ اس سے کئی گنا روشن اور خوبصورت تھا، شاید زالے مراد نے اپنی پوری زندگی میں وجاہت سے بھرے اتنے مکمل مرد کو کبھی نہ دیکھا تھا، جہاں چہرے کے خطوط میں ملاخت و دلکشی غالب تھی وہیں لمبے بازو، چوڑھے کاندھے، بڈیاں بھری بھری بھری، کس قدر پرفیکٹ، وہ مبہوت ہو گئی تھی، کسی کے حسن کے آگے جو خود کسی سے کسی معاملے میں کم نہ تھی۔
لیکن پھر زالے کو اسکے چہرے کی جھلک یاد آئی، وہ اسے کہیں دیکھ چکی تھی۔
وہ جسکی آواز نے زالے مراد کو روح تک ہلا دیا تھا اب اسے اپنا دیوانہ بنانے کی تیاری میں تھا، اپنے سامنے وہ اس انسان کو دیکھ رہی تھی جسے اس نے تصور میں کئی بار دیکھ لیا تھا، لیکن آج وہ حقیقت میں اسکے سامنے تھا۔
"عبداللہ وجدان"
وہ بے آواز بڑبڑائی، پھر پریشان ہوئی، اتنی ہمت نہ تھی اسکے ہاتھ کی اک پور کو بھی چھو سکے، وہ کوئی کشش رکھتا تھا، کہ وہ خوف میں مبتلا لگی۔
اسے یاد آیا اس نے اسے پہلے بھی کئی بار سنا تھا، اس دن خون میں لت پت یہی تو تھا،آج پہلی بار زالے مراد کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا یا پھر شاید پہلی بار ڈھرکا تھا۔
اس شخص کو دیکھ کر دل میں جو پہلا خیال آیا وہ یہی تھا کاش یہ اسکی ملکیت بن جائے اور اپنے اس خیال پر وہ گھبرا کر پلٹ گئی۔
پورا جسم برف کی مانند ہو گیا۔
"نہیں تمہیں یوں بنا کسی حق کے نہیں دیکھ سکتی"
وہ خود کلامی کرتے ہی کمرے سے تند آندھی کی مانند نکلی۔
"میم"
گارڈ نے اسے پکارا مگر وہ بنا کسی کو دیکھے چابی اٹھاتے ہی نکل گئی، سب بدل گیا تھا زالے مراد میں، جس بارش سے زالے مراد نفرت کرتی تھی آج اس میں بھیگنے کو بری طرح مچل رہی تھی، اسکے اندر کا خالی پن فقط دیدار سے بھر رہا تھا، اور وہ سمجھ نہ پائی یہ خوشی کا لمحہ ہے یا ماتم کا۔
..___________________..
"تم پلیز اب کی بار یہ بات خود تک رکھو، ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔۔ یقینا بھائی ٹھیک ہوں گے۔۔ رباب کو اس لیے نہیں بتایا کہ وہ پریشان ہو جائے گی"
عادل ہنا اور رباب کے ساتھ ناشتہ کرنے آیا تھا اور ہنا کو اب کی بار بات سنبھالنے کا کہنے، رات ملنے والی لوکیشن ایک سڑک تھی جہاں سے وجدان کا فون ملا تھا۔ تب سے ادرگرد کے علاقے میں سرچ جاری تھی، فی الحال کوئی خبر نہیں تھی۔
"اف میرا تو دل گھبرا رہا ہے بھیا"
ہنا پریشانی میں مبتلا ہوئے بولی تو باہر لان میں ہی چلی آتی رباب انکے چہرے کی الجھن دیکھ کر فکرمند سی ہو گی۔
"کیا ہوا ہے آپ دونوں کو؟"
وہ دونوں اسکے آتے ہی جبرا مسکرائے مگر رباب بھانپ گئی۔
"کچھ نہیں! بھیا جا رہے تھے تو انکو سی آف کرنے آئی تھی"
ہنا نے بات بنائی۔
"بھیا کی کوئی کال آئی؟ میں انکو بہت مس کر رہی ہوں، انھیں کہیں نا وہ آ جائیں آج ہی"
رباب سب بھول کر پریشانی سے بولی۔
"ٹھیک ہے میری بات ہوتی ہے تو میں کہتا ہوں، تم دونوں کچھ دیر شاپنگ پے چلی جاو اور ہاں ایک ساتھ ہی رہنا دونوں"
عادل نے دونوں کو نرم سی ہدایت دی، اسی دوران مین گیڈچپر آہٹ ہوئی، سب نے بیک وقت گردن گما کر دیکھا تو وہ وجدان صاحب تھے جو خرماں خرماں چلے آرہے تھے، فل بلیک میں موصوف جاذب تو لگ رہے تھے پر چہرے پر کچھ تھکن اور سر میں درد بھی تھا۔
"میرے بھیا آ گئے"
رباب دوڑتی ہوئی دروازے تک گئی، اور وجدان سے لپٹی عادل اور ہنا بھی پیچھے ہی لپکے، وجدان تھوڑا پریشان لگ رہا تھا۔
"بھائی آپ ٹھیک ہیں؟"
عادل نے قریب آ کر پوچھا تو وہ اپنے سر کو دباتا ہوا اسکی طرف مڑا۔
"بھیا آپ تو دو دن کے لیے گئے تھے، لگتا ہے میرے بھیا کا بھی میرے بنا دل نہیں لگا"
رباب اپنی ہی باتیں کر رہی تھی جبکہ عادل جلد از جلد وجدان سے سب پوچھنا چاہتا تھا مگر وہ اسے اشارہ کرتے ہوئے رباب کو ساتھ لیے اندر چلا گیا۔
"جی میری جان بھیا کا دل بھلا کیسے لگتا، چلو ناشتہ لگواو بہت بھوک لگی ہے۔ تب تک میں چینج کرتا ہوں"
وہ رباب کو کہتا ہوا سیڑھیاں چڑھ گیا اور عادل بھی اسکے پیچھے چلا گیا۔
"بھائی آپ ٹھیک ہیں ناں"
کمرے میں آتے ہی عادل کی بے چینی جواب دے چکی تھی، وجدان گھوم کر پلٹا۔
"لگ تو رہا ہے، گھر کے باہر ہی وہ لوگ مجھے چھوڑ کر گئے ہیں۔"
وجدان کے بتانے پر عادل ٹھٹکا۔
"چھوڑنا ہی تھا تو اغوا کیوں کیا؟ بھائی آپ کو کچھ یاد ہے کون لوگ تھے؟ کونسی جگہ تھی"
وجدان کے بیٹھتے ہی وہ بھی سامنے بیٹھے پوچھنے لگا۔
"یہی تو عجیب بات ہے، مجھے بس جب بے ہوش کیا گیا تب تک یاد ہے اور صبح میں نے خود کو ایک کمرے میں پایا تھا۔ اس ایک جھلک کے بعد مجھے کچھ یاد نہیں۔ ابھی آتے وقت ان لوگوں نے میری آنکھوں پر پٹی باندھی اور ہاتھ بھی باندھ دیے تھے"
وجدان نے تمام صورت حال بتائی مگر یہ سب ہضم کرنا فی الحال دونوں کے لیے مشکل تھا۔
"ہم! چلیں آپ خیر خیریت سے ہیں یہی کافی ہے، میں نے رباب سے جھوٹ کہا تھا کہ آپ کسی کام سے گئے ہیں"
عادل نے کچھ دیر بعد بتایا۔
"ٹھیک کیا اسے نہیں بتایا، رو رو اپنی جان آدھی کر لینی تھی اس نے"
وجدان نے لمبی سانس کھینچ کر جواب دیا، اسکے سر میں شدید درد تھا جس سبب وہ سر صوفے کی پشت پر گرائے کن پٹی سہلانے لگا۔
"بھائی کیا ہوا؟"
عادل اٹھ کر قریب آیا۔
"سر بہت بھاری ہو رہا ہے، کمبختوں نے شاید بہت ہیوی ڈوز دی تھی"
وجدان نے سر کو دباتے دبایا۔
"ظاہر ہے شیروں سے سب ہی ڈرتے ہیں، رسک نہیں لیتے. زخمی شیر تو ویسے بھی خطرناک ہوتا ہے"
عادل کی ہلکی پھلکی تعریف پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی تھکن زدہ مسکرا دیا مگر وہ اس سب عجیب واقعہ سے کافی ڈسٹرب بھی تھا۔
..__________________..
"تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عاقب سکندر کو مجرم ڈکلیئر کیا جاتا ہے اور مراد بہلول کے گھر ڈرگ رکھنے کے جرم میں پچیس لاکھ جرمانہ اور چھ ماہ قید کی سزا سنائی جاتی ہے"
عاقب کے چہرے پر اپنے سامنے بیٹھے باپ کو دیکھ کر ایک دکھ بھرا تاثر ابھرا تھا، کورٹ کے فیصلے کے مطابق اسے آنا پڑا تھا۔
مراد بہلول بھی شریک ہوا تھا جبکہ ساحر بھی رفیق کے ہمراہ آیا تھا۔
"تم سے اس زلت کا حساب لوں گا زالے مراد! تمہارا قتل مجھ پر فرض ہے۔ اگلی بار یہاں عاقب سکندر کی سزائے موت کے احکام جاری ہوں گے تمہیں مارنے پر، بلکہ دردناک موت دینے پر"
پولیس اسے پکڑے ہوئے چل رہی تھی اور وہ اپنے اندر کی آگ کو یہ سوچ کر ٹھنڈا کر رہا تھا، لیکن انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ کا کوئی فرد خوش نہ تھا کیونکہ عاقب تو ایک مہرہ تھا۔
اصل غدار تو ابھی بھی کھلے عام گھوم رہے تھے، آج ہی فارس مانی کو بھی سینٹرل جیل لے جانا تھا۔ جس کے لیے بہترین سیکورٹی کا انتظام کیا گیا تھا، یہ کام عادل کے سپرد کیا گیا تھا۔
"تم سب باہر مکمل نظر رکھنا، وہ لوگ اسے واپس لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں اور تم لوگوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہوگی کہ فارس مانی کا بچاو ممکن ہو سکے۔۔۔۔"
عادل فارس مانی کو ہتھکڑی لگا کر گاڑی میں بٹھا رہا تھا جب وجدان نے اسکی ٹیم کو بریفنگ دی، جو فرمابرداری سے سر ہلا رہے تھے۔
"عادل دھیان سے! کوئی بھی گڑ بڑ ہو تو فورا اطلاع کرنا۔ رفیق بھی تمہارے ساتھ جائے گا"
وجدان نے انھیں احتیاطی تدابیر بتاتے رخصت کیا۔۔آج فارس مانی کو بہت خطرہ تھا تبھی اسکی مکمل سیکورٹی عمل میں لائی گئی تھی لیکن خطرہ تو رفیق اور عادل کی جان کو بھی تھا تبھی وجدان کا دھیان انہی میں اٹکا جب گاڑی تھانے کی حدود سے نکلی۔
..___________________..
مراد بہلول کو تو آج خوش ہونا چاہیے تھا مگر وہ غضب ناک حالت میں تھا۔
زالے، لان میں جھولے پر بیٹھی تھی جب وہ اسکے سر پر آ کھڑا ہوا۔
"تمہارا دماغ درست ہے زالے؟ یہ کیا بے وقوفی کی تم نے"
گارڈز نے شاید سب اگل دیا تھا، یہ سوچ کر غصہ تو آیا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
"اب کیا کر دیا میں نے"
وہ مزے سے جھولا جھول رہی تھی جب مراد بہلول نے ہاتھ سے روکا۔
"کیا ضرورت تھی اس انسپکٹر کو اٹھوانے کی؟ تم کچھ کرنے سے پہلے مجھ سے پوچھتی کیوں نہیں ہو۔۔۔۔"
وہ غصے میں تھا، اشتعال روم روم میں ہلکورے لے رہا تھا۔
"دیکھنا تھا اسے اس لیے"
مراد بہلول کی یہ سنے سٹی گم ہوئی۔
"واٹ! زالے تم مجھے مرواو گی، اگر اسے پتا چل جاتا تو کیا ہوتا تم نے سوچا؟ آگے سے تم نے کچھ الٹا کیا تو مجھے بہت برا پاو گی۔۔ سمجھی"
باپ کے تلملا کر وارن کرنے پر وہ ہولے سے مسکائی۔
"چھوڑ بھی تو دیا تھا، آپکی ہی بیٹی ہوں ڈیڈ۔
کچا کام نہیں کرتی"
وہ نارمل مگر دوستانہ لہجے میں بولی تھی اب کی بار بہلول کچھ دھیما ہوا۔
"ان انسپیکٹروں سے دور رہو۔ میں ہوں انھیں ہینڈل کرنے کے لیے، اگر میری مدد نہیں کر سکتی تم تو میرے کام بھی مت بڑھاو زالے۔ ہر چیز کو نارمل سمجھ رکھا تم نے"
مراد بہلول کو تو اپنا آپ خطرے میں لگا تھا تبھی یہ عتاب زالے پر نکل رہا تھا۔
"اچھا ناں چھوڑیں اب، عاقب کو سزا ہو گئی مبارک ہو آپکو۔۔ بہت آسانی سے یہ کیس ختم ہو گیا"
زالے اب مسکراتے ہوئے بولی تو مراد بہلول نے ایک خفا نظر سے اسے دیکھا۔
"تمہاری وجہ سے میں مزید ٹنشن نہیں چاہتا زالے، میری بات ٹالو مت"
وہ خفا ہوا تھا۔
"ٹھیک ہے زالے مراد اب کسی کے لیے ٹنشن نہیں بنے گی، پرامس"
وہ مسکرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"گڈ۔۔۔۔ مجھے کام ہے چلتا ہوں"
وہ کہہ کر چلا گیا اور وہ پیچھے کھڑی رہ گئی پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائے مسکرا دی۔
"عبداللہ "
وہ آنکھیں بند کیے وہ نام پکاری جس نے اسکے ہونٹوں پر مٹھاس بکھیر دی۔
"تمہیں دیکھنے اور سننے کو بے چین ہوں عبداللہ"
یہ کیسی خواہش دل میں سر اٹھا رہی تھی، سنسنی سی یہ سوچنے کے بعد زالے کے تن من میں اتر کر رہ گئی۔
..____________________..
"بھیا آپ آگئے"
وہ گھر آیا تو رباب لیبو کو لیے سامنے ہی ملی تھی، وہ مسکرایا اور اندر آ گیا۔
"کیسی ہے میری گڑیا"
وجدان اسے ساتھ لیتا آگے بڑھا۔
"ایک دم ٹھیک لیکن آپ تھکے تھکے لگ رہے ہیں"
وہ اسے لاونچ میں لے آئی، جہاں بوا کچن صاف کروا رہی تھیں۔
"ہاں بس کام کی ٹنشن "
وہ پھولا سا سانس لیتا بیٹھا تو بوا اسکے لیے پانی لے آئیں، وہ مسکرا دیا۔
"چلیں آپ رکیں میں نا آپ کے سر پر تیل سے مالش کرتی ہوں، بوا نے مجھے سیکھایا ہے دیکھیے گا کیسے آرام ملے گا"
وہ پرجوش ہوتے ہوئے بولی تو وجدان اور بوا دونوں مسکرا دیے، اسے عادل کی فکر تھی اور سب ٹھیک سے طے پا جائے۔ وہ اسی سوچ میں گم تھا جب وہ پیالی لیے اسکے سر پر کھڑی تھی۔
"بھیا میں کیا صوفے پے چڑھ کر لگاوں؟ نیچے بیٹھیں ناں"
وہ معصومت سے منہ بناتے بولی تو وہ ہنس دیا، فرما برداری سے اٹھ کر نیچے قالین پر بیٹھ گیا، بوا تو دونوں کو دیکھ کر خوش ہو جائا کرتی تھیں۔
"بھیا آپکو ایک نئے ہیر کٹ کی ضرورت ہے۔۔۔۔ "
وہ تیل لگاتے وجدان کے سر کا ماہر طریقے سے مساج کرتے ہوئے مشورے بھی دے رہی تھی اور وہ بس مسکرا رہا تھا۔
"اور آپ مجھ سے ہر ہفتے بالوں میں تیل لگوایا کریں"
یہ بول کون رہا تھا جو خود سر میں تیل لگوانے سے بھاگتی تھی، بوا شرارتی سا گھورے مسکرا دیں۔
"جو حکم ہماری لاڈلی کا"
وہ آنکھیں بند کیے بولا تو وہ کھل سی گئی، وجدان کو بے حد آرام محسوس ہو رہا تھا۔
"میرے پگلے بھیا"
وہ ہنستی ہوئئ اسے بہت پیاری لگتی تھی۔
"بھیا آپکا فون بج رہا ہے"
وہ شاید سو گیا تھا جب رباب نے اسے جنجھوڑا، فون رفیق کا تھا، دیکھتے ہی وہ سیدھا ہو کر بیٹھا اور کال پک کی۔
"ہاں رفیق سب ٹھیک ہے؟"
لہجے سے فکر مندی عیاں تھی۔
"سر گاڑی پے کچھ لوگوں نے حملہ کر دیا تھا، تین اہل کار زخمی ہو گئے ہیں"
وجدان پریشانی سے اٹھ کھڑا ہوا، بوا اور رباب بھی فکر مند ہوئے تھے۔
"یا اللہ خیر! تم اور عادل ٹھیک ہو؟ اور وہ مانی؟"
وجدان نے پریشانی سے پوچھا۔
"سر ہم نے بھی جوابی کاروائی کی تھی جس کے بعد وہ لوگ بھاگ گئے۔ فارس مانی کو گولی لگی ہے اسے بھی لے کر جا رہے ہیں"
وجدان نے پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
"عادل کا بتاو جلدی"
وجدان کو بے چینی ہوئی۔
"سر وہ بھی ٹھیک ہیں بس گولی بازو کو چھو کر نکلی ہے"
وجدان کا لمحہ بھر دل تھما۔
"ٹھیک ہے تم فورا اسے ہوسپٹل لے کر پہنچو اور فارس مانی کو اپنی ٹیم کے ہمراہ بھیجو ،میں بھی آتا ہوں۔رفیق عادل کا خیال رکھو"
وجدان فون بند کر کے مڑا تو رباب اور بوا بھی پریشان کھڑے تھے۔
"کیا ہوا ہے بچے"
بوا نے ہولتے دل کے سنگ پوچھا۔
"فی الحال تو یہی پتا ہے کہ عادل زخمی ہے، باقی وہاں جا کر پتا چلے گا۔ بوا آپ رباب کے ساتھ رہیے گا"
وہ گاڑی کی چابیاں اور فون لیے نکل گیا۔
"یااللہ اس بچے کی حفاظت کرنا"
بوا نے ہاتھ اٹھائے دعائے خیر کی پر رباب کی آنکھوں میں نمی بتا رہی تھی کہ اسکی یہ سن کر جان نکل رہی ہے۔
"بوا وہ ٹھیک ہوں گے ناں"
وہ سہمی بولی۔
"ہاں میرا بچہ سب اچھا ہوگا، چلو ہم نماز پڑھ کر دعا کرتے ہیں"
بوا نے کہا تو وہ سر ہلاتی انکے ساتھ چلی گئی کیونکہ اسکی سانس ویسے کی دعا میں مشغول ہو چکی تھی۔
..___________________..
وجدان ہسپتال پہنچا تو ہنا اور احمد صاحب اسے وہیں نظر آئے تھے اور انکے سامنے ہی عادل بیٹھا تھا، اسکے بازو پے پٹی ہوئی تھی۔
اسے ٹھیک دیکھ کر وجدان کے سانس میں سانس آیا۔
"شکر ہے تم ٹھیک ہو"
وجدان نے اسے لپک کر گلے لگا لیا۔
"بھائی ٹھیک ہوں، گولی بس چھو کے گئی ہے۔ معاف کر دیں پریشان کر دیا سبکو"
اسکی شرٹ کی بازو خون سے تر تھی جس کا مطلب تھا خون کافی بہہ چکا تھا، عادل کی گال سہلائے وہ مسکرایا۔
"اللہ نے کرم کیا ہے، میری تو جان نکل گئی تھی"
احمد صاحب بھی شکر گزار تھے جب کے ہنا عادل کے ساتھ لگی بیٹھی تھی، ڈر گئی تھی کہ اگر کچھ سنگین ہو جاتا تو سب ختم ہو جاتا۔
"ٹھیک ہے تم گھر جاو آرام کرو میں اور رفیق ہیں یہاں فارس مانی کے پاس اور باقی سبکی مرہم پٹی بھی ہو چکی ہے الحمداللہ بڑے نقصان سے بچ گئے "
وجدان نے تینوں اہل کاروں کو دیکھا جن سے رفیق اب خیریت دریافت کر رہا تھا۔
"جی بھائی"
وہ فرمابرداری سے بولا تھا۔
"کیا کہا ڈاکٹرز نے؟ بچ تو جائے گا وہ؟"
وجدان نے تینوں کی خیریت پوچھنے کے بعد رفیق سے پوچھا۔
"سر ابھی آپریشن جاری ہے، فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا"
رفیق نے مایوسی سے بتایا۔
"چلو خیر ہوگی، وہ ہمارے اس کیس کا بڑا گواہ ہے، اسے مرنا نہیں چاہیے باقی جو اللہ کی مرضی"
وجدان نے کہا اور مڑ کر دیکھا جہاں عادل اٹھ گیا تھا۔وہ لوگ گھر جا رہے تھے۔
"ٹھیک ہے رباب اور بوا کو بتا دینا ہنا، وہ پریشان ہوں گی۔۔ چلیں آپ لوگ، رفیق تم باہر تک چھوڑ آو"
وجدان نے رفیق کو تاکید کی اور خود ان کے جاتے ہی آپریشن تھیٹر کی طرف چلا گیا، جہاں فارس مانی کا آپریشن جاری تھا، کافی دیر کے انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آیا تھا۔
"کیسا ہے وہ؟"
وجدان انکی جانب لپکا۔
"خطرے سے باہر ہے، لیکن فی الحال ہوش میں نہیں ہے۔اسے دو گھنٹے تک ہم سپیشل روم میں شفٹ کر دیں گے"
وجدان کو ایک مجرم کے بچنے کی خوشی نہیں تھی پر ابھی وہ اسکا مرنا افورڈ نہیں کر سکتے تھے، اس کے لیے سپیشل سیکورٹی روم تیار کروایا گیا تھا۔
"ٹھیک ہے"
وجدان کے سر ہلانے پر ڈاکٹر پیشہ وارانہ مسکراہٹ دیتے وہاں سے چلے گئے جبکہ وجدان وہیں لگی کرسی سنبھالے بیٹھ گیا۔
"تم لوگوں سے وہ چند آفیسرز نہیں سنبھالے گئے، زخمی شیر خطرناک ہوتے ہیں جانتے تو ہو"
مراد بہلول آج کی ایک اور ناکامی پر آگ بگولا تھا، دوسری طرف فون پر سمی اس اہانت پر کچھ دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔
"سر نشانہ تو ٹھیک تھا مگر وہاں سے بھرپور جوابی کاروائی کی گئی"
وہ پھر سے شرمندہ تھا۔
"تمہارے نشانے پر اب مجھے کوئی اعتبار نہیں سمی، اب اگر وہ فارس بچ گیا تو ہم سب کا برا وقت شروع سمجھو"
اس ناکامی پر مراد بہلول کو خطرے کی گھنٹیان سنائی دے رہی تھیں۔
"سر سب ٹھیک کر دوں گا"
سمی نے قائل کرنے کی کوشش کی مگر اسے زور دار آواز سنائی دی، بہلول نے سامنے پڑے میز کو زور دار پاوں مار گرایا تھا، پھر اندر کی وہشت تھی کہ سنبھل نہ سکی۔
"تم اور تمہارے آدمی زنگ آلود ہو چکے ہو، ہر روز کوئی نہ کوئی منحوس خبر سنانا تو معمول ہے۔اب تمہیں آخری وارننگ بھی نہیں ملے گی سمجھے تم"
وہ جلال میں آچکا تھا، ماتھے کی رگیں اخیر پھول گئیں۔
"سر میں جلد اسکا کام تمام کر دوں گا آپ بھروسہ کریں"
وہ ابھی بھی ڈٹا تھا، تاسف سے منت کی۔
"باتیں نہیں سننی، کام چاہیے۔ نہیں تو مر جاو میری طرف سے کمبختو"
وہ ڈھارتے ہوئے بولا تھا اور کمرے کے باہر سے گزرتی زالے ڈیڈ کی مخدوش حالت پر ٹھٹک کر رک گئی۔
"سر ایک آخری موقع "
مراد بہلول کا غصہ انتہا پر تھا۔
"اگلی بار موقع نہیں، میری گن ہوگی اور تمہاری کن پٹی۔ مجھے جلد اچھی خبر چاہیے، نہیں تو اپنے لوگوں سمیت دفن ہو جانا کہیں، کیونکہ میرے ہاتھ لگے تو ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلاوں گا"
مراد بہلول کو جلالی موڈ میں دیکھ کر وہ کنزا کے روم کی طرف بڑھ گئی کیونکہ ابھی بات کرنا بیکار تھا، صبح سے اس نے مما کو نہیں دیکھا تھا۔ وہ دروازہ کھول کر اندر کمرے میں جھانکی، بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھی ہوئی کنزا اسے نظر آئی، زالے بنا آہٹ کیے اندر آ گئی۔
"میں تجھ سے زالے کا سکون اور خوشی مانگتی ہوں مول، اسکی بے سکونی اب میرے وجود کو کھا رہی ہے۔ مجھے میری کوتاہیوں کے بدلے جو مرضی سزا دے مولا مگر میری زالے!"
کنزا کے آنسو رواں تھے اور وہ سن کیفیت میں ماں کے پیچھے کھڑی تھی۔
"اسے اپنی محبت اور شفقت کا سایہ عطا کر دے"
آنسو تھمے تو پھر سے کنزا کی بھرائی آواز بلند ہوئی، زالے پتھر کا بت بنی تھی اور پھر اسکے قدم پیچھے کی جانب مڑنے لگے، وہ بوجھل دل اور قدموں کے سنگ چپ چاپ انکے کمرے سے نکل گئی۔
"وہ کیوں میرے لیے سکون مانگ رہی ہیں"
اسکے قدموں میں بجلی سے تیزی تھی، ہر منظر برق رفتاری سے پیچھے چھوٹ رہا تھا، وہ گھر سے باہر لان میں چلی آئی جہاں رات اپنے جوبن پر پھیلی تھی۔
"اب جا کر آخر کیوں؟ انھیں میرا سکون پہلے مانگنا چاہیے تھا۔ اب مانگ رہی ہیں جب مجھے سکون کی عادت نہیں رہی۔"
ماں کی کوتاہی پر برہم ہوئے وہ کرب سے آسمان پر پھیلے ان گنت تارے تکنے لگی، یکدم عبداللہ کا خیال کسی مقدس تسلی کی طرح اس پر سایہ کر گیا۔
"کوئی میرے لیے عبداللہ کو کیوں نہیں مانگتا"
دل کی واحد آواز اسکے ہونٹوں پر چلی آئی تھی اور پھر جیسے آسمان پر اسکے لیے ستارے گردش میں آ گئے۔
"اپنے لیے عبداللہ خود مانگو زالے"
کوئی تھا جو اسکے اندر بولا تھا، وہ بے بسی سے سر جھکا گئی، بھلا کیسے مانگتی۔۔۔۔ اسے دعا مانگنی نہیں آتی تھی، حتی کہ آج تک اپنا سکون بھی نہ مانگ سکی تھی۔ آج وہ بے بس تھی، اسے لگا جیسے وہ اندر باہر سے خالی ہو گئی ہے، ایک دم کھوکھلی۔
عشق کی ابتدا خالی ہی کیا کرتی ہے۔
..___________________..
"معمولی سا زخم ہے آپ سب نے مجھے بیمار ہی بنا دیا"
عادل نے اپنے دفاع کے لیے کہا کیونکہ ہنا نے اب رباب والا کام سنبھال رکھا تھا، احمد صاحب بھی فکر مند دیکھائی دے رہے تھے جبکہ وہ معصوم پری تو ایسے لگتا تھا کہ بس ابھی رو دے گی، جتنی تکلیف اسے وجدان کے زخمی ہونے نے دی اتنی ہی عادل کا زخم بھی پہنچا رہا تھا۔
"کافی خون بہہ گیا ہے عادل، کھاو گے تو زخم بھرے گا۔ ہنا پلاو اسے سوپ، اور تم خبردار جو بولے"
اھمد صاحب سختی سے بولے ، جو دراصل فکر مندی تھی۔
"بلکل! ویسے بھی وجدان بھیا نے کہا ہے عادل کچھ بھی کھانے سے منع کرے تو مجھے بتانا میں آ کر خود کھلاوں گا"
ہنا نے سوپ کا چمچ عادل کے منہ میں ڈالتے ہوئے مزے سے رعب ڈلواتے بتایا تو سب عادل کے فوری شرافت پکڑ کر سوپ پینے پر مسرور ہو گئے۔
"ہاں اب بھائی مجھ سے ہی بدلے لیں گے اور کیا"
عادل بھی معصومیت سے بڑبڑایا جبکہ دیکھ وہ رباب کو دیکھ رہا تھا جو اداس سی بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھی پر جب نظر ملی تو ان گہری آنکھوں پر پلکیوں کا حجاب ڈال گئی۔
"چلو میں چلتا ہوں اب تم بچے باتیں کرو۔۔ "
احمد صاحب کے سونے کا وقت ہو گیا تھا اس لیے وہ اٹھ کھڑے ہوئے، عادل کا سر چوما اور چلے گئے۔
"رباب کیوں چپ ہے؟"
عادل نے سوپ ختم ہوتے ہی منہ صاف کرتے دوستانہ ہوئے کھوئی کھوئی رباب کو دیکھے پوچھا۔
"شکر کریں اس نے آپکی کلاس نہیں لی، کیوں رباب۔ یہاں آ جاو"
ہنا نے مسکراتے ہوئے اسے پاس بلایا، تو وہ اٹھ کر بیڈ کے قریب آ گئی اور ہنا نے اسے اپنی جگہ بٹھایا۔
"مت ہو پریشان دیکھو بھائی ٹھیک ہیں بلکل"
ہنا نے باول سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے ساتھ تسلی بھی دی تو وہ مجبوری سے مسکرا دی۔
"رباب"
وہ اسکا نام لیتا اسے بہت ہی پیارا لگتا تھا۔
"جی"
وہ اسے دیکھتے بولی تو عادل اور ہنا دونوں کو اسکا جی مسکراہٹ دے گیا۔
"سمائیل کرو، ایسے بیٹھو گی تو مجھے لگے گا میں واقعی مریض ہوں۔ تھوڑا بولو، ہنساو مجھے"
وہ ہلکے پھلکے انداز میں اسے ہنسانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ مسکرا بھی دی تھی جبکہ رباب کی ہچکچاہٹ تکتے ہنا نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔
"چلو میں یہ باول رکھ کے آتی اور اپنے اور رباب کے لیے ملک شیک بنا کر لاتی ہوں، اسکے بعد ہم آپکی جان چھوڑیں گے ٹھیک ہے ناں"
ہنا نے بظاہر بہانہ بنایا پر عادل کو شرارت سے آنکھ ونگ کرنا نہ بھولی اور فورا سے کمرے سے نکلی جبکہ رباب پراعتماد تو تھی اب لیکن اداسی چہرے پر ہنوز براجمان تھی۔
"اتنا زیادہ پریشان نہیں ہوتے رباب، تمہیں تو بہادر بننا ہے"
وہ سیدھا ہو کر اسکے تھوڑے قریب ہوتے ہوئے بولا جو جوابا اداس اور سنجیدہ ہوئی۔
"مجھے نہیں بننا"
وہ معصومیت سے خفا ہوتے ہوئے بولی تو وہ مسکرایا۔
"تمہاری پریشانی دیکھ کر ڈر گیا ہوں ۔"
عادل کا لہجہ کھارا ہوا تو رباب نے اسے شاکی خفا نظروں سے دیکھا۔
"ڈرنا بھی چاہیے تاکہ آپکو اپنا پہلے سے زیادہ خیال رکھنا آئے"
وہ اپنے ازلی پر رعب لہجے میں بولی۔
"میری دعا ہے تم کسی اپنے کو کبھی کسی تکلیف میں نہ دیکھو۔ تمہارے چہرے پر جو دکھ اور اداسی ہے وہ کم ازکم میں تو نہیں دیکھ پایا۔ نہ آج نہ اس دن جب بھائی کو گولی لگی"
عادل کے لہجے کی جذباتیت ہر طرح کی دیوانگی اور جنون کو مات دے رہی تھی اور وہ اس کی باتوں میں اپنے لیے بہت سا اپنا پن محسوس کر رہی تھی، یہ جو اسکے سامنے بیٹھا تھا یہ اسکا تھا۔۔ یہ احساس ہی بہت خوبصورت تھا۔
"میں چاہتی میری عمر بھی۔۔۔۔"
وہ اس بات پر پہلے بھی سخت تیوروں سے تنبیہی ہوئے خاموش کرا دی گئی تھی اور عادل کا گھورنا کافی رہا تھا۔
"تم اپنی عمر پاس رکھو، جب رباب ہی نہیں تو سب نے لمبی عمروں کا کیا کرنا ہے"
وہ ڈانٹنے کا اثر ہلکے انداز میں مسکرا کر زائل کیے بولا اور وہ منہ پھلائے اسے دیکھے گئی۔
"کوئی نہیں! رباب ہزاروں مل جانی سب کو"
وہ گال پھلائے منمنائی جیسے کوئی بچہ اپنی اہمیت جاننے کو بہت بے تاب ہو۔
"مجھے تو نہیں ملے گی"
وہ اسے دیکھتا ہوا بنا کسی خماری کے بولا پر انداز ایسا تھا کہ رباب کے دل کی دھڑکن بڑھا گیا۔
"ک۔۔کیا مطلب"
وہ ہچکچائی۔
"کیا تم میری زندگی میں شامل ہونا پسند کرو گی، میں جلد از جلد تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں"
بنا کسی لپٹی کے سیدھے سے اپنی خواہش کا ہاتھ بڑھایا جسے تھامنے میں کم ازکم رباب کو اک لمحہ بھی سوچنا نہ پڑتا۔
"کیا میں اتنی لکی ہوں؟"
وہ مبہوت و سنجیدہ تھی۔
"نہیں ہم دونوں ہیں"
وہ اسکے اعتراف پر دھیرے سے اپنا ملائم ہاتھ عادل کے ہاتھ میں تھما گئی اور رباب کے مسکراتی آمادگی پر وہ ہاتھ عادل کے مضبوط میں جیسے دب گیا، ویسے ہی رباب کے دل کی دھڑکنیں بھی عادل کی گرفت میں آگئیں۔
..____________________..
فارس مانی کو صبح تک ہوش آ گیا تھا، وجدان رات وہیں رکا تھا لہذا وہ اسکے روم میں شفٹ کیے جانے کے فورا بعد ہی اس سے ملنے گیا۔
رفیق بھی صبح ہوتے آ گیا تھا۔
"تو یہ تھا تمہارا پیشہ؟ مصیبت میں مدد کے بجائے راہ سے ہٹانے والے لوگوں کے وفادار ہو"
وجدان کے پاس اب اسکا مائینڈ بدلنے کا بہترین موقع تھا، آج اس جانب کوئی مکرو ہنسی نہیں تھی، سنجیدگی تھی، دل کے سلگنے کا چہرے پر چلا اتا اثر تھا۔
"یہی ہیں تمہارے وہ پیارے جو تمہاری جان کے در پے ہیں، یہ لوگ کسی کے ساتھ وفا نہیں کرتے، تم سے جان چھڑوانے کے لیے وہ تمہیں مارنا چاہتے تھے اب بھی تم ان بدبختو کا ساتھ دو گے؟"
وجدان نے اسے ایموشنل کرنا چاہا تھا،مگر وہ چپ تھا۔
"انسپیکٹر تم اپنی فضول کوششیں بند کر دو اور مجھے مت بتاو کہ کیا سہی ہے"
تو گویا ابھی بھی اسکے سنکی دماغ پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا، وجدان کے ماتھے کی رگیں غصے سے پھولیں۔
"میری آفر قائم ہے فارس ہمارا ساتھ دو اور اپنی جان بچاو۔ تم لوگوں کو بے موت مرنے کا شوق آخر کیوں ہے؟"
وجدان کو بھی غصہ تھا جو فارس کی ہٹ دھرمی پر نکل ہی گیا۔
"پیشہ دو وقت کی روٹی دیتا ہے تو یہ بھی حق رکھتا ہے کہ جان لے لے اور کیا بھروسہ تم لوگوں کا؟ خود ہی حملہ کروا کہ اب مجھے سمجھانے آ گئے ہو، بلکہ ورغلانے" فارس کی ڈھیٹائی اور بدگمانی پر وجدان کا سر گھومنے لگا تھا کیسی گھٹیا سوچ کا مالک اور ڈھیٹ مٹی سے بنا تھا۔
"یہ ہسپتال نہ ہوتا تو آج سچ کہہ رہا ہوں میرے ہاتھوں تم ضائع ہو جاتے خبیث! تم لوگوں کو صرف ٹارچر کی زبان سمجھ آتی ہے۔ ٹھیک ہے فارس مانی اب اسی میں بات ہوگی"
وجدان غصے پر ضبط باندھتا پاس سے اٹھ کھڑا ہوا اور وہ گھناونی ہنسی مسکرا دیا، وجدان اسکا منہ توڑنے بڑھا مگر رفیق نے بمشکل روکا۔
"لے جاو اپنے اس جذباتی آفسر کو"
اب تو رفیق بھی غصے میں تھا مگر وہ دونوں فی الحال کچھ نہیں کر سکتے تھے۔
.._____________________..
ارسلان نے انکی ٹیم کو مزید چھ ماہ کا وقت دیا تھا، اور یہ آخری ٹائم تھا۔
فارس مانی کے ہسپتال سے ڈسچارج ہوتے ہی اسے سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں اسکا جسمانی اور ذہنی ریمانڈ ساحر اور اسکی ٹیم کو سونپا گیا تھا۔۔ وجدان عادل اور رفیق کو ڈرگ کہ اس نیٹ ورک کی تمام چھوٹی سے چھوٹی انفارمیشن جمع کرنے کا کام دیا گیا تھا اور ساتھ ساتھ مراد بہلول اور اسکے گرد گہری نظر رکھنے کے بھی کہا گیا تھا۔
سمی کی تلاش کے لیے ثبوت تو تھے مگر وہ ناجانے کس بل میں چھپا تھا کہ کسی بھی مخبر یا کسی بھی ایجنسی سے اسکی لوکیشن نہیں مل پا رہی تھی، چور کوئی نہ کوئی غلطی تو ضرور کرتا ہے اگر تو یہ منشیات کا گینگ بھی کوئی بڑی بھول ضرور کرے گا۔
فی الحال یہی حل تھا کہ خاموشی کہ ساتھ تمام ثبوت اور گواہ اکھٹے کیے جائیں کیونکہ مراد بہلول کے گرد گھیرا تنگ کرنا اب پہلے سے مشکل کام تھا، دوسرئ طرف وجدان نے عادل اور رباب کا نکاح جمعے کے دن رکھ دیا تھا۔
ابھی صرف نکاح کرنے کی تجویز دی تھی اور سب ہی اس پر متفق تھے، مغرب کی نماز کے بعد سادگی سے نکاح کی تقریب رکھی گئی تھی۔
گھر کے لان میں ہی ہلکی پھلکی لائٹنگ کروائی گئی تھی، جبکہ سمیر اس کے بعد نظر نہیں آیا تھا اور زالے نے کچھ دن سے اپنی تمام سرگرمیاں ترک کر دی تھیں مگر آج وہ کہیں جانے کے لیے تیار تھی۔ بلیک پینٹ کے اوپر ہاف وائٹ لانگ شرٹ، گلے میں تھوڑا لمبا اسکارف ڈالے وہ بہت خوبصورت اور پیاری لگ رہی تھی جبکہ سنہری بالوں کو پونی میں مقید کیے اپنی گاڑی میں سوار ہوئی اور گیڈ کھلتے ہی گاڑی سٹارٹ کیے نکل گئی۔
..____________________..
"زندگی اس رب کی امانت ہے اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا ہے، یہاں جو کچھ بوئیں گے وہاں وہی کچھ کاٹنا پڑے گا کیونکہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ بس نیک اعمال والوں کو انعام کے بدلے جنت دی جائے گی اور برے اعمال والوں کے لیے دردناک عذاب کی وعید ہے۔ پس تم اپنے رب کے بتائے ہوئے راستے پر چلو۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فساد برپا کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا"
وہ آنکھیں بند کیے اپنے چاروں طرف وہ آواز سن رہی تھی، مسجد کے مرکزی دروازے کے پیچھے کھڑی خود کو پھر سے ایک پناہ میں لیے، ایک حصار میں مبتلا محسوس کیے، اسے یاد تھا کہ وہ آج آئے گا اور وہ آیا تھا جمعہ کا خطبہ دینے۔
وہ اسے سننے کے لیے پھر سے مسجد آئی تھی، اسے کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ تمام لوگ مسجد کے اندر اور صحن میں بیٹھے اس خوش الحان آواز کو توجہ سے سن رہے تھے۔ ہر طرف ایک سکون کا سماں تھا۔
"دنیا کی راحتیں تو فانی ہیں میرے عزیزو! اصل زندگی تو وہ ہے جب ہم موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے۔ جب ہم اللہ اور اسکے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب پائیں گے، یہاں کی مشکلات وہاں کی آسانیوں کا در کھولیں گی۔ پس جو دنیا کی آزمائشوں سے گھبرا جائیں گے وہ ممکن ہے بھٹک جائیں لیکن جو اللہ کی دی آزمائش پر صبر کریں گے وہ حقیقت میں فلاح پائیں گے۔ کیونکہ وہ ہمارا رب کہہ چکا ہے کہ وہ صابر کو اپنا دوست رکھتا ہے، تو میرے بھائیو دنیا کے دکھ یہیں رہ جانے والے ہیں ان سے گھبراو مت۔اللہ کو اپنا دوست بنا لو"
زالے کا دل چاہا وہ رو دے ناجانے کیوں آج بہت مدت بعد اسے رونا آیا تھا، اللہ کو دوست بنانے والی خواہش تو اس کی حسرت تھی، پر کیا اللہ اسے بھی دوست بنا لے گا؟ یہ سوچتے اسکی آنکھیں نم تھیں، اسکارف سر پر اچھے سے درست کرتے وہ دبے پیر مسجد کے داخلی دروازے سے باہر آ گئی، قدموں میں بے پناہ تھکن تھی۔
اپنی گاڑی کھولی اور بیٹھ گئی، وہ آواز بھی خاموش ہو چکی تھی مگر زالے کی نظریں مسجد کی رہداری کی جانب تھیں جیسے اب سماعت کے سکون کے بعد اسے آنکھوں کی شفاء کو اسکا دیدار درکار تھا۔
"اللہ پاک مبارک کرے! میں بلکل وقت پر آ جاوں گا"
وہ اپنے خیالوں میں تھی جب اسے دروازے کے قریب عبداللہ اور امام مسجد نظر آئے، سفید کاٹن کا سوٹ پہنے بالوں کو اچھے سے سلجھائے ، ہلکی ہلکی داڑھی رکھے وہ کتنا پاکیزہ لگتا تھا، سر سے پیر تک نفاست و وجاہت کا شہکار، اوپر سے اللہ کا بندہ! وہ اسے دیکھتی نظریں جھکا گئی تھی، مگر اسے دیکھنے کی چاہت حاوی ہوئی تو وہ پھر سے اس جانب آبکھیں گما گئی۔
"اللہ پاک برکت ڈالے، بس آپکی دعا چاہیے"
وہ اسے سن کم دیکھ زیادہ رہی تھی، کچھ فاصلے پر ہی زالے کی گاڑی کھڑی تھی، وہ انھیں واضح دیکھ اور سن سکتی تھی، پر اسکی سننے کی حس تو بصارت کے آگے ساکت تھی۔
"میری ساری دعائیں ہیں برخوردار، اللہ سب بہتر کرے گا"
امام صاحب نے شفقت بھرے انداز میں کہہ کر اسے رخصت کیا تو وہ مسجد کے پیچھے کی جانب چلا گیا، شاید اسکی گاڑی وہیں کھڑی تھی۔
وہ زالے کی نظروں سے اوجھل ہو گیا مگر اسکے دل اور دماغ پر رقم ہو گیا تھا، کوئی شک نہیں رہا تھا تب جب گاڑی کی سیٹ سے ٹیک لگائے ہوئے بے آواز رو دی تھی، ناجانے اپنی کس محرومی پر اور ناجانے اپنی کس جسارت پر۔ پر کئی برسوں کا غبار آج دل سے چھٹ گیا، یہ بہتری کی نوعید تھی۔
..___________________..
نکاح مقدس اپنے مقررہ وقت پر طے پایا، سفید اور ہلکے گولڈن کام داری فراک میں رباب کسی پری کا روپ دھارے ہوئے عادل کے دل کی ملکہ بنی سج رہی تھی جبکہ عادل بھی سفید قمیص شلوار پہنے سوبر سی لک میں کافی وجیہہ لگ رہا تھا، سادہ ہو کر بھی۔
وہ اور وجدان آج ایک جیسے لگ رہے تھے، ہنا کی تو مسکراہٹ ہی نہیں تھم رہی تھی۔ احمد صاحب الگ اپنے بچوں پے واری جا رہے تھے، اصل خوشی تو وجدان کے چہرے پر چھائی تھی، رباب کو عادل کے پاس سونپ کر اسے دلی اطمینان ملا تھا اور اپنے سب سے پیارے فرض کو نبھانے کی خوشی بھی الگ تھی۔
رباب کے چہرے پر اس نے آج ایک خوبصورت رنگ دیکھا تھا جو شاید محبت کا تھا اور کچھ حسن نکاح نے بھر دیا تھا۔
"بس اب ہم نے زیادہ ویٹ نہیں کرنا وجدان بھیا، جلد ہی رباب کو پکا والا لینے آ جائیں گے"
مہمان جا چکے تھے وہ سب لوگ لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ ہنا اور رباب سبکو کیک سرو کر رہی تھیں، ہنا کی بات پر رباب نے اسکے پاوں پے پاوں مارا تو سب ہنس دیے، دلہا میاں بھی دبا دبا مسکاتے دیکھائی دیے۔
"بھئی تم رباب کی اور رباب تمہاری، جب دل چاہے لے جاو اسے"
وہ بھی شرارتی انداز میں بولا تھا۔
"ہاں بھئی وجدان اب رخصتی کا کیا ارادہ ہے، کب تک رباب بیٹی کو ہمارے گھر کی رونق بناو گے تم"
احمد صاحب بھی بے تاب نظر آ رہے تھے جبکہ رباب تو سبکو دیکھ کر ہی رہ گئی، ایک تو نکاح اور اب ابھی سے رخصتی کی باتیں، بچاری کا دل بیٹھا گیا۔
"ابھی تو اسے کچھ دن یہاں کی رونق رہنے دیں، جب حوصلہ ہوا تو یہ کام بھی کر دیں گے"
وجدان نے رباب کو انسیت لٹاتی نگاہوں سے دیکھا جو اب بس اموشنل ہونے کو تیار تھی۔
"یہاں رہے یا وہاں ایک ہی تو بات ہے وجدان بھیا"
ہنا نے بھی اس جلد بازی میں پورا حصہ ڈالا۔
"نہیں ہنا۔۔۔ پھر یہ بڑی ہو جائے گی۔"
وجدان کے لہجے میں اداسی سی تھی اوور رباب کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آن پہنچے تھے، اگر ہنا بروقت نہ بولتی تو وہ سچ میں رو دیتی۔
"ارے ارے یہ سب ایموشنل کیوں ہو رہے ہیں، آج تو خوشی کا دن ہے"
ہنا نے سبکی توجہ بھٹکائی تو معاملہ سنبھلا۔
اوپر سے رباب کے آنسو عادل سے بھی کہاں برداشت ہوئے تھے، وہ اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"اللہ خیر سے وہ وقت لائیں"
احمد صاحب نے دل سے کہا تو سب نے بیک وقت آمین کہا۔
"آمین آمین ثم آمین"
ہنا کا آج کے دن سنجیدہ ہونا ناممکن تھا، رباب بھی اب ہنس دی تھی۔
"چلو پھر ہم چلتے ہیں "
احمد صاحب اس وقت سو جاتے تھے لہذا وہ اجازت لیتے ہوئے بولے تو عادل بھی اٹھ گیا۔
"میں تو آج یہیں اپنی بھابھی کے پاس ہوں۔۔ آپ جائیں"
ہنا نے پاس کھڑی رباب کے گرد بازو پھیلاتے لاڈ کیا تو سب مسکرا دیے، عادل نے ایک محبت بھری نظر رباب کو دیکھا اور بابا کے ہمراہ ہی چلا گیا۔
"بہت نا انصافی ہے، عادل بھیا ملے بنا جا رہے۔ تم روکو جا کے لڑکی کیسی بیوی ہو"
وجدان بھی انھیں دروازے تک چھوڑنے گیا تھا جب ہنا نے رباب کو اکسایا، رباب کا تو منہ ہی شرم و خفت سے کھل گیا۔
"اف ہنا کیسی باتیں کر رہی ہو، انھوں نے مجھے دیکھ کر سمائل دی تو ہے۔۔۔ یہ بہت ہے ناں"
وہ منہ بنائے اسے ڈانٹتے بولی تو ہنا کی ہنسی نکل آئی۔
"سمائیل ہی دے سکتے نا بچارے سب کے بیچ اب۔ "
وہ منہ بنائے بولی تو رباب شرمیلا ہنس دی۔
"تم مار کھاو گی"
وہ شرماتے بولی تو ہنا نے اسکا گال پکڑ کر کھینچا۔
"اوئے ھوئے شرمانہ تو دیکھو وہ بھی ابھی صرف سمائل دی گئی "
ہنا کہاں باز آنے والی تھی، اور رباب کا تو دل کر رہا تھا جھوم جھوم کر پوری دنیا کو بتائے کہ عادل اسکا ہے۔
اپنی قسمت پر رشک تھا اسے اور کیوں نہ ہوتا۔
..____________________..
زالے اگلی صبح اٹھی تو اسکے فون پر ہادی کی مس کالز تھیں، وہ آج آ رہا تھا ۔اس دن کے بعد اس نے زالے سے دوبارہ بات نہیں کی تھی۔
"ہممم کیا بے چینی ہے انکو، آ جو رہے ہیں۔ جو کلاس لینی آ کر لیں۔ آٹھ مس کالز"
وہ بے زاری سے فون دیکھتے کوفت چھلکائے بڑبڑائی، اگلے ہی لمحے اسکا فون پھر بج اٹھا۔
"زالے!"
وہ فون خاموشی سے کان سے لگا گئی جب رنجیدہ سی پکار ابھری، اس نے نمبر دیکھے بنا اٹھا لیا تھا۔
لیکن آج وہ آواز پہچان گئی تھی۔
سمیر کی ہمت کچھ دنوں کے وقفے کے بعد دوبارہ جوان ہو گئی تھی۔
"تمہیں مرنے کا اتنا شوق ہے کیا؟ دنیا کے ڈھیٹ ترین انسان ہو تم ویسے"
وہ اٹھ کر کھڑکی کا پردہ ہٹاتے بولی، دن چڑھ چکا تھا۔
"موت سے نہیں ڈرتا ہوں، پلیز زالے ایک بار مجھ سے مل کر میری بات سن لو"
وہ ناجانے اتنا بے بس کیوں تھا۔
"مجھے تم میں اور تمہاری کسی بات میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے، جاو اپنا وقت برباد نہیں کرو"
وہ نارمل انداز میں بولی تھی۔
"پلیز زالے صرف ایک آخری بار"
وہ التجا پر اتر آیا تھا اور زالےکو کوفت محسوس ہوئی۔
"ایسا نہ ہو تمہیں میری آہ لگ جائے، میں یہ تک برداشت نہیں کر سکتا"
وہ بھیگی آواز لیے منمنایا، زالے متوجہ ہوئی۔
"تمہاری آہ بھی تمہاری طرح فضول ہی ہوگی، زالے مراد کو نہیں لگے گی"
وہ غرور لیے بولی۔
"لگ بھی جاتی ہیں، ایسا نہ ہو کوئی تم سے بھی میری طرح پیش آئے" اب کی بار زالے کا دل ہلا تھا، جگر پر برچھی چلی۔
"بکواس بند کرو اپنی"
زالے اپنے اندر کی وہشت یونہی چینخ کر چھپاتی تھی۔
"پلیز مل لو مجھ سے زالے"
التجا برقرار تھی۔
"تم سے ملنا اب ضروری ہے"
وہ سوچ رہی تھی کیونکہ وہ کیا کرنے والی تھی یہ اس نے سوچ لیا تھا۔
"مل لیتے ہیں، کیفے آ جانا اور ہاں تمہیں یہ آخری ملاقات ہمیشہ یاد رہے گی۔۔ ہیو آ گڈ لائف"
وہ مزے سے فون بند کر چکی تھی اور وہ دوسری طرف بے یقینی پھیل گئی۔
"تم بھی یاد کرو گے کہ زالے مراد کون ہے۔۔۔۔۔"
وہ خود کلامی کرتے زہر خندی سے بولی اور فون میٹرس پر اچھالے چینج کرنے بڑھ گئی۔
"جی بلکل، مجھے آپکا انتظار ہے۔یقینا ہم ساتھ اچھا وقت گزاریں گے"
کنزا اور بہلول ناشتے کی میز پر تھے جب بہلول کسی سے ہنس ہنس کر بات کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے ملتے ہیں پھر سی یو"
وہ مسکراتا ہوا کہہ کر فون بند کر چکا تھا، کنزا نے ایک غصیل نظر اپنے شوہر کو دیکھا
"کبھی خوشی نہیں دیکھی اس چہرے پر، کیوں ماتم بچھائے رکھتی ہو"
مقابل کی تیکھی طنزیہ نظروں سے ہی وہ تپ گیا لیکن کنزا کے لیے یہ جھڑکیاں نئی بات نہیں تھی۔ "تو کوئی ایسی لے آئیں جس کے چہرے پر آپکے پسندیدہ رنگ ہوں، میں نے تو یہ مشورہ بہت پہلے سے دے رکھا ہے"
وہ آج پہلی بار اسے اپنے لیے بھی بلکل لاپرواہ لگی تھی۔
"اب سوچتا ہوں مان لیتا تو بہتر ہوتا، ورنہ تمہارے منہ پے سوگواری کے سوا آج تک کچھ نہیں دیکھا"
وہ بھی جوابا لاپرواہی سے گرجا، بلکے بے حسی کی حد کی۔
"مجھے میری یہ سوگواری بھی عزیز ہے، آپ فکر مند نہ ہوں"
وہ زچ کرتی سنجیدگیکے ہمراہ مزے سے اپنا ناشتہ کرنے لگی۔
"خیر تم اپنی نحوست جاری رکھو آئی ڈونٹ کئیر، کل رات ایک ڈنٹر رکھا ہے۔ ہادی کے آنے کے ساتھ ہی امریکہ سے میرے کچھ دوست آ رہے ہیں۔ویسے بھی جج بننے کی پارٹی ڈیو تھی تو سوچا سب کو انوائیٹ کر لیا جائے، تم دیکھ لینا سب انتظام"
اچانک سے بنتے پارٹی پروگرام کی ذمہ داری کنزا پر ڈالے وہ مصروف انداز میں نیوز پیپر اٹھائے جائزہ لینے لگا، جبکہ کنزا کو سخت اکتاہٹ ہوئی۔
"کیوں آ رہے ہیں،میرا مطلب کوئی خاص مقصد؟"
کنزا کو ناجانے کیوں اچانک تشویش ہوئی۔
"ہم سے ملنے اور زالے کو دیکھنے"
کنزا کی رگوں میں شرارے دوڑاتا وہ اس کی کوئی بات سنے بنا اٹھا اور وہاں سے چلا گیا۔
"پتا نہیں کن دوستوں کو بلایا ہے،اور اب زالے کے لیے میں کچھ بھی آپکی مرضی کے مطابق ہونے نہیں دوں گی مراد۔ بہت ہو گیا،اب ماں بن کر اپنی بیٹی کے لیے ہر برا فیصلہ رد کروں گی"
گویا ممتا تڑپی، زالے کو مزید دلدل میں دھنستا دیکھنا اس سے برداشت نہ تھا اور اب کنزا کو صرف ہادی کی واپسی کا انتظار تھا۔
..______________________..
"کب میری گڑیا اتنی بڑی ہوئی اور کب کسی کی بہو کسی کی بیوی بن گئی پتا ہی نہیں چلا"
وہ جانے سے پہلے اسے دیکھنے آیا تھا اور اسے جاگا دیکھ کر اسکے پاس آ کر بیٹھ گیا، دفتا لہجہ غمزدہ اور آنکھیں شفقت سے بھر گئیں۔
"تم خوش تو ہو نا رباب"
وہ اسکا مائم ہاتھ پکڑے اسے سامنے بیٹھائے پوچھ رہا تھا اور بدلے میں وہ مسکرا دی تھی۔
"میرے بھیا میرے لیے جو بھی کریں گے وہ میرے لیے خوشی ہی خوشی ہے" وجدان کے اطمینان کے لیے یہ بہت زیادہ تھا۔
"بلکل! بھیا کی جان تم میں بستی ہے،تم جب خوش ہوتی ہو تو مجھے خود بخود خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میری ساری دعائیں میری پرنسس کے لیے ہیں"
وہ اسے خود سے لگاتے بوجھل مگر خوبصورت لہجے میں بولا تو وہ اس راحت کو محسوس کیے آنکھیں موند گئی۔
"میرے پیارے بھیا"
بھائی کی آنکھوں اور دل کا سکون تھی وہ۔
"اچھا چلو ناشتہ کر لینا اب میں نکلتا ہوں"
وہ اسے نرمی سے ہدایت دیتا آزاد کیے پاس اٹھا تو رباب بھی فرمابرداری سے سر ہلا گئی جبکہ ہنا صبح ہوتے ہی چلی گئی تھی اسے بھی دونوں مرد خضرات کو ناشتہ کروانا تھا۔ وہ باہر آئی تو بوا نے اسکے لیے آملیٹ اور پراٹھا بنایا ہوا تھا۔
سلیپنگ سوٹ پہنے ہی وہ ناشتہ کرنے بیٹھی، بوا اسے دیکھ کر مسکرا دیں۔
"مزہ آ گیا،بوا آپکے ہاتھ کا آملیٹ کمال ہے"
وہ ہنستے ہوئے کچن میں کھڑی بوا کو بولی تو وہ بھی مسکرا دیں، لیبو بھی اسکے پاوں کے پاس بیٹھی رباب میڈم کو ناشتہ کرتا دیکھ رہی تھی۔اسی دوران فون رنگ سنائی دی، اسکا فون قریب ہی ٹیبل پر پڑا بجنے لگا۔
اٹھ کر گئی تو عادل کا نام پڑھ کر شرمیلا سا مسکرا دی۔
"باہر آو رباب"
فون لگتے ہی بے قراری چھلکاتا کسی بہت خاص کا حکم سنائی دیا تو گھبراہٹ سے رباب کی پلکیں زیرک ہوئیں۔
"وہ میں نہیں آ سکتی، میں چڑئیل بنی ہوئی ہوں۔ آپ ڈر گئے تو"
بہانہ سچا بھی ہو پر عادل کے آگے رد تھا، وہ اسے نکاح کے بعد اچھے سے دیکھ ہی نہ سکا اور اب بے قراری سے اسکا باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا تھا۔
"تم آ رہی ہو یا میں خود آ جاوں"
وہ اس پے حق بھی جتانا جانتا تھا رباب کو تو خوشی سے یقین نہ آیا۔
"خود آ گئے تو میں نے بھاگ کے بیڈ کے نیچے چھپ جانا ہے، بچو وہ اتنی تنگ جگہ ہے کہ میرے سوا کوئی گھس بھی نہیں سکتا"
وہ خود اپنی بات پر کھلکھلائی وہ بھی سنجیدہ سے ایک دم ایسے شریر فرار پر جاذب سا مسکرا دیا۔
"ٹھیک ہے تمہیں دیکھنا چاہتا تھا بس، جیسے تم چاہو"
اب کی بار وہ بے چین ہوئی تھی کیونکہ عادل کے لہجے میں تھوڑی خفگی تیرتی محسوس ہوئی۔
"آتی ہوں ناں، خفا تو نہ ہوں۔ شال لے آوں"
رباب نے مسکراتے ہوئے مقابل مسرور کیا اور روم سے چادر اوڑھے نکلی۔
"بوا میں لان میں جا رہی آتی ہوں"
بوا کو کچن میں کہتی وہ باہر آ گئی، مین دروزے کے سامنے ہی وہ گاڑی میں بیٹھا اسکا منتظر تھا، رباب چھوٹے چھوتے قدم اٹھاتی دوسری طرف سے گاڑی کا دروازہ کھولے فورا سے اندر بیٹھ گئی اور اس بیچ عادل کی نظر اک لمحہ بھی اس پر سے نہ ہٹی جو رباب کے رونگٹے کھڑے کرنے کو کافی تھی۔
"آگئی"
وہ اسے دیکھتے بولی جو کلاسز اتارے اسکی طرف مزید گہرائی سے دیکھنے لگا، الجھے حلیے میں بھی وہ اسے بے حد سلجھی لگ رہی تھی، گالوں پر نرماہٹ و سرخی رقم جبکہ آنکھوں میں یوں عادل کے سامنے اک نئے رشتے میں بندھ کر موجود ہونا کترائے حیا کے رنگ بکھیر رہا تھا۔
"ابھی سوئی اٹھی تھی۔ پہلے بتانا تھا ناں میں تیار ہو کر آتی"
خود کو کبھی یوں کسی کی نظروں میں محصور نہیں فیل کیا تھا تبھی اسکی نظروں سے پریشان ہوتے وہ یونہی بات بنا کر نظریں چرانے لگی۔
"تیار ہو کر کیا ہوتا"
وہ تجسس سے بولا کہ آخر وہ اسکے لیے کیوں سجنا چاہتی ہے۔
"تو آپکو اچھی لگتی"
رباب کچھ دیر بعد معصومت سے بولی۔
"مجھے تو ابھی بھی دنیا کی سب سے پیاری لڑکی تم ہی لگ رہی ہو"
جذبات کی حدت رباب پر بھاری نہ پڑے اس لیے لہجے میں تھوڑی شرارت ملائی۔
"آپ نے کونسا ساری دنیا دیکھی ہوئی ہے"
وہ بھی رباب تھی، بے حد حاضر جواب۔
"میری ساری دنیا تو تم ہو"
اظہار کے لیے سوچنا نہ پڑا، یہ رباب کا حق تھا اسے مل گیا، گلابی رخسار یکدم ٹھنڈے اور پیلے پڑے لیکن جب اس نے رباب کا ہاتھ پکڑا تو واپس اسکے چہرے پر سرخیاں گھلنے لگیں۔
"اب میں کیا کہوں کہ آپ کیا ہیں"
رباب کی گھبرائی معصومیت پر وہ مختصر سا مسکرایا۔
"تم بس سنتی رہو"
ہاتھ پر پڑتے عادل کے ہاتھ کا دباو اسکے دل میں بجلیاں گرانے لگا، وہ آج بہت خاص رشتے کے طور پر اسکا لمس محسوس کر رہی تھی اور یہ لمس بے حد پر لطف اور راژت انگیں تھا، بھاری پلکیں آنکھوں کا پردہ بننے لگیں تو وہ خود ہی معنی خیز خاموشی توڑنے لگا۔
"تم سے بہت سی باتیں کرنی ہیں رباب، تم مجھے سنو گی؟"
وہ آنکھوں میں دنیا جہان کی محبت سمیٹ لایا،رباب کو لگا اسکا دل تیز تیز دھڑکنے لگا ہو، اور اسکی آواز کانوں میں سنائی دینے لگی ہو۔
"میں بھی آپکو سننا چاہتی ہوں"
وہ بھی محبت کا جواب اپنی چاہت سے دیتے بولی تو وہ اسکا ہاتھ اپنے ہونٹوں سے لگائے مسکرا دیا، پھر چوما، رباب نے گھبرا کر پیچھے کو کھینچا پر عادل نے جب ایسے نہ کرنے دیا تو چھوئی موئی بنی لجا کر رہ گئی۔
"دل نہیں چاہ رہا جانے کا اب"
اتنی حسین قربتیں چھوڑنے کا من کس کا چاہ سکتا ہے، وہ بھی تھوڑی اعتماد میں واپس آئی جیسے اس لمس نے بہت سی طاقت دے دی ہو۔
"چلیں جائیں اب، دیکھ لیا ناں، اس سے زیادہ پے بل آتا ہے"
وہ شرارتی انداز میں کہہ کر اس سے ہاتھ چھڑواتی گاری سے باہر نکل گئی۔
"تھوڑی دیر تو رکتی"
عادل کو اس افلاطون سے اتنی جلدی چلے جانے کی امید نہ تھی۔
"نہیں ناں، سمجھا کریں۔مجھے مس کریے گا، رات کو پوچھوں گی" وہ جاتے جاتے دلربا بنی اسے خوبصورت سے عہد سے باندھ گئی کہ یہ چھوٹی سی ملاقات ہی عادل کے دن بھر کا سکون بن گئی، مسکرا کر موصوف نے اسکے گھر میں انٹر ہوتے ہی گاڑی اسٹارٹ کر دی۔
.._____________________..
"سر کل رات کو سمی کا فون ڈیفینس کی لوکیشن میں آن ہوا تھا۔ لیکن بہت ہی تھوڑی دیر کے لیے۔ اسکے علاوہ اسکی گاڑی بھی فی الحال لاپتہ ہے"
رفیق، سنجیدگی سے وجدان اور عادل کو انفارم کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے اور خبری نے کیا بتایا ہے"
وجدان نے سامنے کھلا نقشہ دیکھتے ہوئے مصروف انداز میں مزید پوچھا جب عادل تمام تر ثبوت کی فائلز دیکھ رہا تھا۔
"وہ کہہ رہا ہے دو تین دن کہ اندر اندر وہ سمی کی لوکیشن فائنل کر دے گا لیکن بھائی مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اب کافی محتاط ہو گئے ہیں۔ انکے ارادوں کے متعلق ہم یوں دور بیٹھ کر نہیں جان سکتے، ان تک پہنچنے کے لیے ہمیں انکے قریب پہنچنا ہوگا"
عادل نے بھی پتے کی بات کہی تھی جس پر وجدان سوچ میں پڑ گیا۔
"مطلب ہادی؟"
وجدان نے سمجھداری کا مظاہرہ کیا اور ٹھیک مدعے پر پہنچ گیا تھا۔
"بلکل! اب وہی ہیں جو ہماری مدد کر سکتے ہیں"
عادل نے پر امید ہوتے بتایا۔
"وہ کل آ رہا ہے اور جیسا کہ ہمیں پتا ہے وہ ایک ایماندار آفیسر ہے۔ ہمیں اس سے مدد کی توقع رکھ لینی چاہیے۔ وہ انکار نہیں کرے گا"
وجدان کو بھی ہادی کے آنے کا انتظار تھا گویا ہادی کے مقدر میں کچھ بڑا لکھا جا چکا تھا۔
"بلکل! آپ جانتے ہیں انھیں ایمانداری کی سزا کے طور پر ہی اس جنگل بیابان میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا لیکن اب کی بار وہ پہلے سے مضبوط ہو کر آئیں گے"
عادل کی بات پر وجدان کو وہ دن یاد آیا جب وہ سچ کا ساتھ دینے کی وجہ سے اپنے ہی باپ کے ہاتھوں ٹراسفر کر دیا گیا تھا لیکن اسکے اندر کی سچائی آج تک زندہ تھی کیونکہ وہ ملک سے محبت رکھنے والا ایک جانباز آفیسر تھا۔
"امید تو یہی ہے، رفیق تم اپنے آدمیوں کو کہو کہ وہ زرا فاسٹ کام کریں۔ میں چاہتا ہوں یہ کیس جلد از جلد سالوو ہو"
وجدان نے تنگ سا پڑتے حتمی تاکید کی تو رفیق نے فرمابرداری سے سر ہلایا۔
"ایک اور کام کرو، یہ مراد بہلول کے پیچھے بھی دو آدمی لگا دو۔ وہ کیا کرتا ہے کہاں جاتا ہے ساری انفارمیشن لو"
ساتھ ہی وجدان مزید سوچتے ہوئے بولا ، رفیق اور عادل اپنے اپنے کاموں میں لگ چکے تھے۔
.._____________________..
"چوٹ کیسی ہے اب"
وہ سمی کے اڈے پر خود ہی آیا تھا تاکہ اس کی خیریت اور ارادے دونوں جان سکے، انداز لٹھ مار ہی تھا عیادت کا۔
"اب تو کافی بہتر ہے"
مقابل سے رسانیت کا اظہار ہوا۔
"اگر یہ ہڈ حرامی ختم ہو گئی ہو تو کام کی طرف لوٹ آو، جس پارٹی کو ہم نے اسلحہ نہیں پہنچایا وہ اپنی ڈرگز واپس مانگ رہی ہے۔۔ کیا خیال ہے کیا کرنا چاہیے"
حالات کی کشیدگی کے سبب بہلول سر ہاتھوں میں لیے یکدم اختتام تک چہرہ اوپر کیے سمی کو دیکھتے دبا سا بولا۔
"سر اسلحے کا انتظام کر لیتے ہیں، وہ ڈرگز ابھی بھی ہمیں فائدے میں ہیں۔ بیس کڑور کا نقصان ہوا ہے مگر ابھی بھی ہمیں منافع مل سکتا ہے"
سمی کی بات میں دم تھا پر اس وقت ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑ رہا تھا۔
"یہ کام تم اپنے کسی قابل اعتبار بندے کو دو۔ پولیس تمہیں تلاشتی پھر رہی ہے، اب میں یہ نقصان افورڈ نہیں کروں گا۔اگر تم انکے ہاتھ آئے تو تمہاری موت میرے ہاتھوں ہوگی سمی"
حسب توقع بہلول آگ برسانا شروع کر چکا تھا۔
"وہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتے"
اسکی لاپرواہی مراد بہلول کو زہر لگی
"وہ ہم سب کے لیے موت کے فرشتے ہیں، تم قبر میں بھی چھپ جاو تمہیں نکال باہر کریں گے"
مراد بہلول کے لہجے سے خوف چھلکا۔
"سر آپ ٹنشن نہ لیں، یقینا آپ کو اپنے آدمیوں پر فخر ہوگا ایک دن۔ آپ جانتے ہیں کہ فارس نے ابھی تک منہ نہیں کھولا ورنہ وہ آفیسرز یوں خاموش نہ ہوتے"
سمی کی اس بات پر وہ سفاک کچھ قائل نظر آیا تھا۔
"ہاں میں جانتا ہوں لیکن ٹنشن تو ابھی بھی موجود ہے۔ تم نہیں سمجھ سکتے کہ میں اب جس پوزیشن پر ہوں یہاں میں ایسی کوئی بدنامی افورڈ نہیں کر سکتا۔ ورنہ برباد ہو جاوں گا"
جو بھی تھا سمی اور فارس اسکے دو بازو تھے اور انکے بنا وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
"سمجھ سکتا ہوں سر لیکن جب تک ہم ہیں کوئی آپ تک نہیں پہنچ سکے گا اتنا یقین رکھیں"
سمی کی وفاداری پر اسے کبھی بھی شک نہیں تھا پر اسکی مسلسل ناکامی غصہ دلا رہی تھی۔
"ٹھیک ہے کام پے لگ جاو اور ہاں میں بار بار یہاں نہیں آ سکتا۔ اگلی بار میں تمہیں خود کال کروں گا اور اپنے اردگرد نظر رکھنا"
مراد بہلول کا لہجہ کچھ دھیمہ ہوا۔سمی نے فرمابرداری سے سر ہلا دیا۔
..____________________..
وہ پچھلے دس منٹ سے غیر معروف سے ایک کیفے میں بیٹھا تھا، آسمانی شرٹ اور بلیک پینٹ پر بلیک ہی کوٹ پہنے، تیاری تو کمال تھی سمیر کی مگر چہرے پر سنجیدگی اور خوف کے ملے جلے تاثرات بھی نمایاں تھے، اسے دیکھ کر آر یا پار والی صورت حال واضع تھی جیسے یا جیے گا یا مر جائے گا۔
کیا آج زالے اسے سنے گی یا ہر بار کی طرح وہ آج بھی گھاٹے میں رہنے والا تھا، یہ محبت کرنے والے بھی عجیب نفسیات کے مالک ہوتے ہیں، انکی امیدیں ٹوٹ کر بھی نہیں ٹوٹتیں، یہ بنا صلے کی چاہت بس محبت بانٹتے چلے جاتے ہیں،بھلے محبوب بے حس اور بے مروت ہی کیوں نہ ہو۔
وہ جانے کس کس سوچ میں مبتلا تھا جب اسے وہ نظر آئی تھی، فل بلیک میں کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کی حسینہ کی طرح منظروں کو گھائل کر کے تنتنے اور غرور کے سنگ چلتی نہیں بلکہ ہوا میں اڑتی ہوئی، اسکے کرلی بال ہمیشہ کی طرح اسکے اردگرد اڑتے دیکھائئ دیتے سحر پھونک رہے تھے، وہ اگر خوبصورت نہ بھی ہوتی تو اسکا یہ ایٹیوڈ ہی سامنے والا کا خاتمہ کرنے کو کافی تھا۔
اپنی دھن میں چلی آنے والی زالے کی نظر بھی اس عاشق نامراد پر پر گئی ، چہرے کے زاویے بگھڑے تھے، وہ اسکی طرف مڑ گئی، سمیر کی آنکھیں اسکی تمام تر بے حسی کے باوجود اسے دیکھ کر جگمگا اٹھیں۔
"تھینک یو زالے، تم نے میری بات کا مان رکھا"
وہ سنجیدہ تھا اور وہ لاپرواہ تھی، اسکے لیے اپنی جگہ سے اٹھا پر وہ یوں تھی جیسے متاثر ہونا اس نے سیکھا ہی نہ ہو حالانکہ آج سمیر کافی گڈلکنگ لگ رہا تھا، پھر زالے اسکی آنکھوں میں اتنا بے عزت ہونے کے باوجود بھی جو محبت و عقیدت کا طوفان محسوس کر رہی تھی وہ اسکا دم گھوٹنے اور دل بیزار کرنے کو کو کافی تھا۔
"مان تو رکھنا تھا سمیر، تم نے زالے مراد کو للکارا ہے"
وہ ترش انداز لیے بولی، مقابل کی خوشی ختم ہوئی۔
"تم میری پکار کو للکار مت کہو"
وہ اسکے الزام پر تڑپ اٹھا تھا۔
"جس چیز میں زالے مراد کا دل راضی نہ ہو زالے اسے مڑ کر دیکھتی بھی نہیں، تم انہی چیزوں میں سے ایک ہو۔ تم ایک ایسے انسان ہو جسے اپنی عزت نفس پیاری ہی نہیں، ہوتی تو ایک بار ہی سنبھل جاتے کہ تمہاری نہ میرے دل میں گنجائش ہے نہ زندگی میں"
وہ اسے اچھے سے آئینہ دیکھا رہی تھی، اس لیے نہیں کہ وہ قصور وار تھا محبت کرنے پر بلکہ اس لیے کہ وہ زالے سے محبت کرنے پر واجب القتل تھا۔
"کیا تم مجھ سے نفرت کرتی ہو"
عجیب گھبرایا، لٹا ہوا آزردہ لہجہ۔
"کرتی بھی ہوں تو کیا کر لو گے"
وہ باغی انداز لیے بولی۔
"نفرت مت کرنا، محبت کرنے والوں سے نفرت نہیں کی جاتی زالے۔ محبت کی بددعا لگ جاتی ہے"
سمیر نے اسے ڈرایا تھا جو پلی پڑھی ہی بدعاوں کے دامن میں ہوئی تھی تبھی تو اسے ہنسی آنے لگی جسکا گلا دقت سے گھوٹا گیا۔
"تم دو گے بددعا وہ بھی زالے مراد کو"
وہ چینلجنگ ہوئی۔
"تم مجھے کافی مجبور کر چکی ہو"
وہ بے بس تھا لیکن اس وقت خودغرضی کی بو چھلک رہی تھی اس کے وجود سے۔
"اچھا تو تم جیسا گھٹیا انسان اور کر بھی کیا سکتا ہے"
زالے نے اسکی آنکھوں میں نفرت سے جھانک کر جتایا، وہ برے ہر جذبے کی بو پہچاننے میں ماہر تھی۔
"گھٹیا ہوتا تو آج یوں بے بس اور خالی ہاتھ نہ ہوتا بلکہ تم پر ملکیت ہوتی میری"
وہ اپنے خالی ہاتھ دیکھاتے تیز لہجے میں بولا اور اب زالے یہ برداشت نہ کر سکی۔
"مجھے اپنی شکل مت دیکھانا، آج زالے تمہاری جان بخش رہی ہے لیکن باخدا آئیندہ نہیں بخشے گی"
زالے نے غصے پر بھرپور قابو پائے سامنے والے کو ہوش دلائی دھمکا کر۔
"زالے ایک بات یاد رکھنا، ایک دن تمہیں بھی یہ اذیت جھلینی پڑے گی،بے بسی کی، نفرت کی،لامتناہی درد کی، جب تمہارا اپنا وجود یا بہت محبوب شخص تمہاری وجہ سے جیتے جی مرے گا، جب تمہاری زندگی میں محبت کی اہمیت کا باب چاک ہوگا، اس دن تم میری تکلیف سمجھو گی"
زالے کا دل اسکی بددعا پر مرکز سے ہلا تھا، اس نے سمیر کو خالی نظروں سے دیکھا جسکے چہرے کی سچائی اسے ڈرا چکی تھی، اسکے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ "محبت تم سے دور بھاگے گی،کیونکہ محبت کی تذلیل کرنے والوں کا امتحان بہت دردناک ہوتا ہے"
وہ سر سے پیر تک ٹوٹ رہا تھا۔
"تب تم سمجھو گی محبت کی رمز۔ وعدہ ہے اب تمہیں نظر نہیں آوں گا، ایک بات یاد رکھنا بس سمیر مر کر بھی زالے سے نفرت نہیں کر پائے گا"
وہ جو سمیر کا اینڈ کرنے آئی تھی شاید خود ڈھیڑ ہونے کو تھی، دل میں ڈھرکن یوں جیسے کوئی انگارہ سلگ اٹھا ہو، وہ زالے کی کائنات روک کر جا چکا تھا مگر زالے کے چہرے پر اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا تھا، سانس نہیں آیا تھا اسے کچھ لمحے۔
"نہیں مجھے بددعا مت دو"
وہ یوں چینخی جیسے وہ سامنے ہی ہو مگر سمیر وہاں موجود نہیں تھا، زالے کو لگا جیسے وہ ایک قدم بھی اٹھائے گی تو اتنی گہری دلدل میں گرے گی کہ اسکا وجود زندہ ہی دفن ہو جائے گا۔
..____________________..
شام کو عادل ہنا اور رباب کو گمانے لے کر گیا تھا۔ وجدان کو بھی کہا تھا مگر وہ اپنی نیند پوری کرنے کا ارادہ کر چکا تھا، گھومنے کے بعد انھوں نے آئس کریم اور کھانا کھایا تھا اور شاپنگ کر کے گھر لوٹے تھے۔ہنا گھر ہی اتر گئی تھی جبکہ عادل رباب کو گھر چھوڑنے آیا،تب تک وجدان بھی جاگ چکا تھا اور لمبی نیند لے کر موصوف کے خوبصورت چہرت پر چمک اور ہمہ وقت رہتا تبسم موجود تھا۔
"ان لڑکیوں نے مجھے گما گما کر تھکا دیا"
عادل نے منمناتے شکائیت لگاتے کہا تو وجدان بھی مسکرا دی، رباب تب تخ اپنے اور ان دونوں کے لیے چائے بنا لائی تھی۔
"کب کوئی، آپ سارا ٹائم تو کھڑے رہے۔گھومی تو ہم" رباب نے بھی اپنی اور ہنا کی طرفداری فورا کی۔
"سچی تب بھی تھک گیا، آپ نے نیند پوری کی یا نہیں" عادل نے وجدان کو دیکھا جو ابھی بھی جمائیاں لے رہا تھا جیسے پھر سے نیند کو پیارا ہونے کا سوچ رہا ہو۔
"ارے کہاں، ہادی کی کال نے جگا دیا۔ کہہ رہا تھا صبح پہنچ جائے گا۔ تو میں نے کہا آفس ہی آ جانا وہیں ناشتہ بھی کر لیں گے"
وجدان نے یہ نیوز سنا کر تو ماحول اور خوشگوار کر دیا۔
"یہ ٹھیک ہو گیا، ہادی سر کا آنا سب کہ حق میں اچھا ہو"
عادل کو دلی مسرت ملی۔
"ہاں آمین اور ہماری گڑیا نے کیا کیا خریدا"
وجدان نے سر ہلاتے رباب کو لاڈ سے مخاطب کیا اس نے تمام تر چیزیں جو عادل نے دلائی تھیں اسے باری باری پرجوش ہو کر دیکھائیں۔
"سب بہت پیارا ہے، پہننا نصیب ہو"
وجدان نے مسکراتے ہوئے دعا دی پر ناجانے کیوں وہ رباب کی اتنی خوشی پر کہیں دل سے ڈرا۔
"ویسے چوائز اچھی ہے انکی"
رباب نے شریر ہوتے جان بوجھ کر تعریف میں کنجوسی کی تو عادل نے جیسے گھورا وہ منظر وجدان کے لیے بھی آج کے دن کا حسین منظر تھا۔
"چلیں بھائی چلتا ہوں میں، پھر کل ملاقات ہوتی ہے"
عادل نے ماحول میں چھائی خاموشی پر اجازت لینا ہی مناسب سمجھا۔
"ارے کھانا تو کھا لو"
وجدان نے اسے روکنا چاہا۔
"بھائی یہ دونوں مجھے کافی کچھ کھلا کر لائی ہیں۔ اب تو نیند پوری کرنے کا وقت ہے"
عادل نے پیٹ پر ہاتھ رکھے خاصی بیزارگی سے بہانہ تراشا تو وجدان اور رباب ایک ساتھ ہنسے، بھائی سے اجازت لیے وہ نکلا تو وجدان نے اسے عادل کو سی آف کرنے کا اشارہ کیا جس پر وہ ہنستی اٹھ کر پیچھے ہی گئی،اسے گیڈ تک چھوڑنے آئی تو دونوں گیڈ کے پاس جا کر رکے۔
"چلتا ہوں"
عادل نے رباب کے خوشی سے چمکتے چہرے پر گہری نظریں ڈالیں اور پلٹنے لگا۔
"آپ کچھ بھول تو نہیں رہے"
رباب نے شرارتی انداز میں کہا تو وہ رکا اور اسکی طرف مڑا۔
"وہ کیا"
رباب کی طرف دیکھتے انجان بنا۔
"مجھے دیکھنا"
وہ شرمگیں مسا دی تو وہ بھی مسکرایا۔
"آپکو دیکھ دیکھ کر ہی تو جینا ہے اب تمام عمر ملکہ عالیہ"
وہ سر جھکائے محبت سے بھرے لہجے میں بولا تو اسے اس بندے پر پیار سا آ گیا۔
"بس دیکھ کر ہی گزارہ کریں"
وہ اسکے قریب ہوا تو وہ ہنستی ہوئی دور ہٹ گئی۔
"آپ کے جملہ حقوق ہمارے نام ہو چکے ہیں، اس لیے اس دوری کی اجازت نہیں"
وہ اس پر پھر اپنا حق جتانے لگا اور اگلے ہی لمحے رباب اسکی مضبوط گرفت میں قید تھی،پھڑپھڑا کر رہ گئی اس نے رباب کی پیشانی پر جب جھک کر اپنے ہونٹ رکھے تو اس لڑکی کا مچلتا دل ہو یا وجود، قرار پا گیا۔
دونوں کی آنکھیں ملیں تو جذبات کا سمندر موجزن تھا۔
"خیال رکھنا اپنا"
وہ اسے محبت سے کہتا دور ہوا اور گیڈ لمکھول کر باہر چلا گیا اور وہ اسے جاتا دیکھتی رہی اور پھر اپنی خوش قسمتی پر آبدیدہ ہو گئی، ماتھے پر بوسے کا پر حدت احساس پورے وجود کو لپیٹ چکا تھا۔
لمبا، چوڑا پرکشش سا نوجوان تیز تیز قدموں سے راہداری عبور کر رہا تھا، لاونچ سے کمرے تک کا فاصلہ تیزی سے طے کرتا وہ سیڑھیاں چڑھنے لگا، فجر کی آذانیں دور دور سنائی دے رہی تھیں، پھر ایک کمرے کا دروازہ کھولا لائیٹ آن کی اپنے کندھے سے اپنا بیگ اتار کے رکھا اور باہر نکل گیا، پچھلے کئی گھنٹوں سے زالے اپنے کمرے میں ہی بند تھی اور ہمیشہ وہ ہادی کے آنے پر ایسا کرتی تھی مگر اس بار وجہ کچھ اور تھی، اس بار اس پر بددعا کا بوجھ تھا،وہ آج بھی سب سے پہلے اسے دیکھنے اسکے کمرے کی طرف گیا لیکن کمرے کا دروازہ بند تھا۔
اسکے کمرے کی چابی صرف ہادی مراد کے پاس تھی تبھی آج بھی اسے ہی استعمال کیے لاک کھولا ہی کہ کمرے کا دروازہ کھل گیا، اندر قبر سا اندھیرا تھا، نہ ختم ہونے والی وہشت جس نے ہادی کے دل کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔
ہادی نے ہاتھ بڑھا کر نائیٹ بلب آن کیا، جہازی بیڈ خالی پڑا تھا، وہ میز پر سر رکھے نیچے فرش پر بیٹھی بیٹھی ہی سو رہی تھی، وہ جانتا تھا وہ ہمیشہ سے ہی بے حس رہی مگر کم ازکم ہادی اسکے لیے ویسا بے حس نہیں ہو سکتا تھا،
وہ جانتا تھا وہ اسے نیند سے جگا کر اس پر ظلم کرے گا تبھی اس کے پاس جاتے جاتے اپنے قدموں کو روک گیا، اسے معلوم تھا وہ آج بھی نیند کی گولی لے کر سوتی تھی، ہادی اور وہ بہت زیادہ ہم شکل تھے، دونوں کی شباہت بہت ملتی تھی کہ اگر ہادی کو لڑکی بنا دیا جاتا تو وہ زالے کی کاپی لگتا۔
وہ اس سے کچھ سال بڑا تھا اور وہ ہمیشہ اس سے دور ہو جانے پر تکلیف سے گزرتا آیا تھا اور اتفاق سے ہر اس موقعے پر جب زالے کو اسکی بہت ضرورت ہوا کرتی اور پھر ان اتفاقات سے تنگ آ کر زالے نے اپنی ضرورتیں ہی محدود کر لیں۔
وہ محبت سے اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو دھکیل کر پیچھے کرنے لگا مگر تب بھی وہ اسے دیکھ نہیں پا رہا تھا کیونکہ وہ ٹیبل سے آدھا چہرہ چھپائے ہوئے تھی۔
"میں تم سے صبح ملوں گا"
وہ اسکے سر کو چومے خودکلامی کرتے اٹھا اور لائیٹ بند کرتے ہوئے دروازہ بند کر دیا، کمرے سے نکلا ہی کہ سامنے ہی کنزا نظر آئیں۔
"مما"
دیکھتے ہی فرط جذبات سے وہ ماں کے گلے لگ گیا تو کنزا نے بھی ساری محبت نچھاور کر کے اس پہاڑ سپوت کو خود سے لپٹا لیا۔
"جانتی تھی تم زالے کو ہی دیکھنے جاو گے پہلے"
وہ اسے الگ کرتے بولیں تو وہ ہلکے سے مسکرا دیا۔
"میرا حصہ ہے، اس سے فراموش نہیں ہو سکتا"
وہ سنجیدہ تھا۔ کنزا نے شفقت سے اسکا چہرہ ہاتھوں میں بھرا۔
"ایسے ہی اسے محبت دینی ہوگی، اب اپنی غلطیوں کی تلافی کا وقت ہے، تمہیں اسکا بڑا بھائی بننا ہوگا اور مجھے اچھی ماں"
کنزا اداس تھیں، ہادی انھیں ساتھ لگائے چلنے لگا۔
"میں آگیا ہوں، آپ اداس نہ ہوں"
کنزا کا مان تھا ہادی۔
"میرا بچہ"
اور وہ قربان ہو گئی تھی۔
"فریش ہو جاو پھر ناشتہ کرتے ہیں"
کنزا نے اسکی تھکاوٹ کے پیش نظر کہا۔
"ناشتہ آفس جا کر، اسکے بعد آوں گا مل کر چائے پیئیں گے"
فرض کے معاملے میں وہ آج بھی وہ پلا تھا، کنزا مسکرا دی۔
"جیسا میرا بیٹا کہے
" کنزا اسے کہتی ہوئی چلی گئی اور وہ فریش ہونے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔
.._____________________..
"بہت اچھا ہو گیا، تم واپس آگئے ہو تو تھوڑا حوصلہ بڑھ گیا ہے"
وجدان ہادی اور عادل کے لیے رفیق ناشتہ لگا کر گیا تھا قور سب مل جل کر پرانے یار بنے بیٹھے ایک جیسے رفیق و یار لگ رہے تھے۔
"سچ پوچھو تو میں خود بے چین تھا کب جاوں گا اور کب اس کیس کا انجام ہوگا، اس کیس نے میری بھی نیند اڑائی ہے"
ہادی نے کوفت سے بتایا۔
"یقینا اب ہم اسے حل کر لیں گے سر"
عادل، وجدان کی طرح اس کا بھی جونیر تھا۔
"ان شاء اللہ!" وہ پر امید تھا۔
"تم کمزور تو نہیں پڑو گے ہادی؟"
وجدان اسکی رگ رگ جانتا تھا پھر بھی وہ پوچھ رہا تھا کیونکہ اس بار مدمقابل پھر باپ تھا۔
"ہمیشہ پڑ جاتا تھا اب کی بار نہیں، میں فیصلہ کر کے آیا ہوں۔ اب کی بار رعایت دینے کا مطلب اپنے فرض سے غداری ہوگی، میں غدار کی زندگی سے مر جانا بہتر سمجھوں گا"
ہادی اب کی بار مضبوط ہو کر لوٹا تھا اور وجدان کو اس بات کی دلی خوشی تھی۔
"ہم ضرور کامیاب ہوں گے"
وجدان نے اسکا عزم دیکھ کر سینہ تھپکا۔
"آمین"
عادل اور ہادی بیک وقت بولے۔
"تو آج کا کیا پلین ہے"
وجدان ناشتہ کرتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔
"آج گھر میں ایک پارٹی ہو رہی ہے، ڈیڈ کے کچھ دوست آ رہے ہیں اور مجھے یقین ہے یہ لوگ کسی خاص مقصد سے آ رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن سے ڈیڈ لین دین کرتے ہیں۔ مجھے گہری نظر رکھنی ہوگی"
ہادی انھیں اپنے خدشے بتا کر تشویش زدہ کر گیا۔
"انکے مقصد کی نوعیت معلوم کرو تم، یہ بہت ضروری ہے"
وجدان کو بھی ہادی کے محفوظات مناسب لگے۔
"ہاں میں وہاں سب دیکھ کر تمہیں اطلاع کروں گا لیکن وہ مجھ سے بھی محتاط رہیں گے آئی نو"
ہادی مراد بہلول کو بہت اچھے سے جانتا تھا۔
"چلو دیکھتے ہیں پھر "
وہ سب ناشتہ کر چکے تھے۔
"بھئی عادل اور رباب کے نکاح کی مبارک بھی لے لو بڈی، شادی مس نہیں کروں گا ان شاء اللہ"
ہادی کو کچھ یاد آیا تو خوشی چھلکاتے مبارک ٹھوکی۔
"خیر مبارک! بلکل ہم مس کرنے بھی نہیں دیں گے"
عادل نے کہا تو وہ اور وجدان شرارت بھرا ہنسے۔
"بس اب وجدان میاں تم بھی اپنے ولیمے کا زردہ کھلا دو۔۔ کب تک ترساو گے ہم مسکینوں کو"
ہادی بھی کافی ہنس مکھ تھا، عادل بھی اس بات میں ہادی کے ساتھ تھا جبکہ یہ زردے والی فرمائش وجدان کو ہمیشہ بھاگنے ہر مجبور کرتی۔
"میں بڑا ہوں تم سب سے اس لیے تم سب چھوٹوں کے ولیمے کھا کر اپنے کا سوچوں گا، فی الحال نو کمنٹس"
وجدان نے گویا کندھے اچکا کر بولتے بات ہی مکا دی، جبکہ ہادی اور عادی بچارے ایک دوسرے کا منہ ہی تکتے رہ گئے۔
.._____________________..
"زالے اٹھی ہے؟"
ہادی گھر آیا تو ابھی تک بہلول اسے نظر نہیں آیا تھا، آج وہ آفس ہی رک گیا تھا۔ کنزا کچن میں کھانا بنوا رہی تھیں جب وہ انکے پاس آیا۔
"پتا نہیں۔۔۔ کل سے وہ باہر نہیں آئی، تم خود دیکھ لو" کنزا نے آج اپنے کام سے چھٹی لے لی تھی، وہ ہادی کی پسند کا کھانا بنوا رہی تھی۔
"ہمم دیکھتا ہوں"
وہ ممی کا سر چومتا کہہ کر باہر نکلا اور اسکے کمرے کی طرف بڑھ گیا، دروازہ کھولا تو وہ سامنے کھڑکی کے ساتھ چپ اور سوگوار سی کھڑی تھی، آہٹ پر مڑی تو ہادی کو دیکھ کر تھم سی گئی۔
"زالے!"
وہ اسکے قریب آیا مگر اس نے ہاتھ سے روک دیا کیونکہ وہ عجیب وحشی ہو رہی تھی۔
"تم نے میرا فون نہیں اٹھایا، کتنی کالز کی تھیں۔زالے اس بار معاف نہیں سکتی تم مجھے"
وہ اسے پھر بھی کندھے سے پکڑ کر سیدھا کرتے بولا ، لہجے میں جی بھر کر اپنی کوتاہیوں کی ندامت تھی۔
"آپ کو کہا ہے بھائی، معافی کا نام نہ لیا کریں"
وہ اسے آج بدلی لگی، تھکی تھکی سی ورنہ اکثر اوقات وہ پھٹ پڑنے والی چیز تھی۔
"تم ٹھیک تو ہو"
وہ اسکا ماتھا صھوئے بڑبڑایا جہاں ہلکی سی تپش تھی۔
"میں ہمیشہ ٹھیک ہوتی ہوں"
زالے نے اسکا ہاتھ رسان سے پرت ہٹاتے خود کو نارمل کرتے ہوئے اعتماد سے یقین دلایا۔
"میں جانتا ہوں تم مجھ سے ناراض ہو، ہر بار تمہیں اکیلا جو چھوڑ دیتا ہوں، کبھی مجبوری، کبھی پڑھائی، کبھی فرض کے چکر میں۔تم ناراض ہونے میں حق بجانب ہو لیکن زالے تم میں میری جان بستی ہے تم جانتی ہو" وہ اسکے لیے پریشان تھا یہ زالے دیکھ رہی تھی۔
"میرے لیے پریشان نہ ہوں"
وہ نرم لہجے کیں کہتی کھڑکی کی جانب مرتے بولی۔
"زالے"
وہ بھی کھڑکی کی طرف کھڑا ہوا۔
"بھائی میرا نام مت لیں"
ہادی کو لگا اسکا دل پھٹ سا گیا ہو۔
"زالے میری طرف دیکھو، تم مجھے ٹھیک کیوں نہیں لگ رہی"
اب ہادی کی پریشانی فکر مندی بن گئی۔
"ہو جاوں گی"
وہ پتھر تھی شاید۔
"میں کیا کروں تمہارے لیے زالے، میں تمہارے لیے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔ کیا قیمت ہے تمہاری خوشی کی۔ تمہارے چہرے کی مسکراہٹ کہاں سے خریدوں، تمہارے اندر کا سکون کہاں سے لوٹ کر لاوں؟"
ہادی اسے آج بکھری ہوئی وہی چار پانچ سالہ زالے محسوس کر رہا تھا اور وہ بکھر گئی تھی۔ بددعا کے لگ جانے کے ڈر نے اسے ریزہ ریزہ کر دیا تھا۔
پانے سے پہلے وہ عبداللہ کو ہاتھوں سے چھوٹتا محسوس کر رہی تھی۔
"میرے لیے فکر مند ہو کر مجھے کمزور مت کریں بس"
وہ خود کو سفاک کر چکی تھی اور اس دوران اس نے اپنئ آنکھوں میں آئی نمی ضبط کر لی، وہ لوٹ گیا تھا اور زالے کا دل چاہا وہ بھائی کو آواز دے۔
"کیا آپ مجھے عبداللہ دے سکتے ہیں؟"
ہادی کے چلتے قدم تھم گئے، وہ مڑا اور اسکے قریب آیا۔
آنکھوں میں دھندلائی حیرت تھی۔
"بتائیں کیا آپ زالے کی خوشی اسے لا کر دے سکتے ہیں؟ اس انسان کو میرا بنا سکتے ہیں۔ بولیں بھائی"
وہ وہشت ناک سنجیدگی لیے التجاء کر رہی تھی۔
"عبداللہ وجدان؟"
ہادی مراد کی آواز کپکپائی۔
"جی مجھے عبداللہ دے دیں"
وہ آنکھیں جھکا کر رو پڑی۔
"زالے!"
ہادی کو سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے۔
"نہیں تو کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی کہ زالے مراد کیسے مر گئی"
ہادی نے اب کی بار غصے سے اسکی سفاک مگر بھیگی آنکھوں کو دیکھا مگر وہ کچھ مزید سنے بنا وہاں سے چلی گئی جبکہ ہادی کے دماغ کی چولیں اس وقت سہی معنوں میں ہلا گئی تھی۔
.._____________________..
"ارے میری فیوچر بھابھی کچن میں کیا بنا رہی ہے"
ہنا جب آئی تو رباب کچن میں کچھ بنا رہی تھی، اسے دیکھ کر مسکرا دی۔
"آج میں بھیا کی فرمائش پر کھیر بنا رہی ہوں"
کھیر کا سن کر ہی ہنا نے منہ میں پانی آ چکا تھا۔
"ارے زبردست! مجھے تو بہت پسند۔ سنو زیادہ سی بناو۔ عادل بھیا بھی کھائیں گے"
ہنا نے کھیر کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا دی۔ "ٹھیک ہے زیادہ ہی ہے، تم بتاو تم کب کچن کا منہ دیکھنے کا ارادہ کرو گی۔ بھئی کل کو تم نے بھی بیاہ کر پیا دیس چلے جانا"
ہنا کو رباب بلکل بڑی اماں ہی لگی تھی، وہ ہنس دی۔ "ارے ارے کاش ہم پہلے تم کو بیاہ لیتے، میری اماں جان کی کمی پوری ہو جاتی۔ نکاح ہوتے ہی تم سچی بڑی سمجھدار ہو گئی ہو"
ہنا نے مسکراتے اور حیرانگی سے کہا تو رباب کی بھی ہنسی نکل آئی۔
"بس کبھی غرور نہیں کیا"
وہ بھی ہنس کر اترائی تھی۔
"ھائے صدقے! ویسے تمہارا اور بھائی کا لگتا رومینس سٹارٹ ہو گیا ہے"
ہنا نے باقاعدہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا اور وہ ہنا کے چھیڑنے پر کان کی لو تک سرخ پڑی۔
"اف ہنا کیسی باتیں کرتی ہو"
ہنا اسکا سرخ چہرہ دیکھ کر قہقہہ لگاتے بہت پیاری لگی۔
"بھئی یہ میرے عادل بھیا کی زبان جو بولنے لگی ہو اس سے تکا لگایا"
اب کی بار وہ اسکی منتق پر ہنسی تھی۔
"وہ میرے لیے بہت خاص ہیں، میں تو چاہتی ہوں کہ انکے رنگ میں رنگ جاوں"
اب تو ہنا کے چہرے پر شرارتی مسکراہٹ آ چکی تھی اس قدر جذباتی کوئین کی اداوں ہر۔
"اوئے ھوئے میں واری جاوں"
ہنا کے چہرے پر خوشی تھی اور اسی طرح اس نے رباب کا صدقہ اتارا۔
"بس تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہمیشہ رہو، میری تو دل سے دعا ہے۔ وہ بہت لکی ہیں سچی کہ تم جیسا چاند کا ٹکڑا ملا انھیں"
ہنا اسکے گرد بازو پھیلاتے رشک سے اسے گھوٹ گئی۔
"آمین آمین
" رباب کے دل سے نکلا تھا۔
"چلو چلو اب انکے خیالوں میں کھو کر کھیر نہ جلا دینا"
وہ اسے الگ کرتے بولی تو دونوں ہی کھنکتا اور شریر ہنس پڑیں۔
.._____________________..
"مجھے تم سے اس لاپرواہی کی امید نہیں تھی وجدان، یہ کیا حال کر دیا زخم کا۔ تم نے بازو کو ریسٹ نہیں دی"
وہ کچھ وقت سے بہت درد محسوس کر رہا تھا اس لیے دن کو ڈاکٹر کے پاس آیا اور ڈاکٹر اس پر بری طرح ناراض ہو رہا تھا۔
"اتنا ریسٹ تو کیا ہے، اب تو ٹھیک ہو چکا تھا۔صبح اچانک سے درد سٹارٹ ہو گیا تھا۔"
وجدان نے ایمانداری اور قدرے معصومیت سے جنجھلا کر مقابل کے اعتراض کا جواب دیا۔
"لیکن تمہیں گولی لگی تھی، کوئی معمولی زخم نہیں تھا۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں تاکہ کوئی اندرونی انفیکشن نہ ہو جائے"
ڈاکٹر نے سنجیدگی برقرار رکھی اور کچھ لکھنے لگا۔ وجدان شرٹ پہنے بٹن بند کرتا اٹھ کر خود بھی کرسی کی طرف آیا۔
"ابھی اپنے کندھے اور بازو کو زیادہ حرکت مت دو۔ فیملی ڈاکٹر ہونے کے ناطے میں غصہ ہوں"
ڈاکٹر کی نظر وجدان پر تھی جو منہ پھلا کر انجکشن دیکھ رہا تھا کہ کسی طرح ڈاکٹر کو ہی لگا کر بھاگ جائے۔
"گولی کھانے والا بندہ ایک انجیکشن سے ڈر رہا ہے"
ڈاکٹر صاحب کی گہری جانچتی نگاہوں کو داد دیے وجدان نے آنکھیں گمائیں۔
"ڈر کون رہا ہے، بس آپکا ہاتھ کافی بھاری ہے، ایسا لگتا ہے بھینس والا انجکشن لگا رہے ہیں۔ کچھ کر لیں اپنے ٹھنڈے ہاتھوں کا آپ"
وجدان نے سر کھجاتے سارا ملبہ ہی مقابل ڈالا تو وہ مسکرا کر اسکی طرف آیا اور اسکو انجکٹ کیا جس پر سچ میں وجدان کو کافی درد فیل ہوا۔
"ہو گیا، ہاتھ بھلے ٹھنڈے ہوں لیکن ان میں شفا ہے یہی بہت میرے لیے۔ بچے لگ رہے ہو بلکل۔ اب آگے سے مجھے شکایت نہ ملے۔ ٹھیک ہے ورنہ سچ میں بھینس والا انجکشن ہی لگاوں گا"
ڈاکٹر نے سنجیدگی سے کہا اور کچھ میڈیسن لکھ کر اسے تھما دیں، وجدان مسکراتا ہوا ناراض سے ڈاکٹر صاحب سے اجازت لیے روم سے باہر آگیا۔ وہ راہداری میں تھا جب اس نے اپنی گلاسز نکال کر پہنی اور وہ جیسے ہی مڑا کسی نسوانی وجود سے زبردست ٹکراو سے کچھ دور ہو گیا، وہ جو بھی تھا اسکے زخمی کندھے سے بری طرح ٹکرایا تھا، ٹکرانے والے کا تو پتا نہیں لیکن وجدان کو ایسا لگا درد کی لہر پورے جسم میں پھٹ کر پھیلی تھی۔
"آئی۔۔۔ظالم"
وجدان نے منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے زبان دھیمی کرتے روکی کیونکہ وہ لڑکی تھی۔
"آئی ایم سوری"
کوئی کہتا کہتا رک گیا تھا، وہ نجانے اسکا پیچھا کرتے یہاں پہنچی تھی یا پھر اپنے کسی دکھ کی دوا لینے۔ زالے نے اس انسان کو اپنے سامنے پا کر خود کو ہر حس سے محروم محسوس کیا، وہ اسے دیکھ رہا تھا تبھی وہ بول نہیں پا رہی تھی۔ وہ جس کہ لیے لفظ خود بخود نکلتے چلے جاتے تھے، وہ سن نہیں پا رہی تھی جس کہ لیے ہر آواز مچلتی تھی، وہ دیکھ بھی کہاں پا رہی تھی جس کے لیے ہر منظر منتظر تھا۔
"آپ دیکھ کر چلیں، کوئی مریض بھی ہو سکتا ہے سامنے جسکی دنیا پہلے ہی ڈگمگائی ہوئی ہو"
نرمی اختیار کیے وجدان نے بت بنی زالے کو مخاطب کیا لیکن مقابل تو شاید وہ سانس لینا بھی بھول چکی تھی۔
"خیر آپ ٹھیک ہیں؟"
وہ بھی اس سے ویسا ہی ٹکرائی تھی، لہذا اسکی خیریت دریافت کرنا لازم لگی کیونکہ خاموشی وجدان کو مناسب نہ لگی۔
"جی"
وہ پتھرائی سی بڑبڑائی، وجدان کو لگا وہ اسے کہیں دیکھ چکا ہے مگر فی الحال وہ اپنے دماغ پر زور ڈالنے سے قاصر تھا۔
"چلیں دھیان سے جائیں"
وہ اپنے کندھے پر ہاتھ رکھتا اسے کہہ کر آگے بڑھ گیا تب وہ اپنے حواسوں میں لوٹ پائی، اس شخص کی خوشبو چار سو پھیلی تھی۔
"وہ عبداللہ تھا، زالے وہ عبداللہ ہی تھا"
وہ اپنے آپ میں آتے ہی بچلائی اور اس طرف بھاگی جہاں وہ گیا تھا، جب تک زالے ہوسپٹل سے باہر پہنچی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔
زالے نے کچھ نہ سوچا اور پاگلوں کی طرح اپنی گاڑی کا رخ کیا اور نا دانستہ طور پر اسکے پیچھے گاڑی موڑ دی، وہ اسکے پیچھے پیچھے جا رہی تھی۔
وجدان کی گاڑی کچھ دور جا کر کھلونے والی شاپ کے قریب رکی۔وہ اسے دیکھ رہی تھی جو اس دکان کے سب پیارے پیارے بھالو خرید رہا تھا، اک لمحہ بھی زالے کی نظر اس خوبصورت اور دیکھنے کے لائق مرد سے نہ ہٹی۔
"یہ سب گاڑی میں رکھوا دیں"
وجدان نے اس دکاندار سے کہا اور بل ادا کرتے ہوئے گاڑی کی طرف مڑ گیا، گاڑی پھر سے سٹارٹ ہو گئی تھی۔
"زالے بس کرو پاگل ہو گئی ہو اسکے پیچھے"
دل نے روکا مگر وہ اپنے آپ میں کہاں تھی، وہ اسی گاڑی کا پیچھا کر رہی تھی۔
تقریبا پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد اسکی گاڑی ایک چلڈرن ہوم کے مین دروازے کے پاس رکی، وہ شاید یہ کھلونے ان بچوں کے لیے لایا تھا۔
اسکے گاڑی سے نکلتے ہی وہاں کا ایک بندہ آیا اور وجدان کی ہدایت کے مطابق وہ سب کھلونے لیے اندر چلا گیا۔ زالے کو لگا وہ اپنے قدموں کو روک نہیں پائے گی اور ایسا ہی ہوا۔
اسکے جاتے ہی کئی بچے وجدان کی سمت دوڑے، کئی چھوٹے کئی بڑے بچے۔سب کے چہروں پر جو خوشی تھی وہ کم ازکم زالے کی حسرت رہی تھی۔
زالے کچھ دور کھڑے اس انسان کا یہ روپ دیکھ رہی تھی۔
"اور جو سکون بانٹتے ہیں انہی کو سکون حاصل ہوتا ہے"
زالے کو لگا کوئی اسے سمجھا رہا ہو، وہ ان سب بچوں کی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔ جو اس شخص سے باری باری لپٹ رہے تھے۔
کوئی شکلیں بنائے کوئی داستان سنا رہا تھا تو کوئی اپنے پرانے کھلونوں کے ٹوٹ جانے کی اطلاع دے رہا تھا۔ وہ کیسا شخص تھا جو بیک وقت ان کئی بچوں کو سن رہا تھا، اسکی مہارت زالے کو دنگ کرنے لگی۔
"اور بے سکونی پھیلانے والوں کا مقدر بھی بے سکونی ہی ہے"
اسکے اندر سے پھر آتی آواز اسے آئینہ دیکھا رہی تھی۔ وہ ساری عمر بھی اس شخص کو دیکھتی رہتی تو شاید تب بھی اسکی آنکھیں نہ تھکتیں، وہ اللہ کا بندہ تھا، وہ عبداللہ تھا اور زالے مراد کو اس سے عشق ہو رہا تھا۔
بلکہ ہو گیا تھا۔
"اور لوگ تو وسیلہ ہوتے ہیں، رب تو گناہگار کو بھی چن لیتا ہے کیونکہ وہ اپنے بندے کا حسب نصب نہیں بلکے نیت دیکھتا ہے اور اس رب نے تمہاری نیت دیکھ لی ہے۔۔ اللہ تمہیں چن لے گا زالے، بھروسہ رکھو مایوس نہ ہونا" کوئی تھا جو اسے حوصلہ دے رہا تھا اور زالے کو لگا وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے گی، گر کر فنا ہو جائے گی، اسکا وجود ٹکرے ہو کر فضا میں منتشر ہو جائے گا، وہ جتنا ممکن ہو سکا تھا اتنی تیزی سے وہاں سے فرار کرتی اس شخص اور اسکی خوشبو اور موجودگی کے دائرے سے باہر بھاگ نکلی۔
"کچھ دیر میں مہمان آ جائیں گے، تم چاہو تو جا سکتے ہو"
مراد بہلول نے ہادی کو دیکھا جو کنزا کو ساتھ لیے کھڑا تھا، اس سے ماں بیٹے کی یہ محبت کبھی بھی ہضم نہیں ہوتی تھی، دوسرا اسے ہادی پر کبھی بھی اعتبار نہیں آ سکتا تھا کیونکہ وہ قانون کا رکھوالہ تھا۔
"کیوں آپ کو ڈر لگ رہا ہے مجھ سے"
ہادی نے مقابل کے ڈر پر اور زچ کرتے بہلول کو جبڑے بھینچنے پر مجبور کیا۔
"بھول رہے ہو کہ میں تمہارا باپ ہوں، تم میرے نہیں ہو" بہلول غصے کی بات بھی کمال مسکراہٹ اور دانت پیسے بولا۔
"مما یہ ابھی بھی ویسے ہی ہیں"
وہ شرارتی انداز میں کنزا سے مخاطب ہوا اور مراد بہلول ضرور جواب دیتا اگر اسکے مہمان نہ آتے، وہ لوگ شکل سے ہی عجیب وحشی امیر زادے لگ رہے تھے جنکی ہر چیز سے مہنگے پرانڈز کی مشہوری اور مزاج سے غرور اور اکڑ چھلک رہی تھی۔
کنزا مراد بہلول کے ساتھ انکا استقبال کرنے گئی تھی کیونکہ مجبوری تھی، ہادی کی نظریں ہر کسی کو گہرائی سے جانچ رہی تھیں۔
"زالے کہاں ہے، اسے کہو ہمیں جوائن کرے"
مراد بہلول نے ہادی کو کہا تو وہ صبح کی باتیں سوچتا ہوا اسکے کمرے کی طرف گیا، اب کی بار وہ اسے کمرے سے سج دھج کر بہت بولڈ میک اوور کے سنگ تیار مغرور زادی کی مانند نکلتی ہوئی ملی تھی۔
"میں جب سے آیا ہوں تم بلیک میں ہی ہو، تم رنگ کیوں نہیں پہنتی زالے"
وہ اسے ساتھ لیے چلنے لگا تھا، لہجہ دوستانہ رکھا تاکہ صبح والی باتیں دونوں کو لمحہ بھر بھول جائیں۔
"ضرورت نہیں محسوس ہوئی"
وہ ابھی بھی اجنبیت سے ہادی کا ہاتھ کاندھے سے ہٹاتے بولی کیونکہ اسے کسی کا بھی فزیکل ہونا کچھ خاص پسند نہ تھا۔
"زالے تم اسکے بعد اپنے ہادی بھیا کو معاف کر دو گی نا"
وہ اسکے سامنے آن جما، زالے نے غائب دماغی سے بھائی کو دیکھا۔
"کس چیز کے بعد"
زالے کا لہجہ بے لچک و بیگانہ ہوا۔
"آفکورس ! عبداللہ کے مل جانے کے بعد"
ہادی نے سنجیدگی میں جھنجھلاہٹ ملائی۔
"شاید"
تکان سے بھرا بے یقین جواب آنکھیں جھکا کر دیا گیا۔
"میں کوشش کروں گا
وہ ابھی شیور تو نہیں تھا مگر وہ زالے واپس ضرور چاہتا تھا۔
"بھائی"
وہ مضطرب ہوئی۔
"بولو"
وہ بے قرار ہوا۔
"کوشش نہیں"
وہ سر جھکا کر اپنی بے بسی چھپانے کو آنکھیں بھی زیرک کر گئی۔
"چلو فی الحال موڈ ٹھیک کرو، نیچے تمہارے سب دوست بھی آئے ہیں۔ آجاو"
وہ اسکا ہاتھ پکڑے پیار سے بہلاتا ہوا اسکے ہمراہ زینے اتر گیا۔
..____________________..
"بھیا آپ کو سچی میں اچھی لگی کھیر یا میرا دل رکھ رہے تھے"
رباب، وجدان اور بوا لاونچ میں ہی بیٹھے تھے۔
"ارے ہماری پرنسس کچھ بنائے اور وہ اچھا نہ بنے ایسا ممکن تھوڑا، ٹو گڈ تھی سچی"
وجدان اسکی گال کھینچتا یقین دلاتے بولا تو وہ اور بوا مسکرا دیں۔
"بس بوا اب آپ ہی بھیا کو سمجھائیں کہ یہ اپنے لیے کوئی لڑکی پسند کر لیں، آپ کی تو بات نہیں ٹالیں گے"
وہ سچ میں بڑی ہو گئی تھی اور وجدان کو اس بات کی خوشی تھی، ماں کی طرح اب اسے ہی بھائی کی فکر کرنی تھی۔
"دیکھو تم میرے سامنے بوا کو میرے خلاف کر رہی ہو" وہ شرارتی انداز میں بوا کو بازووں میں لیتے ساتھ لگاتے بولا تو وہ منہ پھلا گئی۔
"بھیا ابھی میں آپ کی سخت والی ٹیچر ہوں، مزاق بند" اسکے سنجیدہ ہونے پر بھی وجدان اور بوا مسکرا رہے تھے گویا کوئی رباب کو سیریس لینے کے موڈ میں نہ تھا۔
"ویسے بیٹا رباب کہہ تو ٹھیک رہی ہے، کل کو وہ اپنے گھر چلی جائے گی۔ میری مانو تو اب تم بھی اپنا گھر بسا لو"
رباب کی بات ٹالنے والی نہ تھی تبھی اسکے تقاضے پر بوا بھی غور کیے وجدان کی جانب امید افزائی کے سنگ تکنے لگیں۔
"ارے یہ ساتھ تو گھر ہے اسکا، بھاگ بھاگ کہ روز آ جائے گی آپ فکر مت کریں"
وہ پھر سے ہنسی میں اڑا گیا جس پر رباب کو غصہ سا محسوس ہوا۔
"بھیا آپ نے قسم اٹھا رکھی ہے بات نہ ماننے کی"
وہ خفا سی بولی تو وجدان کو اس پر پیار سا آیا۔
"میری جان ایسی بات نہیں ہے۔ یہاں آو"
وہ رباب کا ہاتھ پکڑ کر اسے پاس بیٹھاتے بولا۔
"تو پھر، آپ کو پسند کرنے والیوں کی تو لائن ہوگی۔ کوئی ایک چن لیں ناں"
وجدان کو نہ چاہتے ہوئے بھی رباب کی جذباتی بلیک میلنگ پر ہنسی آ گئی۔
"دیکھیں بوا یہ ہنس رہے ہیں، میں نہیں بولتی آپ سے بھیا"
وہ ناراض سی بولی تو وجدان نے اپنی ہنسی پر بندھ باندھے خود کو سنجیدہ کیا۔
"آپ دونوں نے مجھ معصوم کو کس محاذ پر چڑھا دیا ہے۔ اچھا سوچتا ہوں اس بارے میں لیکن اتنی جلدی نہیں"
بظاہر تو وہ سنجیدہ ہوا پر اسکی بات مطمئین کرنے کا سبب نہ بن سکی۔
"ہاں نا آپ بھابھی لے آئیں تاکہ مجھے بھی تسلی ہو کہ میرے بھیا بھی خود کے لیے سوچتے ہیں، مجھے تو اتنی جلدی بیوی بنا دیا اپنی باری آئی تو سوچوں گا سوچوں گا"
وہ منہ کے پوز بنائے بولتی چلی گئی کیونکہ اس وقت وہ سخت برہم تھی جبکہ وجدان کو اچانک سے شرارت سوجھی۔
"اچھس سوچو اگر وہ ظالم جلاد نکل آئی"
وجدان اسے جان بوجھ کر ڈراتے بولا تو بوا وجدان کی چالاکی پر دبا سا ہنس دیں۔
"تو اسے مریخ پر چھوڑنے والا آئیڈیا ہے ناں"
وہ اپنی بات پر خود ہی ہنس دی۔
"او آئی سی، چلو ڈن۔۔ بوا اسی خوشی میں ایک کپ کافی پلا دیں"
وہ راضی و رضا مسکرا کر بولا تو بوا خوشی سے پھولے نہ سماتیں کچن کی طرف چلی گئیں۔
"ویسے بھیا! بھابھی کو مریخ پر چھوڑنے کی خوشی کی بات کر رہے نا آپ؟"
وہ مشکوک نظروں سے اپنے ایکسٹرا ہوشیار بھائی کے خوبصورت چہرے کا بغور جائزہ لیتے بولی۔
"اور کیا، ہم دونوں بہن بھائی واپسی پر باقی سیاروں پر بھی گھوم آئیں گے۔ لوگ ورلڈ ٹور کرتے ہیں ہم پلانٹس ٹور کریں گے"
وجدان کی شریر جوابی بات پر رباب کی کھلکھلاتی آمادہ ہنسی پورے لاونچ میں گونجی۔
..____________________..
"زالے تم کہاں ہوتی ہو، نہ تم کالز لیتی ہو نہ ملتی ہو۔ تم تو ہمیشہ سے سوشل رہتی آئی ہو"
وہ خیلہ سعد کے ساتھ سپاٹ چہرہ لیے کھڑی تھی۔ زالے کافی دن بعد ان سے مل رہی تھی وہ بھی زالے ہی کہ گھر اسکی پارٹی میں ورنہ کچھ دنوں سے زالے نے اپنی ہر سرگرمی ترک کر رکھی تھی۔
"بس خود کو وقت دے رہی ہوں"
خیلہ اور سعد نے بھی اس میں بدلاو محسوس کیا تھا۔
"چلو یہ بھی اچھی بات ہے، تمہیں بتانے کے لیے ہمارے پاس بہت کچھ ہے"
سعد نے سنجیدگی سے ویٹر سے کولڈ ڈرنگ لیتے ہوئے سسپینس پھیلایا۔
"اچھا لیکن یہ ثانی کیوں نہیں آئی تم دونوں کے ساتھ" زالے کو کسی ایک دوست کی کمی محسوس ہوئی تو بنا لگاوٹ پوچھ ڈالا۔
"وہی تو بتانا تھا"
خیلہ نے تجس سے پھیلاتے مسکرا کر کہا تو زالے تمام تر سوچوں کو جھٹک کر ہمہ تن گوش ہوئی۔
"کیا"
زالے نے سوالیہ انداز سے خیلہ اور سعد کو باری باری دیکھا۔
"وہ کل سے ہوسپٹل ہے سمیر اور اسکی فیملی کے ساتھ" یہ بات زالے کے لیے واقع حیرت انگیز تھی لیکن زالے کے دل میں اک فطری خوف، ہوسپٹل کا سن کر نمودار ہوا۔
"سمیر نے چھت سے چھلانگ لگا دی تھی لیکن اسکی قسمت اچھی تھی بچ گیا۔ سر پر گہری چوٹیں آئی ہیں اور ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے، ثانی وہیں ہے کل سے اسکی مدر اور سسٹر کے ساتھ"
زالے کے چہرے کی رنگت لٹھا ہوئی لیکن یہ ایک لمحاتی کیفیت تھی وہ اپنے تاثرات چھپانے میں بلا کی ماہر تھی۔
"اسے خودکشی کا اس سے بہتر طریقہ نہیں ملا کیا؟"
بھلا چھت سے کود کر کون بیوقوف خودکشی کرتا ہے، زالے کو پہلی بار یقین آیا کہ واقعی سمیر ایک بددماغ شے ہے، دل میں ٹھیس بہرحال اٹھی۔
"ایسا ہی ہے، ثانی کو لگتا ہے اس نے تمہارے لیے ایسا کیا۔ تبھی وہ آج یہاں موجود ہونے کہ بجائے اس سمیر کے پاس ہے"
خیلہ کے لہجے میں سمیر کے لیے آج بھی اول دن جیسی ہی حقارت تھی، زالے کو برا نہ لگا بلکہ ثانی کا سمیر کی جانب جھکاو وہ پہلے ہی آبزرو کر چکی تھی، بے تاثر آنکھوں میں یکدم چمک آئی۔
"چلو اسی بہانے اسکی امی کو بہو مل جائے گی"
سعد کی بات پر خیلہ ہنس دی جبکہ زالے بغیر کچھ کہے بس خاموش رہی۔
"اور اب اچھی خبر بھی سنو"
خیلہ ایک دم پرجوش ہوئی، زالے اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے متوجہ ہوئی۔
"آہاں! اچھی خبر؟ وہ کیا"
زالے نے پھر سے حواس بحال کیے سوال کیا۔
"میں بتاتا ہوں یار، تم کتنا بولتی ہو"
ان دونوں کی نوک جھوک پر زالے بھی تھوڑی نارمل ہوئے پھیکا سا مسکرائی۔
"تم بتا لو، ایوارڈ تم لے لو"
خیلہ منہ ببسورتے بولی تو سعد ہنس دیا جبکہ زالے نے گہرا سانس کھینچا جیسے اس بعث سے اکتا گئی ہو۔
"ہم دونوں نے فائنلی شادی کا فیصلہ کیا ہے اور اچھی بات یہ ہے کہ ہم دونوں کی فیملیز بھی مان گئی ہیں" سعد جتنا بتاتے وقت خوش تھا خیلہ اسے سنتے ہوئے اتنا ہی پیارا مسکرا رہی تھی۔
"واو اٹس ویری نائس، بہت مبارک ہو تم دونوں کو"
زالے بھرپور مسکرائی کیونکہ یہ نیوز واقعی اسکے لیے خوشی کے زمرے میں آئی۔
"خیر مبارک"
ابھی خیلہ بولی ہی تھی کہ پیچھے سے مراد بہلول اور اسکے ساتھ تین لوگ انکی سمت آئی ایک تو مراد بہلول تھا دوسرا اسکا ہی ہم عمر آدمی تھا جو شکل اور بالوں کے رنگ سے بریٹش لگ رہا تھا جبکہ انکے ساتھ ایک نوجوان دبلے مگر دراز وجود کا مالک ماڈرن لڑکا تھری پیس سوٹ میں ملبوس تھا،جو عجیب لپکتی خبیث نظروں سے زالے کو تاڑے جا رہا تھا۔
"زالے، کین یو جوائن اس سوئیٹی؟"
مراد بہلول نے دنیا جہاں کی مسکراہٹ منہ پر سجائے کہا تو زالے نا چاہتے ہوئے بھی خیلہ اور سعد کو وہیں روک کر کچھ فاصلے پر انکی طرف چلی گئی،دوسری طرف کنزا اور ہادی بھی یہ سب خفا نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔
"ہی از مسٹر مصطفی اینڈ ہیز سن رایان، اینڈ میٹ مائی سوئیٹ ھارٹ زالے مراد"
مراد بہلول ان سب کا آپس میں تعارف کرواتا بولا ، زالے نے رکھائی سے مصطفی سے ہاتھ ملایا۔جبکہ رایان کے بڑھے ہاتھ کو مسکرا کر اگنور کر دیا جبکہ رایان کے اندر کا گرم خون اس اہانت پر ابلا ضرور تھا پر وہ اپنے تاثرات سنبھال گیا۔
"یو آر سو بیوٹی فل، کین یو ڈانس ود می؟"
وہ لڑکا رایان شکل کے ساتھ ساتھ باتوں سے بھی چھچھورا تھا، مراد اور اسکا دوست ایسے مسکرائے جیسے اس نے کوئی کارنامے والی بات کہی تھی۔ زالے کو تو اسکا دیکھنا ہی ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ وہ محفل کا احترام کر رہی تھی ورنہ اسکی آنکھیں نکال کر اسکے ہاتھ پر رکھ دیتی، وہ زالے کے ساتھ چلتا کچھ دور چلا گیا۔ چلتے چلتے اس نے زالے کا ہاتھ پکڑنا چاہا تھا مگر وہ انجام سے نا واقف تھا، زالے نے بڑی راز داری سے اپنے پرسنل گارڈ کو اشارہ کیا اور اس رایان کو لان کے کنارے تک لے گئی۔
"ون گلاس"
پاس سے گزرتے ویٹر سے ایک گلاس لیتے زالے نے رایان کی طرف دیکھا اور اگلے ہی لمحے اس رایان سے ٹکرائی جس سے وہ کولڈ ڈرنک اسکے چمکتے دھمکتے سوٹ پر جا گری۔
"اوہ سوری مسٹر رایان، گارڈز پلیز ہلیپ ہیم"
زالے نے گارڈ کو ڈرامائی ہوتے پلارا جو اسے اندر کی طرف لے گیا، زالے بھی سب سے آنکھ بچاتی پیچھے چلی گئی، اندر پہنچی تو گارڈ اسے شرٹ کلین کرنے میں مدد کر رہا تھا اور اگلے ہی لمحے زالے کے اشارے پر اس نے رایان پر گن تان لی، وہ جو شیطانی سا مسکرا کر خود سے ٹکراتی زالے کے خیالوں میں تھا، یکلخت سکتے میں آ گیا۔
"وائے یو ٹچ مائی ہینڈ۔؟ یو نو آباوٹ پنیشمنٹ؟"
زالے نے گارڈچسے گن لے کر ٹھیک رایان کے گال سے جوڑی جو لوڈ تھی اور اس سے پہلے رایان کوئی بدتمیزی یا ہوشیاری دیکھاتا اگلے ہی لمحے ایک زور دار تھپڑ رایان کے منہ پر پڑا، وہ ممی ڈیڈی نازک بوائے اس کی توقع نہیں رکھ رہا تھا، سنسنا اٹھا۔
"واٹ آر یو ڈوئنگ کریزی لیڈی، سوری پلیز، مائی مسٹیک۔"
وہ گن دیکھے منمنا اٹھا اور زالے کو لگا آج وہ اسکے ہاتھوں مر جائے گا۔
"اسکا ہاتھ کاٹیں یا گردن۔ کیا خیال ہے؟"
وہ اسی کی زبان میں ہی اپنے گارڈ سے بول رہی تھی اور رایان کے چہرے پر پسینے چھوٹ رہے تھے۔
"آئی ایم سوری۔ پلیز مجھے جانے دو"
وہ بھی اسی زبان میں التجا کر رہا تھا، جیسے گن وہ بھی لوڈ دیکھ کر جان نکل گئی ہو۔
"اگر تم ڈیڈ کے مہمان نہ ہوتے تو زالے یہیں تمہاری قبر کھود دیتی"
وہ غضب ناک انداز میں دھاڑی، رایان کا سارا بھرم جھاگ کی طرح بیٹھ چکا تھا۔ وہ اب سہما چوہا لگ رہا تھا۔
"میں آئیندہ تمہیں نظر نہیں آوں گا پلیز مجھے جانے دو"
زالے کو اب اس بچارے کی شکل پر ترس آ رہا تھا، گارڈ کے چھوڑتے ہی وہ دم دباکر ایسا بھاگا کہ پھر پوری پارٹی میں ڈھونڈنے کے باوجود بھی نہ ملا۔ دوسری طرف مصطفی اور مراد نے آپسی لین دین کے معاملات طے کیے تھے مگر وہ دونوں ہی اس بات سے لا علم تھے کہ زالے نے رایان کے ساتھ کیا کر دیا ہے۔
..___________________..
"جی انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ"
ہادی ابھی ہی آفس آیا تھا۔ وجدان اور رفیق کام میں مصروف تھے۔۔ ہادی کے سامنے ہی رفیق نے فون اٹھاتے ہوئے مقابل کو مخاطب کیا۔
"تھینک یو سو مچ"
رفیق نے اجلت میں فون رکھا اور ان دونوں مصروف نیٹھے نفوس کی طرف آیا۔
"کیا ہوا رفیق سب خیریت ہے"
وجدان نے اسکے چہرے کے بدلے رنگ دیکھے سر اٹھا کر پوچھا۔
"سر سمی کی لوکیشن معلوم ہو گئی ہے، ہمارے خبریوں نے کر دیکھایا"
رفیق کی آواز پرجوش تھی، وجدان اور ہادی کے لیے بھی یہ ایک اچھی خبر تھی۔
"ویری گڈ، ایسی ہی اچھی خبر کی امید تھی۔ خبر تو پکی ہے نا"
وجدان نے اٹھ کر کوئی کال ملاتے ہوئے رفیق سے یقین دہانی چاہی، وہ ارسلان سر سے پوچھ کر ہی ریٹ کرتے تھے۔
"جی سر فی الحال تو پکی ہے"
رفیق نے جزبز ہوتے بتایا۔
ہادی کو کل رات کی پارٹی سے اب تک تو کوئی انفارمیشن نہیں ملی تھی۔
"سر سمی کی لوکیشن مل گئی ہے ہم ریٹ کر دیں کیا"
وجدان نے فون لگتے ہی پوچھا۔
"گڈ، بلکل تم لوگ فورا ریٹ کرو۔ جتنا جلدی ہو سکے اپنی ٹیم کو لے کر پہنچو۔ اور ہاں دھیان سے"
ارسلان سر نے ہدایت دیتے ہی فون کٹ کر دیا۔
"ہادی۔۔ رفیق ہمیں ابھی نکلنا ہوگا۔۔ ٹیم ریڈی کرو" وجدان رفیق کو ہدایت دیتا اپنی گن نکالنے لگا، ہادی نے بھی اپنی گن نکال لی جبکہ رفیق ہدایت کے مطابق باہر نکل گیا، عادل راونڈ پر تھا ۔ سنتے ہی وہ بھی فورا آ گیا۔
"بھائی آپ یہیں رکیں ہم جاتے ہیں"
عادل کو اسکی فکر ہوئی، پہلے بھی وہ بہت مشکل سے بچا تھا۔ ہادی کو بھی عادل کی بات ٹھیک لگی۔
"نہیں میں جاوں گا۔ تم رکو یہیں۔ اور رابطے میں رہنا۔ اگر مزید ٹیم کی ضرورت ہوئی تو تم ہمیں جوائن کرنا" فی الحال وجدان باس تھا اس لیے سبکو اسکی بات ماننی تھی، وہ اور ہادی ایک گاڑی میں تھے جبکہ دوسری گاڑی میں رفیق اپنی دس اہلکاروں کی ٹیم کے ہمراہ سوار ہوا۔
"آج ہمیں موقع ضائع نہیں کرنا، ان لوگوں کو عبرت کا نشان بنانے کا وقت آ گیا ہے"
ہادی بھی اس کیس کو لے کر کافی پرجوش تھا۔ وہ وجدان کو دیکھ رہا تھا جو نہایت پر عزم اور پر امید دیکھائی دے رہا تھا۔ ہادی کو زالے کی بات یاد آئی۔ وہ اس سے جلد از جلد اس متعلق بات کرنا چاہتا تھا مگر ابھی موقع نہیں تھا،وہ وجدان سے کسی پرسکون ماحول میں وہ سب کہنا چاہتا تھا۔ کیونکہ سامنے سے آنے والے ریکشن کچھ بھی ہو سکتے تھے۔
..____________________..
"واٹ! لیکن ہوا کیا۔ ہم نے کل ہی تو سب پلین کیا ہے۔ تم زالے کو اپنی بہو بناو بدلے میں تم ہمارا ڈرگ آرڈر کینسل ہونے سے بچاو۔ تو ایک دم کیا ہوا؟"
دوست کی جانب سے آتے انکار اور ملامت پر مراد بہلول تو سن ہو کر رہ گیا تھا۔
"سب کچھ ختم سمجھو، نہ ہی میں تمہاری اس بیٹی کو بہو بنانا چاہتا ہوں نہ ہی ان معاملات میں تمہاری کوئی مدد کروں گا۔ الٹا تمہیں تمہارے کیے کی سزا دلواوں گا"
مراد بہلول سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک کیا ہو گیا ہے۔ یہ آرڈر کینسل ہونا تو نقصان تھا ہی مگر وہ مفت کی دشمنی پر اتر آیا تھا یہ بہلول کو خوفزدہ کر رہا تھا۔ "مصطفی پلیز تم مجھے کلئیر کرو گے"
مراد بہلول کا سر دھماکے پھوڑ رہا تھا۔
"اپنی اس بیٹی سے پوچھو، خبردار جو تم نے مجھ سے آئیندہ کسی بھی مدد کی توقع کی۔ تمہارا انجام اب میں بھیانک بناوں گا"
اگلے ہی لمحے ٹھاہ کر کے فون بند ہو چکا تھا، مراد بہلول کو لگا اسکے تن بدن میں آگ بھڑک گئی ہو۔ "زالے۔۔۔۔۔۔ زالے"
وہ دھاڑتا ہوا لاونچ میں داخل ہوا.
"کیا ہوا چیخ کیوں رہے ہیں"
کنزا اپنی این جیو جا رہی تھیں۔ مگر برے طریقے سے ہڑبڑا گئیں۔ مراد بہلول غصے سے لال ہو رہا تھا۔
"لگتا ہے خبر پہنچ گئی"
زالے مست چال کے سنگ سیڑھیاں اترتے ہوئے مخظوظ ہوئی، ڈیڈ کی حالت مخدوش نجانے کیوں سکون دے رہی تھی۔
"زالے! زالے تم مجھے برباد کر کے چھوڑو گی۔ کیا کیا ہے تم نے بتاو۔ ایسا کیا کیا ہے"
وہ غصے سے پھنکار اٹھا تھا۔ کنزا بھی خوف زدہ ہو رہی تھی کہ مراد کو ہوا کیا۔
"آپکے دوست نے پوری بات نہیں بتائی کیا"
وہ لطف لیتے بولی تو مراد بہلول نے غصے کو بمشکل ضبط کیا، آخر سوال اب اسکی بربادی کا تھا۔وہ بھی غیر ارادی طور پر زالے کے ہاتھوں۔
"تم نے رایان کے ساتھ کیا کیا ہے؟ زالے مجھے جواب چاہیے"
زالے کا چین تکے وہ مزید غضب کھا رہا تھا۔
"سبق سیکھایا ہے، جو ہمیشہ سے زالے کا شوق رہا ہے۔ شکر کریں وہ میرے ہاتھوں مر مرا نہیں گیا"
اب تو مراد بہلول کا دل چاہا یا اپنا سر پھاڑ لے یا زالے کا۔
"لیکن کیوں؟ کس لیے۔ تمہیں اندازہ ہے تم نے کیا کر دیا ہے۔۔۔ اف زالے اف"
وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتے ادھر ادھر چکر کاٹتا تلملایا۔ کنزا تو سمجھ نہیں پائی تھیں کہ بات ہو کیا رہی ہے۔
"اس نے میرا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی تھی، ارادہ تو تھا کہ اسکا ہاتھ کاٹ ڈالوں پر پھر ترس آگیا کہ بچارا اکلوتا ہے"
کنزا زالے کی بات سن کر جتنی شاک تھیں بہلول اتنا ہی غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
"زالے تم نے کیا کر دیا۔ ہاتھ پکڑنے کی سزا دینے کے چکر میں تم نے مجھے برباد کر ڈالا"
وہ ہنوز بے بسی سے دھاڑ رہا تھا جبکہ اسکے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ وہ اس بدحواسی میں کیا بڑبڑا بیٹھا ہے۔
"کیوں آپ نے زالے کو ان کے آگے بیچ دیا تھا کیا؟ بربادی کیسی"
کنزا کی سلگتی استفہامیہ نگاہوں اور بات پر مراد بہلول نے کھا جانے والے انداز میں دیکھا مگر زالے کو شکی نگاہوں سے دیکھتے پایا تو خود فوری نارمل ہوا۔
"مام از رائیٹ، کیا یہ سچ ہے ڈیڈ"
وہ پہلے ہی کافی مشکوک ہو چکی تھی اب تو جیسے سب واضح ہو گیا۔
"بکواس کر رہی ہے۔ تمہیں بس میرے خلاف کرنا چاہتی ہے۔ ایسا میں مر کر بھی نہیں کر سکتا"
مراد بہلول کو ایک اور ناکامی نظر آتی دیکھائی دی اور وہ زالے کی آنکھوں میں موجود بے یقینی تھی۔
"یس رائیٹ، میں بیوقوف نہیں ہوں ڈیڈ۔ لفظوں کا مطلب اچھے سے سمجھ سکتی ہوں۔ اگر ایسا تھا تو یقینا آپکا امتحان شروع ہو چکا ہے"
وہ سرد مہری اور غصے سے کہہ کر رکی نہیں تھی۔ مراد آوازیں دیتا رہ گیا پر زالے جا چکی تھی۔۔
"ٹھنڈ پڑ گئی تم کو گھٹیا عورت، زالے کو بھی میرے خلاف کر دیا۔ جشن مناو اب جا کر۔۔۔ وہ اب جو بھی زہر نکالتا پھرتا اس سے کنزا کو کوئی فرق نہ پڑھنے والا تھا۔ آج وہ اتنی انسلٹ سہنے کے بعد بھی مطمئین تھیں، شاید اللہ انکی سن رہا تھا۔ انکی راتوں کو کی جانے والی دعائیں قبولیت پا رہی تھیں، زالے کے اردگرد کی بے سکونی بھی رفتہ رفتہ کم ہو رہی تھی اور بے سکون کر نے والی چیزیں بھی۔
کنزا نے مسکرا کر اس وحشی بن کر پیچ و تاب کھاتے شوہر کو دیکھا اور وہاں سے اپنے راستے چل دیں۔
"بیٹا تم نے بہت ساتھ دیا ہمارا، تم بھی اب جا کر آرام کر لو"
سمیر کی والدہ ثانی کی کافی مشکور لگ رہی تھیں۔ ہسپتال کا سارا خرچہ بھی ثانی نے ہی اٹھایا تھا۔
"میں ٹھیک ہوں آنٹی، دوست ہی مشکل وقت میں ساتھ دیتے ہیں۔ آپ جا کر آرام کر لیں، کل سے یہیں بیٹھی ہیں"
ثانی نے فکر مندی سے کہا، اتنے میں سمیر کی بہن چائے اور بسکٹ لے کر وہیں آ گئی۔
"جیتی رہو۔ اللہ تمہارا نصیب روشن کریں"
سمیر کی والدہ نے اسے جھولی نھر دعائیں دیں۔
"آپ بھی چائے لیں۔ آپکے لیے بھی لائی ہوں"
وہ پندرہ سولہ سالا عائشہ تھی جو سمیر کی چھوٹی بہن تھی۔
"بہت شکریہ،"
وہ سمیر کے ہی کمرے میں بیٹھے تھے، ڈاکٹرز نے اسے بے ہوشی کے انجیکشن لگا رکھے تھے۔
"اماں بھائی کو ہوش آ رہا ہے"
عائشہ کی آواز پر وہ دونوں متوجہ ہوئیں، سمیر نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو پہلی نظر ثانی پر گئی جسکی کم ازکم اسے توقع نہ تھی۔
"کیسے ہو سمیر؟"
وہ فکر مندی سے بولی تو سمیر نے ایک نظر ماں کو دیکھا اور سر ہلا دیا۔
"اچھا آنٹی اب میں چلتی ہوں، پھر آوں گی۔ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کہیے گا"
وہ مسکرا کر کہتی اجازت لیتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔
"اللہ حافظ"
ان دونوں نے بیک وقت کہا۔
"اماں مجھے لگتا ہے یہ بھائی کو پسند کرتیں ہیں"
عائشہ اپنے ہی خیال میں بولی جبکہ سمیر غصے سے دونوں کو دیکھتا اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔
"آپ نے اس سے کوئی مدد تو نہیں لی؟"
سمیر کا پہلا سوال ہی یہی تھا جس پر اسکی والدہ نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔
"تمہاری بلا سے۔ تمہیں ہمارا کوئی احساس ہوتا تو مدد کی نوبت ہی نہ آتی، اس عمر میں بوڑھی ماں کو بے سہارا چھوڑنے چلا تھا تو،تجھے ایک بار بھی اپنی ماں اور بہنوں کا خیال نہ آیا"
وہ باقاعدہ رونا شروع ہو چکی تھیں اور عائشہ بھی ان کے ساتھ سہمی بیٹھی تھی، سمیر کو لگا جسم میں اٹھتی ٹیسوں کے ساتھ سر بھی پھٹنے لگا ہو۔
"بول سمیر تو اتنا بے حس تو نہیں تھا، اللہ پوچھے اسے جس کی وجہ سے تو اس حال کو آیا"
وہ ماں تھی اور ماں بن کر ہی بولے جا رہی تھی۔
"آپ ایسا مت کہیں"
وہ تڑپ ہی تو اٹھا تھا حالانکہ زالے کو پہلی بددعا تو اسی خودغرض نے دی تھی جسے محبت میں مرنا تو یاد تھا پر اپنی ذمہ داریاں اور فرض نہیں۔
"اسے ایک بددعا تک برداشت نہیں اور ہم جائیں بھاڑ میں، تو ایسا کر اگلی بار ہمیں زہر دے کر مرنے جانا۔ اے اللہ تو دیکھ رہا ہے کیسی بے فیض اولاد ہے، ہم محتاج بھی تو اسی کے ہیں، مرتے بھی نہیں ہیں کہ اس کمبخت کی جان چھوٹے"
وہ سخت دکھی سسک اٹھی تھیں۔ سمیر کو ملال ہوا کہ وہ بچ کیوں گیا ہے، زندگی میں بس ان ملامتوں کی ہی تو کمی تھی۔
"اماں چھوڑیں بھی، بھائی آگے ہی ٹھیک نہیں ہیں"
عائشہ کو اپنے لاڈلے بھائی پر ترس آ رہا تھا۔
"ہاں موت آئے تو چھوڑ دوں گی" وہ منہ پر دوپٹہ رکھے بول کر روتی روتی باہر چلی گئیں۔
"آپ اداس نہ ہوں۔ آپ جلدی ٹھیک ہو جائیں گے"
عائشہ نے بھائی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے نمدیدہ نگاہوں سے ٹوٹی سی تسلی دی مگر فی الحال وہ اپنی حالت پر ماتم ہی کر سکتا تھا۔
..___________________..
"وجدان خبر تو پکی ہے ناں،یہ گھر تو کافی سنسان لگ رہا ہے"
ہادی اور وجدان ٹیم کو لیڈ کر رہے تھے۔ یہ جگہ شہر کی آبادی سے کچھ ہٹ کر تھی، یہاں تین چار چھوٹے چھوٹے کیبن ٹائپ گھر تعمیر تھے جن میں دو تو تقریبا بوسیدہ ہو کر گر چکے تھے۔
"ہاں خبر تو پکی تھی، تم لوگ یہیں رکو میں اندر جاتا ہوں"
وجدان نے گن لوڈ کرتے ہوئے اپنی ٹیم کو اشارہ کیا تو ہادی اور رفیق باہر ہی رک گئے۔ وہ لوگ مکمل اختیاط سے کام کرنا چاہتے تھے، زرا سی غلطی سارے کیے پر پانی پھیر سکتی تھی، وجدان اندر جا چکا تھا اور ہادی اور رفیق بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ اسے فالو کر رہے تھے۔
"رفیق مجھے تو لگ رہا ہے یہاں کوئی نہیں"
ہادی، رفیق سے تھوڑا دور تھا اور اسی لمحے ہادی کو لگا اسکے سر پر کسی نے پیچھے سے بندوق تانی ہو، گولی چلنے کی آواز آئی اور اگلے ہی لمحے ہادی کو لگا اسکے پیچھے کوئی گرا تھا، وہ فورا مڑا تو ایک آدمی ڈھیر ہو چکا تھا۔ رفیق کا نشانہ کمال لگا تھا۔ ہادی نے رفیق کو دیکھ کر داد دی جس پر وہ فخر سے مسکرایا تھا۔
"سر دھیان سے"
رفیق اسکے ساتھ چلتے ہوئے بولا۔
"ارے جن کے قریب تمہارے اور وجدان جیسے آفیسرز ہوں اسے کچھ نہیں ہو سکتا"
ہادئ اور وہ بھی مسکراتے جواں ہمتی سے اندر پہنچ گئے، اندر جاتے ہی گولیوں کی گھن گرج شروع ہوئی، دو طرف یلغار بتا رہی تھی مقابلہ جم کر ہو رہا ہے، رفیق اور ہادی نے فورا اپنی جگہ لی اور فائرز کرنے شروع کر دے۔ وہ تعداد میں کم ہی لگ رہے تھے، وجدان بھی دیوار کے پیچھے کھڑا جوابی کاروائی کر رہا تھا۔
کچھ دیر کے اس مقابلے کے بعد دوسری طرف خاموشی چھا گئی۔
"تم لوگ چاروں طرف سے گر چکے ہو، ہتھیار پھینک دو۔ سمی باہر نکل کر خود کو ہمارے حوالے کر دو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا"
وجدان نے اپنی گرج دار آواز میں تنبیہہ ارسال کی بلکے انھیں دہلایا تھا۔
"ہادی اور رفیق تم یہاں دیکھو۔ میں باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہوں"
باہر انکی ٹیم تھی مگر وجدان اب کی بار موقع گنوانا نہیں چاہتا تھا۔ وجدان کے نکلتے ہی وہ لوگ دوبارہ سے گولیاں برسانا شروع کر چکے تھے، وجدان باہر آیا جہاں ٹوٹا ہوا دروازہ الگ ہو کر زمین پر دھرا تھا، اسکے اوپر ایک کھڑکی تھی، وجدان کی اتفاقا نظر پڑی۔ تین لوگ فرار ہو رہے تھے، وجدان نے اپنی ٹیم کو اشارہ کیا اور خود ان تینوں کے پیچھے بھاگا۔
آگے پانچ اہل کار اور پیچھے عبداللہ وجدان، سمی کو لگا آج اسکا کھیل ختم۔
ٹیم نے فورا ان تینوں کو پکڑا اور تلاشی لیتے ہوئے انکی گنز اپنے قبضے میں لے لیں اور تینوں کے ہاتھ پیچھے کی طرف ہتھکڑیاں جمائے قابو کر دیے۔
"بس میاں بہت بھاگ لیا اب زرا ہمیں بھی مہمان نوازی کا موقع دو"
وجدان نے سانس بحال کرتے ہوئے تمسخرانہ ہمستے کہا تو پیچھے ہادی اور رفیق بھی چار لوگوں کو دبوچے پہنچ گئے۔ رفیق نے سب کے منہ پر ٹیپ لگا دی تھی اور ہتھکڑیاں ڈالے انھیں گاڑیوں کی طرف لے جا رہا تھا، ہادی اور وجدان مطمئین نظر آ رہے تھے، سب نے ہائے فائے کیے اس جیت کو سیلبریٹ کیا۔
"فائنلی۔ آپریشن کامیاب ہوا"
ہادی جوش سے فرایا تو وجدان مسکرا دیا کیونکہ وہ ہادی کا جوش دیکھ کر محظوظ ہوا تھا۔
"ہاں الحمداللہ، اب آگے بھی ایسے ہی کامیابی ملے تو ہم ان ملک دشمنوں کا صفایا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ابھی لمبا سفر ہے ہادی صاحب، اتنا خوش ابھی سے مت ہوں"
وہ دونوں بھی چلتے چلتے آ گئے تھے جب وجدان کی بات پر ہادی سنجیدہ ہوتے مسکایا۔
"سب سیٹ ہوگا مجھے یقین ہے"
ہادی پر امید تھا۔ وہ لوگ انھیں لے کر روانہ ہو گئے۔ عادل کو بھی انھوں نے خبر کر دی تھی۔
.._____________________..
"کہاں مر گئے سب کہ سب، کوئی بھی فون نہیں اٹھا رہا"
بہلول پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل زچ کوفت لیے ٹہل رہا تھا، سمی کے علاوہ اسکا دوسرا بندہ بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
"کہیں کچھ گڑ بڑ تو نہیں ہوگئی"
مراد بہلول کی آنکھوں میں ڈر صاف دیکھائی دے رہا تھا۔
"ارے ڈیڈ کیا ہوا آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں"
وجدان کا آرڈر تھا اس لیے ہادی اسکے بعد سیدھا گھر آیا، اور حسب توقع بابا کے چہرے کی اڑی ہوائیاں ہی پہلا منظر ملیں۔
"ہممم آپنے کام سے کام رکھو"
وہ حقارت سے بول کر جانے لگا۔
"کہیں کوئی پریشانی ہے تو مجھے بتا دیں، ہو سکتا ہے میں مدد کر دوں"
ہادی نے تپے بہلول کو کریدا تو وہ رک کر پھنکارتے پلٹا۔
"اپنی شکل گم کرو۔ کہیں میرے ہاتھوں ضائع نہ ہوجانا"
اب تو شک کی کوئی بات رہی ہی نہیں تھی۔ ہادی کو بھی مراد بہلول کے رویے سے اب فرق پڑھنا ختم ہو گیا تھا، ہادی نے دل جلی مسکراہٹ ہونٹوں پر بکھیری۔
"آپ مجھ سے ہمیشہ نظریں چرا لیتے ہیں لیکن بھولیے گا مت یہ شکل آپکو ہر غلط قدم پر دیکھنی پڑے گی"
انکی سماعت کی جانب جھکے دبے لفظوں میں ایسا دھکایا کہ بہلول تپے توے کی مانند بپھرا۔
"کہنا کیا چاہتے ہو تم، میں غلط ہوں۔ تم میرے سامنے کھڑے ہو کر مجھے ہی وارننگ دے رہے ہو۔ تمہاری اتنی جرات۔"
وہ خونخوار نظروں سے ہادی کا سکون دیکھتے غرایا۔
"ہمت اور جرت تو اب دیکھیں گے آپ، وہ وقت گزر گیا جب میں ہادی مراد، اس ملک کے دشمن کو باپ سمجھ کر چھوڑ گیا تھا، لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں اب باپ بیٹے والا رہا سہا رشتہ بھی ختم ہو گیا ہے تو ملک سے سچی وفاداری کا وقت آ گیا ہے"
ہادی کی آنکھوں میں ایسی چمک تھی جو مراد بہلول کے غصے اور غضب پر حاوی ہو چکی تھی۔
"دفع ہو جاو یہاں سے۔ گم کرو اپنی شکل۔ ورنہ میں تمہاری جان لے لوں گا"
اپنا ڈر بھی تو چھپانا تھا اسی لیے وہ پہلے سے دگنا دھاڑا تھا۔ ہادی کو اب کی بار ترس سا آیا۔
"وہ تو لے لی تھی، لیتے رہے ہیں۔ بہت سے قرض باقی ہیں آپ پر۔ اب انکو جھکانے کا وقت آ گیا ہے"
ہادی کے لہجے میں ایک دکھ تھا وہ کہہ کر رکا نہیں تھا، بہلول نے مشتعل و بے کس یورے دیوار پر لگا سینری فوٹو فریم زور دار طریقے سے فرش پے دے مارا۔
..___________________..
سمی کے لیے اگلے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر جسمانی ریمانڈ کے آرڈر آ چکے تھے، وہ بھی زبان کھولنے کے معاملے میں پکا تھا لہذا پکے مجرموں کا منہ ساحر کھلواتا تھا۔ امید اچھی تھی کیونکہ ڈرگ معافیہ کے دو بڑے بازو اب قانون کی گرفت میں تھے۔
اب مراد بہلول اور اسکے نیٹ ورک پر ہاتھ ڈالنا کافی آسان تھا۔ ہفتہ ہو گیا تھا وہ سب اسی کیس میں لگے تھے۔ اپنے تمام خبری اسی کام پر لگا رکھے تھے، مراد بہلول تک پہنچنا ناممکن نہیں تھا مگر ایسا آسان بھی نہیں تھا۔ وہ ان دونوں کو پرائیویٹ نمبر سے کال کرتا تھا جسکی انویسٹیگیشن جاری تھی۔
یہ خفیہ معلومات نکلوانا ایسے اداروں کے لیے مشکل نہ تھا مگر اسکا بھی ایک پراسس تھا جو وقت مانگتا تھا۔ ہادی، عادل اور وجدان اس ایک ہفتہ بہت مصروف تھے۔ رفیق کو انھوں نے آوٹ ڈور کاموں میں لگا رکھا تھا۔ ارسلان صاحب کا اس کیس کو حل کرنے کی طرف بہت دباو تھا، وہ بس مزید دیر نہیں چاہتے تھے۔ چھ ماہ کا عرصہ بہت جلد گزر جاتا ہے لہذا وہ اور انکی ٹیم اپنی سر توڑ کوشش کر رہے تھے۔
"ساحر! بھئی شکر ہے تمہارا چہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔ رفیق چائے لاو"
وجدان ساحر سے گلے ملتے شکوہ کرتے بولا۔
"بس کیا بتاوں، بہت اہم مشن جو سونپا تھا تم نے۔ لیکن تمہارے لیے اچھی خبر ہے"
ساحر کی بات پر وجدان کو اب تجسس ہوا، دونوں آمنے سامنے براجمانی لیے ایک دوسرے کی جانب متوجہ تھے۔
"اچھی خبر ہے تو بنا رکے سنا دو پھر"
وجدان نے لطف اندوز ہونا چاہا تو ساحر مسکرا دیا۔ "فارس مانی تم سے ملنا چاہتا ہے اور جتنی جلدی ہو سکے۔ اس نے مجھ سے خاص ریکوسٹ کی ہے"
ساحر کی بات اس کے لیے حیران کن تھی۔
"اچھا! میں حیران ہوں"
وجدان کسی گہری سوچ میں ڈوبا بڑبڑایا۔
"تم کل آ جانا میری طرف، ہو سکتا ہے وہ اعتراف جرم کرنا چاہتا ہو۔ اگر ایسا ہے تو ہماری جیت دور نہیں"
ساحر خوش فہم ہو رہا تھا پر وجدان کو لگا جیسے بات کچھ اور ہوگی۔
"ٹھیک ہے میں آ جاوں گا، چائے پیو"
رفیق چائے لے کر آچکا تھا تبھی ساحر نے رغبت سے کپ تھاما۔
"باقی کہاں ہیں"
ساحر نے پہلا سیپ لیتے ہوئے پوچھا۔
"عادل ابھی گھر گیا ہے اور ہادی کورٹ گیا ہے کچھ ڈاکومنٹس لینے۔ ابھی آ جائیں گے دونوں"
وجدان نے مطلع کیا تو وہ دونوں چائے پینے لگ گئے لیکن وجدان کسی سوچ میں ہنوز مبتلا دیکھائی دیا تھا۔
..____________________..
"اب تو کافی بہتر لگ رہے ہو، میں پرسوں بھی آئی تھی تم سوئے ہوئے تھے"
وہ سمیر کے ساتھ کرسی پر بیٹھی تھی، سمیر نے اسے دیکھا جو اسے ہفتے میں ہی کافی بہتر ہو جاتا دیکھ کر مسرور ہوئے مسکرا رہی تھی۔
"ہاں امی نے بتایا تھا، تم نے بہت ساتھ دیا۔ تمہارا شکریہ"
طبعیت کے بارے بتانے کے ساتھ سمیر نے تکلف برتا۔
"شکریہ کی کوئی بات نہیں،یہ میرا فرض تھا"
وہ سنجیدہ ہوئی لیکن لہجے میں بے پناہ اپنائیت ملانا نہ بھولی تھی۔
"ہممم۔ تم کیوں آتی ہو یہاں، میرے لیے"
سمیر نے اسے دیکھے بنا پوچھا، ثانی نے ایک نظر اسے دیکھا جو عام سا ہو کر بھئ اس کے لیے ناجانے کیوں خاص تھا۔
"ایک دوست بن کر ایک دوست کے لیے"
وہ ہلکے سے مسکرا کر بولی۔
"تم ان سب سے الگ ہو، مطلب بہت اچھی ہو۔ لیکن میں اچھا نہیں ہوں۔ میری مانو تو اپنا وقت ضائع مت کیا کرو"
وہ بھی اب بے حس تھا اور اسکا مشورہ سفاک۔
"میرے دل میں تمہارے لیے ہمیشہ سے سافٹ کارنر رہا ہے، اور تم مجھے دوست سمجھو یا نہ سمجھو۔ میں سمجھ چکی ہوں"
وہ نرمی سے وضاحت دیے بولی۔
"میں دوستی تک نہیں نبھا سکتا"
وہ مایوس تھا۔
"کوئی بات نہیں، میں تمہیں دوستی سیکھا دوں گی اور تم مجھے۔۔۔"
وہ کہتے کہتے رک گئی۔
"مجھے؟"
سمیر نے اسکا ادھورا جملہ مکمل چاہا۔
"محبت! ویسی جیسی تم نے زالے سے کی"
وہ سر جھکا کر سرگوشی میں بولی اور پھر کئی لمحے وہاں صرف خاموشی کا راج رہا تھا۔
"میں ایک ناکام انسان ہوں، یہی حقیقت ہے"
سمیر نے خود ہی خاموشی توڑی
"اور میں کمزور دل کی ایک دوست"
وہ سنجیدہ تھی پر لہجے میں دوستانہ لپک تھی۔
"ہمممم"
اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا تو ہنکارہ بھر گیا۔
"تم بلکل ٹھیک ہو جاو، جو چیز ہمیں مارنے پر تلی ہوتی ہے بعض اوقات ہمارے جینے کی وجہ بھی بن جاتی ہے۔ تم بھی ناکامی سے سیکھ لو اور دوبارہ اٹھ کر کھڑے ہو کر دیکھاو"
اب وہ اسے دوست بنی حوصلہ دے رہی تھی۔
"جانتی ہوں مشکل ہے لیکن یقین رکھو اس میں میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ تم مجھے ہمیشہ ایک اچھی دوست پاو گے"
وہ اب اسے یقین دے رہی تھی لیکن وہ خاموش تھا۔
"کوشش کروں گا"
وہ حلق میں اٹکی آواز سے بولا اور وہ مسکرا دی۔ "ارے، ثانی بیٹی آئی ہے۔۔عائشہ کھانا لگا پتری مل کر کھاتے ہیں"
سمیر کی والدہ اسے دیکھ کر ہی کھل اٹھی تھیں، وہ بھی انکی دعائیں اور خلوص لے کر نہال ہو گئی تھی۔
..___________________..
"بس تم اپنے بھیا کو کہو کہ رباب ناراض ہے"
وہ منہ پھلائے شیلف پر چڑھ کر بیٹھی تھی اور ہنا بھائی کے لیے کافی اور ساتھ سینڈوچ بنا رہی تھی۔ عادل فریش ہو کر کچن میں ہی آ گیا تھا، گھر کے عام سے خلیے میں بھی بہت پیارا اور جاذب لگ رہا تھا، پچھلے ایک پورے ہفتے بعد اس نے اپنی شکل گھر دیکھائی تھی اور رباب کی ناراضگی کا سبب بھی کچھ یہی تھا۔
"بھئی ہم نے آپ دونوں کا نکاح اسی لیے کیا ہے کہ آپس کی باتیں خود سلجھاو۔ سانو نہ پاو وچ"
وہ شرارتی انداز میں کندھے اچکائے بولی تو عادل کے بھی دانت نکل آئے جبکہ رباب، ہنا کی اس طوطا چشمی پر حیران منہ بنائے بیٹھی تھی۔
"کتنی بت تمیز ہو گئی ہو ہنا"
وہ اسے غصے سے ڈپٹ اٹھی۔
"ارے نہیں۔ سیانی"
ہنا نے آنکھ مارتے تصحیح کی جو سراسر چرانے کی کوشش تھی۔
"اچھا بتاو کیوں نارض ہے رباب، ابھی منا لیتے ہیں"
وہ خود ہی شرٹ کی آستین چڑھائے ٹیبل کے سامنے کرسی کرتے ہمہ تن گوش ہوتے بولا۔
"ہفتہ ہو گیا آپ نے اپنی شکل نہیں دیکھائی۔ مجھے تو سچی اب بھول گئی تھی"
وہ اپنی اداس داستان بتا رہی تھی جبکہ ہنا کے بمشکل اپنی ہنسی دبا رکھی تھی۔
"تم نے بھیا کی تصویر دیکھ لینی تھی ناں، تمہیں تو عادت ہونی چاہیے کیونکہ وجدان بھیا اور یہ ایک پرچم تلے کھڑے ہیں کافی سالوں سے"
ہنا صاحبہ نے عقل مند ہونے کا ثبوت دیتے انٹری ماری۔
"ہنا تم بھائی کی سائیڈ نہ لو، تم فی الحال میری دوست ہو۔ میری لو"
وہ آنکھیں نکالے ہنا کو گھورتے بولی۔
"ھائے میری جان۔ تمہاری ہی لے رہی ہوں۔ لو وہ پیار سے اسکا گال کھینچتے بولی اور دونوں کو سینڈوچ سرو کیے۔
"بھائی ویسے غلط بات ہے، آپ کو اتنے دن دور نہیں رہنا چاہیے تھا۔ دیکھیں ایک ہی ہفتے میں ہماری رباب کتنی دبلی ہو گئی"
اب تو رباب کو سچی کا غصہ آ گیا تھا۔ کیا سائیڈ لے رہی تھی وہ۔
"ہاہا سوری سوری پر کیا کروں مجھے تنگ کرنے کا مزہ ہی بڑا آتا۔ بھیا چلیں منائیں رباب کو میں تب تک بابا کو سینڈوچ دے آوں"
وہ ہنستی ہوئی پلیٹ اٹھائے باہر چلی گئی جس پر عادل نے بھی کرسی سے اٹھ کر شیلف نشین حسینہ کی طرف قدم بڑھائے۔
"جی تو محترمہ کیا سزا دینے کا ارادہ آپکا"
وہ شلیف پر پاوں لٹکائے بیٹھی رباب کے قریب جا کر کھڑا دائیں بائیں بازو ٹکاتے بولا، جو اتنی نزدیکی کے باعجود ویسا ہی غصے والا منہ بنائے بیٹھی تھی۔
"آپکو سزا نہیں دے سکتی سارا مسئلہ ہی یہی ہے۔ تبھی تو آپ فری ہو گئے ہیں"
وہ اپنے ازلی انداز میں عادل کو مسکرانے پر مجبور کرتے ہوئے بولی جو اسے تکتا ہوا سانس کھینچ کر رہ گیا۔
"یہ تو مجھ معصوم پر سراسر الزام ہے، میں اور فری۔اگر آپ چائیں تو ٹھیک سے فری ہو کر دیکھاوں مسیز؟"
وہ شرارتی انداز میں اسکی ناک سے ناک سہلاتے آنچ دیتے لہجے میں بولا ، رباب لاکھ گھبرائی پر چہرے پر غصہ ہی بٹھائے رکھا۔
"عادل!"
جب وہ گستاخیوں سے باز نہ آتا انکی شدت و نوعیت بڑھانے لگا تو وہ اسکے سینے پر ہتھیلوں کو رکھی نم سا اسے پکاری، عادل کو لگا اسکا نام چمکتی روشنی سے منور ہو گیا ہو۔ شرارت ایک دم بے خود سنجیدگی میں بدلی تھی۔
"مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے"
وہ سر جھکائے اپنی بے بسی کہہ بیٹھی، مقابل کی آنکھوں میں سرور ابھر کر معدوم ہوا۔
"مجھے بھی"
وہ اسکے دو لفظی اعتراف پر پھول بن کر مہکی، پھر دونوں کی آنکھیں ملیں، دل دھڑکے، کسی احساس کے تحت رباب نے نظریں زیرک کر لیں
"میں کرتا ہوں بھائی سے بات"
عادل نے اسکے دونوں ملائم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر دباتے بتایا پر رباب کو نیا صدمہ لگا۔
"نہیں، پہلے بھیا کی شادی کروا لوں۔ آپ کیوں نہیں کہتے ان سے عادل، میری تو سنتے ہی نہیں۔ میں بھیا کو اکیلا نہیں کرنا چاہتی۔ انکی زندگی میں بھی کوئی ایسا ہو جو انکا خیال رکھے اور محبت کرے تب ہی میں یہاں آوں گی۔ کچھ کریں ناں"
وہ وجدان کے لیے فکر مند تھی لیکن عادل کے بنا رہنا بھی ممکن نہ تھا، وہ اسکے چہرے کو نہارتا دلکش سا مسکایا۔
"ہاں بلکل۔ ایسا ہی ہوگا۔ میں کروں گا بات"
وہ اسے مطمئین کر رہا تھا اور وہ ہو بھی گئی تھی۔ "عادل"
وہ اسے دیکھتے دوبارہ پکاری۔
"ایسے نام مت لیا کرو کچھ ہو جاتا ہے"
وہ ہلکا سا مسکرایا جبکہ لہجے میں نے پناہ شدت چھلکی جو رباب کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسناہٹ اتار گئی۔
"تو کیا میں آپکو'اجی سنتے ہیں' کہوں"
وہ اسکی بات پر خمار جھٹک کر ہنسا۔
"جو مرضی کہو۔بس یہ نہ کہو۔ کم ازکم تب تک جب تک تم یہاں میرے پاس نہیں آ جاتی"
جذبات کی حدت عادل کی آواز تک میں گھلی، رباب کی پلکیں حیا سے بوجھل ہوئیں پر پھر اسکی شرارتی آنکھیں اس لمحے کا فسوں لے اڑیں۔
"ٹھیک ہے اوئے کہوں گی اب۔ کوئی ادب نہیں"
وہ ہنستی ہوئی شلیف سے اتر گئی مگر اسکا ہاتھ ابھی بھی عادل کی مضبوط گرفت میں تھا۔
"میں روز صبح تم سے مل کر جاوں گا اب سے تاکہ تم مجھے دیکھنے کو مس نہ کرتی رہو"
وہ اسے اپنے حصار میں قریب کرتا انسیت خیزی سے بولا جبکہ عادل کی سنجیدگی پر رباب بوکھلائی۔
"پھر آپکے پورے دن کا اللہ ہی حافظ"
وہ اب عادل کی سنجیدگی کو ہنسی میں بدلنا چاہ رہی تھی کیونکہ وہ سنجیدہ ہو کر کچھ زیادہ ہی غضب ڈھا رہا تھا۔
"تمہارے دیدار سے شروع ہونے والے دن میرے لیے میری زندگی کا اثاثہ ہیں"
ناجانے کیوں وہ اسے کہہ نہ سکا، حالانکہ بہت شدت سے اسے سینے لگانے کا طلب گار تھا پر جانتا تھا وہ نہیں سہہ سکے گی۔
"چلو کھلاو مجھے، کچھ کام کرو کب کی ویلی بیٹھی ہوئی تھی"
عادل نے اپنے جذبات دبائے اور اسکا ہاتھ تھامے ہی کرسی گھسیٹتا ہوا بیٹھا تو رباب نے بھی منہ پھلا کر ویلی نکمی پر گھورا مگر پھر خود ہی اسے سینڈوچ سرو کرنے لگی جبکہ عادل اسے بس تکتا ہی رہا۔
"چائے پیو گے ہادی"
ہادی شام تک دوبارہ گھر آیا ،کنزا کچن میں رات کے کھانے کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ سر ہلا کر صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔
"جی مما، ایسا کریں میری اور زالے کی چائے اسکے کمرے میں بھیج دیں۔ میں پھر آپکو جوائن کرتا ہوں"
ہادی نے لاڈلی سے مل بیٹھنے کا پلین کیا تو کنزا مسکراتی ہوئی دوبارہ کچن میں چلی گئیں۔ وہ سیڑھیاں پھلانگتا اوپر گیا، اور پھر چھت پر، اسے ٹیرس پر کھڑی نظر آئی تھی، موسم آج کافی اچھا تھا۔
"آہاں موسم انجوائے ہو رہا ہے"
ہادی مسکراتا اسکے ساتھ کھڑا ہو گیا جہاں سامنے سڑک پر گاڑیاں اپنے اپنے سفر کی جانب رواں تھیں اور آسمان ڈوبتے سورج کے دلسوز منظر سے زرد سا ہو رہا تھا۔
ہفتہ گزر گیا تھا ان دو کے بیچ بھی دوبارہ بات نہ ہوئی۔
"نہیں۔ میں کچھ بھی نہیں کر رہی"
وہ بے حد سنجیدہ تھی۔
"مجھ سے بات تو ٹھیک سے کیا کرو زالے۔ تم سے بہت پیار کرتا ہوں"
وہ زالے کے لٹھ مار انداز پر اداس ہو گیا۔
"لیکن زالے نہیں چاہتی اس سے پیار کیا جائے۔ سبھی نے ہمیشہ مطلب ہی نکالا ہے"
وہ یک دم اداس سی پھٹی، مراد بہلول کی طرف سے وہ کافی دلبرداشتہ تھی۔
"ایسا نہیں ہے۔"
وہ اسے یقین دلاتے بولا پر وہ چڑ گئی۔
"جیسا بھی ہے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"
وہ رخ موڑ کر کرسی پر جا کر بیٹھ گئی، ملازمہ چائے بھی لے آئی تھی۔
"سب میری غلطی ہے"
وہ شرمندہ سا قریب آن رکا، زالے نے ایک نظر الجھ کر ہادی کو دیکھا۔
"نہیں۔ میری ہے جو میں اس دنیا میں آ گئی، میرا یہاں آنے کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ بس یونہی تبھی میں آج تک کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو پائی"
وہ سپاٹ لہجے میں تلخی سے بولی۔
"بچی ہی ہو ابھی تک، وہ چھوٹی سی زالے جو مجھ سے کھو گئی تھی"
ہادی کے لہجے میں دکھ عودا۔
"میں وہ سب بھول چکی ہوں، مجھے یاد دلا کر میرا جینا مشکل مت کریں"
وہ اپنی سرد باتوں سے سامنے والے کے دل کو جلا دیا کرتی تھی، ہادی چپ ہو گیا تھا۔
پھر گہرا سانس لیے وہاں سے چلا گیا اور جیب سے فون نکالے وجدان کا نمبر ملایا۔
"ہاں جناب کیسے ہو؟"
وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے کال پے مقابل ہستی سے بولا تھا۔ "میں نہایت مصروف تم بتاو۔"
وجدان لیپ ٹاپ کھولے کسی کام میں مصروف تھا، لمحہ بھر توجہ سکرین سے ہٹائے ہادی کی جانب مبذول کی۔
"کیا ہم مل سکتے ہیں وجدان؟ میرا مطلب آفس یا گھر کے علاوہ"
ہادی نے جھجھکتے پوچھا تو وجدان لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر کرسی گماتے سیدھا ہو کر ٹیک لگائے بیٹھا۔
"ہاں کیوں نہیں۔ سب خیریت تو ہے؟"
وجدان کو فکر ہوئی۔
"ہاں۔ بس تمہاری مدد چاہیے۔"
ہادی نے پراسراریت سے جواب دیا۔
"مدد کے لیے میں ہمیشہ تیار۔ چلو کل میں صبح ایک کام سے جا رہا ہوں۔ ہم شام کو کیفے میں ملتے ہیں"
وجدان نے دوبارہ سے لیپ ٹاپ کو دیکھتے ہوئے ٹائم فکس کیا۔
"ٹھیک ہے۔ ملتے ہیں پھر"
ہادی نے کہہ کر فون رکھ دیا، جبکہ وجدان نے بھی روکا کام وہیں سے شروع کر لیا۔
..___________________..
"ارے کیا سچ میں؟ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔"
سمیر کو ڈاکٹرز نے بیت جلدی بہتر ہونے کا بتایا، ڈاکٹر نے اسے مکمل آرام کا مشورہ دیا تھا۔ ثانی نے آتے ہی یہ خبر سنی تو خوشی سے مسکرا دی، عائشہ اور سمیر کی والدہ بھی خوش تھیں جبکہ وہ بغیر کوئی تاثر لیے لیٹا تھا۔
"جی آپی۔ میرے بھیا ٹھیک ہو گئے ہیں"
عائشہ کی معصوم مسکراہٹ پر ثانی بھی مسکرا دی۔
"میں زرا نفل ادا کر لوں، میرا بچہ اب کافی بہتر ہے۔ چل عائشہ باجی کے لیے کچھ کھانے کو لا۔۔ جا میرا بچہ"
ثانی نہ کہہ کر تکلف نہیں کرنا چاہتی تھی، عائشہ تو جیسے پہلے ہی تیار بیٹھی تھی فورا دوڑی۔
"اداس کیوں ہو، یہ تو اچھی بات ہے تم اس قابل ہو کہ ڈاکٹرز تمہیں خطرے سے باہر ڈئکلئیر کر چکے ہیں"
وہ سمیر سے ازلی نرماہٹ کے سنگ مخاطب تھی۔
"ہمممم"
وہ خاموش تھا۔
"ایسا دوبارہ مت کرنا۔ پلیز"
وہ کسی خدشے میں تھی کہ کہیں وہ پھر سے کوئی الٹی حرکت نہ کر دے۔
"ثانی تم مجھ سے دور رہو، مت آنا دوبارہ ملنے۔ تم نے جتنا ہمارے لیے کیا ہے میں اسکے لیے تمہارا شکر گزار ہوں۔اب چلی جاو"
وہ بنا دیکھے بول رہا تھا اور وہ بلکل خاموشی سے سن رہی تھی، جبکہ سمیر کے کھردرے لہجے نے ثانی کا دل کئی ٹکڑوں میں تبدیل کیا۔
"منہ پے تھپڑ اچھا مار لیتے ہو"
وہ شکوہ کناں تھی، سمیر نے ایک نظر گردن موڑے اسے دیکھا۔
"تم مجھ سے امیدیں باندھ رہی ہو، جو تمہارے لیے خطرناک ہے۔ تم نے میرا سوچا تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ تمہیں خود سے بچاوں"
وہ سنجیدہ اور بے بس سا تھا۔
"ٹھیک ہے میں کوئی امید نہیں باندھوں گی لیکن میں تمہاری دوستی نہیں کھو سکتی۔ تم بہت اچھے ہو۔ ایسا مت کرنا"
وہ بھی بے بس ہوئی، سمیر نے ایک سرد نگاہ اس پے ڈالی جو اسکے لیے سوچتی تھی یا شاید سوچنے لگی تھی۔ وہ کسی سے کم بھی نہیں تھی۔
خوبصورت، پڑھی لکھی اور اچھے خاندان سے تعلق رکھنے والی، کوئی برائی بھی نہیں تھی پھر وہ کیوں اس سے اتنا بے زار ہو رہا تھا۔
کوئی اپنے رہنماوں سے بھی بے زار ہوتا ہے بھلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! "مجھے معاف کر دو لیکن میں ایک بکھرا ہوا انسان ہوں۔ نہ چاہ کر بھی دکھ کا باعث بنوں گا۔ مجھ سے کنارے میں ہی بہتری ہے"
وہ مایوس نہیں تھا پر اسے لگا، ثانی نے ہاتھ بڑھا کر اسکے یخ ٹھنڈے ہاتھ کو تھاما اور مسکرا دی۔
"تم میرا فائدہ اور بہتری رہنے دو، جلدی سے ٹھیک ہو جاو"
ناجانے اس بار ثانی کے لہجے میں کیا تھا کہ وہ نہ ہاتھ چھڑوا سکا نہ اسکی بات رد کیے اس سے کچھ لمحے نظر ہٹا سکا۔
..____________________..
"وہ اندر ہے، دیکھو ہو سکتا ہے وہ اعتراف جرم کرنا چاہتا ہو۔ تم اپنا سارا دھیان لگانا"
ساحر وجدان کے ساتھ چلتا جیلوں کی طرف اندر آ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے"
وجدان کہہ کر اندر انویسٹیگیشن روم کی طرف پراعتمادی کے سنگ بڑھ گیا چھوٹے سے ملگجی انسھیرے میں ڈوبے روم کا دروازہ تھا، اندر دو کرسیاں اور درمیان میں ایک چھوٹی میز دھری گئی تھی۔ کمرے میں مدھم روشنی تھی، فارس مانی سامنے والی کرسی پر بیٹھا تھا جب وجدان اندر داخل ہوا۔ دونوں کی نظریں مل چکی تھیں۔
"آو جوان۔ تم آ گئے"
وہ جیسے امید نہیں رکھتا تھا اسکے آنے کی۔۔ وجدان اسے گہری نگاہوں سے لتاڑتا ہوا اسکے سامنے والی کرسی پر بیٹھا۔
فارس مانی کو اچھے طریقے سے پاوں میں بیڑیاں ڈالے بیٹھایا گیا تھا، اسکے چہرے پر جابجا سرخ نشان اور نیل تھے، وہ وجدان سے بھی پٹ چکا تھا پر ایسی حالت اسکی تب بھی نہیں ہوئی تھی۔
"اپنی یہ مکرو مسکراہٹ بند کرو اور بتاو کیا کہنا ہے تم نے"
وجدان کیسے ایک غدار پر ترس کھا سکتا تھا جو وجدان کو دیکھے گہرا مسکرائے گیا۔
"آفیسر تم اچھے ہو لیکن ہمارا یہ معاشرہ اچھا نہیں ہے۔ تم نے مجھے اپنا ساتھ دینے کا کہا تھا مگر میں مجبور ہوں کہ اپنے پیشے سے غداری نہیں کر سکتا"
وہ اسے وہی سب دوبارہ بتا رہا تھا، وجدان کو تپ چڑھی۔
"تو کیا چاہتے ہو تم؟"
وجدان اب کرسی پر بازو رکھے تنقیدی نگاہوں سے گھورا۔
"تم مجھے ثبوت دکھاو، میں تمہارا ساتھ دوں گا"
فارس مانی کا مکرو چہرہ آج کچھ زیادہ ہی خوفناک لگ رہا تھا۔
"یعنی اپنے مالکوں کا اصلی چہرہ دیکھنا چاہتے ہو؟ کیا تمہیں ایک آفیسر کی بات کا یقین نہیں؟"
وجدان نے اسکی مکرو آنکھیں دیکھتے سمجھایا اور سوال کیا۔
"یقین ہے تم پر آفیسر"
وہ جیسے ایک ہارا انسان تھا، ایک مجرم جو ایک آفیسر پر یقین کرنے کا دعوی کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے، میں لاوں گا ثبوت۔ تم اپنی بات سے مکرنا مت۔ یقینا یہ بھی تم افغانیوں کے لیے گناہ والی بات ہوتی ہے"
وہ اسے جتاتے بولا تو وہ مکرو کے بجائے تلخی سے مسکرایا۔
"یقینا۔ وعدہ ہے پھر جو تم کہو گے وہی ہوگا"
وہ وجدان کے سامنے عہد کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے"
وجدان اٹھ کھڑا ہوا۔
"آفیسر؟"
وہ فارس مانی کی آواز پر پلٹا۔
"تم پر یقین ہے۔ میری بیٹی کی حفاظت کر سکتے ہو؟ وہ تمہارے ہی ایک ادارے میں ہے"
فارس مانی نے یقین کیا تھا وجدان پر تبھی اسکو اپنی جان تھما دی، وجدان کے قدم تھمے اور وہ مکمل فارس کی جانب پلٹ گیا۔
"بے فکر رہو۔ بیٹیاں سب کی سانجھی ہیں اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان تمام معاملات کا اس پر اثر نہیں ہوگا۔ تم بس اس ملک سے وفاداری کرنے کا سوچو۔۔ دیکھنا اللہ اجر دے گا"
فارس مانی آج پہلی بار رویا تھا، اسکی آنکھوں میں نمی تھی۔ لیکن وہ وجدان پر یقین کر چکا تھا اور یقینا وہ اسے مایوس نہیں کرنے والا تھا۔
"چلتا ہوں" وجدان نے اسکے آنسو دیکھے پر ابھی انکے لیے کوئی مرہم نہ تھا تبھی اجازت کیے نکل گیا اور اگلے ہی لمحے فارس مانی نے اپنے چہرے سے بہتے آنسو پونچھ ڈالے جبکہ ساحر یہ سب سن کر حقیقی شاک میں اترا معلوم ہوا۔
..____________________..
"دیکھو یہ سارا کیس بہت اختیاط سے حل کرو، مجھے جلد ازجلد سمی کی رہائی چاہیے۔ تم پیسوں کی فکر مت کرو،کسی بھی وکیل کو ساتھ ملاو۔ زیادہ بولے تو منہ میں چند لاکھ بھی ٹھوس دینا لیکن مجھے سمی ہر حال میں باہر چاہیے"
وہ کسی نقاب پوش آدمی سے مخاطب تھا، یہ کوئی سنسان سڑک تھی جہاں دن کے وقت بھی رات سی خاموشی تھی، مراد بہلول ہر قدم اب پھونک پھونک کر رکھ رہا تھا، اوچھے ہتھکنڈے شروع ہو چکے تھے۔
"ہو جائے گا، ایک وکیل ہے۔ سنا ہے آج تک کوئی کیس نہیں ہارا۔ آپ کہیں تو"
وہ آواز بہت بھاری سئ تھی، مراد بہلول کے دماغ کی بتی روشن ہو چکی تھی۔
"ٹھیک ہے تم ملو اس سے اور ہاں سیدھے سے نہ مانے تو تم جانتے ہو کیسے منوانا ہے۔۔۔۔یقینا اسکی بھی کوئی کمزوری تو ہوگی"
مراد بہلول کا دماغ تھا ہی شیطانی۔
"جی سر بیٹی ہے اسکی نہ مانا تو اٹھوا لیں گے"
مراد بہلول اتنا پرجوش تھا کہ بیٹے کے متعلق سننے سے پہلے متفق ہو گیا کہ اسکا بیٹا بھی ہے۔
"ٹھیک ہے جو کرنا ہے فورا کرو اور ہاں میں خود تم سے رابطہ کروں گا۔ تم محتاط رہنا"
مراد بہلول نے اسے محتاط رہنے کا کہا اور ادھر ادھر احتیاط سے دیکھتا سڑک کے دوسرے کنارے چلا گیا، جہاں کچھ فاصلے پر اسکی گاڑی کھڑی تھی۔
..____________________..
"کافی کے ساتھ کیک؟"
ہادی آرڈر دیتے ہوئے اس سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں منگوا لو"
وجدان نے مسکرا کر سر ہلایا تو ہادی نے ویٹر کو کہہ کر فارغ کیا ،وہ دونوں قریبی ہی کیفے آئے تھے، ہادی قیمص شلوار پہنے گھر کے خوبصورت وجیہ خلیے میں تھا جبکہ وجدان تھری پیس میں کیونکہ وہ آفس سے سیدھا یہیں آیا تھا۔
"سب خیریت ہے؟"
وجدان کو ہادی کی الجھن بنا جانے ہی دیکھائی دی تبھی نرمی سے خود ہی گفتگو کا آغاز کیا۔
"شاید ہے بھی اور نہیں بھی۔ وجدان ہم زندگی میں کئی بار بہت بے بس اور لاچار ہو جاتے ہیں، جیسے میں ہوں۔اور یقین مانو میرے پاس مدد کے لیے تمہارے سوا کوئی نہیں ہے"
ہادی کی یک دم سنجیدگی اور تمہید دیکھ کر وجدان متفکر ہوا۔
"میں ہر ممکن مدد کے لیے تیار ہوں، ایسی مایوس باتیں کم ازکم تم پر سوٹ نہیں کرتیں یار"
وجدان تھوڑے ہلکے پھلکے انداز میں بولا، مقصد ہادی کو بوسٹ آپ کرنا تھا تاکہ جو کہنا چاہتا ہے کہہ دے۔
"میں مایوس ہوں سچ میں وجدان، میں بے بس بھی ہوں۔ ایک طرف میرا باپ ہے جو ناجانے میری کونسی سزا بننے والا ہے، ایک طرف بے بس ماں ہے جو محبت دے دے کر بھی تھوڑی سی محبت بدلے میں نہیں پاتی ہے لیکن اف بھی نہیں کرتی اور تیسری طرف۔۔"
وہ لمحہ بھر رکا، زبان تھکن کا شکار تھی یا اسکا دل، وجدان سمجھ نہ سکا۔
"وہ بہن جو مجھے دیکھ کر سانس لیتی تھی اب جانتی پہچانتی بھی نہیں، کیسے جانے، کب میسر آیا ہوں اسے، ہمیشہ اذیت میں اکیلے سلگنے کو چھوڑ کر بھاگا ہوں"
اب کی بار ہادی کا لہجہ نم تھا۔
"مایوس مت ہو ہادی، یہ سب اللہ کے فیصلے ہیں۔ یقینا اچھا وقت بھی آئے گا، سب کو جبر و صبر کا صلہ ضرور ملتا ہے۔"
وجدان نے اسے موہوم سی تسلی دینی چاہی۔
"یقینا، پر میں تم سے آج یہاں کچھ مانگنے آیا ہوں۔ کچھ ایسا جو شاید تم ایک لمحے کو کہہ دو کہ دینا ممکن نہیں۔ میں پھر بھی آیا ہوں"
اب کی بار ہادی سنجیدہ تھا جبکہ وجدان حیرت و خفگی کا شکار تھا۔
"ہادی صاف بتاو۔۔ یوں بات الجھاو مت"
وجدان کو اب الجھن سی ہوئی۔
"مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیسے کہوں، تم مجھے خود غرض کہہ لو مگر میں بہت مجبور ہوں وجدان، تم میرا مان رکھ لینا"
ہادی کی پہیلیاں وجدان کے صبر کا پیمانہ لبرئز کرتی محسوس یوئیں۔
"کیا کہنا چاہتے ہو ہادی"
وجدان نے زرا غصے سے پوچھا۔
"زالے تم سے محبت کرنے لگی ہے، پتا نہیں کتنی۔ میں اندازہ نہیں کر پایا لیکن شاید اسکی حبس زدہ زندگی میں روشنی اور ہوا کی نئی امید جاگی ہے، تمہاری صورت۔۔۔ پلیز وجدان زالے کو قبول کر لو"
وجدان کی سنجیدگی اب غصے میں بدلتی دیکھائی دی تھی، اسکے چہرے پر اچانک سے نہ چاہتے ہوئے بھی سختی در آئی تھی اور اس انکشاف پر وہ خوش ہونے سے رہا، دونوں اپنے ہاتھ پوری قوت سے مٹھیوں کی صورت بھینچ ڈالے لیکن نگاہ جب خزن زدہ ہادی پر گئی تو اسے اپنے انداز اور برہمی میں نرمی لانی ہی پڑی۔
"میں زالے کو تمہیں سونپ کر مر بھی جاوں تو دکھ نہیں، وہ بری نہیں ہے۔بھٹکی ہوئی ہے۔۔۔ پلیز وجدان اسے راستہ دکھا دو، تم اپنے دوست پر یہ احسان کر دو۔ وہ مر جائے گی، اسے اسکے اندر کی حبس مار دے گی، اسے تمہارئ روشنی درکار ہے"
مقابل کی سرد مہری و ناگوارئیت محسوس کرنے کے باوجود ہادی بولتا جا رہا تھا اور وجدان کے چہرے کی سنجیدگی گہری سے ہوتی ہوئی نارمل ہو رہی تھی۔
"سچ بتاو، اس نے تم سے وجدان مانگا ہے؟ اور تم یقینا اسکی خوشیاں اسے دینے نکل پڑے ہو۔ بنا جانے کہ وجدان کی بھی کوئی خوشی ہو سکتی ہے"
وجدان کے لہجے کی حدت ہر ہادی کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا جبکہ ہادی کے سر ہلانے پر وجدان تلخی سے مسکرا دیا۔
"ٹھیک ہے لیکن وجدان اسے تبھی ملے گا جب وہ انسان اور کھلونے میں فرق جان پائے گی۔ باقی تم یوں مایوس شکل مت بنانا دوبارہ، زہر لگ رہے ہو"
وجدان نے خوبصورتی سے مسکرا کر کہا اور کافی پینے لگا جبکہ ہادی دیکھتا رہ گیا کہ ہاں ہوئی ہے یا انکار۔کیونکہ اسکے سامنے "عبداللہ وجدان" تھا، ہر کسی کو لاجواب کر دینے والا۔
اس کے بعد شاید بات کرنے کو کچھ بچا ہی نہ تھا۔
.._____________________..
"یہ رہی آپکی کریمی کافی "
رباب کافی کا مگ لیے وجدان کے پاس ہی بیڈ پر آ گئی جہاں وہ کشن گود میں رکھے بڑے سنجیدہ انداز میں بیٹھا کدی گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔
"بھیا کیا ہوا؟ کہاں گم ہیں۔"
وہ اسے ہلا کر بولی تو وہ مسکرا دیا۔
"کچھ نہیں پرنسیز، لاو"
وجدان نے مگ لیتے ہوئے ٹالا۔
"کچھ تو ہے آپ نے اتنا سیریس منہ کیوں بنا رکھا ہے، سچی بتائیں نہیں تو میں نے رو پڑنا"
رباب کی دھمکی پر وہ ہنس دیا۔
"بھئی ہنس رہا ہوں دیکھو، تم بھی استانی بننے میں دیر نہیں لگاتی"
وہ نارمل انداز میں بولا تو رباب آنکھیں چھوٹی کیے گھوری۔
"جھوٹی ہنسی۔"
وہ منہ پھلا چکی تھی۔
"سچی والی ہے دیکھو"
وہ دانت دیکھاتے اسے ہنسانے کی کوشش کرتا معصوم بنا۔
"بازو کیسی ہے اب آپکی؟ درد تو نہیں ہے، گئے پھر ڈاکٹر کے پاس؟"
نہ پے شامت پکی تھی تبھی فورا سر ہلا گیا۔
"ٹھیک ہے ایک دم۔۔۔"
وہ بازو ہلا کے دکھاتے بولا تو اب کی بار رباب اسکی ایکسٹرا ڈرامے بازی پر کھلھلائی۔
"میرے ڈرامے باز بھیا"
وہ مسکرائی تو وہ بھی ہنس دیا۔
"تم بہت یاد آو گی، سوچ رہا ہوں اب تمہیں رخصت کر دوں۔ آج احمد انکل کا فون آیا تھا تو باتوں باتوں میں انھوں نے کہا۔ میرے لیے تو کبھی بھی تم کو خود سے الگ کرنا آسان نہیں پر کیا کریں دنیا کا دستور بھی تو نبھانا ہے"
رباب کو بھائی پر بہت پیار آیا تو وہ اسکے کندھے پر سر رکھے لیٹ گئی۔
"میری بھی سن لیں، بھابھی لائیں پھر سوچئیے گا وہ منہ پھلائے نئی فرمائش کا پٹارہ کھول بیٹھی۔
"سوچتا ہوں"
اور اگلے ہی لمحے رباب بے ہوش ہوتے ہوتے بچی، بات تھی ہی اتنی حیران کن۔
"آپ کوئی بھی فیصلہ جلدی نہ کرنا بھیا، عادل مجھے عزیز ہیں لیکن آپ میں رباب کی جان بستی ہے۔ اپنے لیے کوئی عام ساتھی مت پسند کریے گا۔ کوئی ایسی ہو جو آپکے ساتھ چلتے ہوئے آپکا عکس لگے"
وہ اسکے کندھے پر سر رکھے بڑی اماں کی طرح سمجھاتے بول رہی تھی اور وجدان اسکی باتوں پر مسکرا رہا تھا۔
"سب اچھا ہی ہوگا، تم بس اب چلنے کی تیاری پکڑ لو پیا دیس، بس میری گڑیا ہمیشہ خوش رہے"
وہ شفقت سے بھرے لہجے میں بولا تو وہ تیاری پکڑنے والی بات پر جیسے شرمائی، وجدان کو کھل کر شریر قہقہہ لگانا پڑا۔
..______________________..
"کہاں ہو تم لوگ؟ نہ کوئی اتا نہ پتا"
سعد اور خیلہ آج جانے کہاں سے راستہ بھول آئے تھے۔ ملازمہ ابھی کھانے کے لوازمات رکھ کر گئی تھی، زالے نے دونوں کو ساتھ ڈپٹا۔
"بس شادی کی تیاریوں میں گم ہیں یار"
سعد نے پرجوش ہو کر بتایا تو زالے اور خیلہ دونوں مسکرا دیں، زالے ان دنوں کے لیے بہت اچھا فیل کر رہئ تھی۔
"ہممم اچھا ہے، خوب انجوائے کرو۔ اور وہ ثانی کہاں ہے۔ وہ تو لگتا دنیا سے کوچ کر گئی ہے"
زالے نے اس بے مروت کو آج بھی تھوڑا مس کرتے طنز کا سہارہ لیا۔
"بھئی اسے تیمارداریوں سے فرصت ملے تو نظر آئے۔ سمیر ہوسپٹل سے ڈسچارج ہو گیا تھا پھر گھر میں ڈاکٹرز آتے رہے اب تو وہ بھی اسے اوکے کہہ کر چلے گئے، اور ثانی آجکل اسی کے اردگرد ہے۔ شاید بہت جلد ہمیں نیوز سننے کو ملے کہ دونوں نے شادی کر لی"
سعد نے آخری بات ہنسی میں اڑاتے ہوئے کہا۔
"چلو خوب بنے گی جب مل بیٹھیں گے فارغ دو"
زالے کی برخستہ بڑبڑاہٹ پر دونوں کے دانٹ باہر آن گرے تھے۔
"زالے تم ہماری شادی کے ہر فنکشن پے لازمی آ رہی ہو۔ دیکھو میں اور خیلہ کوئی بہانہ نہیں سن رہے"
وہ جانتے تھے کہ زالے ایسے فنکشنز پر بہت کم جاتی تھی ، وہ تھئ تو فیشن آئیکن مگر پچھلے کچھ وقت سے وہ ہر طرف سے آف تھی اور وہ دو چاہتے تھے وہ اپنی سوشل لائف پھر سے ایکٹیو کرے لیکن زالے اب ہر چیز سے اکتا چکی تھی۔
"ہاں شادی پے آوں گی"
زالے نے کیک پیس کا ٹکڑا فورک ست منہ میں ڈالتے ہوئے جان چھڑوائی۔
"نہیں، مہندی ولیمہ بارات سب پر۔۔ تم نہیں جانتی لوگ زالے مراد کو کتنا مس کر رہے ہیں، تمہاری کمی پورے سرکل میں پھیلی ہے۔ویسے بھی یونی کے بعد ہم سب یونیورسٹی فیلوز ملے بھی نہیں۔ وہ سب تم سے خاص طور پر ملنا چاہتے ہیں"
خیلہ نے بنا رکے اصرار کے سنگ مچل کر بتایا مگر زالے کے لیے یہ سب اب اتنا اہم نہیں رہا تھا۔
"پھر لوگ تم دونوں کو بھول جائیں گے"
وہ غضب انداز میں اترائی تھی اور وہ دونوں مسکرا دیے۔
"نہیں ہم کوئی بہانہ نہیں سن رہے، تمہارے بنا ہم شادی نہیں کرنے والے"
سعد زیادہ پرجوش تھا۔
"آہاں! ٹھیک ہے میں ضرور آوں گی۔ تم دونوں خوش ہو جاو بس"
وہ بھی اتنی اہمیت پر مسکرائی تھی پر نہایت مختصر۔
"اب ہم بہت خوش"
خیلہ کی پرجوش خوشی دیدنی تھی۔
..____________________..
عبداللہ آج گھر ہی تھا، وہ ٹیرس پر ہاتھ ریلکنگ پر جمائے بے تاثر کھڑا تھا۔
بوا اسے کچھ دیر پہلے ہی کافی دے کر گئی تھیں۔ مسلسل کام اسے تھکا چکا تھا تبھی آج وجدان نے آفس کے بجائے امام مسجد سے ملنے کا ارادہ باندھا تھا۔
وہ دو ہفتے سے نہیں جا سکا تھا اور یہی چیز اسکی تھکن کا باعث تھی۔
وہ اپنی مصروف ترین زندگی میں سے خود کے لیے اور اس رب کے لیے وقت ضرور نکالتا تھا جس نے اسے دنیا جہاں کی عزت عطا کی تھی۔
وہ مرتبہ دے رکھا تھا کہ "عبداللہ وجدان" کی آواز کی تاثیر بہت اثر انگیز تھی، وہ خود کو آج حقیقت میں تھکا محسوس کر رہا تھا۔ ناجانے کیوں ہادی کی باتوں نے اسے الجھا دیا تھا۔
وہ کیسے اقرار کر سکتا تھ اس فیصلے کے لیے جس پر اسکا دل کبھی راضی نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ ہادی کی بے بسی بھی دیکھ چکا تھا۔
وجدان نے تو کسی کو نہ کہنا سیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔ تو وہ کیسے کسی بے کس اور مجبور بھائی کو مایوس کر دیتا۔
پر وہ خود کے لیے"زالے مراد" کو کبھی بھی قبول نہیں کر پا رہا تھا، وہ جیسی بھی تھی ، اسکا اور اسکے رب کا جیسا بھی تعلق تھا وہ دنیا کی نظروں میں کتنی ہی پاپولر تھی۔ یہ سب چیزیں اسکے لیے اہم نہیں تھیں۔
اہم اسکے دل میں" وجدان" کے لیے محبت کا جنم لینا تھا۔
یہ کیوں تھا، وجدان کا ذہن الجھا تھا۔
وہ کیسے کسی ایسے رشتے کی حامی بھر سکتا تھا جس کے لیے اسکا دل راضی نہیں تھا، ہاں وہ زالے مراد کو اتنا نہیں جانتا تھا مگر وہ ایک جانی پہچانی ہستی تھی اور آئے دن نظروں سے گزرتی رہتی تھی، وہ دنیا والوں کی نظر میں رہنے والی ایک حسینہ تھی۔
ایک نڈر، ضدی اور بے باک لڑکی۔۔ وجدان اس متعلق سوچنا نہیں چاہتا تھا مگر وہ اس سب سے جتنا بھی بھاگ لیتا آخر کار فیصلہ اسے کرنا ہی تھا اور یہی اسکے لیے صبر آزما فعل ہونے والا تھا۔
"سر آپ سے ملنے ایک آدمی آیا ہے"
احمد صاحب کی سیکٹری نے انھیں فون کر کے کسی نامعلوم فرد کینآند کے بارے آگاہ کیا۔
"کون ہے"
احمد صاحب مصروف انداز میں متفکر ہوئے بولے۔
"کہہ رہا ہے کسی کیس کے متعلق بات کرنی ہے"
اس نے مزید بتایا۔
"ہاں، بھیج دو۔۔ اور دو کپ چائے بھی"
احمد صاحب نے فون رکھ کر سامنے رکھی فائلز سمیٹیں اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، وہ پیشے کے اعتبار سے بہت قابل وکیل تھے،انکی نظر آفس کے دروازے پر غیر ارادہ جنی جہاں سے وہ آدمی اندر داخل ہوا۔
وہ درمیانے قد کا ایک دبلا آدمی تھا،شکل ہی شرافت سے مکمل عاری۔احمد صاحب ایک ہی نظر میں سامنے والے کو پہچاننے کا ہنر رکھتے تھے۔
وہ آیا بیٹھا اور ایسے بیٹھا جیسے اسکے باپ کا دفتر ہو، احمد صاحب اسکی بدتہذیبی بمشکل سہتے اسکے مکرو چہرے کو دیکھنے لگے۔
"فرمائیے"
احمد صاحب ایک تنقیدی نظر ڈالے بولے جس پر پہلے تو وہ ہنسا پھر سنجیدہ ہوتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے بریفکیس کو کھول کر ایک فائل انکے سامنے کی، احمد صاحب کی نظر اس پر تھی وہ انھیں شکل سے ہی مشکوک لگ رہا تھا۔
"تم یہ کیس لڑنے کا کتنا پیسہ لو گے؟"
وہ اب بولا تھا، جبکہ احمد صاحب اسے سرد نگاہ سے دیکھنے کے بعد نظر جھکا کر دوبارہ فائیل دیکھنے لگے۔
"سوری، میں یہ کیس نہیں لڑوں گا۔ براہ مہربانی تشریف لے جائیں"
احمد صاحب نے غصے سے اسکی طرف فائیل واپس بڑھاتے قطعیت سے جواب دیا۔
"چچ چچ کیوں اپنے بڑھاپے کے دشمن بننا چاہتے ہو، انکار کی سزا جانتے ہو؟"
اس سے پہلے کہ احمد صاحب ہاتھ بڑھا کر آلارم بجاتے اس نے جیکٹ سے گن نکال کر سامنے کی، وہ کچھ اس طرح بیٹھا تھا کہ کمرے میں لگے کیمرے میں اسکی کمر دیکھائی دے رہی تھی اور اس نے گن اس کیمرے کی پہنچ سے ہر ممکنہ بچا رکھی تھی تبھی باہر بیٹھے گارڈ کو سب نارمل لگ رہا تھا۔
"منہ مانگا پیسہ ملے گا، سوچ لو ورنہ انجام کے تم خود ذمہ دار ہو"
احمد صاحب پریشان تھے مگر وہ ظاہر نہیں کر رہے تھے۔ "دفع ہو جاو، کہہ دیا ہے کہ میں یہ کیس نہیں لڑوں گا" وہ اپنے ارادے پر پہاڑ سے قائم تھے۔
"کیس تو تمہیں لڑنا ہی ہوگا"زبردستی کیے وہ انھیں خوفزدہ کر رہا تھا۔
"اتنے پیارے بچے ہیں تمہارے، ہمیں بہت دکھ ہوگا انھیں کچھ کہتے ہوئے"
وہ مقابل کو ڈرا نہ پائے اوچھے ہتھکنڈے پر اترتا شیطانی ہنسی لیے مسکایا۔
"بکواس بند کرو، خبردار جو تم نے انکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی"
اب کی بار خوف انکی رگ رگ میں گھل چکا تھا،اس آدمی کی جرت پر وہ بلبلا کر رہ گئے۔
"تبھی تو کہہ رہا ہوں سیدھے سے مان کر اپنا بھی بھلا کرو اور ہمارا بھی"
مقابل کا شیطانی انداز برقرار تھا۔
"دیکھو تمہارے صرف میری دھمکی پر پسینے چھوٹ گئے، سوچو ہم نے سچ میں کچھ کر دیا تو؟آرام سے سوچو۔۔۔ کل تک کا وقت ہے تمہارے پاس اور ہاں کسی کو بتانے کی کوشش کی تو بہت برا ہوگا۔۔۔۔۔سمجھے"
وہ اپنی گن دوبارہ چھپا چکا تھا اور چہرے کی غلاظت پر فوری شرافت کا لبادہ اوڑھا۔
"ہیو آ گڈ ڈے وکیل صاحب"
وہ حقارت آمیز لہجے میں بول کر آفس روم سے باہر نکل گیا اور احمد صاحب جو اب تک حوصلے میں بیٹھے تھے یکلخت انکے ماتھے پر نمی کے ننھے قطرے نمودار ہوئے اور جسم پر کپکپی سی اتری، انھوں نے ٹشو پیپرز سے اپنا ماتھا خشک کیا اور پاس پڑا پانی کا پورا گلاس پی گئے لیکن اس دہشت سے پیچھا نہ چھڑوا سکے۔
.._____________________..
"ماشاء اللہ! دن بدن تمہاری آواز میں مزید سوز آتا جا رہا ہے برخوردار۔ ایسا ہی رہا تو تمہاری آواز شفا بننے میں دیر نہیں لگے گی"
آج عصر کی آذان اسی نے دی تھی پھر جماعت بھی امام مسجد کے کہنے پر اسی نے کروائی، وہ ہمیشہ اسکے آنے پر خوش ہوتے تھے۔بقول انکے وہ اس مسجد کی رونق تھا، وہ دونوں ہمیشہ کی طرح مسجد کے بیرونی حجرے کی طرف آ گئے تھے جہاں نماز کے بعد اب لوگ قران پاک پڑھنے اور پڑھانے میں مصروف تھے۔
دونوں نفوس پر عاجزی اتر رہی تھی اور انداز اور چال سے دلفریبی اور پاکیزگی۔
"یہ تو آپکا حسن سماعت ہے ورنہ میں کس قابل"
وہ ہمیشہ ہی ایسے توصیف پر شرمندہ ہو جایا کرتا تھا، وہ خود کو اتنی ستائش کے قابل نہیں سمجھتا تھا۔
سفید قمیص شلوار میں وہ ہمیشہ ہی ساحر سا لگتا تھا، ایک جاذب اور دلکش مرد جس میں حیا دار مرد کہلانے کی ہر خوبی موجود تھی۔
"تم بہت قابل ہو۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں"
وہ مسکاتے ہوئے بولے۔
"آپ بتائیں طبعیت کیسی ہے آپکی، آج آپ مجھے کافی کمزور لگ رہے ہیں"
وجدان کی فکر پر وہ پھر سے گہرا مسکرائے تھے۔
"تم آ جاتے ہو تو طبعیت بھی کھل اٹھتی ہے، باقی عمر کا تقاضا ہے برخوردار،نبھانا تو پڑے گا"
ایسی درویش مزاجی وجدان کے ہونٹوں پر تبسم دوڑا گئی۔
"خیر میری چھوڑو، یہ آج کس الجھن نے تمہارا طواف کر رکھا ہے۔ چہرے پر ایک تلاش سی درج ہے، وہی تلاش جو اس دن،۔۔۔"
وہ وجدان کے الجھے چہرے کو پڑھتے تھے پر یہ الجھن کسی سے مشابہ لگی تو اسکا ذکر کرتے کرتے مصلحتا چپ ہو گئے تو وجدان کو تجسس نے گھیرا۔
"اس دن کیا؟"
وجدان نے اس درجہ بے تابی سے پوچھا کہ امام مسجد اگر ٹال دیتے تو یہ وجدان کے اصرار سے ناانصافی ہو جاتی۔
"کوئی آیا تھا تمہاری تلاش میں، اسکے چہرے پر بھی ایسی ہی الجھن تھی"
یہ حقیقتا اک جھٹکا ثابت ہوا۔
"میری تلاش میں، مگر کون"
وہ بے حد شدت سے اپنے متلاشی کے بارے جاننا چاہتا تھا۔
"تھا کوئی بھٹکا مسافر، جیسے تمہاری روشنی درکار تھی۔دوبارہ آیا تو میں اسے تمہارا پتہ دے دوں گا"
وہ یہ معاملہ پردے میں رکھ کر پہلے وجدان کی الجھن جاننے کے خواہشمند تھے۔
"جاننا چاہتے ہو تو پہلے اپنے چہرے کی یہ تلاش ختم کرو، بتاو کیا ماجرہ ہے"
وہ اس بار شفقت سے پوچھنے لگے۔
"ایک فیصلہ ہے جس کو لینے سے کسی کا مان تو رہ جائے گا لیکن شاید مجھے قرار نہیں مل سکے گا، یہی کشمکش ہے کہ کیا کروں"
تاسف خیز لہجے میں اپنی مشکل بتائی تو امام صاحب نے ایک گہری سانس لی اور اسکی جانب دیکھا جو سوال کر کے پہلے سے زیادہ الجھ گیا تھا۔
"مان رکھ لو، تمہارا قرار اس اللہ کے ذمے ہے۔ اپنے قرار اور سکون کی فکر مت کرو،وہ تمہیں تمہاری سوچ سے زیادہ ملے گا"
امام صاحب نے اسے گویا اشارہ دے دیا پر وہ ہنوز شش و پنج کی سی کیفیت میں تھا۔
"میں کہیں اللہ کے احکام سے ہٹ نہ جاوں یہ ڈر بھی موجود ہے، نا چاہتے ہوئے بھی کچھ ایسا جو مرد ہونے کے ناطے مجھے منع کیا گیا ہے، یہ خوف ہے"
وہ وجدان کی بات سن کر دھیمے سے مسکرا دیے کہ انھیں وجدان کی سادہ طبعیت سے انس ہی بہت تھا۔
"کوئی بات نہیں وہ اللہ معاف کرنے والا ہے، ہم انسان خطا کے پتلے ہی تو ہیں۔ بعض اوقات کسی کی بھلائی کے لیے اسکے ساتھ برا برتاو بھی کرنا پڑتا ہے۔ تم یہ سب وقت پر چھوڑ دو"
وجدان کو طمانیت کا احساس نصیب ہوا تو چہرے کی الجھن زائل ہوئی۔
"جو تمہاری تلاش میں چل کر اللہ کے در پر آ جائے، کوشش کرنا اسے زیادہ نہ آزماو۔۔ یہ آزمائشیں بعض اوقات دل مار دیتی ہیں، انسان مار دیتی ہیں۔تم مصلحت اپنانا۔اللہ ہر قدم پر تم کو سرخرو کرے گا،تم بس کسی کا مان مت توڑنا عبداللہ"
شاید وہ اسے جو سمجھانا چاہتے تھے وہ سمجھ گیا تبھی تو اسکی ہمہ وقت نرم طبعیت کی عکاس مسکراہٹ نے اسکے خوبصورت چہرے تک واپسی کر لی، امام مسجد کی آنکھوں میں شفقت کا جہاں رقص کر گیا۔
..___________________..
"یہ رہی آپ دونوں کی چائے"
ہنا نے احمد صاحب اور عادل کو چائے دی اور خود بھی وہیں کاوچ پر چڑھ کر بیٹھ گئی۔
"اس وقت چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی"
عادل نے تعریفی انداز میں کہا تو ہنا مسکرا دی مگر احمد صاحب چپ تھے، وہ دونوں ہی محسوس کر چکے تھے کہ بابا کسی فکر یا پریشانی میں کھوئے ہیں۔
"بابا کیا ہوا ہے؟ آپ کہاں کھوئے ہیں"
عادل نے خود ہی پوچھا تو وہ جیسے چونکے اور یہ بات ہنا اور عادل دونوں کے لیے فکر کی تھی۔
"نہیں نہیں کچھ نہیں۔ شاید تھک گیا ہوں آج"
وہ بات بناتے ہوئے بولے مگر ناجانے عادل مطمئین نہ ہو سکا تھا۔
"بابا کوئی مسئلہ ہے تو آپ ہم سے شئیر کر سکتے ہیں"
وہ احمد صاحب کے چہرے کی الجھی پرچھائیوں کو ایک بار پھر کرید گیا۔
"ارے میرے شیر کچھ بھی نہیں ہے ایسا۔ تم تو جانتے ہو روز کئی کیسز کا سامنا ہوتا ہے، تو بس بورئیت ہو رہی ہے"
وہ خود کو ہلکا پھلکا پیش کرتے ہوئے بولے تو ہنا اور عادل دونوں مسکرا دیے۔
"آہاں مطلب ہمارے بابا جان کو ایک عدد آوٹنگ کی ضرورت ہے۔ تو کیا خیال ہے پلین بنائیں گھومنے کا"
ہنا نے شرارتی انداز میں کہا تو اب احمد صاحب بھی نارمل دیکھائی دیے تھے۔
"بھئی ہم تو تیار ہیں لیکن ہمارے لخت جگر کا ایک ایک منٹ بہت قیمتی ہے آجکل"
وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے، یہ وقت واقعی ان سب کے لیے بہت اہم تھا، کم ازکم تب تک جب تک یہ سمگلنگ اور ڈرگ کا کیس نہ ختم ہو جاتا۔
"ہمممم دل کے ارمان آنسووں میں بہہ جانے یعنی"
ہنا نے رونی صورت بناتے ہوئے آہ بھری۔
"ارے اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہم تو سوچ رہے ہیں اب رباب کو گھر لے آئیں، پھر وہ خود ٹائم نکلوا لے گی جناب سے"
احمدصاحب نے بھی سپوت کے دلی ارمان چھیڑ کر وہاں بوکھلاہٹ کے رنگ بکھیرنے کی ظالم جسارت کر دی۔
"اوئے ھوئے بھیا کا شرمانا تو دیکھیں بابا، آپ وجدان بھیا سے بات کریں ناں"
ہنا چھیڑنے کے ساتھ بے تاب ہوئی، بہت زیادہ پرجوش تھی۔
"ہاں میں نے کی تھی، اب دیکھو وہ کیا جواب دیتا ہے" احمد صاحب کی سپیڈ پر اب وہ دونوں حیران تھے اور ہنس بھی رہے تھے مگر احمد صاحب کی مسکراہٹ آج سطحی سی تھی ناجانے دل میں کیسے کیسے ڈر پنہاں تھے، ستم کہ وہ ابھی عادل سے یہ شئیر نہیں کر سکتے تھے لہذا تبھی ٹال کر موضوع ہی بدل گئے تھے۔
..______________________..
وہ اک خوبصورت سے سکول کی بلڈنگ میں داخل ہوئے راہداری عبور کر چکا تھا، ڈرائیور کے ہاتھ میں کئی طرح کے شاپنگ بیگز تھے۔
آج وہ پہلی بار رات کو آیا تھا، کچھ بیگز وجدان کے ہاتھ میں بھی تھے۔
وہ مین دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ وہاں کی انچارج اسکے ویلکم کے لیے آ گئیں، وہ ایک عمر رسیدہ خاتون تھیں، یہ سکول وجدان نے چھ سال پہلے بنوایا تھا، یہاں وہ تمام بچے تعلیم حاصل کرتے تھے جو یتیم اور بے سہارہ تھے یا جن کا دنیا میں کوئی نہ تھا۔
وہ کوئی عام ادارہ نہیں تھا بلکے ایک اچھا معیاری سکول تھا جہاں ہر چیز اعلی معیار کی تھی، وہ یہاں بہت کم آ پاتا تھا مگر آج اسے ہر صورت آنا تھا۔
"موسٹ ویلکم مسٹر وجدان، ہیپی تو سئمی یو آفٹر آ لانگ ٹائم"
پرنسپل صاحبہ بہت ملن سار لگتیں تھیں، دو تین ملازموں نے وہ بیگز وجدان سے لیے اور پرنسپل وجدان کو لیے آفس کی جانب بڑھ گئیں۔
"کیسی ہیں آپ۔"
آفس انٹر ہوتے ہی حال احوال جانتے وہ کرسی تک آیا۔
"پلیز بیٹھیے، میں بلکل ٹھیک۔۔کیا لیں گے آپ؟"
خوش دلی سے بیٹھاتے ہی مہمان نوازی کرنی چاہی۔
"آپ کا تھوڑا سا وقت"
وہ بھی ہلکے پھلکے انداز میں مسکرایا۔
"وقت سے پہلے آپ سے گلہ ہے ہمیں، اس بار تو آپ کئی ماہ بعد آئے ہیں۔ کہیں چھپ کر شادی تو نہیں کر لی نا" وہ عمر میں بڑی تھیں تبھی بے تکلف تھیں، وہ جاذب سا ہنس دیا۔
"ارے نہیں۔ چھپ کر ہرگز نہیں کروں گا۔ بس کام اور کام"
خفیف سا خجل ہوتے مطمئین کیا۔
"پھر تو بہت اچھا ہے، مجھے آپکا میسج مل گیا تھا۔۔۔ حریم مانی نام کی بچی ہی تھی ،بلکل وہ یہیں ہے"
اب وہ کام کی طرف آ چکی تھیں، وجدان بھی سنجیدہ ہو گیا۔
"وہ ٹو کلاس کی بہت برائٹ سٹوڈنٹ ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے ہی اسے کوئی ملازم چھوڑ گیا تھا۔ یقینا آپ ملیں گے تو اسکے فین ہو جائیں گے"
وجدان کو اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ واقعی اچھی سٹوڈنٹ ہوگی۔
"دیٹس گریٹ، آپ سمجھیں کہ وہ اپنی ہی ہے۔ جیسے یہاں کے دوسرے بچے ہیں، میں بس آپ سے ایک فیور چاہتا ہوں"
وجدان نے تمہیدی انداز اپنایا۔
"ہاں ہاں ضرور۔۔۔ کیوں نہیں"
پرنسپل صاحبہ نے فورا جاننا چاہا۔
"میں چاہتا ہوں اسکا خاص خیال رکھا جائے، آپ یہ سمجھ لیں کے وہ یہاں ہمارے پاس کسی کی امانت ہے" وجدان نے مدعا بیان کیا۔
"یو ڈونٹ وری۔. یہاں اسکا بھرپور خیال رکھا جائے گا۔ اور امانت کو امانت رکھنا ہم نے آپ سے ہی تو سیکھا ہے"
وہ بھی وجدان کی فین لگتی تھیں، وجدان اب ہلکے سے مسکایا۔
"آپ ہماری بڑی ہیں، ہم آپ سے سیکھتے ہیں میم"
وہ اب اپنی تعریف پر بے چین ہوتے بولا تو پرنسپل مسکرا دیں۔
"آپکی یہی باتیں تو لاجواب ہیں مسٹر وجدان، جیتے رہیے۔ وقت تو کھانے کا ہے لیکن ایک کپ چائے کا شرف تو دے ہی دیں گے آپ؟"
اب اگر وہ انکار کرتا تو یہ مناسب نہ تھا،اقرار میں سر ہلائے انکا مان رکھ لیا۔
"دو کپ چائے اور ساتھ کچھ اچھا سا بجھوائیے"
وہ فون پر کسی سے مخاطب تھیں اور پھر وجدان کو سکول کے بارے کچھ نئے لیے سٹیپس کا بتانے لگیں جو کافی متاثر کن تھا۔
..________________________..
"ارے آج تو عادل بیٹا بھی آیا ہے، لو ناشتہ کرو"
بوا ناشتہ سرو کر رہی تھیں جبکہ رباب آج کچن میں پراٹھوں کو بنانے کا تجربہ کر رہی تھی۔
"کیوں میاں یہی کھاو گے یا ماہرانی صاحبہ جو ایٹم بنا رہی وہ؟"
وجدان کی بات پر عادل کی بھی ہنسی نکل آئی جبکہ بوا تو پہلے ہی مسکرا رہی تھیں۔
"چکھنے میں کیا حرج"
وہ بھی ہنسی دبائے شریف بنے بولا، رباب کچن میں تھی تبھی سن نہیں پائی تھی ورنہ ابھی تک منہ پھلا چکی ہوتی۔
"بس یہ پیا گھر جانے کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں۔ تم بھی اپنے پیٹ کی خیر مناو لڑکے اور سنو جیسا بھی بنائے بس تعریف ہی کرنا"
اب کی بار وہ کمر پر ہاتھ باندھے انکے سروں پر آ کھڑی ہوئی تھی، دوسری ہاتھ میں پلیٹ تھی جو اس نے اونچی کر رکھی تھی۔
"سنیں۔ آپ دونوں ورلڈ کے لکی ترین بوائز ہیں جو رباب کے ہاتھ سے بنے آلو والے پراٹھے کھانے والے ہیں"
وہ تو ایک دو پراٹھے بنا کر ہی اپنے خیالوں میں ماسٹر شیف بن چکی تھی، وجدان اور عادل بھی ہنس دیے "بلکل۔۔۔۔۔ لاو پھر ہم کھا ہی لیں"
وجدان کی مسکینیت چھلکاتی آمادگی پر رباب نے گھورا تھا جس پر وہ پیار بھرا مسکرا دیا۔
"جی کھائیں اور یاد کریے گا کہ رباب نے کبھی پراٹھے بنا کر کھلائے تھے"
وہ ایسے بولی جیسے یہ پہلی اور آخری بار تھا، دونوں نے کھائے اور پہلے ہی نوالے سے دونوں حیران دیکھائی دیے کیونکہ وہ بے حد مزیدار بنے تھے۔
"بہت مزیدار۔ ایسے پراٹھے میں نے کبھی نہیں کھائے۔۔۔ پرنسس تم نے تو کمال کر دیا"
وجدان کی تعریف سن کر رباب ہنس پڑی۔
"واقعی۔۔۔ یہ کمال بنے ہیں"
عادل بھی پراٹھے سے انصاف کرتے بولا تو موصوفہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔
"تھینک یو تھینک یو۔ رباب نے کبھی غرور نہیں کیا"
وہ ہنسی دبائے ادا سے فخریہ کالر جھاڑے بولی تو ایک بار پھر مسکراہٹ ہر فرد کے چہرے پر ہمک گئی۔
.._____________________..
"زالے"
وہ بمشکل اس تک پہنچا تھا کیونکہ زالے گھر سے نکلنے ہی والی تھی، اسکا ارادہ آج خیلہ اور سعد کے ساتھ آوٹنگ کا تھا۔
"جی
" ہادی کو آفس کے لیے تیار دیکھ کر وہ اجنبی سے سرسری لہجے میں رک کر پلٹ کے بولی۔
"بات کر سکتے ہیں ہم؟
وہ سنجیدہ تھا اور وہ سنجیدہ ترین تھی۔
"ابھی تو میں جا رہی ہوں، کیا بات بہت اہم ہے؟"
وہ لاپرواہی سے پوچھنے لگئ۔
"میں نے عبداللہ سے بات کی تھی"
ہادی نے اسے بتایا مگر ایسے لگا جیسے اسے کوئی فرق نہ پڑا تھا۔
"یقینا انکار کر دیا ہوگا۔ اچھا ہے۔"
وہ کہہ کر مڑ گئی اور گاڑی کا ڈور کھولنے لگی۔
"تم انکار سہہ سکتی ہو کیا؟ تمہاری یہ لاپرواہی اب میری سمجھ سے باہر ہے زالے"
اب کی بار ہادی الجھ گیا تھا۔
"یہ لاپرواہی نہیں ہے۔ جو چیز زالے ڈیزرو نہیں کرتی اس کے لیے اب نہیں سوچے گی، باقی جو میرے اندر ہے وہ اندر ہی رہے گا"
وہ بنا مڑے بولی تھی اور اسکی آنکھیں یک دم سرخ ہو چکی تھیں۔
"زالے!وہ چیز نہیں ہے"
ہادی نے اسے دونوں کندھوں سے پکڑے سیدھا کیا مگر وہ اسکی آنکھوں میں چھپی نمی دیکھ چکا تھا تبھی نرم پڑا۔
"آپ سے ایک خاموش التجا کی تھی زالے نے، پھر اپنی بے بسی بھی بتا دی تھی۔ شاید اس سے زیادہ میں کچھ سہہ نہیں پاوں گی بھائی۔ اسکا جو بھی جواب تھا مجھے مت بتائیے گا۔ میں لاعلمی میں رہنا چاہتی ہوں"
ہادی کو لگا زالے کے جواب کو سنے وہ ایک بت بن چکا ہو، اس کے اندر سب کچھ ساکت ہو گیا ہو۔ وہ زالے کو آج پہلی بار ویسا ہی کمزور دیکھ رہا تھا جب وہ پہلی بار بہت روئی تھی، ہادی کے ہوسٹل جانے پر اتنا کہ اسکے سر میں خون جم گیا تھا۔وہ کومہ میں رہی تھی کئی دن، صرف ہادی کے دور جانے پر۔۔ہادی صدمے میں تھا کہ ناجانے اب زالے خود کو کتنا نقصان پہنچانے والی تھی۔ وہ اسے پکارتا رہ گیا مگر وہ نہ رکی، اسے جانا ہی تھا۔۔
..______________________..
"ہاں کام ہوا یا نہیں"
بہلول کو ملازم ابھی ناشتہ سرو کر کے گیا تھا۔ وہ فون پر کسی سے برہمی کے سنگ کچھ پوچھ رہا تھا۔
"ہو جائے گا۔ آپ بلکل فکر نا کریں"
دوسری طرف اسکا وہی منحوس آدمی تھا جو احمد صاحب کو دھمکا کر آیا تھا۔
"ہاں لیکن تم زرا جلدی کرو، یہ نہ ہو دیر ہو جائے اور ہم برباد ہو جائیں"
بہلول کے چہرے پر فکرمندی تھی گویا جان کے لالے پڑنے والے حالات ہونے کو ہوں۔
"ٹھیک ہے سر، اگلی ڈوز آج ہی دیتا ہوں۔ آپکو اچھی خبر ملے گی"
اس وحشی ملعون نے کہہ کر فون بند کر دیا گیا، کنزا اسی لمحے ناشتے کے لیے ڈائنگ میز پر آئی۔
"اپنے اس جذباتی بیٹے کو سمجھا لو کہ میرے راستے میں مت آئے۔ میرے ہاتھوں ضائع ہو گیا تو ساری زندگی سوگ کرتی رہو گی"
کنزا کو پہلے تو بہلول کے الفاظ پر یقین نہ آیا مگر وہ جانتی تھیں وہ اس شخص سے کسی بھی طرح کی ایسی بات کی توقع رکھ سکتی ہیں۔
"ٹھیک کہا میرا بیٹا ہے وہ، جب تک اسکے ساتھ میں ہوں کوئی اسے چھو بھی نہیں سکتا۔ وہ برے لوگوں کا بدترین انجام کرتا رہے گا"
بہلول اسکی آنکھوں میں دلیری اور بے خوفی دیکھ سکتا تھا۔
"تم مجھے برا کہہ رہی ہو، منحوس عورت۔ کیا نہیں دیا میں نے تمہیں۔ ناشکرا پن تو تمہاری رگ رگ میں ہے"
وہ دھاڑا اٹھا لیکن کسی سماعت میں یہ لہجہ پگھلے سیسے سا اترا اور صبیح پیشانی پر شکنوں کا جال بننتا چلا گیا۔
"آج کے بعد انکو منحوس کہنے کی جرت مت کیجئے گا" ہادی کی گرج دار آواز لاونچ ایریا میں گونجی جو خود بھی پیچھے ہی لاونچ کے اندر آ رہا تھا۔
"تم اپنی بکواس بند کرو"
وہ ہادی پر بھی دھاڑا گویا اپنی اولاد کی خودسری اور دھمکی کیسے برداشت کرتا۔
"آپ اپنا یہ بدترین رویہ بند کریں، کہیں ایسا نہ ہو میں کوئی بے ادبی کر جاوں"
وہ ضبط کرتے غصے سے بولا۔
"تم اور تمہاری ماں سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے، یہی سیکھایا ہے اس نے تمہیں کہ باپ کو ٹکے کی عزت نہ دو"
وہ غصے کی انتہا پر گرج رہا تھا۔
"عزت لینی اور کروانی اپنے ہاتھ میں ہوتی ہے"
ہادی کا لہجہ طنزیہ اور تلخ ہوا، کنزا اسے اشارے سے روک رہی تھیں مگر وہ بھی اب غصے میں تھا۔
"جاو تم سیکھاو گے اب مجھے، اتنی اوقات ہے کیا تمہاری؟"
وہ ہادی کی سمت تیوروں سے بڑھا تھا اور کنزا کے دل کی ڈھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں۔
"اوقات کی بات نہ کریں آپ"
ہادی ضبط ہارتا جا رہا تھا۔
"دفع ہو جاو یہاں سے، ورنہ تمہارا منہ توڑ دوں گا۔ باپ کے سامنے آ کر اکڑ رہے ہو زلیل"
بہلول اب حد پار کر رہا تھا بلکہ جب اس نے ہادی کو دھکا دیا تو یہ تابوت میں آخری کیل گاڑ دی۔
"کاش آپ میرے کچھ نہ لگتے، نفرت ہے مجھے آپ سے"
ہادی کے اندر کچھ ٹوٹا اور لہجہ غم سے بھاری پڑا اور اگلے ہی لمحے ایک دلخراآ چینخ ابھری اور کنزا زمین بوس ہو کر گر پڑی۔
"سر اس پرائیویٹ نمبر کی ساری معلومات نکل آئی ہیں" رفیق بجلی کی رفتار سے اندر آفس مین داخل ہوا،اسکے ہاتھ میں ایک فائیل اور ایک سی ڈی تھی۔
"گریٹ،کس کے نام پے ہے یہ"
وجدان نے چمکتی آنکھواں سے فائل کھولی ہی تھی کہ وہان لکھے حقائق پر سارا کچھ اس پر واضح ہوتا چلا گیا،چہرے کے زاویے بگھڑتے گئے۔
"ہمم!مجھے پہلے ہی پتا تھا"
وجدان نے لکھی انفارمیشن پر بڑبڑاتے فائیل سے نظر ہٹائی۔
"سر اس میں اس پرائیوٹ نمبر سے کی گئی کالز کے کچھ کلپس ہیں، جو اتنے ہی ریکور ہو پائے ہیں"
عادل بھی کچھ پیپرز لیے اسی وقت آفس کے اندر آیا۔
"یہ سمی کی فون کی تمام تفصیلات ہیں، اس نے کب کب کسے فون کیا سب موجود ہے"
عادل یہ سب ارسلان سر سے لے کر آیا تھا،یہ انکی خفیہ ٹیم نے معلومات نکلوائی تھیں۔
"ایسا کرو سب سے پہلے یہ پلے کرو"
وجدان نے کلپس کی طرف اشارہ کرتے کہا تو رفیق نے سی ڈی لیپ ٹاپ،سی ڈی ہولڈ میں ڈال دی اور لیپ ٹاپ سکرین پر ابھرتے ڈیٹا کو دیکھنے لگا۔
"کام دھیان سے کرنا، پہلی کوشش ہوگی کہ فارس کو نکلوا لو۔ دوسرا پلین یہ کہ کم ازکم اسے ختم کر دینا" یہ آواز مراد بہلول کی تھی جو اسے اس دن ہدایت دیتا سنائی دے رہا تھا،وجدان کو فارس کی بات یاد آئی، یہ ایک اچھا ثبوت تھا اس کے لیے،اسکے مالکوں کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کا وقت آچکا تھا۔
"تمہارے نشانے پر اب مجھے اعتبار نہیں سمی،اگر وہ فارس بچ گیا تو ہم سب کا برا وقت شروع سمجھو"
چند سیکنڈ کے بعد دوسری کلپ چلی تھی،وہ تینوں ہی حیران تھے۔
"مطلب ہم سب ٹھیک تھے، اس گینگ کا اصل ماسڑ مائینڈ مراد بہلول ہے اور یہ سمی اور فارس اسکے دو مضبوط کارندے"
وجدان نے بھاری سانس خارج کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے۔
"سر اس میں تین چار کلپ اور بھی تھیں"
رفیق نے چیک کیا مگر وہ تینو فائلز اوپن نہیں ہو رہی تھیں۔
"کوئی بات نہیں، تم انکو چلانے کی کوشش کرتے رہنا۔ ہو سکتا ہے ہمارے لیے مزید ثبوت ہوں ان میں،فی حال کے لیے یہ بہت ہیں"
وجدان نے لیپ ٹاپ رفیق کی طرف کر دیا اور خود کچھ فائیلز اور ڈراز الٹ پلٹ کر کچھ ڈھونڈنے لگا۔
"عادل تم ایک کام کرو، یہ جو دو کلپس ہیں انکو کاپی کر کے رکھ لو اور فورا ساحر کو بھجواو۔ باقی کا کام وہ دیکھ لے گا"
وجدان نے اسے فائنلی مل جاتی فلیش تھماتے ہدایت کرتے ہوئے کہا تو عادل اپنے کام پر فوری لگ گیا۔
"یہ ہادی نہیں پہنچا ابھی تک؟"
وجدان نے سبکی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے استفسار کیا۔
"اس وقت تک تو پہنچ جاتے ہیں"
عادل نے فکرمندی سے بتایا تو وجدان نے جیب سے اپنا فون نکالا اور کوئی نمبر ڈائیل کیا۔
.._____________________..
کنزا کو فورا ہوسپٹل لایا گیا تھا، مراد بہلول نہیں آیا تھا بلکہ ہادی ہی تھا۔ اسے فوری آئی سی یو میں لے گئے تھے،کنزا اچانک گر گئی تھی۔ ہادی پریشانی کے عالم میں زالے کو فون ملا رہا تھا مگر زالے کا فون بند آ رہا تھا۔
"اف یہ لڑکی،کبھی فون نہیں اٹھاتی بروقت"
ہادی کوفت سے زالے کے بجائے سعد کا نمبر ملایا جو دوسری ہی بیل پر اٹھا لیا گیا۔
"سعد زالے کو فون دو جلدی"
سعد بھی ہادی کے لپجے سے چھلکتی بے چینی پر پریشان ہو گیا۔
"بھائی کیا ہوا سب ٹھیک ہے"
سعد اور خیلہ شاپنگ کر رہے تھے جبکہ زالے انکے آس پاس کہیں نہیں تھی۔
"بھائی زالے تو نہیں آئی، اس نے کہا تھا آنے کا مگر پھر اسکا میسج آیا کہ وہ آج نہیں آ پائے گی۔بھائی سب ٹھیک ہے ناں"
سعد نے فوری معاملہ دریافت کرنا چاہا تو خیلہ بھی سن کر فکر سے اسکے پاس آ گئی، وہ بھی پریشان تھی۔
"مما ہوسپٹل میں ہیں، دیکھو تم لوگوں کی زالے سے بات ہو تو اسے کہو مجھے فون کرے"
ہادی نے کہہ کر فون رکھ دیا۔
"چلو خیلہ ہوسپٹل"
سعد اسے بتائے بنا کہہ کر ساتھ لے گیا،دوسری طرف ہادی نے تین چار بار پھر کال ملائی مگر زالے کا نمبر بند آ رہا تھا، اگلے ہی لمحے ہادی کے سیل پر وجدان کی کال آتی دیکھائی دی۔
"ارے کہاں ہو۔ نمبر بھی بزی کر رکھا ہے"
ہادی نے کال پک کی تو مقابل وجدان کی آواز آئی۔
"ہوسپٹل ہوں وجدان، مما ٹھیک نہیں ہیں"
ہادی کی سرد آواز نے وجدان کو بھی پریشان کر دیا۔
"حوصلہ رکھو میں آتا ہوں،کیا ہوا ہے انھیں؟"
وجدان اپنا والٹ اور چابیاں لیے عادل کو جانے کا اشارہ کرتے آفس سے نکلا،ہادی نے اذیت سے سانس کھینچتے کن پٹی کی رگ انگلی کی پور سے دبائی۔
"پتا نہیں، زالے کا بھی کوئی اتا پتہ نہیں۔ وجدان وہ ٹھیک نہیں ہوگی، تم اسے کہیں سے ڈھونڈ لاو"
ہادی کی بات پر وہ کچھ دیر پارکنگ یارڈ کی جانب جاتے جاتے ٹھہرا تھا۔
"ٹھیک ہے میں کرتا ہوں کچھ،تم پریشان مت ہو"
وجدان نے اسے انکار کرنا مناسب نہ سمجھا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی سٹارٹ کرتے یو ٹرن گماتے تھانے کی ڈیپارٹمنٹ کی حدود سے نکالی۔
"نہیں وجدان، پریشانی کی بات ہے۔ تم پلیز کسی طرح زالے کو ڈھونڈو۔میرا یہاں ہونا ضروری ہے ورنہ میں اسے خود ڈھونڈتا"
ہادی کی مضبوط آواز کپکپا سی گئی،جبکہ وجدان اسے ابھی ان کلپس کے بارے بلکل نہیں بتا سکتا تھا۔
"ٹھیک ہے مجھے اسکا نمبر میسج کر دو، میں لوکیشن پتا کرواتا ہوں"
وجدان نے دلاسا دیتے کہا اور کہہ کر فون بند کر دیا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی۔
..___________________..
وہ مرے مرے قدموں سے قبرستان کے اندر داخل ہوئی جہاں ایک بوڑھا آدمی نئی بنی قبروں پے پانی دینے کے بعد اب تازہ گلاب کی پتیاں پھینک رہا تھا، زالے دور سے بھی ان پھولوں کی خوشبو اپنے اندر اترتی محسوس کر رہی تھی۔ اسے ہمیشہ سے اس جگہ سے خوف آتا تھا مگر آج اسے یہاں کوئی خوف نہیں محسوس ہو رہا تھا،نیلی جینز پر بلیک شرٹ اور دوپٹہ سر پر ہلکے سے ٹکائے وہ قبروں سے کچھ فاصلے پر کھڑی یک ٹک قبر پر پھول گرتے دیکھ رہی تھی۔
چہرہ ہر احساس سے عاری پر اندر جنگ چل رہی تھی۔
"بیٹی کیا تم کسی کی قبر ڈھونڈ رہی ہو؟"
وہ بزرگ آدمی زالے کو پتھرایا ہوا دیکھ کر کچھ فاصلے سے ہی اسے مخاطب کرتے شفیق سے لہجے میں بولے۔
"جی"
زالے کا جواب بدحواسی سے آیا۔
"مجھے نام بتاو۔ میں بتاتا ہوں"
وہ بزرگ پھولوں کا لفافہ وہیں رکھتے قریب آتے بولے تھے، زالے دو قدم مزید آگے انکی طرف آئی۔
"زالے مراد"
زالے نے ان بزرگ کو اسی بے توجہیی سے نام بتایا جس پر وہ سر کجھانے لگے۔
"اس نام کی میرے ذہن میں تو نہیں کوئی قبر،کیا لگتی ہے مرحومہ تمہاری"
بزرگ نے اپنی نظروان کے سامنے لگی قطاروں میں قبروں کو چانچتے ہوئے متفکر ہوئے پوچھا۔
زالے نے اس مہکتی سوگوار فضا میں سانس بھرا۔
"پتا نہیں"
بزرگ،زالے کے انداز و لہجے پر ٹھٹکے۔
"تمہارا نام کیا ہے بیٹی؟"
وہ شفقت سے اسکے قریب آئے اور سر پر ہاتھ رکھ کر نرمی سے پوچھا جبکہ وہ ایسی شفقت کی عادی نہیں تھی،دل بھرا اور آنکھیں بھیگنے لگیں۔
"زالے مراد"
بزرگ نے آنکھیں پھیلائے حیرت سے زالے کو دیکھا۔
"تم اپنی ہی قبر ڈھونڈ رہی ہو؟ تم تو زندہ سلامت ہو بچے"
بزرگ کا اپنا دل مانو سینے میں پھڑپھڑا اٹھا۔
"نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے"
وہ خالی نگاہوں سے انکو دیکھے نفی کر گئی تھی۔
"کوئی دکھ اور کوئی پریشانی اتنی بڑی نہیں ہوتی جتنی اس رب کی رحمت بڑی ہے، تم مجھے ناامید اور مایوس لگتی ہو"
وہ اپنی شفقت بخشتے نرم لہجے میں اسکی دل جوئی کرنے لگے۔
"آپ یہاں ایک قبر کی جگہ بنا دیں"
وہ اپنا حکم سناتے اٹھی تو بزرگ نے اسے روکا۔
"یہ لو"
بزرگ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی تسبیح اسے تھماتے ہوئے پکارا، زالے نے انکو ناسمجھی سے دیکھا اور تسبیح پکڑ لی۔
"میں کیا کروں اسکا"
وہ اس چیز کو شاید اسے پہلی بار دیکھ رہی تھی۔
"ابتدا کرو"
اس بزرگ نے زالے کے اندر کا اندھیرا دیکھتے شروعات کرنے کی تجویز دی۔
"اپنے رب کو پکارنے کی ابتدا کرو بچے"
وہ بزرگ خوش دلی سے مسکرا دیے۔
"مجھے نہیں آتا"
زالے کو لگا وہ اس دنیا کی سب سے ناکارہ چیز ہے،جسے اپنے پیدا ہونے والے کی طرف بڑھنے کا سلیقہ نہیں۔
"بس 'یا اللہ'پکارو، پکارتی رہنا جب تک وہ تمہارے دل میں سکون نہیں بھر دیتا،جب تک تمہارے لیے اپنی طرف بڑھنا آسان نہیں کر دیتا"
دل پھٹا تو جیسے آنکھیں پگھلنے کو مچلیں پر وہ خود پر ضبط کیے کھڑی تھی۔
"اس نے نہ سنا تو؟"
بزرگ نے اس بچی کی ناامیدی تکتے خاموش مسکراہٹ دی۔
"وہ تو خاموشی بھی سن لیتا ہے میرے بچے،تم تو پھر لگتار،بنا رکے پکارو گی۔ تم ابتدا کرو، یقین کرو اپنی قبر ڈھونڈنے پھر نہیں آو گی"
زالے کو لگا اسکے دل نے انکی اس بات کی گواہی دی ہو،دور کہیں سے کلمے کی صدا بلند ہوئی۔ وہ کوئی جنازہ آرہا تھا، زالے کو لگا وہی سابقہ اسکی ذات کے اندر کا خوف اس پر پھر سے طاری ہو رہا ہے۔
وہ الٹے قدموں قبرستان کی حدود سے نکل گئی، تسبیح ہاتھ میں لیے وہ سڑک کے کنارے لگے بینچ پر بیٹھ گئی۔ وہ اس اللہ کو پکارنے والی چیز کو دیکھ رہی تھی، کتنی دیر وہ یونہی دیکھتی رہی اور پھر زالے کو محسوس ہوا وہ کسی خواب میں چلی گئی ہے، ایک ایسا خواب جو کم ازکم زالے کے لیے کبھی حقیقت نہ بن سکتا تھا،اس خواب میں وہ اسکے سامنے مجسم آگیا تھا۔
یہ کوئی خواب ہی ہو سکتا تھا،وجدان فون کان سے لگائے دور سے اسکی سمت چلا آرہا تھا اور وہ خواب نہیں زالے کے لیے حقیقت بنایا جا چکا تھا۔
.._____________________..
"یہ کیا ہے"
اس آدمی نے دو تصویریں احمد صاحب کے میز پر پھینکی جن میں ایک ہنا کی تھی اور ایک عادل کی،گویا اس باپ کے جسم و جان تک کپکپاہٹ اتری۔
"یہی ہیں نا تمہارے پیارے راج دلارے، یہ تصویریں تمہیں اس لیے دیں کہ فریم کروا کے لگا لینا کہیں"
احمد صاحب دفعتا غصے سے اسکا گریبان پکڑنے کے لیے اسکی سمت بڑھے تھے کہ اگلے نے زور دار دھکا دیا جسکی وجہ سے دیوار انکے سر پر لگی، وہاں سے ہلکا سا خون بہنے لگا جبکہ وہ آدمی ہانپ کر ساتھ ہی خباثت سے ہنس دیا۔
"سنبھل کے، اس عمر میں ہڈی وڈی ٹوٹ گئی تو محتاج ہو جاو گے لوگوں کے۔ تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی تھی، اپنے بچوں کی زندگی تمہارے ہاتھ میں ہے وکیل" وہ آدمی شیطانی انداز میں اکڑ کر بولا،لہجے میں جنون و وہشت ہلکورے لے رہی تھی۔
"تم لوگوں کے کسی گھٹیا کام میں ساتھ نہیں دوں گا۔ اور جب تک اللہ نہ چاہے تم میرے بچوں کا بال بھی بیگا نہیں کر سکتے، سمجھے"
احمد صاحب ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم تھے،آواز بھلے کانپ گئی ہو پر ہار ماننے پر تیار نہ تھے
"اوہ آئی سی، مطلب رسی جل گئی پر بل نہ گئے۔ٹھیک ہے وکیل، تو یہ بھی کر لے۔ جواب کے لیے تیار رہنا۔ صرف کل تک کی مہلت ہے تیرے پاس۔ صرف کل تک"
وہ آدمی دھمکانے لگا،در حقیقت بے حد خطرناک تھا، اسکے جاتے ہی احمد صاحب نے اپنا سانس بحال کیا اور فسٹ ایڈ باکس سے بینڈج نکال کر ماتھے پر لگایا۔
"مجھے عادل کو بتانا ہی پڑے گا"
ڈرے ہوئے ہی درد پر کراہتے خود کلامی کی، وہ اس معاملے کو مزید چھپانا نہیں چاہتے تھے کیونکہ اب سوال انکی اولاد کا تھا۔
.._____________________..
کچھ دیر آن ہونے کے سبب زالے کا نمبر رفیق نے ٹریس کر دیا تھا وہ آدھا گھنٹہ پہلے مین روڈ سے کچھ فاصلے پر موجود قبرستان میں آن ہوا تھا، لہذا وجدان پہنچ چکا تھا،وہ اب تک خواب کی سی کیفیت میں عبداللہ کو دیکھ رہی تھی۔
"ٹھیک ہے مل گئی ہے"
وجدان نے فون پر اطلاع دی اور فون بند کرتے ہوئے اسکی سمت آیا،وہ اسے شکل کے بجائے خلیے سے پہچانا تھا کیونکہ وہ بہت اجڑی ہوئی اور افسردہ لگ رہی تھی،اسکی ساری چمک کھو گئی تھی۔
"زالے مراد!"
وہ سر پر آ رکے گہرا سانس فضا میں چھوڑے متفکر نگاہیں زالے پر ڈالے بولا اور اسکی پکار نے ہی زالے کو ہوش دلائی۔
"عبداللہ!"
وہ اسے حیرت زدہ دیکھ کر مزید سنجیدہ ہوا۔
"آپ جانتی ہیں آپکی لاپرواہی سے آپکا بھائی کتنا پریشان ہے، اپنا فون آن کریں اور چلیں میرے ساتھ"
وہ اسے دھیمے مگر سخت لہجے میں جتاتے بولا تھا۔
"کیا ہوا ہے؟"
زالے نے پریشانی سے پوچھا کیونکہ فون اسکے پاس نہیں تھا، شاید گاڑئ میں رکھا تھا۔
"آپکی مدر ہوسپٹل میں ہیں۔ میں آپکو وہاں چھوڑ دیتا ہوں۔ میرے ساتھ چلیں"
ہنوز سابقہ اطلاع دیتا سرد انداز جبکہ زالے کے چہرے پر مزید اداسی کی گنجائش نہ تھی تبھی اس خبر سے زیادہ فرق نہ پڑا۔
"کیا ہوا انھیں؟" وہ شاید اٹھنے کے موڈ میں نہیں تھی،وجدان نے پہلے تو دور پار پھیلے قبرستان کو دیکھا پھر نظر زالے کے ہاتھ میں دبی تسبیح پر گئی،وہ زالے کے پرسکون ہو کر پوچھنے پر چڑ سا گیا۔
"ہادی سے پوچھ لیں۔ چلیں؟"
لہجے میں خفگی اور اکتاہٹ تھی،زالے اسے دیکھتی پھر نظر چراتی اور پھر دیکھ کر گہرا سانس بھر لیتی۔
"زحمت ہوگی، میں چلی جاوں گی۔ میرے پاس گاڑی ہے" وہ سر جھکائے بولی،اس کے پاس ایسی نظریں ہی نہ تھیں جن سے عبداللہ وجدان کو دیکھا جاتا۔
"فی الحال آپ میری ذمہ داری ہیں مس زالے، لہذا میرے ساتھ کاپریٹ کیجئے۔گاڑی کوئی اور لے جائے گا۔اٹھیں"
وہ ہادی کی ہدایت پر عمل کر رہا تھا لیکن کہیں اندر اسے زالے مراد کی فکر سی بھی ہو رہی تھی۔
"میں نہیں جا پاوں گی۔۔ پلیز"
وہ کہہ کر اٹھی اور سامنے کچے راستے کی طرف چل دی جہاں اسکی گاڑی کھڑی تھی،وجدان اسکے پیچھے کب سے خوار ہو رہا تھا اور اس لڑکی کی انا تھی کہ جھکنے کا نام نہ لے رہی تھی،پر وجہ تو کچھ اور تھی جس سبب وہ عبداللہ سے گریز برت رہی تھی،عبداللہ پیچھے ہی چلتا ہوا زالے کی پیروی کر رہا تھا۔
"جی بھائی"
وہ گاڑی تک گئی سیل آن کیا تبھی ہادی کی کال آئی اور زالے نے فورا پک کی۔
"تم وجدان کے ساتھ ہوسپٹل آجاو، خود گاڑی مت چلانا۔ میں تم سے ریکوسٹ کرتا ہوں"
ہادی جانتا تھا وہ اسکے ساتھ اتنی آسانی سے نہیں آنے والی تبھی تمہید باندھی۔
"میں ٹھیک ہوں بھائی"
زالے کی آواز کی بے بسی ہادی کے سینے کے آر پار ہوئی۔
"زالے تمہیں سنائی نہیں دیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟مما کی ایسی حالت کے بعد میں تمہاری کوئی تکلیف نہیں سہنے والا، سمجھی تم"
ہادی نے اس سفید پوش کی التجاء رد کی اور سختی سے کہے فون بند کر دیا، زالے نے اپنی آنکھوں کی نمی واپس آنکھوں میں دفن کرتے مڑ کر دیکھا تو وجدان وہیں گاڑی سے ٹیک لگائے اسکے فیصلے کا منتظر کھڑا تھا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد زالے اسکی طرف بڑھ گئی،وجدان نے ٹیک چھوڑی اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔
وجدان نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی جبکہ زالے ساتھ آکر خاموشی سے بیٹھی،وہ سارا رستہ کھڑکی سے باہر ہی دیکھتی رہی۔
اسکا دل ناجانے کیوں بھرا ہوا تھا، وہ رونا چاہتی تھی مگر کم ازکم وہ عبداللہ کے سامنے ایسا نہیں کر سکتی تھی، اسے اپنے اندر کی گھٹن چھپانے پر عبور حاصل تھا تو پھر کیوں آج وہ ناکام تھی؟ بے بس تھی؟ نا امید تھی اور مایوس تھی۔ وجدان سفر کے بیچ دو تین بار فون پر کولیگز سے رینڈملی بات کرتا رہا مگر وہ عبداللہ کی آواز سن کر مزید دکھی ہو رہی تھی۔آج اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا،جب مسلسل عبداللہ کی آواز گلا گھونٹنے لگی تو زالے کی برداشت دم توڑ گئی۔
"سٹاپ دا کار، عبداللہ پلیز کار روکو۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جا پا رہی۔ پلیز"
وجدان کو لگا وہ چلتی گاڑی کھول کر کھود جائے گی تبھی فورا اسکے چنگاڑنے کے فوری بعد بروقت بریک لگائے گاڑی روکی اور کال آف کی، گاڑی رکتے ہی وہ تیز تیز سانس لیتی باہر نکلی اور قدموں سے پیچھے کی طرف چلنے لگی،چلنے کا انداز دوڑنے سا تھا، وجدان کو لگا جیسے وہ رو رہی ہو، وجدان بھی اسکے پیچھے بھاگا۔اسطرح بیچ سڑک وہ اسے کیسے چھوڑ دیتا۔
"زالے! رکو"
وہ جلد ہی اسکا ہم قدم ہو گیا تھا، وجدان نے دیکھا وہ رو رہی تھی اور بہت شدید رو رہی تھی، وجدان کو مجبورا اسے پکڑ کر روکنا پڑا،اسے دونوں بازو تھامے اپنے سامنے کھڑا کیا جس کو ناجانے کس کس اذیت،تکلیف اور بے بسی نے نگلنا شروع کر رکھا تھا۔
"چھوڑو مجھے"
وہ اپنی طرف سے بھرپور زور لگا چکی تھی،مزاحمت کیے جھٹک چکی تھی مگر وہ اس وقت کسی عام گرفت میں جکڑی نہیں نہیں تھی،اسکے رونے کی شدت میں دوگنا اضافہ ہوا تھا، وجدان نے کبھی کسی کو ایسا دردناک روتا ہوا نہیں دیکھا تھا،وہ اسکی خود اذیتی پر بوکھلا کر رہ گیا۔
"اتنا نہیں روتے۔ کام ڈاون"
وہ اسے مضبوطی سے پکڑتا سمجھانے کی کوشش میں پھر بولا مگر وہ اسکی گرفت سے آزاد ہونے کی مسلسل کوشش میں خود کو ہرٹ کرنے پر تل گئی۔
"عبداللہ چھوڑو مجھے"
وہ چینخی تھی، وجدان نے ادھر ادھر دیکھا مگر فی الحال سڑک پر کوئی گاڑی نہیں تھی ورنہ لوگ یہی سمجھتے وہ اسکے ساتھ زبردستی کی کوشش کر رہا ہے،دگنا غصہ اس عجیب ضدی لڑکی پر چڑھا۔
"دیکھو میں تمہیں اس طرح سنسان سڑک پر چھوڑ کر تو بلکل نہیں جا سکتا، اگر تمہیں میری کسی بات سے دکھ پہنچا تو میں معذرت کرتا ہوں۔ فی الحال میرے ساتھ چلو،میں کال پر بات کر کے تنگ نہیں کروں گا"
وہ تھوڑا دھیما ہوا،اپنی غلطی تسلیم کی تو زالے نے اسکی طرف تاسف سے اٹی نظر ڈالی،وہ بہت پریشان لگا۔
"میں اکیلی چلی جاوں گی، چھوڑو مجھے"
وہ اسے پاگل لگ رہی تھی اور وہ ایک پاگل سے سر ٹکرا رہا تھا،مجبوری تھی۔
"زالے مجبور مت کرو۔ میں اب اٹھا کر لے جاوں گا" وجدان کا ضبط اب جواب دے رہا تھا اور یہ دھمکی زالے کو شانت کرنے میں معاون رہی۔
"چلو"
وجدان نے اسے قائل محسوس کرتے دونوں بازووں سے چھوڑ دیا تو وہ شرافت سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ "ہادی تم ملو زرا مجھے"
وجدان کوفت سے کوستی سی خود کلامی کرتا پیچھے ہی بڑھا، وجدان نے گاڑی لاک کی کیونکہ وہ زالے کے ارادے جان گیا تھا اور سپاٹ چہرہ لیے سٹارٹ کر دی۔
.._____________________..
"کل شاپنگ پر چلیں گے، اتنے دن ہو گئے ہم نے آئس کریم بھی نہیں کھائی"
رباب ہنا کی طرف آئی تھی، وہ اکیلی تھی،نہ ابھی تک عادل اور وجدان آئے تھے اور نہ احمد صاحب تو وہ گھر کافی بور ہو رہی تھی۔
"ٹھیک ہے مجھے بھی کچھ چیزیں لینی ہیں اور بابا کہہ رہے تھے تم عادل کے کمرے کو سیٹ کر دو مگر رباب سے پوچھ لینا"
ہنا نے شرارتی انداز میں کہا تو وہ شرمیلا سا مسکرا دی۔
"تم خود دیکھ لینا ناں"
رباب کباب کا بائیٹ کھاتے ہوئے بلش چہرہ چھپاتے منمنائی۔
"ارے رہنا تم نے ہے تم ہی پسند کرو۔ ویسے بھی عادل بھیا نے ساری ذمہ داری اپنی زوجہ کے سپرد کر دی ہے" وہ ہنسی تھی،بری الزمہ ہونا کتنا ریلکسنگ ہوتا ہے۔
"وہ وقت بہت حسیں ہوگا ہنا"
رباب صاحبہ خیالوں میں کھو چکی تھی۔
"بلکل ہم سب اور ہماری یہ چھوٹی سی فیملی، سب بہت مکمل سا"
ہنا بھی خیالوں میں سوچتے ہوئے اسکی ہم خیال ہوتے بولی تھی۔
"تم اور عادل بھیا ہمیشہ خوش رہو گے"
ہنا پر یقین تھی۔
"تم کہتی ہو تو مان لیتی ہوں"
رباب سنجیدہ سی تھی۔
"میرے کہنے سے پہلے ہی بھیا کی محبت کافی ہے، وہ تمہارے لیے بہت ٹچی ہیں۔ نجانے کب سے، انکی محبت یقین کرو اس سائبان سی ہے جو تم پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گی"
وہ ہنا کی باتیں مسکرائے سن رہی تھی،محبتیں دل کا سائبان بنتی ہیں پر جسموں کا نہیں۔
"میں جانتی ہوں، وہ اس سے بڑھ کر ہیں"
رباب نے دل افروز سا اعتراف کیا تھا۔
"صدقے جاواں، نظر نہ لگ جائے میری ہی"
ہنا نے ہنسی دبائے کہا تو وہ بھی پھیکا سا ہنس دی۔ "تم بھی بھیا سے محبت کرتی ہو نا رباب؟"
ہنا نے اس سے ایویں ہی پوچھا، کچھ فاصلے پر کوئی آتے ہی ہمہ تن گوش ہو کر کھڑا ہوا تھا اس سوال پر۔
"بہت سی، ان سے محبت نہ کی تو میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہے گا۔وہ میرے لیے اللہ کا انمول ترین تحفہ ہیں"
ہنا تو خوشی سے پھولے نہیں سمائی تھی۔ اور وہ دور کھڑا خاموشی سے اعتراف سن رہا تھا،اعتراف کے ساتھ دل کی دھڑکنوں کا بے تحاشا شور،جو کہہ رہا تھا رباب کو گلے لگا لے ور بھول جائے کہ اب وہ کبھی دور کرنی پڑے گی۔
"بھیا"
ہنا خیالوں سے نکلتی عادل پر نظر پڑتے بڑبڑائی،رباب نے بھی بے ارادہ دیکھا،دونوں کی نظریں ملیں اور دل کی دھڑکنوں میں ارتعاش آیا۔
"ایسا اعتراف تو روز چاہوں گا"
وہ آنکھوں میں شرارت لیے قریب چلا آیا تھا، وہ بھی جوابا رسما، اتفاقا اور چاہتا مسکرا دی تھی۔
"بس ہنا تیاری پکڑ لو، ہم اسے اب گھر لے ہی آتے ہیں" وہ محبت سے اسکی طرف دیکھتے بولا تھا،عادل کی انسیت خیز نگاہیں رباب کے گالوں پر گلاب اتار لائیں۔
"بھائی بھی آ گئے کیا"
رباب نے موضوع بدلتے پوچھا،ہنا اور عادل نے بیک وقت رباب کے چہرے کی نظر اتاری،وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔
"نہیں ایک دو گھنٹے تک آ جائیں گے، ڈیڈ آ جائیں تو ہم مل کر کھانا کھاتے ہیں۔۔ میں تب تک چینج کر لوں"
عادل نے وارفتہ سی نظر رباب پر ڈالتے دونوں سہیلیوں کو اگین پرائیویسی دی اور اپنے روم کی طرف بڑھ گیا۔
.._____________________..
"کیا ہوا ہے آنٹی کو"
وجدان کے ساتھ زالے تھی جو آئی سی یو کی طرف بڑھ گئی، وہ ونڈو سے دیکھ رہی تھی جب وجدان نے ہادی سے پوچھا۔
"ہارٹ اٹیک تھا، ڈاکٹرز نے کہا ہے اب خطرے سے باہر ہیں۔ کچھ دیر میں کمرے میں شفٹ کر دیں گے"
ہادی مرجھایا ہوا تھا۔
"اللہ صحت کاملہ دے"
وجدان نے دعائیہ انداز میں اسکا شانہ تھپکا۔
"زالے کو لانے کے لیے میں تمہارا مشکور ہوں وجدان" وہ اسے شرمندہ کر گیا، وجدان نے ایک خفا نظر اسے دیکھا حالانکہ یہاں آنے سے پہلے اسے ہادی پر اچھی خاصی تپ چڑھی تھی۔
"اٹس اوکے۔ یہ نہیں کرو"
وجدان نے دوستانہ دھمکی دی، اب وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔
"میں چلتا ہوں پھر۔ صبح آفس جاتے ہوئے دوبارہ آوں گا۔ تم اپنا خیال رکھو اسے تمہاری ضرورت ہے"
وجدان کا اشارہ کچھ فاصلے پر گلاس وال سے اندر بے آس نظروں سے جھانکتی زالے کی طرف تھا۔
"ہمممم ٹھیک ہے"
وہ ہادی کا کندھا تھپکاتا ہوا اک نظر زالے کو دیکھتا باہر کی سمت نکل گیا، گاڑی سٹارٹ کر کے آفس جانے کا ارادہ تھا مگر وہ خود کو تھکا محسوس کر رہا تھا اس لیے گھر کی طرف مڑ گیا۔
گھر پہنچا تو بوا نے بتایا کہ رباب ہنا کی طرف ہی رک گئی تھی، وہ وہاں بھی اپنے ہی گھر تھی۔ ویسے بھی عادل اسے کچھ دیر تک چھوڑنے آنے ہی والا تھا۔
وجدان نے کوٹ وہیں صوفے پر رکھا اور کاوچ پر ہی نیم دراز ہو گیا۔
بوا کھانے کا پوچھ کر گئیں تھی مگر اس نے انکار کر دیا تھا، پھر وہ اسے چائے دے گئی تھیں تھکن کا سوچے۔ وہ زالے کے متعلق سوچ رہا تھا۔
"اسے سچ میں کسی ایسے کی ضرورت ہے جو اسے درست اور غلط کا علم دے"
وہ گہرائی سے سوچنے لگا۔
"کسی کا دکھ دور کرنا ہر کسی کے حصے نہیں آتا۔ وجدان تم اس متعلق سوچو"
اسکا دل اسے آمادہ کر رہا تھا جبکہ دماغ کی جنگ بھی جاری تھی، وہ اپنے دماغ سے سب سوچیں جھٹک کر اٹھ گیا،چائے چکھی بھی نہیں کیونکہ اسے نماز ادا کرنی تھی۔
اللہ سے اس معاملے میں اک اور بار مشاورت کرنی تھی۔
"اففف یہ فون کہاں گھس گیا ہے"
رباب ریسیپشن پے شاپنگ بیگ رکھے اپنا سیل فون بیگ سے نکالتے بولی،وہ کہیں اندر پھنسا ہوا تھا۔
"اوہ عادل اور وجدان بھیا کی اتنی مس کالز، یا اللہ سب خیر ہو"
رباب نے فون اٹھاتے ہوئے ہولتے کانپتے دل سے دعا کی۔
"رباب تم کہاں ہو۔ ہنا کہاں ہے؟"
عادل کی آواز سے ہی پریشانی جھلک رہی تھی۔
"جی عادل میں شاپ پے ہوں، شاپنگ بیگ رہ گیا تھا۔۔ اور ہنا گاڑی میں ہے"
اور اگلے ہی لمحے عادل کی پریشانی دگنی ہو گئی۔
"تم مجھے لوکیشن سینڈ کرو جہاں گاڑی ہے اور فورا گاڑی کی طرف جاو۔جلدی کرو"
عادل کے اصرار پر رباب نے ایسا ہی کیا، بیگ اٹھائے وہ باہر آ گئی جہاں اسکی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ ابھی راستے میں ہی تھی کہ گولیاں چلنے کی آواز آئی،جب تک رباب وہاں پہنچی کئی لوگ جمع ہو چکے تھے،فون سے پار عادل جواب کے لیے بولتا رہا مگر رباب سامنے برپا ہوئی قیامت پر پتھرائی سی کھڑی تھی، گاڑی سے کچھ فاصلے پر ہی ڈرائیور کی لاش پڑی تھی،ایک آدمی دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ یہ مر گیا ہے۔ رباب نے بیگ وہیں سسکتے پھینکا اور گاڑی کی طرف بھاگی۔
"عادل"
عادل کو لگا کسی کھائی سے آواز ابھری تھی۔ "رباب کیا ہوا ہے پلیز بتاو؟"
عادل لوکیشن فالو کر رہا تھا،وہ پہلے ہی دونوں کے موبائیل ٹریس کروا چکا تھا مگر اب ہنا کا نمبر بند آ رہا تھا۔
"عادل ہنا نہیں ہے، عادل پلیز آ جائیں وہ پتا نہیں کہاں گئی اور یہ لاش۔۔ ڈرائیور"
رباب کا رو رو کر بڑا حال تھا اور سامنے سفید وردی میں ملبوس ڈرائیور جو اب لال ہو چکا تھا اسے دیکھ کر رباب سے سانس لینا مشکل تھا، کئی لوگ آس پاس جمع ہو چکے تھے۔
"ہٹیے پیچھے! سب لوگ پیچھے ہٹ جائیں"
ہادی نے تمام لوگوں کو مجمعہ چیرتے پیچھے کیا، عادل بھی اسکے ساتھ آیا تھا۔رباب سڑک کے کنارے سہمی ہوئی روتی ہوئی کھڑی تھی جس پر نظر پڑتے ہی عادل اسکی طرف دوڑا۔
"رباب!"
وہ اسکے قریب آیا تو وہ اسے دیکھتے ہی سسک اٹھتے لپٹ گئی۔
"عادل ہنا کو ڈھونڈیں، عادل وہ لوگ اسے لے گئے اور میں کچھ نہیں کر پائی"
رباب کی رورو کر آواز بند ہو رہی تھی، عادل خود پریشانی سے بے حال ہو رہا تھا،ہادی نے ڈرائیور کی سانس دیکھی جو بند تھی۔گولی اسکے سینے پر لگی تھی اور دوسری سر پر۔دردناک موت۔۔۔ یقینا وہ ہنا کو بچاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ہادی نے ایمبولینس کو کال کر دی تھی اور اپنی ٹیم کو بھی موقع واردات پر بلوا لیا تھا، ساتھ ساتھ وہ ہنا کے نمبر کی لوکیشن چیک کر رہا تھا۔
"عادل ہمیں انکے پیچھے جانا ہوگا، یہ سب کس کا کام ہے۔ تم بتاو مجھے؟"
ہادی نے اس سارے میس کے بارے دریافت کرنے کو عادل سے پوچھا جو رباب کو گاڑی میں بیٹھا رہا تھا،وہ رونا تو روک چکی تھی پر سخت تکلیف میں تھی۔
"مراد بہلول کا"
عادل نے نفرت سے نام لیا تو ہادی کی آنکھوں میں سرخی اتری۔
"وعدہ کرتا ہوں اگر یہ سب ان کا کام ہے تو وہ زندہ نہیں بچیں گے"
وہ انکھوں میں سرخی لیے یقین دلاتے بولا تھا جبکہ عادل نے نظریں پھیریں۔
"میں رباب کو گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔ تمہیں کوئی بھی اطلاح ملے تو مجھے فورا بتاو"
عادل تھکے لہجے میں بولا اور گاڑی میں بیٹھ گیاہادی نے ٹیم کے پہنچتے ہی گھر کی راہ لی۔ ڈرائیور کی لاش پوسٹ ماٹم کے لیے جانی تھی،رفیق نے سارا کام خود ہی لیڈ کیا تھا۔ رباب خود کیا چپ ہوتی،عادل کو دیکھ کر اسے اور رونا آ رہا تھا۔
"میری وجہ سے ہوا سب۔ نہ ہم آتے نہ یہ ہوتا۔۔۔۔" عادل نے ایک غصے کی نظر سے اسے دیکھا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ چپ ہو جاو خدا کے لیے۔
"تم گھر کے اندر رہنا، سمجھ رہی ہو۔ ان شاء اللہ ہم آج ہی ہنا کو ڈھونڈیں گے،ان لوگوں کا مقصد صرف ڈرانا ہے"
عادل نے اسے تسلی دی تھی یا شاید خود کو بھی۔
"عادل!"
وہ روہانسی ہو کر اسکا مضبوط ہاتھ پکڑتی بولی۔ رو رو کر اس نے اپنی آنکھیں مزید موٹی کر رکھی تھیں۔
"رباب یار تم تو رونا بند کرو۔ مزید پریشان مت کرو"
وہ اب کی بار اخیر رنجیدہ ہوا۔
"مل جائے گی ناں وہ؟"
وہ اس سے یقین چاہ رہی تھی اور بدلے میں عادل بس سر ہلا سکا۔
..______________________..
"گڈ! ویل ڈن۔ اسے اڈے پے لے جاو"
اپنے سامنے ہادی کو کھڑا دیکھ کر مراد بہلول کا سانس سوکھ گیا۔
"نہایت گھٹیا حرکت ہے، آپ اتنا گر جائیں گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ کہاں لے کر گئے ہیں۔ کہاں رکھا ہے اسے آپکے آدمیوں نے۔ بولیں"
وہ مراد بہلول کا گریبان پکڑ چکا تھا،مراد بہلول نے حقارت اور قوت سے اسے پیچھے جھٹکا۔
"زلیل انسان! اپنے باپ کے گریبان کو پکڑ لیا۔ وہ بھی بنا ثبوت۔۔ لعنت ہو تجھ پر"
وہ پھٹ پڑا،گویا اولاد کی جرت تن بدن میں شعلے بھڑکا گئی تھی۔
"زلیل حرکت تو آپ نے کی ہے،اگر آپ نے آج نہ بتایا تو آپکو گھسیٹ کر جیل لے جاوں گا۔ آپ بتا دیں ہنا کہاں ہے؟"
وہ بھی پھٹ کر بولا نہیں چلایا، کنزا سوئی نہ ہوتیں تو اس منہ ماری بھرے شور سے پھر سے ہارٹ اٹیک ہو جاتا
"نہیں بتاوں گا۔خاک چھانتے پھرو"
وہ بھی طیش میں آئے مزید چھپا نہیں رہ پایا تھا،ہادی کو لگا کسی نے اسے آسمان سے زمین پے دے مارا ہو،یعنی یہ سب اسکے باپ نے کیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی اسکے اندر ٹوٹ پھوٹ سی شروع ہو گئی۔
"یہ سب دیکھنے سے پہلے میں مر جاتا تو بہتر تھا"
ہادی جانتا تھا کہ مزید پوچھنا بے کار ہے،وہ دلبرداشتہ سا گھر سے باہر نکل گیا، فون جینز کی جیب سے نکالا اور وجدان کو کال کی جو فوری پک کی گئی۔
"وجدان!مراد بہلول کی گرفتاری کے وارنٹ نکلوا کر یہاں پہنچو۔ اس سے پہلے کے دیر ہو جائے۔ عادل کو کہنا ہادی اسکی بہن کو لے کر ہی آئے گا"
ہادی کی آنکھیں ہی نہیں لہجہ بھی نم تھا۔ وجدان ابھی گھر پہنچا تھا، جہاں عادل رباب کو لیے ابھی آیا تھا۔
"ہادی اکیلے کہیں مت جانا۔میں آتا ہوں"
وجدان نے اسے ہدایت دی۔
"نہیں وجدان! یہ کام میرے باپ نے بگارا ہے۔اسے درست بھی ہادی ہی کرے گا۔ تم باقی معاملات دیکھو"
وہ بضد تھا۔
"پاگل مت بنو ہادی۔ اچھا میں رفیق کو بھیج رہا ہوں۔ اسے ساتھ رکھو اور مجھ سے رابطے میں رہنا"
اب وجدان نے سختی سے حکم کرتے کہا۔
"ہمممم۔ "
وہ زیادہ بول نہ سکا،ندامت سے مر رہا تھا۔
"عادل سے کیسے نظر ملاوں گا؟"
ہادی کی آواز کپکپا گئی،وجدان کو دکھ سا ہوا۔
"وہ سب بعد کی باتیں ہے، فی الحال تم خود کو سنبھالو"
عادل نے فون پر بزی وجدان کو زخمی نگاہوں سے دیکھا۔ رباب اور احمد صاحب بھی الگ روئے جا رہے تھے جبکہ بوا کی تو طبعیت ہی خراب ہو گئی تھی۔ وجدان نے رفیق کو فون کر کے عادل کے گھر ٹیم کے ہمراہ بھیجا اور خود ہوسپٹل روانہ ہونے والا تھا پھر آفس۔ ساحر کو بلوایا تھا مگر وہ اپنے کسی کام کی وجہ سے آ نہیں سکا تھا۔ عادل کا گھر رہنا ہی مناسب تھا کیونکہ احمد صاحب اسے جانے نہیں دے رہے تھے۔
"مجھے جانے دیں ہادی کے ساتھ"
عادل نے اٹھتے ہوئے کہا،آواز میں خراش تھی۔
"نہیں تم یہیں رکو۔۔دیکھو انکل کی کیا حالت ہے۔۔ یہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے"
وجدان نے اسے کندھے سے پکڑے سمجھایا تو وہ دیکھ کر ہی رہ گیا،بے بسی بھری نگاہ اف۔
"رباب تم تو رونا بند کرو"
وجدان نے اب اپنی گڑیا کو بھی زرا لاڈ بھرا ڈانٹا پر وہ کیا کرتی خود بخود رونا آئے جا رہا تھا۔
"بابا حوصلہ کریں"
عادل نے انھیں تسلی دی مگر وہ رو رہے تھے۔ "کاش میں پہلے بتا دیتا۔ میری لاپرواہی میری بچی پر بھاری پڑ گئی"
وہ دل برداشتہ سے بولے، وجدان نے تمام آنے والی کالز کی انفارمیشن نکلوا لی تھی اور وہ کیس فائل بھی اپنے پاس رکھ لی تھی۔ مراد بہلول کے خلاف اب ثبوت ہی ثبوت تھے۔
"ہم آج ہی ڈھونڈ لیں گے انکل۔ آپ تسلی رکھیں" وجدان بھی قریب آیا اور دھیمے سے بولا مگر وہ جب تک ہنا کو دیکھ نہ لیتے کبھی بھی پرسکون نہیں ہونے والے تھے۔رباب جتنا خود کو رونے سے روک رہی تھی اسے اتنا ہی رونا آ رہا تھا۔
..______________________..
"صبح سے رات ہو گئی ہے"
ہادی نے مایوس ہو کر دیوار کا سہارا لیا وہ اور رفیق کئی حفیہ جگہوں پر جا چکے تھے مگر کہیں سے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ہادی کو لگا وہ بس اب گر جائے گا۔
"سر آپ ٹھیک ہیں ناں؟"
رفیق نے اسے اپنا کمزور سہارا دیا۔
"ایک آخری جگہ رہ گئی ہے۔ل اگر وہاں سے بھی کچھ نہ ملا تو میں عادل اور وجدان کو کیا کہوں گا کہ میں ناکام ہو گیا؟" ہادی کا لہجہ تر سا تھا۔
"سر جو کیا آپکے والد نے کیا ہے۔ اس میں آپکا کوئی قصور نہیں ہے۔ پلیز آپ خود کو بلیم نہ کریں"
رفیق بھی دکھی تھا۔
"مت کہو اسے شخص کو والد۔۔۔۔ " ہادی کی آنکھیں ضبط و غصے سے لال ہو گئیں۔
"حوصلہ رکھیں۔ اللہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔۔ چلیں"
وہ ہادی کو کہتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھ گیا، ہادی بھی پیچھے پیچھے ہو لیا۔اب گاڑی رفیق نے چلائی۔ وہ لوگ جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ رات ہوتی جا رہی تھی اور حوصلہ تھا کہ ہوا ہو رہا تھا۔ ہادی کی سانس بھاری ہو رہی تھی، گاڑی تھوڑی مسافت کے بعد رک گئی۔ سامنے ہی ہلکی سی روشنی دیکھائی دے رہی تھی۔
"رفیق تم پیچھے باہر کی طرف رہنا،میں اندر جاتا ہوں۔۔ اور دھیان سے۔ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہو سکتے ہیں"
ہادی نے اسے ہدایت دی اور دونوں نے اپنی گنز لوڈ کر لیں۔
"سر اندر کوئی دیکھائی دیا ہے مجھے، یقینا ہم ٹھیک جگہ پہنچ گئے"
رفیق نے دیوار میں بنے سوراخ سے اندر جھانکا تو لگا جیسے عہ کامیاب ہو گئے، ہادی اندر جا رہا تھا تبھی اوکے اشارہ دیا۔ اگلے ہی لمحے گولی کی آواز آئینہادی نے مڑ کر دیکھا تو رفیق ایک کو ڈھیڑ کر چکا تھا۔۔ اسکے بعد دوسری آواز۔۔
"برا ہوا۔اب وہ چوکنے ہو گئے۔۔ رفیق دھیان سے" ہادی نے اسے محتاط رہنے کا اشارہ کیا اور اندر بھاگا۔ دو تین فائر کیے اور سامنے دو لوگ ڈھیر ہو گئے۔ اندر ایک اور تے خانہ تھا۔ وہاں سے اب سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ رفیق باہر سے سبکو کلئیر کر چکا تھاوہاں شاید چھ لوگ تھ۔۔ چار مارے گئے تھے جبکہ دو مین کمرے میں تھے۔
"رفیق تم کمرے میں موجود اس ایک آدمی کو نشانہ بناو۔کیا تم کر لو گے"
ہادی نے اسے امید افزاء نگاہوں سے دیکھتے ائیر فون سے مخاطب کرتے کہا، رفیق نے دیکھا تو فی الحال اسے کوئی نظر نہ آیا اور اگلے ہی لمحے اندر سے گولیوں کی آوزیں آنے لگیں۔ رفیق نے سر نیچے کر لیا۔
"رفیق تمہیں اسے نشانہ بنانا ہوگا"
ہادی نے اسے ہدایت دی۔
"سر میں کرتا ہوں"
رفیق نے کندھے سے دوسری بندوق نکالی، اس دوران وہ آدمی مسلسل فائر کر رہا تھا۔
"رفیق ڈو اٹ فاسٹ"
ہادی چلایا تھا اور گن دوبارہ لوڈ کی اور فائر کیے۔ اس آدمی کا دھیان وہاں سے ہٹا اور اسی دوران رفیق نے نشانہ لگایا۔
"رفیق ہری اپ"
ہادی کی قوت برداشت دم توڑ رہی تھی اور اگلے ہی لمحے موت سی خاموشی چھا گئی۔نشانہ اسکے ماتھے پر لگا تھا۔ ہادی نے ویل ڈن کا اشارہ کیا اور اندر بڑھ گیا لیکن اندر کی سیچویشن دیکھ کر وہ پتھرایا رہ گیا۔
.._____________________..
"سر یہ لیں"
وجدان آفس میں تھا جب آیک اہل کار لفافہ لیے اندر آیا۔
"وارنٹ آگئے؟ ویل ڈن"
وجدان کو لگا اب انکی جیت دور نہیں۔
"سر چائے؟" وہ اہل کار ہنوز کھڑا پوچھ رہا تھا۔
"نہیں تم بتاو رابطہ ہوا کسی سے"
وجدان نے وارنٹ کا سرسری جائزہ لیتے ہادی اور رفیق کے بارے پوچھا۔وجدان اسی کام کے لیے آفس آیا تھا۔
"نہیں سر"
وہ جوابا بولا اور وجدان کے اشارے پر آفس روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔وجدان نے وارنٹ جیب میں رکھے ہی تھے کہ اسکا فون بجا،سکرین پر نگاہ ڈالی تو کوئی ان نون نمبر تھا۔
"یس انسپیکٹر عبداللہ وجدان"
وہ پیشہ وارنہ بھاری لہجے میں بولا تھا مگر دوسری طرف خاموشی تھی،چبھنے والی۔
"کوئی ہے؟"
وہ خاموشی سنتے ہوئے قدرے بیزارگی سے پھر بولا۔
"تم بولتے جاو عبداللہ! میں تمہاری آواز میں حلل نہیں چاہتی"
زالے کی ڈھڑکن نے زالے سے کہا تھا، زالے کو لگا اسکی سانس تھم سی گئی تھی۔ وجدان کو ناجانے کیوں لگا وہ زالے مراد ہے۔
اسکا دل فون سے اس طرف سانس لیتے وجود کو پہچان رہا تھا۔وہ خاموش تھا۔اور اگلے ہی لمحے کال کٹ گئی۔
"عبداللہ کو کون بتائے گا کہ زالے مراد کو اسکی بے حد ضرورت ہے"
وہ خالی نظروں سے کمرے کی کھڑکی سے باہر کالے بادل دیکھ رہی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں بادل چمک رہے تھے۔وہ ابھی کنزا کو دیکھ کر آئی تھی۔ وہ سو چکی تھیں۔ وہ بے یقین اور بے مراد تھی جب اسکا فون بج اٹھا، سکرین پر عبداللہ جگمگا رہا تھا۔ دل کی ڈھرکن تھی کہ بے قابو سی ہو رہی تھی اور آنکھوں میں نمی سے ابھر آئی۔
"کیا آپ نے عبداللہ کو بتایا؟"
وہ شاید اس آسمان والے سے پہلی بار ہم کلام ہوئی، اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ کال اٹھا کر کان سے لگا چکی تھی،دل اس شخص کی آواز سننے کو ترس رہا تھا۔
"زالے مراد!"
زالے کو لگا وہ کبھی بول نہیں پائے گی،اسے پکار کر اسکے وجود کو جکڑ لیا تھا اس شجص نے۔
"میں خاموشی سے زیادہ اس وجہ کو جاننا پسند کروں گا جس نے آپ کو مجھ تک پہنچایا۔کیا بات ہے؟"
زالے کو لگا وہ کسی میٹھی آواز والے مسیحا کو سن رہی تھی۔ وہ آواز اپنے پورے حسن سمیت زالے کے اندر اتر جاتی تھی۔۔ وہ کیا تھا۔۔۔۔؟ کہ جس نے زالے جیسی خود سر کو ہلا کہ رکھ دیا تھا۔
"میں تم کو سننا چاہتی ہوں عبداللہ"
زالے کا لہجہ بہت بھیگا تگا۔
۔وجدان نے واپس بیٹھتے کرسی سے ٹیک لگا لی۔
"اس کے لیے آپکو بہت کچھ قربان کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ ایک مشکل فیصلہ چاہ رہی ہیں"
وہ اسکی صاف گوئی پر بھی فدا ہوئی۔
"میری بے بسی یہ ہے کہ میری سماعت کو پہلی بار تمہاری آواز نے سکون دیا ہے"
وہ سرجھکائے اپنی ہار کا اعتراف کر رہی تھی۔ "سکون وہ نہیں جو آپ سمجھی ہیں۔ سکون ان الفاظ میں تھا جو میری زبان سے ادا ہوئے تھے" وہ اسکی درستگی کرتے بولا۔
"پتا نہیں…میں نہیں جانتی کچھ"
وہ الجھ گئی۔
"میں کچھ بھی نہیں ہوں۔مخص ایک وسیلے کے۔ میں آپ کی ہر ممکن مدد کروں گا۔ لیکن زالے مراد۔۔۔۔"
اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتا وہ فون بند کر چکی تھی۔وہ کیسے انکار سن سکتی تھی۔شاید اسکی جان نکل جاتی، وجدان کو اب حقیقی تفشیش ہوئی۔زالے کا فون کاٹنا پتا نہیں سہا نہ گیا تھا جیسے۔
..____________________..
ہادی یہ منظر دیکھ کر دہل چکا تھا۔سامنے ایک بگھڑے نقوش کا آدمی تھا جس نے ہنا کی بازو بے دردی سے پکڑ رکھی تھی اور گن اسکی کن پٹی پر دھری تھی۔۔ہنا کے منہ پر ٹیپ تھی مگر وہ سہمی ہوئی تھی اور رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سوجھ چکی تھی۔ وہ ہادی کو دیکھ کر حوصلے میں آ چکی تھی مگر معاملہ بے حد خطرناک تھا۔
"آگے بڑھنے کی کوشش مت کرنا آفیسر ورنہ گولی اس لڑکی کی کن پٹی چیر دے گی"
وہ ڈھارتے ہوئے بولا تھا۔ رفیق سمجھ گیا تھا کہ اندر معاملہ گڑبڑ ہے. تبھی وہ باہر کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ہادی کو لگا اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے۔ یہ منظر وہ اپنی زندگی میں پہروں بار دیکھ چکا تھا مگر آج معاملہ نہایت نازک تھا۔
"اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا تم کو عبرت ناک بنا دوں گا"
ہادی بھی خشونٹ کے سنگ دھاڑتا جوابا اس پر گن تان چکا تھا۔
"نیچے کر بندوق۔۔ نہیں تو میں اسکی کھوپڑی اڑا دوں گا"
ہادی کو اپنی پرواہ نہیں تھی مگر وہ ہنا کی آنکھوں میں موجود ڈر دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔ رفیق لمحہ بہ لمحہ نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں سے اس گھٹیا شخص کا نظر آنا ناممکن تھا۔ وہ کوئی متبادل جگہ تلاش رہا تھا جہاں سے نشانہ لگا سکے۔
"ٹھیک ہے۔ تم اسے چھوڑ دو۔ ہم معاملہ طے کرتے ہیں۔"
ہادی نے گن نیچے کرتے ہوئے اسے آفر کی جس پر اسکا خبیث قہقہہ ابھرا۔
"کسی بھول میں نہ رہنا آفیسر۔ یہاں آج ایک موت تو پکی ہے۔ یا یہ مرے گی یا تو"
ہادی کی برداشت جواب دے رہی تھی۔
"مجھے یہاں سے جانے دو۔ ہٹو راستے سے"
وہ ہنا کی بازو برے طریقے سے کھینچتا بولا اور گن بلکل اسکے سر سے جوڑی۔وہ شاید اب رو نہیں رہی تھی۔
"اب تو تمہاری موت ہی تمہیں یہاں سے لے کے جائے گی"
اس سے پہلے کے ہادی بندوق دوبارہ اٹھاتا۔ اس نے ہنا کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ رفیق کو سیڑھیوں پے ایک جگہ ملی جو عین اس گھٹیا شخص کے سر کے پیچھے تھی۔
"میری خواہش تھی میں تجھے سامنے سے ہلاک کرتا مگر خیر یہ بھی غنیمت ہے"
رفیق نے گن کا نشانہ عین اسکے سر کے پیچھے لگایا۔وہ ایک پروفیشنل شوٹر تھا۔۔آج تک اسکا نشانہ نہیں چونکا تھا مگر وہ آج خوف میں تھا کیونکہ ساتھ ہی ہنا کا سر تھا۔ ہادی رفیق کو دیکھ چکا تھا لہذا ہنا کو لگتے تھپڑ پر ضبط کر گیا۔
"ہٹ پیچھے آفیسر"
وہ دوبارہ دھاڑا تھا مگر عین اسی وقت گولی کی آواز آئی۔ ہادی نے بھاگ کر ہنا کو اس نجس آدمی کی گرفت سے نکال کر اپنی طرف کھینچا اور اگلے ہی لمحے وہ گھٹیا شخص زمین بوس ہو گیا اور ہنا جلدی سے ہادی سے جا لگی، رفیق دوڑ کر اندر آیا۔
"لعنت ہو اس پر"
رفیق نے اسے سیدھا کر کے اس پر تھوکتے کہا۔ اسکا پورا منہ خون سے تر تھا، ہادی نے ہنا کو خود سے دور کرتے وہیں کرسی پر بٹھایا اسکے منہ سے پٹی ہٹائی تو اسکی شرٹ آستین سے مٹھی میں بھرے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ چہرے پر تھپڑ کا نشان دیکھے ہادی کو سخت تکلیف ہوئی،دل چاہا کاش وہ اسکے گال کو چھو کر سہلائے،درد مٹانے کی کوشش کے۔
"بس! اب رونا نہیں۔۔چپ کرو ہنا۔"
وہ اسے چپ کروا رہا تھا اور رفیق اس گھٹیا شخص کی تلاشی لے رہا تھا۔
"تھینک یو سو مچ۔۔۔"
وہ اپنے آنسو صاف کر چکی تھی، ہادی کو اسکی بہادری پر بہت خوشی ہوئی۔
"یہ میرا فرض ہے ہنا۔ خیر تمہیں جو تکلیف پہنچی اسکے لیے میں شرمندہ ہوں۔ تم ٹھیک ہو؟" وہ اسکا چہرہ دیکھتے بولا جو ایک طرف سے سرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ اپنی بازو بھی سہلا رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں"
وہ اپنے اس محافظ سے نظریں ملائے تشکر کے سنگ مدھم سا بولی تھی۔ اور پھر جیسے ہادی کو لگا اسکا سارا بوجھ دل سے اتر گیا ہو۔
"ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ رفیق اسکی قبر یہیں بنا دینا۔ اس گھٹیا شخص کی یہی سزا ہے۔ میں ٹیم بھیجتا ہوں۔۔فی الحال میں ہنا کو گھر چھوڑ آوں"
عادل نے کہا تو رفیق نے فرمابرداری سے سر ہلایا مگر اسے کچھ یاد آیا۔
"بائے دا وے۔آئی ایم پراوڈ آف یو رفیق کیپ اٹ آپ"
اور رفیق کا تو سن کر سینہ چوڑا ہو گیا تھا۔ وہ مسکرایا تو ہادی اور ہنا بھی مسکرا دیے،ہادی نے ہنا کے گاڑی تک آتے اسکے لیے فرنٹ سیٹ کے لیے ڈور اوپن کیا تو وہ مسکرا کر بیٹھی،ہادی بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے بیٹھا اور اک بار پھر ہنا کو دیکھنے لگا۔
نجانے کیوں اس لڑکی کو بچا کر عجیب سی راحت محسوس ہوئی پھر ہنا کی آنکھوں میں تیرے شکر کے بادل،اسکی بھیگی آنکھوں والی مسکراہٹ ہادی کے اندر اتر رہی تھی۔
دونوں کی اک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوبصورت مسکراہٹ دل والا سنگین معاملہ لگ رہی تھی۔
..____________________..
ڈرائیور کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی تھی۔ وہ انکا پرانا اور وفادار ملازم تھا۔ موت کے وقت بھی وہ وفاداری ہی نبھاتے چلا گیا تھا۔ ہنا کو پتا چلا تو وہ بے حد افسردہ تھی۔ ڈرائیور کی بیوہ اور بیٹے کو دیکھ کر اسے رونا آ رہا تھا۔ سارا انتظام عادل نے گھر پر ہی کروایا تھا۔ تمام لوگ مرحوم کی موت پر افسوس میں تھے۔ احمد صاحب نے ڈرائیور کی بیوہ اور بیٹے کو مکمل تسلی دی تھی اور کفالت کا ذمہ بھی لیا تھا۔رباب تو ہنا کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔
ساحر کو اس کیس کی چانچ کے لیے بلوا لیا گیا تھا جبکہ شام کو ہی وارنٹ کے ساتھ گرفتاری کا عمل طے پایا جانا تھا۔
وجدان نے اس بار خود جانے کا فیصلہ کیا تھا.
"عادل۔۔۔ تم مجھ سے خفا ہو کیا"
ہادی نے عادل کو کہا جب وہ لوگ تدفین کے بعد لاونچ میں جمع تھے، ہنا رباب وجدان۔۔۔ رفیق اور احمد صاحب بھی وہیں براجمان تھے۔
"نہیں بھائی۔ آپ سے کیوں خفا ہونا ہے"
ہادی اسکا سینئر تھا تبھی ادب و احترام کے ساتھ اب عقیدت سی عودی۔
"یہ جو کچھ ہوا میرے باپ کی وجہ سے ہوا۔ میں شرمندہ ہوں۔ لیکن تم یقین کرو انکو اسکی سزا دے کہ رہوں گا"
ہادی پر عزم تھا۔
"مجھے یقین ہے آپ پر۔جس طرح آپ نے ہنا کی حفاظت کی۔یقین کریں میرے دل میں آپکے لیے عزت دگنی ہو گئی ہے"
عادل صاف گوئی سے بولا تھا، وجدان آگے بڑھا اور دونوں کے کندھے تھپکائے اور مزید حوصلہ بڑھایا۔
"ایسے ہی ایک رہنا ہمیشہ،ہمارا یہ اتحاد ہی ہمیں برے لوگوں پر بھاری بنائے گا"
وجدان کی مسکراتی بات پر وہ دونوں مسکرائے تھے، مگر ہادی کی مسکراہٹ کچھ ادھوری تھی۔
اسکی نظر ہنا پر گئی تو وہ بھی اسے مسکرا کر مشکور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ہادی کا دل ہلکا سا ہو گیا۔
"اب ہم اپنی جیت سے دور نہیں ہیں"
وجدان پرامید تھا۔
"ان شاء اللہ۔ میں اب گھر جاتا ہوں۔۔۔ مما کو دیکھنا ہے۔۔۔ باقی رات کو میں تمہیں جوائن کرتا ہوں"
ہادی نے وجدان سے کہا اور اجازت لیتا ہوا نکل گیا۔
"میرا بچہ ٹھیک ہے ناں؟"
احمد صاحب کو تو ابھی تک رہ رہ کر ہنا کی فکر ہو رہی تھی، رباب بھی اداس سا مسکرا دی۔ اس سارے ایڈونچر میں سب سے زیادہ رونے والی رباب ہی تھی۔وجدان نے بھی مسکرا کر رباب کو خود سے لگا لیا۔
"بلکل ٹھیک ہوں بابا"
وہ انکے ساتھ لگی بولی تو ان کو جیسے تسلی سی ہوئی۔
.._____________________..
"ڈیڈ کہاں ہیں؟"
ہادی گھر آیا تو ہر طرف کافی کافی سناٹا تھا۔ "وہ تو رات ہی کہیں نکل گئے تھے۔ واپس نہیں آئے"
صبح ہو چکی تھی اور مراد بہلول نہ جانے کہاں جا کر چھپ گیا تھا۔ ہادی کے چہرے کے رنگ بدلے۔
"ناشتہ لگا دوں سر؟"
ملازم نے پوچھا مگر ہادی نفی میں سر ہلاتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ زالے کا روم کھول کر دیکھا تو وہ سوئی ہوئی ملی، دروازہ بند کر کے کنزا کے روم کی طرف چلا گیا۔ کنزا شاید پہلے ہی جاگی ہوئی تھیں۔ آہٹ پر آنکھیں کھول لیں۔ ہادی کوٹ اتار کر انکے پاس بیٹھ گیا۔
"آج تو فریش لگ رہی ہیں آپ"
وہ کنزا کا کھلا چہرہ دیکھ کر مطمئین ہوا۔ وہ مسکرا دیں۔
"آج دل خوش سا ہے۔ لگتا ہے سب بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا"
کنزا نے اٹھتے ہوئے کہا تو ہادی نے انکا تکیہ درست کیا اور انکو ٹیک لگوا دی۔ کمزوری کافی تھی۔
"ان شاء اللہ، آپ نے ناشتہ کیا؟"
وہ اب رسان سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں۔ ابھی کیا ہے"
وہ جواب دیتے شفقت سے بولیں۔
"آپکے شوہر کے اریسٹ وارنٹ تیار ہو گئے ہیں" ہادی نے نہ چاہتے ہوئے بھی بتا دیا۔ کنزا ایک دم سنجیدہ ہو گئیں۔
"وہ اسی قابل ہے"
وہ غصہ لیے بولیں۔
"میں سوچتا ہوں ہم جیسوں کے امتحان اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں۔ کہ ایک بیٹا ہو کر ہمیں اپنے باپ تک کا احتساب کرنا پڑتا ہے"
وہ اداس سا تھا۔۔ کنزا نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور چوما۔
"جانتی ہوں تم بے حس نہیں ہو ہادی۔ یہ سب تمہارے لیے مشکل ہوگا۔ وہ تمہیں اپنی اولاد نہ سمجھیں لیکن میں جانتی ہوں میرے بچے کبھی بھی بے ادب نہیں ہو سکتے۔ جب بات وطن سے وفاداری کی آتی ہے تو سب کر گزرنا چاہیے۔ تم سمجھ رہے ہو ناں؟"
وہ اسکا اداس چہرہ دیکھ نہ سکیں۔
"جی۔ میں اس بار کمزور نہیں پڑنا چاہتا۔میں انکو سزا دلوانا چاہتا ہوں، آپ دعا کریں گی ناں"
وہ کنزا کو بلکل چھوٹا سا بچہ لگا۔
"ضرور کروں گی۔ میری ساری دعائیں اب تمہارے اور زالے کے لیے ہیں"
وہ اسکا چہرہ تکتیں بولیں۔
"اور ان کے لیے؟"
وہ سنجیدہ مگر اداس تھا۔
"تھوڑی سی کہ اب بھی اللہ انھیں ہدایت دے"
وہ بھی اداس تھیں۔۔ کیا کرتیں۔۔ آخر انکے سر کا تاج تھا۔بھلے وہ انھیں آج تک اپنی پاوں کی جوتی سمجھتا آیا تھا مگر وہ پتھر نہیں بن سکتی تھیں۔
"مما"
وہ جذباتی ہوئے انھیں بازوں کے حصار میں لے چکا تھا اور وہ اذیت سے مسکرا دیں۔
"اففف یہ فون کہاں گھس گیا ہے"
رباب ریسیپشن پے شاپنگ بیگ رکھے اپنا سیل فون بیگ سے نکالتے بولی،وہ کہیں اندر پھنسا ہوا تھا۔
"اوہ عادل اور وجدان بھیا کی اتنی مس کالز، یا اللہ سب خیر ہو"
رباب نے فون اٹھاتے ہوئے ہولتے کانپتے دل سے دعا کی۔
"رباب تم کہاں ہو۔ ہنا کہاں ہے؟"
عادل کی آواز سے ہی پریشانی جھلک رہی تھی۔
"جی عادل میں شاپ پے ہوں، شاپنگ بیگ رہ گیا تھا۔۔ اور ہنا گاڑی میں ہے"
اور اگلے ہی لمحے عادل کی پریشانی دگنی ہو گئی۔
"تم مجھے لوکیشن سینڈ کرو جہاں گاڑی ہے اور فورا گاڑی کی طرف جاو۔جلدی کرو"
عادل کے اصرار پر رباب نے ایسا ہی کیا، بیگ اٹھائے وہ باہر آ گئی جہاں اسکی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ ابھی راستے میں ہی تھی کہ گولیاں چلنے کی آواز آئی،جب تک رباب وہاں پہنچی کئی لوگ جمع ہو چکے تھے،فون سے پار عادل جواب کے لیے بولتا رہا مگر رباب سامنے برپا ہوئی قیامت پر پتھرائی سی کھڑی تھی، گاڑی سے کچھ فاصلے پر ہی ڈرائیور کی لاش پڑی تھی،ایک آدمی دوسرے کو کہہ رہا تھا کہ یہ مر گیا ہے۔ رباب نے بیگ وہیں سسکتے پھینکا اور گاڑی کی طرف بھاگی۔
"عادل"
عادل کو لگا کسی کھائی سے آواز ابھری تھی۔ "رباب کیا ہوا ہے پلیز بتاو؟"
عادل لوکیشن فالو کر رہا تھا،وہ پہلے ہی دونوں کے موبائیل ٹریس کروا چکا تھا مگر اب ہنا کا نمبر بند آ رہا تھا۔
"عادل ہنا نہیں ہے، عادل پلیز آ جائیں وہ پتا نہیں کہاں گئی اور یہ لاش۔۔ ڈرائیور"
رباب کا رو رو کر بڑا حال تھا اور سامنے سفید وردی میں ملبوس ڈرائیور جو اب لال ہو چکا تھا اسے دیکھ کر رباب سے سانس لینا مشکل تھا، کئی لوگ آس پاس جمع ہو چکے تھے۔
"ہٹیے پیچھے! سب لوگ پیچھے ہٹ جائیں"
ہادی نے تمام لوگوں کو مجمعہ چیرتے پیچھے کیا، عادل بھی اسکے ساتھ آیا تھا۔رباب سڑک کے کنارے سہمی ہوئی روتی ہوئی کھڑی تھی جس پر نظر پڑتے ہی عادل اسکی طرف دوڑا۔
"رباب!"
وہ اسکے قریب آیا تو وہ اسے دیکھتے ہی سسک اٹھتے لپٹ گئی۔
"عادل ہنا کو ڈھونڈیں، عادل وہ لوگ اسے لے گئے اور میں کچھ نہیں کر پائی"
رباب کی رورو کر آواز بند ہو رہی تھی، عادل خود پریشانی سے بے حال ہو رہا تھا،ہادی نے ڈرائیور کی سانس دیکھی جو بند تھی۔گولی اسکے سینے پر لگی تھی اور دوسری سر پر۔دردناک موت۔۔۔ یقینا وہ ہنا کو بچاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ہادی نے ایمبولینس کو کال کر دی تھی اور اپنی ٹیم کو بھی موقع واردات پر بلوا لیا تھا، ساتھ ساتھ وہ ہنا کے نمبر کی لوکیشن چیک کر رہا تھا۔
"عادل ہمیں انکے پیچھے جانا ہوگا، یہ سب کس کا کام ہے۔ تم بتاو مجھے؟"
ہادی نے اس سارے میس کے بارے دریافت کرنے کو عادل سے پوچھا جو رباب کو گاڑی میں بیٹھا رہا تھا،وہ رونا تو روک چکی تھی پر سخت تکلیف میں تھی۔
"مراد بہلول کا"
عادل نے نفرت سے نام لیا تو ہادی کی آنکھوں میں سرخی اتری۔
"وعدہ کرتا ہوں اگر یہ سب ان کا کام ہے تو وہ زندہ نہیں بچیں گے"
وہ انکھوں میں سرخی لیے یقین دلاتے بولا تھا جبکہ عادل نے نظریں پھیریں۔
"میں رباب کو گھر چھوڑ کر آتا ہوں۔ تمہیں کوئی بھی اطلاح ملے تو مجھے فورا بتاو"
عادل تھکے لہجے میں بولا اور گاڑی میں بیٹھ گیاہادی نے ٹیم کے پہنچتے ہی گھر کی راہ لی۔ ڈرائیور کی لاش پوسٹ ماٹم کے لیے جانی تھی،رفیق نے سارا کام خود ہی لیڈ کیا تھا۔ رباب خود کیا چپ ہوتی،عادل کو دیکھ کر اسے اور رونا آ رہا تھا۔
"میری وجہ سے ہوا سب۔ نہ ہم آتے نہ یہ ہوتا۔۔۔۔" عادل نے ایک غصے کی نظر سے اسے دیکھا جو اس بات کا اشارہ تھا کہ چپ ہو جاو خدا کے لیے۔
"تم گھر کے اندر رہنا، سمجھ رہی ہو۔ ان شاء اللہ ہم آج ہی ہنا کو ڈھونڈیں گے،ان لوگوں کا مقصد صرف ڈرانا ہے"
عادل نے اسے تسلی دی تھی یا شاید خود کو بھی۔
"عادل!"
وہ روہانسی ہو کر اسکا مضبوط ہاتھ پکڑتی بولی۔ رو رو کر اس نے اپنی آنکھیں مزید موٹی کر رکھی تھیں۔
"رباب یار تم تو رونا بند کرو۔ مزید پریشان مت کرو"
وہ اب کی بار اخیر رنجیدہ ہوا۔
"مل جائے گی ناں وہ؟"
وہ اس سے یقین چاہ رہی تھی اور بدلے میں عادل بس سر ہلا سکا۔
..______________________..
"گڈ! ویل ڈن۔ اسے اڈے پے لے جاو"
اپنے سامنے ہادی کو کھڑا دیکھ کر مراد بہلول کا سانس سوکھ گیا۔
"نہایت گھٹیا حرکت ہے، آپ اتنا گر جائیں گے میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ کہاں لے کر گئے ہیں۔ کہاں رکھا ہے اسے آپکے آدمیوں نے۔ بولیں"
وہ مراد بہلول کا گریبان پکڑ چکا تھا،مراد بہلول نے حقارت اور قوت سے اسے پیچھے جھٹکا۔
"زلیل انسان! اپنے باپ کے گریبان کو پکڑ لیا۔ وہ بھی بنا ثبوت۔۔ لعنت ہو تجھ پر"
وہ پھٹ پڑا،گویا اولاد کی جرت تن بدن میں شعلے بھڑکا گئی تھی۔
"زلیل حرکت تو آپ نے کی ہے،اگر آپ نے آج نہ بتایا تو آپکو گھسیٹ کر جیل لے جاوں گا۔ آپ بتا دیں ہنا کہاں ہے؟"
وہ بھی پھٹ کر بولا نہیں چلایا، کنزا سوئی نہ ہوتیں تو اس منہ ماری بھرے شور سے پھر سے ہارٹ اٹیک ہو جاتا
"نہیں بتاوں گا۔خاک چھانتے پھرو"
وہ بھی طیش میں آئے مزید چھپا نہیں رہ پایا تھا،ہادی کو لگا کسی نے اسے آسمان سے زمین پے دے مارا ہو،یعنی یہ سب اسکے باپ نے کیا تھا۔ یہ سوچ کر ہی اسکے اندر ٹوٹ پھوٹ سی شروع ہو گئی۔
"یہ سب دیکھنے سے پہلے میں مر جاتا تو بہتر تھا"
ہادی جانتا تھا کہ مزید پوچھنا بے کار ہے،وہ دلبرداشتہ سا گھر سے باہر نکل گیا، فون جینز کی جیب سے نکالا اور وجدان کو کال کی جو فوری پک کی گئی۔
"وجدان!مراد بہلول کی گرفتاری کے وارنٹ نکلوا کر یہاں پہنچو۔ اس سے پہلے کے دیر ہو جائے۔ عادل کو کہنا ہادی اسکی بہن کو لے کر ہی آئے گا"
ہادی کی آنکھیں ہی نہیں لہجہ بھی نم تھا۔ وجدان ابھی گھر پہنچا تھا، جہاں عادل رباب کو لیے ابھی آیا تھا۔
"ہادی اکیلے کہیں مت جانا۔میں آتا ہوں"
وجدان نے اسے ہدایت دی۔
"نہیں وجدان! یہ کام میرے باپ نے بگارا ہے۔اسے درست بھی ہادی ہی کرے گا۔ تم باقی معاملات دیکھو"
وہ بضد تھا۔
"پاگل مت بنو ہادی۔ اچھا میں رفیق کو بھیج رہا ہوں۔ اسے ساتھ رکھو اور مجھ سے رابطے میں رہنا"
اب وجدان نے سختی سے حکم کرتے کہا۔
"ہمممم۔ "
وہ زیادہ بول نہ سکا،ندامت سے مر رہا تھا۔
"عادل سے کیسے نظر ملاوں گا؟"
ہادی کی آواز کپکپا گئی،وجدان کو دکھ سا ہوا۔
"وہ سب بعد کی باتیں ہے، فی الحال تم خود کو سنبھالو"
عادل نے فون پر بزی وجدان کو زخمی نگاہوں سے دیکھا۔ رباب اور احمد صاحب بھی الگ روئے جا رہے تھے جبکہ بوا کی تو طبعیت ہی خراب ہو گئی تھی۔ وجدان نے رفیق کو فون کر کے عادل کے گھر ٹیم کے ہمراہ بھیجا اور خود ہوسپٹل روانہ ہونے والا تھا پھر آفس۔ ساحر کو بلوایا تھا مگر وہ اپنے کسی کام کی وجہ سے آ نہیں سکا تھا۔ عادل کا گھر رہنا ہی مناسب تھا کیونکہ احمد صاحب اسے جانے نہیں دے رہے تھے۔
"مجھے جانے دیں ہادی کے ساتھ"
عادل نے اٹھتے ہوئے کہا،آواز میں خراش تھی۔
"نہیں تم یہیں رکو۔۔دیکھو انکل کی کیا حالت ہے۔۔ یہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے"
وجدان نے اسے کندھے سے پکڑے سمجھایا تو وہ دیکھ کر ہی رہ گیا،بے بسی بھری نگاہ اف۔
"رباب تم تو رونا بند کرو"
وجدان نے اب اپنی گڑیا کو بھی زرا لاڈ بھرا ڈانٹا پر وہ کیا کرتی خود بخود رونا آئے جا رہا تھا۔
"بابا حوصلہ کریں"
عادل نے انھیں تسلی دی مگر وہ رو رہے تھے۔ "کاش میں پہلے بتا دیتا۔ میری لاپرواہی میری بچی پر بھاری پڑ گئی"
وہ دل برداشتہ سے بولے، وجدان نے تمام آنے والی کالز کی انفارمیشن نکلوا لی تھی اور وہ کیس فائل بھی اپنے پاس رکھ لی تھی۔ مراد بہلول کے خلاف اب ثبوت ہی ثبوت تھے۔
"ہم آج ہی ڈھونڈ لیں گے انکل۔ آپ تسلی رکھیں" وجدان بھی قریب آیا اور دھیمے سے بولا مگر وہ جب تک ہنا کو دیکھ نہ لیتے کبھی بھی پرسکون نہیں ہونے والے تھے۔رباب جتنا خود کو رونے سے روک رہی تھی اسے اتنا ہی رونا آ رہا تھا۔
..______________________..
"صبح سے رات ہو گئی ہے"
ہادی نے مایوس ہو کر دیوار کا سہارا لیا وہ اور رفیق کئی حفیہ جگہوں پر جا چکے تھے مگر کہیں سے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ہادی کو لگا وہ بس اب گر جائے گا۔
"سر آپ ٹھیک ہیں ناں؟"
رفیق نے اسے اپنا کمزور سہارا دیا۔
"ایک آخری جگہ رہ گئی ہے۔ل اگر وہاں سے بھی کچھ نہ ملا تو میں عادل اور وجدان کو کیا کہوں گا کہ میں ناکام ہو گیا؟" ہادی کا لہجہ تر سا تھا۔
"سر جو کیا آپکے والد نے کیا ہے۔ اس میں آپکا کوئی قصور نہیں ہے۔ پلیز آپ خود کو بلیم نہ کریں"
رفیق بھی دکھی تھا۔
"مت کہو اسے شخص کو والد۔۔۔۔ " ہادی کی آنکھیں ضبط و غصے سے لال ہو گئیں۔
"حوصلہ رکھیں۔ اللہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔۔ چلیں"
وہ ہادی کو کہتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھ گیا، ہادی بھی پیچھے پیچھے ہو لیا۔اب گاڑی رفیق نے چلائی۔ وہ لوگ جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ رات ہوتی جا رہی تھی اور حوصلہ تھا کہ ہوا ہو رہا تھا۔ ہادی کی سانس بھاری ہو رہی تھی، گاڑی تھوڑی مسافت کے بعد رک گئی۔ سامنے ہی ہلکی سی روشنی دیکھائی دے رہی تھی۔
"رفیق تم پیچھے باہر کی طرف رہنا،میں اندر جاتا ہوں۔۔ اور دھیان سے۔ وہ تعداد میں ہم سے زیادہ ہو سکتے ہیں"
ہادی نے اسے ہدایت دی اور دونوں نے اپنی گنز لوڈ کر لیں۔
"سر اندر کوئی دیکھائی دیا ہے مجھے، یقینا ہم ٹھیک جگہ پہنچ گئے"
رفیق نے دیوار میں بنے سوراخ سے اندر جھانکا تو لگا جیسے عہ کامیاب ہو گئے، ہادی اندر جا رہا تھا تبھی اوکے اشارہ دیا۔ اگلے ہی لمحے گولی کی آواز آئینہادی نے مڑ کر دیکھا تو رفیق ایک کو ڈھیڑ کر چکا تھا۔۔ اسکے بعد دوسری آواز۔۔
"برا ہوا۔اب وہ چوکنے ہو گئے۔۔ رفیق دھیان سے" ہادی نے اسے محتاط رہنے کا اشارہ کیا اور اندر بھاگا۔ دو تین فائر کیے اور سامنے دو لوگ ڈھیر ہو گئے۔ اندر ایک اور تے خانہ تھا۔ وہاں سے اب سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ رفیق باہر سے سبکو کلئیر کر چکا تھاوہاں شاید چھ لوگ تھ۔۔ چار مارے گئے تھے جبکہ دو مین کمرے میں تھے۔
"رفیق تم کمرے میں موجود اس ایک آدمی کو نشانہ بناو۔کیا تم کر لو گے"
ہادی نے اسے امید افزاء نگاہوں سے دیکھتے ائیر فون سے مخاطب کرتے کہا، رفیق نے دیکھا تو فی الحال اسے کوئی نظر نہ آیا اور اگلے ہی لمحے اندر سے گولیوں کی آوزیں آنے لگیں۔ رفیق نے سر نیچے کر لیا۔
"رفیق تمہیں اسے نشانہ بنانا ہوگا"
ہادی نے اسے ہدایت دی۔
"سر میں کرتا ہوں"
رفیق نے کندھے سے دوسری بندوق نکالی، اس دوران وہ آدمی مسلسل فائر کر رہا تھا۔
"رفیق ڈو اٹ فاسٹ"
ہادی چلایا تھا اور گن دوبارہ لوڈ کی اور فائر کیے۔ اس آدمی کا دھیان وہاں سے ہٹا اور اسی دوران رفیق نے نشانہ لگایا۔
"رفیق ہری اپ"
ہادی کی قوت برداشت دم توڑ رہی تھی اور اگلے ہی لمحے موت سی خاموشی چھا گئی۔نشانہ اسکے ماتھے پر لگا تھا۔ ہادی نے ویل ڈن کا اشارہ کیا اور اندر بڑھ گیا لیکن اندر کی سیچویشن دیکھ کر وہ پتھرایا رہ گیا۔
.._____________________..
"سر یہ لیں"
وجدان آفس میں تھا جب آیک اہل کار لفافہ لیے اندر آیا۔
"وارنٹ آگئے؟ ویل ڈن"
وجدان کو لگا اب انکی جیت دور نہیں۔
"سر چائے؟" وہ اہل کار ہنوز کھڑا پوچھ رہا تھا۔
"نہیں تم بتاو رابطہ ہوا کسی سے"
وجدان نے وارنٹ کا سرسری جائزہ لیتے ہادی اور رفیق کے بارے پوچھا۔وجدان اسی کام کے لیے آفس آیا تھا۔
"نہیں سر"
وہ جوابا بولا اور وجدان کے اشارے پر آفس روم سے نکلتا چلا گیا۔۔۔وجدان نے وارنٹ جیب میں رکھے ہی تھے کہ اسکا فون بجا،سکرین پر نگاہ ڈالی تو کوئی ان نون نمبر تھا۔
"یس انسپیکٹر عبداللہ وجدان"
وہ پیشہ وارنہ بھاری لہجے میں بولا تھا مگر دوسری طرف خاموشی تھی،چبھنے والی۔
"کوئی ہے؟"
وہ خاموشی سنتے ہوئے قدرے بیزارگی سے پھر بولا۔
"تم بولتے جاو عبداللہ! میں تمہاری آواز میں حلل نہیں چاہتی"
زالے کی ڈھڑکن نے زالے سے کہا تھا، زالے کو لگا اسکی سانس تھم سی گئی تھی۔ وجدان کو ناجانے کیوں لگا وہ زالے مراد ہے۔
اسکا دل فون سے اس طرف سانس لیتے وجود کو پہچان رہا تھا۔وہ خاموش تھا۔اور اگلے ہی لمحے کال کٹ گئی۔
"عبداللہ کو کون بتائے گا کہ زالے مراد کو اسکی بے حد ضرورت ہے"
وہ خالی نظروں سے کمرے کی کھڑکی سے باہر کالے بادل دیکھ رہی تھی۔ آسمان پر کہیں کہیں بادل چمک رہے تھے۔وہ ابھی کنزا کو دیکھ کر آئی تھی۔ وہ سو چکی تھیں۔ وہ بے یقین اور بے مراد تھی جب اسکا فون بج اٹھا، سکرین پر عبداللہ جگمگا رہا تھا۔ دل کی ڈھرکن تھی کہ بے قابو سی ہو رہی تھی اور آنکھوں میں نمی سے ابھر آئی۔
"کیا آپ نے عبداللہ کو بتایا؟"
وہ شاید اس آسمان والے سے پہلی بار ہم کلام ہوئی، اسکی آنکھیں بھیگ گئیں۔ وہ کال اٹھا کر کان سے لگا چکی تھی،دل اس شخص کی آواز سننے کو ترس رہا تھا۔
"زالے مراد!"
زالے کو لگا وہ کبھی بول نہیں پائے گی،اسے پکار کر اسکے وجود کو جکڑ لیا تھا اس شجص نے۔
"میں خاموشی سے زیادہ اس وجہ کو جاننا پسند کروں گا جس نے آپ کو مجھ تک پہنچایا۔کیا بات ہے؟"
زالے کو لگا وہ کسی میٹھی آواز والے مسیحا کو سن رہی تھی۔ وہ آواز اپنے پورے حسن سمیت زالے کے اندر اتر جاتی تھی۔۔ وہ کیا تھا۔۔۔۔؟ کہ جس نے زالے جیسی خود سر کو ہلا کہ رکھ دیا تھا۔
"میں تم کو سننا چاہتی ہوں عبداللہ"
زالے کا لہجہ بہت بھیگا تگا۔
۔وجدان نے واپس بیٹھتے کرسی سے ٹیک لگا لی۔
"اس کے لیے آپکو بہت کچھ قربان کرنا پڑ سکتا ہے۔ آپ ایک مشکل فیصلہ چاہ رہی ہیں"
وہ اسکی صاف گوئی پر بھی فدا ہوئی۔
"میری بے بسی یہ ہے کہ میری سماعت کو پہلی بار تمہاری آواز نے سکون دیا ہے"
وہ سرجھکائے اپنی ہار کا اعتراف کر رہی تھی۔ "سکون وہ نہیں جو آپ سمجھی ہیں۔ سکون ان الفاظ میں تھا جو میری زبان سے ادا ہوئے تھے" وہ اسکی درستگی کرتے بولا۔
"پتا نہیں…میں نہیں جانتی کچھ"
وہ الجھ گئی۔
"میں کچھ بھی نہیں ہوں۔مخص ایک وسیلے کے۔ میں آپ کی ہر ممکن مدد کروں گا۔ لیکن زالے مراد۔۔۔۔"
اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتا وہ فون بند کر چکی تھی۔وہ کیسے انکار سن سکتی تھی۔شاید اسکی جان نکل جاتی، وجدان کو اب حقیقی تفشیش ہوئی۔زالے کا فون کاٹنا پتا نہیں سہا نہ گیا تھا جیسے۔
..____________________..
ہادی یہ منظر دیکھ کر دہل چکا تھا۔سامنے ایک بگھڑے نقوش کا آدمی تھا جس نے ہنا کی بازو بے دردی سے پکڑ رکھی تھی اور گن اسکی کن پٹی پر دھری تھی۔۔ہنا کے منہ پر ٹیپ تھی مگر وہ سہمی ہوئی تھی اور رونے کی وجہ سے اسکی آنکھیں سوجھ چکی تھی۔ وہ ہادی کو دیکھ کر حوصلے میں آ چکی تھی مگر معاملہ بے حد خطرناک تھا۔
"آگے بڑھنے کی کوشش مت کرنا آفیسر ورنہ گولی اس لڑکی کی کن پٹی چیر دے گی"
وہ ڈھارتے ہوئے بولا تھا۔ رفیق سمجھ گیا تھا کہ اندر معاملہ گڑبڑ ہے. تبھی وہ باہر کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا۔ ہادی کو لگا اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہا ہے۔ یہ منظر وہ اپنی زندگی میں پہروں بار دیکھ چکا تھا مگر آج معاملہ نہایت نازک تھا۔
"اگر تم نے ایسا کیا تو یاد رکھنا تم کو عبرت ناک بنا دوں گا"
ہادی بھی خشونٹ کے سنگ دھاڑتا جوابا اس پر گن تان چکا تھا۔
"نیچے کر بندوق۔۔ نہیں تو میں اسکی کھوپڑی اڑا دوں گا"
ہادی کو اپنی پرواہ نہیں تھی مگر وہ ہنا کی آنکھوں میں موجود ڈر دیکھ کر پریشان ہو رہا تھا۔ رفیق لمحہ بہ لمحہ نظر رکھے ہوئے تھا۔ وہ جہاں کھڑا تھا وہاں سے اس گھٹیا شخص کا نظر آنا ناممکن تھا۔ وہ کوئی متبادل جگہ تلاش رہا تھا جہاں سے نشانہ لگا سکے۔
"ٹھیک ہے۔ تم اسے چھوڑ دو۔ ہم معاملہ طے کرتے ہیں۔"
ہادی نے گن نیچے کرتے ہوئے اسے آفر کی جس پر اسکا خبیث قہقہہ ابھرا۔
"کسی بھول میں نہ رہنا آفیسر۔ یہاں آج ایک موت تو پکی ہے۔ یا یہ مرے گی یا تو"
ہادی کی برداشت جواب دے رہی تھی۔
"مجھے یہاں سے جانے دو۔ ہٹو راستے سے"
وہ ہنا کی بازو برے طریقے سے کھینچتا بولا اور گن بلکل اسکے سر سے جوڑی۔وہ شاید اب رو نہیں رہی تھی۔
"اب تو تمہاری موت ہی تمہیں یہاں سے لے کے جائے گی"
اس سے پہلے کے ہادی بندوق دوبارہ اٹھاتا۔ اس نے ہنا کے منہ پر زور دار تھپڑ رسید کیا۔ رفیق کو سیڑھیوں پے ایک جگہ ملی جو عین اس گھٹیا شخص کے سر کے پیچھے تھی۔
"میری خواہش تھی میں تجھے سامنے سے ہلاک کرتا مگر خیر یہ بھی غنیمت ہے"
رفیق نے گن کا نشانہ عین اسکے سر کے پیچھے لگایا۔وہ ایک پروفیشنل شوٹر تھا۔۔آج تک اسکا نشانہ نہیں چونکا تھا مگر وہ آج خوف میں تھا کیونکہ ساتھ ہی ہنا کا سر تھا۔ ہادی رفیق کو دیکھ چکا تھا لہذا ہنا کو لگتے تھپڑ پر ضبط کر گیا۔
"ہٹ پیچھے آفیسر"
وہ دوبارہ دھاڑا تھا مگر عین اسی وقت گولی کی آواز آئی۔ ہادی نے بھاگ کر ہنا کو اس نجس آدمی کی گرفت سے نکال کر اپنی طرف کھینچا اور اگلے ہی لمحے وہ گھٹیا شخص زمین بوس ہو گیا اور ہنا جلدی سے ہادی سے جا لگی، رفیق دوڑ کر اندر آیا۔
"لعنت ہو اس پر"
رفیق نے اسے سیدھا کر کے اس پر تھوکتے کہا۔ اسکا پورا منہ خون سے تر تھا، ہادی نے ہنا کو خود سے دور کرتے وہیں کرسی پر بٹھایا اسکے منہ سے پٹی ہٹائی تو اسکی شرٹ آستین سے مٹھی میں بھرے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ چہرے پر تھپڑ کا نشان دیکھے ہادی کو سخت تکلیف ہوئی،دل چاہا کاش وہ اسکے گال کو چھو کر سہلائے،درد مٹانے کی کوشش کے۔
"بس! اب رونا نہیں۔۔چپ کرو ہنا۔"
وہ اسے چپ کروا رہا تھا اور رفیق اس گھٹیا شخص کی تلاشی لے رہا تھا۔
"تھینک یو سو مچ۔۔۔"
وہ اپنے آنسو صاف کر چکی تھی، ہادی کو اسکی بہادری پر بہت خوشی ہوئی۔
"یہ میرا فرض ہے ہنا۔ خیر تمہیں جو تکلیف پہنچی اسکے لیے میں شرمندہ ہوں۔ تم ٹھیک ہو؟" وہ اسکا چہرہ دیکھتے بولا جو ایک طرف سے سرخ ہو رہا تھا جبکہ وہ اپنی بازو بھی سہلا رہی تھی۔
"میں ٹھیک ہوں"
وہ اپنے اس محافظ سے نظریں ملائے تشکر کے سنگ مدھم سا بولی تھی۔ اور پھر جیسے ہادی کو لگا اسکا سارا بوجھ دل سے اتر گیا ہو۔
"ٹھیک ہے چلتے ہیں۔ رفیق اسکی قبر یہیں بنا دینا۔ اس گھٹیا شخص کی یہی سزا ہے۔ میں ٹیم بھیجتا ہوں۔۔فی الحال میں ہنا کو گھر چھوڑ آوں"
عادل نے کہا تو رفیق نے فرمابرداری سے سر ہلایا مگر اسے کچھ یاد آیا۔
"بائے دا وے۔آئی ایم پراوڈ آف یو رفیق کیپ اٹ آپ"
اور رفیق کا تو سن کر سینہ چوڑا ہو گیا تھا۔ وہ مسکرایا تو ہادی اور ہنا بھی مسکرا دیے،ہادی نے ہنا کے گاڑی تک آتے اسکے لیے فرنٹ سیٹ کے لیے ڈور اوپن کیا تو وہ مسکرا کر بیٹھی،ہادی بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے بیٹھا اور اک بار پھر ہنا کو دیکھنے لگا۔
نجانے کیوں اس لڑکی کو بچا کر عجیب سی راحت محسوس ہوئی پھر ہنا کی آنکھوں میں تیرے شکر کے بادل،اسکی بھیگی آنکھوں والی مسکراہٹ ہادی کے اندر اتر رہی تھی۔
دونوں کی اک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوبصورت مسکراہٹ دل والا سنگین معاملہ لگ رہی تھی۔
..____________________..
ڈرائیور کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی تھی۔ وہ انکا پرانا اور وفادار ملازم تھا۔ موت کے وقت بھی وہ وفاداری ہی نبھاتے چلا گیا تھا۔ ہنا کو پتا چلا تو وہ بے حد افسردہ تھی۔ ڈرائیور کی بیوہ اور بیٹے کو دیکھ کر اسے رونا آ رہا تھا۔ سارا انتظام عادل نے گھر پر ہی کروایا تھا۔ تمام لوگ مرحوم کی موت پر افسوس میں تھے۔ احمد صاحب نے ڈرائیور کی بیوہ اور بیٹے کو مکمل تسلی دی تھی اور کفالت کا ذمہ بھی لیا تھا۔رباب تو ہنا کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔
ساحر کو اس کیس کی چانچ کے لیے بلوا لیا گیا تھا جبکہ شام کو ہی وارنٹ کے ساتھ گرفتاری کا عمل طے پایا جانا تھا۔
وجدان نے اس بار خود جانے کا فیصلہ کیا تھا.
"عادل۔۔۔ تم مجھ سے خفا ہو کیا"
ہادی نے عادل کو کہا جب وہ لوگ تدفین کے بعد لاونچ میں جمع تھے، ہنا رباب وجدان۔۔۔ رفیق اور احمد صاحب بھی وہیں براجمان تھے۔
"نہیں بھائی۔ آپ سے کیوں خفا ہونا ہے"
ہادی اسکا سینئر تھا تبھی ادب و احترام کے ساتھ اب عقیدت سی عودی۔
"یہ جو کچھ ہوا میرے باپ کی وجہ سے ہوا۔ میں شرمندہ ہوں۔ لیکن تم یقین کرو انکو اسکی سزا دے کہ رہوں گا"
ہادی پر عزم تھا۔
"مجھے یقین ہے آپ پر۔جس طرح آپ نے ہنا کی حفاظت کی۔یقین کریں میرے دل میں آپکے لیے عزت دگنی ہو گئی ہے"
عادل صاف گوئی سے بولا تھا، وجدان آگے بڑھا اور دونوں کے کندھے تھپکائے اور مزید حوصلہ بڑھایا۔
"ایسے ہی ایک رہنا ہمیشہ،ہمارا یہ اتحاد ہی ہمیں برے لوگوں پر بھاری بنائے گا"
وجدان کی مسکراتی بات پر وہ دونوں مسکرائے تھے، مگر ہادی کی مسکراہٹ کچھ ادھوری تھی۔
اسکی نظر ہنا پر گئی تو وہ بھی اسے مسکرا کر مشکور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ ہادی کا دل ہلکا سا ہو گیا۔
"اب ہم اپنی جیت سے دور نہیں ہیں"
وجدان پرامید تھا۔
"ان شاء اللہ۔ میں اب گھر جاتا ہوں۔۔۔ مما کو دیکھنا ہے۔۔۔ باقی رات کو میں تمہیں جوائن کرتا ہوں"
ہادی نے وجدان سے کہا اور اجازت لیتا ہوا نکل گیا۔
"میرا بچہ ٹھیک ہے ناں؟"
احمد صاحب کو تو ابھی تک رہ رہ کر ہنا کی فکر ہو رہی تھی، رباب بھی اداس سا مسکرا دی۔ اس سارے ایڈونچر میں سب سے زیادہ رونے والی رباب ہی تھی۔وجدان نے بھی مسکرا کر رباب کو خود سے لگا لیا۔
"بلکل ٹھیک ہوں بابا"
وہ انکے ساتھ لگی بولی تو ان کو جیسے تسلی سی ہوئی۔
.._____________________..
"ڈیڈ کہاں ہیں؟"
ہادی گھر آیا تو ہر طرف کافی کافی سناٹا تھا۔ "وہ تو رات ہی کہیں نکل گئے تھے۔ واپس نہیں آئے"
صبح ہو چکی تھی اور مراد بہلول نہ جانے کہاں جا کر چھپ گیا تھا۔ ہادی کے چہرے کے رنگ بدلے۔
"ناشتہ لگا دوں سر؟"
ملازم نے پوچھا مگر ہادی نفی میں سر ہلاتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ زالے کا روم کھول کر دیکھا تو وہ سوئی ہوئی ملی، دروازہ بند کر کے کنزا کے روم کی طرف چلا گیا۔ کنزا شاید پہلے ہی جاگی ہوئی تھیں۔ آہٹ پر آنکھیں کھول لیں۔ ہادی کوٹ اتار کر انکے پاس بیٹھ گیا۔
"آج تو فریش لگ رہی ہیں آپ"
وہ کنزا کا کھلا چہرہ دیکھ کر مطمئین ہوا۔ وہ مسکرا دیں۔
"آج دل خوش سا ہے۔ لگتا ہے سب بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا"
کنزا نے اٹھتے ہوئے کہا تو ہادی نے انکا تکیہ درست کیا اور انکو ٹیک لگوا دی۔ کمزوری کافی تھی۔
"ان شاء اللہ، آپ نے ناشتہ کیا؟"
وہ اب رسان سے پوچھ رہا تھا۔
"ہاں۔ ابھی کیا ہے"
وہ جواب دیتے شفقت سے بولیں۔
"آپکے شوہر کے اریسٹ وارنٹ تیار ہو گئے ہیں" ہادی نے نہ چاہتے ہوئے بھی بتا دیا۔ کنزا ایک دم سنجیدہ ہو گئیں۔
"وہ اسی قابل ہے"
وہ غصہ لیے بولیں۔
"میں سوچتا ہوں ہم جیسوں کے امتحان اتنے سخت کیوں ہوتے ہیں۔ کہ ایک بیٹا ہو کر ہمیں اپنے باپ تک کا احتساب کرنا پڑتا ہے"
وہ اداس سا تھا۔۔ کنزا نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور چوما۔
"جانتی ہوں تم بے حس نہیں ہو ہادی۔ یہ سب تمہارے لیے مشکل ہوگا۔ وہ تمہیں اپنی اولاد نہ سمجھیں لیکن میں جانتی ہوں میرے بچے کبھی بھی بے ادب نہیں ہو سکتے۔ جب بات وطن سے وفاداری کی آتی ہے تو سب کر گزرنا چاہیے۔ تم سمجھ رہے ہو ناں؟"
وہ اسکا اداس چہرہ دیکھ نہ سکیں۔
"جی۔ میں اس بار کمزور نہیں پڑنا چاہتا۔میں انکو سزا دلوانا چاہتا ہوں، آپ دعا کریں گی ناں"
وہ کنزا کو بلکل چھوٹا سا بچہ لگا۔
"ضرور کروں گی۔ میری ساری دعائیں اب تمہارے اور زالے کے لیے ہیں"
وہ اسکا چہرہ تکتیں بولیں۔
"اور ان کے لیے؟"
وہ سنجیدہ مگر اداس تھا۔
"تھوڑی سی کہ اب بھی اللہ انھیں ہدایت دے"
وہ بھی اداس تھیں۔۔ کیا کرتیں۔۔ آخر انکے سر کا تاج تھا۔بھلے وہ انھیں آج تک اپنی پاوں کی جوتی سمجھتا آیا تھا مگر وہ پتھر نہیں بن سکتی تھیں۔
"مما"
وہ جذباتی ہوئے انھیں بازوں کے حصار میں لے چکا تھا اور وہ اذیت سے مسکرا دیں۔
"کیا ہوا ہے میری پرنسس آج چپ چپ ہے؟" وجدان گھر آ چکا تھا،جب سے وہ آیا تب سے رباب اسکے کندھے سے لگی چپ چاپ گم صم سی بیٹھی وجدان کو تشویش میں مبتلا کر رہی تھی۔
"بس ایسے ہی"
وجدان نے فون سے نظر ہٹا کر اسے دیکھا جس کے منہ پر بارہ بجے تھے،وہ اس سب واقعے سے خاصی ڈسٹرب لگ رہی تھی۔
"جو گزر گیا اسے بھول جاو۔"
وہ اسے محبت سے سمجھاتے بولا تھا۔
"بھیا وہ سب بہت برا تھا،سوچیں اگر ہنا کو کچھ ہو جاتا؟"
رباب کی آنکھوں میں یہ خدشہ بتاتے نمی کی پرت سی ابھری،وجدان نے گھبرا کر اسے خود سے لگا لیا۔
"نہیں ہوا ناں،تم اپنی پیاری سی صورت اداس کرنا بند کرو۔دیکھو بھیا پریشان ہو جائیں گے"
وہ اسے ہلکے پھلکے انداز میں دلاسا دیتے زرا قائل کر رہا تھا۔
"نہیں، آپ نہ ہوں پریشان،بھیا مجھے ڈر لگ رہا ہے"
وہ اپنی کیفیت چھپا نہیں سکتی تھی،ہاں وجدان بس اس ڈر کے آگے کمزور پرتا تھا،وہ بہن سے زیادہ بیٹی تھی اور اسکے پروں کا سایہ یقینا ناکافی تھا تبھئ یہ ڈر رباب کو گھیر رہے تھے۔
"بھیا کے ہوتے میری پرنسس کو ڈر لگ رہا ہے؟" وہ اسکا چہرہ اوپر کرتے لاڈ سے پوچھ رہا تھا۔
"بھیا!"
وہ روہانسی ہوئی۔
"میں جانتا ہوں میں ہر وقت اپنی گڑیا کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔لیکن اتنا یقین رکھو، جب تک تمہارے بھیا ہیں تب تک تم کو آنچ بھی نہیں آئے گی۔پھر کیوں ڈر رہی ہو؟"
وہ اسکی گال کھینچے بولا تو وہ ہلکی سے مسکرائی یہ سچ میں دنیا جہاں سے بڑا دلاسا تھا۔
"اپنے لیے نہیں ڈرتی بھیا
وہ سر جھکائے لب کاٹتے بولی تو وجدان نے ایک حیران نظر اسے دیکھا اور سیدھا ہو کر بیٹھا،ہاں وہ حیرت اب قدرے خوشگوار ہو گئی تھی۔
"آہاں!مطلب میری گڑیا بہادر ہو گئی ہے"
وہ اسکا موڈ بہتر کرنے کے لیے شریر ہوئے بولا تھا۔
"بھیا!مجھے بہادر نہیں بننا"
وجدان نے مسکراتے ہوئے اسکا ماتھا چوما۔
"پگلی نہ ہو تو، یہ سب باتیں سوچنے کے لیے میں ہوں ابھی۔تم بس ہنستی رہا کرو۔ سچ میں تم جب ایسے منہ بنا لیتی ہو تو تمہارے بھیا کی دنیا ہی گم صم ہو جاتی ہے"
وہ معصومیت سے شکوہ کرے اپنے اندر کی حالت بتا رہا تھا اور وہ اپنے بھیا پر قربان جا رہی تھی،کتنی بڑی نعمت تھا وہ رباب کے لیے۔
"میرے پیارے بھیا!"
وہ ہنستی ہوئی پھر سے وجدان کی بازو سے لگ گئی، وہ بھی کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد مسکرا دیا۔لیکن رباب کے ڈر اسے اندر تک ہلا کر رکھ گئے تھے۔
.._____________________..
وجدان اپنی ٹیم جس میں رفیق اور عادل کے علاوہ دو اور لوگ شامل تھے، شام کو مراد بہلول کے گھر پہنچ چکا تھا۔ یہاں آنے سے پہلے ہی ہادی نے انکو مراد بہلول کے گھر نہ ہونے کی اطلاع دے دی تھی مگر وہ شام ہونے کے باوجود نہیں لوٹا تھا۔
"ہمم!میں نے تمام اداروں کو الرٹ کر دیا ہے۔اگر انھیں کہیں بھی مراد بہلول نظر آئے وہ ہمیں انفارم کر دیں گے"
وہ سب ہادی کے گھر کے لان میں جمع تھے جہاں اب کنزا بھی آ چکی تھیں،زالے انھیں خود اپنا سہارہ دیے لا رہی تھی،سب انسپکٹرز نے بروقت ان ماں بیٹی کو آتے دیکھا۔
"آپ کو زحمت دی آنٹی،کیسی طبعیت ہے آپکی؟" وجدان نے آگے بڑھ کر انکا ہاتھ پکڑا اور انھیں آہستگی سے آرام دہ کرسی پر بٹھایا،ہادی اور عادل اپنے اپنے فون پر کسی نہ کسی کال پر بزی تھے۔ زالے نے ایک آزردہ نظر وجدان کو دیکھا مگر وجدان اسکی طرف متوجہ نہیں تھا،اسکی توجہ کنزا صاحبہ پر تھی۔۔
"اب تو کافی بہتر ہوں بچے،اللہ کا شکر ہے"
وہ کافی بہتر لگ رہی تھیں،کہنے کی حد تک نہیں تھا،وجدان نے اثبات میں سر کو جنبش دی جبکہ زالے کی نظریں اب بھی اس شخص پر بار بار جا کر ٹھہر رہی تھیں۔
"اللہ آپ کو صحت دے۔یقینا یہ مشکل وقت ہے،میں سمجھ سکتا ہوں لیکن آپ جانتی ہیں مراد بہلول کے خلاف ہمارے پاس ٹھوس ثبوت کے علاوہ اریسٹ وارنٹ بھی آ چکا ہے"
زالے اس سب معاملے سے اب واقف ہوئی تھی،ہاں اسکے شک اپنی جگہ پر شک کا یقین میں بدلنا ہر بیٹی کے لیے ہی ایک سا دردناک ہوتا ہے۔
"کیا کیا ہے ڈیڈ نے؟ تم ایکسپلین کرنا پسند کرو گے؟"
وجدان کو اس لڑکی بدلحاظ ٹون سے لگا پرانی باپ کی حمایتی زالے دوبارہ واپس آچکی ہے،ہادی نے مڑ کر پیچھے ان کی طرف دیکھا کہیں دونوں لڑ نہ پڑیں،کیونکہ وجدان کو یہ تو تم ابھی ناگوار گزری۔
"ایک لمبی لسٹ ہے،یقینا آپ ناواقف ہیں۔ہمارے آفیسر کے والد کو بلیک میل کرنے اور انکی بیٹی کو اغوا کرنے کا تازہ جرم کیا ہے آپ کے والد محترم نے،باقی رہی پرانے جرائم کی بات تو فی الحال آپکی معلومات کے لیے یہی بہت ہے"
وہ انتہا کی سنجیدگی لیے سپاٹ لہجے میں بولا تھا،چہرے پر ناگواری کے سوا سرد لہر چپساں تھی۔
زالے کی سنجیدگی اس سے کئی گنا زیادہ تھی اور ناگواری میں تو ثانی دوم نہ رہا۔
"ثبوت دیکھاو مجھے"
وہ ابھی بھی باپ سے مکمل بدظن نہیں تھی،شاید ثبوت ہی تابوت میں لگا آخری کیل ثابت ہوتا۔
"ٹھیک ہے،کل آفس آ جائیے گا"
وہ حتمی انداز میں کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا،عادل اور ہادی بھی تب تک کچھ اہم کالز کرے وہیں آ چکے تھے۔
"آنٹی اب ہم چلتے ہیں،یقینا آپ اس سارے معاملے میں ہمارا بھرپور ساتھ دیں گی"
وجدان نے دھیمے لہجے سے امید لیے کہا تو کنزا نے جبرا سا سر ہلایا۔
"میں تم بچوں کے ساتھ ہوں، میں سچ کے ساتھ ہوں"
کنزا کی بات پر زالے نے حیران ہو کر ماں کو دیکھا،وجدان اسکے تاثرات دیکھ کر بے زار ہو رہا تھا۔
"بہت شکریہ،اجازت"
جھک کر گاڑی کی چابی فون اور فائیل اٹھائے وہ واپس اٹھا،زالے کی سمجھ اسے آج بھی نہیں آئی تھی،وہ تو جیسے اب غصے میں پھنکار رہی تھی۔
"آپ بنا کسی ثبوت کے ان کی ہاں میں ہاں کیسے ملا رہی تھیں مام؟"
ہادی نے جاتے جاتے سنا اور انکو" آتا ہوں"کہہ کر پیچھے مڑا،کنزا کن پٹی سہلاتے،زالے کے گھن گرج رکھتے سوال پر گہرا سانس کھینچ رہی تھیں جب ہادی ان دو کے پاس جا کر رکا۔
"ثبوت تمہیں دیکھا دیں گے زالے،تمہیں کہا ہے ناں تم کل آفس آ جانا"
ہادی کی وہی دہرائی بات اسے زہر لگی۔
"ہمم!جو بھی ہے۔ڈیڈ ایسا گھٹیا کام نہیں کر سکتے"
وہ لال آنکھیں کیے شاید خود کو تسلی دے رہی تھی،جبکہ کنزا اور ہادی کو ابھی سے تکلیف محسوس ہوئی جب زالے کا یہ بھروسہ چکنا چور ہوتا۔
"یاد کرو،انہوں نے تمہیں تک بیچ ڈالا تھا، تم کسی ایسے شخص سے اچھے کی امید کیسے رکھ سکتی ہو؟"
ہادی کو اب زالے پر غصہ آیا کہ وہ کیسے سب دیکھتے اور جانتے بھی باپ کی سائیڈ کھڑی ہے پر وہ نہیں سمجھ سکتے تھے وہ ایک بیٹی بھی تھی، کنزا دونوں کی بخث چپ چاپ دکھی ہو کر سن رہی تھیں۔
"وہ شخص ہمارا باپ ہے بھائی"
وہ چلائی تھی۔
"وہ ایک مجرم ہیں، زالے خود کو اس جھوٹ سے باہر نکالو میری جان،وہ بھٹکے ہوئے ہیں۔خدارا تم درست اور غلط کی پہچان کرو"
وہ اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے تاسف سے اسے کام ڈاون کرتے بولا مگر زالے کی آنکھیں خوفناک حد تک لال ہو رہئ تھیں۔
"نہیں۔جب تک میں انکی زبان سے نہیں سنوں گی میں یقین نہیں کر سکتی۔سمجھے آپ"
وہ شدید غصے و اذیت سے کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔ ہادی اور کنزا کے چہروں پر فکر مندی نمایاں تھی،بلکہ تشویش و پریشانی کہنا زیادہ مناسب تھا۔
.._____________________..
"دیکھو!میں چاہتا ہوں تم میری آج رات کی ہی فلائٹ کروا دو"
مراد بہلول سر صوفے سے ٹکائے اپنے وکیل سے مخاطب تھا،جو اب کسی سوچ میں غرق تھا۔
"لیکن سر!"
وہ منمنایا مگر مراد بہلول کی وحشت سے بھری آنکھیں دیکھ کر چپ ہو گیا۔
"لیکن ویکن کچھ نہیں۔ یہ آفیسرز تو میری جان کو آ گئے ہیں۔کاش میرے بس میں ہوتا تو میں سب سے پہلے اس عبداللہ وجدان کا خاتمہ کرتا" وہ آنکھوں میں حقارت لیے قدرے تنفر سے بولا تھا۔
"سر وہ لوگ اس وقت بہت پاور فل ہیں۔ان کے پاس ہمارے خلاف سب ثبوت موجود ہیں۔سمی اور فارس بھی انکی تحویل میں ہیں"
وکیل کو خود اپنی گردن تنگ ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔
"ہمم!یہ لوگ مجھے برباد کر دیں گے۔ناجانے یہ سب ثبوت ان تک کیسے پہنچ؟"
وہ ماتھے پر ہاتھ رکھے ابھری درد کرتی رگ مسلتا افسوس میں گویا ہوا۔
"سر آپ حوصلہ رکھیں"
اس ایک سی بیکار بات پر مراد بہلول طیش میں آچکا تھا۔
"لعنت ہو، سب کے سب چوہے پال رکھے تھے۔۔۔ دل تو چاہتا ہے سبکو زمین میں گاڑ دوں اور تم! تم بھی کسی کام کے نہیں ہو"
وکیل ایسی اہانت پر منہ بنا چکا تھا۔
"مراد سر!ایک موقع تو دیں"
وہ تاسف سے منمنایا۔
"میرے ہاتھوں مر نہ جانا۔جو کہا ہے وہ کرو۔۔ مجھے نکالو یہاں سے۔ میں جیل جانا افورڈ نہیں کر سکتا،میرا سارا بنا بنائا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔"
وہ اب باقاعدہ دھاڑا تھا۔
"لیکن سر وہ لوگ اس وقت ایکٹیو ہیں۔اس وقت آپکا ملک سے نکلنا میرے خیال میں ناممکن ہے"
وہ اسے رائے دیتا زہر لگا تھا۔
"بنا کوشش کیے زبان مت چلاو۔ دفع ہو جاو"
مراد بہلول نے ٹیبل پر پڑا گلدان زمین بوس کرتے قدرے چینخ کر کہا، وکیل اپنی خیر مناتا ہوا حکم کی تعمیل کے لیے نکل گیا۔وہ اپنے ہی ایک فارم ہاوس میں چھپ کے بیٹھا تھا مگر اسکی بے چینی اور پریشانی بہت بڑھ چکی تھی۔برے کام کیے ہوں تو بھلا سکون کیونکر نصیب ہو۔ ایسوں کا مقدر بے سکونی ہی ہوتی ہے۔مراد بہلول نے اپنا نمبر تک بند کر رکھا تھا، زالے نے کئی بار نمبر ملایا مگر مسلسل بند آنے پر اس نے فون دیوار سے دے مارا،ایسی اذیت و بے بسی کہ اسکا دل اپنے بال نوچنے کو چاہ رہا تھا۔
..______________________..
ہادی،عادل اور وجدان رات آفس میں ہی رکے تھے۔ وہ تمام حفیہ اداروں سے آنے والی معلومات پر نظر رکھے ہوئے تھے۔صبح فجر کی نماز پڑھنے کے بعد وجدان وہیں کرسی پر ہی بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔ جبکہ عادل،رفیق کو نا اٹھانے کی ہدایت دے کر ارسلان سر کے دفتر کے لیے نکلا ہوا تھا۔انہوں نے ریکارڈنگ کی کاپی منگوائی تھی۔ہادی کو رفیق نے ناشتہ لا کر دیا تھا اور وہ وہی کر رہا تھا۔ ہادی نے کرسی پر بڑے مزے سے سوئے وجدان کو ایک نظر دیکھا اور مسکرا دیا۔وہ ناشتہ ہی کر رہا تھا جب فون بجا،وجدان کی نیند میں خلل ڈلنے کے ڈر سے اس نے فورا پہلی ہی بیل پر فون اٹھا لیا۔ "جی انویسٹیگیشن ڈیپارٹمنٹ؟"
ہادی نے ہلکی آواز میں کہا اور ناجانے دوسری طرف کیا کہا گیا کہ ہادی کے چہرے پر غائبانہ خفگی ابھر آئی۔
"تھینک یو سو مچ"
ہادی نے فون رکھا ہی تھا کہ عادل واپس آگیا۔
"واہ جی! بھائی کی نیندیں تو دیکھیں"
وہ وجدان کو دیکھتے مسکرایا مگر اگلے ہی لمحے ہادی کا الجھا چہرہ دیکھ کر سنجیدہ ہوا۔
"کیا ہوا؟"
عادل نے پوچھا۔
"وہ ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں،ہمیں جانا ہوگا عادل۔ تم رفیق کو کہو ٹیم تیار کرے"
عادل نے اسے دیکھتے ہوئے سر ہلایا اور وجدان کی سمت بڑھا مگر اس نے روک دیا۔
"اسے سونے دو، یہاں بھی کسی کا ہونا ضروری ہے۔ریڈی ہو جاو"
عادل نے فرمابرداری سے سر ہلایا اور اپنی گن لیے باہر نکل گیا۔
"وجدان اٹھے تو اسے ساری صورت حال بتا دینا۔ باقی اگے پیچھے نظر رکھنا"
ہادی چاروں سول اہل کاروں کو ہدایت دیتا بولا،گن لی اور باہر نکل گیا۔جلد ہی وہ سب ٹیم ریڈی کر کے ڈیپارٹمنٹ سے بھی نکل چکے تھے۔یہاں انکی گاڑی آفس کے مین گیڈ سے نکلی وہیں کچھ دیر بعد ایک دوسری کار اندر آئی،فل سیکورٹی کے بعد اسے انٹر ہونے دیا گیا تھا۔آخر کار وہ باپ کے بارے اکھٹے کیے گئے ثبوت دیکھنے صبح صبح ہی آ چکی تھی۔گاڑی سے نکلتے ہی ایک وردی میں ملبوس اہل کار اسے لیے مین آفس کی طرف روانہ ہو گیا۔
..______________________..
وہ سب ائیر پورٹ کی جانب نکل چکے تھے۔خبر بلکل پکی تھی۔ٹریول ایجنسی نے انھیں مراد بہلول کے لیے بک کروائی جانے والی سیٹ کا بتا دیا تھا۔ مراد بہلول کی جہاں سوچ ختم تھی وہیں ان آفیسرز کی شروع ہوتی تھی۔ہادی کے لیے یہ وقت کسی آزمائش سے کم نہ تھا۔لیکن وہ پر عزم تھا۔اس بار وہ کسی قسم کی غلطی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔وہ لوگ جب تک پہنچے تمام مسافر اندر انٹر ہو چکے تھے۔ہادی رفیق کے ہمراہ اندر گیا۔
"تم وہاں دیکھو"
ہادی نے دونوں طرف نظر دوڑاتے ہوئے رفیق کو ہدایت دی، دو جگہ سے مسافر اپنی اپنی فلائیٹ کی جانب رواں تھے۔
"سر آپکا مطلوبہ آدمی!"
وہ وہاں کی سیکورٹی کا آدمی تھا جو ہادی سے مخاطب تھا۔
ہادی نے اسکے اشارے کی سمت دیکھا جہاں مراد بہلول بڑی اجلت میں ریسیپشن پر کھڑا کسی بحث میں مبتلا تھا۔
"تھینک یو"
ہادی نے اسے کہتے ہوئے رفیق کو اشارہ کیا اور وہ دونوں مراد بہلول کی سمت بڑھ گئے۔
"آپ پہلے نہیں بتا سکتی تھیں کہ فلائیٹ لیٹ ہے"
وہ بڑے غصے میں ریسیپشن پر کھڑا بول رہا تھا جب اسکے کندھے پر کسی نے اپنا ہاتھ رکھا۔
"یہ فلائیٹ تو لیٹ ہے،جیل والی ریڈی ہے"
وہ جیسے ہی مڑا اسکے چہرے پر پسینہ چھوٹ گیا،سامنے ہادی اور رفیق کھڑے تھے۔
"لعنت ہو تم پر"
بہلول زیر لب بڑبرایا،رفیق نے افسوس سے اسکی جانب دیکھا جبکہ ہادی کی آنکھوں میں اس وقت ایک الگ سی چمک تھی۔
"آپ عزت سے جانا پسند کریں گے کہ عزت کا جنازہ آپکو زیادہ سوٹ کرے گا؟"
بہلول کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ہادی کو زمین میں گاڑ دے۔ رفیق نے آگے بڑھ کر مراد بہلول کے دونوں ہاتھ پیچھے کیے اور ہتھکڑی لگا دی۔ "میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا ہادی"
وہ نفرت سے اسکی آنکھوں میں جھانکتا ہوا چلایا۔
"ہمممم۔کر لیجئے گا شوق پورا،لے چلو رفیق"
رفیق نے اپنی مضبوط گرفت سے مراد بہلول کو دھکیلا اور آگے بڑھ گیا۔ہادی بھی مرے مرے قدموں سے پیچھے کو چل دیا،کچھ بھی تھا۔یہ سب اسکے لیے بہت مشکل تھا۔باپ بچوں کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں لیکن مراد بہلول شاید صرف باعث شرمندگی تھا۔ناجانے کیوں وہ دو قدم پیچھے چل رہا تھا،شاید وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپانا چاہتا تھا۔گاڑی تک آتے آتے اس نے خود کو نارمل کر لیا تھا۔مراد بہلول نے گاڑی کے پاس کھڑے عادل کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا لیکن وہ اسکی آنکھیں بند کرنے سے رہے،رفیق کو مراد بہلول کے ساتھ بیٹھائے خود عادل اور ہادی آگے آ گئے۔
"آر یو اوکے؟"
عادل نے ہادی کے کندھے کو چھوتے کہا جس پر اس نے بس ہلکا سا سر ہلا دیا لیکن یہ تو عادل بھی جانتا تھا کہ وہ بیٹا ہرگز ٹھیک نہیں ہے۔
.._______________________..
"میم ہادی سر آفس میں نہیں ہیں۔وجدان سر ہیں"
اہل کار کے زالے کو تفصیل سے آگاہ کرتے بتایا،جو پلٹ کر وجدان کا نام سن کر اخیر سنجیدہ ہو چکی تھی۔آفیسر اسے روم کی طرف اشارہ کیے مڑ گیا تھا،وہ ہلکے سے دروازہ کھولے اندر چلی گئی۔ وہ ابھی تک سویا ہوا تھا، زالے کو لگا جیسے وہ اس شخص کو دیکھ کر پھر ساکن ہو گئی ہے۔ وہ دنیا جہاں سے لاتعلق سا کتنے آرام سے سو رہا تھا،باقی دونوں میز خالی تھیں مگر وجدان کے سامنے والی میز بہت سی فائلز اور لیپ ٹاپ سے فل تھی اور وہ کرسی سے ٹیک لگائے ناجانے کونسے خواب دیکھ رہا تھا۔کتنی ہی دیر وہ بنا آہٹ کیے اسے دیکھتی رہی، شاید وہ لمحے اور وہ وقت سٹل سا ہو گیا تھا۔
"عبداللہ!"
وہ بہت مدھم آواز میں بولی،اتنی کہ اسے خود بھی بمشکل اپنی آواز سنائی دی۔وہ ناجانے کیوں اسے جگانا نہیں چاہتی تھی، وہ تو وقت کا یہ ٹھہرا لمحہ جینا چاہتی تھی، اپنے دل کا ہر گوشہ تو وہ پہلے ہی اسکے نام کر بیٹھی تھی مگر وہ بھی عبداللہ وجدان تھا۔آہٹ پر جاگ جانے والا پھر آہٹ کرنے والی وہ خاص لڑکی ہو تو کیسے وہ محترم سوئے رہتے،وہ کسمسا کر جاگا،جیسے اس لڑکی نے سرگوشی میں نہیں بلکہ چینخ کر اسے پکارا ہو،درد و خزن سے اسکی ضرورت محسوس کرتے بلایا ہو،وہ جاگ کر کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر جب محسوس ہوا یہ حقیقت ہے تو ٹیک چھوڑے سیدھا ہوا،خفیف سی حیرت و سنجیدگی لیے جو بوکھلاہٹ بھئ کہلا سکتی تھی۔
"آپ؟"
وہ اپنی آنکھیں کھولے پکارا تو وہ جو یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی ایک دم نظروں کا لمس توڑا۔
"تم کہو ناں۔یہ تمہارا آپ مجھے ہضم نہیں ہوتا عبداللہ"
وہ جان لیوا سی بے بس گزراش تھی۔
"ہمم!عزت دینا میرا فرض ہے۔ آپکو ہضم ہونا نہ ہونا میرا مسئلہ نہیں"
کمال کی بے مروتی لیے وہ اسکے کل کے رویے پر خفا سا بولا تھا۔
"عبداللہ تم بہت نیک بنتے ہو، ایک بات پوچھوں" وجدان سمجھ نہ پایا کہ وہ اس پر طنز کر رہی ہے یا صرف ایک عام بات کہہ رہی ہے کیونکہ وجدان کو اسکا لہجہ عجیب تاریک محسوس ہوا۔
"آپ کو کس نے کہہ دیا میں نیک ہوں۔آپ اس فکر میں ہلکان مت ہوا کریں"
وہ زالے کو لاجواب کرتا جا رہا تھا،ہنوز بیٹھا تھا اور وہ کھڑی تھی۔
"تم نے قسم اٹھائی ہے کہ زالے مراد کی کسی بات کا ٹھیک جواب نہیں دینا؟"
وہ آنکھوں میں شکوہ و خفگی لا چکی تھی،۔ وجدان جو ٹیک لگا چکا تھا پھر سیدھا ہوا اور اسکی آنکھوں میں جھانکا۔
"فسٹ آف آل میں یہ تم،تو کی زبان پسند نہیں کرتا۔دوسرا میرے نیک ہونے نہ ہونے کا علم رب کو ہے۔ اسکے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں ہوں اور ہاں میں نے صرف اک دوست کا مان رکھنے کی قسم اٹھائی ہے"
وہ ناقابل بیان حد تک سنجیدہ تھا،لفظوں لفظوں میں بہت کچھ جتا گیا تھا۔
"رکھا تو نہیں مان"
وہ اس سے زیادہ سنجیدہ تھی،اداس ہوئی۔
"رکھنا تو پڑھے گا"
وہ ہلکے انداز میں مجبور بنتے بولا۔
"کب؟"
کیا دلسوز حسرت تھی۔
"تب جب آپ مجھے کوئی توپ چیز سمجھنا چھوڑ دیں گی"
وہ اسکی بات پر دھیما زا مسکرائی تھی۔
"عبداللہ کسی بے بس کی مدد کرنا نیکی ہوتی ہے ناں؟"
وہ اپنا پہلے والا سوال پوچھتے بولی۔
"ہاں لیکن خوامخواہ کے بے بس کی نہیں"
وہ کتنا ظالم تھا،کیسے منہ پر سچ اگل دیتا تھا،زالے تو دل وجان سے فدا ہوئی۔
"تم صرف میرے ہو"
کمال کی دیدہ دلیری و بے باکی تھی۔
"میں اپنا بھی نہیں ہوں"
کمال کی بے مروتی تھی،کیونکہ سچ ہی تھا،وہ عبداللہ وجدان تھا،وہ سب کا تھا،کسی ایک کا نہیں نہ اپنا۔
"کیا تم پہلی اور آخری بار اس خوامخواہ کے بے بس کی مدد کر سکتے ہو؟"
وجدان نے آج پہلی بار اسکی آنکھوں میں تڑپ دیکھی،وہ تڑپ عبداللہ وجدان کے نام کی تھی۔
"ضرور کروں گا، لیکن پہلے بھی کہا تھا۔ یہ ایک مشکل عمل ہے۔اگر تیاری ہے آپکی تو میں مدد کے لیے تیار ہوں"
وہ اب اسکے آپ کہنے پر تنگ آچکی تھی۔
"پلیز مجھے آپ نہ کہو"
وہ اکتائی بولی۔
"تم کا ابھی وقت نہیں آیا"
وہ کمال سنجیدگی لیے بولا تھا،اسکی آنکھیں جادوگرانہ آسیب پھونکتی تھیں۔
"میں چاہتی ہوں وقت آجائے"
وہ بھی سنجیدہ ہوئی۔
"میں آپکے فیصلوں پر چلنے کا پابند نہیں مس زالے مراد!"
کیا اجنبی پن تھا،لاتعلقی تھی۔زالے کا تو دل ہی جل گیا۔
"ایسے مت کرو"
وہ اسے وارن کرنے کے انداز میں بولی لیکن تاسف بھی لہجے سے چھلکا۔
"مجھے ڈر ہے آپ مجھے گمراہ کر دیں گی"
وہ اسکے خطرناک تیور پھانپتے بولا تو مقابل ہنسی ابھری،ہاں وہ ہنستی ہوئی باکمال لگی۔
"تم عبداللہ ہو، گمراہ نہیں ہو گے۔گمراہوں کو راستہ دیکھانا ہے تمہیں"
وہ دلکش انداز میں بولی،بلا کا یقین لیے۔
"آپ کی اس ہنسی کا تقاضا ہے کہ نکاح بہتر حل ہے۔گو میں آپکی ہر ممکنہ مدد کی کوشش کروں گا مگر"
وہ رکا اور دوسری طرف جیسے زالے مراد کا دل رک گیا۔
"عبداللہ مجھ سے دور مت رہنا"
وہ کیسے اسکی باتیں جان لیتی تھی،اسے جگر نوچتی حیرت ہوئی۔
"زالے مراد! یہ بعد میں طے ہوگا،فی الحال آپ یہ سوچیں کہ اس سفر پر چلنے کا پہلا امتحان کیا ہوگا۔"
وہ کھڑکی سے باہر مراد بہلول کو دیکھ چکا تھا،وہی تو پہلا امتحان تھا اور وجدان کے چہرے پر فاتحانہ خوشی ابھری تھی۔وجدان مسکراتا ہوا اٹھا اور زالے کو ششدر چھوڑتا باہر نکل گیا جبکہ وہ بھی میکانکی انداز میں اسکے پیچھے پیچھے باہر چلی گئی۔
"اوہ ویلکم ویلکم! دیکھیے تو کون آیا ہے"
وجدان کا مستیلا و شر انگیز انداز دیکھ کر ان دونوں چہروں پر غصہ و غضب ابھرا، وہ باہر آئی تو اپنے باپ کو انکی گرفت میں دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئی۔
"تم لوگوں نے میرے ڈیڈ کو کیوں پکڑا۔عبداللہ اسے کہو ہتھکری کھولے"
وہ آنکھوں میں شعلے لیے چلائی تھی،جبکہ بہلول کا منہ ہی بند کیا جا چکا تھا، ہاں آگ وہاں بھی برابر تھی۔
"یہ ایک مجرم ہے،مجرم کی سائیڈ لینے والے کے لیے بھی ایک عدد سزا ہے"
وہ اسے مست نگاہوں سے نہارتا جتاتے بولا تھا،زالے نے کھا جانے والی نظروں سے وجدان کو دیکھا۔
"ڈیڈ آپ پریشان نہ ہوں۔میں آپکو یہاں سے نکلوا لوں گی"
وہ آگے بڑھ کر اپنے بے حس باپ کو تسلی دیتی ہوئی وجدان کو زہر لگی،وہ جبڑے بھینچ کر رہ گیا کہ بس نہ چلا اسے اس آدمی سے دور کر دیتا۔
"رفیق!میڈم صاحبہ کو آفس لے جاو اور انکو کچھ اہم فائیلز دیکھاو"
وجدان کو تمام تر تفصیل بتا دی گئی تھی۔وجدان کے آرڈر پر رفیق فرمابرداری سے سر ہلا چکا تھا،المختصر وجدان کو زالے کی یہاں موجودگی قطع قبول نہ تھی تبھی اسے بھجھوا رہا تھا۔
"اگر تم لوگوں نے بلا وجہ ڈیڈ کو یہاں لایا ہوا تو یاد رکھنا بہت برا ہوگا"
وہ وجدان کی آنکھوں میں جھانک کر دھکماتی ٹون سے بولی۔
"آپ تو پہلے امتحان پر ہی اٹک گئیں،دوری بڑھتی جائے گی"
وہ اسکی آنکھوں میں موجود خفگی دیکھ کر لطف اندوز ہوا تھا جبکہ دھمکی تو زالے کی کمزوری پر دی جس پر اس لڑکی کا خون کھول اٹھا۔
"میں تمہاری جان لے لوں گی عبداللہ"
وہ سب کے سامنے اسے دھمکی دے رہی تھی۔ لیکن وہ کس بات پر تھی یہ بس وہ دونوں ہی جانتے تھے۔وہ آج اسے ستا ستا کر مارنے والا تھا شاید۔ وہ پیر پٹہتی رفیق کے ہمراہ آفس کی طرف بڑھ گئی جبکہ ہادی ناجانے کہاں تھا۔اور عادل ابھی ہی گھر گیا تھا۔
"آہاں! لیجئے ہٹ گئی پٹی"
وجدان نے پھڑپھڑاتے بے بس مراد بہلول کو دیکھتے اسکے منہ سے ٹیپ ہٹائی تو وہ باقاعدہ ہنکار رہا تھا۔
"کیسے ہیں مراد صاحب؟"
بہلول کا تو بس چلتا اس پوری ٹیم کو غرق کر دیتا،وہ بس گہرے سانس کھینچ رہا تھا۔
"جواب بھی نہیں دینا کیا۔لگتا ہے ناراضگی چل رہی ہے،چلیں مبارکباد ہی دے دیں۔ کل میرا اور زالے کا نکاح ہے"
اب تو مراد بہلول تھا اور اسکے اندر کا طوفان،اسکے پورے وجود کو لگی آگ محفی نہ رہی جو وجدان لگا چکا تھا۔
"گھٹیا انسان!خبردار جو زالے کے لیے ایسا سوچا بھی۔زندہ دفن کر دوں گا تمہیں"
وہ آگ برساتا بولا،وجدان تو آج انکا ایسے ہی دم نکالنے والا تھا۔
"آپ سے تفشیش عادل اور ہادی کریں گے،میں آپکو منہ لگانا پسند نہیں کر رہا،اور بھئی آخر کار دلہا ہوں۔تیاری بھی تو کرنی ہے ناں"
وہ اسے ذہنی ٹارچر دے کر لطف اندوز ہو رہا تھا، یعنی مراد بہلول سے اسکا آخری سہارا زالے مراد بھی چھیننے والا تھا وہ۔وجدان کے اگلے سخت اشارے پر تین اہل کار مراد بہلول کو زبردستی گھسیٹتے ہوئے لاکر رومز کی طرف لے گئے، اور وہ خود تمسخرانہ مسکراتا ہوا اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا،جبکہ کچھ لمحے تک بہلول کی بکواسیات سب نے سنی پھر اسکا منہ واپس بند کر دیا گیا۔
"تم ہی میری عادی نہیں ہوئی، میں بھی ہو رہا ہوں۔ تمہاری عادت کا شکار، جب تمہارے بارے میں سنا اس کیفیت کو نام نہیں دے سکتا لیکن یہ سچ ہے خود کو تم سے کوسوں دور پا کر بے بسی کی اخیر حد محسوس کی۔ واپس آکر تم نظر نہیں آئی تو میرا دل بہت بے قرار ہو گیا تھا، جیسے تم دیکھائی دو گی تبھی بے چین دل سنبھلے گا۔"
وہ اسکی خوشبو میں کھویا آنکھیں بند کیے آج اپنا سچ کہہ رہا تھا، اور عشبہ کی آج بھی جان ہی جا رہی تھی، اسکے سینے میں عشبہ کے جبرا دبائے آنسو بھی اتر رہے تھے۔
"اگر تم مجھ سے کبھی دور چلی گئی تو میری زندگی خلاء بن جائے گی، جہاں سانس لینا بھی گھٹن کی دوسری شکل ہوگا۔ تمہارا تو نہیں پتا لیکن میں نے تمہیں بہت یاد کیا"
وہ اسکے سامنے آنے سے انکاری تھی پھر بھی عنان نے زبردستی یہ ستم ڈھاتے اسکو اپنے سامنے بازووں سے پکڑ کر لایا، فوری آنکھیں رگڑتی وہ منہ پھیرنے لگی مگر اس سے خود ہی نہ ہو سکا۔
"یو آر سپیشل فار می"
اسکی ٹھوڑی چومتے نرم سا اظہار کیا تاکہ وہ حوصلے میں واپس لوٹے، اسکے بھاری اعصابوں کا بوجھ اترے۔
"لیکن جتنے آپ میرے لیے ہیں میں اتنی سپیشل ن۔۔نہیں ہوں"
وہ کیا بولی یہ اہم نہیں رہا، وہ بولی تو سہی عنان کی اس وقت یہی خوشی تھا۔
نرمی سے اسکی نرم سانسوں کی مہک اپنے سینے کے پار تک اتارتے اسکے شکوے سنے، انداز میں بے حد نرماہٹ اور محبت تھی۔
"ہو جاو گی، وقت دو مجھے۔ میں جانتا ہوں میری محبت جب تمہیں ملے گی تم میری دی ساری تکلیفیں بھول جاو گی، لیکن یکدم میں اس ہجرت پر خود سے لڑ پڑوں گا۔ اپنا آپ منافق لگے گا کیونکہ میں ایک مہربان اور سمجھدار انسان نہیں، میں کچھ وقتی نہیں چاہتا ہمارے بیچ۔ میں نے پہلے ہی تمہارا حق کھایا ہے عشبہ، مزید ظلم نہیں کر سکتا۔ میں چاہتا ہوں تمہیں تب اپنی محبت کہوں جب سچ میں تم مجھے میری تمام تر چاہت کا مرکز بنی ہوئی مجھے محسوس ہونے لگو۔ تاکہ اپنی گواہی خود دینے کی ہمت ہو مجھ میں"
اسے اب کہاں اظہار چاہیے تھا، اسکی ساری حسرتیں تو عنان کے محبت سے سچائی تسلیم کرنے نے خود میں اتار لی تھیں، باخدا اب وہ آخری سانس تک بھی محبت میں کامیاب نہ ہوتا عشبہ کو پرواہ نہیں تھی۔
جاتے ہوئے عنان اپنی محبت چھپا گیا تھا لیکن آج چھپانے کے باوجود اظہار کر کے عشبہ کے دل کی ساری گھٹن ختم کر چکا تھا۔
اس لڑکی کی بھوری آنکھیں جس چمک کے ساتھ آج عنان کو دیکھ رہی تھیں، ایسی چمک چاند ستاروں کا مقدر ہوا کرتی ہے۔
"جب ہم سب نے اس سچائی پر پردے ڈال دیے تھے تو تمہیں کیا ضرورت تھی سب سچ کہنے کی، عشبہ تم سے دور ہو رہی ہے تمہاری وجہ سے"
وہ اس پر بگھڑی۔
"میرے دل پر بوجھ تھا ایمان"
وہ اسے بے بس لگا۔
"بوجھ اتارے جاتے ہیں، دوسروں کے کندھوں پر دگنے وزن سے لادے نہیں جاتے۔ تمہاری وجہ سے اپنی محبت کی جدائی برداشت کرنے والی ایمان اب تم دو کا اضافی ہجر بھی سہے گی ، شکریہ اس سزا کے لیے عنان ابراہیم"
وہ برحق تھی، تکلیف پر تکلیف سہتی نڈھال لڑکی جسکو اگر سلامت رکھے ہوئے تھا تو ماں بننے کا احساس۔
"ایمان! پلیز "
وہ منت کر اٹھا لیکن ایمان کے ہاتھ میں اس وقت کچھ نہیں تھا۔
"تم نے کہا تھا ساحر کا دلایا یقین ہمت دے گا، ٹھیک کہا تھا۔ میں تو ہمت کر لوں گی کیونکہ ساحر کی دھڑکن جب رکے گی تو ساتھ ایمان کی بھی رکے گی یہ طے ہے۔ لیکن مجھ سے عشبہ کا دکھ نہیں دیکھا جائے گا، تم آج بھی چار سال پہلے والے عنان نکلے، اذیت پسند۔ کچھ سچائیاں چھپانی پڑتی ہیں عنان، جب اللہ نے عیب ڈھانپ لیے ہوں تو شکر کرتے ہیں، ناشکری نہیں۔ وعدہ نبھاو اور ساحر کو واپس لے کر آو۔ یہ مدت کم سے کم ہوئی تو وعدہ ہے تمہاری عشبہ کو سنبھال لوں گی۔۔۔۔"
وہ دوست تھی تبھی رحم کھا رہی تھی، اس بار اس نے عنان کی آنکھ سے ٹپکتا آنسو انگلی کی پور پر سمیٹا اور پلٹی، دادو کے ہمراہ دیکھتے ہی دیکھتے عالم ہاوس کی حدود پار کر گئی۔
"اسے تم نہیں سنبھال سکتی ایمان یہ بھی طے ہے، تمہیں لگتا ہے میں ناشکرا ہوں لیکن میں بس جھوٹا نہیں ہوں۔ یہ اعتراف مجھ پر قرض تھے، معافی پانے کے لیے اقرار جرم تو کرنے پڑتے ہیں۔ میں ہر نقصان پر راضی ہوں پر عشبہ سے دستبرداری نہیں، میں تمہیں ضرور ڈھونڈ کر لاوں گا ساحر، قسم کھاتا ہوں"
عنان نے اپنی بھیگی آنکھیں فیصلہ کرتے ہی رگڑیں اور واپس اندر گیا۔
روحا تو رو رو کر نڈھال تھیں، ایدا ، عریشہ غم زدہ جبکہ زیان عالم کرب میں مبتلا۔
وہ آیا اور سب کے پاس آکر رکا۔
"کیا ملا یہ سب کر کے؟"
زیان عالم پھٹ پڑے۔
"دل کے اندر اٹھتا دھواں سرد ہو گیا ہے، اب میں ٹھیک سے راستے دیکھ سکوں گا۔ آپ سبکی بھیگی ہوئی آنکھیں ، جب تک رشک سے نہ بھر دوں منہ نہیں دیکھاوں گا۔ انتظار کیجئے گا"
سب کے دل کا درد منتشر کرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا جبکہ اس وقت کسی کا دل اسکی اس لایعنی تسلی پر بہل نہیں سکتا تھا۔
"کیا نام ہے اس آدمی کا؟"
ساحر نے گن ہٹا کر محتاط ہو کر جیکٹ کی اندرونی جیب میں گھساتے پوچھا۔
"عنان ابراہیم"
ساحر نے اسکا جواب سنے نرم سی مسکراہٹ دی۔
"وہ Koh Khram Yai میں ہے؟"
ساحر کو کسی شناسا کی خبر نے خوشی دی۔
"ہاں میرے ساتھ چلو"
فیڈک گڑگڑایا۔
"اوکے کھا پی لو تم"
ساحر نے نرمی سے کہا جس پر فیڈک نے سکون سے پیٹ پوجا کی جبکہ اسکے فوری بعد وہ کیفے سے نکل گئے۔
جب سے فیڈک کو اس نے چوبیس گھنٹے دیے تب سے وہ خود بھی پہلی فرصت میں جزیرے پر پہنچا ، ایک کلب گروپ کے ساتھ سکم بوڈنگ کے کھیل میں آتے ہی شمولیت لی سو وہ اسی کلب کے لوگوں کے ساتھ ہی اپنے ایکسپیرنئیس کو شئیر کر رہا تھا جب فیڈک اور ساحر بیچ سے کچھ فاصلے پر رک گئے۔
"یہ بینگاک سے واپس نہیں گیا؟"
ساحر کو اسے دیکھ کر فکر ہوئی۔
"پتا نہیں لیکن پچھلے کئی ماہ سے تو میری جان کو آیا ہوا یہ آدمی، اب تم جانو اور یہ۔ اور ہاں اسے کہہ دینا میری وڈیوز اب ضائع کر دے ورنہ پھر میں خود نیند کی گولیاں کھا لوں گا"
فیڈک تلملاتا ہوا وہاں سے جیسے گیا، ساحر روکتا ہی رہ گیا جبکہ خود ہی قدم بیچ کے کنارے کی سمت بڑھائے۔
"اوئے وحشی"
ساحر کے پکارنے پر عنان جو گروپ لیڈر کے ساتھ بات کر رہا تھا کرنٹ کھائے انداز میں پلٹا تو سامنے ساحر کو دیکھ کر اسکی چلتی زبان رکی۔
"میں وحشی، وحشی تم ہو۔۔۔ شرم نہیں آتی تمہیں بار بار گم ہوتے۔ کہاں تھے تم ساحر جبران خان"
عنان نے کسی کا لحاظ نہ کرتے ایک ہی جھٹکے سے ساحر کا گریبان دبووچا، جبکہ ساحر نے آس پاس کھڑے گھبرا جاتے لوگوں کو مطمئین سی مسکراہٹ سے تسلی دی اور اپنی طرف کاٹ کھاتی آنکھیں ڈال کر گھورتے عنان کو دیکھنے لگا۔
"لمبی کہانی ہے، یہاں سنانے لگا تو تمہاری ٹانگیں دکھ جائیں گی۔ کچھ ٹھنڈا پلاتا ہوں تمہیں آو"
اسکے ہاتھ نرمی سے گریبان سے ہٹائے اس نروٹھے جن کو بازو سے دبوچ کر کیفے لے کر پہنچا تو اب تک عنان اکڑا ہوا تھا، ساحر نے اسے پکڑ کر زبردستی بٹھایا اور مسکرا کر ویٹر کو دو ڈرنکس کے آرڈر کا اشارہ دیے کھولتی نظروں والے کے سامنے بیٹھا۔
"اب بولو گے یا میرے ہاتھ اٹھنے کا ویٹ کر رہے ہو؟"
عنان اسکی میسنی مسکراہٹ سے چڑا تو ساحر نے بھی سنجیدگی اختیار کر کے اپنے لاپتہ ہونے کی کہانی سنانے کا فیصلہ کیا۔
کوئی گڈ نیوز؟"
ساحر کے سوال اور آواز دونوں نے محب سے لمحہ بھر قوت گویائی سلب کی۔
"خان!"
محب کی آواز کانپی۔
"جی خان کی جان"
ساحر کا مستی موڈ آن دیکھے محب آزردہ سا مسکرایا، لیکن آنکھوں میں سرخی اتر آئی۔
"میں صرف زوئے کی جان ہوں سمجھے آپ"
آہاں غرور تو دیکھیے، ساحر کھل کر ہنسا۔
"تبھی تو پوچھ رہا ہوں کوئی گڈ نیوز؟"
ساحر کے سوال پر محب کا دل چاہا اسے بتا دے اسکے بیٹے کا پر یہ سرپرائز ملتا تو زیادہ بہتر تھا۔
"نہیں، پراپر شادی نہیں کی۔ آپکا انتظار کر رہے ہیں۔"
محب کے جواب پر ساحر نے مایوسی سے واپس بیٹھے سرد آہ بھری۔
"نکمے انسان، میں نے کیا ٹینٹ لگانے تھے تمہاری شادی پر یا کرسیاں۔ یا پھر مجھ سے دیگ پکوانی تھی ولیمے کے زردے کی۔ شرم نہیں آئی تمہیں"
ساحر کے پیار بھرے غصے کو محب ترس چکا تھا، اس لمحے دل بڑا تڑپا۔
"یہ میرا اور زوئے کا باہمی فیصلہ تھا، آجائیں یار۔ کہاں ہیں آپ۔ کہاں کھو گئے تھے، کیوں نہیں ملے ہمیں اس جگہ۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کس اذیت سے گزرا ہوں"
محب کا کرب بھرا تقاضا اور تکلیف کا اظہار ساحر کو بھی سنجیدہ کر گیا۔
"میں بھی، بینگاک ہی ہوں۔ مجھے ہر کسی کی تکلیف کا اندازہ ہے۔ یہ سمجھو بے بس تھا۔ مل کر بتاوں گا تفصیل۔ یہ بتاو سب کیسے ہیں؟ تم گھر جاتے رہے ہو میری غیر موجودگی میں؟ بابا، ممی۔۔۔۔ایمان۔۔عشبہ۔۔۔ کیسی گزر رہی ہے انکی زندگی؟"
ساحر کو سب بہت یاد آرہے تھے، ایمان کیسی ہوگی یہ سوچ ہی ساحر کا دل کند چھری سے کاٹنے لگتی۔
"ہاں میں چکر لگاتا رہتا ہوں، جہان انکل اور منیرہ آنی دوبارہ سے خان پیلس شفٹ ہو گئے جبکہ ایمان بھابھی اور عشبہ دس ماہ سے گل بخت صاحبہ کے ساتھ انکے گھر رہ رہی ہیں۔ وہ تبھی ان دو کو اپنے ساتھ لے گئی تھیں سچویشن خاصی خطرناک ہو گئی تھی کیونکہ عنان نے ہر غلطی کنفیس کر لی تو عشبہ بھی دور کر دی گئی اس سے، وہ دو کیسی ہیں یہ نہیں جانتا۔ جہان انکل کافی روڈ اور سخت مزاج ہو گئے ہیں، مسکرائے تو انکو عرصہ بیت گیا"
اس سب تفصیل میں جو مطمئین کرتا حوالہ تھا وہ ددھیا تھیں۔
"تمہیں یقین تھا میں آجاوں گی"
اسکے ہاتھ میں پھول دیکھتی وہ محب کی خوبصورت آنکھوں میں جھانکی، محب نے وہ پھول سہولت سے زوئے کے بالوں میں لگا دیا، بقیہ ٹہنی توڑ کر زمین پر گرا دی جبکہ اسکے بے داغ گال سے ہاتھ جوڑے قریب ہوتے دوسری طرف جذبات ابھارتا بوسہ دیا، زوئے کی دھڑکن بڑھی۔
"مجھے تمہارے ملنے کے بعد ہی "یقین" لفظ پر یقین آیا ہے، جب سے تم مجھے ملی ہو کوئی سیدھے طریقے سے رسم نہیں نبھائی۔ نہ ہوش قائم رہے، نہ حواس، یہ تمہارے لیے پینڈنگ نکاح کا گفٹ"
اسکے محبت بھرے لمس پر زوئے جی سی اٹھی جبکہ وہ مخملی کیس تھامتے محب کی باتوں کو سنے شریر سا مسکرائی۔
"بڑی دیر کر دی مہربان آتے آتے، تم چھ سات بار تو اس عرصے کے بیچ مجھ سے ملنے بینگاک آئے تھے، تب خیال کیوں نہیں آیا گفٹ کا؟"
زوئے کا شکوہ بجا تھا، درحقیقت وہ اسے کنجوس بولنے کی کوشش میں تھی۔
محب نے اسے لمحہ لگاتے بازووں میں اٹھایا اور لان کی سمت بڑھا تو زوئے نے ڈر کر گفٹ ایک ہاتھ میں دبوچتے دوسرے سے اسکو گردن حصار کر تھاما تاکہ گر نہ جائے، وہ اسے آج ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جو دور ہونا محال کر سکتی تھیں۔۔
"تب تم بھی تو پوری میری نہیں تھی"
نرمی سے اپنی تشنہ سانسوں میں زوئے کے ہونٹوں کی نرمی گھولتے جدائی کی تلافی کیے اسے آہستگی سے نیچے اتارا، زوئے نے سنبھل کر کھڑا ہوتے ہی اسکے استحقاق کی تڑپ پر اسکے سینے سے لگتے گلے لگنے کی رسم نبھائی اور فوری جیولری پیس دیکھنے کو زرا فاصلے پر سامنے کھڑی ہوئی، ویسے تو اسے محب کے نام کے ماں کئی تحائف دیتی رہی تھیں پر یہ سپیشل تھا کیونکہ محب نے خود دیا۔
"بہت تیز ہو، جب تک پورے میرے دل اور اختیار کے مالک نہیں بنے جیب نہیں ڈھیلی کی، کنجوس ڈاکٹر"
منہ بنائے زوئے نے وہیں کرسی سنبھال کر بیٹھتے اس باکس کو کھولا جو گفٹ کی صورت بہت خوبصورتی سے پیک تھا۔
محب نے مسکرا کر ٹیبل پر ہی سامنے بیٹھ کر اشتقاق سے نظر زوئے پر جمائی جو اس کو کھول کر وہیں تھم گئی تھی، وہ بلو سنو فلیک زرکون بریسلٹ تھا جسکے مڈ میں لائیٹ بلو بہت ہی بیش بہا ہیرا نسب تھا۔
پوری بینگل بریسلٹ پر وائیٹ نگ نسب تھے اور وہ اتنا خوبصورت تھا کہ اسکی چمک اندھیرے میں آنکھیں خیرہ کر سکتی تھی۔
"اٹس سو ایکپینسیو محب،لیکن بے حد حسین"
زوئے کی آواز جذب سے ٹوٹی مگر محب نے اسے خود نکال کر زوئے کی خوبصورت کلائی میں سجائے اسکا ہاتھ چوما، محب کی دیوانگی حدوں کو چھو رہی تھی یہ اسکی آنکھوں سے چھلک رہا تھا۔
"تم کم حسین ہو کیا؟"
آنکھوں میں آنکھیں ڈالے لو دیتے جذبات میں مچلی آواز میں بولا تو وہ لخظ بھر بوکھلائی سی آنکھیں جھکا گئی، سانسیں وہ پاس بیٹھا بھاری کر رہا تھا۔
اسے آزاد کیا تو ساتھ ہی روشنی واپس بحال ہوئی، وہ اس پر جھکا ہوا تھا، قربت کی شدت و زیادتی سے عشبہ کا چہرہ سرخیوں میں ڈھلا دیکھ کر عنان ابراہیم کے حواسوں پر خمار چڑھا، عشبہ کی آنکھ سے چند آنسو موتیوں کی طرح رخساروں پر اترے، وہ ہوش میں لوٹا۔
"حساب پورا ہو گیا یا کوئی کمی باقی ہے؟"
اسکی مخملی بھیگی تھمی سانسوں کی خوشبو سونگتا وہ اسے پکڑ کر واپس بٹھائے عشبہ کی نم گال ، اپنی گال سے رگڑ گیا۔
"اس کے بنا مناتے ناں مجھے، ایسے تو وہ بھی مان جائے جسے نفرت ہوگی آپ سے"
عشبہ کو اسکی جنونیت رگوں میں گردش کرتے خون میں گھلتی محسوس ہوئی تو وہ اسکو دیکھتی اس چیٹنگ پر فوری بگھڑی، عنان نے چیلنج قبول کیا اور اسکو اپنے حصار سے آزاد کیے اٹھ کھڑا ہوئے ٹھیک لان میں برستی بارش تلے جا کھڑا ہوا، عشبہ نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تو لگا وہ اوجھل ہوا تو جسم سے جان بھی چلی جائے گی۔
"ابھی یہ منایا تھوڑی ہے، یہ تو اپنی زبان کے پھیکے پڑ چکے زائقے بحال کیے ہیں۔ یہ تو میری حاکمیت ہے، جسے جب چاہے جس وقت چاہے میں اون کر سکتا ہوں۔ مناوں گا اب"
وہ اسے بھیگتا ہوا اور بہکا رہا تھا جبکہ سڑھیوں تک بارش کی ڈائریکٹ پھوار شیڈ کے سبب آنے سے قاصر تھی۔
عشبہ نے اٹھ کر قدم زینوں سے اتارے اور عین عنان کے سامنے آرکی، دیکھنا چاہتی تھی وہ کیسے منانا چاہتا ہے۔
"منا نہیں پائیں گے دیکھیے گا"
وہ جان بوجھ کر سلگانے کی کوشش میں بولی، چہرہ اب تک سرخیوں میں لپٹا، سانس اب تک دشواری میں مبتلا تھی۔
"منا لیا تو کیا مجھے ایک بار پھر بہکنے دو گی؟"
وہ اسکی قربت کے لیے جیسے تشنہ ہوئے یہ تقاضا کر رہا تھا، عشبہ کو لگا نادیدہ سی آگ اس برستی بارش کے باوجود جسم کو جھلسا گئی ہے۔
وہ دو قدم مزید قریب آئی، اتنی کہ عنان کے سینے میں مچی ہلچل سنائی دینے لگی۔
"کہا ہے ناں منا نہیں سکیں گے"
وہ اب بھی مضبوط چٹان جیسی تھی۔
"مجھے مس کیا تم نے؟"
وہ بات بدل گیا تو وہ چڑ گئی۔
"بات مت بدلیں"
اسکی بے سرو پا بات پر دبا سا چینخی۔
"بتاو ناں پلیز"
تڑپ کر اسکے دونوں ہاتھ تھامتے منت کی تو عشبہ کمزور پڑ گئی۔
"بہت کیا مس"
آنکھیں چھلک پڑیں۔
"کیوں کیا"
وہ اسکے مزید قریب آیا، عشبہ کو سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا جادو پھونک رہا ہے، وہ ہپناٹزم کا ہنر رکھتی کالی کلوٹی آنکھیں عشبہ کو مدہوش کر رہی تھیں۔
"سر بھی درد کر رہا ہے"
عنان نے کن پٹی مسلتے آنکھیں زور سے بند کیے کھولیں تو وہ مزید قریب ہوتی اسکی نظروں کے حصار میں سمٹ آئی، دونوں کی آنکھیں ملیں۔
"تمہیں کیا اس سے، تمہیں سپیشل فیل چاہیے ہر بار لیکن میرا کیا۔ مجھے لگ رہا ہے تم سے محبت کا اظہار کر کے غلطی کر دی میں نے۔ کوئی قدر ہی نہیں کی تم نے"
اس لمحے وہ سخت ناراض تھا، چاہے جانا چاہتا تھا جیسے اس لڑکی نے محبت سے عادتیں ڈالی تھیں۔
وہ اسے مسکرا کر سنتی کچھ نہ بولی، ہاتھ پر ہاتھ رکھے مگ اسکے ہونٹوں سے لگایا، جب جب وہ کچھ بولنے یا جھاڑنے لگتا، عشبہ نے ایسا ہی کیا ، آدھا کپ پیے وہ تنگ آکر مگ واپس میز پر پٹخ گیا تو وہ بھی اسکے جلبلانے پر بوکھلائی۔
"مجھ سے محبت کے اظہار کو دوبارہ غلطی مت کہیے گا، یہ وارننگ ہے"
مقابل کے غصے کے سبب وہ بھی زرا برہم ہوئی۔
"کیا کر لو گی"
وہ آگے سے ہٹ دھرمی دیکھاتے بولا کیونکہ اس وقت اسکی کیفیت شہد کی زہریلی مکھی جیسی ہوئے جا رہی تھی۔
"واقعی کسی ایسے کونے کھدرے میں چلی جاوں گی جہاں آپ تو کیا آپکا خیال بھی نہ آسکے"
ظالم تو وہ تھی، عنان نے بے اختیار اسکا ہاتھ پکڑ کر قریب سرکایا۔
"نوو پلیز، مجھ سے دور مت جانا"
اسے خود سے لگاتے اسکے کومل وجود کو حصار میں بھرتا اسے کسی قیمتی اثاثے کی طرح سینے میں بسانے لگا ، عشبہ نے دونوں ہاتھ اسکی گردن کے دائیں بائیں رکھتے بیچ کا فاصلہ سمیٹا اور عنان کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔
"آپ کے ہاتھ اتنی جلدی نہ آتی پر آپکے زرا ڈاون ہونے پر رعایت دے رہی ہوں"
اسکے گال سے ہونٹوں کو جوڑتی وہ سرگوشی کیے عنان کے جذبات میں بھڑکتی آگ دہکا گئی۔
"کیسی رعایت؟"
وہ اسکے کھلے بالوں کی خوشبو چند لٹیں مٹھی میں دبوچ کر ناک کے قریب کر کے سونگنے کے بیچ مدہوشی کے سنگ بولا، اسکی ضرورت سے زیادہ گرم سانسیں عشبہ کو بھی دور جانے سے روک رہی تھیں۔
"ادھورے معاملات پورے کرنے کی، لیکن آپکو بار بار مجھے بتانا ہوگا کہ یو لوو می"
وہ اسکو پکڑ کر لیٹاتی خود اسکے سینے پر سر رکھتی جو بولی عنان نے اسکے واپس چہرہ اٹھانے تک اسکو بازووں میں حصارا۔
"آئی لوو یو"
عنان کے ہونٹوں سے اس جملے کو سنتے ہی وہ چھپنا اور بھاگنا ترک کرتی اسکی طرف دیکھنے لگی جو پہلے ہی دل و جان سے اسکی آنکھوں کے خود پر پڑتے سرد سائے کا منتظر تھا۔
"ایسا تو مت کہیں عنان"
وہ اسکے اداس ہونے پر تڑپی ، اسکے دونوں ہاتھ خود بھی چومے جنہوں نے بہت چاہت و محبت سے اسکے زخموں کی رفوگری کی تھی۔
"یہ تمہارا حق تھا جو میں نے تھوڑا سہی غلط جگہ ضائع کیا عشبہ، وہ ہمیشہ سے میری سب سے اچھی دوست تھی اور اسکی وہی جگہ اس پر سجتی تھی۔ میں نے اسے اس جگہ سے سرکانا چاہا تو دیکھو کیسے سب بگھڑ گیا تھا۔ لیکن جس لمحے میں نے ایمان کو اسکی شایان شان جگہ واپس رکھا تب اسی لمحے مجھے اللہ نے تمہاری محبت میں ڈال کر میری اس غلطی کی تلافی قبول کر لی۔ تم تھی میرے لیے، میرا دماغ مانتا تھا جب جب تمہیں دیکھا بس اس بددماغ دل نے خوار کر دیا۔ اوپر سے میں نے اپنے دل کو رکھا ہوا بھی تو بہت لاڈلہ تھا، لاڈلوں کا یہی حال ہوتا ہے"
اتنا سب وہ بنا لڑکھڑائے بس تبھی سہہ گئی کیونکہ عنان نے اسے سنبھال رکھا تھا ورنہ شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو جاتی۔
وہ اسکے ہلتے ہونٹوں کی خوبصورتی پر ہی لٹ گئی، وہ یہ سب بولتا ہوا بہت پیارا لگ رہا تھا، اسقدر کہ عشبہ کو لگا دنیا بھر کا حسن اسکے سامنے اور سکون اسکے گرد محصور ہے۔
"میں آپکے دل سمیت آپکو لاڈلہ ہی رکھوں گی، ہمیشہ"
اس سے بہتر اعتراف شاید ہی روح زمین پر موجود ہوتا۔
"مجھے پتا ہے، تمہیں کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب آجاو اپنے کارنامے چھپا لوں ورنہ یہ لاڈلہ باقی عالم ہاوس کے مکینوں سے ضرور بری طرح اس ظلم پر پٹ جائے گا"
پیار سے اسے تکتا وہ جب اسے لیے آئینے کے سامنے آیا تو وہ بے اختیار ہنسی، یہ نیا ایکسپیرئنس اسے بہت ایکسائٹ کر رہا تھا۔
"اسے کہتے ہیں اپنے کرتوتوں پر صحیح معنوں میں پردہ ڈالنا"
عنان نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا پرل پرائمر اٹھاتے ٹھنڈی آہ بھرتے کہا تو اس بار دونوں شرارت بھرا ہنسے۔
جبکہ وہ کوئی ان سیکھا میک آپ آرٹس تو زرا نہ لگا بلکہ پوری ڈیٹیلنگ کے ساتھ پرائمر کے سیٹ ہونے کے بعد عشبہ کی سکن ٹون سے میچ کرتی بیس نہ صرف یوز کی بلکہ اس مہارت سے سیٹ کی کہ اک لمحہ عشبہ بھی حیران رہ گئی۔
"آپ نے میک آپ سیکھا ہے کیا؟"
اس سے پہلے وہ اسکی زرا بے ترتیب آئیبرو سیٹ کرتا، وہ اسکا ہاتھ پکڑے بولی، عنان پراسرار سا مسکرایا۔
"ہاں، سوچا ان فیوچر اپنے کرتوت چھپانے پڑے تو کام آئے گا"
عنان کے جواب پر وہ بلش کرتی مسکرائی۔
بہت ہی نیچرل بلو آئی شیڈو جو نظر بھی بمشکل آ رہا تھا بلینڈ کیے، اس میں سلور کا کمبو ایڈ کیا، پھر آئی لائنر اور مسکارہ عشبہ نے خود لگایا کیونکہ عنان کا جیسے ہاتھ کانپ رہا تھا عشبہ کی ہنسی رکنی محال تھی۔
"عائث! آپ ہیرا ہیں سچ میں۔ میری جان سے بھی پیارے ہیں۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپکو زخم لگا دیکھ کر۔ کیا بہت درد ہو رہا ہے؟ پین کلر دی آپکو ڈاکٹر نے"
اسکی کھلی شرٹ کے بٹنز بند کیے ایدا نے اسکے زخم پر دھیرے سے بوسہ دیتے چہرہ اٹھایا جہاں وہ اسے ہی فدا نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"میری پین کلر یہ لڑکی ہے"
اسکے گلابی ہونٹوں کا رنگ مدھم کیے سانسیں خود میں اتارنے کے بعد اقرار کیا تو ایدا کی کھوئی مسکراہٹ لوٹ آئی، اس سے پہلے وہ کچھ بولتی، دروازے پر ہوتی دستک پر عائث زرا ایدا سے فاصلے پر ہوا۔
ساتھ ہی نرس ایک وائیٹ انولیپ لیے اندر آئی اور اسے ایدا کی طرف تھمایا۔
"یور بلڈ رپورٹ۔ اب آپ جا سکتی ہیں ایدا عالم لیکن اپنا بہت خیال رکھنا ہے، ڈاکٹر انجم نے کہا ہے کل چیک آپ کے لیے شام پانچ آپ ان سے ملنے آئیں۔ ہیو آ گڈ ڈے"
نرس نے مسکرا کر ایدا کو رپورٹس دیں اور ہدایات دیے چلی گئی۔
"ادھر دو"
عائث نے اس سے انویلپ لیا تو ایدا خود بے قرار نظریں اس پر جما گئی۔
"یہ بلڈ رپورٹ کیوں کروائی گئی ہے تمہاری، دیکھوں تو بی بی کیوں ل۔۔۔"
عائث نے فکر کے سنگ بڑبڑاتے ہوئے وہ رپورٹ کھولی تو اسکے باقی کے لفظ رہن ہو گئے، یوں جیسے چلتی کائنات تھم گئی ہو۔
"کوئی خطرناک بیماری تو نہیں لگ گئی؟ میں مرنا نہیں چاہتی عائث"
عائث کے خوفناک تاثرات سے ایدا کو ڈر لگا کیونکہ اسکا چہرہ لٹھے کی مانند سفید اور آنکھیں ان رپورٹس پر پتھرائی ہوئی تھیں۔
"ایدا! یہ دیکھو۔ کیا یہاں واقعی پازیٹو پریگنیسی لکھی ہے؟ یا مجھے غلط دیکھائی دے رہا ہے"
ہیجانی کیفیت میں عائث نے وہ پیپر ایدا کی طرف تھمایا جو عائث کے الفاظ پر ہی سکتے میں گم لگی مگر پھر ڈرتے ڈرتے ڈبڈباتی آنکھیں رپورٹ پر ڈالیں۔
لمحے میں آنکھوں سے آنسو چھلک پڑا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا، سمجھ نہ آیا مسکرائیں یا اس ناقابل یقین خوشی پر اللہ کے شکر میں رو دیں۔
"ان بیلیوایبل! میں نے کہا تھا ناں تم اللہ کو بہت پیاری ہو، دیکھو میرے کہے کا جیتا جاگتا ثبوت۔ تم کنسیو کر چکی ہو، میری جان! اوہ ایدا تم نے مجھے اس دنیا کا سب سے مسرور شخص بنا دیا"
اسکے کانپتے ہاتھ باری باری چومے اس کے آنسو بہنے سے پہلے عائث نے سینے سے لگایا تھا اور یہ خوشی واقعی اتنی بڑی تھی کہ خود عائث کی آنکھوں میں اس وقت خوشی کے آنسو تھے۔
"اگر ایسا ہو کہ اچانک کسی دن آپکو آپکے ابراہیم مل جائیں پھر؟"
پہلے تو اسکے سوال پر روحا ساکن سی ہوئیں مگر پھر عنان کا دماغی خلل جانے سر جھٹک کر اداس سا مسکرا دیں۔
"میرے ابراہیم مجھ سے کھوئے ہی کہاں ہیں، تم، ایدا، ہادی۔تم تینوں میں مجھے وہ دیکھائی دیتے ہیں۔ میرے دل میں ہیں۔ اس کمرے میں آج بھی انکی خوشبو زندہ ہے پھر اس کے علاوہ مل جانا اور کیا ہے میں نہیں جانتی"
وہ ممی کے جواب پر کچھ لمحہ خاموش ہو گیا جیسے کوئی پراثر جواب ڈھونڈ رہا ہو۔
"نوو ممی، رئیل میں۔ چھونا ممکن ہو اگر انھیں ویسے والا ملنا"
اس بار عنان کے سوال پر روحا نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
"کل جاوید بھائی کو کال کرنی پڑے گی، کہ عنان کو بلائیں اگین عجیب بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے دوبارہ۔ اور اس بار کہوں کی بھینس والا انجیکشن لگائیں۔ پاگل۔ ہٹو پیچھے مجھے ہادی کو دیکھنے دو"
اسکی بات کو سرے سے رد کیے روحا اسے ہی پاگل کہے یہ جا وہ جا جبکہ عنان نے مایوس سی شکل بنائے ممی کی اس درجہ بے اعتنائی پر اٹھ کر واپس اپنے کمرے کا رخ کیا، عشبہ بھی چینج کیے عشاء وغیرہ پڑھے میٹرس پر چوکری مار کر بیٹھی آجکی پکس ہی دیکھ رہی تھی جب عنان کمرے میں آیا اور آتے ہی اسکی گود میں سر رکھے لیٹ گیا۔
عشبہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور فون ایک طرف رکھ دیا۔
"ممی نے کہا وہ مجھے اپنی گود میں سر رکھنے نہیں دیں گی اور وہ اب صرف ہادی کی ہیں۔ کہہ رہی ہیں تم اب عشبہ سے لاڈ اٹھواو، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ اوپر سے پوچھا کہ اگر ابراہیم مل گئے کبھی تو الٹا مجھے پاگل سمجھ کر بھینس والے انجیکشن کی دھمکی دیے چلی گئیں"
اتنی معصومہت اور مظلومیت اکھٹی دیکھ کر عشبہ کی ہنسی بھی نکلی اور پیار بھی ڈھیر آیا تبھی تو اسکا ماتھا چومنے کے بیچ بھی مسکراہٹ روک نہ پائی۔
"سہی کہہ رہی ہیں اب ہادی کو لاڈ اٹھوانے دیں انکے، اسکا بھی حق ہے۔ آپکو ساری رات اگر یہیں سونا ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ رہی بات ابراہیم انکل والی تو یہ نیچرل ہے عنان۔ انکو ایسے یقین تھوڑی آ سکتا۔ آئی تھنک جس طرح خود وہ روحا آنی کو یقین دلا سکتے ایسا ہمارے اختیار میں نہیں ہے"
عشبہ کی میٹھی سی باتوں میں اتنی تسلی اور اتنا یقین تھا کہ وہ جو روٹھا بچہ لگ رہا تھا، پرسکون ہو گیا۔
"یو آر رائیٹ عشبہ، مطلب یہ ڈیوٹی بابا پر ہی ڈالتے ہیں۔ رہی بات سونے کی تو مجھے ہر رات تمہارے دل کی دھڑکنیں تیز اور سانسیں روکنے کا فرض نبھانے کے بعد ایک پرسکون نیند لینی ہے"
اول جملے تو وہ مسکرا کر سن رہی تھی پر عنان کے یو ٹرن نے اسے کان کی لو تک سرخ کیا اوپر سے جیسے وہ اسکی گود سے سر اٹھا کر اٹھتے اس پر بنا اجازت جھک گیا، عشبہ کو لگا پورے جسم میں حرکت کرتا لہو جم گیا۔
"پھر کہو"
اسکا چہرہ تکتا وہ مٹھاس سے لبریز نگاہیں زوئے کے دلکش روپ پر پھیرتا سرگوشی میں بولا، زوئے کی مقابل کے سرور اوڑھتے لہجے نے سانسیں بھاری کیں پر اس نے محسوس نہ ہونے دیا۔
"میں تمہارے پاس ہ ۔ہوں"
یہ اقرار کرتے اسکی آواز لڑکھڑائی جبکہ محب نے ہاتھ اسکی طرف بڑھائے سب سے پہلے اسکے بالوں کے بنے بڑے سے بن پر اٹکے بھاری دوپٹے کو اس سے الگ کیا جس سبب زوئے سے نظریں اٹھا کر بات کرنا زرا مشکل ہو رہا تھا، محب نے وہ بھاری دوپٹہ اٹھا کر کاوچ پر پھینکا تو اسکے بوجھ پر حیران ہوتا زوئے کو جیسے شکوہ کناں ہوئے دیکھنے لگا وہ تمام گھبراہٹ کے مسکرائی۔
"اتنا بھاری دوپٹہ؟ والدہ نے پورا تھان خریدا تھا کیا۔۔۔ سر دکھ رہا ہوگا"
محب کی فکر اور اسکا سر دبانے پر وہ گھبرانا بھول کر کتنے لمحے اسکے چہرے کو ہی تکتی رہی۔
"نہیں،ماں نے کہا تھا شادی کی خوشی میں لڑکیاں یہ سب خوشی خوشی برداشت کر لیتی ہیں۔ رہنے دو، میرا سر بالکل نہیں دکھ رہا۔ بلکہ آج ہی تو سر کے سارے درد رفع ہوئے ہیں"
وہ اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہٹاتی انھیں اسکے پہلووں میں واپس لائے تھام کر قریب ہوئے بولی جبکہ محب نے اسکے چہرے کے اک اک نقش کو آنکھوں سے چومنے کی جو ابتداء کی تو وہ محسوس کر رہا تھا زوئے کے اسے تھامے ہاتھ کانپ رہے ہیں اور یہ محب کو بہکانے کی ابتداء کر گیا۔
"میں آج نئے سر درد دینے والا ہوں تمہیں، زیادہ خوش مت ہو"
اسکے کانپتے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر اپنے قریب جھٹکا دیا جس سے وہ اسکے سینے جا لگی جبکہ محب نے اسکی دونوں ہتھیلوں کو پکڑ کر اپنے گردن کا ہار بناتے گردن کے عقب میں اسکے ہاتھ باندھتے خود اسکی کمر کے اطراف ہاتھ لے جاتے اسکو اپنی بازووں کے حلقے میں بھر لیا۔
وہ یہ سب کر کے زوئے کے جسم میں اٹھتی خفیف سی لرزش تک اپنے سبب گھٹا چکا تھا۔
"سر درد کیوں دو گے، میں نے کیا بگھاڑا ہے تمہارا"
اسکی سانسوں کی تروتازہ خوشبو میں سانس بھرنے کے باوجود وہ ہوش و حواس میں تھی اور اداس ہوئے بولی۔
"تم نے مجسم مجھے بگھاڑ دیا ہے، اتنی محبت کر کے۔ کون کرتا ہے ایسا زوئے؟ میرے لیے حسرت ، تشنگی اور بے بسی کے لفظوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ میرا یہ دل جو زخموں کا جہاں تھا اس میں اب گلاب کھلے رہتے ہیں، اس میں اب چاروں موسموں میں بہار رقص کرتی ہے۔ "
وہ اسے اسکے جرم گنوا رہا تھا، آواز بھاری ہوتی گئی تو سانسیں قریب تر، ہو کر زوئے کا امتحان بننے لگیں۔
پر وہ معتبر کی جا رہی تھی تبھی آنکھ بھی جھپکنا نہیں چاہتی تھی۔
قندیل نے دروازہ ناک کیا اور مسکرا کر اندر آئے سجی ٹرے گلاس میز پر رکھے ویسے ہی کمرے سے چلی گئی، زوئے نے برش وہیں ڈریسنگ پر رکھتے بالوں کو ہیر ٹائے میں ہلکا سا باندھا اور اس سے پہلے ڈھکے باولز دیکھتی، محب کو پانی کی بوتل اور گلاس لے کر کمرے میں آتا دیکھے مسکرائی۔
جبکہ محب تو اس کے اس سادہ روپ پر بھی فدا ہو کر رہ گیا، اس سے پہلے اسکے ہاتھ سے گلاس چھوٹ جاتا، زوئے نے آگے بڑھ کر اسکے ہاتھ سے چھوٹتا گلاس تھاما تو دونوں کی آنکھیں ملیں اور دل شدید رفتار سے دھڑک اٹھے۔
"اس سے اچھا تھا کہ تم چینج ہی نہ کرتی، یو لک سو پڑیٹی اس دس سنپل اینڈ ایڈورایبل ڈریس"
وہ زوئے نے اپنی پسند سے نائیٹ ڈریس بنوایا تھا اور سچ میں وہ پری لگ رہی تھی۔
"حد ہے محب! یہ سونے والے عام سے کپڑے ہیں۔ تم ہوش ایسے کھو رہے ہو جیسے کوئی آپسراہ ہو تمہارے سامنے"
وہ اسکی دیوانگی کے آگے بوکھلائی تو محب نے بوتل میز پر رکھے اسے ایک ہی لمحے میں بازووں میں حصار میں لیا۔
"آپسراہ کیا چیز ہے تمہارے آگے، تم میرے دل کے لیے آب حیات ہو زوئے"
اسکے لہجے پر سرور حاوی ہوا تو آنکھیں چاہت برسانے میں حد کر گئیں۔
"ابھی رک جاو پلیز، بھوکی ہوں۔ جواب نہیں دے پاوں گی"
وہ اسکے محبت بھرے الفاظ کے آگے منمنا سی دی تو محب نے ہنس کر اسے پکڑا اور کاوچ پر بٹھایا ، ڈھکا ہوا باول سرکاتے اس پر سے کپڑا اٹھایا تو زوئے کریمی اور فیورٹ پاستہ دیکھے بے اختیار مسکرائی آنکھیں محب پر ڈال گئی۔
"خود بنایا ہے تمہارے لیے، انجوائے کرو میں بھی زرا چینج کر کے آتا ہوں۔ اور ہاں آئس کریم بھی ہے تمہاری فیورٹ"
اسکی خوشی سے گلابی ہوتی گال چومتا وہ اٹھ کر گیا تو زوئے نے اسکے واش روم میں بند ہونے تک اسکی سمت ہی والہانہ منتظر نظریں جمائی رکھیں۔
دس منٹ تک محب سیاہ ٹراوز سیاہ ہی ہاف سیلو ٹی شرٹ پہنے روم میں آیا تو زوئے کو کھانا ختم کیے آئس کریم کھاتا دیکھے مسکرایا اور ساتھ ہی اسکے کندھے سے کندھا ملائے بیٹھا، زوئے نے آئس کریم سے بھرا سپون اسکی طرف بڑھایا تو آج بنا کسی اعترص کے محب نے کھایا جبکہ زوئے کے چہرے پر اسکی عاشقانہ نگاہیں سرخیاں اتارنے لگیں۔
"پاستہ بہت یمی تھا، تھینکیو۔"
اسکی طرف دیکھتی وہ مسکرا کر بولی تو محب نے ہاتھ اسکے اطراف لے جا کر بازو لپیٹی جس پر زوئے نے گھبرا کر اسکی طرف سرک جانے پر محب کو فوری دیکھا۔
"تمہارا جب دل چاہے کہنا میں خود بنا کر دوں گا تمہیں، یہی نہیں وہ سب جو تمہیں پسند ہے ۔ تم اگر چاہو کے محب تمہیں پانی تک اپنے ہاتھ سے پلائے یہ بھی کروں گا، تم مجھے اپنا غلام بنا لینا۔ آئی مین جورو کا غلام۔۔۔ اس پر بھی راضی ہوں لیکن تم مجھ سے بہت پیار کرنا "
یہ دیوانہ تو اس نے چھپا رکھا تھا جو اب زوئے کو اپنی ملکیت محسوس کیے کھلا، آئس کریم باول میز پر رکھے وہ اسکی طرف ہو کر بیٹھی، جیسے جان وار دے گی۔
"واٹ؟ یو مین میں پائلٹ بن سکتی ہوں؟"
ایمان کی آواز صدمے سے لرزی۔
"تو اور کیا، ڈر بھی تو نہیں لگتا اب تمہیں جہاز سے۔ ویسے بھی ہم ساتھ جہاز اڑاتے کتنے پیارے لگیں گے۔ گریجویٹ تو تم آل ریڈی ہو ، جوا ڈیپارٹمنٹ میں جوائنگ کے لیے تمہیں کمرشل پائلٹ لاسینس کی ضرورت ہوگی جو دو سال کی پڑھائی ہے۔ اس کے بعد تم ڈائریکٹ میری جونئیر بن سکتی ہو بنا کسی ٹرینگ کے کیونکہ وہ تمہیں میں خود دے دوں گا"
ایمان کے چہرے کی رنگت خوشی و صدمے سے بدلی جبکہ ساحر اسکی ہونق کیفیت پر مخظوظ ہوئے اسے اپنی طرف زرا کھینچے ہوش میں لایا۔
"تو نوفل کو کون سنبھالے گا ساحر"
نوفل کا سوچ کر ممتا بے چین ہوئی۔
"دو سال ہیں ابھی یعنی تب تک ہمارا نوفل بڑا ہو چکا ہوگا، اور ویسے بھی منتھ میں تین ویک اسکے ساتھ اور ایک ویک ایک دوسرے کے ساتھ ہوا میں رہیں گے۔ ایسے نوفل کو بھی ہمارا پراپر ٹائم ملے گا، اس ویک میں اسے ددھیا یا ممی سنبھال لیں گی"
ساحر کی تجویز پر ایمان کی آنکھیں مسکائیں، یہ سوچنے میں ہی بہت تھرلنگ تھا۔
"اور اگر آپکے ہڈ سٹاف نے مجھے ایز آ جونیئر لینے سے انکار کر دیا یہ کہہ کر کہ ہم اپنے ہونہار کیپٹن کی توجہ بھٹکنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ آفکورس اگر ساتھ میں یعنی آپکی جان سے پیاری وائف ہوئی پھر آپکو ہوش کون دلائے گا۔ اور مدہوش ہو کر اگر آپ نے جہاز کہیں ٹھوک دیا پھر تو سیدھا ٹکٹ کٹے گا ناں اوپر"
اس قدر مسرور کیفیت میں ایمان کے خدشے سن کر ساحر کا ہنسنا فطرئ تھا جبکہ ایمان خود اسکی ہنسی یوں دیکھ رہی تھی جیسے کوئی بہت حسین منظر ہو۔
"تمہیں میرے ساتھ کام کر کے اندازہ ہو جائے گا کہ کام کے وقت ساحر جبران خان خود کو بھی بھول جاتا ہے، اسکی نہ مجھے ٹنشن ہے نہ میرے ہیڈ سٹاف کو۔ تم بس اچھے سے سوچ لو تاکہ پھر میں تمہارا فلائنگ آکیڈمی یا ایسی کسی یونی میں ایڈمیشن کروا دوں۔ جس سے تم یہ لائسینس پا لو"
ایمان نے پڑھائی کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں سوچا تھا، نہ اپنی پسند سے سائنس پڑھی بس کسی طرح پڑھائی کرنی تھی لیکن اب اسے لگا جیسے ساحر نے اسے مقصد تھما دیا ہو۔
"تم نکل جاو یہاں سے، مجھے میری بیٹی سے بات کرنی ہے۔ تم جیسے کسی کے منہ نہیں لگنا"
فرجام نے اٹکتی ہوئی وحشی سرگوشی کرتے محب کو دیکھتے پھاڑ کھاتے ہوئے وارننگ دی تو زوئے فوری محب کا ہاتھ چھوڑے اسکی ڈھال بنے آگے آئی۔
"محب سے ایسے بات نہیں کر سکتے آپ، کیا کہنا ہے آپکو پاپس؟ سن رہی ہوں۔ وقت نہیں ہے میرے پاس"
زوئے نے کمزور لرزتی آواز پر قابو پاتے اس شخص کو دیکھا جس سے کھڑا ہونا بھی مشکل تھا لیکن اسے فرجام کہیں سے بھی آخری سانس لیتا تو نظر نہ آیا یہی چیز محب کو بھی الرٹ کر گئی۔
اسکے ہاتھ کی پکڑ گن پر مضبوط ہوئی۔
"ہاں وقت تو واقعی نہیں ہے تمہارے پاس کیونکہ تم مرنے والی ہو"
فرجام نے گن اٹھا کر زوئے پر تانی جس پر محب نے بھی اپنی گن نکال کر زوئے کو اپنے پیچھے دھکیلا اور تن کر اس وحشی کے سامنے آگیا۔
"اپنی بیٹی پر گن اٹھاتے شرم نہیں آئی تمہیں، کیوں مارنا چاہتے ہو اسے۔ تمہیں تو اسے اپنے گلے لگانا چاہیے، اپنی کرتوتوں کی معافی مانگنی چاہیے اسکے پیروں میں گر کر۔ تمہاری وجہ سے بہت سے لوگوں نے تکلیف دیکھی فرجام سایہ، میں تمہیں مزید کسی کا نقصان کرنے نہیں دوں گا"
محب کا لہجہ طیش سے بھرا اور فرجام کی آنکھوں میں لہو اترا۔
"یہ میری بیٹی ہے اسے جیتا رکھوں یا مار دوں۔ ہٹ جا پیچھے ورنہ پہلے تو مرے گا۔ اس نے مذہب کی توھین کی ہے، اس نے رونی کو بھی منکر بنا دیا۔ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی، اس نے اور میری ماں نے مل کر میری سونال کو مارا، یہ موت کی ہی مستحق ہے"
یہ سب باتیں وہ فرجام سے بے ہوشی میں کہتی رہی تھی اور انجام کے لیے تیار تھی لیکن محب کو اپنی ڈھال بننتے دیکھ کر اسکا دل کٹا۔
"تم نے بھی تو اسکی ماں کو مارا تھا"
محب کی آواز غرائی، زوئے کی آنکھوں میں بے یقینی اتری۔
"ہاں کیونکہ وہ ذہنی مریضہ تھی، اتنی محبت کرتی تھی کہ میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ "
فرجام کے اعتراف پر وہ دونوں حقارت سے بھرے۔
"تجھے سونال جیسی چاہیے تھی جو کتے کی طرح تجھے اپنے پیچھے لگاتی"
محب کے منہ سے نکلا سچ فرجام کو تلوں لگا سر پر بجھا اور اس سے پہلے وہ اپنی طرف نفرت سے دیکھتی زوئے کو شوٹ کرتا، محب سامنے آیا
زندگی نام ہی دکھ اور خوشی کے مجموعے کا ہے، ہر کہانی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ آہستہ آہستہ دکھوں کی جانب ضرورجاتی ہے۔ مگر پھر جیسے امید کی کرنیں اسے حوصلہ ہارنے نہیں دیتیں۔دکھ اور خوشیاں سب ہی وقتی ہیں، مستقل ہے تو بس ہمارا رب اور اسکی رحمت۔
ایک نئی پہل اور شروعات ہوتی ہے، پھر سے ایک نئی خوبصورتی جنم لیتی ہے۔
"دروازہ کھولو زالے"
وجدان گھر پہنچا تو اسے پتا چلا کے زالے نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا ہے۔ چابی بھی نہیں مل رہی تھی۔ سب لوگ بھی جا چکے تھے، اب صرف گھر کے لوگ اور دوست احباب رہ گئے تھے۔
وجدان کے چہرے پر تکلیف اور کرب لہرایا تھا۔
"کب سے ہے یہ اندر؟"
وجدان نے دکھ سے استفار کیے باہر کے کئی دراز چھان مارے مگر چابی کہیں نہیں مل رہی تھی۔
کنزا کی تو جان ہی آدھی ہو چکی تھی۔
آگے ہی انکی طبعیت خراب تھی، اور اب زالے کی ایسی حالت تو انھیں مزید نڈھال کر چکی تھی۔احمد صاحب الگ بستر پکڑ چکے تھے ،بوا بھی طبعیت ناساز ترین کیے بستر پر تھیں۔ ہنا انکے ساتھ ہی تھی۔
"جب سے جنازہ لے کر گئے ہیں یہ تب سے اندر ہے۔۔۔ وجدان کچھ کرو، وہ خود کو نقصان پہنچا لے گی"
کنزا دل پر ہاتھ دھرے رنجیدہ اور بے جان ہو کر بولیں۔ وجدان کی حالت تو پہلے ہی ناقابل بیان حد تک تباہ سی تھی، اوپر سے زالے کا ایسا رویہ اسے مزید توڑ چکا تھا۔
"آپ پریشان نہ ہوں"
اگلے ہی لمحے وجدان نے زور دار طریقے سے دروازے کو دھکا لگایا، ایک کے بعد دوسرا اور آخر تیسرے پر دروازہ کھل گیا۔اندر قبر کا سا اندھیرا کیے وہ ناجانے کس کونے میں غرق بیٹھی تھی۔
نرس کنزا کو اب صوفے پر بٹھا رہی تھی ۔
وجدان اندر جاتے ہی دروازہ بند کر چکا تھا، اندازے سے لائیٹ آن کی تو وہ سامنے ہی بیڈ کے ساتھ سر جھکائے بیٹھی تھی۔
"زالے، زالے یہاں دیکھو۔ کیا تم میرا مزید امتحان لینا بند کرو گی؟ کیوں کر رہی ہو یہ۔عبداللہ کو تکلیف ہو رہی ہے"
وہ اسکے سامنے بیٹھا تھکا ہارا سا اس سے اس ظلم کی وجہ کے ساتھ اپنے ٹوٹنے کی وضاحت دے رہا تھا۔ اپنے مزید امتحان پر تڑپ اٹھا تھا۔
"عبداللہ دور رہو۔ زالے تمہیں بھی کھا جائے گی۔ زالے نے رباب کو کھا لیا، تمہاری رباب کو کھا لیا ۔ تم مجھے شوٹ کر دو۔ہاں مار دو مجھے۔ موت کی اصل حقدار صرف زالے ہے"
اس وہشت ناک زالے کو دیکھ کر وجدان کا دل اسے بھی ایک زوردار تھپڑ مارنے کا کیا تھا مگر وہ جیسے اس بار خود ہار سا گیا، زالے کی یہ باتیں اسے بے حد رنج دے رہی تھیں۔
"موت صرف اس رب کے حکم سے آتی ہے۔۔ بندے کا کوئی بھی دخل نہیں۔ زالے مجھے تمہاری ضرورت ہے، مجھے اس لمحے تنہا مت کرو"
وہ بہت تکلیف دہ انداز میں بے بس ہو رہا تھا اور زالے اس بات پر شاید اپنے ہوش میں آچکی تھی، کیونکہ وہ چاہ کر بھی عبداللہ کی تکلیف نہیں سہہ پاتی تھی۔
"تم میری وجہ سے اس تکلیف میں مبتلا ہو۔ تمہیں نفرت نہیں ہو رہی مجھ سے؟"
اسکی طرف چہرہ کیے وہ وہشت ناک سوالیہ نظریں لیے قابل رحم لگ رہی تھی۔ رو رو کر اسکی آنکھیں نقاہت اور سوجن کا شکار ہو کر متورم ہو چکی تھیں۔
"تم وجہ نہیں ہو۔ بار بار مت کہو ، مجھ پر ترس کھاو "
وہ اب اس سے منت کر رہا تھا اور وہ جیسے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ وجدان بھی رویا تھا ، وہ اسکے سینے میں مکمل چھپی کانپ رہی تھی، اسکی ہچکیاں دردناک تھیں۔
"عبداللہ مجھے معاف کر دو۔خدارا مجھے معاف کر دو، لیکن میں کیا کروں۔ مجھے صرف اپنا قصور دیکھائی دے رہا ہے۔ اس عاقب نے میرے عبداللہ سے اسکی زندگی چھینی اور کمبخت زالے کچھ نہ کر پائی۔ عبداللہ رباب اب کہاں سے لاوں میں، کہاں سے تم کو رباب لا کر دوں گی۔ یا اللہ یہ کیا ہو گیا ہے"
وہ اس روتی ہوئی زالے کو مزید دور نہ رکھتے ہوئے بے اختیار سا خود میں بھینچ چکا تھا۔ کئی دلخراش بے آواز آنسو وجدان کی سرخ ہوتی آنکھوں کا بھی حصہ بنے تھے۔
"چپ ! اب بس، زالے اس وقت تمہیں میرا حوصلہ بننا ہے۔تم یوں کر کے مجھے بھی کمزور کر رہی ہو۔ مجھے تمہارا یہ احساس جرم مار دے گا۔آج کے بعد تم ایسا سوچو گی بھی نہیں، وعدہ کرو"
یہ وجدان اس سے کیسا وعدہ لے رہا تھا، زالے کے رونے میں دوگنی شدت آئی۔
"عبداللہ "
کتنی کرب ناک تھی وہ آواز۔ کتنا درد تھا زالے کے چہرے پر، کہ جیسے وہ اس سے اسکی برداشت سے بڑا قصد مانگ بیٹھا ہو۔
"میری جان ہو تم عبداللہ ، زالے تمہارے لیے بہت آن لکی ہے۔ یہی سچ ہے"
وہ اسکا چہرہ تھامے رنج میں ڈوبی ہوئی بدستور غمناک ہوتی بولی تھی۔
"پلیز سٹاپ زالے۔ خدا کے لیے بس اب، اس سے زیادہ میں نہیں سن پاوں گا"
اپنے عبداللہ کو یوں ٹوٹا پھوٹا دیکھ کر زالے کا دل پھٹ گیا تھا۔
"مت رو خدا کے لیے، ورنہ یہیں زالے کی سانس بند ہو جائے گی عبداللہ"
وجدان کا چہرہ ہاتھوں میں بھرے وہ ہارتے ہوئے التجا کر رہی تھی۔
"اور تمہارا یہ بار بار خود کو غلط کہنا بھی میرا سانس بند کر سکتا ہے۔اب دوبارہ مت کہنا زالے"
حکم نہیں بلکے بہت عاجز درخواست آئی تھی اور وہ کیسے عبداللہ کی خاموش التجاء کو فراموش کر سکتی تھی۔اسے اپنے سینے سے لگائے شاید وہ ایک بار پھر اشک بار ہوا تھا۔ اپنے اتنے بڑے خسارے پر!
..____________________..
کمرے میں نیم تاریکی تھی، عادل بیڈ کے ساتھ سر گرائے بے حد مخدوش ذہنی حالت لیے بیٹھا تھا۔
تنہائی اور کرب کا ایسا امتزاج تو اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔کل تک وہ اسکے ساتھ تھی، ناجانے کتنی باتیں کتنے لمحے اور کتنی یادیں تھیں جو وہ عادل کے ساتھ بنا کر خود اس قدر ظالمانہ اجلت میں رخصت ہو گئی تھی۔
عادل کے پھٹے دل کو اب کسی صورت آرام آنا ناممکن تھا۔
"میرے وجود میں اتنا بڑا خلاء چھوڑ کر تم کیسے امید رکھ سکتی ہو کہ میں زندہ بچ جاوں گا۔ یہ کیا ہوگیا، کیا ہوگیا"
وہ اپنے سر کو تھامے مسل دینا چاہتا تھا، حقیقت میں وہ اپنا وجود مٹا دینا چاہتا تھا۔
وجدان کمرے میں آیا تو عادل کی اجڑی حالت دیکھ کر شدید افسردہ ہوا اور اسکے ساتھ ہی بیڈ کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔ دونوں کی حالت ہی غیر تھی۔ دونوں جی بھر کر رنج میں لپٹے دیکھائی دے رہے تھے۔
"عادل۔ٹھیک ہو؟"
وجدان جانتا تھا کہ وہ غلط سوال کر رہا ہے، مگر نگاہوں میں گہنائی تاریکی لیے وہ پھر بھی یہ ستم ڈھا گیا تھا.
"نہیں۔"
یوں لگا جیسے کسی گہری کھائی سے درد ناک آواز آئی تھی، سوز زدہ اور کرب ناک سی گونج۔
"مجھے معاف کردیں بھائی، آپکی رباب کی حفاظت نہیں کر سکا۔ آپ نے مجھے اسکا محافظ بنایا تھا، کاش اسکو لگنے والی گولی کسی بھی طرح کر کے مجھے لگ جاتی۔ میں مر جاتا، پر وہ نہ مرتی "
وجدان نے ایک بے حال نظر عادل کو دیکھا، وہ بلکل ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔
ریزہ ریزہ منشر ذات والا عادل تو بس گر کر مسمار ہونے کو تھا۔
"سب اس رب کے فیصلے ہیں عادل، اگر وہ گولی تمہیں لگتی تو تب بھی رباب آج ہمارے بیچ نہ ہوتی"
وجدان کی آنکھیں بھی نمکین پانی سے نم ہوئیں، اسکے لہجے میں ٹوٹے کانچ کی سی چٹخ تھی۔
عادل نے ایک کرب ناک نگاہ وجدان پر ڈالی، ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا وجدان! وہ کب کسی کا دکھ اور تکلیف دیکھ پاتی تھی۔ اور اگر کبھی وجدان اور عادل کو کچھ ہو جاتا تو پہلے رباب کی سانسیں بند ہوتیں۔
"بھائی میں مر جانا چاہتا ہوں"
عادل کی آنکھیں حسرت لیے رہائی کی طالب دیکھائی دی تھیں۔ وہ اس زندگی کے سوہان روح عذاب سے چھٹکارے کا طلبگار تھا۔
"وہ تمہیں ایسا نہیں دیکھ پائے گی، جانتے ہو ناں۔ مجھے تمہارا خیال رکھنے کا کہہ کر گئی ہے۔ اسکے بعد ایک تم ہی تو ہو میرے پاس عادل! جو میری رباب کی جان تھا۔ وہ تم میں بستی ہے، مجھے مزید مت تھکاو میرے بھائی"
وجدان اسکا نم چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھرے لجاجت سے التجاء کر رہا تھا۔ عادل کی تو دنیا ہی ویران تھی، اسے اب اس زندگی سے نجات میں ہی آسودگی نظر آرہی تھی۔
"آپ مجھ سے کوئی امید مت رکھیں، جس دن میرا ضبط پھٹ گیا اسی روز یہ روح اس جسم کو چھوڑ دے گی۔ ناجانے کیوں اب تک میں سانس لیے جا رہا ہوں"
وہ مایوس اور ناامید تھا، وہ بس اس دل اور روح کو چاٹتی زندگی سے رہا ہونا چاہتا تھا۔
"احمد انکل کا سوچو، ہنا کا سوچو، کیوں سب کو دکھ دینے کا سوچ رہے ہو۔پہلا دکھ ہی نہایت بڑا ہے، ہمارا سارا حوصلہ تو پہلے ہی ٹوٹ گیا ہے۔ ہم خالی ہاتھ ہیں، خود کو سنبھالو عادل"
وجدان خود حوصلہ کر کر کے اور دے دے کر ہار سا گیا تھا، اب تو ہر چیز برداشت سے باہر جا رہی تھی۔
"نہیں سنبھال پا رہا بھائی، یہ میری برداشت سے بہت باہر ہے"
وجدان اب اسے بےقرار سی گرفت میں بھینچ چکا تھا۔ شاید وجدان کے ذمے ہی سب کا حوصلہ بڑھانا لکھا تھا، اور وہ اپنی اس ذمہ داری پر بھی دل وجان سے راضی تھا۔
"اللہ سب خیر کرے گا، مجھے کل کو اسکے سامنے شرمندہ مت کرنا عادل۔ تمہارا خیال نہ رکھ پایا تو رباب مجھے کبھی معاف نہیں کرے گی۔وہ جا کر بھی ہمارے ساتھ ہے، اسے ہمارا حوصلہ اور ہمت چاہیے۔ اور میری سمت بھی تو دیکھو! خسارہ تو میرا بھی ہوا ہے ناں۔ ناقابل تلافی خسارہ"
شاید یہ وقت یونہی حوصلہ دینے اور کرنے کا تھا، عادل کی آنکھیں اور چہرہ دونوں ہی ویران تھے۔عادل کی خاموشی پر وجدان اسکے کندھے پر ہاتھ دھرتا بے بس سا باہر کی سمت بڑھ گیا۔
"ناقابل تلافی خسارہ ہی ہے، عادل کا تو ساری زندگی کا روگ ہے بھائی۔اپنے قریب کہیں بھی رباب کا نہ ہونا صرف اذیت ہے۔ وہ مجھے کبھی دیکھائی نہیں دے گی یہ تو دکھ کی انتہا ہے۔ وہ مجھ سے کبھی بات نہیں کرے گی یہ تو سراسر تکلیف ہے"
وہ آنکھیں شاید نمی کو اپنے اندر مقید کر چکی تھیں۔
"ابھی تو ساتھ رہنا تھا! تمہیں تو میری آنکھوں کو بہت سے خواب دینے تھے!، تمہیں تو میری اِس بے رنگ پھیکی عُمر میں کتنے سُہانے رنگ بھرنے تھے، تمہیں تو میری اذلوں کی اُداسی دور کرنی تھی تمہیں تو اپنی پوروں سے مِرا ہر اشک چُننا تھا تمہیں تو میرے سر کو گود میں رکھ کر مِرا ہر درد سُننا تھا تمہیں تو میری بِکھری ذات سے اِک عشق تھا شاید تمہیں تو بھول جانے کا تصور مار دیتا تھا مگر یہ کس طرح سب کچھ اچانک بھول بیٹھی ہو؟
تو کیا وہ جھوٹ تھا سارا وہ سب وعدے وہ سب دعوے محض باتوں کی حد تک تھے کہو کیا جھوٹ کہتے تھے؟
زمانہ کچھ کرے لیکن ہمارے ہاتھ میں اِک دوسرے کا ہاتھ رہنا ہے ہمیں تاعُمر یوُنہی ساتھ رہنا ہے ابھی تو عُمر باقی تھی ابھی تو خواہشوں کی ٹہنیوں پر پُھول کِھلنے تھے، ابھی تو ہجر کے سب چاک سِلنے تھے ابھی تو وقت کے مُنہ زور گھوڑے کی لگاموں میں ہمارا ہاتھ رہنا تھا ابھی تو ساتھ رہنا تھا رباب"
نہایت تکلیف دہ دھیمے لہجے میں کہتا ہوا وہ پھر سے اپنا سر جھٹکتا ہوا گرا گیا تھا۔
..____________________________..
وقت گزرتا دیکھائی نہیں دیتا مگر چہروں پر ہر گزرتی اذیت کا ماتم ضرور لکھ جاتا ہے، سب نے جیسے ایک بار پھر حالات سے مقابلہ کر ہی لیا تھا۔
وجدان کے گھر کا چوکیدار بھی عاقب کی درندگی کا نشانہ بن کر موت کے منہ میں چلا گیا تھا، جیل کے اس کمرے میں ملنے والی حوالدار کی لاش کے بعد تو ویسے بھی عاقب کے لیے ایسی ہی کسی دردناک موت کی ضرورت تھی۔
اپنے باپ کو تو وہ جیتے جی مار گیا تھا، خود بھی اپنے کیے کہ ہاتھوں بے موت مارا گیا، اور یقینا ایسوں کے لیے ایسی ہی دردناک موت ہے۔
احمد صاحب کو دلی سکون تھا کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے عاقب کی جان لی ہے۔ عاقب کے تین قتل کی وجہ سے عدالت نے احمد صاحب کو اس کیس سے بری کر دیا تھا۔فارس اور حریم کی ملاقات بھی ایک نیا موڑ لائی تھی، کتنی ہی دیر وہ اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے روتا رہا۔
تب وجدان کو ناجانے کیوں لگا جیسے فارس کے اندر کوئی بہت اذیت ناک دکھ جل رہا ہے، حریم کو خوشی خوشی وجدان کو سونپتے ہوئے وہ کھل کر مسکرایا تھا۔
اور پھر وجدان اور زالے، حریم کو باقاعدہ کورٹ کے ذریعے اپنی بیٹی بنا کر گھر لے آئے۔
حریم کے آنے کے دو ہفتے بعد اچانک ایک صبح فارس مانی کی موت کی خبر آئی۔
اسے دل کا دوڑا پڑا تھا، حریم سے یہ بات چھپا لی گئی تھی۔حریم کو فارس نے ناجانے کیا کہا تھا کہ وہ وجدان اور زالے کو مما اور بابا کہنے لگی تھی۔
کنزا بہت بیمار سی تھیں۔ مگر ہادی اور ہنا کو دیکھ کر پھر سے جی اٹھتی تھیں۔اب وہ پہلے سی مضبوط نہیں رہی تھیں۔ اور پھر جب انھیں پتا چلا کہ وہ دادی اور نانی بننے والی ہیں، پھر تو جیسے انکی تمام طاقت اور ہمت واپس لوٹ آئی تھی۔
عادل کی زندگی ویران تھی مگر کہتے ہیں ناں کہ وہ رب اپنے پیارے بندے کے زندگی زیادہ دیر ویران نہیں رہنے دیتا۔ اسکی زندگی میں بھی ایک مسیحا آئی، عفاف عادل۔ اپنے نام جیسی پاکیزہ پری!
.._________________________..
(ایک سال بعد)
"مبارک ہو! اللہ کے آپ کو دو پیارے پیارے جڑواں بیٹی اور بیٹا دیے ہیں"
نرس نے آکر خوش دلی سے وجدان کو بتایا تو جیسے اسکے چہرے پر دلکش اجالا اپنی پوری دلفریبی سے پھیل گیا تھا۔ پاس کھڑی کنزا تو بس شکر گزاری کا سجدہ کرنا چاہتی تھیں۔بوا کی تو خوشی کی انتہا ہی نہیں تھی۔سامنے ہی مسکراتا ہوا ہادی اور ہنستی ہوئی ہنا تھی جن کی گود میں انکا پیارا سا بیٹا 'ابطحی ہادی' تھا۔
وہ بھی دو ماہ پہلے ہی دنیا میں تشریف لایا تھا، اور عادل کے ساتھ کھڑی حریم جو سب سے زیادہ پرجوش تھی۔ سب ہی مسکرا رہے تھے۔
"زالے کیسی ہے؟"
وجدان تو اس شہزادی کو دیکھنے کے لیے بے چین ہوا جس نے اسے دو دو نعمتیں سونپی تھیں۔نام تو وہ پہلے ہی سوچ چکے تھے۔ بیٹی 'عفاف وجدان' اور بیٹا 'ارضاء وجدان'
"زالے بلکل ٹھیک ہیں۔ آپ ان سے مل سکتے ہیں"
نرس نے کہا تو وجدان مسکراتا ہوا اندر بڑھ گیا، سب کے چہروں پر بے پناہ خوشی تھی۔
عادل بھی مسکرا رہا تھا، وجدان اندر گیا تو جیسے تھم سا گیا۔ وہ بے حال سی زالے مراد اور پھر اس سے کچھ فاصلے پر رکھے گئے وہ دو ننھے وجود۔
یہ کیسی دل کو ٹھنڈک اور آسودگی پہنچاتی تاثیر تھی جو وجدان کے دل تک اتری تھی۔
"زالے! میری جان، تم ٹھیک ہو"
اسکے ماتھے پر جھکتے محبت سے پیار کرتا ہوا وہ اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامے چومتا پاس ہی بیٹھے بہت فکر سے پوچھتے بولا تھا۔ اور وہ تو جیسے اس میسحائی تاثیر سے جی سی اٹھی تھی۔وجدان کی نظر اس ننھی عفاف پر اٹھی تو وہ ایک لمحے کو ٹھہر سا گیا، خوبخو رباب جیسی دیکھائی دیتی عفاف وجدان۔
وہ رب مرہم بھی یوں دیتا ہے کہ گویا زخم تھا ہی نہیں۔
وجدان نے ایک نظر زالے کو دیکھا جو بدلے میں ہنس کر اثبات میں سر ہلائے اپنی طبعیت کی بہتری کے ساتھ ساتھ وجدان کی دل موہ لینے والی حیرت پر خوشی کا اظہار کرتی ہوئی مسکرائی اور پھر وجدان نے اپنے بیٹے کو دیکھا۔
خوبخو زالے جیسا۔
آج تو وہ قربان ہونا چاہتا تھا، ان ننھے وجودوں پر اور اس پری پر جو نڈھال سی بس دلفریب سا مسکرا رہی تھی۔
"یااللہ یہ کیسا کرم ہے مالک۔ یوں لگتا ہے رباب واپس آگئی ہے۔ یہ بلکل رباب جیسی ہے "
ارضاء کو بہت نرم انداز سے زالے کے ساتھ لٹانے کے بعد وہ عفاف کو اٹھا کر اسکا ماتھا چومتے اپنی نرم نگاہوں کا سایہ ان تینوں پر ڈالے خوشگوار سی شکرگزاری لیے بولا۔
"عبداللہ، ہم اسے عادل کو دے دیں"
بس یہی لمحہ کامل ترین لمحہ تھا جس وجدان کی خواہش نے زالے کے دل میں بھی پوری راعنائی سے جنم لیا تھا، وجدان کی دلکش سی ہاں ہر طرف اجالا کر گئی تھی۔
"یہ آج سے 'عفاف عادل' ہے"
وجدان اس رب کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہا تھا، یہ لمحہ اسکی زندگی کا سب سے کامل لمحہ تھا۔
زالے بھی جیسے مکمل ہو گئی تھی، وجدان نے اب ارضاء کو اٹھا کر اسکے ماتھے کو چوما۔
ان نعمتوں پر وہ جتنا بھی شکر ادا کر لیتا وہ نہایت کم تھا۔
عادل کی زندگی میں 'عفاف' آئی تو جیسے اسکے رستے زخم مندمل ہونے لگے۔
عفاف بلکل رباب جیسی تھی، اسکے چہرے کی معصومیت اور پاکیزگی بلکل رباب جیسی تھی۔
زالے اور وجدان اپنے بیٹے ارضاء اور بیٹی حریم کے ساتھ بے حد نہال زندگی میں مگن ہو چکے تھے۔
ہادی اور ہنا کی زندگی کو ابطحی نے جیسے پرنور کر دیا تھا۔
احمد صاحب کی جان بھی اس ننھی عفاف میں بس گئی تھی، شاید عادل اور احمد صاحب کی ویران زندگی میں اکلوتی اور واحد بہار اب صرف عفاف ہی تھی۔
زخم بھر گئے تھے، یا شاید بھر رہے تھے۔
رباب کے جانے کا دکھ نہایت لازوال تھا مگر اس رب نے مرہم بھی باکمال دیا تھا، اور وہ رب واقعی بے حد مہربان ہے۔
ہماری وہاں سوچ بھی نہیں جاتی جہاں اس مالک و دو جہاں کی رحمت پہنچتی ہے، اور وہ بہترین وعدے کی پاسداری کرنے والا ہے۔ وہ بہترین ساتھی ہے، وہ بہترین مددگار ہے۔
اور ہم اپنی زندگی میں اللہ سے بڑھ کر کسی کو ہمدرد نہیں پا سکتے۔ تو اسکے ہو جاو پھر، وہ جو دکھ دے اس پر صبر کرو۔
وہ رب جو خوشی دے اس پر شکر بجا لاو، پھر دیکھنا وہ کیسے ہمارے دل کے زخموں کو بھرے گا۔ کیسا کیسا پرسکون مرہم دے گا۔ سب سے اہم چیز ہی اللہ کی ذات پر بھروسہ ہے، بھروسہ رکھو۔ اللہ ہے ناں، وہ سب ٹھیک کر دینے پر قادر ہے۔ بے شک!
..________________________..
"تم عفاف سے ملو گی تو دیوانی ہو جاو گی،ہاں ناں۔ بلکل تم جیسی ہے۔۔۔ہاں یہ ہے کہ روتی بہت ہے"
عادل رباب کی قبر پر پھول پھینکے اب اسکے ساتھ متبسم آنکھیں لیے کہتا بیٹھ چکا تھا، چہرے پر لازوال سویرا تھا۔
"مجھے پتا ہے بچی ہے، لیکن وہ روتی ہے تو مجھے لگتا ہے تم رو رہی ہو۔ بس پھر جلدی سے چپ کروانے کی کوشش کرتا ہوں"
وہ بڑے دلکش انداز میں اپنی رباب سے اپنی عفاف کا ذکر کیے کہہ رہا تھا۔
"تمہارے بعد ہماری فیملی میں بہت سے نیو میمبرز شامل ہوئے ہیں۔ عفاف، ابطحی، ارضاء اور حریم۔ مجھے لگتا ہے ابطحی سب سے شرارتی ہوگا، وہ موصوف تو ابھی سے آنکھوں میں شرارت لیے دیکھتے ہیں"
عادل اسے یوں بتا رہا تھا جیسے رباب اسکے روبرو تھی اور اسے سن رہی تھی۔ سچ تھا، وہ واقعی اپنے عادل کو آج بھی پورے وثوق اور محبت سے سنتی تھی۔
"تم ہوتی تو ہمارے بھی چھوٹے چھوٹے چار بچے تو ہوتے"
اب کی بار عادل خود ہی ظالم سا مسکرایا۔
"ہاں ہاں کہہ لو کہ میرے عادل پگلو ہیں۔ اجازت ہے بھئی اجازت ہے۔"
وہ اس سے باتیں کرتا ہوا کوئی دیوانہ ہی لگ رہا تھا، ایک سچا پکا اور کھرا دیوانہ۔
جس کی زندگی سے رباب جا کر بھی نہیں جا سکی تھی۔
وہ اسکی خوشبو آج بھی اپنے چاروں طرف پھیلی محسوس کرتا تھا.
"تم خود کو اکیلا مت سمجھنا رباب، مرتے دم تک عادل تمہارے ساتھ رہے گا۔ تم دعا کرو ناں کہ عفاف جلدی سے بڑی ہو جائے اور میں اسکی شادی کروا کر فرصت سے تمہارے پاس آجاوں۔ ہاں میں نے دعا کی ہے کہ اللہ جلد مجھے میری رباب کے پاس بھیج دیں۔ کبھی تو قبول ہوگی ناں، تمہیں بہت مس کرتا ہوں۔ خاص کر جب عفاف کو دیکھتا ہوں"
اور پھر جیسے عادل کی ہنستی آنکھیں دکھ سے پتھر سی ہو گئیں۔ بھلے رباب کی خوشبو اسے جینے کا سہارا دیتی تھی مگر اسکے نا ہونے کا غم عادل کے اندر ویسی ہی تکلیف لیے درج تھا۔
"ہاں جانتا ہوں مجھے حوصلہ کرنا ہے، لیکن تمہارے جانے کا زخم میرے دل کے اسی مقام پر اب تک ہرا ہے۔ پھر جب سوچتا ہوں ناں کہ میری رباب جنت کا پھول بن گئی ہوگی تو تھوڑا حوصلہ مل جاتا ہے "
وہ تھکی سے مسکراہٹ لیے اسکی قبر پر دیوانگی سے ہاتھ پھیر رہا تھا۔ آج تک ہر دن وہ یونہی اسکی قبر پر آکر اپنے سارے دن کا حال بتاتا تھا، اسے یوں لگتا تھا کہ رباب اسکے ساتھ ہے۔
"تم ہمیشہ عادل کی جان رہو گی رباب، اللہ تمہیں اس اگلے جہاں بھی میرا بنائیں۔ تم دعا کرنا، اور بلکل پریشان مت ہونا۔ تم میری روح کا حصہ ہو۔میری ہر سانس کا وجود تمہارے نام سے ہے۔ رباب صرف عادل کی ہے، اور عادل صرف رباب کا"
جی بھر کر بے آس سا ہوتے ہوئے وہ اسکی قبر پر اپنے ہونٹ رکھتا ہوا جیسے اب بھی محبت کا لمس رباب تک پہنچانا چاہتا تھا۔ پھر عادل اپنے آنکھ کی نمی بے دردی سے ہٹاتا ہوا رباب کی قبر کو دیکھتا ہوا باہر کی سمت چلا گیا۔
کئی خساروں کے باوجود وہ اپنے رب کے دیے مرہم پر راضی تھا۔وہ راضی تھا کیونکہ وہ سمجھ گیا تھا کہ رب نے اس پر اسکی طاقت سے زیادہ نہ بوجھ ڈالا تھا نہ ہی درد کی مدت زیادہ طویل رکھی تھی، عفاف جیسا مرہم شاید عادل کی بکھری زندگی کو کسی ایک مرکز پے لے آیا تھا۔
یہی تو زندگی ہے۔ وجدان نے باقاعدہ مسجد کی امامت کا فیصلہ کر لیا تھا، اور اس پر امام مسجد کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔وہ ایک ایماندار آفیسر کے ساتھ ساتھ اللہ کے مزید قریب ہونا چاہتا تھا۔ اور رب نے واقعی ہی اسے چن لیا تھا، اسکے ہر دکھ کو مٹا دیا تھا۔ زالے جیسی پاک دامن اور بے پناہ محبت لٹانے والی شریک حیات سونپی تھی۔
محبت اور چاہت سے سجا ایک پورا خاندان عطا کیا تھا۔ رباب کے ساتھ وہ جب تک رہا تھا اس نے اسے ہر دھوپ اور سختی سے بچایا تھا، اور اسکی اعلی تربیت کر کے رباب کی آخرت بھی سنوار گیا تھا۔ رب عبداللہ سے راضی تھا، اور وہ بھی اپنے رب سے راضی تھا۔
یہ تو استعارے تھے۔
اصل نقطہ تو برائی سے اچھائی کی جانب ہجرت تھا، عبداللہ ایک فرد نہیں ایک سوچ کا نام ہے۔
محبت اور اچھائی کا مجموعہ! ہم بھی تو عبداللہ بننے کی کوشش کر سکتے ہیں ، عبداللہ کی طرح شفاف ہو سکتے ہیں۔ ہم بھی تو رباب کی طرح بن سکتے ہیں، ایک اعلی انسان۔
اور ہم میں سے کتنے ہوں گے جو زالے جیسے ہوں گے، کیا ہم بھی اس کی طرح گناہوں سے نیکیوں کی جانب ہجرت نہیں کر سکتے۔
کتنے ہادی ہیں یہاں، جو دکھ میں لپٹ کر بھی مسکراتے ہیں۔ ہم ہادی کیوں نہیں بن سکتے۔
اور کتنے ہی ہم میں مراد بہلول ہوں گے، کیا ہم اس کہانی کے مراد کا انجام دیکھ کر عبرت نہیں پکڑ سکتے۔
کتنے ہی عاقب ،مصطفی ، رایان، سمی، اور فارس جیسے ہوں گے۔
کیا ہم انکے انجام دیکھ کر سدھر نہیں سکتے۔ ہم بھی تو اچھے بن سکتے ہیں۔
کیونکہ ہمارا اس دنیا میں آنے کا ایک مقصد اللہ نے طے کر رکھا ہے، اللہ کے بتائے اصولوں پر چل کر بھی تو دنیا داری نبھائی جا سکتی ہے۔ پھر ہم کیوں اللہ سے اتنے دور ہیں۔؟
وہ اللہ ہمیں تھام لے گا، گرنے سے پہلے سہارہ دے گا۔ پھر ناجانے کیوں ہم بہت بار اسکی رحمت سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ وہ جو سوہنا رب دکھ دے رہا ہے وہ رب تو اسے مٹانے پر بھی قادر ہے، یہ سچ ہے کہ ہمیں ملنے والی تکلیف صرف ہم اور اللہ ہی جانتے ہیں۔
وہی ہماری اصل خوشی اور اصل دکھ کو بہتر جان سکتا ہے، تو پھر جو مانگنا ہے اسئ سے مانگو۔
اپنا سکون، اپنا قرار، اپنی عافیت، اپنی مضبوطی سب اسی سے مانگو، کہ اگر تم زالے جیسے ہو تو امید رکھو ایک عبداللہ بھی آئے گا۔ اگر تم ہادی جیسے ہو تو اپنا حوصلہ قائم رکھو، کیونکہ انعام اللہ کا وعدہ ہے۔
اگر تم رباب ہو تو یقین رکھو اللہ کے ہاں تمہارا بہت اونچا مقام ہوگا، اور اگر تم مراد بہلول ،عاقب ،مصطفی، رایان ،سمی یا فارس ہو تو خدارا پلٹ آو۔ پلٹ آو، اس سے پہلے کہ تم بھی ویرانیوں کے کسی جلتے میدان پر بے یارو مددگار رہ جاو، اور اپنی آخرت بھی تباہ کر لو۔ اللہ مجھے اور آپ سبکو کامل ہدایت کا انعام دیں، شرط بس اتنی ہے کہ ہدایت کی جستجو ہونی لازمی ہے۔آج سے ہم سب ہی عبداللہ اور زالے بننے کی کوشش کرتے ہیں۔
رباب، ہادی، عادل، ہنا ان سب کی اچھی عادتیں اپناتے ہیں۔
کنزا، بوا اور احمد صاحب جیسی شفقت اوڑھ لیتے ہیں۔
عادل،ہادی، وجدان ،رفیق، اسلم، ساحر، ارسلان اور ایسے ملک کے ہر دلیر آفیسر کو سلام پیش کرتے ہیں۔اور اپنے اوپر انکی ہر اچھی خوبی اوڑھ لیتے ہیں۔
خیلہ ،سعد ،سمیر اور ثانی کی طرح بڑے دل والے بن جاتے ہیں، آئیے ہم آج سے اپنی اصلاح شروع کرتے ہیں۔
یہ ہے "درگاہ عشق" جس میں عشق کی بے پناہ قسمیں تھیں، کسی کو اللہ سے عشق تھا، اور کسی کو اللہ کے بندوں سے۔ یہ دنیا ایک درگاہ ہی تو ہے، جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی عشق میں مبتلا ہے۔کسی کو طاقت سے عشق ہے، کسی کو اپنے فرض سے۔ نوعیت گو الگ سہی پر یہ درگاہ تو بس عشاق کی ہی ہے۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو عمل کی توفیق عطا کرے۔
الحمداللہ ناول کا اختتام ہوا چاہتا ہے۔ اپنئ اس ادنی رائٹر(ایس مروہ مرزا) کو دعاوں میں یاد رکھیے گا۔
ختم شد♡
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Dargah e Ishq Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dargah e Ishq written by S Merwa Mirza .Dargah e Ishq by S Merwa Mirza is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment