Qaid E Ishq Novel By Hifza Javed Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 23 April 2025

demo-image

Qaid E Ishq Novel By Hifza Javed Complete Romantic Novel

Qaid E Ishq Novel By Hifza Javed Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

088dad717791f168a67fef95908670e3
Qaid E Ishq Novel By Hifza Javed Complete Romantic Novel 

Novel Name: Qaid E Ishq 

Writer Name: Hifza Javed

Category: Complete Novel

حور سمیت پورا خاندان آج اپنے گائوں آیا تھا۔حور اور تحریم اپنے والدین کی دو ہی اولادیں تھی۔حور بے انتہا خوبصورت تھی۔حور کے تایا گائوں میں زمینوں کی دیکھ بھال کرتے۔ان کے ایک بیٹے اور بیٹی نے گھر میں رونق کر رکھی تھی۔بیٹے کی شادی کچھ دن پہلے ہی کہ تھی حور کے تایا نے۔جمیل بھائی آج سب لڑکیوں کو گائوں کے پاس جھیل پر لے جارہے تھے۔اس جھیل کے بارے میں ایک داستاں مشہور تھی۔یہاں پری زاد آتے ہیں۔پریوں کو تو بہت سے لوگوں نے دیکھا بھی تھا۔ایک کہانی یہ  بھی لوگوں نے مشہور کر رکھی تھی کہ یہاں آنے والے پری زاد ان کو اگر کوئی پسند آجائے تو وہ انہیں ساتھ ہی لے جاتے ہیں اور پھر ان کا نام و نشان اس دنیا سے ختم ہو جاتا ہے۔شائستہ اس خوبصورت جھیل کے سکت پانی کو دیکھتے ہوئے سب کو داستاں سنا رہی تھی۔عالیہ بھابھی تو شائستہ کی باتوں پر ہنس رہی تھی۔

"بھابھی  کسی دن سچ میں کوئی پری زاد آپ کے سامنے آگیا نہ تو آپ کو لگ پتا جائے گا۔"

"یہ نہ ہر وقت ایسی ہی باتیں کرتی رہتی ہے اس کی باتوں کو اتنا زیادہ سنجیدہ مت لیا کرو لڑکیو۔اٹھو آئو تم سب کو زمینوں پر لے کر چلتے ہیں۔"

عالیہ سب لڑکیوں کے ساتھ زمینوں کی طرف چلی گئی۔حور نے اس وقت اپنے بال کھول رکھے تھے اور شانوں پر چادر پھیلا رکھی تھی۔اچھی خاصی سردی تھی یہاں اس علاقے میں مگر حور کو شوق چڑھا کہ آج سویٹر کے بغیر جاتے ہیں اور ابھی حور کو ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا جسم کانپ رہا ہو۔دن چار بجے کا وقت تھا اور دھوپ جا رہی تھی ۔شام چھ بجے تک گائوں میں مکمل اندھیرا ہوجاتا تھا۔یہ منظر بڑا سحر انگیز تھا۔حور کی آنکھیں جاتی دھوپ کے سائے میں نیلی محسوس ہورہی تھی جبکہ اکثر اس کی آنکھوں کا رنگ کانچ جیسا سبز ہوجاتا۔اس کی آنکھیں اس کی خاصیت تھی۔جب یہ پیدا ہوئی تھی تو ایک بابا ان کے گھر آئے تھے۔بابا جی نے جیسے ہی حور کو دیکھا تھا اس کا نام تجویز کر دیا تھا حور۔وہ بابا حور کے والد سے بہت دن تک ملتے رہے پھر ایک دن وہ ان کے گھر آئے اور ایک عجیب بات کہی ۔

"اپنی بیٹی کو کبھی اپنے گائوں نہ لے جانا۔اس کی لکیروں میں ایک عجیب داستان ہے جو پوری ہوگئی تو تم اپنی بیٹی کو ہمیشہ کے لیئے کھو دو گے۔تمہاری بیٹی بڑے ہوکر ایک پری جیسی خوبصورت ہوگی اس کی بہت حفاظت کرنا اتنی خوبصورتی اس کے لیئے کوئی مصیبت لا سکتی ہے۔" اس دن کے بعد وہ بابا جی کبھی حور کے والد کو نہیں ملے۔حور سچ میں جوان ہوکر سب کو پیچھے چھوڑ گئ تھی۔اس کی عمر 20 برس تھی اور یہ کالج میں بی اے کے پیپر دے کر فارغ ہوئی تھی۔خوبصورت لمبے اور پتلے ہاتھوں کے ساتھ حور اگر کوئی سخت کام کرتی تو اس کے ہاتھ سرخ ہوجاتے تھے۔اس کی والدہ ایک ہی بات کہتی تھی کہ نجانے ان کی بیٹی کی شادی کہاں ہوگی یہ تو اتنی نازک پے ذرا سی سختی برداشت نہیں کر سکتی ۔گڑیا جیسے سنہری بالوں والی حور اپنی بہن تحریم کی جان تھی جو اس سے چار سال بڑی تھی اور ڈاکٹر بن رہی تھی۔دونوں بہنوں میں بے انتہا فرق تھا۔حور بات بات پر پریشان ہوجاتی تھی جبکہ تحریم بہت تیز دماغ رکھتی تھی۔

حور شائستہ اپنی کزن کے ساتھ جھیل کے پاس تھی۔شائستہ کو کوئی کام تھا ویسے بھی تھوڑی دیر میں انہوں نے یہاں سے چلے جانا تھا۔آج اتوار کا دن تھا اور بہت سے لوگ کہتے تھے کہ۔ہفتے کے آخر میں اس گائوں کے حصے اور جھیل پر پڑی زاد آتے ہیں ۔

حور بہت دیر سے اس جھیل کے پاس تھی اور جھیل کے پانی کو دیکھ رہی تھی جو نیلے رنگ کا تھا۔حور کو شائستہ بلانے کے لیئے آئی۔

جھیل پر سیر کرتے ہوئے حور کو عجیب سا احساس ہو رہا تھا۔شائستہ پیچھے سے آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

"چل چھوٹی گھر چلیں ۔تایا جان کہہ رہے ہیں کہ یہ علاقہ اس وقت ٹھیک نہیں رہتا۔"

"آپا آپ جائیں آتی ہوں میں میری کچھ چیزیں رہ گئی ہیں پیچھے۔"

"اچھا جلدی آجا۔"

حور پیچھے مڑی اور اپنی چیزیں اٹھانے گئی۔جھیل کے پاس آتے ہی اسے احساس ہوا کہ کسی نے جھیل میں چھلانگ لگائی ہے۔حور نے اپنی خوبصورت آنکھیں سامنے کی تو ڈر کے چونک گئی۔کوئی جھیل میں نہا رہا تھا۔حور اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کے وجود سے اس وقت یہی ظاہر ہورہا تھا جیسے یہ کوئی وحشی ہے۔حور نجانے کیوں کھڑی ہوگئی ۔حور کے ہاتھ میں اٹھایا ہوا بیگ نیچے گرا۔تیرتے شخص نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔حور اسی لمحے ساکت ہوگئی کیونکہ میرون رنگ آنکھیں اس نے زندگی میں پہلی بار دیکھی تھی۔حور نے اس شخص کو دیکھا مگر پھر چکرا کر جھیل میں ہی گری۔پانی میں گر جانے کے بعد اسے ہوش نہیں رہا۔یہ شخص تیرتا ہوا حور تک آیا اور اسے اوپر کیا۔حور کا چہرہ دیکھ کر یہ شخص حیران رہ گیا۔کوئی اتنا خوبصورت بھی ہوتا ہے۔بے ہوش حور کے چہرے پر ہاتھ پھیرے ہوئے اس شخص نے ایک عجیب احساس محسوس کیا۔اسی لمحے اس کے پاس ایک ہیولہ نمودار ہوا۔

"شہزادے واپس چلیں۔"

"کیوں"

"بادشاہ نے آپ کو یاد کیا ہے اور یہ انسان آپ کے پاس کیا کر رہی ہے۔"

"تمہیں اس سے مطلب۔"

یہ شخص حور سمیت جھیل سے باہر آیا۔جانا ضروری تھا مگر اس کا دل بخاوت پر اتر آیا۔اس پری کو چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا تھا یہ۔آخر اس نے حور کو اٹھایا اور ساتھ لیا۔

"شہزادے ایک انسان ۔۔۔۔۔۔:"

ہیولہ غائب ہونے سے پہلے بولا۔

"شہزادی کہو اسے۔جس چیز پر میری نظر پڑ جائے وہ میری ہوتی ہے۔"

یہ شخص حور کو اس کی دنیا سے بہت دور لے گیا۔

شائستہ جو حور کی طرف آرہی تھی اس کی چیخیں بلند ہوئی۔

"ابو جی ابو جی ۔۔۔۔۔"

"کیا ہوگا شائستہ کیوں شور  مچا رکھا ہے جیسے کوئی جن دیکھ لیا ہو تم نے۔"

"وہ ہماری حور کو کوئی اٹھا کر لے جارہا تھا وہ غائب ہوگیا۔"

"کیا کہہ رہی ہے لڑکی تیرا دماغ چل گیا ہے داستانوں کو سن سن کر۔"

"نہیں ابو جی میرے سامنے حور غائب ہوئی۔"

عالیہ اور تحریم بھی آگئی جو فورا جھیل کے پاس گئی۔یہاں بیگ پڑا ہوا تھا اور کچھ دیگر چیزیں مگر حور نہیں تھی نہ حور کا نام و نشان۔

" دو منٹ پہلے میں نے حور کو یہاں ہی دیکھا تھا۔"

عالیہ کے بھی پیسنے چھوٹ گئے۔

ایک بابا کہیں سے ان کے سامنے آیا۔

"کہا تھا نہ مت تنہا چھوڑنا اپنی بیٹی کو۔اس کے ہاتھوں میں لکھی ہوئی داستان پوری ہوجائے گی اب۔تم نہیں جانتے تھے کیا کہ تمہاری بیٹی کتنی خوبصورت ہے وہ اسے لے گیا ہے اپنی دنیا میں اور اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے۔"

"کیا کہہ رہے ہو تم ہمیں بتائو ہماری بیٹی کہاں ہے۔"

تایا جان جیسے ہی آگے آئے یہ بابا غائب ہوگیا ۔سب لڑکیوں کی چیخیں نکل گئی ۔

"بابا میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے خود حور کو اس لمبے سے وحشی آدمی کے پاس دیکھا تھا

ایسا لگ رہا تھا حور بے ہوش ہے۔"

تایا جان کو تو اس لمحے کچھ سمجھ نہ آیا۔

" حور ندی میں تو نہیں گر گئی نہ ابو۔"

عالیہ نے اپنے دل کی بات کہی۔تایا جان نے یخ ٹھنڈے پانی میں چھلانگ لگائی اور اپنی بھتیجی کو ڈھونڈنے لگے مگر وہ ہوتی تو ملتی۔

__________________________

پھولوں کی مہک ہر طرف پھیلی کوئی تھی ۔ملکہ بادشاہ لے ساتھ تخت پر بیٹھی کوئی تھی۔ہر طرف سب منتظر تھے کہ کب شہزادے آئیں گے۔ملکہ کے کان میں ایک ملازمہ نے آکر کچھ سرگوشی کی۔ملکہ فورا تخت سے اٹھی۔

"معذرت بادشاہ سلامت میں آتی ہوں۔مجھے اجازت دیں کچھ ضروری امور آگئے ہیں۔"

"بلکل ملکہ آپ جائیں۔"

ملکہ فورا شہزادے کے کمرے کی طرف چلی گئی۔ملکہ جیسی ہی شہزادے سلطان کے کمرے میں آئی انہیں بستر پر ایک لڑکی لیٹی ہوئی نظر آئی اور اس پر شہزادے سلطان جھکے ہوئے تھے ۔شہزادے شاید اسے جگانے کی کوشش کر رہے تھے۔

"شہزادے۔۔۔۔۔"

ملکہ کی باتوں آواز کمرے میں گونجی۔شہزادے نے مڑ کر اپنی والدہ کو دیکھ جو اس لڑکی کی موجودگی شہزادے کے کمرے میں دیکھ کر سخت برہم ہوئی۔شہزادے بیڈ سے اٹھے اور ملکہ کے سامنے جھکے۔ملکہ ہمیشہ انہیں پیار سے بلاتی تھی اور سر پر ہاتھ پھیرتی مگر آج ملکہ ان سے شاید برہم تھی ۔

"یہ سب کیا ہے شہزادے۔ یہ آپ کس کو لے آئے ہیں۔آپ کیا محل کے اصولوں سے واقف نہیں کہ یہاں کوئی ایسے نہیں آسکتا اور بھی بنا بادشاہ کی اجازت کے۔"

"ہم معافی چاہتے ہیں والدہ مگر ہی کوئی غیر نہیں ہیں ہم نے انہیں اپنے محل کی شہزادی کے طور پر چنا ہے۔ہمارے محل کے اگلی شہزادی ہیں یہ۔"

"کیا آپ نے اتنا بڑا فیصلہ ہماری اجازت کے بغیر لے لیا۔"

شہزادے کو پیچھے چھوڑ کر ملکہ جیسے ہی بیڈ کے پاس آئی یہ حور کی خوبصورتی دیکھ کر حیران رہ گئی۔مگر حور کی نازک مزاجی اور خوبصورتی نے انہیں ایک بات سمجھنے پر مجبور کر دیا جو یہ نہیں سمجھنا چاہتی تھی۔

"انسان ایک انسان آپ ایک انسان کو ہماری دنیا میں لے آئے ہیں۔آپ جانتے ہیں انسان اور ہم ایک دوسرے کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھتے اس کے باوجود آپ ایک انسان کو ہمارے محل لے آئے۔"

"ہمیں یہ اچھی لگی ملکہ اور آپ نے ہی کہا تھا کہ یہ ہم فصیلہ کریں گے کہ ہمیں کس سے شادی کرنی ہے تو ہم اپنی پسند لے آئے۔"

"یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے شہزادے سلطان۔یہ تو یہاں کی دنیا ہی دیکھ کر خوف سے مر جائیں گی۔"

"ایسا کچھ نہیں ہوگا ملکہ ہم خود انہیں اس دنیا کے اصول سیکھایئں گے۔ہم ان سے نکاح کرنا چاہتے ہیں۔یہ ہوش میں آئیں گی تو ہم چاہتے کہ آپ بادشاہ سلامت سے بات کریں ہمارے نکاح کی۔"

"آپ اپنی حرکت کا نتیجہ جانتے ہیں شہزادے۔تخت پر بیٹھنے والا آپ کا بچہ ہوگا اور اگر آپ نے انسان سے شادی کرلی تو آنے والے وقت کا کچھ پتا ہے آپ کو۔"

"ہمیں کچھ نہیں پتا والدہ ہمیں اپنی شہزادی کے طور ہر یہی چاہیں۔آپ بادشاہ سے بات کریں۔"

"آپ اپنے ساتھ ساتھ اس معصوم پر بھی ظلم کر رہے ہیں۔"

"نہیں والدہ یہ ہمارے پیار سے بلکل ٹھیک ہو جائیں گی۔"

آپ کا پیار ان کے لیئے قید ہوگا جو انہیں سب چیزوں سے دور لے جائے گا یہ پری زاد نہیں انسان ہیں اور نرمی کی عادی یہ آپ کے ساتھ آنے والی کسی سختی کو برداشت نہیں کر پائیں گی۔"

"ہم ان کی حفاظت کرلیں گے والدہ آپ ہمیں بادشاہ کی اجازت لے دیں۔"

ملکہ مجبور ہوکر اٹھی مگر جانے سے پہلے پیچھے مڑ کر بولی ۔

"انہیں مہمان خانے پہنچا دیں آپ کے نکاح کے بعد یہ آپ کے کمرے پر حق رکھ پائیں گی شہزادے۔"

جی والدہ۔"

محل میں خبر پھیل گئی کہ ایک انسان ان کے درمیان ہے۔

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ  مت کریں

بادشاہ سلامت اس وقت اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ملکہ ان کے پاس آئی اور اپنے تخت پر بیٹھی گئی۔

"بادشاہ سلامت ہم نے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"

"آپ کو اجازت کی ضرورت کب سے پڑ گئی ملکہ۔"

"اکیلے میں بات کرسکتے ہیں کیا ہم آپ سے۔"

"کیوں نہیں ملکہ۔دربار کو خالی کیا جائے۔اگلا دربار کل صبح لگے گا۔"

سب لوگ باہر چلے گئے۔اس شاہی کمرے میں صرف ملکہ اور بادشاہ شہریار رہ گئے تھے۔

"آپ کے بیٹے کو اپنے لیئے شہزادی پسند آگئی ہے شہریار ۔"

بادشاہ نے اپنی ملکہ کو دیکھا پھر خوش ہو کر بولے۔

"کون ہے وہ جو ہمارے بیٹے کی پسند ہے۔"

"ایک انسان ہے شہریار بہت معصوم۔آپ کا بیٹا اسے اس کی دنیا سے بہت دور لے آیا ہے۔"

بادشاہ شہریار فورا اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے۔

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ملکہ۔"

"ہم بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ کو یقین نہیں آتا تو مہمان خانے میں ہم نے اس انسان کو ٹھہرایا ہے۔"

بادشاہ فورا سے ملکہ کے ساتھ مہمان خانے چلے گئے۔

__________________________

یہ کیسا نرم احساس ہے جو مجھے ہو رہا ہے۔ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے جیسے میرے اردگرد بہت سارے پھول اور تتلیاں ہوں۔شاید میرا خیال ہے۔لیکن یہ میرا خیال کیسے ہوسکتا ہے۔

"سنو لڑکی ۔"

مجھے یہ آواز آرہی تھے نزدیک سے جیسے کوئی بہت پاس ہو۔جب میری آنکھ مکمل طور پر کھلی تو میں نے خود کو ایک بستر پر پایا۔یہ بستر میرے گائوں والے گھر کا تو نہیں تھا۔میرے ساتھ ہی ایک عورت بیٹھی تھی جو کچھ گیلا گیلا میرے سر پر رکھ رہی تھی۔

"آپ ڈرو مت ہم آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گے۔"

میں نے ایسی عورت اپنے گائوں میں تو نہیں دیکھی تھی۔سفید موتیوں والا لباس پہنے چمکتے ہوئے چہرے والی یہ عورت میرا سر سہلا رہی تھی۔اس کی آنکھیں میروں سے رنگ کی تھی جو میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی۔شاید میں خواب دیکھ رہی ہوں ۔مگر جب اس عورت نے دوبارہ کپڑے کی مدد سے میرے سر پر کچھ ٹھنڈا سا لگایا تو مجھے علم ہوا یہ خواب نہیں حقیقت ہے۔اسی لمحے میں فورا سے بستر سے اٹھی۔میرے اردگرد بہت سی تتلیاں اڑی اور دور جاکر بیٹھ گئی۔میں چلتے ہوئے تھوڑا آگے آئی تو سامنے دروازہ تھا جس کے پاس پار پھول اور خوبصورت آبشار تھے۔

"میں کہاں ہوں میں تو جھیل میں تھی۔"

"آپ ہماری دنیا میں ہیں پریوں کی دنیا میں۔"

پریستان۔۔۔۔"

میرے منہ سے بے اختیار نکلا۔اسی لمحے کمرے کا دروازہ کھلا جو پچھلی طرف تھا۔اندر ایک 50 سالہ آدمی آیا جس نے بھورے رنگ کی شاہی سادی سی پوشاک پہنی ہوئی تھی۔اس کی پوشاک کے ساتھ سر پر ایک تاج تھا۔ساتھ میں ایک عورت تھی جس نے سفید رنگ کا شاہی طرز کا ماہرانی فراک پہنا ہوا تھا۔سر پر ڈوپٹے کے ساتھ تاج تھا ۔میرے سامنے جو عورت تھی وہ ان دونوں کے سامنے جھکی۔

"سلام ملکہ اور بادشاہ سلامت۔"

"تم جائو یہ کمرہ خالی کرو ہم اس انسان سے اکیلے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔"

میں نے اس شخص کو دیکھا جسے یہ عورت جو ملازمہ تھی بادشاہ کہہ رہی تھی۔اس کی آواز میں ایک رعب تھا۔ملازمہ کے جانے کے بعد میں نے خود پر نظر کی۔میں نے گھر والے سفید کپڑے پہن رکھے تھے مگر میرے سر پر اس لمحے ڈوپتا تھا۔

"تو آپ ہو وہ انسان جو میرے بیٹے کو اچھی لگی ہے۔"

"میں ان کے لفظوں کو سن کر حیران ہوگئی

مجھے یاد تھا تو اتنا کہ ایک شخص کو دیکھا تھا جھیل میں میں نے اس کے بعد میں جھیل میں گری تھی۔یہ عجیب سے جگہ تھی ۔

"دیکھیں سر میں آپ کو نہیں جانتی ۔یہ ضرور کوئی مذاق ہے نہ میرے ساتھ بہت بڑا۔آپ کون ہیں مجھے سچ بتا دیں اور مجھے یہاں کیوں رکھا ہے۔"

"آپ ہمارے ریاست میں ہیں اور ہمارے بیٹے شہزادے سلطان کو آپ بھا گئی ۔وہ آپ کو انسانی دنیا سے اپنے ساتھ لے آئے۔"

ان کی بات سن کر مجھے ہنسی آگئی۔کیسی باتیں کر رہے تھے بھلا میں اپنی دنیا سے دور کیسے ہوسکتی ہوں۔

"آپ مذاق مت کریں میرے ساتھ سر۔"

سفید کپڑوں والی عورت میرے نزدیک آئی اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔

"ہم جانتے ہیں آپ کے لیئے اس بات کا اعتبار مشکل ہے مگر آپ اس وقت ہماری دنیا میں ہیں۔ہم ایک پری ہیں اور یہاں اس سلطنت کی ملکہ۔"

مجھے ان کی بات اب بھی مذاق لگی۔بادشاہ جہنیں سب بادشاہ ہی کہہ رہے وہ بولے۔

"ہمارے ہاں کبھی کسی انسان کے ساتھ کسی شہزادے نے شادی نہیں کی۔مگر سالوں پہلے ہمارے ہاں ایک بابا جی ہوتے تھے وہ نجانے کہاں چلے گئے وہ کہا کرتے تھے کہ ہمارے بیٹے کی قسمت میں ایک داستان ہے ۔ہمارا بیٹا کسی کے عشق میں مبتلا ہوگا مگر شہزادی ہماری دنیا کی نہیں ہوگی۔ہم مذاق سمجھتے تھے مگر آپ کو دیکھ کر علم ہوا کہ یہ سب سچ ہے۔"

بابا یہ کس بابا کا ذکر کر رہے جو میرے بچپن میں آیا تھا اور میرے بارے میں اس نے ماما بابا کو بتایا تھا۔شاید یہ لوگ میرے ساتھ کوئی مذاق کرہے ہیں کوئی بہت بڑا مذاق ۔

"آپ لوگوں کیسی بات کو نہیں مانتی میں۔یہ سب باتیں جھوٹ ہیں۔"

ملکہ جہنیں بادشاہ نے مخاطب کیا میرے سر پر ہاتھ پھیر کر بولی۔

"ہمارے ہاں رسم ہے جس کو شہزادے اپنی شہزادی کے طور پر قبول کرتے ہیں اسے ہمارے خاندان میں آنا ہوتا ہے۔ہم بلکل نہیں جانتے تھے کہ شہزادے ایک انسان کو پسند کریں گے ۔"

"ملکہ آپ انہیں سمجھا دیں یہ ہمارے بیٹے کی پسند ہیں تو ہمیں بھی قبول ہیں۔ہم اس شادی کے لیئے کبھی نہ مانتے مگر ہم مجبور ہیں کیونکہ ولی عہد شہزادے نے انہیں چن لیا ہے اب ہم کچھ نہیں کرسکتے۔آپ نکاح کی تیاری کریں اور انہیں بھی سمجھا دیں۔"

میرے سامنے یہ سب کیا ہورہا تھا۔بادشاہ بات کر کے باہر چلے گئے۔ملکہ نے میرا ہاتھ تھاما ۔میں اس وقت سکتے میں تھی۔میں نے ملکہ سے ہاتھ چھڑایا اور اٹھنے کی کوشش کی۔ملکہ کی گرفت بہت مضبوط تھی۔

"اس سب کا کوئی فائدہ نہیں میری جان۔اب آپ کو یہاں ہی رہنا ہے بیٹا ۔ہمارا بیٹا جب آپ کو لایا تھا تب ہمیں بلکل اچھا نہیں لگا تھا مگر ہم کیا کر سکتے ہیں آپ اب ولی عہد شہزادے کی شہزادی ہیں یعنی ان کے ساتھ تخت پر ملکہ کے طور پر بیٹھیں کی آپ مستقبل میں۔"

"دیکھیں میرے ساتھ ایسا مذاق مت کریں۔میرے والدین منتظر ہوں کے۔وہ مجھے نہ پاکر پریشان ہوجاتے ہیں۔آپ کے بیٹے کو میں نہیں جانتی اور نہ ہی ایسی کسی دنیا پر یقین ہے مجھے۔"

میرا لہجہ مضبوط تھا۔ملکہ نے میرے ہاتھ تھام لیا اور مجھے پیار سے سمجھایا۔

"میں صرف تمہیں اتنا کہوں گی کہ تم یقین کرو نہ کرو مگر یہ بھی ایک دنیا ہے۔دیکھو ہم بھی تمہارے طرح ہی ہیں مگر کچھ فرق ہے ہم میں۔تم ہمارے خاندان میں شامل ہونے والی پہلی انسان ہو جو شہزادی بنے گی۔تم یہ نکاح کرلو اس کے بات میں شہزادے سے سے کہوں گی کہ وہ تمہیں ہوسکے تو تمہارے دنیا میں لے جائے۔"

"آپ سچ میں مجھے یہاں سے نکالیں گی۔"

ملکہ نے نجانے کیوں مجھ سے منہ پھیر لیا۔ملکہ کہ آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا ۔

"اس محل میں جو لڑکی شہزادی بن جاتی ہے پھر اس کی زندگی اس کے شہزادے کے مطابق ہوتی ہے۔وہ بادشاہ کے ساتھ اس کے دربار میں بیٹھی اس کے لوگوں کے ہر کام کرتی ہے مگر درحقیقت وہ شہزادے یا بادشاہ کی محبت میں قید کر لی جاتی ہے۔ہمارے ہاں محبت بہت اہم مانی جاتی جو شہزادی شہزادے کی پسند ہوتی ہے اس پر کسی کا کوئی اختیار نہیں ہوتا سوائے شہزادے کے۔وہ صرف شہزادے کا کہنا مانتی ہے باقی سب اس کے حکم کو مانتے ہیں۔"

میری اپنی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

"دیکھیں آپ اتنی اچھی ہیں آپ مجھے جانے دیں نہ۔میں کسی کو اس دنیا کے بارے میں نہیں بتائوں گی۔"

"میں کچھ نہیں کر سکتی میرا بیٹا ۔یہاں حکم بادشاہ کا چلتا ہے وہ حکم دے کر جا چکے ہیں آپ مان جائو میں شہزادے سے بات کروں گی۔"

میں نے نجانے کیوں ان غیر لوگوں میں ایک مہربان پر اعتبار کر لیا۔ملکہ میرے پاس سے اٹھ گئی۔ملکہ شہزادے سلطان کے پاس تھی۔

________________________

"سلطان آپ کے بابا نے نکاح کی اجازت دے دی ہے۔۔"

"شہزادی راضی ہوگئی۔"

"ہاں میں نے راضی کر لیا اسے ۔مگر ایک شرط پر۔"

"کیسی شرط والدہ۔"

"آپ انہیں ان کی دنیا میں جانے کی اجازت دیں گے۔"شہزادے سلطان نے اپنی ماں کی طرف دیکھا پھر اپنا چہرہ دوسری طرف موڑا ۔

"ہم انہیں لے جائیں گے مگر ابھی نہیں ۔جب ہمیں مکمل طور ہر اعتبار ہوجائے گا کہ وہ اب ہماری ہیں اور ہمیں ہماری دنیا سمیٹ قبول کر چکی ہیں تب ہم انہیں لے جائیں گے۔"

"شہزادے یہ غلط ہے آپ ان کے ساتھ ناانصافی کریں گے۔"

"مگر اب کوئی راستہ نہیں والدہ۔وہ اگر اپنی دنیا میں واپس جاتی ہیں تو زندہ نہیں رہ پائیں گی اس لیئے ہم نہیں چاہتے کہ وہ ہم سے الگ ہوں۔"

"محبت کرتے ہیں نہ جس سے اسے عشق کے زندانوں میں قید نہیں کرتے۔ہم اگر کسی چیز کو بہت مضبوطی سے تھامتے ہیں تو وہ چیز ہمارے پاس زیادہ عرصہ نہیں رہ پاتی شہزادے۔"

"ہم جانتے ہیں والدہ اور مستقبل کے حکمران ہونے کہ حیثیت سے ہم نے اپنی ملکہ کا انتخاب  بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے ہمیں امید ہے کہ مستقبل میں وہ ایک بہت اچھی ملکہ ثابت ہوں گی۔"

" مگر شہزادے ایک بات یاد رکھئے گا اگر وہ اچھی ملکہ ثابت ہو بھی گئی تو ایک اچھی ماں یا بیوی ثابت نہیں ہو پائیں گی۔"

" ہم نے انہیں جس نظر سے دیکھا ہے آپ وہ نہیں جانتی والدہ۔ ان کی آنکھوں کی چمک بتاتی ہے کہ وہ صرف ہمارے لئے ہی بنی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بہت جلد رہنا سیکھ جائیں گی اور آپ اس بات کی امید رکھیے کہ ہم کبھی ان کے ساتھ زور زبردستی نہیں کریں گے۔"

" امید ہے کہ تم اس کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آؤ گے۔"

" ٹھیک ہے والدہ اب ہم تھوڑی دیر کے لئے تنہائی چاہتے ہیں۔"

ملکہ جا چکی تھی شہزادے سلطان کھڑکی کے پاس آئے اور باہر کے خوبصورت نظارے دیکھنے لگے ۔شہزادے سلطان کو زندگی میں کبھی کسی کو دیکھ پر وہ احساس نہیں ہوا تھا جو احساس انہیں حور کے ساتھ ہونے سے ہوا تھا۔شاید ان دونوں کا ساتھ بہت عرصے پہلے کا تھا۔شہزادے سلطان جو کرنے جا رہے تھے اس کے مستقبل کے بارے میں وہ نہیں جانتے تھے مگر انہیں امید تھی کہ یہ درست ہیں۔

________________________________

 حور کے چلے جانے کے بعد گاؤں میں لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کرنا شروع کر دی کچھ لوگ تو یہ کہہ رہے تھے کہ نہ جانے حور کہاں چلی گئی ہے کچھ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ شاید کوئی جنگلی جانور اسے کھا گیا ہے۔

" بھائی صاحب آپ لوگوں کے ساتھ میری بچی گئی تھی مجھے بتائیے نا وہ کہاں پر ہے۔"

" میں تمہیں کیسے بتاؤں مجھے خود نہیں جانتا ۔ہمارے سامنے ہی تھی ایل لمحے میں نہ جانے کہیں چلی گئی وہ۔ہمارے سامنے ہی وہ غائب ہوگئی ۔ میں نے اسے جھیل میں بھی دیکھا مگر جھیل میں بھی نہیں تھی۔

" بھائی صاحب میری بہت لاڈلی بچی ہے وہ ہم نے اسے آج تک ایک خراش بھی آنے نہیں دی وہ تو چھوٹی چھوٹی باتوں پر ڈر جایا کرتی تھی نہ جانے کیسی ہوگی اب۔"

" تم پریشان مت ہوں مجھے امید ہے وہ جہاں بھی ہوں گی اچھی ہوگی میں ایک آدمی کے بارے میں جانتا ہوں وہ شاید ہمیں ہماری حور کے بارے میں کچھ بتانا پائے۔"

" تو اس کے پاس لے جائیے نہ ہمیں بھائی صاحب آپ کو پہلے بتانا چاہیے تھا چلیں اس کے پاس جلد سے جلد مجھے لے کر جائیں میں چاہتا ہوں جتنی جلدی ہو سکے ہم اپنی بیٹی کو واپس لے آئیں۔"

حور کے والد اپنے بھائی کے سامنے بیٹھے اپنی لاڈلی بیٹی کو یاد کر رہے تھے۔سب جگہ دیکھا تھا اسے مگر کہیں اس کا نام و نشان نہیں تھا۔

تحریم  اپنی روتی ہوئی ماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی جن کو صبر ہی نہیں آرہا تھا۔

"چچی تھوڑا سا کھانا کھا لیں۔"

عالیہ بھابھی حور کی والدہ کے آگے کھانا رکھتے ہوئے بولی۔

"ہائے کیسے لگا لوں میں عالیہ ۔میری بچی کوئی سخت چیز ہاتھوں سے نہیں اٹھاتی تھی نجانے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں ۔مجھے میری بیٹی لا دو عالیہ ۔"

"بس کریں چچی تھوڑا صبر کریں ۔"

"ہم سے غلطی ہوگئی بھابھی ہمیں اس جھیل پر جانا ہی نہیں چاہیئے تھا۔"

"تحریم ہمیں تھوڑی نہ علم تھا کہ یہ سب ہوجائے گا۔بس اب دعا کرو حور جہاں ہو ٹھیک ہو۔"

یہ سب نہیں جانتے تھے کہ شاید اب کبھی ان کی ملاقات اپنی بیٹی سے ہو۔

__________________

نکاح کا سامان آچکا تھا۔حور بستر پر خاموش بیٹھی تھی۔اسے محسوس ہو جیسے بہت ساری تتلیاں اس کے پاس آئی ہو۔یہ اٹھ دروازے کے سامنے بنے آپشار کے پاس آئی جس کے اندر اور باہر تتلیاں کا ڈھیر تھا۔حور اگر عام حالات میں ایسی جگہ پر آتی تو بہت زیادہ خوش ہوتی۔اسے عجیب سے بے چینی تھی کہ نجانے کیا ہوگا ۔

"بہت جلد میں آپ کے اور بابا کے پاس موجود ہوں گی ماں۔مجھے امید ہے یہ ایک خواب ہے جس سے بہت جلد میں جاگنے والی ہوں اور آپ سب کے درمیان موجود ہوں گی۔"

میری اجازت کے بغیر کاپی پیست مت کریں 

سلطان عرشمان آج بہت دنوں بعد اپنے دوست سے ملنے شہریار بادشاہ کی ریاست میں آئے تھے۔ان کا حکم یہاں کی تمام ریاستوں میں چلتا تھا جہاں پریاں  اور پری زاد رہتے تھے۔عرشمان کی اپنی ریاست تھے مگر جب سب ریاستیں بیٹھی تو ان کا حکم مانا جاتا۔ان کی عمر 37 کی قریب تھی مگر انہیں اپنی رانی کا انتظار تھا جس نے انہیں بہت انتظار کروایا تھا۔عرشمان کو خبر ہوئی کہ ایک انسان شہریار کے بیٹے سے شادی کر رہی ہیں تو یہ شہریار کی ریاست میں یہ دیکھنے آئے کہ کیوں ایک پری زاد انسان سے شادی کر رہا ہے ۔یہ دربار میں آئے تو شہریار انہیں دیکھتے ہی کھڑے ہوگئے۔

"سلام بادشاہ عرشمان۔"

"سلام شہریار کیسے ہو۔سنا ہے بیٹے کی شادی کر رہے ہو وہ بھی ہمیں خبر دیئے بغیر ۔"

"بادشاہ سلامت بس آج ہی اس بات کا فیصلہ لیا ہم نے۔آپ بیٹھیں ہم معذرت خواہ ہیں کہ ہم نے آپ کو پہلے خبر نہ کی۔ہم سوچ رہے تھے کہ ولیمے پر سب کو دعوت نامہ بھیجیں گے۔"

"کوئی نہیں ہم دیکھنا چاہیں گے اس انسان کو جس نے تمہارے بیٹے کا دل چرایا ہے۔"

عرشمان بیٹھ گئے۔یہ نہیں جانتے تھے کہ اب یہاں سے ان کے ساتھ ان کی رانی واپس جائے گی ۔

__________________________

سفید اور گلابی پھولوں کے کام والا یہ لمبا سا فراک مجھے پہنایا جا رہا ہے جس کو پکڑنے کے لیئے بہت سی ملازمایئں ہیں۔ایک ملازمہ میرے پاس آئی یہ کسی عرشمان کے بارے میں ذکر کر رہی تھی۔

"بادشاہ عرشمان آگئے ہیں۔وہ آج اچانک ہی آگئے ورنہ ان کے یہاں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"

میں ان کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔

"کیا بادشاہ کی ملکہ بھی ساتھ آئی ہیں۔"

"ارے نہیں ان کی تو شادی ہی نہیں ہوئی۔سنا ہے وہ کہتے ہیں جس دن مجھے کوئی لڑکی اچھے لگے کی اسے ملکہ بنا دوں گا۔37 سال کے ہوگئے ہیں مگر شادی نہیں کی۔"

"ویسے ان کے ساتھ کوئی لڑکی رہ بھی تو نہیں سکتی نہ۔ان کی والدہ نے ان کی شادی کے لیئے لڑکیاں تلاش کی مگر بادشاہ نے منع کر دیا۔"

میرے سر پر خوبصورت سا گلابی ڈوپٹہ سجاتے ہوئے دونوں ملازمایئں آپس میں باتیں کر رہی تھی ۔میرے دل میں ایک عجیب سا احساس تھا جیسے آج کچھ غلط ہونے والا ہے۔میرے پیروں میں جوتے پہننے کے بعد کچھ لڑکیاں مجھے باہر لے جانے لگی۔یہ ایک بڑا سا کمرہ تھا شاید یہاں سب لوگ جمع ہوتے تھے۔مجھے لڑکیوں نے ایک تخت پر بٹھایا۔اسی لمحے بہت سے لوگ کسی کو سلام کر رہے تھے۔میرے سامنے ایک لمبا سا چوڑا سا شخص آیا۔اس کے چہرے کے نیچے سے ایک کٹ شروع ہوتا تھا جو گردن تک جا رہا تھا۔اس شخص کا چہرہ بہت خوبصورت تھا مگر آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ میروں رنگ کی خوفناک آنکھیں مجھے خوفزدہ کر رہی تھی۔میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔اس شخص نے کالے رنگ کی پوشاک پہن رکھی تھی جس کے ایک طرف اس کی تلوار نظر آرہی تھی۔اس شخص کے بال پونی کی صورت میں قید تھے۔اس شخص کے جوڑے وجود سے ہی وحشت ظاہر ہوتی تھی۔مجھے عجیب احساس ہوا جب یہ شخص میرے قریب آیا اور میرے سامنے کھڑا ہوا۔یہ دو پل کا کھیل تھا جب میں نے نظر پھر کر اوپر دیکھا تو اس شخص کی آنکھیں گہری میروں ہوئی جس سے سب لوگ پیچھے ہٹے۔

"بادشاہ سلامت۔۔۔۔۔۔"

کوئی بولا تو اس شخص نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کا کہا۔میں خاموشی سے یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔اس بادشاہ عرشمان نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے کھڑا کیا۔ملکہ میرے ساتھ ہی کھڑی تھی ان کے چہرے پر بھی خوف آگیا۔

"یہ وہ انسان ہے جس کو تمہارا بیٹا اپنی شہزادی کے طور پر لایا تھا۔"

"جی بادشاہ سلامت۔"

بادشاہ شہریار بولے تو عرشمان بادشاہ کی دھاڑ سے میرا دل باہر کو آگیا۔

"یہ ملکہ ہیں میری عرشمان خان کی ملکہ۔تم لوگوں کو اس کی آنکھوں کی کشش سے بتا نہیں چلا کہ یہ میری ملکہ یے۔"

میرا دماغ سن ہوچکا تھا۔یہ میرے ساتھ کیسا کھیل کھیلا جا رہا تھا پہلے سلطان اور اب یہ۔عرشمان کے ہاتھ لگاتے ہی مجھے عجیب سا احساس ہوا مگر عرشمان کی جان لیوا گرفت بہت سخت تھی۔سلطان مجھے آتا ہوئی دیکھائی دیا۔

"بادشاہ سلامت میری شہزادی کو چھوڑ دیں۔"

"خبردار میری رانی کا نام بھی لیا تو۔تم نے میری رانی میری ملکہ کو یہاں لانے کی ہمت بھی کیسے کی۔تم نہیں جانتے تھے ان کی آنکھوں سے تمہیں نہیں علم ہوا تھا کہ یہ خاص ہیں ۔"

"بادشاہ یہ ہماری ہونے والی بیوی ہیں ہم نے انہیں جھیل کنارے دیکھا تھا یہ بہت اچھی لگی ہمیں۔"

"تم نے صرف انہیں جھیل کنارے دیکھا تھا مگر ان کا انتظار بہت عرصے سے کر رہے ہیں اگر ہم آج یہاں نہ آتے تو تم لوگ میری رانی کے ساتھ کیا کرتے۔عدیل عدیل جلدی آئو۔"

اپنے خاص ملازم کو آواز دیتے ہوئے عرشمان بادشاہ بہت زیادہ غصے میں تھے۔ان کی آنکھوں کی تپش میں محسوس کر سکتی تھی۔میرے پاس الفاظ ختم ہوگئے تھے کیونکہ مجھے یہی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔"

"جی میرے بادشاہ ۔"

"اپنی ریاست میں خبر کر دو کہ ہم واپسی پر اپنے ساتھ رانی کو لا رہے ہی۔ہمیں شاندار استقبال چاہیئے ان کا۔"

شہریار بادشاہ آگے آئے اور بولے۔مجھے تو عرشمان سے بے انتہا خوف آرہا تھا ۔میں آن کے سامنے شاید میں گڑیا ہی لگ رہی تھی جو ان کی بے رحم گرفت برداشت کر رہی تھی۔

"عرشمان بادشاہ سلامت دیکھیں ان کا نکاح ہمارے بیٹے سے طے ہے اور یوں آپ شہزادی کو اپنا بنانے کا نہیں کہہ سکتے۔"

سلطان آگے آیا اور میرے دیکھتے ہی میرا ہاتھ تھامنا چاہا جو عرشمان نے مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی پکڑ لیا۔

"کیا کہا تھا میں نے ہمت مت کرنا۔"

عرشمان کے ہاتھوں سے شعلے نکلے جس نے سلطان کو دور پھنکا۔ان شعلوں کی تپش میں نے محسوس کی اور میرا دل جیسے حلقے کو آگیا ۔

"چھوڑیں مجھے یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔یہ کوئی کھیل نہیں ہے ۔میں انسان ہوں آپ سب کی دنیا سے بہت زیادہ مختلف ۔میرا آپ سب سے کوئی تعلق نہیں۔یہ سب کچھ پہلے سے ہی غلط تھا مجھے جانے دیں۔"

بادشاہ عرشمان نے میری طرف دیکھا ۔میرے لیئے ان کی آنکھ میں ایک نرم سا تاثر آیا۔

"شش رانی صاحبہ ہمیں بلکل نہیں پسند کہ کوئی ہمارے فصیلے میں بولے۔آپ ہماری تھی شروع سے ۔آپ کی یہ آنکھیں ہمیں اپنی جانب کھینچتی ہیں اور ہم اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ہمارا ہو۔آپ خاموشی سے ابھی نکاح کریں گی کیونکہ اگر آپ نکاح سے انکار کرتی ہیں تو یہاں کھڑے سب لوگوں کی زندگی کے لیئے اچھا نہیں ہوگا۔"

مجھے دھمکی دے کر عرشمان بہت زیادہ پرسکون تھے مگر میں کیوں ان کی بات مانتی۔میں اس دنیا کی تھی جو مجھے ان لوگوں سے کوئی غرض ہوتا۔

"آپ چاہے جو مرضی کر لیں میں آپ کی بات نہیں مانوں گی۔"

"میں جانتا ہوں کیا سوچ رہی ہیں آپ رانی۔آپ کے دماغ میں یہی آرہا ہے نہ کہ یہ لوگ تو میرے اپنے نہیں تو ان کی زندگیوں سے ہمیں کیا لینا دینا۔میں آپ کو پتا دوں کہ آپ کے گھر والے بھی تو آپ کی دنیا میں ہیں نہ جو آپ کے انکار کی صورت میں میرا غصہ دیکھیں گے۔"

بادشاہ عرشمان نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو ایک فلم سی چلنے لگی۔اس میں ظاہر ہونے والی تصویر  اور کسی کہ نہیں میری ماں اور بہن کی تھی جو دونوں بیٹھی رو رہی تھی۔

"ماما تحریم آپی۔"

"شش رانی مجھے نہیں پسند آپ کا یوں کسی اور کے لیئے فکر مند ہونا۔چپ چاپ نکاح کر لیں ورنہ ان سب کے چہرے بھی آپ کو دہکھنا نصیب نہیں ہوں گے۔"

عرشمان نے مجھے ملکہ کو دیا جہنوں نے مجھے فورا تھاما۔

"اپنی رانی کو اندر لے کر جائیں۔نکاح کے فورا بعد یہ ہمارے ساتھ ہماری ریاست جا رہی ہیں۔"

سلطان جو بے ہوش ہو چکا تھا اسے کچھ لوگ لے گئے۔ملکہ میرا ہاتھ تھامے مجھے اندر لے جانے لگی۔میرا دماغ اس وقت کام کرنا چھوڑ گیا تھا۔

"بیٹا مطلب رانی صاحبہ انکار مت کرنا ۔عرشمان بادشاہ بہت ظالم ہیں آپ کے گھر والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔"

"ملکہ ہمیں بچا لیں۔"

"میں معافی چاہتی ہوں عرشمان بادشاہ کے آگے کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔"میرے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔میرا نکاح ایک انجان انسان سے انسان نہیں پتا نہیں کس مخلوق سے ہوا۔اس کے بعد ملکہ نے ایک سفید رنگ کا کوٹ لایا۔

"مجھے معاف کر دینا رانی صاحبہ میں آپ کے لیئے کچھ نہیں کر سکی

آپ کے شوہر بہت سخت مزاج ہیں ان کے مزاج سے سب ریاست واقف ہے ہوسکے تو ان کی ہر بات مان لینا اور ان کو شکایت کا موقع مت دینا۔وہ اگر آپ سے خوش ہوئے تو آپ کو آپ کے ماں باپ کے پاس بھی لے جائیں گے۔"

میرے آنسو بے اختیار ہوگئے ۔باہر سے حکم آیا کہ مجھے لایا جائے۔مجھے یہ کوٹ پہنایا کہ مگر یہاں سردی نہیں تھی۔میرا ہاتھ تھام کر ملکہ باہر لائی۔مجھے یہ بھی پتا چلا کہ شہزادے سلطان کو کافی عرصے تک ہوش نہیں آئے گا۔وہ بابا جو شہزادے سلطان اور میرے گھر آیا تھا وہ غلط تھا میں شہزادے سلطان کی نہیں بادشاہ عرشمان کی ملکہ بنی ہوں۔

مجھے محل سے باہر لے جایا گیا جہاں گھوڑے کھڑے تھے ۔ملکہ مجھ سے ملی پھر عرشمان  آئے اور میرا ہاتھ تھاما۔مجھے ایک گھوڑے کے پاس لائے جس کا رنگ برائون تھا اور اس کا قد بھی کافی بڑا تھا۔

"مجھے گھوڑے سے ڈر لگتا ہے۔"

"میں ساتھ ہی ہوں ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔"

عرشمان نے مجھے پکڑا اور گھوڑے پر بٹھایا اور ساتھ خود بھی بیٹھ گئے۔یہ کیسی قید تھی جس سے رہائی ممکن نہ تھی۔گھوڑا بہت تیز چل رہا تھا ۔مجھے عرشمان کی گرفت میں سختی محسوس ہورہی تھی۔مجھے کمر سے ایک ہاتھ سے تھاما ہوا تھا عرشمان نے اور دوسرے سے گھوڑے کی رسی کو۔میں زندگی میں پہلی بار سفر کر رہی تھی ایسے گھوڑے پر۔میرے ہاتھ سرخ ہوگئے تھے اور شاید کمر میں بھی درد تھا ۔میں اتنا سخت سفر برداشت نہیں کر سکتی تھی۔دو گھنٹے ہوگئے تھے ۔مجھے عرشمان کی آواز آئی۔

"سو جائیں رانی میری جان ۔ہم ریاست پہنچیں گے تو آپ اٹھ جائیں گی۔"

عرشمان نے نجانے آنکھوں سے ایسا کیا کیا کہ مجھے ہوش نہیں رہا ۔عرشمان کے سینے پر سر رکھ کر میں گہری نیند سو گئی تھی۔

________________________________

عدیل عرشمان کے ساتھ ہی گھوڑے پر سفر کر رہا تھا ۔باقی سب بہت پیچھے تھے۔

"عرشمان رانی صاحبہ کو ہماری دنیا میں کافی مشکلات کا سامنا رہے گا۔"

"تم بے فکر رہو عدیل رانی میرے ساتھ ہیں انہیں کسی چیز کے لیئے بھی پریشان نہیں ہونا پڑے گا۔بہت جلد یہ اس دنیا کو اپنا لیں گی۔ابھی تو ان کے لیئے یہاں کے ماحول کے مطابق رہنا مشکل ہوگا۔ان کی دنیا ہم سے بہت مختلف ہے ۔"

"سو گئی ہیں کیا رانی صاحبہ۔"

"ہیں سلا دیا انہیں۔ان کے لیئے لمبا سفر اچھا نہیں ۔"

"چلو تمہاری طاقت کہیں تو سہی سے کام آئی۔"

عدیل کا اشارہ بے ہوش حور کی طرف تھا جسے اور کسی نے نہیں بلکے خود عرشمان نے بے ہوش کیا تھا۔

"چل بس کر اور جلدی کر۔سردی بڑھ رہی ہے رانی برداشت نہیں کر پائیں گی۔"

گھوڑے تیز رفتار سے چل رہے تھے ۔رات کے آدھے پہر یہ اپنی ریاست میں داخل ہوئے۔ہر طرف لوگ پھول پتیوں کے ساتھ کھڑے  تھے۔کچھ پریاں اونچی جگہ پر بیٹھ کر آپ  نئی آنے والی ملکہ کو دیکھ رہی تھی جو شاید سو رہی تھی۔حور کو عرشمان نے جگایا۔

"رانی اٹھیں ہمارا گھر آگیا۔"

سامنے برف سے ڈھکا خوبصورت محل تھا جس کے اردگرد روشنیاں تھی جو شاید آگ سے جلائی گئی تھی۔اس اندھیرے میں ہر طرف دیئے رکھے گئے تھے۔لوگوں نے پھولوں کی پتیاں ان پر برسائی۔عرشمان نے گھوڑا آہستہ کر دیا۔یخ ٹھنڈی سردی حور کی ہڈیوں میں گھس رہی تھی۔

"دیکھیں رانی ہمارے لوگ۔وہ دیکھیں سامنے ہمارا محل۔"

محل کے قریب آکر عرشمان نے حور کو نیچے اتارا جو گر گئی کیونکہ اس کی ٹانگیں جواب دے گئی تھی۔ہاتھوں ہر زخم بن گئے تھے جبکہ کمر میں درد کی لہریں اٹھ رہی تھی۔عرشمان نے اپنی نازک ملکہ کو اٹھایا اور اپنی بانہوں میں بھر لیا۔

"مجھے درد ہورہا ہے ۔"

حور کی روتی ہوئی آواز پر عرشمان نے اس کے سر پیار سے ہونٹ رکھے ۔"بس تھوڑی دیر ان لوگوں کو اپنی موجودگی کا احساس دلا دو۔"

عرشمان لوگوں کے پیچ سے اپنی رانی کو اٹھائے ہوئے گزر رہا تھا۔ہر کوئی بس اپنی رانی کو ایک بار دیکھنا چاہتا تھا۔محل کے دروازے پر پہنچ کر عرشمان روکا اور حور کو ساتھ کھڑا کیا۔حور کو مضبوطی سے اس نے تھام رکھا تھا۔

"تم سب کو رانی کی آمد مبارک ہو۔آج سے تم سب کی رانی ہیں رانی حور عرشمان خان۔یہ میری ملکہ ہیں ۔آج کے بعد اس ریاست کی ملکہ ہیں یہ۔"

کوئی بولا کہ ملکہ تو انسان ہے۔

"ملکہ انسان ہیں اور مجھے امید ہے کہ کوئی اس بات کو لے کر مجھ سے بحث نہیں کرے گا۔اگر کسی کو اپنی جان پیاری نہیں تو وہ شگے آسکتا ہے۔"اب لوگ خاموش ہوگئے اور عرشمان حور کو اٹھا کر محل لے اندر لے گیا۔

میری اجازت کے بغیر کاپی پیست مت کریں 

یہ ایک فرضی کہانی ہے جس کے کرداروں اور کہانی کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔

زندگی میں کبھی کبھار جس چیز کے بارے میں سوچتے بھی نہیں وہ ممکن ہوجاتی ۔ایسا ہی کچھ حور کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ایک انجان دنیا میں آنا اس کے بعد یہاں کے مکینوں کی باتوں کو سننا اور ایک رانی کے طور پر ایک بادشاہ کے ساتھ اس کی ریاست آنا یہ سب کبھی شاید حور نے سوچا بھی نہیں تھا۔حور ان سب چیزوں کو اتنی جلدی قبول نہیں کر پا رہی تھی۔یہ شاید انسانی فطرت ہے کہ ہم ہمیشہ مشکل چیز کو ہی اپناتے ہیں مگر حور سے نہ تو اس کی قسمت نے کچھ پوچھا نہ اسے کچھ سوچنے کا موقع دیا۔کبھی کبھار زندگی کے کچھ فصیلے بہت زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں۔ہم جس چیز کو اپنے حق میں برا سمجھتے ہیں وہی چیز ہمارے حق میں اچھی ہوتی ہے۔حور کو کمرےمیں بستر پر لٹا کر عرشمان نے ملازمہ کو حکم کیا کہ والدہ کو بلا لائے۔والدہ عرشمان کی ماں تھی جہنیں اپنے بیٹے کی شادی کا بہت عرصے سے انتظار تھا۔تھوڑی دیر بعد نفیس سی عورت کمرے میں داخل ہوئی۔عرشمان کھڑے ہوکر ان کی طرف آیا اور ان کے ہاتھ کو تھام کر پیار کیا۔

"تو آپ نے شادی کر ہی لی میرے بیٹے۔"

"جی والدہ آپ کو جس لمحے کا انتظار تھا وہ آہی گیا ہے۔دیکھیں ملیں اپنی بہو سے۔"

عرشمان نے بستر پر لیٹی ہوئی حور کی طرف اشارہ کیا۔والدہ حور کی طرف آئی جس کے ہاتھ سرخ تھے اور یہ آرام سے لیٹی ہوئی تھی۔

"بہت خوبصورت ہے یہ ۔کہاں سے ملی تمہیں ہماری بہو عرشمان۔"

"انسان ہیں یہ والدہ اپنی دنیا سے ہم تک آگئی ہیں۔"

عرشمان کی والدہ لفظ انسان پر حیران ہوئی اور آگے آکر حور کے سراہنے بیٹھی جو انہیں حیرانی سے دیکھ رہی تھی۔

"بیٹا یہ تو بہت نازک سی اور معصوم ہے یہ یہاں ہماری ریاست میں کیسے رہ پائے گی۔۔ہمارے لوگ کیا اسے قبول کر لیں گے۔تم جانتے ہو ہمارے لوگوں میں سے پہلے ہی کتنے لوگ تمہارے دشمن ہیں ۔یہ تو انسان ہین یہاں تمہارے دشمن ضرور انہیں تمہاری کمزوری کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔"

"ہمیں اس کی پرواہ نہیں والدہ اب یہ ہماری ہیں اور انہیں ہمارا ہی بن کر رہنا ہے۔ان کی حفاظت ہم اچھے سے کر لیں گے آپ بس ان کا خیال رکھیں جب ہم آس پاس نہ ہوں۔"فوزیہ خاتون جہنیں سب ملکہ یا رانی صاحبہ کہتے تھے حور کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی۔ان کے عمل میں بہت شفقت تھی۔

"ولیمے کا اعلان کرو عرشمان ۔تم اب تھوڑی دیر کے لیئے لوگوں سے ملو ہم اپنی بیٹی کو دیکھ لیں۔اسے کچھ کھلا لیں اور زخموں پر مرہم رکھ دیں یہ کہاں عادی ہے ہمارے رہن سہن کی۔"

"جی والدہ اجازت دیں۔"

عرشمان نے فوزیہ خاتون کا ہاتھ چوما پھر حور کی طرف متوجہ ہوا۔

"یہ والدہ ہیں پیں رانی۔ آپ نے بلکل نہیں ڈرنا رانی۔ہم رات کو جلدی آئیں گے۔اپنا خیال رکھنا۔"

حور کی پیشانی پر بوسہ دے کے عرشمان باہر چلا گیا۔حور کی آنکھوں سے ٹوٹ کر آنسو گرے۔فوزیہ خاتون ملازمہ کو حکم دے چکی تھی کہ ان کی بہو کے لیئے فورا کوئی طبیب لائے۔

"بیٹا آپ کیوں رو رہی ہیں۔"

"میں یہاں نہیں رہنا چاہتی رانی صاحبہ ۔میرے والدین میرا بہت شدد سے انتظار کر رہے ہوں گے۔"

فوزیہ خاتون حور کے ہاتھوں پر مرہم لگاتے ہوئے اسے بہلا رہی تھی۔

"آپ کی قسمت میں جو لکھا تھا وہ ہوگیا ہے بیٹا۔ہم آپ کے والدین کو آپ کی خیریت کا پیغام بھیجوا دیتے ہیں۔آپ اگر اپنے والدین کو  دیکھنا چاہتی ہیں تو ہم انہیں دیکھا دیں گے آپ کو مگر میرا بچہ آپ اپنے شوہر کے ساتھ ہی ان کے ہاں جانا۔اب آپ کی زندگی عرشمان کے ساتھ ہے۔ایک رانی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بادشاہ کا ساتھ دے۔آپ تو انسان ہیں یہاں ہماری ریاست میں انسان بہت کم آتے ہیں جو آتے ہیں وہ کبھی واپس نہیں جاتے۔اس ریاست میں آپ کو اب اپنا مقام خود بنانا ہے۔ہم یہ نہیں کہتے جو ہوا وہ ٹھیک ہے مگر جیسا قسمت میں تھا وہ تو ہونا تھا۔جو لوگ وقت سے سمجھوتا کر لیتے ہیں انہیں کم مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔آپ جتنی جلدی اپنی شادی اور عرشمان کو قبول کریں گی آپ کے لیئے اتنا ہی اچھا ہوگا۔اگر آپ عرشمان کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نہ بھی سنبھالیں تو اب آپ ان کی بیوی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔"

"رانی صاحبہ میرے لیئے یہ سب اچانک بہت مشکل ہے سمجھنا۔مجھے ایسا لگتا ہے میں خواب دیکھ رہی ہوں اور ابھی اس خواب کا اختتام ہوجائے گا۔"

"بس آپ کو خواب اور حقیقت میں فرق کرنا ہے میرا بچہ ۔عرشمان تھوڑا سخت مزاج ہے مگر مجھے امید ہے وہ آپ کے ساتھ نرمی ہی اختیار کرے گا ۔ہمیں والدہ کہیں آپ تو اچھا لگے کا ہمیں ۔یہاں آپ کو کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو ہم موجود ہیں۔آپ کے والدین کو ہم پیغام بھیجوا دیں گے اور آپ کے ولیمے کے روز ان سے آپ کا رابطہ بھی کروا دیں گے مگر آپ اپنی صحت پر دھیان دیں ۔یہاں رہنا ہے تو خود پر دھیان دینا ہوگا بیٹا۔یوں سمجھیں آپ رخصت ہوکر کہیں آئی ہیں ۔"

طبیب آیا اور حور کو دوائی دی۔

"ملکہ رانی صاحبہ کا دھیان رکھیں یہ بہت نازک ہیں۔گھوڑے پر سفر سے ان کو تکلیف ہوئی ہے آپ اگلی مرتبہ ان کا دھیان رکھیئے گا۔دو تین تین دن ان کو بھرپور نیند لینے دیں ۔ان کی خوراک کا خاص خیال رکھیں اور سردی سے بجائیں۔"

طبیب کی بات سن کر فوزیہ خاتون نے ساری ہدایت ملازمین کو بتائی۔فوزیہ خاتون یخنی کا پیالہ لے کر حور کے سامنے بیٹھی۔

"والدہ آپ بہت اچھی ہیں ۔"

"شکریہ میرے بیٹے۔بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں ہمارے بیٹے نے اتنے سال کسی خاص مقصد کے تحت ہی اپنی رانی کا انتظار کیا ہے۔آپ سے ہی اس کی زندگی ہے۔آپ تو اب ہماری بیٹی ہیں ہمارے ساتھ کھڑی ہو ان گی تو ہمیں آپ کا خیال رکھنا ہے۔آپ اتنی معصوم ہیں ہم کیسے نہ آپ سے پیار کریں ۔"

فوزیہ خاتون نے حور کو سوپ پلاتے ہوئے اس کے سر پر بھی پیار دیا۔حور نے دیکھا ایک ملازمہ گرم دودھ لائی ہے۔فوزیہ خاتون نے طبیب کی دی ہوئی دوائی حور کو دی اور اس کی زخموں پر مرہم لائی۔تھوڑی دیر بعد حور فوزیہ خاتون کی گود میں سر رکھے سوگئی۔فوزیہ خاتون حور کے پاس ایک پری کو چھوڑتے ہوئے بولی۔

"اپنی رانی کا بہت  خیال رکھنا انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔یہ انسان ہیں اپنی حفاظت نہیں کر سکتی۔ان کی حفاظت  اب تمہارے ذمے ہے۔"گل بہار پری نے اپنی ملکہ کا حکم فورا مانا۔فوزیہ خاتون کا رخ اب اپنی خواب گاہ کی طرف تھا .

________________________________

رات کافی دیر کے بعد عرشمان خواب گاہ میں آیا۔گل بہار ابھی بھی کمرے میں تھی۔

"سلام بادشاہ سلامت۔"

"سلام گل تم جا سکتی ہو اب۔جب ضرورت ہوگی تو رانی صاحبہ بلا لیں گی تمہیں ۔"

گل بہار حکم پاتے ہی فورا سے باہر چلی گئی۔عرشمان اپنی پوشاک کے اوپر پہنا ہوا مخمل کا کوٹ اتار کر بیڈ پر حور کے پاس آکر بیٹھا۔یہ گولڈن اور سبز رنگوں کے ملاپ سے مزین خوبصورت خواب گاہ تھی جو اپنے بادشاہ کے مزاج کو ظاہر کرتی تھی۔بڑے سے کنگ سائز بیڈ پر گولڈن جلی دار پردوں کے پیچ لیٹی حور اس وقت کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔عرشمان نے جھک کر اس کی پیشانی چومی۔عرشمان سوچ نہیں سکتا تھا کہ یوں اس کے ساتھ اس کی رانی آئے گی اور وہ اتنی معصوم ہوگی۔عرشمان حور کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا۔حور کے لب آپس میں نرمی سے جڑے ہوئے تھے۔عرشمان کی خواہش ہوئی انہیں چھو کر دیکھے۔عرشمان نے اپنا انگوٹھا حور کے لبوں پر پھیرا۔حور نے اپنی چہرے کے زاویے بدلے۔اسے اپنی نیند میں خلل پسند نہ آیا۔یہ سب چیزیں عرشمان کو بہت لطف دے رہی تھی۔ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ عرشمان کے اتنے قریب کوئی تھا جو اس کے دل کے دروازے پر دستک دے چکا تھا۔عرشمان نے حور کے چہرے پر انگلیاں پھیری۔حور کی نیند کا خیال کرتے عرشمان نے اپنی خواہش دل میں دبائی اور لباس تبدیل کرنے چلا گیا۔

صبح اپنی پوری آب و تاب سے نکلی تھی۔عرشمان جو صبح کی نماز کے بعد اپنے وزیروں سے ملاقات کر کے واپس آیا تھا اپنی بیوی کو دیکھ رہا تھا جو ابھی بھی سو رہی تھی۔عرشمان حور کے قریب آیا اور اس کی پیشانی چیک کی۔بخار نہیں تھا مگر طبیب کی دوا کے باعث حور ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔آج حور کا محل میں پہلا دن تھا اس لیئے حور کا جلدی جاگنا ضروری تھا۔

عرشمان نے اپنی معصوم رانی کو دیکھا پھر اسے بیڈ سے اٹھا کر بانہوں میں بھرا۔عرشمان حور کا چہرہ دیکھ رہا تھا ۔حور کی آنکھ کھلی تو خود کو یوں عرشمان کے پاس دیکھ کر تو اسے کچھ سمجھ نہ آئی پھر اس نے ڈر کے چیخ ماری کیونکہ اس کا دماغ ابھی بھی سویا ہوا تھا۔

"رانی لیا ہوگیا میں ہوں عرشمان ۔"

غور کو واپس بیڈ پر لگاتے ہوئے عرشمان نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔اپنے آس پاس دیکھ کر حور کا ذہن بیدار ہوا۔کل کے سارے واقعات اس کے ذہن میں چلنے لگے۔

"آپ ڈر گئی رانی۔"

عرشمان بہت پیار سے حور سے پوچھ رہا تھا۔

"میرا نام حور ہے آپ پلیز مجھے رانی مت کہا کریں ۔"

"اچھا میری جان ہم آپ کو حور ہی کہیں گے۔آپ اٹھ جائیں پھر ناشتہ کرتے ہیں ۔"

گل بہار کمرے میں آئی۔حور کو گل بہار کے پاس چھوڑ کر عرشمان باہر چلا گیا۔گل بہار جب حور کو بیت الخلا لے کر گئی تو حور کو رونا آگیا ۔یہ پرانے طرز کا بہت الخلا تھا مگر کافی بڑا تھا۔انسانوں کی دنیا جیسا اس میں کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی یہ ٹھیک تھا۔

"گل بہار۔"

"جی رانی صاحبہ۔"

"گل بہار میں ان سب چیزوں کی عادی نہیں میری دنیا میں یہ سب نہیں ہوتا گل بہار ۔"

"معاف کیجئے گا رانی صاحبہ ہماری دنیا میں یہی سب ہے۔آپ کو اب ہمارے طور طریقے سیکھنے ہیں۔"

حور نے بڑی مشکل سے سب کچھ سمجھا۔جب یہ باہر آئی تو گل بہار نے حور کے گیلے بال سنوارے۔گولڈن رنگ کے لمبے مخملی فراک میں حور بہت پیاری لگ رہی تھی۔گل بہار نے حور کے ہاتھوں ہر تیل نما کوئی چیز لگائی۔

"یہ کیا ہے گل بہار ۔"

" یہ یہاں کے پھولوں سے خاص بنائی گئی مہک ہے جو آپ کے ہاتھوں کو سردی میں خشک ہونے سے بچائے گی۔"

گل بہار حور کے گیلے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔حور کے بال خشک ہوگئے۔

"یہ تم نے کیسے کیا گل بہار۔"

"میں پری ہوں رانی صاحبہ میرے پاس جو طاقتیں ہیں اس سے آپ کے بالوں کا پانی میں نے خشک کر دیا۔"

"کیا یہاں سب کے پاس طاقتیں ہیں۔"

"بہت کم لوگوں کو یہ طاقتیں استعمال کرنے کی اجازت ہے رانی صاحبہ ۔کبھی بادشاہ سلامت سے ان کی طاقتوں کا پوچھئے گا آپ حیران ہوجائیں گی۔"

گل بہار نے نیٹ کا ڈوپٹے حور کے سر پر ٹکایا اور مخملی چادر اس کے اردگرد پھیلائی جو میرون رنگ کی تھی۔

حور کا ہاتھ تھام کر گل بہار اسے کھانے والی جگہ پر لائی جہاں نیچے بیٹھ کر کھانا کھایا جاتا۔ملکہ تو بہت صبح کھانا کھا چکی تھی ۔عرشمان نے حور کا اپنے پاس بٹھایا۔دودھ کے کلاس کے ساتھ سوکھے فروٹ اور پھل دیکھ کر ہی حور کا دل خراب ہوا ۔ایک خاص قسم کی موٹی روٹی اس کے سامنے رکھی گئی۔

"عرشمان میں دودھ نہیں پیتی اور یہ سب۔"

"اگر آپ دودھ نہیں پیئیں گی تو ہمارے ہاں کیسے رہیں گی۔محل میں آپ کو سردی کا احساس نہیں ہورہا مگر باہر بہت سردی ہے۔ہماری ریاست شمالی علاقے میں ہے اس لیئے یہاں گرمی کم ہی آتی ہے۔ہم سردی میں رہنے کے عادی ہیں مگر آپ کو اب اپنا رہن سہن تبدیل کرنا ہے۔"

حور کو یاد تھا اپنے گھر میں یہ سردی کے دنوں میں لحاف سے کتنی مشکل سے اٹھتی تھی۔یہاں سردی کا سوچ کر اسے عجیب لگ رہا تھا۔

"حور کیا ہوا۔"

"میں گھر جانا چاہتی ہوں مجھے یہاں نہیں رہنا۔یہاں سب عجیب ہے جسے پرانے وقتوں میں ہوتا تھا۔میں نہیں رہ سکتی یہاں۔"

عرشمان نے اپنے ہاتھ حور کے ہاتھ پر رکھے۔

"بہت جلد آپ یہاں کے موسم اور رہن سہن کی عادی ہوجائیں گی۔آپ نے خود کا دھیان رکھنا ہے بس۔چلیں ناشتہ کریں۔"

بمشکل حور نے دودھ پیا وہ بھی عرشمان کے ہاتھ سے۔حور بے انتہا ضدی تھی۔عرشمان نے حور کو اٹھایا ہے باہر چلے اس کے ساتھ۔

گل بہار ایک کوٹ نما چیز لائی جس کے اوپر ٹوپی سی تھی جیسے کوئی بڑا سا اپر ہو۔گل بہار نے یہ حور کو پہنایا ۔یہ مکمل طور پر حور کو چھپا گیا ۔عرشمان حور کو ساتھ لیئے اس گولڈن محل سے باہر آیا جو بے انتہا خوبصورت تھا۔حور عرشمان کے ساتھ چلتے ہوئے آس پاس خوبصورت پھولوں کو دیکھ رہی تھی۔ہر طرف خوبصورت آپشار تھے۔حور کے پاس کوئی اڑتا ہوا گیا۔۔حور کی بے ساختہ چیخ نکلی اور یہ عرشمان کے سینے سے لگ گئی۔عرشمان نے سامنے دیکھا اور اپنے سینے سے لگی اپنی رانی کو پھر قہقہہ لگ آکر ہنسا ۔

حور وہ ایک پری ہے دیکھیں ۔"

حور نے کانپتے ہوئے اپنا سر اٹھایا تو سامنے ہی پروں والی ایک خوبصورت لڑکی کھڑی تھی جس نے اپنی پر چھپا لیئے تھے۔

"یہ۔۔۔۔۔۔"

حور کا اشارہ سامنے لڑکی کی طرف تھا۔"

"ہمارے ہاں پریوں کے پر ہیں۔میرے بھی ہیں کسی دن دیکھاوں گا۔ڈریں نہیں یہاں کوئی آپ کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔"

حور نے عرشمان کی آستین تھام رکھی تھی۔

سامنے سے آتی تتلیاں کو حور نے دیکھا اور خود ہی ان کے پیچھے چل پڑی۔آگے جاکر ایک چشمہ بہہ رہا تھا جس کے اردگرد سات رنگ تھے۔حور اس چشمے کی خوبصورتت میں کھو گئی۔حور کو یہی لگا یہ ایک خواب ہے مگر یہ خواب نہیں حقیقت تھا۔عرشمان اپنی رانی کو اشتیاق سے سب چیزیں دیکھتے دیکھ رہا تھا۔اب اگلا کام حور کی تاج پوشی تھا تاکہ کوئی حور کے رانی ہونے پر اعتراض نہ کر پائے

میری اجازت کے بغیر کاپی پیست مت کریں 

ناول کے تمام کردار فرضی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔

آج حور کا ولیمہ تھا اور ساتھ میں تاج پوشی ۔اس پورے ہفتے فوزیہ خاتون کے ساتھ ساتھ عرشمان نے بھی حور کا بے حد خیال رکھا۔فوزیہ خاتون نے حور کو اس کے والدین کی جھلک بھی دیکھائی۔حور شیشے کے سامنے بیٹھی ہوئی تھی۔سفید اور پنک رنگ کے امتزاج کا یہ لمبا میکسی نما فراک حور کو بے تحاشا پیارا لگ رہا تھا۔حور نے پیروں میں خوبصورت گھوسا نما جوتے پہنے تھے جو فراک کے لمبا ہونے کے باعث نظر بھی نہیں آرہے تھے۔ہاتھوں میں سفید اور پنک رنگ کی خوبصورت کانچ کی چوڑیاں تھی۔حور کو تیار کر کے گل بہار باہر لے آئی۔سر پر پنک رنگ کا ڈوپٹہ حور کی گلابی رنگت پر بہت جچچ رہا تھا۔فوزیہ خاتون حور کے پاس آئیں انہوں نے بھی آج سفید ہی رنگ کا خوبصورت لمبا فراک پہنا ہوا تھا۔

" دیکھو بیٹا تم انسان ہو یہاں لوگوں کے درمیان جب بیٹھو گی تو دھیان رکھنا یہ لوگ انسان نہیں ہیں ان کی باتیں ان کی روایات مختلف ہیں تمہیں چپ کر کے سب سے پہلے ان لوگوں کو سنجیدہ ہو کر دیکھنا ہے کہ کیا کرتے ہیں یہ لوگ۔ یہاں بہت سے لوگ تمہاری مخالفت کریں گے مگر تمہیں ان کا مقابلہ کرنا ہے اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ تم ان کی ملکہ بننے کے قابل ہو۔"

" والدہ کیا یہ لوگ مجھے قبول کریں گے۔"

 حور کا اشارہ ریاست کے لوگوں کی طرف تھا۔

" تمہیں اپنے عمل سے ان پر یہ بات ظاہر کرنی ہے کہ تم ان کی ملکہ بننے کے قابل ہو یاد رکھو عرشمان کو بادشاہ بنے 17 سال ہوگئے ہیں جب عرشمان کے والد کی وفات ہوئی تھی تو اس کے سر پر تاج رکھا گیا تھا اس کے بعد سے وہ ان سب لوگوں کا بادشاہ ہے۔  عرشمان کو بہت سی مخالفتوں کا بھی سامنا ہے مگر وہ سب چیزوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے ایسے ہی تم نے بھی عرشمان کا بازو بننا ہے یاد رکھو بادشاہ ہمیشہ مضبوط ہوتا ہے ملکہ کو چاہیے کبھی اسی کمزوری نہ بنے۔"

"جی والدہ۔"

حور کو ایک خوبصورت کمرے میں لایا گیا جو شاید بادشاہ کا دربار تھا۔

 حور خاموشی سے سب کو دیکھ رہی تھی۔ ایک گولڈن رنگ کے تخت پر عرشمان بیٹھا ہوا تھا ساتھ میں ہی فوزیہ خاتون کا تخت تھا عرشمان کے ایک طرف فوزیہ خاتون کا تخت تھا جبکہ دوسری طرف حور کا۔

"آئیے رانی صاحبہ۔"

حور کو ایک دربان نے اشارہ کیا کہ یہ تخت پر بیٹھ جائے۔عرشمان اس کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا 

"میرے لوگوں مجھے خوشی ہے کہ آج میری رانی کی تاج پوشی پر  تم سب لوگ جمع ہوئے ہو۔ سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کو  ملکہ کے انسان ہونے پر اعتراض ہے وہ یہ جان لیں کہ اب حور عرشمان میری بیوی ہیں ان کی طرف اٹھنے والی ہر نظر کے بارے میں یہی تصور کروں گا میں کہ یہ نظر میری طرف اٹھی ہے۔رانی حور عرشمان اپنے لوگوں کے لیئے ہمیشہ کھڑی ہوں گی۔حور کو رانی بنانے کا فیصلہ میرا ہے اور امید ہے سب اس بات سے ہرگز اعتراض نہیں کریں گے۔"

عرشمان نے ایک دربان کو اشارہ کیا جو ایک تھالی لے آیا جس میں خوبصورت سنہری تاج تھا۔تاج کے اوپر تتلیاں بنی ہوئی تھی جو سنہری تھی اور ان کے اندر سے چمک نکل رہی تھی ۔عرشمان نے حور کو اشارہ کیا۔حور اس کا اشارہ سمجھتے عرشمان کے سامنے آئی جس نے تاج اس کے سر پر پہنایا جس کے بعد سنہری تتلیاں حور کے اردگرد چکر لگانے لگی اور پھر غائب ہوگئی۔حور کا ہاتھ تھام کر عرشمان اپنے محل کے سب سے اوپر والے کمرے کے پاس آیا جہاں سے سب ریاست نظر آتی تھی ۔فوزیہ خاتون بھی ساتھ ہی تھی ۔عرشمان حور کو لے کر یہاں کھڑا ہوگیا۔نیچے مختلف لوگ کھڑے ہوئے تھے۔کچھ پریاں اڑ رہی تھی ۔حور یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔نیچے لوگوں میں کھڑا ایک شخص یہ سب دیکھ کر خوش نہیں تھا۔شہزادہ سلطان اپنی شہزادی کو دیکھنے آیا تھا۔کالے رنگ کے کوٹ نما اپر سے اپنا چہرہ چھپائے یہ اوپر محل کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں حور تاج کے ساتھ کھڑی تھی۔حور اس وقت ایک پری زاد کے ساتھ کھڑی پری ہی لگ رہی تھی۔

"بہت جلد شہزادی میں آپ کو یہاں سے لے جائوں گا۔شہزادی میری تھی اور میری ہی رہیں گی تم انہیں مجھ سے چھین نہیں سکتے بادشاہ عرشمان ۔میں اب اپنی طاقت استعمال کروں گا اور دیکھوں گا کہ تمہارے پاس زیادہ طاقت ہے یا میرے پاس۔"

سلطان یہ کہہ کر واپس چلا گیا مگر جانے سے پہلے محل کی ایک ملازمہ کو ایک پھول دیتے ہوئے بولا ۔

"یہ پھول رانی صاحبہ کو دے دینا ۔"

یہ سفید رنگ کا پھول اس ملازمہ نے لیا اور حور کی کپڑوں والی الماری میں رکھ دیا.

حور کو فوزیہ خاتون کمرے میں لے آئی جو خوبصورت طریقے سے سجا ہوا تھا۔یہ حور اور عرشمان کی خواب گاہ تھی جہاں حور عرشمان کے ساتھ پچھلے پورے ہفتے سے تھی مگر آج کمرے کا نظارہ ہی اور تھا۔رنگ برنگی دیئے اور پھول پورے کمرے میں پھیلے ہوئے تھے۔بستر پورا پھولوں سے بھرا ہوا تھا۔فوزیہ خاتون نے حور کو بستر پر بٹھایا اور سمجھانے لگی۔

"حور بیٹا اب آپ کو اپنا تعلق بادشاہ عرشمان کے ساتھ قبول کرنا ہے۔بادشاہ آپ کو بہت چاہنے لگے ہیں بیٹا تو ان کی چاہت کو مت ٹھکرانا۔آپ ان کی طرف محبت کا ایک قدم اٹھائو گی وہ آپ کی ہر خواہش پوری کر دیں گے۔آپ نے اب نہ چاہتے ہوئے بھی ساری عمر ملکہ بن کر رہنا ہے تو بیٹا اپنے رشتے کی حقیقت کو جتنی جلدی ہوسکے قبول کرو۔آپ عرشمان سے منہ دیکھائی میں خواہش کرنا کہ آپ کو آپ کے والدین سے ملوا لائیں۔"

"جی والدہ۔"

"اب ہم چلتے ہیں زندگی کی نئی شروعات مبارک ہو رانی حور عرشمان خان۔"

فوزیہ خاتون حور کے سر پر بوسہ دے کر باہر چلی گئی۔تھوڑی دیر بعد عرشمان اندر آیا۔حور کے سامنے بستر پر بیٹھ کر عرشمان نے حور کا ہاتھ پکڑا۔

"ٹھیک ہیں نہ آپ حور۔کوئی تکلیف تو نہیں نہ میری رانی کو۔"

"نہیں میں بلکل ٹھیک ہوں عرشمان۔عرشمان آپ سے ایک بات کہوں۔"

"جی بولیئے آپ کو ہم سے بات کرنے کے لیئے اجازت کی ضرورت نہیں ۔"

عرشمان حور کے ہاتھ سے چوڑیاں اتارتے ہوئے بولا۔

"میرے لیئے یہ حقیقت قبول کرنا بے انتہا مشکل ہورہا ہے کہ میں ایک ایسی دنیا میں ہو ان جہاں انسان نہیں بستے۔آپ خود سوچیں عرشمان کیا آپ میری طرح ایک انسانی دنیا میں انجان بن کر رہ سکتے ہیں جیسے میں آپ کی دنیا میں رہ رہی ہوں۔"

عرشمان نے حور کی چوڑیاں سائڈ پر رکھی اور اس کا ہاتھ لبوں سے لگایا۔

"میں آپ کی ہر بات کو سمجھتا ہوں رانی حور۔مگر کیا کیا جاسکتا ہے جو قسمت میں ہوتا ہے وہ تو ہونا ہی ہے لازمی ۔سب سے پہلی بات آپ یہاں انجان نہیں ملکہ ہیں ایک رانی۔آپ اب ہمارے لوگوں کے لیئے ایسے ہی اہم ہیں جیسے میں۔یہاں آپ کو اتنی ہی اپنایت کا احساس ہوگا جتنا آپ کو اپنی دنیا میں ہوتا تھا۔اچھا آپ نے ہم سے اپنی منہ دیکھائی نہیں مانگی۔"

"آپ ہمیں ہمارے والدین کے پاس لے جائیں گے۔ہمیں ان سے ملنا ہے۔"

حور نے عرشمان کو بہت مان سے دیکھا۔

"جی بلکل ہم آپ کو لے جائیں گے آپ کے والدین کے ہاں مگر کچھ عرصے تک نہیں ۔آپ کی حفاظت کے لیئے ضروری ہے کہ آپ کچھ عرصہ ہماری ریاست سے باہر مت جائیں ۔"

عرشمان نے حور کا ہاتھ تھاما اور اسے اپنے کمرے سے بنی ہوئی پچھلی راہداری کی طرف لے آیا۔راہداری سے آگے بہت خوبصورت جگہ تھی جو حور نے آج پہلی بات دیکھی تھی۔ہر طرف رنگ برنگی تتلیاں تھی۔باغ کر درمیان ایک خوبصورت بستر تھا جس پر پھولوں کی چادر تھی۔اردگرد دیئے لگا رکھے تھے اس بستر کے۔سامنے بہتا ہوا پانی جو چشمے کی صورت گر رہا تھا ایک جھیل میں ۔یہ سب حور کو اپنی طرف کھینچنے لگا۔عرشمان حور کو  لے کر اس آبشار کے پاس آیا۔عرشمان نے حور کو آبشار کے پاس کھڑا کیا اور اپنے ہاتھ کے اشارے سے کچھ بنانے لگا۔حور غور سے عرشمان کے ہاتھوں کی حرکت سیکھ رہی تھی۔ 

حور کے دیکھتے ہی عرشمان کے ہاتھوں میں پھولوں کا خوبصورت زیور آگیا۔عرشمان نے حور کی طرف دیکھا ۔

"یہ کیسے عرشمان ۔"

"میری رانی کے لیئے تحفہ ہے یہ ۔"

عرشمان نے حور کے اردگرد بازو پھیلائے پھر اسے خود سے دور کیا۔حور کا لباس تبدیل ہوگیا اور سفید فراک کے بجائے گولڈں رنگ کا فراک آگیا جس کے ساتھ ستارے چمک رہے تھے۔

"عرشمان۔"

حور نے چیخ ماری تو عرشمان ہنستے ہوئے اپنے بازو کے حلقے میں لے کر بولا ۔

"یہ شروعات ہے ابھی آپ نے دیکھا ہی کیا ہے حور میری رانی۔"

عرشمان نے حور کے کانوں میں پھولوں کے زیور پہنائے۔حور کے گلے میں سفید پھولوں کا ہار پہنا کر عرشمان نے حور کی آنکھوں کو دیکھا۔حور کی آنکھیں اس وقت نیلی لگ رہی تھی ۔عرشمان نے حور کے بالوں کو کھولا تو لاتعداد تتلیاں اس میں سے نکلی اور حور کے بالوں میں سے چمک گری ۔

"عرشمان۔۔۔۔۔"

حور تتلیاں کو دیکھ کر چیخی۔

"آپ اب میری رانی ہیں یہ تتلیاں آپ کی ساتھی ہیں میری جان۔"

عرشمان نے آبشار کا پانی حور کے ہاتھوں اور چہرے پر لگایا۔

"بہت ٹھنڈا ہے عرشمان۔"

عرشمان حور کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا جو اس وقت یہ سب دیکھ کر حیران ہو رہی تھی ۔

عرشمان نے آسمان کی طرف حور کا رخ کیا۔عرشمان نے ہاتھ سے کچھ بنایا تو ہر طرف آتش بازی شروع ہوگئی۔رنگ برنگے رنگ آسمان پر بکھرے رنگ دیکھ کر حور نے بے ساختہ ہی عرشمان کا ہاتھ تھام لیا۔عرشمان نے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔

"کیسا لگا۔"

"بہت پیارا جیسے کوئی خواب ۔"

عرشمان نے حور کے ہاتھوں میں پھولوں کے گجرے پہنائے ۔

"کیا آپ ہمیں اپنے قریب آنے کی اجازت دیں گی رانی صاحبہ۔"

عرشمان نے حور کے کان میں سرگوشی کی۔حور عرشمان کے سینے سے لگ کر بلکل خاموش ہوگئی۔

"ہم آپ کو ہر تکلیف سے دور رکھیں گے کیا ہمیں اجازت ہے اپنی رانی کو اپنا بنانے کی۔"

حور نے نظر اٹھا کر عرشمان کی میرون رنگ آنکھوں میں دیکھا جہاں چاہت کا ایک جہاں آباد تھا۔حور فورا سے عرشمان کے سینے میں چہرہ چھپا گئی۔یہ عرشمان کے لیئے ہاں کا ایک انداز تھا ۔عرشمان نے حور کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا اور ایک بوسہ اس کی پیشانی پر دیا ۔

"ہم ہمیشہ آپ کہ عزت کریں گے۔آپ کو بے تحاشا پیارا دیں گے رانی حور ۔"

عرشمان حور کو تھامے پھولوں کے بستر تک لایا۔آسمان پر رنگ اب بھی تھی اور آبشار میں سے روشنی چمک رہی تھی۔ریاست میں لوگ خوشی مانا رہے تھے مگر آنے والے وقت کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔

شہزادہ سلطان اس وقت ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور سامنے کھڑکی سے آسمان پر ہونے والی آتش بازی دیکھ رہا تھا۔یہ جان گیا  تھا کہ یہ آتش بازی کیوں ہورہی ہے۔کھڑکی پر ہاتھ ٹکائے یہ گہری سوچ میں گم تھا۔ہوش میں آنے کے بعد سلطان کی والدہ نے اور بادشاہ شہریار نے سلطان کو بہت روکا کہ یہ بھول جائیں حور کو مگر یہ کیسے بھول جاتا حور کو۔جب یہ حور کو انسانوں کی دنیا سے لایا  تھا تو حور کو یہاں لانے کا صرف یہی مقصد تھا کہ وہ اسے اچھی لگی تھی اپنے ساتھ حور کو دیکھنے کی خواہش اسے ایک عجیب سا احساس دلاتی تھی۔حور اس کی دسترس میں تھی بہت قریب ۔بس کچھ پل کی دوری تھی اس کے اور حور کے درمیان مگر عرشمان نے آکر اس سے اس کی حور کو چھین لیا۔عرشمان شروع سے ہی ایسے تھے انہیں اگر کچھ اچھا لگتا تو وہ فورا اسے اپنے ساتھ اپنی ریاست کے جاتے مگر اس مرتبہ کوئی چیز نہیں بلکہ حور کو اپنے ساتھ لے گئے تھے وہ۔

"ہم حور کو واپس لے کر رہیں گے بادشاہ عرشمان۔حور آپ جیسے انسان کے ساتھ کبھی نہیں رہ پائے گی اسے ہم انسانوں کی دنیا سے لائے تھے اور آپ شاید ایک بات بھول گئے کہ ہم ہی حور کو اس دنیا سے واپس ان کے والدین کے پاس لے جائیں گے۔اگر ہمیں حور کو ہمیشہ لے لیئے آپ سے دور کرنا پڑا تو ہم انہیں ان کے والدین کے پاس لے جائیں گے اور اپنا بنا لیں گے ۔آپ نہیں جانتے بادشاہ عرشمان اس بار آپ نے ہم سے کیا چھینا ہے ہماری حور کو ہم سے دور کر کے آپ نے اچھا نہیں کیا۔ "

سلطان نے اپنے ہاتھ غصے سے جھٹکا تو سامنے پڑا میز ٹوٹ گیا۔نجانے حور کا مستقبل کیا ہونا تھا وہ کیا داستان تھی جو حور کی قسمت میں لکھی گئی تھی۔

__________________________

حور کے والدین کے پاس ایک خط آیا جس میں ایک خوبصورت تصویر تھی۔خط ان کے کمرے میں رکھا ہوا تھا جو فورا ہی حور کے والد نے اٹھا لیا۔

"سلام بابا جان میں حور ۔میں آپ کو جو بات کہنے جارہی ہوں شاید آپ یقین نہ کریں مگر میں اب آپ کی اور اپنی دنیا میں نہیں ہوں۔میری شادی ہوگئی ہے اور میں پریوں کی دنیا کی رانی بن گئی ہوں۔آپ کو یہ سب جان کر عجیب لگ رہا ہوگا یا آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں جھوٹ بول رہی ہوں اور کہیں بھاگ گئی ہوں میں تو ایسا نہیں ہے۔میں سچ میں اب ہماری دنیا میں نہیں ہوں۔میں کوشش کروں گی کہ جلد از جلد آپ سے مل پائوں مجھے ہمیشہ یاد رکھنا آپ سب۔آپ کی بیٹی حور عرشمان خان۔"

خط کے اندر سے تتلیاں نکلی جہنوں نے حور کے گھر والوں کو خوف زدہ کر دیا ۔مگر تتلیاں سامنے جاکر اکٹھی کوئی اور ایک منظر بنا جس میں حور کی تاج پوشی ہورہی تھی۔

"میری بچی۔"

حور کی والدہ آگے گئے مگر تحریم نے انہیں روک لیا ۔یہ جان گئے تھے کہ۔ان کی بیٹی اب سچ میں ان کی پہنچ سے بہت دور ہے۔

میری اجازت کے بغیر کاپی پیست مت کریں 

ناول کے تمام کردار فرضی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

حور کو عرشمان کے ساتھ رہتے ہوئے اس بات کا احساس ہوا کہ عرشمان ایک سنجیدہ طبیعت کا انسان ہے مگر حور کے لیئے وہ بہت نرم ہے۔حور صبح صبح عرشمان اور فوزیہ بیگم کے ساتھ دربار میں بیٹھا کرتی پھر دن کے وقت گل بہار اسے مختلف چیزیں سیکھاتی۔ایک چیز جو ابھی تک حور نے نہیں دیکھی تھی وہ عرشمان کے پر تھے۔حور کو اکثر لوگ بہت عجیب نظر سے دیکھتے ۔بہت سے لوگ ابھی حور کو قبول نہیں کر پارہے تھے۔عرشمان اور حور کی عمر میں بہت زیادہ فرق تھا۔حور عرشمان سے سترہ سال چھوٹی تھی ۔اکثر باتوں میں یہ بہت زیادہ ضد کرتی تھی اور عرشمان کو اس کی پر بات ماننی پڑتی۔حور ابھی ابھی سو کر اٹھی تھی۔اسے گل بہار کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی ۔حور اپنا لباس تبدیل کرنے کے لیئے اٹھی اور الماری کھولی۔الماری کے اندر اسے نیچے والی جگہ پر ایک پھول پڑا ہوا نظر آیا۔

 حور نے یہ سفید رنگ کا پھول دیکھا تو اس نے سمجھا کہ شاید عرشمان یہاں یہ رکھ کر گیا ہے کیونکہ عرشمان اکثر اوقات اس کے لئے پھول لے کر آتا تھا۔  اس سفید پھول میں کچھ عجیب سا تھا پتیوں کے درمیان کالے رنگ کے دھبے تھے۔ حور پہلے تو اس پھول کو دیکھ کر حیران ہوئی پھر اس نے تجسس سے اس پھول کو اٹھا لیا مگر اس نے جیسے ہی یہ پھول اٹھایا اس کے ہاتھ سے روشنی نکلی۔

"یہ کیا ہوا۔"

حور نے پھول کو اٹھا کر دیکھا۔حور نے اس بات کو عام سا تصور کیا کیوں کہ عرشمان اکثر جو پھول حور کو دیتا تھا ان پھولوں کے اندر سے روشنی نکلا کرتی تھی یا اکثر تتلیاں اس لیئے حور نے اس بات کو عام سا تصور کیا اور اس پھول کو الماری سے نکال کر باہر رکھ دیا ٹیبل پر۔

سلطان کو ایک جھٹکا لگا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔حور نے پھول کو ہاتھ لگایا تھا اس کا مطلب تھا کہ حور تک رسائی اب ممکن تھی۔عرشمان نے حور کی حفاظت کے لیئے بہت سے کام کیئے تھے کچھ حدیں تھی جن کو سلطان پار نہیں کر سکتا تھا مگر اس پھول کو ہاتھ لگانے سے اب سلطان باآسانی حور تک پہنچ سکتا تھا۔

"اب مجھے آپ تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا میری شہزادی۔بہت جلد ہم ساتھ ہوں گے۔اس دنیا میں اگر عرشمان ہمیں ملنے سے روکے گا تو دوسری دنیا میں ہم ساتھ مل جائیں گے۔"

سلطان نے اپنے ہاتھ سے نکلنے والی روشنی کو دیکھا پھر قہقہ لگا کر ہنسا۔

________________________

حور اس وقت دربار میں عرشمان کے ساتھ بیٹھی تھی۔ایک مسئلہ زیر بحث تھا۔حور سب باتیں غور سے سن رہی تھی پھر اس نے اپنی بات شروع کی اور سب کے فصیلے کی مخالفت کی۔

"آپ ہمارے معاملات سے دور رہیں رانی صاحبہ آپ انسان ہیں اور ہمارے معاملات کے بارے میں آپ کیا جانیں ۔آپ کے پاس کوئی طاقت بھی نہیں جو مشکل آئے تو اس لمحے ہم سب کے کام آئے۔"

ایک وزیر نے حور کی بات کاٹی اور اسے سنانے لگ گیا۔

"خاموش تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی رانی صاحبہ سے اس قسم کے سوالات کرنے کی۔کیا ہم نے کبھی تم سب سے تمہاری طاقت کے بارے میں سوال کیا۔یہاں ایسے بہت سے لوگ جو اپنی طاقت استعمال نہیں کر سکتے کیا ہم نے کبھی ان سے کہا کہ تم لوگوں کو ہمارے معاملات میں بولنے کا اختیار نہیں ۔"

عرشمان کی دھاڑ پر سب دربار میں خاموشی چھا گئی۔

"مگر بادشاہ سلامت رانی صاحبہ انسان ہیں اور یہ خود کی بھی حفاظت نہیں کر سکتی۔آپ جانتے ہیں نہ کہ ہماری ریاست میں جو رانی ہوتی ہے وہ بادشاہ کی غیر موجودگی میں اپنے لوگوں کی ہر طریقے سے مدد کرتی ہے۔رانی صاحبہ کو ہمارے امور کا علم نہیں نہ ہماری روایات کا۔"

"تم سب رانی صاحبہ کی صلاحیتوں پر سوال اٹھائو گے۔"

ایک وزیر سب کے درمیاں بولا۔

"ہم سوال نہیں اٹھا سکتے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ جو فصیلے ہمارے اپنے لوگ لے سکتے ہیں وہ رانی صاحبہ نہیں کے سکتی ۔"

حور سب باتوں کے درمیان خاموش بیٹھی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔حور کو نہیں معلوم تھا یہ ان سب لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ہے یا اسے دکھ ہورہا ہے اس سب سے۔"

عرشمان نے حور کو دیکھا پھر اس کا ہاتھ تھاما۔

"اپنے حق کے لیئے آواز اٹھائیں ۔میں ہمیشہ آپ کے ساتھ موجود نہیں رہوں گا حور۔ان لوگوں کو جواب دینا اب آپ کا کام ہے۔"

عرشمان نے حور کا ہاتھ دبایا۔حور نے اپنے آنسو صاف کیئے۔

جو معاملہ زیر باعث تھا وہ یہ تھا کہ عرشمان کی ریاست کے کچھ لوگوں کی زمینیں دوسری ریاست کے لوگوں نے لے رکھی تھی اور اسی بات پر کافی عرصے سے لڑائی چل رہی تھی۔سب اب اس بات کو ختم کرنا چاہتے تھے ۔یہ بات اگر دوسری ریاست کے ساتھ آگے جاتی تو معاملے بگڑ سکتے تھے اس لیئے حور نے مشورہ دیا کہ دوسری ریاست کے بادشاہ سے عرشمان خود بات کرے اور اس معاملے کو ختم کرے بجائے عام لوگ اس میں شامل ہوں اور عام لوگوں کے لیئے مشکلات کا سبب بن جائے سب کچھ۔

حور کی آواز پورے دربار میں گونجی۔

"میری بات سے جس کو اعترض ہے وہ مجھے اس کی وضاحت دے کہ میری تجویز میں کیا غلط ہے۔کیا ہر معاملے کو غصے سے بی حل کرنا چاہئے یا جلدبازی میں جس سے سب کا نقصان ہو۔ہمارے ساتھ ہم اکیلے نہیں ہیں بہت سے لوگ ہیں ۔مجھے کوئی وضاحت دے گا کہ میری بات میں کیا چیز غلط ہے۔"

"رانی صاحبہ کبھی کبھار ہمیں سخت فصیلے لینے پڑتے ہیں۔"

"ٹھیک ہے کبھی کبھار ہمیں سخت فصیلے لینے پڑتے ہیں مگر کبھی کبھار تحمل کا مظاہرہ کرنا ہمیں بہت سے نقصانات سے بچا سکتا ہے۔دوسری ریاست کے بادشاہ سے آرام اور سکون کے ساتھ یہ معاملات طے پاجائیں تو بہتر نہیں ہے کیا۔کیوں چاہتے ہیں آپ لوگ کہ کچھ ایسا ہو جس سے ہم سب کو نقصان ہو۔میں مانتی ہوں میں انسان ہوں آپ سب کی طرف نہیں مگر دماغ تو ہے نہ میرے پاس اور میری سوچ آپ سب کی طرح ہی ہے ۔میں آپ سب کی رانی ہوں اور آپ سب کی بھلائی سوچنا میرا فرض ہے۔مجھے آپ سب کے نقصان سے فرق پڑے گا میری آنے والی اولاد کو بھی۔اس لیئے آپ  لوگوں کا مجھے بھی سوچنا ہے کسی کو اعتراض ہے میری بات سے تو وہ وضاحت کر دے کہ میں کہاں غلط ہوں میں اپنے فصیلے سے ہٹ جائوں گی ورنہ  ایک رانی ہونے کی حیثیت سے میں کسی کو یہ حق نہیں دیتی کہ وہ میری بات پر سوال اٹھائے۔"

حور کی بات پر عرشمان نے اسے دیکھا اور مسکرایا۔حور کا دماغ سچ میں بہت تیز کام کرتا تھا اور ساتھ حور نے سب کو جواب دے کر یہ ثابت کر دیا تھا کہ اسے رانی بنانے کا فیصلہ بلکل درست تھا۔

پورے دربار میں خاموشی تھی پھر ایک وزیر بولا۔

"ہمیں رانی صاحبہ کا فیصلہ منظور ہے بادشاہ سلامت آپ جب کہیں گے دوسری ریاست کے بادشاہ کو پیغام پہنچا دیا جائے گا کہ آپ سے ملاقات کریں ۔"

"ٹھیک ہے ہم کچھ لوگوں کو دوسری ریاست میں بھیج دیں گے۔مجھے امید ہے آئیندہ کوئی رانی صاحبہ کے فیصلوں پر سوال کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔آپ سب جاسکتے ہیں اب۔"

دربار خالی ہوگیا۔حور کا ہاتھ تھام کر عرشمان اس وقت دربار کے ساتھ بنی ہوئی بالکونی میں کھڑا تھا۔

"حور ہم آپ کو ایک بات آج بتا دیں کہ جب تک آپ خود اپنے حق کے لیئے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی کچھ نہیں کر سکتا میں بھی نہیں ۔آپ کے پاس کوئی جادوئی طاقت نہیں مگر آپ رانی ہیں اور آپ کے پاس دماغ ہے جس کا بروقت استعمال آپ کو بہت سی مشکلات سے بچا لے گا۔"حور کو اپنے حصار میں لے کر اس کے کندھے پر تھوڑی ٹکا کر عرشمان اسے آہستہ آہستہ سمجھا رہا تھا۔

"عرشمان میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسے مجھے کسی تخت پر بیٹھنا ہے اور لوگوں کے لیئے فصیلے لینے ہیں ۔میری زندگی بہت عام سی تھی جس میں ایک ہنستی مسکراتی فیملی کا تصور تھا۔"

"اب بھی ہمارا خاندان ویسا ہی ہوگا بس ہم پر زمینداریاں تھوڑی زیادہ ہیں ۔"

"عرشمان ہمارے بچے کیا انسان ہوں گے۔"

"ہاں وہ انسان بھی ہوں گے اور پری زاد بھی۔ان کے پاس آپ جیسی خوبصورتی ہوگی اور مجھ جیسی طاقتیں ۔"

حور نے عرشمان کی بانہوں کا ہار توڑا اور اس کی طرف موڑی۔

"آپ نے ابھی تک مجھے اپنے پر نہیں دیکھائے۔"

عرشمان اس کی بات پر ہنسنے لگ گیا۔

"آپ کو دیکھنا پے کہ آپ کے شوہر محترم کے پاس کیسے پر ہیں ۔"

"جی بلکل مجھے دیکھنا ہے ۔"

عرشمان حور کا ہاتھ چھوڑ کر پیچھے ہوا اور بالکونی کے پاس آیا۔عرشمان نے بالکونی پر چڑھ کر حور کو دیکھا پھر نیچے چھلانگ لگائی۔حور آگے آئی تو عرشمان اپنے پروں سمیت اوپر آیا۔

سفید اور بھورے رنگ کے ملاپ سے عرشمان کے پر بنے ہوئے تھے۔عرشمان کے پروں پر تتلیاں بنی کوئی تھی۔عرشمان حور کے پاس آیا اور اپنے پر ہلائے۔بہت ساری چمک حور کے اوپر گری۔

"عرشمان۔"

حور نے ہنستے ہوئے عرشمان کا بازو پکڑا ۔حور عرشمان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس کے دل کہ دھڑکن محسوس کرنے لگی۔پھر اپنے ہاتھ عرشمان کے پروں ہر لائی اور اس کے پروں کو ہاتھوں سے چیک کیا ۔حور  نے شرارت سے عرشمان کے پر کھنیچے۔

"آہ ظالم لڑکی درد ہوتا ہے۔"

"سچ میں "

"تو اور نہیں کیا۔آئو تمہیں اپنے ساتھ لے کر جائوں۔"

عرشمان نے حور کو مسکرا کر کہا۔

"جی نہیں مجھے گرا دیا تو پھر۔"

"کیا مجھ پر اتنا بھی بھروسہ نہیں رانی حور عرشمان خان۔"

حور بالکونی کے کنارے پر کھڑی عرشمان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔حور کو عرشمان کی آنکھیں بہت پسند آئی تھی جن میں چمک رہتی تھی جب یہ حور کے قریب آتا ۔حور نے عرشمان کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا۔عرشمان نے حور کے ہاتھوں کو تھام کر ان پر پیار دیا۔حور نے بالکونی کے پلر پر ہاتھ رکھا اور اوپر آگئی۔عرشمان نے اسے تھام لیا۔

"عرشمان ہم ہوا میں ہیں۔"

حور نیچے دیکھ کر بولی۔

"جی بلکل ہم ہوا میں ہیں اور ابھی ہم ساری ریاست کی سیر کریں گے ۔"

عرشمان اسے تھامے اڑا تو حور کی خوشی اور خوف کے ملے جلے اثرات سے چیخیں نکلی۔

"مزہ آرہا ہے۔"

عرشمان آپ یہ سب کیسے کر لیتے ہیں ۔"

"میں بچپن سے یہ سب کرتا آرہا ہوں ۔میں آپ کی طرح انسان نہیں ہوں اس لیئے میرے لیئے یہ عام بات ہے حور۔"

عرشمان حور کو تھامے بہت سی چیزیں بتا رہا تھا ۔پھر یہ دونوں ایک خوبصورت آبشار کے پاس اترے۔عرشمان نے اپنے پر بند کیئے۔"عرشمان یہاں کتنے خوبصورت آبشار ہیں نہ۔"

"جی ہاں اور مجھے بہت اچھا لگتا ہے اپنی رانی کے ساتھ ان سب چیزوں کو دیکھنے کا۔"

عرشمان نے آبشار کا پانی حور کے اوپر پھینکا۔حور نے بھی جواب میں پانی عرشمان کے اوپر پھینکا۔دونوں اس لمحے کے سحر میں گم تھے یہ جانے بغیر کے جدائی انہیں بہت دیر سے دیکھ رہی ہے۔

_______________________________

تین ماہ گزر گئے تھے حور کو اس دنیا میں آئے جو اس کے اپنوں سے دور تھی مگر اسے یہاں بھی بہت سے اپنے ملے۔آج صبح سے اس کی طبیعت بہت خراب تھی۔فوزیہ خاتون نے حور کے لیئے ایک حکیم عورت کو بلایا۔فوزیہ خاتون کافی دیر سے خواب گاہ کے باہر انتظار کر رہی تھی جب حکیم خاتون آئی ۔

"آپ کے لیئے ایک خوش خبری ہے ملکہ۔"

"کیا خوش خبری ہے۔"

"رانی صاحبہ امید سے ہیں ۔اس محل میں رونق آنے والی ہے۔"

فوزیہ خاتون کے چہرے پر خوشی دیکھنے والی تھی۔

"بہت بہت شکریہ مجھے یہ خبر سنانے کے لیئے۔ملازمہ فورا جائو اور پورے محل میں خبر کر دو کہ محل میں رونق آنے والی ہے۔"

فوزیہ خاتون خوشی خوشی حور کے پاس گئی۔

"بہت بہت مبارک ہو میری بیٹی۔"

"بہت شکریہ والدہ ۔"

عرشمان کو جب یہ بات پتا چلی تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔حور کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا تھا اس محل میں۔

عرشمان ہاتھ میں کھانے کی پلیٹ لیئے بیٹھا تھا جو حور بہت مشکل سے کھا رہی تھی۔آج کل حور بستر کی ہی ہوکر رہ گئی تھی ۔حور کو امید سے ہوئے پانچ ماہ ہوگئے تھے اور عرشمان اس کا ہر لمحے خیال رکھتا۔

"حور تھوڑا سا لگا لیں ۔"

"عرشمان میرا بلکل بھی دل نہیں کر رہا ۔"

"حور اگر آپ کھائیں گی تو اپنی صحت کا خیال کیسے رکھیں گی چلیں شاباش تھوڑا سا کھا لیں ۔"

"عرشمان آج نجانے کیوں میرا دل پریشان ہے جیسے کچھ ہونے والا ہے۔"

"ایسا کچھ نہیں ہے یہ صرف آپ کا وہم ہے۔"

"نہیں عرشمان مجھے لگتا ہے کچھ غلط ہے۔"

"حور آپ شاید اپنے گھر والوں کو یاد کرتی ہیں ۔ہم جائیں گے وہاں جب ہمارا بچہ اس دنیا میں آجائے گا۔تب تک کے لیئے آپ آرام کریں ۔"

عرشمان حور کو کھانا کھلا کر چلا گیا۔حور بہت آرام سے سو رہی تھی جب اسے محسوس ہوا اس کے پاس کوئی آیا ہے۔اسے لگا عرشمان ہے۔آنے والے نے حور کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔حور نے یہ ہاتھ ہٹایا تو سلطان اس کے سامنے کھڑا تھا۔

"سلطان ۔۔۔۔۔۔"

"ہیں شہزادی آپ کا شہزادہ سلطان ۔"

سلطان نے حور کی آنکھوں پر دوبارہ ہاتھ رکھا اور وہ بے ہوش ہوگئی۔سلطان نے حور کو اٹھایا اور اس محل سے چلا گیا۔

میری اجازت کے بغیر کاپی پیست مت کریں

ناول کے تمام کردار فرضی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں 

حور کی آنکھ دھیرے دھیرے سے کھل رہی تھی۔حور کو اپنے ہاتھ پر نمی کا احساس ہوا۔حور کا دماغ  بیدار ہو رہا تھا حور کو یاد تھا کہ یہ اپنے محل میں اپنے کمرے میں سو رہی تھی مگر یہ کمرہ کچھ عجیب سا تھا یہاں پر ویسے ہی سیٹنگ تھی جیسے اس کے پرانے گھر میں تھی اس کی اپنی دنیا میں۔ حور نے اردگرد دیکھا تو  یہ ایک کشادہ کمرہ تھا جس کے اندر یہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی جبکہ کمرے میں سامنے ایک خوبصورت تصویر لگی تھی جس میں حور کی ہیں اپنی ہی تصویر تھی۔

"عرشمان۔۔۔۔۔۔۔عرشمان۔"

 حور نے عرشمان کو آوازیں دینا شروع کر دیں کہ شاید وہ کہیں سے آ جائے مگر اس کا نام و نشان بھی نہیں تھا اتنے میں دروازہ کھلا اور اندر آنے والا اور کوئی نہیں سلطان تھا جس نے بالکل انسانوں جیسے کپڑے پہن رکھے تھے اس کا انداز بھی اس وقت بالکل انسانوں جیسا ہی تھا۔

" ارے ارے شہزادی آپ اٹھیئے مت۔ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ڈاکٹر ابھی یہاں سے ہو کر گیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ آپ کو ریسڈ کی اشد ضرورت ہے۔"

حور نے سلطان کو دیکھا تو اس کے دماغ میں سب یادیں دوبارہ آنے لگی۔

"تم مجھے کہاں لے آئے ہو میں تو اپنے محل میں تھی نہ۔"

"آپ اس وقت انسانی دنیا میں ہیں میں آپ کو عرشمان کی قید سے آزاد کروا لایا ہوں۔میں یہاں انسانی دنیا میں اپنی طاقتوں سے رہ سکتا ہوں ۔یہاں آنا جانا ہے میرا اس لیئے میں آپ کو اپنے گھر یعنی ہمارے گھر ہی لایا ہوں۔"

حور کے پاس اٹھنے کی ہمت نہیں تھی اسی لیئے اس نے لیٹے ہوئے ہی سلطان کو غصے سے جواب دیا۔

"تمہارا دماغ ٹھیک ہے شہزادے سلطان ۔میں بادشاہ عرشمان کی ملکہ ہوں تمہاری ہمت بھی کیسے ہوئی مجھے محل سے لے کر آنے کی۔تم میرے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔"

"بادشاہ پر آپ کا کوئی حق نہیں۔ بادشاہ عرشمان نے آپ کو مجھ سے چرایا ہے اگر بادشاہ عرشمان نہ آتا تو سب سے پہلے آپ کا اور میرا نکاح ہوتا اور یہ بچہ میرا ہوتا۔"

"تمہیں شرم نہیں آتی یہ سب کہتے ہوئے۔کسی کی بیوی ہوں اور بچے کہ ماں ۔تم خود کو سمجھتے کیا ہو ہاں میرا نکاح عرشمان سے ہوا ہے اور میں نے اپنی زندگی اپنا لی ہے جس میں تم جیسے انسان کی ہوئی گنجائش باقی نہیں بچتی ۔"

سلطان نے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی کھانے کی ٹرے میز پر رکھی۔

"آپ سے پہلے کون ملا تھا شہزادی میں اور آپ کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق بھی میرا ہے۔میں آپ کو آپ کے ماں باپ کے پاس لے جائوں گا مگر وہاں سب کو یہی بتانا ہے کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور یہ بچہ میرا ہے۔میں آپ کو واپس اپنے ساتھ اپنی ریاست میں لے جائوں گا اور پھر ہم شادی کریں گے۔" 

"میں عرشمان کی بیوی ہوں تم یہ سب نہیں کرسکتے ۔عرشمان تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔"

حور نے قدرے چیخ کر کہا۔

"عرشمان کے یہاں آنے کے سارے رستے میں نے بند کر دیئے ہیں اور آپ جب میرے ساتھ اتنا عرصہ رہیں گی تو عرشمان آپ کو کبھی قبول نہیں کرے گا نہ ہی عرشمان کی ریاست کے لوگ۔"

"تمہیں یہ سب کہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔"

سلطان نے حور کے ہاتھ سے ڈرپ اتاری۔

"میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں حور اور بے فکر رہیں میری ذات سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔آپ میری بھی شہزادی ہی بنیں گی اور بعد میں رانی۔رہی اس بچے کی بات تو اس کو اپنا لوں گا میں جو چیز آپ کی ہے اس سے محبت لازم ہے میری۔"

"عرشمان آجائیں گے مجھے یقین ہے وہ مجھے یہاں سے لے جائیں گے اور وہ مجھ پر اعتبار بھی کریں گے۔"

"جو ہونا ہوگا وہ ہوجائے گا شہزادی ۔اٹھیں اور کھانا کھائیں شام کو آپ کے ماں باپ کی طرف چلیں گے اور وہاں آپ کچھ نہیں بولیں گی ورنہ لوگ سوال کریں کے آپ سے کہ یہ بچہ کس کا ہے اور کس رشتے سے آپ میرے ساتھ ہیں ۔"

"تم اچھا نہیں کر رہے میرے ساتھ ۔"

"میں جانتا ہوں میں بالکل بھی اچھا نہیں ہوں اور آپ مجھے اچھا تصور بھی نہ کریں میں صرف اور صرف آپ کے لئے اتنا نرم ہوں اور آپ کی خاطر ہی یہ سب کر رہا ہوں۔"

 حور کو زیادہ تکلیف ہو رہی تھی کمر میں اس لئے خاموشی سے یہ اٹھ کر بیٹھی اور سلطان کا لایا ہوا کھانا کھا لیا. سلطان اس کے بعد حور کے لئے الماری سے کچھ کپڑے نکال کر لایا اور اس کو کہا کہ اٹھے اور اپنے کپڑے تبدیل کرلے وہ جانتی تھی کہ اپنے ماں باپ کے گھر جا کر بھی اسے ایک طویل مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا کیوں کہ سب لوگ اسے یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ گھر سے بھاگی ہوئی ہے ماں باپ نے تو شاید یقین کر لیا ہو اس کے خط پر مگر لوگ یقین نہیں کریں گے.

________________________

عرشمان کمرے میں آیا اس کو حور کہیں بھی نظر نہ آئی۔ عرشمان نے گل بہار کے ساتھ حور کو ہر جگہ ڈھونڈا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حور کہاں جا سکتی ہے اور کی طبیعت پہلے ہی ٹھیک نہیں تھی اور اب وہ نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ فوزیہ بیگم بھی بہت زیادہ پریشان تھی اور تقریبا سارے محل میں حور کو تلاش رہی تھی۔ عرشمان آخرکار دربار کے اندر بیٹھا ہوا تھا. عرشمان کا ایک خاص ملازم اس کے پاس آیا اور جو خبر اس نے عرشمان کو دی اسے سخت غصہ آگیا اس نے عرشمان کو بتایا کہ انسانی دنیا تک جانے کے تمام راستے جاتے جاتے سلطان بند کر گیا ہے اور وہ یہاں سے رانی کو اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔

" ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم نے رانی کی حفاظت کے لیے بہت زیادہ انتظامات کیے تھے. “

” بادشاہ سلامت آپ نے انتظامات تو کیے تھے مگر سلطان نے کسی طریقے سے رانی تک رسائی حاصل کی ہے میں نہیں جانتا اس نے کیا کیا ہے مگر کچھ ایسا اس نے رانی کو دیا تھا جس کی بدولت وہ رانی تک رسائی حاصل کر گیا۔"

"مجھے رانی تک پہنچانا ہے میں انہیں سلطان کے بھروسے تھوڑے وقت کے لیئے بھی نہیں چھوڑ سکتا ۔"

"بادشاہ آپ جاتے ہیں نہ کہ انسانی دنیا تک جانا کچھ لوگوں کے لیئے ممکن ہے ہمارے ہاں اور آپ کبھی بھی انسانی دنیا میں نہیں گئے۔سلطان نے جاتے جاتے آپ کے وہاں جانے کے رستے بند کر دیئے اگر اب آپ کوشش بھی کریں تو وقت لگے گا۔"

"میری رانی ہیں اس کے پاس ۔اس کی ریاست میں بادشاہ شہریار کو پیغام بھیجو کہ میں ان کے بیٹے کو اس بات کے لیئے کبھی معاف نہیں کروں گا۔اس نے میری رانی کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی ہے۔"

"حالات کشیدہ ہو جائیں گے بادشاہ شہریار اگر اپنے بیٹے کا ساتھ دیں گے۔"

"جانتا ہوں میں سب مگر بادشاہ شہریار کچھ نہیں کر سکتے وہ مجھے بھی جانتے ہیں اور خود کو بھی ۔تم پیغام بھیجوا دو انہیں اور جلد از جلد میں نے اپنی رانی کے پاس جانا ہے ان کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ رانی کے گم ہونے کی بات کسی کو بھی پتا بہ چلے۔"

"جی بادشاہ سلامت۔"

عرشمان اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا ۔سلطان جاتے جاتے اسے کتنی بڑی تکلیف دے گیا ہے سلطان نے اس کے ساتھ ایک گیم کھیلی تھی ۔جاتے جاتے وہ تمام راستے بند کر گیا تھا کہ یہ رانی تک پہنچ نہ پائے مگر عرشمان بھی جانتا تھا کہ کس طرح سلطان تک پہنچنا ہے۔

_______________________________

حور کو اس وقت احساس ہو رہا تھا کہ  کاش اس کے پاس کوئی طاقت ہوتی اور یہ عرشمان کے پاس چلی جاتی۔اگر حور اپنے ماں باپ کے پاس عرشمان کے ساتھ آتی تو اس کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہتا مگر آج سلطان کے ساتھ آ کر اسے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس نے عرشمان کے ساتھ بے وفائی کر دی ہے مگر اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا.

حور کو دروازے کے سامنے لاکر سلطان نے دروازہ بجایا اندر سے حور کی والدہ نکلیں۔

" میری بچی کہاں چلی گئی تھی آگئی واپس میری شہزادی ٹھیک تو ہے نا. “

حور کی والدہ فورا ہی اس کے پاس آئی اور اسے سینے سے لگا لیا۔

حور نے جیسے ہی اپنی والدہ کو دیکھا اس نے رونا شروع کر دیا سلطان جو پیچھے کھڑا ہوا تھا یہ آگے آیا اور حور کے کندھے پر ہاتھ رکھا جو اس نے غصے سے جھٹکا ۔

"یہ کون ہے حور۔"

" السلام علیکم میں حور کا شوہر ۔حور آپ سب کو بہت یاد کرتی تھی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس کو ملوانے لائوں آپ سے۔"حور نے روتے ہوئے سلطان کو دیکھا جو بہت صفائی سے جھوٹ بول رہا تھا۔

"میری بچی کتنا یاد کیا تمہیں ہم نے۔تم کہاں چلی گئی تھی ایک خط ملا تھا ہمیں تمہارا اس کے بعد کوئی لڑکی ملنے آئی تھی تمہارے بابا سے تمہارے بارے میں بتایا اس نے۔کس جگہ تھی تم ۔"

"میں پریوں کی دنیا کی رانی ہوں ماں۔میں آپ سے بہت دور رہتی ہوں وہ ایک بلکل الگ دنیا ہے۔"

تحریم بھی گھر کے اندر تھی جب اس نے گھر کے اندر دیکھا کہ ماں اتنی دیر سے نظر نہیں آئی تو وہ فورا ہی باہر آئی۔ دروازے کے سامنے اپنی بہن کو ایک لڑکے کے ساتھ کھڑا دیکھ کر تحریم حیران ہو گئی پھر فورا سے آگے آئی اور حور کو گلے لگا لیا۔

"حور کہاں تھی تم میری جان۔"

"آپی ساری باتیں آپ لوگ دروازے پر کریں گے کہ یا اندر آنے دیں گے۔"

"آجائو۔"

تحریم حور کو تھامے اندر لائی۔حور کی والدہ بار بار رو رہی تھی۔سلطان بھی ان کے ساتھ ہی اندر گیا۔سلطان صوفے پر بیٹھا۔ایسا لگتا ہی نہیں تھا یہ اس دنیا کا نہیں ۔اپنی آنکھوں پر نیلے رنگ کے لینز لگائے تھے اس نے۔

"حور تو امید سے ہے۔"

تحریم نے اپنی بہن کے چادر کے اندر چھپے سراپے کو دیکھ کر لیا۔

"جی آپی پانچ ماہ ہوگئے ہیں ۔یہاں کتنی گرمی ہے نہ آپی۔"

"گرمی نہیں ہے یہاں ابھی تو ہم نے کوئی پنکھے بھی نہیں لگائے سردی شروع ہونے والی ہے۔"

"میں جس جگہ رہتی یوں نہ وہاں بہت سردی ہے ۔مجھے یہاں پر سردی محسوس ہی نہیں ہورہی۔"

سلطان ان کی باتیں سن رہا تھا۔

"ہم نے جب تیرا خط پڑھا ہمیں بالکل بھی یقین نہیں آیا مگر خط ہی اندر سے کچھ ایسی چیزیں نکلی تھی کہ بابا کو یقین کرنا ہی پڑا پھر ایک لڑکی آئی تھی شاید تمہاری ریاست میں سے تھی اس کے پاس بھی کچھ ایسا تھا کہ بابا کو یقین کرنا ہی پڑ گیا کہ تم اب ہمارے ساتھ نہیں ہو. “

” ہاں وہ لوگ مختلف ہیں شاید کوئی پری ہو آپ مجھے بتائیں نہ کہ پیچھے کسی نے کچھ کہا تو نہیں نہ میرے بارے میں "

"نہیں بابا نے کسی کو پتا لگنے ہی نہیں دیا ۔سب کو یہی بتایا کہ تمہاری شادی اپنے دوست کے بیٹے سے کر دی جو تمہیں لے کر دوسرے شہر چلا گیا ہے۔"

"آپی میں نے آپ سب لوگوں کو بہت یاد کئا۔مجھے یہاں کی باتیں بھولنے لگی تھی وہاں رہ کر سب کے ساتھ مجھے ایسا لگتا تھا کہ کچھ عرصے میں آپ سب کے چہرے مجھے بھول جائیں گے۔"

"ہم نے بھی تجھے بہت یاد کیا۔یہ تیرے شوہر ہیں ۔"

"جی میں ان کا شوہر ہوں ۔میں نے حور کو کہا تھا کہ اس کو اس کے والدین سے ملوانے لائوں گا تو سوچا کیوں نہ تھوڑی دیر کے لیئے یہاں آیا جائے ۔"

"آپی میں اب یہاں ہی رہوں گے کچھ دن۔"

"نہیں شہزادی ہم یہاں نہیں رہ سکتے آپ جانتی تو ہیں نہ کہ ہمیں محل واپس جانا ہے اور سب لوگ آپ کے منتظر ہیں۔"

"حور ٹھیک کہہ رہی ہے اسے کچھ عرصہ ہمارے پاس رہنے دیں بچے کے پیدا ہونے کے بعد آپ اسے لے جائیے گا۔"

"میں معافی چاہتا ہوں میں یہ نہیں کر سکتا شہزادی کا جو گھر ہے انہیں اب وہاں ہی رہنا ہے۔بے فکر رہیں یہ ملنے آتی رہیں گی۔"

حور کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔یہ ایک عجیب بات تھی کہ یہ کیسے قبول کر لیں کہ ان کی بیٹی اب سچ میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔

حور کے والد شام کو گھر آئے تو حور کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔

"میرا بچہ تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں اگر ہے تو اپنے بابا کو بتائو میں تمہارے لیئے کچھ بھی کر سکتا ہوں۔"

"بابا میں ٹھیک ہوں بلکل بس شروع میں تھوڑی مشکلات ہوتی تھی مگر پھر میری ساس اور شوہر نے میرا بہت خیال رکھا ہے مجھے کبھی یہ محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ میں گھر سے بہت دور ہوں ۔"

"بہت شکریہ آپ کا سلطان بیٹے میری بیٹی کی حفاظت کے لیئے۔مگر آپ نے یہ اچھا نہیں کیا یوں میری بیٹی کو ہم سے دور کر کے۔تم جانتے ہو یہ ہماری لاڈلی بیٹی ہے آج تک ایک خراش بھی اسے آنے نہیں دی ہم نے۔"

"میں اپنے ہر عمل کے لیئے معذرت خواہ ہوں مگر میں مجبور تھا میں اپنی پہچان آپ لوگوں کو نہیں بتا سکتا تھا۔مجھے امید ہے آپ لوگ اب بھی ہماری پہچان کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔"

"نہیں ہم کسی کو کچھ نہیں بتائیں گے بس ہماری بیٹی کو ہم سے ملوانے لاتے رہنا۔"

"جی ضرور کیوں نہیں ۔"

حور اس سب میں بلکل خاموش بیٹھی تھی یہ اپنے والد کو کیسے بتاتی کہ سلطان اس کا کچھ نہیں لگتا اس کا شوہر تو عرشمان ہے مگر پہلے ہی سب کچھ قبول کرنا حور کے والدین کے لیئے مشکل تھا اور اوپر سے یہ سب کچھ۔حور جانتی تھی سلطان اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور بہت جلد عرشمان اس کے پاس ہوگا۔حور اپنے ماں باپ کے ساتھ ایک ہفتہ رہی۔بارش بہت تیزی سے برس رہی تھی۔حور کو یاد تھا کہ عرشمان اسے سردی میں باہر نہیں جانے دیتا تھا۔عرشمان کو یاد کرتے یہ رونے لگی۔

"بے بی ہم جلدی ہی بابا کے ساتھ ہوں گے تم پریشان مت ہو۔"

حور روتے ہوئے خود سے ہی باتیں کر رہی تھی۔عرشمان کا انتظار نجانے کتنا طویل ہونا تھا۔

میری اجازت کے بغیر کاپی پیسٹ مت کریں 

ناول کے تمام کردار فرضی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں 

حور کو سلطان کی قید میں رہتے ہوئے بہت عرصہ ہوگیا۔اب تو وہ وقت جلد آنے والا تھا جب اس کا بچہ اس کے ساتھ ہوتا۔اسے بس اس بات کی بہت زیادہ فکر تھی کہ نہ جانے اس کا بچہ اپنے والد کو دیکھ بھی پائے گا یا نہیں ۔یہ روز عرشمان کو پکارتی اور کہتی کہ جہاں بھی ہو میرے پاس آ جاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے . سلطان اپنی طرف سے ہر ممکن کوشش کرتا کہ حور کو کسی چیز کی کمی نہ ہو مگر حور صرف اور صرف اور عرشمان کو ہی یاد کرتی اپنے والدین کے ہاں سے آنے کے بعد یہ اسی گھر میں رکھے تھے جہاں اسے سلطان لے کر آیا تھا۔سلطان ابھی ابھی حور کے پاس اس کے کمرے میں آیا تھا۔

"کچھ کھا لو یوں بھوکا رہ کر تم اپنا ہی نقصان کرو گی۔"

"مجھے میرے عرشمان کے پاس واپس جانے دو۔تم جو کہو گے وہ تمہیں دیں گے تمہیں کوئی سزا بھی نہیں ملے گی مجھے میرے عرشمان کے پاس واپس جانے دو۔"

"نہیں حور میں تمہیں عرشمان کے پاس واپس نہیں جانے دے سکتا ۔میں تمہیں اب خود سے دور نہیں کروں گا۔"

"مجھے قید کر کے تم خود سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔کوئی انسان اس شخص سے محبت نہیں کر سکتا جو اس کے ساتھ یوں زور زبردستی کرے۔"

"مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا حور مجھے صرف اس بات سے غرض ہے کہ تم میری ہو اور تمہیں میرا ہی ہو کر رہنا ہے۔"

حور سلطان کی بات پر رونے لگ گئی۔ان گزرے کچھ مہینوں میں یہ ایسے ہی روتی تھی۔عرشمان نے اسے کبھی رونے نہیں دیا تھا۔اب اسے لگنے لگا تھا کہ عرشمان سے دور رہ کر یہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔"

______________________________

عرشمان اپنے خاص ملازم کے ساتھ کھڑا ہوا تھا آج اس نے اپنے ملازم کو کہا تھا کہ یہ کوشش کرے گا انسانی دنیا میں جانے کی مگر اس سے شاید اس کو نقصان بھی ہو سکتا تھا مگر حور کے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا۔

" بادشاہ سلامت اگر آپ اس مرتبہ ناکام ہوگئے تو پھر آپ بہت دیر بعد کوشش کرسکیں گے. “

” مجھے امید ہے کہ میں اس دفعہ کامیاب ہو جاؤں گا تم بس دیکھو یہاں پر میں اگر اپنی حور کے پاس چلا گیا تو اسے لے کر ہی آؤں گا۔"

عرشمان اپنے ملازم کو کہہ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔اس کے بعد جب دوبارہ اس کی آنکھ کھلی تو یہ انسانی دنیا میں تھا۔

یہاں سب کچھ بہت عجیب تھا مگر عرشمان کو ایک بات کی خوشی تھی کہ یہ اپنی حور کے بہت قریب ہے اسے یقین ہی نہیں تھا کہ انسان دنیا میں آپ آئے گا  . یہ کب سے کوشش کر رہا تھا کہ جلد از جلد حور کے پاس پہنچ جائے اور یہ حور کے پاس ہی پہنچنے والا تھا۔عرشمان اردگرد دیکھ رہا تھا۔سب سے پہلے اس نے اپنے جادو سے اپنے کپڑے تبدیل کئے اس کے بعد حور کے پاس جانا اس کا سب سے پہلا مقصد تھا ۔یہ جانتا تھا کہ سلطان دنیا میں موجود ہے اور کہیں نزدیک ہی ہے۔عرشمان اب اپنی رانی کے بارے میں جان رہا تھا۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ وہ یہاں ہی نزدیک ہے کہیں ۔

حور بستر پر لیٹی ہوئی تھی اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ عرشمان اس کے بہت قریب ہے۔

"کہاں ہیں آپ عرشمان جلدی سے آجائیں میں چاہتی ہوں کہ ہمارے بچے کو جو سب سے پہلے اٹھائے وہ آپ ہوں ۔"

حور نے روتے ہوئے عرشمان کو پکارا۔سلطان جو کچن میں کھڑا ہوا رات کا کھانا بنا رہا تھا وہ باہر لاوئنج میں آیا تو کسی غیر معمولی پن کا احساس ہوا۔ابھی یہ کچھ سوچتا اس سے پہلے ہی دروازہ ایک دھاڑ سے کھلا۔اندر آنے والا عرشمان تھا۔

"بادشاہ عرشمان ۔"

سلطان نے عرشمان کی طرف دیکھا جو غصے سے اندر آیا۔عرشمان نے اندر آتے ہی سب سے پہلے سلطان کو اپنی طاقت سے نیچے گرایا ۔

سلطان بھی شاید تیار تھا اس بار۔سلطان نے بھی اپنے ہاتھ آگے کیئے جس سے روشنی نکلی اور عرشمان کی طرف گئی۔عرشمان کو بھی جھٹکا لگا۔

"اس بار نہیں ہاروں گا میں ۔شہزادی میری ہوں گی بادشاہ عرشمان۔میں نے انہیں سب سے پہلے دیکھا پسند کیا اور اپنی دنیا میں لے گیا۔"

تم ہوتے کون ہو رانی کے بارے میں ایسی بات کرنے والے۔وہ شروع سے میری تھی اور میری ہی رہیں گی۔تمہیں میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میرے راستے سے دور رہو مگر تم شاید ابھی مجھے بہتر طریقے سے جانتے نہیں۔"

عرشمان نے دوبارہ روشنی سلطان کی طرف پھینکی۔سلطان نے بھی اسے روکا۔

"نہیں بادشاہ عرشمان شروع سے تمہارا رویہ لوگوں کے ساتھ ایسا ہی تھا کہ جو چیز اچھی لگی اسے اپنا بنا لیا مگر حور کوئی چیز نہیں تھی بلکہ جیتی جاگتی انسان تھی۔تم نے کبھی کسی کے احساسات کا خیال کیا ہے۔"

"مجھے تم جیسے انسان سے ہمدردی بھی نہیں سلطان تم شاید نہیں جانتے تم میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے تم اس شخص کے بیٹے ہو جس نے آج تک اپنی بیوی کو دنیا سے دور رکا تو کیسے تم کسی کو خوش رکھ سکتے ہو۔"

"میرے بابا کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں ۔وہ ماں سے بہت پیار کرتے ہیں مگر تم جیسے لوگ پیار کا مطلب بھی نہیں جانتے ان کے نزدیک صرف اپنی ذات اہم ہے۔"

حور جسے شور کی آواز آرہی تھی بہت دیر سے یہ کمرے سے باہر آئی۔کمرے سے باہر اسے جب عرشمان نظر آیا تو یہ روتے ہوئے بولی۔

"عرشمان ۔"

عرشمان کی نظر حور پر پڑی۔پیلے رنگ کے شلوار قمیض پر چادر کو اپنے اردگرد اور سر پر اس نے اچھے سے پھیلا رکھا تھا۔عرشمان حور کی طرف آیا۔

"میری جان میری رانی حور عرشمان۔"

عرشمان نے حور کو اپنی بانہوں میں بھرا۔عرشمان نے حور کے چہرے پر پیار دیئے اور اس کی آنکھوں کو دیکھا جو ویران تھی۔عرشمان نے حور کے پیٹ پر ہاتھ رکھا اور یقین کیا ان کا بچہ ٹھیک ہے۔"

"ٹھیک ہو نہ میری جان۔آپ جانتی ہو میں نے یہ وقت کیسے گزرا ہے میں نے پل پل یہاں آپ کے پاس آنے کے لیئے لمحے گنے ہیں۔"

"بہت ہوگیا ہے ایموشنل ڈرامہ تم جانتے ہو بادشاہ عرشمان تمہاری بیوی کتنا عرصہ میرے پاس رہی ہے کیا اب بھی تم اسے اپنانے کو تیار ہو۔"

حور نے آنسو بھری آنکھوں سے عرشمان کو دیکھا۔

"عرشمان آپ مجھ پر شک مت کریئے گا ایسا کچھ نہیں ہے میں بلکل ویسے ہی یوں جیسا آپ نے مجھے چھوڑا تھا۔عرشمان نے حور کے چہرے پر پیار سے ہاتھ پھیرا۔

"میں جانتا ہوں یہ گھٹیا شخص جو کہہ رہا ہے وہ سچ نہیں ۔ویسے بھی میں نے آپ سے عشق کیا ہے میری رانی آپ کی ہر تکلیف کا اندازہ مجھے خود ہی ہوجاتا ہے۔آپ پر جو بھی تکلیف آتی ہے مجھے اس کا علم پہلے سے ہی ہوتا ہے۔"سلطان نے حور کو عرشمان کے پاس دیکھا تو یہ ضبط کر گیا مگر جب اسے معلوم ہوا کہ عرشمان سچ میں حور کو نہیں چھوڑے گا تو اس نے عرشمان پر وار کیا۔

"عرشمان۔۔۔۔۔"

حور کی چیخ نکلی۔عرشمان نے حور کو آپ ے سینے میں چھپایا۔عرشمان غصے سے پیچھے دیکھنے لگا پھر اپنے سلطان کی طرف آیا حور کو سائیڈ پر کر کے۔

"تم میرے سامنے کھڑے ہو تم شاید یہ بھول رہے ہو۔تم نے پہلے جرات کی میری رانی کو تکلیف پہنچانے کی اب تم میرے سامنے کھڑے ہونے کی جرات کر رہے ہو۔بادشاہ عرشمان کبھی بھی اپنے مجرموں کو معاف نہیں کرتا۔"

عرشمان کی آنکھیں اس وقت خوف ناک حد تک سرخ تھی اور یہ سلطان کی طرف آرہا تھا۔۔سلطان بھی پہلے سے تیار تھا اس لیئے یہ بھی عرشمان کی طرف آنے لگا۔حور پیچھے کھڑکی سب دیکھ رہی تھی۔حور کے دیکھتے ہی دونوں میں سخت لڑائی ہوئی۔حور کی چیخیں نکل گئی جب اس نے عرشمان کا خون نکلتے دیکھا۔عرشمان اور سلطان دونوں ہی طاقتور تھے اور اس لمحے دونوں ہی سخت غصے میں تھے۔عرشمان نے وار کیا سلطان نیچے گرا۔عرشمان نے سلطان کا بازو تھاما اور جھٹکا دے کر کھینچا۔روشنی کے نکلتے ہی سلطان کو سمجھ آیا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے۔

"یہ تم  نے کیا گیا۔"

عرشمان نے سلطان کی ساری طاقتیں لے لی تھی۔

"تم نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے۔نہ صرف اپنی ریاست کے لوگوں کو تکلیف دی تم نے بلکہ میرا بادشاہ عرشمان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہم سے تمہاری ساری طاقتیں واپس لیتے ہیں اور دس سال کے لیئے تم اپنی ریاست اپنے گھر نہیں جاسکتے ۔دس سال تمہیں اسی انسانی دنیا میں رہنا ہے۔"

"یہ تم نے اچھا نہیں کیا بادشاہ عرشمان تم مجھ سے میری طاقتیں نہیں چھین سکتے۔"

"میں چاہتا تو تمہیں ختم بھی کر سکتا تھا مگر میں تمہیں ایسی سزا دینا چاہتا تھا جو تمہیں ہمیشہ یاد رہے۔اب جب بھی تم سوچا کرو گے تو تمہیں سمجھ آئےگا کہ تم نے کس کے ساتھ مقابلہ کرنے کا سوچا تھا۔"

عرشمان حور کی طرف بڑھا جو رو رہی تھی۔

"چلیں رانی۔"

حور سلطان کی طرف ائی۔

"میں نے تمہیں کہا تھا نہ سلطان کہ عشق کو کبھی قید نہیں کر سکتے۔مجھے دکھ ہے کہ تم نے اپنی ضد اور آنا کے پیچھے خود کو تباہ کر لیا۔میں امید کرتی ہوں کہ جب اپنے ماں باپ سے ملو گے تو ایک نئے انسان بن کر ملو گے۔ یہاں انسان تمہیں بہت کچھ نیا سیکھا دیں گے۔"

سلطان نے حور کو دیکھا وہ جانتا تھا کہ شاید اب کبھی دوبارہ اسے دیکھ نہ پائے۔

"عرشمان سلطان مجھے میرے والدین کے پاس لے کر گیا اور یہی ظاہر کیا کہ میرا شوہر ہے یہ۔میں اپنے ماں باپ سے ملنا چاہتی ہوں مگر آپ ساتھ ہوں گے تو وہ کیا سوچیں گے۔"

عرشمان ہنسنے لگ گیا۔

"شاید آپ بھول گئی ہیں کہ آپ کے شوہر محترم انسان نہیں ہیں۔میں انہیں اس بات کی یاد ہی بھلا دوں گا کہ وہ سلطان سے ملے تھے۔انہیں یہ یاد ہوگا کہ وہ مجھ سے ملے تھے۔"

سلطان کو چھوڑ کر یہ دونوں اپنی دنیا میں چلے گئے ۔سلطان بھی حور سے سچی محبت کرتا تھا مگر شاید وہ ایک چیز بھول گیا تھا عشق کو کبھی قید نہیں کیا جاتا یہ تو آزاد رہنے کا عادی ہے۔

حور اپنے والدین سے مل رہی تھی اور اب یہ جانتی تھی کہ بہت عرصے تک یہ ان سے مل نہیں پائے گی۔اس کے والدین کی یاداشت میں عرشمان اس کے شوہر کے طور پر یاد رہ گیا۔ایک نئی داستان رقم ہوئی ۔سلطان اپنے عشق کے پیچھے سب کچھ گواہ گیا اور عرشمان نے سب کچھ پالیا ۔وہ بابا جو حور کے والد کے پاس آتا تھا وہ کچھ بھول گیا تھا حور سلطان کو نہیں عرشمان کو ملی تھی اور ان دونوں کی ایک نئی کہانی شروع ہوئی تھی۔

______________________________

دس سال بعد

محل میں ساحل کے پیچھے بھاگتے ہوئے حور تھک گئی تھی۔یہ اس کا چھوٹا بیٹا تھا جس نے اسے پیدا ہونے کے بعد سے آرام سے بیٹھنے نہیں دیا تھا ۔"رانی صاحبہ آرام سے آپ گر جائیں گی۔"

"گل بہار تم اپنے شہزادے کو بھی تو دیکھو مجھے کتنا تنگ کرتا ہے آج آنے دو ذرا عرشمان کو شکایت لگائوں گی انہیں ۔"

حور کے چار بچے تھے ۔دو شہزدایاں اور دو شہزادے۔حور نے ان گزرے سالوں میں اس جگہ کو اپنا بنا لیا تھا یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ۔بادشاہ شہریار اور ملکہ بہت بار حور سے ملنے آئے کہ ان کے بیٹے کو معاف کر دیں ۔شروع شروع میں تو فوزیہ خاتون حور کو ان سے دور ہی رکھتی۔پھر ایک دن حور ان سے ملی اور عرشمان کو کہا کہ ان کے بیٹے سلطان کو معاف کر دے۔آج دس سال بعد سلطان اپنی ریاست واپس آیا تھا۔ساتھ اس کی طاقتیں واپس ملی تھی مگر عرشمان نے سلطان کو کہہ بھی دیا تھا کہ اس بار اگر کوئی حرکت کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے ہمیشہ کے لیئے انسانوں کی دنیا میں بھیج دیا جائے گا۔سلطان نے ایک لڑکی سے انسانی دنیا میں شادی کی جس کو مدد میں ضرورت تھی۔وہ لڑکی دو بیٹوں کی پیدائیش کے بعد اس دنیا سے چلے گئی۔سلطان آج بھی حور کو یاد کرتا ۔یہ ریاست واپس آیا اپنے دو بچوں کے ساتھ۔جس لڑکی سے اس نے شادی کی وہ اس کی مجبوری تھی اور ان کا ساتھ بھی بہت کم تھا۔کھڑی کے پاس کھڑے سلطان سیاہ آسمان کو دیکھ رہا تھا ۔آسمان پر آج بھی آتش بازی ہو رہی تھی اور یہ جانتا تھا کہ یہ کیوں ہورہی ہے۔مگر کہتے ہیں نہ کچھ چیزوں کو حاصل کر کے بھی ہم اپنا نہیں پاتے۔

حور آنج بھی اسی آبشار کے پاس کھڑی تھی جہاں شادی کی پہلی رات کھڑی ہوکر اس نے اپنے شوہر کے ہاتھ سے پھولوں کا زیور پہنا تھا۔آج ان کی شادی کو گیارہ سال گزر گئے تھے۔

"حور یاد ہے ہم نے اس جگہ سے اپنی آنے والے زندگی کی شروعات کی تھی۔کیا ہم جانتے تھے کہ زندگی میں اتنا کچھ بدل جائے گا۔"

"نہیں عرشمان میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ۔زندگی یوں بدل جائے گی مگر ایک چیز میں نے زندگی سے سیکھی ہے کہ عشق کبھی قید نہیں ہوسکتا وہ تو آزاد ہے جو کبھی بھی اپنے محبوب کو تکلیف نہیں دے سکتا۔"

عرشمان نے حور کی آنکھوں پر پیار دیا۔

"میری زندگی میں آنے کا شکریہ رانی حور عرشمان۔"

"میری زندگی بھی حیسن بنانے کا شکریہ بادشاہ عرشمان ۔"

حور عرشمان کے سینے سے لگ سامنے ہونے والی آتش بازی کو دیکھ رہی تھی یہ جانتی تھی کہ بہت کچھ بدلا تھا اور بہت کچھ بدل جائے گا مستقبل میں ۔مگر ایک چیز جو نہیں بدلے گی وہ عرشمان اور اس کا پیار تھا۔عشق میں زبردستی نہیں کی جاتی یہ تو ہوجاتا ہے اور جس چیز کو سختی سے تھاما جائے وہ ٹوٹ جاتی ہے یہی مثال عشق کی بھی ہے۔

ختم شد۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Qaid E Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Qaid E Ishq  written byHifza Javed.Qaid E Ishq  by Hifza Javed is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *