Tujhe Ishq Ho Khuda Kare By Umme E Laila Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Tujhe Ishq Ho Khuda Kare By Umme E Laila Complete Romantic Novel |
Novel Name: Tujhe Ishq Ho Khuda Kare
Writer Name:Umme E Laila
Category: Complete Novel
س کھچاکھچ بھری ہوئی تھی ۔۔
کجھ لوگوں نے تو بیچ کا راستہ سٹول رکھ کے بلاک کیا ہوا تھا
حریم بمشکل اپنی سیٹ تک پہنچی افف اب یہ لمبا سفر۔۔۔
سفر سے اسکی جان جاتی تھی
اور اسے ہر حال میں کراچی جانا تھا کیونکہ اسکا ایڈمیشن ہونے ولا تھا یونیورسٹی میں۔۔۔
اسے آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اسکے شہر میں کوئی یونیورسٹی نہیں تھی اور جو آس پاس شہر تھے وہاں کا ماحول اس کابل نہ تھا کہ کوئی لڑکی وہاں پڑھسکے ۔۔
۔حریم کا دم گھٹنے لگا تھا بس کا اے سی برائے نام ہی چل رہا تھا۔۔۔
اوپر سے پچھلی سیٹ پر بیٹھا ہوا لڑکا مسلسل الٹیاں کیے جارہا تھا۔۔۔
اس جی متلانے لگا(اف میرے اللّٰہ اسکی الٹیاں نہ رکیں تو میری شروع ہوجائنگی) اسے رونا آرہا تھا منہ پہ دوپٹہ رکھ کہ کانوں میں ہینڈس فری ٹھونس لیے تاکہ الٹی کی آواز نہ آئے اور نا سمیل۔۔۔
آنکھیں بند کرکے سیٹ سے ٹیک لگالی۔۔۔۔
____________
حریم۔۔۔۔امی اُسے آواز دیے
جارہی تھیں جب کے وہ واش روم میں تھی
حریم ۔۔۔حریم
اری آتی ہے کے نہیں۔۔۔؟
امی کا غُصہ بڑھنے لگا تھا
اتنے میں وہ آئی افوہ امی کیا ہوگیا میں نہارہی تھی۔۔۔
وہ تولیے سے بال خشک کرتی کہنے لگی۔۔
نہ تو ویسے بھی کونسا میری پہلی پکار آجاتی ہے جب تک میرا پارہ ہائی نہ کردیتی تب تک نہیں نکلتی۔۔امی کا پارہ ہائی ہوچکا تھا سو اب کچھ بولنے کا مطلب تھا
اپنی سات نسلوں کے گناہ گنوانا
اچھا معاف کردیں نہ وہ کان پکڑ کے بولی
تیرے ابا بتارہے تھے کے زرین باجی کی کال آئی تھی۔
کہرہی تھیں کے تیرا ایڈمیشن وہ کروادینگی کراچی میں۔۔امی بتانے لگی اور وہ جھٹ سے بولی
ہیں سچ امی؟؟.
وہ خوشی سے چلائی۔
ہاں اور کیا امی بھی مسکرائیں
لیکن اُنکا کہنا ہے کے وہ تجھے ہاسٹل جانے نہیں دینگی۔۔۔
ہیں اور وہ کیوں؟
تجھے پتہ نہیں کیا انکو یہ سب پسند نہیں۔وہ بتارہی تھیں کے اُنکا اتنا بڑا گھر جو ہے تو تم کیوں رہوگی ہاسٹل میں؟
مگر امی مجھے عجیب لگیگا پرائے گھر میں وہ پریشان ہوئی
ارے کچھ نہیں ہوتا میری بچی
وہ لوگ تیرا بہت خیال رکھیں گے مجھے بھی تسلی رہیگی
ورنہ ہاسٹل وغیرہ کا بکھیڑا مجھے بھی پسند نہیں وہاں کا ماحول اچھا نہیں ہوتا (امی کہہ تو ایسی رہی تھیں جیسے ہاسٹل رہ کے آئی ہوں)
پر امی جان میں کسی پہ بوجھ نہیں بننا چاہتی اُسنے کہا
لیکن امی نا مانی اور اج سویرے ہی اسے چلتا کردیا
وہ بس میں روانہ ہورہی تھی تو ابا اُداس تھے بیٹا میں خود آپکو چھوڑ کے آتا مگر میری طبيت اجازت نہیں دیتی سفر کی۔۔۔
ابا بولے
نہیں ابا آپ پریشان نہ ہوں میں چلی جاؤنگی
وہ انکو گلے لگا کے بولی۔۔
اور اب وہ بس میں تھی ۔۔
اچانک بس رکی تو وہ اپنے خیالوں سے باہر نکلی۔۔ لنچ کا وقت ہوچکا تھا اور ایک ہوٹل کے پاس بس رکی تھی۔۔
سب لوگ اتر رہے تھے مگر اسے نہیں اترنا تھا وہ اپنا لنچ ساتھ لائ تھی۔۔
لیکن اس ماحول میں وہ کیسے کھاسکتی تھی اسکی بھوک ختم ہو چکی تھی۔۔
۔زرین پھپھو اسکی ایک اکلوتی پھپھو تھیں اور وہ کراچی میں رہتیں تھیں حریم وہاں بچپن میں گئی تھی
اور اسے کچھ یاد نہیں تھا
اور پھپھو ایک دو بار انکے گھر آئیں تھیں ۔۔۔انکی شادی ایک نہایت امیر گھرانے میں ہوئی تھی۔۔ویسے تو وہ بھی کھاتے پیتے لوگ تھے پر سکندر پھپھا کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں تھے
سکندر نے زرین کو کسی شادی میں دیکھا اور ان پہ مر مٹے۔۔
وہ تھیں ہی اتنی حسین دودھ جیسا سفید رنگ گلاب جیسے ہونٹ وہ اپنی مثال آپ تھیں۔۔۔۔۔اب وہ کراچی میں ہی رہتی تھیں۔۔
کراچی میں اُسے زرین پھوپو کے ڈرائیور نے لینے آنا تھا
سفر اچھا خاصا لمبا تھا اُسکی کمر سن ہوگی تھی
وہ دعائیں کے جارہی تھی کے جلدی پُہنچ جائے
آخر کار سفر تمام ہوا اور وہ اتری بس سے ۔۔۔
وہاں اسے کوئی نظر نا آیا اسے یاد آیا کہ وہ کیسے پہچانے گئی
نہ وہ ڈرائیور کو جانتی تھی نہ ڈرائیور اس کو جانتا تھا اف میرے خدا میں کہاں جاؤں
اس نے جلدی سے اپنا فون نکالا اور ابو کو کال کی
ابا میں اتر گئی ہو کراچی میں لیکن یہاں تو کوئی نظر نہیں آ رہا مجھے لینے والا ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے آپ بات کر کے مجھے بتا دیجئے گا ۔۔۔
وہ پریشان کھڑی تھی کہ ایک لینڈ کروزر اسکے سامنے آکر رکی۔۔
ایک نہایت ہی ہینڈسم بندے نے اپنی آنکھوں سے سن گلاسز اتارتے ہوئے اسکو پکارا
مس حریم فاطمہ؟؟
وہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا
جی ہاں میں ہی ہوں حریم فاطمہ بڑی جلدی یاد آگیا اپکو۔۔۔ اب جلدی سے میرا سامان اٹھا کے گاڑی میں رکھیں ایک تو اتنی دیر کردی آپ نے ۔۔۔ اچھا تو یہ پھپھو کا ڈرائیور ہے اسکی جان میں جان آئ
وہ جھٹ پٹ بیٹھی
اے سی کی ٹھنڈک میں اسنے سکون کا سانس لیا
اسنے دیکھا ڈرائیور اب تک نہیں اترا۔۔۔
ہیلو میرا سامان تو رکھیں
وہ بولی
سنو مس میں تمہارا نوکر نہیں ہوں اپنا سامان خود اٹھاؤ۔۔۔وہ اسکی طرف دیکھے بغیر بولا
ورنہ میں یہی چھوڑ کہ چلا جاؤں گا
وہ بندہ لال چہرہ لیے اس سے مخاطب تھا
حریم گھبرا گئی ہیں یہ کیسا ڈرائیور ہے
اور اپنا سامان اٹھانے کو اتری سامان رکھ کہ طنزیہ بولی اب چلیں؟؟
تو اس نے زن سے گاڑی آڑائ
ارررے کیا کر رہے ہیں آپ
ابھی میری عمر نہیں ہے مرنے کی بھئی۔۔وہ گھبرا کے بولی
لیکن وہ تو سن ہی نہیں رہا تھا
ارے ارام سے۔۔۔
اپنا منہ بند رکھو۔۔۔۔ وہ سختی سے بولا
تو حریم نے منہ پہ انگلی رکھ لی۔۔۔
وہ چپ کر کے دیکھے گئی اتنا ہینڈسم ڈرائیور ؟؟
اور ڈریسنگ تو دیکھو کسی ہیرو کی طرح کی ہوئی ہے اور یہ سن گلاسز بھی کافی مہنگے والے لگ رہے ہیں۔۔۔وہ
اسکا جائزہ لیتی دل ہی دل میں بولی۔۔
پھپھو اتنی امیر ہیں تبھی تو ڈرائیور کے یہ ٹھاٹھ ہیں۔۔
اسکا فون بجنے لگا
جی ابو ہاں ہاں آگیا ڈرائیور لینے بس اب بیٹھی ہوں گاڑی میں ۔جی جی۔۔ہاں پہنچ کے بات کرتی ہوں۔۔
پیلز زرا آہستہ بولیے۔ اس کھڑوس ڈرائیور نے اسے غصے سے دیکھا ۔۔۔
وہ اسکے یوں حکم چلانے پہ غصہ تو بہت ہوئی لیکن ابھی وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی کہیں وہ اسے وہیں نا اتار دے۔۔۔ پھپھو کو شکایات لگاؤں گی اسکی اسنے دل میں سوچا۔۔
کچھ دیر میں گاڑی گیٹ کے سامنے رکی
اور وہ ہارن پہ ہارن دینے لگا
گارڈ نے گیٹ کھولا تو وہ گاڑی پورچ میں لا کے روکی اور جلدی سے اترا
وہ ڈر کے مارے سہمی ہوئی تھی
سٹوپٹ گرل تمہیں کیا دعوت دوں میں اترنے کے لئے؟؟
وہ آنکھیں دکھا کے بولا
تو حریم گڑبڑا کے اترنے لگی
ملازم نے اسکا سامان اتارا اتنا بڑا لان دیکھ کہ حریم کا منہ کھلا رہگیا
آئیں مس آپکو میڈم اندر بلارہی ہیں
وہ جانے لگی
مما کیا ضرورت تھی آپ کو اس لڑکی کے لیے مجھے بھیجنے کی؟
وہ اپنی ماں پہ غصہ کر رہا تھا
بیٹا تھوڑا سکون سے سوچو اچانک ڈرائیور کو فیور آگیا تھا میں کیا کرتی۔۔۔
۔صبح وہ لڑکی روانہ ہوئ ادھر اسکو بخار چڑھ گیا تو اس بچی کو کون لاتا
وہ تو کبھی آئی ہی نہیں کراچی۔۔۔وہ آرام سے سمجھا رہی تھیں
اور اپ کو پتا نہیں وہ
کتنی سٹوپٹ ہے مجھے کہرہی تھی کہ میرا سامان اٹھاؤ۔۔۔۔
حریم اندر آئی تو زرین اسے دیکھ کے مسکرائیں آو آو بیٹی ۔۔۔۔
وہ ان کے قریب جا کے سلام کرنے لگی تو زرین نے اسے خود سے لگالیا اسے دیکھتے ہی وہ وہاں سے پیر پٹختا چلا گیا۔۔۔۔
اوہ میرے خدا تو کیا یہ ڈرائیور نہیں تھا،، اسنے دل میں سوچا۔۔۔
کیسی ہو بیٹا؟ پھپھو کی آواز پہ چونکی
جی اچھی ہوں آپ کیسی ہیں پھپھو؟
وہ مسکرای
میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا بھائ بھابھی سب ٹھیک تھے نا ۔۔۔۔؟پھپھو مسکراتے ہوئے پوچھ رہیں تھیں اور وہ حیران تھی اس عمر میں بھی اتنی حسین لگرہی تھیں ۔۔۔۔انکی ڈریسنگ جیولری سب ایک طرف انکا حسن ایک طرف۔۔۔
جی سب ٹھیک تھے
رضیہ۔۔۔ٓ انہوں نے کسی کو پکارا
یس میم۔۔۔۔ ایک لڑکی آئی جو کافی مؤدبانہ انداذ میں بولی۔۔
حریم کو انکا بیڈ روم دکھادو وہ فریش ہو جائیں تو چاۓ لانا۔۔۔پھپھو نے اسے حکم دیا اور اسکی طرف دیکھ کہ مسکرادیں۔۔
یس میم۔۔۔لڑکی نے سر کو ہلکا سا خم دیا
چلیں مس حریم وہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی
حریم جھٹ سے اٹھی اور اسکے پیچھے جانے لگی۔۔ایک روم کا دروازا کھول کے وہ اسے اندر لیگئ
یہ آپ کا بیڈ روم ہے آپ فریش ہو جائیں میم نے اپ کے لیے ڈریسیز رکھوادیے ہیں آپ باتھ لیں
سر کو سفر سے آنے والوں سے سمیل آتی ہے،، وہ یہ کہہ کہ چلی گئی۔۔
اوہو نخرے تو دیکھو لاٹ صاحب کے ۔۔سمیل آتی ہے ہونہہ اسنے نکل اتاری
اب وہ بیڈروم کو دیکھنے لگی۔۔ اسکا منہ کھلا حیرت سے اتنا عالی شان کمرا اس کے لیے تھا وائٹ اور پنک کومبینش کا بیڈ سیٹ تھا پردے بھی ہمرنگ تھے لائٹ براؤن کارپٹ پہ وائٹ اور پنک نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔۔ اسنے گھوم پھر کے کمرے کا جائزہ لیا اور بیڈ پہ دھم سے گر گئی ۔۔۔
نرم و گداز بیڈ اسے آرام پہنچا رہا تھا اسے
سخت نیند آرہی تھی مگر اسے نہانا تھا کیوں کہ اس کھڑوس کو بسوں اور ویگنوں کی سمیل جو نہیں پسند
اسنے الماری کھولی تو بہت سے ڈریسیز اسکے لے ہینگ کیے گئے تھے اسن ایک کاٹن کا ریڈیمیڈ ڈریس نکلا
اور گھس گئی واشروم میں
نہا کے وہ فریش فیل کر رہی تھی ۔۔۔وہ آئینے کے سامنے آئی تو حیران رہ گئی۔ واہ حریم اب تو تم بھی کسی ہیروئن سے کم نہیں لگ رہی۔۔ وہ اپنے بال کبھی ادھر کرتی کبھی ادھر کرتی سٹائل مارتی رہی۔۔۔۔۔۔
حریم باہر نکلی تو پھپھو اسکا ویٹ کر رہیں تھیں۔۔
اتنے میں میڈ چاۓ کے ساتھ لوازمات لیکر آگئی۔۔
حریم کی بھوک چمک اٹھی
پھپھو آپ اکیلی رہتی ہیں۔۔۔؟
وہ سینڈوچ رول وغیرہ کے ساتھ انصاف کرتے ہوۓ پھپھو سے پوچھنے لگی۔۔
مجھے آنٹی کہا کرو بیٹا یہاں ساحل اور انکے پاپا کو یہ سب پسند نہیں۔۔۔پھپھو خالہ وغیرہ ۔۔
وہ نرمی سے سمجھانے لگیں۔۔
پہلے تو وہ چونک گئی پھر ہنسنے لگئی اوکے اوکے آنٹی۔۔۔
اور میں اکیلی نہیں رہتی میرے ہسبنڈ میرا بڑا بیٹا ساحل سکندر میر ا دوسرا بیٹا سعد سکندر اور میرے دیور کی دو بیٹیاں بھی رہتی ہیں میرے ساتھ ۔۔وہ مسکراتے ہوئے بتارہی تھیں۔۔
اچھا تو کہاں ہیں وہ سب؟؟
کیا اپکے بردار ان لو کی بیٹیاں بھی یہاں پڑھائی کے غرض سے آئیں ہیں؟؟
وہ جتنا کھارہی تھی اتنا بول بھی رہی تھی۔۔۔
نہیں بیٹا بھائی اور بھابھی کی پلین کریش میں ڈیتھ ہوگئ تھی
جب وہ دونوں چھوٹی سی تھیں۔۔ ایشال نو سال کی جب کہ مرال پانچھ سال کی تھی۔۔وہ اداسی سے بتانے لگیں تو ۔۔حریم کے منہ کو بھی بریک لگ گیا۔؟سو سیڈ۔۔
وہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور کھانے سے ہاتھ روک لیا۔۔اسکا دل اداس ہو گیا تھا۔۔
مگر آنٹی وہ نظر تو نہیں آرہیں ؟..
وہ پوچھنے لگی۔۔
بیٹا وہ اس وقت جم جاتی ہیں بس آنے والی ہونگی ۔۔
میں آج آپکی وجہ سے نہیں گئی۔۔وہ مسکرایں۔۔
,🟥🟧🟨🟨🟩🟦🟦🟦🟦⬛
حریم بہت ہی شوخ طبیعت کی تھی کبھی سنجیدہ ہونا تو اسنے سیکھا ہی نہ تھا
بات بات پہ منہ پھاڑ کے ہنستی تھی۔۔
امی اسکی اس عادت سے سخت بیزار ہوتیں۔۔
تمیز سے ہنسو حریم لڑکیاں ایسے منہ پھاڑے اچھی نہیں لگتیں۔۔۔
لو اب بندہ ہنسے بھی نہ وہ منہ ںبسورتی...
ہنسے ضرور لیکن تمیز سے۔۔۔امی نے سمجھایا۔۔
ہنسنے اور وہ بھی تمیز سے وہ پھر منہ پھاڑ کے ہنسی۔۔۔تو امی نے اپنا سر پیٹ لیا۔۔۔
اب جارہی ہو پراۓ گھر وہاں تمیز سے رہنا خدا کے واسطے ۔۔امی نے ہاتھ جوڑے۔۔۔
امی ایک تو آپ بھی نہ ہر وقت مجھے ہی ٹوکتی رہتی ہیں۔۔۔وہ خفہ ہوئی۔۔۔۔۔۔
اور اب اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کسی ایسی جگہ پہ آگئی ہے جہاں وہ سانس بھی اپنی مرضی سے نہیں لیسکتی۔۔۔
ایشال مرال سے رسمی سی ہیلو ہاے ہوئی تھی پہلے دن اسکے بعد وہ اپنے آپ میں بزی تھیں بس ناشتے پہ ملاقات ہوتی تھی۔۔
سعد سکندر ان دنوں آؤٹ آف کنٹری تھا۔۔ اسلے اس سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔
اور رہی بات ساحل سکندر کی تو وہ ہمیشہ ناشتے کے وقت موجود ہوتا تھا جب کی سکندر انکل زرا دیر سے اٹھنے کے عادی تھے اور ناشتہ بھی اپنے بیڈروم میں ہی کرتے تھے۔۔
وہ ڈرائیور کے ساتھ جاکے اپنا فارم وغیرہ لے آئی تھی
اب وہ اسنے جما بھی کروا دیا تھا اب اسے لسٹ لگنے کا انتظار تھا ۔۔۔
حریم بیٹا آپ کا ضروری سامان آگیا ہے یونی کے لئے آنٹی نے بتایا۔۔۔
شکریہ آنٹی کدھر ہے وہ پوچھنے لگی
آپکے روم میں رکھوادیا ہے اور اگر کچھ مسنگ ہو تو بتانا میں آج جم جارہی ہوں کافی دن ہوۓ نہیں گئی۔۔۔
ارے آنٹی اپکو کیا ضرورت ہے جم جانے کی؟ وہ ہنسی۔۔
بیٹا ضروری ہوتا فٹنس کے لیے ویسے بھی ڈائبٹیس کی پیشنٹ ہوں میرے لئے ضروری ہے آنٹی اپنا سامان گاڑی میں رکھوارہی تھیں جس میں یوگا میٹ واٹر بوٹل وغیرہ تھے۔۔
اور ہاں اب آپنے بھی جم جوائن کرنا ہے اوکے وہ مسکراتی سن گلاسز لگاکر کار کی طرف بڑھیں۔۔
حریم ان کو ہاتھ ہلا کے باۓ کرنے لگی (جم تو میں نہیں جانے والی آنٹی جی) وہ سدا کی ہڈ حرام ہل کے پانی تک نہیں پیتی تھی اور آنٹی جم کا بول رہی تھیں۔۔۔
مجھے نہیں بننا امیر بھئ ۔۔کتنی مشکل ہے امیروں کی زندگی اففف وہ ناک سے مکھی اڑاتی اندر جانے لگی کے باہر آتے ساحل سے ٹکرا گئی۔۔
دیکھ کہ چلا کریں ۔
وہ کھڑوس ماتھے پہ بل لاکے بولا اور چل دیا
سوری لیکن صرف میرا قصور نہیں تھا آپ بھی ٹکراۓ مجھ سے
وہ بھی پیچھے سے بولی ۔۔۔
کوئی مینرز نہیں آتے آپکو؟ وہ پلٹا پیشانی پہ کئی بل لاکے بولا۔۔۔
حریم نے بحث فضول سمجھی اور چپ کر کے آگے چل دی جس سے ساحل۔نے اسے جاتے دیکھا اور آگے نکل گیا وہ بھی جم سوٹ میں تھا ۔۔۔
لوجی شام ہوتے ہی سارے نکل لیتے ہیں جم کو کیسے عجیب لوگ ہیں بندہ کچھ آرام ہی کر لیتا ہے وہ کمرے میں آئی اسنے دیکھا کچھ سامان پڑا تھا کھولا تو باقی چیزوں کے ساتھ ایک لیپ ٹاپ بھی رکھا تھا۔۔واو اسکی تو چیخ نکلی خوشی سے۔۔۔
اسے لیپ ٹاپ کی اشد ضرورت تھی اور وہ بابا کو فون کرنے والی تھی
لیکن پھوپھو نے اس کے لیے آسانی کر دی اور سب سامان بنا کہیں منگوا دیا
یو آر سویٹ پھوپھو۔۔۔
وہ بہت خوش تھی اس نے نے لیپ ٹاپ کو چارج کیا اور اس میں اکاؤنٹ بنانا تھا اور وائی فائی کا پاسورڈ اس نے پوچھا نہیں تھا کسی سے۔۔۔
اب کوئی گھر میں واپس آئے تو میں ان سے پوچھوں۔۔۔
کہ وائی فائی کا پاسورڈ کیا ہے
ابھی گھر میں ملازمین ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں ہوگا
وہ انتظار کر رہی تھی کہ پھوپھو واپس آئیں ۔۔۔
اب وہ سوچ رہی تھی تھی کہ وہ بوجھ تو نہیں بن رہیں ان سب پہ کتنا مشکل ہے نہ کسی اور کے گھر میں رہنا چاہے کتنی ہی آسائشات کیوں نہ ہو ۔۔تقریبا سات بجے آنٹی ایشال مرال واپس آئیں
وہ دونوں سے ہائے کہتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چل دی انھوں نے فریش ہونا تھا اتنے میں ساحل آتا دکھائی دیا۔۔۔
سنیں ساحل بھائی۔۔!
اسنے پکارا۔۔وہ رکا اور چونک کہ پلٹا
یس؟؟
وہ وائی فائی کا پاس ورڈ پوچھنا تھا؟؟
وہ مسکرائی۔۔
لیکن وہ کھڑوس اس پہ ایک طنزیہ مسکراہٹ اچھال کہ چلتا بنا۔۔۔
اررے یہ کیا زرا تمیز نہیں انکو تو۔ ۔۔۔
حریم جل بھن کے رہ گئی۔۔
بھلا کونسا مینے انکی کڈنی مانگنی تھی ایک پاسورڈ ہی تو پوچھا تھا
چنگیز خان کی اولاد نہ ہو تو۔۔۔وہ پیر پٹختیی جا کے لان میں چیئر پہ بیٹھ گئی ویسے بھی پھوپھو نے یہاں آنا تھا شام کی چائے وہ لوگ یہیں پیتے تھے
اسے کراچی کا موسم بہت اچھا لگنے لگا تھا لیکن یہاں باہر نکلنا بڑے جوکھم کا کام تھا اتنا ٹریفک کہ اسکا سر گھوم جاتا تھا دیکھ کہ ہی پتا نہیں یہاں کے لوگ کیسے نکلتے ہیں اتنے حجوم میں۔۔۔وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔۔۔
اتنے میں آنٹی آگئیں۔۔۔۔
اسلام وعلیکم آنٹی وہ مسکرائی۔۔۔
وعلیکم اسلام ںیٹا وہ بھی اس کے پاس بیٹھیں۔۔لیپ ٹاپ چیک کیا؟؟
وہ پوچھنے لگئیں
جی آنٹی تھینک یو سو مچ۔لیکن آنٹی یہ بہت ایکسپنسو ہے آپ کوئی عام سا بھی لیتیں تو چل جاتا وہ شرمندہ سی کہنے لگی۔۔
ارے بیٹا تھینکس اپنے بابا کو بولو انہوں نے ہی میرے اکاؤنٹ میں پیسے بھجوائے تھے۔ اور آپکی ایڈمیشن فی بھی ۔۔۔
وہ بتانے لگیں
کیا ابو نے؟ وہ حیران ہوئی۔۔
بھلا ابو کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آگئے اسنے دل میں سوچا
اتنے میں ایشال مرال بھی آگیئں
کیسیں ہیں آپ حریم ؟ایشال نے رسمی سا رویہ اختیار کیا۔۔
یار میں تو ٹھیک ہوں بس مجھے نا تم زرا وائ فائ کا پاس ورڈ بتادو مجھے نا لیپ ٹاپ پہ سیٹنگس وغیرہ کرنی ہیں وہ فر فر بولنے لگی تو ایشال۔مصنوئ کھانسی۔۔
اسنے پیچھے دیکھا تو ساحل آرہا تھا اسکا حلق تک کڑوا ہوگیا(آگیا چنگیز خان)
اسکے آنے سے ایشال مرال کی مسکراہٹ بھی ختم ہوگئی تھی حریم نے دیکھا وہ دونوں بس ٹیبل کو گھورے جارہی تھیں۔۔
جب کہ چنگیز خان بڑے آرام سے جوس پی رہا تھا۔۔
آنٹی بھی چپ سی تھیں۔۔۔
ساحل نے لائٹ بلو ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اسکا سرخ و سفید رنگ اور کلرڈ آئیز زرین پہ گئے تھے۔۔
کیا فایئدہ اس ڈیشنگ پرسنالٹی کا جب بندے کی زبان ہی کڑوی ہو ۔۔۔
ساحل نے نوٹ کیا وہ اسے گھورے جارہی ہے (جاہل لڑکی )اسنے دل میں سوچا اتنے مینرز بھی نہیں کہ کسی کو اسے گھورنا بیڈ مینرز میں شامل ہوتا ہے۔۔
وہ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنے ہی والا تھا کہ اسکا فون بجنے لگا۔۔۔۔
وہ جوس کا گلاس ختم کر چکا تھا ایکسکیوز می۔۔۔۔وہ اٹھا
اسکے جاتے ہی حریم نے گہری سانس کھینچی۔۔۔
تو ایشال مرال نے چونک کہ اسے دیکھا۔
ایشال مرال سے اسکی اچھی خاصی دوستی ہوچکی تھی وہ بھی جم کی بدولت ورنہ گھر میں تو وہ چنگیز خان کے ڈر سے اپنے روم میں چھپی رہتی تھیں۔۔
وہاں اسکی ہیلپ کرتی تھیں وہ دونوں پلینک کیسے کئے جاتے ہیں
کرنچییز ۔۔ وغیرہ کیسے کرتے ہیں سب سکھاتی جاتی تھیں۔۔
ورنہ ٹرینر تو بس بتاتی جاتی جیسے وہ گھر سے سیکھ کہ آئی ہو۔۔۔
اب اسکا درد کم ہو چکا تھا
اور اسے مزا بھی آنے لگا تھا وہاں سب لوگ ہنس بول لیتے تھے
گھر میں تو ہنسنے پہ بھی پابندی تھی۔۔۔
چلو یار یہاں کم سے کم چنگیز خان تو نہیں ہے۔۔۔
۔ وہ ٹاول سے پسینا صاف کرتی بولی کلاس ختم ہو چکی تھی
۔۔
اب کچھ عورتیں اور لڑکیاں ایکوپمنٹس یوز کر رہی تھیں۔۔۔
کچھ سوانا باتھ لے رہی تھی
اور کچھ بیٹھ کے گپیں لڑارہیں تھیں۔۔
مرال اسکے چنگیز خان کہنے پہ منہ پہ ہاتھ رکھ کہ ہنسی ۔۔
قسم سے اس بندے نے تو میرا جینا حرام کردیا یے۔۔۔وہ معصوم شکل بنا کے اسے بتارہی تھی
مجھے دیکھتے ہی اسے کوئی نہ کوئی ایسی بات یاد آجاتی ہے
یہ نہیں کرنا وہ نہیں کرنا۔۔۔
مجھے تو لگتا ہے ایک دن سانس لینا بھی بند کروا دےگا ۔۔
حریم تم تو لکی ہو اپنے پیرنٹس کے ساتھ رہتی ہو وہ تمہارے لاڈ اٹھاتے ہیں
جب کے ہمیں تو ممی پاپا یاد بھی نہیں۔۔وہ اداسی سے بولی تو حریم نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
پلیز ایسا مت سوچو مرال اللّہ کی رضا کے آگے ہم بندے کیا کر سکتے ہیں۔۔وہ سمجھانے لگی
ہمم مرال اپنے آنسو اندر اتارتی اثبات میں سر ہلانے لگی۔۔
ماحول ایک دم بوجھل ہوگیا تھا۔۔۔
___________
مرال سے چھری کانٹے کی ٹریننگ بھی لے رہی تھی اب کافی سیکھ گئی تھی
اب وہ بھی ڈٹ کے ناشتہ کرتی تھی
ڈیری میں چاۓ لیتی،، فروٹ میں آدھا ایپل ،، ایک عدد بوائل انڈہ ،،اور دو عدد بریڈ سلائس،، یہ اسکا ناشتہ تھا کھڑوس کی چارٹ کے مطابق۔۔۔
وہ اب بھی اسی کا جائزہ لے رہی تھی
اسےدیکھ کہ خیال آیا‘’ کریلا وہ بھی نیم چڑھا‘ یہ خیال آتے ہی اسکی ہنسی چھوٹی۔۔
تو سب نے اسے چونک کہ دیکھا۔۔۔
تو وہ اپنی ہنسی روکتی ہوئی بولی
سوری.. مجھے اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت ہے تو... کچھ یاد آگیا تھا۔۔
وہ سبکو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔
کیا میں پوچھ سکتا ہوں حریم کہ آپکو اس وقت کونسا جوک یاد آگیا تھا؟؟
وہ چھری کانٹا رکھ کے دانت چبا کے پوچھنے لگا
تو اسے یاد آیا کہ وہ کس بات پہ ہنسی تھی
پھر سے اسکی ہنسی چھوٹی منہ پہ ہاتھ رکھ لیا
اور ساحل سکندر حیرت سے اس ڈھیٹ لڑکی کو دیکھ رہا تھا
جس پہ اسکی ناراضگی کوئی اثر تک نہیں ہو رہا تھا۔۔
نان سینس وہ بڑبڑایا۔۔۔
ساحل کے جانے کہ بعد مرال نے اس کے کان میں گھس کے پوچھا “کونسا جوک یاد آگیا تھا؟”
وہ نا مجھے کھڑوس کو دیکھ کہ یاد آیا امی ایسے لوگوں کو کہتی ہیں کریلا وہ بھی نیم چڑھا وہ پھر سے منہ پھاڑ کے ہنسی۔۔۔۔
تو مرال کی بھی ہنسی چھوٹ گئی وہ تو شکر زرین اپنے بیڈ روم میں جاچکی تھیں۔۔۔
____________
سکندر انکل آج پہلی بار تیار ہو کہ نیچے آۓ تھے
ورنہ جب سے حریم آئی تھی
وہ اپنے کمرے سے ایک دو بار ہی نکلے تھے حریم کو جب پہلی بار دیکھا تو
وہ مودبانہ انداز میں انکو سلام کرنے ان کے قریب آئی تھی
اسلام و علیکم انکل۔۔۔
ہمم وعلیکم اسلام۔ ۔۔۔
وہ اسے سر سے پیر تک گھور کے بولے۔۔۔
تم فیضان کی بیٹی ہو نا؟؟
جی وہ بس اتنا ہی کہسکی۔۔۔
ہمم گڈ۔۔۔ وہ اتنا کہہ کے آگے بڑھ گیۓ۔۔
حریم ہکا بکا رہ گئی تھی
لگتا ہے کھڑوس کا کوئی قصور نہیں وہ اپنے والد پہ گیا ہے۔۔وہ ہاتھ جھاڑتی ہوئی اندر جانے لگی
سنو لڑکی۔۔۔
اچانک انکل نے اسے پکارا۔۔
جی انکل ۔۔
وہ قریب آئی۔۔
اپنا فون دو ۔۔
انہوں نے اسکے فون کی طرف اشارہ کیا اور خود لان میں پڑی چئیرز کی طرف بڑھ گئے
حریم بھی ان کے پیچھے آئی اور فون آگۓ کر دیا
انہوں نے ایک نمبر ڈائل کیا۔۔
کچھ دیر میں کال مل گئی
ہاں ساحل بیٹا میرا فون آف ہوگیا ہے۔۔
آن نہیں ہورہا میرے لئے کوئی کال آۓ ایکسکیوز کرلینا اور مجھے اس نمبر پہ رابتا کرنا۔۔
ہان وہ تو آجاۓ گا لیکن جب تک آئے خیال رکھنا میری ایک اہم کال آنے والی تھی۔۔
اوکے دیکھ لینا باۓ
انہوں نے فون اسکی طرف بڑھایا اور پہلی دفع اسے مسکرا کے دیکھا
وہ بھی مجبوراً مسکرای
تھینکس انکل ۔۔کہہ کہ فون لیا۔۔
اور واپس جانے لگی
اے لڑکی کیا نام ہے تمہارا ؟
وہ اچانک بولے
جی میرا نام حریم فاطمہ ہے۔۔
وہ بتانے لگی
ادھر آؤ یہاں بیٹھو۔۔۔
انہوں نے چئیر کی طرف اشارہ کیا
وہ چپکے سے بیٹھ گئی
ڈرائیور آتا ہی ہوگا میرا فون لیکر تب تک یہیں بیٹھو
وہ اسے کہہ کہ خود نیوز پیپر میں گم ہو گۓ
حریم سخت بور ہورہی تھی ایک تو انکل بھی عجیب سی طبیعت کے لگ رہے تھے
تھوڑی ہی دیر میں ملازم ایک شاپر لایا جس میں فون کا ڈبا تھا
انکل ملازم کو اشارہ کیا
اسنے ڈبا حریم کو پکڑادیا
تم میرے روم سے میرا فون لاؤ
وہ جلدی فون لیکر آیا
اور حریم کی طرف بڑھایا
اسکا سم کارڈ نکال کہ نیو فون میں ڈالو
اسنے فون نکالا الٹ پلٹ کے دیکھا
(او میرے اللّٰہ کہاں ہے سم کی جگہ)
وہ سخت پریشان ہوئی
وہ انکل مجھے تو یہ سمجھ میں نہیں آرہا میرا فون تو ایسا نہیں ہے نہ تو مجھے یہ سمجھ میں نہیں آئےگا
وہ ڈر ڈر کہ بولی تو انکل نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔
ہمم اپنا فون دو۔۔
اسنے فون دیا
پھر سے نمبر ملایا۔۔
یو ڈفر اب اس فون میں سم کارڈ کیسے ڈلے گا کچھ پتا ہے؟؟
وہ کسی کو ڈانٹ رہے تھے
جلدی آو میرا ٹائم ویسٹ مت کرو
وہ سخت لہجے میں بولے اور فون اسکی طرف بڑھایا
تم یہیں بیٹھو اور سیکھو ۔۔اسے بھی سختی سے کہا اور پھر سے نیوز پیپر دیکھنے لگے۔۔
(اوہو کیا مصیبت ہے دونوں باپ بیٹے کو میں ہی ملتی ہوں نشانہ بنانے کے لئے) ڈرائیور اندر آیا اسنے فون سے سم کارڈ نکال کہ نیو فون میں انسٹال کیا۔۔
اور فون میں سیٹنگز کرنے لگا حریم دیکھتی رہی البتہ پلے کچھ بھی نہ پڑا
بڑی مشکل سے جاں بخشی ہوئی اور اسکو اجازت ملی۔۔۔
اب تو سو بار سوچنا ہوگا ان باپ بیٹے کے آگے آنے سے پہلے۔۔۔
وہ دل میں توبہ کرتی ہوئی اٹھی۔۔۔
********** ** ** **
آج وہ بہت خوش تھی اسکا یونی کا پہلا دن تھا۔۔
اچھے سے تیار ہوئی اپنا سب سامان بیگ میں رکھا۔۔۔
سنڈے والے دن مرال کے ساتھ خوب شاپنگ کر کے آئی تھی وہ کپڑے تو بہت تھے اس کے پاس اور بہت سی چیزیں لیں تھیں
اسنے لائٹ گرین شرٹ اور وائیٹ پینٹ پہنی تھی جس میں وہ بہت فریش لگ رہی تھی اور گرین اسٹالر گلے میں سٹائل سے باندھا سن گلاسز لگا کہ خود کو دیکھا آئینے میں۔۔
واو حریم تم تو آج کو امیر زادی لگ رہی ہو قسم سے اسنے خود کو فلائنگ کس دی اور گلاسز اتار کہ اپنا بیک پیک اسٹائل سے شولڈر پہ ٹکایا اور باہر آگئی۔۔
ڈرائیور گاڑی نکال چکا تھا وہ بیٹھ گئی۔۔۔
آج بھی موسم بہت اچھا تھا دھوپ بلکل نہیں تھی گھنے بادل ہر سو چھاۓ ہوۓ تھے۔۔۔
اسنے گلاسز بیگ میں رکھ دے ۔۔۔
کچھ دیر میں یونیورسٹی پہنچ گئی۔۔۔
میم کتنے بجے لینے آؤں؟
ڈرائیور نے ہوچھا
میں آپ کو کال کردونگی ابھی تو مجھے خود بھی نہیں پتا ۔۔وہ کہتے ہوئے اتری۔۔۔
وہ اندر آئی تو اسکا سر گھوم گیا ۔۔۔۔
اوہو کس طرف ہے میرا ڈپارٹمنٹ؟؟
وہ اپنے آپ سے
پوچھنے لگی ۔۔۔
ایک لڑکا اسکے قریب آیا
مس حریم فاطمہ؟؟؟
وہ چونک کہ پلٹی یس؟؟
وہ سر نے کہا ہے کہ آپ اپنا بیگ دے دیں کلاس میں الاؤ نہیں ہے بیگ لیے جانا وہ بیگ کی طرف دیکھ کو بولا تھا۔۔۔
ہییں مگر کیوں؟؟
اسنے اپنا بیگ پکڑ لیا۔۔۔
دیکھیں مس میں نے آپ کو سر کا میسج دیدیا اب آپ کی مرضی انہوں نے مجھے بھیجا تھا۔۔۔
اوہو بھئ رکیں تو وہ اس بلانے لگی یہ لیں اسنے نا چاہتے ہوئے بھی بیگ اتار کے دیا۔۔
جی تو یہ اپکا نام اور نمبر میں نے لکھ لیا ہے تھوڑی دیر میں چیکنگ کہ بعد آپکے کلاس میں بیگ پہنچ جاۓ گا وہ مسکراتا ہوا اسے چٹ پکڑا کے گیا۔وہ اثبات میں سر ہلا کے آگے بڑھی۔۔۔
کلاس میں پہنچ کی وہ بینچ پہ بیٹھی اسکے ساتھ ایک لڑکی تھی اس سے انٹروڈکشن ہو چکا تھا ۔۔۔
نمرہ نے اپنا بیگ کھولا تو وہ حیران رہ گئی
نمرہ؟؟ وہ کھلے منہ کہ ساتھ اسکا بیگ دیکھ رہی تھی۔۔
کیا؟ نمرہ نے اسے پریشان دیکھا تو پوچھا۔۔
یہ آپ کا بیگ چیکنگ کے لیۓ نہیں گیا؟؟؟
یہ سوال کرتے ہی اسکو اپنا جواب مل چکا تھا۔۔او نو اسنے اپنا سر پکڑ لیا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں پوری کلاس میں بات پھیل چکی تھی
کہ مس حریم فاطمہ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے اپنا بیگ گنوا چکی ہیں۔۔۔
وہ مسلسل روۓ جارہی تھی اور لڑکے لڑکیاں اسکے ارد گرد گھیرا ڈالے اسے تسلی دی رہے تھے۔۔
کیا کیا تھا بیگ میں؟
ایک لڑکے نے پوچھا
میرا فون تھا بکس تھیں کچھ کیش بھی تھا اور میرا این آئ سی بھی وہ ٹشو سے ناک صاف کرتی ہوئی بولی ۔۔
اور۔۔۔ میرا لیپ ٹاپ بھی تھا یہ بتاتے ہوئے وہ زوروں سے رو پڑی۔۔۔
وہاٹ؟؟
لیپ ٹاپ کون لاتا ہے ؟؟ ایک لڑکی منہ کھولے پوچھنے لگی۔۔۔(اب کیا بتاتی کہ جوش میں آکر لیپ ٹاپ بھی اٹھا لائی تھی)
اس لڑکے نے میرا نام لے کہ بولا تھا تو میں سمجھی وہ مجھے جانتا ہے۔۔۔
کوئ بھی نام سے پکارے گا تو آپ اسے اپنا بیگ نکال کہ دینگی؟؟
وہ اور زور سے رونے لگی۔۔
سنیں مس۔۔۔ ایک لڑکے نے اسے پکارا۔۔
آپکا بیگ مل جائے گا وہ آرام سے بولا
کیا کیاں سے ملے گا ؟
وہ سوں سوں کرتی ناک صاف کرنے لگی اسے کچھ آس بندھی۔۔
میرے ساتھ آئیں ویسے بھی کلاس سٹارٹ ہونے والی ہے ۔۔۔
آپ تو اب اس کابل نہیں رہیں کہ ۔۔۔
اسنے بات ادھوری چھوڑی تو وہ پھر سے منہ پہ ہاتھ رکھ کر رونے لگی۔۔۔
چلیں۔۔۔۔ وہ اسے لے کہ باہر آیا
ایک بندہ ہے جو آپکو آپکا بیگ واپس دلا سکتا ہے
کون ہے وہ مجھے پلیز ملادیں ان سے۔۔
وہ جھٹ سے اس کے پیچھے ہو لی
دیکھیں مس بندہ زرا موڈی ہے ۔۔۔
وہ مسکراتا آگے چلنے لگا
موڈ ہو تو مشکل سے مشکل کام باآسانی کر دیگا اور۔۔
وہ اسکی طرف دیکھ کے افسوس سے بولا
موڈ نا ہو تو۔۔۔
آسان کام بھی مشکل سے کریگا۔۔۔
پلیز ان کو کہیں میری مدد کریں وہ روتی شکل کے ساتھ اسکے پیچھے جارہی تھی
کمبخت رکتا ہی نہیں تھا۔۔
اگر آپ کی قسمت اچھی ہے تو غالب بھائی یونی میں ہی ہوگا اور اگر وہ نہیں ہوا تو سمجھیں آپکا بیگ گیا۔۔۔۔
نہیں پلیز ایسے مت کہیں ۔۔۔
اسکا دل رکنے لگا تھا... چلیں دیکھتے ہیں آپکی قسمت۔۔میرے ساتھ آئے۔۔
وہ چلتا جارہا تھا اور حریم پیچھے جارہی تھی چلتے چلتے وہ ایسی جگہ پہ آگۓ جہاں مکمل سناٹا تھا۔۔
ایک طرف دیوار تھی دوسری طرف پھول پودے تھے اکا دکا درخت بھی تھے
حریم کو خوف آرہا تھا۔۔۔
پاگل لڑکی پہلے بنا سوچے سمجھے کسی کو بیگ تھما دیا اب خود ایک اجنبی کے ساتھ اس سنسان جگہ پے جارہی ہو۔۔۔ اسنے اپنے دل میں سوچا۔۔۔
وہ لڑکا آگۓ تھا حریم رکی پلٹی اور بھاگنے لگی۔۔۔وہ دو قدم آگۓ ہی گئی تھی کہ کسی سے ٹکرائی ۔۔۔
اسنے دیکھا ایک لڑکا کھڑا تھا وائیٹ شرٹ بلو جینز۔ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ اسے ہی دیکھتا مسکرا رہا تھا
ہلکی شیو میں بھی اسکا ڈمپل نظر آرہا تھا کچھ پل تو حریم کی سمجھ میں کچھ نا آیا پھر اسے ہٹا کے بھاگنے لگی۔۔
ارے غالب بھائ۔۔۔۔۔اس لڑکے نے پکارا جس کے ساتھ وہ آئی تھی۔۔۔اسکے پاؤں کو بریک لگے۔۔
او میڈم کہاں جارہی ہیں قسمت اچھی ہے آپ کی غالب بھائی ملگۓ۔۔
وہ اسے ہی پکار رہا تھا وہ پلٹی اور ہلکے قدم اٹھاتی واپس جانے لگی اسکی طرف۔۔۔
اور وہ لڑکا بنا مڑے آگے جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے سنئیے وہ اسکے پیچھے جانے لگی۔۔۔
وہ لڑکا جسکا نام غالب بتایا تھا رک ہی نہیں رہا تھا۔۔
بھائی ان میڈم کا بیگ چوری ہوگیا ہے۔
۔وہ لڑکا بھی پیچھے چلنے لگا۔۔۔
کیسے چوری ہوا؟؟
وہ آہستہ آہستہ چلتا جارہا تھا قدم ایسے پڑتے تھے گویا نشے میں ہو۔۔
اسنے سارا قصہ سنایا تو وہ رکا۔۔۔
پھر پلٹا تو ۔۔
حریم کی جان میں جان آئ
یہ چوری تو نا ہوئی۔۔
وہ اسے دیکھتا کہنے لگا۔۔۔
جی چوری ہی تو ہے ۔۔۔بھلا کسی کا بیگ ایسے کوئی چھینتا ہے ۔۔
۔وہ
لال ناک لیۓ اسے بتارہی تھی۔۔
اسنے چھینا نہیں تم نے خود دیا اسے اور میں ایسے بیوقوف لوگوں کی مدد نہیں کرتا۔۔
وہ پھر سے جانے لگا۔۔
ارے سنیں۔۔۔
دیکھیں پلیز میری ہیلپ کریں
میں یہاں کسی کو بھی نہیں جانتی نا مجھے کسی کا فون نمبر یاد یے
نا ہی گھر کا ایڈریس پتا ہے کہ میں رکشا ٹیکسی سے چلی جاؤں ۔۔۔
وہ پاس والے بینچ پہ بیٹھ کے رونے لگی۔۔۔
بیوقوفی کا ایک اور ثبوت۔۔
اپنے گھر کے کسی فرد کا فون نمبر نا یاد کرنا اور نا ہی ایڈریس حد ہے۔۔
وہ نفی میں سر ہلاتا جانے لگا۔۔۔
مجھے اپنا ایڈریس یاد ہے ۔۔۔۔وہ چیخی۔۔۔بابا کا فون نمبر بھی یاد ہے پر وہ یہاں سے دس گھنٹے کی دوری پہ ایک چھوٹے سے شہر کرمپور میں رہتے ہیں۔۔۔
وہ سسکی
میں انکو پریشان نہیں کرنا چاہتی ورنہ ان سے کہہ سکتی تھی کہ پھوپھو کو کال کریں ۔۔۔
میں کراچی پہلی بار آئی ہوں سر پلیز ہیلپ می۔۔۔۔۔
وہ پر امید نظروں سے دیکھنے لگی
تب وہ پلٹا اور آہستہ آہستہ اسکے قریب آیا
لڑکے کا حلیہ کیا تھا؟؟
وہ دھیرے سے پوچھنے لگا
یاد نہیں۔۔
وہ ڈر کہ بولی
رنگ؟؟
سانولا
قد ؟؟
درمیانہ۔۔
بوڈی؟؟
پتلا سا۔۔
ہمم۔۔۔۔
اسنے جیب سے اپنا فون نکالا اور اسکے ساتھ بینچ پہ بیٹھ گیا
ہاں شوبی۔۔۔زرا یہاں آنا جلدی کینٹین کے بیک سائیڈ پہ۔۔۔۔
اور فون کاٹ دیا
حریم ٹشو سے اپنے آنسو پوچنے میں لگی تھی
کہ ایک لڑکا آتا دکھائی دیا
جی غالب بھائی کوئی کام تھا؟؟
لڑکے نے غالب کے قریب آکے اس سے مصافحہ کیا
تو حریم نے دیکھا اور چونک کہ چیخی یہ تو وہی ہے۔۔۔
وہ لڑکا بھاگنے لگا تو غالب نے اپنی ٹانگ آگے کی جس سے وہ نیچے گرا
غالب اٹھا
اور اسکا گریبان پکڑ کہ اٹھایا ..اور اسکے کان میں بولا
دو منٹ کے اندر اندر مجھے اس لڑکی کا بیگ چاہئے اور بالکل صحیح سلامت۔۔۔
ججی بھائی سمجھگیا۔۔۔
غالب نے اسکا گریبان چھوڑا تو گرتا پڑتا بھاگا۔۔۔۔
آپ نے اسے جانے کیوں دیا۔۔۔؟
حریم شوکڈ تھی۔
وہ بیگ لانے گیا ہے۔۔وہ اسے دیکھنے لگا۔۔۔
تم کراچی میں پہلی بار آئی ہو اسلئے مہمان سمجھ کے ہیلپ کی ہے۔۔۔
وہ چبھتے ہوئے لہجے میں کہنے لگا۔۔
ورنہ ایسی بیوقوفیاں میں برداشت نہیں کرتا ۔۔۔
اتنے میں وہ لڑکا بھاگتا ہوا آیا
اور بیگ اس لڑکے غالب کو دیا
اور خود اپنی سانسیں بہال کرنے لگا۔۔۔
غالب نے اسے بیگ دیا تو حریم نے جھپٹ لیا اور چیک کرنے لگی سب کچھ تھا اس میں۔۔۔
غالب نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ مسکرای سب ٹھیک ہے۔۔۔ کا اشارہ دیا
تو غالب نے اس لڑکے کو جانے کا اشارہ کیا وہ جانے لگا
آپ نے اسے جانے کیوں دیا؟؟ اسے پولیس کے حوالے کر دیں۔۔
وہ حیران تھی
آپ کو آپ کا سامان مل گیا شکر کریں۔۔۔
وہ کہتا آگے جانے لگا۔۔پھر ویسے ہی لگنے لگا جیسے نشے میں ہو ۔
وہ زور سے بولی۔۔ تھینک یو سو مچ
تو اسنے وہیں سے جاتے جاتے بنا مڑے ہاتھ ہلا دیا۔۔۔
__________
اسکا پہلا دن بہت برا گزرا تھا
باقی کا وقت وہ لان میں بینچ پہ بیٹھی رہی ۔۔۔
جلدی گھر جانے کا مطلب کھڑوس کے سوالات کا جواب دینا تھا
جب کہ وہ اس پوزیشن میں بلکل نہیں تھی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد ڈرائیور کو کال کی۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد گاڑی آچکی تھی
وہ تھکے تھکے قدموں سے۔ آگے بڑھنے لگی۔۔۔
ڈرائیور نے اسکے لئے
کار کا ڈور کھولا اور وہ بیٹھی ہی تھی کہ آواز آئی
چلو۔۔
وہ چونکی ساحل سکندر اسکے ساتھ بیٹھا تھا۔۔
افف کیسی قسمت پائی ہے میں نے۔۔
سوچا تھا اس کے آنے سے پہلے کمرے میں رو پوش ہو جاؤں گی اور یہ بلا تو یہیں نازل ہوگئی۔۔۔
اسکی شکل پہ بارہ بجنے لگے۔۔
کیسا گزرا آپکا فرسٹ ڈے مس حریم؟؟
وہ بنا اسکی طرف دیکھے اپنے فون پہ کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا
آہم ۔۔۔اس نے گلا صاف کیا
بہت اچھا فینٹیسٹک۔۔۔اوسم۔۔
وہ زور زور سے سر ہلا کے کہنے لگی
اور زبردستی کی مسکراہٹ بھی سجالی بوتھے پہ۔۔۔
ساحل نے پہلے تو چونک کے اسے دیکھا مگر شکر کے اسکی کال لگئی تو وہ بزی ہو گیا
حریم نے گہری سانس خارج کی۔۔۔
کچھ دیر میں کار ایک فائیو سٹار ہوٹل کے باہر رکی۔۔۔
اور کھڑوس وہیں اتر گیا۔۔۔
شکر ہے اسکی جان میں جان آئی
میم سوری مجھے دیر ہوگئی آنے میں اصل میں ساحل سر کی گاڑی اچانک خراب ہو گئی اور انکو ایک ضروری میٹنگ میں پہنچا تھا۔۔۔
ڈرائیور شروع ہوچکا تھا
پھر آپکی کال آئی تو سر نے کہا
پہلے میم کو پک کرلو عبدل قدوس انکو ویٹ نہ کرنا پڑے ۔۔
وہ مزے سے بتانے لگا
ہمم۔۔ وہ بور ہوئی
گھر پہنچ کر اسنے سر درد کا بہانا بنایا اور بیڈ روم میں جاکے بیڈ پہ پڑ گئی اسے بڑا زور کا رونا آیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کہ رو دی
___________
أسےامی بابا کی بہت یاد آرہی تھی وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔۔۔
سارا لاڈ پیار اکیلے ہی سمیٹا تھا اسنے۔۔
لیکن پیار کے ساتھ امی اس پہ سختی بھی رکھتی تھیں۔ ۔۔۔
اسکی بلا وجہ کی ضد وغیرہ پہ کان نہیں دھرتی تھیں
جتنا بھی امی چاہتی تھیں کہ وہ سگھڑ بنے وہ اتنی ہی پوہڑ پن کا مظاہرہ کرتی تھی
۔۔اسے یاد آیا وہ دن جب امی نے سکینہ خالہ جو کہ انکی پڑوسن
تھی ان کے گھر جانا تھا انکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی
بابا گھر پہ نہیں تھے۔۔
حریم سورہی تھی امی نے اسے جگایا ۔۔۔
حریم کچن میں تیرا ناشتہ رکھا ہے میں جارہی ہو سکینہ کے گھر آدھے گھنٹے میں آتی ہوں۔۔۔
امی چادر اوڑھنے لگیں
حریم نیند کے خمار میں تھی
اسکی آنکھیں بھی نہیں کھل رہیں تھیں۔۔۔
پہلے یہ دروازہ اچھے سے بند کرلو بیٹا!
وہ نکلنے لگیں تو حریم نے درواذاہ بند کیا۔۔
امی کو ایک گھنٹہ لگا ۔۔۔
جب گھر آئیں اور بیل پہ بیل بجائی
مگر دروازہ نہ کھلا امی جو کبھی بیل بجاتیں کبھی درواذاہ پیٹتیں مگر کوئی جواب نہ آیا۔۔۔
امی کا پارہ ہائی ہوتا جارہا تھا اوپر سے محلے کے لوگ بھی جمع ہو گئے تھے۔۔
کوئی کہتا درواذاہ توڑ دو پتا نہیں بچی کو کیا ہوا ہے
سب لوگ اپنے اپنے مشورے دیتے جارہے تھے
لیکن امی کو پتا تھا اپنی ہڈحرام بیٹی کا۔۔۔ وہ گدھے گھوڑے بیچ کہ سورہی ہوگی۔۔۔
آخر کار شرم کو بالائے طاق رکھ کر امی زور سے چلائیں حرررری ی ی ۔۔۔۔۔
وہ غصے میں اسے حری کہہ کہ بلاتی تھیں
ایک منٹ میں دروازہ کھلا حریم گرتی پڑتی آئی تھی اور منہ کھولے دیکھے جارہی تھی۔۔۔۔
امی نے جلدی سے اندر آکر دروازہ بند کیا۔۔۔
صوفے پہ بیٹھ کر بس اسے گھورنے لگیں۔۔۔
حریم کا خون خشک ہوجاتا تھا جب امی ایسی گھوری دیتی تھیں۔۔۔
اس وقت امی نے اسے کچھ نہ کہا لیکن شام کو اسکے خوب لتے لئیے
حریم تجھے زرا احساس نہیں میں کتنی دیر تک باہر خوار ہوتی رہی۔۔۔۔
امی سوری پیاری امی مجھے معاف کردیں۔۔
مجھے نیند آگئی تھی قسم سے ۔۔ ۔۔
۔وہ معصوم شکل بنا کر معافیاں مانگ رہی تھی۔۔۔
تیری معافی مانگنے سے کچھ نہیں ہوگا حریم۔۔۔۔۔
میں ماں ہوں برداشت کرلیتی ہوں اگلے گھر کوئی نہیں کریگا برداشت۔۔
جتنا وہ اگلے گھر والے لکچر سے گھبراتی تھی اتنا ہی وہ گلے پڑتا تھا۔۔
وہ امی کے قدموں میں بیٹھ کہ اپنا سر انکی گود میں رکھے ہوے تھی۔۔
امی نرم پڑچکی تھیں۔۔
اچھا یہ تو بتا کہ تجھے جاگ کیسے ہوئی؟
وہ پوچھنے لگیں
وہ امی مجھے نہ دروازہ پیٹنے کی یا بیل بجنے کی کوئی آواز نہیں آئی
مجھے صرف ایک آواز آئی
جب آپ نے “حری” کہہ کے پکارا اور میری پھٹ سے آنکھ کھل گئی
امی حیران ہوئیں
سچ میں امی میں جتنے بھی الارم لگاتی ہوں مجال ہے جو آنکھ کھل جاۓ۔۔۔مگر جیسے ہی آپ کی زوردار آواز آتی ہے ڈر کے مارے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔۔۔
امی نے ہنستے ہوۓ اسکے سر پہ چپت رسید کی۔۔۔
روتے روتے حریم مسکرا پڑی۔۔۔۔۔
آئ مس یو امی بابا۔۔۔۔۔
سچ ہے کہ ماں باپ کا سایہ بہت بڑی نعمت ہوتا ہے ۔۔۔
امی کے ساتھ وہ ہوتی تھی
تو کوئی بھی اسے نہیں جگا پاتا تھا
کیونکہ اسے یقین تھا کہ امی اسے جگاینگی۔۔۔۔
لیکن یہاں ڈر کے مارے پہلی رنگ میں ہی جاگ پڑتی تھی۔۔۔
شام کو اسکی آنکھ کھلی اور سب یاد آگیا؛ کیسے گزر اسکا پہلا دن ۔۔۔۔
افف اگر اسے وہ لڑکا غالب نا ملتا تو وہ پھپھو کو کیا جواب دیتی؟؟
ساحل سکندر تو اسے واپس ہی بھجوادیتا۔۔۔
بس بہت ہوگیا حریم اب تجھے مضبوط رہنا ہے ۔۔۔
کسی بھی ایرے غیرے کے ہاتھوں بیوقوف نہیں بننا۔۔
اسنے خود سے عہد کیا
فریش ہو کہ باہر نکلی۔۔
لاونج میں کوئی بھی نہیں تھا ۔۔
وہ کچن کی طرف بڑھی پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے اور سر میں بھی درد ہو رہا تھا۔۔
کچن میں میڈ فون میں لگی ہوئی تھی اسے دیکھ کہ جلدی سے فون رکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
یس میم کچھ چاہیے؟؟
جی رضیہ پلیز کچھ کھانے کو ہے تو دو اور ایک کپ چائے بھی بنادو۔۔
یس میم مجھے بس فائیو منٹس دیں…
۔رضیہ کام میں لگ گئی ۔۔
سنو پلیز میرے روم میں لے آنا ۔۔
حریم سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا
اوکے میم۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں آگئی
اور امی کو کال ملائی ۔۔…
امی سے بات کرکے کچھ سکون ملا۔۔۔
اتنے میں رضیہ بھی آگئی چاۓ اور سینڈوچ لیکر ۔۔
تھینکس رضیہ۔۔۔
وہ مسکرا کے بولی
ویلکم میم۔۔رضیہ بھی مسکراتی چلی گئی
**** ****
گیارہ بج چکےتھے اصولاً تو اسے اپنے کمرے کی لائٹ آف کرنی چاہئے تھی
مگر اسے شدید سر درد ہو رہا تھا۔۔
اسے چائے کی سخت طلب ہورہی تھی۔۔۔
اب کیا کروں ۔۔۔وہ سوچنے لگی۔۔۔
نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔
کیونکہ دوپہر میں کافی سوچکی تھی ڈرتے ڈرتے کمرے کا دروازا کھول کے دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔
ہوسکتا ہے سب سو چکے ہوں۔۔
اسنے سوچا۔
اور دبے پاؤں نکلی آہستہ آہستہ کچن کی طرف جانے لگی۔
سب لائٹس آف تھیں۔۔
کار پورچ سے روشنی اندر آرہی تھی
اسی کے سہارے وہ کچن تک پہنچی
فریج کا دروازا کھولا دودھ نکالنے کے لئے کہ اسے قدموں کی آواز آئی۔۔
افف کون آگیا؟
وہ کچن سے منسلک سٹور کی طرف چھپنے جارہی تھی تو اچانک لائٹس آن ہوئیں۔۔۔
اور وہ وہیں پتھر کی ہو گئی ڈر کے مارے۔۔
آپ یہاں اندھیرے میں کیا کر رہی ہیں؟؟
سوال سے زیادہ سوال کرنے والے کی آواز نے دل دہلا دیا۔۔۔
مم میں چچ چاۓ بنانے آئی تھی
وہ ڈرتے ڈرتے مڑی
کیوں؟؟
وہ سر میں شدید درد ہے۔۔اسنے ماتھے پہ ہاتھ پھیرا
ساحل سکندر ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں بکھرے بالوں کے ساتھ اسے دیکھ رہا تھا۔۔
ڈری سہمی حریم بس رو دینے کو تھی۔۔
تو اس میں اتنا گھبرانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ فریج سے دودھ نکالنے لگا۔۔
ہیں؟؟
وہ سخت حیرت میں تھی
یعنی کہ کھڑوس اسے کہرہا تھا کہ گھبرا کیوں رہی ہو؟
میں بھی چاۓ ہی پینے آیا ہوں۔۔۔
ویسے تو یہ رولز کہ خلاف ہے کہ آپ اس وقت اپنے کمرے سے باہر ہیں ۔۔
وہ چاۓ کا پانی چڑھاتے ہوئے بولا
لیکن ۔۔
(آپ بھی تو کمرے سے باہر ہیں)
اسنے دل۔میں سوچا
کیونکہ آپ کے سر میں درد ہے تو ۔۔۔
آپ کو آج کچھ نہیں کہتا۔۔
اور میں آپ کو پین کلر بھی دیتا ہوں۔۔
وہ ایک کیبنٹ کھولے کھڑا تھا
اسنے ایک بوکس نکالا جس میں رنگ برنگی ٹیبلٹس تھیں
ایک اسکی طرف بڑھائی یہ لیں۔۔
اسنے ٹیبلیٹ لیکر پانی کا گلاس اٹھایا اور ٹیبلٹ منہ میں ڈالی ۔۔۔
کھڑوس کی چاۓ بن چکی تھی۔۔
اسنے دو مگ بھرے ایک اٹھا لیا اور دوسرا شیلف پہ چھوڑ دیا ۔۔
چاۓ پی لیں اور اپنے کمرے میں جائیں اب آپ باہر نہیں نکلیں گی۔۔
وہ کہتا چلا گیا۔۔
حریم حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔۔۔
اپنا مگ اٹھایا اور اپنے روم کی طرف جانے لگی۔۔۔
کہ اسے لاؤنج میں کوئی بیٹھا نظر آیا۔۔
آ آ آ۔۔۔۔ اسنے چیخ ماری وہ تو شکر اسکی چاے نہیں گری اس پہ۔
وہاٹس رونگ ود یو سٹوپٹ گرل؟؟
وہ اچانک اس کے سر پہ کھڑا ہو گیا
اور دبی آواز میں اسے ڈانٹا۔۔
سس سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ یہاں بیٹھے ہیں ۔۔
میں ڈر گئی کہ پتا نہیں کون ہے ۔۔
وہ خجل ہوئی۔۔۔
جائیں اب اپنے روم میں وہ غصے میں اس کے روم کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔۔۔
وہ بھی جلدی سے چل دی
افف میرے خدا یہ مصیبت ہمیشہ مجھسے ہی کیوں ٹکراتا ہے۔۔
لو بھلا اندھرے میں بیٹھ کے چاۓ نوش فرما رہے تھے
اب بندہ ڈرے بھی نہ۔۔
وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی چاۓ پینے لگی تو منہ کڑوا ہو گیا۔۔۔
افوہ کیا مصیبت ہے بھئی۔۔اس کڑوے کریلے نے چاۓ بھی اپنی جیسی کڑوی بنائی ہے ۔۔۔
اتنی سٹرانگ چاۓ وہ نہیں پی پاتی تھی مگر اب تو مجبوری تھی
ورنہ سر درد چاۓ کے بنا کم نہیں ہوتا تھا اسکا(یہ اسکا ماننا تھا)
بمشکل مگ ختم کیا اور سر میں دوپٹے سے پٹی باندھی(جیسے امی کو دیکھتی تھی) اور لیٹ گئی
********** ** ** **
آج یونی آتے ہوئے اسنے اچھے سے خود کو سمجھا دیا تھا کہ کسی کی ہاتھوں الو نہیں بننا۔۔۔
کلاس روم میں سب اسکی طرف ہمدردی سے دیکھ رہے تھے۔۔۔
آخر کار وہ کھڑی ہوئی ۔۔
مجھے کل میرا بیگ مل گیا تھا۔۔ وہ مسکرای۔
آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔وہ سب کی طرف ایک نظر ڈال کے بولی تو سب نے اسکی طرف مسکراہٹ اچھالی۔۔
اب وہ ریلیکس تھی۔۔
کلاس شروع ہوچکی تھی۔۔۔
_________
وہ سوچوں میں گم تھی کہ آخر وہ بندہ کون تھا جس نے اسکی ہیلپ کی تھی یہاں تو کہیں بھی نظر نہیں آیا اتنے دنوں سے۔۔۔
ہاے۔۔۔
نمرہ نے اسکی سوچ کا تسلسل توڑا۔۔۔
ہائے کیسی ہو؟؟
حریم نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔۔
تم کچھ لیٹ نہیں ہوگئی ؟؟
وہ پوچھنے لگی۔۔
ہاں کیونکہ میرے پاس تمہاری طرح بڑی سی گاڑی نہیں ہے اور نا ہی وردی بردار ڈرائیور۔۔ وہ تلخ ہوئی۔۔
نمرہ ایسا کیوں سوچتی ہو تم ۔۔
بہت سے لوگ بس میں آتے ہیں ۔۔اور۔۔
نمرہ نے اسکی بات کاٹی۔۔
تم ایسا سوچ سکتی ہو حریم کیونکہ تم نے کبھی بس میں دھکے نہیں کھاۓ
کبھی یہاں کی بس پہ بیٹھ کے دیکھو۔۔۔
آج اسکا موڈ سخت آف تھا۔۔
کیا ہوا کچھ بتاؤ گی؟
حریم نے پوچھا
کل میرا فون چوری ہوگیا بس میں۔۔۔وہ مایوسی سے بولی
کیا؟؟کیسے؟؟
میں سوگئی تھی بس میں۔۔۔
اکثر سوجاتی ہوں گھر کافی دور ہے تو میں اپنی یہ راستہ سو کے گزارتی ہوں
لیکن کل جب میں گھر پہنچی تو میرا فون کسی نے نکال لیا تھا۔۔ وہ تلخی سے بتارہی تھی
کوئی ایسا کیوں کریگا ؟
ضرور گر گیا ہوگا بیگ سے۔۔۔۔۔
وہ سمجھانے لگی۔۔۔
کیوں کرے گا؟؟
تمہارا بیگ کیوں دن دہاڑے چھینا گیا تھا؟؟بلکہ بڑے آرام سے لیا گیا تھا تم سے۔۔۔
وہ پھٹ پڑی۔
تمہیں پتہ ہے حریم کچھ دن پہلے کسی نے میرے بیگ سے کاؤنٹر نکال لیا۔۔ کین یو امیجن ؟؟
جس میں میں اپنے رب کا زکر کرتی تھی ۔۔ویسے تو مجھے گننا پسند نہیں مگر۔۔۔
میری بہن بضد تھی کہ اسنے لاکھ پورا کرنا ہے تو میں اس کو پڑھ کے دیتی تھی۔۔۔
بس میں سب ایک جیسے لوگ سفر کرتے ہیں مڈل کلاس لوگ ہوتے ہیں زیادہ تر۔۔
پھر بھی اپنے جیسوں کے ساتھ ہاتھ کی صفائی دکھالیتے ہیں۔۔۔
بندہ کسی امیر کو لوٹے تو بات بھی بنے۔۔۔۔۔
اس بات پہ حریم حسبِ عادت منہ پھاڑ کہ ہنسی۔۔۔
اس میں ہسنے کی کیا بات ہے ؟ نمرہ خفا ہوئی۔
بس نمرہ اب تم بھی ہنس دو اور چل کرو۔۔۔
وہ اسکی چٹکی کاٹتے ہوئے ہنسی۔۔
نمرہ بھی مسکرادی۔۔
اصل میں ہماری اپنی غفلت ہوتی ہے یار۔۔۔ہم اپنی چیز کی حفاظت نہیں کرتے پھر دوسروں کو کوستے رہتے ہیں۔۔
ہممم صحیح کہتی ہو یار ۔۔
میری امی کہتی ہیں کہ جب چور چوری کرتا ہے تو اس کے جرم میں ہم خود بھی شامل ہوتے ہیں۔۔۔
وہ کیسے؟
نمرہ نے پوچھا۔۔
وہ ایسے کہ جب ہم اپنی چیز کی حفاظت نہیں کرتے اسے ایسی جگہ پہ رکھ دیتے ہیں کہ کوئی بھی اسے وہاں سے چرا سکے تو ہم اس بندے کے ایمان کو آزما رہے ہوتے ہیں۔
اگلا بندہ چور نہ بھی ہو تو وہ ہماری کسی قیمتی چیز کو دیکھ کہ اسکا ایمان ڈگمگا جاتا ہے۔۔ وہ مسکرای
جب میں اپنی گولڈ کی چین ہمیشہ ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھ دیتی تھی ۔۔
۔اور ایک دن وہ غائب ہوگئی ۔۔
تب امی نے کہا تھا مجھے یہ سب کیونکہ وہ چین ہماری کام والی نے اٹھائی تھی۔۔۔
دو دن بعد وہ خود واپس دیکر گئی
اسکا کہنا تھا ۔۔۔باجی روز یہ چین یہاں پڑی دیکھتی تھی آخر کار میرا دل بے ایمان ہوگیا۔۔۔۔۔
تو اب ہمیں اپنی چیزوں کی حفاظت کرنی ہے انہیں چھپا کے رکھنا ہے تاکہ کسی کو چوری پہ مجبور نا کریں۔۔
۔وہ ہنستے ہوئے اٹھی اور اسکا ہاتھ بھی کھینچا۔۔۔
اوہو بڑے فلسفے جھاڑنے لگی ہیں میڈم۔۔۔نمرہ اسکا مذاق اڑانے لگی۔۔
**** **** **** ****
آج بھی اسے ساحل پک کرنے آیا تھا۔۔
اسے دیکھ کہ حریم گھبرا جاتی تھی اللّٰہ جانے کونسی بات پہ غصہ آجاے۔۔۔
ویسے وہ۔اتنا اچھا تو نہیں تھا کہ اسے لینے آتا ضرور کوئی بات ہوگی۔۔۔
وہ قریب آئی
اسلام و علیکم۔۔
وعلیکم اسلام جلدی بیٹھو۔۔
اسنے کار سٹارٹ کی۔۔۔
کیا ہوا ؟؟…
اسنے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔۔
مما کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔
ڈرائیور انکو لیکر ہاسپٹل گیا ہے۔۔
مجھے بھی وہیں جانا ہوگا آپکو ڈرائیور گھر ڈراپ کردیگا۔۔۔
وہ سخت پریشان دکھ رہا تھا لیکن کوشش کر رہا تھا نارمل نظر آنے کی۔۔
پر کیا ہوا آنٹی کو ؟؟
وہ پریشان ہوئی۔۔
کچھ معلوم نہیں بس کچھ دیر پہلے مجھے کال آئی ڈرائیور کی۔۔۔۔
کے وہ راستے میں ہیں مما کو ہاسپٹل لیکر جارہاہے۔۔۔
اور یہ کہا کہ آتے ہوئے آپکو پک کرلوں کیونکہ آپکا کا یونی میرے راستے میں پڑتا ہے۔۔۔
آپ فکر نا کرین وہ ٹھیک ہو جائینگی۔۔۔
اصل معنوں میں اسنے خود کو تسلی دی ۔۔
پتا نہیں اسے کیوں اتنا رونا آرہا تھا۔۔
اسنے چوری سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔۔۔
کہیں ساحل اسی بات پہ نا بھڑک جاۓ۔۔
بہت نازک دل تھا اسکا کسی کو بھی تکلیف میں دیکھ کہ دل بھر آتا تھا۔۔۔
اسے ساحل کی باتوں سے خوف آرہا تھا۔۔۔
وہ بندہ کسی بات پہ پریشاں نہیں ہوتا تھا ۔۔۔
لیکن آج اسکی پریشانی اسکے چہرے پہ عیاں تھی۔۔
ہاسپٹل پہنچتے ہی ساحل بھاگتا ہوا ایمرجنسی کی طرف جانے لگا۔۔
حریم بھی تیزی سے چلتی اسکے پیچھے جانے لگی۔۔۔
بمشکل اس تک پہنچی۔۔
اسنے ڈرائیور اور رضیہ کو دیکھ لیا تھا ویٹنگ ایریا میں۔۔۔
سر وہ انکو اندر لے گئے ہیں۔۔۔
ابھی ہمیں کچھ نہیں بتایا۔۔
ہمم۔۔۔
وہ اندر جانے لگا ۔۔
وہاں ہر طرف ڈاکٹر اور نرسیں نظر آرہی تھیں۔۔۔
حریم بھی ساحل کے پیچھے پیچھے جانے لگی وہ کاؤنٹر پہ بات کر رہا تھا ۔۔
شہر کے بڑے ہاسپٹلرز میں سے ایک تھا۔۔
چاروں طرف لوگوں میں افراتفریح
پھیلی ہوئی تھی۔۔۔
کوئی ایکسیڈنٹ ہوا تھا کافی لوگ خون میں لتھ پتھ لاۓ جارہے تھے۔۔
اسے بہت ڈر لگرہا تھا۔۔۔
اسنے ساحل کا بازو پکڑا۔۔۔
وہ چونکا اور اسکی طرف دیکھا۔۔۔
آپ گئی نہیں؟؟
ڈرائیور کو کہیں وہ آپ کو چھوڑ دے گا ۔۔۔
میں گھر نہیں جاؤں گی ابھی پہلے آنٹی سے ملو نگی۔۔۔
وہ آہستہ سے بولی۔۔۔
آنٹی کہاں ہیں کیا ہوا انکو؟؟
کچھ معلوم نہیں بس ابھی انکی ٹریٹمنٹ چلرہی ہے کچھ ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔۔۔
وہ پریشانی سے اپنا ماتھا دو انگلیوں سے رگڑ رہا تھا۔۔۔
وہ دونوں کب سے کھڑے تھے۔۔۔
پلیز آپ لوگ باہر جا کے ویٹ کریں یہاں پہلے ہی کافی رش ہوگیا ہے۔۔۔
ایک نرس ان کے قریب آئی۔۔۔
پیپلز مجھےایک بار اپنی مام کو دیکھنا ہے ۔۔۔
ساحل بولا۔۔
چلیں میں آپکو ان کے پاس لیجاتی ہوں لیکن آپ کو دیکھ کے واپس آنا ہوگا
اوکے۔۔۔
وہ اسکے پیچھے جانے لگے ۔۔۔
وہاں ایمرجنسی وارڈ میں ہر مریض کے لیے چھوٹے سے کیبن بنے ہوئے تھے۔۔
نرس نے ایک پردا ہٹایا وہ دونوں اندر گئے۔۔۔
آنٹی بیہوش تھیں۔۔۔
ساحل انکے قریب گیا۔۔۔
مما۔۔۔ کتنا قرب تھا اسکے لہجے میں۔۔
لیکن وہ کچھ ریسپانس نہیں دیرہی تھیں۔۔۔۔
نجانے کون کون سی مشینیں وہاں آوازیں کر رہیں تھیں۔۔۔
اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔۔۔
اسنے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اپنی سسکی روکی۔۔۔
پھپھو۔۔۔۔
وہ رونے لگی۔۔۔
پلیز اب آپ لوگ جائیں۔۔۔نرس کہنے لگی۔۔
ساحل نے اسے روتے دیکھا تو اسے شانوں سے تھام لیا۔۔۔
اور اس کے کندھے پہ ھاتھ رکھ کے اسے لیکر باہر جانے لگا۔۔۔۔
وہ دونوں کب سے ویٹنگ اریا میں بیٹھے تھے …چاروں طرف صوفوں پے مریضوں کے رشتدار بیٹھے تھے سب پریشان تھے۔۔
لیکن چار انتہائی موٹی عورتیں جنکا بھائی زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا تھا۔۔مسلسل کھانے میں مصروف تھیں۔۔
ڈرائی فروٹ کے چھلکے گراتی جاتیں بار بار سویپر صفائی کر کے جاتا لیکن یہ نجانے کیسے لوگ تھے۔۔
انکی باتیں ختم نہیں ہورہی تھیں ساحل بھی انکی آوازوں سے پریشان
تھا۔۔ میم پلیز یہ کچرا نہ پھیلائیں
آخر کار سویپر کی بھی ہمت جواب دے گئی۔۔۔
تو ایک موٹی لڑکی ہنسنے لگی ۔۔اور بحث کرنے لگی۔۔۔
اتنے میں
ایشال مرال بھی آگئیں تھی
کچھ دیر بیٹھنے کی بعد ساحل نے اُن سے کہا
آپ سب واپس گھر جائیں ۔۔۔
لیکن حریم نہ مانی
پلیز مجھے گھر نہیں جانا جب تک آنٹی ہوش میں نہیں آتیں۔۔۔
ساحل اسے کچھ کہتا تو وہ رونے لگ جاتی ۔۔
مجبوراً ساحل نے ایشال مرال کو ببھیج دیا۔۔
مغرب کی اذان ہونے لگی تھی ۔۔
زرین کی کوئی خیر خبر ڈاکٹر کی طرف سے نہیں آئی تھی۔۔
ساحل نے حریم کو دیکھا وہ دعائیں مانگ رہی تھی۔۔۔
حریم آپ کی دعا قبول ہوتی ہے؟؟
اچانک اسنے پوچھا۔۔۔
حریم نے اسکی طرف دیکھا ۔۔
ہاں۔۔۔
میری ہر وہ دعا قبول ہوتی ہے جو میں دل سے مانگتی ہوں۔۔۔۔
مینے جب بھی گبھراہٹ میں اپنے رب کو پکارا اسنے مجھے مایوس نہیں کیا۔۔۔
اسکے لہجے میں یقین بول رہا تھا۔۔۔۔
لیکن ایسا بھی تو ہوتا ہے نا کہ کبھی ہماری دعا مقبول نہیں ہوپاتی۔۔۔
وہ گہری سوچ میں تھا۔۔۔
ماں بیمار تھی باپ بھی نفسیاتی مریض تھا
اسی صورت حال میں اسکا ساتھ دینے کہ بجاے اور پریشان کرسکتا تھا۔۔اسلیے ان کو اطلاع نہیں دی گئی ۔۔۔
اور بھائی بہت دور تھا اسے وہ پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔
ایسے میں حریم جیسی لڑکی بھی اسے بہت بڑا سہارا لگ رہی تھی ۔۔
ورنہ وہ تو اسے بیوقوف سی لڑکی سمجھتا تھا۔۔۔
پتا ہے ساحل بھائی۔۔۔
جب کوئی بھی ایسی بات ہوتی ہے جسے میں نہیں چاہتی تھی وہ اچانک سے ہو جاتی ہے۔۔
اور میرا رب جب مجھے دعا کا موقع دیتا ہے تو میں سمجھ جاتی ہوں کہ میرے لیے ایک چانس ہے۔۔۔۔
پر مجھے اپنی دعا میں محنت کرنی ہوگی۔۔۔جب میں محنت سے دل سے دعا نہیں کرتی تب میرا کام نہیں ہوتا۔۔۔
بہت بار میرا کوئی ضروری کام ہوتا ہے لیکن میں بس رٹی رٹائی دعا کرتی ہوں۔۔۔
تو وہ کبھی قبول ہوجاتی ہے اور کبھی نہیں بھی ہوتی۔۔
وہ ایک جذب سے بولے جارہی تھی۔۔ ساحل نے آنکھیں موندے لیں تھیں۔۔
اسکو سکون مل رہا تھا۔۔۔۔
حریم چپ ہوئی تو ساحل نے آنکھیں کھولیں۔۔۔
کیا حریم آپ چپ کیوں ہوگئیں۔۔۔؟
وہ پوچھنے لگا ساحل کے ماتھے پہ پسینا تھا۔۔۔
جب کہ چاروں طرف اے سی کی ٹھنڈک تھی۔۔۔لیکن یہ پسینا کیسا؟
حریم اٹھی۔۔
۔
میں نماز پڑھ کہ آتی ہوں آپ بھی پڑھ لیں۔۔۔۔
اور ساحل بھائی ایک بات کہوں؟؟
آج وہ ڈر نہیں رہی تھی اس سے۔۔
ہاں کہو۔۔۔
آپ اپنی دعا پہ بھروسہ رکھیں۔۔
اللّہ آپکی شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے وہ آپکو مایوس نہیں کریگا۔۔۔
جتنی شدت سے آپ دعا کرینگے اتنی شدت میری دعا میں نہیں آسکتی۔۔۔
کیونکہ وہ آپکی ماں ہیں اور آپ انہیں کھونا نہیں چاہتے۔۔۔
ساحل غور سے دیکھ رہا تھا اسے۔۔۔
بس اتنا کہنا تھا۔۔۔ وہ مڑی اور نماز پڑھنے کے لیے باہر لان کی طرف جانے لگی جہاں اسنے عصر پڑھی تھی۔۔۔
ساحل۔اسے جاتا دیکھنے لگا اور نماز کے لئے جانے لگا۔۔۔
******** ** **
مغرب کے بعد عشاء بھی پڑھ لی تھی انہوں نے ۔۔
اب وہ دونوں دعا میں مصروف تھے۔۔۔
ایک نرس قریب آئی۔۔۔
مسز زرین سکندر کے ساتھ آپ ہیں؟؟
وہ دونوں چونک گئے ۔۔۔
یس میں ہوں ان کے ساتھ۔۔ وہ اٹھا تو حریم بھی اٹھی۔۔
دونوں گھبرا گئے۔۔
آپ کی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے۔۔۔وہ مسکرای۔۔۔
اوہ اللہ تیرا شکر ہے ۔۔
ان دونوں کے منہ سے نکلا اور دونوں نے ایک دوسرے کی طرف خوشی سے دیکھا۔۔۔۔۔۔
آپ آجائیں ڈاکٹر کو آپ سے بات کرنی ہے۔۔۔ وہ کہہ کہ ٹک ٹک کرتی چلی گئی۔۔۔
ساحل اور حریم بھی پیچھے بھاگے۔۔۔
ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹر اور نرسیز ادھر سے اْدھر بھاگ رہے تھے
یہاں ہر پیشنٹ سیریس کنڈیشن میں تھا۔۔۔
نرس ایک ڈاکٹر کے پاس رکی اسکے ہاتھ میں فائیل تھی۔۔۔
دیکھے مسٹر۔۔۔۔؟ ڈاکٹر نے سوالیہ نظروں سے دیکھا
ساحل سکندر۔۔۔ساحل جھٹ سے بولا۔۔
جی تو مسٹر ساحل سکندر۔۔ ایسا ہے کی آپکی مدھر کو ہوش تو آگیا ہے لیکن انکی کنڈیشن ابھی سٹبل نہیں ہوئی۔۔۔
ڈاکٹر کیا ہوا ہے آخر ان کو؟؟؟
انکا بلڈ خطرناک حد تک کم ہو چکا ہے۔۔۔
اونلی فائیو پوائینٹ ڈاکٹر تشویش بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔
وہاٹ؟؟
ساحل شدید حیرت میں تھا۔۔۔
تو مسٹر ساحل ابھی آپکو بلڈ کا ارینجمنٹ کرنا ہوگا۔۔۔میں سخت حیرت میں هوں کے یہ ابتک کیسے چل پھر رہیں تھیں۔۔
یس میں کروا دیتا ہوں۔۔۔پلیز میر مدھر کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔۔۔
مسٹر ساحل انکے سٹیبل ہوتے ہی ہم انکو روم میں شفٹ کردینگے۔۔۔
ویسے وہ اب بہتر ہیں گھبرانے کی کوئی بات نہیں بس۔۔۔ بلڈ کا ارینجمنٹ جلد سے جلد کریں۔۔
ڈاکٹر اسکا شانا تھپتھپاتے ہوئے جانے لگا۔۔۔
چلیں آپ مل لیں اپنی مدھر سے ۔۔۔نرس انکو لے گئی ساتھ ۔۔۔
زرین اب بھی مشینوں میں جکڑی ہوئی تھی۔۔۔
انکو دیکھ کہ مسکرای۔۔۔
مام ۔۔۔وہ قریب آیا انکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کہ چوما۔۔۔
کیسی ہیں آپ؟؟
وہ پوچھنے لگا۔۔
میں تو ٹھیک ہوں بیٹا مجھے یہاں سے نکالو۔۔۔وہ نکاہت سے کہنے لگیں۔۔
آپ بات نہیں کرینگی بس خاموش ہو جائیں وہ مسکراتا انکو سمجھانے لگا۔۔۔
حریم قریب آئی پھپھو۔۔۔
ارے حریم بیٹا دیکھو میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔
ہاں آپ بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔ان دونوں نے ساتھ میں کہا۔۔
تو چونک کہ ایک دوجے کو دیکھا۔۔۔
بس اب آپ خاموش ہوجائیں۔۔۔
پلیز اب آپ لوگ جاسکتے ہیں نرس ان کے سر پہ کھڑی تھی۔۔۔
انکو مجبوراً نکلنا پڑا ۔۔۔
دونوں۔نے شکرانے کہ نوافل پڑھے۔۔
ساحل نے بلڈ کا بندوبست کرنے کے لیے اپنے سیکرٹری کو کال کی۔۔۔
بی پوزیٹو چاہیے۔۔۔
ہاں جتنے لوگ ارینج کر سکتے ہو لے آؤ چار بوٹلز چاہیں۔۔
فلحال۔۔۔
ایکسیوزمی۔۔۔پیچھے سے ایک ڈاکٹر نے ساحل کو پکارا۔۔۔
یس میم؟؟
وہ مڑا۔۔
دیکھیں مجھے آپکی مدھر کی فائیل بنانی ہے تو کچھ سوالات پوچھنے ہیں وہ کونسی میڈیسن لیتی ہیں؟
کیا کیا ایشوز ہیںں ؟
اور کبھی کوئی آپریشن ہوا ہے؟
کبھی بلڈ لگا ہے انکو؟
کوئی الرجی؟
وہ ڈاکٹر سوال پہ سوال کر رہی تھی جس کا جواب ساحل دیے جارہا تھا۔۔۔
آپکی مدھر کو بلڈ ہم خود دینگے بس آپ اتنی ہی بوٹلز ہمارے بلڈ بینک میں جمع کروادی جلد سے جلد ۔
۔اوکے
جیسے ہی بلڈ بینک سے ہمیں اپرول آیے گا ہم بلڈ لگانا سٹارٹ کرینگے۔۔
اوکے وہ مسکراتی جانے لگی۔۔۔
اب ساحل کچھ ریلیکس تھا۔۔۔
اسے خیال آیا حریم نے نہ لنچ کیا تھا نا ڈنر
کیا تھا وہ کب سے بولی پیاسی اسکے ساتھ تھی۔۔۔
چلو حریم وہ اٹھا۔۔
کہاں ؟
وہ جانے لگا تو وہ پیچھے چلنے لگی ایک دو کاریڈور کراس کر کے وہ ایک ہال نما روم میں پہنچے جو کسی فائیو سٹار ہوٹل کی طرح کا لگرہا تھا
وہ ایک ٹیبل کے اطراف بیٹھے ۔۔۔
مجھے بوکھ نہیں ہے۔۔۔ حریم نے دھیرے سے کہا۔۔۔
لیکن مجھے تو ہے۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا اور ویٹر کو اشارہ کیا۔۔
کیا کھائیں گی آپ ؟؟
مجھے بلکل بوکھ نہیں ہے میرا دل ہی نہیں چاہ رہا آپ نے جو منگانا ہے وہی منگوالیں۔۔۔ وہ بیزاری سے بولی۔۔
اممم ایسا کریں دو کپ چائے اور سینڈوچز لیے کے آئیں۔۔۔
ساحل کی بھی بوکھ اڑ چکی تھی بس چائے کی طلب ہو رہی تھی۔۔
تھوڑی دیر میں چائے آگئ۔۔۔
جیسے ہی چاۓ منہ سے لگائی حریم نے ساحل کی طرف دیکھا
وہ بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
یہ چاۓ ہے؟ وہ عجیب سے منہ بنانے لگی۔۔۔
اس سے اچھی چاۓ تو آپ بنا لیتے ہیں ۔۔۔وہ بے خیالی میں بول گئی
ساحل نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔۔۔
میں بہت اچھی چاۓ بناتا ہوں ۔۔۔اور
مجھے تو چاۓ بس اپنے ہاتھوں کی ہی پسند ہے۔۔۔وہ اپنی مسکراہٹ چھپاتا ہوا بولا
لگتا ہے آپ کو برا لگا۔۔۔ وہ ڈر کے پوچھنے لگی تو وہ مسکرا دیا۔۔۔
آج اس لڑکی کی کوئی بات اسے غصہ نہیں دلا رہی تھی۔۔۔
نہ جانے کیوں۔۔
اتنی بیکار چاۓ اور بدمزہ سینڈوچ کا بل کافی زیادہ تھا حریم کا منہ حیرت سے کھل گیا۔۔
جب کہ ساحل کو کوئی فرق نہیں پڑا اسے پتا تھا کہ یہاں کے “ریٹ”کیا ہیں۔۔۔۔۔۔
اونچی دکان پھیکا پکوان ۔۔
وہ جل کہ بولی۔۔۔
ساحل نے اسے چلنے کا اشارہ دیا۔۔۔
حریم آپ اب چلی جائیں پلیز۔۔۔
نہیں میں کہیں نہیں جاؤنگی۔۔۔وہ ضد سے بولی۔۔
میں ڈرائیور کو کال کرتا ہوں۔۔آئ پرامس کل جیسے ہی مما کو روم میں شفٹ کیا جاۓ گا میں آپ کو بلوالونگا۔۔۔ وہ اسے سمجھاتے ہوے کہتا جارہا تھا۔۔۔
آپ کا یہاں رہنا صحیح نہیں ہے۔۔۔۔
ویسے بھی مام سے ملنے نہیں دینگے یہ لوگ اور یہاں بھی ایک فرد کو اجازت ہے۔۔۔
حریم نے سر جھکا لیا۔۔۔
اور لب کاٹنے لگی۔۔
ساحل نے کال کی اور کچھ دیر میں گاڑی آگئی ۔
مم میرے پاس آپکا نمبر ہے میں آپ کو کال یا میسج کر سکتی ہوں؟؟
وہ جاتے وقت پوچھنے لگی۔۔
او یس وائے ناٹ آپ مجھے میسج کردیں اپنے نام سے میں آپکو اپڈیٹ دیتا رہوں گا۔۔۔
اللّہ حافظ۔۔۔وہ جانے لگی۔۔۔
گھر پہنچتے ہی اسنے۔۔ساحل کو کال ملائی۔۔
جس کے نام کی جگہ ‘چنگیز خان’لکھا ہؤا تھا۔۔
آج سے پہلے اسنے کبھی یہ نمبر ڈائل نہیں کیا تھا۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔میں حریم بول رہی ہوں۔۔۔
یس حریم ماما کو ابھی دیکھ کہ آیا ہوں وہ شکر ہے پہلے سے بہتر ہیں۔۔۔
ابھی کسی کو اندر جانے نہیں دیا جا رہا اچھا ہوا آپ جلی گئیں۔۔
مجھے بتائیے گا ضرور ۔۔۔وہ بولی
اوکے اب آپ آرام کریں۔۔۔
اسنے کال ڈسکنکٹ کردی۔۔۔
یا اللہ جلدی سے پھپھو کو صیحتیاب کر دے آمین۔۔۔وہ بہت تھکی ہوئی تھی ڈر اور ٹینشن سے اسے نیند نہیں آرہی تھی ایشال نے اسے ایک ٹیبلیٹ کھلای تھی پین کلر کہا تھا لیکن ٹیبلیٹ کھاتے ہی اسے سخت نیند آنے لگی اور وہ بیڈ پہ ڈھیر ہوگئی۔
ایشال کو۔ساحل۔نے فون کیا تھا کہ حریم کو نیند کی ٹیبلیٹ دیدے
ایشال کو معلوم تھا وہ نہیں کھاۓ گی لیکن جب اسنے سر درد کی گولی مانگی تو ایشال نے اسے آرام کی ٹیبلیٹ دی ۔۔۔
******** ** **
زرین کو روم میں شفٹ کردیا گیا تھا اور بلڈ بھی لگ رہا تھا ۔۔
ساحل ناراض تھا کہ انہوں نے اپنا ریگولر چیک اپ کیوں نہیں کرایا۔۔۔
مام میں بہت بزی تھا میری غلطی ہے مجھے خود آپکا چیک اپ کروانا چاہے تھا۔۔۔
نہیں بیٹا آپکا کوئی قصور نہیں بس میری غفلت تھی۔۔۔
رضیہ نے بتایا تھا کہ اچانک انکو سانس کی پرابلم ہوئ
وہ کہنے لگیں کہ سانس نہیں آرہی تو اسنے جلدی سے ڈرائیور کے ساتھ انکو ہاسپٹل لے آئیں۔۔
ہاسپٹل میں آتے آتے وہ بیہوش ہوگئیں تھیں۔۔۔
ساحل کچھ دیر کے لیے صوفے پہ لیٹ گیا تھا ساری رات جاگتا رہا تھا۔۔
حریم کرسی پہ بیٹھی تھی۔۔۔
زرین بھی سوگئی تھیں انکو ڈرپ لگی ہوئی تھی ۔۔۔
ہر گھنٹے میں ڈیوٹی ڈاکٹر آکے وزٹ کرتے تھے۔۔
ساحل اٹھ بیٹھا۔۔
ساحل بھائی آپ گھر جائیں پلیز یہاں آپ کو یہ لوگ آرام نہیں کرنے دینگے۔۔۔ وہ اسکے قریب آکے آہستہ سے بولی۔۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔وہ بالوں میں انگلیاں پھیرتا ہو کہنے لگا۔۔۔
نہیں پلیز آپ جائیں ایسا نا ہو کہ بے آرامی سے آپ بھی بیمار پڑ جائیں۔۔۔
وہ ضد کرنے لگی تو ساحل بھی بادل ناخواستہ اٹھا۔۔۔
اسے نیند کی اشد ضرورت تھی۔۔۔
اور یہاں نیند نہیں آنے والی تھی۔۔۔
آپ دیکھ لینگی حریم؟؟ زرین کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔۔۔
ڈونٹ وری وہ مسکرای۔ تو وہ ریلیکس ہؤا۔۔۔
گھر جاکے اسنے ایشال کو بھیج دیا ہاسپٹل اسکی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
——————
دو دن ہوگے تھے آنٹی کو ہاسپٹل میں انہوں نے کھانا کھانے سے بالکل انکار کر دیا تھا
حریم بیٹا مجھ سے نہیں کھایا جاتا یہ بدمزہ کھانا۔۔۔
مگر آنٹی آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کو یہ کھانا کھانا ہی ہوگا وہ بھی ضدی تھی۔۔
نہیں آج تو میں بالکل بھی نہیں کھاؤں گی مجھے گھر سے کھانا منگوا کے دو
اف آنٹی آپ بھی بہت ضدی ہیں۔۔
ہے نہ تم پہ گئی ہوں۔وہ مسکرا دیں
تو حریم بھی ہنسنے لگی۔۔
حریم نے ایشال کو کال ملائی پلیز آنٹی کے لئے کچھ ہیلتھی سا کھانا بھجوا دو ۔۔۔یہاں کا پسند نہیں آرہا۔۔۔ اوکے میں ان کے لیے لاتی ہوں
کچھ دیر میں ایشال آئی مگر خالی ہاتھ۔۔۔
کیا ہؤا؟؟اسنے اشارے سے پوچھا۔۔
حریم نیچے گارڈ نے مجھ سے وہ ٹفن چھین لیا کہنے لگا یہاں باہر سے کھانا لانا الاؤ نہیں ہے۔۔۔
ایشال پریشان تھی۔۔
حریم کو غصہ آگیا
یار ان لوگوں نے تو کاروبار بنایا ہوا ہے
تبھی نہیں لانے دیتے کیونکہ انکا جو فائیو سٹار ہوٹل بنا ہؤا ہے۔۔۔
ویسے تم کیا لائی تھی۔۔۔؟
مینے آنٹی کا فیورٹ فش فراے بنوایا تھا اور مٹن کا سالن اور پلاؤ۔۔۔وہ خراب موڈ کہ ساتھ بتانے لگی۔۔
میں نے بہت منتیں کیں کہ میں پیشنٹ کے لیے نہیں بلکہ ان کے ساتھ جو کزن ہیں میری انکے لیے لایئ ہوں مگر نہیں۔۔۔۔
وہ نا میں گردن ہلاتی بیٹھی۔۔۔
ایشال تم بیٹھو میں اور مرال ابھی آتے ہیں اسنے مرال کا ہاتھ پکڑا اور اپنا بیگ اٹھایا۔۔۔
نیچے لابی میں گارڈ کو دیکھ کہ مسکرای میرے لیے کھانا آیا تھا جو اپنے مجھ تک پہنچنے نہ دیا۔۔۔
سوری میم ہمیں اجازت نہیں ۔۔۔
اوکے اب تو واپس دیں تاکہ میں ہاسپٹل سے باہر جا کہ کھاسکوں۔۔۔
وہ جل کہ بول رہی تھی
۔ گارڈ نے ٹفن دیا کیونکہ مرال اسکے ساتھ تھی
اسے یاد تھا جس لڑکی سے لیا تھا اسکے ساتھ یہ لڑکی بھی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں ہاسپٹل کے بلکل قریب بنی ایک چھپرا ٹائیپ ہوٹل میں گھسیں۔۔۔
وہاں پہ بیٹھ کہ حریم نے چاۓ بھی منگوائ اور کھانا بھی کھانے لگی تھوڑی دیر بعد اسنے ایک شاپر میں کچھ پلاؤ ڈالا اور فش بھی روٹی میں لپیٹ کہ۔۔
اسی شاپر میں ڈال لیا۔۔
یہ کیا کر رہی ہو؟؟
مرال حیران تھی۔۔۔
دیکھتی جاؤ یہ ہم مڈل کلاس لوگوں کے جگاڑ ہیں ۔۔۔
اسنے آنکھ ماری اور ہنس دی۔۔۔
اب اسنے اپنا لان کا دوپٹا پھیلا کے اوڑھا اور وہ شاپر اپنے بغل میں دبایا۔۔
اوہ۔۔تھوڑا گرم ہے لیکن چلے گا۔۔
مرال بس حیرت سے اسکی حرکتیں دیکھ رہی تھی۔۔
چلو وہ اسے ٹفن تھما کے بولی اپنا بیگ بھی اسے پکڑایا۔۔۔
اب وہ گارڈ کے سامنے کھڑی بیگ کی تلاشی دیرہی تھی۔۔۔
میں نے کھانا کھا لیا ہے کچھ اس میں بچا ہے آپ لوگ کھا سکتے ہیں اسنے ٹفن انکو دینے کا اشارہ کیا مرال کو ۔۔
نو میم ہمیں الاؤ نہیں ہے آپ واپسی میں لیجیے گا۔۔ اسنے ٹفن سائیڈ پہ رکھا
اب وہ دونوں اندر جارہی تھیں۔۔
حریم کو ڈر تو بہت لگرہا تھا۔۔
مگر وہ شو نہیں کر رہی تھی لفٹ میں بھی ایک گارڈ تھا اسے ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی ڈرگ وغیرہ چھپا کے لے جارہی ہے۔۔۔
کمرے میں آتے ہی اسنے ڈور لاک کیا اور شاپر برآمد کیا
اور فخر سے دکھا یا ایشل کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔
مان گئے بھائی تمہیں وہ وہ دونوں ہنس رہی تھیں۔۔۔
زرین بولیں حریم بلکل مجھ پہ گئی ہے میں بھی ایسی حرکتیں کیا کرتی تھی شادی سے پہلے۔۔۔
وہ بھی ہنس رہی تھیں۔۔
حریم نے کھانا نکالا جو پلیٹس آئیں تھیں ہاسپٹل کے کھانے کے ساتھ۔۔۔
شکر ہے اللہ تیرا آج میں نے پیٹ بھر کے کھایا ہے۔۔۔
وہ خوش تھیں۔۔۔
اور ہاں اس بات کی بھنک بھی ساحل کو نہ پڑے ورنہ وہ تم سب کو اسی وقت یہاں سے نکال باہر کرے گا۔۔۔
وہ چاروں ہنسی۔۔۔۔
آج چار دن ہوگے تھے انکو ہاسپٹل میں اس بیچ میں بہت سے رول بریک کیے تھے حریم ایشال مرال اور زرین نے۔۔۔
صبح کی چائے بھی زرین نے پینے سے انکار کیا ہوا تھا مجبوراً حریم نے وہ بھی باہر سے منگوا کے دی تھی ۔۔
آج ڈاکٹر وزٹ پہ آئے تو زرین نے شکایت کی کہ مجھے یہاں کا کھانا پسند نہیں مجھے اجازت لے کر دیں کہ میرا کھانا گھر سے آئے۔۔۔۔
آپ کو یہاں کا کھانا پسند نہیں؟ ڈاکٹر نے مسکرا کہ پوچھا
جی بالکل نہیں وہ بھی بچوں کی طرح ضدی لہجے میں بولیں۔۔۔
تو پھر آپ ایسا کریں کہ کھانا آپ اپنے گھر جا کے کھائیں۔۔۔ڈاکٹر بھی شرارتی لگ رہا تھا۔۔۔
کیا میں گھر جاسکتی ہوں ؟؟ وہ حیرت سے پوچھ رہیں تھیں۔۔۔
بالکل اب آپ اپنے گھر جائیں مزے مزے کی ڈیشز کھائیں ڈاکٹر بھی ہنسے لگا ۔۔۔
حریم اور ساحل کی بھی خوشی کے مارے ہنسی نہیں رکے رہی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر ساحل کی طرف مڑا ۔۔
میں آپکو ڈسچارج پیپرز بھجواتا ہوں سائین کرکے
۔۔ اوکے
ان میں میڈسن بھی چینج کر کے بتاؤنگا ۔۔۔۔۔۔
آج وہ آنٹی کو لیکر اس ہاسپٹل سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔۔۔
آنٹی کو وہیل چیئر پہ نیچے لایا گیا تھا۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی آنٹی نے شکر ادا کیا۔۔۔
******** ** **
اس گھر میں ایک ہفتے سے نا ساحل آفس گیا تھا نا حریم اور مرال یونی جاسکی تھیں ایشال فلحال فری تھی ویسے بھی۔۔۔۔
سب کچھ نارمل ہوگیا تھا۔۔ آنٹی بالکل ٹھیک تھیں اب۔۔۔
اور ساحل بھی اپنی نارمل روٹین میں آگیا تھا ۔۔۔
یعنی کہ وہی چنگیز خان ولا مزاج
پھر سے اپنا لیا تھا۔۔۔
********** ** ** **
کمرے میں مدھم روشنی پہلی ہوئی تھی اے سی کی ٹھنڈک سکون پُہنچا رہی تھی حریم گہرئی نیند میں تھی باہر سے کچھ آوازیں آرہی تھیں کیسا شور تھا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا
بلا آخر اُسکی آنکھ کھلی مگر ذہن ابھی پوری طرح نہیں جگہ تھا
وہ کسمسائی پہلو بدلہ سر پے تکیا رکھ کے سونے کی کوشش کی۔۔۔
کیا مصیبت ہے بھئی سنڈے کو بھی سونے نہیں دیتے
مجبوراً اُسے اٹھنا ہی پڑا۔۔۔
ٹائم دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے۔۔
اوہ گیارہ بج بھی گے۔۔
وہ اُٹھی بالوں کا اونچا جوڑا باندھا
اور واش روم میں گھس گئی
لاؤنج میں کوئی نظر نہیں آیا ویسے بھی بقول ساحل سکندر کے سنڈے کے دن اس پے کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی۔۔۔
لیکن وہ یہ بتانا بھول گیا کے سنڈے کے دیں کسی پے بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی
جس کے نتیجے میں آج یہ شور و غل مچا کے اُسکی نیند خراب کی گئی تھی
وہ کچن کے دروازے پر کھڑی ہو کے رضیہ کو بلانے لگی۔۔۔
یس میم ۔۔۔رضیہ بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئی۔۔۔
میرا ناشتا میرے بیڈروم میں لے آؤ
جی میں لاتی ھوں۔۔ وہ کام پہ لگ گئی۔
اور سنو آج میں روز والا ناشتا نہیں کرونگی۔۔۔
مجھے لچھے دار پراٹھا اور آملیٹ بنادو وہ مسکرا کے کہنے لگی
بوکھ بہت لگی ہے اور بھی کچھ ہے تو لانا۔۔۔
وہ کہتی چلتی بنی۔۔
آج تو ڈٹ کے کرنا ہے ناشتا وہ دل ہی دل میں خوش ہوتی
اپنے روم کی طرف جارہی تھی
کے انکل نیچے آتے دکھائی دیے
اوہو۔,یہ کہاں سے نمودار ہوگئے آج۔۔۔
وہ جھٹ سے ڈرائنگ روم میں کی طرف بھاگی جو کے نزدیک تھا
کے کہیں انکی نظر نہ پڑ جائے اس پے۔۔۔۔۔۔
وہ اپنی چھٹی نہیں برباد کرنا چاہتی تھی۔۔۔
جیسے ہی ڈرائنگ روم میں انٹر ہوئی تو اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔۔۔,
وہاں ساحل بیٹھا تھا اور کچھ مہمان بیٹھتے تھے۔۔۔
وہ لوگ کسی بات پے زور سے کیہکہے لگا رہے تھے حریم کو دیکھ کے سب کی ہنسی کو بریک لگ گے۔۔۔۔
حریم وائٹ شرٹ اور پنک ٹراؤزر میں اونچا جوڑا بنداھے۔۔۔
ہونق بنی
کھڑی تھی
گلے میں وائٹ دوپٹا جھول رہا تھا۔۔۔
ساحل نے اُسے عجیب نظروں سے
دیکھا۔۔۔
حریم بس دیکھے جارہی تھی۔۔۔
ساحل نے چہرے پے مسکراہٹ سجائ اور آنکھیوں سے اشارہ کیا تو وہ سنبھلی اور فٹ سے وہاں سے بھاگ نکلی۔۔۔۔
يا اللہ مجھے بچالے اب یہ کھڑوس مجھے نہیں چھوڑیگا۔۔۔
اُسکی بھوک ہی اڑ گئی
ابھی کتنا سوچا تھا آج ڈھیر سارا ناشتہ کروں گی
مزے سے لیکن ہاۓ رے میری قسمت ہمیشہ کوئی نہ کوئی پھڈہ کر بیٹھتی ہوں
کچھ دیر میں رضیہ ناشتہ لے آئی۔۔۔
خوشبو سے اسکی بوکھ پھر سے چمک اٹھی۔۔۔
چل بیٹا ناشتہ تو کرلے جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔۔۔
وہ شروع ہوگئی۔۔۔
****** **
مس حریم۔۔ وہ اُسکے سر پے کھڑا تھا۔۔
جی ۔۔وہ تیار تھی۔۔
اب اُسے اتنا ڈر نہیں لگ رہا تھا۔۔
آج میرے کچھ گیسٹ برنچ پے انوایٹ تھے ۔۔۔
ایک تو آپ اس حلیے میں وہاں چلی آئیں۔۔۔دوسرا آپ بنا سلام کیے واپس بھاگ گئیں؟؟
آپ کو معلوم ہے مجھے کتنی سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟؟
وہ سر جھکائے سنتی جارہی تھی۔۔
وہ لوگ کیا سوچتے ہونگے کہ میری کزن اتنی ال مینرڈ ہے؟؟
وہ کھڑا اس سے پوچھ رہا تھا ۔۔۔
لائٹ گرین ٹی شرٹ اسے بہت سوٹ کر رہی تھی۔۔۔
وہ نچلا ہونٹ دانتوں میں دبائے اسے دیکھے جارہا تھا۔۔
آپ کو میرے حلیے پر عتراض ہے؟
یا سلام نا کرنے پر؟
یا اچانک آنے پر؟
وہ بھی آج لڑنے کہ موڈ میں تھی۔۔۔
تو انگلیوں پہ گن کہ پوچھ رہی تھی انداز طنزیہ تھا۔۔۔
کیا مطلب ہے آپ کا؟؟
وہ ماتھے پہ بل لاکے پوچھنے لگا۔۔۔
میں جانتی ہوں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔۔۔
مگر میں نے یہ سب جان بوجھ کہ نہیں کیا۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کہ بولی۔
اور مجھے افسوس ہے کہ آپکے گیسٹ کو میرے جیسی جاہل ال۔مینرڈ۔ نانسینس لڑکی آپ کے گھر میں دکھائی دی۔۔۔
وہ یہ کہتے ہوئے مڑی۔۔
اور مسکراہٹ دباتی وہاں سے جانے لگی۔۔
جب کہ ساحل لاجواب سا ہو کہ اسکو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔۔چنگیز خان کو اسی کہ انداز میں ہرایا جاسکتا ہے۔۔۔ وہ خوش تھی اپنی ہمت کو داد دی(آئینے کے سامنے)۔۔۔۔
**** **** ****
وہ باہر نکلی لان کی طرف جانے لگی تو ساحل آتا دکھائی دیا ۔۔۔ کار پورچ سے گزر رہی تھی۔۔۔
ساحل پہ نظر پڑی تو
وہ گھبرا گئی اور اسکا پیر نجانے کیسے پھسلا۔۔۔
اور وہ ساحل پہ گرنے ہی والی تھی کہ اسنے پھرتی کا مظاہرہ کیا اور
حریم کو تھام لیا۔۔
حریم ابھی نہا کہ نکلی تھی۔۔۔
پانی کی بوندیں اسکے بالوں سے ٹپک رہی تھیں۔۔۔
ییلو کلر کے لونگ فراک پہ بلو دوپٹا پہنا تھا۔۔۔۔۔
ڈر کے مارے وہ آنکھیں نہیں اٹھا رہی تھی۔۔
ساحل اس پر سے ایک پل کو نظر نا ہٹا سکا۔۔۔۔
بمشکل حریم نے اپنا بیلنس قائم کیا اور اسکا بازو چھوڑا جو پکڑے ہوئی تھی۔۔
ساحل جینز اور ٹی شرٹ میں تھا۔۔۔
ہمیشہ کی طرح فریش دکھ رہا
تھا ۔۔۔
حریم کا چہرہ اسکے شانوں سے لگا تھا۔۔۔
ابھی ابھی جو پنک لپسٹک لگا کے آئی تھی اسکا نشان اسکی شرٹ پہ رہ گیا۔۔۔۔
جو ساحل نے نا دیکھا پر۔۔۔۔
حریم نے دیکھ لیا
خلاف ِ توقع ساحل نے اسے ڈانٹا نہیں بلکہ۔۔۔ دھیرے سے پوچھا
آر یو اوکے؟؟
اسنے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
سلیم۔۔۔۔۔ ساحل نے تیز آواز میں پکارا۔۔۔
جی سر۔۔۔
وہ بھاگتا ہوا آیا۔۔
یہاں پانی کیوں گرا ہوا ہے؟؟؟
ابھی مس حریم گرتے گرتے بچی ہیں۔۔۔
وہ اسکی طرف اشارہ کرتا ہو بولا۔۔۔۔
وہ سر جی میں میں گملوں میں نے پانی بھرا تھا
اور ابھی یہ صاف کرنے لگا تھا۔۔۔۔
جلدی صاف کرو۔۔۔
وہ جانے لگا تو حریم اسکے پیچھے آئی۔۔
ساحل۔۔۔۔اسنے پکارا۔۔
ساحل رکا اور پلٹا۔۔
یس؟؟
آج نجانے کیوں اسکا موڈ اچھا لگ رہا تھا
تبھی ہمت کر کے آگے آی۔۔
وہ آئ ایم سو سوری۔۔۔۔
وہ اٹک اٹک کہ بولی۔۔۔
فور وہاٹ؟
اسنے ابرو اچکاے۔۔۔
وہ۔۔۔اسنے اسکی وائیٹ ٹی شرٹ کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
جہاں پہ لپسٹک کا نشان رہ گیا تھا۔۔۔
آپکی کی شرٹ پہ نشان رہ گیا؟؟
کیا؟؟
کیسا نشان۔۔؟
وہ نا سمجھنے کے انداز میں اپنی شرٹ چیک کرنے لگا
تو پنک کلر کا دھبا دکھائی دیا۔۔۔
ساحل نے سختی سے لب پھنج لیے۔۔
وہ سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔۔
لیکن رک گیا۔۔۔
اور تیز قدموں سے اندر جانے لگا۔۔۔
۔۔۔
حریم بس اسے جاتا دیکھتی رہی۔۔۔۔
اپنے بیڈروم میں آکر ساحل مرر کے سامنے کھڑا ہو کے اپنی شرٹ چیک کرنے لگا۔۔۔
پنک نشان اسکے شولڈر پہ نظر آرہا تھا ۔۔۔
وہ نشان پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے سوچنے لگا۔۔۔
یہ اچھا نہیں ہوا ۔۔۔
یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔۔۔۔۔
**** **** ****
ساحل سکندر نے اپنا بچپن انگلینڈ میں گزارا تھا ۔
اپنی سٹڈیز ختم کرکے ہی اسے اجازت ملی تھی واپس آنے کی۔۔
ساحل کو اپنے وطن سے محبت تھی۔۔
اسے شدت سے انتظار ہوتا تھا کہ کب وہ اپنے وطن واپس آئے گا۔۔
سکندر حمدانی اپنے اصولوں کے پکے تھے۔۔
بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے باہر بھیجا لیکن انکو اپنی روایات بھولنے نہ دیں۔۔
ساحل جب واپس آیا تو یہاں بہت کچھ بدلا ہوا تھا۔۔
ایشال مرال کو سکندر اور زرین نے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ نے کے بجائے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔۔
انکی ساری زمدریاں نبھائیں تھیں۔۔
اب وہ ساحل کی ذمداری تھیں کیونکہ۔۔سکندر صاحب کی طبیت اب ٹھیک نہیں رہتی تھی ۔۔۔
پتہ نہیں کیوں انکو کبھی کبھی بہت ڈپریشن کا دورہ پڑتا تھا ااور وہ ہفتوں تک اپنی کمرے سے باہر نہیں نکلتے تھے اور۔۔۔
نہ کسی سے ملتے۔۔
ساحل کی عمر اتنی زیادہ نہیں تھی ابھی وہ تیس سال کا بھی نہیں ہوا تھا ۔لیکن اتنا بڑا بزنس اور سب کچھ اُسے اکیلے دیکھنا پڑتا تھا۔۔
اسی وجہ سے اسکے مزاج میں سختی سے آگئی تھی۔
سعد سکندر کو کسی بات سے کوئی سروکار نہیں تھا
ابھی اُسکی سٹڈیز چل رہی تھیں تو وہ ہر بکھیڑے سے دور تھا
اب حریم بھی ایک طرح سے اسکی زماداری بن چکی تھی کیونکہ وہ اسکے گھر میں تھی
اپنے والدین سے دور۔۔
وہ ہاسٹل میں رہنا چاہتی تھی۔۔
مگر ساحل سکندر نے زرین کو سختی سے منع کیا تھا کہ ہاسٹل کا ماحول اس کابل نہیں کہ وہ وہاں رہے۔۔
اتنا بڑا گھر ہے ۔۔۔
وہ یہاں رہ سکتی ہے۔۔۔
زرین جو کہ ساحل کے مزاج سے واقف تھی۔۔۔تبھی وہ چپ تھیں کہیں ساحل بھڑک نہ جاے کے۔۔۔
کیوں حریم یہاں رے لیکن جب اسنے خود یہ بات کی
تو زرین خوش تھیں بہت۔۔
اور اسی وقت حریم کے بابا کو فون کھڑکایا۔۔۔
اس کے بھروسے پہ وہ یہاں آئی تھی۔۔۔۔۔
کبھی ساحل اس پہ زیادہ سختی کرتا تھا
کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ کراچی میں پہلی بار آئی ہے۔۔۔
اسے نہیں پتا کہ یہاں کسی انجان شخص پہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔۔
اور حریم جیسی بیوقوف لڑکی کو الو بنانا کونسا مشکل کام تھا۔۔۔
یہاں تو اچھے اچھوں کو لوگ پاگل بنا کہ رکھ دیتے ہیں۔۔۔
لیکن جب سے زریں کی طبیعت خراب ہوئی تھی اس پہ حریم کا ایک اور روپ کھلا تھا۔۔۔
وہ بیوقوفیاں کرنے والی لڑکی بہت سی عقلمندانہ باتیں کر رہی تھی۔۔۔
کس طرح اسنے اسکا ساتھ دیا ہاسپٹل میں۔۔
زرین کا اتنا خیال رکھا ۔۔۔
کون کرتا ہے اتنا۔۔۔
اب ساحل زرین کو زیادہ وقت دینے لگا تھا اس کے دل میں ڈر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
زرین سے باتوں میں اسے پتا چلا کہ زرین بھی جوانی میں بلکل حریم کی طرح تھیں۔۔۔وہ انکے قصے سننے لگا۔۔
کیسے وہ سب کے ناک میں دم کیے رہتیں تھیں۔۔۔
اچھا مام۔۔۔میں بلا وجہ حریم کو سمجھانے میں اپنا ٹائم ویسٹ کر رہا ہوں ۔۔پہلے تو آپ پہ کرنا چاہیے تھا۔۔وہ بھی ہنسنے لگا۔۔۔
اندر آتی حریم نے سن لیا تھا۔۔۔
یہ میرا نام کس خوشی میں لیا جارہا ہے وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کہ پوچھنے لگی تو۔۔
وہ دونوں مسکرا دییے۔۔۔
آج یونی میں اسے غالب نظر آیا۔۔۔۔
اس وقت وہ دور تھی اُسنے سوچا فری پریڈ میں اسے ملے گی ۔۔۔۔لیکِن بعد میں وہ اُسے کہیں نظر نہیں آیا۔۔۔اُسنے بہت دیکھا مگر کہیں نظر نہ آیا ۔۔۔۔
اُسے سخت غصہ آرہا تھا کے وہ اسی وقت کیوں نہ گئی اس کے پاس۔۔۔
اُسنے نمرہ سے پوچھا ۔۔۔
سنو تم غالب کو جانتی ہو؟؟
کون مرزا غالب؟؟
وہ وہ اپنی بیگ سے کچھ نکال رہی تھی۔۔
ارے نہیں بھٸی وہ غالب نہیں میں اُسکی بات کر رہی ہوں جو یہاں یونی میں پڑھتا ہے۔۔۔
میں بھی تو اسی کی بات کر رہی ہوں ۔۔۔
وہ مزے سے چھالیہ منہ میں ڈالتی ہوئی بولی۔۔۔
ہیں اُسکا نام بھی مرزا غالب ہے؟؟
وہ حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔
اصل میں اُسکا نام جہاں زیب ہے غالب تو اُسکا تخلص ہے۔۔۔
اُس نے بتایا
کیا وہ کیا ہوتا ہے؟؟
اسکے سر سے گزر گیا۔۔۔
اوہو بھئی جو شاعر ہوتے ہیں نہ اُنکا نام کچھ اور ہوتا ہے اور وہ اپنی پہچان کسی اور نام سے بناتے ہیں۔۔
وہ اُنکا تخلص ہوتا ہے۔۔۔
اب اس سے آگے مت پوچھنا اس سے زیادہ تفصیل نہیں بتا سکتی میں۔۔۔
اُسنے ہاتھ جوڑے۔۔۔
اچھا بابا وہی۔۔۔ اب بتاؤ وہ کونسی ایئر میں ہے کونسے ڈپارٹمنٹ میں ہے ؟
میں کچھ نہیں جانتی بہن مجھے معاف کرو۔۔۔
اور تم کیوں اُسکی بارے میں اتنا پوچھ رہی ہو؟؟؟
وہ آنکھیں گھما کے پوچھنے لگی
ایسے لڑکوں سے دور رہو سمجھیں۔۔۔
کیاکیا ؟مطلب ایسے لڑکوں سے؟؟؟
وہ حیرت میں تھی
غالب جیسے۔۔
وہ بولی۔۔۔
نمرہ پلیز مجھے صحیح سے بتاؤ کیا وہ اچھا لڑکا نہیں ہی؟؟
وہ سچ میں پریشان ہوگئی تھی۔۔۔
ویسے مجھے کچھ خاص نہیں پتہ مگر۔۔
اُسکی شہرت کچھ اچھی نہیں ہے۔۔۔
چلو میں تو جارہی ہوں باۓ۔۔۔۔
وہ اٹھ کے جانے لگی۔۔۔
حریم اُسے جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کیا واقعی وہ اچھا لڑکا نہی تھا ؟وہ سوچنے لگی۔۔۔
مگر میری تو اسی نے ہیلپ کی تھی۔۔
وہ بینچ پہ بیٹھی سوچوں میں گم تھی
کے کوئی آکر ببینچ پہ اس کے ساتھ بیٹھا۔۔۔
میرے بارے میں سوچ رہی ہو نا؟
حریم اچانک اچھلی ۔۔
کون؟
اُسنے دیکھا تو غالب تھا۔۔۔
آ آ آپ؟؟؟ وہ حیرت سے بولی۔
جی ممم میں۔۔۔۔ وہ بھی شرارت سے اُسکی نکل اُتار کے بولا۔۔۔
حریم آئیں بائیں شائیں کرنے لگی۔۔
دیکھیں میں بھلا آپ کے بارے میں کیوں سوچونگی وہ پوچھنے لگی۔۔
اچھا مجھے لگا کے آپ نے ابھی میرا نام پُکارا تھا۔۔۔
وہ کیا ہے نہ کوئی میرا نام لیتا ہے
تو مجھے پتہ چل جاتا ہے۔۔
۔وہ بینچ پہ ٹیک لگا کہ دونوں ہاتھوں کو گردن کہ پیچھے رکھ کے بیٹھا تھا۔۔
حریم کی شکل دیکھنے والی تھی جیسے اسکی چوری پکڑی گئی ہو۔۔۔
میں آپ کو تھینکس کہنا چاہتی تھی۔۔۔
اب وہ ریلیکس تھی۔۔
اوکے کہہ دیں اتنا سوچ کیوں رہی ہیں۔۔۔
وہ اسی انداز میں بیٹھا تھا۔۔
کیا؟
وہ پوچھنے لگی۔۔۔
دیکھا ابھی آپ نے خود کہا تھا کہ آپ تھینکس کہنا چاہتی ہیں اب مکر رہی ہیں۔۔
اوہ حریم سخت جل بھن گئی۔۔۔
جی بہت بہت شکریہ۔۔ اسنے چبا چبا کے کہا۔۔۔
ویلکم جی۔۔بہت ںہت۔۔وہ بھی مسکرانے لگا۔۔
حریم کا موڈ آف ہوچکا تھا۔۔۔
سنو مس حریم فاطمہ۔۔۔
اب وہ نہایت سنجیدہ صورت بنا کہ بولا۔۔۔
آپ کو میرا نام یاد ہے؟؟؟
حریم پھر سے حیران
ہوئی۔
یہاں پہ بہت سے لوگوں کو آپ کا نام یاد ہوگا۔۔۔
جس دن آپ لسٹ میں اپنا نام چیک کر رہی تھیں
وہاں بہت سے لڑکے لڑکیاں تھیں
اور جب آپ نے کہا تھا کہ آپکا نام لسٹ میں نہیں اور پھر پتا چلا تھا کہ آپ کا نام ٹاپ آف دی لسٹ ہے۔۔۔
اس دن کچھ اچکوں نے بھی آپ کا نام یاد کرلیا تھا۔۔
یہاں لوگ وہیں پر اٹیک کرتے ہیں جو لوگ معصوم دکھتے ہیں۔۔۔
اور پھر انکو اسے پھنساتے ہیں کہ ۔۔۔۔وہ آگے کچھ نہ بولا۔۔
لیکن آپ اس لڑکے کو جانتے تھے اسکا فون نمبر بھی تھا آپ کے پاس۔۔۔
وہ ماتھے پہ بل لا کہ پوچھنے لگی۔؟
کہیں۔۔
۔وہ کچھ کہتے کہتے رکی۔۔
بول دو کہ میں بھی اس کے ساتھ ملوث تو نہیں۔۔۔
وہ ہلکے سے ہنسا۔۔۔
نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا لیکن آپ نے اسے جانے کیوں دیا؟؟
میں اس لڑکے کو جانتا ہوں اور اس جیسے کافی لڑکوں کو جانتا ہوں جو یہاں پر بھولے بھالے اسٹوڈنٹس کو لوٹتے ہیں۔۔
یہ لوگ یہاں پڑھتے نہیں ہیں۔۔
نا یہاں کوئی کام کرتے ہیں۔۔
بس کسی بہانے سے اندر گھس آتے ہیں اور ہاتھ کی صفائی دکھا جاتے ہیں۔۔۔
اگر آپ انکو جانتے ہیں تو شاید آپ بھی ان جیسے ہوسکتے ہیں۔۔وہ بولی۔۔
وہ اٹھا اور جانے لگا بنا کوئی جواب دیے ۔۔۔
وہ بھی اسے جاتا دیکھے گئی۔۔۔
چور کا دوست بھی چور ہوتا ہےکیا؟
وہ خود سے پوچھنے لگی…
******** **** ** **
وہ گھر پہنچی تو وہاں کچھ لوگ آۓ ہوئے تھے
وہ قریب آئی تو خوشی سے چیخ پڑی امممی ۔۔۔۔
اور جاکے ان کے گلے لگ گئی۔۔۔
بابا بھی آۓ ہیں؟؟؟ وہ پوچھنے لگی۔۔
ہاں وہ بھی آۓ ہیں۔۔۔۔
امی کی خوشی انتہا پہ تھی
حریم کو دیکھے جارہیں تھیں
کب سے نہیں دیکھا تھا میں نے تجھے۔۔
۔وہ اسکا ماتھا چومتے بولیں۔۔۔
رہنے دیں امی روز تو ویڈیو کال میں دیکھتی ہیں۔۔وہ بھی ہنسنے لگی۔۔۔
بابا کدھر ہیں وہ دائیں بائیں نظریں گھما کہ بولی۔۔۔
وہ آرہے ہیں بیٹا ابھی سکندر بھائی کے کمرے میں ہیں۔۔۔
امی آپ نے بتایا تو ہوتا کہ آپ لوگ آرہے ہیں۔۔۔
۔۔وہ انکی گلے میں بانہیں ڈالے کہہ رہی تھی۔۔
بیٹا ہم تم سے ناراض ہیں۔۔۔۔
وہ خفگی دکھانے لگیں۔۔
ہیں وہ کیوں بھلا کیا کردیا میں نے وہ حیران پریشان ان کو دیکھنے لگی۔۔
زرین باجی کی اتنی طبیعت خراب تھی تم نے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا؟؟۔۔۔
اوہ امی وہ میں آپ کو بتاتی تو آپ اور بابا پریشان ہوجاتے۔۔
اور مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہاں پہ ساحل بھائی ناراض نا ہو جائیں کہ آپ لوگوں کو کیوں بتایا۔۔۔۔
وہ ان کو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہی تھی کہ۔۔۔ساحل کو یہ سب پسند نا آتا شاید۔۔
لو ساحل کو کیوں برا لگتا بھلا کیوں ساحل بیٹا؟۔۔۔امی نے کہا تو وہ اچھل کہ مڑی۔۔
(یہ کہاں سے آن ٹپکا)
ساحل ابھی ابھی آکر بیٹھا تھا ۔۔
اور غور سے حریم کو دیکھ رہا تھا۔۔۔
وہ گھبرا گئی تھی۔۔۔
اسے دیکھ کہ۔۔۔
نیوی بلو سٹائلش سی شرٹ میں اسکا گورا رنگ دمک رہا تھا۔۔
آج وہ اسے غور سے دیکھے جارہا تھا
وہ بہت دلکش تھی۔۔۔
اسکے چہرے پہ اسکی معصومیت اسکو اور دلکش بناتی تھی۔۔۔
حریم نے اسے دیکھا تو ساحل نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔۔
کہیں یہ کچھ غلط تو نہیں سمجھ رہے کہ میں
انکی برائی کر رہی تھی۔۔وہ پریشان تھی اور شرمندہ بھی۔۔۔
آنٹی اب آپ لوگ آرام کر لیں میڈ نے آپکا روم سیٹ کردیا ہے۔۔۔
ساحل مسکرا کہ بولا۔۔
حریم آپ بھی جا کہ فریش ہو جائیں انکل آنٹی کو آرام کرنے دیں وہ لمبا سفر طے کر کے آۓ ہیں۔۔۔
اسنے حریم کو مخاطب کر کے کہا۔۔۔
صوفے پہ ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کہ بیٹھا تھا اور
اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کہ بات کر رہا تھا
حریم بہت گھبرا جاتی تھی جب وہ اسے اتنے غور سے دیکھتا تھا
جی ساحل بھائی۔۔۔۔
وہ امی کا ہاتھ پکڑ کہ اٹھی انکو ان کے بیڈروم میں لے گئی۔۔۔
اسے امی سے بہت سی باتیں کرنی تھیں لیکن چنگیز خان کے ہوتے ہوئے یہ کہاں ممکن تھا۔۔۔
اب بندہ ماں باپ سے بھی بات نہ کرے
اس کے لیے بھی وقت دیکھنا پڑے گا۔۔۔
اس کا موڈ سخت آف ہوچکا تھا
امی کو روم میں لے جا کے بابا کا ویٹ کرنے لگی
کچھ دیر میں بابا آگئے۔۔
وہ ان کے گلے لگی رہی کافی دیر تک بابا ہنسنے لگے
کیا ہوا میری گڑیا کو بہت پیار آرہا ہے اپنے بابا پہ۔۔۔
اپنے بابا پہ تو ہر وقت پیار آتا ہے مجھے وہ الگ ہو کے لاڈ سے بولی۔۔۔
اب آپ دونوں آرام کریں
شام کو ملتے ہیں۔۔
ورنہ ساحل بھائی مجھ پہ غصہ ہونگے کہ
آپ لوگوں کو آرام نہیں کرنے دیا
وہ اب کمرے سے جانے لگی
ہاں بیٹا بہت تھکن ہو رہی ہے۔۔۔۔
بابا کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی تھی
سفر نہیں کر پاتے تھے۔۔
وہ مسکرا کہ جانے لگی
کمرے میں آکر وہ اپنا فون چیک کرنے لگی۔۔۔
تو ایک مسڈ کال تھی۔۔۔
چنگیزخان کے نمبر سے۔۔۔
افف یہ نام تو چینج کردوں کسی دن ان کو پتا لگا تو میری خیر نہیں
وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کیوں کال کی تھی اسنے؟
کہیں اسی لیے تو وہ مجھے نہیں گھور رہے تھے کہ میں نے انکی کال ریسیو نہیں کی۔۔
اس نے اپنا سر پکڑا۔۔
_________________
امی بابا سے سے ڈھیروں باتیں کی اسنے آج جم بھی نہیں گئی تھی
اپنی یونی کی باتیں بتائیں
سوائے بیگ چھن جانے والے واقعے کے۔۔
امی نے بتایا کہ ان کو آنٹی نے بلایا تھا
وہ ناراض تھیں کہ ہم نے ان سے انکا حال تک نہ پوچھا۔۔۔
بھلا بتاؤ ہمیں کون بتاتا جب اپنی بیٹی تک نے بتانا ضروری نہیں سمجھا۔۔
امی اب بھی اس سے خفا تھیں
امی اب چھوڑ بھی دیں اس بات کو۔۔
وہ لاڈ سے منانے لگی
نہیں بیٹا بھلے سے ہم باجی کے جتنے امیر نہیں ہیں لیکن ہیں تو انکا میکہ ہی نا۔۔۔
ان کا کتنا دل دکھا ہو گا کہ بھائی نے حال تک نا پوچھا۔۔۔
وہ بس سنتی رہی۔۔
وہ بتاتی تو امی بابا اسی وقت آجاتے اور وہ
ساحل سے ڈر رہی تھی
کہ کہیں وہ ناراض نا ہو جائیں کہ پہلے ہی ہم پریشان ہیں اوپر سے انکل آنٹی کو بھی پریشان کردیا۔۔۔
بھلا انکو کیا پتا کہ مڈل کلاس لوگ ایسے میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے بھی ہیں اور
ایک دوسرے کا ساتھ چاہتے بھی ہیں۔۔
ورنہ امیر لوگ تو رشتےداروں سے دور بھاگتے ہیں
اکیلا پن انہیں مار ڈالتا ہے لیکن پھر بھی ایک دوجے کا درد نہیں بانٹتے۔۔۔
وہ سوچتی رہی۔۔۔
ڈنر کے وقت سب خوش گوار ماحول میں باتیں کر رہے تھے۔۔
باجی حریم آپکو تنگ تو نہیں کرتی۔۔
امی نے مسکرا کے پوچھا۔۔
تو وہ امی کو گھور کے رہ گٸی۔۔
ارے نہیں یہ کہاں تنگ کرتی ہے بلکہ اس نے تو میرا بہت خیال رکھا ۔۔۔
اگر حریم نہ ہوتی تو میں تو ڈپریشن سے ہی مر جاتی۔۔۔
آنٹی اسے پیار سے دیکھ رہی تھیں
ارے باجی اللہ نہ کرے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ مریں آپ کے دشمن ۔۔۔
امی گھبرا گئیں تھیں۔۔۔
آنٹی ہنسنے لگیں۔۔۔
ساحل چپ چپ سا تھا
اسے لگا کہ کہیں وہ امی بابا کی وجہ سے توچپ چپ نہیں
ساحل بھائی
آپکی مس کال تھی؟ سوری مجھے پتا نہیں چلا کہ کس وقت فون بجا۔۔۔
اسنے ہمت کر کے اچانک اسے مخاطب کیا
تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔۔
کوئی کام تھا؟؟
اسنے پھر سے پوچھا۔۔۔
ابکی بار وہ کھانا کھاتے ہوئے رکا اپنا چمچ پلیٹ میں رکھ کہ اچھے سے ریلکس ہو کے
بولا
وہ کیا ہے کہ یہ بات میں آپ کو سب کے سامنے نہیں بتا سکتا ۔۔۔تو اب آپ اس بات کو رہنے دیں۔۔۔
وہ چھبھتے ہوئے لہجے میں بولا تو ۔۔۔
حریم کو سانپ سونگھ گیا۔۔
باقی سب بھی خاموش ہو گئے
امی عجیب سی نظروں سے حریم کی طرف دیکھنے لگیں۔۔۔
حریم ۔۔۔
امی نے اسے پکارا
جی امی۔۔
وہ امی کی گود میں سر دیے لیٹی ہوئی تھی
بیٹا یہ ساحل کس بات کا ذکر کر رہا تھا؟
میں تو پریشان ہوگئی ہوں۔۔۔
۔
جس بات سے وہ ڈر رہی تھی وہی ہؤا۔ امی کو وہ بات نہیں بھولی تھی۔۔
امی ایسا کچھ نہیں ہے وہ ساحل بھائی تھوڑے سخت مزاج ہیں اس لیے ۔۔۔
ہوسکتا ہے میں نے انکی کال اٹینڈ نہیں کی تو ان کو برا لگا۔۔۔
وہ امی کو سمجھا رہی تھی لیکن امی کی نظروں سے لگ رہا تھا کہ وہ مطمئن نہیں ہوئی ہیں۔۔
اس کھڑوس کی ایسی کی تیسی ۔۔۔ وہ دل ہی دل میں ساحل کو کوستی اٹھی۔۔۔
امی جان اب آپ سو جائیں۔۔۔
مجھے بھی نیند آرہی ہے ۔۔۔وہ مصنوعی جماہی لیتی بولی۔۔
ارے میری بچی ہاں تو سوجا تھکی ہوئی ہوگی۔۔۔
صبح سویرے جاگتی ہوگی پھر یونیورسٹی جانا ہوتا ہے آج بھی تو کتنی دیر سے واپس آئی۔۔۔
امی اسیے گلے سے لگاتی ہوئی بولیں۔۔
امی یہ آپ کو اتنا پیار کیوں آرہا ہے۔۔۔
وہ شرارت سے مسکرای۔۔۔
پگلی ماں کو اپنے بچوں پہ ہر دم پیار آتا ہے لیکن تیری
حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں وہ ہنسنے لگیں۔۔
حریم میں نے منہ ںسورا۔۔۔۔
_____________________
وہ اپنے کمرے میں تھی اور بیچینی سے ٹہل رہی تھی یہاں سے وہاں۔۔۔
آخر کیا بات کرنی تھی ساحل کو جو سب کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔۔۔
اسے اپنے آج کے سارے قصور یاد آرہے تھے۔۔۔
کیا اسنے مجھے غالب کے ساتھ دیکھا؟؟
نہیں اتنا تو کنزرویٹو نہیں لگتا کہ مجھے کسی سے بات کرتا دیکھ اتنا غصہ کرے۔۔۔
یا اسنے مجھے چھالیا کھاتے دیکھا؟؟
میں تو چھالیہ کھاتی بھی نہیں زبردستی نمرہ نے کھلائی تھی۔۔۔
وہ اس وقت کو کوس رہی تھی کہ اسنے نمرہ کے کہنے پہ چھالیہ منہ میں ڈالی تھی۔۔۔
لیکن اس وقت تو میں یونی میں تھی اور چنگیز خان اپنے آفس میں ہوگا۔۔۔
آخر ایسا بھی کیا ہوا تھا جو مجھے سب کے سامنے نہیں بتا سکتا تھا۔۔۔
میں ایسے نہ مری تو ویسے ہی مر جاؤنگی۔۔۔
اسنے فون اٹھایا اور۔۔۔
اور چنگیز خان کو میسج بھیجا۔۔۔۔
ایسا کون سا کام تھا جو آپ سب کے سامنے نہیں بتا سکتے تھے۔۔۔؟
میسج واٹسپ پہ کیا تھا تاکہ تسلی ہو کہ سین کیا کہ نہیں۔۔۔
لگتا ہے فون ساحل کہ ہاتھ ہی میں تھا ۔۔
جبھی ایک منٹ میں سین کرلیا۔۔
اب دل کی دھڑکن بہت بڑھ گئی تھی۔۔۔
اف کیا میں نے میسج کر لے غلطی کردی۔۔۔؟
وہ اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی۔۔
وہ بس فون کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔
چنگیز ٹائپنگ۔۔۔
اف اب یہ کیا بولے گا۔۔۔
ایک دم سے اسنے فون بیڈ پہ پھینکا اور دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا۔۔۔
میسج کی بیل بجی۔۔۔
اسنے ڈرتے ڈرتے فون اٹھایا۔۔۔
اور میسج اوپن کیا۔۔۔
میں آپ کو لنچ پہ لیکر جانا چاہتا تھا۔۔۔
ہاہ اسکا منہ کچھ زیادہ ہی کھل گیا جسے اسنے ہاتھ سے بند کیا۔۔۔
وہ غور سے میسج پڑھتی جارہی تھی بار بار
کہیں میں کچھ غلط تو نہیں پڑھ رہی۔۔۔
آخر کار اسنے ایک میسج پھر بھیجا۔۔۔
مگر کیوں؟؟
ابکی بار اسنے وائس نوٹ بھیجا۔۔۔
مس حریم لنچ پہ کیوں جایا جاتا ہے؟؟
بہت ہی پر سکون کہنا تھا اسکا۔۔۔
حریم نے خود کو کوسا ڈفر۔۔۔کہیں کی۔۔۔
اسنے بھی وائس نوٹ بھیجا۔۔۔
لیکن آپ مجھے کیوں لیجانا چاہتے تھے۔۔۔؟
وہ اس لیے کہ میرا دماغ خراب ہوگیا تھا
اب پلیز مجھے ڈسٹرب نہ کریں۔۔۔
ابکی بار وہ پھر سے روڈ ہوگیا
وہی ازلی اکھڑ پن۔۔۔
اب تو حریم کو بھی غصہ اگیا۔۔
لیکن یہ بات ایسی تو نہ تھی کہ آپ سب کے سامنے نا بتاسکتے۔۔۔
سب لوگ میرے بارے میں کیا سوچ رہے ہونگے۔۔۔
اسنے نوٹ بھیجا لیکن اسی وقت ڈلیٹ فور ایوری ون دبا دیا۔۔۔
اور گہری سانس خارج کی۔۔۔
بدلے میں وہا سے بھی ایک نوٹ آیا اور آتے ہی ڈیلیٹ ہوگیا۔۔۔
حریم کو تجسّس ہوا۔۔۔
آخر کار پوچھ لیا
کیا ڈلیٹ کیا؟؟
اگر یہی سوال میں کروں تو؟
وہ خالی میسج تھا۔۔۔
اسنے جوٹھ بولا
میرا بھی خالی تھا اور میں جوٹھ بالکل نہیں بول رہا۔۔۔
اسے کیسے پتا چلا کہ میں جوٹھ بولا۔۔۔
وہ اب بھی آن لائن تھا۔۔
کھڑوس۔۔۔دل میں سوچا
نانسینس۔۔
ساحل مسکرایا۔۔۔
پتا نہیں کیوں اسے اچھا لگرہا تھا اس سے چٹ چیت کرنا۔۔۔
اجکل ساحل کو اس پہ غصہ بھی نہیں آتا تھا
وہ اپنی بھرپور کوشش کرتا تھا کہ حریم پہ سختی کرے لیکن اس سے نہیں ہو پارہا تھا۔۔
حریم اسکی ڈی پی دیکھ رہی تھی۔۔
جس میں وہ ہمیشہ کی طرح فریش لگ رہا تھا اور اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔
ساحل کے مسکرانے کا انداز ہی ایسا تھا
وہ مسکراتے وقت اپنے ہونٹ ایک طرف سکیڑ لیتا تھا
اور یہی ادا اسکی شخصیت کو اور جازب ِنظر بناتی تھی۔۔
حریم سوچ رہی تھی باقی لڑکے کیسے منہ پھاڑ کے ہنستے ہیں اور ایک یہ ہیں۔۔۔
کبھی کسی سے مسکرا کے بات کرلیں تو خوشی سے مرجاے۔۔۔
حریم کا دل کیا چاۓ پینے کو۔۔۔
وہ اٹھی ۔۔لیکن پھر بیٹھ گئی۔۔
کیا پتا وہ آج پھر نمودار ہوجاے۔۔۔
لیکن وہ کسی کام میں بزی ہے شاید۔۔
چلو حریم یہ رسک بھی اٹھاتے ہیں۔۔
وہ چوری چھپے نکلی اندھرے میں احتیاط سے قدم اٹھاتی۔۔
کچن کی طرف جارہی تھی ادھر ساحل بھی چاے کی تلاش میں نکلا تھا دونوں نے ساتھ میں انٹری دی جس کے نتیجے میں حریم کا سر زور سے دروازے کی چوکھٹ سے لگا۔۔
ساحل نے جلدی سے لائٹس آن کیں حریم اپنا سر پکڑے ہوئے تھی ۔۔۔
آپ پھر باہر نکلیں ۔۔
وہ اسے گھور رہا تھا۔۔
حریم کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔
اب رو کیوں رہی ہیں؟
وہ ڈپٹ کر بولا۔۔۔
میرا سر پھوٹا ہے مجھے رونا آرہا ہے۔۔وہ آنسو پونچھتے ہوئی بولی
اوہو اور یہاں میری قسمت پھوٹ گئی ہے اور مجھے بلکل رونا نہیں ارہا۔۔
وہ اسکا مذاق اڑاتا فریج کی طرف جانے لگا
وہ اپنے۔انسو صاف کرتی واپس جانے لگی۔۔۔
سنیں۔۔۔
وہ رکی۔۔
کیا زیادہ چوٹ لگی ہے؟؟
وہ اس کے آگے آیا۔۔
نہیں وہ جانے لگی تو ساحل نے اسکی کلائی تھام لی۔۔
ایک پل کو حریم سن ہوگئی۔۔
اور جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑایا
سوری میں یہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔پتا نہیں کیسے ہوگیا۔۔
ساحل۔سکندر پہلی بار گھبرا گیا تھا اس کے سامنے۔۔
آپ۔چاۓ پینے آئین تھیں نا میں بھی اسی لیے آیا تھا۔۔۔
وہ سخت شرمندہ تھا۔
حریم کے ہونٹوں پہ شریر سی مسکراہٹ آئی۔۔
مجھے رات کو چاۓ کی طلب ہوتی ہے۔۔
وہ منہ بسورے ہوے بولی
اور آپ آئندہ مجھے منع نہیں کریں گے رات کو کچن میں آنے سے۔۔
وہ سمجھ گئی تھی ساحل اپنی حرکت پہ شرمندہ ہے تو یہ ہی وقت تھا اپنی باتیں منوانے کا۔۔
وہ اسے دیکھتا رہا۔۔
اور بولا
آپ کو میں آپکے روم میں چاۓ پہنچا دیا کرونگا اوکے۔۔۔
اف اس بندے کو زیر کرنا مشکل۔کیوں ہے۔۔
میں روز اس وقت چاۓ پیتا ہوں۔۔
جب بنانے لگونگا تو آپ کو ٹیکسٹ کردونگا۔۔۔
وہ جتانے والے انداز میں بولا
حریم سمجھ گئی کہ یہ بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی۔۔۔
کھڑوس کہیں کا ایک تو میرا سر پھوڑ دیا اوپر سے نخرے تو دیکھو۔۔۔
وہ جل ہی تو گئی
ساحل چاۓ بنارہا تھا۔۔
بیوقوف لڑکی سمجھتی ہے مجھے الو بنا لےگی۔۔
وہ چاۓ بناتا سوچ رہا تھا۔۔
سنیں میری چاے میں پتی کم ہو آپ کچھ زیادہ ہی سٹرانگ پیتے ہیں۔۔
وہ بول پڑی۔۔
وہ چپ تھا چائے بن گئی تو حریم کے پاس آکر اسے مگ تھمایا۔۔
مس حریم میں آپ کو چاۓ پینے سے یا کچھ بھی کھانے سے منع نہیں کرتا ۔۔
لیکن اگر میں یہ رولز ہٹا دوں تو سب اپنی من مانی کرنے لگیں گے۔۔
ساری رات جاگتے رہیں نگے اور پھر آنے کام پہ اپنی تعلیم کے لیے وقت نہیں ملےگا کیوں کہ پھر آپکا دماغ سوتا رہےگا۔۔
وہ اپنی کنپٹی پہ انگلی رکھ کے سمجھا رہا تھا۔۔
لیکن چاۓ سے تو نیند اڑ جاتی ہے میں نے سنا ہے۔۔
پھر آپ چاۓ پینے سے کیوں منع نہیں کرتے ۔۔۔؟
وہ بھی پوچھنے لگی۔۔
میری تو نہیں اڑی آج تک۔۔وہ ہلکا سا مسکرایا۔۔۔
آپکی اڑ جاتی ہے؟
وہ پوچھتے ہوئے پلٹا اور اپنا مگ بھرنے لگا کیوں کہ حریم کی چائے نارمل نکالی تھی۔۔اور اپنی اسٹرانگ بنانی تھی۔۔
نہیں شاید۔۔یا کبھی میں نے غور نہیں کیا وہ اٹھتے ہوئے بولی
تھینکس فور دس وہ چاۓ کے بجاے اپنے گومڑ کو ہاتھ لگا کہ بولی۔۔
تو ساحل نے تاسف سے منہ پھیرا۔۔
یہ لڑکی نہیں سدھر سکتی کبھی۔۔۔
وہ اپنے مگ میں چمچ ہلاتا سوچ نے لگا۔۔۔
_________________
آج دوپہر کو نجانے کیوں اسکا دل کیا کہ حریم کو بھی اپنے ساتھ لے چلے لنچ پہ کسی اچھی جگہ۔۔۔
اسے وہ دن یاد آگیا تھا جب وہ۔۔
اس کے ساتھ بوکھی پیاسی بیٹھی رہی تھی۔۔
اور ہاسپٹل کی چائے اور سینڈوچ کو بھی منہ نہیں لگا یا تھا۔۔
وہ اس دن کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔۔
تبھی اس نے اسے کال کی تھی جو اس نے ریسیو نہیں کی۔۔
ساحل نے لنچ کا پروگرام کینسل کردیا لیکن وہ گھر پہنچا تو انکل آنٹی کو دیکھ خوشی ہوئی اسنے ان کے ساتھ ہی لنچ کیا ۔۔
لیکن اس پاگل لڑکی نے سب کے سامنے پوچھ لیا
جس پہ اس کا پارہ ہائی ہو گیا۔۔
کسی کو بتانے کی کیا ضرورت تھی کہ میں نے اسے کال کی تھی۔۔
اسے رہ رہ کے اسی بات پہ غصہ آرہا تھا۔۔۔
لیکن وہ۔ایسی تو کوئی بات نہیں تھی ساحل سکندر کے تم اسے چھپاتے؟
اس کے اندر سے آواز آئی۔۔
کیا تمہارے دل میں کوئی چور ہے؟؟
ساحل نے بے دھیانی میں دل پہ ہاتھ رکھا۔۔
______________
بھابھی آپ لوگ آج ہمارے ساتھ پکنک پہ چلینگے۔۔
زرین بہت خوش تھیں۔۔
حریم مرال آپ سب بھی آج گھر پہ ہی رہنا میں نے سب تیاریاں کروالی ہیں
واقعی؟؟
سب سے پہلے حریم نے جوش سے پوچھا۔
بڑا مزا آنے گا ہے نا مرال۔۔وہ مرال کو دیکھ کے بولی۔۔
آف کورس مرال کے چہرے میں بھی خوشی نظر آرہی تھی۔۔
جب کی ایشال آدم بیزار قسم کی لڑکی تھی اسنے پہلے ہی منع کردیا۔۔
ساحل تمہیں بھی چلنا ہے ہمارے ساتھ۔۔ زرین نے کہا۔۔
امم مجھے تو شاید ٹائم نا ملے۔۔وہ سوچتا ہوا بولا
تو حریم جو اپنا سانس روک کے اسکا جواب سن رہی تھی
اب آرام سے سانس خارج کی اور مسکرادی۔۔
شکر ہے یہ نہیں چل رہا۔۔ ورنہ اس کے ہوتے ہوئے کیا خاک مزا آۓ گا۔۔
اسنے سوچا
خوش کتنا ہورہی ہے میرے نا جانے کا سن کے
میں کون سا اسے کھا جاتا ہوں جو ایسی شکلیں بناتی ہے سٹوپٹ گرل۔۔
ساحل بھی دل ہی دل میں اسکو سناتا ناشتہ کر رہا تھا۔۔
اچھا مام میں چلتا ہوں وہ اٹھا اور جانے لگا۔۔
بڑا پیارا بچا ہے ساحل امی نے پیار بھری نظروں سے اسے جاتے دیکھا
تو حریم نے عجیب سا منہ بنایا
امی کو بھی پتا نہیں کیا نظر آتا ہے اس میں۔۔۔
وہ بھی اٹھی تیاری جو کرنی تھی
گیارہ بجے وہ سب نکل پڑے ہاکس بے کی طرف حریم نے سمندر کبھی نہیں دیکھا تھا
وہ بہت خوش تھی
سمندر کو دیکھ کہ ہی اسے پتا نہیں کیا ہوا وہ بھاگتی ہوئی پانی کی لہروں کے ساتھ جا ملی۔۔
امی آئیں نا آپ بھی وہ امی کو بھی ساتھ کھینچ رہی تھی جو کہ دور کھڑی تھیں۔۔
نا بابا مجھے تو معاف ہی رکھو۔۔
امی نےکانوں کو ہاتھ لگایا۔۔
تو وہ ہنستی ہوئی آگے جانے لگی۔۔
وہ اور مرال ریس لگا رہی تھیں۔۔
پانی کی بڑی لہر کو دیکھتیں تو واپس بھاگتی تھیں
سارا دن انہوں نے وہیں گزارا تھا۔۔
پھر وہ ڈنر کرنے گئیے تھے دو دریا۔۔۔
سچ ہے سمندر انسان کو پاگل بنا دیتا ہے اسنے سوچا۔۔۔۔
حریم اور مرال بات بے بات ہنس رہیں تھیں۔۔
آج انکو موقع جو ملا تھا کھل کے ہنسنے کا ورنہ ساحل کے ڈر سے سانس بھی نہیں لے پاتی تھیں
حریم تو خیر بستیی پروف تھی
لیکن مرال کو اپنی عزت پیاری تھی سو وہ بہت احتیاط کرتی تھی۔۔
وہ رات کے 10 بجے واپس آئیں تھیں ۔۔
جب لاؤنج میں انٹر ہوئے تو دیکھا ساحل وہیں پے بیٹھا ہوا تھا
کیوں کے کل سنڈے تھا تو آج رات پابندی نہی تھی۔
اُن سب کو دیکھ کے ہلکا سا مسکرایا۔۔
آنٹی کیسا رہا آپکا آج کا دن؟
وہ امی سے مخاطب تھا۔۔
ارے بیٹا میں تو بہت تھک گئی یہ لڑکیوں کو تو بہت مزا آیا ماشاللہ۔۔۔
وہ انکی طرف اشارہ کرتی ہوئی بتانے لگیں۔۔
اور یہ حریم تو مت پوچھو پاگلوں کی طرح ادھر سے اُدھر بھاگی جارہی تھی۔۔۔
وہ ہنسنے لگیں
حریم کی شکل پے جو مسکراہٹ تھی اب وہ غائب ہو چکی تھی۔۔
امی بھی نہ۔۔۔وہ دل مسوس کے رهگئی۔۔
ساحل اُسے دیکھ رہا تھا۔۔اس لڑکی کے پاگل ہونے میں کوئی شک نہیں۔۔۔ اُسنے دل میں سوچا۔۔
مرال وہ سے کھسک چکی تھی اُسنے پیچھے دیکھا وہ نہیں تھی۔۔۔
حریم بھی آہستہ سے کھسک گئی۔۔۔
کمرے میں آکر پہلے تو اُسنے شاور لیا سمندر میں مزا تو بُہت آیا لیکن یہ ریت ہی ریت اف۔۔
__________
___
امی بابا سو چُکے تھے۔۔
حریم کو بھی نیند آرہی تھی لیکن وہ سونا نہیں چاہتی تھی۔۔
اچانک اُسے پتہ نہیں کیا سوجھا کے فون اٹھا کے ساحل کو میسیج کیا۔۔۔
ایک کپ چاہے ملےگی؟
میسج دیکھا جا چکا تھا۔۔
لیکن کوئی ریپلائے نہی آیا۔۔
کچھ دیر بعد اس کا دروازہ بجا۔۔
وہ اُٹھی دروازہ کھولا تو ساحل کھڑا تھا چاہے کہ مگ ہاتھوں میں پکڑے
چوکھٹ سے ٹیک لگا کر۔۔
اُسے دیکھ رہا تھا,۔۔
وہ اسے دیکھ کہ حیران ہوئی۔۔آپ ؟
جی ہاں میں نے سوچا اپنے لیے تو چاۓ بنالی ہے۔۔
تو آپ کو یہ بتادوں کہ۔۔۔۔
وہ چاۓ کا سپ لیتے ہوئے بولا
اوہ تو آپ میرے لئے چاۓ لاۓ ہیں
وہ مسکرادی۔۔
جی نہیں میں آپ کے لیے ایک راۓ لایا ہوں۔۔
اسنے راۓ پہ زور دے کہ کہا
ہیں؟؟
وہ اسے غور سے دیکھنے لگی۔۔
وہ یہ کہ کل سنڈے ہے تو آج آپ اپنے لئے چاۓ بنا سکتی ہیں۔۔
وہ ہلکا سا مسکرایا تھا مگر مگ آگے کرلیا تاکہ حریم نہ دیکھ لے۔۔
اور یہ کے مجھے کچھ ایسا فيل ہورہاہے جیسے آپ میری با باس ہیں اور میں آپکا ایمپلائے ہوں۔۔۔
اللہ نہیں ایسا نہ کریں میں نے ایسا سوچا بھی نہیں وہ تو آپ نے خود ہی کہا تھا۔۔۔
حریم منہ بسور کے بولی۔۔
ہمم میں نے خود ہی کہا تھا لیکن میں نے یہ بھی کہا تھا کہ جب اپنے لئے بناؤنگا تو آپ سے پوچھ لیا کرونگا۔۔
تو آئندہ مجھے پہ اپنا حکم چلانے کی ضرورت نہیں اوکے۔۔۔۔
وہ اس کو گھورتا ہوا وہاں سے جانے لگا۔۔
بڑی آئی ایک کپ چائے ملے گی؟؟
وہ دل ہی دل میں اُسکی نقل اتارتا جانے لگا
حریم کو سخت غصہ آگیا۔۔۔
یہ انسان کبھی کچھ اچھا نہیں کرسکتا۔۔۔
جب دیکھو مرچیں چبائے رکھتا ہے۔۔۔
حریم اپنے بال نوچنے لگی اوہ میں اپنے معصوم بالوں ک کیوں نقصان پہنچارہی ہو۔۔۔
حریم باہر نکلی چاۓ بنائی اور کیبنٹ کی تلاشی لی وہاں اُسے بسکٹ نظر آگے کچھ اپنی پلیٹ میں رکھے اور وہیں بیٹھ کے چائے بسکٹ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔۔
اتنے میں مرال بھی آگئی۔۔
اوہو چوری چوری چائے پی جارہی ہے۔۔۔۔
مرال نے آنکھیں گھما کے کہا۔۔
جی ہاں لیکِن میں اپنی چائے کسی کو نہیں دینے والی۔۔
حریم نے اپنے مگ کے آگے دونوں ہاتھ پھیلا کے کہا۔۔۔
دیکھو بہن نہیں ہو؟؟
مِرال نے لجاجت سے کہا۔۔۔
نہ بابا چاۓ کے معاملے میں کسی بہن بھابھی پھوپھی تائی نہیں۔۔۔
وہ نا میں گردن ہلا رہی تھی۔۔۔
یار پلیز دونا ۔۔۔
مرال منہ بسور کے بیٹھ گئی۔۔۔
بنالو کون سے ہل جوتنے پڑتے ہیں ایک کپ چائے بنانے میں۔۔۔
تمہیں پتہ ہے نہ مجھے نہی آتی بنانی۔۔۔
وہ اب بھی اُسکی چائے پہ نظر رکھ کے بیٹھی تھی۔۔۔
میں تو اپنی نہیں دونگی ۔۔۔تمھیں دوسری بنا کے دیتی ہوں۔۔
وہ اپنی چاۓ ختم کر کے اُٹھی اُسکے لیے بنائی۔۔۔
اور بی ہی سیکھ لو کچھ اگلے گھر میں میں نہی آؤں گی تمہارے جہیز میں۔۔۔
لو بھلا مجھ سے تو بڑی ہو ایک سال۔۔۔
وہ بولے جارہی تھی۔۔
بس کرو اپنا یہ لیکچر ایک کپ چائے پہ اتنا سنا رہی ہو۔۔۔
مرال نے اسکے بازو کو مروڑا۔۔۔
اؤچ۔۔۔
وہ بھی اسکو مارنے دوڑی۔۔۔
ایک تو چائے بنا کہ دے رہی ہوں اوپر سے نخرے۔۔۔
تم سے اچھےتو ساحل بھائی ہیں چاۓ تو بنا لیتے ہیں۔۔۔
مرال کو فرق نہیں پڑا ساحل بھائی تو بہت کچھ بنا لیتے ہیں۔۔۔
وہ باہر رہے ہیں نا تو وہاں پہ سب کچھ سیکھ گئے۔۔
ان کو تو ڈیشز بھی بنانی آتی ہیں۔۔
شروع میں آۓ تو روز کچھ نا کچھ بناتے تھے شوق سے لیکن پھر ان پہ سب بزنس کا برڈن پڑگیا تو سب چھوڑ چھاڑ دیا۔۔
وہ مزے سے بتانے لگی۔۔
پھر اسے کچھ یاد آیا
حریم تم نے کب دیکھا ان کو چاۓ بناتے۔۔؟
دیکھا؟؟
میں تو پی بھی چکی ہوں ان کے ہاتھ کی چاۓ وہ فخر سے گردن اکڑا کے بولی۔۔۔
ہیں ہیں ہیں لڑکی یہ کب ہوا؟؟؟
مرال ایک دم آٹھ کہ اس پہ چڑھ دوڑی
ارے بھئی ذرا سانس تو لو چاۓ بنا کے دی ہے کوئی پاۓ نہیں بنا کے دیۓ۔
لیکن کچھ تو بنا کہ دیا نا وہ بھی تمہیں جس کو دیکھ کہ ہی انکو خوا مخواہ غصہ جاتا ہے۔۔
اب ان کو میں پسند نہیں اس میں میرا کیا قصور وہ معصوم بن کے بولی۔۔۔
ویسے تم بھی کم نہیں ہو جان بوجھ کے کرتی ہو نا ان کو تنگ؟؟
وہ شرارت سے پوچھنے لگی
نہیں یار قسم لے لو جو کبھی جان بوجھ کے کچھ کیا ہو ۔۔وہ سنجیدہ شکل بنا کے بتانے لگی
وہ اصل میں ان کو دیکھ کہ پتا نہیں کیوں مجھ سے اوٹ پٹانگ حرکتیں ہوجاتی ہیں۔۔
اچھا اسٹڈیز کیسی چل رہی ہیں؟
بہت اچھی ۔اسنے کہا
ہمم گڈ ۔۔
_________________
آج امی بابا واپس روانہ ہوگے تھے۔۔
حریم بہت اداس تھی۔۔
کیا ہوا بیٹا اداس مت ہو میں جو ہوں آپ کے ساتھ۔۔
زرین نے اسے گلے سے لگایا۔۔
تو وہ اداسی سے مسکردی۔۔
نہیں میں اداس نہیں ہوں بس ایسے ہی وہ زبردستی کی مسکرای تھی۔۔
چلو اب آرام کرلو تھوڑا۔۔
شام کو جم کی کلاس لینی ہے آپ نے کافی دن ہوگئے ہیں چھٹی کرلی ہم سب نے۔۔
شائنی کی کال بھی آئی تھی۔۔
حق یا یہ شائنہ کی عادتیں بھی بلکل چنگیز خان سے ملتی ہیںں۔۔
اسنے دل میں سوچا
جی اچھا آپ بھی چلیں گی؟
آف کورس بیٹا میں تو رہ نہیں سکتی جم کے بنا۔۔
وہ اسکو سمجھانے لگیں۔۔
اصل میں میرا مطلب تھا کہ ۔۔۔
آپ کی اب طبیعت ہے اس قابل؟؟
ہوں بیٹا میں بس ٹریڈ مل اور سوانہ باتھ لونگی۔۔
جی اچھا۔۔
وہ اپنے روم میں آگئی اور لیٹ گئی نیند تو نہیں آنے والی تھی بس آنکھیں بند کرلیں۔۔
__________________
ساحل اپنے روم میں چاۓ پی رہا تھا شام کا وقت تھا وہ کھڑکی کے پاس آگیا موسم تبدیل ہو رہا تھا وہ نیچے دیکھنے لگا۔۔
لان میں حریم اور زرین باتیں کر رہی تھیں۔۔
کسی بات پہ حریم بہت زور سے ہنسی تھی۔۔۔
اسکی ہنسی دیکھ کہ ساحل کہ ہونٹوں پہ بھی مسکان آئی تھی۔۔
وہ چاۓ ختم کر چکا تھا اب نیچے جانے لگا ۔۔
لان میں پہنچا تو وہ نہیں تھی۔۔
ہائے مام کیا ہورہا ہے؟
بس بیٹا ایسے ہی باتیں کر رہے تھے میں اور حریم۔۔
اچھا اس نے چاروں طرف نظر گھمائی۔۔
کہاں ہیں حریم؟
پوچھنے لگا۔۔
وہ ابھی ابھی اندر گئی ہے اپنا فون لینے ۔۔
بیٹا وہ ماں باپ سے کبھی دور نہیں ہوئی نا تو اب اسے بہت یاد آتی ہے۔۔
ہممم چلیں ماں آج آپکو لونگ ڈرائیو پہ لے چلتا ہوں۔۔
وہ اٹھا انکا ہاتھ پکڑا۔۔
ارے نہیں بیٹا مجھے اب اتنی ہمت نہیں کہ لونگ ڈرائیو پہ جاؤں سر گھوم جاتا ہے میرا
چلیں نا مام بہت دل کر رہا ہے آج ۔۔وہ لاڈ سے بولا
اچھا رکو ذرا حریم آجاۓ اسکو بھی ساتھ لیتے ہیں۔۔
زرین نے ہار مانتے ہوئے کہا۔۔
اوکے ان کا تو پھر ویٹ کرنا پڑیگا اتنی آسانی سے تو نہیں نکلیں گی وہ۔۔
ساحل بھی دوبارہ بیٹھ گیا۔۔
حریم آتی ہوئی دکھائی دی۔۔ تو زرین اٹھیں۔۔
چلو حریم اجاؤ۔
کہاں آنٹی؟
وہ حیرت سے پوچھنے لگی۔۔
آج ساحل ہمیں لونگ ڈرائیو پہ لیکر جا رہا ہے۔۔
زرین نے اسے مسکرا کے بتایا۔۔
اچھا۔۔۔۔ حریم کو بلکل اچھا نہیں لگا۔۔
اس کڑوے کریلے کے ساتھ جانے سے اچھا تھا وہ گھر پہ رہ لیتی۔۔
لیکن اب کیا کر سکتی تھی
آنٹی نے کہا بھی اس کے سامنے تھا۔۔
میں گاڑی نکالتا ہوں۔۔
ساحل اٹھا اور کار پورچ کی طرف بڑھا۔۔
آنٹی آپ لوگ چلے جاتے مجھے کیوں کباب میں ہڈی بنا رہی ہیں ماں بیٹے کے بیچ میں۔۔
حریم کسی طرح سے جان چھڑانے کے چکر میں تھی۔۔
لیکن صاف نہیں کہہ پا رہی تھی۔۔
کوئی نہیں میں تو تمہارے بنا نہیں جانے والی حریم ڈیئر۔۔۔ انہوں نے اسکا گال تھپتھایا۔۔
ساحل نے ہارن دیا تو وہ دونوں جانے لگیں۔۔
کافی دیر تک گھومنے کے بعد وہ انہیں ایک شاپنگ مال میں لے آیا۔۔۔
چلیں مام۔۔
وہ نکلا ان کا دروازہ کھولا۔۔۔
وہ نکلیں۔۔
حریم اپنے خیالوں میں گم تھی۔۔
چلیں میڈم؟؟
ساحل نے اسکے سامنے اپنا ہاتھ لہرایا۔۔
تو وہ چونکی اور اترنےلگی۔۔
ساحل نے دیکھا وہ چپ چپ سی تھی۔۔
کیا بات ہے مس حریم آپ کو اچھا نہیں لگا ہمارے ساتھ آنا؟؟
وہ چلتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔۔
نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔
اسنے تھوک نگلا۔۔
پتا نہیں کیوں وہ آج برا فیل کر رہی تھی جیسے زبردستی ان کے سر منڈھ دی گئی ہو۔۔
زرین اسے اسکی من پسند چیزیں دکھا رہی تھیں جتنی شاپنگ کرنی ہے آج آپ دونوں کر لیں۔۔
میں آج تھکوں گا نہیں۔۔
ساحل دونوں کی طرف دیکھ کے مسکرایا۔۔
اچھا جی یہ مہربانی کس لیے کیا میں پوچھ سکتی ہوں؟؟
زرین بھی اسی کے انداز میں پوچھنے لگیں۔۔
وہ کیا ہے کہ آج سمجھے میرا جیک پاٹ نکلا ہے وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔
اچھا وہ کیسے ۔۔۔؟
انہوں نے پوچھا۔۔
آج میں نے بہت بڑی ڈیل فائنل کی ہے۔۔
مجھے ذرا بھی یقین نہیں تھا مگر بہت آسانی سے ہوگیا۔۔۔
اچھا تبھی میرا بیٹا بہت خوش نظر آرہا ہے۔۔
زرین کو بھی دلی مسرت ہوٸی۔
ساحل نے حریم کو مسکرا کے دیکھا تو وہ بھی مسکرادی۔۔
اور اسے مبارکباد دی۔۔۔
تھینکس۔۔
وہ بھی مسکرایا۔۔
زرین کچھ ڈریسیز دیکھ رہی تھیں۔۔۔
ساحل نے حریم سے کہا
آپ نے کچھ نہیں پسند کیا اپنے لیے؟؟
جی تھینکس میرے پاس ابھی بہت کچھ نیو پڑا ہے۔۔
وہ مسکراٸی۔۔
حریم وہ تاسف سے اسے دیکھنے لگا۔۔
آپ میری خوشی کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں؟؟
وہ دھیرے سے بولا
جی؟
وہ حیرت سے دیکھنے لگی
میرا مطلب ہے مام کی خوشی کے لیے۔۔۔۔
اس نے بات بدلی۔۔
دیکھیں وہ کتنا بدل گئی ہیں بیماری کہ بعد۔۔
میں کوشش کر رہا ہوں انکو خوش رکھنے کی
اور آپ کو پتا ہے مجھ سے زیادہ وہ آپ کی خوشی میں خوش ہوتی ہیں میں تو جیلس ہونے لگا ہوں۔۔وہ ہلکے سے مسکرا کہ کہہ رہا تھا اسکی آنکھوں میں کچھ عجیب تھا
نہ غصہ نا نفرت نہ اکتاہٹ۔۔۔
وہ اسکی طرف دیکھتی رہی۔۔
تو ساحل نے چٹکی بجائی۔۔
کہاں کھوگئیں۔۔
اں کچھ نہیں ۔۔
وہ سر جھکا کہ بولی
اف بیوقوف کیا اسے گھورے جارہی ہو کیا سوچے گا وہ۔۔
اسنے اپنے آپ کو ڈانٹا۔۔
تو حریم آج آپ جی بھر کہ شاپنگ کریں۔۔
تاکہ میری مام خوش ہوں۔۔
پلیز اتنا تو کر سکتی ہیں نہ؟؟
وہ کتنے مان سے بولا۔۔
وہ مسکرائی
آنٹی کو خوش کرنے کے لۓ میں کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔
اور شاپنگ تو میرا فیورٹ مشغلہ ہے۔۔
اس بات پہ دونوں ہنس دیے۔۔
زرین نے پلٹ کے دیکھا وہ دونوں ایک ساتھ ہنس رہے تھے
وہ حیرت میں تھیں ۔۔
یہ کب ہؤا؟؟
وہ سوچنے لگیں۔۔
اور مسکرادیں۔۔
__________________
حریم کچھ پریشان بھی تھی
آج زرین کچھ معنی خیز باتیں کر رہی تھیں ڈنر پہ
وہ دونوں نہیں سمجھ پاۓ۔۔
حریم اپنے خیالوں میں تھی۔۔
یہ کھڑوس بھی
کبھی کبھی حیران کردیتا ہے۔۔
سمجھ نہیں آتا کہ کب بیستی کرنے والا ہے یا کب مہربانی کرنے والا ہے۔۔
ساحل بھی سچ میں گم تھا۔۔
یہ پاگل لڑکی جب میں غصے میں ہوتا ہوں تو یہ ریلیکس دکھتی ہے جب میں اسکا خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہوں تب اداس ہوجاتی ہے۔۔۔
ہر بندہ اپنی اصل نیچر میں ہی اچھا لگتا ہے۔۔
اگر وہ اپنی فطرت کے خلاف جانے لگے تو خوف آتا ہے۔۔
انہی سوچوں میں تھے وہ دونوں۔۔
ایشال مرال اپنے ننھیال گئی ہوئی تھیں ایک ہفتے کے لیے۔۔
ان کے مامون کے بیٹے کی شادی تھی۔۔
مرال روز اسکو پکس اور وڈیوز بھیجتی تھی ڈھولکی وغیرہ کے۔۔
انکا ننھیال لاہور میں تھا۔۔
ایشال کی منگنی بھی اپنے بڑے ماموں کے بیٹے سے ہو چکی تھی۔۔
بہت جلد شادی کا ارادہ تھا۔۔
ان لوگوں کا
مگر ابھی ساحل نہیں چاہتا تھا۔۔
وہ ایشال کا نیچر سمجھتا تھا بہت ہی خاموش طبع تھی وہ لیکن ساحل کو پتا تھا کے وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرنا چاہتی تھی۔۔ اور اب کم وقت رہ گیا تھا ۔۔۔
وہ لوگ شادی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔۔
اور ساحل کو بھی پتا تھا کہ وہ لوگ اب نہیں رکنے والے۔۔
___________________
آنٹی اور ساحل بھی لاہور جارہے تھے شادی میں۔۔
حریم آپ بھی چلو بیٹا ۔۔
آنٹی نے اسے کہا۔۔
نہیں آنٹی میرا دل نہیں چاہ رہا۔۔
کیوں بیٹا مزا آۓ گا آپکو۔۔
وہ اسرار کرنے لگیں۔۔
میں ایک ویک کے لیے اپنے گھر جانا چاہتی ہو آنٹی۔۔۔
جب تک آپ لوگ واپس آجائیں۔۔میں وہاں رہوں گی۔۔۔
ٹھیک ہے مس حریم جیسے آپکی مرضی۔۔۔
ساحل نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا۔۔
وہ اسکو دیکھنے لگی ۔۔اسے کیا ہو گیا بھئی میری مرضی ہے۔۔
وہ سوچنے لگی۔۔
ساحل بھی ناشتہ کرتا سوچنے لگا
میری وجہ سے نہیں جانا چاہتی ہے یہ کیوں کہ اسے میرا ساتھ نہیں پسند۔۔
آنٹی بُہت بزی ہوگئی تھیں شادی کی شاپنگ میں اور مرال نے سختی سے اُسے دھمکی دی تھی کے وہ نہیں آئی تو دوستی ختم۔۔
یار میں وہ کسی کو جانتی تک نہیں۔۔
بس میں کچھ نہیں سنو گی تم آرہی ہو بس۔۔
مرال لسن۔۔۔
نو نو تم آرہی بو بس ورنہ میں سمجھوں گی کے میرا کوئی دوست نہیں ہے ۔
۔ وہ اُداس تھی۔۔
مجھے بلکل مزا نہیں آے گا حریم میں تمھارے ساتھ انجواۓ کرتی ہوں پلیز تم سمجھتی کیوں نہیں۔۔
کتنے عرصے بعد مینے زندگی کو جینا سیکھ ہے۔۔
مرال رونے جیسے ہوگئی تھی
وہ اس وقت ویڈیو کال پے تھے۔۔۔
اچھا بابا تم جیتی میں ہاری۔۔۔۔
حریم نے ہاتھ جوڑے۔۔۔۔
تب وہ ہنس دی اور اُسکی فلائنگ کس دیا۔۔
آنٹی میں بھی آپ کے ساتھ چلونگی لاہور۔۔
صبح کو ناشتے کے ٹیبل پے حریم نے آنٹی کو بتایا۔۔
ریلی؟؟
یہ تو بُہت اچھی بات ہے زرین خوش تھی۔۔
ساحل نے البتہ کوئی ریکشن نہی دیا
خاموشی سے ناشتا کرتا رہا۔۔
تم آج چلنا میری ساتھ شاپنگ کرنے۔۔
زرین نے کہا
وہ دھیرے سے بولی۔۔
ٹھیک ہے آنٹی۔۔۔
ساحل بیٹا حریم کا ٹکٹ بھی کروا دینا۔۔
ساحل ایک نظر اُسے دیکھا حریم بھی اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔
اب یہ اپنا لیکچر دیگا۔۔
اسنے سوچا۔۔
اوکے کروادیا ہوں۔۔
وہ اٹھا اور جانے لگا۔۔
ہیں اسنے کچھ بھی نہیں کہا وہ حیرت میں تھی۔۔
اب اُسے بھی جانا تھا یونی۔۔۔
شام کو زرین نے اُسے ڈریسز دلا دی تھے۔۔
دو دن بعد انکی فلائٹ تھی۔۔
اُسے بُہت ڈر لگرہ تھا
اُسنے پہلی کبھی پلین سے سفر نہیں کیا تھا
کچھ نہیں ہوگا بیٹا ڈرو مت ۔۔
آنٹی نے اُسے سمجھایا
مگر آنٹی مجھے ہائیٹ فوبیا ہے۔۔
وہ رونے جیسے تھی۔۔
کہاں پھنسا دیا تھا مرال نے
وہ مرال پے غُصہ تھی۔۔
سب پیکنگ ہوگئی تھی۔۔
____________________
بارہ بجے اُسکی فلائٹ تھی۔۔
وہ لوگ ایئر پورٹ آگے تھے۔۔
پیلن میں سوار ہوتے وقت اُسے بُہت خوف آرہا تھا اُسنے ساحل کا بازو پکڑ لیا تھا۔۔
وہ اُسکی اس حرکت جز بز ہوا اور اپنے موم ڈیڈ کو دیکھنے لگا
لیکن وہ آگے تھے
یہ آپ کیا کے رہی ہیں مس حریم لوگ دیکھے رہیں ہیں۔۔
وہ آہستہ سے دانت چبا کے بولا۔۔
پلیز آج مجھے کچھ مت کیہیگا۔۔
مجھے چکر آرہے ہیں
ڈرے مت کچھ نہیں ہوگا۔۔
وہ اُسے سہارا دیتا ہوا بولا۔۔
آپ کو کیا پتہ مجھ غریب کو اونچائی سے کتنا خوف اتا ہے۔۔
وہ بولی اب وہ ایئر ہوسٹس کے سامنے تھی و اس کے بیگ کا ٹیگ چیک کر تھی لیکن ٹیگ غائب تھا۔۔
ہیں۔۔۔
اُسنے ساحل کی طرف دیکھا ساحل بھی پریشان تھا ۔۔
اُن کے بعد دو پیسننجر آئے ایک نے ساحل کو کہا۔
یہ ان مس کے بیگ سے ٹیگ گرگیا تھا میںنے آواز دی پر انہوں نے سنا نہیں۔۔
اُسنے ٹیگ دیا تو ساحل کی جاں میں جان آئی۔۔
تھینک یو سر۔۔
وہ بندہ مسکراتا آگے چلا گیا۔۔۔
سیٹ پے بیٹھ کے حریم کچھ نارمل ہوئی۔۔
انکل آنٹی بیٹھ چُکے تھے۔۔
حریم ونڈو والی سیٹ پے بیٹھی۔۔
ساحل اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔
آر یو اوکے؟
وہ اُسکی طرف دیکھ کے پوچھنے لگا ۔۔
یس۔۔وہ اب اُسے کیا بتاتی کے اُسکا دل بھاگنے کا کر رہا تھا۔۔
تھوڑی دیر میں پلین رونوے پے دوڑنے لگی۔۔
اب حریم نارمل تھی۔۔
جیسے ہی ٹیک آف ہوا۔۔
حریم کی نظر ونڈو سے با ہر گئی
تو اُسنے آنکھیں بند کرلیں
یا اللہ یا اللہ و آنکھیں میچے ورد کرنے لگی
اس کی سانسیں تیز ہوگئی تھیں۔۔
حریم ٹیک آف ہوگیا ہے اب آنکھیں کھول لیں۔۔
ساحل نے اپنی مسکراہٹ دبا کے اُسے کہا۔۔
حریم نے آنکھیں کھول کے ساحل کو دیکھا۔۔
ہوگیا ؟
ہاں
۔وہ بولا
شکر ۔۔اُسنے سانس خارج کی۔۔
اب رلیکس ہو کے بیٹھی ہی تھی کے پھر اُسکی نظر ونڈو سے باہر گئی ۔۔
یہ اللہ۔۔
اُسنے چیخ ماری اور ساحل کا بازو زور سے دبوچ اور اپنا سر اُسکے بازو سے لگا لیا گویا۔۔وہ چھپنا چاہتی ہو۔۔
اُن کے سامنے والے کچھ مسافروں نے دیکھا۔۔
ساحل نے انکو اوکے کا اشارہ کیا تو سب اپنے آپ میں مشغول ہوگئے۔۔
ویسے بھی پيلن کوئی نہ کوئی ایسی حرکتیں ضرور کرتا تھا۔۔
مس حریم سوگیں کیا؟؟
وہ ہلکے سے اپنا بازو چھڑانے لگا۔۔
پلیز پلیز مجھے کچھ مت کہیں میں آپ کا بازو
نہی چھوڑ سکتی۔۔
وہ وہیں سے بولی جارہی تھی۔۔
پاگل لڑکی روز ایک نیا تماشا کرتی ہے۔۔
ساحل نے جل بھن کی سوچا
اسی لیے میںنے اسی مام کے ساتھ نہیں بٹھایا مجھے پتہ تھا یہ کچھ نہ کچھ کریگی۔۔
اب دیکھو کیسے گھسی ہوئی ہے میرے بازو میں۔۔
وہ دل ہی دل میں سوچے جارہا تھا۔۔
اسکی طرف دیکھا تو وہ سہمی ہوئی تھی ۔۔
نہ جانے کیوں اُسے غُصہ نہیں آرہا تھا۔۔
قریب 15 منٹ بعد وہ سسکی۔۔
ساحل نے چونک کے دیکھ اُسے۔۔
کیا ہوا حریم؟
مجھے کان میں شدید درد ہورہاہے ۔۔
وہ آنسوؤں کے درمیان بولی۔۔
اوہو۔۔ایک نئی مصیبت۔۔
حریم کچھ لوگوں کو ہوتا آپ پریشان نہ ہوں بس
ہم پُہنچ نے والے ہیں۔
وہ اسے دلاسے دیتا رہا ۔۔
حریم ابھی ہم لینڈنگ کرنے والے ہیں۔۔
آپ آنکھیں کھول لیں۔۔
وہ اسے کہرہا تھا۔۔
نہیں مجھے ڈر لگتا
نہیں لگے گا میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔۔
ایک بار اپنا ڈر نکالیںگی تو سب ٹھیک ہوجاے گا۔۔
دیکھیں آپ ابھی پلین میں ہیں آپ کے ساتھ کئی اور لوگ بھی ہیں۔۔
اس پلین سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ اللہ پہ بھروسہ کریں۔۔
یقین کریں یہ پلین اسی کی طاقت سے اڑرہا ہے
ورنہ ہم انسانوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔۔
آپ کو اللہ پہ بھروسہ ہے نہ؟
وہ پوچھنے لگا۔۔
ہاں اسنے ہاں میں گردن ہلائی
تو پھر کس بات کا ڈر ہے آپکو ؟
شاباش اپنے ڈر کو ہرادیں۔۔۔
یہ اپنے دماغ سے نکال دیں کہ آپ نیچے دیکھیں گی تو کچھ ہوجاے گا۔۔
وہ لینڈ کر رہے تھے حریم نے آنکھیں کھولیں
ڈرتے ڈرتے ساحل کو دیکھا۔۔ساحل نے اشارہ کیا ونڈو کی طرف۔۔
وہ ناں میں سر ہلانے لگی۔۔
دیکھیں۔۔
وہ آہستہ سے بولا
حریم نے دیکھا وہ بلکل نیچے آرہے تھے شہر کی بلڈنگز نظر آرہی تھیں۔۔
اور رن وے نظر آیا پلین بس اب لینڈ کرنے ولا تھا۔۔
اب اسے ڈر نہیں لگا ۔۔
اسنے مسکرا کے دیکھا ساحل کو تھینکس۔۔۔
ساحل نے مسکرا کہ سر خم کیا۔۔
اب وہ لوگ اتر رہے تھے حریم کی شکل دیکھنے والی تھی ۔
ٹوبہ ہے میری کے آئندہ پلین میں سفر کروں وہ کانوں کو ہاتھ لگا کے بولی
تو مرال ہنس دی
دیکھو بہن ابھی تو توبہ مت کرو کیوں کے واپس بھی تم نے پلین میں ہی جانا ہے۔۔
نہ بابا میں ٹرین سے یہ بس سے چلی جاؤنگی۔۔
سوچ ہے آپکی۔۔
مرال اُسے اپنی کزن سے ملوانےلگی
وہاں پہ کافی لوگ جمع تھے گھر بھی بڑا تھا
لیکن مہمانوں کی وجہ سے چھوٹا پڑ رہا تھا۔۔
سب لوگ بڑے پیار سے ملے۔۔
ایشال کے فیانسی کو بھی دیکھا۔۔
اچھا تو جی ہماری ایشال لاہوری ہونے والی ہیں
وہ ایشال کو چڑانے لگی۔۔
جی نہیں میں پنجاپ نہیں جاؤنگی۔۔۔
ایشال نے کہا تو وہ تینوں ہنس دیں۔۔
لیکن منڈا تو پنجابی ہے نا وہ بولی۔۔
یہ پنجاب نہیں جائینگی سیدھا۔۔لنڈن جائنگی۔۔
او اچھا اب سمجھیں۔۔
وہ سب خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔۔
مرال اسے چھت پہ لیگئی۔۔
یار تھینک یو سو مچ وہ اسے پھر سے گلے لگا کے بولی۔۔
اب کتنا تھینکس کروگی میرو۔۔
لیکن ایک بات یاد رکھنا اپنی جان جوکھم میں ڈال کے آئی ہوں تیری خاطر۔۔۔
وہ چھت پہ پڑے جھولے پہ بیٹھتے ہوے جتانے لگی۔۔۔
ہاں ہاں بڑا بارڈر کراس کر کے آئی ہو۔۔
وہ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔۔
پتا ہے حریم میری آج تک کسی سے اتنی فرینڈشپ نہیں ہوئی جتنی تم سے ہوگئی ہے نا۔۔
تمہیں دیکھ کے زندگی کا احساس ہوتا ہے۔۔
ورنہ میرا دم گھٹتا تھا کے یہ کیسی زندگی ہے۔۔
نہیں میرو ۔۔زندگی بہت خوبصورت ہے۔۔
اس بد صورت ہم خود بناتے ہیں۔۔
جب ہم صرف نیگٹو سوچتے ہیں۔۔
ہمیں یہ احساس نہیں ہوتا کے ہمارے پاس کیا کیا ہے
ہم بس یہی سوچتے ہیں کے ہمارے پاس فلاں چیز نہیں۔۔تبھی ہماری زندگی تلخ ہوجاتی ہے۔۔
مرال غور سے سن رہی تھی۔۔
میرو تم سے تمہا
مما پاپا دور ہوے لیکن اسکے بدلے میں انکل اور آنٹی ملگے۔۔
سوچو وہ کتنا پیار کرتے ہیں تم دونوں کو ہر چیز کا خیال رہتا ہے انہیں۔۔
انکل اپنے روم سے باہر نہیں نکلتے لیکن تم دونوں کی خاطر آج اتنی دور آگئے ہیں۔۔
اور ساحل جیسا کھڑوس بھای بھی فری میں ملا ہے۔۔
جو تمہاری ہر پسند نا پسند کا خیال رکھتا ہے۔۔
وہ چنگیز خان بھی اپنا بزنس چھوڑ کے تم دونوں کی خاطر آیا ہے۔۔
ورنہ تو مجھے نہیں لگتا تھا کے وہ بندہ بھی کسی کے لیے وقت نکال سکتا ہے۔۔
مرال چونکی۔۔
کیا واقعی وہ ہمارے لئے آۓ ہیں؟؟
تو اور کیا دولہا ان کے تایا کا لڑکا ہے؟
وہ بھی دو بدو جواب دینے لگی۔۔
یہ تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔۔مرال حیرت میں تھی۔۔
اب سوچ لو کیوں کہ بندہ ہے کھڑوس مگر دل کا اچھا ہے۔۔
وہ منہ پھاڑ کے ہنسی۔۔
یہ تم ان کی تعریف کر رہی ہو یا مزاق اڑارہی ہو؟؟
وہ آنکھیں دکھانے لگی۔۔
ارے نہیں ہنسی تو مجھے اس بات پہ آئی کہ یہیں بات ایک دفع مجھے پھپھو نے بھی کہہی۔۔
تھی
اور میں تو سچ میں جل بھن گئی تھی۔۔
وہ اب بھی ہنسے جارہی تھی
مرال بھی ہنسے لگی
پتا ہے اس چنگیز خان نے میرا اتنا خیال رکھا نا پلین میں۔۔۔
اس نے سارا قصہ اسے سنایا تو مرال بھی حیرت میں تھی۔۔
___________________
کل مہندی تھی وہ ابھی سے تیاریوں میں لگ گئیں۔۔
دولہے کی بہنیں ڈانس پریکٹس میں بزی تھیں۔۔
مرال کی مامی سخت غصے میں تھیں
سارا کام بکھرا پڑا ہے ان لڑکیوں سے بس ڈانس کروالو۔۔۔
وہ حریم کو دیکھ کہ بولیں بیٹا ادھر تو آنا۔۔
جی آنٹی۔۔وہ قریب آگئی
کیا نام بتیا تھا بچی۔۔؟میرا تو دماغ ہی کام نہیں کر رہا آج کل۔۔
جی میرا نام حریم فاطمہ ہے۔۔
ہاں بیٹی فاطمہ۔۔زرا مجھے میرے کمرے سے گولیوں کا ڈبا لادو۔۔۔
وہ کہنے لگیں۔۔
ججی۔۔۔؟
وہ ناسمجھنے والی شکل لۓ دیکھنے لگی۔۔
جب کے مامی بولے جارہی تھی
ایڑھیوں میں سخت درد ہے بیٹا گولی کھالونگی کچھ آرام آجاے گا۔۔
اوہ۔۔اب حریم سمجھیں کہ گولی سے مراد ٹیبلیٹ تھا ورنہ وہ تو ڈر ہی گئی تھی کے وہ بندوق کی گولیاں منگوارہی ہیں۔۔
جی کس طرف ہے آپکا کمرہ؟
بیٹا سیڑھیاں چھڑوگی پہلا کمرا نظر اۓگا وہی ہے۔۔
حریم سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر جانے لگی سامنے دو دروازے تھے
دونوں دروازے آمنے سامنے تھے ۔۔
اب اللہ جانے مامی کا کمرا کونسا ہے۔۔اسنے سوچا
خیر اللّہ کا نام لےکر ایک دروازہ ہلکا سا بجایا۔۔
کوئی جواب نہیں آیا۔۔
وہ دروازہ کھول کے اندر داخل ہوئی۔۔
وہاں کوئی نہیں تھا
اسنے ادھر اُدھر دیکھا اسے کوئی گولیوں کا ڈبا دکھائی نہیں دیا۔۔
افف میں پوچھنا ہی بھول گئی کہ ڈبا کدھر ہوگا اور کیسا ہوگا؟
اسنے بیڈ سائیڈ کا ڈرار کھولا وہاں بھی نہیں تھا سب خانے چیک کر کے دیکھے لیکن کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی اسے۔۔
کون ہو تم۔۔۔
اسکے پیچھے سے آواز ائی۔۔
وہ اچھلی اور گرتے گرتے بچی۔۔
پیچھے دیکھا تو حیران رہ گئی۔۔
تم۔۔؟؟؟
لڑکے نے بولا
اوہ آپ یہاں کیسے۔۔؟؟
حریم کا منہ کچھ زیادہ ہی کھلا ہوا تھا۔۔
وہ غالب تھا جو ابھی ابھی واش روم سے نہا کے نکلا تھا۔۔
اسے دیکھ کے وہ بہت خوش نظر آرہا تھا۔۔
واٹ سے پلیزینٹ سرپرائز۔۔۔؟
حریم خاموش سی ہوگئی۔۔
آپ کو اتنی خوشی کس بات کی ہورہی ہے۔۔۔
اور اپ ہیں کون یہاں کیسے آۓ؟؟
میں عریش کا کزن ہوں۔۔وہ بولا
حریم کو یاد آیا وہ کس کے آئی تھی۔۔
یہ مامی کا کمرا ہے؟؟
اسنے جھٹ سے ہوچھا۔۔
نہیں یہ دولہا میاں کا کمرا ہے
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔۔
اوہ وہ سر پکڑ کے بھاگی وہاں سے
اسکی سانس بہت تیز تھی۔۔
کوئی دیکھ لیتا تو افف میرے خدا۔۔
وہ بہت گھبرا گئی تھی۔۔
غالب بھی اسکے پیچھے آگیا۔۔
آپ نے بتایا نہیں کہ آپ یہاں کیسے آئیں؟؟
وہ وہاں سے جانے لگی
میری دوست کے کزن ہیں عریش۔۔
وہ سیڑھیوں سے اترتی جارہی تھی وہ بھی پیچھے تھا۔۔
دوست کے کزن کی شادی میں اتنی دور آئی ہیں؟؟
وہ بھی کوئی چپکو تھا جان ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔
دیکھیں مسٹر غالب!
میں یہاں کیسے بھی آئی ہوں اس سے آپکو مطلب نہیں ہونا چاہیے اور مجھے اچھا نہیں لگرہا کہ آپ اس طرح میرے پیچھے آرہے ہیں۔۔
وہ اسے جتا کے مڑی۔۔
شکر مامی کی نظر اس پہ نہیں پڑی اسنے بھاگ کے لاونج عبور کیا۔۔
اور لان میں نکل گئی۔۔
جہان مرال بیٹھی مہندی لگوارہی تھی۔۔
آؤ نا حریم کہاں گم ہوگئی تھی تم۔۔
وہ اسے بلانے لگی۔
یار کیا بتاؤں۔۔اسنے رونے والی شکل بنائی۔۔
اور سب کچھ مرال کے گوش گزار کر دیا۔۔
اب مرال کا منہ کھلا ہؤا تھا۔۔۔
حریم چڑ گئی اور اپنے ہاتھوں سے اسکا منہ بند کیا۔۔
یہ کیا بد تمیزی ہے مرال چیخی۔۔
پلیز یہ سب چھوڑو اور مجھے بتاؤ میں کیسے اس بلا سے جان چھڑاؤں؟؟
وہ اسکے کان میں گھسی ہوئی تھی۔۔۔
حریم میری تو سمجھ میں نہیں آرہا تم کیسے الو بنی یونی میں۔۔۔
میرے سامنے تو بڑی چلاکو ماسی بنتی ہو۔۔
بکواس نہیں کرو۔۔سمجھیں میں بھی انسان ہوں۔۔
ہمم اچھا یہ تو مجھے آج پتا چلا کہ تم بھی انسان ہو۔۔
مرال زور سے ہنسی۔۔
اسکی ہنسی میں حریم بھی شامل ہوگئی
پہلی بار وہ اسے اتنی خوش دکھائی دے رہی تھی۔۔۔
__________________
حریم صبح اٹھی تو اسے چاۓ کی سخت طلب ہورہی تھی۔۔
وہ شرم کے مارے مانگ بھی نہیں سکتی تھی کچن میں جانا بھی اچھا نہیں لگرہا تھا۔۔
وہ مرال کو ڈھونڈنے لگی جو اس سے پہلے اٹھ کے پتا نہیں کہاں چلی گئی تھی۔۔
اس نے دیکھا ساحل بھی ابھی ابھی اٹھا تھا شاید وہ اسے دیکھ کہ بولا
حریم ادھر آجائیں مام آپکو بلا رہی ہیں۔۔
تب اسکی جان میں جان آئی کم از کم زرین سے تو کہہ سکتی تھی چاۓ کا۔۔
جی آنٹی وہ پوچھنے لگی۔۔
بیٹا یہاں بیٹھو۔۔ساحل کے ساتھ ابھی ناشتہ آجاتا ہے تم دونوں کا۔۔
وہاں دسترخوان بچھا ہوا تھا جہاں اور بھی کافی لوگ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔۔
جی اچھا وہ بیٹھی ساحل کے ساتھ۔۔
اس انجان شہر میں یہ کھڑوس بھی اسے غنیمت لگرہا تھا۔
ناشتہ آگیا تھا۔۔
لسی کا جگ پراٹھے۔۔
مکھن اور بھی کچھ تھا لیکن وہ نہیں آئی تھی جس کا انتظار تھا۔۔
حریم نے ساحل کی طرف دیکھا
اور ساحل نے حریم کی طرف دونوں کی حالت ایک سی تھی۔۔
وہاں غالب بھی بیٹھا تھا ان دونوں کو دیکھ کہ سمجھ گیا اور سر جھکا کے مسکرانے لگا۔۔
معصومہ۔۔۔۔
غالب نے پکارا جو لڑکی ناشتہ لے کر آئی تھی۔
جی جہاں زیب بھائی۔۔
وہ لڑکی خالص پنجابی لہجے میں بولی۔۔۔
بیٹا ہم لوگ سندھ سے آۓ ہیں۔۔وہ مسکرایا
اور ہماری صبح لسی سے نہیں بلکہ چاۓ سے ہوتی ہے۔۔
وہ کہنے لگا اور اشارہ حریم اور ساحل کی طرف تھا۔۔
اوہ اچھا بھائی جی ابھی چاۓ لاتی ہوں۔۔
وہ لڑکی اندر بھاگی۔۔
ساحل نے غالب سے پوچھا
آپ بھی کراچی سے آۓ ہیں؟؟
جی ہاں میں بھی وہیں سے ہوں۔۔وہ بھی مسکرایا
باے دی وے میرا نام جہاں زیب ہے اور عرش میری پھوپھو کے بیٹے ہیں۔۔۔۔
اسنے دولہے کا نام لیا ۔۔
او آئی سی۔۔ ساحل سکندر میں عرش کا کزن ہوں ایک طرح سے۔
اسنے مصافحہ کیا۔۔
حریم کی جان پہ بنی تھی اسنے بیٹھتے وقت غالب کو نہیں دیکھا تھا۔۔
کہیں یہ کچھ بتا نا دے ساحل کو۔۔۔
حریم نے ناشتہ کر لیا تھا وہ جانے لگی تو غالب اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔
________________________
ساحل جب سے آیا تھا بہت چپ چپ تھا
ایک تو وہ یہاں کسی کو جانتا نہیں تھا۔۔
دوسرے اسے اپنے بہت سے کام نپٹانے تھے جن کی وجہ سے وہ پریشان تھا۔۔
زرین بہت خوش تھیں انکو بہت مزا آرہا تھا۔۔
ایشال کی ہونے والی ساس سے انکی اچھی خاصی دوستی تھی تو وہ ہر وقت گپیں مارتی تھیں ساتھ میں۔۔
شام کو سب لوگ لان میں جمع تھے۔۔
لڑکے لڑکیاں۔۔
اور سب لوگ دولہے کو چڑا رہیے تھے۔۔
بھائی جان آپ کی تو بس اب ساری آزادیاں ختم ہونے والی ہین۔۔
عریش کے کزن نے کہا۔۔
کیوں بھئی میں شادی کر رہا ہوں کوئی۔۔ جیل نہیں جارہا۔۔
وہ بھی دوبدو جواب دے رہا تھا
اجی جل جانے سے بھی بڑا مشکل کام ہے شادی کرنا سمجھو بھائی اب تمہاری نیند حرام ہیں
تمہارا باہر جانا جانا مشکل۔۔
کسی سے فون پہ بھی بات کروگے تو سوال ہوگا۔۔۔
مسکراؤ گے تب بھی سوال ہوگا۔۔
اداس ہوگئے تب بھی سوال ہوگا۔۔
ہر کوئی اپنا لقمہ لگا رہا تھا۔۔
ایسا کچھ نہیں ہوگا میں ان شوہروں جیسا نہیں جو بیوی کے آگے دم ہلاتے ہیں۔۔
وہ کہنے لگا
جی ہاں یہ وہ بلکل نہیں ہیں یہ تو وہ ہیں جو بیوی کے پیچھے دم ہلاتے ہیں ۔۔
کسی نے کہا تو سب ہنسنے لگے۔۔
عریش انکی نکل اتارنے لگا۔۔
جہاں زیب گٹار بہت اچھا بجاتے ہیں اور آواز بھی بہت اچھی ہے پلیز کچھ سنائیں۔۔
ایک لڑکی جو اسکی کزن تھی کہنے لگی تو سب اسکے پیچھے پڑ گئیے
کوئی جلدی سے گٹار لاؤ میرا۔۔
ایک لڑکے نے کہا تو کچھ دیر میں گٹار آچکا تھا۔۔۔
غالب نے گٹار چیک کیا اور بجانے لگا ۔۔
ہممم۔۔۔۔
اسنے شروع کیا۔۔
او پاواں عشقے دے عنبری اڈاریاں۔۔۔
مینو پیار دیاں چڑھیاں خماریاں۔۔
ہو میرے پیر نہ زمین آتے لگدے۔۔
لکھاں چشمے محبتاں دے وگدے
راتیں مٹھے مٹھے اپنے بھی ٹھگدے۔۔۔۔
وہ بہت سکون سے گا رہا تھا۔۔
سب لوگ کھوگئے تھے اس کی دھن میں۔۔۔
کسے ایسیان نگاہاں مینو تکیا ۔۔
چاہندے ہوۓ بھی نہ دل رک سکیا۔۔
گیا پیر عشقے دے وچ رکھیا۔۔۔
نہ گل میرے وس دی رہی۔۔۔
نہ گل میرے وس دی رہی۔۔۔
حریم سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔
مدھر دھن میں سب سر دھن رہے تھے۔۔
غالب کی نظریں حریم کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔
۔۔او لاواں باہاں وچ سمیٹ کائینات میں
دسواں کینو کینو عشقے دی بات میں۔۔۔
حریم نے ایک پل نظر اٹھائی تو وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
اسکے ہونٹوں پہ میٹھی مسکان تھی۔۔
رنگ پھلوں دا وی ہور گوڑا ہوگیا۔۔
پانی پیار والا پتیاں نو دھو گیا۔۔
آج اوس دا دیدار مینو ہوگیا۔۔۔
نہ گل میرے وس دی رہی۔۔۔
ساحل نے حریم کو دیکھا وہ کسی سوچ میں گم تھی۔۔
ساحل کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔۔
وہ کوشش کے باوجود بھی حریم سے نظر نہیں ہٹا پارہا تھا۔۔
اچانک حریم اٹھی اور وہاں سے جانے لگی۔۔
ساحل حیرت سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
جب کے غالب کی دھن ٹوٹ گئی تھی۔۔
وہ بھی اسی کو جاتا دیکھ رہا تھا۔۔
کیا ہؤا سب لوگ شور مچانے لگے۔۔
بس اب مجھ سے نہیں ہوگا۔۔
غالب نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر کیے۔۔
نو نونو
سب چلائے۔۔
ونس مور ونس مور ونس مور۔۔
غالب نے گٹار اپنے کزن کے حوالے کیا۔۔۔
اور
اسے کہنے لگا اب تم سناؤ۔۔
حریم کے دل کی دھڑکن بری طرح بڑھی ہوئی تھی۔۔
غالب کی نظریں کچھ عجیب سا اشارہ کر رہی تھیں۔۔۔
اسے گھبراہٹ ہورہی تھی۔۔
مرالہ اسے ڈھونڈتے۔۔
وہاں آچکی تھی۔۔
کیا ہوا تم کیوں چکی آئی کتنا مزا آرہا تھا۔۔
میرو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے یہ لڑکا۔۔
کون۔۔؟
مرال نے پوچھا۔۔
وہی غالب جو عریش کا کزن ہے۔۔۔
او ہاں کیا ہوا اسے۔۔
وہ لڑکا گانا گاتے ہوئے مسلسل مجھے ہی گھور رہا تھا۔۔
وہ اسے بتارہی تھی۔۔
ارے تو اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے۔۔
وہاں پہ بہت سے لڑکے مجھے بھی گھور رہے تھے۔۔
تو کیا میں بھی وہاں سے بھاگ آتی؟
نہیں میرو تم سمجھ نہیں رہی۔۔
وہ مجھے ڈرا رہا تھا۔۔
وہ کیوں ڈرائے گا تمہیں؟؟
شائد وہ مجھے بلیک میل کرنا چاہتا ہے۔۔
وہ ساحل کو سب کچھ بتادے گا میرو۔۔
اووہ تو یہ بات ہے۔۔۔
میں سمجھی کے وہ تمہیں کسی اور طرح سے دیکھ رہا تھا۔۔
اور کیسے؟؟
وہ ہوچھنے لگی۔۔
جیسے ایک لڑکا ایک لڑکی کو پسند کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔۔
مرال معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔۔
تمہارا دماغ خراب ہے کیا بھلا وہ مجھے کیوں پسند کرنے لگا۔۔
کیوں کہ میری جان تم ہو ہی اتنی پیاری۔۔وہ اسکے گال کی چٹکی لیتی بولی۔۔
حریم نے بھی بدلا لیا۔۔
اور دونوں ہنسنے لگیں۔۔
_____________
مہندی ہوچکی تھی اب شادی اور ولیمہ رہتے تھے۔۔
نکاح کل ہی ہوچکا تھا مہندی میں۔۔
آج بارات تھی۔۔
وہ سب تیار ہوچکیں تھیں۔۔۔
حریم اور مرال ایک ہی کار میں بیٹھی تھیں۔۔
کار حریم نے نوٹ کیا کے جو لڑکا کار ڈرائیو کر رہا تھا اس کو ایک کال آئی تو وہ اترا اور اسکی جگہ پہ غالب آکر بیٹھ گیا۔۔
حریم کو سخت غصہ آیا۔۔
وہ مرال کے کان میں بولی۔۔
دیکھا دیکھا تمنے۔۔
کیا ۔۔؟
وہ پوچھنے لگی
اس لڑکے نے دوسرے لڑکے کو کال کر کے اتارا اور خود بیٹھ گیا ہے دیکھو زرا۔۔
اوہو تو ہمارا کیا جاتا ہے جو بھی کار چلاۓ۔۔
وہ اسے کوہنی مار کے چپ کرانے لگی۔۔
حریم موڈ آف کر کے بیٹھ گئی۔۔
پرپل کلر کی میکسی میں وہ بہت کیوٹ لگ رہی تھی۔۔
حریم اور مرال نے ویسٹرن لک دیا تھا اپنے کپڑوں اور میک اپ میں۔۔۔
بہت ہی لائٹ میک اپ مین وہ دونوں ہی بہت پیاری لگ رہی تھیں۔۔
حریم نے مرال کے کان میں بہت چون چون کی تو مرال نے آخر کار ہاتھ بڑھا کے بیک ویو مرر کا رخ پھیر دیا دوسری طرف تب جاکے حریم سکون سے بیٹھی۔۔غالب کا موڈ آف ہوگیا تھا ۔۔
وہ لوگ جب بینکیوئٹ پہنچے تو مرال اور حریم جلدی سے اتریں۔۔
لمبی ہیل دونوں نے پہنی ہوئ تھی۔۔
حریم بمشکل چل پارہی تھی۔۔
یار تم ہر بات میں کوئی نا کوئی مسئلہ ضرور کھڑا کر دیتی ہوں ہو اب کیا مصیبت ہے تمہیں۔۔؟
مرال اس پہ برس پڑی جب اسنے بتایا کہ وہ چل نہیں پارہی۔۔
افف۔۔
مرال نے اپنا سر پکڑا۔۔
کچھ تم بھی سیکھ لو آگے والے گھر میں میں نہیں اآونگی تمہارے جہیز میں۔۔
مرال نے اپنا پرانا بدلا اتارا۔۔
تو حریم اسے آنکھیں دکھاتی بولی۔۔
ہماری بلی ہمیں ہی سے میاؤں؟
حریم نے کونے میں ایک ٹیبل دیکھی تو وہاں جا کے بیٹھ گئی۔۔
اور مرال نے اپنی سینڈل اسے دی اور اسکی خود پہنی۔۔
محترمہ کو شوق بھی چڑھا تھا ہیل پہننے کا۔۔
مرال کی سینڈل کی ہیل زیادہ لمبی نہیں تھی اور اتفاق سے دونوں کا سائز بھی ایک ہی تھا۔۔
پیچھے سے آواز آئی دوپٹہ بدل بہنیں تو سنا تھا۔۔
آج سینڈل بدل بہینں بھی دیکھ لیں۔۔
دونوں نے مڑ کے دیکھا تو غالب کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔
حریم اٹھی اور اس کے قریب گئی۔۔
کیا چاہتے ہیں آپ ؟
وہ سختی سے بولی۔۔
بندہ ناچیز کیا چاہ سکتا ہے۔۔
وہ بولا
دیکھیں آپ نے میری ہیلپ کی اسکا میں شکریہ ادا کر کی ہوں۔۔
اور آج پھر سے کرتی ہوں۔۔
لیکن مجھے یہ بلکل پسند نہیں کے آپ ہر جگہ میرے پیچھے آجائیں۔۔
کون آپ کے پیچھے آیا ہے میں تو یہاں سے گزر رہا تھا۔۔
غالب حیران ہوا
میں سب سمجھتی ہوں۔۔
کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔۔
اچھا کیا چاہتا ہوں میں۔۔
وہ بھی غصے میں اگیا۔۔
آپ مجھے بلیک میل کرنا چاہتے ہیں تاکے۔۔
وہ رکی۔۔
تاکہ کیا؟؟
وہ طنزیہ بولا
وہ تو آپ کو ہی پتا ہوگا۔۔
اور آپ جو چاہتے ہیں وہ بتادیں
میں تو آپ کو چاہتا ہوں وہ سینے پہ ہاتھ باندھنے بولا۔۔
حریم کا منہ کھلا ہؤا تھا وہ حیرت سے اسے دیکھے جارہی تھی۔۔
جبکہ مرال کو بھی حیرت کا جھٹکا کا لگا ہوا تھا۔۔
مرال آگۓ آئی دیکھیں مسٹر۔۔۔
یہاں پہ کوئی مووی نہیں چل رہی جو آپ ہیرو کی طرح نڈر ہو کہ اظہار عشق فرمایں گے اور ہیروئن آپ کی دیوانی ہوجائگی۔۔۔
مرال نے اسے دھمکی دی۔۔
آپ کو پتا نہیں ہے ساحل بھائی کا۔۔
ان کو پتا چل گیا نہ تو وہ آپ کو کھڑے کھڑے اڑا دینگے۔۔
مرال نے ہاتھ سے پسٹل کا اشارہ کیا۔۔
اچھا آپ کے بھائی ہٹلر ہیں کیا جو مجھے اڑا دینگے۔۔
وہ ہلکا سا ہنسا اور مرال کی نکل اتاری۔۔
کیا آپ نے بھائی کو ہٹلر کہا؟؟
مرال کو تپ چڑھ گئی۔۔
کیوں اتنا برا لگ رہا ہے آپ کو ۔۔۔۔
وہ دلچسپی سے مرال کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
ویسے آپ میرے خیال سے میری ہونے والی سالی صاحبہ ہیں۔۔۔
وہ شرارت سے بولا۔۔
ہاہ دونوں نے بڑا منہ کھولا۔۔
یو ایڈیٹ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے سالی بولنے کی۔۔۔۔
مرال لال پہلی ہو رہی تھی۔۔۔۔
جب کہ حریم کو چکر آنے لگے ڈر کے مارے۔۔۔۔
,کیوں کہ آپ مس حریم کی سسٹر ہیں
اللہ اللہ۔۔۔مرال نے بس اتنا کہا
وہ ڈھٹائی سے مسکرا رہا تھا۔۔
دیکھیں حریم کا خیال دل سے نکال دیں اسکی منگنی ہوچکی ہے۔۔۔
مرال نے اپنی طرف سے بم پھوڑا۔۔۔۔
تو غالب کے ساتھ ساتھ۔۔
حریم بھی جھٹکا کھا کے اٹھی۔۔۔۔۔
ہیں؟؟؟
کس ہوئی ہے میری منگنی۔۔۔۔
وہ مرال کو اپنی طرف کرکے حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔۔
تو مرال کو سخت غصہ آگیا
اسٹوپٹ۔۔۔
جب کہ غالب کو شک ہوگیا کہ دال میں کچھ کالا ہے۔۔۔۔
مرال بات بنانے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ جان چھوٹے غالب سے۔۔
اور وہ ڈفر ۔۔
بتاؤ نا۔۔
وہ مسلسل ہلاتے جارہی تھی
مرال کو جب کہ غالب نے اسکا مذاق اڑانے کے انداز میں کہا
جی بتائے اپنی سسٹر کو کون ہیں وہ نئے نویلے
فیانسی؟
مرال نے اپنا غصہ برداشت کرتے ہوے کہا۔۔
میرے کزن ساحل سکندر سے۔۔۔
ابکی بار غالب کے ساتھ۔۔حریم بھی شوکڈ تھی
۔۔
اب آپ جاسکتے ہیں۔۔
غالب کے لب غصے سے پھنجے ہوئے تھے۔۔
اور وہ وہاں سے جانے لگا۔۔
حریم حیرت سے دیکھے جارہی تھی
مرال نے اس کے سر پہ چپت رسید کی۔۔
ڈفر میں اس سے جان چھڑانے کو ایسے ہی بول دیا کے تیری انگیجمنٹ ہوگئی ہو اور تو نے سارا پلان چوپٹ کردیا۔۔۔۔
وہ اس پہ غرائی۔۔۔
یہ تم نے جوٹھ بولا تھا؟
وہ منہ کھولے پوچھ رہی تھی۔۔
اور نہیں تو کیا سٹوپٹ تری منگنی کا تجھے نہیں پتا ہوگا۔۔
وہ کرسی پہ گرنے کے انداز میں بیٹھی۔۔
تو ساحل سکندر کا نام کیوں لیا ؟؟
ہاں میرا ہارٹ فیل ہوجاتا تو؟
وہ اپنا دل تھامے ہوئے بیٹھی۔۔
کیوں کیا برائی ہے ساحل بھائی میں لڑکیاں مرتی ہیں ان پر۔۔
انکو دیکھ کہ مرا ہی جاسکتا ہے۔۔
وہ بولی۔۔
اب اگر وہ کمینہ سامنے آئے نا تو بس ساحل بھائی کہ قریب ہونا خود ہی بھاگ جاۓ گا۔۔
وہ ہنسی۔۔
ہی ہی ہی ۔۔حریم نے منہ چڑا کہ اسکی نکل اتاری۔۔
اور وہ تمہارے ساحل بھائی جو خود ایک بھاگنے والی چیز ہیں۔
وہ دونوں نوک جھونک میں بزی تھیں۔۔
جب کہ زرین ان دونوں کو کب سے ڈھونڈ رہی تھی۔۔
انکی ایک پرانی دوست ملگئ تھی ان سے ملانا تھا ان کو۔۔
ایشال انکو ڈھونڈتے ہوے ان تک ا پہنچی۔۔
یہ کیا کھچڑی پکاتی رہتی ہو تم دونوں اکیلے اکیلے۔۔ہمم؟
ایشال نے آنکھیں دکھائی۔
جی نہیں ہم بچارے تو ایسے ہی رل رہے ہیں۔۔
آپکو ہی اپنے سسرالیوں سے فرصت نہیں۔۔
وہ الٹا اسے چڑانے لگین۔۔
چلو آنٹی بلارہی ہیں تم دونوں کو۔۔
وہ دونوں ایک دوجے کو دیکھ کہ رہ گئیں۔
______________________
آنٹی کہ ساتھ غالب کو دیکھ کے وہ دونوں ٹھٹک گئیں۔۔
دونوں وہاں سے کھسک رہی تھیں کہ ساحل انکے آگے آگیا
کیا ہوا آپ دونوں کو چہرے پہ ہوائیاں کیوں اڑارہی ہیں۔ ۔۔
بھائی پلیز ہمیں یہاں سے لے چلیں۔۔
مرال جھٹ سے بولی۔۔
کیوں؟
وہ مشکوک نظر وں سے دیکھنے لگا۔۔
وہ اصل میں حریم کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔
ہیں۔۔۔۔۔
حریم چونکی۔۔
مرال نے آنکھیں دکھائیں۔۔
حریم تمہیں چکر آرہے تھے نا۔۔؟
او ہاں ہاں حریم نے جلدی سے اپنا سر پکڑا۔۔
میں کسی سے گاڑی لیتا ہوں آپ بیٹھ جائیں مس حریم۔۔
وہ اسے کرسی آگے کر کے دی رہا تھا ۔
سنیں اسنے پکارا
ہمم وہ پلٹا
آنٹی کو مت بتائے گا۔۔
وہ پریشان ہوجائنگی۔۔
وہ اچھا فیل کر رہی ہیں یہاں تو ہم ایشال کو کال کرلنںگے وہ انکو کوئی سالیڈ بہانہ کردیگی۔۔
جانے کیوں ساحل کو اس پر یقین نہیں آرہا تھا۔۔
پتا ہے میڈم آپکی طبیعت بلکل ٹھیک ہے بس دماغ تھوڑا سا خراب ہے وہ ٹھیک کرنا پڑےگا
وہ دل ہی دل میں سوچتا جانے لگا۔۔
میرو اگر اس لڑکے نے ساحل سے کہدیا تو۔۔
ارے شکل اچھی نا ہو تو بندہ بات اچھی کرلیا کرتا ہے
مرال نے اپنا دل تھاما۔۔
لیکن اگر ساحل کو پتا چل گیا نا تو ہم دونوں کی خیر نہیں۔۔
اب دونوں کو واقعی میں چکر آرہے تھے۔۔..
ساحل کچھ دیر میں آگیا تھا عریش کی کار کی کیز لیکر۔۔
ان دونوں کو بیٹھنے کا کہہ کہ خود ایک بندے سے باتوں میں لگ گیا۔۔
شاید کچھ پوچھ رہے ہیں ۔۔
مرال بولی۔۔
ہاں یہاں کے رستے نہیں معلوم ہونگے۔۔
حریم نے اپنے خیالات بتاۓ۔۔
خیر جب ساحل آیا تو۔۔
کار سٹارٹ کرلی اور مڑ کے اسے دیکھا۔۔
حریم آپ کو چکر کہاں پہ آرہے ہیں۔۔؟
بڑے ہی سنجیدہ انداز میں پوچھا گیا۔۔
حریم بوکھلاہٹ میں بولی
پتا نہیں۔۔
مرال نے جل کے اسے کوہنی ماری..
حریم سمجھی نہیں
ساحل نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔
وہ اسکو سر میں آرہے ہیں چکر۔۔۔
مرال نے بات سنبھلنے کے بجائے بگاڑی۔۔
ابکی بار ساحل اپنی ہنسی نا روک پایا۔۔
وہ کھل کے ہنسا تھا۔۔
جب کہ وہ دونوں حیرت سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔
یہ ہنسا کیوں؟؟
وہ ایک دوجے کو اشارے کر رہی تھیں۔۔
وہ ڈرائیو کرتا بیک ویو مرر سے دیکھ کہ پوچھ نے لگا۔۔
تو پھر دماغ کے ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔؟
تو وہ دونوں اچھلیں۔۔
ارے نہیں بھئی مجھے بس گھر لے چلیں مجھے نیند آئیگی تو ٹھیک ہو جاؤں گی۔۔
اب حریم حواسوں میں تھی۔۔
اوکے ایز یو وش۔۔
لیکن کیا خیال ہے مرال آئس کریم نا کھائی جاۓ؟
ججی بلکل بہت ہی اچھا خیال ہے۔۔
یہ کھڑوس اتنی مہربانیاں کیوں کر رہا ہے؟
وہ مرال کے کان میں منمنائ۔۔
مجھے کیا پتا۔۔ہو سکتا ہے مرنے سے پہلے ہمیں خوش کرنا چاہتے ہوں۔۔
کیا۔۔۔حریم کی آواز تیز ہوگئی تو مرال نے اسے چٹکی کاٹی۔۔
بدتمیز لڑکی۔۔
میں مزاق کر ہی تھی۔۔
آئیس کریم کو بمشکل ختم کر کے چل نے کا کہا خدا خدا کر کے گھر پہنچے ۔۔
تو حریم نے شکر کا کلمہ پڑھا۔۔
وہ انکو ڈارپ کر کے واپس جارہا تھا۔۔
حریم سے نظر نہیں ہٹا پا رہا تھا۔۔
سر جھٹک کے کار ریوس کرنے لگا۔۔
ساحل سب سمجھتا تھا کہ حریم کو کچھ نہیں ہؤا ضرور کوئی سٹوپٹ سی پرابلم کری ائٹ کی ہوگی محترمہ نے
وہ نا جانے کیوں مسکراۓ جارہا تھا۔۔
ادھر حریم اور مرال کی جان پہ بنی تھی کہ اگر ساحل کو منگنی والی بات پتا چلی تو کیا حشر کرے گا ہمارا۔۔
_____________________________
وہ لوگ سب بہت دیر سے آۓ تھے۔۔
ساحل نے ان دونوں کے لئے پزا آڈر کردیا اس کو پتا تھا دونوں بوکھ کی کچی ہیں اور کھانا لگنے سے پہلے ہی وہ واپس آئیں تھیں
ان کے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے وہ ٹوٹ پڑے پزا پہ۔۔۔
اب سو جاؤ حریم جو ہوگا دیکھا جائے گا۔۔
مرال سونے لگی
ہمم بس دعا کرنا یہ بلا ٹل جائے۔۔
۔۔
صبح وہ ناشتہ کرنے باہر نہیں نکلی سر درد
کا بہانا بنا کے وہیں چاے منگوا لی۔۔
کب تک چھپی بیٹھی رہوگی یار مت ڈرو وہ کچھ نہیں کرسکتا
مرال اسے کھینچتیے ہوے بولی
نہیں یار مجھے غالب سے نہیں مجھے ساحل سے ڈر لگ رہا ہے اگر آسکو پتا چلا کے میں اسکی منگیتر بنی ہوئی ہوں تو وہ اففف۔۔
اس سے آگے بولا بھی نہیں جارہا تھا
چلو باہر مرال نے اسکی ایک نا سنی
وہ نکلی تو گھر میں زیادہ لوگ نظر نہیں آے
کافی لوگ واپس جا چکے تھے
آج ولیمہ تھا
شام تک پھر سے وہی افرا ظفری مچ گئی تیاریوں میں مصروف تھے سب
ساحل اپنے مخصوص سٹائیل میں بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا
حریم اسے چور نگاہوں سے دیکھ رہی تھی
ساحل کی نظر بھی اس سے ملی دونوں ایک دوجے کو کچھ پل دیکھتے رہے
حریم اسکے نظروں کی تاب نا کاسکی اور نگاہیں جھکا لیں
ساحل کے لبوں پہ مسکان تھی۔۔
اچھا تو میڈم شرماتی بھی ہیں۔۔
وہ سوچنے لگا
یہ مجھے کیوں اسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔۔
وہ گھبرا گئی تھی۔۔۔
غالب ابتک نظر نہیں آیا تھا۔۔
وہ خوش تھیں کہ جان چھوٹی۔۔
وہ ڈنر کر رہے تھے کہ
غالب بھی انکی ٹیبل پہ آکر بیٹھنے کی اجازت مانگی۔۔
واۓ ناٹ۔۔۔
ساحل نے مسکرا کے کہا۔۔
حریم اور مرال نے ایک دوجے کو دیکھا۔۔
جی تو ساحل صاحب شادی کے کب ارادے ہیں آپ کے؟؟
باتوں باتوں
میں غالب اصل مدعے پہ آگیا۔۔
حریم سن ہوگئی۔۔
اور ساحل کو دیکھا۔۔
وہ اپنے مخصوص انداز میں ہلکا سا مسکرایا۔۔
ارادے تو نیک ہیں۔۔
اس نے حریم کی طرف مسکرا کے دیکھا۔۔
حریم کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔۔
مرال کی بھی ویسی ہی حالات تھی جو حریم کا تھا۔۔
تو کب کر رہے ہیں غالب کی مسکراہٹ پھیکی تھی
اسنے ساحل کو مسکرا کے حریم کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ لیا تھا
وہ اس ارادے سے آیا تھا کہ ان دونوں لڑکیوں کا جوٹھ پکڑے گا
لیکن وہ تو سرپرائزڈ ہوگیا تھا
بہت کچھ سمجھ گیا تھا ساحل کی نظروں سے۔۔
ساحل کی یں مرال کی بات کو سچ ثابت کر رہی تھیں
جب کہ حریم کا چہرہ گواہی دیرہا تھا کے انہوں نے غلط بیانی کی تھی۔۔
حریم کی جان پہ بنی تھی اب یہ منحوس لڑکا کیا کہنے والا تھا
ساحل نے غالب کو دیکھ کہ کہا بس یار تھوڑ سا ویٹ کرنا پڑیگا۔۔
اسنے پھر حریم پہ نظر ڈالی۔۔
غالب بہت کچھ سمجھ چکا تھا
ساحل نے حریم کو دیکھا تو اسکا چہرہ پھیکا پڑا ہؤا تھا
حریم آر یو اوکے؟
ساحل نے اس سے پوچھا۔۔
تو حریم نے نفی میں گردن ہلائی۔۔
کیا ہؤا۔۔؟
کیا ہوا حریم آپکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی
ساحل پریشان نظر آرہا تھا
حریم کے ہاتھ کپکپا رہہے تھے
وہ ساحل کی طرف عجیب نظروں سے دیکھے جا رہی تھی
اس سے کوئی بات نہیں بن پا رہی تھی
وہ وہ مجھے چکر آرہے ہیں۔۔۔اسنے کل والا بہانا ہی یاد آیا۔۔
اب کی بار ساحل سچ میں پریشان لگ رہا تھا
جب کے غالب اپنے لب پھنجھے اسے دیکھے جارہا تھا
آخر بات کیا ہے اگر یہ سچ میں اس کی منگیتر ہے تو اتنا گھبرانے کی کیا بات ہے اسنے دل میں سوچا
جب کہ ساحل اپنی چئیر سے اٹھا اور حریم کے آگے اپنا ہاتھ بڑھایا۔۔
حریم اسے گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی
لیکن وہ جلد سے جلد یہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔۔
اسنے ساحل کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لیا۔۔
اور اٹھی۔۔
وہ اسکا ہاتھ تھامے ہوئے جانے لگا پارکنگ کی طرف۔۔
غالب بس ان کو جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔۔
مرال کی حالت اب بہتر تھی
اسنے مسکرا کے غالب کو دیکھا
اور بولی
دیکھا کتنا پیار کرتے ہیں یہ ایک دوجے سے۔۔
اسنے انکی طرف اشارہ کیا۔۔
تو اب آپ بھی اپنے لیے کوئی اور لڑکی دیکھ لیں
وہ کسٹرڈ کھاتے ہوئے اسے جلانے کو بولی
غالب جو اسکو غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
بولا
جی آپ بلکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔۔
مجھ سے غلط فہمی ہوگئی۔۔
وہ اطمینان سے بولا
اصل میں۔۔
مجھے اپنی لائف پارٹنر کے روپ میں کوئی اور پسند آگئی ہے۔۔
مرال نے مسکرا کے اسے دیکھا اور بولی گڈ۔۔۔
بیسٹ آف لک ۔۔۔۔
اسنے چمچ منہ میں ڈال کہ کہا۔۔
کیا میں پوچھ سکتی ہوں کون ہے وہ خوش نصیب۔۔۔
مرال نے اسے جلانے کو پوچھا۔۔۔
تو غالب مسکرایا۔۔
میں غلط تھا
کہ آپ کو اپنی سالی بنانے چلا تھا۔۔۔وہ اسے دیکھ کہ بولرہا تھا۔۔
مرال مزے سے کسٹرڈ سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔۔
اسے مزا کسٹرڈ میں نہیں غالب کو چڑانے میں زیادہ آرہا تھا۔۔۔۔
ہممم گڈ وہ بولی۔۔
مجھے اصل میں اب یہ خیال آیا ہے کہ سالی تو مجھے۔۔۔
مس حریم کو بنانا ہے۔۔
وہ اسے غور سے دیکھ کہ دھیرے سے بولا۔۔
پہلے تو مرال کچھ سمجھی نہیں اور اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا
وہ کیسے؟
وہ ایسے کہ وہ آپکی سسٹر ہیں تو اب وہ میری سالی بنیں گی۔۔۔
اور مرال نے حسبِ معمول بڑا سا منہ کھولا۔۔۔
غالب اپنا تیر نشانے پہ دیکھ کہ مسکراتا ہوا وہاں سے اٹھ گیا۔۔
مرال نے چمچ زور سے پلیٹ میں پٹخا۔۔
کمینہ۔۔۔۔
__________________________
ساحل اسے قریبی کلنک میں لے آیا تھا وہ ڈری ہوئی تھی۔۔
ڈاکٹر نے بی پی چیک کر کے بتایا
کہ انکا بی پی لو ہے کچھ لیکن خطرے کی بات نہیں ہے۔۔
آپ بس انکو پانی زیادہ پلائیں اور کچھ آرام کرینگی تو بہتر فیل کرینگی۔۔
ساحل نے اسے دیکھا۔۔
کیا ہوا حریم آپ کو کوئی پریشانی ہے۔۔؟؟
وہ اس سے پوچھنے لگا
اس وقت وہ کار میں بیٹھے ہوئے تھے۔۔
حریم نے دیکھا وہ اس کے لئے پریشان دکھ رہا تھا۔۔
وہ اصل میں مجھے انجان جگہ پہ نیند نہیں آتی تو شاید اسی لئے ۔۔
ہمم۔۔۔ وہ کچھ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
اسنے کار سٹارٹ کی۔۔
کچھ دیر سڑکوں کی خاک چھاننے کہ بعد اسنے ایک جگہ پہ کار روکی وہاں بہت سی شاپس تھیں
فاسٹ فوڈ وغیرہ کیں۔۔
اس نے ہارن دیا تو ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا
جی سرکار۔۔۔
ہاں دو لیمن سوڈا۔۔۔
ساحل نے اسے کہا۔۔
شاید وہ پہلے بھی یہاں آچکا تھا
حریم آپکو لیمن سوڈا پسند تو ہے نہ؟
جی وہ مسکرای میرا فیورٹ ہے۔۔
تو وہ بھی کھل کہ مسکرایا۔۔
میں یہاں ایک بار آچکا ہوں۔۔
عریش کہ ساتھ ۔۔
وہ بتانے لگا۔۔
ساحل کو خود پہ بھی حیرت ہورہی تھی وہ کیسے اس لڑکی کو اپنی باتیں بتا رہا تھا۔۔
وہ تو کسی پہ بھی نہیں کھلتا تھا۔۔
اسنے اپنا سر جھٹکا۔۔
حریم اسے دیکھ رہی تھی
یہ اتنا بدلا ہوا کیونکہ رہا ہے ۔۔
اس کی باتوں سے محسوس ہو رہا ہے کہ کافی خوش ہے آج۔۔
وہ سوچنے لگی۔۔
کچھ دیر میں لڑکا انکا آڈر لے آیا تھا۔۔
دونوں ہلکے ہلکے سپ لے رہے تھے
دونوں ہی ان لمحات کو کھونا نہیں چاہتے تھے۔۔
وہ دونوں ایک دوسرے کی قربت کو محسوس کر رہے تھے۔۔
ساحل اس پہ نظر ڈالتا کبھی حریم۔۔
لیکن وہ ایک دوسرے کو نا بھی دیکھتے تب اسکی موجودگی کو محسوس کر رہے تھے
کیا واقعی مجھے جو فیل ہو رہا ہے ویسا ہی ہے؟
ساحل نے سوچا۔۔
آج یہ کھڑوس مجھے اچھا کیوں لگ رہا ہے؟
حریم سوچنے لگی
دل کر رہا ہے اسے دیکھے جاؤں اور اسی کی باتیں سنتی جاؤں۔۔
حریم سوچے جارہی تھی
ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ
یہ مجھے اچھا لگے افف مجھے کیا ہورہا ہے
وہ پریشان بھی ہو رہی تھی۔۔
ساحل نے اسے دیکھا اور مسکرا کہ پوچھا ۔۔
اور کچھ لینگی؟؟
آں ہاں نہیں۔۔
وہ سوچوں میں غلطاں تھی اسکی بات پہ چونکی۔۔
ساحل نے سر ہلایا اور لڑکے کو ہاتھ اوپر کر کے اشارہ کیا بل کا۔۔
کار ریورس میں لگا لی۔۔
بل پے کرکے وہ واپسی کی راہ پہ چل دیے۔۔
ہم کہاں جارہے ہیں حریم نے پوچھا۔۔
میرا خیال ہے گھر ہی چلتے ہیں۔۔۔
وہ دھیرے سے بولا۔۔
جی۔۔
وہ گھر پہنچے تو ۔۔
باقی لوگ بھی اچکے تھے۔۔
زرین نے انکو آتے دیکھا تو پوچھا کہاں چلے گئے تھے آپ لوگ اکیلے اکیلے۔۔
وہ معنی خیز انداز میں پوچھ رہی تھیں۔۔
مام ہم بس سوڈا پینے گئے تھے اسنے شرارتی انداز میں زرین کی گلے میں باہیں ڈالیں۔۔
او اچھا جی۔۔
وہ بھی ہنسیں۔۔
حریم وہیں کھڑی انکو دیکھ رہی تھی
زرین نے اپنی باہیں پھیلا کہ اسے اشارہ کیا تو وہ بھی انکے گلے لگ گئی۔۔
زرین بہت خوش لگ رہی تھیں۔۔
__________________
___
حریم کمرے میں آئی تو بہت خوش لگ رہی تھی۔۔
مرال جلی بھنی بیٹھی تھی
اسے دیکھ کہ بولی
یہ تمہاری بانچھیں کیوں کھلی جارہیں ہیں میڈم؟؟
ہیں کیا واقعی؟
حریم نے آئینے میں خود کو دیکھا
آئینہ بھی اسکی چغلی کھا رہا تھا کہ کچھ تو ہے جس کی پردا داری ہے۔۔
میں تو خوش ہوں سو ہوں لیکن بیبی تم کیوں مرچیں چباے بیٹھی ہو؟
وہ اسے پکڑ کے پوچھنے لگی۔۔
جواب میں مرال نے ساری باتیں اسے بتایں جو غالب نے کہیں تھیں۔۔
پہلے تو حریم منہ پھاڑ کے ہنسی۔۔
اور جب مرال نے زور اک دھموکا جڑا اس کی پیٹھ پہ تب اپنی پیٹھ سہلاتی اس سے پوچھنے لگی
وہ بکواس کرتا رہا اور تم سنتی رہی۔۔
بیوقوف لڑکی۔۔
مرال اب اسے دیکھے جارہی تھی غصے سے
یہ بلا تمہاری لائی ہوئی ہے جو اب میرے سر پہ سوار ہے
اب مجھے بچانا تمہارا کام ہے
تم خود تو نکل لیں اور مجھے پھنسا دیا
وہ بنا رکے بولے جارہی تھی۔۔
اور بتاؤ تو سہی کیا کہدیا ساحل بھائی نے کے تم اتنی خوش لگ رہی ہو ۔
اب وہ ایک ہاتھ کمر پہ رکھ کہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
حریم بیڈ پہ ہیروئنوں کی طرح گری اور مسکرانے لگی۔۔۔
کچھ نہیں کچھ بھی تو نہیں کہا ۔۔۔
پھر ۔۔۔
کیا بات ہے
وہ انہوں نے مجھے لیمن سوڈا پلائی
اچھا تو اس لیے خوش ہو ندیدی کہیں کی۔۔
مرال کا بس نہیں چل رہا تھا کہ حریم کی پٹائی کر ڈالے۔۔
بہن تمیں غصہ اس لڑکے پہ ہے مجھ پہ کیوں اتار رہی ہو۔۔۔
ویسے لڑکا برا نہیں ہے
۔اسنے کہا تو مرال اپنی چپل ڈھونڈنے لگی
حریم ہنستی ہوئی واش روم میں گھس گئی ۔
__________________________
آج ان کی واپسی تھی۔۔
وہ آج بھی ڈری ہوئی تھی۔۔
وہ اور مرال آج ساتھ میں بیٹھیں تھیں۔۔۔
ساحل نے مرال کے کان میں سرگوشی کی
مرال خیال رکھنا مس حریم ڈرتی بہت ہیں
مرال مسکرای۔۔
حریم کو پچھلا سفر یاد آیا جب وہ ساحل کے ساتھ تھی
وہ مسکرای۔۔
ادھر ساحل بھی مسکرا دیا۔۔
اسے بھی وہی سفر یاد آگیا تھا۔۔
مرال کو ونڈو سیٹ پہ بٹھا کہ حریم ساتھ والی سیٹ پہ بیٹھ گئی۔۔
حریم بھائی کو بڑی فکر ہورہی ہے تمہاری۔۔
مرال نے حریم کو کہا تو حریم نے اپنا سر جھکا کے مسکراہٹ دبائی۔۔
اچھا ہے نا اس کھڑوس کو بھی کسی کی فکر ہو۔۔
وہ بات بدلنے لگی تو مرال نے عادتاً اسکی چٹکی کاٹی۔۔
سیی اسکی آواز نکلی۔۔
پاگل ہوگئی ہو کیا ہر وقت کٹکھنی بلی کی طرح کاٹتی رہتی ہو
وہ بھی بدلے میں اسکا ہاتھ مروڑنے لگی۔۔
چپ کرکے بیٹھو ساحل بھائی کھڑے کھڑے بیستی کردینگے ۔
دونوں نے اپنے منہ پہ اچھے بچوں کی طرح انگلی رکھی۔۔
اور ایک دوجے کو دیکھ کہ ہنس پڑیں
__________________
___
آج بھی اسکی حالت پتلی ہوگئی تھی پلین میں
مرال نے بمشکل اسے جھیلا۔۔۔
گھر پہنچتے ہی وہ دھڑام سے بیڈ پہ گری اور پھر صبح کی خبر لائی۔۔
زندگی اسی روٹین پہ واپس آگئی تھی
ڈائننگ ٹیبل پہ ساحل سے ملاقات ہوتی تھی۔۔
وہ دونوں بس ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے
سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ مجھے کیا ہورہا ہے۔۔
حریم اپنے جذبات کے سامنے بیبس
تھی۔۔
ادھر ساحل کا بھی وہی حال تھا۔۔
ان کے بیچ میں کوئی عہد و پیمان نہیں ہوئے تھے
نا کوئی اظہارِ ہوا تھا
لیکن پھر بھی دونوں ایک دوسرے کی
فیلنگس کو سمجھنے لگے تھے۔۔
نہ بولے تم نہ میں نے کچھ کہا کہا
مگر نہ جانے ایس کیوں لگا لگا
کہ دھوپ میں کھلا ہے چاند دن رات ہوگئی
یہ پیار کی بنا کہے سنے ہی بات ہوگئی
حریم گنگنائے جارہی تھی اور اور چائے بنا رہی تھی
مرال بھی اس کے ساتھ تھی وہ مشکوک نظروں سے دیکھ کہ بولی
یہ تم اجکل کچھ زیادہ ہی نہیں گنگناتی ہو؟؟
اور وہ بھی نہ جانے کس زمانے کے گانے۔۔۔
حریم نے دانتوں میں زبان دبائی۔۔
وہ مرال کو کچھ نہیں بتانا چاہتی تھی۔۔
وہ تو خود بھی ٹھیک سے نث جانتی تھی کہ کیا وہ بھی اسکے لئے وہی جذبات رکھتا ہے؟
اتنے میں ساحل کی آواز ائی۔۔
ایک کپ چائے ملےگی؟
آج ساحل نے بلو جینز پہ ریڈ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی
سلکی بال ماتھے پہ آرہے تھے۔۔
لبوں پہ مخصوص مسکراہٹ تھی
جو اجکل اسکے چہرے پہ اکثر دکھائی دیتی تھی
جب وہ حریم کو دیکھتا۔۔
یہ ریکوسٹ ہے یا آرڈر؟؟
حریم نے اسکے چاۓ مانگنے پہ پوچھا۔۔
تو مسکراتا اندر آیا اور انگلیوں سے بالوں کو ماتھے سے ہٹاتا۔۔
بولا
ریکوسٹ ہے۔۔۔
اور سر تھوڑا سا خم کیا تو حریم ہنس دی۔۔۔
جب کہ مرال اپنا منہ کھولے دونوں کو دیکھے جارہی تھی۔۔۔
ساحل واپس جانے لگا تو مرال اٹھی اور اچانک حریم کا کام مروڑا۔۔
یہ سب کیا چل رہا ہے میری ناک کے نیچے؟؟
پاگل لڑکی چھوڑ میرا کان۔۔
وہ چلائی۔۔
کیا کیا ہے میں نے بول؟
وہ کان سہلاتے ہوئے پوچھنے لگی۔۔
یہ ساحل بھائی تم سے مسکرا کے بات کیوں کر رہے تھے۔؟
مرال اپنے کمر پہ ایک ہاتھ رکھ کے پوچھ رہی تھی
کیوں مسکرانا کیا کوئی گناہ ہے یا ساحل مسکرا نہیں سکتے
وہ بھی اس سے پوچھنے لگیں آنکھیں گھما کی کے
جی نہیں مسکرانا کوئی گناہ نہیں ہے لیکن ساحل بھائی کا مسکرانا کچھ مشکوک ہے
اور وہ بھی تمہارے ساتھ بات کرتے ہوئے اور تم ان کے ساتھ اتنا فری کیسے ہوگی کچھ تو گڑبڑ ہے دیا
وہ سوچنے کہ انداز میں بولی
ہاہاہا تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔۔
چائے ابل چکی تھی
حریم نے اپنے اور مرال کے لیے مگ بھرے اور چائے میں تھوڑی سی بتی اور ڈال کے اسے ہلکی آنچ پر رکھ دیا کیونکہ ساحل سٹرونگ چائے پیتا تھا
اچھا جی نا بتاؤ میں آنٹی سے ہی پوچھ لوں گی
بدتمیز لڑکی آنٹی کو کیوں بیچ میں لا رہی ہوں وہ غصہ ہوئی وی
وہ اس لئے کہ تم مجھے کچھ بھی سچ نہیں بتا رہی
میرو دیکھو ایسا کچھ بھی نہیں ہے تم خوامخواہ شک کر رہی ہو
اگر ایسا کچھ ہوا بھی تو سب سے پہلے میں تمہیں بتاؤں گی پیاری
بمشکل اس نے مرال سے اپنی جان چھڑائی
اپنا اور مرال کا کپ مرال کے سامنے رکھا اور ساحل کی چائے مگ میں ڈال کے باہر نکلی ارادہ تھا اس کے کمرے کی طرف جانے کا….
حریم نے دور ناک کیا
یس۔۔۔۔
اندر سے آواز آئی۔۔
آپ کی چائے,۔
حریم نے جواب دیا۔۔
دروازہ کھلا۔۔
اور مسکراتا ساحل نمودار ہوا۔۔
ایک پل وہ اُسے دیکھتا رہا
حریم کی نگاہیں جھک گئیں۔۔
حریم۔۔۔
اُسنے دھیرے سے پُکارا۔۔
جی۔۔
چائے دوگی یہ واپس لیجانے کہ ارادہ ہے۔۔
وہ شرارت سے مسکرا رہا تھا۔۔
اوہ یہ لیں
حریم نے پلکیں اُٹھائیں۔۔
چاہے آگے کی۔۔
ساحل نے مگ تھاما
چاۓ کا سپ لیتے ہوئے کہا
ایک بات پوچھوں؟
جی پوچھیں۔۔۔
وہ گھبرا گئی کیا پوچھتے جارہا ہے۔۔۔
آپ نے تو میرے ہاتھ کی چاے کافی بار پی ہے۔۔
لیکن میرے لئے فرسٹ ٹائم بنائی ہے۔۔
جی۔وہ بولی
تو اس میں چینی کیوں ہے۔۔؟
میں چاۓ میں چینی نہیں لیتا۔۔۔
وہ بتارہا تھا
یہ بات آپکو پہلے بتانی چاہیے تھی۔۔۔
سارے موڈ کا ستیاناس ہوگیا تھا
ساحل دلچسپی سے اسے دیکھے جارہا تھا
سنیں…
جی سنائیں۔۔۔
وہ آف موڈ کے ساتھ بولی۔۔۔۔
چاۓ اچھی ہے ویسے۔۔
بہت بہت شکریہ اپکا۔۔
وہ جلے کٹے انداز میں بولی اور پلٹ کے سیڑھیاں اتر گئی
ساحل اسے جاتا دیکھ کہ ہلکا سا ہنسا
وہ سمجھ گیا تھا کہ اسکو سخت برا لگا ہے
ساحل کو ابھی یہ علم نہیں تھا کہ حریم کہ دل میں کیا چل رہا ہے
وہ ویسے بھی کافی ہنسنے بولنے والی لڑکی تھی
لیکن جب ساحل کو دیکھتی تھی
تو اسکی سٹی گم
ہوجایا کرتی تھی۔۔
لیکن اب وہ اسے دیکھ کہ بوکھلاتی نہیں تھی۔اور نا ہی
اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتی تھی
اور اب اسے دیکھ کہ لگتا تھا کہ وہ خوش ہوتی ہے
کیا وہ بھی مجھے پسند کرتی ہے یا یہ میرا وہم ہے
۔۔۔
_________________________
یونہی تم مجھ سے بات کرتی ہو ۔۔۔
یا کوئی پیار کا ارادہ ہے۔۔۔۔
ادائیں دل کی جانتا ہی نہیں میرا ہم دم بھی کتنا سادہ ہے۔۔
ہممم ہمم ہمم
اوہو بند کرو پلیز مجھسے نہیں ہورہا برداشت۔۔۔
مرال نے اپنی بک زور سے بند کی اور چلائی۔۔
وہ دونوں اس وقت مرال کے روم میں تھیں
کل سنڈے تھا ۔۔
وہ گنگنائے جارہی تھی
تمہیں کیا تکلیف ہورہی ہے۔۔
وہ بھی چیخی۔۔
ایک تو تمہارا اپنی پھٹی ہوئی آواز میں گنگنانا مجھے پسند نہیں اوپر سے قبل از مسیح گانے۔۔
میرے تو کان پک گئے ہیں۔۔
اسنے کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔
تم کیا جانو مرال بیبی جب محبت ہوتی ہے تو یہ قبل از مسیح گانے ہی اچھے لگتے ہیں۔۔
وہ بے دھیانی میں کہگئی تو مرال جھٹ سے اسکے سر پہ کھڑی ہوئی۔۔
کیا کیا کیا۔۔۔
محبت اور وہ بھی مجھے بتائے بنا۔۔
وہ سوال پہ سوال کیے جارہی تھی
حریم گڑبڑا گئی
ہیں کونسی محبت کس کی محبت۔۔؟
و
اسنے انجان بننے کی کوشش کی
اب میں چپ نہیں رہوں گی مجھے بتاؤ کیا بات ہے
میں پتا لگا کہ رہوں گی آخر میری بھی کوئی عزت ہے کہ نہیں
وہ نا میں گردن ہلاتی جارہی تھی۔۔
میری ون این اونلی دوست کو محبت ہوگئی ہے اور مجھے۔۔ مجھے یعنی کہ مرال سلیمان کو کچھ علم ہی نہیں۔۔۔
وہ اپنی طرف اشارہ کیے بولے جارہی تھی۔۔
حریم سر پکڑ کہ بیٹھی تھی
چپ ہوجا میری ماں کسی نے سن لیا تو غضب ہوجائگا۔۔۔
اسنے ہاتھ جوڑے۔۔
چل بتا مجھے ورنہ میں سب کو بتادوں گی۔۔
کیا بتاؤں؟؟
وہ بے بس تھی
کون ہے وہ کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے۔۔
سوال پہ سوال۔۔
ایک منٹ کہیں وہ کمینہ غالب تو نہیں؟؟؟
وہ پوچھنے لگی
نہیں
پاگل۔۔
تو کون ہے؟؟
ساحل سکندر
اسنے بم پھوڑا مرال پہ۔۔
مرال بس اسے دیکھے گئی۔۔
اور بیڈ پہ گ کہ بے ہوش ہونے کی ایکٹنگ کی
حریم کو سخت غصہ آیا
اس کو دو ہتڑ مارے سر پہ۔۔
نا کرو یار۔۔۔
مرال نے ایسے آواز نکالی جیسے۔۔
مرنے والی ہو
میں جارہی ہوں وہ اٹھی۔تو مرال نے اسے پکڑ کے بٹھایا
جاتی کہاں ہو میڈم۔۔۔
محبت بھی بندہ سوچ سمجھ کہ کرتا ہے
جس سے کل تک نفرت تھی آج اسی پہ مر مٹی ہو؟؟
اب حریم رونے جیسی شکل بنا کی بیٹھی تھی۔۔
سوچ سمجھ کہ کرتی تو کبھی نہ کرتی ۔۔
لیکن اب تو ہوگئی کیا کروں ۔
اور مجھے پتا ہے میری قسمت ہی ایسی ہے
ہمیشہ پنگے ہی لیتی رہتی ہے
اب دیکھو زرا جس بندے سے میری جان جاتی ہے وہی اچھا لگنے لگا ہے
وہ رو دینے کو تھی
چل میرا بچا تیری تو بات ہی الگ ہے بندہ بھی وہ ڈھونڈا کہ بس۔۔۔
_
__________________
__
دن ویسے ہی گزرنے لگے تھے۔۔
ایک دن ساحل گھر پہ ہی تھا کہ زرین کہ کچھ مہمان آۓ ہوۓ تھے۔۔
زرین نے ساحل کو بلانے کے لیے ملازم بھیجا
سر آپکو میم بلارہی ہیں ۔۔
ساحل کو حیرانی ہوئی کہ مجھے کیوں بلارہی ہیں
خیر وہ ڈرائنگ روم کی طرف چل پڑا وہاں
کچھ خواتین تھیں
اس نے سلام کیا اور بیٹھ گیا۔۔
ساحل بیٹ یہ لوگ حریم کے لیے آۓ ہیں۔۔
زرین نے پھیکی سی مسکراہٹ کہ ساتھ بتایا۔۔
کیا مطلب؟؟
وہ واقعی نہیں سمجھا تھا۔۔
انہوں نے حریم کو شادی میں دیکھا تھا انکو بہت پسند اگئی۔۔
اور یہ اپنے بیٹے کہ لیے اسکا رشتہ لاۓ ہیں۔۔
یہ اسی وجہ سے لاہور سے آئے ہیں۔۔
جی میں لاہور سے آئی ہوں اور یہ میری کزن ہیں یہیں کراچی میں ہوتی ہیں
وہ خاتون اپنا تعارف کروارہی تھیں
جب کہ ساحل کہ لبوں کہ مسکان غائب ہوچکی تھی۔۔
وہ گہری سوچ میں تھا۔۔
اسنے زرین کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔
میں نے ان سے کہا کہ وہ ابھی پڑھ رہی ہے پھر بھی یہ لوگ بضد ہیں۔۔
وہ بتانے لگیں
اصل میں اس گھر کے فیصلے میرا بیٹا ساحل کرتا ہے تو اسی لیے میں نے ان کو یہاں بلوالیا۔۔زرین بولے جارہی تھیں
ساحل اپنے لب دانتوں تلے دباۓ بیٹھا تھا۔۔
جی تو ساحل بیٹا آپ بتادیں کیا خیال ہے اپکا۔؟
وہ خاتون پوچھنے لگیں۔۔
ساحل نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہنا شروع کیا۔۔
دیکھیں آنٹی ابھی تو حریم کی اسٹڈیز چل رہی ہیں
اور ویسے بھی ہم تو فیصلہ کر نہیں سکتے
یہ حق انکے پیرنٹس کا ہے تو وہی فیصلہ کریںنگے۔۔
لیکن پلیز آپ ہمارے پرپوزل غور ضرور کیجیگا۔۔
وہ بولیں۔۔
تو ساحل نے ماں کی طرف دیکھا۔۔
وہ سمجھ گئیں
میں آپ لوگوں سے معزرت چاہتی ہوں۔۔
وہ لوگ بھی اٹھیں اور جانے لگیں
ساحل وہیں بیٹھا رہگیا
زرین واپس آئیں تو پریشان تھی
کیا ہؤا ساحل؟
ہمم کچھ نہیں۔۔
وہ بولا۔۔
میرا تو دل کرتا ہے حریم کو اپنی بہو بناؤں۔۔
کیا خیال ہے؟
وہ ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگیں
ساحل کے غصے سے بھی ڈر رہی تھیں۔۔
ساحل نے اپنا چہرہ سخت سنجیدہ بنا لیا
مام نے تو میرے دل کی بات کردی۔۔۔
لیکن وہ چاہ کہ بھی نہیں مسکرا رہا تھا۔۔
کہیں مام کو پتا نا چلے کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔۔
زرین اسکا چہرہ دیکھ کہ گھبرا گئیں۔۔
کیا میں جو سوچ رہی ہوں وہ میری نظر کا دھوکا تو نہیں۔۔۔۔
بس سعد کے آنے کا انتظار کر رہی ہوں
وہ اے تو میں اسی وقت منگنی کردونگی۔۔
انہوں نے اپنی شرمندگی مٹانے کو
کہا۔۔
اور اٹھ کہ جانے لگیں۔۔
ساحل اپنی جگہ سن ہوکے رہگیا تھا۔۔۔
سعد؟؟
کیا۔مام نے سعد کہا؟؟
وہ اپنے آپ سے پوچھ رہا تھا۔۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے
مام کو میں نظر نہیں آیا۔۔
او نو
ایس نہیں ہوسکتا۔۔
وہ غصے سے اٹھا۔۔
اور باہر کو چلا ۔۔
مام اکثر وڈیو چیٹ کرتی رہتیں تھیں سعد کے ساتھ اور وہاں کئی بار حریم کو بھی بیٹھے دیکھاتھا ساحل نے۔۔
تو کیا یہ سعد کی خواہش ہے؟؟
ورنہ مام اس اک نام کیوں لیتیں
وہ بہت ریش ڈرایئو کر رہا تھا
سمندر کے کنارے آبیٹھا لہروں کے شور میں اسکی آہیں کوئی نہیں سن سکتا تھا
پہلی بار کسی سے اسے محبت ہوئی تھی
وہ معصوم شوخ چنچل لڑکی کس طرح اسکے دل میں گھر کر گئی تھی
اسے پتا ہی نہیں چلا ورنہ ساحل سکندر کا دل کسی پہ آنا ایک ناممکن سی بات ہوگئی تھی۔۔
وہ چلتا جارہا تھا پانی کے اندر۔۔
اور اپنی محبت کو پنپنے سے پہلے ہی مرتے دیکھ رہا تھا۔۔
______________________
حریم نے نوٹ کیا کہ کچھ دن سے ساحل کا رویا بہت بدلا ہوا سا ہے
انکو اچانک کیا ہوگیا؟وہ سوچنے لگی۔۔
وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی کہ ساحل اس سے بات کرے لیکن وہ اسے دیکھ کہ ہی وہاں سے اٹھ جاتا تھا۔۔۔
اب وہ ناشتہ بھی زیادہ تر آفس میں کرنے لگا تھا۔۔
تاکہ حریم سے سامنا نہ ہو۔۔
کچھ ہی دن پہلے کی بات اسے یاد آئی۔۔
جب سعد نے ویڈیو چیٹ میں اسے بتایا تھا کہ اسے محبت ہوگئی ہے اور وہ بھی شدید قسم کی
تب وہ بہت خوش ہوا تھا لیکن اسکو نہیں بتا پایا کہ اسے بھی محبت ہوگئی ہے۔۔
سعد نے اسے لڑکی کا نام نہیں بتایا تھا۔۔۔۔
بس یہ کہا تھا کہ وہ پاکستان کی ہی ہے اور بھائی ڈونٹ وری ۔۔وہ ہنسا تھا
کراچی میں ہی رہتی ہے ۔۔۔
بس اس سے زیادہ نہیں بتاؤنگا۔۔
آج ساحل کو سب سمجھ میں آرہا تھا
افف خدایا
وہ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے ہونگے تبھی تو سعد اتنا خوش تھا
ورنہ وہ ضرور کہتا کہ اسکی محبت ابھی یک طرفہ ہے۔۔
اسکا مطلب تھا کہ حریم بھی اسے پسند کرتی ہوگی۔۔
اف مجھے ان کے بیچ میں نہیں آنا چاہئے
یہ میں کیا کرنے چلا تھا ۔۔۔
وہ معصوم لڑکی اسکی محبت اور میرے بھائی کی محبت کے بیچ میں آرہا تھا میں۔۔
کافی دیر تک سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد ساحل گھر پہنچا تھا۔۔
زرین اسے دیکھ کہ پریشان تھیں۔۔
کیا ہوگیا ساحل بیٹا کیوں اس طرح پریشان ہو
کتنے دنوں سے دیکھ رہی ہوں میں۔۔۔
وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی ہوئ بولیں۔۔
ساحل کا دل کیا ماں کی گود میں سر رکھ کے پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے۔۔
لیکن وہ ایسا کر نہیں پایا
مام بہت مصروف ہوں اجکل۔۔
وقت بلکل نہیں ملتا۔۔
بیٹا کیوں خود کو اتنا تھکا رہے ہوں
آخر اتنے سارے لوگ کس لۓ رکھے ہوئے ہیں۔۔
وہ پھیکی سی ہنسی ہنسا۔۔
مام وہ سب امپلاۓ ہیں جب تک میں ان کے سر پہ کھڑا رہونگا تب تک ہی وہ سب کام کرتے ہیں۔۔
وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔۔
سامنے سے حریم آرہی تھی۔۔
اسے دیکھ کہ وہ مسکرائی۔۔اور پوچھا
چاۓ پینگے؟؟
ساحل رکا اور نظریں اس پر سے ہٹا لیں۔۔
ورنہ دل بغاوت پہ اتر آتا۔۔
میں نے چاۓ چھوڑ دی ہے۔۔۔
یہ کہتا وہ لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔۔
حریم اس کے انداز سے دل برداشتہ ہو کر دیکھے گئی۔۔
اسکا دل کچھ غلط ہونے کا اشارہ دے رہا تھا۔۔
حریم سخت پریشان تھی اسکا کسی بات میں دل نہیں لگ رہا تھا
کیا ساحل مجھ سے ناراض ہیں؟
ضرور میری کوئی بات بری لگی ہوگی۔۔
کہیں انکو منگنی والی بات تو پتا نہیں چل گئی؟؟
اف کیا کروں کیوں مجھسے کترا رہے ہیں۔۔
حریم نے کئی بار بات کرنے کی بھی کوشش کی مگر وہی روڈ رویہ۔۔۔
ساحل۔۔۔۔
اسنے پیچھے سے اسے پکارا وہ رکا لیکن پلٹا نہیں۔۔
اجکل وہ ایسا ہی کرتا تھا ۔
مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔۔
اسے اور کچھ نا سوجھا تو یہی بول دیا۔۔
مس حریم یہ بات مام سے بھی کہسکتی ہیں۔۔
میں اس وقت بہت تھکا ہوا ہوں۔۔
وہ جانے لگا لیکن نا جانے قدم کیوں دھیرے دھیرے سے اٹھا رہا تھا۔۔
حریم غصے سے پلٹی اور اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
ساحل کا دل کہہ رہا تھا کہ شاید وہ اسے پھر سے پکارے گی۔۔
اب پکارا تو میں رک جاؤں گا۔۔
لکین حریم تو جا چکی تھی۔۔
_____________________
کچھ دن پہلے وہ کتنی خوش تھی اسنے جیسے ایک نئی دنیا میں قدم رکھا تھا۔۔
سب کچھ نیا نیا سا لگتا تھا۔۔
ساحل کا مسکرا کے دیکھنا۔۔
بہانے بہانے سے اسے مخاطب کرنا
اسکے لئے پریشان ہونا
اس سے اپنی باتیں شیئر کرنا۔۔
کیا وہ سب ایک دھوکا تھا۔۔؟؟
وہ سوچے جارہی تھی۔۔
کہ کسی نے ڈور ناک کیا۔۔
آجائیں
وہ بولی
مرال تھی وہ مسکراتی ہوئی آئی تھی۔۔
لیکن حریم کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کہ ٹھٹھک گئی۔۔
کیا ہوا حریم ؟؟
وہ پریشان ہوئی۔۔
تمہارا منہ کیوں اترا ہوا ہے۔۔
کچھ نہیں بس امی بابا کی یاد آرہی ہے۔۔
وہ اداسی سے مسکرائی
تو اس میں اتنا اداس ہونے کی کیا بات ہے
فون اٹھاؤ اور ویڈیو چیٹ پر ان سے بات کر لو
مرال بولی۔۔
نہیں میرو وہ میرا دل نہیں کر رہا
بس میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں ان کے پاس چلی جاؤں
کیوں پریشان ہوتی ہو حریم
تمہارا سمسٹر ختم ہونے میں کم وقت بچا ہے پھر چلی جانا
ہمم۔۔۔۔ اسنے ہنکارہ بھرا۔۔
میں تمہیں کچھ بتانے آئی تھی
کیا وہ زبردستی مسکرائی۔
آنٹی نے کہا ہے کہ ہم دونوں ریڈی ہو جائیں وہ ہمیں شاپنگ پہ لیکر جا رہی ہیں۔۔
وہ خوش ہوکر بتارہی تھی
مجھے نہیں کرنی شاپنگ۔۔
اسنے منہ پھیر کہ کہا۔۔
ارے واہ کیسے نہیں کرنی چلو شاباش اٹھو۔۔
وہ اسے کھینچنے لگی۔۔
پلیز میرو مجھے نہیں جانا تم چلی جاؤ۔۔
ویسے بھی ایشال بھی تو ہے اسے لے جاؤ۔۔
نا بابا اس کے ساتھ نہیں جانا بہت بورنگ ہے
میری بہن
مرال نے منہ بنا کہ کہا۔۔
وہ اٹھی مجبوراً لیکن یہ دل کمبخت کسی چیز سے نہیں بہل رہا تھا۔۔
وہ باہر نکلی تو دیکھا ساحل کھڑا تھا اسے دیکھ کہ وہ بہانے سے وہاں سے جانے لگا۔۔
آپ مت جائیں ۔۔۔میں ہی چلی جاتی ہوں ساحل سکندر صاحب۔۔
اسنے ایک ایک لفظ چبا چباکہ کہا۔۔
اب بھی وہ ہونٹوں کو سختی سے دبا کہ کھڑی اسے ہی دیکھے جارہی تھی۔۔
ساحل نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھا۔۔
وائٹ ڈریس میں وہ بہت کملائی ہوئی لگ رہی تھی۔۔
آپ میری وجہ سے جارہے ہیں نا یہاں سے اٹھ کے؟؟
آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کی وجہ سے جارہا ہوں۔۔
وہ ماتھے پہ بل لاۓ کہرہا تھا۔۔
میں سب سمجھتی ہوں آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں نا ۔۔
میں چلی جاتی ہوں یہاں سے آپکو آپکا گھر مبارک ہو۔۔
وہ اچانک پلٹی اور روتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
حریم سنیں ۔۔۔
ساحل اس کے پیچھے بھاگا۔۔
وہ کمرے کا دروازہ بند کر چکی تھی
ساحل نے ڈور ناک کیا۔۔۔
حریم۔۔۔
اسنے پکارا۔۔
چلے جائیں آپ یہاں سے مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے
حریم سنیں پلیز دروازہ کھولیں
۔۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہے
مجھے کسی سے بات نہیں کرنی آپ چلے جائیں یہاں سے۔۔۔
وہ سخت لہجے میں کہتی جا رہی تھی
اور روتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
ساحل دروازے ہے مکا مار کہ رہگیا ۔۔۔۔
یہ پاگل لڑکی کیا کر رہی ہے۔۔۔
میری مشکلات کیوں بڑھا رہی ہے۔۔
کیا یہ واقعی مجھے چاہتی ہے؟
تبھی تو میری بے رخی برداشت نہیں کر پارہی۔۔
اسنے سوچا
لیکن سعد تو اسے پسند کرتا ہے نہ ۔۔۔
میں چاہوں بھی تو حریم آپکا ساتھ نہیں پا سکتا۔۔
میں کیسے اپنے بھائی کو دکھ دے سکتا ہوں
آج تک میں اپنا سب کچھ اس پہ قربان کرتا آیا ہوں
تاکہ وہ خوش رہ سکے۔۔
ڈیڈ نے کبھی اسے توجہ نہیں دی
اس کا مداوا میں کرتا آیا ہوں
اب کیسے اسکی خوشی چھین سکتا ہوں۔۔
___________________
حریم تکیے میں منہ دیے پھوٹ پھوٹ کے روے جارہی تھی۔۔
کتنا دل بھر آیا تھا اسکا اسنے کھانا بھی نہیں کھایا۔۔
مرال نے زرین سے کہدیا تھا کہ وہ نہیں آنا چاہتی تھی تبھی شاید نہیں آئی
وہ لوگ جاچکے تھے۔۔
حریم نے میڈ سے کہدیا تھا کہ وہ سورہی ہے
کوئی اسے ڈسٹرب نا کرے۔۔
وہ واقعی میں روتے روتے سو گئی تھی۔۔
فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی
اسنے وضو کیا اور نماز پڑھ کے باہر آگئی۔۔۔
وہ لان میں ننگے پاؤں ٹہل رہی تھا
گیلی گھاس اسے سکون پہنچا رہی تھی۔۔
اسے یاد آیا
انکے جو پڑوسی تھے وہ حکیم تھے
وہ بابا کو کہتے تھے کہ ننگے پیر صبح گھاس پہ چلا کریں
اس سے جگر کو طاقت ملتی ہے۔۔
وہ مسکرائی تھی۔۔
سویرا ہوگیا تھا
دھوپ چمکنے لگی تھی اب وہ اندر آئی تھی۔۔
اسنے دیکھا ہی نہیں کہ ٹیرس پہ کھڑا ساحل اسے دیکھے جارہا تھا۔۔
دل بھی کیا چیز ہے۔۔
کسی کی سنتا ہی نہیں
___________________________
ناشتے کی ٹیبل پر آج ساحل بھی موجود تھا
وہ چھری کانٹے سے سے کھیلے جارہا تھا
آنٹی مجھے ہاسٹل میں کمرا لینا ہے۔۔
اچانک حریم نے کہا۔۔
ساحل کے ہاتھ رکے۔۔
وہ اسی کی طرف دیکھے جارہی تھی۔۔
کیوں بیٹا کیا ہؤا کسی نے کچھ کہدیا؟؟
زرین یکدم پریشان ہوگئیں۔۔
نہیں آنٹی مجھے کسی نے کیا کہنا ہے۔۔
مجھ سے تو کوئی بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔۔
بھلا مجھے کون کچھ کہسکتا ہے۔۔۔
وہ زہر خند لہجے میں بول رہی تھی۔۔
مام آپ پریشان نا ہوں مس حریم اگر آپ کو
کوئی شکایت ہے تو مجھے بتائیں ۔۔۔
لیکن ہاسٹل کی اجازت میں نہیں دی سکتا سوری۔۔
حریم بس اسے دیکھے گئی۔۔
میں یہاں تب رہوں گی جب مجھے آزادی دی جاۓ گی۔۔
وہ اٹھ کے جانے لگا تو وہ بولی۔۔
وہ رکا اور پلٹا
آپکو یہاں ہر طرح کی آزادی دی جاۓ گی۔۔
میں جم نہیں جاؤں گی۔۔
وہ بولی
اوکے ایز یو وش۔۔۔
وہ شانے آچکا کہ بولا۔۔
میں رات کو گیارہ بجے کہ بعد بھی نکلوں گی اپنے روم سے۔۔
وہ اسے تپانے کو بولی۔۔
میں نے کہا نا آپ کو اب کوئی کچھ نہیں کہے گا۔۔
وہ پلٹے بنا اسے جواب دیتا جانے لگا۔۔۔۔
وہ تپ گئی۔۔
اور زرین کی طرف دیکھا۔۔
وہ کسی سوچ میں گم تھیں۔۔
لیکن بولیں کچھ نہیں کیوں کہ ساحل نے منع کیا تھا۔۔
_______________
مرال اپنے فون میں کچھ دیکھ کہ مسکرا رہی تھی۔۔
پیچھے سے حریم نے آکر اسکا فون چھینا۔۔
تو وہ اچھل پڑی۔۔
فون دو میرا
یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔
وہ جھپٹی
اچھا جی بد تمیزی میں کر رہی ہوں
اور جو کتنی دیر سے میں تمہیں دیکھ رہی ہوں
فون میں کچھ لکھی جا رہی ہو مسکرائے جا رہی ہو
کیا چکر ہے بھئی۔
اسنے آنکھیں شرارت سے پٹپٹائیں۔۔۔
کچھ نہیں وہ سٹپٹائی۔۔
دیکھ اگر تو نے نا بتایا تو فون تو میں نہیں دینے والی۔۔
مرال نے آخرکار ہتھیار ڈالے۔۔
ہاں بیٹا اب بول۔۔۔
حریم آج کچھ فریش تھی ساحل سے بات جو ہوئی تھی۔۔
چاہیے وہ بات چیت کچھ خوشگوار نہیں تھی
لیکن ہوئی تو تھی ۔۔
وہ میں اس سے بات کر رہی تھی۔۔
وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح بولی۔۔
کس سے؟
حریم کا ماتھا ٹھنکا۔۔
غالب۔۔۔
اہوہوہو۔۔
بیبی یہ سب کب سے چل رہا ہے؟؟
حریم کو حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔۔
وہ پتا نہیں۔۔
مجھے تو خبر بھی نہیں ہوئی۔۔
مرال سر جھکائے گھبرائی ہوئی بتانے لگی۔۔
حریم کافی دیر تک اسے دیکھتی رہی۔۔
مرال نے سر اٹھا کے دیکھا۔۔
حریم خاموش تھی
کچھ کہوگی نہیں۔۔؟
مرال حیرت میں تھی
میرو تم خوش ہو نا؟؟
ہمم۔۔
مرال نے مسکرا کہ اثبات میں سر ہلایا۔۔
تمھیں پتا ہے بہت مشکل ہے محبت۔۔
جب یہ دل ٹوٹتا ہے نہ تو انسان جیتے جی مر جاتا ہے۔۔
وہ بھاری لہجے میں بولی۔۔
مرال حیرت سے دیکھے جارہی تھی
______________________
___
ساحل آج پھر سمندر کی طرف نکل آیا تھا۔۔
اسکی گاڑی میں ریڈیو آن تھا۔۔
Blue, blue, my world is blue
Blue is my world now I'm without you
گانے کے بول اسکے دل کی ترجمانی کر رہے تھے
grey, grey, my life is grey
cold in my heart since you went away
کاش حریم میں آپ کو بتا سکتا۔۔کہ میرے دل میں آپ ہی آپ ہیں۔۔آپ کے بنا یہ دل بلکل خالی ہے۔۔
Red,red, my eyes are red
Crying for you alone in my bed
حریم میری آنکھوں میں جو چمک آتی تھی وہ ۔۔۔
آپکو دیکھ کے آتی تھی۔۔
لیکن اب تو۔۔۔۔۔
Green, green, my jealous heart
I doubted you and now we're apart
کاش میں آپ کو بتا سکتا کاش۔۔۔کہ
ساحل سکندر نے پہلی بار کسی کو اپنا مانا ہے۔۔
لیکن میری یہ محبت ہار گئی۔۔
میں مر جاؤں گا ۔۔
حریم۔۔۔۔۔۔
وہ سمندر کے کنارے کھڑا تھا۔۔۔
اسکا دل کیا چلا چلا کہ سمندر کی لہروں کو اپنی محبت کی بربادی کا قصہ سناے۔۔
اسکے بال بکھرے ہوئے تھے۔۔
وہ رو بھی نہیں سکتا تھا۔۔
کسی کو کچھ بتا بھی نہیں سکتا تھا۔۔
وہ بیٹھتا چلا گیا گیلی ریت پر۔۔۔
حریم نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ ساحل سے پوچھ کہ رہے گی۔۔
ساحل اسے نظر آتا تو وہ کچھ کہتی اسے۔۔
شام کو وہ اسے نظر آگیا تھا
وہ جم جارہا تھا
ساحل ۔۔۔
وہ اسکے آگے ائی۔۔
ساحل نے اس دشمنِ جاں کو اپنے سامنے دیکھا۔۔۔
تو کترا کے جانے لگا۔۔
وہ اسکے پیچھے جانے لگی
ساحل میری بات سنیں۔۔
وہ پھر سے اسکے آگے اگئی۔۔
حریم کیوں آرہی ہیں آپ میرے راستے میں؟؟
وہ بے بسی سے بولا۔۔
میں آپکے راستے میں اس لیے آئی ہوں کہ اپنا قصور جان سکوں۔۔
وہ اسے شکایت بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔
حریم ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ ۔۔
کیوں کہ میں جاننا چاہتی ہوں۔۔
آپ کا رویہ کیوں بدل گیا ہے۔۔؟
میں سمجھا نہیں وہ نا سمجھنے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔۔
کبھی کبھی ایکٹنگ کرنی پڑتی ہے۔۔
حریم کچھ بول نہیں پارہی تھی۔۔
کیا پوچھتی اس سے؟
کون سا اسنے اظہارِ محبت کیا تھا۔۔
یا اپنے عشق کی داستانیں سنائیں تھیں۔۔
کچھ بھی تو نہیں کہا تھا زبان سے ساری باتیں نظروں سے ہوئیں تھیں۔۔
اور نظریں تو دھوکا بھی کھا جاتی ہیں۔۔
کیا کہنا چاہتی ہیں آپ ۔۔؟
کچھ نہیں۔۔
وہ دھیرے سے بولی۔۔
اب آپ کے راستے میں کبھی نہیں اونگی ساحل صاحب۔۔
وہ تھکے قدموں سے جانے لگی۔۔
ساحل وہیں کھڑا رہ گیا
مڑ کے دیکھتا تو شاید پتھر کا ہوجاتا۔۔
_
________________________
آج سعد سکندر کی فلائٹ تھی۔۔
زرین کب سے اسکے کمرے کی سیٹنگز چینج کروارہی تھیں۔۔
آنٹی آپ تھک جائیں گی۔۔
آپ بیٹھ جائیں رضیہ سب کروادے گی۔۔
حریم انکو بٹھاتے ہوے بولی۔۔
ارے بیٹا میرا تو بس نہیں چل رہا کہ اپنے بچے کی پسند کی ہر چیز اسکے قدموں میں ڈھیر کردوں۔۔
وہ اسے اپنے سے لگاتی کہنے لگیں۔۔
اندر آتے ساحل نے سن لیا۔۔
ہان مام اسکی پسند کی ہر چیز۔۔۔
لیکن اس بیٹے کی پسند کا تو آپکو کبھی پتا بھی نہیں چل سکا۔۔
وہ دکھی دل سے وہ واپس باہر نکل گیا۔۔
شام کو ساحل اور زرین سعد کو لینے جارہے تھے۔۔
ساحل نے حریم سے کہا آپ نہیں چلینگی؟؟؟
حریم چونکی۔۔
جی نہیں مجھے کوئی شوق نہیں آپکی کار میں بیٹھنے کا۔۔
وہ تلخی سے کہتی۔۔
وہاں سے چلی گئی۔۔
اوہ ہاں سمجھ گیا ۔۔
اب آپکو میری کار کی ضرورت نہیں۔۔۔
وہ طنزیہ کہتا ہوا جانے لگا
حریم نے سنا نہیں تھا۔۔
کچھ دیر میں کار کا ہارن سنائی دیا۔۔
کار گیٹ سے داخل ہورہی تھی۔۔
حریم لاونج میں ہی تھی۔۔
سعد کار سے اترا تھا۔۔
اندر آرہا تھا حریم کو دیکھ۔۔
کہ سیٹی کی طرح ہونٹ سکیڑے۔۔
ہاے بیوٹی فل ۔۔۔۔
سعد کی بات پہ ساحل کی نظروں نے حریم
کے چہرے پہ کچھ ڈھونڈھنا چاہا۔۔۔
مگر وہاں کچھ خاص لگاؤ یا خوشی نظر نہیں آئی
اسلام علیکم۔۔
وہ ہلکا کا سا مسکرا کہ بولی۔۔
پیچھے سے مرال تیزی سے آتی دکھائی دی۔۔
ہے برو۔۔
اسنے قریب آکے خوشی سے کہا
وہ دونوں خوشی سے ہنسے ایک دوسرے کو دیکھ کہ
ہاے گرل۔۔۔
۔
وہ سب اس سے مل رہے تھے
حریم ایک سائیڈ پہ الگ ہو کہ کھڑی تھی۔۔
ساحل اندر جانے لگا ۔۔
کیا پتا مجھے دیکھ کہ وہ سعد سے بات نہیں کر رہیی۔۔
وہ۔۔ یہی سوچ کے اندر چلا۔گیا۔۔
حریم بھی اس کے پیچھے چلی ائی۔۔
اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔۔
اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا
ساحل نظر آتا تھا تو وہ اسے محسوس کرتی تھی ورنہ اسکے جاتے ہی سارے رنگ پھیکے پڑ جاتے تھے
اور سعد کو تو وہ جانتی بھی نہیں تھی۔۔
وہ لوگ آپس میں مگن تھے۔۔
مرال کی اچھی خاصی فرینڈشپ تھی سعد سے ورنہ ساحل سے تو اسکی جان جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ڈائیننگ ٹیبل پہ سب لوگ جمع تھے۔۔
سوائے
انکل سنکندر کے۔۔
وہ آج بھی کمرے سے باہر نہیں نکلے تھے سعد ان سے وہیں مل کے آیا تھا۔۔
افف امیروں کی بھی کیا بیماریاں ہوتی ہیں۔۔
حریم سوچنے لگی۔۔
چھوٹا بیٹا اتنے سالوں بعد آیا تھا۔۔
چھوٹی اولاد کے تو سب زیادہ لاڈ اٹھاتے ہیں۔۔
لیکن انکل تو لگتا ہے سب کچھ ساحل کے کندھوں پہ ڈال دیا تھا۔۔
سعد کی باتوں میں مزا تھا وہ ہنسنے ہنسانے والا لڑکا تھا۔۔
اسکی کسی بات پہ زرین بہت ہنس رہی تھیں
اور اسے کہتی جارہی تھیں
سعد یہ شرارتیں کرنا چھوڑ دو اب۔۔
کسی دن پکڑے جاؤ گے۔۔
حریم اپنے ہی خیالوں میں گم تھی
اسنے نہیں سنا وہ لوگ کس بات پہ
ہنس رہے تھے۔۔
مس حریم۔۔
ساحل نے پکارا تو وہ چونکی۔۔
جی۔۔
وہ اسے دیکھنے لگی۔۔
وہ بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔
آپ کھانا کیوں نہیں کھارہیں۔۔؟
ساحل نے اسکی پلٹ کی طرف اشارہ کیا جو ابتک خالی تھی۔۔
حریم نے غور نہیں کیا تھا کہ وہ ابھی تک ایسے ہی بیٹھی تھی
لیکن ساحل نے دیکھ لیا تھا۔۔
ڈونٹ وری برو ۔۔
یہ اجکل کی گرلز کو بہت ہی ڈائیٹ کا بوتھ سوار ہوتا ہے۔۔
آج انکی پلیٹ سے کھانا غائب ہے
کل یہ خود غائب ہوجائینگی۔۔
وہ اسی کو دیکھ کہ بولے جارہا تھا۔۔
حریم نے زرین کی طرف دیکھا۔۔
تو وہ بولیں۔۔
کیوں تنگ کر رہے ہو تم۔دونوں بھائی میری بھتیجی کو۔۔
وہ ویسے بھی اتنا نہیں کھاتی۔۔۔
۔
کیوں کہ وہ پہلے ہی بہت کچھ کھا چکی ہوتی ہے۔۔
مرال نے بھی اپنی طرف سے لقمہ دیا لیکن اسکے کان میں۔۔
جس پہ حریم نے اسے گھورا۔۔
اور ساحل کی طرف دیکھ کہ بولی
ساحل آپ میرا کتنا خیال رکھتے ییں۔۔
وہ مسکرا کے اسے دیکھ رہی تھی۔۔
ساحل نے سعد اور زرین کی طرف دیکھا۔۔
وہ اپنی باتوں میں بزی تھے۔۔
حریم نے جان بوجھ کے اپنی پلٹ اٹھای اور ساحل کی طرف بڑھائی۔۔
اس میں اپنی پسند کا کھانا ڈال دیں۔۔
ساحل جزبز ہوا ۔
اور اسکے ہاتھ سے پلیٹ پکڑی
جو کچھ اس نے اپنی پلیٹ میں رکھا تھا
وہیں سب اسکے می بھی ڈال دیا۔۔
اور اسکی طرف پلیٹ بڑھائی۔۔
حریم شرارت سے مسکراتے ہوئے پلیٹ پکڑنے لگی
ساحل بھی ہلکا سا مسکرایا تھا یا شائد اسے لگا۔۔۔۔
آج تو میں کھانا ڈٹ کہ کھاونگی ساحل سکندر نے جو پیش کیا ہے وہ دل میں بولی
اور واقعی میں زیادہ کھا گئی۔۔
کھانا کھا کہ وہ وہاں سے اٹھ کے جانے لگی
سعد نے اسے جاتا دیکھ کہ کہا۔۔
لگتا ہے مس حریم کو میرے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں۔۔
ساحل کی طرف دیکھنے لگا
کیا خیال ہے برو؟؟
ہمم۔۔۔پتا نہیں
وہ بھی کسی خیال میں گم تھا۔۔
ساحل نے بس یہی کہا۔۔۔۔
_________________________
زرین ہر وقت سعد کے آگے پیچھے پھرتی رہتی تھیں
وہ اب کچن میں زیادہ وقت گزارنے لگی تھیں
کیونکہ کہ وہ سعد کہ پسندیدہ ڈیشز اپنے ہاتھوں سے بنانا چاہتی تھی
ساحل اب گھر سے باہر رہتا تھا زیادہ تر۔۔
ویسے بھی اسکو ٹائم کم۔ہی ملتا تھا۔۔
حریم روز یونی سے واپسی پہ لنچ اپنے کمرے میں ہی کرتی تھی۔۔
زرین بھی اسے اب کچھ نہیں کہتی تھیں
ساحل نے سختی سے منع کیا تھا
کہ حریم پہ زیادہ دباؤ نا ڈالے کوئی۔۔
ورنہ وہ پاگل لڑکی پھر سے ہاسٹل کی ضد شروع کر دیتی
۔
حریم کی کبھی کبھی بات چیت ہوجاتی تھی سعد سے
وہ بہت اچھا لگا اسے
معصوم سا تھا
اسکا لہجہ تھوڑا بدل چکا تھا باہر رہنے کہ وجہ سے
وہ اکثر لان میں ہی نظر آتا تھا۔۔
مما یہاں پہ لوگ بہت ہی باؤنڈ ہوگئے ہیں
میں ہر جگہ دیکھا سب لوگ ہی اپنے بیڈروم سے باہر نکلنے کو تیار نہیں ہیں۔۔
جب کہ میں تنگ آگیا ہوں اس سب سے میں آزاد فضا میں جینا چاہتا ہوں۔۔
مجھے یہاں کی خوشبو بہت اچھی لگتی ہے۔۔
سچ کہتے ہیں لوگ ہم پاکستانی کہیں بھی چلے جائیں ہائے اپنے وطن کی خوشبو کو بہت مس کرتے ہیں۔۔
وہ زرین سے باتیں کر رہا تھا۔۔
حیرت ہے آپ پہلے۔انسان ہیں جو یہاں کہ خوشبو کو مس کرتے ہیں
جب کہ کراچی میں تو آسلام آباد سے آنے والے لوگ بھی اپنی ناک کو ایسے کور کر کے رکھتے ہیں
جیسے وہ کینیڈا سے آۓ ہوں۔۔
حریم کہنے لگی۔۔
وہ اور لوگ ہوتے ہیں ڈئیر۔۔
سعد اسکی طرف دیکھ کہ کہنے لگا ساحل بھی وہیں تھا
بظاہر اپنے فون میں مگن۔۔
تو سعد بھائی۔۔ کیا آپکو یہاں کے رسم و رواج طور طریقے پسند ہیں؟؟
یعنی آپکو پھپھو تایا خالو قسم کے رشتوں سے چڑ نہیں ہوتی۔
وہ طنز کے تیر برسانے لگی نشانہ ساحل تھا۔۔
او نو ڈئیر مجھے تو بہت پسند ہیں یہ رشتے۔۔
وہ ہنستا ہوا بولا
میں رشتوں کی نہیں انکو پکارے جانے والے ناموں کی بات کر رہی ہوں۔۔
وہ بولی۔۔
ایک نظر ساحل پہ بھی ڈال لیتی تھی
ساحل کو نجانے کیوں ہنسی آئی
وہ ہلکا سا ہنسا
تو سب اسکی طرف متوجہ ہوگئے۔۔
تو وہ بولا سوری۔۔
میری نظر سے ابھی ایک میم گزرا تو ۔۔۔
وہ سبکو دیکھ کہ بولا۔۔
وہ دکھانا چاہتا تھا کہ وہ انکی باتیں نہیں سن رہا تھا۔۔
بڑی خوشی ہوئی جناب۔۔
آپ کو بھی ہنسی آتی ہے۔۔؟
حریم نے پھر سے طنز کیا۔۔
کیوں مس حریم؟؟
کیا میں نہیں ہنس سکتا۔۔؟
وہ بھی آج بول پڑا۔۔
نہیں بلکل ہنس سکتے ہیں۔۔
زرا ہمیں بھی تو وہ میم دکھائے ہمیں بھی تو پتا چلے کچھ۔
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھے جارہی تھی
لبوں پہ تلخ مسکراہٹ تھی
ساحل تاسف سے اسکی طرف دیکھ کہ اٹھا
مجھے کچھ کام یاد اگیا۔۔
وہ جانے لگا۔۔
ہاہاہاہا
سعد زور سے ہنسا
ویسے مزے کی بات ہے بھائی کو کوئی چپ نہیں کروا سکتا
اور میں سخت حیرت میں ہوں کہ آپکی باتیں وہ کیسے برداشت کر لیتے ہیں۔۔
برداشت؟؟
وہ تو ہم کرتے ہیں ان کے ظلم وستم۔۔
کیا وہ کیسے؟؟سعد حیران تھا
حریم نے اسے اپنا سارا قصہ سنایا کہ
کب کب کہاں کہاں ساحل کے ڈر کی وجہ سے وہ ،
اسکی حالت خراب ہوئی تھی
مرال نے اسکو دیکھ کہ اپنی ہنسی دبائی۔۔
حریم نے اسے آنکھیں دکھائیں
سعد کو بہت مزا آرہا تھا ان کے قصے سن کر
حیرت کی بات ہے بھائی سے بھی کوئی ڈر سکتا ہے
وہ تو بہت سویٹ ہیں
ہممم کچھ زیادہ ہی۔۔
حریم بولی تو وہ دونوں ہنس دیے۔۔
________________'
صبح وہ دونوں بھائی جوگنگ پہ جاتے تھے
آج ساحل نے فیصلہ کیا تھا
سعد سے سب پوچھ لیگا
کب تک وہ اس وہم میں رہے۔۔
بظاہر ان کے بیچ ایسا کچھ نظر نہیں آرہا تھا
۔۔یار تم نے بتایا نہیں کہ کون ہے وہ جسے تم پسند کرتے ہو؟؟
ڈ
دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے پوچھا آخر یہ ڈر نکالنا ہی تھا آج آر یا پار
ہائے کیا بتاؤں اس لڑکی کے بارے میں آپ کو پتہ ہے کہ وہ وہاں میں میرے ساتھ پڑھتی تھی
سعد بتانے لگا۔۔
میں نے کبھی اس پہ غور نہیں کیا کہ وہ ہمیشہ میری طرف دیکھتی رہتی تھی۔۔
سعد بتا رہا تھا لیکن ساحل کچھ نہیں سن رہا تھا۔۔
کیا کہا تم نے ۔۔۔؟؟؟
اسنے اسے پکڑ کے اپنے سامنے کیا۔۔
کیا؟
سعد حیرت سے پوچھنے لگا۔۔۔
کہ وہ کہاں رہتی ہے؟
وہ پاکستان میں ہی ہے۔۔
لیکن تم نے کہا کہ وہ تمہارے ساتھ پڑھتی تھی
ہاں نہ وہیں تو یہ سلسلہ شروع ہوا
پھر وہ یہاں چلی آئی اور اب میں اسکے پیچھے اگیا
وہ شرارت سے مسکراتے ہوے بتارہا تھا۔۔
ساحل کی سانسیں تیز ہورہی تھیں
اسنے اچانک اسے زور سے گلے لگا لیا۔۔
کیا ہوا بھائی۔۔
وہ اپنے آپ کو چھڑاتے ہوئے بولا۔۔
بہت کچھ ہونے والا تھا یار ۔۔۔
وہ بہت خوش تھا
اسکا چہرہ کھلا جارہا تھا
ساحل واپس گھر کی طرف بھاگتا ہوا
جانے لگا اور سعد اسے بلاتا رہگیا۔۔
او بھائی یہ کیا طریقہ ہہے؟؟
آپ نے ابھی اپنے راؤنڈ پورے نہیں کیا۔۔
وہی تو پورا کرنے جارہا ہوں وہ بھی چلا کے بولا
سعد ہانپتا ہوا اسکے پیچھے بھاگا۔۔
ساحل کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔۔
,وہ جیسے ہی گھر پہ پہنچا سے لان میں حریم دکھائی دی۔۔
وہ مسکراتا ہوا اس کے قریب گیا۔۔
خیریت آج اتنے سویرے؟؟؟
وہ اسکے قریب آتا بولا تو دیکھا وہ روۓ جارہی ہے۔۔
کیا ہوا حریم؟
ساحل پریشان ہوا۔۔
وہ اسے دیکھ کہ اٹھی۔۔
ساحل بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔۔
وہ اپنے آنسو صاف کرتی بتانے لگی۔۔
اوہ کیا ہوا ان کو؟؟
میں نے خواب میں دیکھا وہ سخت تکلیف میں ہیں۔۔۔
کیا مطلب خواب وہ نا سمجھنے والے انداز میں پوچھنے لگا۔۔
میں نے خواب میں دیکھا بابا کو سخت تکلیف ہے اور وہ مجھے بلا رہے ہیں۔۔
ساحل پلیز مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ آئیں
مجھے ابھی کے ابھی جانا ہے۔۔
وہ روتے روتے کہہنے لگی۔۔
حریم آپ ریلکس ہو جائیں آپ نے برا خواب دیکھا ہے۔۔
انکل بلکل ٹھیک ہونگے۔۔
نہیں انکا۔فون بھی آف جارہا ہے۔۔
وہ نا میں گردن ہلاتی بولی۔۔
تو فون تو کسی وجہ سے بھی آف ہوسکتا ہے ۔۔
میرا بھی تو آف ہے ابھی آفس جاتے وقت آن کرونگا۔۔
وہ اسے سمجھا رہا تھا لیکن پاگل لڑکی کچھ سمجھنے کو تیار نہیں تھی۔۔
ایک منٹ۔۔ آپ کے پاس اپنے کسی پڑوسی کا فون نمبر ہے؟؟ساحل نے پوچھا۔۔
ہاں میں نے وہاں بھی کال کی تھی انہوں نے اٹنیڈ نہیں کی۔۔
ابھی ہوسکتا ہے لوگ دیر سے جاگتے ہوں آپ دوبارہ ٹراۓ کریں۔۔
حریم نے کال ملا کے فون ساحل کی طرف بڑھایا۔۔
وہاں سے ریسیو ہوتے ہی ساحل نے کہا
اسلام وعلیکم جی میرے انکل فیضان علی آپ کے پڑوسی ہیں ۔۔
جی وہی وہ اصل میں وہ کال اٹینڈ نہیں کر رہے کچھ ضروری بات کرنی ہے کیا آپ وہاں جاکے ان سے بات کرواسکتے ہیں؟؟
جی تھینک یو سو مچ۔۔
اسنے فون ڈسکنکٹ کیا۔۔
میں نے بات کرلی ہے وہ انکے گھر جا رہے ہیں۔۔
حریم پلیز آپ رونا بند کریں۔۔۔
کچھ نہیں ہؤا انکو۔۔۔ابھی بات ہوجاتی ہے۔۔
ساحل اس کے ساتھ بیٹھا تھا وہ ہاتھوں میں منہ دیۓ بیٹھی تھی۔۔۔
کچھ نہیں سن رہی تھی۔۔
اسکا فون بجا تو جھٹ سے ساحل نے کال ریسیو کی وہ خود بھی گھبرا گیا تھا۔۔
جی ان کے گیٹ پہ تو تالا لگا ہوا ہے۔۔
لڑکے نے بتایا۔۔
لیکن آپ کو کچھ نہیں پتا وہ کہاں گئے ہیں؟؟
جی ہمیں تو کچھ معلوم نہیں اصل میں میرے گھر میں بھی کوئی نہیں ہے اماں ابا میری بہن کے گھر گیئے ہواے ہیں سکھر دو دن سے۔
۔
میں گھر ہ نہیں ہوتا جی کام پہ جاتا ہوں دیر سے آتا ہوں
اچھا تھینک یو ۔۔۔سوری آپکو ڈسٹرب کیا۔۔
وہ حریم کو دیکھنے لگا۔۔
کیا کہہ رہے ہیں؟
وہ اسی کو دیکھے جارہی تھی
وہ لوگ گھر پہ نہیں ہیں تالا لگا ہوا ہے۔۔
کیا وہ دبی دبی آواز میں چلائی۔۔
مجھے جانا ہے جلدی سے مجھے چھوڑ آئیں۔۔
بس سٹاپ پہ۔۔۔۔
وہ اٹھی۔۔
ساحل کچھ دیر اسے دیکھتا رہا۔۔
آپ بیٹھیں میں ابھی آتا ہوں۔۔
وہ اندر گیا اپنی گاڑی کی چابیاں اٹھائیں فون اور والٹ اٹھایا۔۔
وہ نیچے آگیا
اپنی گاڑی نکالی چلیں حریم۔۔۔
وہ بھی آکر جلدی سے بیٹھی
ساحل گاڑی روڈ پہ لے آیا تھا۔۔
آنے اپنے کان میں بلیوٹوتھ ہیڈ فون لگایا اور کال ملائی۔۔
ہاں یار سنو مام جاگ گئیں؟؟
وہ سعد سے بات کر رہا تھا۔۔
اچھادیکھو میں حریم کو انکے گھر لے کر جارہا ہوں۔۔
ہاں وہ پریشان ہیں انکل کا فون بھی بند ہے اور گھر پہ بھی تالا لگا ہوا ہے۔۔
لیکن تم۔نے نام کو کچھ نہیں بتانا اوکے ۔۔۔
انکو کوئی بھی بہانا بنا دینا کہ میں آج جلدی میں آفس گیا یوں
اور۔۔۔حریم یونیورسٹی گئی ہیں۔۔۔
بس انکو ہینڈل کرلینا باتوں میں لگا لینا سب ٹھیک ہوگا انشاء اللہ۔۔
ہاں انشاء اللہ انسے بات ہوجائے گی یا 3 بجے تک تو ہم۔وہاں پہنچ جائیں گے پھر میں خود انکو بتاون گا۔
اوکے۔۔اسنے کال ڈسکنکٹ کردی حریم کو دیکھا۔۔
حریم پلیز سنبھالیں خود کو۔۔۔
یاد ہے آپ نے مجھے کہا تھا کہ جب اللہ تعالٰی آپکو دعا کا موقع دیتا ہے۔۔
تو اسکا مطلب وہ آپ کے ساتھ برا نہیں ہونے دینا چاہتا۔
چلیں تو اب آپ دعا کریں رونا چھوڑ کر۔۔۔
حریم نے اسکی طرف دیکھا اور بولی
میں تو کب سے دعا کر رہی ہوں۔۔۔
لیکن انکی کوئی خبر کیوں نہیں آرہی۔۔
وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
پتہ ہے حریم میرے بچپن میں ڈیڈ مجھے ہمیشہ کہا کرتے تھے نو نیوز مینز گڈ نیوز۔۔
وہ مسکرا کے کہنے لگا۔۔
جب کوئی بری خبر ہوتی ہے نہ تو وہ ہم تک بہت جلدی پہنچ جاتی ہے۔۔
اسلیے آپ بس دعا کریں کہ وہ خیریت سے ہوں
باقی فون کئی وجہ سے آف ہوسکتا ہے۔۔
کبھی لائٹ کا ایشو ہوتا ہے
کبھی چارجر بھی خراب ہوسکتا ہے
کبھی فون ہی ختم ہوجاتا ہے
جیسے ڈیڈ کا فون ہر چھ ماہ بعد ختم ہوجاتا ہے کیوں کہ وہ بہت زیادہ یوز کرتے ہیں اور نا جانے کتنے ایپس ڈاؤنلوڈ کرلیتے ہیں۔۔
وہ بتاتا رہا۔۔
وہ ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ حریم پر سکون رہے۔۔
اب تو اسے بھی عجیب سے خدشات گھیر رہے تھے۔۔
کراچی سے کچھ دور آنے کہ بعد اسنے پھر سے انکل کے نمبر پہ کال کی تھی۔۔
لیکن اب بھی فون آف ہی تھا۔۔
ساحل نے حریم کو نہیں بتایا۔۔
وہ دعائیں مانگتی جارہی تھی۔۔
ایک پیٹرول پمپ پہ ساحل نے گاڑی روکی
تو حریم نے چونک کہ کہا
آگیا بس سٹاپ ؟؟
وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔۔
حریم میں آپکو اکیلے جانے نہیں دے سکتا۔۔
ہم ابھی آپ کے گھر ہی جارہے ہیں۔۔
لیکن آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی میں بس ہے ہی چلی جاتی۔۔
کو سر جھکا کے بولی۔۔
مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی حریم۔۔
آپ کب سے جاگ رہی ہیں۔۔؟
اچانک ساحل کو یاد آیا تو اس نے پوچھا
میں میں پانچ بجے سے جاگ رہی ہوں۔۔۔
وہ بولی
حریم آپ نے ناشتہ نہیں کیا نہ۔۔؟
چلیں نیچے اتریں ناشتہ کرتے ہیں
جب تک گاڑی کی ٹنکی بھی فل ہوجائے گی
اسنے اسکی طرف کا دروازہ کھولا
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے میں ناشتہ نہیں کروں گی
حریم پلیز ضد چھوڑ دیں بس صرف چائے پی لیتے ہیں میرے سر میں درد ہو رہا ہے وہ اسے دیکھتے ہوے بولا۔۔
اسکی نظروں سے گھبرا کہ حریم اتری۔۔۔
وہاں ایک ڈھابہ تھا
بیرا چاے اور بسکٹ لایا۔۔
وہ چاۓ پینے لگے۔۔
موسم کافی خوشگوار تھا۔۔
سات بج چکے تھے۔۔
ٹھنڈی ہوائیں چلرہی تھیں
حریم کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے
وہ ہر ممکن کوشش کر رہی تھی تھی کہ بالوں کو ایک سائیڈ پے کرے لیکن ہوا بہت تیز تھی
سائل بہت دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا
یہ ہوائیں بھی بہت تیز ہوتی جا رہی ہیں اجکل۔۔۔
وہ کہنے لگا تو حریم نا سمجھنے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی۔۔
ساحل نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔۔
اب چلیں حریم نے بمشکل چاے کا کپ ختم کیا۔۔
ہا ں ۔۔
وہ بھی اٹھا۔۔
بل پے کیا اور گاڑی سٹارٹ کرلی۔۔
ساحل نے سعد سے بات کی تو وہ بولا کہ زرین کو سمجھا دیا تھا
وہ یہی سمجھیں کہ شاید آج وہ دیر سے اٹھی ہیں۔۔
اوکے میں بعد میں بات کرتا ہوں۔۔۔
حریم آپ تھوڑی دیر سونے کی کوشش کریں۔۔
وہ اسکی لال آنکھیں دیکھ کہ بولا۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔
چلیں ٹیک لگا کہ آنکھیں بند کرلیں۔۔
انکل آنٹی آپکو اس طرح دیکھیں گے تو
میرے ہی کان کھینچیں گے۔۔
کہ ساحل بیٹا ہماری سیانی بیٹی کیوں باؤلی بنا کہ لاۓ ہو۔۔
وہ
ہر ممکن کوشش میں تھا کہ وہ کچھ ریلکس ہوجاۓ۔۔
حریم کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی تھی ساحل کہ بات پہ
ساحل نے اسے کھل کے دیکھا۔۔
وہ حیدرآباد کراس کر کے تھے۔۔
ابھی بھی کافی سفر تھا لیکن وہ بھی جلدی ہی کٹ جاتا کیونکہ ساحل خود ڈرائیو کر رہا تھا۔۔
ورنہ بس میں تو حریم کا کچومر نکل گیا تھا۔۔
چیونٹی کی رفتار سے چلتی تھی۔۔
اب دھوپ کافی تیز ہوگئی تھی۔۔
ویسے بھی حریم کے گاؤں کی طرف گرمی کے موسم میں شدید گرمی اور سردی میں شدید سردی پڑتی تھی۔۔
تقریباً ایک بجے وہ رانی پور کراس کر کے تھے۔۔
اسی دوران ساحل اور حریم دونوں چیک کرتے جارہے تھے کہ فون آن ہوا کہ نہیں انکا۔۔۔
وہ لوگ سکھر سے کچھ ہی دور تھے کے کال لگ گئی۔۔
ساحل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔۔
اسنے کار سلو کردی اور سائڈ پہ لگا دی۔۔
دو تین رنگ کے بعد کال اٹینڈ ہوگئی۔۔
اہم۔۔ساحل نے اپنا گلا صاف کرکے سلام کیا۔۔
اسلام وعلیکم انکل۔۔۔
کیسے ہیں آپ؟؟
حریم نے جھٹکا کھایا لفظ انکل سن کے۔۔
اور ساحل کی طرف دیکھنے لگی ڈری ہوئی نظروں سے۔۔
ساحل نے اسے ہاتھ سے ریلکس رہنے کا اشارہ کیا۔۔
جی وہ آپکا فون آف جارہا تھا۔۔
وہ وقفے کے بعد بولا۔۔
اچھا ۔۔۔وہ ہلکا سا ہنسا
جی نہیں اصل میں حریم پریشان ہوگئی تھیں
کہ پتا نہیں بابا کال کیوں نہیں اٹنیڈ کر رہے۔۔۔
وہ خوش دلی سے بات کر رہا تھا۔۔
جب کہ حریم اس سے فون مانگرہی تھی۔۔
اوکے میں آپکو کچھ دیر میں کال کرتا ہوں
میری کال آرہی ہے۔۔۔
یہ کہہ کہ اسنے فون کاٹا اور ہنستے ہوے دیکھا حریم کی طرف۔۔
مبارک ہو…
کیسے ہیں بابا وہ چھوٹتے ہی پوچھنے لگی۔۔
وہ بلکل ٹھیک ہیں حریم صاحبہ۔۔۔
ساحل بھی آج اسی کے سٹائل میں بولا۔۔
مری بات کیوں نہیں کروائی اور کیا کہتے تھے وہ۔۔؟
حریم جلدی جلدی پوچھتے ہوۓ اپنا فون ڈھونڈنے لگی۔۔
کہاں گیا میرا فون ا۔۔۔
شائد نیچے گر گیا ہے ۔۔
ساحل بولا۔۔۔
سنیں حریم۔۔۔
وہ بلکل ٹھیک ہیں الحمدللہ۔۔
انہوں نے بتایا ہے کہ آپکی کوئی کزن ہیں علیزہ؟؟
ہاں ہاں ہے۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔؟
کل شام انکی ڈیلوری ہوئی ہے ایک عدد پیاری سی بیٹی ہوئی ہے انکو۔۔
ساحل نے مسکرا کے وہی الفاظ دوہراتے ہوے کہا
۔۔
ہاہ۔۔۔۔۔
حریم نے منہ پہ ہاتھ رکھ کےخوشی سے چیخ ماری۔۔۔
ساحل ہنس دیا
۔۔
لیکن بابا کیسے ہیں وہ پھر وہی پوچھنے لگی۔۔
ہاں تو بابا جو ہیں وہ کل شام ہی آنٹی کو لےکر شکار پور گیے تھے۔۔
کیونکہ آنٹی کی اکلوتی بھانجی ہیں آپکی کزن تو انسے صبر نہیں ہورہا تھا
اور جلدی میں وہ اپنا فون بھی گھر پہ ہی بھول گئے۔۔۔
اور اسی چکر میں آپکو چکر آگئے۔۔
وہ ہنسا تو حریم نے شکر ادا کیا
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔۔
میں تو مر جاتی آج ۔۔
اونہوں۔۔۔
ایسا نہیں کہتے۔۔
ساحل نے ٹوکا
تو سیٹ سے ٹیک لگا کہ بولی
میں نے اپنے چکر میں آپکو بھی چکر دے دیے۔۔۔۔
وہ اسکی طرف دیکھ رہی تھی
وہ بھول ہی گی تھی کہ وہ اس سے ناراض تھی۔۔
ہم تو پہلے ہی آپ کے چکر میں ہیں ساحل نے دل ہی دل میں کہا۔۔
اچھا جی اب تو کھانا کھاسکتے ہیں بہت بوکھ لگی ہے۔۔
ساحل نے کار سٹارٹ کی اور اس سے پوچھا ۔۔
جی ہاں بلکل ۔۔۔وہ بھی ہنسدی۔۔
وہ ایک قریبی ریسٹورنٹ میں رکے اور آڈر دیا۔۔
آپ کیا کھانا پسند کرینگی مس حریم فیضان صاحبہ۔۔
وہ اسے پوچھ رہا تھا شوخ لہجے میں۔۔
جو آپ کھائیں گے وہی۔۔
اممم مجھے تو کسی نے کہا تھا کہ راستے میں اگر کوئی بھی ہوٹل یا ڈھابے وغیرہ میں کھانا کھانا پڑے تو صرف دال ہی کھانی چاہیے۔۔
کیوں کہ ایک یہی چیز ہے جو یہاں اصلی ملیگی۔۔۔
وہ اپنی مسکراہٹ دبا کے بولا۔۔
اچھا جی ۔۔ایسا نہیں ہے ہمارے علاقے میں مرغی گوشت وغیرہ بھی اصلی ہی ملتا ہے۔۔
وہ منہ بنا کہ بولی۔۔
یہ جو ملاوٹ ہوتی ہے نا یہ بڑے شہروں میں ہوتی ہوگی۔۔
ساحل سر جھکا کے مسکراتے ہوے اثبات میں ہلاۓ جارہا تھا۔۔
کچھ دیر میں کھانا آگیا۔۔
ویسے حریم آپ کے راستے میں کتنے سارے پور آتے ہیں۔۔
وہ اسے بتانے لگا انگلیوں پہ گن کہ۔۔
رانی پور۔۔خیر پور۔۔ شکار پور ۔۔خان پور ۔۔پھر جاکے کرم پور آتا ہے۔۔
اسکے بعد غوث پور بھی آتا ہے حریم بتانے لگی۔۔
اوہ اچھا ۔۔۔
جی۔ہاں ۔۔
حریم میں نے آپ کو اس لیے منع کیا تھا کہ ابھی آپ انکل سے بات نہ کریں کیوں کہ وہ آپکی آواز سے پریشان ہونگے۔۔
اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے تو رو دینا ہے۔۔
ویسے بھی اب کچھ ہی دیر ہے۔۔
ہم بس پہنچنے ہی والے ہیں ۔۔
وہ اٹھا تو حریم بھی خوشی سے اٹھی۔۔
ابھی وہ کچھ دور ہی چلے تھے سکھر قریب ہی تھا کہ اچانک ساحل کہ منہ سے نکلا۔۔
اوہ شٹ۔۔۔
کیا ہوا؟؟
حریم نے ہوچھا۔۔
وہ دیکھا سامنے۔۔
اسنے دیکھا سامنے بڑی لمبی لائین تھی
گاڑیوں کی ایک طرف ٹرکوں کی نا ختم ہونے والی قطار تھی۔۔
افف ۔۔۔بیساختہ حریم کے منہ سے نکلا۔۔
اب کیا ہوگا۔۔
ہمم دیکھتے ہیں۔۔
شائد کوئی اور راستہ ہو۔۔
وہ پر سوچ لہجے میں بولا۔۔
لیکن یہ اسکی سوچ تھی۔۔
وہاں قریب جانے پر معلوم ہوا کہ وہاں کسی بڑے ہی مسئلے کی وجہ سے دھرنا دیا گیا ہے۔۔
اور اب جب تک ان کے مطالبات نہیں مانے جاتے یہ راستہ بند ہی رہے گا۔۔
اس سے زیادہ آگے جانے کا مطلب ہے بیچ میں ہی پھنس جانا۔۔
اوہ ساحل گاڑی سے اترا اور حریم کو بھی اترنے کا کہا۔۔
وہاں پہ کھلا میدان تھا کچھ درخت بھی تھے۔۔
وہ اسے لیکر پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ گیا۔۔
جہاں پہ کچھ بڑے پتھر پڑے ہوئے تھے۔۔
اور بھی بٹ سے لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ یہاں وہاں آجا رہے تھے کچھ تھک کے بیٹھ گے تھے۔۔
ساحل اٹھا اور ایک اپنے ہم عمر لڑکے کے پاس جانے لگا۔۔
حریم اسے دیکھے گئی۔۔
کیا ہے یہ بندہ کوئی ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔
میں جب بھی پریشان ہوتی ہوں ۔۔
میرا اتنا خیال رکھتا ہے اور کبھی کبھی تو پوچھتا بھی نہیں کہ زندہ ہو کہ نہیں۔۔
وہ خوش تھی کہ
امی بابا بلکل ٹھیک ہیں۔۔اور وہ اس وقت ساحل کے ساتھ ان کے پاس جارہی ہے۔۔
دوہری خوشی۔۔ وہ مسکرائی۔۔
ساحل واپس آرہا تھا۔۔کس بات پہ مسکرایا جارہا ہے میڈم۔۔۔؟؟
وہ بھی شوخی سے پوچھنے لگا۔۔
کچھ نہیں بس ایسے ہی۔۔۔
ایک مسلہ ہوگیا ہے۔۔
ساحل اپنے بالوں کو انگلیوں سے پیچھے کرتا بولا۔۔
کیا؟؟
وہ ڈر گئی۔۔
میں نے سب سے پتا کیا ہے۔۔
سب کا یہی کہنا ہے کہ راستہ کھلنے کا کوئی چانس نہیں ہے۔۔۔
ساحل آرام سے بتا رہا تھا
پریشان تو وہ بھی تھا لیکن حریم پہ ظاہر کرتا تو وہ زیادہ گھبرا جاتی۔۔
تو؟؟
تو اب ہم ویٹ کرتے ہیں کہ کب ان لوگوں کے مطالبات مانے جاتے ہیں۔۔
ابھی وہ بات ہی کر رہے تھے۔۔
کہ ایک لڑکا ان کی طرف آتا دکھائی دیا۔۔
سر شام ہونے والی ہے
یہاں سے ایک کچا راستہ ہے جو قریبی شہر کو جاتا ہے۔۔
ہم وہیں جارہے ہیں وہاں ہی کسی گیسٹ ہاؤس میں آج رات قیام کرینگے کیوں کہ شام ہوتے ہی جہاں لوٹ مار شروع ہوسکتی ہے۔۔
ڈاکوؤں کا علاقہ ہے سر جو بھی فیملی کے ساتھ ہیں سب اسی راستے سے وہیں جانے لگے ہیں آپ بھی چلیں۔۔
یہاں پہ پولیس وغیرہ بھی نہیں آنے والی۔۔
ساحل پریشان ہوگیا۔۔
حریم کو دیکھا وہ بھی پریشان تھی۔۔
وہ اس کے پاس آگیا۔۔۔
چلیں؟
حریم نے ڈرتے ہوے دیکھا ساحل کو۔
حریم ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے میں ہوں نا آپ کے ساتھ۔۔
وہ اپنے سینے پہ ہاتھ رکھ کہ بولا۔۔
جی۔۔
تو چلیں پھر
ورنہ یہ کچا راستہ بھی بلاک ہوسکتا ہے۔۔
ساحل اکیلا ہوتا تو پرواہ نہیں تھی لیکن اس کے ساتھ حریم تھی۔۔
وہ نا واپس جاسکتے تھے نہ ہی آگے جاسکتے تھے۔۔
سعد کی کال آرہی تھی۔
ہاں سعد ایک مسلہ ہوگیا ہے۔۔
ساحل اسے سب بتانے لگا
افف اب ہم نہ آنٹی کو بتا سکتے ہیں ۔۔۔نہ بابا والوں کو۔۔
وہ اپنا سر پکڑ کے بیٹھ گئی۔۔
منت منت
ساحل نے اسکی طرف دیکھا حریم کا چہرہ اترا ہؤا تھا۔۔
کم آن حریم کیا ہوا۔۔
مجھے اچھا نہیں لگ رہا آپ کو یوں اداس دیکھ کہ۔۔
وہ کار سائیڈ پہ روک کہ اسے دیکھنے لگا۔۔
نہیں میں اداس تو نہیں ہوں۔۔
بس شرمندہ ہوں میری وجہ سے آپکو یہ سب برداشت کرنا پڑ رہا ہے
وہ اس کی طرف دیکھ کے اداسی سے بولی
مجھے کچھ بھی نہیں ہوا
میں تو بہت خوش ہوں ہو کہ میں آپ کے ساتھ ہوں
وہ مسکراتا ہوا بولے جارہا تھا۔۔
جی ؟
حریم نے چونک کے دیکھا
میرا مطلب ہے کہ میں بہت خوش ہوں
کہ انکل آنٹی ٹھیک ہیں اور آپ میرے ساتھ ہیں۔۔
اگر آپ اس وقت بس پہ ہوتیں تو کتنی زیادہ پریشانی اٹھانی پڑتی۔۔۔
وہ بات بدل کے بولا یہ دل بھی کیا چیز ہے اب بھی ڈر رہا ہے۔۔۔
ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔۔بس میں تو میرا رونا ہی نکل گیا تھا۔۔۔
اتنا سلو چل رہا تھا۔۔۔۔
وہ دونوں بھی اس وقت کچے راستے پہ تھے
گاڑی سلو چل رہی تھی۔۔
پیچھے سے بھی ایک قطار آرہی تھی گاڑیوں کی
کافی دیر تک تو وہ وہیں پھنسے رہے۔۔
بہت سے لوگ اسی شہر کا رخ کر رہے تھے
آخر کار وہ شہر میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ۔۔
ساحل نے ایک گیسٹ ہائوس کے سامنے کار روکی۔۔
وہاں پوچھا روم کا۔۔
سر یہاں ایک ہی روم مل سکتا یے۔۔
سارے بک ہوچکے ہیں۔
اوہ ساحل کچھ پریشان ہوا۔۔۔
اوکے۔۔
آپ وہ روم دیں۔۔
ساحل نے مجبورا ایک ہی کمرا لیا
ورنہ پیچھے جو لوگ آرہے تھے یہ کمرا بھی چلا جاتا۔۔
رات کے 8 بج چکے تھے۔۔
وہ حریم کو اندر لایا۔۔
اور ریسپشن سے روم کی چابی لی۔۔
چلیں حریم وہ بیرے کے پیچھے جانے لگے۔۔
وہ انکو روم تک لایا لاک کھولا
جی مسٹر اینڈ مسز ساحل سکندر۔۔۔
امید ہے آپکو ہماری سروسز پسند آئیں گی۔۔۔۔۔۔
اوہ ماۓ گڈنیس۔۔۔
ساحل جس بات سے ڈر رہا تھا وہی ہوا۔۔
بیرا انکو روم تک چھوڑنے آیا تھا
اپنی بات کہہ کہ روانہ ہوگیا۔
۔جبکہ حریم منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اوہ پلیز ابھی نہیں۔۔۔
ساحل یہ کہہ کہ اندر جانے لگا۔۔
وہ بہت تھک چکا تھا
جبکہ حریم شاید اسے اور تھکانے کہ موڈ میں تھی سوال جواب کرکے۔۔
حریم اندر آجائیں پلیز۔۔
وہ تھکے ہوئے سے انداز میں واش روم کی طرف بڑھا۔۔
جبکہ حریم اب تک دروازے کے بیچ میں تھی
ساحل شاور لیکر آیا تھا۔۔
ٹاول سے بال رگڑتا اسے دیکھ کہ حیران ہوا۔۔
حریم۔۔۔
آپ ابتک یہاں کیوں کھڑی ہیں دروازے کے بیچ میں؟؟
وہ صوفے پہ بیٹھ چکا تھا۔۔
حریم آہستہ سے اندر ائی۔۔۔
یہ۔۔اسنے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔
ہم۔ ۔ پھر اپنے اور ساحل کی طرف اشارہ کیا۔۔
جی ہاں۔۔۔ یہ روم ہم دونوں کے لیے ہی ہے۔۔
اس ہوٹل میں ایک ہی روم خالی تھا۔۔
اور اگر میں وہ نا لیتا تو کوئی اور لے جاتا۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔
لیکن۔۔۔۔
حریم نے منہ کھولا۔۔
پلیز حریم۔۔۔ سمجھنے کی کوشش کریں ۔۔
میں آپ کے ساتھ باہر کار میں رات نہیں گزار سکتا وہ بھی کسی انجان چھوٹے سے شہر میں۔۔
اور آپ کو اکیلا بھی چھوڑ کہ نہیں جاسکتا اس روم میں۔۔
میری مجبوری کو سمجھنے کی کوشش کریں۔۔
وہ چڑ گیا تھا۔۔۔
آپ سمجھ نہیں رہے۔۔
ساحل میں آپ کے ساتھ ایک روم میں نہیں رہ سکتی۔
وہ ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی۔۔
مس حریم یہاں کوئی مذاق نہیں ہورہا۔۔
میں پچھلے چودہ گھنٹوں سے آپ کے ساتھ اس ٹریک سوٹ اور جوگرز میں خوار ہورہا ہوں
اور آپ کہہ رہی ہیں کہ میں کچھ نہیں سمجھ رہا؟
ابکی بار اسکا پارہ ہائی ہوگیا تھا۔۔
میں اچھے سے جانتا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتی ہیں ۔۔۔
ابکی بار وہ کچھ دھیرے سے بولا۔۔
میں نے اپنی آدھی عمر باہر ضرور گزاری ہے لیکن میں اپنے ریت رواج
اور طور طریقوں سے ناواقف نہیں ہوں۔۔
حریم مجھے اس گیسٹ ہاؤس پہ بھی بھروسہ نہیں ہے
جہاں ہمیں بنا کسی تحقیق کہ با آسانی کمرا دیدیا۔۔
اب میں آپکو اس روم میں کیسے چھوڑ کے جاسکتا ہوں۔۔؟
ورنہ میں کار میں ہی رات گزار لیتا۔۔
حریم سر جھکائے بیٹھی تھی۔۔۔
وہ واقعی میں اب تک انہی کپڑوں میں تھا۔۔
جس میں وہ جوگنگ سے واپس آیا تھا
سوری میرا وہ مطلب نہیں تھا۔
حریم میں بہت تھکا ہوا ہوں۔۔
مجھے سر میں درد ہو رہا ہے پلیز اب کوئی سوال نا کریں۔۔
وہ صوفے پہ لیٹ گیا۔۔
اور حریم سے کہا کہ روم سروس کو کال کر کے دو چائے بول دے۔۔
حریم نے چاۓ کا بول دیا
اور اس کے قریب آئی
ساحل۔۔۔
اسنے پکارا
تو ساحل نے آنکھیں کھول کہ اسے دیکھا۔۔
وہ اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
آپ بیڈ پہ لیٹ جائیں۔۔صوفے پہ میں سوجاتی ہوں۔۔
ساحل اسے دیکھ کہ مسکرایا۔۔
اور اسے دیکھے گیا۔۔
حریم پزل یوئی۔۔
اور منہ پھیر لیا۔۔
ساحل آٹھ کہ بیٹھا۔۔
میں یہاں پہ ٹھیک ہوں۔۔
نہیں آپ صوفے سے لٹک رہے ہیں جبکہ میں پوری آجاونگی۔۔؟
اور آپکو زیادہ ضرورت ہے آرام کی کیوں کہ آپ نے مجھے میرے گھر تک بھی پہنچانا ہے
وہ مسکراتے ہوئے اسے دیکھ رہی تھی
اچھا جی ٹھیک ہے جیسا آپ کہتی ہیں ہم ویسا ہی کریں گے
وہ بھی مسکراتا ہوں اٹھا اور بیڈ پر لیٹ گیا
کچھ ہی دیر میں ویٹر چاے لیکر آگیا۔۔
ساحل نے ویٹر سے کھانے کا پوچھا
جی سر ہمارے پاس بہت کچھ اویلبل ہے
میں آپ کو میںنیو کارڈ لاکے دیتا ہوں
وہ بولا
نہیں یار مینیو کارڈ کی ضرورت نہیں ہے بس کچھ بھی لے کر آئیں دو بندوں کیلئے۔۔۔
جی اچھا۔۔
وہ چلا گیا۔۔۔
حریم نے چاۓ کا کپ ساحل کو اٹھا کے دیا۔۔
وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کہ بولا۔۔
حریم آئی ایم سوری فار دس۔۔۔
وہ حیرت سے بولی
فار واہٹ؟
آپ کو یہ سب فیس کرنا پڑ رہا ہے
میں جانتا ہوں ایک لڑکی کے لیے ایک نا محرم کے ساتھ اکلے کمرے میں رہنا ۔۔۔۔
وہ آگے نہیں بول پایا۔۔
میرا یقین کریں۔۔۔
جو آپ فیل کر رہی ہیں میں وہ سب سمجھ رہا ہوں۔۔
سب ٹھیک ہو جائے گا ہم کسی کو یہ بات نہیں بتائیں گے کے ہم ایک روم میں تھے۔۔
حریم جو بمشکل ریلیکس ہوئی تھی۔۔
پھر سے پریشان ہوگئی۔۔
یہ تو اسنے سوچا ہی نہیں تھا
کہ اگر کسی کو پتا چلا تو۔۔۔
ابھی تو وہ صرف یہی سوچ رہی تھی
کہ وہ ایک ہی روم میں کیسے رہ سکتے ہیں۔۔
چائے کہ فوراً بعد کھانا آگیا تھا۔۔
اب ساحل کو نیند آرہی تھی۔۔
ویسے تو وہ اتنی جلدی نہیں سوتا تھا لیکن آج تھکن سے آنکھیں بند ہوئی جارہی تھیں۔۔
وہ بیڈ پہ لیٹا تو حریم بولی۔۔
لائٹ آف مت کیجے گا۔۔
اوکے ایز یو وش۔۔
ساحل لیٹا تو اچانک حریم چیخی۔۔
ساحل جھٹ سے اٹھا تو دیکھا
حریم صوفے کے اوپر کھڑی تھی۔۔
چچچوہا۔۔
بمشکل اسکے منہ سے نکلا تو ساحل کو غصہ آگیا۔۔
اتنی بڑی ہوگئی ہیں آپ اب تک چوہے سے ڈرتی ہیں۔۔
وہ اسے گھورنے لگا۔۔
تو کیا چوہا کوئی عمر تھوڑی دیکھتا ہے۔۔
وہ اب تک کھڑی تھی۔۔
بیٹھ جائیں پلیز حریم۔۔
وہ ہاتھ جوڑ کے پھر سے لئے گیا۔۔
حریم کی شکل رونے جیسی تھی اب تو اسکے دشمن سوتے۔۔
وہ تکیا گود میں لیے بیٹھی رہی۔۔
ساحل۔۔۔۔۔ اسنے پکارا۔۔
جی بولیں۔۔۔
اسنے لیٹے لیٹے ہی جواب دیا۔۔
آپ جاگ رہے ہیں نہ۔۔
ہاں کیونکہ آپ سونے نہیں دیرہیں۔۔
ساحل نے تکیا منہ پہ رکھا ہوا تھا۔
حریم کو بہت خوف آرہا تھا۔۔
کچھ دیر بعد پھر پکارا
ساحل۔۔۔
ہممم
وہا سے نیند کے خمار میں آواز ائی۔۔
آپ سوگئیے؟؟
انوہون۔۔۔
بس یہی جواب آیا۔۔
دیکھا سوگیا کھڑوس مجھے ان چوہوں کے بیچ میں اکیلا چھوڑ کر۔۔۔
وہ رونے والی تھی بس۔۔
ساحل سر پہ تکیا رکھ کہ آدھا الٹا لیٹا ہوا تھا
ایک ہاتھ بھی بیڈ سے نیچے لڑھک گیا تھا۔۔
حریم اسی کی طرف دیکھے جارہی تھی۔۔
اسے ویسے بھی ڈر کے مارے نند نہیں آنی تھی
وہ بس بیٹھ کہ سوچے جارہی تھی۔۔
کہ آج اگر وہ بس پہ آئی ہوتی تو۔۔
وہ کیسے بس میں پوری رات گزارتی کیسے لوگ ہوتے۔۔
کیسا ماحول ہوتا۔۔
توبہ توبہ اسے سوچ کے ہی جھرجھری آ گئی تھیں
۔
اگر ساحل اسے ساتھ نا لاتا تو آج اسکا بھی برا حال ہوتا امی بابا کا بھی۔۔۔
سب لوگ پریشان ہوتے۔۔
رات کو ساحل نے پھوپھو کو سمجھا دیا تھا
اور ان سے کہا تھا کہ بابا سے کوئی ذکر نہ کریں ہم کل تک وہاں پہنچ جائیں گے
صحیح کہتے ہیں سیانے حریم بی بی ۔۔؟کہ جلدی کام شیطان کا ہوتا ہے
تھوڑا سا صبر کر لیتی نہ وہیں پے۔۔۔
امی بابا سے بات ہوجاتی شام۔تک۔۔۔
مگر نہیں۔۔۔۔ امی سچ کہتی ہیں کہ حریم تم میں صبر نام کو نہیں ہے۔۔۔
وہ اپنے آپ کو کوسے جارہی تھی۔۔
کہاں آکر پھنس گئی۔۔
یہ سب باتیں وہ ابھی سوچ رہی تھی کیونکہ
اسے پتا تھا کہ امی بابا خیریت سے ہیں
لیکن اْس وقت اگر کوئی اسے جتنا بھی روکتا وہ رکنے والی نہیں تھی۔۔
نجانے رات کے کون سے پہر اسکی آنکھ لگ گئی۔۔۔
چھ بجے ساحل کی آنکھ کھلی۔۔
پہلے تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے یہ کس کا کمرا ہے۔۔
اور اٹھ کہ بیٹھا تو صوفے پر سوئی حریم پر نظر پڑی۔۔
تو وہ اچھلا۔۔
آنکھیں مل کے دوبارہ دیکھا
وہ واقعی حریم تھی۔۔
پھر غور سے اسنے کمرے کا جائزہ لیا تو اسے سب یاد اگیا۔۔
ساحل کا دماغ ابھی تک سورہا تھا
وہ بس آنکھیں کھول کہ دیکھ رہا تھا اب تک۔
افف میرا دماغ بھی کبھی کبھی کیا سے کیا سوچ لیتا یے۔۔
وہ مسکراتا ہوا اٹھا۔۔
شاور کے کر نکلا اور ناشتے کا کیا ویٹر کو۔۔۔
صبح سات بجے ساحل نے مجبوراً حریم کو آواز دی۔۔۔
اٹھ ہی نہیں رہی تھی۔۔
وہ کب سے انتظار کر رہا تھا کہ خود ہی اٹھ جاے۔۔
حریم۔۔۔۔
پلیز آٹھ جائیں۔۔
ہممم
کافی دیر تک بلانے کے بعد اسنے ایک آواز نکالی
اوہ شکر ہے کچھ تو رسپانس دیا۔۔
اب اٹھ بھی جائیں نکلنا نہیں ہے کیا ۔؟؟
ساحل نے انٹرنیٹ پہ چیک کر لیا تھا۔۔
ان لوگوں کے مطالبات مان لیے گئیے تھے
رات کو ہی دو بجے تک راستہ صاف کروایا گیا تھا۔۔
ساحل نے چمچ اور کپ اٹھایا اور اس کے کان کے پاس گھنٹی کی طرح بجانے لگا۔۔۔
ٹنگ ٹنگ ٹنگ۔۔۔۔
لیکن وہ تو سے مس نا ہوئی۔۔۔
کیا ۔۔۔۔۔ساحل منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھے جارہا تھا۔۔
اتنی پکی نیند بھی ہوسکتی ہے کسی کی؟؟
افف ساحل تمہاری تو آدھی زندگی اسے جگانے میں گزر جائے گی۔۔
وہ خود سے سوچ کہ ابھی سے پریشان ہونے لگا۔۔
حریم ۔۔۔۔
ابکی بار وہ سخت لہجے میں چلایا۔۔
تو وہ ہڑبڑا کی اٹھی کیا ہوا۔۔
معصومانہ شکل بنا کے اسے دیکھے جارہی تھی۔۔
اٹھیں ناشتہ کرلیں۔۔
وہ کہنے لگا۔۔
حریم نے اچانک کہا۔۔
آپ یہاں؟
حیرت سے اسے منہ کھولے دیکھے جارہی تھی۔۔
او ہو۔۔۔۔ویٹ ویٹ ویٹ۔۔۔
ساحل نے جلدی سے کہنا شروع کیا اس سے پہلے کہ وہ کوئی سین کری ایئٹ کرتی۔۔
ہم لوگ آپ کے گھر جارہے تھے
راستے میں ٹریفک جام تھا
اور ہم نے جہاں ہوٹل میں روم لیا تھا
کچھ یاد آیا؟؟
حریم نے چاروں طرف نظر گھمائی اور اثبات میں گردن ہلائی
شکر۔۔
ساحل نے سانس خارج کی۔۔
حریم پھر سے لیٹ گئی اور چادر سر تک تان لی۔۔۔
ہو ہو کب تک سوتی رہینگی آپ؟؟
وہ پھر سے اسے جگانے لگا۔۔
تو وہ اٹھی اور غصے سے اسے دیکھنے لگی۔۔
خود تو مزے سے سوگئے تھے۔۔
مجھے چوہوں کے ساتھ چھوڑ کے اب جب مجھے نیند آرہی ہے تو سونے نہیں دے ریے۔۔۔۔
وہ منہ پھلائے اسے سنانے پھر سے چادر تان کے لیٹ گئی۔۔
کہاں پھنس گیا میں اس پاگل لڑکی کے ساتھ۔۔۔
او میڈم آپ یہاں آرام فرماتی رہیں میں جارہا ہوں۔۔
پھر آپ کے ابا کو بھیجتا ہوں۔۔
جب تک آپ کی نیند بھی پوری ہوجائے گیی۔۔۔
وہ اٹھا اور جانے لگا تو وہ جھٹکے سے اٹھی۔۔
پانچ منٹ دیں مجھے وہ واش روم کی طرف جانے لگی۔۔
ساحل مسکرایا
لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔۔۔
ساحل نے اپنے اور اسکے لیے ٹوتھ برش منگولیا تھا۔۔
ویٹر وہ دینے آیا تھا۔۔۔
سنو۔۔
ایک کپ چائے لانا اور ناشتہ بھی اسنے اسے حریم کے لیے چاۓ کا کہا۔۔
وہ واش روم
سے نکلی اور بولی۔۔
ٹوتھ برش نہیں ہے۔۔
انداز شکایتی تھا۔۔۔
ساحل نے ٹوتھ برش اسے تھمایا۔۔
تو وہ چپکے سے واپس چلی گئی۔۔
اب وہ ناشتہ کر رہی تھی۔۔
ساحل فریش ہوچکا تھا۔۔
چلیں؟؟
یس وہ بھی مسکرائی۔۔
وہ جانے لگے تو حریم کو یاد آیا کہ اسکا فون نہیں ہے اسکے پاس۔۔
اسنے ڈھونڈا پر وہ نظر نا ایا۔۔
میں رنگ دیتا ہوں آپ چیک کریں۔۔
وہ رنگ دینے لگا۔۔۔
بیل کی آواز آرہی تھی وہ دونوں چیک کر رہے تھے۔۔
ساحل نے دیکھا فون صوفے کے نیچے بج رہا تھا۔۔
اسنے ہاتھ بڑھا کے وہ قریب کیا۔۔۔
اسکی نظر پڑی تو لکھا تھا
چنگیز کالنگ۔۔۔۔
ساحل نے جب اپنے نمبر کے ساتھ چنگیز لکھا دیکھا تو اسے عجیب فیل ہوا۔۔۔
اسنے فون حریم کو تھمایا اور
لبے قدم اٹھاتا باہر نکل گیا۔۔
حریم بھی اس کے پیچھے اگئی۔۔
ساحل نے اسکے بیٹھتے ہیکار زن سے اڑائی
حریم کو جھٹکا لگا
اس نے اپنی سیٹ بیلٹ باندھی
ساحل کیا جلدی ہے۔۔۔
اسنے اسے پکارا
کیا بات ہے اتنا تیز کیوں چلارہے ہیں۔۔
ساحل نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔۔
ساحل کیا بات ہے سب ٹھیک توہے نا۔۔
وہ اسکی چپ سے گھبرائی تھی۔۔
کچھ ٹھیک نہیں ہے
اسنے ہلکے سے کہا۔۔
کیا
کیا ہواساحل مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
آپ کیوں ڈر رہی ہیں ۔۔
آپ کے ساتھ تو کچھ برا نہیں ہوا۔۔۔
وہ کہنے لگا۔۔
یہ تو میری ہی قسمت خراب ہے۔۔
ساحل آپ ایسا کیوں کہہ رہےہیں۔۔
وہ اسے سمجھانے لگی۔۔
ساحل چپ تھا۔۔۔
اب وہ سکھر پہنچ گئے تھے۔۔
ساحل نے کار شہر کی طرف موڑی۔۔
تو حریم اسے دیکھنے لگی۔۔
پوچھا نہیں کہ ادھر کیوں جارہے ہیں
بس چپکی سی بیٹھی رہی۔۔
ساحل نے ایک بڑی شاپ کے سامنے کار رکی۔۔
اور اترا۔۔
کہاں جارہے ہیں۔۔
حریم نے پوچھا ۔
مجھے کچھ کام ہے ابھی آتا ہوں
وہ شاہ کے دروازے میں گم ہوگیا ۔۔
یہ سکھر کی مشہور شاپ تھی۔
اس میں کپڑے شوز کاسمیٹک وغیرہ سب مل جاتے تھے۔۔
وہ وہیں دیکھ رہی تھی۔
شاپ کا دروازا کھلا۔۔
اور ساحل آرہا تھا
اسنے بلیک شلوار سوٹ پہن رکھا تھا۔۔
اور کچھ شاپر اس کے ہاتھ میں تھے۔۔
حریم نے اسے دیکھ کہ دل تھام لیا۔۔
ہاۓ صدقے جاؤں ۔۔۔
کتنا کیوٹ لگرہا ہے ۔
نظر نا لگے میرے کھڑوس کو۔۔اسنے دل ہی دل میں اسکی بلائیں لیں۔۔
وہ کار کا ڈور کھولا کہ بیٹھا شاپنگ بیگز پچھلی سیٹ پہ رکھ کر کار سٹارٹ کی۔۔
اسکے بیٹھتے ہی کار میں خوشبو پھیل گئی۔۔
ہممم حریم نے سانس کھینچ کہ خوشبو اندر اتارہی۔۔
نائس۔۔
وہ بولی۔۔
ساحل نے اسے دیکھا
کیا۔۔۔
آنکھیں اب بھی سکیڑئ ہوئی تھیں۔۔
وہ اچھی خوشبو ہے اور یہ ڈریس بھی بہت اچھا ہے۔۔
وہ مسکرا کے بولی۔۔
وہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ میں ان کپڑوں میں آپ کے گھر جاوں۔۔
اوہ ہاں بہت اچھا کیا۔۔
میں بھی یہہں۔۔
سوچ رہی تھی۔
کہ وہاں جاکر آپ کو بابا کے کپڑے دونگی۔۔
وہ ہنسنے لگی۔۔
ساحل نے سر جھٹکا پاگل۔۔۔
کچھ دیر میں وہ پہنچ چکے تھے اب بس حریم اسے بتاتی جارہی تھی۔۔
اس گلی میں اندر
یہاں سے لیفٹ۔۔
رکیں رکیں۔۔بس آگے۔۔
وہ خوشی سے چلائی۔۔
کار رکی تو وہ جلدی سے اترنے لگی۔۔۔۔
لیکن ڈور لاک تھا۔۔
اسنے ساحل کی طرف دیکھا ۔
اور پھر سے کھولنے کی کوشش کی۔۔
لیکن ساحل بس اسے دیکھ رہا تھا۔۔
حریم نے پھر دیکھا۔۔
تو اسنے کھول دیا۔۔
ہممم تو جناب مجھے تنگ کر رہے ہیں۔۔
حریم نے درواذاہ بند کیا اور سیٹ سے ٹیک لگالی۔۔
ساحل نے بھی ویسا ہی کیا۔۔
دونوں ایک دوجے کی طرف دیکھنے لگے۔۔
جی تو ساحل سکندر صاحب
وہ مسکرائی۔۔
جی حریم فاطمہ صاحبہ۔۔
وہ بھی اسی کے انداز میں بولا ۔۔
کہہ کیوں نہیں دیتے۔۔حریم بولی
کیا۔۔
ساحل نے پوچھا۔۔
یہ بھی میں بتاؤں؟؟
حریم نے آنکھیں دکھائیں۔۔
بتانا تو پڑے گا آپ کو۔۔
کیا
حریم نے پوچھا۔۔
یہی کہ ۔۔۔
وہ اسکے کان کے قریب ہوا۔۔
حریم کو شرم آنے لگی۔۔۔
چنگیزخان کون ہے؟؟
اسنے پوچھا
حریم کو جھٹکا لگا۔۔۔
ساحل اسے دیکھتا کار سے اتر گیا۔۔
حریم منہ بناے اسے دیکھے جارہی تھی۔۔
یہ چنگیز خان کہاں سے آگیا بیچ میں۔۔
وہ اتری غصے سے۔۔
ساحل اسکا ویٹ کر رہا تھا
کہ تاکہ وہ آکر بتاے کہ کون سا گیٹ ہے۔۔
ورنہ اسکا کیا بھروسا
لیفٹ پہ کار رکوا کی رائیٹ والے گئٹ میں گھس جاتی۔۔
حریم آئی اور اسکے کان میں جل بولی۔۔
وہ منگول تھا۔۔
اور بیل بجائی
لیکن میرے نمبر پہ اسکا نام کیو؟؟
ساحل نے پوچھا تو حریم
کی اوپر کی سانس اوپر رہیگئی۔۔
اوہ اسے کیسے پتا چلا۔۔
اتنے میں بابا نے گیٹ کھولا۔۔
بابا وہ ان سے لپٹ گئی۔۔
حریم میری بچی۔۔
وہ بھی اسے دیکھ کہ خواہ سے چلائے
وہ ان کو دیکھ کہ ہنسنے لگا۔۔
ارے ساحل بیٹا ۔۔
وہ اسے بھی گلے لگانے لگے۔۔
جبکہ۔۔
حریم امی امی کرتی اندر بھاگی۔۔
امی اسکی آواز سن کے بھاگتی ہوئی آئین۔۔
ارے میری بچی اچانک کیسے وہ اسے لپٹاے
پوچھنے لگیں۔۔
ساحل کا ماتھا چوما ۔۔
او بچوں اندر اؤ۔۔
وہ بٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔
آج کچھ اور مانگ لیتی تو وہ بھی ملجاتا صبح ہی کیہا تیرے بابا سے کہ حریم کو چھٹی نہیں ملیگی۔۔
اسکی بہت یاد آرہی ہے۔۔
وہ بتارہی تھیں
ارے واہ کچھ اور کیوں مانگتی۔۔
مجھ سے زیادہ آپ کو کیا چاہیے۔۔
وہ انکے گلے اسے لگ گئی۔۔
ہاں میری بچی میں تو ایسے ہی کہری تھی۔۔
ساحل آپکو تنگ تو نہیں کیا اسنے ۔۔
وہ پوچھنے لگیں
تو ساحل نے کہا
ارے نہیں آنٹی بلکل نہیں۔۔
وہ اسکی طرف ہی دیکھے جارہا تھا ۔۔
امی آپکو بس لگتا ہے کہ میں ہی سبکو تنگ کرتی رہتی ہوں
ہاں نہ تجھے اچھے سے جو جانتی ہوں۔
میری بچی تو ہی تو میرے گھر کی رونق ہے۔۔
امی جزباتی ہوگئیں تھی۔۔
حریم نے انہیں دیکھ کہ انکے گلے میں بانہیں ڈالیں دیکھا کیسے جزباتی ہوجاتی ہیں میری امی۔۔
اسنے ساحل کو دیکھ کہ کہا اور عادتاً آنکھ ماری۔۔
ساحل کا منہ کھل گیا۔۔
حریم کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا۔۔
اسنے اپنے منہ پہ ہاتھ رکھا اور وہاں سے بھاگی۔۔
اپنے کمرے میں جاکر اسنے اپنا سر پیٹا۔۔
لعنت ہے حریم تجھے کتنی بار امی نے منع کیا تھا یہ منحوس عادت چھوڑ دے۔۔
کروادی نا انسلٹ اپنی
کیا سوچتا ہوگا وہ میرے بارے میں۔۔
ادھر ساحل نے ہونٹ گول کرکے سانس خارج کی اور ماتھے پہ آیا ہوا پسینہ صاف کیا۔۔
یہ لڑکی بھی نہ۔۔
اسنے مسکراہٹ چھپائی۔۔
۔۔
حریم اس کے سامنے نہیں آرہی تھی۔۔
امی نے زبردستی اسے بھیجا
کہ تجھے پتا ہے نا وہ کیسے کھاتے پیتے ہیں
انکے جیسا ہی دسترخوان لگا اور بلا لا۔۔
اوہو امی وہ بھی ہماری طرح ہی کھاتے ہیں کونسے وہ مریخ سے اے ہیں۔۔
لیکن امی نے ایک نا سنی۔۔
مجبوراً وہ گئی اور کہا
کھانا کھالیں۔۔
نگاہیں جھکی ہوئی تھیں
کس منہ سے دیکھتی اسکی طرف۔۔
ساحل اسکے قریب آیا ۔
وہ کیا تھا۔۔
کک کیا؟
وہی جو کچھ دیر پہلے...
اسنے معنی خیز انداز میں کہا۔۔
اف امی کو پتا چلا تو میرا کچومر بنا دینگی۔۔
پلیز دیکھیں یہ سب میں نے جان کہ نہیں کیا۔۔
ساحل اسکے قریب آتا جارہا تھا اور وہ پیچھے ہوتی جارہی تھی۔۔
بتادوں آنٹی کو ؟؟
وہ آبرو اچکاتے ہوے بولا۔۔
نہیں نا پلیز۔۔
اسنے کان پکڑے اور اسکو اور قریب آتا دیکھ کہ پلٹی اور بھاگی۔۔۔
ساحل کی ہنسی چھوٹ گئی جو وہ کب سے دباے ہوے تھا۔۔
اب آیا اونٹ پہاڑ کے نیچے۔۔۔
نہیں چیونٹی پہاڑ کے نیچے۔۔
اسنے اپنا محاورہ درست کرنا چاہا۔
اللہ جانے چیونٹی کہ اونٹ۔۔۔
اسنے سر جھٹکا۔۔
اور جانے لگا۔۔
وہاں سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔۔
وہ بھی بیٹھا۔۔
آنٹی آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔
وہ حریم کی طرف دیکھ کہ بولا۔۔
انداز بہت ڈرانے والا تھا۔۔
حریم نے اسے جلدی سے کھانا پیش کیا
اسکی جان جارہی تھی۔۔
امی سے
شاید وہ سب سے زیادہ امی سے ہی ڈرتی تھی۔۔
ساحل نے اسکی کمزوری پکڑ کی تھی۔۔
کھانا بہت ٹیسٹی ہے آنٹی۔۔
اسنے تعریف کی
ویسے آنٹی حریم کو بھی کچھ بنانا
آتا ہے کہ نہیں۔۔
وہ بولا
بس بیٹا یہ اسے بھی سکھاتی تو بہت ہوں مگر اللہ جانے کچھ دماغ میں جاتا بھی ہے کہ نہیں۔۔
مجھے بہت کچھ آتا ہے۔۔۔
وہ چڑ کے بولی۔۔
جی آنٹی یہ سچ کہتی ہیں انکو تو بہت کچھ آتا ہے۔۔
حریم بتاؤں آنٹی کو۔۔
وہ آنکھوں سے اشارہ کرکے بولا ۔۔
میں ابھی آتی ہوں وہ آٹھ کہ بھاگی۔۔
ساحل ہنسنے لگا ۔۔
دیکھا کیسے کام کی بات ہوتی ہے تو بھاگ جاتی ہے۔۔
امی نے کہا تو ساحل نے اپنی آنکھوں کے کنارے صاف کرتے ہوے کہا
جی آنٹی بلکل۔۔
_____________
شام کو بابا ساحل کے لیے شال لیکر اے تھے
ارے یہ کس لیے
وہ ہنسا
ارے بیٹا یہاں رات کو خنکی ہوجاتی ہے۔۔
تھینکس ماموں۔۔
وہ انکے گلے لگا۔۔
اور حریم کو دیکھ کہ اسی انداز میں ہلکے سے آنکھ ماری۔
ہاہ حریم وہاں سے بھاگی۔۔
اف یہ کھڑوس تو پیچھے ہی پڑگیا ہے پتا نہیں کونسے بدلے لیگا اب۔۔
وہ کچن میں تھی۔۔
رات کے کھانے میں ساحل نے کہا ماموں میں آپکا گاؤں دیکھنا چاہتا یوں۔۔
ہاں بیٹا کیوں نہیں۔۔
کل چلیں گے۔۔
مامی آپ بھی چلینگی نا وہ پوچھنے لگا۔۔
حریم کو حیرت کے جھٹکے لگ رہے تھے۔۔
یہ کیا سین تھا بھئی۔۔
ماموں مامی۔۔۔
وہ تو دیسی رشتوں میں آگیا تھا۔۔
اللہ خیر کرے اب۔۔
وہ سوچتی اٹھی۔۔
ساحل بابا کے ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلا تھا۔۔
اور اپنی شال گھر ہی بھول گیا۔۔
باہر جا کے احساس ہوا کہ رات واقعی ٹھنڈی تھی۔۔
وہ کافی دیر تک باہر تھے حریم انتظار کر رہی تھی۔۔
جیسے ہی وہ واپس آیا۔۔
وہ لپکی۔۔
چاۓ بناؤں آپ کے لیے۔۔۔
سوچونگا پہلے مجھے چنگیز خان کا تو کچھ بتاؤ۔۔
اوہو آپ تو پیچھے ہی لڑکے اس بیچارے کے۔۔
بھول جائیں اسے۔۔
وہ چڑ کے بولی۔۔
ہاں لیکن ایک شرط ہے۔۔۔
وہ کیا
وہ گھبرائی۔۔
کے آپ میرے لئے چاۓ بنائیں گی۔۔
وہ بھی زندگی بھر کے لیے۔۔
ارے اس میں کونسی بات ہے میں بنادوونگی وہ خوشی سے کہتی جانے لگی۔۔
ساحل نے اپنا سر پکڑا پاگل لڑکی میری لاسٹ لائن پہ غور ہی نہیں کیا۔۔
وہ چاۓ بنا رہی تھی کہ امی اگئیں۔۔
حریم چاۓ مجھے دو میں دیکر آتی ہوں تجھے تیرے بابا بلارہے ہیں۔۔
ارے امی میں کرلوںنگی آپ اندر بیٹھیں
میں بس آتی ہوں
لیکن امی نے اس کے ہاتھ سے ٹرے کی بیٹا اپنے بابا کہ پاس جاؤ وہ کب سے ترا انتظار کر رہیں ہیں۔
حریم دل۔مسوس کہ رہ گئی۔۔
اس ظالم انسان کو ایک اور بات دیکھنے کا موقع گیا۔
کہاں تو وہ اسے سے دور بھاگتی تھی۔۔
اور اب اسکے بنا چین ہی نہیں آتا تھا۔۔
وہ بابا کے پاس جانے لگی۔۔
دروازہ بجا تو ساحل شرارتی مسکراہٹ سے کھولا۔۔
لیکن حریم کی جگہ پہ مامی کو دیکھ کہ مسکراہٹ غائب ہوگئی۔۔
مامی اپنے کیوں تکلیف کی
۔۔
ارے نہیں بیٹا اس میں تکلیف کی کیا بات ہے
چاہے تو حریم نے بنائی ہے میں تو بس دینے آئی ہوں
بیٹا کچھ چاہیے تو نہیں۔۔۔
آنٹی سوری نہیں مامی کچھ نہیں چاہئے وہ مسکرایا۔۔
_ _&_&&&&&&&&&
صبح وہ اٹھا تو حریم اسے لان میں جھولا جھولتی نظر اگئی۔۔
وہ اسکے قریب گیا تو اسنے جھولا روکا۔۔
حریم مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔
اسنے کہا اور پھولوں کے ساتھ کچھ چھوٹی سی کرسیاں پڑی تھیں
ان میں سے ایک میں بیٹھا۔۔
تو حریم بھی وہیں بیٹھ گئی۔۔
ویسے تو یہ باتیں بڑوں کو کرنی چاہیے
لیکن پہلے میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں
کیوں کہ جب بات بڑوں تک پہنچ جاتی ہے تو پھر انہی کی مرضی چلتی ہے
اور میں آپ کی مرضی جاننا چاہتا ہوں
کونسی بات حریم کا دل ڈوبا۔۔
دیکھیں میں آپ سے معافی مانگ چکی ہوں۔۔
وہ گھبرا کے بولی۔۔
نہیں حریم اس بات کی معافی مشکل سے ملتی ہے۔۔
کس بات کی۔۔
آپ نے ساحل سکندر کے دل پہ قبضہ کیا ہوا ہے۔۔
اسکی نیندوں میں خیالوں میں خوابوں میں حریم ہی حریم نظر آتی ہے۔۔
پہلے تو حریم نہیں سمجھی لیکن جب سمجھ میں آیا تو اسکا رنگ گلابی ہوگیا شرم کے مارے۔۔۔
ساحل اسکی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔۔
اب بھی ڈر تھا اس کے دل میں
اگر میں آپکو ساتھ مانگ لوں تو آپ کو برا تو نہیں لگے گا۔۔
حریم نے مسکرا کہ نا میں گردن ہلائی۔۔
ساحل نے اسکی طرف دیکھا تو خوشگوار حیرت میں پڑگیا
اسکے چہرے پہ رنگ آرہے تھے ۔۔۔
میرا ساتھ قبول ہے؟؟
ہمم اسنے سر جھکا کے ہاں میں جواب دیا۔۔
سوچ لو حریم
میں بہت مشکل بندہ ہوں۔۔
وہ تو میں بھی ہوں۔۔
وہ کہنے لگی۔۔
میں غصہ بہت کرتا ہوں۔۔
میں تنگ بہت کرتی ہوں۔۔
میں رولز پہ عمل کرتا ہوں۔۔
میں رولز کو توڑتی ہوں۔۔
مجھے لبمبے بال پسند ہیں۔۔
میں لمبے ہی رکھونگی۔۔
مجھے بالوں کا نیچرل کلر پسند ہے۔۔
میرے نیچرل براؤن ہیں قسم سے۔۔
ساحل مسکرایا۔۔
اسے تنگ کرنے میں مزا آرہا تھا۔۔
اب حریم کی باری تھی
میرے ساتھ سیڑھیاں چڑھنی پڑینگی۔۔
مجھے ایکسلٹر سے خوف آتا ہے۔۔
منظور ہے۔۔
میں آپ کے ساتھ چئیر لفٹ پہ بھی نہیں بیٹھ سکتی۔۔۔
میں بھی نہیں بیٹھوں گا۔۔
میں جم بھی نہیں جاؤں گی۔۔
انہوں۔۔جم تو لازمی جانا ہوگا
مجھے فٹ فاٹ بیوی چاہیے۔۔
وہ اٹھا اور جانے لگا۔۔
حریم ہڑبڑا کے اسکے پیچھے جانے لگی
ارے رکیں۔
سینیے تو بھئ۔۔
وہ اسکے آگے آکر کھڑی ہوگی۔۔۔
مجھے سب منظور ہے بس آپ کا ساتھ چاہئے۔۔۔
ساحل اسے دیکھتا رہگیا۔۔
حریم کیا یہ سچ ہے۔۔
ہاں وہ مسکرائی
میں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔۔
وہ اسے دیکھ کہ کہنے لگا۔۔
سنو۔۔
میرے چٹکی کاٹو۔
حریم نے آدھا مسکراتے آدھا شرماتے ہوے اسکے بازو پہ کچھ زیادہ ہی زور سے چٹکی کاٹی۔۔
آہ۔۔۔۔
ساحل کی چیخ نکل گئی۔۔
ساحل نے غصے سے حریم کو دیکھا تو وہ جھٹ سے وہاں سے بھاگی۔۔
حریم کی بچی۔۔ ساحل اسکے پیچھے بھاگا۔۔
وہ غصہ نہیں تھا مگر اسے
ڈرانے میں مزا آتا تھا۔۔
آپ نے کہا تھا آپ غصہ نہیں کرینگے۔۔
وہ بولی۔۔
اور تم نے کہا تھا تم تنگ نہیں کروگی۔۔
وہ بھی اسے آنکھیں دکھا کے بولا۔۔
میں نے جان کے نہیں کیا۔۔
وہ منہ بسورے بولی
ہاں تم کچھ بھی جان کے نہیں کرتیں۔۔
اور ایک ہم ہیں کہ بدنام ہیں۔۔
وہ پھر اسے پکڑنے کو بھاگا
تو وہ غڑاپ سے اندر گم ہوگئی۔۔
ساحل اپنا بازو سہلانے لگا ۔۔
وہ خوش تھا بہت ۔۔
سمجھ نہیں آرہا تھا کیسے سبکو بتائے۔۔
کہ اسے اسکی محبت ملگئی ہے۔۔
لبوں کو دانتوں میں دبائے اپنی ہنسی روکنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔
ماموں نے دیکھا تو پوچھ نہ لیں۔۔
وہ اندر گیا تو حریم بابا کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔
وہ معنی خیز مسکراہٹ لۓ اسے دیکھتا ہوا۔۔
ان کے ساتھ ہی بیٹھا۔۔
حریم نے سر جھکا لیا کہیں وہ دیکھ نہ لے اسکی مسکراہٹ۔۔
بھلا کیا سوچیں گے ساحل کے آسکو تو زرا شرم نہیں لڑکیاں کتنا شرماتی ہیں۔۔
پاگل لڑکی۔۔
وہ اس سے نظر نا ہٹا پارہا تھا۔۔
مامی اس کے لیے ناشتہ لائی تھیں۔۔
اسے یاد آیا کہ اسنے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا اب تک۔۔
ماموں آپ لوگ چلیں گے نا آج گاؤں۔۔
وہ پوچھنے لگا
ہاں بیٹا میں نے ساری تیاری کروالی ہے وہاں پر بھی گھر صاف کردیا گیا ہے۔۔
بس اب کچھ دیر میں چلتے ہیں۔۔
حریم اندر گئی اسنے بھی اپنی تیاری کرنی تھی۔۔
وہ ساحل کا سامنا نہیں کر پارہی تھی۔۔
کیوں کہ وہ کچھ زیادہ ہی شوخ ہونے لگا تھا اب۔۔
ورنہ پہلے وہ ہر وقت مرچیں چباے رہتا تھا
تو وہ اسکی بلکل پرواہ نہیں کرتی تھی۔۔
ناجانے کیوں جب سے سے احساس ہوا تھا
اسکی محبت کا تب سے وہ نڈر ہوگئی تھی۔۔
اس سے اتنا ڈرتی نہیں تھی۔۔
جب کہ ہر کسی کو دیکھا تھا اس سے ڈرتے ہوے سواۓ سعد سکندر کے۔۔
شاید وہی حریم کی طرح ساحل کو اچھے سے جانتا تھا۔۔
حریم نے اپنا لباس تبدیل کیا۔۔
آج اسنے بلوچی ڈریس پہنا تھا
جو گاؤں میں اسکی ایک سہیلی نے اسے گفٹ کیا تھا۔۔
وائیٹ کلر کا ڈریس تھا جس میں ریڈ کر کا شیشوں کام تھا اور ریڈ دوپٹہ جس میں وائٹ کام تھا۔۔
ساحل اسکا انتظار کر رہا تھا
گئٹ سے باہر امی بابا کار میں بیٹھ چکے تھے۔۔ بس حریم کو گئٹ لوک کرنا تھا
ساحل کار سے ٹیک لگائے اسکا ویٹ کر رہا تھا
وہ باہر نکلی تو اسے دیکھ کہ ساحل مبہوت رہ گیا
اور گلاسز اتار کے اسے غور سے دیکھ نے لگا۔۔
وہ قریب آئی تو اسکی نظروں سے شرما گئی۔۔
ساحل کچھ کہنا چاہتا تھا مگر وہ جلدی سے کار میں بیٹھ گئی۔۔
ساحل بھی بیٹھا اور کار سٹارٹ کردی
۔
آج اسنے بھی وائٹ ڈریس پہنا تھا جو اس نے سکھر سے لیے تھے۔۔
اس بہت سوٹ کر رہا تھا یہ لک اس ایریا میں لوگ ایسے ہی ڈریسز پہنتے تھے۔۔
ساحل اب بھی اسے ہی دیکھے جارہا تھا۔۔
بیک ویو مرر پہ۔۔
حریم کی نظر اسے پڑی تو اسنے سٹائل سے آبرو اچکاے۔۔
حریم نے سر جھکا لیا۔۔
, دونوں کے لبوں پہ شریر مسکراہٹ تھی ۔۔
ان کے بیچ میں الفاظ ہوتے ہی نہیں تھے
بس ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی کافی ہوتا تھا۔۔
ساحل نے میوزک آن کیا۔۔
ابھی تاروں سے کھیلو
چاند کی کرنوں سے اٹھلاو۔۔
ملے گی اس کے چہرے کی سحر
آہستہ۔۔اہستہ۔۔
عاطف اسلم کی مدھر آواز میں سونگ شروع ہوا۔۔
ساحل۔مسکراتا ڈرائیو کر رہا تھا۔۔
حریم کی نظر باہر کے مناظر پہ تھی لیکن دل اسی کی طرف متوجہ تھا۔۔
یونہی اک روز اپنے دل کا قصہ بھی سنا دینا۔۔
خطاب آہستہ۔۔۔آہستہ
نظر آہستہ۔۔آہستہ۔۔
ساحل کی نظریں ونڈ سکرین پہ تھیں لیکن اسکا دل حریم کو دیکھے جارہا تھا۔۔
حریم نے دل سے مجبور ہوکر اس کی طرف دیکھا۔۔
تو اسی پل ساحل نے بھی اسے دیکھا۔۔
حریم نے سر جھکا لیا۔۔
انکا گاؤں پہنچ گیا تھا۔۔
اب وہ۔۔
کچے راستے پر تھے۔۔
دھول اٹھنےلگی تھی۔۔
وہاں ایک قطار تھی
مال مویشیوں نے سارا رستہ بلاک کیا تھا۔۔
ساحل نے ماموں کی طرف دیکھا۔۔
انہوں کے کہا بیٹا فکر نا کرو ابھی انکو ہٹا دیگا لڑکا۔۔
اور اسی وقت لڑکے نے آسانی سے ان کو ہانکا تو رستہ کلئیر ہوگیا۔۔
وہ اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔۔
ان کی کار رکتے ہی۔۔
ایک آدمی قریب آیا۔۔
سائیں۔۔
اسنے ماموں اور ساحل سے ہاتھ ملایا۔۔
اور ان کو اندر لے گیا۔۔
انکا گھر بہت بڑا تھا ۔
اور چاروں طرف پھول پودے درخت تھے
گھنے پیڑ اور پھل دار تھے۔۔
ماموں اور مامی بہت رکھی چارپائی پی بیٹھ کہ اس بندے سے زمینوں کے خبر لے رہے تھے۔۔
ایک پیڑ نے چھتری سی بنائی ہوئی تھی۔۔
ساحل اسے دیکھ رہا تھا
اس کا نام سکھ چین ہے۔۔
حریم نے پیچھے سے آکر کہا۔۔
اچھا وہ دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔۔
بہت خوبصورت ڈریس ہے۔۔
اسنے کہا۔۔
صرف ڈریس۔۔
حریم نے منہ بنایا۔۔
آپ نے بھی تو ڈریس کی ہی تعریف کی تھی۔۔
وہ سوچنے کے انداز میں بولا۔۔
جی نہیں مجھے تو آپ ہر ڈریس میں اچھے لگتے ہیں۔۔
کیوں کہ مجھے آپ اچھے لگتے ہیں۔۔
وہ اسکی شرارت نہیں سمجھی۔۔
اچھا مجھ میں ایس کیا اچھا لگا آپ کو۔۔؟
وہ اسے ہی سنتے رہنا چاہتا تھا۔۔
حریم نے اسے دیکھا۔۔
پتا نہیں۔۔
میں ۔۔
وہ آگے کہہ نا پائی۔۔
اور اسے دیکھ کہ کہا
لگتا ہے جناب کو بہت شوق ہے اپنی تعریفیں سننے کا۔۔
ابکی بار وہ بازو کمر پہ رکھ کہ اسے گھورنے لگی۔۔
پتا ہے حریم۔۔
ساحل آہستہ سے چلنے لگا
تو حریم بھی اسے ساتھ چلنے لگی
میں نے اپنی تعریف بہت سنی ہیں۔۔
لیکن سب نے میری کامیابیوں کی
میرے کام کی
میرے پرسنالٹی کی تعریف کی۔۔
کبھی مجھے ایسا نہیں لگا کہ کسی نے میرے دل کو جانا ہو ۔۔
لیکن جب میں نے آپکو دیکھا تو میرا بھی دل کیا حریم کہ میں بھی آپکی طرح سے جیوں۔۔
میں نے اپنا بچپن اپنا لڑکپن جوانی۔۔
اس مشینی زندگی کی نظر کر دی۔۔
لیکن جب میں نے آپکو دیکھا تو کچھ عجیب سی فیلنگ ائی۔۔
کوئی ایسا بھی ہے جو مجھ سے بغاوت بھی کرسکتا ہے۔۔
اور جب میں دکھی ہوں تو میرا ساتھ بھی نبھا سکتا ہے۔۔
میرے منع کرنے کے باوجود بھی مجھے اکیلا چھوڑ کے نہیں جاتا۔۔
جب اسے ڈر لگتا ہے تو وہ میرے بازو میں پناہ لیتی ہے۔۔
جب اسکا سر پھوٹتا ہے تو مجھ سے شکایت بھی کرتی ہے۔۔
جب اسے غصہ آتا ہے تو وہ مجھے کھڑوس کہہ کہ بلاتی ہے۔۔
حریم نے تھوک نگلا۔۔
اوہ اسے کیسے پتا چلا۔۔
لیکن ساحل اپنی کہتا جارہا تھا
مرے منع کرنے کہ باوجود وہ رات کو چاۓ بنانے چوری چوری جاتی ہے۔۔
لیکن پھر بھی پکڑی جاتی ہے۔۔۔
اب وہ اسے دیکھ کہ مسکرایا۔۔
وہ لڑکی جو میرے بناے ہوے رول بریک کرتی ہے۔۔
وہ مجھے جانتی ہے۔۔
وہ مجھے ایک انسان ہی سمجھتی ہے۔۔
اسے معلوم ہے کہ ساحل سکندر بھی ایک عام انسان ہے۔۔
تو اس سے ڈرنا نہیں ہے۔۔
حریم آپ نے مجھے زندگی کا ایک نیا رخ دکھایا ہے۔۔
مجھے محسوس ہوگیا ہے کہ میں آپ کے بنا نہیں رہ سکتا۔۔
مجھے آپکی ضرورت ہے ہر پل ہر دن۔۔
وہ پھولوں کے پاس سے گزر رہے تھے۔۔
حریم میں نے اپنی پسند اپنی محبت آپ پہ کھول کہ رکھ دی اب آپ کو بتانا ہوگا کہ کیا آپ بھی مجھے ایسے ہی چاہتی ہیں۔۔
وہ سینے پہ ہاتھ باندھے اسکے جواب کا منتظر تھا۔۔
ساحل۔۔
میں سچ میں آپ سے نہیں بس آپکے غصے سے ڈرتی تھی۔۔
مجھے یہ پسند نہیں تھا کہ میں میری زندگی کو کسی اور کہ طریقے یہ گزاروں۔۔
لیکن بہت جلدی ہی میں نے جانا کہ آپ ویسے ہیں نہیں جیسے دکھتے ہیں باہر سے۔۔
جب پھپھو بیمار ہوئی اس دن
میں نے آپ کو ٹوٹتے دیکھا تھا۔۔
ایک اکیلا انسان جو سب کچھ اپنے آپ پہ سہہ لیتا ہے اور اپنے باپ بھائی کسی کو نہیں بتاتا۔۔
میں نے آپ سے محبت کی ہے ساحل آپکی پرسنالٹی سے نہیں ۔۔۔
ورنہ میں پہلے دن ہی آپ پہ لٹو ہوجاتی۔۔
جیسا کہ کوئی بھی لڑکی ہوسکتی ہے آپ پہ۔۔
وہ اس کے سراپے کو دیکھ کہ بتارہی تھی۔۔
ساحل اسے محبت پاش نظروں سے دیکھا رہا تھا
کیا واقعی آپ مجھسے محبت کرتی ہیں ۔۔
وہ پھر سے اقرار چاہتا تھا۔۔
حریم نے اسے دیکھا اوردل ہی دل میں کوسا خود کو۔۔
روانی میں کیا کہہ گئی۔۔
پلیز حریم۔۔
ایک بار۔۔۔
ساحل نے آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔
بعد میں۔۔
وہ وہاں سے جانے لگی۔۔۔
تو ساحل اسے دیکھتا رہگیا۔۔
______________
ساحل بیٹا کب واپس آرہے ہو آپ اور حریم۔۔
یہاں بہت خاموشی ہوگئی ہے سعد بھی بہت ناراض ہے آپ سے۔۔
وہ زرین سے باتیں کررہا تھا۔۔
مام مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے۔ ہاں بیٹا بولو۔۔
میں
اصل میں میں آپ سے یہ کہنا تھا کہ ۔۔
وہ کہہ نہیں پارہا تھا۔۔
میں کسی کو پسند کرتا ہوں۔۔
دوسری طرف خاموشی تھی۔۔
ییلو مام۔۔
ہاں بولو بیٹا میں سن رہی ہوں۔۔
زرین کی آواز کچھ دھیمی تھی۔۔
مام کیا آپ ماموں سے میرے لیے حریم کا ہاتھ مانگ سکتی ہیں۔۔
بمشکل اسنے اپنی بات زبان پہ لائی۔
اتنا مشکل تو حریم سے اظہار بھی
نہیں تھا۔۔
کیا۔۔۔ زرین چلائیں۔۔
پیچھے سے زور کی آواز ائی۔۔
ووہہووو ہوہوو وہو۔۔۔
یہ مرال اور سعد تھے
جو ہوٹنگ کر رہے تھے۔۔
زرین بھی انکا ساتھ دینے لگیں تھیں۔۔
مام یہ چیٹنگ ہے۔۔۔
میں آپ اسے اپنا سیکرٹ شئیر کر رہا تھا۔۔
وہ مصنوعی خفگی سے بولا۔۔۔
اچھا جی سب کے سیکرٹ سنے ہیں اور اپنا چھپارہے۔۔
ویری بیڈ برو۔۔
سعد کی آواز تھی۔۔
کافی دیر تک وہ اسکی کلاس لیتے رہیے۔۔
جیسے ہی اسنے کہا تھا کہ میں کسی کو پسند کرتا ہوں تو زرین نے جلدی سے سپیکر آن کیا تھا
اور اشارے سے سعد اور مرال کو چپ رہنے کا اشارہ کیا تھا۔۔
اب تو وہ سب اسکے کان کھا گئے تھے۔۔۔
اسنے فون بند کرنے میں ہی عافیت جانی۔۔
فون رکھ کے ہنستے ہوے اسنے اپنے کان کو انگلی سے جھٹکے دیے۔۔
____________
گاؤں کی سیر میں اسے بہت مزا آیا۔۔
وہاں پہ بہت سے لڑکے جو اس کے ہم عمر تھے اسے کھیتوں کی سیر پہ لے گئے
ٹیوب ویل کا منظر اسے بہت پسند آیا۔۔
کھیتوں میں ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں میں ایک بہت اچھی خوشبو آتی تھی۔۔
وہاں کےلوگ بہت ملنسار تھے۔۔
ہر کوئی اسے چاۓ پیش کر رہا تھا
ساحل ابتک بارا چاۓ کے کپ پی چکا تھا۔۔
وہاں کا خالص دودھ اور آگ میں بنی چاۓ کا مزا کچھ اور ہی تھا۔۔
وہ گھر آیا تو
مامی نے کہا بیٹا چاہے بنو ادوں؟؟
تو اسنے جھٹ سے کہا نہیں پلیز مامی آپکو پتا ہے میں نے آج اتنی چاے پی لی ہے کہ رات کا کھانا بھی نہیں کھا سکتا۔۔
وہ چار پائی پہ بیٹھا۔۔
کوئی نہیں جی۔۔۔
یہ چاے کچھ ہی دیر میں ہضم ہو جاۓ گی ۔۔
حریم آتے ہوے بولی۔۔
امی نے آپ کے لیے۔۔
خاص فش تیار کروائی ہے۔۔
بہت مزے کی ہوتی ہے۔۔
وہ چٹخارے لیتے ہوئے بولی۔۔
آج انکو یہاں آۓ ہوے دوسرا دن تھا۔۔
مامی آپ لوگ یہاں کا اتنا بڑا گھر چھوڑ کے وہاں چھوٹے سے شہر میں کیوں رہتے ہیں۔۔
اسنے پوچھا۔
ہاں بیٹا بس یہاں پہ لائٹ کا بڑا مسلہ ہوتا ہے۔۔
اور حریم کی پڑھائی ہوتی تھی وہاں۔۔
وہاں ڈاکٹر ہاسپٹل سب نزدیک ہے۔۔
یہاں سے جانا مشکل ہوجاتا ہے راتوں کو۔۔۔ حالات اچھے نہیں ہوتے۔۔
اور آپکے ماموں کی طبیعت کا تو کچھ پتا نہیں چلتا کسی بھی وقت کبھی شوگر لو کبھی ہائی۔۔
کبھی بی پی لو کبھی ہائ۔۔
اسی لیے۔۔
وہ لوگ ابھی باتیں ہی کر رہے تھے
کی کار کا ہارن سنائی دیا۔۔
کون آگیا۔۔
مامی نے کہا۔۔
لیکن ساحل نے ہارن کی آواز پہچان لی تھی۔۔
وہ اٹھ ہی رہا تھا کہ۔۔
سعد مرال ایشال انٹر ہوے اور سین کچھ یوں تھا کہ تینوں اسے لڈیاں ڈالتے آرہے تھے جیسے کسی برات میں آۓ ہوں۔۔
مامی انکو حیرت اور خوشی سے دیکھ رہہ تھیں
لیکن کچھ سمجھ نہیں پائیں۔۔
ساحل انکے قریب گیا تو وہ کے گاتے بھی جارہے تھے۔۔
دیساں دا راجہ میرے بابل دا پیارا۔۔
ساحل نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا۔
یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔؟
وہ آنکھیں دکھانے لگا تو سعد نے اسے گلے لگا لیا۔۔
ارے آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں اور ہم ناچ بھی نہیں سکتے۔۔
سعد بولا۔۔
بیٹا تم لوگ میری برات میں نہیں آۓ ہو
مامی کیا سوچینگی۔۔
وہ ڈر رہا تھا کہ مامی نا سمجھ جائیں۔۔
تب وہ تھوڑا تمیز سے اندر آۓ
مام بھی آئی ہیں؟
مام کیسے نا آتیں بھئی۔۔
پیچھے سے وہ ہنستی ہوئی آرہی تھیں وہ انکے گلے لگا۔۔
لیکن حیرت تو تب ہوئی جب ڈیڈ کو دیکھا۔۔
وہ بھاگ کے ان سے بھی لپٹ گیا۔۔
انہوں نے بھی اسے لپٹا یا
ویلڈن ماے بواے۔۔
وہ بولے۔۔
اور پیچھے آتی حریم کو دیکھا اور ساحل کو کہا
لڑکی اچھی ہے۔۔
اور وہ خوشی سے پھر سے انکے گلے لگ گیا۔۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ڈیڈ کو بھی دلچسپی ہوسکتی ہے۔۔
ساحل انکو لیتا ہوا آیا
سب لوگ خوشی سے مل رہے تھے۔۔
ساحل بیٹا مجھے بتایا کیوں نہیں۔۔
مامی نے شکایت کی۔۔
ارے مامی مجھ تو خود علم نہیں تھا کہ یہ لوگ آرہے ہیں۔۔
وہ ہنسا۔۔
اب تو چاۓ چلیگی نہ؟
حریم نے کہا
دوڑےگی۔۔۔ساحل نے کہا۔۔
اوہو۔۔۔
سعد نے آواز نکالی۔۔
ساحل نے اسے کوہنی ماری۔۔
____________________
مام نے تو رات کو ہی بات کرلی تھی ان سے مامی ماموں بہت خوش تھے ساحل ان کو بھی بہت پسند تھا
تو منگنی کی رسم کب کریں ۔۔۔
سکندر صاحب نے پوچھا تو زرین بولیں
منگنی کی کیا ضرورت ہے میں تو ڈائریکٹ نکاح کروں گی
کیوں بھائی جان۔۔
زریں نے بڑے مان سے کہا۔۔
کیوں نہیں حریم تو اپکی ہی ہے جو آپکی مرضی۔۔
وہ سب خوش ہونے لگے اور زرین ساحل کو بتانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف جانے لگیں۔۔
ساحل نے سنا تو زرین کا ہاتھ چوما۔۔
تھینکس مام۔۔
ارے پگلے ماں کو بھی کوئی تھینکس کرتا ہے۔۔
وہ بولیں
تو کیا ڈیٹ فکس ہوئی؟؟
ساحل نے پوچھا۔۔
ہم ابھی واپس کراچی جائیں گے تیاری کرنی ہے۔۔
بہت ساری۔۔
مام مجھے ایک بات کرنی ہے آپ سے وہ زرین کے قدموں میں بیٹھا تھا
ہاں بولو
میں رخصتی بھی چاہتا ہوں۔۔
کیا۔۔؟
مام
حیرت میں پڑ گئیں۔۔
لیکن بیٹا ابھی تو وہ پڑھ رہی ہے۔۔
اور بھائی پتا نہیں مانے گے کہ نہیں۔۔
مام وہ وہیں تو پڑھتی ہیں۔۔
میری منکوحہ بن کے رہینگی۔۔
تو بیوی بن کے رہنے میں کیا حرج ہے۔۔
وہ سر کھجاتا لجاجت سے بولا۔۔
دیکھتی ہوں۔۔
_______________
___
زرین نے بہت مشکل سے منایا ان کو ۔۔
ابھی بہت چھوٹی ہے باجی آپکو تنگ کرے گی۔۔
حریم کی امی نے کہا۔۔
ارے تم بلکل فکر نا کرو ۔۔۔
میں تو چاہتی ہوں کوئ مجھے بھی تنگ کرے
وہ مسکرائی۔۔
اور مجھے کیوں کرے گی وہ تو اپنے شوہر کو تنگ کرے گی
جب وہ خود یہی چاہتا ہے تو ہم کیوں بیچ میں آئین۔۔
وہ تینوں ہنسنے لگے۔۔
حریم کا ساحل سے سامنا بند کروادیا گیا تھا۔۔
یہ کیا ہے مام؟
ساحل نے احتجاج کیا۔۔
کچھ نہیں بیٹا اس سے محبت بڑھتی ہے۔۔
آپ فکر نا کریں وہ آلریڈی پیک پہ ہے۔
۔
وہ ڈھٹائی سے ہنسا۔۔
مجھے یقین نہیں آرہا یہ وہی ساحل ہے۔۔
زرین نے ہنستے ہوے۔۔
سعد کو دیکھا۔۔
یہ حریم نے بگاڑا ہے انکو ۔۔
مرال نے لقمہ دیا۔۔
ساحل نے گھورا۔۔۔
تم سب کے پر نکل آئے ہیں میں دیکھ رہا ہوں
ہاں کیونکہ کہ ہمیں بھی اسی نے بگاڑا ہے۔۔
وہ سب ہنس دیے۔۔
_________
___
شادی دھوم دھام سے ہوئی تھی۔۔۔۔
جب حریم کو اسکے پاس بٹھایا گیا تو۔۔
دونوں کی دھڑکن۔تیز کوئی تھی۔۔
مرال نے آئینہ لایا
یہ کیا ہے؟
ساحل حیران ہوا۔۔
بھائی یہ ایک رسم ہے اس
میں دولہا دلہن ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔۔
مرال اسے بتانے لگی۔۔
اونہوں مجھے اپنی دلہن کو دیکھنے کہ لیے کسی آئینے کی ضرورت نہیں۔۔
ساحل نے اچانک حریم کا گھونگھٹ اٹھایا۔۔
جو آرسی کی رسم کے لیے ڈالا گیا تھا۔۔
ساحل اسے دیکھا۔۔
ماشاءاللہ ۔۔۔
وہ بولا۔۔۔
تو سب لڑکے لڑکیاں۔۔۔
پیچھے سے ہوٹنگ کرنے لگے۔۔
حریم کو شرم بھی آرہی تھی اور ہنسی بھی۔۔
مجھے بھی دیکھ لیں مسز حریم ساحل۔۔۔
وہ اسے کہنے لگا
حریم نے پلکیں اٹھائیں۔۔
وہ دولہا بن کے اور بھی اچھا لگرہا تھا۔۔
وہ بھی ہلکے سے بولی ماشاءاللہ۔۔
ساحل دل سے مسکرایا۔۔
مبارک ہو۔۔
ہماری شادی۔۔
آپکو بھی۔۔۔
مبارک۔۔
سلامت
ساحل شوخ ہوا۔۔
اچھا اب چھوڑ بھی دیں ان کو۔۔۔
ابھی تو اور بھی رسمیں باقی ہیں۔۔
ایک لڑکی چلارہی تھی۔۔
یہ محبت کے دشمن نہیں چھوڑنگے ہمارا پیچھا۔۔
ساحل نے اسکے گھونگھٹ سے اپنا سر نکالا۔۔
کچھ دیر میں رخصتی ہوگئی۔۔
دلہن کو جب گھر کے دروازے سے اندر لایا گیا تو رسموں نے تھکا دیا۔۔
یار کیا ہے یہ شادی ہے کوئی مزاق نہیں ۔۔
ساحل بولا۔۔
آپ چپ کریں بھائی دولہا اپنی شادی پہ نہیں بولتا۔۔
سعد نے اسے چپ کرانا چاہا۔۔
او اچھا ۔۔
میں ان دولہا میں سے نہیں ہوں۔۔
یہ دولہا تو بہت ضدی ہے بھئی۔۔
جب سے دیکھ رہے ہیں ایک بھی رسم نہیں کرنے دی۔۔
بس اپنی من مانی کیا جارہا ہے۔۔
پیچھے سے عورتیں بولے جا رہی تھی
اچھا چلو اب دلہن کو لڑکیوں اوپر لے جاؤ ساحل کی کمرے میں بہت تھک گئی ہو گی۔۔۔
زرین نے سبکو کہا ۔۔
آں ہاں۔۔
ساحل بیچ میں اگیا۔۔
میں اپنی دلہن کو خود لی جاؤنگا۔۔۔
ساحل نے اچانک حریم کو بازوں میں اٹھا لیا۔۔
وہاں سب نے خوب ہوٹنگ شروع کردی۔۔
واو۔۔
ہوووووو
کیا بات ہے۔۔۔
سب اپنی اپنی باتیں کر رہے تھے۔۔۔
جب کہ حریم کا دل پتے کی طرح کانپ رہا تھا۔۔
اسنے کان میں کہا۔۔
ڈرنا مت میں اپنی دلہن کو نہیں گراؤنگا۔۔۔
تو وہ بھی ہنس دی۔۔
وہ اسے لے جارہا تھا سب تالیاں بجاتے تھے۔۔
ساحل اور حریم دونوں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Tujhe Ishq Ho Khuda Kare Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tujhe Ishq Ho Khuda Kare written by Umme E Laila.Tujhe Ishq Ho Khuda Kare by Umme E Laila is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment