Dil E Nadan By Ayma Mughal Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Dil E Nadan By Ayma Mughal Complete Romantic Novel |
Novel Name: Dil E Nadan
Writer Name: Ayma Mughal
Category: Complete Novel
Uk میں اس وقت صبح کے 9 بج رہے تھے اور ایسے میں
ساری دنیا سے بے خبر وہ وجود اوندھے منہ بیڈ پہ لیٹے سو رہا تھا کہ معاً موبائل پہ آنے والی کال سے اس کی آنکھ کھلی تھی اس نے ادھ کھلی آنکھوں کے ساتھ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھایا تھا اور کروٹ بدل کر موبائل پہ آنے والی کال کو دیکھا تھا اور "زندگی" کے نام سے جگمگاتا نمبر دیکھ اس کے ہونٹوں پہ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ بکھری تھی_
اس نے یس کر کے فون کان سے لگایا اور خشگوار لہجے میں سلام کیا تھا_ دوسری طرف اس کی آواز سن کے ان کی ممتا کو سکون ملا تھا ایک یہی تو تھا جس کے لیے وہ جیتی تھیں ورنہ ان کے شوہر کی ڈیتھ کے بعد تو زندگی رک سی گئی تھی_ انہوں نے سلام کا جواب دینے کے بعد اس کے آنے کا پوچھا تھا اور وہ ہنس دیا تھا_
ڈئیر مام کل شام کی فلائٹ سے آ رہا ہوں واپس کبھی نہ جانے کے لیے_ پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد فون بند ہو گیا تھا_
ہلکے براؤن بال، ایش گرے آنکھیں، مغرور ستواں ناک، نا معلوم سی بئیرڈ جوانی سے بھر پور وہ 26 سال کا جواں مرد "رومان خان" تھا جسے دیکھ کر ہر کوئی آنکھیں جھپکنا بھول جاتا تھا_
وہ بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھا تھا پردے ہٹا کر باہر کا نظارہ دیکھا تھا اور انگڑائی لی تھی پھر الماری کی طرف بڑھا تھا اور اپنے کپڑے نکالنے کے بعد نہانے کے لیے واشروم میں بند ہوا تھا_ فریش ہونے کے بعد باہر آ کر اس نے اپنی گھڑی پہنی تھی اور ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال جیل کی مدد سے سیٹ کیے تھے پھر خود پر پرفیوم چھڑکا کر اپنا والٹ اور گاڑی کی چابی اٹھاتا کمرے سے باہر نکلا تھا۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
وہ تہجد پڑھ کر فارغ ہوئی تھی_
اور ہاتھ دعا کے لیے اٹھاۓ تھے_ اسے اپنے اللہ سے مانگنا اور اس پاک ذات سے رازونیاز کرنا بہت پسند تھا_ ایک وہی ہستی تو تھی جو اس کے ہر فعل سے واقف تھی_
وہ یہ سوچ کر حیران ہوتی تھی کہ لوگ کیسے نماز پڑھے بغیر اپنے اللہ سے دل لگائے بغیر رہ لیتے ہیں؟
یہ سوال اسے اکثر پریشان کیۓ رکھتا تھا_
وہ دعا سے فارغ ہوتے ہی جا کر بیڈ پہ لیٹ گئی تھی کیونکہ فجر میں ابھی وقت تھا اور پھر وہ جیسے یادوں کے دریچوں میں دور تلک نکل چکی تھی_
رومان خان جس کی ایک جھلک پہ وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی اور وہ ہارتی بھی کیوں نہ وہ تھا ہی ایسا سحر انگیز شخص جو بھی اس کو دیکھ لیتا تھا اس کے سحر میں جکڑا جاتا تھا اور وہ بھی تو اس کے سحر میں ایسی جکڑی تھی کہ پھر کبھی وہ اس سحر سے باہر نہیں نکل پائی تھی یا پھر یوں کہیں وہ نکلنا نہیں چاہتی تھی_
میرے خوابوں میں آپ کے ساتھ❤
حرم کا طواف بھی شامل ہے ❤
دور کہیں مسجد سے اذان کی آواز اس کے کانوں میں گونجی تھی اور وہ چونک کر اس کی یادوں سے باہر نکلی تھی_ وہ اٹھ کر بیٹھی تھی اور اپنا ڈوپٹہ اٹھاۓ وضو کی غرض سے واشروم کی طرف بڑھی اور وضو کر کے باہر نکلی تھی پھر ڈوپٹہ کا حجاب بنا کر نماز کے لیے کھڑی ہو گئی تھی_
اس سب سے فارغ ہو کر وہ یونی کے لیے تیار ہونے لگی تھی آج اس کا یونی کا پہلا دن تھا اور وہ بلکل بھی لیٹ ہونے کے موڈ میں نہیں تھی_
اس لیے جلدی سے تیار ہو کر ایک آخری نظر آئینے میں اپنی تیاری پر ڈالی تھی_
"علیشے شاہ"
جس کی گہری سیاہ جھیل سی آنکھیں ، کھڑی مغرور چھوٹی سی ناک جس پر تل کا نشان تھا، اور پنکھڑی کی مانند ہونٹ ، صراحی دار گردن صاف شفاف وہ بےبی پنک کلر کی فراک پہنے ہونٹوں پہ ہلکا سا پنک گلوز لگاۓ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی_
تیار ہو کر جیسے ہی وہ سیڑھیاں اترتی ہوئے نیچے آ رہی تھی شازیہ بیگم نے ایک نظر دیکھتے ہی اسے اسکی نظر اتاری تھی اور اس کی گال پہ بوسا دیا تھا بہت پیاری لگ رہی ہے میری بیٹی اللہ پاک بری نظر سے بچاۓ اور وہ ہنستے ہوئے ان کے گلے میں جھول گئی تھی_
ماما آپ کے شاہ جی نظر نہیں آ رہے جس پہ شازیہ بیگم نے اسے گھوری سے نوازا تھا جبکہ شرارت اس کی آنکھوں میں واضح نظر آ رہی تھی کہ تبھی پیچھے سے زمان شاہ نے اسے پکارا تھا اور اسے اپنے حصار میں لیا تھا_ اچھا باقی باتیں بعد میں پہلے ناشتہ کر لیں اور وہ ہنستے مسکراتے ناشتہ کرنے میں مگن ہو گئی تھی کیونکہ اسے یونی کے لئے جلدی نکلنا تھا اور اپنی جان سے پیاری دوست ایمن علیم کو بھی پک کرنا تھا_💣
پاکستان:
صبح کے وقت ماحول خاصہ پر سکون دکھائی دے رہا تھا ایسے میں اسلام آباد ائیر پورٹ سے باہر آتے ہی اس نے باہیں پھیلا کے اپنے وطن کی مٹی کی خوشبو کو اپنے اندر اتارا اور اسے محسوس کیا تھا۔ چار سال بعد اس نے اس سر زمین پہ اپنے قدم رکھے تھے۔ کیب وہ پہلے ہی بک کروا چکا تھا_
بلیک پینٹ شرٹ پہنے بازؤں کے کف لنکس فولڈ کیے ہوۓ اپنی اذلی سنجیدگی چہرے پہ سجاۓ بیگ ہاتھ میں تھامے کیب کے انتظار میں کھڑا تھا اور اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کیب اس کے پاس آ کے رکی تھی جس میں سوار ہو کر اپنی منزل کی جانب بڑھ گیا تھا۔
جی سیکٹر کے رو پوش علاقے میں گاڑی داخل ہوتے ہی ایک بنگلو کے سامنے رکی تھی_ وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے اپنی مخصوص چال چلتا قدم اٹھاتا اندر کی طرف بڑھا اور لاؤنج میں داخل ہوتے ہی اس نے ادھر ادھر نظروں کو کسی کی تلاش میں گھمایا۔۔۔۔۔
سامنے ہی زرینہ بیگم ملازموں کو کام کے بارے میں ہدایت دیتی نظر آ رہی تھیں وہ جیسے ہی پلٹی تو رومان کو دیکھ کر ان کی آنکھیں بھر آئیں اس نے آگے بڑھ کر انہیں اپنے حصار میں لیا اور ان کی پیشانی پہ بوسہ دیا تھا۔
Hey Mom.... don't do this....
اب میں آ گیا ہوں نہ یہیں رہوں گا آپ کے پاس ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔۔۔۔
زرینہ بیگم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھتے بلائیں لے ڈالی اس کی دائمی خوشیوں کے لیے دعا کی تھی۔۔۔۔
اوکے، تم فریش ہو جاؤ میں ناشتہ لگواتی ہوں۔
حمزہ نک سک سا تیار ہو کر گاڑی کی چابی اپنی انگلی میں گھماتا کمرے سے گنگناتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔
میرے سپنوں کی رانی کب آۓ گی تو۔۔۔😉
میری حسیں زندگانی کب آۓۓۓ۔۔۔۔۔۔
سامنے کا منظر دیکھتے ہی اس کی زبان کو بریک لگی بھ۔۔بھائی آپ کب آۓ۔۔۔۔۔
What a pleasant surprise....
رومان نے مسکراتے ہوئے اسے گلے لگایا اور کان سے پکڑتا بولا جب تم اپنے سپنوں کی رانی کو بلا رہے تھے رومان کی بات پر وہ گھگھیا گیا تھا بھائی وہ میں تو بس۔۔۔۔۔
رومان نے مسکراہٹ چھپاتے اسے تنبیہہ کی تھی سپنوں کی رانی کے خیالوں سے باہر نکلو اور اپنی پڑھائی پہ توجہ دو اگر اس دفعہ گریڈز اچھے نہیں آۓ تو یقیناً جو میں تمہارے ساتھ کروں گا وہ قطعی طور پر تمہیں پسند نہیں آۓ گا۔ رومان اس کا شانہ تھپتھپاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ پیچھے حمزہ کی جان اٹکا گیا تھا وہ سر جھٹکتا باہر کی طرف چل دیا۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
علیشے ایمن کے گھر کے باہر گاڑی میں بیٹھی ہارن پہ ہاتھ رکھ کر جیسے اٹھانا بھول گئی تھی۔۔۔۔ تبھی ایمن بھاگتی ہوئی آ کر گاڑی میں بیٹھی۔۔۔۔ اور پھاڑ کھانے والے انداز میں اس سے گویا ہوئی آ گئی میری ماں اب اس منحوس کو بند کر دے۔۔۔۔
اور علیشے نے کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔۔۔۔
وہ دونوں یونی پہنچ چکی تھیں۔
ہر طرف گہما گہمی تھی آج یونی میں نیو سٹوڈنٹ کی اینٹری تھی کسی کو آنے کی خوشی تھی اور کسی کو جانے کا غم_ ایسے میں 3rd semester کے وہ تینوں دوست آج پھر سے اپنی حرکتوں میں مگن تھے_
تیرا دھیان کدھر ہے 😉
یہ تیرا ہیرو ادھر ہے 😛
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ یونی کے گراؤنڈ میں کھڑا ہر آنے جانے والی نئی لڑکیوں کو دیکھ کر فقرے اچھال رہا تھا اور سب کو تنگ کر رہا تھا_
سامنے سے اسے دو لڑکیاں چلتی ہوئی نظر آئی تو وہ وجاہت کو آنکھ ونک کرتا ایک دفعہ پھر شروع ہو چکا تھا۔
سانولی سلونی ادائیں من موہنی😜
تیرے جیسی بیوٹی کسی کی نہیں ہونی😛
علیشے نے مڑ کر اسے گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔
ہیے،،،، یو۔۔۔۔
اس سے پہلے علیشے کچھ کہتی ایمن نے اس کا بازو پکڑتے وہاں سے جانے میں ہی عافیت جانی تھی۔۔۔۔
چل چھوڑ نہ یار حمزہ آج کے دن اتنا کافی ہے باقی کا کل کر لینا چلو اب کلاس شروع ہونے والی ہے تجھے پتہ ہے نہ اس بڈھے پروفیسر کا وہ ایک منٹ بھی لیٹ برداشت نہیں کرتا اور کلاس سے باہر نکال دیتا ہے وجاہت نے اس کا بازو پکڑتے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا اور حمزہ کے ساتھ علی بھی منہ بنا کر اس کی تقلید میں چل پڑا_
وہ اپنی کلاس میں پہنچ چکے تھے صد شکر کہ پروفیسر ابھی تک آۓ نہیں تھے انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور اپنی اپنی جگہ سنبھال گئے_ اتنے میں پروفیسر کی اینٹری ہوئی اور سب ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے پروفیسر صاحب نے سب کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پڑھانا شروع کر دیا_
جیسے ہی کلاس ختم ہوئی تو علی نے کہا چلو کینٹین چلتے ہیں کچھ کھا لیں یار میں نے ناشتہ بھی نہیں کیا تھا حمزہ نے ٹیڑھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا جیسے اسے یہ بات ہضم نہ ہوئی ہو کہ علی اور ناشتہ نہ کر کے آۓ تو حمزہ کے دیکھنے پہ علی گھگیا گیا وہ اس کی نظروں کا مفہوم اچھے سے سمجھ چکا تھا_ اس سے پہلے دونوں پھر سے شروع ہوتے وجاہت نے لقمہ دیا کہ بھوک تو اسے بھی بہت لگی ہے اور اس سے پہلے میں بیہوش ہو جاؤں کچھ کھا لیتے ہیں اور اس بات پہ باقی دونوں کا قہقہہ گونجا تھا ہممممممم۔۔۔۔۔ میری نازک کلی تم کہتے ہو تو چلتے ہیں حمزہ کہتے اٹھا تھا اور اپنے اپنے بیگ کندھوں پہ ڈالے وہ کینٹین کی طرف چل دیے تھے
رے میری جان___
میری گول گپو ایسے ناراض نہیں ہوتے
ایمن کب سے اسے منا رہی تھی دیکھو اب اگر تم نہیں مانی تو میں چلی جاؤں گی یہ کہہ کر وہ ناراضگی سے رخ موڑ گئی اسے پتہ تھا کہ وہ اس کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی_ ایمن کے رخ موڑتے ہی علیشے نے پیچھے سے اسے گلے لگایا پیار سے اور آواز دی تھی جس کا مطلب تھا کہ وہ مان گئی ہے_ پھر وہ دونوں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب چل دی تھیں۔
ایمن علیم ایک مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی تھی_ سانولہ رنگ، جس میں کشش تھی بڑی بڑی کالی آنکھیں، تیکھے تیکھے نین نقوش اور زندہ دل زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے والی لڑکی جو سکالر شپ کی بنیاد پہ یونی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے آئی تھی_
جیسے تیسے کر کے پہلا دن گزرا تھا اور یونی سے تھکی ہاری وہ گھر واپس پہنچی اور شازیہ بیگم سے لپٹی تھی_
ماما بہت بھوک لگی ہے یار جلدی سے کچھ کھانے کو دے دیں__
شازیہ بیگم نے اس کا ماتھا چوما۔۔۔۔ اوکے ماما کی جان آپ فریش ہو جاؤ میں کھانا لگواتی ہوں_
علیشے ان کی گال پہ بوسہ دیتے اوپر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی اور پیچھے شازیہ بیگم مسکرا دی تھیں۔۔
یہی تو تھی ان کے گھر کی رونق_
ان کا کل اثاثہ__
منتوں مرادوں سے مانگی گئی ایک رحمت__
بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں۔۔۔
والدین کا غرور ہوتی ہیں۔۔۔
لوگ دعاؤں میں بیٹے مانگتے ہیں لیکن زمان شاہ اور شازیہ بیگم نے بیٹی مانگی تھی_
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
زمان صاحب آفس میں بیٹھے کسی فائل کی ورق گردانی میں مصروف تھے کہ دروازہ نوک ہوا_
یس کمنگ۔۔۔
زمان شاہ نے جیسے ہی سر اٹھا کر آنے والی ہستی کو دیکھا تو غصے سے رگیں تن گئیں۔۔۔۔
بلال جہانگیر تم۔۔۔۔۔۔
ہاں میں۔۔۔۔ تمہے کیا لگا میں پیچھے ہٹ جائوں گا آئبرو اچکاتے جیسے استفسار کیا تھا۔۔۔
چلے جاؤ یہاں سے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں جو تم چاہتے ہو وہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔
آہاں۔۔۔۔۔ میں نے سنا ہے تمہاری بیٹی بہت خوبصورت ہے
اس نے خباثت سے زمان شاہ کی طرف آنکھ ونک کی تھی۔
علیشے کے بابت سن کے ان کے چہرے پہ خوف سے سایہ لہرایا تھا۔۔۔۔
خیر میں چلتا ہوں،،،،امید ہے میری بات پہ ایک دفعہ سوچو گے ضرور نہیں تو نتائج کے ذمہ دار تم خود ہو گے۔۔۔۔۔ وہ قہقہہ لگاتا باہر کی طرف چل دیا تھا۔
زمان صاحب سر ہاتھوں میں گراۓ گہرا سانس بھرتے چئیر پر بیٹھے تھے کہ اچانک آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔
رومان جو انہیں ملنے کی غرض سے ان کے آفس آیا تھا ان کو ایسی حالت میں دیکھتے فوراً ان کی طرف لپکا اور سہارا دیتے اٹھاتے اپنی گاڑی تک لایا اور ہوسپٹل کی جانب روانہ ہوا تھا۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد کچھ ضروری ہدایت جاری کرتے انہیں گھر جانے کی اجازت دے دی تھی۔
"وہ تم نہ تھے اک خیال تھا۔۔۔
میری سوچ کا ہی وہ کمال تھا۔۔۔۔"
"وہ "محبتیں" وہ "چاہتیں "
میری الجھنوں کا ہی جال تھا۔۔۔۔"
"میرے دل میں تھی جو "رونقیں"
وہ تیرا حسن و جمال تھا۔۔۔۔"
"وہ آج ملا تو یوں لگا۔۔۔۔
یہی تو ہے جس کا انتظار تھا۔۔۔۔"
"اسے یاد کیسے نہ کرے کوئی
اسے "بھولنا" تو محال تھا۔۔۔۔"
"اب اس کی کیا مثال دوں___
وہ آپ اپنی مثال تھا۔۔۔۔"
علیشے جیسے ہی عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی دماغ میں آج کے ہوئے واقعہ کا منظر گھوما تھا پھر جیسے شرمندگی نے آن گھیرا اور آنکھوں میں نمی سی جاگی دل کو کسی طور سکون میسر نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
معاً موبائل پہ آنے والی کال نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔۔۔۔
بد دلی سے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑا موبائل اٹھا کر دیکھا جس پہ ایمن علیم کا نام لکھا جگمگا رہا تھا۔۔۔۔
فون یس کر کے کان سے لگایا تھا۔۔۔۔۔اسلام و علیکم!! ایمن کی پرجوش آواز گو نجی تھی۔۔۔
لیشو مجھے تمہے کچھ بتانا ہے پرسوں یونیورسٹی میں ہمارے لیے ویلکم پارٹی رکھی گئی ہے میں تو بہت ایکسائیٹڈ ہوں اور اس چوزے کو تو میں۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف علیشے کو اتنی خاموش دیکھ کر اس کی پٹر پٹر چلتی زبان کو بریک لگی تھی اسے کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔۔۔
Alishy.... Are you ok....?
ایمن کے پوچھنے پر وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئی تھی اور اپنی لاشعوری پر افسوس کیا تھا۔۔۔۔
ہاں میں بالکل ٹھیک۔۔۔۔۔ گڑبڑا کر جواب دیا تھا
تم بتاؤ کیا کہہ رہی تھی خود کو نارمل کرتے اس سے پوچھا تھا۔۔۔
اس سے پہلے وہ کچھ کہتی پیچھے کسی کی پکار پر وہ علیشے سے کل بات کرنے کا کہہ کر فون بند کر گئی تھی۔۔۔۔
رومان جب سے شاہ ہاؤس سے نکلا تھا بے مقصد اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں پہ گاڑی گھما رہا تھا۔۔۔
بار بار آنکھوں کے سامنے اس کا نین کٹوروں سے بھرا چہرہ جھلک دکھلانے آ جاتا تھا جس کی آنکھوں میں ایک ان کہی داستان تھی کئی دفعہ سر جھٹکنے پر بھی وہ یہ سب بھول نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔
آخر تھک ہار کر گاڑی کا رخ گھر کی جانب موڑا تھا۔۔۔
گھر میں داخل ہوتے ہی سامنے زرینہ بیگم کو اپنے انتظار میں بیٹھے دیکھ چونکا تھا۔۔۔۔
مام آپ سوئیں نہیں ابھی تک۔۔۔ کھانا کھایا آپ نے۔۔۔۔۔
تمہارا انتظار کر رہی تھی_سوچا دونوں مل کر کھائیں گے_
مجھے بھوک نہیں ہے آپ کھانا کھا کر سو جائیں وہ یہ کہتے سیڑھیاں چڑھ گیا تھا۔۔۔
وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی یہ حالت زرینہ بیگم دیکھیں کیونکہ وہ زیادہ دیر خود پہ قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔۔۔
کمرے میں آتے ہی فریش ہونے چلا گیا اور باہر آ کر لائیٹ آف کرتے بیڈ پہ لیٹا ۔۔۔۔ یہ تو کنفرم تھا کہ نیند جلدی نہیں آۓ گی۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
یہ کوئی شہر سے باہر ایک فارم ہاؤس تھا جہاں آبادی نہ ہونے کے برابر تھی۔۔۔
گاڑی کا ہارن سنتے ہی چوکیدار نے دروازہ کھولا اور گاڑی پورچ میں جا کے رکی_ ایک لمبا تڑنگا شخص باہر نکلا تھا اور اندر کی جانب بڑھا جہاں ایک اور نفوس بیٹھا اس کی راہ تک رہا تھا۔۔۔
ویلکم ویلکم شابی دادا۔۔۔۔۔
تمہارا ہی انتظار تھا مجھے۔۔۔۔
بِلو نے چاپلوسی کے انداز میں اس کی خوشامد کی تھی جس پر وہ بھی دانت نکوستے بری سی ہنسی ہنسا تھا۔۔۔۔
آؤ بیٹھو جب سے تم گئے سب پھیکا پھیکا سا ہو گیا ہے کوئی پھل جھڑی ہاتھ نہیں لگی نہ شامیں رنگین ہوئی بِلو نے خباثت بھرے لہجے میں آخر میں افسوس سے کہا تھا۔۔۔۔
شابی دادا نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور فون نکال کر کسی کو کال ملائی تھی۔۔۔
اگلے دس منٹ میں ایک مست مال اس ایڈریس پر پہنچا دینا اور اپنا پیسہ وصول لینا۔۔۔
اس نے کمینگی سے کہا اور فون بند کر دیا۔۔۔۔
لو تمہارا کام ہو گیا اب یہ بتاؤ میرا کام ہوا کہ نہیں۔۔۔۔
بِلو دادا جو کہ اس کی پہلی بات پہ خوش ہوا تھا دوسری بات پہ سٹپٹا گیا۔۔۔۔
ہو جاۓ گا وہ کام بھی لیکن کچھ وقت لگے گا۔۔۔
جس پہ سر ہلاتے اس نے اسے جانے کا عندیہ دے دیا تھا۔۔۔۔
اس کے جاتے ہی وہ کچھ سوچ کر کہیں جانے کے لیے اٹھا تھا۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رات کے وقت وہ بیڈ پہ لیٹے ایک بازو کو سر کے نیچے فولڈ کیے دونوں پاؤں جھلاتے فون میں مصروف دکھائی دے رہا تھا کہ اچانک کال آنے پر وہ اٹھ کر بالکونی کی طرف بڑھا تھا اور فون سننے لگ گیا۔۔۔۔
یس حمزہ خان سپیکنگ۔۔۔۔
دوسری جانب کی ساری بات سنتے اوکے کہہ کر فون رکھا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔۔
بالوں کو تولیے سے رگڑتے وہ باہر نکلا پھر اپنی کچھ مخصوص چیزیں اٹھاۓ بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
اسے جلد سے جلد اپنے ٹارگٹ تک پہنچنا تھا۔۔۔۔
"میں نے کہا وہ اجنبی ہے
دل نے کہا یہی تو دل لگی ہے"
"میں نے کہا وہ سپنا ہے
دل نے کہا پھر بھی اپنا ہے"
"میں نے کہا وہ ایک پل کی ملاقات ہے
دل نے کہا وہ تو صدیوں کا ساتھ ہے"
"میں نے کہا وہ میری ہار ہے
دل نے کہا آخر یہی تو پیار ہے"
بالوں کو جوڑے کی شکل دیے پین ہونٹوں میں دباۓ اپنے سامنے بیڈ پہ سب کاغذ بکھراۓ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کچھ لکھ رہی تھی۔۔۔ اور آخر کار اسے یہ غزل مل گئی تھی۔۔۔
ایمن نے یہ غزل اپنی ڈائری میں نوٹ کی تھی اور پھر کچھ سوچتے ہوئے سب سمیٹ کر کھڑکی کے پاس آ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
چاند کو دیکھ کر اسے ایک انجانی سی کشش محسوس ہوتی تھی_ اس کی ٹھنڈک کو وہ اپنے دل میں اترتا محسوس کرتی عجیب سی راحت ملتی تھی اسے۔
کافی دیر کھڑے رہنے کے بعد وقت کا خیال کرتے وہ واپس بیڈ پر آ کر خود پہ آدھا کمفرٹ لیے نیند کی وادیوں میں چلی گئی تی۔۔۔۔
صبح اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا گھڑی سات بجا رہی تھی نماز کا وقت بھی نکل چکا تھا جس کا اسے بہت افسوس ہوا۔۔۔۔ سر بھی شدید کر رہا تھا۔ اٹھ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور سائیڈ ٹیبل سے فون اٹھا کر دیکھا جہاں ایمن کی پانچ مسڈ کالز اور بیس میسجز دیکھ کر اس کی نیند بھک سے اڑی تھی_ جلدی سے اسے میسج کا ریپلاۓ دے کر اٹھ کر فریش ہونے چلی گئی تھی___
زمان شاہ صوفے پہ بیٹھے اخبار کا مطالعہ کرنے میں مصروف تھے جبھی علیشے ان کے پاس آ کر بیٹھی تھی___
اسلام و علیکم بابا۔۔۔ لاڈ سے وہ ان کے بازؤں کے حصار میں گھسی تھی__ آج آپ آفس نہیں گئے__؟
وعلیکم اسلام میرا بچہ۔۔۔ انہوں نے بھی اخبار چھوڑ کر اسے اپنے بازؤں کے گھیرے میں لیا اور ماتھے پہ پیار کیا تھا۔۔۔
آج میرا بچہ یونیورسٹی نہیں جاۓ گا کیا۔۔۔۔؟
جانا ہے بابا لیکن آج یونی میں ہماری ویلکم پارٹی ہے تو لیٹ جاؤں گی_ اس نے مسکراتے جواب دیا تھا۔۔
شازیہ بیگم ڈائیننگ ٹیبل پر ناشتہ لگا رہیں تھیں ساتھ ساتھ باپ بیٹی کے پیار بھرے مظاہرے دیکھ کر مسکرا بھی رہی تھیں۔۔۔
اب آپ دونوں آ کر ناشتہ کر لیں باقی باتیں بعد میں کر لیجیے گا۔۔۔ جس پر دونوں باپ بیٹی شرافت سے اٹھ کر ڈائیننگ ٹیبل پر آ گئے___
علیشے نےجلدی سے ناشتہ کیا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تیار ہونے کی غرض سے__
آف وائیٹ اور مہرون کلر کی فراک پہنے___ لائیٹ گرے لینز لگاۓ۔۔۔۔کانوں میں چھوٹے چھوٹے آویزے پہنے۔۔۔۔۔ بالوں کو ہلکے سے کرل ڈالے____لائیٹ مہرون لپسٹک لگاۓ_____کندھوں پہ ڈوپٹہ گراۓ۔۔۔ وہ بے تحاشہ حسین لگ رہی تھی_ناک پہ بنا تل مزید اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا تبھی شازیہ بیگم اس کے کمرے میں آئیں اسے تیار دیکھ کر بے ساختہ اس کی نظر اتاری تھی__
جس پر مسکراتے علیشے جلدی سے ان کو باۓ بولتی یونی کے لیے نکلی تھی راستے سے اپنی ایمو کو بھی پک کرنا تھا اس نے۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رومان بالوں کو تولیے سے رگڑتا فریش ہو کر باہر نکلا تھا۔۔۔
گرے کلر کا تھری پیس پہنے___
بالوں کو برش کی مدد سے سیٹ کر کے اپنے اوپر پرفیوم چھڑکا۔۔۔۔
ہاتھ پہ مہنگے برینڈ کی گھڑی پہنے وہ مردانہ وجاہت کا شاہکار لگ رہا تھا۔۔۔۔ اپنی تیاری کو فائنل ٹچ دیتا کار کی کیز اٹھاۓ اپنا وائیلٹ اٹھاۓ نیچے آیا تھا۔۔۔
نیچے آتے ہی وہ ڈائیننگ ٹیبل کی طرف بڑھا اور کرسی گھسیٹ کر بیٹھا جہاں زرینہ بیگم اس کے انتظار میں ہی بیٹھی تھیں رومان کے آتے ہی ناشتہ اس کے سامنے رکھا۔۔۔۔جسے وہ خاموشی سے کرنے لگا۔۔۔
حمزہ جو ابھی ابھی سو کر اٹھا تھا ڈائیننگ پہ آتے ہی باسکٹ سے سیب اٹھا کر کترنے لگا اور کرسی پہ بیٹھ گیا۔۔۔ جس پر زرینہ بیگم نے اسے گھوری سے نوازا تھا۔۔۔
جو بغیر فریش ہوئے آ کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
کیا مام۔۔۔ اب اپنے معصوم سے بیٹے کو گھورنا بند کر دیں۔۔۔۔
ایسے لگ رہا جیسے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہو۔۔۔۔ اس کی بات پہ زرینہ بیگم نے اسے زور دار جھانپڑ رسید کیا تھا۔۔۔
ہاۓۓۓۓ۔۔۔۔ مام میرا کندھا ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔
زرینہ بیگم نے تاسف سے سر ہلایا جیسے یہ نہیں سدھر سکتا۔۔۔۔
البتہ رومان ہنوز اپنے ناشتے میں مصروف تھا۔۔۔۔
رومان کو چپ بیٹھا دیکھ کر اس کی شرارت رگ پھڑکی تھی_
مام۔۔۔ مجھے ایک عدد بھابھی لا دیں اب میں بھی دیور بننے کا شرف حاصل کر لوں۔۔۔ جو مجھے اچھے اچھے کھانے بنا کے کھلائیں پھر جلدی سے مجھے چاچو بناۓ۔۔۔۔
جس پر رومان نے سر اٹھا کر اسے زبردست گھوری سے نوازا تھا۔۔۔۔
جسے حمزہ سرعت سے اگنور کر گیا۔۔۔
آپ کا بھی دل لگا رہے گا۔۔۔۔ اور گھر میں رونق بھی لگ جائے گی۔۔۔۔ کیا خیال ہے۔۔۔
پھر ہی میرا نمبر بھی آۓ گا۔۔۔ وہ منہ میں بڑبڑایا تھا۔۔۔
جبکہ زرینہ بیگم نے بھی سوچ رکھا تھا کہ آج یا کل وہ رومان سے اس بابت بات کریں گی۔۔۔
رومان حمزہ ٹھیک کہہ رہا ہے تمہے کوئی پسند ہے تو بتا دو ورنہ میری نظر میں ایک لڑکی ہے__ اب تمہے بھی شادی کر لینی چاہیے۔۔۔
ایک عرصہ ہو گیا اس گھر میں خوشیوں کو آۓ۔۔۔
رومان کی آنکھوں کے سامنے جھٹ سے علیشے کا خفگی بھرا چہرہ ابھرا تھا۔۔۔ جبکہ وہ اس کو یاد کر کے مسکرایا تھا۔۔۔
دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے مام۔۔۔ حمزہ پھر شرارت سے گویا ہوا تھا۔۔۔ جس پر رومان کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔۔
مام جلد ہی آپ کو بتا دوں گا اس بارے میں۔۔۔۔ لیکن ابھی مجھے دیر ہو رہی ہے آفس کے لیے میں چلتا ہوں۔۔۔
وہ کرسی کو پیچھے دھکیلتا اٹھ کر باہر کی طرف چل دیا۔۔۔
اور پھر حمزہ بھی یونیورسٹی کی ویلکم پارٹی کا سوچ کر تیار ہونے کمرے میں چلا گیا۔۔۔
نیوی بلیو اور گرے کلر کی پینٹ شرٹ پہن کر بالوں کو نفاست سے سیٹ کیے وہ نک سک سا تیار ہو کر داخلی دروازے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔
آج کے دن کے لیے اس نے بہت کچھ سوچاتھا اور ایمن کے تاثرات کا سوچ کر جھرجھری لی تھی۔۔۔
اسے تو پتہ ہی نہیں چلا کب وہ اس سانولی رنگت میں بھی کشش رکھنے والی ایمن علیم کا اثیر ہو گیا تھا کہ اب وہ اسے خود سے دور نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ وہ خود حیران تھا اپنے دل میں اس پنپتے احساس کو جان کر۔۔۔۔۔ دل ہمک ہمک کر اس کی خواہش کرنے لگا تھا۔۔۔
آج کے دن وہ اسے پرپوز کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
یہ پرانی فیکٹری کا کوئی بوسیدہ سا علاقہ تھا۔جہاں ایک کھنڈر نما کمرے میں کچھ لڑکیاں بری سی حالت میں پڑی ہوئیں تھیں___ دروازہ کھولتے وہ اندر داخل ہوا اور خباثت سے ہنستے ہوئے ان لڑکیوں کی جانب دیکھا۔۔۔جو ایک سے بڑھ کر ایک حسین تھی۔۔۔
پھر بِلو نے شابی کو فون پر کام ہو جانے کی اطلاع دے دی تھی___
جس پر اس نے خوش ہوتے اسے بھاری رقم دینے کا کہہ کر کھٹاک سے فون رکھا۔۔۔
اب وہ جلد سے جلد ان لڑکیوں کا کام تمام کر کے کروڑوں میں کھیلنے کے خواب دیکھ رہا تھا۔۔۔
یہ سوچے بغیر کے برے کام کا نتیجہ برا ہی ہوتا ہے ۔۔۔
ان جیسے درندوں کی رسی اللہ ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے اور جب ایسے شیطان صفت لوگوں کی رسی اللہ کھینچتا ہے تو بڑے سے بڑا ظالم بھی پناہ مانگتا ہے۔۔۔۔
وہ روتی ہوئی ہال کے دروازے تک پہنچی جہاں علیشے پریشان سی صورت لیے اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا ایمن کیوں رو رہی ہو۔۔۔؟
اس بندر نے کیا کہا تمہے بتاؤ مجھے میں ابھی اس کا منہ توڑ کے آتی ہوں۔۔۔ علیشے غصے سے بولی۔۔۔
ایمن نفی میں سر ہلاتی اس کا بازو پکڑے یونی کے پارکنگ ایریا کی طرف تیز تیز چلنے لگی۔۔۔
مجھے بس گھر چھوڑ دو میں اکیلی رہنا چاہتی ہوں پلیز۔۔۔
جبکہ علیشے نے اس کی حالت کے پیش نظر خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا اور بعد میں بات کرنے کا سوچتے ہی گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب چل دیں __
"چھلک جاتے ہیں جب آنسو آنکھوں سے
سنا ہے آبشاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے "
ادھر دوسری طرف حمزہ اب تک سکتے کی حالت میں منہ پہ ہاتھ رکھے وہیں کھڑا تھا ایک آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کر نکلا تھا۔۔۔
وجاہت اور علی دونوں اس کے پاس پہنچے تھے۔۔۔
یہ کیا حرکت تھی حمزہ۔۔۔۔؟
اسے سب کے سامنے سے ایسے لانے کی کیا ضرورت تھی_ علی تھوڑا سخت لہجے میں اس سے گویا ہوا۔۔۔
لیکن وہ سردوسپاٹ چہرہ لیے یوں ہی کھڑا رہا۔ وجاہت کو اس کی خاموشی کھٹکی تھی ۔۔۔
وہ دونوں کو وہیں چھوڑتا غصے سے بغیر کوئی جواب دیے لال انگارہ آنکھیں لیے وہاں سے نکل گیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی زن سے بھگا لے گیا۔۔۔
گھر پہنچتے ہی وہ سیدھا اپنے کمرے میں گیا،،، غصے میں سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔
بالوں کو زور سے مٹھی میں جکڑے وہ ضبط کی انتہا پہ تھا۔۔۔ سوچا کیا تھا اور ہوا کیا۔۔۔۔؟
زرینہ بیگم جو باہر سے ابھی آئیں تھیں شور کی آوازیں سنتے دھڑکتے دل کے ساتھ حمزہ کے کمرے کی جانب بڑھیں۔ جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا تو کمرے کی حالت دیکھتےحیرت میں غوطہ زن ہوئیں اور کھڑکی کے پاس کھڑے حمزہ تک پہنچیں کیونکہ وہ تو بہت کول مائنڈیڈ بچہ تھا۔۔۔
کیا ہوا مام کی جان۔۔۔
یہ کیا حالت بنا رکھی ہے کمرے کی اور خود کی۔۔۔
ابھی وہ کچھ اور بولتیں کے حمزہ کا فون چنگھاڑا تھا۔ جھک کر فون کارپٹ سے اٹھایا جو غصے میں پٹک دیا تھا۔ یس کر کے کان سے لگایا۔۔۔ خاموشی سے فون سن کر اوکے بولا اور وارڈروب سے کپڑے نکالے فریش ہونے چلا گیا۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رومان زمان شاہ کو لیے گھر پہنچا اور انہیں صوفے پہ بیٹھاۓ ان کے پاس ہی جگہ سنبھال گیا۔۔۔
انکل آخر کیا پریشانی ہے آپ مجھے بتائیں یہ کون روز روز آپ کے آفس کے چکر لگاتا ہے_ وہ فکر مند لہجے میں بولا۔۔۔
رومان کی اتنی فکر پہ زمان شاہ کی آنکھیں نم ہوئیں_
اچانک ذہن میں ایک خیال آیا تھا علیشے کی شادی کا رومان انہیں بیسٹ آپشن لگا تھا اپنی گڑیا کے لیے_
وہ جلد ہی رومان سے اس بابت بات کرنے کا تہیہ کر بیٹھے تھے۔۔۔
کیونکہ بِلو دادا سے کچھ بعید نہیں تھا کہ جو کہہ کر گیا تھا کر بھی جاتا۔۔۔
وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھے جب رومان نے انہیں کندھے پہ ہاتھ رکھے اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔ تبھی شازیہ بیگم چاۓ لیے وہاں آئی تھیں_
چاۓ پیتے ادھر ادھر نظر گھمائی کہ شاید وہ دشمن جاں نظر آ جائے لیکن مایوس سی نگاہیں واپس لوٹ آئیں تھیں_ زمان شاہ کو وہ اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتا بے دلی سے جانے کے لیے اٹھا تھا۔۔۔
گیٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ سامنے سے آنے والی ہستی سے زور دار تصادم ہوا۔ اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی رومان نے اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھے اسے گرنے سے بچایا تھا۔۔۔ علیشے نے گرنے کے ڈر سے زور سے آنکھیں میچے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں جکڑ لیا تھا۔۔۔
رومان تو اس کے حسین سراپے کو دیکھ کہیں کھو سا گیا۔ وہ سجی سنوری اس کی باہوں میں مقید اس کے دل پر بجلیاں گرا رہی تھی_
علیشے نے جیسے ہی آنکھیں کھولیں رومان کی نظروں کو خود پہ محسوس کرتے پھر سے آنکھیں میچ لیں_ اب اسے آنکھیں کھولنا دنیا کا مشکل ترین مرحلہ لگ رہا تھا دل نے الگ 4G کی سپیڈ پکڑ لی تھی_
اس کی اس حرکت پہ رومان کے لب ہولے سے مسکراۓ اور دل چاہا کہ وہ ساری زندگی اسے ایسے ہی باہوں میں بھرے رکھے۔۔۔
اس دل کا کہا مانو،، اک کام کر دو
اک بے نام سی محبت میرے نام کر دو
میری ذات پر فقط اتنا احسان کر دو
کسی دن صبح کو ملو اور شام کر دو
شازیہ بیگم کی آواز پہ دونوں ہوش کی دنیا میں واپس آۓ تھے۔۔۔
علیشے میری جان لگی تو نہیں آپ کو۔۔۔؟
جس پہ دونوں ہڑبڑا کر سیدھے ہوئے تھے۔۔۔
نہیں ماما میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔
میں چینج کر کے آتی ہوں_ وہ یہ کہتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔۔۔
رومان بھی مسکراتا ہوا اللہ حافظ کہتا وہاں سے نکل گیا_وہ گھر جا کر آج زرینہ بیگم سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
یہ ایک کم گنجان آباد علاقہ تھا جہاں ایک پرانے طرز کی بنی فیکٹری میں ایک بوسیدہ سا کمرے میں لڑکیوں کو چھپا کے رکھا ہوا تھا۔۔۔
بظاہر تو یہ فیکٹری کئی سالوں سے بند تھی لیکن کون جانتا تھا کہ یہاں کونسا کالا دھندا چل رہا ہے_
لوگوں کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے معصوم لڑکیوں کو اغواء کر کے ان کی عزتوں کا سودا کیا جاتا ہے___
ایسے میں وہ تین نفوس اپنے ٹارگٹ کو مد نظر رکھتے احتیاط سے اس جانب بڑھ رہے تھے وہاں پہنچتے ہی انہوں نے اپنے پلان کو پھر دھرایا تھا۔۔۔
وجاہت تم فیکٹری کی بیک سائیڈ سے اندر جاؤ گے اور علی تم میرے ساتھ سامنے سے وار کرو گے پھر جیسے ہی حالات تھوڑے کنٹرول میں آئیں گے تم گاڑی میں لڑکیوں کو لے کر یہاں سے نکل جانا باقی میں اور وجاہت سب سنبھال لیں گے گوٹ اٹ۔
یس شیور۔۔۔
یہ کہتے ہی وہ تینوں فیکٹری کے اندر داخل ہوئے اور صورتحال کو جاننے لگے۔۔۔
دو لوگ ایک طرف بیٹھے تاش کھیل رہے تھے جبکہ ایک آدمی کمرے کے باہر بیٹھا سگریٹ پہ سگریٹ پھونک کر پہرے داری کر رہا تھا جہاں لڑکیوں کو بند کیا ہوا تھا۔۔۔
اوۓ شیدے آ جا تو بھی ایک بازی ہو جائے پھر ان منحوس ماریوں کو بھی ٹھکانے لگانا ہے۔۔۔ بوس کا فون آ گیا ہے_
یہ خفیہ اڈا ہونے کی وجہ سے زیادہ لوگ پہرے پہ موجود نہیں تھے_
شیدا بھی اٹھ کر ان کے پاس آ بیٹھا تھا۔۔۔
جس کا فائدہ وجاہت نے اٹھایا کیونکہ وہ لوگ کمرے سے زرا اوجھل ہو کر بیٹھے تھے۔۔۔ اس نے سائلنسر لگی گن سے کمرے کا تالا توڑا اور اندر داخل ہوا جہاں لڑکیوں کو بہت بری حالت میں مار پیٹ کر کے ادھ موا کر رکھا تھا۔۔۔
بڑی ہوشیاری سے وہ سب کو وہاں سے نکال رہا تھا کہ ایک لڑکی جس کا پاؤں بری طرح زخمی تھا کسی چیز سے ٹکرایا جس پر اس کی چیخ نکل گئی وہاں وہ جو تاش کھیلنے میں مصروف تھے چیخ سن کر کمرے کی طرف بھاگے اور سامنے نقاب پوش کو دیکھ کر اس کی طرف لپکے۔۔۔ دو نے وجاہت کو قابو کیا اور ایک نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا تھا۔۔۔
حمزہ اور علی جو چھپ کر کھڑے اپنے پلان پر عمل کرنے کا سوچ رہے تھے شور کی آواز پہ دونوں فوراً باہر نکلے اور ان کو کوئی موقع دیے بغیر ایک ایک کو دبوچ لیا۔
دونوں کو ابدی موت کی نیند سلا کر تیسرے کی طرف بڑھےجس نے لڑکی کو دبوچ رکھا تھا اور وہ تھر تھر کھڑی اس کی گرفت میں کانپ رہی تھی_
حمزہ نے اس کی ٹانگ پہ فائر کیا اور لڑکی کو اس کی گرفت سے آزاد کروایا تھا۔۔۔ پھر اس کو بالوں سے دبوچے اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے بولا اپنے بوس کو کہنا تمہیں زندہ چھوڑ کر HK نے تم پر احسان کیا ہے تاکہ تم مجھ تک پہنچ سکو۔۔۔ ورنہ کسی کا باپ بھی مجھ تک نہ پہنچ پاتا۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں وہ مجھ تک پہنچے_
حمزہ اس کو وہیں پھینکتا باہر نکلا وجاہت اور علی کو لڑکیوں کو باحفاظت تھانے پہنچانے کا کہہ کر خود گاڑی میں بیٹھے گھر کو نکل گیا۔۔۔۔
آج پھر وہ تینوں آفیسرز اپنے مخصوص آفس میں جاوید صاحب اور فاروق صاحب کے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔
فاروق صاحب نے ستائشی انداز میں دیکھتے تینوں کو سراہا تھا۔۔۔
Well done guyzzz....
I'm impressed your work...
وہاں سے بازیاب بچیوں کو ان کے گھروں میں پہنچا دیا گیا ہے لیکن کچھ لڑکیوں کو ان کے گھر والوں نے اپنانے سے منا کر دیا ہے تو ان کو شیلٹر ہوم شفٹ کر دیا گیا ہے___
بہت افسوس کی بات ہے ہمارے معاشرے کا یہ المیہ ہے کہ بیٹیوں کی غلطی نہ ہونے کے باوجود بھی بھگتنا لڑکیوں کو پڑتا ہے،،، دربدر بھی ان کو ہونا پڑتا ہے،،، سزائیں انہیں ہی جھیلنی پڑتی ہیں،،،، معاشرے کی باتوں کے ڈر سے لوگ اپنی ہی بیٹیوں کو مورد الزام ٹھہرا کر ان کو خود سے دور کر دیتے ہیں۔۔۔۔
خیر اب ہمیں زیادہ چوکنہ رہنا پڑے گا کیونکہ وہ چپ بیٹھنے والوں میں سے نہیں ہیں۔۔۔
اب وہ پھر نئے سرے سے کوشش کریں گے اپنے اس نقصان کی بھرپائی کرنے کے لیے تو ہمیں محتاط رہنا ہو گا۔۔۔
فاروق صاحب نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تھا جو پر سکون دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔
یس سر۔۔۔
ہم اپنی پوری کوشش کریں گے کہ اس دفعہ ان دونوں کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ لیں۔۔۔ وجاہت بولا تھا۔۔۔
معاشرے کو ان جیسے ناسوروں سے پاک کر کے رہیں گے،،، یہی اب ہمارا عزم ہے،،، اس سب میں اگر ہماری جان بھی چلی جائے تو ہمیں فخر ہو گا کہ ہم نے اپنے وطن کی مٹی کا حق ادا کر دیا،،، اب کی دفعہ علی بولا تھا۔۔۔
گڈ،،،، مجھے یہی جذبہ چاہیے تم سب میں۔۔۔
اب آپ لوگ جا سکتے ہیں مجھے امید ہے آگے بھی آپ سب اسی طرح دشمنوں کو ان کی اوقات دیکھائیں گے اور جلد سے جلد ان سے نجات بھی۔۔۔
یس سر۔۔۔ وہ تینوں سیلوٹ مارتے باہر کی جانب چل دیے___
باہر نکلتے ہی وہ دونوں حمزہ کو دیکھ کم اور گھور زیادہ رہے تھے جو پارٹی کے دن سے ہی دیوداس بنا گھوم رہا تھا۔۔۔
ان کے دیکھنے پہ حمزہ نے نظریں چرائیں اور آگے کی طرف بڑھ گیا جبکہ وجاہت اور علی دونوں ایک دوسرے کو تکتے رہ گئے پھر کچھ سوچ کر اس کے پیچھے ہی چل دیے۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رات نے کالی چادر اوڑھ رکھی تھی اور بادلوں نے ہر جگہ بسیرا کر رکھا تھا۔۔۔ ٹمٹماتے ستارے کہیں دور جا سوۓ تھے۔۔۔ بارش کا واضح امکان تھا۔۔۔
وہ اندھیرے میں کسی جگہ بیٹھی گھٹنوں میں منہ دیے رو رہی تھی_ کوئی بھی نہیں تھا اس کے پاس جو اسے چپ کرواتا۔۔۔ اتنی اذیت کے باوجود بھی وہ کھل کے رو نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔ نہ اپنے دل کی حالت کسی کو بتا سکتی تھی۔۔۔
عجیب بے بسی سی تھی۔۔۔
اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کبھی بھی اس اندھیرے سے باہر نہیں نکل پاۓ گی۔۔۔ اس کی لاکھ چیخ و پکار کے باوجود اس کی کوئی سن نہیں رہا تھا۔۔۔
رو رو کر گلا بھی بیٹھ گیا تھا۔۔۔
پھر اچانک اسے ایک جگہ کہیں سے روشنی آتی دیکھائی دی۔۔۔کوئی دروازہ معلوم ہوتا تھا لیکن یہ کیا۔۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ روشنی پھر غائب ہو گئی۔۔۔
کھڑکی کے پٹ کبھی کھلتے کبھی بند ہوتے اور ان کے ہی زوردار تصادم سے علیشے نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں تھیں اور خود کو اپنے کمرے میں بیڈ پہ دیکھ کے سکون کا سانس بھرا تھا۔۔۔
یہ کیسا خواب تھا چہرے پہ ہاتھ پھیرتی اٹھ کر بیٹھی۔۔۔ ٹائم دیکھا تو 2 بج رہے تھے۔۔۔۔
نیند تو آنے سے رہی تو اٹھ کر تہجد پڑھنے کا سوچتی فریش ہونے چلی گئی۔۔۔
باہر آ کر ڈوپٹہ حجاب کی صورت میں اپنے اوپر لپیٹے پورے خشوع و غضوع سے 2 نفل ادا کیے اور دل کو سکون فراہم کیا تھا۔۔۔
ایک یہی چیز تو اس کے سکون کا باعث تھی کہ اللہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہے وہ کبھی کچھ برا نہیں ہونے دے گا۔۔۔
کبھی کبھی کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اللہ کو کیسے پایا جا سکتا ہے۔۔۔۔ تو جواب ہے۔۔۔۔
جب آپ اپنی غلطیوں کو سدھارنے لگیں۔۔۔۔
جب گناہ کا احساس تکلیف دینے لگے۔۔۔۔
جب دل سے گناہ کا احساس مٹنے لگے۔۔۔۔
جب صرف اللہ پر توکل ہو۔۔۔
جب تقدیر سے شکوے کم ہونے لگیں۔۔۔
جب احساس ہو کہ وہ ہمیں ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔۔۔
جب غم کی شدت خوشی میں بدلنے لگے۔۔۔۔
جب دعائیں قبول ہونے لگیں۔۔۔۔
جب زندگی مشکل اور موت آسان لگنے لگے۔۔۔۔
تب سمجھ جائیں اللہ آپ کا اور آپ اللہ کے ہو گئے ہیں۔۔۔۔
ایسے ہی وہ دعا مانگ کر پر سکون ہو گئی کیونکہ اسے اللہ پہ بھروسہ تھا۔۔۔۔
پھر اس نے اپنی اسائنمنٹ کمپلیٹ کی اور تیار ہو کر نیچے چلی آئی ہر برے خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک کے۔۔۔
شازیہ بیگم اور زمان شاہ اسی کی راہ تکتے ناشتے پر انتظار کر رہے تھے۔۔۔ جب وہ آ کر چئیر کو پیچھے دھکیلتی بیٹھی ناشتہ کرنے لگی۔۔۔۔
آج ان دونوں کو وہ چپ چپ لگی۔۔۔لیکن پوچھا نہیں کچھ۔۔۔ انہیں یقین تھا ان کی بیٹی ان سے ہر بات شئیر کرتی ہے کوئی بات ہوئی بھی تو وہ خود بتا دے گی اس لیے کریدنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
ایمن یونی کے مین گیٹ پہ کھڑی علیشے کا انتظار کر رہی تھی جو ناجانے آج کہاں رہ گئی تھی جو ابھی تک نہیں آئی۔۔۔نہ فون اٹھا رہی تھی۔۔۔ دل میں بھی عجیب وسوسے سے تھے۔۔۔
پریشانی سے ادھر ادھر چکر کاٹ رہی تھی جب اس کے کانوں میں آواز پڑی تھی۔۔۔
یاارررر۔۔۔۔ لڑکی مست ہے لیکن ہلکا سا ویسٹ اینڈیز ٹوئسٹ ہے۔۔۔
مطلب صاف وہ اس کا مزاق اڑا رہے تھے اس کے سانولے رنگ پہ چوٹ کی۔۔۔۔
جبکہ پاس سے گزرتے حمزہ نے بھی یہ بات سنی اور غصے سے مٹھیاں بھینچ لیں تھیں۔۔۔
خونخوار نظروں سے ایمن کو گھورا کہ وہ یہاں کھڑی کیا کر رہی ہے۔۔۔
حمزہ کے دیکھنے پہ وہ شرمندہ سی نظریں جھکا گئی۔۔۔
لیکن وہ سختی سے اس کی بازو کو دبوچے بلڈنگ کی جانب چل پڑا۔۔۔ جبکہ وہ مسلسل بازو چھڑوانے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
حمزہ نے لائبریری میں آ کر اس کا بازو چھوڑا اور دیوار سے پن کیے اس کے دونوں طرف اپنے مضبوط بازو جما گیا۔۔۔۔
کیا کر رہی تھی وہاں کھڑی۔۔۔۔؟
اس نے اپنے چہرے کو اس کے چہرے کے نزدیک لاتے پوچھا۔۔۔
جبکہ حمزہ کے اتنے قریب ہونے پر اس کی سانس ہی اٹک گئی تھی۔۔۔
و۔۔۔۔وہ۔۔۔۔م۔۔۔۔۔می۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔ عل۔۔۔۔علیش۔۔۔۔۔علیشے۔۔۔۔کا۔۔۔۔انت۔۔۔۔۔انتظار۔۔۔۔۔ک۔۔کر۔۔۔۔رہی تھی۔۔۔
اس نے زور سے نم آنکھیں میچے اسے جواب دیا تھا۔۔۔
حمزہ کو اس کے لڑکھڑاتے لہجے پہ بھی ٹوٹ کے پیار آیا تھا۔۔۔
یہی بات آنکھیں کھول کے مجھ سے نظر ملا کے بغیر لڑکھڑاۓ کہو گی تو جانے دوں گا آج ورنہ۔۔۔۔۔ وہ شرارت پر آمادہ ہوا۔۔۔
اس کی بات پہ ایمن نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں اور ایک دفعہ پھر اس کو اتنے قریب دیکھ کے سانس لینا مشکل ہوا تھا۔۔۔
پ۔۔۔پیچھے۔۔۔ ہٹیں۔۔۔پ۔۔۔پہلے۔۔۔
فٹ سے اسے دھکا دے کے خود سے دور کیا تھا۔۔۔
لیکن وہ پھر ایک ہی جست میں اس تک پہنچتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال گیا تھا۔۔۔
دوسرے ہاتھ سے اس کے بالوں کو جکڑ کو بولا تھا۔۔۔
اپنے ننھے سے ذہن میں یہ بات بٹھا لو تم صرف حمزہ خان کی ہو۔۔۔ تم چاہو یا نہ چاہو بنو گی تو تم میری ہی دلہن۔۔۔ پھر اس نے ماتھے پر پیار کی پہلی مہر ثبت کی۔۔۔
بہت جلد تم حمزہ خان کی دسترس میں ہو گی ایمن علیم۔۔۔۔
پھر اس کے کان میں سرگوشی کی تھی جس پر وہ لال قندھاری ہو گئی۔۔۔ لہو چہرے پہ سمٹ آیا تھا۔۔۔
یوں ہی انجانے میں تجھ سے رفاقت سی ہو گئی
دوستی کرنے چلا تھا اور تجھ سے چاہت سی ہو گئ
تو نہ ہو تو خود سے ہی الجھتا ہوں میں
کیا کروں مجھے تیری عادت سی ہو گئی
میں اپنے وجود میں تجھے تلاش کرتا ہوں
مجھے تم سے اس قدر محبت سی ہو گئی
میرے پاس آؤ تو جی لوں دو پل
میری تو ہر سانس تیری امانت سی ہو گئی
میں سوچتا تھا تیرے آگے زندگی کیا ہے
پر تجھے چاہنے کے لیے زندگی کی ضرورت سی ہو گئی
یہ کہتے وہ رکا نہیں تھا چھوڑتا اپنے بلاک کی طرف نکل گیا تھا۔۔۔۔
ایمن بھی خود کو نارمل کرتے،،،، اس کو کوستے منہ میں اس کی شان کے قصیدے پڑھتے پیر پٹختی باہر کو چل دی علیشے کو بھی ڈھونڈنا تھا ابھی۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رومان زرینہ بیگم کو لے کر ان کے کمرے میں آیا اور ان کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پہ بٹھایا تھا۔۔۔
عقیدت سے ان کے ہاتھ چوم ڈالے تھے۔۔۔
مام مجھے شاد کرنی ہے وہ بھی زمان انکل کی بیٹی سے۔۔
اس کے اسطرح اچانک کہنے پہ زرینہ بیگم تو دھک سے اسے دیکھتی رہ گئی۔۔۔
کیا کہا دوبارہ کہنا۔۔۔
اس نے دانتوں تلے لب دباۓ تھے۔۔۔
مام مجھے علیشے سے شادی کرنی ہے اور وہ بھی جلد ہی۔۔
آپ کل ہی رشتہ لے کے جائیں میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔۔۔
زرینہ بیگم تو اس کے بے باک انداز پہ ہی حیران رہ گئی تھیں۔۔۔
انہوں نے رومان کا کان پکڑا تھا۔۔۔
شرم نہیں آتی اپنی ماں کے سامنے ایسے گفتگو کرتے انہوں نے مصنوعی گھوری سے نوازا تھا۔۔۔
نہیں مام۔۔۔۔اس نے کان کی لو کو رب کیا تھا اور مسکرایا تھا۔۔۔
ماں بیٹے کا رشتہ ہی ایسا تھا کہ رومان کچھ بھی بغیر ہچکچاہٹ کے ان سے اپنے دل کی بات کہہ سکتا تھا۔۔۔
جیسے میرا بیٹا خوش میں بھی خوش۔۔۔ میں کل ہی حمزہ کے ساتھ ان کی طرف جاؤں گی اپنے بیٹے کی خوشی مانگنے اور مجھے پورا یقین ہے وہ انکار نہیں کریں گے___
اوکے اب آپ آرام کریں میں چلتا ہوں۔۔۔۔
رومان بالوں میں ہاتھ پھیرتا،،،،، بھرپور مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ،،،، اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
"کتابوں کے صفحے پلٹ کر سوچتا ہوں میں
یوں پلٹ جائے زندگی تو کیا بات ہے_____"
"خوابوں میں روز ملتا ہے جو____
حقیقت میں مل جائے تو کیا بات ہے"
بہت جلد تم اس کمرے میں میری زندگی بن کر،،،، میرے دل کی دھڑکن بن کر،،،، یہاں ہو گی۔۔۔
تمہیں اپنی پناہوں میں چھپا لوں گا میری پری،،،،
بس تم اور میں بہت جلد ہم بن جائیں گے،،، کوئی ہمیں جدا نہیں کر سکے گا۔۔۔۔
رومان اپنی آنے والی زندگی کے تانے بانے بنتا نیند کی وادیوں میں چلا گیا تھا۔۔۔۔
ایمن نے باہر آ کر ہر طرف نگاہ دوڑائی تو اسے پارک میں بینچ پر بیٹھی علیشے نظر آئی۔ وہ تن فن کرتی اس کے قریب پہنچی جو بڑے مزے سے ببل گم منہ میں چباتے پاؤں جھلاتی ارد گرد کے مزے لے رہی تھی۔۔۔
اسے سکون سے بیٹھے دیکھ آگ ہی تو لگی تھی ایمن کو کہ وہ کب سے اس کا انتظار کر رہی تھی اور یہ میڈم یہاں سکون سے بینچ پہ براجمان تھی۔۔۔
ایمن نے غصے میں زور سے اپنا بیگ اس کے سر پر دے مارا تھا۔۔
افففف۔۔۔۔۔ میرا سر پھوڑ دیا لڑکی۔۔۔۔
جنگلی کبھی تو آرام سے آیا کر۔۔۔ اب کونسی تجھے آگ لگی جو مجھ معصوم کا سر پھوڑ کر بجھا رہی ہو۔۔۔
وہ بھی بینچ پہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئی__
کہاں رہ گئی تھی تم میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے نہ تم لیٹ آتی نہ وہ لوفر۔۔۔۔بدتمیز۔۔۔۔چوزہ۔۔۔۔ مجھے لے کے جاتا اور نہ وہ سب ہوتا۔۔۔
ایمن آگ بگولہ بنی بولتی چلی جا رہی تھی کہ ایک دم وہ چپ ہوئی۔۔۔ غصے میں کیا کیا بول گئی تھی۔۔۔
ٹیڑھی نظروں سے علیشے کی طرف دیکھا تھا جو ہونقوں کی طرح اس کی گل افشانی سن رہی اور سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ بول کیا رہی ہے یہ۔۔۔
چلو پہلے ہی بہت لیٹ ہو گئے ہیں وہ علیشے کے سوالوں سے بچنے کے لیے اب ہڑبڑی میں اس کا بازو تھامے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب چل دی۔۔۔۔
ایسا نہیں تھا کہ وہ علیشے سے کچھ چھپاتی تھی بس ابھی اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا ریئکٹ کرے۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
زمان شاہ اپنے آفس میں بیٹھے کسی گہری سوچ میں ڈوبے تھے۔۔۔۔
بِلو کے دیے دو دن پورے ہو چکے تھے کچھ بعید نہیں تھا جو وہ کہہ کر گیا کر بھی ڈالتا۔۔۔
اس سے پہلے پہلے انہیں اپنی بیٹی کو کسی مضبوط سہارے کے سپرد کرنا تھا۔۔۔
زمان شاہ کو بس ایک ہی انسان نظر آیا تھا رومان خان۔۔۔
اب وہ بغیر دیر کیے رومان سے بات کر کے اس مسئلے کا حل چاہتے تھے۔۔۔
انہی سوچوں میں وہ غرق تھے جب رومان ڈور نوک کرتا اندر داخل ہوا۔۔۔۔
جی انکل آپ نے بلایا سب خیریت تو ہے نہ۔۔۔۔
ہاں۔۔۔آ۔۔۔ہاں۔۔۔۔ بیٹھو مجھے تم سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔
امید ہے کہ تم سمجھو گے میری بات کو۔۔۔ کسی قسم کا دباؤ نہیں ہو گا اگر چاہو تو انکار کر دینا۔۔۔۔
رومان نے نا سمجھی کی حالت میں ان کی طرف دیکھا۔۔۔
لیکن سر ہلا دیا جیسے بات کرنے کی اجازت دی ہو۔۔۔
میں چاہتا ہوں تم علیشے سے۔۔۔۔
بات پوری ہونے سے پہلے ہی فون چنگھاڑا تھا اور جو سنا ان کے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکی تھی۔۔۔
فون ہاتھوں سے گر کر زمین بوس ہوا تھا اور حواس بھی شل ہوئے تھے___
لیکن انہیں ابھی خود کو سنبھالنا تھا تبھی کار کی کیز اٹھاۓ رومان سے بعد میں بات کرنے کا کہہ کر پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ گئے۔۔۔
لیکن رومان بھی ان کے پیچھے پیچھے ہی چل دیا۔۔۔
انکل میں بھی چلتا ہوں آپ کے ساتھ مجھے بتائیں جانا کہاں ہے۔۔۔
ڈرائیونگ سیٹ پر خود بیٹھتے اس نے زمان شاہ سے پوچھا۔۔۔
ہوسپٹل چلو۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
وہ دونوں بند کمرے میں ڈری سہمی خوفزدہ سی سوجی آنکھیں لیے ایک دوسرے سے لپٹی بیٹھی تھیں_ انہیں اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کیا ہے وہ ہیں کہاں___
کیا اب کبھی یہاں سے نکل بھی سکیں گی دونوں۔۔۔
وہ یہی بیٹھی سوچ رہی تھیں کہ تبھی دروازہ زوردار آواز پیدا کرتا چررر سے کھلا تھا اور لمبا تڑنگا شخص اندر داخل ہوا۔۔۔
ان دونوں میں سے ایک کو دیکھتے اس کے منہ سے رال ٹپکی تھی۔۔۔ مال تو بڑا مست لایا ہے اس دفعہ بِلو۔۔۔۔
دل بے ایمان سا ہو رہا ہے کیوں نہ اس چڑیا کا پہلے مزہ چکھ لیا جائے دوسرا کام تو بعد میں بھی لیا جا سکتا اس سے۔۔۔۔ وہ خباثت سے سوچتا اس کی طرف بڑھا تھا جبکہ وہ آنکھوں میں نمی لیے پیچھے کو سرکتی جا رہی تھی۔۔۔
شابی اس کے قریب پہنچ چکا تھا جب ایمن تیزی سے آگے بڑھی اور اسے دھکا دے کر خود اس کے سامنے ڈٹ گئی۔۔۔
شابی اس سب کے لیے تیار نہیں تھا جبھی لڑکھڑا کر نیچے گرا تھا۔۔۔۔
تیری ہمت کیسے ہوئی (گالی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مغلزات بکتا اٹھ کھڑا ہوا اور اسے بالوں سے زور سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا لا کر دیوار میں مارا تھا۔۔۔ اس کے ماتھے سے خون کا فوارا پھوٹا اور بے ہوش ہو کر گر پڑی۔۔۔ جس پر علیشے تڑپتی ہوئی اس کی طرف بھاگی اور اپنا ڈوپٹہ اس کے ماتھے پر رکھا تھا۔۔۔۔
ڈوپٹہ اتارنے سے اس کے وجود کی رعنائیاں واضح ہوئی تو ایک دفعہ پھر شابی کا دھیان اس کی طرف گیا۔۔۔۔
حوس سے پاگل ہوتے اس شخص نے علیشے کو بازو سے دبوچا وہاں سے نکال کر ساتھ والے روم میں بیڈ پہ پٹکا۔۔۔۔
جو تقریباً بیڈ روم کی شکل ہی اختیار کیے ہوا تھا۔۔۔۔
مجھے چھوڑ دو خدا کے لیے جانے دو۔۔۔ میری دوست کو میری ضرورت ہے وہ مر جاۓ گی۔۔۔ میرے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے۔۔۔ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے۔۔۔
ت۔۔۔تم۔۔تمہیں جتنے پ۔۔۔پیسے چاہیے لے لینا مجھے جانے دو۔۔۔
وہ روتے ہوئے ایک بے ضمیر انسان سے التجائیں کر رہی تھی۔۔۔۔
شابی قہقہہ لگا کر ہنسا تھا۔۔۔ مجھے جو تم سے چاہیے وہ تو میں ابھی لے لوں گا میری بلبل۔۔۔۔ بس تم ساتھ دینا میرا۔۔۔۔ وہ خباثت سے آنکھ ونک کرتا بولا۔۔۔
علیشے کا دل کیا اس کی بےہودہ بات پہ زمین پھٹے اور وہ اس میں گڑھ جاۓ۔۔۔۔
اب وہ آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا جبکہ علیشے پیچھے کی طرف سرکتی جا رہی تھی اور دونوں بازو سینے پہ فولڈ کیے خود کو چھپانے کی ناکام سی کوشش کر رہی تھی۔۔۔
آنسوؤں سے تر چہرہ لیے دل میں اللہ سے بھی مخاطب تھی کہ اگر آج تک تجھے میری کوئی عبادت پسند آئی ہے تو مجھے اس دلدل سے نکال دے،،،، رحم فرما مجھ پر،،،،
ابھی وہ اس تک پہنچا ہی تھا کہ دھڑ دھڑ دروازہ کھٹکا تھا باہر سے جسے اگنور کیے اس نے علیشے کو دونوں بازوؤں سے جھٹکا دیتے سیدھے گرایا تھا۔۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
علی کے اپارٹمنٹ میں وہ تینوں اکٹھے بیٹھے کیس کو ڈسکس کر رہے تھے اور اگلا لائحہ عمل تیار کر کے وہ فاروق صاحب کو بھی اپنا پلان بتا چکے تھے۔۔۔۔
اب فری ہو کر بیٹھے تھے۔۔۔ حمزہ صوفے پہ بیٹھا ٹیک لگاۓ سر کو ہلکے ہلکے سے دبا رہا تھا جب علی سے مخاطب ہوا تھا۔۔۔
یار ایک کپ کوفی کا پلا دے بہت درد ہے سر میں۔۔۔
علی سر ہلاتا کیچن کی طرف بڑھا تھا جبکہ وجاہت دوسرے صوفے سے اٹھ کر اس کے پاس آ بیٹھا تھا۔۔۔
کیا بات ہے۔۔؟ کافی دنوں سے ہم نوٹ کر رہے ہیں تم کھوۓ کھوۓ سے رہتے ہو۔۔۔۔ وہ پہلے والا شوخ سا حمزہ تو کہیں کھو گیا ہے۔۔۔۔
اس سے کھل کے بات کیوں نہیں کر لیتے۔۔۔
کہو تو ہم بات۔۔۔۔۔
نہیں خبردار اگر تم دونوں نے ایسا سوچا بھی۔۔۔
میں خود بات کر لوں گا۔۔۔
اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی حمزہ بول اٹھا۔۔۔
علی تینوں مگ کوفی کے لیے واپس آ بیٹھا تھا۔۔۔۔
اور اشاروں سے اب وجاہت سے پوچھ رہا تھا اس کے بگڑے تیوروں کا۔۔۔ جواب میں وجاہت نے کندھے اچکا دیے تھے۔۔۔
حمزہ نے کوفی پی اور کار کی کیز اٹھاتے باقی دونوں سے مخاطب ہوا۔۔۔۔
اوکے اب میں چلتا ہوں کل یونی میں ملاقات ہو گی۔۔۔۔
آج بھی چھٹی ہو گئی ہے تو کل شرافت سے آ جانا۔۔۔۔
دونوں کا جواب سنے بغیر وہ باہر نکل گیا۔۔۔۔
اور پھر اسلام آباد کی سڑکوں پہ بے مقصد گاڑی دوڑاتا رہا۔۔۔۔عجیب سی بے چینی تھی جو نہ وہ چھپا پا رہا تھا نہ بتا پا رہا تھا۔۔۔۔
نہ وہ مِلتا ہے نہ مِلنے کا اِشارہ کوئی
کیسے اُمّید کا چمکے گا سِتارہ کوئی
حد سے زیادہ، نہ کسی سے بھی محبّت کرنا
جان لیتا ہے سدا ، جان سے پیارا کوئی
بیوفائی کے سِتم تم کو سمجھ آ جاتے
کاش ! تم جیسا اگر ہوتا تمھارا کوئی
چاند نے جاگتے رہنے کا سبب پُوچھا ہے
کیا کہَیں ٹُوٹ گیا خواب ہمارا کوئی
سب تعلّق ہیں ضرورت کے یہاں پر، مُحسنؔ
نہ کوئی دوست، نہ اپنا، نہ سہارا کوئی
آدھی رات کو وہ گھر پہنچا تھا اور ٹوٹی بکھری حالت لیے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
اس نے سوچ لیا تھا اب وہ آخری دفعہ اس سے بات کرے گا اس کے بعد بھی نہ مانی تو اپنا جلالی روپ اسے دکھاۓ گا۔۔۔۔
💣
ابھی وہ پوری طرح قابض نہیں ہو پایا تھا جب دروازہ پھر سے دھڑا دھڑ بجایا گیا۔۔۔ شابی کو یہ خلل پسند نہیں آیا تبھی دروازہ بجانے والے کی پہلے عقل ٹھکانے لگانے کا سوچتا علیشے کو چھوڑ کر دروازے کی طرف بڑھا۔۔۔
وٹ دا ہیل ،،،،،،،کیا موت پڑ گئی تجھے،،، کونسی ایسی قیامت آ گئی ہے جو یوں مجھے ڈسٹرب کیا۔۔۔۔
وہ۔۔ س۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔ ب۔۔۔بِلو۔۔۔۔د۔۔۔دا۔۔دا کا ف۔۔۔فون ہے۔۔
ارجنٹ بات کرنا چ۔۔چاہتے ہیں آپ سے۔۔۔
سامنے والی کی دہشت ہی اتنی تھی کہ وہ بیچارا تھر تھر کانپ رہا تھا،،،،، زبان لڑکھڑا گئی تھی۔۔۔
پہلی دفعہ اسے بِلو کا فون زہر لگا تھا۔۔۔
فون ملازم سے چھینتے ہی اس نے کان کو لگایا تھا۔۔۔
ملازم تو وہاں سے پھر گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوا تھا۔۔۔۔
شابی فون ہاتھ میں پکڑے زرا باہر والی سائیڈ نکل۔۔۔۔لیکن دوسری طرف کی بات سن کے غصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور کمینگی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ عود آئی تھی۔۔۔۔
دل خوش کر دیا تم نے آج،،،،،مانگو کیا چاہیے تمہیں،،،،
آج یہ شہباز جہانگیر تمہیں پیسوں سے مالا مال کر دے گا۔۔۔ بولو کتنی رقم چاہیے اور تمہاری رات رنگین کرنے کا بھی بندوبست کر دوں گا میں،،،،،
مجھے اس دفعہ پیسے نہیں کچھ اور چاہیے شہباز چوہدری۔۔۔۔
مجھے علیشے شاہ چاہیے۔۔۔۔ بس اس لڑکی کو میرے حوالے کر دو۔۔۔ وہ میری ملکیت بن کے رہے گی،،، اسے تم آگے نہیں بیچو گے۔۔۔
شابی جو کہ اس سے اس بات کی توقع نہیں کر رہا تھا۔۔۔ غصے سے اس پہ دھاڑا تھا۔۔۔۔ سا۔۔۔۔(گالی)
شابی کے مال پہ کوئی نظر رکھے تو میں اسے دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑتا۔۔۔۔
اور تو نے وہ بلبل مانگ لی جسے میں اپنی رکھیل بنانے کا سوچ بیٹھا ہوں۔۔۔
یہی اب سے میری راتیں رنگین کرے گی۔۔۔
جب دل بھر جائے گا میرا تو تجھے بھی مزہ چکھا دوں گا اس چھوکری کا۔۔۔ اب فون رکھ۔۔۔
بِلو جو خود پہ ضبط کیے اس کی بکواس سن رہا تھا وہ بھی دھاڑا تھا۔۔۔
نہیں شابی دادا وہ بس میری ہے۔۔۔ تم اسے ہاتھ بھی نہیں لگاؤ گے ورنہ میں سب کچھ تہس نہس کر دوں گا اور یہ کروڑوں کی ڈیل تو پھر بھول ہی جانا۔۔۔
اب وہ پچھتا رہا تھا کہ کیوں اس نے علیشے کو اس کی نظروں میں آنے دیا تھا۔۔۔ لیکن اب کر کچھ نہیں سکتا تھا بیوقوفی جو کر بیٹھا تھا۔۔۔۔
ادھر بِلو کے بگڑے تیور دیکھ کر شابی نے ٹھنڈے دماغ سے اس مسئلے کا حل تلاشا تھا۔۔۔۔
منٹ سے پہلے اس نے اپنے شیطانی دماغ میں بلال جہانگیر (بِلو دادا) کو ڈاج دینے کا پلان سوچا۔۔۔
اوکے اوکے جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہو گا۔۔۔۔ بس تم ڈیل ڈن کرو پارٹی کے ساتھ۔۔۔
علیشے جو ڈری سہمی سی بہت خوفزدہ اٹھ کر بیٹھی تھی۔۔۔ شکر کیا تھا اللہ کا کہ اس کی عزت اب تک محفوظ تھی۔۔۔ اب اسے ہمت کرنی تھی،،،،
دروازے کی طرف دیکھا جو کہ کھلا تھا۔۔۔ یہی وقت تھا کہ وہ ہمت دیکھاتی۔۔۔۔ جلدی سے اٹھی۔۔۔ نیچے گرا ڈوپٹہ اٹھایا تھا اور جلدی سے قدم اٹھاتی دوسرے کمرے کے پاس پہنچی جہاں ایمن تھی۔۔۔
اس کے چہرے کو تھپتھپاتے وہ اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ جب بات نہ بنی تو آس پاس نظر دوڑائی،،،، مٹکا نظر آیا جس میں پانی کا سوچتے وہ فوراً اس طرف بھاگی،،، پانی لا کر ایمن پہ چھڑکا تھا۔۔۔
زرا زرا سی آنکھیں کھولیں تھیں اس نے،،، علیشے کو دیکھ جلدی سے اس سے لپٹی تھی۔۔۔ سر کا درد برداشت کرتے وہ بھی اب علیشے کے ساتھ مل کر یہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش رہی تھی۔۔۔
زنگ لگی لوہے کی ایک کھڑکی نظر آئی تھی ایمن کو اور وہ علیشے کا ہاتھ پکڑے اس طرف بھاگی تھی جو پچھلی گلی کی طرف کھلتی تھی۔۔۔
بس اب انہیں یہاں سے نکلنا تھا ہر صورت۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
زمان شاہ اور رومان خان ایمرجنسی روم کے باہر پریشان کن حالت میں کھڑے تھے۔۔۔
کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی ڈاکٹر ابھی تک باہر نہیں نکلا تھا۔۔۔
رومان نے انہیں تسلی دیتے آخرکار بینچ پہ زبردستی بٹھایا تاکہ وہ آرام کر لیں تھوڑا۔۔۔۔
یوں کھڑے رہنا بھی مسئلے کا حل تھوڑی تھا۔۔۔
ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں استھیٹو سکوپ گلے میں لٹکاۓ باہر نکلا تھا جب رومان ان کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔
کیسی ہیں آنٹی اب۔۔۔؟
ان کو میجر ہارٹ اٹیک آیا ہے۔۔ کوئی پریشانی ہے جو یہ دل سے لگا بیٹھی ہیں۔۔۔۔
ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔۔۔ بس دعا کریں آپ سب لوگ۔۔۔۔
ڈاکٹر تو ان کو بتا کر پھر اندر گھس گیا جبکہ زمان شاہ تو ڈھے سے گئے تھے یہ سن کر کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہو گئی ہے جو اس حالت تک پہنچ گئیں شازیہ بیگم۔۔۔
پھر اچانک ان کے ذہن میں جھماکا سا ہوا تھا۔۔۔
علیشے۔۔۔۔۔ علیشے کہاں ہے۔۔۔۔۔؟
فون نکال کر اسے ملایا تھا۔۔۔۔ لیکن بے سود،،، فون بند تھا بہت دفعہ ٹراۓ کرنے کے بعد بھی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوئی۔۔۔
پھر گھر کے لینڈ لائن پر کال ملائی جو ملازمہ نے اٹھائی۔۔۔
علیشے کہاں ہے۔۔۔؟ اس سے بات کرواؤ۔۔۔۔
صاحب جی علیشے بی بی تو گھر پر نہیں ہیں ،،،، آج وہ یونی سے آئیں ہی نہیں ابھی تک۔۔۔۔
اور ہاں بیگم صاحبہ کو بھی ایک کال آئی تھی جس کے بعد ان کی طبیعت ایسے خراب ہو گئی تھی۔۔۔۔
یہ سن کر تو اب سہی معنوں میں زمان شاہ کی دنیا ہلی تھی۔۔۔
ایک طرف جان سے بڑھ کر بیوی۔۔۔
دوسری طرف ان کے جگر کا ٹکڑا غائب تھا۔۔۔۔
بِلو دادا کے دیے دو دن پھر سے یاد آۓ تھے۔۔۔ تو آج ایک باپ ہار گیا تھا۔۔۔ جو اپنی بیٹی کی حفاظت نہیں کر سکا تھا۔۔۔ زمان شاہ آج ٹوٹ کر بکھرا تھا اور رو دیا تھا۔۔۔
آج ان کا ضبط بھی جواب دے گیا تھا تبھی دھاڑیں مار مار وہ روۓ تھے۔۔۔۔
رومان جسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا آخرکار پوچھ ہی بیٹھا۔۔۔
انکل علیشے کہاں ہے۔۔۔۔؟
اسے تو یہاں ہونا چاہیے تھا پھر وہ۔۔۔۔۔
زمان شاہ اب یہ بوجھ اور نہیں اٹھا سکتے تھے تبھی سب رومان کو بتاتے چلے گئے۔۔۔
جسے سن کر اس کی ایش گرے آنکھوں میں غیض و غضب جاگ اٹھا تھا۔۔۔ زور سے مٹھیاں بھینچ لیں تھی۔۔۔
ایک آگ اور وحشت اتری تھی اس کی آنکھوں میں،،،،
انکل آپ فکر نہیں کریں علیشے کو میں لے کے آؤں گا سہی سلامت آپ کے پاس بس مجھے ایک دن دیں۔۔۔
اور ہاں آپ پولیس میں کمپلین نہیں کریں گے ابھی میں نہیں چاہتا میری عزت پہ کوئی آنچ آۓ۔۔۔
وہ یہ کہہ کر وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔
اب جاگا تھا اس کے اندر کا ڈیول۔۔۔۔
وہ جو باہر سے سب کے لیے سوفٹ نیچر تھا۔۔۔ شیطانوں کے لیے وہ ڈیول تھا۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
مجھے یقین نہیں ہو رہا تم میرے پاس،،، میرے ساتھ ہو،،،
اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس بٹھایا تھا۔۔۔
اب کبھی مجھ سے دور مت جانا میری جنگلی بلی،،،،
وہ شرماتی،مسکراتی اس کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی___اس کا شدت سے دل چاہا تھا کہ وہ اس کے ہونٹوں پہ بوسہ دے اور دل کی خواہش پر عمل کرتا وہ اس کی طرف جھکا تھا کہ وہ ہلکا سا دھکا دے کر شرارت سے اس سے دور بھاگی تھی۔۔۔۔
وہ بھی اٹھ کر اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگا تھا۔۔۔۔
نہیں کرو ایسے مسز حمزہ خان___
مجھ سے دور جانے کا سوچنا بھی مت۔۔۔۔
حمزہ نے ایک ہی جست میں اسے جا لیا تھا۔۔۔
اور پھر سے اس کے ہونٹوں پہ جھکنے ہی لگا تھا،،،،
کاش پھولوں کی ایک وادی ہو
وہاں زمین پہ بچھی ہریالی ہو
پرندے خوشی سے چہچہاتے ہوں
بادل بھی جھومتے، گاتے ہوں
آسماں پہ دھنک نے پر پھیلاۓ ہوں
وہاں تتلیاں رقص کرنے آئیں ہوں
وہاں خوابوں کا جہان ہو
جہاں غم کا نام و نشان نہ ہو
ٹرن۔۔۔ٹرن۔۔۔ٹرن۔۔۔۔ موبائل پہ آنے والی کال نے اسے نیند سے جگایا تھا جو بیڈ پہ آڑا ترچھا لیٹا سو رہا تھا۔۔۔
چھن سے کر کے خواب ٹوٹا تھا۔۔۔
ہاۓ ظالم سماج۔۔۔۔ نیند میں بھی رومینس نہیں کرنے دیتے۔۔۔
فون پھر سے چنگھاڑا تھا تو ہاتھ بڑھا کر اسے اٹھایا تو فاروق صاحب کی کال تھی۔ اب وہ سنجیدہ ہوا تھا۔۔۔
یس سر۔۔۔
اٹس ارجنٹ میٹنگ۔۔۔ جلدی سے آفس پہنچو۔۔۔۔
اوکے سر۔۔۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا تھا اور فریش ہوا پھر جلدی سے تیار ہو کر آفس کے لیے نکلا تھا۔۔۔
وہ چاروں پھر سے سر جوڑے بیٹھے تھے انہیں خفیہ ذرائع سے پتہ چلا تھا کہ آج شام پھر سے لڑکیوں کو سمگل کیا جانا تھا دبئی میں___ تو ہمیں پہلے ان کے اڈے پہ پہنچنا ہے،،، ایڈریس ہمیں مل چکا ہے تو تم تینوں کو فوراً وہاں کے لیے نکلنا ہے ابھی۔۔۔۔
اور آج مجھے شابی اور بِلو دونوں چاہیے زندہ یا مردہ۔۔۔
گوٹ اٹ۔۔۔
اوکے سر ہم نکلتے ہیں پھر جلد ہی آپ کو خوشخبری سنائیں گے____
گڈ جاب۔۔۔ مجھے یہی سپرٹ آپ سب کا پسند آیا۔۔۔
آج ان شیطانوں کا خاتمہ کر کے لوٹنا۔۔۔
اللہ تم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔
اب وہ تینوں فاروق صاحب کے دیے گئے ایڈریس پر پہنچ چکے تھے بس کچھ دور کھڑے اپنے پلان کو دہرا رہے تھے جب دو لڑکیوں کو زخمی حالت میں مین روڈ کی طرف بھاگتے دیکھا تھا۔۔۔
حمزہ علی اور وجاہت کو وہییں چھوڑتا ان کے پیچھے بھاگنے کے انداز میں ان کے قریب پہنچا ہی تھا۔۔۔
ٹھاہ،،،،،،، وہاں گولی کی آواز گونجی تھی۔۔۔
اور بے یقینی کے عالم میں سب نے وہاں گرتے ایک وجود کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
شابی فون سن کر اندر آیا تھا لیکن وہاں علیشے کو نہ پا کر اس کے دماغ کا پارا ہائی ہوا تھا پھر اسے اپنی بیوقوفی پر غصہ آیا کہ دروازہ کھلا کیوں چھوڑ دیا۔۔۔۔
دوسرے کمرے میں اس کا گمان کرتے اس طرف گیا تھا لیکن وہاں بھی دونوں کو غائب پا کر اور کھڑکی کو کھلا دیکھ اس کا دماغ گھوما تھا۔۔۔ پھر وہ بپھرے شیر کی طرح دھاڑا تو سب جن کے بوتل کی طرح حاضر ہوئے۔۔۔
حرام۔۔۔۔۔(گالی) وہ غلاظت بکتا ان سب کے خون خشک کیے کھڑا تھا۔۔۔۔
ڈھونڈو ان چھوکریوں کو۔۔۔ اگر نہیں ملیں تو ایک ایک کو گولی سے اُڑا دوں گا۔۔۔۔
دفعہ ہو جاؤ سب زیادہ دور نہیں گئی ہوں گی۔۔۔۔
خود بھی اسی کھڑکی کے راستے سے باہر نکلا اور کتوں کی طرح ان کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔
ڈھونڈتے ہوئے وہ مین روڈ پر آیا تھا جب ان دونوں کی طرف آتے ایک نوجوان کو دیکھا تھا۔۔۔
بغیر کچھ سوچے سمجھے گولی چلا دی تھی کہ میرے کام نہیں آئی تو کسی کے کام نہیں آئیں گی۔۔۔
🙊
#Dont_Copy_Paste_Without_My_Permission 🔪🔪💣💣💣💣
نوٹ: ٹشو باکس پاس رکھنا سب🙊🙊
__________________________
گولی چلنے کی آواز پہ سب وہاں ساکت کھڑے تھے۔۔۔ حمزہ کے بروقت ایمن کو کھینچنے پر گولی حمزہ کے بازو کو چھو کر گزری تھی جبکہ ایمن کا توازن برقرار نہ رہنے کی وجہ سے وہ زمین بوس ہوئی تھی۔۔۔
وجاہت اور علی جو ساری کاروائی دیکھ رہے تھے جلدی سے ان کی طرف بھاگے۔۔۔۔۔ شابی جو گولی چلا کر وہاں سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا گلی کا موڑ مڑا تھا جب وجاہت نے اس پہ گولی کا نشانہ باندھا۔۔۔
گولی دائیں ٹانگ پر لگنے سے وہ نیچے گرا تھا لیکن جیسے ہی وجاہت اور علی وہاں پہنچے کسی کو نہ پا کر حیران رہ گئے۔۔۔
شٹ۔۔۔۔ یہ پھر نکل گیا ہاتھ سے۔۔۔
ابھی چھوڑو اس کو ہمیں حمزہ کو لے کر فوراً ہوسپٹل جانا چاہیے اس کو بعد میں دیکھ لیں گے۔۔۔ علی وجاہت سے بولا تھا۔۔۔
علیشے ایمن کے سرہانے بیٹھی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔ حمزہ نے جلدی سے اسے بازؤں میں بھرا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر احتیاط سے لٹایا۔۔۔ علیشے بھی پچھلی سیٹ پر ہی ایمن کا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھ گئی تھی۔۔۔
علی تم سب کو ہوسپٹل لے کے جاؤ میں یہاں سب کلئیر کر کے ہوسپٹل ہی جوائن کرتا ہوں تمہیں۔۔۔
وہ سب اب ہوسپٹل کے لیے نکل چکے تھے۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
ایک اندھیری کوٹھری میں ایک شخص کو رسیوں میں جکڑے بہت برے طریقے سے کھڑا کر کے باندھا گیا تھا۔۔۔
ٹانگ سے خون رس رس کر جم گیا تھا ،،، زخم پر کیڑے مکوڑے چڑھ چڑھ کر جیسے اپنی خوراک کھا رہے تھے۔۔۔
شدید درد کی لہر اٹھنے پر وہ شخص ہوش میں آتا،،، چیختا چلاتا اور پھر بے ہوش ہو جاتا۔۔۔
کوئی نہیں تھا وہاں جو اس پر رحم کھاتا۔۔۔
اللہ ظالموں کی رسی کو ڈھیلا چھوڑے رکھتا ہے لیکن جب کھینچتا ہے تو روح کانپ اٹھتی ہے___
اور پھر ان کو ایسی عبرتناک موت دیتا ہے کہ آنے والی نسلیں یاد رکھتی ہیں
وہ پھر سے ہوش میں آ کر چیخ و پکار کر رہا تھا جب اسے قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔۔وہ اور زور لگا کر چلایا تھا کہ کوئی تو اس کی مدد کرے گا ۔۔۔
پھر دروازہ کھلا تھا عجیب سی آواز پیدا کیے اور کوئی شخص اندر داخل ہوا تھا۔۔
بلیک کلر کی ہڈی پہنے،،،،منہ پہ رومال باندھے،،، ہاتھوں میں دستانے پہنے،،، بس اس کی آنکھیں نظر آ رہی تھیں،،، ایش گرے آنکھوں سے جیسے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔۔۔
سامنے والا تو اس کی آنکھوں کی دہشت سے ہی مزید مرنے والا ہو گیا تھا۔۔۔ پوچھنے کی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ کون تھا ،،،کیا چاہتا تھا،،، کیوں اسے یہاں لے کر آیا تھا۔۔۔ اسے بس اتنا یاد تھا یہ وہی شخص تھا جو اسے گولی لگنے کے بعد اس کے قریب کھڑا تھا اسی حال میں۔۔۔
رومان نے منہ سے رومال اتارا تھا۔۔۔
تم مجھے نہیں جانتے جانتا تو میں بھی نہیں تھا لیکن پھر بھی دشمنی ہو گئی ہے۔۔۔
جس پر تم نے گولی چلائی وہ میرا بھائی ہے۔۔۔۔
اور جس پر تم نے بری نظر رکھی تھی وہ میری زندگی ہے۔۔۔۔ رومان خان کا عشق ہے۔۔۔۔
رومان اس کے ارد گرد چکر لگاتا اسے سب بتا رہا تھا۔۔
میں چاہتا تو تمہیں وہیں ایک گولی اور مار کر قصہ ختم کر سکتا تھا لیکن نہیں۔۔۔
میں نہیں چاہتا تھا تمہاری یہ حسرت رہ جائے مرتے وقت کہ میں کون ہوں کیوں مارا تمہیں۔۔۔۔
اب تمہارا کھیل ختم ۔۔۔۔ میں تمہیں ایک گمنام موت دوں گا۔۔۔۔
یہ کہہ کر رومان نے اس کے ہر طرف پیٹرول چھڑکا اور آگ لگا دی۔۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ راکھ کا ڈھیر بن گیا تھا۔۔۔۔
فلیش بیک۔۔۔
رومان ہوسپٹل سے باہر نکلا ہی تھا جب اس نے اپنے ایک خاص آدمی کو کال کی تھی اور اسے بِلو کا سارا بائیو ڈیٹا نکالنے کو کہا تھا۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد اس کا فون بجا تھا تو اس نے سب بتایا تھا کہ کیسے اس نے بِلو دادا کا فون ٹریس کیا اور اس کی شابی کو کی جانے والی کال ریکارڈ کی تھی پھر اس لوکیشن کا پتہ نکال کر رومان کو سینڈ کیا تھا۔۔۔
لیکن رومان کے پہنچنے سے پہلے ہی حمزہ اور اس کے دوست وہاں پہنچے ہوئے تھے۔۔۔ حیران کن ہوتے اس نے ساری کاروائی اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی لیکن سامنے آنا مناسب نہیں سمجھا تبھی سہی وقت کا انتظار کرتے وہ شابی کو وہاں سے لے اڑا تھا۔۔۔۔
جو کل تک عزتوں سے کھیلتا تھا،،، بے دھڑک کسی کی بھی جان لے لیتا تھا،،،، آج وہ شخص کروڑوں کی مالیت رکھنے والا ایک گمنام موت مر گیا تھا۔۔۔۔
خس کم جہاں پاک۔۔۔۔
رومان اس کو موت کے گھاٹ اتار کر واپس ہوسپٹل کے لیے نکلا تھا۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
ہوسپٹل کے بیڈ پہ اسے ہوش آئی تھی اور آٹھتے ہی اس نے ادھر ادھر نگاہ دوڑاتے علیشے کو ڈھونڈنا چاہا تھا جب اسے پریشان دیکھ کر حمزہ اس کے سامنے آیا تھا۔۔۔
جسے دیکھ کر ایمن کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔۔۔
اس کے بازو پہ پٹی بندھی دیکھ اس کا دل دکھا تھا کہ اس نے خود کی پرواہ کیے بغیر کیسے اس کو لگنے والی گولی خود پہ لے لی تھی۔۔۔
سوں سوں کرتے اس نے پوچھا تھا۔۔۔
آ۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں نہ۔۔۔۔
آپ وہاں کیسے آۓ۔۔۔۔؟
حیران ہوتے اس نے پوچھا تھا۔۔۔
اگر آپ کی اجازت ہو تو یہاں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں آپ کو محسوس کرنا چاہتا ہوں کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں پتہ ہے اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میرا کیا ہوتا۔۔۔
میں تو شادی سے پہلے ہی رنڈوا ہو جاتا۔۔۔
وہ آہستہ آہستہ اس کے پاس بیٹھتا اس کی خفت مٹانے کو اوردھیان بٹانے کے لیے یہ باتیں شروع کر چکا تھا۔۔۔
اس کی آخری بات پہ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تھی اور اسکے گلے لگ گئی۔۔۔
جبکہ حمزہ تو ہق دق بیٹھا یہ ہضم کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ واقعی کیا ایمن نے اسے گلے لگایا تھا۔۔۔
یقین کرتے وہ بھی اس کے گرد اپنا مضبوط حصار باندھ گیا تھا۔۔۔ تو کیا میں پھر ہاں سمجھوں کہ آپ نے اس ناچیز کو قبول کر لیا ہے۔۔۔ وہ شرارت سے گویا ہوا تھا جب ایمن گڑبڑا کر پیچھے ہوئی تھی اور اپنی بے اختیاری پر شرمندہ بھی ہوئی۔۔۔
میں ماما اور بھائی کو بھیجوں گا اب رشتہ لے کر۔۔۔ یہ خان اب آپ کی دوری برداشت نہیں کر سکتا۔۔۔
سارے بدلے سود سمیت واپس لوں گا۔۔۔
وہ اس کی جان پر بنا رہا تھا جب مصنوعی غصے سے گھورتے اس نے اسے جانے کو بولا تھا اور دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گئی۔۔۔
لیکن اچانک یاد آنے پر اس نے علیشے کا پوچھا تھا۔۔۔ حمزہ نے ایک سرد سانس خارج کی اور اسے شازیہ بیگم کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ اسی ہوسپٹل میں ایڈمٹ ہیں اور علیشے ان کے پاس ہی ہے۔۔۔
علیشے ہوسپٹل میں بنے بینچ پہ بیٹھے زمان شاہ کے گلے لگے کب سے رو رہی تھی اور رومان پہلو پہ پہلو بدل رہا تھا اسے علیشے کے آنسو کب برداشت ہو رہے تھے تبھی وہ باہر کی طرف نکل گیا تھا کیونکہ ابھی وہ اس پہ کوئی حق نہیں رکھتا تھا کہ وہ اسے چپ کرواتا۔۔۔۔
راستے میں اسے حمزہ ملا جو رومان سے نظریں چرا رہا تھا کہ بازو پہ لگنے والی گولی پہ کیا بتاۓ گا،،، کہ کیسے لگی،،،
رومان ایک نظر اسے دیکھتے غصے سے آگے بڑھ رہا تھا جب حمزہ نے ہی ہمت کر کے آواز دی تھی۔۔۔
ب۔۔۔بھائی آپ ناراض ہیں مجھ سے،،، میں سب آپ کو بتاتا ہوں،،، وہ بھائی میں۔۔۔
گھر جا کر بات کریں گے اس پر۔۔۔ ابھی تم اچھے سے سوچ لو کوئی بہانہ۔۔۔۔
وہ سرد انداز میں اس کا کندھا تھپتھپاتا آگے بڑھ گیا۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
کافی دیر گزرنے کے بعد رومان کینٹین سے زمان شاہ اور علیشے کے لیے کچھ کھانے کو لایا تھا۔۔۔
علیشے نے تو صاف انکار کر دیا کہ جب تک اس کی ماما ٹھیک نہیں ہوں گی وہ کچھ نہیں کھاۓ گی پانی تک نہیں پیئیے گی۔۔۔۔
پاپا میں پرئیر روم جا رہی ہوں جلدی واپس آ جاؤں گی تب تک آپ اپنا خیال رکھنا۔۔۔
یہ کہہ کر وہ بغیر کسی کی طرف دیکھے پرئیر روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ پیچھے رومان کھڑا بے بسی سے بس اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔۔۔
ڈاکٹر اپنے روم سے باہر آیا تھا اور ان دونوں کی طرف بڑھا۔۔۔
شی از نو مور۔۔۔۔ وہ ان کا کندھا تھپتھپاتا اپنے کیبن کی طرف بڑھ گیا جبکہ زمان شاہ کو زلزلوں کی زد میں چھوڑ گیا۔۔۔۔
رومان نے بھی بے یقینی کے عالم میں زمان شاہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔
انکل سنبھالیں خود کو آپ۔۔۔ آپ ہمت ہار جائیں گے تو علیشے کو کون سنبھالے گا۔۔۔۔
علیشے کا سوچ کر اس کی آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے۔۔۔۔
چلیں گھر چلیں آپ علیشے کو لے آئیں۔۔۔۔
زمان شاہ پرئیر روم کے باہر کھڑے تھے جب علیشے باہر آئی
پاپا آپ یہاں۔۔۔۔۔ماما کیسی ہیں،،،، ٹھیک تو ہیں نہ وہ۔۔۔۔؟
ہوش آ گیا ان کو۔۔۔؟
آپ کچھ بتا کیوں نہیں رہے۔۔۔۔
میں خود جا کر دیکھتی ہوں۔۔۔۔
علیشے۔۔۔۔ درد بھری آواز میں زمان شاہ نے پکارا تھا اور روتے ہوئے اسے اپنے سینے میں چھپا لیا تھا۔۔۔۔
بیٹا ماما گھر چلی گئیں ہیں۔۔۔ آپ میرے ساتھ گھر چلو۔۔۔۔ وہ اسے کسی بھی سوال و جواب کا موقع دیے بغیر اسے لیے ہوسپٹل سے باہر نکلتے چلے گئے۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
دکھ دے بھانبھڑ چار چوفیرے۔۔۔۔
سکھ تیرا بس پیار نی مائیں۔۔۔۔
گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جو گھر پہلے خوشیوں کا گہوارہ تھا اب قبرستان کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔
علیشے کی تو جیسے دنیا اجڑ چکی تھی وہ گم صم سی کھڑی اب بھی اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں سے شازیہ بیگم کا جنازہ اٹھا تھا۔
ایک طرف زمان شاہ اپنی جان سے پیاری بیوی کے بچھڑنے پر غمزدہ تھے اور دوسری طرف علیشے کو دیکھ ان کا دل پھٹ رہا تھا ایک قیامت آئی تھی جو سب برباد کر گئی تھی۔
دھڑام کی آواز کے ساتھ علیشے کا وجود زمین پر گرا تھا
رومان جو زمان صاحب کے پاس بیٹھا ان کا غم کم کرنے کی تگ و دو میں تھا علیشے کو ہوش و خرد سے بیگانہ دیکھ اس کی روح فنا ہوئی تھی۔
رومان بھاگنے کے انداز میں اس تک پہنچنا اس کے پھولوں سے نازک وجود کو بازؤں میں بھرے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
حمزہ نے فون کر کے ڈاکٹر کو بلوایا تھا۔۔۔
وہ جیسے ہی مڑا ایمن کو روتے دیکھ اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔
ہیے، رو مت تمہاری دوست ٹھیک ہو جائے گی اور وہ روتے اس کے سینے میں منہ چھپا گئی تھی اور وہ اس کے گرد مضبوط حصار باندھ گیا تھا۔۔۔
💣💣💣
ڈاکٹر نے آ کر علیشے کو چیک کیا تھا اور نیند کا انجیکشن لگا کر ساتھ میڈیسن کی ڈسکرپشن رومان کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔۔۔
رومان ڈاکٹر کو چھوڑنے باہر تک آیا تھا جب بے چین ہو کر ڈاکٹر سے ایک دفعہ پھر پوچھا تھا،،
علیشے ٹھیک تو ہو جاۓ گی نہ،،، ٹینشن والی کوئی بات تو نہیں،،،
ڈاکٹر اس کی ایش گرے آنکھوں میں اتنی فکر دیکھ مبہم سا مسکرایا تھا۔۔
وہ بالکل ٹھیک ہو جائے گی ینگ مین___
بس زیادہ سٹریس کی وجہ سے ان کا بی پی شوٹ کر گیا تھا،، صدمہ بھی تو بہت بڑا ہے نہ،،، کچھ ٹائم لگے گا اسے نارمل ہونے میں،،، لیکن سب کی توجہ پیار محبت سے وہ جلدی بھی نارمل ہو سکتی ہے۔۔۔
ڈاکٹر پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پہ سجاۓ اسے تسلی دیے چلا گیا۔۔۔۔
رومان کی حالت بھی قابل رحم ہی تھی،،، وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔ اس کا درد نہیں بانٹ سکتا تھا۔۔۔
زرینہ بیگم بھی آئی تھیں علیشے سے مل کر تھوڑی دیر بیٹھ کر کمر کے درد کی وجہ سے حمزہ کے ساتھ واپس چلی گئی تھیں۔۔۔۔ لیکن رومان کو علیشے اور زمان شاہ کا خیال رکھنے کی تاکید کرنا نہیں بھولیں___
ایمن بھی گھر سے کال آنے کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے صبح آنے کا کہہ کر چلی گئی___وہ واپس کمرے میں آیا تھا جہاں زمان شاہ علیشے کے سرہانے بے بسی سے بیٹھے نڈھال سے تھے۔۔۔۔
رومان نے آگے بڑھ کر ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی تھی۔۔۔۔۔
زمان شاہ کچھ سوچتے وہاں سے علیشے پہ کمفرٹر درست کرتے اٹھے اور رومان کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتے وہاں سے باہر آ گئے۔۔۔۔
باہر آ کر لاؤنج میں وہ صوفے پہ بیٹھے تھے۔۔۔
دو دن میں ہی کیا سے کیا ہو گیا تھا۔۔۔۔
زمان شاہ کو اپنے اعصاب شل ہوتے محسوس ہوئے تھے۔۔۔۔
لیکن انہوں نے پھر رومان سے بات کا آغاز کیا تھا۔۔۔
رومان میں چاہتا ہوں تم علیشے سے نکاح کر لو۔۔۔۔
اس کے لیے ایک مظبوط سائبان بن جاو۔۔۔۔
شازیہ بیگم کے جانے کے بعد میں اکیلا اسے سنبھال نہیں پاؤں گا۔۔۔۔ اور میری زندگی کا بھی کیا بھروسہ۔۔۔۔ ڈرتا ہوں میرے بعد علیشے کا کیا ہو گا۔۔۔
یہ ایک باپ کی تم سے التجا ہے۔۔۔۔
زمان شاہ نے اپنے دونوں ہاتھ بے بسی سے رومان کے سامنے جوڑے تھے۔۔۔ جس پر رومان نے تڑپتے ہوۓ ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔۔۔۔
انکل آپ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔۔۔۔
میں علیشے سے نکاح کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔
آپ جب کہیں گے میں بارات لے آؤں گا۔۔۔
بس آپ بے فکر رہیں اور خیال رکھیں__ علیشے کو بے سنبھالنا ہے ابھی آپ نے۔۔۔۔۔
اس جمعے نکاح کی تقریب رکھ لیتے ہیں پھر میں جلد سے جلد علیشے کو تمہیں سونپنا چاہتا ہوں___
(ایسا بھی وہ بِلو کے ڈر کی وجہ سے کر رہے تھے کہ دوبارہ ان کی بیٹی پہ کوئی آنچ نہ آۓ۔۔۔۔اپنا ڈر وہ بتا بھی نہیں پا رہے تھے۔۔۔۔)
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
وجاہت نے اس ایرے کا اچھے سے جائزہ لیا تھا۔۔۔ ایک دو بندوں کو پکڑا تھا تاکہ دونوں دشمنوں کا پتہ لگایا جائے کہ وہ کہاں چھپ کر بیٹھے ہیں___اور اس جگہ کو بمب سے اڑا کر قصہ ہی ختم کر آیا تھا۔۔۔۔
ان بندوں کے لیے وجاہت ہی کافی تھا اس نے کافی زور آزمائی کے بعد ان کے منہ کھلوا ہی لیے تھے۔۔۔ اب وہ ان کو وہیں پھینکتا علی کے اپارٹمنٹ میں اس کے پاس پہنچا تھا کہ اس کے ساتھ مل کر ان کا پتہ صاف کر سکے۔۔۔۔ حمزہ کو اس کی طبیعت کا سوچتے انہوں نے بے خبر رکھنا ہی مناسب سمجھا تھا۔۔۔۔
حمزہ جو علی سے ہی ملنے کی غرض سے اس طرف آیا تھا ایک تو یہ کیس اب اس کی وبال جان بنتا جا رہا تھا دوسرا وہ اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ان سے شئیر کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
دروازہ نوک کرنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا جب وہ خود ہی کھل گیا۔۔۔ وجاہت کے آنے پہ علی نے یونہی دروازہ کھلا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔
اندر آتے ہی اس نے دونوں کو گھورا اور ایک ایک جھانپڑ رسید کیا تھا کہ وہ کیسے اسے اس کیس سے نکال سکتے تھے جس کے لیے اتنی محنت کی تھی____
پھر وہ تینوں اس ایڈریس پر پہنچنے کے لیے نکلے جو شابی کے بندوں نے بتایا تھا۔۔۔۔
کہاں گیا وہ حرام۔۔۔۔۔(گالی) ،،، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا،،،، مجھ سے دو نمبری کر گیا،،، ابھی جانتا نہیں وہ بِلو دادا کس بلا کا نام ہے،،،، ہر جگہ ہر اڈا چھان مارو مجھے وہ زندہ یا مردہ چاہیے،،،، بِلو دادا پاگلوں کی طرح ان پہ دھاڑ رہا تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ خود شابی کی بوٹی بوٹی کر کے کتوں کے آگے ڈال دے،،،، جو اس کی منظور نظر کو لے اڑا تھا،،،،
سب کو بھیج کر اب وہ سکون سے سگریٹ پھونکنے بیٹھ گیا،،، وہ تینوں جو اس وقت پہنچے تھے جب وہ اپنے ہی غنڈوں پر دھاڑ رہا تھا،،،، چھپ کر سیچوئیشن کو سمجھ رہے تھے۔۔۔ جب وہ خود ان کا کام آسان کر رہا تھا تو انہیں رکنا ہی مناسب لگا،،،، ان کا مین ٹارگٹ تو بِلو اور شابی ہی تھے باقی یہ چھوٹے موٹے کراۓ کے غنڈوں کو پکڑنا تو ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔۔۔۔۔
حمزہ اب وہاں سے نکل کر بِلو کے سامنے آ بیٹھا تھا،،،،
کیا بِلو دادا اکیلے اکیلے کش لگا رہے ہو چلو میں تمہیں کمپنی دیتا ہوں۔۔۔۔ وہ پراسرار سی مسکراہٹ لبوں پہ سجاۓ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔
جب اچانک بِلو نے اٹھ کر حمزہ پہ وار کرنا چاہا تھا لیکن حمزہ تک پہنچنے سے پہلے ہی علی اور وجاہت اسے دبوچ چکے تھے۔۔۔۔
وہ چاہتا تو ایک ہی فائر سے اسکا کام تمام کر دیتا لیکن وہ اسے کچھ پل تو اذیت سے دو چار کروانا چاہتا تھا،،، تبھی سگریٹ جلا کر اس کے مخصوص حصوں کو حمزہ نے جلانا شروع کیا تھا،،، بہت شوق ہے نہ تمہیں ایک ریپیسٹ بننے کا،،،لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنانے کا،،، میں تمہیں ایسی درد ناک موت دوں گا کہ تیری روح کانپ اٹھے گی،،،،
حمزہ نے علی اور وجاہت کو مخصوص اشارہ کیا تھا جس پر عمل کرنے کے لیے انہوں نے پہلے اسے کرسی پر باندھا تھا،،، پھر پیٹرول چھڑکا تھا،،،، حمزہ نے اسکے ہی پڑے لائٹر کو اٹھا کر اس سے آگ لگائی تھی،،، اس کی چیخوں سے عجیب وحشت زدہ سا ماحول بنا تھا۔۔۔۔
جب وہ آدھا جل چکا تب پانی گرا کر خود ہی آگ بجھا دی،،، اب بتا تیرا ساتھی وہ شہباز چوہدری کدھر ہے،،، سچ بولنا ورنہ یہ تو بس ٹریلر تھا۔۔۔۔۔
اس نے اٹکتے اٹکتے اس دن کا واقعہ بتا دیا تھا،،، پھر حمزہ نے اس کے ادھ جلے وجود میں سے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کو کاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔ تکلیف کی شدت کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ وہیں دم توڑ گیا تھا۔۔۔۔ باقی اس کے غنڈوں کے لیے اسے عبرت کا نشان بنا کر چھوڑ گئے تھے۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
رومان نے گھر آتے ہی زرینہ بیگم سے بات کی تھی۔۔۔جس پر وہ ایگری بھی کر گئی___
زمان شاہ سے بات کر کے انہوں نے اگلے جمعہ کا دن نکاح کے لیے رکھ لیا تھا۔۔۔۔
وہ یہی سب ڈسکس کرتے بیٹھے تھے جب حمزہ کی اینٹری ہوئی تھی اور وہ دھپ سے آ کر صوفے پہ گرا تھا۔۔۔۔
زرینہ بیگم اٹھ کر چلی گئی تھی جس پر حمزہ نے حیران ہو کر دیکھا تھا۔۔۔ بھنویں اچکا کر جیسے رومان سے پوچھنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بھی بے سود۔۔۔ وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چل دیا۔۔۔ وہ حیران پریشان سا ادھر ہی بیٹھا رہ گیا۔۔۔۔ جیسے اب میں نے کیا کیا۔۔۔؟؟
سب سے پہلے وہ اٹھ کر زرینہ بیگم کے کمرے میں آیا تاکہ انہیں منا سکے۔۔۔
ہیے،، بیوٹیفل مام۔۔۔۔ کیا ہوا کیوں ناراض ہیں آپ مجھ معصوم سے۔۔۔۔؟ مسکین سی شکل بنا کر پوچھا گیا۔۔۔
حمزہ تمہیں گولی کیسے لگی،،، تم کیا کرتے پھر رہے ہو بتاؤ مجھے،،، ہوسپٹل میں تو میں کچھ پوچھ نہیں سکی اب بتاؤ،،، اگر کچھ ہو جاتا تمہیں تو،،،،
مام کچھ ہوا تو نہیں نہ،،،، آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں مجھے کچھ نہیں ہو سکتا جب تک آپ کی دعائیں میرے ساتھ ہیں____
اور اب تک تو میری شادی بھی نہیں ہوئی،،،،میری شادی کروا دیں نہ،،، زرینہ بیگم اپنے بیٹے کو دیکھ حیران ہوئی تھیں کہ کتنی بےباکی سے وہ اپنی ماں کے سامنے اپنی شادی کے رونے رو رہا تھا۔۔۔۔۔
پہلے تو بیٹا جی اپنے کرتوت ٹھیک کرو،، پڑھائی کمپلیٹ کرو اپنی اچھی سی نوکری کرو،،، پھر سوچیں گے آپ کی شادی کا،،،، زرینہ بیگم نے صاف ہری جھنڈی دکھائی تھی،،،،
جس پر وہ دل مسوس کر رہ گیا تھا۔۔۔۔
اور ہاں اگلے جمعہ رومان کا نکاح ہے تو کہیں ادھر ادھر نہ ہو جانا،،، تم نے ساری تیاریوں میں ہاتھ بٹانا ہے،،،،
اوکے مائی ڈئیر مام،،،، لو یو سو مچ
اب آپ ناراض تو نہیں ہیں نہ۔۔۔۔ زرینہ بیگم نے نہ میں سر ہلاتے اسے اپنے قریب بلایا اور ماتھا چوم ڈالا تھا۔۔۔۔
اوہوو۔۔۔۔ بھابھی کے خیالوں میں گم ہے کوئی،،،،
حمزہ رومان کے کمرے میں آیا تھا جو ناجانے کن سوچوں میں گھرا تھا کہ حمزہ کا آنا نوٹ نہیں کر پایا تھا۔۔۔
رومان نے مصنوعی گھوری سے نوازا تھا اسے۔۔۔
بھائی آپ ناراض ہیں۔۔۔۔۔؟؟
میں آپ کو سب بتانے۔۔۔۔۔۔۔۔
رومان نے اس کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی ہاتھ کے اشارے سے اسے وہیں روک دیا تھا۔۔۔۔
میں سب جانتا ہوں بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
بھائی آپ کو کسے۔۔۔۔۔
علی اور وجاہت سے سب پوچھ چکا ہوں۔۔۔
آئی ایم پراؤڈ آف یو مائی سن۔۔۔۔
بس دکھ ہے کہ تم نے مجھ سے شئیر نہیں کی یہ بات۔۔۔۔
چھپایا تو پھر آپ نے بھی ہے بھائی۔۔۔
حمزہ بھی کونسا کم تھا،،، جب رومان کسی سے فون پہ بات کرتے وقت اسے اس اڈے کو بھی ختم کرنے کا،کہہ رہا تھا جہاں شابی کو جلایا تھا،،، حمزہ سن چکا تھا۔۔۔۔
تبھی بِلو دادا اور شابی دادا کے انجام کو پہنچنے کے بعد وہ فاروق صاحب کو سب ڈیٹیل دے کر اس کیس کو ختم کر آۓ تھے۔۔۔۔۔
رومان نے آنکھوں میں حیرت لیے اس کی کارستانی سنی تھی،،،، جب حمزہ آنکھ دباتا وہاں سے دم دبا،کر بھاگا تھا ۔۔۔۔۔
💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙💙
آخرکار وہ دن بھی آ پہنچا تھا جس کا رومان کو بے صبری سے انتظار تھا۔۔۔۔
علیشے نے تو کافی رونا مچایا تھا کہ وہ ابھی یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی،،،، وجہ صرف اپنے بابا سے دوری کی تھی لیکن ان کے ہی ہاتھ جوڑنے پر وہ چپ ہو گئی تھی۔۔۔ماں کے بعد اب وہی تو اس کی کل کائنات تھے،،،،
فنکشن شاہ ولا کے لاؤنج میں ہی چھوٹا سا منعقد کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
نکاح کی تقریب پر سب قریبی لوگ شامل ہوئے تھے ، رومان کی تو خوشی کا مانو کوئی ٹھکانا ہی نہیں تھا آخر کو اپنی محبت کو جو پا لیا تھا ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں مولوی صاحب بھی تشریف لائے اور سب بڑوں کی موجودگی میں علیشے کو ہمیشہ کے لئے رومان کے نام لکھ دیا گیا تھا ، مولوی خیر خیریت سے نکاح پڑھوا کر جاچکے تھے ۔۔" "
اب سب تصویریں اور کھانے پینے میں مصروف تھے ۔۔۔
ایمن بھی سب سے الگ بیٹھی کھانے میں مصروف تھی دنیا جہان کو بھلائے پر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایمن کو حمزہ تنگ کئے بنا رہ سکے پورے فنکشن تو اتنظار کیا تھا حمزہ نے کے کسی طرح ایمن اسے اکیلے میں ملے،،،، آج وہ لگ بھی تو بہت حسین رہی تھی،،،، اب جب وہ قدرے دور بیٹھی تھی سب سے حمزہ سینا چوڑا کرتے اس کے سر پر جا پنہچا ۔۔" "
بس کردو کتنا کھاؤ گی،،، شادی سے پہلے ہی موٹی ہو جاؤ گی۔۔۔۔ ایمن نے ہونقوں کی طرح اسے دیکھا تھا
تو تمھیں کیا اس سے ہاں ، مرضی میری میرا جتنا دل کرے گا اتنا کھاؤ گی تم ابھی سے طعنے دے رہے ہو مجھے۔۔۔۔لگتا مجھے ایک دفعہ اور سوچنا پڑے گا تم سے شادی کے لیے،،،، ایمن نے تیزی سے کھاتے ہوئے حمزہ کو ٹکا سا جواب دیا ۔۔
تم خود بندری ، چپکلی ، بکری ، موٹی ، کدو ۔۔۔۔
ایمن کا تو مارے صدمے کے منہ کھل گیا تھا،،، حمزہ نے لحاظ جو نہیں رکھا تھا۔۔۔۔۔
سچی بات ہمیشہ کڑوی لگتی اور اس وقت ۔۔۔۔۔
اچھا اچھا جارہا ہونا،،،،،، حمزہ نے ایمن کو ہیل اتارتے ہوئے دیکھا تو جلدی سے کہتا وہاں سے بھاگا ۔۔۔
ڈر پوک بندر ۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے ایمن کا قہقہ بلند ہوا۔۔۔۔
تھوڑے وقت بعد دعاؤں کے بیچ علیشے کو رومان کے ساتھ رخصت کردیا گیا ۔۔ "
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Dil E Nadan Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dil E Nadan written by Ayma Mughal .Dil E Nadan by Ayma Mughal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment