Yaar E Man Sitamgar Season 2 By Faryal Khan Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday, 7 December 2024

Yaar E Man Sitamgar Season 2 By Faryal Khan Complete Romantic Novel

Yaar E Man Sitamgar Season 2  By Faryal Khan Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Yaar E Man Sitamgar Season 2  By Faryal Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name:Yaar E Man Sitamgar 

Writer Name: Faryal Khan

Category: Complete Novel

اس کا پہلا حصہ انصاف اور رشتوں کے ساتھ ساتھ لو ٹرائینگل پر مبنی تھا۔

جب کہ دوسرے یعنی اس حصے میں آپ کو تھرل، کامیڈی، آفٹر میرج رومانس، اور بہت سارا سسپنس ملے گا۔

ایک بات میں آغاز میں ہی کلئیر کرنا چاہوں گی کہ یہ کوئی اصلاحی ناول نہیں ہے پاپولر فکشن ہے۔

ہاں لیکن اس کے ڈائلوگز اور صورت حال ضرور آپ کو کچھ نا کچھ سکھا جائیں گی اور اسے پڑھنا آپ کیلئے ایک اچھا تجربہ ثابت ہوگا۔


فریال خان!


*****************************************


جینز پر چیک والی شرٹ پہنے، دیوار سے ٹیک لگائے، نیم بےہوشی کی حالت میں بیٹھا وہ قریب ستائیس، اٹھائیس سالہ لڑکا تھا جو غالباً کل سے اس تنگ و بوسیدہ کمرے میں بند تھا جہاں کافی سارا کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔

روشنی اور ہوا کیلئے کافی اوپر محض ایک روشن دان تھا جس سے اس وقت باہر جلتی لائٹ کی روشنی اندر آرہی تھی کیونکہ باہر رات ہوچکی تھی۔

بھوک و پیاس سے اس کا برا حال تھا۔ اور اس کے جسم پر لگی چوٹیں بتا رہی تھیں کہ اسے بری طرح پیٹا گیا تھا۔

وہ یوں ہی حال سے بےحال بیٹھا تھا کہ تب ہی لوہے کا دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ یکدم ہوش میں آیا۔

اندر آنے والا شخص اس کے پاس پہنچا تو وہ بھی اسے گھبرائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے دیوار کے سہارے کھڑا ہوگیا۔

”مجھے جانے دو پلیز!“ اس نے آنے والے سے منت کی۔

”جو کچھ بھی میں نے دیکھا میں کسی کو اس بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا، پلیز مجھے جانے دو پلیز!“ اس نے یقین دہانی کراتے ہوئے آخر میں ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگی۔

مگر اس کے مقابل کھڑے بےرحم انسان پر زرہ برابر اثر نہیں ہوا اور اگلے ہی پل اس نے ہاتھ میں پکڑی گن اس کی جانب کرکے اس کا ٹریگر دبا دیا جس کے باعث پورا کمرہ زور دار فائر کی آواز سے گونج اٹھا۔


*****************************************


گھنی پلکوں کی جھالر والی بند آنکھیں پٹ سے کھلیں تو کالی آنکھوں میں خاصی گھبراہٹ نظر آئی۔ اور اسی گھبراہٹ کے زیر اثر وہ اٹھ بیٹھی۔

وہ ایک پچیس، چھبیس سالہ دلکش لڑکی تھی جو اچانک نیند سے بیدار ہوکر اٹھ بیٹھی تھی۔

اس نے گہرے نیلے رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنا ہوا تھا۔

کمر سے ذرا اوپر آتے کتھئی ڈائی شدہ بالوں کی گدی پر نہایت ڈھیلی سی پونی بنائی ہوئی تھی جب کہ ماتھے پر سفید پٹی بندھی ہوئی تھی۔

بیڈ پر سیدھے رکھے دونوں پیروں میں سے دائیں پیر پر انگلیوں سے لے کر گھٹنے سے ذرا نیچے تک پلاستر چڑھا ہوا تھا۔ غالباً وہ کسی حادثے کی زد میں آنے کے بعد اب زیر علاج تھی۔

”نوری!“ اس نے درمیانی آواز سے پکارا۔

تھوڑی دیر بعد ملازمہ بوتل کے جن کی مانند حاضر ہوگئی گویا ایک لمحے کی بھی دیری ہوئی تو اس کی نوکری چلی جائے گی!

”جی بی بی جی؟“

”مجھے باہر ہال میں لے چلو، یہاں گھبراہٹ ہو رہی ہے۔“ اس نے نقاہت آمیزی سے گزارش کی۔

نوری نے اثبات میں سرہلایا اور سائیڈ پر رکھے Crutches (بیساکھی) لے کر اس کے پاس آئی۔

وہ نوری کے سہارے کھڑی ہوئی۔ ایک بازو میں بیساکھی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے نوری کے سہارے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ کمرے سے باہر ہال کی جانب بڑھی۔


*****************************************


یہ منظر ایک خالی کمرے کا تھا جہاں بیچ و بیچ ایک کرسی کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

اس کرسی پر ایک شخص کو رسی سے باندھ کر بٹھایا گیا تھا جو بہت زیادہ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔

تب ہی باہر سے گارڈ نے دروازہ کھولا اور ایک کنارے پر ہوگیا۔

جینز، ٹی شرٹ کے ساتھ جیکٹ پہنے مردانہ وجاہت کا پیکر بابِک ملک شانِ بےنیازی سے اندر داخل ہوا جس کے پیچھے دو مصلحہ گارڈ بھی تھے۔

آنکھوں پر سے سن گلاسسز اتارتے ہوئے بابِک سیدھا کرسی پر بندھے اس شخص کے مقابل آکر رکا جو سر اٹھائے خوف زدہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”کالم نگار تنویر احمد؟ رائٹ؟“ بابِک نے گلاسسز شرٹ پر اٹکاتے ہوئے تائید چاہی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟“ اس نے بمشکل زبان کھول کر سوال پوچھ ہی لیا۔

”ابھی بتاتا ہوں۔“ بابِک نے کچھ مانگنے کے انداز میں اپنا ہاتھ سیدھا کیا تو پیچھے موجود گارڈ نے اس کے ہاتھ میں ایک اخبار تھما دیا۔

”یہ کالم تم نے ہی لکھا ہے ناں؟“ بابِک نے اخبار اس کی نظروں کے سامنے کیا جسے وہ بغور دیکھنے لگا۔

”یہ کالم مُلک میں بڑھتی سفارشات کے حوالے سے ہے کہ سرکاری عہدوں پر فائز اکثریت میرٹ کے بجائے سفارشات کی بدولت موجود ہے، ایسا ہی ہے ناں؟“ بابِک نے خود ہی کہتے ہوئے پھر تصدیق چاہی۔

”ج۔۔۔جی!“ اٹکتا ہوا جواب ملا۔

”تو اس میں میرے بھائی کا نام کیوں لیا؟“ اگلے ہی بل بابِک اتنی زور سے دھاڑا کہ تنویر سرتاپا لرز گیا اور اس کی آواز خالی کمرے میں گونج کر مزید ہیبت ناک لگی۔

”بتاؤ؟ کیا تمہارے پاس کوئی ثبوت اور گواہ ہے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اِحرار ملک میرٹ نہیں سفارش کی وجہ سے آئی او بنا ہے؟“ اس نے سختی سے دریافت کیا۔

”سر۔۔۔ہمارے مُلک میں سفارش کا ریشو بہت بڑھ گیا تو میں نے بس۔۔۔۔۔بس مثال دینے کیلئے ان کا نام لکھ دیا۔“ اس نے خشک ہوتے حلق کے ساتھ وضاحت دینے کی کوشش کی۔

”بھاڑ میں گیا ریشو، میرا سوال بس اتنا ہے کہ میرے بھائی کے بارے میں تو نے اتنی بڑی بات لکھی کیسے؟“ بابِک نے دانت پیس کر کہتے ہوئے اس کا جبڑا دبوچ لیا۔

”مانا کہ صحافت آزاد ہے لیکن بنا کسی ثبوت یا گواہ کے کسی کے کردار پر انگلی اٹھانے کی آزادی اور حق کسی کے پاس نہیں ہوتا، اپنے عہدے کا اتنا غلط استعمال نہ کرو کہ سزا برداشت سے باہر ہوجائے۔“ اس کی گرفت مزید سخت ہوئی جب کہ آنکھوں میں بھی طیش اترا ہوا تھا۔

”سوری سر۔۔۔غلطی ہوگئی۔“ وہ اور زیادہ ڈر گیا۔

”غلطی ہوگئی ہے تو اسے سدھارو!“ اس نے جھٹکے سے جبڑا چھوڑا۔

”کل کی تاریخ میں، اسی اخبار کے، اسی پیج پر، اس بات کی تردید کے ساتھ مجھے تمہاری طرف سے معافی نامہ چاہیے۔“ اس نے حکم جاری کیا۔

”اور اگر ایسا نہیں ہوا تو پرسوں اسی اخبار کے فرنٹ پیج پر تیری موت کی خبر چھپی ہوگی، آئی سمجھ؟“ اس نے حکم کے ساتھ دھمکی بھی دے ڈالی۔

”جی سر۔۔۔۔میں۔۔۔۔میں ایسا ہی کروں گا۔“ اس نے جلدی سے سر ہلایا۔

بابِک ایک قہر الود نگاہ اس پر ڈال کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ جب کہ تنویر کی حالت ایسی تھی جیسے موت کا فرشتہ دیکھ لیا ہو!

بابِک جوں ہی باہر آیا تو جیکٹ کی جیب میں موجود موبائل گنگنا اٹھا۔ جسے اس نے جیب سے نکال کر کان سے لگایا۔

”جی انسپیکٹر صاحب؟“ وه کال سنتے ہوئے کاریڈور سے گزرنے لگا۔

”اچھا آپ پہنچ گئے۔۔۔۔گڈ۔۔۔۔بس وہیں رکیں میں تھوڑی دیر میں آیا۔“ اس نے مختصر بات کرکے لائن ڈسکنیکٹ کرنے کے ساتھ قدموں کی رفتار بھی مزید بڑھا دی۔


*****************************************


”کیا ہوا نِہرین بیٹا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟“ ہال میں موجود فریدہ نے نوری کے سہارے نِہرین کو آتا دیکھ کر پوچھا جو خود وہیل چیئر پر بیٹھی تسبیح پڑھ رہی تھیں۔

”جی آنٹی، بس اکیلے کمرے میں دل گھبرا رہا تھا اسی لئے باہر آگئی۔“ اس نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے جواب دیا اور پھر نوری کی مدد سے وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔

”تھینکس! اب تم جا سکتی ہو۔“ نِہرین کے کہنے پر وہ وہاں سے چلی گئی۔ جب کہ فریدہ بھی ہاتھ سے وہیل چیئر چلاتی اس کے پاس آگئیں۔

”کہیں درد وغیرہ تو نہیں ہے؟ اگر ہے تو بتاؤ میں بابِک کو فون کر دیتی ہوں۔“ انہوں نے نرمی سے دریافت کیا۔

”ارے نہیں نہیں آنٹی، کہیں درد نہیں ہے، آپ انہیں ڈسٹرب نہ کریں، وہ ویسے ہی میرے لئے بہت پریشان رہتے ہیں۔“ فوری نفی کرتے ہوئے آخری جملا آہستگی سے کہتے اس نے نظریں جھکالیں۔

”ہاں تو اسی کی غلطی کی وجہ سے تم حالت کو پہنچی ہو تو پریشان ہونا بنتا بھی ہے۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے یاد دلایا۔

”ان کی غلطی نہیں تھی، میری ہی قسمت خراب ہے جو معاملات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔“ وہ افسردگی سے اپنا ناخن کھرچنے لگی۔

وہ چند لمحے اسے دیکھتی رہیں اور جیسے ہی بولنے کیلئے لب کھولے تو بابِک وہاں آگیا۔

”نِہرین! آپ ٹھیک تو ہیں؟“ بابِک نے قریب آتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا جس کے ساتھ ایک باوردی پولیس والا بھی تھا۔

”جی جی میں ٹھیک ہوں تب ہی تو یہاں بیٹھی ہوں، ورنہ دو ہفتے سے کمرے کی ہی ہوکر رہ گئی تھی۔“ اس نے تسلی دینی چاہی۔

بابِک قریب آکر ذرا فاصلے پر رک گیا تھا جب کہ پولیس والا پیچھے ہی کھڑا ہوگیا۔

”یہ تو بہت اچھی بات ہے، ڈاکٹرز نے بھی کہا تھا کہ ماشاءاللہ آپ جلدی ریکور کر رہی ہیں۔“ اسے بھی اطمینان ہوا ہے۔

”یہ پولیس یہاں کیوں آئی ہے بابِک؟“ فریدہ نے سوال کیا تو بابِک کو بھی اصل مدعہ یاد آیا جو وہ نِہرین کی فکر میں بھول گیا تھا۔

”یہ سب انسپیکٹر عُمیر ہیں، انھیں اِحرار نے بھیجا ہے تا کہ یہ نہرین کے گمشدہ سامان کی کمپلین درج کرلیں، باقی اِحرار جب اپنے ہنی مون ٹرپ سے واپس لوٹے گا تو آگے کے معاملات وہ دیکھ لے گا۔“ اس نے وضاحت کی تو انھیں تسلی ہوئی۔

”ہم نِہرین کی حالت بہتر ہونے کا ہی انتظار کر رہے تھے، اب آپ انھیں ساری تفصیل بتا سکتی ہیں ناں نِہرین؟“ بابِک نے کہتے ہوئے اس سے پوچھا۔

”شیور!“ اس نے سرہلایا۔

بابِک کے کہنے پر انسپیکٹر ایک صوفے پر بیٹھا اور اپنے ہاتھ میں موجود فائل میز پر رکھ کر کھول لی۔ بابِک بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔

”شروع سے ساری تفصیل بتائیں میڈم! آپ کا نام، آپ کا فیملی بیک گراؤنڈ وغیرہ!“ انسپیکٹر نے کہتے ہوئے پین کا کیپ کھولا۔

”میرا نام نِہرین (Nehreen) آفندی ہے، میں پاکستان میں ہی پیدا ہوئی تھی لیکن جب میں دس سال اور میرا بھائی ارسلان بارہ سال کا تھا تو ہماری مما کی ڈیتھ کے بعد پاپا ہمیں لے کر نیو یارک شفٹ ہوگئے، ہم زیادہ امیر لوگ نہیں تھے، پاپا وہاں ایک اسٹور پر جاب کرتے تھے اور ہم دونوں بھائی بہن پڑھ رہے تھے، جب ہم بڑے ہوئے تو ہم دونوں بھائی بہن نے مل کر پاپا کا ہاتھ بٹانے کیلئے ایک چھوٹی سی بیکری کھول لی۔

سب اچھا چل رہا تھا کہ ایک حادثے میں پاپا بھی ہمیں چھوڑ کر چلے گئے، ہم دونوں بھائی بہن بہت اکیلے ہوگئے۔ کیونکہ پاکستان چھوڑتے وقت پاپا یہاں سے سارے رشتے بھی ختم کر گئے تھے اسی لئے ہمیں اپنے کسی رشتے دار کے بارے میں بھی نہیں پتا تھا۔ پاپا کے جانے کے بعد صرف بیکری سے گزارا مشکل ہوگیا کیونکہ ہمارا گھر رینٹ کا تھا۔

تب ہی ارسلان کو اس دوران شارٹ کٹ سے پیسے کمانے کی دھن سوار ہوگئی۔ پتا نہیں وہ کن لوگوں سے مل کر؟ کن کاموں میں لگا ہوا تھا؟

ایک دن اس نے مجھے کہا کہ وہ کسی کام سے پاکستان جا رہا ہے اور جب وہ واپس لوٹے گا تو ہمارے سارے مسلے حل ہوجائیں گے، پھر ہمیں پیسوں کی کوئی تنگی نہیں ہوگی، میں نے اسے بہت روکا مگر اس نے میری ایک نہ سنی، وہ چلا گیا۔

شروعات میں ایک دو بار اس نے فون کیا مگر کچھ بتایا نہیں کہ کہاں ہے یا کیا کر رہا ہے؟ بس کہا میں پریشان نہ ہوں!

یوں ہی دو مہینے گزر گئے اور اس کی کوئی خبر نہ آئی۔ میری پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ اوپر سے فائینینشل پریشر!

تو آخر کار میرے پاس جو تھوڑی بہت سیونگ تھی وہ لے کر میں بھی پاکستان آگئی کہ خود ہی اپنے بھائی کو ڈھونڈوں گی، میرا بھائی تو مجھے نہ ملا مگر ایک ٹیکسی والا میرا سارا سامان لے کر فرار ہوگیا۔

انجان جگہ پر میں بالکل اکیلی تھی، نہ میرے پاس پیسے بچے تھے اور نہ ہی میں یہاں کسی کو جانتی تھی اسی لئے اپنی قسمت کو روتی سڑکوں پر گھوم رہی تھی۔

تب ہی وہاں بابِک کی گاڑی آتی نظر آئی۔ ایک امید کے تحت میں نے ان سے مدد مانگنی چاہی مگر ان کے بر وقت بریک نہ لگانے کی وجہ سے میں گاڑی کی زد میں آگئی اور تب سے اب تک یہیں ان کے گھر پر ہوں۔“

اس نے تاسف سے آہستہ آہستہ اپنی ساری آپ بیتی سنائی جو پھر سے اس کے ذہن میں تازہ ہوکر اس کا دل چھلنی کرنے لگی کہ یہ صرف لفظ نہیں تھے۔ اس پر بیتی خاموش قیامت تھی جو اس نے اکیلے جھیلی تھی۔

جب کہ بابِک اور فریدہ کو بھی دوبارہ یہ سب سن کر اس کیلئے افسوس ہوا۔ اب نِہرین کافی حد تک خود کو سنبھال چکی تھی ورنہ جب پہلی بار نِہرین نے ان لوگوں کو اپنے بارے میں بتایا تھا تب تو وہ قاعدہ رو پڑی تھی۔

”آپ کو کسی پر کوئی شک ہے اپنے بھائی کی گمشدگی کے حوالے سے؟“ انسپیکٹر نے کاغذ پر چلتا پین روک کر سوال کیا۔

”نہیں، وہ کس سے ملتا تھا؟ کیا کرتا تھا؟ مجھے کچھ نہیں معلوم۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔

”ہمم! اور آپ کا جو سامان چوری ہوا وہ کب اور کہاں سے ہوا؟ اور سامان میں کیا کیا تھا؟“ اگلا سوال آیا۔

”میرے دو بڑے بیگز تھے، جن میں میرے کچھ کپڑے تھے، موبائل، سارے امپارٹنٹ ڈاکومینٹس لائک پاس پورٹ، آئی ڈی کارڈ، وغیرہ تھے، اور وہ سارا کیش تھا جو میں وہاں سے سیو کرکے لائی تھی۔“

”کیش کتنا تھا؟“

”یہ ہی کوئی ہزار ڈالر کے قریب تھا جو میں نے ایئر پورٹ پر پاکستانی کرنسی میں ایکسچیچ کروا لیا تھا اور وہ لگ بھگ ڈھائی لاکھ بنے تھے۔“

”اس ٹیکسی کا نمبر یا ٹیکسی ڈرائیور کا حلیہ وغیرہ کچھ یاد ہے آپ کو؟“

”نہیں، ٹیکسی کا نمبر تو میں نے نہیں دیکھا تھا، ڈرائیور کا حلیہ بھی ٹھیک سے یاد نہیں، وہ کوئی پینتیس، چالیس سالہ مرد تھا، میں نے اس سے کہا کہ کسی مناسب سے ہوٹل پر لے چلیں، راستے میں ایک سنسان جگہ اس نے ٹیکسی روکی، گن دکھا کر مجھے گاڑی سے اتارا اور ٹیکسی میں موجود میرا سامان لے کر فرار ہوگیا۔“

وہ جو کچھ بتاتی گئی انسپیکٹر اسے نوٹ کرتا گیا جب کہ بابک اور فریدہ چپ چاپ بیٹھے تھے۔

”آپ کو وہ جگہ یاد ہے جہاں سے وہ ٹیکسی ڈرائیور فرار ہوا تھا؟“

”نہیں، ایک تو رات ہونے کی وجہ سے اندھیرا بہت تھا دوسرا میں یہاں کے راستوں سے بھی واقف نہیں ہوں۔“ اس نے بےبسی سے سر ہلایا۔

”آپ کے پاس آپ کے بھائی کی کوئی تصویر ہے؟“ انسپیکٹر نے فائل بند کرتے ہوئے آخری سوال کیا۔

”نہیں، میں تصویر ساتھ لائی تھی مگر وہ سامان کے ساتھ ہی چلی گئی، اور جو سامان گیا ہے وہ سب میرا کل اثاثہ تھا، کیونکہ گھر رینٹ کا تھا اور رینٹ ادا کرنے کیلئے میرے پاس پیسے نہیں تھے اسی لئے سارا فرنیچر وغیرہ اونر کو دے دیا اور خود اپنا سامان مختصر کرکے، تھوڑی بہت سیونگ لے کر یہاں آگئی کہ ارسلان مل جائے گا تو ہم یہیں اپنا کوئی سیٹ اپ کرلیں گے اور واپس نیو یارک نہیں جائیں گے۔“ اس نے ایک لٹے ہوئے مسافر کی مانند تھکن زدہ جواب دیا جیسے ابھی طویل سفر باقی ہو اور اس کے وسائل چھین لیے گئے ہوں!

”ٹھیک ہے، ہم کوشش کریں گے کہ جلد از جلد آپ کا سامان بازیاب کروا سکیں۔“ انسپیکٹر نے پین یونیفارم کی جیب میں رکھا۔

”لیکن ایک بات ہے کہ آپ کو یوں بنا کسی جان پہچان کے اس طرح اکیلے ایک انجان جگہ پر آنے کی بےوقوفی نہیں کرنی چاہئے تھی۔“ بلآخر انسپیکٹر دل کی بات زبان پر لے آیا۔

”آپ کو۔۔۔۔“ بابِک نے اسے کچھ کہنے کیلئے لب کھولے ہی تھے کہ نِہرین بول پڑی۔

”جب انسان تپتے صحرا میں تنہا رہ جائے تو اس کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو وہیں پڑا رہ کر مر جائے یا خود کو بچانے کیلئے، راستے کی تلاش میں کسی نا کسی سمت بھاگنے کی بےوقوفی کرے، سو میں نے بھی وہ ہی کیا کہ شاید کوئی ایسا راستہ مل جائے جو مجھے میرے بھائی تک لے جائے!“ نہرین کا ٹھہرا ہوا جواب انسپیکٹر کو لاجواب کر گیا۔

وہ گرنے کے بعد بھی ہاری نہیں تھی اور اس کی اسی مضبوطی نے بابِک کو بھی متاثر کیا۔

”خیر! ہم جلد ہی آپ کے کیس پر کام کرکے آپ کو اطلاع کرتے ہیں۔“ انسپیکٹر فائل لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بابک نے بھی ایسا ہی کیا۔

پھر بابک انسپیکٹر سے بات کرتا اسے باہر تک چھوڑنے چلا گیا جس کے بعد اب وہاں بس فریدہ اور نِہرین ہی رہ گئی تھیں۔

”پریشان مت ہونا بیٹا، اللہ سب اچھا کرے گا۔“ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کی ہمت باندھی تو وہ ہلکے سے مسکرا دی۔

”تم آرام کرو، میں ذرا مغرب کی نماز کی تیاری کرلوں۔“ وہ اس کا سر تھپک کر اپنی وہیل چیئر چلاتی کمرے کی جانب چلی گئیں۔

وہ اپنی گود میں دھرے ہاتھوں پر نظریں جمائے، ان سے کھیلتے ہوئے پھر اپنی سوچوں میں گم ہوگئی تھی۔

تب ہی بابک واپس آیا جس کی آہٹ محسوس کرکے نِہرین نے بھی نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

”آپ فکر مت کیجئے گا، جلد آپ کا مسلہ حل ہوجائے گا۔“ وہ کہتا ہوا واپس سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔

”جب سے مجھے ہاسپٹل میں ہوش آیا ہے تب سے اب تک آپ دو ہفتوں سے مجھے یہ ہی کہہ رہے ہیں۔“ وہ ہلکے سے مسکرائی۔

”میں صرف کہہ نہیں رہا، میں ساتھ ساتھ پوری کوشش بھی کر رہا ہوں کہ کسی طرح آپ کے سامان یا بھائی کا کچھ پتا چل سکے!“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

”نہیں نہیں میں آپ پر طنز نہیں کر رہی، بلکہ تھینکفُلی کہہ رہی ہوں کہ جب سے ہم ملے ہیں کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی آپ نے اور آپ کی فیملی نے مجھے بہت سپورٹ کیا ہے۔“ اس نے متوازن انداز میں اپنی بات کا مطلب واضح کیا کہ کہیں وہ کچھ غلط سوچ کر مزید پریشان نہ ہوجائے!

”کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنے کیلئے رشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی، ایسا میری مام کہا کرتی تھیں۔“ وہ بھی اب اطمینان سے گویا ہوا۔

”ہاں مگر اتنی مدد کوئی نہیں کرتا کہ ایک بےیارو مددگار اجنبی انسان کو اپنے گھر لے آئے اور اتنا خیال رکھے۔“ اس نے نظریں جھکائیں۔

”سچ کہوں تو کبھی کبھی بہت شرمندگی ہوتی ہے کہ خواہ مخواہ میری وجہ سے آپ سب پریشان ہوگئے، اچھا ہوتا کہ اگر آپ اصرار کرکے مجھے گھر لانے کے بجائے کسی شیلٹرہوم میں چھوڑ دیتے، میں نیو یارک میں بھی ایک عرصہ اکیلے رہی ہوں تو یہاں بھی رہ لیتی۔“ وہ یوں ہی جھکی پلکوں کے ساتھ ناخن کھرچنے لگی۔

”نیو یارک میں آپ کی یہ حالت بھی تو نہیں تھی جو میری غفلت کی وجہ سے ہوگئی ہے۔“ بابک نے اس کی سر کی پٹی اور پیر کے پلاسٹر کی جانب اشارہ کرکے دھیان دلایا۔

”آپ مجھے سڑک پر مرنے کیلئے چھوڑنے کے بجائے ٹائم پر ہاسپٹل لے گئے، آپ کا یہ ہی احسان بہت تھا، مزید احسانوں کا بوجھ میں اٹھا نہیں پاؤں گی۔“ وہ کافی شرمندہ دکھائی دے رہی تھی۔

”ہوسکتا ہے قدرت نے آپ کو میرا بوجھ کم کرنے کیلئے بھیجا ہو!“ وہ اسے دیکھتے ہوئے بےساختہ کہہ گیا۔

”جی؟“ اس نے تعجب سے پلکیں اٹھائیں۔

”ابھی تفصیل نہیں بتا سکتا، بس اتنا کہوں گا

Everything happens for a reason

جو ہوتا ہے کسی وجہ سے ہی ہوتا ہے تو ہمیں خواہ مخواہ موجودہ حالات پہ پریشان، شرمندہ یا غصہ ہونے کے بجائے تحمل سے خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دینا چاہئے اور حالات ہمیں جہاں لے جانا چاہ رہے ہوتے ہیں وہاں بہتے جانا چاہئے، کیا پتا وہیں ہماری منزل ملے!“ اس نے ایک سادہ مگر گہرا فلسفہ پیش کیا۔

وہ بس چپ چاپ اسے دیکھتی گئی جس کے کھڑے نین نقش والے وجیہ چہرے پر مبہم سی مسکراہٹ اسے مزید خوبرو بنا رہی تھی۔

”آپ کی کمپلین لانچ ہوگئی ہے، میں احرار سے کہتا ہوں کہ وہ بھی جلد از جلد ہنی مون سے واپس آکر پرسنلی آپ کا کیس دیکھے، ان شاءاللہ جلد کوئی پازیٹیو رزلٹ ملے گا۔“ وہ اچانک موضوع بدل کر ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔

”نہیں پلیز انہیں ڈسٹرب نہ کریں، یہ وقت ہر انسان کیلئے بہت خاص ہوتا ہے، اسپیشلی کسی بھی لڑکی کیلئے، اور میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے ان کا گولڈن پیریڈ اِسپائل ہو، آرام سے جب وہ خود واپس لوٹیں گے تو یہ سارے کام بھی ہوتے رہیں گے، ابھی انھیں ان سب جھمیلوں سے دور اپنی زندگی انجوئے کرنے دیجئے۔“ اس نے جلدی سے ٹوک کر نفی کی تو وہ سر ہلا کر مسکرا دیا۔

اسے نہرین کا اپنے بھائی بھابھی کیلئے اتنی اپنائیت سے سوچنا اچھا لگا تھا۔


*****************************************


پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں موسم ہمیشہ ہی ٹھنڈا اور سہانا رہتا تھا تب ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد سیر و تفریح کیلئے اس جگہ کا رخ کیا کرتی تھی۔

ابھی بھی سورج غروب ہونے کے بعد آس پاس بنے ہوٹلز کی لائٹس آن کردی گئی تھیں۔

اپنے ہوٹل روم کی، چوتھی منزل کی بالکونی پر کھڑی نورالعین دونوں بازو ریلینگ پر رکھے آس پاس کے خوبصورت نظارے دیکھ رہی تھی جس کے کھلے بال ٹھنڈی ہوا میں اڑتے اسے مزید دلکش بنا رہے تھے۔

”انجوئمنٹ کے چکر میں احتیاط نہیں بھولنی چاہیے۔“ احرار نے پیچھے سے اسے شال اوڑھاتے ہوئے اپنے حصار میں لے لیا۔ اور یہ حصار اس کیلئے محفوظ ترین پناہ گاہ تھا۔

”یہ بھی کوئی لاء ہے کیا کہ ٹھنڈی ہوا میں کھڑے شخص کو شال اوڑھائی جائے؟ جیسے رِہا ہونے والے قیدی کو رقم دینے کا لاء تھا؟“ نورالعین نے شرارت سے پوچھا تو اس کے لبوں پر بھی مسکراہٹ در آئی۔ وہ اِس بات پر اُسے کئی بار چھیڑ چکی تھی۔

”ہاں، یہ لاء آف لو ہے، کہ محبوب کا خیال رکھا جائے۔“ اس نے نرم سا جواب دیتے ہوئے اس کے کندھے پر آہستگی سے بوسہ دیا۔ اور یہ اس کا پسندیدہ ترین لمس تھا۔

وہ کوئی جواب دینے کے بجائے حصار میں رہتے ہوئے ہی اس کی جانب گھوم گئی۔ اور اپنے گرد موجود شال کے کنارے کھول کر احرار کو بھی اپنے حصار میں لیتے ہوئے شال اوڑھا دی۔

اب دونوں اس ایک شال کے اندر بےحد قریب تھے۔

احرار نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اسے خود سے لگایا ہوا تھا۔ اور نورالعین نے بھی دونوں بانہیں اس کی گردن کے گرد لپیٹ رکھی تھیں۔

”ابھی بس اتنا ہی خیال رکھ سکتی ہوں، اگر بس میں ہوتا تو اٹھا کر لے جا کے بیڈ پر لٹا دیتی اور کمبل بھی اوڑھا دیتی۔“ اس کے چہرے پر سادگی مگر آنکھوں میں شرارت رقصاں تھی جس کا مفہوم وہ بھی اچھی طرح سمجھ گیا۔

”فرمائش کرنے کا اچھا طریقہ ہے یہ!“ اس نے کہتے ہوئے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔

”ابھی تو بس شروعات ہے، ابھی دیکھو میں تمہیں کتنا تنگ کرنے والی ہوں!“ اس کی گردن پر ہاتھ لپیٹے اس نے مزے سے بتا کر آخر میں اس کا گال کھینچا۔

وہ اسے لے کر بیڈ روم میں آگیا تھا جہاں صرف سائیڈ لیمپ آن ہونے کی وجہ سے مدھم روشنی ہو رہی تھی۔

”بہت دن سکون سے اکیلے رہ کر دیکھ لیا، اب میں تنگ ہونا بھی چاہتا ہوں اور کرنا بھی!“ اسے بیڈ پر لٹا کر وہ خود بھی اس کے بےحد قریب آیا مگر مہکتی سانسوں کے الجھنے سے پہلے ہی موبائل کی رِنگ ٹون کے ساتھ یہ خوبصورت سحر ٹوٹ گیا۔

دونوں کو جی بھر کر موبائل پر غصہ آیا۔

احرار نے سائیڈ ٹیبل پر سے موبائل اٹھایا تا کہ آف کرکے رکھ سکے مگر اسکرین پر بابک کا نام دیکھ کر، کال ریسیو کرلی۔

”جی بھیا؟“ وہ موبائل کان سے لگائے پیٹھ کے بل بیڈ پر لیٹ گیا۔

”تم نے جس آفیسر کے پاس ریکامنڈ کیا تھا میں نے اس کے پاس نِہرین کی کمپلین لکھوا دی ہے احرار!“ بابک موبائل کان سے لگائے اپنے کمرے کی بالکونی میں ٹہل رہا تھا جہاں سر پر سیاہ آسمان کی چادر تنی ہوئی تھی۔

”گڈ! کوئی ایشو تو نہیں ہوا؟“ احرار نے جاننا چاہا۔ نورالعین بھی اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔

”نہیں، اس نے کہا ہے کہ وہ اپنے طور پر کام کرے گا، مگر مجھے ان پولیس والوں پر بالکل بھروسہ نہیں ہے، تم جلد از جلد واپس آکر خود اس کا کیس دیکھو۔“ وہ بےتابی سے اصل مدعے پر آیا۔

”جی بھیا، میں نے کہا ہے ناں کہ واپس آکر میں خود ہی کیس ہینڈل کروں گا۔“ اس نے نورالعین کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے اطمینان دلایا۔

”کب واپس آؤ گے؟ دو ہفتے ہونے والے ہیں تمہیں گئے ہوئے، تم دونوں کے بنا گھر میں بالکل ہی سناٹا ہوگیا ہے۔“ بابک کو اب اس کی یاد آنے لگی تھی۔

”پندرہ دن کا تو ٹور تھا بھیا، کل ٹرین ہے ہماری، بس پرسوں تک پہنچ جائیں گے، مجھے بھی آپ کی یاد آرہی ہے۔“ اس نے محبت سے جواب دیا۔

”جھوٹ بول رہے ہیں یہ، ہمیں تمہاری بالکل بھی یاد نہیں آرہی، ہم بہت مزے میں ہیں۔“ نورالعین نے شرارت سے بلند آواز کہا جو بابک نے باآسانی سنا تو بےساختہ ہنس دیا۔

”ہاں ہاں، اسے تو بہت زیادہ مزہ آرہا ہوگا، میرے بھائی پر قبضہ جو کرکے بیٹھی ہے۔“ بابک نے بھی اسی طرح مصنوعی طنز سے کہا تو ان دونوں کی نوک جھونک کے بیچ احرار ہنس کر رہ گیا۔

”ہم پرسوں آرہے ہیں بھیا، پھر ملتے ہیں۔“ احرار نے بات سمیٹی۔

”ٹھیک ہے، اپنا خیال رکھنا دونوں، اللہ حافظ!“ اس نے بھی محبت سے جواب دیا۔

”اللہ حافظ!“ اور پھر دونوں طرف سے رابطہ منقطع ہوگیا۔

”ہاں، اب بتانا ذرا کیا کہہ رہی تھی!“ احرار نے فون ایک سائیڈ پر پھینکتے ہوئے اسے پوری طرح دبوچ لیا جو ہنستے ہوئے خود بھی اس سے لپٹ گئی۔

حالات کی گردش میں اس کی جو شوخیاں اور شرارتیں کھو گئی تھیں وہ احرار کی سنگت میں پھر سے لوٹ آئی تھیں۔ اور اب اس کی ہنسی پہلے سے زیادہ کھلکھلاتی ہوئی اور خوبصورت ہوگئی تھی جس پر وہ ہر روز نئے سرے سے فدا ہوجایا کرتا تھا۔


*****************************************


”کچھ دن بعد چلے جاتے ناں ماما اور پاپا باجی کے پاس، ابھی پرسوں ہی تو ہم ہنی مون سے لوٹے ہیں اور آج وہ لوگ چلے گئے، کتنا سُونا سُونا ہوگیا ہے پورا گھر!“ ہانیہ ثمینہ کی گود میں سر رکھے افسردہ سی صوفے پر لیٹی تھی۔

”بیٹا یہ سب تو پہلے سے طے تھا ناں کہ تمہاری شادی کے بعد وہ لوگ ملیشیاء شفٹ ہوجائیں گے، ناصر نے وہاں خاصا پیسا انویسٹ کر رکھا ہے اب وہ سب بھی تو اسے دیکھنا تھا ناں! اور تم کیوں اداس ہوتی ہو، میں اور یاور ہیں تو تمہارے ساتھ!“ انھوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دلجوئی کی۔

”السلام علیکم!“ تب ہی یاور کہتا وہاں آیا جو ابھی ابھی آفس سے لوٹا تھا۔

”وعلیکم السلام!“ ثمینہ نے جواب دیا۔

ہانیہ بھی دھیرے سے جواب دیتی اٹھ بیٹھی۔

”کھانا تیار ہے تو لگا دیں امی، بہت تیز بھوک لگ رہی ہے۔“ اس نے ٹائی ڈھیلی کرتے ہوئے کہا۔

”فریش ہوکر آؤ میں کھانا لگاتی ہوں۔“ ہانیہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی جب کہ وہ سر ہلا کر فریش ہونے چلا گیا۔

تینوں نے ایک ساتھ کھانا کھایا جس دوران ہانیہ چپ تھی جب کہ یاور ثمینہ سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا۔

کھانے کے بعد یاور کمرے میں چلا گیا۔ ثمینہ بھی دوائی کھا کر سونے کیلئے لیٹ گئیں جب کہ ہانیہ نے ملازمہ کو کواٹر میں بھیج دیا اور خود کچن کا کام سمیٹنے لگی کہ کیا پتا کام میں مصروف ہوکر کچھ اداسی کم ہوجائے!

وہ کچن کاؤنٹر پر بکھری سب چیزیں ترتیب سے اپنی جگہ پر رکھ رہی تھی تب ہی یاور نے پیچھے سے آکر اسے اپنے حصار میں لے لیا۔

”کیا کر رہے ہو! کوئی دیکھ لے گا!“ وہ بری طرح سٹپٹا گئی۔

”کون دیکھے گا؟ امی کمرے میں گئیں، ملازمہ کواٹر میں، چاچو، چاچی بھی اب یہاں نہیں ہیں، بس ہم دونوں ہیں۔“ اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے کندھے پر لب رکھے۔

”لیکن اگر تائی کسی کام سے اس طرف آگئیں تو؟“ اس نے فکرمندی سے گردن موڑی۔

”وہ دوا کھا کر لیٹنے کے بعد کمرے سے باہر نہیں آتیں، ریلیکیس!“ اس کا اطمینان ہنوز قائم تھا۔

”میں نے سوچا تھا کہ کھانے کے بعد ہم دونوں باہر آئس کریم کھانے چلیں گے، مگر تمہارا تو موڈ ہی آف ہے، تو پلان کینسل کردیا۔“ وہ اس کے کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے بولنے لگا۔

”ارے کینسل کیوں کردیا؟ چلتے ہیں ناں!“ وہ پوری طرح اس کی جانب گھوم گئی۔

”نہیں تم چاچو چاچی کے جانے سے اداس ہو، پھر کبھی چلیں گے۔“ اس نے مصنوعی انکار کیا ورنہ درحقیقت اس کی اداسی دور کرنے کیلئے اس نے یہ پھلجڑی چھوڑی تھی۔

”اداسی اپنی جگہ، آئس کریم اپنی جگہ!“ اس نے آنکھیں مٹکا کر، اس کی شرٹ سے نادیدہ دھول صاف کی۔

”کھانے پینے کیلئے کبھی منع مت کرنا چٹوری!“ یاور نے آنکھیں سکیڑ کر طنز کیا جو اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اور مقصد تھا اس کی اداسی زائل کرنا۔

*****************************************

نِہرین اپنے بیڈ پر لیٹی چھت کو تک رہی تھی کیونکہ اس کے سوا وہ اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔

جب کہ ذہن کے پردے پہ پھر وہ منظر تازہ ہوگیا تھا جب ایکسیڈینٹ کے بعد اس نے ہاسپٹل میں آنکھیں کھولی تھیں اور ایک خوبرو اجنبی کو اپنے پاس متفکر سا پایا تھا۔

اس کی ساری آپ بیتی سن کر وہ ناصرف اسے گھر لے جانے کیلئے بضد ہوگیا تھا بلکہ گھر لے بھی آیا تھا جہاں اس کی فیملی، یعنی احرار، نورالعین اور فریدہ خالہ نے بھی اسے کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا۔

جب وہ اس انجان شہر میں لٹ کر تنہا کھڑی تھی تب وہ بہت ڈر گئی تھی۔ اسے لگا شاید وہ بھوکے بھیڑیوں کے بیچ آگئی ہے جو کہ اب اسے نوچ کھائیں گے۔

لیکن بابک نے آکر ثابت کیا کہ دنیا سے ابھی اچھائی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی ہے۔۔۔۔

اب وہ الگ بات تھی کہ نِہرین بابک کے ماضی سے واقف نہیں تھی کہ جسے وہ فرشتہ سمجھ رہی ہے ماضی میں وہ بھی ان ہی بھیڑیوں میں سے ایک تھا اور بہت بڑی ٹھوکر کھانے کے بعد اب سیدھی راہ پر چلنے کی کوشش میں تھا جس کے پہلے موڑ پر ہی وہ اسے آ ملی تھی، اور ان کی کہانی میں اب مزید کون کون سے موڑ آنے والے تھے؟ یہ دونوں میں سے کوئی نہیں جانتا 

نرم سی صبح زمین پر اتر چکی تھی جس کے پرسکون سناٹے میں محض تیز رفتاری سے دوڑتی ٹرین کی آواز ہی سنائی دے رہی تھی۔

ٹرین چلنے کے باعث باہر نظر آتے مناظر بھی بھاگتے دوڑتے محسوس ہو رہے تھے۔ جنہیں نورالعین کھڑکی پر سر ٹکائے دیکھنے میں مصروف تھی۔ لیکن اس سے بھی دل بھر گیا تو برابر میں بیٹھے احرار کی جانب دیکھا، جو موبائل میں مصروف تھا۔

پھر اپنے سامنے والی سیٹ پر دیکھا جہاں ایک گنجے سے انکل سو رہے تھے۔

”چھوڑو اسے۔“ اس نے یکدم موبائل چھین لیا۔

”کیا ہوگیا؟ فون دو میرا۔“ وہ بھی سٹپٹا گیا۔

”تم نے کہا تھا کہ ان پندرہ دنوں میں تم سارا ٹائم مجھے دو گے۔“

”دے تو دیا پورے پندرہ دن سارا ٹائم!“ اس نے بھی یاد دلانا چاہا۔

”بس پندرہ دن! پر شادی تو تم سے ساری زندگی کیلئے کی تھی۔“ وہ چھیڑ خانی کے موڈ میں تھی۔

”میرا مطلب کہ کام وغیرہ چھوڑ چھاڑ کر تو صرف اتنا ہی کرسکتا تھا، اب سے کام اور ذاتی زندگی دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ہے۔“ اس نے وضاحت کی۔

”وہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن تم پوری برتھ بک کروا لیتے ناں! پھر ہم اکیلے آرام سے پورا راستہ انجوئے کرتے ہوئے جاتے۔“ وہ اس کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے آہستہ سے بولی کہ انکل کی موجودگی کا بھی خیال رکھنا تھا۔

”کل چھٹی ختم ہو رہی ہے میری، اور آج کی ٹرین میں بس یہ ہی سیٹ خالی تھی، میں نے تو کہا تھا کہ بائے ایئر چلتے ہیں، تمھیں ہی شوق تھا ٹرین کا تھکا دینے والا سفر کرنے کا۔“ اس نے توپ کا رخ نورالعین کی جانب کردیا۔

”جہاز میں ڈر لگتا ہے مجھے، کہیں کریش نہ ہوجائے، ابھی تو بہت سارا وقت گزارنا ہے تمہارے ساتھ!“ اس نے احرار کے بازو کے گرد ہاتھ لپیٹتے ہوئے لاڈ سے کہا۔

”ہونے والی بات تو کہیں بھی ہوجاتی ہے، اگر ہماری قسمت میں حادثہ لکھا ہوگا تو کہیں بھی رونما ہوجائے گا۔“ اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

”تم مجھے ڈرا رہے ہو؟“ اس نے سر ہٹا کر اسے دیکھتے ہوئے آئبرو اچکائی۔

”نہیں، حقیقت بتا رہا ہوں موت تو برحق ہے، اس سے کیا ڈرنا؟“ اس نے کندھے اچکائے۔

”اس وقت تمھیں غالب کا کوئی شعر سنانا چاہیے تھا، پر تم تو لگ رہا ہے ”موت کا منظر“ پڑھ کر سنا رہے ہو۔“ اس نے شکوہ کیا۔

”یہ غالب کون ہے؟“ وہ انجان بنا۔

”میرے چاچا کا لڑکا۔“ اس نے چڑ کر کہا۔

”لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے ابو اکلوتے تھے!“ اس نے مزید تپایا تو وہ اسے گھورنے لگی۔

”یہ لو پکڑو اپنا فون، مجھے نہیں کرنی تم سے کوئی بات!“ اس نے غصے میں موبائل واپس اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔

جسے اس نے محظوظ ہوتے ہوئے اپنی جیکٹ کی جیب میں رکھ لیا۔ اور سرک کر اس کے قریب ہوا جو کہ اب دوبارہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔

”یار تم جانتی تو ہو کہ میں شعر و شاعری کے معاملے میں کتنا برا ہوں!“ اس نے نرمی سے کہتے ہوئے نورالعین کے کندھے پر ٹھوڑی رکھی۔

مگر وہ کچھ کہنے کے بجائے چپ چاپ باہر دیکھتی رہی۔

”بیٹا وصی شاہ کی وہ نظم تم سب کو ہی آتی ہے کہ

”کاش میں تیرے حسین ہاتھ کا کنگن ہوتا“ وہ ہی سنا دو، جب میری بیوی ناراض ہوتی ہے تب میں بھی اسے یہ ہی سناتا ہوں اور وہ فوراً مان جاتی ہے۔“ سامنے برتھ پر لیٹے انکل نے اچانک کہا تو دونوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ انکل اتنی دیر سے سوتے بن کر ان کی باتیں سن رہے تھے!


*****************************************


”نوری!“ نہرین نے کوئی تیسری بار بلند آواز سے پکارا تھا لیکن شاید نوری ابھی تک اپنے کواٹر سے یہاں نہیں آئی تھی۔

اسے بیدار ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ وہ فریش ہونے کیلئے دیوار اور بیساکھی کے سہارے تو باتھ روم تک جانا آنا کر لیتی تھی مگر کمرے سے باہر جانے کیلئے اسے کسی شخص کے سہارے کی ضرورت پڑتی تھی۔ جیسے ابھی صبح کے سہانے موسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے کھلے لان میں جانے کو اس کا دل مچل رہا تھا۔

بلآخر وہ خود ہی بیڈ سے اٹھی، ایک بازو میں بیساکھی پھنسائی اور دوسرے ہاتھ سے دیوار کا سہارا لے کر چلنے لگی۔

شروعات میں اس کے پاس دو بیساکھیاں تھیں لیکن ابھی لاسٹ وزٹ میں ڈاکٹر کے کہنے پر اس کی ایک بیساکھی ہٹا دی گئی تھی۔

وہ ہی گہرا نیلا سوٹ پہنے، کندھے پر دوپٹہ لیے، پٹی بندھے سر کے ساتھ پشت پر بال کھلے چھوڑے وہ اسی طرح چلتے ہوئے گھر کے اندر سے لان کی جانب کھلنے والے دروازے تک تو آگئی تھی لیکن یہاں سے آگے دیوار ختم ہوگئی تھی۔

وہ پل بھر کو رکی۔

پھر اپنا آدھا وزن صحیح سلامت پیر پہ اور آدھا وزن بیساکھی پر ڈال کر ڈرتے ڈرتے ایک قدم اٹھایا۔

وہ اس میں کامیاب رہی جس کے باعث اسے ایک انوکھی سی خوشی ہوئی کہ بنا کسی کے سہارے، خودمختاری سے قدم اٹھانے کا احساس ہی الگ ہوتا ہے۔

مگر اس کی یہ خوشی بہت مختصر تھی۔

اگلے قدم کے ساتھ ہی اس کا توازن بگڑا تو اس نے بےدھیانی میں زخمی پیر پہ زور ڈال دیا جس کے باعث درد کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑی اور ایک دردناک آہ کے ساتھ وہ زمین بوس ہونے لگی۔

جسے اگلے ہی پل بابِک نے آکر تھام لیا۔

بابک نے اسے کمر سے پکڑا ہوا تھا اور نہرین نے بھی گھبرا کر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا تھا اسی لئے درمیان میں بالکل فاصلہ نہیں تھا اور بابک نے اس کی تیز دھڑکنیں اپنے سینے پر محسوس کیں۔

یہ سب لمحے سے بھی کم وقت میں ہوا تھا لیکن جب ہوا تو لگا جیسے وقت رک گیا ہو!

”تم ٹھیک تو ہو؟“ وہ فکرمندی میں آپ کا تکلف چھوڑ کر تم پر آگیا تھا۔ تب ہی وہ بھی جیسے ہوش میں آئی۔

”جی!“ وہ نظریں چراتے ہوئے اس سے الگ ہوئی تو بابک نے بھی کمر پر سے ہاتھ ہٹا لیا لیکن بازو تھامے رکھا۔

”یہاں اکیلی کیا کر رہی تھی؟ اور نوری کہاں ہے؟“ اس نے اسی طرح مزید سوال کیے۔

”ایسے ہی تھوڑی دیر تازی ہوا میں سانس لینے کا دل چاہ رہا تھا تو یہاں آگئی، نوری کو آواز دی تھی میں نے، لیکن شاید وہ ابھی تک کواٹر سے آئی نہیں ہے۔“ اس نے نظریں ملائے بنا ہی سادگی سے جواب دیا۔

اس کی بات پر لمحوں میں بابک کا پارہ ہائی ہوگیا۔

”نوری!“ وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ نہرین بھی پوری طرح ہل گئی۔

اگلے ہی پل ناصرف نوری بلکہ بشیر اور فریدہ بھی گھبرائے ہوئے اس طرف آگئے تھے۔

”جی صاحب؟“ اس نے تشویش سے پوچھا۔

”تمھیں کہا تھا ناں کہ ہر وقت نہرین کے پاس رہنا ہے، تو پھر کہاں تھی؟“ وہ غصے سے چلایا۔

”میں۔۔۔میں بی بی جی کے پاس ہی آرہی تھی صاحب!“ اس نے سہم کر جواب دیا۔

”کیا ہوگیا ہے بیٹا؟ کیوں صبح صبح اس بیچاری پر چلا رہے ہو!“ فریدہ نے مداخلت کی۔

”ابھی گرتے گرتے بچی ہے نہرین، بنا کسی سہارے کے چلنے کی کوشش کر رہی تھی۔“ اس نے برہمی کے عالم میں بتایا تو فریدہ نے بھی نہرین کی جانب دیکھا۔

”اس میں نوری کی کوئی غلطی نہیں ہے، میں خود کمرے سے باہر آئی تھی۔“ نہرین نے اس کا دفاع کرنا چاہا۔

”وہ سب مجھے نہیں پتا، لیکن تم کان کھول کر سن لو نوری! اب اگر تم نے دوبارہ اسے ایک لمحے کیلئے بھی اکیلا چھوڑا تو وہ تمہارا اس گھر میں آخری لمحہ ہوگا، آئی سمجھ؟“ اس نے انگلی اٹھا کر نہایت خطرناک سنجیدگی کے ساتھ تنبیہہ کی۔

”جی صاحب!“ سرتاپا گھبرائی نوری نے بمشکل جواب دیا جب کہ نہرین محض بابک کو دیکھ کر رہ گئی۔


*****************************************


شام آئی تو اپنے ساتھ گھر کی رونق بھی واپس لے آئی۔ یعنی احرار اور نورالعین واپس آگئے تھے جنھیں دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے اور ایسا ہی حال ان دونوں کا بھی تھا۔

”اب کل پہلی فرصت میں مجھے حیدر آباد بھجوا دینا بھئی!“ فریدہ نے حکم سنایا تھا یا فرمائش کی تھی یہ فیصلہ کر پانا مشکل تھا۔

”کیوں؟“ تینوں نے بےساختہ یک زبان سوال کیا۔

سب لوگ لوگ اس وقت ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکٹھا ہوئے کھانا کھا رہے تھے۔

”کیا کیوں؟ بس تم لوگوں کے واپس آنے تک میں بابک کے اصرار پر یہاں رکی تھی کہ نہرین گھر میں اکیلی ہوجائے گی، اب تم لوگ آگئے ہو تو مجھے میرے گھر واپس جانا ہے۔“ انھوں نے جیسے یاد دلایا۔

”یہ بھی تو آپ کا ہی گھر ہے خالہ! یہیں رہ جائیں ہمارے ساتھ!“ احرار نے روکا۔

”اور نہیں تو کیا، وہاں پر بھی تو آپ اکیلی ہوں گی تو یہیں رہ جائیں۔“ نورالعین نے بھی اس کی بھرپور تائید کی۔

”بیٹا میں سالوں سے وہاں اکیلی ہی رہی ہوں، اور صرف کہنے کو اکیلی ہوتی ہوں ورنہ پورا محلہ میرے گھر والوں جیسا ہے، اور نیلی تو ہر وقت میرے گھر پر ہی نظر آرہی ہوتی ہے۔“

”ہاں تو پہلے رہتی تھیں ناں! اب آپ یہاں رہیں، یہاں کوئی تکلیف ہے آپ کو تو مجھے بتائیں۔“ بابک کی رائے بھی مختلف نہیں تھی۔

”نہیں بیٹا کوئی تکلیف نہیں ہے، لیکن اپنا گھر، اپنی زمین پھر اپنی ہوتی ہے، اللہ بخشے اینا کے خالو کو، ان کے ساتھ رخصت ہوکر اُس گھر میں آئی تھی میں، ہماری بہت یادیں جڑی ہیں وہاں سے، اور میں ان ہی کے ساتھ دنیا سے جانا چاہتی ہوں۔“ ان کی جذبات سے چور اس بات پر تینوں مزید اصرار نہ کر پائے۔

”اچھا ٹھیک ہے، لیکن پھر آپ ملنے آتی رہیے گا، ہم ڈرائیور بھیج دیا کریں گے!“ احرار نے ہار مانتے ہوئے ساتھ شرط بھی رکھی تو انہوں نے مسکرا کر سر ہلا دیا۔

”اینا صبح نہرین کی اپائنٹمنٹ ہے ڈاکٹر کے پاس، تم چل رہی ہو ناں میرے ساتھ اسے لے کر؟ وہ اکیلے تھوڑی ان کمفرٹیبل ہوتی ہے۔“ بابک نے اچانک یاد آنے پر دوبارہ تائید چاہی۔

”ہاں ڈونٹ وری! میں صبح ریڈی ہوجاؤں گی۔“ اس کے مثبت جواب پر وہ مطمئن ہوگیا۔


*****************************************


”ٹک ٹک ٹک!“ بابک نے دروازے پر دستک دی۔

”آجائیں!“ جواب ملنے پر وہ ہینڈل گھماتا کمرے میں داخل ہوا تو نہرین کمبل اوڑھے بستر پر نیم دراز ایلف شفک کی کتاب ”فورٹی رولز آف لو“ پڑھتی ہوئی ملی۔

”آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے؟ آپ نے اتنا سا کھانا کھایا اور کمرے میں آگئیں۔“ وہ وہیں دروازے کے پاس کھڑا تھا۔

”جی، بس بھوک نہیں تھی۔“ اس نے کتاب پر سے نظریں ہٹائے بنا مختصر جواب دیا۔

”کچھ اور بنوا دوں آپ کیلئے جو آپ کا دل چاہ رہا ہو!“ اس نے پیشکش کی۔

”نو تھینکس!“ جواب بےحد سادہ اور مختصر تھا۔

وہ فوری طور پر کچھ نہ بولا۔

”کل صبح آپ کا ڈاکٹر کے پاس اپائنٹمنٹ ہے، ریڈی رہیے گا۔“ کوئی بات نہ ہونے پر اس نے دوبارہ یاد دہانی کرائی۔

”اوکے!“ سابقہ انداز میں جواب آیا۔

اب مزید کسی بات کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا وہ اسے ”گڈ نائٹ“ کہہ کر دروازہ بند کرتا ہوا واپس چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی نہرین نے بھی کتاب بند کرکے سائیڈ پر رکھ دی اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔


*****************************************


”کل مجھے ایک دن مزید ڈیوٹی سے چھٹی کرنی پڑے گی۔“ احرار نے بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔

”کیوں؟“ لیٹنے کیلئے اپنا تکیہ ٹھیک کرتی نورالعین نے تعجب سے پوچھا۔

”خالہ کو حیدرآباد چھوڑنے جانا ہے ناں!“ اس نے کمبل اوڑھتے ہوئے یاد دلایا۔

”ہاں تو ڈرائیور چھوڑ آئے گا، بابک نے کہہ دیا ہے اسے، تم کیوں خواہ مخواہ چھٹی کر رہے ہو؟“ وہ بھی اپنے بستر پر لیٹ کر کمبل اوڑھنے لگی۔

”نہیں میں خود چھوڑ آؤں گا، اچھا ہے اس بہانے نیلی سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔“ احرار کی بات پہ خود پر کمبل ٹھیک کرتی نورالعین کا ہاتھ رک گیا۔

”تمھیں وہ ابھی تک یاد ہے؟“ انداز بےحد تیکھا تھا۔

”ہاں، مجھے یاد ہے پہلی ملاقات میں کتنی اکسائٹمنٹ سے ملی تھی وہ، اس کی نیلی آنکھیں بھی کتنی پیاری تھیں، مگر تم نے اسے ٹھیک سے بات ہی نہیں کرنے دی تھی اور فوراً بیچ میں آکر اسے چلتا کردیا تھا۔“ وہ بظاہر سادگی سے کہہ رہا تھا لیکن پس پردہ شرارت چھپی تھی جسے نورالعین کی تیکھی نظریں اور بھینچے ہوئے جبڑے دیکھ کر بڑا لطف آرہا تھا۔

”کل جاؤ گے ناں! تو کرلینا جی بھر کر اس نیلی آنکھوں والی سے باتیں!“ نورالعین نے ناگواری سے کہا اور دوسری طرف کروٹ لے کر منہ تک کمبل اوڑھ لیا جس سے وہ بےحد محظوظ ہوا۔

”وہ تو کل کی بات ہے، آج تھوڑی بات چیت اِس کالی آنکھوں والی سے کرلوں!“ پیچھے سے اُسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے وہ تنگ کرنے سے باز نہ آیا۔


*****************************************


نیا سویرا نکل آیا تھا جس کے آتے ہی سب طے شدہ معاملات سرانجام دینے اٹھ کھڑے ہوئے۔

احرار شیشے کے سامنے کھڑا ڈیوٹی پر جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا اور اس کے آگے کھڑی نورالعین بھی بابک اور نہرین کے ساتھ ہسپتال جانے کی تیاری کر رہی تھی۔

”تم تو کہہ رہے تھے کہ آج چھٹی کرکے خالہ کو حیدر آباد چھوڑنے جاؤ گے؟“ وہ اپنے آدھے بالوں میں چھوٹا سا کیچر لگاتے ہوئے شیشے میں نظر آتے احرار کے عکس سے مخاطب ہوئی۔

”ہاں لیکن اب تو انہیں ڈرائیور لے کر جا رہا ہے۔“ اس نے بیلٹ کا لاک بند کرتے ہوئے جواب دیا۔

”مگر انھیں چھوڑنے کے بہانے تمہیں بھی تو اس نیلی سے ملنا تھا؟ اس کا کیا؟“ انداز سادہ مگر چبھتا ہوا تھا۔

وہ کہہ کر دراز سے ٹاپس نکالنے لگی جب کہ وہ مسکراہٹ دباتا اس کے قریب آگیا۔

”ہاں ارادہ تھا، لیکن جب اُس نیلی آنکھوں والی کا ذکر سن کر میری کالی آنکھوں والی کو جیلسی ہونے لگی تو پھر کینسل کردیا۔“ پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لے کر کندھے پر ٹھوڑی ٹکائے اس نے شرارت سے جواب دیا۔ وہ شیشے میں ہی اس کے عکس کو گھور رہی تھی۔

”جی نہیں، مجھے کوئی جیلسی نہیں ہو رہی۔“ وہ صاف مکر گئی اور ٹاپس پہننے لگی۔

”اچھا! تو پھر اس دن جب وہ مجھ سے ٹکرائی تھی اور پٹر پٹر بولنے لگی تھی تب تم نے فوراً بیچ میں آکر اسے وہاں سے چلتا کیوں کردیا تھا؟“ اس نے یوں ہی کھڑے رہ کر دلچسپی سے جاننا چاہا۔

”تمہارے بھلے کیلئے ہی کیا تھا کہ خواہ مخواہ پٹر پٹر کرکے تمہارا دماغ کھاتی۔“ اس نے بےنیازی سے احسان جتایا۔

اس کی بےلوث چالاکیوں پر احرار کو بےساختہ پیار آیا۔ اور مسکراہٹ گہری ہوگئی۔

”ڈونٹ وری! یہ آفیسر تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گا، بھروسہ رکھو۔“ اس نے خود ہی یقین دہانی کرواتے ہوئے اس کے کندھے پر بوسہ دیا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ دھیرے سے اس کی جانب گھوم گئی لیکن کمر ہنوز اس کے حصار بھی تھی۔

”بھروسہ ہے مجھے، میں جانتی ہوں کہ میری جگہ کبھی کوئی نہیں لے سکتا اور نہ ہی میں تم پر شک کر رہی ہوں۔“ وہ تحمل سے کہتے ہوئے اس کی یونیفارم شرٹ کے کھلے رہ جانے والے بٹن بند کرنے لگی۔

”ہاں بس تھوڑی جیلیسی ہوتی ہے۔“ اس نے اعتراف کیا۔

”جیلسی اور شک میں بہت فرق ہے، شک کا مطلب ہوتا ہے کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے، تم مجھے چھوڑ کر کسی کی بھی جانب چلے جاؤ گے، اور جیلسی کا مطلب ہوتا ہے جو میرا ہے، بس میرا ہے، اسے کوئی اور نہ دیکھے، تمہیں پسند کرنے کا حق صرف مجھے ہے، تمہارے لئے کسی اور کی آنکھوں میں پسندیدگی مجھے اچھی نہیں لگتی۔“

وہ دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھے، سر اٹھائے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے شدتِ جذبات سے مغلوب انداز میں کہہ رہی تھی اور وہ مبہوت سا اسے سنے جا رہا تھا۔

”تمہاری آنکھوں کے سوا مجھے اپنے لئے کہیں اور پسندیدگی دیکھنے کا شوق بھی نہیں ہے۔“ اس نے گھمبیرتا سے کہتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تو سرشاری کے زیر اثر نورالعین نے آنکھیں بند کرلیں۔

اس نے ان بند آنکھوں کو بھی محبت سے چوما لیکن اس سے قبل کہ بات بڑھ کر لبوں تک جاتی، دروازے پر ہوئی دستک نے اس خاموش گفتگو میں خلل ڈال دیا۔

”اینا! گاڑی ریڈی ہے، آجاؤ!“ بابک نے بلند آواز سے پکارا تو دونوں اس خوبصورت سحر سے نکل کر ہوش میں آگئے۔

”آرہی ہوں!“ اس نے باآواز بلند جواب دیا۔

”یہ بھی کسی چھوٹی موٹی سوتن سے کم نہیں ہے۔“ نورالعین نے بابک کی جانب اشارہ کرکے کہا تو وہ ہنس دیا۔


*****************************************


باہر گاڑیاں تیار تھیں۔ فریدہ کا سامان گاڑی میں رکھ کر انھیں بھی پچھلی نشست پر بٹھا دیا گیا تھا اور اب احرار، نورالعین، بابک، اور نہرین گاڑی کے نزدیک کھڑے انہیں الوداع کہہ رہے تھے۔

”اللہ تم سب کو ہمیشہ خوش و آباد رکھے، اللہ حافظ!“ انھوں نے سب کو دل سے دعا دی۔

”آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا۔“ بابک نے شائستگی سے کہا اور تب ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کرلی۔

”نیلی کو سلام کہیے گا خالہ!“ احرار نے شرارتاً آواز لگائی تو نورالعین نے خفگی سے اسے کہنی ماری جس پر وہ محظوظ ہوکر ہنس دیا۔

پھر بابک اپنی بلیک کرولا کی ڈرائیورنگ سیٹ پر آگیا جس کی پچھلی نشست پر نہرین اور نورالعین بیٹھیں اور پھر گاڑی باہر کی جانب بڑھ گئی۔

جب کہ احرار بھی اپنی سفید کرولا میں سوار ہوکر ڈیوٹی پر روانہ ہوگیا۔


*****************************************


احرار جیسے ہی ڈیوٹی پر پہنچا تو اسے اسٹیشن کے باہر کئی گاڑیاں اور گارڈز کھڑے ملے جو اشارہ تھا کہ یقیناً کسی بڑی پارٹی کو یہاں آنے کی نوبت آئی ہے۔

وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا تو اسے سینئر آفیسر مرتضیٰ صاحب کے روم میں آنے کا پیغام ملا۔

وہ دستک دے کر روم میں آیا تو مرتضیٰ صاحب اپنی نشست پر موجود تھے۔

جبکہ ان کے سامنے والی کرسی پر ایک ادھیڑ عمر کی بھاری جسامت والی عورت براجمان تھی۔ جس نے سرخ کاٹن کے شلوار قمیض کے اوپر بڑی سی سندھی شال اپنے گرد لپیٹی ہوئی تھی۔ سر پر موجود کہیں سے سیاہ تو کہیں سفید بالوں کا گدی پر جوڑھا باندھ ہوا تھا۔

دونوں ہاتھوں میں موٹے موٹے سونے کے کڑے اور انگلیوں میں مختلف رنگ کی انگوٹھیاں موجود تھیں۔ اور شخصیت پر مزید گرہن ان کے ماتھے پر پڑی سلوٹوں نے لگایا ہوا تھا۔

”گڈ مارننگ سر!“ وہ ان کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے مرتضیٰ صاحب سے مخاطب ہوا۔

”گڈ مارننگ! آئیں بیٹھیں آپ کا ہی انتظار ہو رہا تھا۔“ انہوں نے عورت کے برابر اور اپنے سامنے والی خالی کرسی کی جانب اشارہ کیا تو وہ آکر وہاں بیٹھ گیا۔

”ان سے ملیں، یہ ہیں جہاں آرا لغاری، آصف لغاری نامی جس بندے کا کیس تفتیش کیلئے آپ کو سونپا گیا ہے وہ ان ہی کے صاحبزادے ہیں، اور اسی سلسلے میں یہ آپ سے کچھ بات چیت کرنا چاہتی ہیں۔“ انہوں نے تعارف کرایا۔

”وہ آصف لغاری، جس نے ایک لڑکی کا ریپ کیا ہے؟“ اس نے چبھتے ہوئے انداز میں تائید چاہی۔

”زبان سنبھال کر آفیسر! اس نے کوئی ریپ نہیں کیا ہے، وہ لڑکی جھوٹا الزام لگا رہی ہے میرے بیٹے پر!“ عورت نے سختی سے ٹوکا۔

”وہ لڑکی جھوٹا الزام لگا رہی ہے، یا آپ کا بیٹا جھوٹ بول رہا اس پر تفتیش کرنا میرا کام ہے، اور مجھے اپنا کام اچھے سے کرنا آتا ہے محترمہ!“ وہ رعب میں آئے بنا اطمینان سے بولا۔

”مرتضیٰ صاحب بہتر ہوگا کہ آپ اپنی زبان میں اپنے آفیسر کو ساری بات سمجھا دیں، اگر میں نے سمجھایا تو بات بگڑ بھی سکتی ہے، اب چلتی ہوں میں۔“ وہ برہمی سے کہتے ہوتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

”جی جی میں سمجھا دوں گا۔“ انہوں نے فرمابرداری کا مظاہرہ کیا۔

وہ بنا مزید کوئی بات کیے ایک کڑی نظر احرار پر ڈالتے ہوئے روم سے باہر چلی گئیں۔ جبکہ وہ ہنوز اطمینان سے بیٹھا رہا۔

”یہ کیا کر رہے ہیں آپ احرار! ان کے بہت بڑی بڑی سیاسی شخصیات سے تعلقات ہیں، اسی لئے ان کی بات ماننے میں ہی بھلائی ہے۔“ وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ تھے۔

”کون سی بات؟“ وہ کھٹکا۔

”سیدھی سی بات ہے، ان کے بیٹے کا کیس آپ کے پاس آیا ہے، اور آپ کو کوئی زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہے، صرف جج کے سامنے یہ کہنا ہے کہ تفتیش سے پتا چلا ہے آصف لغاری پر لگائے گئے الزام جھوٹے ہیں۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔وہ بھی خوش، ہم بھی خوش۔“ اب انہوں نے تھوڑے واضح لفظوں میں اصل بات بتائی۔ جسے سن کر وہ خاصا حیران ہوا۔

”سر! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آپ کا مطلب ہے میں بےایمانی کروں؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔

”بےایمانی نہیں بس ذرا سی لفظوں کی ہیر پھیر کرنی ہے، کیونکہ جو کام ہم کر رہے ہیں اس میں جہاں آرا جیسے لوگوں سے دشمنی مول لینا بہت خطرناک ہوسکتا ہے، اسی لئے اپنی سیفٹی کیلئے تھوڑا بہت فیور چلتا ہے، آج ہم ان کا کام کریں گے تو کل کو یہ بھی ہمارے بڑے بڑے کام نکال سکتی ہیں۔“ وہ رازداری سے کہتے ہوئے اسے اندر کی باریکیاں سمجھانے لگے کہ وہ اس سے زیادہ تجربے کار تھے جہاں آرا جیسے لوگوں کے معاملے میں۔

”سر تھوڑا ہو یا بہت، غلط ہمیشہ غلط ہی ہوتا ہے، اور میں یہ بےایمانی بالکل نہیں کروں گا۔“ اس نے کچھ بھی سمجھنے کے بجائے صاف انکار کردیا کہ اس کی تربیت اس کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔

”سوچ لیں احرار! کام ہونے کے صورت میں یہ آپ کا بیڑا پار لگا کر آپ کو فرش سے عرش پر پہنچا سکتی ہیں، اور نہ ہونے کی صورت میں نتیجہ اس کا الٹا ہوگا!“ انہوں نے آخری بار اسے سمجھانا چاہا۔

”سر بیڑا پار یا غرق کرنے کا اختیار صرف اللہ پاک کو ہے، قانون سب کیلئے برابر ہوتا ہے، اگر ان کا بیٹا مجرم نہیں ہے تو اسے کوئی سزا نہیں دلا سکتا، اور اگر مجرم ہے تو کوئی سزا ملنے سے روک نہیں سکتا، باقی میں اپنا کام بخوبی جانتا ہوں۔“ اس نے نہایت مضبوط انداز میں جواب دیا تو وہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگئے۔


*****************************************


پرائیویٹ ہسپتال کے صاف ستھرے چمکتے ہوئے ویٹنگ ایریا میں تینوں موجود اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ جہاں ان کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔

نہرین اور نورالعین صوفے پر بیٹھی ہلکی پھلکی باتیں کرنے میں مصروف تھیں جب کہ بابک موبائل میں مصروف ذرا فاصلے پر ٹہل رہا تھا۔

”آپ کی خالہ کے علاوہ آپ کی فیملی میں کون کون ہے؟“ نہرین نے یوں ہی پوچھا۔

”کوئی نہیں، ابو کا تو کافی سالوں پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا، دو، ڈھائی سال پہلے امی بھی چھوڑ کر چلی گئیں جن کے بعد بس اب فریدہ خالہ ہی میکے کے نام پر میرا واحد رشتہ ہیں، وہ میری سگی خالہ نہیں ہیں، امی کی کزن ہیں مگر ہمیشہ ماں جیسا ہی پیار دیا ہے۔“ اس کے انداز میں ان کیلئے عزت تھی۔

”وہ واقعی بہت اچھی لیڈی ہیں، جب تک آپ لوگ نہیں آئے تھے انہوں نے میرا بھی بہت اچھے سے خیال رکھا، بلکہ کبھی کبھی تو ان کی فکر کے آگے میں گلٹی ہوجایا کرتی تھی۔“ نہرین نے اس کی تائید کرتے ہوئے اضافی بات کہی۔

”اور صرف وہ ہی نہیں، آپ سب لوگ بہت اچھے ہیں، کہنے کو میں نیویارک جیسے بڑے شہر سے ہوں لیکن سچ بتاؤں تو وہاں بھی میں ٹوٹلی اپنے بھائی اور فادر پر ہی ڈیپینڈیڈ تھی، مجھے دنیا اور دنیا داری کا کوئی آئیڈیا نہیں ہے، پاپا کی ڈیتھ کے بعد جب ارسلان بھی اچانک غائب ہوگیا تو میں بہت گھبرا گئی تھی اور اس وقت جو ٹھیک لگا وہ قدم اٹھا لیا، لیکن جب ایک انجان شہر میں آکر میں لٹ گئی تھی تو مجھے اپنے قدم پر پچھتاوا ہوا، ڈر بھی لگنے لگا، مجھے کبھی کوئی صحیح غلط، اچھا برا سمجھانے والا ملا ہی نہیں تھا اسی لئے اپنی سمجھ بوجھ سے فیصلے لے کر خود ہی ان میں الجھ گئی، لیکن پتا نہیں میری وہ کون سی نیکی تھی جس کے بدلے ایک انجان شہر میں مجھے آپ لوگ مل گئے اور میں دربدر ہونے سے بچ گئی۔“ اس کے لہجے میں نادیدہ سا خوف اور آنکھوں میں بےپناہ تشکر تھا۔

”میں سمجھ سکتی ہوں کہ جس لڑکی نے ماں کو کبھی دیکھا ہی نہ ہو، اور کم عمری میں باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ جائے وہ اندر سے کتنی سہمی ہوئی ہوگی!“ نورالعین نے اپنائیت سے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا جس سے اسے بےحد حوصلہ ملا۔

”اور یہ کسی نیکی کا صلا نہیں سراسر رب کا کرم ہے جو وہ ہم پر کرتا ہے، ورنہ اگر ہمیں ہمارے اعمال کے بدلے دیا جا رہا ہوتا تو سوائے سزا کے شاید ہمارے حصے کچھ نہ آتا۔“ اس نے سادگی سے بہت گہری بات کہی جس سے نہرین نے بھی اتفاق کیا۔

تب ہی نورالعین کے موبائل پر احرار کی کال آئی جسے سننے کیلئے وہ ایکسکیوز کرتی وہاں سے چلی گئی۔

اب وہاں بس یہ دونوں تھے۔

بابک سست روی سے چلتا ہوا آکر اس سے فاصلے پر بیٹھ گیا جو کھلے کاریڈور سے نظر آتا آسمان دیکھ رہی تھی اور وہاں سے آتی ہوا اسے نرمی سے چھو رہی تھی۔

”کوئی پرابلم ہے؟“ بابک بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھنے لگا۔

”نہیں!“ بےتاثر جواب ملا۔

”تو پھر کل سے آپ اتنی کھنچی کھنچی سی کیوں ہیں؟ آپ کو کسی کی کوئی بات بری لگی ہے کیا؟“ اس نے سوال کرتے ہوئے جاننا چاہا۔

”جی، بہت بری لگی ہے۔“

”کس کی اور کون سی بات؟“

”آپ کی!“ جواب پر بابک نے چونک کر اس کی جانب گردن موڑی۔

”کل صبح جب آپ نے بلاوجہ نوری پر غصہ کیا وہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔“ اس کی نظریں ابھی بھی سامنے اور لہجہ سرد تھا۔

”میں نے بلاوجہ غصہ نہیں کیا تھا، اس کی غلطی تھی کہ اس نے آپ کو اکیلا کیوں چھوڑا؟“ بابک نے جیسے اپنی صفائی دی۔

”غلطی اس کی نہیں تھی، وہ اپنے ٹائم پر سونے گئی تھی اور صبح وقت پر ہی آئی تھی، میں جلدی بیدار ہوکر کمرے سے باہر نکل آئی، غلطی میری تھی، آپ نے بنا کسی قصور کے اس بیچاری کو سب کے سامنے اتنی بری طرح ڈانٹ دیا!“ وہ بھی اس کی جانب دیکھ کر تیز لہجے میں ترکی بہ ترکی بولی۔

وہ اسے دیکھنے لگا۔

”میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اچھا انسان وہ ہوتا ہے جو خود سے کمتر لوگوں کا بھی خیال رکھے اور ان کی ریسپیکٹ کرے، مگر آپ شاید صرف اپنے برابر کے لوگوں کی ہی عزت کرتے ہیں، میرا اوپینین آپ کے بارے میں غلط تھا کہ آپ ایک اچھے انسان ہیں۔“ وہ دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے خفگی بھرے تاسف سے بولی۔

بابک چپ چاپ اس کے دلکش چہرے کو دیکھتا رہا جس پر ناگواری کے رنگ واضح تھے اور ستم ظریفی یہ تھی کہ وہ ناگواری اسی کیلئے تھی۔

”مس نہرین!“ تب ہی نرس کے پکارنے پر دونوں اس کی جانب متوجہ ہوگئے کیونکہ ان کی باری آگئی تھی۔

*****************************************

احرار نے مطلوبہ پتے پر پہنچ کر کار روکی اور باہر آکر آنکھوں پر سن گلاسسسز لگاتے ہوئے آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔

یہ ایک لوئر مڈل کلاس محلہ تھا۔ جہاں بہت ہی خستہ حال گھر بے ترتیبی سے بنے ہوئے تھے۔ اور دوپہر کا وقت ہونے کی وجہ سے پسینے میں شرابور نیکر اور شرٹ پہنے بچے دنیا کی فکروں سے آزاد گلی میں کھیل رہے تھے۔

وہ ان بچوں کی جانب آیا۔

”بیٹا بات سنو!“ اس نے ایک بچے کو مخاطب کیا۔

”جی انکل؟“

”بتول بی بی کا گھر کون سا ہے؟“

”وہ سامنے لال دروازے والا گھر ہے۔“ بچے نے ایک سمت اشارہ کیا۔ وہ بچے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس گھر کی جانب آیا اور دروازے پر دستک دی۔

تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا اور ایک کمزور سی ادھیڑ عمر خاتون باہر آئیں۔

”السلام علیکم! آپ بتول بی بی ہیں؟“ اس نے مہذب انداز میں پوچھا۔

”وعلیکم السلام! جی میں ہی ہوں، کہیں کیا کام ہے؟“ انہوں نے سرتاپا باوردی احرار کا جائزہ لیتے ہوئے دریافت کیا۔

”میں آئی او احرار ملک ہوں، جس آصف لغاری کے خلاف آپ نے ایف آئی آر درج کروائی ہے اس کا کیس مجھے ہی ملا ہے، اور اسی سلسلے میں کچھ ضروری بات چیت کرنی ہے۔“ اس نے آمد کا مقصد بتایا۔

وہ چند لمحے تو کشمکش کا شکار رہیں پھر ایک کنارے پر ہوکے اسے اندر آنے کا راستہ دے دیا۔

وہ اندر آیا تو بتول بی بی اسے چھوٹا سا صحن عبور کرتے ہوئے ایک کمرے میں لے آئی جہاں ایک ڈبل اور دو سنگل لکڑی کے خستہ حال صوفے رکھے ہوئے تھے۔

”بیٹھیں!“ انہوں نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔

اس کے بیٹھتے ہی وہ خود بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں۔

”کیا آپ مجھے شروع سے ساری بات بتائیں گی کہ آپ کی بیٹی کے ساتھ درحقیقت ہوا کیا ہے؟“ اس نے سن گلاسسز اتار کر شرٹ میں اٹکاتے ہوئے بات شروع کی۔

اس کی بات پر وہ تھوڑی متفکر ہوگئیں جیسے شش و پنج کا شکار ہوں کہ تفصیل بتانی چاہیے یا نہیں؟

”ڈریں نہیں، یہ سوال جواب اسی ایف آئی آر کا حصہ ہیں جو آپ نے درج کروائی ہے، اور اس کیس کے حوالے سے مجھے جتنی تفصیل پتا ہوگی میں اتنے ہی بہتر انداز میں آپ کی مدد کر پاؤں گا۔“ ان کی گھبراہٹ بھانپ کر احرار نے خود ہی تسلی دی تو بلآخر انھوں نے بھی لب کھولے۔

”بیٹا جو ہوا ہے وہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے۔“ ان کے انداز میں کرب واضح تھا۔

”میری بیٹی حنا ایک فیکٹری میں نوکری کرتی ہے، وہ جو لڑکا ہے آصف ایک دن وہ اس فیکٹری میں آیا ہوا تھا شاید مالک سے اس کی جان پہچان تھی، تب ہی اس کی نظر میری بیٹی پر پڑگئی، بس پھر تب سے ہی ہر آئے دن اس کے فیکٹری میں چکر لگنے لگے، کئی بار تو اس نے حنا کا راستہ روکنے کی بھی کوشش کی، لیکن جیسے تیسے کرکے حنا بچ نکلتی تھی، مگر کچھ دن پہلے کی بات ہے، ہمارے گھر سے بس اسٹاپ بہت دور ہے، اور وہاں سے یہاں تک کا راستہ بھی سنسان ہے، میری بیٹی اسی راستے سے معمول کی طرح مغرب کے بعد فیکٹری سے واپس آرہی تھی، تب ہی بدقسمتی سے وہ اوباش بھی اس کا پیچھے کرتے ہوئے یہاں تک آگیا، اور سنسان جگہ پر میری بیٹی کو تن تنہا پا کر اس نے۔۔۔۔۔۔“ وہ بتاتے ہوئے یکدم دوپٹہ منہ پر رکھے رونے لگیں جس سے سلسلہ کلام ٹوٹا۔

وہ بھی ان کی کیفیت سمجھ سکتا تھا اسی لئے کوئی مداخلت نہیں کی۔ چند لمحوں بعد ہی وہ خود کو سنبھالتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئیں۔

”بہت روئی میری بچی، پر اس ویرانے میں کوئی اس کی مدد کو نہ آسکا، اپنا گناہ چھپانے کیلئے اس نے میری بیٹی کا گلا دبا کر اسے مارنا چاہا، اور اسے یہ ہی لگا کہ وہ مر گئی ہے، لیکن وہ زندہ تھی بس بےہوش ہوگئی تھی، اس کے جاتے ہی وہ بڑی مشکل سے جھاڑیوں کے بیچ میں سے اٹھی اور بڑی دشواری کے ساتھ لٹی پٹی گھر پہنچی۔“ انہوں نے روتے ہوئے ساری بات بتائی۔ اسے بہت دکھ ہوا سب جان کر لیکن اس وقت وہ ان کے ساتھ رونے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔

”تو ایف آئی آر درج کروانے کا خیال کس کا تھا؟ اور آپ کی بیٹی کو کیسے پتا کہ وہ لڑکا آصف لغاری ہے؟“ اس نے پیشہ ورانہ اندازہ میں استفسار کیا۔

”ایف آئی آر درج کروانے کا خیال میرا ہی تھا، حنا تو بالکل بھی راضی نہیں تھی، اور اس لڑکے کی تصویریں اکثر اخباروں میں آتی رہتی ہیں اپنی ماں کے ساتھ اسی لئے حنا پہچان گئی تھی اسے۔“ انہوں نے مزید بتایا تو وہ ذہن میں ساری باتیں ترتیب دیتا گیا۔

”آپ کے ساتھ بہت برا ہوا، لیکن اس برائی کے خلاف آواز اٹھا کر آپ نے بہت ہمت کا کام کیا ہے۔“ احرار نے انھیں سراہا۔

”ہمت دکھا تو دی ہے بیٹا لیکن پتا نہیں ہم غریب لوگوں کو انصاف ملے گا بھی یا نہیں؟“ ان کے انداز میں فکر تھی۔

”آپ پریشان نہ ہوں، ان شاءاللہ سب اچھا ہوگا۔“ اس نے تسلی دی۔ وہ کچھ نہ بولیں۔

”ریپ کے بعد پولیس نے آپ کی بیٹی کا میڈیکل کروایا تھا؟“ اس نے ایک اور سوال کیا۔

”جی ہسپتال لے کر تو گئے تھے، لیکن اس کے بعد کیا ہوا یا ہمیں کیا کرنا ہے کچھ نہیں بتایا۔“ ان سب معاملات سے لاعلم ہونے کے باعث انھوں نے ناسمجھی ظاہر کی۔

”ٹھیک ہے، میں دیکھ لوں گا۔“ اس نے پرسوچ انداز میں سر ہلایا۔

”اچھا اب میں چلتا ہوں، بہت شکریہ وقت دینے کیلئے۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور سن گلاسسز پہنتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

باہر آکے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے بعد اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کسی کا نمبر ڈائل کرکے کان سے لگایا۔

”السلام علیکم سر!“

”جی میں نے آپ کو یہ بتانے کیلئے فون کیا ہے کہ آپ جہاں آرا سے بات کرکے انھیں بتا دیں کہ مجھے یہ سودا منظور ہے، اور اس سودے کے بدلے مجھے کیا چاہیے وہ میں کیس کلوز ہونے کے بعد بتاؤں گا۔“ اس نے مبہم سی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ اپنا ارادہ بتایا۔


****************************************

کمرے کے وسط میں ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ جن میں سے ایک پر باوردی احرار بیٹھا تھا اور اس کے سامنے آصف لغاری موجود تھا جس کے چہرے پر مجرموں والا کوئی خوف نہیں تھا۔

”میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ وہ عورت مجھ پر جھوٹا الزام لگا رہی ہے۔“ کسی سوال کے جواب میں آصف نے اکھڑے ہوئے انداز میں وہ ہی بات دہرائی۔

”ٹھیک ہے، مت بتاؤ لیکن اگر تفتیش کے دوران میرے یا کسی اور آفیسر کے ہاتھ کوئی ثبوت لگ گیا تو پھر تمہیں کوئی بچا نہیں سکے گا، ہاں اگر ابھی تم مجھے سب سچ سچ بتا دیتے تو شاید میں وہ ثبوت مٹا کر تمہاری کچھ مدد کر پاتا۔“ احرار بھی بےنیازی سے گویا ہوا۔

”لیکن خیر! جیسی تمہاری مرضی۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے کندھے اچکائے اور جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا۔

جبکہ آصف کے چہرے پر سوچ کے آثار بہت واضح تھے۔

”ایک منٹ آفیسر!“ اس نے پکارا تو سوالیہ انداز میں وہ رک گیا۔

”میں کیسے مان لوں کہ تم سچ میں میری مدد کرنا چاہتے ہو؟ ہوسکتا ہے کہ یہ تمہاری چال ہو سچ اگلوانے کیلئے!“ اس نے آئبرو اچکاتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔

احرار بے ساختہ ہنس پڑا جس پر اسے تعجب ہوا۔

”اسے کہتے ہیں چور کی داڑھی میں تنکا!“ وہ اسی طرح کہتا ہوا واپس بیٹھا۔

”تمھیں لگتا ہے یہ میری چال ہے سچ اگلوانے کی، اس کا مطلب تم قبول کر رہے ہو کہ اب تک جو تم کہتے آرہے تھے وہ سچ نہیں ہے!“ احرار نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ اس کی توجہ اس کلہاڑی کی جانب دلائی جس پر وہ خود پاؤں مار چکا تھا۔

اس کی بات پر آصف بے ساختہ دل ہی دل میں خود کو کوس کر رہ گیا۔

”سیدھی سی بات ہے کہ بلی تھیلی سے باہر آچکی ہے، اب تھیلی کا منہ بند کرنے سے کچھ نہیں ہوگا، لہٰذا تمہارے پاس اب کوئی راستہ نہیں ہے سچ بتانے کے علاوہ، ہوسکتا ہے کہ میں تمہاری کچھ مدد کردوں!“ اس نے آخری جملہ شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ رازداری سے کہا۔

”تم میری مدد کیوں کرو گے؟“ وہ ابھی تک مطمئن نہیں ہوا تھا۔

”کیونکہ دنیا کا نظام give & take ہے، آج میں تمہاری مدد کروں گا تو کل بدلے میں تمہیں بھی میری مدد کرنی پڑے گی۔“ اس نے دبے دبے لفظوں میں اپنا مطالبہ رکھا جس کا مفہوم آصف بخوبی سمجھ رہا تھا۔

”میں نے اس کیس کے آئی او کو خرید لیا ہے، وہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہے، تم فکر مت کرنا بیٹا۔“ آصف کے ذہن میں اس کی ماں کی وہ ہی بات گونجی جو کچھ دیر قبل انہوں نے فون پر اس سے کہی تھی۔

اسے بھی احرار کے رویہ سے تھوڑا حوصلہ مل رہا تھا اسی لئے وہ سب بتانے پر آمادہ ہوگیا۔

”ایک بار میں کچھ کام کے سلسلے میں اپنے دوست سے ملنے اس کی فیکٹری گیا تھا، وہیں میری نظر اس لڑکی پر پڑی۔

ایک دن میں اس کا پیچھے کرنے لگا۔

جب وہ اپنے بس اسٹاپ پر اتری تو وہاں سے میرا ارادہ اسے گاڑی میں ڈال کر کہیں دور لے جانے کا تھا، لیکن وہ جگہ پہلے ہی اتنی سنسان تھی کہ مجھے وہ بھی ٹھیک لگی۔

وہیں میں نے اسے دبوچ لیا اور روڈ کے سائیڈ میں اگی جھاڑیوں میں لے گیا۔ کیونکہ میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا تھا اسی لئے آخر میں اس کا گلا بھی دبا کر اسے ختم کرنے کی کوشش کی، جس سے چند لمحوں میں ہی اس نے حرکت کرنا بند کردی، میں سمجھا کہ وہ مر چکی ہے اسی لئے میں وہاں سے آگیا، مگر وہ زندہ بچ گئی اور۔۔۔۔۔۔۔۔“ بڑے ہی ڈھیٹ پن اور بے رحمی سے اپنے گناہ کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ آخر میں رکا۔

”اور کیا؟“ اسے بغور سنتے احرار نے کریدا۔

”اور کچھ نہیں۔۔۔۔بس یہ ہی بات تھی۔“ اس نے غالباً بات بدل دی تھی۔ کچھ تھا جو وہ زبان تک لا کر خاموش ہوگیا۔

”تم نے سوچا نہیں کہ لڑکی کی میڈیکل رپورٹ ساری پول کھول سکتی ہے؟“ احرار نے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔

”اس کی نوبت ہی نہیں آئے گی، ڈاکٹرز کو خرید کر وہ رپورٹ چینج کی جا چکی ہے۔“ اس نے لاپرواہی سے اطلاع دی۔

”اب یہاں سے آگے تمہاری ذمہ داری ہے کہ مجھے صحیح سلامت اس کیس سے نکالو، کیونکہ اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ تمہیں یہ کتنا مہنگا پڑے گا۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے دانت پیس کر دھمکی بھی دے ڈالی۔

”بے فکر رہو، میں گھاٹے کا سودا نہیں کرتا۔“ احرار نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔


*********************************


سورج غروب ہونے کے بعد حسب معمول سب لوگ ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکٹھا ہوئے ہلکی پھلکی باتوں کے دوران کھانا کھانے میں مصروف تھے۔

نہرین کے سر کی چوٹ کافی حد تک مندمل ہوگئی تھی اسی لئے اس کے سر کی پٹی کھول دی گئی تھی لیکن پیر کا پلاسٹر ابھی تک نہیں اترا تھا۔ اسے کچھ مزید وقت درکار تھا۔

”یہ تو واقعی بہت اچھی بات ہے کہ آپ کے سر کی چوٹ بہتر ہو رہی ہے، اور اگلے وزٹ میں پلاسٹر بھی اتر ہوجائے گا۔“ آج کے چیک اپ کی بابت جان کر احرار کو درحقیقت اچھا لگا۔

”جی یہاں سب میرا اتنا خیال جو رکھتے ہیں، تو ٹھیک ہونا ہی تھا۔“ نہرین مسکراتے ہوئے ان کی مشکور ہوئی۔

”ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ تمہاری اپنی ول پاور بھی کافی اچھی ہے، اسی لئے تم جلدی ریکور کر رہی ہو۔“ نورالعین نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

تب ہی نوری خالی ہوچکی ٹرے میں دوبارہ چاول لے کر روم میں آئی اور ٹرے میز پر رکھ کر جانے لگی۔

”نوری!“ خاموشی سے کھانا کھاتے بابک نے اچانک پکارا۔

”جی صاحب!“ وہ بھی فوراً متوجہ ہوئی۔

”آئی ایم سوری! اس دن تم پر خواہ مخواہ اتنا زیادہ غصہ کر گیا تھا۔“ بابک نے اس سے اپنے رویے کی معذرت کی۔

اس عمل پھر جہاں نوری ششدر رہ گئی تھی وہیں احرار اور نورالعین بھی ہکابکا سے اسے دیکھ رہے تھے کہ بابک ملازمہ سے معافی مانگ رہا ہے! جب کہ نہرین کے تاثرات بالکل نارمل تھے۔

”کوئی بات نہیں صاحب! آپ مالک ہیں، غلطی پر ڈانٹ سکتے ہیں۔“ تھوڑی حیرت قابو کرتے ہوئے نوری بمشکل گویا ہوئی کہ اتنے سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

”ہاں لیکن اس دن تمہاری غلطی اتنی نہیں تھی جتنا سخت میں نے بی ہیو کیا، اس کیلئے سوری، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔“ اس نے متوازن سنجیدہ انداز میں پھر کہا تو نوری سمجھ نہیں پائی کہ فوری طور پر کیا بولے؟

جب کہ احرار اور نورالعین بھی حیران سے کبھی بابک کو دیکھ رہے تھے تو کبھی ایک دوسرے کو۔

”اب تم جا سکتی ہو۔“ بابک نے اجازت دی تو وہ ”شکریہ صاحب“ کہتی وہاں سے چلی گئی۔

بابک نے نہرین کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی مگر نظریں ملنے پر اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوگئی تو بابک نے بھی توجہ کھانے پر مبذول کرلی۔


*****************************************


”بابک نے ملازمہ سے معافی مانگی۔۔۔۔بابک نے۔۔۔۔اٙن بلیوبل!“ نورالعین ابھی تک سخت حیرت کا شکار تھی جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی اپنے ٹاپس اتار رہی تھی۔

”ہاں تھوڑی تعجب خیز بات ہے مگر اتنی بھی نہیں، بھیا اب واقعی بدل گئے ہیں، اب وہ اپنی غلطیوں پر اڑے نہیں رہتے، بلکہ انہیں تسلیم کرکے معافی مانگ لیتے ہیں، تم سے بھی تو مانگی تھی!“ احرار کے انداز میں اپنے بھائی کیلئے بیک وقت محبت اور عزت تھی جو بیڈ پر آلتی پالتی مارے بیٹھا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا۔

”ہاں مجھے یاد ہے، اور ہمارا معاملہ الگ تھا، لیکن اچانک ایک ملازمہ سے معافی مانگنا!“ اس کی حیرت جوں کی توں تھی۔

”تم جانتی تو ہو کہ بھیا کو ملازمین کی لاپرواہی پسند نہیں ہے، ہوسکتا ہے ہماری غیر موجودگی میں، کسی بات پر بھیا نے اسے پہلے ڈانٹا ہو اور اب احساس ہونے پر معذرت کرلی، اینڈ اِٹس آ گڈ سائن، اب تم خواہ مخواہ بال کی کھال نکال کر خود بھی الجھ رہی ہو اور مجھے بھی الجھا رہی ہو، میں بہت امپارٹنٹ کام کر رہا ہوں۔“ احرار نے اسی مصروف انداز میں بات رفع دفع کرنی چاہی۔

وہ بھی وہاں سے اٹھ کر بیڈ کی جانب آنے لگی۔

”پولیس آفیسر کی بیوی ہوں ناں! تو اسی کی صحبت کا اثر ہو رہا ہے۔“ وہ مزے سے کہتے ہوئے اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔

”تو اِس پولیس آفیسر کی صحبت میں رہ کر اب تک بس شک کرنا ہی سیکھا تم نے؟“ اس نے دلچسپی سے نظر اٹھا کر گردن موڑی۔

”ہاں، خود سے تو یہ ہی سیکھا، اب یہ آفیسر اپنے کاموں سے فارغ ہوکر پرسنلی کچھ سکھانا چاہے تو بات الگ ہے۔“ اس نے شرارتاً کہتے ہوئے پیر کے پاس موجود کمبل کھول کر خود پر اوڑھا۔

”ابھی سکھاتا ہوں۔“ اس نے کہتے ہوئے لیپ ٹاپ بند کرکے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ساتھ ہی کمرے کی لائٹس آف کردیں۔

”آپ کے امپارٹنٹ کام میں حرج ہوجائے گا۔“ اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چھیڑا۔

”نہیں ہوگا، میں مینج کرلوں گا۔“ وہ کمبل اوڑھتے ہوئے اس کے قریب آگیا۔ وہ بھی اس کے مزید پاس ہوگئی اور عین اسی پل احرار کا موبائل گنگنا اٹھا۔

اس نے کوفت سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا موبائل چیک کیا تو اسکرین پر مرتضیٰ صاحب کا نام نظر آیا۔

”یس سر؟“ اسے مجبوراً کال ریسیو کرنی پڑی۔

”جی سر مجھے پتا ہے کل پیشی ہے، آپ جہاں آرا جی سے کہیں کہ فکر نہ کریں، سب ویسا ہی ہوگا جیسا انہوں نے کہا ہے۔“ کسی بات کے جواب میں اس نے تسلی کرائی اور پھر چند ایک بات کے بعد لائن ڈسکنیکٹ کرکے موبائل واپس رکھ دیا۔

”یہ جہاں آرا وہ ہی ہیں جن کے بیٹے کے بارے میں خبروں میں بتا رہے تھے، وہ ریپ کے کیس میں گرفتار ہے، یہ کیس تم دیکھ رہے ہو؟“ نورالعین نے جاننا چاہا۔

”ہاں!“ اس نے دونوں سوالوں کو یک لفظی جواب دیتے ہوئے اسے خود میں بھینچا۔

”تو پھر تم نے یہ کیوں کہا کہ جیسا انہوں نے کہا ویسا۔۔۔۔۔“

”وہ سب تمہارے لئے امپارٹنٹ نہیں ہے۔“ احرار نے اس کی بات کاٹی۔

”تمہارے لئے بس میں امپارٹنٹ ہوں تو مجھ پر اور اس پر توجہ دو جو میں سکھا رہا ہوں۔“ احرار نے اپنا چہرہ اس کے بےحد قریب کرتے ہوئے نرمی سے اس بال پیچھے کیے۔

”یس سر!“ اس نے بھی مزید کریدنے کے بجائے شریر فرمابرداری سے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے خود کو اس کے حوالے کردیا۔


*****************************************


نہرین بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے، پیروں پر کمبل اوڑھے، ایلف شفک کی کتاب فورٹی رولز آف لو پڑھ رہی تھی۔

تب ہی دروازے پر آہستہ سے دستک ہوئی۔

”آجائیں!“ اس نے کتاب بند کرتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا۔

دروازے کا ہینڈل گھوما اور بابک اندر آیا۔

”ڈسٹرب تو کیا؟“ وہ مہذب انداز میں پوچھتا دروازے پر ہی کھڑا تھا۔

”جی نہیں، کہیے۔“ وہ کتاب بیڈ کے کنارے رکھتے ہوئے مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ تھی۔

”میں نے آپ کی بات پر غور کرکے یہ رئیلائز کیا کہ واقعی مجھے نوری کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا، اب تو آپ کو مجھ سے کوئی شکایات نہیں ہے؟“ اس کی آنکھوں میں بےریا معصوم سا سوال تھا۔

مطلب وہ یہاں اپنی غلطی سدھار لینے کے عوض اس کی قیمتی رائے جاننے آیا تھا۔ جس کی نہرین کو بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

”میں بھلا آپ سے ناراض ہونے والی کون ہوتی ہوں؟“ وہ نظریں چراتے ہوئے گویا ہوئی۔

”میں تو بس چند دنوں کا ایک بن بلایا مہمان ہوں آپ کے گھر، جو جلد ہی چلا جائے گا، میری وجہ سے آپ کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے نظریں کمبل کی سلوٹوں پر رکھے ہوئے ہی مزید کہا اور ساتھ ہی ایک پیر موڑا جس کی وجہ سے کمبل کھنچا اور بیڈ کے کنارے رکھی کتاب نیچے فرش پر گر گئی جسے دونوں نے ہی دیکھا۔

اس کی بات کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے بابک متوازن قدموں سے آگے آیا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر سفید فرش پر گری کتاب اٹھائی۔

”آپ نے صبح ہاسپٹل میں ٹھیک کہا تھا کہ میں ایک اچھا انسان نہیں ہوں۔“ وہ یوں ہی بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں کتاب پر تھیں اور نہرین کی نگاہیں اس پر!

”مگر ہاں۔۔۔۔۔۔۔میں ایک اچھا انسان بننے کی کوشش میں ہوں۔“ اس نے نظر اٹھا کر نہرین کو دیکھا جو اسے ہی تک رہی تھی۔

”جب تک آپ یہاں مہمان ہیں تب تک اگر آپ کو اپنے میزبان میں مزید کوئی برائی نظر آئے تو اس سے بدظن ہونے کے بجائے اسے آگاہ کر دیجئے گا، وہ اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا، اور کیا پتا ان ہی چھوٹی موٹی کوششوں سے وہ بھی بلآخر ایک اچھا انسان بن جائے!“ وہ سادگی سے کہتے ہوئے آخر میں دھیرے سے مسکرایا تو نہرین کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا۔ اس نے فوری گڑبڑا کر نگاہیں چرالیں گویا وہ آنکھوں سے دل کی دھڑکن سن لے گا۔

”ڈسٹرب کرنے کیلئے سوری!“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کتاب نہرین کی گود میں رکھی جسے اس نے اپنی منتشر دھڑکن قابو کرنے کی ناکام کوشش میں یوں ہی کھول لیا۔

”گڈ نائٹ!“ وہ کہہ کر، آہستہ سے دروازہ بند کرکے چلا گیا۔

مگر اس کے پرفیوم کی مہک وہیں کمرے میں رہ گئی تھی جو گہری سانس لینے کے باعث اس کی سانسوں میں اترتی چلی گئی۔

وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ کتاب اس کی گود میں کھلی رکھی تھی جس کے صفحے پر اس نے ہاتھ رکھا ہوا تھا۔

یوں ہی بےدھیانی میں اس نے کتاب پر نظر ڈالی تو صفحہ نمبر 87 پر، جہاں اس کا ہاتھ تھا وہاں لکھے لفظوں کو پڑھنے لگی۔

The quest for Love changes us. There is no seeker among those who search for Love who has not matured on the way. The moment you start looking for Love, you start to change within and without.

ترجمہ :

”محبت کی تلاش ہمیں بدل دیتی ہے۔ محبت کی تلاش کرنے والوں میں کوئی ایسا نہیں جو راستے میں پختہ نہ ہوا ہو۔ جس لمحے آپ محبت کی تلاش شروع کرتے ہیں، آپ اندر اور باہر سے بدلنا شروع کر دیتے ہیں۔“

اس لمحے خودبخود ان الفاظ کے سامنے آنے والے اتفاق پر وہ بھی حیران رہ گئی۔

اسے لگا کہ جیسے قدرت بھی اس کی سفارش کرنے لگی ہے جو غلط راستہ چھوڑ کر راہِ راست کی تلاش میں نکلا تھا، اور خود کو ایک برے سے اچھے انسان میں بدلنا چاہتا تھا، اور اس نے بدلا بھی تھا، محض اس کے ایک بار ٹوکنے پر!


*****************************************


ایک نیا سویرا پھر سے نکل آیا تھا اور ساتھ ہی سب کو ناشتے کے بہانے ڈائینگ ٹیبل کے گرد لے آیا تھا۔

”گمشدہ سامان واپس مل جانا تو لگ بھگ امپاسبل ہے، مگر ہاں نہرین کے بھائی کے حوالے سے ایک بات سوچی ہے میں نے۔“ باوردی احرار نے ناشتہ کرتے ہوئے کہا جس کے برابر میں نورالعین بیٹھی تھی۔

”کیا سوچا ہے؟“ بابک اور نہرین نے بیک وقت پوچھا۔ پل بھر کو دونوں اس اتفاق پر چونکے پھر اسے نظرانداز کردیا۔

”میں نے سوچا ہے کہ ہم نہرین سے ان کے بھائی کا اسکیچ بنواتے ہیں، اور اس کی مدد سے اسے ڈھونڈتے ہیں، کیونکہ تصویر تو کوئی بچی نہیں ہے اسی لئے اب اسکیچ ہی ہماری کچھ مدد کر پائے گا۔“ اس نے اپنا خیال سامنے رکھتے ہوئے چائے کا گھونٹ لیا۔

”زبردست آئیڈیا ہے، تم جلد از جلد اسکیچ آرٹسٹ کو لے آؤ احرار!“ بابک کو یہ خیال بےحد پسند آیا۔

”آپ اسکیچ بنوا لیں گی ناں نہرین؟“ ساتھ ہی بابک نے اس سے جاننا چاہا۔

”جی بنوا لوں گی، مگر اس کے بعد میرے بھائی کے ملنے کے چانس تو ہیں ناں؟“ اس نے ہامی بھرتے ہوئے بےتابی سے پوچھا۔

”تم فکر مت کرو نہرین، جب سب اتنی کوششیں کرکے رہے ہیں تو کوئی اچھا رزلٹ ہی آئے گا۔“ نورالعین نے تسلی دی تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


*****************************************


سب لوگ اس وقت کورٹ روم میں موجود تھے۔

آصف لغاری بےنیازی سے ایسے کٹھرے میں کھڑا تھا جیسے بس فارمیلیٹی پوری کر رہا ہو۔

لائن سے لگی بینچز میں سے ایک پر جہاں آرا اپنے پورے غرور کے ساتھ موجود تھیں۔

جبکہ حنا اور بتول بی بی بھی ڈری سہمی سی بیٹھی تھیں۔

باوردی احرار باقی آفیسرز کے ساتھ ایک کنارے پر کھڑا تھا، اور سب ہی جج کا انتظار کر رہے تھے۔ جو کہ تھوڑی دیر میں آگئے۔

”عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔“ جج نے بیٹھتے ہی حکم دیا۔

ایک درمیانی عمر کے وکیل صاحب اٹھ کر آگے آئے۔

”جج صاحب میرے کلائینٹ آصف لغاری پر حنا نامی محترمہ کی والدہ نے الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ان کی بیٹی کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے، جو کہ بالکل جھوٹ ہے، اس لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ کچھ روز قبل جب ان کی بیٹی شام میں جاب سے واپس آرہی تھی تب ہی سانحہ ہوا، لیکن چند روز قبل شام کے وقت میرے کلائینٹ تو اس شہر میں تھے ہی نہیں۔“ وکیل صاحب نے پورے جوش سے جرح شروع کی۔ جسے جج صاحب بغور سننے لگے۔

”آپ بتائیں مسٹر لغاری! چھے مارچ کو شام پانچ سے سات کے بیچ آپ کہاں تھے؟“ وکیل صاحب اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

”اس دن میں اپنے ایک دوست کی شادی اٹینڈ کرنے لاہور گیا ہوا تھا۔“ اس نے طوطے کی طرح رٹا ہوا سبق دہرایا۔

”آپ نے سنا یور آنر! اس روز یہ شہر میں تھے ہی نہیں اور جب لڑکی کا میڈیکل کروایا گیا تو رپورٹ میں بھی ریپ کے کوئی شواہد نہیں پائے گئے۔“ انہوں نے مزید کہتے ہوئے ایک فائل میز پر سے اٹھا کر جج صاحب کو بھجوائی۔

وکیل کی بات سن کر بتول بی بی اور حنا نے گھبرا کر ایک دوسرے کو دیکھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟

جب کہ جج صاحب وہ فائل پڑھنے لگے۔

”اور جج صاحب اب میں آپ کی اجازت سے چاہوں گا کہ اس کیس کے آئی او مسٹر احرار ملک وٹنس باکس میں آکر وہ ثبوت پیش کریں جو دورانِ تفتیش انہیں میرے کلائینٹ کے حق میں ملے۔“ وکیل نے اجازت طلب کی۔

”اجازت ہے۔“ اجازت ملنے پر احرار ویٹنس باکس میں آیا۔

”جی تو مسٹر احرار! جج صاحب کو بتائیے کہ دورانِ تفتیش آپ کو کیا پتا چلا؟“ وکیل نے بات شروع کی۔

”یور آنر! میں بجائے کچھ کہنے میں وقت برباد کرنے کے سیدھا وہ ثبوت پیش کرنا چاہوں گا جو ویڈیو کی صورت میرے پاس موجود ہے۔“ وہ مؤدب انداز میں گویا ہوا۔

جہاں آرا نے مرتضیٰ صاحب کی جانب دیکھا گویا نظروں میں پوچھ رہی ہوں کہ ”یہ کوئی گڑبڑ تو نہیں کرے گا؟“

جواباً مرتضیٰ صاحب نے انہیں نظروں سے ہی اطمینان رکھنے کی تلقین کی۔

اس دوران کورٹ روم میں پروجیکٹر کا بندوبست کرکے وہ یو ایس بی لگائی جا چکی تھی جو احرار نے دی تھی۔ سب کی نظریں اسکرین پر تھیں۔

اسکرین پر ایک منظر ابھرا جس میں آصف ایک کرسی پر بیٹھا نظر آیا۔ اور ویڈیو دیکھ کر لگ رہا تھا کہ یہ ویڈیو کسی نے شرٹ میں خفیہ کیمرہ لگا کر ریکارڈ کی ہے۔

”اسے کہتے ہیں چور کی داڑھی میں تنکا، تمہیں لگتا ہے کہ یہ میری چال ہے سچ اگلوانے کی، اس کا مطلب تم قبول کر رہے ہو کہ اب تک جو تم کہتے آرہے تھے وہ سچ نہیں ہے۔“ احرار کی صرف آواز کمرے میں گونجی جسے سن کر سوائے احرار کے سب اپنی اپنی جگہ ششدر رہ گئے۔

کیمرہ اور مائک کیونکہ اس کی شرٹ پر لگے تھے اسی لئے اس کی صرف آواز آرہی تھی۔

اور پھر وہ ساری باتیں یا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ آصف لغاری کا اعتراف جرم وہاں موجود ہر شخص نے سن لیا۔

جہاں حنا اور بتول بی بی کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

جب کہ آصف لغاری، جہاں آرا اور مرتضیٰ صاحب آنکھیں پھاڑے کبھی اسکرین کو دیکھ رہے تھے تو کبھی وٹنس باکس میں اطمینان سے سینے پر بازو لپیٹے کھڑے احرار کو۔

”نہیں یہ جھوٹ ہے۔۔۔۔یہ۔۔۔یہ میں نہیں ہوں ویڈیو میں۔۔۔۔یہ کوئی اور ہے۔“ آصف نے ہکلاتے ہوئے کمزور سی مزمت کی۔

”یور آنر! میرے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ اس شخص کو اعتماد میں لے کر اس سے سچ اگلواؤں، اسی لئے مجھے ایسا کرنا پڑا، یہ ویڈیو بالکل اصلی ہے، اور اس بات کا اندازہ آپ کو مجرم کی اٹکتی زبان سے بھی ہو رہا ہوگا۔“ احرار نے مضبوط انداز میں دلیل دی۔

جج صاحب اپنے سامنے رکھی فائل پر کچھ لکھنے لگے جبکہ جہاں آرا کی قہر آلودہ نگاہیں ہنوز احرار اور مرتضیٰ صاحب پر تھیں۔

”آپ کچھ کہنا چاہیں گے اپنے کلائینٹ کے حق میں؟“ جج نے وکیل صاحب سے استفسار کیا۔

”جی نہیں جج صاحب!“ انہوں نے اپنے ماتھے پر آیا پسینہ رومال سے صاف کرتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

”اس ویڈیو میں کیونکہ ملزم نے خود اعترافِ جرم کیا ہے، لہٰذا اب مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے، اور اس ثبوت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم آصف لغاری نے بتول بی بی کی بیٹی حنا کے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے، لہٰذا تعزیرات پاکستان کی دفعہ 367 کے تحت یہ عدالت ملزم آصف لغاری کو دس سال قید سناتی ہے، اور ساتھ ہی مجرم پر تیس لکھ روپے جرمانہ بھی عائد کرتی ہے، اور لڑکی کی میڈیکل رپورٹ تبدیل کرکے عدالت کو گمراہ کرنے کے جرم میں میڈیکل اسٹاف سے بھی سخت تفتیش کرکے اس میں ملوث لوگوں کو حراست میں لینے کا حکم دیتی ہے، عدالت برخاست ہوئی!“ جج صاحب نے سنجیدگی سے فیصلہ سنا دیا۔

بتول بی بی اور حنا خوشی کے مارے ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔ جبکہ باقی سب بھی اٹھ کر جانے لگے۔


*********************************


”یہ آپ نے کیا کِیا احرار؟ آصف لغاری کے خلاف ہی ثبوت پیش کردیے!“ کورٹ کے کاریڈور میں موجود مرتضیٰ صاحب اب اس سے باز پرس کر رہے تھے کیونکہ جہاں آرا کے عتاب پر بھی انہیں ہی آنا تھا۔

"میں نے ثبوت جھوٹ کے خلاف پیش کیے ہیں سر، جو کہ میری ڈیوٹی ہے۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔

”لیکن کل فون پر آپ نے ہی تو کہا تھا کہ آپ کو سودا منظور ہے۔“ انہوں نے یاد دلایا۔

”جی کہا تھا، اور اسی لئے کہا تھا کہ کہیں آپ لوگ کوئی دوسرا راستہ نہ ڈھونڈ لیں مجرم کو بچانے کا۔“ اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا تو وہ كلس کر رہ گئے۔

تب ہی دو اہلکاروں کے درمیان آصف لغاری بھی کورٹ روم سے باہر آیا۔ اور قہر برساتی نگاہوں سے اسے گھورتے ہوئے وہاں سے گزر گیا جس کے احرار نے کوئی اثر نہیں لیا۔

اور اس کے پیچھے جہاں آرا غصے میں بھپری ہوئی احرار کے پاس پہنچی۔

”شرافت کی زبان سمجھ میں نہیں آئی نہ تجھے آفیسر! اب تیار رہ اپنی بربادی کیلئے۔“ انہوں نے غضبناک ہوکر باور کرایا۔

”جہاں آرا جی۔۔۔پلیز میری بات سنیں!“ مرتضیٰ صاحب نے معاملہ فہم انداز میں مداخلت کرنی چاہی جسے دونوں ہی خاطر میں نہیں لائے۔

”اگر تم جیسے لوگوں سے ڈر کر دبنا ہی ہوتا تو یہ محکمہ جوائن نہ کرتا، لہٰذا یہ دھمکیاں جا کر کسی اور کو دو۔“ اس پر رتی برابر بھی اثر نہیں ہوا تھا۔

البتہ ان کا طیش مزید بڑھ گیا اور مرتضیٰ صاحب کی گھبراہٹ بھی!

”آج سے تیری الٹی گنتی شروع آفیسر!“ انہوں نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی۔اور بنا مزید کوئی بات کیے تیزی سے آگے بڑھ گئیں۔

مرتضیٰ صاحب بھی ان کے پیچھے لپکے۔

جبکہ احرار اطمینان سے آنکھوں پر سن گلاسز لگاتے ہوئے باہر کی جانب بڑھ گیا۔ اس بات سے یکسر بے خبر کہ واقعی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے۔

*********************************

”اور سناؤ؟ تمہاری وہ مہمان مہرین صاحبہ کیسی ہیں؟“ یاور موبائل کان سے لگائے آفس چیئر پر جھول رہا تھا۔

”اس کا نام مہرین نہیں نِہرین ہے، شروع میں ن آتا ہے م نہیں اور ن کے نیچے زیر آتی ہے جیسے میرے نام میں دوسری والے ب کے نیچے زیر لگتی ہے!“ اپنی آفس چیئر پر موجود بابِک نے اچھی خاصی تفصیلی تصحیح کی جو ٹیبل پر رکھے موبائل کا اسپیکر آن کیے ساتھ ساتھ لیپ ٹاپ پر کام بھی کر رہا تھا۔

”ہاں وہ ہی، اور اس کے اماں ابا کو کیا ضرورت تھی ایسا نمونہ نام رکھنے کی، سمپل سا مہرین نام نہیں رکھ سکتے تھے؟“ اس نے کوفت سے کہا۔

”مہرین نام بہت کامن ہے، جب کہ نِہرین نام یونیک ہے، بالکل اس کی شخصیت کی طرح، اور نِہرین کا مطلب ہوتا ہے ملکہ!“ اس کے دفاع کرتے ہوئے انداز میں عجیب سی نرمی تھی۔

”تجھے کیسے پتا چلا اس کے نام کا مطلب؟“

”میں نے گوگل کیا تھا۔“

”شاباش! تو نے کبھی اپنے نام پر اتنی ریسرچ کی ہے؟“ اس نے طنزیہ کیا۔

”ہاں، اپنے نام کا مطلب پتا ہے مجھے، اس کا لفظی مطلب ہے قانون اور یہ ایک بادشاہ کا نام تھا جو اس کی وجہ شہرت بھی ہے۔“ اس نے فخر سے علم میں اضافہ کیا۔

”واہ! تو بادشاہ، وہ ملکہ تو پھر کب دونوں مل کر اپنی سلطنت کھڑی کرنے کے بعد ڈھیر سارے شہزادے، شہزادیاں دنیا میں لانے والے ہو؟“ اس نے مزے سے جاننا چاہا۔

”ابھی تو بیچاری کے ساتھ ٹریجڈی چل رہی ہے، ابھی اس کی ہیلتھ اور اس کے بھائی کا ملنا زیادہ امپارٹنٹ ہے۔“ اس کے انداز میں فکر تھی۔

”اچھا، ابھی ٹریجڈی چل رہی ہے، مطلب جب یہ ٹریجڈی ختم ہوجائے گی تب بادشاہ سلامت کا ارادہ ہے اپنے دل کے تخت پر ان ملکہ عالیہ کو بٹھا کر تاجِ محبت پہنانے کا؟ ہے ناں؟“ یاور نے شرارت سے نتیجہ نکالا تو ناچاہتے ہوئے بھی بابک کے لبوں پر مسکراہٹ امڈ آئی۔

”تیرے پاس اور کوئی کام نہیں ہے فضول کی ہانکنے کے سوا؟“ اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے بات بدلی۔

”بیٹا یہ فضول کی نہیں ہے، یہ تجربہ بول رہا ہے، اور دیکھ لینا ایسا ہی ہوگا۔“ وہ بھی ہنوز اپنی بات پر قائم رہا۔


********کانچ ٹوٹنے کی زور دار آواز پورے بنگلے میں گونجی تھی جس سے سب ہی ملازم چونکے ضرور مگر حیران نہیں ہوئے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ آواز کیوں اور کہاں سے آئی ہے؟

یہ آواز جہاں آرا کے کمرے سے آئی تھی۔

انہوں نے غصے میں پاگل ہوتے ہوئے میز پر رکھا ایک قیمتی گلدان اٹھا کر سفید سنگِ مرمر کے فرش پر پھینک دیا تھا۔

ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح پوری دنیا کو تہس نہس کردیں۔ اور خاص طور پر اس آئی او کی تو جان لے لیں جس نے ان کے عزیز جان اکلوتے بیٹے کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا تھا۔

وہ کچھ دیر غصے سے جبڑے بھینچے، پھولتی سانسوں کے ساتھ کمرے میں ٹہلتی رہیں۔

پھر فون اٹھا کر کسی کو کال کرنے لگیں۔


*****************************************


”معروف سماجی کارکن جہاں آرا لغاری کا بیٹا آصف لغاری ایک لڑکی کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے پر گرفتار، جرم ثابت ہونے پر عدالت نے بھاری جرمانے کے ساتھ دس سال کی قید سنادی، مزید تفصیلات صفحہ نمبر دو پر ملاحظہ فرمائیں۔“ بابک نے اخبار میں چھپی خبر پڑھی۔

”یہ وہ ہی آصف لغاری ہے ناں جس کا کیس تم دیکھ رہے تھے احرار؟“ اس نے تصدیق چاہی تو احرار نے اثبات میں سر ہلایا۔

دونوں بھائی رات کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر جبار صاحب کے اسٹڈی روم میں وقت گزارنے بیٹھے تھے جب بابک نے سامنے موجود ٹیبل پر پڑا اخبار اٹھا لیا۔

”تمہارے آئی او ہونے کے باوجود بھی اسے سزا ہوگئی؟“ اسے تعجب ہوا۔

”میرے آئی ہونے پر ہی سزا ہوئی ہے، میں نے ہی تو ثبوت پیش کیے تھے اس کے خلاف!“ اس نے موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے جواب دیا۔ دونوں ایک ڈبل صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

”شاباش! اپنے ہی کلائینٹ کو پھنسا دیا!“

”میرا کام کلائینٹ کو بچانا یا اس کی خدمات کرنا نہیں سچ سامنے لانا ہے۔“

”اچھا! تو پھر اس کلائینٹ کو اٹھا کر گھر کیوں لے آئے تھے جو اوپر آپ کے بیڈ روم میں موجود ہے؟“ اس کا طنز معنی خیز تھا۔

”ہوجاتی ہیں انسان سے کبھی کبھی غلطیاں!“ اس نے بھی آنکھیں گھما کر شریر سا جواب دیا۔

”میں صدقے تیری غلطیوں پر!“ اس نے بھی محظوظ ہوکر دوبارہ ہاتھ میں موجود اخبار پر نظر دوڑائیں۔ جب کہ احرار بھی موبائل میں موصول ہوا میسج چیک کرنے لگا۔

”کل نہرین کو دوبارہ ہاسپٹل لے کر جانا ہے، اینا سے کہہ دینا تیار رہے۔“ بابک کی یاد دہانی پر اس نے سر ہلا دیا۔

”اور یار کل پہلی فرصت میں کسی اسکیچ آرٹسٹ کو تو لے آؤ نہرین کے بھائی کے اسکیچ کیلئے۔“ بابک کو یکدم خیال آیا۔

”جی بھیا! دراصل یہ آصف لغاری کا کیس سر درد بنا ہوا تھا، اس سے جان چھوٹی ہے تو اب ساری توجہ نہرین کے کیس پر ہی دوں گا، ڈونٹ وری!“ اس نے وضاحت کے ساتھ تسلی دی۔

جس کے بعد دونوں اپنی سابقہ سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے اور تھوڑی دیر کیلئے وہاں خاموشی چھا گئی۔

”ویسے ایک سوال ہے بھیا!“ احرار موبائل اسکرین آف کرتے ہوئے گویا ہوا۔

”پوچھو!“ اس نے بھی اخبار پر سے نظر ہٹائی۔

”جب نہرین کا کیس سالو ہوجائے گا، ان کا بھائی مل جائے گا، پھر کیا ہوگا؟“ اس نے انجان بنتے ہوئے سوال اٹھائے۔

”کیا ہوگا؟ وہ اپنے بھائی کے ساتھ چلی جائے گی۔“ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے جواب دیا۔

”آپ جانے دیں گے؟“ اس کے سوال کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے بابک چند لمحے اسے دیکھتا گیا۔

”تجھے یاور نے کچھ کہا ہے؟“ وہ آنکھیں سکیڑ کر نتیجے پر پہنچا۔

”کہنے کی ضرورت نہیں ہے، نظر آرہا ہے۔“

”کیا نظر آرہا ہے؟“

”آپ کا بدلا ہوا سا انداز!“ احرار کی بات پر وہ پل بھر کو لاجواب ہوگیا۔

”جب سے وہ ہمارے گھر آئی ہیں تب سے جس طرح آپ ان کی فکر میں ہلکان ہیں، ہر وقت ان کا خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ملازمین کو ان کے حوالے سے اِسٹرکٹ انسٹرکشنز دے رکھی ہیں، یہ سب محض ایک گلٹ کے چلتے تو پاسیبل نہیں ہے کہ وہ آپ کی گاڑی سے زخمی ہوئی ہیں، یہ تو کچھ اور ہی لگ رہا ہے۔“ احرار بھی دبے دبے لفظوں کی قید سے باہر آگیا۔

”اور تو اور آپ نے ان کے کہنے پر ملازمہ سے معافی تک مانگ لی!“ وہ اسی طرح مزید بولا۔

”یہ تمہیں کیسے پتا چلا؟“ وہ جو اب تک چپ چاپ بیٹھا تھا اس بات پر چونکا۔

”ایسا کچھ نہیں ہے کہ بجائے آپ نے کہا کہ تمہیں کیسے پتا چلا۔۔۔۔چور کی داڑھی میں تنکا۔۔۔۔۔مطلب میرا اندھیرے میں چلایا گیا تیر نشانے پر لگا ہے!“ اس نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو بابک کو اندازہ ہوا کہ اب وہ احرار کی باتوں کے جال میں پھنس چکا ہے۔

کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا اخبار سامنے میز پر رکھا اور آگے جھک کر دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کر لئے۔

”آپ انہیں اپنی فیلنگز کے بارے میں سب بتا کیوں نہیں دیتے بھیا؟“ اسے الجھن کا شکار دیکھ کر احرار نے خود ہی نرمی سے پہل کی۔ کیونکہ وہ اپنے بھائی کی دلی حالت بخوبی سمجھ گیا تھا۔

”جب مشکلات میں گھری اینا تمہیں ملی تھی تب فوری طور پر اسے شادی کی آفر کرنے کے بجائے تم نے اس کا کیس حل کرنے کے بعد بات کرنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا؟“ بابک نے اس کی جانب دیکھ کر متوازن انداز میں ایک غیرمتوقع سوال کیا۔

”کیونکہ میں اس کی سیلف رسپیکٹ ہرٹ کرکے یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ میں اس پر ترس کھا کر اسے سہارا دے رہا ہوں، میں چاہتا تھا وہ کسی مجبوری کی وجہ سے میرا ساتھ قبول نہ کرے بلکہ اپنے اچھے وقت میں اپنی خوشی سے مجھے منتخب کرے!“ اس نے بنا کسی حجت کے سادگی سے جواب دیا۔

”بس، یہ ہی میرا بھی جواب ہے۔“ اس کے ٹھہرے ہوئے جواب نے مزید کسی سوال کی گنجائش ہی ختم کردی۔

چند لمحوں کیلئے پھر دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔

”میں کوشش کروں گا کہ جلد از جلد نہرین کو ان کا بھائی مل جائے تا کہ پھر میرا بھائی اپنی محبت کا اظہار کر سکے۔“ احرار نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے سے کندھا ٹکرایا۔

”پتا نہیں میں تب بھی اظہار کر پاؤں گا یا نہیں؟“ بابک تاسف سے کہتے ہوئے اپنا ناخن سے کھیلنے لگا۔

”کیوں نہیں کر پائیں گے؟“ وہ متعجب ہوا۔

”اپنے ماضی کی وجہ سے۔“ یہ مختصر جواب بھی احرار کی الجھن دور نہ کرسکا۔

”پتا نہیں میں اس کے لائق ہوں بھی یا نہیں؟ وہ ایک سیدھی سادی، معصوم پاکیزہ سی لڑکی ہے، اور میں ماضی کا بگڑا ہوا آوارہ مجرم انسان!“ اس نے یوں ہی نظریں جھکائے خود کو ملامت کی۔

”کیسی باتیں کر رہے ہیں بھیا! آپ نہ برے تھے نہ برے ہیں، بس کچھ حالات ایسے تھے کہ آپ کے قدم ڈگمگا گئے، لیکن پھر آپ نے خود کو سنبھال بھی تو لیا ہے، آپ ٹھیک نہیں پرفیکٹ ہیں نہرین کیلئے۔“ اس نے نرمی سے ٹوکا۔

”تم بھائی ہو میرے، اسی لئے تم ایسا ہی سوچو گے، مگر حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی، اور ابھی تو نہرین بھی کچھ نہیں جانتی ہے ان سب کے بارے میں، پتا نہیں وہ سب جاننے کے بعد وہ مجھ سے کتنی نفرت کرے گی؟“ اس کے مایوس انداز میں عجیب سا خوف تھا۔

”ضرورت ہی کیا ہے انہیں وہ سب کچھ بتانے کی؟ ہمارے بیچ یہ ہی طے ہوا تھا ناں کہ جو گزر گیا اب اسے کوئی نہیں دہرائے گا! تو پھر آپ کیوں پرانی باتیں نکال رہے ہیں؟ بس جب نہرین کا مسلہ حل ہوگا تو سیدھی طرح انہیں پرپوز کر دیجئے گا، مجھے یقین ہے کہ وہ انکار نہیں کریں گی۔“ اس نے تھوڑی سختی سے بابک کو باز رکھنا چاہا۔

”میں اس سے اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپانا چاہتا، اور یہ سب بعد کی باتیں ہیں، میں تو ابھی تک اس بات کو لے کر ہی شیور نہیں ہوں کہ مجھے نہرین پر کچھ ظاہر کرنا چاہئے بھی یا نہیں؟ کیا میرے جیسا ماضی کا گناہگار نہرین جیسی معصوم لڑکی کا مستحق ہے؟“ اس نے رنجیدگی سے احرار کی جانب دیکھا۔

”اگر نورالعین کو احرار مل سکتا ہے، تو ہاں بابک بھی نہرین کا مستحق ہے۔“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

”نورالعین بھی یہ ہی الٹی سیدھی باتیں سوچتی تھی کہ وہ مجھے ڈیزرو نہیں کرتی لیکن کیا آج میں نورالعین کے ساتھ خوش نہیں ہوں؟“ اس نے مزید کہتے ہوئے سوال اٹھایا۔

”تمہارے قصے میں محبت دو طرفہ تھی اسی لئے تم دونوں خوش ہو، لیکن اگر میرے قصے میں محبت یک طرفہ نکل آئی تو؟“ بابک نے خدشہ ظاہر کیا۔

”تو آپ کی یک طرفہ محبت دیکھتے ہوئے وہ بھی ایک دن آپ سے محبت کرنے پر مجبور ہوجائیں گی۔“ اس کے مطمئن انداز میں بلا کا یقین تھا جو بابک کو بھی لاجواب کر گیا۔

”اب بس بہت ہوگئی یہ بحث! یہ فائنل ہے کہ جیسے ہی نہرین کا بھائی ملے گا آپ ان سے اظہارِ محبت کریں گے، ورنہ میں ان کے بھائی کو نہیں ڈھونڈوں گا۔“ احرار نے تنبیہہ کے ساتھ بات سمیٹی۔

”اچھا! دھمکی دے رہا ہے مجھے؟“ بابک اس کے نروٹھےپن سے محظوظ ہوا۔

”کچھ بھی سمجھیں، مگر یہ سچ ہے، اب سونے جا رہا ہوں، آپ بھی جا کر سوجائیں، گڈ نائٹ!“ وہ کہتے ہوئے اٹھا اور بنا اس کی کوئی بات سنے وہاں سے چلا گیا۔

جب کہ احرار کے اس محبت بھرے غصے کو دیکھتے ہوئے وہ محض ہنس کر رہ گیا۔


*****************************************


نئے دن کا سورج نکل آیا تھا اور احرار کے حکم پر اسکیچ آرٹسٹ بھی آچکا تھا۔ سب لوگ اسکیچ آرٹسٹ سمیت ڈرائینگ روم میں موجود تھے۔

سنگل صوفے پر بیٹھا وہ ایک پچیس، چھبیس سالہ شخص تھا جس نے گرے ڈریس پینٹ کے ساتھ ڈھیلی سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ تیل لگے بالوں کو آڑھی مانگ نکال کر بنایا ہوا تھا۔ آگے والے دو دانت ذرا سے باہر تھے اور آنکھوں پر نظر کا موٹا سا چشمہ لگا ہوا تھا۔ المختصر وہ ایک کم اعتماد نروس سا شخص تھا۔

”آپ لوگ باہر جائیں، میں اسکیچ بنا کر آپ لوگوں کو بلاتا ہوں۔“ اس نے دبا دبا سا حکم جاری کیا۔

”تم اسکیچ بنانے جا رہے ہو یا اپریشن کرنے؟ جو ڈاکٹر کی طرح ہمیں کمرے سے باہر جانے کا کہہ رہے ہو؟“ بابک کو اس کے بےتکی فرمائش ہضم نہیں ہوئی۔

”دیکھیں! اتنے لوگوں کی موجودگی میں نروس ہوجاؤں گا میں۔“ اس نے اپنا موٹا سا چشمہ درست کرتے ہوئے وضاحت کی۔

”چلیں بھیا باہر ہال میں چلتے ہیں۔“ باوردی احرار نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔

”ایسا کرتے ہیں احرار ہم دونوں باہر چلتے ہیں، صرف بابک تم رہ جاؤ نہرین کے ساتھ!“ نورالعین نے بھی تجویز پیش کی۔

”ہاں یہ ٹھیک ہے۔“ بابک فوری رضا مند ہوگیا۔

”نہیں! سب سے زیادہ نروس میں ان ہی کے دیکھنے سے ہو رہا ہوں، پلیز انہیں بھی لے کر جائیں۔“ آرٹسٹ نے جلدی سے نفی کی۔

”اوہ ہیلو! میرے ہی گھر میں بیٹھ کر مجھے ہی یہاں سے جانے کا کہہ رہے ہو۔“ بابک نے سختی دکھائی۔

اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ایک مکا مار کر اس کے تھوڑے باہر نکلے دانت توڑ دے۔

”اففو بھیا! تھوڑی دیر کی تو بات ہے، نورالعین تم یہیں رکو، اور بھیا آپ چلیں اٹھیں اور باہر آئیں، مجھے جلد از جلد اسکیچ بناوا کر ڈیوٹی پر بھی جانا ہے۔“ احرار نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا۔

بابک ایک سخت نظر اس آرٹسٹ پر ڈالتے ہوئے اس کے ساتھ ڈرائینگ روم سے باہر نکل گیا۔

جس کے بعد اس آرٹسٹ نے سکھ کی سانس لی اور نہرین سے پوچھ پوچھ کر اسکیچ بنانا شروع کیا۔


*********************************


”یار آدھا گھنٹہ ہوگیا ہے ابھی تک اسکیچ ہی نہیں بنا اس جوکر سے!“ بابک بے چینی سے ہال میں ٹہل رہا تھا۔

”بھیا وہ ایک انسان کا اسکیچ بنا رہا ہے، ون کلاس کے بچوں کی ڈرائینگ نہیں بنا رہا جو فٹافٹ بن جائے گی۔“ صوفے پر بیٹھا احرار موبائل پر نظریں مرکوز کیے ہی بولا۔

”تمہیں بھی اس نمونے کے علاوہ کوئی اور نہیں ملا تھا؟“ اب وہ اس کی کلاس لینے لگا۔

”جب بھی کسی کیس کے سلسلے میں ہمیں اسکیچ آرٹسٹ کی ضرورت پڑتی ہے ہم اسے ہی بلاتے ہیں، تھوڑا بونگا سا ہے، پر آرٹسٹ کمال کا ہے۔“ اس نے متوازن جواب دیا۔

اس سے قبل کہ بابک کچھ کہتا تب ہی وہ تینوں ڈرائینگ روم سے باہر آئے۔ سب سے آگے وہ آرٹسٹ تھا اور اس کے پیچھے نورالعین اور بیساکھی کے سہارے چلتی نہرین تھی جس کا ایک ہاتھ نورالعین نے پکڑا ہوا تھا۔

یہ دونوں بھی ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔

”سر بن گیا اسکیچ!“ اس نے ایک سفید کاغذ احرار کی جانب بڑھایا۔

جسے اس نے کھڑے ہوتے ہوئے تھام لیا اور بغور دیکھنے لگا۔ بابک بھی اس کے ہمرا کھڑا اسکیچ کا جائزہ لے رہا تھا۔

”بنایا تو ویسے کمال مہارت سے ہے تم نے۔“ بابک تعریف کیے بنا نہ رہ سکا۔

”شکریہ!“ اس نے باہر نکلے دانتوں کی مزید نمائش کی۔

جس کا اسکیچ نہرین نے بنوایا تھا یہ کوئی پچیس چھبیس سالہ ایک خوش شکل جوان تھا۔ اور اس کے نین نقش کافی حد تک نہرین سے میل کھا رہے تھے۔

”آپ نے دیکھ لیا نہرین؟ کنفرم ہے آپ کا بھائی ایسا ہی دکھتا ہے؟“ احرار نے تائید چاہی۔

”جی یہ ہی میرا بھائی ہے۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے تصدیق کی۔

”ٹھیک ہے، میں آج ہی مختلف جگہوں پر یہ بھیج دیتا ہوں، اب ان شاءاللہ جلد ہی کوئی نتیجہ بر آمد ہوجائے گا۔“ اس نے کہتے ہوئے کاغذ فولڈ کیا۔

”اس کی ایک کاپی مجھے بھی سینڈ کردینا احرار!“

”آپ کیا کریں گے بھیا؟“

”میں بھی اپنے طور پر کوشش کروں گا اسے ڈھونڈنے کی۔“

”اس کی ایک کاپی مجھے بھی دے دیجئے گا، میرے پاس ارسلان کی کوئی تصویر نہیں ہے تو اسے ہی اپنے پاس رکھ لوں گی۔“ نہرین نے بھی دھیرے سے گزارش کی تو احرار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

”اب ہم ہاسپٹل چلیں؟“ بابک نے سوالیہ نظروں سے نورالعین اور نہرین کی جانب دیکھا۔


*********************************


سورج بالکل سر پر آچکا تھا اور اس کی تپیش سے بچنے کیلئے لوگ اپنے اپنے گھروں میں مقید تھے جس کے باعث باہر سناٹا ہو رہا تھا۔

”جلدی جلدی چلو اماں!“ حنا سخت گھبرائی ہوئی تھی۔

”ارے چل تو رہی ہوں اب کیا اڑنے لگوں؟“ انہوں نے ہانپتے ہوئے لتاڑا۔

”مجھے ڈر لگتا ہے اماں کہ اچانک سے کہیں کوئی آکر حملہ نہ کردے!“ اس نے خوفزدہ نظروں سے آس پاس دیکھتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا۔

”شام کے وقت تو باہر اس لئے نہیں جانے پر راضی ہوتی کہ لوگ تجھے دیکھ کر باتیں بناتے ہیں، اب سناٹے میں تجھے ڈر لگ رہا ہے، اور میں بوڑھی جان اکیلے اتنے سودا سلف کا وزن اٹھا نہیں سکتی، اور بنا ضرورت کی اشیاء کے ہم رہ نہیں سکتے، اب بتا کروں تو کروں کیا میں؟“ انہوں نے کوفت سے سارے مسلے گنوا کر حل مانگا۔

”اماں تم بس تھوڑا جلدی چل لو۔“ اس نے پھر وہ راگ دہرایا۔

”ارے اب کس سے ڈر رہی ہے تو؟ وہ منحوس تو جیل میں ہے۔“ انھوں نے تسلی دی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس چلتے ہوئے ہنوز آس پاس کا جائزہ لیتی رہی۔

”سچ کہوں تو اس پولیس والے لڑکے کیلئے بڑی دعائیں نکلتی ہیں میرے دل سے جس نے عدالت میں سب سچ بتایا، اللہ اسے بہت خوشیاں دے۔“ انہوں نے احرار کو دعا دی۔

تب ہی ایک کار بہت تیزی میں ان کے عقب سے آئی اور سامنے آکر رکی۔

حنا تو پہلے ہی سہمی ہوئی تھی اب اس کی جان پر بن گئی۔

کار میں سے دو لوگ باہر آئے جنہوں نے منہ پر رومال باندھا ہوا تھا۔ دونوں ماں بیٹی ناسمجھی سے ابھی ان کے ارادے سمجھنے کی کوشش کر ہی رہی تھیں کہ ان میں سے ایک نے گن نکال کر لوڈ کی اور دھڑا دھڑ حنا پر فائر کر دیے۔

گولیاں اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چیر کر گزرنے لگیں اور ساتھ ہی اسے اس کے اپنے خون میں نہلا گئیں۔

اس کے ہاتھ میں پکڑا سودے کا شاپر گر کر پھٹ گیا تھا جس میں سے سبزیاں وغیرہ روڈ پر بکھر گئیں۔ اور وہ خود بھی بے سدھ ہوکر زمین پر گر پڑی۔

فائر کی آواز سن کر آس پاس کے مکین بھی جلدی سے باہر آئے اور یہاں اکٹھا ہونے لگے۔

جبکہ وہ دونوں لوگ اطمینان سے اپنا کام کرکے واپس گاڑی میں بیٹھے اور زن سے اسے لے اڑے۔

حنا اپنے ہی لہو میں ڈوبی زمین پر بے حس و حرکت پڑی تھی جبکہ بتول بی بی تو صدمے کے مارے چیخ چلا بھی نہ پائیں اور گرنے کے سے انداز میں وہیں بیٹھ گئیں۔

لوگوں نے حسب معمول خاموش تماشائی بننے والی اپنی روایت قائم رکھی ہوئی تھی۔

”حنا! اٹھ بیٹا، دیکھ ہم بس گھر پہنچنے والے ہیں۔“ انہوں نے اس کا سر اپنی گود میں رکھتے ہوئے پکارا۔

”بیٹا اٹھ ناں! یہ کیا مذاق ہے! چل جلدی سے گھر، پھر مجھے ابھی تیرے پسند کی بھنڈی بھی تو بنانی ہے کتنے شوق سے لی ہے تو نے تھوڑی دیر پہلے۔“ وہ اسے جگانے کی ناکام کوشش کرتی رہیں۔

”بھائی ذرا اس کو آواز دینا، میری تو سن ہی نہیں رہی ہے، بولو اس سے کہ گھر چلے۔“ انہوں نے ہجوم میں کسی کو مخاطب کیا۔

”خالہ سنبھالو خود کو، یہ مر گئی ہے۔“ ایک آدمی نے گویا اطلاع دی۔

”نہیں! کچھ نہیں ہوا میری بچی کو، یہ بالکل ٹھیک ہے۔“ انہوں نے نفی کی۔

”آنٹی ہوش میں آئیں، یہ اب اس دنیا سے جا چکی ہیں۔“ ایک اور لڑکے نے بھی سمجھانا چاہا۔

”حنا اٹھ کر بتا ذرا سب کو کہ تو ٹھیک ہے، دیکھ یہ کیا بول رہے ہیں؟“ انہوں نے اس کے گال تھپتھپائے۔

”حنا اٹھ ناں!“ انہوں نے اس کا خون میں ڈوبا وجود سینے سے لگایا۔

”حنا! میری بچی!“ وہ اسے خود میں بھینچتے ہوئے تڑپ کر حلق کے بل چیخیں۔

پر ان کی اس چیخ و پکار کا بھی اب کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ وہ ہمیشہ کیلئے وہاں چلی گئی تھی جہاں سے کبھی کوئی لوٹ کر واپس نہیں آتا۔


*********************************


”تھینک گاڈ کہ اس وزنی پلاستر سے آپ کی جان چھوٹی، ہوپ سو اب بہتر فیل ہو رہا ہوگا اور چلنے میں اتنی مشکل نہیں ہو رہی ہوگی!“ بابک نے دھیرے دھیرے چلتے ہوئے پوچھا۔

تینوں سست روی سے چلتے ہسپتال سے باہر جا رہے تھے۔

اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ پلاستر کے بوجھ سے آزاد ہونے کے بعد اب نہرین بھی صرف اسٹک کے سہارے خود ہی باآسانی چل پا رہی تھی۔

”بالکل! پلاستر کے ویٹ کی وجہ سے ہی چلنے میں پرابلم ہو رہی تھی۔“ نہرین نے تشکر آمیز جواب دیا۔

”دیکھنا ان شاءاللہ کچھ ہی دنوں میں تم بنا اسٹک کے بالکل پہلے کی طرح چلنے لگو گی۔“ نورالعین نے بھی حوصلہ بڑھایا تو وہ مسکرا دی۔

بابک کے کوٹ میں موجود موبائل رِنگ ہوا تو چلتے ہوئے ہی اس نے موبائل نکال کر کان سے لگایا۔

”ہیلو۔۔۔۔ہاں مجھے میٹنگ یاد ہے۔۔۔۔۔ابھی فیملی کے ساتھ ہوں۔۔۔۔بس تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔اپنی تیاری پوری رکھو۔۔۔۔سی یو!“ اس نے مختصر بات کرکے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔

”اگر ارجنٹ ہے تو تم آفس چلے جاؤ بابک! ہم کیب بک کرلیں گے۔“ نورالعین نے پیشکش کی۔

”نہیں، تم دونوں کو ڈراپ کرتے ہوئے چلا جاؤں گا، نو ایشو!“ حسب توقع اس نے سہولت سے ٹال دیا۔

لفظ ”فیملی“ پر بےساختہ نہرین کا دل زور سے دھڑکا۔

مگر اس نے کوئی بھی خوش فہمی خود پر حاوی نہیں ہونے دی اور جلدی یاد کرلیا کہ وہ ان کی فیملی ممبر نہیں بس ایک مہمان ہے۔


*****************************************


”ایک اہم خبر سے ہم آپ کو آگاہ کر رہے ہیں، آج دوپہر کے وقت کچھ نامعلوم افراد ڈکیتی کے بعد ایک لڑکی کو گولی مار کے فرار ہوگئے۔“ ایل ای ڈی پر نیوز چلی۔

احرار جو اس وقت ڈیوٹی ٹائم ہونے کی وجہ سے اپنی سیٹ پر بیٹھا کچھ فائلوں میں الجھا ہوا تھا یکدم اس نے سر اٹھا کر دیوار پر لگے ایل ای ڈی کی جانب دیکھا۔ جہاں اب قتل ہونے والی لڑکی کی تصویر بھی دکھائی جا رہی تھی۔

تصویر دیکھ کر اس کے ہوش اڑ گئے۔

”مقتولہ کا نام حنا بتایا جا رہا ہے، اس معاملے پر پولیس نے کیس درج کرلیا ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ یہ ڈکیتی کا کیس ہے، جیسے ہی مزید کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے سب سے پہلے ہم آپ تک پہنچائیں گے، ہمارے ساتھ رہیے گا۔“ نیوز اینکر نے پروفیشنل انداز میں بتایا۔

وہ کچھ لمحے تو ایسے ہی شاک کی کیفیت میں بیٹھا رہا۔ پھر جیسے یکدم ہوش آنے پر جاگا اور کرسی سے اٹھ کر باہر کی جانب بڑھا۔


*********************************


”یار تم تو ایسے آرڈر دے رہے ہو جیسے میرے پاس جاسوسوں کی فوج ہے، جو میرے ایک اشارے پر اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔“ یاور نے موبائل ایک کان سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے طنز کیا۔

”یار تجھے فوج کی کیا ضرورت؟ تو اکیلے ہی یہ کام کر سکتا ہے، اور میں نے تجھے اسی لئے کہا کہ شاید یہ تجھے کہیں مل جائے، ورنہ اس کیس پر آفیشلی طور پر تو احرار کام کر ہی رہا ہے۔“ بابک نے اپنی آفس چیئر پر جھولتے ہوئے وضاحت کی۔

”ٹھیک ہے، پر صرف کوشش کروں گا، یہ مت سمجھنا کہ میں دن رات بھلا کر اسے ڈھونڈنے میں لگ جاؤں گا۔“ یاور نے آفس کے کاریڈور سے گزرتے ہوئے باور کرایا۔

”ہاں ہاں ٹھیک ہے سرکار، اب جو اسکیچ میں نے تمہیں میل کیا ہے اسے اچھے سے ذہن نشین کرلو، تا کہ اگر وہ تمہیں کہیں دکھے تو تم اسے پہچان سکو۔“ اس نے تاکید کی۔

”ویسے ایک بات بتا، تو اس لڑکے کو ڈھونڈنے کیلئے اسی لئے اتنا اُتاؤلا ہوا جا رہا ہے ناں تا کہ اس کے ملتے ہی تو ملکہ عالیہ کے ساتھ اپنی سلطنت بسا سکے!“ اس کا انداز معنی خیز تھا۔

”اچھا ایک کلائینٹ آگیا ہے، میں تجھ سے بعد میں بات کرتا ہوں، اللہ حافظ!“ بابک نے دامن بچاتے ہوئے موضوع بدل کر لائن ڈسکنیکٹ کردی۔ جبکہ دوسری جانب وہ مسکرا دیا۔


*********************************


یوں تو جہاں آرا کو موقعے پر ہی کام ہونے کی اطلاع مل چکی تھی۔ مگر ایل ای ڈی پر چلتی نیوز دیکھ کر وہ ایک بار پھر مغرور فاتحانہ انداز میں مسکرانے لگیں۔

”مالکن! آپ سے ایک پولیس آفیسر ملنے آیا ہے۔“ ملازم نے آکر اطلاع دی۔

”اچھے سے تلاشی لے کرکے بھیج دو یہاں۔“ انہوں نے اطمینان سے حکم دیا۔

وہ فرمابرداری سے سر ہلا کر چلا گیا۔

اور کچھ لمحوں بعد احرار کمرے میں داخل ہوا۔

”یہ گھٹیا اور بےرحم حرکت تمہاری ہی ہے ناں جسے تم نے پولیس کو پیسے کھلا کر ڈکیتی کا رنگ دے دیا ہے؟“ اس نے بنا خوف و لحاظ کے غصے سے ایل ای ڈی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ جہاں حنا کے قتل کی خبر چل رہی تھی۔

”ہاں ہے، تو پھر؟“ صوفے پر بیٹھی جہاں آرا نے دھڑلے سے اعتراف کیا۔

”تو پھر یہ کہ تیار رہو اس جرم کی سزا کاٹنے کیلئے۔“ اس نے طیش کے عالم میں دھمکی دی۔

”اچھا! اور مجھے سزا دلوائے گا کون؟ تم! لیکن سزا کیلئے تو ثبوت اور گواہ کی ضرورت ہوتی ہے، ہے تمہارے پاس کوئی گواہ یا ثبوت؟“ انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھتے ہوئے ٹانگ پر ٹانگ رکھی۔

”نہیں ہے پر ڈھونڈ لوں گا، اور سب ہی جانتے ہیں کہ تمہارے بیٹے کو جیل بھیجوانے کی باعث اس کے سب سے بڑے دشمن تم ہی لوگ تھے۔“ وہ پریقینی سے بولا۔

”یہ تو شک ہوا، جبکہ سزا تو ثبوت کی بنیاد پر دی جاتی ہے، اور یہ کوئی تمہاری جیل نہیں ہے جہاں تم خفیہ کیمرے سے ریکارڈنگ کرلو گے، جس کا انداز تمہیں یہاں ہونے والی تلاشی سے ہوگیا ہوگا۔“ ان کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

”ثبوت بھی ڈھونڈ لوں گا، بس تم تیار رہو سزا بھگتنے کیلئے۔“ اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔ اور بنا مزید کوئی بات کیے وہاں سے چلا گیا۔

”اس لڑکی کو تو ٹھکانے لگا دیا، اب تیری باری ہے آفیسر!“ انہوں نے طنزیہ انداز میں خودکلامی کی۔


*********************************


احرار حنا کی رہائش گاہ پر پہنچا تھا تا کہ آس پاس کے لوگوں کے بیان ثبوت کے طور پر اکٹھا کر سکے۔ مگر وہاں پہنچ کر لوگوں کا جو رد عمل اسے دیکھنے کو ملا اس نے اسے کشمکش میں ڈال دیا کہ افسوس کرے یا غصہ؟

آخری امید کے تحت اس نے ایک گھر کا دروازہ بجایا۔

تھوڑی دیر میں گیٹ کھلا اور ایک درمیانی عمر کا شخص باہر آیا۔

”السلام علیکم! میں آئی او احرار ملک ہوں، آپ کی پڑوسی حنا کے قتل کے بارے میں کچھ بات چیت کرنی ہے، کیا آپ واردات کے وقت وہاں موجود تھے؟ آپ نے قاتل کو دیکھا تھا؟“ اس نے مہذب انداز میں بتاتے ہوئے جلدی سے پوچھا کہ کہیں یہ دروازہ بھی بند نہ ہوجائے۔

”جی نہیں، ہم کچھ نہیں جانتے۔“ اس نے صاف انکار کیا۔

”ابو میں نے دیکھا تھا کھڑکی سے۔“ اچانک ان کے عقب سے ایک پندرہ سالہ بچہ بولا۔

”چپ کرکے اندر جاؤ تم!“ آدمی نے بچے کو برا طرح ڈانٹا تو وہ سہم گیا۔

”دیکھیں پلیز! آپ لوگوں کے بیان سے کسی بے گناہ کو انصاف مل جائے گا، اگر آپ نے نہیں دیکھا تو بچے کو بتانے دیں، صرف ایک بیان ہی تو دینا ہے۔“ اس عاجزی سے التجا کی۔

”دیکھیں! ہم شریف لوگ ہیں کسی پولیس کچہری میں نہیں پڑنا چاہتے، ایسے لوگوں کے خلاف آواز اٹھانے کا ہی نتیجہ بھگتا ہے اس لڑکی نے، اور ہم نہیں چاہتے کہ ہمارا انجام بھی ویسا ہی ہو، ہم نے کچھ نہیں دیکھا اور نہ ہمیں کچھ پتا ہے، اب آپ جا سکتے ہیں۔“ آدمی نے صاف صاف کہتے ہوئے بنا اس کا جواب سنے دروازہ بند کردیا۔

احرار شکستہ قدموں سے چلتے ہوئے واپس اپنی کار کی جانب آگیا۔

وہ ایک انویسٹیگیشن آفیسر تھا! ایک بااختیار طاقتور انسان! لیکن آج اسے اپنا آپ بہت کمزور لگ رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ برائی اتنے قد سے سینہ تانے کھڑی تھی کہ سچ خود ہی اس کے آگے دب کر رہ گیا تھا۔


*********************************


”پھر سے مٹن پلاؤ!“ بابک ڈش کا ڈھکن ہٹاتے ہی سخت بدمزہ ہوا۔

”کیا مطلب پھر سے؟ پورے ایک ہفتے بعد بنا ہے۔“ نورالعین نے تصحیح کی۔ اور ساتھ ہی اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگی۔

”ہاں تو سات دن پہلے ہی بنا تھا ناں مطلب! آج پھر بناوا لیا! یہ نوری کچھ اور نہیں بنا سکتی تھی؟“ اس کا اعتراض ہنوز جاری تھا۔

”بھئی میں نے تو آج نہرین کی پسند کا کھانے بنوایا ہے، اب اسے پلاؤ پسند ہے تو اس میں میری کیا غلطی؟ تم کباب کھالو روٹی سے۔“ وہ بے نیازی سے کہہ کر اپنے کھانے کی جانب متوجہ ہوگئی۔

اس کے بتانے پر بابک نے بے اختیار نہرین کی جانب دیکھا جس کے چہرے پر ایسا تاثر تھا جیسے اس نے پلاؤ پسند کرکے جرم کردیا ہے اور اب اسے سزا ملنے والی ہے۔

بابک نے بے اختیار دل میں خود کو کوسا۔

”نہیں خیر اب اتنا بھی ناپسند نہیں ہے مجھے، وہ تو بس ایسے ہی ایک بات کہہ رہا تھا۔“ اس نے فوراً بیان بدلا اور خاموشی سے اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگا۔

نورالعین معنی خیزی سے مسکرادی اور ساتھ ہی تائید کیلئے اپنے برابر میں بیٹھے احرار کی جانب دیکھا۔ مگر اس کا تو دھیان ہی کہیں اور تھا جو بے خیالی میں پلیٹ پر چمچے سے چاول اِدھر اُدھر کر رہا تھا۔

”احرار! کیا سوچ رہے ہو؟ کھانا کھاؤ۔“ اس نے ٹوکا تو وہ یکدم چونک کر ہوش میں آیا۔

”کسی کلائینٹ کے بارے میں سوچ رہا ہوگا، کچھ عرصے پہلے بھی ایک ”کلائینٹ“ کے خیالوں میں ایسے ہی گم رہتا تھا۔“ بابک نے معنی خیزی سے نورالعین کو چڑایا۔

”اہم اہم!“ نورالعین نے گلا کھنکھارتے ہوئے اسے نہرین کی موجودگی میں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

”آپ لوگوں کو شاید پتا ہی ہوگا کہ معروف سماجی کارکن جہاں آرا لغاری کے بیٹے آصف لغاری پر ایک لڑکی اور اس کی ماں نے جنسی زیادتی کا کیس درج کروایا تھا اور جرم ثابت ہونے پر اسے سزا بھی ہوگئی تھی!“ احرار نے ان کی نوک جھونک نظر انداز کرکے سنجیدگی سے بات شروع کی۔

”ہاں پڑھا تھا اخبار میں، تو پھر؟“ نورالعین نے کہہ کر چاول سے بھرا چمچہ منہ میں لیا۔

"تو یہ کہ جس لڑکی نے کیس کیا تھا ایک ہفتہ پہلے اسے سرعام گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔۔۔وجہ۔۔۔کیونکہ اس نے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی۔“ اس نے تاسف سے بتایا۔ تینوں کو ہی جان کر حیرانی بھرا دکھ ہوا۔

”لڑکی نے تو موقعے پر ہی دم توڑ دیا تھا، جبکہ اس کی والدہ بھی کچھ دیر صدمے میں رہنے کے بعد ہارٹ اٹیک سے انتقال کرگئیں، ایک ہفتہ ہوگیا ہے مجھے کوشش کرتے ہوئے مگر ان کا انجام دیکھ کر کوئی بھی ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے پر راضی نہیں ہے کہ کل کو ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔“ اس نے مزید بتایا۔

جب کہ تینوں میں سے کسی کے پاس بھی اظہارِ افسوس کیلئے کوئی لفظ نہیں تھا۔

”سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے؟ کیوں قانون نافذ کرنے والوں کو یہ ظلم و زیادتیاں نظر نہیں آرہی ہیں؟“ وہ دکھ سے مزید بولا۔

”کیونکہ قانون اندھا ہے۔۔۔۔یہ مثال اس لئے دی جاتی ہے کہ انصاف کرتے وقت قانون کو اندھا بن کر فیصلہ کرنا ہوتا ہے، اسے اس بات سے عاری ہونا پڑتا ہے کہ جس کے خلاف وہ فیصلہ دینے جا رہا ہے وہ اس کا کیا لگتا ہے اور کیا نہیں؟ مگر اب قانون نے بجائے عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے کیلئے آنکھیں بند کرنے کے مظلوم کی جانب سے نظریں پھیر لی ہیں، کیونکہ مظلوم تو رو پیٹ کر چپ ہوجائے گا، مگر ظالم اس کا عہدہ چھین لے گا، اور جب قانون نافذ کرنے والے بجائے عدل کرنے کے قانون کو اپنا ذریعہ معاش بنالیتے ہیں تو پھر معاشرے میں یہ ہی سب ہوتا ہے۔“ بابک نے تلخی سے حقیقت بتائی۔

”آخر کوئی تو حل ہوگا ناں ان سب کو روکنے کا؟“ احرار نے ایک آس سے پوچھا۔

”ہاں! جن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے انھیں آواز اٹھانی چاہئے۔“ نورالعین نے تجویز پیش کی۔

”اس سے بھی کچھ نہیں ہوتا، ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ناصرف دبا دیا جاتا ہے، بلکہ ہمیشہ کیلئے اس کا گلا بھی گھونٹ دیا جاتا ہے۔“ احرار نے تاسف سے نفی کی۔

”دنیا کا قانون کتنا ہی بے ایمان ہوجائے، اس سے کوئی کتنا ہی بچ جائے، مگر اللہ کے قانون سے کوئی نہیں بچ سکتا۔“ بابک نے اطمینان سے کہا۔

”آپ کی بات ٹھیک ہے بھیا! بے شک اللہ پاک سب سے بہتر انصاف کرنے والا ہے، لیکن ہم انسانوں کے بھی تو کچھ فرض ہیں! اللہ نے ہمیں بھی تو کوشش کرنے کا حکم دیا ہے۔“ اس نے تائید کرتے ہوئے نقطہ اٹھایا۔

”اللہ نے ہمیں صرف کوشش کا حکم دیا ہے، ہم سے نتیجہ نہیں مانگا، ہمیں روزِ محشر صرف اس بات کا جواب دینا ہوگا کہ کوشش کی یا نہیں؟ اور اگر نہیں کی تو کیوں نہیں کی؟“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

”بےشک ظلم کے خلاف آواز اٹھا کر اپنا فرض پورا کرلو، اور پھر نتیجہ اللہ کے حوالے کردو، کیونکہ اسی نے انصاف کرنا ہے، ہم انسانوں کی بھلا کیا اوقات کہ کسی کو انصاف دلا سکیں!“ وہ پل بھر کو رکا۔

”کئی ایسے لوگ ہیں جو ظلم و زیادتی کا نشانہ بن کر اس دنیا سے چلے گئے، بہت سے اسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے ساری عمر ظلم و زیادتی کی اور انہیں دنیا میں کوئی قابل گرفت سزا بھی نہیں ملی پھر وہ بھی اپنی عمر کی مدت پوری کرکے دنیا سے چلے گئے، انہیں دیکھ کر ہمیں عمومی خیال یہ ہی آتا ہے کہ ہائے بیچارے نے ساری زندگی دکھ ہی دیکھے، بہت ناانصافی ہوئی اس کے ساتھ، ایسے ہی دنیا سے چلا گیا۔

اور دوسرے لوگوں کے بارے میں یہ تاثر آتا ہے کہ اف! کیسا ظالم شخص تھا مگر دیکھو کیسے عیش میں گزری اس کی پوری زندگی، اور یہ بات غلط ہے۔

دنیا سے چلے جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ قصہ ختم، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اب ہر قسم کی واپسی کا راستہ بند اور اب حساب کتاب کے دن سیدھا فیصلہ ہوگا جس پر سزا و جزا دی جائے گی، ہم نے دنیاوی فیصلے کو ہی دائمی اور اٹل مان لیا ہے، جبکہ دنیا تو ہے ہی دھوکہ، مظلوم کے سسکنے کی اور ظالم کے چہکنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہی ہے کہ دونوں کا آخرت کے فیصلے پر ایمان کمزور ہوچکا ہے، اگر مظلوم کا یقین اس بات پر پختہ ہوجائے کہ روزِ محشر اس کا سارا حساب برابر کردیا جائے گا اور پھر آگے اس کے لئے چین ہی چین ہے تو وہ کبھی دنیا میں بے حس انسانوں کے آگے انصاف کیلئے روتا تڑپتا نہ پھرے۔

اور یہ ہی بات اگر ظالم کی سمجھ میں آجائے کہ آخرت میں اس کے کوئی سفارش کوئی عہدہ کام نہیں آئے گا اور اس کے اعمال کے بدلے دہکتی ہوئی آگ اس کی منتظر ہے تو ظلم کا نام و نشان ہی مٹ جائے گا۔

اسی لئے تم بس کوشش کرو تا کہ کل کو تمہارے پاس جواب ہو کہ ہاں میں نے کوشش کی تھی، باقی انصاف تو اللہ نے ہی کرنا ہے سب کے درمیان۔“ بابک نے بہت ہی رسان سے سمجھا کر اس کی سوچوں کا زاویہ بدلنا چاہا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ احرار ان معاملات میں کتنا حساس ہے۔

احرار کی خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ اس کی بات سمجھ رہا ہے۔ نورالعین نے بھی تشکر آمیز نظروں سے بابک کو دیکھا۔

اور نہرین۔۔۔۔۔وہ شاید ناچاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر بابک سے متاثر ہوگئی۔


*********************************


کھانے کے بعد سب اپنے کمروں کا رخ کر چکے تھے۔ نہرین بھی اپنے بیڈ پر نیم دراز کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے سوچ میں گم تھی۔

اس نے گردن موڑ کر سائیڈ ٹیبل کی جانب ہاتھ بڑھایا اور اس کی دراز کھول کر اس سے ایک سفید کاغذ نکال کر دیکھنے لگی۔

یہ اس کے بھائی ارسلان کا اسکیچ تھا جس کے بارے میں اب تک کچھ نہیں معلوم ہوسکا تھا۔

”ظلم کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو ناصرف دبا دیا جاتا ہے، بلکہ ہمیشہ کیلئے اس کا گلا بھی گھونٹ دیا جاتا ہے۔“

اس کے ذہن میں کچھ دیر قبل کہی گئی احرار کی تاسف آمیز بات گونجی جو اسے بہت سنجیدگی سے کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔


*****************************************


حسب معمول ایک نئی صبح نمودار ہوچکی تھی۔ اور ناشتے کی نیت سے تینوں ڈائینگ روم میں اکٹھا تھے۔

”نوری! نہرین کو بلا لاؤ!“ بابک کے حکم پر وہ فرمابرداری سے سر ہلا کر چلی گئی اور تھوڑی دیر میں واپس آئی۔

”صاحب! وہ تو اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔“ اس نے سادگی سے اطلاع دی۔

”ہوسکتا ہے باتھروم میں ہو؟“ نورالعین نے خیال ظاہر کیا۔

”نہیں جی، باتھروم کا دروازہ تو کھلا ہی تھا۔“ اس نے کندھے اچکائے تو تینوں کو تعجب ہوا۔

”میں دیکھتی ہوں۔“ نورالعین کہتے ہوئے اٹھی اور ڈائینگ روم سے باہر نکل گئی۔

”چھت پر تو نہیں چلی گئیں؟“ احرار نے تُکا مارا۔

”اس وقت چھت پر کیا کرنے جائے گی؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔ تھوڑی دیر میں نورالعین واپس آئی۔

”بابک! نہرین چلی گئی ہے، اور ساتھ یہ نوٹ چھوڑ کر گئی ہے، اس کی ڈریسنگ ٹیبل پر سے ملا ہے۔“ اس نے متفکر ہوکر ایک کاغذ بابک کی جانب بڑھایا۔

”کیا!“ اس نے حیرانی سے کہتے ہوئے نوٹ تھاما۔

”کیا لکھا ہے اس پر نورالعین؟“ احرار کو بھی تجسس ہوا۔

”بابک! نہرین چلی گئی ہے، اور ساتھ یہ نوٹ چھوڑ کر گئی ہے، اس کی ڈریسنگ ٹیبل پر سے ملا ہے۔“ اس نے متفکر ہوکر ایک کاغذ بابک کی جانب بڑھایا۔

”کیا!“ اس نے حیرانی سے کہتے ہوئے نوٹ تھاما۔

”کیا لکھا ہے اس پر نورالعین؟“ احرار کو بھی تجسس ہوا۔

”لکھا ہے کہ آپ لوگوں نے اور خاص طور پر بابک نے جو میری اتنی مدد کی اس کے لئے بہت شکریہ!

لیکن میں اپنی وجہ سے آپ لوگوں کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہتی، جس طرح اس لڑکی کو لڑنے کی وجہ سے موت کی نیند سلا دیا گیا کہیں ایسا ہی میری وجہ سے آپ لوگوں کے ساتھ نہ ہوجائے، پتا نہیں میرا بھائی کہاں گم ہے؟ کن چکروں میں پڑا ہے؟ اگر اسے ڈھونڈتے ہوئے آپ لوگوں پر کوئی مصیبت آگئی تو میں کبھی خود کو معاف نہیں کر پاؤں گی، پہلے بھی تو میں اپنے بھائی کو خود ہی ڈھونڈنے نکلی تھی، تو اب بھی ڈھونڈ لوں گی۔ رہا یہ سوال کہ اسے ڈھونڈوں گی کہاں؟ تو یہ مجھے بھی نہیں پتا، بس جہاں ان ریل کی پٹریوں کے ساتھ قسمت لے جائے، ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ، اللہ حافظ!“ نورالعین نے لفظ بہ لفظ خط کا متن بتایا جسے سن کر وہ بھی حیران رہ گیا۔

”اگر مجھے پتا ہوتا کہ کل رات والی بات کو وہ اس انداز میں اتنا سیریس لے لیں گی تو میں کبھی وہ سب نہ بتاتا۔“ احرار نے شرمندگی سے خود کو ملامت کی۔

بابک یکدم کرسی سے اٹھا۔

”بھیا! کہاں جا رہے ہیں؟“ احرار نے پکارا۔

”ریل کی پٹریوں پر!“ وہ کہتے ہوئے باہر کی جانب بھاگا۔

”کیا! ریل کی پٹریوں پر کیوں؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”کہیں اس کے دکھ میں خودکشی تو نہیں کرنے گیا!“ نورالعین نے خدشہ ظاہر کیا۔


*********************************


بابک پوری رفتار سے گاڑی بھگانے کے بعد خود بھی دوڑتے بھاگتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ فلیٹ فارم پر ٹرین نہ ہونے کی وجہ سے فی الحال رش کم تھا۔

وہ یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے اسے ڈھونڈنے لگا۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ سوچ کر بھی گھبرا رہا تھا کہ اگر وہ نہیں ملی تو؟

ایسے ہی متلاشی نظروں سے یہاں وہاں دیکھتے ہوئے اس کی نظر ایک بینچ پر جا کے ٹھہری اور اس کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ وہ جلدی سے بھاگتا ہوا وہاں پہنچا۔

”یہ کیا حرکت تھی؟ دماغ زیادہ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟“ اس نے نہرین کے سر پر پہنچ کے برہمی سے پوچھا۔ جو غصے بھری فکر میں آپ کا تکلف بھی بھول گیا تھا۔

اس کی آواز پر یکدم نہرین نے چونک کر سر اٹھایا۔ اور خود بھی اسٹیک کے سہارے کھڑی ہوگئی۔

”آپ یہاں!“ وہ حیرانی سے بولی۔

”یہ سوال تو مجھے تم سے کرنا چاہئے کہ تم یہاں کیا کر رہی ہو؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔

”میری وجہ سے آپ لوگوں پر کوئی مصیبت نہ آئے اسی لئے آپ لوگوں سے دور جا رہی تھی۔“ وہ نظریں جھکا کر بولی۔

”کس سے پوچھ کر جا رہی تھی؟“ دوسرا سوال آیا۔

”کسی سے نہیں، جیسے اچانک بنا پوچھے آگئی تھی آپ کی زندگی میں، ویسے ہی بنا بتائے جا بھی رہی ہوں۔“ دھیرے سے جواب ملا۔

”تم آئی بھلے ہی اپنی مرضی سے تھی، پر اب میری مرضی کے بنا نہ تو تم کہیں جا سکتی ہو اور نہ ہی میں تمھیں جانے دوں گا۔“ یکدم بابک نے اس کا رخ اپنی جانب کرتے ہوئے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جنونی انداز میں کہا۔ پتا نہیں اس کا لہجہ وجہ تھا یا آنکھیں کہ وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ پائی۔

”چلو اب واپس!“ اس نے بینچ پر رکھا چھوٹا سا بیگ اٹھاتے ہوئے حکم دیا۔ مگر وہ چلنے کے بجائے خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑی رہی۔

”چلو بھی اب!“ وہ دوبارہ بولا۔

”آپ کیوں بلاوجہ مصیبت مول رہے ہیں؟ مجھے چھوڑ دیں میرے حال پر، اگر میری وجہ سے آپ لوگ کسی مشکل میں آگئے تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر پاؤں گی۔“ اس کے انداز میں دکھ بھرا خدشہ تھا۔

”تم سے کس نے کہا کہ تم ہمارے لئے مصیبت ہو؟ نورالعین نے کچھ کہا ہے کیا؟“ اسے کھٹکا ہوا۔

”نہیں! کسی نے کچھ نہیں کہا، مجھے خود بھی سینس ہے، بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو بنا بولے ہی سمجھ میں آجاتی ہیں۔“ اس نے فلسفیانہ تصحیح کی۔

”اچھا! بنا بولے بس تمھیں یہ ہی سمجھ میں آیا کہ تم ہمارے لئے مصیبت بن جاؤ گی؟ اور کچھ نہیں سمجھ پائی تم بنا بولے؟“ ناچاہتے ہوئے بھی وہ گھمبیر انداز میں بےساختہ پوچھ بیٹھا۔

”کیا مطلب؟“ اس نے یکدم نظریں اٹھا کر ناسمجھی سے پوچھا۔

”کچھ نہیں، چلو گھر چلتے ہیں۔“ وہ نظریں چراتے ہوئے جانے کیلئے پلٹا کہ یہ وقت جذبات کے اظہار کیلئے مناسب نہیں تھا۔

”آپ میرے لئے اتنا سب کیوں کر رہے ہیں؟“ اس نے وہیں کھڑے رہتے ہوئے الجھ کر سوال کیا۔

”کیونکہ میں۔۔۔۔۔“ وہ پلٹ کر کہتے ہوئے یکدم رک گیا۔

”کیونکہ میں نے بھی ماضی میں کچھ غلطیاں کی ہیں، کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہے، جس کا مزید ازالہ تمھیں انصاف دلوا کر کرنا چاہتا ہوں۔“ اس نے آدھی وجہ بتاتے ہوئے بات بدل دی۔ جبکہ وہ ہنوز ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہی۔

”بس بہت ہوگئے سوال جواب، چلو اب گھر، پھر مجھے آفس بھی جانا ہے۔“ اس نے بات سمیٹی۔

لیکن جب نہرین نے کوئی حرکت نہیں کی تو بابک مجبوراً اس کی کلائی پکڑ کر خود ہی آگے بڑھا گیا۔ جبکہ اس نے بھی خود کو شاید حالات کے دھارے پر چھوڑ دیا۔


*********************************


”گڈ مارننگ! سر آپ نے بلایا؟“ سپاہی نے روم میں داخل ہوکر پوچھا۔

”گڈ مارننگ! جی، میں نے جو اسکیچ دیا تھا آپ کو اس معاملے میں کوئی پیش رفت ہوئی؟“ اپنی سنگل کرسی پر موجود احرار نے جاننا چاہا۔

”نہیں سر! لیکن آپ کے کہنے کے مطابق مختلف تھانوں میں اس کی کاپیاں بھیجوا دی ہیں، جیسے ہی کوئی رد عمل آتا ہے آپ کو ضرور بتائیں گے۔“ اس نے پیشہ وارانہ جواب دیا تو احرار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


*********************************


”کہاں تھا تو؟“ بابک نے کال ریسیو ہوتے ہی سوال کیا۔

”کلائینٹ کے ساتھ کچھ میٹنگ میں مصروف تھا، پر تمھیں کیا ہوا؟ کیوں فون پر فون کیے جا رہے ہو؟“ یاور نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”ایک کام دیا تھا تمھیں، کیا بنا اس کا؟ کچھ پتا چلا نہرین کے بھائی کے بارے میں؟“ وہ اصل موضوع پر آیا۔

”خدا کو مان بابک، اتنی جلدی تو امریکہ کی پولیس بھی کسی کو نہیں ڈھونڈ پاتی جتنی جلدی تو نے مچائی ہوئی ہے۔“ اس نے حیرت سے دھیان دلایا۔

”مان لیا خدا کو، اب یہ بتا کوئی معلومات ملی؟“ اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔

”نہیں یار! لیکن چند لوگوں کو کہا ہے، اب تھوڑا تم بھی صبر رکھو، جیسے ہی کچھ پتا چلتا ہے تو تمھیں ہی بتاؤں گا ناں!“

”ٹھیک ہے، میں انتظار کروں گا۔“

”انتظار کرنے کے بجائے خود کوشش کرلو۔“ یاور نے مشورہ دیا۔

”میں خود بھی دن رات یہ ہی کوشش کر رہا ہوں، تمھیں کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔“

”ہاں تو ایسے ہی میں بھی کوشش کر رہا ہوں، تمھیں بھی بار بار بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے تنک کر ترکی بہ ترکی کہا اور لائن ڈسکنیکٹ کردی۔


*********************************


زندگی کے صحرا میں ہلکے ہلکے وقت کی ہوا ہنوز چل رہی تھی۔

احرار نے پوری کوشش کی پر وہ حنا کے کیس پر کچھ نہیں کر پایا اور حسب روایت نہ صرف کیس بند ہوگیا بلکہ اسے وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی صورت کچھ دھمکیاں بھی ملنے لگی تھیں، جو کہ جہاں آرا سے پنگا لینے کا نتیجہ تھیں۔ لیکن اس نے حسب معمول ان پر کوئی دھیان نہیں دیا تھا اور اپنے معاملات میں مشغول تھا۔

بابک کو بھی اتنی تو سمجھ تھی کہ جلدی نہرین کے بھائی کو ڈھونڈ پانا ممکن نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنے طور پر کوشش کرتے ہوئے صبر کر رہا تھا۔

نہرین اب کافی حد تک صحت یاب ہوکر نارمل ہوگئی تھی لیکن اس روز جس طرح سے بابک نے اسے جانے سے روکا تھا اس کے بعد پھر اس کی بھی دوبارہ یہاں سے جانے کی ہمت نہیں پڑی تھی۔

اور ساتھ ہی ساتھ کسی کی نظروں میں کچھ تھا جو اس پر آشکار ہونے لگا تھا۔ مگر وہ جان بوجھ کر انجان بن رہی کیونکہ وہ کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہتی تھی۔

المختصر یہ کہ بظاہر سب کچھ دریا میں ٹھہرے پانی کی طرح پرسکون تھا۔ لیکن بہت جلد ہی ایک طوفان آکر اس سکون کو برباد کرنے والا تھا۔ جس سے سب بےخبر تھے۔

رات کے وقت کراچی سمندر کنارے بنا دو دریا کا مشہور ریسٹورنٹ ”کولاچی“ جگمگ کرتی روشنیوں، ٹھنڈی ہواؤں اور ساحل پر اٹھتی لہروں کے پرسوز شور کے بیچ ہمیشہ کی طرح بہت شاندار لگ رہا تھا۔

یہ ایک اوپن ایئر ریسٹورنٹ تھا۔ جس کی سب سے کنارے والی ٹیبل پر احرار اور نورالعین آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

”آج یہ مہربانی کیوں؟“ ویٹر کے جانے کے بعد نورالعین نے معنی خیزی سے پوچھا۔

”تم ہی تو اکثر شکوہ کرتی رہتی ہو کہ میں تمھیں ٹائم نہیں دیتا، ہر وقت موبائل، فائل یا کلائینٹ میں ہی الجھا رہتا ہوں، اسی لئے سوچا کہ آج باہر ڈنر کرواکے تمہاری شکایات دور کردوں۔“ احرار نے فرمابرداری سے وضاحت کی۔

”فائدہ ایک دن کی مہربانی کا! کل پھر سے تم ہو گے، اور تمہارے ڈھیر سارے کام!“ اس نے ہوا سے چہرے پر آئی لٹ کو ہٹاتے ہوئے مصنوعی طنز کیا۔

”تم عورتوں کو کسی حال میں چین نہیں ہے۔“ وہ ہلکے سے بڑبڑایا۔

”کیا کہا؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

”کچھ نہیں، اب میں کام بھی تو نہیں چھوڑ سکتا ناں! لیکن میں تمھیں بھی وقت دینے کی پوری کوشش کرتا تو ہوں۔“ اس نے بات بدلتے ہوئے عاجزی سے وضاحت کی۔

”مذاق کر رہی ہوں، مجھے تم سے نہ کبھی کوئی شکایات تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی، میں جانتی ہوں کہ میرے شوہر کو اپنا ہر فرض پوری ایمانداری سے نبھانا آتا ہے، پھر چاہے وہ شوہر کی صورت ہو، بھائی کی، بیٹے کی، یا ایک انویسٹیگیشن آفیسر کی۔“ وہ اپنا نازک ہاتھ ٹیبل پر رکھے اس کے مضبوط ہاتھ پر رکھتے ہوئے محبت سے بولی تو احرار کو اپنے انتخاب پر بے اختیار ٹوٹ کے رشک آیا۔

”ہاں لیکن ہر چیز ایک حد میں اچھی لگتی ہے، تم اپنے کام کے ساتھ مخلص ہو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن جس طرح اکثر تم پر سب کچھ صحیح کرنے کی دھن سوار ہوجاتی ہے، سب کو خوش رکھنے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگتے ہو وہ غلط ہے۔

اب جیسے کچھ وقت پہلے حنا نامی لڑکی کے کیس کو لے کر تم اتنے سیریس ہوگئے تھے جو کہ تمہارا کام ہے ہی نہیں۔ تم آئی او ہو، تمہارا کام صرف تمھیں ملنے والے کیس پر تفتیش کرنا ہے۔

کسی کو انصاف دلانے کی لگن رکھنا اچھی بات ہے، پر انسان کو اپنی جگہ بھی تو دیکھنی چاہیے، اسی لئے کیس کو کیس کی طرح ہی ڈیل کیا کرو۔“ موقع دیکھ کر نورالعین نے اسے رسان سے وہ سب کہا جو کب سے کہنا چاہ رہی تھی۔

”میں جانتا ہوں اپنی ذمہ داری، اور تم بھی ٹھیک کہہ رہی ہو، مگر اپنی آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوتا دیکھ کر میں دہل جاتا ہوں، دل کرتا ہے بس کسی بھی طرح سب ٹھیک کردوں۔“ اس نے بھی بلاحُجت اعتراف کرکے اپنی کیفیت کا اظہار کیا۔

”اور یہ ممکن نہیں ہے، اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ جیسی قوم ہوتی ہے میں ویسے ہی حکمران ان پر مسلط ہوتے ہیں، اور ہمارے حکمرانوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کیسے ہیں؟ ہر جگہ جھوٹ، فریب، دھوکہ، بے ایمانی کا راج ہے، اور یہ سب کرنے والے بھی کوئی اور نہیں ہم خود ہی ہیں، اچھے اور ایماندار لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے، اب ایسے میں کیسے تم اکیلے سب ٹھیک کرلو گے؟“ اس نے سمجھاتے ہوئے پوچھا۔ وہ خاموش ہی رہا۔

”تم صرف کوشش کر سکتے ہو، اور کرو بھی، تا کہ روزِ قیامت تمہارے پاس جواب ہو کہ ہاں تم نے اپنی حصے کی اچھائی کی تھی، لیکن کوشش میں ناکامی کے بعد اسے دل سے مت لگایا کرو، خود کو ذمہ نہ سمجھا کرو، کیونکہ تم مجھے پریشان پریشان سے بالکل اچھے نہیں لگتے۔“ اس کے ٹھہرے ہوئے انداز میں اپنے شوہر کیلئے بےحد محبت اور فکر تھی۔ جس کے چلتے وہ چپ چاپ مبہوت سا اسے دیکھتا گیا۔

”اب کچھ بولو بھی، ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟“ نورالعین نے اسے خاموش دیکھ کر اکسایا۔

”سوچ رہا ہوں کہ اتنے لمبے لمبے لیکچرز کے پیچھے کہیں تمہاری اِن سکیورٹی تو نہیں ہے؟“ اس کا انداز معنی خیز تھا۔

”کیا مطلب! کیسی اِن سکیورٹی؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”یہ ہی کہ جیسے تمہارے کیس پر کام کرتے ہوئے میں تمہارے ساتھ سیریس ہوگیا تھا، ویسے ہی کسی اور میں بھی دلچسپی نہ لینے لگوں!“ اسے شرارت سوجھ رہی تھی۔

”حد ہوتی ہے احرار! میں تمہارے بھلے کیلئے تمھیں سمجھا رہی ہوں اور تم میری ہی نیت پر شک کر رہے ہو!“ وہ یکدم تنک کر بولی اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ بھی اس کے ہاتھ پر سے ہٹانے لگی۔ جسے احرار نے فوراً پکڑ لیا۔

”اچھا سوری! مذاق کر رہا تھا یار میں، مجھے پتا ہے تمھیں میری فکر رہتی ہے۔“ اس نے نورالعین کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا۔

”اور سچ کہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے تمہارا اور بھیا کا یوں میرے لئے فکرمند ہونا، بہت خوش نصیب محسوس کرتا ہوں میں خود کو۔“ اس کے انداز میں رشک بھرا تشکر تھا۔

”بس ڈر لگتا ہے کہ ہمارے ہنستے بستے گھر کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔“ ناچاہتے ہوئے بھی وہ خدشہ زبان پر لے آیا۔

کیونکہ جس طرح کی دھمکیاں اسے ،وقتاً فوقتاً موصول ہونے لگی تھیں انھوں نے اسے بھی سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔

”اللہ نہ کرے! کیوں ایسی باتیں منہ سے نکال رہے ہو!“ اس نے دہل کر فوراً ٹوکا۔

”اسی لئے تاکہ فلمی ہیروئن کی طرح تم جلدی سے میرے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہو کہ ایسی باتیں مت کیا کرو۔“ اس نے ہلکے سے انداز میں موضوع بدلا۔

پر اُسے اِس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ موضوع بدلنے سے حقیقت اور ہونے والی بات نہیں بدل جاتی۔


*********************************


”کیا بات کر رہا ہے؟“ موبائل کان سے لگائے بابک کسی بات پر سخت حیران ہوا اور دوسری جانب کی بات سننے لگا۔

”ٹھیک ہے، میں تھوڑی دیر تک پہنچتا ہوں۔“ اس نے مختصر بات کرکے لائن کاٹی اور چند لمحے لب بھینچے پرسوچ انداز میں کھڑے رہنے کے بعد وہ اپنے کمرے سے نکل کر نہرین کے کمرے میں آیا۔

دروازے پر دستک دی اور اجازت ملنے پر دروازہ کھولتا اندر داخل ہوگیا۔ وہ بیڈ پر نیم دراز ایل ای ڈی پر بےدھیانی سے کوئی ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔

”سب خیریت ہے؟“ وہ اسے دیکھتے ہوئے سیدھی ہوئی۔

”ہے بھی اور نہیں بھی۔“ اس کا گول مول جواب نہرین کے سر پر سے گزر گیا۔

”میں نے پرسنلی اپنے ایک قریبی دوست یاور کو بھی آپ کے بھائی کی تلاش میں لگایا ہوا ہے، اور ابھی اسی کا فون آیا تھا۔“ وہ وضاحت کرنے لگا۔

”ارسلان مل گیا ہے کیا؟“ وہ یکدم بےتاب ہوگئی۔

”نہیں۔۔۔لیکن پولیس کو ایک لاوارث ڈیڈ باڈی ملی ہے جس کی شناخت کیلئے آپ کو چلنا پڑے گا۔“ اس کا جواب سن کر نہرین کا دل بیٹھ گیا اور چہرے پر دہشت کے سائے لہرائے۔

”آپ پریشان نہ ہوں، ہوسکتا ہے ایسا نہ ہو جیسا ہم سوچ رہے ہیں، بس ایک چھوٹی سی کنفرمیشن چاہیے۔“ بابک نے فوری اس کا دھیان بھٹکا کر تسلی دی۔

”احرار اور نورالعین کافی دنوں بعد ایک ساتھ ٹائم اسپینڈ کرنے باہر گئے ہیں، میں انھیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تو کیا آپ میرے ساتھ چلنے میں کمفرٹیبل ہیں؟ یا میں انھیں بلا لوں؟“ اس نے مزید کہتے ہوئے جاننا چاہا۔

”نہیں نہیں، انھیں ڈسٹرب نہ کریں، میں آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔“ وہ نفی کرتے ہوئے بیڈ سے اٹھی تو وہ بھی سر ہلا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔


*******************************************


”اب سیدھا گھر یا کہیں اور؟“ احرار نے اپنے ہمراہ چلتی نورالعین سے پوچھا۔ دونوں ریسٹورنٹ کے پارکنگ ایریا میں اپنی گاڑی کے پاس آگئے تھے۔

”اگر کہیں اور جانے کا کہوں تو چلو گے؟“ نورالعین نے احرار کی سفید کرولا سے ٹیک لگاتے ہوئے شرارتاً پوچھا۔

”بالکل! آپ بس حکم کریں جانِ من!“ احرار نے بھی شوخی سے کہتے ہوئے ایک ہاتھ اس کے دائیں طرف گاڑی پر ٹکایا اور بےحد قریب ہوگیا کہ پرفیوم کی مہک سیدھا سانسوں میں اتری۔

”وہ ڈرائیور دیکھ رہا ہے۔“ اس کی آنکھوں سے چھلکتی معنی خیزی سے گھبرا کر نورالعین نے دھیرے سے ٹوکا کہ کہیں وہ کوئی بےباکی نہ کر جائے! کیونکہ ذرا فاصلے پر موجود گاڑی میں بیٹھا ڈرائیور یہیں دیکھنے لگا تھا۔

”جانتا ہوں، اور ڈونٹ وری میں اتنا بےغیرت ہرگز نہیں ہوں کہ ملازمین یا بزرگوں کے سامنے معنی خیز اور بےباک حرکتوں سے اپنی بیوی کو ان کمفرٹیبل کرکے شرمسار کروں۔“ اُس کا ٹھہرا ہوا جواب دل کے تار چھیڑ گیا۔ نورالعین کے دل میں ایک بار پھر اُس کی عزت مزید بڑھ گئی جو اِس کی عزت کرنا جانتا تھا۔


*******************************************


بابک کے ہمراہ نہرین مطلوبہ ہسپتال پہنچی جہاں علاقے کا سب انسپیکٹر پہلے ہی موجود تھا جس نے پہلے بابک سے کچھ بات چیت کی اور پھر ایک وارڈ بوائے کے ساتھ وہ ان دونوں کو اپنی پیروی میں لے کر ایک جانب بڑھا۔

نہرین اب بنا اِسٹک کے ہی نارمل انداز سے چلنے لگی تھی لیکن اس وقت اسے اپنے اٹھتے ہوئے قدم من من بھاری لگ رہے تھے اور دل کسی انہونی کے خدشے سے سہما جا رہا تھا۔

یہ دونوں ان کی تقلید کرتے ہوئے ایک کمرے میں داخل ہوئے جہاں ایک اسٹریچر پر سفید چادر سے ڈھکی ڈیڈ باڈی موجود تھی۔

”پلیز یہاں آئیے!“ انسپیکٹر نے دور کھڑی نہرین کو کہا۔

بابک نے بھی اسے حوصلہ دیا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی نزدیک آئی۔

وارڈ بوائے نے جوں ہی باڈی پر سے کپڑا ہٹایا تو اس کا چہرہ دیکھ کر نہرین نے بےساختہ دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لئے۔

اس کی موت غالباً کسی خطرناک ایکسیڈینٹ میں ہوئی تھی اسی لئے چہرے پر کافی دلخراش چوٹیں تھیں۔

”نہرین!“ بابک نے اسے سکتے کی حالت میں دیکھ کر دھیرے سے پکارا تو وہ بری طرح ڈر کر خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

”کیا یہ آپ کا بھائی ہے؟“ بابک نے جاننا چاہا۔ انسپیکٹر کی سوالیہ نظریں بھی اسی پر تھیں۔

”نہیں!“ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں جواب دیتے ہوئے نفی میں سر ہلایا اور پھر بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئی۔

”یہ وہ نہیں ہے جسے ہم ڈھونڈ رہے ہیں، تھینک یو فار دا کاپریشن انسپیکٹر!“ بابک رسمی انداز میں اس کا شکریہ ادا کرکے فوری نہرین کے پیچھے گیا۔

وہ کاریڈور کے کنارے چلتی ریلنگ تھامے، سر جھکائے رو رہی تھی جہاں سے ہسپتال کا لان نظر آرہا تھا۔ بابک بھی اس کے پاس چلا آیا۔

”کیا ہوگیا نہرین؟ وہ آپ کا بھائی نہیں ہے تو پھر کیوں رو رہی ہیں؟“ اس نے فکر آمیز ناسمجھی سے پوچھا۔

”یہ سوچ کر کہ اگر میرا بھائی بھی مجھے اسی حالت میں ملا تو؟“ اس نے روتے ہوئے سر اٹھایا تو اس کا آنسوؤں سے تر سرخ چہرہ دیکھ کر بابک کے دل کو کچھ ہوا۔

”اگر ایسا ہوا تو مجھ سے یہ دکھ برداشت نہیں ہوگا۔۔۔۔میں مر جاؤں گی۔۔۔۔۔میں مر جاؤں گی۔“ اس نے روتے ہوئے بےاختیار بابک کے کندھے پر ماتھا ٹکا لیا۔ اور وہ اس عمل پر اپنی جگہ منجمند ہی ہوگیا۔

لڑکیوں سے ہاتھ ملانا، گلے ملنا اس کی کلاس میں بےحد عام بات تھی خود اس کی بھی کئی ساری لڑکیاں واقف کار تھیں۔ یونیورسٹی کے ٹائم پر بھی بہت سی لڑکیوں سے کافی فرینکس رہی تھی۔۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔ان میں سے کسی کا بھی چھونا کبھی اس طرح اس کی دھڑکنیں منتشر کرنے کا سبب نہیں بنا تھا جس طرح نہرین کا لمس اسے گدگدا گیا تھا۔

بابک کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے کندھے سے لگ کر روتی اس نازک جان لڑکی کو کیا کہہ کر سہارا دے؟ اس کا سر سہلائے؟ اسے خود سے دور کردے؟ کیا کرے؟

”خود کو سنبھالیں پلیز!“ بڑی مشکل سے بابک کے لبوں سے یہ الفاظ کچھ یوں نکلے گویا اُسے دلاسا نہیں دے رہا بلکہ خود کو بہکنے سے روک رہا ہو!

اسے بھی شاید اب اپنی بےاختیاری کا احساس ہوا تھا اسی لئے دھیرے سے الگ ہوکر نظریں جھکائے آنسو صاف کرنے لگی۔

”آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔میری وجہ سے آپ کو زحمت اٹھانی پڑی۔“ وہ یہاں وہاں دیکھتے ہوئے شرمندگی سے بولی۔ نہ جانے یہ سوری واقعی یہاں آنے کی زحمت کے عوض کہا گیا تھا یا تھوڑی دیر قبل سرزد ہوئی بےاختیاری کیلئے؟

”اِٹس اوکے۔۔۔۔بٹ دا بیسٹ پارٹ از کہ یہ آپ کا بھائی نہیں ہے۔۔۔۔وہ جہاں بھی ہوگا بالکل ٹھیک ہوگا اور بہت جلد ہی آپ کو مل جائے گا، یقین رکھیں۔“ اس نے بھی ہلکے پھلکے انداز میں تسلی دی جس کے بعد دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہوگئی۔

”واپس چلیں؟“ بابک نے سوالیہ انداز میں خاموشی کو توڑا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر دونوں باہر کی جانب بڑھ گئے۔


*****************************************


سیاہ کرولا درمیانی رفتار سے سڑک پر دوڑ رہی تھی جسے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا بابک کنٹرول کر رہا تھا۔ جب کہ اس کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر موجود نہرین چپ چاپ کھڑکی سے باہر وہ رات کی مخصوص افراتفری والے مناظر دیکھ رہی تھی جو چلتی گاڑی میں بھاگتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔

جب سے وہ لوگ ہسپتال سے نکلے تھے نہرین پر عجیب سی افسردگی طاری ہوگئی تھی جو بابک کو اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ یہ بات درست تھی کہ وہ اب تک اسے کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھ سکا تھا مگر اس حد تک رنجیده بھی اب تک نہیں دیکھا تھا۔

”کچھ کھائیں گی؟“ بابک نے خاموشی توڑتے ہوئے پوچھا۔ اس نے نفی میں سر ہلایا۔

”آپ جب سے پاکستان آئی ہیں تب سے کسی نا کسی پرابلم میں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ ٹھیک طرح سے اس شہر کو اکسپلور بھی نہیں کر پائیں، اگر آپ کہیں تو کیا میں آج بطور میزبان آپ کو اپنے شہر کی سیر کراؤں؟“ بابک نے تمہید کے ساتھ پیشکش کی۔ وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

”ابھی؟“ اس کے سوالیہ سوالیہ انداز میں تعجب خیزی تھی۔

”ہاں ابھی، رات کے آٹھ ہی تو بجے ہیں، گھر پر بھی ابھی نورالعین اور احرار نہیں ہیں اسی لئے سناٹا ہی ہو رہا ہے، تو تب تک میں آپ کو تھوڑا اپنے شہر سے انٹرڈیوس کروا دیتا ہوں پھر گھر چلتے ہیں، تب تک وہ دونوں بھی آچکے ہوں گے!“ اس نے خاصا اضافی جواب دیا۔

درحقیقت وہ بس کسی بھی طرح اس پر چھائی یہ رنجیدگی زائل کرنا چاہتا تھا اسی لئے دھیان بھٹکانے کیلئے سیر کا بہانہ ڈھونڈ نکالا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ شش و پنج کی کیفیت میں مبتلا ہوکر انگلیاں مڑوڑنے لگی جیسے فیصلہ نہیں کر پا رہی ہو۔

”گھبرائیں نہیں آپ کو کیڈنیپ نہیں کروں گا اور جس طرح گھر سے لے کر نکلا تھا واپس ویسے ہی لے کر جاؤں گا، پرامس!“ اس کی کشمکش بھانپتے ہوئے بابک نے خود ہی یقین دہانی کرائی۔

”نہیں وہ بات نہیں ہے، میں بس یہ سوچ رہی تھی کہ کہیں میری وجہ سے آپ ڈسٹرب نہ ہوجائیں ورنہ آپ پر شک کرنے کا تو سوال ہی نہیں ہے، آج آپ کی وجہ سے ہی میں اس انجان شہر میں صحیح سلامت اور سیف ہوں، مجھے آپ پر پورا یقین ہے۔“ اس نے رسان سے وضاحت کرتے ہوئے آخر میں عزت بھری نگاہوں سے بابک کو دیکھا۔

”تو پھر میں ہاں سمجھوں؟“ اس نے بھی براہ راست آنکھوں میں جھانکتے ہوئے سوال کیا۔

”جی؟“ وہ متعجب ہوئی۔

”میرا مطلب آؤٹنگ پر چلنے کیلئے ہاں سمجھوں؟ آپ ایگری ہیں؟“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

نہرین نے اثبات میں سر ہلا کر اپنی رضا مندی کا عندیہ دے دیا۔ جس کے بعد شہرِ قائد کی رونقوں نے بھی انھیں خوش آمدید کہہ کر ان کا استقبال کیا۔

مختلف جگہوں پر اسے گھماتے ہوئے، ان کے بارے میں بتاتے ہوئے بلآخر بابک اسے ایک بڑے سے شاپنگ مال لے آیا۔

”میں یہیں گاڑی میں انتظار کرلیتی ہوں، آپ شاپنگ کرکے آجائیں۔“ مال کی پارکنگ میں گاڑی رکتے ہی نہرین گویا ہوئی۔

”مجھے کیا پتا آپ کو کیا چاہیے؟ میں آپ کیلئے شاپنگ کیسے کرسکتا ہوں؟“ اس نے سیٹ بیلٹ کھولتے ہوئے کہا۔

”میرے لئے؟“ وہ حیران ہوئی۔

”اور نہیں تو کیا، آپ کو ہی تو شاپنگ کروانے لایا ہوں، چلیں اتریں گاڑی سے۔“ وہ گیٹ کھول کر باہر نکلا۔ نہرین بھی غیر آرام دہ کیفیت میں باہر آگئی۔

”مجھے شاپنگ نہیں کرنی، آپ خواہ مخواہ زحمت کر رہے ہیں۔“ وہ ہچکچائی۔

”خواہش نہ سہی مگر کچھ ذاتی ضرورت بھی ہوتی ہے، جب سے آپ پاکستان آئی ہیں آپ کا سامان مسنگ ہے اورآپ ان ہی چیزوں پر گزارا کر رہی ہیں جو نورالعین نے آپ کو اپنی سمجھ بوجھ سے لا کر دی تھیں، اب جب کہ آپ کی حالت ٹھیک ہے تو اپنی ضرورت کا ہی کچھ تھوڑا بہت سامان لے لیں۔“ وہ متوازن انداز میں کہتا اس کی جانب آیا۔

نہرین کوئی جواب دینے کے بجائے شش و پنج کے عالم میں انگلیاں مڑوڑنے لگی۔

”چلیں ایسے ہی ایک راؤنڈ لگا لیتے ہیں، کچھ نہیں سمجھ میں آیا تو واپس آجائیں گے۔“ بابک نے اسے رضامند کرنے کیلئے بیچ کی راہ نکالی تو اسے قائل ہوکر چلنا ہی پڑا۔

دونوں پارکنگ سے نکل کر مال کے اندر داخل ہوئے جس کی چکاچوند قابلِ دید تھی۔ فی الحال یہاں زیادہ رش نہیں تھا اور جو لوگ تھے وہ اپنی اپنی خریداری میں مصروف تھے۔

”ویسے آپ بچپن سے نیویارک میں رہی ہیں تو وہاں یقیناً آپ کا ڈریسنگ اسٹائل کچھ اور ہی رہا ہوگا، ہے ناں!“ آہستہ آہستہ چلتے بابک کا انداز سوالیہ تھا۔

”جی، وہاں زیادہ تر جینز کُرتی یا ٹاپ وغیرہ ہی پہنتی تھی۔“ اس نے تصدیقی جواب دیا۔ جس نے فی الحال ہلکے نیلے رنگ میں کاٹن کا ڈھیلا سا سوٹ پہنا ہوا تھا۔

”چلیں کچھ ایسا ہی دیکھ لیں اپنے لئے، آئی کین انڈرسٹینڈ کہ ایک انسان سالوں سے جو پیٹرن فالو کرتا آرہا ہو اس میں اچانک چینج آجانے سے وہ ان کمفرٹیبل ہوجاتا ہے۔“ اس نے معاملہ فہم انداز میں پیشکش کی۔

”جب پوری زندگی کا پیٹرن ہی بدل گیا ہو تو پھر ڈریسنگ اسٹائل سے کیا فرق پڑتا ہے؟ بس جسم پر لباس ہے، یہ ہی کافی ہے۔“ اس نے تاسف سے کہتے ہوئے ایک گہری سانس لی۔

”یہ ہی تو کافی نہیں ہے ناں!“ بابک کا انداز سراسر اختلافی تھا۔ وہ چلتے ہوئے گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔

”چلیں مان لیا کہ لائف میں پرابلم ہے، لیکن اپنا حلیہ اُجاڑ لینے سے، خود پر اداسی طاری کرلینے سے کیا وہ پرابلم حل ہوجاتی ہے؟“ اس نے براہ راست دیکھتے ہوئے سوال اٹھایا۔

”کسی پریشانی کے چلتے بھلا کس کا دل چاہے گا کہ وہ خود کو سجا بنا کر رکھے؟“ اس نے بھی الجھ کر سوال کیا۔

”میں یہ بات کر ہی نہیں رہا کہ دل چاہتا ہے یا نہیں؟ میں پوچھ رہا ہوں کیا ایسا کرنے سے مسلہ حل ہوجاتا ہے؟“ اس نے اپنے سوال کی سمت واضح کی جس کا کیا جواب دیا جائے وہ فوری طور پر سمجھ نہیں پائی۔

”نہیں ہوتا، بلکہ اور زیادہ بڑا اور بھاری لگنے لگتا ہے۔“ وہ خود ہی جوابی انداز میں گویا ہوا۔

”آپ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ فیکٹ ہے کہ ہماری اصل پرابلم صرف پچاس فیصد ہوتی ہے، باقی پچاس فیصد ہمارے نیگیٹیو خیال ہوتے ہیں جو اسے مزید سیریس بنا کر ہمیں ہلکان کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔کوئی بھی پرابلم آنے پر ہمارے پاس دو چوائسسز ہوتی ہیں۔۔۔۔۔پہلی۔۔۔۔۔اسے سوچ سوچ کر کڑھتے رہیں، روتے رہیں۔۔۔۔۔دوسری۔۔۔۔۔۔ایک گہری سانس لے کر ہمت سے اسے ڈیل کرنے کیلئے کھڑے ہوجائیں، بھلے ہی ہم پرابلم سالو نہ بھی کر پائیں مگر جب رونا دھونا چھوڑ کر اسے قبول کرلیتے ہیں تو اسے برداشت کرنے کی ہمت آجاتی ہے، آپ اتنا سب ہونے کے بعد اپنے بھائی کو ڈھونڈنے ایک انجان ملک چلی آئیں یہ ایک سائن ہے کہ آپ بہادر لڑکی ہیں اسی لئے بہادر ہی رہیں، آپ پر یہ اداسی اور مایوسی بالکل بھی نہیں جچتی۔“ اس نے جذباتی انداز میں اچھا خاصا لیکچر دے ڈالا جسے وہ چپ چاپ بغور سنتی گئی اور ایک بار پھر ناچاہتے ہوئے بھی اس سے متاثر ہوگئی۔

”چلیں اس شاپ پر کچھ دیکھتے ہیں۔“ بابک اپنی دھن میں مزید کہتا آگے بڑھ گیا اور وہ جو اسے دیکھتے ہوئے سنتی جا رہی تھی اپنی جگہ مبہوت رہ گئی۔


*****************************************


نہرین نے اپنے لئے صرف ایک جینز کُرتی اور چند ایک چھوٹی موٹی چیزیں لی تھیں لیکن بابک کو جب اس کی پسند کا اندازہ ہوگیا تو منع کرنے کے باوجود اسی طرز پر اس کیلئے کئی سارے کپڑے اور چیزیں خرید لیں۔ اور اب دونوں کاؤنٹر پر کھڑے ادائیگی کر رہے تھے۔

”کانگریچولیشن سر!“ کمپوٹر کے سامنے بل بناتے شخص نے اچانک خوشگوار انداز میں کہا۔

”تھینکس۔۔۔لیکن کس لئے؟“ وہ کچھ سمجھا نہیں۔

یہ ہی کیفیت اس کے ساتھ کھڑی نہرین کی بھی تھی۔

”ہماری شاپ کی اوپنگ پر ہم نے ون منتھ کیلئے ڈیلی لکی ڈرا ارینج کیا ہوا ہے، کسٹمرز کا بل بنتے ہی ان کا نام لکی ڈرا میں چلا جاتا ہے اور آج کا لکی ڈرا آپ نے وِن کیا ہے۔“ اس نے پرجوشی سے وضاحت کی جو سن کر انھیں بھی اچھا لگا۔

”واؤ! کیا پرائز ملا ہے ہمیں؟“ بابک کو بھی جاننے کا اشتیاق ہوا۔

”ون نائٹ ڈنر واؤچر فار ٹو پرسن اِن پورٹ گرینڈ! ود دس کیوٹ ٹیڈی بیئر!“ (پورٹ گرینڈ میں ایک رات کیلئے دو لوگوں کا ڈنر واؤچر، اس پیارے سے ٹیڈی بیئر کے ساتھ) اس نے بتاتے ہوئے ساتھ ہی کاؤنٹر پر ایک کارڈ اور ٹیڈی بیئر رکھا۔

”مبارک باد تو تم نے ایسے دی تھی دوست جیسے ڈنر واؤچر نہیں بلکہ قارون کا خزانہ نکل آیا ہے لکی ڈرا میں!“ بابک نے اس پر نرم سا طنز کیا۔

”سر یہ بھی بہت اچھی آفر ہے، آپ اپنی وائف کے ساتھ یہاں جاکر ٹائم اسپینڈ کیجئے آپ کو ضرور اچھا لگے گا۔“ اس نے نہرین کی جانب اشارہ کرکے پیشہ وارانہ انداز میں قائل کرنا چاہا تو وہ تھوڑی غیر آرام دہ ہوگئی۔

”تھینکس فار دا ایڈوائس!“ بابک نے اسے گھورتے ہوئے کاؤنٹر پر سے سامان اٹھایا اور پھر دونوں شاپ سے باہر آگئے۔

”آپ کو چاہیے یہ واؤچر؟“ بابک نے چلتے ہوئے نہرین سے پوچھا۔

”نہیں، میں بھلا ان کا کیا کروں گی؟ آپ ہی رکھ لیجئے۔“ شاپنگ بیگ لئے چلتی نہرین نے جھجھکتے ہوئے انکار کیا۔

”میں بھی بھلا کس کے ساتھ جاؤں گا؟ خیر! احرار اور نورالعین کو دے دوں گا۔“ وہ کندھے اچکا کر سوال کرنے کے بعد خود ہی نتیجے پر پہنچا۔

”یہ ٹیڈی آپ رکھ رہے ہیں یا یہ بھی انھیں دے دیں گے؟“ اس نے ہچکچاتے ہوئے جاننا چاہا۔

”آپ کو چاہیے یہ؟“ وہ اس کی دلچسپی بھانپ گیا۔

”ہاں، میرے پاس بھی ایک ایسا ٹیڈی ہوا کرتا تھا جسے میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتی تھی مگر سامان کے ساتھ وہ بھی کھو گیا۔“ اس نے تاسف سے بتایا۔

”اوہ! پھر تو یہ آپ ہی رکھ لیجئے۔“ بابک نے فوری طور پر وہ درمیانی سائز کا ٹیڈی اس کی جانب بڑھایا جسے اس نے مشکور انداز میں تھام لیا۔

نیا سویرا نکل آیا تھا۔

باوردی احرار اپنے روم میں بیٹھا حسب معمول کام میں مشغول تھا تب ہی ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا۔

اس نے کال ریسو کرکے موبائل کان سے لگایا۔

”ہیلو احرار! کہاں ہو تم؟“ دوسری جانب سے بابک کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔

”ڈیوٹی پر ہوں بھیا، کیا ہوا سب خیریت تو ہے؟“ اسے بھی تشویش ہوئی۔

”نہیں! خیریت نہیں ہے، تم جلدی سے گھر پہنچو۔“ اس نے عجلت میں حکم دیا جو اس کی فکر مزید بڑھا گیا۔

”ٹھیک ہے بھیا، بس ابھی آیا۔“ وہ بھی کہتے ہوئے جلدی سے کھڑا ہوا۔ اور ٹیبل پر سے کار کی چابی اٹھاتے ہوئے برق رفتاری سے باہر کی جانب بھاگا


احرار کو سارے راستے عجیب عجیب خدشات نے گھیرے رکھا۔ لیکن پھر بھی وہ خیر کی دعا مانگتے ہوئے پوری رفتار سے گاڑی بھگاتا ہوا جلد از جلد گھر پہنچا۔

سامنے ہال میں ہی بابک، نہرین اور نوری اسے مل گئے۔۔۔۔۔لیکن نورالعین۔۔۔۔۔۔۔وہ نہیں تھی۔

ایک لمحے کیلئے اس کا دل کانپ گیا۔

”کیا ہوا بھیا، سب ٹھیک ہے ناں! نورالعین کہاں ہے؟“ اس نے قریب آتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔

”نہیں، ٹھیک نہیں ہے۔“ بابک کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔

”ہوا کیا ہے؟ کچھ بتائیں تو!“ اس کی فکر خوف میں بدلنے لگی۔

”ہوا نہیں ہے، ہونے والا ہے۔“ بابک کا انداز سنجیدہ انداز یکدم پرجوشی میں بدلا۔

”کیا مطلب؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”مطلب تم پاپا بننے والے ہو۔“ بابک نے اسے دونوں کندھوں سے تھامتے ہوئے خوشخبری سنائی۔ احرار کو اپنی سماعتوں پر یقین ہی نہیں آیا۔

”کیا! سچ میں؟“ وہ بے یقینی سے بولا۔

”ہاں بالکل سچ، ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم اینا کا چیک اپ کروا کر ہاسپٹل سے لوٹے ہیں اور وہیں ڈاکٹر نے ہمیں یہ گڈ نیوز دی۔“ اس نے اضافی جواب کے ساتھ تصدیق کی۔

”یہ کون سا طریقہ تھا بھیا بتانے کا؟ پتا ہے آپ کی کال آنے پر میں کتنا ڈر گیا تھا!“ فکر زائل ہونے پر اس نے شکوہ کیا۔

”یہ ہی حال میرا بھی ہوا تھا، جب مجھے آفس میں نہرین کی کال موصول ہوئی تھی کہ میں جلدی گھر آجاؤں نورالعین بے ہوش ہوگئی ہے، میں بھی ایسے ہی بھاگتے دوڑتے گھر پہنچا تھا۔“ بابک نے اپنی طرف کی کہانی سنائی۔

”ہاں تو آپ لوگوں کے جانے تک وہ ٹھیک ہی تھیں، پھر اچانک ہی بے ہوش ہوگئیں تو ہم ڈر گئے، اسی لئے جلدی سے آپ کو فون کر دیا۔“ نہرین نے بھی اپنی صفائی دی۔

”ابھی کہاں ہے وہ؟“ احرار ساری باتیں پرے کرکے اصل مدعے پر آیا۔

”اپنے کمرے میں ہی ہے، جاؤ!“ بابک کے بتانے پر وہ اثبات میں سرہلا کر اوپر کی جانب بڑھ گیا۔

”آج رات کھانے کے ساتھ کچھ میٹھا ضرور بنانا نوری!“ بابک نے تاکید کی تو اس نے فرمابرداری سے سر ہلایا۔

”اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں آج سب کیلئے گھر پر کیک بناؤں؟ میں اپنی بیکری کیلئے بھی بنایا کرتی تھی۔“ نہرین نے جھجھکتے ہوئے پیشکش کی تو دونوں اس کی جانب متوجہ ہوئے۔

”ضرور! اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو ضرور بنائیے۔“ بابک نے بخوشی رضا مندی دی تو وہ بھی تشکر آمیزی سے مسکرا دی۔


*****************************************


احرار کمرے میں آیا تو نورالعین بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹی ملی جس نے آہٹ پر پلکیں اٹھاتے ہوئے دروازے کی جانب دیکھا۔

”تم ٹھیک ہو نورالعین؟“ وہ نرم سی فکرمندی سے پوچھتے ہوئے اس کے برابر میں بیٹھا جو خود بھی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔

”ہاں میں ٹھیک ہوں، کیا بابک نے تمھیں کچھ بتایا ہے؟“ اس نے جواب دیتے ہوئے ٹٹولا۔

”ہاں، انھوں نے بتایا کہ ہم پیرنٹس بننے والے ہیں۔“ اس کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔

”یار۔۔۔۔یہ بات سب سے پہلے تمھیں میں بتانا چاہتی تھی۔“ اس نے نروٹھے پن سے دکھ کا اظہار کیا۔

”چھوڑ ناں! کسی نے بھی بتایا ہو پر میرے لئے یہ بات بہت اسپیشل ہے، میں اتنا خوش ہوں کہ بتا نہیں سکتا۔“ احرار نے اس کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے خود سے لگایا۔

”میں بھی!“ وہ بھی وقتی نروٹھا پن چھوڑ کر اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے انوکھی خوشی سے سرشار تھی۔

”ہاں لیکن میں بابک سے ناراض ہوں کہ اس نے پہلے مجھے نہیں بتانے دیا۔“ اگلے ہی پل وہ مصنوعی برہمی سے بولی۔

”کوئی بات نہیں، دوسری مرتبہ تم بتا دینا، بس خوش!“ اس نے شرارت سے چھیڑا تو وہ سر اٹھا کر اسے گھورنے لگی جسے مسکرا کر خود میں مزید بھینچتے ہوئے احرار نے اس کا ماتھا چوم لیا۔


*****************************************


افراتفری میں گھر آنے کے بعد بابک دوبارہ آفس چلا گیا تھا اور اب ڈھلتی شام کے سنگ واپس لوٹا تھا۔

جوں ہی اس نے گھر میں قدم رکھا تو پورے گھر میں پھیلی کیک بیکنگ کی لذیز مہک اس کی ناک سے ٹکرائی اور اسے کھینچتے ہوئے کچن تک لے آئی جہاں نہرین دنیا سے بےخبر ہوکر پورے انہماک سے کیک بنانے میں مصروف تھی۔

آج معمول کے برعکس نہرین کا حلیہ کافی مختلف تھا۔

اس نے بیلو اسکن ٹائٹ جینز کے ساتھ وہ ہی ڈارک پنک فراک نما شارٹ کُرتی پہنی ہوئی تھی جو بابک کے ساتھ مال سے لی تھی۔ کمر سے ذرا اوپر آتے کتھئی ڈائی شدہ آدھے بال اوپر hair bow کی مدد سے باندھ کر باقی بال پشت پر کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔

غالباً اسے ہمیشہ سے اسی طرح رہنے کی عادت رہی تھی تب ہی معمول کی نسبت آج وہ کافی پیاری اور ریلیکس لگ رہی تھی جو کاؤنٹر پر موجود کیک پر کریم سے آئسنگ کرنے میں مصروف تھی، اور بابک اسے دیکھنے میں!


ایک چہرہ ہے جسے دیکھ کے لمحے بھر کو

دل ٹھہر جاتا ہے، میں آپ دھڑک جاتا ہوں


نہ جانے کتنی دیر مزید وہ یوں ہی مبہوت ہوا اسے دیکھے جاتا اگر نہرین ٹشو اٹھانے کیلئے گردن موڑنے پر اسے نہ دیکھتی۔

”ارے آپ؟“ وہ اسے یہاں پا کر خاصی حیران ہوئی۔

”جی، گھر میں انٹر ہوتے ہی آپ کے کیک کی خوشبو یہاں تک کھینچ لائی۔“ اس نے رسان سے جواب دیا تو جواباً وہ مسکرائی۔

”خوشبو اور لُک سے تو بہت زبردست لگ رہا ہے کیک، کافی ایکسپرٹ لگتی ہیں آپ اس کام میں!“ وہ ستائشی انداز میں مزید بولا۔

”دو ہی تو شوق تھے میرے، ایک بیكنگ اور دوسرا آؤٹنگ، لیکن پھر اچانک زندگی ایسی درہم برہم ہوئی کہ سب دھرا رہ گیا۔“ وہ ٹشو سے ہاتھ پر لگی کریم صاف کرتے ہوئے تاسف سے کہہ گئی۔

”اچھا اب پھر سے سیڈ موڈ آن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ بتائیں کیا میں کیک چکھ سکتا ہوں؟“ بابک نے جلدی سے موضوع ہی بدل دیا کہ کہیں اس پر پھر اداسی طاری نہ ہوجائے!

”جی، لیکن یہ فریج میں ٹھنڈا ہوکر زیادہ اچھا لگے گا۔“ اس کی نظر میں ابھی اسے ٹیسٹ کرنا بہتر نہیں تھا۔

”کوئی بات نہیں، ٹھنڈا ہونے کے بعد بھی کھالیں گے۔“ وہ کہتے ہوئے آگے آیا اور ایک چمچ اٹھا کر بہت احتیاط سے، کنارے پر سے ذرا سی کریم لے کر منہ میں رکھی۔

ردعمل کی منتظر نہرین کی نظریں اسی پر تھیں جس نے ذائقہ زبان پر لگتے ہی ستائشی انداز میں دونوں آئبرو اوپر چڑھائیں۔

”واؤ! کافی ٹیسٹی ہے۔“ اس نے تعریف کرتے ہوئے ذرا سی کریم اور لے کر منہ میں رکھی۔ نہرین کو تسلی ہوئی کہ شکر وہ کامیاب رہی تھی۔

”آپ کی بیکری پر تو یقیناً ہر وقت رش رہتا ہوگا!“ اس نے چمچہ واپس کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا۔

”نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے۔“ وہ ہلکے سے مسکراتے ہوئے کافی دلکش لگی اور یہ دلکش صورت ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی خواہش تھوڑی اور شدید ہوگئی۔


*****************************************


خوشخبری ملنے کی دیر تھی بس، سب ہی خوشی سے دیوانے ہوگئے تھے، اور کیوں نہ ہوتے؟ آخر کار یہ ان کے گھر کی پہلی خوشی تھی۔ جب کہ بابک تو کچھ زیادہ ہی پاگل تھا۔

یہ خبر ملے ابھی صرف دو ہفتے ہی ہوئے تھے، مگر بابک اور احرار نے گھر کو کھیلونوں سے ایسے بھر دیا تھا جیسے بچہ دنیا میں آچکا ہے، اور صرف کھیلونوں سے کھیلنے ہی آیا ہے۔

”یہ تم کیا الا بلا کھاتی رہتی ہو ہر وقت؟“ احرار کہتے ہوئے نورالعین کے برابر صوفے پر بیٹھا۔

”الا بلا نہیں دالیہ ہے، نوری نے بنا کر دیا ہے اور بہت ہی مزے کا ہے، تم کھاؤ گے؟“ اس نے تصحیح کے ساتھ پیشکش کی۔

”جی نہیں بہت شکریہ، آپ ہی کھائیں۔“ اس نے انکار کر دیا۔

”دراصل چھوٹے صاحب ایسی حالت میں ناں بہت عجیب عجیب چیزیں کھانے کا دل کرتا ہے ماں کا، ماشاءاللہ سے دو بھتیجے ہیں میرے، اور دونوں کی باری میں میری بھابھی کا بھی ہر وقت کچھ نا کچھ کھانے کا جی چاہتا رہتا تھا، اسی لئے اب میں نورالعین بھابھی صاحبہ کیلئے بھی ہر وقت کچھ نا کچھ بنا کے رکھتی ہوں، آپ نہیں سمجھیں گے یہ سب باتیں۔“ خالی ہونے والا پیالا لینے آئی نوری نے فلسفیانہ انداز میں بتایا۔

”ہاں نہیں سمجھ سکتا، کبھی اتفاق نہیں ہوا ناں مجھے پریگنینٹ ہونے کا۔“ وہ بھی شرارت بھرے اطمینان سے بولا تو نورالعین نے کہنی مار کر اسے ٹوکا۔

”مذاق کر رہا ہوں، خیر یہ بتاؤ کہ چھٹی والے دن بھیا کہاں چلے گئے کچھ پتا ہے؟ اور وہ بھی اس وقت دوپہر میں!“ احرار نے موضوع بدلا۔

”تمہارے بھیا ہیں، تمھیں پتا ہونا چاہئے کہاں آ جا رہے ہیں؟“ اس نے نوری کو خالی پیالہ دیتے ہوئے کہا۔ جسے لے کر نوری واپس کچن میں چلی گئی اور تب ہی بابک بھی ہال میں داخل ہوا۔

”ارے آگئے بھیا، کتنی لمبی عمر ہے آپ کی، ابھی ہم آپ کا ہی ذکر کر رہے تھے ہم!“ احرار نے خوش کن انداز میں بتایا۔

”ہاں، اسے کہتے ہیں کہ شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر!“ نورالعین نے مصنوعی طنز بھرا لقمہ دیا۔

”بس دیکھ لو، ورنہ دیکھا ہے کہیں اتنا فرمابردار شیطان؟“ بابک نے بھی سامنے صوفے پر بیٹھتے ہوئے حساب برابر کیا۔ کیونکہ وہ بھی کہاں باز آنے والا تھا۔

”چھٹی کے دن بھی کہاں غیر حاضر ہیں آپ بھیا؟“ ان دونوں کی معمول کی نوک جھونک نظر انداز کرتے ہوئے احرار نے پوچھا۔

”ایک کام سے گیا تھا، تو واپسی پر سوچا کہ اپنے بھتیجے یا بھتیجی کیلئے کچھ شاپنگ کرلوں، بس وہیں تھا۔“ اس نے اپنے برابر میں رکھے شاپنگ بیگز بیچ میں موجود میز پر رکھتے ہوئے بتایا جنھیں نورالعین اٹھا کر دیکھنے لگی۔ حسب توقع ان بیگز میں کھیلونے اور نومولود بچے کے کپڑے تھے۔

” تم دونوں ایک کام کیوں نہیں کرتے؟ کسی اچھے سے اسکول میں بچے کا نام بھی لکھوا دو، اسکول جانے کیلئے کورس اور یونیفارم بھی لے آؤ، اسکول ختم کرنے کے بعد کالج اور اسکول بھی جانا ہوگا اسے، تو کوئی اچھا سا کالج اور یونیورسیٹی بھی سلیکٹ کرلو اس کے لئے، اور ظاہر ہے پھر اسے شادی بھی تو کرنی ہوگی، تو کوئی رشتہ بھی دیکھ لو لگے ہاتھوں!“ نورالعین نے طنزیہ انداز میں مشورے دیے۔ دونوں حیرانی و ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھنے لگے۔

”تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں اینا؟“ بابک نے مشکوک انداز میں ٹٹولا۔

”میری طبیعت ٹھیک ہے، پر تم دونوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے، صرف دو ہفتے ہی ہوئے ہیں ہمیں یہ خبر ملے، پورے نوں مہینے باقی ہیں ابھی، پر ان دو ہفتوں میں ہی تم دونوں نے گھر میں کھیلونوں اور کپڑوں کی بھرمار کردی ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ یہ بچہ دنیا میں بس کپڑے پہننے اور کھیلونوں سے کھیلنے کیلئے آرہا ہے۔“ اس نے زچ ہوکر دونوں کو آئینہ دکھانا چاہا۔

”یار زندگی کا پہلا پہلا تجربہ ہے ناں ہمارا اس معاملے میں، اسی لئے تھوڑے ایکسائٹیڈ ہوگئے ہیں۔“ احرار نے وضاحت کی۔

”ہاں! اور یہ تو کچھ بھی نہیں، سوچو جب یہ پیدا ہوجائے گا تب کیا ہوگا؟“ بابک نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے مزید ٹکڑا لگایا۔

”یہاں ایک پاگل کا مزید اضافہ ہوجائے گا۔“وہ بڑبڑائی۔

تب ہی بابک کا فون بجا، جسے اس نے جیب سے نکال کر کان پر لگایا۔

”ہیلو! جی نعیم صاحب، کہاں تک پہنچا بیڈ؟“ وہ پوچھ کر دوسری جانب کا جواب سننے لگا۔

”ارے ہاں یہ تو میں بتانا ہی بھول گیا تھا، ایسا کریں آپ بیڈ دونوں کلرز میں بنا دیں، اگر لڑکا ہوا تو بیلو لے لیں گے اور اگر لڑکی ہوئی تو پنک!“ وہ فون پر آرڈر دیتا اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ نورالعین حیرانی سے اسے دیکھتی رہ گئی۔

”دیکھو ذرا اپنے بھائی کے کام، بیڈ تک کا آرڈر دے دیا ہے۔“ وہ احرار سے بولی جو بس کندھے اچکا کر رہ گیا۔


*********************************


رات طاری ہوکر مزید گہری ہوچکی تھی اور حسب معمول سب ہی اس وقت نیند کی آغوش میں تھے۔

اپنے بیڈ پر سوئے احرار نے بھی نیندوں میں دوسری جانب کروٹ لی اور غیر ارادی طور پر موندی موندی آنکھیں کھول کر نائٹ بلب کی روشنی میں نورالعین کو دیکھنے لگا کہ وہ ٹھیک سے سو رہی ہے یا نہیں؟

پر یہ دیکھ کر اسے حیرت ہوئی کہ وہ بجائے سونے کے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔

”نورالعین! کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے؟“ اس نے بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تشویش سے پوچھا۔ اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔

”ہاں ٹھیک ہے، تم سوجاؤ!“ وہ ہاتھ سے گال صاف کرتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں بولی۔

”کیا ہوا؟ کیوں رو رہی ہو؟“ اس نے قریب ہوکر نورالعین کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔

”امی کی بہت یاد آرہی ہے۔“ بتاتے ہوئے اس نے بھی احرار کے سینے پر سر رکھ لیا۔

”میں سمجھ سکتا ہوں، مگر یاد ہے ناں کہ ڈاکٹر نے تمھیں اسٹریس سے دور رہنے کا کہا ہے۔“ اس نے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے یاد دلایا۔

”یاد ہے، لیکن جب بھی مجھے ان کا خیال آتا ہے میں خود پر قابو نہیں رکھ پاتی، اور یہ سوچ کر تو اور بھی شرمندہ ہوجاتی ہوں کہ وہ اس دنیا سے بھی میری ہی وجہ سے گئی ہیں۔“ وہ اس وقت شدید ملامت کی لپیٹ میں تھی۔

”پھر تم وہ ہی بات کر رہی ہو، میں نے سمجھایا تھا ناں کہ ہر انسان کو ایک دن دنیا سے جانا ہی ہے، خود کو الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، بجائے اس طرح کی باتیں کرنے کے تم ان کی مغفرت کی دعا کرو، یہ بات تم دونوں کیلئے فائدے مند ہوگی۔“ اس نے پھر پیار سے سمجھایا۔ وہ خاموشی ہی رہی۔

”اچھا یہ بتاؤ تم نے کوئی نام سوچا ہمارے بیٹے یا بیٹی کیلئے؟“ اس نے دھیان بھٹکانے کیلئے موضوع ہی بدل دیا۔

”نہیں! ابھی تو نوں مہینے ہیں۔“ انداز سرسری تھا۔

”وہ ہی تو، ابھی نوں مہینے باقی ہیں جو تمھیں بالکل خوشی خوشی گزارنے ہیں، چلو اب سوجاؤ، زیادہ جاگنا بھی ٹھیک نہیں ہے تمہارے لئے۔“ اس نے نرمی سی حکم دیا۔

”لیکن مجھے نیند نہیں آئے گی۔“

”آنکھیں بند کرکے لیٹو تو سہی، آجائے گی۔“

”جب مجھے بھوک لگ رہی ہوتی ہے تو نیند نہیں آتی۔“ اس نے وجہ بتائی۔

”فریج سے کچھ لا دوں کھانے کیلئے؟“

”جو کھانے کا میرا دل چاہ رہا ہے وہ فریج میں نہیں ہے۔“ بےبس انداز گول مول تھا۔

”کیا کھانے کا دل چاہ رہا ہے؟“

”آملیٹ!“

”رات کے تین بجے تمہارا آملیٹ کھانے کا دل چاہ رہا ہے؟“ اس نے حیران ہوکر گھڑی کی جانب دیکھا۔

”ہاں تو دل ہے، کبھی بھی، کچھ بھی چاہ سکتا ہے۔“ لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے جواب ملا۔

”انڈے رکھے تو ہیں فریج میں، جاؤ بنالو۔“ اس نے سہولت سے مشورہ دیا۔

”یار میرا صرف کھانے کا موڈ ہورہا ہے، بنانے کا نہیں، نوری کواٹر میں جا کر سوگئی ہوگی اسے جگانا مناسب نہیں ہے تو۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکی۔

”تو؟“

”تم بنا دو ناں پلیز!“ دونوں بانہیں اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے لاڈ سے فرمائش کی گئی۔

وہ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتا رہا پھر خود پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔

”اللہ پاک تمہارے جیسا شوہر سب کو دے۔“ پیچھے سے نورالعین نے شرارت میں ڈوبی آواز لگائی۔

*********************************

سورج طلوع ہوکر اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا حسب معمول احرار ڈیوٹی پر، اور بابک آفس جا چکا تھا۔ جبکہ نورالعین اور نہرین دونوں اپنے اپنے کمروں میں تھیں۔ تب ہی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

”آجاؤ!“ بیڈ پر بیٹھی ٹی وی دیکھتی نورالعین نے اجازت دی۔

”بھابھی صاحبہ! میں رات کیلئے کھانا بنانے جا رہی تھی۔“ نوری نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔

”ہاں تو بنا لو، کسی نے منع کیا ہے کیا؟“

”نہیں وہ بات نہیں ہے۔“

”تو پھر؟“

”دراصل مجھے نمک کی برنی نہیں مل رہی ہے۔“ اس نے ہچکچاتے ہوئے بتایا۔

”دھیان سے دیکھو کچن میں ہی کہیں ہوگی، اور اگر برنی نہیں مل رہی تو نمک کا دوسرا پیکٹ کھول لو۔“ اس نے سرسری انداز میں ہدایت دی۔

”دراصل نمک کا جو آخری پیکٹ بچا تھا، وہ میں نے کھول کر برنی میں ڈال دیا تھا، بشیر طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے آج نہیں آیا ہے، اور کوئی گھر پر نہیں ہے ورنہ دکان سے منگوا لیتی، مجھے بھی دکانوں کا پتا نہیں، اور کھانا بنانا بھی ضروری ہے آپ کو جلدی بھوک لگ جاتی ہے ایسی حالت میں، اب بتائیں کہ میں کیا کروں؟ کل ہی تو میں نے نمک سے بھری برنی کیبنٹ میں رکھی تھی پتا نہیں آج کہاں چلی گئی؟“ اس نے شش و پنج کے عالم میں اچھی خاصی وضاحت کر ڈالی۔

”تم بھی حد کرتی ہوں، کتنی بار کہا ہے کہ سودا ختم ہونے سے پہلے ہی بتا دیا کرو۔“ اس نے تھوڑی سختی دکھائی۔ وہ خاموش ہی رہی۔

”اور نمک کی برنی بھلا کہاں جا سکتی ہے کچن سے؟ ٹھیک سے ڈھونڈو وہیں ہوگی!“

”سب جگہ ڈھونڈ لیا بھابھی صاحبہ، اب چاہیں تو آپ خود آکر دیکھ لیں۔“ اس نے جھٹ پیشکش کی۔

”چلو، دیکھتی ہوں۔“ وہ کہتی ہوئی بیڈ سے اٹھی اور اس کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی۔

*********************************

”حیرت ہے! بھلا کچن سے نمک کہاں جا سکتا ہے؟“ نورالعین تعجب سے بڑبڑائی۔

دونوں کچن میں موجود تھیں اور نمک تلاشنے میں ناکام بھی۔

تب ہی اس کے ذہن میں کوندا لپکا۔ اسے یاد آیا کہ کل رات احرار نے آملیٹ بنایا تھا۔

”احرار نے تو کہیں نہیں رکھ دیا!“ وہ خودکلامی کرتے ہوئے نتیجے پر پہنچی اور فوری ہال میں رکھے پی ٹی سی ایل کی جانب آئی۔ احرار کا نمبر ملایا مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔

تو پھر اس نے اسٹیشن کے نمبر پر کال کی۔

دوسری جانب احرار اپنے روم میں بنے شلف پر کوئی فائل ڈھونڈ رہا تھا۔ جبکہ دو سپاہی اس کی ٹیبل کے پاس کھڑے تھے۔ تب ہی ٹیبل پر رکھا پی ٹی سی ایل بجا۔

”رشید فون ریسو کرکے اسپیکر پر لگاؤ۔“ اس نے ہنوز فائل ڈھونڈتے ہوئے حکم دیا۔ جسے اس نے فرمابرداری سے نبھایا۔

”ہیلو! احرار؟“

”ہاں بولو؟“

”کل رات تم نے آملیٹ بنانے کے بعد نمک کہاں رکھا تھا؟“ اسپیکر سے نورالعین کا سوال ابھرا جسے سن کر وہ دنگ رہ گیا جبکہ دونوں سپاہی معنی خیزی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

وہ فائل کی تلاش ترک کرکے جلدی سے ٹیبل کی جانب آیا اور اسپیکر بند کرتے ہوئے ریسور اٹھا کے کان سے لگایا۔

”یہ بات فون کرکے پوچھنے کی ہے؟ ڈھونڈ لو کچن میں ہی کہیں ہوگا۔“ وہ ضبط کرتے ہوئے بولا۔

”سب جگہ ڈھونڈ لیا ہے کہیں نہیں ہے، تم ذرا یاد کرکے بتاؤ کہ کہاں رکھی تھی تم نے نمک کی برنی کل آملیٹ بنانے کے بعد؟“ اس نے بتاتے ہوئے پھر پوچھا۔

”چولہے کے نیچے جو کیبنٹ بنا ہے وہیں رکھی تھی، اب دوبارہ ان الٹے سیدھے سوالوں کیلئے فون مت کرنا۔“ اس نے لفظ جباتے ہوئے بمشکل ضبط کے ساتھ بتایا۔

”حد ہوتی ہے، وہ کیبنٹ ایکسٹرا سامان رکھنے کیلئے ہے، نمک اوپر والے کیبنٹ میں رکھتے ہیں، تمہاری اسی عادت سے مجھے چڑ ہوتی ہے کہ چیزیں جہاں سے لیتے وہ واپس وہاں نہیں رکھ۔۔۔۔۔“ وہ نان اسٹاپ بولے جا رہی تھی تب ہی احرار نے دوسری جانب سے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔

”سچ بات بولو تو کڑوی لگتی ہے۔“ اس نے بھی بڑبڑاتے ہوئے ریسور رکھ دیا۔

*********************************

سورج عروج سے ڈھل کر اب مدھم ہونے لگا تھا۔ مگر بابک ابھی تک آفس میں موجود کام میں منہک تھا۔

تب ہی کانچ کی ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل بجا۔

اسکرین پر دیکھا تو گھر کے پی ٹی سی ایل سے کال آرہی تھی۔

”ہیلو!“ اس نے موبائل کان سے لگایا۔

”ہیلو بابک، میں نہرین!“ دوسری جانب سے اس کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔

”نہرین! کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے؟“ وہ بھی یکدم متفکر ہوگیا۔

نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ سیڑھیوں سے گر گئی۔۔۔آپ جلدی آجائیں۔“ اس کی پریشان کن بات سن کر بابک کا دل دھک سے رہ گیا۔

”ہیلو!“ اس نے موبائل کان سے لگایا۔

”ہیلو بابک، میں نہرین!“ دوسری جانب سے اس کی گھبرائی ہوئی آواز آئی۔

”نہرین! کیا ہوا؟ سب ٹھیک ہے؟“ وہ بھی یکدم متفکر ہوگیا۔

”نہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ سیڑھیوں سے گر گئی۔۔۔آپ جلدی آجائیں۔“ اس کی پریشان کن بات سن کر بابک کا دل دھک سے رہ گیا۔

”کون سیڑھیوں سے گر گئی؟“ اسے بھی تشویش ہوئی۔

”وہ نوری، آپ جلدی آجائیں۔“ اس کے جواب پر اسے تھوڑا اطمینان ہوا کہ شکر نورالعین ٹھیک تھی۔

”اچھا ٹھیک ہے، میں ابھی آیا، ڈونٹ وری!“ اس نے تسلی دی اور لائن ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا۔


*********************************


”گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے، بس سر پے دو ٹانکے لگے ہیں اور پاؤں میں ہلکی سی موچ آئی ہے، جو کہ چند ہفتوں تک ٹھیک ہوجائیں گے۔“ ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں تفصیل بتائی۔

”اور انھیں ڈسچارج کب تک کریں گے یہاں سے؟“ بابک نے اطمینان ہوجانے کے بعد جاننا چاہا۔

”رات تک گھر لے جا سکتے ہیں۔“

”ٹھیک ہے، تھینک یو سو مچ ڈاکٹر!“

”مائی پلیجر!“ ڈاکٹر صاحب کہہ کر آگے بڑھ گئے۔

بابک نورالعین اور نہرین سمیت نوری کو ہاسپٹل لے آیا تھا۔ اس وقت نوری روم میں دوا کے زیر اثر تھی جبکہ یہ تینوں کوریڈور میں موجود تھے۔

”شکر ہے معاملہ زیادہ بگڑا نہیں، ورنہ اس کے گھر والوں کو کیا جواب دیتے؟“ نورالعین نے شکر ادا کیا۔

”ہاں! اتنی سی بات تھی اور اتنا ڈر گئی تھی تم دونوں، ساتھ میں مجھے بھی ڈرا دیا تھا۔“ اس نے بھی دونوں کو ”بہادری“ دیکھانے پر سراہا۔

”میں نہیں، یہ محترمہ ڈر گئی تھیں، اور جلدی سے تمھیں فون بھی کھڑکا دیا۔“ اس نے سارا الزام نہرین کے سر ڈالا۔ جو کہ درست بھی تھا۔

”اس دن جب تم بے ہوش ہوگئی تھی تب بھی ایسے ہی گھبرا کر فون کیا تھا نہرین نے مجھے، اور آج بھی میں سمجھا کہ خدانخواستہ کہیں تم تو نہیں گر گئی۔“ وہ بھی تائیدی انداز میں مزید بولا۔

”ایکچلی میں چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر بہت جلدی ایسے ڈر جاتی ہوں۔“ اس نے انگلیاں مڑوڑتے ہوئے دھیرے سے صفائی دی۔

”ہاں! اور آپ کا یہ ڈر لگتا ہے کسی دن مجھے بھی ہارٹ اٹیک کروائے گا۔“ اس نے مزے سے پیشن گوئی کی۔

”اللہ نہ کرے!“ نہرین نے دہل کر ٹوکا جو نہ جانے کیونکہ بابک کو بہت اچھا لگا۔


*********************************


”اففو! تو مجھے کیا پتا تھا کہ فون اسپیکر پر ہے اور ساتھ ہی وہاں سپاہی بھی موجود ہیں!“ نورالعین نے کسی بات کے جواب میں جھلا کر کہا۔

”وہ بات ایک طرف، مگر دنیا میں کیا برنی میں موجود وہ آخری نمک بچا تھا؟ ساری دکانیں تباہ ہوگئی تھیں؟ نمک کی کانیں خشک ہوگئیں تھیں؟ جو تمھیں فون کرکے پوچھنا پڑا؟“ احرار کا شکوہ بھی کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔

”بتایا تو ہے کہ اس وقت گھر پر کوئی نہیں تھا جو مارکیٹ جاتا، اور کون سی قیامت آگئی میرے فون کرنے سے؟ کوئی انہونی بات تو نہیں کی تھی میں نے؟ کیا وہ لوگ کھانا نہیں کھاتے ہوں گے؟“ وہ بھی دوبدو ہوئی۔

چاروں اس وقت ڈنر کیلئے ڈائینگ ٹیبل کے گرد موجود تھے۔

دونوں کھانا کھانے کے بجائے ضد بحث میں مصروف تھے۔ مگر بابک دونوں سے بے نیاز ایسے اطمینان سے کھانا کھا رہا تھا جیسے کھانے سے زیادہ ضروری فی الحال کچھ نہ ہو!

اور نہرین حیران پریشان سی دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔

”وہ بھی کھانا کھاتے ہیں، مگر بناتے نہیں ہوں گے، اب کیا سوچ رہے ہوں گے وہ کہ ہمارے گھر میں سرونٹ نہیں ہیں جو میں نے آملیٹ بنایا!“ اسے اپنی عزت کا فالودہ ہوتا نظر آرہا تھا۔

”اوہ ہو! تو یہ بات ہے، سیدھی طرح بولو ناں کہ تمہاری شان گھٹ گئی۔“ وہ طنزیہ انداز سے نتیجے پر پہنچی۔

”میں نے ایسا کب کہا؟“

”کہا نہیں پر مطلب یہ ہی ہے، ورنہ یہ کوئی بات نہیں تھی پتنگڑ بنانے والی، ایک ہمارے نبی حضور ﷺ کی مثال ہے، اتنی بڑی ہستی ہوکر گھر کے کاموں میں اپنی زوجہؓ کا ہاتھ بٹاتے تھے، کس لئے؟ تا کہ امت کو یہ پیغام ملے کہ ان کاموں سے مرد کی شان نہیں گھٹتی۔“ وہ پھٹ پڑی تھی۔

”یہ تم کہاں کی بات کہاں لے کر جا رہی ہو؟” وہ سخت حیران تھا۔

”جہاں کی بات ہے، وہیں لے کر جا رہی ہوں، مگر اب مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔“ وہ غصے سے چمچہ پٹختے ہوئے کھڑی ہوگئی۔ اور ڈائینگ روم سے باہر نکل گئی۔

”اور ہاں، اللہ پاک تمہارے جیسا شوہر کسی کو نہ دے۔“ وہ دروازے پر رک کر بولی۔ اور پھر تیزی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔

احرار اور نہرین ہکابکا سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ اور بابک کیلئے اس وقت کھانے سے زیادہ اہم کوئی بات نہیں لگ رہی تھی۔ پھر احرار بھی بےدلی سے کرسی دھکیل کر اٹھا اور ڈائینگ روم سے باہر چلا گیا۔

”آپ کیا حیران پریشان سی بیٹھی ہیں؟ کھانا کھائیں۔“ بابک نے نہرین کو ٹوک کر توجہ دلائی۔

”ان دونوں کو ایسے لڑنا نہیں چاہیے تھا، اب کیا ہوگا؟“ اسے فکر ہوئی۔

”کچھ نہیں ہوگا، ہسبینڈ وائف کیلئے تو یہ معمول کی بات ہے۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔

”اور ان دونوں کو دیکھ کر مجھے ایک اور پتا چلی۔“ وہ مزید بولا۔

”کون سی بات؟“ اسے تجسس ہوا۔

”یہ ہی کہ ہیرو ہیروئن کے ملتے ہی فلم ختم کیوں ہوجاتی ہے؟ کیونکہ بعد میں پھر یہ ڈرامے جو شروع ہوجاتے ہیں۔“ اس نے شرارتاً کہا تو وہ بھی بےساختہ مسکرا دی۔


*********************************


نورالعین سے ہونے والی ضد بحث کے بعد احرار گھر سے باہر چلا گیا تھا اور اب جب وہ گھر آیا تو ہال میں لگی گھڑی نے اطلاع دی کہ رات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں۔

گھر کی مدھم لائٹس اور ہر طرف چھائی خاموشی بتا رہی تھی کہ سب اپنے اپنے کمروں میں محو خواب تھے۔

وہ بھی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اپنے کمرے کی جانب آیا۔ اور آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا۔

حسب توقع سامنے بیڈ پر نورالعین دوسری جانب کروٹ لئے سو رہی تھی۔ اس کی پشت احرار کی جانب تھی۔ اس نے بنا آواز کیے دروازہ بند کیا اور سیدھا واشروم چلا گیا چینج کرکے وہ بھی دھیرے سے اپنے بستر پر بیٹھا۔

”نورالعین!“ اس نے آہستگی سے پکارا۔

مگر اس نے کوئی حرکت نہیں کی، کیونکہ وہ سچ میں سو چکی تھی۔ پھر اس نے بھی اپنی سائیڈ ٹیبل کا لیمپ آف کیا اور کمبل اوڑھتے ہوئے سونے کیلئے لیٹ گیا۔

حقیقی زندگی افسانوں سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ افسانے بھی حقیقت سے جنم لیتے ہیں، مگر جنم لینے کے بعد انھیں خوبصورت بنانے کیلئے ان میں بہت سا رد و بدل بھی کردیا جاتا ہے۔

شادی سے قبل دو لوگوں کا ایک دوسرے کیلئے بے قرار ہونا فطری ہے، دونوں کو ہر وقت بس یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ

”کہیں یہ مجھ سے دور نہ چلا جائے!“

کیونکہ خود سے دور محسوس ہوتی شے ہمیں پرکشش ہی لگتی ہے۔

اور شادی کے بعد غیر محسوس طریقے سے ان دونوں فریقوں میں ہی ایک اطمینان اتر جاتا ہے کہ

”اب تو یہ ہمیشہ کیلئے میرا ہے۔“

اور جب بے قراری کی جگہ اطمینان لے لیتا ہے تو دونوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اب ہمارے بیچ وہ محبت نہیں رہی، جو کہ غلط ہے۔

محبت تو تب بھی ہوتی ہے، بس تب وہ کھو جانے کے ڈر کے ساتھ نہیں، بلکہ ہمیشہ پاس رہنے کے اطمینان کے ساتھ ان کے دلوں میں موجود ہوتی ہے۔ البتہ وقتاً فوقتاً اس کا اظہار ضرور کرتے رہنا چاہیے کیونکہ یہ ضروری بھی ہے اور آپ کے ساتھی کا حق بھی ہے۔


********************************


کھڑکی کھلی ہونے کے باعث سورج کی کرنیں باآسانی کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ جس کی وجہ سے نورالعین نے بھی آخر کسمسا کر آنکھیں کھول دیں۔ نیند کھلنے کے بعد آہستہ آہستہ اس کا ذہن بیدار ہونا شروع ہوا تو رات کی ساری باتیں یاد آئیں۔

وہ کروٹ لے کر پلٹی تو احرار بستر پر موجود نہیں تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ ڈیوٹی پر جا چکا ہے۔

تھوڑی دیر وہ ایسے ہی کلسمندی سے لیٹی رہی، لیکن پھر اچانک اسے خیال آیا کہ نوری تو چھٹی پر ہے، بابک اور نہرین کیلئے ناشتہ کون بنائے گا؟

اس خیال کے آتے ہی وہ اٹھ بیٹھی، سائیڈ ٹیبل پر سے کیچر اٹھا کر آزاد بالوں کو ان میں قید کیا اور فریش ہونے کے ارادے سے اٹھ کر واشروم کی جانب چلی گئی۔

********************************

نورالعین فریش ہوکر نیچے آئی تو کچن سے اٹھتی ناشتے کی مہک نے اسے خوش آمدید کہا۔ وہ کچن کی جانب جانے لگی تھی کہ تب ہی نہرین ہاتھ میں چائے کی ٹرے لئے کچن سے باہر آئی۔

”گڈ مارننگ!“ اس نے رک کر خوشدلی سے وش کیا۔

”گڈ مارننگ! تم نے ناشتہ بنانے کی زحمت کیوں کی؟ میں آرہی تھی ناں!“ اسے درحقیقت شرمندگی ہوئی تھی۔

”ارے زحمت کیسی؟ بس چائے ہی تو کپوں میں نکالی ہے، اب آپ آگئی ہیں تو پلیز کچن سے آملیٹ کی پلیٹ لے کر ڈائینگ روم میں آجائیں، پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں۔“ نہرین نے یوں ہی مسکراتے ہوئے جواب دیا جو اس کے سر پر سے گزر گیا۔

پھر وہ وہاں سے چلی گئی تو نورالعین بھی ناسمجھی کے عالم میں کچن کی جانب بڑھی۔

کچن میں داخل ہوتے ہی اسے ایک اور جھٹکا لگا جو پہلے والے سے زیادہ شدید تھا۔ سامنے احرار فرائی پین سے فرائی شدہ انڈا پلیٹ میں نکال رہا تھا۔

”تم یہاں! مجھے تو لگا تم ڈیوٹی پر۔۔۔۔۔“ وہ حیرانی کے مارے بس اتنا ہی بول پائی۔

”چلا جاتا، لیکن پھر خیال آیا کہ نوری تو ہے ہی نہیں ناشتہ کون بنائے گا؟ اسی لئے یہاں آگیا۔“ اس نے چولہہ بند کرتے ہوئے وضاحتی جواب دیا۔

”ظاہر سی بات ہے میں ہی بناتی، تم نے اپنی شان میں گستاخی کیوں کی؟“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی شکوہ کرگئی۔

وہ برا ماننے کے بجائے بے ساختہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب آیا۔

”سوری! کل میں نے بلاوجہ ہی بات بڑھا دی تھی۔“ وہ تحمل سے گویا ہوا۔ وہ کچھ نہ بولی۔

”لیکن بعد میں جب اپنی غلطی کا احساس ہوا اور گھر آیا تو تم سوچکی تھی، اسی لئے سوچا ایسے سوری بول دوں۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے اعتراف کیا۔ وہ اب بھی خاموشی تھی۔

”پلیز یار کچھ تو بولو، میں نے سوری بول تو دیا۔“ اس نے جواب نا پاکر پیار سے اکسایا۔

”سوری۔۔۔۔۔کل میں بھی بہت زیادہ بول گئی تھی۔“ وہ بھی نظریں جھکاتے ہوئے آہستگی سے گویا ہوئی۔

”کوئی بات نہیں، جیسے میں نے ناشتہ بنا کر ازالہ کیا ویسے ہی اب تم رات کیلئے اچھا سا کھانا بنا لینا، اسے جرمانہ سمجھ لو۔“ اس نے ہلکے پھلکے فرمائشی انداز میں سزا سنائی۔

”اور ایک بات۔۔۔۔میں نے ساری چیزیں واپس اپنی جگہ پر رکھ دی ہیں، اب اگر کچھ نہ ملے تو پلیز میرے موبائل پر کال کرکے پوچھنا۔“ اس نے شرارتاً آگاہ کرتے ہوئے گزارش کی تو وہ بھی بے ساختہ ہنس دی۔

”کیا اب بھی تمہارا یہ ہی خیال ہے کہ اللہ‎ پاک میرے جیسا شوہر کسی کو نہ دے؟“ اس نے نورالعین کی کل غصے میں کہی گئی بات کو ٹٹولا۔

”نہیں! بلکہ اللہ‎ پاک تمہارے جیسا شوہر سب کو دے۔“ اس نے مسکرا کر کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھے پر رکھے۔

”نہ میں نے کچھ دیکھا ہے اور نہ ہی کچھ سنا ہے، بس اس غریب کو آملیٹ کی پلیٹ دے دو پھر جو چاہو کرتے رہنا۔“ یکدم بابک کی آواز آئی۔

دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کچن کے داخلی حصے پر ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے اور ایک ہاتھ پھیلائے کھڑا تھا۔

”تمہارے ہوتے ہوئے کچھ کر بھی نہیں سکتے۔“ نورالعین نے مصنوعی طنز کے ساتھ کاؤنٹر پر سے پلیٹ اٹھا کر اس کے ہاتھ پر رکھی۔

”اچھا! ایسی بات ہے! آپ لوگ شاید بھول رہے ہیں کہ اگر میں نہ ہوتا تو آپ لوگ کچھ نہیں کر سکتے تھے، میں نے ہی تو شا۔۔۔۔“

”ارے ہاں ہاں آپ نے ہی ہماری شادی کروائی تھی اور آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھر نہیں بھولیں گے، اب چلیں ناشتہ کرنے؟" احرار نے اس کا شکوہ اچکتے ہوئے بات مکمل کی اور پھر تینوں ہی معمول کی نوک جھونک کا شغل فرماتے ہوئے کچن سے باہر آگئے۔

رشتے بہت خوبصورت ہوتے ہیں، اور ایسے رشتے تو خوش نصیبی ہوتے ہیں جہاں ہر وقت پیار بھری نوک جھونک چلتی رہے، اور کسی بڑی لڑائی کے بعد ایک چھوٹی سی مسکراہٹ کے ساتھ ”سوری“ کہنے سے سب کچھ واپس پہلے جیسا ہوجائے۔

********************************

ایک مصروف دن پھر سے گزر گیا تھا اور آرام بخشنے رات پہنچ چکی تھی۔ حسب معمول چاروں ڈنر کے بعد اب اپنے اپنے کمروں میں جاچکے تھے۔

”احرار! مجھے کل ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔“ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی نورالعین نے ہاتھوں پر کریم لگاتے ہوئے یاد دلایا۔

”ہاں مجھے یاد ہے کہ کل گیارہ بجے کی اپائیٹمنٹ ہے۔“ صوفے پر بیٹھے احرار نے گود میں دھرے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چلاتے ہوئے جواب دیا۔

”لیکن کل تو سنڈے!“ نورالعین کو اچانک یاد آیا۔

”ہاں تو!“

”تو یہ کہ بابک بھی آفس نہیں جائے گا، ہمیں پتا نہیں کتنی دیر لگ جائے ڈاکٹر کے پاس!“ وہ ہنوز ہاتھوں پر مساج کر رہی تھی۔

”بھیا کے آفس نہ جانے کا اس سے کیا تعلق؟“ اس کی نظریں لیپ ٹاپ پر ہی تھیں لیکن وہ الجھا۔

”میرا مطلب ہم بھی گھر پر نہیں ہوں گے، دونوں ملازم بھی چھٹی پر ہیں، اور خالہ بھی واپس حیدرآباد چلی گئی ہیں، ایسے میں بابک اور نہرین گھر میں بالکل اکیلے ہوں گے۔“ اس نے صورت حال واضح کی۔

”ہاں تو پھر؟“ وہ اب بھی نہیں سمجھا تھا۔

”تو یہ کہ کہیں اکیلے میں وہ نہرین کے ساتھ۔۔۔“ اس نے کہتے ہوئے دانستہ طور پر بات ادھوری چھوڑی۔

احرار کا تیزی سے کیبورڈ پر چلتا ہاتھ رک گیا اور وہ شاکی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

”تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے؟ یہ کیسی باتیں کر رہی ہو؟“ وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھا۔

”سچی بات کر رہی ہوں، بھول گئے اپنے بھائی کے ماضی کے کارنامے! اور سوچنے والی بات ہے کہ بھلا وہ ایک انجان لڑکی کو یوں گھر میں رکھ کر آخر اس کیلئے اتنا خوار کیوں ہو رہا ہے؟ چلو جب تک نہرین زخمی تھی تو سمجھ آرہا تھا کہ وہ اکیلے سروائے نہیں کر پائے گی لیکن اب تو وہ ٹھیک ہے، تو اب وہ اسے کہیں جانے کیوں نہیں دے رہا ہے؟ آخر وہ اس سے چاہتا کیا ہے؟“ اس نے ہنوز مساج کرتے ہوئے سوال اٹھائے۔

”تم بھیا کی نیت پر شک کر رہی ہو؟“ اس کا سخت انداز بھی سوالیہ تھا۔

”شک نہیں کر رہی ماضی کے تجربات کی بنا پر کہہ رہی ہوں، کس کے دل میں کیا ہے یہ ہمیں کیا پتا؟ انسان کی فطرت اتنی آسانی سے نہیں بدلتی، اور۔۔۔۔۔“

وہ کہتے ہوئے اس کی جانب پلٹی تھی، مگر اس کے عقب میں کھڑے بابک کو دیکھ کر وہ بولتے بولتے یکدم رک گئی۔

اس کے یوں خاموش ہونے پر احرار بھی ٹھٹکا اور پیچھے مڑا تو حیران ہوگیا۔

”تم ڈائینگ ٹیبل پر اپنا موبائل بھول آئے تھے احرار، بس وہی دینے آیا تھا۔“ اس نے دونوں کو اپنی جانب متوجہ پا کر وضاحت کی۔ اور تھوڑا سا آگے بڑھ کر موبائل احرار کی جانب بڑھایا۔ جسے اس نے تھام لیا۔

”اور بنا ناک کیے آنے کیلئے سوری، لیکن دروازہ کھلا ہی تھا تو میں نے ضروری نہیں سمجھا، مگر مجھے ناک کر ہی لینا چاہئے تھا۔“ اس کی تلخ مسکراہٹ بہت کچھ اشکار کر گئی تھی۔

پھر وہ بنا مزید کوئی بات کیے واپس چلا گیا۔ جبکہ احرار شکوہ کنا نظروں سے نورالعین کو دیکھ کر رہ گیا۔

********************************

خوبصورت کشادہ بیڈ روم اس وقت نیم تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ بڑی لائٹس آف تھیں بس سائیڈ لیمپ نے ہی مدھم روشنی کر رکھی تھی۔

بابک دونوں ہاتھ سر کے نیچے رکھے بیڈ پر لیٹا تھا جس کے پیر بیڈ سے نیچے لٹکتے ہوئے زمین پر ہی تھے۔ آنکھیں بند تھیں اور چہرہ ہر جذبات سے عاری تھا۔

”بابک اور نہرین گھر میں بالکل اکیلے ہوں گے۔۔۔۔۔۔تو یہ کہ کہیں اکیلے میں وہ نہرین کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔“

”انسان کی فطرت اتنی آسانی سے نہیں بدلتی۔“

مسلسل اس کے ذہن میں گونجتی نورالعین کی باتیں سیدھا دل میں چبھ کر اسے تکلیف دے رہی تھیں۔

وہ تو بس احرار کو اس کا موبائل دینے گیا تھا اور دروازہ کھلا ہونے کے باعث بنا دستک دیے ہی انداز آگیا تھا۔ لیکن اب سچ میں اسے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ کاش وہ دروازے پر دستک دے دیتا جس سے دونوں خاموش ہوجاتے اور وہ یہ دل کو چھلنی کرنے والی باتیں نہ سنتا!

ناچاہتے ہوئے بھی ضبط کے باوجود ایک گرم آنسو اس کی آنکھ کے کنارے سے نکلا اور کنپٹی کی طرف پھسلنے لگا جسے کسی نرم لمس نے آہستگی سے صاف کردیا۔

اس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں تو کلثوم کو اپنے پاس بیٹھا پایا۔

”مام!“ اس کے لبوں سے بےیقین سرگوشی نکلی۔

”کیا ہوا میرے بچے؟“ مخصوص نرم انداز میں سوال آیا۔ اس نے بےساختہ ان کی گود میں سر رکھ لیا۔

”اینا کو لگتا ہے میری اچھائی جھوٹ ہے، وہ سمجھتی ہے میں اب بھی وہ پرانا والا بابک ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے، میں نے اپنی ہر غلطی مان کر جرم کی سزا اسی لئے کاٹی تھی تا کہ نئے سرے سے ایک اچھی زندگی شروع کرسکوں، مگر کوئی میری اچھائی پر یقین ہی نہیں کرتا، سب کو لگتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے۔“ وہ کسی معصوم بچے کی مانند تڑپ کر اپنی ماں سے دنیا کی شکایات کرنے لگا۔

”کسی دانا کا قول ہے کہ دنیا تمھیں برا سمجھے مگر تم درحقیقت اچھے ہو، یہ بہتر ہے اس سے، کہ دنیا تمھیں اچھا سمجھے اور تم درحقیقت برے ہو!“ وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔

”اور تم نے دنیا کیلئے تو برائی چھوڑ کر اچھائی نہیں اپنائی تھی ناں! تو پھر دنیا کی پرواہ کیوں کرتے ہو؟ یہاں ہر شخص اپنی سوچ، اپنا نظریہ، اپنا معیار رکھتا ہے، تم ایک ہی وقت میں سب کیلئے اچھے نہیں ہوسکتے، تم اپنی سچائی ثابت کرنے کیلئے دنیا کو اپنا سینہ چیر کر نہیں دکھا سکتے۔“ وہ دھیرے دھیرے کہہ رہی تھیں اور وہ سن رہا تھا۔

”تو پھر میں کیا کروں؟“ بےبسی سے سوال آیا۔

”اچھے رہو مگر یہ ثابت کرنے کی کوشش چھوڑ دو، کسی کی بات پر دل برا نہ کرو، جس کی جتنی سمجھ ہوگی وہ اسی حساب سے تمھیں سمجھے گا، بس تم یہ بات سمجھ جاؤ، زندگی بہت آسان ہوجائے گی۔“ وہ رسان سے اس کی الجھنیں سلجھاتی گئیں اور وہ پرسکون ہوکر آہستہ آہستہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

اگر آج کلثوم زندہ ہوتیں تو یقیناً ایسے ہی سمجھا کر اس کی پریشانی دور کرتیں جیسے ابھی اس کے لاشعور نے انھیں اپنے پاس تصور کرلیا تھا جس میں آج تک ان کی ساری نصیحتیں محفوظ تھیں۔

تو کہانی ہی کے پردے میں بھلی لگتی ہے

زندگی تیری حقیقت نہیں دیکھی جاتی

بند کر دے کوئی ماضی کا دریچہ مجھ پر

اب اس آئینے میں صورت نہیں دیکھی جاتی

”گڈ مارننگ!“ نہرین نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے حسب معمول وش کیا۔

”گڈ مارننگ!“ نورالعین اور احرار نے یک زبان جواب دیا۔ ساتھ ہی احرار اپنی کرسی پر سے اٹھا۔

”کہاں جا رہے ہو؟“ نورالعین چونکی۔

”بھیا کو بلانے، ابھی تک آئے نہیں ناشتے کیلئے۔“ اس نے اٹھنے کی وجہ بتائی۔

”بابک گھر میں نہیں ہیں۔“ نہرین نے مداخلت کی۔

”تو پھر کہاں ہیں؟ اور آپ کو کیسے پتا؟“ احرار کو حیرت ہوئی۔

”یو نو میں صبح جلدی اٹھ کر لان میں واک کرتی ہوں تو آج بھی وہیں تھی جب وہ باہر جاتے ہوئے نظر آئے، اور تب سے آئی گیس وہ واپس نہیں آئے ہیں۔“ اس نے متوازن انداز میں وضاحتی جواب دیا۔

احرار سمجھ گیا تھا کہ یقیناً بابک نے نورالعین کی باتیں سن لی تھیں اور اس کے خدشات کے پیش نظر ہی وہ ان کی غیر موجودگی تک گھر سے چلا گیا تھا۔

یہ بات سوچ کر کہ بابک دلبرداشتہ ہے اس کا دل بھی کٹ کر رہ گیا۔ یکدم ہر چیز سے اس کا جی اچاٹ ہوگیا۔ وہ وہاں سے جانے لگا۔

”کہاں جا رہے ہو؟ ناشتہ تو کرلو؟“ نورالعین نے پکارا۔

”مجھے بھوک نہیں ہے، تم ناشتہ کرکے ریڈی ہوجانا، گیارہ بجے اپائیٹمنٹ ہے۔“ وہ سپاٹ لہجے میں کہتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

جبکہ وہ بے بسی سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ جسے اپنے حلق میں آنسوؤں کا گولا بنتا محسوس ہوا۔

”کتنا پیار ہے ناں دونوں بھائیوں میں، ایک ناشتے پر موجود نہیں ہے تو دوسرے نے بھی کچھ نہیں کھایا۔“ ساری بات سے انجان نہرین ناشتے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے رشک سے بولی۔ کیونکہ اتنے عرصے میں وہ بھی ان دونوں بھائیوں کی آپسی محبت محسوس کرچکی تھی۔


********************************


کار درمیانی رفتار سے روڈ پر گامزن تھی مگر اس کے اندر بیٹھے دونوں نفوس کے درمیان غیر معمولی سی خاموشی حائل تھی۔ احرار کی ساری توجہ ڈرائیونگ پر تھی جبکہ نورالعین بھی خاموشی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر دیکھ رہی تھی۔

”ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ کچھ وقت بعد مجھے سیڑھاں اترنا چڑھنا ترک کرنا ہوگا جس کی وجہ سے پھر ہمیں نیچے کے کمرے میں شفٹ ہونا پڑے گا۔“ نورالعین نے خود ہی خاموشی کو توڑا۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کا چہرہ اتنا بے تاثر تھا کہ نورالعین کو ایک لمحے کیلئے شک گزرا شاید احرار نے اس کی بات سنی ہی نہیں۔

”میں تم سے بات کر رہی ہوں احرار!“ اس نے دوبارہ احساس دلایا۔

”سن لیا!“ سپاٹ لہجے میں جواب آیا۔

”کیا ہوگیا ہے تمھیں؟ کیوں ایسا برتاؤ کر رہے ہو؟ آخر ایسا بھی کیا کردیا ہے میں نے؟“ وہ جھلا دل کا شکوہ زبان پر لے آئی۔

احرار نے یکدم بریک پر پیر رکھا تو گاڑی جھٹکے سے رکی۔

”کیا ہوگیا ہے مجھے؟ یہ ہی سوال تو مجھے تم سے پوچھنا ہے کہ کیا ہوگیا ہے تمھیں؟ میرا برتاؤ تمھیں نظر آرہا ہے اور تمہارے اپنے برتاؤ کا کیا؟“ اس نے نورالعین کی جانب دیکھتے ہوئے الٹے سوال دہرائے۔

”کچھ نہیں ہوا ہے مجھے، تمہارا موڈ صرف اس بات پر خراب ہے کہ بابک نے میری باتیں سن لی تھیں جو کہ اسے بری لگیں، لیکن میں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔“ اس نے اپنا دفاع کیا۔

”کچھ نہیں، تم نے سب کچھ غلط کہا تھا، تم نے تو اللہ کی رضا کیلئے معاف کردیا تھا ناں بھیا کو؟ تو پھر اب اس بےبنیاد شک کا کیا جواز بنتا ہے؟“ اس نے ترکی بہ ترکی سوال اٹھائے۔

”ہاں میں نے معاف کردیا تھا لیکن اس سے حقیقت بدل نہیں جائے گی، بھلے ہی آج بابک بدل گیا ہے لیکن ایک وقت میں وہ کتنا برا رہا ہے یہ تم بھی جانتے ہو، اور کسی کمزور لمحے میں پرانی خصلت حملہ آور ہونے میں ذرا دیر نہیں لگاتی۔“ وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی۔

”میں جانتا ہوں۔۔۔۔میں بھیا کا گزرا ہوا کل بھی جانتا ہوں اور تمہارا بھی، اگر بھیا کا ماضی غلط تھا تو تمہارے قدم بھی ڈگمگائے تھے، مگر تم بھی تو سنبھلی ناں! تو کیا بھیا نہیں سنبھل سکتے؟“ اس کا جتاتا ہوا انداز سوالیہ تھا۔

”تو اب تم اپنے بھائی کیلئے میرے خلاف ہو رہے ہو!“ اس کا تیکھا انداز برہم تھا۔

”میں کسی کے خلاف نہیں ہوں، میں صرف حق کا ساتھ دیتا ہوں اور یہ تم بھی جانتی ہو، اگر واقعی مجھے اپنے بھائی کی طرفداری کرنی ہوتی تو تب کرتا جب میرے پاس ان کے خلاف سارے ثبوت تھے اور میں وہ مٹا کر انھیں سزا سے بچا سکتا تھا، مگر میں نے خود انھیں ہتھکڑی لگا کر جیل پہنچایا تھا، کیونکہ تب بھیا غلط تھے لیکن آج تم غلط ہو۔“ اس کا اٹل انداز نورالعین کو لاجواب کر گیا۔

”پورے ایمان سے مجھے کوئی ایسا ایک لمحہ بتاؤ نورالعین جب میں نے یا بھیا نے تمھیں ماضی کا کوئی طنز یا طعنہ مارا ہو، تمہاری مخلصی پر شک کیا ہو یا تم نے بھیا کی آنکھوں میں اپنے لئے عزت نہ دیکھی ہو، بتاؤ کوئی ایسا لمحہ جب ہم نے تمہارے ساتھ ایسا کیا ہو!“ وہ پے در پے سوال کرتا گیا اور اس کے پاس لفظوں کا قحط بڑھتا گیا۔

”ہم تینوں نے اس وعدے کے ساتھ اپنی اپنی نئی زندگیوں کی شروعات کی تھی کہ اب ہم میں سے کوئی بھی، کبھی بھی ماضی کا ذکر نہیں لائے گا، مگر تم نے وہ وعدہ اور ہمارا مان صرف توڑا نہیں چکنا چور کر دیا ہے۔“ اس کے انداز میں غصے سے زیادہ دکھ تھا۔

”امی کہتی تھیں کہ اللہ انسان سے لے کر بھی آزماتا ہے اور اسے دے کر بھی آزماتا ہے، لینے والی آزمائش پر تو تم پوری اتر گئی تھی، جب تمہارا سب کچھ لٹ چکا تھا پھر بھی نے صبر کیا اور کامیاب رہی، لیکن مجھے لگتا ہے کہ دینے والی آزمائش پر تم پوری نہیں اتر پاؤ گی، کیونکہ جس طرح وہ وقت صبر کا تھا ویسے ہی یہ وقت شکر کا ہے، تم نے صبر تو کر لیا پر اب تم شکر نہیں کر رہی ہو، اور اللہ ناشکرے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔“ احرار کی بات اسے اندر ہی اندر شرمندہ کر گئی۔

”آج مجھے لگ رہا ہے جیسے تم وہ نورالعین نہیں رہی جس سے میں نے محبت کی تھی، جس نے سب کچھ درگزر کردیا تھا، تم واپس وہ ہی خودغرض اینا بن گئی ہو جسے صرف اپنی پرواہ تھی، جس نے اپنی خواہشات کے پیچھے اپنا سب کچھ کھو دیا تھا۔۔۔۔۔ایک بار پھر تم اینا بن کر سب کچھ کھونے جا رہی ہو، اور اس بار تم جو کچھ کھونے جا رہی ہو اس میں، میں بھی شامل ہوں گا، کیونکہ مجھے اینا نہیں نورالعین چاہیے۔“ بات کے اختتام پر نورالعین نے یکدم نظر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جس کے خطرناک حد تک سنجیدہ تاثر اسے دہلا گئے تھے۔


*****************************************


نورالعین گھر میں داخل ہونے کے بعد مرے مرے قدموں سے چلتی ہوئی ہال میں آئی جہاں حسب توقع کوئی نہیں تھا۔

وہ بجائے اوپر اپنے کمرے میں جانے کے وہیں صوفے پر بیٹھ گئی۔ اور خالی خالی نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھنے لگی۔ جب کے کندھے پر لٹکا بیگ خود ہی ڈھلک کر نیچے گر گیا۔

احرار اسے گھر کے باہر ڈراپ کرکے خود کہیں چلا گیا تھا جب کہ وہ تب سے اب تک اس کی باتوں میں الجھی ہوئی تھی جو مسلسل اس کے ذہن میں گردش کرتے ہوئے اس پر کافی کچھ اشکار کر گئی تھیں۔ جن میں سرِفہرست تھی خود آگاہی!

نہ جانے اسے یوں ہی بیٹھے کتنی دیر گزر چکی تھی جب کسی کی آہٹ پر اس کا سکتا ٹوٹا۔

وہ بابک تھا جو ابھی ابھی گھر لوٹا تھا اور اب خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا۔

”بابک!“ پکارا پر وہ رک کر سوالیہ انداز سے پلٹا۔

”کہو!“ وہ پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ اپنی جگہ پر سے کھڑی ہوگئی۔ اور بات شروع کرنے کیلئے جملے ترتیب دینے لگی۔

”مجھے پتا ہے کہ کل رات تم نے میری باتیں سن لی تھیں، جس نے تمھیں ہرٹ کیا۔“ بلآخر وہ گویا ہوئی۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”لیکن اب مجھے رئیلائز ہوا ہے کہ مجھے وہ سب نہیں کہنا چاہیے تھا، تم نے جو کچھ بھی کیا، اور اس کے بعد توبہ کی یا نہیں؟ تم بدلے یا نہیں یہ تمہارا اور تمہارے رب کا معاملہ ہے، مجھے کوئی حق نہیں ہے اس میں مداخلت کرنے کا یا تمھیں جج کرنے کا، میرے لئے یہ ہی کافی ہونا چاہئے کہ اب کم از کم تمہاری نظروں میں رشتوں کا پاس تو ہے، میں جانتی ہوں کہ تم میری باتوں سے بہت دلبرداشتہ ہوئے تھے اس کیلئے مجھے معاف کردو۔“ اس نے رنجیدگی سے کہتے ہوئے آخر میں ہاتھ جوڑ لئے۔

ایک تو پہلے ہی وہ اس کی باتوں پر حیران تھا اب مزید سٹپٹا گیا کہ کیا کرے اور کیا نہیں؟

”میں بھول گئی تھی کہ ایک وقت میں احرار نے بھی تو میرے لئے یہ ہی سب کیا تھا جو آج تم نہرین کیلئے کرنا چاہتے ہو، جب احرار میں کسی کی بے لوث خدمت کا جذبہ ہو سکتا ہے تو تم میں کیوں نہیں؟ جب احرار کو محبت ہوسکتی ہے تو تمہیں بھ۔۔۔۔۔۔“

کہتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا اور اسے زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی جس کے باعث اس کی بات ادھوری رہ گئی اور وہ نیچے کی جانب ڈھلکی۔

اس سے قبل کے وہ زمین بوس ہوتی بابک نے برق رفتاری سے آگے بڑھ کر اسے پکڑا اور گرنے سے بچایا۔ لیکن وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔


********************************


احرار تقریباً بھاگتے ہوئے ہال میں داخل ہوا تھا اور پھولتی سانسوں سمیت بابک کے پاس آکر رکا جو نہرین کے ہمراہ وہاں کھڑا تھا۔

”کیا ہوا بھیا نورالعین کو؟“ اسے تشویش ہوئی۔

”پتا نہیں اچانک ہی بےہوش ہوگئی تھی، تمھیں فون کرنے سے پہلے ڈاکٹر کو کال کردی تھی میں نے، ابھی کمرے میں وہ اس کا چیک اپ ہی کر رہی ہیں۔“ اس نے تفصیلی جواب دیا۔

تب ہی لیڈی ڈاکٹر سیڑھیاں اترتی ہوئی ان لوگوں کی جانب آئیں۔ تینوں ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

”کیا ہوا ڈاکٹر؟ اب وہ کیسی ہے؟“ احرار کو فکر ہو رہی تھی۔

”فی الحال تو میں نے انجیکشن لگا دیا ہے اور شکر کریں کہ بات زیادہ نہیں بگڑی، لیکن آپ لوگوں کو خود بھی اتنی سینس ہونی چاہئے کہ ایسی حالت میں ماں کو زیادہ سے زیادہ اسٹریس سے دور رکھنا چاہئے۔“ انہوں نے بتاتے کے ساتھ ہی کلاس بھی لے ڈالی جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ڈاکٹر، آئندہ ہم خیال رکھیں گے، تھینک یو سو مچ یہاں آنے کیلئے۔۔۔۔نہرین۔۔۔۔۔پلیز آپ انھیں باہر تک چھوڑ آئیں۔“ بابک نے مداخلت کرتے ہوئے بات سنبھالی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ادب کے تقاضے کے تحت انھیں دروازے تک چھوڑنے چلی گئی۔

”میرے کمرے میں آؤ احرار!“ بابک اسے حکم دیتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ جس کی تکمیل کرتے ہوئے وہ بھی اس کے پیچھے گیا۔


********************************


”تم پاگل تو نہیں ہو احرار؟ کیا ضرورت تھی اُسے ایسی حالت میں ذہنی ٹارچر کرنے کی؟“ بابک دونوں بازو سینے پر باندھے کمرے کے وسط میں کھڑا باز پرس کر رہا تھا۔

اسے پختہ پکا یقین تھا کہ احرار نے نورالعین سے سخت برتاؤ کیا ہوگا جس کا یہ نتیجہ نکلا!

”میں نے اسے کوئی ٹارچر نہیں کیا بھیا، بس اسے سمجھانا ضروری تھا۔“ اس کے مقابل کھڑے احرار نے پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ پھنساتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔

”اور دیکھو، سمجھانے کا نتیجہ آگیا۔“ بابک نے طنزیہ انداز میں ٹکڑا لگایا۔ وہ خاموش ہی رہا۔

”احرار۔۔۔۔ساری باتیں اپنی جگہ، لیکن رشتوں میں بیلنس رکھنا بہت ضروری ہے، ایک رشتے کو امپارٹنس دیتے ہوئے دوسرے رشتے کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہوتی ہے، زندگی میں بیلنس بہت اہم ہوتا ہے۔“ اب کی بار بابک برہمی اور طنز چھوڑ کر سمجھانے والے انداز میں گویا ہوا۔

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں بھیا، زندگی میں بیلنس بہت اہم ہوتا ہے، رشتوں کیلئے بھی اور شخصیت کیلئے بھی۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔ بابک کے تاثر بتا رہے تھے کہ وہ بات سمجھا نہیں۔

”پھول صرف پانی دینے سے ہی نہیں پھلتے، ان کیلئے دھوپ بھی ضروری ہوتی ہے، اگر انھیں دھوپ نہ ملے تو صرف پانی سے وہ مر بھی سکتے ہیں، پھول کو زندہ رکھنے کیلئے بیلنس سے دھوپ اور پانی دینا ضروری ہے۔“

”نورالعین کو اینا کی صورت پہلے اس کی ماں سے محبت و لاڈ کا پانی ملا، پھر یکدم وہ غموں کی دھوپ میں آگئی، اور اس دھوپ میں آنے سے اس میں کتنی تبدیلیاں آئی تھیں یہ آپ بھی جانتے ہیں، لیکن اب جبکہ ایک بار پھر وہ لاڈ کی چھاؤں میں محبت کے پانی سے سیراب ہے اسی لئے اسے دھوپ کی اشد ضرورت تھی، اگر میں ایسا نہ کرتا تو اس پانی سے سیراب ہوتے ہوتے وہ ڈوب جاتی، وہ واپس اینا بن جاتی جس نے صرف نقصان ہی اٹھایا ہے۔“ احرار کی بات بابک کو چوکنے پر مجبور کر گئی تھی کیونکہ اِس زاویے سے اُس نے سوچا ہی نہیں تھا۔

”اور رہی بات رشتوں میں بیلنس رکھنے کی تو بے فکر رہیں، نہ میں نے آپ پر اسے فوقیت دی ہے اور نہ ہی اسے آپ سے کمتر جانا ہے، آپ دونوں کیلئے میرے دل میں علیحدہ علیحدہ مقام ہیں جنھیں بیلینس کے ساتھ لے کر چلنا مجھے آتا ہے، ہاں لیکن جیسے میں آپ سے اس کے خلاف کچھ نہیں سن سکتا، ویسے ہی اس کے منہ سے بھی آپ کی مخالفت مجھے برداشت نہیں ہے، کل غلطی نورالعین کی ہی تھی اور مجھے یقین ہے کہ اس نے آپ سے معذرت کی ہے تب ہی آپ اس کی وکالت کر رہے ہیں، کیونکہ مجھے پتا ہے نہ ہی میری بیوی انا پرست ہے اور نہ بھائی، اگر کوئی ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے تو وہ اسے ضرور سدھارتے ہیں اسی لئے یہ نشاندہی ضروری تھی۔“ وہ رسان سے کہتا گیا۔ اور وہ حیران سا سنتا رہا۔

”تمھیں کیسے پتا کہ نورالعین نے مجھ سے معذرت کی ہے؟“ اس نے حیرت پر قابو پاتے ہوئے جاننا چاہا۔

”جیسے آپ کو پتا تھا کہ میں نے نورالعین سے باز پرس کی ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ تو وہ بھی بےاختیار مسکرا دیا۔

”اب اگر اجازت ہو تو میں جاؤں؟ ابھی ایک اور عدالت میں بھی پیش ہونا ہے مجھے؟“ احرار نے ہلکے پھلکے انداز میں اجازت چاہی۔

”ہاں جاؤ، مگر خیال رہے کہ مجرم کی حیثیت سے ہی پیش ہونا، ظالم جج مت بن جانا۔“ بابک نے ساتھ ہی تنبیہہ کی۔

”جو حکم سرکار!“ احرار نے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے سر خم کیا۔


********************************


احرار کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹی نورالعین کے برابر میں بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ اس لمس کے محسوس ہوتے ہی اس نے بھی دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔

”میں نے بابک سے معذرت کرلی ہے۔“ اس نے آنکھیں کھولتے ہی بتایا گویا یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔

”پتا ہے مجھے، بات بھیا سے معذرت کرنے یا نہ کرنے کی نہیں تھی، میں بس یہ چاہتا تھا کہ تمھیں تمہاری غلطی کا احساس ہوجائے، تم خود ایمانداری سے بتاؤ کہ کیا نورالعین یہ سب کر سکتی ہے؟“ اس کا انداز بےحد نرم تھا۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور پھر گویا ہوئی۔

”ہاں ٹھیک ہے میں نے مان لی اپنی غلطی اور سدھار بھی لی، اب تو تمھیں کوئی شکایات نہیں ہے ناں!“ وہ اسے کھونے کے خیال سے ہی خوفزدہ تھی۔

احرار کو آج پہلی مرتبہ ادراک ہوا تھا کہ اس کیلئے نورالعین کس قدر حساس ہے کہ محض اسکے دور جانے کا سوچ کر ہی وہ خوفزدہ ہوگئی تھی۔

احرار کو اس کے خوف پر شدت سے پیار آیا اور خود پر بے اختیار رشک محسوس ہوا۔ جس کے تحت اس نے تھوڑا آگے سرک کر اسے اپنے سینے سے لگالیا۔

”نہیں! نہ اب کوئی شکایات ہے اور نہ ہوگی، مجھے نہیں پتا تھا کہ میری بات تم پر اس قدر اثر انداز ہوگی، ورنہ فی الحال میں ایسا کچھ نہیں کہتا، آئی ایم سوری!“ اسے کس کر خود میں بھینچتے ہوئے وہ بھی تھوڑا نادم ہوا۔

”کوئی بات نہیں، اچھا کیا کہ مجھے میری غلطی پر ٹوک دیا، کیونکہ غلطیوں پر چھوڑ کر جانے والے تو بہت مل جاتے ہیں، پر انہیں سدھار کر ساتھ چلنے والے خوش نصیبی سے ملتے ہیں، تم مجھے میری ہر غلطی پر ٹوک سکتے ہو بس کبھی چھوڑ کر مت جانا۔“وہ اس کی آغوش میں آکر بہت پرسکون ہوگئی تھی۔

”کبھی نہیں جاؤں گا۔“ اس نے محبت سے کہتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور اسے مزید خود میں بھینچ لیا۔


********************************


یہ بات سو فیصد درست ہے کہ غلطیوں پر چھوڑ کر جانے والے تو قدم قدم پر ملتے ہیں۔ پر غلطیوں کو سدھارنے والا کا مل جانا خوش قسمتی ہے۔

اور ان خوش قسمت لوگوں میں ہمارا شمار بھی ہوتا ہے۔ کیونکہ ہمیں بھی اکثر ہماری غلطیوں پر ہمارے والدین، بہن، بھائی یا کوئی دوست ہمارے اچھے کیلئے ہی ٹوکتا ہے۔ لیکن ہم ان کی مصلحت سمجھنے کے بجائے یا تو ان سے الجھ پڑتے ہیں یا ان کی باتیں نظر انداز کردیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ کبھی ہمارے نقصان کی صورت نکلتا ہے، تو کبھی ہم اس شخص کو ہی کھو بیٹھتے ہیں۔

باتوں کو انا کا مسلہ بنانے کے بجائے ان لوگوں نے اسے کھلے دل سے تسلیم کرکے درگزر کر دیا تھا اسی لئے گھر کی فضا میں وہ ہی سابقہ اپنائیت لوٹ آئی تھی جس پر نہرین بھی رشک کرتی تھی اور اب یہ لوگ اسے بھی اس اپنائیت بھرے ماحول میں اپنے ساتھ شامل کرکے ڈنر پر لے جانا چاہ رہے تھے۔

”لیکن آپ فیملی ممبرز کے بیچ میرے ہونے کی کیا تُک بنتی ہے؟ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں، آپ لوگ جائیں۔“ حسب توقع نہرین نے جھجھکتے ہوئے انکار کیا۔

”آپ کی یہ تُک بنتی ہے کہ آپ ہماری مہمان ہیں۔“ بابک بھی پیچھے ہٹنے والا نہیں تھا۔

”یہ ضروری بات کرنے کیلئے تم نے ہمیں یہاں ہال میں اکٹھا کیا ہے بابک؟“ نورالعین نے تائید چاہی۔ اس نے اثبات میں سرہلایا۔

”ہاں اچھا آئیڈیا ہے، ڈنر کے بہانے تھوڑی آؤٹنگ ہوگی تو تمہاری طبیعت پر بھی اچھا اثر پڑے گا۔“ احرار نے بھی ایک مثبت پہلو اجاگر کرتے ہوئے اس تجویز سے اتفاق کیا۔

”ہاں بالکل، تو پھر سات بجے تک سب بالکل ریڈی ہونے چاہیے ڈنر پر جانے کیلئے، ٹھیک ہے ناں!“ اس نے حکم دیتے ہوئے خاص طور پر نہرین سے تائید چاہی تو اسے اثبات میں گردن ہلانی ہی پڑی۔


********************************


یہ غالباً کسی گھر کا ڈرائینگ روم تھا جہاں کی بڑی لائٹس بند تھیں بس لیمپ آن تھے جس سے مدھم روشنی ہو رہی تھی۔

ایک سنگل صوفے پر کوئی شخص موجود تھا جس کا چہرہ اندھیرے کے باعث واضح نہیں تھا۔ اور اس کے مقابل والے ڈبل صوفے پر ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔

”تم ساری باتیں ٹھیک سے سمجھ گئی؟ کوئی گڑبڑ نہیں ہونی چاہئے۔“ شخص نے نہایت سنجیدہ آواز میں کسی بات کی تائید چاہی۔

”جی سب سمجھ گئی، جیسا مجھے سمجھایا گیا ہے میں سب ویسا ہی کروں گی۔“ لڑکی نے فوری فرمابرداری سے یقین دھیانی کروائی۔

”اب تم جاسکتی ہو، کل ایڈوانس پیمنٹ تمھیں مل جائے گی، باقی پیسے کام ہونے کے بعد!“ اس شخص نے بات ختم کی۔

وہ سرہلا کر صوفے سے اٹھی اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔

جبکہ وہ شخص موبائل میں کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا اور پھر اسے کان سے لگا لیا۔

”گڈ ایوننگ میڈیم! لڑکی کو کام سمجھا دیا ہے اور امید ہے کہ کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی۔“ شخص نے فرمابرداری سے کسی کو اطلاع دی۔ اور خاموشی کے ساتھ دوسری جانب سے موصول ہونے والی ہدایات سننے لگا۔


********************************


”جہاں آرا نام ہے۔“ احرار نے ذہن پر زور دیتے بابک کو یاد دلایا۔

”ہاں ہاں جہاں آرا۔۔۔۔۔۔اس کے بیٹے کو کچھ ٹائم پہلے گاڑی میں گھومتے دیکھا تھا میں نے، وہ رِہا ہوگیا کیا؟“ اس نے بتاتے ہوئے آخر میں حیرت سے سوال کیا۔

”ہمارا قانون جتنا ”ایماندار“ ہے تو اس کے چلتے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے۔“ احرار کے انداز میں بےبس سی لاپرواہی تھی۔

”اففو! اچھا خاصا پرسکون ماحول چل رہا تھا، یہ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو تم دونوں۔“ نورالعین نے زچ ہوکر ٹوکا۔

چاروں اس وقت نورالعین کے من پسند ریسٹورنٹ ”کولاچی“ میں موجود تھے اور ریسٹورنٹ کی باؤنڈری کے قریب ٹیبل کے گرد کرسیوں پر براجمان تھے۔ جہاں سے سمندر بہت قریب اور دلفریب لگ رہا تھا جسے نہرین ان لوگوں کی باتوں سے بے نیاز بڑی محویت سے دیکھنے میں مصروف تھی۔

تب ہی ویٹر ان کا آرڈر لے آیا اور ٹیبل پر سرو کرنے لگا۔

کھانا رکھتے ہوئے ویٹر کے ہاتھ کا توازن بگڑا اور ہاتھ میں پکڑی ڈش سے سالن چھلک کر نہرین کی لائٹ بیلو کُرتی کی آستین پر نشان بنا گیا جو اس نے جینز کے ساتھ پہنی ہوئی تھی اور آدھے بال hair bow سے باندھ رکھے تھے۔

”اوہ! آئی ایم رئیلی سوری میم!“ وہ بری طرح گھبرا گیا۔

”تمھیں دھیان سے کام کرنا چاہئے تھا ناں!“ حسب عادت بابک برہم ہوا۔

”سوری سر!“ ویٹر کے پسینے چھوٹ گئے۔

”اٹس اوکے، میں واشروم جا کر صاف کرلیتی ہوں۔“ بابک کے برعکس نہرین نرمی سے بات ختم کرتے ہوئے اٹھی اور ویٹر کی پیروی میں ایک جانب چلی گئی۔

”نہرین کافی کم گو اور نرم مزاج لڑکی ہے ناں!“ نورالعین نے کھانے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے تجزیہ کیا۔

”بہت زیادہ!“ اپنی پلیٹ میں کھانا نکالتے احرار نے تائید کی۔

”اور وہ اپنے لئے بھی کوئی ایسا ہی نرم مزاج، نیک، شریف اور سچا انسان ڈیزرو کرتی ہے ناں؟“ بابک کے سادہ انداز میں پوشیدہ سا سوال تھا۔

جیسے کوئی بچہ سہم کر اداسی سے کہہ رہا ہو کہ میں تو اچھا بچہ نہیں ہوں اسی لئے مجھے میری فیورٹ چیز نہیں مل سکتی۔

بابک کے انداز پر بےساختہ دونوں نے اس کی جانب دیکھا جس کی آنکھیں واقعی کسی بےبس بچے کی مانند لگ رہی تھیں۔

”نہیں، میرے خیال سے اسے کوئی ایسا شخص ملنا چاہئے جو اس کی نرمی کو دنیا سے بچا کر رکھے کہ کہیں دنیا اس کا فائدہ نہ اٹھا لے، اور ایسا کوئی تمہارے جیسا بدتمیز، شاطر آدمی ہی کرسکتا ہے۔“ نورالعین نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ بظاہر شرارتی انداز میں کہا تھا۔

لیکن درحقیقت اس نے بابک کے دل میں بجھتے ہوئے امید کے چراغ پھر جلاتے ہوئے بند لفظوں میں اس کی ہمت باندھ دی تھی۔

”تم نہرین کو شادی کی پیشکش کیوں نہیں کردیتے بابک؟“ نورالعین نے ڈائریکٹ پوچھ لیا کیونکہ اب تک وہ بھی ساری صورت حال سمجھ چکی تھی۔

”کیونکہ یہ وقت مناسب نہیں ہے، جس طرح سارے برے تجربات سے گزرنے کے بعد تم نے تھوڑا وقفہ لے کر ایک نئی زندگی شروع کی تھی، ایسے ہی میں چاہتا ہوں کہ نہرین جب مجھے قبول کرے تو خوشی سے کرے، میرے احسان تلے دب کر مجبوری سے نہیں۔“ اس نے متوازن انداز میں ہمیشہ والا موقف دہرایا۔

”وہ واپس آرہی ہیں۔“ احرار نے دھیرے سے اطلاع دی جو نہرین کو آتا ہوا دیکھ چکا تھا جس کے باعث ان لوگوں نے بھی یہ موضوع ترک کر دیا۔

********************************

حسب معمول ایک نئی صبح بیدار ہوچکی تھی اور ناشتے کی نیت سے سب ڈائینگ ٹیبل پر اکٹھا تھے۔

”کل رات بہت زیادہ ہی لیٹ ہوگئے تھے ہم واپسی پر، ہے ناں!“ بابک نے اپنی جمائی روکتے ہوئے تائید چاہی۔

”جی نہیں! آپ دیر سے سوئے ہوں گے اسی لئے آپ کو ایسا لگ رہا ہے۔“ باوردی احرار نے سلائس پر مکھن لگاتے ہوئے اصل وجہ بتائی۔

”صاحب! باہر ایک لڑکی آئی ہے، کہہ رہی ہے کہ اسے کام کی تلاش ہے اور اسی سلسلے میں گھر کے مالک سے بات کرنی ہے، لے آؤں کیا اندر؟“ بشیر نے کمرے کے دروازے پر رک کر پوچھا۔

”لیکن ہمارے گھر تو پہلے سے ہی نوری کام کرتی ہے، بس آج کل چھٹی پر ہے لیکن جلد ہی واپس آجائے گی۔“ نورالعین نے نقطہ اٹھایا۔

”ہاں مگر ابھی اسے ٹھیک ہونے میں بھی وقت لگے گا، تمہاری طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی ہے، بات کرکے دیکھ لیتے ہیں۔“ بابک نے تجویز پیش کی۔

”لیکن ہمارے گھر میں اتنا کام ہوتا ہی کہاں ہے جو مزید کسی ملازمہ کی ضرورت پڑے؟“ نورالعین نے دھیان دلانا چاہا۔

”تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن کیا پتا اس بیچاری کو بھی کس مجبوری کی تحت کام کی ضرورت ہو؟ اس بہانے اس کا کچھ بھلا ہی ہوجائے گا۔“ احرار کا جذبہِ خدمتِ خلق جوش مارنے لگا تھا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔

”بشیر! اسے اندر لے آؤ!“ بلآخر بابک نے اجازت دے دی۔

وہ گردن ہلاکر واپس چلا گیا۔ اور تھوڑی دیر بعد ایک ستائیس آٹھائیس سالہ درمیانی صورت کی لڑکی بشیر کی پیروی کرتے ہوئے وہاں داخل ہوئی۔

”السلام علیکم!“ اس نے ذرا فاصلے پر رک کر دھیرے سے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! کون ہو تم؟ اور کیوں ملنا چاہتی تھی ہم سے؟“ بابک مدعے پر آیا۔

”صاحب میرا نام نائلہ ہے، میں پہلے جس گھر میں کام کرتی تھی وہ لوگ ملک سے باہر چلے گئے ہیں، گھر میں بوڑھی ماں ہے جس کی دوائیوں کیلئے پیسوں کی بہت ضرورت ہے، میں پڑھی لکھی ہوں نہیں اسی لئے گھروں میں کام کرکے گزارہ کرتی ہوں، یہاں کئی گھروں میں پوچھا لیکن سب کے گھر پہلے سے ہی ملازم ہیں، بس اب آخری گھر آپ کا بچا تھا، آپ لوگ جو کام بولیں گے کھانا پکانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا میں سب کرلوں گی، بس مجھے نوکری پر رکھ لیں۔“ اس نے منت آمیز لہجے میں سب کچھ ایسے بتایا کہ یہ بولنے کا آخری موقع ہے۔

”آرام سے سانس تو لے لو۔“ احرار نے رسان سے ٹوکا۔

”صاحب آج کل کے دور میں پیسوں کے بنا تو سانس لینا بھی محال ہے۔“ وہ تاسف سے بولی۔

”بتاؤ اینا، تم کیا کہتی ہو؟“ بابک نے رائے جاننا چاہی۔

”صفائی وغیرہ بشیر کردیتا ہے، کپڑے بھی لانڈری سے دھل کر آجاتے ہیں، بس فی الحال کھانا بنانے میں تھوڑا مسلہ ہو رہا ہے، کھانا بنانا آتا ہے تمھیں؟“ اس نے کہتے ہوئے پوچھا۔

”جی بیگم صاحبہ! اس سے پہلے والے گھر میں کھانا پکانے اور صفائی کا ہی کام کرتی تھی۔“ اس نے جھٹ سے بتایا۔

”ٹھیک ہے کل سے آجانا، لیکن خیال رہے کہ صبح سات بجے تمھیں یہاں موجود ہونا ہوگا اور مغرب کے بعد تمہاری چھٹی ہوگی، اگر چاہو تو سرونٹ کواٹر میں بھی رہ سکتی ہو۔“ نورالعین نے تاکید کرتے ہوئے تجویز بھی دی۔

”آپ بے فکر رہیں، میں صبح وقت پر حاضر ہوں گی اور وقت پر ہی جاؤں گی۔“ اس نے یقین دہانی کرائی۔

”صحیح! اور ایک بات کہ ہماری پرانی ملازمہ نوری فی الحال بیماری کی وجہ سے چھٹی پر ہے، اسی لئے جب وہ واپس آئے گی تو تمھیں کہیں اور نوکری ڈھونڈنی پڑے گی۔“ اس نے ساتھ ہی ساتھ باور کروا دیا۔

”جی میں یہاں کام کرتے ہوئے ہی تلاش جاری رکھوں گی، بس ابھی تو فوری ضرورت ہے کام کی۔“ وہ عاجزی سے رضامند ہوگئی۔

پھر تنخواہ وغیرہ کے معاملات طے پانے کے بعد وہ بشیر کی پیروی میں ہی واپس چلی گئی۔

”چلو شکر یہ مسلہ تو حل ہوا، ورنہ ڈیوٹی کے دوران ہر وقت مجھے فکر رہتی تھی کہ کہیں گھر سے کچن کی کسی گمشدہ چیز کا پوچھنے کیلئے فون نہ آجائے۔“ احرار نے نیپکن سے منہ صاف کرتے ہوئے شرارتاً کہا۔ تو نورالعین اسے گھور لگی۔

”اچھا اب میں چلتا ہوں، ان شاءاللہ ڈنر پر ملاقات ہوگی، اللہ حافظ!“ وہ کہتے ہوئے کرسی سے اٹھا۔

”اللہ حافظ!“ تینوں نے بھی یک زبان جواب دیا۔

احرار باہر کی جانب بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر تک نہرین بھی ناشتہ سے فارغ ہوکر وہاں سے چلی گئی اور سب سے آخر میں بابک بھی آفس جانے کیلئے اٹھا۔

”بابک!“ کرسی پر بیٹھی نورالعین نے پکارا جو دھیرے دھیرے چائے پی رہی تھی۔

”ہممم! کہو؟“ وہ رک کر متوجہ ہوا۔

”پلیز مجھے اب اینا مت پکارا کرو، نورالعین ہی کہا کرو۔“ اس نے عاجزی بھری سنجیدگی سے گزارش کی۔ جو تھوڑی عجیب تھی مگر وہ سمجھ گیا۔

”ٹھیک ہے نورالعین!“ اس نے معاملہ فہم انداز میں مسکراتے ہوئے سر ہلایا تو وہ بھی مسکرا دی۔

پھر وہ باہر کی جانب بڑھ گیا جو سمجھ گیا تھا کہ اس نے ایسی فرمائش کیوں کی؟ کیونکہ اب وہ پرانی والی ناشکری اینا کا سایہ بھی اس شکر گزار نورالعین پر نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی۔

*******************************

باوردی احرار اس وقت ایک کیس کے سلسلے میں کسی وکیل سے ملنے اس کے آفس آیا ہوا تھا اور ملاقات کے بعد اب وہ آنکھوں پر سن گلاسسز لگاتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب جا رہا تھا۔

”احرار صاحب!“ اچانک ایک پکار نے اس کے قدم روکے اور وہ متعجب سا پلٹا۔

ایک درمیانی عمر کا عام سے حلیے والا آدمی اس کے نزدیک آچکا تھا۔

”آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ آدمی نے روکنے کا مقصد بتایا۔

”کیا بات کرنی ہے؟ اور کیا میں آپ کو جانتا ہوں؟“ احرار کافی محتاط تھا۔

”میرا نام کاشف ہے، میں وہ ہی ہوں جس کے بیٹے پر اس کے دوستوں نے چوری کا الزام لگایا ہے اور آپ اس کا کیس دیکھ رہے ہیں!“ آدمی نے اپنا تعارف دیا۔

”اوہ ہاں، یاد آگیا، میں آپ کے بیٹے کا کیس بھی دیکھ رہا ہوں لیکن انفارچنیٹلی سارے کلوز آپ کے بیٹے کے خلاف ہی مل رہے ہیں، اور مجھے کورٹ میں وہ ہی رپورٹ سبمٹ کروانی ہوتی ہے جو فیکٹس پر مبنی ہو، پھر چاہے وہ فیکٹس ملزم کے خلاف ہوں یا اس کے حق میں!“ احرار نے خاصا وضاحتی جواب دیا۔ کیونکہ اسے لگا تھا کہ غالباً آدمی اپنے بیٹے کو بےگناہ ثابت کرنے کی فریاد کرے گا۔

”جی میں جانتا ہوں، دراصل میرا بیٹا ہے ہی نالائق اور اکثر ایسی حرکتیں کرجاتا ہے۔“ آدمی کا پراطمینان جواب اس کیلئے بہت حیران کن تھا۔

”دراصل مجھے انور کیانی قتل کیس پر آپ سے کچھ بات کرنی ہے، وہ کیس بھی آپ ہی انویسٹیگیٹ کر رہے ہیں ناں؟“ اس کا انداز احرار کو کچھ اچھے سگنلز نہیں دے رہا تھا۔

”آپ کا اس سے کیا تعلق ہے؟ اور یہ سب کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ وہ اور زیادہ الرٹ ہوگیا۔

”میرے تعلقات چھوڑیں، آپ بس یہ رکھیں۔“ اس آدمی نے اپنی ڈھیلی سی ڈریس پینٹ کی جیب میں سے ایک خاکی رنگ کا لفافہ نکال کر احرار کی جانب بڑھایا۔

”یہ کیا ہے؟“ اس نے لفافہ لیتے ہوئے پوچھا۔

”بس ایک چھوٹا سا تحفہ ہے، اگر آپ ہمارا کام کردیتے ہیں تو آپ کو ایسے ہی مزید تحفے بھی مل سکتے ہیں۔“ اس کا انداز پراصرار معنی خیزی لئے ہوئے تھا۔

احرار نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر پانچ ہزار کے نوٹوں کے بنڈل تھے۔

”آپ رشوت دے رہے ہیں مجھے؟“ وہ برہمی سے نتیجے پر پہنچا۔

”رشوت نہیں تحفہ ہے، بس آپ انور کیانی قتل کیس کی تفتیش میں ثبوت ڈھونڈتے ہوئے خوار نہ ہوں اور آرام کریں، نتیجے میں آپ کو ایسے ہی تحفے موصول ہوتے رہیں گے۔“ اس نے بڑی چالاکی سے اپنی بات رکھی۔

”میں لعنت بھیجتا ہوں تم پر اور تمہارے تحفے پر، بلکہ میں تمھیں رشوت دینے کے جرم میں گرفتار بھی کرسکتا ہوں۔“ وہ لفافہ واپس اس کی ہتھیلی پر تھماتے ہوئے سخت طیش میں آگیا۔

”مجھے گرفتار کرنے کے خواب تو آپ نہ ہی دیکھیں، کیونکہ میرے پیچھے کچھ ایسے بااثر لوگوں کا ہاتھ ہے جو نہ صرف آپ کے اس خواب کی تعبیر کو روک سکتے ہیں بلکہ آپ سے آپ کی یہ وردی بھی چھین سکتے ہیں۔“ اس نے اطمینان سے دھمکی دی۔

احرار پل بھر کو لاجواب ہوگیا کیونکہ واقعی اس کی بات درست تھی کہ یہ قانون تو اب ان کالی طاقتوں کے اختیار میں تھا اور اسی بات کا تو سارا افسوس تھا۔

”مرضی ہے آپ کی، ایسے نہ سہی تو کسی اور طریقے سے ہم اپنا کام کر لیں گے، بس اس سے آپ کا بھلا ہوجاتا۔“ اس نے لفافہ واپس اپنی پینٹ کی جیب میں رکھا۔

”تمھیں ہی مبارک ہو تمہاری یہ بھلائی۔“ وہ برہمی سے کہتا ہوا بنا اس کی کوئی مزید بات سنے آگے بڑھا اور اپنی گاڑی میں سوار ہوکر وہاں سے چلا گیا۔

وہ آدمی مسکرا کر اپنے موبائل میں کسی کا نمبر ڈائل کرنے لگا اور پھر اسے کان سے لگایا۔

”کام ہوگیا ہے میڈیم!“ اس نے مطمئن انداز میں اطلاع دی۔


********************************


”سارا کام سمجھ گئی ناں؟ اگر اب بھی کوئی سوال ہو تو پوچھ لو۔“ نورالعین نے پھر موقع دیا۔

وعدے کے مطابق اگلے دن نائلہ وہاں موجود تھی اور اب نورالعین ہال میں رکھے صوفے پر براجمان اسے کچن کا کام سمجھا رہی تھی۔ جسے وہ ادب سے کھڑی سن رہی تھی۔

”نہیں بیگم صاحبہ کوئی سوال نہیں ہے، سب سمجھ گئی ہوں میں۔“ اس نے فرمابرداری سے تسلی کرائی۔

”ٹھیک ہے، تو پھر کچن میں چلی جاؤ اور رات کے کھانے کی تیاری کرلو۔۔۔۔۔۔اور ایک بات۔۔۔۔مجھے بیگم صاحبہ نہیں بھابھی صاحبہ کہا کرو۔“ اس نے ہدایت دیتے ہوئے تاکید کی۔

”جی ٹھیک ہے بھابھی صاحبہ!“ اس نے فوری حکم مان لیا اور کچن کی جانب چلی گئی۔


********************************


شام کا موسم بےحد سہانا ہو رہا تھا۔ جب احرار نورالعین کی آنکھوں پر ہاتھ رکھے اسے لئے کسی جگہ پر آیا تھا۔

”کہاں لے کر جا رہے ہو کچھ تو بتاؤ؟“ نورالعین نے پھر جاننا چاہا۔

”لو، خود ہی دیکھ لو۔“ احرار نے کہتے ہوئے اس کی آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹایا تو وہ اپنی جگہ مبہوت رہ گئی۔

وہ دونوں ایک بہت اونچے سرسبز و شاداب پہاڑ پر کھڑے تھے جہاں سے گہرائی میں تاحدِ نگاہ پھیلی ہریالی آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اور پھر شام کا وقت ہونے کی وجہ سے جسم کو چھوتے ٹھنڈے ٹھنڈے ہوا کے جھونکوں نے منظر میں مزید دلفریبی پیدا کردی تھی۔

”واہ! یہ کتنی خوبصورت جگہ ہے۔“ وہ ستائشی لہجے میں بولی جسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔

”تب ہی تو تمھیں یہاں لایا ہوں، بہت پسند ہیں ناں تمھیں ایسی جگہیں؟“ وہ بھی مسکراتے ہوئے گویا ہوا اور ساتھ ہی ساتھ دھیرے دھیرے الٹے قدم اٹھانے لگا۔

”احرار کنارے پر مت جاؤ۔“ اس نے گھبرا کر ٹوکا۔

”کچھ نہیں ہوتا۔“ اطمینان سے کہتا وہ ہنوز الٹے قدم اٹھا رہا تھا۔

”مجھے ڈر لگ رہا ہے، کہیں تم گر نہ جاؤ! کھائی بہت گہری ہے۔“ اس نے ہاتھ بڑھا کر روکنا چاہا۔

تب تک وہ بالکل سرے پر پہنچ چکا تھا جبکہ اس کا اطمینان ہنوز قائم تھا۔

اچانک کہیں سے ایک سیاہ ہوا کا بھنور آیا جس سے دونوں گھبرا گئے۔ احرار نے کنارے پر سے ہٹنے کی کوشش کی لیکن تب ہی اس کا توازن بگڑا اور وہ نورالعین کی آنکھوں کے سامنے اس گہری کھائی میں جا گرا۔

”احرار!“ وہ حلق کے بل چلائی۔

اور ساتھ ہی اٹھ بیٹھی جبکہ اس کے چیخنے پر برابر میں سویا احرار بھی ہڑبڑا کر اٹھا اور سائیڈ لیمپ آن کیا۔

”کیا ہوا نورالعین؟“ اسے تشویش ہوئی۔

”احرار۔۔۔۔تم۔۔۔۔تم۔۔۔۔پہاڑ سے گر گئے تھے۔“ اس نے روتے ہوئے بتایا۔

”کون سا پہاڑ؟ ہم تو اپنے کمرے میں ہیں۔“ اس نے دھیان دلایا۔

نورالعین نے بھی یکدم آس پاس کا جائزہ لیا تو وہ اپنے کمرے کے بیڈ پر موجود تھی۔

”تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہوگا!“ احرار نے اس کی تشویش بھانپتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما۔

”ہاں! بہت برا خواب تھا۔“ وہ خوف کے مارے اس کے سینے میں چھپنے کی کوشش کرنے لگی۔

”چلو خواب ہی تو تھا، آیت الکرسی پڑھ لو ڈر نہیں لگے گا۔“ وہ اس کا سرسہلانے لگا۔

وہ ہنوز اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی اور ڈر کے مارے اس کی ٹی شرٹ کو اتنے کس کے پکڑا ہوا تھا کہ اگر اسے چھوڑا تو وہ سچ میں گر جائے گا!


********************************


حسب معمول ایک نئی صبح لوٹ آئی تھی اور سب نیند سے بیدار ہونے لگے تھے۔

تینوں میں سے کوئی بھی ابھی تک اپنے کمرے سے باہر نہیں آیا تھا صرف نہرین ہی کمرے سے نکل کر کچن کی جانب آئی۔ مگر کچن کے داخلی حصے پر پہنچتے ہی وہ ٹھٹک کر رک گئی۔

سامنے ہی نائلہ کچن کے بالکل کونے میں کھڑی، پشت داخلی حصے کی جانب کیے موبائل کان سے لگائے بہت ہی رازدانہ انداز میں کسی سے بات کر رہی تھی۔ اور اس کی آواز اس قدر دھیمی تھی کہ وہ کچھ سن بھی نہیں پا رہی تھی۔

تب ہی شاید اس کی بات مکمل ہوگئی تھی اور وہ واپس اس طرف پلٹی۔ لیکن داخلی حصے پر نہرین کو موجود دیکھ کر وہ ایسے چونکی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو!

”کیا کر رہی تھی تم؟“ اس نے آئبرو اچکاتے ہوئے پوچھا۔

”وہ۔۔۔وہ۔۔۔جی۔۔۔اماں کو فون کرکے دوائی کھانے کا یاد دلا رہی تھی۔“ اس نے بمشکل وضاحت کی۔

”اتنی رازداری سے!“ وہ مطمئن نہ ہوئی۔

”جی، مجھے لگا کہیں آپ لوگ کام کے دوران گھر فون کرنے پر غصہ نہ ہوجائیں!“ اس نے کمزور سا بہانہ بنایا جو نہرین کو مکمل طور پر مطمئن تو نہ کر پایا مگر وہ مزید کچھ نہ بولی کہ وہ یہاں مہمان تھی، یہاں کی مالکن نہیں!


********************************


نورالعین کب سے ڈریسنگ ٹیبل پر موجود پرفیومز اور کریمز کی پہلے سے ترتیب شدہ بوتلوں کو بے خیالی میں بار بار ترتیب دینے کیلئے یہاں سے وہاں کر رہی تھی۔

جسے اس کے عقب میں کھڑے بال بناتے احرار نے بھی بھانپ لیا تھا۔ بال بنا کر اس نے ہیئر برش واپس ٹیبل پر رکھا اور کندھوں سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔

”کیا ہوا؟ پریشان لگ رہی ہو، کوئی مسلہ ہے کیا؟“ اس نے نرمی سے پوچھا۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خاموشی سے پہلے چند لمحے اسے دیکھتی رہی پھر اس کے سینے سے لگ گئی۔

”مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“

”کس سے؟“

”تمھیں کھونے سے، یہ سوچنے سے کہ اگر وہ خواب سچ ہوگیا تو!“ وہ ابھی تک خوفزدہ تھی۔

”تمہاری سوئی ابھی تک وہیں اٹکی ہوئی ہے؟ خواب تو خواب ہوتے ہیں انھیں سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔“ وہ اسے اپنے حصار میں لئے سر سہلانے لگا۔

”ہاں لیکن پھر بھی، مجھے اتنا برا خواب کیوں آیا؟“ اس کی سوئی واقعی ابھی تک وہیں تھی۔

”کیونکہ تم اسی قسم کی کوئی الٹی سیدھی فلم دیکھ کر سوئی ہوگی، اور سونے سے پہلے ہم جو بھی دیکھتے، سنتے یا سوچتے ہیں اکثر وہی ہمیں خواب میں بھی نظر آتا ہے، اسی لئے اب یہ فضول باتیں سوچ کر خود کو ہلکان اور مجھے پریشان مت کرو، میں تمھیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔“ اب کی بار اس نے مرض پکڑتے ہوئے تفصیل سے سمجھایا۔ اور آخر میں بالوں پر بوسہ دیا۔

وہ ہنوز خاموشی سے اس کے سینے سے لگی یونیفارم کے بٹن سے چھیڑ چھاڑ کرتی رہی جس کا دماغ کوئی دلیل قبول نہیں کر رہا تھا بس دل میں ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔کچھ قیمتی کھو دینے کا خوف!


********************************


دوپہر ہونے کے باعث سورج اس وقت بالکل اپنے عروج پر تھا۔ حسب معمول بابک آفس اور احرار ڈیوٹی پر جا چکا تھا جبکہ یہ دونوں اپنے اپنے کمروں میں تھیں۔

نورالعین جیسے ہی نہا کر باتھروم سے باہر نکلی تو ایک لمحے کیلئے ٹھٹک کر وہیں رک گئی۔

سامنے ہی نائلہ الماری کے پاس کھڑی تھی اور اس کا ہاتھ چابی کی جانب تھا۔ جیسے یا تو وہ الماری کھول رہی تھی یا پھر بند کر رہی تھی۔

”یہ کیا ہو رہا ہے؟“ اس نے اونچی آواز سے پکار کر سختی دکھائی۔

وہ یکدم چونک کر اس کی جانب مڑی اور اس کے تاثر بالکل ایسے تھے جیسے چور کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو۔

”میں نے پوچھا کہ یہاں کیا کر رہی ہو تم؟“ وہ خطرناک تیوروں کے ساتھ اس کی جانب آئی۔

”وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔جی الماری کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔۔بس وہی بند کر رہی تھی۔“ اس نے گھبرا کر جلدی سے صفائی دی۔

نورالعین کو بھی خیال آیا کہ واقعی وہ الماری بند کرنا بھول گئی تھی لیکن اس نے یہ بات نائلہ پر ظاہر نہیں کی۔

”کچھ بھی تھا لیکن تمھیں بنا اجازت کسی چیز کو ہاتھ لگانے کی ضرورت نہیں ہے، آئی سمجھ!“ اس نے سختی سے منع کیا تو اس نے فوری سر ہلا دیا۔

”اور تم میرے کمرے میں کرنے کیا آئی تھی؟“ اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔

”آپ نے کہا تھا کہ رات کے کھانے میں قیمہ بنانا ہے، لیکن فریج میں تو گوشت ہے ہی نہیں بس یہ ہی پوچھنے آئی تھی کہ اب کیا کروں؟“ اس نے آمد کا مقصد بتایا۔

”کچن میں جو بھی سامان ختم ہوگیا ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے اس کی لسٹ بناؤ اور بشیر سے کہو کہ مارکیٹ سے جا کر وہ سارا سامان لا دے۔“ اس نے ہدایت جاری کی۔

”جی بھابھی صاحبہ!“ اس نے فرمابرداری سے سرہلایا اور برق رفتاری سے باہر کی جانب بڑھ گئی جبکہ وہ پرسوچ انداز میں اسے دیکھ کر رہ گئی۔


********************************


رات کے وقت سمندر کنارے نہایت پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی جس میں لہروں کا شور بےحد دلفریب لگ رہا تھا۔

سمندر کی لہروں سے ذرا فاصلے پر ایک

Cabana beach dining

کا خوبصورت سیٹ اپ لگا ہوا تھا۔

ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے گرد فاصلے سے چاروں کناروں پر لکڑی کے بانس لگے ہوئے تھے اور ان پر نہایت ہلکے سفید پردے لٹک رہے تھے اور ساتھ ہی ارد گرد لکڑی پر بھی چھوٹی چھوٹی خوبصورت لائٹس لپیٹی ہوئی تھیں جس کے ہالے میں یہ ٹیبل لگی ہوئی تھی۔ ٹیبل پر شیشے کے جار میں کچھ موم بتیاں جل رہی تھیں۔

اور یہ خوبصورت منظر تب اور زیادہ مکمل لگا جب وہ شخص یہاں آیا جس کیلئے یہ سارا اہتمام کیا گیا تھا۔

”یہ ہے وہ سرپرائز جس کی آپ بات کر رہے تھے؟“ خوبصورت سی ریڈ ڈریس زیب تن کیے نہرین نے حیرانی سے تائید چاہی۔

”جی بالکل! بیٹھیں!“ بلیک ٹو پیس میں تیار بابک نے تصدیق کرتے ہوئے کرسی کھینچی تو نہرین اس پر بیٹھ گئی۔

وہ بھی مقابل والی کرسی پر براجمان ہوچکا تھا۔

”اچانک یہاں آنے کا مقصد پوچھ سکتی ہوں؟“ نہرین نے سادگی سے دریافت کیا۔

”جی، ایکچلی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔“ اس نے تمہید باندھنا شروع کی۔

”جی کہیے۔۔۔۔۔بلکہ اگر کچھ کہنا ہی تھا تو گھر پر بھی کہہ سکتے تھے، یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی؟ پتا نہیں نورالعین اور احرار ہمیں گھر پر نہ پا کے کیا سوچیں گے؟“ اسے تھوڑی فکر ہوئی۔

”یہ بات بہت خاص ہے، اسی لئے سوچا کہ کسی خاص جگہ پر، خاص انداز میں کہوں۔“ اسے اس وقت اپنے دل کے سوا کسی کی فکر نہیں تھی جو سینے کے اندر بہت تیز تیز دھڑک رہا تھا۔

نہرین نے فوری طور پر کچھ کہا نہیں مگر اس کا تعجب خیز نظروں سے دیکھنا اپنے آپ میں ایک سوال تھا۔ جس کا جواب دینے کیلئے وہ خود ہی گویا ہوا۔

”جب پہلی مرتبہ آپ کو دیکھا تھا تب آپ میرے لئے ایک عام سی لڑکی ہی تھیں، لیکن آہستہ آہستہ جب آپ کو جانا پہچانا، آپ کی ہمت دیکھی تو میں ہر دن آپ سے متاثر ہوتا چلا گیا، اتنا متاثر کہ ایک طرف تو میری کوشش ہے جلد از جلد آپ کو آپ کا بھائی مل جائے، لیکن دوسری طرف مجھے اس بات سے بھی ڈر لگتا ہے کہ پھر آپ اپنے بھائی کے ساتھ واپس اپنے گھر لوٹ جائیں گی تو میں آپ کو دیکھ نہیں پاؤں گا، آپ سے مل نہیں پاؤں گا، بات نہیں کر پاؤں گا، تب مجھے سب کچھ بہت ادھورا ادھورا سا لگے گا، اب آپ ہی بتائیں کہ ان سب باتوں کا مطلب کیا ہے؟“ اس نے گول مول انداز میں آدھا ادھورا اظہار کرکے اب اس سے جواب مانگا۔

”یہ عادت ہے، آپ کو ان کچھ دنوں میں عادت ہوگئی ہے مجھے اپنے گھر میں دیکھنے کی اسی لئے آپ ایسا محسوس کر رہے ہیں، لیکن میرے جانے کے کچھ وقت بعد سب نارمل ہوجائے گا۔“ اس نے بہت ہی سادہ سا جواب دیا۔

”اگر یہ صرف عادت ہے تو یہ مجھے آپ کے جانے کے بعد محسوس ہوتی، کیونکہ جب ہمیں کسی کی عادت ہوجاتی ہے تو اس کی موجودگی میں ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس کے جانے کے بعد ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہم اس کے عادی ہوگئے ہیں، لیکن مجھے تو آپ کی موجودگی میں ہی آپ کو کھونے کا ڈر لگا ہوا ہے، دل کرتا ہے بس کسی طرح ہمیشہ کیلئے آپ کو اپنے پاس روک لوں اور یہ عادت نہیں۔۔۔۔۔۔یہ محبت ہے۔“ اس نے گھمبیرتا سے سچ کہتے ہوئے قبول کر ہی لیا۔ وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی۔

”مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے، اور اس محبت کو میں نکاح کی صورت دے کر ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟“ اس نے جذبات سے چور لہجے میں پوچھتے ہوئے ساتھ ہی کوٹ کی جیب سے ایک نازک سی ڈائمنڈ رنگ نکال کر اسے پیش کی۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ مبہوت سی کبھی اسے دیکھ رہی تھی تو کبھی اس کے ہاتھ میں موجود ڈائمنڈ رنگ کو!

اور وہ بھی آنکھوں میں ڈھیر سارے امید کے جگنو لئے سوالیہ نظریں اسی پر جمائے ہوئے تھا۔

اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتی، زور زور سے کچھ بجنے کی آواز آنے لگی اور یکدم۔۔۔۔۔۔سارا منظر بدل گیا۔۔۔۔۔

بابک کی آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔جو بیڈ پر سوتے ہوئے محو خواب تھا۔

کمرے کا دروازہ مسلسل بج رہا تھا۔

وہ اتنا حسین خواب ادھورا رہ جانے کے باعث سخت بدمزہ ہوکر بیڈ پر سے اٹھا اور آکر دروازہ کھولا۔

”کیا مسلہ ہے؟ کیوں صبح صبح نازل ہوگئے ہو؟“ وہ بشیر پر بری طرح برہم ہوا۔

”باہر کچھ پولیس والے آئے ہیں صاحب!“ اس نے گھبرا کر اطلاع دی۔

”تو احرار کو جا کر بتاؤ، انھیں اس سے کوئی کام ہوگا!“ وہ ہنوز بےزار تھا۔

”نہیں وہ چھوٹے صاحب کی تلاشی لینے آئے ہیں۔“ اب کی بار یہ اطلاع کسی بم کی مانند اس پر گری اور اسے حیران کر گئی۔


*****************************************


”غالباً آپ ہی آئی او احرار ملک ہیں؟“ ہال میں ایک انسپیکٹر احرار سے پوچھ گچھ کرنے میں مصروف تھا تب ہی بابک بھی وہاں آگیا۔ نورالعین اور نہرین بھی متفکر سی وہیں موجود تھیں۔

”جی میں ہی ہوں، اور آپ لوگوں کو کس بنا پر میرے گھر کی تلاشی لینی ہے؟“ باوردی احرار بھی بے حد سنجیدہ تھا۔

”اس سرچ وارنٹ کی بنا پر!“ انسپیکٹر نے ایک کاغذ اس کے آگے لہرایا۔

”اور یہ سرچ وارنٹ کیوں جاری کیا گیا ہے؟“ ایک اور سوال آیا۔

”کیونکہ آپ پر رشوت لینے کا الزام ہے۔“ اس نے بتایا نہیں تھا دھماکا کیا تھا۔

یہ انکشاف اتنا حیرت انگیز تھا کہ صدمے کے مارے اس کی زبان ہی گنگ ہوگئی۔ جبکہ بابک، نورالعین اور نہرین بھی ہکابکا رہ گئے۔

”یہ جھوٹ ہے، میرا بھائی ایسا نہیں کر سکتا۔“ بابک اس کے دفاع میں آگے آیا۔

”دیکھیں مسٹر! ہم نے کوئی اندھیرے میں تیر نہیں چلایا ہے، باقاعدہ ثبوت کی بنا پر اس کاروائی کا حکم جاری کیا گیا ہے۔“ وہ بارعب انداز میں بولا۔

”اچھا! کیا ثبوت ہیں؟ ذرا ہمیں بھی دکھائیں۔“ بابک دوبدو ہوا۔

انسپیکٹر نے اپنے ساتھ کھڑے سپاہی کے ہاتھ سے ایک خاکی رنگ کا لفافہ لے کر اس کی جانب بڑھایا جسے بابک نے تھام لیا اور ناسمجھی سے کھول کر دیکھنے لگا۔

احرار تو پہلے ہی اس کے ہمراہ کھڑا تھا۔ ساتھ ہی نورالعین بھی تشویش کے مارے اس کے برابر میں آئی اور لفافے میں سے نکلنے والی چیز دیکھنے لگی جو کہ ایک تصویر تھی۔

”کاشف نامی ایک بندے نے آپ کے خلاف یہ شکایات درج کی ہے کہ ان کے بیٹے پر چوری کا الزام لگا تھا جس کا کیس آپ دیکھ رہے تھے، لیکن کیس پر کام کرنے کے بدلے میں آپ نے ان سے اچھی خاصی رقم کا مطالبہ کیا اور دھمکی دی کہ اگر وہ یہ مطالبہ پورا نہیں کریں گے تو آپ کورٹ میں سارے ثبوت ان کے بیٹے کے خلاف پیش کردیں گے، مگر انھوں نے عقل مندی دکھائی اور آپ کو آپ کی مطلوبہ رشوت دیتے ہوئے آپ کی خفیہ تصویر کھینچوالی تھی تا کہ وہ یہ قانون کے سامنے ثبوت کے طور پر پیش کر سکیں اور آپ دوبارہ کسی مظلوم کے ساتھ یہ زیادتی نہ کریں۔“ انسپیکٹر نے کافی تفصیل سے آگاہ کیا۔

ساری باتیں سن کر انھیں اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔ جب کہ آنکھیں بھی وہ تصویر دیکھ کر حیرت زدہ تھیں جس میں احرار ایک بندے کے ساتھ کھڑا اس کے ہاتھ سے ایک خاکی رنگ کا لفافہ لیتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔

”ویسے تو ثبوت کیلئے یہ تصویر ہی بہت ہے، لیکن بینک سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق آپ نے اب تک بینک میں کوئی رقم جمع نہیں کروائی ہے اسی لئے وہ رقم ابھی بھی آپ کے گھر میں ہی ہے جس کے لئے ہمیں تلاشی لینی ہے۔“ اس نے مزید بتایا۔

”یہ تصویر اصلی ہے، پر یہ کہانی جھوٹ ہے، اس آدمی کے بیٹے کا کیس تو بس ایک دکھاوا تھا درحقیقت یہ کچھ نامعلوم لوگوں کا مہرہ ہے جو خود مجھے رشوت دینے آیا تھا تا کہ میں انور کیانی قتل کیس پر کام نہ کروں، اور میں نے وہ پیسے نہیں لئے تھے۔“ اس نے سخت انداز میں فوری اپنی صفائی دی۔

”اچھا! لیکن تصویر میں تو لفافہ لیتے ہوئے آپ صاف نظر آرہے ہیں۔“ اس نے گویا اطلاع دی۔

"ہاں میں نے لفافہ تھاما تھا لیکن یہ جان کر کہ اس میں پیسے ہیں اور اس مقصد کیلئے ہیں تو میں نے وہ واپس کر دیا تھا۔“ اس نے وضاحت کی۔

”ابھی پتا چل جائے گا کہ آپ نے لفافہ لیا تھا یا نہیں؟ ذرا اپنے کمرے کا ایڈریس تو بتائیں تا کہ وہاں کی تلاشی لی جاسکے۔“ وہ سیدھا دوٹوک فیصلہ کرنے کے موڈ میں آگیا۔

”خبردار جو کسی نے ایک قدم بھی یہاں سے آگے بڑھایا تو!“ بابک نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔

”بھیا پلیز!“ انسپیکٹر کے کچھ کہنے سے قبل ہی احرار نے اسے ٹوک دیا کیونکہ وہ قانونی تقاضے جانتا تھا۔

”اوپر سب سے پہلا کمرہ ہے!“ ناچاہتے ہوئے بھی احرار نے بتا دیا۔ جب کہ بابک قہر آلود نظروں سے انسپیکٹر کو دیکھ کر رہ گیا۔

انسپیکٹر کے اشارے پر دونوں سپاہی اس سمت چلے گئے جب کہ یہ لوگ یہیں کھڑے رہے۔

”دیکھیں آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، میرے شوہر ایسا نہیں کر سکتے۔“ نورالعین نے ادنی سی کوشش کی۔

”ہمیں کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے میڈیم!“

”تم یہ ٹھیک نہیں کر رہے ہو انسپیکٹر!“ بابک نے بمشکل ضبط کرتے ہوئے دھمکی دی۔

”میں صرف آرڈرز فالو کر رہا ہوں، باقی آپ کو جو بھی بات کرنی ہے وہ آپ تھوڑی دیر میں پولیس اسٹیشن میں کرسکتے ہیں۔“ اس نے اطمینان سے بات ہی ختم کردی۔

بیچاری نہرین بھی ڈری سہمی سی ناسمجھی سے ساری کاروائی دیکھ رہی تھی کیونکہ پولیس کچہری کے چکروں سے اس کا کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا تھا۔ اور اس وقت وہ تینوں خود ہی اتنے شاک کے عالم میں تھے کہ اسے کیا تسلی دیتے؟

سر پر اچانک آسمان ٹوٹ پڑنا کیا ہوتا ہے؟ یہ اس وقت ان لوگوں کو بخوبی سمجھ آرہا تھا جن کی زندگی کل تک نہایت پرسکون گزر رہی تھی۔

لیکن نہ جانے کس نے اور کیوں اچانک ان کی پرسکون زندگی میں یہ طوفان برپا کر دیا تھا جس نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔

”سر! یہ ملا ہے الماری سے۔“ اوپر سے نیچے آکر ایک سپاہی نے خاکی رنگ کا وہی لفافہ دیکھایا جو تصویر میں تھا۔

آفیسر نے جتاتی ہوئی نظروں سے احرار کی جانب دیکھتے ہوئے سپاہی سے لفافہ تھاما اور کھول کر دیکھنے لگا۔ حسب توقع اس میں سے پانچ پانچ ہزار کے نوٹوں کے بنڈلز برآمد ہوئے۔

آسمان تو تینوں کے سر پر پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا اور اب رہی سہی زمین بھی پیروں تلے سرک گئی۔

”اگر آپ نے وہ لفافہ واپس کر دیا تھا تو پھر آپ بتانا پسند کریں گے کہ آن لائن منی ٹرانسفر کے دور میں اتنا کیش آپ کے گھر پر کیا کر رہا ہے؟ جبکہ آپ کے حالیہ بینک ریکارڈ کی مطابق آپ نے نہ بینک سے کوئی رقم نکالی ہے اور نہ جمع کروائی ہے۔“ اس کا انداز صاف چبھتا ہوا تھا۔

”یہ لفافہ ہماری الماری میں کیسے آیا؟“ نورالعین نے حیرانی سے کہا۔

”یہ تو آپ اپنے شوہر سے پوچھیں۔“ انسپیکٹر کے مشورے میں طنز تھا۔

”بلکہ ابھی نہ ہی پوچھیں، فی الحال انھیں ہمارے ساتھ پولیس اسٹیشن چلنا ہوگا، جب یہ وہاں سے آجائیں تو پھر آرام سے پوچھتی رہیے گا، کیونکہ سسپینڈ ہونے کے بعد تو پھر یہ گھر پر ہی رہیں گے، اب چلیں آئی او صاحب، وردی میں ہوتے ہوئے ایک وردی والے سے زور زبردستی کرنا مجھے اچھا نہیں لگے گا۔“ وہ مسلسل طنز میں ڈوبے لفظوں کے تیر چلا رہا تھا۔ جسے یہ لوگ چاہ کر بھی روک نہیں سکتے تھے۔

”میرا بھائی کہیں نہیں جائے گا، میں ابھی ڈی ایس پی کو فون کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تم زبردستی ہمارے گھر میں گھس کر ہمیں پریشان کر رہے ہو۔“ بابک آڑ بن کر آگے آگیا۔

”بھیا! میرا جانا ضروری ہے، پلیز بات کو سمجھیں۔“ احرار نے دھیرے سے اسے سمجھانا چاہا۔

”کیوں ضروری ہے؟ جب تم نے کچھ کیا ہی نہیں ہے تو کیا ضرورت ہے تمھیں مجرموں کی طرح کسی کے بھی ساتھ جانے کی؟“ بابک اس سے دوبدو ہوا۔

”کیونکہ میں خود قانون کا حصہ ہوں اور میں جانتا ہوں کہ اس وقت کیا ہوگا اور کیا کرنا چاہئے؟ پلیز بات کو سمجھیے بھیا! میں ضروری کاروائی پوری کرکے تھوڑی دیر تک واپس آجاؤں گا۔“ احرار کے جواب پر وہ برہمی سے لب بھینچ کر رہ گیا۔

”چلیں انسپیکٹر!“ احرار نے اسے گرین سگنل دیا اور پھر وہ لوگ باہر کی جانب بڑھ گئے جن کے پیچھے بابک بھی بنا دیر کیے لپکا کیونکہ وہ کسی صورت اپنے بھائی کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔

وہاں وہ لوگ روانہ ہوئے اور یہاں نازک حالت میں ہونے کے باعث نورالعین سے یہ سب برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا جس کا سیدھا اثر اس کی کوکھ پر پڑا اور وہ پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہیں فرش پر بیٹھ کر کراہنے لگی۔ اس کے پاس موجود نہرین اور بشیر گھبرا گئے۔

”جلدی ڈاکٹر کو فون کرو بشیر!“ نہرین کی سمجھ میں فی الحال یہ ہی آیا۔

اور اس حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ فوراً لینڈ لائن کی جانب بھاگا جبکہ وہ فرش پر بیٹھی نورالعین کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔


********************************

”سر وہ آدمی جھوٹ بول رہا ہے، میں نے کوئی رشوت نہیں مانگی تھی بلکہ اس نے خود مجھے پیسے دیے تھے وہ بھی انور کیانی قتل کیس پر کام نہ کرنے کیلئے۔“ احرار نے پھر وہ ہی بات دہرائی۔

”دیکھیں مسٹر احرار! آپ کے بار بار ایک ہی بات دہرانے سے نہ ہی وہ سچ ہوجائے گی اور نہ ہی ہم اسے سچ مانیں گے، لہٰذا اگر آپ کے پاس اپنی صفائی میں کوئی ثبوت ہے تو پیش کریں۔“ سینئر آفیسر نے سنجیدگی سے حکم دیا۔

احرار لاجواب ہوگیا، بھلا وہ کیا ثبوت پیش کرتا اپنی بےگناہی کا؟

وہ اس وقت پولیس اسٹیشن کے ایک کمرے میں چند سینئر آفیسرز کے ساتھ موجود تھا جو کہ ایک ٹیبل کے گرد کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ باوردی احرار کمرے کے وسط میں مجرموں کی طرح کھڑا تھا۔

”میں نے کچھ کہا ہے مسٹر احرار، ہے کوئی ثبوت آپ کے پاس؟“ آفیسر نے پھر سختی سے پوچھا۔

”جی نہیں، کوئی ثبوت نہیں ہے، لیکن آپ لوگ میری گزشتہ کارکردگی دیکھ سکتے ہیں، میں نے ہر کام پوری ایمانداری سے کیا ہے، آپ کو کہیں کوئی کھوٹ نہیں ملے گا۔“ اس نے ایک ادنی سی کوشش کی۔

”نیت میں کھوٹ آنے میں بس ایک لمحہ لگتا ہے مسٹر احرار، اسی لئے آپ کی یہ دلیل بھی کسی کام کی نہیں ہے۔“ آفیسر نے بڑی ہی سفاکی سے اس کی ساری ایمانداری منہ پر دے ماری تھی۔

اب اسے اپنی صفائی میں مزید کچھ بھی کہنے کا حوصلہ سلب ہوتا محسوس ہوا۔ لفظوں نے زبان پر آنے سے، اور زبان نے حرکت کرنے سے انکار کردیا تھا۔

”فی الحال آپ کو وقتی طور پر سسپینڈ کیا جا رہا ہے، آپ کے پاس اگلے ہفتے کی پچیس تاریخ تک کا وقت ہے، پچیس تاریخ کو آپ کی کورٹ میں پیشی ہے، اگر تب تک آپ اپنے حق میں کوئی ثبوت لے آئے تو یہ آپ کے لئے اچھی بات ہے، ورنہ اپنی ڈیوٹی کو ہمیشہ کیلئے بھول جائیں، اب آپ جاسکتے ہیں۔“ آفیسر نے بےلچک انداز میں حتمیٰ فیصلہ سنایا۔

چپ تو اسے پہلے ہی لگ گئی تھی اور بولنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہونا تھا، اسی لئے وہ شکستہ قدموں سے باہر کی جانب بڑھا۔

”احرار! کیا ہوا؟“ کمرے کے باہر موجود بابک کو تشویش ہوئی جو بےچین سا اسی کا منتظر تھا۔

اس کی آواز پر وہ یکدم چونکا اور خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

”احرار! میں کچھ پوچھ رہا ہوں، کیا بات ہوئی اندر؟“ بابک نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔

”سب ختم ہوگیا بھیا!“ اس کی مردہ سی آواز کسی گہری کھائی سے آتی معلوم ہوئی۔


********************************


دونوں گھر لوٹے تو انھیں اطلاع ملی کہ نورالعین کی طبیعت خراب ہوگئی تھی جسے سن کر دونوں ہی گھبرا گئے۔ لیکن نہرین نے تسلی دیتے ہوئے ساری تفصیل بتائی تو ان کی سانس بحال ہوئی۔

”آپ لوگ بے فکر رہیں کوئی سیریس میٹر نہیں ہے، ڈاکٹر چیک اپ کرکے جا چکی ہیں اور انھوں نے ہی کہا ہے کہ کوئی خطرے والی بات نہیں ہے، ہاں لیکن آئندہ کیلئے انھیں ہر قسم کے شاک یا ٹینشن سے دور رکھنے کی تاکید کی ہے۔“ نہرین ہال میں کھڑی انھیں ساری بات بتا رہی تھی۔

”تم اس کے پاس جاؤ احرار، اور شکل پر یوں بارہ مت بجائے رکھنا، تمھیں ایسے دیکھ کر وہ اور پریشان ہوجائے گی، تمہارے منہ لٹکانے سے مسلے حل بھی نہیں ہوں گے، ہم جلد ہی یہ میٹر سلجھا لیں گے، بس فی الحال تم اس کا خیال اور اپنا خیال رکھو۔“ بابک نے اس کا کندھے تھپکتے ہوئے ہمت باندھی۔

احرار نے اثبات میں سر ہلانے پر اکتفا کیا اور اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جس کے بعد اب ہال میں بس یہ دونوں رہ گئے تھے۔

”پولیس اسٹیشن میں کیا ہوا؟“ نہرین نے فکرمندی سے جاننا چاہا۔

اس سوال پر بابک نے اس کی جانب دیکھا تو بےساختہ صبح والا وہ حسین خواب یاد آگیا جو درحقیقت اس کی شدید خواہش تھی اور وہ اس خواب کو تعبیر دینے کا فیصلہ کرچکا تھا لیکن اچانک آئے اس طوفان کے پیش نظر اس نے اپنا فیصلہ ملتوی کردیا کیونکہ فی الحال اس کیلئے بھائی زیادہ ضروری تھا۔

”سب ٹھیک ہوا یا نہیں؟“ اسے خود کو تکتا پا کر نہرین نے دوبارہ پوچھا۔

”سب ٹھیک ہوتا نہیں ہے، کرنا پڑتا ہے۔“ وہ گہری سانس لے کر فلسفیانہ انداز میں یوں بولا جیسے ایک طویل سفر کرنے کیلئے خود کو تیار کر رہا ہو! جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔

جبکہ اس سارے ہنگامے میں کسی کا بھی دھیان اس بات پر نہیں گیا کہ نائلہ آج غیر حاضر تھی۔


********************************


احرار کمرے میں آیا تو حسب توقع نورالعین بیڈ پر انجیکشن کے زیر اثر تھی۔ وہ بنا کوئی آواز کیے سیدھا واشروم میں یونیفارم چینج کرنے چلا گیا۔

چینج کرکے آنے کے بعد وہ بیڈ پر آہستہ سے اس کے برابر میں بیٹھا، بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس کا لمس پاتے ہی نورالعین نے بھی دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔

”احرار! سب ٹھیک ہے ناں!“ اس پر نقاہت طاری تھی۔

”ہاں، سب بالکل ٹھیک ہے، اگر تم ٹھیک ہوجاؤ تو۔“ اس نے اپنا انداز بالکل نارمل رکھا۔

”میں ٹھیک ہوں، بس مجھے تمہاری فکر تھی۔“ وہ اٹھ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔

”اور مجھے تمہاری۔“ وہ اس کا سر سہلانے لگا۔

”وہ سب جھوٹ تھا ناں جو انسپیکٹر نے کہا؟ وہ ایسا کیوں کہہ رہے تھے؟ اور وہ لفافہ ہماری الماری میں کیسے آیا؟“ اس نے کئی سوال کر ڈالے۔

یہ وہ سوال تھے جو اسے بھی ستا رہے تھے مگر افسوس کہ ان کا جواب فی الحال اسے بھی نہیں معلوم تھا۔

”ابھی تو نہیں پتا کہ ایسا کیوں ہوا؟ لیکن جلد ہی ہم ان سوالوں کے جواب ڈھونڈ لیں گے، اگر تم ٹھیک ہوکر میرا ساتھ دو۔“ احرار نے اس کے ساتھ ساتھ خود کو بھی تسلی دی۔

”میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔“ نورالعین نے یقین دلاتے ہوئے اس کے سینے پر بوسہ دیا تو جواباً احرار نے بھی اسے کس کر خود میں مزید بھینچ لیا جس کا ہونا اس کیلئے آفتوں کی گھڑی میں بھی باعثِ راحت تھا۔


********************************


”نائلہ!“ بابک نے تیسری بار پکارا۔

لیکن پچھلی بار کی طرح اس مرتبہ بھی کوئی جواب نہیں آیا۔ پہلے وہ چند لمحے ایسے ہی صوفے کی پشت پر سر ٹکائے بیٹھا انگلیوں سے ماتھا مسلتا رہا۔ اسے شدید سر درد ہو رہا تھا جس میں چائے کی طلب ہونے لگی تھی۔

جب اتنی بار پکارنے پر بھی کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو وہ خود ہی اٹھ کر کمرے سے باہر آیا۔ حسب معمول ہال میں سناٹا تھا

”نائلہ!“ اس نے ہال میں کھڑے ہوکر پھر آواز دی۔

اس بار بھی وہ تو نہ آئی پر اس کی آواز سن کر نہرین اپنے کمرے سے باہر آگئی۔

”کچھ چاہیے آپ کو؟“ نہرین نے اخلاقاً پوچھا۔

”ہاں سر میں بہت درد ہو رہا ہے، نائلہ سے کہیں اسٹرونگ سی چائے بنا دے۔“ اس نے کنپٹی مسلتے ہوئے جواب دیا۔

”لیکن نائلہ تو آج آئی ہی نہیں ہے۔“ نہرین کی اطلاع پر وہ دنگ رہ گیا۔

نائلہ کا اچانک ملازمت مانگنے آنا۔۔۔۔۔اس کے آنے کے بعد یہ ہنگامہ ہونا۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اب اس کی اچانک غیر حاضری۔۔۔۔!

کڑی سے کڑی ملاتے ہوئے بابک یکدم ٹھٹکا۔


********************************


"ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جب میں صبح کچن میں گئی تو میں نے نائلہ کو بہت ہی رازداری سے فون پر بات کرتے ہوئے دیکھا، اور مجھے دیکھتے ہی وہ ایسے چونکی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو، مگر میں اسے اپنا وہم سمجھ کر نظر انداز کردیا۔“ نہرین نے کسی بات کے جواب میں بتایا۔

چاروں اس وقت احرار کے کمرے میں موجود تھے۔ نورالعین بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی، احرار بھی اس کے برابر میں ہی موجود تھا۔

جبکہ کمرے میں موجود دو سنگل صوفوں میں سے ایک پر بابک براجمان تھا اور دوسرے پر نہرین بیٹھی ہوئی تھی۔ سب اس وقت کڑی سے کڑی ملانے کی کوشش کر رہے تھے۔

”ہاں اور کل ہی دوپہر میں جب میں نہا کر نکلی تو وہ ہماری الماری کے پاس کھڑی تھی جب میں نے پوچھا کہ یہاں کیا کر رہی ہو تو کہنے لگی کہ رات کے کھانے کا پوچھنے آئی تھی مگر الماری کھلی دیکھی تو اسے بند کردیا، اتفاق کی بات ہے کہ نہانے جانے سے پہلے میں واقعی الماری لاک کرنا بھول گئی تھی اسی لئے میں نے بھی زیادہ دھیان نہیں دیا۔“ نورالعین نے بھی یاد آنے پر بتایا۔

”جب تم دونوں نے یہ سب نوٹ کیا ہی تھا تو کم از کم سرسری سا ذکر ہی کردیتی، اب ڈیٹیکٹیو بننے کا کیا فائدہ؟“ بابک کو ان دونوں پر غصہ آنے لگا۔

”میں آپ کے گھر میں ایک مہمان کی حیثیت سے ہوں اسی لئے مجھے ان معاملات میں انٹرفیئر کرنا ٹھیک نہیں لگا۔“ نہرین نے دھیرے سے کہا۔

”ہمیں بنا چھان بین کیے اسے کام پر رکھنا ہی نہیں چاہیے تھا، کہا بھی تھا میں نے کہ ہمارا اتنا کوئی کام نہیں ہوتا ہے میں مینج کرلوں گی۔“ نورالعین نے بھی توپ کا رخ اپنی جانب سے ہٹانے کی کوشش کی۔

”یہ ہے ناں میرا پیارا بھائی، جس کی رگوں میں خدمتِ خلق کا جذبہ خون کے ساتھ دوڑتا ہے، لو اب کھاؤ اپنی نیکی کا پھل!“ بابک نے اس پر طنز کیا۔

"اچھا ٹھیک ہے کہ میں نے ہی ترس کھا کر اسے کام پر رکھنے کا مشورہ دیا تھا، اور یہ بھی مان لیتے ہیں کہ وہ لفافہ بھی اسی نے الماری میں رکھا ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ مجھے پھنسا کر اسے کیا ملے گا؟ اس کی بھلا مجھ سے کیا دشمنی ہے؟“ احرار نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے سوال اٹھایا جس میں وزن تھا۔

”ہوسکتا ہے کہ وہ کسی کہ کہنے پر ایسا کر رہی ہو؟“ نورالعین نے خیال ظاہر کیا۔

”مگر کس کے کہنے پر؟“ بابک نے وہ ہی سوال دہرایا۔

”اگر نائلہ مل جائے اور ہم اس سے تھوڑی سختی کے ساتھ پوچھ گچھ کریں تو شاید وہ بتا دے!“ نہرین نے ممکنہ تجویز رکھی تو باقی سب بھی سوچ میں پڑ گئے۔


********************************


یہ پورا دن تو کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ میں گزر گیا اب ایک نیا دن پھر سے کافی سارے سوالات کے ساتھ حاضر ہوچکا تھا۔

حسب معمول سب ڈائینگ ٹیبل پر ناشتے کیلئے اکٹھا تھے۔

ناشتہ کرنے کا دل تو کسی کا بھی نہیں چاہ رہا تھا، لیکن پیٹ اور دل کے مزاج ذرا مختلف ہوتے ہیں۔

”صاحب!“ بشیر نے روم میں داخل ہوتے ہوئے پکارا۔

”خبردار جو اب کسی کام کی تلاش میں آنے والی کو اندر لائے تو! کہہ دو ہم اپنے گھر کے کام خود کرتے ہیں، ہمیں نہیں چاہیے کوئی ملازمہ!“ بابک نے کچھ سننے سے قبل ہی سختی سے انکار کردیا۔

”کیا ہوگیا ہے بھیا!“ احرار نے ٹوکا۔

”ارے نہیں صاحب، میں تو یہ اخبار دِکھانے لایا تھا۔“ اس نے ہاتھ میں پکڑا اخبار بابک کی جانب بڑھایا۔

اس نے ناسمجھی سے اخبار تھام لیا اور پڑھنے لگا۔ باقی سب کو بھی تشویش ہو رہی تھی۔

جیسے جیسے بابک کی آنکھیں اخبار پر لکھے لفظوں پر گردش کر رہی تھیں ویسے ہی اس کے چہرے کی رنگت بھی بدل رہی تھی۔

”کیا ہوا بھیا؟ کیا لکھا ہے؟“ احرار نے سب کی ترجمانی کی۔

”لکھا ہے کہ انویسٹیگیشن آفیسر احرار ملک کو رشوت لینے کے جرم میں فی الحال سسپینڈ کردیا گیا، آخر کار ایک بے ایمان آفیسر اپنے انجام کو پہنچا۔“ اس نے حیرانی سے پڑھ کر بتایا جسے سن کر سب دنگ رہ گئے۔

احرار نے فوری اس کے ہاتھ سے اخبار لے کر دیکھا جس میں یہ ہی سب لکھا تھا اور ساتھ اس کی تصویر بھی چھپی ہوئی تھی۔

”یااللہ! یہ بات میڈیا تک کیسے پہنچ گئی؟“ نورالعین نے فکرمندی سے سر پکڑ لیا۔

”لیکن احرار کون سا کوئی بہت بڑے سلیبریٹی ہیں جو ان کے بارے میں یوں چھاپ کر اعلان ہی کر ڈالا!“ نہرین نے متعجب انداز میں سوال اٹھایا۔

کسی خیال کے تحت بابک نے یکدم احرار کے ہاتھ سے اخبار واپس لیا اور کچھ ڈھونڈنے لگا۔

”تنویر احمد! مجھے شک تھا یہ اسی کا کام ہوگا!“ شک کی تصدیق ہوگئی۔

”کون تنویر احمد؟“ نورالعین سمجھی نہیں۔

”ہے ایک کالم نگار، اس نے پہلے بھی احرار کے بارے میں ایسے ہی فضولیات چھاپی تھی تب میں نے اس کی طبیعت درست کردی تھی، یقیناً اس نے اسی بات کی ٹسل نکالی ہے، اس کی کھال دوبارہ مصالحہ مانگ رہی ہے۔“ بابک دانت پیستے ہوئے نتیجے پر پہنچا۔

”کچھ بھی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے بھیا! اس نے جس وجہ سے بھی لکھا ہو لیکن سچ ہی لکھا ہے، آپ کوئی بھی ایکشن لیں گے تو ہم اور لائم لائٹ میں آجائیں گے۔“ احرار نے سنجیدگی سے ٹوکا۔

”تو کیا ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور کچھ نہ کریں“ بابک نے زچ ہوکر اخبار ٹیبل پر پٹخا۔

”نہیں، ہم کریں گے، مگر جوش سے نہیں ہوش سے۔“ احرار نے تصحیح کی تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا جس کا دل چاہ رہا تھا کہ ساری دنیا کو تہس نہس کر ڈالے۔


********************************


”ارے واہ! صبح صبح ناشتے کے ساتھ اتنی اچھی خبر پڑھ کر مزہ آگیا، کیا بات ہے۔“ جہاں آرا کی خوشی انتہا پر تھی۔

دونوں ماں بیٹے اس وقت ناشتے کی نیت سے ڈائینگ ٹیبل پر موجود تھے تب ہی ملازم نے ان کو اخبار لا کر دیا اور اس خبر پر ان کی نظر گئی۔

”آپ سے ٹکرانے والے کا یہ ہی انجام ہوتا ہے مام!“ آصف لغاری نے مزید بڑھاوا دیا۔

”اور تمھیں بھی میری طرح ہی بننا ہے، آئی سمجھ!“ ان کے مغرور انداز میں حکم تھا۔

”آپ ہی کے نقشِ قدم پر چل رہا ہوں مام! تب ہی تو اس لڑکے کو۔۔۔۔۔۔۔۔“

”شہہہ! خاموش!“ وہ کچھ کہنے لگا تھا کہ یکدم انھوں نے ٹوک دیا۔

”کتنی بار کہا ہے کہ بار بار اس لڑکے کا ذکر مت کیا کرو۔“ انھوں نے دھیمی آواز میں دانت پیس کر ڈپٹا۔

وہ فرمابرداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموش ہوگیا۔


********************************


”یار ایک بات تو بتا، تجھے میں کوئی ڈیٹیکٹیو لگتا ہوں؟ یا میری شکل چور پکڑنے والے کتے سے ملتی ہے جو تو آئے دن مجھے کسی نا کسی کو تلاشنے کی مہم پر لگا دیتا ہے، ایک تو پہلے ہی اس لڑکی کا گمشدہ بھائی اب تک نہیں ملا ہے اوپر سے اپنی ملازمہ کو ڈھونڈنے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ڈال رہا ہے۔“ بابک کی بات سن کر یاور کے تن بدن میں آگ لگ گئی تھی۔

بابک اس وقت اپنے آفس میں ہونے کے بجائے یاور کے آفس میں موجود تھا اور بقول یاور، اس پر ایک نئی ذمہ داری ڈال رہا تھا۔

”یار دوست کیلئے اتنا نہیں کر سکتا تو؟“ بابک نے ایموشنل بلیک میلنگ کی۔

”نہیں بالکل بھی نہیں، وہ رہا باہر کا راستہ اب آپ جا سکتے ہیں۔“ اس نے صاف انکار کرتے ہوئے دروازے کی جانب اشارہ کیا۔

”ٹھیک ہے جا رہا ہوں میں، لیکن جیسے ہی اس کے بارے میں کچھ پتا چلے مجھے ضرور بتانا، یہ رہا اس ملازمہ کا اسکیچ!“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کوٹ کی جیب سے کاغذ نکال کر میز پر رکھا اور تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گیا۔

بابک پر اس کے انکار کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا اور وہ پوری ڈھٹائی سے یہ ذمہ داری بھی اس پر تھوپ کر چلا گیا تھا جسے یاور خونخوار نظروں سے دیکھ کر رہ گیا۔


********************************


کافی دیر ہوگئی تھی لیکن صبح کا گھر سے نکلا احرار ابھی تک واپس نہیں لوٹا تھا جس کے انتظار میں نورالعین یہاں سے وہاں سست روی سے ٹہل رہی تھی۔

تب ہی بیڈ روم کا دروازہ کھلا اور تھکا ماندہ احرار اندر داخل ہوا۔

”کہاں تھے تم احرار صبح سے؟ اور میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟“ وہ متفکر سی اس کی جانب لپکی۔

”اپنے کیس کے سلسلے میں ہی مصروف تھا۔“ اس نے مختصر جواب دیا جو بےحد تھکا ہوا لگ رہا تھا۔

”اچھا چلو تم فریش ہوجاؤ میں تمہاری لئے کھانا لگاتی ہوں۔“ وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے بولی۔

”نہیں مجھے بھوک نہیں ہے، اور تم بھی سوجاؤ میری ایک بندے کے ساتھ آن لائن میٹنگ ہے میں فریش ہوکر اسٹڈی روم میں جا رہا ہوں۔“ احرار نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے رسان سے انکار کیا اور فریش ہونے چلا گیا جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔


********************************


سیاہ آسمان کے سینے پر شان سے چمکتے ہوئے چاند اپنی اکلوتی حکمرانی کا جشن منا رہا تھا جس میں چاندنی اور ستارے بھی شریک تھے۔

”آپ کو جو کرنا ہے آپ کیجئے، جتنے پیسے چاہیے بتائیں میں دینے کو تیار ہوں لیکن پلیز کچھ بھی کرکے میرے بھائی کو اس جھوٹے کیس سے باہر نکالیں وکیل صاحب!“ بابک موبائل کان سے لگائے اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا۔

”پہلی پیشی پر ہمارا کیس کم از کم اتنا اسٹرونگ لازمی ہونا چاہئے کہ عدالت ڈائریکٹ اسے سسپینڈ کرنے کے بجائے تھوڑی مزید مہلت دے دے اور ہم کوئی ثبوت یا گواہ ڈھونڈ پائیں۔“ وہ اپنے بھائی کیلئے سخت متفکر تھا۔

چند ایک مزید بات کرکے اس نے لائن ڈسکنیکٹ کرتے ہوئے موبائل بیڈ پر پھینکا اور دیوار پر لگی گھڑی کی جانب دیکھا تو پتا چلا رات کے ساڑھے بارہ بج گئے ہیں۔

اسے تھکن تو بہت ہو رہی تھی لیکن جب ذہن میں اتنی ساری سوچیں گردش کر رہی ہوں تو نیند بھی آسانی سے مہربان نہیں ہوتی۔

اسے بے وقت چائے کی طلب ہونے لگی تھی جس کے حصول کیلئے وہ خود ہی کمرے سے باہر آیا۔

پورے گھر کی لائٹس بند تھی بس ہال میں کہیں کہیں لیمپ آن تھے جن سے مدھم روشنی ہو رہی تھی۔

وہ ہال عبور کرتا ہوا کچن کی جانب جانے لگا تھا جب اسے لان کی جانب کھلنے والے دروازے کی چوکھٹ پر کوئی بیٹھا ہوا نظر آیا۔

وہ Hair bow کی مدد سے آدھے بندھے بال دیکھ کر پہچان گیا تھا کہ وہ نہرین ہے کیونکہ اس گھر میں جینز اور فراک نما کُرتی کے ساتھ سر پر hair bow باندھنے والا مخصوص انداز صرف نہرین کا ہی تھا۔

کچن میں جانے کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ بھی اس طرف چلا آیا۔

”نہرین!“ اس نے قریب آتے ہوئے پکارا۔

بابک کی غیر متوقع آمد پر اس نے یکدم چونک کر گردن موڑی۔

”آپ یہاں! اس وقت؟“ اس نے کہتے ہوئے جلدی سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ غالباً وہ رو رہی تھی۔

”یہ ہی سوال تو میرا بھی ہے کہ آپ اس وقت یہاں؟ اور آپ رو رہی ہیں؟“ وہ تشویش زدہ سا پوچھتا پاس رکا۔

”بس ایسے ہی۔۔۔۔پاپا کی یاد آرہی تھی۔“ دھیرے سے جواب ملا۔

”اگر آج وہ یہاں ہوتے تو آپ کو اس طرح روتا دیکھ انھیں بالکل بھی اچھا نہیں لگتا۔“ وہ ہلکے پھلکے انداز میں کہتا اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گیا۔

”اگر وہ یہاں ہوتے تو میرے رونے کی نوبت ہی نہیں آتی۔“ اس کے انداز میں درد بھری خلش تھی۔

”یہ تو امپاسبل ہے، ہر انسان کو کبھی نا کبھی، کسی نا کسی وجہ سے رونا پڑتا ہی ہے، ہاں لیکن رونے کے بعد آنسو پونچھ کر دوبارہ مسکرانے کی ہمت صرف بہادر انسان کرپاتا ہے۔“ اس نے کمال مہارت سے حقیقت اور تسلی کا امتزاج پیش کیا تو وہ لاجواب ہوکر اسے دیکھنے لگی۔

”آپ بھی بہادر ہیں، تب ہی تو بیٹھ کر قسمت پر رونے کے بجائے اپنے بھائی کو ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوئیں، اور اب جب بہادری کے راستے پر چل ہی پڑی ہیں تو پھر یہ آنسو زیب نہیں دیتے۔“ اس نے نہایت نرمی سے ٹوک کر اسے رونے سے باز رکھنا چاہا۔

”مجھے اندازہ نہیں تھا کہ بہادری کا راستہ اتنا طویل اور تھکا دینے والا ہوگا، کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں اکیلے اس راستے پر چلتے چلتے ہی ختم ہوجاؤں گی مگر منزل نہیں ملے گی۔“ ناخن کھرچتے ہوئے اس کے تاسف زدہ انداز میں صدیوں کی تھکن عود آئی۔ جب کہ وہ اس کی جھکی پلکوں کو بغور دیکھے گیا۔

”کس نے کہا آپ اکیلی ہیں؟ میں ہوں ناں!“ وہ بےاختیار کہہ گیا۔ نہرین نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

”میرا مطلب میں ہوں، احرار اور نورالعین ہیں، ہم سب ہیں ناں آپ کے ساتھ!“ اس نے جلدی سے بات بنائی کہ کہیں وہ کوئی غلط نتیجہ اخذ کرکے خفا نہ ہوجائے!

”آپ لوگوں کا ہونا تو واقعی کسی بلیسنگ سے کم نہیں ہے، اگر آپ لوگ نہ ملتے تو پتا نہیں اس انجان جگہ پر میں کیسے سروائیو کرتی!“ وہ دل سے ان کی مشکور تھی۔

”اگر ہم نہ ملتے تو کوئی اور مل جاتا، مگر خدا آپ کو کبھی اکیلا نہ چھوڑتا، اس کی مدد کہیں نا کہیں، کسی نا کسی روپ میں ہم تک پہنچ ہی جاتی ہے۔“ اس نے رسان سے جواب دیا۔

وہ فوری طور پر کچھ نہ بولی جس کے باعث دونوں کے بیچ خاموشی حائل ہوگئی۔

آج آسمان پر مکمل چاند جلوہ افروز تھا جس کی چاندنی ہر سو بکھری ہوئی تھی اور یہ دونوں بھی اس میں نہائے ہوئے تھے۔ جب کہ وقتاً فوقتاً چھو کر گزرتے ہوا کے سرد جھونکوں نے طبیعت کو مزید فرحت بخش احساس سے روشناس کروا رکھا تھا۔

”ویسے آپ نے بتایا نہیں آپ اس وقت یہاں کیا کر رہے تھے؟ آئی مین آپ تو شاید جلدی سوجاتے ہیں!“ نہرین نے سوالیہ انداز میں خاموشی کو توڑا۔

”کچھ کام پورا کرنے میں بزی تھا تو پتا ہی نہیں چلا کب یہ وقت ہوگیا؟ پھر چائے کی طلب ہونے لگی تو سوچا چائے بنالوں کیونکہ ملازمین تو اس وقت موجود نہیں ہیں۔“ اس نے سادہ انداز میں وضاحتی جواب دیا۔

”میں چائے بنا دوں؟“ اس نے غیرمتوقع پیشکش کی۔

”ارے نہیں نہیں، آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں بنا لوں گا۔“ اس نے جلدی سے نفی کی کہ وہ واقعی اسے غیر آرام دہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”زحمت کیسی؟ آپ نے اب تک میری اتنی مدد کی اور کر رہے ہیں، تو بدلے میں ایک کپ چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔“ وہ سادگی سے مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

”تو مطلب آپ بدلہ چُکا رہی ہیں؟“ وہ بھی دلچسپی سے پوچھتے ہوئے اس کے مقابل کھڑا ہوگیا جو اس سے قد میں دراز تھا۔

”وہ تو شاید میں ساری زندگی نہ چُکا پاؤں، لیکن ایک کوشش تو کر ہی سکتی ہوں!“ اس کا بےریا انداز اتنا پیارا تھا کہ وہ مزید کوئی حجت نہیں کرپایا۔

*****************************************

”سچ کہوں تو مجھے احرار کیلئے بہت برا لگ رہا ہے، وہ بیچارے بہت اچھے ہیں، لیکن یہ سب بہت غلط ہو رہا ہے ان کے ساتھ!“ پتیلی میں چائے کا پانی ڈالتی نہرین نے تاسف سے تجزیہ کیا۔

وہ چائے بنا رہی تھی اور بابک باہر کی طرف کچن کاؤنٹر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا جس نے دونوں کہنیاں کچن کاؤنٹر پر ٹکائی ہوئی تھیں اور نہرین سے ہلکی پھلکی باتوں میں مصروف ہونے کے بہانے اسے دیکھ رہا تھا۔

”مجھے اپنے آپ میں بھی تھوڑا گلٹی فیل ہوتا ہے کہ ایک تو ویسے ہی آپ لوگ میری وجہ سے پریشان تھے اوپر سے احرار کے ساتھ یہ پرابلم ہوگئی ، وہ بیچارے بہت اپ سیٹ لگ رہے ہیں۔“ پانی میں پتی ڈالتے ہوئے اسے درحقیقت شرمندگی سی ہو رہی تھی۔

”ہاں وہ اپنی ڈیوٹی کو لے کر کافی پازیسسیو ہے اسی لئے تھوڑا اداس ہوگیا ہے، لیکن میرا بھائی بہت بہادر ہے، وہ جلد خود کو سنبھال لے گا اور ہم یہ پرابلم سالو کرلیں گے۔“ اس کے انداز میں عزم چھلکا۔

”جس کے پاس آپ جیسا بھائی ہو اس کی زندگی میں پرابلمز زیادہ دیر رہ بھی نہیں سکتی۔“ ابل چکی چائے سفید کپ میں انڈیلتے ہوئے اس نے رشک سے بابک کی جانب دیکھا کیونکہ ان دونوں بھائیوں کی محبت کا اسے بھی بخوبی اندازہ تھا۔

”یہ تو ہے، جب بات میری فیملی کی آتی ہے تو میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتا۔۔۔۔اور میرا بھائی۔۔۔۔۔اس کیلئے تو میں جان دے بھی سکتا ہوں اور جان لے بھی سکتا ہوں۔“ اس کے ٹھہرے ہوئے انداز میں بےپناہ مضبوطی تھی۔

جس سے نہرین بھی متاثر ہوئی جو ابھی ابھی کیبنٹ سے خشک دودھ کا جار نکال کر لائی تھی مگر ٹائٹ بند ہونے کے باعث وہ اپنے نازک ہاتھ سے اس کا ڈھکن نہیں کھول پا رہی تھی۔

”دیجئے میں کھول دیتا ہوں۔“ اس کی مشکل بھانپتے ہوئے بابک نے پیشکش کی تو نہرین نے چپ چاپ جار بڑھا دیا جسے اس نے اپنے مضبوط ہاتھ سے پل بھر میں کھول دیا۔

”میں اسی لئے کہہ رہا تھا کہ آپ کو زحمت ہوگی، میں خود چائے بنا لوں گا۔“ بابک نے جار واپس اسے تھمایا۔

”کوئی بات نہیں، محسن کیلئے اتنی زحمت تو گوار کر ہی سکتے ہیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کپ میں دودھ ہل کیا اور پھر وہ سفید کپ اس کے سامنے رکھ دیا۔

”ویسے ایک بات ہے، اتنا عرصہ نیویارک میں رہنے کے باوجود بھی آپ کی اردو کافی اچھی ہے۔“ کافی عرصے سے نوٹ کی گئی بات آج وہ کہہ گیا۔

”تھینکس! اور اس کا کریڈیٹ ارسلان کو جاتا ہے، اسے اردو شاعری سے بہت لگاؤ تھا، اس نے اچھی خاصی اردو بکس کلیکٹ کر رکھی تھیں جو میں بھی پڑھ لیا کرتی تھی۔“ نظر جھکا کر کاؤنٹر پر انگلی پھیرتے ہوئے وہ پھر اپنے بھائی کو یاد کرکے اداس ہوگئی جو بابک کو بالکل اچھا نہیں لگا۔

”اردو کے علاوہ کوكنگ بھی بہت اچھی ہے آپ کی، جیسے اس دن اتنا ٹیسٹی کیک بنایا تھا اور اب اتنی مزیدار چائے جو شاید میں کبھی نہیں بنا پاتا!“ چائے کا گھونٹ لے کر وہ دھیان بھٹکانے کیلئے گویا ہوا

”ویسے آپ کو سچ میں چائے بنانا آتی بھی ہے؟ آئی مین میں نے کبھی آپ کو اس طرح کی ایکٹیوٹی میں دیکھا نہیں ہے ناں!“ وہ بھی خالی پتیلا سینک کی جانب لے جاتے ہوئے بلآخر پوچھ بیٹھی۔

”پہلے نہیں آتی تھی، لیکن جب میں جیل میں تھا تب ایک دو بار چائے بنائی تھی تو آئیڈیا ہوگیا!“ وہ جان بوجھ کر سچ کہہ گیا۔ جب کہ پتیلا سینک میں رکھتی نہرین یکدم کرنٹ کھا کر اس کی جانب پلٹی۔

”کیا! آپ جیل جا چکے ہیں!“ اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ اس نے دھیرے سے اثبات میں سرہلایا جو اسے اپنے ماضی کی ایک جھلک دکھانا چاہتا تھا۔

”لیکن کیوں؟ آپ تو اتنے۔۔۔۔۔اتنے اچھے انسان ہیں؟“ وہ حیرت زدہ سی کہتی واپس کچن کاؤنٹر کے پاس آئی جس کی دوسری جانب وہ کرسی پر بیٹھا تھا۔

”اچھا انسان اب ہوا ہوں، پہلے بہت برا تھا۔“ وہ چائے کا گھونٹ لے کر پھیکےپن سے ہنسا۔ جب کہ وہ ابھی تک شاک میں تھی۔

”میں نے ایک لڑکی پر ریپ اٹیمپٹ کیا تھا، اسی جرم میں سزا ہوئی تھی۔“ وہ اسی طرح مزید بولا مگر نورالعین کا نام نہیں لیا۔ کیونکہ وہ صرف اپنا ماضی بتانا چاہتا تھا نورالعین کے ماضی کو بےپردہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”آپ مذاق کر رہے ہیں ناں!“ نہرین کو یقین نہیں آرہا تھا۔

”نہیں، میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں، اپنا ہاتھ دکھائیں۔“ بابک نے کہتے ہوئے اپنی ہتھیلی آگے کی۔

وہ اس قدر شاک میں تھی کہ بنا کوئی سوال کیے ٹرانس کی کیفیت میں ہاتھ آگے بڑھا دیا۔

بابک نے اس کا نرم ہاتھ اپنے گھنے بالوں میں دائیں طرف رکھ کر اُسے کچھ محسوس کروانا چاہا۔

”اُبھار فیل ہوا؟ یہ ان ٹانکوں کا نشان ہے جو دو سال پہلے میرے سر پر لگے تھے جب اس لڑکی نے اپنے بچاؤ کیلئے میرے سر پر بھاری گلدان سے حملہ کر دیا تھا اور میں چھے مہینے تک کوما میں رہا۔“ بابک نے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے وضاحت کی مگر وہ کچھ نہ کہہ پائی جو پہلے اس کی باتیں سن کر حیران تھی اور اب اس لمس نے اسے مبہوت کرکے دھڑکنوں میں ہلچل مچا دی تھی۔

”اس حادثے کے بعد جب میرا سارا چین سکون برباد ہوگیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ میں غلط راستے پر ہوں، میں نے اپنے قدم موڑ لئے اور صحیح راستے تک آنے میں احرار نے میری رہنمائی کی، اسی کی بدولت میں اس لڑکی سے معافی مانگ پایا جس کے بعد کہیں جا کر مجھے سکون نصیب ہوا۔“ سب کچھ بتاتے ہوئے وہ گناہگار ماضی پھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔

”اب وہ لڑکی کہاں ہے؟“ اس نے بےساختہ جاننا چاہا۔

”اب وہ اپنے گھر میں اپنی فیملی کے ساتھ بہت خوش ہے کیونکہ دنیا کا سب سے اچھا انسان اس کا شوہر جو ہے۔“ اس کے مسکراتے لہجے میں اپنے بھائی کیلئے محبت تھی۔

”آپ نے یہ سب مجھے کیوں بتایا؟“ اب نہرین بھی واپس ہوش و حواس میں آنے لگی۔

”ایسے ہی۔۔۔۔دل چاہا۔“ مبہم مسکراہٹ کے ساتھ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ گھمبیرتا سے بولا تو پل بھر کیلئے نہرین کا دل زور سے دھڑکا۔

”اینی ویز! اتنی اچھی چائے کیلئے بہت شکریہ!“ اگلے ہی پل بابک نے خالی کپ کاؤنٹر پر رکھا۔

”اب آپ بھی جا کر سوجائیں، صبح ملاقات ہوگی، گڈ نائٹ!“ وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا جو چاہتا تھا نہرین اس کے متعلق ہر زاویے سے سوچے جس کے بعد اس کا رویہ بابک کو کوئی فیصلہ لینے میں مدد دے سکتا تھا۔

اور وہ واقعی سوچ میں پڑ گئی تھی۔

اسی پرسوچ انداز میں اس نے دودھ کا جار اٹھا کر واپس کیبنٹ میں رکھا۔ پھر چینی کا جار رکھنے کیلئے پلٹی مگر وہ کاؤنٹر پر نہیں ملا کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی کیبنیٹ میں تھا۔

تھوڑی دیر حیران ہونے کے بعد اس نے بےساختہ اپنا سر پیٹ لیا جو باتوں باتوں میں چائے میں چینی ڈالنا بھول گئی تھی اور وہ بغیر چینی کے چائے بھی مزے سے پی گیا تھا۔

دوسری جانب بابک اپنے کمرے میں آکر گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹ گیا اور چھت کو تکتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس نے نہرین کو اپنے ماضی کی جھلک تو دکھا دی ہے، اب نہ جانے اس کا نتیجہ کیا آئے گا؟

میرے دل کی مسند پر بس گیا ہے جو

میں مجرم ہوں یہ جان کر وہ ڈر گیا تو؟

جس کے ساتھ چلنے کی تمنا ہے مجھے شدید

وہ مجھے چھوڑ بیچ راہ، لوٹ کے گھر گیا تو

میں نے پرویا ہے جسے آنکھوں میں بڑی چاہ سے

وہ خواب میری آنکھ سے ٹوٹ کر بکھر گیا تو؟

میرے دل کی مسند پر بس گیا ہے جو

میں مجرم ہوں یہ جان کر وہ ڈر گیا تو؟

”کیا؟“ ساری بات سن کر یاور تقریباً چیخ ہی پڑا تھا جس کے باعث آس پاس کی ٹیبلز پر موجود لوگ بھی پل بھر کو متوجہ ہوئے۔

”اس میں اتنا گلا پھاڑنے والی کون سی بات ہے؟“ بابک نے دانت پیس کر دھیمی آواز میں ڈپٹا۔

دونوں اس وقت ایک کافی شاپ پر موجود ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

”تو نے مہرین کو خود اپنے منہ سے اپنے سارے کالے کرتوت بتا دیے اور پوچھ رہا ہے گلا پھاڑنے والی کون سی بات ہے؟ اس بات پر تو سر پھاڑنا بنتا ہے وہ بھی تیرا!“ یاور کی برہم حیرانی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

”اس کا نام مہرین نہیں نِہرین ہے۔“ بابک نے تصحیح کی۔

”کچھ بھی نام ہو یار! لیکن تجھے یہ بےوقوفی نہیں کرنی چاہئے تھی۔“ وہ جھلایا۔

”یہ بےوقوفی نہیں عقل مندی ہے، میں نے ہمیشہ چاہا ہے کہ جو میری بیوی ہوگی اس سے میں اپنے بارے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا، نہرین وہ پہلی لڑکی ہے جس سے مل کر اسے اپنی بیوی بنانے کا دل چاہا ہے اسی لئے میں چاہتا ہوں وہ میرے بارے میں سب جان کر مجھے دل سے قبول کرے۔“ اس نے تحمل سے اپنا موقف بتایا۔

”اور اگر اسے میرا ماضی قبول نہیں ہوا تو میں اس پر کوئی زور زبردستی نہیں کروں گا، کیونکہ احرار کہتا ہے کہ محبت میں زور زبردستی نہیں کی جاتی، بس محبوب کی خوشی ہی ہماری اولین ترجیح ہوتی ہے، پھر چاہے وہ خوشی ہم سے دور جانے میں ہی کیوں نہ ہو!“ کافی کے بلیک مگ کی سطح پر انگلی پھیرتے ہوئے اس کی نظریں بھی مگ پر ہی تھیں اور لہجے میں عجیب دلفریب سا ٹھہراؤ تھا۔

”تو پھر کر لیا اس نے تیرا ماضی قبول؟“ یاور نے طنزیہ انداز میں جاننا چاہا۔

”پتا نہیں! صبح ناشتے پر ملی تھی تو نارمل ہی بی ہیو کیا، ہوسکتا ہے ابھی اس نے اس چیز پر زیادہ توجہ نہیں دی ہو! باقی فائنل پکچر تو تب ہی کلئیر ہوگی جب میں اس سے شادی کا پوچھوں گا!“ اس نے کہتے ہوئے مگ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔

”اور یہ پوچھنے والا نیک کام کب کرو گے؟“ اس کا طنز ہنوز برقرار تھا۔

”جیسے ہی اس کا بھائی مل جائے گا۔“ حسب توقع جواب آیا۔

یاور نے گہری سانس لے کر آس پاس نظر دوڑائی جیسے خود کو کچھ سخت کہنے سے روک رہا ہو!

”دیکھ بابک! میری مان تو اس سے اپنے دل کی بات بول دے، ایسا نہ ہو کہ کہیں دیر ہوجائے!“ یاور نے دونوں بازو ٹیبل پر رکھتے ہوئے رسان سے سمجھانا چاہا۔

”نہیں ہوگی یار، بس جیسے ہی اس کا مسلہ حل ہوگا اس سے بات کرلوں گا۔“ وہ اطمینان سے کافی پینے لگا۔

”احرار نے بھی یہ ہی سوچا تھا کہ نورالعین کا مسلہ حل ہونے پر اس سے اپنے دل کی بات کہے گا، لیکن پھر کیا ہوا تھا اس کے ساتھ یاد ہے ناں؟“ یاور نے یاد دلانا چاہا۔ وہ کوئی جواب دینے کے بجائے کافی پیتا رہا۔

”وہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ عین وقت پر ہم نے دماغ چلا لیا، اور تو نے سب کچھ ٹھیک کردیا، لیکن اگر تیرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوگیا تو تیرے قصے میں بابک کون بنے گا جو نورالعین کو احرار کی زندگی میں واپس لایا تھا؟“ یاور کا انداز سنجیدہ تھا اور بات گہری!

”احرار کا معاملہ الگ تھا۔۔۔اور وہ جو کچھ بھی ہوا تھا میری وجہ سے ہوا تھا اسی لئے میں نے اسے ٹھیک کیا۔۔۔۔اس معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔کیونکہ ہم دونوں کے بیچ کوئی تیسرا نہیں ہے۔“ اس نے بھی مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے سنجیدگی سے جواب دیا تو یاور اسے ضبط کرتی نگاہ سے دیکھ کر رہ گیا۔


*****************************************


احرار کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا اور جب تک وہ واپس لوٹا تو سورج غروب ہوچکا تھا۔

وہ ہال عبور کرکے سیڑھیاں چڑھتا جوں ہی اپنے کمرے میں داخل ہوا تو پل بھر کو ٹھٹک کر رک گیا۔

کمرے کی لائٹس اور فین آف تھا۔ اے سی آن ہونے کی وجہ سے فضا میں خنکی سی تھی اور کمرے میں جگہ جگہ جلتی خوبصورت موم بتیوں نے اس نیم اندھیرے ماحول کو خاصا خوابناک بنایا ہوا تھا۔

ابھی وہ سب سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پیچھے سے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔

”نورالعین!“ وہ سٹپٹا کر پلٹا جس کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں۔

”شہہہ!“ نورالعین نے اسے تنبیہہ کرتے ہوئے اپنی شہادت کی انگلی اس کے لبوں پر رکھی اور پھر سینے پر دباؤ ڈالا جیسے الٹے قدم اٹھانے کا بول رہی ہو۔

اس نے خودسپردگی کا عالم میں ایسا ہی کیا مگر چند قدم اٹھانے کے بعد ہی اس کا پیر بیڈ سے ٹکرایا تو اسے رکنا پڑا۔

وہیں نورالعین نے اسے ہلکا سا دھکا دے کر پیٹھ کے بل بیڈ پر گرایا اور خود بھی اس پر جھک گئی۔

وہ آنکھیں بند ہونے کے باعث اسے دیکھ نہیں سکتا تھا لیکن اس کی سانسوں کی گرمائش اور بالوں سے اٹھنے والے شیمپو کی خوشبو بتا رہی تھی کہ وہ بےحد قریب ہے۔

”کیا کرنا چاہ رہی ہو؟ کچھ بتاؤ گی؟“ اس نے آہستہ سے پوچھا۔

”تمہارا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہی ہوں جو پچھلے کچھ دنوں سے خراب ہے۔“ اس نے بھی سادگی سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”نہیں تو، میرا موڈ تو بالکل ٹھیک ہے۔“ وہ صاف مکر گیا۔ ورنہ وہ اپنے ڈیوٹی والے مسلے کو لے کر کافی رنجیده تھا۔

”ہاں دیکھا میں نے کہ تمہارا موڈ کتنا اچھا ہے، تب ہی تم بھول گئے کہ آج میری سالگرہ ہے، حلانکہ برتھ ڈیٹ پوچھ کر نوٹ تو ایسے کی تھی جیسے پتا نہیں کتنا بڑا سرپرائز پلان کرو گے!“ اس نے نروٹھے پن سے بتایا تو احرار پر صحیح معنوں میں بجلی گر گئی۔

”اوہ! آئی ایم سو سوری، میرے ذہن سے نکل گیا تھا۔“ اس نے آنکھوں پر سے پٹی ہٹاتے ہوئے فوری معذرت کی۔

”چلو ہم ابھی کہیں باہر چلتے ہیں، اچھے سے تمہارا برتھ ڈے سیلیبریٹ کرتے ہیں اور تمھیں جو گفٹ چاہیے وہ لا کر دوں گا پرامس!“ وہ لمحوں میں سب ترتیب دیتے ہوئے اٹھ بیٹھا مگر نورالعین یوں ہی نیم دراز رہی اور ساتھ ہی بازو سے پکڑ کر اسے بھی واپس لٹا لیا۔

”مجھے کہیں نہیں جانا، کوئی برتھ ڈے سیلیبریٹ نہیں کرنا ہے۔“ وہ دوبارہ اس پر جھکی۔

”کیوں؟ ناراض ہو کیونکہ میں برتھ ڈے بھول گیا؟“ اسے فکر ہوئی۔

”ہاں ناراض ہوں، لیکن اس لئے نہیں کیونکہ تم برتھ ڈے بھول گئے، بلکہ اس لئے، کیونکہ تم خوش رہنا بھولتے جا رہے ہو۔“ اس نے لاڈ سے شکوہ کیا۔

”کس نے کہا کہ میں خوش نہیں ہوں؟ میں بہت خوش ہوں کہ جسے میں چاہا تھا وہ ہی میری شریکِ حیات ہے۔“ احرار نے پیار سے اس کے بال کان کے پیچھے کیے۔

”تم خوش نہیں ہو بس ہونے کی کوشش کرتے ہو تا کہ میں اور بابک پریشان نہ ہوں، لیکن درحقیقت تمھیں اس الزام کا دکھ ہے جو تمہارے اوپر لگا ہے، لیکن الزام تو ہوتے ہی جھوٹے ہیں ناں! دنیا کے کہہ دینے سے تم وہ نہیں ہوجاؤ گے جو نہیں ہو، اس لئے چھوڑ دو پریشان ہونا اور سب ہمت سے فیس کرکے دنیا کو غلط ثابت کرکے دکھاؤ۔“

یہ تھی وہ اصل بات جو وہ اسے سمجھا کر دوبارہ اس کی ٹوٹتی ہوئی ہمت باندھنا چاہتی تھی۔کیونکہ وہ جانتی تھی کہ احرار اندر ہی اندر گھلتا رہے گا لیکن کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دے گا کہ وہ ٹوٹنے لگا ہے۔

”یاد ہے تم نے کہا تھا کہ تم نے اینا سے نہیں نورالعین سے محبت کی تھی اور تمھیں نورالعین واپس چاہیے، ایسے ہی مجھے بھی میرا وہ احرار واپس چاہیے جس نے تحمل اور بہادری سے نورالعین پر لگے الزام ہٹائے تھے، پریشان ہوکر نہیں۔“ انگوٹھے سے نرمی کے ساتھ اس کا نچلا لب سہلاتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے بول رہی تھی اور وہ پورے چاؤ سے سن رہا تھا۔


تمہارا ساتھ جو ملا ہے مسلسل مجھ کو

لمحوں میں اتری ہے تھکن زمانوں کی


احرار نے آہستگی سے نورالعین کو دھکیل کر بیڈ پر لٹایا اور اب خود اس پر جھک گیا۔

”اور کوئی حکم یور ہائنس؟“ اس نے شرارت بھری فرمابرداری سے پوچھتے ہوئے اس کی لٹ پیچھے کی جسے اپنی بیوی کے حوصلہ افزائی کرنے والے اس انداز پر بےحد پیار آیا تھا۔

”ہاں، اب مجھے میرا گفٹ چاہیے۔“ اس نے بھی دونوں بازو اس کے گردن کے گرد حمائل کر لئے۔

”کیا چاہیے؟“ وہ حاضر تھا۔

”یہ بھی بتانا پڑے گا؟“ انداز کافی معنی خیز تھا۔

جس کا مفہوم سمجھتے ہوئے وہ اور قریب جھکا اور اس سے قبل سانسوں کی ڈور الجھتی۔۔۔۔۔۔۔دروازے پر ہوئی دستک نے یہ خوبصورت سحر توڑ دیا۔

دونوں کو یہ خلل بےحد ناگوار گزرا۔ احرار نے کمرے کی لائٹس آن کرتے ہوئے آکر دروازہ کھولا تو دوسری جانب بابک کھڑا ملا۔

”ڈرائینگ روم میں آؤ دونوں، تمہارے کیس کے حوالے سے کچھ ضروری بات چیت کرنی ہے۔“ بابک نے سنجیدگی سے ہدایت دی۔

”جی بھیا، آرہے ہیں۔“ احرار نے سر ہلایا تو وہ وہاں سے چلا گیا۔

احرار نے پلٹ کر نورالعین کی جانب دیکھا جو بابک پر برہم ہوتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی۔

وہ اکثر ایسے ہی نادانستہ طور پر ان کے نجی لمحات میں خلل ڈال دیا کرتا تھا جس سے نورالعین کی جان جل جاتی تھی۔


*****************************************


”میں ایک کیس کے سلسلے میں وکیل سے ملنا گیا ہوا تھا وہاں سے واپس جاتے ہوئے کاشف مجھے ملا تھا جہاں اس نے مجھے رشوت کی پیشکش کی جو کہ میں ٹھکرا کر آگیا تھا باقی معاملا آپ لوگوں کے سامنے ہے، اور یہ ہی بات میں نے ان آفیسرز سے بھی کہی تھی مگر انہوں نے یقین نہیں کیا۔“ احرار نے تفصیل بتائی۔

چاروں اس وقت ڈرائینگ روم میں موجود کوئی راہ تلاشنے کی کوشش کر رہے تھے۔

”ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس کاشف کو پکڑتے ہیں اور ٹھونک پیٹ کر کہتے ہیں کہ کورٹ میں آکر سچ بتائے، کیونکہ جس وکیل سے میں نے بات کی ہے اس کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ ایک دفاعی گواہی سے کیس ہمارے حق میں آسکتا ہے۔“ ساری بات سن کر بابک نے سنجیدگی سے تجویز دی۔

”ایسا نہیں ہوسکتا بھیا، کیونکہ جن لوگوں کے کہنے پر اس نے ایسا کیا ہے وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کاشف ہمارے ہاتھ لگے اسی لئے وہ اسے پوری پروٹیکشن دے رہے ہوں گے۔“ اس نے تجویز ترک کرتے ہوئے وجہ بھی بتائی۔

”تو پھر ہم کیا کریں؟ جلد ہی کورٹ میں تمہاری پیشی ہے اور ہمارے پاس اپنے دفاع میں نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ گواہ!“ بابک فکر مند تھا۔

”اگر آپ لوگ اس پیشی تک ثبوت نہیں ڈھونڈ سکے تو؟“ نہرین کو تشویش ہوئی۔

”تو ہمارا وکیل عدالت سے اگلی تاریخ تک کا وقت مانگے گا، کیونکہ وکیل صاحب کہہ رہے تھے کہ احرار کا اب تک کلئیر ریکارڈ اسے تھوڑی مہلت دلوا سکتا ہے۔“ بابک نے بتایا۔

”آپ فکر نہ کریں، اگر مجھے ڈیوٹی سے ہٹا بھی دیا گیا تب بھی آپ کا کیس اپنے طور پر ضرور حل کروں گا۔“ احرار نے نہرین کو تسلی کرائی۔

”ارے نہیں، یہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ؟ مجھے ایسی کوئی فکر نہیں ہے اور نہ ہی آپ لوگوں سے کوئی شکایات ہے، بلکہ میں تو آپ لوگوں کی احسان مند ہوں، ایسی باتیں کرکے مجھے شرمندہ تو مت کریں، کبھی آپ لوگ مجھے اپنے گھر کا فرد کہتے ہیں اور کبھی ایک پل میں ہی پرایا کردیتے ہیں۔“ نہرین کو شرمندگی محسوس ہوئی۔

”اس نائلہ کا کچھ پتا چلا کہ وہ کہاں سے آئی تھی؟ کہاں گئی؟“ نورالعین نے خیال آنے پر پوچھا۔

”نہیں! یاور سمیت چند لوگوں کو لگایا ہوا ہے اس کی تلاش میں اور ساتھ ہی میں خود بھی ڈھونڈ رہا ہوں مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا، مگر اس کا یوں غائب ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ان سب میں اس کا بھی ہاتھ ہے۔“ بابک نے بتاتے ہوئے اندازہ لگایا۔

”اس کا ہاتھ ہے، مگر اس کے ہاتھ بھی یقیناً کسی اور کے اشاروں پر چل رہے ہیں، اور سب سے اہم سوال یہ ہی ہے کہ آخر ان سب کا ماسٹر مائنڈ کون ہے؟ اور یہ سب کیوں کر رہا ہے؟“ احرار پرسوچ انداز میں بولا۔

تب ہی یکدم لائٹ چلی گئی کیونکہ تھوڑی دیر قبل سورج بھی غروب ہوچکا تھا اسی لئے پورا گھر تاریکی میں ڈوب گیا۔

”یہ اچانک لائٹ کیوں چلی گئی؟“ نورالعین کو تشویش ہوئی۔

”ہوسکتا ہے کوئی فالٹ ہوگیا ہو!“ احرار نے خیال ظاہر کیا۔

”بشیر! جنریٹر چلاؤ!“ بابک نے اونچی آواز میں حکم دیا۔

اور ساتھ ہی اپنے موبائل کا ٹارچ آن کیا تا کہ کچھ تو نہ سے ہاں ہو، مگر باہر سے ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا جس سے انھیں تشویش ہوئی۔

”بشیر! میں نے کچھ کہا ہے۔“ بابک نے دوبارہ بلند آواز سے پکارا۔

مگر نتیجہ اب بھی صفر تھا اب وہ ٹھٹک کر اپنی جگہ پر سے اٹھا اور باہر کی جانب بڑھا۔ جبکہ اس کے جاتے ہی احرار نے اپنے موبائل کا ٹارچ آن کرلیا۔

”بشیر! کہاں ہو؟“ وہ ٹارچ کی روشنی میں ہال عبور کرتے ہوئے اسے آواز دیتا باہر کی جانب بڑھ رہا تھا۔

وہ ہال سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ اس کے پیر کسی چیز سے ٹکرائے۔ اس نے ٹارچ نیچے کرکے دیکھا تو بشیر وہاں اوندھا پڑا ہوا تھا۔ اسے شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔

”بشیر!“ وہ پکارتے ہوئے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کندھے سے پکڑ کر اسے سیدھا کیا۔

”بشیر! آنکھیں کھولو۔“ اس نے گال تھپتھپائے اور ساتھ ہی انگلی ناک کے قریب لے جا کر سانسیں محسوس کی جو کہ چل رہی تھیں مطلب وہ بے ہوش تھا۔

ابھی وہ حیرانی و ناسمجھی سے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ڈرائینگ روم سے شیشہ ٹوٹنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی نہرین اور نورالعین کی چیخ بھی سنائی دی۔ وہ وہاں سے اٹھ کر برق رفتاری سے روم کی جانب بھاگا۔

جہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ تینوں ہکابکا کھڑے ہیں جبکہ روم کی وہ کھڑکی جو لان کی جانب کھلتی ہے کچھ اس طرح ٹوٹی ہوئی ہے جیسے کسی نے باہر سے پتھر مارا ہو۔

”کیا ہوا؟“ وہ تشویش سے پوچھتا ہوا ان لوگوں کی جانب آیا۔

”اچانک خودبخود ہی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔“ احرار نے تعجب سے بتایا۔

بابک نے پہلے ہاتھ میں پکڑے موبائل کا ٹارچ کھڑکی کی جانب کیا جس کا شیشہ ٹوٹ چکا تھا پھر نیچے کرکے فرش پر بکھرے کانچ دیکھنے لگا۔ تب ہی اس کی نظر ایک سفید کاغذ کے گولے پر پڑی جسے اس نے جھک کے اٹھایا۔

اسے کھولنے پر پتا چلا کہ وہ پتھر میں لپٹا ایک کاغذ تھا اور اسی سے شیشہ بھی توڑا گیا تھا۔ کاغذ پر کچھ لکھا ہوا بھی تھا۔ بابک نے پتھر نیچے پھینکا اور ٹارچ کی مدد سے وہ تحریر پڑھنے لگا۔

”کیا ہوا بھیا؟ کچھ لکھا ہے کیا؟“ احرار کو تجسس ہوا۔

”ہممم! لکھا ہے۔“

”کیا لکھا ہے؟“

”احرار ملک! کورٹ روم، پرانا کیس، بےگناہ مجرم، سزائے موت، اور وجہ تم، کچھ یاد آیا؟“ اس نے پڑھ کر بتایا۔

جسے سن کر سب ہی حیرانی و ناسمجھی کا شکار ہوگئے۔ جبکہ احرار آگے بڑھ کر بابک کے قریب آیا اور اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے کر اپنے ٹارچ کی روشنی میں دیکھنے لگا۔

”اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟“ نورالعین ناسمجھی سے بولی۔

”شاید کسی نے کوئی اشارہ دیا ہے۔“ بابک نے اندازہ لگایا۔

”مگر کس نے؟ اور احرار نے تو آج تک کسی بے گناہ کو سزا نہیں دلوائی۔“ نورالعین نے الجھ کر کہا۔

”کیا تم کچھ سمجھ پا رہے ہو احرار کہ یہ کون ہوسکتا ہے؟“

”نہیں بھیا، یہ کون ہے اس کا تو ابھی نہیں پتا، مگر یہ ہے کوئی پرانا کھاتا۔“ وہ پرسوچ انداز میں بولا۔

تب ہی یکدم لائٹ آگئی اور پورا گھر پھر سے روشن ہوگیا۔ جس سے کم از کم ان دونوں لڑکیوں کی جان میں جان آئی۔

”شکر! لگتا ہے بشیر نے جنریٹر چلا دیا ہے۔“ نورالعین نے شکر کی سانس لی۔

”اوہ نہیں! بشیر تو باہر ہال میں بے ہوش پڑا ہے۔“ یکدم بابک کو یاد آیا۔

”کیا!“ تینوں یک زبان حیرانی سے بولے اور جلدی سے باہر کی جانب بڑھے۔


********************************


”میں کہاں ہوں؟“ منہ پر پانی کی چھینٹے پڑتے ہی بشیر کسمسایا۔ جس کے پاس بابک اور احرار کھڑے تھے۔

”قبر میں!“ بابک بولا۔

”کیا! میں مر گیا۔۔۔۔اور آپ دونوں منکر نکیر ہیں۔۔۔مگر آپ کی شکلیں تو ہوبہو میرے پرانے مالکوں سے ملتی ہیں۔“ وہ ہڑبڑا کر صوفے پر اٹھ بیٹھا۔

”ہم تمہارے مالک ہی ہیں، اور تم زندہ سلامت گھر میں ہی ہو۔“ بابک نے اس کے سر پر چپت لگائی۔

اس نے خود کو یقین دلانے کیلئے آس پاس کا جائزہ لیا۔

وہ واقعی ہال میں موجود صوفے پر تھا۔ بابک اور احرار اس کے دائیں بائیں کھڑے تھے جبکہ نہرین اور نورالعین بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔

”اوہ شکر ہے۔“ اس نے سکھ کی سانس لی۔

”تم بےہوش کیسے ہوگئے تھے؟“ احرار نے پوچھا۔

”میں اپنے کواٹر میں تھا چھوٹے صاحب، تب ہی اچانک میرے کواٹر کا دروازہ بجا، مجھے لگا آپ لوگوں میں سے کوئی ہوگا میں باہر آیا تو وہاں کوئی نہیں تھا، پھر خیال آیا ہوسکتا ہے دروازہ بجا کر مجھے بلا کے آپ واپس چلے گئے ہوں اسی لئے میں گھر کی طرف پوچھنے آیا کہ کوئی کام ہے کیا؟ مگر میں جیسے ہی ہال میں آیا پیچھے سے میرے سر پر بہت زور سے کچھ لگا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا آنے کے بعد میں وہیں گر گیا۔“ اس نے تفصیل بتائی۔

”لائٹ جانے سے پہلے تو ہم سب ایک ساتھ ہی اسٹڈی روم میں تھے تو پھر تمہارے کواٹر کا دروازہ کس نے بجایا؟“ احرار الجھا۔

”مطلب ہمارے علاوہ کوئی اور بھی یہاں موجود تھا، اور وہ جو کوئی بھی تھا وہ ہمیں یہ پیغام دینے اور ڈرانے ہی آیا تھا۔“ بابک نتیجے پر پہنچا۔

”لیکن ایسے کیسے کوئی گھر میں گھس سکتا ہے؟ دروازے پر تو چوکیدار موجود ہے۔“ نورالعین الجھی۔

”کہیں چوکیدار بھی تو۔۔۔۔۔“ بابک نے چونک کر بس اتنا ہی کہا۔

اور برق رفتاری سے احرار کے ساتھ باہر کی جانب بھاگا۔

جبکہ بشیر کے حواس بھی بحال ہوگئے تھے اسی لئے وہ بھی ان کے پیچھے گیا۔ نہرین اور نورالعین بھی تشویش کے مارے ان لوگوں کے پیچھے آئیں۔

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ چوکیدار بھی اپنے کیبن میں بے ہوش پڑا تھا۔ جسے دیکھ کر سب مزید حیران پریشان ہوگئے۔

”آخر کون کر رہا ہے یہ اور کیوں؟“ احرار الجھ کر بڑبڑایا۔


********************************


پھر ایک نیا دن نکل آیا تھا اور اس بار بھی اس کے دامن میں بس سوال ہی سوال تھے کسی کا بھی جواب اب تک برآمد نہیں ہوا تھا۔

حسب معمول کورٹ کے کاریڈور میں وقتاً فوقتاً کبھی کوئی وکیل یہاں سے وہاں جاتا نظر آتا۔ تو کبھی کوئی پولیس والا اِدھر اُدھر کے چکر لگا رہا تھا۔

احرار اور بابک ایک کونے میں کھڑے اپنے وکیل سے کچھ بات چیت کر رہے تھے جبکہ نہرین اور نورالعین بھی ان سے ذرا فاصلے پر رکھی ایک بینچ پر بیٹھی یہ سارے مناظر دیکھ رہی تھیں۔

نورالعین کیلئے یہ جگہ، یہ ماحول نیا نہیں تھا، کبھی وہ بھی بنا کسی جرم کے یہاں لائی گئی تھی۔ اس کی زندگی کے دو سال سلاخوں کے پیچھے برباد ہوئے تھے اور پھر آخر کار ایک مسیحا نے آکر اسے ان عذابوں سے رہائی دلائی تھی۔

مگر آج وہ ہی مسیحا خود ایک نا کردہ جرم کا مجرم بنا یہاں موجود تھا اور وہ چاہ کر بھی اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی۔

ان خیالات کے آتے ہی نورالعین نے ذرا فاصلے پر کھڑے وکیل سے بات کرتے احرار کی جانب دیکھا۔

ان چند دنوں میں وہ بہت تھکا تھکا سا دِکھنے لگا تھا۔ ابھی بھی اس نے گرے جینز پر بلیک شرٹ پہنی تھی جس کی آستینیں کہنیوں تک چڑھائی ہوئی تھیں۔ چہرے پر موجود ہلکی ہلکی شیو صحیح تراش خراش نہ ملنے کے باعث تھوڑی بے ترتیب ہونے لگی تھی جبکہ ہمیشہ سلیقے سے بنے رہنے والے بال بھی ہوا سے مزید بکھر گئے تھے۔

وہ ایسا نہیں تھا جیسے اس مختصر عرصے میں ہوگیا تھا، جبکہ ابھی تو صرف پہلی پیشی ہی تھی، خدانخواستہ اگر مزید پیشیوں کے بعد بھی معاملہ حل نہیں ہوا اور اسے بے ایمانی کا الزام لگا کر ہمیشہ کیلئے سسپینڈ کردیا گیا تو۔۔۔۔۔۔!

بس اس سے آگے اس سے سوچا بھی نہیں گیا اور وہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی کیونکہ ”اگر“ یقین کو کھا جاتا ہے، اور جب دل میں یقین ہی نہ ہو تو پھر دعا بھی قبول نہیں ہوتی جبکہ اسے یقین تھا کہ یہ یقین ہی انھیں فتح دلائے گا۔

ان خیالوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے اس نے اپنے برابر میں بیٹھی نہرین کی جانب گردن موڑی جو بڑے غور سے آس پاس حرکت کرتے لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ ایسی جگہ پر آنے کا اس کا یہ پہلا تجربہ تھا۔

”کیا ہوا؟ ڈر لگ رہا ہے؟“ نورالعین نے پوچھا۔

”نہیں، بس گھبراہٹ سی ہو رہی ہے، پہلی مرتبہ دیکھ رہی ہوں ناں اس طرح کا ماحول!“ اس نے وضاحت کی۔

”تب ہی ہم کہہ رہے تھے کہ تم گھر میں رہ جاؤ۔“ وہ نارمل انداز میں بولی۔

”گھر میں تو اور زیادہ ڈر لگتا، آپ لوگوں کی موجودگی میں جب لائٹ چلی گئی تھی اور وہ شیشہ ٹوٹا تھا تب ہی میں اتنا ڈر گئی تھی، اکیلے گھر میں تو میں ایک منٹ نہیں رک پاتی۔“ اس کے انداز میں خوف در آیا۔

”چلو تمھیں بھی تو اپنے کیس کے سلسلے میں کورٹ آنا ہی ہے، اچھا ہے آج ماحول دیکھ لو گی تو اپنی باری میں ذہنی طور پر تیار رہو گی۔“ اس نے حوصلہ دیا۔

تب ہی احرار اور بابک ان کی جانب آئے جبکہ وہ وکیل وہاں سے کہیں چلا گیا۔

”اس کیس کے بعد اگلا نمبر ہمارا ہی ہے۔“ بابک نے بتایا۔


********************************


”آج اس آئی او کے کیس کی پہلی سماعت ہے ناں!“ جہاں آرا نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے تائید چاہی۔

”جی میڈیم!“ موبائل کی دوسری جانب سے جواب موصول ہوا۔

”کیا لگتا ہے؟ کیا ہوگا؟“ انھوں نے جاننا چاہا۔

”ہونا کیا ہے جی، رشوت لینے کا الزام ہے اس پر وہ بھی پکے ثبوت کے ساتھ، بچنے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے، اس کی ڈیوٹی اور عزت تو گئی سمجھیں۔“ آدمی نے تسلی کرائی۔


********************************


زندگی میں کئی بار ایسے موڑ آتے ہیں جہاں ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اگر ہم یہاں ہار گئے تو سب ختم ہوجائے گا، ہم جی نہیں پائیں گے۔

لیکن ہارنے کے بعد بھی نہ ہی ہم مرتے ہیں اور نہ ہی کچھ ختم ہوتا ہے، ہم جی رہے ہوتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ جس بات کو ہم نے اتنا بڑا تصور کر رکھا تھا وہ درحقیقت اتنی بڑی بھی نہیں تھی بس ہم اسے فیس کرنے سے ڈرتے تھے، اور جب فیس کرلیتے ہیں تو دل سے ڈر نکل جاتا ہے اور ہم پھر سے کسی نئی ڈگر پر چل پڑتے ہیں کیونکہ چلنے کا نام ہی زندگی ہے اور جب تک زندگی چلتی ہے ہار جیت بھی چلتی رہتی ہے۔

دوپہر کا وقت تھا اسی لئے روڈ پر زیادہ ٹریفک نہیں تھا۔ اور جو چند گاڑیاں روڈ پر موجود تھیں وہ بھی درمیانی رفتار سے اپنی منزل کی جانب گامزن تھی۔

ان ہی میں ایک سیاہ رنگ کی کار بھی تھی۔ جس کے اندر چار لوگوں کی موجودگی کے باوجود بھی بہت گہرا سناٹا ہو رہا تھا۔

بابک ڈرائیو کر رہا تھا، احرار اس کے برابر والی فرنٹ سیٹ پر تھا جبکہ نہرین اور نورالعین پچھلی نشست پر براجمان تھیں۔

چاروں کہنا تو بہت کچھ چاہ رہے تھے مگر لبوں تک آتے آتے لفظ دغا دے رہے تھے اسی لئے گھر پہنچنے تک یہ خاموشی ایسے ہی برقرار رہی۔

گھر پہنچ کر بھی چاروں اسی خاموشی سے باہر نکلے اور سیدھا گھر کے اندر داخل ہوئے۔

جہاں سامنے ہی ہال میں رکھے صوفوں میں سے ایک پر بشیر جبکہ دوسرے پر نوری موجود تھے۔

”کیا ہوا صاحب؟ عدالت نے کیا فیصلہ دیا؟“ ان کو اندر آتا دیکھ کر بشیر نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔

”کوئی فیصلہ نہیں دیا، ہمارے وکیل نے اگلی تاریخ مانگی ہے۔“ بابک نے ہلکے سے بتایا۔

اور سچ بھی یہ ہی تھا کہ کوئی ثبوت یا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کا کیس مزید کمزور پڑ گیا تھا جسے بچانے کیلئے وکیل نے بہت مشکل سے مہلت مانگی تھی اور اسی وجہ سے احرار کافی دلبرداشتہ تھا۔

”نوری! تم کب آئی؟“ نورالعین کو حیرانی ہوئی۔

”تھوڑی دیر پہلے ہی آئی ہوں بھابھی صاحبہ! اور بشیر سے ساری کہانی سن کر میں تو دنگ ہی رہ گئی۔“ اس نے اضافی جواب دیا۔

”ہاں اور اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔“ بشیر بھی بولا۔

”کون سی بات؟“ نورالعین کو تشویش ہوئی۔

”میں بتاتی ہوں بھابھی صاحبہ، جب چوٹ لگنے کے بعد میں چھٹی پر تھی تب میرے گھر ایک منی آرڈر آیا جس کے ساتھ ایک خط بھی تھا آپ لوگوں کی طرف سے، اس میں لکھا تھا کہ میری اب تک کی جتنی تنخواہ بنتی ہے اس سے دو گناہ زیادہ پیسے ہم نے تمھیں اس منی آرڈر کے ذریعے بھیج دیے ہیں، ہم نے اب نئی ملازمہ رکھ لی ہے اسی لئے ٹھیک ہونے کے بعد تم کہیں اور کام ڈھونڈ لینا تمھیں یہاں واپس آنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ نوری نے تفصیل بتائی۔ جسے سن کر سب حیران رہ گئے۔

”کیا! لیکن ہم نے تو تمھیں کسی منی آرڈر کے ساتھ کوئی خط نہیں لکھا۔“ بابک سخت حیران تھا۔

”وہی تو صاحب! پھر بشیر نے بتایا کہ میری بعد یہاں ایک نئی ملازمہ نائلہ آئی تھی اور وہ بھی بتایا کہ کیا کیا کرکے گئی ہے، اور اگر وہ خط آپ لوگوں نے نہیں بھیجا تھا تو پھر کس نے بھیجا ہوگا اور کیوں؟“ وہ خود بھی حیران تھی۔

”اسی نے بھیجا ہوگا جو ان سب کا ماسٹر مائنڈ ہے، تا کہ نوری کی غیر موجودگی میں نائلہ آکر اپنا کام کرسکے۔“ احرار سنجیدگی سے نتیجے پر پہنچا۔

********************************

احرار کی پیشی کی وجہ سے بابک بھی آفس نہیں گیا تھا اور کورٹ سے واپس آتے ہوئے دوپہر ہوگئی تھی جبکہ واپسی پر نوری کے انکشافات نے بھی ان سب کو مزید چونکا دیا تھا۔

ان ہی سب سوچوں میں گم بابک کب سے صوفے کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔ اسے اس بات کا بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ اندھیرا پھیلنے لگا ہے تو وہ اٹھ کر اسٹڈی روم کی لائٹس ہی آن کرلے۔

”بابک! مغرب کا وقت ہونے والا ہے کم از کم لائٹ ہی آن کردیتے۔“ نورالعین نے روم کی لائٹ آن کرتے ہوئے ٹوکا۔

اس چونک کر آنکھیں کھولیں اور سیدھا ہوگیا۔

”پتا ہی نہیں چلا کہ یہ وقت ہوگیا ہے۔“ وہ کلسمندی سے بولا جس کا انداز بےحد تھکن زدہ لگ رہا تھا۔

”تم سے ایک بات کرنی ہے۔“ نورالعین نے اس کی جانب آتے ہوئے تمہید باندھی۔

”ہاں بولو!“ وہ متوجہ تھا۔

”ویسے تو ہم سب ہی اس وقت فکر مند ہیں، مگر اپنی ڈیوٹی کو لے کر احرار کی حساسیت سے ہم دونوں ہی بخوبی واقف ہیں، جب سے یہ مسلہ شروع ہوا ہے احرار کو ایک چپ سی لگ گئی ہے، جبکہ ابھی تو اتنے امتحان باقی ہیں، وہ تمہاری بہت عزت کرتے ہیں، تمھیں باپ کی جگہ مانتے ہیں اسی لئے تمہاری ہر بات مانتے ہیں، پلیز احرار کو سمجھاؤ، احرار کا دھیان بٹانے کی کوشش کرو۔“ اس نے شاید التجا کی۔

”تمہارے کہنے سے بھی پہلے جانتا ہوں میں یہ سب، اور کوشش بھی کرتا رہتا ہوں کہ اس کا دھیان یہاں سے ہٹ کر ہمارے ذاتی بزنس میں الجھ جائے، مگر وہ بھی ڈھیٹ ہے، تم سے بھی زیادہ اسے اپنی ڈیوٹی سے عشق ہے، میں جانتا ہوں کہ جتنا کمزور ہمارا کیس ہے ناں یہ چند پیشیوں کی بھی مار نہیں ہے، اگلی پیشی آخری بھی ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ ہمارے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں ہے، تم شاید یقین نہ کرو مگر میں ثبوت یا گواہ کی تلاش میں کتنے لوگوں کو اٹھا کر ٹھونک پیٹ چکا ہوں کہ شاید کچھ ہاتھ لگ جائے، مگر مخالف نے اتنی فل پروف چال چلی ہے کہ کچھ چھوڑا ہی نہیں، میں یہ بات احرار کے سامنے کہنا نہیں چاہتا تھا مگر سچ یہ ہی ہے کہ احرار کو شاید ہمیشہ کیلئے سسپینڈ کردیا جائے گا اور پتا نہیں تب ہم اسے کیسے سنبھالیں گے؟“ بابک نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے اپنے دل کی بات بتائی جو وہ اب تک چھپائے ہوئے تھا۔

”اچھا! آپ میری بیوی کو ہی میرے خلاف بھڑکا رہے ہیں کہ مجھے اس سے زیادہ اپنی ڈیوٹی عزیز ہے۔“ تب ہی احرار مصنوعی شکوہ کرتا ہوا روم میں داخل ہوا۔ دونوں نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

”میں مانتا ہوں کہ اپنی ڈیوٹی کو لے کر میں حد سے زیادہ ہی حساس ہوں، مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجھے آپ دونوں کی پرواہ نہیں ہے، یہ آپ دونوں کی ہی فکر ہے جس کے سہارے میں اب تک کھڑا ہوں۔“ وہ نورالعین کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے ساتھ لے کر بابک کی جانب بڑھا اور ساتھ ہی دوسرا بازو بابک کے کندھے کے گرد حمائل کیا۔

”کورٹ کے مجھے بےایمان کہنے سے، اور دنیا کے مجھے مجرم مان لینے سے میں غلط نہیں ہوجاؤں گا اور نہ ہی مجھے کوئی فرق پڑے گا، کیونکہ میری دنیا تو بس آپ دونوں ہیں، اور جب آپ دونوں کو مجھ پر یقین ہے تو پھر مجھے بھی کسی کی پرواہ نہیں۔“ اس نے دونوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے اطمینان سے کہا جو اس کا سب سے قیمتی اثاثہ تھے۔

جب کہ اس کا یہ مثبت رویہ دیکھ کر ان دونوں کو بھی بےحد سکون ملا۔

یہ بات سچ تھی کہ ان تینوں کے پاس رشتے بہت کم تھے، مگر اس سے بھی بڑا اور خوبصورت سچ یہ تھا کہ ان تینوں نے ہی اپنی اپنی مخلص محبت سے دوسرے کی زندگی کا خلا پُر کرکے اسے مکمل بنایا تھا۔

ملال ہے مگر اتنا ملال تھوڑی ہے

یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے

مزا تو تب ہے کہ ہار کے بھی ہنستے رہو

ہمیشہ جیت ہی جانا کمال تھوڑی ہے

لگانی پڑتی ہے ڈبکی ابھرنے سے پہلے

غروب ہونے کا مطلب زوال تھوڑی ہے

پروین شاکر

”واہ! مزہ آگیا، قسم سے پورے دس سال بعد اپنے علاوہ کسی اور کے ہاتھ کا کھانا نصیب ہوا ہے۔“ اقراء نے پہلا لقمہ لیتے ہی تعریف کی۔

”ہاں! اور مجھے بھی پورے دس سال بعد اچھا پکا ہوا کھانا کھانے کو ملا ہے۔“ وقاص بھی اپنی بیوی کو تنگ کرنے کیلئے شرارت سے بولا۔

”تم دونوں کو تو مل بھی گیا، مگر میں تو کب سے یہ ہی کھا رہا ہوں اور آگے بھی یہ ہی کھانا ہے۔“ یاور نے مصنوعی مسکینیت دکھائی۔

”اچھا! یعنی میں اتنا برا کھانا بناتی ہوں!“ ہانیہ نے تیکھی نظروں سے یاور کو گھورا۔

”اونہہ یاور! کیوں تنگ کر رہے ہو بچی کو!“ ثمینہ نے بہو کی حمایت میں بیٹے کو ٹوکا۔ پانچوں اس وقت لنچ کی نیت سے ڈائینگ ٹیبل پر اکٹھا تھے۔

”ارے ہانیہ یہ مرد ایسے ہی ہوتے ہیں، جب اچھی بیوی مل جاتی ہے تو اسی طرح بےقدری کرتے ہیں۔“ اقراء نے استہزایہ کہا۔

”کب ملی اچھی بیوی؟“ وقاص انجان بنا۔

”چھوڑو یہ باتیں، یہ بتاؤ کہ اتنے وقت بعد کیوں آئے تم پاکستان؟ تم تو اسکول کے بعد نیو یارک پڑھائی کرنے گئے تھے مگر وہیں کے ہوگئے۔“ یاور نے موضوع بدلا۔

”نہیں یار، دس سال پہلے آیا تھا ناں شادی کرنے۔“ اس نے یاد دلایا۔

”ہاں وہ بھی صرف ایک ماہ کیلئے، شادی کرکے پھر نیو یارک چلے گئے۔“ اس نے تصحیح کی۔

”بس یار پڑھائی کے دوران ہی کافی اچھا سیٹ اپ بنا لیا تھا جسے چھوڑنا کم از کم میری نظر میں تو بیوقوفی ہوتی، اقراء کے تو والدین کا کافی پہلے ہی انتقال ہوگیا تھا بس بھائی بھابھی تھے جن سے شادی کے بعد اتنا رابطہ نہیں رہا، اور میرے امی ابو کے انتقال کے بعد پھر میرا بھی پاکستان آنا بے معنی سا ہوگیا تھا، بس اسی لئے وہیں کے ہوگئے۔“ اس نے تفصیلی وضاحت کی۔

”یہ تو ہے، والدین کے بعد سب بہت خالی خالی سا لگتا ہے۔“ ثمینہ نے بھی تاسف سے تائید کی۔

”اور پتا ہے ہمارا یہاں آنے کا پلان کیسا بنا؟ میں ایک دن اسٹور روم صاف کر رہی تھی تو وہاں مجھے ایک پرانا ایلبم ملا، جس میں وقاص کے یہاں پاکستان کے اسکول اور وہاں نیو یارک کی یونیورسیٹی کے دوستوں کی تصویریں تھیں، ان ہی میں آپ کی تصویر بھی تھی یاور بھائی، میں نے وقاص کو وہ ایلبم دیکھایا، پھر آپ کا ذکر نکلا اور یوں ہمیں پاکستان آنے کا بہانہ مل گیا، اور میں تو وہ ایلبم بھی ساتھ لے کر آئی ہوں۔“ اقراء نے پرجوشی سے تفصیل بتائی۔

”اچھا! تو ہمیں تم نے کباڑ کے ساتھ اسٹور میں پھینکا ہوا تھا وقاص!“ یاور نے مصنوعی شکوہ کیا۔ وہ بس کھسیانی سے ہنسی ہنس کر رہ گیا۔


********************************


بابک تو معمول کے مطابق آفس چلا گیا تھا جبکہ احرار کسی ضروری کام کا کہہ کر ناشتے کے بعد سے کہیں گیا ہوا تھا۔

نورالعین نے احرار کے میلے کپڑے اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھے اور پھر الماری کی جانب رخ کیا جہاں احرار نے بےترتیبی مچا کر رکھی تھی۔

پہلے اس نے سارے کپڑے نکال کر بیڈ پر ڈالے جن کی استری خراب ہوگئی تھی۔ انہیں دوبارہ پریس کرنے کیلئے ایک طرف کیا اور جو ٹھیک تھے انہیں سلیقے سے ہینگر کرنے لگی۔

ابھی وہ یہ سب ٹھیک کر رہی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلا۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو احرار اندر داخل ہوا تھا۔

”کہاں گئے تھے؟“ وہ اس کی جانب گھومی۔

”ثبوت ڈھونڈنے۔“ وہ گرنے کے اندر سے صوفے پر بیٹھا۔

”تو پھر! مل گیا ثبوت؟“

”نہیں!“

”کوئی بات نہیں، مل جائے گا۔“ نورالعین نے نرمی سے تسلی دی۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا بس کسی غیرمرئی نقطے کو تکتا رہا۔

”اب تم فارغ بیٹھے ہو تو میری تھوڑی مدد ہی کردو۔“ نورالعین نے اس کا دھیان بٹانا چاہا۔

”کس چیز میں مدد چاہیے؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

”تمہارے کبرڈ کی صفائی میں، ایک تو سارے کپڑے بےترتیبی سے ٹھونسے ہوئے ہیں اور پتا نہیں کیا کیا کباڑ اکٹھا کر رکھا ہے۔“ اس نے کبرڈ کی جانب اشارہ کیا۔

”چھوڑو تم بھی کیا بکھیڑا لے کر بیٹھی ہو۔“ وہ بیزاریت سے بولا۔

”تمہارا ہی پھیلایا ہوا بکھیڑا ہے، اب اٹھو اور یہاں آؤ یہ ساری استری شدہ شرٹس ہینگر کرو۔“ وہ بھی بضد تھی۔

ناچاہتے ہوئے بھی اسے صوفے سے اٹھ کر بیڈ پر آنا پڑا۔ پھر وہ شرٹس ہینگر کرنے لگا جبکہ نورالعین کاغذ، نیوز پیپرز، اور فائلوں کی صورت موجود ایکسٹرا سامان اس کے کبرڈ سے نکالنے لگی۔

”یہ بھلا کوئی جگہ ہے یہ سامان رکھنے کی۔“ اس نے سب بیڈ پر رکھتے ہوئے لتاڑا۔

”جب جہاں جو چیز میرے ہاتھ میں آتی ہے میں اسے وہیں ٹھونس دیتا ہوں۔“ اس نے شرٹ ہینگر کرتے ہوئے لاپرواہی سے اعتراف کیا۔

”ہاں اور بعد میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں کہ فلاں چیز کہاں ہے اور فلاں چیز کہاں؟“ اس نے بات مکمل کی اور ساتھ کچھ نیوز پیپرز کی کٹینگ بیڈ پر پھینکی جن میں سے ایک نیچے فرش پر گر گئی۔

”احرار! ذرا یہ اٹھاؤ تو۔“ اس نے فرش کی جانب اشارہ کیا۔

اس نے جھک کر وہ پیپر کی کٹینگ اٹھائی اور اسے پکڑا دی۔ جسے وہ سرسری طور پر دیکھنے لگی۔

”یہ تم نے نیوز پیپرز کی کٹینگز کیوں اکٹھا کر رکھی ہیں؟“ اسے تعجب ہوا۔

”آپ شاید بھول رہی ہیں کہ میں ایک آئی او تھا، اور جب کبھی کوئی کیس حل کرنے پر میرے نام کے ساتھ وہ خبر اخبار میں چھپتی تھی تو میں اچھی نشانی کی طور پر اس کی کٹینگ رکھ لیتا تھا۔“ وہ پھیکےپن سے مسکرایا۔

”تم آئی او تھے نہیں، بلکہ ہو اور رہو گے، اور ایک دن پھر اخبار میں خبر چھپے گی کہ کورٹ نے آئی او احرار ملک پر لگے سارے الزامات ہٹا کر انھیں باعزت نا صرف بری کردیا ہے بلکہ ان کی ڈیوٹی بھی بحال کردی ہے۔“ اس نے پریقینی سے تصحیح کی۔

”دل کو بہلانے کیلئے غالب خیال اچھا ہے۔“ وہ استہزایہ مسکرایا۔

”یہ غالب کون ہے؟“ وہ انجان بنی۔

”میرے چاچا کا لڑکا۔“ اس نے بھی نورالعین کا جواب لوٹایا۔

”لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے ڈیڈ اکلوتے تھے۔“ اس نے بھی وہی بات دہرائی۔

”اب اس سے آگے تو تم ناراض ہوگئی تھی، میں بھی ایسے ہی روٹھ جاؤں؟ تم مناؤ گی؟“ اس نے مسکراتے ہوئے معنی خیزی سے پوچھا۔

”خوش فہمی ہے آپ کی۔“ وہ بےنیازی سے کہہ کر ہاتھ میں پکڑی کٹینگ بیڈ پر رکھنے لگی لیکن پھر یکدم ٹھٹک گئی۔ اور اسے دوبارہ قریب کرکے بغور دیکھنے لگی جسے احرار نے بھی بھانپ لیا۔

”کیا ہوا؟“

”ایسا لگ رہا ہے میں نے انھیں کہیں دیکھا ہے۔“ وہ کٹینگ دیکھتے ہوئے پرسوچ انداز میں بولی۔

”کیا لکھا ہے پڑھ کر بتاؤ۔“ احرار نے ہنوز اپنے کام میں مصروف رہتے ہوئے کہا۔

”لکھا ہے کہ آئی او احرار ملک کی ایک اور کامیابی، انہوں نے نعمان آفندی کا اصل چہرہ بےنقاب کر دیا جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ عثمان راؤ قتل کیس میں پھنسائے جانے والے ابرار سکندر درحقیقت بے قصور تھے، اصل قصوروار نعمان آفندی اور ان کے چند ساتھی تھے، مزید تفصیلات صفحہ نمبر دو پر ملاحظہ فرمائیں۔“ اس نے پڑھ کر بتایا۔

وہ بھی بیڈ سے اٹھ کر، اس کی جانب آیا اور اس کے ہمراہ کھڑا ہوکے وہ کاغذ دیکھنے لگا۔ جس پر ایک ادھیڑ عمر شخص کی تصویر لگی ہوئی تھی اور ساتھ ہی یہ ہیڈ لائن لکھی تھی۔

”سمجھ میں نہیں آرہا کہ انھیں کہاں دیکھا ہے؟ ان کا چہرہ کچھ دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے۔“ وہ ذہن پر زور دینے لگی۔

”کسی نیوز پیپر میں ہی تصویر دیکھی ہوگی، خیر تم بلاوجہ الجھو مت، یہ جو بھی تھا اب اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔“ زہر خندہ لہجے میں بتاتے ہوئے اس کے انداز میں اس شخص کیلئے عجیب سی نفرت در آئی تھی۔

”تمھیں کچھ زیادہ ہی نفرت نہیں ہو رہی ہے ان سے، خیریت؟“ نورالعین نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ کیونکہ احرار کے دل میں کسی کیلئے اتنی نفرت ہونا کافی تعجب خیز بات تھی۔

”مجرم ہوتا ہی قابلِ نفرت ہے، چھوڑو دفع کرو اسے۔“ احرار نے اس کے ہاتھ سے وہ ٹکڑا لے کر اسے بری طرح مٹھی میں دبوچا اور باہر کی جانب بڑھ گیا۔

جبکہ وہ پہلے تو چند لمحے اسی انداز میں ناسمجھی کے عالم میں کھڑی رہی پھر کندھے اچکا کر واپس اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگئی۔


********************************


رات کے وقت سمندر کنارے نہایت پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی جس میں لہروں کا شور بےحد دلفریب لگ رہا تھا۔

سمندر کی لہروں سے ذرا فاصلے پر ایک

Cabana beach dining

کا خوبصورت سیٹ اپ لگا ہوا تھا جہاں بابک اور نہرین موجود تھے۔

”آپ نے اب تک بتایا نہیں کہ آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟“ خوبصورت سی ریڈ ڈریس زیب تن کیے نہرین نے ناسمجھی سے جاننا چاہا۔

”مجھے آپ سے محبت ہوگئی ہے، اور اس محبت کو میں نکاح کی صورت دے کر ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی؟“ بلیک ٹو پیس میں تیار بابک نے جذبات سے چور لہجے میں پوچھتے ہوئے ساتھ ہی کوٹ کی جیب سے ایک نازک سی ڈائمنڈ رنگ نکال کر اسے پیش کی۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ مبہوت سی کبھی اسے دیکھ رہی تھی تو کبھی اس کے ہاتھ میں موجود ڈائمنڈ رنگ کو!

اور وہ بھی آنکھوں میں ڈھیر سارے امید کے جگنو لئے سوالیہ نظریں اسی پر جمائے ہوئے تھا۔

نہرین نے جواب دینے کیلئے لب کھولے ہی تھے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”بابک!“ تب ہی کسی نے اس کا نام پکارا۔

وہ یکدم چونکا اور انگوٹھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے کہیں گر گئی۔

”اوہ نہیں! انگوٹھی گر گئی۔“ بابک نے یکدم ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں۔

”کیا ہوگیا؟ کس کی انگوٹھی گر گئی؟“ یاور نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

بابک نے حواس بحال ہونے پر آس پاس کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ وہ اپنے آفس روم کی کرسی پر بیٹھا بیٹھا سو گیا تھا تب خواب میں اسے پھر وہ ہی خواہش نظر آئی جو خواب میں بھی پوری نہیں ہوکر دے رہی تھی اور ابھی یاور کی آواز پر وہ یکدم بیدار ہوا تھا۔

”کیا ہوگیا ایسے ہکابکا سے کیوں ہو؟ اور کس کی انگوٹھی گرگئی؟“ یاور نے چٹکی بجا کر اسے متوجہ کیا۔

”کچھ نہیں یار خواب تھا، تو بتا یہاں کیسے؟“ وہ اب نارمل ہوچکا تھا۔

”بس ایسے ہی لنچ ٹائم میں فری تھا اور اس طرف کسی کام سے بھی آنا تھا تو سوچا تم سے بھی مل لوں اور بتا دوں کہ میں کچھ دنوں کیلئے فیملی کے ساتھ مری جا رہا ہوں۔“ اس نے سرسری طور پر آمد کی وجہ بتائی۔

”یہ اچانک بیٹھے بٹھائے تمھیں مری جانے کی کیوں سوجھی؟“ اس نے پوچھتے ہوئے ایک فائل کھولی۔

”تجھے یاد ہے اسکول میں میرا ایک دوست ہوا کرتا تھا وقاص!“ اس نے یاد دلانا چاہا۔

”اسکول میں تیرے ایک ہزار دوست تھے، میں نے سب کو یاد رکھنے کا ٹھیکہ نہیں لیا ہوا، سیدھا پائنٹ پر آ۔“ اس نے پین سے فائل پر کچھ نشان لگاتے ہوئے بےنیازی سے جواب دیا۔

”ہاں تو میرا وہ دوست اپنی وائف اور بیٹی کے ساتھ نیو یارک سے آیا ہوا ہے، تو بس اسی کے ساتھ آؤٹنگ کا پلان بنا ہے، پہلے سوچا تم لوگوں کو بھی آفر کروں پھر خیال آیا کہ احرار اپنے کیس کی وجہ سے نہیں جائے گا اور تو احرار کے بنا نہیں جائے گا۔“ اس نے ٹیبل پر پڑا پیپر ویٹ گھماتے ہوئے وضاحت کی۔

”تو پاگل واگل تو نہیں ہے؟ نیو یارک سے آئے ہوئے بندے کو مری لے جا رہا ہے؟“ اسے شدید حیرت ہوئی تھی۔

”اس میں بھلا پاگل ہونے والی کیا بات ہے؟ ضروری ہے کہ نیو یارک سے آیا ہوا بندا مری نہیں جا سکتا؟“ وہ بابک کا مطلب سمجھا ہی نہیں۔

”اُف!“ بابک کو اسے وضاحت کرنے سے زیادہ اپنا سر پیٹنا بہتر لگا۔


********************************


”پکی خبر ہے؟ اگر یہ جھوٹ ہوا تو؟“ احرار نے یقین دہانی چاہی اور دوسری جانب کا جواب سننے لگا۔

”ٹھیک ہے، میں آدھے گھنٹے میں پہنچ جاؤں گا۔“ اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی۔

اور پھر لائن ڈسکنیکٹ کرکے کمرے سے باہر نکال گیا۔ جبکہ بیڈ پر بیٹھی نورالعین بس گہرا سانس لے کر رہ گئی۔

اگلی تاریخ تک ثبوت اکٹھا کرنے کیلئے بابک اور احرار نے اپنا سارا زور لگا دیا تھا پر نتیجہ اب بھی صفر تھا لیکن ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بھی تو نہیں بیٹھا جاسکتا تھا!

اسی لئے احرار سے جب، جہاں، جیسے ممکن تھا وہ اپنے طور پر کوشش کر رہا تھا۔ اور ابھی بھی وہ ایسی ہی کوئی کوشش کرنے گیا تھا۔


********************************


”نہیں! یہ بھی نہیں، کچھ اور دکھائیں۔“ بابک نے اس انگوٹھی کو بھی رد کرتے ہوئے واپس شوکیس پر رکھا جہاں پہلے سے ہی کافی انگوٹھیاں اپنے رد ہونے کا افسوس منا رہی تھیں۔

”سر ایکچلی آپ کو انگوٹھی کس کیلئے چاہیے؟“ دکاندار نے ڈرتے ہوئے پوچھا۔

بابک نے ایک غصے اور طنز سے بھرپور نظر اس پر ڈالی اور ساتھ ہی گہرا سانس لے کر خود کو غصہ میں آنے سے باز رکھنے کی کوشش کی۔

”یہ لیڈیز رنگ میں اپنے لئے تو لینے سے رہا۔“ وہ استہزایہ بولا۔

”نہیں سر میرا مطلب کہ وائف کیلئے؟ منگیتر کیلئے یا گرل فرینڈ وغیرہ؟“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

”تینوں کیلئے چاہیے، اب آپ پلیز کچھ اور دکھائیں گے یا میں جاؤں؟“ اس نے عجیب سا جواب دیتے ہوئے دھمکایا۔

”جی سر ابھی دکھاتا ہوں۔“ وہ جلدی سے کہتا ہوا شوکیس میں نیچے کی جانب جھکا اور کچھ دوسرے ڈیزائن ڈھونڈنے لگا۔

جبکہ اسے بابک کے جواب کہ ”تینوں کیلئے چاہیے“ پر اس کی دماغی حالت پے شبہ تو ہوا تھا مگر وہ اپنے اس اکلوتے کسٹمر کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

بابک نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آج وہ نہرین سے اپنے دل کی بات بول دے گا، کیونکہ اس کے بھائی کے ملنے کے کوئی آثار نہیں نظر آرہے تھے اور اس کی بےتابی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی جسے ایک بار ہی وہ آر یا پار کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔

”یہ دیکھیں سر، ان میں سے تو ضرور کوئی پسند آئے گی آپ کو!“ اس نے چار پانچ سرخ رنگ کے باکس شوکیس پر رکھے۔

بابک بغور انہیں دیکھنے لگا۔ تب ہی اس کی نظر سرخ رنگ کے اس مخملی باکس پر رکی جس کے وسط میں ایک ڈائمنڈ کی نازک سی سلور رنگ جگمگا رہی تھی۔ اس نے بےاختیار وہ باکس اٹھایا لیا اور بغور اسے دیکھنے لگا۔

یہ ویسی ہی تھی جیسی اکثر اس نے خواب میں دیکھی تھی۔

”ڈن!“ اس کے منہ سے یہ سنتے ہی دکاندار نے شکر کی سانس لی۔

بابک انگوٹھی لینے کے بعد دل ہی دل میں آج نہرین سے بات کرنے لفظ ترتیب دیتا جیولری شاپ سے نکل کر اپنی کار کی جانب آیا، اور دروازہ کھول کر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ اس کا فون بج اٹھا۔

”ہاں احرار بولو؟“ اس نے موبائل کان سے لگایا۔

”بھیا آپ جہاں کہیں بھی ہیں جلدی گھر پہنچیں۔“ وہ بہت عجلت میں تھا۔

”سب خیر تو ہے ناں؟“ بابک کو تشویش ہوئی۔

”آپ بس گھر پہنچیں میں بھی آرہا ہوں پھر سب بتاتا ہوں۔“ وہ بضد تھا۔

”اچھا ٹھیک ہے۔“ اس نے کہا اور جلدی سے لائن ڈسکنیکٹ کرکے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔


********************************


”السلام علیکم!“ یاور نے لاؤنج میں داخل ہوتے ہوئے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! بالکل صحیح وقت پر آئے ہو تم، یہ دیکھو وقاص بھائی اپنے اسکول اور نیو یارک یونیورسٹی کی تصویریں دیکھا رہے ہیں، اور اسکول کی تصویروں میں تم بھی ہو۔“ ہانیہ نے پرجوشی سے بتایا۔

وہ بھی ان لوگوں کی جانب آگیا جو صوفوں پر براجمان تھے اور وقاص کے برابر میں بیٹھ گیا۔

وقاص مزید تصاویر دکھاتا رہا اور اپنے نیو یارک کے دوستوں سے تعارف کراتا رہا۔ ایک تصویر پر آکے یاور یکدم ٹھٹکا۔

”یہ کون ہے وقاص؟“ اس نے حیرت سے ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا۔

”یہ میرا یونیورسٹی فیلو تھا، مگر یونیورسٹی کے لاسٹ ایئر میں جب ایک لڑکی نے اس کا پرپوزل ریجیکٹ کیا تو اس نے ہرٹ ہوکر سیوسائیڈ کرلی تھی۔“ اس نے تاسف سے بتایا۔

”کیا؟ یہ مر چکا ہے؟“ اسے ایک اور حیرت کا جھٹکا لگا۔

”ہاں! پانچ سال ہوگئے ہیں اس کی ڈیتھ کو، مگر تم کیوں اتنے حیران ہو رہے ہو؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”کچھ نہیں۔“ وہ کہتا ہوا عجلت میں وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔ جبکہ یہ لوگ ناسمجھی سے اسے دیکھ کر رہ گئے۔


********************************


ڈیش بورڈ پر رکھا احرار کا فون مسلسل بج رہا تھا جس کی سکرین پر ”یاور کالنگ“ لکھا ہوا آرہا تھا مگر جتنی تیز رفتار سے وہ ڈرائیو کر رہا تھا اس وقت کال ریسو کرنا خطرناک ہوسکتا تھا۔

اسے بس کسی بھی حال میں جلد از جلد گھر پہنچنا تھا کیونکہ اگر پچھلی نشست پر موجود شخص کو ہوش آجاتا اور وہ مزاحمت شروع کردیتا تو معاملہ بگڑ سکتا تھا۔

دوسری جانب بابک بھی برق رفتاری سے گاڑی بھگاتا ہوا گھر کی جانب گامزن تھا لیکن اس کا بھی ڈش بورڈ پر موجود موبائل بجنا شروع ہوگیا۔ جسے شروعات میں وہ نظر انداز کرتا رہا لیکن پھر آخر کار تنگ آکے اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے ہی کال ریسو کرلی۔

”یاور اس وقت میرے پاس تیری کوئی بکواس سننے کا وقت نہیں ہے۔“ اس نے کال ریسیو کرتے ہی ڈپٹا۔

”بکواس نہیں بہت ضروری بات بتانی ہے۔“ وہ بےحد سنجیدہ تھا۔

”جلدی بتاؤ۔“

”وہ لڑکا تو پانچ سال پہلے نیو یارک میں مر چکا ہے۔“

”کون سا لڑکا؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”وہی جس کا اسکیچ تم نے مجھے دیا تھا، نہرین کا بھائی ارسلان!“ اس نے وضاحت کی اور بابک کے لئے یہ انکشاف اتنا حیران کن تھا کہ بےاختیار ہی اس نے بریک پر پیر مارا جس کے باعث جھٹکے سے گاڑی رک گئی۔

”کیا!“ وہ حیرت کے مارے بس اتنا ہی کہہ پایا۔


********************************


نورالعین احرار کے انتظار میں بےچین سی یہاں وہاں ٹہل رہی تھی۔

تب ہی باہر کار رکنے کی آواز آئی۔ وہ بنا ایک لمحہ بھی برباد کیے نیچے آئی۔ اتفاق سے احرار اور بابک کی کار ایک ساتھ ہی آکر رکی تھی۔

”بھیا! جلدی اسے اندر لے کر چلیں۔“ احرار نے باہر آکر جلدی سے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور بابک کے ساتھ مل کر بےہوش ہوئے کاشف کو اندر گھر میں لا کر سیدھا اسٹڈی روم میں لے گیا۔

وہاں اسے ایک کرسی پر بٹھا کر احرار اس کے ہاتھ پیچھے کرکے ایک کپڑے سے باندھنے لگا۔

”احرار! تم کہاں گئے تھے اور یہ کون ہے؟“ نورالعین بھی تعجب سے کہتی ہوئی وہاں آئی۔

”یہ وہ ہی کاشف ہے، سارے فساد کی جڑ، تم جلدی سے جا کر پانی لے کے آؤ پھر میں سب بتاتا ہوں۔“ احرار نے عجلت میں حکم دیا تو وہ فوراً پانی لینے چلی گئی۔

”یہ تمھیں کہاں ملا احرار؟“ اس نے حیرانی سے پوچھا۔

”بھیا میرا ایک جونیئر کولیگ خاموشی سے میری مدد کرنے کیلئے اس پر نظر رکھے ہوئے تھا، اسی نے موقع پا کر اسے دبوچ کر میرے حوالے کردیا، اب بس جلدی سے اس کو ہوش میں لا کر اس سے پوچھتے ہیں کہ آخر یہ سب اس نے کس کے کہنے پر کیا؟“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

تب تک وہ پانی سے بھرا گلاس لے آئی تھی جسے احرار نے لے کر کاشف کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ وہ ہوش میں آیا۔ اور پھٹی پھٹی نظروں سے ان لوگوں کو دیکھنے لگا۔

”چل! اب شروع ہوجا جلدی سے، اور بتا یہ سب تو نے کس کے کہنے پر کیا ہے؟“ احرار سیدھا مدعے پر آیا۔

”مجھے جانے دو، اگر تم لوگوں نے میرے ساتھ کچھ کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔“ اس نے لاغر سی دھمکی دی۔

اگلے ہی لمحے احرار ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر رسید کرچکا تھا۔

”کچھ نہیں، بہت کچھ کر سکتے ہیں ہم، اور کر بھی دیں گے اگر تو نے سیدھی طرح اصل بات نہیں بتائی تو!“ احرار نے بےرحمی سے اس کا جبڑا دبوچا۔

”بول کس کے کہنے پر تو نے یہ کیا؟“ وہ غصے سے دھاڑا۔

”میڈیم کے کہنے پر کیا۔“ آخر کار اس نے زبان کھولی۔

”کون میڈیم؟“ اس نے سختی سے پوچھا۔ مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”بتا کس کے کہنے پر کیا ہے؟“ وہ چلایا۔

”میرے کہنے پر!“ تب ہی وہاں ایک مانوس سی نسوانی آواز ابھری۔

سب نے پلٹ کر دیکھا اور پیچھے دیکھتے ہی انھیں لگا ان کی دنیا ہی پلٹ گئی ہے۔

اسکن ٹائٹ جینز پر فراک نما شارٹ براؤن کُرتی پہنے، hair bow کی مدد سے آدھے بال باندھے، نہرین دونوں بازو سینے پر لپیٹے اطمینان سے دروازے پر کھڑی تھی۔

یہ وہ ڈری سہمی نہرین نہیں تھی جسے اب تک یہ لوگ دیکھتے آئے تھے۔ آج اس کی آنکھوں میں خوف کے بجائے اعتماد تھا اور چہرہ بھول پن سمیت ہر احساس سے عاری تھا۔

”کیا ہوا؟ شاک لگا؟“ وہ استہزایہ کہتی ان کی جانب آئی۔

جبکہ کاشف ان تینوں کا خود پر سے دھیان ہٹنے کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہاتھ کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔

”ویل! میں اتنی جلدی اپنا اصلی روپ دکھانا نہیں چاہتی تھی لیکن اب جب کہ یہ تمہارے ہاتھ لگ گیا ہے تو مجھے فیل ہوا کہہ ڈرامے کے ڈراپ سین کا وقت آگیا ہے اس لئے میں اپنے کردار سے باہر آگئی، تو کیسی لگی میری ایکٹنگ؟“ وہ اطمینان سے کہتی ہوئی آکر صوفے پر بیٹھی اور شانِ بےنیازی سے ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی۔

یہ تینوں تو اپنی جگہ پر ایسے سن ہوئے تھے جیسے کسی نے ان کے جسم سے روح کھینچ لی ہو!

تب تک کاشف بھی اپنی رسی کھولنے میں کامیاب ہوچکا تھا اور ایک لمحہ بھی برباد کیے بنا وہ بجلی کی سی تیزی سے باہر بھاگا۔ جبکہ یہ لوگ اتنے حیرت زدہ تھے کہ اسے روک بھی نہیں پائے۔

”نہرین۔۔۔۔۔آپ۔۔۔۔نے۔۔۔۔یہ سب۔۔۔۔“ احرار بمشکل بس اتنا ہی بول پایا۔

”جی۔۔۔۔۔میں۔۔۔نے۔۔۔۔یہ سب۔۔۔کیا اور کروایا۔“ اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں احرار کی نقل اتاری۔

”لیکن کیوں؟ تمہاری کیا دشمنی ہے ہم سے؟ کیوں کیا تم نے ایسا؟“ اب نورالعین بھی ہوش میں آکر پھٹ پڑی۔

”آہستہ آہستہ، ایسی حالت میں زیادہ چیختے چلاتے نہیں ہیں۔“ اس نے تحمل سے ٹوکا۔

”اپنی بکواس بند کرو اور سیدھی طرح جواب دو کہ یہ سب کیوں کیا تم نے؟“ نورالعین نے اس کی بات کا کوئی اثر نہیں لیا۔

”بہت لمبی کہانی ہے، بیٹھ جاؤ ایسے تھک جاؤ گے تم لوگ!“ اس نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔

”جو پوچھا ہے اس کا جواب دو۔“ احرار نے بھی سختی سے زور دیا۔

”مرضی ہے مت بیٹھو۔“ اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔

”اچھا تو بات کچھ یوں ہے کہ آج سے کچھ مہینے پہلے آئی او احرار ملک صاحب کو پتا نہیں کس کیڑے نے کاٹا کہ انہوں نے تیس سال پرانے ایک قتل کیس کی فائل پھر کھولی، جبکہ اس کیس کے مجرم کو سزا ہوچکی تھی، پھر پتا نہیں کہاں کہاں سے کیا کیا ثبوت ڈھونڈ کر یہ نعمان آفندی تک پہنچیں اور ان پر ایسا ٹارچر کیا کہ کورٹ میں ان سے اعتراف جرم کروا کر ہی دم لیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بیچارے نعمان آفندی کو پھانسی ہوگئی اور اس کو ایک اور کامیابی کا ستارہ مل گیا، بس اسی بے گناہ کو سزا دلوانے کی سزا بھگت رہے ہیں آپ لوگ!“ اس نے مختصر تفصیل بتائی۔

”یہ جھوٹ ہے، نعمان آفندی کوئی بیچارہ بے گناہ نہیں بلکہ دو لوگوں کا قاتل تھا، ایک تو وہ جس کا یہ قتل کیس تھا، عثمان راؤ، اور دوسرا ابرار سکندر جسے اس جھوٹے کیس میں پھنسایا گیا تھا، اور تمھیں اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے اس مجرم سے؟“ احرار نے سختی سے تصحیح کرتے ہوئے پوچھا۔

”کیونکہ وہ نعمان آفندی میرا باپ تھا جسے تم نے سولی پر چڑھا کر مجھ سے چھین لیا۔“ وہ کھڑے ہوتے ہوئے حلق کے بل چلائی۔ جبکہ انھیں بھی مزید شاک لگا۔

نورالعین کو اب یاد آیا کہ اس نے نعمان آفندی کا چہرہ کہاں دیکھا تھا؟ وہ چہرہ اس نے ارسلان اور نہرین کے چہروں میں چھلکتا دیکھا تھا۔

”تم جیسے دشمنوں کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ مجھے اور ارسلان کو خود سے دور نیو یارک میں رکھا، بس کبھی مہینوں میں آجایا کرتے تھے ہم سے ملنے، یا پھر ہفتوں ہفتوں بعد فون کرلیتے تھے، ان کے توجہ نہ دینے کا ارسلان پر اتنا برا اثر پڑا کہ اس نے ڈرگز لینا شروع کر دیے، وہ عجیب سائیکو ہوگیا تھا، اور پھر ایک دن اپنی گرل فرینڈ کی وجہ سے اس نے اپنی نس کاٹ کر سیوسائیڈ کرلی، ڈیڈ نیویارک آئے مگر انھیں جلد ہی واپس لوٹنا پڑا، میں وہاں بہت اکیلی ہوگئی، اور پھر ایک دن خبر ملی کہ انھیں گرفتار کرکے پھانسی دے دی گئی ہے، ماں کی گود تو پیدائش سے ہی نصیب نہیں ہوئی تھی، بھائی بھی دنیا سے جا چکا تھا، ایک باپ کا سایہ تھا وہ بھی تم لوگوں نے چھین لیا اور مجھے آخری وقت میں اپنے باپ کا دیدار بھی نصیب نہیں ہوا۔“ وہ غم و غصے سے کہتی گئی۔ جس کی آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔

”جب میں پاکستان پہنچی تو ان کو پھانسی ہوچکی تھی، پہلے تو میں کچھ وقت صدمے میں ہی رہی، مگر آہستہ آہستہ جب ہوش بحال ہونا شروع ہوا تو معلومات اکٹھا کرنے پر پتا چلا کہ کسی احرار ملک نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے، تب ہی فیصلہ کرلیا تھا کہ جس وردی کا ناجائز فائدہ اٹھا کر، اس نے ایک بے گناہ کو سزا دلوائی تھی وہ وردی چھین کر رہوں گی۔“ وہ بےدردی سے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے دوبارہ گویا ہوئی۔

”میں نے تمہاری انفارمیشن کلیکٹ کرنا شروع کی اور دو پلان ترتیب دیے، پہلا یہ کہ میں اپنوں کی ماری، دکھیاری، انصاف کی طلبگار بن کر تم لوگوں کے بیچ رہوں گی اور پھر آہستہ آہستہ ساری کاروائی کروں گی، لیکن اگر میں تم لوگوں کے گھر آنے میں کامیاب نہیں ہو پاتی تو پھر کسی ملازمہ کو بھیجتی، مگر میرا گڈ لک کہ بابک نے فوراً مجھ پر اعتبار کرلیا اور مجھے یہاں لے آیا، لیکن ساتھ ہی میرا بیڈ لک کہ میرے آنے کے فوراً بعد تم لوگ ہنی مون کیلئے چلے گئے۔

لیکن مجھے بھی تم لوگوں کو سلو پؤزن ہی دینا تھا اس لئے شروع کے دن خوب اطمینان سے عیش کرنے دیا اور ساتھ ہی ارسلان کی تلاش میں الجھا دیا جس کی نا صرف ڈیتھ ہوچکی تھی بلکہ وہ جوان ہونے کے بعد کبھی پاکستان آیا ہی نہیں تھا، تو پھر یہاں اس کا کوئی ریکارڈ کیسے ملتا؟ میں نے جان بوجھ کر ایسی کہانی بنائی تھی اور ایسے پائنٹ پر اٹکایا تھا کہ جب تک میں نا چاہوں کیس حل نہ ہو۔

پھر سارے معاملات کو میں نے روٹین پر چلنے دیا اور جب تم لوگوں کو تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ملی تب میں نے چھری چلانے کا فیصلہ کیا، جس کی شروعات ہوئی نوری سے۔

وہ میری وجہ سے ہی سیڑھیوں سے گری تھی کیونکہ سیڑھیوں پر میں نے ہی تیل گرایا تھا، نوری کو اس لئے سائیڈ پر کیا تا کہ اس کی جگہ نائلہ آسکے، اسے میں نے ہی بلایا تھا صرف اس لئے کہ جب یہ سارا ہنگامہ ہو تو تم لوگوں کا دھیان اس پر جائے اور میں اطمینان سے تم لوگوں کے بیچ رہ کر تمھیں پریشان ہوتا دیکھ کر انجوئے کرسکوں، اور وہی ہوا، لفافہ میں نے رکھا تھا تمہارے کبرڈ میں مگر شک سب کا نائلہ پر گیا، اور ایک مزے کی بات بتاؤں؟ اس نائلہ کو بھی نہیں پتا تھا کہ اصل ماسٹر مائنڈ میں ہوں، کیونکہ اسے تو میں نے پس پردہ رہ کر ایک آدمی سے ہائیر کروایا تھا اور اسی کے ذریعے اسے پیسے دیے تھے۔

اس کاشف کو بھی میں نے ہی بھیجا تھا احرار کے پاس، اس دن جو لائٹ گئی تھی اور کھڑکی کے ذریعے خط آیا تھا وہ بھی میں نے ہی کچھ لوگوں کے ذریعے کروایا تھا، ابھی میں کچھ دیر اور تم لوگوں کے بیچ رہ کر تمہاری پریشانی انجوئے کرنا چاہتی تھی، مگر میرا بیڈ لک کہ یہ کاشف تمہارے ہاتھ لگ گیا تھا، اس لئے مجھے اس ڈرامے کو یہیں ڈراپ کرنا پڑا۔“ اس نے بےخوف و خطر اول تا آخر سب کچھ انھیں بتا دیا۔

جسے سن کر یہ لوگ ہکابکا رہ گئے تھے۔

”میرا کام تو ہوگیا ہے، تم بری طرح پھنس چکے ہو احرار، ایک دو پیشیوں کے بعد تمھیں ہمیشہ کیلئے سسپینڈ کردیا جائے گا، تمہارے پاس اپنے دفاع میں کوئی ثبوت اور گواہ بھی نہیں ہیں، پھر تمھیں پتا چلے گا کہ نا کردہ جرم کی سزا کتنی تکلیف دیتی ہے۔“ وہ سفاکی سے بولی۔

”تم نے یہ ٹھیک نہیں کیا، میں نے کوئی ناانصافی نہیں کی تھی، بلکہ تمہارے باپ نے ابرار سکندر کو پھنسایا تھا اس جھوٹے کیس میں کیونکہ انہوں نے نعمان آفندی کو قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور اس الزام کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ اس دنیا سے چلے گئے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور یتیم کو چھوڑ کر!“ اس نے بات واضح کرنا چاہی۔

”جھوٹ! میرے پاپا نے کوئی قتل نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے تمھیں تمہاری منہ مانگی رشوت دینے سے نا صرف انکار کیا تھا بلکہ وہ تمہاری شکایات بھی درج کروانے والے تھے، اسی بات کا بدلا لینے کیلئے تم نے انہیں پھنسایا تھا اسی لئے میں نے تمھیں ہی رشوت لینے کے جرم میں پھنسا دیا۔“ اس نے انکار کرتے ہوئے اپنی بات پر زور دیا۔

”اور اب تم لاکھ سر پیٹو، بار بار چلاؤ مگر تمہارا یقین کوئی نہیں کرے گا بالکل ویسے جیسے میرے پاپا کا نہیں کیا تھا، اب تڑپتے رہو ساری زندگی اپنا عہدہ چھن جانے کے غم میں۔“ اس نے بےرحمی سے کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔

جبکہ احرار اور نورالعین تو بس مجسمہِ حیرت بنے ابھی تک سب سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ آخر یہ سب ہوا کیا ہے؟

اور بابک۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کہاں تھا اس سارے قصے کے دوران؟

وہ اپنی جگہ پر کھڑا پتھر کا ہوگیا تھا، اس کا دل جیسے رک سا گیا تھا، بولنے کی قوت ختم ہوگئی تھی۔ یہ صدمہ اتنا شدید تھا کہ اس کے سارے الفاظ و احساسات نگل گیا تھا۔

اور وہ انگوٹھی جو اس کے کوٹ کی اندرونی جیب میں تھی، بابک کو لگا کہ وہ اندر بلک بلک کر رو پڑی ہے۔

وہ شخص ہی میرے لشکر سے بغاوت کر گیا

جیت کر سلطنت جس کے نام کرنی تھیانتخاب

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم کسی شخص کے ساتھ کچھ وقت گزار چکے ہوتے ہیں تو وہ ہمیں بہت اپنا سا، بہت مخلص لگنے لگتا ہے لیکن جیسے ہی ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں وہ اپنے چہرے پر سے مصنوعی مخلصی کا نقاب اتار کر اپنے اصلی شکل میں آجاتا ہے۔

بہت دکھ ہوتا ہے اس وقت، ایسا لگتا ہے ہم اندر سے ٹوٹ گئے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم سے ایسی کون سی غلطی سرزد ہوگئی ہے جو وہ شخص یکدم یکسر بدل گیا ہے؟

مگر ہم غلط سمجھتے ہیں، وہ بدلا نہیں ہوتا بس بےنقاب ہوتا ہے۔

بابک اس وقت شاور کے نیچے کھڑا اپنے سلگتے وجود کو ٹھنڈا کرنے کی ایک ناکام سی کوشش کر رہا تھا۔

تیز دھار کی صورت شاور سے نکلنے والا پانی اس کے کسرتی جسم پر پھسل رہا تھا جس نے دونوں ہتھیلیاں دیوار سے ٹکائی ہوئی تھی اور اس سر کو ذرا سا جھکائے کھڑا تھا جس میں خیالات کی آندھی برپا تھی۔

وہ سوچ رہا تھا کہ کس کس بات پر کہاں سے ماتم منانا شروع کرے؟

وہاں سے جب وہ پہلی مرتبہ اسے ملی تھی؟

اس وقت سے جب اس کے دل میں کچھ انوکھے جذبات نے انگڑائی لی تھی؟

تب سے جب اس نے اظہارِ محبت کرنے کا فیصلہ کیا تھا؟

وہاں سے جب اس کا بھائی سب کے سامنے مجرم بنا کھڑا تھا؟

یا اس وقت سے جب اس پر ساری حقیقت آشکار ہوئی؟

وہ اس قدر گہرے صدمے میں تھا کہ اس سے یہ شکوہ بھی نہ کر سکا کہ ”اس نے ایسا کیوں کیا؟“

جس یار کو اس نے من میں بسايا درحقیقت وہ ہی ستمگر نکلا تھا۔

جس یار کو اس نے اپنے من کی سب سے اونچی مسند پر بٹھایا تھا وہ اس کی مخلصی پر ستمگری کا ایسا زوردار تھپڑ مار کر گیا تھا کہ اس کی روح تک سسک اٹھی تھی اور یہ سسکی نہرین کو بہت بھاری پڑنے والی تھی۔


پھرتے ہیں کب سے در بدر، کبھی اس نگر کبھی اس نگر

اک دوسرے کے ہم سفر، میں اور میری آوارگی


نا آشنا ہر رہگزر نا مہرباں ہر اک نظر

جائیں تو اب جائیں کدھر، میں اور میری آوارگی


جینا بہت آسان تھا اک شخص کا احسان تھا

ہم کو بھی اک ارمان تھا جو خواب کا سامان تھا


اب خواب ہے نہ آرزو ارمان ہے نہ جستجو

یوں بھی چلو خوش ہیں مگر، میں اور میری آوارگی


یہ دل ہی تھا جو سہ گیا، وہ بات ایسی کہہ گیا

کہنے کو پھر کیا رہ گیا، اشکوں کا دریا بہہ گیا


جب کہہ کے وہ دلبر گیا، تیرے لیے میں مر گیا

روتے ہیں اس کو رات بھر، میں اور میری آوارگی


پیشہ نہ ہو جس کا ستم، ڈھونڈیں گے اب ایسا صنم

ہوں گے کہیں تو کارگر، میں اور میری آوارگی


ہم بھی کبھی آباد تھے ایسے کہاں برباد تھے

بے فکر تھے آزاد تھے مسرور تھے دل شاد تھے


وہ چال ایسی چل گیا ہم بجھ گئے دل جل گیا

نکلے جلا کے اپنا گھر، میں اور میری آوارگی


وہ ماہ وش، وہ ماہ رو، وہ ماہ کام، ہو بہو

تھیں جس کی باتیں کو بہ کو، اس سے عجب تھی گفتگو


پھر یوں ہوا وہ کھو گئی، تو مجھ کو ضد سی ہو گئی

لائیں گے اس کو ڈھونڈ کر، میں اور میری آوارگی


جاوید اختر


********************************


”میں کہتی تھی کہ یوں اس طرح ایک اجنبی پر اعتبار کرکے اسے گھر میں رکھنا ٹھیک نہیں ہے، لیکن میری کوئی سنتا ہی کب تھا؟ تم دونوں بھائیوں کے سر پر تو خدمتِ خلق کا بھوت سوار تھا۔“ نورالعین اپنے بیڈ روم میں جلے پیر کی بلی کی مانند یہاں سے وہاں ٹہلتی نہرین پر آیا غصہ احرار کو باتیں سنا کر نکال رہی تھی۔

جو خود بھی دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کیے، انھیں لبوں سے لگائے متفکر سا صوفے پر بیٹھا تھا۔

”ذرا سا اگر کوئی نہرین کے معاملے کوتاہی کرجائے تو تمہارے بھائی کو برا لگ جاتا تھا اور بیچارے ملازمین کی شامت آتی تھی، اب کیا رائے ہے بابک کی اس بیچاری کے بارے میں؟“ اس نے سیدھا طنز کیا۔

”نورالعین پلیز! اس میں بھیا کی کوئی غلطی نہیں ہے، وہ تو اپنے طور پر کسی کا بھلا ہی کرنا چاہ رہے تھے۔“ احرار نے بھائی کا دفاع کرنا چاہا۔ جو کہ غلط بھی نہیں تھا۔

”کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سیدھی سادی نظر آنے والی یہ لڑکی ہی ہماری خوشیوں کو نگلنے والی ڈائن نکلے گی۔“ نورالعین کا غصہ عروج پر تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کسی طرح نہرین کی گردن مڑوڑ دے۔

”وہ تو شکر ہے کہ بابک نے جذبات میں آکر اس سے شادی نہیں کی، ورنہ وہ تو بابک کو بہلا پھسلا کر ساری جائیداد اپنے نام کروانے کے بعد ہمیں گھر سے نکالنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔“ نورالعین نے ایک ٹل جانے والے خطرے کا سوچ کا شکر کی سانس لی جس کا احرار نے کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ وہ تو اپنی ہی سوچوں میں گم تھا۔

تب ہی اچانک کسی خیال کے آنے پر نورالعین ٹھٹک کر رکی۔

”احرار۔۔۔۔۔۔۔کافی دیر ہوگئی ہے لیکن بابک ابھی تک کمرے سے باہر نہیں آیا ہے، کہیں اس نے اپنے ساتھ کچھ۔۔۔۔۔“ نورالعین نے کہتے ہوئے تشویش کے عالم میں بات ادھوری چھوڑی۔

اس کی بات پر احرار نے بھی اس کی جانب دیکھا جس کا دل یکدم کسی انہونی کے احساس سے کانپا تھا۔

اور اگلے ہی پل وہ برق رفتاری سے اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھا۔

لیکن دروازہ کھولتے ہی دوسری جانب بابک کھڑا ملا جو غالباً دروازے پر دستک دینے ہی والا تھا۔

اس کے گیلے بال بتا رہے تھے کہ وہ ابھی ابھی نہا کر آیا ہے۔ اس نے گرے جینز کے ساتھ بلیک ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی فل آستینیں کہنیوں تک چڑھا رکھی تھیں۔

نہانے کے باعث چہرہ تو فریش لگ رہا تھا مگر آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔!

چند گھنٹوں میں ہی آنکھیں کئی راتوں کی جاگی ہوئی لگیں جن میں عجیب سی ویرانیت تھی۔۔۔۔۔کوئی خواب ٹوٹ جانے کی ویرانیت!

”اگر ڈسٹرب نہیں کر رہا تو اندر آجاؤں؟“ اس نے بالکل نارمل انداز میں پوچھا۔

”جی بالکل بھیا آئیں!“ وہ ایک کنارے پر ہوا۔

بابک اندر آکے اسی صوفے پر بیٹھ گیا جہاں سے ابھی احرار اٹھا تھا۔ جبکہ احرار خود بھی اس کے برابر میں آکے بیٹھ گیا۔ نورالعین کو بھی اسے زندہ سلامت دیکھ کر اطمینان ہوا۔

”آئی ایم سوری احرار، مجھے معاف کردو یہ سب میری غلطی ہے، سب میری وجہ سے ہوا ہے، نہ ہی میں اسے گھر لاتا اور نہ ہی یہ سب کچھ ہوتا۔“ بابک نے بنا کسی تمہید کے کہتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑ لئے۔

”نہیں بھیا! آپ کی کوئی غلطی نہیں ہے۔“ احرار نے جلدی سے اس کے ہاتھ نیچے کیے کہ وہ کبھی بھی اپنے بھائی کو اپنے سامنے ایسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔

”اور نہیں تو کیا! تم نے تو بس احرار کی طرح ایک نیکی کرنی چاہی تھی، مگر ہر کوئی نورالعین تھوڑی ہوتی ہے۔“ ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے نورالعین بھی مصنوعی فخر سے کہتے ہوئے ان کے مقابل والے صوفے پر بیٹھ گئی۔

”ہاں یہ تو میں بھی مانتا ہوں کہ میں احرار جتنا خوش نصیب نہیں ہوں۔“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے سچے دل سے تائید کی۔

”میری صورت اتنا اچھا بھائی ملا ہے آپ کو اور پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ خوش نصیب نہیں ہیں۔“ احرار نے بھی مصنوعی شکوہ کیا۔

”مذاق کر رہا ہوں یار، تیرے ہونے سے ہی تو میں ہوں۔“ بابک نے محبت پاش انداز میں اس کا گال کھینچا۔

اور سچ بھی یہ ہی تھا کہ ان ہی مخلص رشتوں کی وجہ سے بابک نے جلد خود کو سنبھال لیا تھا۔

”خیر میں یہاں کچھ ضروری بات کرنے آیا تھا، یہ بتاؤ کہ نہرین کے کمرے کی تلاشی لی تم لوگوں نے؟ کوئی قابل گرفت بات نظر آئی کیا وہاں؟“ وہ اب اصل موضوع پر آیا۔

”ہاں میں نے اور نورالعین نے چیک کیا تھا، مگر کوئی خاص بات پکڑ میں نہیں آئی، وہ زیادہ کچھ لے کر نہیں گئیں سوائے اپنے کپڑوں اور چند ضرورت کی چیزوں کے۔“ احرار نے بتایا۔

”ہممم! ویسے اس سارے تماشے میں کاشف کی صورت ہاتھ آیا ثبوت بھی ہم سے چھوٹ گیا۔“ بابک کو ملال ہوا۔

”اس کے ہاتھ میں رہ جانے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہونے والا تھا بھیا، وہ کورٹ میں سچ نہیں بتاتا۔“ وہ دھیرے سے بولا۔

”تم بھی پاگل ہو احرار! جب کاشف سے پوچھ گچھ کرنے والے تھے تو کم از کم شرٹ پر ایک خفیہ کیمرہ ہی لگا لیتے جس میں اس کی اور نہرین کی باتیں ریکارڈ ہوجاتیں اور ہم وہ کورٹ میں پیش کر دیتے۔“ نورالعین نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔

”یہ اپنے پیر پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا، کاشف اس وقت کورٹ کی نظر میں وکٹم ہے، ایسے میں اگر کورٹ میں ایسی ویڈیو پیش کرتا جس میں کاشف اس طرح کرسی پر بندھا ہے اور میں اس سے زور زبردستی پوچھ گچھ کر رہا ہوں تو رشوت کے الزام کے ساتھ مجھ پر coerced statement کا چارج بھی لگ جاتا اور کل کا سسپینڈ ہوتا میں آج ہی ڈیوٹی سے ہاتھ دھو بیٹھتا کہ میں نے وکٹم پر زور زبردستی کرکے اس سے اپنے مطابق بیان لیا ہے، ہاں اگر مجھے الہام ہوا ہوتا کہ نہرین اچانک وہاں آکر یہ سب بولیں گی تو میں ضرور کیمرہ لگا لیتا۔“ احرار نے سنجیدگی سے اس کی توجہ قانون کی باریکیوں کی جانب دلاتے ہوئے آخر میں طنز کیا تو وہ لاجواب ہوگئی۔

”کاشف کو یہاں لانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ کم از کم ہمیں تو ماسٹر مائنڈ کا پتا چل جائے تا کہ پھر اس حساب سے ہم اپنی اسٹریٹرجی بنا سکیں، اور اب جب پتا چلا ہے کہ ماسٹر مائنڈ کون ہے اور یہ سب کیوں کر رہا ہے تو لگ رہا ہے کچھ کہنے یا کرنے کو بچا ہی نہیں ہے۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔

”نہیں، ماسٹر مائنڈ نہرین نہیں ہے، ماسٹر مائنڈ اب بھی کوئی اور ہے۔“ بابک کی بات پر دونوں نے چونک کر، اس کی جانب تعجب سے دیکھا۔

”مطلب تم اب بھی نہرین کا دفاع کر رہے ہو بابک؟ کہ وہ بےقصور ہے اور اسے کسی نے بھڑکایا ہے؟“ نورالعین نے بےیقینی سے تائید چاہی۔

”میں کسی کا دفاع نہیں کر رہا، بس مسلے کی جڑ تک پہنچنے میں جو خیال ذہن میں آیا وہ ظاہر کیا ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے تصحیح کی۔

”تم لوگوں نے غور کیا؟ نہرین کو لگتا ہے کہ نعمان آفندی نے تمھیں رشوت دینے سے انکار کیا تھا اسی لئے تم نے انہیں جھوٹے کیس میں پھنسایا، جبکہ بقول نہرین کے وہ پاکستان انہیں پھانسی ہونے کے بعد آئی تھی یعنی نعمان آفندی سے تو اس کی ملاقات ہو ہی نہیں پائی کہ وہ اسے اپنی صفائی میں کوئی جھوٹی کہانی سناتے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی تو ہے جس نے یہ غلط معلومات اسے فراہم کی ہے۔“ بابک نے اپنے خیال کی وضاحت کرتے ہوئے کچھ بہت باریک نقطے اٹھائے جن پر ان دونوں کا دھیان نہیں گیا تھا اور اب دونوں سوچ میں پڑ گئے تھے۔

”چلیں مان لیتے ہیں کہ کسی نے غلط معلومات دے کر انہیں میرے خلاف کیا ہے، لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ایسا کون کرے گا اور کیوں؟“ احرار نے بھی نیا سوال اٹھایا جس میں وزن تھا۔

”اب اسی سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے۔“ بابک نے منزل کا تعین کر ڈالا۔

”اور بھلے ہی تم نہ مانو مگر نہرین کو گھر لا کر اس کے منصوبوں میں آدھی کامیابی اسے میں نے ہی دی ہے، یہ قصہ میں نے شروع کیا تھا، تو اب اسے ختم بھی میں ہی کروں گا، یہ میرا وعدہ ہے۔“ بابک نے اگلے ہی لمحے وعدہ کیا جس کے سنجیدہ انداز میں چٹانوں سی سختی تھی۔


********************************


”یار بابک ایسی دھماکے دار خبر لایا ہوں ناں میں کہ تو سن کر حیران ہوجائے گا۔“ یاور سنسنی پھیلاتا ہوا روم میں داخل ہوا۔

اگلے دن یعنی اس وقت بابک اپنے آفس روم میں بیٹھا کوئی فائل چیک کر رہا تھا تب ہی اچانک یاور نمودار ہوا۔

”ایسی بھی کیا خبر ہے؟“ اس نے اطمینان سے فائل بند کی۔

”سب پتا لگا لیا، میں نے اپنے دماغ کا استعمال کرکے سب پتا لگا لیا، نہرین نے تم لوگوں کو جھوٹ بولا ہے کہ اس کا بھائی پاکستان آکر کھو گیا، اس کا بھائی تو پاکستان آیا ہی نہیں بلکہ پانچ سال پہلے عشق میں ناکامی کے باعث خودکشی کر چکا ہے۔“ اس نے پورے جوش و ولولے سے اپنے مطابق پوری جبکہ درحقیقت آدھی تفصیل بتائی۔

”ہوگیا؟ اب ہلکا ہوکر بیٹھ جا، باقی کہانی میں سناتا ہوں۔“ بابک نے اطمینان سے کرسی کی جانب اشارہ کیا جس پر وہ فوری براجمان ہوگیا اور پھر بابک نے کل پیش آنے والی ساری صورت حال من و عن اسے سنا دی۔ جو اس کیلئے شاک سے کم نہیں تھی۔

”نہیں یار! ایسا ہوا ہے؟“ وہ جو بابک کو شاک دینے آیا تھا خود صدمے میں چلا گیا۔

”ہم تو اسے اتنا معصوم سمجھ رہے تھے، بلکہ تو، تو الگ ہی فکروں میں تھا کہ وہ معصوم ہے، پاکیزہ ہے، سیدھی سادی اور پتا نہیں کیا کیا ہے، میں ماضی کا مجرم ہوں، میں یہ ہوں، میں وہ ہوں، اب دیکھ! وہ معصوم لڑکی تو تیری بھی استاد نکلی۔“ یاور کے انداز میں حیرت کم اور بےعزت کرنے کا عنصر زیادہ تھا جس کے باعث بابک اسے گھورنے لگا۔

”ویسے اب کہاں ہے وہ؟“ یاور کو اچانک خیال آیا۔

”پتا نہیں، ہمارے گھر آنے سے پہلے جہاں تھی وہیں ہوگی۔“ بابک نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔


********************************


”انھیں میرے بارے میں سب پتا چل گیا تھا، اسی لئے میرا مزید وہاں رکنا ٹھیک نہیں تھا، ویسے بھی اپنا کام تو میں نے کردیا ہے، وہ احرار پھنس چکا ہے پوری طرح!“ نہرین فلیٹ کی گیلری میں کھڑی موبائل پر کسی سے محو گفتگو تھی۔

”آپ تو جانتے ہیں کہ کچھ دنوں بعد اگلی پیشی ہے اس کی جو آخری ثابت ہوگی، بس اب جیسے ہی کورٹ اسے سسپینڈ کرنے کے آرڈر جاری کرے گا میرا مقصد پورا ہوجائے گا، مجھے سکون مل جائے گا اور پھر میں واپس نیویارک چلی جاؤں گی، کچھ سیونگز پاپا چھوڑ گئے تھے میرے لئے باقی میں اپنی بیکری دوبارہ سیٹ کرلوں گی، ویسے بھی پاپا کے جانے کے بعد سے زندگی بے معنی سی لگتی ہے، کچھ اچھا نہیں لگتا۔“ وہ ریلنگ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تاسف سے کہہ رہی تھی۔

”ٹھیک ہے، اللہ حافظ!“ اس نے موبائل کان سے ہٹا کر لائن ڈسکنیکٹ کردی اور وہیں کھڑی بےدھیانی سے سامنے نظر آتے مناظر دیکھتی رہی۔

وہ اس وقت پانچویں منزل پر واقع ٹو بیڈ لاؤنج کے اس فرنشڈ فلیٹ کی گیلری میں کھڑی تھی جو نیو یارک سے پاکستان آتے ہی اسٹیٹ ایجنسی کے ذریعے رینٹ پر لیا تھا۔

جہاں یہ پروجیکٹ واقع تھا وہاں آس پاس زیادہ آبادی نہیں تھی۔ گیلری سے نظر آتا یہ مین روڈ تو ویسے ہی سنسان رہتا تھا اور اس وقت دوپہر ہونے کے باعث دور دور تک کوئی چہل پہل نظر نہیں آرہی تھی اور اگر ہوتی بھی تو اسے بھلا اس سے کیا غرض تھی؟ اس کی دنیا تو پہلے ہی ویران ہوچکی تھی۔

خالی خالی نظروں سے کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے وہ اداسی کی جیتی جاگتی تصویر بنی ہوئی تھی۔

اس نے جینز کے ساتھ فراک نما شارٹ کُرتی پہنی ہوئی تھی جبکہ بال فی الحال hair bow کی قید سے آزاد کمر پر بکھرے ہوئے تھے جو کہ ہوا کے باعث وقتاً فوقتاً اس کے چہرے کو بھی چھو رہے تھے۔

اس وقت اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش اس کا کوئی دوست یا ہمراز ہوتا جس سے باتیں کرکے وہ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتی مگر اس کی زندگی میں دور دور تک ایسا کوئی نہیں تھا۔

اور جو ایک شخص تھا تو اسے بھی بے رحم دنیا نے چھین لیا تھا۔


********************************


”مجھے لگا تھا کہ نہرین کے جانے سے بابک بالکل پاگل، دیوانہ، مجنوں سا ہوجائے گا، مگر وہ تو بالکل نارمل ہے۔“ نورالعین نے اپنا خیال ظاہر کیا اور ساتھ ہی چائے کا گھونٹ بھرا۔

”مطلب تم چاہتی ہو کہ میرا اچھا خاصا بھائی اس دھوکے باز لڑکی کے پیچھے اپنے ہوش کھو بیٹھے؟“ احرار نے بھی طنزیہ تائید چاہی۔

”نہیں! میرا وہ مطلب نہیں تھا، اکثر موویز اور ناولز میں ہوتا ہے ناں کہ ہیروئن کے جانے کے بعد ہیرو بجھا بجھا سا رہنے لگتا ہے، آدم بیزار ہوجاتا ہے، پھر نہرین کو لے کر بابک کی پسندیدگی بھی ہم سے چھپی ہوئی نہیں تھی تو بس اسی لئے یہ خیال آیا۔“ اس نے وضاحت کی۔

”ہوسکتا ہے کہ وہ میری ہیروئن ہو ہی نہیں!“ بابک نے ان کے قریب آتے ہوئے اطمینان سے کہا جو ان کی باتیں سن چکا تھا۔

”السلام علیکم بھیا!“

”وعلیکم السلام، اکیلے اکیلے چائے پی رہے ہو تم لوگ؟“ وہ بھی جواب دیتے ہوئے احرار کے برابر میں بیٹھ گیا اور بریف کیس نیچے سائیڈ پر رکھا۔

”تمہارے حصے کی چائے بھی تیار ہے۔“ نورالعین نے علم میں اضافہ کیا اور سامنے موجود میز پر رکھی کیتلی کی جانب متوجہ ہوکر بابک کی چائے بنانے لگی۔

”ہاں تو کیا کہہ رہی تھی تم؟ کہ میں پاگل کیوں نہیں ہوا؟“ وہ دلچسپ انداز میں واپس اسی موضوع پر آیا۔

”ہاں بس ایسے ہی ایک خیال آگیا تھا۔“ اس نے کپ بابک کی جانب بڑھاتے ہوئے سرسری جواب دیا۔

”احرار بھی تو پاگل نہیں ہوا تھا تمہارے جانے کے بعد؟“ اس نے کپ تھامتے ہوئے چھیڑا۔

”میں احرار کو دھوکہ دے کر نہیں گئی تھی۔“ اس نے بھی فوری تصحیح کی اور چائے پینے لگی۔

”میں ایک بات سوچ رہا تھا احرار۔“ بابک نے متوازن انداز میں موضوع بدلا۔

”اپنے فادر کے کیس پر کام کرتے ہوئے جو ثبوت تمھیں نعمان آفندی کے خلاف ملے تھے اگر ہم وہ سب نہرین کو دکھا کر، سمجھا کر اسے یہ ثابت کردیں کہ اس کے پاپا واقعی مجرم تھے تو ہوسکتا ہے وہ ماسٹر مائنڈ کا نام بتا کر تمہارے حق میں گواہی دینے کو تیار ہوجائے؟“ بابک نے خیال ظاہر کیا۔

”لیکن ہمیں تو پتا ہی نہیں ہے کہ نہرین کہاں ہے؟“ نورالعین نے سوال اٹھایا۔

”آپ کی سوچ ٹھیک ہے بھیا لیکن ذرا میری بات کا جواب دیں کہ اگر کوئی ڈھیروں ثبوت کے ساتھ آپ کے پاس آئے اور کہے جبار ملک نے فلاں جرم کیا ہے تو کیا آپ مان لیں گے؟“ احرار نے تحمل سے استفسار کیا۔

”نہیں۔“

”کیوں نہیں؟“

”کیونکہ مجھے اپنے ڈیڈ پر پورا بھروسہ ہے۔“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”ایسے ہی نہرین کو بھی ہم اجنبیوں سے زیادہ اپنے پاپا پر بھروسہ ہے، ہم ان کے سامنے ثبوتوں کا ڈھیر بھی لگا دیں گے تو وہ یہ ہی سمجھیں گی کہ یہ خود کو بچانے کی کوشش ہے، بلکہ شاید وہ ان ثبوتوں کو ہی جھوٹ قرار دے دیں کیونکہ یہاں معاملہ کسی عام انسان کا نہیں باپ کا ہے، جس پر ہر شخص اندھا اعتبار کرتا ہے۔“ احرار نے رسان سے وہ نقطے اٹھائے جن میں وزن تھا۔ وہ پر سوچ سا لاجواب ہوگیا۔

”نہرین کو سچائی پر صرف تب ہی یقین آئے گا جب انہیں یہ جھوٹی کہانی سنانے والا خود اپنے جھوٹ کا اعتراف کرے گا، اور ہم تب ہی اپنے لئے کچھ کرسکتے ہیں جب کسی طرح ہمیں یہ پتا چل جائے کہ درحقیقت نہرین کو یہ جھوٹی کہانی سنائی کس نے ہے؟“ احرار نے اکلوتے حل کی جانب توجہ دلائی۔

”ہم یہ بھی پتا لگا لیں گے، ڈونٹ وری۔“ بابک نے اسے یقین دہانی کرائی۔ جس کے جواب میں وہ کچھ نہ بولا۔

”لیکن تب تک مجھے تم سے ایک فیور چاہیے احرار۔“

”کیسی فیور بھیا؟“

”مجھے ایک کام کے سلسلے میں کچھ دنوں کیلئے کہیں جانا ہے، تو کیا تب تک کیلئے تم آفس کے معاملات دیکھ لو گے؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے بھیا لیکن میں آفس کے معاملات نہیں جانتا، کیونکہ میں نے تو پڑھائی کے بعد سیدھا ڈیوٹی جوائن کی تھی۔“ اس نے رضا مندی دیتے ہوئے مسلہ بھی بتایا۔

”وہ سب میں تمھیں سمجھا دوں گا، تم بس کل صبح میرے ساتھ آفس جانے کیلئے ریڈی رہنا۔“ بابک نے یہ مسلہ بھی حل کیا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

تب ہی احرار کا فون گنگنا اٹھا جسے سننے کیلئے وہ ایکسکیوز کرتا ہوا لان کی جانب چلا گیا۔

”احرار کی پیشی قریب آرہی ہے بابک، اور ہمارے پاس اپنے حق میں کچھ نہیں ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آرہا ہم کیا کریں گے؟“ نورالعین نے اپنی فکر کا اظہار کیا۔

”ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں اور کرلیں گے، فکر مت کرو۔“ اس نے پر سوچ انداز میں تسلی کرائی۔

تب ہی یکدم کچن سے کچھ گر کر ٹوٹنے کی آواز آئی جس پر دونوں چونکے۔

”ایک تو یہ نوری بھی ناں!“ نورالعین کہتی ہوئی کھڑی ہوئی اور کچن کی جانب گئی۔

بابک بھی ایک گہری سانس لے کر چائے کی جانب متوجہ ہوا۔ مگر پہلا گھونٹ لیتے ہی یکدم اس کے ذہن میں کچھ ابھرا۔

”میں چائے بنا دوں؟“ نہرین نے غیرمتوقع پیشکش کی تھی۔

”ارے نہیں نہیں، آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں بنا لوں گا۔“

”زحمت کیسی؟ آپ نے اب تک میری اتنی مدد کی اور کر رہے ہیں، تو بدلے میں ایک کپ چائے تو بنا ہی سکتی ہوں۔“

”تو مطلب آپ بدلہ چُکا رہی ہیں؟“

”وہ تو شاید میں ساری زندگی نہ چُکا پاؤں، لیکن ایک کوشش تو کر ہی سکتی ہوں!“ اس کا بےریا انداز اتنا پیارا تھا کہ وہ مزید کوئی حجت نہیں کرپایا تھا۔

اور پھر نہرین نے اس کیلئے چائے بنائی بھی تھی، جس میں وہ چینی ڈالنا بھول گئی تھی مگر اس نے وہ چائے بھی مزے سے پی لی تھی کیونکہ واقعی اس روز اسے اس بدمزہ چائے کا ذائقہ بھی بےحد اچھا لگا تھا کیونکہ وہ پسندیدہ شخص کے ہاتھوں سے جو بنی تھی۔

جب اسے بےاختیار وہ وقت اور اس چائے کا ذائقہ یاد آیا تو موجودہ چائے سے دل اچاٹ ہوگیا۔

اس نے بےبدلی سے بھرا ہوا کپ میز پر رکھا اور اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چلا گیا۔

پرتکلف سی، مہکتی، وہ سہانی چائے

اب کہاں ہم کو میّسر ہے تمہاری چائے

میں نے چینی کی بھی مقدار بڑھا کر دیکھا

بن تیرے لگتی ہے کچھ کڑوی کسیلی چائے

لمس ہاتھوں کا تیرے ہے نہ محبّت کا سُرور

راس آئی نہ کبھی مجھ کو پرائی چائے

سنتے ہوئے تیری باتیں میٹھی میٹھی سی

اک شام پی گیا تھا میں پھیکی چائے

جب تیری یاد میں کھو جاتا ہوں بیٹھے بیٹھے

منہ میرا تکتی ہی رہ جاتی ہے بےچاری چائے

امر روحانی

چند لمحوں بعد احرار کال سن کر واپس ہال میں آیا تو دونوں کو وہاں نہ پا کر وہ بھی اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھنے لگا مگر میز پر رکھا بھرا ہوا چائے کا کپ دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ نورالعین اور احرار کے کپ تو خالی تھے یہ کپ بابک کا تھا۔

بابک کو چائے سے کتنا لگاؤ تھا یہ وہ اچھے سے جانتا تھا اسی لئے اس کا یوں چائے کو بھی نظر انداز کرنا اسے سوچنے پر مجبور کرگیا۔

********************************

”ٹینگ ٹونگ!“ ڈور بیل بجی۔

نہرین نے آکر دروازہ کھولا تو سامنے ہی ڈیلوری بوائے ہاتھ میں بیگ لئے کھڑا تھا۔

”نہرین آفندی؟“ اس نے تائید چاہی۔

”جی میں نے ہی آرڈر کیا تھا۔“ اس نے بیگ لے کر پیمنٹ کی اور دروازہ بند کرکے سیدھا کچن میں چلی گئی۔

کھانا پلیٹ میں نکالا اور اسے لے کر لاؤنج میں رکھے صوفے پر آ بیٹھ گئی۔

اس نے جوں ہی پلیٹ میں موجود پلاؤ کا چمچے کی مدد سے پہلا نوالہ لیا تو اس کے ذہن میں یکدم ایک منظر تازہ ہوا۔

”پھر سے پلاؤ!“ بابک نے ڈش کا ڈھکن ہٹاتے ہی اعتراض کیا تھا۔

”کیا مطلب پھر سے؟ پورے ایک ہفتے بعد بنا ہے۔“ نورالعین نے تصحیح کی تھی۔

”ہاں تو سات دن پہلے ہی بنا تھا ناں مطلب! آج پھر بناوا لیا! یہ نوری کچھ اور نہیں بنا سکتی تھی؟“

”بھئی میں نے تو آج نہرین کی پسند کا کھانا بنوایا ہے، اب اسے پلاؤ پسند ہے تو اس میں میری کیا غلطی؟ تم کباب کھالو روٹی سے۔“

اس کے بتانے پر بابک نے بے اختیار نہرین کی جانب دیکھا تھا جس کے چہرے پر ایسے تاثر تھے جیسے اس نے پلاؤ پسند کرکے جرم کردیا ہے اور اب اسے سزا ملنے والی ہے۔

”نہیں خیر اب اتنا بھی ناپسند نہیں ہے، وہ تو بس ایسے ہی ایک بات کہہ رہا تھا۔“ اس نے فوراً بیان بدلا تھا اور خاموشی سے اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگا تھا۔

بابک کا وہ انداز یاد آتے ہی بےساختہ ایک لمحے کیلئے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ در آئی۔ وہ کتنے خوبصورت دن تھے جب وہ بھی ایک فیملی کا حصہ تھی!

لیکن اگلے ہی لمحے وہ مسکان مدھم پڑگئی۔ اسے یاد آگئی وہ اس کی فیملی نہیں، فیملی چھیننے والے دشمن تھے۔

تھوڑی دیر قبل اسے جو شدید بھوک محسوس ہو رہی تھی اچانک وہ بھی مرگئی اور اس نے بےدلی سے وہ بھری ہوئی پلیٹ سامنے میز پر رکھ چھوڑی۔

جو ہونٹ ہنسنا چاہیں تو آنکھ بھر بھر آتی ہے

ہے ذہن و دل میں جاری جنگ، کیا سے کیا میں ہوگئی ہوں

رکھ دیا ہے الجھا کر، اسی کشمکش نے مجھ کو

وہ آبسا ہے مجھ میں یا میں اُس میں کھو گئی ہوں؟

زندگی! پانچ لفظوں پر مشتمل بظاہر کتنا چھوٹا سا لفظ ہے! مگر خود میں کتنی بڑی بڑی داستانیں، آدھی، پوری خواہشیں، غم، خوشیاں، محبت اور نفرت سموئے ہوئے ہے۔

اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس میں اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے بھی سب کو سب کچھ میسر نہیں ہوتا۔ ہر کسی کی زندگی میں کوئی نا کوئی ”کاش“ رہ ہی جاتا ہے۔

افق پر لالی پھیلنا شروع ہوگئی تھی جو اس بات کی دلیل تھی کہ سورج مشرق میں نمودار ہونے کیلئے تیار ہے۔

لیکن چھت کی باؤنڈری کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھے بابک کو تو اس بات کا احساس ہی نہیں تھا۔ وہ بس اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک ”کاش“ کو تکے جا رہا تھا جو کہ ایک انگوٹھی کی صورت تھا۔ اس وقت اس کے ذہن میں بھی بہت سارے ”کاش“ کلبلا رہے تھے۔

کاش! وہ اس سے نہ ملی ہوتی۔

کاش! اس کے دل میں محبت نے انگڑائی نہ لیتی۔

کاش! وہ ان سب میں ملوث نہ ہوتی۔

کاش! اس پر یہ حقیقت آشکار ہی نہ ہوتی۔

بس ”کاش“ پر ہی تو آکے سب رک سا گیا تھا۔ لیکن نظامِ کائنات نہیں رکا تھا اور سورج نے آسمان پر جلوہ افروز ہوکر اپنی کرنیں ہر سو بکھیرنا شروع کردی تھیں۔


ایک کہانی تو اور میں

آنکھوں کی روانی

تو اور میں

سندر سپنا تیرا میرا

پیار نشانی

تو اور میں

اونچے پہاڑ، ٹھنڈا جھرنا

ندیا کا پانی

تو اور میں

رات کا منظر جگمگ چاند

آنکھوں میں کچھ خواب پروئے

اک سچی کہانی

تو اور میں

پھر آنکھ کھلی

اس سپنے سے

کوئی خواب تھا پیارا

ٹوٹ گیا

کوئی ساتھ تھا پیارا

چھوٹ گیا

اب آنکھ سے

آنسو بہتے ہیں

اور مجھ سے بس

یہ کہتے ہیں

کہاں گیا

وہ شام کا منظر

جس کی کہانی تھے

تو اور میں


فائزہ ہاشمی


********************************


نورالعین کن انکھیوں سے احرار کو دیکھتے ہوئے گیلا تولیہ اسٹینڈ پر سکھانے لگی۔ جو بابک کے ساتھ آفس جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا مگر اس کا چہرہ ہر قسم کے احساس سے عاری لگ رہا تھا۔

اس میں ویسی پرجوشی نہیں تھی جیسی ڈیوٹی پر جانے کیلئے تیار ہوتے ہوئے دکھائی دیتی تھی۔

وہ تولیہ سکھا کر اس کی جانب آئی جو شیشے کے سامنے کھڑا کف کے بٹن لگا رہا تھا۔

اس نے احرار کا بازو پکڑ کر رخ اپنی جانب کیا اور دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔

”کیا ہوا؟“ اس نے بہت نرمی سے پوچھا۔

”کچھ نہیں۔“ حسب توقع مختصر جواب ملا۔

”لیکن میرے خیال میں تو ہونا چاہئے تھا۔“

”کیا ہونا چاہئے تھا؟“

”تمھیں پرجوش، آفٹر آل تم اپنے بھیا کے ساتھ کام کرنے والے ہو۔“ اس نے وضاحت کی۔

”میں اداس بھی نہیں ہوں۔“ احرار نے اس کی کمر کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے بات گھمائی۔

”ایک بات کہوں! تمہارے ساتھ یہ سب نہرین نے کیا ہے، نہرین کو یہاں بابک لے کر آیا تھا، اور اب اگر تم یوں اداس رہو گے تو تمھیں دیکھ کر بابک کو گلٹ ہوگا، کیا تم چاہتے ہو کہ تمہارے بھیا تم سے شرمندہ ہوں؟“ اس نے کمال مہارت سے ایموشنل بلیک میلنگ کی کیونکہ اسے احرار کی دکھتی رگ جو معلوم تھی۔ وہ خاموشی ہی رہا۔

”مجھے پتا ہے تم ایسا نہیں چاہو گے، اس لئے خوش رہو ان کے لئے جو تمہاری اداسی سے ڈرتے ہیں، اداسی چھوڑو ان کے لئے جو تمھیں اداس دیکھنا چاہتے ہیں۔“ اس نے بہت نرمی سے کہتے ہوئے اس کی شرٹ کا وہ بٹن لگایا جسے احرار نے نظر انداز کردیا تھا۔

”بتاؤ، رہو گے ناں خوش؟“ اس نے تائید چاہی۔ احرار نے سر ہلایا۔

”ایسے نہیں، ہنس کر دکھاؤ۔“ اس نے لاڈ سے فرمائش کی تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی ہنس دیا اور اسے سینے سے لگا کے کس کر بھینچتے ہوئے بالوں پر بوسہ دیا جو ہر وقت اس کی دلجوئی میں منہک رہتی تھی اور اسے خوش دیکھنا چاہتی تھی۔


********************************


چائے بس ابل کر گرنے والی تھی کہ تب ہی آخری لمحے میں نہرین کو ہوش آیا اور اس نے یکدم چولہہ بند کیا جس سے ابلتی ہوئی چائے چھاگ کی طرح نیچے بیٹھ گئی۔

اس نے چائے کپ میں نکالی اور کپ ایک چھوٹی سی ٹرے میں رکھا جس پر پہلے سے ہی رسک کا پیکٹ رکھا ہوا تھا۔ اور پھر ٹرے لے کر لاؤنج میں آکر صوفے پر براجمان ہوگئی۔

چائے کیونکہ بہت گرم تھی اسی لئے ٹرے میز پر رکھ کر اس نے ٹی وی آن کرلیا اور چینل سرچینگ کرنے لگی۔

بلآخر اس نے ایک چینل لگا کر چھوڑ دیا اور اپنے مختصر ناشتے کی جانب متوجہ ہوئی۔

حسب عادت اس نے سب سے پہلے چائے کا ایک گھونٹ لیا۔ جیسے ہی چائے نے زبان سے حلق تک کا سفر طے کیا بےاختیار اس کو کسی کی یاد آگئی۔

”اینی ویز! اتنی اچھی چائے کیلئے بہت شکریہ!“ بابک نے خالی کپ کاؤنٹر پر رکھا تھا۔

”اب آپ بھی جا کر سوجائیں، صبح ملاقات ہوگی، گڈ نائٹ!“ وہ کہتے ہوئے وہاں سے چلا گیا تھا جس نے چپ چپ بنا چینی کے بدمزہ چائے پی لی تھی اور زبان پر شکایات کا ایک حرف آنا تو دور چہرے پر ناگواری کا ہلکا سا رنگ بھی نہیں آنے دیا تھا کہ جس سے وہ اپنے ہاتھوں سرزد ہوئی کوتاہی کا اندازہ لگا پاتی۔

وہ بدمزہ چائے بابک کیلئے اتنی خاص کیوں تھی؟

پہلا خیال اسے یہ ہی آیا تھا۔

اور بھلے ہی اسے خاص لگی بھی تھی تو وہ یہ سب کیوں یاد کر رہی تھی بھلا؟ دوسرا سوال ذہن میں ابھرا۔


”آنکھوں میں تیرے سائے“

”چاہوں تو ہو نہ پائے“

”یادوں سے تیری فاصلہ“

”جا کے بھی تو نہ جائے“

”ٹھہرا تو دل میں ہائے“

”حسرت سا بن کے کیوں بھلا؟“


تب ہی سامنے چلتے ٹی وی پر سے یہ بول سنائی دیے۔

پہلے وہ چند لمحے ایسے ہی گم صم سی بیٹھی گیت کے بول سنتی رہی جو اسے اپنی حالت کی ترجمانی کرتے محسوس ہوئے۔

پھر یکدم کپ ٹرے پر تقریباً پٹخا اور ٹرے اٹھا کر کچن میں لے گئی۔ وہ شاید خود سے ہی کترا رہی تھی۔


”کیوں یاد کرتی ہوں؟“

”مٹتی ہوں بنتی ہوں؟“

”مجھ کو تو لایا یہ کہاں؟“

”بے نام رشتہ وہ، بے چین کرتا جو“

”ہو نہ سکے جو بیاں“

”کچھ تو تھا تیرے میرے درمیاں“




********************************


جیسے ہی چمچماتی ہوئی سیاہ کرولا آفس کے سامنے رکی گیٹ پر موجود گارڈز چوکنا ہوگئے۔

ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھلا اور اپنے مخصوص وجیہ سراپے کے ساتھ بےنیاز انداز میں بابک باہر آیا۔

جبکہ دوسری جانب سے فرنٹ سیٹ کا بھی گیٹ کھلا اور احرار باہر نکلا۔ خلافِ معمول بابک کے ہمراہ کسی کو دیکھ کر گارڈز بھی تھوڑا حیران ہوئے۔

احرار گھوم کر بابک کی طرف آیا اور پھر دونوں نے ایک ساتھ آفس کی جانب قدم بڑھائے۔

گیٹ کے نزدیک پہنچتے ہی گارڈز نے ادب سے سیلوٹ کیا جنہیں بابک کار کی چابی تھماتا اندر بڑھ گیا۔

احرار آج پہلی مرتبہ یہاں آیا تھا اس سے قبل وہ اپنی پڑھائی اور ڈیوٹی میں ہی مصروف و خوش تھا۔

وہ آس پاس کا جائزہ لیتے ہوئے بابک کے ہمراہ قدم بڑھا رہا تھا۔ یہ جدید طرز پر بنا اپنی جگہ بہت خوبصورت آفس تھا۔

گیٹ سے داخل ہوکر روم میں آنے تک راستے میں سب نے ہی انہیں ادب سے مارننگ وش کی جس کا بابک سر کی جنبش سے جواب دیتا آگے بڑھتا رہا اور اب آخر کار یہ لوگ روم میں موجود تھے۔

”پرانے آفس میں نئے باس کو ویلکم۔“ کمرے کے وسط میں کھڑے ہوکر بابک نے اسے خوش آمدید کہا۔

”تھینکس پرانے باس۔“ احرار نے بھی مسکرا کر اسی انداز میں جواب دیا اور کمرے کا جائزہ لینے لگا۔

”یہ رہی تمہاری کرسی، یہ ٹیبل، ٹیبل کے اوپر لیپ ٹاپ، فائلز، بس چلو اب شروع کرو آرڈر دینا۔“ بابک نے مزے سے کام سمجھایا۔

تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔

”کم اِن۔“ بابک نے اجازت دی۔

”گڈ مارننگ سر۔“ ایک درمیانی عمر کا شخص ہاتھ میں گلدستہ لئے دانتوں کی نمائش کرتا اندر داخل ہوا۔

”گڈ مارننگ! جی کہیں مسٹر شرجیل؟“ بابک سیدھا پائنٹ پر آیا۔

”دراصل میں ان سے ملنے آیا تھا۔“ اس نے آنکھوں سے احرار کی جانب اشارہ کیا۔

”کل جب سر نے فون پر بتایا کہ آج سے لے کر سر کے واپس آنے تک ان کے چھوٹے بھائی ہمارے نئے باس ہوں گے تو مجھے تب سے ہی بڑی اکسائٹمنٹ ہو رہی تھی آپ سے ملنے کی، اور یہ پھول بھی میں خاص آپ کے لئے لایا ہوں، ویلکم سر۔“ اس نے خود ہی وضاحت کی۔

”تھینک یو سو مچ۔“ احرار نے شائستگی سے گلدستہ لیا۔

”مل لئے نئے سر سے؟ ہوگئی تسلی؟ اب اگر اکسائٹمنٹ ختم ہوگئی ہو تو پلیز آپ وہ پروجیکٹ پورا کرلیں جو میں نے آپ کے ذمہ لگایا تھا۔“ بابک سینے پر بازو باندھے سنجیدگی سے بولا۔

”جس سر! بس وہیں جا رہا تھا یہاں تو بس سر سے ملنے آیا تھا، اچھا اب میں چلتا ہوں، نائس ٹو میٹ یو۔“ وہ اسی طرح دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے واپس چلا گیا۔

”پچھلے دو سال سے پرموشن کے چکر میں ہیں یہ صاحب، کام پر تو توجہ دیتے نہیں ہیں بس اسی طرح مسکے لگاتے رہتے ہیں۔“ اس کے جاتے ہی بابک نے اصل کہانی بتائی۔

”آپ کب تک واپس آئیں گے بھیا؟“ اس نے گلدستہ ٹیبل پر رکھتے ہوئے موضوع بدلا۔

”پہلے جانے تو دو۔“ بابک نے ہنس کر توجہ دلائی۔

”آپ نے بتایا نہیں کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟“ اس نے پھر جاننا چاہا۔

”میں کہاں اور کیوں گیا تھا یہ واپس آکر بتاؤں گا، تب تک کیلئے تم بس اتنا کرو کہ یہ یہاں کے معاملات دیکھ لو، بلکہ یوں سمجھ لو کہ ہم اپنی جگہیں بدل رہے ہیں، تم میرے حصے کا کام سنبھال لو، میں تمہارے بگڑے معاملات سدھار دوں گا۔“ اس نے پھر گول مول جواب دیا۔

”آپ میرے کیس کے سلسلے میں کہیں جا رہے ہیں؟“ وہ کچھ کچھ نتیجے پر پہنچ گیا۔

”ہاں۔“ اس نے بنا کسی حجت کے اقرار کیا۔

”تو مجھے بتائیں ناں آپ نے کیا سوچا ہے؟ ہم مل کر اس پر کام کرتے ہیں۔“ وہ ہی جواب آیا جس کی بابک کو توقع تھی۔

”ہم مل کر ہی تو کام کر رہے ہیں، بس جگہوں کا فرق ہے۔“ اس نے چالاکی سے بات گھمائی۔

”ہاں لیکن یہ میرا کیس ہے تو اس پر کام بھی مجھے کرنا چاہئے ناں۔“ اس نے قائل کرنے کی کوشش کی۔

”یہ کیس کس کا ہے؟“

”میرا۔“

”میں بھائی کس کا ہوں؟“

”میرے۔“

”تو کیا تمھیں اپنے بھائی پر اتنا بھروسہ بھی نہیں ہے کہ وہ تمہارے معاملات سنبھال لے گا؟“ اس نے بہت ہوشیاری سے بات بنائی تھی کہ وہ لاجواب ہوگیا۔

”بات بھروسے کی نہیں ہے بھیا، میں تو بس۔۔۔۔۔۔“

”میری بات سنو احرار۔“ بابک تحمل سے اس کی بات کاٹتا قریب آیا۔

”میرے لئے تمھیں اس کیس سے باعزت بری کروانا بہت ضروری ہے، کیونکہ اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو میرے دل پر ساری زندگی یہ بوجھ رہ جائے گا کہ میری بےوقوفی کی سزا میرے بھائی نے بھگتی۔۔۔نہرین پر بھروسہ کرنے کی بےوقوفی۔“ اس نے سنجیدگی سے اپنا موقف رکھا۔

”ایسا نہیں ہے بھیا، آپ کو خواہ مخواہ ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، اگر آپ انہیں گھر نہ بھی لاتے تو وہ کوئی اور طریقہ اپناتی انہوں نے خود کہا تھا، اور اگر اس پیشی تک کوئی ثبوت یا گواہ نہیں ملتا ہے اور میں سسپنڈ ہو بھی جاتا ہوں تو کوئی بات نہیں، ہم کورٹ میں دوبارہ پٹیشن دے دیں گے، نئے سرے سے جدوجہد کریں گے، بلکہ پہلے تحمل سے ثبوت و گواہ ڈھونڈیں گے پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے، ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا ہے، ہم پھر سے کوشش کرسکتے ہیں۔“ احرار نے کچھ مثبت پہلو اجاگر کرتے ہوئے اس کا گلٹ دور کرنا چاہا۔ جب کہ بابک کو اپنے معصومیت کی حد تک سادہ بھائی پر ٹوٹ کر پیار آیا۔

”تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں میری جان، اور ہم ایسا ہی کریں گے، لیکن اس سے پہلے دل کی تسلی کیلئے ایک کوشش مجھے بھی کرنے دو، بس یہ کچھ دن مجھے دے دو، اس کے بعد جو تم کہو گے وہ میں کروں گا، یہ وعدہ ہے، لیکن تب تک میں جو کر رہا ہوں مجھے کرنے دو، اور یہ حکم نہیں گزارش ہے۔“ بابک نے اسے دونوں کندھوں سے تھامتے ہوئے تحمل سے کہا تو اپنے ضدی بھائی کے آگے وہ لاجواب ہوگیا۔


********************************


”اور کچھ چاہیے آپ کو بھابھی صاحبہ؟“ نوری نے پیالہ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے فرمابرداری سے پوچھا۔

”نہیں! بس شکریہ۔“ نورالعین نے مسکرا کر کہا۔

پھر وہ اثبات میں سر ہلا کر کمرے سے باہر چلی گئی جبکہ نورالعین بیڈ کے سرہانے ٹیک لگا کر پیالے میں موجود نوڈلز کو چمچ کی مدد سے اوپر نیچے کرنے لگی تا کہ وہ تھوڑے ٹھنڈے ہوجائیں۔

ابھی وہ یہ کاروائی انجام دے ہی رہی تھی کہ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اس کا فون بجا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھایا اور کال ریسو کرکے سننے لگی۔

”کیسا گزر رہا ہے آفس میں پہلا دن جانِ من؟“ نورالعین نے جھٹ سے شرارتی انداز میں پوچھا۔

”ویلکم سر! ویلکم سر! کا راگ سنتے ہوئے۔“ اس نے بیزاریت سے بتایا۔

اس نے مسکرا کر کندھے کے سہارے سے موبائل کو کان پر ٹکایا اور نوڈلز کھانے لگی۔

”ہاں تو وہ لوگ عزت دے رہے ہیں تمھیں، مگر لگتا ہے تمھیں عزت راس نہیں آرہی۔“ نورالعین نے نوڈلز کھاتے ہوئے مصنوعی طنز کیا۔

”اب پھر کیا الا بلا کھا رہی ہو تم؟“ اسے محسوس ہوگیا تھا کہ دوسری جانب کھانے کا شغل جاری ہے۔

”نوڈلز ہیں، یہ بتاؤ تم نے لنچ کرلیا؟“

”نہیں! لنچ ٹائم ہوچکا ہے مگر بھیا کسی سے فون پر باتوں میں مصروف ہیں، وہ فری ہوجائیں پھر ان کے ساتھ لنچ کروں گا۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔

”ویسے بابک بہت خوش ہے ناں تمہارے آفس آنے پر۔“ اس نے جان بوجھ کر تائید چاہی۔

”ہاں شاید! اور اسی بات کی وجہ سے تو میں یہاں ٹکا ہوا ہوں۔“ اس نے بھی اعتراف کیا۔

”محبت چیز ہی ایسی، محبوب کی ایک مسکراہٹ پر سب کچھ ٹھیک ہونے کا گمان ہونے لگتا ہے۔“ اس نے فلسفی جواب دیا جو کہ درست بھی تھا۔

”کاش یہ گمان جلد ہی حقیقت ہوجائے۔“ احرار نے دعاگو انداز میں گہری سانس لی۔


********************************


”یہ جو ہمارے نئے باس آئے ہیں احرار سر! پہچانا تم نے کون ہیں؟“ ایک کولیگ نے دوسرے سے رازدانہ انداز میں پوچھا۔

لنچ ٹائم ہونے کی وجہ سے کولیگز ایک دوسرے کے چیئمبرز میں گھسے کھانے کے ساتھ ساتھ باتوں میں مصروف تھے۔

”نہیں! کون ہیں؟“ اس نے لاعلمی ظاہر کی۔

”ارے یہ وہی آئی او ہیں جن پر ریسینٹلی رشوت لینے کا الزام لگا ہے اور فی الحال انہیں سسپینڈ بھی کردیا گیا ہے، میں نے اخبار میں پڑھا تھا ان کے بارے میں۔“ اس نے گویا انکشاف کیا۔

”ارے ہاں، صحیح صحیح مجھے بھی یاد آیا میں نے بھی تصویر دیکھی تھی اخبار میں۔“ اس نے بھی بھرپور تائید کی۔

”دیکھو ذرا، جب اتنا اچھا خاصا بزنس تھا تو بھلا پولیس فورس جوائن کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ اور کر بھی لی تھی تو ایمانداری سے کام کرتے، مجھے تو لگتا ہے کہ بزنس کے معاملات میں بھی ایسی ہی گڑبڑ چلتی ہوگی اندر ہی اندر، تب ہی تو اتنا عالیشان آفس کھڑا کرلیا ہے۔“ اس نے بےنیازی سے صاف صاف تہمت لگائی۔

”اچھا! تو مطلب جو لوگ بنا گڑبڑ کے کام کرتے ہیں وہ کبھی ترقی نہیں کرسکتے؟“ تب ہی دونوں کے عقب سے طنزیہ آواز ابھری۔

دونوں چونک کر پلٹے اور پیچھے بابک کو موجود پا کر یکدم اپنی کرسیوں پر سے کھڑے ہوگئے۔ کیونکہ اس کے خطرناک تیور بتا رہے تھے کہ اس نے ساری باتیں سن لی ہیں۔

”سر۔۔۔۔آپ۔۔“ تھوڑی دیر قبل جو زبان بنا رکے تہمت لگا رہی تھی اب وہ لڑکھڑانے لگی۔

”میرے سوال کا جواب دو، کہ کیا بنا گڑبڑ کیے کوئی ترقی نہیں کرسکتا؟ اور اگر ہم اتنے ہی بےایمان ہیں تو کیوں کر رہے ہو ہم جیسے بےایمان لوگوں کی ملازمت، جاؤ کسی ایماندار کو ڈھونڈ لو۔“ سخت طیش کے باعث اس کی آواز کافی بلند ہوگئی تھی جس سے سب متوجہ ہونے لگے۔

”نہیں سر۔۔۔ہمارا وہ مطلب نہی۔۔۔۔“

”تمہارا مطلب کچھ بھی ہو، لیکن اس بات کا حق کسی کو بھی نہیں پہنچتا کہ وہ کسی کے کردار پر، کسی کے ایمان پر اور کسی کی محنت پر بغیر ثبوت انگلی اٹھائے۔“ بابک نے سختی سے اس کی بات کاٹی۔

”جس شخص پر تم نے بےایمانی کا الزام لگایا ہے اس نے ایمانداری سے اپنا فرض پورا کرنے کیلئے اپنے رشتوں کی بھی پرواہ نہیں کی، جس عالیشان آفس میں اس وقت تم کھڑے ہو اسے کھڑا کرنے میں میرے باپ کی پوری زندگی لگ گئی، تم لوگ تو روز صبح آٹھ سے شام پانچ تک کام کرکے ہر ماہ تنخواہ لے لیتے ہو، پر تمھیں تنخواہ دینے کیلئے، اس بزنس کو برقرار رکھنے کیلئے ہمیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے کبھی سوچا ہے؟“ وہ غصے سے پھٹ پڑا تھا۔

تب تک احرار بھی باقی سب کے ساتھ وہاں آچکا تھا۔ جبکہ وہ دونوں خاموشی سے سر جھکائے کھڑے تھے۔

”چھوڑیں بھیا، اس طرح چلانے سے کچھ نہیں ہوگا، لوگوں کا تو کام ہے باتیں بنانا۔“ احرار نے اسے سمجھانا چاہا جو بابک کی باتوں سے سارا ماجرا سمجھ گیا تھا۔

”جب لوگ باتیں بناتے ہیں تو پھر انہیں جواب کیلئے بھی تیار رہنا چاہئے، اور تم دونوں کو تمہارا جواب ریزگنیشن لیٹر کی صورت مل جائے گا۔“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ان دونوں کو فیصلہ سنایا جو ان پر بجلی بن کر گرا۔

دونوں کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ حیران پریشان سے کبھی ایک دوسرے کو تو کبھی بابک کو دیکھنے لگے۔

”اگر اور کسی کے ذہن میں بھی ایسے ہی نادر خیالات ہیں تو ابھی ان کا اظہار کردے، مجھے دل میں بغض رکھ کر ساتھ رہنے والے منافق لوگ نہیں چاہیے۔“ وہ باآواز بلند سب سے مخاطب ہوا۔

”نہیں سر! کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ، ہمارے ذہنوں میں آپ لوگوں کیلئے ایسا کوئی خیال نہیں ہے۔“ سب سے پہلے شرجیل نے اپنی سیٹ بچائی۔

جس کی دیکھا دیکھی سب نے بھی ”نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہے“ کا راگ گانا شروع کردیا۔

”سر پلیز! ہم سے غلطی ہوگئی، ہمیں ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا مگر پلیز ہمیں ایک موقع اور دے دیں۔“ اس نے منت کی جس کی وضاحت بابک نے کاٹ دی تھی۔

”ٹھیک ہے، دیا ایک موقع، لیکن اگر دوبارہ ایسا کچھ سنا تو کوئی موقع نہیں ملے گا۔“ احرار اطمینان سے بولا تو بابک نے شاکی نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔

”تم پاگل ہوگئے ہو احرار؟ انہوں نے تمھیں بےایمان کہا، ڈیڈ اور مجھ پر شک کیا اور تم انہیں موقع دے رہے ہو؟“ اسے شدید حیرت ہوئی۔

”جی! کیونکہ پہلی بات یہ کہ ایک موقع ہر غلطی کرنے والا کا حق ہے، اور دوسری بات کہ ان کے کہہ دینے سے ہم بےایمان نہیں ہوجائیں گے، جس تھالی میں کھا رہے ہیں اسی میں چھید کرکے انہوں نے اپنا ظرف دکھایا ہے، اب باری ہمارے ظرف کے امتحان کی ہے۔“ بابک کے برعکس اس نے رسان سے جواب دیا۔

اور ایسا کیسے ممکن تھا کہ احرار کوئی فیصلہ کرے اور بابک اسے ٹال دے۔ بابک کو احرار کا یہ فیصلہ ناگوار ضرور گزرا تھا لیکن وہ بنا کچھ بولے بس ایک کڑی نظر ان دونوں پر ڈالتا ہوا اپنے روم کی جانب چلا گیا۔

”آپ سب بھی پلیز اپنا اپنا کام کریں۔“ احرار نے رش کم کرنے کا حکم دیا اور خود بھی بابک کے پیچھے چلا گیا۔

ہم سب کچھ کر سکتے ہیں سوائے دنیا کو اپنی جانب سے مطمئن کرنے کے۔ کیونکہ نہ وہ برے انسان کو بخشتی ہے اور نہ اچھے انسان کی اچھائی پر یقین کرتی ہے۔ نہ ہی نکمے انسان کو چھوڑتی ہے اور نہ ہی لائق انسان کی قابلیت کو مانتی ہے۔

لوگوں کو کسی بھی حال میں چین نہیں ہے، لہٰذا انہیں نظر انداز کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے کیونکہ جو ہم نہیں ہیں وہ دنیا کے کہنے یا مان لینے سے بھی نہیں ہوں گے۔

”یار یہ نئے باس تو کتنے اچھے ہیں، سوفٹ اور کیوٹ سے۔“ ایک فیمیل کولیگ نے دوسری کے کان میں سرگوشی کی۔

”زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے، وہ شادی شدہ ہیں۔“ اس نے پہلے ہی اس کے ارمانوں پر اوس گرادی تو وہ منہ بسور کر رہ گئی۔


*******************************


”کوشش کیجئے گا بھیا کہ آپ کو زیادہ وقت نہ لگے اور آپ جلدی واپس آجائیں۔“ احرار نے تیسری بار اصرار کیا۔

”ہاں ہاں میری ماں، پوری کوشش کروں گا۔“ اس نے بھی دوبارہ تسلی کرائی۔ وہ احرار کی حد درجہ فکر پر اکثر اسے اپنی ماں کہتا تھا۔

”بس بھی کرو اب احرار! کیا بچوں کی طرح بیہیو کر رہے ہو، جب کوئی سفر پر روانہ ہو رہا ہوتا ہے تو اسے حفاظت کی دعا دیتے ہیں۔“ نورالعین نے ٹوکا۔

”ہاں وہ بھی دے دوں گا پر پہلے سب یاد دھیانی تو کروالوں۔“ وہ باز نہ آیا۔

”اچھا اب میں چلتا ہوں۔“ بابک نے اپنے ہاتھ میں پکڑا سیاہ سفری بیگ کندھے پر لٹکایا۔

”اللہ حافظ۔“ دونوں نے یک زبان کہا۔

بابک تھوڑے فاصلے پر کھڑی اپنی کار کی جانب آیا۔ پچھلی نشست کا دروازہ کھول کر بیگ سیٹ پر رکھا اور پھر خود بھی آکر ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگیا۔

کار سٹارٹ کرکے آگے بڑھنے سے قبل اس نے ایک الوداعی نظر دونوں کو دیکھا۔

”اللہ حافظ! پہنچ کر فون ضرور کیجئے گا بھیا۔“ احرار نے تاکید کی۔

”اوکے! اللہ حافظ۔“ بابک نے جواب دیا اور ساتھ ہی کار آگے بڑھا دی۔

جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی دونوں وہیں کھڑے رہے۔ پھر بابک کے موڑ مڑتے ہی دونوں بھی واپس اندر چلے گئے جو اس بات سے بےخبر تھے کہ بابک دراصل کہاں جا رہا ہے؟

********************************

سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے روانہ ہوا بابک جب تک اپنی منزل پر پہنچا تو رات کے قریب آٹھ بج چکے تھے۔

اس نے بڑی سی بلڈنگ کے پارکنگ لارڈ میں گاڑی پارک کی اور پچھلی نشست پر سے اپنا بیگ لے کر لفٹ کی جانب آیا۔

لفٹ کو کال کرکے اس میں داخل ہوا اور سکس فلور کا بٹن دبا کر لفٹ فلور پر جانے کا انتظار کرنے لگا۔

جیسے ہی لفٹ مطلوبہ فلور پر رکی وہ لفٹ سے باہر نکل کر ایک فلیٹ کے سامنے آیا اور جیکٹ کی جیب سے چابی نکال کر دروازے کا لاک کھول کے اندر داخل ہوگیا۔

یہ دو کمروں پر مشتمل ایک نہایت کشادہ اور خوبصورت فرنشڈ اپارٹمنٹ تھا جو اس نے کچھ دنوں کیلئے کسی خاص مقصد کے تحت رینٹ پر لیا تھا۔

وہ سیدھا بیڈروم میں آیا اور کندھے پر لٹکا سفری بیگ اتارتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گیا۔

اس نے بیگ کی زپ کھولی اور اس میں سے کچھ سامان نکالنے لگا۔

سب سے پہلے اس نے وہ ٹیڈی بیئر باہر نکالا جو مال کے لکی ڈرا میں نکلا تھا اور نہرین کو بہت پسند آیا تھا۔

بیگ سے باہر آنے والی دوسری چیز تھی وہ کتاب جو اکثر نہرین پڑھا کرتی تھی، فورٹی رولز آف لو بائے ایلف شفک!

تیسری اور آخری چیز تھی ایک دوربین!

ان سب کے ساتھ وہ کیا کرنے والا تھا؟ یہ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔

********************************

”میں ایک بات سوچ رہی تھی احرار!“ نورالعین اپنے بستر پر بیٹھتے ہوئے بولی۔

”اس میں کون سی نئی بات ہے؟ تم ہر وقت ہی کچھ نا کچھ سوچتی رہتی ہو۔“ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے احرار کی انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ کے کیبورڈ پر گردش کر رہی تھیں۔

”اففو! کبھی تو سیریس ہوکر میری بات سن لیا کرو۔“ وہ چڑگئی۔

”ہاں تو سناؤ ناں۔“ اس نے بھی بیزاری سے اجازت دی۔

”میں سوچ رہی تھی کہ ہمیں بابک کیلئے کوئی لڑکی ڈھونڈنی چاہیے، کیونکہ بھلے ہی وہ اوپر اوپر سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسے نہرین کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑا، لیکن اندر ہی اندر شاید اب بھی وہ اسے یاد کرتا ہے! ایسے اکیلے رہ کر تو وہ کبھی اس ڈائن کے خیالوں سے آزاد نہیں ہو پائے گا، شادی ہوگی نیا ساتھی ملے گا، ذمہ داری پڑے گی تو وہ خود ہی اسے بھول جائے گا، تم کیا کہتے ہو؟“ اس نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے رائے مانگی۔

”ہممم! اچھی بات ہے، جب لڑکی ڈھونڈ لو تو مجھے بھی بتا دینا، میں شادی میں آجاؤں گا۔“ اس نے ٹائپنگ کرتے ہوئے لاپرواہی سے جواب دیا۔

”تم دھیان سے نہیں سن رہے ہو میری باتیں۔“ اس نے تنک کر شکوہ کیا۔

”نورالعین پلیز! ایک تو پہلے ہی بھیا مجھے آفس کے کاموں میں الجھا کر چلے گئے ہیں اوپر سے تم بک بک کر رہی ہو، میرا دھیان بٹ رہا ہے، میں کوئی غلطی کردوں گا، اس لئے پلیز تھوڑی دیر چپ ہوجاؤ۔“ اس نے اکتاہٹ بھرے انداز میں التجا کی جو آفس کے کام کی وجہ سے سخت الجھا ہوا تھا۔

”اچھا! اب تمہارے لئے میری باتیں بک بک ہوگئی ہیں، شادی سے پہلے تو فون کر کرکے پوچھتے تھے کہ میرے لائق کوئی کام ہو تو بلاجھجھک کہہ سکتی ہیں، سیانے ٹھیک کہتے ہیں کہ جسے مل جاتا ہے اسے قدر نہیں ہوتی، جب میں نہیں رہوں گی ناں تب پتا چلے گا۔“ وہ غصے سے کہتے ہوئے دوسری جانب کروٹ لے کر لیٹ گئی۔

”ایک تو تم ہر بات کا غلط مطلب لے جاتی ہو۔“ وہ اسے بگڑتا دیکھ کر تھوڑا متوجہ ہوا۔

”رہنے دیجئے، نہیں چاہیے مجھے کوئی وضاحت، آپ اپنے کام پر توجہ دیں جس میں میری وجہ سے خلل پڑ رہا تھا۔“ وہ ہنوز اسی جانب کروٹ لئے ہوئے بولی۔

وہ اس کی پشت کو تکتے ہوئے ایک گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اسے ڈاکٹر نے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ جس حالت میں وہ ہے ایسے میں مزاج کا پل پل تبدیل ہونا فطری ہے اسی لئے وہ بھی خاموش ہوگیا کہ بیکار میں بات بحث بن جائے گی۔

اس نے اطمینان سے اپنا کام ختم کرکے لیپ ٹاپ بند کیا، اسے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور ساتھ ہی سائیڈ لیمپ آف کردیا۔

پھر اس نے اپنے اوپر کمبل درست کیا، اپنی ”روٹھی محبوبہ“ کی جانب کھسکا اور بازو اس کے اوپر رکھ لیا۔

”بتاؤ اب کیا کیا سوچ رہی ہو تم؟“ وہ ہمہ تن گوش تھا۔

”کچھ نہیں۔“ حسب توقع سپاٹ جواب آیا۔

”اچھا اور؟“ احرار پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

”کچھ نہیں۔“ پھر وہی جواب آیا۔

”واہ! یہ بھی بہت اچھا خیال ہے، اور؟“ اس نے مصنوعی تعریف کی۔ اب کی بار بجائے کوئی جواب دینے کہ نورالعین نے اس کی جانب کروٹ لی اور اسے دیکھنے لگی۔

”کیوں کرتے ہو تم یہ؟“ انداز نروٹھا تھا۔

”کیا! تم سے محبت؟“ وہ اس کی لٹ چہرے پر سے ہٹاتے ہوئے انجان بنا۔

”اسے محبت کہتے ہیں؟ محبت میں محبوب کی باتیں بک بک لگتی ہیں؟“ اس نے طنز کیا۔

”ہاں، اسے ہی تو محبت کہتے ہیں کہ جب محبوب کی بک بک نہ سننے کو ملے تو زندگی بورنگ سی لگتی ہے۔“ اس نے شرارت سے اعتراف کیا۔

”مجھے نہیں کرنی کوئی بھی بات، میں تم سے ناراض ہوں۔“ وہ اس کے سینے پر سر رکھتے ہوئے نروٹھے پن سے بولی۔

”اچھا! اسے ناراض ہونا کہتے ہیں؟ ناراض ہوکر لوگ اتنے نزدیک آجاتے ہیں؟“ اس نے معنی خیزی سے اسی کے انداز میں بات دہرائی۔ جبکہ اس نے جواب دینے کے بجائے مسکرا کر چہرہ مزید اس کے سینے میں چھپا لیا۔

تمہارا قرب جب مجھے میسر ہوتا ہے

تمام زیست میں وہ وقت معتبر ہوتا ہے

انتخاب

سورج ایک بار پھر حاضر تھا جس کی روشنی سے سب بیدار ہونا شروع ہوگئے تھے۔

بابک اپنی ڈارک براؤن ٹی شرٹ کی فل آستینیں کہنیوں تک چڑھاتا ہوا کچن میں آیا۔ اس کے ماتھے پر آئے گیلے بے ترتیب بال اطلاع دے رہے تھے کہ وہ ابھی ابھی نہا کر آیا ہے اور ان پر برش کرنے کی بھی زحمت نہیں کی گئی ہے۔

کچن میں آکر اس نے جیسے ہی چائے کا پانی چولہے پر رکھا بیڈروم سے موبائل بجنے کی آواز آئی۔

وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے میں آیا اور اسے بنا دیکھے ہی پتا تھا کہ کس کی کال ہوگی؟

”جی امی جان؟“ بابک کال ریسو کرتے ہی فرمابرداری سے کہتا ہوا واپس کچن کی جانب آیا۔

”میں آپ سے ناراض ہوں۔“ نروٹھےپن سے جواب آیا۔

”اچھا! تو اپنی جان کی ناراضگی دور کرنے کیلئے کیا کرے یہ ناچیز؟“ اس نے گردن ٹیڑھی کرکے کندھے کی مدد سے موبائل پکڑا اور پانی میں پتی ڈالنے لگا۔

”واپس آجائیں۔“ اس نے جھٹ سے فرمائش کی۔

”لیکن تمہاری پیشی تو کل ہے میری جان۔“ اس نے حساب درست کیا۔

”مطلب آپ میری پیشی سے پہلے نہیں آئیں گے؟“ اس نے تائید چاہی۔

”شاید۔“ وہ حقیقی معنوں میں انجان بنا۔

”آپ بھی ناں! اچھا ابھی کیا کر رہے ہیں آپ؟" اس نے ہار مانتے ہوئے موضوع بدلا۔

”تھوڑی دیر پہلے ہی سوکر اٹھا ہوں اور اب چائے بناتے ہوئے تم سے بات کر رہا ہوں۔“ اس نے سادگی سے بتایا۔

”کیا! بھیا آپ چولہے کے پاس موبائل لے کر کھڑے ہیں! آپ کو پتا ہے کہ چولہے کے قریب موبائل لے جانا کتنا خطرناک ہوتا ہے؟ آگ کی تپش سے بیٹری بلاسٹ ہوسکتی ہے، آپ بھی کیا الٹے سیدھے کام کرتے ہیں، رکھیں اب جلدی سے فون۔“ اس نے سختی سے ٹوکتے ہوئے خود ہی جلدی سے لائن ڈسکنیکٹ کردی۔

”پاگل۔“ بابک نے بڑبڑاتے ہوئے اس کے حکم کی تعمیل میں موبائل چولہے سے دور فریج کے اوپر رکھ دیا۔

چند لمحوں میں ہی چائے بھی تیار تھی جسے کپ میں انڈیل کر ایک ہاتھ میں کپ پکڑا، دوسرے ہاتھ سے موبائل واپسی جیب میں ڈالا اور لاؤنج عبور کرتے ہوئے گیلری میں آگیا۔

چائے کیونکہ کافی گرم تھی اسی لئے تھوڑی دیر کیلئے کپ وہاں موجود ایک چھوٹی سی میز پر رکھ دیا اور خود ریلینگ پر دونوں ہاتھ ٹکا کر آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔

وہ اس وقت چھٹی منزل پر واقع ٹو بیڈ لاؤنج کے اس فرنشڈ فلیٹ کی گیلری میں کھڑا تھا۔

جہاں یہ پراجیکٹ واقع تھا وہاں آس پاس زیادہ آبادی نہیں تھی۔ گیلری سے نظر آتا یہ مین روڈ تو ویسے ہی سنسان رہتا تھا اور اس وقت صبح ہونے کے باعث دور دور تک کوئی چہل پہل نظر نہیں آرہی تھی۔ اور اگر ہوتی بھی تو اسے بھلا کیا غرض تھی؟ اس کی اندرونی دنیا تو پہلے ہی ویران ہوچکی تھی۔

وہ کچھ دیر ایسے ہی آس پاس دیکھتے ہوئے پیچھے ہٹنے والا تھا کہ یکدم اس کی نظر نیچے کسی پر پڑی اور وہ جو کوئی بھی تھا بلڈنگ کے گیٹ کی جانب بڑھ رہا تھا غالباً باہر جانے کیلئے۔

اسے سو فیصد یقین تھا کہ یہ نظر کا دھوکہ نہیں ہے اس شخص کو پہچاننے میں بھلا وہ کیسے چوک سکتا تھا؟

ایک لمحہ بھی برباد کیے بغیر وہ اندر کی جانب بھاگا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں دوربین تھی جسے آنکھوں پر لگائے وہ اس شخص کو دیکھنے لگا۔

اطلاع بالکل درست تھی۔۔۔۔۔وہ نہرین ہی تھی۔

شک کی تصدیق ہونے پر وہ دوربین وہیں چھوڑ کر باہر کی جانب بھاگا۔ باہر آکے فٹافٹ لفٹ کو کال کی مگر لفٹ چوتھے فلور سے آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔

وہ لفٹ کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے جتنی تیزی سے ہوسکا سیڑھیاں اترنے لگا۔ مگر جب تک وہ نیچے آکر باہر پہنچا تب تک وہاں کوئی نہیں تھا۔ ایک لمحے کیلئے اسے مایوسی ہوئی مگر اگلے ہی پل ایک خیال کے تحت وہ دروازے پر بیٹھے چوکیدار کی جانب آیا۔

”یہاں سے ابھی ایک لڑکی گزری تھی جس نے بلیک جینز پر ریڈ کرتی پہنی ہوئی تھی اور اس کے اوپر براؤن شال اوڑھی ہوئی تھی کیا تم بتا سکتے ہو کہ وہ کس طرف گئی ہے؟" اس نے پھولتی سانسوں کے درمیان حلیہ بتاتے ہوئے پوچھا۔

”جی صاحب! یہاں گیٹ سے نکل کر دائیں جانب مڑ کر سیدھا جانے کے بعد بائیں جانب مڑ کر، سیدھا جانے کے بعد پھر دائیں جانب مڑ۔۔۔۔۔۔“

”اگر دائیں بائیں کر چکے تو بس اتنا بتا دو کہ وہ کس طرف گئی ہے؟“ اس نے چڑ کر بات کاٹی۔

”وہی تو بتا رہا ہوں صاحب کہ پھر دائیں جانب مڑ کر تھوڑا سا چل کر آگے مارکیٹ ہے شاید وہیں گئی ہوں گی میڈیم۔“ اس نے ڈرتے ڈرتے بات مکمل کی۔

وہ بنا ایک لمحے بھی مزید برباد کیے باہر کی جانب بھاگا اور بقول چوکیدار کے مارکیٹ والے راستے پر قسمت آزمائی جو کہ کام بھی کر گئی۔

تھوڑی دور ہی وہ اسے درمیانی رفتار سے قدم اٹھاتے ہوئے نظر آئی جبکہ اس نے خاموشی سے پیچھا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنی رفتار مزید دھیمی کردی۔

وہ ایک چھوٹے سے مارٹ میں داخل ہوئی مطلب وہ کچھ خریداری کرنے ہی آئی تھی۔ اسے اندر جانا ٹھیک نہیں لگا اس لئے وہیں ایک گاڑی کی آڑ میں چھپ کر اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔

تھوڑی دیر گزرنے کے بعد وہ ہاتھ میں ایک شاپر لئے مارٹ سے باہر آئی اور واپسی کے راستے پر گامزن ہوگئی جبکہ وہ بھی کافی فاصلہ رکھ کر اس کا پیچھا کرنے لگا۔

وہ واپس اسی بلڈنگ کی جانب آئی جہاں سے نکلی تھی مطلب وہ یہاں ہی رہتی تھی۔ دروازے سے اندر داخل ہوکر اب اس کے قدم لفٹ کی جانب تھے۔

”رکیں میڈیم۔“ یکدم کسی نے پکارا۔ وہ چونک کر پلٹی تو پیچھے چوکیدار موجود تھا۔

”کیا ہوا؟“ نہرین نے ناسمجھی سے پوچھا۔

”میڈیم لفٹ سے مت جائیں، لفٹ میں کام چل رہا ہے۔“

”کیا! لیکن ابھی تو تھوڑی دیر پہلے میں لفٹ سے ہی نیچے آئی تھی۔“ اسے حیرانی ہوئی۔

”جی آپ کے جانے کے بعد ہی ٹیم اوپر کام کرنے گئی ہے، تو ہوسکتا ہے وہ کسی بھی وقت لفٹ بند کردیں، آپ اندر پھنس سکتی ہیں اس لئے سیڑھیوں سے چلی جائیں۔“ اس نے وضاحت کی۔

”کمال ہے، تو ایٹ لیسٹ کوئی نوٹس تو لکھ کر لگائیں یا پھر بند ہی کردیں لفٹ، اگر کوئی پھنس گیا تو۔“ اس نے تھوڑی سختی دکھائی۔

”جی بس ابھی لگا رہے ہیں نوٹس۔“ اس نے فرمابرداری سے کہا۔

وہ ایک گہری سانس لے کر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی اور آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگی۔

جب تک وہ فلور پر پہنچ کر اپنے فلیٹ کے اندر نہیں چلی گئی بابک چپکے چپکے اس کا پیچھا کرتا رہا۔ فلور اور فلیٹ نمبر نوٹ کرنے کے بعد وہ لفٹ سے واپس نیچے چوکیدار کے پاس آیا۔

”ٹھیک بولا ناں میں نے صاحب؟“ اسے دیکھتے ہی وہ اپنی کرسی پر سے کھڑا ہوگیا۔

”ہاں ٹھیک کہا۔“ اس نے تائید کی۔

”لیکن آپ نے انہیں جھوٹ بولنے کا کیوں کہا؟“ اس نے پھر وہی سوال دہرایا جس کا جواب اب تک نہیں ملا تھا۔

”کیونکہ اگر وہ لفٹ سے جاتی تو مجھے پتا نہیں چل پتا کہ وہ کون سے فلور کے کس فلیٹ پر گئی ہے؟“ اس نے الجھا سا جواب دیا۔

”اور آپ کو یہ کیوں جاننا تھا؟“ ایک اور سوال آیا۔

”اس سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے، تم بس آم کھاؤ۔“ بابک نے پانچ ہزار کا نوٹ اس کے یونیفارم کی جیب میں ڈالا اور مزید اس کی کوئی بات سنے بنا وہاں سے چلا گیا۔

جبکہ چوکیدار ناسمجھی کے عالم میں جیب سے نوٹ نکال کر دیکھنے لگا۔

”ستمبر کے مہینے میں آم کہاں ملتے ہیں؟“ اس نے ناسمجھی سے خودکلامی کی۔


********************************


”مریم! تم اس طرف جا رہی ہو تو پلیز یہ فائل احرار سر کو دیتی ہوئی چلی جانا۔“ زینیہ نے ایک فائل اس کی جانب بڑھائی۔

”احرار سر کو دینی ہے؟ لاؤ میں دے آتی ہوں۔“ اس سے قبل کے مریم کوئی جواب دیتی آمنہ نے اپنی جگہ سے اٹھ کر فائل لے لی۔ جس پر دونوں چونک کر اسے دیکھنے لگی۔

”آمنہ! تمھیں کہا تھا ناں اس دن بھی میں نے کہ سر شادی شدہ ہیں کوئی الٹی سیدھی حرکت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔" زینیہ نے یاد دلایا۔

”اففو! بس فائل ہی تو دینے جا رہی ہوں اس میں بھلا الٹی سیدھی حرکت کیا ہے؟ بابِک سر تو سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے تھے، جبکہ یہ کتنی سوفٹ نیچر کے ہیں بس اسی لئے اچھا لگتا ہے ان سے بات چیت کرنا۔“ اس نے صفائی دی۔

”مرضی ہے تمہاری۔“ زینیہ کندھے اچکاکر واپس اپنے کمپوٹر کی جانب متوجہ ہوگئی۔

جبکہ آمنہ خوشی خوشی فائل لے کر احرار کے روم کی جانب آئی اور دستک دینے سے قبل اس نے شیشے کے دروازے میں اپنا عکس دیکھا کہ وہ ٹھیک لگ رہی ہے ناں!

اس نے وائٹ سکن ٹائیٹ جینز کے ساتھ گھٹنوں تک آتی ریڈ کرتی پہنی ہوئی تھی۔ گلے میں مفلر سٹائل میں سفید کلر کا اسکارف لپیٹا ہوا تھا اور اسٹیپ کٹینگ بال اونچی پونی کی صورت سمٹے ہوئے تھے۔

اچھی طرح اپنا جائزہ لینے کے بعد اس نے دروازے پر دستک دی اور اجازت ملتے ہی آہستہ سے دروازہ دھکیلتے ہوئے وہ اندر آئی۔

”گڈ آفٹر نون سر۔“ وہ خوش اخلاقی سے بولی۔

”گڈ آفٹر نون! جی کہیے؟“ اس کی آنکھیں اور ہاتھ لیپ ٹاپ پر تھے۔

”سر یہ فائل دینے آئی تھی میں آپ کو۔“

”ٹھیک ہے، یہاں ٹیبل پر رکھ دیں میں دیکھ لوں گا۔“ انداز ہنوز وہی تھا۔

اس نے چند قدم آگے آکر فائل ٹیبل پر رکھی۔ اور دل میں سوچنے لگی کہ وہ تو یہاں اس سے کچھ بات چیت کرنے آئی تھی مگر احرار نے تو سرے سے بات ہی ختم کردی، اب کیا کرے؟

”اب آپ جا سکتی ہیں مس۔“ احرار نے اسے اب تک وہیں پا کر اجازت دی۔

”سر میرا نام آمنہ ہے۔“ اس نے بات بڑھائی۔

”اوکے، تو مس آمنہ اب آپ جا سکتی ہیں۔“ اس نے تصحیح کرتے ہوئے پھر وہی بات کی۔

اور اب ناچاہتے ہوئے بھی اسے واپس جانا ہی پڑا۔

جو خوشی چہرے پر لئے وہ روم میں داخل ہوئی تھی اس پر احرار کی سنجیدگی نے اوس گرا دی تھی۔


********************************


کافی شاپ میں موجود شخص نے اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی دیکھی تو پتا چلا دن کے تین بج رہے تھے۔ وہ ایک بار پھر دونوں ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر وقت گزاری کیلئے آس پاس کا جائزہ لینے لگا۔ تب ہی کافی شاپ کا گیٹ کھلا اور آنے والے کو دیکھ کر اس نے شکر کی سانس لی۔

بلیک جینز پر ڈارک براؤن ٹی شرٹ پہنے، آنکھوں پر سیاہ سن گلاسسز سجائے بابک اسی شخص کی جانب آرہا تھا۔

”گڈ آفٹر نون۔“ وہ اخلاقاً کھڑا ہوگیا۔

”گڈ آفٹر نون! بیٹھیں اور بتائیں کہ کیا بات کرنی تھی آپ کو؟“ وہ کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے سیدھا موضوع پر آیا۔

”مسٹر احرار پر رشوت لینے کا صرف الزام نہیں ہے، بلکہ عدالت کے پاس باقاعدہ ثبوت بھی موجود ہیں، اب ہمیں کیس اپنے حق میں لینے کیلئے کوئی بہت ہی ٹھوس ثبوت چاہیے۔“ اس نے وہی گھسی پٹی بات دہرائی۔

”یہ بات تو ہم سب جانتے ہیں اسحاق صاحب، آپ بس یہ بتائیں کہ آپ نے جو اتنے سال وکالت پڑھی ہے، کیس لڑے ہیں ان سب کے تجربے سے کوئی حل نکلتا نظر آرہا ہے کیا اس مسلے کا؟“ اس نے تحمل سے پوچھا۔

”نہیں! بنا ثبوت کے ہم کچھ نہیں کر سکتے، اور اگلی پیشی پر پیش کرنے کیلئے ہمارے پاس نہ کوئی ثبوت ہے، نہ گواہ اور نہ دلیل، ہم یہ کیس ہار چکے ہیں سمجھیں۔“ اس نے بات ہی ختم کردی۔

”تو یہ بات آپ مجھے فون پر بھی بتا سکتے تھے، یہاں بلانے کی کیا ضرورت تھی؟“ اس نے ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔

جبکہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ سامنے ٹیبل کی وسط میں رکھا گلدان مار کر اس کا سر پھوڑ دے جس نے اسے خوامخواہ اتنی دور بلا کر خوار کیا۔

”آپ نے ہی تو کہا تھا کہ جو بھی بات ہو مل کر تفصیل سے کیجئے گا۔“ اس نے گویا یاد دلایا۔

”میں نے کام کی بات کا کہا تھا۔“ اس کا ضبط جواب دینے لگا تھا۔

”یہ کام کی بات ہی تو ہے سر! میں آپ کو کسی جھوٹے آسرے پر رکھ کر کورٹ میں مایوس نہیں کرنا چاہتا، میں اپنا سارا زور لگا چکا ہوں لیکن بچنے کی کوئی راہ نہیں ملی، البتہ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہو تو ضرور بتائیے گا۔“ اس نے وضاحتی جواب دیا۔ جس پر وہ کچھ نہ بولا۔

”خیر اب میں چلتا ہوں، کورٹ میں ملاقات ہوگی، اللہ حافظ!“ وہ کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا۔

اور پھر مزید کوئی بات کیے بنا باہر کی جانب بڑھ گیا جبکہ بابک نے غصے میں اپنا مکا ٹیبل پر مارا۔ ایک تو ویسے ہی کیس میں کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی اوپر سے وکیل بھی عجیب نمونہ گلے پڑے تھا۔ یہ شہر کا سب سے مہنگا اور نامی گرامی وکیل تھا جو ان کے کسی کام نہ آسکا۔

"سر بل۔“ تب ہی ویٹر وہاں آیا۔

"کیا! لیکن میں نے تو کچھ آرڈر ہی نہیں کیا۔“ وہ حیران ہوا۔

”سر آپ کے ساتھ جو یہاں بیٹھے تھے انہوں نے کافی پی تھی اور یہ اسی کا بل ہے۔“ اس نے مؤدب انداز میں وضاحت کی۔

دل ہی دل میں اسے پیارے پیارے ”القابات“ سے نوازتے ہوئے بابک نے جیب سے پیسے نکال کر اسے دیے جسے لے کر وہ ”تھینکس“ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

بابک بھی واپسی کیلئے اٹھ کھڑا ہوا مگر جیسے ہی وہ باہر جانے کے ارادے سے پلٹا پیچھے آنے والے سے بری طرح ٹکرایا۔

”اوہ بھائی دیکھ۔۔۔۔۔۔ بابک۔۔۔تو یہاں۔“ ٹکرانے والا یاور تھا۔

”اچھا ہوا تو یہاں مل گیا، میں ابھی تیرے ہی پاس آنے والا تھا۔“ بابک کا یہاں آنا بیکار نہیں گیا۔

”خیریت؟“

”بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔“ بابک نے اسی ٹیبل کی جانب اشارہ کیا جس کے گرد چند لمحوں قبل وہ وکیل کے ساتھ بیٹھا تھا۔

”مجھے تیری مدد چاہیے۔“ بابک نے بات شروع کی۔

”وہ مجھے پتا ہے کہ تم دونوں بھائیوں کو میری یاد صرف تب ہی آتی ہے جب تم لوگوں کو کوئی کام پڑتا ہے، کام کیا ہے یہ بتا۔“ وہ بنا لحاظ کیے طنز کرتا سیدھا پائنٹ پر آیا۔

”میں نے کچھ لوگوں کو نہرین کو ڈھونڈنے پر لگایا ہوا تھا جو مجھے مل گئی ہے، وہ شہر کے ایک دور دراز علاقے میں واقع اپارٹمنٹ میں رہ رہی ہے، اطلاع ملنے پر میں فوری وہاں پہنچ گیا اور وہ مجھے مل بھی گئی ہے، اب بس اس کے ذریعے اصل ماسٹر مائنڈ تک پہنچنا ہے، میں نے ایک پلان ریڈی کر لیا ہے جس میں مجھے تیری مدد چاہیے۔“ بابک نے اصل بات بتائی جسے سن کر وہ خاصا حیران ہوا۔

”کیسا پلان؟“ اس نے ناسمجھی سے جاننا چاہا۔


********************************


ابھی ابھی سورج غروب ہونے کے باعث آسمان پر کہیں کہیں سرخی باقی تھی جسے گیلری میں کھڑی نہرین بےخیالی میں تکے جا رہی تھی۔

اسے اس وقت اپنی زندگی اور اس آسمان میں بہت مماثلت محسوس ہو رہی تھی۔ جیسے یہ آسمان سورج کے چلے جانے کے بعد بالکل ویران سا ہوگیا تھا ویسے ہی اس کی زندگی بھی تو ہوگئی تھی نعمان آفندی کے چلے جانے سے، اداس اور خالی!

وہ سست روی سے کچن میں آئی اور کانچ کے گلاس میں پانی نکال کر پینے ہی لگی تھی کہ ڈور بیل بج گئی۔

اسے لگا ڈیلوری بوائے آیا ہے۔ وہ گلاس ہاتھ میں لئے ہی دروازہ کھولنے آئی۔

جس اطمینان سے اس نے گیٹ کھولا تھا وہ سامنے موجود شخص کو دیکھ کر ایک لمحے میں غائب ہوا تھا۔ اسے چند لمحوں کیلئے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔

”تم؟“ وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔

”ہاں میں۔“ دونوں ہاتھ پشت کے پیچھے کیے کھڑا بابک اطمینان سے بولا۔

”کیا کرنے آئے ہو یہاں؟“ اب اس نے حواسوں کو قابو کرتے ہوئے تھوڑی سختی دکھائی۔

”وہ بھی بتا دوں گا، مگر پہلے مجھے اندر تو آنے دو۔“ وہ اسے دھکیلتا ہوا اندر آگیا اور اپنے پیچھے گیٹ بھی بند کردیا۔

”دیکھو! ابھی کے ابھی چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں شور مچا کر سب کو اکٹھا کرلوں گی۔“ اس نے خود کو مضبوط رکھتے ہوئے دھمکی دی۔

”اس کی ضرورت نہیں ہے، تم ہمارے گھر اپنا کچھ سامان بھول گئی تھی، بس وہ ہی لوٹانے آیا ہوں۔“ بابک نے اپنے ہاتھ اس کے سامنے کیے۔

ایک ہاتھ میں ٹیڈی بیئر تھا اور دوسرے ہاتھ میں وہ ہی کتاب!

”یہ میرا سامان نہیں ہے، یہ کتاب میں نے تمہارے اسٹڈی روم سے پڑھنے کیلئے لی تھی اور یہ ٹیڈی بھی تم نے ہی دیا تھا۔“ اس نے سپاٹ انداز میں تصحیح کی۔

”ہاں، لیکن یہ دونوں چیزیں اپنے گھر میں دیکھ کر بار بار تمہاری یاد آتی ہے، اسی لئے سوچا تمھیں واپس کردوں، ایک طرح سے یہ تمہارا ہی سامان تھا۔“ اس نے سادگی سے کہتے ہوئے دونوں چیزیں کانچ کی میز پر رکھ دیں۔ وہ کچھ نہ بولی۔

”اور سناؤ آج کل کیا چل رہا ہے زندگی میں؟ لوگوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے علاوہ۔“ وہ استہزائیہ انداز میں پوچھتا اس کی جانب آیا۔

”تمہارا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، سامان لوٹا دیا ناں! اب نکلو یہاں سے۔“ اس نے دروازے کی جانب اشارہ کیا۔

”واہ! تم ہمارے گھر اتنے دن رہ کر گئی ہم نے کچھ نہیں کہا، اور میرا صرف یہاں آنا ہی تمھیں اتنا برا لگ رہا ہے کہ بدتمیزی پر اتر آئی۔“ اس نے طنز کیا۔

”تمہارے گھر آنا میری مجبوری تھی۔“ اس نے تلخی سے کہا۔

”پھر تو میری دعا ہے کہ خدا تمھیں تاعمر ایسا مجبور رکھے۔“ وہ گھمبیرتا سے کہتا ہوا مزید قریب آیا۔

”دیکھو! اگر تمہارے ذہن میں یہ ہے کہ تم مجھ پر زور زبردستی کرکے مجھ سے سب کہلوا لو گے تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے، میں جان دے دوں گی مگر کوئی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالوں گی جو تمہارے بھائی کے حق میں ہو۔“ اس نے چند قدم پیچھے ہٹتے ہوئے آگاہ کیا۔

”چلو مان لیتے ہیں کہ میں زور زبردستی کرکے تم سے سچ نہیں اگلوا سکتا، مگر۔۔۔۔“ اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی اور بغور اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔

”مگر کیا؟“ اس نے محتاط انداز میں پوچھا۔

”مگر زور زبردستی کرکے اور بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں میں تمہارے ساتھ۔“ اس نے یکدم ہی نہرین کو بازو سے پکڑ کر دیوار سے لگا دیا جس کے باعث اس کے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس گر کر چکنا چور ہوگیا۔ اور خود وہ دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکائے اس کے مقابل کھڑا ہوگیا۔

”تمھیں یاد ہے میں نے بتایا تھا کہ میں ایک لڑکی پر ریپ اٹیمپٹ کرنے کے جرم میں جیل گیا تھا! سوچ رہا ہوں وہ فیل اٹیمپٹ اس بار سکسیسفل کر ہی لوں۔“ وہ معنی خیز سے کہتا اس کے مزید قریب ہوا۔

”دور ہٹو مجھ سے ورنہ میں شور مچا دوں گی۔“ اس نے دونوں ہاتھ بابک کے سینے پر رکھ کر اسے پیچھے دھکیلنا چاہا مگر ناکام رہی۔

”اچھا! چلو مچاؤ شور، ویسے آپ کی اطلاع کیلئے عرض کرتا چلوں کہ آپ کے فلور پر صرف دو ہی فلیٹ آباد ہیں ایک آپ کا اور ایک آپ کے پڑوس والا، اور یہ جان کر آپ کو مزید حیرت ہوگی کہ آپ کے پڑوسی بھی اس وقت گھر میں نہیں ہیں۔“ اس نے استہزایہ انداز میں علم میں اضافہ کیا۔

وہ لاکھ نڈر سہی مگر تھی تو نازک سی لڑکی، جو اس وقت اپنے دشمن کے سامنے تن تنہا موجود تھی۔ ایک لمحے کیلئے وہ یہ سوچ کر سہم گئی کہ اگر واقعی بابک حد سے آگے بڑھا گیا تو۔۔۔۔۔!

وہ چند لمحے تو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایسے ہی کھڑی رہی۔ مگر اگلے ہی پل اس نے اپنے لمبے ناخنوں والا ہاتھ بابک کی آنکھ پر وار کرنے کیلئے تیزی سے اٹھایا جسے اطمینان کے ساتھ بابک نے ہوا میں ہی پکڑ لیا۔

”بڑے ناخن رکھنا انسانوں کی نہیں جانوروں کی علامت ہے وہ بھی ان جانوروں کی جو خونخوار اور مردہ خور ہوتے ہیں، عورت جیسی نازک حسین شخصیت میں جانوروں والی علامت کا پایا جانا اسے زیب نہیں دیتا، اتنے لمبے لمبے ناخن نہیں رکھنے چاہیے، مام کہتی تھیں مکرو ہوتے ہیں۔“ وہ بنا کوئی اثر لئے اسے اطمینان سے سمجھانے لگا۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور زور سے بازو جھٹکتے ہوئے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے آزاد کرانا چاہا جسے بابک نے آزاد کردیا۔

”ویسے ماننا پڑے گا، ایک ڈری سہمی، بیچاری دکھیاری لڑکی کی ایکٹنگ تم نے بہت کمال کی تھی، اور تو اور میری گاڑی کے آگے آکر اپنا پیر توڑوانے سے بھی گریز نہیں کیا، اگر یہ کوئی فلم ہوتی تو میں تمہاری اس قدر ڈیڈیکیشن پر تمھیں ایوارڈ ضرور دیتا۔“ بابک نے دلچسپی سے کہتے ہوئے دونوں بازو سینے پر باندھے۔ جب کہ وہ اسے تیکھی نظروں سے گھورنے لگی۔

”اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے نہرین، احرار سے معافی مانگ لو اور کورٹ میں اس کے حق میں گواہی دے کر اس کا نام بتا دو جس کے کہنے پر تم نے یہ سب کیا۔“ دونوں بازو سینے پر سے کھولتے ہوئے بابک کا انداز نرم تھا گویا وہ بات بنانا چاہ رہا ہو۔

”ہرگز نہیں، جس کی وجہ سے میں نے اپنے باپ کو کھویا میں اس کے حق میں کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گی، میں اسے صرف تباہ برباد ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں، پرمینینٹ سسپنڈ ہونے کے بعد اس کی عزت کی دھجیاں اڑ کر ہی رہیں گی اور یہ تم بھی دیکھو گے۔“ نہرین نے برہمی کے عالم میں اسے دھکا دیا تو وہ چند قدم پیچھا ہوا۔

”اس سے پہلے میں تمہاری جان لے لوں گا۔“ بابک نے بھی یکدم طیش میں آکر اس کا نازک گلا دباتے ہوئے برہمی کے عالم میں اسے دیوار سے لگا دیا۔

”میں نے کہا تھا ناں کہ میں اپنے بھائی کیلئے جان دے بھی سکتا ہوں اور جان لے بھی سکتا ہوں، اور یہ بالکل سچ ہے۔“ اس نے دانت پیس کر باور کرایا۔

”تم چاہے میری جان ہی کیوں نہ لے لو مگر۔۔۔۔مگر اپنے بھائی کو تم پھر بھی نہیں بچا پاؤ گے وہ اتنا برا پھنسا ہے۔“ نہرین نے بمشکل کہا جس کا گلا اس کی گرفت میں ہونے کے باعث سانس رکنے لگی تھی۔

بابک نے اس کا گلا چھوڑ دیا جس کے بعد وہ بری طرح کھانس کر اپنی سانس بحال کرنے لگی۔

اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ جس کا نام اس کی سانسوں میں بس چکا ہے وہ خود کبھی اس کی سانس روکنے کے در پہ آجائے گا۔

”کیا ملا تمھیں یہ دوغلاپن کرکے؟ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ کے؟“ اس کے غصے پر غم غالب آنے لگا۔

”تمہارے بھائی کو کیا ملا میرے بےگناہ باپ کو پھانسی پر چڑھا کر؟“ اس نے دوبدو سوال کیا۔

”تمہارا باپ بےگناہ نہیں تھا، وہ احرار کے مجرم تھے کیونکہ انہوں نے سالوں پہلے تب احرار کے سر سے اس کے باپ کا سایہ چھینا تھا جب احرار اپنی ماں کی کوکھ میں تھا۔“ اس نے حقیقت بتانی چاہی۔

”جھوٹ! میں نے سب پتا کیا تھا تم لوگوں کے بارے میں، تمہارے ڈیڈ جبار ملک تھے جن کی موت فالج کے بعد ہارٹ فیل ہونے سے ہوئی تھی، میرے پاپا کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔“ اس نے نفی کی۔

”یہ وہ معلومات ہے جو پوری دنیا جانتی ہے، مگر یہ پورا سچ نہیں ہے، درحقیقت احرار میرا سگا بھائی نہیں ہے، احرار کلثوم اور ابرار سکندر کا بیٹا ہے اور میں جبار ملک اور ثمینہ کا، لیکن ابرار اور ثمینہ کی موت کے بعد جبار ملک اور کلثوم نے ایک دوسرے سے اپنی اولاد کیلئے دوسری شادی کی۔“ بابک نے حقیقت پر سے پردہ اٹھایا تو وہ دنگ رہ گئی۔

اور پھر اول تا آخر ساری داستان من و عن اسے سنا دی جو اس کیلئے بہت غیرمتوقع تھی۔

”تم ذرا خود ذہن پر زور دو نہرین اور سوچو، اگر تمہارے مطابق مان لیا جائے کہ احرار نے نعمان آفندی کو رشوت نہ دینے کی وجہ سے جھوٹے کیس میں پھنسایا تو کیا یہ وجہ اتنی بڑی تھی کہ کسی بندے کو قتل کے کیس میں ہی پھنسا دیا جائے؟ وہ ان پر کوئی دوسرا چیٹنگ فراڈ کا الزام لگا سکتا تھا مگر ایسی کیا نوبت آگئی جو اسے تیس سال پرانا کیس کھول کر اس میں تمہارے باپ کو پھنسانا پڑا؟“ اس نے ساری بات بتا کر آخر میں سوال اٹھایا تو وہ لاجواب ہوکر واقعی سوچ میں پڑگئی۔

”ہوسکتا ہے کہ اس کی ان سے کوئی بہت بڑی دشمنی ہو۔“ اس نے خود کو مضبوط رکھتے ہوئے جواز تراشا۔

”اچھا! چلو یہ بھی مان لیتے ہیں، لیکن پھر اس نے وہ تیس سال پرانا کیس کھولنے کو ہی کیوں ترجیح دی؟ وہ انہیں کسی حالیہ قتل کیس میں بھی تو پھنسا سکتا تھا۔“ اس نے ایک اور سوال اٹھایا۔ ایک بار پھر اس کے پاس جواب کا قحط پڑچکا تھا۔

”اس کا جواب یہ ہے کہ احرار نے تمہارے باپ کو کسی جھوٹے کیس میں نہیں پھنسایا تھا، بلکہ وہ ہی اس قتل کے اصلی قاتل تھے، جسے کرتے ہوئے ابرار سکندر نے دیکھ لیا تھا، اور اس سے قبل کہ ابرار ان کے خلاف گواہی دیتے نعمان نے قتل کا الزام ہی ابرار پر لگا دیا، جس سے ابرار کو سزائے موت ہوگئی اور یوں وہ اپنے پیچھے ایک بیوہ اور یتیم کو چھوڑ گئے، نعمان آفندی نے دو لوگوں کی سانسیں روک کر جان لی اور دو لوگوں کو سانس چلتے ہوئے ہی ساری زندگی کیلئے مار ڈالا جو کہ ابرار سکندر کی بیوہ کلثوم اور ان کا یتیم بیٹا احرار تھا، جسے باپ کا سایہ دینے کیلئے کلثوم نے میرے باپ جبار ملک سے دوسری شادی کی مگر پھر بھی وہ بچہ ہمیشہ باپ کی شفقت کو ترس کر رہ گیا، اب تم ہی بتاؤ کہ کون ہے اصل قصوروار؟“ اس نے ساری تفصیل بتاتے ہوئے پھر سوال اٹھایا۔

اب اتنا سب سننے کے بعد تو شاید کسی کے پاس بھی کوئی جواب نہ بچتا تو پھر وہ کہاں سے جواب لاتی؟

”ہوش میں آؤ نہرین! جس کسی نے بھی تمھیں احرار کے خلاف یہ پٹی پڑھائی ہے اس کا اصل مقصد کچھ اور ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ تمھیں استعمال کر رہا ہو اور تم ہو بھی رہی ہو، بتاؤ کون ہے وہ جس نے تمھیں یہ جھوٹی کہانی سنائی؟ جس کے کہنے پر تم نے یہ سب کیا؟“ وہ اس کے دونوں بازو تھامے نرمی سے بولنے پر اکسا رہا تھا۔

”وہ۔۔۔۔“ پرسوچ انداز میں اس کے لب کھولے۔

”ہاں بتاؤ وہ کون؟“ وہ حقیقت سے بس چند لفظوں کی دوری پر تھا۔

”لیکن میں تمھیں یہ سب کیوں بتاؤں؟ ہوسکتا ہے کہ مجھے جھوٹی کہانی سنا کر مجھ سے ساری معلومات لے کر تم اس تک پہنچ کر اسے بھی نقصان پہنچا دو۔“ وہ یکدم ہی جیسے ہوش میں آئی۔

”ٹھیک ہے مت بتاؤ، میں تو بس تمہارا بھلا چاہ رہا تھا۔“ اس نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے کہا جبکہ اندر سے وہ تلملا کر رہ گیا تھا۔

”تمھیں کوئی ضرورت نہیں ہے میری فکر میں ہلکان ہونے کی، اپنا اچھا برا میں خود جانتی ہوں، اور اتنا ہی شوق ہے اس تک پہچنے کا تو جیسے مجھے ڈھونڈا ہے ایسے اسے بھی ڈھونڈ لو، مگر اب جاؤ یہاں سے۔“ وہ سختی سے بولی۔

”ٹھیک ہے، جا رہا ہوں میں، تمھیں تو میں نے اس لئے ڈھونڈ لیا کیونکہ میری پہنچ بہت اوپر تک ہے، باقی اسے بھی میں ڈھونڈ ہی لوں گا، اب چلتا ہوں میں، اللہ حافظ۔“ وہ کہتا ہوا تیزی سے دروازے کی جانب بڑھا اور لاک کھول کر باہر نکل گیا۔

اس کے جاتے ہی نہرین نے برق رفتاری سے آگے بڑھ کر گیٹ لاک کیا اور شکر کی سانس لینے لگی۔

”پتا نہیں اس کی پہنچ کتنی اوپر تک ہوگی؟“ اس نے خودکلامی کی۔

جبکہ اسے کیا پتا تھا کہ ”اوپر تک پہنچ“ ہونے سے مراد بابک کا مطلب اوپر والا فلور تھا جہاں وہ فی الحال رہ رہا تھا اور اسی کی گیلری سے اس نے نہرین کو دیکھا تھا۔

”بس مت پوچھیں کہ کیا حال ہے بھیا! ایک تو مجھے بزنس کا کوئی ایکسپیریئنس نہیں ہے، دوسرا آپ ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال کر پتا نہیں کہاں گئے ہوئے ہیں؟“ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھے احرار نے مصنوعی شکوہ کیا۔

”نہیں باقی اسٹاف تو ٹھیک ہی چل رہا ہے، مگر ایک وہ شرجیل اور دوسری مس آمنہ، ہر آدھے گھنٹے بعد دونوں کسی نا کسی کام کے بہانے میرے سر پر موجود ہوتے ہیں۔“ اس نے اپنی الجھن بتائی۔

”اچھا! اور آپ کو لگتا ہے کہ میں اس کے سنگنلز کا جواب دوں گا؟“ اس نے بابک کے کسی معنی خیز جملے کے جواب میں کہا۔

اس کے برابر میں بیٹھی کتاب پڑھتی نورالعین کی نظریں کتاب پر ہی رہی، مگر کان اور دھیان احرار کی باتوں کی جانب متوجہ ہوگئے۔

”خیر یہ بتائیں کہ آپ کب واپس آرہے ہیں؟“ اس نے موضوع بدلا۔

”ہاں پتا ہے کہ صرف کچھ دن ہوئے ہیں آپ کو گئے ہوئے لیکن لگ رہا ہے جیسے کئی سالوں سے آپ کو نہیں دیکھا۔“ اسے سچ میں اپنے بھائی کی یاد آرہی تھی۔

”فلمی ڈائلوگ نہیں مار رہا سچ کہہ رہا ہوں، اب آپ بھی بس جلد از جلد کوشش کریں واپس آنے کی، باقی میں کچھ نہیں جانتا۔“ اس نے لاڈ بھرے انداز میں حکم دیا۔

”اچھا کھانا کھالیا آپ نے؟ کیا کھایا؟“ اس نے دوسرا سوال پوچھا۔

”پیزا بھی کوئی ڈنر میں کھانے کی چیز ہے بھیا۔“ وہ اسے بالکل ایسے ٹوک رہا تھا جیسے ماں بچے کو ڈپٹتی ہے۔

”چلیں ٹھیک ہے، آپ اپنا کام کریں، اور کام کے ساتھ اپنا خیال بھی رکھیے گا، اللہ حافظ۔“ گفتگو اختتام پذیر ہوئی۔ اس نے موبائل کان پر سے ہٹا کر لائن ڈسکنیکٹ کی اور موبائل میں ہی مصروف ہوگیا۔

”تمھیں سچ میں بابک کی یہ غیر موجودگی سالوں کے برابر لگ رہی ہے یا ایسے ہی مسکا لگا رہے تھے اسے واپس بلانے کیلئے؟“ اس نے ہنوز کتاب پڑھتے ہوئے پوچھا۔

”ہاں سچ میں مجھے ایسا ہی لگ رہا ہے جیسے کتنے مہینوں یا سالوں سے بھیا کو نہیں دیکھا ہے، اور یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے، محبت میں محبوب کی لمحے بھر کی جدائی بھی صدیوں کے مانند ہوتی ہے۔“ اس نے موبائل میں مگن ہوئے ہی جواب دیا۔

”تمھیں بڑا تجربہ ہے جدائی و فراق کا۔“ اس نے ہلکا سا طنز کیا۔

”ہاں! جب کیس ختم ہونے کے بعد تم حیدرآباد چلی گئی تھی ناں تب تجربہ ہوا تھا۔“ اس نے نورالعین کی جانب جھک کر گھمبیر انداز میں بتایا۔

یہ بات اور اسے کرنے کا انداز ہی کچھ ایسا تھا کہ نورالعین کی روح تک مسرور ہوگئی۔ مگر اس نے ظاہر نہیں کیا کیونکہ اب بھی ایک سوال باقی تھا۔

”یہ آمنہ کون ہے؟“ اس نے بظاہر سرسری انداز میں پوچھا ہی لیا۔

”ہمارے آفس میں کام کرتی ہے، میرے حسن کے سحر میں گرفتار ہوگئی ہے بیچاری، جیسے تم ہوگئی تھی۔“ احرار نے اس کی جلیسی سے محظوظ ہوتے ہوئے جان بوجھ کر مزید تپایا۔

”اونہہ! خوش فہمی تو دیکھو حسن کا سحر، میں کوئی تمہارے حسن کے سحر میں گرفتار نہیں ہوئی تھی۔“ اس نے کتاب بند کرکے رکھتے ہوئے اس کی خوش فہمی دور کی۔

”اچھا! تو پھر شادی کیوں کی مجھ سے؟“ اس نے بھی دلچسپی سے دوسرا سوال اٹھایا۔

”کیونکہ مجھے تمہاری ہمت، تمہاری بہادری اچھی لگی تھی جو تم نے میرا کیس لڑتے ہوئے دکھائی تھی، اور ایک بہادر مرد ہزاروں حسین مردوں سے بہتر ہوتا ہے۔“ نورالعین نے اس کی جانب کروٹ لے کر محبت پاش جواب دیا جس کی اسے اتنی جلدی توقع نہیں تھی۔

”یار۔۔۔ابھی مجھے تمھیں اور تنگ کرنا تھا مگر تم نے اچانک ہی موڈ رومانٹک کر دیا۔“ وہ بھی موبائل رکھ کر اس کی جانب کروٹ لے چکا تھا۔

”مجھے بعد میں تنگ کرتے رہنا پہلے میری ایک بات سنو۔“ وہ تھوڑی سنجیدہ ہوئی۔

”سناؤ۔“ احرار نے اسے کمر سے پکڑ کر مزید قریب کر لیا۔

”کل کورٹ میں تمہاری پیشی ہے جو کہ آخری بھی ثابت ہوسکتی ہے اور ہم کیس ہار سکتے ہیں۔“ نورالعین نے اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔

”جانتا ہوں۔“ اس نے بھی سنجیدگی سے جواب دیا کیونکہ وہ ظاہر نہیں کر رہا تھا لیکن اندر ہی اندر اس معاملے کو لے کر کتنا فکرمند تھا یہ بات وہ جانتی تھی۔

”کل چاہے جو بھی ہو، ہم کیس جیتیں یا ہاریں، تم آئی او رہو یا ہمیشہ کیلئے سسپینڈ ہوجاؤ، لیکن تم مایوس نہیں ہوگے، دنیا چاہے کچھ بھی کہے مگر میرے لئے، بابک کیلئے، تم وہ ہی ایماندار احرار تھے اور رہو گے، اور اب تمھیں ہمارے بچے کیلئے ایک مضبوط اور بہادر باپ بننا ہے، تم سمجھ رہے ہو ناں؟“ اپنے انگوٹھے سے اس کا نچلا لب سہلاتے ہوئے وہ دھیرے دھیرے اسے ذہنی طور پر آئندہ صورت حال کیلئے تیار کر رہی تھی کیونکہ وہ کسی طور اپنے مسیحا کو ٹوٹتے بکھرتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔

”سمجھ رہا ہوں۔۔۔۔بلکہ سمجھ گیا ہوں کہ زندگی ہمیشہ ہمارے مطابق نہیں چلتی، اور جب کچھ ہماری پسند اور پلان کے خلاف ہو رہا ہو تو رو پیٹ کر قسمت سے ضد لگانے کے بجائے سب کچھ قسمت لکھنے والے پر چھوڑ دینا چاہئے، میں نے بھی چھوڑ دیا ہے، اس یقین کے ساتھ کہ وہ جو کرے گا اچھا کرے گا۔“ اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے سچا جواب دیا۔

”گڈ بوائے۔“ نورالعین نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے اس کا گال تھپک کر شاباشی دی۔

”اتنی جلدی گڈ بوائے کا ٹائٹل مت دو، ابھی میرا تھوڑی شرارت کرنے کا موڈ ہے۔“ اس نے بھی سنجیدگی چھوڑ کر معنی خیزی سے کہتے ہوئے اسے خود میں پوری طرح بھینچ لیا۔


********************************


آسمان پر سے سیاہ رات کی چادر سرکنا شروع ہوئی تو وہاں نارنجی رنگ ابھرنے لگا تھا اور اب آسمان مکمل روشن ہوگیا تھا جو اس بات کی دلیل تھی کہ صبح ہوچکی ہے۔

نیند سے بیدار ہونے کے بعد نہرین نے فریش ہوکر حسب معمول کچن کا رخ کیا۔ پھر تھوڑی دیر میں چائے اور رسک پر مشتمل اپنا ناشتہ ایک ٹرے پر لئے لاؤنج میں رکھے صوفے پے آکے بیٹھ گیا، ٹی وی آن کیا اور ٹی وی دیکھتے ہوئے آہستہ آہستہ رسک کھانے لگی۔

تب ہی اس کی نظر ٹیبل کے بیچ و بیچ رکھے ٹیڈی بیئر پر پڑی جو کل رات بابک یہاں رکھ کر گیا تھا اور یہ تب سے جوں کا توں پڑا تھا۔

چند لمحے وہ ٹیڈی کی آنکھوں میں دیکھتی رہی پھر اسے نظر انداز کرکے ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی۔

اس بات سے یکسر بےخبر کہ ٹیڈی کی آنکھوں کے پیچھے خفیہ کیمرہ فٹ ہے جس کی لائیو ریکارڈنگ اس کے اوپر والے فلیٹ میں موجود بابک اپنے لیپ ٹاپ پر دیکھتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ اطمینان سے چائے پینے میں مصروف تھا۔

تب ہی بابک کے برابر میں صوفے پر پڑا اس کا موبائل بج اٹھا جس پر یاور کا نام جگمگا رہا تھا۔ اس نے نظریں لیپ ٹاپ سکرین پر رکھے ہوئے ہی کال ریسو کرکے موبائل کان سے لگایا۔

”ہاں بھئی! تو پھر کہاں تک پہنچا تیرا جاسوسی مشن؟“ یاور نے سب سے پہلے یہ ہی پوچھا۔

”ابھی تک تو بس شروعات ہی ہوئی ہے، پہلے اسٹیپ پر عمل کرتے ہوئے کل گیا تھا میں اس کے گھر، ایز ایکسپیکٹیڈ حیران ہوگئی تھی وہ مجھے دیکھ کر مگر میں نے اس پر ظاہر نہیں کیا کہ میں اس کے اوپر والے فلور پر رہ رہا ہوں، اس کی برین واشینگ کرنے کی کوشش کی، تھوڑا جذباتی ٹارچر بھی دیا، وہ جال کے قریب آ بھی گئی تھی اور اپنی زبان کھولنے والی تھی مگر آخری سیکنڈ پر اسے ہوش آگیا اور وہ پھر پٹری سے اتر گئی کہ مجھے کچھ نہیں بتائے گی، ہاں مگر یہ بات کنفرم ہوگئی ہے کہ اصل ماسٹر مائنڈ کوئی اور ہی ہے اس گیم کا، ساتھ ہی وہ ٹیڈی بھی اس کے گھر رکھ آیا ہوں جس میں کیمرہ اور مائیکروفون فٹ ہیں تا کہ اگر اس سے کوئی ملنے آتا ہے یا وہ کہیں جاتی ہے تو مجھے پتا چل سکے، مگر کل سے اب تک نہ تو کوئی اس کے گھر آیا ہے، نہ وہ کہیں گئی ہے، ابھی بھی اس پر نظر رکھ بیٹھا ہوا ہوں، ناشتہ کر رہی ہیں میڈیم۔“ اس نے ایک ایک بات تفصیل سے بتائی۔

”ویسے ایک بات کہوں، تو ناں بڑے ہی شیطانی دماغ کا ملک ہے، ٹیڈی کے اندر کیمرہ اور مائک فٹ کر دیا یار! کمال ہے۔“ اس نے اپنے انداز میں تعریف کی۔

”شیطانوں کو بےنقاب کرنے کیلئے شیطانی پینترے ہی اپنانے پڑتے ہیں۔“ اس نے اپنا فلسفہ بتایا۔

”چل جب یہ شیطان بےنقاب ہوجائے تو مجھے بھی اس کا دیدار کروانا، فی الحال میں آفس جا رہا ہوں، باقی بعد میں بات ہوگی۔“ اس نے بات سمیٹی۔

”ٹھیک ہے، اللہ حافظ۔“ بابک نے بھی کہہ کر لائن ڈسکنیکٹ کردی۔

موبائل واپس وہیں رکھا جہاں سے اٹھایا تھا اور چائے پیتے ہوئے پھر پوری طرح لیپ ٹاپ کی اسکرین کی جانب متوجہ ہوگیا۔

اسکرین پر جو منظر تھا اس میں اب نہرین ناشتہ کر چکی تھی اور غالباً ٹرے رکھنے کچن میں گئی تھی۔

تھوڑی دیر بعد وہ موبائل ہاتھ میں لئے منظر میں واپس آئی اور کوئی نمبر ڈائل کرتے ہوئے واپس صوفے پر بیٹھ گئی۔

بابک نے الرٹ ہوتے ہوئے فوری بلوٹوتھ کان میں لگا لیا کیونکہ وہ سننا چاہتا تھا کہ نہرین کس سے اور کیا بات کرنے لگی ہے؟

”ہیلو۔۔۔۔۔مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔۔۔۔۔۔۔نہیں فون پر نہیں ہوسکتی ملنا پڑے گا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں یہ بہت زیادہ امپارٹنٹ ہے سمجھنے کی کوشش کریں۔۔۔۔۔احرار کے بھائی نے مجھے ڈھونڈ لیا ہے اور وہ آپ تک بھی پہنچ سکتا ہے۔۔۔۔نہیں آپ یہاں نہ آئیں آپ کیلئے خطرہ ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک گھنٹے تک آپ کے گھر آرہی ہوں۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔“

اس نے نہایت سنجیدگی سے کسی سے مختصر بات کرکے رابطہ منقطع کر دیا جس سے بابک کو یہ تو پتا نہیں چلا کہ دوسری جانب کون تھا؟ لیکن اتنا کنفرم تھا کہ وہ ہی سارے فساد کی جڑ تھا۔

بات کرکے نہرین پھر کہیں چلی گئی اور اب جب وہ واپس آئی تو اس نے اپنے گرد شال لپٹ کر کندھے پر ہینڈ بیگ لٹکایا ہوا تھا مطلب وہ کہیں جانے والی تھی۔

نہرین نے ٹی وی آف کیا اور داخلی دروازے کی جانب بڑھی۔ اور اس طرف بابک نے بھی لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر صوفے پر سے اپنا موبائل اٹھایا اور برق رفتاری سے باہر بھاگا۔

باہر نکل کر جتنی تیزی سے جتنی زیادہ سیڑھیاں وہ پھلانگ سکتا تھا پھلانگ کر نیچے جانے لگا۔ کیونکہ وہ یقیناً لفٹ سے گئی تھی اور اس سے پہلے نیچے پہنچ کر نظروں سے اوجھل ہوسکتی تھی۔

جیسے ہی وہ نیچے پہنچا نہرین اسے بلڈنگ کے گیٹ کے قریب نظر آئی۔ وہ فاصلہ رکھتے ہوئے اس کے پیچھے جانے لگا۔ گیٹ سے باہر نکلتے ہی وہ سامنے کھڑی کیب کا پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔

احتیاطی تدابیر کے تحت بابک نے صبح ہی اپنی کار پارکنگ لاٹ سے نکال کر باہر کھڑی کردی تھی، اسی لئے بنا وقت برباد کیے وہ جلدی اپنی کار کی جانب آیا اور اس میں سوار ہوکر اس کا پیچھا کرنے لگا۔ ساتھ ہی تیزی سے موبائل پر کسی کا نمبر ڈائل کرکے کان سے لگایا۔

”ہیلو یاور! میں تجھے لوکیشن بھیج رہا ہوں تو جلدی مجھے اس لوکیشن پر جوائن کر، اور پلان وہ ہی ہے جو ایسے موقع کیلئے ہم نے تیار کیا تھا۔“ اس نے عجلت میں حکم دیا۔

”ٹھیک ہے، جلدی لوکیشن بھیج۔“ وہ بھی ریڈی تھا۔

بابک نے اسے لوکیشن سینڈ کی اور پوری توجہ کے ساتھ اس کار کا پیچھا کرتا رہا جس میں وہ سوار تھی۔

کوئی دس پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد یہ دونوں گاڑیاں اسی روڈ پر تھیں جس پر بابک نے یاور کو بلایا تھا۔

اس روڈ پر آتے ہی پیچھے سے بابک کو کسی کار نے ہارن دیا۔ اس نے بیک ویو مرر سے دیکھا تو وہ یاور کی ہی کار تھی۔ جو کہ چند لمحوں بعد بالکل اس کی کار کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

”دیکھا! کالج کے دنوں کی میری کار ریسینگ پریکٹس آج کام آگئی۔“ یاور نے ڈرائیو کے دوران ہی دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے کھڑکی سے آواز لگائی۔

”آگے جا کر وہ کام کر جس کیلئے تجھے بلایا ہے۔“ بابک نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اصل کام کی جانب توجہ دلائی تو یاور نے گاڑی کی اسپیڈ مزید بڑھادی اور ان سے ذرا فاصلے پر رواں کیب کے آگے لے جاکر یکدم روک دی۔

کیب ڈرائیور بوکھلاہٹ کے مارے بریک نہیں لگا پایا اور اس کی کار کا بونٹ یاور کی کار کی ڈگی پر لگا۔ دونوں گاڑیاں رک چکی تھیں جبکہ بابک نے پہلے ہی اپنی گاڑی کافی فاصلے پر روک دی تھی۔ اور دور سے یہ مناظر دیکھنے لگا۔

یاور چہرے پر غصے کا تاثر لئے اپنی کار سے باہر آیا تب تک ڈرائیور بھی باہر نکل چکا تھا۔ یاور نے قریب آتے ہی ایک زور دار تھپڑ ڈرائیور کو رسید کر دیا۔

”دیکھ کر نہیں چلا سکتا تھا؟ اندھا ہے تو؟“ یاور اس پر برس پڑا۔

”اوہ؟ میں تو صحیح جا رہا تھا تو ہی اچانک آگے آگیا میری کار کے، اور تو نے ہاتھ کیسے اٹھایا مجھ پر؟“ وہ بھی اس پر چڑھ دوڑا۔

”ایسے اٹھایا۔“ یاور نے کہتے کے ساتھ ہی ایک اور تھپڑ مارا۔

عوام کو تو بس ویسے بھی موقع چاہیے بلاوجہ کے مسلوں میں کود کر رش لگانے کا، لہٰذا یہ روایت برقرار رکھتے ہوئے لوگ آس پاس جمع ہونا شروع ہوگئے۔

یاور ڈرائیور کو گریبان سے پکڑ کر ہاتھا پائی کرتے ہوئے اس کی کار سے دور اپنی کار سے بھی آگے لے گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے رش بہت بڑھ گیا تھا۔

نہرین بھی پریشان ہوکر کار سے باہر نکلی اور اس رش کی جانب آئی جو کبھی ملاقات نہ ہونے کے باعث نہیں جانتی تھی کہ یاور بابک کا دوست ہے۔

بس یہ ہی موقع تو بابک کو چاہیے تھا۔

وہ فٹافٹ کار سے اتر کر برق رفتاری سے اس کی کیب کے پاس آیا۔ بہت احتیاط سے پچھلی نشست کا گیٹ کھولا اور ایک چھوٹی سی آڈیو ریکارڈنگ ڈیوائس اس کے ہینڈ بیگ میں رکھ کر واپس اس کی زپ لگا دی۔

ایک منٹ سے بھی کم وقت میں یہ کاروائی انجام دینے کے بعد اس نے پچھلی نشست کا دروازہ بند کرتے ہوئے ہجوم کی جانب دیکھا جو کار سے کافی آگے تھا اور نہرین بھی اسی کی جانب متوجہ تھی۔

وہ اسی رفتار سے اپنی کار کی جانب آکر واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور کار سٹارٹ کرکے آگے بڑھائی۔

جس جگہ رش لگا ہوا تھا وہاں سے گزرتے ہوئے اس نے کار کی رفتار تھوڑی دھیمی کرکے تین بار ہارن دیا اور پھر رفتار بڑھا کر وہاں سے گزر گیا۔ جو کہ یاور کو سگنل تھا کہ

”کام ہوگیا ہے ڈرامہ ختم کرو۔“

سگنل ملتے ہی یاور ٹھنڈا پڑگیا جس سے معاملہ جلد ہی رفع دفع ہوگیا اور سب لوگ واپس اپنے معمول پر آگئے۔

ڈرائیور نے بھی واپس اپنی سیٹ سنبھالی اور سفر دوبارہ جاری کیا۔

جیسے ہی ان کی کیب تھوڑی آگے گئی ایک کونے میں ان ہی کے انتظار میں کھڑے بابک نے پھر ان کو فالو کرنا شروع کردیا۔

تھوڑی دیر بعد کار پوش علاقے میں داخل ہوکر ایک بنگلے کے سامنے رکی۔ جبکہ بابک نے اپنی کار اس سے ذرا فاصلے پر روک دی۔

ڈرائیور کو پیسے دے کر نہرین باہر آئی اور گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے کچھ کہا۔ چوکیدار نے گیٹ کھول کر اسے اندر جانے دیا۔

وہ کیب بھی وہاں سے جا چکی تھی اب بابک کار کا انجن بند کیے انتظار کرنے لگا کہ کب وہ کسی سے کوئی بات چیت کرے جو قابل گرفت ہو کیونکہ جو ڈیوائس اس نے نہرین کے بیگ میں ڈالی تھی اس میں ریکارڈ ہونے والی بات چیت بابک کے کان میں لگے ایئر فون میں بھی لائیو سنائی دینے والی تھی۔

********************************

”بابک کو شاید کچھ زیادہ ہی لمبا اور اہم کام پڑگیا ہے، ورنہ وہ کم از کم تمہاری پیشی پر تمہارے ساتھ ضرور ہوتا۔“ نورالعین نے احرار کی دلجوئی کے خاطر بابک کا دفاع کیا۔

دونوں اس وقت کورٹ روم کے باہر بنے کوریڈور میں بیٹھے ہوئے تھے کیونکہ لنچ بریک کے بعد ان ہی کے کیس کی باری تھی۔

”کوئی بات نہیں، اچھا ہے وہ نہیں آئے، یہاں وقت برباد کرنے سے بہتر ہے وہ اپنے کام ختم کرلیں، کیس تو سمجھو ہم ہار ہی چکے ہیں۔“ وہ پھیکےپن سے مسکرایا جو ذہنی طور پر تیار تھا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے نورالعین نے بینچ پر رکھے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ فکر مت کرو، میں ہوں تمہارے ساتھ!

تھوڑی دیر بعد احرار کا نام پکار کر اسے حاضر ہونے کا حکم ہوا۔ دونوں بے ترتیب ہوتی دھڑکنوں کے ساتھ وکیل کے ہمراہ روم میں داخل ہوئے اور لائن سے لگی کرسیوں پر آکے بیٹھ گئے۔ چند لمحوں بعد ہی جج صاحب واپس آکر اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے۔

”عدالت کی کاروائی شروع کی جائے۔“ جج نے حکم دیا۔

تب ہی کاشف کا وکیل اٹھا اور اس نے اوپننگ اسٹیمنٹ دینا شروع کی۔ جواب میں جتنا ممکن تھا احرار کا وکیل بھی جرح کر رہا تھا۔ مگر ان کا کیس بہت کمزور تھا۔

”ملزم احرار ملک! کٹہرے میں حاضر ہوں۔“ جج نے حکم دیا۔

اپنے نام کے ساتھ ”ملزم“ سن کر اس پر کیا بیتی تھی یہ وہ ہی جانتا تھا۔ وہ اٹھ کر آکے کٹہرے میں کھڑا ہوگیا۔

”آپ کے پاس کوئی ثبوت، گواہ یا دلیل ہے اپنے حق میں دینے کیلئے؟“ جج نے پوچھا۔

اس نے بس ہلکے سے نفی میں سر ہلایا۔ کیونکہ اس میں ایک لفظ بھی زبان پر لانے کی ہمت نہیں تھی۔ جبکہ یہ سب دیکھ کر نورالعین کا دل بھی کٹ کر رہ گیا تھا اور بہت ضبط کے باوجود بھی ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر رخسار پر پھسلا جسے اس نے جلدی سے صاف کرلیا۔

”جج صاحب ثبوت گواہ یا دلیل تو تب ہوتے ہیں جب انسان بےقصور ہو، مجرم کے پاس اپنے دفاع میں کچھ نہیں ہوتا، یہ بات تو پہلی پیشی میں ہی ثبوت کے ساتھ ثابت ہوئی تھی کہ انہوں نے رشوت لی ہے، بلاوجہ تاریخ لے کر عدالت کا وقت ضائع کیا گیا ہے، لہٰذا انہیں سزا سنا کر یہ کھوکھلا کیس ختم کیا جائے۔“ وکیل صاحب خود کو جیت کی جانب بڑھتا دیکھ کچھ زیادہ ہی جوش میں آگئے تھے۔

”تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔“

”ایک منٹ یور آنر۔“ یکدم جج کی بات کاٹتے ہوئے کوئی با آواز بلند بولا۔

جج سمیت سب ہی چونک کر بےاختیار آواز کے تعاقب میں دیکھنے لگے۔

مداخلت کرنے والا بابک تھا جو کہ اب آگے بڑھ کر بالکل جج کے سامنے آگیا تھا۔ جبکہ اس کا حلیہ دیکھ کر احرار اور نورالعین اپنی اپنی جگہ حیران رہ گئے تھے۔

اس کے ماتھے اور ہونٹ سے خون رس رہا تھا جبکہ چہرے پر کئی جگہ ہلکے ہلکے نیل بھی پڑے ہوئے تھے۔ مطلب اس کی کسی سے ہاتھا پائی ہوئی تھی، مگر کس سے؟



”تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔“

”ایک منٹ یور آنر۔“ یکدم جج کی بات کاٹتے ہوئے کوئی با آواز بلند بولا۔

جج سمیت سب ہی چونک کر بےاختیار آواز کے تعاقب میں دیکھنے لگے۔

مداخلت کرنے والا بابک تھا جو کہ اب آگے بڑھ کر بالکل جج کے سامنے آگیا تھا۔ جبکہ اس کا حلیہ دیکھ کر احرار اور نورالعین اپنی اپنی جگہ حیران رہ گئے تھے۔

اس کے ماتھے اور ہونٹ سے خون رس رہا تھا جبکہ چہرے پر کئی جگہ ہلکے ہلکے نیل بھی پڑے ہوئے تھے۔ مطلب اس کی کسی سے ہاتھا پائی ہوئی تھی، مگر کس سے؟

”مداخلت کیلئے معافی چاہتا ہوں یور آنر، مگر میرے پاس اصل مجرم اور اس کے خلاف ثبوت دونوں موجود ہیں جنہیں میں عدالت کے سامنے پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔“ بابک نے مؤدب انداز میں گزارش کی۔

”اوبجیکشن مائی لارڈ! یہ کوئی طریقہ ہے بھلا کہ اس طرح جج کے فیصلے میں مداخلت کی جائے؟ یہ سب صرف فلموں میں اچھا لگتا ہے درحقیقت یہ عدالت کی توہین ہے، جب ساری باتیں صاف ہیں تو عدالت کو اب کسی ثبوت یا گواہ کی ضرورت نہیں ہے، ان تماشوں سے صرف عدالت کا قیمتی وقت برباد کیا جا رہا ہے۔“ کیس ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر وکیل صاحب سٹپٹا گئے۔

”اوبجیکشن اُوور رولڈ! ہر کسی کو اپنی بات کہنے کا پورا حق ہے، آپ کو جو بھی کہنا ہے وٹنس باکس میں آکر کہیے مسٹر۔“ جج نے وکیل صاحب کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے اسے اجازت دے دی۔

وہ اثبات میں سر ہلاکر وٹنس باکس کی جانب بڑھا جبکہ وکیل صاحب کو ناچاہتے ہوئے بھی منہ بسور کر واپس بیٹھنا پڑا۔

”یور آنر! میں بابک ملک ہوں، آئی او احرار ملک کا بڑا بھائی، اور میرے پاس ثبوت ہیں کہ میرے بھائی پر لگایا گیا رشوت کا الزام جھوٹا ہے، میں چاہوں گا کہ پہلے آپ یہ ریکارڈنگ سن لیں جس میں مجرم نے خود اعترافِ جرم کیا ہے۔“ اس نے پینٹ کی جیب سے ایک یو ایس بی نکالی جسے جج کے ایسوسیئٹ نے اس سے لے لیا۔

کمرہِ عدالت کے ڈسپلے پر وہ ریکارڈنگ پلے کی گئی جس کی ویڈیو نہیں صرف آڈیو تھی اور جسے سننے کیلئے سب ہمہ تن گوش تھے۔

”بہت شوق ہے ناں کورٹ میں میرے خلاف گواہی دینے کا، چلو تمہارے مرنے سے پہلے یہ بھی پورا کردیتا ہوں۔

ہاں میں نے جھوٹی کہانی سنائی تھی تمھیں کہ احرار نے تمہارے باپ کو بےبنیاد کیس میں پھنسایا تھا، حلانکہ ایسا نہیں تھا، تمہارا باپ سچ میں اس کیس کا اصل مجرم تھا جو سالوں پہلے تو آئی او کو خرید کر بچ گیا تھا لیکن جب احرار نے خود دوبارہ باریکی سے ساری تفتیش کی تو وہ اصل مجرم یعنی تمہارے باپ تک پہنچ گیا اور اسے سزا دلوا دی، لیکن تمھیں میں نے تمہارا ہمدرد بن کر جھوٹ کہا کہ احرار نے تمہارے باپ سے ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے انھیں پھنسایا، اور ایسا میں نے اس لئے کیا تا کہ تمہارے ذریعے سے میرے راستے کا وہ کانٹا ہٹ جائے اور کسی کو مجھ پر شک بھی نہ ہو، اچھا خاصا سارا سیٹ اپ چل رہا تھا میرا، مگر جب سے وہ احرار آئی او کی پوسٹ پر آیا ہے، اس نے ایمانداری کا راگ الاپ کر دماغ اور کام دونوں خراب کر رکھے ہیں، ہر کام میں بس اسے ایمانداری چاہیے، اتنا سمجھایا دبے دبے لفظوں میں مگر اس کی سمجھ میں نہیں آیا، اور تب ہی مجھے تم مل گئی یعنی اپنے راستے کا کانٹا ہٹانے کا سنہری موقع وہ بھی بنا کسی کی نظروں میں آئے، اتنی محنت سے میں نے اسے پھنسانے کا پلان تیار کیا، تمھیں ساری سیٹنگ کرکے دی، اس کاشف سے اس پر رشوت کا جھوٹا الزام لگوایا، اور اب جبکہ آخری پیشی کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے سسپینڈ ہونے والا ہے، میرا مقصد پورا ہونے والا ہے، میرے راستے کا کانٹا ہٹنے والا ہے تو تم کورٹ میں جا کر میرے خلاف گواہی دینے کی دھمکی دے رہی ہو، لو کرلیا میں نے اپنا جرم قبول، مگر گواہی تو تم تب دو گی جب یہاں سے زندہ واپس جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔ٹھا۔“

فائر کی آواز کے ساتھ ہی ریکارڈنگ ختم ہوگئی۔ سب اپنی اپنی جگہ حیرانی و ناسمجھی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ جبکہ احرار کو یہ آواز کافی جانی پہچانی لگی۔

”یور آنر! یہ تھا مجرم کا اعترافِ جرم، اور یہ رہا مجرم۔“ بابک نے کہتے ساتھ ہی دروازے کی جانب اشارہ کیا۔

سب کی نظریں ایک بار پھر دروازے کی جانب اٹھیں جہاں یاور سینئر آفیسر مرتضیٰ شیخ کو بازو سے پکڑے کھڑا تھا۔ انہیں کیونکہ صرف احرار ہی جانتا تھا اس لئے وہ حیرت و صدمے کے مارے اپنی جگہ ساکت رہ گیا۔

”مجرم کو کٹہرے میں پیش کیا جائے۔“ جج نے حکم دیا۔

حکم کی تعمیل کرتے ہوئے احرار وہاں سے ہٹ گیا اور یاور نے انہیں کھینچتے ہوئے لا کر وہاں کھڑا کر دیا۔

”عدالت کے ساتھ کسی قسم کی بھی غلط بیانی کرنے سے قبل یہ بات یاد رکھیے گا کہ آپ کے خلاف ثبوت پہلے ہی پیش کیا جا چکا ہے۔“ جج نے پہلے ہی تنبیہ کی۔

ان کے پاس اب فرار کی کوئی راہ نہیں تھی لہٰذا انہیں ہتھیار ڈالتے ہوئے سچ بولنے کیلئے منہ کھولنا ہی پڑا۔

”میں سینئر آفیسر مرتضیٰ شیخ ہوں، کام میں تھوڑی بہت بےایمانی میں شروع سے کرتا آرہا ہوں، پھر جیسے جیسے میرے رینک بڑھے بےایمانی بھی بڑھتی گئی، خاموشی سے سب اپنی جگہ ٹھیک چل رہا تھا، مگر جب سے یہ احرار آئی او کی پوسٹ پر آیا اس نے سب مشکل کردیا، اور اگر اسے میرے کام کی بھنک بھی پڑجاتی تو میرے لئے خطرہ ہوسکتا تھا، اس کا ایک ہی حل تھا کہ اسے ہمیشہ کیلئے اس پوسٹ پر سے ہی ہٹا دیا جائے، اسی لئے میں نے اس پر رشوت لینے کا جھوٹا الزام لگایا۔“ انہوں نے ہارے ہوئے جواری کی طرح سب بتا دیا۔

باکس سے ذرا فاصلے پر کھڑے احرار کو تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ بظاہر اتنے ایماندار، نرم و شفیق دِکھنے والے مرتضیٰ صاحب درحقیقت اتنے بےحس تھے، اور ان سب کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔

”تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انویسٹیگیشن آفیسر احرار ملک پر لگائے گئے تمام الزام بےبنیاد تھے، لہٰذا عدالت انہیں ہر الزام سے باعزت بری کرتے ہوئے ان کی ڈیوٹی بحال کرنے کا حکم دیتی ہے، جبکہ اصل مجرم مرتضیٰ شیخ کو احرار ملک پر جھوٹا الزام لگانے اور بےایمانی کرنے کے جرم میں ناصرف ہمیشہ کیلئے ڈیوٹی سے سسپینڈ کرتی ہے بلکہ انہیں پچیس لاکھ روپے بطور جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیتی ہے، اور ساتھ ہی عدالت کو گمراہ کرنے کیلئے کاشف راجپوت پر بھی قانونی کارروائی کا حکم دیتی ہے، کیس برخاست ہوا۔“ جج نے فیصلہ سنا دیا۔

یہ صرف ایک فیصلہ نہیں تھا، نئی زندگی کی نوید تھی احرار کیلئے، تشکر کے مارے اس نے دونوں ہاتھ نم ہوتی آنکھوں پر رکھ لئے، اس کا روم روم اس وقت رب کا شکر گزار تھا کہ اس نے آخری وقت میں ہاری ہوئی بازی اس کے حق میں کردی۔

بابک اور نورالعین بھی جلدی سے اس کے پاس آئے اور خوشی کے مارے اس سے لپٹ گئے۔ جواباً اس نے بھی دونوں کو خود میں بھینچ لیا جو غم کی رات اور سکھ کے سویرے میں ہر پل ہمیشہ اس کے ساتھ رہے تھے۔


پھر بادِ صباء دروازے پر پیغام یہ لے کر آئی ہے

جو غم کی رات تھی کٹ گئی، سحر نکل آئی ہے


********************************


نہرین نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو اسے سب سے پہلے سفید چھت اور اس کے وسط میں گھومتا پنکھا دکھائی دیا۔ اس نے ذرا سی گردن موڑ کر آس پاس کا جائزہ لینا چاہا تو معلوم ہوا کہ وہ اس وقت ہاسپٹل کے بیڈ پر ہے۔

اس کے سر پر پٹی بندھی ہوئی تھی جبکہ ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی۔

اس نے ذہن پر زور دینا شروع کیا کہ آخر اس کے ساتھ ہوا کیا تھا؟ وہ یہاں کیسے آئی؟


********************************


فلیش بیک


جیسے ہی کار مطلوبہ پتے پر پہنچی نہرین نے ڈرائیور کو پیسے دیے اور کار سے اتر کر گیٹ کی جانب آئی۔

”جی کس سے ملنا ہے آپ کو؟“ گیٹ پر موجود چوکیدار نے پوچھا۔

”میں نہرین آفندی ہوں اگر آپ کو یاد ہو تو میں پہلے بھی یہاں آچکی ہوں مرتضیٰ انکل کے ساتھ اور ابھی بھی ان ہی سے ملنے آئی ہوں۔“ اس نے تعارف دیا۔

”جی جی یاد آگیا، آجائیں۔“ چوکیدار نے دروازہ کھول دیا۔

وہ مین گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد سرخ پتھروں سے بنے ایک ٹریک پر چلنے لگی جس کے ایک طرف خوبصورت سا لان بنا تھا جبکہ دوسری جانب غالباً کار پارکنگ تھی۔

وہ اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی ملازمہ اسے ہال کے وسط میں رکھی میز صاف کرتی ہوئی نظر آئی۔ اس نے بھی نہرین کو دیکھ لیا اور جلدی سے کھڑی ہوئی۔

”سلام بی بی صاحبہ۔“ وہ ادب سے بولی۔

”وعلیکم السلام، مرتضیٰ انکل گھر میں ہیں؟ اگر ہیں تو ان سے کہو کہ میں آئی ہوں۔“ اس نے پوچھتے ہوئے حکم بھی دے ڈالا۔

”جی، اسٹڈی روم میں ہیں، ابھی بتا کر آتی ہوں، تب تک آپ یہاں بیٹھیں۔“ اس نے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔

نہرین آکر صوفے پر بیٹھ گئی جبکہ وہ جلدی سے مرتضیٰ صاحب کو اطلاع دینے چلی گئی۔ اور چند لمحوں بعد ہی واپس بھی آگئی۔

”وہ فون پر بات کر رہے ہیں اور ایسے میں کوئی ان سے بات کرے یہ انہیں پسند نہیں اس لئے میں تھوڑی دیر میں انہیں آپ کے آنے کا بتا دیتی ہوں، تب تک آپ کے لئے کچھ لاؤں چائے کولڈرنک؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”اچھا! چلو ٹھیک ہے تھوڑی دیر میں بتا دینا، اور مجھے بس ایک گلاس ٹھنڈا پانی دے دو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”جی ابھی لائی۔“ وہ کہتی ہوئی جلدی سے کچن کی جانب چلی گئی اور تھوڑی دیر میں پانی کے گلاس کے ساتھ حاضر تھی۔

”مرتضیٰ انکل کی فیملی نہیں ہے کیا گھر پر؟“ اس نے گلاس لیتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں! بچوں کی ابھی کالج کی چھٹی ہے ناں اسی لئے بیگم صاحبہ انہیں لے کر اپنے میکے سوات گئی ہوئی ہیں۔“

”اوہ اچھا۔“

”جی، اچھا میں ذرا کچن سے آتی ہوں چولہہ جل رہا ہے۔“

”ہاں ضرور، تم کام کرو اپنا۔“ اس نے خوشدلی سے اجازت دی۔

پھر وہ کچن میں چلی گئی جبکہ نہرین نے پانی پی کر گلاس سامنے ٹیبل پر رکھا، ہینڈ بیگ بھی کندھے سے اتار کر اپنی گود میں ہی رکھ لیا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر مرتضیٰ صاحب کے سلسلہِ کلام کے اختتام پذیر ہونے کا انتظار کرنے لگی۔

پانچ دس منٹ گزر جانے کے بعد اس نے بیگ واپس کندھے پر لٹکایا اور صوفے پر سے اٹھ کر خود ہی اسٹڈی روم کی جانب آئی۔ کیونکہ وہ یہاں پہلے بھی کئی بار آچکی تھی اسی لئے اسے راستوں کا علم تھا۔

اسٹڈی روم کے دروازے پر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ مرتضیٰ صاحب موبائل کان سے لگائے رخ لان میں کھلنے والی کھڑکی کی جانب جبکہ پشت دروازے کی طرف کیے ہنوز محو گفتگو تھے۔

اس نے دستک دے کر متوجہ کرنے کیلئے ہاتھ دروازے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ ان کے منہ سے اپنا نام سن کر وہ بےساختہ دستک دینے سے رک گئی۔

”ہاں ہاں نہرین نام ہے اس کا، اور آپ کو تو پتا ہے ناں شروع سے سب کچھ پھر بھی بار بار آپ کو تسلی دلانی پڑتی ہے، بتایا بھی ہے آپ کو کہ اسے احرار کے خلاف جھوٹی کہانی سنا کر ایسا بھڑکایا ہے میں نے کہ اب وہ کسی کی بات کا یقین نہیں کرے گی، بلکہ میرے بتائے ہوئے پلان پر عمل کرتے ہوئے سمجھیں اس نے احرار کو پوری طرح پھنسا بھی دیا ہے، آج اس کی پیشی بھی ہے جو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے آخری ثابت ہوگی، وہ گیا سمجھیں اس پوسٹ سے ہمیشہ کیلئے، اس کے بعد میرا راستہ بھی صاف ہوجائے گا اور اسے آپ کے بیٹے کو جیل پہنچانے کی سزا بھی مل جائے گی، دیکھیں کتنا کاپریٹ کیا ہے میں نے آپ کے ساتھ، اب بس مجھے اگلے ایلیکشن میں کنفرم ٹکٹ چاہیے آپ نے پھرنا نہیں ہے وعدے سے جہاں آرا صاحبہ۔“ وہ جہاں آرا کو کافی تفصیل میں وضاحت کرکے مطمئن کر رہے تھے۔ جبکہ نہرین تو یہ سب سن کر اپنی جگہ حیرت و صدمے کا بت بنی کھڑی رہ گئی۔

”پھر آپ وہی باتیں کر رہی ہیں، ابھی اتنی تفصیل سے سمجھایا ناں آپ کو کہ کوئی گڑبڑ نہیں ہوگی، بس آپ بےفکر رہیں اور میرا ایلیکشن ٹکٹ تیار رکھیں۔“ انہوں نے تسلی کرائی۔

پھر مزید چند باتیں کرکے گفتگو کا سلسلہ ختم کیا اور لائن ڈسکنکٹ کرتے ہوئے اس جانب پلٹے۔ مگر نہرین کو دروازے پر موجود پا کر ایک لمحے کیلئے وہ شاک میں آگئے، کیونکہ اس کا حیرت زدہ چہرہ صاف صاف بتا رہا تھا کہ اس نے ساری باتیں سن لی ہیں۔

”نہرین! تم یہاں؟“ انہوں نے خود کو نارمل کیا۔

”آپ نے اتنی بڑی چال چلی میرے ساتھ؟ جھوٹی کہانی سنائی مجھے، ایک ایماندار شخص کے خلاف بھڑکایا، میرے ہاتھوں اسے بےبنیاد سزا کروائی، کیوں؟ کیوں کیا آپ نے ایسا؟“ وہ دھیرے دھیرے کہتے ہوئے آخر میں حلق کے بل چلائی۔

”دیکھو نہرین آرام سے میرے بات سنو۔“ انہوں نے اسے سمجھانا چاہا۔

”نہیں سننی مجھے آپ جیسے جھوٹے انسان کی کوئی بھی بات، بس یہ بتا دیں کہ مجھے ذریعہ کیوں بنایا اسے پھنسانے کیلئے؟“ اس نے ان کی وضاحت رد کرتے ہوئے طیش کے عالم میں جواب مانگا۔

”کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ کل کو اگر یہ بات کھل بھی جائے تو اس میں کہیں میرا نام آئے، میں کافی ٹائم سے کسی ایسے ذریعے کی تلاش میں تھا جس سے میں اس احرار کو اپنی راہ سے ہٹا سکوں مگر ساتھ ہی مجھ پر کوئی الزام بھی نہ آئے، تب ہی اپنے باپ کے کیس کی معلومات لینے کیلئے تم مجھ سے ٹکرا گئی، بس یہ ہی سنہری موقع تھا میرے پاس جس سے سانپ بھی مر سکتا تھا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹ رہی تھی، تمھیں سنادی جھوٹی کہانی، تم نے اعتبار کرلیا اور یوں میرا کام ہوگیا۔“ انہوں نے بھی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کیا۔

”میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ہمدردی کی آڑ میں آپ مجھے مہرہ بنا کر استعمال کر رہے ہیں، کل بابک میرے فلیٹ پر آکے مجھے دھمکی دے کر گیا تھا کہ وہ اس تک بھی پہنچ جائے گا جس کے کہنے پر میں نے یہ سب کیا ہے، آج احرار کی پیشی ہے سوچا تھا کورٹ جانے سے پہلے آپ سے مل کر ایک بار آپ کو بابک کے بارے میں آگاہ کردوں گی اور پھر کورٹ جا کر اپنے باپ کے مجرم کو سزا ہوتے دیکھوں گی، مگر یہاں تو کایا ہی پلٹ گئی، لیکن! میں اب بھی کورٹ جاؤں گی، احرار کے حق میں گواہی دینے اور آپ کا سچ سب کو بتانے کیلئے۔“ اس نے بتاتے ہوئے آخر میں فیصلہ سنایا اور ساتھ ہی باہر کی جانب لپکی۔

مگر اس سے قبل کہ وہ وہاں سے جا پاتی انہوں نے اسے بالوں سے پکڑ کر اسٹڈی روم میں کھینچ لیا۔

”اچھا! اس کے حق میں اور میرے خلاف گواہی دو گی، اور میں تمھیں ایسا کرنے دوں گا؟“ وہ گدی سے اس کے بال پکڑے استہزایہ انداز میں بولے۔

”ہاں جاؤں گی میں، کیونکہ میں ایک بےقصور کی سزا کا سبب نہیں بننا چاہتی۔“ اس کے انداز میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔

انہوں نے بجائے کوئی جواب دینے کہ اسے پوری قوت سے ایک جانب دھکا دیا جس کے باعث اس کا سر بری طرح ٹیبل سے جا کر ٹکرایا اور بیگ بھی کندھے سے نیچے گرگیا۔ وہ نیم بےہوشی کی حالت میں زمین پر پڑی ہوئی تھی۔

سر ٹکراتے ہی اس کے ماتھے سے خون بہنا شروع ہوگیا تھا۔ کیونکہ اسے بہت شدید چوٹ آئی تھی اسی لئے سب کچھ ہلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔

اسی کیفیت میں اس نے دیکھا کہ مرتضیٰ صاحب نے ٹیبل کی دراز سے گن نکالی اور اس کی جانب آئے۔

”بہت شوق ہے ناں کورٹ میں میرے خلاف گواہی دینے کا، چلو تمہارے مرنے سے پہلے یہ بھی پورا کردیتا ہوں۔

ہاں میں نے جھوٹی کہانی سنائی تھی تمھیں کہ احرار نے تمہارے باپ کو بےبنیاد کیس میں پھنسایا تھا، حلانکہ ایسا نہیں تھا، تمہارا باپ سچ میں اس کیس کا اصل مجرم تھا جو سالوں پہلے تو آئی او کو خرید کر بچ گیا تھا لیکن جب احرار نے خود دوبارہ باریکی سے ساری تفتیش کی تو وہ اصل مجرم یعنی تمہارے باپ تک پہنچ گیا اور اسے سزا دلوا دی، لیکن تمھیں میں نے تمہارا ہمدرد بن کر جھوٹ کہا کہ احرار نے تمہارے باپ سے ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے انھیں پھنسایا، اور ایسا میں نے اس لئے کیا تا کہ تمہارے ذریعے سے میرے راستے کا وہ کانٹا ہٹ جائے اور کسی کو مجھ پر شک بھی نہ ہو، اچھا خاصا سارا سیٹ اپ چل رہا تھا میرا، مگر جب سے وہ احرار آئی او کی پوسٹ پر آیا ہے، اس نے ایمانداری کا راگ الاپ کر دماغ اور کام دونوں خراب کر رکھے ہیں، ہر کام میں بس اسے ایمانداری چاہیے، اتنا سمجھایا دبے دبے لفظوں میں مگر اس کی سمجھ میں نہیں آیا، اور تب ہی مجھے تم مل گئی یعنی اپنے راستے کا کانٹا ہٹانے کا سنہری موقع وہ بھی بنا کسی کی نظروں میں آئے، اتنی محنت سے میں نے اسے پھنسانے کا پلان تیار کیا، تمھیں ساری سیٹنگ کرکے دی، اس کاشف سے اس پر رشوت کا جھوٹا الزام لگوایا، اور اب جبکہ آخری پیشی کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے سسپینڈ ہونے والا ہے، میرا مقصد پورا ہونے والا ہے، میرے راستے کا کانٹا ہٹنے والا ہے تو تم کورٹ میں جا کر میرے خلاف گواہی دینے کی دھمکی دے رہی ہو، لو کرلیا میں نے اپنا جرم قبول، مگر گواہی تو تم تب دو گی جب یہاں سے زندہ واپس جاؤ گی۔۔۔۔۔۔۔ٹھا۔“

انہوں نے کہتے ہوئے اس پر گن تان کر ٹریگر پر انگلی رکھی تھی مگر نہرین پر فائر کرنے سے قبل ہی کسی نے ان کے ہاتھ پر فائر کیا جس سے گن چھوٹ کر نیچے گرگئی۔

اور آنکھیں بند ہونے سے قبل نہرین بس اتنا ہی دیکھ پائی کہ اسٹڈی روم کے گیٹ پر گن لئے کھڑا۔۔۔۔۔۔۔وہ بابک تھا۔


********************************


حال


”ارے! آپ کو ہوش آگیا۔“ یکدم ایک نسوانی آواز نہرین کے کانوں سے ٹکرائی۔

اس نے آواز کے تعاقب میں دیکھا تو سفید یونیفارم میں ایک کم عمر نرس قریب آتی ہوئی نظر آئی۔

”اب کیسا فیل کر رہی ہیں آپ؟ زیادہ پین تو نہیں ہو رہا؟“ نرس نے پاس آکر پیشہ وارانہ انداز میں اس کا جائزہ لیا۔

”آپ کو پتا ہے، آپ ایک ہفتے سے بےہوش تھیں۔“ نرس کی اگلی بات اس پر بجلی کی مانند گری۔

”کیا۔۔۔۔۔ایک ہفتے سے؟“ اسے یقین نہیں آیا۔

”جی، آپ کے اٹینڈر کافی فکرمند تھے اس دوران آپ کیلئے، میں ابھی انھیں انفارم کر دیتی ہوں اور ڈاکٹر کو بھی بلا لاتی ہوں۔“ وہ اتنا کہہ کر دوبارہ کمرے سے چلی گئی۔

جب کہ نہرین سوچ میں پڑ گئی کہ احرار کے کیس کا کیا ہوا ہوگا؟ اسے یہاں کون لایا؟ اور کون اس کیلئے فکرمند تھا؟


*****************************************


ایک بار پھر سورج ابھر کر اپنے ساتھ ایک نیا دن لے آیا تھا اور آج کا دن اپنے ساتھ بہت کچھ واپس بھی لایا تھا جس میں سرفہرست تھی احرار کی آنکھوں کی چمک!

آج ایک بار پھر وہ وردی پہنے شیشے کے سامنے کھڑا تھا اور اسے یہ سب ایک حسین خواب سا محسوس ہو رہا تھا۔

”اصل مجرم ہوا بےنقاب! آئی او احرار ملک پر رشوت لینے کا الزام سراسر جھوٹ ثابت ہوا، جس کے بعد انہیں ہر قسم کے الزام سے باعزت بری کرکے ان کی ڈیوٹی بحال کردی گئی۔“ نورالعین اخبار میں چھپا تنویر احمد کا کالم پڑھتے ہوئے اس کی جانب آئی۔ وہ بھی اس طرف پلٹا۔

”دیکھا! میں نے کہا تھا ناں! ایک دن یہ خبر ضرور چھپے گی۔“ وہ اخبار لہراتے ہوئے اس کے مقابل رکی۔

”جب میرا بہادر بھائی اور وفادار بیوی میرے ساتھ تھی تو پھر کیسے نہ چھپتی یہ خبر۔“ احرار نے اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا۔

”ویسے پھر سے یونیفارم میں اچھے لگ رہے ہو، دل چاہ رہا ہے میں کوئی جرم کروں اور تم مجھے گرفتار کرلو۔“ نورالعین نے رشک آمیز شرارت سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔

”تم جتنا تنگ کرتی ہو اس کیلئے یہ گرفتاری وغیرہ تو سب چھوٹی موٹی سزائیں ہیں، تمھیں تو عمر قید کی سزا ہونی چاہئے۔“ احرار نے بھی معنی خیزی سے اس کی کمر پر گرفت کستے ہوئے اسے مزید خود میں بھینچا۔

”تو کرلو ناں عمر بھر کیلئے بانہوں میں قید، میں تیار ہوں۔“ اس کا پرفسوں انداز خمار سے چور تھا۔

”وہ تو میں ہمیشہ رکھوں گا، لیکن فی الحال یہ وقت سزا کا نہیں جزا کا ہے، اس پورے ٹریجیڈک پیریڈ میں جس طرح تم میرے ساتھ رہی شاید کوئی اور نہ رہ پاتی، اسی لئے میں بدلے میں تمھیں کچھ دینا چاہتا ہوں، بتاؤ تمھیں کیا چاہیے؟“ احرار نے نرمی سے کہتے ہوئے جاننا چاہا۔

”صرف تم چاہیے ہو، وہ بھی ہنستے مسکراتے ہوئے۔“ فوری محبت پاش جواب ملا۔

احرار نے مسرور ہوکر اسے سینے سے لگاتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ یہ لمس اسے بھی روح تک سرشار کر گیا۔

دونوں نے بنا کسی عہد و پیماں کے ثابت کر دکھایا تھا کہ محبت صرف اچھے وقتوں میں ساتھ رہنے کا نام نہیں بلکہ اس کی سب سے زیادہ ضرورت برے وقت میں ہوتی ہے۔ اور ان دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کی یہ ضرورت بنا بولے پوری کرکے اپنی محبت نبھائی تھی۔


تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی بھی عزیز

مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا


عبداللہ علیم


********************************


چیک اپ کے بعد جب نرس نے نہرین کو اس کے کپڑے لا کر دیے اور ریڈی ہونے کا کہا تو وہ خاصی متعجب ہوئی کہ بھلا اس کے کپڑے ہسپتال کیسے آئے؟

لیکن نرس نے سارے سوالات ٹال کر اسے تیار ہونے میں مدد کرائی اور اب وہ بلآخر ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر نرس کے ساتھ باہر آگئی تھی جہاں ساری فارمیلیٹیز پوری کرنے کے بعد بابک غالباً اسی کا منتظر تھا۔

اس نے گرے جینز کے ساتھ فوجی گرین ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی جس کی فل آستینیں ذرا اوپر چڑھا کر دونوں بازو سینے پر لپیٹے وہ اپنی بلیک کرولا سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔

بابک کے ماتھے پر دائیں طرف سنی پلاسٹ لگا ہوا تھا اور بائیں ہتھیلی پر بھی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ غالباً مرتضیٰ صاحب سے ہاتھا پائی کے دوران اسے یہ چوٹ آئی تھی۔

نرس یہاں سے واپس چلی گئی اور نہرین ٹرانس کی کیفیت میں چلتی اس کے پاس آئی۔

نہرین نے بیلو اسکن ٹائٹ جینز کے ساتھ شارٹ ریڈ کُرتی پہن کر اپنے گرد کتھئی شال لی ہوئی تھی۔ ماتھے پر سفید پٹی بندھی تھی جس کے ساتھ کتھئی ڈائی شدہ بال پشت پر کھلے ہوئے تھے۔ ایک تو وہ زخم کی وجہ سے کمزوری محسوس کر رہی تھی لیکن اس سے بھی زیادہ اس کے چہرے پر شرمندگی واضح تھی۔

وہ بابک کے مقابل رک کر اپنی انگلیوں پر نظریں مرکوز کیے معذرت کیلئے لفظ ترتیب دے رہی تھی مگر کامیاب نہیں ہو پائی۔

”گاڑی میں بیٹھو۔“ بابک کی سپاٹ آواز پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو پتا چلا اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا تھا۔

وہ کچھ کہنے کے بجائے چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ جس کے بعد بابک نے بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور سفر شروع ہوگیا۔

”مجھے ٹائم پر ہاسپٹل لانے کیلئے تھینکس۔“ بلآخر کافی دیر بعد وہ ہمت کرکے گویا ہوئی۔

”ہاسپٹل لانے کے بدلے، جان بچانے کے بدلے، گھر لے جانے کے بدلے، گھر کا فرد ماننے کے بدلے تو تم پیٹھ میں چھرا گھونپا کرتی تھی، یہ تھینکس بولنا کہاں سے سیکھ لیا؟“ بابک نے ساری توجہ ڈرائیونگ پر رکھتے ہوئے نہایت چبھتا ہوا طنز کیا۔

وہ اپنے آپ میں بری طرح شرمندہ ہوکر رہ گئی۔

”احرار کے کیس کا کیا ہوا؟“ نہرین نے بات بدلی۔ درحقیقت وہ اس بارے میں جاننے کیلئے بےتاب تھی۔

”تمہارے لئے بری خبر ہے، وہ باعزت بری ہونے کے بعد ڈیوٹی جوائن کرچکا ہے۔“ سابقہ انداز میں جواب ملا۔

نہرین کے دل کو اطمینان ہوا کہ شکر اس کی غلط فہمی کی وجہ سے احرار کا کوئی ناقابلِ تلافی نقصان نہیں ہوا تھا اور وقت رہتے ہی سب ٹھیک ہوگیا۔

”میں جانتی ہوں تم میری کسی بھی بات کا یقین نہیں کرو گے، اور کرنا چاہئے بھی نہیں، مگر یہ سچ ہے کہ میں نے جو کچھ بھی کیا اس پر میں بہت زیادہ گلٹی ہوں، اتنی زیادہ کہ احرار سے نظریں ملانے کی بھی ہمت نہیں ہے۔“ وہ گود میں دھرے اپنے ہاتھوں پر نظریں جمائے تاسف سے بولی۔

بابک نے کوئی جواب دینے کے بجائے گاڑی آہستہ کرتے ہوئے روک دی۔ وہ لوگ اپنی منزل پر پہنچ چکے تھے۔

نہرین نے سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھا تو دنگ رہ گئی۔

وہ لوگ ایئر پورٹ پر موجود تھے۔

”باہر آؤ۔“ بابک گاڑی سے اتر کر اس کی جانب آنے کے بعد فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول چکا تھا۔

”ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ اس نے باہر آتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔

”کیونکہ تھوڑی دیر بعد یہاں سے نیو یارک کی فلائٹ ٹیک آف کرنے والی ہے جس میں تم بھی جاؤ گی۔“ اس نے گاڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے محض جواب نہیں دیا بلکہ اس پر بجلی گرائی تھی۔

وہ اپنی جگہ ششدر رہ گئی۔ جبکہ بابک ڈگی میں سے ایک سرخ رنگ کا بڑا سا ہینڈ کیری بھی نکال لایا۔

”تمہارے فلیٹ کی تلاشی لینے پر مجھے تمہارے سارے ڈاکومنٹس مل گئے تھے اسی لئے جب تک تم بےہوش تھی، میں نے تمہارا سامان سمیٹ کر تمھیں یہاں سے روانہ کرنے کا پورا بندوبست کر دیا، اس بیگ کی فرنٹ پاکٹ میں تمہارا پاسپورٹ، ٹِکٹ، فٹنس سرٹیفیکیٹ، سارے ڈاکومنٹس، اور بیگ میں وہ سارا استعمال کا سامان ہے جو تمہارے فلیٹ میں تھا، امید ہے کہ اب تمہارے پاس یہاں واپس آنے کا کوئی بہانہ نہیں بچے گا۔“ بابک نے ہینڈکیری اس کے پاس رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں اسے حیران کر دیا تھا۔

”تو مطلب تم مجھے واپس بھیج رہے ہو؟“ نہرین کو خود بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس نے دکھ سے چور لہجے میں یہ بےتكا سوال کیوں کیا؟

”ہاں تو؟ یہاں رہ کر پھر کوئی چال چلنی ہے میرے بھائی کے خلاف؟“ بابک کا کاٹ دار انداز اسے اس کا مقام یاد دلا گیا۔

”اگر تمہارا ایسا کوئی ارادہ بن رہا ہے تو ابھی سے کان کھول کر سن لو کہ میرے جیتے جی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا، تمہاری اس دھوکے بازی کے بعد بھی تمھیں زندہ سلامت چھوڑ رہا ہوں اسے ہی احسان مانو ورنہ تم جانتی ہو کہ اپنے بھائی کو تکلیف پہنچانے والے کا میں کیا حشر کرتا ہوں؟“ اس نے انگلی اٹھا کر سختی سے تنبیہہ کی تو نہرین کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا۔

”نہیں۔۔۔۔میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔۔۔۔اس احسان کیلئے شکریہ۔“ حلق میں بنتا آنسوؤں کا گولہ نگلتے ہوئے اس نے بمشکل خود کو سنبھالا ہوا تھا۔

وہ اس سے نظریں ملانے سے بھی گریز کر رہی تھی کیونکہ جانتی تھی کہ بابک اس کی آنکھوں میں جمع ہوتے آنسوؤں کو بھی فریب سمجھے گا۔

اس نے ہینڈ کیری کا ہینڈل پکڑا اور اسے کھینچتے ہوئے وہاں سے جانے لگی۔

اٹکتی، رکتی، بکھرتی ہوئی لگی مجھ کو

وہ پہلی سانس جو میں نے تجھ سے بچھڑ کر لی

”سنو۔“ بابک کی پکار پر وہ ذرا دور جا کے پلٹی۔

وہ متوازن قدم اٹھاتا عین اس کے مقابل آکھڑا ہوا جو پرنم آنکھوں سے خود سے دراز اس وجیہ شخص کو دیکھ رہی تھی۔

کچھ کہنے کے بجائے بابک نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما تو نہرین کا دل زور سے دھڑکا۔

”دوبارہ کبھی غلطی سے بھی مجھے اپنا یہ دھوکے باز چہرہ مت دکھانا، ورنہ میں تمہارے عورت ہونے کا لحاظ بھی بھول جاؤں گا۔“ بابک کے ٹھہرے ہوئے انداز میں اتنی خطرناک سرد مہری تھی کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی اور بےساختہ ایک آنسو گال پر پھسلا۔

”اب جاؤ یہاں سے۔“ وہ اس کا چہرہ چھوڑ کر چند قدم پیچھے ہوا۔

نہرین کی آخری امید بھی ٹوٹ کر پاش پاش ہوئی تو بمشکل اپنی ہچکی روکتے ہوئے وہ بیگ کھینچتی تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔

وہ داستانِ محبت جو ٹھیک طرح سے شروع بھی نہیں ہو پائی تھی نفرت کا دردناک قصہ بن کر ختم ہوگئی۔

دل کی بات دل میں رہ گئی۔۔۔۔۔ان کہی محبت کو اظہار تک نصیب نہ ہوا اور نفرت جیت کر اس ان کہی محبت کو مات دے گئی۔

اک کام ایسا کرچکے ہیں ہم

عشق کو مسترد کرچکے ہیں ہم

محبت کھڑی تھی سراپا سوال بن کر

اس کے سامنے سے گزر چکے ہیں ہم

اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں

رہبر سے اپنی راہ جدا کر چکے ہیں ہم

کیسی محبت؟ کہاں کی وفا؟

یہ سب راستے بدل چکے ہیں ہمآخری ڈر تھا تجھ سے بچھڑنا

آخری بار ڈر چکے ہیں ہم

اک کام ایسا کرچکے ہیں ہم

عشق کو مسترد کرچکے ہیں ہم


”یہ لو۔“ احرار نے واپس ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے کوئی رسید نورالعین کی جانب بڑھائی جو فرنٹ سیٹ پر موجود اس کے واپس آنے کی ہی منتظر تھی۔

نورالعین نے رسید تھام کر پڑھی جس میں لکھا تھا کہ ایک بڑی رقم کسی فلاحی ادارے کو عطیہ کی گئی ہے۔

”بس! اب خوش؟ ہوگئی تسلی؟“ احرار نے دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوئے تائید چاہی۔

”بالکل! میں نے اول روز سے یہ نیت کی ہوئی تھی کہ جس دن تم اس کیس سے بری ہوجاؤ گے اس دن شکرانے کے طور پر میں ایکسٹرا رقم ڈونیٹ کروں گی، شکر ہے خیر سے یہ کام بھی ہوگیا۔“ اس نے وہ رسید تہہ کرتے ہوئے اطمینان سے بتایا۔

”تم بھی پاگل ہو، ایسے موقع پر تو لوگ سکسیس پارٹی رکھتے ہیں، خوب ہلہ گلہ کرتے ہیں، اور تم ہو کہ فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ گئی ہو۔“ احرار نے جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کیلئے مصنوعی نااتفاقی ظاہر کی۔

”وہ اور لوگ ہوتے ہیں جو مصیبت میں اللہ اللہ کرتے ہیں اور مصیبت ٹلتے ہی خدا اور اس کی مخلوق کو بھول بھال کر موج مستیوں میں لگ جاتے ہیں، اماں ہمیشہ کہتی تھیں مصیبت ٹل جانے کے بعد خدا کا شکر کرنا مت بھولا کرو۔“ اس نے بھی بےنیازی سے اپنا موقف بتایا جس پر احرار کو بےحد پیار آیا۔

”اور ویسے بھی کسی نے مجھ سے کہا تھا کہ خدا دے کر بھی آزماتا ہے اور لے کر بھی، جیسے دکھ میں صبر کرنا ہوتا ہے ویسے ہی سکھ میں شکر فرض ہوتا ہے، اینا یہ سب نہیں کرتی تھی مگر نورالعین کو صبر اور شکر کا فلسفہ بہت اچھی طرح سمجھ آگیا ہے۔“ اس نے معنی خیزی سے مزید کہا تو وہ بھی بےساختہ مسکرا دیا۔

”تب ہی تو مجھے اینا نہیں بلکہ نورالعین پسند ہے۔“ احرار نے اس کی جانب جھک کر محبت پاش اقرار کرتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دے ڈالا جو اس سے زیادہ اس جیسی ہوتی جا رہی تھی۔

*****************************************

نیویارک

نہرین نے اپنے دو منزلہ چھوٹے سے گھر میں قدم رکھا تو اس گھر کے کونے کونے میں پنجے گاڑے بیٹھی ویرانیت نے اسے خوش آمدید کہا اور اداسی تو گویا دوڑ کر آکے اس سے لپٹ گئی اور کہنے لگی کہ کہاں تھی تم اتنے دنوں سے؟ ہم نے تمھیں کتنا یاد کیا۔

وہ ہینڈکیری گھسیٹتی ہوئی سیدھی اپنے بیڈروم میں چلی آئی۔

اس نے بیگ بیڈ پر رکھا اور خود بھی اس پر بیٹھ کر خالی خالی نظریں کمرے میں یہاں وہاں دوڑانے لگی جیسے کسی کونے میں اسے اس کی کھوئی ہوئی خوشیاں اور رونقیں پڑی مل جائیں گیں!

یون ہی بھٹکتے ہوئے اس کی نظر سائیڈ ٹیبل پر رکھے فوٹو فریم پر جا کر ٹھہری۔

اس تصویر میں ادھیڑ عمر نعمان آفندی وسط میں کھڑے تھے، ان کے دائیں بائیں مسکراتے ہوئے نہرین اور ارسلان موجود تھے جن کو انھوں نے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ فریم اٹھا لیا اور اسے نظر بھر کر دیکھنے لگی۔

اسے یاد آیا ارسلان کی سیوسائیڈ سے پہلے جب نعمان آفندی ان دونوں سے ملنے نیویارک آئے تھے تب نہرین بہت ضد کرکے انھیں اور ارسلان کو لے کر آؤٹنگ پر نکلی تھی اور تب ہی ایک فیسٹیول میں یہ تصویر کلک کی تھی۔

پھر اس کے طویل عرصے بعد نعمان آفندی پاکستان سے نیویارک تب آئے تھے جب انھیں ارسلان کی سیوسائیڈ کی خبر ملی۔ اس کی آخری رسومات ادا کرکے وہ پاکستان واپس چلے گئے تھے اور پھر وہاں سے صرف ان کی موت کی اطلاع آئی۔

”احرار نے تمہارے باپ کو کسی جھوٹے کیس میں نہیں پھنسایا تھا، بلکہ وہ ہی اس قتل کے اصلی قاتل تھے، جسے کرتے ہوئے ابرار سکندر نے دیکھ لیا تھا، اور اس سے قبل کہ وہ ان کے خلاف گواہی دیتے انہوں نے قتل کا الزام ہی ابرار سکندر پر لگا دیا۔“ اس کے ذہن میں بابک کی آواز گونجی۔

”ہاں میں نے جھوٹی کہانی سنائی تھی تمھیں کہ احرار نے تمہارے باپ کو بےبنیاد کیس میں پھنسایا تھا، حلانکہ ایسا نہیں تھا، تمہارا باپ سچ میں اس کیس کا اصل مجرم تھا جو سالوں پہلے تو آئی او کو خرید کر بچ گیا تھا لیکن جب احرار نے خود دوبارہ باریکی سے ساری تفتیش کی تو وہ اصل مجرم یعنی تمہارے باپ تک پہنچ گیا اور اسے سزا دلوا دی۔“ اسے مرتضیٰ صاحب کا سفاکی سے کیا اعتراف یاد آیا جو اس تک پہنچنے میں بہت دیر ہوگئی تھی۔

اپنے باپ کی موت کا دکھ دل میں لئے جب وہ اس انجان شہر میں تنہا تھی تو مرتضیٰ صاحب کی ہمدردی اسے کسی نعمت سے کم نہ لگی۔ اسے لگا کہ انجان جگہ پر ایک مسیحا مل گیا ہے جو اس کے باپ کی ناحق موت کا بدلہ لینے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ بھیڑ کی کھال میں وہ بھیڑیا نکل آئے گا جو اس کے درد کو مہرہ بنا کر اسے ہی استعمال کرتا رہا۔

”پاپا پلیز یا تو آپ ہمیشہ کیلئے ہمارے پاس یہاں نیویارک آجائیں یا پھر ہم دونوں کو بھی وہاں اپنے پاس پاکستان بلا لیں، اور ارسلان کو اپنے ساتھ اپنے کام میں لگا لیں، یہاں پتا نہیں وہ کیسے کیسے لوگوں کی کمپنی میں رہنے لگا ہے؟ الٹی سیدھی حرکتیں کرتا ہے، کئی کئی دن گھر نہیں آتا، جب آتا ہے تو اتنا مدہوش ہوتا ہے جیسے کوئی نشہ کرکے آیا ہو! اور آج کل پتا نہیں وہ اپنی یونی کی کسی لڑکی کے پیچھے پاگل ہوا پڑا ہے، اگر ایسا ہی چلتا رہا ناں پاپا تو کچھ بہت برا ہوجائے گا، آپ پلیز یہاں آجائیں یا ہمیں وہاں آنے دیں، ہم بہت اکیلے پڑ گئے ہیں، ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔“ نہرین کو اپنا وہ طویل وائس نوٹ یاد آیا جو وہ اکثر پریشان ہوکر نعمان آفندی کو کیا کرتی تھی۔

”بیٹا ٹرائی ٹو انڈرسٹینڈ! میں تم لوگوں کو یہاں نہیں بلا سکتا اور نہ ارسلان کو اپنے کام میں انوالو کرسکتا ہوں، اس میں رسک اور دشمن دونوں بہت زیادہ ہوتے ہیں، تم دونوں کیلئے نیویارک ہی سیف ہے، اور میں ارسلان سے بات کروں گا تم فکر مت کرو۔“ جواب میں ہر بار وہ یہ ہی کہا کرتے تھے۔

”تو مت کریں ناں آپ اتنا رسکی کام، چھوڑ دیں اور یہاں آکر کوئی جاب کرلیں، جو بیکری ابھی میں شوق شوق میں پارٹ ٹائم چلاتی ہوں، وہ میں فل ٹائم چلا لوں گی، ساتھ کوئی اور جاب بھی کرلوں گی، ارسلان بھی کوئی جاب کرلے گا، ہم سب ساتھ مل کر تھوڑے بہت میں ہی مینج کرلیں گے بٹ ایٹ لیسٹ ہم سب ایک فیملی کی طرح ساتھ تو ہوں گے۔“ وہ کئی بار اپنی یہ خواہش انھیں بطور تجویز پیش کرچکی تھی جو ہر بار رد ہوجاتی تھی اور وہ دل مسوس کر رہ جاتی تھی۔

اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے باپ نے اپنے کالے کرتوت ان کی نظروں سے چھپائے رکھنے کیلئے انھیں اتنی دور رکھا ہوا ہے اور یہ حقیقت اس پر اتنی بری طرح اشکار ہوگی۔

اس نے دیکھا کے فریم پر اچانک پانی کی بوندیں ٹپکنا شروع ہوگئی ہیں جو درحقیقت اس کے آنسو تھے۔ اسے خود بھی پتا نہیں چلا کہ کب دل کا درد آنکھوں کے راستہ باہر بہہ نکلا تھا!

اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کیے، فریم سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا اور بیگ کھول کر اپنا سامان نکالنے لگی۔

اس کے پاس ویسے بھی کچھ زیادہ سامان نہیں تھا اور جو تھا وہ سب بابک اس کے ساتھ روانہ کرچکا تھا۔ چند ایک چیزیں وہیں چھوٹ بھی گئی تھیں مگر وہ اتنی خاص نہیں تھیں۔

اس سامان سے جو غیرمتوقع چیز برآمد ہوئی وہ تھا ٹیڈی بیئر اور ایلف شفک کی کتاب!

اس نے یوں ہی کتاب کھولی تو بےاختیار نظر سامنے لکھی سطر پر ٹھہر گئی۔

Most of the problems of the world stem from linguistic mistake and simple misunderstanding.

ترجمہ :

”دنیا کے زیادہ تر مسائل لسانی غلطیوں اور سادہ غلط فہمیوں سے جنم لیتے ہیں۔“

اسے یہ بات اس وقت سو فیصد درست لگی۔ واقعی وہ بھی تو ایک غلط فہمی کا ہی شکار ہوگئی تھی کہ احرار نے اس کے باپ کو ناحق سزا دی ورنہ حقیقت تو اس کے بالکل برعکس تھی۔

لیکن افسوس! اسے اپنی غلط فہمی کا احساس ہونے میں بہت دیر ہوگئی۔

کاش وہ مرتضیٰ صاحب سے قبل بابک سے مل گئی ہوتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

اس نے اداسی سے کتاب بند کی اور اس ٹیڈی کو اٹھا کر دیکھنے لگی جس کے ساتھ بہت سی یادیں جڑی تھیں۔

یہ وہ ہی ٹیڈی تھا جس میں بابک نے اسپائی کیمرہ چھپایا تھا لیکن اب وہ کیمرہ موجود ہونے کے باوجود بھی ایکٹیویٹ نہیں تھا۔

نہ جانے کیوں یہ ٹیڈی دیکھتے ہی اسے بابک یاد آنے لگتا تھا! جیسے ابھی وہ لمحات یاد آگئے جب وہ نوری سے معافی مانگنے کے بعد اس کے پاس آیا تھا۔

”ڈسٹرب تو کیا؟“ وہ مہذب انداز میں پوچھتا دروازے پر ہی کھڑا تھا۔

”جی نہیں، کہیے۔“ وہ کتاب بیڈ کے کنارے رکھتے ہوئے مکمل طور پر اس کی جانب متوجہ تھی۔

”میں نے آپ کی بات پر غور کرکے یہ رئیلائز کیا کہ واقعی مجھے نوری کو اس طرح نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا، اب تو آپ کو مجھ سے کوئی شکایات نہیں ہے؟“ اس کی آنکھوں میں بےریا معصوم سا سوال تھا۔

مطلب وہ یہاں اپنی غلطی سدھار لینے کے عوض اس کی قیمتی رائے جاننے آیا تھا۔ جس کی نہرین کو بالکل بھی توقع نہیں تھی۔

”میں بھلا آپ سے ناراض ہونے والی کون ہوتی ہوں؟“ وہ نظریں چراتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔

”میں تو بس چند دنوں کا ایک بن بلایا مہمان ہوں آپ کے گھر، جو جلد ہی چلا جائے گا، میری وجہ سے آپ کو بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے نظریں کمبل کی سلوٹوں پر رکھے ہوئے ہی مزید کہا تھا اور ساتھ ہی ایک پیر موڑا جس کی وجہ سے کمبل کھنچا اور بیڈ کے کنارے رکھی کتاب نیچے فرش پر گر گئی جسے دونوں نے ہی دیکھا تھا۔

اس کی بات کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے بابک متوازن قدموں سے آگے آیا تھا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر سفید فرش پر گری کتاب اٹھائی تھی۔

”آپ نے صبح ہاسپٹل میں ٹھیک کہا تھا کہ میں ایک اچھا انسان نہیں ہوں۔“ وہ یوں ہی بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں کتاب پر تھیں اور نہرین کی نگاہیں اس پر!

”مگر ہاں۔۔۔۔۔۔۔میں ایک اچھا انسان بننے کی کوشش میں ہوں۔“ اس نے نظر اٹھا کر نہرین کو دیکھا تھا جو اسے ہی تک رہی تھی۔

”جب تک آپ یہاں مہمان ہیں تب تک اگر آپ کو اپنے میزبان میں مزید کوئی برائی نظر آئے تو اس سے بدظن ہونے کے بجائے اسے آگاہ کر دیجئے گا، وہ اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا، اور کیا پتا ان ہی چھوٹی موٹی کوششوں سے وہ بھی بلآخر ایک اچھا انسان بن جائے!“ وہ سادگی سے کہتے ہوئے آخر میں دھیرے سے مسکرایا تھا تو نہرین کا دل یکدم بہت زور سے دھڑکا تھا۔ اس نے فوری گڑبڑا کر نگاہیں چرالیں تھیں گویا وہ آنکھوں سے دل کی دھڑکن سن لے گا۔

”ڈسٹرب کرنے کیلئے سوری!“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے کتاب نہرین کی گود میں رکھی تھی جسے اس نے اپنی منتشر دھڑکن قابو کرنے کی ناکام کوشش میں یوں ہی کھول لیا تھا۔

”گڈ نائٹ!“ وہ کہہ کر، آہستہ سے دروازہ بند کرکے چلا گیا تھا۔

بابک کے ایک ایک انداز میں اس کیلئے کتنی نرمی، کتنا مان، کتنا چاؤ ہوا کرتا تھا۔ حتیٰ کہ وہ خود کو اس کی پسند کے عین مطابق ڈھالنے کو بھی تیار ہوگیا تھا۔۔۔۔

لیکن پھر اچانک سب بدل گیا۔

”تمہاری اس دھوکے بازی کے بعد بھی تمھیں زندہ سلامت چھوڑ رہا ہوں اسے ہی احسان مانو، دوبارہ کبھی غلطی سے بھی مجھے اپنا یہ دھوکے باز چہرہ مت دکھانا، ورنہ میں تمہارے عورت ہونے کا لحاظ بھی بھول جاؤں گا۔“ بابک کے ٹھہرے ہوئے انداز میں اتنی خطرناک سرد مہری تھی کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی تھی۔

وہ ہی بابک جو اسے ذرا سی تکلیف پہنچنے پر گھر سر پہ اٹھا لیتا تھا اس نے اسے زندہ چھوڑ کر اس پر احسان کیا تھا۔

جو بابک اس کی پناہوں میں موم بن کر پگھلنے کو تیار تھا نہرین نے خود اسے پتھر سے بھی سخت کر ڈالا تھا۔ اور اب شاید ساری زندگی بھی وہ رو رو کر اپنی غلطی کی معافی مانگتی تو وہ پتھر پھر سے موم نہیں ہونے والا تھا۔


اٹھا ہے اک درد دل میں، آتشِ ہجر لگی ہے کو بہ کو

گنوا بیٹھے اس کو ہی، جاگی تھی جس کی جستجو


سنی سنائی پر لشکر کشی سے تو لاکھ درجہ بہتر تھا

کاش! میں نے کی ہوتی ایک بار اس سے گفتگو


ترمیم : فریال خان


*****************************************


دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے بابک اس وقت اپنے کمرے میں موجود، کھڑکی کے پار نظر آتا سیاہ آسمان دیکھ رہا تھا جس کے سینے پر نہ چاند تھا اور نہ ستارے۔

کچھ دنوں سے ایسا لگنے لگا تھا جیسے دنیا سے ساری خوبصورتی ختم ہوگئی ہے۔ ساری رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔

اور وجہ تھی اس کے من کی دنیا کی اداسی جس میں اس نے بہت چاؤ سے خواہشوں کے ننھے منے پودے لگانا شروع کیے تھے۔ وہ بہت مان سے ان کی دیکھ بھال میں مصروف تھا لیکن اچانک حقیقت کی اتنی زور دار اندھی چلی کہ اس کے من کی دنیا کو اجاڑ کر چلی گئی۔ اور وہ اپنی خواہشوں کی ان معصوم کونپلوں کے مرجانے پر کھل کر رو بھی نہ سکا۔

نہ جانے اور کتنی دیر وہ یوں ہی خیالوں میں گم کھڑا رہتا اگر احرار کی آواز اس مشغلے میں خلل نہ ڈالتی۔

”کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“ ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس پکڑے احرار نے اندر جھانک کر شرارتاً اجازت چاہی۔

”بالکل بھی نہیں۔“ بابک نے بھی اس طرف پلٹے ہوئے غیر سنجیدہ جواب دیا۔

”تھینکس۔“ وہ بنا کوئی اثر لئے اندر چلا آیا۔

”یہ کیا ہے؟“ بابک نے اس کی طرف آتے ہوئے باکس کی بابت پوچھا۔

”آپ کی مرہم پٹی کا سامان، آپ کی بینڈج چینج کرنے آیا ہوں، کیونکہ مجھے پتا ہے آپ تو یہ زحمت کریں گے نہیں۔“ وہ باکس لے کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔

”ارے یار اتنی بھی کوئی گہری چوٹ نہیں لگی ہے جو تم بچوں کی طرح میری فکر کرتے رہتے ہو۔“ حسب توقع اس نے ٹالنا چاہا۔

”شہہہ! آپ کا مشورہ نہیں مانگا میں نے، آپ بس چپ چاپ بیٹھ جائیں، میں اپنا کام کرلوں گا۔“ احرار نے لاڈ بھرے حکم کے ساتھ اسے کلائی سے پکڑ کر اپنے سامنے بٹھا لیا۔

بلآخر ہار مانتے ہوئے بابک کو بھی ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔

احرار نے پہلے اس کے ماتھے پر دائیں جانب لگا سنی پلاسٹ ہٹایا۔

”اب تو زخم پہلے سے کافی بہتر ہے۔“ زخم کو ڈیٹول میں بھیگی روئی سے صاف کرکے احرار نے اس پر نیا سنی پلاسٹ لگایا۔

”کیسے نہیں ہوتا، دوا جو اتنی اچھی ملی ہے۔“ بابک اسے دیکھتے ہوئے محبت سے بولا جو اب اس کی بائیں ہتھیلی پر بندھی پٹی کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔

”نہرین کے بارے میں کچھ پتا چلا بھیا کہ وہ کہاں غائب ہیں؟“ احرار نے اسی کی پٹی کھولتے ہوئے سرسری انداز میں جاننا چاہا۔ بابک کے نرم تاثرات میں تھوڑا سا کھنچاؤ آگیا۔

”نہیں، اور نہ ہی مجھے اس کے بارے میں جاننے کا کوئی شوق ہے، وہ جہاں سے آئی تھی وہیں لوٹ گئی ہوگی، اور یہ ہی سب کیلئے بہتر ہے۔“ بابک کا سنجیدہ لہجہ ہر جذبات سے عاری تھا۔

”آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اکثر ہم اپنی نادانی میں کانچ کو ہیرا سمجھ کر پکڑ بیٹھتے ہیں جس سے سوائے زخم کے اور کچھ نہیں ملتا، اور ایسے زخموں پر مرہم لگا کر انھیں چھوڑ دینا چاہئے، وہ وقت کے ساتھ ساتھ بھر جاتے ہیں، اور صحیح موقع آنے پر ہماری قسمت میں لکھا اصلی ہیرا بھی ہمیں مل جاتا ہے، بس ہمیں موو آن کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔“ دھیرے دھیرے باتوں کے دوران وہ اس کی بینڈج چینج کرچکا تھا جو درحقیقت بینڈج کے بہانے اپنے بھائی کی دلجوئی ہی کرنے آیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بابک کا دل ٹوٹا ہے اور اسے تسلی کی ضرورت ہے۔

”جس دن بات میری فیملی پر آئی تھی میں اسی دن موو آن کر گیا تھا، ڈونٹ وری۔“ بابک نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ اسے اطمینان دلایا۔

”دیٹس گریٹ! چلیں پھر اسی خوشی میں اب یہ دوائی بھی کھالیں۔“ احرار نے ایک گولی ریپر سے نکال کر اس کی جانب بڑھائی۔ جسے بابک نے لے کر منہ میں رکھا اور سائیڈ ٹیبل پر رکھا پانی کا گلاس اٹھا کے لبوں سے لگا لیا۔

"اب زیادہ دیر تک فون یا لیپ ٹاپ میں مصروف مت رہیے گا ورنہ سر میں درد ہوجائے گا، آفس سے تو چھٹی کر نہیں رہے ہیں، کم از کم جلدی سو ہی جائیں۔“ احرار نے باکس بند کرتے ہوئے تاكید کی۔

”جو حکم سرکار، اور کچھ؟“ اس نے شریر فرمابرداری سے پوچھا۔

”فی الحال بس اتنا ہی اب آپ سوجائیں، صبح ملاقات ہوگی، گڈ نائٹ۔“ وہ باکس لے کر بیڈ پر سے اٹھا۔

”گڈ نائٹ۔“ بابک نے بھی محبت سے جواب دیا جسے احرار جیسا بھائی ملنے پر اپنی قسمت پر رشک اور اپنے بھائی پر ٹوٹ کے پیار آیا۔

پھر احرار روم سے چلا گیا جب کہ بابک بھی چینج کرنے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ کلائی پر بندھی گھڑی کھولتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے پاس آیا اور گھڑی رکھنے کیلئے جوں ہی دراز کھولی تو اس کی نظر دراز میں رکھے ایک چھوٹے سے سرخ مخملی ڈبے پر پڑی۔

غیر ارادی طور پر اس نے ڈبہ باہر نکالا اور اسے کھول کر دیکھنے لگا جس کے وسط میں وہی سلور انگوٹھی اداس سی موجود تھی جسے اب تک اس کا مان چاہا ہاتھ نصیب نہیں ہوا تھا۔

یکدم ہی شروع سے لے کر آخر تک پھر ساری یادیں ذہن میں امڈ کر آگئیں اور آپس میں گڈمڈ ہونے لگیں۔

وہ کافی دیر ایسے ہی کھڑا ہاتھ میں پکڑے اس ڈبے کو دیکھتا رہا۔

پھر جیسے اسے ہوش آگیا۔ وہ باکس بند کرتے ہوئے اپنی الماری کی جانب آیا اور اس میں بنے ایک تجوری نما کبرڈ کو کھول کر یہ باکس اس میں اندر کی جانب پھینک کر ایسے کبرڈ بند کردیا جیسے اس کی یادوں کو ہمیشہ کیلئے دفنا دیا ہو!


مجھے شوق تھا تیرے ساتھ کا

جو نہ مل سکا چلو خیر ہے

میری زندگی بھی گزر گئی

تو بھی جا چکا چلو خیر ہے

یہ گھٹے گھٹے سے ہیں سلسلے

یہ رکے رکے سے تعلق ہیں

نہ میں کہہ سکا کبھی کھل کے

نہ وہ سن سکا چلو خیر ہے

یوں ہی دھیرے دھیرے ختم ہوا

یہ سلسلہ بھی چلو خیر ہے


انتخاب


********************************


آٹھ ماہ بعد


ہر سحر کی ایک معیاد ہوتی ہے جس کے پورے ہونے پر وہ سحر ٹوٹنے لگتا ہے، لیکن کچھ لوگ ہوتے ہیں جو خود پر زبردستی کا سحر چڑھائے رکھ کر ساری زندگی ادھوری خواہشوں کا ماتم کرتے رہتے ہیں جس سے انہیں سوائے ذہنی اذیت کے اور کچھ نہیں ملتا۔

یہ سچ ہے کہ کسی کے چلے جانے کے بعد یکدم ہی نارمل ہوجانا مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں ہے، ہم آہستہ آہستہ راہ راست پر آجاتے ہیں اور غیر محسوس انداز میں پہلے سے زیادہ مضبوط انسان بن جاتے ہیں، بس ضرورت ہوتی ہے تو صرف خود کو یہ یقین دلانے کی کہ ہماری زندگی، ہماری خوشیاں، واقعی ہماری ہیں اور ہم کسی کو یہ اختیار نہیں دیں گے کہ وہ اپنے ساتھ ہماری زندگی، ہماری خوشیاں، ہمارا چین و سکون لے جائے!

جس دن ہم اپنی زندگی کی کمانڈ خود اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں ہم اسی دن ایک نئے اور مضبوط انسان بن جاتے ہیں۔ ہمارے سارے زخم مندمل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

وقت بھی مرہم ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ ماضی کے سارے زخم مندمل کرکے ہمیں حال کے جھمیلوں میں الجھا کر پھر سے جینے کی وجہ دیتا ہے۔

آسمان کے سیاہ سینے پر سفید اکلوتا چاند تاروں کے جھرمٹ میں پوری شان سے جگمگاتے ہوئے جاگ راہ تھا۔ جبکہ سارا عالم اس وقت اپنی اپنی خواب گاہوں میں گہری نیند کے زیر اثر تھا۔

وہ دونوں بھی اپنے بستر پر موجود گہری نیند میں تھے کہ اچانک نورالعین کے پیٹ میں بےچینی شروع ہوگئی۔ وہ کسمسانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ بےچینی درد میں تبدیل ہوگئی جس کے نتیجے میں وہ پوری طرح بیدار ہوگئی۔

”احرار۔“ درد کے مارے اس کے منہ سے کراہ نکلی۔

مگر یہ اتنی بلند نہیں تھی کہ احرار کی گہری نیند توڑ پاتی لہٰذا وہ ٹس سے مس نہ ہوا اور اس کا درد بڑھتا رہا۔

”احرار۔“ اب کی بار اس نے کندھا جھنجھوڑتے ہوئے تھوڑا زور سے پکارا۔

اس نے موندی موندی آنکھیں کھول کر دیکھا مگر اگلے ہی لمحے اسے یوں تڑپتا دیکھ ساری نیند ہوا ہوگئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

”نورالعین! کیا ہوا؟“ اسے سخت تشویش ہوئی۔

”مجھے لیبر پین ہو رہا ہے، ہاسپٹل چلو جلدی۔“ وہ ہنوز درد سے کراہ رہی تھی۔

”اچھا! میں ابھی بھیا کو جگاتا ہوں، تم بس تھوڑا سا صبر کرو۔“ وہ اسے تسلی دیتا ہوا بیڈ پر سے اٹھا اور برق رفتاری سے باہر کی جانب بھاگا۔

بابک کے کمرے کی جانب آکر اس نے زور سے دروازہ پیٹا جس کے باعث جلد ہی دروازہ کھل گیا۔

”بھیا! نورالعین کو ہاسپٹل لے کر جانا ہے، ابھی۔“ اس نے ایک ہی سانس میں جلدی سے بتایا۔

”ٹھیک ہے، میری گاڑی نکالتا ہوں تم اسے لے کر آؤ۔“ اس کی بھی ساری نیند یکدم اڑ گئی۔

پھر بابک کار کی چابی لے کر باہر کی جانب بڑھا جبکہ احرار واپس نورالعین کے پاس آیا۔

اس نے کمرے کی لائٹ آن کرکے الماری سے چادر نکال کر بیڈ پر کراہتی نورالعین کے گرد لپیٹی اور اسے دونوں بازؤں میں اٹھا کر کمرے سے باہر آیا۔

بابک پہلے سے ہی کار سٹارٹ کرکے باہر الرٹ تھا۔ اس نے نورالعین کو پچھلی نشست پر لیٹایا اور خود بھی وہیں بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ بابک نے فوراً ہی کار آگے بڑھا دی جبکہ احرار اسے تسلیاں دینے لگا۔


********************************

یہ لوگ ہاسپٹل پہنچ چکے تھے، نورالعین کو اندر لیبر روم میں لے جایا جا چکا تھا۔ بابک کوریڈور میں لائن سے لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھا ہوا تھا جبکہ احرار کی بےچینی کم ہونے میں نہیں آرہی تھی اور وہ مسلسل یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔

”بیٹھ جاؤ احرار، ایسے تھک جاؤ گے۔“ بابک نے دوسری بار پکارا۔

”نہیں میں ٹھیک ہوں بھیا۔“ اس نے پھر وہی جواب دیا۔

نورالعین کو اندر گئے ایک گھنٹہ ہوگیا تھا مگر اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر اور گزرنے کے بعد لیڈی ڈاکٹر باہر آئی جنہیں دیکھتے ہی احرار ان کی جانب لپکا۔

”کیا ہوا ڈاکٹر؟ میری وائف کیسی ہیں؟“ اس نے جلدی سے پوچھا۔ بابک بھی تشویش کے مارے اپنی جگہ پر سے اٹھ کر اس کے ہمراہ آگیا تھا۔

”دیکھیں معاملہ بگڑ گیا ہے، ہمیں اپریشن کرنا ہوگا اور اس میں بھی ہم یا تو آپ کی وائف کو بچا سکتے ہیں یا پھر بچے کو، اب آپ فیصلہ کرلیں کہ آپ کس کی زندگی چاہتے ہیں؟ اور پھر اگلے پانچ منٹ میں نرس آپ کو ایک فارم دے گی اسے جلدی سے فل کردیں۔“ ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں بات کرتے ہوئے اسے دوراہے پر کھڑا کردیا۔

”آپ کسی بھی قیمت پر میری وائف کو بچائیں۔“ اس نے فیصلہ کرنے میں لمحے کی بھی دیری نہیں کی۔

”ٹھیک ہے، آپ فارم فل کریں ہم اپریشن کی تیاری کرتے ہیں۔“ وہ کہہ کر واپس چلی گئیں۔

”اچھی امید رکھو احرار، ان شاءاللہ سب اچھا ہوگا۔“ بابک نے اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے تسلی دی۔ جواب میں وہ کچھ نہیں کہہ پایا۔

فارم فل کرنے کے بعد پھر سے انتظار کی گھڑیاں شروع ہوگئی تھیں جو کہ پہلے سے بھی زیادہ بھاری تھیں۔ کتنا انتظار تھا انہیں اس دن کا مگر یہ یوں آئے گا یہ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

کچھ پل مزید سرکنے کے بعد وہی ڈاکٹر دوبارہ باہر آئیں اور اس بار ان کے تاثرات کافی سنجیدہ تھے۔

”میری وائف کو بچالیا آپ نے؟ وہ ٹھیک ہے ناں؟“ احرار بےچینی سے ان کی جانب آیا۔

”بیٹا ہوا ہے، بٹ وی آر سوری، ہم آپ کی وائف کو نہیں بچا سکے۔“ انھوں نے تاسف سے اطلاع دی۔

احرار پر تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں بس ڈاکٹر کو دیکھتا رہا۔ جبکہ بابک بھی حیران رہ گیا۔

”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ میں نے کہا تھا ناں کہ کسی بھی قیمت پر آپ کو میری بیوی کو بچانا ہے، تو پھر آپ نے ایسا کیوں نہیں کیا؟“ وہ ڈاکٹر پر برہم ہوا۔

”احرار! سنبھالو خود کو، زندگی اور موت ڈاکٹرز کے اختیار میں نہیں ہوتی۔“ بابک نے اسے سمجھانا چاہا۔

”ارے بھیا جھوٹ بول رہے ہیں یہ لوگ، ان کو یقیناً پیسے چاہیے ہوں گے، ہے ناں یہ ہی بات؟ بتاؤ کتنے پیسے چاہیے تم لوگوں کو؟ میں سب دینے کو تیار ہوں مگر مجھے میری بیوی صحیح سلامت واپس چاہیے۔“ وہ دیوانہ وار بولتا گیا۔

”دیکھیں آپ پلیز انھیں سمجھائیں۔“ ڈاکٹر نے بابک کو کہا کیونکہ احرار تو اپنے آپے میں ہی نہیں تھا۔

”کیا سمجھائیں؟ کچھ نہیں سمجھنا مجھے، بس مجھے میری بیوی واپس چاہیے، بھیا، بھیا! ذرا مجھے تھپڑ ماریں کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہا۔“ وہ پوری طرح اپنے حواس کھو بیٹھا تھا۔

”احرار! ہوش میں آؤ! یہ خواب نہیں حقیقت ہے، موت برحق ہے۔“ بابک نے اسے ہوش دلانے کیلئے کندھوں سے پکڑ کر زور سے جھنجھوڑا۔

وہ چند لمحوں کیلئے ساکت ہوگیا اور ذہن میں بس نورالعین کی یادیں گردش کرنے لگیں۔

”جہاز میں ڈر لگتا ہے مجھے، کہیں کریش نہ ہوجائے، ابھی تو بہت سارا وقت گزارنا ہے تمہارے ساتھ۔“ نورالعین نے اس کے بازو کے گرد ہاتھ لپیٹتے ہوئے کندھے سے سر ٹکا کر کہا تھا۔

”میں نے بابک سے معذرت کرلی ہے اب تو تم مجھ سے ناراض نہیں ہو ناں؟“ وہ اسے کھونے کے خیال سے ہی خوفزدہ تھی۔

”ٹھیک کہتے ہیں کہ جسے مل جاتا ہے اسے قدر نہیں ہوتی، جب نہیں رہوں گی ناں میں تب پتا چلے گا۔“ اس نے تنک کر کہا تھا۔

ذہن کے پردے پر یکدم ہی نورالعین کی مختلف اوقات میں کہی باتیں جگمگا اٹھی تھیں۔ جنہیں یاد کرکے اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوئے اور وہ وہیں فرش پر گرنے کے سے انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کے بچوں کی طرح رونے لگا جسے بابک بمشکل سنبھالے ہوئے تھا۔

”نورالعین۔“ وہ روتے ہوئے حلق کے بل اتنے کرب سے چلایا کہ در و دیوار بھی اس کا درد محسوس کرکے کانپ گئے۔

یہ کس مقام پر سوجھی تجھے بچھڑنے کی؟

کہ اب جا کر تو کہیں دن سنورنے

اس کے ذہن کے پردے پر یکدم ہی نورالعین کی مختلف اوقات میں کہی باتیں جگمگا اٹھی تھیں۔ جنہیں یاد کرکے اس کی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے آنسو نکلنا شروع ہوئے اور وہ وہیں فرش پر گرنے کے سے انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کے بچوں کی طرح رونے لگا جسے بابک بمشکل سنبھالے ہوئے تھا۔

”نورالعین۔“ وہ روتے ہوئے حلق کے بل اتنے کرب سے چلایا کہ در و دیوار بھی اس کا درد محسوس کرکے کانپ گئے۔

وہ چیختے کے ساتھ ہی یکدم اٹھا بیٹھا اور اتنی بلند آواز کے باعث برابر میں سوئی نورالعین بھی ہڑبڑا کر اٹھی۔

”کیا ہوا احرار؟“ اس نے جلدی سے سائیڈ لیمپ آن کیا۔

”نورالعین۔۔۔۔تم۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟“ احرار نے پہلے اس کے نوں ماہ کے پیٹ کو ہاتھ لگایا پھر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لئے دیوانہ وار یقین کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

”ہاں میں ٹھیک ہوں، پر تمھیں کیا ہوا؟“ اس نے تسلی کراتے ہوئے پوچھا۔

”میں نے بہت برا خواب دیکھا۔۔۔۔۔۔بہت برا۔۔۔۔۔۔اتنا برا کہ اگر مزید ایک لمحہ بھی میں نیند سے بیدار نہ ہوتا تو شاید میری جان چلی جاتی۔“ احرار نے خوفزدہ انداز میں اسے قیمتی اثاثے کی مانند سینے سے لگایا۔ نورالعین نے محسوس کیا اس کی دھڑکن بہت تیز چل رہی تھی۔

”ریلیکس احرار! کچھ نہیں ہوا ہے، یہ سب وسوسے ہوتے ہیں جو ہمیں ڈرا کر کمزور کرتے ہیں، تم تو ہمیشہ پازٹیٹیو رہتے ہو ناں تو پھر کیوں اتنا پریشان ہو رہے ہو؟“ اس نے الگ ہوتے ہوئے نرمی سے احرار کو تسلی دی جو اب تھوڑا نارمل ہوگیا تھا۔

”جب محبوب کو کھونے کی نوبت آتی ہے ناں تو پتھر سے پتھر شخص بھی ہل جاتا ہے۔“ اسے خود سے لگاتے ہوئے احرار نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی۔ اسے اب دوبارہ سوتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اس کی آنکھ لگتے ہی وہ دور نہ چلی جائے!

”مجھے کہتے ہو تم کہ خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں، اب خود ڈر رہے ہو، اور ہم دونوں کو بھی ڈرا دیا، دیکھو! یہ بھی جاگ گیا ہے۔“ نورالعین نے دھیان بھٹکانے کیلئے اس کا ہاتھ اپنے نوں ماہ کے پیٹ پر رکھا جس میں بہت واضح ہلچل محسوس ہو رہی تھی۔

”اب یہ رات بھر ایسے ہی ہاتھ پیر چلا کر مجھے بھی جگائے رکھے گا۔“ اس نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی۔

”تمھیں کیسے پتا کہ یہ جگائے رکھے گا یا رکھے گی؟“ احرار نرمی سے اس کے پیٹ ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنی اولاد کو محسوس کرنے لگا۔

”میں نے الٹرا ساؤنڈ کے وقت ڈاکٹر سے پوچھا تھا، انھوں نے کہا سیونٹی پرسنٹ چانس ہے کہ بےبی بوائے ہے۔“ اس نے احرار کے شانے پر سر ٹکاتے ہوئے بتایا۔

”بوائے ہو یا گرل، مجھے بس تم دونوں صحیح سلامت چاہیے ہو۔“ احرار نے اسے خود میں مزید بھینچتے ہوئے ماتھے پر بوسہ دیا۔

********************************


”گڈ مارننگ۔“ بابک اپنی مخصوص سنگل کرسی کھینچ کر بیٹھا۔

”گڈ مارننگ۔“ دونوں نے یک زبان جواب دیا۔

”کیا حال چال ہے موٹی؟“ بابک نے حسب معمول پھر نورالعین کے بڑھے وزن پر چوٹ کی۔ پریگنینسی کی وجہ سے جب سے اس کا وزن بڑھا تھا تب سے وہ اسے ایسے ہی تنگ کرتا آرہا تھا۔

”میں تو ٹھیک ہوں، مگر تمہارے بھائی کے حال چال ٹھیک نہیں ہیں۔“ سلائس پر مکھن لگاتی نورالعین نے بےنیازی سے احرار کی جانب توجہ دلائی۔

”کیا ہوا اسے؟ اور تم ڈیوٹی پر جانے کیلئے ریڈی نہیں ہوئے احرار؟“ اسے عام سے کپڑوں میں دیکھ کر بابک کو حیرت ہوئی۔

”نہیں بھیا! ڈاکٹر نے نورالعین کی ڈیلیوری کے حوالے سے اسی ہفتے کی پیشن گوئی کی تھی، اس لئے میں نے ایک ہفتے کیلئے چھٹی لے لی ہے۔“ اس نے بتا کر چائے کا گھونٹ لیا۔

”اصل بات بتاؤ، جناب نے کوئی برا خواب دیکھ لیا ہے جس سے یہ اس قدر ڈر گئے ہیں کہ پوچھو مت۔“ نورالعین نے بتاتے ہوئے سلائس کی بائٹ لی۔

”خواب اتنی آسانی سے سچ نہیں ہوتے۔“ بابک پھیکےپن سے ہنسا جس کے پس منظر سے یہ لوگ انجان تھے۔

”اور چلو ابھی تو تم نے نے چھٹی لے لی ہے، لیکن اگر یہ پورا ہفتہ نارمل ہی گزرا اور تمہارے ڈیوٹی پر جاتے ہی نورالعین کے درد اٹھ گیا تو؟“ بابک نے خود ہی دوسرا نقطہ اٹھایا۔

”اگر یہ پورا ہفتہ نارمل رہا تو میں ایک ہفتے کی مزید چھٹی لے لوں گا۔“ اس نے اطمینان سے اپنا ارادہ بتا کر چائے کا کپ لبوں سے لگایا تو بابک اور نورالعین پہلے اسے اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔


********************************


”پچھلے کئی دنوں سے تم اسی بات کے پیچھے پڑی ہوئی ہو، آخر یہ تمھیں کیا شوق چڑھ گیا ہے بیٹھے بیٹھائے؟“ احرار زچ ہوا۔

”شوق نہیں چڑھا، یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے جس پر ہمیں اور بلخصوص بابک کو سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔“ اس نے تصحیح کی۔

دونوں شام کے سہانے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لان میں ٹہل رہے تھے کیونکہ ان دونوں ڈاکٹر نے اسے زیادہ سے زیادہ چہل قدمی کی تاكید کی تھی۔

”اب بھیا نہیں سوچتے سنجیدگی سے تو اس میں میری کیا غلطی؟“ اس نے دامن جھاڑا۔

”وہ نہیں سوچتا مگر ہم تو سوچ سکتے ہیں اور کر بھی سکتے ہیں، کیونکہ ایسے تنہا رہ کر تو وہ اس ڈائن کے خیالوں کا عادی ہوجائے گا۔“

”بری بات! کسی کو ایسے نہیں بولتے۔“ احرار نے ٹوکا۔

”جو تحفہ وہ دے کر گئی تھی ناں! اس کے بدلے وہ اس سے بھی زیادہ سخت لفظوں کی مستحق ہے، وہ تو بس میں اسے گالی دے کر اپنی قبر میں بچھو نہیں پیدا کرنا چاہتی اس لئے چپ رہ جاتی ہوں۔“ اس کے انداز میں بےپناہ نفرت تھی۔

”بہت اچھا کرتی ہو، اور ایک مہربانی مزید کرو کہ اسے یوں برے لفظوں میں یاد کرنا چھوڑ دو، اس نے جو کچھ بھی کیا وہ اس کا فعل تھا، مگر اس کی غیبت کرکے، یوں اپنے دل میں بغض رکھ کے تم اپنا نامہ اعمال خراب مت کرو۔“ اس نے سمجھانا چاہا۔

”تم نے پھر اس کی وکالت شروع کردی۔“ وہ تنک گئی۔

”وکالت نہیں حقیقت ہے یہ کہ اللہ پاک درگزر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے نا کہ دل میں بغض رکھنے والوں کو۔“ وہ بھی دوبدو ہوا۔

”اچھا چھوڑو اسے، ہم ٹاپک سے ہٹ رہے ہیں۔“ اس نے نرم پڑتے ہوئے موضوع بدلا۔

”اس ٹاپک پر بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، بھیا نہیں راضی ہوں گے، پہلے بھی تو کتنی بار ہم بات کرچکے ہیں، مگر وہ ہمیشہ ٹال دیتے ہیں۔“ اس نے پہلے ہی پیشن گوئی کی۔

”تم بات کیے بنا ہی اندازے لگا دیتے ہو بس، ایک بار ذکر تو کرکے دیکھو۔“ اس نے اکسایا۔

”اچھا ٹھیک ہے، آج پھر کرتا ہوں بات، لیکن انہوں نے انکار کردیا تو؟“ اس نے ہار مانتے ہوئے ساتھ خدشہ بھی ظاہر کیا۔

”تو تم اسے راضی کرنا، کیا تمھیں اچھا لگے گا کہ تمہارا بھائی ساری زندگی تنہا گزار دے؟“ اس نے احرار کی دکھتی رگ چھیڑی۔

”ہاں اور میرے کہنے پر تو جیسے وہ فوراً مان جائیں گے۔“ اس نے استہزایہ کہا۔

مگر نورالعین نے فوری کوئی جواب نہ دیا جس کے پیٹ میں ہوتا ہلکا ہلکا درد اب شدت اختیار کرنے لگا تھا جسے وہ معمولی جان کر نظر انداز کر رہی تھی لیکن اب معاملہ سنجیدہ لگ رہا تھا۔

"کیا ہوا نورالعین؟“ اسے ایک جگہ رک کر پیٹ پکڑتے دیکھ وہ بھی متفکر ہوا۔

”شاید ہاسپٹل جانا پڑے گا۔“ اس نے اسی طرح جواب دیا جس کا درد بڑھنے لگا تھا۔

”نوری! جلدی یہاں آؤ۔“ احرار نے بلند آواز سے پکارا کیونکہ بابک اس وقت آفس میں تھا اور نورالعین کو سنبھالنے کیلئے مزید ایک شخص کی ضرورت تھی۔


********************************


”کیا ہوا احرار؟ سب خیریت ہے ناں؟“ بابک نے قریب آتے ہوئے پوچھا جو آفس سے سیدھا ہسپتال آیا تھا۔

”پت نہیں بھیا! ابھی تک تو ڈاکٹر روم سے باہر نہیں آئی ہیں۔“ اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

”فکر نہیں کرو، سب ٹھیک ہوگا ان شاءاللہ۔“ بابک نے اسے تسلی دی جس کے چہرے پر پریشانی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔

”مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے بھیا، میں نے خواب میں دیکھا کہ نورالعین نہیں رہی، اگر سچ میں ایسا کچھ ہوا تو میں مر جاؤں گا۔“ وہ شدید خوفزدہ تھا۔

”دماغ خراب ہوگیا ہے! کچھ نہیں ہوگا ایسا، خواب کبھی سچ نہیں ہوتے۔“ اس نے اطمینان دلاتے ہوئے آخری جملہ تلخی سے کہا جس پر پریشانی کی وجہ سے احرار نے غور نہیں کیا۔

”لیکن بھیا میں نے خواب میں بھی ان ہی ڈاکٹر صاحبہ کو دیکھا تھا جو ابھی اندر ہیں۔“ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔

"ظاہر ہے جب نوں ماہ ان سے چیک اپ کروایا ہے، ان ہی سے اپائینٹمنٹ تھی تو خواب میں بھی یہ ہی نظر آئیں گی ناں! خود ایک بچے کے باپ بننے والے ہو اب تو بچوں جیسی حرکتیں کرنا بند کرو احرار۔“ اس نے سختی سے لتاڑا۔ تب ہی لیڈی ڈاکٹر روم سے باہر آئی۔

”سب ٹھیک ہے ناں ڈاکٹر؟“ احرار نے تائید چاہی۔

”دیکھیں معاملہ بگڑ گیا ہے، بچے نے پوزیشن چینج کرلی ہے، ہمیں اپریشن کرنا ہوگا اور اس میں بھی ہم یا تو آپ کی وائف کو بچا سکتے ہیں یا پھر بچے کو، اب آپ فیصلہ کرلیں کہ آپ کس کی زندگی چاہتے ہیں؟ اور پھر اگلے پانچ منٹ میں نرس آپ کو ایک فارم دے گی اسے جلدی سے فل کردیں۔“ ڈاکٹر نے پروفیشنل انداز میں بات کرتے ہوئے اسے دوراہے پر کھڑا کردیا۔

”دیکھا بھیا میں نے کہا تھا ناں! خواب میں بھی یہ ہی سب کہا تھا انہوں نے، اور پھر تھوڑی دیر بعد آکر وہ منحوس خبر سنائی تھی۔“ وہ دیوانہ وار بولنے لگا۔

جبکہ ڈاکٹر کچھ اس انداز سے اسے دیکھنے لگی کہ جیسے اس کی دماغی حالت پر شبہ ہو۔

”احرار ہوش میں آؤ! میں بلاوجہ سب کے سامنے تمھیں تھپڑ نہیں مارنا چاہ رہا۔“ بابک نے دانت پیستے ہوئے اسے ڈپٹا۔

”پلیز جلدی کوئی فیصلہ کرکے بتائیں تا کہ ہم اپریشن شروع کرسکیں۔“ ڈاکٹر نے دھیان دلایا۔

”آپ کچھ بھی کرکے، کسی بھی قیمت پر میری بیوی کو بچائیں بس، مجھے وہ ہر حال میں صحیح سلامت واپس چاہیے۔“ اس نے جنونی انداز میں فیصلہ سنایا۔

”ٹھیک ہے، آپ فارم فل کریں ہم اپریشن کی تیاری کرتے ہیں۔“ وہ کہہ کر واپس اندر چلی گئیں۔

تھوڑی ہی دیر میں نرس نے ایک فارم بھی احرار سے فل کروالیا تھا اور اب وہ انتظار کی سولی پر لٹکا ہوا تھا جبکہ دل سوکھے پتے کی مانند کانپ رہا تھا۔

جان کا حلق میں اٹکنا کسے کہتے ہیں؟ اس بات کا ادراک اس وقت بہت اچھی طرح ہوگیا تھا۔ وہ بظاہر تو وہاں کوریڈور میں کھڑا تھا مگر اس وقت اس کا روواں روواں دعا گو تھا۔

اللہ اللہ کرکے یہ بھاری لمحات گزرے اور ڈاکٹر روم سے باہر آئیں۔

”مبارک ہو! بیٹا ہوا ہے، ماں اور بچہ دونوں ہی بالکل ٹھیک ہیں، لکیلی بچہ واپس پوزیشن پر آگیا تھا اس لئے اپریشن کی نوبت نہیں آئی۔“ ڈاکٹر نے خوشخبری نہیں، زندگی کی نوید سنائی تھی

اس کے دل نے بےاختیار رب کا شکر ادا کیا۔ بابک کو بھی اطمینان ہوا۔

”کیا میں مل سکتا ہوں اپنی وائف سے؟“ اس نے خوشی سے کانپتے لہجے میں پوچھا۔

”جی تھوڑی دیر میں ہم انہیں پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیں گے پھر آپ مل سکتے ہیں۔“ وہ بتا کر واپس چلی گئیں۔

”باپ کا ڈیزیگنیشن مبارک ہو۔“ بابک نے اس کا کندھا تھپتھپایا۔

”خیر مبارک۔“ وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہوتے ہوئے بابک کے گلے لگ گیا۔ جواباً اس نے بھی مسکراتے ہوئے اسے مزید بھینچ لیا۔


********************************


تھوڑی دیر بعد نورالعین کو پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیا گیا جس کے بعد احرار کو اس سے ملنے کی اجازت مل گئی تھی اور اب وہ خوشی سے بےقابو ہوتا دل لے کے روم میں داخل ہوا۔

سامنے بیڈ پر وہ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ اس کے بائیں ہاتھ پر ڈرپ لگی تھی۔ اور دائیں جانب ذرا فاصلے پر رکھے جھولے میں نیلے کمبل میں لپٹا ایک ننھا سا وجود سویا ہوا تھا۔

وہ سب سے پہلے نورالعین کے پاس آیا اور اسٹول کھینچ کر بیٹھتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ لمس پاتے ہی اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں۔

”مبارک ہو۔“ احرار نے کہتے ہوئے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

”تمھیں بھی۔“ وہ بھی مسکرائی جس کے چہرے پر نقاہت سے زیادہ ممتا کی خوشی تھی۔

”پتا ہے جتنی دیر تم لیبرروم میں تھی میں بہت ڈرا ہوا تھا میں۔“ اس نے اپنا حال بتایا۔

”اور میں تو جیسے بہت مزے بھی تھی ناں۔“ اس نے طنز کیا۔

”لو! تم مزے میں تھی اور میں خوامخواہ فکر مند ہو رہا تھا۔“ اس نے بھی جان بوجھ کر چھیڑا تو وہ اسے گھورنے لگی۔

”مذاق کر رہا ہوں، جان حلق میں اٹکی ہوئی تھی میری، یہ سوچ کر ہی روح کانپ رہی تھی کہ خدانخواستہ وہ خواب سچ نہ ہوجائے۔“ وہ واقعی خوفزدہ تھا۔

”شکر ہے کہ سب ٹھیک رہا، اچھا تم نے اسے گود میں لیا؟“ اس نے آنکھوں میں چمک لئے پوچھا۔

”نہیں ابھی ابھی تو روم میں آیا ہوں۔“ وہ بتاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

جھولے کی جانب آکر بہت آرام سے احرار نے اِس ننھے سے وجود کو اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر سینے سے لگایا۔

اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ واقعی اس کی گود میں اس کی اپنی اولاد ہے۔ باپ کی شفقت سے تو وہ تمام عمر محروم ہی رہا تھا مگر آج خود باپ کے عہدے پر آکے اسے جو محسوس ہو رہا تھا ان جذبات کو بیان کرنے کیلئے اس کے پاس کوئی لفظ نہیں تھا۔ اس لئے ہونٹوں کے بجائے آنکھوں نے برس کر بولنا شروع کیا۔

احرار نے اسے قریب کرکے ہلکے سے گال پر پہلا بوسہ دیا جس کا احساس پاتے ہی وہ ذرا سا کسمسایا۔

”اگر رومانس ہوگیا ہے تو میرے پاس بھی لے آؤ۔“ نورالعین نے شرارتاً مداخلت کی۔

”نوں مہینے سے تمہارے پاس ہی تو تھا۔“ وہ اسے گود میں لئے کہتا ہوا واپس وہیں آکر بیٹھ گیا اور اسے نورالعین کے بازو میں لیٹا دیا۔

وہ اس کی جانب جھک کر اسے چھو کر دیکھنے لگی جو خود بھی اب تک مکمل یقین نہیں کر پائی تھی کہ واقعی اس کے قدموں تلے جنت آگئی ہے۔

احرار سے پھر صبر نہ ہوا تو اس نے ایک اور بوسہ اس ننھے وجود کے گال پر دے ڈالا۔

تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔

”آجائیں۔“ احرار نے اجازت دی تو بابک دروازہ دھکیلاتا ہوا اندر داخل ہوا۔

”ڈسٹرب تو نہیں کیا نئے نئے مما پاپا کو؟“ اس نے شرارت سے پوچھا۔

”نہیں! بلکہ ابھی میں نئے نئے تایا کو بلانے ہی آنے والا تھا۔“ احرار نے بھی اسی طرح جواب دیا۔

”لو ہم خود ہی آگئے، لاؤ مجھے بھی دیدار کرواؤ میرے بھتیجے کا۔“ وہ ان کے پاس رکا تو احرار نے احتیاط کے ساتھ اسے اٹھا کر بابک کے بازؤں میں دے دیا۔

اگر تصویر کو حقیقت کے رخ سے دیکھا جاتا تو بابک کا اس بچے سے کوئی خون کا رشتہ نہیں تھا کیونکہ بابک اور احرار سگے بھائی نہیں تھے۔

لیکن اسی تصویر کو اگر محبت کی نظر سے دیکھا جاتا تو دونوں میں سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر پیار تھا اور وہ ہی پیار اسے اپنے جان سے پیارے بھائی کی اولاد پر آرہا تھا۔

بابک گردن جھکا کر اس کے نرم گال پر بوسہ دیا۔

”ویسے اس کی شکل تم دونوں میں سے کسی سے بھی نہیں مل رہی، کہیں یہ چینج تو نہیں ہوگیا؟“ بابک نے مصنوعی خدشہ ظاہر کیا۔

”ابھی یہ ایک دن کا بھی نہیں ہے، آہستہ آہستہ ہی بچے کے خدوخال واضح ہوتے ہیں۔“ نورالعین نے تصحیح کی۔

”میں امید کرتا ہوں کہ بڑا ہوکر یہ بھی بہت ہینڈسم ہوگا، بالکل اپنے تایا کی طرح!“ بابک نے شرارتاً کہتے ہوئے اسے واپس احرار کی گود میں دیا۔

”ابھی ہم ہاسپٹل میں ہی ہیں، میری مانو تو تم بھی لگے ہاتھوں اپنی خوش فہمی کا علاج کروا لو اس سے پہلے کہ یہ مزید بڑھے۔“ نورالعین بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔

جب کہ ان دونوں کی معمول کی نوک جھونک نظر انداز کیے احرار اپنے بیٹے کو پیار کرنے لگا۔

”جاؤ کیا یاد کرو گی، آج کے دن تمھیں معاف کیا۔“ بابک نے اس پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے کوئی جوابی وار نہ کرکے اپنے کوٹ کی جیب سے موبائل نکالا۔

”چلو اب ایک فیملی فوٹو ہوجائے۔“ وہ موبائل کا بیک کیمرہ آن کرکے چند قدم پیچھے ہوا۔

”فیملی فوٹو میں سارے فیملی ممبرز ہوتے ہیں بھیا، اب بھی تو آئیں۔“ احرار نے دھیان دلایا۔

”نہیں! فی الحال میں صرف اس نئی فیملی کی بات کر رہا ہوں، چلو سمائل کرو۔“ اس نے سہولت سے ٹال کر حکم دیا۔

احرار نے اپنی گود میں موجود ننھے وجود کو ذرا سا ترچھا کیا تا کہ وہ کیمرے میں نظر آئے۔ پھر ساتھ ہی دونوں بابک کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مسکرائے اور اگلے ہی لمحے ان پر فلیش پڑا جس کا مطلب تھا کہ یہ پل ہمیشہ کیلئے خوبصورت یاد کے طور پر محفوظ ہوگیا ہے۔


********************************

نورالعین ڈسچارج ہوکر گھر آچکی تھی جس سے ملنے یاور اور ہانیہ بھی مٹھائی لے کر پہنچ چکے تھے اور اس وقت سب ان کے بیڈروم میں موجود تھے۔

نورالعین بیڈ پر کمبل اوڑھے لیٹی ہوئی تھی اور اسی کے پہلو میں اس کا بیٹا سویا ہوا تھا۔ جبکہ احرار بھی اس کے سرہانے پر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔

بابک سنگل جبکہ یاور اور ہانیہ سامنے موجود ڈبل صوفے پر براجمان تھے۔

”یہ دو الگ الگ مٹھائی کے ڈبے کیوں؟“ بابک نے میز پر موجود دو میں سے ایک مٹھائی کا ڈبہ اٹھایا۔

”ایک تو احرار اور نورالعین کے شہزادے کی خوشی میں، اور دوسری ہماری خوشی میں۔“ یاور بتانے لگا۔

”تمہاری خوشی میں مطلب؟“ بابک کچھ سمجھا نہیں جو مٹھائی نکال کر کھانے لگا تھا۔

”مطلب ہم بھی دو سے تین ہونے والے ہیں۔“ یاور نے بلآخر اصل بات بتائی جسے سن کر تینوں کو خوشگوار حیرت ہوئی جب کہ ہانیہ کی مسکراہٹ بھی گہری ہوگئی۔

”اوہ! یہ تو سچ میں بہت اچھی خبر ہے، بہت مبارک ہو۔“ احرار نے مبارک باد دی۔

”ہاں، بہت مبارک ہو، اور تم لوگ تھوڑا سا لیٹ ہوگئے ورنہ جیسے ہماری شادیاں ایک ساتھ ہوئی تھیں ویسے ہی ہم بےبیز کو بھی ساتھ ویلکم کرتے تو اور مزہ آتا۔“ نورالعین بھی خوش کن انداز میں بولی۔

”کوئی بات نہیں، ہماری شادیاں ساتھ ہوئی تھیں لیکن ہوسکتا ہمارے بےبی کا ویلکم بابک کے بےبی کے ساتھ ہو، تب تک تم لوگ اسے بچے سنبھالنے کیلئے اچھی طرح ٹرین کردو۔“ یاور نے توپ کا رخ بابک کی جانب کر دیا۔

”کیا فائدہ ایسی ٹریننگ کا جسے استعمال میں لانے کا دور دور تک امکان نہیں ہے۔“ احرار نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔

”ہاں ویسے یہ بات تو ہے، ہم سب کی فیملیز مکمل ہوگئی ہیں ماشاءاللہ سے، سوائے تمہارے، تم کب شروع کر رہے ہو اپنی فیملی بابک؟“ ہانیہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔

”یہ گفتگو کا موضوع میری جانب کیوں گھومنے لگا ہے؟“ وہ مٹھائی کھاتے ہوئے مگن انداز میں بولا۔

”کیونکہ آپ نے خود موقع دیا ہے۔“ یاور جھٹ بولا۔

”اب دیکھنا بھیا کو کوئی ضروری کام یاد آجائے گا۔“ احرار نے شرارتاً پہلے ہی پیشن گوئی کی۔

”ہاں دیکھو ذرا۔۔۔۔مجھے ایک بہت ضروری کال کرنی تھی ابھی تمہاری بات سے یاد آیا۔۔۔۔میں ابھی آتا ہوں۔“ بابک بھی ڈھیٹ پن سے وہ ہی حرکت کرتا ہوا کھڑا ہوا اور مٹھائی کا ڈبہ لئے ہی کمرے سے باہر نکل گیا۔

”دیکھا! بھیا ہر بار ایسا ہی کرتے ہیں، جب بھی ان کی شادی کی بات کرو یا تو یہ موضوع بدل دیتے ہیں یا پھر خود گول ہوجاتے ہیں، اب ہم کریں تو کیا کریں؟“ احرار نے بےبسی سے مسلہ بتایا۔

”کرتے ہیں کچھ نا کچھ۔“ یاور کا انداز پرسوچ معنی خیزی لئے ہوئے تھا۔

کیا کر رہے ہو احرار! ابھی اٹھ کر رونے لگے گا یہ۔“ نورالعین نے بیٹے کے گال پر بوسہ دیتے احرار کو ٹوکا۔

”یار یہ اتنا پیارا لگ رہا ہے کہ بار بار پیار کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔“ اس نے پیچھے ہوتے ہوئے اپنا معصوم مسلہ بتایا۔

یہ دونوں بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھے اپنے درمیان میں سوئے بیٹے کو دیکھتے ہوئے اسی کے متعلق باتوں میں مصروف تھے جسے ان کی زندگی میں آئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا مگر اسے پیار کرتے کرتے احرار کا دل نہیں بھر رہا تھا۔

”بچے پیارے ہی ہوتے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں ہر وقت چومتے رہو، ایسے بچوں کو جراثیم لگنے کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔“ وہ اپنے بیٹے کو لے کر کافی حساس تھی۔

”اففو! اچھا بس نہیں کرتا، ظالم دنیا باپ بیٹے کو پیار کرتا ہوا بھی نہیں دیکھ سکتی۔“ وہ کہتے ہوئے اپنے بیٹے پر کمبل درست کرنے لگا۔

”ویسے ایک ہفتہ ہوگیا ہے اس کی پیدائش کو، اب تو کوئی نام فائنل کرلو، کب تک ہمارا بیٹا بےنام رہے گا؟“ احرار نے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ہوئے یاد دلایا۔

”میں سوچ رہی تھی کہ ہم اس کا نام تمہارے والد کے نام پر رکھ دیتے ہیں۔۔۔ابرار۔۔۔۔کیا خیال ہے؟“ نورالعین نے خیال ظاہر کرکے رائے مانگی۔

وہ دھیرے سے یوں مسکرایا جیسے نورالعین کی زبان پر آنے والی بات اس کی بھی دلی خواہش ہو!

”سوچا تو میں نے بھی یہ ہی تھا لیکن پھر ارادہ بدل دیا۔“ وہ بچے کا گال سہلانے لگا۔

”کیوں؟ اس طرح تمہارے والدین تمھیں ہمیشہ یاد رہیں گے۔“ اس نے ناسمجھی سے ایک مثبت رخ اجاگر کیا۔

”وہ مجھے ایسے بھی ہمیشہ یاد تھے، یاد ہیں اور رہیں گے، مگر ابرار سکندر سے نعمان آفندی کا معاملہ جڑا تھا، نعمان آفندی کا نہرین سے گہرا تعلق تھا، اور نہرین بھیا کیلئے اب ایک یاد ہے، جب میں نے یہ نام رکھنے کا سوچا تھا تب معاملات کچھ اور تھے، مگر اب بہت کچھ بدل گیا جس کے ساتھ ہمارا ارادہ بدلنا بھی ضروری ہے۔“ اس نے کافی تفصیل سے وضاحت کی جسے وہ بنا روکے ٹوکے خاموشی سے سنتی رہی۔ اسے اپنے بھائی سے اتنی محبت تھی کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی بات کا خیال رکھ رہا تھا۔

”اچھا ٹھیک ہے، تو بتاؤ، اب کیا نام رکھیں؟“ اس نے ضد بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور سہولت سے اس کی بات مان لی۔

”اب یہ تم سوچ لو۔“ اس نے کہتے ہوئے نورالعین کے گرد بازو حمائل کیا۔

”آریز نام کیسا ہے؟“ نورالعین نے تجویز رکھی۔

”اچھا ہے، اس کا کیا مطلب ہے؟“

”اس کا مطلب ہے رہنما۔“

”ٹھیک ہے، تو پھر آج سے ہمارے بیٹے کا نام ہے آریز ملک۔“ احرار نے نام فائنل کرکے پھر اس کے نرم گال پر بوسہ دے ڈالا۔


********************************


حسب معمول بابک سونے سے قبل کچھ وقت جبار صاحب کے اسٹڈی روم میں گزارنے آیا تھا اور اب صوفے پر نیم دراز خود نیم غنودگی میں چلا گیا تھا۔

”بھیا۔“ احرار کی آواز سماعتوں سے ٹکرائی تو اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں۔

احرار دائیں بازو میں آریز کو لئے اسی کی جانب آرہا تھا۔ بابک بھی سیدھا ہوکے بیٹھ گیا۔

”یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ سارا دن آفس میں گزار کر تھک گئے ہوں گے، آرام سے کمرے میں جا کر سوئیں۔“ وہ بھی اس کے برابر ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔

”تمھیں تو پتا ہی ہے کہ میں روز تھوڑا وقت یہاں گزارتا ہوں، مگر تم کیوں یہاں وہاں گھوم رہے ہو؟“ اس نے سرسری انداز میں یاد دلاتے ہوئے پوچھا۔

”نورالعین سو رہی تھی اور آریز روئے جا رہا تھا تو سوچا تھوڑا باہر سے ٹہلا کر لے آؤں شاید بہل جائے، اور دیکھیں چپ ہوگیا۔“ اس نے وجہ بتائی۔

”آریز۔۔۔مطلب نام رکھ لیا؟“ وہ نتیجے پر پہنچا۔

”جی، نورالعین نے رکھا ہے۔“ اس نے سر ہلایا۔

”اچھا نام ہے۔“ بابک نے ہاتھ بڑھا کر اسے احرار کی گود سے لے لیا۔ احرار نے بھی اسے سہولت سے بابک کی جانب بڑھا دیا۔

”کتنی بری طرح لپیٹ کر بلکہ باندھ کر رکھا ہوا ہے تم نے بیچارے بچے کو۔“ بابک نے آریز پر سے وہ نیلے رنگ کا کپڑا ڈھیلا کیا جس میں اسے اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا۔

”میں نے نہیں باندھا، نورالعین نے باندھا ہے، کہہ رہی تھی کہ بچوں کو اسی طرح لپیٹ کر رکھتے ہیں۔“ اس نے کندھے اچکا کر وضاحت کی۔

”پاگل ہے وہ تو، دیکھو اسے کتنا سکون ملا۔“ بابک نے آریز کی جانب اشارہ کیا جو اب اس کی گود میں اپنے ننھے ہاتھ پاؤں چلانے کی کوشش کر رہا تھا۔

”پہلا پہلا تجربہ ہے ناں، اور پھر ساتھ کوئی بڑا بزرگ بھی نہیں ہے جو ان چھوٹی بڑی باتوں پر رہنمائی کر سکے۔“ وہ ہلکے سے سے مسکرایا۔

”میں ہوں ناں تمہارا بڑا۔۔۔۔بس بزرگ نہیں ہوں۔“ بابک نے شرارتاً کہا۔

”وہ ہی تو، کہنے کو آپ بڑے ہیں مجھ سے، مگر فیملی کے معاملے میں اب تک مجھ سے پیچھے چل رہے ہیں، آپ بھی اب شادی کرلیں تا کہ گھر میں رونق آجائے۔“ وہ آہستہ آہستہ اصل موضوع پر آنے لگا۔

”یہ آگیا ہے ناں ہمارے گھر میں رونق لگانے والا۔“ اس نے بھی آریز کو پچکارتے ہوئے بڑی چالاکی سے بات گھمائی۔

”بھیا پلیز! اب تو سیریس ہوجائیں اپنی شادی کے معاملے میں۔“ وہ بھی موضوع پر سے ہٹا نہیں۔

”ارے تو شادی کروں کس سے؟ اس کے لئے ایک عدد لڑکی بھی درکار ہوتی ہے۔“ اس نے بات کا رخ دوسری جانب کرنا چاہا۔

”اس میں بھلا کیا مشکل ہے؟ بس آپ کی ایک ہاں کی دیر ہے، اتنی لڑکیاں مل جائیں گی۔“ اس نے حل پیش کیا۔

”اچھا ٹھیک ہے، جب لڑکی مل جائے تو مجھے بتا دینا، ابھی فی الحال میں اپنے بھتیجے کو لے کر کمرے میں جا رہا ہوں، تم بھی جا کر سوجاؤ، جب یہ دودھ کیلئے روئے گا تو تمھیں دے جاؤں گا، گڈ نائٹ۔“ بابک موضوع سمیٹتے ہوئے اٹھا اور بنا اس کی مزید کوئی بات سنے روم سے باہر نکل گیا۔ جسے احرار بےبسی سے دیکھ کر رہ گیا۔


********************************


دیکھتے ہی دیکھتے نورالعین کا سوا مہینہ بھی پورا ہوگیا تھا جب کہ آریز میں تو سب کی جان بسی تھی کیونکہ وہ گھر کا پہلا بچہ جو تھا۔ ڈیوٹی اور آفس سے واپس آنے کے بعد بابک اور احرار کا سارا وقت آریز کے ارد گرد ہی گزرتا تھا۔ اکثر اوقات آریز ساری رات بابک کے پاس ہی سوتا رہتا تھا اور اس کے بابک کے اس قدر اٹیچ ہونے پر نورالعین کو کافی آسانی ہوگئی تھی۔

”ایک کیس کے سلسلے میں مجھے ایک ہفتے کیلئے شہر سے باہر جانا ہے، اب میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں جاؤں یا سینئرز کو انکار کردوں؟“ کھانا کھاتے ہوئے احرار نے اپنی الجھن بتائی۔

”انکار کیوں کرو گے؟ چلے جاؤ، اس سے پہلے بھی تو تم کئی مرتبہ شہر سے باہر جا چکے ہو۔“ بابک کو اس کی الجھن بےبنیاد لگی۔

”ہاں لیکن تب آریز نہیں تھا ناں، اب مجھے اس کی فکر لگی رہے گی۔“ اس نے اصل بات بتائی۔

”میں بھی اس کی کچھ لگتی ہوں، اور ہم دونوں کے ساتھ بابک ہے، آریز تو ویسے بھی بابک سے بہت اٹیچ ہے، تم چلے جاؤ آرام سے۔“ نورالعین نے سہولت سے کہہ کر نوالہ منہ میں لیا۔

”یہ ٹھیک کہہ رہی ہے، میں ہوں یہاں، پھر ہر کچھ دن بعد یاور اور ہانیہ بھی آجاتے ہیں، تمھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ بابک نے بھی تسلی کرائی تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔


*****************************************


اگلے دو روز میں احرار شہر سے باہر جانے کیلئے روانہ ہوگیا تھا جسے اس مرتبہ یہ سفر بڑا بھاری سا لگا کیونکہ وہ اپنے بیٹے سے دور جانے کا سوچ کر اندر ہی اندر اداس تھا لیکن کام بھی تو ضروری تھے۔ لہٰذا دل پر یہ سوچ کر پتھر رکھ لیا کہ وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے گا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس کا بیٹا بھی اپنے باپ کے بنا خاصا بےچین ہوگیا تھا۔

”بس بس۔۔۔۔اتنا رونے والی کیا بات ہے۔“ نورالعین باتیں کرتے ہوئے بیڈ پر لیٹے آریز کے کپڑے بدل رہی تھی جو اپنا ننھا سا گلا پھاڑ کر پوری قوت سے رو رہا تھا۔

”کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیوں رو رہا ہے؟“ بیڈ روم کے کھلے دروازے سے بابک اندر آیا۔

”الٹی کرکے سارے کپڑے گندے کر دیے تھے، کپڑے بدلنے کیلئے تھوڑی دیر گود سے نیچے اتارا تو نواب صاحب نے رونا شروع کر دیا، بس کہتا ہے ہر وقت مجھے گود میں لیے رکھو، تم نے اور احرار نے اس کی بہت عادت خراب کردی ہے۔“ اس نے گیلے ٹشو سے آریز کا ننھا بدن صاف کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں بتایا۔

”اتنی تم دن بھر میں سانس نہیں لیتی ہوگی جتنا طنز کرتی ہو، اور تو اور اپنی اولاد کو بھی نہیں بخشا طنز کا نشانہ بنانے سے۔“ بابک کہتے ہوئے بیڈ کی دوسری جانب بیٹھ گیا۔

”میری اولاد ہے ہی کب؟ ہر وقت تو تم اور احرار اسے گود میں اٹھائے رکھتے ہو، مجھ سے زیادہ تو یہ تم دونوں سے اٹیچ ہے، دیکھو! کیسے چپ ہوگیا تمہاری آواز سن کر۔“ نورالعین نے جواب دیتے ہوئے آریز کی جانب اشارہ کیا جو اپنی گول گول آنکھیں بابک پر مرکوز کیے چپ ہوگیا تھا۔

”ہمارے گھر کا پہلا اور اکلوتا ننھا شہزادہ ہے ناں! اسی لئے لاڈ پیار تو بنتا ہے۔“ بابک نے محبت سے آریز کا گال سہلایا۔

”ہاں ابھی اکلوتا ہے اس لئے اتنے لاڈ اٹھائے جا رہے ہیں، جب تمہارے اپنے بچے ہوجائیں گے تب بھلا بھتیجا کہاں یاد رہے گا۔“ نورالعین نے آریز کو شرٹ پہناتے ہوئے بابک پر شریر سا طنز کیا۔

”جی نہیں، پہلی محبت انسان کبھی نہیں بھولتا، اسی لئے اس کی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔“ بابک کی محبت پاش نظریں آریز پر ہی تھیں۔

”جیسے تم آج تک نہرین کو نہیں بھولے ہو، ہے ناں؟“ نورالعین بےساختہ ایک غیرمتوقع بات کہہ گئی۔ وہ بھی چونک کر اسے دیکھنے لگا۔

”نہیں، اسے میں تب ہی بھول گیا تھا جب مجھے پتا چلا تھا کہ میرے بھائی کو نقصان پہنچانے والی وہ ہی تھی۔“ اس نے خود کو نارمل کرکے نظریں دوبارہ آریز پر کرلیں۔

”اگر ایسا ہے تو پھر اب تک تم نے شادی کیوں نہیں کی؟“ اس نے سوال اٹھایا۔

”کیونکہ میرا دل نہیں چاہا۔“ انداز ٹالنے والا تھا۔

نورالعین نے ایک بےبس نظر سے اسے دیکھا اور پھر آریز کی جانب متوجہ ہوگئی۔

”ایک بات پوچھوں نورالعین، تمھیں آریز کی قسم سچ بولنا۔“ بابک اچانک گویا ہوا۔

”پوچھو۔“ وہ بھی متوجہ تھی جو آریز کو تیار کرچکی تھی۔

”ماضی میں جو کچھ بھی ہوا تھا کیا اس کے بعد تم نے کبھی مجھے یہ بددعا دی تھی کہ میرا دل ٹوٹ جائے اور مجھے کبھی میری محبت نہ ملے؟“ بابک کے انداز میں کوئی طنز یا شکوہ نہیں درد تھا، خلش تھی جس کے پیش نظر وہ بےساختہ اسے دیکھے گئی۔

”کیوں پوچھ رہے ہو؟“ جواب دینے کے بجائے اس نے سنجیدگی سے الٹا سوال کیا۔

”کیونکہ تمہاری بددعا قبول ہوچکی ہے۔“ وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے بیڈ سے اٹھا تو نورالعین کے دل پر زور دار گھونسا پڑا۔

پھر بابک نے جھک کر آریز کو گود میں اٹھایا اور اسے لئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ اپنی جگہ جوں کی توں بیٹھی رہ گئی۔


تجھے عشق ہو یہ خدا کرے

کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے

تیرے لب ہنسنا بھول جائیں

تیری آنکھ پر نم رہا کرے

اسے دیکھ کر تو رکا کرے

وہ نظر جھکا کر چلا کرے

تیرے خواب بکھریں ٹوٹ کر

تو کرچی کرچی چنا کرے

تو نگر نگر پھرا کرے

تو گلی گلی صدا کرے

تیرے سامنے تیرا گھر جلے

تو بچا سکے نہ بجھا سکے

تجھے ہجر کی وہ جھڑی لگے

تو ملن کی ہر پل دعا کرے

تجھے عشق پہ پھر یقین ہو

اسے تسبیحوں میں پڑھا کرے

میں کہوں کہ عشق ڈھونگ ہے

تو نہیں نہیں کی صدا کرے

تجھے عشق ہو یہ خدا کرے

کوئی تجھ کو اس سے جدا کرے


پروین شاکر


************************************

ایک ہفتے بعد احرار واپس لوٹا تو لگا گھر کی رونق بھی واپس لوٹ آئی ہے اور خود اسے بھی اپنے بیٹے کو دوبارہ سینے سے لگانے پر جو سکون ملا وہ بیان سے باہر تھا۔

ابھی بھی احرار بیڈ پر نیم دراز آریز کو اپنے سینے پر لٹائے ہوئے لاڈ دلار کرنے میں مصروف تھا۔

نورالعین چینج کرکے اپنے بستر پر بیٹھی اور خود پر کمبل اوڑھتے ہوئے احرار کو دیکھنے لگی جو پوری طرح اپنے بیٹے میں مگن تھا۔

”اکثر عورتوں کی زندگی میں سوتن ان کی جگہ لے لیتی ہے، لیکن میں شاید دنیا کی واحد عورت ہوں گی جس کے شوہر پر پہلے اس کے جیٹھ نے حق جمائے رکھا اور اب بیٹا قبضہ کیے بیٹھا ہے۔“ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے طنزیہ انداز میں گویا ہوئی تو احرار مسکرا اٹھا۔

”اسے تھوڑا چینج کرتے ہیں، میرے خیال سے تم دنیا کی واحد عورت ہو جو اپنے جیٹھ اور بیٹے سے جیلس رہتی ہے۔“ اس نے مزے سے تصحیح کی۔

”ہاں تو کیوں نہ ہوں؟ پہلے میں تمہارے سینے پر سر رکھ کر سویا کرتی تھی، اب ہر وقت یہ تم سے چپکا رہتا ہے۔“ نورالعین نے اپنے بیٹے کی پیٹھ پر ہلکی سی پیار بھری چپت لگائی۔

”بس اتنی سی بات۔۔۔۔رکو۔۔۔ابھی تمہاری شکایات دور کرتا ہوں۔“ احرار نے کہتے ہوئے سوچکے آریز کو اپنے دائیں بازو میں سلایا اور بایاں بازو نورالعین کیلئے وا کر دیا۔

وہ بھی فوری اس میں سماتے ہوئے اس کے سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔

”نئے رشتے بننے کا مقصد ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ اب پرانے رشتوں کی وہ جگہ نہیں رہی، بلکہ نئے رشتے محبت کا دائرہ مزید وسیع کر دیتے ہیں۔“ دونوں بازؤں میں اپنی کل کائنات سمو احرار نے محبت سے کہا۔

”مجھے تو سارے رشتے تم سے ملنے کے بعد ہی ملے ہیں، اسی لئے تم میرے لئے سب سے پہلے اور سب سے خاص ہو۔“ وہ اس کے سینے پر دھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی خوشبو اپنی سانسوں میں اتارنے لگی۔

”تم یقین نہیں کرو گی مگر میرے دل میں بھی تمہارے لئے یہ ہی مقام ہے۔“ وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تھا۔

”مجھے یقین ہے۔“

”جب یقین ہے تو پھر ہر وقت طنز کیوں کرتی رہتی ہو؟“

”ایسے ہی، مزہ آتا ہے۔“ اس نے شرارتاً قبول کیا۔

”اچھا یہ بتاؤ کل جو مہمان آنے والے ہیں ان کے بارے میں بابک کو بتا دیا؟“ نورالعین کو اچانک خیال آیا۔

”نہیں، پہلے سے بتا دیا تو بھیا پھر کوئی بہانہ کرکے گول ہوجائیں گے، جب وہ لوگ آئیں گے تب ہی تعارف کروا دیں گے۔“ احرار نے اپنی دور اندیش سوچ بتائی کیونکہ اب وہ اپنے بھائی کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوگیا تھا۔


*****************************************


اگلے دن معمول کے مطابق سورج کے نمودار ہوتے ہی سارے کام رواں دواں ہوگئے۔ آہستہ آہستہ دن سرکتا رہا اور اب شام آپہنچی تھی۔

بابک ابھی ابھی آفس سے واپس لوٹا تھا جس کا خیال تھا کہ حسب معمول احرار کے ڈیوٹی اور نورالعین کے اپنے کمرے میں ہونے کے باعث ہال میں سناٹا ہو رہا ہوگا۔

لیکن اندر داخل ہونے کے بعد وہ چند لمحوں کیلئے حیران ہوگیا۔

سامنے ہال میں موجود صوفوں پر، احرار، نورالعین، یاور اور ہانیہ کے ہمراہ موجود تھے۔ آریز نورالعین کی گود میں تھا۔

ان کے ساتھ تین اجنبی چہرے بھی تھے جن میں سے دو ادھیڑ عمر مرد و عورت تھے جبکہ ایک پیاری سی جوان لڑکی تھی۔ اور سب ہی چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

”ارے! بھیا بھی آگئے۔“ احرار کی نظر اس پر پڑی تو وہ یکدم بولا۔ سب کی گردنیں اس کی جانب گھومیں۔

”بابک! تمھیں یاد ہے میں نے بتایا تھا کہ میں فی الحال مسٹر شوکت فاروقی کے ساتھ پارٹنر شپ پر کام کر رہا ہوں، یہ وہ ہی شوکت صاحب ہیں، یہ ان کی وائف اور بیٹی ہیں، اور شوکت صاحب یہ ہے میرا جگری دوست بابک۔“ یاور نے سب کا تعارف کرایا۔

”السلام علیکم۔“ اس نے نارمل ہوتے ہوئے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! یاور سے آپ کی کافی تعریف سنی تھی، آج خیر سے ملاقات بھی ہوگئی، آئیں بیٹھیں آپ بھی ہمارے ساتھ۔“ شوکت صاحب خوشدلی سے گویا ہوئے۔

وہ اپنے ہی گھر میں بیٹھنے کی اجازت مل جانے پر اخلاقاً مسکراتے ہوئے ایک سنگل صوفے پر آ بیٹھا۔

”خیریت آپ لوگ اچانک یہاں؟ مطلب تم مجھے فون ہی کردیتے احرار تا کہ میں جلدی آجاتا۔“ وہ بہت سنبھل کر ذہن میں کلبلاتا سوال زبان پر لایا۔

”آپ کو فون اس لئے نہیں کیا کہ یہ آپ کی واپسی کا ہی وقت تھا، جبکہ یہ لوگ آریز کی پیدائش کی مبارک باد دینے آئے ہیں۔“

احرار نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی جو بابک کو مطمئن نہ کرسکی کیونکہ اس اجنبی لڑکی کا چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ سجا کر کن انکھیوں سے بابک کو دیکھنا کچھ اچھے سگنل نہیں دے رہا تھا۔

”اچھا! میرے خیال سے یہ لوگ مبارک باد دے چکے ہوں گے! تو اب تک گئے کیوں نہیں؟“ بابک نے اچانک ایسی غیرمتوقع بات کہی کہ سب حیرانی سے پہلے اسے اور پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔

”تم بھی ناں بابک! کبھی بھی کہیں بھی مذاق شروع کردیتے ہو۔“ یاور نے ہنستے ہوئے جلدی سے بات سنبھالی۔

”اوہ اچھا! ہم تو ڈر ہی گئے تھے کہ شاید آپ کو ہمارا آنا پسند نہیں آیا۔“ شوکت صاحب نے سکھ کی سانس لی۔

”پسند کیسے نہیں آتا، مہمان تو اللہ کی رحمت ہوتے ہیں۔“ احرار بھی فوراً بولا۔

”کیا میں آپ کے بےبی کو گود میں لے سکتی ہوں؟“ لڑکی نے نورالعین سے پوچھا۔ غالباً وہ تھوڑی فرینک طبیعت کی تھی۔

”ہاں ضرور، بس ذرا سنبھال کر۔“ اس نے خوشدلی سے اجازت دی۔

وہ لڑکی اپنی جگہ پر سے اٹھ کر پاس آئی۔ احتیاط کے ساتھ آریز کو لیا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔

”دراصل ہماری بیٹی کو چھوٹے بچے بہت پسند ہیں، اور جب اسے پتا چلا کہ یاور کے دوست کے گھر بیٹے کی پیدائش ہوئی ہے تو یہ یہاں آنے کیلئے مچل اٹھی۔“ خاتون نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

”یہ تو بہت اچھی بات ہے، آریز بھی زیادہ تر بابک کے پاس ہی رہتا ہے، کیونکہ بابک کو بھی بچے بہت پسند ہیں، ہے ناں بابک؟“ نورالعین نے کہتے ہوئے تائید چاہی۔

”بالکل بھی نہیں! مجھے نہیں پسند بچے، ہر دو منٹ بعد بنا کسی وجہ کے رونے لگتے ہیں۔“ وہ صاف مکر گیا۔

”پھر سے مذاق کر رہا ہے۔“ یاور نے زبردستی ہنستے ہوئے کوور کیا۔

”اچھا بابک ان سے تو تمہارا تعارف ہوا ہی نہیں، یہ مہرین ہیں، شوکت صاحب کی اکلوتی صاحبزادی، حال ہی میں انہوں نے گریجویشن مکمل کی ہے۔“ ہانیہ نے بات بدلنے کیلئے تعارف کرایا۔

”تو میں کیا کروں؟“ بابک نے ٹکا سا سوال کیا جو جان بوجھ کر اپنی بےزاریت چھپانے کی کوئی زحمت نہیں کر رہا تھا۔

یہ بات اتنی واضح تھی کہ اب یاور اسے کم از کم مذاق کہہ کر کوور نہیں کر سکتا تھا۔ جبکہ اسے جتنی گالیاں آتی تھیں اس نے وہ سب اندر ہی اندر بابک کو دے ڈالیں۔

”میرے خیال سے یہاں کچھ زیادہ ہی مذاق ہو رہا ہے، اور ہمیں اس کی عادت نہیں ہے، لہٰذا اب ہمیں چلنا چاہئے۔“ شوکت صاحب سنجیدہ ہوگئے تھے۔

"ارے ابھی کیسے؟ آرام سے ڈنر کرکے جائیے گا۔“ احرار نے روکنا چاہا۔

”نہیں! پھر کبھی سہی، اچھا اب ہمیں اجازت دیں۔“ وہ اٹھ کھڑے ہوئے جن کی باقی سب نے بھی تقلید کی۔۔۔۔۔سوائے بابک کے!

مہرین نے آریز کو واپس نورالعین کی گود میں دیا اور پھر اپنے والدین کی پیروی میں باہر کی جانب بڑھ گئی۔

یہ سب بھی میزبانی کا تقاضا نبھاتے ہوئے ان کے ساتھ باہر تک گئے۔

لیکن بابک وہیں بیٹھا رہا۔ اس نے سامنے ٹیبل پر رکھی مختلف پلیٹوں میں سے بسکٹ کی پلیٹ اٹھائی اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اطمینان کے ساتھ بسکٹ کھانے لگا جیسے اس سے زیادہ ضروری فی الحال کچھ نہ ہو!

تھوڑی دیر بعد یہ لوگ واپس آئے جنہیں ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ بسکٹ کھانے میں مشغول ہوگیا۔

”ایک بات کہوں بابک! جو کچھ وہ نہرین تیرے ساتھ کرکے گئی ہے ناں! تو اسی کے لائق تھا۔“ یاور نے برہمی سے اسے سخت سنائی۔

”تعریف کیلئے شکریہ۔“ بابک پر کوئی اثر نہیں ہوا۔

”چلو ہانیہ۔“ یاور ٹیبل پر سے اپنا موبائل اٹھا کر وہاں سے چلا گیا۔ ہانیہ نے بھی صوفے پر سے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا۔

”اچھا نورالعین! ہم بھی چلتے ہیں، ارادہ تو ڈنر کرکے ہی جانے کا تھا مگر یہاں کسی کو ہماری پرواہ ہی نہیں ہے تو کیا کریں رک کر؟“ ہانیہ نے کندھے پر بیگ لیتے ہوئے بابک پر طنز کیا اور پھر نورالعین کو الوداع کہہ کر باہر کی جانب بڑھ گئی۔

نورالعین بھی ایک تیکھی نظر بابک پر ڈالنے کے بعد آریز کو گود میں لئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ جبکہ احرار سینے پر بازو بندھے کھڑا بابک کو گھورنے لگا۔

”بہت افسوس ہوا بھیا۔“ احرار نے دکھ بھرا شکوہ کیا اور پھر وہ بھی وہاں سے چلا گیا جہاں اب بابک تنہا رہ گیا تھا۔

وہ چند لمحے پرسوچ سا ساکت بیٹھا رہا۔

لیکن پھر اگلے ہی پل اس نے کندھے اچکاتے ہوئے سب کو نظر انداز کیا اور پلیٹ سے بسکٹ اٹھا کر کھانے لگا۔


********************************


”ٹک ٹک ٹک۔“ دروازے پر دستک ہوئی۔

”آجائیں۔“ احرار نے اجازت دی۔

بابک دروازہ دھکیلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ جہاں احرار صوفے پر لیپ ٹاپ لئے بیٹھا تھا جبکہ نورالعین بیڈ پر بیٹھی آریز کے کپڑے بدل رہی تھی۔

”کیا میں اپنے بھتیجے کو اپنے ساتھ واک پر لے جا سکتا ہوں؟“ اس نے اچھے بچوں کی طرح اجازت طلب کی۔

”لے جائیں۔“ مختصر جواب ملا۔

بابک نے آگے بڑھ کر بیڈ پر سے آریز کو اٹھا لیا جس کے کپڑے بدل کر ابھی نورالعین فارغ ہوئی تھی اور اس نے بابک سے کوئی بات نہیں کی۔

”تم بھی چلو احرار، اچھا ہے کھانا ہضم ہوجائے گا۔“ بابک نے بات بڑھانے کو پیشکش کی۔

”نہیں! مجھے کچھ کام ہے۔“ ہنوز سپاٹ جواب آیا۔

”اوکے۔“ وہ کندھے اچکاتے ہوئے آریز کو لے کر کمرے سے باہر نکل گیا۔


********************************


بڑھتی ہوئی تاریخ کے باعث سیاہ آسمان پر آج چاند موجود نہیں تھا البتہ ڈھیر سارے ننھے منے ستارے جگمگ کر رہے تھے۔

تاروں سے بھرے اس آسمان تلے بابک آریز کو گود میں لئے لان کی جانب کھلنے والے دروازے کی چوکھٹ پر بیٹھا ہوا اس سے باتیں کر رہا تھا۔

”یار کوئی میری سنتا ہی نہیں ہے، اور سنتا ہے تو سمجھتا نہیں ہے، ایک تمہارے پاپا تھے جو سن اور سمجھ لیا کرتے تھے، مگر اب وہ بھی باقی سب کے ساتھ مل گئے ہیں اور میں رہ گیا اکیلا، اب بس تم ہی ہو جو بنا مجھے سمجھائے میری سن سکتے ہو البتہ سمجھ نہیں سکتے، مگر کوئی بات نہیں تم سے کہہ کر کم از کم میں اپنے دل کا بوجھ تو ہلکا کر ہی لوں گا۔“ وہ اپنی گود میں موجود ڈیڑھ ماہ کے آریز کو دیکھتے ہوئے دل کا بوجھ ہلکا کرتا رہا جو بس اسے ٹکر ٹکر گھورے جا رہا تھا۔

”تمہارے اماں ابا سمیت یاور اور ہانیہ بھی مجھ سے ناراض ہوئے بیٹھے ہیں، مگر میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ جو وہ چاہتے ہیں میں وہ نہیں کرسکتا، جیسے بنا بھوک کے تمہارا دودھ پینے کا دل نہیں کرتا ایسے ہی میرا بھی شادی کرنے کا دل نہیں ہے، مجھے کسی کا ساتھ نہیں چاہیے، میں اکیلا ہی ٹھیک ہوں، منافق لوگوں کے ساتھ سے تنہائی بہتر ہوتی ہے۔“ وہ اپنی دھن میں بولتا رہا۔

”ساری دنیا ہی تو منافق نہیں ہوگی ناں بھیا۔“ عقب سے احرار کی آواز آئی۔ مگر وہ پلٹا نہیں۔

وہ ہنوز آریز میں ہی مصروف رہا۔ احرار بھی آکر اس کے برابر میں بیٹھ گیا اور چند لمحے یوں ہی خاموشی کی نذر ہوئے۔

”بھیا برا مت مانیے گا، بس سمجھانے کیلئے مثال دے رہا ہوں کہ یاد ہے ایک وقت تھا جب آپ نے نورالعین کا اعتبار توڑا تھا، اور نتیجے میں اس کا سب پر سے اعتبار اٹھ گیا تھا، پھر اس کی زندگی میں میری آمد ہوئی۔

شروع میں وہ مجھ سے بھی بہت کھینچی کھینچی رہتی تھی مگر آہستہ آہستہ اس کا اعتبار بحال ہوگیا، کیا میں نے بھی پھر سے اس کا اعتبار توڑا تھا؟ کیا میں اسے چھوڑ کر گیا؟ کیا وہ میرے ساتھ خوش نہیں ہے؟“ اس نے رسان سے کچھ سوال اٹھائے جن کا حسب توقع کوئی جواب نہیں ملا۔

”صاف سی بات ہے کہ ضروری نہیں جو ایک بار ہوا ہے وہ ہی بار بار ہوگا، آپ بھی ابھی اسی اسٹیج پر ہیں، جیسے ماضی میں بابک کے ہاتھوں دیے گئے نورالعین کے زخموں پر احرار نے مرہم رکھا تھا، ویسے ہی شاید اب نہرین کے ذریعے بابک کو جو تکلیف ملی ہے اس کا مداوا مہرین کے پاس ہو۔“ آج احرار نے سارے لحاظ و مروت بلائے طاق رکھ کر اسے حقیقت دکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

بابک نے کوئی جواب نہیں دیا بس بےخیالی کی سی کیفیت میں گود میں موجود آریز کے ساتھ کھیلتا رہا۔ مگر احرار کو معلوم تھا کہ بابک نے اس کی باتیں پورے دھیان سے سنی ہیں، لیکن اس بات کو لے کر وہ پریقین نہیں تھا کہ بابک ان پر عمل بھی کرے گا یا نہیں؟


********************************


ایک نیا دن نمودار ہوکر پھر شام سے جا ملا تھا جس میں شاید کچھ بھی نیا نہیں تھا۔

نورالعین نے ابھی ابھی آریز کو دودھ پلا کر سلایا تھا جب کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

”آجاؤ۔“ اس نے گود میں لیٹے آریز کو تھپکتے ہوئے اجازت دی۔

”بھابھی صاحبہ! یاور صاحب اور ہانیہ بی بی آئے ہیں، میں نے انہیں ڈرائینگ روم میں بٹھا دیا ہے۔“ اس نے سادگی سے اطلاع دی۔

”یوں اچانک؟“ وہ خاصی حیران ہوئی کیونکہ کل یاور کافی خطرناک تیوروں کے ساتھ گیا تھا۔

”تم ان کیلئے چائے بناؤ، میں آتی ہوں۔“

ہدایت وصول کرکے نوری وہاں سے چلی گئی۔ نورالعین نے پہلے آریز کو احتیاط سے اس کے جھولے میں لٹایا اور پھر کمرے سے نکل کر سیدھا ڈرائینگ روم میں آئی جہاں دنوں اس کے منتظر تھے۔

”تم دونوں اچانک؟ سب خیریت ہے؟“ اس نے ان کی جانب آتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا۔

”تم ہی نے تو بلایا ہے۔“ ہانیہ نے یاد دلایا۔

”کیا میں نے؟ نہیں تو۔“ اس کا تعجب حیرت میں بدلا۔

”میرے پاس احرار کا فون آیا تھا کہ تم دونوں کو ہم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے اسی لئے ہم فوراً یہاں آجائیں۔“ یاور نے وضاحت کی۔

”لیکن ہمیں تو کوئی بات نہیں کرنی تھی، احرار نے ایسا کیوں کہا؟“ وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

”کیونکہ میں نے کہا تھا ایسا کہنے کیلئے۔“ عقب سے بابک کی آواز آئی۔ تینوں چونک کر اس کے تعاقب میں دیکھنے لگے۔

بابک اور باوردی احرار ایک ساتھ ڈرائنگ روم میں داخل ہوکر ان کی جانب آئے تھے۔ یاور اور ہانیہ بھی اپنی جگہ پر سے کھڑے ہوگئے۔

”اگر میں بلاتا تو تم لوگ نہیں آتے، اسی لئے احرار سے کہلوایا۔“ بابک نے اصل وجہ بتائی۔

”کیوں بلایا ہے؟ ہم کون سا کوئی لگتے ہیں آپ کے جو آپ کو ہم سے بات چیت کی ضرورت پیش آگئی؟ آپ تو وہ کرتے ہیں جو آپ کا دل کرتا ہے پھر چاہے اگلے بندے کا دل کیوں نا ٹوٹ جائے۔“ یاور نے برہمی سے طنز کیا تو بابک کے لبوں پر مسکراہٹ امڈ آئی۔

”ابھی تک ناراض ہے میرا یار۔“ بابک نے لاڈ سے اس کے گال کھینچے۔

”چل! زیادہ ڈرامے بازی نہ کر اور سیدھی طرح بتا کیا بات ہے؟ میرے پاس فالتو وقت نہیں ہے۔“ یاور نے نروٹھےپن سے اس کے ہاتھ جھٹکے۔

”اچھا بیٹھ تو جاؤ، ہانیہ کیلئے اتنی دیر کھڑے رہنا ٹھیک نہیں ہے۔“ بابک نے بڑی چالاکی سے اس کی دکھتی رگ پکڑی تو یاور اسے ایک خوانخوار گھوری سے نوازتے ہوئے ہانیہ کے ہمراہ صوفے پر بیٹھ گیا۔ اور یہ ہی عمل باقی سب نے بھی دہرایا۔

”میں جانتا ہوں کہ تم سب کیا چاہ رہے ہو اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تم لوگوں کو میری فکر ہے، لیکن میں خود کو ان سب کیلئے تیار نہیں کر پا رہا تھا اسی لئے ایسا بی ہیو کر گیا، آئی ایم سوری۔“ سنگل صوفے پر بیٹھے بابک نے تحمل سے بات شروع کی۔

”بس! ہوگیا؟ کرلی سوری؟ اب جائیں ہم؟“ یاور ہنوز خفا تھا۔

”ہاں جا سکتے ہو اور کل جس ارادے سے تم ان لوگوں کو یہاں لائے تھے اس پر ان سے بات چیت کرکے بات آگے بڑھا سکتے ہو۔“ بلآخر اس نے گرین سگنل دے دیا۔

”اچھا! اور تمھیں لگتا ہے کہ تمہاری کل والی مہمان نوازی کے بعد بھی وہ تم سے رشتہ جوڑنا چاہیں گے؟“ یاور نے استہزایہ انداز میں یاد دلایا۔

"میں نے انہیں فون کرکے ان سے بھی معذرت کرلی ہے جسے انہوں نے قبول کرلیا ہے۔“ اس نے اطمینان سے اطلاع دی جو کافی حیران کن بھی تھی۔

”مگر تمہارے پاس ان کا نمبر کیسے آیا؟“ یاور سمیت سب کو حیرت ہوئی۔

”میرا بھائی زندہ آباد۔“ بابک نے فخر سے احرار کی جانب اشارہ کیا۔ یعنی احرار نے بابک کی بات ان سے کروائی تھی۔

”لیکن کل جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد کیا وہ لڑکی مان جائے گی؟“ نورالعین نے فکرمندی سے سوال اٹھایا۔

”ہاں، میں نے فیل کیا تھا کہ وہ بابک میں انٹرسٹ لینے لگی تھی، وہ ضرور مان جائے گی، میں آج ہی مسز شوکت کو فون کرتی ہوں۔“ ہانیہ نے خوشگوار انداز میں امید ظاہر کی۔

”اب جب تمہارے شوہر کو روٹھنے سے فرصت مل جائے تو آجانا اپنے مہمانوں کو لے کر۔“ بابک نے شرارتاً کہا۔

”تو خود بتا بابک کیا یہ ناراض ہونے والی بات نہیں تھی؟ تو نے ہمیشہ ہی ہم سب کیلئے بہت کچھ کیا ہے، اب ہم بھی تیرے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر تو موقع ہی نہیں دیتا ہے بس اپنی اپنی کرتا رہتا ہے، اس لئے پھر میرا دماغ گھومتا ہے۔“ اب یاور تھوڑا نرم پڑا۔

”اچھا! حیرت ہے ویسے کہ ایک چیز نہیں ہے پھر بھی گھوم جاتی ہے۔“ بابک نے مصنوعی حیرت دکھائی۔

”آگیا ناں اپنی اوقات پر۔“ یاور نے خفگی سے گھورا۔


********************************


بابک کی ”ہاں“ کے بعد سارے معاملات بہت تیزی سے حرکت میں آئے تھے، گو کہ اس نے شرط رکھی تھی کہ مہندی مائیوں وغیرہ کے بجائے سیدھا نکاح اور پھر ولیمہ ہوگا لیکن ان فنکشنز کیلئے بھی سب نے اچھی خاصی تیاری شروع کردی تھی۔

احرار، نورالعین، یاور اور ہانیہ کی خوشی تو دیکھنے لائق تھی جو پورے چاؤ سے بابک کے خاص دن اور خاص بنانے کیلئے بخوشی تیاریوں میں منہک تھے۔ اور ان مختصر مگر مخلص رشتوں کو خوش دیکھ کر بابک بھی مطمئن تھا۔

یہ ہی تو خوبصورتی ہوتی ہے رشتوں کی، محبت کی، کہ خود بھلے ہی ہم کسی بات کیلئے راضی نہ ہوں، لیکن اگر وہ ہی بات ہمارے محبوب کو خوشی دیتی ہے تو ہم خود کو خودبخود ہی اس کے لئے آمدہ کر لیتے ہیں۔

وہ ایک نئے رشتے میں بندھنے کیلئے خوشی خوشی تیار ہوگیا تھا، مگر اپنی نہیں۔۔۔۔اپنوں کی خوشی کیلئے۔

”دلہن کے کپڑے آگئے ہیں، بس کل جیولر سے جیولری کلیکٹ کرنی ہے۔۔۔۔۔اور ہاں سب سے ضروری۔۔۔۔۔بابک کی شیروانی! کل وہ بھی لینی ہے، بس پھر سب ڈن ہے۔“ نورالعین نے ایک طائرانہ نگاہ بیڈ پر بکھرے سامان پر ڈالتے ہوئے تجزیہ کیا۔

”ویسے دلہن کا لہنگا بہت زبردست ہے۔“ صوفے پر بیٹھی ہانیہ نے تعریف کی۔

”زبردست کیسے نہ ہوگا؟ آخر میں نے جو پسند کیا ہے۔“ نورالعین نے مصنوعی غرور سے گردن اکڑائی۔

”اچھا ہوا کہ شادی کی تاریخ ایک ماہ کے بعد کی تھی، ورنہ پندرہ دن میں تو ہم پاگل ہی ہوجاتے، دیکھو کیسے پر لگا کر اڑا یہ ایک ماہ اور پرسوں شادی کا دن بھی آپہنچے گا، جبکہ ہم صرف نکاح کے ساتھ رخصتی کریں گے اور پھر اگلے دن ولیمہ، بابک کی شرط کے مطابق کوئی مہندی مائیوں کی رسم نہیں ہے پھر بھی اتنے کام نکل آئے ہیں، سوچو اگر ان سب چکروں میں بھی پڑتے تو کیا حال ہوتا؟ واقعی اسلام نے صحیح حکم دیا ہے سادگی کا، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔“ ہانیہ نے شاپنگ لسٹ پر چیک مارک لگاتے ہوئے اعتراف کیا۔

”نورالعین! یہ رو رہا ہے، شاید اسے بھوک لگ رہی ہے۔“ تب ہی کھلے دروازے سے بابک روتے ہوئے آریز کو لئے اندر داخل ہوا۔

”ارے ہاں! مارکیٹ جانے سے پہلے دودھ پلایا تھا بھوک لگی ہوگی میرے بچے کو۔“ نورالعین نے اسے جلدی سے گود میں لیا۔

”اور ہانیہ تمھیں یاور بلا رہا ہے، کمرے کی ڈیکوریشن میں کچھ مشورہ چاہیے۔“ ساتھ ہی اس نے یاور کا پیغام بھی پہنچایا۔

”ہاں جاتی ہوں، تم ذرا یہ دیکھو! تمہاری دلہن کا ڈریس، کیسا ہے؟“ ہانیہ نے اٹھتے ہوئے بیڈ پر پھیلے میرون لہنگے کی جانب توجہ دلائی۔

”اچھا ہے۔“ اس نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ سادگی سے جواب دیا اور پھر وہاں سے جانے لگا۔

”بابک۔“ نورالعین کی پکار پر وہ رک کر پلٹا جب کہ ہانیہ کمرے سے چلی گئی۔

”ایک بار تم نے مجھ سے پوچھا تھا ناں کہ کیا میں نے کبھی تمھیں بددعا دی تھی؟“ اس نے سوالیہ انداز میں یاد دلایا جو بیڈ پر بیٹھی آریز کو چھوٹی سی فیڈر سے دودھ پلا رہی تھی۔

”تو اس کا جواب ہے کہ ہاں میں نے بددعا دی تھی، اور جتنی بددعا دی تھی اتنی سزا تم کاٹ چکے ہو، اب میری دل سے دعا ہے کہ تمھیں تمہارے حصے کی ساری خوشیاں نصیب ہوں، آریز کی قسم۔“ اس نے رسان سے اعتراف کرتے ہوئے بلآخر جواب دے دیا۔ یا یہ کہنا مناسب تھا کہ نورالعین نے آج بابک کو اس کی آخری سزا سے بھی آزاد کر دیا تھا۔

”شکریہ۔“ وہ بےریا مسکراہٹ کے ساتھ اس کا مشکور ہوا۔


********************************

جیسے ایک ماہ پر لگا کر اڑ گیا تھا ویسے ہی رہے سہے یہ دو دن بھی چپکے سے سرک گئے اور اب کل دو لوگ ایک ہوکر نئی زندگی شروع کرنے والے تھے۔

کل صبح ہوتے ہی کافی کام منتظر تھے اس لئے سب لوگ اپنی اپنی خواب گاہوں میں نیند کے مزے لے رہے تھے جس کے باعث گھر میں سناٹا ہو رہا تھا۔

مگر اس وقت بستر پر موجود ہوکے آرام کرنے کے بجائے بابک پھر لان میں کھلنے والے دروازے کی چوکھٹ پر اکیلا بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے کو تک رہا تھا۔

”بھیا سو جائیں جاکر، کل آپ کی شادی ہے، نیند پوری نہیں ہوگی تو طبیعت بوجھل رہے گی۔“ احرار کہتے ہوئے اس کی بائیں جانب بیٹھا۔

”سو جاؤں گا، بس تھوڑی دیر کھلی فضا میں سانس لینے کیلئے بیٹھا تھا۔“ اس نے سرسری وضاحت کی۔

”کیوں! کل سے کیا کھلی فضا میں سانس لینے کی آزادی چھن جائے گی؟“ اس نے شرارتاً چھیڑا۔

”یہ تو تم بہتر بتا سکتے ہو، تم تجربے کار جو ہو۔“ بابک نے توپ کا رخ اسی کی جانب موڑ دیا۔

”ہم بھی بتا سکتے ہیں، ہم آپ دونوں سے سینئر ہیں۔“ یاور نے بابک کی دائیں جانب بیٹھتے ہوئے گفتگو میں حصہ لیا جو ہانیہ کے ساتھ آج رات یہیں رکا تھا۔

”تم بھی جاگ رہے ہو۔“ وہ متعجب ہوا۔

”جی، اور اسی لئے جاگ رہے تھے تا کہ آپ کی تھوڑی رہنمائی کر سکیں۔“ اس نے اطلاع دی۔

”کس بارے میں رہنمائی کرنی تھی؟“ اس نے آئبرو اچکائی۔

”شادی کے بارے میں، کہ شادی کے بعد کیا ہوتا ہے؟ کیا ہوسکتا ہے؟ کیا کرنا چاہئے ہے؟ کیا نہیں کرنا چاہئے؟“ یاور نے سب گنوایا۔

”اچھا! تو اب تم لوگ مجھے یہ سب سکھاؤ گے؟“ وہ محظوظ ہوا۔

”ہاں تو ظاہر ہے کہ عام طور پر شادی سے پہلے گھر کے بڑے بزرگ ہی دولہا دلہن کو آنے والی زندگی کے بارے میں گائیڈ کرتے ہیں، اب ہمارے پاس تو کوئی بڑا بزرگ دستیاب ہی نہیں ہے تو سوچا کہ ہم ہی بڑوں کی ذمہ داری انجام دے دیں، ہے ناں احرار؟“ اس نے بتاتے ہوئے تائید چاہی۔

”جی بالکل! اور الحمدللہ ہمیں اتنا تجربہ تو ہو ہی گیا ہے کہ بہت نا سہی مگر تھوڑا تو آپ کو گائیڈ کر ہی دیں گے۔“ اس نے بھی تائید کی۔

”اچھا! چلو پھر بتاؤ۔“ وہ مزے سے ہمہ تن گوش ہوا۔

”دیکھو! کل رات جب تم کمرے میں جاؤ تو۔۔۔۔“

”اوہ! یہ سب نہیں سیکھنا مجھے۔“ بابک نے پہلے ہی اس کی بات کاٹی۔

”اوہ بد ذہن! پوری بات تو سن لے۔“ یاور نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔

”اچھا سناؤ! مگر تمیز و سینسر کے دائرے میں رہ کر۔“ اس نے اجازت دیتے ہوئے تنبیہ کی۔

”ہاں تو کل جب تم کمرے میں جاؤ تو اس کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے زیادہ لمبی لمبی نہ چھوڑ دینا، کیونکہ میں نے غلطی سے ہانیہ کو بول دیا تھا کہ جی چاہتا ہے تمہاری زلفیں سدا میری انگلیوں میں الجھی رہیں، بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے، ہیئر برش پر اس کے بالوں کے گچھے ملتے ہیں، اور ٹوکنے پر جھٹ سے جواب ملتا ہے کہ تمہارا تو دل کرتا تھا کہ یہ زلفیں سدا انگلیوں میں الجھی رہیں، اور اب ہیئر برش میں الجھی دیکھ کر تمھیں مسلہ ہو رہا ہے، تم سب مرد جھوٹے ہوتے ہو، بس تم لوگوں کو باتیں بنانی آتی ہیں انہیں نبھانا نہیں جانتے فلاں فلاں، یوں بات کہیں کی نکلی کہیں چلی جاتی ہے، اس لئے تم یہ غلطی مت کرنا تا کہ جب تمھیں ایسی کسی صورت حال کا سامنا ہو تو تم دھڑلے سے ٹوک سکو۔“ یاور نے اپنے تجربے کی روشنی میں بہت ہی ”اہم“ بات بتائی۔

”اچھا سرکار! اور دوسری بات؟“ وہ کافی محظوظ ہو رہا تھا۔

”دوسری بات یہ بھیا کہ کبھی بھی اگر بھابھی آپ سے کھانا بنانے کی فرمائش کریں تو کھانا بنانے کے بعد جو چیز جہاں سے اٹھائیں وہیں رکھیے گا، ورنہ اگر اگلے دن انہیں وہی چیز اپنی جگہ پر نہیں ملی تو اس کیلئے وہ آفس فون کھڑکانے سے بھی گریز نہیں کریں گے جس سے آپ کی ریپوٹیشن کا فالودہ ہونے کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔“ احرار نے بھی اپنی آپ بیتی کے پیش نظر اسے آگاہ کیا۔

اور پھر یہ لوگ اسی طرح مزید کچھ ”اہم“ باتیں اسے سمجھاتے رہے، اور باتیں بھی وہ تھیں جو اگر کوئی بڑا بزرگ ہوتا تو کم از کم یہ نہ سمجھتا۔

جبکہ درحقیقت ان کا مقصود بابک کا مائنڈ فریش کرنا تھا ورنہ وہ پھر ماضی میں کھو کر اداس ہوجاتا اور حال کی خوشیوں کو محسوس نہ کرپاتا۔ اور دونوں ہی اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب رہے تھے۔

بلآخر وہ رات آگئی تھی جس کا سب کو بےصبری سے انتظار تھا۔ اور ایک انسان ایسا تھا جو دولہے سے بھی زیادہ خوش تھا۔ وہ تھا دولہے کا بھائی!

”ماشاءاللہ! مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ میں اپنے بھائی کو دولہا بنا دیکھ رہا ہوں، فائنلی میری کب کی خواہش آج پوری ہوئی۔“ ڈارک براؤن کرتا پاجامہ پہنے احرار کے لفظ لفظ سے خوشی چھلک رہی تھی جو بابک کو سیاہ شیروانی پہننے میں مدد کر رہا تھا۔

”تم میرے بھائی کم اور ماں زیادہ لگ رہے ہو، کیونکہ ایسے ڈائلوگ تو وہ ہی بولتی ہیں۔“ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بابک نے شیروانی کا گلا ٹھیک کرتے ہوئے اسے چھیڑا۔

”ہاں تو یہ تیری ماں ہی ہے اور تو اس کا باپ۔“ پاس موجود یاور نے بھی لقمہ دیا جو ڈارک بیلو کرتا پاجامہ پہنے تیار تھا اور ساتھ ہی باکس سے نکال کر گھڑی بابک کی جانب بڑھائی۔

”اور تو ہماری پھوپھو جو بات بات پر روٹھ جاتی ہیں۔“ بابک نے گھڑی تھامتے ہوئے حساب برابر کیا۔

”جا بیٹا کیا یاد کرے گا تو، آج کے دن تجھے معاف کیا۔“ یاور نے کوئی جوابی وار نہ کرتے ہوئے اس پر احسانِ عظیم کیا۔

”یاور! مسز شوکت کا فون آیا تھا وہ لوگ ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔“ تب ہی ریڈ سوٹ میں تیار ہانیہ کہتی ہوئی وہاں آئی تو ان لوگوں نے تیاری مکمل کرنے کیلئے اسپیڈ پکڑ لی۔

               ********************************

برقی قمقموں سے سجا یہ خوبصورت ہال بہت شان سے کھڑا جگمگا رہا تھا۔ اور اس کی جگمگاہٹ ہر دیکھنے والے کو تھوڑی دیر کیلئے مبہوت سا کر دے رہی تھی۔

ہال کے عین سامنے ایک چوڑا سا روڈ تھا جس کے دونوں اعتراف میں کچھ دیر بعد آنے والے باراتیوں کے استقبال کیلئے لائٹوں سے کافی خوبصورت سجاوٹ کی گئی تھی۔

ہال کے باہر کچھ لوگ مسلسل ٹہلتے ہوئے بارات کا انتظار کر رہے تھے۔ جیسے ہی سیاہ رنگ کی کار ہال کی جانب آتی دکھائی دی سب الرٹ ہوگئے۔

”بارات آگئی۔“ ایک بچہ چلاتا ہوا ہال کے اندر بھاگا۔

چند ہی لمحوں میں کافی لوگ ایک ترتیب سے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار اور تھالیاں پکڑے ہوئے ان کے استقبال کیلئے موجود تھے۔

سب سے پہلے ایک سیاہ رنگ کی کار ہال کے عین سامنے رکی جس کے صرف بونٹ پر مختصر پھول لگائے گئے تھے اور اس کے پیچھے دیگر کاریں بھی ترتیب وار رکتی گئیں۔

سب سے آگے والی کار کی ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر یاور باہر آیا، فرنٹ سیٹ پر سے ہانیہ اتری۔ جبکہ پچھلی نشست کے بھی دونوں دروازے کھل چکے تھے جن سے نورالعین اور احرار باہر آئے، آریز احرار کی گود میں تھا۔

اور سب سے آخر میں وہ جس کے لئے یہ سارا اہتمام ہوا تھا، یعنی بابک!

سیاہ شیروانی میں وہ کافی وجیہ لگ رہا تھا جس نے سر پہ سہرا نہیں باندھا ہوا تھا۔

پیچھے کھڑی گاڑیوں سے بھی سب اتر چکے تھے اور یہ سب لوگ ان کے دور کے دوست احباب تھے جو بطور باراتی شریک ہوئے تھے۔

جیسے ہی ان لوگوں نے ہال کی جانب قدم بڑھائے ان پر پھولوں کی برسات شروع ہوگئی۔ جس میں بھیگتے و مسکراتے ہوئے یہ لوگ اندر داخل ہوئے۔

اندر سے یہ ہال کئی گنا زیادہ شاندار تھا۔ حسب روایت یہ لوگ لڑکی والوں کے ہمراہ چلتے ہوئے خوبصورت سے اسٹیج کی جانب آئے اور بابک وسط میں رکھے صوفے پر بیٹھ گیا۔

”ہم لیٹ تو نہیں ہوئے ناں؟“ آریز کو گود میں لئے احرار نے تصدیق چاہی۔

”ارے نہیں نہیں! بالکل وقت پر آئے ہیں، قاضی صاحب بھی ابھی ابھی آئے ہیں، نکاح کی سنت ادا کرلیں؟“ شوکت صاحب نے خیال ظاہر کیا۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے احرار نے اپنے سنگ کھڑے یاور، نورالعین اور ہانیہ کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

”کیا خیال ہے؟ تم لوگ تیار ہو کسی بھی طرح کے ری ایکشن کیلئے؟“ اس نے سب کو ٹٹولا۔

”جب یہاں تک آگئے ہیں تو آگے بھی بڑھتے ہیں۔“ گولڈن فراک زیب تن کیے نورالعین نے گرین سگنل دیا۔

”ہاں، زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ یا تو بابک خوشی سے پاگل ہوجائے گا یا پھر غصے سے پاگل ہوکر ہمارا قتل کر دے گا۔“ یاور نے بھی گول مول جواب دیا۔

”انسان کی شکل اچھی نہ ہو تو کم از کم بات اچھی کر لینی چاہئے۔“ احرار نے دانت پیس کر اسے لتاڑا۔

”ہم میک اپ روم میں دلہن کے پاس چلتے ہیں نورالعین۔“ ہانیہ نے کہا تو وہ سر ہلا کر اس کے ساتھ چلی گئی جب کہ یہ لوگ اسٹیج پر بابک کے پاس آگئے۔

تھوڑی دیر بعد قاضی صاحب نے جاکر دلہن سے دستخط لئے اور اب وہ اسٹیج پر بابک کے برابر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ 

”بابک ملک ولد جبار ملک، نہرین آفندی بنتِ نعمان آفندی کو دس لاکھ روپے حق مہر سکہ رائج الوقت آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے، کیا آپ کو قبول ہے؟“ مولوی صاحب نے تصدیق چاہی۔

یاور اور احرار بڑے غور سے بابک کے چہرے پر نظریں گاڑیں کھڑے تھے کہ دلہن کا نام سنتے ہی ابھی بابک کا تاثر بدلے گا، وہ حیرانی سے ان کی جانب دیکھے گا، اور شاید نکاح سے ہی انکار کردے گا!

”قبول ہے۔“ اس نے اطمینان سے قبول کر لیا۔

مولوی صاحب نے دوسری اور پھر تیسری بار پوچھا، دونوں بار بہت اطمینان سے یہ ہی جواب ملا جس پر یاور اور احرار دنگ رہ گئے۔

”میرے خیال سے اس نے دلہن کے نام پر غور نہیں کیا ہے۔“ یاور نے احرار کے کان میں سرگوشی کی۔

پھر سب نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھا لئے اور دعا کے بعد گلے ملتے ہوئے مبارک باد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس سے فارغ ہوکر سب واپس اپنی جگہوں پر براجمان ہوگئے سوائے یاور اور احرار کے، وہ دونوں اسٹیج پر سے اتر گئے تھے۔

پھر ایک جانب سے کچھ لڑکیوں اور خواتین کے ہمراہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی دلہن اسٹیج کی طرف آتی دکھائی دی۔

اس نے خوبصورت سا میرون کامدار لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا جس میں میک اپ اور جیولری سمیت تیار ہوئی نہرین بہت پیاری لگ رہی تھی۔

حسب روایت اسے لا کر بابک کے پہلو میں بٹھا دیا گیا۔ جبکہ ہانیہ اور نورالعین تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر جلدی سے احرار و یاور کی جانب آئیں جو اسٹیج سے ذرا فاصلے پر کھڑے تھے۔

”کیا ہوا؟ کیا رد عمل تھا بابک کا نہرین کا نام سن کے؟“ نورالعین نے اشتیاق آمیز لہجے میں پوچھا۔

”کچھ بھی نہیں، نارمل ہی رہے بھیا۔“

”کیا؟“ دونوں کو حیرت ہوئی۔

”ہاں! نا صرف نارمل تھا بلکہ اسے دیکھ کر ہم حیران ہو گئے جبکہ ہم اسے حیران کرنے کی تیاری کرکے بیٹھے تھے۔“ یاور نے مزید بتایا۔

”ہوسکتا ہے کہ اس نے دلہن کے نام پر غور نہ کیا ہو، نہرین اور مہرین ملتے جلتے نام ہے ناں۔“ ہانیہ نے خیال ظاہر کیا۔

”مجھے بھی یہ ہی لگا تھا، مگر اب نہرین کو دیکھ کر تو کوئی رد عمل دیتا ناں اگر نام نہیں پہچان پایا تھا تو۔“ یاور نے نقطہ اٹھایا۔

”ہوسکتا ہے میک اپ کی وجہ سے بھیا انھیں نہ پہچان پائیں ہوں۔“ احرار کو خیال آیا۔

”اس کا میک اپ ہوا ہے، پلاسٹک سرجری نہیں جو وہ اسے دیکھ کر بھی پہچان نہیں پایا۔“ نورالعین نے اس کی عقل پر ماتم کیا۔

”ان سب باتوں کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے پھر۔“ یاور پرسوچ سا بولا۔

”کیا؟“ تینوں نے یک زبان پوچھا۔

”بابک کو پہلے سے ہی ہمارا سارا پلان معلوم تھا۔“ وہ نتیجے پر پہنچا۔

اس کے کہنے پر پہلے چاروں نے گردن موڑ کر اسٹیج کی جانب دیکھا جہاں نہرین کے پہلو میں بیٹھا بابک بہت ہی خوشگوار موڈ میں اطمینان سے تصاویر بناوانے میں مشغول تھا۔

احرار اور نورالعین نے بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھا اور ان کے ذہنوں میں بیک وقت وہ لمحہ ابھرا جب انہوں نے بابک کیلئے یہ فیصلہ کیا تھا۔

***************************************** 

فلیش بیک 

”ایک بات پوچھوں نورالعین، تمھیں آریز کی قسم سچ بولنا۔“ بابک اچانک گویا ہوا۔

”پوچھو۔“ وہ بھی متوجہ تھی جو آریز کو تیار کرچکی تھی۔

”ماضی میں جو کچھ بھی ہوا تھا کیا اس کے بعد تم نے کبھی مجھے یہ بددعا دی تھی کہ میرا دل ٹوٹ جائے اور مجھے کبھی میری محبت نہ ملے؟“ بابک کے انداز میں کوئی طنز یا شکوہ نہیں درد تھا، خلش تھی جس کے پیش نظر وہ بےساختہ اسے دیکھے گئی۔

”کیوں پوچھ رہے ہو؟“ جواب دینے کے بجائے اس نے سنجیدگی سے الٹا سوال کیا۔

”کیونکہ تمہاری بددعا قبول ہوچکی ہے۔“ وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے بیڈ سے اٹھا تو نورالعین کے دل پر زور دار گھونسا پڑا۔

پھر بابک نے جھک کر آریز کو گود میں اٹھایا اور اسے لئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ اپنی جگہ جوں کی توں بیٹھی رہ گئی۔

نہ جانے وہ اور کتنی دیر یوں ہی خیالوں میں گم رہتی اگر بیڈ پر پڑا اس کا موبائل نہ گنگناتا۔

اس نے موبائل اٹھایا تو پتا چلا واٹس ایپ پر احرار کی آڈیو کال آرہی تھی جو اس نے ریسیو کرکے کان سے لگائی۔

”میری جان اور جانِ من کا کیا حال ہے؟“ دوسری جانب سے شوخی بھرا سوال آیا۔

”ٹھیک ہیں۔“ مختصر جواب ملا۔

”آریز کہاں ہے؟“

”اپنی چھوٹی ماں کے پاس۔“ نورالعین اکثر بابک کو اس کی چھوٹی ماں ہی کہتی تھی۔

”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟ اتنی بجھی بجھی سی کیوں لگ رہی ہو؟“ وہ اس کی آواز سے ہی اس کی بوجھل طبیعت بھانپ گیا۔

”طبیعت ٹھیک ہے بس ایک خیال سا آیا ہے جس نے سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔“ اس نے بھی اپنی کیفیت چھپانے کی کوشش نہیں کی۔

”کیسا خیال؟“

”کیا نہرین بابک کی زندگی میں واپس نہیں آسکتی؟“ اس کی غیرمتوقع بات سن کر احرار بھی حیران رہ گیا۔

”اگر وہ آجائے تو کیا تم اسے اس گھر میں برداشت کرلو گی؟ کیونکہ جو کچھ اس نے کیا اس کے بعد تمھیں تو اس سے بہت نفرت ہوگئی تھی ناں۔“ احرار نے کوئی سیدھا جواب دینے کے بجائے الٹا اسے ٹٹولا۔

”ہاں، لیکن اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو اس نے جو بھی کیا غلط فہمی میں کیا، اصل قصور وار تو تمہارے سینئر تھے جنہیں سزا ہوگئی ہے، جب غلطی کرنے کے بعد مجھے اور بابک کو دوسرا موقع مل سکتا ہے تو نہرین کو کیوں نہیں؟“ وہ چادر کی سلوٹوں سے کھیلتی دھیرے دھیرے کہتی گئی۔

”مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ سب تم کہہ رہی ہو۔“ اس نے برملا اپنی حیرت کا اظہار کیا۔

”ہاں میں کہہ رہی ہوں، کیونکہ آج میں نے بابک کی آنکھوں میں وہ درد دیکھا ہے جو مجھے تب ہوا تھا جب میرا کیس سالو ہونے کے بعد تم نے مجھے بابک سے شادی کی پیشکش کی تھی، اس دن میں یہ سوچ کر بہت دکھی ہوئی تھی کہ شاید تم میری قسمت میں نہیں ہو، اور آج نہرین کے ذکر پر وہ ہی دکھ بابک کی باتوں میں چھلکا، جس طرح ہم اپنی زندگی میں خوش اور مکمل ہیں ایسے ہی زندگی پر بابک بھی حق رکھتا ہے جو اس کی من پسند ہو اور پسندیدہ شخص کے ساتھ گزرے، کیا ہم اس کیلئے کچھ کر نہیں سکتے؟“ اس نے کہتے ہوئے آخر میں سوال اٹھایا۔

احرار جانتا تھا کہ نورالعین بس زبان کی تیز ہے دل کی بری نہیں ہے۔ اور آج اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی۔

احرار نے کچھ کہنے کے بجائے لائن ڈسکنیکٹ کردی تو اس نے متعجب ہوکر موبائل کان سے ہٹایا۔

ابھی وہ اسے دوبارہ کال کرنے لگی تھی کہ احرار کی ویڈیو کال آنے لگی۔

اس نے کال ریسیو کی تو شام کے سہانے موسم میں احرار کسی مصروف جگہ پر کھڑا نظر آیا حلانکہ پاکستان میں اس وقت دوپہر ہو رہی تھی۔

”تم کہاں ہو احرار؟“ اس نے حیرت سے پوچھا۔

”نیویارک میں۔“

احرار نے کہتے ہوئے فرنٹ کیمرے کو بیک کیمرے سے سوئچ کیا تو پتا چلا وہ نیویارک کے ٹائمز اسکوئر پر موجود تھا جہاں جابجا بڑے بڑے بل بورڈز لگے ہوئے تھے اور بلڈنگز میں لگی بڑی بڑی ایل ای ڈی اسکرینز پر ایڈ چل رہے تھے۔ جب کہ لوگوں کا تو مانو یہاں سیلاب امڈ آیا تھا۔

”تم تو اسلام آباد گئے تھے ناں؟“ اس کی حیرت عروج پر تھی۔

”ہاں، کراچی سے پہلے اسلام آباد آیا اور پھر یہاں سے نیویارک، تا کہ بھیا کو شک نہ ہو کہ میں نہرین کو ڈھونڈنے آیا ہوں۔“ اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا جو ایک سیڑھی پر بیٹھا ہوا تھا۔

”اور تم نے اتنی بڑی بات مجھے بھی نہیں بتائی؟“ اب حیرانی میں شکوہ عود آیا۔

”یہ سوچ کر نہیں بتائی کہ تم غصہ ہوجاؤ گی اور مجھے جانے سے منع کرو گی، لیکن میں واپس آکر تمھیں سب بتانے والا تھا، جو بات تم نے آج محسوس کی وہ میں بہت پہلے جان گیا تھا کہ بھیا کا دل آج بھی نہرین پر ہی اٹکا ہوا ہے اور وہ صرف ہماری وجہ سے اس سے دستبردار ہوگئے ہیں کہ کہیں ہمیں برا نہ لگے، میں تمہاری ڈیلیوری اور سوا مہینہ پورا ہونے کے انتظار میں تھا تا کہ مجھے وہاں کی فکر نہ ہو اور میں آرام سے یہاں نہرین کو ڈھونڈ سکوں۔“ اس نے بلآخر تفصیلی وضاحت کی۔

”تم واپس آؤ ذرا پھر میں تم سے پوچھتی ہوں۔“ اس نے تیکھے انداز میں دھمکی دی تو وہ محظوظ ہوکر ہنس دیا۔

”کیا پوچھو گی؟ بتا تو دیا کہ میں نہرین کی ڈھونڈنے آیا ہوا ہوں۔“ اس نے مزید چھیڑا۔

”کیا وہ تمھیں مل گئی ہے؟“ اسے جاننے کا اشتیاق ہوا۔

”ابھی تک تو نہیں، مگر میں نے یاور سے اس کے دوست وقاص کا ایڈریس لے لیا تھا جو نہرین کے بھائی کا کلاس فیلو ہے، میں سیدھا وقاص کے گھر ہی آیا ہوں جسے یاور میرے آنے کا بتا چکا تھا، اس نے مجھے نہرین کا ایڈریس دے دیا ہے اور اب میں انہیں لے کر ہی واپس آؤں گا۔“ اس کے انداز میں پختہ عزم تھا۔

اور پھر احرار نے اگلے کچھ روز میں واقعی اپنا کہا سچ کر دکھایا۔

”ہیئر از یور ٹو ونیلا اینڈ ون چاکلیٹ چپ کیک۔“ (یہ رہے آپ کے دو ونیلا اور ایک چاکلیٹ چپ کیک) نہرین نے خوشگوار انداز میں کہتے ہوئے مطلوبہ چیزیں بیکری کاؤنٹر پر رکھیں۔

وہ اپنے اسی مخصوص انداز میں تھی۔ جینز کے ساتھ اسکن کلر کی شارٹ فراک نما کُرتی پہنے، hair bow سے آدھے بال باندھے۔ بس اوپر اضافی ایپرن پہنا ہوا تھا تا کہ کام کرتے ہوئے کپڑے خراب نہ ہوں!

انگریز عورت نے خوش اخلاقی سے اسے رقم ادا کی اور چیزیں لے کر وہاں سے چلی گئی۔

اس چھوٹی سی بیکری میں اب بس ایک کسٹمر رہ گیا تھا جو دوسری جانب رخ کیے کھڑا کسی میگزین کے سرسری مطالعے میں مصروف تھا۔

”واٹ ڈو یو وانٹ سر؟“ (آپ کو کیا چاہیے سر؟) نہرین نے مہذب انداز میں اسے مخاطب کیا۔

”یو۔“ (آپ) اس شخص نے جوں ہی پلٹ کر یک لفظی جواب دیا تو وہ اپنی جگہ دنگ رہ گئی۔

”تم؟“ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔

”جی میں، آپ سے تھوڑی دیر کچھ بات ہوسکتی ہے۔“ احرار کہتا ہوا کاؤنٹر کے قریب آیا۔

دونوں اب بیکری کے باہر بنی ایک بینچ پر فاصلے سے بیٹھے ہوئے تھے اور درمیان میں گہری خاموشی حائل تھی۔

”نہرین۔۔۔پلیز کچھ تو کہیے۔“ احرار نے خاموشی توڑتے ہوئے اسے اکسایا جو اب تک خاموش تھی بس احرار ہی بول رہا تھا۔

”جو کچھ بھی میں نے تمہارے ساتھ کیا اس کے بعد میرے پاس نہ کہنے کیلئے کوئی لفظ ہے اور نہ تم سے نظریں ملانے کی ہمت، ایون مجھے تو تم سے معافی مانگتے ہوئے بھی شرم آرہی ہے۔“ وہ زمین پر نظریں گاڑے بےحد نادم تھی۔

”آپ نے جو کچھ بھی کیا غلط فہمی میں کیا، بلکہ آپ سے کروایا گیا، اور جس نے کروایا تھا وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے، آپ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا بس یہ ہی کافی ہے، اب آپ میرے ساتھ واپس پاکستان چلیں، ہم سب پھر سے ویسے ہی رہیں گے جیسے پہلے رہتے تھے۔“ احرار نے رسان سے اس کی ندامت دور کرنی چاہی۔

”نہیں، اب پہلے جیسا کچھ نہیں رہا، میں نورالعین اور بابک کا سامنا نہیں کرسکوں گی۔“ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے بینچ پر گرفت سخت کی۔

”نورالعین بھی آپ کو معاف کرچکی ہے اور چاہتی ہے کہ آپ واپس آجائیں۔۔۔۔اور بھیا۔۔۔۔وہ تو۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔

”وہ تو کیا؟“ نہرین نے اس کی جانب دیکھ کر جاننا چاہا۔

”وہ تو آج بھی آپ سے محبت کرتے ہیں۔“ احرار کی بات پر اس کا دل زور سے دھڑکا اور ذہن میں بابک کا وجیہ سراپا ابھر آیا جسے وہ آج تک نہیں بھولی تھی۔

”آپ کو پتا نہیں ہے مگر جب آپ ہمارے گھر پر موجود تھیں تو بھیا آپ کو شادی کیلئے پرپوز کرنا چاہتے تھے بس یہ سوچ کر رکے ہوئے تھے کہ آپ ان کی محبت کو ترس نہ سمجھ بیٹھیں، وہ انتظار میں تھے کہ جیسے ہی آپ کا بھائی ملے گا وہ آپ کو شادی کی پیشکش کردیں گے، لیکن پھر یہ سب ہوگیا اور بھیا یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گئے کہ شاید آپ ان کیلئے ایسا کچھ فیل نہیں کرتی ہیں، لیکن مجھے پتا ہے کہ اندر ہی اندر آپ دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہیں، تو پھر ایک دوسرے کو یہ خواہ مخواہ کی سزا کیوں دے رہے ہیں؟ پرانی باتیں بھول کر ایک ساتھ نئی زندگی شروع کر لیجئے۔“ بلآخر احرار نے بابک کا حالِ دل اسے سنا ڈالا جسے سن کر وہ اپنی جگہ مبہوت رہ گئی۔

               *******************************

حال 

خوشگوار ماحول میں جاری رہنے کے بعد بلآخر خوش اسلوبی سے تقریب اختتام پذیر ہوئی اور یہ لوگ نہرین کے ہمراہ گھر واپس لوٹ آئے۔

”تم لوگ آج بھی رکو گے یا اب گھر جا رہے ہو یاور؟“ بابک نے ہال میں آتے ہوئے پوچھا۔ جہاں چاروں بیٹھے حیران پریشان سے غور و فکر کر رہے تھے کہ بابک حیران کیوں نہیں ہوا؟

”بس تھوڑی دیر تک گھر روانہ ہوجائیں گے، امی ڈرائیور کے ساتھ گھر چلی گئی تھیں ان کا یہاں دل نہیں لگ رہا تھا تو وہ وہاں اکیلی ہوجائیں گی، پھر کل ولیمے پر ملاقات ہوگی۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا 

”چلو ٹھیک ہے، میں بھی تھک گیا ہوں، تم دونوں بھی جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو احرار۔“ اس نے سہولت سے مشورہ دیا۔

”جی بھیا بس جا رہے ہیں۔“ احرار کا جواب سن کر وہ وہاں سے جانے لگا۔

”بابک۔“ یاور نے پکارا۔

”بولو؟“ وہ رکا۔

”تمھیں حیرانی نہیں ہوئی مہرین کی جگہ نہرین کو دیکھ کر؟“ اس کا ضبط جواب دے گیا تو اس نے پوچھ ہی لیا۔

”نہیں۔“ اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکائے۔

”یہ جاننے کا بھی تجسس نہیں ہے کہ وہ ہمیں ملی کیسے؟“ اس نے دوسرا سوال اٹھایا۔

”اتنا زیادہ نہیں ہے کہ ابھی ہی بتاؤ، کل بتا دینا اطمینان سے تا کہ تم لوگوں کے دل کا بوجھ ہلکا ہوجائے، فی الحال میں بیٹھے بیٹھے تھک گیا ہوں اس لئے، گڈ نائٹ۔“ اس نے بے نیازی سے گویا احسان کیا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ یہ لوگ اپنی جگہ پر ہکابکا سے بیٹھے رہ گئے۔

               ********************************

بابک نے جیسے ہی کمرے کا دروازہ کھولا تو موتیا کی خوشبو نے اسے خوش آمدید کہا۔

وہ اندر داخل ہوا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کرتے ہوئے ایک طائرانہ نگاہ سامنے ڈالی۔ جہاں موتیا کی لڑیوں سے سجے بیڈ کے وسط میں لہنگا پھیلائے اس کی نئی نویلی دلہن بیٹھی اسی کی منتظر تھی۔

وہ بجائے بیڈ کے قریب جانے کے سیدھا واشروم کی جانب بڑھ گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو سادے سے ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں تھا۔ 

واشروم سے آکر وہ بیڈ پر آیا۔ ہاتھ سے بیڈ پر پھیلا نہرین کا لہنگا ایک سائیڈ پر کیا یعنی اپنے سونے کی جگہ بنائی۔ پھر بیڈ پر بیٹھ کر پیروں کے پاس سلیقے سے تہہ ہوا کمبل کھولا اور اسے منہ تک اوڑھ کر دوسری جانب کروٹ لے لی۔

نیٹ کے گھونگھٹ کی آڑ سے اسے دیکھتی نہرین اس حرکت پر ہکابکا رہ گئی تھی۔

پہلے وہ چند لمحے حیرانی سے اس کی چوڑی پشت کو تکتی رہی لیکن جب اس نے کوئی پہل نہیں کی تو نہرین نے خود ہی اپنا گھونگھٹ ہٹاتے ہوئے لب کھولے۔

”بابک۔“ اس نے پکارا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

”بابک۔“ نہرین نے اپنے مہندی والے ہاتھ سے اس کا کندھا جھنجھوڑا۔

”کیا ہے؟“ اس نے کمبل ہٹاتے ہوئے بیزاری سے پوچھا۔

”یہ تم کیسا بی ہیو کر رہے ہو میرے ساتھ؟“ اس نے دکھ بھری حیرت سے پوچھا۔

”کیوں! جانا پہچانا نہیں لگ رہا؟“ وہ استہزایہ انداز میں کہتا اٹھ بیٹھا۔

”تو مطلب تم اب تک گزری باتیں دل میں لئے بیٹھے ہو؟“ اس کے انداز میں بیک وقت حیرت اور دکھ تھا۔

”کیا وہ باتیں بھولنے والی تھیں؟“ الٹا سوال آیا۔

”نہیں، لیکن تم مجھ سے ڈھنگ سے بات تو کرو تا کہ میں ساری باتیں کلئیر کر سکوں۔“ اس نے کمزور سے انداز میں دفاع کیا۔

”تم نے کی تھی ہم سے بات؟ سنی تھی ہماری بات؟ سچ جاننے کی کوشش کی تھی؟ ہمیں سمجھنے کی کوشش کی تھی؟“ اس نے ترکی بہ ترکی سب گنوایا۔ وہ چند لمحوں کیلئے لاجواب ہوگئی۔

”ٹھیک ہے میں مانتی ہوں کہ سب میری غلطی تھی، لیکن اب ایٹ لیسٹ میری بات تو سنو۔“ اس نے اعتراف کرتے ہوئے منت کی۔

”مجھے نہ تمہاری کوئی بات سننی ہے اور نہ تم سے کوئی بات کرنی ہے۔“ وہ کہہ کے واپس منہ تک کمبل اوڑھے لیٹ گیا۔ 

”اگر تمہارے دل میں میرے لئے اتنا بغض تھا تو پھر مجھ سے شادی کیوں کی؟ انکار کردیتے۔“ اب اس کا صبر بھی جواب دے گیا تو وہ دوبدو ہوئی۔

”میں نے یہ شادی صرف اپنے بھائی کیلئے کی ہے، احرار اور نورالعین کا خیال ہے کہ انہوں نے مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی لوٹائی ہے جس پر وہ لوگ بہت خوش ہیں، اسی لئے میں ان کا یہ بھرم توڑنا نہیں چاہتا۔“ اس نے کمبل ہٹا کر جواب دیا۔

”ان کا بھرم قائم رکھنے کیلئے تم نے میرا دل توڑ دیا۔“ وہ دکھ سے بولی۔

”اوہ! آپ کے سینے میں دل ہے؟“ وہ مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ اٹھ بیٹھا۔

نہرین نے کوئی جواب نہیں دیا بس پرنم آنکھوں سے اسے دیکھتی رہی۔ 

اس بات میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس وقت دلہن کے روپ میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی جب کہ پانیوں سے بھرے نین کٹوروں میں بےپناہ التجائیں تھیں۔ لیکن وہ ان سب سے بالکل بےنیاز تھا۔

”ایک بات کان کھول کر سن لو کہ اب میں وہ بابک نہیں ہوں جو تمہارا دل رکھنے کیلئے بنا چینی کی چائے بھی چپ چاپ پی گیا تھا، اب میں تمہاری ہر غلطی کی اتنی سخت سزا دوں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی۔“ نہایت قریب ہوکر اس نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ نہرین کے جسم میں سرسراہٹ دوڑ گئی۔ بابک کا یہ روپ واقعی اسے دہلا گیا تھا۔

”اب تم ساری زندگی ایسے ہی گزارو، یا پھر مجھ سے طلاق لے کر اپنے راستے ہوجاؤ، تمہارے پاس پوری رات ہے، اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کرلو کہ کیا کرنا ہے؟ کل مجھے بتا دینا۔“ اس نے تجویز دے کر واپس رخ موڑتے ہوئے کمبل اوڑھ لیا۔

وہ چند لمحے یوں ہی رنج و حیرت کا بت بنی بیٹھی رہی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نرم طبع بابک کا وہ کبھی ایسا روپ بھی دیکھے گی جو سرار اسی کیلئے ہوگا۔ 

یہ سچ تھا کہ وہ نیو یارک سے آنے کے بعد پورے عرصے بہت نروس تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ بابک تھوڑے شکوے بھی کرے گا۔ مگر اسے یقین تھا کہ وہ محبت سے اس کے سارے گلے شکوے دور کردے گی اور وہ مان بھی جائے گا۔ کیونکہ وہ بھی تو اس سے محبت کرتا تھا! اور پھر دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں ایک حسین زندگی شروع کریں گے جہاں کوئی محرومی یا اداسی نہیں صرف محبت ہوگی۔

لیکن یہاں تو سب کچھ سنگین حد تک سوچ کے برعکس ہوگیا تھا۔

 وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں بیڈ سے اتر کر واشروم میں چلی گئی۔

وہاں جا کر جب اس نے آئینہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ آنسو اس کے غم میں شریک ہونے کیلئے پہنچ چکے ہیں اور اپنا فرض بخوبی نبھا رہے ہیں۔

اس نے کچھ پل شیشے میں اپنا سجا سجایا روپ دیکھا۔

یہ سراپا جس کیلئے بہت چاؤ سے سجایا گیا تھا اس نے تو ایک بار بھی اس سراپے پر محبت بھری بھرپور نظر ڈالنا گوارا نہیں کی جو کبھی چوری چوری، تو کبھی بات چیت کے بہانے اسے دیکھا کرتا تھا۔

”کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں اکیلے اس راستے پر چلتے چلتے ہی ختم ہوجاؤں گی مگر منزل نہیں ملے گی۔“ نہرین نے ایک بار تھک کر کہا تھا۔

”کس نے کہا آپ اکیلی ہیں؟ میں ہوں ناں!“ بابک کے بےاختیار کہنے پر نہرین نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا اور اس روز جو جذبات اسے بابک کی آنکھوں میں نظر آئے تھے وہ اس کی دھڑکن منتشر کر گئے تھے۔

آج وہ ہی بابک تھا مگر اس کا انداز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

”اب میں وہ بابک نہیں ہوں جو تمہارا دل رکھنے کیلئے بنا چینی کی چائے بھی چپ چاپ پی گیا تھا، اب میں تمہاری ہر غلطی کی اتنی سخت سزا دوں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی۔“ یہ وہ بابک نہیں تھا جو اس کی مسیحائی کو تیار تھا۔ یہ تو کوئی ستمگر تھا۔

اس نے بےاختیار اپنی مہندی سے رنگی دونوں ہتھیلیاں نظروں کے سامنے کیں۔ اس کی مہندی کا رنگ بہت گہرا آیا تھا اور دائیں ہتھیلی کے وسط میں اسی یارِمن کا نام لکھا ہوا تھا جو کبھی اس کا مسیحا بننے میں کوشاں تھا مگر اب ستمگر بن بیٹھا تھا۔۔۔۔اور وجہ تھی۔۔۔۔۔وہ خود!

”اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے نہرین، احرار سے معافی مانگ لو اور کورٹ میں اس کے حق میں گواہی دے کر اس کا نام بتا دو جس کے کہنے پر تم نے یہ سب کیا۔“ بابک کا انداز نرم تھا۔

”ہرگز نہیں، جس کی وجہ سے میں نے اپنے باپ کو کھویا میں اس کے حق میں کوئی قدم نہیں اٹھاؤں گی، میں اسے صرف تباہ برباد ہوتا دیکھنا چاہتی ہوں، پرمینینٹ سسپنڈ ہونے کے بعد اس کی عزت کی دھجیاں اڑ کر ہی رہیں گی اور یہ تم بھی دیکھو گے۔“ نہرین نے برہمی کے عالم میں بابک کو دھکا دے کر خود سے دور کیا تھا۔

کچھ دیر وہ یوں ہی ماضی و حال کی یادوں میں جھولتی اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بےآواز سسکتی رہی اور پھر صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر ان ہی ہاتھوں میں منہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

تیرے ارد گررد وہ شور تھا، میری بات بیچ میں رہ گئی

نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا، میری بات بیچ میں رہ گئی

میرے دل کو درد سے بھر گیا، مجھے بے یقین سا کرگیا

تیرا بات بات پہ ٹوکنا، میری بات بیچ میں رہ گئی

تیرے شہر میں میرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جم غفیر تھا

مجھے راستہ نہیں مل سکا، میری بات بیچ میں رہ گئی

وہ جو خواب تھے میرے سامنے، جو سراب تھے میرے سامنے

میں انہی میں ایسے الجھ گیا، میری بات بیچ میں رہ گئی

عجب ایک چپ سی لگی مجھے، اسی ایک پل کے حصار میں

ہوا جس گھڑی تیرا سامنا، میری بات بیچ میں رہ گئی

کہیں بے کنار تھیں خواہشیں، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں

کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا، میری بات بیچ میں رہ گئی

میری زندگی میں جو لوگ تھے، میرے آس پاس سے اٹھ گئے

میں تو رہ گیا انہیں روکتا، میری بات بیچ میں رہ گئی

تیری بے رخی کے حصار میں، غم زندگی کے فشار میں

میرا سارا وقت نکل گیا، میری بات بیچ میں رہ گئی

مجھے وہم تھا تیرے سامنے، نہیں کھل سکے گی زباں میری

سو حقیقتاً بھی وہی ہوا، میری بات بیچ میں رہ گئی

امجد اسلام امجد​

               ********************************

سورج کی روشن کرنوں کے زمین پر اترتے ہی آہستہ آہستہ سارے منجمند معاملات پھر سے حرکت میں آنے لگے تھے۔

نہرین نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور خود کو ایک نئی جگہ پر موجود پا کے حیران ہوگئی۔

جب دھیرے دھیرے ذہن بیدار ہوا تو اسے یاد آیا کہ کل ہی تو رخصت ہوکر وہ یہاں آئی ہے۔ ساری باتیں واضح ہونے پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو بابک بستر پر موجود نہیں تھا۔

کل رات چینج کرکے آنے کے بعد وہ کب بے آواز روتے ہوئے سوگئی تھی اسے پتا ہی نہیں چلا!

کچھ دیر ایسے ہی کلسمندی سے لیٹے رہنے کے بعد وہ اٹھ کر بیٹھی۔ اس نے سارے بالوں کو جوڑھے کی شکل میں لپیٹا اور واشروم کی جانب بڑھ گئی۔

تھوڑی دیر بعد وہ نہا کر باہر نکلی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

اس نے براؤن کلر کا سوٹ پہنا تھا۔

اپنے گیلے بالوں کو برش کرکے آدھے بالوں میں کیچر لگایا۔ کانوں میں درمیانے سائز کے جھمکے پہنے۔ اور سوٹ کے ساتھ کا ہی دوپٹہ سلیقے سے اوڑھتے ہوئے اور باہر کی جانب بڑھی۔

اسے اندازہ تھا کہ سب لوگ اب تک ڈائینگ روم میں اکٹھا ہوچکے ہوں گے اور وہی ہوا۔ ڈائینگ روم میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ سابقہ معمول کے مطابق تینوں اپنی اپنی مخصوص جگہوں پر موجود تھے۔

”لو نہرین بھی آگئی۔“ اس پر نظر پڑتے ہی بابک نے ایسے کہا جیسے ابھی اسی کا ذکر ہوا ہو۔

ان دونوں نے بھی اس کی جانب دیکھا۔ جواباً وہ مسکراتی ہوئی ٹیبل کے قریب آئی اور نورالعین کے برابر والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

”گڈ مارننگ۔“ نورالعین نے پہل کی۔

”گڈ مارننگ! میں لیٹ ہوگئی کیا؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

”ارے نہیں! ہم سب بھی بس ابھی آئے ہیں۔“ نورالعین نے اطمینان دلایا۔

”اب تمہاری طبیعت کیسی ہے؟ بابک بتا رہا تھا کہ کل رات تمہارے سر میں بہت درد ہو رہا تھا، اسی لئے اس نے تمھیں جگانے سے بھی منع کیا تھا۔“ نورالعین کی بات پر نہرین نے بےساختہ بابک کی جانب دیکھا۔

”ہاں بیچاری فنکشن کی وجہ سے کل رات بہت تھک گئی تھی، اور تھکن کیسے نہ ہوتی؟ بھاری ڈریس اور جیولری کے ساتھ اتنی دیر اسٹیج پر بیٹھنا کوئی آسان کام تھوڑی ہے، اب تم ٹھیک ہو ناں نہرین یا ڈاکٹر کے پاس لے چلوں؟“ بابک نے فکرمندی سے پوچھتے ہوئے جوس کا گلاس اس کے آگے رکھا۔

وہ پل بھر کو یقین نہ کر پائی کہ یہ وہی شخص ہے جس نے کل رات اس کے وجود کو بےدردی سے رد کردیا تھا!

”نہرین؟“ نورالعین نے اس کا کندھا ہلایا تو وہ چونک کر ہوش میں آئی۔

”اب طبیعت ٹھیک ہے تمہاری؟ ورنہ بابک کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ، ویسے بھی یہ کچھ زیادہ ہی فکرمند ہے اپنی بیوی کیلئے۔“ نورالعین نے آخری جملہ شرارتاً کہا۔

”نہیں، میں ٹھیک ہوں۔“ وہ زبردستی مسکرائی جو بابک کے اس دوغلےپن پر الجھ کر رہ گئی تھی۔


کبھی یک بہ یک توجہ، کبھی دفعتاً تغافل

مجھے آزما رہا ہے کوئی رخ بدل بدل کر


********************************


دن گزرنے کے بعد افراتفری سے بھرپور جگمگ کرتی روشنیوں میں ڈوبی شام چلی آئی تھی۔

دعوت میں مدعو سب لوگ تقریباً ہال پہنچ چکے تھے اور دعوتِ ولیمہ کا آغا بھی ہوچکا تھا۔

بابک اور نہرین حسب روایت اسٹیج پر موجود مسکراتے ہوئے مہمانوں سے مبارک باد و تحائف وصول کرنے میں مشغول تھے۔

نہرین نے گولڈن رنگ کی زمین کو چھوتی کامدار فراک پہنی ہوئی تھی۔ جبکہ بابک نے بلیک ٹو پیس پہنا ہوا تھا۔ دونوں ہی ایک ساتھ بہت مکمل اور جاذب نظر لگ رہے تھے۔

”سر! پلیز تھوڑا سائیڈ پر ہوجائیں۔“ فوٹوگرافر نے ان دونوں کے بالکل سامنے آئے شخص سے درخواست کی۔

وہ معذرت کرتے ہوئے ایک سائیڈ پر ہوا تو فوٹوگرافر اینگل سیٹ کرنے لگا۔

”آپ ہماری تصویر لے رہے ہیں؟“ بابک نے تائید چاہی۔

”جی سر۔“ اس نے سر ہلایا۔

”تو ایسے تھوڑی لیتے ہیں تصویر کہ دولہا دلہن مہمانوں میں مصروف الگ تھلگ کھڑے ہیں اور آپ نے تصویر لے لی۔۔۔۔اب لیجئے۔“ اس نے کہتے ہوئے نہرین کی کمر کے گرد بازو حمائل کرکے اسے قریب کرلیا۔

اس حرکت پر نہرین نے چونک کر اس کی جانب دیکھا اور اسی پل فوٹوگرافر نے یہ لمحہ كیمرے میں قید کر لیا۔

تصویر بنتی دیکھ باقی لوگ بھی دولہا دلہن کے ہمراہ تصاویر کھینچوانے آ پہنچے اور کافی دیر تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔

اس دوران نہرین وقفے وقفے سے اپنی پیشانی مسلتی رہی جسے بابک نے بھانپ لیا۔

”کیا ہوا؟“ اس نے عام سے انداز میں پوچھا۔

”کچھ خاص نہیں، بس مسلسل کیمرے کا فلیش پڑنے سے سر میں تھوڑا درد ہو رہا ہے۔“ اس نے دھیرے سے بتایا۔

وہ پہلے چند لمحے تو خاموش رہا پھر متلاشی نظروں سے آس پاس کسی کو ڈھونڈنے لگا۔

تب ہی اس کی نظر مطلوبہ شخص پر جا کے رکی۔

ڈارک بیلو ٹو پیس میں احرار اسٹیج سے ذرا فاصلے پر کھڑا کسی آدمی سے محو گفتگو تھا مگر وقتاً فوقتاً اس کی نظریں اسٹیج کی جانب ہی اٹھ رہی تھیں۔

اب کی بار جیسے ہی اس نے اس طرف دیکھا بابک نے اسے سر کی جنبش سے اپنی جانب بلایا۔ وہ اس شخص سے معذرت کرتا اس طرف آیا۔

”جی بھیا؟“ اس نے بابک کے قریب جھک کر پوچھا۔

”ایسا کرو کھانا کھلوا دو، تا کہ لوگ کھانے میں مصروف ہوں اور جلد از جلد تقریب بھی اختتام کو پہنچے۔“ اس نے آہستہ سے ہدایت دی۔

”مگر ابھی بہت جلدی نہیں ہوجائے گا؟“ اسے تعجب ہوا۔

”جو کہہ رہا ہوں بس وہ کرو تم۔“ وہ بضد تھا۔

”اچھا ٹھیک، کہتا ہوں۔“ وہ کہہ کر سیدھا ہوا اور جانے کیلئے پلٹا۔

”اور سنو۔“ بابک نے پکارا۔

”جی؟“ وہ دوبارہ قریب جھکا۔

”جیسے ہی سب کھانے کی جانب متوجہ ہوں نورالعین کو یہاں بھیج دینا۔“ اس نے مزید ہدایت دی۔

اثبات میں سر ہلاتے ہوئے احرار اسٹیج سے اترا اور تھوڑی ہی دیر میں بابک کی ہدایت کو عملی جامہ پہنا دیا۔

سارے مہمان آہستہ آہستہ کھانے کی جانب متوجہ ہوئے تو احرار نورالعین کے پاس آیا جو آریز کو گود میں لئے ہانیہ کے ساتھ ایک ٹیبل کے گرد بیٹھی تھی۔

”اتنی جلدی کھانا کیوں کھلوا دیا احرار؟“ اس نے پہلا سوال ہی یہ پوچھا۔

”بھیا نے کہا تھا، اور وہ تمھیں بھی وہاں بلا رہے ہیں، تم سے کچھ کام ہے۔“ اس نے پیغام پہنچایا۔

”اچھا! تم اسے سنبھالو میں جاتی ہوں۔“ وہ کرسی پر سے کھڑی ہوئی۔

احرار نے اس کی گود سے آریز کو لیا اور وہ اپنے سوٹ کا ہمرنگ سفید دوپٹہ سنبھالتے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھی۔

”کیا ہوا بابک؟ کوئی کام ہے؟“ اس نے قریب آکے پوچھا۔

”یہ تم چاروں مہمانوں کی طرح اتنی دور دور کیوں بیٹھے ہو؟ یہاں اسٹیج پر کیوں نہیں ہو؟“ اس نے سب سے پہلے شکوہ کیا۔

”کیا ہوگیا؟ تقریب کی شروعات میں تھے ناں ہم یہاں، تصویریں بھی بنوائی ہیں ساتھ، باقی مہمان بھی آئے ہیں دعوت میں کیا ان کو نہیں آنا ہوگا اسٹیج پر؟ اور پھر ہم یہاں بیٹھ جائیں گے تو باقی کے معاملات کون دیکھے گا؟“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی حساب برابر کیا۔

”اچھا وہ سب چھوڑو، فی الحال نہرین کو میک اپ روم میں لے جاؤ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، اسے تھوڑے سکون کی ضرورت ہے۔“ اب وہ اصل بات پر آیا۔

”اوہ ہو! بڑی فکر ہو رہی ہے بیگم کی۔“ اس نے معنی خیزی سے چھیڑا۔

”اگر چھیچھورپن ہوگیا ہو تو اسے لے جاؤ۔“ اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے کہا۔

”آؤ نہرین! میک اپ روم میں چلتے ہیں۔“ وہ سیدھی ہوتی ہوئی اس سے مخاطب ہوئی۔

کیونکہ ان دنوں کی باتیں پہلے ہی اس کی سماعت تک پہنچ چکی تھیں لہٰذا وہ بنا کیا اور کیوں کیے کھڑی ہوگئی۔ اور نورالعین کے ہمراہ اسٹیج پر سے نیچے آئی۔

اسے میک اپ روم کی جانب لے جاتے ہوئے نورالعین نے ہانیہ کو بھی میک اپ روم میں آنے کا اشارہ کیا جسے سمجھتے ہوئے وہ بھی ان کی جانب آگئی اور پھر تینوں روم میں چلی گئیں۔

جبکہ بابک بھی اسٹیج سے اتر کر یاور اور احرار کے پاس آیا۔ جو بوفے سے ذرا فاصلے پر کھڑے مینجمنٹ کی نگرانی کر رہے تھے۔

”تم یہاں کیوں آگئے؟“ یاور اسے دیکھ کر گویا ہوا۔

”کیونکہ وہاں اسٹیج پر اکیلے مکھیاں مارنے کا موڈ نہیں تھا۔“ اس نے قریب آتے ہوئے جواب دیا۔

”اگر آپ کو بھی بھوک لگ رہی ہے تو کھانا کھا لیں بھیا، ہم میک اپ روم میں بھیجوا دیتے ہیں۔“ احرار نے پیشکش کی۔

”نہیں یار، فی الحال بالکل بھی بھوک نہیں ہے، بس دل چاہ رہا ہے جلدی سے یہ رسمِ دنیا ختم ہو اور ہم گھر جائیں۔“ وہ بیزار لگ رہا تھا۔

”ایک بات پوچھوں بابک؟“ یاور کا انداز بہت محتاط تھا۔

”پوچھو۔“

”تمھیں ذرا بھی حیرانی نہیں ہوئی مہرین کی جگہ نہرین کو دیکھ کر؟ ہلکا سا بھی تجسس نہیں ہے یہ جاننے کا کہ آخر وہ یہاں تک آئی کیسے؟“ اس کی سوئی ابھی تک وہیں پر تھی۔

”نہیں۔“ یک لفظی جواب ملا۔

”کیوں؟“

”کیونکہ جب احرار مجھ سے کام کا جھوٹ بول کر نیویارک گیا ہوا تھا اور نورالعین کو فون پر ساری تفصیل بتا رہا تھا تب اتفاق سے میں نے ان دونوں کی باتیں سن لی تھیں، اسی لئے مجھے پتا تھا کہ میری شادی مہرین سے نہیں نہرین سے ہو رہی ہے جس میں ناصرف تم سب ملے ہوئے ہو بلکہ مجھے مزید بےوقوف بنانے کیلئے یقیناً یاور نے اپنے واقف کار شوکت صاحب اور ان کی فیملی کو بھی انولو کرکے ان سے ایکٹنگ کروائی، ایسا ہی ہے ناں؟“ اس نے دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالتے ہوئے اطمینان سے انہیں حیران کردیا۔

”مطلب تو سب کچھ جانتے بوجھتے گھُننا میسنا بنا ہوا تھا؟“ یاور آنکھیں سکیڑ کر نتیجے پر پہنچا۔ اس نے فخر سے ہاں میں سر ہلایا۔

”یاور۔“ اس سے قبل کہ بابک مزید کچھ کہتا ہانیہ نے اسے پکارا تو وہ اس کی جانب چلا گیا۔

”بھیا! آپ خوش ہیں ناں اس شادی سے؟“ یاور کے جاتے ہی احرار نے تصدیق چاہی۔

”پہلے تم بتاؤ کہ تم نے اتنی محنت کیوں کی؟ کیوں اسی انسان کو ڈھونڈ کر واپس اپنی زندگی میں لے آئے جس نے تمھیں اتنا بڑا نقصان پہنچایا تھا؟“ بابک نے دلچسپی سے الٹا سوال کیا۔

”کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ انسان آپ کو کتنا عزیز ہے اور آپ صرف میری دید رکھتے ہوئے اس سے دستبردار ہوئے بیٹھے تھے، لیکن میں اپنے اس بھائی کو خوش دیکھنا چاہتا تھا جس نے کبھی میرے بولے بنا مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی، میری نورالعین واپس لا کر دی تھی، مجھے میرا بھائی میری انا سے زیادہ عزیز ہے۔“ اس کے لفظ لفظ میں اپنے بھائی کیلئے بےلوث محبت تھی۔

بابک پہلے چند لمحے اسے محبت پاش نظروں سے دیکھاتا رہا۔ پھر آگے بڑھ کے اسے کس کر گلے سے لگا لیا۔

”جس کے پاس تمہارے جیسا بھائی ہو وہ بھلا کیسے خوش نہیں ہوگا؟“ بابک نے رشک سے کہتے ہوئے اس کی پیٹھ سہلائی تو احرار کے دل میں بھی اطمینان اتر گیا۔

آج اگر کلثوم زندہ ہوتیں تو ان دونوں بھائیوں کی یہ محبت دیکھ کر خوشی سے نہال ہوجاتیں کیونکہ یہ ہی تو ان کی درینہ خواہش تھی کہ سگا رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی دونوں ہمیشہ ایسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور ثابت کرکے دکھائیں کہ رشتے خون سے نہیں احساس سے بنتے ہیں اور دل سے نبھائے جاتے ہیں۔

”ہاں مگر مجھے ایک بات کا افسوس ہے۔“ بابک الگ ہوتے ہوئے بولا۔

”کس بات کا؟“ اسے تشویش ہوئی۔

”اب میں نورالعین کو یہ طعنہ نہیں مار سکتا کہ میں نے تمہاری شادی کروائی تھی، کیونکہ تم لوگوں نے حساب جو برابر کردیا۔“ اس نے شرارت بھرے افسوس کا اظہار کیا۔

”دنیا چاند پر چلی جائے گی مگر آپ دونوں کی یہ ٹام اینڈ جیری والی لڑائی کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔“ احرار نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔


********************************


آخر کار خیر خریت سے یہ افراتفری بھری شام بھی اختتام پذیر ہوئی اور سب تھکے ہارے لوٹ کر واپس گھر کو آئے۔

نہرین ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی خود کو جیولری سے آزاد کر رہی تھی۔ اس نے تقریباً ساری جیولری اتار لی تھی۔ اب بس چوڑیاں اتار کر کپڑے تبدیل کرنے تھے۔

بظاہر وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی چوڑیاں اتار رہی تھی مگر اس کی سوچیں کہیں اور ہی پرواز کر رہی تھیں۔

”نہرین کو میک اپ روم میں لے جاؤ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے، اسے تھوڑے سکون کی ضرورت ہے۔“ اسے بابک کا وہ حکم یاد آیا جو اس نے بنا بولے نورالعین کو اس کے حوالے سے دیا تھا۔ جو ظاہر کر رہا تھا کہ بابک کو اس کی پرواہ ہے۔

”اب تم ساری زندگی ایسے ہی گزارو، یا پھر مجھ سے طلاق لے کر اپنے راستے ہوجاؤ، تمہارے پاس پوری رات ہے، اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کرلو کہ کیا کرنا ہے؟ کل مجھے بتا دینا۔“

مگر یکدم اسے بابک کا کل والا رویہ بھی یاد آیا۔ اگر اسے واقعی پرواہ تھی تو پھر کل اس نے ایسا کیوں کیا؟

وہ ان ہی سب سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا اور کندھے پر کوٹ لٹکائے بابک کمرے میں داخل ہوا۔

اس نے نہرین کو دیکھا جو کھوئی کھوئی سی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی تھی۔

وہ کوٹ صوفے پر پھینکتے ہوئے اس کے پیچھے آکر خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ مگر وہ اس قدر اسی کے خیالوں میں گم تھی کہ اسی کے آنے کا احساس نہ ہوا۔

بابک نے اس کے کندھے کو لبوں سے چھو کر اپنی آمد کی خبر دی تو اس کے پورے وجود میں سرسراہٹ دوڑ گئی اور اس نے سر اٹھا کر شیشے میں دیکھا۔ وہ اس کے عین پیچھے کھڑا تھا۔

وہ بھی فوراً اس کی طرف پلٹی اور اب دونوں کے درمیان فاصلہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

”تو پھر کیا فیصلہ کِیا؟“ بابک نے اس کے کھلے بالوں کی ایک لٹ انگلی سے پیچھے کرتے ہوئے جاننا چاہا۔

”کیسا فیصلہ؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”یہ ہی کہ ساری زندگی ایسے ہی گزارنی ہے یا سیدھی طرح طلاق لے کر اپنے اپنے راستے ہونا ہے؟“ اس نے یاد دلایا۔

”بابک۔“ حیرت و صدمے کے باعث اس کے لبوں سے بس یہ ہی نکلا۔

”کیا بابک؟ جواب دو میرے سوال کا، چوبیس گھنٹے دیے تھے ناں تمھیں سوچنے کیلئے۔“ اس کی بےنیازی عروج پر تھی۔

”مجھے لگا کہ کل وہ سب بس تمہارا وقتی غصہ تھا، صبح ناشتے پر، پھر ولیمے میں تو تمہارا رویہ بالکل ٹھیک تھا میرے ساتھ، تو پھر تنہائی میں ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہو؟“ اس کی آنکھیں چھلکنے کو تیار تھیں۔

”تم سے ہی سیکھا ہے میں نے یہ دوغلاپن، کہ باہر سے کچھ، اندر سے کچھ، اور اب یہ تم ہی سے برداشت نہیں ہو رہا، کمال ہے۔“ وہ استہزایہ انداز میں ہنسا۔

”میرا دوغلاپن تو تم نے دیکھ لیا؟ لیکن اپنی ندامت تمھیں کیسے دکھاؤں؟“ اس کے انداز میں دکھ تھا۔

”احرار جب میرے پاس نیویارک آیا تھا تب اس نے مجھے وہ سارے ثبوت دکھائے جو اسے میرے پاپا کے خلاف ملے تھے، ایک تو پہلے ہی میرے دل پر قاتل کی بیٹی ہونے کا بوجھ تھا پھر یہ سب دیکھ کر دل چاہا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں، مجھ میں تمہارا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی مگر احرار نے کہا کہ تم کل بھی مجھ سے محبت کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہو، تم مجھے معاف کردو گے اور پھر ہم ایک نئی زندگی شروع کریں گے، میں صرف تمہارے لئے ہی تو واپس آئی ہوں اور تم ہی میرے ساتھ ایسا برتاؤ کر رہے ہو۔“ بولتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔

”جو کچھ تم نے ہمارے ساتھ کیا تھا اس کے بعد ایسا برتاؤ نہیں کروں تو کیا تمہاری آرتی اتاروں؟“ اس نے طنز کیا۔

”میں مانتی ہوں کہ غلطی میری تھی، میں نے جو کیا بہت غلط کیا، مگر تم ایک بار خود کو میری جگہ رکھ کر تو سوچو، مجھ سے میرا واحد سہارا، میرا باپ چھین لیا گیا تھا، میں غم و غصے سے پاگل ہوگئی تھی، بس کسی بھی طرح ان کے مجرم کو تڑپانا چاہتی تھی، تب ہی اس انجان شہر میں اتفاق سے میں مرتضیٰ انکل سے جا ملی، ان کی ہمدردی مجھے سہارا لگی، اور انہوں نے اپنا کام نکالنے کیلئے مجھے جو کہانی سنائی میں نے اس پر یقین کرلیا، جو اِنسٹرکشن وہ مجھے دیتے رہے میں انہیں فالو کرتی رہی، لیکن جب مجھے سچ پتا چلا تو میں رک گئی تھی، بلکہ خود گواہی دینے کورٹ بھی آنا چاہتی تھی مگر انہوں نے مجھے موقع نہیں دیا، تم تو تھے ناں اس دن وہاں، دیکھا تھا ناں تم نے سب کہ کیسے میں بےہوش ہوگئی تھی۔“ اس نے دیوانہ وار سب یاد دلانے کی کوشش کی۔

”مجھے گزری باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تم بس سیدھی طرح بتاؤ کہ اب ساری زندگی ایسے ہی رہنا ہے؟ یا میں تمھیں طلاق دے دوں؟“ وہ ڈھیٹ پن کا بت بنا ہوا تھا۔

چند لمحے حیرت و صدمے کے مارے اس کی زبان گنگ ہوگئی جبکہ آنکھوں سے آنسو جاری ہوچکے تھے۔

”تم نے کہا تھا کہ یہ شادی تم نے احرار کا بھرم رکھنے کیلئے کی ہے، اگر تم مجھے طلاق دو گے تو کیا تب اس کا بھرم نہیں ٹوٹے گا؟“ اسے اور کچھ نہ سجھائی دیا تو یہ بات اٹھالی۔

”نہیں! میں سب کو یہ ہی بتاؤں گا کہ تم نے زبردستی مجھ سے طلاق مانگی ہے، اور جس طرح کے پہلے آپ کے کارنامے رہ چکے ہیں ان کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ سمجھدار ہیں کہ سب کس کا یقین کریں گے؟“ اس نے اطمینان سے حل پیش کیا جو سیدھا اس کے دل میں چبھا۔

”تم ایسے تو نہیں تھے بابک، کیوں اتنے ظالم بن گئے ہو، ٹھیک ہے میں قصوروار تھی جس کی میں نے معافی بھی مانگ لی، اب تم جو سزا چاہے دے دو سوائے اس رویے کے، میرا تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہے، مجھے ضرورت ہے تمہاری، میں تم سے محب۔۔۔۔۔۔“

وہ اس کی شرٹ اپنے حنائی ہاتھوں میں دبوچے اس کے سینے سے لگی بولے جا رہی تھی کہ تب ہی بابک نے یکدم اسے خود سے الگ کیا اور دیوار سے لگا دیا۔ اس کی بات ادھوری رہ گئی۔

”تم نے ٹھیک کہا میں ایسا نہیں تھا، لیکن اب میں ایسا ہوگیا ہوں، اور مجھے ایسا بنانے والی بھی تم ہی ہو، اسی لئے بھگتنا بھی تمھیں ہی پڑے گا۔“ بابک نے اس کی چوڑی سے بھری دونوں کلائیاں دیوار سے لگا کر پکڑی ہوئی تھیں۔

”میں نے جو کچھ بھی کیا تھا تمہارے نہیں احرار کے ساتھ کیا تھا، جب وہ سب درگزر کرکے مجھے معاف کرسکتا ہے تو تم کیوں نہیں کرسکتے؟“ وہ بھی ٹوٹے ہوئے انداز میں دوبدو ہوئی۔

”وہ احرار ہے جو سب درگزر کرکے معاف کر دیتا ہے،

میں بابک ہوں، جب تک چن چن کر سارے بدلے نہ لے لوں معاف نہیں کرتا۔“ وہ اتنا قریب ہوکر پھنکارا تھا کہ اس کی سلگتی سانسیں نہرین کے چہرے سے ٹکرائی تھیں۔

”اور تمہارا ارادہ مجھے ساری زندگی ایسے ہی گزارنے کا لگ رہا ہے، تو ٹھیک ہے، رہو پھر ایسے ہی۔“ اس نے درشتی سے کہتے ہوئے یکدم اس کے ہاتھ چھوڑے اور برق رفتاری سے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔ جبکہ وہ رنج و حیرت کا بت بنی وہیں کھڑی رہ گئی۔


شبِ انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی

کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا


ہے عجب مزاج کا شخص وہ، کبھی ستمگر کبھی مسیحا

کبھی چاند اس نے کہا مجھے، کبھی آسماں سے گرا دیا


********************************


کچھ نئے ارادوں کے ساتھ پرانا سورج ایک نیا دن لے کر طلوع ہوچکا تھا۔ کھڑکی سے آتی دھوپ نے آنکھوں کے پردوں پر دستک دی تو بابک کو آنکھیں کھولنی پڑی۔

اس نے کروٹ لے کر دیکھا تو نہرین بستر پر نہیں تھی۔ ذہن پر زور دے کر کل کا منظر دہرایا تو یاد آیا کہ کافی دیر تک رونے کے بعد نہرین چینج کرکے بیڈ پر لیٹی تو تھی اور اب شاید اس کے بیدار ہونے سے قبل ہی وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جا چکی تھی۔

کچھ دیر ایسے ہی سستانے کے بعد وہ بھی اٹھ کر واشروم چلا گیا۔ پھر تھوڑی دیر میں تولیے سے بال رگڑتا ہوا باہر آیا۔ حسب عادت تولیہ بیڈ پر پھینکا برش سے بےترتیب بالوں کو ترتیب دی۔ اور پھر گرے جینز پر پہنی اپنی ڈارک بیلو ٹی شرٹ کی فل آستینیں کہنیوں تک چڑھاتے ہوئے کمرے سے نکل کر سیدھا ڈائینگ روم کی جانب بڑھا۔

”گڈ مارننگ۔“ اسے روم میں داخل ہوتا دیکھ نہرین نے خوشدلی سے وش کیا۔

”گڈ مارننگ۔“ اس نے بھی اخلاق کا مظاہرہ کیا۔

اور خلافِ معمول اپنی سنگل چیئر پر بیٹھنے کے بجائے وہ نہرین کے برابر والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ کیونکہ سب کو جتانا بھی تو تھا کہ اسے اپنی بیوی سے کتنی محبت ہے۔

ایک طرف احرار اور نورالعین بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے سامنے بابک اور نہرین موجود تھے۔

بابک کو لگا تھا کہ اب تک نہرین احرار اور نورالعین کے سامنے اپنا دکھڑا رو چکی ہوگی اور گھر میں تناؤ کا ماحول ہوگا۔

لیکن وہ تو ہشاش بشاش سی نورالعین سے خوش گپیوں میں مصروف تھی جیسے سب نارمل ہو!

”بھیا آپ کو مسٹر اینڈ مسز شمس کا انویٹیشن مل گیا تھا؟“ احرار نے خیال آنے پر تائید چاہی۔

”ہاں مل گیا تھا، مگر نہرین کافی تھک گئی ہے فنکشن کی وجہ سے تو میں سوچ رہا تھا انہیں منع کردوں۔“ بابک نے گلاس میں جوس نکالتے ہوئے جھوٹ بولا۔

”کیسا انویٹیشن؟“ نہرین کو جاننے کا اشتیاق ہوا۔

”مسٹر شمس ہماری کاروباری معاملات کی وجہ سے اچھی واقفیت ہے، وہ ولیمے پر بھی آئے تھے اور آج انہوں نے پورٹ گرینڈ میں آپ دونوں کو ڈنر کیلئے انوائٹ کیا ہے۔“

احرار نے تفصیل بتائی جس پر بابک کو اندر ہی اندر غصہ آیا کیونکہ وہ جان بوجھ کر اس دعوت کا ذکر گول کر گیا تھا مگر احرار نے منہ کھول دیا اور اب اسے پتا تھا کہ نہرین کیا کہے گی؟

”واہ! تو انہیں منع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ چلتے ہیں۔“ نہرین کی جانب سے حسب توقع جواب آیا۔

”تم تھک گئی ہوگی ناں! تھوڑا آرام کرلو۔“ بابک نے زبردستی مسکراتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔

”نہیں میں بالکل نہیں تھکی، بلکہ ابھی تو مجھے تمہارے ساتھ بہت سارا گھومنا پھرنا ہے۔“ نہرین نے اس سے زیادہ والہانہ پن سے جواب دیا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

”اور نہیں تو کیا، یہ ہی تو دن ہوتے ہیں گھومنے پھرنے کے، پھر بعد میں یہ مرد حضرات اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہوجاتے ہیں کہ ان کے پاس ہمارے لئے ٹائم ہی نہیں رہتا۔“ نورالعین نے بھی بظاہر نہرین سے کہتے ہوئے احرار پر ہلکا سا طنز کیا۔

”ہاں بھیا، اور آپ چاہے ان خواتین کو اپنا کتنا بھی وقت دے دیں مگر ان کا یہ وقت نہ دینے والا شکوہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔“ احرار نے بھی اسی انداز میں حساب برابر کیا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔


********************************


”جب میں نے ڈنر کا منع کر دیا تھا تو پھر کیا ضرورت تھی بیچ میں یہ شوشہ چھوڑنے کی؟“ ناشتے کے بعد بابک باز پرس کرنے کے ارادے سے کمرے میں آیا۔

”کیونکہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ گھومنے جانا ہے۔“ نہرین نے تولیہ اسٹینڈ پر سکھاتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا۔

”کل رات تو بہت رونا دھونا مچایا ہوا تھا، تو پھر ابھی ٹیبل پر یہ اداکاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ بتا دیتی ان دونوں کو سب سچ۔“ اس نے طنزیہ مشورہ دیا۔

”نہیں، میں انہیں سچ نہیں بتاؤں گی، تم نے مجھے دوغلا کہا تھا ناں؟ دوغلاپن کیا ہوتا ہے یہ اب میں کرکے دکھاؤں گی۔“ اس کا مضبوط لہجہ آگ لگاتا ہوا تھا۔ وہ اسے دیکھتا چلا گیا۔

”دعوت میں کتنے بجے تک جانا ہے بتا دو تا کہ میں اس حساب سے ریڈی ہوں۔“ اس نے اطمینان سے بات بدلی۔

”ہم کسی دعوت میں نہیں جا رہے۔“ اس نے صاف انکار کیا۔

”اچھا! یہ ہی بات اسی ٹون میں اپنے بھائی کے سامنے بولتے ناں، تب تو بڑے گھننے، میسنے فرمابردار شوہر بنے بیٹھے تھے۔“ وہ بھی دوبدو ہوتی اس کی جانب آئی۔

”میں اس کے سامنے تم سے تلخ برتاؤ کرکے اس کا دل نہیں توڑنا چاہتا کہ اس نے اتنی محنت سے میری شادی کروائی اور میں خوش نہیں ہوں، لہٰذا اس کے سامنے مجھے مجبور مت کیا کرو۔“ اس نے وہی عذر پیش کیا۔

”تمھیں اتنا تو میں جانتی ہوں بابک کہ اگر تمہاری اپنی مرضی نہ ہو تو ساری دنیا کی طاقت مل کر بھی تم سے وہ کام نہیں کروا سکتی جو تم نہیں کرنا چاہتے، تم نے مجھ سے شادی کی ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اندر ہی اندر تم بھی یہ ہی چاہتے ہو مگر تمہارا یہ وقتی غصہ تمھیں ماننے نہیں دے رہا ہے۔“ نہرین نے نزدیک آکر اپنا مہندی والا ہاتھ نرمی سے اس کے سینے پر رکھا۔

”نہیں، یہ غصہ وقتی نہیں مستقل ہے، کسی خوش فہمی میں نہ رہنا۔“ اس نے ٹس سے مس ہوئے بنا باور کرایا۔

”چلو خوش فہمی میں نہیں رہتی، تمہارے ساتھ تو رہ سکتی ہوں ناں۔“ انداز معصوم سا تھا جس کا کوئی جواب نہ ملا۔

”تم نے مجھے دو آپشن دیے تھے ناں کہ یا تو ساری زندگی ایسے ہی گزاروں یا پھر اپنا راستہ الگ کرلوں! تو میں نے پہلا والا آپشن چن لیا ہے، میں ایسے ہی ساری زندگی تمہارے ساتھ رہنے کیلئے تیار ہوں، تمھیں جتنا غصہ کرنا ہے کرسکتے ہو، تمہارا حق بنتا ہے، میں کچھ نہیں کہوں گی۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔

نہرین کی ایک خواہش تو پوری ہوگئی تھی کہ وہ اس کے سینے لگ گئی تھی۔ لیکن جواباً وہ بھی اس کے گرد بازو حمائل کرکے اسے اپنے حصار میں قید کرلے، اس خواہش کو پورا ہونے میں نہ جانے ابھی اور کتنا وقت درکار تھا؟

یہ ہی خواہش تو کبھی بابک کے دل میں بھی جاگی تھی کہ وہ کس کر اسے سینے سے لگائے، اس کی قربت میں بہت سا وقت گزارنا چاہتا تھا مگر جو خنجر اس کی پیٹھ میں گھونپا گیا تھا اس نے ایک پل میں بابک کی ساری خواہشات کا قتل کر ڈالا تھا۔

بابک نے کچھ کہنے کے بجائے اسے خود سے دور کیا اور تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ گم صم سی وہیں کھڑی رہ گئی۔


سنا ہے کہ ان کو شکایات بہت ہے

تو پھر ان کو ہم سے محبت بہت ہے

سنا ہے کہ وہ توڑ دیتے ہیں دل تو

ہمیں ٹوٹنے کی بھی عادت بہت ہے

نظر بھر کے وہ دیکھتے بھی نہیں ہیں

ہمارے لئے سوچتے بھی نہیں ہیں

گزرتے ہیں ہم روز پہلو سے ان کے

مگر وہ ہمیں روکتے بھی نہیں ہیں

سنا ہے کہ نفرت وہ کرتے ہیں ہم سے

ہمیں ان کی نفرت سے راحت بہت ہے

سنا ہے کہ ان کو شکایات بہت ہے

تو پھر ان کو ہم سے محبت بہت ہےt 

سورج غروب ہونے کے بعد بابک اور نہرین دعوت پر جانے کیلئے گھر سے روانہ ہوگئے تھے۔ احرار اب تک ڈیوٹی سے نہیں لوٹا تھا اسی لئے نورالعین اور آریز گھر میں اکیلے تھے۔

وہ ابھی ابھی دودھ پی کر سویا تھا جسے نورالعین جھولے میں لٹا کر تھپتھپا رہی تھی تا کہ اس کی نیند تھوڑی پکی ہوجائے۔ تب ہی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی۔

”آجاؤ۔“ اس نے اجازت دی۔

مگر دوسری جانب سے پھر دستک دی گئی۔

”لاک کھلا ہے نوری، آجاؤ۔“ اس نے بلند آواز اطلاع دی کیونکہ نوری کے سوا اور کسی کے ہونے کا امکان نہیں تھا۔

اس بار بھی کوئی جواب آنے کے بجائے پھر دستک ہوئی۔

وہ کوفت و حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ خود ہی دروازہ کھولنے آئی۔

مگر دروازہ کھولنے پر دوسری جانب کوئی نہیں ملا جو کہ کافی عجیب بات تھی۔

اس نے دروازہ بند کیا اور غور و فکر کرنے لگی کہ کیا ابھی واقعی دروازہ بجا تھا؟ یا پھر اسے وہم ہوا تھا۔

ابھی وہ اسی شش و پنج میں تھی کہ دوبارہ دستک ہوئی۔

اس نے سرعت سے آکر دروازہ کھولا لیکن اب بھی باہر کوئی نظر نہیں آیا۔

”نوری۔“ وہ آواز دیتی ہوئی باہر نکل آئی لیکن پورے گھر میں سناٹا ہو رہا تھا۔

ابھی وہ ناسمجھی سے ایک جگہ کھڑی سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ یکدم کسی نے پیچھے سے اسے دبوچتے ہوئے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔ وہ بری طرح سٹپٹا گئی۔

وہ خود کو چھڑانے کیلئے مزاحمت کرنے لگی تھی مگر اسے یہ خوشبو اور لمس کچھ جانا پہچانا لگا۔

نورالعین نے اپنی کہنی اس کی پسلی میں ماری تو وہ اسے چھوڑ کر پیچھے ہوگیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا وہ احرار تھا۔

”احرار؟ یہ کیا بدتمیزی تھی؟“ اس کی حیرت عروج پر تھی۔

”تم ہی تو کہتی ہو کہ میں تمھیں وقت نہیں دیتا، تو آج وقت دینے کیلئے جلدی گھر آگیا، مگر تم نے یہ ویلکم کیا میرا۔“ اس نے پسلی سہلاتے ہوئے بتایا۔

”ہاں تو ایسے کوئی ڈراتا ہے بھلا اپنی بیوی کو؟“ نورالعین برہمی سے اس کے بازو پر مکا مارا۔

”اچھا سوری، چلو جلدی سے تیار ہوجاؤ، بھیا بھابھی گھر پر نہیں ہیں تو ہم بھی کہیں باہر ڈنر کرنے چلتے ہیں۔“ وہ اصل بات پر آیا۔

”مجھے نہیں جانا کوئی ڈنر ونر کرنے۔“ وہ تنک کر کہتی وہاں سے جانے لگی۔

احرار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر واپس کھینچا تو وہ اس کے سینے سے آ لگی۔

”اچھا تو پھر بیڈروم میں چلتے ہیں۔“ احرار نے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھا لیا۔

”کیا کر رہے ہو؟ نوری دیکھ لے گی۔“ اسے تھوڑی فکر ہوئی۔

”ملازمین کو میں کواٹر میں بھیج کر آرہا ہوں۔“ اس نے کمرے کی جانب بڑھتے ہوئے اطمینان سے بتایا۔

”ویسے یہ آج اچانک تم اتنے رومانٹک کیوں ہو رہے ہو؟“ نورالعین نے دلچسپی سے پوچھا۔ تب تک وہ کمرے میں آکر اسے بیڈ پر لٹا چکا تھا۔

”کیونکہ آج بھیا گھر پر نہیں ہیں، کوئی ڈسٹرب نہیں کرے گا۔“ اس نے قریب آتے ہوئے گھمبیرتا سے جواب دیا جس کی گردن کے گرد نورالعین نے بازو حمائل کیے ہوئے تھے۔

اس سے قبل کہ سانسوں کی ڈور خوبصورتی سے الجھتی، جھولے میں سوئے آریز نے اچانک رونا شروع کردیا۔

دونوں نے بےساختہ اس کی جانب دیکھا اور ناچاہتے ہوئے بھی احرار کو نورالعین سے دور ہونا پڑا۔

”بھلے ہی تمہارے بھیا نہیں ہیں مگر ان کا ٹرین سپاہی یہیں موجود ہے۔“ نورالعین نے اٹھ کر آریز کے پاس آتے ہوئے کہا۔ جب کہ احرار اپنے بیٹے کو گھورتے ہوئے یونیفارم چینج کرنے چلا گیا۔


*****************************************


رات کے وقت سڑکوں پر گاڑیوں کی مخصوص گہماگہمی عروج پر تھی۔

ان ہی گاڑیوں میں سے ایک چمچماتی ہوئی بلیک کرولا کار پورٹ گرینڈ میں داخل ہوئی جس کی فرنٹ سیٹس سے بابک اور نہرین باہر آگئے تھے اور بابک نے گاڑی پارک کرنے کیلئے گاڑی کی چابی ویلیٹ بوائے کو دے دی تھی۔

”یہ پورٹ گرینڈ وہ ہی جگہ ہے ناں جہاں کا ہمیں ایک بار ڈنر واؤچر ملا تھا؟“ نہرین نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے پوچھا جو ستائشی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لے رہی تھی۔

”نہیں۔“ سپاٹ جواب ملا۔

”جھوٹ مت بولو، مجھے پتا ہے یہ وہ ہی جگہ ہے، نام تو وہ ہی ہے۔“ وہ اپنی بات پر قائم تھی۔

”جب پتا ہے تو پھر مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہو؟“ بابک نے روکھائی سے کہا تو وہ خفگی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔

نہرین نے ڈارک سی گرین کلر کا بالکل پلین شیفون سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سیدھے بال پشت پر کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔ کانوں میں ڈائمنڈ ایئر رنگز، پیروں میں نازک ہیل پہنے اور کندھے پر نازک سا کلچ لٹکائے وہ بہت نفیس اور دلکش لگ رہی تھی۔

بلیک جینز ٹی شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنے بابک کا وجہہ سراپا بھی کافی جاذب نظر لگ رہا تھا جسے اس کی بےنیازی نے مغرور سی دلکشی بخشی ہوئی تھی۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ دونوں ایک ساتھ بہت خوبصورت اور مکمل لگ رہے تھے تب ہی مطلوبہ جگہ پر پہنچنے تک کئی ستائشی نظریں ان کی جانب اٹھی تھیں۔

ان کی دعوت ایک خوبصورت سے روف ٹاپ ریسٹورینٹ میں تھیں جس کی اسٹائلش سیڑھیاں چڑھ کر جب یہ لوگ اوپر پہنچے تو انہیں ایک ٹیبل کے گرد میزبان منتظر ملے۔

وہ ایک ادھیڑ عمر ہسبینڈ وائف تھے جو نہایت گرم جوشی سے ملے اور پھر چاروں ٹیبل کے گرد براجمان ہوگئے۔

تھوڑی دیر میں ٹیبل پر کھانا آگیا جسے کھاتے ہوئے یہ لوگ ہلکے پھکے انداز میں بزنس اور کرنٹ آفیئرز پر گفتگو کرتے رہے۔ جب کہ وقتاً فوقتاً چھوتے ہوا کے ٹھنڈے جھونکے بھی ان کے ساتھ شامل رہے۔

ڈنر کے بعد چاروں ساتھ ہی نیچے آگئے تھے جہاں مسٹر اینڈ مسز شمس ان سے اجازت لے کر رخصت ہوگئے۔ اور یہ دونوں بھی دھیرے دھیرے باہر کی جانب بڑھنے لگے۔

”ویسے مجھے ان کی باتوں سے اندازہ ہوا جیسے یہ صاحب اپنا کوئی کام نکالنے کیلئے تمھیں مسکا لگا رہے تھے۔“ نہرین نے ساتھ چلتے ہوئے تجزیہ کیا۔

”واہ! ایک مطلبی انسان دوسرے مطلبی انسان کو کتنی جلدی پہچان گیا۔“ بابک نے استہزائیہ انداز میں اس کی جانب گردن موڑی تو وہ لاجواب ہوگئی۔

دونوں متوازن انداز میں ساتھ ساتھ چلتے جا رہے تھے تب ہی نہرین ایک جگہ رک گئی۔

”اب کیا ہوا؟“ وہ بھی رک کر پلٹا۔

”مجھے آئس کریم کھانی ہے۔“ اس نے ایک بچی کی جانب اشارہ کیا جو اپنے والدین کے ساتھ آئس کریم کھاتی ہوئی جا رہی تھی۔

”بچوں کی چیز پر نیت لگاتے ہوئے تمھیں شرم نہیں آئی؟“ بابک نے تعجب سے آنکھیں سکیڑیں۔

”مجھے اس بچی کی آئس کریم نہیں کھانی، شاپ سے لے کر کھانی ہے۔“ اس نے تصحیح کی۔

”ہاں تو جا کر لو اور کھا لو۔“ بےنیاز مشورہ ملا۔

”نہیں، تم لا کر دو۔“ اس نے لاڈ سے فرمائش کی۔

”میں نہیں لا رہا۔“ صاف انکار ہوا۔

”تو ٹھیک ہے، پھر میں بھی یہاں سے نہیں جاؤں گی۔“ وہ کہتی ہوئی منہ پھلا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔

”تم نے مجھے منہ دکھائی میں بھی کچھ نہیں دیا تھا، اب کم از کم آئس کریم ہی دلا دو۔“ اس نے نروٹھے پن سے فرمائش کی۔

”طلاق کی آفر دی تو تھی، تم نے لی ہی نہیں۔“ اس نے بےنیازی سے یاد دلایا۔ وہ اسے گھور کر رہ گئی۔

”مجھے طلاق نہیں آئس کریم چاہیے۔“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔

”میں نہیں لا کر دے رہا، بیٹھی رہو ایسے ہی۔“ وہ لاپرواہی سے کہہ کر وہاں سے چلتا بنا اور وہ وہیں بیٹھی اسے دیکھ کر رہ گئی جو تھوڑی دور جا کر دائیں جانب مڑنے کے بعد نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ وہ ان چھوٹی موٹی خواہشات کے ذریعے اس کی سرد مہری کا خول توڑنے کی کوششوں میں تھی جو کچھ زیادہ ہی سخت معلوم ہو رہا تھا۔

وہ ایک گہری سانس لے کر آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔ اسے پتا تھا کہ بابک آئس کریم نہیں لائے گا اور جا کر گاڑی میں بیٹھ چکا ہے۔ لیکن اس نے بھی طے کر لیا تھا کہ جب تک بابک اسے بلانے نہیں آئے گا وہ خود سے نہیں جائے گی، چاہے کتنی دیر ہی کیوں نا ہوجائے!

”لو پکڑو۔“ بابک کی بےزار آواز پر اس نے گردن موڑی تو وہ آئس کریم کا کپ اس کی جانب بڑھائے ملا۔

”تھینکس۔“ اس نے خوشگوار حیرت کے ساتھ کپ تھام لیا۔

”یہ میں نے صرف اسی لئے لا کر دی ہے کہ میں یہاں کوئی فضول تماشہ نہیں چاہتا، کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہونا۔“ وہ ساتھ ہی ساتھ باور کرانا نہیں بھولا۔

”اب اٹھو اور چلو۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلا تو وہ بھی آئس کریم کا کپ کھولتے ہوئے اس کے پیچھے آئی جسے ایک موہم سی امید مل گئی تھی۔


*****************************************


زندگی اپنے معمول پر رواں دواں تھی۔ سب کچھ جوں کا توں تھا پھر چاہے وہ دن و رات کا آنا جانا ہو یا پھر بابک کا روٹھنا اور نہرین کا منانا ہو!

بابک اس وقت اسٹڈی روم کے صوفے پر لیپ ٹاپ لیے بیٹھا کام میں مصروف تھا تب ہی نہرین چائے کا کپ لئے وہاں آئی۔

”چائے۔“ اس نے کہتے ہوئے کپ میز پر رکھا۔

”میں نے نوری سے چائے کا کہا تھا۔“ بابک نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

”تم نوری کے نہیں میرے شوہر ہو۔“ وہ بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی اس کے برابر میں بیٹھ گئی۔

”اب یہاں کیوں بیٹھ گئی؟ چائے دے دی ناں؟ تو جاؤ۔“ بابک کو اس کے بیٹھنے پر بھی اعتراض تھا۔

”میرے سسر کا اسٹڈی روم ہے، میں حق رکھتی ہوں یہاں بیٹھنے کا۔“ اس نے بھی ٹانگ پر ٹانگ رکھتے ہوئے گڑبڑائے بنا جواب دیا۔

اسے ایک تیز نظر سے دیکھنے کے بعد وہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا۔ شاید ضد بحث کے موڈ میں نہیں تھا۔ جب کہ وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اسے نہارنے لگی۔

”تم نے چاند دیکھا، کتنا خوبصورت لگ رہا ہے ناں۔“ نہرین نے اسٹڈی روم کی قد آدم کھڑکی کے پار نظر آتے چاند کو دیکھ کر رومانوی انداز میں کہا جو پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔

”ہاں تو؟ چاند کو میں چاٹوں؟“ بابک نے غیر رومانوی انداز میں ٹکا سا جواب دیا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔

اس نے آگے ہوکر ٹیبل پر سے چائے کا کپ اٹھایا اور دھیرے سے ایک گھونٹ لیا۔

”یہ کیسی بد ذائقہ چائے بنائی ہے۔“ وہ سخت بدمزہ ہوا۔

”ٹھیک تو بنی ہے، دودھ، چینی، پتی سب حساب سے ڈالا ہے اور خود چکھ کر لائی ہوں۔“ اس نے تعجب سے صفائی دی۔

”اس سے اچھی چائے میں خود آنکھیں بند کرکے بنا سکتا ہوں۔“ اس نے بےزاری سے کپ ٹیبل پر رکھا۔

”ایک ٹائم پر تو بنا چینی کی چائے بھی چپ چاپ پی گئے تھے اور اب اتنی اچھی چائے سے بھی پرابلم ہو رہی ہے۔“ وہ تنک کر شکوہ کر گئی۔

”اُس وقت دماغ خراب تھا میرا، اب عقل آگئی ہے۔“ بابک نے ڈھیٹ پن سے جواب دیا اور اپنا لیپ ٹاپ لے کر وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ وہ وہیں بیٹھی چائے کے بھرے ہوئے کپ کو دیکھنے لگی۔

”اردو کے علاوہ کوكنگ بھی بہت اچھی ہے آپ کی، جیسے اس دن اتنا ٹیسٹی کیک بنایا تھا اور اب اتنی مزیدار چائے جو شاید میں کبھی نہیں بنا پاتا۔۔۔۔۔تھینکس اتنی اچھی چائے کیلئے۔“

اسے بےساختہ وہ پرانا والا نرم طبع بابک یاد آگیا جو اس کا دل رکھنے کیلئے پھیکی چائے کی تعریف کرتے ہوئے اسے پی گیا تھا۔

”اب میں وہ بابک نہیں ہوں جو تمہارا دل رکھنے کیلئے بنا چینی کی چائے بھی چپ چاپ پی گیا تھا، اب میں تمہاری ہر غلطی کی اتنی سخت سزا دوں گا جو تم سوچ بھی نہیں سکتی۔“

اس کے ذہن میں بابک کی ہی پھنکارتی ہوئی آواز گونجی۔

اس نے جو کہا تھا وہ کرکے بھی دکھا رہا تھا۔ وہ واقعی اسے سخت سزا دے رہا تھا۔۔۔۔بےرخی کی سزا۔۔۔!


*****************************************


رات کے وقت ہال کی بڑی لائٹس آف کرکے ٹیبلز پر موجود لیمپ آن کر دیے جاتے تھے جس کی وجہ سے وہاں مدھم روشنی ہو رہی تھی۔

نورالعین آریز کی فیڈر لیے نیچے آئی تھی اور اس میں موجود دودھ گرم کرنے کیلئے کچن کی جانب جا رہی تھی تب ہی ہال کے صوفے پر کسی کو بیٹھا دیکھ اس طرف چلی آئی۔

”نہرین۔۔۔اس وقت یہاں کیوں بیٹھی ہو؟“ وہ تعجب سے پوچھتی قریب آئی تو نہرین نے بھی خیالوں سے چونک کر اسے دیکھا۔

”کچھ نہیں، بس ایسے ہی۔“ وہ سرسری کہتی سیدھی ہوئی۔

”کیا بابک سے جھگڑا ہوا ہے؟“ اس نے خود ہی نتیجہ نکالا۔

”نہیں، وہ تو سو رہے ہیں، بس مجھے نیند نہیں آرہی تھی تو یہاں آگئی۔“ اس نے سچا جھوٹا جواب دیا۔

سچ یہ تھا کہ بابک سو رہا تھا۔ اور جھوٹ یہ تھا کہ ان کے درمیان سب ٹھیک ہے۔

”ہوتا ہے کبھی کبھی۔۔۔۔اگر ضرورت فیل ہو تو مجھے بتا دینا میں نیند کی گولی دے دوں گی۔“ اس نے سہولت سے کہا اور جانے کیلئے پلٹی۔

”نورالعین۔“ اس نے اچانک پکارا تو وہ واپس مڑی۔

”تھوڑی دیر تم سے بات کرسکتی ہوں؟“ اس نے عاجزی سے اجازت طلب کی۔

نورالعین کو وہ کچھ ڈسٹرب لگ رہی تھی اسی لئے وہ کوئی سوال جواب کیے بنا آکر اس سے ذرا فاصلے پر بیٹھ گئی۔

”کہو۔“ وہ ہمہ تن گوش تھی۔

”کہنا نہیں ہے، پوچھنا ہے۔“

”پوچھو۔“

”جو کچھ بھی میں نے تم لوگوں کے ساتھ کِیا تھا کیا اس کیلئے تم نے واقعی دل سے مجھے معاف کر دیا ہے؟“ اس کی آنکھوں میں معصوم سا خوف تھا۔

”اگر معاف نہیں کیا ہوتا تو آج تم اس گھر کی بڑی بہو کی حیثیت سے یہاں موجود نہیں ہوتی۔“ اس نے گول مول جواب دیا۔

”گھر میں جگہ دینے میں اور دل میں جگہ دینے میں فرق ہوتا ہے، اکثر ایک چھت کے نیچے رہتے ہوئے بھی لوگ اجنبی ہوتے ہیں۔“ اس نے تصحیح کرتے ہوئے تاسف سے نظریں جھکالیں۔

اس وقت نہرین کے چہرے پر ایسی عجیب سی اداسی تھی کہ فرفر زبان چلا کر طنز کے تیر برسانے والی نورالعین بھی غیر محسوس انداز میں اسے کوئی تیکھا جواب دینے کی ہمت نہ کر پائی۔

”دیکھو نہرین! جو کچھ تم نے کیا وہ سراسر ایک غلط فہمی میں مبتلا ہوکر کیا، غلطی ہر انسان سے ہوجاتی ہے، مجھ سے بھی ہوئیں ہیں، مگر جو لوگ غلطی پر اڑے رہنے کے بجائے اسے مان کر معافی مانگتے ہیں اور بدلنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں معاف کر دینا چاہئے، اسی لئے ہم نے بھی تمھیں معاف کر دیا تھا۔“ نورالعین نے رسان سے اس کی ندامت رفع کرنی چاہی۔

”تو پھر بابک نے مجھے معاف کیوں نہیں کیا؟“ وہ اسے دیکھ کر سوال کرتے ہوئے بےساختہ رو پڑی۔

اس غیرمتوقع عمل پر نورالعین بھی پل بھر کو سٹپٹا گئی اور سرک کر نہرین کے قریب ہوئی جو دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔

”نہرین! یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ بابک تو محبت کرتا ہے تم سے، تو پھر وہ بھلا تمھیں کیوں معاف نہیں کرے گا؟“ نورالعین نے اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے ناسمجھی سے کہا۔

”وہ محبت صرف تم لوگوں کے سامنے ایک دکھاوا ہے، درحقیقت وہ دل میں اب بھی ساری باتیں دبائے بیٹھیں اور مجھ سے ان کا بدلہ لے رہے ہیں۔“ نہرین نے سر اٹھا کر آنسوؤں سے تر چہرے کے ساتھ بتاتے ہوئے اسے مزید حیران کردیا۔

اور پھر تھوڑا سنبھل کر اول تا آخر ساری بات من و عن اسے بتا دی جو اس کے سینے پر بوجھ کی مانند محسوس ہو رہی تھیں کیونکہ نہرین کے پاس ایسا کوئی نہیں تھا جس کے ساتھ وہ اپنی پریشانیاں بانٹ کر دل ہلکا کر پاتی۔ اسی لئے آج ہمدردی کی ہلکی سی حدت پا کر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔

”بابک پاگل واگل تو نہیں ہے؟ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟“ ساری بات جان کر وہ سخت حیرت زدہ تھی۔

”پتا نہیں! اور اگر ایسا ہی کرنا تھا تو پھر مجھ سے شادی کیوں کی تھی؟“ اس نے گال پر بہتے آنسو صاف کیے۔ اب اس کے رونے میں کافی کمی آگئی تھی۔

”تمہارے لئے بابک کی پسندیدگی بہت واضح تھی، بلکہ اس نے برملا اظہار کیا ہے میرے اور احرار کے سامنے تب ہی تو ہم نے اتنا بڑا قدم اٹھایا ہے، لیکن اب تمہارے مطابق اس کا یہ دوغلاپن سمجھ سے باہر ہے۔“ وہ سخت الجھن کا شکار تھی۔

”ہوسکتا ہے کہ یہ سب بس اس کا وقتی غصہ ہو، کیونکہ غلط فہمی میں ہی سہی مگر تم نے اس کا اعتبار توڑا تھا اب اتنی ناراضگی تو اس کا حق ہے۔“ اس نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

”ٹھیک ہے میں مانتی ہوں غلطی میری تھی، اور انہیں حق ہے اپنی ناراضگی کے اظہار کا، مگر اتنی طویل ناراضگی؟ ہماری شادی کی پہلی رات سے لے کر آج تقریباً ایک ہفتہ ہوگیا ہے ہماری شادی کو، لیکن ان کے بیہیو میں کوئی چینج نہیں آیا ہے۔“ وہ دکھ سے بولی۔ نورالعین نے بےساختہ لب بھینچے کیونکہ معاملہ واقعی بہت پیچیدہ تھا۔

کچھ لمحوں کیلئے دونوں کے مابین خاموشی چھاگئی کیونکہ نہرین کے پاس کہنے کیلئے مزید کچھ نہیں تھا۔ جب کہ نورالعین ان سب کی وجہ اور حل سوچنے میں مصروف تھی۔

”دیکھو! جو کچھ بھی ہوا ہے شاید اس کے اثرات نے ہی بابک کو پتھر بنا دیا ہے اور اب وہ پرانا والا بابک نہیں رہا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ تمہاری وجہ سے پتھر ہوا ہے تو اسے موم بھی اب تم ہی کرو گی۔“ کسی نتیجے پر پہنچ کر وہ گویا ہوئی۔

”کب سے وہ ہی تو کرنے کی کوشش کر رہی ہوں، مگر بابک پر چڑھا وہ سخت خول ٹوٹتا ہی نہیں ہے۔“ اس کے انداز میں بےبسی تھی۔

”پہلی ہی ضرب پر پتھر نہیں ٹوٹا کرتے، تمھیں مسلسل کوشش کرنی ہوگی۔۔۔بار بار کوشش کرنی ہوگی۔۔۔۔تمہارے ہاتھ زخمی ہوں گے، تمھیں درد ہوگا، لیکن اگر پرانا والا بابک واپس چاہیے تو ہمت سے کام لینا ہوگا۔“ نورالعین نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے تسلی دی تو اس کی ٹوٹتی امید کو کچھ سہارا ملا۔

”جانتی ہوں، جو کچھ میں نے بگاڑا ہے اسے سدھارنے میں بہت وقت اور محنت لگے گی۔“ اس نے ایک گہری سانس لی جیسے طویل مسافت کیلئے خود کو تیار کر رہی ہو۔

”تم پلیز یہ سب احرار کو مت بتانا، میں تو تمھیں بھی نہیں بتانا چاہتی تھی مگر خود پر کنٹرول نہیں کرسکی، کیونکہ سب جان کر اگر احرار نے بابک سے بات کی تو ہوسکتا ہے فی الحال جو تم لوگوں کے سامنے وہ تھوڑا بہت لحاظ کر لیتے ہیں پھر اس سے بھی چلے جائیں۔“ یکدم خیال آنے پر نہرین نے عاجزی سے گزارش کی۔

”میں نہیں بتاؤں گی، ڈونٹ وری۔“ اس نے نرمی سے یقین دہانی کرائی تو نہرین تشکر آمیز نظروں سے اسے دیکھنے لگی جس سے بات کرکے اس کا تھوڑا بوجھ کم ہوا تھا اور نئے سرے سے ایک کٹھن سفر طے کرنے کی ہمت ملی تھی۔

*****************************************

نورالعین سے بات چیت کرکے دل ہلکا کرنے کے بعد جب نہرین بیڈ روم میں آئی تو حسب توقع بابک بیڈ پر سیدھا سوتا ہوا ملا جس کا بلینکٹ سرک کر پیروں پر آگیا تھا۔

وہ بیڈ کی دوسری جانب اپنے بستر پر آئی اور خود پر بلینکٹ اوڑھنے کے ساتھ بابک کو بھی ٹھیک سے اوڑھا دیا جس کا کھڑے نین نقش والا خوبرو چہرہ اس وقت ہر قسم کے غصے اور نفرت سے عاری بہت پرسکون تھا۔ وہ بےاختیار اسے دیکھتی چلی گئی۔

نہرین نے پہلے اس کے ماتھے پر آئے بال پیار سے پیچھے کیے اور پھر ہاتھ ذرا نیچے لا کر انگوٹھے سے اس کا نچلا لب سہلانے لگی۔ وہ ہی لب جن سے کبھی اس کیلئے پھول جھڑتے تھے، جو اس کا نام چبتے نہیں تھکتے تھے۔۔۔۔لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔اب یہ لب ہر وقت لفظوں کے تیر چلاتے تھے جو سیدھا اس کے دل میں پیوست ہوتے ہوئے اسے تڑپا کر رکھ دیتے تھے۔

کچھ دیر ایسے ہی نظروں کو سیراب کرنے کے بعد نہرین نے آہستہ سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا اور سینے پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔

ان چند دنوں میں اسے ایک بات تو معلوم ہوگئی تھی کہ بابک کی نیند بہت گہری ہوتی ہے۔ اسی لئے اکثر وہ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی بےچین خواہشات کو تھوڑا قرار دینے کیلئے ایسے ہی چپکے سے اس کا قرب چرا لیا کرتی تھی۔

اس کے سینے پر سر رکھ کر، دھڑکنوں کا مدھر گیت سنتے سنتے تھوڑی دیر میں وہ بھی یوں ہی سوگئی۔

بابک نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں جو جاگا ہوا اس کی تمام حرکات محسوس کر رہا تھا لیکن اس پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔

نہرین اس کے سینے پر سر رکھے ہی سوچکی تھی جس کے بالوں پر بوسہ دیتے ہوئے بابک نے اسے اپنے دونوں بازؤں کے حصار میں لے لیا۔

اگر وہ جاگ رہی ہوتی تو اس عمل پر خوشی سے نہال ہوجاتی۔۔۔۔۔مگر۔۔۔۔۔۔۔یہ ہی تو وہ نہیں چاہتا تھا۔

کوئی طبیب آکر دے، ہمیں ایسی دوا بھی

لذت بھی رہے درد کی، مل جائے شفاء بھی

اک ادا سے چھلنی، اک ادا تسلی کی

یارِمن ستمگر بھی، یارِمن مسیحا بھی

*****************************************

بابک کہیں باہر سے لوٹا تھا اور سیدھا نورالعین کے کمرے میں چلا آیا تھا جہاں وہ آریز کا جھولا ٹھیک کرنے میں مصروف تھی۔

”آریز کہاں ہے؟“ اسے کمرے میں کہیں نہ پا کر بابک نے پوچھا کیونکہ وہ اسی کیلئے آیا تھا۔

”اسے نہرین لے گئی ہے۔“ اس نے مصروف انداز میں جواب دیا۔

وہ متعجب سا وہاں سے پلٹ کر اپنے کمرے میں پہنچا تو دیکھا ننھا آریز بیڈ پر لیٹا تھا۔ آس پاس اس کے کچھ نرم سے کھلونے، جھنجھنے وغیرہ تھے اور نہرین اس پر جھکی اسے پچکارتے ہوئے پیار سے باتیں کرنے کی کوشش کر رہی تھی جسے وہ ٹُکر ٹُکر دیکھے جا رہا تھا۔

نہرین نے اس کا ننھا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا تو آریز کو بھی یہ عمل اچھا محسوس ہوا۔

”تم میرے بھتیجے کے ساتھ کیا کر رہی ہو؟“ وہ پوچھتا ہوا اس کی جانب آیا۔

”کھیل رہی ہوں۔۔۔۔اور احرار کی بھابھی ہونے کی حیثیت سے یہ میرا بھی بھتیجا لگتا ہے۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔

”خواہ مخواہ کی رشتے داریاں مت بناؤ بچے سے، اور اسے مجھے دو، یہ ٹائم میرا ہوتا ہے آریز کے ساتھ۔“ اس نے سپاٹ انداز میں حکم صادر کیا۔

”ہوتا ہوگا، لیکن ابھی میری باری ہے۔“ اس نے بےنیازی سے حکم نظر انداز کر دیا۔

”مجھے ہمیشہ سے ہی بےبیز بہت پسند رہے ہیں، میری بہت خواہش تھی کہ جب ارسلان کی شادی ہوگی تو میں اس کے بچوں کے ساتھ بہت کھیلوں گی، انہیں بہت پیار کروں گی، پر یہ خواہش کبھی نہ پوری ہونے والی حسرت بن کر رہ گئی۔“ بتاتے ہوئے اس کے انداز میں کرب گھل گیا۔ وہ بےساختہ اس کا اداس ہوا دلکش چہرہ دیکھے گیا۔

”لیکن اب مجھے یہ مل گیا ہے اپنی خواہش پوری کرنے کیلئے، اور اب تو ہم دوست بھی بن گئے ہیں، ہے ناں؟“ اس نے دوبارہ نارمل ہوتے ہوئے آخر میں آریز کو پچکارا تو اس نے بھی کلکاری لی جیسے اس کی بات سے اتفاق کر رہا ہو۔

”دیکھا! یہ بھی ایگری کر رہا ہے، یہ بہت پیارا بچہ ہے، بالکل اپنے پاپا کی طرح سوفٹ اینڈ سویٹ، شکر ہے اپنے کھڑوس تایا پر نہیں گیا۔“ نہرین نے آریز کے ساتھ کھیلتے ہوئے بابک پر طنز کیا تو اس کے نرم پڑتے تاثرات پھر تن گئے۔

”ادھر دو میرا بھتیجا۔“ بابک نے پیر سے پکڑ کر آریز کو ذرا سا اپنی طرف کھینچا اور پھر گود میں اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جسے وہ دیکھ کر رہ گئی۔


*****************************************


بابک کافی دیر سے اپنی الماری کے کبرڈ میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا جس کو حاصل کرنے میں وہ ہنوز ناکام تھا۔

”کچھ ڈھونڈ رہے ہو؟“ نہرین کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا۔

نہرین نے بلیک ٹائٹس کے اوپر اس کی وائٹ شرٹ پہن رکھی تھی جو اسے کافی بڑی اور ڈھیلی تھی۔ لیکن پھر بھی وہ چہرے پر اطمینان اور آنکھوں میں شرارت لئے اعتماد سے دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑی تھی۔ جب کہ یہ ہی وہ چیز تھی جو بابک ڈھونڈ رہا تھا۔

”یہ تم نے میرے کپڑے کس خوشی میں پہنے ہیں؟“ وہ دل میں ہوئی ہلچل کو چھپاتے ہوئے تیور چڑھا کر اس کی جانب آیا۔

”کیونکہ ان میں سکون ملتا ہے، ایک تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔“ اس نے شرٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے محبت بھرا جواب دیا۔

”پتا ہے کولمبیا میں ہوئی ایک ریسرچ میں پروف ہوا ہے کہ اپنے پارٹنر کے کپڑے پہننے سے ہمارا اسٹریس لیول کم ہوتا ہے۔“ اس نے قریب آتے ہوئے مزید بتایا۔

”مگر میرا اسٹریس لیول بڑھ رہا ہے، ابھی کے ابھی یہ اتار کر مجھے واپس کرو۔“ اس نے جلا بھنا رد عمل دیا۔

”میں تو نہیں اتاروں گی، تم خود اتارنا چاہو تو اتار لو۔“ اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔ بابک کی دھڑکنوں نے لے بدل لی تھی اور دل نے بےایمان ہونے کی ضد کی۔

وہ اس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے وہاں سے جانے لگا تھا کہ نہرین نے اس کی کلائی پکڑ لی۔

”چلے ہی جانا ہے نظر چرا کے یوں“

”پھر تھامی تھی ساجن تم نے میری کلائی کیوں؟“

وہ اس کا ہاتھ پکڑے ایک پرانا گیت گنگنانے لگی۔ حسب توقع بابک نے جھٹک کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔

”کسی کو اپنا بنا کے چھوڑ دیں“

”ایسا کوئی نہیں کرتا“

”بانہوں میں چلے آؤ، ہم سے صنم کیا پردہ“

اس نے ایک ادا سے گنگناتے ہوئے پھر قریب آکر دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھ لئے جسے وہ تیکھی نظروں سے گھورے جا رہا تھا۔

”دن بہ دن بہت ہی چھچھوری ہوتی جا رہی ہو تم۔“ اس نے روکھائی سے اس کے ہاتھ ہٹائے۔

”تھوڑے سے تم بھی ہوجاؤ۔“ نہرین نے شرارتاً اس کے گال کھینچے۔

”مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔“ وہ سپاٹ جواب دے کر کمرے سے باہر نکل گیا کیونکہ فرار ہی ایک راستہ تھا اپنے بہکتے جذبات کو قابو کرنے کا۔ جب کہ نہرین محظوظ ہوکر ہنس دی۔

گردشِ وقت کے ساتھ نہرین کی جو شوخی اور شرارت کہیں کھو سی گئی تھی وہ غیر محسوس انداز میں پھر لوٹ آئی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب وہ تپتی دھوپ کا سفر مکمل کر لینے کے بعد ٹھنڈی چھاؤں میں آگئی ہے جہاں اس کے پاس رشتے اور روٹھا ہوا ہی سہی مگر محبوب تھا، جس کو تنگ کرنے میں اس کے اندر کی شرارتی لڑکی کو بےحد لطف آرہا تھا۔


*****************************************


آج نہرین شام سے ہی کچن میں منہک تھی جو خاص طور پر بابک کیلئے کیک بنا رہی تھی۔

یوں تو یہ اس کا پسندیدہ کام تھا لیکن پسندیدہ شخص کیلئے کرتے ہوئے اسے اور بھی اچھا لگ رہا تھا۔ اس نے ایک ایک کام بہت چاؤ سے کیا تھا جس کے نتیجے میں بلآخر ایک خوبصورت سا ہارٹ شیپ کیک بن کر تیار تھا۔

رات کو جب سب ڈنر کیلئے ڈائننگ ٹیبل پر اکٹھا ہوئے تو نہرین کھانے کے بعد میٹھے میں کیک لے آئی۔

”یہ کیک کس کی سالگرہ کی خوشی میں ہے؟“ بابک نے متوازن انداز میں سوال کیا۔

”کسی کی نہیں، بس تمھیں پسند ہے ناں اسی لئے تمہارے لئے بنا لیا۔“ وہ کیک ٹیبل پر رکھ کر واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔

”اوہ! مطلب ہم اس ٹیسٹی کیک سے محروم ہیں۔“ احرار نے مصنوعی افسوس کا اظہار کیا۔

”ارے نہیں، یہ آپ لوگوں کیلئے بھی ہے۔“ نہرین تصحیح کرتے ہوئے چھری سے کیک کے چند پیس بنائے جو پہلے احرار اور نورالعین کی جانب بڑھائے پھر بابک کی طرف متوجہ ہوئی۔

”ٹیسٹ کرکے بتاؤ کیسا بنا ہے؟“ نہرین نے خوش کن انداز میں پلیٹ بابک کے سامنے رکھی۔

”تم نے بنایا ہے تو اچھا ہی ہوگا۔“ احرار اور نورالعین کی موجودگی کے باعث وہ زبردستی مسکرایا۔

”کیک سچ میں بہت اچھا بنا ہے بھابھی۔“ احرار نے ٹیسٹ کرکے سراہا۔

”تم بھی کھاؤ بابک، بیچاری شام سے کیک بنانے میں مصروف تھی۔“ نورالعین نے کیک کھاتے ہوئے اسے اکسایا۔

”ابھی میٹھا کھانے کا دل نہیں چاہ رہا اور ایک ضروری کام سے بھی جانا ہے، واپس آکر کھاتا ہوں، تب تک تم لوگ انجوئے کرو۔“ وہ بہت ہوشیاری سے ٹالتے ہوئے کھڑا ہوا اور پھر نارمل انداز میں وہاں سے چلا گیا۔

نہرین کو ایک بار پھر وہ پرانا والا بابک یاد آگیا جو کبھی اس کے ہاتھ کا بنا کیک چکھنے کیلئے بےتاب تھا۔

”ارے آپ؟“

”جی، گھر میں انٹر ہوتے ہی آپ کے کیک کی خوشبو یہاں تک کھینچ لائی، خوشبو اور لُک سے تو بہت زبردست لگ رہا ہے کیک، کیا میں یہ چکھ سکتا ہوں؟“

”جی، لیکن یہ فریج میں ٹھنڈا ہوکر زیادہ اچھا لگے گا۔“

”کوئی بات نہیں، ٹھنڈا ہونے کے بعد بھی کھالیں گے۔“

وہ کہتے ہوئے آگے آیا تھا اور ایک چمچ اٹھا کر بہت احتیاط سے، کنارے پر سے ذرا سی کریم لے کر منہ میں رکھی تھی۔

ردعمل کی منتظر نہرین کی نظریں اسی پر تھیں جس نے ذائقہ زبان پر لگتے ہی ستائشی انداز میں دونوں آئبرو اوپر چڑھائیں تھیں۔

”واؤ! کافی ٹیسٹی ہے۔“ اس نے تعریف کرتے ہوئے ذرا سی کریم اور لے کر منہ میں رکھی تھی۔

آج وہ ہی بابک تھا جس کیلئے نہرین نے بطور خاص کیک بنایا تھا۔ مگر آج اس نے کیک چکھنا تو دور اسے ہاتھ تک لگانا گوارا نہیں کیا۔ اور کیک کا وہ سلائس پلیٹ میں ویسے کا ویسا ہی رہ گیا جو نہرین نے بہت چاؤ سے اس کیلئے نکالا تھا۔


میرے علاج کو آئے کتنے طبیب مگر

دوا بھی درد بڑھائے تو کیا کیجئے؟


سکون ملتا ہے جس کی نگاہ سے ہمیں

وہ ہی نگاہ چرائے تو کیا کیجئے؟


انتخاب


*****************************************


بابک کافی دیر بعد گھر لوٹا تھا جب سب اپنے اپنے کمروں میں سونے جا چکے تھے۔

وہ اپنے بیڈ روم میں آیا تو نہرین بیڈ پر لیٹی ایل ای ڈی میں کوئی مووی دیکھتی ہوئی ملی۔

حسب سابق اسے نظر انداز کرتے ہوئے بابک اپنی سائیڈ ٹیبل کے پاس آیا اور موبائل چارج پر لگانے لگا جس کے بعد اس کا ارادہ چینج کرنے جانے کا تھا۔

”تمہارے حصے کا کیک اب بھی فریج میں رکھا ہے بابک، کھاؤ گے؟ لاؤں؟“ نہرین نے ریموٹ سے ایل ای ڈی آف کرتے ہوئے پوچھا۔

”مجھے تمہارے ہاتھ کی بنی کوئی چیز نہیں کھانی۔“ اس نے موبائل ٹیبل پر رکھتے ہوئے روکھا سا جواب دیا تو وہ اسے دیکھنے لگی جو باتھ روم کی جانب جانے لگا تھا۔

”اچھا سنو، تمھیں ایک بات بتانی ہے۔“ نہرین نے اچانک پکارا۔

”کیا ہے؟“ وہ رک کر پلٹا۔

”تمہارے ہونٹ کے رائٹ کارنر پر کیک کی کریم لگی ہے، صاف کرلو۔“ نہرین نے بےنیازی سے اطلاع دی جو اس پر بم کی مانند گری۔

اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے نہرین نے بلینکٹ اوڑھتے ہوئے دوسری جانب کروٹ لے لی۔ جب کہ وہ برق رفتاری سے باتھ روم میں گھس گیا جہاں شیشہ دیکھنے پر پتا چلا کہ واقعی اس کے ہونٹ کے کنارے پر اس کیک کی کریم لگی رہ گئی تھی جو وہ ابھی ابھی چپکے سے کھا کر آرہا تھا۔

یہ سچ تھا کہ شام سے گھر میں مہکی کیک کی خوشبو سے اس کی نیت خراب ہونے لگی تھی۔ لیکن صرف نہرین کو تنگ کرنے کیلئے دل چاہنے کے باوجود اس نے کیک کھانے سے انکار کردیا تھا۔ اور اب جب گھر لوٹا اور گھر میں سناٹا دیکھا تو اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فریج کے پاس پہنچ گیا تھا، لیکن اس کی چوری پکڑی گئی تھی جس کے باعث اسے خود پر ہی بےپناہ غصہ آیا اور نہرین کو بےحد لطف!


اس سے رنجش بھی ہے، اختلاف بھی ہے

اور کچھ کچھ عین شین قاف بھی ہے


انتخاب


*****************************************


ایک نئی صبح پھر سے طلوع ہوچکی تھی۔

بابک ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا آفس جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا۔ تب ہی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا موبائل گنگنایا۔

نظریں شیشے پر سے ہٹاکر موبائل کی جانب کی تو اسکرین پر اس کے سیکریٹی پرویز کا نام نظر آیا۔

اس نے ہیئر برش رکھ کر موبائل اٹھایا اور کال ریسو کرکے سننے لگا۔

”وعلیکم السلام! جی کہیے پرویز صاحب؟“ وہ پوچھتے ہوئے دوسری جانب کا جواب سننے لگا۔

”جی مجھے یاد ہے۔۔۔۔۔میں بس آدھے گھنٹے تک آرہا ہوں، پھر خود ہی ان سے مل لوں گا۔۔۔۔۔جی۔۔۔۔۔اللہ حافظ۔“ اس نے شیشے میں اپنے عکس کو دیکھتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی دوسری جانب سے لائن ڈسکنیکٹ ہوگئی۔

تب ہی شیشے میں اسے نہرین کمرے میں داخل ہوتی نظر آئی جو بیڈ پر پڑا گیلا تولیہ اٹھانے آگے بڑھی۔

”ارے سویٹ ہارٹ میں نے کہا ناں کہ بس آدھے گھنٹے میں آرہا ہوں۔“ یکدم بابک لہجے میں جہاں بھر کی محبت سموئے گویا ہوا۔

حسب توقع نہرین چونک کر اسے دیکھنے لگی جو محض موبائل کان سے لگائے کھڑا تھا دوسری جانب کوئی لائن پر نہیں تھا۔

”ہاں ہاں! وعدے کے مطابق ہم لنچ بھی ساتھ کریں گے، ڈونٹ وری، سی یو سون۔“ وہ کن انکھیوں سے شیشے میں نظر آتے نہرین کے عکس کو ہی دیکھ رہا تھا۔

بابک نے موبائل کوٹ کی جیب میں رکھا اور کوٹ کا بٹن لگاتے ہوئے اس طرف پلٹا۔

”یہ تم کس سے بات کر رہے تھے؟“ وہ پوچھے بنے نہ رہ سکی۔

”میں تمھیں بتانا ضروری نہیں سمجھتا۔“ اس نے روکھائی سے کہتے ہوئے بیڈ پر سے بریف کیس اٹھایا اور اسے ایسے نظر انداز کرکے کمرے سے نکل گیا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو!

وہ پہلے تو چند لمحے حیرت و صدمے سے ایسے ہی کھڑی رہی۔ پھر اگلے ہی پل ہاتھ میں پکڑا گیلا تولیہ غصے میں واپس بیڈ پر پٹخ دیا۔


********************************


”ریلیکس نہرین! وہ بس تمھیں تنگ کرنے کیلئے ایسا کر رہا ہوگا۔“ بیڈ پر بیٹھی نورالعین نے ٹشو سے آریز کا منہ صاف کرتے ہوئے اسے تسلی دی جو جلے پیر کی بلی کی مانند یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی۔

”اتنا تنگ کرکے رکھا ہے وہ کافی نہیں تھا جو اب مزید میری جان جلانے کیلئے افئیر بھی چلا لیا ہے؟“ وہ غم و غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔

”ارے میرا مطلب کہ وہ تمھیں تنگ کرنے کیلئے بس ایسا ناٹک کر رہا ہوگا، وہ تو لڑکیوں سے سیدھے منہ بات نہیں کرتا ہے تو افئیر کیسے چلائے گا؟“ نورالعین نے تصحیح کی۔

”مجھ سے بات کرتے ہوئے زبان انگارے برساتی ہے، اور دوسروں کیلئے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔“ وہ ہنوز دانت پیستے ہوئے ٹہلتی رہی۔

”ان انگاروں پر پانی پھیرنے کیلئے میں نے کچھ پلان کیا ہے۔“ نورالعین معنی خیزی سے گویا ہوئی۔

”کیا پلان کیا ہے؟“ وہ متجسس سی اس کی جانب آئی۔

”رات کو ڈنر پر پتا چل جائے گا۔“ اس کی آنکھوں میں شرارتی سے چمک تھی جو نہرین کے سر پر سے گزر گئی۔


*****************************************


اپنا فرض پورا کرکے یہ دن بھی غروب ہوا اور رات آپہنچی۔ جو کہ سب کا حسب معمول ڈائینگ ٹیبل کے گرد اکٹھا ہونے کا وقت ہوتا تھا۔

”بھیا! یہ رہا آپ کی شادی کا گفٹ جو ہم پر ڈیو تھا۔“ احرار نے ایک خاکی رنگ کا لفافہ بابک کی جانب بڑھایا۔

”شادی کا گفٹ! یہ اتنا بڑا سرپرائز دیا تو تھا، اب بھلا گفٹ کی کیا ضرورت تھی؟“ اس نے حیرانی سے کہتے ہوئے لفافہ تھاما۔

”ضرورت تھی بھیا، بہت زیادہ ضرورت تھی۔“ اس کا انداز معنی خیز تھا۔

بابک کے ساتھ ساتھ نہرین بھی متجسس تھی جس کی نگاہیں لفافے پر ہی تھیں۔ لفافہ کھلنے پر اس کے اندر سے کچھ کاغذ برآمد ہوئے جنہیں دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔

”احرار! یہ کیا ہے؟“ حسب توقع سوال آیا۔

”ہنی مون ٹرپ ہے اِسکردو کا، اور وہاں شنگریلا لیک کے قریب ایک ہوٹل میں دو ہفتے کیلئے آپ کی ریزرویشن بھی کروادی ہے، آپ بس سامان پیک کرکے جانے کی تیاری کریں۔“ احرار نے کھانا کھاتے ہوئے اطمینان سے بتایا۔

”لیکن ان سب کی کیا ضرورت تھی احرار؟“ بابک کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔

”آپ کی شادی کو مشکل سے دو ڈھائی ہفتے ہوئے ہیں لیکن آپ نے نا صرف آفس جانا شروع کردیا ہے بلکہ آفس کے چکر میں اپنا ہنی مون ٹرپ بھی کینسل کیے بیٹھے ہیں، مجھے پتا تھا کہ ایسے تو آپ جائیں گے نہیں اسی لئے میں نے ہی آپ دونوں کے ٹکٹ بک کروادیے اور ان پر ڈیٹ دیکھ کر آپ کو انداز ہو ہی گیا ہوگا کہ کل آپ کو روانہ ہونا ہے۔“ احرار کے اطمینان میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

”مگر میرے جانے سے آفس کے کام کا بہت حرج ہوجائے گا۔“ اس نے بہانہ تراشا۔

”نہیں ہوگا، جب تک آپ واپس نہیں آتے میں ڈیوٹی سے آف لے کر آفس کا کام سنبھال لوں گا، آپ بس اب اِسکردو جانے کی تیاری کریں، اور خبردار جو دو ہفتوں سے پہلے واپس آئے تو۔“ اس نے مسلہ حل کرتے ہوئے آخر میں دھمکی بھی دے ڈالی جس کے آگے وہ لاجواب ہوگیا۔

احرار کی باتوں کے نتیجے میں نہرین نے بےساختہ نورالعین کی جانب دیکھا تو نورالعین نے اسے آنکھ ماری۔ نہرین سمجھ گئی کہ یقیناً اس نے احرار کو ساری بات بتا کر اعتماد میں لے لیا ہے اور یہ دونوں کا مشترکہ پلان ہے۔ جس کے باعث وہ بھی بےساختہ مسکرا دی۔

********************************

”یار یہ ساڑھی بہت بولڈ ہو رہی ہے۔“ نہرین تھوڑی کنفیوژ لگ رہی تھی جس کے ہاتھ میں لال شیفون کی ساڑھی تھی۔

”اففو! تمھیں کون سا اسے پہن کر ریمپ پر واک کرنی ہے؟ شوہر کے سامنے سب پہن سکتے ہیں، اور بہت مشکل سے ڈھونڈی ہے میں نے یہ تمہارے لئے۔“ نورالعین نے رازداری سے سمجھانا چاہا۔

”لیکن اگر بابک نے غصہ کیا کہ یہ کیا پہنا ہے تو؟“ وہ اب تک مطمئن نہیں تھی۔

"ارے میری ماں نہیں کرے گا غصہ، بلکہ اس کا غصہ ختم کرنے کیلئے ہی تو یہ سب کرنا ہے، اب اسے جلدی سے بیگ میں رکھو اس سے پہلے کہ بابک کمرے میں آئے۔“ اس نے اپنا سر پیٹتے ہوئے کہا۔

نہرین نے اس کی بات مانتے ہوئے بیڈ پر رکھے کھلے ہوئے بیگ میں سب سے نیچے کرکے یہ ساڑھی رکھ دی کیونکہ وہ اس وقت پیکنگ ہی کر رہی تھی۔

"ارے! تم یہاں ہو نورالعین۔“ تب ہی بابک کمرے میں داخل ہوا۔

”ہاں، پیکنگ میں نہرین کی ہیلپ کر رہی تھی۔“ اس نے نارمل انداز میں جواب دیا۔

”ہاں وہ تو ٹھیک ہے مگر تمہارے کمرے سے آریز کے رونے کی آواز آرہی تھی، مجھے لگا تم ہوگی کمرے میں اسی لئے میں وہاں نہیں گیا۔“ اس نے تعجب سے اطلاع دی۔

”اوہ! وہ اٹھ گیا، میں ابھی دیکھتی ہوں۔“ وہ جلدی سے باہر کی جانب بڑھی۔

”تم اپنی پیکینگ خود کرو گے یا میں کردوں؟“ نہرین نے پوچھا۔

”کوئی ضرورت نہیں ہے میری چیزوں کو ہاتھ لگانے کی، میں خود کرلوں گا۔“ حسب توقع روکھا سا جواب آیا۔

”تو پھر کرو جلدی، آج شام کی فلائٹ ہے۔“ اس نے یاد دلایا۔

بابک نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے اپنی الماری کی جانب بڑھ گیا۔

جبکہ اپنے بیگ کی زپ بند کرکے نہرین کمرے سے باہر چلی گئی کیونکہ اگر یہاں رہتی تو خوامخواہ وہ کسی نا کسی بات پر الجھ کر موڈ خراب کرتا جبکہ وہ بہت فریش موڈ کے ساتھ یہاں سے روانہ ہونا چاہتی تھی۔

گھڑی کی سوئی نے تیزی سے حرکت کی اور ان کا وقتِ رخصت آپہنچا۔ اس وقت یہ لوگ روانہ ہونے کیلئے جبکہ احرار اور نورالعین انہیں الودع کہنے کیلئے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ بابک اور احرار ایک طرف کھڑے تھے۔ آریز بابک کی گود میں تھا۔ جبکہ نہرین اور نورالعین ان سے ذرا فاصلے پر کھڑی کچھ بات چیت کر رہی تھیں۔

”بھیا اگر آپ دو ہفتے سے پہلے واپس آئے ناں وہ بھی یہ بہانہ بنا کر کہ آفس میں کام کا حرج ہو رہا تھا، تو میں آپ سے بات کرنا چھوڑ دوں گا۔“ احرار نے دوبارہ دھمکی دی۔

”ہاں ہاں پتا ہے، پچھلے دو گھنٹوں میں کم از کم دو سو بار تم مجھے یہ دھمکی دے چکے ہو۔“ بابک نے حساب لگایا۔

”ہاں تو آپ ایک بار میں سنتے جو نہیں ہیں۔“ اس نے بھی جھٹ سے جواب دیا۔

"فکر مت کرو، دیکھنا یہ ٹرپ ضرور تم لوگوں کی زندگی میں ایک پازیٹیو چینج لائے گا۔“ نورالعین نے پریشان سی نہرین کو تسلی دی۔

کوئی جواب دینے کے بجائے پہلے وہ چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی اور پھر آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گئی۔

”تھینک یو سو مچ! اتنا سب ہوجانے کے باوجود بھی میرا اتنا ساتھ دینے کیلئے۔“ تشکر کے مارے اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

”کوئی بات نہیں، غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں۔“ نورالعین نے مسکراتے ہوئے اس کی پیٹھ سہلائی۔

"ان کو دیکھو ذرا! ایسا لگ رہا ہے جیسے کتنی گہری دوستیں ہیں، جبکہ یہ ہی نورالعین ہے جو کل تک اسی نہرین سے چڑتی تھی۔“ بابک ان دونوں کو دیکھتے ہوئے احرار سے مخاطب تھا۔

”کل تک نورالعین ان کی جانب سے بدگمان تھی ناں! آج بدگمانیاں دور ہوگئی ہیں اس لئے دوستی کو جگہ مل گئی ہے، کیونکہ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں، اور انہیں مان کر، سدھار کر، معافی مانگنے والے انسان بہت نایاب ہوتے ہیں، اور انہیں معاف کردینے والے ان سے بھی زیادہ اعلی ظرف۔“ احرار نے لوہا گرم دیکھ کر چوٹ ماری۔

بابک نے کوئی جواب نہیں دیا اور تب ہی ان کی فلائٹ کی اناؤنسمنٹ شروع ہوگئی۔

”چلیں آپ لوگوں کی رخصتی کا وقت ہوگیا۔“ احرار نے بابک کی گود سے آریز کو لیا تب تک وہ دونوں بھی قریب آگئیں۔

”اللہ پاک تم دونوں کو باحفاظت تمہاری منزل تک پہنچائے، تم لوگ بہت انجوئے کرو، اور ان شاءاللہ خیر و عافیت سے واپس آؤ۔“ نورالعین نے الوداعی دعا دی۔

پھر وہ دونوں اپنے بیگز سمیت اندر کی جانب بڑھ گئے جبکہ یہ لوگ یہاں ہی کھڑے تب تک انہیں جاتا ہوا دیکھتے رہے جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئے۔

”کیا خیال ہے؟ ان لوگوں کی دوستی ہوجائے گی؟“ احرار نے رائے مانگی۔

”ضرور! اگر ضرب مسلسل لگتی رہے تو پتھر کو ٹوٹنا ہی پڑتا ہے۔“ وہ پریقین تھی۔

”خیر یہ لوگ تو گئے گھومنے، کیا خیال ہے ہم بھی ڈیٹ پر چلیں؟“ احرار نے معنی خیزی انداز میں اس کی جانب دیکھتے ہوئے پیشکش کی۔

”یہ جو آپ کی گود میں موجود ہیں ناں ان کے باعث فی الحال ہم ایسا خیال ذہن میں بھی نہیں لاسکتے، لہٰذا سیدھا گھر چلیے آئی او صاحب۔“ نورالعین نے اس کے گال پر ہاتھ رکھ کر اس کے چہرے کا رخ واپس سامنے کی جانب کیا۔

رن وے کے دونوں اعتراف میں جلتی اجلی اجلی پیلی لائٹس کی روشنی میں سفید جہاز نے حرکت کرنا شروع کی اور آہستہ آہستہ رفتار پکڑتے ہوئے وہ فضا میں بلند ہوگیا۔

کچھ نئی امیدوں کے ساتھ ایک نیا سفر شروع ہوچکا تھا۔ جو کہ آگے کے سفر کو بہتر بنانے کا ہی ایک حصہ تھا۔

یوں تو سب ہی بہت پرامید تھے کہ کچھ اچھا ہوگا، اور واقعی اس سفر میں کچھ ہونے بھی والا تھا، مگر اچھا یا۔۔۔۔۔۔۔۔؟

چند گھنٹوں کے سفر کے بعد آخر یہ لوگ رات کے دو بجے اِسکردو پہنچ کر اب شنگریلا لیک کے قریب تھے۔

فی الحال کیونکہ رات ہونے کی وجہ سے کافی اندھیرا چھایا ہوا تھا تو کچھ ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا۔ لیکن پھر بھی سیاہ رات میں جگمگ کرتا یہ ریزوٹ اور اس کے قریب بنی جھیل کے شفاف پانی میں نظر آتا ریزوٹ کا عکس آنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا۔

ان کی بکنگ ریزوٹ کے بجائے ہوٹل میں تھی۔ دونوں ہوٹل میں داخل ہوئے اور ساری فارمیلیٹیز پوری کر آخر کار اپنے کمرے میں پہنچے جو کہ حسب توقع کافی خوبصورت اور پرسکون تھا۔

ہینڈ کیری ایک سائیڈ پر رکھ کر بابک گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر لیٹ گیا جبکہ نہرین نے کھڑکی کی جانب آکر اس کے پردے سمیٹے تو سامنے جگمگ کرتی روشنیاں اور ان کا جھیل کے پانی پر ابھرا ہوا عکس ایک بار پھر دل مولنے لگا۔ جسے وہ نجانے کتنے ہی پل مبہوت ہوکر دیکھتی رہی۔

ہوش کی دنیا میں وہ تب واپس آئی جب اسے دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔

اس نے پلٹ کر دیکھا تو باتھروم کا دروازہ بند ہوا تھا۔ بابک بیڈ پر نہیں تھا البتہ اس کا ہینڈ کیری بیڈ پر کھلا پڑا تھا۔ مطلب وہ چینج کرنے گیا تھا۔

نہرین بیڈ کی جانب آئی۔ کھلا ہوا ہینڈ کیری بند کیا اور اسے گھسیٹ کے لاکر صوفے کے قریب رکھ دیا۔

پھر اپنا ہینڈ کیری بیڈ پر رکھ کے کھولا چینج کرنے کیلئے کپڑے نکالے اور پھر اپنا ہینڈ کیری بھی بند کرکے بابک کے بیگ کے ساتھ رکھ دیا۔

وہ ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں باتھروم سے باہر آیا اور بنا اس پر توجہ دیے سیدھا بیڈ پر جاکے بیٹھا۔ پیروں کے پاس رکھا کمبل کھول کر اوڑھا اور سونے کیلئے لیٹ گیا۔

نہرین کو معلوم تھا کہ یہ ہی ہوگا اور فی الحال اس پر بھی سفر کی اس قدر تھکان تھی کہ کوئی باز پرس کرنے کہ بجائے وہ چینج کرنے کے ارادے سے باتھروم میں چلی گئی۔

کہنے کو تو یہ ایک نو بیاہتا جوڑا تھا جو ہنی مون کیلئے یہاں آیا تھا، مگر دونوں نے ابھی تک ایک دوسرے سے ایک بھی بات نہ کرتے ہوئے اجنبیوں کو بھی مات دے دی تھی۔


********************************


آہستہ آہستہ رات گزری اور ایک خوبصورت سا دن نمودار ہونا شروع ہوا۔ شروعاتی مراحل کے باعث سورج کی کرنیں ابھی نرم ہی تھیں جو کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھیں مگر کھڑکی پر لٹکے بھاری پردوں کی وجہ سے وہ ناکام رہی۔

بیڈ پر دنیا سے بے خبر ہوکر سوئے دو وجودوں میں سے ایک میں تھوڑی حرکت ہوئی۔ نہرین نے دھیرے سے موندی موندی آنکھیں کھولیں اور آس پاس کا ماحول سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔

صبح ہوچکی تھی مگر کھڑکی پر لگے بھاری پردوں کی وجہ سے کمرے میں ہنوز اندھیرا تھا جس پر خوابناک سی کیفیت نائٹ بلب نے طاری کر رکھی تھی۔

ذہن بیدار ہونے پر اس نے گردن موڑ کر اپنے پہلو میں دیکھا تو بابک اوندھا ہوکر گہری نیند میں سو رہا تھا جبکہ اس کا ایک ہاتھ نہرین کے اوپر تھا جو ظاہر ہے کہ اس نے نیندوں میں ہی رکھا تھا۔

وہ بنا اس کا ہاتھ ہٹائے کافی دیر تک ایسے ہی لیٹی اسے تکتی رہی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ کاش جب یہ بند آنکھیں کھلیں تو ان میں غصہ و جھنجھلاہٹ کہ بجائے محبت و اپنائیت ہو، مگر نہ جانے اس کی یہ خواہش پوری ہونے میں ابھی کتنا وقت تھا؟

تھوڑی ہی دیر میں بابک نے اس پر سے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے دوسری جانب کروٹ لے لی تو پھر نہرین بھی خود پر سے کمبل ہٹاتے ہوئے اٹھ بیٹھی اور باتھروم کا رخ کیا۔

فریش ہوکر آنے کے بعد وہ سیدھا کھڑکی کی جانب آئی اور اس پر لگے پردے سمیٹ کر کھڑکی کھول دی۔

سورج کی کرنوں، سمیت ایک حسین دلفریب منظر نے اسے صبح بخیر کہا اور ساتھ ہی ایک ٹھنڈا ہوا کا جھونکا اسے چھو کر گزرا۔

سب سے پہلے شنگریلا کی صاف و شفاف ہارٹ شیپ جھیل نظر آئی جس کے اعتراف میں بنے کاٹجز اور آس پاس اُگی باترتیب ہرایالی نے اس جھیل کو مزید جاذب نظر بنایا ہوا تھا۔

پھر ان سے آگے تا حد نگاہ اونچے اونچے سر سبز و شاداب پہاڑ ایک شان سے کھڑے نظر آئے جن کی چوٹیوں کو بادل بھی چھو کر گزر رہے تھے۔

غرض یہ منظر دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دنیا میں ہی جنت کی جھلک دیکھ لی ہو! لیکن اگر کوئی ساتھی ساتھ نہ ہو تو جنت جیسی حسین جگہ پر بھی دل اداس ہی رہتا ہے۔

اس نے پلٹ کر ایک نظر بیڈ پر سوئے بابک کی جانب دیکھا۔ وہ آہستہ سے چلتے ہوئے اس کی جانب آئی اور قریب بیٹھ گئی۔

اس کا چہرہ ہر طرح کے جذبات سے عاری بہت پرسکون لگ رہا تھا۔ بند آنکھوں پر جھکی پلکیں اور ماتھے پر آئے بےترتیب بالوں سمیت وہ اسے ایک بار پھر اچھا لگا۔

بےاختیاری کے عالم میں وہ اپنا ہاتھ اس کے ماتھے کے قریب لے گئی اور اس کے بال درست کرنے لگی۔

پھر ذرا سا جھک کر دھیرے سے اس کے ماتھے کو چوم لیا۔

یہ لمس محسوس ہونے پر بابک نے بھی آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں جسے وہ خود پر جھکی ہوئی ملی۔

خماری میں چور بابک نے ہاتھ بڑھا کر نہرین کا چہرہ مزید قریب کرنا چاہا تو وہ باآسانی اور پاس آگئی۔ اتنے پاس کہ دونوں کو ایک دوسرے کی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں۔

نہرین نے اپنے لبوں سے اس کے لبوں کی نرمی کو محسوس کرنا چاہا۔

لیکن اچانک ہی جیسے بابک کو ہوش آیا اور وہ اسے پرے دھکیلتے ہوئے اٹھ بیٹھا۔

وہ جو آہستہ آہستہ اس سحر میں گرفتار ہونے لگی تھی یکدم چونک گئی لیکن تب تک وہ اسے نظر انداز کرکے باتھ روم میں بند ہوچکا تھا۔۔۔۔اور اس کی تشنگی ایک بار پھر لبوں پر تشنہ ہی رہ گئی۔


دل سلگتا ہے تیرے سرد رویے پہ میرا

دیکھ اس برف نے کیا آگ لگا رکھی ہے


********************************


”ارے! یہ کیا بدتمیزی ہے؟“ اچانک موبائل ہاتھ سے چھن جانے پر احرار چونکا۔

”بدتمیزی یہ نہیں، وہ ہے جو تم کرنے والے تھے۔“ نورالعین نے موبائل ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے تصحیح کی۔

”میں بھیا کو فون کرنے والا تھا، اس میں بھلا کیا بدتمیزی ہے؟“ اس نے سوال اٹھایا۔

”وہ دونوں سب سے دور، ایک دوسرے کے ساتھ تھوڑا وقت گزارنے گئے ہیں، اب ایسے میں انہیں فون کرکے ڈسٹرب کرنا بدتمیزی ہی ہوئی ناں۔“ اس نے بھی دوبدو جواب دیا۔

”ہمم! بات تو ٹھیک ہے۔“ اس نے سر ہلایا۔

”چلو پھر تمہارے ساتھ تھوڑی بدتمیزی کرلوں؟“ اس نے یکدم نورالعین کو اپنے قریب کھینچا اور کمر کے گرد بازو حمائل کرلیا۔

مگر اس سے قبل کہ وہ کوئی خوبصورت سی گستاخی کرتا، جھولے میں لیٹے آریز نے اچانک ہی رونا شروع کردیا۔

"یار! جب بھی ہم تھوڑا سا قریب ہونے لگتے ہیں یہ عین اسی وقت پر رونا کیوں شروع کرتا ہے؟“ زچ ہوا احرار کب سے اس سوال کے جواب کی تلاش میں تھا جو اسے اب تک نہیں ملا تھا۔


********************************


ناشتے کے بعد بابک صوفے پر بیٹھا بڑے ہی انہماک سے ایل ای ڈی پر کوئی ٹاک شو دیکھ رہا تھا۔ تب ہی یکدم چینل تبدیل ہوگیا اور ٹاک شو کی جگہ اب وہاں ایک گیت چلنے لگا۔

اچانک حملے پر اس نے چونک کر گردن موڑی تو علم ہوا کہ نہرین نے چینل تبدیل کیا ہے جو کہ ہنوز ریموٹ ہاتھ میں لئے کھڑی تھی اور اب اس نے گیت کی آواز بھی تھوڑی بلند کردی تھی۔

”یہ کیا حرکت ہے؟ ریموٹ ادھر دو۔“ وہ سختی سے بولا۔

”نہیں! یہ میرا فیورٹ سانگ ہے، مجھے یہ سننا ہے۔“ اس نے بھی ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا۔

”میں نے کہا ریموٹ دو مجھے۔“ اب کہ وہ برہمی سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔

”نہیں دیتی، کیا کرلو گے؟“ اس نے کہتے ہوئے ریموٹ اپنے پیچھے کرلیا۔

”ابھی بتاتا ہوں۔“ وہ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے اس کی جانب آیا۔

اس کے ارادے بھانپتے ہوئے وہ بھی جلدی سے الٹے قدم پیچھے ہوئی تا کہ اس کی پکڑ میں آنے سے بچ سکے۔

نتیجاتاً دونوں کے بیچ پکڑم پکڑائی شروع ہوگئی۔

نہرین ریموٹ لے کر مسکراتے ہوئے کبھی صوفے کے پیچھے، کبھی گیلری کے پاس تو کبھی پردوں سے الجھتے ہوئے ہنوز اسے تنگ کر رہی تھی۔

یہ کمرہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ بابک اسے ایک جھٹکے میں پکڑ نہ پاتا، مگر وہ بھی اب غیر محسوس انداز میں غصہ بھول کر اس کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اسے پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے جان بوجھ کر بھاگنے دے رہا تھا۔

مگر یکدم ہی کمرے کے وسط میں آکر بابک نے اسے پیچھے سے دبوچا اور اس کے ہاتھ سے ریموٹ لینے کی کوشش کرنے لگا جبکہ وہ بھی ڈھیٹ بنی ریموٹ پر گرفت سخت کرتی جا رہی تھی۔

ان کے مسکراتے چہروں سے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان کا مقصود ریموٹ حاصل کرنا نہیں بلکہ یوں ہی کھیلنا ہے۔

اسی شریر زور آزمائی کے دوران دونوں توازن برقرار نہ رکھ پائے اور بیڈ پر گرے۔

نہرین نیچے تھی جس کا دایاں ہاتھ اس کی اپنی کمر کے نیچے تھا اور اس کی مٹھی میں ریموٹ دبا ہوا تھا۔ جبکہ اسی ہاتھ کی کلائی بابک کے ہاتھ کی گرفت میں تھی جو دوسرا ہاتھ بیڈ پر ٹکائے اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔

”سانسوں کو سانسوں میں ڈھلنے دو ذرا“

”بانہوں میں ہم کو پگھلنے دو ذرا“

”لمحوں کی گزارش ہے یہ پاس آجائیں“

”ہم۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم تم“

دونوں کی بیچ اب مزاحمت تھم چکی تھی۔ وہ پھولتی سانسوں اور بےترتیب ہوتی دھڑکنوں سمیت خاموشی سے بس ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے۔ جب کہ کمرے میں صرف اس خوبصورت گیت کی آواز سنائی دے رہی تھی جو ایل ای ڈی پر چل رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گویا کسی نے یکدم ہی کوئی خوبصورت سا سحر پھونک کر ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

نہرین نے ریموٹ چھوڑتے ہوئے کمر کے نیچے سے اپنا ہاتھ نکالا جس کے باعث بابک نے بھی اس کی کلائی چھوڑ دی۔ نہرین نے اپنا وہ ہی ہاتھ نرمی سے اس کے گال پر رکھا جبکہ اس کا بایاں ہاتھ پہلے سے ہی بابک کے کندھے پر تھا۔

اس سے قبل کہ دونوں ہی مدہوشی میں ڈوب کر کہیں کھوتے بابک کو یکدم اس کے چھونے سے گویا ہوش آیا اور اگلے ہی پل وہ تیزی سے پیچھے ہوتے ہوئے کھڑا ہوگیا۔ جس چہرے پر ابھی چند لمحوں قبل شریر سی مسکراہٹ تھی اب وہ پھر سے سپاٹ ہوچکا تھا۔

وہ جانے ہی لگا تھا کہ نہرین نے بھی اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اپنے نازک ہاتھ سے اس کی آہنی کلائی پکڑ لی۔

”بس کردو بابک! اتنی نفرت بھی اچھی نہیں ہوتی۔“ اس کا لہجہ درد سے چور تھا۔

”محبت کرکے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا ہے مجھے۔“ اس نے بھی تلخی سے جواب دیا اور ہاتھ چھڑا کر تیزی سے باہر نکل گیا۔ جبکہ وہ وہیں، ویسے ہی بیٹھی رہ گئی۔

ایسا ٹوٹا ہے تمناؤں کا پندار کہ بس

دل نے جھیلے ہیں محبت کے وہ آزار کے بس

کل بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑے تھے دونوں

درمیاں آج بھی پڑتی ہے وہ دیوار کہ بس

محسن نقو

نظامِ قدرت چلتا رہا اور عروج کو الوداع کہہ کر اب سورج بھی واپسی کی راہ پر گامزن ہوگیا جس کے باعث شام نے اپنے پر پھیلانا شروع کردیے۔

”ناشتے کے بعد سے ہی پتا نہیں کہاں چلے گئے ہیں؟ اور یہ بھی بتا کر نہیں گئے کہ کب تک واپس آئیں گے؟ اب میں یہاں اکیلی بیٹھی بور ہو رہی ہوں، اسی لئے تمھیں فون کرلیا۔“ نہرین نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے منہ بسور کر بتایا۔

”فکر مت کرو، وہیں کہیں آس پاس جگہ کا جائزہ لینے گیا ہوگا جلد ہی آجائے گا، اور بتاؤ، وہاں کا موسم اور ماحول کیسا ہے؟“ نورالعین نے تسلی دیتے ہوئے موضوع بدلا۔

”سب بہت اچھا ہے سوائے بابک کے، اور موسم دیکھ اور تو لگ رہا ہے کہ جیسے بارش ہوجائے گی۔“ اس نے اسی انداز میں بتایا۔

”اچھا سنو اگر بارش ہو تو بادل گرجنے اور بجلی چمکنے پر تم ڈر کے مارے اس سے چپک جانا۔“ اس نے اچانک مشورہ دیا۔

"لیکن کیوں؟ مجھے تو ان سب سے ڈر نہیں لگتا، اتنا وقت تنہا گزارا ہے عادت ہے مجھے انہیں فیس کرنے کی۔“ وہ اس کی بات سمجھی نہیں۔

”ارے پاگل! سمجھا کرو، بابک پر چڑھے خول کو توڑنا ہے تو اس کے جذبات کو ہوا دینی ہوگی، کیونکہ ان کے بھڑکنے کی حرارت سے ہی یہ خول پگھلے گا۔“ اس نے رازداری سے سمجھایا۔

”ٹھیک ہے، کوشش کروں گی۔“ اس نے سمجھتے ہوئے گہری سانس لی۔

********************************

بابک کب سے بےمقصد یہاں وہاں گھومتے ہوئے آس پاس کا جائزہ لے رہا تھا۔ یہ جگہ بلاشبہ بہت حسین تھی، مگر اس کے دل پر ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی جس کا سبب بھی وہ خود ہی تھا۔

وہ ان ہی سب سوچوں میں گم دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں ڈالے چلا جا رہا تھا کہ تب ہی کسی سے ٹکرایا۔

”سوری دوست۔“ بابک نے جلدی سے معذرت کی اور ٹکرانے والے کو دیکھنے لگا۔

وہ بھی بنا کوئی جواب دیے اسے ہی دیکھ رہا تھا یا پھر یہ کہنا درست ہوگا کہ شاید پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا۔ بابک کو بھی وہ چہرہ کچھ شناسا لگا مگر کہاں دیکھا ہے؟ یہ یاد نہیں آیا۔

اس سے قبل کہ بابک اس سے کچھ بات چیت کرتا وہ شخص اسے گھورتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔

وہ کچھ لمحے تو ناسمجھی و حیرانی کی سی کیفیت میں ایسے ہی کھڑا رہا۔ پھر سر جھٹک کر کندھے اچکاتے ہوئے وہ بھی آگے بڑھ گیا۔

اس بات سے بے خبر کہ اس سے کوئی شخص نہیں بلکہ آنے والا طوفان ٹکرایا ہے۔


*******************************

پورا دن باہر برباد کرنے کے بعد بلآخر اب بابک رات کے دس بجے واپس ہوٹل آگیا تھا وہ بھی صرف اس لئے کہ باہر بارش شروع ہوگئی تھی ورنہ وہ رات بارہ ایک بجے سے قبل واپس نہیں آتا۔

کمرے میں داخل ہوکر ایک لمحے کیلئے وہ ٹھٹک کر دروازے پر ہی رک گیا۔

کمرے کی لائٹس بند تھیں صرف نائٹ بلب جل رہا تھا۔ جبکہ سامنے رکھے سنگل صوفے پر نہرین اطمینان سے براجمان تھی جس نے ریڈ شیفون کی باریک ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ جس کا بلاؤز بنا آستینوں اور کافی گہرے گلے کا تھا۔ اگر یہ کہا جاتا کہ اس ہوشربا ساڑھی میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی تو غلط نہ تھا۔

وہ اپنی جگہ پر سے اٹھی اور ایک ادا سے چلتے ہوئے اس کے پاس آئی۔

اس نے سب سے پہلے دروازہ لاک کیا اور پھر اس کی جانب متوجہ ہوئی جو حیران سا کھڑا تھا۔

”کیا ہوا؟ اتنے حیران پریشان کیوں ہو؟“ اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک ادا سے پوچھا۔

”نہیں۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔میں کہاں حیران ہوں؟“ وہ صاف مکر گیا۔

”اچھا! لیکن لگ تو رہا ہے۔“ اس کی آنکھوں میں باقاعدہ شرارت ناچ رہی تھی۔

درحقیقت اس خوابناک ماحول میں اپنی بیوی کو اس ہوشربا روپ میں دیکھ کر نا صرف اس کی دھڑکیں بےترتیب ہوئی تھیں بلکہ پرشوخ جذبات نے بھی انگڑائی لینا شروع کردی تھی۔ لیکن وہ بات الگ تھی کہ اس نے یہ سب نہ ماننے کی قسم کھا رکھی تھی۔

”یہ دیکھو! میں نے اپنے لمبے لمبے ناخن بھی کاٹ لئے، اس دن تم نے مجھے ٹوکا تھا ناں! اب خوش؟“ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے کیے۔ مخروطی انگلیوں کے ناخن واقعی تراش لئے گئے تھے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”اچھا بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں؟“ اس نے اٹھلا کر جاننا چاہا۔

”یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ اور کس لئے؟“ اس نے اپنا دھیان بھٹکانے کیلئے موضوع بدلا۔

”وہ حلیہ بنایا ہوا ہے جو تمہارے سوا اور کسی کے سامنے نہیں بنا سکتی، اور خاص تمہارے لئے بنایا ہے۔“ نہرین نے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔

اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتا زور سے بجلی کڑکی اور ساتھ ہی لائٹ بھی چلی گئی۔ کمرے میں موجود رہی سہی روشنی بھی ختم ہوگئی۔ باہر بارش شروع ہوچکی تھی۔ اور اب کی بار جیسے ہی بادل گرجے تو وہ ڈر کر فوراً اس کے سینے سے لگ گئی۔

”یہ کیا حرکت ہے؟“ وہ یکدم سٹپٹایا۔

”مجھے بادل اور بجلی کی آواز سے ڈر لگتا ہے۔“ اس نے نورالعین کا رٹایا ہوا سبق دہرایا۔

اس کے اس قدر قربت پر بابک کیلئے خود پر ضبط کرنا ہر گزرتے پل کے ساتھ مشکل ہوتا جا رہا تھا جس کا ملائم وجود اور اس سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو اس کے ہوش اڑا کر اسے بہکانے لگی تھی۔

تب ہی جنریٹر آن ہونے کے باعث لائٹ آگئی۔ لیکن بارش ہنوز جاری تھی۔

ہمت جمع کرکے بابک نے اسے خود سے الگ کیا اور واپس کمرے سے باہر جانے کیلئے قدم بڑھائے۔

مگر ایک پل بھی برباد کیے بغیر نہرین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر یہ کوشش ناکام بنا دی اور کھینچ کر واپس اپنے سامنے کیا۔

”بس بہت ہوگیا بابک! آج فیصلہ کر ہی دو، میں تھک گئی ہوں اس ہاں اور نہیں کے بیچ جھولتے ہوئے۔“ اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔

”تم اپنی مرضی سے جھول رہی ہو، میں نے تو شادی کی پہلی رات ہی تمھیں راستہ الگ کرنے کی آفر کی تھی۔“ اس کا انداز بےنیاز تھا۔

”مجھے نہیں چاہیے تمہاری یہ آفر، مجھے تمہاری محبت چاہیے، وہ محبت جو کبھی تمہاری آنکھوں میں میرے لئے ہوتی تھی، وہ محبت جس کی وجہ سے تم مجھے کھونے سے ڈرتے تھے، تمھیں یاد ہے اس دن ریلوے اسٹیشن پر جب تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا بنا بولے اور کچھ نہیں سمجھی میں؟ تو اس کا جواب آج دیتی ہوں کہ ہاں سمجھ گئی تھی میں۔۔۔۔تمہارے بولے بنا ہی ہر بات سمجھ گئی تھی میں۔۔۔۔۔لیکن وقت کا تقاضا تھا کہ مجھے سمجھ کر بھی ناسمجھ رہنا پڑا، میں مانتی ہوں کہ غلط فہمی کا شکار ہوکے میں نے تم لوگوں کے ساتھ بہت برا کیا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ تم لوگوں سے دور جانے کے بعد ہمیشہ مجھے تم لوگوں کی یاد آئی، اور تمھیں تو میں ایک پل کیلئے بھی نہیں بھولی، بابک خدا نے تو نماز کے دوران انجانے میں ہوجانے والی غلطی کی معافی کیلئے سجدہ سہو رکھا ہے، تو کیا تم انسان ہوکر میری ایک غلطی درگزر نہیں کر سکتے؟ کیوں بنے ہوئے ہو اتنے سنگدل؟ کیوں تمھیں میری محبت نظر نہیں آرہی؟ کیوں پرانی باتیں سینے سے لگائے بیٹھے ہو؟ تم تو ایسے نہیں تھے، تو پھر کیوں۔۔۔کیوں؟“

اس کے ضبط کے بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ وہ اس کی شرٹ دونوں ہاتھوں میں لئے روتے ہوئے دیوانہ وار کہتی چلی گئی اور بابک نے بھی اسے نہیں روکا ٹوکا۔

”تم نے ٹھیک کہا کہ میں اپنی مرضی سے اس ہاں نہیں کی کیفیت میں جھول رہی ہوں، اور اب تم ایک بار ہی یہ قصہ ختم کرو، مجھے ابھی کے ابھی طلاق دو۔“ گال پر بہتے آنسو صاف کرتے ہوئے وہ دوبدو ہوئی۔

”کیسی پاگلوں والی باتیں کر رہی ہو نہرین، ہوش میں آؤ۔“ اب اسے بھی معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔

”ہوش میں ہی آئی ہوں، ورنہ اب تک تو تمہاری محبت کی غلط فہمی میں مدہوش تھی۔“ اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔

”بس تم ابھی کے ابھی مجھے طلاق دو، تا کہ تمھیں مزید مجھے برداشت نہ کرنا پڑے۔“ وہ بضد تھی۔

”کہاں جاؤ گی مجھ سے طلاق لے کر؟“ اس نے بات کا رخ دوسری جانب کرنا چاہا۔

”کہیں بھی چلی جاؤں گی، مگر تم سے کم از کم بہت دور۔“ وہ بالکل ٹوٹ کر ہار چکی تھی۔

”نہرین میری بات سنو۔“ بابک نے اسے بازؤں سے تھام کر سمجھانا چاہا۔

”نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بھی بات، سوائے جلی کٹی، دل جلانے والی باتوں کے علاوہ کوئی بات کرنی آتی ہے تمھیں؟“ اس نے غصے کے عالم میں ہاتھ ہٹاتے ہوئے بات کاٹی۔

”دو منٹ تحمل سے سنو تو سہی۔“ اس نے منت کی۔

”کہا ناں نہیں سننی، اور اب تم صبح تک فیصلہ کرکے بتا دو کہ طلاق یہیں دو گے یا واپس جا کر؟ اور جب بھی دو حق مہر نہیں چاہیے مجھے، رکھنا اسے اپنے ہی پاس۔“ وہ تڑخ کر کہتے ہوئے تیزی سے جا کر باتھروم میں بند ہوگئی۔

جبکہ اپنے ہاتھوں سب برباد کرنے بعد وہ حیران پریشان سا وہیں کھڑا رہ گیا۔

تھوڑے حواس بحال ہونے پر وہ گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ اپنی فضول سی ضد میں آکر یہ کیا کردیا؟

کافی دیر ایسے ہی گزر گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ نہرین اب تک باتھروم سے باہر نہیں آئی ہے۔ یکدم اسے خیال چھو کر گزرا کہ کہیں اس نے اپنے ساتھ کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

اس خیال سے ہی اس کی روح کانپ گئی تھی۔

وہ برق رفتاری سے اٹھ کر باتھروم کی جانب آیا اور دروازہ بجانے لگا۔

”نہرین۔۔۔۔نہرین۔“ اس نے دستک دیتے ہوئے پکارا۔

مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہیں آیا جو کہ اس کی تشویش میں اضافے کا باعث تھا۔

”نہرین! دروازہ کھولو۔“ اب کی بار اس نے تھوڑے غصے میں حکم دیا۔

”کیوں کھولوں؟“ جلا بھنا جواب آیا جس سے بابک کو تسلی ہوئی کہ وہ ٹھیک ہے۔

دوسری جانب وہ باتھروم کے دروازے سے ٹیک لگائے دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے ہوئے بیٹھی رو رہی تھی۔

”مجھے تم سے بات کرنی ہے۔“

”مگر مجھے نہیں کرنی۔“

”کیوں نہیں کرنی؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے تک تو تم یہ ہی چاہتی تھی ناں؟“

”ہاں چاہتی تھی، مگر تھوڑی دیر پہلے تک تمہارا رویہ جو تھا میرے ساتھ کیا وہ ٹھیک تھا؟ میں نے بھی تو شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک کتنی منتیں کیں تمہاری، کیا تم نے سنی تھی میری بات؟“ اس نے دکھ سے یاد دلایا۔

”اچھا ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ مجھ سے غلطی ہوئی ہے، اب پلیز دروازہ تو کھولو تا کہ میں وضاحت کرسکوں۔“ اس نے اعتراف کیا اور ساتھ ہی وہ بھی دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔

”واہ! تم سے غلطی ہوئی اور تم چاہتے ہو کہ ایک بار اعتراف کرنے پر ہی تمھیں معاف کردیا جائے؟ تو کیا میری غلطی قابلِ معافی نہیں تھی جو تم نے اسے اتنی بار بےدردی سے رد کیا؟“ وہ سارا حساب کتاب برابر کرنے کے موڈ میں تھی۔

”کہہ تو رہا ہوں کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، اب پلیز میری بات سن لو۔“ وہ عاجزی سے بولا۔

”نہیں! اگر اب تک جو تم کرتے آئے ہو وہ تمہارا حق تھا تو اب جو میں کر رہی ہوں یہ میرا حق ہے، شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک تم نے بہت دل دکھایا ہے میرا، بہت رلایا ہے مجھے، اب اور ہمت طاقت نہیں ہے مجھ میں رونے کی، لہٰذا مجھے ایک بار ہی آزادی دے دو اس درد سے، روز روز مارنے سے بہتر ہے ایک بار ہی ہمیشہ کیلئے مار دو۔“ اس کا درد سے چور لہجہ بابک کے دل پر چھریاں چلا رہا تھا۔

”نہرین! پلیز مجھ میں تمہارے جتنا حوصلہ نہیں ہے، مجھ پر اتنا ظلم مت کرو، ایک بار میری بات سن لو۔“ وہ بےبسی کی انتہا پر تھا۔

”یہ ظلم تو اس کا آدھا بھی نہیں ہے بابک صاحب جو اب تک آپ مجھ پر کرتے آئے ہیں۔“ وہ استہزایہ بولی۔

”میں نے تم سے تمہاری مہربانی نہیں محبت مانگی تھی، اور مجھے حق سے ملی نفرت تو قبول ہے، مگر بھیک میں ملی ہوئی محبت نہیں چاہیے، اب تک اگر میں تمہاری ساری زیادتیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہر بار ہمارے رشتے کو ایک نیا موقع دے رہی تھی تو ایک امید پر، ایک حد تک کہ شاید سب ٹھیک ہوجائے گا، لیکن اب وہ حد ختم ہوگئی ہے۔“ وہ واقعی درد کی انتہا پر تھی۔

”اور اگر تمہارے دل میں واقعی زرہ برابر بھی محبت باقی ہے ناں تو پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو، مجھے نہیں کرنی اس وقت تم سے کوئی بھی بات۔“ نہرین نے اسی کا وار اسے لوٹایا۔

اب اس سے آگے وہ مزید کیا کہتا؟ بات اس کی محبت پر آگئی تھی اسی لئے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ وہ شکستہ انداز میں وہاں سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ وہ گھٹنوں پر سر رکھے بلک بلک کر رو پڑی۔


یوں ہی رنجشوں میں گزر گئے

کبھی میں خفا، کبھی وہ خفا

چاہتوں کے حسین موڑ پر

کبھی میں رکا، کبھی وہ رکا

وہ ہی راستے، وہ ہی منزلیں

نہ اسے خبر، نہ مجھے پتا

بس اپنی اپنی انا میں گم

کبھی میں جدا، کبھی وہ جدا


انتخاب


********************************


”تمھیں پکا یقین ہے آصف کہ وہ وہی تھا؟ ہوسکتا ہے تمھیں مغالطہ ہوا ہو؟“ جہاں آرا نے تصدیق چاہی۔

”جی مام وہ اسی آئی او کا بھائی تھا، میں نے اس کے بارے میں ساری معلومات نکلوالی ہے، وہ اپنی بیوی کے ساتھ یہاں آیا ہے اور شنگریلا لیک کے پاس ہوٹل میں رکا ہے۔“ اس نے موبائل ایک کان سے دوسرے میں منتقل کرتے ہوئے تفصیل دے کر یقین دلایا۔

”تو پھر اب تم کیا چاہتے ہو؟“ وہ ڈائینگ ٹیبل کے گرد رکھی کرسی کھینچ کر بیٹھے ہوئے اصل مدعے پر آئیں۔

”میں اُس آئی او سے اپنا پرانا حساب برابر کرنا چاہتا ہوں، پہلے جب میں نے کوشش کی تو آپ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ مرتضیٰ شیخ جب اسے راستے سے ہٹائے گا تو ہمارا بدلہ بھی پورا ہوجائے گا، لیکن وہ تو الٹا خود جیل چلا گیا، جب اس کی ڈیوٹی بحال ہوئی تھی اس وقت بھی میں نے اس آئی او کی جان لینی چاہی تھی مگر ایلیکشن سر پر ہونے کی وجہ سے آپ نے مجھے روک دیا اور کہا اسے بعد میں دیکھیں گے، لیکن اب میں اور صبر نہیں کرسکتا، اس آئی او نے جو مجھے ڈبل كراس کرکے جیل پہنچایا تھا اس کا بدلہ میں اس کے بھائی کی جان لے کر پورا کروں گا۔“ اس کے ضدی انداز میں عجیب سا جنون تھا۔

”جان لینا بچوں کا کھیل لگتا ہے تمھیں؟“ وہ اس کے ارادوں سے متفق نہیں تھیں۔

”مام یہ میرے لئے نیا نہیں ہے، یاد ہے ناں وہ لڑکا جس نے مجھے حنا کا ریپ کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا؟ اسے بھی تو میں نے مارا تھا ناں اور آپ نے اس کی لاش ٹھکانے لگوا کر کیس دبا دیا تھا، تو یہ کیس بھی آپ ایسے ہی دبا دیجئے گا۔“ وہ بےرحمی سے سارے حل تیار کیے بیٹھا تھا۔

”وہ ایک لاوارث لڑکا تھا اسی لئے بات زیادہ پھیلی نہیں تھی، لیکن یہ ناصرف آئی او کا بھائی ہے بلکہ خود بھی نامی گرامی بزنس مین ہے، اگر غلطی سے بھی اس کے قتل میں تمہارا نام آگیا تو ہم بہت برا پھنسیں گے۔“ انہوں نے دونوں صورت حال کا فرق واضح کیا۔

”کچھ نہیں ہوگا مام! میں پورا خیال رکھوں گا، بس آپ مجھے اجازت دے دیں۔“ وہ بضد تھا۔

”ٹھیک ہے۔“ انہوں نے گرین سگنل دے دیا جس کے باعث اس کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ امڈ آئی۔


********************************


نیا سویرا جلوہ افروز ہوچکا تھا۔ نہرین بند کانچ کی کھڑکی سے سر ٹکا کر کھڑی خالی خالی نظروں سے باہر کا حسین و دلفریب منظر دیکھ رہی تھی جس کا حسن اس وقت اسے بالکل متاثر نہیں کر رہا تھا کیونکہ اس کے اندر کا موسم جو اداس تھا۔

وہ واپس اپنے پرانے حلیے میں آگئی تھی ہاں مگر آنکھوں میں اب وہ پرانی والی چمک باقی نہ رہی تھی۔

اس نے گردن گھما کر ایک نظر وال کلاک کی جانب دیکھا جو صبح کے ساڑھے آٹھ بجنے کی اطلاع دے رہی تھی اور پھر دوبارہ اسی حالت میں کھڑی ہوگئی۔

پوری رات گزر گئی تھی اور بابک ابھی تک واپس نہیں آیا تھا جو اس کیلئے ناچاہتے ہوئے بھی باعثِ تشویش بات تھی۔

وہ ان ہی سوچوں میں گم تھی کہ کمرے کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔

اس نے یکدم پلٹ کر دیکھا تو بابک کمرے میں داخل ہوا تھا۔

وہ اس وقت بھی اسی جینز ٹی شرٹ کے اوپر بلیک جیکٹ پہنا ہوا تھا جو اس نے کل زیب تن کیے تھے۔

مگر اس کی آنکھیں ایسی ویران اور سرخ تھیں جیسے ساری رات روئی ہوں۔ چہرے پر بھی عجیب اداسی طاری تھی جس پر بےترتیب بالوں نے مزید گرہن لگا دیا تھا۔

اس کی یہ حالت دیکھ کر ایک لمحے کیلئے نہرین کے دل کو کچھ ہوا۔ مگر اگلے ہی پل اس نے خود پر قابو کرتے ہوئے نظریں واپس کھڑکی سے باہر کے مناظر پر مرکوز کرلی۔

بابک نے آگے بڑھ کر اپنے بیگ سے کپڑے نکالے اور ایک سرسری سی نظر نہرین پر ڈالتے ہوئے باتھروم میں چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ گیلے بالوں کو تولیے سے رگڑتے ہوئے باہر آیا جس پر ہنوز نہرین نے کوئی توجہ نہیں دی۔

اس نے حسب معمول گیلا تولیہ بیڈ پر پھینکا اور بال بنانے کیلئے ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ بالوں کو ترتیب دینے کے بعد وہ برش واپس رکھ کر چند قدم اس کی جانب بڑھا اور کچھ فاصلے پر رک گیا۔

”نہرین۔“ اس نے پکارا۔

اس نے بجائے جواب دینے کے بس نظروں کا زاویہ بدل کر باہر کے بجائے نظریں بابک پر کرلیں جس کا مطلب تھا کہ

”ہاں بولو؟“

”تمھیں مجھ سے طلاق چاہیے ناں؟“ اس نے تائید چاہی۔

”جب تم بھی اول روز سے یہ ہی چاہتے ہو تو ظاہر ہے میں اکیلی اس رشتے کو نبھا کر کیا کروں گی؟“ گول مول جواب ملا۔

”ٹھیک ہے، آج شام چھے بجے تک تیار رہنا، تمہاری یہ خواہش بھی پوری کردوں گا۔“ اس نے تاسف سے کہا اور بنا مزید کوئی بات کیے تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گیا۔

وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کہہ پائی بس اسے خود سے دور جاتا ہوا دیکھتی رہ گئی۔


********************************


”گڈ! اب آپ جا سکتے ہیں۔“ احرار نے فائل پڑھنے کے بعد اسے بند کرتے ہوئے سامنے کھڑے شخص کو اجازت دی تو وہ سر ہلا کر واپس چلا گیا۔

بابک کی غیر موجودگی میں فی الحال احرار آفس کے معاملات دیکھ رہا تھا۔

احرار نے فائل میز پر رکھی اور اپنے موبائل میں کوئی نمبر ڈائل کرکے کان سے لگایا۔

”آپ کا مطلوبہ صارف اس وقت آپ کے صاحبزادے کے پیمپر بدلنے میں مصروف ہے، براہ مہربانی انتظار کرنے کہ بجائے آپ بھی دوسرے کام کریں۔“ کال ریسو ہوتے ہی نورالعین کی آواز آئی جس پر وہ بےساختہ مسکرا دیا۔

”کوئی بات نہیں، ہم صارف کے فارغ ہونے تک انتظار کرلیں گے۔“ اس نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔

”فراغت تو اب تم بھول ہی جاؤ کہ مجھے ملے گی۔“ اس نے خوش فہمی دور کی۔

”کیوں! تمھیں کون سا ملک کے معاملات چلانے ہیں جو مصروف ہو؟“ وہ کرسی پر جھولنے لگا۔

”ملک شہری سے بنتا ہے، اور ایک فرد کو اچھا شہری بنانے کیلئے اس پر محنت بھی کرنی پڑتی ہے جو کہ والدین اور خاص طور پر ماں کا فرض ہے، ایک ماں کی ذمہ داری نبھانا آسان کام نہیں ہوتا۔“ اس نے فلسفہ دیا۔

”یہ آسان نہیں ہے تب ہی تو اس مشکل کے بدلے خدا نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے اور گھر کے کام کاج کا ثواب جہاد کے برابر دیا ہے۔“ وہ ٹھہرے ہوئے انداز میں بولا جو کہ بالکل درست تھا۔

”اچھا خیر یہ بتاؤ کہ آریز کو دوبارہ بخار تو نہیں ہوا؟“ وہ اصل موضوع پر آیا۔

”نہیں! الحمدللہ ابھی بہتر ہے۔“

”چلو شام میں تیار رہنا تم دونوں، میں آفس سے واپس آجاؤں پھر اسے ڈاکٹر کے پاس لے چلیں گے اور ڈنر بھی باہر ہی کرلیں گے، بس اب شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے پلان ترتیب دیتے ہوئے آخری جملہ شرارت سے کہا۔


********************************


گھڑی کی سوئی نے تیزی سے حرکت کی جس کے باعث اب وہ چھے کے ہندسے کے قریب پہنچ چکی تھی۔

نہرین نے خود کو شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنا سرسری سا جائزہ لیا۔

موسم کی مناسبت سے اس نے ویلوٹ کا ڈارک پرپل سوٹ پہنا تھا جس کی فل آستینیں اس کی ان کلائیوں پر آکے ختم ہو رہی تھیں۔

آدھے بالوں میں کیچر لگا کے دوپٹہ گلے میں لینے کے بعد اس نے اپنے گرد شال اوڑھ لی کیونکہ یہاں کا موسم کافی سرد تھا۔

”چلیں؟“ یکدم بابک کی آواز آئی۔

اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں بازو سینے پر باندھے دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا اس کے سوگوار حسن کو ہی دیکھ رہا تھا۔ وہ غالباً ابھی ابھی کمرے میں آیا تھا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ اس کی جانب بڑھی اور کمرے سے باہر آگئی جس کا مطلب تھا کہ

”ہاں چلو۔“

دونوں باہر آئے تو وہاں بابک کی بک کی گئی گاڑی موجود تھی۔ نہرین فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔ بابک نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی اور گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن ہوگئی۔

اس بات سے یکسر بےخبر کے اس کے تعاقب میں کوئی آرہا ہے۔


********************************


کچھ دیر سفر کے بعد وہ لوگ اپنی منزل پر پہنچ گئے جو نہرین کیلئے بالکل انجان تھی اور وہ یہ جگہ دیکھ کر مبہوت رہ گئی۔

یہ کسی بڑے دریا کا کنارہ تھا جہاں cabana beach dining جیسا ایک چھوٹا سا خوبصورت سیٹ اپ لگایا گیا تھا جو ڈھلتی شام کی ملگجے روشنی میں جگمگ کرتا نہایت حسین لگ رہا تھا۔

”بیٹھو۔“ بابک نے اس کیلئے کرسی کھینچی۔

”مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟“ سپاٹ لہجے میں سوال آیا۔

”تمھیں طلاق چاہیے تھی ناں؟ وہی دینے لایا ہوں۔“ اس نے تاسف بھرے اطمینان سے بتایا۔

”تو اس کیلئے اتنی تیاری کرنے کی کیا ضرورت تھی؟“ انداز ہنوز سپاٹ تھا۔

”ہماری طلاق میں کچھ تو الگ ہونا چاہئے، میں چاہتا ہوں کہ ہم الگ بھی بہت شاندار انداز میں ہوں۔“ وہ مبہم سا مسکرایا۔

وہ کچھ نہ بولی اور چپ چاپ کرسی پر بیٹھ گئی۔ بابک بھی اس کے مقابل بیٹھا۔

یہ سب کچھ بہت حد تک ویسا تھا جیسا اکثر بابک خواب میں دیکھا کرتا تھا۔ بس فرق اتنا تھا کہ خواب میں وہ اس کے ساتھ سفر شروع کرنے کی اجازت کا طلبگار ہوتا تھا۔ اور حقیقت میں اسے وہ ہی سفر ختم کرنا تھا۔

”اگر تم برا نہ مانو تو ایک کہانی سناؤں؟“ بابک نے اجازت چاہی۔

”آج سے پہلے کون سا تم نے کوئی کام میری اجازت سے کیا ہے؟“ انداز تیکھا تھا۔

وہ پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے گویا ہوا۔

”آج سے کچھ سال پہلے کی بات ہے، شہر میں ایک بگڑا ہوا، آوارہ، لڑکا ہوا کرتا تھا، جس کا کام بس اپنے باپ کے پیسوں پر عیش کرنا، دوسروں کو زچ کرنا، اور موج مستی میں مگن رہنا تھا۔

لیکن پھر اس کے ساتھ اچانک ایک حادثہ ہوا جس نے اسے بدل کر رکھ دیا، اسے اپنی غلطیوں کا احساس ہوگیا، وہ سارے برے کام چھوڑ کر سیدھی راہ پر آگیا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ دوسروں کو تنگ کرکے ان کیلئے مصیبت نہیں بنے گا بلکہ مصیبت زدہ کی مدد کرے گا۔

تب ہی ایک دن اچانک اسے ایک لڑکی ملتی ہے جو شدید مشکل میں ہوتی ہے، وہ انسانی ہمدردی کے تحت اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، اسے اپنے گھر لے آتا ہے اور اس کے مسلے حل کرنے کی جدوجہد میں لگ جاتا ہے۔

اسی دوران اسے لڑکی سے محبت ہوجاتی ہے، وہ اظہارِ محبت کرنا چاہتا ہے مگر پھر یہ سوچ کر رک جاتا ہے کہ کہیں وہ اس کی محبت کو ترس نہ سمجھ لے! اسی لئے وہ فیصلہ کرتا ہے کہ پہلے اس لڑکی کو مسلوں سے نکالے گا پھر اپنی محبت کا اظہار کرے گا۔

تب ہی ایک روز کوئی اس کی پیٹھ پر خنجر گھونپ دیتا ہے، وہ درد سے بلبلا اٹھتا ہے، اسے پتا نہیں ہوتا کہ یہ درد کس نے دیا ہے؟

وہ اس سوال کی تلاش میں بھی سرگرداں ہوجاتا اور ساتھ ہی ہر نیا دن اپنے ساتھ یہ خوف بھی لے کر آتا ہے کہ کہیں آج وہ لڑکی اس سے دور نہ چلی جائے! اسی ڈر کے ہاتھوں مجبور ہوکر، کچھ پل کیلئے اپنے زخم بھول کر وہ اظہارِ محبت کا فیصلہ کر لیتا ہے۔ خوشی خوشی جا کر محبت کا پہلا تحفہ خریدتا ہے، اسے لے کر گھر آتا ہے، لیکن وہاں پہنچ کر وہ دیکھتا ہے کہ اسی لڑکی کے ہاتھ میں وہ خنجر تھا جس سے اس کی پیٹھ پر وار ہوا تھا۔ اور پھر وہ لڑکی اس کی زندگی سے چلی جاتی ہے۔

تب ہی چھن سے کچھ ٹوٹنے کی آواز آتی ہے، وہ چونک کر دیکھتا ہے تو زمین پر اس کے اعتبار و محبت کے وہ مینار گر کے چور چور ہوچکے ہوتے ہیں جو اس نے دل کی سب سے اونچی مسند پر اس لڑکی کیلئے سجائے تھے، اور ان کے ساتھ وہ بھی وہیں ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ مگر یہ بات کسی کو پتا نہیں لگنے دیتا۔

پھر اچانک ایک دن وہ لڑکی اسے واپس مل جاتی ہے، بھلے ہی وہ اسے زخم دے کر گئی تھی مگر محبوب تو محبوب ہوتا ہے، اسی لئے مرہم بھی اسی کے پاس تھا، وہ اسے ہمیشہ کیلئے ملنے والی ہے یہ احساس ہی چند لمحوں کیلئے سارے شکوے گلے مٹا دیتا ہے، مگر یہ دماغ بھی تو دل کی طرح ایک اہم حصہ ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہوتا ہے، تو اس کا دماغ کہتا ہے اب تھوڑی ناراضگی حق ہے تمہارا، لیکن وہ لڑکی جو اسے اتنا بڑا زخم دے کر، اس کے اعتبار کی دھجیاں اڑا کر گئی تھی، وہ یہ تھوڑی سی ناراضگی بھی برداشت نہیں کر پائی اور ایک بار پھر اس سے دور جانے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔“

کرب میں ڈوبے لہجے میں وہ آہستہ آہستہ کہتا چلا گیا اور وہ سنتی چلی گئی۔

اس کا ایک ایک لفظ نہرین کے دل پر لگا تھا جس کے باعث اس کی آنکھیں نم ہونا شروع ہوگئیں جنہیں چھپانے کیلئے وہ بےساختہ وہاں سے اٹھ کر تھوڑی دور جا کھڑی ہوئی۔

ان کا رشتہ عجیب نہج پر آگیا تھا۔ نہ ڈھنگ سے محبت کر رہے تھے نہ نفرت، نہ اظہار کر رہے تھے نہ انکار!

بابک بھی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس چلا آیا۔

”ناراضگی اور نفرت میں فرق ہوتا ہے نہرین، اور پتا ہے میں تم سے ناراض کیوں تھا؟ کیونکہ۔۔۔۔۔مجھے تمہارا منانا اچھا لگ رہا تھا۔“ اس کی گھمبیر آواز پر نہرین کا دل زور سے دھڑکا۔

”اگر میں شادی کی پہلی ہی رات تمھیں معاف کرکے سینے سے لگا لیتا تو مجھے کبھی پتا ہی نہیں چل پاتا کہ تمہارے دل میں بھی میرے لئے اتنی محبت، اتنی تڑپ ہے کہ تم میرے بنا نہیں رہنا چاہتی، میں بھی کسی کیلئے اتنا خاص ہوں کہ اسے میری نارضگی سے فرق پڑتا ہے۔۔۔لیکن اب مجھ سے دور جانے کا فیصلہ بھی تمہارا ہی ہے اس لئے میں اسے رد نہیں کروں گا۔“ اس نے دل پر پتھر رکھا۔

”میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمھیں ط۔۔۔۔۔۔“

”نہیں پلیز رکو۔“ وہ تڑپ کر کہتی اس کی جانب لپکی اور اسی پل یکدم فضا میں فائر کی زور دار آواز گونجی۔

گاڑی کی اوٹ میں چھپے آصف نے گولی چلا دی تھی اور گولی گوشت چیرتی ہوئی جسم میں پیوست ہوئی تھی جس کے باعث خون نكلنا شروع ہوا اور دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

”میں اپنے پورے ہوش و حواس میں تمھیں ط۔۔۔۔۔۔“

”نہیں پلیز رکو۔“ وہ تڑپ کر کہتی اس کی جانب لپکی اور اسی پل یکدم فضا میں فائر کی زور دار آواز گونجی۔

گاڑی کی اوٹ میں چھپے آصف نے گولی چلا دی تھی اور گولی گوشت چیرتی ہوئی جسم میں پیوست ہوئی تھی جس کے باعث خون نكلنا شروع ہوا اور دونوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

”نہرین۔“ بابک حلق کے بل چلاتے ہوئے اس کی جانب لپکا اور اس کے بےجان ہوتے وجود کو بانہوں میں لے لیا۔

گولی نہرین کے پیٹ پر لگی تھی جس سے بہت خون بہنا شروع ہوگیا تھا جب کہ اس کی سانس اکھڑنے لگی تھی۔

نشانہ چوکنے پر آصف زچ ہوکر وہاں سے بھاگا۔ بابک اسے دیکھ چکا تھا لیکن فی الحال نہرین کے آگے اسے کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا جو اس کی بانہوں میں جھولتی بےجان ہونے لگی تھی اور وہ اسے قیمتی اثاثے کی مانند خود میں بھینچتے ہوئے دیوانہ وار پکار رہا تھا۔


نئی رتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے

وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے


یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی

کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے


جمال احسانی


********************************


ہسپتال کے کوریڈور میں موجود بابک بےچینی کے عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا اور بےچینی کیسے نہ ہوتی؟ اندر اپریشن تھیٹر میں اس کی جان جو زندگی و موت کی کشمکش میں جھول رہی تھی۔

بلیک جینز پر پہنی اس کی سفید فل آستینوں والی ٹی شرٹ اور اس کے اوپر موجود سیاہ سیلو لیس جیکٹ اس خون سے سرخ ہو رہی تھی جو نہرین کو یہاں لاتے ہوئے لگ گیا تھا۔ جس کے باعث آس پاس سے گزرتے لوگ اسے تعجب خیز نظروں سے دیکھ رہے تھے مگر اسے کسی کی پرواہ ہی کب تھی؟

ایک گھنٹے سے بھی زیادہ ہوگیا تھا مگر اب تک ڈاکٹرز کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔

وہ اسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ تب ہی روم کا دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صاحب باہر آئے جنہیں دیکھ کر وہ بےتابی سے ان کی جانب لپکا۔

”کیا ہوا ڈاکٹر؟ میری وائف ٹھیک تو ہیں ناں؟“ وہ سخت گھبرایا ہوا تھا۔

”ہم نے گولی نکال لی ہے مگر ان کا خون بہت بہہ گیا ہے جو کہ باعثِ تشویش بات ہے، آپ دعا کریں کہ اگلے چوبیس گھنٹوں میں انہیں ہوش آجائے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔وی آر سوری۔“ انہوں نے پیشہ ورانہ انداز میں بتایا اور وہاں سے چلے گئے۔

وہ تو بالکل سناٹے میں آگیا تھا، اس ”ورنہ“ سے آگے اس سے سوچا بھی نہیں جا رہا تھا۔ اس خیال سے ہی روح تڑپ اٹھی تھی، دل سوکھے پتے کی مانند کانپنے لگا تھا۔

وہ بےاختیار ہی دونوں ہاتھوں سے سر تھامتے ہوئے لائن سے لگی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔

اس کے ذہن میں نہرین کی ساری یادیں پوری شدت سے جھلملا اٹھیں۔

”بابک تم ایسے تو نہیں تھے، کیوں اتنے ظالم بن گئے ہو، ٹھیک ہے میں قصوروار تھی جس کی میں نے معافی بھی مانگ لی، اب تم جو سزا چاہے دے دو سوائے اس رویے کے، میرا تمہارے سوا اور کوئی نہیں ہے اس دنیا میں، مجھے ضرورت ہے تمہاری۔“

”اب بس بھی کرو بابک! جو کچھ میں نے کیا اس کیلئے میں معافی مانگ چکی ہوں، تم بھی سب درگزر کردو، پھر ہم ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔“

”یہ دیکھو! میں نے اپنے لمبے لمبے ناخن بھی کاٹ لئے، اس دن تم نے مجھے ٹوکا تھا ناں! اب خوش؟“

”شادی کی پہلی رات سے لے کر اب تک تم نے بہت دل دکھایا ہے میرا، بہت رلایا ہے مجھے، اب اور ہمت طاقت نہیں ہے مجھ میں رونے کی، لہٰذا مجھے ایک بار ہی آزادی دے دو اس درد سے، روز روز مارنے سے بہتر ہے ایک بار ہی ہمیشہ کیلئے مار دو۔“

اس کے ذہن میں نہرین کی مختلف اوقاتوں میں کہی گئی باتیں گردش کر رہی تھیں۔ مگر اب ان یادوں کا بھی کیا فائدہ تھا؟ وہ تو شاید ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس سے دور جانے والی تھی جس کے یہ الفاظ تھے۔ جس کی آواز اب شاید یادوں کے پردوں پر ہی سنائی دے سکتی تھی۔

وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے بچوں کی طرح بلک کر رونے لگا۔ اسے اپنے آپ پر شدید غصہ آرہا تھا کہ کیوں اس نے نہرین کو اتنا ستایا؟ کیوں اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دیا؟ مگر اب یہ سارے ”کیوں“ بیکار تھے۔

یکدم اسے لگا جیسے اس کا ذہن ماؤف ہونے لگا ہے اور آنکھوں کے آگے اندھیرا آرہا ہے۔

اور تب ہی اسے اپنے کندھے پر کسی کا لمس محسوس ہوا۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا تو پاس موجود شخصیت کو دیکھ کر دنگ رہ گیا۔

”مام۔“ وہ حیران ہوا۔

اس کے برابر والی کرسی پر سفید رنگ کے لباس میں، ہونٹوں پر ایک نرم سی مسکراہٹ لئے کلثوم بیٹھی اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔

”کیا ہوا میرے بچے؟“ انداز ویسا ہی شفیق تھا۔

”مام نہرین کی حالت خطرے میں ہے، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، اگر اسے کچھ ہوگیا تو؟ میں نے بالکل بھی اچھا نہیں کیا اس کے ساتھ، اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو؟“ اس کا انداز سہمے ہوئے بچے کی مانند تھا۔

”گھبراؤ نہیں، اللہ سے اچھی امید رکھو، وہ سب اچھا کرے گا۔“ انہوں نے تسلی دی۔

اور تب ہی اسے اپنے بازو میں بہت زور سے کوئی چیز چبھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے یکدم آنکھیں کھولیں اور خود کو ہاسپٹل کے بیڈ پر پایا۔ سارا منظر ایک لمحے میں تبدیل ہوگیا تھا۔

”آر یو اوکے مسٹر؟“ پاس کھڑے ڈاکٹر نے پوچھا جنہوں نے ابھی ابھی اسے بازو پر انجکشن دیا تھا۔

”مجھے کیا ہوا تھا؟“ وہ متعجب سا اٹھ بیٹھا۔

”آپ کوریڈور میں بیٹھے روتے ہوئے بےہوش ہوگئے تھے، اسی لئے آپ کو یہاں لے آئے، اب آپ ٹھیک ہیں؟“ انہوں نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”جی ٹھیک ہوں، ڈاکٹر میری وائف کو گولی لگی تھی، وہ آپریشن تھیٹر میں ہے، اب وہ کیسی ہے؟“ اس نے جلدی جلدی بتاتے ہوئے دیوانہ وار پوچھا۔

”جی آپ کی وائف کو روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے لیکن انہیں ابھی تک ہوش نہیں آیا، ان شاءاللہ سب ٹھیک ہوگا آپ فکر نہ کریں، بس ابھی آپ کو آرام کی ضرورت ہے، آپ ریسٹ کریں۔“ ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں تسلی دی۔


********************************


بابک کو نہرین کی فکر ہو رہی تھی اسی لئے وہ ریسٹ کرنے کے بجائے ایک بار پھر متفکر سا کاریڈور میں ٹہلنے لگا تھا۔

وہ روم میں تھی مگر اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا اور یہ ہی تشویش کا باعث تھا۔

تب ہی پینٹ کی جیب میں رکھا اس کا موبائل وائبریٹ ہوا جسے پینٹ کی جیب سے نکالنے پر پتا چلا کہ احرار کا میسج موصول ہوا ہے۔ اس نے میسج اوپن کیا۔

”بھیا! سب خیریت ہے ناں؟“ اس کے میسج میں لکھا تھا۔

اس کے اوپر مزید کوئی دس پندرہ میسجز اور تھے جو کہ

”بھیا فون اٹھائیں۔“

”بھیا آپ کہاں ہیں؟“

”بھیا سب خیر ہے؟“

ان جیسے سوالوں پر مشتمل تھے۔ پھر اس نے کال لاگ چیک کیا تو اس میں بھی احرار کی کوئی بیس، پچیس مسڈ کالز تھیں۔

اس کا موبائل سائلنٹ پر تھا جس کے باعث اس سب ہنگامے میں اسے احرار کی کالز کا پتا نہیں چلا۔

وہ احرار کا نمبر ڈائل کرتے ہوئے ایک سائیڈ پر آکے کھڑا ہوگیا۔ پہلی بیل پر ہی دوسری جانب سے کال ریسیو ہوگئی۔

”بھیا کہاں تھے آپ؟“ اس کی جانب سے پہلا سوال یہ ہی آیا۔

”سوری یار تھوڑا مصروف تھا اسی لئے تمہاری کالز مسڈ ہوگئیں۔“ اس نے اپنا انداز نارمل ہی رکھا۔

”پتا ہے کتنی فکر ہو رہی تھی مجھے؟ بس صبح جو آپ سے بات ہوئی پھر دوبارہ کوئی رابطہ ہی نہیں رہا، اور آپ کے ساتھ ساتھ بھابھی کا بھی فون مسلسل بند ہے تو اور پریشانی بڑھ گئی تھی، ویسے کہاں مصروف تھے آپ؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔

”گھومنے پھرنے نکلے ہوئے تھے تو اسی میں وقت کا پتا نہیں چلا، نہرین کا فون چارج نہ ہونے کی وجہ سے آف ہوگیا اور میرا موبائل سائلنٹ پر تھا۔“ اس نے جھوٹ کہا۔

”اچھا! چلیں انجوئے کریں آپ لوگ، بس ساتھ ساتھ اپنی خیریت کا ایک میسج بھی کردیا کریں پلیز۔“ اس نے محبت سے التجا کی۔

”اچھا میری جان کر دوں گا۔“ اس نے لہجہ ہشاش بشاش رکھتے ہوئے فرمابرداری دکھائی۔

”تم بتاؤ وہاں سب ٹھیک ہے؟ نورالعین، آریز ، آفس کے معاملات؟ تم اس وقت کہاں ہو؟“ اس نے موضوع بدلا۔

”جی سب ٹھیک ہیں، میں اور نورالعین اس وقت ڈنر کیلئے ریسٹورنٹ میں موجود ہیں اور ابھی آپ کو ہی یاد کر رہے تھے۔“

”چلو تم لوگ ڈنر کرو، پھر بعد میں آرام سے بات کریں گے۔“ اس نے بات سمیٹی اور پھر دونوں جانب سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ موبائل واپس پینٹ کی جیب میں رکھ کر ایک بار پھر اس کے قدم نہرین کے روم کی جانب تھے۔

اس نے احرار کو اسی لئے کچھ نہیں بتایا کیونکہ اتنی دور ہونے کے باعث وہ کچھ نہیں کر پاتا، البتہ پریشان ضرور ہوجاتا۔

وہ روم تک پہنچ کر اندر داخل ہوا جہاں مریضوں کے مخصوص نیلے لباس میں بیڈ پر نہرین بےسدھ لیٹی تھی۔ اس کے منہ پر مصنوعی آکسیجن کا ماسک جبکہ ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔

وہ آہستہ سے آکر بیڈ کے قریب رکھے اسٹول پر بیٹھ گیا اور اس کا ڈرپ لگا نرم ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیا۔

"یہ دیکھو! میں نے اپنے لمبے لمبے ناخن بھی کاٹ لئے، اس دن تم نے مجھے ٹوکا تھا ناں! اب خوش؟“

تراشے ہوئے ناخنوں پر نظر پڑتے ہی اسے نہرین کی یہ بات یاد آئی۔ بابک نے اس کا ہاتھ لبوں سے لگا کر چوما۔

”نہیں! اب خوش نہیں ہوں، تب خوش ہوں گا جب تم پہلے کی طرح مجھ سے بات کرنے لگو گی، مجھے تنگ کرنے لگو گی۔“ وہ اس سے ایسے مخاطب ہوا گویا وہ اسے سن رہی ہے۔

”یار یہ کتنی عجیب بات ہے کہ پہلے تم مجھ سے ناراض تھی، پھر میں تم سے ناراض رہا اور اب پھر تم مجھ سے بات نہیں کر رہی ہو، اگر اسی طرح ناراضگی میں ساری زندگی گزر گئی تو ہم ایک ساتھ جیئں گے کب؟“ وہ سر جھکائے کہنے لگا۔

”پلیز ایک بار اٹھ جاؤ، چاہے لڑنے کیلئے ہی سہی، وعدہ کرتا ہوں کہ چپ چاپ تمہاری ساری باتیں سن لوں گا، سب شرطیں مان لوں گا، آئس کریم بھی دلا دوں گا، کیک بھی کھا لوں گا، بس تم اٹھ جاؤ۔“ اس نے گویا ہتھیار ڈالے۔

”سچی؟“ نقاہت آمیز لہجے میں سوال آیا۔

”ہاں بالکل س۔۔۔۔۔“

وہ سر جھکائے کہنے لگا تھا تب ہی یکدم چونکا اور سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ آدھ کھلی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور اس کا آکسیجن ماسک منہ سے تھوڑا نیچے سرکا ہوا تھا۔

”نہرین! تمھیں ہوش آگیا؟ تم مجھے سن سکتی ہو؟“ وہ خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے اس کے قریب ہوا۔

”ہاں سن سکتی ہوں، اور جو کچھ سنا کیا وہ سب سچ ہے؟ سچی میری بات مانو گے؟ بعد میں مُکر تو نہیں جاؤ گے؟“ اس نے تائید چاہی۔

”ہاں بالکل سچ، اور اگر مکر بھی گیا تو جو چاہو سزا دے سکتی ہو۔“ بابک نے وعدہ کرتے ہوئے اسے ذرا سا اٹھا کر خود میں بھینچتے ہوئے ماتھے پر بوسہ دیا تو اس کی آنکھوں میں آئے آنسو بھی نہرین کے چہرے کو چھو گئے۔ جب کہ اقرار کا احساس اس کی روح تک کو سرشار کر گیا۔


جو دیکھا اس نے محبت سے

میرے بخت ٹھکانے لگ گئے

میرے سکون کیلئے یہ کافی تھا

کسی بہانے ہم تیرے شانے لگ گئے


********************************


نہرین کی حالت کے پیش نظر یہ لوگ جلد ہی واپس لوٹ آئے تھے۔ اور جب احرار اور نورالعین کو ساری بات پتا چلی تو حسب توقع وہ فکرمند ہونے کے ساتھ ساتھ خفا بھی ہوئے۔

”ایسے کیسے جانے دوں بھیا؟ گولی لگنا بھلا کوئی معمولی بات ہے؟ اتنا سب ہوگیا، آپ نے ہمیں کچھ بتایا تک نہیں اور اب کہہ رہے ہیں کہ جانے دو۔“ احرار کی فکرمند سے برہمی کم نہیں ہوکر دے رہی تھی۔

”تم لوگ اتنی دور تھے، میرے بتانے پر بھی بھلا کیا کرلیتے؟“ بابک نے سوال اٹھایا۔

”فوراً وہاں آپ لوگوں کے پاس آجاتے۔“ جھٹ جواب ملا۔

”چلو اب بس بھی کرو احرار، شکر ہے کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔“ نورالعین نے معاملہ فہمی سے بات سمیٹی۔

چاروں اس وقت بابک کے بیڈ روم میں موجود تھے۔ نہرین بیڈ پر نیم دراز تھی، بابک بھی اس کے پاس ہی بیٹھا تھا۔ جب کہ احرار اور نورالعین صوفے پر براجمان تھے۔

”ابھی آپ بھابھی کا خیال رکھیں، جب یہ ٹھیک ہوجائیں گی تو اس آصف کے خلاف ہم ایف آئی آر لانچ کریں گے، اس کی کھال پھر مصالحہ مانگ رہی ہے۔“ احرار نے لمحوں میں آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے ڈالا۔

”نہیں، ایف آئی آر کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس کا علاج دوسرے طریقے سے کریں گے۔“ بابک نے پرسوچ انداز میں اس کے ارادے کی نفی کی۔

”کچھ اور کیا؟“ وہ کچھ سمجھا نہیں۔

”اس بارے میں بعد میں بات کریں گے، رات ہوگئی ہے تو ابھی تم لوگ بھی جا کر آرام کرو، اچانک ہمارے لیٹ نائٹ فلائٹ سے آنے پر ڈسٹرب ہوگئے ہوگے۔“ بابک نے موضوع بدلتے ہوئے بات سمیٹی۔

”آپ لوگ بھی آرام کریں، اور کوئی مسلہ ہو تو ہمیں فوراً بتا دیجئے گا۔“ احرار نے سر ہلاتے ہوئے تاكید کی۔

”تمھیں اور کچھ چاہیے نہرین؟“ نورالعین نے کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں تھینکس، فی الحال سوپ ہی کافی تھا، تھینکس فار اِٹ۔“ اس نے سہولت سے انکار کیا۔

پھر وہ دونوں انہیں گڈ نائٹ کہتے ہوئے کمرے سے چلے گئے جب کہ بابک بھی لائٹس وغیرہ آف کرکے نہرین کے پہلو میں لیٹ گیا۔

”کہیں درد وغیرہ تو نہیں ہو رہا؟“ بابک نے سائیڈ لیمپ کی مدھم روشنی میں اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں، میں ٹھیک ہوں۔“ وہ جواب دیتے ہوئے سرک کر، اس کے قریب ہوئی تو بابک نے اس کے سر کے نیچے بازو رکھتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا اور بالوں میں انگلیاں چلانے لگا۔

”ایک بات پوچھوں؟“ وہ دھیرے سے گویا ہوا۔

”پوچھو۔“ وہ آنکھیں بند کیے اس کے سینے پر پرسکون تھی۔

”میں نے تمھیں بتایا تھا ناں کہ میں ایک لڑکی پر ریپ اٹیمپٹ کرنے کے جرم میں جیل جا چکا ہوں، تو پھر بھی تم نے مجھ جیسے برے انسان سے شادی کیوں کرلی؟“ وہ کب سے ذہن میں موجود سوال زبان پر لے آیا۔ وہ آنکھیں کھولتے ہوئے مسکرائی۔

”کیونکہ اس برے انسان نے اپنی غلطی قبول کرتے ہوئے خود مجھ سے کہا تھا کہ میں ایک اچھا انسان نہیں ہوں مگر ہاں۔۔۔۔۔میں ایک اچھا انسان بننے کی کوشش میں ہوں، اگر مجھے اس میں مزید کوئی برائی نظر آئے تو اس سے بدظن ہونے کے بجائے اسے آگاہ کر دوں، وہ اسے بھی ختم کرنے کی کوشش کرے گا، اور کیا پتا ان ہی چھوٹی موٹی کوششوں سے وہ بھی بلآخر ایک اچھا انسان بن جائے! تو بس یہ ہی سوچ کر شادی کرلی کہ کیا پتا اس برے انسان کا کچھ بھلا ہوجائے۔“ نہرین نے اسی کی باتیں دہراتے ہوئے آخر میں شریر سا احسان جتايا۔ بابک کے لبوں پر بھی گہری مسکراہٹ در آئی۔

”یہ برا انسان آپ کے اس احسانِ عظیم کا ہمیشہ مشکور رہے گا۔“ اس نے بھی پر شوخ جواب دیا۔

”اچھا اب میں ایک بات پوچھوں؟“ نہرین گویا ہوئی۔

”پوچھو۔“

”جہاں مجھے گولی لگی تم مجھے وہاں سچ میں طلاق دینے کے ارادے سے لے کر گئے تھے؟“ اس نے مزید ٹٹولنا چاہا۔

”نہیں، مجھے اتنا پاگل سمجھا ہوا ہے کہ میں اتنی آسانی سے تمھیں چھوڑ دیتا؟ مجھے پتا تھا کہ تم طلاق سے پہلے مجھے روک لو گی کیونکہ وہ بات تم نے بھی غصے میں کہی تھی۔“ اس نے اطمینان سے سچا جواب دیا۔

”تو پھر وہاں لے جانے کا اصل مقصد کیا تھا؟“ اس نے دلچسپی سے جاننا چاہا۔

”اتنے دن جو تمھیں تنگ کیا ان سب باتوں کی وضاحت دے کر سوری کرنا، لیکن اچانک ہی یہ سب ہوگیا، پر کوئی بات نہیں، تم جلدی سے پوری طرح ٹھیک ہوجاؤ پھر وہ ہی ریڈ ساڑھی پہن کر تم مجھے خوبصورت سی سزا دینا بدلے میں ”تفصیلی معذرت“ کرکے میں تمہاری ساری شکایات دور کر دوں گا۔“ اس نے شریر معنی خیزی سے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے ڈالا۔ اس کا مفہوم سمجھتے ہوئے وہ بھی بےساختہ مسکرائی۔

”بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔۔۔۔۔اب یہ پاسیبل نہیں۔“ نہرین نے مصنوعی تاسف سے کہا۔

”کیوں پاسیبل نہیں؟“

”کیونکہ تم سے لڑنے کے بعد تمہارے غصے میں وہ ساڑھی میں نے پھاڑ ڈالی۔“ اس نے آہستہ سے اپنا عظیم کارنامہ بتایا۔

”کیا؟ ایسا کیوں کیا پاگل لڑکی؟ وہ تم پر اتنی اچھی لگ رہی تھی۔“ اس پر تو گویا بجلی ہی گر گئی۔

”ہاں تو جب میں اتنے پیار سے پہن کر تیار ہوئی تھی اور تمہاری منتیں کر رہی تھی تب تمہارے نخرے ہی نہیں ختم ہو رہے تھے، اس لئے مجھے بھی غصہ آگیا۔“ اس نے الگ ہوتے ہوئے دوبدو جواب دیا۔

”ختم ہونے ہی والے تھے لیکن تم اچانک ہائپر ہوگئی اور میری کوئی بات سننے کے بجائے باتھ روم میں جا کر بند ہوگئی، اور پھر سارا ہنی مون برباد ہوگیا۔“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی وضاحت کی۔

”اچھا واہ! تو مطلب ہنی مون میری وجہ سے برباد ہوا ہے؟“ اس الزام پر وہ سلگ اٹھی۔

”ارے نہیں میری جان۔۔۔۔میری وجہ سے برباد ہوا۔۔۔۔آپ کی غلطی نہیں ہے۔“ بابک نے فوری ہتھیار ڈالتے ہوئے اسے دوبارہ خود سے قریب کیا کہ اب دوبارہ روٹھنے، منانے میں یہ حسین دن برباد نہیں کرنے تھے۔

”اب تم جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ پھر میں تمھیں اپنی پسند سے ایک اچھی سی ساڑھی لا کر دوں گا اور جو کچھ بھی میں نے برباد کیا تھا اس کے بدلے ”تفصیلی معذرت“ کرلوں گا، اور کوئی حکم؟“ اس نے شریر فرمابرداری دکھائی۔

”ہاں، اور میں تمہاری شرٹس بھی پہنوں گی۔“ اس کے سینے سے لگی نہرین نے اپنے ارادے بتائے۔

”ٹھیک ہے، تم پہن لینا، لیکن ایک شرط پر۔“

”کیسی شرط؟“

”اسے اتارنے میں مدد میں کروں گا۔“ اس کی ذومعنی بات پر نہرین کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔

”منظور ہے۔“ اس سے پوری طرح لپٹتے ہوئے نہرین نے دل و جان سے ہامی بھری۔ جسے نرمی سے خود میں بھینچتے ہوئے بابک نے بالوں پر بوسہ دے ڈالا۔


*****************************************

ڈھلتی ہوئی شام سورج کے رخصت ہونے کے بعد اب رات میں تبدیل ہوگئی تھی۔

بابک نے کار ایک جانی پہچانی سی بلڈنگ میں داخل کرنے کے بعد پارکنگ لاٹ میں روکی تو نہرین سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔

”ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ وہ خاصی متعجب ہوئی۔

”گاڑی سے اترو، بتاتا ہوں۔“ وہ جواب گول کرتے ہوئے گاڑی سے باہر نکلا تو وہ بھی ذہن میں کئی سوال لئے باہر آگئی۔

اس نے ریشم کی بلیک فینسی ساڑھی پہنی ہوئی تھی جس کا بلاؤز فل آستین کا تھا۔ کانوں میں ڈائمنڈ ایئر رنگز پہنے، بال پشت پر کھلے چھوڑے، نازک ہائی ہیلز کے ساتھ وہ کافی دلکش لگ رہی تھی۔

دونوں ایک ساتھ لفٹ میں داخل ہوئے اور پھر بابک نے سكس فلور کا بٹن دبا دیا۔

”تم نے پہچانا اس جگہ کو؟“ بابک نے پوچھا۔

”ہاں، یہ وہ ہی بلڈنگ ہے جہاں میں کچھ عرصہ رہی تھی، لیکن ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ اس نے جواب دیتے ہوئے پھر سوال کیا۔

”ابھی پتا چل جائے گا۔“ اس نے پھر ٹال دیا۔

تب ہی لفٹ مطلوبہ فلور پر رک کر کھلی۔ دونوں اس سے باہر آئے اور بابک چابی سے ایک اپارٹمنٹ کا دروازہ کھول کر اس کے ہمراہ اندر داخل ہوا جو ہنوز حیران سی تھی۔

”یہ ہے وہ جگہ جہاں رہ کر میں نے تمہاری جاسوسی کی تھی۔“ بابک نے اعلان کرنے والے انداز میں مزے سے بتایا۔

پہلے تو وہ اس کی بات سمجھ نہیں پائی۔ لیکن تھوڑا غور کرنے پر کڑی سے کڑی ملی اور اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

”مطلب یہ ہے تمہاری وہ اوپر تک پہنچ؟“ وہ نتیجے پر پہنچی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اسے گھور کر رہ گئی۔

”اور اب مجھے یہاں لانے کی وجہ؟“ ایک اور سوال آیا۔

”تم سے ”تفصیلی معذرت“ کرنی ہے۔“ بابک نے کہتے ہوئے اسے اپنی طرف کھینچا تو وہ سینے سے آ لگی۔

بابک نے جھک کر اسے بانہوں میں اٹھایا اور بیڈ روم کی جانب بڑھا۔

بیڈ روم میں آتے ہی وہ پل بھر کو مبہوت ہوگئی جس کی مدھم روشنی اور بیڈ پر بکھری گلاب کی پتیوں نے ماحول کو خاصا خواب ناک بنایا ہوا تھا۔

بابک نے اسے آرام سے بیڈ پر بٹھایا اور خود بھی اس کے مقابل بےحد قریب بیٹھ گیا۔

”میں نے ہماری شادی کی پہلی رات برباد کر دی تھی ناں! تو اس کیلئے یہ پہلا سوری۔“ بابک نے کمرے کے ماحول کی طرف اشارہ کیا۔

”اور دوسرا سوری؟“ اس نے دلچسپی سے پوچھا جسے یہ سب بےحد اچھا لگ رہا تھا۔

”دوسرا سوری نہیں سوال ہے۔“

”کیسا سوال؟“

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Yaar E Man Sitamgar Season 2 Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yaar E Man Sitamgar Season 2 written by Faryal Khan. Yaar E Man Sitamgar Season 2 by Faryal Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages