Sitamgar By Hoorab Romantic Complete Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 8 December 2024

Sitamgar By Hoorab Romantic Complete Novel

Sitamgar By Hoorab Romantic Complete Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Sitamgar By Hoorab Romantic Complete Novel 

Novel Name: Sitamgar

Writer Name:Hoorab

Category: Complete Novel

گرم ترین دن کے بعد شام کا آغاز ہوچکا تھا۔ عجمان  کی ایک پرانی سی کالونی میں بھی جیسے ٹھنڈی ہوا نے رخ کیا تھا۔

اس کی ڈیوٹی رات کی ہی تھی اس لیے وہ آرام تیار ہورہی تھی۔

سارہ سورہی تھی۔اس کا پسندیدہ کام ہی سونا تھا۔اس لیے زارا آرام سے اپنا کام کررہی تھی۔

سفید نرم گالوں پر اس نے بلش آن لگایا۔گلابی لبوں پر لپ گلوس لگاکر وہ ویٹرس کے یونیفارم میں مکمل تیار تھی۔

وہ خوبصورت لڑکی تھی۔

نازک نین نقوش کے ساتھ سب کو اپنی جانب متوجہ کرلیتی تھی۔

اس کی ڈیوٹی رات دس سے صبح چار بجے تک ہوتی تھی۔

یہ نوکری اسے بہت مشکل سے ملی تھی وہ چاہ کر بھی گنواہ نہیں سکتی تھی۔

ماں میں جارہی ہوں۔وہ کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے میں آئی جہاں اس کی ماں آرام فرمارہی تھی۔جو کسی کتاب میں گم تھیں۔

اچھا دھیان سے جانا اور دھیان سے واپس آنا ۔

انہوں نے ہمیشہ والی ہدایت دی۔

وہ سر ہلاتی دروازہ بند کرکے چھوٹے سے لاؤنج سے گزر کر باہر دروازے پر آگئی۔

فلیٹ سے نکل کر وہ لفٹ کی طرف آئی۔یہ ایک نچلے درجے کی فلیٹ کی بلڈنگ تھی اور یہ فلیٹ اس کے بابا کی ساری جائداد تھی۔

ایک ایکسڈنٹ میں ان کی موت ہوئی تو ساری ذمہ داری بیس سال کی زارا پر آگئی۔

اس کے بابا بھی اس ریسٹورنٹ میں ہی کام کرتے تھے جہاں اسے اب  جاب ملی تھی۔

وہ لفٹ سے نکل کر مین روڈ پر آئی۔اور بس سٹینڈ پر پہنچی 

یہاں سے وہ بس میں جاتی تھی۔کچھ دیر بعد بس آگئی تھی۔وہ بس میں سوار ہوتی اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی۔

_________________

کاشان  بس کرو کب سے پی رہے ہو۔کیا پاگل ہوگئے ہو مرنا چاہتے ہو۔

کامل نے آگے آکر گلاس زور سے دور پھینکا۔

وہ ابھی جاب سے لوٹا تھا۔

اپارٹمنٹ میں داخل ہوکر اس نے کاشان کو اپنے شغل میں مصروف دیکھا تو اس کا غصہ سوانیزے پر پہنچا۔

ابے پینے دو پھر چاہے موقع ملے نہ ملے۔

کاشان !! خود کو سنبھالو۔ایسے کیوں خود کو ضائع کررہے ہو۔مانتا ہوں وہ تمہیں چھوڑ کر چلی گئی۔

لیکن اس کے پیچھے خود کو روگ لگاؤ گے۔

تم بھول گئے ہو کہ تمہاری یہاں دہشت ہے۔ لیکن اگر کوئی تمہیں اس حالت میں دیکھ لے تو تمہاری حکومت پر قبضہ جمانے کی کوشش کرے گا۔

ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو کے بی دی ایول کنگ کی حکومت پر پاؤں رکھے۔

کے۔بی کا دل ٹوٹا ہے لیکن وہ اب بھی شیطان ہی ہے۔

اور شیطان اپنا شکار نہیں چھوڑتا۔"

وہ اپنے بھوری سیاہ داڑھی کھجاتا مسکرایا تھا۔

آنکھیں زیادہ پینے سے لال ہورہی تھی۔

جبکہ براؤن بال پیشانی پر بکھرے تھے۔وہ ایک خوبرو شخص تھا جس کی براؤن گہری آنکھیں تھی۔عنابی لب تھے۔بڑھی داڑھی کے وہ ساتھ اونچا لمبا چوڑے کندھوں والا بہادر شخص تھا۔

کامل نے تاسف سے سرہلایا۔وہ دوسرے کی کمرے کی جانب گیا جہاں گرینڈما آرام کررہی تھی۔

تبھی وہ مزے سے شراب پی رہا تھا۔

وہ اب صوفے کی بیک سے ٹیک لگاکر سر پیچھے گرائے بیٹھا تھا۔

اور اسی دشمن جان کے خوابوں میں کھورہا تھاجو اسے دھتکار کر چلی گئ تھی۔

_________________

وہ ریستورنٹ میں تھی جب ایک نیا آرڈر آیا۔

وہ جلدی جلدی ہاتھ چلانے لگی۔

اس ریسٹورنٹ میں کام کرنا شروع سے پسند نہیں تھا۔شراب یہاں آرام سے ملتی تھی۔

اوپر والا پورشن کمروں کے لیے مختص تھا۔جہاں کپل آکر رہائش پذیر اختیار کرتے تھے۔

اسے بلیو بیری جوس کے ساتھ چکن سٹیک کا آرڈر ٹیبل تک پہنچانا تھا۔

وہ نازک گلاس میں جوس سجائے اور ایک ہاتھ میں سٹک تھامے باہر نکل آئی۔

وسیع عریض خوبصورت سے ہال میں گہماگہمی تھی۔

وہ آرڈر والے ٹیبل کی جانب آئی تو اس کا ہاتھ لڑکھڑا کر رہ گیا۔

سامنے ٹیبل پر اس کا منگیتر کسی اور لڑکی کو لیے بیٹھا تھا جو دیکھنے سے ہی یہاں کی لگتی تھی۔

زارا کی سبز آنکھوں میں نفرت ابھر آئی۔

اس کے منگیتر نے بھی ایک دفعہ ٹھٹک کر اعتماد بحال کرلیا۔وہ اب چیزیں ٹیبل پر سجارہی تھی۔جبکہ وہ لڑکی بانہوں کا ہار بنتی پاگل ہورہی تھی۔

سنو ٹیبل صاف کرو۔پھر سامان سجانا۔

ستائیس سالا غنی نے اسے ستانے کے لیے کہا۔

اس نے بنا کچھ کہے دوسرے ویٹر کو اشارہ دیا۔

وہ جانتی تھی وہ اسے ستانے کے لیے یہ سب کرتا ہے۔لیکن اسے ان باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔

وہ اس کے چچا کا بیٹا تھا جس کے ساتھ اس کے بابا نے زبردستی رشتہ طے کیا تھا۔

وہ تو مرگئے لیکن اس کے سر پر عذاب ڈال گئے تھے۔

زارا نے ٹیبل صاف کیا اور آرڈر اس پر سجایا۔

اس دوران غنی لڑکی کی بازو سہلاتا اسے بھی بے باک نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

______________

آج کا شیڈول بتاؤ۔

کاشان نے کالر ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔جبکہ کامل پیچھے ہی کھڑا تھا۔

تمہاری شارجہ میں میٹنگ ہے۔اور عجمان کے کنگ کے ساتھ ڈنر ہے۔

شارجہ کی میٹنگ کینسل کرو۔اور عجمان کے لیے تیار ہوجاؤ اسے اپنے ہی ریسٹورنٹ میں انوائٹ کرو۔

وہاں جانا تمہارا خطرے سے خالی نہیں ہے۔

کامل سپاٹ سا بولا تھا۔

کاشان نے اوہ کہہ کر ہونٹ سکوڑے۔

تم گاڑی ریڈی کرواؤ فضول باتیں نہ کیا کرو۔

ایول کنگ کسی سے نہیں ڈرتا۔

کامل نے دانت پیسے۔

اس نے ابھی شرٹ کے بٹن بند نہیں کیے تھے۔اس کا چوڑا سینہ اور پیکس نمایاں تھے۔

کامل جانتا تھا۔وہ کبھی اس کی بات نہیں مانے گالیکن وہ پھر بھی کاشان کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔

وہ اس کا اکلوتا بھائی پلس دوست تھا۔بھلے وہ اس کے ماموں کا بیٹا تھا۔لیکن وہ بھائیوں جیسا ہی پیار کرتا تھا۔

کاشان کو بھی اس سے محبت تھی لیکن اسے جتلانے کا شوق نہیں تھا۔

قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے ایک تنقیدی نگاہ خود پر ڈالی۔

شرٹ کے بٹن بند کرکے اس نے چین والا چاقو اٹھا،۔

اس کی چین پر چھوٹے چھوٹے ڈھانچے نما لوہے کے سر بنے ہوئے تھے۔

چاقو کی ہتھی پر سنہری رنگ میں ایول کنگ کنندہ تھا۔یہ اس کا خاص چاقو تھا۔

کامل کو اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا جو اب بھی سپاٹ چہرے کے ساتھ کھڑا تھا۔

اپنا خیال رکھنا گن کو پیچھے اڑس کر اس نے دل جلانے والی مسکراہٹ اچھالی۔

________________

وہ بارہ بجے تک سوتی رہی۔

نیند سے اٹھ کر وہ کھڑکی کی جانب آئی۔

یہاں سے اسے ساری بلڈنگ نظر آتی تھی اور یہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔

وہ کافی دیر تک باہر کے نظارے میں مگن تھی۔

عجمان کے حبس والے موسم نے اس کو بھی بیزار کردیا تھا۔

سارہ نے ٹیبل پر چائے رکھی تو وہ مڑی ۔

وہ جنیز شرٹ اور منی کوٹ میں ملبوس کہیں جانے کو تیار تھی ۔

تم کہاں جارہی ہو۔

ایک عربی کے ساتھ ٹائم گزارنے،۔وہ آنکھ دبا کر بولی تو زارا نے ماتھے پر بل ڈالے۔

سارا خدا کا خوف کیا کرو۔تم مسلمان لڑکی ہو اپنی حرکتیں درست کرلو ماں کو پتہ چل گیا تو وہ جیتے جی مرجائیں گی۔

مجھے ہدایات مت دیا کرو میں اپنا اچھا برا جانتی ہوں۔تم وہ ویٹرس کی نوکری کرسکتی ہو لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔

مجھے آزادی پسند ہے۔ اس کے لیے میں کسی حد تک جاسکتی ہوں۔

سارہ نخوت سے بولی تھی۔

زارا اس کے قریب آئی تھی۔

دیکھو سارا ایسا مت کرو۔میں جانتی ہوں تمہیں یہ گھٹن والا ماحول پسند نہیں یے۔لیکن تم اپنی عزت کو سودا مت کرو۔

عزت!! سیریسلی عزت !! ہاہاہا زارا تم پاگل ہو۔

اس آزاد ملک میں عزت کو کوئی نہیں دیکھتا سب بس پیسہ چاہتے ہیں۔

تمہارے لیے چائے بنادی تھی اسے احسان سمجھ لو۔اور ہاں میں رات کو لیٹ آؤں گی۔

ماں کو بتادینا۔

وہ بیگ کندھے پر لٹکاتی پونی ٹیل جھلائے کمرے سے نکلتی چلی گئی تھی۔

___________________

سیاہ مرسڈیز میں عجمان میں پہنچا تھا۔راستے میں ہی اس نے پلان بدل کر انہیں بیچ پر بلالیا تھا اور رات کے بجائے وہ شام کو پہنچا تھا۔

دو شیخ مخصوص لباس میں بیچ پر موجود تھے۔وہ زیادہ تر میٹنگز اوپن ایریا میں پسند کرتا تھا۔

اپنے خاص آدمی "احکام "" کے ساتھ وہ یہاں موجود تھا۔کامل کو وہ گرینڈما کے پاس چھوڑ کر آیا تھا۔

سفید شرٹ اور بلیک پینٹ میں وہ سیاہ گاگلز لگائے خاصا خوبرو لگ رہا تھا۔

اس نے ایک خاص نگاہ پورے بیچ پر ڈالی۔

وہ ان سے ہاتھ ملا کر سیگریٹ سلگانے لگا۔

اس کی درمیانی انگلی میں ڈیول کی رنگ موجود تھی۔

مضبوط ہاتھ جن سے وہ کئی قتل کرچکا تھا۔اب سختی سے بند تھے۔

بولو کیا چاہیے؟ پیسہ یا پھر ہیرے؟

وہ عربی میں بولا۔

ہم پیسہ چاہتے ہیں کیونکہ ہیرے پولیس کی نظر میں آسانی سے آسکتے ہیں۔

ہیرے مشکل سے سمگل ہوکر آئے ہیں۔اور پولیس کو خبر بھی ہوچکی ہے۔

چند عرصے میں وہ ہیروں کے راز پالے گی۔اسی لیے ہمیں پیسہ چاہیے ہیرے تم رکھو۔

ایک عربی شیخ بولا تھا۔

وہ بیچ کے قریب رکھی ایک چئیر پر بیٹھا اور مٹھی ہونٹوں پر رکھی۔

دوسرے عربی کے ماتھے پر پسینہ نمودار ہورہا تھا۔

تو تمہیں پیسہ چاہیے۔اور بدلے میں تم مجھے پھنسانا چاہتے ہو۔

وہ سپاٹ انداز میں بولا تو عربی بوکھلایا۔۔اسے کاشان  میں عجیب سی وحشت محسوس ہوئی  تھی۔اس کے لمبے بال گہری براؤن چمکدار آنکھوں میں سفاکیت بھری ہوئی تھی۔

کاشان نے ہاتھ آگے کیا تو عربی نے ہیرے کی تھیلی سامنے کی۔

اس نے ہیرے نکال کر چیک کیے ۔۔

ؤہ چار ہیرے تھے جو کہ کروڑوں کی مالیت تھے۔

پیسہ تو میں تمہیں دے دیتا لیکن میں غداری کرنے والوں کو بہت بری سزا دیتا ہوں۔

اس نے سرخ رنگ کی تھیلی الٹ دی  جس میں ایک چپ لگی تھی ۔

دونوں عربی بوکھلا گئے۔ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شخص اتنا شاطر ہوگا۔

اس نے پاکٹ میں رکھا خاص چاقو نکالا۔

میں نے اس کی دھار آج ہی تیز کی تھی۔اور مجھے پورا یقین تھا کہ شکار میں کرکے رہوں گا۔

دیکھو ہمیں غنی بھائی نے کہا تھا۔ہم نہیں چاہتے تھے وہ عجمان میں اپنی دہشت جمانا چاہتا ہے۔

لیکن یہاں تمہاری حکومت ہے۔اس شہر کے آدھے لوگوں  نے تو تمہیں دیکھا بھی نہیں ہے پھر بھی وہ تمہارے نام سے ڈرتے ہیں۔جبکہ غنی کو سب ہلکے میں لیتے ہیں ۔

تو تم نے سوچا مجھے پولیس کے حوالے کرکے عجمان میں راج کرو گے۔وہ تاسف سے گردن ہلا رہا تھا۔اور یہ جو تمہارا غنی بھائی ہے کسی فلم سے امپریس لگتاہے۔تبھی نام بھی چرالیا، اسے کہنا تھا اصلی پہچان کے ساتھ سامنے آئے۔

ایول کنگ نہ کسی کا نام چراتا ہے نہ کسی کی حکومت پر قبضہ جماتاہے ۔وہ اپنی دھاک جماتا ہے۔

 ان دونوں کی حالت خراب ہوچکی تھی۔

وہ تیزی سے آگے آیا اور ایک جھٹکے میں ایک کا گلا کاٹا۔

دوسرے کو بھی اس کے حال میں پہنچا کر اس نے اردگرد دیکھا۔

سب اپنے آپ میں مگن تھے ۔

ایول کنگ ہوں میں۔میری حکومت ختم کرنا آسان نہیں ہے۔"

چپ کو اس نے وہی ان کے قریب پھینک کر ہیروں کو احکام کے حوالے کیا۔

رومال سے ہاتھ صاف کرکے وہ تیزی سے مرسڈیز کی جانب بڑھا تھا۔

______________

 احکام ڈنر تو ہم اپنے پارٹنرز سے کر نہیں پائے تو کیوں نہ کسی بارمیں چلیں۔؟؟؟؟؟

جیسا آپ کا حکم سر!! احکام ادب سے بولا۔

اچھا سنو یہ غنی بھائی کا سراغ لگاؤ؟؟  کون ہے اور اس کی کمزوری کیا ہے،،،؟؟؟

وہ پچھلی سیٹ پر پھیل کر بیٹھا تھا۔مٹھی ہمیشہ کی طرح لبوں پر جمی تھی۔

احکام نے اب بھی سر ہلایا تھا۔

چند منٹوں بعد وہ کلب میں تھا جہاں کا چکاچوند ماحول اسے اپنی جانب متوجہ کررہا تھا۔

وہ تھرکتے بدن دیکھ کر ماحول کا حصہ بن رہا تھا۔دو پیگ چڑھا کر وہ صوفے پر پھیل کر بیٹھا۔

ایک طرحدار سی لڑکی اس کی جانب متوجہ ہوئی تو وہ بھی اس میں کھونے لگا۔

جوہی !! کاش تم مجھے چھوڑ کر نہ جاتی۔کاش مجھ سے دغابازی نہیں کرتی۔

وہ لڑکی کی  گردن میں منہ چھپائے بولا تھا۔

احکام ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑا تھا۔اسے اپنے سر کی حالت پر ترس آرہا تھا۔

وہ اس ماحول کو پسند نہیں کرتا تھا لیکن اپنے سر کے ساتھ غداری بھی نہیں کرسکتا تھا۔

اس نے لڑکی کو گھورا تو وہ احکام کی تیز نگاہ سے سہم گئی ۔

لیکن کاشان اس کی قربت میں مدہوش ہورہا تھا۔

اس نے آگے بڑھ کر لڑکی کی برہنہ بازو پر چٹکی کاٹی۔

وہ لڑکی جھٹکے سے دور ہوئی۔اور کاشان کے پاس سے اٹھ کر سٹیج کی جانب بڑھ گئی۔

جبکہ کاشان بھی لڑکھڑایا ۔

سر کامل سر کا فون تھا وہ کہہ رہے ہیں گرینڈ ما بیمار ہیں آپ کو یاد کررہی ہیں جلدی گھر پہنچیں۔"""

احکام جھوٹ سچ کی آمیزش سے بولا تھا۔

ہاں۔چلو یار چلتے ہیں اپنی قسمت میں سچا پیار کہاں ہوسکتا ہے۔

وہ جھومتا ہوا احکام کے ساتھ باہر کی جانب بڑھا تھا۔

_______________

کاشان کو گاڑی میں بٹھا کر اس نے اپنا موبائل نکالا۔لیکن موبائل پاکٹ میں نہیں تھا اسے حیرانگی ہوئی حالانکہ اس نے موبائل پاکٹ میں ہی ڈالاتھا۔

وہ دوبارہ اندر گیا۔ کاؤنٹر پر اس کی نظر پڑی تو ایک ویٹر اسے ہی بلارہا تھا۔

تھینکیو !!!!  وہ موبائل لے کر باہر نکل آیا۔

ابھی وہ کلب سے باہر ہی آیا تھا کہ ایک نسوانی آواز اسے سنائی دی۔

وہ مڑا تھا۔

سامنے بار والی لڑکی نتنھے پھیلائے کھڑی تھی۔۔

وہ اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر نظرانداز کرتا آگے بڑھا۔

تم !!! رکو زرا !! احکام سپاٹ چہرے کے ساتھ دوبارہ مڑا۔

کیا ہے؟

وہ سرد انداز میں بولا۔

علایہ کو اس کے انداز پر غصہ تو آیا لیکن وہ فلحال اس سے جواب چاہتی تھی۔

تم نے میری بازو پر چٹکی کیوں کاٹی تھی۔یونو تم ایک بدتمیز انسان ہو۔ 

وہ انگلی اٹھاکر بولی تو احکام ہاتھ باندھ کر اس کی طرف آیا۔

اور تم کیا کررہی تھی۔

شکل سے شریف لگ رہی تھی اور کرتوت کافروں والے۔

کسی غیر کی بانہوں میں جھومتے شرم نہیں آتی۔

وہ قریب آکر غصہ سے دھاڑا تو علایہ نے قدم پیچھے لیے۔

سلیولیس ٹاپ کے ساتھ وہ بلیک سکرٹ میں ملبوس کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔

یو ایڈیٹ………

دیکھو میری بازو پر نیل پڑگیا ہے تم نے اتنی زور سے چٹکی کاٹی۔

احکام نے بازو کی طرف دیکھا۔وہاں سفید بازو پر نیل کا نشان واضح نظر آرہا تھا۔

اوہ مائے گاڈ سوری!! مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔آئی ایم رئیلی سوری!!! وہ یکدم معذرت کرتا جھکا اور ایک بار پھر بازو پر چٹکی کاٹی۔

علایہ تڑپ کر رہ گئی اور ایک چیخ کے ساتھ دور ہوئی۔

وہ تو اس کی معافی کو دیکھ کر حیران ہورہی تھی لیکن وہ شخص تو نہایت گھٹیا تھا۔۔

آئیندہ فل سلیوز ٹاپ پہن لینا تاکہ کوئی تمہیں چٹکی نہ کاٹ سکے۔

اور یہ لو پیسے!!! سائیڈ پاکٹ سے چند سکے اس کے ہاتھ پر رکھتا وہ گاڑی کی جانب بڑھا جہاں کاشان مدہوش تھا۔

اس سے آئنٹمنٹ خرید لینا نشان بھی چلا جائے گا اور درد بھی کم ہوجائے گا۔

گاڑی کے پاس جاکر مڑا اور زور دار آواز میں بولا تھا۔

علایہ دانت پیس کر اسے دیکھتی رہ گئی تھی۔

___________

سارہ واپس نہیں آئی۔؟؟؟

ماں کے کمرے میں وہ ان کے پاؤں دبارہی تھی۔انہوں نے چشمے کی اوٹ سے پوچھا تو اس کا حلق خشک ہوا ۔

ابھی نہیں آئی۔وہ مختصر بولی۔

انہوں نے سرہلایا۔

زور سے دباؤ کیا ہاتھوں میں جان نہیں ہے۔وہ سختی سے بول کر کتاب پڑھنے لگیں۔

زارا تیز تیز دبانے لگی تھی۔

ماں کے ساتھ اس کا رشتہ کبھی بھی اچھا نہیں رہا تھا۔

اس نے شروع سے ان کی ڈانٹ مار دیکھی تھی۔کبھی کبھی وہ اسے سوتیلی ماں لگتی۔پاپا کبھی کبھی سر ہر شفقت سے ہاتھ رکھتے لیکن ماں نے ایک عمر انہیں ذلیل و خوار کیا تھا۔

وہ آزادی پسند خاتون تھیں۔۔

سارا ان کی کاپی تھی۔تبھی وہ سارا سے خوش رہتی تھیں۔

لیکن زارا کو عزت کا سودا کرنا بہت غلط کام لگتا تھا۔

غنی کے ساتھ زبردستی رشتہ بھی ماں نے ہی طے کروایا تھا۔

افضل صاحب کی موت کے بعد وہ آزاد تھیں لیکن ایک ایکسڈنٹ میں ان کی ٹانگ فیکچر ہوئی پھر وہ بیڈ سے اٹھنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔

میں تمہاری شادی کا سوچ رہی ہوں۔غنی ایک دو دن میں آئے گا۔سادگی سے نکاح کرکے تمہیں لے جائے گا۔

زارا کے ہاتھ رک گئے جبکہ رنگ سفید پڑگیا۔

اب تمہیں اسی کے ساتھ رہنا ہے اور اس کی لائف میں ڈسٹربنز مت لانا ورنہ میں خود تمہیں ماردوں گی ۔

وہ سختی سے بولی۔زارا سبز آنکھوں سے روتی کمرے سے بھاگ کر نکلی تھی۔

__________

 کیا ہوا علایہ کافی غصہ میں لگ رہی ہو۔

وہ گھر میں داخل ہوئی تو غنی شراب والے حصے میں کھـڑا گھونٹ پیتا اپنا غم ہلکا کررہا تھا۔

تمہیں کیا مسلہ ہے اپنا کام کرو 

وہ چڑ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھی۔سکے اب بھی اس نے ہاتھ میں دبائے ہوئے تھے۔

اس کو میں چھوڑوں گی نہیں ۔میری بازو زخمی کردی ۔وہ بازو مسل کر چیخ رہی تھی۔شیشے میں سرخ چہرے کے ساتھ وہ چڑیل ہی لگ رہی تھی۔آنکھیں زیادہ ڈرنک کی وجہ سے لال ہورہی تھیں۔

تم جو بھی ہو علایہ تمہیں اب زندہ نہیں چھوڑے گی۔

وہ بکتی جھکتی بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔

___________

وہ ریسٹورنٹ آچکی تھی۔

اس وقت وہ کچن میں موجود پیزا بیک کررہی تھی۔

چیز پیزا پر بکھیر کر اس نے سائیڈ پر ہی کیا تھا جب اسے پیچھے بنی لانڈری سے شور سنائی دیا۔

اس وقت کچن میں اکیلی تھی۔اس لیے اسے آواز آئی تھی۔

وہ ایپرن اتار کر باہر آئی۔اور اس والے حصے میں جھانکا۔

وہاں ایک شخص کالے نقاب میں ساتھی ویٹرس کے گلے پر چھری پھیر رہا تھا۔

زارا کی آنکھیں پھیلیں حلق خشک ہوگیا۔

اس نے منہ پر ہاتھ رکھا اور چیخ کا گلہ گھونٹا۔

وہ لاونیہ تھی۔انڈیا سے یہاں جاب کرنےآئی تھی۔لیکن اسے کیوں قتل کیا گیا۔وہ نہیں جانتی تھی وہ تیزی سے کچن میں آگئی  ۔کانپتی ٹانگوں سے وہ زمین پر بیٹھ گئی۔

کیا ہوا زارا!! ایسے کیوں  بیٹھی ہو ۔

ایک میل ویٹر آرڈر لے کر آیا تو وہ جھٹ سے کھڑی ہوگئی۔

وہ میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔

میں گھر جانا چاہتی ہوں۔

وہ پسینہ پونچھتی کچن سے نکل کر باہر کی جانب بھاگی۔کھونٹی پر لٹکا پرس وہ اتار چکی تھی۔

ویٹر نے سر ہلایا اور کام میں مصروف ہوا۔

مینجر سے پوچھے بنا ہی وہ روڈ پر آگئی تھی۔

وہ تیزی سے جارہی تھی ۔لاونیہ مرگئی تھی۔اور وہ بچا بھی نہیں سکی۔وہ بھاگ آئی یہ سب سوچیں اسے پاگل کرنے لگی۔اسے بس کا بھی خیال نہیں رہا تھا۔

وہ ایک دم گاڑی کے سامنے آتی سڑک پر گری۔

گاڑی کے ٹائر بھی چرچرائے تھے۔

ابے کون ہے۔احکام دیکھو زرا۔۔۔

کاشان جھٹکا لگنے سے سیدھا ہوکرچیخا۔وہ نشے میں مدہوش ہورہا تھا۔

سر کوئی لڑکی ہے میں دیکھتا ہوں۔

وہ باہر آیا تو اس نے سکارف سے چہرہ ڈھانپ لیا تھا۔

آر یو اوکے؟؟؟

احکام کی بھاری آواز سن کر وہ سیدھی کھڑی ہوئی لیکن لڑکھڑا بھی گئی۔احکام نے بازو تھاما ہی تھا۔کاشان باہر آیا اور زارا کو بازوسے پکڑ کرسیدھا کیا۔

اندھی لڑکی مرجاتی تم!! پھر میں جیل چلا جاتا۔اور مجھے پھانسی ہوجاتی۔ہاہاہا پھر میں مرجاتا۔

کاشان نے آج زیادہ تیز ڈرنک کرلی تھی تبھی بہکی بہکی حرکتیں کررہا تھا۔

زارا خوف سے کانپ رہی تھی ۔اس نے اس شخص کو دیکھا جو اونچا لمبا کافی خوبرو تھا۔

آسمان سے گر کر وہ کھجور میں اٹک چکی تھی۔

سر پلیز!!! میم کو درد ہورہا ہے۔بازو چھوڑیں۔۔۔

آپ میرے ساتھ آئیں۔وہ کاشان کو لے کر دوبارہ گاڑی میں آیا اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھا کروہ باہر آیا۔

میڈم مجھے اچھا انسان سمجھ کربھروسہ کرلیں۔میں آپ کو آپ کے گھر پہنچادوں گا۔

احکام آرام سے بولا تو زارا نے نفی میں سرہلایا۔

میڈم رات ہوگئی ہے آجائیں۔

میں سر کا ملازم ہوں لیکن لڑکیوں کی عزت کرتا ہوں آپ میری بہنوں جیسی ہیں۔پلیز آجائیں۔زارا کووہ اچھا شخص لگا وہ پچھلی سیٹ پربیٹھی تھی۔

چہرہ سکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔جبکہ سبز غلافی آنکھیں سرخ ہورہی تھی۔

احکام نےراستہ پوچھ کر ڈرائیونگ شروع کی تو کاشان نے سیٹ سے ٹیک لگالی۔

وہ اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا زارا  کو سارے راستے سہماتا رہا تھا۔

_______________

احکام اسے فلیٹ کی بلڈنگ کے قریب  اتار کر چلا گیا تھا۔

اس شخص کی حرکتیں بہت عجیب تھیں۔وہ کبھی سرخ آنکھوں سے پیچھے مڑ کر زارا کو غصیلے انداز میں دیکھتا اور کبھی ہنس پڑتا۔۔

زارا کے ذہن میں لاونیہ کی لاش گھوم رہی تھی۔اس سب میں وہ شخص بھی اسے بار بار پریشان کرتا رہا۔

وہ شخص کافی ہینڈسم تھا لیکن اس کی حرکتیں بہت بری تھیں،،،،

سکارف جدا کرکے وہ تھکے قدم لیے لفٹ میں داخل ہوئی۔

سبز آنکھوں سے پانی بہنے لگا ۔

لفٹ میں وہ دو زانوں بیٹھ کر روتی چلی گئی۔

کل اسے دوبارہ ریسٹورنٹ جانا تھا۔ لیکن اس وقت وہ سوچنے کی  ہمت بھی نہیں رکھ پارہی تھی۔

___________

گرینڈ ما کیسی ہیں ؟؟؟ وہ ان کے ہاتھ چوم کر بولا۔

کامل نے سرد نگاہوں سے اسے گھورا تو وہ استہزائیہ مسکرایا۔

میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ؟؟ آفس ورک کیسا جا رہا ہے۔

انہوں نے شفقت سے سر پر ہاتھ پھیرا۔

اس نے پھر کامل کو دیکھا۔جو اب بھی گھور رہا تھا۔

گرینڈ ما کامل سے پوچھیں آفس ورک کتنا اچھا جارہا ہے۔

اس نے شرارتی نظروں سے کامل کو دیکھا۔

کامل منہ بناکر رہ گیا۔

اچھا آپ کو کیا ہوا تھا؟ احکام بتارہا تھا رات آپ کی طبعیت بگڑ گئی تھی؟"

انہوں نے عجیب نظروں سے کامل کو دیکھا تو وہ بھی پہلو بدل کر رہ گیا۔

نو آئی ایم فائن!! وہ بولی تو کاشان کے ماتھے پر بل آئے۔

"گر ینڈ ما آپ ریسٹ کریں میں شام کو دوبارہ آتاہوں میری اہم میٹنگ ہے۔

کامل تم بھی میرے ساتھ آؤ"۔

وہ کامل کو اشارہ دے کر گرینڈ ما کا ماتھا چومتا کمرے سے نکلا۔

کامل کو اپنی شامت پکی لگی تھی۔کاشان کو غصہ بہت کم آتا تھا لیکن جب آتا تھا کامل بھی لپیٹ میں آجاتا تھا۔

___________

"وہ گہری نیند میں سورہی  تھی جب لاونیہ کا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے گھوما ۔وہ خواب کی کیفیت میں تھی۔وہ سرپٹکتی کچھ بڑبڑا بھی  رہی تھی۔

سارا جو فریش ہوکر واش روم سے نکلی تھی زارا کو بے چین دیکھ کر اس کے قریب آئی۔

زارا……آر یو اوکے!!! 

وہ  گال تھتپا کر بولتی زارا کو اٹھانے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔

وہ چیخ مار کر اٹھی اور سارا کے سینے سے لگی۔

وہ مرگئی سارا ،،، لاونیہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی سارا کو بھی پریشان کررہی تھی۔

کون لاونیہ؟؟؟ تم نے خواب دیکھا ہے؟؟؟

وہ زارا کو سامنے کرتی اسے پچکارنے لگی۔

وہ آنکھیں مسلتی دور ہوئی۔

بیڈ سے اتر کر وہ بنا کچھ بولے واش روم کی جانب بڑھ  گئی۔

سارا کو اس کی کیفیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی تبھی اس نے کوئی تاثر نہیں دیا تھا۔

__________

کیسی ہو زارا؟؟؟ 

غنی کی آواز سن کر وہ جھٹکے سے مڑی۔وہ بس سٹاپ پر کھڑی تھی۔جب غنی نے ایک بڑی گاڑی اس کے سامنے روکی۔

ادھر ہوں میں!! اس نے گاڑی کی طرف اشارہ دیا تو وہ ناگوار انداز سے دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔

گلابی گال اور سبز آنکھیں بھی  آج کچھ گلابی تھیں۔

سرخی لبوں پر ویسے ہی رہتی تھی۔

غنی نے ایک گہری نگاہ سے اس کا جائزہ لیا۔وہ سفید اور سیاہ امتزاج کے ویٹرس کے لباس میں کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔

گولڈن ریشمی بالوں کو اس نے سکارف میں چھپایا ہوا تھا۔

تم کافی خوبصورت لگ رہی ہو"۔ وہ ہونٹ کا کونہ دباکر لوفرانہ سا بولا تو زارا نے سختی سے مٹھیاں بند کی۔

"آؤ میں تمہیں ڈراپ کردوں۔کچھ ٹائم میرے ساتھ بھی گزار لینا"۔

اس کا ذومعنی انداز زارا کو طیش دلا رہا تھا۔لیکن وہ اس سے الجھنا نہیں چاہتی تھی۔

بس آنے پر وہ اس کی جانب بڑھی۔لیکن غنی فوراً اپنی کار سے اتر کر زارا کی طرف بڑھا۔

اس نے بازو پکڑا تھا۔لیکن زارا نے جلدی سے بازو چھڑوایا۔

بس کے مسافر حیرت سے وہ منظر دیکھنے لگے۔وہ شرم سے ڈوب مرنے والی ہوئی۔

غنی کے کھلا گریبان الجھی داڑھی اور گردن میں پہنی چینوں نے اس کا حلیہ مشکوک بنادیا تھا۔

ایک بڑی عمر کے بزرگ نے زارا کے ساتھ بدتمیزی کرنے پر غنی کو ٹوکا تھا۔

غنی کی سرخ آنکھیں اس بزرگ پر اٹھی۔

یہ میری منگیتر ہے تم اپنی زبان کرو بڈھے!!! وہ بدتمیزی سے بول کر زارا کو کھینچنے لگا۔

بس والے نے ہارن بجا کر زارا کو متوجہ کیا۔

وہ بے بس ہوچکی تھی۔

اس نے زور دار دھکا غنی کو دیا اور بس میں چڑھ گئی۔

وہ حملے کے لیے تیار نہیں تھا۔اس لیے پیچھے گرا کچھ شراب کے نشے نے اس لڑکھڑایا ہوا تھا۔

وہ روتی ہوئی سیٹ پر بیٹھی۔

اسے غنی سے آج شدید خوف محسوس ہورہا تھا۔

وہ سارے راستے لوگوں کی نظریں برداشت کرتی شرمندہ ہوتی رہی تھی۔

___________

ہوٹل میں حسبِ معمول چہل پہل تھی۔جس وقت وہ کچن میں داخل ہوئی مینجر ہاتھ سینے پر باندھے کھڑا تھا۔ماتھے پر بل ظاہر کررہے تھے کہ وہ شدید غصہ میں ہے۔

گڈایوننگ سر ۔۔۔وہ سرجھکا کر بولی۔

تم کل بنا بتائے کیوں گئی تھی۔

مینجر کی کرخت آواز سن کر وہ سٹپٹائی تھی۔

سر میری طبعیت خراب ہوگئی تھی۔ میں بتانا چاہتی تھی کہ میری طبعیت خراب ہے لیکن مجھ سے یہاں رہنا برداشت نہیں ہورہا تھا۔

وہ گھبراہٹ کو چھپا کر اعتماد سے بولی۔

"تم آگے  چھٹی نہیں کرتی اس لیے آج تمہیں چھوڑ رہا ہوں۔آج کے بعد یہ حرکت مت کرنا تمہارے فادر کی وجہ سے تم یہاں ٹھہری ہوئی ہو۔ورنہ جاب سے نکال دیتا"۔

وہ سختی سے بولتا باہر کی طرف  بڑھ گیا۔ لیکن ایک دم مڑ گیا تھا۔

سنو،،، وہ ڈر کر اچھلی۔۔۔

جج  جی سر!!!

لاونیہ کو میں نے کام سے نکال دیا ہے۔اب وہ نہیں آئے گی"۔

مینجر  سرخ آنکھوں سےبولتا باہر کی جانب نکل گیا۔

زارا کو اس کی پراسرار سرخ آنکھیں اچھا خاصہ سہما گئی تھیں۔۔۔

______________

تم دونوں نے مجھ سے جھوٹ بولنے کی ہمت کیسے کی؟؟؟ 

وہ سختی سے گلاس تھام کر بولا تھا۔

احکام سرجھکائے کھڑا تھا۔جبکہ کامل مطمئن تھا۔

سر مجھے کامل سر نے کہا تھا"۔احکام منمنایا۔"احکام میرے سامنے سے دفعہ ہوجاؤ اور آج پورا دن تم کلب میں گزارو گے"۔

کاشان کی  عجیب و غریب سزا پر احکام نے   بیچارگی سے کامل کو دیکھا جو کندھے اچکا رہا تھا۔

کامل کی لاپرواہی دیکھ کر اس نے دانت پیسے ۔وہ اس کا بچاؤ کیوں نہیں کررہا ۔

جاؤ احکام!!! وہ سرد لہجے میں بولا تو وہ ہمیشہ کی طرح سرجھکاتا باہر نکل گیا۔

وہ کامل کے قریب آیا اور ایک زور دار مکہ اس کے منہ پر جھڑ دیا۔

"غیر لڑکی کی بانہوں میں جھولتے ہوئے تم یہ پنچ  ڈیزرو کرتے تھے۔لیکن یہ تم نے مجھے مارا ہے"۔

وہ ہونٹ سے خون صاف کرتے ہوئے بولا تو کاشان کو اس پر مزید طیش آیا۔

اس نے گریبان جکڑ کر اسے سامنے کیا۔کامل نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھا جس میں درد ہلکورے لے رہا تھا۔

وہ کاشان کا  درد محسوس کرتا زبردستی اس کے سینے سے لگ گیا۔

کاشان بت بنا کھڑا رہا۔لیکن اس کی گہری آنکھیں ہلکی نم تھی۔

کامل جانتا تھا وہ کبھی اپنا درد نہیں بتائے گا۔

اس لیے وہ چپ چاپ اس کے سینے سے لگارہا تھا۔

کاشان نے اسے جھٹکنا چاہا لیکن وہ گرفت مضبوط کرچکا تھا۔

________

لاونیہ کے بارے میں کسی سٹاف نے بات نہیں کی تھی۔

اور یہی چیز زارا کو عجیب بھی لگ رہی تھی۔

ایک تو سر درد اوپر سے لاونیہ کی موت وہ الجھ گئی تھی۔اور پھر غنی سے ہوئی جھڑپ پر اعصاب بری طرح ہل گئے تھے۔

ہوٹل کا ٹائم ختم ہوتے ہی وہ پیدل سڑک پر آگئی تھی۔

وہ نہیں جانتی تھی ہوٹل کا مالک کون ہے۔اسے یہ جاب اپنے باپ کی وجہ سے ملی تھی۔

مینجر کا رویہ خشک ہوتا تھا۔اس لیے وہ اپنے کام سے مطلب رکھتی تھی۔

لاونیہ واحد دوست تھی۔جس سے وہ تھوڑی بہت باتیں کرلیتی تھی لیکج اب اس کا  کا کوئی سراغ بھی نہیں مل رہا تھا۔

وہ پوری طرح الجھی ہوئی تھی۔

جب ایک دم مضبوط گرفت نے اسے جکڑا تھا۔

وہ چیختی دور ہوئی لیکن مقابل شخص نے اسے سختی سے جکڑ لیا تھا۔

وہ گندی سی بو محسوس کرتی ڈر کر کانپنے لگی تھی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی تھی میرا ہاتھ جھٹکنے کی ؟  بڑی اکڑ ہے ناں تم میں،، مت بولو تمہیں میرے بسترپر ہی آنا ہے۔پھر دیکھوں گا تمہاری اکڑ کیسے نہیں ٹوٹتی"۔

اس کی غلیظ بات پر زارا کا دل تکلیف سے تڑپا۔

وہ اس کی گردن پر جھکا ہوا سماعتوں میں  زہر انڈیل رہا تھا۔

زارا نے ہاتھ پاؤں مارے تھے۔ لیکن غنی نے اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی۔

اس نے زور دار کہنی مقابل کی پسلی پر دے ماری ۔

کیوں تم اتنے برے ہو۔وہ چیخ کر روئی تو غنی نے درد میں بھی بے ہنگم قہقہ لگایا تھا۔

ویسے طاقت بہت ہے تم میں"

وہ سینہ سہلاتا دوبارہ اس کے قریب آیا تھا۔

میں برا تو ہوں لیکن تمہارے لیے سب سے زیادہ برا ہوں۔جانتی ہو تمہیں تکلیف دینا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔

اس کے بال جکڑ کر اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔

وہ سسکتی ہوئی بال چھڑوانے لگی۔لیکن غنی کو ضد چڑھ چکی تھی۔

"میرے ساتھ جتنی بدتمیزی کرو  گی میں اتنی تمہیں تکلیف دوں گا۔پھپھو سے میں بات کرچکا ہوں اگلے مہینے ہی تمہیں اپنے قدموں میں نہ جھکایا تو میرا نام بھی غنی  نہیں" ۔

بالوں کو جھٹکا دے کر اس نے زارا کو دور دھکیلا۔

وہ اوندھے منہ سڑک پر گری تھی۔

غنی اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔

وہ روتے ہوئے سڑک پر بیٹھی رہ گئی تھی۔

____________

اپنے ارد گرد عجیب و غریب حلیے میں لڑکیاں دیکھتا وہ بیزار ہوچکا تھا۔

لیکن آج اسے یہاں پورا دن گزارنا تھا۔ورنہ کاشان سر سے کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ کسی لڑکی کو ہی اس کے ساتھ باندھ دیتے۔

وہ یہ بھی جانتا تھا کاشان سر نے اسے ویسے ہی یہاں نہیں بھیجا اس کے پیچھےبھی ایک مقصد تھا۔

اسے غنی بھائی کے آدمیوں کو شوٹ کرنا تھا۔

وہ ایپل سٹرا پیتا کاؤنٹر کے پاس ہی موجود تھا۔جب اسے کل رات والی لڑکی ایک اوباش سے لڑکے کے ساتھ تھرکتی محسوس ہوئی۔

احکام کے ماتھے پر سخت بل آئے تھے۔اسے حیرت بھی ہوئی تھی کہ وہ تو عجمان میں تھی دبئی کیسے پہنچ گئی۔

آج اس نے گہرے گلے والی سائیڈ کٹ کی بلیک میکسی پہنی ہوئی تھی۔

وہ گلاس ٹیبل پر رکھتا ہجوم چیرتا آگے آیا۔

سامنے کھڑا لڑکا علایہ پر جھکنے والا تھا۔لیکن احکام نے اسے بازو سے کھینچ کر زور سے پیچھے دھکا دیا۔

علایہ جو اس میں مگن تھی ایک دم چونکی۔

شراب کے نشے میں دھت وہ نیچے گرتا چیخا۔

احکام نے علایہ کو بازو سے پکڑا اور کھینچتا ہوا باہر نکلا 

واٹ دا ہیل؟؟؟ ہاؤ ڈیر ٹو ٹچ می؟؟

علایہ بال جھٹک کر چیخی۔وہ احکام کو دیکھ کر حیران ہوئی وہ تو کل رات والا لڑکا تھا۔

تم !!!! گھٹیا شخص!!!

علایہ چیخی تو احکام کو مزید غصہ آیا۔

"تم میں شرم  نام کی چیز نہیں ہے کیوں تم ان کلبز میں گھومتی نظر آتی ہو"؟ وہ بازو دبوچ کر بولا۔اس کی آنکھیں سرخ ہوچکی تھیں۔علایہ کو اس سے خوف آیا لیکن وہ نڈر بنی تھی۔

"کیا مسلہ ہے تمہارا کل تم نے میری بازو پر نشان ڈالا تھا۔اور آج پھر میرے باپ بنے پہنچ گئے ہو ۔تم ہوتے کون ہو میرے ساتھ زبردستی کرنے والے"۔

وہ بازو چھڑوا کر غرا کربولی ۔احکام نے بازو سختی سے دبوچ کر اپنی طرف کھینچا۔تو وہ اس کے سینے سے لگی۔

اس کے کلون کی مہک نے جیسے حواسوں پر وار کیا تھا۔

آج کے بعد اگر تم مجھے کسی بھی لڑکے کی بانہوں میں نظر آئی تو میں تمہارا قتل کردوں گا۔

اور میں کون ہوں وہ بھی جلد بتاؤں گا۔

گردن کی دائیں طرف چاقو رکھ کر اس نے دباؤ ڈالا۔

وہ کانپی تھی۔

وہ کان کے پاس غرا کر بازو کو جھٹکتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کلب سے نکل آیاتھا۔

علایہ کو اپنی گردن پر ہوتی سرسراہٹ نے کافی سہمایا تھا۔

_________

وہ آج پھر بری طرح رو رہی تھی۔لیکن آنسو صاف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

اسے اپنے آپ سے نفرت ہورہی تھی۔

وہ شاور کے نیچے کھڑی کافی دیر تک بھیگتی رہی۔

وہ اجیہ بیگم سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی کیونکہ وہ تو غنی کے خلاف ایک لفظ سننا بھی پسند نہیں کرتی تھی۔

کافی دیر بھیگنے کے بعد وہ باہر آئی۔

گھڑی میں وقت دیکھا تو صبح کے پانچ بج رہے تھے۔

وہ کپڑے لے کر چینج کرنے بڑھ گئی تاکہ نماز پڑھ سکے۔وہ بہت کم نماز پڑھتی تھی۔لیکن آج اسے اللہ کی یاد شدت سے آئی تھی۔

کچھ دیر میں وہ مصلہ بچھائے نماز پڑھتے ہوئے گڑگڑا رہی تھی۔

________

کلب سے وہ نکل تو آیا تھا لیکن اسے اب افسوس بھی ہورہا تھا کہ وہ کیوں اس لڑکی کے سامنے  ایسا ری ایکٹ کرگیا۔وہ تو اسے جانتا بھی نہیں تھا۔اس کی بلا سے وہ کسی کے ساتھ بھی گھومے ۔حالانکہ وہاں اور بھی لڑکیاں تھیں۔لیکن اسے وہ لڑکی ہی کیوں بری لگی تھی۔وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پایا تھا۔

وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا  تھا

بلیک ہوڈی پر وہ بلیک ہی جینز پہنے ہوئے تھا۔

گھنی داڑھی اور مونچھیں اور مغرور نین نقش اسے منفرد بناتے تھے۔عنابی لبوں پر سیگریٹ سلگا کر اس نے گہرا کش لیا۔کف تھوڑے سے اوپر کھینچے ہوئے تھے۔

چند لڑکیاں اسے سیگریٹ پیتے دیکھ کر مڑی تھیں۔لیکن وہ لاپرواہ بنا رہا۔

وہ سٹائل سے سیگریٹ پیتا سب کو ہی اپنی جانب متوجہ کرنے لگا۔

تیسری انگلی میں مہرون پتھر والی بڑی انگوٹھی اس کے ہاتھوں کی مضبوطی کو ظاہر کررہی تھی۔

 وہ علایہ کا انتظار کرنا چاہتا تھا۔

دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اس سے ڈرے گی یا نہیں ؟؟

کچھ دیر میں وہ ہینڈ بیگ کندھے پر لٹکا کر باہر نکلی ۔

احکام الرٹ ہوا  تھا۔

اس نے بازوں پر اب ایک ریشمی سکارف لیا ہوا تھا۔۔احکام کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔یعنی اس پر اثر ہوگیا تھا۔

وہ ہوڈی کو سر سے اوپر تک کرتا علایہ کی طرف بڑھا۔

اس کی ہاتھ میں باریک سی چپ تھی۔جو جسم میں جذب ہوجاتی تھی۔

وہ ایک دم علایہ کے قریب آکر لڑکھڑایا۔

اہہہ مائے گاڈ!!!!""""

چپ اس غیر محسوس طریقے سے بازو میں چھبودی تھی۔اور خود نیچے گرا۔

علایہ ایک دم درد سے اچھلی اور سامنے گرے لڑکے کو بھی اٹھایا۔۔جو اب زمین پر گرا تھا۔

آئی ایم سوری،،،،

وہ نیچے جھک کر اپنے سے ڈبل بھاری شخص کو اٹھاتی ہلکان ہوئی۔

احکام ہاتھ کھڑا کرکے ہوڈی کو چہرے پر درست کیے واپس مڑ گیا تھا۔

علایہ نے سرخ ہوتی بازو مسلی۔ اور آگے بڑھ گئی تھی۔

___________

کامل جم میں موجود تھا جب کان میں لگی بلیو توتھ سے الرٹ کا نوٹیفکیشن آیا۔

وہ ٹاول سے پسینہ صاف کرکے اٹھا۔

ایول کنگ!!! اس نے بٹن دبا کر کاشان کو بھی میسج کیا۔

وہ اس وقت گہری نیند میں تھا۔لیکن اس کے حواس مضبوط تھے۔

میسج کی تیز آواز سے ہی وہ اٹھ کر بیٹھا۔

کاشان ڈزنی لینڈ میں سے تین بچے غائب ہوئے ہیں۔تینوں لڑکیاں ہیں۔وہ جلدی سے شرٹ  پہن کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔

کامل نے اسے کچھ کہنا چاہا تھا لیکن وہ سننے کے موڈ میں نہیں تھا۔

_________

 ٹیڈی کا کاسٹیوم پہنے وہ ڈزنی لینڈ میں گھوم رہا تھا۔

 گارڈ کی اطلاع کے مطابق بچیاں ابھی لینڈ سے باہر جاتی دکھائی نہیں دی تھی۔

تبھی وہ کاسٹیوم پہن کر ہر جگہ گھوم رہا تھا۔کامل نے اسے روکا تھا ۔وہ بھی یہ کام کرسکتا تھا۔لیکن اس پر جب جنون سوار ہوتا تھا تو وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔

کاشان کی آنکھیں سرخ تھی۔اس کی رگیں پھول رہی تھیں۔

وہ کافی دیر سے  لینڈ کا چپہ چپہ چھان رہا تھا۔

ایک کارنر پر بنے واش روم سے اسے دبی دبی سسکیاں سنائی دی تھی۔

وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

لائن میں بچوں کے واش روم بنے تھے۔

وہ دبے قدموں سے گن کو پاکٹ میں چیک کرتا آگے بڑھا۔

آخری واش روم سے اسے سایہ نظر آیا تو اس نے سختی سے لبوں کو بھینچا۔

اس کے دماغ میں ماضی کی یادیں گھومنے لگی تھیں۔اسے وہ وقت یاد آرہا تھا جب ایسے ہی اس کے پیاروں کو قید کیا گیا تھا۔

وہ آہستہ چلتا آگے آیا۔

آخری واش روم میں کیبن بنا ہوا تھا جو دیکھنے میں کیبن جیسا تھا لیکن اس کے پیچھے ایک دروازہ تھا۔

گن نکال کر اس نے کندھے سے دروازے پر ٹھوکر ماری ۔

سامنے ایک کرخت شکل کا آدمی دو بچیوں کے ہاتھ پر منہ رکھے انہیں باہر نکال رہا تھا۔

کاشان کی آنکھیں لال انگارہ ہوتی طیش کو آواز دینے لگی۔۔

اس نے تیزی سے نشانہ لے کر گولی ماری وہ سیدھا اس کے کندھے سے لگی۔

بچیاں زمین پر گری تھیں۔

وہ شخص درد سے چلایا۔ان بچیوں کی روتی شکلیں دیکھ کر کاشان کے دل میں درد اٹھا تھا۔

مضبوط اعصاب کا مالک شخص اس وقت درد سے رونے والا ہوچکا تھا۔

اس نے آگے بڑھ کر بچیوں کو اٹھا کر خود میں بھینچ لیا۔

کامل بھی وہاں آچکا تھا ۔احکام نے بیک سائیڈ سے جاکر ایک اور بچی کو پکڑا۔

وہ تین لوگ تھے۔جو تینوں بچیوں کو اغواہ کرنے آئے تھے۔

کاشان کا غصہ شدت اختیار کرچکا تھا۔وہ بنا رکے انہین بری طرح سے پیٹنے لگا۔

احکام انہیں اپنے ٹارچرروم میں لے کر جاؤ۔آج ان کو بتاؤں گا چھوٹی بچیاں کتنی نازک ہوتی ہیں ان کے ساتھ ایسا ظلم کبھی نہیں کرنا چاہیے۔

وہ آواز بدل کر بولتا باہر نکلا۔کامل نے بچیاں سنبھالی تھیں۔

وہ اس کی پشت گھورنے لگا کیونکہ جانتا تھا وہ اس وقت تکلیف میں ہے۔

اور اب وہ تمام دن غم غلط کرے گا اور پھر انہیں سزا دے گا۔

____________

وہ ٹارچر روم میں آگیا تھا۔

تینوں آدمی الیکٹرک  چئیر سے بندھے ہوئے تھے جن میں ہائی وولٹیج کا کرنٹ دوڑ رہا تھا۔روم میں نیم اندھیرا اور پراسراریت تھی۔

کامل ایک طرف بیٹھا تھا۔اس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا۔احکام بچیوں کی سہی سلامت چھوڑ کر آیا تھا۔

کامل سوئچ آن کرو۔آج میں ان کو بتاؤں گا بچیوں سے کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

نن نہیں ہمیں جانے دو۔ہمیں معاف کردو۔ہمیں حکم دیا گیا تھا۔

وہ عربی میں بولے تھے۔کاشان کے لب طنزیہ مسکرائے۔

کامل نے سوئچ آن کیا تو وہ تڑپ اٹھے۔

کرنٹ سے لگتے جھٹکے انہیں عذاب سے دوچار کرنے لگے۔

ابھی میں نے کم وولٹیج کا کرنٹ دیا ہے۔

اگر جھوٹ بولو گے تو میں تم لوگوں کو اسی کرنٹ سے جلا کر راکھ کردوں گا۔

وہ دھاڑ اٹھا تھا۔

ایول کنگ کی آنکھوں میں اس وقت سفاکیت کی انتہا تھی۔

وہ اس سفاکیت کو دیکھ کر مرنے کے قریب پہنچنے والے ہوگئے۔

ہمیں غنی بھائی نے کہا تھا وہ یہ دھندا آج کل بہت اچھے سے چلا رہا ہے۔

"غنی بھائی کو ہم نے دیکھا نہیں ہے لیکن وہ ہمیں فون پر حکم دیتا ہے۔اور پھر ہم بچیاں اٹھاتے ہیں۔چھوٹی بچیوں کی ڈیمانڈ دبئی اور اردگرد شہروں میں بڑھ رہی ہے"۔

کاشان نے سختی سے لب بھینچ لیے۔خون کا بڑھاؤ دماغ میں بڑھنے لگا۔

اسے وہ دردناک ماضی یاد آگیا تھا۔

کامل فل سپیڈ میں کرنٹ کا دباؤ بڑھادو آج یہ ایول کنگ کی سفاکیت دیکھ کر ہی موت کو گلے لگائیں گے۔۔وہ انہیں بنا ہاتھ لگائے بولا تھا۔

کامل نے کرنٹ تیز کیا تو وہ تڑپتے چیخ رہے تھے۔ان کی چیخیں تہہ خانے میں گونج رہی تھیں۔

وہ ایک سونگ کی طرح ان کی چیخیں انجوائے کرنے لگا تھا۔

کچھ دیر میں کرنٹ کی شدت سے وہ جل کر راکھ ہوگئے تھے۔

______

مس زارا،، دبئی میں فوڈ فیسٹول ہے۔اور ہماری ٹیم میں سے آپ کو سلیکٹ کیا گیا ہے۔ اگلے ایک ہفتے کے لیے آپ دبئی جارہی ہیں۔وہاں آپ کے لیے روم بھی بک کروادیا گیا ہے۔

مینجر کی بات پر اس نے اچھنبے سے سراٹھایا۔

بخار کی وجہ سے جسم میں درد تھا لیکن وہ پھر بھی ریسٹورنٹ آئی تھی۔

لل۔لیکن سر میں کیسے؟؟ 

کیوں آپ کو کیا مسلہ ہے ، ہوٹل کے اونر نے ہی یہ ڈیسائیڈ کیا ہے وہ چاہتے ہیں ہمارے ریسٹورنٹ کا نام پوری دنیا میں گونجے۔

اسے شدت سے ریسٹورنٹ کے اونر پر طیش آیا۔

ناجانے کون تھا اور عجیب ہی حکم کردیا تھا۔

 مس زارا کونسی دنیا میں گم ہوگئی ہیں۔

مینجر نے اس کے آگے چٹکی بجائی۔

اوکے سر میں چلی جاؤں گی۔وہ محض یہی بول پائی تھی۔

__________

کاشان گن کو تھوڑی پر ٹکائے ایک ہاتھ میں وائن کا گلاس تھامے لمبے ہیڈ والے صوفے پر دراز تھا۔۔اس کی آنکھیں بند تھی۔

اور سوچوں کے دھارے دس سال پیچھے چلے گئے تھے۔

اسے چیخیں سنائی دے رہی تھی۔جیسے کوئی اسے بلارہا تھا۔

لاشیں ٹھکانے لگادی؟؟

وہ کامل کی موجودگی کو محسوس کرچکا تھا۔

ہاں لگادی تھیں۔

تم وہاں سے کیوں چلے گئے؟؟

وہ جیسے اسے بولنے پر اکسانے لگا۔ کاشان نے اپنی سرخ ہوتی آنکھیں کھولی۔

کامل کو اس کی آنکھیں دیکھ کر خوف محسوس ہوا۔

گرینڈ ما تمہاری شادی کرنا چاہتی ہیں۔۔وہ موقعے کی مناسبت سے بات بدل گیا تھا۔

کاشان کے لب مسکراہٹ میں ڈھل گئے اس نے ایک جھٹکے میں گلاس خالی کیا اور ٹیبل پر پٹک دیا۔

اس کی سرخ ہوتی آنکھیں بھی جیسے طنزیہ مسکرانے لگی تھیں۔

گرینڈ ما کو بتادینا تھا۔میری گرل فرینڈ مجھے چھوڑ کر بھاگ گئی۔

وہ لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوگیا۔اچھا چھوڑو  میری بجائے تم شادی کرلو۔

 ؤہ کامل کےپاس آتا بولا۔

 کامل نے اچھنبے سے اسے دیکھا جو اب درد کو ہنسی میں چھپا رہا تھا۔

تم سنبھل جاؤ کاشان!! انڈر ورلڈ کی ریاست تمہارے حکم کی پابند ہے۔

تمہاری آواز کی دہشت ہی سب کو سہمادیتی ہے۔پھر تم کیوں ایسی حرکتیں کرنے لگے ہو۔

کامل نے آج پھر اسے سمجھانا ضروری سمجھا۔

چھوڑو سب باتیں !!! میں بات نہیں کرنا چاہتا۔

میں نے فوڈ فیسٹول ارینج کروایا ہے۔اس دوران ہیروں کی سمگلنگ ہوگی۔

بدلے میں ان سے گنز لینی ہیں۔

دھیان رکھنا ہمارا مال ایک دم سولڈ ہو۔

چھ ہیروں کے بدلے ایک ہزار برانڈڈ گنز،، سمجھ رہے ہو۔وہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا تھا۔

کامل نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔

کاشان پھر مسکرایا تھا اس کا ڈمپل واضح ہوا تھا۔ کامل نے صدا اس کے مسکرانے کی دعا کی تھی۔

___________

وہ علایہ کی لوکیشن اب آسانی سے دیکھ سکتا تھا۔وہ لڑکی دو ملاقات میں ہی اسے اپنی طرف راغب کرگئی تھی۔

وہ اپنی کیفیت پر حیران بھی تھا۔

یہ مجھے کیا ہورہا ہے میں کیوں اسے سوچنے لگا ہوں۔نہیں یہ غلط ہے۔وہ اپنی ہی سوچوں کی نفی کرنے لگا تھا۔

وہ اس کا نام بھی نہیں جانتا تھااور نہ ہی کچھ اور جانتا تھا۔

تم جو کوئی بھی ہو تمہیں میں حاصل کرکے رہوں گا۔ایک جنون تھا جو احکام کے لفظوں میں تھا۔

موبائل پر اس نے علایہ کی لوکیشن دیکھی تو وہ حیران ہوا وہ اب بھی دبئی میں ہی تھی۔

اور یہ اس کے لیے اچھا بھی تھا ورنہ وہ اس لڑکی کے پیچھے خوار نہیں ہونا چاہتا تھا۔

_________

وہ دبئی آچکی تھی۔اجیہ بیگم نے اجازت بہت مشکل سے دی تھی۔

ایک طرح سے اس کے لیے اچھا بھی ہوا تھا۔اگر وہاں رہتی تو شاید وہ سوچ سوچ کر پاگل  ہوجاتی۔غنی سے اس دن کے بعد سامنا نہیں ہوا تھا۔

فوڈ فیسٹول سمندر کنارے ارینج کیا گیا تھا۔

چھوٹے چھوٹے بنے کیبنز میں سے ایک اس کو بھی ملا تھا۔

اس کے ساتھ ایک ساتھی ویٹرس تھی۔جو کہ اسے کھانا بنانے کے لیے مدد کررہی تھی۔

لاونیہ کی یاد اسے بہت شدت سے آتی تھی۔لیکن وہ کچھ کر نہیں پائی تھی۔

فوڈ فیسٹول کے ساتھ ہی بچوں کا پلے لینڈ بھی بنایا گیا تھا۔

دبئی میں ہر سال ایسے کئی فیسٹولز ہوتے ہیں۔فوڈ فیسٹول کے ساتھ ساتھ نیو ائیر کی سلیبریشن بھی  تھی۔جس میں ابھی دو دن باقی تھے۔

وہ یہاں  آکر گھل مل گئی تھی۔

بچوں کو دیکھتی وہ خوش ہورہی تھی۔یہاں انہیں ویٹرس کے لباس کی بجائے وائٹ  سکرٹ اور وائٹ ہی ٹاپ پہننا تھا۔

پورا دن گزار کر وہ ہوٹل پہنچی تھی۔لیکن وہ بیچ راستے میں ہی رک گئی۔آنکھوں میں خوف سمٹ آیا۔

سامنے غنی کے ساتھ ایک بڑی عمر کا شیخ تھا۔وہ شکل سے ہی ہیبت ناک تھا۔

وہ اس کے روم سے کچھ فاصلے پر ہی کھڑے تھے۔

زارا خوف سے مڑی۔

لیکن غنی اسے دیکھ چکا تھا۔

ہائے زارا مائی لو!!! وہ زبردستی اس کے گلے لگا تو زارا نے اسے دور دھکیلا۔

میٹ مائے فرینڈ !! بزل شیخ!!! 

زارا کی حرکت کو وہ نظر انداز کرتا شیخ کو اپنے پاس بلانے لگا۔

زارا کو سمجھ آگئی تھی کہ وہ اسے کیوں لایا ہے۔

زارا نے قدم پیچھے لیے۔

چپ چاپ میری بات مان لو ابھی تو بہت سے حساب باقی ہیں۔وہ بازو پکڑ کر غرایا۔

زارا کے آنسو بہہ گئے سبز آنکھیں گلابی ہونے لگی۔

وہ بیس سال کی دلکشی اور راعنائی سے بھرپور لڑکی سب کو اپنی جانب کھینچ لیتی تھی پھر بزل جیسا لڑکی باز آدمی کیسے نہ پہچان لیتا۔

بزل کو خوش کرو گی تو سارا کی جان  بچ جائے گی۔

وہ دھمکی دیتا رہی سہی ہمت بھی ختم کرگیا تھا۔

اسے غنی سے شدید نفرت ہوئی۔

دل چاہا زمین پھٹے اور  اس میں سماجائے۔

اس نے زارا کا سودا ہی کردیاتھا۔

وہ کس سے مدد مانگتی ؟ وہ سر نفی میں ہلاتی ایک جھٹکے میں اسے دور دھکیلتی تیز قدموں سے بھاگی۔

غنی سمجھ ہی نہیں پایاتھا کہ یہ ہوا کیاہے۔

وہ پوری قوت سے بھاگی تھی۔

ہوٹل کے سٹاف نے حیرت سے یہ منظر دیکھا۔

اسے اس وقت کسی کی پرواہ نہیں تھی۔وہ بس بھاگ جانا چاہتی تھی۔غنی نے اپنے چہرے پر ماسک لگایا تھا۔

بزل اطمینان سے اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔وہ جانتا تھا کہ غنی کبھی دھوکہ نہیں دیتا۔

____________

کاشان بھائی چھوڑ دیں !! ہم دوبارہ غلطی نہیں کریں گے ہمیں معاف کردیں۔۔

کاشان اپنے دشمن کو آسانی سے معاف نہیں کرتا،اور تو نے تو غداری کی ہے،

گریبان سے پکڑے اس شخص نے سامنے والے کو جھٹکادیاتھا۔

وہ اس وقت دبئی کے سمندر ساحل پر موجود تھے۔

میں لڑکی ذات کی سمگلنگ کرنے سے منع کرتا ہوں ناں پھر تو نے کیوں ایسا کیا۔بول کیا اپنے اصول بھول گیا۔یہ اس کا خاص آدمی تھا جو بارڈر سے مال لوڈ کرواتا تھا۔

لیکن کاشان کو پچھلے دنوں وہ مشکوک لگ رہا تھا۔۔احکام نے اسے اطلاع دے دی تھی۔

بب بھائی ایک بار معافی ماں قسم دوبارہ نہیں کروں گا،۔

"ماں کی قسم کھاتا ہے شرم سے ڈوب مرو۔۔

کاشان  نے ایک زور دار چماٹ منہ پر ماری تھی۔

وہ شخص اب بھی گڑگڑا رہا تھا۔ کاشان نے اپنا خاص چاقو نکالا۔

اس شخص کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔سر نفی میں ہلاکر وہ کانپنے لگا۔

تم کوئی اور جرم کرتے تو میں تمہیں معاف کردیتا لیکن تم نے گناہ کیا ہے۔

گردن پر پھیر کر اس نے اس شخص کو زمین پر پھینکا۔

وہ شخص آخری ہچکی لے کر زمین بوس ہواتھا۔ 

 اس کی نظر سمندر کے قریب لڑکی کی طرف گئی جو بے جان قدموں سے سمندر میں  جارہی تھی۔وہ آدھے پانی تک پہنچ چکی تھی

کامل اسے پکڑ!! وہ لڑکی ڈوب رہی ہے۔

کاشان کی گھمبیر آواز گونجی۔

کامل کا دھیان ہی نیچے گری لاش کی جانب تھا وہ کیا خاک سنتا؟

لاش کے اوپر سے پھلانگ کر کاشان تیزی سے سمندر کی جانب آیا۔

وہ لڑکی تیزی سے پانی میں ڈوبی تھی۔کاشان نے بھی تیزی سے غوطہ لگایا۔

سمندر کی موجیں آج کچھ زیادہ ہی  تیز تھیں۔

وہ نازک سی لڑکی موجدار لہروں کی وجہ سے ڈوبتی چلی گئی۔کاشان نے بھی مضبوط بازوؤں کو چلا کر پانی کو ہٹا کر راستہ بنایا۔اور پانی کے اندر تک پہنچا۔

وہ کھلی آنکھوں سے ڈوب رہی تھی۔

کاشان تیزی سے تیرتا اس تک پہنچااور بازؤں میں قید کیا۔

وہ لڑکی مچلی تھی۔ڈوبنے کے لیے وہ کاشان کو دور ہٹانے لگی۔لیکن مضبوط پکڑ  نے ہر کوشش ناکام بنادی تھی۔

وہ اسے لیے ساحل پر آیا۔گیلی ریت پر زور سے پھینکا۔

وہ سفید لباس پہنے ہوئے تھی۔

جو اب جسم سے چپک چکا تھا۔

کاشان غضب ناک آنکھوں سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو لمبے لمبے سانس لے رہی تھی ۔۔

تم کون ہو کیوں بچایا مجھے مرجانے دو وہ کھانستے ہوئے دہری ہورہی تھی۔

کاشان نے اسے سیدھا کرکے ایک زور دار تھپڑ منہ پر مارا تھا۔

پاگل ہو کیا؟ مرنا اتنا آسان ہوتا ہے۔وہ لہروں کا شور محسوس کرتا چیخا تھا۔

زارا نے گال پر ہاتھ رکھ کر سامنے والے کو دیکھا۔۔اس کی آنکھیں خوف سے پھیلیں۔یہ تو وہی آدمی تھا جو اس دن شراب کے نشے میں گھوم رہاتھا۔جس کی گاڑی میں وہ گھر تک بھی گئی تھی۔

وہ خوف سے پیچھے ہوئی۔

کاشان حیرت سے اسے دیکھنے لگا تھا۔

ایک دم وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔کاشان نے سختی سے آنکھیں میچ کر کھولیں۔

اپنا گھر بتاؤ میں تمہیں وہاں پہنچاتا ہوں۔

وہ گیلی  شرٹ کو ہاتھ سے جھاڑنے لگا جو مٹی سے بھر گئی تھی۔

میں گھر نہیں جانا چاہتی میں مرنا چاہتی ہوں مجھے مرجانے دو۔

وہ زمین پر دونوں ہاتھ مار کر چیخی تو کاشان کو مزید طیش آیا۔اس نے بازو سے جکڑ کر اسے اپنے قریب کرلیا۔

وہ رونا بھول کر سہمی تھی۔

اب اگر تم روئی تو میں تمہیں مار دوں گا۔

وہ سختی سے بولا۔

ماردو مجھے عزت کا سودا کرنے سے اچھا ہے میں مرجاؤں ۔

اس کی سبز آنکھیں سوج چکی تھی۔اسے غنی سے زیادہ ماں کی باتیں رلارہی تھیں۔

ناجانے غنی نے انہیں کیا کہا تھا کہ وہ بھی اسے ہی باتیں سنارہی تھی۔

کاشان نے کامل کو اپنا کوٹ لانے کو کہا۔

وہ بیزار سا کھڑا تھا۔لیکن کاشان کے اشارے پر وہ گاڑی سے کوٹ لے آیا تھا۔

تم رو مت،!!! کوئی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔

مرنے سے مسلے حل نہیں ہوتی اور خودکشی حرام ہے۔

کامل کو اس کی باتوں پر حیرانگی ہورہی تھی۔

وہ کسی سے اتنی نرمی سے بات نہیں کرتا تھا۔اور لڑکیوں کو تو وہ ہاتھ کی میل کی طرح رکھتا تھا۔لیکن اس سے وہ نرمی سے بھی بات کررہا تھا۔اور اسے دیکھ بھی نہیں رہا تھا۔

کامل اس لڑکی کو سہی سلامت ہوٹل پہنچاؤ۔اس کا خیال رکھنے کے لیے ایک گارڈ بھی رکھ دو۔

کاشان کی باتوں پر زارا نے اسے دیکھا۔

سبز آنکھوں میں حیرت تھی۔وہ شخص اچھا تھا یا برا زارا کو سمجھ نہیں آیا۔

حیران تو کامل بھی تھا۔لیکن وہ ابھی کچھ کہنا نہیں چاہتا تھا۔

________

وہ روم میں بیٹھی تھی۔ویٹر ابھی اسے گرم چائے دے کر گیا تھا۔ٹھنڈے پانی اور کچھ بخار کی وجہ سے وہ سردی سے کانپ رہی تھی۔

اسے وہ شخص یاد آگیا تھا جس نے گاڑی میں کافی تنگ کیا تھا۔لیکن وہ اب کافی مختلف لگا تھا۔جیسے وہ شخص ہو ہی نہ۔

دروازہ نوک ہوا تو وہ ڈر کر اچھلی۔

دروازے پر دوبارہ دستک ہوئی تھی۔وہ اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی اور دروازہ کھولا۔

تم یہاں کس لیے آئی ہو؟ دروازے پر کاشان ہی تھا۔زارا کا دل چاہا وہ یہاں سے بھاگ جائے۔پتہ نہیں کیوں وہ شخص جب بھی سامنے آتا تھا وہ خوفزدہ ہی ہوتی تھی۔

جواب دو لڑکی؟؟ کاشان کا لہجہ سخت ہوگیا تھا۔

مم میں ویٹرس ہوں۔فوڈ فیسٹیول میں شامل ہونے عجمان سے آئی ہوں۔

وہ ڈرتے ہوئے بولی۔

اوکے تم اپنا کام اب آرام سے کرلینا ۔میرا ایک خاص آدمی تمہارے اردگرد رہے گا۔ مجھے تمہارے بارے میں جاننے کا شوق نہیں ہے لیکن پھر بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔خودکشی حرام ہوتی ہے۔اللہ نے زندگی امانت کے طور پر ہمیں دی ہے۔اس کی قدر کرنا  سیکھو۔

اور ہاں سوری!!!! تھپڑ غلطی سے لگ گیا تھا۔

کاشان کو اپنا ہی لہجہ اجنبی لگاتھا۔لیکن وہ زارا کو سمجھانا چاہتا تھا۔

خیر تم ریسٹ کرو۔میں یہاں سے گزر رہا تھا۔اس لیے دروازہ ناک کیا تھا۔وہ اس کی سہمی سبز آنکھیں ایک نظر دیکھ کر وہاں سے نکلا تھا۔

_______ 

سر غنی کے بارے میں کچھ انفارمیشن ملی ہے۔

احکام کی آواز پر وہ سیدھا ہوا۔

کیا پتہ چلا ہے؟

کاشان کے اعصاب تن گئے تھے۔

سر وہ عجمان میں رہتا ہے۔اور ۔۔۔

وہ خاموش ہوگیا تھا۔ اور کیا احکام ؟؟ کاشان نے سرد انداز میں پوچھا۔

سر اس کے بزل شیخ کے ساتھ تعلقات ہیں۔

بزل شیخ ؟ کاشان کا دل میں جیسے آگ بھڑک اٹھی تھی۔

بزل شیخ کو وہ پچھلے دس سال سے ڈھونڈ رہا تھا۔

غنی کے ساتھ اس کے تعلقات کچھ ہضم سا نہیں ہورہا تھا۔

بزل شیخ کی موت میرے ہاتھوں ہی ہوگی ۔وہ دل میں عہد کرتا اب سیگریٹ پینے لگا تھا۔

پہلے چھوٹی مچھلی پکڑو پھر بڑی مچھلی کو میں اپنے ہاتھ سے ماروں میں گا۔

جو حکم سر!!! وہ سرجھکا کر کمرے سے نکل گیا تھا۔

_________

فیسٹول کا آج دوسرا دن تھا۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن یہاں چھپ کر بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔

اس کے پاس تو ڈریس بھی نہیں تھا۔ وہ جاتی بھی تو کیسے ؟ کل وہ اجنبی شخص ایک ڈریس دے کر گیا تھا۔لیکن یہ اس ویٹرس والے حلیے کے لیے مناسب نہیں تھا۔

وہ ابھی سوچوں میں ہی تھی ۔دروازے پر ہوتی دستک پر وہ کل کی طرح آج بھی ڈر کر سہمی۔

وہ ہمت کرتی دروازے کی طرف آئی۔

گیٹ پر ایک دراز قد آدمی گارڈ کے حلیے میں تھا۔

اس کے ہاتھ میں ایک بیگ تھا۔

میڈم یہ سر نے  بجھوایا ہے۔اسے پہن لیں اور میں آپ کو چھوڑ کر آؤں گا۔۔وہ روبورٹ کی طرح بنا اسے دیکھے بولا۔

زارا نے کانپتے ہوئے اسے پکڑ لیا تھا۔

حیرت سے اس کی آنکھیں کھلیں ۔کیونکہ وہ وہی ڈریس تھا جیسا اس نے پہنا ہوا تھا۔

وہ چپ چاپ چینج کرنے بڑھ گئی تھی۔

__________

علایہ کی لوکیشن چیک کرتا وہ آج حیران ہوا تھا۔وہ عجمان میں تھی۔

یہ لڑکی آخر کیا چیز ہے؟ وہ یہی سوچ پایا۔

اسے ناجانے کیوں اس پر شک ہونے لگا تھا۔

سر میں عجمان جانا چاہتا ہوں۔کاشان کو فون کرکے اس نے اجازت لینا چاہی۔

جاؤ اور غنی کے ساتھ اپنی بات بھی پکی کرآؤ۔

کاشان کی ذومعنی بات پر وہ اچھلا۔

سر ""

مجھ سے کیا کچھ چھپ سکتا ہے۔کاشان کا سرد انداز سنتا احکام اردگرد دیکھنے لگا۔حالانکہ وہ اس کے سامنے بھی نہیں تھا۔

لڑکی مجھے  اچھی لگی ہے اگر تمہیں پسند ہے تو شادی کرلو۔زیادہ خوار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اوکے سر!!!! وہ شادی کا سوچ بھی نہیں رہا تھا لیکن کاشان نے اس کی توجہ دلوادی تھی۔

وہ مزید کچھ کہتا کاشان نے کال کاٹ دی تھی۔

______

ہ متورم چہرے کے ساتھ کوکنگ رینج کے پاس کھڑی تھی۔

جب غنی ایک بار پھر سامنے آیا۔وہ شاید پیچھے سے آگے آیا تھا۔

وہ چیختی چمچ چھوڑتی دیوار کے ساتھ لگی تھی۔

نن نہیں مجھے نہیں جانا پلیز مجھے نہیں جانا۔۔

وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگی۔غنی کے ہونٹوں پر خباثت تھی۔اس کی سرخ انگارہ آنکھوں سے وہ خوف سے مرنے والی ہوگئی تھی۔

کوئی ہے ؟؟ وہ خوف سے چیخی۔

"میں ہوں ناں ڈارلنگ !!! میرے ساتھ چلو آفٹر آل میں تمہارا منگیتر ہوں"۔

وہ آہستہ آہستہ اس کے قریب آرہا تھا۔اور زارا کو لگا تھا وہ سانس نہیں لے پائے گی۔

غنی نے غراہٹ کے ساتھ اس کا جبڑا پکڑا۔

"تم سمجھتی ہو میں تمہاری خبر نہیں رکھتا۔غلط فہمیاں پالی ہوئی ہیں۔میں غنی بھائی ہوں۔عجمان کا بادشاہ اور اب دبئی میں اپنی ریاست بناؤں گا۔تبھی تو تم یہاں ہو۔میں نے ہی مینجر کو کہا تھا کہ تمہیں یہاں بھیجا جائے۔کیونکہ ویسے تو تم نے ہاتھ نہیں آنا تھا"۔

وہ چبا چبا کر بولتا زارا کی سانسیں کھینچ رہا تھا۔

"""""پپ پلیز مجھے معاف کردو۔مجھے چھوڑ دو۔میں تمہاری منگیتر سے پہلے تمہاری کزن بھی ہوں۔پلیز ایسا مت کرو"""""۔وہ ہاتھ جوڑ کر سسکیاں لیتی التجا کرنے لگی تھی۔

"کزن ہونے کا ہی فائدہ اٹھارہا ہوں"۔

غنی نے اسے ایک جھٹکے میں کندھے پر ڈالا اور پچھلی سائڈ سے ہی لے کر باہر نکلا۔

شام کا اندھیرا پھیلنا شروع ہوگیا تھا۔اور لائٹیں بھی جل اٹھی تھیں۔

غنی اسے لے کر گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا ۔زارا چیخ رہی تھی۔

سب اپنے اپنے کھیل میں مگن تھے۔

اس سے پہلے غنی آگے بڑھتا لمبے قد کا خاصہ ڈیل ڈول والا شخص اس کے سامنے آکر کھـڑا ہوا تھا۔

غنی رک گیا تھا۔

کون ہو تم ؟؟ ""غنی دھاڑا لیکن زارا کو نیچے نہیں اتارا۔

"لڑی کو نیچے اتارو اور ایول کنگ سے مل لو"۔

وہ گردن اکڑا کر بولا تو غنی حیران رہ گیا۔

ایول کنگ؟؟ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا ایول کنگ اس کے سامنے آئے گا۔

کاشان نے چہرے پر ماسک لگایا تھا جس سے وہ اصل چہرہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔

"اوہ تو تم ایول کنگ ہو جس کی دہشت ہر جگہ ہے۔ایول کنگ دی گریٹ مافیا کنگ!! """"ہاہاہا غنی کا قہقہ گونجا تھا۔

کاشان اپنی جگہ کھڑا رہا تھا۔

زارا کو اس نے نیچے اتارا اور ایک جھٹکے میں اس نے چاقو نکال کر گلے پر رکھ دیا۔

زارا چیخ بھی نہیں پائی تھی۔

"ْاگر اسے زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو میرے راستے سے ہٹ جاو"

"بزدلوں کی طرح عورت کو درمیان میں لائے گا تو مقابلہ کرنے کا مزہ نہیں آئے گا۔"

کاشان کے لہجے میں کچھ تو جو غنی کو ٹھٹرا رہا تھا۔اس نے چاقو کا دباؤ بے درد طریقے زارا کے گلے پر ڈالا تو وہ چیخ کر رونےلگی۔تیز دھار ہونے کی وجہ سے ایک گہرا کٹ گلے پر آگیا تھا۔

 رنگ برنگی  روشنیوں میں وہ اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جو سرخ ہورہا تھا۔

سبز نگینے گلابی ہوچکے تھے۔

کاشان کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہونے لگا۔وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔کل اور آج کی ملاقات اسے حیران ہی تو کررہی تھی۔

کاشان نے نظر ہٹا کر غنی کو دیکھا۔جبڑے کسے وہ غنی کو دیکھ رہا تھا۔

غنی نے زارا کو ریت پر پھینکا اور خود بھاگنے لگا۔

رکو وہ اس کے پیچھے بھاگا۔لیکن زارا چیخ رہی تھی۔وہ درد سے دہری ہوتی زمین پر لیٹ گئی۔

کاشان اسے چھوڑ کر زارا کی طرف آیا۔

اٹھو لڑکی!!! """""چلو میرے ساتھ""""" 

اسے سیدھا کرتا وہ بولا۔گلے سے نکلتے خون کو وہ حیرانگی سے دیکھنے لگا۔

ایک دم جیسے اسے دل میں درد محسوس ہوا تھا۔

آنکھیں کھولو لڑکی تم ٹھیک ہو۔بتاؤ وہ کون تھا۔تمہارے پیچھے کیوں پڑا ہے۔

کاشان اسے بانہوں میں بھرتا اونچی آواز میں بولا

سمندر کے قریب اب گانوں کا شور بلند تھا۔

وہ شاید خوف سے بے ہوش ہوگئی تھی۔

خون بہنے لگا تو وہ اسے اٹھا کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔اب اسے کسی بھی طرح ہاسپٹل لے کر جانا تھا۔

 کاشان نے اپنا ماسک اتارا دیا تھا۔

________

بینڈیج ہوئے گلے اور انجیکشن کی وجہ سے وہ غنودگی میں تھی۔

شکر تھا کہ وینز نہیں کٹی تھی۔ ورنہ وہ زندہ بھی نہ رہ پاتی۔

کاشان کو پہلی بار کسی کی تکلیف محسوس ہورہی تھی۔اس وقت اس نے ہوڈی پہن رکھی تھی۔

جس سے اس کا چہرہ کسی کو نظر نہیں آرہاتھا۔

کچھ دیر بعد وہ ہوش میں آئی تو خوبصورت کمرے میں خود کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھی۔

"لیٹی رہو تمہاری گردن پر زخم ہے۔تمہیں ریسٹ کرنا چاہیے"۔۔

وہ بھاری آواز میں بولا تھا۔

مجھے میرے گھر جانا ہے۔ابھی اسی وقت۔۔

گلے میں ہوتے درد کے باوجود وہ چیخی تھی۔

کاشان کے ماتھے پر بل آگئے تھے۔

واٹ دا ہیل!!! کیا میں پاگل ہوں۔؟؟ کیا میرے منہ پر بیوقوف لکھا ہے لڑکی؟؟؟

مزے سے تم سورہی ہو۔اور میں یہاں سنگل صوفے پر بیٹھا ہوں کہ میڈم اٹھیں اور میں انہیں گھر چھوڑ آؤں۔اور تم اٹھ کر مجھ پر ہی شاؤٹ کررہی ہو"۔

کاشان کی سرخ آنکھوں اور اونچی دھاڑ پر خوف سے کانپی۔

""" مجھے معاف کردیں مجھے میرے گھر چھوڑ آئیں۔میں یہاں نہیں رہنا چاہتی"""۔

وہ بھیگی آنکھوں سے کاشان کے دل میں اتررہی تھی۔

وہ اس وقت ہاسپٹل کے لباس میں تھی۔

کاشان اٹھ کر اس کے پاس  آیا۔

سنو!!! تم پریشان نہ ہو میں نہیں جانتا وہ کون تھا۔لیکن وہ اب بچے گا نہیں ۔اس نے میرے شہر میں یہ غلط حرکت کرنے کی کوشش کی ہے۔

اور میں اپنی ریاست میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرتا۔

وہ سرد انداز میں بول کر زارا کو بھی سہمانے لگا۔

آپ۔۔۔آپ غنڈے ہو؟؟

زارا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

کاشان کے لب مسکرائے تھے۔

میں ایول کنگ ہوں۔دبئی کا مافیا ڈان اور ایک خطرناک قاتل !!! وہ اس کے قریب جھک کر بولا تو زارا خوف سے سفید پڑی تھی۔

ڈر کر وہ پیچھے ہوئی تو کاشان مسکرایا ۔

مذاق کررہا ہوں لڑکی!!!

زارا کی جان میں جیسے جان آئی تھی

"وہ میرا منگیتر ہے"۔وہ نظر جھکا کر بولی۔

کاشان چپ سا رہ گیا تھا۔

کامل تمہیں تمہارے گھر تک پہنچا کر آئے گا۔فلحال تم ریسٹ کرو۔

ابھی صبح کے چار بجے ہیں۔

وہ اس کے وقت بتانے پر حیران ہوئی تھی۔

وہ ایک گہری نظر اس کے چہرے پر ڈالتا کمرے سے نکل گیا تھا۔

_______________

کامل کے ساتھ وہ گھر تک آئی تھی۔

کامل کے ساتھ ایک آدمی بھی تھا جسے وہ جانتی نہیں تھی۔

کامل نے ایک نظر بھر کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔

فلیٹ کے قریب گاڑی رکی تو وہ گلے پر سکارف درست کرتی باہر نکلی۔

"سر نے کہا تھا آپ کو اوپر تک پہنچا کر آؤں"۔

وہ سرجھکا کر بولتا اس کے ساتھ چلنے لگا۔

وہ لفٹ میں اوپر بڑھی اور دروازے کی بیل دی۔

کامل مڑ گیا تھا جب دروازہ کھلا۔

زارا ؟؟ ایک لڑکی کی آواز پر وہ مڑا تو جیسے وہ سن ہوا تھا۔

شولڈر کٹ بالوں والی معصوم سی لڑکی سفید ٹی شرٹ اور ٹراؤز پہنے کھڑی تھی۔

کامل اسے دیکھتا حیران رہ گیا۔وہ کافی خوبصورت تھی۔اور سب سے زیادہ اس کے چہرے پر معصومیت تھی۔اتنی معصومیت اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔

کامل بنا پلکیں جھپکے اسے دیکھتا رہا۔

"تم !!! "دو دن بعد آنے والی تھی۔اور یہ کون ہے"۔

کامل ابھی کچھ فاصلے پر ہی تھا۔جب اس نے پوچھا تھا۔

"یہ میرے ہوٹل کے مینجر ہیں میری طبعیت خراب ہوگئی تھی۔اس لیے انہوں نے وہاں کسی اور لڑکی کو بلالایا"۔وہ جھوٹ بول کر اندر بڑھنے لگی۔

لیکن سارا دروازے پر کھڑی تھی۔

"تھینکیو مینجر !! یہ لڑکی تو اپنا  خیال نہیں کرتی شکر ہے تم نے ہی کرلیا"۔

وہ کہتے ہوئے ہنسنے لگی۔

کامل جو زارا کی بات پر غصے میں آرہا تھا۔اس لڑکی کی بات پر مسکرا کر سر ہلانے لگا۔

وہ شاید پہلی بار مسکرایا تھا۔اسے یاد نہیں تھا وہ کب مسکرایا تھا۔

کامل اب بھی اسے دیکھ کر ارد گرد سے بے خبر تھا۔لیکن دروازہ بند ہوچکا تھا۔

____________

اوہ مائے گاڈ!!!!! یہ کیسے پاسبل ہے؟؟؟؟ 

وہ فائل دیکھتا حیران ہی تو ہوا تھا۔اس نے اپنے خاص آدمی سے علایہ کی انفارمیشن نکلوائی تھی۔

علایہ غنی کی بہن ؟؟ کیسے ہوسکتی تھی۔ اور پھر وہ دبئی میں کیا کرنے گئی تھی اور اتنی جلدی واپس بھی کیسے آگئی تھی۔

اسے افسوس کے ساتھ ساتھ دکھ بھی تھا۔

جو لـڑکی اسے اچھی لگنے لگی تھی وہ نکلی بھی تو کس کی بہن؟؟؟ غنی کی جس سے کاشان سر نفرت کرتے تھے۔جس کے بزل شیخ سے تعلق تھے

جس نے کاشان سر  کے خاندان کو تباہ کیا تھا۔

اس کے سینے میں آگ بھڑکنے لگی تھی۔

اس وقت وہ رات کے اندھیرے میں علایہ کے گھر کے باہر کھڑا تھا۔یہ ایک پیلس تھا۔

ہائی سیکیوڑٹی کے باوجود وہ سب کو چکمہ دیتا پائپ سے اوپر آیا۔

سارا گھر گھوم کر وہ جائزہ لیتا علایہ کا کمرہ ڈھونڈنے لگا۔

کچھ دیر بعد اس کی مشکل آسان ہوگئی تھی۔

وہ ڈارک براؤن  لونگ نائٹی میں کھلے بالوں کے ساتھ اپنے کمرے سے نکلتی نظر آئی۔اوپر گاؤن بھی پہنا ہوا تھا۔

کامل دیوار کی اوٹ میں ہوگیا

جب وہ دیوار کے قریب آئی تو احکام نے اس کا ہاتھ جھٹکے سے پکـڑا۔اس سے پہلے وہ چیختی احکام نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔

وہ پھیلی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔اور حیران بھی ہوئی۔

"تم میرے گھر میں کیسے آگئے؟"

وہ غصے سے چیخی تھی۔احکام طنزیہ مسکرایاتھا۔

"پاؤں سے چل کر آیا ہوں"۔اس کے الٹے جواب 

علایہ کا غصہ سے برا حال ہوا تھا۔

تم دفعہ ہوجاؤ یہاں سے ورنہ میں اپنے بھائی کو بھلالوں گی۔

وہ ڈرتے ڈرتے بولی ۔احکام نے قہقہ لگایا تھا۔

"غنی کی بہن ہو ناں؟" اس کے پراسرار انداز پر علایہ ڈر سی گئی تھی۔

 "غنی کی بہن تم جیسی بے شرم ہی ہوسکتی ہے"۔وہ اسے بازو سے جکڑ کر سختی سے بولا۔

"ہاں  ہوں بے شرم بتاؤ کیا کرلو گے۔تم تو بہت شریف انسان ہو ناں ایک لڑکی کے گھر میں ایسے داخل ہوتے تمہیں شرم نہیں آتی"۔

وہ ڈرنا نہیں چاہتی تھی۔لیکن اس کے سرد انداز اور سختی سے بازو پکڑنا علایہ کی جان ہی نکال رہے تھے۔

"نہیں میں پیدائشی ہی بے شرم ہوں۔اور 

میں تم سے شادی کرلوں گا۔اور پھر تمہیں جان سے ماردوں گا۔اور تمہیں قبر میں دفنا کر عیش کروں گا"۔

وہ کان کے قریب سرد انداز میں سرگوشی کرتا علایہ کی جان ہی نکالنے والا تھا۔

علایہ نے اسے زور سے دھکا دیا تھا۔

وہ چند انچ ہی ہل پایا۔

سیاہ ہوڈی میں اس کا کسرتی بدن اور بھی خوبرو لگ رہا تھا۔

"مجھ سے شادی کرو گی"۔

وہ اس کے قریب جھک کر پوچھنے لگا۔

علایہ کو لگا وہ مذاق کررہا ہے۔لیکن اس کی آ کھوں میں سچائ تھی۔

مجھے نہیں کرنی تم جیسے پاگل آدمی سے شادی۔"

علایہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور کیا۔

لیکن احکام نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑلیے تھے۔"شادی تو میں تم سے ہی کروں گا۔اگر دوبارہ تم مجھے ادھر ادھر بیٹھی یا کسی کے ساتھ گھومتی نظر آئی تو ٹانگیں توڑدوں گا۔اور تم میری طاقت کو اچھے سے جانتی ہو"۔

وہ گن نکال کر اس کی گردن پر رکھتا بولا۔

کیا تو وہ آدمی کبھی چٹکی کاٹتا تھا کبھی چاقو گردن پر رکھتا تھا اور کبھی گن سے ڈراتا تھا۔

علایہ ڈرنا نہیں چاہتی تھی لیکن وہ ہر بار ڈرا دیتا تھا۔

اپنا خیال رکھنا چاکلیٹ جلدی تمہیں لینے آؤں گا۔اور اپنی دنیا میں لے جاؤں گا۔اور پھر تم میری غلام بنو گی """" وہ لب دبا کر مسکراتی آنکھوں سے بولا تھا۔

علایہ اس کے چاکلیٹ کہنے پر حیران ہوئی۔

لیکن اگلے لفظوں پر اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔

"میں مر کر بھی تم سے شادی نہیں کروں گی"۔وہ گن والے ہاتھ کو دور ہٹاتی بولی تھی۔

احکام اس کی نہ ڈرنے والی ادا پر مسکرایا۔

شادی تو میں تم سے کروں گا مس چاکلیٹ۔۔"

اس کے سر پر ہلکا سا اپنا سر مارتا وہ پلک جھپکتے وہاں سے غائب ہوگیا۔

علایہ جو سر مسل کر اسے دیکھنے کے لیے سیدھی ہوئی تو وہ وہاں نہیں تھا۔لیکن اس کی تیز خوشبو ضرور وہاں گھوم رہی تھی۔

__________

وہ چلی گئی ہے جس کے فراق میں تم ڈوب کر بیٹھے ہو۔

کامل اندر آتے طنزیہ بولا تھا۔

دو دن میں اس لڑکی کے پیچھے خوار ہوتے کامل نے اسے بہت غور سے دیکھا تھا۔وہ کبھی کسی کو اتنی اہمیت نہیں دیتا تھا۔

"شٹ اپ اور مال کا کیا بنا کب آئے گا؟؟"

وہ بات بدلنے کو بولا۔

"ویسے لڑکی کافی اچھی ہے شادی کرلو گھر بار اور بچے ہوگے تو تم یہ فضول کام چھوڑ دو گے"۔

کامل کا چہرہ آج کھلا کھلا تھا۔اور اس کی چہکتی آواز پر کاشان کے ماتھے پر بل آگئے تھے۔

"اوہ تو تم چاہتے ہو دس سال کی محنت کو میں کوڑے میں جھونک دوں "۔

"اور یہ محنت کیسے کی کتنے قتل کیے کتنے غیر قانونی کام کیے یہ بھی بتادو"۔

کامل برجستہ بولا۔

تم میرے ہاتھوں مرنا چاہتے ہو کیا؟" کاشان اٹھ کر اس کے پاس آیا ایک مکہ زور سے اس کے منہ پر مارا۔

"اس غم سے نکل آؤ ان کے لیے دعا کیا کرو"۔

کامل ہمیشہ کی طرح اسےسمجھانے لگا۔کاشان کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔

"تم چاہتے ہو میں اپنے باپ اپنی بہنوں اپنی ماں کے قاتل کو معاف کردوں ؟ " 

کاشان غصے سے چیخ کر کامل کا گریبان پکڑتا بولا تھا۔

معاف نہیں لیکن اپنی زندگی تباہ نہ کرو۔کامل نے اس کوسینے سے لگالیا۔

آج کاشان نے بازو پیچھے نہیں کیے تھے۔بلکہ اس نے کامل کو آج خود سینے سے لگایا تھا

_______

آج وہ ریسٹورنٹ آئی تھی۔مینجر نے اس کی اچھی خاصی بے عزتی کی تھی۔

گھر میں ماما نے اور اب اس مینجر نے سر درد بڑھادیا تھا۔

وہ ڈرتی بھی رہی تھی کہیں غنی نہ آجائے۔لیکن شکر ہے وہ نہیں آیا تھا۔

زارا!! ایک ساتھی ویٹر نے اسے پکارا تو وہ چونک گئی۔

کیا ہوا؟

میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔ اس نے ادھر ادھر دیکھ کر کہا۔

زارا کو شک ہوا تھا جیسے وہ لاونیہ کے بارے میں بتانا چاہتا ہو۔

ہاں بولو کیا ہوا ہے؟

زارا نے اپنی حالت پر قابو پایا۔

وہ لاونیہ نے نوکری نہیں چھوڑی اس کا قتل ہوگیا ہے۔ویٹر کےماتھے پر پسینہ آگیا تھا۔

زارا اوپر جو رومز ہیں ناں وہاں مینجر لڑکیاں بھیجتا ہے۔اور جو ہوٹل کا مالک ہے اسے اس بارے میں کچھ نہیں پتہ۔وہ ڈرتے ڈرتے بولنے لگا۔تو زارا کی آنکھیں کھل گئی۔

اور لاونیہ نے اپنی عزت بچانا چاہی تھی۔ تبھی اسے ماردیا ۔

تم ہوٹل کے مالک کا نام جانتے ہو؟ زارا نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

نہیں مجھے نہیں پتہ لیکن وہ بہت کم یہاں آئے ہیں۔

اچھا تم کام کرو میں کچھ کرتی ہوں۔مینجر آرہا ہے۔

وہ جلدی سے بولا کر اوون کے پاس کھڑی ہوگئی تھی۔۔

________

پچھلی دو راتوں سے وہ بے چین تھا۔  

اسے کہیں سکون نہیں تھا۔مال بھی باآسانی پہنچ گیا تھا۔ بزل شیخ کے بارے میں احکام اب بھی کھوج لگانے میں بزی تھا۔

سب ٹھیک تھا۔لیکن وہ پھر بھی بے چین تھا۔

آج بھی وہ کاؤچ پر بیٹھا سیگریـٹ پی رہا تھا۔دو دن سے اس کی یہی روٹین بن گئی تھی۔

اسے وہ لڑکی یاد آرہی تھی دل چاہا ایک بار اسے دیکھ لے۔لیکن دیکھتا بھی تو کیسے؟ وہ وہاں ہوتی تو دیکھتا ناں۔

وہ دو دن اس کے پاس رہی تھی۔اور ان دو دن میں وہ دنیا بھلا کر اسے دیکھتا رہا تھا۔

اور اب وہ گئی تو جیسے کاشان کو بے سکون کرگئی تھی۔

نیند آہی نہیں رہی تھی۔بس وہ لڑکی اور اس کی گردن پر لگی چوٹ آنکھوں کے سامنے آجاتی۔جب بھی آنکھیں بند کرتا سبز نگینے چمکنے لگتے۔

کئی بار اس نے سونے کی کوشش کی لیکن نیند روٹھی ہوئی تھی۔

ایسا تو جوہی کی موجودگی میں بھی نہیں ہوتا تھا۔وہ اس کی دوست تھی۔لیکن وہ کبھی اس کی زیادہ تعریف نہیں کرتا تھا۔

نہ ہی کسی لڑکی سے اس نے حد پار کی تھی۔وہ تھوڑا آوارہ تھا۔لیکن وہ عزت بھی کرنا جانتا تھا۔

اور اس لڑکی کے لیے کاشان کو عزت کا احساس ہوتا تھا۔وہ  گلابی گالوں والی لڑکی اس کے دل پر قبضہ جما چکی تھی۔

"نہیں میں نہیں رہ سکتا وہ مجھے چاہیے۔ مجھے وہ لڑکی چاہیے"۔

خود سے بڑبڑاتا وہ کاؤچ سے اٹھ کھڑا ہوا۔آنکھیں رتجگے سے سرخ ہورہی تھی۔

وہ کامل کے کمرے کی طرف بڑھا۔وہ پیٹھ کے بل بے سدھ سو رہا تھا۔

کاشان نے کمفرٹ ہٹا کر اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔کامل ہڑبڑا کر اٹھا ۔سامنے کاشان کو الجھے حلیے میں دیکھتا وہ حیران بھی ہوا۔

اس نے گھڑی کی طرف دیکھا جو صبح کے چھ بجارہی تھی۔

کیا ہوا سب ٹھیک ہے؟؟ وہ ڈر کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگا۔

"کچھ ٹھیک نہیں ہے۔مجھے وہ لڑکی چاہیے۔اسے میری آنکھوں کے سامنے لاؤ۔وہ میرا سکون ساتھ لے گئی ہے وہ ستمگر ہے۔اسے کیوں میرا خیال نہیں آیا"۔۔

کاشان ضدی بچے کی طرح بولا۔

کامل کو اس کی ذہنی حالت بگڑی ہوئی لگی۔ 

کونسی لڑکی ؟" کامل نے حیرت سے پوچھا۔

"جسے تم عجمان چھوڑ کر آئے ہو۔مجھے وہ ہر حال میں چاہیے"۔

"کیا تم پاگل ہو؟؟ وہ کوئی چیز نہیں یے۔اور اس نے کونسی تم سے محبت کی پینگیں بڑھائی  تھی۔جو وہ ستمگر بن گئی"۔

"کامل  مجھے وہ چاہیے۔ تو بس چاہیے"۔ وہ دھاڑ کر سرخ آنکھوں سے بولا۔اس کا جنونی انداز  کامل کو بھی پریشان کررہا تھا۔

اچھا کالم ڈاؤن!!!" میں تیار ہوجاؤں پھر چلتے ہیں۔جاؤ تم بھی ریڈی ہوجاؤ"۔

"ہاں مجھے ریڈی ہونا ہے"۔وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے سے نکلا تو کامل حیران ہوا وہ شاید مجنوں ہی بن گیا تھا۔

_________

سفید شرٹ پر اس نے بلیک کوٹ پہنا۔بڑھے ہوئے بال اس نے اچھے سے سیٹ کیے

 گلے میں لٹکا لاکٹ اس نے شرٹ سے باہر نکالا تھا۔وہ آج سب سے ہینڈسم لگنا چاہتا تھا۔

پرفیوم کی آدھی بوتل اپنے اوپر انڈیل کر بھی وہ مطمئن نہیں تھا۔

میں آرہا ہوں مائی لوّ!! لوّ وہ سوچ میں ڈوبا۔کیا مجھے اس سے پیار ہوگیا ہے؟ وہ سوچتا ہوا شیشے میں دیکھنے لگا۔

"نہیں وہ بس میرا سکون ہے جسے دیکھ کر میں سکون میں آتا ہوں۔ہاں تبھی میں اسے اپنے پاس رکھوں گا۔تاکہ مین سکون میں رہ سکوں"۔

کالر درست کرتا وہ مہنگی چینوں والی گھڑی پہن کر جوتے پہننے لگا۔

احکام کو اس نے کال ملائی تھی۔

وہ عجمان میں ہی تھا۔اسے وہی رکنے کا کہہ کر وہ گرینڈ ما کے کمرے میں آیا۔

گرینڈ ما ۔۔۔وہ ان کے گلے سے لگا۔

گرینڈ ما میں آپ کے لیے ایک لیڈی پارٹنر لا رہا ہوں۔

وہ مسکرا کر بولا۔تو گرینڈ ما حیران ہوتی مسکرائی۔

مائے سن۔۔۔۔انہوں نے اس کی پیشانی چومی تھی۔

گرینڈ ما دعا کرنا وہ مجھے مل جائے۔

وہ بے یقینی سے بولا تھا۔

وہ تمہیں ضرور ملے گی۔۔میں بہت زیادہ دعا کروں گی۔تم خوش رہو ۔

وہ کاشان کے باپ کے جانے کے بعد کم بولنے لگی تھی۔

لیکن وہ آج بول رہی تھیں۔اور کاشان ان کے ہاتھ چومتا خوشی سے پاگل ہورہا تھا۔

____________

کامل تم ریڈی ہو ؟ وہ کمرے میں آیا تووہ ابھی شرٹ پہن رہا تھا۔آر یو میڈ !!!

میں نے کہا تھا مجھے وہاں جلدی جانا ہے۔اور تم اب شرٹ پہن رہے ہو۔چلو جلدی کرو۔

کاشان آگے آتا اس کی شرٹ کے بٹن بند کرنے لگا۔

کامل کو اس کی جلدبازی دیکھ کر ہنسی ہی تو آنے لگی تھی۔

کوئی فالتو بات نہ کرنا میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔بس تم یہ لگاؤ۔

وہ ٹائی اسے دیتا پرفیوم چھڑکنے لگا۔

کامل ہنستا ہوا تیار ہونے لگا تھا۔اس کے ذہن میں وہی  والی لڑکی گھومنے لگی۔ وہ شاید اس کی بہن تھی۔

کچھ دیر میں وہ ڈرائیور کے ساتھ عجمان کے لیے نکلے تھے۔

_______

"تم  نے ویٹرس کا لباس نہیں بدلا؟"

وہ آج جلدی اٹھ گئی تھی۔سارا کو دیکھ کر وہ حیران بھی ہوئی لیکن بولی کچھ نہیں۔

دل نہیں کررہا میرا"۔

وہ چئیر پر بیٹھ گئی۔سارا نے اس کے سامنے کافی رکھی تھی۔

 وہ کب سے زارا کی خاموش کو نوٹ کررہی تھی۔ لیکن کچھ کہا نہیں ۔

وہ بریڈ پر نیوٹریلا لگائے مزے سے کھانے میں مگن ہوگئ۔جبکہ زارا کافی کو گھورنے میں لگی تھی۔

"ماما آج بھی  روم سے باہر نہیں آئی"۔

سارا نے زارا کو جگانے کے لیے بات کی۔وہ اب بھی چپ چاپ تھی۔

زارا!"میں تم سے پوچھ رہی ہوں"۔وہ اس کا کندھا ہلاتے چیخی۔سارا کو جلدی غصہ آتا تھا۔زارا بڑبڑا کر سیدھی ہونےلگی۔

کیا ہوا ہے؟؟" سارا کو اس کی غائب دماغی پر غصہ آنے لگا۔

ماما  باہر کیوں نہیں آئی؟"

"ماما کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں ہے"۔زارا نے آنکھیں چرا کر کہا۔

"زرا تم مجھ سے جب کچھ چھپاتی ہو میرا دل کرتا ہے تمہارا سر پھاڑدوں"۔

وہ تو  جیسے کسی سہارے کی تلاش میں تھی۔

زارا روتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔

سارا کو احساس ہوگیا تھا کہ وہ کچھ غلط کرچکی ہے۔

کیا ہوا زارا؟؟ کیا غنی نے کچھ کیا ہے؟

"سارا وہ بہت برا ہے وہ کہتا ہے وہ مجھے بیچ دے گا۔اور ماما کو بھی اس نے ناجانے کیا کہا وہ میری بات بھی نہیں سن رہی انہیں لگ رہا ہے غنی ٹھیک ہے۔مجھے غنی کی بات ماننی چاہیے۔اور وہ مجھ سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی"۔

وہ روتے روتے اب ہچکیاں لینے لگی۔

"چپ کرو میرے ساتھ اندر آؤ"۔

وہ اسے چئیر سے  اٹھا کر اندر چلی گئی۔

"دیکھو زارا میں تمہیں کچھ بتانا چاہتی ہوں"۔

وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگی۔تو زارا نے اس کی طرف دیکھا۔وہ بہت کم نرمی سے بات کرتی تھی۔

اور آج تو وہ کافی  نرم پڑ گئی تھی۔

زارا کو آج سے پہلے اپنی چھوٹی بہن کبھی اتنی اچھی نہیں لگی تھی۔

ْ"ہاں بولو سارا "وہ آنسو صاف کرتی اس کے پاس ہوکر بیٹھی۔

ماما ۔۔۔۔ ابھی وہ کچھ بولنے ہی لگی تھی جب باہر تیز دروازہ بجنے کی آواز آئی۔

وہ دونوں خوف سے اچھلیں۔

سارا غنی آجائے گا مجھے وہ لے جائے گا۔سارا پلیز اسے روکو۔

وہ تھر تھر کانپتی رونے لگی تھی۔

رکو میں دیکھتی ہوں تم باہر نہ آنا۔ماما کو پتہ نہیں چلنا چاہیے ورنہ بہت برا ہوجائے گا۔

وہ اس کا گال تھپتپاتی باہر نکلی تھی۔

 ________

وہ خوف سے دبکی ہوئی تھی جب باہر سے شور بلند ہونے لگا۔

سارا……… وہ کانپنے لگی۔

کہیں غنی سارا کو نہ لے جائے وہ گلے پر سکارف باندھ کر باہر بھاگی۔

دروازے سے ہی باہر ہی وہ رکی اور دیوار کا سہارا لے کر گرنے سے بچایا۔

یہ تو وہی آدمی تھا جس نے اس کی جان بچائی تھی۔

وہ یہاں کیا کررہا تھا۔اس نے اجیہ (ماما) کو دیکھا۔

جو صوفے پر بیٹھی حیران تھیں۔

اس نے زارا کو دیکھا اور پھر اس کی ماں کی طرف مڑ گیا۔

میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں آپ اس لڑکی کی ماں ہیں۔تو ظاہر ہے میں آپ سے ہی کہوں گا۔

میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔اس کی آواز پر زارا کی گھگی بندھی۔

وہ اونچا لمبا شخص جو کچھ دن پہلے اسے تھپڑ مار کر ہدایت دیتا غائب ہوا تھا۔اور دوسری ملاقات کا حادثہ بھی اسے یاد تھا۔

آج ان کے گھر آگیا  تھا۔

زارا جو ویٹر کے لباس میں تھی حواس باختہ کھڑی تھی۔

اجیہ (زارا کی ماں ) نے حیرت سے اس لڑکے کو دیکھا جو حلیے سے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا جس کے گلے میں چاقو نما لاکٹ تھا۔ابرو پر ایک کٹ بھی تھا۔

مم میں آپ سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔آپ کی ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں داخل ہونے کی۔

زارا چیخی تھی۔

بیٹا آپ شاید غلط گھر میں آگئے ہیں کیونکہ زارا کی منگنی ہوچکی ہے۔

ماں جی جس سے آپ نے اس کی منگنی کی تھی وہ ایک آوارہ شخص ہے ۔جسے اپنی منگیتر کی عزت کا زرا خیال نہیں جس نے مجھ سے بچنے کے لیے اپنی منگیتر کی ہی گردن پر چاقو رکھ دیا تھا۔اور بتاؤں تو آپ کی بیٹی کا وہ سودا کرنے والا ہے۔

زارا کی آنکھیں پھیلی اس نے نفی میں سر ہلایا۔

وہ تیزی سے زارا کی جانب آیا جو تھر تھر کانپ کر سر بھی نفی میں ہلارہی تھی۔

اس نے ایک جھٹکے میں گردن سے سکارف ہٹایا۔

وہاں سفید پٹی بندھی تھی ۔

اس نے نرمی سے وہ پٹی جدا کی تو گردن پر ایک گہرا نشان تھا۔

زارا درد سے سسکی تو کاشان کی آنکھ بھی سرخ ہوئی۔,اسے درد اپنے دل میں محسوس ہوا تھا۔

اجیہ بیگم کی آنکھیں پھیلی جبکہ سارہ بھی منہ پر ہاتھ رکھتے سہمی تھی 

اب بتائیں ایسے منگیتر سے شادی کروانا چاہیں گی۔جو آپ کی بیٹی پر ظلم کرتا ہے۔۔

میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کی بیٹی کو خوش رکھوں گا۔

اور اس دوٹکے کے منگیتر کی درگت بھی میرے ہاتھوں سے  بنے گی ۔

بس آپ بتائیں شادی کروائیں گی یا نہیں۔""""""

وہ دو ٹوک انداز میں بولتا زارا سے دور کھڑا ہوگیا تھا۔

نہیں میں آپ سے اب بھی شادی نہیں کروں گی۔ کیونکہ میں غنی کو پسند کرتی ہوں اسی سے شادی کروں گی"۔۔

زارا چیخ کر بولی تو کاشان نے جبڑے کسّے تھے۔

تم جھوٹ کیوں بول رہی ہو۔تمہاری شادی صرف مجھ سے ہوگی۔اگر تم نے انکار کیا تو میں تمہیں اٹھا کر لے جاؤں گا۔

کامل نے جلدی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔جو غصے سے بے قابو ہورہا تھا۔

اجیہ بیگم بھی گھبرانے لگی۔

سارا غنی کو فون کرو۔وہ چیخ کر بولی ۔کاشان حیران ہوا۔

غنی!!! اس نے حیرت سے زارا کو دیکھا۔اس نے بھی غنی کا نام لیا تھا۔

کون غنی؟ کاشان کی آنکھیں سرخ ہونے لگی۔

غنی آکاش ؟؟ 

کاشان نے سرسراتے انداز میں پوچھا۔

اجیہ بیگم نے سرہلادیا تھا۔ اس نے ایک نظر زارا کو دیکھا۔ جو اس دن تمہیں لے کر جارہا تھا وہ غنی تھا؟ 

اس نے بے یقینی سے زارا کو دیکھا جو اب رو رہی تھی۔ 

زارا نے بھی سر ہلایا تو کاشان کی ہمت جیسے جواب دے گئی۔۔اس نے ایک زور دار ٹھوکر سے شیشے کا ٹیبل دور پھینکا۔

اس کی آنکھیں سرخ ہوگئ تھی۔زارا سارا اور اجیہ کی چیخ گونجی۔

کامل نے آگے آکر کاشان کو پکڑا۔

وہ اس پیاری سی لڑکی کو دیکھا جو چیخ رہی تھی۔

کاشان رک جاو۔وہ اسے پکڑتا بولا۔

احکام دروازے کے پاس تھا۔

اتنا بڑا دھوکا۔میرے ساتھ وہ میرے سامنے تھا۔میں نے اسے کیسے چھوڑ دیا۔

"تم اس دن کیوں نہیں بولی تھی"""""۔

اس کی دہشت پر زارا نے کانوں پر ہاتھ رکھے۔وہ کافی ڈر گئی تھی۔

چلو یہاں سے کاشان !!!! کامل نے اسے وہاں سے لے جانا چاہا۔لیکن اس نے اسے دھکا دیا اور خونخوار تیور لیے زارا کی طرف بڑھا تھا۔

___________

کاشان نے زور سے کامل کو دور کیا اور زارا کی طرف بڑھا۔

غنی کو فون کرو۔ اس نے زارا کی کلائی پکڑ کر سختی سے کہا۔اس کی آنکھوں سے آگے کے شعلے نکل رہے تھے

نہیں میں نہیں کروں گی۔وہ خوف سے مرجانے کو تھی۔کاشان کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اگر تم نے فون نہ کیا تو میں قسم سے سب تباہ وبرباد کردوں گا۔

زارا کی آنکھوں کے آگے خوف سے اندھیرا آنے لگا۔

کامل نے اس کی حالت دیکھی تھی۔وہ ہمت کرکے دوبارہ آگے آنے لگا۔

کاشان تم نکاح کرنا چاہتے ہو نکاح کرو لیکن اسے تکلیف نہ دو۔اس کی حالت دیکھو"۔۔

اور غنی کو ابھی پکڑنا ٹھیک نہیں ہے۔بزل شیخ کو پھر ہم کبھی نہیں پکڑ پائیں گے اور نہ اس کے خفیے اڈوں کے بارے میں پتہ لگے گا۔

کامل نے پتے کی بات کی تھی۔لیکن کاشان کا غصہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

ساتھ والے فلیٹ میں کوئی مرد ہے تو اسے بلا کرلاؤ۔

احکام کو حکم دے کر وہ واپس زارا کی طرف مڑا۔

یہ پکڑو چینج کرو۔اس نے زارا کو پیکٹ دیا۔

زارا نے اجیہ کو دیکھا جو اب تھوڑی ڈری ہوئی تھیں۔

کاشان کے گارڈز اندر آگئے تھے۔انہوں  نے اب ان پر گن تانی تھی۔

کاشان وہ عورتیں ہیں گنز ہٹاؤ۔۔کامل نے اسے پھر سمجھایا اور گارڈز کو اشارہ دیا۔

 نازک سی لڑکی کی تکلیف کامل کو بے چین کررہی تھی۔

گارڈز اب دروازے کے پاس کھڑے ہوگئے تھے۔

جاؤ چینج کرو۔وہ چیخا تھا۔اس کے لہجے کی وحشت زارا کو سہمارہی تھی۔وہ تو غنی سے بھی زیادہ ظالم تھا۔

دو دن نرمی دکھا کر حق لینے آگیا تھا۔

زارا کے آنسو بہے جارہے تھے۔ کاشان نے اپنی انگلیوں سے اس کے آنسو صاف کردیے۔

وہ دور ہوگئی تو کاشان طنزیہ مسکرایا۔

عادت ڈال لو۔کیونکہ میں کچھ دیر میں پورا حق رکھنے والا ہوں۔اور اب تم میری ضد بننے والی ہو۔

وہ لٹیں سنوار کر طنزیہ  مسکرانے لگا تھا۔لیکن اس کی آنکھوں میں کرب تھا۔

جاؤ چینج کرو۔وہ آنکھیں دکھا کر بولا۔ تو زارا اس کی نظر سے ڈرتی اندر بھاگ گئی۔

کامل میرے یار تیرےبھائی کا نکاح ہے اور تو خاموش کھڑا ہے۔

وہ اپنی حالت پر قابو پاکر مڑا۔اور کامل سے بولا۔

کامل نے اس کی حالت سمجھ لی تھی۔مگر وہ بھی اب یہی چاہتا تھا نکاح ہوجائے۔

ساسو ماں!!!! مٹھائی ہے یہاں کیا؟؟ وہ کچن کی طرف دیکھ کر بولا۔

وہ کیا ہے ناں نکاح ہے ناں میرا تو منہ میٹھا کیے بنا جاؤں گا تو نہیں"

سارا بھی اب سنبھل گئی تھی۔

وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ زارا یہاں سے نکل جائے۔ورنہ اجیہ بیگم جو سوچ کر بیٹھی تھیں۔وہ اگر ہوجاتا تو زارا برباد ہوجاتی ۔

میں لاتی ہوں۔سارا سہم کر بولی۔

وہ کچن کی طرف بھاگی۔فریج میں کوکونٹ  چاکلیٹ پڑی تھیں۔

وہ انہیں پلیٹ میں سیٹ کرکے لے آئی تھی۔

"جاؤ لڑکی اپنی بہن کی مدد کرو کہیں وہ شہید ہی نہ ہوجائے"۔

اس نے سارا کو حکم دیا تھا۔وہ اندر کی طرف گئی تھی۔

ارے ساسو ماں آپ کیا کررہی ہیں۔بیٹھے کچھ باتیں کرتے ہیں۔اجیہ بیگم اٹھنے لگی تھیں۔جب کاشان ان کے پاس بیٹھ گیا۔۔اپنی گن اور خاص چاقو نکال کر سامنے رکھ دیا 

اجیہ بیگم کی حالت بری ہونے لگی تھی۔

اچھا سنیں آپ کی بیٹی کا نام مجھے نہیں پتہ۔

اس کا نام اور باقی باتیں تو زرا بتادیں تاکہ مولوی صاحب کو کچھ مشکل نہ ہو۔

کامل مولوی صاحب لاؤ ۔نکاح اچھے  طریقے سے ہوگا۔

احکام کو حکم دے کر وہ دوبارہ اجیہ بیگم کی طرف مڑ گیا تھا۔

__________

سارا میں کیا کروں میں یہ نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ماما تمہیں نقصان پہنچادیں گی۔وہ تمہیں غنی کے حوالے کردیں گی۔غنی مجھے مار دے گا"۔

وہ روتی ہوئی بیڈ سے اٹھی۔

سارا کا چہرے پر عام سے تاثر تھے۔

یہ جوڑا پہن لو۔کچھ دیر میں نکاح ہے تم یہ نکاح کرلو کیونکہ غنی سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے۔

تم پاگل ہو سارا؟؟؟ وہ چیخی تو سارا نے اسے دیکھا۔

غنی کے ہاتھوں بکنے سے اچھا ہے تم نکاح کرلو وہ شخص تمہیں پورے طریقے سے اپنا رہا ہے۔جانتی ہو وہ شخص مجھے سچا لگ رہا ہے۔

وہ تمہیں غنی سے بچا سکتا ہے تو تمہاری حفاظت بھی کرلے گا۔

تم ماما کی سچائی اچھی طرح نہیں جانتی اس لیے تم ضڈ  کررہی ہو۔

کیا ماما کی کیا سچائی؟ کیا کہنا چاہتی ہو۔

چھوڑو سب باتیں میں تم سے خود رابطہ کروں گی بس تم نکاح کرکے یہاں سےنکل جاؤ۔

جاؤ یہ پہنو اس نے ریڈ لونگ میکسی اس کی طرف بڑھائی۔وہ سادہ سی تھی۔لیکن اس کا رنگ اور ڈیزائن بہت پیارا تھا۔ اس کا ڈوپٹہ گولڈن تھا۔جو کافی خوبصورت تھا۔

زارا چپ چاپ باتھ روم میں چلی گئ تھی۔

کچھ دیر بعد سارا اسے تیار کرکے باہر بڑھی تھی۔

__________

اجیہ بیگم نے زار کو دیکھا تو انہیں شدید غصہ آنے لگا تھا۔جو کافی خوبصورت لگ رہی تھی۔ سارا نے ایک نظر ماما کو دیکھا اور چیلنجکیا۔

اجیہ بیگم پہلو بدلنے لگی۔

کاشان نے زارا کو دیکھا تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گیا تھا۔

ہلکے میک اور ڈارک لپ اسٹک سے اس کے ہونٹ کافی پیارے لگ رہے تھے۔سبز نگینوں میں ہلکا ہلکا پانی تھا۔

چلیں مولوی صاحب نکاح شروع کریں۔

اس نے جذبات پر قابو پاکر مولوی کو حکم دیا۔

 اجیہ بیگم نے کئی بار کوشش کی تھی کہ نکاح نہ ہو لیکن جو قسمت میں لکھ دیا جائے اسے کون ٹالتا ہے۔

کچھ ہی دیر میں زارا مغیث کی قسمت کاشان ازغن کے ساتھ لکھ دی گئی تھی۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائن کیے تھے۔

جتنا کاشان یہاں آتے وقت خوش تھا۔اب اتنا ہی اذیت میں بھی تھا۔

لیکن ایک سکون بھی تھا کہ زارا اسے مل گئی تھی۔

"چلیں مولوی صاحب دعا کروائیں"۔کاشان نے منہ پر ہاتھ پھیر کر کہا۔

مولوی صاحب پہلے ہی گنز اور اتنے لوگ دیکھ کر ڈرے ہوئے تھے۔

انہوں نے فوراً دعا کروائی۔

"مولوی صاحب یہ بھی دعا کروائیں کہ میں اپنے دشمنوں کو انجام تک پہنچا سکوں۔اور نہایت تکلیف سے انجام تک پہنچاؤں"۔

وہ اجیہ بیگم کو دیکھ کر بولا تو انہوں نے سفید ہوتے چہرے سے کاشان کو دیکھا جو اپنی براؤن آنکھوں سے انہیں گھور رہا تھا۔

"چلیں ساسو ماں رخصتی کا وقت ہوگیا ہے"۔

کچھ دیر بعد وہ اٹھا تھا۔

"یہ لیں میرے اور آپ کی بیٹی کے نکاح کی مٹھائی"۔

احکام جو مٹھائی کچھ دیر پہلے ہی لایا تھا وہ اس نے ٹیبل پر رکھ دی۔

اب شادی کی ہے تو ساری رسمیں نبھانی ہوگی۔

"چلو بھائی سب منہ میٹھا کرو۔"

سارا کے ہاتھ پر اس نے مٹھائی رکھی۔تو سارا نے ایک نظر کاشان کو دیکھا۔

اس کی نظروں میں کچھ تھا۔اس نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا۔

سب کا منہ میٹھا کروا کر وہ زارا کی طرف آیا جو کانپ رہی تھی۔

چند لمحوں میں ہی اس کی زندگی بدل گئی تھی۔

"جان کاشان چلیں رخصتی ہوگئی ہے۔ماما جانی کو بائے بائے بول دو۔" اس کو بازو سے پکڑ کر وہ باہر کی طرف بڑھا۔

اس کے بے باک انداز پر وہ شرم سے دوہری ہوئی تھی۔

سارا نے چہرے پر ہاتھ پھیر کر شکر ادا کیا۔

کامل نے اس پریوں جیسی لڑکی کو دیکھا جس کے چہرے پر سکون تھا۔

دل چاہا وہ آگے بڑھ کر اس سے بات کرلے لیکن کاشان باہر نکل گیا تھا۔اور اس سے کچھ بھی امید کی جاسکتی تھی۔

___________

کاشان نے آگے بڑھ کر زارا کے لیے دروازہ کھولا۔

کامل نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ کبھی اپنے لیے دروازہ نہیں کھولتا تھا۔آج ایک لڑکی کے لیے کھول رہا تھا۔

"""""تم دوسری گاڑی میں آؤ۔اس میں اور زارا جائیں گے""""۔

سن گلاسز لگا کر وہ گاڑی میں بیٹھا۔

اور گاڑی سپیڈ سے بڑھائی تھی۔

وہ اب ہچیکیوں سے رونے لگی کاشان نے سارا سے بھی ملنے نہیں دیا تھا۔

کاشان کچھ دیر اس کا رونا دیکھتا رہا پھر ٹشو اٹھا کر اس کی گود میں رکھ دئیے۔پر منہ سے کچھ نہیں بولا۔

زارا نے حیرت سے اسے دیکھا۔

وہ تو سوچ رہی تھی کہ وہ اس پر غصہ کرے گا۔لیکن وہ تو کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔

کاشان چہرے پر سخت تاثرات لیے گاڑی چلاتا رہا۔

زارا نے ایک دو بار اسے دیکھا۔وہ شخص کافی ہینڈسم تھا اور اب اس کا شوہر بھی تھا۔

یہ سکون تو زارا کو بھی تھا کہ کم ازکم غنی سے اس کی جان بچ گئی تھی۔

__________

"گرینڈ ما یہ آپ کی لیڈی پارٹنر اور میری لائف پارٹنر ہے"

اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اس نے زارا کو پاس کیا۔تو زارا اس کے ساتھ آلگی۔اس کا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا تھا۔

سامنے ایک بڑی عمر کی سفید رنگ والی خاتون تھی۔

زارا کو حیرت ہوئی تھی۔گھر میں کوئی بھی عورت نہیں تھی۔سوائے اولڈ لیڈی کے۔جسے وہ گرینڈ ما کہہ رہا تھا۔

""شی از انوسینٹ"""انہوں نے پیار سے اس کا گال چھولیا۔

کامل بھی پاس ہی تھا۔اسکے چہرے ہر سچی خوشی تھی آج اسے کاشان پر غصہ بھی نہیں آرہا تھا۔

"کانگریٹس کاشان " کامل نے اسے گلے سے لگایا۔

"بھابھی یہ تھوڑا سنکی انسان ہے لیکن آپ نے گھبرانا نہیں ہے آپ کا بھائی ہر وقت آپ کے ساتھ ہے کسی بھی مدد کی ضرورت ہو میرے پاس آنا اور اگر یہ آپ کو ڈانٹے تو مجھے بتانا"۔

کامل نے مزاحیہ انداز میں کہا تو کاشان نے اسے گھور کر دیکھا۔

"میں تم سے ڈرتا نہیں ہوں"۔کامل نے اکڑ کر کہا۔

"جاؤ کمرے میں" اس نے کاشان کو دھکا دیا۔تو اس نے ایک پنچ اس کی بازو پر دے مارا۔

جیب سے گن نکال کر اس نے کامل کے ہاتھ پر رکھ دی۔

زارا گن دیکھ کر دور ہوئی تھی۔

اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔اسے تو یہ بھی نہیں پتہ تھا اس کا شوہر اتنا خطرناک کیسے اور کیوں ہے۔

"مائے سن زارا تھک گئی ہوگی اسے لے جاؤ۔۔"""گرینڈ ما نے بھی انہیں جانے کے لیے کہا تو زارا نے گرینڈ ما کا ہاتھ پکڑ لیا۔

کاشان نے اس کی حرکت دیکھی تو مسکرانے لگا۔

"گرینڈ ما آپ کی لیڈی پارٹنر ڈر رہی ہے۔اسے بتائیں میں اس کا لائف پارٹنر ہوں اور اب میں اس سے ڈروں گا۔اور یہ مجھے ڈرائے گی۔"

کامل مسکرانے لگا۔

وہ زبردستی اس کا ہاتھ پکڑ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔

ٓ____________

 زارا اس کے ساتھ کھینچتی ہوئی آئی۔کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا تو حیران ہوا۔

کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا۔

یہ کام کامل احکام کا تھا۔وہ سمجھ گیا تھا۔

"لائف پارٹنر دیکھو روم کتنا پیارا لگ رہا ہے"۔۔اس نے کندھے کو دبوچ کر کہا تو زارا سسکنے لگی۔

"اے لڑکی کیا ٹینکی فٹ ہے آنکھوں میں یا پھر آنکھوں میں سمندر بنوایا ہے"۔۔وہ اس کے رونے سے چڑنے لگا تھا۔

"مجھے واپس جانا ہے۔مجھے نہیں رہنا یہاں"۔

وہ روتے ہوئے دور ہٹی تو کاشان کو غصہ آنے لگا۔

اس نے سختی سے مٹھیاں بند کی۔

"تم  اگر مجھ سے مار نہیں کھانا چاہتی تو چپ کرجاؤ"۔

وہ دھاڑ کر بولا تو زارا زیادہ رونے لگی۔

کاشان نے دروازہ بند کیا تو وہ خوف سے دیوار کے ساتھ جا کر لگ گئی۔

کاشان اس کی معصوم حرکت دیکھ کر مسکرایا تھا۔

اس کے سبز نگینوں میں خوف بھرا ہوا تھا۔

وہ اس کی جانب بڑھنے لگا تو زارا نے ڈوپٹہ ہاتھوں میں دبوچ کر سانس بھی روک لیا۔

کاشان اس کے پاس آکر رک گیا۔وہ کافی دیر کچھ نہیں بولا تو زارا نے ڈرتے ڈرتے آنکھ کھولی۔۔وہ اس کے پاس ہی تو کھڑا تھا۔

وہ خوف سے اچھلی تو کاشان نے قہقہ لگایا۔ 

"ایول کنگ کی  ڈرپوک پری" وہ اس کے قریب ہوکر چہرے پر پھونک مار کر بولا۔

"تم جانتی ہو مجھے آج تم پر بہت غصہ آرہا تھا۔جب جب تم غنی کا نام لے رہی تھی میرا دل کررہا تھا میں تمہیں جان سے مار ڈالوں۔۔لیکن اگر تمہیں ماریتا تو میرا سکون کہاں باقی رہتا۔

تم رونا مت کیونکہ مجھے تمہاری آنکھوں میں آنسو اچھے نہیں لگتے"۔

وہ نرمی سے آنسو صاف کرنے لگا۔

"تم مجھے بہت عزیز ہو۔کیونکہ تمہاری موجودگی میں اپنا غم میں مکمل بھول گیا تھا"۔اس نے نرمی سے ماتھے کو چھولیا۔

زارا نے شدت سے آنکھیں بند کی تو وہ پھر مسکرایا۔

زارا تو دیوار میں ہی گھس جانا چاہتی تھی۔

"میں تم سے سوری کہنا چایتا ہوں اس دن میں نے تمہیں تھپڑ مارا تھا۔مگر غلطی بھی تو تمہاری تھی۔ کیوں مرنا چاہتی تھی۔اگر تم مرجاتی تو میرا کیا ہوتا"۔

اس نے زارا کا گال سہلا کر کہا۔زارا نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ شخص تھا کیا۔کبھی نرم کبھی گرم ۔۔۔

کاشان نے اسے دونوں  بازو سے پکڑ کر اپنے قریب کرلیا۔ 

زارا کو اس کی تیز پرفیوم نتھنوں میں گھستی محسوس ہوئی تھی۔

اس کو سینے سے لگا کر کاشان نے آنکھیں بند کرلیں۔ ""تم میرا سکون بن گئی ہو زارا"وہ اس کے کان میں بولا 

وہ ابھی سب بھول کر محسوس کرنا چاہتا تھا۔

زارا کی حالت کاٹو تو بدن میں لہو  نہیں جیسی تھی۔

________

"کون تھا وہ کیسے لے گیا زارا کو؟ آپ نے مجھے فون  کیوں  نہیں کیا"۔

غنی باؤلے انسان کی طرح چیخ رہا تھا۔سارا بیزار چہرہ لیے کھڑی تھی۔

"میرا تو ارادہ تھا تمہیں فون کرتی۔تاکہ تم اپنی بہن کو اچھے سے رخصت کرتے۔" سارا کی بات پر اسے پتنگے لگے۔

"بکواس بند کرو میری منگیتر تھی وہ"۔۔۔

غنی وحشت سے دھاڑا۔

توسارا نے کوئی تاثر نہیں دیا۔

کوئی تصویر کوئی شناخت ہے اس آدمی کی؟؟ 

وہ اجیہ بیگم کی طرف آکر بولا۔۔کاشان ازغن نام تھا اس کا حلیے سے کسی اچھے گھر کا لگ رہا تھا۔

اجیہ بیگم کا خون کھول رہا تھا۔ ان کا  بس چلتا تو وہ زارا کو زمین میں گاڑ دیتی۔

"اے تم؟ تم نے تو کچھ چالاکی تو نہیں کی"۔

غنی نے اسے شک کی نظر سے دیکھا تو وہ ہنسنے لگی۔

" پاگل انسان بنتے تم عجمان کے ڈان ہو۔عقل تم میں ایک پرسنٹ بھی نہیں ہے۔عقل کے اندھے میں تمہیں اتنی فالتو لگتی ہوں"۔وہ منہ چڑا کر بولی۔

تغنی نے آگے آکر ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر دے مارا۔

سارا زمین پر گری۔اجیہ بیگم تڑپ گئی تھیں۔

"غنی میری بیٹی کو ہاتھ مت لگانا میں تمہارے ہاتھ کاٹ دوں گی"۔

ْ"ماما وہ بھی آپ کی بیٹی تھی۔ جسے آپ بیچنے والی تھیں"۔

سارا خون تھوکتی چیخی۔

"نہیں ہے وہ میری بیٹی مجھے نفرت ہے زارا سے تم صرف تم میری بیٹی ہو وہ صرف  عرزم  کی بیٹی تھی۔اسی کی رہے گی۔مجھے اس کی شکل سے بھی نفرت ہے۔مجھے اس کے باپ سے بھی شدید نفرت ہے"۔

اجیہ کے لہجے میں نفرت ہی نفرت تھی۔

ْ"مما وہ آپ کا خون ہے۔ایسے مت کہیں"۔سارا نے تکلیف سے کہا۔

"نہیں ہے وہ میرا خون دفعہ ہوجاؤ کمرے میں"۔

وہ سارا پر چیخی تو وہ روتے ہوئے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔

__________

وہ زارا کو اپنے کپڑے دے کر باہر آگیا تھا۔ تاکہ وہ آرام سے بدل لے۔

صبح وہ اس کے لیے کپڑے لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ کمرے میں آیا تو وہ بیڈ کے کنارے پر ڈری سہمی بیٹھی تھی۔

کاشان نے لب مسکرااٹھے۔وہ پریوں سے بھی پیاری تھی۔ اس کے ڈریس میں پوری طرح چھپ گئ تھی۔لیکن اس نے پھر بھی ڈوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔

اس نے تو سوچا تھا وہ اس سے غنی کی وجہ سے سختی کرے گا۔لیکن اس کا دل تھا نرم ہی ہوگیا تھا۔تم اب تک سوئی نہیں ؟؟ "

اس نے آواز بھاری کرکے پوچھا تو وہ ڈر سے اچھلی۔

"لائف پارٹنر اب میری عادت ڈال لو۔کیونکہ میں ایسے ہی تمہیں ڈرایا کروں گا"۔

وہ اس کے پاس آکر بولا تھا۔

"چلو بیڈ پر لیٹو اگر تم نہ سوئی تو میں پھر تمہیں بہت ماروں گا"۔

وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے گھور کر بولا۔

ایک تو وہ اکیلی تھی کچھ اس کی بڑی بڑی غصیلی آنکھیں وہ سہم جاتی تھی۔

اب بھی اس کی دھمکی پر حالت بری ہوگئی تھی۔

ْ

"مجھے ایسا لگتا ہے میں نے تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے"۔وہ سوچتے ہوئے کہنے لگا۔

زارا سٹپٹانے لگی۔

ادھر دیکھو میری طرف ۔۔ کاشان نے اس کا جبـڑا پکڑ کر منہ اپنی طرف کرلیا۔

کاشان کا دل وہ سبز نگینے دیکھنے کا تھا جس نے اس کا چین لوٹ لیا تھا۔لیکن وہ نظر ہی نہیں اٹھا رہی تھی۔

"مجھے دیکھو زارا" اس نے پہلی بار اس کا نام لیا تھا۔زارا نے جھٹ نظر اٹھادی۔

اس کی براؤن آنکھوں میں محبت کا سمندر آباد تھا۔

زارا نے دوبارہ نظر جھکائی۔

کاشان نے ایک شوخ سی جسارت کی تو وہ سرخ ہوگئی تھی۔

وہ جھومتا ہوا دوسری طرف آیا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔

چلو لیٹو ۔۔ اس نے بازو سے زارا کو اپنی طرف کھینچا۔

وہ بیڈ پر گری تھی۔

چپ چاپ سوجاؤ۔اور اب تمہارے رونے کی آواز نہیں آنی چاہیے۔

وہ سختی سے بول کر آنکھیں موند گیا تھا۔

_______

صبح اس کی آنکھ نو بجے کھلی تھی۔

کاشان دوسرے کونے پر پیٹ کر بل سورہا تھا۔زارا نے اردگرد دیکھا۔ کمرے میں اب بھی روشنی کم ہی تھی۔

رات وہ کافی دیر کروٹیں بدلتی رہی۔کاشان کی بے باک دھمکی پر اس نے دوبارہ ہلنے کی ہمت ہی نہیں کی تھی۔وہ کل صبح سے بھوکی تھی۔اب پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے۔

وہ بیڈ سے اٹھی تو کاشان کی آنکھ بھی کھلی۔

کہاں جارہی ہو۔۔اس نے بھاری آواز میں پوچھا۔

وہ وہ۔۔۔وہ بوکھلانے لگی۔

کاشان سمجھ گیا تھا۔وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔

خانسا ماں کچن میں موجود تھا۔جو بریک فاسٹ ریڈی کررہا تھا۔

کہنے کو تو یہ اپارٹمنٹ تھا۔لیکن اندر سے یہ کھلا ہوا دار بڑا سا گھر تھا۔جس میں ہر سہولت موجود تھی۔

شفیع جلدی ناشتہ ٹیبل پر لگاؤ۔

وہ حکم دے کر  دوبارہ اندر آیا۔جو اب بھی انگلیاں چٹخارہی تھی۔

فریش ہوجاؤ۔ اور ہاں میری طرف دیکھو۔ اس نے دونوں ہاتھوں میں چہرہ بھر کر زارا کو اپنے پاس کرلیا۔  

میں آج تمہارے سارے کپڑے لے آؤں گا اس وقت تم میری شرٹ ٹراؤزر پہن لو۔

اور خود کو ریلکس کرلو یہاں غنی نہیں آئے گا۔میں اب ہر وقت  تمہارے ساتھ ہوں۔

وہ رات اس کی بڑبڑاہٹ سن چکا تھا۔تبھی اسے تسلی دیتا اپنے ساتھ کا یقین دلانے لگا۔

اس کی آنکھوں میں سچائی تھی۔

رات بھی پہنی تھی۔وہ بہت بڑی ہیں۔

کاشان نے اس کے نازک سراپے کو گھوراتو وہ سٹپٹانے لگی۔ کاشان کا قد اونچا اور جسم خاصہ ڈیل ڈول والا تھا۔لیکن اس کا چوڑا سینہ بھاری باڈی اس پر جچتی بھی تھی۔

ابھی کے لیے پہن لو کچھ دیر میں تمہارے کپڑے آجائیں گے۔ 

میں رات والا ڈریس پہن لوں؟ زارا نے معصومیت سے پوچھا تو وہ مسکرا کر رہ گیا۔

میں اگر رات والے موڈ میں آگیا تو؟؟ وہ سبز نگینوں کو دیکھتا بولا۔

زارا ہاتھ مسلنے لگی۔ تو کاشان مسکرانے لگا۔۔اس نے گال کو تھپتپایا۔

ڈرو مت۔ بدل لو مجھے اچھا لگے گا تم ریڈ روز بن کر گھر میں گھومو گی۔

اس نے ریشمی بال دونوں ہاتھوں سے سنوار دئیے۔

زارا کو وہ شخص رات کے بدلے اب اچھا لگ رہا تھا۔

جو اسے نرمی سے چھو رہا تھا نرمی سے بات کررہا تھا۔ 

وہ تیزی سے باتھ روم کی طرف بھاگ گئی تھی۔کاشان بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا تھا۔

_________

"سر مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔ کامل سیکرٹ روم میں تھا۔ جب کاشان بھی وہاں آگیا تھا۔

بولو کیا ہوا؟ 

سر دو ریسٹورنٹس میں ہیروئن کھلے عام استعمال ہورہی ہے۔اور وہاں جسم فروشی بھی بڑھ گئی ہے۔سر وہاں چھوٹی عمر کی لڑکیاں پیش کی جانے لگی ہیں۔اور سننے میں آیا ہے دو لڑکیوں کی موت ہوگئی ہے"۔

کاشان نے جبڑے کس لیے تھے۔آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ 

تو تم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھےرہے ۔تم۔ایکشن لینے کے بجائے میرے پاس آگئے۔

"کاشان کی دھاڑ پر احکام شرمندہ ہوا تھا۔

سر اپنے آدمیوں نے اس ریسٹورنٹ پر قبضہ کیا ہے۔

وہ بزل شیخ کے ریسٹورنٹ تھے۔پولیس کی ریڈ بھی پڑی ہے وہاں"۔احکام تفصیل بتانے لگا۔

بزل شیخ ۔۔۔کاشان ایک بار پھر دھاڑا۔

"یہ بزل شیخ سانپ بن کر کونسے بل میں چھپا ہوا ہے اسے میرے سامنے لے آؤ احکام ۔اس نے بہت تباہی مچالی ہے ۔اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔اس کی موت میرے ہی ہاتھوں ہوگی۔

جو بچیاں مری ہیں ان کے گھر والوں سے رابطہ کرو۔ان کی مالی مدد کرو۔اور پوچھ تاچھ کرو۔کہیں وہ خود ہی تو اس میں ملوث نہیں تھے"۔

کاشان کی تیز دماغی پر احکام حیران ہوئے بنا نہ رہ سکا۔

"آج  میں  بزی رہوں گا۔ کامل اور تم سنبھال لینا۔

کویت کے منسٹر سے میری خفیہ میٹنگ ہے۔میں وہاں جانے والا ہوں"۔

جی سر!! احکام سر ہلا کر جانے لگا تھا۔

"اس لڑکی کا کیا ہوا جس کے پیچھے تم گئے تھے۔؟"

کاشان کو یاد آیا تھا۔

سر وہ ۔۔۔احکام نے سرجھکالیا۔

تمہیں پتہ ہے مجھے انتظار پسند نہیں ہے۔  جلدی بولو؟ 

سر وہ غنی کی بہن ہے۔احکام جلدی سے بولا۔

کاشان حیران ہوا تھا۔

سب کا کنکشن ہی کیا غنی سے تھا۔یہ اتفاق تھا یا قسمت کی چال؟ کاشان سمجھ نہیں پایا۔

تو کیا چھوڑ دو گے؟؟ کاشان نے احکام کی سوچ جاننا چاہی۔

"کچھ دن میں تمہارے نکاح کو ارینج کروارہا ہوں۔اپنے مائند کو سیٹ کرلو۔ دشمن کی بہن ہے تو کیا ہوا محبت کرتے ہو تو اسے اپنا لو۔"

کاشان کے حکم پر اس نے حیرت سے اسے دیکھا۔وہ سب کی فکر کرتا تھا لیکن بتاتا نہیں تھا۔

کاشان اب لاپرواہ بن کر سیگریٹ پینے لگا تھا۔

________

میرے ساتھ چلو گی؟؟ زارا ریڈ فروک میں ہی تھی۔

وہ کمرے میں اتا بولا۔

کک کہاں جانا ہے؟" زارا کو ڈر تھا وہ کہیں اسے دوبارہ ہی وہاں نہ چھوڑ آئے۔اسے اپنی نوکری کی بھی فکر ہورہی تھی۔

سر مجھے واپس جانے دیں وہاں مینجر مجھے نوکری سے نکال دے گا۔

زارا فکر مندی سے بولی تو کاشان حیران ہوا۔اور پھر اس کا قہقہ گونجا تھا۔

سلی گرل!!! یو آر مائے وائف اور تم اس دوٹکے کے ریسٹورنٹ کی نوکری کی فکر میں ہو۔

زارا کی آنکھیں بھر آئی تھی۔۔

اچھا رونامت اوکے!!! کاشان نے ہاتھ کھڑے کرلیے۔

کس ریسٹورنٹ میں جاب کرتی تھی؟ کاشان نے اس سے پوچھا۔

ال زعفران(فرضی نام)  کاشان چونک گیا تھا۔

تم زعفران میں جاب کرتی تھی۔کاشان نے دوبارہ پوچھا۔

زارا نے زور و شور سے سرہلایا۔ 

وہ میرا ریسٹورنٹ ہے۔ کاشان کے کہنے پر اس نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔

لیکن اس کے چہرے پر سچائی تھی۔

زارا کا چہرہ خوف سےسفید پڑ گیا۔اسے لاونیہ یاد آئی تھی۔

وہ پیچھے ہونے لگی تھی۔کاشان نے اس کی حرکت نوٹ کی۔

کیا ہوا زارا؟؟ سب ٹھیک ہے وہ آگے آتا بولا۔

قق قاتل تم قاتل ہو لاونیہ کے قاتل ہو۔

وہ چیخنے لگی تھی۔

کاشان نے اسے بازو سے پکڑا۔تو وہ ہاتھ مارنے لگی۔

زارا کیا ہوا ہے کون لاونیہ؟؟ کاشان نے اب بازو سختی سے پکڑ لیا تھا۔

تمہاری وجہ سے میری دوست مر گئی تم خونی ہو جھوٹے انسان ہو۔

وہ زارو قطار رونے لگی۔کاشان کی آنکھوں میں طیش سمـٹ آیا۔

کون ہو تم؟؟ کس کے قتل کی بات کررہی ہو؟؟ کاشان نے پاس کیا تو وہ دور ہونے کے لیے مچلنے لگی۔

زارا مجھے پوری بات بتاؤ کیا ہوا ہے؟

وہ اب سختی سے بولا۔

کچھ نہیں بتانا مجھے ۔جاؤ میرے سامنے سے۔وہ آہین بھرتی زمین پر بیٹھ گئی۔

کاشان کو اس کی فکر ہونے لگی۔زارا دیکھو ایسے نہیں روتے مجھے بتاؤ گی نہیں تو مجھے پتہ کیسے چلے گا۔

وہ اس کا چہرہ تھام کر پوچھنے لگا۔

نہیں بتانا کچھ۔تم خونی  ہو۔اس نے زور سے اس کے ہاتھ جھٹکے تو وہ طیش سے اس کی بازو تھام گیا۔

زارا سہمی تھی۔

مجھے بتاؤ زارا ورنہ تم میرا غصہ نہیں جانتی۔اور آج کے بعد میرے ہاتھ مت جھٹکنا۔

وہ سرخ آنکھوں سے گھورتا اسے کھڑا کرنے لگا۔

زارا اب سسکیاں بھرنے لگی۔

اوکے تم نہ بتاؤ میں خود جان لوں گا۔اور اگر کچھ بھی ایسا ویسا ہوا میں تمہیں بخشوں گا نہیں۔

وہ انگلی اٹھاکر وارننگ دیتا باہر نکل گیا لیکن فوری اندر بھی واپس آیا۔

آؤ پہلے نا شتہ کرو ۔وہ بازو سے پکڑ کر اسے لیے باہر کی طرف جانے لگا۔

"مجھے کچھ نہیں کھانا۔مجھے تمہارے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے۔"وہ آستین سے آنکھیں رگڑنے لگی۔

کاشان کا غصہ سوا نیزے پر جا پہنچا تھا۔

"میں نے تمہیں کل بھی کہا تھا۔مجھ سے دور جانے کی بات مت کرنا ورنہ میں تمہیں ایسی اندیکھی آگ میں جھلسا دوں گا تم سانس لینا بھی بھول جاؤ گی۔

تم میری ہو تمہیں کوئی حق نہیں مجھ سے دور جانے کا۔میرا قصور اگر کچھ ہوا تو میں خود تمہارے سامنے سزا کے لیے آجاؤں گا۔بے شک پھر تم اس سینے میں گولی ہی اتار دینا۔لیکن میرا قصور بتائے بنا الزام نہ لگاؤ۔ورنہ بہت پچھتاؤ گی"۔

اس کی شدت پسندی پر زارا کو سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا۔

آنسو انگوٹھے سے صاف کرکے وہ کندھے سے پکڑتا باہر نکلاتھا۔

________

گرینڈ ما بھی آج ناشتے کی ٹیبل پر تھی۔

کاشان سربراہی کرسی پر بیٹھا تھا۔زار اس کےساتھ والی چئیر پر تھی۔

وہ ناشتہ کرنے کے بجائے پلیٹ میں چمچ گھمانے لگی۔

زارا ناشتہ کرو۔

وہ سختی سے بولا۔تو اس نے ان سنا کردیا۔

کاشان کو اس پر غصہ آنے لگا۔لیکن وہ اسے تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

زارا ناشتہ کرو پھر ہم عجمان جائیں گے"۔

زارا نے جلدی سے سر اٹھایا۔

اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔کاشان کی آنکھوں میں سختی تھی۔وہ جلدی جلدی ناشتہ کرنے لگی۔

کاشان مسکرادیا تھا۔

_________

وہ دونوں سامنے کھڑے تھے۔کاشان سربراہی کرسی پر بیٹھا تھا۔اس کے چہرے پر سفاکیت تھی۔

وہ اس وقت نرم کاشان کے بجائے ایک خونخوار درندہ لگ رہا تھا جو سب کچھ چھیڑ پھاڑ دینا چاہتا تھا۔

ال زعفران ریسٹورنٹ کے حالات کی خبر کتنے عرصے سے نہیں لی گئی؟؟ 

کاشان کی بھاری سخت آواز پر احکام کے ساتھ کامل کا سر بھی جھکا۔

میں کچھ پوچھ رہا ہوں جواب کیوں نہیں دے رہے،؟ وہ گلاس زمین پر مارتا بولا تھا۔

سر  پچھلے پانچ مہینے سے وہاں کوئی نہیں گیا۔دبئ کے حالات بہت خراب تھے۔

احکام نے آرام سے جواب دیا۔

کامل تم بتاؤ ؟ 

کامل کی آج بولتی بند تھی۔وہ جانتا تھا کوئی بڑا نقصان ہوگیا ہے۔تبھی کاشان بھڑک رہا ہے۔

اس کا یہ روپ کبھی کبھار ہی سامنے آتا تھا۔

میں نے اس دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے وعدہ لیا تھا ۔میں اپنے ملک کی حفاظت کروں گا۔بے گناہ لوگوں کی جان بچاؤں گا۔بے شک میرا طریقہ غلط ہوگا۔لیکن میں درندوں کو سزا خود دوں گا۔کیونکہ یہ میرا اصول ہے۔لیکن آج مجھے اپنے وعدے پر افسوس ہورہا ہے۔

میرے ہی ریسٹورنٹ میں ایک لڑکی کو بے دردانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔نہ تمہیں خبر ہوئی نہ مجھے۔اور وہاں کپلز کے بجائے حرام تعلقات بنائے جانے لگے۔شراب وہاں عام ہونے لگی ہے۔کھلے عام سمگلنگ سب ہورہا ہے وہاں۔۔۔

کاشان کی اتنی انفارمشن پر کامل اور احکام کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔

وہ یہ سب کیسے جانتا تھا۔

حیران مت ہو۔میں سب جانتا ہوں میں ایول کنگ ایسے ہی نہیں بن گیا۔

میں آج ہی سب پتہ لگاتا ہوں سر آپ پریشان نہ ہوں۔

احکام جلدی سے بولا۔

میں پریشان نہیں افسوس میں ہوں ۔میں نے کیوں تم لوگوں پر بھروسہ کیا۔۔میں اپنا کام اب خود کروں گا۔

وہ کرسی سے اٹھتا لمبے لمبے قدم لیتا باہر نکل گیا تھا۔

کامل نے اسے روکنا چاہا لیکن وہ غصے میں تھا۔

_________

کہاں جارہی ہو تم؟ اجیہ نے پوچھا تو سارا نے کوئی جواب نہیں دیا۔میں نے پوچھا کہاں جارہی ہو؟  وہ دوبارہ سختی سے پوچھنے لگی۔

وہی جہاں سب جاتے ہیں جہاں آپ کو عیاشی کروانا پسند ہے۔جہاں آپ کا کام چلتا ہے۔

وہ چیخ کر بولی۔

غنی نے تمہیں کل اچھا کیا تھا تھپڑ مارا تم اسی لائق تھی۔

انہوں نے اسے بالوں سے پکڑ کر کہا۔

چھوڑیں مجھے۔۔۔مجھے جانا ہے بارق میرا ویٹ کررہا ہے۔

وہ بال چھڑوانے لگی۔کون بارق کہاں جارہی ہو۔انہوں نے سختی سے پوچھا۔

میرا بوائۓ فرینڈ بہت جلد میں اس سے شادی کرنا چاہتی ہوں ہم ریلیشن میں ہیں۔

وہ بہادری سے بولی۔تو اجیہ کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچا۔

شرم نہیں آتی کس حق سے تمہارا اس سے تعلق ہے۔کیوں گئی تم اس کے پاس۔تم میری بیٹی ہو تمہیں ایسی حرکتں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ اونچی آواز میں چیخنے لگی۔

کیوں جیسے باقی لڑکیوں سے آپ کام کرواتی ہیں میں کیوں نہیں کرسکتی۔وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہیں۔کس کی بہن ہیں۔

ان سے کیوں زبردستی کام کرواتی ہیں۔

وہ ان کی بات انہیں کے منہ پر مار کر بولی۔

اپنی بکواس بند کرو۔کہیں نہیں جاؤ گی تم۔غنی سے کہہ کر تمہیں ٹھکانے لگاتی ہوں۔

اسے بیڈ پر پٹکتی وہ لنگڑاتے ہوئے باہر بڑھی تھی۔

____________

مجھے نہیں جانا میں سچ کہہ رہی ہوں میں یہاں سے چھلانگ لگادوں گی"۔

کاشان زارا کو لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگا جب وہ چیخی تھی۔

"زارا تم مجھے ابھی جانتی نہیں ہو تبھی ایسے کررہی ہو۔جس دن میرا اصلی چہرہ دیکھ لیا ناں یہ چلتی زبان ایسے بند ہوگی دوبارہ کھل ہی نہیں سکے گی"۔

سرد لہجے میں کہتا وہ زارا کی طرف مڑا اس کی براؤن آنکھوں میں آگ کی جیسی تپپش تھی۔جیسے وہ اپنی آنکھوں سے ہی اسے بھسم کردے گا۔

وہ اسے لیے پھر نیچے آیا تھا۔

سبز نگینوں میں تیرتا پانی گالوں پر بکھر گیا۔

کاشان کو اپنی سختی پر افسوس ہونے لگا۔

"میں جان گئی ہوں آپ خونی ہیں لاونیہ کو آپ نے ہی مارا ہے"۔

اپنے نرم ہاتھوں سے اس کے سینے پر تھپڑ مارتی وہ کاشان کو حددرجہ پیاری لگی۔

"اچھا اگر وہ ریسٹورنٹ میرا ہے تو کیا وہاں قتل بھی میں نے ہی کیے ہوگے؟" 

کاشان  نے سوالیہ نظروں سے زارا کو دیکھا۔

جو اس کے ہاتھ پکڑنے پر ششدر تھی۔

اس کے سفید ہاتھ کاشان کے مضبوط ہاتھوں میں تھے۔وہ اب گیراج سے تھوڑا دور ہی کھڑے تھے۔

باہر کاشان کی سیاہ مرسیڈیز تیار تھی۔لیکن زارا راستے میں ہی ضد لگائے کھڑی تھی۔

کاشان نے دوبارہ اس کی طرف دیکھا۔

"بتاؤ زارا ؟؟ میں تو یہاں دبئی میں رہتا ہوں تم عجمان سے ہو تو میں کبھی تمہیں اس ہوٹل میں نظر آیا ہوں۔؟"

وہ اب بھی جاننے میں دلچسپی رکھ رہا تھا۔

زارا کو وہ رات یاد آئی جب وہ شراب کے نشے میں تھا۔

"آپ عجمان میں تھے میں نے آپ کو دیکھا تھا"۔

وہ سوں سوں کرتے بولی۔

کاشان نے اس کے پیارے انداز پر دونوں گال کھینچ دئیے۔

"اس کا مطلب تم مجھے پہلے سے جانتی ہو تبھی چپ چاپ شادی کرلی"۔

وہ سبزنگینون میں گھور کر زارا کو بوکھلانے لگا۔

اس کی پلکیں لرز گئی تھی۔

"مجھے کچھ نہیں بتانا میں آپ کے ساتھ کہیں نہیں جاؤں گی میں غنی کے پاس نہیں جاؤں گی۔وہ مجھے بیچ دے گا"۔

وہ اب سچ میں رونے لگی تھی۔۔ ہمیشہ کی طرح کاشان کے  جبڑے تن گئے تھے اس نے سختی سے زارا کو سینے سے لگایا تو وہ اور زیادہ سسکنے لگی۔

"تم ایول کنگ کی کوئین ہو تمہیں گرم ہوا بھی نہیں چھو سکتی۔غنی کو تمہارے سامنے میں موت کے گھاٹ اتاروں گا۔ تمہاری ایک ایک تکلیف کا بدلہ لوں گا۔بس تم مجھ سے کبھی دور نہ جانا۔"

وہ اس کے نرم ملائم بالوں میں انگلیاں پھیرتا شدت پسندی سے بولا تھا۔

زارا اس کے سینے سے لگی کھڑی رہی۔

اس کے پرفیوم کی تیز خوشبو زارا کو پرسکون کرنے لگی تھی۔

میرے ساتھ دبئی دیکھنے چلو گی؟" وہ کچھ دیر بعد اسے سامنے کیے پوچھنے لگا۔

زارا نے اب نرمی سے سر ہلادیا تھا۔

وہ گاڑی کی طرف بڑھنے لگا۔زارا کے کندھے پر اس کا ہاتھ تھا۔

گاڑی میں بیٹھ کر اس نے سمپل ماسک زارا کے منہ پر لگادیا۔نرمی سے اس کی پیشانی چوم کر اس نے زارا کا ڈوپٹہ سکارف کی طرح لپیٹ دیا۔جس سے اس کے بال چھپ گئے تھے۔

"یہ مت سمجھنا میں تمہیں چھپا رہا ہوں یا پابندی لگارہا ہوں۔بلکہ یہ اس لیے کررہا ہوں تاکہ کوئی بھی ایول کنگ کی کوئین کو فالتو شے نہ سمجھ لے"۔

اس کے جواب پر زارا ماسک کے پیچے سے پہلی مرتبہ مسکرائی۔

غنی کتنا سفاک انسان تھا۔اور کاشان شرابی ہونے کے باوجود کتنا نرم دل انسان تھا۔

زارا کو وہ اچھا لگا تھا۔

وہ چپ چاپ سیٹ سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئی۔

________

سر آپ یہاں؟؟ مینجر کھیسانے پن سے بولتا کامل اور احکام کو دیکھنے لگا۔۔جو پورے بلیک لباس میں تھے۔

کاشان ان سے ناراض ہوگیا تھا۔

اب اسے منانا بھی ضروری تھا۔اور کام بھی ضروری تھا۔اس لیے وہ چند ساتھیوں کے ساتھ یہاں آگئے تھے۔

"ہاں کھانا آرڈرکرو۔اور میرے چند دوست یہاں ٹھہرنے آئیں تو روم خالی ہیں تو وہ اوپن کرواؤ۔"

کامل کے اگلے حکم کر مینجر خوف سے سفید پڑنے لگا۔

 کمرے خالی نہیں تھے۔

 زارا بھی نہیں تھی ۔دو دن سے اس کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔وہ یہاں کی بیسٹ کک تھی۔

سر روم تو سب بک ہیں اور سر کھانا میں ابھی آرڈر کرواتا ہوں۔

دونوں پورشن کے  سارے کمرے ہی بک ہیں؟؟ 

اب کی بار احکام بولا۔

جی سر سب بک ہیں مینجر اب اپنا اعتماد بحال کرنے لگا۔۔

سر آج پھر ہم کہاں ٹھہریں گے؟

احکام نے پریشانی  سے کامل سے پوچھا۔۔جیسے بہت سیریس مسلہ ہو۔

احکام ہم آج مینجر کے گھر ٹھہریں گے۔

کامل نے چٹکی بجا کر حل پیش کیا تو مینجر اچھلا تھا۔

ویسے مینجر تمہارے گھر میں کون کون رہتا ہے۔؟"

کامل نے سفاک چہرے سے مینجر کو دیکھا۔اس کے چہرے پر پھیلا سرد پن دیکھ کر مینجز کی حالت مزید خراب ہونے لگی۔

کہیں زارا نے ہی تو کچھ؟؟ مینز کے ذہن میں خیال آیا کیونکہ وہی غائب تھی باقی سب تو موجود تھے لاونیہ سے بھی اس کی دوستی تھی۔

شاید اسی نے ہی ایول کنگ کو خبر کی ہو۔

مینجر کیوں ڈر رہے ہو بتاؤ نآں گھر میں کون کون رہتا ہے۔"؟؟؟؟؟

اب کامل نے اس کے کندھے پر بھاری ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا تھا۔۔

"""""سر میں میری بیوی دو بہنیں ہیں ۔"""""میجر رٹو طوطے کی طرح بولا تو کامل اور احکام ہنسنے لگے۔

واہ بیوی بہنین سب ہیں بھائی نہیں ہے؟

"""" سر میں اکلوتا ہوں""""۔اس کے اگلے سوال پر اس نے جلدی سے جواب دیا۔

"افسوس ہودہا ہے مینجر مینجر تمہاری بہنیں اب سچ میں یتیم ہوجائیں گی اور تمہاری بیوی بیوہ۔۔۔۔۔"

کامل تاسف سے نفی میں سرہلا کر عام سے انداز میں بولنے لگا۔

مینجر گڑگڑاتا ہوا ان دونوں کے پاؤں میں گر گیا۔

"سر مجھے معاف کردیں سر میں بھٹک گیا تھا"۔سر وہ خود سب لڑکیاں راضی تھیں۔"

منیجر کی آہ وفریاد پر کامل نے قہقہ لگایا۔

احکام ہم نے تو پوچھا ہی نہین کہ اس نے کیا کیا ہے پھر یہ کیوں ہمیں بتارہا ہے؟"۔

کامل کی بات پر مینجر کو اپنی غلطی کا احساس شدت سے ہوا۔

وہ کامل کو دھکا دیتے باہر بھاگا۔

کامل اور احکام نے حیرت سے اس کی حرکت دیکھی تھی ۔اور پھر وہ ہنستے چلے گئے۔

__________

"میں نےتمہاری شادی فکس کردی ہے"۔غنی کی غیر متوقع بات پر علایہ نے حیرت سے سر اٹھایا۔

وہ اس وقت اداس سی لیٹی تھی۔

"تم یہ کیسے کرسکتے ہو میں کیون تمہاری مرضی سے شادی کروں۔"

وہ اٹھ کر بیٹھی اور چیخ کر بولی۔

"میرے ساتھ زبان درازی نہیں کرنا کیونکہ میں کچھ دن میں یہ پیلس بند رکھنا چاہتا ہوں۔اور میں خود انڈر گراؤنڈ ہورہا ہوں۔۔بزل شیخ کا بیٹا اذبل شیخ اچھا انسان ہے وہ تمہیں خوش رکھے گا۔"

غنی اپنی بالی والا کان سہلاتا عام لہجے میں بول رہا تھا۔

اس کے چہرے پر چمکتی شیطانیت علایہ کو بھی صاف نظر آئی تھی۔

"اس کی عمر کیا ہے؟ زرا بتانا پسند کرو گے ؟"

علایہ نے اب سینے پر پاتھ باندھ کر تیکھی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔

پینتس سال کا ہے""۔ وہ نظر چرا کر بولا۔۔

اور میری عمر کیا ہے؟ """

 تم فالتو سوال کیون پوچھ رہی ہو ماں باپ کی موت کے بعد تم میری ذمہ داری ہو تو میری مرضی میں جہاں تمہاری شادی کروں تم مانو گی۔

غنی نے اپنا اہم ہتھیار آزمایا تھا۔

"میں اکیس سال کی ہوں اور وہ پینتس سال کا ہے کیا میری اور اس کی شادی ہوسکتی ہے۔وہ مجھ سے چودہ سال بڑا ہے"۔

وہ اب کی بار کھڑی ہوتی غنی کے سامنے آئی۔

"تو کیا ہوا ؟ زارا بھی تو مجھ سے چھوٹی تھی اس کی اور میری منگنی ہوسکتی تھی۔تو تمہاری کیوں نہیں ہوسکتی"

۔وہ سرخ آنکھوں سے اسے گھورتا بولا۔

"اچھا ہوا زارا تم سے بچ گئی۔ہوگئی اس کی شادی۔۔

 تم بھائی نہیں  دشمن ہو"۔

غنی کو شدید طیش آیا تھا۔

اس نے ایک زور دار تھپڑ بہن کے منہ پر مارا۔وہ روتے روتے ہنسنے لگی۔

"تم سب یہی کرسکتے ہو تمہیں اور کچھ آتا بھی نہیں ہے۔تمہاری وجہ سے میں کلب جانے لگی لڑکوں سے دل بہلانے لگی ہوں۔مرجاؤ تم ۔۔ تم جیسا بھائی کبھی کسی کا نہ ہو"۔

وہ پاگلوں کی طرح چیختی اسے مارنے لگی۔

غنی نے ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر مارا۔وہ ایک درندہ تھا۔

"کل تمہارا نکاح ہے اگر تم یہاں سے نکلی تو میں تمہیں جان سے مروادوں گا۔اور تمہاری لاش کتوں کے آگے ڈال دوں گا۔"

وہ سفاک پن سے بولا تو علایہ نے  جھرجھری لی۔

اس وہ شخص یاد آیا تھا۔جو اسے دھمکا کر گیا تھا۔اس کا دل چاہا وہ اس کی پناہوں میں چھپ جائے۔

غنی نے اس کے بال پکڑ کر اسے بیڈ پر پھینکا اور خود کمرے سے نکل گیا تھا۔

___________

اوپر والے پورشن سے کئی لڑکیوں کو باہر نکالا گیا تھا۔

مینجر نے یہاں بہت زیادہ فحاشی پھیلا رکھی تھی۔

یہ ریسٹورنٹ کاشان کا پسندیدہ تھا وہ یہاں کم آتا تھا۔لیکن جب بھی آتا تھا وہاں رکتا ضرور تھا۔

لیکن پچھلے کئی ماہ سے وہ یہاں نہیں آیا تھا دبئی میں خراب ہوئے حالات اور دو بار پولیس ریڈ کی وجہ سے ان کا دھیان یہاں سے ہٹ گیا تھا۔

لیکن زارا کی الجھی باتوں سے ہی وہ سمجھ گیا تھا تبھی اس نے ان دونوں کو باتیں سنائی تھیں۔

"سر میں جانا چاہتا تھا۔مجھے کچھ ضروری کام ہے"۔

احکام نے نظر چرا کر کہا تو کامل مسکرانے لگا۔

"تم اتنی جلدی عجمان ایسے ہی نہیں آئے مجھے پتہ تھا کچھ تو وجہ ہوگی۔"

"سر آپ کی حرکتیں بھی مجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں۔۔"احکام منہ بنا کر بولا تو کامل جھینپ گیا۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے دوست بھی تھے۔

لیکن کام کے وقت کامل ایک سخت گیر باس ہوتا تھا۔

اور احکام کو بھی کام کے وقت مستی  مذاق پسند نہیں تھا۔

مینجر کو کچن میں باندھا ہے۔کچھ دیر میں خبر لوں گا۔تم جاؤ جہاں جانا چاہتے ہو۔

وہ سر کھجاتا بولا تو احکام اس کی حرکت پر مسکرادیا۔

آج نجانے کیوں اس کا دل گھبرا رہا تھا۔جیسے وہ لڑکی کسی مصیبت میں ہو۔

دل کی بے چینی کو ختم کرنے ہی وہ علایہ سے ملنے جارہا تھا۔

کامل کچن کی طرف بڑھا تو وہ باہر اپنی کار کی طرف بڑھنے لگا۔

___________

کاشان کے ساتھ مختلف جگہ پر گھومتی وہ خوشی سے ساری فکریں بھول گئی تھی۔۔کاشان اس کو مسکراتا دیکھ کر خود بھی جیسے کئی برس بعد زندگی جی رہا تھا۔شاپنگ کرتے وقت وہ ایک ایک چیز زارا کے لیے پسند کررہا تھا کئی ڈھیر کپڑے اس نے خریدے تھے۔

وہ اب بھی ماسک میں تھی۔کاشان نے بھی چہرے پر ماسک لگایا تھا وہ اس وقت عام شہری کی طرح گھوم رہا تھا ۔

وہ دبئی مال کے اکیوریم میں جاکر جیسے کھو سی گئی تھی۔خوشی سے اچھلتی وہ بنا اپنی مسکراہٹ دکھائے کاشان کو بتارہی تھی کہ وہ کتنی خوش ہے۔

مچھلیوں کے درمیان خود کو محسوس کرتی وہ خود بھی جیسے خوشی سے لہرارہی تھی۔

ڈانسنگ فاؤنٹین شو  دیکھو گی۔ "

کاشان نے کندھے کر گرد بازو پھیلا کر اس کے قریب جھک کر پوچھا۔

وہ جھینپ کر مسکرادی۔

کاشان اس کی اداؤں پر دیوانہ ہورہا تھا۔

"ابھی اس میں تھوڑا وقت ہے وہ سورج غروب ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے تو تم یہاں بیٹھو میں بس کچھ دیر میں آتا ہوں ۔یہاں سے کہیں نہیں جانا ۔" 

وہ اپنا موبائل دیکھ کر بولا جہاں اس کے خاص آدمی نے اسے میسج بھیجا تھا۔کویت کا صدر وہاں آچکا تھا۔۔یہ میٹنگ پوری طرح خفیہ رکھی گئی تھی۔۔وہ اس کے ساتھ کچھ ڈیلنگ کرنا چاہتا تھا۔

تبھی اسے یہاں بلایا تھا۔

زارا نے سہم کر اس کا ہاتھ پکڑا۔تو وہ آنکھوں میں نرمی لاتا اسے حوصلہ دینے لگا۔

میں پورے دس منٹ بعد لوٹ آؤں گا۔اتنا تم کچھ کھالو۔وہ جانتاتھا اس نے ناشتے کے بعدسے کچھ نہیں کھایا۔آپ آجائیں پھر میں کھالوں گی۔وہ ججھک کر بولی تو کاشان مسکرادیا۔

"میں دس منٹ بعد آؤں گا تم اتنا فرائز انجوائے کرو"۔وہ چند سنیکس ویٹر سے لے کر اس کے سامنے رکھتا اس کا گال تھپٹپائے بولا۔

ڈرنا مت میں تمہارے پاس ہی ہوں بس آنکھیں بند کرکے مجھے محسوس کرلینا"۔اس کا سر چومتا  پیچھے ہٹا۔

زارا نے سر ہلایا تو  فوڈ کیفے سے نکل کر اوپر والی بلڈنگ میں بڑھ گیا۔

____________

وہ آج پھر پچھلے راستے سے آیا تھا۔

علایہ کا کمرہ سنسان تھا۔اسے آج گھر میں خاصی چہل پہل لگی تھی۔ نوکر نیچے والے پورشن میں شاید کچھ کام کررہے تھے۔

پیلس کافی بڑا تھا۔اور کافی بھول بھلیوں والا راستہ تھا۔

ابھی شام ہونے میں کچھ وقت تھا۔لیکن وہ آگیا تھا۔ اس کا دل بے چین تھا۔

وہ کمرے کو یاد کرتا اسی طرف بڑھا۔کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو وہ لاک تھا۔

اسے شدید پریشانی نے گھیرلیا تھا۔

وہ کمرے کے دروازے سے ہٹ کر پچھلی طرف آیا جہاں روم کی ونڈو تھی۔

ونڈو بند تھی۔احکام کا دل گھبرارہا تھا۔

اس نے ہلکی سی دستک دی تو روتی ہوئی علایہ چونک گئی۔پہلے دروازے پر اور پھر کھڑکی پر دستک سنتی وہ حیران ہوئی۔

وہ بھاگ کر ونڈو کے پاس آئی ۔دستک ایک بار پھر ہوئی۔تو وہ آنسو صاف کرتی کھڑکی کھولنے لگی۔

گرلی والی کھڑکی کو لاک لگا ہوا تھا۔

اس نے ونڈو کھولی تو سامنے ہی اسے احکام نظر آیا۔

علایہ کی آنکھیں پھیل گئی وہ شدت سے روتی ونڈو سے چپکی۔

احکام کو وہ ہمیشہ ہنستی مسکراتی ملی تھی لیکن آج وہ رو رہی تھی ۔

اس کا گال سوجا ہوا تھا۔احکام کو فکر ہونے لگی۔

کس نے کیا ہے؟ وہ ماتھے پر بل ڈالے سختی سے پوچھنے لگا۔

مجھے شادی نہیں کرنی مجھے بچالو میں یہاں نہیں رہنا چاہتی غنی نے مجھے یہاں بند کردیا ہے۔"۔وہ ہچکیاں لیتی روتی احکام کو بے چین کرگئی۔

گرل سے ہاتھ ڈال کر اس نے علایہ کا گال چھوا جو گرم ہورہا تھا۔

رونا بند کرو۔میں تمہارے ساتھ ہوں کیا مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہو؟ "احکام نے اس کا ہاتھ تھاما جو بخار سے تپ رہا تھا۔

علایہ نے فوراً سر ہلایا۔تووہ بھی سکون کا سانس لینے لگا۔

کب ہے شادی؟ احکام نے پوچھا تو اس نے روتے ہوئے بتایا۔

" کل  ہم دونوں کا  نکاح ہوگا۔ تم تیار رہنا تمہارا نکاح مجھ سے ہی ہوگا۔میری زندگی ہو تم میری خوشی ہو تم میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑوں گا ۔ تم نے گھبرانا نہیں ہے۔۔میں تمہاری لوکیشن ٹریس کرلوں گا۔"

اس کا گال سہلا کر اس نے علایہ کو حوصلہ دیا تھا۔

علایہ نے روتے روتے سرہلادیا تھا۔

__________

چہرے پر ماسک لگاکر  وہ میٹنگ روم میں  داخل ہوا۔یہ ایک شاپ کی بیک سائیڈ تھی جہاں ایک خفیہ روم تھا۔ جہاں پر وہ خفیہ میٹنگ کرتے تھے۔

اندر بیٹھا آدمی بھی اپنا حلیہ بدل کر آیا تھا۔

تین آدمی اور وہ اکیلا تھا۔

میٹنگ میں کئی باتیں ہوئی ۔سات منٹ گزرگئے تھے اس کے ذہن میں زارا کی فکر گونج رہی تھی۔

کویت کے صدر سے باتیں کرتا وہ موبائل دیکھنے لگا۔۔جہاں پر ایک ان نون نمبر سے میسج تھا۔

خطرے کی گھنٹی کاشان کو محسوس ہوئی۔

اس نے فوراً میسج دیکھا۔

" اپنی ایک دن کی حسین بیوی کو باہر اکیلا بٹھا کر آگئے ہو۔جانتے نہیں ہو وہ کتنی خوبصورت ہے اور ایسی خوبصورتی مالز میں بیٹھی نہیں بلکہ دل بہلاتے اچھی لگتی ہے۔

تھینکیو مجھے اپنی پیاری چیز دینے کے لیے۔۔۔۔" 

کاشان کو لگا اس کا دل رک گیا ہے۔

اس نے سامنے دیکھا۔اور پھر ایک دم کھڑا ہوگیا تھا۔

روم سے نکل کر  وہ تیزی سے باہر بھاگا تھا۔

 ___________

وہ تیزی سے باہر بھاگا تھا۔چہرے پر پسینہ چمکنے لگا ۔دل کی دھڑکن بڑھ گئی تھی۔

اس نے بے اختیار اللّٰہ کو پکارا تھا۔اوریہ دوسری مرتبہ تھا جب اسے اللّٰہ یاد آیا تھا۔

یااللّٰہ میری زارا ٹھیک ہو۔وہ ٹھیک ہو۔۔اسے کچھ مت کرنا"۔وہ مٹھیاں بند کرتے دیوانہ وار دل میں دہرارہا تھا۔

وہ فوڈ کیفے میں آیا تو وہاں زارا نہیں تھی۔

اس کی فرائز ایسے ہی پڑی تھی۔وہ کاؤنٹر کے پاس آیا اور وہاں کھڑے لوگوں سے پوچھنے لگا۔

لیکن سب نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

زارا!! ایک دم وہ اونچی آواز میں پکارنے لگا۔

مال میں موجود لوگ اسے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔وہ سیڑھیوں کے قریب پکارتا ایک دیوانہ عاشق لگ رہا تھا۔

اس کے چہرے ماسک نہیں تھا۔اب اسے فکر نہیں تھی کہ لوگ اس کو جان جاتے۔

اس کے میسج کی رنگ ٹون دوبارہ بجی۔تو اس نے موبائل سامنے کیا۔

جہاں ایک اور میسج تھا۔کتنے اچھے لگ رہے ہو دیوانہ وار اپنی بیوی اپنی جان کو پکارتے ہوئے اور وہ یہاں بے ہوش میری بانہوں میں ہے۔

کہتے ہو تو تصویر سینڈ کرتا ہوں۔

کاشان کی ہمت جواب دے گئی تھی۔وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا اونچی آواز میں چیخا تھا۔یہ خیال ہی جان نکال رہا تھا۔اس کے جینے کی وجہ کسی غیر کی بانہوں میں۔۔۔۔

موبائل ہاتھ میں دبا ہوا تھا۔ ابھی تو وہ لڑکی اسے ملی تھی ابھی سے اس نے اسے کھودیا تھا۔کیا اس کا خوشیوں پر کوئی حق نہیں تھا۔

اس کا دل چاہا خود کو ختم کردے۔لیکن وہ سانس بھرتا اٹھا اور سیدھا کھڑا ہوا۔

اس نے میسج والا نمبر دیکھا۔وہ دبئی کا ہی نمبر تھا۔وہ ٹریس کرواسکتا تھا۔

اس نے نمبر کاپی کرکے کامل کو سینڈ کیا۔اور نیچے اس کے لیے ایک میسج چھوڑا۔

تیزی سے وہ مال سے نکلنے کے لیے باہر بھاگا۔لیکن ایک طرف رش دیکھ کر وہ رکا تھا۔

وہ تیزی سے اس طرف بڑھا۔رش کو دور ہٹاتے وہ اندر آیا تو اس کی آنکھوں کو یقین کرنا مشکل لگا۔

سامنے اس کا سکون اس کی زارا زمین پر گری ہوئی تھی وہ بے حجاب تھی۔

کاشان نے بے تابانہ اسے پکارا اور جاکر بانہوں میں بھرا۔

زارا میری جان """"سینے میں بھینچتا وہ سسکنے لگا۔

اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ کسی لڑکی کے لیے اس حد تک پاگل ہوجائے گا وہ ابھی کل ہی تو ملی تھی۔اور آج اسے کچھ دیر لیے کھوکر ایسا لگا جیسے وہ کبھی زندہ تھا ہی نہیں۔

پانی لاؤ"""۔وہ زور سے عربی میں بولا۔

اس کی شاندار پرسنیلٹی اور اونچے لمبے قد اور خوبصورت لباس کی وجہ سے سب وہاں سہمے  ہوئے تھے۔

ایک گارڈ پانی لایا تھا۔وہ پانی کے چند چھنیٹے اس کے منہ پر مارکر دیوانہ وار اسے پکارنے لگا۔

وہ ہوش میں لوٹ رہی تھی۔ کاشان نے اسے گود میں اٹھایا اور لفٹ کی طرف بڑھا۔

لوگ حیرت سے اسے دیکھنے لگے تھے لیکن اسے کوئی پرواہ نہیں تھی۔

_________

""زارا ہوش کرو دیکھو میں ہوں ادھر میری طرف دیکھو""۔

کاشان کا دل اب بھی شدت سے دھڑک رہاتھا۔

وہ کئی جانوں کا قاتل آدمی آج ایک لڑکی کے لیے پاگل دیوانہ بن رہا تھا۔

زارا نے سر تھام کر آنکھیں کھولی۔تو کاشان نے سینے سے لگاکر سرچوما۔

یااللّٰہ تیرا شکر ہے۔""اس کے منہ سے شکر کی دعا نکلی تھی۔

وہ کاشان کو حیرت سے دیکھنے لگی اس کی آنکھیں لال ہورہی تھی۔

"زارا کیا ہوا تھا۔تم وہاں سے کیوں اٹھی تھی۔؟"

کاشان نے نرمی سے پوچھا۔وہ اب سختی سے بات کرکے کام نہیں بگاڑنا چاہتا تھا۔

"میں وہی بیٹھی تھی آپ گئے تو میں اکیلی ہوگئی تھی۔وہاں ایک ٹوم کاسٹیوم میں آدمی آیا سب کو فری جوس کے چھوٹے کپ دینے لگا۔اس نے مجھے بھی دیا تھا۔میں نے منع کیا تو وہ سب کو دینے کا اشارہ دے کر پینے کو کہنے لگا۔

سب بچے سب لوگ پی رہے تھے مجھے اچھا نہیں لگا تو میں نے دو سپ لے لیے"۔

وہ سرجھکاتی بولی جیسے شرمندہ تھی۔

کاشان کی سرخ آنکھوں میں اس وقت آگ کی لپک تھی۔اس نے بنا کچھ کہے زارا کوسینے سے لگایا۔

زارا نے آنکھیں بند کرلی تھی۔اسے لگا وہ ڈانٹے گا۔لیکن وہ بجائے ڈانٹنے کے سینے سے لگائے بیٹھا تھا۔

وہ جان گیا تھا یہ کس کی حرکت ہوگی۔

"بزل شیخ تم میرے ہاتھوں نہیں بچو گے جس بل میں چھپ کر بیٹھے ہو اسی بل میں سانپ بن کر گھس جاؤں گا"۔

وہ دل میں عہد کرکے زارا کو سامنے کرنے لگا۔

زارا نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولی۔تو وہ اب اسے گھور رہا تھا۔

"دل کررہا ہے ایک تھپڑ تمہارے منہ پر ماردوں ۔لیکن مار کر بھی میرا نقصان ہوگا۔گال تمہارا سوج جائے گا دل میں درد مجھے ہوگا۔اس لیے رہنے ہی دیتا ہوں۔"

اس کی تھپڑ والی بات پر زارا کانپی تو اگلی بات پر حیران ہوئی۔

سبز نگینوں سے پھر سے برسات شروع ہونے لگی تو کاشان نے ہونٹ بھینچ لیے۔

"اگر تم روئی ناں تو میں نے تمہیں یہیں چھوڑ کر چلے جانا ہے۔پھر جی بھر کر رونا"

انگلی اٹھا کر اس نے دھمکی دی تو وہ اس کے سینے سے چپکی۔

کاشان اس کی نازک سی حرکت پر پہلی مرتبہ مسکرایا۔وہ اس کی پناہوں میں چھپتی بالکل بچی ہی لگ رہی تھی۔۔

اسے سیدھا بٹھا کر اس نے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

___________

سر مینجر کا کیا کرنا ہے؟"  احکام کی کال پر کاشان نے سوتی ہوئی زارا کو دیکھا۔

وہ گلابی نائٹ سوٹ میں بالوں کو تکیے پر پھیلائے سورہی تھی۔

وہ کافی تھک گئی تھی کچھ اس نشیلے جوس نے اس کے دماغ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

کاشان اس سے ناراض رہاتھا۔زارا نے دو بار بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے سخت نگاہوں سے گھورا۔وہ معصوم منہ بناتی چپ چاپ لیٹ گئی تھی۔

اسے مارنا مت کیونکہ اس کی بھی ایک فیملی ہے۔اسے ایسی کڑی سزا دو کہ وہ دوبارہ ایسی حرکت نہ کرے۔

سر مجھے آپ سے ایک اور بات کرنی ہے۔

احکام کے لہجے میں بے قراری دیکھتا وہ سمجھ گیا تھا۔

بولو کیا ہوا؟ کاشان نے زارا کے بالوں کو سمیٹا۔

"سر وہ غنی زبردستی علایہ کا نکاح کررہا ہے"۔وہ چند لفظ کہہ کر خاموش ہوگیا۔

"کل کے لیے اچھا سا ڈریس خرید لو۔مٹھائی کے ٹوکرے اور دلہن کا جوڑا بھی خرید لینا۔ایک بہن اس نے بناموجودگی کے رخصت کی تھی اب دوسری بہن وہ اپنی چھایا میں رخصت کرے گا۔۔غنی سے ابھی حساب لینا باقی ہے لیکن پہلے اس کی بہن کو بچانا ضروری ہے"۔

احکام کو ہنسی آئی تو اس نے ضبط کرلی تھی۔

تھینکیو سر وہ مشکورہوا تھا۔

کلب میں رات گزارنا چاہتے ہو؟""" کاشان کی دھمکی پر اس نے جھرجھری لی۔

سوری سر۔۔۔"

آج رات کلب میں ہی گزارو گے۔اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا"""۔اس نے کال کاٹ دی تھی۔

کاشان کی بات پر اس کا سر پیٹنے کو دل چاہا تھا جو تھینکس اور سوری کہہ کر پھنس گیا تھا۔

__________

صبح اس کی آنکھ کھلی تو کاشان کمرے میں نہیں تھا۔

رات نشیلے جوس کی وجہ سے وہ زیادہ دیر جاگ نہیں پائی۔کل اسے کاشان کی حالت دیکھ کر رشک بھی محسوس ہوا۔کیسے دیوانوں کی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔اس کی آنکھیں میں دیوانگی تھی۔

سر میں اب بھی ہلکا ہلکا درد تھا۔

وہ فریش ہونے کے لیے واش روم کی طرف بڑھی۔کچھ دیر بعد باہر آئی۔تب بھی کاشان کمرے میں نہیں تھا۔

وہ باہر بھی نہیں جاسکتی تھی۔

وہ کمرہ دیکھنے لگی۔کمرہ بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔

بیڈ وارڈروب اور چھوٹا سا ڈریسنگ روم تھا۔

جگہ جگہ سینریز تھیں جن پر جانوروں اور کنگ کی تصویریں تھی۔

رات والے ڈریس کو دیکھ کر اسے الجھن ہونے لگی تو وہ کپڑے تلاشنے لگی۔

اسے ڈر بھی تھا کہیں وارڈروب کھولنے سے کاشان غصہ نہ ہو لیکن اسے چینج بھی کرناتھا۔

آنکھیں بند کرکے سانس لے کر اس نے وارڈروب کھولی۔

سامنے ہی کاشان جے کپڑے تھے جو ایک ترتیب سے ہنگر میں تھے۔

اس کی نظر سامنے گئی تو خوف سے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی۔

سامنے ہی ایک کافی بڑا چاقوایک بلیک کلر کی گن پڑی ہوئی تھی۔ساتھ ہی ایک کٹر بھی تھا۔

زارا نے پٹ سے دروازہ بند کرکے وارڈروب سے ٹیک لگالی تھی۔وہ خوف سے سفید پڑنے لگی۔

ڈر یہ نہیں تھا کہ اس نے چاقو پہلے نہیں دیکھے تھے۔بلکہ وہ چاقو دو دھاری تھی۔جو کچن میں ہرگز استعمال نہیں ہوسکتا تھا۔

کٹر بھی عجیب و غریب تھا۔

وہ آنکھین بند کیے خوف پر قابو پانی لگی۔

"کیا ہوا کس سے ڈر رہی ہو؟""" اپنے قریب کاشان کی آواز سن کر وہ خوف سے اچھلی۔اور چیخ ماری۔

کاشان نے فوراً اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا وہ خوف سے کانپتی ہاتھ ہٹانے لگی۔

کاشان کو اس کے ماتھے پر پسینہ نظر آیا تھا۔

کیا ہوا ہے؟ ایسا کیا دیکھ لیاہے۔؟جو چیخ رہی ہو۔""" 

زارا کی زبان ہی گنگ ہوگئی تھی وہ کیا خاک بولتی۔

اس نے آنکھیں نیچی کرکے ہاتھ ہٹانے کو کہا تو کاشان نے منہ سے ہاتھ ہٹایا۔

""""آپ کیاہیں کون ہیں اور مجھ سے شادی کیوں کی ہے، دیکھیں میں آپ کو نہیں جانتی لیکن آپ نے اس دن مجھے بچایا تھا۔اس کے لیے میں شکریہ کہتی ہوں۔لیکن مجھے آپ سے خوف آرہا ہے۔خدا کا واسطہ مجھے چھوڑ دیں"۔۔۔

وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگی۔کاشان اس وقت سوٹ بوٹ میں تھا۔

اس کے براؤن بال پیچھے جمے ہوئے تھے۔

کاشان اس کی ساری باتیں سن کر خاموش رہا۔

"میں ایک انسان ہوں۔جیسے سب ہوتے ہیں""۔وہ عام لہجے میں کہنے لگا۔

زارا نے نفی میں سرہلایا۔

آپ انسان نہیں خونی ہے۔میں جان گئی ہوں وہ چاقو وہ گن وہ کٹر۔۔۔یااللّہ میں کہاں پھنس گئی ہوں۔وہ اپنے بال نوچتی بولی تو کاشان کو اس کی حرکت زہر لگی تھی۔

"""کیا کررہی ہو زارا تمہارے سر میں پہلے ہی درد ہے اوپر سے تم خود کو اذیت دے رہی ہو"""۔

کاشان نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے تھے۔ 

"""میری اذیت تکلیف کی اگر اتنی پرواہ ہے تو مجھے سچ بتادیں اور یہاں سے جانے دیں۔میں آپ کے ساتھ نہیں رہوں گی۔"""

کاشان کی رگیں پھولنے لگی تھیں۔غصے کا بڑھاؤ چہرے پر چھلکنے لگا۔زارا نے اس کا چہرہ دیکھا تھا۔

ایک دم اس نے وارڈروب پر زور سے ہاتھ مارا تھا۔

وارڈورب تھرتھرا کر رہ گئی تھی۔اور زارا سانس لینا ہی بھول گئی تھی 

تم بےوقوف ہو؟""" کاشان نے دانت پیس کر کہا۔

زارا نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"مجھے لگتا تھا میری بیوی سمجھدار ہوگی۔وہ اپنوں کااصل چہرہ دیکھ کر مجھ پر شاید اعتبار کرلے۔لیکن میں پاگل انسان ہوں۔جو دو  دن پہلے آئی لڑکی کو اعتبار کرنے کا کہہ رہا ہوں۔حالانکہ وہ جانتی ہی نہیں ہے کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں۔وہ یہ بھی نہیں جانتی کہ میں اس کے کل زرا سے کھودینے پر کس طرح پاگل دیوانہ بنا تھا نہ اسے یہ پتہ ہے کہ میں اسے اپنا سکون کہتا ہوں اور نہ ہی اسے یہ پتہ ہے کہ اگر وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی تو میں مرجاؤں گا۔

اگر وہ میری ریاست سے نکلی تو زندہ وہ بھی نہیں رہے گی۔ہوں ناں میں پاگل انسان؟؟" 

کاشان نے اس کے سبز نگینوں میں دیکھا تو زارا نے شرم سے نظر جھکالی۔

وہ سچ ہی تو کہہ رہا تھا۔وہ اس کی محبت اس کی فکر دیکھ چکی تھی پھر بھی یہاں سے جانا چاہتی تھی۔

"میں اب  تمہیں نہیں روکوں گا اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میرے آنے سے پہلے یہاں سے چلی جانا۔میں دودن سے تمہیں اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلارہا تھا لیکن تمہیں یہ احساس چاہیے ہی نہیں ہے۔اس لیے تم جہاں جانا چاہو چلی جانا۔لیکن جانے کے بعد کبھی میری موت کی خبر مل گئی تو میرا چہرہ دیکھنے بھی نہ آنا"۔

اس کی سنگین بات پر زارا کانپ کر رہ گئی۔اس نے کاشان کے منہ پر ہاتھ رکھنا چاہا تو اس نے وہی ہاتھ پکڑ کر روک دیا۔

ْ"تم چلی جاؤ تو اچھا ہوگا۔ابھی دو دن ہوئے ہیں اور میں کافی سالوں سے تنہا ہوں۔اب بھی رہ لوں گا۔"

وہ وارڈروب سے ہٹا تو زارا کو لگا وہ کسی چھایا سے نکل گئی ہو۔اور اکیلی دھوپ میں کھڑی ہوگئی ہو۔

وہ مرر کے آگے کھڑا ہوکر بال سیٹ کرنے لگا اس نے پرفیوم چھڑکی تھی۔ زارا نے اس کا چہرہ دیکھنا چایا لیکن اس نے چھپا لیا تھا۔وہ کوٹ سیٹ کرکے کمرے سے نکل گیا۔زارا کو لگا وہ اس کا دل بھی ساتھ لے کر جارہا ہے۔اس نے تو سوچا تھا وہ اسے مارے گا پیٹے گالیکن اس نے تو زارا کا دل ہی جنجھوڑ دیا تھا۔

وہ کمرے سے نکلا تووہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔

_____________

ساری تیاری ہوگئی ہے؟ "احکام سے پوچھ کر اس نے سامنے دیکھا۔وہ آج کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔

احکام  نے وائٹ پینٹ کوٹ پہنا تھا۔جو اس پر کافی پیارا لگ رہا تھا۔

کاشان کی آنکھیں آج خاموش تھی۔وہ جتنا بھی جلاد ظالم انسان تھا لیکن اس کی براؤن آنکھوں میں کہی نہ کہی زندگی کی خوشیاں نظر آتی تھی۔

"سر آپ ٹھیک ہیں؟ زارا میم ٹھیک ہیں"۔احکام نے پوچھا تو اس نے سر ہلادیا۔

"نکاح کے لیے دیر ہورہی ہے۔اور ابھی غنی کو نہیںں پکڑنا۔مجھے اس کے ابھی بہت سے راز جاننے ہیں۔ابھی ہم نکاح کریں گے پھر اگلے دن غنی پر حملہ کریں گے" ۔

کاشان اپنی پلیننگ بتانے لگا۔

کامل بھی وہی تھا جو سر ہلاکر رہ گیا۔

__________

وہ دو دن سے یہاں بند تھی۔

اجیہ نے اسے کھانا بھی دو وقت کا دیا تھا جو اس نے گرادیا تھا۔ اب تو اس کی حالت خراب ہونے لگی تھی۔

وہ پانی کے لیے تڑپ رہی تھی۔لیکن گھر میں کوئی ہوتا تو اسے دیکھتا۔۔

وہ دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک گئی تھی۔اب تو ہاتھ بھی درد کرنے لگے تھے۔

بھوک سے اس کا چکر آنے لگے تھے وہ لہرا کر زمین پر گرگئ تھی۔

باہر فلیٹ کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تھی۔

____________

علایہ کی حالت رو رو کر بری ہوگئی تھی۔احکام کا کچھ پتہ نہیں تھا۔

غنی نے اسے جوڑا لاکر دیا تو اس نے نیچے گرادیا۔اس نے دو تھپڑ مارے تھے۔گال پورا سوجا ہوا تھا۔اور چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔

بیوٹیشن نے اسے زبردستی تیار کیا تھا۔

اسے اب نیچے لیجایا جانے لگاتو وہ سسکیاں بھرنے لگی۔

نیچے بزل شیخ اور اس کا بیٹا اذبل شیخ اور کچھ آدمی موجود تھے۔

وہ بہادر لڑکی تھی لیکن آج وہ ڈر رہی تھی۔

اذبل شیخ ایک لمبا چوڑا مرد تھا۔جسے دیکھ کر خوف ہی آتا تھا۔اس کے چہرے پر کرختگی تھی۔

علایہ کی سانسیں خشک ہونے لگی تھی۔

قاضی  صاحب نے نکاح شروع کیا۔

علایہ کو لگا وہ مرہی جائے گی۔اس نے ہاتھ میں تھامی چوڑی کلائی پر دبا لی۔

قاضی نے نکاح پڑھا تو اسے لگا جیسے کسی نے چاقو گردن میں گھسیڑ دیا ہو۔وہ اپنی بازو زخمی کرنے لگی تھی۔

غنی نے اسے دیکھا تو پاس آیا۔اور چوڑی لے کر دور پھینک دی۔اس کا ہاتھ سختی سے تھاما۔

باہر ایک دم گولیوں کا شور بلند ہوا تھا۔

بزل شیخ کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور پچھلے دروازے کی طرف بھاگا۔

غنی نے حیرت سے اسے دیکھا لیکن اس کا جانا بھی  یہاں سے ضروری تھا۔

اذبل شیخ بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔

علایہ کو جیسے سکون کا سانس آیا تھا۔اس نے غنی سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔اور دروازے کی طرف بھاگی تھی۔

__________

سامنے دو اونچے لمبے مردوں کو دیکھ کر غنی کی گن پر گرفت مضبوط ہوئی۔

قاضی صاحب اپنی جگہ سے کھڑے ہوچکے تھے۔

قاضی صاحب آپ بیٹھیں ابھی آپ کی بہت ضرورت ہے۔کاشان چہرے پر ماسک لگائے آگے آکر بولنےلگا۔

علایہ سوجے گال اور زخمی ہونٹ سے مسکرائی۔وہ آگیا تھا۔وہ اپنے وعدے کا سچا تھا۔

غنی نے گولی چلائی تو کاشان اوٹ میں ہوتا اپنی گن سے نشانہ لیتا گولی چلاگیا۔

گن غنی کے ہاتھ سے دورجاگری تھی۔"نشانہ لگانا ہر کسی کو نہیں آتا۔اور ایول کنگ کا نشانہ ایسے ہی خطا نہیں ہوجاتا" ۔

ایول کنگ؟" غنی کے ہونٹ بڑبڑائے۔

حیران تو علایہ بھی تھی۔ایول کنگ کو کون نہیں جانتا تھا۔دبئی کاسب سے بڑا ڈان سب سے بڑا جلاد تھا وہ ۔۔۔قتل کرنا اسے کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔کئی انڈرگراؤنڈ اڈے اس نے چٹکیوں میں ختم کیے تھے۔

اس کے نام کی دہشت سے کئی غنڈے کانپتے تھے۔ 

علایہ نے احکام کو دیکھا جو سرخ چہرے کے ساتھ کھڑا تھا۔

علایہ کا سوجا چہرہ اس کا خون جلا رہا تھا۔

اذبل شیخ بھی حیرت کا مجسمہ تھا۔

یہ تو اذبل شیخ ہے""" کاشان نے احکام کو دیکھا۔

جو بڑبڑارہا تھا۔

احکام سٹاپ" اس نے آہستہ سے کہا۔

"قاضی صاحب پرسوں غنی بھائی نے ایک بہن کو غیر موجودگی میں رخصت کیا تھا۔آج وہ اپنی دوسری بہن کو اپنی موجودگی میں رخصت کرے گا"۔

غنی نے حیرت سے اسے دیکھا۔

زارا کی شادی ایول کنگ سے۔؟؟ اس کا یہ سوچ کر خون کھولنے لگا۔

کاشان کے آدمیوں نے وہاں سب کو نرغے میں لیا تھا۔

غنی مضبوط آدمیوں کی گرفت میں پھڑپھڑانے لگا۔

احکام چلتا ہوا علایہ کے پاس آیا۔جو اب رو رہی تھی۔اس نے کبھی اسے روتا ہوا نہیں دیکھا تھا۔

"نہیں یہ نکاح نہیں ہوگا۔ چھوڑو مجھے۔۔مجھ سے زارا کو چھینا اب میری بہن کے ساتھ تم یہ نہیں کرسکتے"۔غنی چیخا تھا۔

ٹیپ لگاؤ اس کے منہ پر۔۔کاشان کی دھاڑ پر گارڈ نے ٹیپ اس کے منہ پر لگادی تھی۔

"چلو نکاح شروع کرو۔" 

کاشان نے ہاتھ کے اشارے سے کہا تو احکام نے مدد طلب نظروں سے کاشان کو دیکھا۔

جاؤ چینج کرواؤ "۔وہ سمجھ گیا تھا۔

احکام بیگ لے کر علایہ کی طرف آیا۔وہ نکاح اپنے لائے ڈریس میں کروانا چاہتا تھا۔

وہ علایہ کے قریب آیا تو وہ سسکتی ہوئی رونے لگی گال میں درد بڑھ گیا تھا۔

احکام نے نرمی سے گال چھو کر اس کو آنکھوں سے اشارہ دیا۔

اس کی آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے گواہ تھے وہ علایہ کو تکلیف میں دیکھ کر بہت مشکل سے برداشت کررہا ہے۔

وہ ڈریس لے کر اندر بڑھی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ چینج کرکے آئی تو احکام کو نظر ہٹانا مشکل لگا۔

سرخ رنگ کے بھاری لباس میں وہ پری ہی لگ رہی تھی۔

"چلو غنی بھائی ولی کی حیثیت سے آگے آؤ"۔پین اس نے غنی کے ہاتھ میں پکڑایا۔

اذبل شیخ بھی ششدر کھڑا تھا۔"تم بھی آجاؤ اپنی بہن کا نکاح ہے ایسے ہی تو نہیں ہوگا۔بھائیوں کو شامل ہونا چاہیے"۔

ایول کنگ کی مضحکہ خیز بات پر علایہ اور احکام بھی مسکرادئیے۔

غنی کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی نکاح نہیں ٹل سکا تھا۔

علایہ کے دھڑکتے دل کو بھی سکون محسوس ہوا۔

وہ بدتمیز سا شخص اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔اس سے بڑھ کر شکر کا مقام اس کے لیے کیا ہوتا؟؟

ایول کنگ شاہانہ چال چلتے غنی کی طرف آیا جو اب سرخ آنکھوں سے اسے گھور کر تباہ کردینا چاہتا تھا۔

کاشان ماسک لگے چہرے کے ساتھ مسکرایا۔غنی کی آنکھوں میں جھانک کر اس نے دومنٹ دیکھا۔اس کے منہ سے ٹیپ ہٹادی۔

پھر ایک دم ہاتھ اٹھا کر چار پانچ گھونسے اس کے منہ پر دے مارے۔

غنی کی آنکھوں کے آگے تارے ناچ گئےتھے۔

"وہ تمہاری بہن تھی جس کے منہ پر تم نے نشان چھوڑے ہیں بہنوں کو تو پھولوں کی چھڑی سے بھی نہیں چھونا چاہیے۔اور تم نے اپنے ان ہاتھوں سے تھپڑ ماردیے"۔

گریبان سے پکڑ کر اس نےغنی کو کہا۔

"اب میری بیوی کا بدلہ تم سے لوں گا۔جسے تم نے اذیت دی۔تکلیف دی۔تمہاری وجہ سے وہ مرنا چاہتی تھی۔جس وجہ سے میں نے اسے اذیت دی"۔

غنی کو لگا وہ اب کچھ پل ہی زندہ رہے گا۔مقابل کی آنکھوں میں جنون خیزی تھی۔

گارڈ کو پیچھے ہٹنے کا کہہ کر اس نے اپنا گھٹنہ زور سے اس کے پیٹ میں مارا۔

گریبان سے پکڑے ہی اس نے دو چار کرارے تھپڑ غنی کو مارے۔ منہ سے خون اگلتا وہ زمین پر گرا۔

کاشان نے اس کے سینے پر بھاری بوٹ رکھا تھا۔

"تم سب نے مجھے بہت کمزور سمجھا تھا۔لیکن ایول کنگ اپنے دشمن کو بھاگنے کا موقع دیتاہے۔وہ اتنا بھگاتا ہے کہ دشمن خود مرنے کے لیے واپس آتا ہے

بزل شیخ جو ابھی پچھلے دروازے سے نکل کر بھاگا ہے اس سے کہنا ایول کنگ کو بھولنا مت کیونکہ ایول کنگ اپنا بدلہ اس سے ضرور لے گا۔اپنے باپ کو سمجھادینا۔بہت ادھار باقی ہے۔"

اذبل شیخ کو کہا تو وہ ہل کر رہ گیا۔

"لیکن صحیح وقت صحیح موقع پر"۔۔

ایک ٹھوکر اس نے پسلی پر ماری تو غنی کراہنے لگا۔

اس نے  علایہ کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی تھی۔

احکام نے بازو علایہ کے گرد پھیلائی اور اسے لیے باہر کہ طرف بڑھا۔

ایک دم گولی کی آواز گونجی۔اور گولی کاشان کا بازو زخمی کرگئی۔

علایہ چیخی تھی جبکہ احکام نے فوراً اس کا بازو تھاما۔

وہ کراہ کر مڑا تھا۔غنی کے سوجے خون آلود چہرے پر کمینگی تھی۔

کاشان نے اپنی گن سے دوبارہ اس کے ہاتھ کا نشانہ لے کر گولی چلائی۔اس مرتبہ گولی نے ہاتھ کے پرخچے اڑائے تھے۔

میں اتنا ہی بدلہ لیتا ہوں جتنا کوئی حق دار ہو۔بازو پر رومال رکھ کر وہ غنی کو تکلیف میں چھوڑتا وہاں سے نکلا تھا۔

______

"سرآپ کو  گولی لگی ہے ڈریسنگ کروالیں"۔احکام کی حالت خراب ہوئی تھی۔ جبکہ علایہ بھی اس شخص کی تکلیف دے کر رو رہی تھی۔

کاشان نے شدت سے لب بھینچے۔درد جسم میں پھیل رہا تھا۔

"تم دونوں جاؤ۔میں خود کچھ کرلوں گا"۔

کاشان نے انہیں جانے کو کہا۔کامل بھی وہاں نہیں تھا۔اسے کچھ ضروری کام کے لیے بھیجا تھا۔

سر نہیں پلیز آپ ایسا مت کریں۔احکام نے اب کاشان کا بازوپکڑ لیا تھا۔

"میرا کسی ہاسپٹل جانا ٹھیک نہیں ہے۔ڈاکٹر کو گارڈ لینے گیا ہے۔یہیں گاڑی میں ڈریسنگ کرواؤں گا۔تمہارا ابھی  گھر جانا ضروری ہے۔ زارا کو کچھ مت بتانا۔

میں کچھ دیر میں آجاؤں گا۔"

احکام اب بھی بضد تھا۔لیکن کاشان کی گھوری سے وہ وہاں سے نکلا تھا کیونکہ ڈاکٹر آچکا تھا۔گولی بس چھو کر ہی گزری تھی لیکن درد حد سے زیادہ تھا۔

کچھ دیر میں ڈاکٹر نے ڈریسنگ کرکے اسے پین کلر بھی لگادیا تھا۔

_______________

زارا بے چینی کی حالت میں تھی۔کاشان کے سخت لفظ آج اس کے دل کو بھی زخمی کرگئے تھے۔۔

وہ ایسے کیسے اپنے مرنے کی بات کرسکتا تھا۔ہاں وہ ڈر گئی تھی وہ اس سے دور جانا چاہتی تھی۔لیکن اس کا دل فریاد کررہا تھا کہ وہ کیسے اس کے بغیر رہےگی۔ایک دن میں اس نے اتنی خوشیاں اس کی جھولی میں بھردی تھی کہ وہ اس کی قرض دار ہی ہوگئی تھی۔

لیکن وہ چاقو گن کٹڑ بتارہے تھے وہ کوئی عام انسان نہیں ہوسکتا وہ ضرور کوئی غنڈہ یا قاتل تھا۔

وہ ایک قاتل کے ساتھ کیسے رہ سکتی تھی۔دل کہہ رہا تھا وہ ایک اچھا انسان ہے دماغ اسے مجرم کہہ رہا تھا۔لیکن وہ غنی کی طرح درندہ نہیں تھا۔اس نے زارا کو ایک پرسنٹ بھی تکلیف نہیں دی تھی۔بلکہ اس کی بدتمیزی کو بھی پیار سے ہینڈل کیا تھا۔

کیا وہ ستمگر بن رہی تھی۔

صبح سے شام ہوگئی تھی خانساماں نے کھانے کا پوچھا اس نے انکار کردیا تھا۔وہ کمرے سے ہی نکلی تھی۔کاشان بھی ناجانے کہاں تھا۔؟

باہر شور ہوا تو اس کا دل دھڑک گیا۔۔اسے لگا تھا کاشان آگیا ہے وہ اٹھ کر باہر بھاگی تو حیران رہ گئی تھی۔

سامنے علایہ اور احکام تھے۔علایہ کو دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔وہ یہاں کیسے آسکتی ہے اور وہ دلہن کیوں بنی ہوئی تھی۔؟

وہ ڈر کر پیچھے ہونے لگی تو علایہ اس کے گلے آلگی۔

سوری زارا میں نے تمہیں ہمیشہ تکلیف دی تھی۔ہمیشہ تم سے لڑائی کی تھی۔لیکن زارا میں دعا بھی کرتی تھی کہ تمہاری شادی غنی بھائی سے نہ ہو۔۔وہ گلے لگ کر بولتی زارا کو حیران کررہی تھی۔

"بھابھی یہ میری بیوی ہے۔"احکام نے ہی اس کا تعارف کروایا۔تو زارا روتے روتے ہنس دی۔

اس نے علایہ کو گلے لگا کر ساری کدورتیں ختم کرڈالی تھیں۔

"بہت مبارک ہو احکام بھائی "۔زارا نے انہیں مبارک دی۔

آپ مجھے بتاتے تو میں اچھا سا استقبال کرتی۔

"بھابھی آپ کل کرلیجیے گا کیونکہ یہ بلا اب یہی رہے گی"۔

وہ پرمزاح سا بولا تو علایہ نے چڑ کر اسے دیکھا جو اسے بلا کہہ رہاتھا۔۔احکام نے کندھے اچکادیے۔

زارا  ہنس دی۔

احکام بھائی کاشان کہاں ہیں؟ اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔اور ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"بھابھی وہ رات تک آجائیں گے"۔

رات تو ہوگئی ہےوہ ٹھیک ہیں ناں۔  زارا کے سوال پر وہ پریشان ہوا تھا۔

"ہاں زارا وہ ٹھیک ہیں کاشان بھائی نے ہی ہمارا نکاح کروایا ہے۔وہ بس ضروری کام کے لیے وہاں رک گئےہیں"۔علایہ نے اسے حوصلہ دیا تھا۔

"سوری میں اپنی پریشانی میں آپ دونوں کو بھول گئی۔آئیں آپ کمرے میں چلیں"۔

وہ انہیں لیے روم کی طرف جانےلگی۔۔

_________

کمرے میں جگہ جگہ دئیے روشن تھے۔علایہ رومان پرور منظر دیکھ کر کانپ کر رہ گئی۔

احکام نے اس کا ہاتھ زور سے دبایا۔

میں کچھ کھانے کو بجھواتی ہوں آپ ریسٹ کریں۔

زارا کہتی باہر نکلنے لگی۔لیکن احکام نے روک دیا تھا۔

"بھابھی بھوک نہیں ہے۔آپ بھی ریسٹ کریں"۔

زارا سرہلاتی باہر آگئی تھی۔

احکام نے کامل کو اطلاع کردی تھی اب وہ موبائل پر کاشان کی حالت کا پوچھ رہا تھا۔

کامل نے اسے تسلی دی تھی۔اور اپنے آنے کا بھی بتادیا تھا۔۔

علایہ اس کی مصروفیت دیکھ کر کچھ ریلکس ہوئی۔وہ بہت بولڈ لڑکی تھی لیکن آج وہ احکام کی بیوی بن کر کمرے میں تھی۔۔جسے اس نے دل سے قبول کیا تھا۔لیکن اب تنہائی میں وہ گھبرا بھی رہی تھی۔

احکام موبائل رکھ کر واپس مڑا تو علایہ چپ چاپ کھڑی تھی۔

کسے ڈھونڈ رہی ہو میں تو یہاں ہوں۔اس کے کندھے پر تھوڑی رکھتا وہ گھمبیرتا سے بولنے لگا۔

علایہ نے شرم سے آنکھیں بند کی تو احکام مسکرادیا۔

اس کے سوجے گال پر نظر پڑی تو اس نے علایہ کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں بھر لیا ۔

وہ سجے سنورے حلیے میں اس کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی۔

"میرا دل چاہ رہاتھا میں غنی کو جان سے ماردیتا جس نے میری جان کو تکلیف دی تھی۔لیکن وہ تمہارا بھائی ہے۔اس لیے میں نے اسے بخش دیا۔"

اس کے جان کہنے پر علایہ کی دراز پلکیں لرز گئی۔

احکام نے جھک کر اس کی ننھی سی ناک چھولی۔

"جانتی ہو تم جیسی بدتمیز لڑکی میں نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔"

احکام کی اگلی بات پر اس نے کاٹ دار نگاہ اس پر ڈالی تو اس کے چہرے پر کمینی سی مسکراہٹ تھی۔۔

علایہ نے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے۔لیکن احکام نے گرفت مضبوط کرلی۔

"پوری بات سن لو۔" 

  "مجھے نہیں سننی" 

علایہ کو غصہ آرہا تھا۔لیکن احکام بولنے لگا۔

"مجھے یہ بدتمیز لڑکی اتنی اچھی لگی تھی دل کیا اسے اپنا بنالوں کیونکہ مجھ جیسے معصوم شریف اور اچھے انسان کو تم ہی ڈیزرو کرتی ہو"۔

احکام نے اس کے دونوں گال چھو کر زخموں کا اذالہ کیا تھا۔

علایہ کانپ کر رہ گئی۔لیکن اسے احکام کا معصوم شریف کہنا ہضم نہیں ہوا تھا۔

کچھ کھاؤ گی؟" احکام نے نازک پیشانی چوم کر کہا تھا۔

پہلے تم یہ کہو کہ تم معصوم شریف اور اچھے  بالکل نہیں ہو ورنہ ان لفظوں کی بدہضمی سے مجھے نیند نہیں آئے گی 

علایہ کی بات پر احکام پہلے حیران ہوا اور پھر ہنستا چلاگیا۔علایہ نے آنکھیں گھمائی۔

تم سچ میں میرے لیے ایک بلا ہی ہو۔جو اب روز میرا خون پیے گی۔"

اس کی طرف جھک کر بولتا وہ علایہ کو دہکا گیا تھا۔

"اور میں بالکل نہیں کہوں گا کہ میں اچھا شریف اور معصوم نہیں ہوں۔ کیونکہ آج رات میں تمہیں واقعی ہی سونے نہیں دینا چاہتا۔"

"تم بہت بے شرم ہو"۔علایہ نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔اس کے گال گلابی ہوگئے تھے۔

"ایسا ویسا ابھی تو شروعات ہے آگے آگے دیکھو بےشرمی کےبہت مظاہرے دیکھو گی"۔اس کو سینے میں بھینچتا وہ کان مین بولا۔علایہ کانپ کر رہ گئی تھی۔اس کی من مانیاں بھڑنے لگی تھی۔ 

مہکتی چاند تاروں سے چمکتی رات نے ان دونوں کے کمرے کو بھی مہکا دیا تھا۔

___________

زارا اب بھوک سے نڈھال ہوچکی تھی کاشان کا کچھ پتہ نہیں تھا۔اس کا دل ہی نہیں تھا وہ کچھ کھاتی۔

اس کے پاس کوئی موبائل بھی نہیں تھا۔

گھڑی کی طرف دیکھا تو ایک بج رہا تھا۔

اسے اب رونا آنے لگا تھا۔

روتے روتے وہ اونگھتی نیند کی وادیوں میں گم ہوئی تو دروازہ آرام سے کھلا۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھی سامنے الجھے حلیے میں سفید شرٹ کو خون سے رنگی دیکھتی وہ حیران ہوئی۔اس نے چیخ کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھے۔آنسو گالوں پر بہنے لگے تھے۔

کاشان نے سرخ آنکھوں سے اسے دیکھا۔اور انجان بنتا آگے بڑھا۔لیکن ایک دم وہ رک گیا تھا۔

کیا ہوا یہ کیسے ہوا؟؟" وہ بازو کو چھونے لگی کاشان نے آنکھیں بند کرلی۔

"دور ہوجاؤ زارا۔"

وہ اب بھی نرمی سے بولا۔

"مجھے بتائیں یہ کیسےہوا؟؟؟" وہ چیخ کر پوچھنے لگی۔

"بدتمیزی نہیں کرو مجھے ریسٹ کرنا ہے""۔اس نے بازو سے پکڑ اسے پیچھے کیا تو نازک سی لڑکی اس کے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔

"سوری کاشان  میں بہت بری ہوں کاشان میری وجہ سے ہوا یہ سب۔۔۔۔"

کاشان کو لگا اس کی ساری تکلیف ختم ہوگئی ہے۔

ساری ناراضگی ایک دم دورہوگئی تھی۔اس نے زارا کو بانہوں میں بھرا تھا۔

اس کے ریشمی بال سہلا کر وہ اسے حوصلہ دینے لگا جو اس کو سختی سے پکڑے کھڑی تھی جیسے وہ پھر چلا جائے گا۔

"کچھ نہیں ہوا چھوٹا سا ایکسڈنٹ ہوگیا تھا۔تم پریشان مت ہو"۔

کاشان نے نرمی سے اس کے ریشمی بالوں پر ہونٹ رکھے تھے۔اپنی تکلیف کو نظر انداز کرتے وہ اسے لیے بیڈ پر آیا۔۔

زارا سسکتے ہوئے دور ہوئی اور اس کے بازو کو نرمی سے چھوکر ایک بار پھر رودی۔

"میری وجہ سے ہوا میں کہیں نہیں جاؤں گی۔" 

کاشان نے بنا کچھ کہے بانہوں میں سمیٹ کر بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔

اس کی شرٹ بھگوتی وہ نیند میں بھی بڑبڑاتی رہی تھی۔

______________

اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بیڈ پر پایا تھا۔

نقاہت اب بھی تھی۔

اس نے کمرے میں نظر دوڑائی تو وہ اپنے کمرے میں ہی تھی۔

نقاہت سے اس سے بولنا مشکل ہورہا تھا۔ہمت کرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

سامنے نظر پڑی تو ایک جھٹکاسا لگا۔اجنبی شخص اس کے سامنے موجود تھا۔

سادا کو لگا وہ کسی کے چنگل میں پھنس گئی ہے۔

کک کون ہو تم؟؟ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھنے لگی۔

کامل نے نرمی سے اسے دیکھا تھا۔

وہ اٹھ کر اس کی طرف آیا تو وہ پیچھے کی طرف کھسکی۔

دیکھو میرے پاس مت آنا میں تمہیں جان سے ماردوں گی۔۔

دھمکی آمیز انداز میں بولتی وہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ لے آئی تھی۔

میں کامل ہوں مجھے کاشان نے بھیجا ہے۔

وہ کچھ دور کھڑا ہوکر بولنے لگا تو سارا رک گئی۔

تم اندر کیسے آگئے۔؟؟ وہ مشکوک ہورہی تھی۔

دروازے سے آیا ہوں۔کامل عام انداز میں بولا۔

کاشان نے اس دن تمہارے ہاتھ پر کارڈ رکھا تھا تو تم نے فون کیوں نہیں کیا؟؟

کامل کی بات پر اس نے نگاہ پھیر لی۔

ماما نے میرا موبائل لے لیا ہے۔اور یہاں بند کردیا تھا۔

تم چلے جاؤ یہاں سے ورنہ وہ تمہیں بھی ماردیں گی۔

وہ سہم کر بولی۔

کامل  کو اس کی معصومیت پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔

"وہ مجھے کچھ نہیں کرسکتی۔کیونکہ وہ فلحال گھر نہیں ہیں تبھی میں یہاں ہوں۔تمہیں بس یہ کرنا ہے ان کے خفیہ کاموں کی ساری انفورمیشن نکالنی ہے۔

میں جانتا ہوں تم یہ کرسکتی ہو۔کیونکہ تم ایک بہادراور اچھی لڑکی ہو"۔

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا۔

سارا کو اس کی نگاہوں میں جذبات کا الاؤ نظر آیا تو وہ نگاہ پھیرتی سٹپٹانے لگی۔

کامل کے لب مسکرادیے۔

مجھے بھوک لگی ہے۔وہ بات بدلنے کو بولی۔

کامل نے ٹیبل کی طرف اشارہ کیا تو وہ پیکنگ بیگ پڑا تھا۔

"اس میں تمہارے لیے کھانا ہے کھالو۔میں دوتین دن میں تم سے رابطہ کروں گا۔مجھے پتہ ہے تمہاری ماں تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گی"۔

"کیسے رابطہ کرو گے میرے پاس تو موبائل ہی نہیں ہے؟؟"

سارہ حیران ہوئی تھی۔

"وہ میرا کام ہے بس تم نے چوکنا رہنا ہے"۔کامل کی ادھوری بات پر بھی وہ سرہلانے لگی تھی۔

کچھ دیر میں وہ کھانا کھلا کر بیگ لیے وہاں سے نکل گیا تھا۔

____________

بازو میں درد محسوس کرتے اس کی آنکھ کھلی تو زارا اس کی بازو پر سر رکھ کر مزے سے سور ہی تھی۔

"اچھی زبردستی ہے۔میڈم ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتی ہیں اور پاس آکر ایمان بھی خراب کرتی ہیں"۔وہ بڑبڑا کر رہ گیا۔

بازو میں اٹھتی ٹیسوں کو اس نے لبوں کو بھینچ کر دبایا۔

نرمی سے اس کا سر تکیے پر رکھ کر وہ شاور لینے کے لیے بڑھا۔

کچھ دیر بعد وہ باہر آیا تو زارا انگلیاں مسلتی کنارے پر تھی۔

کاشان نے بنا کچھ کہے شرٹ کے بٹن بند کیے اور باہر کی طرف بڑھ گیا۔

زارا کا بڑھتا ہاتھ پہلو میں ہی گرگیا تھا۔

____________

فریش سی علایہ گیلے بال سنوارتی احکام کو دیکھ رہی تھی جس کے منہ کے بل بے سدھ سورہا تھا۔

دل ہی دل میں اس نے رب کا شکر ادا کیا تھا۔کہ اللّٰہ نے اسے اتنا اچھا شوہر دیا تھا۔

اگر وہ بھٹک جاتی تو کیا کبھی ایسی قسمت پالیتی۔

وہ گیلے بال کمر پر پھینکتی بیڈ کی طرف بڑھی۔

بارہ بج گئے تھے مگر نواب اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

مسٹر احکام اٹھ جائیں۔ورنہ میں نے آپ کے یہ پیار بال کاٹ دینے ہیں۔۔اپنی شوخ طبعیت کے باعث وہ بال کھینچتے بولی۔

احکام کے بال کافی گھنے اور لمبے تھے۔اس کی گردن پوری بالوں سے ڈھانپی ہوئی تھی۔

علایہ کو ان بالوں کو ہاتھ سے محسوس کرنے کا دل چاہا تو اس نے نرمی سے ان میں انگلیاں پھنسائی۔

ڈئیر بلا ۔۔۔"۔اگر اتنے پیار سے بالوں میں انگلیاں پھیرو گی تو میں معصوم شریف اور اچھا انسان ایک بار پھر بہک جاؤں گا"۔

وہ تکیے میں منہ دئیے بولا تو علایہ کے ہونٹوں پر شرمگیں مسکراہٹ رینگ گئی۔

"مجھے بھوک لگی ہے اور تمہاری بہکنے کی تیاریاں ہی ختم نہیں ہورہی"۔وہ بال کھینچ کر بولی تو احکام کراہ اٹھا۔۔

"تم سچ میں ایک ظالم بلا ہو"۔

وہ اٹھ کر بیٹھے نروٹھے پن سے بولنے لگا۔لیکن اس کے کھلے کھلے حیسن روپ پر وہ کچھ پل بول ہی نہیں پایا۔

ویسے تم نے ساری تیاری کیا پہلے سے ہی کرکے رکھی ہوئی تھی؟؟"

وہ اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے بولنے لگی۔

اس وقت وہ لونگ ڈیپ مہرون میکسی پہن کر سادہ چہرے کے ساتھ بیٹھی تھی۔لیکن سادگی میں بھی اس کے گال گلابی تھے۔مڑی ہوئی پلکیں آنکھوں کو ڈھانپ رہی تھین۔

"پرسوں شاپنگ کی تھی۔نکاح کا جوڑا لیا تو سوچا میڈم کو اب ساتھ رکھنا ہے تو اس لیے دس بارہ جوڑے خرید لیے تاکہ اگلے کئی سال تک وہ مجھے تنگ نہ کرے"۔وہ شرارت پن سے بول کر اسے اپنے قریب گراگیا۔

"بہت کنجوس ہو تم ۔۔ اور کیا یہ دس بارہ کپڑے میں کئی سال پہنوں گی۔زیادہ شوخے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔تم کل مجھے دوبارہ شاپنگ پر لے کر جاؤ گے"۔

وہ اس کی نظروں سے گھبراتی بولی تو احکام ہنسنے لگا۔

 "تم گھبراتے ہوئے اتنی پیاری لگتی ہو دل کرتا ہے میں تمہیں ہمیشہ پریشان کرتا رہوں"۔

اس کے دونوں گال کھینچتا وہ ماتھے پر شدت بھرا لمس چھوڑنے لگا۔

"احکام تم بہت بے شرم ہو۔اٹھو مجھے بھوک لگی ہے۔اگر میں باہر جاکر کہوں گی تو سب کہیں گے کتنی بدتمیز دلہن ہے جو خود کھانے کو مانگ رہی ہے"۔

وہ آنکھیں گھماتی بولنے لگی۔۔"میں دس منٹ میں آتا ہوں"۔

اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگاتا وہ واش روم کی طرف بڑھ گیا۔

علایہ اپنا ہاتھ دیکھتی مسرور ہوئی۔کل احکام نے بہت محبت سے اس کے ہاتھ میں یہ ڈائمنڈ کی رنگ پہنائی تھی۔جو کافی خوبصورت تھی۔

____________

کامل بھی آچکا تھا۔سب نے خوشگوار انداز میں ناشتہ کیا تھا۔

زارا بھی چپ چاپ ناشتہ کرتی رہی۔کاشان بالکل ہی لاپرواہ بنا ہوا تھا۔زارا کو اس کی لاپرواہی ستا رہی تھی۔

وہ چپ چاپ اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی تو کاشان نے اسے پیچھے مڑ کر دیکھا وہ بےقرار تو تھا ہی لیکن وہ زارا کو احساس دلانا چاہتا تھا۔

احکام کو وہ ہنی مون پر بھیجنے کا سوچ چکا تھا۔

کامل کو اس نے سیکرٹ روم کی طرف آنے کا اشارہ دیا۔

اور خود اٹھ کر روم کی طرف بڑھنے لگا۔

علایہ اور احکام گرینڈ ما کے ساتھ باتیں کرنے لگے تھے۔

____________

کامل میں اب تک بزل شیخ کو اس لیے مہلت دیتا آیا تھا کیونکہ میں اس کے مین پارٹنر تک پہنچنا چاہتا تھا۔اور وہ پارٹنر کون ہے تم بھی جان گئے ہو؟؟

دبئی عجمان شارجہ میں چھوٹی عمر کے بچیوں کے ساتھ زیادتی بہت بڑھ گئی ہیں۔ان سے اب کھلے عام دھندہ کروایا جاتا ہے۔

اور تم جانتے ہو یہ کام کرنے والے ہمیشہ چھوٹے گھرانوں کی لڑکیان لاتے ہیں اور ان گھرانوں کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے۔

اب ہمیں اپنا مشن سٹارٹ کرنا ہوگا۔

میں اپنی فیملی کے قاتلوں کو ایسے ہی اب آزادنہ گھومتے نہیں دیکھ سکتا۔

آنکھوں کی سرخی کامل سے اوجھل نہیں رہی تھی۔

تمہیں آج ان کی یاد آرہی ہے ناں؟؟

کامل کے سوال پر وہ تلخ انداز میں مسکرانے لگا۔۔مجھے وہ کب یاد نہیں آتے کامل۔" 

کچھ زارا کی ستمگری بھری باتیں اور کچھ اپنے ماں باپ کی یاد وہ ٹوٹ رہا تھا۔

ہمت کرو اور ان کے لیے دعا کرو۔پھپو بہت اچھی تھیں۔لیکن ان کی زندگی ہی اتنی لکھی ہوئی تھی۔

کامل اسے حوصلہ دینے لگا۔

تم آج کل شراب نہیں پی رہے؟؟ کامل نے حیرت سے اس کو دیکھا۔

کیا وہ بات بدلنے کے لیے بولا تھا۔

تم چاہتے تھے میں شراب نہ پیاکروں تواس لیے چھوڑ دی۔

وہ نظر چرا کر بولا تو کامل قہقہ لگانے لگا۔

سوجھوٹے مرے ہوگے پھر تم پیدا ہوئے.میرے کہنے پر شراب چھوڑنا ہاہاہا ویری فنی کاشان۔

وہ ہنستے ہوئے بولا تو کاشان نے گھوری سے اسے نواز دیا تھا۔

کامل منہ تڑوانا چاہتے ہو کیا؟؟ وہ غرا کر بولا تو کامل پھر ہنسنے لگا۔

حیران تو وہ خود تھا۔دو تین دن سے اس نے شراب کو منہ بھی نہیں لگایا تھا۔اور ایسا زارا کے آنے کی وجہ سے ہوا تھا۔وہ بھی تو اس کے لیے نشے کی طرح ہی تھی جو اسے سکون دے رہی تھی۔اسے سامنے دیکھ کر وہ سب بھول جاتا تھا۔

تم نے وہ نمبر ٹریس کروایا تھا۔؟؟ کاشان نے اس کی توجہ نمبر کی طرف دلوائی۔۔کامل نے موبائل نکال کر سامنے کیا۔

یہ بزل شیخ کا نمبر نہیں ہے یہ کوئی اور ہے۔ایسا لگتا ہے بزل شیخ اس کا صرف ہتھیار ہے۔

پھر کون ہوسکتا ہے؟؟ کاشان کے ماتھے پر بل آگئے تھے۔

مجھے ایسا لگتا ہے اس کے پیچھے احکام کے باپ کا ہاتھ ہے۔ 

کامل نے نظر چرا کر کہا تھا۔

کاشان نے حیرت سے اسے دیکھا۔

تم کیا کہنا چاہتے ہو۔؟ صاف صاف بول دو۔۔

کاشان تمہارا صرف ایک دشمن نہیں ہے ہر جگہ کوئی نہ کوئی تمہارے خلاف ہے۔اور احکام تو ہمارا خاص آدمی ہے وہ خاص آدمی سے بڑھ کر ہمارے بھائیوں جیسا ہے۔تم جانتے ہو وہ اپنے باپ کے چنگل سے بچ کر کیسے بھاگا تھا۔

وہ اپنے بیٹے کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔

کاشان اپنی داڑھی سلجھانے لگا۔

چلو دیکھتے ہیں پردے کے پیچھے کون ہے۔احکام کو اس بارے میں کچھ پتہ نہیں ہونا چاہیے۔

کاشان نے دروازے کو دیکھتے بولا تھا۔

___________

وہ دو دن بعد آج گھر آیا تھا۔

کچھ میٹنگز اور کچھ نئے مال کی سمگلنگ کے لیے وہ کافی مصروف رہا تھا۔

زارا دیواروں کو دیکھتی اب اکتانے لگی تھی۔کاشان کا غصہ ناراضگی ابھی تک تھی۔

آج وہ دو دن بعد گھر آیا تو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس نے زارا کا چہرہ دیکھا جو بے جان سی بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔

وہ وارڈروب سے ضروری سامان لیتا باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

زارا کو اس کی لاپرواہی دیکھ کر شدید غصہ آیا تھا۔

کاشان میری بات سنیں ۔۔زارا کی پکار پر وہ مڑا تھا۔

اس کی سوجی سوجی آنکھیں گلابی لب اس کی توجہ کھینچ رہے تھے۔

اب تو دو دن ہوگئے ہیں سامان پیک کرلیا ہوگا تم نے ؟؟ کہاں جانا چاہتی ہو؟؟کامل چھوڑ آئے گا۔"

کاشان نے دل جلاتے کہا تھا۔زارا نے درد بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔

"میں کہیں نہیں جانا چاہتی"۔وہ چیخ کر بولی تو کاشان طنزیہ مسکرانے لگا۔

"کیوں اتنی جلدی  کیا کایاپلٹ ہونے لگی جو تم ایسے کہہ رہی ہو۔؟" کاشان نے گھور کر اسے دیکھا تو زارا نے نظر چرالی۔

"میں آپ کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں لیکن مجھے آپ کا سچ بھی جاننا ہے"۔

وہ ڈرتے ڈرتے بولی تو کاشان نے سرتاپاؤں اسے گھورا۔

"کیا جاننا چاہتی ہو؟" کاشان ضبط سے بولنے لگا۔

وہی جو آپ کا سچ ہے۔"

وہ نظر چراتی بولی۔کاشان کو اس کی بے اعتباری نے گہری تکلیف دی تھی۔

"تم اگر میری پہچان جان کر میرے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرنا چاہتی ہو تو میں تمہیں بتادوں میں ایک خونی قاتل درندہ ہوں جو اب تک ناجانے کتنے قتل کرچکا ہے۔

جو دن میں ناجانے کتنی بار پستول استعمال کرتا ہے۔ جو شرابی بھی ہے شراب کو وہ پانی کی طرح استعمال کرتا ہے۔ جس کا بال بال گناہ میں ڈوباہوا ہے"۔

کاشان پھٹ پڑا تھا۔اسے زارا کی بے اعتباری پر افسوس ہونے لگا تھا۔

"اب سوچ  لینا اگر تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو میں تمہیں وہی چھوڑ آؤں گا۔لیکن ایک بات یا رکھنا میں تمہیں کبھی آزاد نہیں کروں گا"۔

وہ اپنی براؤن آنکھیں اس کے سبز نگینوں میں ڈالتا سختی سے بولا تھا۔

زارا کا رنگ لٹھے کی طرح سفید ہونے لگا۔۔

وہ اسے افسوس سے دیکھتا مڑا تھا۔

وارڈروب سے بوتل نکال کر وہ پیگ چڑھاتا زارا کو بھی دیکھنے لگا۔

"ابھی کچھ دن پہلے ہی تو کامل اسے نہ پینے کا طعنہ دے رہا تھا۔اور جس کی خاطر اس نے پینا چھوڑا تھا وہی اسے دوبارہ موقع دے گئی تھی"۔

زارا آگے بڑھ آئی۔ایک جھٹکے میں اس نے بوتل دور پھینک دی۔

کانچ کی بوتل زمین پر گر کر ٹکرے ٹکرے ہوئی۔ 

یہ کیا حرکت تھی کیوں توڑی تم نے بوتل؟؟؟"" وہ گلاس پھینکتا چیخا تو زارا اعتماد بحال کرتی پیچھے ہوئی۔

"میں ایول کنگ کی بیوی ہوں اور یہ حق مجھے ایول کنگ نے ہی دیا ہے"۔۔وہ پیچھے ہورہی تھی۔ وہ جوتے اتار کر پیچھے ہوئی۔

"میرے معاملات میں ٹانگ مت اڑاؤ زارا۔ورنہ میں ظالم جلاد بننے میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا"۔

وہ اس کے قریب آتا بولا۔اس نے زارا کا جوتے اتارنا نوٹ کرلیا تھا۔

"بن جائیں جلاد ظالم۔۔کر لیں مجھ پر ظلم کیونکہ میں نے آپ کو ستایا ہے"۔

وہ پیچھے ہورہی تھی کانچ تھا کہ اس کے پاؤں میں گھس جاتا لیکن کاشان نے جھٹکے سے اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔

پاگل ہوگئ ہو جو پیچھے نہیں دیکھ رہی۔"

اسے سینے سے لگاتا وہ بکھری شراب اور کانچ کو گھور رہا تھا۔جس کی وجہ سے ابھی وہ زخمی ہوجاتی۔

"جب اتنی محبت کرتے ہیں تو کیوں ظالم بن رہے ہیں۔

کیوں مجھے دو دن اتنی چاہت دے کر بے قرار کررہے ہیں۔"

وہ سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

کاشان نے گرفت سخت کرلی۔

"اس دن آپ نیند میں کچھ بول رہے تھے۔مجھے سمجھ نہین آئی تھی۔لیکن آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔جانتے ہیں میں کتنا ڈر گئی تھی""۔

"آئندہ یہ حرکت مت کرنا۔خود کو تکلیف دینے سے پہلے میرا چہرہ دیکھ لینا کیونکہ ایک تم ہو جسے میں کھونا نہیں چاہتا۔جسے میں تھوڑی سی بھی تکلیف دے کر گناہ گار نہین ہونا چاہتا۔تم وہ ہو زارا جو کچھ عرصے میں ہی میرے دل پر قابض ہوگئی ہو۔اب اگر تم زرا بھی دور ہوئی تو میں مرجاؤں گا "

شدت پسندی بولتا وہ زارا کے بال سہلا رہا تھا۔

میں اپنا ماضی فلحال تمہیں نہیں بتانا چاہتا۔کیونکہ میں اپنی وجہ سے تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔۔وہ چہر سامنے کیے بولا تھا۔

آئندہ ان سبز نگینوں پر ظلم مت کرنا۔وہ دونوں آنکھوں کو چھو کر بولنے لگا۔

آج کے بعد آپ یہ گندی چیز منہ کو نہیں  لگائیں گے۔

وہ ناراضگی سے بولی تو کاشان نے نفی میں سرہلا کر اس کا ماتھا چوم لیا۔

ایک بار پھر سینے سے لگاتا وہ اسے چپ کروانے لگا تھا۔

__________

اپارٹمنٹ کی بیل  بجی تھی۔بیل کی  آواز آج کئی دن بعد سنائی دی تو کاشان چونک گیا۔

ان سب کے پاس ایک ایک چابی تھی۔گارڈز رکھ کر وہ اپنے اس گھر کا پتہ نہیں دینا چاہتے تھے تبھی راستہ اور حلیہ بدل کر وہ گھر میں داخل ہوتے تھے۔

زارا ہمیشہ کی طرح کانپ گئی تھی۔

میں دیکھتا ہوں گھبراؤ نہیں۔اس کا گال چھوکر وہ باہر نکلا۔

اپارٹمنٹ کا کھلا دروازہ سے نظر آنے والی ہستی کو دیکھتا وہ چونک گیا۔آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔

کالی چادر میں لپٹی لڑکی اور کوئی نہیں کاشان کی گرل فرینڈ جوہی ہی تھی۔

کاشان کا چہرہ غصے سے سرخ ہوا۔

تم یہاں کیا کررہی ہو؟؟ وہ غصہ سے دھاڑا تو وہ روتے ہوئے اس کے گلے سے آلگی۔

دروازے کی اوٹ میں کھڑی زارا کی آنکھیں بھی حیرت سے پھیل گئی۔۔

کون تھی وہ؟ جو اتنی بہادری سے کاشان کے گلے لگی تھی۔

کاشان نے فوراً پکڑ کر اسے دور کردیا۔چادر اس کے چہرے سے ہٹ گئی تو وہ مزید حیران ہوا تھا۔

اس کے چہرے پر جگہ جگہ مارپیٹ کے نشان تھے۔

جیسے کسی نے اسے بے درانہ طریقے سے مارا ہو۔

یہ کیا ہوا؟؟ وہ حیرت سے بولا۔

کاشان مجھے معاف کردو۔میں نے تمہیں چھوڑ کر اپنے گلے مصیبت لے لی تھی۔کاشان تم بہت اچھے تھے۔اس نے مجھے بہت مارا پیٹا۔

روتے روتے وہ بولتی ایک بار پھر کاشان کے قریب ہوگئی تھی۔۔

زارا نے زور دار آواز سے دروازہ بند کیا تھا۔

کاشان نے مڑ کر پریشان نظروں سے اسے دیکھا۔

جوہی تم میرے پاس کیا لینے آئی ہو؟؟ زارا کی فکر ابھر رہی تھی اوپر سے جوہی بھی آ گئی تھی۔

کاشان پلیز میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔پلیز مجھے یہاں رکھ لو۔کچھ دن میں میں چلی جاؤں گی۔

وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگی تھی۔

اچھا اندر آجاؤ۔وہ اسے لیے اندر آیا۔

تم بیٹھو میں ملازم کو کچھ لانے کا کہتا ہوں۔اسے چھوٹے سے گیسٹ روم میں بٹھا کر وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔جہاں زارا چکر کاٹ کاٹ کر نازک جان پر مصیبت لا چکی تھی۔

کاشان اندر آیا تو اس نے کاٹ دار نظروں سے کاشان کو دیکھا۔اس کی نظروں میں بے وفائی کا خوف بھی تھا۔

زارا میری بات سنو.۔۔وہ اسے بازوؤں سے پکڑ کر پاس کرنے لگا۔

کاشان اس کے گلے لگنے سےہی میں سمجھ گئی ہوں کہ وہ آپ کی پیاری سے گرلفرینڈ ہے۔

کاشان کے چہرے پر سیریس مومنٹ پر بھی ہنسی آئی۔

زارا نے اس کی مسکراہٹ دیکھی تو خفگی سے اسے گھورنے لگی۔

تم کیوں فکر کررہی ہو تم میری حلال بیوی ہو اور وہ حرام گرلفرینڈ۔

اس کے گال کھینچتا بولا تو زارا نے حیرت سے آنکھیں پھیلائی۔

حلال بیوی کیا ہوتا ہے؟؟

"جو تم ہو "کاشان نے کندھے اچکائے۔

جائیں اپنی گرلفرینڈ کے پاس جو آپ کو روتے ہوئے اپنا دکھ سنا رہی تھی۔

زارا کایہ پیارا روٹھا انداز کاشان کو نہایت خوبصورت لگاتھا۔

"ْتم کیوں جیلس ہورہی ہو تم میری بیوی ہو اور وہ پیاری سی گرلفرینڈ ۔۔تم بے فکر رہو وہ تمہیں کچھ نہیں کہے گی۔بہت معصوم ہے جوہی۔۔۔۔"

اس کے سبزنگینوں والی پلکوں کو چھو کر وہ سرگوشی کرنے لگا تو زارا نے اس کے ہاتھ پر زور سے تھپڑ مارا۔وہ اس کی حرکت پر قہقہ لگانے لگا۔

"آج تو تمہارے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ہیں۔خیر ہے ناں۔۔"

کاشان کو اس کا بیویوں والا روپ کافی پیارا لگ رہا تھا۔ 

وہ اس سے دور ہٹ کر کمرے کی چیزیں سیٹ کرنے لگی۔

کاشان جانتا تھا وہ غصے میں ہے۔اس لیے چپ چاپ باہر نکل گیا تھا۔

______

جوہی اب بھی صوفے پر بیٹھی سسک رہی تھی۔

جوہی تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔زارا کے سامنے نرم چہرہ اب سفاک بن گیا تھا۔

کاشان میری مام ڈیڈ نے بھی مجھے قبول نہیں کیا تھا۔اس لیے میں یہاں آگئی۔

کاشان میں اب اس شخص کے پاس نہیں جانا چاہتی مجھے بچالو کاشان۔۔۔۔۔"

وہ اس کے پاؤں میں گرگئی تھی۔

جوہی پلیز اٹھو یہاں سے"وہ اسے اٹھانے لگا۔

کاشان مجھے معاف کردو۔۔میں اب کبھی تمہیں چھوڑ کر نہین جاؤن گی۔"

جوہی تم مجھے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔اب تم آؤ یا جاؤ مجھے پرواہ نہیں لیکن جب تک تمہارے زخم ٹھیک نہیں ہوجاتے تم یہی رہ سکتی ہو۔

اب میری بیوی میرے ساتھ ہے تو مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں رہی۔

جوہی کے چہرے پر شدید حیرانگی تھی۔کاشان نے شادی کیسے کرلی تھی۔لیکن وہ تو اس سے محبت کا دعویدارا تھا۔

تم یہ کیسے کرسکتے ہو؟؟ وہ روتے روتے چیخی تو کاشان کے ماتھے پربل آنے لگے۔

یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے۔تم اپنی حد میں رہو۔

وہ سختی سے بولنے لگا۔

میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو بجھواتا ہوں۔وہ کہہ کر تیزی سے باہر نکلا۔اسے آج اس کا اہم مال آنا تھا۔

_________

تم گھبرانا مت میں رات کو دس بجے آجاؤں گا۔۔"اس کے ہاتھ پکڑ کر پیار سے ہدایت کرتا وہ زارا کا معصوم چہرہ دیکھ رہا تھا۔جو اب بھی غصے سے سرخ تھا۔

وہ جوہی سے ملی نہیں تھی کیونکہ اس کی شکل دیکھنے کو بھی اس کا دل نہیں تھا۔

احکام اور علایہ بھی گھر پر نہیں تھے۔وہ ہنی مون پر گئے تھے

کاشان کو اب زارا کی فکر تھی۔اپنی معصوم طبعیت کی وجہ سے وہ کہیں جوہی کے ہاتھوں بے وقوف نہ بن جاتی۔

تم جوہی کے پاس ہرگز نہیں جاؤ گی۔کیونکہ میں تمہیں سختی سے کہہ رہا ہوں۔وہ آنکھوں سے گھورتا بولا تو زارا نے غصہ سے اسے دیکھا۔اس کا لہجہ نرم ہی تھا۔

میں جانا بھی نہین چاہتی آپ کی لاج دلاری جوہی کے پاس ۔۔۔" وہ خفگی سے بولنے لگی تو کاشان نے لاج دلاری پر اسے دیکھا۔

کیا بول رہی ہو؟" 

کچھ نہیں جائیں۔۔"وہ اسے جانے کا کہنے لگی۔

سوچ لو اگر چلا گیا تو کیا پتہ لوٹ کر نہ۔۔۔۔"

اس کی ادھوری بات زارا نے منہ پر ہاتھ رکھ کر روک دی۔

کاشان نے اس کا ہاتھ چوم کر سینےپر رکھ لیا تھا۔

وہ خفگی بھری نگاہ سے دیکھتی رونے کی تیاری پکڑنے لگی تو کاشان نے اسے ایک بار پھر گھورا۔

اپنا خیال رکھنا میں جلد آجاؤں گا جوہی کو نوکر دیکھ لیں گے۔بس کچھ دن وہ ہمارے ساتھ رہے گی پھر میں اسے خود بھیج دوں گا۔اس کی حالت کافی خراب ہے۔

کاشان نے اسے سمجھایا تھا۔وہ کچھ نہیں بولی۔تو کاشان اسے سینے سے لگاتا کچھ دیر بعد باہر بڑھ گیا تھا۔

___________

انفارمیشن پکی ہے ناں؟؟" کاشان نے کامل کو دیکھا۔

وہ آج یہاں احکام کے باپ کی تلاش میں آئے تھے۔

وہ احکام کے آنے سے پہلے اسے پکڑنا چاہتے تھے۔وہ نہیں چاہتے تھے احکام انہیں دیکھ کر ایک بار پھر اسی فیز میں چلا جائے جہاں سے انہوں نے مشکل سے نکالا تھا۔

مال شپ میں لوڈ ہورہا تھا جب ایک دم فائرنگ ہونے لگی ۔وہ لوگ چوکنا ہوتے بڑے بڑے باکس کے پیچھے چھپنے لگے۔

بزل شیخ یہاں کیا کررہا ہے؟؟ شپ میں موجود بزل شیخ کو دیکھ کر کاشان حیران ہوا۔

کاشان بزل شیخ نے چال چلی ہے۔کامل بولا تو کاشان نے نفی میں سرہلایا۔

""یہ چال بزل شیخ جیسا عام انسان نہیں چل سکتا۔یہ بزل شیخ کے مین آدمی کا کام ہے۔انہیں یہ مال لے جانے دو۔کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے""۔

کاشان تم پاگل ہو۔کروڑوں کا مال ہے یہ۔۔۔" وہ چیخ کر بولا۔

یہ مال دوبارہ کاشان ازغن کی ملکیت ہی بنے گا۔فکر مت کرو۔ابھی صرف تم تماشہ دیکھو۔"

کامل نے دانت پیسے لیکن کچھ کہا نہیں تھا۔فائرنگ جاری تھی لیکن جیسے ہی شپ سمندر کنارے  سے آگے بڑھا۔ہر طرف خاموشی ہوگئی تھی۔

کاشان کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔جبکہ کامل اسے دیکھ رہا تھا۔

___________

وہ لوگ ہنی مون کے لیے سنگاپور آئے تھے۔

احکام اسے کافی جگہ پر گھما کر اب ہوٹل کی طرف بڑھ رہا تھا۔

وہ گاڑی سے اتر کر ہوٹل کی بلڈنگ میں داخل ہونے لگے تھے۔جب احکام کو کسی نے آواز دی۔

احکام چونک کر مڑا تھا۔سامنے ہی ایک آدمی ٹوپی سر پر لیے لانگ جیکٹ اور بھاری بوٹ میں چھپا ہوا لگ رہا تھا۔

تم یہاں کھڑی ہوجاؤ۔میں ابھی آتاہوں۔احکام علایہ کو کہتا آگے بڑھا۔

علایہ دونوں کو دیکھنے لگی تھی۔

کیا ہے کون ہو تم اور میرا نام کیسے جانتے ہو؟؟"

احکام نے سرد لہجے میں کہا۔تو وہ آدمی طنزیہ مسکرانے لگا۔۔ادریس کمال بادشاہ کو بھولو مت وہ اب بھی تمہیں کھوج رہا ہے۔

اور بیٹے باپ سے اتنا دور رہے تو اچھی بات نہیں ہے۔

احکام کو لگا وہ یہی گرجائے گا۔اس کا سراغ ڈھونڈ کر وہ کیا یہاں بھی آگئے تھے۔؟؟ 

احکام کی سرخ و سفید رنگت پیلی پڑنے لگی۔لیکن وہ اپنے خوف پر قابو پانے لگا تھا۔

 احکام نے علایہ کو دیکھا تھا۔جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی۔

اسے کہو میں دبئی آکر ان سے ملوں گا۔مجھے یہان تنگ نہ کریں۔

وہ سختی سے بولتا علایہ کی طرف آیا۔

کون تھا احکام؟؟…علایہ حیرت سے پوچھنے لگی۔

کوئی نہیں راستہ پوچھ رہا تھا۔

تم آؤ میرے ساتھ۔اس کے گرد بازو پھیلا کر وہ آگے بڑھنے لگا تھا۔

___________

زارا چکر لگالگا کر اب اکتا چکی تھی۔اسے کاشان کی فکر ہورہی تھی وہ ابھی تک نہیں آیا تھا۔ایک بج گیا تھا۔اس نے دس بجے آنے کو کہا تھا۔

وہ اکتا کر باہر نکلی تو گیسٹ روم کی لائٹ جلتے دیکھ کر وہ اس طرف آگئی۔

اس نے دروازہ کھولا تو اندر دھوئیں نے اس کا استقبال کیا۔

وہ حیران پھٹی آنکھوں سے جوہی کو دیکھنے لگی۔جو سیگریٹ بہت مزے سے پی رہی تھی۔

جوہی کی نظر اس پر پڑی تو وہ زخمی چہرے کے ساتھ اسے دیکھتی ہنسنے لگی۔

تم ہو کاشان کی بیوی؟؟"

زارا اس کو اب بھی حیران طریقے سے دیکھ رہی تھی۔اتنی عجیب لڑکی کاشان کی گرلفرینڈ۔۔؟

کافی پیاری ہو لڑکی۔۔وہ اٹھ کر زارا کے پاس آئی تو زارا پیچھے کھسکنے لگی۔

اے تم تو بہت ڈرپوک ہو۔۔ایول کنگ کی بیوی ڈرپوک چڑیا۔۔۔"

 وہ ہذیاتی قہقہ لگاتی اسے بازو سے پکڑنے لگی۔

زارا کا رنگ سفید پڑ گیا۔

اس نے بازو چھڑوانا چاہا تو اس نے سختی سے پکڑ لیا۔

وہ خوف سے چیختی اس سے پہلے ہی جوہی نے سیگریٹ اس کے منہ کے سامنے کرکے خوف سے ڈرادیا تھا۔

چیخنا مت ورنہ تمہارا چہرہ اپنے جیسا خراب کردوں گی۔وہ سرخ آنکھوں سے گھورتی زارا کی جان نکالنے والی ہوگئی تھی۔

زارا نے اسے دھکا دیا تھا۔تیزی سے وہ کمرے سے باہر بھاگی۔اپنے کمرے میں آکر وہ کمفرٹ میں چھپتی کانپنے لگی تھی۔۔

__________

وہ کمرے میں آتو گئی تھی لیکن اس کی دھڑکن اب بھی قابو میں نہیں آئی تھی۔

اسے لگ رہا تھا اگر وہ کمفرٹ ہٹاۓگی تو جوہی آجائے گی۔

کاشان بھی ابھی تک نہیں آیا تھا۔وہ کئی سخت باتیں منہ میں ہی بڑبڑا چکی تھی۔

وہ آج کاشان سے لڑنے والی تھی جو دس بجے کا کہہ کر ابھی تک نہیں آیا تھا۔۔

سر درد کی وجہ سے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔

___________

احکام کیا ہوا تم پریشان لگ رہے ہو؟؟ کل رات سے وہ کھویا ساتھا۔

علایہ نے اس کا چہرہ چھو کر کہا تو وہ چونک گیا۔

نہین سب ٹھیک ہے۔

وہ کہہ کر مسکرایا تھا۔

سچ کہہ رہے ہو وہ مشکوک ہونے لگی تو احکام نے اس کے گال کھینچ دیے۔

تم کچھ کھاؤ گی؟؟ اسے یاد آیا اس نے علایہ سے کھانے کا نہیں پوچھا تھا۔

شکر ہے تمہیں خیال آگیا ورنہ جب میں اوپر پہنچ جاتی شاید تب تم پوچھتے۔

وہ آنکھیں گھماکر بولی تو احکام نے اسے غصے سے گھورا تھا۔

الٹی باتیں مت کیا کرو۔وہ غصے سے کہنے لگا۔

اتنی محبت کرتے ہو مجھ سے۔علایہ نے حسرت سے پوچھا تھا۔

بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔اتنی کے میں تمہیں بتانہیں سکتا۔تم جیسی چڑیل لڑکی مجھے پسند آئے گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔

وہ سیریس بات کو مذاق کی طرف موڑ گیا تھا۔

کتنے بدتمیز ہو ناں تم ۔۔۔وہ دانت پیسنے لگی۔

بیڈ سے اترتی وہ بال سمیٹ رہی تھی۔غصے سے ناک سرخ ہورہی تھی۔

احکام بیڈ سے اترتا اسے بانہوں میں بھرنے لگا اس کے بال بکھر گئے تھے۔

تم سے سیریس اظہار کرتے ہوئے مجھے ناجانے کیوں ہنسی آجاتی ہے۔۔وہ اس کے کان میں کہتا چیخا تھا۔

احکام۔۔۔۔۔۔"""" علایہ اس کے بال نوچنے کو مڑی تو احکام نے اسے بانہوں میں بھر لیا تھا۔

میری خونخوار بلا۔۔۔" وہ گدگدی کرتا اپنی پریشانی چھپا گیا تھا۔

_________

وہ بیڈ پر کمفرٹ میں دبکی  تھی۔ماتھے پر بل تھے۔جبکہ گلابی لبوں کو وہ دانتوں سے دباتی  اس کی تیاریاں دیکھ رہی تھی۔

رات وہ لیٹ آیا تھا۔اور آکر اس نے بتانا بھی گوارہ نہیں کیا تھا۔

اب جب آنکھ کھلی تو وہ تیار ہورہا تھا۔

زارا کو شدید غصہ آنے لگا۔کل سے جوہی آئی تھی اور کل سے ہی وہ بدلا بدلا لگ رہا تھا۔

سفید شرٹ کے بٹن ہمیشہ کی طرح کھلے تھے۔

زارا نے سٹپٹا کر نظر بدل لی لیکن وہ بھی شاید تنگ کرنے کے موڈ میں تھا۔

ڈریسنگ سے ایک پرفیوم اٹھاکراس نے اچھی طرح سپرے کیا۔

وہ کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔جبکہ زارا اس کی تیارہاں دیکھتی بیزاری محسوس کرنے لگی۔

کچھ پرفیوم اس نے ہوا میں بھی سپرے کیا تو تیز خوشبو زارا کے نتھنوں سے ٹکرائی۔اسے زور دار چھینک آئی تھی۔

 واٹ ہیپنڈ؟؟؟ کیا تمہیں پرفیوم سے الرجی ہے۔وہ آئی برو اچکا کر مڑا تو زارا نے ایک اور چھینک مار کر اسے گھورا۔

وہ بیڈ کے قریب آگیا تھا۔شرٹ کے بٹن اب بھی کھلے تھے۔

بٹن بند کرلیں کسی کے کمرے میں ایسے آزاد نہیں گھومتے۔

وہ ٹیبل سے ٹشو اٹھا کر ناک پونچھتی  غصہ میں بولی۔

کاشان اس کا کسی کے کمرے کہنے پر حیران ہوا۔

سیریسلی!!! کسی کا کمرا؟؟؟؟ میڈم یہ میرا کمرا  ہے۔اگر تم غور کرو تو پہلے یہ میرا کمرا تھا۔اب تم آگئی ہو۔

وہ اردگرد نظر دوڑا کر کہنے لگاتو زارا ہچکچائی۔

لانے والے بھی آپ تھے تو پھر اب میرا بھی کمرا ہے وہ اکڑ کر بولی۔

کاشان نے اوہ کہہ کر ہونٹ سکوڑے۔

زارا نے گردن اکڑائی تھی۔

ویسے میں کول لگ رہا ہوں ناں۔؟؟آئی مین ہاٹ ۔۔

تم کتنی خوش قسمت جسے میرے جیسا ہینڈسم شخص  ملا۔

وہ خوش فہمی سے بولا تو زرا نے منہ بنایا۔

واٹ ایور۔۔۔۔"

میں سب سمجھ رہا ہوں تم اندر سے خوش ہو اوپر سے بس ظاہر کررہی ہو۔یو نو واٹ لڑکیوں کی اوٹ پٹانگ حرکتیں۔

وہ جلدی سے قریب ہوکر سبز آنکھوں کو دیکھتے بولا۔

زارا نے آنکھیں گھما کر اس کی بات کا حظ اٹھایا۔

اب تم شرما کر لاپرواہ نہ بنو۔زارا کی پلکیں لرزنے لگیں۔

 وہ اس کے شرمانے کو انجوائے کرنے لگا۔

اچھا یہ زرا بٹن تو بند کردو۔وہ قریب آکر بولا تو زارا پیچھے ہوئی۔

آپ کے ہاتھ ہیں خود کرلیں۔

اس وقت سفید شرٹ اور ٹراؤزر پہنے عام حلیے میں تھی۔۔ 

نہیں میں تم سے کروانا چاہتا ہوں۔

کاشان نےاپنی  انگلیوں سے بال پیچھے کیے۔

گلابی ہوتی ننھی سی ناک نے کاشان کی توجہ کھینچی تو وہ نرمی سے ناک چومتا دور ہوا تو وہ  مزید گلابی پڑی۔

وہ اس کی شرمیلی حرکتیں وہ خوب انجوائے کررہا تھا۔

بٹن بند کردو مجھے دیر ہورہی ہے۔سنائی نہیں دے رہا ؟؟؟"

لہجے کی سختی نے زارا کی حالت غیر کی۔

وہ اب بھی ڈر جاتی تھی۔

جلدی سے اٹھ کر وہ بٹن بند کرنے لگی تھی۔یہ بھی خیال نہیں رہا کہ وہ اس کے قریب آگئی ہے۔

اس نے زارا کو پاس کرلیا تھا۔

زارا آنکھیں پھیلاتی سینے سے ٹکرائی۔

 زارا تم بہت ڈرپوک سی ہو اگر  ایول  کنگ کی کوئین تو بہادر ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا۔۔"

زارا نے اسے گھورا۔

تم کافی خوبصورت بھی ہو، وہ انگوٹھے سے اس کا گال سہلاتا بولا تھا۔

وہ شرم سے گلابی ہونے لگی تھی۔

وہ اسے ہٹانے لگی تو کاشان نے سختی سے اسے پکڑا۔

کاشان چھوڑیں پلیز۔اسے جوہی یاد آئی تو وہ غصے سے بولی۔

کیوں چھوڑوں میں اپنی حلال بیوی سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔

حلال کی بیوی؟؟ وہ اس کے الفاظ پر حیران ہوتے بولی۔

ہاں نہ پہلے حرام لڑکیوں سے دل بہلاتا تھا اب حلال بیوی مل گئی تو اب مجھے پرمٹ حاصل ہوگیا ہے۔

وہ شوخ پن سے بولا زارا  طیش سے سرخ ہوئی۔

اس نے سینے پر ہاتھ مار کر اسے دور کیا اور بیڈ پر بیٹھ کر رونے لگی تھی۔

کاشان اس کی حرکت پر بوکھلا گیا تھا۔

تم رو کیوں رہی ہو؟ وہ گھبرا کر اس کے پاس آیا اور کندھوں سے پکڑ کر اسے سامنے کھڑا کیا۔

اس نے درد بھری نظر سے کاشان کو دیکھا۔

جیسے کہا ہو کہ تمہیں نہیں پتہ؟؟

تم کونسا مجھ سے پیار کرتی ہو جو ایسے بیہو کررہی ہو۔؟؟؟ 

کاشان سرخ آنکھوں سے گھور کر بولا تھاوہ 

مزید رونے لگی تو اس نے اپنے ماتھے پر ہلکا ساپنچ  مارا۔

اسے سختی سے سینے سے لگاتا وہ جیسے اسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کرنے لگا۔

وہ اس کی شرٹ پر آنسو بہاتی سسکنے لگی تھی۔

کاشان اس کی پشت سہلاتے اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگا۔

اس  کے سینے پر مکے مارتی اپنا غصہ نکالنے لگی۔

کاشان نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر سامنے کیا اور سختی سے اسے گھورا۔زارا  اب سہمی نہیں تھی۔

 میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھایا کرو۔وہ مصنوعی غصے سے بولا۔

مجھے کسی کی سختی کا فائدہ بھی نہیں اٹھانا، وہ ناک سکوڑتی بولی تھی۔

اففف تم نے شرٹ گندی کردی ۔

 زارا  نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اس کی شرٹ کو اور پھر اسے دیکھا۔

ہونٹ واہ کرتی وہ اسے دیکھنے لگی جسے شرٹ کی زیادہ پرواہ تھی۔

اس کے آنسو کے نشان شرٹ پر اتر آئے تھے۔

وہ منہ بناتی دور ہوئی لیکن کاشان نے کوشش ناکام بنا کر اسے دوبارہ اپنی جانب کھینچا۔

تم جانتی ہو تمہارا ناراض ہوکر دور جانا مجھے کتنا تکلیف دیتا ہے۔

وہ سرخ ہوتی آنکھوں سے بولا۔

زارا کے معاملے میں وہ جنونی ہوتاجارہا تھا۔

مم میں نہیں جارہی ہوں۔وہ نظر چراتی بولی تو کاشان کے لب مسکرانے لگے۔

میں تمہیں دور کرنا بھی نہیں چاہتا۔جلدی سے ریڈی ہوجاؤ ہم سارا سے ملنے جارہے ہیں۔

سچ میں ؟؟ وہ دوبارہ اس کے قریب آتی پوچھنے لگی تھی۔

مچی !! اس کے ناک دبا کر وہ بولا تو زارا خوشی سے مسکرائی۔

وہ جلدی سے ڈریس لے کر چینج کرنے بھاگی تو کاشان ہنستا ہوا بیڈ پر بیٹھ کر سیگریٹ سلگانے لگا تھا۔

____________

ناشتے کی ٹیبل پر وہ آج بڑھا چڑھا کر کاشان کو چیزیں پیش کررہی تھی۔

کاشان اس کی حرکتیں دیکھنے لگا اور ہنسی دبانے لگا۔

جوہی سوجے ہوئے چہرے کے ساتھ ایک طرف بیٹھی تھی۔کامل بھی زارا کو دیکھ کر حیران ہورہا تھا۔

وہ اس وقت بلیک لونگ فل سلیوز میکسی میں بیٹھی تھی۔

حجاب وہ جاتے وقت لینے والی تھی۔

کاشان یہ ٹرائی کریں۔وہ پوٹیٹو فرائڈ ایگ کاشان کی پلیٹ میں رکھتے بولی تھی۔

زارا تم کھاؤ۔میں کھاچکا ہوں۔

وہ لاپرواہ بنا بولا تھا۔

جوہی تم کھاؤ ناں خاموش کیوں ہو۔؟ وہ زارا کو دیکھتا جوہی سے بولا۔

زارا کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔

جوہی اس کی زرا سی پرواہ پر ناشتہ کرنے لگی تو کامل اور زارا دونوں کو غصہ آنے لگا۔

زارا ناشتہ چھوڑتی اٹھی تھی۔وہ تیزی سے کمرے کی طرف بڑھنے لگی جب کاشان نے ہاتھ پکڑ کر اسے روک دیا۔

میں ابھی ناشتہ کررہا ہوں۔وہ آنکھوں میں محبت سموتا بولنے لگا تو زارا نے نظر پھیر کر کلائی کو ہلایا جیسے اس سے چھڑوانا چاہتی ہو۔

کاشان نے بازو نہیں چھوڑی بلکہ اسے اپنی طرف کھینچ کر چئیر پر بٹھادیا۔

جوہی نے دانت کچکچائے تھے۔

زارا خفگی بھرا چہرہ لے کر بیٹھ گئی تھی۔

کاشان نے اس کے منہ کی طرف نوالہ بڑھایا تو وہ کامل کی وجہ سے شرم سے سرخ پڑنے لگی۔لیکن جوہی کو دیکھ کر منہ بھی کھول لیا تھا۔

جوہی اٹھ کر کمرے کی طرف چلی گئی کاشان نے اسے نہیں روکا تھا۔بلکہ زارا کو کافی دیر ناشتہ کرواتا رہا تھا۔

_______

تم میرا ماضی جاننا چاہتی تھی۔وہ لوگ عجمان جارہے تھے۔جب کاشان نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا۔

زارا نے حیرانگی سے کاشان کو دیکھا جس کے چہرے پر تکلیف ظاہر تھی۔

کاشان اگر آپ ماضی بتا کر تکلیف میں جائیں گے تو میں نہیں سننا چاہتی۔

وہ نرمی سے بولی تھی۔

نہیں تکلیف اب بس تم سے دور جانے پر ہی ہوگی۔اور کسی تکلیف کو میں برداشت کرنے کی ہمت طاقت بھی رکھتا ہوں۔

کاشان میں آپ کو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی۔

اس نے کاشان کا ہاتھ دبایا تھا۔

میرا ماضی جاننے کے بعد بھی۔

کاشان نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

آپ کی گرلفرینڈ کو گھر میں دیکھ کر میں آپ کو چھوڑ کر نہیں گئی تو پھر میں کیسے آپ کو چھوڑ کر جاسکتی ہوں۔وہ آنکھیں گھما کر بولی تو کاشان نے اس کے ہاتھ کو لبوں سے لگالیا تھا۔

_____________

ماضی………!!!

ازغن آپ آگئے۔ جمیلہ بیگم   نے ازغن کو دیکھا تھا۔جو آج جلدی گھر آگئے تھے۔

ہاں ۔۔کاشان آگیا ہے؟؟

جی آگیا ہے۔

بیس سال کا کاشان کمرے سے نکل کر اپنے بابا کی طرف آیا تھا۔جو چھوٹے سے لاؤنج میں بیٹھے تھے۔

ازغن صاحب نے اسے گلے لگاکر ماتھا چوما تھا۔

وہ آج ریس جیت کر آیا تھا۔

یہ دیکھیں بابا پرائز۔۔وہ خوشی سے بولا۔

تو ازغن صاحب مشکل سے مسکرائے تھے۔ کاشان کچھ دیر باتیں کرکے اندر بڑھ گیا۔

کیا ہوا آپ کچھ پریشان ہیں؟؟ جمیلہ بیگم ازغن صاحب کا تھکا تھکا چہرہ دیکھ کر پوچھنے لگی تھیں۔

ہاں سب ٹھیک ہیں۔

مومنہ آمنہ کیا کررہی ہیں انہوں نے بات ٹال دی۔

ازغن آپ مجھے پریشان لگ رہے ہیں بتائیں کیا ہوا ہے؟؟ جمیلہ بیگم ان کا ہاتھ تھام کر پوچھنے لگی۔

انہوں نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں کاشان کا کمرہ تھا۔اور ساتھ چھوٹا سا روم آمنہ مومنہ کا تھا۔وہ دونوں دس سال کی بچیاں تھیں۔

جمیلہ آج کیفے کچھ آدمی آئے تھے۔وہ چاہتےہیں کہ میں اپنے کچن میں ان کا کچھ سامان رکھ لوں۔

ان کا چھوٹا سا کیفے تھا جن سے ان کا گزارا اچھے سے ہورہا تھا۔یہ دو منزلہ چھوٹاسا  گھر بھی ان کی ملکیت تھا۔ 

وہ پریشانی سے بولنے لگے تو جمیلہ بیگم حیران ہوئی۔

ْ"تو کیا ہوا ازغن آپ رکھ لیتے"۔۔

جمیلہ وہ عام لوگ نہیں تھے۔وہ دہشتگرد یا ناجانے کیاتھے۔ وہ چاہتے ہیں میں ان کے ڈرگز کے ڈبے اور کچھ رائفلز گودام میں رکھوالوں یا پھر وہ چاہتے ہیں میں وہ کیفے ان کو دے دوں۔بدلے میں وہ مجھے پیسے دے دیں گے۔

جمیلہ بیگم خوف سے سفید پڑنے لگی۔

نہیں ازغن نہیں آپ انہیں کیفے بھی نہیں دیں گے ان کا سامان بھی نہیں رکھیں گے ۔۔جمیلہ بیگم روتے ہوئے بولی۔

جمیلہ وہ لوگ بہت خطرناک ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آرہا  کیا کروں ؟

ازغن کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

ازغن ہم پولیس کو بتاتے ہیں۔وہ ہماری مدد کرے گی۔۔نہیں جمیلہ وہ کہتے ہیں اگر ہم پولیس کے پاس گئے تو وہ سب تباہ وبرباد کردیں گے۔

پھر اب آپ کیا کریں  گے؟

جمیلہ بیگم کوخوف نے گھیر لیا تھا۔

صبح میں ان کو انکار کردوں گا میں یہ حرام کام نہیں کرسکتا۔

وہ اٹھ کر آمنہ مومنہ کی کمرے کی طرف بڑھنے لگے۔

جمیلہ بھی ان کے پیچھے آئی تھی۔

آمنہ مومنہ دونوں اپنی پڑھائی کررہی تھیں۔

بابا کو دیکھ کر وہ اس کے سینے سے لگ گئی۔

وہ انہیں ساتھ لگائے رو دیے تھے ناجانے کیوں انہیں خوف ستارہا تھا۔

__________

ازغن صاحب کیفے آئے تو کچھ لوگ وہاں پہلے سے ہی موجود تھے۔

ان کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔

بولو کیا فیصلہ ہے؟؟ وہ ارد گرد دیکھ کر پوچھنے لگے تو ازغن نے انکار کردیا تھا۔

ان آدمیوں کے چہرے پر غضب آگیا تھا۔۔تم جانتے ہو تم بزل شیخ کو انکار کررہے ہو۔

ازغن صاحب چونک گئے۔بزل شیخ کو کون نہیں جانتا تھا۔وہ دبئی کا ڈان تھا۔

وہ لوگ ازغن صاحب کو دھمکا کر چلے گئے تھے۔

ازغن صاحب سارا دن کیفے میں پریشان رہے۔ رات ہوتے ہی انہوں نے پولیس سے رابطہ کرنے کا سوچا تھا۔

وہ چھپتے ہوئے پولیس اسٹیشن بڑھنے لگے تو ان کے نمبر پر کال آنے لگی تھی۔

انہوں نے فون اٹھایا تو آگے سے کسی کی رونے کی آواز آنے لگی تھی۔

تم نے کیسے سوچ لیا تم پولیس سے رابطہ کرلو گے اور ہمیں پتہ نہیں ہوگا۔تمہارا کیفے ہمیں اس لیے پسند آیا تھا کیونکہ وہ سمندر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھا۔

تم یہ کیون بھول گئے تمہاری دو خوبصورت چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں۔

ازغن کا رنگ سفید پڑگیا۔

میری بچیوں کو کچھ مت کرنا۔میں واپس آرہا ہوں۔

ازغن صاحب واپس گھر بھاگے تھے۔

لیکن دیر ہوچکی تھی۔۔گھر میں جمیلہ بیگم اور دونوں ننھی پریاں بے آبرو پڑی خون میں لت پت تھیں۔

کاشان کے سر سے خون نکل رہا تھا۔

ازغن صاحب دروازے میں ہی گرگئے تھے۔

کاشان نیم بے ہوش تھا۔

بزل شیخ چہرے پر نقاب ڈال کر بیٹھا تھا۔اس کے ساتھ دو اور آدمی تھے۔

ان کے چہرے پر بھی نقاب تھا۔

تم سمجھ رہے تھے ہم تم پر نظر نہین رکھ رہے۔ہم کافی دن سے تمہارے کیفے کو دیکھ رہے تھے۔

تم بہت ایماندار بن رہے تھے۔اب اپنی ایمانداری اوپر جا کر پوری کرنا۔۔چار گولیاں ان کے سینے پر مار کر ایک آدمی قہقہ لگانے لگا تھا۔

کاشان روتا روتا چیخا تھا۔اس کے ہاتھ پیر بندھے ہوئے تھے۔

انہوں نے ایک گولی کاشان کے پیٹ پر ماری تھی۔وہ وہی گرگیا تھا۔

سب کو مار کر وہ وہاں سے نکل کر چلے گئے تھے۔

___________

وہ زمین پر گرا ہوا تھا لیکن کچھ ہوش میں تھااس کے پیٹ سے خون بہہ رہا تھا۔درد سے وہ مرجانے کو تھا جب باہر بیل ہوئی تھی۔

ایک طرح سے کاشان کو لگا تھا کہ وہ جیسے پھر سے جینے لگا ہے۔

کچھ دیر بعد کامل اور اس کے ماموں تھے جو اندر داخل ہوئے تھے۔

وہ خون میں بھری برہنہ لاشیں دیکھ کر چیخے تھے۔آگے بڑھ کر انہوں نے جلدی سے ان پر کپڑا ڈالا تھا۔

کاشان درد سے تڑپتا کراہ رہا  تھا۔

کامل کی نظر اس پر پڑی تو وہ بھاگ کر اس کے پاس آیا۔

بابا کاشان زندہ ہے۔وہ روتے روتے چیخا تھا۔

وہ اکثر رات کو ان کے گھر آتے تھے دونوں ہم عمر تھے اور سٹڈی بھی ساتھ کرتے تھے آج بھی وہ اسی لیے آیا تھا۔

کاشان کو زندہ دیکھ کر کامل کے بابا مہمت نے اسے گود میں اٹھایا تھا۔

وہ اسے لے کر جلدی سے ہاسپٹل بھاگے تھے۔

__________

اسے تین دن بعد ہوش آیا تھا اس کے پیٹ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔

کچھ دیر وہ اردگرد دیکھتا رہا پھر اسے یاد آنے لگا۔اسے ان سب کے چہرے یاد آنے لگے۔۔تین لوگوں  کے چہروں پر نقاب نہیں تھا وہاں صرف ایک چہرے پر نقاب تھا۔

وہ رونا چاہتا تھا لیکن آنسو تھے کہ آہی نہیں رہے تھے۔

کامل کے بابا اندر آئے تو اس نے سرخ آنکھوں سے انہین دیکھا ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی۔

کاشان نے منہ دوسری طرف کرلیا۔شدت غم سے اس کا دل پھٹ رہا تھا۔

کامل کے بابا نے اسے گلے سے لگایا تو وہ چپ چاپ ان کے سینے سے لگ گیا۔

بزل شیخ سے جو بھی دشمنی کرتا ہے وہ ایسے ہی برباد ہوجاتا ہے۔

وہ بول رہے تھے لیکن کاشان کا ذہن کچھ اور ہی پلین کررہا تھا۔

اپنی ننھی بہنوں اور ماں کو سرعام رسوا ہوتا دیکھنا اسے اپنی ہی نظروں میں گراگیا تھا۔

وہ معصوم تھا کبھی کسی سے جھگڑا کرنا کبھی کسی سے سخت بات کہنا اسے پسند ہی نہیں تھا۔۔

کچھ دن میں وہ ٹھیک ہوکر گھر آگیا تھا۔کامل کے بابا اسے اپنے ساتھ رکھنے لگے تھے۔

 اس حادثے نے اسے بدل دیا تھا۔وہ جنونی ہوگیا تھا۔

وہ اپنا غصہ اکثر چیزیں توڑ کر نکالنے لگا۔وہ دیواروں پر مکے مار کر اپنے ہاتھ زخمی کرلیتا۔

اسے سب کچھ بھول گیا تھا۔اس کے ذہن میں بدلا سوار تھا۔

وہ نیم پاگل ہوچکا تھا۔کامل کے بابا نے اسے مینٹل  ہاسپٹل داخل کروادیا تھا۔

دو سال وہاں اس کا علاج چلتا رہا۔

پھر وہ اسے گھر لے آئے تھے۔اب وہ تھوڑا ٹھیک ہوچکا تھا۔

کامل کے بابا نے اس کا کالج میں ایڈمیشن کروایا تو اس نے وہاں لڑکوں کو مار مار کر حشر بگاڑ دیا۔

کامل بھی اب اس سے خوف کھانے لگا تھا۔

لیکن وہ اس کے ساتھ باتیں کرتا تھا اسے سمجھانے لگا تھا۔

ایسا ہی ایک دن تھا وہ کالج سے گھر آرہا تھا۔جب ایک سنسان گلی میں اس نے ایک لڑکی کے ساتھ بدتمیزی کرتے دیکھا۔وہ چار آدمی تھے۔

کاشان کو اپنی ماں یاد آنے لگی تھی۔

وہ جنون پن سے ان پر پل پڑا۔انہیں کی گن سے اس نے چار قتل کیے تھے۔

وہ اپنے خون سے سنے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔

اس کے ہاتھ بھی نہیں کانپ رہے تھے ۔اسے حیرت بھی تھی کہ وہ کیسے یہ کرچکا ہے۔

وہ اس لڑکی کو اشارہ دے کر وہ گن لیے وہاں سے بھاگ گیا تھا۔

_______ 

وہ کئی دن گھر میں چھپا رہا۔گن اس نے الماری میں چھپادی تھی۔

کامل نے گن دیکھی تو اس نے شور مچادیا۔

مہمت نے اس سے پوچھا تو اس نے سب بتادیا۔وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے انہوں نے اسے نچلے طبقے والے علاقے میں بھیج دیا۔جہاں وہ عام لڑکوں کی طرح رہنے لگا تھا۔

ایک سال کا عرصہ گزرگیا تھا۔

وہ اب ٹرک میں مال لوڈ کروا کر اپنا گزارا کرنے لگا تھا۔

کچھ دن سے اسے شک ہورہا تھا جیسے باکس میں کچھ اور ہوتا ہے۔

بڑے بڑے باکس میں ہوم اپلائنسز پیک ہوتی تھیں جو فیکٹری سے بڑے سٹورز میں جاتی تھیں۔

ایک دن اس نے ایک باکس سے ٹیپ ہٹا کر ہلکا سا اندر دیکھا تو وہ سفید پاؤڈر کے پیکٹ تھے۔۔کاشان کا شک یقین میں بدل گیا تھا۔

وہ اب لوگوں پر نظر رکھنے لگا تھا۔

کچھ لوگوں سے وہ بات چیت کرنے لگا۔کئی مزدور ان کاموں میں ملوث تھے۔

ایک مزدور سے اس نے کافی رابطہ بحال کرلیاتھا۔

کاشان نے اپنی خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ بزل شیخ کے لیے اب کام کرنا چاہتا ہے۔

وہ مزدور سوچ میں ڈوب گیا تھا۔

کاشان کچھ دن پوری ایمانداری سے مال چیک کرکے لوڈ کرنے لگا تھا۔

پھر ایک دن مزدور نے ایک خاص لوگو والا کارڈ اسے دیا جس سے وہ بزل شیخ کے گینگ میں شامل ہوگیا تھا۔

 کچھ عرصہ سکون میں گزرا تھا۔کہ کچھ لوگ فیکٹری میں داخل ہوئے تھے۔اور وہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ وہ لوگ وہی تھے جنہوں نے اس کی ماں اور بہنوں کے ساتھ غلط کیا تھا۔

وہ کچھ دیر  بعد فیکٹری سے نکل گئے تو وہ ان کا پیچھا کرنے لگا۔

کچھ دیر بعد وہ ایک ہائی کلاس ایریا میں تھے۔۔وہاں پیلس دیکھ کر وہ حیران ہوا تھا۔اور وہ جان گیا تھا کہ وہ لوگ وہی رہتے ہیں۔

کچھ دن وہ وہاں آکر راستہ یاد رکھتا رہا۔پھر ایک دن ماموں سے ملنے گیا۔ان کی طبعیت خراب تھی۔

کامل اس سے اچھے سے ملا۔

وہ کچھ دن وہاں رہنا چاہتا تھا۔نانی سے بھی وہ اچھے سے ملا تھا۔

ماموں کی طبعیت ایک دن کافی بگڑ گئی تھی۔ہاسپٹل لے جانے سے پہلے ہی ان کی دیتھ ہوگئی تھی۔

ماں تو بچپن میں ہی مرگئی تھی کامل اب اکیلا رہ گیا تھا۔

ماموں کی موت کے بعد وہ کچھ دن خاموش رہا۔اور ایک دن ان کی الماری سے گن نکال لی۔جس سے اس نے قتل کیے تھے۔

کامل نے اس کے ہاتھ میں گن دیکھی تو وہ حیران ہوا۔

لیکن کچھ بولا نہیں تھا۔

________

کون ہو تم اندر کیسے آگئے؟؟ ایک عربی سختی سے اس سے پوچھنے لگا۔

اس نے بزل شیخ کا نام لیا اور کہا کہ وہ ان کے لیے کام کرنا چاہتا ہے۔ اسی سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تھی۔اس نے ایک کارڈ نکال کر تو وہ حیران ہوا تھا۔

وہ اسے لے کر اندر آئے تو اندر ماحول ہی اور تھا۔

اندر بے حیائی عروج پر تھی۔

وہ اب چوبیس  سال کا ہوگیا تھا۔

بزل شیخ سے ملنا اتنا بھی آسان نہیں تھا۔ جتنا وہ سمجھا تھا۔

کبھی کسی کو قتل کیا ہے۔ایک آدمی نے اس سے پوچھا تو اس نے گن نکال کر سامنے رکھ دی۔۔وہ حیران ہوئے تھے۔

چار قتل کیے تھے۔وہ اعتماد سے بولا تھا۔

واہ تم تو پہلے ہی سیکھے سکھائے ہو۔بڑی عمر کے ایک آدمی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔کاشان کے چہرے پر اس وقت سختی تھی۔

یہ گن  مجھے دو بدلے میں یہ رکھ لو۔اسی عربی شیخ نے گن اسے دی تھی۔

جو فل لوڈڈ تھی۔کاشان نے وہ بھاری گن اٹھالی تھی۔

اسے چلاؤ۔اس نے سامنے دیوار پر گولی چلادی تھی۔

میں جانتا ہوں مال کہاں کہاں سپلائی ہوتا ہے۔اور جو یہ سوچ رہا ہے کہ میں سچائی جان گیا ہوں تو مجھے اندھی گولی سے اڑادیں گے یہ بھی تم لوگوں کی غلط فہمی ہے۔

کیونکہ اب بزل شیخ کے بجائے یہاں ایول کنگ کی حکومت قائم ہو گی۔

اس نے انہیں سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر گولیاں چلائی تھی۔

بزل شیخ کا خاص آدمی جو کاشان پر گولی چلانے والا تھا۔

ایک اندھی گولی کا شکار ہوگیا تھا۔کاشان نے حیرت سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ کامل تھا۔جو ہاتھ میں گن پکڑے کانپ بھی رہا تھا۔کاشان طنز سے مسکرادیا تھا۔

بزل شیخ آج شاید قسمت کی خوش قسمتی سے بچ گیا تھا۔وہ آج ہی کینڈا کے لیے روانہ ہوا تھا۔

__________

تم یہاں تک کیسے آئے تھے اور یہ گن کس کی ہے۔

پیلس میں ان دونوں نے اپنی ہمت جرات سے جو تباہی مچائی تھی وہ دیکھنے لائق تھی۔

کوئی نہیں مان سکتا تھا کہ یہ کام دو عام سے انسان کرسکتے ہیں۔لیکن اندر کی حقیقت کون جانتا تھا۔

کاشان نے پچھلے کئی سال ایسے ہی ضائع نہیں کیے تھے۔

وہ مختلف طریقے سے نشانے لگاتا رہتا تھا۔راتوں کو اٹھ کر وہ کئی باکس پر مکے مارتا خود کو زخمی کرلیتا تھا۔

اس کے ذہن میں دھن سوار تھی کسی طرح وہ بزل شیخ کو مارنا چاہتا تھا۔

لیکن ابھی اسے کافی انتظار کرنا تھا۔

کامل کو شوق بھی کاشان کو دیکھ کر چڑھا تھا۔لیکن وہ ڈرتا تھا۔

کامل کی دادی  یعنی گرینڈ ما نے اسے کہا تھا کہ کبھی کاشان کو اکیلا نہیں چھوڑنا۔

یہ گن بابا کی تھی انہوں نے کافی پہلے خریدی تھی۔لیکن چلائی آج میں نے پہلی مرتبہ ہے۔کامل  ڈرتے ہوئے بولا تو کاشان آج کئی سالوں بعد ہنسا تھا۔

اس نے کامل کو گلے سے لگایا تھا۔

ایک آدمی جو کراہ رہا تھا۔کاشان نے اسے گریبان سے پکڑا تھا۔

بزل شیخ کہاں ملے گا؟؟ اور اس پیلس کا مالک کون ہے۔اور سب خفیہ اڈوں کا بتاؤ مجھے۔

کاشان نے اسے کے ماتھے پر گن رکھ دی تھی۔

وہ شخص پہلے ہی درد سے تڑپ رہا تھا۔موت کو سامنے دیکھ کر وہ غداری کربیٹھا تھا۔

بزل شیخ کینڈا ہے۔اور یہ ادریس کمال بادشاہ کا اڈہ ہے۔اصل ڈان ادریس کمال بادشاہ ہے لیکن وہ نام استعمال بزل شیخ کا کرتا ہے۔

کاشان حیران ہی تو رہ گیا تھا۔وہ کیا سمجھا تھا اور یہاں کیا ہوا تھا۔

وہ کہاں ملے گا۔

اس کا کوئی سراغ آج تک کوئی بھی نہیں جان پایا۔ 

ایول کنگ بہت اچھے سے جان جائے گا۔۔کاشان نے اس کی دونوں ٹانگوں پر فائر کردی تھی۔

وہ سارا پیلس گھوم کر جائزہ لیتے رہے۔

انہیں وہاں بہت سے پیپرز بہت سے نئے اڈوں کا پتہ چلا تھا۔

کاشان نے وہاں موجود ایک موبائل سے پولیس کا نمبر ملایا تھا۔

یہ کیا کررہے ہو؟؟ "کامل حیران ہوتے پوچھنے لگا تھا۔

انہیں اس ایریا کی خبر دوں گا۔جہاں منشیات بڑی آرام سے فروخت ہورہی ہے۔

وہ تمہیں بھی پکڑ سکتے ہیں۔

کامل نے پوچھا تھا۔

وہ کاشان ازغن کو پکڑ سکتے ہیں لیکن ایول کنگ کو نہیں ۔۔

تجوری میں پڑے مختلف ماسک جو سکن جیسے ہی تھے۔ان میں سے ایک ماسک اس نے منہ پر لگایا تھا۔

کامل اسے حیرت سے دیکھنے لگا تھا۔

پولیس کو کال کرکے اس نے وہ موبائل سم سب توڑ دیا تھا۔تاکہ وہ وہاں کی لوکیشن نہ جان لے۔اور اگر جان بھی لیتے تو بزل شیخ کی ریاست میں آنے سے پولیس بھی ڈرتی تھی۔

کاشان نے دوسرے موبائل سے بزل شیخ کا نمبر ملایا۔

لیکن کال نہیں اٹھا رہا تھا۔

اسے اب اپنی ٹیم تیار کرنی تھی۔جو اس ریاست کے چپے چپے کو جان جاتی۔

کامل کے چہرے پر بھی ایک ماسک فٹ کرکے وہ وہاں سے نکل کر کلب کی طرف گیا تھا۔

وہ جانتا تھا۔جتنی سمگلنگ جتنے خفیہ کام کلبز بار ریڈ لائٹ ایریا میں ہوتے ہیں کہیں نہیں ہوتے۔

کاشان کے پاس کارڈ تھا۔مزید پیپر بھی آگئے تھے۔

اب اسے ایساجوا کھیلنا تھا۔ جس میں سمجھ بوجھ کی ضرورت تھی۔اس کی ایک غلطی اسے موت کے منہ میں دھکیل سکتی تھی۔

اسے بزل شیخ کا کوڈ ورڈ جاننا تھا۔

جس سے وہ آسانی سے لوگوں کو بیووقوف بناسکتا تھا۔

وہ بزل شیخ کے کمرے کی طرف گیا تھا۔

اس نے ایک ایک چیز چھان ماری تھی۔لیکن اسے کچھ نہیں ملا تھا۔

ایک دم اس کے ذہن میں وہ کارڈ گھوم گیا۔

اس نے کارڈ نکال کر گھورا تھا۔

کارڈ پر بنا گول لوگو وہ کافی دیر دیکھتا رہا۔اور پھر اسے سراغ مل گیا تھا۔

لوگو میں باریک باریک تین ورڈ لکھے تھے ۔

"اے کے بی"ادریس کمال بادشاہ"

بزل شیخ کا نام استعمال کرنے والا آدمی شاطر تو تھا ہی لیکن بے وقوف بھی تھا۔

اور پھر مختلف کلبز مختلف بارز میں جاکر وہ کوڈ ورڈ یوز کرنے لگاتھا۔

بہت سے لوگ بزل شیخ کے غدار بھی تھے جو اسے کافی انفارمیشن دیتے تھے۔

انہیں کے ذریعے اس نے اپنے نام کی دہشت پھیلائی تھی۔قتل کرنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔

اس اندھیر نگری میں وہ مکمل دھنستا چلا گیا تھا۔شراب کو وہ غم کی کیفیت کم کرنے کے لیے پینے لگا تھا۔

پھر جوہی اس کی ذندگی میں آئی تھی۔

وہ اس وقت ایک کلب میں تھا جب جوہی نے اسے جوس دیا تھا۔

وہ کلب میں کام کرتی تھی اور کافی معصوم تھی۔لیکن یہ صرف کاشان کا خیال تھا۔

وہ روز کاشان کے پاس آنے لگی تھی۔اپنی معصومیت سے وہ کاشان کو گھائل کررہی تھی۔اس کی نیلی آنکھیں سفید رنگت متناسب سراپا ایک نشہ طاری کرتا تھا۔

لیکن وہ فاصلے پر ہی رہتا تھا۔

کامل کو جوہی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔

پھر ایک دن جوہی کے ساتھ کچھ لوگوں نے زبردستی کی کوشش کی تھی۔

اس کلب میں کاشان نے خون کی ہولی کھیلی تھی۔

ایول کنگ کو قتل کرتے کئی لوگوں نے دیکھا تھا۔

لیکن سب کی زبان سل گئی تھی۔

اسی دوران بہت سے لوگ اس کی زندگی میں ایول کنگ کے حق میں آئے تھے۔

َبزل شیخ کانام اس نے پولیس میں بھی استعمال کیاتھا۔

وہ بزل شیخ کو پکڑ تو نہیں پایا تھا لیکن اس نے اس کانام بہت خراب کیا تھا۔

لوگ بزل شیخ کو بھول کر اب ایول کنگ کی دہشت سے کانپتے تھے۔

وہ کئی حفیہ خانے کا مالک بن گیا تھا۔

کامل کاشان نے اپنا گھر بیچ کر اور ماموں کی دکان بیچ کر ایک اپارٹمنٹ خریدا تھا۔اس میں اس نے دو خفیہ روم بنوائے تھے۔

جس کے بارے میں کامل اور کاشان ہی جانتے تھے۔

کاشان کا دماغ کافی شاطر تھا وہ چیزوں کو دو طریقوں سے دیکھتا تھا۔

ایک سیدھے رخ سے اور ایک الٹے رخ سے ۔

__________

کاشان بلیک پیلس میں ہر مہینے لڑکوں کی بولی لگائی جاتی ہے۔اور ان سے بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔اور یہ کام کرنے والا اور کوئی نہیں بزل شیخ ہے۔"

وہ کھانا کھارہا تھا جب کامل نے اسے انفارمیشن دی تھی۔

کھانا چھوڑ کر وہ کمرے کی طرف گیا۔کچھ دیر میں وہ گن چاقو جو اس نے خود تیار کروایا تھا۔اور کٹر پاکٹ میں ڈالا تھا۔

جس گن سے اس نے پہلا قتل کیا تھا۔اس پر اس نے ایول کنگ لکھوایا تھا۔

کچھ دیر میں وہ اسی پیلس کے پاس تھے جو شاندار انداز میں کھڑا تھا۔

اپنی بنائی چھوٹی سی ٹیم کے کچھ لوگوں نے پیلس کو گھیر لیا تھا۔

کاشان اندر بزل شیخ بھی ہے۔

کاشان کا خون کھول گیا تھا۔جس کی تلاش میں وہ اتنے سالوں سے گھوم رہا تھا۔آج وہ اسے مار ہی دیتا۔

فائرنگ شروع ہوگئی تھی۔

ہر طرف خون ہی خون تھا۔

کاشان اس سے پہلے اندر جاتا۔ایک ایکس بائیس سال کا لڑکا اسے پاؤں میں گرا تھا۔

وہ بہت پیارا تھا۔لیکن ڈرا اور سہما ہوا تھا۔

کاشان اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔

صاف رنگت گہری نیلی آنکھیں اور معصوم چہرہ۔

سر مجھے بچالیں بابا میرا سودا کردیں گے وہ بہت غلط لوگ ہیں انہوں نے میرے ساتھ بہت غلط کیا تھا۔

وہ روتے روتے کاشان میں چھپنے لگا تھا۔

کاشان اسے لیے وہاں سے نکل آیا۔وہ ناجانے کیوں اسے انکار نہیں کرپایا تھا۔

بزل شیخ ایک بار پھر بچ گیا تھا۔اور جب بزل شیخ بچ گیا تو ادریس کمال بادشاہ بھی سلامت تھا۔

تمہارا نام کیا ہے۔

احکام کمال بادشاہ۔۔۔

وہ سہمے ہوئے بولا تھا۔

کاشان کی آنکھیں پھیل گئی۔کوئی آدمی اپنے سگے بیٹے کے ساتھ کیسے کرسکتا ہے۔

لیکن وہ ابھی آدھا سچ جانتا تھا۔

تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟"کاشان اسے گھر لے آیا تھا۔

احکام نے ڈرتے ڈرتے اسے باپ کا نام بتایا تھا۔

ادریس کا نام سن کر کاشان کا خون کھول گیا تھا۔۔کوئی اپنی سگی اولاد سے غلط کام اور اسے کیوں بیچے گا۔کیا وہ اتنا ظالم انسان تھا۔

کاشان نے اس سے کچھ نہیں پوچھا تھا۔

وہ اسے ادریس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا۔لیکن اس کی معصوم شکل دیکھ کر اسے اپنے گینگ کا حصہ بناکر احکام کو طاقتور غصیلا اور نڈر بنایا تھا۔

_________

زارا کا ہاتھ اب بھی کاشان کے ہاتھ میں تھا۔

اس کی آنکھوں سے بہتی نمی کو اس نے اپنے ہاتھوں سے صاف کیا تھا۔

کاشان آپ کو چھوڑنے کا میں سوچ  بھی نہیں سکتی۔آپ نے اگر برے کام کیے ہیں تو کئی کام اچھے بھی کیے ہیں۔۔میں اللہ سے دعا کروں گی وہ آپ کو معاف کردیں۔بلکہ ہم دونوں معافی مانگیں گے۔

اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتی وہ نرمی سے بولنے لگی تو ٹوٹا بکھرا کاشان اس کے گلے سے لگا تھا۔

مجھ سے کبھی دور نہ جانا۔میں نے بہت سالوں بعد تمہیں پاکر خوشی کو محسوس کیا ہے۔تم اگرمجھے چھوڑ گئی تو میں جیتے جی مرجاؤں گا۔"

وہ اس پر گرفت مضبوط کرتے سسکنے لگا تھا۔

"کبھی نہیں جاؤں گی آپ بھیجے گے تب بھی نہیں جاؤں گی"۔

وہ اس کے گرد بازو حائل کرتے دکھ سے بولی تھی۔

کاشان کافی دیر اس کے گلے لگا رہا تھا۔اس کی نرمی میں ڈھلی حسین قربت اسے بہکانے لگی تھی۔

زارا نے اسے سامنے کیا تو اس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھی۔

کاشان آپ نے جوہی کا نہیں بتایا وہ آپ کو کیوں چھوڑ کر گئی تھی۔

"میں جانتا تھا تم یہ سوال ضرور پوچھو گی۔لیکن ابھی اس کا ذکر کرکے میں موڈ خراب نہیں کرنا چاہتا ابھی میں اپنی سویٹ کیوٹ انوسینٹ حلال کی بیوی کے ساتھ وقت گزارانا چاہتا ہوں"۔

اس کی ننھی سی ناک مرؤڑتا وہ ڈرائیونگ سٹارٹ کرنے لگا تھا۔

زارا کا منہ پھول گیا تھا۔

کاشان اسے دیکھتا ہنسنے لگا تو اس نے مضبوط بازو پرایک چٹکی کاٹ کر اس  کی بازو پر سر رکھ دیا تھا۔

________________

سارا اپنے سامنے زارا کو دیکھتی نم آنکھوں سے مسکرانے لگی تھی۔

اجیہ بیگم ان دونوں کو ملتا دیکھ کر مشکل سے ہی برداشت کرپائی تھیں۔

کاشان ایک شان سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا۔

ساسو ماں۔۔۔سنا ہے آج کل آپ کا دھندا بڑا سست چل رہا ہے۔اجیہ کو دیکھ کر وہ سرد آنکھوں سے بولا تو ان کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔

زارا نے بھی آنکھیں پھیلائے کاشان کو دیکھا جو ناجانے کیا کہہ رہا تھا۔

اجیہ بیگم جو زارا کا پیارا سا حلیہ ہی برداشت نہیں کرپائی تھیں۔اب کاشان کے اگلے دھماکے پر ان کا رنگ اڑ گیا تھا۔

وہ آپ کا بھتیجا بھی ہاتھ پر گولی کھاکر سکون میں ہوگا۔

زارا کے لیے تو آج جھٹکوں کا دن تھا۔

ایول کنگ کی دہشت سے بچنا پھر آسان تو نہیں ہے۔اس نے وہ گن سامنے رکھی تھی جو آج آتے وقت لایا تھا۔

اجیہ کی سانسیں جیسے تنگ ہونے لگی۔ایول کنگ کے نام سے ہی ان کی جان خشک ہوگئی تھی۔

سارا بھی اب ماں کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

کاشان آپ کیا کہہ رہے ہیں اور ماما کو کیوں گن سے ڈرا رہے ہیں۔زارا ماں کی حالت دیکھ کر پوچھنے لگی تو کاشان نے نرم آنکھوں سے زارا کو دیکھا۔اسے ٹوٹ کر پیار آیا تھا زارا پر جو اس دنیا کی لڑکیوں سے کئی زیادہ معصوم تھی۔

ٹینشن نہ لو زارا تمہاری ماں روز اس گن سے کئی لوگوں کو مارتی ہے وہ گولی سے بالکل بھی نہیں ڈرتی۔کیوں سارا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔"

اس نے سارا کو دیکھا تو وہ طنزیہ مسکرادی تھی۔

اجیہ بیگم کا خون کھولنے لگا تھا۔زارا ناسمجھی سے کاشان کو دیکھنے لگی ۔

سارا بے فکر ہوکر یہاں رہو۔اب تمہارا بڑا بھائی ہے تمہاری حفاظت کے لیے کسی سے نہیں گھبرانا میرا نمبر تمہارے پاس محفوظ ہے۔

سارا کے سر پر ہاتھ رکھ کر وہ زارا کو بازو سے تھامتا وہاں سے نکل گیا تھا۔

__________

کاشان ماما کو کیوں تنگ کررہے تھے۔

زارا کی خفگی بھری آواز پر کاشان نے اس کا ہاتھ لبوں سے لگایا۔

میری جان تمہاری ماں نے تمہیں اتنا تنگ کیا تھا۔کیا میں اب بدلہ بھی نہ لیتا۔

زارا نے غصے سے اسے دیکھا۔جو اب مسکرا رہا تھا۔

زارا سے سخت غصے میں بات کرنا جیسے اسے گناہ جیسا لگنے لگا تھا۔

وہ میری ماما ہیں۔بے شک انہوں نے میرے ساتھ برا کیا پھر بھی مجھے عزیز ہیں۔

تو تم کرو ان کی عزت۔۔میں کیوں کروں۔مجھے وہ ایک آنکھ نہیں بھاتی جس نے میری زارا کو تکلیف دی تھی۔

اس کا میری زارا کہنا زارا کو حدرجہ اچھا لگا تھا۔

وہ آپ کی جوہی بھی مجھے بہت تکلیف دے رہی ہے کل سے۔۔" وہ منہ بناتے بولی۔

کیا کیا ہے اس نے؟؟ میں نے منع کیا تھا اسے پاس نہیں جانا پھر تم کیوں گئی۔

وہ گاڑی روک کر اس کے چہرہ دیکھنے لگا تو زارا بوکھلا گئی تھی۔

کچھ نہیں کیا ضروری نہیں وہ مجھے کچھ کرے گی تو بری لگے گی بس آپ اسے جلدی گھر سے نکالیں۔وہ منہ بناکر بولی تو کاشان مسکرادیا۔

بہت جلد جائے گی تم بس پریشان مت ہوا کرو۔۔

اس کا ہاتھ تھپک کر اس نے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

__________

احکام علایہ واپس آگئے تھے۔

وہ جوہی کو دیکھ کر حیران ہونے لگے۔لیکن کاشان کی وجہ سے خاموش رہے تھے۔

کامل ان سے اچھے سے ملا تھا۔

علایہ وارڈروب میں کپڑے سیٹ کرنے لگی تو احکام بیڈ پر لیٹ گیا تھا۔

علایہ دو دن سے نوٹ کررہی تھی وہ کہیں کھویا ہوا ہے۔

وہ اسے چہرہ دیکھتی رہی۔

اس کی نیلی گہری سی آنکھیں علایہ کو بہت خوبصورت لگتی تھی۔گھنے براؤن بال جو پہلے سے بڑھ گئے تھے ماتھے پر بکھرے تھے 

وہ چیزیں رکھ کر احکام کے پاس آئی۔

اس کے بال ہٹا کر وہ سر دبانے لگی تو احکام مسکرانے لگا۔

تمہیں کیسے پتہ چلا میرے سر میں درد ہے۔

وہ اس کا دوسرا ہاتھ تھام کر پوچھنے لگا تو علایہ مسکرادی۔

کیونکہ مجھے اپنے معصوم اچھے شریف شوہر( جو کہ وہ نہیں) سے بہت محبت ہوگئی ہے اب مین بنا کہے اس کی پریشانی جان لیتی ہوں۔

احکام نے اس کا ہاتھ لبوں سے لگالیا۔

تم سچ میں مجھ سے محبت کرتی ہو۔وہ آنکھیں موند کر پوچھنے لگا۔

علایہ نے اس کے ماتھے پر گلابی لب رکھ کر جیسے جواب دے دیا تھا۔

میں منہ سے بھی اظہار چاہتا ہوں وہ غنودگی میں بولا تھا۔

ابھی کیا تو ہے۔" وہ چڑ کر بولی۔

مجھے لمبا والا اظہار چاہیے۔وہ شرارت پن سے کہنے لگا ۔آنکھیں اب بھی بند تھیں۔

علایہ سمجھ رہی تھی وہ بہت پریشان ہے کچھ تو ایسا ہوا جو وہ بتانا نہیں چاہتا۔کیونکہ اگلے دن بھی ایک آدمی احکام سے ملنے آیا تھا جس سے مل کر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا اس نے علایہ کی بات پر بھی صحیح جواب نہیں دیا تھا۔

میں احکام سے بہت محبت کرتی ہوں ۔جیسے احکام کو اپنی بلا سے محبت ہے۔اس سے زیادہ مجھے اس سے محبت ہے۔وہ اچھا برا جیسا بھی ہے صرف میرا ہے۔اسے کوئی تکلیف آئےگی تو علایہ بھی مرجائے گی۔

احکام نے اس کا ہاتھ زور سے دبایا۔۔جس سے اس کی کراہ نکلی تھی۔۔

اس کا ہاتھ سینے پر رکھتا وہ گہری نیند میں چلا گیا تھا علایہ اب بھی ایک ہاتھ سے اس کا سردبا رہی تھی۔

__________

وہ گھر میں داخل ہوئے تو رات ہوچکی تھی۔

اپنے کمرے کی  طرف بڑھتے زارا اور کاشان رک گئے تھے۔

سامنے جوہی لونگ ڈیپ گلے والی زارا کی نیو میکسی پہنے تیار کھڑی تھی۔جس کے اوپر چھوٹا سا جالی دار اپر تھا۔

یہ میکسی کاشان کل ہی لایا تھا لیکن وہ ابھی زارا کو دے نہیں پایا تھا۔

زارا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ۔اس نے وہ پیکٹ دیکھ لیا تھا پر کاشان سے نہیں پوچھا تھا۔

زارا کا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔جبکہ کاشان کی آنکھوں سے شرارے نکلنے لگے۔

جوہی معصوم چہرہ بنائے کھڑی تھی جیسے اس کے پاس کپڑے ہی نہ ہو۔

تم نے میرا ڈریس کیوں پہنا؟؟ زارا آج پہلی بار چیخی تھی۔

میرے پاس کپڑے نہیں تھے مجھے کچھ اور مل نہیں   رہا تھا اس لیے میں نے یہ پہن لیا۔

جوہی کے چہرے پر زرا سی بھی شرمندگی نہیں تھی۔۔

زارا نے کاشان کو دیکھا جو سرخ چہرے سے جوہی کو گھور رہا تھا۔

یہ کاشان میرے لیے لائے تھے تم نے کیوں پہنا کچھ اور پہن لیتی۔وہ آگے بڑھتی اپر کو کھینچنے لگی تھی۔

انہوں نے ابھی مجھے دیا بھی نہین تھا اور تم نے یہ پہن لیا۔کیسے ہمت ہوئی تمہاری۔

جوہی اس کے شدید ری ایکشن پر سہم کر کاشان کو دیکھنے لگی جو زارا کو شیرنی بنے دیکھ کر مسکرارہا تھا۔

اتارو ابھی کے ابھی اتارو۔۔۔وہ ڈریس کھینچنے لگی تو آستین ایک جھٹکے میں پھٹ گئی۔

آیییی۔۔۔۔"

کتنی بدتمیز ہو تم۔۔پہلے میرے گھر رہنے آگئی۔اب میرا ڈریس پہن لیا۔میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔۔وہ مارنے کو دوڑی تو کاشان نے اسے باذوں میں جکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔

سٹاپ زارا۔میں بات کرتا ہوں غصہ مت ہو۔۔وہ نرمی سے بولتا سر چوم گیا تھا ۔جو اب رونے والی ہوچکی تھی۔

چھوڑیں کاشان آپ کی وجہ سے سب ہوا۔چھوڑیں آپ رہیں اپنی جوہی بےبی کے ساتھ اس کے ہاتھوں پر ناخن مارتی وہ گرفت سے آزادی لیتی جوہی کو دھکا دیے کمرے میں بند ہوگئی تھی۔

اس کا شدید ری ایکشن کاشان سے ہضم کرنا مشکل تھا۔

وہ تو اب بھی سمجھ نہیں پارہا تھا یہ وہی معصوم سی زارا ہے جو جلدی سے سہم جاتی تھی۔

جوہی کسی کی پرائیوسی میں دخل دینا اچھا نہیں ہوتا وہ میری بیوی ہے۔تم نے اس کی وارڈروب کیوں کھولی۔اور اگر تمہیں کچھ چاہیے تھا تو مجھے کہتی۔میں لادیتا۔ایٹ لیسٹ زارا کے کپڑے تو نہ پہنتی۔

کاشان کے یہ پیک ڈریس تھا میں نے اس لیے پہنا تھا کیونکہ مجھے اترن پہننے کی عادت نہیں ہے۔اور یہ تم بھی جانتے ہو۔

کاشان نے گھور کر اسے دیکھا۔

میں کچھ ڈریس منگواتا ہوں یہ چینج کرلو پھٹ گیا ہے۔

وہ اسے کہتا کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

دروازہ کھولنے کے لیے اس نے ہاتھ بڑھایا تو اندر سے لاک تھا۔

اس نے جھینپ کر ماتھا مسلا۔

جوہی نے بھی طنزیہ مسکان سے اسے دیکھا تھا۔

ان دونوں کے درمیان وہ پہلی لڑائی آرام سے کرواگئی تھی۔۔

_____________

اندر غصے سے وہ وارڈروب کھولے دیکھ رہی تھی جہاں جوہی نے سارے کپڑوں کی حالت بگاڑ دی تھی۔

وہ پیکٹ تو کاشان والی سائیڈ پر تھا۔پھر اس نے کیسے وہ کھول لیا۔اسے حیرت بھی ہورہی تھی۔

اسے رہ رہ کر افسوس کے ساتھ غصہ آنے لگا تھا۔دل تو چاہا اس جوہی کے سنہری گندے سے بال کھینچ دے۔۔جس نے اس کا ڈریس تو پہنا ہی تھا الٹا پھاڑ بھی دیا تھا۔

رو رو کر اس کی ناک سرخ ہوگئی تھی۔

کاشان کی دروازے پر آواز سنتی وہ بہری بن گئی۔

کچھ دیر وہ روتی رہی تھی۔وہ اپنی کیفیت بھی نہیں سمجھ پارہی تھی۔وہ کونسا کاشان سے اتنی محبت کرتی تھی۔۔

نہیں ہو محبت ہی تو کرنے لگ گئی تھی۔آج اسے احساس ہورہا تھا وہ اس سے بہت زیادہ محبت کرنے لگ گئی۔کاشان کے لیے وہ پوزیسسو ہوگئی تھی۔

کمرے کی ونڈو پر شور سنتی وہ چونکی تو حیران رہ گئی۔

کاشان معصوم سا منہ بنائے لانڈری والے رستے سے ونڈو کی دوسری طرف کھڑا تھا۔

زارا کو حیرت بھی ہوئی تھی وہ لانڈری میں دو بار گئی تھی لیکن اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ وہاں ونڈو بھی جہاں سے اس کا کمرہ نظر آتا ہے۔

لانڈری کے آدھے حصے پر لاک لگا ہوا تھا۔تبھی وہ نہیں سمجھ پائی تھی اور ویسے بھی یہ گھر اسے بھول بھلیا ہی لگنے لگا تھا۔

کہنے کو اپارٹمنٹ تھا لیکن چار کمروں اور چھوٹے سے گیسٹ روم میں سے بھی ناجانے کتنے راستے بنے ہوئے تھے۔

کاشان مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔۔وہ منہ پھولائے بولی تو وہ نہ چاہ کر بھی سیریس ہونے لگا

"زارا دروازہ کھولو۔"

وہ سختی سے بولا تو سبز نگینوں میں پانی بھر کروہ کاشان کو دیکھنے لگی۔

اوکے میں غصہ نہیں کررہا اگر تم دروازہ نہیں کھولو گی تو مجھے پھر  گیسٹ روم میں سونا پڑے گا۔اور وہاں تو  جوہی رہتی ہے۔

زارا کا خون کھول اٹھا تھا۔اس نے لیمپ اٹھا کر زور سے زمین پر پھینکا تو قیمتی لیمپ کا نازک حصہ ٹکروں میں بٹ گیا۔

زارا سٹاپ دس نان سینس۔۔۔مجھے غصہ کرنے پر مجبور نہ کرو۔تمہیں لگ جائے گا۔ایک ڈریس ہی تو تھا میں نے تمہیں ابھی دیا نہیں تھا۔

وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ وہ غصہ کیوں کررہی ہے؟؟

کاشان آپ مجھ پر غصہ کررہے ہیں۔

وہ روتے روتے چیخی تو کاشان اسے نرمی سے سمجھانے لگا۔

دیکھو کچھ نہیں ہوتا۔ڈریس ہی تو تھا۔میں تم پر غصہ کبھی نہیں کرسکتا۔

وہ تھا تو میرا ناں۔جیسے آپ صرف میرے ہیں۔جوہی آپ کی کچھ نہیں لگتی آج کے بعد وہ میرے کمرے میں آئی تو میں اس کا گلا دبادوں گی۔

آپ پر میرے علاوہ کسی کا کوئی حق نہیں ہے۔

نازک سی جان تھی لیکن باتیں بڑی بڑی کررہی تھی۔

لیکن اس کا میرا کہنا کاشان کے دل پرٹھنڈی پھورا ڈال گیا تھا۔

اچھا دروازہ کھولو میں اسے سمجھاتا ہوں۔اور اگر تم دروازہ نہیں کھولو گی تو میں جوہی والے روم میں چلا جاؤں گا۔

کاشان۔۔۔۔۔"""" وہ چیخ کر دروازہ کھولنے لگی تو وہ اپنے قہقے کا گلا گھونٹتا تیزی سے لانڈری سے باہر نکل آیا تھا۔

اندر آتے ہی اس نے زارا کو سینےسے لگایا اور اس کا سرتھپنکے لگا تھا۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی تھی۔سینے پر اپنے نازک ہاتھوں کے مکے مارنے لگی تھی۔

دنیا میری دہشت سے کانپتی ہے اور یہاں میں اپنی بیوی کی دھمکیوں سے کانپ کر رہ گیا ہوں۔

اس کا سر چومتا وہ تاسف سے کہنے لگا تو زارا نے ایک اور تھپڑ اسے مارا تھا۔

آپ کو مجھ سے ہی ڈرنا چاہیے۔۔

تم پر ایسے لاکھ ڈریس قربان میری جان۔۔لایا میں سپیشل مومنٹ کے لیے تھا لیکن خیر کیا کرسکتے ہیں۔شکر کرو تمہاری نازک جان بچ گئی۔

بےباکی سے سرگوشی کرتا وہ اس کا چہرہ لال سرخ کرگیا تھا۔

اس کے سینے میں چھپتی وہ شرم سے دوہری ہوئی تھی۔

________________

رات جوہی ان کی لڑائی دیکھ کر مزے سے سوئی تھی۔

صبح ان کو اکٹھے ناشتہ کرتے دیکھ کر سلگ کر رہ گئی تھی۔

کاشان ہمیشہ کی طرح اسے اپنے ہاتھ سے ناشتہ کروا رہا تھا۔

بلیو لونگ فراک میں وہ کمر پر بال پھیلائے کافی پیاری لگ رہی تھی۔

زارا نے غصیلی نگاہ سے جوہی کو دیکھا اور پھر کاشان کے ہاتھ سے ایک اور بائٹ کھایا۔

احکام بخار کی وجہ سے باہر نہیں آیا تھا۔اورکامل کہیں گیا ہوا تھا۔

زارا روم میں جاؤ میں احکام سے مل کر آتا ہوں۔نرمی سے اس کا گال تھپتپا کر وہ احکام کے کمرے کی طرف جانے لگا۔

وہ تب تک وہاں رہی تھی جب تک کاشان کمرے میں نہیں چلا گیا تھا۔

علایہ احکام کے پاس ہی بیٹھی تھی۔اس کی سفید رنگت بخار سے سرخ تھی۔

گہری نیلی آنکھیں بند تھی۔

علایہ فکر سے رونے والی ہورہی تھی۔

علایہ جاؤ زارا تمہیں بلارہی تھی۔ علایہ کو کہتا وہ احکام کو دیکھنے لگا۔جو اب بمشکل اٹھ رہا تھا۔کاشان نے اسے لیٹے رہنے کا اشارہ دیا تھا۔

میں سمجھتا تھا تم مجھے سچائی بتادو گے۔لیکن تم شاید مجھے اپنا نہیں سمجھتے۔خیر میں کیا شکوہ کروں۔

احکام سر جھکانے لگا۔

تم ایک گنگسٹر ہو اور گینگسٹر کسی سے نہیں ڈرتے۔تم اپنے خوف پر قابو پانا سیکھ گئے تھے پھر اب کیوں اتنا گھبرا رہے ہو۔؟

کاشان کی باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

اگر تم نہیں چاہتے کہ میں علایہ کو تم سے دور کروں اور تمہیں سزا کے طور پر ایک مہینہ کلب بھیج دوں تو کل صبح مجھے تم۔فریش ناشتے کی ٹیبل پر نظر آؤ۔۔۔

وہ مڑ کر باہر جانے لگا۔جب احکام اٹھ کر بیٹھا۔

سر پلیز علایہ کو مجھ سے دور مت کریں۔ میں اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتا۔

اس کی بے تابی پر کاشان کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔

سد شکر تھا وہ مڑا ہوا تھا۔ورنہ احکام اس کا مصنوعی انداز سمجھ جاتا۔

یہ تمہارے پر ڈیپینڈ کرتا ہے تم اگر اس کو قریب رکھنا چاہتے ہو تو ہمت کرو دشمنوں کا مقابلہ کرو۔پھر ہی کچھ بات بنے گی۔

اپنی بات کہہ کر وہ لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا تھا۔

جب کے وہ بے بسی سے بیٹھا رہ گیا تھا۔

____________

کامل کی کال پر وہ سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا۔کیسے ہوا یہ؟؟ وہ ٹھیک ہے؟ 

کاشان کو پریشان دیکھتی زارا بھی سہمی تھی۔

وہ وارڈروب سے اپنا کوٹ پہننے لگا تو زارا اس کے قریب آئی تھی۔

کاشان سب ٹھیک ہے میرا دل گھبرارہا ہے۔مجھے بتائیں سارا۔۔۔"

کاشان نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرا۔۔

سارا کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے۔تم گھبرانا نہیں وہ ٹھیک ہوجائے گی بس تم رونا مت۔۔۔اس کے سبز نگینوں پر لب رکھ کر وہ اس کی جان نکال گیا تھا۔

زارا پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔کاشان مجھے اس کے پاس جانا ہے۔پلیز آپ مجھے لے جائیں۔وہ ہاتھ ہٹا کر بولی تو کاشان نے اسے سینے سے لگایا۔

میں ابھی نہیں لے جاسکتا۔یہ دشمن کی کوئی چال ہے پہلے میں خود سراغ لگالوں پھر لے جاؤں گا۔یہ موبائل رکھو۔میں اسی نمبر پر کال کروں گا۔

علایہ کو کہتا ہوں وہ تمہیں کھانا کھلادے گی۔

اس کی نرم پیشانی چوم کر وہ ماسک لگاتا گھر سے نکلا تھا۔جوہی نے اسے نکلتے دیکھا تو شاطر طریقے سے مسکرانے لگی تھی۔

_____________

سارہ کو آئی سی یو میں لے جایا گیا تھا۔اس کے ماتھے پر شدید چوٹ آئی تھی۔

اجیہ بیگم بھی پاس ہی پریشان کھڑی تھیں۔

کاشان ماسک ہڈی پہنے آگیا تھا۔

اجیہ بیگم نے جب اس کو دیکھا تو خوف سے اچھل گئی تھیں۔

کیا ہوا ہے سارا کو وہ تو گھر میں تھی۔پھر کیسے ایکسڈنٹ ہوسکتا ہے۔

وہ آتے ہی دھاڑا تھا۔

کامل جو دیوار کی اوٹ میں کھڑا سرخ آنکھوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔

چہرے پر ہاسپٹل ماسک لگاتا آگے آیا۔

بولو کیا کیا ہے تم نے سارا کے ساتھ؟؟؟

وہ ۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔غنی نے اسے بری طرح مارا ہے۔۔۔میں اسے روکتی رہی۔۔۔ لیکن اس نے بہت برے طریقے سے مارا تھا۔ یہ میرے ماتھے پر بھی۔۔ان کے ماتھے پر چوٹ کا نشان دیکھ کر کاشان پریشان ہوا تھا۔

اسے خطرے کا احساس ہوا تھا۔

سائیڈ پر جا کر اس نے گھر کا نمبر ڈائل کیا۔

احکام جو پوری طرح اٹھا نہیں تھا۔کاشان کی کال دیکھ کر حیران ہوا۔

اس نے فوراً کال پک کی تھی۔

احکام زارا کو دیکھو۔فوراً جاؤ۔۔۔وہ جوہی نے ۔۔۔خوف سے اس کی آواز رک رہی تھی۔

ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا۔احکام تیزی سے باہر بھاگا۔

زارا کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔سارا سامان بکھرا پڑا تھا۔

جوہی بھی اپنے کمرے میں نہیں تھی۔

علایہ فریش ہوکر واش روم سے نکلی تو احکام کو نہ دیکھ کر باہر آئی۔

زارا میم۔۔۔۔احکام چلارہا تھا۔

کیا ہوا احکام ؟؟ علایہ گھبرا گئی تھی۔

وہ جوہی زارا میم کو لے گئی ہیں۔وہ بخار سے نڈھال تھا لیکن اسے زارا کی فکر تھی۔

وہ گرینڈ ما کے کمرے کی طرف بھاگا۔گرینڈ ما دوائی کھا کر سورہی تھیں۔

جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا۔جوہی نے چالاکی سے زارا کو کڈنیپ کرلیا تھا۔

 _________

سارا کی حالت کافی کریٹکل تھی۔اس کے سر پر بھاری پتھر مارا گیا تھا۔

خون بہنے کی وجہ سے وہ ہوش میں نہیں آرہی تھی۔

کامل کو وہی چھوڑتا وہ باہر بھاگا۔

کسی بھی طرح اسے دبئی واپس جانا تھا۔

جوہی آئی ول کل یو۔۔۔" وہ سٹیرینگ پر دونوں ہاتھ مار کر دھاڑ اٹھا تھا۔

فون پر ہوتی بیل نے اس کی توجہ کھینچ لی۔

اس نے فوراً کال اٹھالی تھی۔

اس دن تو میں نے چھوٹا سا مذاق کیا تھا۔لیکن آج تمہاری بیوی کو قریب سے دیکھا تو میں سراہے بنا رہ نہین پایا۔۔یہ بہت ہی زیادہ خوبصورت ہے۔

جوہی ویلڈن۔۔۔کاشان کا خون کھول اٹھا تھا۔

میری بیوی کو ایک کھرونچ بھی آئی تو تیری لاش بھی نہیں ملے گی دفنانے کےلیے

ادریس کمال بادشاہ۔۔۔۔"

اپنا نام سن کر ادریس گھبرا گیا تھا۔وہ یہ سچ کیسے جانتا تھا۔

تم مجھے بیوقوف سمجھتے تھے لیکن اصل میں تم بیووقوف تھے۔بزل شیخ کا نام استعمال کرنے والا بزدل آدمی۔۔۔۔"

اور وہ غنی۔۔نام چور۔۔۔اس کا جو ایک ہاتھ سلامت تھا وہ بھی نہیں بچے گا۔۔۔

بکواس بند کرو اگر اپنی بیوی بچانا چاہتے ہو۔جتنے میرے اڈوں پر قبضہ کیا ہے جتنا میرا مال ہتھیایا ہے سب واپس کرو۔

وہ سب جس کا تھا ان کو مل گیا۔تمہارے لیے قبر کی جگہ خالی کروادیتا ہوں۔اس میں تمہارے ٹکرے دفنا دوں گا۔

ادریس کمال قہقہ لگانے لگا تھا۔

پہلے اپنی بیوی کو تو بچالے۔ رک میں تجھے ابھی لائیو دکھاتا ہوں ایول کنگ۔۔ کاشان ازغن۔۔۔۔۔"""

کاشان نے سختی سے آنکھیں بند کرلی تھیں۔

اس کا سکون اس کی زندگی تکلیف میں تھی۔اوروہ بےبسی سے کچھ کر نہیں پایا تھا۔

کاشان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھادی تھی۔ 

کاشان کے موبائل پر ویڈیو آئی تو اس کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا تھا۔

اس نے کال پک کرلی تھی۔

سامنے ہی زارا بے ہوش پڑی تھی۔اور ادریس ماسک لگاکر اس پر جھکا ہوا تھا۔

دیکھو ہم دونوں کتنے پاس پاس ہیں۔

وہ اسے تکلیف دینے کے لیے پاس ہوا تو کاشان کو لگا وہ آخری سانس لے رہا ہے۔ اس نے فوراً کال کاٹی تھی۔

ادریس کال کٹ دیکھ کر سخت بدمزہ ہوا تھا۔

اس نے جوہی کو دیکھا جو سہم کر ادریس کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔

کاشان نے زارا کے کان کے پیچھے لگی چپ سے لوکیشن چیک کی تھی۔

یہ چیپ وہ اگلے دن ہی لگاچکا تھا۔جب زارا مال سے غائب ہوئی تھی۔

اس کی حیرت کی انتہا نہین رہی تھی کیونکہ وہ اس کے گھر کے قریب ایک چھوٹے سے کیفے میں بند تھی۔

جو بیچ سے بھی تھوڑے فاصلے پر تھا۔

مطلب اس نے اس کی جگہ ہی استعمال کی تھی۔

اسے وہ اذیت یاد آنے لگی تھی۔جب اس کی ماں بہنیں تکلیف میں تھی۔

دس منٹ کا سفر رہ گیا تھا۔اور دس منٹ میں کچھ بھی ہوسکتا تھا۔

پانچ سات منٹ میں وہ وہاں پہنچا۔۔چہرے پر ماسک اب بھی تھا۔

وہ کیفے کو دیکھتا حیران تھا۔

_______

تمہیں  ذلیل کرکے تمہاری تصویریں تمہارےاس شوہر کو بھیجوں گا۔پھر اسے اندازہ ہوگا کہ کسی کی ریاست چھیننا کیسا ہوتا ہے.

اس کے بال جکڑ کر اس نے منہ پر تھپڑ مارے تو زارا درد سے روتی بے ہوش ہونے لگی تھی۔

اس نے اپنے ہاتھ استعمال کرکے اسے مارنا چاہا تھا۔لیکن بے دردانہ سلوک کرتے وہ زارا کی حالت بگاڑ چکا تھا۔

اس سے پہلے وہ مزید جھکتا باہر سے شور سن کر وہ چونکا تو جوہی بھی الرٹ ہوئی۔

ٓ__________

پاس کھڑے لوگوں نے اس کو دیکھا تو گھبرانے لگے۔وہ سمجھ گیا تھا وہ بالکل صحیح جگہ پر ہے۔

وہ اس پر وار کرنے کے لیے بڑھے تھے۔جب اس نے ایک دم پشت سے گن نکال کر گولیاں چلائی تھیں۔

خود وہ ایک طرف ہوگیا تھا۔

وہاں بھگدڑ مچ گئی تھی۔

لوگوں کے بیچ سے بچتا بچاتا وہ کیفے کے اندر داخل ہوکر کچن کی طرف بڑھنے لگا۔کچن کے پیچھے ہی چھوٹی سی گلی تھی۔

جو دوسرے راستے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

کاشان کے اتنی جلدی پہنچ جانے پر اس نے زور سے زارا کو نیچے پھینکا۔

جوہی بوکھلا گئی تھی۔اور بزل شیخ جو ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ادریس کمال کو بھاگتا دیکھ کر سمجھ ہی نہیں پایا تھا۔

وہ پچھلے راستے سے نکل گیا تھا۔

کاشان اندر آیا تو جوہی کو دیکھ کر زارا کو دیکھنے لگا جو زمین پر گری تھی ماتھے سے خون  نکل رہا تھا۔

اس نے تیزی سے بزل شیخ کی ٹانگ پر فائز کیا۔اور زارا کی طرف بھاگا۔

سرخ ہوتی آنکھیں لٹا پٹا حلیہ دیکھ کر کاشان کا دل لہو ہوا تھا۔

اس کا سکون اس کے جینے کی وجہ زمین پر خون سے لت پت تھی۔

وہ زمین پر گرنے سے کے انداز میں بیٹھ گیا تھا۔

زمین پر ارد گرد اسکاخون گرا ہوا تھا۔ماتھے اور پچھلی طرف زخم آیا تھا۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے زارا کو بانہوں میں بھرلیا۔

جوہی کو اس نے خون آلود آنکھوں سے دیکھا اور بزل شیخ کی ٹانگوں پر دو فائز اور کیے وہ وہی زمین پر گرگیا تھا۔

جوہی خوف سے سفید پڑی تھی۔

زارامیری جان میرے سکون۔۔۔"آنکھیں کھولو۔دیکھو میں آگیا ہوں۔۔ادھر دیکھو مجھ سے لڑو زارا۔۔۔

وہ اس کا چہرہ پکڑے چیخ رہا تھا۔

جوہی کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔وہ جانتی تھی وہ گناہ کر بیٹھی ہے۔

___________

دو دن گزر چکے تھے۔زارا کو ہوش آگیا تھا۔اس کے پچھلے حصے پر زیادہ گہرا زخم آیا تھا۔

کاشان اس کا بہت خیال رکھ رہا تھا۔ادریس کو ڈھونڈنے کی اس کی کوششیں اور زیادہ ہوگئی تھیں۔

وہ زارا کے پاس آیا تو اس نے انجان نظروں سے اسے دیکھا۔

اس کا دل کٹ کررہ گیا لیکن وہ آنکھیں جھپک کر آگے آیا اوربکے اس کے پاس رکھ دیا۔

اسے سینے سے لگا کر پشت تھپکنے لگا تھا۔

آج تم ڈسچارج ہوجاؤ گی۔پھر ہم گھر چلیں گے میں تمہارے لیے پہلے سے زیادہ پیاری میکسی لایا ہوں۔"

"مگر میں اب نہیں پہنوں گی کیونکہ میں اب اچھی نہیں رہی۔" وہ فوراً بولی تو اس اونچے لمبے مرد کی آنکھیں بھیگ گئی۔

زارا۔۔۔۔تم میرا سکون ہو۔تو کیوں میرا سکون برباد کررہی ہو ایسی باتیں کرکے۔۔"

وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر پوچھنے لگا۔تو وہ اب بھی سفید آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

کاشان کو وہ وقت یاد آیا تھا جب وہ ماموں کے گلے لگا تھا۔اور اس کے پاس رونے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ اس نے سب کھودیا تھا۔

ڈاکٹر کے مطابق ادریس نے جو زبردستی میں اسے چھوا تھا وہ بے ہوش ہونے سے پہلے اس کے دماغ سے چپک چکا تھا۔

وہ نیم پاگل سی ان لمحوں میں چلی گئی تھی۔

کاشان کا دل دھاڑیں مار مار کر رونے کو کررہا تھا۔

ادریس کمال کو  بھیانک موت وہ اب جلد ہی دینے والا تھا۔

اس نے تمہارے ساتھ کچھ نہیں کیا۔میں ہوں سب کچھ تمہارا جب میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا تو تم کیوں سرپر سوارکررہی ہو۔

اس کے گال چھو کر پوچھ رہا تھا۔زارا نے دور دھکا دیا تو وہ بیڈ کے کنارے پربیٹھا تھا لڑکھڑا کر نیچے گرتا سنبھلا تھا۔

یہ دیکھیں۔۔یہ بھی دیکھیں۔۔اپنی خراشوں والی بازو اورچہرہ دکھاتی وہ چیزیں نوچنے لگی تھی۔۔ڈرپ کھینچ کراتار دی تھی۔

سب میرے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں پہلے غنی پھر آپ نے اوراب اس نے۔۔۔کیوں کیا سب نے میرے ساتھ برا۔۔

وہ تکیہ پھینکتی چیخی تھی۔کاشان نے آگے بڑھ کراسے پناہوں میں لے لیا تھا۔

کچھ نہیں کیا تم کیوں ایسا سوچ رہی ہو۔میں ہوں ناں ۔۔۔میں تمہارے سامنے اسے ماروں گا کتے کی موت دوں گا اسے مجھ پر ظلم مت کرو۔

وہ اب ہمت ہار رہا تھا اس کی زندگی اسی کے سامنے دور ہونے لگی تھی 

کاشان وہاں چار لوگ تھے سب نے مجھے دیکھا ہوگا۔۔چپ ایک دم چپ۔۔اسے سینے سے لگاتے اس نے باقی الفاظ روک دئیے تھے۔

تم میرے سامنے  صحیح سلامت ہو میرے لیے یہی کافی جوہی تمہاری مجرم ہے اسے تم خود سزا دینا۔بس جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ۔

بے تابانہ اس کا سر ماتھا چومتا وہ زارا کو سمیٹ رہا تھا۔زارا کی چپ ٹوٹی تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔

کاشان اسے فلحال رونے ہی دینا چاہتا تھا۔

_______________

بزل شیخ کی دونوں ٹانگوں پر گولیوں کا زہر پھیل گیا تھا۔اس کی دونوں ٹانگیں کاٹی جا چکی تھیں۔بستر پر پڑا وہ تکلیف سے تڑپ رہا تھا۔جب کاشان ماسک لگاکر اندر آیا۔

ابھی تو وہ مکمل ٹھیک بھی نہیں ہوا تھا۔اور وہ پھر آگیا تھا۔

مجھے معاف کردو۔معاف کردو۔میں نے کچھ نہیں کیا۔ادریس کمال بادشاہ نے ہمیشہ میرا نام استعمال کیا تھا۔

میں تو اس کی کٹھ پتلی ہوں۔وہ ہاتھ جوڑ کر گڑگڑانے لگا تو کاشان نے چاقو سے اس کا ہاتھ کاٹا تھا۔

وہ درد سے چیخ اٹھا تھا۔

انہیں ہاتھوں سے میری زندگی میرے سکون کو کمال کے سامنے پھینکا تھا۔وہ تڑپ رہی ہے اور میں اس کا درد کم نہیں کرپارہا۔۔"

اس کو مار کر ادھ موا کرتے کاشان کا سانس پھول گیا۔

جلد ہی تیرے بیٹے کو بھی تیرے پاس بھیجوں گا۔

چاقو اس کی گردن میں گھسیڑ کر وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔

____________

وہ گھر آیا تو زارا کو کمرے میں ناپاکر اس کی سانس رک گئی تھی۔

زارا۔۔۔زارا۔۔۔کہاں ہو زارا۔۔۔علایہ زارا کہاں ہے۔۔۔؟؟"

وہ چیختا ہوا باہر آیا تو علایہ کچن سے نکل کر کاشان کے سامنے آئی۔

احکام بھی باہر گیٹ سے اندر آتے حیران ہوا تھا۔

کاشان نے اسے سرد آنکھوں سے دیکھ کر علایہ سے پوچھا۔

زارا کہاں ہے۔۔بتاؤ مجھے؟؟"

وہ چیخ کر علایہ کو دہلا رہا تھا۔

وہ۔۔۔کہہ۔رہی تھی۔۔مم میں نے چینج کرنا ہے۔۔۔واش۔۔روم میں ہوگی۔

تیزی سے وہ دوبارہ کمرے میں گیا ۔اپنے کمرے کا دروازہ بند کرکے اس نے واش کا دروازہ کھٹکٹایا۔

واش روم کا ڈور دھکیلتا وہ دیوانہ ہوا۔۔

اندر زارا باتھ ٹب میں بے ہوش پڑی تھی۔اس کی بازو پوری طرح زخمی ہوگئی تھی۔

زارا۔۔۔کیوں کیا۔۔زارا آنکھیں کھولو۔۔

وہ اس کے گال جکڑ کر اسے اٹھانے لگا تھا۔

بانہوں میں بھر کر وہ اسے کمرے میں لایا تھا۔

بھیگے کپڑوں کو دیکھ کر اس نے لائٹ بند کی اور اسے موٹی شرٹ پہنادی۔

نرمی سے اسے بانہون میں بھرتے وہ سسکنے لگا تھا۔تم شفاف ہو زارا۔کیوں نہیں اس حقیقت کو قبول کررہی۔۔۔کیوں اذیت دے رہی ہو۔۔۔" اس کا سر چومتا وہ سسک کر رو رہا تھا۔

تم ستمگر ہو زارا۔میری ستمگر۔۔۔تمہیں میں کبھی اس اذیت کے لیے معاف نہیں کروں گا۔۔

اسے سختی سے بانہوں میں بھر کر وہ کل کے لیے ادریس کمال کی موت کا سامان تیار کرنے کی پوری پلینگ کرچکا تھا۔

___________

وہ سارا کو سوپ پلارہا تھا۔سارہ کو گھبراہٹ بھی ہورہی  تھی وہ بولڈ لڑکی تھی۔لیکن کامل کے سامنے وہ ہلکا سا کانپ رہی تھی۔

غنی نے اس کے سر پر وار کیا تھا۔اس کا ہاتھ بھی کافی زخمی تھا۔جس کی وجہ سے وہ کچھ بھی کھا نہیں پارہی تھی۔

اجیہ بیگم کو وہ اب سارہ کے پاس بھی نہیں آنے دینا چاہتا تھا۔

سارا میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔وہ اس کے ہونٹ ٹشو سے صاف کرکے بولنے لگا ۔

اس کی خوشبو محسوس کرتی وہ نظر جھکانے لگی تھی۔

کامل آپ جو بات کرنا چاہتے ہیں ماما سے کرلینا۔بے شک وہ جیسی بھی ہیں میری ماما ہیں۔

وہ جلدی سے بولی تو کامل مسکرانے لگا۔

اور اگر میں نے اس لحاظ سے بات نہ کرنی ہو تو۔وہ ہونٹ دبا کر ہنسی چھپاتے بولا۔

سارا نے جلدی سے سر اٹھایا تو وہ آنکھوں میں جذبات بھر کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

مذاق کررہا ہوں۔ان سے بھی پوچھ لوں گا لیکن میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کیا تم میری بیٹر ہالف بنو گی۔

سارا نے اس کے انداز پر مشکل سے ہنسی روکی تھی۔

اس کا ہاتھ تھام کر اس نے سہلایا تو وہ شرماکر منہ موڑ گئی۔

_________

تم نے رات وہ حرکت کیوں کی۔۔؟ کیا تمہیں میرا احساس نہیں ہے۔تم شفاف ہو میری نظر سے دیکھو گی تو تمہیں احساس ہوگا۔۔اس کے گال تھام کر بولتا وہ درد سے چور تھا۔

زارا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا جس کی آنکھیں سرخ ہورہی تھی۔

اب میں تمہیں اپنے پاس آنے پر فورس نہیں کروں گا۔تم اگر یہاں سے جانا چاہتی ہو چلی جاؤ۔

وہ بیڈ سے اٹھنے لگا تو زارا اس کے سینے سے لگتی اسے سختی سے پکڑ گئی تھی۔

چھوڑ دو زارا تم ستمگر ہو۔میں سمجھتا تھا میں ستمگر ہوں۔لیکن ستمگر تم ہو۔

اس کے درد بھرے انداز پر زارا پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔

کاشان۔۔میں کیا کروں ۔۔۔مجھے وہ سب بھول نہیں رہا ۔

پہلے غنی میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کرتا تھا اب اس آدمی نے۔میں نے کسی کا کیابگاڑا تھا۔"

تو میرے ساتھ ظلم کیوں کررہی ہو۔میں دنیا کے لیے ظالم ہوں۔سخت دل ہوں۔لیکن تمہارے لیے بچے جیسا دل رکھتا ہوں۔

کاشان میں ٹھیک ہوجاؤں گی۔میں آپ سے بہت پیار کرنے لگی ہوں۔آپ کے علاوہ میرا اب کوئی نہیں ہے۔مجھے آپ سے دور نہیں جانا۔مجھے مت چھوڑیں۔پلیز۔۔

کاشان نے اسے نرمی سے بانہوں میں بھرلیا تھا۔

تم میری سانسوں کی وجہ ہو۔سانسیں کون خود چھین لیتا ہے۔

اس کا سر چومتے وہ بولا تو زارا نے اس کے ماتھے کو چھولیا تھا۔

آئ لویو کاشان۔۔۔" اس کے اتنے خوبصورت انداز پر کاشان خوشی سےدیوانہ ہوتا اس کو خود میں چھپانے لگا تھا۔

غنی اور ادریس کمال کو میں تمہارے سامنے ماروں گا۔

بس اب تم نے رونا اور ڈرنا نہیں ہے۔

وہ اس کا سر سہلا کر بول رہا تھا۔

__________

میں اپنے باپ سے ملنا چاہتا ہوں۔

احکام کو جو نمبر کچھ دن پہلے دیا گیا تھا اس نے اسی نمبر پر فون کیا تھا۔

دوسری طرف سے ادریس کے آدمی نے سامنے بیٹھے ادریس کو دیکھا۔جو شراب کے گھونٹ بھر رہا تھا۔

علایہ اس کے چہرے کی سرخی دیکھ کر سہم رہی تھی۔

کل بیچ پر ملنا۔اس نے کہہ کر فون کاٹ دیا تھا۔

احکام پلیز ایسے مت کرو۔میں تمہیں دور جاتے نہیں دیکھ سکتی تم کیوں نہیں سمجھ رہے۔تم کاشان بھائی کو سب بتادو۔وہ سب سنبھال لیں گے۔

علایہ میں سر سے نظر ملانے کے قابل نہیں رہا۔۔وہ مجھ سے بات نہیں کررہے۔

زارا میم میری وجہ سے تکلیف میں ہیں۔

مجھے ان سے ملنا ہی ہوگا۔وہ اگر مجھے حاصل کرکے کاشان سر کو سکون سے رہنے دے سکتے ہیں تو میں اپنی جان بھی دینے کو تیار ہوں۔

میرا سوچا ہے تم نے۔۔میں کیسے رہوں گی۔بولو کیسے رہوں گی میں۔۔وہ اس کا گریبان پکڑے چیخی تو احکام نے نظر پھیر لی۔

میری طرف دیکھو۔جواب دو مجھے۔۔۔"

علایہ نے اس کا داڑھی والا گال اپنی طرف کیا تو وہ سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا۔

اس نے علایہ کو سینے سے لگالیا تھا۔

میں تمہیں کھو نہیں سکتا۔لیکن یہ ضروری ہے۔پلیز مجھے کمزور مت کرو۔

وہ اس کو سینے سے لگائے سسکا تھا۔تو علایہ نے اس کی شرٹ جکڑ لی تھی۔

__________

رات کا پہر تھا جب احکام علایہ سے ملتا گھر سے نکل آیا تھا۔علایہ کے آنسو اسے بے چین کررہے تھے۔لیکن وہ مجبور تھا وہ اب اپنی وجہ سے کاشان کو زیادہ تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔

اس کے پاس اب چند یادیں ہی بچی تھیں۔

وہ بیچ پر پہنچا تو ہر طرف خاموشی تھی۔موسم خوشگوار تھا۔ٹھنڈی ہوا اس کے جسم کو سکون دے رہی تھی لیکن آج اسے سب عجیب لگ رہا تھا۔

دور سے ایک روشنی نظر آئی تو وہ اس طرف بڑھ گیا۔

آگے چھوٹی سی شپ تھی۔

شپ کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی تھی۔

ادریس کمال بادشاہ سفید لباس پہنے آگے آیا تو احکام کو وہ اذیت یاد آنے لگی۔جو اس نے پچھلے چند سالوں میں برداشت کی تھی۔

میرا بیٹا۔۔میرا شیر۔آخر لوٹ آیا۔

اب بنے گا ادریس کا بیٹا احکام بادشاہ ڈان۔۔۔"

ادریس اس کے گلے لگا تو اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔اسے خوف محسوس ہونے لگا۔

سوری کاشان سر۔میں سب مصیبتوں کی وجہ رہا ہوں۔آج نہ مین زندہ رہوں گا اور نہ ہی ادریس کمال۔

اس نے چاقو پچھلی طرف سے نکالا اور ادریس کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ادریس پیچھے کو ہوا تھا۔

اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔اس کے آدمی اس پر حملہ کرنے کے لیے آگے آئے تو اس نے چاقو اپنی گردن پر رکھ لیا۔

تم۔مجھے کیا مارو گے میں خود مرنے والا ہوں۔اس سے پہلے وہ چاقو گلے پر پھیرتا ایک دم فائرنگ ہوگئی تھی۔

ادریس کو چاقو گہرائی میں نہیں لگا تھا۔وہ اٹھ کر بیٹے کی طرف بڑھنے لگا تو ایک گولی اس کی ٹانگ پر آکر لگی وہ وہی گرگیا تھا۔

ادریس کے ساتھ آٹھ نو آدمی تھے۔

جن پر بری طرح فائرنگ کرکے انہیں ماردیا گیا تھا۔

احکام اب تک حیران کھڑا سب دیکھ رہا تھا۔جب کاشان آگے آیا اس کے چہرے پر آج ماسک نہیں تھا۔

اس نے ایک تیز نظر احکام پر ڈالی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

وہ زارا کو بھی ساتھ لایا تھا۔

زارا کانپتے ہوئے کاشان کے ساتھ لگی۔ 

وہ مجھے مار دے گا پلیز کاشان یہاں سے چلیں۔

چپ اگر تم زرا سی بھی ڈری تو میں تمہیں سمندر میں پھینک دوں گا۔

وہ آج پہلی بار زارا کو سب کے سامنے ڈانٹ رہا تھا۔

زارا کو اس سمندر سے ہی نفرت ہونے لگی۔پہلی بار یہاں ہی اس نے تھپڑ مارا تھا اورآج دوسری بار ڈانٹ رہا تھا۔

ادریس تکلیف سے ٹانگ پکڑے بے حال ہورہا تھا۔

یہ پکڑو اس کے ہاتھوں پر ڈالو۔

زارا کے ہاتھ پر ایک بوتل رکھ کراس نے زارا کو دیکھا کو سفید حجاب میں سہم رہی تھی۔

کاشان۔۔۔وہ خوف سےکانپی توکاشان نے اسے گھورا۔۔

ڈالو۔۔۔۔۔

ادریس کا رنگ سفید پڑنے لگا تھا۔

وہ پیچھے کھسکنے لگا جب کاشان نے زارا کی بازو دبائی۔

اس نے تمہیں انہیں ہاتھوں سے چھوا تھا۔گراؤ ان ہاتھوں پر تیزاب۔۔۔۔فوراً گراؤ۔

وہ اب اور سخیت سے بولنے لگا تھا۔

زارا نے کانپتے ہاتھوں بہتی آنکھوں سے بوتل اس کے ہاتھوں پرانڈیل دی۔

ادریس کمال چیختا رونے لگا تھا۔

کاشان نے آگے بڑھ کر اس کے منہ میں دوسری بوتل ڈالنا شروع کی۔

یہ میرے ماں باپ دونوں بہنوں کی اذیت کے لیے۔اور یہ اپنے ہی بیٹے کاسودا کرنے کے لیے۔اس نے تیزاب اس کے  پیٹ پر ڈالا تھا۔جہاں پہلے ہی زخم تھا۔

احکام کے گال آنسووں سے بھیگنے لگے تھے۔

ادریس کی حالت دیکھتی زارا نے کاشان کے سینے میں اپنا چہرہ چھپا کر اس کی شرٹ کو پکڑ لیا۔اور آنکھیں بند کرلی تھی۔

وہ کچھ دیر میں ہی تڑپ کر مرگیا تھا۔

ایک طرف کامل بھی کھڑا احکام کو خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔

کاشان زارا کو لے کر احکام کے سامنے آیا تو وہ پیچھے ہونے لگا۔

زارا کو اس نے سیدھا کھڑا کیا تھا۔

ایک زور دار تھپڑ اس نے احکام کے منہ پرمارا تو زارا چیخ کر اچھلی۔

تم پاگل ہو۔کیوں کی یہ حرکت۔اس کا گریبان پکڑ کر اس نے جبڑے پر مکہ مارا تھا۔

کاشان۔۔۔بس کریں۔وہ مر جائیں گے۔

زا را کی سہمی آواز پراس نے احکام کے سینے پر ہاتھ مارکر اسے دور پھینکا۔

آج کے بعد مجھے اپنی شکل مت دکھانا۔

انگلی اٹھا کر اسے دھمکی دیتا وہاں سے زارا کو لے کرنکل گیا تھا۔

ایول کنگ نے اپنا بدلہ لے لیا تھا۔ادریس کمال بادشاہ صبح تک کیڑوں مکوڑوں کی خوراک بننے والا تھا۔

__________

کاشان احکام بھائی کہاں جائیں گے۔آپ اس کے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہیں۔علایہ اکیلی ہوگئی ہے۔

زارا گاڑی میں بیٹھی مسلسل بول رہی تھی۔

زارا چپ کرجاؤ۔وہ سختی سے بولا تو وہ رونے لگی۔

دوسری مرتبہ مجھے ڈانٹا ہے۔میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔

وہ منہ بسور کر رونے لگی۔لیکن کاشان نے اسے نہیں دیکھا۔

اسے احکام پرشدید غصہ تھا۔اور وہ اب کافی دن اس سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

زارا روتے ہوئے رات ہونے کی وجہ سے سوگئی تھی۔

کاشان اسے معصومیت سے سوتا دیکھ کرجھک کرگال چھونے لگا۔

زارا اس کی شیو محسوس کرکے کسمسائی تھی۔

میں تمہیں کبھی نہیں ڈانٹ سکتا تم کاشان کی دھڑکن ہو اور سب سے بڑھ کر میری ستمگر  ہو۔

اس کا ہاتھ چوم کر وہ گاڑی بھگانے لگا تھا۔

_____________

علایہ۔۔۔۔"

احکام کی آواز پر وہ فورا سیدھی ہوئی سامنے ہی احکام بکھرے حلیے میں تھا۔

احکام۔۔تم آگئے۔احکام وہ آگے آکر اس کے گلے سے لگ کر سسکنے لگی تھی۔

احکام کی آنکھیں لال تھیں۔علایہ کو سینے سے لگاتا وہ سسکنے لگا تھا۔

احکام تم بہت ظالم ہو۔میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔وہ اسے مارتی دور ہوئی تھی۔

تم نے کاشان سر کو بتایا تھا۔

وہ علایہ کو سامنے کرتا پوچھنے لگا تھا۔

نہیں تم مجھے منع کرکے گئے تھے میں تمہاری مرضی کے بنا کیا کرسکتی تھی۔

وہ حیران ہوا تھا۔

مجھے سر سے پوچھنا چاہیے۔وہ علایہ کو چھوڑتا باہر آیا جہاں کاشان لاؤنج میں ہی بیٹھا تھا۔

کامل نے اسے سخت نظروں سے گھورا جبکہ کاشان نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا۔

سر۔۔میں آپ کو کچھ بتانا چاہتا ہوں ۔۔وہ آگے آیا تو کاشان اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

سر پلیز بات سن لیں۔وہ اس کی طرف بھاگا لیکن کاشان نے اس کے منہ پر دروازہ بند کردیا تھا۔

کاشان بالکل ٹھیک کررہا ہے تم اسی قابل ہو۔کامل کی آواز پر اس نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔

کامل گنگناتا ہوا اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تو وہ بھی سر جھکائے علایہ کی طرف آگیا تھا۔

______________

کاشان کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ آج کمرے سے نکل آئی تھی۔۔

اسے اس پر غصہ بھی تھا۔کیونکہ کل اس نے ڈانٹا تھا۔

وہ کچن میں کھڑی کاشان کے لیے ناشتہ بنارہی تھی۔

وہ ابھی تک سو رہا تھا۔ تبھی وہ آرام سے کچن میں کھڑی تھی۔

آج اس کا کاشان کے لیے ناشتہ بنانے کو دل کر رہا تھا۔

پچھلے دنوں وہ اسے کافی پریشان بھی کرچکی تھی۔

 پین کیک کے ساتھ چیزی سینڈوچ ڈیسائیڈ کرتی وہ تیاری میں مگن ہوگئی۔

مجھے ڈانٹا تھا ناں اب میں مزہ چکھاؤں گی۔

کھانا بناتے ہوئے زارا کو شرارت سوجھی۔

موبائل فون اٹھا کر اس نے کاشان کا نمبر ڈائل کیا۔۔وہ جانتی تھی اسے نیند میں فون سننا کتنا برا لگتا تھا۔

تبھی نمبر ملا کر کان سے لگایا۔

کچھ دیر بیل جاتی رہی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا تھا۔

وہ جان گئی تھی وہ بے سدھ سورہا ہے۔

بار بار کال کرنے پر کاشان کی نیند خراب ہوئی تو اس نے زارا کو پکارا۔

لیکن وہ کمرے میں ہوتی تو ملتی۔

 کون بدتمیز ہے جو مجھے فون کررہا ہے۔کس کی موت آئی ہے۔دانت کچکا کر اس نے فون اٹھایا تو سامنے مائے لائف کا نام دیکھ کر اس نے خود کو گالیوں سے نوازا۔

گدھا ہوں میں " 

فون کان سے لگا کر اس نے سانس لیا۔

از ایوری تھنگ اوکے تم کال کیوں کررہی ہو؟

آپ سو رہے تھے؟ زارا نے معصومیت سے پوچھا۔

کاشان نے حیرت سے فون کو گھورا۔

کیا وہ پاگل تھی۔جو یہ سوال کررہی تھی۔

" ظاہر ہے کمرے میں سویا ہی جاتا ہے۔خیر تم کیوں پوچھ رہی تھی۔اور تم ہو کہاں جو فون پر بات کررہی ہو؟۔

میں آپ سے ناراض ہوں۔آج آپ مجھے منائیں گے۔

کاشان کو آج وہ جھٹکے پر جھٹکا دے رہی تھی۔

۔

کیوں ناراض ہو؟ 

آپ نے رات مجھے ڈانٹا تھا۔میرے آنسو بھی صاف نہیں کیے تھے

اور میں نے آپ کو اٹھایا تھا۔آپ گدھے گھوڑے بیچ کر سورہے تھے۔

زارا تم جھوٹ مت بولو۔میں ہمیشہ جاگ جاتا ہوں۔اور ناراض کیوں ہو؟؟" 

کل جیسے رات ڈانٹا تھا۔ اور میں اتنا ڈر گئی تھی۔

میری حالت دیکھی تھی آپ نے؟؟

آپ کو مجھ سے پیار نہیں ہے نہ ہی آپ میری فکر کرتے ہیں۔

وہ سوں سوں کرتی بولی تو کاشان فکر سے پاگل ہوا

اچھا تم رو مت میں کب تم سے پیار نہیں کرتا۔کب فکر نہیں کرتا۔؟ اور میں تمہارے ساتھ ہی تھا۔۔

کاشان کو نئی فکر نے گھیر لیا تھا۔

اچھا آپ کو فکر ہے؟ زارا فوراً بولی۔

کمرے میں آؤ فکر پیار سب دکھادوں گا۔

اس کے ذومعنی انداز پر زارا سٹپٹانے لگی۔

نہیں آج میں کمرے میں نہیں آؤں گی۔ آپ خود باہر آئیں گے لیکن اس سے پہلے آپ کو میرا کام کرنا ہوگا۔

وہ انگلی منہ  میں دباتی بولی تھی۔

کام!! مس زارا آر یو کریزی؟؟ آپ کو لگتا ہے میں کام کروں گا۔

 آپ مجھ سے پیار بھی نہیں کرتے۔وہ پھر روتے روتے بولی تھی۔

زارا کیوں تنگ کررہی ہو۔سونے دو مجھے"۔ 

سوجائیں آپ۔۔۔"اب میں آپ کےپاس بالکل نہیں آؤں گی۔سونا اکیلے تکیے کو۔۔۔۔۔

اییییی!!! اس نے دانت پیسے اور آنکھیں بند کرلی۔

کاشان کا قہقہ فون سے سنائی دیا۔

"کیا بول رہی تھی۔بات تو پوری کرو۔۔"اسے چڑاتا کاشان دوبارہ بولا تو زارا نے شرم سے پلکیں جھکا لی۔

"نہیں کرنی بات"

"میں سامنے نہیں ہوں پھر بھی شرمارہی ہو۔اگر سامنے ہوا تو کیا کرو گی۔"

کاشان کی صحیح بات پر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگی۔

میں روم میں ہی ہوں کمفرٹ میں لیٹ کر سونے کی دوبارہ تیاری کررہا ہوں۔

کاشان آپ بہت بدتمیز ہیں۔

وہ تو میں بہت ہوں۔وہ شوخ پن سے بولنے لگا۔

اب میری بات سنیں اگر آج آپ نے روم کی صفائی نہ کی تو میں عجمان چلی جاؤں گی۔

اسے دھمکی دیتی وہ کال کاٹتی ہنسی تھی۔

کاشان نے حیرت سے فون کو دیکھا۔

واٹ کمرے کی صفائی اور میں ؟ اور یہ عجمان۔۔۔اس کی تو میں۔۔۔وہ کچھ کہتا کہتا رک گیا۔

کنٹرول کاشان کنٹرول۔۔۔

وہ کمرہ دیکھتا بڑبڑایا۔

صوفہ پر  بکھرے کاشان کے کپڑے۔ ڈریسنگ ٹیبل پر ساری پرفیوم اور باقی چیزیں بکھری ہوئی تھی۔

کمفرٹ ایک طرف گرا ہوا تھا۔ 

یہ بیویاں بھی ناں انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے۔سرکھجاتا اٹھا۔

وہ عجمان چلی جائے گی۔ اسے عجمان کی یاد آئی تو غصہ بڑھ گیا۔

اس کو میں پوچھتا ہوں۔ایسے کیسے جائے گی۔

وہ شرٹ پہنتا باہر بڑھا۔ ماتھے پر تین لکیریں تھی۔

زارا نے دروازے کی آہٹ سنی تھی۔

وہ فوراً سلیب کے نیچے ہوکر چھپ گئی۔

زارا !!! وہ اونچی آواز میں بول کر ادھر ادھر زارا کو تلاشنے لگا۔

ضرور لانڈری میں ہوگی۔وہ چلاتا ہوا وہاں بڑھا۔زارا ہنسی کنٹرول کرتی دہری ہورہی تھی۔

کیا مسلہ ہے؟ کیوں شور کررہے ہو۔کامل کا کمرہ لانڈری کے ساتھ تھا۔وہ شور سن کر اٹھ گیا تھا۔

شٹ اپ اپنا کام کرو۔وہ اسے جھڑکتا لانڈری میں نظر دوڑانے لگا۔لیکن وہ وہاں بھی نہیں تھی۔

یہ لڑکی آج میرے ہاتھوں سے نہیں بچے گی۔ گرینڈ ما کے کمرے میں بھی وہ نظر نہیں آئی تھی۔

وہ گرینڈ ما کے کمرے میں گیا تو زارا فوراً اپنے کمرے میں بھاگ گئی تھی۔

احکام نیند سے بیدار ہوکر باہر آیا تو کاشان کو بوکھلاہٹ سے دیکھتا حیران ہوا۔

کاشان نے اسے پھر نظر انداز کردیا تھا۔

وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھا۔

زارا کہاں ہو؟ کیوں تنگ کررہی ہو۔کاشان کی آواز اب غصے سے بھاری ہوگئی تھی۔زارا کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل لگا تھا۔

ٹھیک ہے میں کمرا صاف کردوں گا۔وہ بڑبڑاتا کمفرٹ طے کرنے لگا تو وہ اس کے ہاتھ سے پھسلتا زمین پر گرا۔

پہلے یہ کپڑے اٹھالیتا ہوں۔وہ صوفے کی طرف آیا تو زارا کا سانس اٹک گیا۔وہ صوفے کنارے پر ہی چھپی ہوئی تھی۔

زارا پیچھے ہونے لگی تو کاشان نے بازو سے پکڑ کر اسے سامنے کیا تھا۔

آ۔۔۔آ۔۔وہ چیخ کے ساتھ کھڑی ہوئی اور کاشان کی شرٹ کو پکڑا۔

اب بتاؤ۔۔کون صفائی کرے گا کون ناراض تھا۔اس کو کمر سے پکڑ کر ساتھ لگاتے وہ شرارت سے بولا تو زارا کے گال سرخ ہونے لگے تھے۔

مت بھولو مین ایول کنگ ہوں۔ اور تم میری کوئین۔تمہاری سانسوں سے میں تمہیں پہچان سکتا ہوں۔اس کے گال پر لب رکھتا وہ شدت سے بولا تھا۔

بڑے آئے مجھے پہچاننے والے۔"

زارا نے منہ بنایا تو کاشان اسے گدگدانے لگا تھا۔

__________

سب تیاریاں ہوچکی تھیں۔چھوٹے سی تقریب تھی جو گھر میں ہی ہونی تھی۔

غنی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔اس لیے وہ الرٹ تھے۔

جوہی کو کاشان نے قید کیا ہوا تھا۔وہ اسے نہ مار سکتا تھا نہ اسے تکلیف دے سکتا تھا وہ عورت زاد کی عزت کرنا اچھے سے جانتا تھا۔اس کی قید ہی اس کی سب سے بڑی سزا تھی۔

وہ کمرے میں آیا تو حیران رہ گیا۔دل کی دھڑکن بڑھی تھی۔

سامنے زارا گولڈن مہرون لونگ میکسی پہنے اپنا سنہری اور براؤن بال سلجھا رہی تھی۔

وہ بہت کم بال کھولتی تھی اس کے کمر سے نیچے آتے بال کاشان کا دل ڈگمارہے تھے۔

وہ ٹرانس میں چلتا آگے آیا تو زارا شرماکر نظر جھکانے لگی۔

اوپر دیکھو لڑکی۔اور یہ کیا بالوں کو پھیلایا ہے۔کتنگ عجیب لگ رہے ہیں۔

اس کی بھاری سرد آواز پر سر اٹھا کر اس نے آنکھوں میں نمی بھر کر اسے دیکھا جو سنجیدہ شکل بنائے کھڑا تھا۔

کیا مین عجیب لگ رہی ہوں۔۔؟"

وہ روہانسی ہوتی پوچھنے لگی تو کاشان نے ہاں میں سرہلایا۔جاؤ چینج کرو۔زرا پسند نہیں آیا مجھے یہ ڈریس۔

وہ ماتھے پر بل لیے مڑنے لگا تو زارا نے زور سے برش ٹیبل پر پھینکا۔

میں یہی پہنوں گی۔آپ ہی تو لائے تھے میرےلیے۔اب میں نہیں جاؤں گی۔

وہ غصے سے بول کر بیڈ پر جا بیٹھی تھی۔

کاشان مسکراہٹ دباتا اس کے برابر آکر بیٹھا تو وہ دور کھسک گئی۔

پیچھے ہوں آپ بھی زرا اچھا نہیں لگ رہے۔

وہ ناک سکوڑے بولی تو کاشان کا قہقہ گونج اٹھا۔

جانتی ہو اگر میں نے تمہاری تعریف کی تو میں پھر دوسرے طریقے سے کروں گا۔اور میری دوسری تعریف کرنا تمہیں ہضم نہیں ہوگا۔

وہ گال چومتا بولا تو زارا  نے فوراً چہرہ چھپالیا۔

اتنی پیاری لگ رہی ہو دل کررہا ہے اپنی پناہوں میں چھپا کر سب سے دور لے جاؤں۔

اس کے چہرے پر رکھے ہاتھوں پر لب رکھے وہ گھمبیر انداز سے بولتا زارا کے دل کو شدت سے دھڑکانے لگا۔

کاشان بس کریں ہمیں جانا ہے۔وہ ہاتھوں پر لب محسوس کرتی شرم سے دوہری ہوئی تو کاشان نے اسے بانہوں میں بھرلیا تھا۔۔

آج تمہاری خیر نہیں ہے۔اور میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔

وہ کان میں سرگوشی کرتا زارا کا دل حلق میں لے آیا۔

بہت بے شرم ہیں۔وہ منہ بنائے بولی 

ہاں مجھے بے شرم ہونا ہی چاہیے۔۔"

ؤہ نازک گالوں کو ایک بار پھر چھوکر اس کے بالوں میں منہ چھپا گیا تھا۔

_________________

کامل نے بلیک پینٹ کوٹ پہنا تھا جس کے بارڈر پر باریک ڈیزائن تھا۔

سارا کو یاد کرکے اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی تھی۔

اس نے کل ساری شاپنگ اپنی پسند سے کی تھی۔ایک ایک چیز خرید کر وہ سارا کی نازک جان کو تصور کرتا رہا۔۔احکام بھی اسے چھیڑتا رہا تھا۔وہ ڈھیٹ بنا شاپنگ کرتا رہا۔

کچھ دیر میں وہ نکلنے والے تھے۔

علایہ بلیک اور سلور گاؤن پہنے احکام کا دل دھڑکا رہی تھی۔

وہ کئی بار اس سے شرارتیں کرتا اسے سرخ کرچکا تھا۔

کاشان کا رویہ اب بھی اس سے بگڑا ہوا تھا۔لیکن وہ اپنا اور اس کا ڈریس سیم لے کر آیا تھا۔

دونوں مہرون پینٹ کوٹ پہننے والے تھے۔

کچھ دیر میں گرینڈ ماکے ساتھ وہ عجمان کے لیے نکل گئے تھے۔

________________

سرخ لونگ میکسی کے ساتھ مہرون ڈوپٹے میں سارا کو دیکھ کر کامل کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔

احکام نے اسے ٹوکا تو وہ منہ بنا کر دوبارہ اسے مسکرا کر دیکھنے لگا۔

یہ تو گیا کام سے۔یہ کاشان سر سے بھی زیادہ دیوانہ بنے گا۔

وہ آنکھیں گھماتے بولا تو کامل نے کہنی اس کی پسلی پر ماری تھی۔سامنے دیکھا تو کاشان زارا کو ساتھ بٹھا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

پھنس گیا میں۔۔علایہ اس کی نازک حرکتوں پر کھلکھلانے لگی تھی۔

کچھ دیر میں نکاح کی رسم شروع ہوئی تو سارا نے روتے ہوئے حامی بھردی۔

کامل نے بے تابی سے جلدی جلدی سائن کیے تھے۔

سارا کو اس کے ساتھ بٹھایا گیا تو کامل نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔

بہت پیاری لگ رہی ہو دل کررہا ہے تمہیں اٹھا کر بھاگ جاؤں۔۔" سارا اس کی بے باک سرگوشیوں پر اچھلی تھی۔

شکل سے وہ جتنا سیدھا تھا ٹھرکی حرکتوں میں وہ اپنا بنا بنایا امیج خراب کررہا تھا۔

کامل تو ابھی سے دیوانہ بن گیا ہے۔ "

کاشان  نے زارا کے کان میں کہا تو زارا مسکرائی تھی۔

آپ بھی تو میرے دیوانے بنے بیٹھے ہیں ایول کنگ کو کوئی بیوی کے سامنے دیکھ لے تو یقین نہیں کرے گا یہ ڈرپوک سے چوہے ہیں۔وہ بھی موٹے تازے ڈرپوک چوہے۔۔"

کاشان نے اسے گھور کر دیکھا تو زارا ہنسنے لگی۔

اجیہ بیگم نے اس کی ہنسی کو آج بھی نفرت سے دیکھا تھا۔

آج میں تمہیں شیر بن کر دکھاؤں گا اور تم بنو گی ڈری ہوئی چوہیا۔"۔

کاشان کی سرگوشی پر اس نے گردن اکڑائی۔

"دیکھتے ہیں کون شیر اور کون چوہا ہوگا۔" 

میں بتارہا ہوں آج تم خود کہو گی تم چوہیا ہو۔"

اس کی آنکھوں میں دیکھ کر لب کاکونا دبا کر اس نے آنکھ سے ذومعنی اشارہ کیا تو زارا کا چہرہ سرخ ٹماٹر کی طرح ہوا تھا۔

نہایت بے شرم ہیں بات مت کیجیے گا۔وہ اٹھ کر جانے لگی تو کاشان نے سامنے موجود مٹھائی کا ٹکرا اس کے منہ میں ڈال دیا۔

نیک کام سے پہلے کچھ میٹھا ہوجائے۔۔" 

کاشان۔۔۔"وہ دانت کچکا کر  چیخی تھی۔اور شرم سے سر بھی جھکانے لگی تھی۔

کاشان بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرپایا تھا۔

____________

وہ سب گھر واپس آگئے تھے۔

کامل کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر احکام اور علایہ نے اسے خوب چھیڑا تھا۔

کاشان اور زارا آج ہوٹل میں ٹھہرے تھے ۔گرینڈ ما اپنے کمرے میں ریسٹ کرنے جاچکی تھی۔

علایہ نے سارا کو اس کے کمرے تک پہنچایا تھا۔

وہ بیڈ کے کنارے پر بیٹھی تھی۔جب کامل اندر آیا۔

پھولوں سے سجا کمرا سارا کو بے چین کررہا تھا۔

کامل اندر آیا تو اس کا دل شدت سے دھڑک اٹھا۔اس کی بے باکیاں وہ گاڑی میں ہی دیکھ چکی تھی۔

" میرے لائے ڈریس میں تم اتنی خوبصورت لگو گی میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔

اس کے ہاتھوں سے پکڑ کر کھڑا کرکے اس نے سارا کی کمر میں اپنا بازو حائل  کیا۔

اس کی نزدیکی سے سارا کی دراز پلکیں لرزنے لگی تھیں۔

میرا پورا ارادہ تھا تمہیں وہاں سے غائب کرنے کا پر افسوس میرا کھڑوس باس  وہی بیٹھا تھا۔

کاشان بھائی کھڑوس تو نہیں ہیں۔سارا فوراً بولی تو کامل نے منہ بنایا۔

اچھا وہ کھڑوس نہیں تو کیا میں کھڑوس ہوں۔وہ ناراضگی سے بولا تو سارا نے دہل کر اسے دیکھا جس کی آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔

سارا نے فوراً سر جھکا لیا۔

ویسے میں کھڑوس بالکل نہیں ہوں ہاں رومینٹک میں بے شمار ہوسکتا ہوں۔

اس کے لب سہلائے وہ گھمبیر انداز میں کہنے لگا تو سارا کی دھڑکنیں بے قابو ہونے لگی۔

کامل نے اس کی گردن میں نازک چین ڈالی تھی۔

جانتی ہو اس دن زارا کو چھوڑنے میں نہایت غصے میں  گیا تھا لیکن تمہارا مینجر کہنا مجھے اتنا اچھا لگا تھا کہ مین نے تمہارا مینجر بننا ہی پسند کرلیا۔

اس کے سر کے ساتھ سر جوڑتے وہ دونوں ایک دوسرے میں کھوئے تھے۔

 ____________

آپ مجھے یہاں کیوں لائے ہیں؟"  زارا کانپتی پوچھنے لگی تو کاشان مسکرایا۔

ؔاپنی حلال بیوی سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔

اس کی کمر کو جکڑ کر قریب کرتا وہ کان میں بولا تھا۔

ایییی۔۔۔۔" آپ حلال بیوی مت کہا کریں بڑی عجیب فیلنگ آتی ہے۔

وہ دانت کچکچائے بولی تو کاشان کا قہقہ گونج اٹھا تھا۔

کیسی والی فیلنگ۔۔۔" 

زارا اس کی نئی سرگوشی پر سرخ پڑی تھی۔۔وہ میں نہیں بتاؤں گی گھر چلتے ہیں گرینڈ ما ویٹ کررہی ہوگی۔

وہ شرما کر بولنے لگی تو کاشان نے اسے مزید پاس کیا۔

اس کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں اس نے ڈائمنڈ کی رنگ پہنائی اور دونوں ہاتھوں کو لبوں سے چھولیا تھا۔۔

گرینڈ ما ایک پیارا سا پوتا چاہتی ہیں۔ ہمیں انہیں وہی دینے کی تیاری کرنی چاہیے۔۔

کاشان۔۔۔" زارا بولتی منہ ہاتھوں میں چھپانے لگی تھی۔

زارا۔۔۔میری زندگی کا سکون۔ایول کنگ کی کوئین۔ایول کنگ کی زندگی بدلنے والی ایک پیاری سی پری ۔۔۔"…اس کے ماتھے کو چھو کر اس نے کئی محبت بھرے نام اس کی ذات کے حوالے کردیے تھے۔

کاشان اسے بانہوں میں بھر کر  بیڈ کی طرف بڑھنے لگا تھا۔

_____________

صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ کاشان کی بانہوں میں تھی۔

کاشان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

زارا اس کاچہرہ دیکھتی رب کی شکرگزار ہوئی تھی جس نے اسے غنی سے چھڑوا کر کاشان جیسا اچھا انسان دیا تھا۔

اسے اجیہ بیگم کے رویے نے رات کافی دکھ دیا تھا۔وہ ان کے گلے لگنا چاہتی تھی لیکن انہوں نے منہ موڑ لیا تھا۔۔کاشان نے اس کا اترا چہرہ دیکھ لیا تھا تبھی یہاں لایا تھا۔

"اداس مت ہوا کرو۔تم اداس ہوتی ہوتو سارے موسم سارا ماحول اداس ہوجاتا ہے۔۔اور ایول کنگ کی ساری خوشیاں کہیں کھوجاتی ہیں۔۔"

اسے اپنے پاس کھینچ کر سینے سے لگاتا بولا تو زارا کے کئی آنسو بہہ گئے تھے۔

"تہاری ماں ایک بے حس عورت ہے۔"

کاشان وہ میری ماما ہیں لیکن انہوں نے کبھی مجھ سے پیار نہیں کیا۔

میری جان میرے سکون میں ہوں ناں تمہیں پیار کرنے کے لیے اس کے نم بالوں میں انگلیاں پھیر کر اس نے زارا کا دھیان بٹانا چاہا۔

زارا نے اس کے سینے پر تھپڑا مارا تو وہ آوچ کرکے رہ گیا۔

ویسے رات چوہیا کون تھا۔۔؟" کاشان نے اسے سامنے کیا تو وہ دوبارہ اس کے سینے میں چہرہ چھپاتی شرمائی تھی۔

بہت ہی زیادہ بدتمیز اور بے شرم ہیں اپ مجھ سے بات مت کیجیے گا۔۔۔"

کاشان مسکرانے لگا تھا۔

کاشان اس کے بال سہلا کر اجیہ بیگم کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔وہ جانتا تھا وہ سیدھی عورت نہیں ہیں۔اب بس ان کے گرد اب جال کسنا چاہتا تھا۔

________________

سر میں آج آپ سے سوری کیے بنا نہیں جاؤں گا۔احکام کاشان کو آج ہر حال میں منانا چاہتا تھا۔۔

وہ اور زارا ابھی گھر آئے تھے۔

جب احکام اور علایہ اس کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔علایہ جانتی تھی کاشان کو دکھ ہے۔لیکن احکام کو اس کی غلطی کا احساس دلانا ضروری تھا۔

میں نے تمہیں معاف کیا اب جاؤ یہاں سے۔کاشان اپنا چہرہ موڑ کر بولا تو احکام کی آنکھیں دکھ سے سرخ ہوگئی تھیں۔

سر میں زارا میم اور آپ کو تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔میرے باپ نے جو تکلیف مجھے دی ہے۔اور میری وجہ سے جو زارا میم نے برداشت کیا وہ مجھے پل پل مار رہا تھا۔

وہ کاشان کے زبردستی گلے لگ کر بولا تو زارا کی آنکھیں بھی بھیگنے لگی۔

میں نے تمہیں اپنے سگے بھائیوں سے بڑھ کر مانا یے کیونکہ تمہارا اور میرا دکھ ایک جیسا تھا۔

لیکن تم نے اس دن وہ غلط حرکت کرکے مجھے میری ہی نظروں میں گرادیا۔تم نے بتایا کہ میں تمہارا کچھ نہیں لگتا۔ایسا مت کہیں سر پلیز۔اس نے اپنے بازو سختی سے کاشان کے گرد باندھ لیے تھے۔

زارا نے بھیگی آنکھوں سے اسے اشارہ دیا تووہ اسے گھورنے لگا۔

جیسے ابھی معاف نہ کرنا چاہتا ہو۔لیکن زارا کی بات وہ کیسے ٹال سکتا تھا۔

اگر معافی چاہتے ہو تو یہ پورا مہینہ تم کلب میں گزارو گے اور علایہ گرینڈ ما کے پاس رہے گی۔

کاشان کی خوفناک سزا پر احکام جھٹکے سے دور ہوا اور علایہ بھی احکام کی بازو سے چپکی۔

کاشان کا چہرہ سیریس تھا لیکن آنکھیں مسکرارہی تھی۔

زارا نے آنکھیں صاف کرکے کاشان کو حیرت سے دیکھا جو اب ایول کنگ بنا کھڑا تھا۔

کاشان آپ ایسی سزائیں کیوں دیتے ہیں؟" وہ چڑ کر بولنے لگی۔

کاشان نے اسے گھورا تو وہ ہاتھ مارتی منہ موڑ گئی۔۔

علایہ اب بھی احکام کا بازو پکڑے کھڑی تھی۔

جاؤ اگر میری معافی چاہتے ہو تو میرا حکم بھی مانو۔

وہ وارڈوب کی طرف بڑھتا کہنے لگا جیسے اب وہ کچھ نہیں سننا چاہتا تھا۔

احکام بیچارگی سے کاشان کی حرکتیں دیکھنے لگا۔

_______________

دلہے صاحب ہنی مون پر پھر کبھی جانا فلحال اجیہ بیگم کے اڈے پر حملہ کرنا ہے۔میں نے ساری انفارمیشن نکال لی ہے وہ آج قریباً سو لڑکیاں شپ کے ذریعے بھیجنے والی ہے۔اور اسی شپ میں زہریلی شراب کی بوتلیں بھی ہیں ڈرگز اس نے لڑکیوں کے پیٹ میں آپریشن کروا کے رکھوائے ہین۔

کامل کو سارا کے ساتھ چپک کے بیٹھے  دیکھ کر کاشان ظالم سماج بن کر حکم دینے پر کامل بدمزہ ہوا۔جبکہ سارا شرم کر دور ہوتی فاصلہ بنا گئی۔

لیکن حقیقت سن کر اس کا چہرہ سفید ہونے لگا تھا۔

خود تو تم اچھا خاصہ انجوائے کرچکے ہو اور مجھے اگلے دن ہی ہنی مون سے ڈریگن ورلڈ میں بھیجنا چاہ رہے ہو۔

کامل نے منہ بنا کر کہا تو احکام کو اپنا بدلہ پورا ہوتا محسوس ہوا۔۔اس نے طنزیہ مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی تھی۔

کامل نے اسے گھورا تھا۔

کاشان بھائی میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔

سارا بولی تو کاشان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔

جبکہ کامل بھی سنجیدہ ہوگیا تھا۔

کاشان  بھائی میں جانتی ہوں وہ میری ماما ہیں لیکن ان کے جرم بہت زیادہ ہیں لیکن پھر بھی میں چاہتی ہوں انہیں سخت سزا مت دینا۔"

وہ بولی تو زارا کی آنکھین بھی بھیگ گئی۔

پریشان مت ہو۔ایسا کچھ نہیں ہوگا میں انہیں جیل بھیجنے کا ارادہ ہی رکھتا ہوں جانتا ہوں تم لوگو کو دکھ ہوگا۔لیکن میں انصاف کرنا چاہتا ہوں۔

میرا طریقہ بے شک غلط ہے لیکن مجھے دشمنوں کو اس کے انجام تک پہنچائے بنا سکون نہیں آتا۔

سارا اور زارا نظریں جھکا کررہ گئی تھیں۔

___________

"کامل اپنا خیال رکھیے گا۔"وہ اس کے سینے سے لگی بولی تو کامل نے اسے بانہوں میں بھرلیا۔

میں جانتا ہوں تم اداس ہو لیکن میں وہاں تمہیں لے جاتا لیکن میں نہیں چاہتا میری جان اداس ہو۔اس کی پیشانی چوم کر اس نے سارا کو ریلکس کرنا چاہا۔

سارا کی آنکھیں نم تھی۔کامل کا دل پریشان ہونے لگا تھا۔

اچھا بتاؤ میں کھڑوس ہوں یا رومینٹک؟؟" وہ اس کا موڈ بحال کرنے کے لیے پوچھنے لگا۔تو سارا نے ہاتھ مسلے تھے۔

بتاؤ مس سارا۔۔ورنہ میں کھڑوس بن کر رومینٹک ہوا تو تمہیں برداشت نہیں ہوگا۔

وہ مصنوعی رعب سے پوچھنے لگا تو سارا نے اسے گھور کر دیکھا۔

نہ آپ کھڑوس ہیں نہ آپ رومینٹک ۔۔وہ منہ بنا کر بولی ۔تو کامل حیران ہوا 

آگر میں رومینٹک کھڑوس نہیں ہوں تو کیا ہوں ؟

کامل نے دونوں ہاتھوں سے کمر جکڑ کر اسے لاک کیا تھا۔

آپ کامل ہیں سارا کے کامل۔۔سارا کی پہلی محبت۔۔" اسے کے سینے سے لگ کر اس نے اظہار کیا تو کامل کے لب مسکرانے لگے تھے۔

لیکن میں اب رومینٹک کامل بننا چاہتا ہوں سارا کا رومینٹک کامل۔

اس کے چہرے پر کئی شرارتیں کرتے اس نے سارا کو بوکھلا دیا تھا۔

_____________

تم گاڑی میں رہو گی میں تمہیں لانا نہیں چاہتا تھا لیکن تمہاری ضد ۔۔۔"

اس نے زارا کے منہ پر  سادہ ماسک لگادیا تھا۔

کامل اور احکام دوسری گاڑی میں تھے۔ زارا نے کاشان کو غصے کو دیکھ کر جلدی سے اس کے گردن میں  بانہیں ڈالی تاکہ وہ مزید غصہ نہ کرسکے۔

اپنی انہیں حرکتوں سے تم مجھے ایول کنگ نہین بننے دیتی۔جس دن میں ستمگر بن گیا ناں تم روتی رہ جاؤ گی۔" 

اس کی ننھی ناک چوم کر اس نے پاس کیا تو زارا کا دل دھڑک گیا۔

"زارا پلیز خود کا خیال رکھنا کچھ بھی ہوجائے گاڑی سے باہر مت آنا"۔

اسے ہدایات دیتا وہ گاڑی سے اترا ہی تھا جب زارا نے اسے آواز دی۔

کاشان نے اس کے سبز نگینے دیکھے تو بےقرار سا آگے بڑھ کر اسے بانہون میں بھرگیا۔

ؔ"تم میرا آخری سکون ہو۔اور میرے سکون کبھی مجھ سے دور مت جانا۔ورنہ ایول کنگ مرجائے گا۔" 

زارا سہم گئی تھی۔لیکن کچھ نہیں بولی۔

کچھ دیر بعد اسے آزاد کرتا وہ تیزی سے کلب کی طرف بڑھا جو اجیہ بیگم کا خفیہ اڈہ تھا۔

_____________

کامل اور احکام پچھلے دروازے سے اندر داخل ہوئے اور کاشان عام آدمی بن کر اندر  داخل ہوا۔

زارا گاڑی میں مکمل طور پر سیو تھی گاڑی سے سیاہ شیشے تھے جس کی وجہ سے کوئی اندر نہیں دیکھ سکتا تھا۔

نیچے والے پورشن میں ڈانس اور جام کا دور چل رہا تھا۔

کاشان سانس بھر کر اوپر جانے لگا تو ایک آدمی نے اسے روکا۔کاشان نے جیب میں سے لوگو والا کارڈ نکالا تو اس نے کاشان کو غور سے دیکھا اور پھر اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔

وہ آدمی ساتھ چل رہا تھا۔اوپر مڑتے ساتھ ہی کاشان نے اس کی گردن مروڑ کر اسے دور پھینکا اور آخری کمرے کی طرف بڑھا جس کے دو دروازےتھے۔

اندر غنی لڑکیوں کو چیک کررہا تھا اور اجیہ بیگم بھی پاس ہی تھیں۔

احکام اور کامل پچھلے دروازے سے داخل ہوئے تو اجیہ بیگم خوف سے سفید پڑی۔

انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی آجائیں گے۔ابھی کل ہی تو سارا کی شادی ہوئی تھی اسی لیے انہوں نے آج ہی کام کا سوچا تھا تاکہ ایول کنگ مصروف رہے۔

غنی کا کالا چہرہ سرخ ہونے لگا تھا۔

آج میں تمہیں اپنا اصلی چہرہ دکھاؤں گا تاکہ موت کے وقت تم یاد رکھو گے ایول کنگ کون تھا۔

وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔

غنی کے ہاتھ کانپنے لگے تھے۔

احکام اور کامل لڑکیوں کو پچھلے دروازے سے نکالنے لگے ۔

اجیہ بیگم اپنی جگہ بیٹھی رہ گئ  تھی۔

اجیہ بیگم وہیل چئیر پر بیٹھی تھی۔جس کی وجہ سے وہ باہر نہیں جاسکتی تھی۔

غنی نے ایک دم گن نکال کر اجیہ بیگم پر فائر کردیا۔

ان کی بازو پر گولی لگی تو وہ چیخ اٹھی۔

کاشان کا ماسک اتارتا ہاتھ رک گیا ۔

کاشان کی نظر  بھی ان  پر گئی تو غنی نے تیزی سے اجیہ بیگم کی گردن پر گن رکھ دی۔

کاشان رک گیا تھا۔

اگر اس عورت کی جان بچانا چاہتے ہو تو مجھے جانے دو۔

رک جاؤ غنی۔۔ورنہ میں تمہیں ایسی کتے کی موت دوں گا تمہاری روح کانپ اٹھے گی۔"

کاشان کی دہشت سے اسے کے ہاتھ تو کانپے لیکن وہ قابو رکھنے لگا۔

میں آج کسی سے نہیں ڈروں گا۔تمہاری وجہ سے آج میرا کروڑوں کا نقصان ہوگیا ہے ۔

کاشان نے گن تانی تو اس نے زور سے اجیہ بیگم کی گردن پر پستول ماری۔

اجیہ بیگم کی درد چیخ نکلی تھی۔

کاشان اسے جانے دو پلیز۔۔وہ روتے ہوئے بولی تھیں۔

کاشان سائیڈ پر ہوا تو وہ وہیل چئیر سے کھڑا کرکے اسے گھسیٹتے باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

کامل احکام آدھی لڑکیوں کو باہر چھوڑنے گئے تھے تبھی غنی نے موقع سے فائد اٹھا لیا تھا۔

وہ اجیہ بیگم کو گھسیٹ کر سنسان راستے سے باہر لایا تو کاشان تیزی سے اس کے پاس بھاگا۔وہ اجیہ بیگم کو موت دینا نہیں چاہتا تھا۔

تھوڑی دور ہی گاڑی میں دبکی زارا کا سانس رکا۔سامنے ہی غنی اس کی ماں کو پکڑ کر کھڑا تھا۔

جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا۔غنی سنسان راستے میں ہی اجیہ بیگم کو لے آیا تھا 

ماما۔۔۔وہ چیخی اور گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔

اجیہ بیگم کے آنسو بہہ نکلے تھے۔

جبکہ کاشان کا دل خوف سے دھڑکا۔۔

جس سے نفرت کی آج وہی اس کے لیے رو رہی تھی۔اور جس کا ساتھ دیا وہ ہی دھوکے باز نکلا تھا۔

زارا جاؤ یہاں سے۔  وہ چیخی تو غنی کی توجہ اس کی طرف گئی ۔

زارا گاڑی میں بیٹھو۔جلدی کرو۔۔۔میں نے تمہیں منع کیا تھا " کاشان چیخ اٹھا اس کی زندگی موت کے نشانے پر تھی۔

آج تم دونوں کو موت کے گھاٹ اتار کر میرا بدلہ پورا ہوجائے گا۔

غنی کے خوفناک قہقے گونج رہے تھے۔

اس نے زارا کی طرف گن کرکے ایک دم گولی چلائی تو ایک دم جوہی آگے آئی۔۔

کاشان غنی اور اجیہ بیگم حیران رہ گئے تھے۔گولی اس کے پیٹ کو چھو کر نکلی۔

وہ یہاں کیسے پہنچی وہ تو سیکرٹ روم مین بند تھی۔

کاشان نے ایک دم غنی پر گولی چلائی جو آج پھر اس کا ہاتھ زخمی کرکے نکلی۔

اجیہ بیگم کی بازو سے خون بہہ بہہ کر انہیں بے ہوشی کی طرف لے جارہا تھا۔

زارا نے فوراً جوہی کو سنبھالا جو نیچے گرچکی تھی۔

مجھے معاف کردینا زارا۔تم ایول کنگ کی اصلی کوئین ہو۔تمہیں کچھ ہوتا تو ایول کنگ بھی ختم ہوجاتا جو میں ہرگز نہیں چاہتی۔

تم باہر کیسےآئی اور تم نے کیوں۔۔۔" 

 سیکرٹ روم کا کوڈ مجھے پتہ تھا اسی لیے میں وہاں سے نکل آئی تھی۔

ایول کنگ ظلم کی دنیا میں انصاف کے لیے پیدا ہوا ہے۔

اور تم اس کی ہمت کے لیے اس کے ساتھ جڑ گئی ہو۔

وعدہ کرو تم ایول کنگ کو اس انصاف سے کبھی نہیں روکو گی۔۔اس کے سامنے ہاتھ پھیلاتی وہ وعدہ لینے لگی تو زارا نے روتے روتے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔

کاشان غنی کو ایک گولی ٹانگ پر مارتا جوہی کے پاس آیا جو سرخ بہتی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

میں نے بزل شیخ  یعنی ادریس کمال کے لیے تمہیں چھوڑ دیا تھا۔کیونکہ تم نے کبھی مجھے سراہا نہیں تھا کبھی مجھ سے محبت کے لفظ نہیں بولے تھے۔لیکن بزل شیخ نے مجھے اپنی باتوں سے ایسا پھنسایا کہ میں ہیرا چھوڑ کر کوئلے کے پاس چلی گئی۔

اور اس کوئلے نے مجھے بازاری عورت بنادیا۔

کاشان کی آنکھ کا کونا نم ہونے لگا۔

جوہی میں ہوس پرست مرد نہیں تھا میں تمہیں اپنی چاہت احساس سب شادی کے بعد دینا چاہتا تھا۔لیکن۔۔۔وہ خاموش ہوا تو جوہی درد سے  ہنسنے لگی۔

مجھ جیسی بدقسمت لڑکی کی قسمت میں یہی ہونا لکھا تھا۔تمہارے جیسے کنگ کے لیے زارا جیسی کوئین ہی ہونی چاہیے تھی۔

غنی کو چھوڑنا مت ناجانے اس نے کتنی کلیاں مسلی  ہیں۔ایک کلی میں بھی تھی جو اس کی ہوس کا سب سے پہلے نشانہ بنی تھی۔

جوہی اٹھو میں  تمہیں ہاسپٹل لے جاتا ہوں۔۔" 

 وہ اسے اٹھانے لگا تو جوہی نے اسے روک دیا۔

میں تمہیں دیکھ کر مرنا چاہتی ہوں ۔

وہ اذیت سے بولنے لگی تھی۔

کاشان نے سرخ آنکھوں سے نفی میں سرہلایا۔تو اس نے ماسک اتارنے کا اشارہ دیا۔کاشان نے ماسک اتارا تھا۔

اس کا خوبصورت چہرہ اور براؤن آنکھیں دیکھ کر وہ اپنے آپ کو سیراب کرنے لگی۔

کچھ دیر میں وہ ہچکی لیتی موت کی وادی میں چلی گئی تھی۔

کامل نے اجیہ بیگم کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالا تھا۔

اپنے خاص آدمیوں کے حوالے وہ ساری لڑکیاں کرکے واپس آئے تھے۔

کاشان کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔

احکام نے ڈگی سے شیٹ لاکر جوہی پر ڈالی جو وہ گاڑی میں رکھتے تھے۔

وہ کلب کو لاک لگا چکے تھے تاکہ کوئی باہر نہ آسکے۔

کاشان آنکھیں صاف کر کے غنی کی طرف آیا۔

وہ غنی کی طرف واپس آیا اور اسے بری طرح مارنے لگا۔اپنے بھاری ہاتھ کے گھونسے مار کر اس نے اس کی شکل بگاڑ دی تھی۔

زارا سہمی ہوئی کھڑی تھی۔

کاشان نے اسے اشارے سے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا تو وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔کاشان اس سے بعد میں حساب کرنے والا تھا۔

غنی درد سے کراہ رہا تھا۔

کاشان نے اپنا خاص چاقو نکال کر اس کے گلے کے درمیاں میں گھسیڑا اور اس کے دونوں ہاتھ پر فائر کیے جس سے اس نے زارا کو مارنا چاہا تھا۔اور جوہی ماری گئی تھی۔

اس کی دونوں ٹانگوں پر بھی کئی فائر کرکے اس نے غنی کی لاش کی حالت بگاڑ دی تھی۔کئی چھینٹے کاشان کے کپڑوں پر اور منہ پر گرے تھے۔

غنی اپنے انجام کو پہنچ گیا تھا۔

زارا یہ منظر دیکھ کر حواس کھوکر زمین پر گری اور بے ہوش ہوگئی تھی۔

__________

اسے ہوش آیا تو کاشان اس کا ہاتھ پکڑ کر سامنے ہی بیٹھا تھا۔وہ کپڑے بدل چکا تھا۔

پہلے اس کے چہرے پر فکر تھی لیکن جیسے ہی اس نے زارا کو دیکھا اس کا چہرہ سرد ہوگیا اور آنکھوں میں دہشت تھی۔ 

زارا خوف سے کانپ کر دور ہونے لگی تو اس نے ہاتھ دبا کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔

زارا کی سسکی نکلی تھی۔وہ خوف سے بے ہوش تھی۔

میں ماما کو دیکھ کر باہر آئی تھی میں باہر نہیں آنا چاہتی تھی۔۔وہ خشک ہوتے حلق سے بولی تو کاشان نے اس کی کمر جکڑ کر اسے بالکل پاس کرلیا ۔

"میں سچ کہہ رہی ہوں کاشان میں آپ کے ساتھ کچھ غلط کیوں کروں گی۔۔آپ تو اتنے اچھے ہیں۔"

وہ معصوم بن کر بولی تو کاشان کو ہنسی آنے لگی لیکن وہ  اپنی ہنسی دباتا زارا کو گھور کر دہلا رہا تھا۔

"کاشان میں رونے لگ جاؤں گی۔" 

وہ بھیگی آنکھوں سے بولی تو کاشان نے کمر اور تیزی سے جکڑی۔

"ایک کام کرو۔یہ چاقو لو اور اسے میرے سینے میں ماردو۔۔تاکہ ایک بار ہی میں تمہاری ستمگری برداشت کرلوں۔"

وہ چاقو سامنے کرتا بولا تو زارا نے چاقو ایک ہاتھ سے دور پھینک کر اس کی گردن میں بازو حائل کرلی۔

ایسے مت کہیں میں مرجاؤں گی ماما تکلیف میں تھیں جس کی وجہ سے میں باہر آئی۔اس کی گردن میں منہ چھپاتی بولی تو کاشان نے اسے خود سے دور کیا اور بیڈ سے اٹھ گیا۔

مجھ سے بات مت کرنا۔"

"میں خود کو کچھ کرلوں گی عجمان میں رہ جاؤں گی۔اور دوبارہ جاب کرنے لگ جاؤں گی۔۔۔۔"

زارا روتے روتے بول کر ناک رگڑنے لگی تو اس کی حرکت پر وہ اب ہنسی نہیں دبا پایا تھا۔اس کے لب تھوڑے سے پھیل گئے۔

"میں تمہیں چھوڑوں گا تو تم کچھ کرو گی۔اور اگر میری ناراضگی کی پرواہ ہے تو مجھے اچھے سے منانے کی تیاری کرو۔"

اس کے بال پیچھے سے ہلکے سے کھینچ کر چہرہ اوپر کیے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

اس کے عمل پر زارا کی ریڑھ کی ہڈی مین سنسناہٹ دوڑ گئ تھی۔

کاشان نے نرمی سے بال چھوڑے اور دوسرے کمرے کی طرف بڑھا جہاں اجیہ بیگم موجود تھیں۔

_________

اجیہ بیگم کی بازو پر پٹی بندھی تھی۔اور گردن پر بھی ایک پٹی تھی۔

کاشان کمرے میں آیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

میں نے اپنی بچی سے اپنی خوشی کی خاطر ہمیشہ نفرت کی۔اور اس کے باپ کو بھی مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔

زارا میرے پہلے شوہر سے ہے۔

میں کلب میں جاب کرتی تھی جب وہ آدمی وہاں آنے لگا۔۔وہ مجھے اچھا لگتا تھا۔۔

ہم دونوں قریب آنے لگے تھے۔وہ اچھا انسان تھا۔وہ بھی وہی جاب کرتا تھا۔

کچھ دن میں ہم کافی کلوز ہوگئے تو ہم نے شادی کرلی۔

وہ میرا بہت خیال رکھتا تھا لیکن مجھے باہر کی آزادی پسند تھی۔

اس نے مجھے جاب سے منع کیا تو رک گئی۔لیکن میں گھر میں بور ہونے لگی دو سال بعد زارا میری گود میں آئی تو میرے پاؤں میں جیسے بیڑیاں ہی ڈل گئی۔

عرزم باہر رہنے لگا تھا وہ دو جگہ جاب کرتا تھا۔

میں ایک دن شاپنگ کرنے باہر نکلی تو مجھے سارا کے بابا افضل ملے جو اسی کلب میں آتے جاتے تھے۔

وہ مجھے پسند کرتے تھے لیکن میری شادی ہوگئی۔میری گود میں تین ماہ کی زارا تھی۔

عرزم کی جاب کی وجہ سے وہ مجھ پر توجہ کم دینے لگے تو میں نے افضل کے ساتھ رابطے بڑھا لیے ہم کلبز میں ملنے لگے۔

ایک دن عرزم نے مجھے دیکھا تو انہوں نے مجھے بہت مارا۔اور کمرے میں بند کردیا ۔

سارا روتی رہی لیکن میں نے اسے نہیں اٹھایا۔

مجھے سارا سے نفرت ہونے لگی تھی۔

پھر ایک دن ایسےہی افضل ہمارے گھر آیا۔تو میں اس کے گلے لگ کر خوب روئی۔

عرزم کا خون کھول اٹھا تھا وہ مجھے مارنے کے لیے آگے بڑھا تو افضل نے اسے دھکا دیا۔اس کا سر سیڑھی کے کارنرسے لگ گیا تھا۔

پچھلے حصے سے خون بہنے لگا تو وہ فرید اور میں گھبرا گئے۔

میں سارا کو لیتی گھر سے نکل آئی۔

دو دن میں افضل کے گھر چھپی رہی تو تیسرے دن پتہ چلا عرزم مر گیا ہے۔

میں چپ چاپ عدت گزارنے لگی۔تو افضل بھی خاموش ہوگیا۔میری عدت پوری ہوئی تو اس نے مجھ سے شادی کرلی۔

وہ مجھے ہر طرح سے آزادی دیتا تھا میری اپنی دنیا تھی لیکن زارا کا ہر وقت میرے ساتھ چپکنا مجھے غصہ دلاتا تھا۔

افضل نشے کے عادی تھے۔تو گھر میں پیسہ ختم ہونے لگا۔ان کی ریسٹورنٹ کی جاب سے بھی گھر کا خرچہ پورا نہیں ہوتا تھا 

ان کے چھوٹے بھائی جن کی شادی کافی پہلے ہوئی تھی ان کی دبئی میں کئی خفیہ فیکٹریاں تھی۔۔بزل شیخ اور ادریس شیخ سے ان کے کافی معاملات تھے۔

ایک دن میں نے ان کی باتیں سن لی تو  وہ مجھے مارنے کے لیے آگے آئے لیکن میں نے کہا کہ میں ان کا ساتھ دوں گی ۔

اور پھر میں افضل سے چھپ کر ان کے لیے کام کرنے لگی۔

سارا کی پیدائش پر زارا صرف دو سال کی تھی۔

مجھے سارا سے قدرتی لگاؤ تھا جبکہ زارا کو دیکھ کر عرزم یاد آتا جو ظالم تھا جو مجھ سے پیار نہیں کرتا تھا۔

یوں وہ لڑکی میری نفرت کی عادی ہوتی گئی۔

غنی کے باپ کی موت ہوئی تو علایہ چھوٹی ہی تھی۔پھر اس کی ماں بھی کار حادثے میں مرگئی تو غنی نے چھوٹی عمر میں ہی ذمہ داری سنبھال لی۔

سارا کو میرے معاملات کی خبر تھی۔میں نے زبردستی رشتہ غنی سے کروادیا تھا۔

افضل نشے کی وجہ سے بیمار رہنے لگے تو ڈاکٹر نے کینسر کا بتادیا۔

کچھ عرصے میں ان کی موت ہوگئی۔پھر میں مکمل آزاد ہوگئی۔سارا کو میں اپنے ساتھ رکھتی تھی وہ میرے جیسی ہی تھی جبکہ زارا اپنے باپ جیسی اچھی تھی۔"

ان کی باتیں سن کر کاشان کا دل کیا وہ اس عورت کو گولی سے اڑا دے لیکن وہ زارا کی ماں تھی۔

میں نے زارا کو ہمیشہ تکلیف دی رلایا مارا پیٹا لیکن وہ آج مجھے تکلیف میں دیکھ کر فوراً باہر آگئی۔

مجھے معاف کردو جسے اپنا سمجھا تھا وہی دشمن نکلا۔۔

کاشان جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔اور ہ رونے لگی تھیں۔

____________

کاشان کمرے میں آیا تو زارا پریشان سی صورت بنا کر دانتوں میں انگلی دبائے بیٹھی تھی۔

وہ اسے ایک نظر دیکھتا وارڈروب کی طرف آیا۔جوہی کو عجمان میں ہی دفنا دیا گیا تھا۔۔وہ پریشان تو تھا لیکن وہ زارا کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔

زارا نے اپنا اگنور ہونا دیکھ کر منہ بنایا۔

آؤچ کاشان میرا پاؤں درد کررہا ہے۔

وہ پاؤں پکڑے چیخی تو کاشان نے حیرت سے اسے دیکھا جو آنکھیں میچے درد سے کراہ رہی تھی لیکن چہرے پر مصوعی تاثر بھی تھا۔

کونسے پاؤں میں درد ہے۔؟ کاشان سینے پر ہاتھ باندھتا آگے آیا تو زارا نے مزید درد والا منہ بنایا 

اس پاؤں میں کاشان بہت درد ہے۔آؤچ کاشان۔۔۔وہ روتے ہوئے بولی تو کاشان کو مزید غصہ آیا۔

زارا ناٹک مت کرو۔تمہارا پاؤں بالکل ٹھیک ہے۔

وہ منہ بنا کر بولا تو زارا نے فوراٌ آنکھیں کھولی۔جہاں کاشان آنکھوں میں سختی بھر کر اسے ہی گھور رہا تھا ۔

آپ کیسے مانیں گے؟ پھر مجھے وہ طریقہ بھی بتادیں۔وہ چڑ کر بولی تھی۔

جاکر سب الٹے کام کرو جس سے میں تکلیف محسوس کروں۔

کاشان میں نے سوری تو کیا ہے اور آپ کے غنی کو مار بھی دیا۔

وہ منہ میں منمنائی تو کاشان نے اسے گھورا۔

تو اسے بھی تم بچالیتی۔اس کی بھی مدد کردیتی تاکہ کاشان ازغن کو اپنی ستمگری سے اچھے سے نواز دیتی۔

وہ جھٹ سے اٹھ کر اس کے سینے سے لگ گئی۔میں سوری کررہی ہوں لیکن آپ مان ہی نہیں رہے اگر میں رونے لگ گئی تو بالکل بھی چپ نہیں کروں گی۔"

وہ سینے سے لگ کر ناک رگڑتے معصومیت سے کہہ کر کاشان کے جذبات بھڑکا رہی تھی۔

پیچھے ہٹو جو دل میں آئے کرو۔میں ویسے بھی اپنی نیو گرل فرینڈ کے ساتھ آؤٹنگ پر جارہا ہوں۔

وہ شیشے کے آگے کھڑے ہوکر سپرے کرنے لگا۔شیشے میں سے اسے دیکھا جسے ابھی بیڈ پر پٹکا تھا۔

زارا جلدی سے اٹھ کر کاشان کی طرف آئی۔

ماتھے پر بل لیے وہ سبز نگینوں سے گھور رہی تھی۔

کاشان لاپرواہ بنا اپنے بال سیٹ کرنے لگا۔

میں آپ کو جان سے ماردوں گی اگر آپ کسی اور کے پاس گئے۔

وہ اس کی شرٹ جکڑے غرائی تو کاشان نے ابرو اچکائی۔

میں نے کل چاقو دیا تھا۔تم مار ہی نہیں سکی۔

وہ کندھے اچکا کر بولا تو زارا کو اس کی ناراضگی سے رونا آنے لگا۔

ٹھیک ہیں جائیں میں آپ سے بات نہیں کروں گی۔

وہ منہ بنا کر دوسری طرف ہوگئی تھی۔

کاشان سپرے کرتا گنگناتا ہوا باہر نکل گیا۔

زارا کا چہرہ دکھ سے سرخ ہوگیا تھا۔

___________

وہ ماما کو سوپ پلا رہی تھی۔اجیہ بیگم سارا کو دیکھنے لگی جس کا کھلا کھلا چہرہ اور دلہنوں والا حسن انہیں سکون دے رہا تھا۔لیکن وہ ان سے بات نہیں کررہی تھی۔

سارا۔۔۔!! وہ پکارنے لگی تو اس نے ماما کو دیکھا جن کی آنکھوں میں آنسو تھے۔

ماما آپ کو زارا پر کبھی پیار نہیں آیا۔وہ اتنی اچھی ہے اس نے آپ کی خاطر اپنی جان کی پرواہ نہیں کی لیکن آپ نے نہ اسے بلایا نہ سینے سے لگایا۔

اجیہ بیگم پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔

میں اس کا سامنا بھی نہیں کرپارہی ہوں۔وہ سچ میں ایک اچھی بیٹی ہے جس نے مجھے کبھی کسی چیز کے لیے تنگ نہیں کیا۔اسے کہو ۔مجھے معاف کردو۔

اجیہ نے سارا کا ہاتھ پکڑ لیا۔

پریشان مت ہو اجیہ بیٹا۔زارا بیٹی کا دل بہت بڑا ہے۔وہ تمہیں ضرور معاف کردے گی۔

گرینڈ ما نے بھی اجیہ بیگم کو حوصلہ دیا تھا۔

سارا ان کا منہ صاف کرتی باہر نکل گئی تھی۔

______________

وہ کچن میں باؤل رکھ کر زارا کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی جب کامل نے ایک جھٹکے میں اسے دروازے سے اندر کھینچ کر دروازہ بند کیا اور اسے دروازے کے ساتھ لگایا۔

سارا کی چیخ نکلی جو اس نے ہاتھ رکھ کر روکی تھی۔وہ اسے کے قریب تھا سارا کے منہ پر اس کی گرم سانسیں اپنا تاثر چھوڑنے لگی۔

کیا کررہی ہو لڑکی۔کیوں میرے ظالم بوس کر جگا رہی ہو۔

وہ سارا کی آنکھوں میں دیکھتے بولا تو سارا کی سانس میں سانس آیا۔

آپ نے مجھے ڈرا دیا تھا۔

وہ دور ہوتی سینے پر ہاتھ رکھ کر سانس بحال کرنے لگی۔

کامل نے اس کی عجیب نظروں سے دیکھا جو اس کی قربت میں کچھ محسوس نہیں کررہی تھی۔

عجیب لڑکی ہو؟ میں تمہارے قریب آیا نہ تمہارا دل دھڑکا نہ تم شرمائی؟" 

وہ حیرت سے بولا تو سارا نے ناراض نظروں سے اسے گھورا۔

جیسے آپ نے مجھے پکڑا مجھے کھینچا ایسے انسان صرف ڈرتا ہے کچھ فیل نہیں کرتا۔

وہ منہ بنا کر بولی تو کامل نے کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے گھورا۔

اب ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟"

وہ منہ پھولائے بولی تو کامل نے اس کی کمر کو جکڑ کر اپنے پاس کرلیا۔

کامل۔۔۔وہ دانت پیستی بولی تھی کامل نے اسے سینے سے لگایا تو وہ سرخ پڑتی نظر جھکانے لگی۔

اب تو کچھ فیل ہوا ناں؟"

وہ اس کی کان میں سرگوشی کرتا کان پر لب بھی رکھ گیا۔

نن نہین مجھے کیا فیل ہوگا۔وہ لرزتی بولنے لگی۔تو کامل کے عنابی لب مسکرانے لگے۔

اس کا مطلب تم فیلنگ لیس ہو اوہ مائی گاڈ ۔۔مطلب تم میں فیلنگ کا ہارمون ہی نہیں ہے۔

کامل نے بیچارگی بھرا منہ بنا کر سارا کو دیکھا ۔

سارا خود حیران تھی۔

ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ جھوٹ بول رہے ہیں وہ نظر چراتی بولی تھی۔

ایسا ہی ہے۔مجھے فیلنگ لیس بیوی مل گئی۔یہ کیا ہوگیا۔

وہ بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا تھا۔

سارا روہانسی ہوتی اس کی طرف آئی۔تو کامل نے اپنی ہنسی چھپانا مشکل ہوگیا تھا۔

کامل آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں ۔وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ڈرتے ہوئے بولی تو کامل نے افسوس سے اسے دیکھا۔میں سچ کہہ رہا ہوں جس میں فیلنگز نہیں ہوتی اس کے پارٹنرز دوسرج شادی کرلیتے ہیں کیونکہ وہ نہ اپنے ہسبنڈ سے پیار کرتی ہیں نہ اظہار کرتی ہیں۔

وہ معصوم سا منہ بنائے بولا تو سارا کا دل جیسے حلق میں آیا۔

نہیں کامل آپ صرف میرے ہیں میں آپ کو کبھی دوسری شادی نہیں کرنے دوں گی میں فیل کرتی ہوں ابھی جب آپ نے مجھے یہاں چھوا تو میرا دل دھڑکا تھا اور ہاں میرا فیس بھی ریڈ ہوگیا تھا۔اور میں آپ سے سب سے زیادہ محبت کرتی ہوں۔

اس نے اپنے گال کی طرف اشارہ کیا تو کامل کو اس کی معصومیت پر ٹوٹ کر پیار آیا لیکن وہ اسے مزید ستانا چاہتا تھا۔

سچ میں فیل ہوا تھا۔؟ کامل نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو اس نے ڈرتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔۔

پر اس کی آنکھوں میں شرارت دیکھتی وہ سب سمجھ گئی۔

ہاں جی بہت بہت برا فیل ہوا۔اتنی بڑی بڑی مونچھیں رکھ کر مجھے آپ سے ڈر کی فیلنگ آتی ہے۔

اپنے نازک ہاتھوں سے اس کے سینےپر تھپڑ مارتی وہ شیرنی بنی چیخی تو کامل بھی حیران ہوا لیکن پھر ہنستا چلاگیا۔

میری پاگل بیوی کو الو بنانا تو بہت آسان ہے۔وہ ہنستا ہوا بولا تو سارا کو مزید غصہ آیا۔

کامل آپ بہت برے ہیں آئی ہیٹ یو۔وہ اسے مارتی رونے لگی تو کامل نے اسے سینے سے لگایا تو وہ مزید رونے لگی تھی۔

میں اتنا ڈر گئی تھی۔ مجھے لگا سچ میں مجھ میں فیلنگز نہیں ہے۔وہ ناک رگڑتی بولی تو کامل کو اس کی معصومیت پر ٹوٹ کر پیار آیا تھا۔

اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھرتا وہ جگہ جگہ چھو کر اسے بوکھلانے لگا۔

ایسے کیسے ڈر سکتی ہو۔" اس کا ماتھا چوم کر اس نے دوبارہ سینے سے لگالیا تھا۔

اب ناں میں اپنی فیلنگز آپ سے چھپالیا کروں گی۔تاکہ آپ کو بھی مزہ آئے ۔مجھے لگا سچ میں۔۔کہیں۔۔وہ اب بھی خوف میں تھی۔۔

کامل ایک بار پھر مسکرایا تھا۔

دیکھتے ہیں کون فیلنگز چھپاتا ہے کیونکہ میرا پیار معصومانہ پیار اچھے اچھوں کی فیلنگ جگادیتا ہے۔

اور کس سے معصومانہ پیار کرتے ہیں بتائیں  زرا مجھے۔۔۔"

وہ بازو اوپر چڑھاتی کامل پر چڑھ دوڑی ۔۔

میں تو مذاق کررہا تھا۔میری کیوٹی تو سیریس ہوگئی۔اس کی نازک سے تھوڑی چومتا وہ اسے سینے مین بھی چھپانے لگا تھا۔

______________

وہ ڈرتے ڈرتے گرینڈ ما کے کمرے میں داخل ہوئی جہاں اجیہ بیگم آرام کررہی تھی۔

ان کے چہرے پر پیلاہٹ نمایاں تھی۔زارا کو  اپنے آنسو روکنے مشکل لگنے لگے۔

اجیہ بیگم کسی کی نظر محسوس کرتی آنکھ کھلی تو دروازے میں زارا تھی۔

وہ ڈر کر مڑنے لگی۔کہیں اجیہ بیگم اس سے ناراض نہ ہوجائے۔

لیکن ان کے بڑھے ہوئے ہاتھ اور بہتی آنکھیں اسے کئی زیادہ ہمت دے گئی تھی۔

وہ دوڑتے ہوئے ان کے سینے سے لگی۔

ماما میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گی کوئی فرمائش نہیں کروں گی لیکن آپ مجھے اپنے پاس بلالیا کریں میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں۔

وہ ان کے سینے سے لگتی شدت سے رونے لگی۔

اجیہ نے ایک بازو اس کے گرد لپیٹ دیا تھا۔دوسرے پر پٹی بندھی تھی۔

مجھے معاف کردو زارا میں تم سے نفرت کرتی رہی۔ایک بلاوجہ کی نفرت۔

میں دعا کروں گی اللّہ تم جیسی بیٹی سب کو دے پر میری جیسی ماں کسی کی نہ ہو 

اس کا ماتھا چومے بولی تو زارا نے نفی میں سرہلایا اور دوبارہ ان کے گلے سے جالگی۔

آج اتنے سالوں بعد ان دونوں کو ایک دوسرے کا پیار نصیب ہوگیا تھا۔

____________

علایہ۔۔" وہ کمرے میں آیا تو علایہ نے اسے دیکھا۔

وہ کچھ دن سے نوٹ کررہا تھا علایہ اس سے روٹھی سی ہے۔اس کے ساتھ بھی وہ اداس یا چپ رہتی تھی۔

غنی کی موت کا اسے دکھ تھا۔لیکن وہ گناہ گار بھی بہت سے لوگوں کا تھا۔

کیا ہوا؟ غنی کی موت کا دکھ ہے؟

وہ اس کو کندھوں سے تھام کر پوچھنے لگا۔

وہ میرا بھائی تھا۔اس کی موت کا افسوس تو ہوگا۔لیکن وہ گناہ گار بھی تھا۔

وہ نظریں چرا کر بولنے لگی۔

پھر مجھ سے اچھے سے بات کیوں نہیں کرتی۔کیا میں نے کچھ کہا ہے؟میں کافی دن سے دیکھ رہا ہوں۔

وہ اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر بے قرار ہوا تو علایہ نے آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا۔

احکام کی جان پر بن گئی تھی۔

کیوں رو رہی ہو بتاؤ کہاں درد ہے؟ کسی نے کچھ کہا ہے کیا ہوا ہے بتاؤ مجھے وہ اس کا چہرہ ہاتھوں سے چھوتا جگہ جگہ دیکھنے لگا۔اس کی بےقراری لفظوں سے ظاہر ہورہی تھی۔

لیکن وہ آنسو بہاتی لب دبا کر کھڑی رہی۔

علایہ۔۔کچھ بولو کیا ہوا ہے۔

آئی ایم پریگننٹ۔۔"ْ وہ روتے روتے بولی تو احکام حیران ہوا۔لیکن پھر خوشی سے مسکراتا خود کو یقین دلانے لگا۔

علایہ میری جان ۔۔۔ تم جانتی نہیں ہو یہ کتنی بڑی خوشی ہے اور تم رو کیوں رہی ہو۔؟

وہ اس کے ماتھے کو چومتے سینے سے لگاگیا۔تو وہ شدت سے روئی اور اس کے دل پر مکہ مارا۔

علایہ کیا ہوا۔دیکھو ایسے رو کر مجھے ڈراؤ مت بتاؤ کیا ہوا ہے۔وہ اس کی کمر سہلائے بولنے لگا تھا۔

مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں تم حالات سے ڈر کر دوبارہ اپنی جان دینے نہ چلے جاؤ۔اور تمہارے جانے کے بعد میری اور تمہاری اولاد بے آسرا زندگی گزارے۔

کبھی نہیں علایہ۔۔وہ میری ایک غلطی تھی۔میں حالات سے ڈر گیا تھا۔

میں اپنی دنیا کو چھوڑ کرکہاں جاؤں گا۔اور میری دنیا تو تم ہی ہو۔"

علایہ نے دوبارہ اس کے سینے پر مکہ مارا ۔ْ

مجھے اس دن لگا میں نے تمہیں کھودیا اگر تم اس دن واپس نہ آتے تو صبح تمہیں میری لاش کمرے میں لٹکی ہوئی ملتی۔

شٹ اپ علایہ۔۔ہوش میں ہو کیا بول رہی ہو۔میں خود ماردوں گا اگر ایسا سوچا بھی تو۔تم پر صرف احکام کا حق ہے۔

تو کیا کرتی تم حالات کو خود پر اتنا سوار کرچکے تھے کیا تمہیں میرا خیال آیا تھا یہ ہے تمہاری محبت؟ وہ چیخی تو احکام کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا۔

"آج کے بعد احکام کی زندگی پر تمہارا حق ہے احکام کی زندگی کا ہر فیصلہ تم کرو گی۔

میں وعدہ کرتا ہوں علایہ کا ہر حکم احکام کے سر آنکھوں پر ہوگیا۔

وہ اس کا ماتھا چومے ہاتھوں کو پکڑے بولتا علایہ کو خوشی دے گیا تھا۔

اب مجھے کبھی چھوڑ کر مت جانا نہ ہی کبھی کوئی ایسا فیصلہ کرنا جس سے میں ۔۔۔"

احکام نے اسے دوبارہ سینے سے لگایا تھا۔

کبھی نہیں تمہارا معصوم شریف اور کچھ سمجھدار شوہر کبھی تمہیں خود سے دور نہیں جانے دے گا۔

احکام۔۔۔۔۔" پلیز یہ سب نہ کہا کرو۔مجھے یقین نہیں آتا تم معصوم ہو۔"

معصوم تو میں بہت ہوں لیکن صرف تمہارے لیے باقیوں کے لیے تو احکام خوف کا نام ہے۔

اس کے دونوں گال سہلا کر اس نے آنکھوں پر لب رکھےتھے جو رونے سے سرخ ہورہی تھی۔

تم نے مجھے اتنی بڑی خوش خبری دی ہے تو کچھ سیلبریشن تو بنتی ہے وہ اسے دہکتی نگاہوں سے دیکھتا جھکنے لگا تو علایہ شرماتی بھاگی تھی۔۔

رکو لڑکی۔۔ایسے کیوں کررہی ہو۔بھول گئی تم۔۔۔"

وہ اسے لیے بیڈ پر بیٹھا تھا۔اسے ساتھ لٹائے وہ نرمی سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تھا۔اور دل میں اپنے رب کا شکرادا کررہا تھا۔جس نے اسے اتنی بڑی خوشی عطاکردی تھی۔

________

کاشان۔۔" زارا کے پاؤں پر گہری چوٹ لگ گئی ہے۔وہ درد سے تڑپ رہی ہے اور تمہیں بلارہی ہے۔

کامل کی کال پر اسے غصہ آنے لگا۔

جھوٹ مت بولو وہ بالکل ٹھیک ہے۔ صبح ہی میں اسے چھوڑ کر آیا تھا۔

کاشان کا دل تو دھڑکا تھا لیکن اسے لگا زارا مذاق کررہی ہوگی۔

تمہیں یقین نہیں آرہا کیا۔میں جھوٹ بول رہا ہوں۔

کامل چڑا تھا۔۔

وہ آج غنی کے خفیہ اڈوں کے خاتمے کے لیے آیا تھا۔سارا دن وہ اپنے آدمیوں کے ساتھ مگن تھا۔

کچھ آج اسے اپنے ماں باپ کی یاد بھی بہت آرہی تھی۔وہ ان کی قبر پر آیا تھا۔اس کے بعد وہ بیچ پر وقت گزارنے چلا گیا تھا۔

اب رات ہورہی تھی لیکن اس کا آج دل گھر جانے کو نہیں تھا۔لیکن اسے زارا کی بھی فکر تھی۔

میں تمہیں اس کے پاؤں کی تصویر بھیجوں وہ رو رہی ہے۔

میں آتا ہوں ۔تم سارا کو اس کے پاس بھیجو میں بس پانچ منٹ میں آتا ہوں۔اسے کہو فکر نہ کرے کاشان یہی ہے۔۔

وہ فون کان سے لگائے بے قرار سا بولتا گاڑی کی طرف بھاگا تھا۔

___________

وہ بے قرار سا گھر میں داخل ہوا جب گھر میں ہوا اندھیرا اسے حیران کرگیا۔

زارا۔۔۔وہ اونچی آواز میں چلایا تھا۔

ایک دم گھر کی روشنیاں جل گئیں تھیں۔اور شور بھی بلند ہوا تھا۔سب برتھ ڈے وش کے گیت گاتے اسے ایک حیران کرگئے تھے۔

بالونز اور ڈیکوریشن دیکھ کر وہ مزید خوش ہوا۔

سامنے وال پر ہیپی برتھ ڈے کاشان لکھا تھا۔

اس نے بے قراری سے نگاہیں ارد گرد ڈالی جہاں زارا ریڈ گاؤن پہنے بالوں کو  پشت پر پھیلائے میک اپ سے سبز نگینوں کو سجائے وہ حددرجہ پیاری لگ رہی تھی۔

اس کے ہاتھ میں پیارا سا کیک تھا۔۔

کاشان کی پریشانی ایک دم ختم ہوئی جب سب کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔

وہ آگے آیا تھا۔سب نے اسے پھول اور گفٹس دیے تو وہ اپنی خوبصورت مسکان سے سب کے گفٹ لینے لگا۔

زارا نے ایک نظر اسے دیکھ کر کیک ٹیبل پر رکھا تو وہ اسے دیکھتا دیوانہ ہوا جو اتنے حسین روپ میں اس کا ایمان ڈگمگا رہی تھی۔

وہ اپنی جگہ ہی کھڑی تھی۔

کاشان سب سے گفٹ لے کر اس کی طرف آیا تو زارا کی پلکیں لرز گئی۔

تم سچ میں ستمگر ہو تمہیں پتہ ہے ایول کنگ کو کیسے کاشان بنا کر دیوانہ بھی بنانا ہے۔

اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کراس نے کیک کاٹنے کے لیے پاس کیا تو اس کی بے باکی پر سب نے ہوٹنگ کی تھی۔

کچھ دن پہلے لوگ مجھے کہہ رہے تھے کہ ہنی مون بعد میں منا لینا اور تم یہیں اپنا ہنی مون شروع کرنے لگے ہو۔

کامل بے شرمی سے بولا تو سارا نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا جبکہ کاشان نے اسے گھوری سے نوازا۔

تم شادی کے بعد بہت بے شرم ہوگئے ہو۔

کاشان نے سرد انداز میں کہا جب  کامل نے اس کی بات ہوا میں اڑائی۔

کیک کاٹیں کاشان۔۔" وہ شرما کر بولنے لگی۔

کاشان نے جھک کر کیک کاٹا تھا۔

زارا کو کیک کھلا کر اس نے لبوں پر اپنا انگوٹھا پھیرا تو اس کا دل شدت سے دھڑکا۔

مجھے سرپرائز بہت پسند آیا ہے۔لیکن ابھی میں ناراض ہوں۔اور مجھے منانے کے لیے تمہیں مجھے پرپوز کرنا ہوگا۔

اپنی آنکھیں اس کے سبز نگینوں میں گاڑے وہ شدت پسندی سے بولا تو زارا کانپی تھی۔

وہ مسکرا کر سب کو کیک کھلانے لگا۔سب کو ایک ساتھ دیکھتا آج اسے اپنی ماں اور باپ کی کمی تو محسوس ہورہی تھی لیکن اس کی فیملی اللہ پاک نے ایک لے لی تھی تو دو بہنیں سارا اور علایہ کی صورت میں لوٹا بھی دی تھی۔

احکام کو کیک کھلا کر اس نے گلے سے لگایا تو احکام کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے تھے۔

تم آئندہ ایسی حرکت کبھی مت کرنا ورنہ تمہیں میں کلب میں ہمیشہ کے لیے چھوڑ آؤں گا۔

اس کے گال پر نرم سا پنچ مارا تو وہ شدت سے کاشان کے گلے لگ گیا تھا۔۔کاشان نے علایہ کے سر پر بھی پیار سے ہاتھ رکھا۔

کامل کو کیک کھلانے کے لیے وہ آگے آیا تو کامل نے جلدی سے منہ کھولا۔کاشان  نے سارا کی طرف کیک کرکے اس کے منہ میں ڈال دیا تھا۔

کامل نے منہ بنا کر کاشان کے پیٹ میں پنچ مارا۔

میں بوس ہوں بوس پر ہاتھ نہیں اٹھاتے جاہل آدمی۔باقی بچا کیک اس نے زبردستی کامل کے منہ میں ڈال کر اس کے کندھے پر پنچ مارا تھا۔

تمہیں میں جتنا شریف سمجھتا تھا تم اتنے ہی شادی کے بعد بیہودہ انسان نکلے ہو۔

شادی کے بعد بھی اگر شرافت سے رہنا ہے تو انسان کنوارہ رہ لے۔

کامل نے کندھے اچکائے تو سارا سرخ چہرہ چھپانے لگی تھی۔

کاشان سر جھٹک کر رہ گیا۔

گرینڈ ما کے گلے لگ کر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تو آج انہوں نے اسے مزید شدت سے اپنے ساتھ لگا کر حوصلہ دیا تھا۔

سب خوش گپیوں میں مصروف ہوئے تو کاشان کی نظر زارا پر گئی جو تھکی تھکی سی چئیر پر ہی بیٹھی تھی۔

کاشان نے اسے دیکھا تو مسکرانے لگی۔

کچھ دیر میں سب سونے کے لیے چلے گئے تو لاؤنج میں زارا اور کاشان رہ گئے تھے۔

روم میں نہیں جانا۔کاشان آنکھوں میں جذبات بھر کر اس کی طرف آنے لگا تو اس کا دل اچھل کر حلق میں آیا۔

نن نہیں آج میں یہی سونے والی ہوں آپ تو ناراض ہیں ناں۔۔

وہ منہ بنا کر بولی۔

تو تم منالو ناں۔۔وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے کھڑا کرچکا تھا۔زارا درد برداشت کرتی لب بھینچ کر اس کی گردن میں بازو حائل کرنے لگی۔

اس نے پاؤں تک فراک پہنا ہوا تھا۔

کیا ہوا تم ٹھیک ہو۔اس کا سرخ چہرا دیکھ کر وہ سیریس ہوا۔

ہممم آپ آگئے تو میں بالکل ٹھیک ہوگئی ہوں۔وہ اس کا گال چھوکر بولی تو اس کی بے باک نازک جان حرکت پر کاشان کا دل شدت سے دھڑک کر رہ گیا۔

اس نے زارا کو بانہوں میں بھرا تھا اور کمرے کی طرف بڑھنے لگا۔

زارا نے سینے پر سر رکھ کر آنکھیں بند کرلی۔

وہ اسے بیڈ پر بٹھائے اس کے قدموں میں بیٹھا تو زارا نے ججھک کر پاؤں سمیٹ لیے۔

کاشان نے سخت نظروں سے اسے گھورا  اور اس کا فراک اوپر کیا۔

پاؤں کی ایڑھی پر پٹی بندھی تھی۔اور کچھ خون کی بوندیں تھی جو پٹی پر تھی۔

کاشان زخم دیکھتا چپ رہا تو زارا نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں بھر کر اوپر اٹھایا۔

آپ کے لیے کیک ریڈی کررہی تھی گلاس ٹوٹ کر پاؤں میں لگ گیا۔اب پلیز ناراض مت ہونا  یہ میری کوئی ستمگری نہیں ہے۔

تمہیں میں ستمگر اسی وجہ سے کہتا ہوں ۔

 گلاس لگ گیا تھا تو ریسٹ کرتی مجھے فوراً فون کرتی لیکن تمہیں بس کام کی پڑی ہوگی۔

میں تمہیں وہاں ایک جگہ کھڑے دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا تمہیں کچھ ہوا ہے۔

میرے ایول کنگ کی برتھ ڈے تھی۔تو میں کیسے زرا سے زخم پر بیٹھ جاتی میں ایول کنگ کی کوئین ہوں۔

اور کنگ کوئین کو کبھی تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا ۔

اس نے نرمی سے پاؤں کو چھوا تو زارا دم سادھ گئی۔

وہ بادشاہوں جیسا شخص اس کا پاؤں چھو رہا تھا۔

زارا نے اسے فوراً تھام لیا تھا۔

کاشان۔۔پلیز۔۔وہ نفی میں سرہلانے لگی تو کاشان اٹھ کر اس کے برابر بیٹھا۔

ایول کنگ کو تم سے بہت محبت ہے۔لیکن جب تم ستمگری ڈھاتی ہوتو ایول کنگ کا دل تکلیف محسوس کرتا ہے۔اور پھر میرا دل کرتا ہے تمہیں شدتیں دکھا کر سزا دوں۔

اس کے گال کو سہلا کر وہ گھمبیر سا بولا تو زارا کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا۔

مم میں چینج کرلوں۔۔وہ اٹھنے لگی تو کاشان نے اسے بانہوں میں بھرلیا۔۔میں نے ابھی تمہاری تعریف نہیں کی تو تم کیسے چینج کرسکتی ہو۔۔

اس نے اپنے پاس کھینچ کر گال سے گال جوڑا تو اس کی داڑھی کی چھبن سے اس کے گال سرخ ہونے لگے۔

وہ ۔۔میں نے آپ کو ایک گفٹ دینا تھا۔

وہ جلدی سے بولی تو کاشان مسکرانے لگا۔

اچھا یہی بیٹھ کر دو۔۔کاشان نے گرفت مضبوط کرلی تھی۔

اس نے کانپتے ہاتھوں سے سائیڈ ٹیبل کا  ڈرار کھولا ۔

جہاں ایک باکس میں رنگ تھی۔

کاشان حیران ہوا تھا۔

یہ کب منگوایا ۔

آرڈر کیا تھا۔کیونکہ مسٹر  ایول کنگ مجھے اکیلے تو کہیں جانے نہیں دیتے۔وہ منہ بنا کر بولی تو کاشان نے شدت سے اس کا گال چوم لیا۔

کیونکہ ایول کنگ کی پاگل کوئین باہر جاکر الٹے کام بہت کرتی ہے کبھی جوس لے کر پی لیتی ہے تو کبھی بیچ پر ڈوبنے کے لیے چلی جاتی ہے اور کبھی گولی کھانے کے لیے باہر آجاتی ہے 

زارا نے منہ بنا کر اسے دیکھا جو مسکرا رہا تھا۔

جائیں میں آپ کو اب گفٹ نہیں دوں گی۔"

وہ گفٹ چھپانے لگی تو کاشان نے اس کا ہاتھ تھام کر جلدی سے باکس کھولا تو اندر ایک ایگل والی رنگ تھی۔جس پر بڑا سا اوپر گول دائرے میں K لکھا تھا۔اور چھلے پر زارا لو کاشان لکھا ہوا تھا۔

کاشان اس کی چوائس پر حیران ہوا اور شدت سے اس کا ماتھا چوما۔

آپ نے کہا تھا ناں میں آپ کو پرپوز کروں تو یہ لیں میں آپ کو پرپوز کرتی ہوں۔۔کیا آپ میرے کنگ بنیں گے۔

زارا نے رنگ اس کے سامنے کرکے پوچھا تو کاشان نے سر جلدی سے ہلایا اور اس کے ہاتھ سے رنگ پہن کر اسے سینے سے لگایا۔

میں شاید اتنی محبت کے قابل نہیں تھا۔لیکن تم نے مجھے محبت کے قابل بنادیا ۔

ایول کنگ دنیا کے لیے ہوگا۔۔تمہارے لیے میں صرف تمہارا کاشان ہوں۔جسے اپنا نام صرف تمہارے منہ سے اچھا لگتا ہے۔

اس کے لب  انگوٹھے چھو کر وہ پیار سے بولا تو زارا شرمانے لگی تھی۔

کل میں تمہیں بیچ پر سرپرائز دینا چاہتا ہوں کیا تم میرے ساتھ ڈیٹ پر چلو گی۔۔کاشان شرارت سے بولا تھا۔

مجھے نہیں جانا اس گندے بیچ پر ہمیشہ وہاں آپ مجھے ڈانٹ دیتے ہیں۔وہ منہ بنا کر بولی ۔

نہیں اب وہاں جا کر پیار کروں گا۔۔چلو گی کیا؟

وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر گھمبیر انداز میں بولا تھا۔

سوچوں گی۔سوچ کر بتاؤں گی۔

زارا نے گردن اکڑائی۔

ایسی کی تیسی تمہارے سوچنے کی میں اٹھا کر لے جاؤں گا۔

اس کے گال سے گال رگڑ کر وہ گردن کے گرد ہاتھ رکھ کر چڑ کر بولا تو زارا کا قہقہ گونجا تھا۔

خوشیوں نے ان کی زندگی میں دستک دے دی تھی۔

ایول کنگ کی زندگی میں اب کوئی غم نہیں رہا تھا۔

______________

اجیہ بیگم کا لیٹر پڑھ کر اس کے ہاتھ کانپنے لگے تو کاشان نے زارا کو سینے سے لگایا۔

انہوں نے اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کردیا تھا۔اور زارا کے لیے ڈھیروں دعائیں لکھی تھیں۔

سارا بھی پاس آکر زارا کے گلے لگ گئی۔

اجیہ بیگم سزا کی حقدار تھیں جو انہیں ضرور ملنی تھی۔

__________

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Sitamgar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Sitamgar written by Hoorab. Sitamgar by Hoorab is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages