Ishq Ek Tamana By Momina Shah Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Ishq Ek Tamana By Momina Shah Complete Romantic Novel |
Novel Name: Ishq Ek Tamana
Writer Name: Momina Shah
Category: Complete Novel
سورج کی روشنی دور افق پہ پھیلی تھی۔ کراچی کی ٹریفک صبح سے لیکر شام تک مشہور شاہراؤں پہ ایسے پھیلی رہتی کے قدم دھرنے کی بھی جگہ نا ملتی۔ آج بھی ہر روز کی ہی مانند دن تھا۔ وہ پچھلے ایک مہینہ سے جاب ڈھونڈنے کے چکر میں خود کو خوار کر رہی تھی۔ کل وہ جس دفتر گئ تھی وہاں اسکی دوست کام کرتی تھی۔ اسکی دوست کے آفس میں پرسنل سیکرٹری کی سیٹ خالی تھی اور اسکی دوست نے اسے پوری امید دلائ تھی۔ کہ یہ نوکری وہ اسے دلوا کر رہے گی۔ اور اس وقت وہ دفتر کی اونچی عمارت کے سامنے کھڑی تھی۔ ٹینشن کے مارے اسکا حال برا ہو رہا تھا۔ وہ بہت دعائیں کرتی رہی تھی یہ نوکری ملنے کی ، اسے سچ میں اس نوکری کی شدید ضرورت تھی۔ اور اسے آج اپنا انٹرویو بہت اچھا دینا تھا کہ اسے یہ نوکری مل جاۓ۔ اسنے اپنے بیگ کی اسٹرپ کو مضبوطی سے تھاما۔ اور قدم دفتر کی سمت بڑھا دیۓ۔
وہ اوپر آکر ویٹنگ ایریا میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگی۔ چند لڑکیوں کے بعد اسکی باری آئ۔ اسنے ڈرتے ڈرتے دروازہ ناک کیا۔ اسے اندرآنے کی اجازت ملی تو وہ سلام کرتی کرسی پہ بیٹھ گئ۔ سامنے دو مرد انٹرویو کے لیۓ بیٹھے تھے۔ تیسرا بھی کوئ وہاں گلاس وال کے پاس کھڑا تھا۔ گلاس وال کے پاس کھڑے شخص کی پشت ہی وہ دیکھ سکتی تھی۔ بہر حال وہ اپنی نشست پہ بیٹھی تھی۔ وہ بے حد کنفیوز سی بیٹھی تھی۔ اسنے بے چینی سے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔
" آ۔۔۔۔ں۔۔ آپکا نام۔۔۔۔۔؟؟۔" سامنے بیٹھے آدمیوں میں سے ایک نے پوچھا۔
" ساوری۔۔۔" اسنے تھوک نگل کر کہا۔
"۔۔۔۔ مس ۔۔۔ ساوری۔۔ اس سے پہلے آپکا کوئ جاب ایکسپیرینس ۔۔۔؟۔"
اس سوال پہ تقریبا ساوری کا منہ بنا تھا۔ کیونکہ وہ جہاں بھی جاتی جاب ایکسپیرینس نا ہونے کی وجہ سے اسے ریجیکٹ کر دیا جاتا۔
" نو ۔۔۔ ایکسپیرینس سر۔۔۔"
" کیا آپکو نہیں پتہ کہ اس جاب کے لیۓ کم از کم تین سال کا تجربہ ہونا ضروری ہے۔" اس شخص نے قدرے افسوس سے کہا۔
" میں جانتی ہوں ۔۔۔ سر پر مجھے اس نوکری کی اشد ضرورت ہے۔" ساوری نے ہمت کرکے کہا۔
" دیکھیں ایسے تو آج اتنی لڑکیاں آئ ہیں۔۔۔ اور سب ہی کو اس کام کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ پر ہم تو یہ نوکری اسی انسان کو دیں گے جو اس پوزیشن کے قابل ہو۔۔"
" میں سمجھ سکتی ہوں ۔۔۔۔ پر میرا یقین کریں میں بہت اچھے سے کام کروں گی آپ لوگ موقع تو دیں۔ پلیز اٹس جسٹ اے ریکویسٹ۔۔" اسنے تھوڑی سماجت کی۔
" محترمہ ۔۔۔۔۔ یہاں ہم نے کوئ سوشل سروس کی مہم شروع نہیں کی ، کہ ہم یہاں کسی انسان کی قابلیت صفر ہونے کے باوجود ان پہ رحم یا ترس کھا کر انہیں نوکری پلیٹ میں رکھ کر فراہم کر دیں۔" گلاس وال کے پاس کھڑے شخص نے بغیر مڑے سرد غصیلی آواز میں کہا۔
" سر جب کوئ موقع دے گا ہی نہیں تو قابلیت کا اندازہ کیسے ہوگا۔" ساوری نے با مشکل اپنی ناگواری کو چھپایا تھا۔
" ایمپریسو ۔۔۔۔ دلیلیں اپ کافی اچھی دے دیتی ہیں۔" وہ شخص مڑا تھا۔
وہ بلاشبہ ایک بہترین پرسنیلٹی کا مالک تھا۔ ساوری اسکی پرسنیلٹی سے اچھی خاصی مرعوب ہوئ تھی۔
" سر میں کام بھی بہت اچھا کر سکتی ہوں۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
" مبشر انکا ایکیڈمک ریکارڈ کیسا ہے۔۔" وہ شخص معتبر سی چال چلتا اپنی نشست سنمبھال چکا تھا۔
" سر انکا ایکیڈمک ریکارڈ کافی اچھا ہے۔"
اس بات سے ساوری کی مزید ہمت بندھی تھی۔ وہ اپنا دوپٹہ اچھے سے درست کرکے بیٹھی تھی۔ پر سامنے بیٹھے لوگوں نے اب اسکے حولیہ کو جائزہ لیتی نظروں سے دیکھا تھا۔
" ہم آپکو نوکری دے دیتے پر آپکا حلیہ ایسا نہیں کہ آپکو یہاں نوکری دی جا سکے۔" اس شخص نے سنجیدگی سے کہا۔
" سر میں اپنا حلیہ بدل لونگی ۔۔۔۔ پلیز مجھے اس نوکری کی اشد ضرورت ہے۔" اسنے جھٹ کہا۔
" ٹھیک ہے ہم آپکو جلد انفارم کردیں گے اگر آپ اس جاب کے لیۓ ایلیجیبل ہوئ تو۔۔"
" اوکے اللہ حافظ۔" ساوری گہری سانس لے کر اس کیبن سے نکلی تھی۔ باہر نکلتے ہی اسکی دوست اس سے ٹکرائ تھی۔
" کیا ہوا ۔۔۔۔ انٹرویو کیسا ہوا۔" اسکی دوست اسکے ہاتھ تھام کر کھڑی ہوئ۔
" پتہ نہیں کیا ہوگا ، مجھے نہیں لگتا کہ مجھے یہاں بھی نوکری ملے گی بھی یا نہیں۔" اسکا لہجہ ہارا ہوا تھا۔
" ڈونٹ وری۔۔۔۔ میں بھی کسی سے بات کرتی ہوں اوکے پریشان نا ہونا۔۔" اسکی دوست نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
" نوکری ملی یا نہیں۔۔ " بھابھی نے اسکے گھر میں گھستے ہی پوچھا۔
" کال کرکے انفارم کریں گے۔۔" اسنے تھکے تھکے سے انداز میں اپنے قدم گھسیٹے۔
" اگر تعہیں نوکری نہیں ملی ناں ساوری تو ہم دربدر ہوجائیں گے۔" بھابھی کی آنکھوں میں آنسو جمکنے لگے تھے۔
آپ پریشان نا ہوں بھابی یہاں سے نوکری کی امید ہے۔" اسنے نرمی سے کہا۔ "
" تمہارے بھائ کی دوائیاں بھی ختم ہوچکی ہیں۔" انہوں نے پانی کا گلاس اسکی سمت بڑھایا۔
" پانی ٹھنڈا نہیں ہے۔۔"
" نہیں میں نے فریج بند کر دیا ہے بل بہت زیادہ آیا ہے۔"
اسنے دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
" ٹیوشن والی نے بھی جواب دے دیا ہے۔ اور اسکول سے بھی نوٹس آگیا ہے۔" بھابھی کی آنکھیں ایک بار پھر بھیگنے لگی تھیں۔
" آپ پریشان نا ہوں بھابھی بس دعا کریں۔" اسنے فرش کو گھورتے کہا۔
" ہنہ ساوری اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہماری دعائیں بھی عرش تک نہیں پہنچتی۔۔" بھابھی کا لہجہ بے حد مایوس کن تھا۔
" بھابھی پریشان نا ہوں ۔۔۔۔ اور مایوس نا ہوں بہت جلد سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔" ساوری کی آنکھیں بھی اب بھیگنے لگی تھیں۔
" مایوس نہیں ہوں پر۔۔۔" بھابھی کے لب پھڑپھڑاۓ تھے۔
" آپ پریشان نا ہوں۔۔" اسنے انکے ہاتھ تھپتھپاۓ تھے۔
" ہمم ۔" انہوں نے سر کو جبش دی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
" یہ سالا کون ہے۔" وہ آنکھیں چندھیا کر بولی۔
" یہ وہی ہے جسکی سپاری تمہیں دینا چاہتے ہیں ہم۔۔" سامنے کھڑا شخص جسکا لباس قیمتی تھا۔ وہ ایک بہت بڑی آسامی تھا۔
" یہ۔۔۔۔ اس انکل کو ویسے مروانے کا کیوں ہے۔" اسنے نظریں گھما کر سامنے والے کی بڑی توند کو ایک نظر دیکھا تھا۔
" مجھے کسی نے کہا تھا کہ تم کافی اچھا کام کرتی ہو پر تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ کون ہے۔۔" وہ شخص اسکی اتنی کم جنرل نالج سے بیزار آیا تھا۔
" اوو توندو انکل ۔۔۔۔ تو کسی کو مروانے کی سپاری دینے کو آیا ہے تو انفارمیشن تو تجھے دینی پڑے گی ناں ۔۔۔۔ جانتی تو میں تیرے باپ کے باپ کے بارے میں بھی ہے۔ پر کیا ہے کہ میرے کام کا ایک فارمیٹ ہے اور میں کام اپنے حساب سے ہی کرتی ہے۔ میرے کو سکھانے کی ضرورت نہیں۔" اسکے تیور لمحوں میں بگڑے تھے۔
" نہیں وہ میرا وہ مقصد نہیں تھا۔" وہ شخص سٹپٹایا تھا۔
" چل بس۔۔۔ نوٹنکی بند کر۔۔۔ اور بتا کتنے دے گا۔۔؟؟۔" وہ اصل مدعہ پہ آئ تھی۔
" پچاس لاکھ۔۔۔۔" اس شخص نے دریا دلی سے کہا۔
" پچاس لاکھ ۔۔۔ الو سمجھا ہے کیا۔۔۔۔ اٹھ نکل نہیں تو تیرا ہی پتہ کٹ جاۓ گا۔۔" وہ لمحوں میں خونخوار ہوئ تھی۔
" ارے تم تو خفا ہورہی ہو ۔۔" وہ شخص خوشآمدی ہوا تھا۔
" تو بات تو ایسی کرے گا تو ایسا ہی ہوگا ناں۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوئ۔
" تم ایسا کرو تم بتا دو کتنا لوگی۔"
وہ سر آسمان کی طرف اٹھا کر مسکرائ تھی۔ دھوپ کی ہلکی ہلکی کرنوں سے اسکا چہرہ دمک اٹھا تھا۔
" تین کروڑ۔۔"
" تین کروڑ یہ بہت ذیادہ۔۔۔۔" وہ شخص اسکے بگڑے تیور دیکھ کر رکا تھا خجل سا ہنسا تھا اور تھوک نگل کر جھٹ گویا ہوا تھا۔
" بہت کم ہیں ہاہاہا ذیادہ تو بلکل بھی نہیں۔۔"
" ہمم تو پیسے جیسے ہی مجھے ملیں گے تمہارا کام ہوجاۓ گا۔" اسنے ایک شان سے پیر پہ پیر ڈالا۔
" جی ٹھیک۔۔۔" وہ مسکرا کر کہتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ سر کرسی کی پشت پہ ٹکا گئ تھی۔
" بہت کام کرنا ہے ، تیار رہو تمہاری موت کا پروانہ تمہارے قریب آرہا ہے۔" وہ خود سے بڑبڑائ تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
" کانفرینس ارینج کر دی۔" وہ بلیک کوٹ جھٹک کر پہنتے مستفسر ہوۓ۔
" جی سر۔" اسکا پرسنل اسسٹنٹ مسکرا کر گویا ہوا۔
" ہممم ٹھیک ۔۔۔۔ مخالف پارٹی کی جانب سے کوئ نیا بیان آیا۔" اسنے پرفیوم اٹھا کر خود پہ چھڑکا۔
" نہیں سر ابھی تک تو نہیں۔"
" حیرت کی بات ہے ویسے ، مجھے امید نہیں تھی اس بات کی۔" وہ تمسخر سے ہنسے۔
" چپ بیٹھنے والوں میں سے تو نہیں وہ لوگ سر یقینا اندر ہی اندر کوئ نا کوئ کھچڑی پک رہی ہوگی۔"
میر عالم خان نے مسکرا کر اسے دیکھا ، کلائ پہ گھڑی باندھتے وہ گہری سانس لیکر سر جھٹک گۓ تھے۔
" میری کافی۔" میر عالم خان نے آئبرو اچکا کر پوچھا۔
" آہ سوری سر میں بول کر آیا۔" مصطفی نے جھٹ کہا۔
" نہیں رہنے دو۔" انہوں نے اسے روکا۔
" ابھی پانچ منٹ میں بن جاۓ گی۔" اسنے رک کر کہا۔
" اٹس اوکے رہنے دو۔" اب انکا لہجہ قدرے درشت تھا۔
" اوکے سر۔" وہ سعادت مندی سے کہتا انکے پیچھے لپکا تھا۔
" بھائ۔۔۔" میر عالم خان اپنی چھوٹی اور سب سے پیاری بہن کی پکار پر رکے تھے۔
" جی کہیۓ۔۔۔ کیا کام ہے ہماری گڑیا کو۔" انکا لہجہ یکدم شفقت کی بارش میں بھیگا تھا۔
" بھائ کیا مجھے جب آپ سے کوئ کام ہوگا تب میں آپکے پاس آؤں گی۔" اسکے گال خفگی سے پھولے تھے۔
" آہاں ایسا کس نے کہا۔۔" میر عالم خان نے لاڈ اٹھاتے لہجہ میں کہا۔
" بھیا آپ نے ہی کہا۔"
" کب میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا۔" وہ حقیقتا حیران ہوۓ تھے۔
” ابھی تو آپ نے کہا تھا۔" وہ لب بسور گئ تھی۔
"اوکے اوکے سوری۔" انہیں فورا معذرت کرنا درست لگا۔
" اٹس اوکے۔۔۔ مجھے بھیا بیس لاکھ روپے چاہیۓ تھے۔" وہ اصل مدعہ پہ آئ تھی۔
" ہمم مصطفی نازنین کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کروا دو۔" میر عالم خان نے مسکا کر نازنین کو تکا۔
" آ۔۔۔۔ پر سر ابھی اتنی بڑی رقم ۔۔۔ سر الیکشن کے لیۓ ہمیں پائ پائ کی ضرورت ہے۔" مصطفی کی بات پہ نازنین کی آنکھوں میں شرارے عود آۓ تھے۔
" بھائ اپنے ملازمین کو انکی حدود آپ خود باور کروا دیجیۓ۔" نزنین نے آدھی بات کہہ کر مصطفی کو حقارت سے تکا تھا۔
" ورنہ اگر میں نے یہ کام کیا تو بہت نقصان ہوجاۓ گا لوگوں کا۔" گردن اکڑا کر کھڑی وہ لڑکی مصطفی کو زہر لگی تھی۔
"گڑیا پلیز۔۔ ایسے بات کرتی تم بلکل اچھی نہیں لگتی۔ مصطفی چلو دیر ہورہی ہے۔" میر عالم خان کو نازنین کا انداز بلکل پسند نہیں آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
" تنگ آچکی ہوں میں تمہاری فیملی کب تک یہ سب کچھ کرے گی۔ میں دن با دن ایک ذہنی مریضہ بنتی جا رہی ہوں۔" درفشاں حلق کے بل چلا رہی تھی۔ حیدر اسکے چیخنے چلانے کو نظر انداز کرتا دفتر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔
" تم میری بات کان کھول کر سن لو میں کوئ بچہ بیدا نہیں کرونگی۔" وہ ایک بار پھر چلائ۔
" مانتا ہوں کہ میں اس شادی میں شروع سے کمپرومائز کرتا آرہا ہوں پر اس سب میں ۔۔۔ تمہاری مدد کرنے سے میں تو قاصر ہوں۔ بچہ تو میں پیدا نہیں کرسکتا ناں۔" حیدر نے شانے اجکاۓ۔
" پیدا نہیں کرسکتے ، تو اپنے ماں باپ سے کہو کہ مجھ سے بچے کی ڈیمانڈ کرنا بند کریں۔" وہ کشن زمین پہ پھینک کر چلائ تھی۔
"ہفف اوکے۔۔ میں بات کرکے دیکھتا ہوں۔"
" صرف بات کرکے نہیں دیکھنا۔ ان سے صاف صاف کہہ دو میں بچہ نہیں پیدا کرونگی۔" اسنے تلخی سے کہا۔
" میں آفس جا رہا ہوں بعد میں بات ہوگی۔" حیدر نے ماتھا کھجا کر کہا۔
" اپنے کام کی کرئیر کی تمہیں اتنی فکر ہے پر میرے کام کا کوئ احساس ہی نہیں تمہارے خاندان کو۔" اسکی بڑبڑاہٹیں عروج پہ تھیں۔
" مجھے نہیں لگتا ایک بچہ پیدا کرنے سے تمہارے کریئر پہ کوئ خاص فرق پڑے گا۔" حیدر سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا تھا۔ اور وہ اب اپنا غصہ بے جان چیزوں پہ نکال رہی تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭
درفشاں پیشے سے ایک ماڈل تھی۔ وہ ایک ایسی ماڈل تھی جسکے لیئے اسکے کیریئر سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اسکا شوہر اور اسکی شادی بھی اسکے لیۓ معنی نہیں رکھتی تھی۔ وہ حیدر کی خالا زات تھی۔ حیدر کی والدہ اپنی بھانجی کو بڑے چاؤ سے بیاہ کر لائ تھیں۔ وہ بھانجی جو شادی سے پہلے خالا کے پلو سے بندھی رہتی تھی۔ اب اسی بھانجی کو شادی کے چند دن بعد اپنی خالا ناگن لگنے لگی تھی۔ اور حیدر کی اماںبھی اب درفشاں کے رنگ ڈھنگ دیکھ افسوس کے سوا کچھ نا کر پاتیں۔
٭٭٭٭٭٭٭
بھابھی دفتر سے فون آیا تھا میری نوکری لگ گئ۔ بس اب بھابھی صرف یہ ایک مہینہ گزارا کرنا پڑے گا اسکے بعد آپ دیکھنا انشااللہ سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔" وہ چہکتی ہوئ بھابھی کو بتا رہی تھی۔
" اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔" بھابھی کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔
" بھابھی مجھے کل سے آفس جوائن کرنا ہے۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا۔" وہ ابھی تک امیزڈ تھی۔
" ارے تم اتنی قابل ہو کیوں ناملتی تمہیں نوکری، یہ جن ، جن نے تمہیں کام نہیں دیا ناں ان سب نے ہیرا گنوا دیا۔" بھابھی نے مسکا کر کہا۔
" بھابھی آپ بھی ناں۔۔" وہ کھلکھلائ تھی۔
" ساوری ایک بات یاد رکھنا ہر ایک پہ بھروسہ نا کر لینا۔ تو بہت معصوم ہے۔ تو دنیا کی چالاکیاں نہیں سمجھ پاۓ گی۔ بس سب سے ایک حد تک ہی سلام دعا رکھنا۔" بھابھی نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔
" جی بھابھی میں آپکی بات سمجھ رہی ہوں۔" وہ بھابھی کی بات سے سو فیصد متفق تھی۔
" جاؤ اپنے بھائ کو بھی خوشخبری سنا دو۔"
" جی بھابھی میں ابھی جاکر بتاتی ہوں تاکہ وہ بھی ٹینشن لینا کم کریں۔" وہ پیروں میں چپل اڑستی اٹھی تھی۔
" بھائ اندر آجاؤں میں؟؟۔" اسنےدروازہ بجا کر اجازت لی۔
" آؤ ناں تم کیوں اجازت لیتی ہو پگلی۔" ساوری کا بڑا بھائ پچھلے چند ماہ سے بستر پہ تھا۔ روڈ ایکسیڈینٹ میں اسکے بھائ کی ٹانگيں ایکسپائر ہوچکی تھیں۔
" خوشخبری لائ ہوں آپکے لیۓ۔ آپکو پتہ ہے میری نوکری لگ گئ ہے۔"
" اچھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔" بھائ کی انکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ وہ انکی آنکھوں میں بے بسی دیکھ کر بوجھل دل ودماغ لیۓ انکے کمرے سے نکل آئ تھی۔
٭٭٭٭٭
" رقم پہنچی۔۔۔ آپکے پاس۔" مالک شاہ نے بڑے دھیمے نرم لہجہ میں پوچھا۔
" ہاں رقم تو اپنے کو موصول ہوچکی ہے۔"اسنے موبائل کان سے لگاۓ اپنے کھلے گیسوؤں کو اک ادا سے پیچھے کو جھٹکا۔
"تو کام اب کب۔۔؟؟۔"
" او حرام خور غریب عوام کا پیسہ چاٹنے والے۔ ان چند روپوں میں تو میرا مالک نہیں بن گیا۔ پیسہ بھیج دیۓ ہو اب انتظار کرو۔" اسکا دماغ لمحوں میں گھوما تھا۔
" نہیں وہ تو درست کہہ رہی ہو آپ پر ہمارا بھی تو سوچو ناں۔ وقت بہت کم ہے ہمارے پاس۔" مالک شاہ نے اب باقائدہ دانت پیسے تھے۔
" تیرے وقت کی کمی کا مجھے کوئ زور نہیں آتا۔ میں تو کام اپنے طریقہ سے ہی کرے گی۔ اور اگر تیرے کو اتنی شدید والی دکت ہے تو، تو یہ کام کسی اور کو دے دے۔" اسنے اپنے بندے کو گاڑی نکالنے کا اشارہ کیا تھا۔
" نہیں میں انتظار کرونگا ناں بس کام اچھے سے ہوجاۓ۔" مالک شاہ نے اضطراب کی کیفیت میں پہلو بدل کر کہا۔
" چل پھر بات ہوگی۔ ابھی اپنے دھندے کا ٹائم ہے باس۔" وہ بغیر مقابل کی سنے کال کاٹ گئ تھی۔ موبائل کو اپنی جینس کی پاکٹ میں ڈال کر اپنی بلیک لینڈ کروزر کا بیک ڈور کھول کر بیٹھی تھی۔
کچھ ہی لمحوں میں انکی گاڑی سبک روی سے سڑک پہ پھسلتی جارہی تھی۔ گاڑی قریب کوئ آدھے گھنٹے بعد قبرستان کے سامنے جا کر رکی تھی۔ اسنے اپنے بیگ میں سے ایک کالا مگر سفید پھولوں سے مزین اسٹالر نکال کر سر پہ اوڑھا تھا۔ آنکھوں پہ سیاہ چشمہ لگا کر وہ گاڑی سے اتری تھی۔ اسکا مکمل لباس سیاہ تھا۔ سیاہ ٹی شرٹ سیاہ جینز۔ وہ دھیرے دھیرے چلتی اپنی مطلوبہ قبر کے پاس آئ تھی۔ کچھ لمحے وہ وہاں کھڑی رہی۔ جھک کر قبر کی تختی پہ ہاتھ پھیرا۔ اس قبر کے ساتھ بنی دوسری قبر کے پاس جاکر اسنے دوسری قبر پہ بھی ہاتھ پھیرا۔ اور پھر قبروں کے پیروں کے پاس جاکر کھڑی ہوئ۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ دعا پوری کرکے اس نے نگاہیں ارد گرد گھمائ تھیں۔ قبرستان کی خاموشی کو ایک نظر دیکھا۔ ایک نظر آسمان کو دیکھ کر وہ اپنی گاڑی کی سمت آئ تھی۔
ڈرائیور نے گاڑی دوبارہ چلانا شروع کردی تھی۔ ڈرائیور نے شیشے سے دیکھا تھا۔ جو اب بھی کلف لگے لباس کی مانند اکڑ کر بیٹھی تھی۔ چشمہ اب بھی اسکی آنکھوں پہ تھا۔ پر اسٹالر اتر چکا تھا۔ اسکے سیاہ بال اسکے چہرے کے گرد پھیلے اسے مزید حسین بنا رہے تھے۔ گاڑی ایک بار پھر منزل مطلوب پہ جا کر رکی تھی۔ وہ گاڑی سے اتر کر ایک ادا سے چلتی سامنے بنی دو منزلہ پر قدرے بوسیدہ عمارت کی دہلیز پہ جاکر رکی تھی۔ اسے دیکھتے ہی" شعلہ میڈم " کی صدائیں گونجی تھی۔
وہ اندر ایک نظر ڈال کر مسکائ تھی۔
" ارے شعلہ ۔۔۔ آؤ۔۔ آؤ کل سے تمہارا انتظار کررہی تھی۔" بائ نے خوش آمدی کی۔
" کیوں بائ۔۔۔ تیرے ہارٹ پہ کیا میرے نام کے اٹیک پڑھ رہے تھے۔ خیریت۔۔!!۔" اسنے آنکھوں پہ سے چشمہ اتار کر بھنوئیں اچکا کر پوچھا۔
" ہی ہی ہی ارے۔۔ باتیں تو بڑی مزیدار کرتی ہے۔" بائ کی بھدی سی ہنسی پہ اسکا موڈ بگڑا تھا۔
" اے بائ۔۔۔ خالی فوکٹ میں دماغ چاٹنا بند کر کام بتا کیا ہے۔" اسنے اپنے نشیلے نین مٹکا کر کہا۔
" نیا مال آیا ہے۔ ایک دم ان ٹچ۔" بائ کمینگی سے کہا۔
" ارے واہ کہاں ہے گاڑی بھرو۔" اسنے چہک کر کہا۔
" اے زلفی ، او زلفی۔۔۔ مال گاڑی میں ڈال۔" بائ نے اپنے خاص بندے کو آواز لگائ۔
" ویسے شعلہ اس بار پوری پچس لڑکیاں ہیں۔ دام کیا دے گی۔" بائ نے باقائدہ ہاتھ مسلے تھے۔
" دھیرج رکھ اتنا دونگی کہ تیری سات پشتیں بیٹھ کر کھائیں گی۔" شعلہ نے مسکا کر کہا۔
" کتنا، کتنا دے گی۔؟؟" بائ نے بے صبری سے پوچھا۔
" دس۔۔ کروڑ۔" اسنے آنکھوں پہ واپس چشمہ لگا کر کہا۔
" دس ، دس کروڑ نیا آنے والا مال بھی تیرا۔" بائ کی خوشی کی کوئ انتہا نا تھی۔
" چلتی ہوں۔" وہ نزاکت سے کہتی کوٹھے سے نکل گئ تھی۔ اور پیچھے بائ دس کروڑ انگلیوں پہ گننے لگی تھی۔
٭٭٭٭٭
" یار میں تنگ آگیا ہوں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ میں تنگ آچکا ہوں۔"حیدر اپنے کیبن میں بیٹھا اپنے دوست کے ساتھ اپنے دکھڑے رو رہا تھا۔
" یار جب درفشاں بھابھی راضی نہیں تو تو اپنی فیملی کو سمجھا۔" اسفند نے اپنے طور اچھا مشورہ دیا۔
" کوئ کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ درفشاں نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ کوئ بچہ وچہ نہیں پیدا کرے گی۔ پر مام ، ڈیڈ اور دادا جان اور دادو انکو پوتا پاتی چاہیۓ۔ اب تو مجھے بتا میں کیا کروں۔" حیدر اپنا سر جارہیت سے تھام کر غرایا تھا۔
" بھائ۔۔ میری مان اس بات کا تو ایک ہی حل ہے تو دوسری شادی کر لے۔" اسفند نے چہرہ پہ سنجیدگی طاری کرکے کہا۔
" اس سے خراب مشورہ نہیں تھا کوئ۔ مطلب تو چاہتا ہے میں نیم پاگل سے پورا پاگل ہوجاؤں۔" حیدر نے اسٹکی نوٹس اٹھا کر اسے دے مارے تھے۔
" یار۔۔۔ بھلائ کا تو زمانہ ہی نہیں۔ میں نے تو خلوص دل سے مشورہ دیا تجھے۔ اب باقی تیری مرضی۔" اسنے تپ کر کہا۔
" نہیں یار ایسے چیزیں اور کمپلیکٹڈ ہو جائیں گی۔" حیدر نے سوچ کر ہی جھرجھری لی تھی۔
اسفند اسکی حالت دیکھ قہقہ لگاۓ بغیر نہیں رہ پایا تھا۔
٭٭٭٭٭
" میں آپ سب کو ان اندھیروں سے نکالنا چاہتا ہوں۔ میرا مقصد آپ سب کو سستی بجلی۔ پکی سڑکیں۔ اسکول۔۔۔ اور اچھے اسپتال فراہم کرنا ہے۔ میں جانتا ہوں، آپ سب کے لیۓ مجھ پہ یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ پر میں دل سے چاہتا ہوں۔ آپ سب مجھ پہ ایک بار یقین کریں۔ اس بار کے الیکشن میں ہمیں موقع دے کر یہ حکومت ہمیں دلوائیں۔" میر عالم خان اسٹیج پہ چڑھ کر مزدور پیشہ آوام سے مخاطب تھا۔ رات کے اس پہر وہاں لوگوں کا ہجوم اکھٹا تھا۔ میڈیا ٹی وی چینلز پہ لائو کورج دکھا رہا تھا۔ اس محفل سے بہت دور وہ اپنا اسٹالر پہنے ہر شخص کو بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
میر عالم خان اسٹیج سے اتر چکے تھے۔ اسپیشل سیکیورٹی کے درمیان انہیں انکی گاڑی تک پہنچایا گیا تھا۔ وہ بھی اپنی گاڑی اسٹارٹ کرچکی تھی وہ انکی گاڑیاں رواں ہونے سے پہلے ہی اپنی گاڑی اسٹارٹ کرکے گاڑی کے ایکسیلیٹر کو ہوا کہ دوش پہ چھوڑچکی تھی۔
اس وقت وہ میر عالم خان کے بنگلے کی پچھلی جانب کھڑی تھی۔ گاڑی وہ یہاں سے بہت دور روک کر آئ تھی۔ اب بس اسے یہ لوہے کی خاردار سنگلاخوں کو پھلانگنا تھا۔ وہ دیوار پہ بڑی مہارت سے چڑی تھی۔ سنگلاخوں کو تھامے بغیر وہ بنا آواز پیدا کیۓ پھلانگ نہیں سکتی تھی۔ مجبورا اسنے سلاخوں کو تھاما تھا اور بنا آواز پیدا کیئے وہ دوسری طرف رینگتی ہوئ اتری تھی۔ زمین پہ بیٹھ کر اسنے اپنے ہاتھوں کو دیکھا تو اسکے ہاتھوں سےخون رس رہا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ نظر انداز کرتی۔ اس گھر کا نقشہ دیکھ پائپ پہ تیزی سے چڑھی تھی۔ جب وہ کھڑکی سے اندر میر عالم خان کے کمرے میں کودی تھی۔ تب وہ آئینہ کے سامنے کھڑا اپنی گھڑی اتار رہا تھا۔ میر عالم خان کو شبہ ہوا کے کوئ اسکے پیچھے کھڑا ہے۔ وہ جیسے ہی مڑے سامنے جھٹکا تو انہیں تب لگا جب وہ گز بھر کی لڑکی ان پہ پسٹل تان کر کھڑی تھی۔
" کون ہو تم۔ اور یہاں کیا کر رہی ہو۔؟؟۔" میر عالم خان نے گرجتی آواز میں پوچھا۔
" یہ مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔ اپنی قسمت سے پوجھو کہ میں تمہارے لیۓ کون اور کیا بن کر آئ ہوں۔" اسکی سنہری آنکھیں چمک رہی تھیں۔
" بکواس بند کرو ، بے وقوف لڑکی۔ تمہیں یہاں اندر کس نے آنے دیا۔" میر عالم خان نے آگے بڑھ کر اسکا بازو دبوچا۔
" آہاں۔۔۔ میر عالم خان سوچنا بھی مت کہ مجھے یہاں سے میرا مقصد پورا ہوۓ بغیر نکال پاؤ گے۔" اسنے کہتے ہی اسکے پیٹ پہ لات ماری تھی۔ لات اتنی ذوردار تھی۔ کہ ایک پل کو وہ لڑکھڑا کر اسکا بازو چھوڑتا چند قدم پیچھے ہوا تھا۔
" موت بن کر آئ ہوں تمہارے لیۓ۔ اور جو دینے آئ ہوں۔ وہ دے کر ہی جاؤں گی۔" وہ مسکرا کر اپنی پاکٹ سے ایک اور پسٹل نکال کر اسکی آنکھوں کے آگے لہرا گئ تھی۔
" ہنہ۔۔۔ موت بن کر آئ ہو میری تو۔۔۔۔ مطلب اپنا آپ مجھے سونپ کر جاؤ گی۔"میر عالم خان طنزیہ ہنسے تھے۔
" گھٹیا ، ٹھرکی ۔۔۔۔ بڈھے۔" اسنے پنچ گھما کر انکے منہ پہ مارا تھا۔ میر عالم خان کراہ کر رہ گۓ تھے۔
" ابھی میرا گھٹیا پن تم نے دیکھا ہی کہاں ہے۔"وہ اسکے دونوں ہاتھوں سے پسٹل اچک کر بیڈ پہ پھینکتے۔ اسکی دونوں کلائیاں موڑ کر اسکی پشت پہ باندھ کر اسکی بے بسی دیکھ کر مسکراۓ تھے۔ وہ شعلہ ، شبنم سی لڑکی خود کو انکی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش میں پھڑپھڑا کر رہ گئ۔
" اب۔۔۔ بتاؤ کس نے بھیجا ہے۔" وہ اسکے کان کے پاس اپنے لب لاکر دھیمے لہجہ میں مستفسر ہوۓ تھے۔
" یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ میرے ہاتھ چھوڑو نہیں تو قسم کھا کر کہتی ہوں۔ آج اپنے فارمیٹ سے ہٹ کر کام کر گزروں گی۔" وہ تقریبا غرائ تھی۔
" نا اتنا بھی پاگل نہیں میں کہ اپنی ہونے والی۔۔۔ قاتلہ کو چھوڑ دوں۔" اسکی نازک کلائیوں کو انہوں نے مزید جارہیت سے دبایا تھا۔
" بہت پشتاؤ گے۔ میں، کہتی ہوں چھوڑو مجھے۔" وہ اسقدر زور لگا رہی تھی۔ کہ ایک پل کو میر عالم خان کو اس پہ اچھنبا ہوا تھا۔ کہ یہ لڑکی ہے بھی یا نہیں۔ کیونکہ اسکی طاقت تو مردوں سی تھی۔
" ایسی بات ہے۔ تو پھر تو میں پشتانے کو تیار ہوں۔" وہ دلکشی سے مسکراۓ تھے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے اسنے ایسے کلابازی ماری تھی۔ کہ میر عالم خان کا منہ حیرت سے کھلا تھا۔ اسنے میر عالم خان کو کمر پہ لات ماری تھی۔ میر عالم خان کا شدت سے دل چاہا تھا۔ کہ وہ اسکا گلا دبا دیں۔ شعلہ نے پھرتی سے بیڈ پہ سے دونوں پسٹل اٹھائ تھیں۔ اور مڑ کر میر عالم خان کو ایک چیلنجنگ مسکراہٹ لیۓ دیکھا۔
" شعلہ کو کیا شبنم سمجھے تھے تم۔ اپن شعلہ ہے۔ جہاں جاتی ہے ناں۔۔!! وہاں آگ لگا کر ہی نکلتی ہے۔" وہ میر عالم خان کی سنجیدہ آنکھوں میں اپنی سیاہ نشیلی آنکھیں گاڑھ کر بولی تھی۔
میر عالم خان محض اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔
اب منظر تبدیل ہوچکا تھا۔ اسنے میر عالم شاہ کو صوفہ پہ رسیوں سے جکڑ رکھا تھا۔ وہ بے بسی و طیش کی کیفیت سے دوچار تھے۔ شعلہ انکے مقابل پیر پہ پیر چڑھاۓ بیٹھی تھی۔ شعلہ کی آنکھیں اپنی فتح مندی پہ چمک رہی تھیں۔
" میرعالم خان۔۔۔" وہ گردن اکڑا کر اپنے لبوں پہ انکا نام لائ تھی۔
میر عالم خان نے اسے تقریب کھا جانےوالی نگاہوں سے اسے گھورا تھا۔
" جانتے ہو تمہیں قتل کرنے کو مجھے کتنی رقم مل رہی ہے۔" شعلہ نے اپنی کالی زلفوں کو اپنی انگلیوں پہ لپیٹ کر۔ ہونٹوں پہ پر اسرار سی مسکراہٹ سجا کر کہا۔
"اس بات سے مجھے کوئ سروکار نہیں۔ مجھے آزاد کرو۔ نہیں تو۔۔۔۔ میں چیخ چلا کر یہاں چند لمحوں میں تمہاری قبر کھدوا دوں گا۔" میر عالم خان نے اسے کو ا
اسکی بات پہ شعلہ کا قہقہ بے ساختہ تھا۔ اسکے قہقہ لگانے پہ انہیں اندازہ ہوچکا تھا۔ کہ وہ مکمل ہوم ورک کرکے آئ ہے۔
" ہنہ سیاست کا حصہ ہیں آپ۔ پھر بھی اتنے بھولے ہیں۔ آپکی سماعت میں ، زرا سا رس گھولتی ہوں۔ ذرا غور سے سننا۔ کیا آپکو میں اتنی بھولی لگتی ہوں۔ کہ کسی کو قتل کرنے جاؤں گی۔ اور اسکے بارے میں اتنا بھی پتا نہیں ہوگا۔ کہ یہ کمرہ ساؤنڈ پروف ہے۔ بلکہ اس گھر کی ہر دیوار ساؤنڈ پروف ہے۔ اب تم چیخو چلاؤ یا پھر تم ایسا کرو کہ اس کمرے کی ہر چیز کو اٹھا کر تہس نہس کر لو۔ اپس۔۔۔ پر تم تو بندھے ہوۓ ہو۔ تم تو اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے۔ سیڈ لی تمہارے پاس اپنی جان بچانے کے لیۓ ایک ہی آپشن بچتا ہے۔ اگر وہ آپشن جاننا چاہو تو بتا دینا میں تو چلی سونے۔" وہ مصنوئ انگڑائ لے کر اپنے پیر ٹیبل پہ رکھ کر خود پرسکون کرتی آنکھیں موند گئ تھی۔
میر عالم خان نے گہری سانس لیکر اپنا غصہ پیا۔ اور ہونٹوں پہ جبری مسکان طاری کرتا اس سے مستفسر ہوا تھا۔
" کیسا۔۔ آپشن۔؟"
اسنے ایک آنکھ کھول کر اسے دیکھا۔
" دس کروڑ۔" پرسکون لہجہ میں کہا۔
" ایسا سوچنا بھی مت ۔۔۔۔۔ !!! کہ میں تم جیسی فراڈ لڑکی کو اپنی جان بخشی کے لیۓ اتنی بڑی رقم دونگا۔" وہ بھڑکا۔
" ٹھیک ہے پھر مجھے بیوہ ہونے کا کوئ افسوس نہیں ہوگا۔" شعلہ نے آنکھیں واپس موندی۔
" کیا کہا۔۔۔ تم نے۔" انکو اپنی سماعت پہ شبہ ہوا۔
" کچھ نہیں کہا۔ پانچ منٹ سوچ سمجھ لے پھر بتا دے۔” وہ اپنا سر ہاتھوں میں گرا گئ تھی۔
" میرے پاس دس کروڑ نہیں۔"
" پانچ سو کروڑ کی جائیداد کے مالک کے پاس ، دس کروڑ نہیں۔" اسنے ویسے ہی جھکے سر کہا۔
" کیش نہیں ہے۔" میر عالم خان نے ہار مانی۔
" چیک دے دو۔" اسنے ایک جھٹکے سے سر اٹھایا۔ اسکی زلفیں بھی اسکے چہرے کے اطراف ناچنے لگی تھیں۔
" اسکے لیۓ پہلے تمہیں ، مجھے کھولنا پڑے گا۔" اسکی بات پہ شعلہ نزاکت سے ہنسی۔
" مجھ سے زیادہ چالو نہیں ہے تو۔" اسکی بات پہ میر عالم کا موڈ بگڑا تھا۔ خیر کچھ لمحوں بعد اسنے چیک سائن کر دیا تھا۔ اور شعلہ اسے بنا کھولے کھڑکی اور پھر دیوار بھی پھلانگ گئ تھی۔
" میر عالم اسکی بدتمیزی پہ چیختا چلاتا رہ گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
سورج کی کرنیں ، ارد گرد پھیلی موسم کو دلکش بنا رہی تھی۔ پرندے اپنے رب کی حمد و ثنا میں مشغول تھے۔ ساوری لگی آفس جانے کی تیاری کر رہی تھی۔ اسنے گرے اور کریم کلر کا لان کا سوٹ پہنا تھا۔ سوٹ کی کرتی سمپل اور اسٹائلش سلی ہوئ تھی۔ ساوری نے چہرے پہ ہلکا سا میک اپ کیا تھا۔ اور سر پہ گرے کلر کا ہی حجاب باندھا ہوا تھا۔۔ وہ گھرسے دفتر کے لیئۓ بنا ناشتہ کیۓ نکلی۔ دفتر کا پہلا دن تھا۔ گبراہٹ عروج پہ تھی۔ جب وہ دفتر پہنچی تو ورکرز آرہے تھے۔ اسکو ریسیپشنسٹ نے باس کے آفس میں جانے کو کہا۔ وہ اس وقت آفس میں سائڈ پہ رکھی اپنی سیٹ پہ بیٹھی تھی۔ ایک چھوٹا مگر نفیس سا ورکنگ ڈیسک اسکا تھا۔ ساوری نے دھیرے سے ڈیسک کی سطح پہ ہاتھ پھیرا۔ اسے اب بھی یقین نہیں آرہا تھا۔ کہ اسکی نوکری لگ گئ۔
" آپ۔۔۔۔ وقت کی کافی پابند لگتی ہیں۔" حیدر جیسے ہی اپنے آفس روم میں داخل ہوا۔ تو داہنی طرف پرسنل سیکرٹری کی ڈیکس پہ ساوری کو بیٹھے پایا۔
ساوری جھٹ کھڑی ہوئ تھی۔
" پلیز بیٹھیں۔" حیدر اپنی جیئر پہ جاکر بیٹھے تھے۔ ساوری اسکی اجازت ملتے ہی واپس بیٹھی تھی۔
" مس ساوری۔ میری پچھلی سیکٹری ایک ہفتہ تک آپکو کام کے حوالے سے ٹرین کریں گی۔ اسکے بعد آپکو کام خود کرنا پڑے گا۔ لو آگئیں مس ، بلکہ مسز ثانیہ واسق۔" حیدر اندر آتی ثانیہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔
" گڈ مارننگ۔" ثانیہ نے خوشدلی سے مارننگ وش کیا تھا۔
"گڈ مارننگ۔۔۔ ثانیہ اب آپ نے مس ساوری کو اچھے سے ہر ایک چیز کے بارے میں بریف کرنا ہے۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" اوکے سر ایک ہفتہ بعد یہ مجھ سے بھی اچھا کام کریں گی۔"ثانیہ ساوری کو دیکھ کر مسکرائ تھی۔
" ویل ۔۔۔ یہ تو ایک ہفتہ بعد ہی پتہ چلے گا۔" حیدر نے کچھ فائلز کے صفحہ پلٹتے کہا۔
" ساوری آؤ پہلے میں آپکو آفس دکھا دوں۔"
"ج۔۔جی اوکے۔" وہ جھٹ اٹھی تھی۔ وہ دونوں آفس سے نکل کر اب پورا آفس وزٹ کر رہی تھیں۔
٭٭٭٭٭
" کہاں جارہی ہو در۔" درفشاں جو سجی سنوری نجانے کہاں کی تیاری میں تھی۔ اپنی ساس کی پکار پر وہ بیزاریت سے مڑی تھی۔
" خالہ جانی کیا اب مجھے ، اپنے آنے جانے اپڈیٹ بھی آپکو ، دینی پڑے گی۔" اسکا لہجہ دھیما۔ مگر سلگتا ہوا تھا۔
" میں نے تو بس۔۔۔" وہ جز بز ہوئ تھیں۔
" میں نے تو بس کیا خالہ جانی۔ آپکو اندازہ ہے۔ اس وقت آپ میرے منٹ ضائع کر چکی ہیں۔ باۓ دا وے جو بھی بات ہے۔ ذرا جلدی کہیں۔" اسنے اک ادا سے کلائ پہ بندھی گھڑی کو دیکھا۔
" جانتی ہوں۔۔۔ بہت مصروف ہو تم پر۔۔۔ در چار سال ہو چکے ہیں۔ تمہاری اور حیدر کی شادی کو۔ اب ہم پوتا پاتی چاہتے ہیں۔" انہوں نے بڑی حسرت سے دامن بچھایا تھا۔
" خالہ جانی۔۔۔!! مجھے یقین نہیں آرہا ، کہ آپ مجھے فورس کر رہی ہیں۔ ایک بچہ نہیں ہوگیا۔ میری زندگی کا عذاب ہوگیا۔" اسنے بے فضول کا تماشا لگا کر انہیں شرمندہ کرنا چاہا۔
" کیسی باتیں کر رہی ہو۔ کیا تم کو خواہش نہی بچوں کی۔"
وہ انکی بات پہ طنزا مسکائ تھی۔
" نہیں۔۔۔ بلکل نہیں۔" وہ لفظ ، لفظ چبا کرتی مزید کوئ سنے نکل گئ تھی۔ اور وہ نم آنکھوں سے اسے جاتا دیکھتی رہ گئ تھیں۔
٭٭٭٭٭
" سر آپکو ایسے باندھ کر کس نے رکھا ہے۔" مصطفی کمرے کی صورتحال دیکھ بھونچکا کر رہ گیا تھا۔
" پلیز۔۔۔۔ پہلے مجھے کھولو مصطفی۔" وہ بیزاریت سے گویا ہوۓ تھے۔
مصطفی نے جھٹ بنا وقت ضائع کیۓ۔ میر عالم کو رسیوں کے اس چنگل سے آزاد کیا۔ رسیاں کھلتے ہی انہوں نے اٹھنا چاہا۔ مگر درد سے کراہ کر رہ گۓ۔
" سر آرام سے۔" مصطفی نے اسے سہارا دیا۔
" آہ۔۔۔۔ مصطفی سب سے پہلے وہ چیک باؤنس کرواؤ۔" میر عالم نے کراہتے کہا۔
" سر ۔۔۔۔ کونسا چیک۔؟؟" مصطفی کے حیرت کی کوئ انتہا نا تھی۔
" وہی چیک ، جو کل رات وہ آوارہ لڑکی مجھ سے سائن کروا کر گئ ہے۔" میر عالم بیڈ پہ ڈھے گۓ تھے۔
'' سر۔۔۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی۔" وہ متحیر سا کھڑا تھا۔
" سب چھوڑو ۔۔۔۔ چیک کا سیریل نمبر سینڈ کر دیا ہے تمہیں۔ جاکر اسے ابھی اسی وقت باؤنس کر دو۔" میر عالم نے بستر پہ پڑا، اپنا موبائل اٹھایا تھا۔
" شٹ۔۔۔۔۔ شٹ ، شٹ۔۔۔۔" وہ یکدم غصہ سے بے قابو ہوۓ تھے۔
" بہت شاطر ہے۔ چیک کیش کروا لیا اسنے۔"
" پر سر رقم تھی کتنی۔۔؟؟۔" اب مصطفی کو بھی فکر ہوئ تھی۔
" دس کروڑ۔"
مصطفی کو ایسا لگا تھا۔ کہ ایک پل میں ساتوں آسمان اسکے سر پہ آ پڑے ہوں۔ وہ سر تھام کر رہ گیا تھا اور زبان تو مانوں تالو سے چپک کر رہ گئ تھی۔
٭٭٭٭
" دیکھو ساوری سر کی میٹنگس ، وزٹس، پروفیشنل لنچز، ڈنرز ان سب کو تمہیں پہلے ارینج کرکے رکھنا پڑے گا۔ جیسے ہی سر آفس آئیں، تم انکو پورے دن میں کیا کیا کرنا ہے بتہ دینا۔ اور کافی۔۔۔۔ کا خاص خیال رکھنا۔ کیونکہ کافی وجہ سے میری بھی بہت بار بے عزتی ہو چکی ہے۔" ثانیہ آجری بات پہ ہنسی تھی۔
" جی میں ان سب باتوں کا خیال رکھوں گی۔" ساوری نے کسی سعادت مند شاگرد کی طرح بہت احترام سے کہا۔
" گڈ چلو سر کی کافی کا ٹائم ہوگیا ہے۔" ثانیہ نے اسے اٹھنے کو کہا۔ وہ اسکے ساتھ جیسے ہی سر کے آفس میں گھسی۔ وہاں کا تو حال ہی کچھ اور تھا۔
" حیدر میں بات پہلے ہی ختم کر چکی ہوں۔ اب یہ تمہارا کام تھا۔ کہ تم اپنی ماں کو بتاؤ۔" در فشاں چیئر پہ بیٹھی، ازلی خود سر لہجہ میں گویا ہوئ۔
" در پلیز گھر جاؤ۔ گھر پہ بات ہوگی۔" حیدر نے ان دونوں کو دیکھ کر بات کو سمیٹنا چاہا۔
" بات یہیں ہوگی۔ جو بھی ہوگی۔" اسکا لہجہ ضد سے مزین تھا۔
" در تماشا مت لگاؤ۔" حیدر کے لہجہ میں واضح وارننگ تھی۔
" تماشہ میں نے نہیں تمہاری ماں نے لگایا ہے۔" وہ ٹیبل پہ ہاتھ مارتی غرائ تھی۔ حیدر نے اسے کھا جانے والی نظروں سمیت گھورا تھا۔
" اپنی ماں کو سمجھا دو۔ میں بچہ پیدا کرنے والی کوئ مشین نہیں ہوں۔" وہ تن فن کرتی وہاں سے نکل گئ تھی۔
حیدر ان دونوں کے سامنے شرمندہ ہورہا تھا۔
" سر ہم آپکی کافی بنا لاکر لاۓ۔" ثانیہ نے ایسا شو کیا جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نا ہو۔ ساوری جو سارا تماشا دیکھ حیرت زدہ سی کھڑی تھی۔ ثانیہ نے اسے کلائ سے تھام کر اپنے پیچھے دفتر میں ہی بنے منی کچن میں گھسیٹا تھا۔ حیدر سر تھام کر بیٹھا تھا۔ کچن سے آتی ساوری کی آواز کی سمت متوجہ ہو گیا۔
" یہ۔۔۔ سر کی وائف تھیں۔" ساوری نے اپنے تئیں بڑے ہی دھیمے لہجہ میں پوچھا۔
" ہمم۔" ثانیہ نے کافی پھینٹتے کہا۔
حیدر اشتیاق میں اٹھ کر کچن کے دروازے کی اوٹ میں کھڑا ہوا تھا۔
"سر بہت ظالم لگتے ہیں۔ بے چاری سے اتنے بچے پیدا کروا لیئے کہ اب وہ مزید بچے ہی نہیں چاہتی۔" ساوری نے افسوس کیا۔
" ہنہ۔۔۔ ایسا کچھ بھی نہیں۔ سر کے ہاں کوئ اولاد نہیں۔" ثانیہ کو اسکی بات پہ ہنسی آئ تھی۔ حیدر کچن میں ساوری کی پشت پہ آ کھڑا ہوا تھا۔
اسکی آواز پہ ساوری اچھل کر پیچھے مڑی تھی۔ حیدر گھور ساوری کو رہا تھا پر مخاطب اسنے ثانیہ کو کیا تھا۔
" مس ثانیہ۔۔۔ اگر باتیں بنا کر فرصت مل گئ ہو تو، میری کافی مجھے ملے گی مجھے۔" ساوری نے تھوک نگل کر نظریں چرائ تھیں۔
٭٭٭٭٭
" بھائ کہاں ہیں۔؟؟؟" نازنین نے بال جھٹک کر پوچھا۔
" سر اس وقت اسٹڈی روم میں ہیں۔ اور انہوں نے منع کیا ہے کسی کو اندر آنے سے۔" مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔
"مجھے پیسے چاہیئں، ٹرانسفر کر دو۔" حکم صادر کیا گیا۔
" پر ابھی ۔۔۔ کل ہی تو دیۓ تھے۔ بیس لاکھ۔۔۔"
" اوقات میں رہو سمجھے۔ جتنا کہا ہے۔ بس اتنا کرو۔" وہ انتہائ غصہ سے گویا ہوئ۔
" نازنین ۔۔۔ دیکھو ۔۔ تم سر سے اتنے پیسے فلحال نا مانگو۔ انکو الیکشن کے لیئے پیسے کی بہت ضرورت ہے۔" مصطفی نے اس بدتمیز بے باک لڑکی کو سمجھانا چاہا۔
" اوہ مائے گاڈ ۔۔۔ میں نے تمہیں ہزار بار کہا ہے میرے منہ مت لگا کرو ایک نوکر ہو۔ نوکر ہی بن کر رہو۔" اسکے الفاظ آگ برسا رہے تھے۔
" اتنا غرور بھی اچھا نہیں ہوتا مس نازنین خان۔ وقت کب بدل جائے کسی کو کوئ خبر نہیں ہوتی۔ نجانے کب کس کا درجہ کس سے اونچا ہوجائے۔" مصطفی کو اسکے انداز پہ ہمیشہ کی طرح تاؤ آیا تھا۔
" ہاہاہا۔۔۔۔ کیسے بے ہودہ مذاق کرتے ہو تم۔ دو کوڑی کی بھی نہیں تمہاری اوقات۔ اور تم مجھ سے اپنا درجہ اونچا ہونے کی بات کرتے ہو۔" اسکی ایک نظر میں کیا کچھ نہیں تھا۔ اسکی تحقیر بھری نظریں مصطفی کو آج پھر توڑ گئ تھیں۔
" تم سے بات کرنا ہی فضول ہے۔" مصطفی نے تنک کر کہا۔ اور وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔
مجھے اپنے گھر جانا ہے۔" ایک لڑکی سر جھکاۓ کھڑی دھیرے سے منمنائ تھی۔ شعلہ نے اسے تنقیدی انداز میں سر سے لیکر پیر تک تکا تھا۔
" فائدہ نہیں ہے واپس جانے کا۔ تو بے داغ ہے۔ پھر بھی داغ دار کہہ کر جھٹلا دیا جاۓ گا۔ دھکے دے کر تیرے مائ باپ کے آنگن سے نکال دیا جاۓ گا۔" شعلہ نے بہت نرمی سے کہا۔
"ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔" اس لڑکی کا لہجہ پر یقین تھا۔
" امید کرتی ہوں۔ کہ یہ امید۔۔۔۔ یہ یقین نا ٹوٹے۔" شعلہ نے مسکا کر کہا۔
" تو آپ مجھے کب بھیجیں گی۔؟؟" اس لڑکی نے بے تابی سے پوچھا۔
"آج ابھی اسی وقت۔ اگر کوئ دھتکار دے۔ تو بنا جھجک کیئے یہاں واپس آجانا ، یہاں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہیں گے۔" شعلہ کی پر خلوص پیشکش پہ وہ لڑکی تہہ دل سے اسکی شکر گزار ہوئ تھی۔
" شکریہ بہت۔۔۔۔ آپ نے تو اس دلدل سے نکال کر ہی بہت بڑا احسان کیا ہے مجھ پہ۔"
" عاشر ۔۔۔ ڈرائیور کے ساتھ جاکر۔ اسے اسکے گھر چھوڑ آئیں۔" شعلہ نے ایک نو عمر لڑکے سے کہا۔
" اوکے میم۔۔۔" عاشر سعادت مندی سے کہتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ لڑکی بھی اسی کے پیچھے نکل گئ تھی۔ شعلہ نے انکے جاتے ہی ریوٹ اٹھا کر ٹی وی آن کیا تھا۔
" بی۔ ای۔لیگ کے چیئر مین مالک شاہ کا ایک روڈ ایکسیڈینٹ میں انتقال ہوگیا۔" ٹی وی چینلز پہ اس خبر کو بار بار دھرایا جا رہا تھا۔ شعلہ پر اسرار سامسکرائ تھی۔ اپنا موبائل اٹھا کر سم بدلی تھی۔ کال ملا کر موبائل کان سے لگایا تھا۔
" ہیلو مسٹر پولیٹیشن۔" اسنے لب دبا کر جواب کا انتظار کیا تھا۔
" کون۔۔۔؟؟" دوسری جانب بیٹھا شخص پہچاننے کی کوشش میں تھا۔
" اتنی جلدی بھول گۓ۔" شعلہ نے موبائل کان سے لگاۓ ۔ اپنے نازک مرمریں ہاتھوں کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔
" سوری۔۔۔۔ رانگ نمبر ۔"
" نا بلکل رائٹ نمبر ہے۔" اسنے جھٹ کہا تھا۔
" خیر۔۔۔ مجھے بھول گۓ ہوگے۔ پر اپنے دس کروڑ تو یاد ہونگے۔ تہارا قاتل آج کی سرخیوں پہ چھایا ہوا ہے۔" اسنے ایک ادا آنکھیں مٹکا کر کہا۔
" تم۔۔" میر عالم چونکے تھے۔ اور وہ مسکرا کر کال کاٹ چکی تھی۔ اسنے سم نکال کر توڑدی تھی۔ میر عالم نے دوبارہ اس نمبر پہ بہت بار کال کی۔ پر ہر بار ایک ہی جواب آتا۔ کہ یہ نمبر اب کسی کے استعمال میں نہیں۔
٭٭٭٭٭
" ویسے ثانیہ آپ کیوں یہ جاب چھوڑ رہی ہیں۔" ساوری نے لنچ ٹائم میں پوچھا۔
" میری شادی ہو رہی ہے۔" ثانیہ نے مسکا کر بتایا۔
" ماشااللہ مبارک ہو۔" ساوری نے مسکا کر کہا۔
" تھینک یو۔"
ساوری اسکے شکریہ کرنے پہ مسکرائ تھی۔
" ساوری۔۔۔ میری شادی میں وقت بہت کم ہے۔ اور تیاری بہت زیادہ ہے۔ میں تمہیں آج ایک ہی دن میں کافی ذیادہ گائڈ کرچکی ہوں۔ اب اگر میں کل سے نا آؤں۔ تو کیا۔۔ تم مینج کر لو گی۔" ثانیہ کی بات سن کر ساوری کچھ پریشان ہوئ تھی۔ مگر پھر یہ سوچ کر اثبات میں سر ہلا گئ۔ کہ جانا تو اسے ایک ہفتہ بعد بھی تھا۔ تو آج ہی سہی۔
" ہمم میں مینج کر لوں گی۔"
" تھینک یو۔" ثانیہ کھل کر مسکرائ تھی۔
٭٭٭٭٭
نازنین کی سہیلیاں آئ ہوئ تھیں۔ اسکی سہیلیاں بھی اس جیسی تھیں۔ گھمنڈی لاپرواہ۔ برے کی شامت سے مصطفی گھر آنا پڑا۔ کچھ کاغذات حیدر کے کمرے سے اٹھانے تھے۔ وہ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی ٹھٹکا۔ پر انکو نظر انداز کرتا وہ زینوں کی جانب گیا جب اس کسی کی نازک سی آواز سنائ دی۔
" نازنین یہ ہینڈسو کون ہے۔"
ناچاہتے ہوۓ بھی مصطفی کے قدم جواب سننے کی چاہ میں سست پڑے تھے۔
" مجھے نہیں پتہ تھا تمہارا ٹیسٹ اتنا خراب ہے۔ باۓ دا وے نوکر ہے ہمارا۔" نازنین نے بغی تامل کہا۔
مصطفی مٹھیاں بھینچتا۔ جس کام کے لیۓ آیا تھا۔ وہ کرنے چلا گیا۔
" میرا ٹیسٹ خراب نہی۔ تمہاری نظریں خراب ہیں۔" اسکی دوست نے ایک آنکھ دبائ۔
" نوکر ہے وہ۔" نازنین نے چبا کر کہا۔
" تو کیا ہوا۔ ڈیشنگ بھی تو اتنا ہے۔"
" کیا ہم کوئ اور بات نہیں کرسکتے۔؟" وہ چڑی تھی۔
" پاں۔۔ کر سکتے ہیں۔" اسکی سہیلی نے زینوں کو منتظر نظروں سے تکا تھا۔
نازنینین کا جی چاہا تھا جاکر مصطفی کا گلا دبا دے۔
٭٭٭٭٭
میر عالم خان پارٹی کے دفتر میں ، پیر پہ پیر چڑھاۓ ٹھوڑی کے نیچے مٹھی رکھ کر پر سوچ سے بیٹھے تھے۔ انکو شعلہ کی بات نے کشمکش میں ڈالا ہوا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد دماغ جس نتیجے پہنچتا تھا۔ وہاں آکر ایک سوال اٹک کر رہ جاتا، کہ اس وقت کیسے۔۔۔؟؟
مصطفی نے اندر آکر فائل ٹیبل پہ رکھی تھی۔ خراب موڈ لیۓ مصطفی نے میر عالم خان کو سوچوں میں ڈوبا پایا۔
" سر۔۔۔ خیریت ہے۔"
میر عالم چونکے تھے۔ انہوں نے سر کو نفی میں جنبش دی۔
" مالک شاہ کا جنازہ کب ہے۔۔؟"
" ابھی کچھ پتہ نہیں۔" مصطفی نے میر عالم کو پرسوچ نظروں سے تکا۔
" ہممم۔۔ ویسے مصطفی ایک بات پوچھوں۔" میر عالم نے ٹیبل پہ جھک کر پوچھا۔
" آپ کب سے اجازت لینے لگے۔" مصطفی ہنسا تھا۔
"مزاق نہیں کر رہا۔" میر نے چڑ کر کہا۔
" اچھا چلیں پوچھیں۔۔" مصطفی ریلیکس سا ہو کر بیٹھا۔
" آج خبروں کی سرخیوں پہ کون چھایا ہے۔؟؟"
" لو یہ بھی کوئ پوچھنے والی بات ہے۔ افکورس مالک شاہ کی موت۔" مصطفی نے جھٹ کہا۔
" ہمم۔۔۔۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ اس وقت ، جب الیکشن بلکل سر پہ تھے۔ مالک شہ میرے قتل کے بارے میں سوچ سکتا تھا۔"
" میں سمجھا نہیں اس وقت ان سب باتوں کا مقصد۔" مصطفی نے میر عالم کے چہرے کو جانچا۔
اس سے پہلے کہ میر عالم کوئ جواب دیتا۔ اسکے موبائل کی میسج ٹون بجی تھی۔ نمبر ان نون تھا۔
áیر عالم نے میسج کھولا۔
" اپنے قاتل کو ٹھیک پہچانے ہو۔ اگر چاہتے ہو کہ دشمن سارے تمام ہو جائيں تمہارے۔ اور یہ آنے والی حکومت تمہاری ہو جاۓ۔ تو آج رات دو بجے گورا قبرستان آجانا۔"
"کیا ہوا کس کا میسج ہے۔۔؟؟" مصطفی نے اسکے رنگ پدلتے دیکھ پوچھا۔
"ہ۔۔ا۔۔ہاں۔۔۔ وہ۔۔ کسی کا نہیں بس ایسے ہی۔" میر عالم نے نگاہ چرا کر کہا۔
٭٭٭٭٭
" ممی میں تنگ آچکی ہوں۔ آپ کے کہنے پہ میں نے، اپنی زندگی ایک غلط انسان کے ساتھ برباد کر دی۔" وہ صوفہ پہ بیٹھی اس وقت اپنی ماں سے بھی خفا تھی۔
" پاگل مت بنو ۔۔۔۔ ایک بچہ ہی تو پیدا کرنا ہے۔ ایک بار بس ایک بچہ پیدا کر لو۔ پھر تو تم عیش کروگی۔" اسکی ماں نے اسے کچھ عقل دینا چاہی۔
" سوچنا بھی مت ایسا مام۔ ماڈنگ کی دنیا میں اب میرے پیر جمنے لگے ہیں۔ اور ای بچہ پیدا کرکے میں اپنا فگر بلکل خراب نہیں کر سکتی۔" اسنے صاف انکار کیا تھا۔
"تم ۔۔۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔"
" آپ نے کیا ٹپکل عورتوں والی گاسپ شروع کر دی ہے۔" وہ بیزار آئ تھی۔
" ایسا مت کرو ایک مرد عورت کا رشتہ بچہ ہونے کے بعد مضبوط ہوجاتا ہے۔"
" میرے خیال سے مجھے یہاں آنے سے پہلے اب سوچنا پڑے گا۔" اپنا پرس اٹھاتی وہ تن فن کرتی وہاں سے نکل گئ۔
٭٭٭٭٭
" اسلام و علیکم بھابھ۔ی۔" وہ سلام کرکے تھکی تھکی صوفہ پہ بیٹھی تھی۔
" وعلیکم اسلام۔۔۔ حبا جاؤ بیٹا پھوپھو کے لیۓ پانی لاؤ۔" بھابھی نے اپنی بیٹی کو پانی لانے کے لیۓ کہا۔
" آح دفتر کا پہلا دن کیسا رہا۔؟؟"
" اچھا تھا بھابھی۔" اسنے مسکا کر بتایا۔
" تھک گئ ہو۔"
" نہی۔ بلکل نہیں۔"
" معاف کردو۔ ہماری خاطر تمہیں یوں ذلیل ہونا پڑ رہا ہے۔" بھابھی کا لہجہ ندامت سے مزین تھا۔
" بھابھی۔ آپ مجھے شرمندہ کر رہی ہیں۔ آپ لوگوں کے لیۓ تو جان بھی حاظر۔"
"تمہارا یہ احسان۔۔" بھابھی کی آنکھیں نم ہوئ تھیں۔
" بس بھابھی مجھے بھوک لگی ہے۔ اب ادھر ، ادھر کی باتیں بعد میں پہلے مجھے کھانا دیں۔" اسنے قصہ ہی ختم کر ڈالا تھا۔ بھابھی جھٹ اٹھی تھیں۔ اور وہ مسکرا کر رہ گئ تھی۔
٭٭٭٭٭
" حیدر۔۔۔۔ دیکھو بیٹا۔۔۔ ہم اپنی خواہش تو دبا دیں گے پر۔ کیا تمہارا دل نہیں کرتا کہ تمہارے بچے ہوں۔" حیدر کی اماں ڈنر ٹیبل پہ بیٹھی گویا ہوئیں۔
" میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے مام۔ اسنے صاف منع کر دیا ہے۔" حیدر نے نظریں چرا کر کہا۔
" حیر تم اسے سمجھاؤ۔ بیوی ہے تمہاری۔" امی نے کھانا چھوڑ کر اسے تکا۔
" امی وہ کسی کی سننے کے موڈ میں نہیں ہے۔"
" حیدر ایسے زندگی نہیں گزرتی۔"
" امی در آپکی ہی پسند تھی۔" حیدر نے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔
" تو کیا۔۔۔ اس بات کی سزا دے رہے ہو مجھے۔" امی کو دکھ ہوا تھا۔
" امی ۔۔۔ جس کی اپنی زندگی عذاب بن چکی ہو۔ وہ کسی اور کو کیا سزا دے گا۔" اسکا لہجہ زخمی تھا۔
" تم پیار سے سمجھاؤ اور اگر وہ پیار سے نا مانے۔ تو سختی کرو۔"
"واہ بہت خوب۔۔۔ اب آپ میرے شوہر کو میرے خلاف بھڑکا رہی ہیں۔" درفشاں تالیاں پیٹتی ڈائننگ ایریا میں آئ تھی۔
" نہیں در۔۔۔"
" شرم کھائيں اپنی عمر سے۔ پیر قبر میں لٹکے پڑے ہیں۔ پر حرکتیں توبہ۔" وہ پھنکاری تھی۔
حیدر جو مٹھیاں بھینچے بیٹھا تھا۔ غصہ کے عالم میں اسنے ٹیبل پہ سے سب کچھ اٹھا کر زمین بوس کردیا تھا۔
" بکواس بند کرو۔ تم جانتی بھی ہو۔ کہ تم بات کس سے کر رہی ہو۔" حیدر اسپہ چلایا تھا۔
" اپنی ماں تمہیں مظلوم لگتی ہے۔ اس عورت نے میری زندگی عذاب بنا کر رکھ دی ہے۔" وہ حیدر سے بھی ذیادہ بلند چلائ تھی۔
" میں تمہاری جان لے لوں گا۔" اس سے پہلے حیدر اس پہ ہاتھ اٹھاتا۔ حیدر کی امی درمیان میں آگئیں۔ حیدر راستے میں آتی ہر چیز کو ٹھوکر مارتا گھر سے نکل گیا تھا۔
" مل گیا چین۔" وہ انکو گھورتی باقی بچی چیزوں کو توڑتی اپنے کمرے میں خود کو قید کر گئ تھی۔
رات کا ایک بج رہا تھا۔ میر عالم خان کا سوچ سوچ کر برا حال تھا۔ وہ یہ سوچ کر تھک چکے تھے۔ کہ کیا انکو گورا قبرستان جانا چاہیئے۔ کیا پتہ اس لڑکی کی کوئ سازش ہو۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے۔ کہ اس سے ہاتھ ملا لینا فائدہ مند ثابت ہو۔
وہ اپنی الماری سے بلیک ہوڈی نکال کر اسے کچھ لمحے تکتے رہے۔ اور پھر ایک نتیجے پہ پہنچ کر انہوں نے وہ ہوڈی پہنی۔ اور اپنی گاڑی لیکر تنہا روانہ ہوگئے۔
وہ جب قبرستان پہنچے وہاں سیاہ اندھیرا تھأ۔ وہ عیسائیوں کا قبرستان تھا۔ اکا دکا دور دور جلتی روشنیاں وہاں ہلکا ہلکا اجالا دے رہی تھیں۔ وہ قدم ، قدم چلتے۔ قبرستان کے بیچ و بیچ آکر کھڑے ہوئے تھے۔ یکدم کسی نے انکی آنکھوں پہ ٹارچ ماری تھی. ٹارچ کی روشنی سے انکی آنکھیں چندھیا گئ تھیں۔ انہوں نے اپنی آنکھوں پہ ہاتھ دھرا تھا۔
" امید نہیں تھی کہ تم ، آؤ گے۔"
وہ ٹارچ بند کرتی اسکے قریب آئ تھی۔ اسکے مقابل کھڑے ہوکر وہ لب دبا کر مسکائ تھی۔
" مطلب کھینچ لایا ہے۔ نہیں تو تمنا نہیں تھی تم سے دوبارہ ملنے کی۔" میر عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" سوچ لو آج کا سودا ، اس دن کے سودے سے کئ ذیادہ مہنگا ہے۔" وہ اسکے مزید قریب آئ تھی۔
" بے فکر رہو۔ کرسی کی خاطر کچھ بھی دینے کو تیار ہوں۔"
"جان بھی۔" وہ پر اسرار سا مسکرائ تھی۔
اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ ٹھیک سے اسکا چہرہ دیکھ نہیں پائ تھی۔
" اتنا بھی بے وقوف نہیں ، جان نہیں رہے گی تو کرسی کا کیا کرونگا۔" وہ آنکھیں گھما کر رہ گیا تھا۔
" آہ ۔۔۔ پھر تو سمجھو کہ تم گئے۔"
" اچھا ۔۔۔۔ ایسی بات ہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے ۔میں اتنی دور تمہارے بلانے پہ بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے آیا ہوں۔" وہ ہنسا تھا۔
" امپرسو۔۔۔ پر مجھے نہیں لگتا کوئ احتیاطی تدابیر آج کام آنے والی ہے۔"
" مالک شاہ میرا قتل الیکشن کے دنوں میں۔۔۔؟؟" وہ اصل مدعے پہ آئے تھے۔
" مجھے بھی بے وقوفی ہی لگی تھی۔ پر کیا ، کیا جائے حقیقت تو یہی ہے۔" شعلہ نے اسکی بات مکمل ہونے سے پہلے کہا۔
" میں آنا نہیں چاہتا تھا۔ پر اس وقت ہر شخص کی زبان پر وہ ہے۔ اسکی ناگہانی موت ہے۔ ایسے میں میرا اس سال الیکشن جیت پانا نا ممکن ہے۔ "میر عالم نے پریشانی سے کہا۔
" توایسا کچھ کرجاؤ۔ کہ اس سال کے الیکشن تم ہی جیتو۔" وہ مسکائ تھی۔
" مطلب۔۔؟؟" نا سمجھی سے پوچھا گیا۔
" مطلب یہ کہ کچھ ایسا جو سب کی توجہ تمہاری جانب مبزول کرادے۔" اسکا لہجہ اب بھی سمجھ سے باہر تھا۔
" ایسا کیا کروں۔" انہوں نے پوچھنا بہتر سمجھا۔
" مجھ سے شادی کر لو۔ " اسنے لاپرواہی سے کہا۔
" دماغ خراب ہوگیا ہے۔" وہ بگڑے تیوروں سمیت گویا ہوئے۔
"اس سے پہلے کہ تم میری بات کا کوئ اور مطلب نکالو۔ میں بتا دوں مجھے طاقت، شہرت ، پیسہ چاہیئے۔ اور تمہیں حکومت۔" وہ ہاتھ اٹھا کر گویا ہوئ۔
" پھر یہ سودا تو میرے لیئے گاٹھے کا ہی ہوا ناں۔" میر عالم نے تیوری چڑھا کر کہا۔
۔وہ کیسے۔۔۔" وہ کنفیوز ہوئ تھی۔
" تم سے شادی کرکے میرے کوئ پر تو نہیں لگ جائیں گے۔ کہ مجھے کوئ حکومت پلیٹ میں سجا کر میرے سامنے رکھ دے گا۔" اسنے حقیقت کہی۔
" پر اگر میرے پاس ایسے راز ہوں ثبوتوں سمیت جن سے سب بدنام ہوجائیں تو۔" وہ اسکے برابر سے نکل کر گاڑیوں کی سمت گئ تھی۔ وہ بھی اسکے پیچھے ہو لیا تھا۔
" تو تم وہ راز اور وہ تمام ثبوت بیچ دو مجھ پہ۔" انہوں نے گھور کر اسے دیکھا تھا۔ کیونکہ وہ انکی گاڑی کے بونٹ پہ چڑھ کر بیٹھی تھی۔
" نا۔۔۔مجھے صرف پیسہ نہیں چاہیئے۔" وہ سر کو نفی میں ہلا گئ تھی۔
" تم سے شادی نہیں کرسکتا میں۔" انہوں نے نگاہ چرا کر کہا۔
"کیوں۔۔۔۔؟؟."
" بتا نہیں سکتا۔۔۔"
"ٹھیک ہے۔ کل دوپہر تک کا وقت ہے تمہارے پاس۔"وہ سنجیدگی سے کہتی اسکی گاڑی سے اتری تھی۔
وہ اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
" یاد سے کل تک اپنے کو جواب دے دینا اسی نمبر پہ۔ جس سے میں میسج کی تھی۔" اسنے دھیرے سے سر ہلایا تھا۔
" اب اگر تو جواب نا دیگا تو پھر دوسری پارٹی کے بندے سے رابطہ کرنے کا ہے ناں۔" وہ بنداس لہجہ میں کہتی۔ اپنی ہیوی بائک پہ بیٹھی تھی۔
" تم اسپہ جاؤ گی کیسے۔ ؟؟" میر عالم کے منہ سے سوال ناچاہتے ہوئے بھی پھسلا تھا۔
" جیسے آئ تھی ۔" وہ ہیلمٹ پہن کر گویا ہوئ۔ اور زن کرکے اسکی آنکھوں سے لمحوں میں اوجھل ہوئ تھی۔
∆∆∆∆
"بھابھی دیر ہوگئ ہے اج۔ بہت رہنے دیں ناشتہ۔" وہ جوتے پہنتے ناشتہ کرنے سے منع کرتی اٹھی تھی۔
" چائے ہی پی لو کم از کم۔" انہوں نے چائے کپ میں انڈیلی۔
" نہیں بھابھی۔" وہ نفی میں سر ہلاتی۔ صوفہ پہ پڑا اپنا بیگ اٹھا کر کندھوں پہ ڈالتی گھر سے نکلی تھی۔
بہت جلدی کرنے کے باوجود بھی وہ آدھا گھنٹہ لیٹ پہنچی تھی۔ وہ ہڑبڑاتی جیسے ہی کیبن کا ڈور کھول کر اندر گھسی تھی۔ حیدر جو سر تھامے بیٹھا تھا۔ کل رات وہ سویا نہیں تھا۔ اور اس وقت اسکا دماغ درد سے پھٹ رہا تھا۔ حیدر نے طیش کے عالم میں سر اٹھا۔ کر اسے گھورا تھا۔
" وقت۔۔۔۔ دیکھا ہے آپ نے۔ " وہ سرخ آنکھوں سے اسے گھورتا گرجا تھا۔
ساوری کی جان حلق میں آکر پھنسی تھی۔ اسکی سرخ آنکھیں دیکھ۔ ساوری کی زبان سے ایک حرف بھی نکلنے سے انکاری ہوگیا تھا۔
" آپ سے پہلے میں یہاں پہنچا۔ انتظار کر رہا ہوں۔ کہ آپ محترمہ آئیں گی۔تو کام ہوگا۔" وہ اسپہ گرج رہا تھا۔
وہ اٹھ کر اسکے سامنے آکر کھڑا ہوا تھا۔
" اب منہ سے سے کچھ پھوٹیں گی بھی آپ۔" وہ اسکے قریب آکر غرایا تھا۔ ساوری اس سے دور ہونے کے چکر میں دیوار سے چپک کر رہ گئ تھی۔
" سور۔۔۔۔۔۔۔ سوری۔۔۔۔" وہ گھبرائ ہوئ تھی۔
" سوری سے جو میرا نقصان ہوا ہے۔ وہ پورا نہیں ہو جائے گا۔" حیدر اب بھی گرج رہا تھا۔
" مجھے ابھی اسی وقت کافی بنا کر دو۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوئے۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی گرتی پڑتی کچن میں گھسی تھی۔
حیدر گہرہ سانس لیتا اپنا سر تھام کر رہ گیا تھا۔
∆∆∆∆∆
وہ کافی پھینٹ رہی تھی۔ پر اسکے ہاتھ اسکا ساتھ دینے کی کوشش میں ناکام تھے۔ وہ کافی کا مگ چھوڑ کر پیچھے ہوئ تھی۔ چند گہرے سانس لیکر اسنے کافی کو تیار کیا اور پھر ہمت کرتی۔ اسکو کافی دینے گئ۔ وہ اب بھی ویسے ہی سر تھامے بیٹھا تھا۔ اسنے سوکھے لبوں پہ زبان پھیر کر اسے پکارا۔
" سر۔۔۔ ک۔۔۔۔کافی۔" اسنے دھیرے سے کافی کا مگ اسکے آگے رکھا۔
" دے دی ناں کافی اب پیچھے ہٹیں۔ " اسکے جھڑکنے پہ وہ خجل سی ہوتی۔ اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔ پلینر نکال کر پہلے خود اچھے سے دیکھا۔ اور پھر نا چاہتے ہوئے۔ بھی اسے اسکے سر پہ جاکر کھڑا ہونا پڑا۔
" سر۔۔۔۔ وہ آج کا شیڈول ۔۔۔۔ بتا دوں آپکو۔" اسے سمجھ نہیں آیا بات کا آغاز کیسے کرے۔ اسی لیئے پہلے اجازت لینا اسے بہتر لگا۔
" ہمممم." حیدر نے کافی پیتے اسے اجازت دی۔
" سر آج دس بجے کنفرینس روم میں آپکی پورے اسٹاف کے ساتھ میٹنگ ہے۔ اور۔۔۔۔۔ ٹھیک بارہ بجے کے قریب آپکو کمپنی کے نئے انویسٹرز سے ملنا ہے۔ پھر دو بجے آپکا لنچ ہے۔ میر عالم خان کے ساتھ انہوں نے آپائنمنٹ لیا تھا۔ اسکے بعد بس چند پلینز ہیں جو ریڈی ہو جائیں گے۔ انکو اچھے سے چیک کرکے سائن آؤٹ کرنا ہے۔ " اسکی میر عالم خان کے اپائنمنٹ لینے والی بات پہ ماتھا ٹھنکا تھا۔
"ٹھیک ہے یہ کپ أٹھاتی جائیں۔"
جو جھٹ کپ اٹھانے کو جھکی تھی۔ اسکا کاسنی آنچل جو اسنے کندھوں پہ پھیلایا تھا۔ وہ اڑ کر حیدر کے چہرے پہ جاکر پڑا تھا۔ اسکےدوپٹہ سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو حیدر کے حواس پہ چھائ تھی۔ وہ کپ لیکر کب کی جاچکی تھی۔ اور اس بات سے انجان تھی کہ اسکا آنچل کسی کے دل پہ کیا کاروائ کر گزرا تھا۔
وہ کپ کچن میں رکھنے چلی گئ تھی۔ اور حیدر کئ لمحوں تک اپنی جگہ اسٹل اسی پوزیشن میں بیٹھا رہا۔
∆∆∆∆∆
" مصطفی لنچ کا اپائنمنٹ لے لیا حیدر کے ساتھ تم نے۔۔۔؟؟" میر عالم خان نے فائلز الٹتے پلٹتے پوچھا۔
" جی اپائنمنٹ لے تو لیا پر مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی اپنے۔ بھائ کے ساتھ لنچ کرنے کو. کون ایسے کرتا ہے۔" عالم اسکی بات پہ مسکرایا تھا۔
" اگر کو ئ ایسا نہیں کرتا تو بہت غلط کرتا ہے ۔ کرنا چاہیئے ناں ایسا۔ حیدر اب بچہ تو رہا نہیں۔ اسکی اپنی ایک پروفیشنل لائف ہے۔ اور میں نہین چاہتا میرے بھائ کا شیڈول میری وجہ سے خراب ہو۔ اور اسے کوئ نقصان اٹھانا پڑے۔" میرا عالم نے تمام کاغذات مصطفی کی طرف بڑھائے۔
" آپکی لاجکس۔۔۔۔" وہ پیپرز تھام کر ہنسا تھا۔
" ویسے آج ظہر کے بعد مالک شاہ کا جنازہ ہے۔" مصطفی نے اسے یاد دلایا۔
" ہممم میں تب تک خود کو فری کر لوں گا۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" ہممم ۔۔۔۔ وہسے زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں۔" مصطفی کی بات پہ میر عالم نے اسے بغور تکا۔
"مصطفی اگر میں کہوں کہ میں شادی کر رہا ہوں۔۔۔۔ تو تم کیسا محسوس کروگے۔۔۔۔؟" مصطفی نے میر عالم کے چہرے پہ ایک کھوجتی سی نظر گھمائ تھی۔
" میں بہت اچھا محسوس کرونگا۔ مجھے خوشی ہوگی۔ کہ آپ اپنی زندگی میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ آپکی زندگی میں ایسی لڑکی آئے جو ، دوسروں کی طرح آپ سے لالچ بھری محبت نا کرے ۔۔۔۔ بلکہ بے غرض محبت کرے۔" اسکی بات پہ میر عالم کو کچھ تسلی ہوئ تھی۔
" تم واحد شخص ہو مصطفی ، جو مجھ سے بے غرض پرخلوص محبت کرتے ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئ تم جتنا پرخلوص ہو سکتا ہے ۔" میر عالم کے لہجہ میں مان تھا۔
مصطفی مسکرایا تھا۔
∆∆∆∆∆
" آپکو میرے ساتھ لنچ کرنے کے لیئے ۔ اپائنمنٹ لینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ بھیا۔ " حیدر نے پانی کا گلاس گول گھماتے کہا۔
" میں تمہاری مصروفیت میں خلل نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ اسی لیئے۔" وہ دلکشی سے مسکرائے تھے۔
" آپ شرمندہ کر رہے ہیں مجھے۔"حیدر جھینپا تھا۔
" میں شادی کر رہا ہوں۔" میر عالم نے سنجیدگی سے اسے خبر دی۔
" نو ۔۔۔۔۔۔ پاگل نا بنیں بھیا ، اچھی خاصی زندگی کا دوالیہ نکل جائے گا۔" حیدر نے شدت سے اسے روکنا چاہا۔
" لڑکی اچھی ہے۔۔۔۔" میر عالم نے جانے یہ کس دل سے کہا تھا۔
" ہاں بھیا شادی سے پہلے سب بہت اچھی ہوتی ہیں۔" حیدر نے تنفر سے کہا۔
" تمہارے اور درفشاں کے درمیان ۔۔۔۔۔۔ کوئ پرابلم۔؟؟"
" پرابلم۔۔۔۔ بھی ایک انتہائ چھوٹا لفظ ہے۔" حیدر نے چاول پلیٹ میں نکالتے کہا۔
" ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ۔۔۔؟؟" میر عالم نے کھانا چھوڑ کر حیدر کو تکا۔
حیدر نے سرد سانس خارج کرکے ساری بات بتائ۔ میر عالم کا دماغ چکرا کر رہ گیا تھا۔
" تو۔۔۔ تم کیا چاہتے ہو۔؟" میر عالم نے پوچھا۔
" افکارس انسان ہوں۔ مجھے بھی خواہش ہے کہ میرے بھی بچے ہوں۔" حیدر نے تپ کرکہا۔
" اگر تم کہو تو ۔ میں سمجھا کر دیکھوں۔"
" رہنے دیں بھیا۔ آپ سے بدتمیزی کرے گی ۔"
" کوئ بات نہیں کرلے۔ پر میں ایک بار بات ضرور کرونگا ۔"
میر عالم نے پر سوچ لہجہ میں کہا۔
" جیسی آپکی مرضی۔" وہ ٹھنڈے لہجہ میں گویا ہوا۔
" میں کل نکاح کررہا ہوں۔ اور میں چاہتا ہوں کل تم سب کو گھر لے آؤ میرے۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
" ہممم اوکے۔" وہ مسکرایا ۔
اور پھر باقی کا کھانا ان دونوں نے خاموشی سے کھایا۔
∆∆∆∆∆
اسکا میسج ملتے ہی وہ موبائل بیڈ پہ پھینک کر دلکشی سے مسکرائ تھی۔ پر اسکی مسکراہٹ بے حد پراسرار سی تھی۔
" رقیہ۔۔۔۔۔ رقیہ." وہ مسرور سی رقیہ کو پکار رہی تھی۔"
رقیہ ہانپتیی۔ کانپتی اسکے حضور حاضر ہوئ۔
" جی بی بی" رقیہ نے سر جھکا کر کہا۔
" جاؤ شہلا سے کہو آج شام تک میری وہ خاص پوشاک تیارکردے۔" اسنے ایک شان سے کہا۔
عجیب تھی وہ بھی بہت کبھی ، کبھی اسکا لب ولہجہ سڑک چھاپ ہوجاتا۔ اور کبھی کسی ریاست کی شہزادی کی طرح وہ طرز تخاطب رکھتی ۔
پر ایک چیز ہمیشہ اسکی شخصیت کا خاصہ رہی۔بات وہ جیسے بھی کرتی پر انداز واطوارسے وہ کسی ریاست کی شہزادی ہی لگتی تھی ۔
شہلا ایک گھنٹے بعد ہی اسکی پوشاک لے آئ تھی۔
" کیسا لگا آپکو۔۔۔؟؟" شہلا نے اشتیاق سے پوچھا۔
" شاندار۔۔۔۔۔۔۔ بہت خوب." وہ لباس پہ اپنا ہاتھ پھیرتی دلکشی سے مسکرای تھی۔
"آپ کسی تقریب میں جارہی ہیں۔؟؟"
" نہی۔۔۔۔۔۔ شادی کررہی ہوں آج میں۔"
شہلا چونکی تھی۔
" کس سے۔۔۔؟؟؟؟"
" میر عالم خان سے۔۔" اسنے سرد لہجہ میں کہا۔
" ماشاللہ ہمیشہ خوش رہیں پر ایک بات کہوں۔ اپنی شادی کے دن ، سیاہ لباس۔۔۔ پہننا کچھ ٹھیک نہیں۔" شہلا نے کچھ جھجھک کر کہا۔
" کیوں شادی کے دن لوگ سیاہ لباس نہیں پہنتے۔؟؟" شعلہ نے مسکرا کر پوچھا۔
" اچھا شگون نہیں مانا جاتا ۔۔۔ اس لیئے لوگ ۔۔۔ مطلب دلہن نہیں پہنتی۔"
" شہلا اب یہ باتیں پرانی ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔" وہ لباس کو ایک بار پھر دیکھنے لگی تھی۔
" جی۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں چلتی ہوں۔" شہلا کب کی جاچکی تھی اور وہ اب بھی پراسراریت سے اس لباس کو دیکھ رہی تھی۔
نکاح کہاں کروگے مجھ سے۔؟" وہ اپنے بستر پہ لیٹی موبائل کان سے لگائے میر عالم سے مستفسر ہوئ۔
" پوچھ تو ایسے رہی ہو۔ جیسے ، محبت کی شادی کر رہا ہوں تم سے۔" میر عالم نے سرد لہجہ میں کہا۔
وہ دلکشی سے مسکرائ تھی۔
" میں نے ایسا کب کہا۔ میں نے تو بس پوچھا ہے۔ کہ نکاح جہاں ہوگا وہاں میں پہنچ جاؤں گی۔"
" میرے گھر میں ہوگا نکاح۔" عالم نے سنجیدگی سے بتایا۔
" ٹھیک ہے میں پہنچ جاؤں گی۔" وہ کروٹ کے بل لیٹتی مسکائ۔
" ٹھیک ہے۔ مجھے ضروری کام ہے۔" میر عالم نے کہتے ساتھ ہی کال کاٹ دی۔
اور وہ کئ لمحوں تک۔ موبائل کو پر اسراریت سے تکتی رہی۔
☆☆☆☆☆
حیدر نے گھر آکر سب کو بتایا تھا۔ میر عالم کی شادی کے بارے میں۔ تقریبا سب ہی بہت خوش ہوئے تھے۔
وہ بھی بہت خوش تھا۔ وہ کمرے میں آیا۔ تو درفشاں بیک لیس۔ ساڑھی پہنے کہیں جانے کی تیاریوں میں کھڑی تھی۔ حیدر اسکی ناراضگی کا سوچتا۔ اسے پشت سے اپنی بانہوں کے حصار میں قید کر گیا تھا۔
" حیدر پیچھے ہٹو۔" اسنے ناگواری سے کہا۔
" سوری۔۔۔۔ آئ نو بہت ناراض ہو تم پر سوری۔" حیدر نے نرمی سے کہا۔
" میں نے کہا دور ہٹو۔ مجھے پارٹی میں جانا ہے مجھے دیر ہورہی ہے۔ تمہارے اس گھسے پٹے سوری۔ اور ان چونچلوں کے لیئے وقت نہیں میرے پاس۔" وہ اس قدر بدتمیزی سے گویا ہوئ کہ حیدر اسے خود سے دور جھٹکتا۔ پیچھے ہوا تھا۔
حیدر کے ہٹتے ہی اسنے ایک نظر خود کو شیشے میں تکا تھا۔ اور ایک تادیبی نظر اسپہ ڈالتی کمرے سے نکل گئ تھی۔ حیدر اپنی مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔ غصہ سے اسکی رنگت سرخ پڑ چکی تھی۔ اور دماغ کی نسیں تن گئ تھیں۔
" حیدر۔۔" اسکی ماں نے کمرے کا دروازہ کھول کر اسے پکارا تھا۔
" جی۔۔۔" اسنے بنا مڑنے کہا۔
" تمہاری خالہ آئ ہیں۔ بات کرنا چاہتی ہیں تم سے۔" اسکی امی نے اسے انفارم کیا اور جیسے آئ تھیں۔ ویسے ہی واپس بھی چلی گئ۔
وہ خود کو کمپوز کرتا باہر آیا۔ لاؤنج میں۔ خالہ جانی بیٹھی اسکی ماں سے باتیں کرنے میں مگن تھیں۔
" حیدر۔۔۔" حیدر کو دیکھ کر وہ اٹھی تھیں۔ اور اسے پیار کیا تھا۔
" کیسی ہیں آپ۔ خالہ جانی۔" اسنے مروت میں پوچھا تھا۔ نہیں تو جو انکی بیٹی اس وقت اسکے ساتھ کرکے گئ تھیں وہ قابل فراموش نہیں تھا۔
" میں ٹھیک ہوں۔ حیدر مجھے تم سے بات کرنی ہے۔" انہوں نے نرمی سے کہا۔
" جی ۔۔۔ کہیں۔" اسنے سعادت مندی سے کہا۔
" میں جانتی ہوں۔ درفشاں آجکل بہت عجیب بی ہیو کرنے لگی ہے۔ بہت سی باتوں کو لیکر وہ بہت غلط بھی ہے۔ اور تمہاری ماں بھی بے حد پریشان رہتی ہیں۔ تو۔۔۔" خالہ نے بات کا سلسلہ جوڑا۔ ایک لمحہ کے لیئے رکیں۔
" بچہ تو تم بھی چاہتے ہوگے ناں۔۔" انہوں نے پوچھنا بہتر سمجھا۔
اسنے نا سمجھی سے اپنی خالہ کو تکا۔
" آئ نو بیٹا۔ تم چاہتے ہو کہ تمہارے بچے ہوں۔ تو میں نے سوچا ہے تم کسی سے کنٹریکٹ میرج کر لو۔ دیکھو اس میں کوئ بری بات نہیں۔" انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر کہا تھا۔
" اوہ۔۔ تو آپ چاہتی ہیں۔ کہ آپکی بیٹی کی ۔میرڈ لائف بچانے کے لیئے کوئ اور معصوم قربانی دے۔ امید نہیں تھی مجھے آپ سے اس بات کی۔" وہ حیران تھا۔
" قربانی کی اس میں کیا بات۔ کوئ ایسی لڑکی ڈھونڈیں گے ناں جو غریب ہو۔ بے چاری ضرورت مند ہو۔ ہم اسے ایک بڑی رقم ادا کریں گے۔" انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
" ہنہہ۔۔ سہی آپ میرے لیئے (prostitute ) کا بندوبست کر رہی ہیں۔ ان اے نائس وے۔ ایم آئ رائٹ۔۔؟" اسکے الفاظ سن کر انہیں شرمندگی ہوئ تھی۔
" حیدر سہی تو کہہ رہی ہے۔ تمہاری خالہ۔" اسکی امی نے دبی آواز میں کہا۔
" سیریسلی امی۔۔۔" اسنے افسوس بھری نگاہ اپنی ماں پہ ڈالی تھی۔
" تو اسمیں کیا برائ ہے۔ در نہیں کرنا چاہتی بچہ پیدا۔ اور مجھے نہیں پتا مجھے پوتا پاتی چاہیئے۔" انہوں نے جیسے حیدر کو ہر حال میں قائل کرنے کی ٹھانی تھی۔
" برائ۔۔۔؟؟؟ اسمیں صرف برائ نہیں ہے۔ گناہ ہے یہ پیسے کہ زور پہ کسی کے جذبات کے ساتھ کھیلنا۔" وہ پھنکارا تھا۔
" حیدر۔۔۔۔ مجھے جواب ہاں میں چاہیئے نہیں تو تم میرا مرا ہوا منہ دیکھو گے۔"
اپنی ماں کی ایموشنل بلیک میلنگ دیکھ۔ حیدر نے سر تاسف سے ہلایا تھا۔
" مجھے ۔۔۔ یقین نہیں آرہا۔ بلکل بھی امی۔۔" وہ۔سنجیدگی سے کہتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا تھا۔
وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتی رہ گئ تھیں۔
☆☆☆☆☆
آج وہ آفس ضرورت سے زیادہ ہی جلدی آگئ تھی۔ ابھی آفس میں کوئ بھی نہیں آیا تھا۔ اسکے آنے کے آدھا گھنٹہ بعد سب آنے لگے تھے۔
وہ آفس میں بیٹھی بور ہو رہی تھی۔ نیند کا غلبہ ایسا طاری ہوا اسپہ ، کہ وہ اپنی ڈیسک پہ سر رکھ کر کب سوئ اسے خبر نا ہوئ۔
حیدر آج پھر کل رات کے واقعہ کے بعد بگڑے موڈ کے ساتھ آفس آیا تھا۔ اسے سوتے دیکھ وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گیا تھا۔
" مس ۔۔۔ ساوری۔۔۔" اسنے اسے پکارا۔
وہ ٹس سے مس نا ہوئ۔
حیدر نے ٹیبل پہ زور سے اپنا ہاتھ بجایا تھا۔ ساوری ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔ اور سہم کر حیدر کو دیکھا۔
" س۔۔ سوری۔۔۔ سوری ۔۔ سر ، میں۔۔ وہ۔" اسکا گھبرایا انداز ، حیدر کو مزید چڑ دلا گیا تھا۔
" مس ساوری۔۔۔ ریلیکس اوکے۔ میں کوئ جن نہیں ہوں۔ جو آپ ایسے بی ہیو کر رہی ہیں۔" حیدر کے ماتھے پہ بل دیکھ وہ خاموش ہوئ تھی۔
" سر میں آپکی کافی بنا کر لاتی ہوں۔" اسے کچھ سمجھ نہیں آئ تو کافی کا بہانہ بنا کر اسکے سائڈ سے ہوکر نکلی ہی تھی۔ کہ حیدر نے اسکا آنچل تھاما تھا۔ وہ گھبرائ تھی۔ چہرہ پہ پسینہ کے چند قطرے نمودار ہوئے تھے۔ نجانے کتنے ہی ایسے کانوں سنے واقعات اسکی سماعت کے پردے پہ لہرا گئے۔ کہ فلاں باس نے اپنی فلاں امپلائءکے ساتھ بدتمیزی کی۔ وہ دل پہ ہاتھ رکھتی مڑی تھی۔ پر یہ کیا۔۔۔؟؟ اسکا دو پٹہ تو ٹیبل کے کونے میں اڑسا تھا۔ اور حیدر تو کب کا اپنی جگہ پہ بیٹھ چکا تھا۔ وہ اپنی سوچ پہ خود کو ملامت کرتی۔ کافی بنانے بھاگی تھی۔
کافی لیکر جب وہ باہر آئ تو کوئ بزرگ خاتون بھی آفس میں موجود تھیں۔
" سر کافی۔" اسنے کافی اسکے آگے رکھ کر کہا۔ وہ اپنے سر کو دھیرے سے جنبش دیتا بلکل خاموش بیٹھا تھا۔
" خالہ جانی ۔۔۔ یہ جگہ درست نہیں۔ ان سب باتوں کے لیئے۔ اور میرے خیال سے کل رات میں بات مکمل کر چکا ہوں۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
ساوری اپنی ڈیسک پہ جاکر بیٹھی تھی۔ حیدر کی خالہ نے بڑی گہری نظروں سے اسے تکا تھا۔ وہ انکو دیکھ دھیمے سے مسکائ تھی۔ اور پلینر کھول کر اسے سیٹ کرنے لگی تھی۔
" ٹھیک ہے۔ میں چلتی ہوں۔ پھر بات ہوگی۔" وہ کہتیں۔ آٹھ کر نکل گئ تھیں۔
پر جانے سے پہلے ساوری کا نام پتہ ریسیپشنسٹ سے لینا نہیں بھولیں تھیں۔
" سر آج کا شیڈول۔" اسنے اسکے سر پہ کھڑے ہوکر کہا۔
" آہ ۔۔۔ ساوری آج میرے جو بارہ بجے تک کی میٹینگس ہیں۔ بس انہیں ہی اٹینڈ کرونگا میں۔ اسکے بعد میں جلدی چلا جاؤں گا۔" حیدر نے لیپ ٹاپ کھول کر کہا۔
" ٹھیک ہے۔" وہ سنجیدگی سے کہتی اسے میٹینگز کے حوالے سے بتانے لگی تھی۔ اور وہ بغور سن رہا تھا۔
☆☆☆☆☆
نکاح کا دن اور وقت آن پہنچا تھا۔ شعلہ سیاہ رنگ کے گھیر دار فراک میں بے حد حسین لگ رہی تھی۔ سیاہ رنگ کا دوپٹہ اسنے اپنے سر پہ لے رکھا تھا۔ جب وہ سجی سنوری میر عالم خان کے گھر میں داخل ہوئ۔ نازنین اسکے استقبال کے لیئے کھڑی تھی۔
" ویلکم بھابھی۔۔" نازنین شعلہ کے گلے لگی تھی۔
" تھینک یو۔" شعلہ نے نرمی سے کہا۔
وہ شعلہ کو ساتھ لیکر اندر آئ تھی۔ اندر درفشاں ماتھے پہ بل ڈالے بیٹھی تھی۔ حیدر بیٹھا۔ موبائل میں مصروف تھا۔
حیدر کی امی۔ اور خالہ بیٹھیں۔ آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ اور مصطفی ہمیشہ کی طرح میر عالم خان کے پاس تھا۔ وہ سب اٹھے تھے۔ ایک پل کو اسکی خوبصورتی دیکھ کر ٹھٹکے تھے۔ پر دلہن کا سیاہ لباس میں ہونا انہیں کچھ عجیب لگا تھا۔
" ماشااللہ۔" حیدر کی امی نے اسے اپنے ساتھ لگا کر پیار کیا تھا۔
میر عالم خان اور مصطفی زینوں سے جب اترے تو۔ میر عالم خان ایک پل کو اسے دیکھ کر رکے تھے۔ اور پھر اپنے قدم دوبارہ نیچے کی سمت بڑھا دیئے تھے۔ مصطفی نے جب شعلہ کو دیکھا۔ تو اسے ایسا لگا جیسے ایسا یا اس سے ملتا جلتا چہرہ اسنے پہلے کبھی دیکھا ہے۔
خیر سب آکر بیٹھے۔ حیدر کے والد بھی آکر بیٹھے تھے۔ اور سب کی موجودگی میں ان دونوں کا نکاح ہوا نکاح کے بعد سب نے مبارک باد دی۔ اور پھر سب نے ڈنر ساتھ بیٹھ کر کیا۔ ڈنر کے بعد سب واپس چلے گئے۔ صرف مصطفی ، نازنین ، میر عالم اور اس گھر کا نیا فرد شعلہ رہ گئے تھے۔
" بھابھی آئیں میں آپکو آپکے کمرے میں چھوڑ آؤں۔" نازنین نے چہک کر کہا۔
وہ اپنے بھائ کی شادی ہوتے دیکھ بہت خوش تھی۔ اور اب اپنی اتنی پیاری بھابھی دیکھ کر وہ کھل اٹھی تھی۔ میر عالم خان صوفہ پہ بیٹھے ان دونوں کو اوپر جاتا دیکھ رہے تھے۔ جب مصطفی اسکے پاس آیا تھا۔
" سر ۔۔ یہ میری طرف سے آپکے اور بھابھی کے لیئے۔" اسنے ایک لفافہ انکی طرف بڑھایا تھا۔
" یہ کیا ہے۔؟؟"" میر عالم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" آپکی شادی کا تحفہ۔" اسنے مسکرا کر کہا۔
" کیا ہے۔۔اسمیں۔" اسنے لفافہ چاک کرتے کہا۔
" خود ہی دیکھ لیں۔" مصطفی مسکرایا تھا۔
" سیریسلی۔۔۔ تم سے اتنی شودی حرکت کی امید نہیں تھی مجھے۔" میر عالم جھینپے تھے۔
" کیوں سر اس تحفہ میں کیا برائ ہے۔۔؟" مصطفی نے لب دبا کر کہا۔
" نہیں کوئ برائ نہیں اس تحفہ میں۔" وہ اتنا دھیمے سے مسکرائے تھے۔ کہ مصطفی ٹھیک سے انکی مسکان دیکھ بھی نہیں پایا تھا۔
تین دن کا ہنی مون پیکج تھا۔ جو وہ میر عالم کو تحفہ میں دے رہا تھا۔ میر عالم خان اس لفافہ کو چند لمحہ تکتے رہے اور پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں جانے کے لیئے اٹھے تھے۔ جاتے جاتے ایک بار مڑ کر مصطفی کو دیکھا۔
" شکریہ مصطفی تحفہ کے لیئے۔" میر عالم نے مسکرا کر کہا۔
" ویلکم سر۔" اسکے سعادت مندی سے کہنے پہ وہ سر نفی میں ہلا کر رہ گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
وہ جیسے ہی اپنے کمرے میں آئے۔ وہ اسی کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی ۔ جہاں سے وہ کود کر پہلی بار آئ تھی۔ یا شاید انکی زندگی میں آئ تھی۔ خیر وہ اپنا کوٹ صوفہ پہ رکھتے۔ اپنی وائٹ ٹی شرٹ کے آستین فولڈ کرکے اسکی جانب دوبارہ متوجہ ہوئے تھے۔ وہ اب بھی سیاہ کا مدار فراک پہنے۔ وہیں کھڑی تھی۔ میر عالم خان الماری سے اپنا نائٹ ڈریس لیتے واشروم میں گئے تھے۔ کچھ دیر بعد جب وہ باہر آئے تو وہ شیشہ کے آگے بیٹھی زیور اتار رہی تھی۔ سیاہ آنچل سر پہ سے اتر چکا تھا۔ میر عالم خان سنجیدگی سے چلتے اسکی پشت پہ آکر کھڑے ہوئے تھے۔ شعلہ نے آنکھیں اٹھا کر انکے عکس کو شیشہ میں تکا تھا۔
" اب مجھے ثبوت دے دو۔" انکی گھمبیر آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ تو وہ دلکشی سے مسکرائ تھی۔
" ثبوت سارے اکھٹے دینے کی بات نہیں ہوئ تھی۔" وہ اٹھ کر انکے مقابل آکر کھڑی ہوئ تھی۔
" ایساسوچنا بھی مت کہ تم مجھے دھوکہ
دے دو گی۔ اور میں خاموشی سے دیکھتا رہوں گا۔" میر عالم کو تاؤ آیا تھا۔
" میں نے یہ تو نہیں کہا کہ ثبوت میرے پاس نہیں۔" شعلہ نے آنکھیں گھمائ تھیں۔
" تو پھر کیا کہنا چاہ رہی ہو تم۔۔؟؟" انہوں نے اسے بازو سے تھام کر جھنجھوڑا تھا۔ وہ انکی آنکھوں میں دیکھتی۔ ایک جھٹکے سے ان سے اپنا بازو آزاد کرواتی پیچھے ہوئ تھی۔
" جب جہاں ضرورت ہوگی۔ میں ثبوت دے دوں گی۔ ابھی مجھے نہیں لگتا کہ سہی وقت آیا ہے۔ ان ثبوتوں کے بے نقاب ہونے کا۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
" یہ تمہارا مسئلہ نہیں کہ کب ان ثبوتوں کو بے نقاب کیا جائے گا۔ تم مجھے ثبوت دو۔ تاکہ مجھے جب جہاں سمجھ آئے میں وہاں ان ثبوتوں کا استعمال کر سکوں۔" میر عالم خان نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا تھا۔
" میر عالم خان ۔۔۔۔۔ میری بات ذرا غور سے سنو۔ میں ہاتھ باندھے کھڑی ہوں۔ تو اسکا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ یہ ہاتھ وار نہیں کریں گے۔ اور رہی بات میں نے کہا ناں ثبوت میں تمہیں ہی دونگی۔ تو مطلب دونگی۔ اپن کی زبان کی بڑی ویلیو ہے مارکیٹ میں۔" اسنے شانوں پہ پڑا سیاہ آنچل اتار کر بیڈ پہ اچھال کر پھینکا تھا۔
میر عالم نے اسکے ہوش ربا سراپے سے نگاہیں چرائ تھیں۔
" میں تم پہ یقین نہیں کر سکتا۔ جو مالک شاہ سے پانچ کروڑ لے کر ، مجھ سے پانچ کروڑ زیادہ ملنے پہ اسے دھوکا دے سکتی ہے۔ اسکا قتل کروا سکتی ہے پیسہ لینے کے بعد بھی۔ میں اس لڑکی پہ قطعاّ بھروسہ نہیں کر سکتا۔" انکا لہجہ مضبوط تھا۔
" آہاں اگر اسنے پانچ کروڑ دیئے ہوتے تو آج ، زندہ ہوتا۔" وہ اسکی سائڈ سے ہوکر نکلنے کو تھی۔ کہ میر عالم خان نے ایک جھٹکے سے اسکا بازو تھام کر اسے کھینچ کر ایک بار پھر اپنے مقابل کھڑا کیا تھا۔ وہ اسکے سینے سے ٹکراتی ٹکراتی بچی تھی۔
" تو تم نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا۔" وہ بے یقین ہوئے۔
" نہیں۔۔۔ جھوٹ نہی کہا تھا۔ کہا تو سب کچھ سچ ہی تھا۔ پر۔۔۔۔ رقم صرف اسنے دو کروڑ دی تھی۔ اور مجھے اسوقت دس کروڑ کی اشد ضرورت تھی۔ اسی لیئے میں نے جھوٹ کہا۔ پر دیکھو جان بچے تو لاکھوں پائے۔ شکر کرو جان تو بچی نا تمہاری۔" وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر نڈر لہجہ میں گویا ہوئ۔
" امپاسبل۔۔۔!!! مجھے یقین نہیں آرہا۔ کہ میں ایک قاتل ، جھوٹی ، بلیک ملیر عورت کا شوہر ہوں۔" میر عالم کو صدمہ ہوا تھا۔
" احسان مانو ، تمہیں میرا شوہر ہونے کا اعزاز مل گیا نجانے کتنے ، دل جلے یہ اعزاز پانے کو بے تاب تھے۔" وہ ذرا سا اسکے قریب ہوئ تھی۔
" جو بے تاب تھے۔ انہی کو دے دیتی یہ اعزاز۔" وہ سرخ رنگت لیئے بھڑکے تھے۔
وہ انکی سرخ ہوتی رنگت دیکھ لب دبا کر مسکرائ تھی۔ اور دھیرے سے انکے کالر کو تھام کر۔ وہ اپنا چہرہ بلکل انکے چہرے کے قریب لے آئ تھی۔
" یہ اعزاز اتنا ارزاں نہیں تھا۔ کہ کسی بھی ایرے غیرے، نتھو غیرے کو دے دیتی۔" اسنے لب دبا کر کہا تھا۔
" زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہی۔ دور رہو مجھ سے۔" میر عالم خان نے اسے ایک جھٹکے سے خود سے دور کیا تھا۔
" یہ تو غلط بات ہے۔ میر صاحب ۔۔۔!!! یہ جملہ تو میرا تھا۔ مجھے بولنا تھا۔ پر۔۔۔ خیر کبھی مجھے بھی ملے گا موقع یہ بولنے کا۔" وہ اسکے کندھے پہ سے نادیدہ گرد جھاڑتی۔ الماری سے اپنے کپڑے نکال کر واشروم میں چلی گئ تھی۔ اور وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گئے تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا۔ کہ وہ اتنی بڑی بے وقوفی کر کیسے سکتے ہیں۔ دس کروڑ اتنی آسانی سے ایک فراڈ لڑکی کو دے کیسے سکتے ہیں۔
وہ ابھی انہی سوچوں میں گھرے تھے۔ کہ وہ فریش سی واشروم سے نکلی تھی۔ سیاہ کرتا ، پاجامہ پہنے۔ گیلے بالوں کو تولیہ سے رگڑتی وہ ایک بار پھر ڈریسنگ کے آگے آکر کھڑی ہوئ تھی۔
" کیا آج ساری رات یہیں کھڑے رہ کر ، دس کروڑ کے بارے میں سوچنا ہے۔۔؟؟" وہ تولیہ صوفہ پہ اچھالتی بال اپنی پشت پہ جھٹک کر مستفسر ہوئ۔
" اگر مجھے ایک ہفتہ کے اندر کوئ ، بہتر پروگریس نہیں ملی ناں۔ تو میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔" میر عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
وہ گہری سانس خارج کرتی اپنی آنکھیں گھما کر رہ گئ تھی۔
" بہت ہی بے صبرے اور عجیب انسان ہو۔" وہ بیڈ پہ جاکر بیٹھی تھی۔ اپنا سیاہ دوپٹہ جو اسنے اتار کر بیڈ پہ پھینکا تھا۔ اسے اٹھا کر سائڈ پہ فرش پہ پھینکا تھا۔ میر عالم خان کی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔ کیونکہ وہ نوٹ کر رہے تھے۔ پھیلاوا اور گند مچانے میں تو وہ سب سے آگے تھی۔
" یہ گندگی میں بلکل برداشت نہی کرونگا۔" انہوں نے اسے وارن کیا تھا۔
" ڈونٹ وری کل سب صاف کروا دونگی۔" وہ بیزار سی شکل بنا کر گویا ہوئ۔
وہ کمفرٹر کھول کر بیٹھی تھی۔ اور لیٹنے سے پہلے ایک بھر پور جمائ لی تھی۔ میر عالم نے ایک بار پھر نگاہ چرائ تھی۔
وہ کمفرٹر اوڑھ کر لیٹی تھی۔ جب میر عالم خان نے لیٹتے ۔ بیچ میں تکیوں کی دیوار بنائ تھی۔ شعلہ نے اسے عجیب سی نظروں سے تکا تھا۔
" سیریسلی۔۔۔ اتنا خود پہ بھروسہ نہیں۔" اسکی بات پہ میر عالم نے اسے گھورا تھا۔
" خود پر تو ہے پر تم پر نہی۔" انہوں نے جل کر کہا۔
" سنکی بڈھا۔۔" وہ بڑبڑائ تھی۔
پر اسکی بڑبڑاہٹ وہ بخوبی سن چکے تھے۔
" خون آشام چڑیل۔" وہ بھی اسی کی طرح بلند آواز میں بڑبڑائے تھے۔ شعلہ نے تپ کر بیچ میں پڑے تکیوں کی دیوار کا لحاظ کیئے بغیر ایک زور دار لات ماری تھی۔ وہ کرآہ کر رہ گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
" آپ کہنا کیا چاہ رہی ہیں میں سمجھنے سے بلکل قاصر ہوں۔" در فشاں نے نا سمجھی سے پوچھا۔
" میں کہنا یہ چاہ رہی ہوں۔ کہ تم بچہ پیدا نہی کرنا چاہتی نا کرو۔ حیدر سے کہو کنٹریکٹ میرج کر لے۔ تم اسے آمادہ کرو اس بات کیلیئے۔ دیکھو عالم نے بھی شادی کر لی۔ اسکے بھی بچے ہونگے۔ کل کو ساری دولت عالم اور اسکے بچے لے اڑیں گے۔" اسکی ماں آج اسے اپنے ساتھ رات رکنے کے بہانے لے آئ تھیں۔
" آپ چاہتی ہیں۔ میں حیدر کی دوسری شادی کرا دوں۔؟" اسنے پوچھا۔
" ہاں۔۔" انہوں نے اسے دیکھ کر سنجیدگی سے کہا۔
" پاگل لگتی ہوں کیا۔ میں آپکو۔۔!!" اسنے بھڑک کر کہا۔
" دیکھو دوسری شادی ہوگی پر ایسی نہیں۔ کنٹریکٹ ہوگا ناں۔ جیسے ہی بچہ ہوجائے گا۔ حیدر لڑکی کو ڈائیورس دے دے گا۔" انہوں نے ایک اور کوشش کی اسے سمجھانے کی۔
" حیدر نہی مانے گا۔" وہ کچھ دھیمی پڑی تھی۔
" اس سے میں نے بات کی ہے۔ تم بھی کوشش کرو۔ میں بھی کرونگی۔ اور تمہاری خالہ بھی کوشش کر۔رہی ہے۔ سمجھ رہی ہو۔ ناں تم ۔۔۔ کب تک نہیں مانے گا۔ کبھی تو پھتر میں شگاف پڑے گا ناں۔۔" انہوں نے اسکے ہاتھ تھامے تھے۔
" اور اگر وہ کبھی نا مانا تو؟؟۔" اسے خدشہ لاحق ہوا۔
" ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ بچہ کی خواہش اسے بھی بہت ہے۔ ماننا تو پڑے گا اسے۔" اسکی ماں نے پر یقین ہو کر کہا۔
" اوکے لیٹس سی۔" درفشاں نے آنکھیں گھما کر کہا۔
☆☆☆☆☆
صبح کا روشن سورج نکلنے سے پہلے ہی وہ اٹھ چکی تھی۔ واشروم میں جا کر ٹی شرٹ اور ٹراؤزر پہن کر نکلی۔ اپنے سامان میں سے میٹ اٹھا کر بچھائ۔
وہ وارم اپ ایکسرسائز کر رہی تھی۔ جب میر عالم کروٹ کے بل مڑا تھا۔ ہلکی سی آنکھیں کھولیں۔ تو اسے ایکسرسائز کرتا دیکھ بے ساختہ موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا تھا۔ صبح کے چار بج رہے تھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔
" اتنی صبح ، صبح اٹھ جاتی ہو۔۔؟؟" انہیں حیرت ہوئ تھی۔
وہ اسپلٹس کرنے لگی تھی۔ میر عالم نے متاثر کن نظروں سے اسے تکا تھا۔
" ہمم۔" ہلکی سی ہمم پہ میر عالم نے آئبرو آچکائ تھیں۔
وہ اسپلٹس کرکے اٹھی۔ اور گردن گھمائ۔ اسکی گردن سے ٹخ ٹخ کی تین چار آوازیں نکالیں۔
میر عالم نے آنکھیں واپس موند لیں تھیں۔
اب وہ پلینک کر رہی تھی۔ اور آخر میں سکی ہوپس کرکے وہ میٹ سمیٹ کر۔ اسکی ایک گھنٹہ کی ایکسرسائز مکمل ہوچکی تھی۔ اسنے وقت دیکھا پانچ بج رہے تھے۔ فجر کی اذان میں کچھ وقت باقی تھا۔
وہ گہری سانس لیتی۔ بالکنی کا ڈور کھولتی باہر نکل گئ تھی۔
کئ لمحہ بالکنی میں واک کرتی رہی ، کچھ دیر بعد آزانوں کی آوازیں آنے لگیں وہ جلدی سے اندر آئ تھی۔ جو سیاہ دوپٹہ اسنے رات میں پھینکا تھا۔ اسے اٹھا کر دوبارہ سر پہ لیا تھا۔ آزان مکمل ہوئ۔ وہ اٹھی کمیز شلوار لے کر۔ شاور لیا۔ اور باہر آکر جائے نماز بچھائ۔
نماز پڑھنے کھڑی ہوئ۔ نماز پڑھ کر جب ہاتھ دعا کے لیئے اٹھائے۔ تو آنکھیں لبالب آنسؤں سے بھر گئیں۔ وہ تقریبا روشنی نکلنے تک بیٹھی دعا مانگتی رہی۔ دعا مانگ کر اٹھی۔ واشروم میں گئ چہرے پہ اچھے سے پانی مارا۔ اور کمرے میں آکر جب وہ اپنی جگہ پہ واپس آکر لیٹی ہی تھی۔ کہ کمرے کا دروازہ بجا۔ اسنے آٹھ کر کمرے کا دروازہ کھولا۔ تو سامنے مصطفی کھڑا تھا۔ مصطفی کو دیکھ کر اسکی آنکھوں میں نرمی در آئ تھی۔
" وہ۔۔۔ سوری پر۔۔ روز اٹھاتا ہوں۔ تو عادت ہوگئ ہے۔ اور مجھے لگا شاید آپ سویرے اٹھنے کی عادی نا ہوں تو۔۔۔" اسنے سنجیدگی سے بتایا۔
" اندر آجاؤ۔" وہ دروازہ کھول کر ہٹ گئ تھی۔
" نہیں بس ۔۔۔ وہ ۔ آپ سر کو اٹھا دیں۔" اسے آج پہلی بار میر عالم خان کے کمرے میں آتے ہوئے جھجک محسوس ہوئ تھی۔
" اٹس اوکے۔۔ آجاؤ اندر اور اٹھا لو۔ اپنے سر کو۔" اسنے بیڈ پہ واپس اپنی جگہ پہ بیٹھتے ہوئے کہا۔
مصطفی جھجکتا ہوا اندر آیا تھا۔ شعلہ نے اپنا موبائل اٹھایا تھا۔ اور فالتو کی اسکرولنگ کرنے لگی تھی۔
" سر۔۔۔" مصطفی نے میر عالم کو آواز دی۔
پر میر عالم اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوا۔
" سر۔۔" ایک بار پھر آواز دی۔
شعلہ نے مصطفی کو گھورا تھا۔
" کیا سر۔۔۔ سر لگا رکھی ہے۔ ایسے کندھے سے پکڑ کر زور سے ہلاتے ہیں۔ اور ایسے دیکھو ابھی۔ اٹھیں صبح ہوگئ۔" اسنے باقاعدہ عمل درآمد بھی کرکے دکھایا تھا۔
میر عالم کے کان میں وہ اسقدر زور سے چیخی تھی کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھے تھے۔ پہلے تو نا سمجھی کے عالم میں مصطفی کو دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک نظر شعلہ کو دیکھا۔ اور سمجھ گئے کہ اتنے جارہانہ طریقہ سے اسی نے اٹھایا ہے۔
" میں ۔۔ نے کتنی بار کہا ہے۔ مصطفی کہ مجھے ایسے مت اٹھایا کرو۔" وہ بھڑکے تھے۔
" سوری سر وہ۔۔" مصطفی لاجواب ہوا تھا۔
" اسنے نہیں اٹھایا ایسے۔ میں نے اٹھایا ہے۔ بیچارہ کب سے کھڑا۔ سر۔۔۔ سر کیئے جارہا تھا۔ پر آپ موصوف تو ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔" اسنے مصروف سے انداز میں اسے آگاہ کیا۔
" جنگلی۔۔" وہ بڑبڑاتے اٹھے تھے۔
" کھوسٹ۔۔" وہ بھی بڑبڑائ تھی۔
مصطفی کو حیرت ہوئ تھی۔ ایک دن کے نئے نویلے کپل والی تو کوئ بات ہی نا تھی ان میں۔
آفس میں روز کی مانند چہل پہل تھی۔ پر آج وہ بہت سستی سے کام کر رہی تھی۔ اسکا دل بلکل کام میں نہیں لگ رہا تھا۔ ابھی بھی وہ خیالوں میں ڈوبی بیٹھی تھی۔ حیدر اسے کب سے آوازیں دے رہا تھا۔ پر آواز اسکے کانوں میں پڑتی تو وہ کوئ جواب دیتی ناں۔
حیدر غصہ سے بھناتا اسکے سر پہ آکر کھڑا ہوا تھا۔ اور فائلز زور سے اسکے ٹیبل پہ پٹخی تھیں۔ وہ اچھل کر سیدھی ہوئ تھی۔
" مس ساوری۔۔۔ اگر آپ اپنے بوائے فرینڈ کے بارے میں سوچ کر فارغ ہوگئ ہوں تو یہ فائلز صدیقی صاحب کو دے کر آجائیں۔" وہ سرخ رنگت لیئے اسپہ گرج رہا تھا۔
" سر میرا کوئ بوائے فرینڈ نہیں ہے۔" ساوری کو اسکے الفاظ برے لگے تھے۔ اسی لیئے بنا ہچکچائے۔ اسنے تڑخ کر کہا۔
" تو۔۔۔ مجھے کیوں بتا رہی ہیں۔ یہاں میں کسی کی پرسنل لائف انفارمیشن اکھٹی کرنے نہیں بیٹھا۔" اسکا پارہ مزید ہائ ہوا تھا۔
" میں آپکو اپنی پرسنل اپڈیٹ دے بھی نہیں رہی سر۔ میں بس بتا رہی ہوں۔ کہ میرے لیئے ایسا لفظ دوبارہ مت استعمال کیجیئے گا۔" اسنے سر جھکا کر کہا۔
" اوہ تم مجھے دھمکی دے رہی ہو۔ ٹھیک ہے۔ مطلب اب میرے امپلائ بھی ، مجھ پر چڑھیں گے۔" وہ اپنی پرسنل زندگی کی فرسٹریشن اسپہ نکال رہا تھا۔
" سر میں نے ۔۔۔ ایسا بھی کچھ غلط نہی کہا۔" اسکے ماتھے پہ بل آئے تھے۔ پر دل اسکا غصہ دیکھ اب بھی اندر سے کانپ رہا تھا۔
" سیریسلی۔۔۔۔!! تم نے جو کہا سب غلط کہا ہے۔ میں کوئ کٹھ پتلی نہیں کے دوسروں کے اشاروں پہ ج
ناچتا پھروں۔" حیدر نے اسے بازو سے تھام کر دیوار سے لگایا تھا۔ ساوری کا رنگ خوف سے زرد پڑا تھا۔
" سوری۔۔۔ سر۔۔ آہ۔" اسنے سہمے ہوئے لہجہ میں معذرت کی تھی۔ حیدر نے اسکے بازو کو اتنی زور سے دبایا تھا۔ کہ اسکے لبوں سے بے ساختہ سسکی بر آمد ہوئ تھی۔
" سوری۔۔۔!!! ، ہنہ نفرت ہے مجھے۔ تم جیسے دکھاوے سے بھرے لوگوں سے۔" اب اسے سامنے ساوری میں درفشاں کا عکس دکھ رہا تھا۔
" سر ۔۔۔ پلیز چھوڑیں مجھے۔" وہ اسکی آنکھوں میں جنوں دیکھ کر ڈری تھی۔
" بہت ناز ہے ناں۔۔۔ تمہیں ۔۔۔ اپنے اس فگر پہ۔ اس ہوش ربا سراپے پہ۔" وہ اسے کمر سے جکڑ کر بھڑک رہا تھا۔ اسکے نازیبا الفاظ سن ساوری کا ہاتھ بے ساختہ اٹھا تھا۔ اور حیدر کے چہرے پہ جاکر پڑا تھا۔ تھپڑ پڑتے ہی وہ جیسے ہوش میں آیا تھا۔ سامنے کھڑی لڑکی تو اسکی پرسنل سیکٹری تھی۔ درفشاں نہی تھی وہ۔
" سوری۔۔۔ ریئلی ۔۔۔ سوری مس ساوری۔" وہ اپنی غلطی کے احساس ہونے پہ۔ جھٹ سے اسکا بازو اور کمر اپنی گرفت سے آزاد کرتا پیچھے ہٹا تھا۔ ساوری اب بھی دیوار سے چپکی کھڑی تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ خوف کے مارے اسکے دل کی دھڑکن مانو بند ہونے لگی تھی۔ وہ بے جان سی ہوتی اپنی جگہ پہ بیٹھی تھی۔ اور حیدر لاچارگی سے اپنا سر تھام کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
میر عالم خان کب کا جا چکا تھا۔ آج رات انکا ولیمہ تھا۔ نازنین نے ڈیزائنر کو بلوایا تھا۔ اور وہ ڈھیروں قسم کے برائیڈل ڈریسز لیکر حاضر تھی۔
" بھابھی آپ اپنی آج شام کے لیئے ڈریس سلیکٹ کر لیں۔" نازنین نے چہک کر کہا تھا۔
" اوکے میں دیکھتی ہوں۔" وہ اپنا موبائل سائڈ پہ رکھتی اٹھی تھی۔ اس وقت بھی وہ سیاہ لباس میں تھی۔ بالوں کو کمر پہ بکھرائے۔ نازک سی ہیل پیروں میں پہنے۔ سیاہ جینز اور اسکے ساتھ سیاہ ہی اسٹائلش سی ٹاپ پہنے وہ بے حد دلکش لگ رہی تھی۔ اسنے ہر ڈریس کو آگے پیچھے کرکے دیکھا۔
پھر ڈیزائنر کو دیکھ کر مسکرائ۔
" یہ سب بہت اچھا ہے۔ پر کیا بلیک میں نہیں ہے آپکے پاس کچھ۔" بڑے ہی نرم اور میٹھے لہجہ میں پوچھا۔
اس سے پہلے کہ ڈیزائنر کچھ کہتی۔ نازنین نے جھٹ مسکا کر کہا۔
" بھابھی آئ تھینک بلیک آپ کا فیورٹ کلر ہے۔ پر کیا بھابھی۔ آج آپ میری پسند کا کلر پہنیں گی۔ مجھے بہت اچھا لگے گا۔" وہ مسکائ تھی۔ نازنین کو دیکھ مسکا کر سر کو دھیرے سے اثبات میں جنبش دے گئ تھی۔
" بھابھی آپ نے کل بھی ریڈ نہیں پہنا۔ تو میں چاہتی ہوں آج آپ ریڈ کلر پہن لیں۔" اسنے مسکرا کر کہا۔
" شیور ۔۔۔ کیوں نہیں۔" اسنے مسکا کر نظر دوبارہ ۔ ان کپڑوں پہ ڈالی تھی۔ اور اسمیں سے ایک ڈریس اچک لیا تھا۔ وہ میکسی سرخ تو تھی پر اسقدر سرخ تھی۔ جیسے کسی انسان کا تازہ خون گر کر کئ لمحہ پڑا رہا ہو۔ اسمیں کالے رنگ کا گمان بھی بہت ہو رہا تھا۔
نازنین مسکرائ تھی۔
" اوکے بس یہ ڈن ہے۔ آپ میری بھابھی پہ اسکی فٹنس وغیرہ دیکھ لیں۔ میں آتی ہوں دو منٹ میں۔"
شعلہ اسے جاتے دیکھ کر ایک اسمائل پاس کر گئ تھی۔ اور پھر ڈیزائنر اسکی ڈریس کی فٹنگس چیک کر رہی تھیں۔
☆☆☆☆☆
میر عالم خان نے اپنا موبائل اٹھایا۔ ٹویٹر کھول کر وہ اسکرولنگ کر رہے تھے۔ جب انکی نظر اپنی اور شعلہ کی کل نکاح والی پکز پہ پڑی تھی۔ لوگوں نے جگہ جگہ انہیں ٹویٹ کیا تھا۔ اور مبارک بعد دی تھی۔ انہوں نے کمنٹ باکس کھولا تو۔ نیچے لاتعداد کمنٹس موجود تھے۔
کہیں کوئ مبارک باد اور دعائیں دے رہا تھا۔ اور کہیں کچھ شوخ لوگوں کے تبصرے جیسے۔
" میر عالم خان کی تو اس عمر میں لاٹری لگ گئ۔ کیا پیس ملا ہے۔" یہ کمنٹ پڑھ کر انکے ماتھے پہ بل آئے تھے۔ انہوں نے کمنٹس کو مزید اسکرول کیا۔
" لکھ کر لے لو اس لڑکی نے پیسے اور شہرت کی خاطر شادی کی ہے۔ نہیں تو اتنی خوبصورت جوان لڑکی میر عالم خان سے شادی کیوں کرے گی۔" ایک لڑکی کا تبصرہ تھا۔ میر عالم خان کو اتنا بھی عجیب نہیں لگا کیونکہ ایک حد تک حقیقت ہی تھی یہ۔
" آہ میر عالم خان میرا کرش دل توڑ دیا۔" ایسے بھی کئ کمنٹس تھے۔ جس پہ وہ محض تاسف سے سر ہلا کر رہ گئے تھے۔
موبائل کو بند کر کے سائڈ پہ رکھا تھا۔ مصطفی کو دیکھا۔ جو لگا الیکشن کی تیاریوں میں خوار ہورہا تھا۔ کبھی کس سے پیسے مانگنے کو فون کرتا اور کبھی کس سے۔ کیونکہ جو رقم تھی وہ تو وہ محترمہ ساری لیکر آڑ چکی تھیں۔
میر عالم پر سوچ سے بیٹھے تھے۔ جب انکا موبائل بجا انہوں نے بغیر نمبر دیکھے کال پک کی تھی۔
" میرے مجازی خدا گھر کب پہنچیں گے۔" شعلہ کی آواز سن کر اسکے ماتھے پہ بل آئے تھے۔
" کچھ پتا نہیں۔ مصروف ہوں بعد میں بات کرونگا۔" انہوں نے کال کاٹنی چاہی۔
" کال کاٹنے کی سوچئے گا بھی مت۔" اسکی چنگھاڑتی ہوئ آواز میر عالم کی سماعتوں سے ٹکرائ تھی۔
" میں نے کہا ناں بزی ہوں میں۔" میر عالم نے جل کر کہا۔
" تو۔۔؟؟۔" اسنے منہ بنا کر کہا۔
اسکے تو کرنے پہ میر عالم نے موبائل کو کان سے ہٹا کر گھورا تھا۔
" تو یہ کہ میں گھر آکر بات کرونگا۔" انہوں نے بات کو سمیٹا۔
" کچھ دیر میں تمہیں ایک سرپرائز ملنے والا ہے۔" وہ پر اسرار لہجہ میں گویا ہوئ۔
" کیسا سر پرائز۔؟" انہوں نے سیدھے بیٹھتے پوچھا۔
" صبر رکھیئے، موصوف ، ایک تو آپ بے صبرے بہت ہیں۔" وہ مسکرا کر گویا ہوئ۔
" اگر پہلے بتا دو گی تو۔ کوئ آسمان نہیں گر پڑے گا۔" میر عالم چڑے تھے۔
مصطفی نے انکے چڑے چڑے روپ کو تکا تھا۔
" سرپرائز ہے۔" اسنے شوخی سے کہا۔
" پر مجھے سرپرائز پسند نہیں۔" انہوں نے سرد لہجہ میں کہا۔
" پر مجھے تو پسند ہے۔" اسکی آواز جب میر عالم کے کانوں میں پڑی تو ، وہ کال کٹ کر موبائل کو زور سے ٹیبل پہ پٹخ گئے تھے۔
مصطفی نے عالم کو ترچھی نظروں سے تکا۔
" سر خیریت ہے۔" مصطفی نے اسکی سرخ رنگت تک کر پوچھا۔
" ہاں۔۔۔ خیریت ہی ہے۔ کیا ہونا ہے۔" وہ بھڑکے تھے۔
☆☆☆☆☆
" ساوری تمہارے بھائ کی طبیعت بہت بگڑنے لگی ہے۔" بھابھی نے زرد چہرہ لیئے اسے بتایا۔
" بھابھی ۔۔۔ میں کیا کروں مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔" وہ مرجھائے ہوئے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" کوشش کرو کچھ تو ہوجائے۔ تمہارے بھائ رات رات بھر تکلیف سے تڑپتے رہتے ہیں۔" بھابھی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔
" بھابھی۔۔۔ میں کچھ کرتی ہوں۔ آپ پریشان نا ہوں۔" وہ بھابھی کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر گویا ہوئ۔
وہ دونوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں جب گھر کا دروازہ بجا۔ بھابھی دروازہ کھولنے گئیں۔ اور تھوڑی دیر بعد انکے ساتھ دو قیمتی لباس میں ملبوس خواتین اندر آئیں۔
ساوری نے ایک کو تو پہچان لیا تھا۔ اس لیئے کھڑی ہوگئ۔
" آپ یہاں۔۔" وہ حیران تھی۔
بھابھی بھی حیرانی سے ان لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔
" میں ساوری کے باس کی خالہ ہوں۔ اور یہ امی ہیں حیدر کی۔" حیدر کی خالہ نے اپنا اور حیدر کی ماں کا تعارف کروایا تھا۔
" جی اچھا۔" بھابھی نے دھیرے سے مسکایا۔
" وہ ہم تمہاری بھابھی سے بات کرنے آئے تھے۔" انہوں نے ساوری کو دیکھ کر کہا۔
جی کیا بات کرنی تھی۔ اپ لوگوں نے کہیئے۔" بھابھی نے پرخلوص سے لہجہ میں کہا۔
"وہ ہمیں ۔۔۔" حیدر کی ماں نے بات شروع کرنے سے پہلے ایک نظر ساوری کو تکا۔
" ہمیں پتہ چلا کہ آپ لوگوں کے مالی حالات کچھ اچھے نہیں۔ اور اپکے شوہر کا روڈ ایکسیڈینٹ ہوا ہے۔ جس میں انکی ٹانگیں ایکسپائر ہوگئیں۔" انہوں نے چہرے پہ افسوس لاکرکہا۔
" جی۔۔۔ بس کچھ مہینے پہلے یہ حادثہ پیش آیا۔ جو اللہ پاک کو منظور۔" بھابھی نے انکساری سے کہا ۔
" جی بلکل جو اللہ کو منظور۔" حیدر کی خالہ نےسر ہلاتے سمجھنے والے انداز میں کہا ۔
" دیکھیئے ۔ ہم جانتے ہیں آپ لوگوں کو پیسوں کی ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم آپکی کچھ مدد کر دیں پر اگر بدلے میں آپ لوگ ہماری کچھ مدد کر دیں تو۔۔۔ ہمیں بہت خوشی ہوگی۔" حیدر کی والدہ نے چہرے پہ مسکان سجا کر کہا۔
" ہم غریب لوگ آپکی۔۔۔۔۔ کیا مدد کرسکتے ہیں۔" بھابھی نے ناسمجھی سے کہا۔
اور پھر جو مدعا وہ دونوں سامنے رکھ کر گئیں۔ ساوری اور اسکی بھابھی اپنی جگہ جم کر رہ گئیں۔
" یہ کیسی بات کر رہے ہیں جی۔ آپ لوگ" پہلے بھابھی نے ہی ہوش سنمبھال کر بات کرنے کی کوشش کی۔
" ہم آپکو پریشرائز نہیں کریں گے۔ اگر آپ لوگوں کو لگے۔ کہ آپ لوگوں کو اس آفر کی ضرورت ہے۔ تو یہ میرا نمبر ہے اس پر کال کر دیجیئے گا۔" حیدر کی اماں نے اپنا نمبر بھابھی کے ہاتھ میں دیا تھا۔ اور دونوں جیسے آئ تھیں۔ ویسے ہی اٹھ کر جاچکی تھیں۔ ساوری اور اسکی بھابھی اپنی جگہ گم صم سی ہو کر رہ گئ تھیں۔
∆∆∆∆
میر عالم خان ابھی گھر پہنچے تھے۔ اور گھر پہنچتے ہی انہوں نے دیکھا ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی آن تھا۔ اور وہاں پہ ہیڈلائنز چل رہی تھیں۔
مالک شاہ کی ایک ویڈیو کلپ بار بار دکھائ جا رہی تھی۔
یہ ویڈیو اس دن کی تھی۔ جس دن مالک شاہ نے شعلہ کو میر عالم کے نام کی سپاری دی تھی.
وہ کلپ میں بار بار میر عالم کا نام لے رہا تھا۔ اور اسکے بے دردی سے قتل کرنے کی تلقین دے رہا تھا۔ میر عالم شعلہ کے برابر میں آکر صوفہ پہ بیٹھا تھا۔
شعلہ نے ایک نظر میر عالم کو تکا۔ ٹی وی اسکرین پہ چلتے مالک شاہ کے تمام کالے دھندے بھی ایکسپوز ہوچکے تھے۔ باہر لان میں ان دونوں کے ولیمے کی تیاری ہورہی تھی۔ اور وہ دونوں ٹی وی اسکرین کو دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔
" میں نے کہا تھا ناں کہ میں ثبوت دونگی تو دیکھو دے دیئے۔ صرف یہ نہی اوروں کے راز بھی میرے پاس دفن ہیں۔ بس بات اتنی ہے کہ ثبوت ایکسپوز میں اپنے طریقے سے کرونگی۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
" وہ۔۔۔ تو ٹھیک ہے۔ پر۔۔" میر عالم خان کچھ کہتے کہتے رکے۔
" پر کیا۔؟؟" شعلہ نے بھنوئیں اچکا کر اسے تکا۔ میر عالم بھی اسے ہی تک رہے تھے۔ دونوں کی نظریں ایک دوسرے کی نظروں سے جا ٹکرائیں۔ دونوں نے ایک دوسرے سے نگاہ چرائ۔
میر عالم نے اپنے کوٹ کا بٹن کھولا۔
" خوامخواہ مرے ہوئے آدمی کو بدنام کر دیا۔" میر عالم نے نرم لہجہ میں کہا.
" پہلے بتا دیتے مرے ہوئے ، آدمی کے بجائے۔ تمہیں بدنام کر دیتی۔" شعلہ نے آنکھیں گھما کر کہا ۔
" میرے ایسے کوئ کرتوت ہیں ہی نہیں کہ تم مجھے بدنام کر پاؤ۔" انکے چہرے پہ کہیں بھولی بھٹکی سی مسکان در آئ تھی.
" اور اگر میں کہوں. کہ ، ثبوت تو میرے پاس تمہارے خلاف بھی ہیں۔" وہ باقائدہ اسکی جانب مڑی تھی۔
میر عالم نے اسکے چہرہ کو بغور تکا تھا۔
" جھوٹ کافی اچھا بول لیتی ہو۔"
" میر عالم خان۔۔۔۔ اگر تمہیں جھوٹ لگتا ہے تو جھوٹ ہی سہی پر یاد رکھنا تمہارے کرتوتوں کی قیمت بہت بھاری ہے." وہ اسکے کندھے پہ اپنی شہادت کی انگلی رکھ کر دھیرے سے سے انگلی کو اسکے بازو تک لائ تھی۔ اور جن نظروں سے شعلہ نے میر عالم کو تکا تھا. میر عالم اسے گھور کر رہ گئے تھے۔ شعلہ اٹھ کر اپنے کمرے میں گئ تھی۔ میر عالم نے اسکے جاتے ہی ارد گرد دیکھا تو۔ دور کھڑے مصطفی نے اپنی مسکان دبائ تھی۔
∆∆∆∆∆
ولیمے کی تقریب اپنے عروج پہ تھی۔ تمام مہمان آچکے تھے۔ میڈیا بھی جمع تھا۔ شعلہ عالم کا بازو تھامے باہر ائ تھی۔ ہر کوئ انہیں ستائش بھری نظروں سے تک رہا تھا۔ کسی کسی کی نظروں میں حسد بھی تھا. وہ دونوں جیسے ہی باہر آئے۔ فوٹوگرافر نے انکی ویڈیوز اور پکچرز بنانا شروع کردیں تھیں۔ کہیں سے تصویریں لی جا رہی تھیں۔ مختلف سیاسی پارٹیز کے کارکن۔ بڑی اہم شخصیات وہاں موجود تھیں۔ وہ دونوں ایک ساتھ چلتے ہوئے بے حد دلکش لگ رہے تھے۔
" مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں کسی ریاست کی شہزادی ہوں۔ اور اپنے شہزادے کے ساتھ دنیا فتح کرنے جا رہی ہوں۔" اسکا لہجہ مسمرائز تھا۔
" سیریسلی۔۔۔۔۔!!! ۔" عالم نے آنکھیں ترچھی کرکے اسے دیکھا تھا۔
وہ بنا جواب دیئے مسکرائ تھی۔
وہ دونون سٹیج پہ جاکر بیٹھے تھے۔ لوگ انکے پاس آکر انکو تحفہ ، پھول ، دعائیں اور مبارک باد دے کر جارہے تھے۔
لوگ میر عالم کی شادی پہ حیرت کا اظہار بھی کر رہے تھے۔
انکے فوٹوشوٹ کا وقت آیا تو۔ کیمرہ مین نے پہلے دونوں کو ہاتھ تھام کر ایک دوسرے کے مقابل آکر کھڑے ہونے کو کہا۔ عالم نے اپنے ہاتھ شعلہ کے آگے پھیلائے۔ وہ دھیرے سے اپنے ہاتھ اسکے ہاتھ پہ دھر گئ تھی۔ دونوں زرا سا ایک دوسرے کے قریب آئے۔ اور ایک دوسرے کی سمت دیکھنے لگے تھے۔ کیمرہ مین نے تصویں کلک کی اور پھر دوبارہ انہیں پوزیشن چینج کرنے کو کہا۔
کیمرہ مین کی ہدایت پہ میر عالم نے عمل کرتے۔ شعلہ کو کمر سے تھام کر اپنے سینے سے لگایا۔ شعلہ کی بے ساختہ نگاہیں جھکیں تھی۔ ہاتھوں کی ہتھیلیاں بھیگی تھیں۔ ۔
اگلی ہدایت پہ شعلہ کی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔
" نہی۔۔۔ بس اتنا ٹھیک ہے جتنا ہوگیا۔" اسنےگھبرا کر کہا۔
میر عالم نے ایک نظر اسکی اڑی رنگت کو تکا تھا۔ اور پھر ارد گرد دیکھا زیادہ تر لوگ انہی کی طرف متوجہ تھے۔
میر عالم نے کیمرہ مین کو ریڈی رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ کیمرہ پکڑے کھڑا تھا۔ میر عالم نے شعلہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے قریب کیا۔ شعلہ نے ناسمجھی سے اسے تکا۔ اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی۔ عالم نے اسے دھیرے سے چہرے سے تھام کر اپنے دہکتے لب اسکے ماتھے پہ دھرے تھے. شعلہ نے اسکا لمس اپنے ماتھے پہ محسوس کرتے ہی اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ بہت سے لوگ اس خوبصورت سے کپل کو دیکھ کر مسکرائے تھے۔
کیمرہ مین نے جلدی سے ایک کلک لیا تھا۔ شعلہ عالم کے لمس سے آزاد ہوکر بھی اسی لمس میں قید ہوگئ تھی۔
وہ سیدھی کھڑی ہوئ تھی۔ کیمرہ مین اب نازنین اور باقی کے فیملی میمبرز کے ساتھ انکی پکس لے رہا تھا۔
شعلہ کی نظر مصطفی پہ پڑی تو اسنے پاس کھڑی نازنین کو مصطفی کو بلانے کو کہا۔ نازنین منہ بناتی مصطفی کے پاس گئ تھی۔
" بھابھی بلا رہی ہیں تمہیں۔" پیغام بھی ایسے پہنچا رہی تھی۔ وہ جیسے حکم دے رہی ہو۔
" میں جاتا ہوں انکے پاس۔" مصطفی نے وہیں بیٹھے کہا۔
" جاتا ہوں کیا ۔۔۔ اٹھو اور جاؤ۔ کیا میری بھابھی تمہارے انتظار میں بیٹھی رہیں گی۔" نازنین نے تڑخ کر کہا۔ مصطفی چارو نا چار آٹھ کر اسٹیج تک گیا تھا۔ شعلہ نے اسے انکے ساتھ تصویریں بنانے کے لیئے بلایا تھا۔
" نہیں بھابھی۔۔۔ اٹس جسٹ اوکے۔" وہ معذرت کرکے اتر جانا چاہتا تھا۔
" نہیں ۔۔۔ کیا ہوتا ہے سیدھا کھڑے ہو ہمارے ساتھ آکر۔" اسنے اتنے مان سے بلا کر اپنے ہی ساتھ کھڑا کیا تھا۔
میر عالم نے بھی کیمرہ کی طرف ہلکا سا مسکرا کر دیکھا تھا۔
نازنین اپنی دوستوں کے پاس آکر بیٹھ گئ تھی۔ غصہ سے اسکی رنگت سرخ ہورہی تھی۔
" کوئ طریقہ نہیں جس سے میں اس شخص کو کہیں غائب کر دوں۔ مجھے نہیں چاہیئے یہ شخص ہماری خوشیوں میں۔" اسکی نگاہیں مصطفی پہ مرکوز تھیں۔ پوچھا اسنے اپنی بیسٹ فرینڈ سے تھا۔ جسکو اس دن مصطفی پہ بڑا زور والا کرش آیا تھا۔
" ہے۔۔ ناں۔۔ حل۔" اسکی دوست نے کمینہ پن سے ہنس کر کہا۔
" کیا ہے۔۔۔؟" نازنین نے بے تابی سے پوچھا۔
" نیند کی گولیاں اسکی ڈرنک میں ڈال دو۔ اور پھر دو تین منٹ بعد اسے اندر کوئ سامان لینے بھیج دو۔ جب تک وہ سامان ڈھونڈے گا۔ تب تک اسپہ نیند کا ایسا غلبہ طاری ہوگا۔ کہ وہیں ٹن سے سو جائے گا۔" اسکی دوست نے اسکے کان کے قریب آکر کہا۔ نازنین سر ہلاتی اندر بھاگی تھی۔ اسنے نیند کی گولیاں میڈیسن باکس میں سے نکالی تھیں۔ اور ان سب کا سفوف بنا کر لائ تھی۔ اسنے نظر بچا کر مصطفی کی ڈرنک میں نیند کی گولیاں ملا دی تھیں۔ مصطفی کو ان دونوں نے شربت پیتے دیکھا تو مسکرائ تھی۔
نازنین کو بھی اسکی دوست نے کوئ جوس پیش کیا تھا۔ جسے وہ مسکا کر دمکتے چہرے سمیت ایک ہی سانس میں پی گئ۔
اور پھر وہ پلین کے مطابق مصطفی کے پاس آئ۔
" اندر ایک گفٹ باکس رکھا ہوگا۔ لیکر آؤ۔ بھائ بھابھی کو دینا ہے میں نے۔" وہ اسکے سر پہ کھڑی حکم صادر کر رہی تھی۔
مصطفی نے جبڑے بھینچے تھے۔
" کسی ملازم سے کہہ دو۔" اسنے سرد لہجہ میں کہا۔
" ملازم سے ہی کہا ہے۔" تمسخر سے کہا۔
" میں تمہارا ملازم نہیں۔" اسکو تاؤ آیا تھا۔
" تمہارے نا ماننے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی۔" اسکے الفاظ مصطفی کے دل میں اسکے لیئے مزید نفرت بھر گئے تھے۔
مصطفی تاؤ کے عالم میں اندر گیا تھا۔ وہ پلین کی کامیابی پہ مسکراتی اپنی دوست کے پاس آئ تھی۔ اسکی دوست نے غلطی سے اسکے کپڑوں پہ شربت گرا دیا تھا۔ وہ اپنے کمرے میں چینج کرنے گئ تھی۔ وہ ابھی اپنے روم میں آئ ہی تھی۔ کہ اسکی نظر مصطفی پہ پڑی جو اسکے روم میں نجانے کیا کر رہا تھا۔
" یہاں کیا کر رہے ہو۔" وہ بھڑکی تھی۔
" گفٹ۔۔۔ جسکے لیئے ، آپ نے بھیجا تھا۔ وہ لینے آیا ہوں۔ نیچے تو مجھے کہیں نہیں ملا تو مجھے لگا۔ کہ آپکے کمرے میں ہوگا۔" اسنے سرد لہجہ میں کہتے۔ اپنا کوٹ جھٹکا تھا۔
" ہاں۔۔۔ یہاں نہیں ہے نیچے جا کر دیکھو۔" اسنے تھوک نگل کر کہا۔
مصطفی سر جھٹکتا جیسے ہی اسکے پاس سے ہوکر گزرنے لگا۔ نازنین کا پیر رپٹا۔ اسکو گرنے سے بچانے کے لیئے۔ مصطفی نے اسے تھاما۔ دونوں کا بیلنس بگڑا اور دونوں سیدھا بیڈ پہ گرے تھے۔ نازنین نے غصہ سے گھورا۔ مصطفی نے اٹھنا چاہا۔ پر نازنین کی چین اسکے کوٹ کے بٹن میں پھنسی تھی۔ نازنین اسکی قربت سے دور جانے کے لیئے پھڑپھڑائ تھی۔ اسنے زور سے اٹھنا چاہا جب مصطفی نے اسکی کلائ تھامی۔
" صبر میں نکالتا ہوں۔" مصطفی نے اسکی کلائ چھوڑ دی تھی۔
" جلدی کرو میں تمہارے ساتھ۔ دو منٹ بیٹھ نہیں سکتی کجا کہ تمہارے سے ۔ ایسے رہنا۔" وہ غصہ سے گرجی تھی۔
" مجھے بھی کوئ خواہش نہیں ہے۔" وہ پاکٹ نکالنے کے جتن کرتا جل کر گویا ہوا۔
نازنین کا سر ایکدم بھاری ہونے لگا تھا۔ وہ دھیرے سے اپنا سر نا چاہتے ہوئے بھی۔ مصطفی کے سینے پہ دھر گئ تھی۔ مصطفی کا اپنا سر بھاری ہو رہا تھا۔ چین نکالتے نکالتے کب اسکی آنکھیں بند ہوئیں ان دونوں کو خبر نا ہوئ۔
ولیمہ ختم ہوا۔ میر عالم اور شعلہ اپنے کمرے میں آئے تھے۔ شعلہ نے گھستے ہی تمام تام جھام سے اپنی جان چھڑوائ تھی۔ چینج کرکے ہلکی سی سیاہ کرتی اور کھلا سیاہ رنگ کا ہی پلازو پہنے وہ بیڈ پہ آکر بیٹھی تھی۔ میر عالم نے اسے ایک نظر تکا تھا۔ جس نے اپنے تمام بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا۔ اور موبائل پہ لگی شاید کسی کے میسج پڑھ رہی تھی۔ کچھ لمحوں بعد اس کے موبائل پہ کال آنے لگی تھی۔ اسنے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا تھا۔
" ہاں بھونک۔۔" اسنے بیزاریت سے کہا۔
عالم نے اسے گھوراتھا۔
" شعلہ جی۔۔۔۔ غصہ کیوں ہوری ہو. ابھی صرف اگلی پارٹی سے ہم نے بات کی ہے ابھی مال آگے بیچا تھوڑی ہے۔" بائ نے منہ میں پان دبائے پھنسے ،پھنسے لہجہ میں کہا۔
" یہ میرا مسئلہ ایچ نہی ہے۔ میں نے تیرے کو پہلے ہی کہہ دیا تھا. کہ اگلا مال میرا ہی ہے۔ پر تو سالی دو نمبر عورت۔ ایک زبان تو تیری ہے ہی نہی۔ اب دیکھ شعلہ کا تو ہر کام کرنے کا اپنا ایک فارمیٹ ہے۔ اگر یہ مال میرے کو نہی ملا ناں تو ۔ تو دیکھ لیو۔ پھر مجھ سے گلہ نا کریو " شعلہ نے تڑ تڑ کرتے ٹپوی لہجہ اپنا کر کہا۔
میر عالم اسکے بات کرنے کے انداز پہ غش کھا کر گرنے کے قریب تھا۔
" ارے خفا نا ہو یہ مال ، تیرا ہی ہے بس کل تو رقم لے کر آجا۔" بائ نے لہجہ کو شکر بنا کر کہا۔
" کل میں تھوڑا بیزی ہے۔ پرسوں آئے گی۔" اسنے آنکھیں گھما کر کہا۔
" چل ٹھیک پھر میں انتظار کرے گی تیرا۔" اسنے کال کاٹ کر موبائل کو سائڈ ٹیبل پہ پھینکنے کے انداز میں رکھا تھا۔
" یہ بات تم کس طرح سے کر رہی تھیں۔" عالم نے اسکے بگڑے تیور دیکھ کر کہا۔
" تمہارا مسئلہ نہی ہے یہ۔* اسنے تڑخ کر کہا۔
" میرا ہی مسئلہ ہے۔ " عالم اسے بازو سے تھام کر گرجا تھا۔
" ڈونٹ سے دیٹ ۔۔۔۔ " شعلہ نے اسے گھورا تھا۔
" میری کوئ عزت ہے۔ مقام ہے۔ اور جب تک تم مجھ سے جڑی ہو میرے نکاح میں ہو۔ میں تمہیں کوئ بھی غلط کام یا حرکت کرنے کی اجازت نہیں دونگا۔"
عالم نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر سرد لہجہ میں کہا۔
شعلہ اسکی آنکھوں میں تکتی مسکرائ تھی۔
" سیاستدان صاحب۔۔۔۔۔!!! کبھی آگ جلتے دیکھی ہے۔ دیکھی تو ہوگی اب یہ نا کہنا کہ بال سفید ہونے کو آگئے تمہارے۔ اور تم نے آگ نہیں دیکھی۔ آگ کے شعلوں کو دیکھا ہے ناں۔ کیا کوئ آگ کے شعلوں کو اپنی مٹھی میں قید کر سکتا ہے۔نہیں بلکل نہی. آگ کو اپنی مٹھی مین قید کرنے والا۔ اپنے ہاتھوں کو زخموں سے دوچار کر دیتا ہے. پر کبھی آگ کو قید کرنے کی خواہش پہ عمل نہیں کر پاتا۔ آگ یا تو پانی کے چھینٹو سے بجھ کر ختم ہوجاتی ہے۔ یا تو پھر اس کو اپنی دسترس میں قید کرنے کی خواہش رکھنے والے اسی آگ کی نظر ہوجاتے ہیں۔" وہ سنجیدگی سے کہتی اسے خود سے دور جھٹک گئ تھی۔ عالم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔ اور کمفرٹر تقریبا جھپٹنے کے انداز میں خود پہ تانا تھا۔
☆☆☆☆☆
میر عالم کی آنکھ کھلی تو کافی دیر ہوچکی تھی۔ وہ جھٹ اٹھے تھے اور تیار ہوکر نیچے آئے تھے۔ انہیں حیرت ہورہی تھی کہ آج انہیں مصطفی اٹھانے نہیں آیا۔ کمرے میں شعلہ بھی نہیں تھی۔ انہوں نے ملازم کو آواز دی۔ ملازم جھٹ انکی خدمت میں حاظر ہوا۔
" جی صاحب۔۔"
" مصطفی کہاں ہے۔؟؟" عالم نے ماتھے پہ بل لاکر پوچھا تھا۔
" جی وہ تو شاید ابھی تک آٹھے ہی نہیں۔" ملازم نے سر جھکا کر کہا۔
"جائیں دیکھ کر آئیں۔ ابھی تک آٹھے کیوں نہیں۔" اسنے حکم صادر کیا ملازم چلا گیا۔
میر عالم نے زینوں کی سمت دیکھا تو شعلہ اتر کر آرہی تھی۔ سیاہ پیروں کو چھوٹی ہلکی سی فراک پہنے وہ اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔
" کہاں تھی تم۔۔؟؟" سنجیدگی سے مستفسر ہوئے۔
" اوپر روم میں۔" اسنے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا۔
" بکواس بند کرو۔ میں ابھی اوپر سے آرہا ہوں اور تم وہاں نہیں تھی۔" عالم نے اسے بھڑک سنایا۔
" فرسٹ آف آل۔۔۔۔ ڈونٹ ٹاک ٹو می لائک دیٹ۔۔۔ دوسری بات۔۔۔میں کہاں تھی۔ یہ تمہارا مسئلہ نہی۔" اسنے جل کر کہا تھا۔
عالم شعلہ کو سناتے ، اس سے پہلے ہی ملازم ہانپتا کانپتا آیا تھا۔
" مصطفی۔۔۔ صاحب تو اپنے کمرے میں نہیں ہیں۔" عالم کے چہرے پہ بھی پریشانی چھائ تھی۔
" مصطفی ۔۔۔ وہاں نہیں تو کہاں ہے۔۔" وہ بڑبڑائے تھے۔
" پتہ نہی سر۔" ملازم نے دھیرے سے کہا۔
" میں نازنین سے پوچھ کر آیا۔ کہیں اسکی کہی کوئ بات ہی اسکے دل پہ نا لگ گئ ہو۔ اور وہ گھر چھوڑ کر۔۔۔۔ نہی۔۔۔" وہ اٹھ کر نازنین کے کمرے کی سمت بھاگے تھے۔ پر جیسے ہی نازنین کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ انکا خون کھول اٹھا تھا۔ دل ایک پل میں ان دونوں سے بد زن ہوگیا تھا۔ عالم کی دھاڑ سن کر شعلہ اور چند ملازمین نازنین کے کمرے کی سمت بھاگے تھے۔ کمرے کی موجودہ صورتحال دیکھ شعلہ نے اپنے کھلے منہ پہ دونوں ہاتھ دھرے تھے۔ عالم نے غصہ سے پاگل ہوتے۔ مصطفی کو کھینچ کر نازنین سے الگ کیا تھا۔ نازنین کی چین ٹوٹ کر مصطفی کے کوٹ میں اٹک کر رہ گئ تھی۔ نازنین نے خوف سے اپنے بھائ کو دیکھا تھا۔
" بےغیرت مجھے تم سے اس بات کی امید نہی تھی۔" عالم نے کہتے ساتھ ہی مصطفی کے چہرے پہ ایک زناٹے دار تھپڑ مارا تھا۔ مصطفی لڑکھڑایا۔ پر اسنے نے نا سر اٹھایا نا نگاہ۔
" کیا کر رہے ہیں۔۔۔ چھوڑیں اسے۔" شعلہ نے عالم کو بازو سے تھام کر مصطفی کو بچانا چاہا۔ کیونکہ میر عالم نے اسے گلے سے جکڑ لیا تھا۔
عالم نے ایک خونخوار نگاہ شعلہ پہ ڈالی اور اپنا ہاتھ اتنی زور سے جھٹکا کہ شعلہ کا سر سیدھا دیوار سے جاکر لگا تھا۔
نازنین جو کھڑی مصطفی کو میر عالم سے پٹتا دیکھ رہی تھی۔ اسکے دل نے یہ خواہش کی تھی کہ آج ہی بھائ اسے گھر سے بھی نکال دیں۔ نازنین نے روتے ہوئے میر عالم سے جھوٹ کہا۔
" بھائ میں ۔۔۔ نے اسے بہت روکا۔ پر۔۔۔ شاید اسمیں تو شیطان گھس گیا تھا۔ مصطفی نے نگاہ اسکی جانب اٹھا کر اسے افسوس سے تکا تھا۔
" عالم مزید غصہ سے پاگل ہوا تھا۔ شعلہ اپنے سر تھامے مسلسل مصطفی کو میر عالم کی گرفت سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔
" عالم پلیز اسٹاپ اٹ۔۔" وہ عالم اور مصطفی کے بیچ آکر کھڑی ہوئ تھی۔ عالم نے جن نظروں سے اسے تکا تھا۔ اسے اپنا حلق خشک ہوتا محسوس ہوا تھا۔ پر پھر بھی کھڑی رہی۔
" مجھے امید نہی تھی مصطفی۔ میں تمہاری شکل بھی نہی دیکھنا چاہتا اس وقت۔ پر اب تم وہی کروگے جو میں کہوں گا۔ اور میرا فیصلہ یہ ہے کہ۔ کچھ دیر میں مولوی صاحب آئیں گے۔ اور تمہارا نکاح ہوگا۔ نازنین سے۔" میر عالم نے گرجتی آواز میں کہا۔ نازنین کا رنگ یکدم فق ہوا تھا۔
" نہیں بھائ۔۔۔۔ آپ اس سے میرا نکاح نہیں کرسکتے یہ ایک ملازم ہے ہمارا نہیں پلیز۔۔۔ بھابھی آپ سمجھائیں۔" وہ یکدم تڑپ اٹھی تھی۔
" جو کچھ یہ تمہارے ساتھ کرچکا ہے کون کرے گا تم سے نکاح۔ کوئ نہی کرے گا۔" میر عالم نے چلا کر کہا تھا۔
نازنین ایک پل کو رکی تھی۔ یہ تو اسنے سوچا ہی نا تھا۔ کہ اسکا دامن گندا کرتے کرتے وہ اپنا دامن بھی خراب کر گئ تھی۔
" پر۔۔۔ بھائ۔۔" وہ سسکی۔
" بلکل خاموش اب وہی ہوگا جو میں چاہتا ہوں۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا اور کمرے نکل گیا۔ شعلہ ان دونوں کو ایک نظر دیکھتی اپنے کمرے میں چلی گئ تھی۔ تمام ملازم بھی ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔
" میں تمہاری جان لے لونگی۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔" وہ اسپہ چلائ تھی۔
" بکواس بند کرو یہ تم بھی بہت اچھے سے جانتی ہو کہ اس سب کا زمدار کون ہے۔" وہ اسے خون آشام نظروں سے گھورتا نکل گیا تھا۔ اور وہ بیڈ پہ گرنے کہ انداز میں بیٹھتی۔ غصہ کی شدت سے چلا کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
نازنین اور مصطفی کا نکاح ابھی پانچ منٹ پہلے ہوا تھا۔ نکاح ہوتے ہی مصطفی نجانے کہاں چلا گیا تھا۔ اور نازنین اپنے کمرے میں بند ہوکر رہ گئ تھی۔
میر عالم خان کی نظر جب شعلہ پہ پڑی۔ تو اسکے ماتھے پہ چوٹ کا نشان دیکھ کر وہ کچھ شرمندہ ہوا تھا۔
" سوری۔۔" عالم نے اسکے ماتھے پہ لگے زخم کو ہلکا سا چھوا تھا۔
" اتنا غصہ اچھا نہی ہوتا۔ آپ نے آج جو مصطفی کے ساتھ کیا وہ بہت غلط تھا۔" شعلہ نے سنجیدگی سے اسکا ہاتھ اپنے ماتھے پہ سے ہٹایا تھا۔
" جانتا ہوں۔ پر مصطفی نے کیا کیا۔۔؟؟؟" وہ سرد لہجہ میں گویا ہوئے۔
" ضروری نہی کے وہ غلط ہو۔ وجہ کچھ بھی ہوسکتی ہے۔ ان دونوں کے اسطرح سے ساتھ ہونے کی۔" شعلہ نے رساں سے کہا۔
" سیریسلی۔۔۔۔ !!!۔ ہم دونوں ہسبینڈ وائف ہیں۔ پچھلے تین دن سے ساتھ ہیں۔ ایک بار بھی ہم ایک بستر پہ سوتے ہوئے بھی کبھی ایسی حالت میں آئے۔ نہیں۔۔!! کیونکہ ہم ایک دوسرے کے قریب خود نہیں آئے۔ " عالم نے چڑ کر کہا تھا۔
" مجھے نہیں لگتا آپ کوئ بھی بات سمجھنے کی پوزیشن میں ہیں۔" وہ اسکے پاس سے آٹھی تھی۔ عالم نے اسکی کلائ کو تھاما۔ وہ بھنا کر مڑی تھی۔
" تم صبح کہاں گئ تھی۔؟؟"
ساوری نے مڑ کر اسے کئ لمحہ تکا۔ پھر سنجیدگی سے گویا ہوئ۔
" روزی روٹی کمانے گئ تھی۔"
" کس کا قتل کر کے آرہی ہو۔" عالم نے اسے کھینچ کر اپنے مقابل بلکل قریب کرکے بٹھایا تھا۔
" اپنا دھندا صرف قتل کرنے کا نہی ہے۔" وہ اسکی گرفت سے اپنا بازو آزاد کروا کر گویا ہوئ۔
" اچھا۔" عالم نے کہتے ساتھ ہی اسکی کمر پہ اپنا ہاتھ دھرا تھا۔ عالم نے دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ اسکی کمر پہ سرکایا تھا۔ شعلہ نے سرخ ہوتی رنگت سمیت اس سے دور ہونا چاہا۔ پر کرنٹ تو اسے تب لگا جب عالم کا ہاتھ کمیز کے اندر جانے لگا۔ اسنے بے جان ہوتے ہاتھوں سمیت اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ عالم نے دھیرے سے اپنا ہاتھ مزید نیچے سرکایا۔ اور اسکی پینٹ میں پھنسی پسٹل کو کھینچ کر نکالا تھا۔
جیسے ہی وہ پسٹل نکال کر پیچھے ہوا۔ شعلہ نے تیزی سے دھڑکتے دل پہ بے ساختہ اپنا ہاتھ رکھا تھا۔
" پھر یہ کیا ہے۔" عالم نے پسٹل اسکی نگاہوں کے سامنے لہرائ۔
" پسٹل ۔۔" اسکی پلکوں کی باڑ اب بھی اٹھنے سے انکاری تھی۔
" مجھے بھی پتہ ہے۔ پر تم نے کہا۔ ابھی کہ تم کسی کا قتل کرنے نہیں گئ۔ پھر یہ کیا ہے۔؟؟" وہ اسکا سر ٹھوڑی سے تھام کر اپنی جانب کرکے گویا ہوا۔
" وہ صرف قتل کرنے کے لیئے تھوڑی استعمال ہوتی ہے۔ یہ پسٹل اکثر لوگوں کو ڈرانے میں بھی کام آتی ہے۔"
شعلہ نے اپنے دل کی غیر ہوتی حالت کو سنمبھال کر کہا۔
" کیا بکواس کر رہی ہو۔ پہلی بات جہاں بھی جاؤ گی مجھے بتا کر جاؤ گی۔ اور دوسری بات الٹے سیدھے لوگوں سے ملنا بند کردو۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" میرے کام میں الٹے بندے ہی کام آتے ہیں۔" وہ بھنا کر کہتی اٹھی تھی۔ اور جاتے جاتے اپنی پسٹل اسکے ہاتھ سے جھپٹا نہیں بھولی تھی۔
☆☆☆☆
" بھابھی وہ میرا سونے کا سیٹ جو امی نے بنایا تھا۔ آج جاکر بیچ دیں۔ پھر تاکہ بھائ کے ٹیسٹ تو ہوں۔ پتہ تو چلے کہ ہوا کیا ہے بھیا کو۔" وہ اپنا پرس کندھے پہ ڈالتی گویا ہوئ۔
" پر ساوری وہ اماں نے تمہاری شادی کے لیئے بنایا تھا۔" بھابھی نے نم لہجہ میں کہا۔
" اگر میرے نصیب میں ہوگا یہ سب تو اللہ مجھے اس سے بھی زیادہ دیں گے۔ انشااللہ۔ " وہ بھابھی کے گال پہ ہاتھ دھر کر محبت سے گویا ہوئ۔
" اچھا چلتی ہوں۔ دیر ہورہی ہے۔" وہ چپل پہن کر نکل گئ تھی۔
جب آفس پہنچی تو۔ حیدر بیٹھا ہوا تھا۔ آج پھر اسکے دیر سے آنے پہ اسے گھورا تھا۔
" آپکو اندازہ ہے۔ کہ وقت کیا ہے۔۔۔؟؟" حیدر نے دونوں ہاتھوں کے پنجوں کو آپس میں پیوست کرکے کہا۔
" سوری سر۔"
آپکا کب تک بات بات پہ سوری کرنے کا ارادہ ہے مس ساوری۔؟" حیدر نے اپنے سامنے کھلی فائل کو بند کرکے کہا۔
ساوری نے بنا جواب دیئے۔خاموشی سے اپنے لب کچلے تھے۔
" آج تو میں آپکو لیٹ آنے پہ معاف کر رہا ہوں۔ پر آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" اوکے سر۔" ساوری کی دھیمی سی آواز دفتر میں گونجی تھی۔
" اب پلیز آپ جاکر مجھے کافی بنا دیں۔ تاکہ میں اپنے کام پہ فوکس کر سکوں۔" حیدر نے گہری سانس لیکر کہا۔
اسنے اثبات میں سر ہلاتے۔ اپنا پرس اپنی ڈیسک پہ رکھا تھا۔ اور دفتر سے ملحقہ کچن میں گھس گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی نکاح کے فورا بعد گاڑی لے کر گھر سے نکل آیا تھا۔ نجانے کتنا وقت بیت گیا تھا۔ اور وہ ساحل سمندر پہ تھا۔ دور پتھر پہ بیٹھے۔ وہ سمندر کی طغیانی تک رہا تھا۔ لہریں کبھی تیز آتی تو کبھی آہستہ۔ موبائل جیب سے نکال کر وقت دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے۔ وہ گہری سانس لیتا۔ گھر کو واپس آیا تھا۔ جب وہ گھر پہنچا تو رات کے ساڑھے بارہ ہورہے تھے۔ اپنے کمرے میں جانے کے بجائے اسکے قدم نازنین کے کمرے کی سمت تھے۔
وہ جیسے ہی نازنین کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ نازنین اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی موبائل کان سے لگائے شاید کسی سے بات کر رہی تھی۔ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ مڑی تھی۔ اپنے کمرے میں مصطفی کو دیکھ اسنے کال کاٹی تھی۔ اور اسکو تحقیر بھری نظروں سے گھورتی۔ غرا کر گویا ہوئ۔
" میرے کمرے میں کیا کر رہے ہو۔؟"
" ہنہ اب یہ صرف تمہارا کمرہ تو نہی رہا۔ میرا بھی ہے۔" وہ قدم قدم چلتا اسکے پاس آیا تھا۔
نازنین کی رنگت غصہ کی زیادتی کی وجہ سے سرخ ہوئ تھی۔
" اوقات میں رہ کر بات کرو۔" وہ اسے انگلی اٹھا کر وارن کر رہی تھی۔ مصطفی نے بغور اسکی انگلی کو تکا۔
" اوقات۔۔۔۔!!! میری اوقات ہر وقت یاد دلاتی رہتی ہو مجھے۔ پر آج میں نے سوچا ہے کہ تمہیں تمہاری اوقات یاد دلا دوں۔" وہ اسکے برہنہ بازوؤں پہ دھیرے سے اپنے ہاتھ پھیر کر گویا ہوا۔
" ہمت کیسے ہوئ تمہاری مجھے ہاتھ لگانے کی۔ گھٹیا آدمی۔" وہ اسے دھکہ دیتی چلائ تھی۔
" کیوں۔۔۔۔ تم نے ہی تو صبح کہا تھا۔ کہ تمہارے ساتھ میں کل رات بہت کچھ کر چکا ہوں۔ پھر ہمت کی بات کہاں سے آگئ۔" اسنے اسکے سراپے کو سر سے لیکر پیر تک دیکھا تھا۔نازنین کا رنگ شاید زندگی میں پہلی بار زرد پڑا تھا۔
" دیکھو۔۔اپنے روم میں جاؤ۔ تم اس وقت مجھے اپنے حواسوں میں نہی لگ رہے۔" وہ اس سے دور ہوتی تھوک نگل کر گویا ہوئ تھی۔
" ناں۔۔۔ آج ہی تو میں اپنے حواس میں واپس لوٹا ہوں۔" وہ اسکے پیچھے جانے پہ مزید اسکے قریب ہوا تھا۔
" میں ابھی شور مچا دونگی۔" اسنے دھمکی دی۔
" مچاؤ شوق سے مچاؤ۔" وہ اسے بازو سے تھام کر بیڈ پہ دھکا دے کر گرا گیا تھا۔
نازنین نے سہمی ہوئ نظروں سے اسے تکا۔
" پلیز۔۔۔ سوری۔۔ میں جانتی ہوں۔ جو صبح میں نے کہا وہ بہت غلط تھا۔ سوری۔" نازنین نے خوف سے زرد پڑتے چہرے سمیت اس سے معافی مانگی۔
مصطفی اسکے گڑگڑانے پہ زخمی سا مسکرایا تھا۔ اپنی شرٹ کے بٹن ایک ایک کرتا وہ کھول کر شرٹ کو اتار کر دور جھٹک گیا تھا۔
نازنین نے خوف سے خود کو پیچھے گھسیٹا تھا۔
مصطفی اسکے اوپر آیا تھا۔ نازنین مزید پیچھے سرکی۔ پر مصطفی نے اسکے برہنہ بازوؤں پہ اپنی انگلیاں سرکائ تھیں۔
" پلیز جانے دو مجھے۔ پلیز معاف کردو۔" وہ گڑگڑائ تھی۔
" ہنہ افسوس اب کچھ نہیں ہوسکتا۔" وہ کہتے ساتھ ہی اسکی گردن پہ اپنے دانت پوری شدت سے گاڑھ گیا تھا۔ نازنین سسکی تھی۔ اسکا لمس اسقدر جارہانہ تھا۔ کہ نازنین کی آنکھوں سے چند آنسو تکلیف کی شدت سے بہے تھے۔
" بہت شوق ہے ناں لوگوں کو انکی اوقات یاد دلانے کا۔ آج میں تمہیں تمہاری اوقات دکھاؤں گا۔" نازنین کی گردن پہ سے اٹھتا وہ اسکے کانوں کے قریب آکر اسکی سماعتوں میں نفرت سے غرایا تھا۔ نازنین نے اسکی گرفت سے خود کو آزاد کرنا چاہا۔ پر ناکام رہی۔
مصطفی نے دھیرے سے اسکے لبوں پہ ہاتھ پھیرا تھا۔ اور پھر اسکے جبڑوں سے اسے وحشیوں کی مانند جکڑتا۔ اسکے لبوں پہ اپنے دانت اس شدت سے گاڑھے لگا تھا۔ کہ نا وہ چیخ پا ری تھی۔ اور نا ہی رو پا رہی تھی۔ نازنین نے تکلیف کی شدت سے بلبلا کر اسے خود سے دور جھٹکنا چاہا پر ناکام رہی۔ جب وہ اسکے نازک لبوں پہ ستم ڈھا کر ہٹا تو اسکے ہونٹوں سے خون رسنے لگا۔
" کل صبح تمہیں کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں پڑھے گی۔ کہ تم پہ کل رات کوئ شیطان حاوی ہوا تھا۔بلکہ سب دیکھ کر ہی سمجھ جائیں گے۔" نازنین شدت سے سسک رہی تھی۔ اسکی گردن اور ہونٹ بہت دکھ رہے تھے۔ اسنے بہت کوشش کی اسکی گرفت سے نکلنے کی پر ناکام رہی۔ مصطفی اسکے بازو پہ جھکا تھا۔ وہاں بھی اسنے وحشی درندے کی مانند اسے نوچا تھا۔ اور پھر وہ رکا نہیں۔ اسکے جسم پہ اسنے کوئ جگہ نا چھوڑی جہاں زخم نا ہوں۔ وہ سہم گئ تھی۔ درد سے نڈھال ہونے لگی تھی۔ جب وہ اسکی سکرٹ سرکاتا۔ اسے مکمل طور پہ اپنی جارہانہ گرفت میں لے چکا تھا۔ نازنین سسک سسک کر بھی تھک گئ تھی۔ پر وہ اسکو زخم دیتے دیتے نہیں تھکا تھا۔ یا پھر وہ شاید ایک ہی رات میں اس سے عمر بھر کا حساب لے رہا تھا۔ نازنین نڈھال سی پڑی چھت کو گھور رہی تھی۔ اور وہ اسکا جسم و روح نوچ کر پرسکون پڑا سو رہا تھا۔
☆☆☆☆☆
سورج کی روشنی کمرے کی کھلی کھڑکی سے چھن کر مصطفی کے چہرے پہ آئ تھی۔ وہ اپنی آنکھوں پہ ہاتھ رکھتا کروٹ بدل گیا تھا۔ جب اسے یاد آیا کہ آج پھر وہ لیٹ ہوجائے گا۔اور پھر عالم اسکی دوبارہ کلاس لے گا نا اٹھانے پہ۔
مصطفی آٹھ کر بیٹھا۔ اپنی شرٹ اٹھا کر پہنی نظر برابر پڑے وجود پہ گئ تو آنکھوں میں نفرت کا جہاں۔ بس آیا تھا۔
مصطفی نے اسکا بازو جارہیت سے ہلایا تھا۔ نازنین نے کرآہ کر اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کیا۔
" زیادہ نازک پری بننے کی ضرورت نہیں۔ اٹھو مجھے دن چڑھے تک سونے والی عورتیں سخت زہر لگتی ہیں۔" مصطفی نے سرد بگڑے لہجہ میں کہا۔
" تمہاری غلام نہی ہوں میں۔" وہ کمزور سی آواز میں چلائ تھی۔
" کیا مجھے رات والا ٹریلر دوبارہ دکھانے کی ضرورت ہے۔۔؟؟" اسنے اسکے وجود کو معنی خیزی سے تک کر کہا۔
" زیادہ اڑو مت۔ اگر میری ایسی حالت بھائ نے دیکھ لی ناں تو گھر سے باہر پھینک نکالیں گے تمہیں۔" وہ ناچاہتے ہوئے بھی رونے لگی تھی۔
" تو۔۔۔ جاؤ دکھاؤ اپنی یہ حالت اپنے بھائ کو۔ مجھے کوئ فرق پڑتا ہی نہی اب۔" مصطفی نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا اور اسکے کمرے کا دروازہ زور سے مارتا نکل گیا۔
جب مصطفی نہایا دھویا فریش سا نیچے آیا تو ۔ میر عالم بھی ڈائیننگ ٹیبل پہ تیار بیٹھا تھا۔ شعلہ بھی بیٹھی ناشتہ کر رہی تھی۔ مصطفی نے بغیر عالم کو سلام کیئے چیئر کھسکائ اور خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔ ابھی بریڈ پہ بٹر لگا رہا تھا۔ جب نازنین نیچے آئ۔ گلابی رنگ کی فل سلیوس والی کرتی اور اسکے ساتھ سفید پاجامہ پہنے۔ وہ ڈائینگ ایریا میں آئ تھی۔ میر عالم کی نظر نازنین کے چہرے پہ پڑی تو وہ حیران ہوئے۔ اسکے چہرے کے نقوش سوجے ہوئے تھے۔ ہونٹ زخمی۔ گردن پہ زخم۔ میر عالم نے مصطفی کو دیکھا تھا۔ مصطفی خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا۔ شعلہ کی نظر جیسے ہی نازنین پہ پڑی۔ اسکے ہاتھوں سے بے ساختہ چھڑی کانٹا چھوٹا تھا۔
" یہ کیا ہوا تمہیں۔۔۔ نازنین۔؟" شعلہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
" کچھ نہی بھابھی۔۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتی ٹیبل پہ آکر بیٹھی تھی۔ شعلہ نے نگاہیں گھما کر مصطفی کو گھورا تھا۔ جو ہر چیز سے انجان ناشتہ کرنے میں خود کو مشغول کیئے بیٹھا تھا۔
شعلہ تاؤ کے عالم میں اٹھ کر مصطفی کے سر پہ آکر کھڑی ہوئ تھی۔ نا چار مصطفی نے سر اٹھا کر شعلہ کو تکا تھا۔ پر جیسے ہی مصطفی نے سر اٹھایا۔ ایک زناٹے دار تھپڑ شعلہ نے اسکے گال پہ جڑ دیا۔
" شرم نہی آئ۔۔۔۔ امید نہیں تھی مجھے۔ کہ تم ایسے۔۔۔ انسان کے چولہے میں ۔۔۔۔۔ وحشی درندے نکلو گے۔" مصطفی نے مٹھیاں بھینچی تھیں۔ اور بنا کچھ کہے واپس ناشتہ کرنے لگا تھا۔
" مصطفی۔۔۔۔ آج توڑ دیا تم نے مجھے۔" میر عالم کی بکھری ہوئ آواز مصطفی کے کانوں سے ٹکرائ تو۔ مصطفی طنزیہ ہنسا۔
" مصطفی تو کل ہی ٹوٹ چکا ہے۔ اب چاہے کوئ بھی ٹوٹے مصطفی کو کوئ فرق نہیں پڑتا۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی نظریں نازنین کی طرف اٹھائ تھیں۔
" آئندہ سے بغیر دوپٹہ کے کمرے سے نکلتا نا دیکھوں۔" وہ سرد لہجہ میں کہتا۔ آٹھ کر باہر گاڑی میں جاکر بیٹھ گیا تھا۔
نازنین مٹھیاں بھینچ کر رہ گئ تھی۔ شعلہ نے افسوس سے میر عالم کو اسکے ںتہائ غلط فیصلہ پہ ٹ5کا تھا۔ عالم اپنا ماتھا مسل کر رہ گئے تھے۔ اور آٹھ کر وہ بھی اسی کے پیچھے گئے تھے۔
بھابھی۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ آپ رپورٹس مجھے دیں۔ میں ہاسپٹل جاکر پتہ کرونگی کہیں غلطی سے کسی اور کی رپورٹس تو نہیں دے دی ہیں۔" ساوری کی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
" تمہارے بھائ کی ہی رپورٹس ہیں ساوری مان کیوں نہیں لیتی تم۔۔ کہ تمہارے۔۔۔ بھائ کو کینسر ہے۔۔" بھابھی سسک کر گویا ہوئیں۔
" بھابھی ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔" وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی۔
" ہم۔۔۔ ہم۔۔۔ بھائ کا بہت اچھے سے علاج کروائیں گے بھابھی۔ بھائ بلکل ٹھیک ہوجائیں گے۔ انشااللہ آپ دیکھیئے گا۔" ساوری نے اپنے آنسو پونچھے تھے۔
" ساوری ہم غریبوں کے بس کا نہیں اتنا مہنگا علاج۔ بس ہم دعا ہی کرسکتے ہیں۔" بھابھی نے بکھرے لہجہ میں کہا۔
" میں اپنے بھائ کا علاج کرواؤں گی۔ اور میں نے سوچ لیا ہے اس دن جو سر حیدر کی امی اور خالہ آفر لیکر آئ تھیں۔ میں اسکے لیئے ہامی بھر دونگی۔" اسنے ایک عزم سے کہا۔
" پاگل ہوگئ ہو۔ میں کبھی تمہیں اسطرح تمہاری زندگی خراب نہیں کرنے دونگی۔" بھابھی نے اسے ڈانٹا تھا۔
" بھابھی کوئ خراب نہیں ہوتی زندگی۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔" وہ ضدی لہجہ میں کہتی۔ اپنے کمرے میں آئ تھی۔ اس دن جو حیدر کی امی اسے کارڈ دے کر گئ تھیں۔ ساوری نے وہ۔کارڈ ڈھونڈ کر اسپہ موجودہ نمبر ملایا تھا۔ چند بیلوں کے جانے کے بعد کال اٹھا لی گئ تھی۔
" ہیلو کون۔؟" حیدر کی امی نے موبائل کان سے لگا کر پوچھا۔
" میم۔۔۔ میں ساوری۔۔" ساوری نے لب کچلے۔
" ہاں ساوری۔۔۔ کیسی۔۔۔ ہو ۔۔ پھر تم نے سوچ لیا۔ کیا فیصلہ لیا تم نے۔" انہوں نے بے تابی سے پوچھا۔
" میں۔۔۔۔ اس آفر کے لیئے تیار ہوں۔" اسکی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔
" اوہ ۔۔۔۔ تھینک گاڈ۔۔۔ میں اپنی بہن اور حیدر کے ساتھ کاغذات ایک دودن میں تیار کروا کر تمہارے گھر آتی ہوں۔ پھر بس وہیں نکاح کرکے اور کنٹریکٹ پہ سائن کر لینا۔" انہوں نے بے قرار لہجہ میں کہا۔
جی اوکے ٹھیک ہے۔" وہ نم لہجہ میں دھیرے سے گویا ہوئ اور کال کٹ گئ۔ وہ موبائل بے دلی سے سائڈ پہ پھینکتی۔ لیٹی تھی۔ اور یکدم پھوٹ پھوٹ کر سسک پڑی تھی۔
☆☆☆☆☆
" آپکی پریس کنفرینس ہے آج۔ اور ایک جگہ جلسہ اگلے ہفتے ارینجڈ کیا ہے۔ شہر سے تین دن کے لیئے باہر جانا پڑے گا ہمیں۔" مصطفی سنجیدگی سے اسے آگاہ کر رہا تھا۔
" ہمم۔ٹھیک۔۔ مجھے تم سے نازنین کے حوالے سے بات کرنی ہے۔" میر عالم نے سنجیدگی سے کہا۔ مصطفی نے ایک نظر میر عالم کو تکا۔ اور سرد لہجہ میں کہا۔ اسکے جواب نے میر عالم خان کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بچھا دیا تھا۔
" میں اسوقت بلکل بھی اس لڑکی کا نام سننے کے موڈ میں نہی۔"
" پر تمہیں سننا پڑے گا۔ بیوی ہے تمہاری۔ اور جو تم نے اسکا حال کیا ہے مصطفی۔۔۔!! یہ تو میرے مصطفی کی تربیت نہی۔ نا ہی میرا مصطفی ایسا ہے۔" عالم نے افسوس سے کہا۔
" اچھا۔۔۔ اتنا جانتے ہیں آپ اپنے مصطفی کو۔ تو مجھے بتائیں۔ یہ یقین یہ اعتماد اس دن کہاں چلا گیا تھا۔ جس دن وہ آپکی لاڈلی جھوٹ بول رہی تھی۔" مصطفی کی آنکھیں ہلکی سی سرخ ہوئ تھیں۔
" مانتا ہوں۔ اس دن میں غلط تھا۔ پر ۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے میں تم دونوں کو ایک ساتھ ایک رشتے میں بندھا دیکھنا چاہتا تھا۔ پر۔۔۔ آج اندازہ ہوا کہ اپنی بہن کے لیئے تمہیں چن کر میں نے اپنی زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی کی ہے۔" عالم نے افسوس سے کہا۔
" آپ کو جو سوچنا ہے۔ جو سمجھنا ہے۔ مجھے اس سے کوئ فرق نہیں پڑتا۔ آپکے دل میں جو آتا ہے آپ وہ کریں۔ بھلے آزاد کروا لیں اسے۔ مجھ سے۔" مصطفی نے سفاکیت سے کہا۔
" کوئ گڈا گڈی کا کھیل نہی ہے یہ مصطفی۔۔۔ رشتہ ہے۔ اور تمہیں یہ رشتہ نبھانا پڑے گا۔ تمہاری آخری سانسوں تک۔ پر ایسے نہیں۔ بہت اچھے سے۔" عالم نے ایک ایک لفظ چبا کر دہرایا۔
" مجھے نہیں لگتا کہ میں آپکی اس خواہش کو پورا کر پاؤں گا۔" وہ خفگی سے کہتا دفتر سے نکل گیا تھا۔ میر عالم۔سر تھام کر رہ گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
عالم گھر آئے۔ جیسے ہی لاؤنج میں داخل ہوئے۔ انکی لاڈلی بہن اپنا زخم زخم وجود لیئے سامنے کھڑی تھی۔ سرخ ٹاپ اور اسکے ساتھ جینز پہنے۔ وہ اپنے بھائ کے مقابل آکر کھڑی ہوئ تھی۔
" بھائ مجھے پیسے چاہیئے۔" نازنین نے وہی اپنے ازلی پرانے انداز میں کہا۔
مصطفی نے اندر آتے اسکی بات سنی تو مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
" کتنے پیسے چاہیئے میری گڑیا کو۔" انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر لاڈ سے پوچھا۔
" دس لاکھ۔" اسنے اپنے بھائ کے کندھے پہ سر رکھ کر لاڈ سے جواب دیا۔
" اوکے میں ابھی مصطفی سے کہتا ہوں۔ تمہارے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرا دے۔" انہوں نے اسکے سر پہ بوسہ دے کر کہا۔
" سوری سر میں کردیتا دس لاکھ ٹرانسفر۔ پر اپنی اتنی محنت سے کمائ ہوئ۔ پائ، پائ میں صرف میںک آپ یا کپڑوں پہ نہیں اڑا سکتا۔
نازنین عالم کے پاس سے دور ہوئ تھی۔
" میں نے تم سے نہی مانگے پیسے۔" وہ تڑپ کر گویا ہوئ۔
" تو پھر کس سے مانگے ہیں۔ اب تم۔میری ذمےداری ہو۔ تو تمہارے خرچ بھی میں ہی اٹھاؤں گا۔" اسنے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
" میں بلکل بھی تم جیسے کم ظرف انسان کی زمداری نہی۔ میں اپنے بھائ کی زمدادی تھی۔۔۔ہوں۔ اور رہوں گی۔" وہ چلائ تھی۔
" آواز نیچی رکھو۔" وہ اسے خون آشام نظروں سے گھورتا اسکا بازو تھام گیا تھا۔
" مصطفی۔۔۔ چھوڑو اسے۔" عالم نے مصطفی کو وارن کیا۔
" آپ کچھ نہی بول سکتے۔ سر ہمارے درمیان۔ یہ رشتہ آپ نے خود باندھا ہے۔ اب اسکے انجام تک تو پہنچنے کا انتظار آپکو کرنا ہی پڑے گا چاہے۔ اچھا ہو یا برا۔" وہ سنجیدگی سے کہتا۔ نازنین کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ گھسیٹتا لے گیا تھا۔
نازنین اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے چھڑانے کو چیختی چلاتی رہ گئ تھی۔ پر مصطفی نے اسے کمرے میں لاکر ہی دم لیا۔ اور اسکے چہرے پہ ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔ وہ تھپڑ کی تاب نا لاتی بستر پہ گری تھی۔
" یہ ۔۔۔۔ جو تمہارا لباس ہے ناں۔ اسے تبدیل کرو اور پھر کمرے سے نکلنا۔ اور جو بھی چاہیئے ہو۔ پیسے ۔ کپڑے ۔ لتھے کچھ بھی۔ مجھے سے آکر مانگنا۔ اپنے بھائ سے جاکر مانگنے کی غلطی دوبارہ نا کرنا۔" وہ اسپہ چلایا تھا۔
" اوقات کیا ہے تمہاری۔۔۔۔ جو میں تم سے مانگوں۔" وہ سسکی تھی۔
" میری اوقات کا تو پتہ نہیں پر کل رات تمہیں تمہاری اوقات میں بہت اچھے سے باور کرا چکا ہوں۔ اسکے بعد مجھے مزید مت بھڑکاؤ کہ میں تمہیں تمہاری اوقات مزید یاد دلاؤں۔" وہ اسکو جبڑوں سے جکڑتا غرایا تھا۔
" آہہ ۔۔۔۔ دور ہٹو ایک جاہل ترین مرد ہو تم۔ میری سوچ سے بھی زیادہ چھوٹی ہے تمہاری اوقات۔" مصطفی جیسے ہی اسکے جبڑے اپنی گرفت سے آزاد کرتا ہٹا تھا۔ وہ شدت سے چلائ تھی۔ اور وہ اپنے دل میں اسے جان سے مار دینے کی خواہش دل میں دبائے کمرے سے نکل گیا تھا۔ وہ بیڈ پہ پڑی سسکنے لگی تھی۔
☆☆☆☆☆
عالم کمرے میں آکر خاموشی سے بیٹھا تھا۔ نظریں سامنے دیوار پہ مرکوز کیئے۔ وہ نجانے کیا سوچ رہا تھا۔
شعلہ جو ابھی کھڑکی پھلانگ کر اندر آئ تھی۔ اسے سوچوں میں ڈوبے دیکھ کر شکر ادا کرتی واشروم کی سمت بھاگی تھی۔
" جہاں بھی جانا ہو۔ کم ازکم سیدھے راستے سے جایا کرو۔ یوں چوروں کی طرح آنا جانا بند کردو۔" میر عالم کی کرخت آواز سن کر اسکے قدم رکے تھے۔ میر عالم نے بغور اسے تکا تھا۔
" ہاں میں سیدھے راستے سے جائے تاکہ۔۔۔ تمہارے وہ میڈیا والے میرے پیچھا کرتے کرتے مجھ کو ایکسپوز کردے۔ اور تیری بھی جان چھوٹ جائے۔ ٹھیک بولی نا۔۔ میں۔" وہ اسکو دیکھ کر ہاتھ نچا کر گویا ہوئ۔
" یہ تیری۔۔۔۔ کیا ہوتا ہے۔ آپ نہی بول سکتی تو کم از کم تم کہہ دیا کرو۔" اسنے سرد لہجہ میں کہا۔
" اے۔۔۔۔ تیرے کو کوئ رائٹ نہی اپنی غلطیوں۔ کا غصہ مجھ پہ نکالنے کا۔ میں تو تیرے کو نہی بولی تھی۔ کہ جا اپنی بہن کا شادی تو مصطفی سے ٹھونک دے۔" وہ کمر پہ ہاتھ ٹکا کر بھپری تھی۔
میر عالم نے سرد سانس خارج کی تھی۔ اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کی تھی۔
" تمیز سے بات کرو۔" وہ اسکی بات کرنے کے انداز پہ اچھا خاصہ چڑا تھا۔
" کیا تمیز تمیز لگا رکھا ہے۔ میں ابھی اتنا کام کرکے آئ ہے۔ اور تو سالہ میرے کو فریش ہونے نہی دے رہا۔" وہ اسے چڑانے سے اب بھی باز نا آئ تھی۔ میر عالم غصہ میں اسکے مقابل آکر کھڑے ہوئے تھے۔
" آخری بار بہت پیار سے سمجھا رہا ہوں۔ بات تمیز سے کیا کرو۔" وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتا تقریبا غرایا تھا۔ وہ بنا ڈرے شکل بنا کر واشروم جانے کے لیئے مڑی تھی۔ جب شعلہ کا پیر رپٹا۔ اس سے پہلے کے وہ زمین بوس ہوتی میر عالم نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا تھا۔
شعلہ نے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ پر وہ ویسے ہی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
" چھوڑ مجھے حسین لڑکی دیکھی نہی کہ شروع۔" وہ پھڑپھڑا کر گویا ہوئ۔
" اوکے۔" میر عالم نے کہتے ہی اسے چھوڑا اور وہ سیدھا زمین بوس ہوئ تھی۔
" آہ۔۔ بڈھے کھوسٹ۔ اتنا بھی نہی پتہ کہ لڑکیوں کو ٹریٹ کیسے کرتے ہیں۔" وہ چلائ تھی۔
" بلکل ٹھیک کہا تم نے۔ کیونکہ ہمارے دور میں لڑکیاں ایسے پکے ہوئے آموں کی طرح کسی کی بھی جھولی میں آکر نہی گرتی تھیں۔ کہ ہمیں پتا ہو کہ لڑکیوں کو کیسے ٹریٹ کیا جاتا ہے۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوا۔ اور اسکے گرنے پہ چوٹ کرنا بھی نا بھولا تھا۔
" ارے جاؤ جاؤ۔ تمہاری جھولی میں گرتی ہے میری جتی۔ وہ چڑتی ہاتھ نچا کر گویا ہوئ۔
" سوری بٹ آئ ڈونٹ نیڈ یور جتی۔" میر نے زہر خند مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کر کہا۔
" تو میں کونسا تمہیں دینے والی ہوں۔" وہ زبان چڑھا کر واشروم کا دروازہ زوردار آواز کے ساتھ بند کر گئ تھی۔ میر عالم کے ہونٹوں پہ مسکان در آئ تھی۔ میر عالم بالکنی میں جاکر کھڑے ہوئے تھے۔ انکے موبائل کی رنگ ٹون خاموش ماحول میں ارتعاش پیدا کر گئ تھی۔ میر عالم نے کال پک کی دوسری جانب حیدر تھا۔
" بھائ۔۔۔ آپ نے نازنین کا نکاح کر دیا۔ اور ڈیڈ یا مجھے بتایا تک نہی آپ نے۔" حیدر کی آواز سے ہی اسکی خفگی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
" سوری وہ جلدی میں سب کچھ ہوا۔ پر نازنین بہت خوش ہے۔" میر نے اسے تسلی دینا چاہی۔
" آپ اب بھی مجھ سے حقیقت چھپا رہے ہیں۔ مجھے نازنین کال کرکے سب کچھ بتا چکی ہے۔ اور مصطفی نے اسکے ساتھ جو کچھ کیا ہے وہ بھی۔ میں ابھی آرہا ہوں۔ اور نازنین کو ساتھ اپنے گھر لیکر جاؤں گا۔ میری بہن کسی کی مار کھانے کو نہی بیٹھی۔ نا ہی وہ لاوارث ہے۔" حیدر نے ایک ہی سانس اپنی بات مکمل کی اور کال کاٹ دی۔
میر عالم کمرے سے قدرے طیش کے عالم میں نکلے تھے۔ نازنین نیچے اپنا سامان باندھے بیٹھی تھی۔
" نازنین۔۔۔۔ یہ کیا طریقہ ہے بیٹا۔" میر عالم نے اسکے بندھے سامان کو تک کر کہا۔
" بلکل ٹھیک طریقہ ہے بھائ۔ آپ اگر چاہتے ہیں۔ کہ میں آج آپ سے اپنا ہر تعلق ختم کرکے نا جاؤں تو پلیز۔ مجھے جانے دیں حیدر بھیا کے ساتھ۔ آپ نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا پھر بھی آپ نے اس جاہل انسان کو روکنے کی کوشش نا کی۔" وہ روٹھے پن سے گویا ہوئ۔
" نازنین۔۔۔۔ غلطی تمہاری بھی ہے۔ تم نے اسپہ جھوٹا الزام لگایا تھا۔ وہ بس اس بات کا غصہ ہے۔ اسکا غصہ جیسے ہی ختم ہوگا۔ وہ پہلے جیسا ہوجائے گا۔ نرم ، سمجھدار اور ایک خیال رکھنے والا انسان۔" میر عالم نے اسے سمجھانا چاہا۔
" بھائ میں آپکو ایک بات کلیئر کردوں نا مجھے اسکے ساتھ شادی کرنی تھی۔ نا مجھے اسکے ساتھ رہنا تھا۔ اور نا اب رہنا ہے۔" اسکا انداز بیاں خاصہ مضبوط تھا۔
" بیٹا۔۔۔!! اب جو بھی ہے جیسے بھی ہے۔ رشتہ تو بن گیا ہے ناں۔ اور تم کوشش تو کرسکتی ہو ناں اس رشتے کو نبھانے کی۔" انہوں نے اسے کسی طرح راضی کرنا چاہا۔
" میں اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔ رشتہ نبھانے کی بات تو بہت دور کی ہے۔" اسنے ضدی لہجہ میں کہا۔
" نازنین۔۔۔۔ بیٹا۔۔۔ " میر عالم اس سے پہلے کہ اسے مزید کچھ سمجھاتے۔ حیدر آگیا تھا۔ میر عالم پہ ایک خفگی بھری نگاہ ڈال کر وہ دونوں جاچکے تھے۔
میر عالم شکست خوردہ سے صوفہ پہ جاکر بیٹھے تھے۔
☆☆☆☆☆
" ساوری کیوں کیا تھا۔ تم نے انکو فون۔" بھابھی رو رو کر نڈھال ہوچکی تھیں۔
" بھابھی بھائ کی زندگی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں میرے لیئے۔" ساوری نے بھابھی کے ہاتھ تھامے۔
" تمہارے بھائ کو پتہ چلا تو۔۔۔۔ وہ جیتے جی مر جائیں گے۔" انہوں آنکھیں مینچ کر کہا۔
" ہم بھائ کو یہ سب کچھ بتائیں گے ہی نہی۔ بھائ کو ہم یہ ہی دکھائیں گے کہ میری نارمل شادی ہورہی ہے۔" اسنے سنجیدگی سے آگاہ کیا۔
" ساوری منا کردو انہیں۔ اس سے پہلے کہ وہ کل آئیں۔ اور تمہاری زندگی کا تاریک ترین دورانیہ شروع ہوجائے انہیں منع کردو۔" وہ اسکے گالوں پہ ہاتھ دھر کر نرمی سے گویا ہوئیں۔
" میں ایسا کچھ نہی کرنے والی بھابھی۔ اور مجھے نہی لگتا کہ یہ سب اتنا بھی مشکل ہوگا۔" وہ بھابھی کو تسلیاں دے رہی تھی۔
" ساوری۔۔۔" بھابھی اسے سینے سے لگاتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھیں۔
" آپ پریشان نا ہوں۔" ساوری نے بھابھی کی کمر کو سہلایا۔
خود بھی دل بے تاب تھا۔ رونے کو پر وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی ڈنر کرنے نیچے آیا۔ خاموشی سے چیئر کھسکا کر وہ ڈنر کرنے لگا تھا۔ شعلہ نے ایک نظر اسے تکا۔ واپس اپنا دیہان کھانے کی جانب ڈال گئ۔ میر عالم نے اسے ایک نظر تکا۔ اور کھانا کھاتے ہوئے آج جو کچھ ہوا اس سے آگاہ کرنے نا بھولے۔
" نازنین حیدر کے ساتھ یہاں سے ہمیشہ کے لیئے جا چکی ہے۔" میر عالم کی آواز جب مصطفی کے کانوں سے ٹکرائ۔ وہ ایک پل کو رکا اور واپس کھانا کھانے لگا۔
" کچھ کہو گے نہی۔۔؟" میر عالم نے اسے جانچنا چاہا۔
" نہیں۔" مصطفی نے دانت کچکچا کر جواب دیا۔
" وہ تمہارے ساتھ رہنا نہی چاہتی تھی۔ اسی لیئے وہ چلی گئ۔" میر عالم نے دھیرے سے بتایا۔
" یہ کونسی نئ بات پے۔ وہ تو شروع سے میرے ساتھ رہنا نہی چاہتی تھی۔ پر حیرت مجھے اس بات پہ ہے کہ وہ آپکو ۔۔۔ مطلب آپکو چھوڑ کر چلی گئ۔ یقین نہیں آتا۔ آج دکھا دیا ناں اس نے کے سوتیلے رشتے کسی کے نہیں ہوتے۔" وہ زہر خند لہجہ میں گویا ہوا۔
میر عالم نے گہری سانس لیکر اسے تکا۔
" اب تم مجھے ہرٹ نا کرو۔ بہت بد تمیز ہوگئے ہو تم مصطفی پچھلے چند دنوں میں۔" میر عالم نے اسکے انداز بغور تکے۔
" مصطفی جو اتنے سالوں سے ہرٹ ہوتا آرہا تھا۔ وہ وقت کسی کو یاد نہی۔ اب اگر مصطفی کسی کو حقیقت بھی بتا دے۔ تو لوگ ہرٹ ہورہے ہیں۔ حیرت ہے۔۔۔!!" مصطفی نے کندھے آچکا کر کہا۔
" کب تک چلے گی تمہاری یہ ناراضگی۔؟" میر عالم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" جب آپکو مجھ پہ بھروسہ ہوگا تب۔ ابھی تو ناممکن سی بات ہے۔" وہ اٹھتا اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔
میر عالم بھی بے دلی سے کھانا چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ شعلہ اپنا کھانا پوری دنیا سے بے گانگی برت کر کھانے میں مصروف تھی۔
مصطفی نے کمرے میں آتے ہی اپنے موبائل سے کال ملائ تھی۔
دوسری جانب سے فون اٹھا لیا گیا تھا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے۔۔۔۔ تم وہاں جا کر بیٹھ جاؤ گی تو۔ میں یہ گھر ۔۔۔ میر بھائ ، ہر چیز کو چھوڑ کر چلا جاؤں گا سوچ ہے تمہاری۔ اور تم یہاں سے چلی گئ ۔۔۔ اچھا کیا ویسے بھی تمہاری شکل میری برداشت سے باہر تھی۔" وہ تقریبا غرا رہا تھا۔
" ٹھیک ہے اگر میری بہن کی شکل تم سے برداشت نہی ہوتی تو۔ اسے طلاق دے دو۔" حیدر کی آواز سن کر وہ مزید بھنایا تھا۔
" کبھی نہیں دونگا طلاق بیٹھی رہے ایسے ہی ساری عمر۔" مصطفی نے سرد لہجہ میں جواب دے کر کال کاٹ دی تھی۔
میر عالم کے کمرے کا منظر اس وقت خاصہ نرالہ تھا۔ میر عالم ابھی بیڈ پہ آکر لیٹے تھے۔ کمفرڑر سر تک تانے وہ بیڈ کے بیچوں بیچ پڑے تھے۔ ابھی انکی آنکھ لگی ہی تھی۔ کہ کوئ کود کر ان پہ لیٹا تھا۔ میر عالم چیخ کر رہ گئے تھے۔
" آہ۔۔۔ کون ہے۔" میر عالم نے چلا کر پوچھا۔ شعلہ اپنی حرکت پہ خجل تو ہوئ پر میر عالم کو ڈرانے کا فیصلہ کیا۔ اسکے اوپر بیٹھ کر اسنے آواز کو تھوڑا بھاری بنا کر جواب دیا۔
" اے باس۔۔۔ میں کالیا دی شوٹر ہے۔ سپاری ملی تیرے کو ٹھکانے لگانے کی اپن کو۔"
میر عالم نے گہری سانس خارج کرے کمفرٹر اپنے چہرہ پہ سے ہٹایا تھا۔
" آج تو یہ کالیا دی شوٹر گیا میرے۔ ہاتھوں ضائع ہوگیا۔" میر عالم نے اسے دونوں کلائیوں سے تھام کر خود پہ گرایا تھا۔
" ایسے کیسے ضائع ہوگیا۔ کسی کے باپ کا مال تھوڑی ہوں۔" اسنے گھبرا کر کہا۔
" پر میرا مال تو ہو ناں۔" وہ اسکے چہرے کو تکتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔ شعلہ کی ہتھیلیاں لمحوں میں بھیگی تھیں۔ اسکی قربت کا اثر تھا۔ کہ اسکے چہرے پہ ننھے ننھے چند شبنمی قطرے نمودار ہوئے تھے۔
" چھی ۔۔۔چھی ۔۔۔ کیسی گندی باتیں کر رہے ہو۔ چھوڑو مجھے۔" وہ اسپہ سے اٹھنا چاہتی تھی۔ پر عالم نے اسے اپنے برابر لٹایا تھا۔ اور پھر اسکے اوپر آئے تھے۔ اپنی بھاری ٹانگ کو۔ نازنین کی نازک سی ٹانگوں پہ دھرا تھا۔
" ابھی تو میں نے کوئ گندی حرکت کی ہی نہی۔" وہ اسکے سراپے کو دلچسپی سے تکتا گویا ہوا۔
" ابے بڈھے سٹھیا گیا ہے کیا۔ پیچھے ہٹ۔" شعلہ کے گال دہکنے لگے تھے۔ اسنے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔
" آج یہ بات کلیئر کردوں۔ اتنا بھی بڈھا نہیں میں۔ صرف پچاس سال کا ہوں میں۔" وہ اسکے بالوں کی لٹ اسکے چہرے پہ سے ہٹا کر گویا ہوا۔ شعلہ نے یکدم اپنی آنکھیں مینچیں تھیں۔
" تو۔۔۔۔ آدھی عمر گزار کر۔ اب بھی چاہتے ہو کوئ تمہیں بڈھا نا کہے۔" وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور کرنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔
" کسی اور کا تو پتہ نہی۔ پر کم از کم تمہارے منہ سے مزید اپنے لیئے یہ القاب نہی سننا چاہتا۔" وہ اسے مکمل طور پہ قید کرتا اسکے کانوں میں گنگنایا تھا۔
" دور ہٹیں۔۔۔ کہیں پی وی تو نہی لی ناں۔۔!!" اسنے سہمے ہوئے انداز میں پوچھا۔
" نہی۔۔۔ ہوش میں ہوں۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے سنجیدگی سے گویا ہوئے۔
" دیکھیئے ہم کوئ اصلی کے میاں بیوی تھوڑی ہیں۔ جو ایسے آپ۔۔۔۔ میرے ساتھ کر رہے ہیں۔" وہ منمنائ۔
" نکاح ہمارا اصلی ہی ہوا تھا۔ شاید۔۔۔ ہے ناں۔ تو پھر بھلا ہم اصلی میاں بیوی کیسے نا ہوئے۔" وہ اسکی اڑی رنگت دیکھ۔ اپنی امڈتی ہنسی کو لبوں کی تراش میں دبا گئے۔
" وہ پر دل سے تو ہم ایک دوسرے کو میاں بیوی نہی مانتے ناں۔" اسنے جھٹ جواز پیش کیا۔
میر عالم دلکشی سے مسکرائے تھے۔
" پر میں تو تمہیں اپنی بیوی مانتا ہوں۔" عالم کی سرگوشی سن کر اسکی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔
" پر میں نہی مانتی تمہیں اپنا شوہر۔" اسنے جھٹ کہا۔
" عورتوں کی سنتا ہی کون ہے۔" میر عالم نے اسے چڑانے کو کہا۔ پر یہ بات شعلہ کے دماغ کے شوٹ سرکٹ پہ سیدھا جاکہ لگی تھی۔ میر عالم کو ٹانگوں کے بیچ میں زور دار لات ماری۔ میر عالم تکلیف سے کراہتے اس سے دور ہوئے تھے۔
وہ جھٹ اٹھی تھی اور کمر پہ ہاتھ دھر کر خونخوار لہجہ میں گویا ہوئ تھی۔
" عورتوں کی جو نہی سنتا۔۔۔ شعلہ اسکا حلوہ بنا دیتی ہے۔ آگے سے میرے ساتھ ڈونٹ بی اوور اسمارٹ۔۔۔ اور مجھ سے دس میل دور رہنے کا ہے۔ سمجھے۔"
عالم نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔
" چڑیل ہو تم بلکل ٹھیک کہتا ہوں میں تمہیں۔ ایک خون آشام چڑیل کے سوا تم کچھ نہی ہوسکتی۔ تم ایک چڑیل ہو جو صبح شام دن رات سیاہ لباس پہنے بھٹکتی رہتی ہے۔" عالم نے غصہ اور تکلیف کے ملے جلے تاثرات سمیت کہا۔
☆☆☆☆☆
نازنین اپنے کمرے میں آکر لیٹی تھی۔ اس کمرے میں اسے نیند نہی آرہی تھی۔ آتی بھی کیسے۔ پانچ سال کی تھی۔ جب اسنے یہاں سے نکل کر میر عالم کے ساتھ رہنے کی ضد کی تھی۔ اپنے بڑے بھائ سے اسے بے حد محبت تھی۔ ہاں یہ بھی سچ تھا۔ کہ حیدر اور نازنین کی ماں ایک تھی۔ اور میر عالم کی ماں کوئ اور۔ پر باپ تو انکا ایک ہی تھا۔ میر عالم نے پچھلے پندرہ سالوں میں اسکا کتنا خیال رکھا تھا۔ اسے اچھے سے یاد تھا۔ پر ان گزرے پندرہ سالوں میں اسے مصطفی کبھی اچھا نہی لگا۔ اسے مصطفی سے نفرت تھی۔ کیونکہ وہ اسکے اور اسکے بھائ کے درمیان کسی دیوار کی مانند تھا۔ اور اب اسکا اسطرح سے مصطفی سے تعلق جڑ جانا۔ اسکے لیئے صدمہ سے کم نہی تھا۔ وہ بستر پہ لیٹی اس رات کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ جب مصطفی نے اسے نوچ ڈالا تھا۔ نازنین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسنے آنکھیں مینچیں ہوئ تھی۔ جب اسے اپنے پیٹ پہ کسی کا بھاری ہاتھ محسوس ہوا۔ اس سے پہلے کے وہ خوف سے چلا اٹھتی۔ موسی نے اسکے منہ پہ اپنا دوسرا ہاتھ دھرا تھا۔ اپنے بلکل قریب بیٹھے۔ عیسی کو دیکھ وہ سکون کا سانس لے گئ تھی۔
عیسی نے اسکے ہونٹوں پہ سے ہاتھ ہٹایا۔ تو وہ اسے دیکھ کر مسکرائ۔ پر اسکا لمس اپنے پیٹ پہ محسوس کرکے۔ یکدم سٹپٹائ تھی۔ اسے خود سے دور جھٹک کر وہ کھڑی ہوئ تھی۔
" ۔۔۔ عیسی ایسے آدھی رات کو میرے کمرے میں آنے کی کیا ضرورت تھی۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئ۔
" میں کوئ پہلی بار تو ایسے تمہارے کمرے میں نہی آیا۔ ہمیشہ سے آتا ہوں۔ مجھے پتہ چلا کہ تم اپنے میر بھائ کا گھر چھوڑ کر یہاں آگئ ہو تو میں یہاں آگیا تم سے ملنے۔" وہ اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کرکے گویا ہوا۔
" عیسی ۔۔۔۔ پلیز ۔۔۔ دور ہٹو۔۔۔" وہ اسے خود سے فاصلے پہ کرکے اپنی شرٹ ٹھیک کرنے لگی تھی۔
" ایسے اجنبیوں سا برتاؤ کیوں کر رہی ہو۔" عیسی نے کچھ برا منا کر کہا۔
" عیسی پلیز اب ہمارا ایسے ملنا ٹھیک نہی۔ میں۔۔۔ مصطفی کی بیوی ہوں۔ اور جب تک اسکے نکاح میں ہوں۔ میں اسے ایسے دھوکہ نہی دونگی۔" اسنے گہری سانس لیکر کہا۔
" پر تم تو اس سے نفرت کرتی ہو۔" عیسی نے سنجیدگی سے کہا۔
" ہاں کرتی ہوں۔ پر یہ بات بھی نہی جھٹلا سکتی کہ ہی از مائے ہسبنڈ۔" اسنے عیسی کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر کہا۔ عیسی نے خمار آلود نظروں سے اسے تکا۔
" یہ بات تو تمہارے اور میرے بیچ کی ہے۔ اس مصطفی کو کون بتائے گا یہ سب۔" عیسی نے اسکا ہاتھ تھامنا چاہا۔ پر وہ دو قدم پیچھے ہوگئ۔
" اسے کوئ نہی بتائے گا۔ پر مجھے تو پتہ ہے ناں کہ میں اسے دھوکہ دے رہی ہوں۔" اسنے اٹل لہجہ میں کہا۔
ہنہہ اوکے چلتا ہوں پھر میں۔ تمہیں دیکھ لیا اب ٹھیک ہے۔" وہ اسکے گال پہ ہلکی سی چٹکی کاٹتا کھڑکی سے کودا تھا۔ اور نازنین بے حال سی ہوتی بستر پہ بیٹھی تھی۔
ساوری نگاہیں جھکائے بیٹھی تھی۔ سامنے کنٹریکٹ پیپر تھا۔ جس پہ صاف لفظوں میں لکھا تھا۔ کہ بیٹا پیدا ہوتے ہی ساوری کو اس کنٹریکٹ سے آزادی مل جائے گی۔ بھابھی نے افسوس سے ساوری کو تکا۔ پر ساوری نظریں پھیر گئ۔
" پین۔۔" اسنے دھیمی آواز میں کہا۔
" میں لائ ہوں۔ یہ لو۔" حیدر کی اماں نے جھٹ اپنے پرس سے پین نکال کر ساوری کو تھمایا۔
ساوری نے پین ہاتھ میں تھاما۔ حیدر اسکے سامنے بیٹھا۔ سرد نظروں سے اسے تک رہا تھا۔
ساوری نے کپکپاتے ہاتھوں سمیت کنٹریکٹ پیپر پہ سائن کیئے۔ حیدر کی امی اور خالہ کے چہرے پہ یکدم شادابی چھائ تھی۔
" ہم چلتے ہیں کل نکاح کے لیئے آئیں گے۔ " حیدر کی امی نے مسکرا کر کہا۔ اور نکل کر چلی گئیں۔ حیدر مسلسل ساوری کو سرد نظروں سے گھورتا رہا۔ ساوری نے نگاہ اٹھا کر اسکی طرف نہیں دیکھا۔
وہ لوگ چلے گئے۔ بھابھی بھی اس سے ناراض تھیں۔ اسکی پلکیں بھیگی تھیں۔ پر اسنے سوچ لیا تھا۔ کہ یہ کڑوا گھونٹ اسے اپنے بھائ کی خاطر پینا پڑے گا۔
☆☆☆☆☆
مصطفی اور میر عالم کو آج سیالکوٹ کے لیئے نکلنا تھا۔ انکی پارٹی کا آج سیالکوٹ میں جلسہ تھا۔ شعلہ صبح سے پر تول رہی تھی۔ کہ میر عالم یہاں سے نکلے۔ اور وہ اپنا کام کرنے جاسکے۔ میر عالم اسے جلے پیر کی بلی کی طرح ایک سمت سے دوسری سمت جاتا دیکھ کر چڑا تھا۔
" کیا ہوا ہے۔ جو تم ایسے ایک سمت سے دوسری سمت پریٹ کر رہی ہو۔"
" میں۔۔۔ واک کر رہی ہوں۔ کیوں۔؟ کوئ مسئلہ ہے۔۔۔؟" شعلہ نے کمر پہ ہاتھ ٹکا کر پوچھا۔
" نہیں۔ مجھے کیا مسئلہ ہوگا۔ پر صبح کی ورزش کم پڑگئ ہے تمہیں۔ جو تم اس وقت جلے پیر کی بلی بنی ہوئ ہو۔"
انہوں نے پیر پہ پیر ڈال کر نرمی سے کہا۔
" میری مرضی میں جو بھی کروں۔" اسنے منہ بنانا اپنا فرض سمجھا۔
" ہمم جو بھی کرنا۔ یہ سوچ کر کرنا کہ میری نظریں۔ تم پہ ہر وقت رہیں گی۔" عالم نے اسے جانچتی نظروں سے تکا۔
" مجھ پہ نظر رکھنے والے ابھی پیدا ہی نہی ہوئے۔" اسنے تمسخر سے کہا۔
عالم اسکی ادا پہ مسکرایا تھا۔ آنکھیں بند کرکے کھولیں۔ اور اسے دیکھا۔
" تمہارے سامنے بیٹھا ہے وہ شخص۔ جو تم پہ نظر رکھنے کی طاقت اور استطاعت۔ دونوں رکھتا ہے۔"
" مجھے نہی لگتا کہ وہ طاقت میرے اللہ نے کسی کو فلحال دی ہے۔" اسنے پر اسرار سے لہجہ میں کہا۔
" ایسا کیوں لگتا ہے تمہیں۔ کیا پتہ اللہ نے مجھے چن لیا ہو۔ تمہیں ایکسپوز کرنے کو۔" عالم کی نگاہوں میں صاف چیلنج تھا۔
" مجھے کیا ایکسپوز کروگے میر عالم۔ جسکا نا آگے کوئ ہو۔ نا ہی پیچھے۔ اسے ایکسپوز ہونے کا کیا ڈر۔" اسکی آنکھوں میں درد تھا۔
" اب ایسا بھی نہی ہے کہ تمہارے آگے پیچھے کوئ نہی۔ تمہارے آگے میں ہوں۔ اور پیچھے بھی۔" نجانے میر عالم کی زبان سے یہ الفاظ کیسے ادا ہوئے انہیں خود بھی خبر نا ہوئ۔
شعلہ نے چونکہ کر انہیں تکا تھا۔ عالم بھی اسے ہی تک رہے تھے۔
" مجھے لگتا ہے آپ کے جانے کا وقت ہوگیا ہے۔" شعلہ نے وقت دیکھ کر کہا۔
" ہاں ۔۔۔۔ وقت تو ہوگیا ہے۔ خیر اب تین دن بعد ملاقات ہوگی۔ اپنا خیال رکھنا۔ جہاں بھی جانا ہو۔ سیدھے راستے سے جانا۔" میر عالم اٹھ کر اسکے مقابل آئے تھے۔ شعلہ نے اسے بغور تکا تھا۔ اور اسکی تمام ہدایات پہ سر ہلا گئ تھی۔ میر عالم کے دل میں اس سے گلے مل کر رخصت لینے کی چاہت بڑی شدت سے ابھری تھی۔ پر وہ دل پہ جبر کہ پہرے بٹھاتے نکل گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
شعلہ میر عالم کے نکلتے ہی خود بھی نکل گئ تھی۔ گاڑی کو قبرستان کے پاس رکوا کر۔ وہ اندر گئ تھی۔ ہمیشہ کی طرح کئ لمحہ وہاں کے سناٹے میں گزارے۔ ان دو قبروں پہ ہاتھ پھیرتی رہی۔ اور پھر دعا کرکے باہر نکل آئ۔ ڈرائیور کو جانے کو کہا۔اور خود پیدل چلتی۔ نجانے کس سمت گامزن تھی۔ روڈ سے اتر کر اسکے قدم اب جنگل کی جانب تھے۔ جنگل میں قدم دھرتے ہی اسنے احتیاطی طور پہ ارد گرد نا محسوس طریقہ سے دیکھا۔
دھیرے دھیرے چلتی وہ بہت آگے نکل آئ تھی۔ اسے اپنی پشت پہ کسی کے قدموں کی آواز سنائ دی۔ وہ خاموشی سے اسی رفتار سے چلتی رہی کسی نے اسکی کمر پہ لات مارنے کی کوشش کی پر اس سے پہلے کے لات اسکی کمر پہ پڑتی۔ اسنے گھوم کر اس بندے کی لات کو اپنے ہاتھوں میں جکڑا تھا۔ اور اسکی ٹانگ گھما کر اسکے پیٹ پہ ایک ضرب دے کر اسے زمین پہ گرا گئ تھی۔ وہ شخص سوکھے پتوں پہ گرا تھا۔ شعلہ نے اسے اٹھنے کا موقع دیا بغیر ہی اسکے سینے پہ اپنا پیر دھرا تھا۔ اپنی جیب سے اپنی پسٹل نکالی تھی۔ اور پسٹل کو اسکی گردن پہ رکھ کر چلا دیا تھا۔ پسٹل بے آواز تھی شاید اس پسٹل پہ سینسر لگا تھا۔ وہ شخص وہیں تڑپتا مر گیا تھا۔ وہ اسکے سینے پہ سے پیر ہٹاتی واپس چلنے لگی تھی۔ اسکے سامنے ایک اور شخص آیا تھا۔ اسنے اسکا بھی ایک نشانہ دل کے مقام پر لیا تھا۔ وہ شخص تڑپتا مچلتا گرا تھا۔ اور پھر بے جان ہوگیا تھا۔ شعلہ نے ارد گرد دیکھا تو۔ کوئ نہی تھا۔ وہ چلتی چلتی ایک بوسیدہ سی عمارت کا دروازہ کھول کر وہاں اندر گئ تھی۔ کوئ شخص دروازہ بند ہوتے ہی اسپہ جھپٹا تھا۔ اور پسٹل اسکے ماتھے پہ ٹھنکائ تھی۔ شعلہ نے اسے کہنی رسید کرتے اسکے ہاتھ سے بندوق آچکی تھی۔ اور پھر بنا وقت ضائع کیئے اسکے دماغ میں ایک گولی اتار دی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے چلتی ایک سمت آئ تھی۔ جہاں عورتوں اور بچوں کا جم غفیر تھا۔ ان سب کو اس حالت میں دیکھ کر اسکے چہرے پہ ایک سایہ لہرایا تھا۔ پر وہ ہمت کرتی اندر گھسی تھی۔ چند آدمی وہاں بیٹھے تھے۔ اور جن نظروں سے وہ ان لڑکیوں کو تک رہے تھے۔ شعلہ کے تن بدن میں آگ سی پھیلی تھی۔ اسنے موبائل پہ لکھا میسج چھوڑا تھا۔ اور ایک ہی باری میں دو آدمیوں پہ گولی چلائ تھی۔ دو آدمی جو مزید بیٹھے تھے۔ انہوں نے اپنی پسٹل اٹھائ تھیں۔ شعلہ ان کے وار سے بچنے کے لیئے جھکی پر فائر سیدھا اسکے کندھے پہ آکر لگا تھا۔ شعلہ نے پھر بھی ہمت نا ہاری۔ اپنے درد کو نظر انداز کرتی۔ وہ ان دونوں کو بھی جہنم واصل کرچکی تھی۔ شعلہ وہاں سے باہر بھاگی تھی۔ پولیس نے ریٹ ڈال لی تھی۔ اور تمام لوگوں کو وہاں سے بازیاب کروا لیا تھا۔ وہ اپنا بازو مضبوطی سے تھامتی خود کو گھسیٹ رہی تھی۔ تکلیف کی شدت سے اسکے چہرے پہ پسینے کے قطرے نمودار ہوئے تھے۔ وہ با مشکل خود کو قبرستان تک گھسیٹ کر لائ تھی۔ اسکا پرانہ ڈرائیور وہاں موجود تھا۔ وہ اپنے بنگلے پہ آئ تھی۔ جہاں وہ میر عالم سے نکاح کرنے سے پہلے رہتی تھی۔ وہ جیسے ہی گاڑی سے اتری۔ اسکا آدمی زبیر اسکے پاس آیا تھا۔
" یہ کیا ہوگیا۔۔۔ آپکو۔ میں نے آپ سے کہا بھی تھا۔ کہ آپ ایسے اکیلے نا جائیں۔" زبیر نے فکر مندی سے کہا۔
" مجھے بس تم سب کی دعائیں چاہیئے۔ نا کہ کسی کا ساتھ۔" اسنے تکلیف سے لب کچلے۔
" آپ پلیز اندر چلیں۔" زبیر نے اسے بازو سے تھاما۔ اور اندر لیکر گیا۔
شہلا اور چند مزید لڑکیاں بوکھلائ ہوئ۔ اسکے پاس آئ تھیں۔ زبیر نے ڈاکٹر کو کال کی تھی۔ کچھ دیر میں ڈاکٹر آئے تھے۔
اسکے کندھے سے گولی نکال کر زخم پہ بینڈیج کی تھی۔ اسکی آنکھیں اب بے ہوشی کے زیر اثر بند ہونے لگی تھیں۔ شہلا نے پریشانی سے زبیر کو تکا تھا۔
" یہ سب کیسے۔۔۔؟" شہلا نے نم آواز میں پوچھا۔
" جانتی تو ہو۔ اپنی پرواہ کیئے بغیر بس دوسروں کی خاطر۔ اپنی جان جوکھم میں ڈالنا ان کا شیوہ ہے۔" زبیر نے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا پریشانی سے اسکے پاس ہی بیٹھ گئ تھی۔ اور باقی تمام لوگ اسکے کمرے سے نکل کر چلے گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
" ساوری بنت جمال کیا آپکو یہ نکاح حیدر خان بن توصیف عالم خان سے ایک کروڑ حق مہر سکہ رائج الوقت کے تحت قبول ہے"۔ مولوی صاحب کی آواز جب اسکے کانوں میں پڑی تو اسکے لبوں سے کئ لمحوں تک االفاظ نکلنے سے انکاری ہوگئے۔ پیچھے سے بھابھی کے کندھے پہ ہاتھ رکھنے سے اسنے دھیمے لہجہ میں کپکپاتے لبوں سمیت کہا۔
" قبول ہے ۔۔۔ قبول ہے۔۔۔ قبول ہے۔۔"۔ اسنے جیسے ہی تیسری بار قبول ہے کہا اور نکاح نامے پہ دستخط کیئے۔ اسے مبارک باد کی چند سدائین سنائ دیں۔ ساوری کی آنکھوں سے چند آنسو لڑیوں کی صورت بہہ نکلے۔
نکاح کے کچھ دیر بعد ہی اسکی رخصتی کا وقت آیا۔
رخصت ہوتے وقت نا من میں امگیں تھیں نا خواہشیں۔۔، وہ کسی مردہ وجود کی مانند اپنے بھائ کے گھر کی دہلیز پار کر گئ تھی۔
رخصت کرکے اسے ایک شاندار فلیٹ میں لایا گیا وہ ایک لگژی فرنیشڈ فلیٹ تھا۔ اسے اسکے کمرے میں ایک حسین اور ماڈرن سی لڑکی لائ اور اسے بٹھایا۔ ساوری نے نگاہیں اٹھا کر اس عورت کو دیکھا جو سنجیدگی سے اسے دیکھتی ایک ادا سے صوفہ پہ بیٹھی تھی۔
" نام۔۔۔ کیا۔۔ ہاں۔۔۔ ساوری۔۔۔۔۔ دیکھو کوشش کرو حیدر تمہاری جانب جلد متوجہ ہوجائے۔۔۔ جیسے ہی تم کام مکمل کروگی تمہیں اس کانٹریکٹ سے آزادی مل جائے گی"۔ در فشاں نے سنجیدگی سے کہا۔
ساوری نے آنسوؤں سے بھری نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دھیرے سے اثبات میں سر ہلا۔کر نگاہیں واپس جھکا لی۔
" میں چلتی ہوں ۔۔۔ اب کافی دیر ہوگئ ہے"۔ درفشاں نے اک ادا سے اپنی کلائ پہ بندھی گھڑی کو دیکھا اور آٹھ کر چلی گئ۔
ساوری نے گہری سانس لے کر اپنے ہاتھوں میں آئے پسینے کو ٹشو پیپر سے خشک کیا۔
حیدر ہم چلتے ہیں۔ تم بھی آرام کرو۔" اسکی امی نے اسکے گالوں پہ محبت سے ہاتھ دھر کر کہا۔
حیدر نے سرد نظروں سے اپنی ماں کو تکا۔
" مما ۔۔۔ خالہ جانی جلدی کریں۔ مجھے ایک پارٹی بھی اٹینڈ کرنی ہے ابھی۔" در فشاں نے بیزار آکر کہا۔
" ہاں ۔۔۔ ہاں چلتے ہیں۔ اللہ حافظ۔ بیٹا۔" درفشاں کی ماں نے اسکی بیزاریت سمجھتے کہا۔
حیدر نے ایک نظر درفشاں کو تکا ۔ کہ شاید اسکی آنکھوں میں دکھ ہو۔ افسوس ہو۔ پر نہیں۔۔ وہاں ایسا کچھ نہی تھا۔
وہ لوگ جیسے ہی نکل کر گئیں۔ حیدر نے مین ڈور لاک کیا۔ اور لاؤنج کے صوفہ پہ آکر بیٹھ گیا۔ اسکی حالت اس وقت جتنی باہر سے ابتر تھی۔ اندر سے اسکا حال اس سے بھی زیادہ اجڑا ہوا تھا۔ نجانے وہاں گم صم۔بیٹھے بیٹھے کتنے ہی لمحے بیت گئے پر اسے ، کوئ خبر نا ہوئ۔ وہ اٹھ کر کمرے میں آیا تو۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نجانے کونسے خیالوں میں ڈوبی تھی۔
" تم نے ایسا کیوں کیا۔؟" حیدر کی سرد آواز جب ساوری کے کانوں سے ٹکرائ۔ تو وہ اچھل کر سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔
" کیا ، کیا ہے ۔۔۔ میں نے۔؟" اسنے نا سمجھی سے پوچھا۔ نظریں زمین پہ گاڑھ کر بیٹھی تھی۔
" تمہیں پیسوں کی ضرورت تھی۔ تو مجھے بتاتی میں تمہاری مدد کرتا۔ تم بنا اپنی زندگی خراب کیئے اپنے بھائ کا علاج کرواتی ۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" جو ہونا تھا۔ اب تو وہ ہوچکا۔ اب افسوس کرنے کا کیا فائدہ۔" اسکی بھیگی آواز حیدر کو بے چین کر گئ تھی۔
" تمہیں یہ سب جتنا آسان لگ رہا ہے ناں۔۔ ساوری یہ سب اتنا آسان ہے نہی۔" حیدر چلتا ہوا بیڈ پہ اسکے مقابل بیٹھا تھا۔
ساوری تھوک نگل کر پیچھے سرکی تھی۔
" جی۔۔ جانتی۔۔۔ ہوں۔" گھبرائے لہجہ میں جواب دیا۔
" تم سو جاؤ۔ میں برابر والے کمرے میں سونے جا رہا ہوں۔" اس نے اٹھتے کہا۔ پر ساوری نے جھٹ اسکا ہاتھ تھاما تھا۔ حیدر نے ماتھے پہ بل سجا کر اسے تکا تھا۔
" میں چاہتی ہوں۔ یہ کنٹریکٹ جلد ختم ہوجائے۔" اسنے گردن جھکا کر کہا۔
وہ اسکی بات کا اشارہ بخوبی سمجھ گیا تھا۔ ایک جھٹکے سے حیدر نے اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کرایا۔
" سوجاؤ۔ اس سب کا ابھی میرا کوئ ارادہ نہی۔" کرخت لہجہ میں کہتا۔ وہ کمرے سے تن فن کرتا نکل گیا تھا۔ ساوری نے اسکے نکلتے ہی سکون کی سانس لی تھی۔ اگر وہ اس سب کے لیئے تیار نہیں تھا۔ تو ساوری کونسا تھی۔
☆☆☆☆☆
شعلہ کو آدھی رات میں ہوش آیا تھا۔ تکلیف کی شدت بہت تھی۔ وہ سر تکیہ پہ ڈالے کئ لمحہ ایسے ہی پڑی رہی۔ برابر میں نظر ڈال کر دیکھا تو شہلا اسکے ساتھ سو رہی تھی۔ شعلا نے با مشکل شہلا کا بازو ہلایا۔ شہلا یکدم ہڑبڑا کر اٹھی۔
" کچھ چاہیئے۔۔ ہاں پانی ۔۔ کھانا۔۔۔ درد تو نہیں ہورہا۔" شعلہ نے شہلا کے بوکھلائے انداز پہ اسے گھورا تھا۔
" میرا موبائل دو اور ٹی وی آن کردو۔" شعلہ نے بھاری آواز لیے کہا۔
" اوہ۔۔۔ ہاں اچھا۔" شہلا گہری سانس لیکر اٹھی تھی۔ اسے پہلے اسکا موبائل دیا۔ اور پھر ٹی وی آن کیا۔
شعلہ نے موبائل آن کیا تو میر عالم کے میسجز آئے ہوئے تھے۔ شعلہ کے لبوں پہ دھیمی سی مسکان در آئ تھی۔
" کال کیوں نہی پک کر رہی تم۔؟" یہ میر عالم کا پہلا مسیج تھا۔
" کہاں ہو تم گھر کیوں نہی لوٹی ابھی تک۔؟" یہ دوسرا میسج تھا۔ اسکی فکر مندی پہ اسکے لبوں تلے ایک شرمیلی سی مسکراہٹ مچلی تھی۔
" شعلہ۔۔۔ رات کا ایک بج رہا ہے۔ تم ٹھیک ہو۔۔۔؟" ایک اور میسج۔
شعلہ نے اپنے ہونٹوں پہ کھیلتی خوبصورت مسکان کو کیمرے کی آنکھ میں قید کیا۔ پھر اپنی سیلفی کو بغور تکا۔ اور میر عالم کے واٹس ایپ پہ سینڈ کردیا۔
" اپنے گھر آئ ہوں۔ وہاں کوئ نہی تھا۔ اور مجھے تنہائی سے خوف آتا ہے۔ اسی لیئے اپنے گھر آگئ۔" اسنے ایک میسج بھی لکھ کر بھیجا۔
چند لمحہ بعد ایک میسج موصول ہوا۔
" تھینک گاڈ۔۔۔ تمہارا کوئ ریپلائے تو آیا۔ میں بہت پریشان ہوگیا تھا۔" میر عالم کا مسیج پڑھ کر اسکے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئ تھی۔
" کیوں۔ میں بچی تھوڑی ہوں۔ جو آپ میرے لیئے پریشان ہو رہے تھے۔" اسنے لب دبا کر لکھا۔
کئ لمحوں تک کوئ جواب نا آیا۔ اسنے نیوز چینل لگایا تو۔ میر عالم کے سیالکوٹ والے جلسہ کی لائیو کوریج دکھائی جا رہی تھی۔ میر عالم اپنی قوم سے مخاطب تھا۔ وہ کئ لمحہ اسے یونہی یک ٹک تکتی رہی۔ بہت چاہت سے۔ بہت دلچسپی سے۔
" پیار ہوگیا ہے ناں۔؟" شہلا کی آواز پہ وہ چونکی تھی۔ ٹی وی کی اسکرین پہ سے نظریں ہٹا کر اسنے شہلا کو تکا۔
" کیا بکواس کر رہی ہو۔" اسنے نگاہیں چرا کر کہا۔
" مان لو ہوگیا ہے۔ پیار۔" شہلا نے شریر سی مسکان ہونٹوں پہ سجا کر کہا۔
" ایسا کچھ بھی نہی۔" شعلہ نے شدت سے نفی کی۔
" پر مجھے تو ایسا ہی کچھ لگتا ہے۔" شہلا نے لب دبا کر کہا۔
" اگر چاہتی ہو ناں۔ کہ آج رات تمہیں یہاں رہنے دوں۔ تو مجھ سے ایسی فضول باتیں کرنا بند کرو۔" شعلہ نے بھنا کر کہا۔
" مرضی ہے آپکی۔ پر۔پیار تو ہوگیا ہے۔" وہ شرارت سے کہتی کمبل سر تک تان گئ تھی۔
شعلہ نے منہ بنا کر اپنا موبائل اٹھا کر دیکھا۔ پر اسکا کوئ ریپلائ نا تھا۔ اور سامنے اسکرین پہ وہ اب بھی تقریر کر رہا تھا۔
شعلہ نے بے دلی سے موبائل کو سائڈ ٹیبل پہ رکھا تھا۔ اور ٹی وی اسکرین کو دیکھنے لگی تھی۔
☆☆☆☆☆
صبح کا سورج پورے آب و تاب سے نیل گگن پہ چمک رہا تھا۔ ساوری فجر کی اٹھی لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ حیدر دوسرے کمرے سے باہر آیا تو اسے دیکھ کر چونکا۔ کف لنکس باندھتے حیدر دوسرے صوفہ پہ آکر بیٹھا تھا۔
" از ایوری تھنگ آل رائٹ۔" حیدر نے اسے گم صم سا بیٹھے دیکھ کر پوچھا۔
" جی۔۔" اسنے ایک لفظی جواب دیا۔
" اتنی جلدی کیوں آٹھ گئ۔" حیدر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" میں جلدی ہی اٹھتی ہوں۔" اسنے دھیرے سے بتایا۔
" ہمم۔ خیر میں آفس جارہا ہوں۔ تم آرام کرو۔" حیدر نے اٹھتے کہا۔
" وہ آپ نے رات کا کھانا بھی نہی کھایا۔ ناشتہ بنا دوں جلدی سے۔" ساوری کا لہجہ عام سا تھا۔
حیدر ایک پل کو رکا۔ اتنے سالوں میں کبھی درفشاں کو اس بات کی فکر نہی ہوئ۔ یہاں تک کہ اسکی ماں کو بھی نہی۔ حیدر نے مڑ کر اسے ایک نظر تکا۔ اور پھر سر کو نفی میں ہلاتا کمرے کی جانب واپس گیا تھا۔ پر پیچھے سے اسکی آواز سن کر ایک بار پھر قدم اپنی جگہ جمے تھے۔
" میں بھی آفس جاؤں گی۔ یہ میں نے پہلے ہی کنٹریکٹ میں کلیئر کردیا تھا۔ بھلے آپ مجھے سیلری نا دیں۔ پر میں چاہتی ہوں کہ جب میں اس کنٹریکٹ سے آزاد ہوں تو میرے پاس جاب ایکسپیرینس ہو۔ اور میں نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کر سکوں۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
حیدر نے کندھے اچکائے تھے۔ جیسے کہنا چاہا ہو تم جانا چاہو۔ یا نا جانا چاہو۔ تمہاری مرضی ہے۔
وہ اسکی اجازت ملتے ہی کمرے میں بھاگی تھی۔ تیار ہونے۔ جب وہ تیار ہوکر باہر نکلی تو حیدر اسکا منتظر کھڑا تھا۔
" چلو۔" حیدر نے عجلت میں کہا۔
" پر۔۔۔ میں آپ کے ساتھ نہی جاؤں گی۔" اسنے کچھ سہم کر کہا۔
" کیوں۔۔" حیدر کے ماتھے پہ بل نمایا ہوئے تھے۔
" آفس میں کسی کو شک بھی ہوگیا تو۔ آپکے لیئے ہی مسئلہ ہوگا۔" اسنے سر جھکا کر جواب دیا۔
حیدر ہاتھ ہوا میں کھڑے کر کے رہ گیا تھا۔
" واٹ نانسینس۔" حیدر نے تپ کر کہا۔
" میں اپنے راستے سے جاؤں گی اور آپ اپنے۔" ساوری کا لہجہ اٹل تھا۔
" تمہارا اور میرا راستہ ایک ہی ہے۔" حیدر نے چڑے ہوئے لب و لہجہ سمیت کہا۔
" پر میں آپکے ساتھ پھر بھی نہی جاؤں گی۔" اسنے اپنا بیگ کندھے پہ ڈالا اور اسکے نکلنے سے پہلے ہی گھر سے نکل گئ۔ ناچار حیدر نے بھی آپارٹمنٹ کا مین ڈور باہر سے لاک کیا۔ اور چابیاں جیب میں ڈالتا۔ نیچے آیا تھا۔ اسنے ارد گرد نظر دوڑائی پر وہ کہیں بھی نہی تھی۔ حیدر سر جھٹکتا اپنی گاڑی میں بیٹھتا دفتر کے لیئے روانہ ہوگیا۔
☆☆☆☆☆
نازنین سر تھامے بیٹھی تھی۔ اسکی ماما نے اسے ابھی حیدر اور اسکی امپلائ کے نکاح کا بتایا تھا۔
" ماما۔۔۔ آپ لوگ پاگل ہیں۔ اپنے مفاد کی خاطر کسی لڑکی کی زندگی خراب کردی آپ لوگوں نے۔" نازنین کا صدمہ سے برا حال تھا۔
" تو کیا ہوگیا۔ پیسے دے رہے ہیں اسے۔ اسکے بھائ کو کینسر ہے۔ اسے اپنے بھائ کے علاج کے لیئے پیسے چاہیئے تھے۔ اور ہمیں بچہ۔" ماما نے بڑے ہی آرام دہ لہجہ میں جواب دیا۔
" افسوس ہورہا ہے مجھے۔ اس بیچاری لڑکی کی قسمت پہ۔" نازنین نے دکھ سے کہا۔
" ارے یہ افسوس کی تو بات نہی۔ خوشی کی بات ہے۔" انہوں نے چہک کر کہا۔
نازنین بے انہیں قدرے افسوس سے تکا۔
" صبر میں ابھی ساوری کو فون کرکے پوچھتی ہوں۔ کہ کل رات ان دونوں کے بیچ کوئ تعلق بنا یا نہی۔" انہوں نے اشتیاق سے کہا۔ اور موبائل اٹھا کر کال بھی ملادی۔
" سیریسلی۔۔۔ ماما۔۔" وہ سر کو نفی میں جنبش دے کر رہ گئ تھی۔ ماما نے موبائل اسپیکر پہ رکھا تھا۔
کچھ لمحوں بعد کال اٹھا لی گئ۔ جس ٹائم ساوری کے پاس کال آئ وہ آفس میں حیدر کی کافی بنا رہی تھی۔ اسنے کال اٹھا کر کان سے لگا لی۔
" اسلام و علیکم۔" اسنے کان اور کندھے کے بیچ موبائل اڑاسا ہوا تھا۔ اور کافی کا مگ ہاتھ میں تھام کر حیدر کے پاس لائ تھی۔ حیدر نے اس سے کافی لی۔ اور اسے سنجیدگی سے تکا۔
" وعلیکم اسلام۔۔ کیسی ہو۔" انہوں نے بے تابی سے پوچھا۔
" میں تو ٹھیک ہوں آنٹی۔" اسنے نرمی سے جواب دیا۔
" اچھا ۔۔۔ میں نے یہ پوچھنے کے لیئے فون کیا تھا۔ کہ کل رات تم دونوں کے درمیان کچھ ہوا۔؟" انکا لہجہ و انداز بے حد بیتاب تھا۔
ساوری نے حیدر سے نگاہ چرائ۔ اور اپنی جگہ پہ آکر بیٹھی۔
" نہی۔۔۔" اسنے ایک لفظی جواب دیا۔
" ارے میرا مطلب ہے۔ کہ تم لوگ کل رات ایک دوسرے کے قریب آئے۔؟" انہوں نے اسے اپنی بات بہت اچھے سے سمجھانے کی کوشش کی۔
" نہی۔۔" اسنے پھر وہی یک لفظی جواب دیا۔
" او ہو ۔۔۔۔ کوشش کرو حیدر کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی۔ تاکہ میں مرنے سے پہلے ایک بار اپنا پوتا دیکھ لوں۔" انکا لہجہ نم ہوا تھا۔
" میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔" ساوری نے کہتے ساتھ ہی موبائل سائڈ پہ رکھا تھا۔ اور اپنے کام پہ اپنی توجہ دلانے لگی تھی۔ حیدر کافی پیتے ہوئے اب بھی بغور اسکا جائزہ لے رہا تھا۔
حیدر جو مسلسل کام میں جٹا ہوا تھا۔ کھانے کا ٹائم ہوا تو۔ خود کو ریلیکس کرتا اٹھا تھا۔ وہ روز کی طرح آج بھی کہیں باہر جا کر کھانا کھانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ پر اسکی نظر جب ساوری پہ پڑی تو اسے یاد آیا کہ۔ صبح تو ناشتہ اسنے بھی نہی کیا۔ اور شاید رات کا بھی نا کھایا ہو۔ اسنے موبائل اٹھا کر کھانا آڈر کیا۔ تقریبا کوئ بیس منٹ بعد کھانا ریسیو ہوگیا۔ ساوری نے کھانا ٹیبل پہ رکھا اور مڑی ہی تھی۔ کہ حیدر نے اسکا ہاتھ تھاما۔
" کھانا کھا لو۔"
" میرا من نہی۔" ساوری نے بے دلی سے کہا۔ اور اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ آزاد کراتی وہ اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔
حیدر خاموشی سے آٹھ کر کچن میں گیا اور کھانا دو پلیٹس میں نکالا۔ ایک پلیٹ اسکے ٹیبل پہ رکھی۔ اور اسے کھانے کا کہا۔ ساوری کو نا چار کھانا کھانا پڑا۔ حیدر اپنی جگہ پہ بیٹھا۔ کھانا کھا رہا تھا۔ ساوری اور حیدر نے جیسے ہی کھانا کھایا۔ ساوری نے حیدر کے پاس سے بھی پلیٹ اٹھائ۔ پلیٹ کچن میں رکھ کر باہر آئ تو۔ اسکے سوال پہ چونکی تھی۔
" صبح میری ماما تم سے کیا کہہ رہی تھیں۔؟" حیدر نے اسے بغور تکتے پوچھا۔
" کچھ خاص نہی بس۔۔ ویسے ہی۔" ساوری کا رنگ یکدم سرخ ہوا تھا۔ اسنے خود کو سنمبھال کر جواب دیا۔
" اگر انکی دوبارہ کال آئے تو تم مت اٹینڈ کرنا۔" حیدر نے لیپ ٹاپ کھولتے کہا۔
" ہمم۔" اسکی دھیمی سی آواز سن کر حیدر نے ایک نظر اسے دیکھا۔ جو لب کچلتی۔ اپنی ڈیسک کی طرف جا رہی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی اسکے سر پہ ہجاب تھا۔
" واپسی پہ تم میرے ساتھ گھر واپس جاؤ گی۔" اسنے کچھ سوچ کر اسے بتایا۔
" آپ بتا رہے ہیں۔ یا پوچھ رہے ہیں۔" وہ کچھ الجھی۔
" بتا رہا ہوں۔" حیدر نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
" سوری پر میں جیسے آئ تھی ویسے ہی واپس جاؤں گی۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
حیدر نے اسے سرد نظروں سے گھورا تھا۔
" میں نے جو کہہ دیا سو کہہ دیا۔ اب فضول میں آرگیومنٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
" میں اپنی مرضی کی مالک ہوں۔ اور میں کسی کی نہی سنوں گی۔" اسنے چڑ کر کہا۔
حیدر ٹیبل پہ ہاتھ پوری شدت سے مارتا اسکے مقابل آیا تھا۔
" پر میری سننی پڑے گی۔" حیدر نے دانت کچکچائے تھے۔
" میں نہی سنوں گی۔" وہ اس سے دو قدم دور ہوکر گویا ہوئ۔
" جب گھر واپس جانے کا وقت آئے گا تب کی تب دیکھی جائے گی۔" حیدر نے کہتے ساتھ ہی اپنے قدم اسکی سمت بڑھا کر اسے پزل کرنا چاہا۔ وہ قدم قدم پیچھے جا رہی تھی۔ اور حیدر قدم قدم اسکے قریب۔ ساوری کی پشت جیسے ہی دیوار سے ٹکرائ اسنے سہمی سہمی نگاہوں سے حیدر کو تکا۔
" باہر جاؤ اور ریسیپشن پہ جاکر ، ریسیپشنسٹ سے کہو۔ کہ جو نیو کینڈٹس کے انٹرویو کی ڈیٹ فائنل کر دے۔" اسنے اسکی آنکھوں میں تکتے کہا۔ ساوری نے تھوک نگل کر سر کو شدت سے اثبات میں ہلایا۔
" اب جاؤ." وہ اب بھی وہیں کھڑی رہی۔
" ہاں۔۔۔ آپ تو پیچھے ہٹیں ناں۔" اسنے گہری سانسیں لیکر کہا۔
حیدر اسے سنجیدگی سے تکتا۔ اس سے دور ہوا تھا۔ وہ اسکے پہلو سے نکل کر دروازہ کھول کر باہر بھاگی تھی۔ حیدر نفی میں سر ہلاتا اپنی جگہ پہ واپس جاکر بیٹھا تھا۔
☆☆☆☆☆
ساوری لب کچلتی ریسیپشن پہ آئ تھی۔ ریسیپشنسٹ اسے دیکھ کر دھیمے سے مسکائ تھی۔ ساوری مسکرا بھی نا سکی۔
" سر نے کہا ہے۔ کہ وہ نیو کینڈیٹس کے انٹرویو کی ڈیٹ فائنل کردو۔" اسنے منہ پھلا کر کہا۔
" اوکے۔ کر دیتی ہوں۔ پر تمہارا منہ کیوں پھولا ہوا ہے۔" اسنے اسکے خراب موڈ کو دیکھا تھا۔ وہ اسے پچھلے چند دنوں سے جانتی تھی۔ اور جب سے اسنے ساوری کو جانا تھا۔ یہ بات تو وہ بہت اچھے سے سمجھ چکی تھی۔ کہ ساوری ایک خوش اخلاق اور ہر دم مسکرانے والی لڑکی ہے۔
" کچھ نہی میرے موڈ کو کیا ہونا ہے۔" اسنے ریسپشن پہ سر ٹکا کر کہا۔
" اچھا۔۔۔ ویسے سر کا موڈ آج کیوں اتنا خراب ہے۔ خیر ویسے تو ہر وقت ہی انکا موڈ خراب رہتا ہے پر۔ آج کچھ زیادہ ہی خراب ہے۔ کہیں تمہیں بھی تو انہوں نے ہی بے عزت نہی کیا۔؟" ریسیپشنسٹ نے اندازہ لگایا۔
" نہی ۔۔۔ انہوں نے مجھے کچھ نہی کہا۔ بس میرا موڈ ایسے ہی خراب ہے۔" اسنے بیزاریت سے کہا۔
" کوئ پریشانی ہے۔ تو تم۔مجھ سے ڈسکس کر سکتی ہو۔" ریسیپشنسٹ نے پر خلوص مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر کہا۔
" اگر تمہیں بتاؤں تو۔۔۔ تم کسی کو بتاؤ گی تو نہی۔" ساوری نے ذرا اسکی طرف جھک کر پوچھا۔
" نہی تم مجھ پہ اعتبار کر سکتی ہو۔" ریسیپشنسٹ نے خوشدلی سے کہا۔
" وہ ۔۔۔ ناں یار۔۔۔ میری ناں ۔۔۔ شادی۔۔۔" اس سے آگے وہ کچھ بولتی۔ اپنے پیچھے حیدر کی کرخت آواز سن کر اچھلی تھی۔
" سر۔۔۔" ساوری کا رنگ اڑا تھا۔
ریسیپشنسٹ بھی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔
" میں نے آپکو یہاں کام سے بھیجا تھا۔ اور آپ گپے لڑانے کھڑی ہوگئیں۔ کب سے انتظار کر رہا ہوں میں۔ آپکا کہ آپ آئیں تو مجھے کچھ ڈیٹیل نکال کر دیں۔ داؤد اینڈ سنز کے بارے میں۔ پر آپ تو۔۔۔" وہ اسے اچھا خاصہ جھڑک چکا تھا۔ ریسیپشنسٹ نے نگاہیں چرائ۔
ساوری ایک نظر ریسیپشنسٹ کو دیکھ سہمے ہوئے انداز میں آفس کی سمت بھاگی تھی۔ حیدر مٹھیاں بھینچتا اسکے پیچھے گیا تھا۔ وہ آفس میں آکر بے آواز رونے لگی تھی۔
حیدر نے اندر آکر اسے بڑی بری نظروں سے دیکھا تھا۔
" کیا کرنے جا رہی تھیں تم۔" حیدر نے برہم ہوکر کہا۔
ساوری نے آنسوؤں سے بھری نگاہ اٹھا کر اسے ٹکا تھا۔
" وہ میری دوست ہے۔"
" پاگل ہوگئ ہو تم۔ اس آفس میں آئے تمہیں دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ جو تم نے اتنی پکی والی دوستیاں کر لی کہ تم اپنی اتنی پرسنل باتیں بتانے لگی۔" حیدر تو اسکی سادگی پہ عش عش کر اٹھا تھا۔
" میں اسے جانتی ہوں۔ وہ بہت اچھی ہے۔ جب بھی مجھ سے بات کرتی ہے مسکرا کر کرتی ہے۔ میں جب پہلی بار آئ تھی۔ تو آپ سے بھی پہلے اس سے ملی تھی۔" اسنے سوں سوں کرتے لہجہ میں کہا۔
" مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم اتنی بڑی الّو کی پھٹی ہو۔" حیدر نے افسوس سے کہا۔
" آپ ۔۔۔۔ آپ کو شرم نہی آتی کسی سے ایسے بات کرتے ہوئے۔" وہ مزید سسکی تھی۔
" نہی۔۔!! بلکل نہیں تم جیسی بیوقوف پلس پاگل لڑکی کو یہ سب کہتے ہوئے مجھے بلکل شرم نہی آرہی۔" حیدر نے تپ کر کہا۔
" میں بیوقوف نہی ہوں۔ نا ہی پاگل ہوں۔ بس میں اداس تھی۔ اور میں چاہتی تھی۔ کہ مجھے کوئ ملے جس سے میں اپنے دل کی باتیں شیئر کرسکوں۔" اسنے تڑپ کر کہا۔
" آج کے بعد جو بھی دل کی بات ہو مجھے بتانا۔ مجھے اپنا دوست سمجھ لو۔ اپنی ہر بات۔ دکھ ، خوشی ، غصہ ہر چیز مجھ سے آکر کہو۔ اس وقت تمہارا کسی اور کو دوست بنانا تمہیں اور مجھے مکمل طور پہ برباد کرسکتا ہے۔ مس ۔۔۔ ساوری۔" حیدر نے قدرے دھیمے لہجہ میں کہا۔
ساوری نے اسے ایک نظر تکا۔ اور منہ بنا کر دھیرے سے سر اثبات میں ہلا گئ۔ حیدر گہری سانس لیکر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" گھر چلیں۔۔۔؟" حیدر نے اسے فائلز سمیٹتے دیکھ پوچھا۔
" آپ جائیں۔ میں خود آجاؤں گی۔" اسنے سنجیدگی سے جواب دیا۔
" اچھا تم ایسا کرو آفس سے نکل کر تھوڑا آگے پیدل چل کر آؤ۔ میں تمہیں وہاں سے پک کرتا ہوں۔" حیدر نے کچھ سوچ کر کہا۔
ساوری کو اسکی پیشکش اتنی بھی بری نا لگی۔ اسنے دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا۔ ساوری حیدر سے پہلے نکلی اور حیدر اسکے کچھ دیر بعد نکلا۔ اور پھر اسکے لیے گاڑی کا دروازہ کھولا۔ وہ جھجکتی آکر بیتھی۔
دونوں سفر کے دوران خاموش رہے۔ گھر پہنچے تو ساوری اپنے روم میں گئ۔ اسکارف وغیرہ اتار کر دوپٹہ اچھے سے اپنے سر پہ لیتی وہ باہر آئ تھی۔ بھوک کا احساس شدید تھا۔ وہ کچن میں گھسی اپنے اور حیدر کے لیئے کھانا بنا رہی تھی۔ جب حیدر اپنے کمرے سے نکل کر کچن میں ہی آیا۔ سفید دوپٹہ کے ہالے میں وہ لگی کھانا بنا رہی تھی۔
" تم نے کیوں زحمت کی۔ میں بنا لیتا کھانا۔" حیدر نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر سلیب پہ رکھی۔
" کوئ بات نہی۔" ساوری نے پیاز کاٹتے کہا۔ پیاز بہت تیز تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
ساوری نے سو سوں کرتے جواب دیا۔ حیدر اسکی حالت دیکھ مسکرایا تھا۔
" روتے ہوئے کافی ڈھنگ کی لگتی ہو۔" حیدر کی بات پہ وہ تپ کر مڑی تھی۔
" کیا مطلب ہے آپکا میں باقی وقت اچھی نہیں لگتی۔"
" میں نے ایسا تو نہی کہا۔" حیدر نے کندھے اچکائے۔
" سب سمجھ میں آتی ہے۔ مجھے آپ نے تو سچ میں ہی بےوقوف سمجھ لیا ہے مجھے۔" وہ چھری پٹخ کر مڑی تھی۔
" پر میں نے تمہیں بیوقوف نہی کہا۔ مطلب کم از کم ابھی نہی کہا۔" وہ اسکے بگڑے تیور دیکھ رسانیت سے گویا ہوا۔
" ابھی نہی کہا تو کیا ہوا۔ آپ نے مجھے آفس میں پاگل ، بےوقوف کم عقل اور نجانے کیا ، کیا کہا۔" وہ سرخ چہرہ لیئے خفگی سے گویا ہوئ۔
" کیونکہ تم نے حرکت ہی ایسی کی تھی۔" حیدر نے لاچار لہجہ میں کہا۔
" ایسی بھی کوئ غلط حرکت نہی کی تھی میں نے۔" اسکے لہجہ سے اب بھی خفگی واضح تھی۔ وہ حیدر کی جانب سے رخ موڑ کر دوبارہ چھری اٹھا کر پیاز کاٹنے لگی تھی۔
" میں نے تم سے کہا تو۔ جو بھی دل کی بات ہو مجھ سے شیئر کر لیا کرو۔" حیدر نے پانی کا گلاس اٹھا کر بوتل سے پانی گلاس میں انڈیلا۔
" میں کیوں کروں آپ سے کوئ بات۔ مجھے آپ پہ بھروسہ نہی۔" حیدر ایک جھٹکے سے واپس اسکی جانب مڑا تھا۔
" اوہ مائے گاڈ ۔۔۔ تمہیں مجھ پہ بھروسہ نہیں پر ریسیپشنسٹ پہ ہے۔" اسکا صدمہ سے برا حال تھا۔
" ہاں ہے۔ کیونکہ جب میں دفتر میں آئ تھی۔ سب سے پہلا انٹریکشن میرا اسی سے ہوا تھا۔" ساوری نے اترا کر کہا۔
" یو آر جسٹ امپاسبل۔۔۔!!۔" حیدر نے اسے گھورا تھا۔
وہ اسے نظر انداز کرتی کھانا بنانے میں جت گئ تھی۔ حیدر نفی میں سر ہلاتا کچن سے باہر نکل گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
شعلہ اپنے گھر سے عالم ولا آگئ تھی۔ کمرے میں آکر وہ ابھی واشروم میں گھسی تھی۔ باتھ ٹب میں پانی بھر کر لیکوڈ سوپس ڈال کر ٹب میں جاکر لیٹی تھی۔ بنا اپنے زخم کی پرواہ کیئے۔
اسکی آنکھیں بند تھیں۔ زخم والا ہاتھ بھی پانی میں تقریبا ڈوبا ہوا تھا۔ میر عالم جو کمرے میں آئے تھے۔ وہ اچانک سے آئے تھے۔ پورے کمرے میں نگاہ دوڑائ پر وہ کہیں بھی نہیں تھی۔
انہیں لگا شاید وہ ابھی تک واپس نہی آئ۔ وہ بوجھل وجود لیئے اپنا باتھ روب لیتے واش روم میں گھسے تھے۔ پر سامنے نظر پڑتے ہی ٹھٹکے تھے۔ اسکے ہاتھ سے خون رس رہا تھا۔ اور وہ باتھ ٹب میں آنکھیں موندے پڑی تھی۔ میر عالم خاموشی سے اسکی جانب آئے تھے۔ دھیرے سے ٹب کی سمت جاتی دو سٹئیرز پہ انہوں نے اپنا ایک گھٹنا موڑا تھا۔ اور جھک کر غور سے اسکے زخم کو دیکھنے لگے تھے۔ شعلہ نے اپنے کندھے کے اوپر کسی کی گرم سانسوں کو محسوس کیا تو جھٹ سے آنکھیں کھولیں۔ پر سامنے میر عالم اور اپنی پوزیشن کو دیکھ چلائ تھی۔ اپنے ہاتھ اندر جھاگ میں گھسیڑ کر وہ مکمل طور پر خود کو باتھ ٹب میں بنی جھاگ میں ڈھانپنے لگی تھی۔
" آپ کو تمیز نہی ہے۔ کیا آپکو اتنا بھی نہی پتہ کے نہاتے ہوئے انسان کو ڈسٹرب نہی کرتے اور آپ تو پورے کے پورے ماشااللہ سے میرے سر پہ براجمان ہیں۔" وہ اسے گھور کر کںفیوز سی جو اسکے منہ میں آیا کہتی چلی گئ۔
" ہاتھ کو کیا ہوا ہے۔؟" انہوں نے اسکی تمام بکواس اور اپنی اور اسکی پوزیشن کو نظر انداز کرتے کہا۔
" بھاڑ میں جائے میرا ہاتھ ، واشروم سے باہر نکلو نہی تو میں تمہاری جان لے لوں گی۔" اسکا چہرہ غصہ کی زیادتی اور کچھ حیا سے سرخ پڑ گیا تھا۔
" بکواس بند کرو اور مجھے بتاؤ۔ تمہارے ہاتھ پہ گولی کیسے لگی۔" وہ سرد نظروں سے اسے گھورتے گویا ہوئے۔
" مجھے نہی پتہ۔" وہ چڑ کر بولی۔
عالم نے اسکے جواب پہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔ اور اسکا بازو تھامنے کے لیئے ہاتھ جیسے ہی باتھ ٹب میں ڈالا۔ شعلہ شدت سے چلانے لگی تھی۔ کیونکہ اسکا بازو تھامنے کے چکر میں اسکا ہاتھ جہاں پڑا تھا۔ میر عالم خود بھی خجل ہوتا پیچھے ہٹا تھا۔ اور شعلہ تو جوالہ مکھی بن گئ تھی۔
" تم ۔۔۔۔ ٹھرکی بڈھے۔ جان لے لوں گی تمہاری۔" وہ عالم کو تکتی غرائ تھی۔
" س۔۔ سوری ۔۔ دیکھو میرے اٹینشن وہ نہی تھے۔ تو تم مجھے ٹھرکی نہی کہہ سکتی۔" عالم کچھ شرمندہ ہوئے۔
" باتھ روب دو۔" وہ دبے دبے لہجہ میں حکم صادر کرتی گویا ہوئ۔
" ہ۔۔ ہاں۔۔ یہ ۔۔ ایک منٹ۔۔ لو۔" انہوں نے پیچھے رکھا باتھ روب اٹھا کر اسے تھمایا۔
" اب دفعہ ہوجاؤ باہر۔" وہ اسے اسٹل وہاں کھڑا دیکھ کر چلائ تھی۔
" اوکے جا رہا ہوں۔ ایک غلطی ہوگئ مجھ سے۔ اسکا مطلب یہ نہی کے تم مجھ پہ شیر بنو۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوا۔
" کیوں نا بنوں شیر۔" وہ اسکی پشت پہ چلائ تھی۔ میر عالم پیر پٹختے باہر بیڈ پہ آکر بیٹھے تھے۔ کچھ لمحے بعد شعلہ باتھ روب پہن کر باہر نکلی تو میر عالم نے اسے ایک نظر دیکھا۔ اور لپک کر اسکی جانب بڑھا تھا۔
" ہاتھ پہ گولی کیسے لگی۔" اسنے فکر مندی سے پوچھا۔
" میں نے کہا تو ہے۔ کہ مجھے نہی پتہ۔" وہ آنکھیں گھما کر اسکی سائڈ سے نکل کر گئ تھی۔
میر عالم بیتاب سا اسکے پیچھے ہو لیا تھا۔
" ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ کہ تمہیں گولی لگی ہے اور تمہیں خبر نہی۔" وہ اسے بازو سے تھام کر ایک جھٹکے سے موڑتا اسے اپنے سینے سے لگا گیا تھا۔
" آہ۔۔ آرام سے نہی پکڑ سکتے تھے بازو درد ہے۔ مجھے۔" اسنے آنکھوں میں آنسو لا کر کہا۔
" زیادہ ڈرامے بازیاں کرنے کی ضرورت نہی ہے۔ گولی باہنے کندھے پہ لگی ہے۔ اور تکلیف داہنا کندھا پکڑنے سے ہورہی ہے۔ حیرت کی بات ہے۔" میر عالم نے اسے آنکھیں دکھائ۔
" ہاں تو ۔۔۔ اکثر درد گھومتے ، گھومتے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں کنورٹ ہو جاتا ہے۔" وہ کھسیا کر گویا ہوئ۔
" بہت ہی بڑی ڈرامہ باز ہو۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوا۔
" اب اگر تمہاری اجازت ہو تو میں اپنے کپڑے تبدیل کر لوں۔؟" اسنے آنکھیں مٹکا کر کہا۔
" پہلے تم مجھے بتاؤ تمہیں گولی کیسے لگی۔؟؟" انکا سوال اب بھی وہی تھا۔
" ایک جگہ ریڈ پڑی تھی۔ اور میں وہاں سے پولیس کی پہنچ سے دور بھاگ رہی تھی۔ جب ایک سپاہی نے میرے کندھے پہ گولی چلا دی۔بس۔۔۔ یا اور کچھ بھی جاننا ہے تمہیں۔۔" اسنے چڑے ہوئے لہجہ میں کہا۔ اور ڈریسنگ روم میں بند ہوگئ تھی۔ عالم حیرت سے منہ کھولے کھڑے رہ گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
" کھانا بن گیا ہے۔ کھانا کھانے آجائیں۔" ساوری نے حیدر کے کمرے کا دروازہ بجا کر کہا۔
وہ واپس آئ اور ڈائینگ ٹیبل پہ بیٹھی۔ تو حیدر بھی اسکے پیچھے پیچھے ہی تھا۔ ساوری نے اسے ایک نظر دیکھا تو حیدر کا موڈ پہلے کے مقابلے میں اچھا خاصہ خراب تھا۔ ماتھے پہ شکنوں کا جال پڑا تھا۔
ساوری خاموشی سے کھانا کھا رہی تھی۔ اور حیدر بھی جب وہ دونوں کھانا کھا کر فارغ ہوئے تو حیدر نے سنجیدگی سے اسے مخاطب کیا۔
" ساوری کھانا کھا کر میرے روم میں آجاؤ۔" حیدر کی سنجیدہ سی آواز سن کر اسکے حلق میں نوالہ اٹکا تھا۔
" ک۔۔ کیوں۔؟" اسنے اٹک اٹک کر پوچھا۔
" کمرے میں آجاؤ۔ کیوں کا جواب مل جائے گا۔" حیدر نے گرج کر کہا۔ اور آٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ساوری نے کپکپاتے ہاتھوں سمیت سب کچھ سمیٹا۔ اور اپنے من من کے ہوتے قدم لیکر حیدر کے کمرے کے پاس آئ تھی۔
دروازہ بجاتے بجاتے اسکے ہاتھ رک جاتے۔ اس سے پہلے کے وہ دروازہ بجاتی حیدر نے دروازہ کھول دیا تھا۔ وہ اچھل کر دو قدم پیچھے ہوئ تھی۔ حیدر نے اسے بازو سے تھام کر اندر کھینچا تھا۔ ساوری اس سے ٹکراتی ٹکراتی بچی تھی۔
" آپ۔۔ ک۔۔کو ۔۔ کیا ۔۔۔ کام ۔۔تھا۔؟" اسنے سہمے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔
" اس کنٹریکٹ کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔" حیدر نے کہتے ساتھ اسے اپنی گرفت میں لیا تھا۔ ساوری پوری شدت سے مچلی تھی۔
" آپ ۔۔۔ آپ۔۔ نے کہا تھا۔ آپ تیار نہیں ابھی اس سب کے لیئے۔" وہ پوری شدت سے اسکی قربت میں کانپی تھی۔
" میرے یا تمہارے تیار ہونے سے کوئ فرق نہی پڑتا۔ یہ ایک سودا ہے اور سودا ہمیشہ اسی کی مرضی سے سر انجام پاتا ہے۔ جو اسکی قیمت لگاتا ہے۔" حیدر نے سرد لہجہ میں کہا۔ اور دھیرے سے اسکے چہرے پہ جھکا تھا۔ ساوری کی سانسیں اتھل پتھل ہوتی تھمیں تھیں۔
ساوری نے آنکھیں مینچ کر حیدر کی سفید شرٹ کے کالز کو مضبوطی سے اپنی نازک ہتھیلیوں میں جکڑا تھا۔ وہ اسکی سانسوں کو پیتا۔ اسکے سر پہ پڑا آنچل اتار کر سائڈ پہ رکھتا۔ اسے لیئے بیڈ پہ آیا تھا۔ ساوری کی آنکھیں مضبوطی سے بند تھیں۔ حیدر نے اسے پہلی بار دوپٹہ کے بغیر دیکھا تھا۔ اسکے لمبے سیاہ بال۔ اسکی حسین آنکھیں۔ اسکی چھوٹی سی سرخ ناک ، اور نازک سے لب۔ وہ بلاشبہ حسن کا پیکر تھی۔
پر انکا رشتہ بہت عجیب تھا۔ تعلق بنانے کی تو اجازت تھی۔ پر دل لگانے کی نہی۔ قربت کے لمحے گزارنے کی تو اجازت تھی۔ مگر محبت کرنے کی نہیں۔ حیدر گہری سانس لیتا اسکی گردن پہ جھکا تھا۔ جابجا اپنا پر شدت لمس چھوڑتا۔ وہ اسے جی جان سے کانپنے پہ مجبور کر گیا تھا۔
دھیرے دھیرے اسکے جسم کی رعنائیوں میں گم ہوتا وہ مزید بہکنے لگا تھا۔ اسکی کرتی کی زپ پیچھے سے کھولتا وہ اسے کروٹ کے بل لٹاتا اپنے دہکتے لب اسکی پشت پہ دھرنے لگا تھا۔ وہ مچلتی بیڈ شیٹ کو اپنی مٹھیوں میں جکڑ گئ تھی۔ حیدر نے اسے سیدھا کرکے لٹایا۔ اسکی کمیز اسکے کندھوں پہ سے سرکاتے وہ اپنے لب اسکے کندھوں پہ رکھتا۔ مزید مدہوش ہونے لگا تھا۔
ساوری کی بند آنکھوں سے آنسو گرنے لگے تھے۔ حیدر نے دھیرے سے اسکی پلکوں کی باڑ پہ سے آنسو چنے تھے۔
ساوری نے اسے ذرا سا نرم پڑتے دیکھ۔ مچل کر اس سے دور ہونا چاہا۔ پر ناکام رہی۔ حیدر نے اسے اپنی مضبوط گرفت میں جکڑا تھا۔ اسکے دونوں ہاتھ اوپر اپنی مضبوط گرفت میں باندھتے حیدر نے اسے اپنی قید میں جکڑا تھا۔ تکلیف کی شدت سے وہ سسک کر مچلی تھی۔ پر حیدر نے اسے اپنی گرفت سے آزاد نا کیا۔ وہ اسکی اور اپنی جان ایک کرتا۔ اسے اپنی بانہوں میں ہی قید کرتا سو گیا تھا۔ ساوری بھی نڈھال سی ہوتی آنکھیں موند گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی اپنے کمرے میں بیٹھا۔ اندھیرے کو گھور رہا تھا۔ کئ لمحے وہ یوں ہی بیٹھا رہا۔ اور کچھ سوچ کر اپنی جیب سے موبائل نکال کر نازنین کا نمبر ملایا۔
چند بیلیں جانے کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔
" فون کیوں کیا ہے۔؟" دوسری جانب سے بیزار سی آواز آئ۔
" ہنہہ ۔۔۔ تمہارا عاشق آیا تھا۔" مصطفی کی سرد آواز سن کر نازنین کے چہرے پہ پسینہ آیا تھا۔
" کیا کہہ رہے ہو تم۔ مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی۔" اسنے تھوک نگل کر انجان بننا ہی بہتر سمجھا۔
" عیسی۔۔۔۔ جانتی تو ہوگی۔ جس سے رات کی تنہائی میں طویل ملاقاتیں کیا کرتی ہو۔۔ تم۔" مصطفی نے زہر خند لہجہ میں کہا۔
مصطفی کی بات پہ ایک پل کو نازنین کا چہرہ زرد پڑا۔
" مجھے نہی پتہ تم کیا فضول بکواس کر رہے ہو۔" اسنے ہمت کرکے مضبوط لہجہ میں کہا۔
" اچھا۔۔۔۔" مصطفی نے اچھا کو طویل کھینچا۔
" اس شخص کو کیسے بھول سکتی ہو تم۔ نازنین۔۔ جو آدھی رات کو تمہارے کمرے کی کھڑکی سے کود کر۔تمہارے کمرے میں آتا ہے۔" مصطفی کا لہجہ پور پور زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔
" ت۔۔ تمہیں۔۔۔ کیسے پتہ۔۔ عیسی کے بارے میں۔۔۔؟" اسکے حلق سے گھٹی ہوئ سی آواز بر آمد ہوئ۔
" ہنہ۔۔۔ بےوقوف تو نہی ہوں میں۔ روز رات کو کوئ میرے کمرے کی بالکنی میں کود کر تمہاری کھڑکی سے۔ تم۔سے ملاقاتیں کرنے آئے اور مجھے خبر نا ہو۔" وہ چلتا ہوا اب کھڑکی کے پاس آکھڑا ہوا تھا۔
" مصطفی۔۔۔ پلیز۔۔ دیکھو یہ سب بھائ کو مت بتانا۔" نازنین نے منت کی۔
" اگر میں نا بتاؤں ۔۔۔ تو اس میں میرا کیا فائدہ۔؟" مصطفی سرد لہجہ میں مستفسر ہوا۔
نازنین نے پریشانی سے اپنے ماتھے کو چھوا تھا۔
" تم۔۔ جو کہو گے میں وہ کروں گی۔" اسنے بے چینی سے کہا۔
" ٹھیک ہے۔۔۔ پھر گھر واپس آجاؤ۔" اسکا سرد بے گانگی سے بھرا لہجہ۔ نازنین کے رونگٹے کھڑے کر گیا تھا۔
" ۔۔ میں۔۔۔ واپس۔۔۔ نہی آسکتی۔" اسنے اٹک اٹک کر کہا۔
" ٹھیک ہے۔ پھر میں۔ سر کو جا کر بتا دیتا ہوں۔ کہ۔۔۔تم۔۔" اسکے الفاظ نازنین کے اوسان خطا کر گئے تھے۔
" نہیں۔۔۔ پلیز ایسا مت کرنا ۔۔۔ بھائ مجھ پہ بہت بھروسہ کرتے ہیں۔ انکا اعتبار ٹوٹ جائے گا۔" اسکی بے چین سی آواز جب مصطفی کی سماعتوں سے ٹکرائ تو مصطفی کے لبوں پہ ایک زخمی سی مسکراہٹ کوندی تھی۔
" بھروسہ تو وہ مجھ پہ بھی بہت کرتے تھے۔ پر تم۔۔۔ نے سب کچھ برباد کر دیا۔" اسکی سرسراتی آواز نازنین کی جان ہوا کر گئ تھی۔
" میں۔۔۔ آجاؤں گی پر۔۔۔ تمہیں ایک۔۔ معاہدہ کرنا پڑے گا۔" اسنے کچھ سوچ کر ہامی بھری۔
" کیسا معاہدہ۔؟" مصطفی دیوار پہ ایک ہاتھ دھرتا۔ کھڑکی کی جانب جھکا تھا۔
" تم مجھ سے دور رہو گے۔ مجھے نا مینٹلی نا ۔۔۔ نا ہی فزکلی تکلیف دوگے۔" اسکے لہجہ سے واضح خوف ٹپک رہا تھا۔
مصطفی کے چہرہ پہ ایک پل میں پہاڑوں سی سختی آئ تھی۔
" جب وہ عیسی فزکلی ہرٹ کرتا ہے۔۔ تب کوئ مسئلہ نہی ہوتا۔؟" وہ اسکی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ گیا تھا۔ اسی لیئے زہر خند لہجہ میں کہتا۔ اسے چلانے پہ مجبور کر گیا تھا۔
" زبان سنمبھال کر بات کرو مصطفی۔۔" وہ تڑپی تھی۔
" زبان سنمبھال کر ہی بات کر رہا ہوں۔ خیر مجھے تمہارا معاہدہ منظور ہے۔ گھر آجاؤ واپس۔" وہ سرد لہجہ میں کہتا کال کاٹ چکا تھا۔ اور نازنین غصہ سے پاگل ہوتی اپنا موبائل بیڈ پہ اچھال گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
شعلہ چینج کرکے جیسے ہی ڈریسنگ روم سے بر آمد ہوئ۔ عالم نے لپک کر اسے کلائ سے تھاما تھا۔ اور اسے کھینچتا ہوا بیڈ تک لایا تھا۔ اسے بیڈ پہ بٹھا کر خود اسکے قدموں میں بیٹھا تھا۔ شعلہ نے اسے اپنے قدموں میں بیٹھے دیکھا تو حیرت زدہ سی رہ گئ تھی۔
" پلیز مجھے بتاؤ تمہیں گولی کیسے لگی۔۔۔؟" بہت نرمی سے پوچھا گیا۔
" بتا تو دیا ہے۔" وہ جز بز ہوئ۔
" تم باز کیوں نہی آجاتی اپنی حرکتوں سے۔ جو تم چاہتی تھی۔ وہ سب تو تمہیں مل گیا ناں۔ نام شہرت دولت سب۔۔۔ اب یہ سب چھوڑ دو۔" وہ اسکے ہاتھ تھامتا منت کر رہا تھا۔
" مجھے اپنی زندگی سے کیا چاہیئے۔ مجھے خود نہی خبر۔ پر جو مجھے ابھی ملا ہے۔ کم از کم یہ تو میری منزل نہی۔ آپ میری منزل نہیں۔" اسنے اپنے ہاتھ اسکی گرفت سے نکالے تھے۔ عالم نے حیرت سے اسے تکا تھا۔
" جانتا ہوں۔ ہم دونوں ایک دوسرے کی منزل نہی ہیں۔ پر میں چاہتا ہوں تم جو کچھ کرتی ہو یہ سب چھوڑ دو۔ پلیز۔۔ اس سے میری ساکھ خراب ہوگی۔" وہ اسکے قدموں سے اٹھے تھے۔ شعلہ اسے سنجیدگی سے دیکھے جا رہی تھی۔
" آپ بے فکر رہیں میرے کسی عمل سے آپکی ساکھ پہ کوئ اثر نہی پڑے گا۔" اسکا لہجہ سرد تھا۔
" تم۔۔ سمجھ کیوں نہی رہی بات صرف میری ساکھ کی بھی نہی ہے۔" میر عالم نجانے اسے کیا سمجھانا چاہ رہے تھے۔
" میں سب سمجھ رہی ہوں۔" وہ بیڈ سے اٹھی تھی۔ میر عالم نے اسے بازو سے تھام کر بیڈ پہ بٹھایا تھا۔ اسکے سیاہ آستین پہ دھیرے سے ہاتھ پھیرا تو وہاں خون رس رہا تھا۔ میر عالم لب بھینچ کر رہ گئے۔ اسے چھوڑ کر وہ ڈریسنگ روم میں سے فرسٹ ایڈ باکس لائے تھے۔ فرسٹ ایڈ باکس کھول کر سب سے پہلے اس میں سے کھینچی نکالی۔
" یہ کیا کر رہے ہو۔؟" وہ اسکے ہاتھ میں کینچی دیکھ نا سمجھی سے مستفسر ہوئ۔
" خاموش نہی رہ سکتی تھوڑی دیر۔" انہوں نے اسے گھورا۔ اور کینچی اسکے کندھے کے پاس لے جاتے اسکے آستین کاٹ دیئے۔ وہ منہ کھول کر حیرت و صدمہ سے اسے دیکھ رہی تھی۔
" میری کمیز پھاڑ دی تم نے۔۔؟؟" وہ صدمہ کی کیفیت میں چلائ تھی۔
میر عالم نے جارہانہ نگاہیں اٹھا کر اسے تکا۔
" آستین۔۔۔ پھاڑا ہے۔ نا کہ کمیز۔۔" انہوں نے اسے کمیز اور آستین کے درمیان فرق بخوبی باور کرایا۔
" واٹ ایور۔۔۔" وہ ناک بھوں چڑھا کر گویا ہوئ۔
میر عالم بغور اسکے زخم کا معائنہ کرنے لگے۔ کاٹن نکال کر اسکے زخم پہ سے خون صاف کیا۔ خون صاف ہوتے ہی اسکے زخم کی گہرائی واضح ہوئ تھی۔ عالم نے اسے اوپر دیکھ کر اسکے گال سہلائے۔
" ڈونٹ۔۔۔ وری۔۔۔ ٹھیک ہوجائے گا یہ۔" میر عالم کے محبت سے مزین لفظ شعلہ کے جلتے دل پہ کسی ٹھنڈی پھوار کی مانند پڑے تھے۔
وہ اسے یک ٹک تکے جا رہی تھی۔ وہ اسکے زخم پہ دوا لگاتے پھونک مار رہے تھے۔
" درد ہو رہا ہوگا ناں۔۔!!" اسکا لہجہ فکر مندی سے مزین تھا۔
" نہی مجھے درد نہی ہوتا۔" وہ لاپرواہی سے گویا ہوئ۔
" ہاں تم۔تو سپر وومن ہو ناں۔۔۔!!" میر عالم نے اسے گھورا۔
" سپر وومن نہی ہوں۔ تو اس سے کم بھی نہی۔۔۔" وہ خفا ہوئ۔
میر عالم نے بینڈیج لپیٹتے سر نفی میں ہلایا۔ اور افسوس بھری ایک نگاہ اسکے چہرے پہ ڈالی۔
بینڈیج باندھ کر میر عالم نے فرسٹ ایڈ باکس سے درد کی گولیاں نکال کر اسکے ہاتھ میں تھمائیں۔ اور گلاس میں پانی بھر کر اسے دیتا اسکے برابر میں آکر بیٹھا تھا۔ شعلہ نے گولیاں نگل کر اسے تکا۔ میر عالم نے اس سے گلاس لے کر سائڈ پہ رکھا۔ بےساختگی کے عالم میں میر عالم اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا لمس چھوڑ کر پیچھے ہوئے تھے۔
شعلہ نے دھڑکنے دل کے ساتھ انکو دیکھا۔
" کھانا کھایا۔۔۔ ہے تم نے۔؟" وہ اسکی پشت پہ تکیہ رکھتا۔ اسے لٹاتے ہوئے مستفسر ہوا۔
" ہاں۔۔" وہ اسے بے خودی کے عالم میں یک ٹک تکتی دھیرے سے گویا ہوئ۔
" اوکے ۔۔۔ ریسٹ کرو۔" وہ گہری سانس لیکر اسے آرام کرنے کی ہدایت دیتے دوسری جانب آکر لیٹے تھے۔ پر تکیوں کی باڑ لگانا وہ آج بھی نہی بھولے تھے۔ وہ اب بھی میر عالم کو ویسے ہی مسلسل تکے جا رہی تھی۔
☆☆☆☆☆
سورج کی روشنی چھن کر آتی۔ ان دونوں کے چہرے پہ پڑ رہی تھی۔ ساوری نے سورج کی کرنوں سے خود کو چھپانے کے لیئے۔ حیدر کی آغوش میں پناہ لی۔ حیدر کا حصار جو ساوری کے گرد مضبوطی سے بندھا تھا۔ وہ مزید سخت ہوا تھا۔ حیدر کی آنکھ کھلی تو وہ کئ لمحے ویسے ہی پڑا رہا۔ دھیرے دھیرے حواس کام کرنے لگے۔ تو رات کا ایک ایک منظر اسکی آنکھوں کے پردے پہ دوڑ گیا۔ حیدر نے ساوری کو ایک نظر تکا۔ جو اسکی آغوش میں چھپی دنیا وما فیہا سے بیگانی پڑی تھی۔ حیدر نے دیوار پہ نصب گھڑی میں وقت دیکھا۔ تو صبح کے نو بج رہے تھے۔ حیدر نے ساوری کا بازو ہلایا۔
" ساوری اٹھو ہم آفس کے لیئے بہت لیٹ ہوچکے ہیں۔" حیدر کی آواز اسکے کانوں میں پڑی تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھی۔ اور کمبل کو اپنے ارد گرد لپیٹا۔ حیدر بیڈ سے اٹھتا اسکی حرکت نظر انداز کرگیا تھا۔ ساوری نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر نگاہیں چرا گئ۔ وہ شرٹ لیس تھا۔ ساوری نے اسے دیکھنے سے احتراظ برتا۔
" جلدی اٹھ جاؤ کافی لیٹ ہوچکے ہیں ہم۔" وہ اسکے کپڑے اسکے قریب رکھتا اٹھ کر واشروم میں بند ہوگیا تھا۔ وہ گہری سانس لیتی اپنے کپڑے جھپٹتی چینج کرکے اپنے کمرے کیطرف بھاگی تھی۔ دونوں نہائے دھوئے تیار ہوکر باہر آئے تو۔ ساوری سر پہ حجاب باندھے۔ رائیل بلو کلر کا سوٹ پہنے تیار کھڑی تھی۔ لاؤنج کے ٹیبل پہ ایک کپ کافی رکھی تھی۔ اور بڑی خوبصورتی اور نفاست سے کٹے ابلے ہوئے انڈے رکھے تھے۔ حیدر نے ورسٹ واچ میں ٹائم دیکھا اور کافی پینے لگا۔ ساوری اپنا بیگ لیکر نکلنے لگی تھی۔ جب حیدر کی بات پہ وہ رکی تھی۔
" اکیلے نہی جاؤ گی جیسے کل آئے تھے۔ آج ویسے ہی آفس جائیں گے۔"
وہ تھوک نگل کر سر ہلاتی صوفہ پہ بیٹھی تھی۔ حیدر کافی پیتے یا ابلے ہوئے انڈے کھاتے اسے ایک نظر دیکھ لیتا۔ پر وہ اسے نا دیکھنے کی قسم کھائے۔ کبھی اپنے ہاتھوں کو تکتی۔ تو کبھی دامن پہ بنے بیل بوٹوں کو۔ اور کبھی اپنے پرس پہ لگی کی چین سے کھیلنے لگتی۔
" آج کا شیڈول بتا دو ابھی سے۔ ویسے ہی کافی لیٹ ہوچکے ہیں۔" حیدر نے کافی کا گھونٹ بھرتے کہا۔ شاید وہ اس بے تکی خاموشی کو ختم کرنا چاہتا تھا۔
" ۔۔ وہ۔۔۔ میں نے تو۔۔۔ بنایا ہی نہی۔" وہ اڑی رنگت لیئے گویا ہوئ۔
" کیوں۔۔۔؟" حیدر کے ماتھے پہ بل آئے تھے۔
" ۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔ رات۔۔۔ میں۔۔ بناتی۔۔ ہوں۔۔۔ تو وقت ۔۔ نہی ملا۔" یہ بات کہتے ہوئے ساوری کو باقائدہ اپنا دل کانوں میں ڈھول کی مانند بجتا محسوس ہوا۔
" واٹ نانسینس۔۔۔ ایسا کیا کر لیا تم نے ساری رات جو تمہیں شیڈول بنانے کا ٹائم نہی ملا۔۔" وہ مصنوئ طور پہ بھڑکا تھا۔
" میں۔۔۔۔۔" وہ آنکھوں میں آنسو لیئے جز بز ہوئ۔
" کیا۔۔ میں۔۔۔ چلو اٹھو گاڑی میں بتاؤ۔۔ مجھے دیر ہورہی ہے۔" وہ اسے اٹھنے کا اشارہ کرتا سرد لہجہ میں گویا ہوا۔
ساوری کسی روبوٹ کی مانند جھٹ اٹھی۔ اور دروازے کی جانب مڑی تھی۔ جب حیدر نفی میں سر ہلاتا۔ اسکے پیچھے ہو لیا تھا۔ ساوری اور حیدر لفٹ کا بٹن دبا کر اندر گئے تھے۔ ساوری حیدر سے ذرا فاصلے پہ کھڑی ہوئ۔ حیدر نے اسے دیکھا۔ ساوری کی نگاہیں جھکی ہوئ تھیں۔ چہرہ پہ ہلکا ہلکا گلال چھلک رہا تھا۔ اپنے گلابی لب وہ بے دردی سے کچل رہی تھی۔ حیدر کو اسکے اس عمل سے الجھن ہوئ۔ وہ ناگواری سے سے رخ موڑ کر رہ گیا۔ پر جب دوبارہ نگاہیں اسکی سمت بھٹکی تو وہ تب بھی اپنے عمل سے باز نہیں آئ تھی۔ حیدر نے اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کیا تھا۔ ساوری اسکی پیش رفت پہ بوکھلائ تھی۔ حیدر نے اسکے شاداب مکھڑے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا۔ اور اسکی لرزتی پلکوں سے بھٹکتا اسکے گلابی بھیگے لبوں پہ آکر رکا تھا۔ دھیرے سے اسکے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوتا وہ اسکے چہرے کو مزید سرخ کر گیا تھا۔ حیدر نے اسکے لبوں پہ ہلکا سا لمس چھوڑ کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا تو وہ بے جان سی ہوتی پیچھے سہارا ڈھونڈنے لگی تھی۔ حیدر نے آگے بڑھ کر اسکے کندھوں کے گرد بازو لپیٹے تھے۔
ساوری کا پورا وجود ہولے ہولے لرزنے لگا تھا۔ وہ بے حال سی ہوتی اسکی گرفت میں کھڑی رہی۔ اگر اس وقت وہ اسکا حصار توڑ کر دور ہونے کی کوشش کرتی تو سیدھا زمین بوس ہوتی۔
حیدر اسے دفتر سے دور اتار کر خود سیدھا دفتر آیا تھا۔ وہ جیسے ہی اپنے آفس میں گھسا۔ سامنے اسکا دوست اسفندیار بیٹھا تھا۔
" تم کب آئے ۔۔۔؟" حیدر نے اسکے کندھے پہ مکا جڑ کے پوچھا۔
" ابھی بس تم سے تھوڑی دیر پہلے۔۔" اسفند نے مسکرا کر جوابا اسکے کندھے پہ مکا جڑا۔
" میں ترکی سے واپسی کا پوچھ رہا ہوں۔۔۔؟؟" حیدر نے اسے گھورا۔
" ہاں وہاں سے تو کب کا واپس آچکا ہوں۔ پر کچھ مصروفیت تھی۔ اس وجہ سے تمہارے پاس نہی آسکا۔" اسفند نے ریلیکس ہوکر بیٹھتے جواب دیا۔
" ایسی کونسی مصروفیت تھی تمہیں۔" حیدر نے تفتیشی انداز میں اسے تکا۔
" بس ہے ایک مصروفیت۔" وہ قہقہ لگا کر گویا ہوا۔
" تھی۔۔ بھی نہی۔۔ ہے۔۔۔!!" حیدر نے اچھنبے سے کہا۔
" ہاں اچھا چل چھوڑ تو اپنی بتا۔ اس دن کال پہ تو کچھ کانٹریکٹ میرج کا بتا رہا تھا۔" اسفند نے اپنی بات رفع دفع کی۔
" ہاں۔۔۔ کر لی میں نے کنٹریکٹ میرج۔۔۔" حیدر نے اپنا کوٹ اتار کر پیچھے ہینگ کیا۔
" سچ ۔۔۔۔!! کس سے کی۔۔۔؟" اسکا اشتیاق سے برا حال تھا۔
" ملواتا ہوں تھوڑی دیر صبر کرو۔۔۔" حیدر نے نرمی سے کہا۔
اس سے پہلے کہ اسفندیار کوئ اور سوال کرتا وہ آفس کا دروازہ کھول کر سہمی سہمی اندر آئ تھی۔ اسفند نے ایک نظر حیدر اور پھر ساوری کو اشتیاق سے تکا تھا۔ ساوری کسی اور کو آفس میں دیکھ سکون کا سانس لیتی اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔ اور اپنے بیگ سے جلدی جلدی پلینر نکال کر اسپہ پین گھسیٹنے لگی تھی۔ اسفند نے حیدر کو تکا۔ جو آنکھوں میں نرم گرم سے تاثرات لیئے اسے تک رہا تھا۔ اسفند نے حیدر کو دیکھ کر بھنوئیں آچکائ تھیں۔
" اوئے ۔۔۔ مجنوں۔۔ یہی ہے وہ۔۔؟" اسفند نے اسکی آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرا کر کہا۔
حیدر نے سر دھیرے سے اثبات میں ہلایا۔
" یہ مان کیسے گئ کنٹریکٹ میرج کے لیئے۔۔؟"اسفند نے ساوری کو بغور دیکھ کر پوچھا۔
" یہ ایک لمبا قصہ ہے۔" حیدر نے پیپر وڈ گھما کر بتایا۔
" اوکے۔۔۔" اسفند نے سمجھنے والے انداز میں کہا۔
" ساوری۔۔۔" حیدر نے اسے مخاطب کیا تو ساوری نے بوکھلا کر اسے تکا۔
" جی۔۔۔!!" اسکی سہمی سی آواز برآمد ہوئ۔
" یہ میرا دوست اسفند ہے۔ اور یہ میری وائف ساوری۔۔" حیدر نے ساوری کو اسفند سے متعارف کروایا۔ اور اسفند کو ساوری سے۔ اسکے میری وائف کہنے پہ ساوری نے رخ واپس اپنے کام کی جانب مبذول کر لیا۔ نا ہی اسفند کو سلام کیا۔ نا ہی مزید کوئ بات۔ حیدر سر کو نفی میں جنبش دے کر رہ گیا تھا۔
" یہ تو در فشاں سے بھی زیادہ جلالی طبیعت کی مالک ہے۔" اسفند نے برا منا کر کہا۔
" ایسا کچھ نہی۔" حیدر اسکی بات پہ ہنسا تھا۔
" ساوری ۔۔ دو کپ کافی۔۔" حیدر نے سنجیدگی سے اسے حکم صادر کیا۔ ساوری دھیرے سے سر ہلاتی کافی بنانے چلی گئ۔ کچھ دیر بعد کافی لیکر آئ۔ اور ان دونوں کو سرو کی۔ اور اپنی جگہ پہ جاکر بیٹھ گئ۔ اسفندیار کافی دیر بیٹھا حیدر سے باتیں کرتا رہا اور پھر تقریبا دو گھنٹے بعد آٹھ کر چلا گیا۔ تب تک ساوری اپنا کام بھی ختم کرچکی تھی۔ اور شکر کا سانس لیتی حیدر کے پاس پلینر لیکر آئ تھی۔
" آج کا شیڈول۔۔۔ " ساوری نے بڑے کانفیڈینس سے کہا۔
" بتائیے۔۔!" حیدر نے بغور اسے تکتے کہا۔
ساوری جو پڑھنے ہی لگی تھی۔ اسکو خود کو تکتا پاکر رکی تھی۔
" آپ۔۔ پلیز ایسے مت دیکھیں۔" اسنے الجھے ہوئے انداز میں کہا۔
" پھر کیسے دیکھوں۔۔؟؟" حیدر نے بھنوئیں آچکا کر استفسار کیا۔
" آپ ادھر ادھر دیکھ لیں۔ پر یوں مجھے نا دیکھیں۔" حیدر نے اسکی بات پہ اشتیاق سے اسے تکا تھا۔ اور پھر سر ہلاتا پیپر وڈ گھمانے لگا تھا۔ اور اپنی توجہ بھی اسی جانب مبذول کر لی تھی۔
وہ دھیرے دھیرے اسے تمام میٹینگز کے حوالے سے اسے آگاہ کرنے لگی تھی۔
" بس۔۔۔ آج ۔۔ کے لیئے اتنا ہی۔" ساوری نے پلینر بند کرتے گہری سانس لیکر کہا۔
" مہم ٹھیک ہے۔۔۔" حیدر نے اثبات میں سر ہلایا۔
" سنیئے۔۔۔" ساوری نے پلینر کو مضبوطی سے تھام کر حیدر کو پکارا۔
" سنائیے۔۔۔" حیدر مکمل طور پہ اسکی جانب گھوما تھا۔
" آج میں۔۔۔ اپنے گھر چلی جاؤں۔۔ کنٹریکٹ بھی تو پورا ہوگیا ناں۔۔" اسکے چہرے پہ چھائ معصومیت کو حیدر نے بغور تکا تھا۔
" کنٹریکٹ۔۔۔!! وہ کیسے۔۔؟؟" حیدر نے پوچھا۔
" ۔۔وہ ۔۔ کل رات۔۔ آپ۔۔۔ میں۔۔ اور آپ۔۔" وہ سرخ چہرے سمیت سٹپٹا کر گویا ہوئ۔
" ہاں۔۔ میں اور آپ ۔۔۔ کل رات میں۔۔ تمہاری بات سمجھ گیا۔ پر کنٹریکٹ میں لکھا تھا۔ بچہ ہونے کے بعد کنٹریکٹ ختم ہوگا۔" حیدر نے اس کم علم لڑکی کی لاعلمی پہ افسوس کیا۔
" ہاں۔۔۔ پر اب ۔۔۔ ہو جائے گا ۔۔۔ ناں بے بی۔۔" ساوری کے چہرے سے مانوں خون ٹپکتے کو تھا۔
" بہت ہی بھولی ہو۔۔۔ اتنا آسان تو نہی بے بی ہوجانا۔ اسکے لیئے ابھی ہم دونوں کو دل لگا کر بہت محنت کرنی پڑے گی۔ ایسے ہی تھوڑی ہوجاتا ہے بےبی۔۔۔ ہاں۔۔ اگر تمہارا لک اچھا ہوا تو شاید فرسٹ شاٹ میں ہی سکسسر لگ گیا ہو۔۔۔" حیدر نے اسکے چہرے پہ بکھرے رنگوں کو دیکھ شوخی سے کہا۔
ساوری کے گال تپنے لگے تھے۔ اب اتنی بھی بھولی اور بیوقوف نہی تھی کہ اسکی باتوں کا مطلب نا سمجھتی۔
" میں۔۔ کام ۔۔۔ کر لوں۔۔" وہ گھبرا کر اسکے پاس سے ہٹی تھی۔ اور اپنی جگہ پہ جا کر بیٹھی تھی۔
" ہاں۔۔۔ جاؤ جاؤ ۔۔ کام کرو۔۔۔ یہ باتیں آرام سے رات میں کریں گے۔" حیدر نے آنچ دیتے لہجہ میں کہا۔
ساوری کے ہاتھ پیر بے جان ہوئے تھے۔ وہ بوکھلائ بوکھلائ سی اپنا کام کرنے لگی تھی۔ اور حیدر اپنے کام کی جانب متوجہ ہوگیا تھا۔
☆☆☆☆☆
وہ سب ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔ جب نازنین اپنا سامان لیئے اندر داخل ہوئ تھی۔ میر عالم اسے اپنے گھر میں واپس دیکھ کر خوشی سے جھوم کر اٹھے تھے۔ اور اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔
" میری گڑیا۔۔۔ واپس آگئ۔۔ مجھے یقین نہی آرہا۔" میر عالم نے اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا بوسہ دیا۔
" آپکی یاد آرہی تھی اسی لیئے واپس آگئ۔۔۔" نازنین نے نم آنکھوں سمیت اپنے عزیز از جان بھائ کے گرد بازو لپیٹے تھے۔
" میرا بچہ۔۔۔!!" وہ اسپہ نہال ہوئے تھے۔
" ناشتہ کیا ہے میری گڑیا نے۔۔؟" میر عالم نے اسے اپنے مضبوط بازوؤں کے حالے میں گھیرے پوچھا۔
" جی ناشتہ تو مما کے ساتھ کر کے آئ ہوں۔" وہ مسکرائ تھی۔
" چلو پھر جاؤ اپنا سامان سیٹ کرواؤ واپس۔۔۔ ٹھیک ہے۔" میر عالم نے شفقت سے کہا۔
" ہمم۔" وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلاتی۔ مصطفی پہ بنا ایک نظر ڈالے اوپر چلی گئ تھی۔ شعلہ آج ڈائیننگ ٹیبل پہ موجود نہی تھی۔
" میں ناشتہ لیکر اوپر جا رہا ہوں۔ تم تھوڑی دیر میرا انتظار کرو۔۔ اوکے۔۔" میر عالم نے مصطفی کو ناشتہ کرتے دیکھ کہا۔ مصطفی نے دھیرے سے سر ہلایا۔ تو میر عالم ناشتے کی ٹرے تھامے اوپر آئے تھے۔ شعلہ کمبل ناک منہ تک لپیٹے سو رہی تھی۔ میر عالم نفی میں سر کو جنبش دیتے اسکے پاس آئے تھے۔
" شعلہ۔۔۔ تم ابھی تک ۔۔۔ سو رہی ہو۔۔؟؟"۔ حیدر نے اسکا کندھا ہلا کر اس سے پوچھا۔
" میری طبیعت بلکل ٹھیک نہی ہے۔ پلیز مجھے تنگ نا کرو۔۔!!"اسکی بھاری آواز کمبل سے برآمد ہوئ۔
میر عالم نے جھٹ اسکے اوپر سے کمبل ہٹایا تھا۔
" کیا ہوا درد ہو رہا ہے۔۔؟" میر نے اسکے ماتھے اور گال پہ ہاتھ دھر کر پوچھا۔
" نہی۔۔۔ مجھے درد نہی ہوتا۔۔" آواز آنسوؤں کی وجہ سے بھاری ہو رہی تھی۔
عالم نے اسکا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا تھا۔ اور دھیرے دھیرے اسکے بال سہلانے لگا تھا۔
" اٹھو ناشتہ کرو۔ پھر میں تمہیں ٹیبلٹس دونگا تاکہ تم جلدی جلدی ٹھیک ہوجاؤ۔" عالم نے نرم سے لہجہ میں کہا۔
" نہی۔۔۔ مجھے ناشتہ نہی کرنا۔ نا ہی گولی کھانی ہے۔۔" وہ کسمسائ تھی۔ عالم اسکی نڈھال طبیعت دیکھ کر اچھا خاصہ پریشان ہوا تھا۔
" ناشتہ تو کرنا پڑے گا۔۔۔ اٹھو۔" میر نے اسے اٹھا کر تکیوں کے سہارے بٹھایا تھا۔
وہ سیدھی بیٹھتی میر عالم کے کندھے پہ سر رکھ کر اسکے بازو کے گرد اپنے دونوں ہاتھ لپیٹ گئ تھی۔
" دو منٹ کے لیئے اٹھنے دو۔ ٹیبل پہ سے ناشتہ اٹھا لوں۔۔۔" عالم نے اسکے بالوں سے اٹھتی مدہوش کن خوشبو کو اپنے اندر اتارا تھا۔
" نہی ۔۔۔ بس تم میرے پاس رہو۔۔" اسکا لہجہ ضدی تھا۔
" میں تمہارے پاس ہی ہوں۔ بس ادھر سے ناشتہ اٹھا کر ادھر بیڈ پہ تمہارے پاس لانے تک کتنا ٹائم لگے گا۔ سیکنڈ بھی نہی لگے گا۔" عالم نے اسے پچکارا۔
" نہی۔۔۔۔" وہ ضدی لہجہ میں کہتی اسکے بازو پہ اپنی گرفت مزید سخت کر گئ تھی۔
عالم نے نفی میں سر ہلاتے انٹرکام کیا تھا۔ کچن کے اسٹاف نے کال اٹھائ تھی۔
" ذرا اوپر آئیے۔ اور مصطفی سر سے کہیئے کے وہ بھی ذرا اوپر آجائیں۔۔" میر عالم نے کہتے ساتھ ہی وائر لیس انٹر کام کو سائڈ ٹیبل پہ واپس دھرا تھا۔
" تم آج کہیں نہی جاؤ گے۔" وہ اسکے بازو پہ سر ٹکائے نحیف سی آواز میں حکم صادر کر رہی تھی۔
" جو حکم آپکا ملکہ عالیہ۔۔" عالم نے اپنا بازو اسکی ہاتھوں کی گرفت سے نکل کر اسکے گرد اپنا بازو باندھا تھا۔ وہ اسکے سینے پہ سر رکھتی مزید اسکی آغوش میں چھپی تھی۔
کمرے کا دروازہ ناک ہوا تو۔ مصطفی اور کچن اسٹاف کا ایک ممبر نمودار ہوا۔
" مصطفی سامنے کا منظر دیکھ ایک پل کو پزل ہوا۔ اس سے پہلے کے وہ نکل کر واپس چلا جاتا۔ عالم نے اسے مخاطب کیا۔
مصطفی پلیز سب سے پہلے ہمارے فیملی ڈاکٹر کو بلاؤ۔۔۔ پھر پارٹی کے دفتر میسج کردو کہ آج شیرازی۔۔۔ اور خوشحال سارا سب کچھ اکیلے ہی سنمبھال لیں۔" عالم کے حکم پہ مصطفی نے دھیرے سے سر کو اثبات میں جنبش دی تھی۔ اور کمرے سے نکل کر زینوں کے پاس کھڑے ہوکر کال ملائ۔
" آپ ذرا ناشتہ وہاں سے اٹھا کر ادھر لے آئیں۔۔ " اسنے کچن اسٹاف ممبر سے کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی۔ ناشتہ کی ٹرے انکے پاس بستر پہ دھر گئ تھی۔ میر عالم نے اسے جانے کا اشارہ کیا تو وہ سر ہلاتی وہاں چلی گئ۔
" چلو بس سیدھے ہو کر بیٹھو ناشتہ کرو۔۔۔" میر عالم نے اسے سیدھا بٹھایا۔
شعلہ کا چہرہ تکلیف کے باعث زرد پڑ رہا تھا۔
" جوس۔۔" عالم نے جوس اٹھا کر اسکے لبوں سے لگایا۔ اسنے ذرا سا پیا۔ اور نقاہت سے واپس اسکے سینے پہ سر دھر گئ۔
" تھوڑا سا اور پی لو۔۔" عالم نے اسکا سر اٹھا کر کہا۔
وہ نفی میں سر ہلاتی واپس ویسے ہی اسکے سینے پہ سر رکھ کر اسکے گرد اپنے بازو باندھ گئ تھی۔ میر عالم کے ہونٹوں پہ آسودہ سی مسکراہٹ در آئ تھی۔
وہ بھی اپنے بازو اسکے گرد چاہت سے باندھ گئےتھے۔
☆☆☆☆☆
مصطفی سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا۔ موبائل کان سے لگائے وہ پارٹی آفس کے کسی میمبر سے بات کر رہا تھا۔ بات کرتے کرتے وہ دھیرے دھیرے زینے اترنے لگا تھا۔ جب نیچے سے اوپر کی جانب آتی نازنین سے اسکا زبردست تصادم ہوا۔ اس سے پہلے کے نازنین اپنا آپ نا سنبھالتے ہوئے زینوں پہ ڈولتی ہوئ زمین بوس ہوتی۔ مصطفی نے اسے کمر سے تھام کر گرنے سے بچایا تھا۔ وہ اسکی بانہوں میں قید خوف سے مصطفی کو تک رہی تھی۔ اسکا چہرہ مصطفی کی قربت میں زرد پڑچکا تھا۔ مصطفی نے گہری نگاہ اسکے گھبرائے ہوئے وجود پہ ڈالی۔
نازنین کی آنکھیں خوف کے باعث مینچی ہوئ تھیں۔
" اتنا خوف آنے لگا ہے مجھ سے۔۔" وہ اسکے کان کے پاس جھکتا۔ دھیمی سرسراتی آواز میں سرگوشی کرتا اسے مزید خوف زدہ کرگیا تھا۔
" کچھ تو کہو۔۔۔ اب میری وحشت اتنی بھی نہی کہ تم یوں کپکپاتی رہو۔" مصطفی نے اسکے گال پہ اپنی ناک دھیرے سے رگڑی تھی۔ نازنین نے بند آنکھوں کو مزید پوری شدت سے مینچا تھا۔ نازنین کے نازک ہاتھ جو مصطفی کے کندھے پہ پڑے تھے۔ وہ مٹھیوں کی صورت قید ہوچکے تھے۔ نازنین کی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگیں تھیں۔
" گئ کیوں تھی۔ تم ۔۔۔ ہمم۔۔" وہ ویسے ہی اسکے گال پہ اپنی ناک رگڑتا بہکے ہوئے لہجہ میں گویا ہوا۔
" مص۔۔۔ مصطفی۔۔۔ پلیز۔۔۔" وہ اتھل پتھل ہوتی سانسوں سمیت اپنا چہرہ اس سے دور کرنے لگی۔
مصطفی نے آنکھیں کھول کر خمار آلود نظروں سے اسے تکا۔ جو خوف سے کپکپاتی آنکھیں مینچے کھڑی تھی۔ مصطفی دھیرے سے اسکے نازک لبوں کے قریب آیا تھا۔ خمار آلود نظروں سے وہ کئ لمحوں تک اسکے نازک تھرتھراتے لبوں کو تکتا رہا۔ اس سے پہلے مصطفی اسکے ہونٹوں پہ کوئ گستاخی سرزد کرتا۔ مصطفی کے موبائل کی چنگھاڑتی آواز اسے ہوش میں لائ تھی۔ مصطفی اسے خود سے دور کرتا اپنا موبائل جیب سے نکال کر کال ریسیو کرتا زینے تیزی سے اتر گیا تھا۔ نازنین بے جان ہوتے وجود کو گرنے سے بچانے کے لیئے ریلنگ کا سہارا لیکر کھڑی ہوئ تھی۔ اسکا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پہ پڑا تھا۔ اسکا دل بے ترتیبی سے دھڑک رہا تھا۔
حیدر اور ساوری دفتر سے نکل کر گھر واپس آئے تھے۔ ساوری کچن میں لگی کھانا بنا رہی تھی۔ اسکا دوپٹہ اسکے سر پہ سے سرکتا۔ اسکے کندھوں پہ آپڑا تھا۔ حیدر مسکراتا ہوا اسکے پاس آیا تھے۔ اسکے لمبے سیاہ آبشار کی مانند اسکی پشت پہ بکھرے بے حد حسین و دلکش لگ رہے تھے۔
حیدر اسکی پشت پہ آکر کھڑا ہوا تھا۔ ساوری اسکی قربت پہ گھبرائ تھی۔ حیدر اسکے چہرہ کو تکتا دلکشی سے مسکرایا تھا۔
" کیا بنا رہی ہو۔۔؟" اسکے برابر میں کھڑے ہو کر سرگوشی کی۔
" کھانا۔۔۔" اسنے سوکھے لبوں پہ زبان پھیری۔
" کھانا تو بنا رہی ہو۔۔۔ پر کھانے میں کیا بنا رہی ہو۔۔۔؟" وہ ذرا سا سرک کر مزید اسکے قریب ہوا تھا۔
" بھنڈی۔۔۔" اسکی پلکیں لرزنے لگی تھیں۔
" اور میٹھے میں۔۔" حیدر مزید اسکے قریب ہوا۔
" کچھ۔۔ کچھ نہی۔۔" وہ اسکی قربت پہ سٹپٹا کر خود میں سمٹی تھی۔
" پر مجھے تو کھانے کے بعد میٹھا کھانے کی عادت ہے۔۔" وہ مزید اسکے قریب ہوا۔
" ہاں۔۔ تو یہ کھانا بنانا تو بلکل میرے کنٹریکٹ میں نہی تھا۔ شکر کریں میں بنا کر دے رہی ہوں۔" وہ ہمت جما کرتی ذرا اونچی آواز میں گویا ہوئ۔ حیدر بھنوئیں آچکا کر اسکی دلیری پہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔
" تم تو برہم ہو رہی ہو۔۔" وہ لب دبا کر گویا ہوا۔
" میں برہم نہی ہورہی میں بس اتنا کہہ رہی ہوں کہ۔۔۔۔" وہ پٹر پٹر کرتی بولنا شروع ہوئ۔ پر ہوش تو اسے تب آیا جب حیدر نے اسے کمر سے تھام کر کاؤنٹر پہ بٹھایا۔ وہ سٹپٹائ تھی۔ اسنے واپس اترنا چاہا۔ پر حیدر نے اپنے دونوں بازو اسکے ارد گرد رکھ کر اسکے واپس اترنے کا راستہ مسدود کر دیا۔ وہ گھبرائ گھبرائ سی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ حیدر نے اسکے گالوں پہ لب دھرے تھے۔ وہ پزل سی پیچھے ہوئ تھی۔ حیدر نے اسے اپنے قریب سرکایا تھا۔ اور دھیرے سے اسکے نازک لبوں پہ جھکتا اسکی سانسوں کو پینے لگا تھا۔ ساوری نے آنکھیں مینچی تھیں۔ حیدر مدہوش ہوتا۔ اسکی سانسیں اس قدر تنگ کر گیا تھا۔ کہ ساوری نے نے اپنے بےجان ہوتے ہاتھ اسکے سینے پہ دھرے تھے۔ پر حیدر اسپہ جھکا مدہوش ہوا جا رہا تھا۔ ہوش تو حیدر کو تب آیا جب در فشاں کی آواز اسے اپنی پشت پہ سنائ دی۔ حیدر دھیرے سے ساوری سے دور ہوا تھا۔ ساوری شرم سے نظریں نہی اٹھا پا رہی تھی۔ اور درفشاں کو دیکھ کر تو اسکا بے حال ہوتا وجود مزید بے حال ہوا تھا۔ وہ سلیب سے اترنے کی بھی حالت میں نہی رہی تھی۔
" حیدر۔۔۔ یہ کیا کر رہے تھے تم۔۔۔؟" درفشاں کے لہجہ میں جلال تھا۔
حیدر نے اسے بڑے آرام سے تکا تھا۔ اور دھیرے سے اپنے ہونٹوں پہ انگوٹھا پھیرا تھا۔
" وہی کر رہا ہوں۔ جسکے لیئے تم لوگوں نے اسے خریدا ہے۔۔۔" حیدر نے بڑے آرام سے ٹھنڈے لہجہ میں جواب دیا۔
" جانتی ہوں۔ کہ اسے کیوں خریدا گیا ہے۔ اسی لیئے کہہ رہی ہوں۔ کہ صرف تعلق اتنا رکھو جتنا رکھ کر ہمارا مطلب پورا ہوسکے۔" در فشاں نے زہر خندگی سے کہا۔
" ہاں سمجھ رہا ہوں تمہاری بات۔۔۔ پر ۔۔ کیا کروں مرد ہوں ناں۔۔۔ اب ایک اتنی حسین جوان عورت کے ساتھ دن رات رہونگا۔ اور جو مجھ پہ حلال بھی ہے۔۔ تو پھر بہکنا تو ممکن ہے۔۔۔" وہ کندھے آچکا کر گویا ہوا۔ ساوری ان دونوں کی باتیں سنتی زمین میں گڑھتی جا رہی تھی۔
" اپنی اس دو روپے کی مردانہ روح کو کنٹرول کرنا سیکھو۔۔" وہ چبا چبا کر گویا ہوئ۔
" نہی کر سکتا کنٹرول ، اب وہ اتنی پیاری ہے۔ کیسے کروں خود کو کنٹرول۔" حیدر کا ٹھنڈا لہجہ جلتی پہ تیل کا کام کر گیا تھا۔
" بھولو مت یہ بات ۔۔۔ حیدر کہ اس لڑکی کی ایک طوائف سے زیادہ کوئ حیثیت نہی۔۔۔" درفشاں چٹخی تھی۔
اسکی بات پہ ساوری کی آنکھیں بھیگیں تھی۔ وہ سلیب سے اتر کر کچن سے باہر نکل گئ تھی۔ حیدر نے مٹھیاں بھینچ کر طیش کے عالم میں درفشاں کو تکا تھا۔
" طوائف کبھی بچہ پیدا نہی کرتی۔۔ یہ کام تو بیویوں کے ہوا کرتے ہیں۔۔" حیدر نے زہر خند لہجہ میں کہا۔ اور یہ وہ خاموش تھپڑ تھا۔ جو بڑی زور سے در فشاں کے منہ پہ جا کر پڑا تھا۔ درفشاں نے حیرت و بے یقینی کے عالم میں حیدر کو تکا تھا۔ اور پیر پٹختی وہاں سے نکل گئ تھی۔
حیدر اپنے تنے اعصاب بہال کرتا ساوری کے پاس آیا تھا۔ روم کا دروازہ کھول کر جب اسنے اندر جھانکا تو ساوری بیڈ پہ اوندھے منہ پڑی سسک رہی تھی۔
" ساوری۔۔۔" حیدر نے اسے کندھے سے تھامنا چاہا۔
وہ تڑپ کر اٹھی تھی۔
" دور رہیں مجھ سے۔۔۔!!" وہ بھیگے لہجہ میں چلائ تھی۔
" کیا ہوگیا ہے۔ مجھ سے کیوں خفا ہورہی ہو۔۔" وہ اسکے قریب بیٹھا تھا۔ ساوری اسکے پہلو سے ایسے اٹھی تھی۔ جیسے بستر پہ کسی نے کرنٹ چھوڑ دیا ہو۔
" میں خفا نہی ہورہی۔ اور نا ہی میں خفا ہونے جیسا کوئ حق رکھتی ہوں۔ میں ایک طوائف ہوں۔ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔ اور طوائفوں کے کوئ حقوق نہی ہوتے محض پرائے مردوں کو بہلانے کے سوا۔ اور سہی کہا ہے اسنے۔ آج آپکا بستر گرم کر رہی ہوں۔ کل کو کسی اور مرد کا کرونگی۔۔" ساوری چلا رہی تھی۔ رو رہی تھی۔ سسک رہی تھی۔ شاید وہ اس وقت اپنے حواسوں میں نہی تھی۔ پر اسکے آخری الفاظ حیدر کا دماغ گھما گئے تھے۔ حیدر ایک جھٹکے سے اٹھ کر۔اسکے مقابل آیا تھا۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے نازک گال پہ رسید کرتا۔ کمرے کا دروازہ زوردار آواز کے ساتھ بند کرتا۔ نکل گیا تھا۔ ساوری پھوٹ پھوٹ کر اپنا چہرہ ہاتھوں میں تھام کر رونے لگی تھی۔
☆☆☆☆☆
میر عالم سگرٹ سلگائے ابھی بالکنی میں آکر کھڑے ہوئے تھے۔ کھلی ہوا میں سانس لیتے۔ انکا دماغ بہت سی الجھنوں کا شکار ہوچکا تھا۔ شعلہ کی طبیعت خرابی کی وجہ سے آج میر عالم پورا دن اسکے پاس رہے تھے۔ اور جب ڈاکٹر نے شعلہ کو غنودگی کا انجیکشن لگایا۔ تو شعلہ گہری نیند میں غرق ہوگئ۔ وہ شعلہ کے لیئے بہت انوکھے جذبات محسوس کرنے لگے تھے۔ پر انکا ماضی انہیں اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی اجازت نہی دیتا تھا۔ اور آج شعلہ کی گردن پہ وہ نشان ۔۔۔ انہیں مزید کشمکش میں ڈال گیا تھا۔
وہ سیاہ کراس کی شکل کا نشان جس کے سائڈوں پہ رسیلا لکھا تھا۔
وہ نجانے کب تک یونہی وہاں کھڑے رہتے جب انہیں کمرے سے شعلہ کے چلانے کی آواز آئ۔
" نہی۔۔۔ ہہہہ۔۔ چھوڑو ۔۔ مجھے نہی۔۔ اہہ۔۔۔" وہ چلا رہی تھی۔ عالم نے آکر اسکے ماتھے پہ اپنا ہاتھ دھرا تھا۔
" شعلہ کیا ہوا۔۔۔ شعلہ۔۔۔" وہ شعلہ کے گال تھپتھپا رہے تھے۔ پر اگر وہ ہوش میں ہوتی تو کچھ بتاتی۔
ایسے ہی چیختے چلاتے۔ وہ واپس گہری نیند میں غافل ہوگئ تھی۔
میر عالم پریشانی سے اسکے پاس بیٹھ گئے تھے۔ اور شعلہ نے غنودگی میں بڑی مضبوطی سے میر عالم کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔
میر عالم بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتے ماضی کے خیالوں میں کھو گئے تھے۔
" پھپھو۔۔ بیا بہت چھوٹی ہے۔ آپ یہ کیا کر ہی ہیں مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی۔۔" میر عالم کی آواز باقائدہ فکرمندانہ تھی۔
" میر ۔۔۔ مجھے پتہ ہے۔ تم انکار نہی کروگے۔۔۔ مجھے نہی پتہ تمہیں یہ کرنا ہوگا میری خاطر۔۔۔" پھپھو نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
" پھپھو وہ دس سال کی ہے ابھی۔۔" میر عالم جز بز ہوئے۔
" تو۔۔۔ !! اس بات سے کوئ فرق نہی پڑتا۔" پھپھو نے سختی سے کہا۔
" پھپھو اس بات سے بہت فرق پڑتا ہے۔ میں اس سے بہت بڑا ہوں۔ میں ایک پچس سال کا مرد ہوں۔۔ اور وہ دس سالہ چھوٹی سی بچی۔۔۔" وہ عاجز آیا تھا۔
" عالم یہ وقت ان سب باتوں کو سوچنے کا نہی ہے۔ بس تم میرے بچوں کو بچا لو ۔۔۔ عالم تم بیا سے نکاح کر لو۔۔۔ اور مصطفی اور بیا کو ساتھ شہر لے جاؤ۔" پھپھو کی حالت دیکھ میر عالم کو ترس آیا تھا۔
" امی آپ میر بھائ کو پریشان نا کریں سب ٹھیک ہوجائے گا۔۔" تیرہ سالہ مصطفی نے اپنی ماں کو سمجھانا چاہا۔ شاید وہ بھی وقت کی تلخی کے ساتھ وقت سے پہلے ہی بڑا ہوگیا تھا۔
" مجھے کچھ نہی پتہ بس جو میں نے کہہ دیا اگر وہ کرسکتے ہو عالم تو بتاؤ۔۔۔ نہی تو میں کوئ اور راستہ ڈھونڈ لونگی۔" پھپھو کی آواز بھیگی تھی۔
میر عالم نے بے بسی سے پھپھو کو تکا تھا۔
میر عالم شعلہ کے رونے کی آواز پہ چونکے تھے۔ میر عالم خیالوں کی دنیا سے باہر آئے تو شعلہ رو رہی تھی۔ آنکھیں اسکی اب بھی بند تھیں۔ پر گرم سیال اسکی آنکھوں کے کنارے سے تواتر سے بہہ رہا تھا۔ اور کبھی کبھی وہ با آواز بھی رونے لگتی۔ میر عالم تکیہ سیٹ کرتے لیٹے تھے۔ اور اسکا سر اپنے بازو پہ دھر کر اسے اپنی آغوش میں لیا تھا۔ شعلہ اسکے سینے میں سمیٹنے لگی تھی۔عالم نے دھیرے اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھے تھے۔ اور سونے کی خاطر آنکھیں موند گئے تھے۔
☆☆☆☆☆
حیدر باہر لاؤنج میں بیٹھا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہوئے واقع کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ حیدر کو بھوک کا احساس ہوا تو۔ وہ اٹھ کر کچن میں آیا اور جلدی سے نوڈلز چڑھا دیں۔ نوڈلز چڑھا کر وہ ساوری کے کمرے میں آیا جو زمین پہ بیٹھے بیٹھے ہی سو چکی تھی۔ اسکی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہوئے تھے۔ اور چہرہ پہ مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان تھے۔ حیدر نے اسے کندھے سے ہلایا تو وہ چونک کر اٹھی تھی۔ حیدر کو اپنے سامنے بیٹھا دیکھ اسکے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے تھے۔
" کیوں۔۔۔ آئے ہیں اس طوائف کہ پاس۔۔۔ کیا پھر آپکی مردانہ روح کو کسی عورت کی ضرورت ہے۔۔" اسنے حیدر کا چہرہ دیکھتے بکھرے ہوئے لہجہ میں کہا۔
حیدر گہری سانس لیتا اسکے برابر میں بیٹھا تھا۔ اسکے بکھرے بالوں کو ہاتھ بڑھا کر سلجھایا۔ اور اسکے کانوں کے پیچھے اڑسا۔ اسکا ہاتھ تھاما۔ اور اسکا ہاتھ محبت سے لے جا کر اپنے ہونٹوں سے چھوا۔
" ساوری۔۔۔ تم میرے نکاح میں ہو۔ میری " بیوی" ہو۔" حیدر نے بیوی پہ خاصہ زور دیا۔
" میں جانتا ہوں یہ شادی ایک کنٹریکٹ میرج ہے۔ پر میں چاہتا ہوں۔ کہ ہم دونوں اس شادی کو ایسے جیئں جیسے لوگ اصل میں جیتے ہیں۔ اور تم حلال ہو مجھ پہ۔ میرا تمہارے پاس آنا کوئ گناہ نہی۔ نا تمہارا میری جانب پیش رفت کرنا گناہ ہے۔" حیدر نے آنچ دیتے لہجہ میں کہا۔
" ہنہ۔۔۔ بیوقوف نہی ہوں میں۔ اور آپکی بیوی اتنا بھی کچھ غلط نہی کہہ کر گئ۔ سچ کہا ہے اسنے۔۔۔۔!! اب آپ میرے قریب نہی آئیں گے۔ کیونکہ میں کسی کے دل بہلانے کا سامان نہی ہوں۔ اور رہی اس شادی کی بات تو یہ شادی کونسی اصل کی ہے۔ جب کچھ عرصہ بعد یہ رشتہ ختم ہوجائے گا تو آپ تو اپنا بچہ لیکر اپنی بیوی کے پیچھے چلتے بنیں گے۔ پر ساری عمر کے لیئے تو تنہا میں رہ جاؤں گی ناں۔ معذرت کے ساتھ میں آپکی نفسانی خواہشات پورا کرنے والا کھلونا نہی۔۔۔۔" وہ بھیگی۔۔۔ مگر کرخت آواز میں بولی تھی۔
حیدر نے اسے افسوس سے ایک نظر تکا۔ ساوری نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ سے کھینچا تھا۔
" ساوری۔۔۔۔" حیدر نے کچھ کہنا چاہا۔
" آپ یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔۔" ساوری آٹھ کھڑی ہوئ تھی۔ حیدر اسکے بیگانگی بھرے انداز پہ گھر سے نکل کر چلا گیا تھا۔ اور ساوری اپنے کمرے کا دروازہ لاک کرنے اٹھی تھی۔ پر کچن سے کچھ جلنے کی بو سونگھ کر وہ بھاگ کر کچن میں گئ تو۔ چولہے پہ چڑھی نوڈلز جل رہی تھی۔ ساوری نے آگے بڑھ کر چولہا بند کیا۔ اور اپنے کمرے کا دروازہ اچھے سے لاک کرتی بستر پہ آکر ڈھ سی گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی اپنے کمرے میں لیٹا کروٹ پہ کروٹ بدل رہا تھا۔ پر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ نجانے کیوں آج بار بار ماضی اسکی سوچ کہ پردوں پہ لہرا رہا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے سیدھا آٹھ بیٹھا تھا۔ اسکا جسم مکمل طور پہ پسینہ سے شرابور تھا۔ مصطفی نے ایک جھٹکے اسے اپنی شرٹ اتار کر سائڈ پہ پھینکی تھی۔ اور باہر نکل کر بالکنی میں کھڑا ہوگیا تھا۔ نازنین جو اپنے کمرے کی کھڑکی سے لٹکی نجانے نیچے جھانک کر اس اندھیرے میں کیا دیکھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مصطفی کو ایسے وہاں کھڑا دیکھ کر وہ سیدھی ہوئ تھی۔ وہ شرٹ لیس اپنی کسرتی جسامت لیئے کھڑا تھا۔ نازنین نے اسکے کسرتی جسم کو دیکھنے سے احتراظ برتا تھا۔
مصطفی گہری سانسیں لیتا ریلنگ پہ جھکا تھا۔ اسکے کانوں میں وحشت ناک آوازیں گونجنے لگی تھیں۔
" نہی مجھے چھوڑ دو۔۔ ۔۔ اللہ۔۔" اسکی ماں زمین پہ سمندر کی مانند بہے خون پہ پیچھے سرک رہی تھی۔ پر جیسے ہی اسکی ماں کی پشت دیوار سے ٹکرائ۔ وہ بے ساختہ اپنے رب کو پکار گئیں۔ انکی فریاد میں اس قدر تڑپ تھی۔ کہ آج بھی مصطفی کو اس فریاد کے زیر اثر اپنا آپ فنا ہوتا محسوس ہوتا۔
یکدم خیالوں میں ہی گولی چلنے کی آواز آئ تھی۔ اور وہ چلایا تھا۔ حقیقت میں۔ حال میں۔ نا کہ ماضی میں۔
" ماں۔۔۔۔!!" وہ اسقدر زور سے چلایا تھا۔ کہ نازنین اپنے کمرے کی کھڑکی چھوڑتی اسکے کمرے میں آئ تھی۔ مصطفی ریلنگ پہ جھکا۔ اب بھی دھیرے دھیرے اپنی ماں کا نام پکار رہا تھا۔
"ماں۔۔۔ ماں۔۔۔ ہہہ ماں۔۔۔" گہری گہری سانسیں لیتا وہ اب بھی اپنی ماں کو پکار رہا تھا۔
نازنین جو بالکنی کے دروازے پہ کھڑی تھی۔ دھیرے سے چلتی اسکے پاس آئ تھی۔ اور کپکپاتا ہاتھ اسکے کندھے پہ دھرا تھا۔ مصطفی جیسے ہی اسکی جانب مڑا۔ اسکی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
وہ ایک جھٹکے سے اسکی کلائ تھامتے اسے آدھا آدھا ریلنگ پہ گرا چکا تھا۔
" کیوں آئ ہو یہاں۔ میری بے بسی کا مذاق بنانے آئ ہو۔۔" وہ ایک ہاتھ اسکے گلے پہ رکھتا غرا رہا تھا۔ نازنین کی آنکھیں خوف اور گلا دبنے کی وجہ سے ابل کر باہر کو آئی تھیں۔
"۔۔۔ ہہ۔۔ م۔۔۔مص۔۔۔" وہ اپنی صفائ میں کچھ کہنے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔ پر اسکی گرفت اسقدر سخت تھی اسکی گردن پہ کہ وہ کچھ کہہ ہی نہی پا رہی تھی۔
نجانے کیا سوچ کر مصطفی نے اسے واپس کھینچا تھا۔ پر اسکی گردن اب بھی اسکی مضبوط گرفت میں تھی۔
جھٹکے سے اسکی گردن آزاد کرتا وہ کمرے میں گیا تھا۔ نازنین لڑکھڑائ تھی۔ اپنی گردن تھام کر وہ کھانسنے لگی تھی۔ حیدر کمرے میں آکر اپنے بستر پہ بیٹھا تھا۔ نازنین کی حالت تھوڑی سنمبھلی تو وہ طیش کے عالم میں اندر آئ تھی۔
" تمیز نہی ہے تمہیں۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے ہرٹ نہی کروگے۔۔" وہ گہری سانسیں لیتی اس پہ چلائ تھی۔
" میں نے تمہیں نہی کہا تھا۔ کہ تم اس وقت میرے کمرے میں آؤ۔" مصطفی نے سرد نگاہیں اٹھا کر اسے بیزار سے لہجہ میں کہا۔
" تم ٹھیک نہی لگ رہے تھے۔ میں نے اپنے روم کی کھڑکی سے دیکھا۔ تو میں تمہیں۔۔۔ دیکھنے آئ تھی۔۔" اسنے رساں سے بتایا۔
" دیکھ لیا اب چلی جاؤ یہاں سے۔" وہ غرایا تھا۔
" بھلائ کے بھی قابل نہی تم۔۔۔" نازنین نے افسوس کیا۔
" مجھے نہی چاہیئے کسی کی بھلائ۔۔ جاؤ ۔۔۔ چلی جاؤ۔۔یہاں سے۔" اسکا لہجہ درشت تھا۔
نازنین نے ایک نظر اسے تکا۔ وہ اور دن کی مانند نہی لگ رہا تھا۔ وہ اس وقت بلکل بھی اپنے حواس میں نا تھا۔
" اگر کوئ پریشانی ہے۔۔۔ تو تم مجھ سے شیئر کر سکتے ہو۔" وہ اسکے برابر آکر بیٹھی تھی۔ مصطفی نے سرخ نگاہیں اٹھا کر اسے بغور تکا تھا۔ اور پھر تمسخر سے ہنسا تھا۔
" لگتی کیا ہو میری جو تم سے اپنی کوئ پریشانی بانٹوں گا۔" وہ تمسخر سے گویا ہوا۔
" بیوی ہوں تمہاری۔" نازنین کی زبان سے بے ساختہ بر آمد ہوا۔
" ہنہہ بہت ہی گھٹیا انسان ہو تم۔ میری کمزوریاں جاننے کے لیئے تم۔ میری بیوی ہونا بھی قبول کرنے کو تیار ہو۔۔۔" مصطفی نے اسے پرتپش نگاہوں سے اندر تک چیرتی نگاہوں سے تکا تھا۔
" میں بھلا ایسا کیوں کرونگی۔۔۔" وہ جز بز ہوئ۔
" یہ کہو کہ تم یہ موقع اپنے ہاتھ سے جانے کیسے دوگی۔۔" وہ ایک ایک لفظ چبا کر گویا ہوا۔
" مصطفی تم۔مجھے بہت غلط سمجھ رہے ہو۔ اس وقت تو میں مکمل طور پہ خلوص سے تمہارا حال۔۔۔ دیکھ کر آئ تھی۔" نازنین نے بستر پہ دھرے اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنا ہاتھ دھرا تھا۔ کمرہ نیم اندھیرے میں ڈوبا خوابناک سا منظر پیش کر رہا تھا۔
" چلی جاؤ۔۔۔ یہاں سے۔" وہ اس وقت شاید خود سے بھی بیزار تھا۔
" نازنین نے دھیرے سے اسکے ہاتھ کی پشت پہ سے ہاتھ ہٹایا تھا۔ اور اسکے کمرے سے نکل گئ تھی۔ مصطفی کے اندر کا اضطراب اب بھی کسی صورت کم ہو کہ نا دے رہا تھا۔ مصطفی نے آٹھ کر سگریٹ سلگایا تھا۔ وہ پوری رات بالکنی میں کھڑا نجانے کتنے ہی سگریٹ پھونک چکا تھا۔ اور نازنین پوری رات کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی اسکی ابتر حالت دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے جاکر اتنے ذیادہ سگریٹ پینے سے روکنا چاہتی تھی۔ پر وہ نا روک سکی۔ اسکی ہمت ہی نا ہوئ۔ اگر مقابل نے اسکو اپنی زندگی میں کوئ حیثیت نہی دی تھی۔ تو کونسا اسنے اسکی زندگی میں اپنا کوئ مقام بنانے کی کوشش کی تھی۔
میر عالم شعلہ کی طبیعت بہتر دیکھ آج صبح جلدی نکل گئے تھے۔ شعلہ کمرے کی بالکنی میں آکر کھڑی ہوئ تھی۔ صبح کی ٹھنڈی ہوائیں۔ اور سورج کی ہلکی نرم کرنیں۔ اسکے بوجھل بیمار وجود پہ اچھا تاثر ڈال رہی تھیں۔ وہ چائے کا کپ ہاتھ میں تھامے ، نجانے کن سوچوں میں گم تھی۔ اسکے چہرے سے اسکے اندر چل رہی الجھنوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا تھا۔ قریبا آدھے گھنٹے تک وہ وہاں ٹہلتی رہی۔ اور پھر کپ لیئے اندر چلی گئ۔ اندر آکر اسنے اپنے لیئے صاف کپڑے نکالے۔ پر آج بھی ان کپڑوں کا رنگ سیاہ ہی تھا۔
" میں نے کچھ منگوایا تھا۔ ابھی تک پہنچا نہی۔۔" شعلہ نے موبائل کان سے لگائے مقابل سے سنجیدگی سے پوچھا۔
" آپ کا پارسل بس آتا ہی ہوگا۔۔" موبائل سے ایک مردانہ آواز بر آمد ہوئ۔
" ہمم ۔۔۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔ یہ پارسل مجھے ہر صورت آج ہی چاہیئے۔۔۔" شعلہ نے گہری سانس لیکر کہا۔
" آپ بے فکر رہیں۔ پہنچ جائے گا۔"
شعلہ نے سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے کال کاٹ دی تھی۔
اسنے ایک نظر پورے کمرے کو دیکھا۔ نجانے کتنے ہی جگہ اسے اپنا اور عالم کا عکس دکھا۔ وہ لب بھینچ کر آنکھیں موند گئ تھی۔
" شعلہ ۔۔۔ تمہیں کمزور نہی پڑنا ، تمہیں ہمت کرنی ہے۔" اسکی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب ہوئ۔
اسکا حلق خشک تھا بے حد خشک اسے تھوک نگلنے میں بھی مشکل درپیش آرہی تھی۔
کئ ساعتیں گزری ، تو اسکے کمرے کا انٹر کام بجا۔ اسنے انٹر کام اٹھا کر کان سے لگایا۔
" میم آپکا پارسل آیا ہے۔" فاطمہ کی آواز سن کر وہ سیدھی بیٹھی تھی۔
" اوکے اوپر میرے روم میں بھجوا دیں۔"
کچھ ہی دیر بعد اسکا پارسل اسکے روم میں تھا۔ وہ پارسل لیتی۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے ڈریسنگ روم میں آئ تھی۔ پارسل کھولا۔ اس میں سے کچھ ڈیکوریشن آئٹم نکلے۔ شعلہ نے ساری چیزوں کے اندر اچھے سے جھانکا ان سب میں پوشیدہ کیمرے نصب تھے۔ ایک لیمپ اٹھا کر اسنے بیڈ روم میں پڑے ڈریسنگ ٹیبل کہ برابر میں رکھے ٹیبل پہ رکھا۔ وہ ٹیبل ایسے رکھا تھا۔ کہ وہاں سے کمرے میں ہونے والی ہر کارگردگی پہ نظر رکھی جا سکتی تھی۔
ایک لاٹس کی شیپ میں بنا پیپر وڈ تھا۔ اسے وہ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامتی۔ میر عالم کے سٹدی ایریا میں لائ تھی اور اسکے ٹیبل پہ رکھا تھا۔ وہ پیپر وڈ جس رخ بھی جاتا۔ وہ ہر جگہ سے کیمرہ کی آنکھ رکھتا تھا۔ شعلہ لب کچل کر پیچھے ہوئ۔
اور اپنے اگلے قدم کی جانب اسکی تیاری شروع ہوگئ۔
" تیار ہو۔" اسنے موبائل کان سے لگایا۔
" جی۔۔ بلکل تیار ہوں۔۔۔" مقابل نے تابعداری سے کہا۔
" ہمم۔۔" وہ۔سنجیدگی سے کہتی اوپر اپنے کمرے میں واپس آئ تھی۔
ہر چیز کو تنقیدی نگاہ سے دیکھ کر گہری سانس لیتی وہ اپنا بیگ لیتی کھڑکی اور پھر دیوار دونوں کو پھلانگ گئ تھی۔ جس راستے سے وہ کبھی انکی زندگی میں آئ تھی۔ آج اسی راستے سے انکی زندگی سے چلی گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
عالم جب گھر واپس آئے شام میں ۔ شعلہ کا کہیں آتہ پتہ نہی تھا۔ وہ غائب تھی۔ عالم نے گھر کا چھپا چھپا چھان مارا پر شعلہ نا ملی۔ انہیں اسکی فکر ہوئ۔ وہ عجلت میں خود ہی اپنی گاڑی لیکر نکلے تھے۔ انکی گاڑی روڈ پہ پڑتے ہی درختوں کی اوٹ میں کھڑے شخص نے موبائل کان سے لگایا تھا۔
" نکل گیا ہے وہ۔"
میر عالم انتہائ رش ڈرائیونگ کر رہے تھے۔ انہیں نہی پتہ تھا وہ کہاں ملے گی۔ وہ تیز سپیڈ سے گاڑی چلا رہے تھے۔ جب سامنے سے آتی ایک عورت انکی گاڑی سے زور دار ٹھوکر کھاتی روڈ کی دوسری جانب گری تھی۔ گاڑی کو بریک لگانی چاہی پر گاڑی کا بریک کام نہی کر رہا تھا۔ انکے چہرے پہ پسینہ نمودار ہوا۔ وہ بے قابو ہوئ گاڑی کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہوگئے۔ اور یکدم انکی گاڑی درخت سے ٹکرا گئ تھی۔ خاموش فضا میں گاڑی کی درخت سے لگنے کی آواز پہ۔ ارد گرد سے کئ لوگ آکر اکھٹا ہوئے تھے۔
اور ایمبولینس کو کال کرکے بلایا گیا۔ ایمبولینس آئ۔ اس عورت کو بھی اٹھایا۔ اور میر عالم کو بھی گاڑی سے نکالا۔ انکا بے حد برا ایکسیڈینٹ ہوا تھا۔
مصطفی پریشان سا ہسپتال کے کوریڈور میں کھڑا تھا۔
نازنین بھی ہاسپٹل آئ تھی۔ اسکی حالت بہت خراب ہورہی تھی۔ وہ سسکتی ہوئ مصطفی کے گلے لگی تھی۔ مصطفی نے دھیرے سے اسکی کمر سہلائ تھی۔
" مصطفی۔۔۔ بھائ کو کیا ہوگیا۔۔۔ مصطفی بھیا ٹھیک ہیں ناں۔۔۔!!" وہ پھوٹ پھوٹ کر سسک رہی تھی۔ آنکھیں تو مصطفی کی بھی نم تھیں۔ پر یہ وہ وقت تھا جب صبر اور دعا کے سوا کچھ نہی کیا جاسکتا تھا۔ انکی حالت انتہائ کریٹکل تھی۔
ہر چھوٹے بڑے نیوز چینل پہ انکی گاڑی سے ہٹ ہوئ عورت اور انکے بری طرح ہوئے ایکسیڈینٹ کی خبریں سرخ پٹی پہ چل رہی تھیں۔ شعلہ کا اب بھی کوئ آتہ پتہ نا تھا۔ مصطفی ادھر سے ادھر چکر لگا لگا کر تھک چکا تھا۔ حیدر بھی رات کو ہی آگیا تھا۔ میر عالم کے والد بھی ہاسپٹل میں تھے۔ غرض میر عالم سے جڑا ہر رشتہ اس وقت اسکے لیئے وہاں موجود تھا۔ سوائے ایک کے۔ اور وہ تھی۔ میر عالم کی شریک سفر۔ شعلہ۔۔۔ جسکی کوئ خبر نہی تھی۔
وہ عورت زندگی اور موت سے لڑتے لڑتے آج دن میں خالق حقیقی سے جا ملی تھی۔
حالت میر عالم کی بھی ناساز تھی۔ انہیں کل رات سے اب تک ہوش نہی آیا تھا۔ وہ کوما میں تھے۔ اور ڈاکٹرز انکے ہوش میں آنے کی کوئ خاص امید بھی نہی دلا رہے تھے۔
سب بہت پریشان تھے۔ میر عالم کے لیئے بہت دعائیں مانگی جا رہی تھیں کہ اسکی حالت سنمبھل جائے۔ پر میر عالم کو ہوش نہی آیا۔
قیامت تو تب ٹوٹی ان سب پہ جب نیوز پہ چلنے والی خبریں ان تک پہنچی۔ میر عالم کی کرپشن اور نجانے کیا کیا۔ کسی عورت سے ناجائز تعلقات کی تصاویر۔ جو لوگ اب تک انکے لیئے دعائیں کر رہے تھے۔ اب وہی تمام لوگ ان کو کوس رہے تھے۔ شعلہ کے غائب ہونے کی خبریں بھی نیوز چینل پہ پھیل چکی تھیں۔ میر عالم کی ساخ مکمل طور پہ ڈوب چکی تھی۔ انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ سب ختم ہوچکا تھا۔ مصطفی ڈھے سا گیا تھا۔ میر عالم کی سالوں کی محنت برباد ہوچکی تھی۔
حیدر نے بہت کوشش کی وہ تمام خبریں بند کروانے کی پر ناکام رہے۔
ڈاکٹرز نے میر عالم کی جانب سے جواب دے دیا تھا۔ کہ وہ کومہ میں کب تک رہیں گے کچھ کہا نہی جاسکتا۔ وہ اس وقت بھی ہسپتال میں تھے۔ میر عالم کو کومہ میں گئے ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ پر انکے وجود میں ذرا سی بھی جنبش نا ہوئ۔
" مصطفی میں چلتا ہوں۔ کوشش کرو بھائ کو گھر شفٹ کروا لیں۔ نرس رکھ لیں گے جو انکا خیال رکھ سکے۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
مصطفی نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا۔ حیدر مصطفی کے کندھے پہ دلاسہ بھری تھپکی دے کر نکل گئے تھے۔ مصطفی سنجیدہ سی نگاہ اسکی پشت پہ ڈال کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
حیدر گھر آیا تو ساوری لاؤنج میں بیٹھی کاغذات پھیلائے کام کر رہی تھی۔ شاید وہ آفس کا ہی کوئ کام کر رہی تھی۔ حیدر تھکا ماندہ سا ون سیٹر صوفہ پہ آکر بیٹھا تھا۔ اس رات کے بعد سے ساوری اور اسکے درمیان بات چیت نا ہونے کے برابر ہوگئ تھی۔ وہ ابھی بیٹھا ہی تھا۔ جب ساوری نے ایک سفید لفافہ حیدر کے سامنے ٹیبل پہ رکھا۔ حیدر نے ایک نظر سفید لفافہ کو تکا اور ذرا سا آگے ہوکر لفافہ اٹھایا۔ وہ ہاسپٹل کی رپورٹ تھی۔ حیدر نے لفافہ کھول کر رپورٹس نکالی۔ رپورٹس پڑھ کے حیدر کے چہرے پہ ایک خوشی کی لہر دوڑی تھی۔
" تم ۔۔۔ سچ ۔۔ میں پریگننٹ ہو۔۔۔؟؟" وہ رپورٹس تھامے بے یقین ہوا تھا۔
ناچاہتے ہوئے بھی ساوری کے گال سرخ ہوئے تھے۔
" ہمم۔" اسنے دھیرے سے پلکوں کی باڑھ گرا کر کہا۔ حیدر آنکھوں میں نمی لیئے کئ لمحوں تک اسے تکتا رہا۔
" تھینک یو۔۔۔ مجھے نہی پتا۔۔۔ میں کیا کہوں کیا کروں۔ پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں۔ اس ایک پل میں تم نے مجھے دنیا بھر کی تمام خوشیاں دے دی۔ ساوری۔۔۔ تم مجھے میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی دینے جارہی ہو۔" اسکا لہجہ تشکر۔۔ خوشی۔۔۔ اور نجانے کن کن احساسات سے مزین تھا۔
" شکریہ کی کوئ بات نہی۔ میں نے یہ خوشی دینے کی قیمت لی ہے آپ سے۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
حیدر کے چہرے پہ ایک سایہ سا لہرایا تھا۔ کچھ کہنے کی خواہش میں لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔
" ہمم بات تو ٹھیک ہے تمہاری۔۔" حیدر نے دھیرے سے کہا۔
" اپنی امی کو بتا دیں۔۔" ساوری نے کام پہ واپس جھکتے کہا۔
" نہی ابھی نہی آرام سے میں بتا دونگا۔۔۔" حیدر نے نفی کی۔
" ابھی بتانے میں کیا مسئلہ ہے۔۔۔" وہ حیران ہوئ۔
" نہی ایسے ہی نظر لگ جائے گی۔۔" اسنے گہری سانس لیکر کہا۔
" اس میں نظر لگنے کی بھلا کیا بات ہے۔۔؟" وہ حیرت زدہ تھی۔
" تم نہی سمجھو گی۔ چھوڑو۔۔!" حیدر نے دھیرے سے مسکرا کر کہا۔
" تم یہ سب کام چھوڑو اب تمہیں آفس سے چھٹی لینی ہوگی۔ اب تمہیں بس اپنا اور بےبی کا خیال رکھنا ہوگا۔ چھوڑ دو یہ ساری اسٹریس فل چیزیں۔۔۔" حیدر نے اسکے سامنے پڑے تمام کاغذات آچکے تھے۔ وہ ارے ارے کرتی رہ گئ تھی۔
" پر ۔۔۔" ساوری نے کچھ کہنا چاہا۔
" پر ور کچھ نہی بس اب شرافت سے آرام کرو اپنا خیال رکھو۔ اچھا کھاؤ پیو۔۔۔ بس اور کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں تمہیں۔۔" حیدر نے اسے گھور کر کہا۔
وہ پریشان سی صورت بنا کر ادھر ادھر دیکھ کر رہ گئ تھی۔
اس سے تو اچھا تھا۔ کہ وہ یہ سب حیدر کی ماں کو بتادیتی۔ اور حیدر کو وقت گزرتے خود ہی معلوم ہوجاتا۔ پر اب کیا کیا جا سکتا تھا۔
" میں تمہارے لیئے اچھی نیوٹریشنسٹ ہائیر کرتا ہوں۔ جو تمہیں اچھی اور ہیلدی غذا بتائے کیا تمہارے لیئے بیسٹ ہے۔ اور میڈ سے بات کرتا ہوں کے میرے دفتر سے آنے کے پہلے ہر پل تمہارے ساتھ رہے۔" حیدر نے مسکرا کر کہا۔
وہ منہ بنا کر رہ گئ تھی۔ اسے اندازہ نہی تھا کہ یہ انسان اسقدر نفسیاتی ہوگا۔ اگر اسے ذرا جو اندازہ ہوتا تو یہ غلطی نا کرتی۔
" پر میں آفس جانا چاہتی ہوں۔۔" وہ ضدی لہجہ میں گویا ہوئ۔
" نہی ۔۔۔ !! بلکل نہی تمہیں ریسٹ کی بے حد ضرورت ہے۔۔" حیدر نے دو ٹوک انداز میں کہا۔
ساوری محض اسے گھور کر رہ گئ۔ اسنے حیدر کو اپنے دفتر جانے کے لیئے بہت منایا۔ پر حیدر نا مانا۔
☆☆☆☆☆
میر عالم کو ہسپتال سے گھر لے آئے تھے۔ مصطفی عالم کے پاس بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا۔ بڑی گہری نظروں سے۔ نازنین نے اسکے کندھے پہ اپنا نازک مرمریں ہاتھ دھرا تھا۔
" تم ٹینشن نا لو بھیا ٹھیک ہوجائیں گے۔۔" نازنین نے نم آنکھوں سے اپنے بھائ کو تکتے کہا۔
" ہاں جانتا ہوں۔ ٹھیک ہوجائیں گے یہ۔ کیونکہ یہ میرے فائٹر ہیں۔ اور فائٹر کبھی ہار نہی مانتے۔۔۔۔" وہ انکا ہاتھ تھام کر عقیدت سے بوسہ دے کر اٹھا تھا۔
میل نرس کمرے میں موجود تھا۔ مصطفی نے جانے سے پہلے نرس کو مخاطب کیا۔
" خیال رکھیئے گا انکا۔"
" جی سر۔۔" میل نرس نے تابعداری سے کہا۔
مصطفی میر عالم کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے میں گیا تھا۔ نازنین بھی اسکے پیچھے گئ تھی۔
" یہاں کیوں آئ ہو۔۔؟؟ اپنے کمرے میں جاؤ۔" بیزاریت کی کوئ انتہا نہی تھی۔
" میں۔۔۔۔ تم۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی پر اسکی ہمت نا ہوئ کہنے کی۔
" بولو۔۔۔" مصطفی نے اسے تکا۔
" کچھ نہی۔۔۔ بس کیا میں آج رات یہاں سو جاؤں۔۔۔" وہ دھڑکتے دل سمیت گویا ہوئ۔
" نہی۔۔۔ کوئ ضرورت نہی اپنے کمرے میں جاؤ۔۔"
اسنے سختی سمو کر کہا۔
" پر۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگنے لگا ہے۔۔" اسنے نم آواز میں مدعا بیان کیا۔
" تم جیسی لڑکی جس سے اسکا عاشق آدھی راتوں کو ملنے آتا ہو۔ اسے ڈرنے کی بھلا کیا ضرورت۔ ایسی عورتوں پہ ڈر جچتا نہی ہے۔" اسکا لہجہ نفرت و حقارت سے مزین تھا۔
نازنین کے حلق میں کچھ ابھر کر معدوم ہوا تھا۔ آنکھیں لمحوں میں مزید بھیگیں تھیں۔
" مصطفی میں تمہیں بتا چکی ہوں۔ کہ میرا اس سے کوئ تعلق نہی اب۔۔" اسنے تڑپ کر کہا۔
" مجھے اس سے کوئ غرض نہی۔ کہ تمہارا اس سے تعلق تھا یا ہے۔۔۔" مصطفی نے سرد لہجہ میں کہتے اپنی ٹی شرٹ کے بٹن کھولے تھے۔ نازنین نے اسکے کشادہ سینے سے نگاہ چرائ تھی۔
" جانتی ہوں۔ تمہیں کوئ فرق نہی پڑتا۔ پر پلیز بار بار اس انسان کا نام میرے ساتھ نا لو۔۔" وہ نگاہیں جھکائے گویا ہوئ۔
" رنگرلیاں جس کے ساتھ منائ ہیں۔ اسکا نام تو ساتھ آئے گا ہی ناں۔۔۔" وہ شرٹ ایک جھٹکے سے اتر کر پھینک گیا تھا۔
" مصطفی۔۔!!" وہ صدمہ سے چلائ تھی۔
" آپ بھی جانتے ہیں یہ کے میں پاک ہوں پھر بھی اتنے غلط الزام مجھ پر لگا رہے ہیں۔۔" وہ سسکی تھی۔
" ہاں۔۔۔ پر ضروری نہی ناں۔۔۔ اکثر منزل پہ پہنچنے سے پہلے بھی لوگ قدم روک لیا کرتے ہیں۔ کیا پتہ تمہارا کیس بھی ایسا ہی ہو۔" وہ کندھے آچکا کر گویا ہوا۔
نازنین نے آگے بڑھ کر ایک زناٹے دار تھپڑ مصطفی کے گال پہ جڑا تھا۔ مصطفی اسکے عمل پہ غصہ سے پاگل ہوا تھا۔
" ہمت کیسے ہوئ تمہاری مجھ پہ ہاتھ اٹھانے کی۔" مصطفی نے اسکا بازو موڑ کر نازنین کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئ۔ میرے کردار پہ انگلی اٹھانے کی۔" وہ بھی چیخی تھی۔
" میں بار بار یہی کہوں گا۔ کہ تم ایک بد کردار عورت ہو۔" وہ اسکے چہرے پہ جھکتا اسکے کانوں میں گرم سیسہ انڈیل رہا تھا۔
" اگر اتنی ہی بد کردار ہوں میں تو آزاد کرو مجھے اس رشتے سے۔" وہ تڑپ کر گویا ہوئ۔
" آزادی۔۔۔ ہنہ تم صرف آزادی کے خواب دیکھو گی۔ پر آزادی کبھی تمہیں نہی ملے گی۔" مصطفی نے اسے بیڈ پہ پھینک کر کہا۔ وہ اوندھے منہ جا کر بستر پہ گری تھی۔ مصطفی خود واشروم میں جاکر بند ہوگیا تھا۔
☆☆☆☆☆
نازنین اوندھے منہ بستر پہ پڑی تھی۔ مصطفی کافی دیر بعد واشروم سے باہر نکلا تو اب بھی وہ اسی پوزیشن میں پڑی تھی۔ مصطفی نے تولیہ صوفہ پہ پھینکا۔ اور اسکے سر پہ کھڑے ہوکر غرایا۔
" ساری رات یہاں ایسے ہی پڑے رہنے کے ارادے ہیں کیا بیبی۔؟؟"
" مجھ سے بات مت کرو۔" وہ دبے دبے لہجہ میں چلائ تھی۔
" مجھے کوئ شوق نہی تم سے بات کرنے کا۔ پر براہِ کرم میرے کمرے سے چلی جاؤ." وہ اکڑ کر کہتا ، ڈریسنگ کے آگے کھڑا ہوا تھا۔ اور اپنے بالوں میں برش کرنے لگا۔
" نہی جاؤں گی یہاں سے۔" نازنین کا انداز ضدی تھا۔
" مسئلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔؟؟" وہ برش پٹخ کر اُسکی سِمت واپس آیا تھا۔
" میرا مسئلہ یہ ہے کہ کیوں کرتے ہو اس قدر زلیل مجھے۔ بیوی ہوں تمہاری۔ کیوں نہی دیتے ہو عزت۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔ میں بہت غلط تھی۔ میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ بہت غلط کیا ہے ہمیشہ۔۔۔۔۔۔۔!!!
پر کیا تم مجھے معاف نہی کرسکتے۔۔ جو تم نے میرے ساتھ ہمارے نکاح کی پہلی رات ، مصطفی میں نے بھی تو وہ سب معاف کر دیا ناں۔۔۔۔۔!!
شاید اگر کوئ اور لڑکی ہوتی تو کبھی معاف نا کر پاتی۔۔۔ پر میں نے معاف کر دیا۔ تم بھی کردو مجھے معاف۔ یا تو آزادی دے دو مجھے یا پھر۔۔۔۔ اس رشتے کو دل سے قبول کر لو۔ کب تک انتقام کی آگ میں جلتے رہو گے۔ اور مجھے بھی جلاتے رہو گے۔۔۔ !!
آخر کب تک۔۔۔ مصطفی۔۔۔۔!!" وہ مضبوط لہجہ میں کہتی سسکی تھی۔
" واہ۔۔۔ کتنا آسان ہے۔ ناں تمہارے لیئے یہ کہہ دینا کہ میں سب بھول جاؤں۔ تم بھی تو بھول گئ۔ شادی کی رات کی گئ میری حرکت کو۔ نازنین میری بات ساری زندگی یاد رکھنا۔ جو انسان عزت کی خاطر جیتا ہو۔ وہ مر جائے گا ، کٹ جائے گا پر کبھی کسی سودا گر سے عزت کا سودا نہی کرے گا۔ تم نے مجھے ہر کسی کی نظروں میں زلیل کرکے رکھ دیا۔۔۔!!!
ہہہ ۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب اسقدر آسان ہے نہی۔۔۔ نازنین میں شاید تمہارا مجھے حقارت بھری نظروں سے دیکھنا بھول جاؤں۔ یا پھر شاید میں یہ بھی بھول جاؤں کے تم نے ساری عمر مجھے لوگوں کے سامنے رسوا کیا۔ میں اٌس رسوائی کو بھی بھول جاؤں۔ مگر جو الزام تم نے مجھ پہ لگایا تھا۔ وہ میرے دل پہ کسی تیز دھار خنجر کی مانند پڑا ہے۔ مجھے نہی لگتا کہ میں عمر بھر کبھی تمہارے اس جھوٹ کو معاف کرسکوں۔" مصطفی کا لہجہ جل رہا تھا۔
نازنین کے نین کٹورے آنسوؤں سے لبریز ہوئے۔ نازنین نے خشک ہوتے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر تر کیا۔ اور پھر بھیگی نگاہیں اٹھا کر مصطفی کو بے بسی و لاچارگی سے تکا۔ کچھ کہنے کی چاہ میں لب پھڑپھڑائے۔ پر وہ لب بھینچ گئ۔ مصطفی نے جاکر کمرے کا دروازہ کھولا۔ اور کھڑے ہوکر اسے تکا۔ صاف اِشارہ تھا۔ کہ وہ اسکے کمرے سے نکل کر چلی جائے۔ نازنین گہری سانس لیکر اٹھی تھی۔ اور کمرے سے نکل کر چلی گئ۔ مصطفی نے شکست خوردگی سے دروازہ بند کیا۔ اور بستر پہ آکر ڈھے گیا۔
☆☆☆☆☆
" شعلہ مجھے لگا تھا۔ تمہیں اس سے پیار ہوگیا ہے۔۔ پر تم نے تو۔۔" شہلا صدمہ میں تھی۔
آج سے ایک مہینہ پہلے شعلہ جب آئ تھی۔ تب سے شہلا اس سے پوچھ پوچھ کر تھک چکی تھی۔ کہ آخر میر عالم کے پاس وہ واپس کیوں نہی جارہی۔ میر عالم کو اسکی ضرورت ہے۔ اسے اپنے شوہر کے پاس ہونا چاہیئے۔ پر وہ ہر وقت گم صم بیٹھی رہتی۔ اور آج جو اعتراف اسنے کیا تھا۔ وہ شہلا کو گہرے صدمہ میں مبتلا کر گیا تھا۔
" پیار ہو نہی گیا تھا۔ پیار تھا۔۔۔ اور ہے۔ پر میں اس کے ساتھ اپنی زندگی نہی گزار سکتی۔" شعلہ نے اپنی ٹھوڑی گھٹنوں پہ ٹکائ ہوئ تھی۔ اسکے سیاہ بال اسکی پشت پہ بکھرے ہوئے تھے۔
" نہی۔۔۔ شعلہ تم اس سے پیار نہی کرتی۔ جن سے پیار کیا جاتا ہے۔ انہیں یوں برباد نہی کیا جاتا۔ جن لوگوں کو ہم چاہتے ہیں۔ انہیں ہم یوں موت کے دہانے پہ نہی پہنچاتے۔ تم اِس دھوکہ سے نکل آؤ۔ کہ تمہیں میر عالم سے محبت ہے۔۔۔۔۔" شہلا نے سفاکیت سے کہا۔
" تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھ لو۔ پر حقیقت تو یہ ہے کہ میرے لیئے محبت سے بڑا انتقام تھا۔ جو میں نے لے لیا۔" شعلہ نے گھٹنے پہ سے ٹھوڑی اٹھائ۔
" غلط ہو تم۔۔۔ اس سے انتقام لینے کے چکر میں تم نے خود کو برباد کردیا۔" شہلا کو اس پہ غصہ اور ترس دونوں بیک وقت آرہا تھا۔
" نہی ۔۔۔۔!!
میں برباد نہی ہوئ۔ میں آباد ہوں۔ خوش ہوں۔ میں زندگی میں آگے بڑھ کر مزید لوگوں کو اُس دلدل سے بچاؤں گی۔ جس میں ۔۔۔۔۔ میں پھنسی تھی۔" شعلہ نے ایک عزم سے کہا۔
" اچھا اور تمہاری پرسنل لائف کا کیا۔ ؟؟؟
شوہر تھا تمہارا ، گھر تھا تمہارے پاس ، سب گنوا دیا تم نے شعلہ۔۔۔!!
سب کچھ گنوا دیا۔" شہلا کا دکھ کم ہی ہونے کا نام نا لے رہا تھا۔
" میں بے گھر نہی ہوئ۔۔۔!!
گھر آج بھی ہے میرے پاس ، زندگی اب بھی ہے۔اور میں اپنی زندگی کو تنہا ہی بھر پور طریقے سے گزار لونگی۔" شعلہ نے چڑ کر کہا۔
" کاش میں جو تمہیں سمجھانا چاہ رہی ہوں تم سمجھ جاؤ۔ مجھے اندازہ نہی تھا ، اس بات کا کہ تم اس قدر کم عقل انسان ہو۔" شہلا نفی میں سر ہلاتی ، اُٹھ کر چلی گئ تھی۔
شعلہ گہری سانس خارج کرتی اپنا سر گھٹنوں پہ ٹکا گئ تھی۔ آنکھوں کے کنارے پہ ایک خاموش آنسو چمکا تھا۔ جسے وہ سرعت سے صاف کر گئ تھی۔
" کتنی نادان ہے ناں شہلا۔۔!!!
اسے لگتا ہے مجھے اس سے پیار تھا۔
پر اسے یہ معلوم نہی کہ مجھے اس سے عشق ہے۔۔۔!!"
وہ اپنی ہی بات بات پہ زخمی سا مسکرائ تھی۔
☆☆☆☆☆
آج پانچ مہینے بیت گئے تھے۔ پر میر عالم کو ہوش نہیں آیا تھا۔ وہ اب تک کوما میں تھا۔ نازنین اور حیدر کے تعلقات اب بھی ویسے ہی تھے۔ ایک منجمد برف کی دیوار انکے درمیان آ کھڑی ہوئ تھی۔ نازنین نے بھی دوبارہ کوشش نا کی۔ مصطفی سے اپنے تعلقات بہال کرنے کی ، آخر وہ بھی کب تک کرتی۔ عزتِ نفس نام کی شے تو اسکے پاس بھی تھی۔ تو وہ اپنے قدم پیچھے لے گئ۔ وہ دو اجنبی تھے۔ جو ایک چھت تلے تو رہتے تھے۔ پر ایک دوسرے سے سراسر انجان تھے۔ نازنین کو مصطفی سے کوئ سروکار نا تھا۔ اور مصطفی کو نازنین سے۔۔۔!!
مصطفی میر عالم کے پاس بیٹھا تھا۔ ڈاکٹر اسکے چیک اپ کے لیئے آئے تھے۔
" ڈاکٹر کوئ امپروو منٹ آئ۔۔؟؟" مصطفی پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
" ہمم پہلے کے مقابلے میں اب یہ بہتر ہیں۔ اگر ایسے ہی رہا تو۔ یہ بہت جلد ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔" ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ لہجہ میں کہا۔
" تھینک یو ڈاکٹر۔۔۔" مصطفی انکا حقیقتاً بے حد مشکور تھا۔
" شکریہ کی کوئ بات نہی مصطفی یہ تو میرا کام ہے۔" ڈاکٹر نے مصطفی کے کندھے پہ ہاتھ دھرا تھا۔
" چلو میں چلتا ہوں۔" ڈاکٹر صاحب نے مصاحفہ کے لیئے ہاتھ آگے بڑھایا۔
" نہی آج تو آپ لنچ ہمارے ساتھ کرکے جائیں گے۔" مصطفی نے اٹل ہوکر کہا۔
" یار پھر کبھی۔۔" انہوں نے معذرت کرنا چاہی۔
" نہی آج میں آپکی بلکل نہی سنوں گا۔ آج آپکو کھانا کھلا کر ہی چھوڑوں گا۔۔۔!!" ڈاکٹر صاحب مصطفی کے خلوص پہ مسکرا کر رہ گئے تھے۔
" اوکے۔۔۔" ڈاکٹر صاحب نے ہتھیار ڈالے۔
"چلیئے آئیے نیچے۔۔۔" مصطفی نے دروازے کی سمت اپنی ہتھیلی پھیلا کر۔انہیں چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ مسکرا کر اسی سمت ہو لیئے جس سمٹ مصطفی کا ہاتھ تھا۔ مصطفی بھی انہی کے پیچھے ہو لیا تھا۔
وہ دونوں جب ڈائیننگ ٹیبل پہ آکر بیٹھے تو نازنین پہلے سے بیٹھی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو نازنین نے مسکرا کر سلام کیا۔ ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر ہی اسے جواب دیا۔ اور مصطفی اور ڈاکٹر صاحب بھی اپنی اپنی نشست سنمبھال گئے۔
" واہ خوشبو تو بڑی اچھی آرہی ہے۔ لگتا ہے کھانا نازنین نے بنایا ہے۔۔۔" ڈاکٹر صاحب نے کھانوں سے اٹھتی اشتہا انگیز خوشبو کو خود میں اتار کر کہا۔
نازنین ان کی بات پہ ہولے سے مسکرائ تھی۔ پر مصطفی کی بات پر نازنین کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔
" نہی ۔۔۔۔!!
اسے یہ سب کام نہی آتے۔ یہ ایک امیر باپ اور بھائ کی بگڑی ہوئ۔ بیٹی اور بہن ہے۔ اسے صرف پیسے اڑانے کا طریقہ آتا ہے۔ وہ آپ اس سے پوچھیئے بخوبی بتائے گی۔۔۔" مصطفی نے بظاہر مسکرا کر کہا۔
ڈاکٹر صاحب نے بغور مصطفی کوتکا۔ اور مسکرائے۔
" بہر حال یہ کام تو ہر عورت جانتی ہے۔ نازنین کوئ انوکھی نہی جسے پیسے اڑانے کا شوق ہو۔" ڈاکٹر صاحب کی بات پہ نازنین کے ہونٹوں پہ ایک پھیکی سی ہنسی نمودار ہوئ۔
" پتہ نہی میں نے نہی دیکھی ایسی لڑکیاں جو ایسا کرتی ہوں۔ سوائے نازنین کے۔۔" مصطفی نے کندھے اچکائے۔
نازنین کو سخت اہانت کا احساس ہوا۔
" ہمم درست کہہ رہے ہو۔۔۔!!
مجھے لگتا ہے ، کہ تمہارا کبھی واسطہ ہی نہی پڑا نازنین کے علاوہ کسی بھی صنف نازک سے ، شاید یہ تمہاری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہے۔۔۔" ڈاکٹر صاحب نے چاول پلیٹ میں نکالتے کہا۔
" ہاں ایسا ہی۔۔۔" مصطفی نے انکی بات سے اتفاق کیا۔
" جبھی تم ملازمہ کے ہاتھ کے بنائے کھانے اور گھر والی کے ہاتھ کے بنائے کھانے میں فرق محسوس نہی کر پارہے۔" ڈاکٹر صاحب نے بڑے شوق سے کھانا کھاتے کہا۔
" اب مجھے آپ جیسے سنجیدہ انسان کی اسقدر بیوقوفانہ بات پر شدید ہنسی آرہی ہے۔
مطلب۔۔۔۔!!
گھر والی یا پھر ملازمہ کے ہاتھ کے کھانے میں فرق ہی کیا ہوتا ہوگا۔۔۔" مصطفی نے ہنستے ہوئے سر کو نفی میں ہلایا تھا۔
نازنین نے مصطفی کی جانب دیکھنے سے گریز برتا۔
" بہت فرق ہوتا ہے۔۔۔!!
تمہیں محسوس نہی ہوتا یہ الگ بات ہے۔" ڈاکٹر صاحب نے گہری نظروں سے مصطفی کو دیکھا تھا۔
" شاید۔۔۔" مصطفی کندھے آچکا کر رہ گیا۔
☆☆☆☆☆
ساوری کی طبیعت کافی خراب رہنے لگی تھی۔ تکلیف کے باعث وہ نڈھال پڑی رہتی۔ حیدر اسکا بہت زیادہ خیال رکھ رہا تھا۔ ابھی بھی وہ اسے ڈاکٹر کے پاس سے لیکر آیا تھا۔
ساوری صوفہ پہ آنکھیں موندے بیٹھی تھی۔ حیدر اسکے برابر آکر بیٹھا تھا۔ دھیرے سے اسکے بال سہلائے تھے۔ ساوری نے کسلمندی سے آنکھیں کھول کر حیدر کو تکا۔
" آپ کو شرم نہی آئے گی ، مجھ سے میرا بچہ لیتے ہوئے۔۔۔؟؟" اسکا لہجہ بھاری تھا۔
" میں تمہیں کتنی بار کہہ چکا ہوں ، یہ فضول کی باتیں نا سوچو تم۔۔۔" حیدر نے گہری سانس لیکر اسکا سر اپنے کندھے پہ دھرا تھا۔
" یہ باتیں فضول نہی ہیں۔ یہ حقیقت ہیں۔۔" ساوری نے اسکی گرفت سے دور ہونا چاہا۔
" پر فلحال یہ نا سوچو تم۔۔۔" حیدر نے اسے دور نا جانے دیا۔
" کیسے نا سوچوں ، میری تو ساری سوچیں ۔۔۔ بس اسی ایک دہانے پہ آکر اٹکی ہیں۔" اسکی آنکھوں میں زندگی کی رمک نا تھی۔
" مت سوچو ۔۔۔ اچھی اچھی باتیں سوچو ، وہ سب سوچو جو تمہیں بہت اچھا لگتا ہے۔" حیدر نے نرمی سے کہا۔
ساوری نے سر اٹھا کر حیدر کو تکا۔ اور پھر منہ پُھلا کر اپنی ٹھوڑی اسکے سینے پہ ٹکائ تھی۔
" آپ امیر لوگوں کا بھی کتنا اچھا سین ہے ناں۔۔۔!!! پیسہ دے کر سب کچھ کروا لو۔ خود مزے لیتے رہو۔ اور دکھ ، تکلیف ، پریشانی ، زندگی بھر کی تنہائ۔۔۔ غریب کی جھولی میں ڈال دو۔" اسنے بڑے عام سے لہجہ میں کہا۔
حیدر نے اسے گھورا تھا۔ وہ اب بھی ویسے ہی اسکے سینے پہ تھوڑی ٹکائے اسے تک رہی تھی۔
" ہر امیر ایسا نہی ہوتا۔ بس کچھ امیر لوگ ایسے ہوتے ہیں۔" حیدر نے اسکے گال پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔
" فری نا ہوں۔۔" وہ اس سے دور ہوئ تھی۔ حیدر نے گہری سانس لیکر اسے خمار آلود نظروں سے تکا تھا۔
"میں فری نہی ہونا چاہتا پر ۔۔۔۔ ہو جاتا ہوں۔۔"
حیدر کی بات پہ ساوری منہ بنا کر رہ گئ تھی۔
" مجھے سمجھ نہی اتا۔ مجھ سے اتنی چِپڑی چُپڑی باتیں کرنے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ کونسا ہمیں عمر بھر ساتھ رہنا ہے۔ بس یہ بچہ ہوجائے تو آپکے اور میرے راستے الگ ہوجائیں گے۔" اسکا لہجہ اداس سا تھا۔
" میں مستقبل سے زیادہ ، آج میں جینے والا انسان ہوں۔ آگے کیا ہوگا۔ مجھے اس سے کوئ سروکار نہی۔ آج کیا ہوگا۔ میرے لیئے وہ اہم ہے۔" حیدر نے اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنا ہاتھ دھرا تھا۔ ساوری نے گردن ترچھی کرکے حیدر کو اچٹتی نگاہ سے تکا۔
" پر میں ایسی نہی ہوں۔ مجھے میرے آج سے زیادہ مستقبل کی فکر رہتی ہے۔ میں ایسی انسان ہوں۔ جو اپنی زندگی میں ہمیشہ اپنے آنے والے کل کا سوچ کر خوفزدہ ہو جایا کرتی ہوں۔" ساوری کی آنکھیں خالی تھیں۔
" اتنا بھی کل کی فکر میں رہنا اچھا نہی ہوتا ساوری۔۔۔!!
اکثر کل کی فکر ہمیں ، ہمارا آج نہی جینے دیتی۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" پر اگر ہماری پوری زندگی ، ہمارے آنے والے کل پہ انحصار کرتی ہو تب۔۔۔۔ !!!
تب تو چاہ کر بھی ، آپ اپنے مستقبل کی فکر سے آزاد نہی ہو سکتے۔"
ساوری نے تمسخر سے کہا۔ اور اٹھ کر وہاں سے چلی گئ۔ حیدر پر سوچ نظروں سے اسے جاتا دیکھ کر رہ گیا۔
☆☆☆☆☆
"۔۔۔ نہی۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔؟؟" شعلہ کا صدمہ سے برا حال تھا۔
" اب میں کیا کروں گی۔ میں ۔۔۔۔ کیا کروں۔۔۔ مجھ سے اتنی بڑی غلطی ہو کیسے گئ۔۔۔!!" وہ سر تھام کر بستر پہ بیٹھی تھی۔
شہلا نے اسے ٹھنڈی نظروں سے تکا۔
" ایک بار پھر تم نے مجھے حیرت زدہ کر دیا ہے ۔۔۔۔ شعلہ۔۔۔!!
اگر تعلقات اتنے ہی گہرے ہوگئے تھے۔ تو پھر رہتی نا خوشی ، خوشی۔۔۔ اب کیا کروگی۔۔۔؟؟؟" شہلا نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" ۔۔۔ میں ۔۔۔ یہ۔۔۔۔ بچہ ایبارٹ کروا لونگی۔۔۔" وہ اپنے زرد پڑتے چہرے پہ اپنے دونوں ہاتھ پھیر کر گویا ہوئ۔
" پاگل ہوگئ ہو۔۔۔!!!
مجھے ایسا لگتا ہے۔ جیسے تمہاری مت ماری گئ ہے۔۔۔" شہلا کو اسپہ جی بھر کے تاؤ آیا تھا۔
" ہاں ہو گئ ہوں پاگل ، تم بتاؤ کیا کروں میں۔۔۔۔ اکیلے نہی پال سکتی میں اس بچے کو۔۔۔" وہ سسکی تھی۔
" اتنی کم عمری میں دوسروں کی بیٹیوں کو پالا ہے تم نے اور اب بھی پال رہی ہو۔ اور کہتی ہو کہ ، تم یہ بچہ اکیلے نہی پال سکتی۔۔!!" شہلا نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
" یہ بہت مشکل ہے شہلا۔۔۔!!" اسکی آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہہ رہے تھے۔
" تو واپس چلی جاؤ۔۔۔۔ اُسکے پاس ، اُسکو تمہاری اور تمہیں اُسکی ضرورت ہے۔۔۔!!" شہلا نے پیار سے کہا۔
" نہی۔۔۔۔ میں نہی جا سکتی۔۔۔۔ بلکل نہی جاسکتی۔۔۔!!
یہ تو اِس بچے کو پالنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔۔۔" اُس نے شدت سے نفی کی۔
" پاگل ہوگئ ہو تم۔۔ سچ میں۔۔" شہلا گہری سانس خارج کرکے اسکا ہاتھ پرے ہٹا گئ تھی۔
" میں ایبارٹ کروا لونگی۔۔" شعلہ نے عزم سے کہا۔
" منہ توڑ دونگی میں تمہارا اگر دوبارہ تمہارے منہ سے میں نے یہ واہیات بات سنی تو۔۔۔" شہلا نے غرا کر کہا۔
" مجھ پہ حکم مت چلاؤ۔۔۔!!
میں جانتی ہوں ، مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے سکھانے کی ضرورت نہی۔" شعلہ بھی بھڑک اٹھی تھی۔
" میں کیا کروں تمہارا شعلہ۔۔۔۔ تم پاگل ہوگئ ہو۔۔۔؟؟" شہلا کا دکھ کم ہی نا ہوکے دے رہا تھا۔
" پلیز مجھے کچھ دیر تنہائی چاہیئے۔۔" شعلہ نے بدمزاجی سے کہا۔ شہلا تاسف سے سر ہلاتی۔ اسکے کمرے سے نکل کر چلی گئ تھی۔
شعلہ کے خیالات کے پردوں پہ وہ رات پوری آب و تاب سے لہرائ تھی۔ جس رات اسکی طبیعت ٹھیک نہی تھی۔ میر عالم نے اسے اپنی بانہوں کے حصار میں قید کیا تھا۔ رات کے نصف پہر میں شعلہ ڈر کر اٹھی تھی۔ اسکا چہرہ خوف سے مکمل زرد پڑ چکا تھا۔ میر عالم بھی اسکی چیخ پہ اٹھے تھے۔ اسکے گالوں پہ ہاتھ دھر کر انہوں نے اسے نرمی سے تکا تھا۔
" کیا ہوا۔۔؟؟" اُنکی نرم سی آواز جب شعلہ کے کانوں سے ٹکرائ تو وہ خوف کے زیرِ اثر میر عالم کے گرد اپنے بازو ہمائل کر گئ تھی۔
" میں نے بہت برا خواب دیکھا۔۔۔" وہ گہری گہری سانسیں لیتی سہمے ہوئے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" اٹس اوکے خواب ہی تھا۔۔۔!!" میر عالم نے اسے مزید خود سے قریب کیا تھا۔
" مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔" شعلہ نے میر عالم کا کالر اپنی مٹھی میں جکڑا تھا۔
" پہلی بار تمہیں اس قدر خوفزدہ دیکھ رہا ہوں۔ ایسا کیا دیکھ لیا خواب میں۔۔۔؟" میر عالم نے اسکی پیشانی پہ بکھرے بالوں کو اسکے کانوں کے پیچھے اڑسا تھا۔
" کچھ۔۔۔ نہی۔۔" وہ گہرے سانس بھرتے ہوئے گویا ہوئ۔
میر عالم نے دھیرے سے اسے بستر پہ واپس لٹایا تھا۔ شعلہ خوفزدہ سی اسکی گرفت میں مزید سمٹی تھی۔
میر عالم کا دل اسکی قربت میں اُدھم مچا گیا تھا۔شعلہ مزید اُسمیں سمٹتی میر عالم کا کڑا امتحان لے رہی تھی۔ میر عالم کے حلق میں ایک گھٹلی ابھر کر معدوم ہوئ تھی۔ انکے ہاتھ جو شعلہ کے گرد بندھے تھے۔ اب وہ دھیرے دھیرے اسکے گرد سرکنے لگے تھے۔ شعلہ جو خوفزدہ سی تھی۔ اسکی حرکت پہ یکدم ہوش میں آئ تھی۔ اور خود کو اسکی گرفت سے آزاد کیا تھا۔ میر نے بہکی ہوئ خمار آلود نظروں سے اسے تکا تھا۔ شعلہ کے گال یکدم تپ اٹھے تھے۔
" میں بے خواب ۔۔۔ بہت بر۔۔ا دیکھا۔" شعلہ نے اٹک اٹک کر کہا۔ عالم کا دیہان بٹانے کا اسے کوئ اور طریقہ نا دکھا تو وہ خواب کے بارے میں بتانے لگی۔
" ایک موقع تو دو ، پھر زندگی میں کبھی برے خواب نہی آنے دونگا۔ چاہت ، محبت ، خلوص ، سب ہمیشہ تمہارے گرد طواف کریں گے۔ میری بے رنگ زندگی میں تم کسی بہار کی مانند ہو شعلہ۔۔۔!!
نام تو تمہارا شعلہ ہے پر میرے لیئے تم شبنم ہو۔ اور میں چاہتا ہوں ، کہ یہ شبنم صدا یونہی مجھ پہ برستی رہے۔ اظہار کے زیادہ طریقے نہی آتے مجھے ، بلکہ سچ کہوں تو ، یہ کام میرے لیئے کافی مشکل ہے پر پھر بھی میں کہنا چاہوں گا۔
کہ مجھے تم سے محبت ہوگئ ہے۔ تمہارے غنڈوں والے انداز ، تمہارے ایک نارمل لڑکی والے انداز ، خواہ کے تم اور تم سے جڑی ہر چیز سے عشق ہے مجھے۔ تم بہت اچھی لگنے لگی ہو مجھے۔" میر عالم کے اظہار محبت پہ شعلہ کئ لمحوں تک اسے بے خودی کے عالم میں تکتی رہی۔
عالم نے خمار ، خمار ہوتی نظروں سے اُسکا بھر پور جائزہ لیا۔
شعلہ اُسکی نظروں کی تپش خود پہ محسوس کرکے ہوش میں آئ تھی۔
" رات۔۔۔ بہت ہو۔۔۔گئ ہے۔۔ سو جائیے۔۔۔" شعلہ نے اٹک اٹک کر کہا۔ اسکی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ دل ڈھول کی مانند کانوں میں بج رہا تھا۔ اسکا ہاتھ بے ساختہ اپنے دل پہ جاکر پڑا تھا۔ اسکا دل جیسے ناچ رہا تھا۔ وہ خوفزدہ ہوئ۔ کہیں اسکے دل کی یہ سرکشی میر عالم سن نا لے۔
" ہاں رات تو واقع بہت ہوگئ ہے۔" انکا لہجہ اب بھی خمار آلود تھا۔
شعلہ تھوک نگلتی لیٹی تھی۔ میر عالم بھی اسکے برابر میں ہی لیٹے تھے۔ پر آج انہوں نے کوئ تکیوں کی دیوار نہی لگائے تھی۔ آج یہ کام شعلہ نے کیا تھا۔ اسکی اس تدبیر پہ میر عالم دلکشی سے مسکرائے تھے۔
" اگر میں بے قابو ہوگیا۔ تو یہ تکیوں کی باڑ مجھے روک نہی پائے گی۔۔۔" میر عالم کے بھاری لہجے میں کہی بات شعلہ کا دل سرکا گئ تھی۔ شعلہ نے سہمی ہوئ نظروں سے اسے تکا۔ اور کمفرٹر سر تک تان گئ۔
میر عالم کمفرٹر میں چھپے اسکے وجود کو دیکھتا رہا۔ شعلہ کو اسکی نظروں کی تپش اب بھی خود پہ محسوس ہورہی تھی۔ اسنے چڑ کر کمفرٹر اپنے چہرے پہ سے ہٹایا۔
" مسئلہ کیا ہے تمہارا۔۔۔؟؟"
" میرا مسئلہ اگر تمہیں بتا دیا ، تو تم ناراض ہو جاؤ گی۔" اسکی ذومعنی بات پہ شعلہ کے گال دہک اٹھے تھے۔
" شرم کرو۔ اپنی عمر کا ہی ذرا خیال کر لو۔" شعلہ نے تھوک نگل کر کہا۔
" شرم کی بھلا کیا بات ۔۔۔ ہاں۔۔۔!!
اور عمر بڑی ہے تو کیا ہوا۔ دل نہی ہے میرے پاس ، کیا میرے کوئ جذبات نہی۔" میر عالم اسکے قریب ہوتا اسکے چہرہ پہ جھکا تھا۔ دونوں کی گرم سانسیں ایک دوسرے سے ٹکرائ تھیں۔ میر عالم نے اپنا چہرہ اسکے گال پہ سہلایا۔ آنکھیں موند کر وہ اسکی خوشبو کو اپنے جسم و جاں میں جیسے اتار دینا چاہتا تھا۔ شعلہ نے اسکی قربت کے زیرِ اثر اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔
" شعلہ۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔ کیا ہو ، کون ہو ۔۔۔۔ مجھے کچھ نہی پتہ ، مگر اتنا پتہ ہے کہ تمہارے بغیر جینا ممکن نہی۔۔۔" وہ اسکی بند آنکھوں کو بے خودی کے عالم میں دیکھ رہا تھا۔
شعلہ نے دھیرے سے اپنی آنکھیں کھولیں تو میر عالم کی جادو میں جکڑتی آنکھوں سے اسکی آنکھیں ٹکرائ تھیں۔ کئ لمحے وہ دونوں ایک دوسرے کو ایسے ہی یک ٹک دیکھتے رہے۔ لمحے ریت کی مانند سرک رہے تھے۔ پر وہ ایک دوسرے کو دیکھنے میں گم تھے۔ میر بے خودی کے عالم میں اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ شعلہ بھی آنکھیں موندے دھیرے سے اپنے ہاتھ میر عالم کے گالوں پہ دھر گئ تھی۔
لمحہ بیتتے جا رہے تھے۔ اور وہ دونوں ایک دوسرے میں ڈوبتے جا رہے تھے۔ میر عالم نے اسکے لبوں کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ، اپنے ہونٹ اسکے سرخ رخسار پہ دھرے تھے۔
میر عالم کی انگلیاں اسکے چہرے سے سرکتی اسکی گردن پہ آئ تھیں۔ شعلہ آنکھیں موندے اپنی بے ترتیب ہوئ دھڑکنوں کو سنبھالنے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی۔
" تم میرے لیئے بہت اہم ہو۔" وہ اسکے کان کی لو پہ لب رکھتا۔ بڑبڑایا تھا۔
شعلہ اسکے لمس پہ مزید سمٹی تھی۔ میر عالم کے دہکتے لب شعلہ کے بدن کو چھوتے اسکے دل کے تار چھیڑ رہے تھے۔
بیتتی رات کے سنگ وہ دونوں ایک دوسرے میں ڈوب گئے تھے۔ شعلہ اسکی بانہوں میں قید اپنا آپ اسکے سپرد کر گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
نازنین لگی مصطفی کے کمرے کی صفائ کر رہی تھی۔ یہ سب تو اسکے لیئے روز کا معمول ہوگیا تھا۔ مصطفی کے دفتر نکلتے ہی وہ اسکے کمرے کی صفائ کرنے آجایا کرتی تھی۔ میر عالم کے ایکسیڈینٹ کے بعد مصطفی نے اپنے اور عالم کے پیسے ملا کر ایک فروزن فوڈز کی کمپنی اسٹارٹ کی تھی۔ جو بہت اچھی چل رہی تھی۔ مصطفی اکثر وہیں بزی رہتا۔ اب نازنین کی مصروفیات بھی بدل چکی تھیں۔ دوستوں کے ساتھ آنا جانا ، سب ختم ہوچکا تھا۔
روز ، روز شاپنگ کرنا بھی وہ کب کا چھوڑ چکی تھی۔ اب تو اسے مہینے ہوگئے تھے۔ شاپنگ کیئے۔میر عالم کے کومہ میں جانے کے بعد ، ان لوگوں نے وہ والا گھر بھی شفٹ کردیا تھا۔ یہ گھر شہر کے قریب تھا۔ کیونکہ میر عالم کی طبیعت کی کوئ خبر نہی ہوتی تھی۔ کہ اسے کب ڈاکٹر کی ضرورت پڑ جائے۔ اس لیئے مصطفی کوئ رسک نہی لینا چاہتا تھا۔
گھر تو یہ بھی خوبصورت تھا۔ پر اتنا بڑا نا تھا۔ جتنا انکا وہ والا گھر بڑا تھا۔ گھر چھوٹا ہوا۔ تو ملازمین بھی کم کر دیئے گئے۔ کیونکہ زیادہ ملازمین کی اس گھر میں ضرورت نہی تھی۔ اور کچھ ملازمین کو نازنین نے خود نکال دیا تھا۔ کیونکہ وہ فارغ نہی بیٹھنا چاہتی تھی۔ وہ خود کو مصروف رکھنا چاہتی تھی۔ وہ نازنین جسے کھانے کی الف کا بھی پتا نا تھا۔ وہ اس کچھ عرصہ میں اچھا کھانا بنانا سیکھ گئ تھی۔ اسکے لباس میں بھی بہت تبدیلی آئ تھی۔ بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نازنین سر سے لیکر پیر تک بدل چکی تھی۔ اس میں آئ یہ تبدیلیاں ہر کوئ دیکھ رہا تھا۔ اور اسے سراہ رہا تھا۔ سوائے مصطفی کے۔ نازنین کو کسی کی تعریف نہی چاہیئے تھی۔ اسے محض مصطفی کی تعریف چاہیئے تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اسکا شوہر اسکی تعریف کرے ، اسے سراپے، اس سے پیار کرے۔۔۔!!!
پر شاید یہ سب نازنین کی زندگی میں خواب ہی بن کر رہ گیا تھا۔
مصطفی کی سفید شرٹ جو بیڈ پہ پڑی تھی۔ نازنین نے وہ اٹھائ تو اسکا دل دہک سے رہ گیا۔ مصطفی کی شرٹ پہ لپ اسٹک کے نشان تھے۔ اسنے کپکپاتے ہاتھوں سمیت اس شرٹ کو سنمبھال کر رکھا۔ آنکھوں سے آنسو تواتر سے بہنے لگے تھے۔ اپنے آپ کو سنبھالتی وہ مصطفی کے کمرے سے نکلی۔ اور پھر پورا دن وہ کچھ نا کرسکی۔ صدمہ تھا۔ کہ بہت گہرا تھا کم ہونے کا نام ہی نا لے رہا تھا۔
اب تو مغرب ہونے کو آگئ تھی۔ وہ اسی طرح کمرے میں بند پڑی تھی۔ رات کے نو بجے کے قریب باہر سے مصطفی کی آوازیں آنا شروع ہوئ تھی۔
وہ کسی برف کے مجسمے کی مانند اٹھی تھی۔ باہر آئ تو وہ ڈائیننگ ٹیبل پہ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔ وہ قدم قد۔ چلتی اسکے سر پہ آکر کھڑی ہوئ تھی۔ مصطفی نے اسے ایک نظر دیکھا۔
" آپ کا کسی لڑکی کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔۔؟" اسنے ہر احساس سے عاری لہجہ میں پوچھا۔
" واٹ۔۔۔!!" مصطفی نے اسے نا سمجھی سے تکا۔
" زیادہ انجان بننے کی ضرورت نہی ہے۔ مجھے سب پتا چل گیا ہے۔" اسنے بکھرے لہجہ میں کہا۔
" مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی۔۔ کیا پتا چل گیا ہے تمہیں۔۔۔" مصطفی کھانا چھوڑ کر الجھے ہوئے لہجہ میں مستفسر ہوا۔
" سب سمجھ آجائے گی۔ سب۔۔۔!!" وہ طیش کے عالم میں کہتی مصطفی کی کلائ تھام گئ تھی۔ مصطفی نے پہلے اپنی کلائ اور پھر اسے دیکھا۔ وہ نجانے کیوں اسکے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ وہ اسے اپنے ساتھ لیئے اسکے کمرے میں لائ تھی۔ اور اسکی کلائ کو ایک جھٹکے سے چھوڑا تھا۔ مصطفی اپنے جبڑے بھینچ کر رہ گیا تھا۔
وہ بازو باندھ کر کھڑا ہوگیا تھا۔ نازنین اسکی الماری سے شرٹ نکال کر لائ۔ اور سیدھا اسکے منہ پہ ماری۔ مصطفی نے شرٹ دیکھی۔ شرٹ کے کندھوں کے پاس لپ اسٹک کے نشان تھے۔ مصطفی نے شرٹ بیڈ پہ پھینکی اور کندھے اچکائے۔
" یہ کوئ ثبوت نہی۔۔۔" مصطفی نے کندھے آچکا کر کہا۔
" یہ تمہاری شرٹ پہ کسی لڑکی کی لپ اسٹک کا نشان ہے اور تم کہہ رہے ہو یہ کوئ ثبوت نہی۔۔۔!!!" نازنین کو اسکے ڈھیٹ پنے پہ جی بھر کر تاؤ آیا۔
" ہاں یہ کوئ ثبوت نہی اس بات کا ، کہ میرا کسی لڑکی کے ساتھ افئیر چل رہا ہے۔" وہ اپنی بات پہ اسٹل رہا۔
" جھوٹ مت بولو۔ تم کل رات بہت دیر سے آئے تھے۔ مصطفی تمہارا افئیر چل رہا ہے۔۔۔" وہ چلائ تھی۔
" چلاؤ مت ، چلانا مجھے بھی آتا ہے۔" وہ اس سے زیادہ اونچی آواز میں چلایا تھا۔
" مصطفی پلیز سچ بتا دو۔۔۔" وہ ہار مان کر سسکی تھی۔
مصطفی نے بگڑے تیور لیئے اسکی جانب سے رخ موڑا تھا۔ اور تمسخر سے ہنسا تھا۔
" جب تم یہ مان چکی ہو۔ کہ میرا کسی کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔ تو پھر کوئ فائدہ نہی میرے کچھ بھی کہنے کا۔ تم نے ہمیشہ یہی کیا ہے۔ ہمیشہ مجھ پہ الزام ہی لگائے ہیں۔ اب تو مجھے عادت سی ہوگئ ہے۔ تمہارا یہ الزام بھی قبول ہے۔۔۔!!" مصطفی نے سرد لہجہ میں کہا۔
نازنین کی آنکھوں میں آنسو اٹکے تھے۔ اسنے نفی میں سر ہلایا تھا۔
" الزام۔۔۔ نہی۔۔۔۔ لگا رہی۔۔۔ میں تو چاہتی ہوں کہ تم کہو کہ ایسا کچھ بھی نہی۔۔ جیسا میں سوچ رہی ہوں۔۔" وہ روتے ہوئے اسکے قریب آئ تھی۔
" مجھے کوئ صفائ نہی دینی۔ ساری زندگی میں تمہیں صفائیاں نہی دے سکتا۔ اگر تمہیں مجھ پہ بھروسہ ہوتا۔ یقین ہوتا۔ تو کبھی یہ نوبت نا آتی۔" مصطفی اسکی سائڈ سے ہوکر نکلنے لگا تھا۔ جب نازنین نے اسکا ہاتھ تھاما۔
" تم اس بات کا الزام مجھے نہی دے سکتے مصطفی۔ تم نے کبھی مجھے اس قابل سمجھا کہ میں تم پہ یقین کر سکوں۔ تم پہ بھروسہ کرسکوں۔۔۔!!!
نہی۔۔۔!!
تم نے ایسا کبھی نہی کیا۔ تمہیں کبھی میرا یقین۔۔۔ میرا بھروسہ جیتنے کی خواہش ہی نہی ہوئ۔" اسکی نم بھیگی آواز میں کیئے گئے شکوے پہ آنکھیں موند کر رہ گیا۔
" اگر میں نے نہی کی۔ تو کوشش تم نے بھی نہی ، میرا یقین جیتنے کی۔" وہ ایک جھٹکے سے اسکی گرفت سے اپنا بازو چھڑوا گیا تھا۔
" غلط کر رہے ہو تم مصطفی۔۔۔!!" وہ سسکتی ہوئ فرش پہ بیٹھی تھی۔
" تمہاری نظروں میں تو۔ ساری زندگی مصطفی ہی غلط رہا ہے۔" مصطفی کہتے ساتھ ہی واشروم میں بند ہوگیا تھا۔ اور وہ بیٹھی سسک رہی تھی۔ سلگ رہی تھی۔ پر کچھ کرنے کی طاقت نہی رکھتی تھی۔
☆☆☆☆☆
" ساوری پریگننٹ ہے اور تم ہمیں ابھی پانچ مہینے بعد بتا رہے ہو۔۔۔" اسکی امی خفا ہورہی تھیں۔
" امی مجھے ابھی لگا کہ یہ سہی ٹائم ہے اسی لیئے ابھی بتا دیا۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" بھلا یہ کیا بات ہوئ حیدر۔۔۔" امی بھڑکی تھیں۔
" ہمیں در فشاں کو آگاہ کرنا تھا کہ وہ سب کے سامنے ایسے پرٹنڈ کرے کہ وہ پریگننٹ ہے۔۔" امی نے قدرے نرمی سے کہا۔
" ہمم تو اب بتا دیجیئے۔۔۔" لاپرواہی کی حد تھی۔
" ہاں اب گھر جاکر پہلے اسے انفارم کروں۔۔۔" حیدر کی امی نے دھیرے سے مسکا کر کہا۔
ساوری جو کمرے میں تھی۔ حیدر کی امی کی آوازیں سن کر باہر آئ تھی۔ حیدر کی امی نے جیسے ہی اسکے بھاری سراپے کو دیکھا۔ فوراً آٹھ کھڑی ہوئیں۔
" ماشااللہ میرا پوتا۔۔۔" وہ ساوری کو گلے سے لگا گئ تھیں۔ انکی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔
" کیسی ہیں آپ۔۔؟" ساوری نے دھیرے سے مسکا کر پوچھا۔
" میں ٹھیک ہوں۔ تم کیسی ہو۔ ؟" انہوں نے بڑے ہی نرم چاشنی سے لہجہ میں پوچھا۔
" میں ٹھیک ہوں۔۔" وہ مسکائ۔
حیدر نے اسے صوفہ پہ آکر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ چلتی ہوئ صوفہ پہ آکر بیٹھی۔
" تمہارا یہ احسان ہم زندگی بھر نہی بھلا پائیں گے۔۔" انکا لہجہ تشکرانہ تھا۔
" شاید آپ لوگوں پہ کیا یہ احسان میں بھی زندگی بھر بھلا نا پاؤں۔۔" ساوری نے سر جھکا کر نرم سے لہجہ میں کہا۔
حیدر کی امی نے اسے بغور تکا۔
" تم ایک بہت بہادر لڑکی ہو۔۔" انہیں اس سے حقیقتا ہمدردی ہوئ۔
وہ تمسخر سے ہنسی تھی۔ حیدر نے اسے بغور تکا تھا۔
" تم بے فکر رہو۔ میں تمہاری شادی خود ایک بہت اچھی جگہ کرواؤں گی۔۔" انہوں نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔ حیدر اپنی ماں کی بات پہ بے چین ہوا تھا۔ اور ساوری محض انہیں دیکھ کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
شام کم وقت تھا نازنین گارڈن کی طرف جاتے زینوں پہ ، گھٹنوں پہ سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ آنکھوں کے گرد شدید رت جگے کی وجہ سے سیاہ ہلکے پڑے تھے۔ وہ اس رات کے بعد سے مصطفی سے ایک طویل فاصلہ قائم کر گئ تھی۔ میر عالم کی طبیعت میں کافی سدھار آیا تھا۔ وہ ہوش میں تو نہیں آۓ تھے۔ پر اب انکے سننے کی حِس کام کرنے لگی تھی۔ نازنین جہاں اس بات سے بے تحاشہ خوش تھی۔ وہیں مصطفی کی وجہ سے اداس ، اسکی آسان سی زندگی مشکل سی ہو گئ تھی۔
کہاں اسکی زندگی میں نیل پینٹ کے سہی شیڈ نا ملنے کی ٹینشن ہوا کرتی تھی۔ اور اب کہاں سب بدل چکا تھا۔ اب واقعی اسکی زندگی میں سب کچھ تبدیل ہوچکا تھا۔ اسکا نظریہ ، رہن سہن ، پسند نا پسند ، سب تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ کسی بھی اینگل سے پرانی والی نازنین نا لگتی تھی۔
مصطفی جو آج دفتر سے جلدی فارغ ہو گیا تھا۔ مغرب سے پہلے ہی گھر آن پہنچا تھا۔ گاڑی سے نکل کر مصطفی اندر جانے لگا تھا۔ جب نظر نازنین پہ پڑی ، وہ سر نفی میں ہلاتا۔ اسکی جانب آیا تھا۔
" کس مراقبے میں ڈوبی ہو۔۔۔؟" مصطفی پینٹ کی جیب میں ایک ہاتھ اڑساۓ کھڑا ، اسپہ چوٹ کرنا نا بھولا تھا۔
" ہنہ۔۔۔۔ آج جلدی آنے دے دیا۔۔۔ تمہاری گرل فرینڈ نے۔۔۔" وہ اسکے جوتوں پہ نظریں ٹکاۓ تمسخر سے گویا ہوئ۔
" ہاں کہہ رہی تھی۔ جاؤ آج اپنی چڑیلوں کی نانی جیسی بیوی کو کچھ پل دان کردو۔۔۔" وہ اپنے آستین فولڈ کرتا اسکے برابر میں بیٹھا تھا۔
" تم ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ تمہاری سو کالڈ گرل فرینڈ ۔۔۔ کم از کم یہ رائٹ تو نہی رکھتی۔ کہ وہ مجھے میرے ہی شوہر کے ساتھ چند پل دان کرسکے۔" تپے ہوئے لہجہ میں جواب دیا۔
" تم کیا جانو میں اسے کیا ، کیا رائٹ دے چکا ہوں۔ اگر جان جاؤ تو جل کر بھسم ہو جاؤ گی۔" وہ تپ رہی تھی۔ اور وہ اسے مزید تپا رہا تھا۔
" مجھے کوئ دلچسی نہی تعہارا گرل فرینڈ نامہ سننے میں۔۔۔" وہ مصطفی کی بات پہ سلگ ہی اٹھی تھی۔
" اففف۔۔!!! اتنی جلن۔۔۔" مصطفی اسکے غصہ کی تمازت سے سرخ پڑتا چہرہ اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھو کر گویا ہوا۔ نازنین نے مصطفی کا ہاتھ اپنے چہرے پہ سے جھٹکا تھا۔
" یعنی میرا شک بلکل درست تھا۔ تمہمارا سچ میں کسی کے ساتھ افئیر چل رہا ہے۔ پر اس دن تم جان بوجھ کر انجان بن رہے تھے۔۔۔!!!" نازنین نے بھیگی پلکیں اٹھا کر بے یقین لہجہ میں کہا۔
مصطفی گہری سانس لیکر اٹھا تھا۔ نازنین پہ ایک افسوس بھری نگاہ ڈال کر اسنے سر اونچا کرکے آسمان کو تکا۔
" تمہارا کچھ نہی ہوسکتا نازنین۔۔۔ تم نے جو سوچنا ہے سوچو۔۔۔ آئ ڈونٹ کیئر۔۔۔۔۔۔۔" وہ اسے سرد نظروں سے گھورتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
نازنین جب اندرآئ تو مصطفی لگا خود اپنے لیۓ چاۓ بنا رہا تھا۔ نازنین کو کچن میں آتا دیکھ وہ اسے سرے سے ہی نظر انداز کر گیا تھا۔ نازنین اسکی بے اعتنائ پہ سر سے لیکر پیر تک سلگی تھی۔ نازنین نے مصطفی سے ساس پین لینا چاہا پر مصطفی نے نازنین کا ہاتھ بری طرح سے جھٹکا۔ وہ ساس پین خود چولہے پہ رکھ کر ، اس میں پانی انڈیل رہا تھا۔ نازنین پتی چینی کے جار اٹھا کر لائ تھی۔ مصطفی اسے مکمل طور پہ نظر انداز کر رہا تھا۔ نازنین کو ناچار دونوں جار سلیب پہ دھرنے پڑے۔ لب کچلتی وہ اسکے بگڑے تیور کئ لمحوں تک تکتی رہی ، ہمت مجتمع کرکے اسنے اپنی بات کہی۔
"سہی ، سہی بتا کیوں نہیں دیتے ، کہ تمہارا کوئ افئیر ہے یا نہیں۔" اسنے منہ پھلا کر کہا۔ وہ سچ میں کنفیوز ہوگئ تھی۔ اسکا رویہ ہی ایسا تھا۔ کہ نازنین کے لیۓ اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مصطفی نے اسے کوئ جواب نا دیا۔ وہ اسکی چپی پہ سر سے لیکر پیر تک سلگی تھی۔
" دیکھو اب بھی تم چپ ہو۔ یا تو ہر وقت گرل فرینڈ ، گرل فرینڈ کا الاپ جاپتے رہتے ہو۔ اور یا پھر میری کسی بات کا کوئ جواب ہی نہی دیتے۔ تم ہی بتاؤ آخر میں اپنا شک ختم کروں بھی تو کیسے کروں۔۔۔" وہ آنکھوں میں آنسوں لیۓ عاجز سی کھڑی تھی۔
" جب تمہیں مجھ پہ بھروسہ ہی نہیں تو کیا فائدہ ، ان سب باتوں کا۔۔۔"مصطفی نے سرد لہجہ میں کہا۔
" بھروسہ ہے۔۔۔۔۔" اسنے اپنی بات پہ زور دیا۔
" ہنہ یہ کیسا بھروسہ ہے ، جہاں مجھے چند الفاظ کا سہارا لیکر تمہیں یہ بتانا پڑے گا۔ کہ میں اپنی زندگی میں کبھی کوئ غلط حرکت نہیں کرسکتا۔" اسنے اپنی سنجیدہ نظریں نازنین کی نم آنکھوں میں گاڑھی تھیں۔
" اور رہی بات میرے افئیر کی۔ تو نہی ۔۔۔۔ میرا کوئ افئیر نہی چل رہا۔" وہ چاۓ دو کپوں میں انڈیل کر نکل گیا تھا۔
" یہ۔۔۔ چاۓ دو کپوں میں کیوں لے جا رہے ہو۔۔۔؟" نازنین پوچھے بنا نا رہ سکی۔
" اپنی گرلفرینڈ کے لیۓ۔۔۔" مصطفی نے چڑے ہوۓ لہجہ میں جواب دیا۔
" اب تم مجھے غصہ دلا رہے ہو۔۔" نازنین اسکے پیچھے ، پیچھے چلنے لگی تھی۔
" اسکا میں کچھ کر نہی سکتا۔ اب تمہیں عمر کا تقاضہ ہونے لگا ہے۔۔۔" مصطفی نے ٹھنڈے لہجہ میں کہا۔
" واٹ ڈو یو مین باۓ عمر کا تقاضہ۔۔۔۔؟؟" نازنین بھڑکی۔
مصطفی نے ٹرے ڈائیننگ ٹیبل پہ دھرتے ۔ ایک تنقیدی نگاہ اس پہ ڈالی۔ اور بنا جواب دیۓ قد آدم ونڈو کے پردے ہٹاۓ۔ شام گہری ہونے میں ابھی وقت تھا۔ ہلکی ہلکی روشنی ، ڈائننگ ایریا کو روشن کر گئ تھی۔
" یہ تم مجھ سے نا پوچھو ۔۔۔۔ یہ تم آئینے سے پوچھو۔۔۔" وہ چیئر کھسکا کر اسپہ بیٹھا تھا۔
" میرے لیۓ تو میرا آئینہ تم ہو۔۔۔۔" وہ بھی اسکے مقابل چیئر کھسکا کر بیٹھی تھی۔ مصطنی نے نگاہ اٹھا کر اسے دیکھا۔
" تع مجھ پہ پنچ لائن مار رہی ہو۔۔۔" کپ اٹھاتے ، ساتھ میں بھونئیں بھی اچکائ تھی۔
" جو بھی سمجھو۔۔۔۔۔۔" نازنین نے منہ بنا کر دوسرا کپ اٹھایا تھا۔
مصطفی سر نفی میں ہلاتا ، رخ یاہر کی جانب کر گیا تھا۔ نازنین چاۓ کا کپ لبوں سے لگاتی مسکائ تھی۔ غلط فہمی کے بادل چھٹے تو دونوں کے درمیان کا موسم کچھ بہال ہوا تھا۔
٭٭٭٭٭
" تم آئسکریم لیکر نہی آۓ۔۔" ساوری کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو چمکنے لگے تھے۔
" سو، سوری یار۔۔۔ بھول گیا۔۔" اسنے معذرت کی۔
" ایسے کیسے بھول گۓ ، میں صبح سے انتظار کر رہی تھی۔۔۔" اسکی آنکھوں سے آنسو چھلکنے کو بیتاب ہوۓ تھے۔
" اوکے ۔۔۔ اوکے رونا مت ابھی ہم چلیں گے ، باہر اچھا سا ڈنر بھی کریں گے۔ اور پھر آئسکریم بھی کھائیں گے۔۔" حیدر نے اسکے گرد اپنے مضبوط بازو ہمائل کرتے اسے خود سے لگایا تھا۔
" جھوٹ نا بولیں۔۔۔۔ آپ ہر بار ایسے ہی وعدہ کرتے ہیں اور پھر لیکر نہی جاتے۔۔" ساوری نے بھڑک کر کہا۔
" اچھا ۔۔۔۔ سوری پر آج لیکر جاؤں گا۔ جاؤ جلدی سے تیار ہو جاؤ۔ پھر چلتے ہیں۔۔" حیدر نے اسکے گداز رخسار پہ لب دھر کر کہا۔
" اوکے میں جلدی سے تیار ہوکر آئ۔۔۔" وہ بھاگتی ہوئ ، اپنے کمرے میں گئ تھی۔ اور وہ اسکے بچپنے پہ مسکرا کر رہ گیا تھا۔
کچھ لمحے بعد وہ باہر آئ تو ، حیدر مسکرایا تھا۔ پرپل کلر کی ٹخنوں تک آتی کمیز ، اور پرپل ہی کلر کا کیپری جو کمیز لمبی ہونے کی وجہ سے چھپ سا گیا تھا۔ ہلکے سے بھاری سراپے کو ڈھانپنے کے لیۓ اسکن کلر کی سندھی کڑاہی والی شال پہنے وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ حیدر مسکرا کر اسکے مقابل آکر کھڑا ہوا تھا۔ حیدر نے اپنی مضبوط کلائ اسکے سامنے پھیلائ تھی۔ ساوری نے دھیرے سے اپنا نازک گداز ہاتھ اسکی گرفت میں دیا تھا۔
" چلیں ۔۔۔۔" حیدر نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔
" ہمم۔۔" اسنے دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا۔
راستے کا سفر انتہائ خاموشی سے گزرا۔ وہ دونوں ریسٹورینٹ میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ جب وہاں درفشاں آئ۔ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر ٹیبل پہ دھرا تھا۔ اور دونوں کو دیکھ کاٹ دار سا مسکائ تھی۔
" رومینٹک ڈنر ہورہا ہے۔۔۔ واؤ ۔۔۔ یہاں کا لزانیہ بہت ٹیسٹی ہوتا ہے۔ مجھے بھی ٹراۓ کرنا ہے۔" درفشاں نے ایک ادا سے کہتے کرسی سنمبھالی تھی۔
" تم کسی اور ٹیبل پہ جا کر بیٹھو ، اور جو ٹراۓ کرنا ہے کرو۔۔" حیدر بھڑکا تھا۔
" واہ بھئ جیدر صاحب ، آپ تو شاید دنیا کے پہلے انسان ہیں جو اپنی بیوی کو ہی ، اپنے پاس بٹھانے سے انکاری ہے۔۔" درفشاں نے ساوری کو جلتی نظروں سے تکا۔
" در فشاں پلیز ، ساوری تمہارے ساتھ بلکل بھی کمفرٹیبل نہی ہے۔۔" حیدر نے چمچ پلیٹ میں پٹخا تھا۔
ساوری نگاہیں جھکاۓ ، اسے مکمل طور پہ نظر انداز کر رہی تھی۔
" اگر وہ کمفرٹیبل نہی تو یہ تو میرا مسئلہ نہی ہے۔۔۔" در فشاں نے ساوری کے آگے کھانے سے سجی پلیٹ اچکی تھی۔
" ایسے ہی ، بلکل ایسے ہی ۔۔۔ میں تم سے حیدر اور تمہارے بچے کو بھی چھین لوں گی۔" در فشاں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے اسے جتایا تھا۔ اسکی بات پہ حیدر مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔ اور ساوری کی آنکھیں لمحوں میں بھیگی تھیں۔
" در فشاں پلیز اسٹاپ دس نانسینس۔۔۔ تم یہاں سے جا رہی ہو۔ یا ہم ہی اُٹھ کر چلے جائیں۔۔۔" حیدر بھڑکا تھا۔
" اگر جانا چاہتے ہو تو ۔۔۔ شوق سے جاؤ ، پر میرے سوالات کا جواب دے کر۔۔" در فشاں نے فورک کو پلیٹ میں گھماتے اپنے دانت پیس کر کہا۔
" تمہارے جو بھی سوالات ہیں۔ انکے جواب میں تمہیں کل گھر آکر دے دونگا۔" حیدر نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا۔
" پر مجھے میرے ہر سوال کا جواب ابھی اور اسی وقت چاہیئے۔ اور ویسے بھی کل کس نے دیکھا ہے۔ تم نے دیکھا ہے۔ نہی ناں۔۔۔!!
تو سوال بھی آج ابھی اسی وقت ہونگے۔ اور انکے جواب بھی میں آج ابھی اور اسی وقت چاہتی ہوں۔۔"
" پوچھو۔۔۔" حیدر نے جبڑے بھینچ کر کہا۔
ساوری نے اٹھ کر جانا چاہا۔ جب حیدر نے اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنا ہاتھ دھرا۔
" تم کہیں نہی جا رہی۔۔" اسکا لہجہ اٹل تھا۔
" سوال نمبر ایک ۔۔۔۔ اس میں اتنی دلچسپی کیوں لینے لگے ہو۔۔۔؟؟" در فشاں نے ساوری کے ہاتھ کی پشت پہ دھرے حیدر کے ہاتھ کو جلتی نظروں سے تکا۔
" بیوی ہے میری ، مجھے پسند ہے۔ پھر دلچسپی لینا تو بنتا ہے ناں۔۔!!" حیدر نے ٹھنڈے لہجہ میں جواب دیا۔
" ہنہہ بیوی مائے فٹ۔۔۔!!
ایک بات اپنے ذہن نشیں کر لو حیدر بیوی تمہاری ایک ہی ہے۔ درفشاں ۔۔۔!!" اسنے اپنے سینے پہ انگلی بجائ تھی۔
حیدر اسکی بات پہ تمسخر سے ہنسا تھا۔ در فشاں نے خونخوار نظروں سے حیدر کو تکا۔
" کچھ بھی کہہ لو تم۔۔ در۔۔۔ تم اتنے سالوں میں کبھی اپنا وہ مقام نا بنا سکی۔ جو ساوری نے ان چند مہینوں میں بنا لیا ہے۔" حیدر نے ساوری کو محبت پاش نظروں سے تکا۔
" یہ چاہے کوئ بھی مقام بنا لے۔ پر سچ ہمیشہ سچ ہی رہتا ہے۔ اب بس کچھ ہی وقت رہ گیا ہے۔ بچہ ہوتے ہی۔ نا یہ رہے گی تمہاری زندگی میں نا اسکا کوئ مقام۔۔" در فشاں نے حاسد نظروں سے ساوری کے سراپے کو تکا۔ اور چمچہ پٹخ کر اپنا بیگ سنمبھالتی۔ وہاں سے چلی گئ۔
" تم کھانا کھاؤ۔۔۔ چھوڑو اسے۔۔" حیدر نے ساوری کی توجہ کھانے کی جانب مبذول کرائ۔
ساوری نے پلکوں کی باڑ اٹھا کر پر شکوہ نظروں سے حیدر کو تکا۔ پر حیدر اسکی نظروں کے تاثر کو نظر انداز کرتا۔ کھانا کھانے لگا تھا۔
ساوری نے بھی بے دلی سے تین چار لقمے زہر مار کیئے۔ اب کیا کرتی جینے کو اتنا کھانا تو ضروری تھا۔ ہر حال میں۔ تو وہ بھی بس خود کو زندہ رکھنے کی خاطر کھانے لگی۔ نہی تو اپنے بچے کے چھن جانے کا خوف اسے کھانے بھی نا دیتا تھا۔ بہت مشکلوں سے وہ اس خوف کے اثر سے نکلی تھی۔ پر آج درفشاں نے اسکے خوف کو ایک بار پھر جگا دیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" اتنا سج سنور کر کہاں جا رہی ہو۔۔" شعلہ جو لاؤنج کے صوفہ پہ بے حال سی پڑی تھی۔ شہلا کو سجا سنورا کہیں باہر جاتے دیکھ اٹھی تھی۔
" آں۔۔۔ وہ۔۔۔۔ میر۔۔۔ میری ۔۔۔ ایک دوست ہے ۔۔۔ اس سے ملنے ۔۔ جا رہی ہوں۔۔" شہلا نے بوکھلائے ہوئے انداز میں جواب دیا۔ اسکے چہرے پہ ننھے ننھے پسینے کے چند قطرے بھی نمودار ہوئے تھے۔ جنہیں وہ نا محسوس طریقے سے خشک کر گئ تھی۔
" تمہاری دوست۔۔۔!!
جہاں تک میں تمہیں جانتی ہوں۔ تم یہاں اتنی لڑکیاں ہونے کے باوجود کسی سے دوستی نہی رکھتی۔ تو پھر یہاں سے باہر کوئ دوست۔۔۔ یقین تو نہی آرہا مجھے۔ پر چلو تم کہتی ہو تو یقین کر لیتی ہوں۔" شعلہ نے اسے جانچتی نظروں سے سر سے لیکر پیر تک تکا۔
" ہہہ ۔۔۔ تم بھی ناں۔۔۔ وہ ۔۔ بس اس نے میری مدد کی اور ہماری دوستی ہوگئ۔۔۔" شہلا کا رنگ باقاعدگی سے زرد پڑا تھا۔
" اچھا ۔۔۔ ایسی کیا مدد کردی کے تمہاری اس سے اتنی جلدی دوستی بھی ہوگئ۔۔۔" شعلہ نے اسکے چہرے پہ آئے خوف کو بغور جانچا۔
" م۔۔ مجھے دیر ہورہی ہے یار۔۔۔" اسنے عاجز آکر کہا۔
" اوکے جاؤ۔۔۔" شعلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا شکر کا سانس لیتی جلدی جلدی نکلنے لگی تھی۔ جب شعلہ کی بات پہ اسکے قدم تھمے تھے۔
" اپنے دوست سے کہنا واپسی میں مجھ سے ملتا جائے۔۔۔"
شہلا کا حلق سوکھا تھا۔ وہ عاجز سی شکل بنا کر رہ گئ تھی۔ ایک لمبی سانس لیکر وہ خود میں ڈھیروں ہمت جمع کرتی مڑی تھی۔
" وہ لڑکا نہی ہے لڑکی ہے۔۔۔!!" شہلا نے لب کچل کر کہا۔
" وہ تو رات میں پتا چل جائے گا۔" شعلہ نے مسکا کر کہا۔
شہلا وہاں سے نکل گئ تھی۔ وہ ایک ریسٹورینٹ میں پہنچی۔ اور " اپنی " دوست کو ڈھونڈنے لگی۔ وہ اسے دور کہیں بیٹھی دکھی۔
وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی اسکے مقابل آکر بیٹھی۔ پر یہ کیا۔۔۔۔!!!
اسکی دوست تو حقیقت میں لڑکا نکلی۔۔۔!!
مطلب لڑکا نکلا۔۔!!
" کہو کیوں بلایا ہے۔۔۔؟" وہ احتیاطی طور پر اپنے ارد گرد ایک نظر گھمانا نہی بھولی تھی۔
" نا سلام نا دعا ، نا حال پوچھا۔ نا احوال سیدھا۔ کہو کیوں بلایا ہے۔۔۔!!" سامنے بیٹھے وجیہہ مرد نے اسے نظروں کے ذریعہ دل میں اتارتے کہا۔
" جو بھی بات کہنی ہے جلدی کہو۔۔۔" وہ اسکی نظروں سے کنفیوز ہوتی اپنی انگلیاں چٹخاتے لگی تھی۔
" بہت خوبصورت لگ رہی ہو آج۔۔۔" مقابل نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔
شہلا کے چہرہ پہ پسینے کے چند قطرے چمکے۔ اسنے سرعت سے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالا۔
" پلیز۔۔۔۔!!
جو بات کرنی ہے وہ بتاؤ۔۔۔" شہلا نے اپنے چہرے پہ آتی آوارہ لٹوں کو کانوں کے پیچھے اڑسا۔
" باتیں تو بہت کرنی ہیں۔ تم بتاؤ سنو گی۔ میرے دل کی باتیں۔۔۔" مقابل نے آنکھ دبا کر شوخی سے کہا۔
" اسٹاپ اٹ۔۔" اسکا چہرہ حیا سے سرخ پڑا تھا۔
" میں تمہیں بتا نہی سکتا ، تمہارا یہ شرمانا مجھے کس قدر بے چین کر رہا ہے۔۔" وہ اسے دیکھتا مخموریت سے گویا ہوا۔
" میں یہاں تمہاری بے چینیوں کے قصہ نہی سننے آئ۔ میں جو یہاں سننے آئ ہوں۔ مجھے وہ سناؤ۔۔۔" شہلا نے کرختگی سے کہا۔
مقابل دلکشی سے مسکرایا۔ اور ٹیبل پہ جھکتا اسکے قریب آیا تھا۔
" آئ لو یو۔۔۔" اسکی نرم گرم سی سرگوشی شہلا کا دل بڑی زور سے دھڑکا گئ تھی۔
" بکواس مت کرو۔ مجھے بتاؤ میرے گھر والے کیسے ہیں۔۔؟" اسکی بے تابی پہ وہ مسکرایا تھا۔
" سب ٹھیک ہیں ۔۔۔" وہ پیچھے ہو کر بیٹھا تھا۔
" میری امی ۔۔۔۔ کیسی ہیں۔۔۔؟" اسکی آنکھوں میں تڑپ تھی۔
" انتقال ہوگیا ہے انکا۔۔۔" اسنے دھیمی آواز میں اسکے حواسوں پہ دھماکہ کیا تھا۔
" میں مذاق کے موڈ میں نہی ہوں۔۔!!" اسکی آنکھیں جلنے لگی تھیں۔
" میں ایسی بات مذاق میں کیوں کرونگا۔۔۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
شہلا کی آنکھوں کے آگے دھند سی چھائ تھی۔ چند آنسو لڑھک کر اسکے گالوں پہ پھسلے تھے۔ مقابل نے آگے بڑھ کر اسے سنمبھالنا چاہا۔ پر وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتی۔ اپنے آنسو بے دردی سے پونچھتی اٹھی تھی۔
" میں تمہیں ڈراپ کر دیتا ہوں۔۔۔" مقابل کو اسکا اس بڑے صدمہ کے ساتھ تنہا جانا ٹھیک نا لگا۔
" نہی۔۔۔ شکریہ ۔۔۔ میری اپنی گاڑی اور ڈرائیور ہے۔۔۔" وہ رک کر سخت لہجہ میں کہتی وہاں سے نکل گئ تھی۔ اور وہ اسے جاتا دور تک دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ اسکی نظروں سے اوجھل نا ہوگئ۔
☆☆☆☆☆
نازنین نے رات کا کھانا بنا کے کب کا رکھ دیا تھا۔ وہ اوپر تھوڑی دیر عالم کے کمرے میں ائ۔ کئ لمحے اپنے بھائ کے پاس بیٹھی، اس سے اپنے دل کی باتیں کرتی رہی۔ جب نیچے سے اسے مصطفی کے کار کے ہارن کی آواز آئ تو وہ اٹھ کر نیچے آئ۔ مصطفی جو ابھی اینٹرنس پہ کھڑا تھا۔ سامنے نازنین کو زینوں پہ کھڑا دیکھ بری طرح سے بدمزہ ہوا تھا۔ نازنین کا رنگ یکدم فق ہوا تھا۔ نازنین زینے اتر کر نیچے آئ تھی۔ اور اسکے ہاتھ سے اسکا لیپ ٹاپ بیگ اور کوٹ لیا تھا۔
" کیا ہوا۔۔؟؟" وہ اسکے بگڑے تیور دیکھ مستفسر ہوئ۔
" کچھ نہی۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتا۔ صوفہ پہ جاکر بیٹھا تھا۔
نازنین اسکا سامان کمرے میں رکھ کر آئ تھی۔
" کھانا لگا دوں۔۔۔" نازنین کا دل ایک انجانے خوف سے دہک دہک کرنے لگا تھا۔
" نہی مجھے بھوک نہیں ہے۔۔" اسنے اپنا سر ہاتھوں میں گرایا تھا۔
" مصطفی ۔۔۔۔ کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔؟" نازنین نے مصطفی کے برابر بیٹھتے اسکے کندھے پہ ہاتھ دھرا تھا۔
" کچھ نہی ہوا۔۔۔" وہ اسکا ہاتھ پوری شدت سے جھٹکتا۔ لفظ ، لفظ چبا کر گویا ہوا۔
" اگر کچھ ہوا ، نہی تو تمہارا موڈ اس قدر خراب کیوں ہے۔۔۔؟؟" مصطفی کی بے رخی پہ نازنین کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔
" نازنین ۔۔۔۔!!!
اس وقت مجھے چھیڑو مت ، اگر میں چھڑ گیا ناں اس وقت۔۔۔ تو تم یہاں سلامت نہی ملو گی۔۔۔" مصطفی نے اسے سرخ نظروں سے سر سے لیکر پیر تک ایسی سرد نظروں سے تکا۔ کہ نازنین کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی سی دوڑتی محسوس ہوئ۔
" ۔۔۔ میری ۔۔ کوئ۔۔۔ بات بری لگی ہے۔۔؟" نازنین نے دھڑکتے دل سمیت پوچھا۔
" تمہیں ایک بار کی بات کیوں سمجھ نہی آتی نازنین۔۔۔۔!!
میں نے کہا ناں۔۔۔ اس وقت دور رہو مجھ سے۔۔۔" وہ اسکے بازو کو سخت گرفت میں لیتا تقریباً چلایا تھا۔
" مصطفی۔۔۔!!" نازنین کی آنکھوں میں بے یقینی تھی۔ موٹے موٹے موتی آنکھوں سے گرنے کو بے تاب ہوئے۔ اور ایک موتی مچل کر اسکی آنکھ کے کنارے سے بہہ کر اسکے گال کی زینت بنا۔
مصطفی گہری سانسیں لیتا ، اسکی آنکھوں کو کئ لمحوں تک تکتا رہا۔ اور پھر ایک جھٹکے سے اسے خود سے دور کیا تھا۔
" نازنین مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دو۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا تھا۔
اور نازنین خالی خالی نظروں سے اسے زینے چڑھاتا دیکھتی رہ گئ تھی۔
شہلا جب گھر پہنچی تو ، شعلہ اس سے کہیں نا ٹکرائ وہ شکر ادا کرتی لڑکھڑاتے قدموں سمیت اپنے کمرے میں آئ تھی۔ کمرے کا دروازہ لاک کر کے وہ بیڈ کی پائنتی کے پاس فرش پہ بیٹھی تھی۔ آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا تھا۔ ہچکیاں بندھ گئ تھیں۔
" امی۔۔۔۔" وہ روتے ہوئے اپنی ماں کو پکار رہی تھی۔
" ہا۔۔۔۔ امی میری ۔۔۔۔ پیاری۔۔۔ امی۔۔۔۔ آخر ۔۔۔ہہہ۔۔۔ کیوں۔۔۔" وہ شدت غم سے تڑپی تھی۔
" اپنی ماں کے ساتھ بتایا ہوا ایک ایک پل کسی فلم کی طرح اسکی نظروں کے سامنے چلنے لگا۔
وہ سسکتے ہوئے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر روئ تھی۔ بے بسی سی بے بسی تھی۔
اسے خود اس بات کا علم نہی تھا۔ کہ وہ کر کیا رہی ہے۔ دل بند ہونے لگا تھا۔
بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑتی ، وہ چلائ تھی۔
یکدم اسکے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑایا تھا۔
وہ اپنا سر بیڈ کی پائنتی پہ ٹکائے رو رہی تھی۔ آٹھ کر دروازہ کھولنے کی جان بھی اسکے قدموں میں نا رہی تھی۔
ماں جیسا انمول رشتہ کھونے کے بعد وہ کس قدر بے چین رہتی تھی۔ یہ وہ جانتی تھی۔ پر ہمیشہ دل کو ایک سکون رہتا تھا۔ کہ اسکی ماں زندہ ہے۔ سلامت ہے۔۔!!
پر آج جب اسے پتا چلا ، کہ اسکی ماں اس دنیا میں نہی رہی ، تو وہ یکدم صدمہ میں چلی گئ تھی۔ احساس زیاں اس قدر تھا کہ بیاں سے باہر تھا۔ رونے کی وجہ سے اسکا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔ وہ نڈھال سی رو رہی تھی۔
یکدم دروازہ کھلا تھا۔ شعلا نے اندر آکر اسکا حال دیکھا ، تو لپک کر فورا اسکے پاس آئ۔
" کیا ہوا۔۔۔؟؟" اسکے بازو پہ ہاتھ دھر کر شعلا نے فکر مندی سے پوچھا۔
" بیا۔۔۔۔" وہ سسکتی ہوئ شعلہ کے گلے لگی تھی۔
" اس لڑکے نے تمہیں ڈچ کر دیا۔۔۔" شعلا نے اسکی کمر سہلاتے پوچھا۔
" بیا ۔۔۔ میری امی۔۔۔ نہی رہیں۔۔۔" شہلا نے روتے ہوئے کہا۔
" کیا۔۔۔۔!!" شعلہ کو صدمہ ہوا تھا۔
" بیا۔۔۔۔ میری امی۔۔۔ مجھ سے ناراض ہی اس دنیا سے چلی گئیں۔۔۔" وہ سسک سسک کر گویا ہوئ۔
" ششش۔۔۔ بس صبر رکھو ، ہم سب کا آخری ٹھکانہ وہی ہے شہلا۔۔۔" شعلہ نے اسکی کمر سہلاتے کہا۔
" میں مر جاؤں گی ، یہ ملال مجھے جینے نہی دیگا بیا۔۔۔۔" وہ اس سے الگ ہوکر سسکی تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسو کسی جھرنے کی مانند بہنے لگے تھے۔
" شہلا۔۔۔۔ پلیز ایسا مت سوچو۔۔۔ جانتی ہوں۔ یہ وقت بہت مشکل ہے۔ پر گزر جائے گا یہ وقت بھی۔" شعلہ نے اسکے گالوں پہ ہاتھ دھرا تھا۔
" بیا۔۔۔۔" وہ شعلہ کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔ شعلہ کی آنکھیں بھی نم ہوئ تھیں۔ پر وہ اپنی نمی کو چھپا گئ۔
☆☆☆☆☆
نازنین اور مصطفی ناشتہ کرنے بیٹھے تھے۔ نازنین نے چائے کا کپ بھر کر مصطفی کے سامنے دھرا۔ مصطفی خاموشی سے ناشتہ کر رہا تھا۔ نازنین نے بھی کوئ کلام نا کیا۔ مصطفی نے چائے کا کپ لیتے ایک نظر نازنین کو تکا۔
" عیسی ۔۔۔ سے تمہارا تعلق کتنا گہرہ تھا۔۔۔؟؟" مصطفی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
نازنین کے ہاتھ میں املیٹ کی پلیٹ کپکپائ تھی۔ نازنین نے گہری سانس لیکر پلیٹ کو ترتیب سے رکھا۔ اور مصطفی کو تکا۔
" یہ کیسا سوال ہے ، مصطفی۔۔۔!!" نازنین کی آنکھوں میں واضح خوف ہلکورے لے رہا تھا۔
" بہت نارمل سا سوال ہے۔ تمہارا اس شخص سے تعلق کتنا گہرہ تھا۔۔؟؟" مصطفی نے مٹھیاں بھینچ کر لفظ لفظ چبا کر ادا کیا۔
" یہ سوال بلکل بھی نارمل نہی ہے۔۔۔" نازنین نے بے دلی سے کہا۔
" یعنی تمہارا اور اسکا تعلق کافی سے زیادہ گہرہ تھا۔۔۔" مصطفی نے چائے کی چسکی بھر کر کہا۔
" مصطفی۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔ مجھ پہ شک کر رہے ہو۔۔۔؟؟" نازنین نے افسوس سے کہا۔
" اگر شک کرتا ۔۔۔۔ تو تم سے یہ نا پوچھتا کہ تمہارا اس سے تعلق کتنا گہرہ " تھا" بلکہ یہ پوچھتا کہ تمہارا اس سے تعلق کتنا گہرہ " ہے" ، تم سوال کی نوعیت کو شاید ٹھیک سے پرکھ نہی سکی۔۔۔" مصطفی نے اسے بغور تکا۔
" ٹھیک ہے پھر تمہارے لیئے اتنا کافی ہونا چاہیئے۔ کہ ہاں ۔۔۔!!!
میرا اس سے تعلق تھا۔ میں اور وہ شادی کرنا چاہتے تھے۔ پر پھر ایک رات میں سب کچھ بدل گیا۔ اب میرا اس سے کوئ رشتہ ، کوئ تعلق نہی۔۔۔" نازنین نے پر اعتمادی سے کہا۔
" ہاہاہا۔۔۔ہاہاہا وہ تم سے نکاح کرنا چاہتا تھا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔۔" مصطفی اسکی بات پہ قہقہ لگانے لگا۔ نازنین کو ایسا لگا جیسے وہ اسکا مذاق اڑا رہا ہے۔ شدید اہانت کے احساس سے اسکی رنگت سرخ ہوئ تھی۔ مصطفی نے تمسخر سے ہنستے اسے افسوس بھری نظروں سے تکا تھا۔
" کتنی بے وقوف ہوتی ہو ناں تم لڑکیاں۔۔۔۔!!
کسی بھی مرد کی چکنی چپڑی باتوں میں اتنی آسانی سے آجاتی ہو۔ وہ تم سے شادی کرتا۔۔۔ کتنا ہی برا مذاق کر رہی ہو ناں تم۔۔۔ جانتی بھی ہو وہ تھا کون۔ اسکی حقیقت کیا تھی۔ سیکس ریکٹ چلا رہا تھا وہ۔ لڑکیوں کو اپنی محبت کے جھوٹے جال میں پھنسا کر وہ لڑکیوں کو بیچتا تھا۔ اور اسکا نام بھی عیسی نہی تھا۔ اسکا نام رونی تھا۔" مصطفی جب حقیقت کھولنے پہ آیا تو۔ کھولتا ہی چلا گیا۔
اسکی باتیں سن کر نازنین کا رنگ فق پڑا تھا۔ نازنین نے بے یقینی کے عالم میں سر کو نفی میں جنبش دی۔ اور اپنا سر ہاتھوں میں تھام گئ۔
" دھچکا لگا ناں۔۔۔!!
تم جانتی ہو ، اگر ہماری زندگی میں وہ رات نا آتی اور تمہاری مجھ سے شادی نا ہوتی ، تو ابھی تمہارا سودا ہوچکا ہوتا۔" مصطفی نے نازنین کا ہاتھ اپنی مضبوط مگر نرم گرفت میں لیا تھا۔
" مجھے ۔۔۔ یقین نہی آرہا۔ مصطفی۔۔۔!!! کیا میں سچ میں بک جاتی۔ اگر وہ سب نا ہوتا تو۔۔۔" نازنین کا رنگ زرد پڑ گیا تھا۔
" نازنین۔۔۔!!
جو ہونا تھا۔ وہ ہوچکا۔ پر اب اگر وہ شخص تم سے رابطہ کرے تو رسپونڈ مت کرنا۔ اور بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ کچھ دنوں میں وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوگا۔" مصطفی نے نازنین کو سمجھایا۔
نازنین نے نم آنکھیں لیئے سر کو اثبات میں ہلایا۔
" مصطفی۔۔۔!!
میرا اس سے کبھی کوئ فزیکل تعلق نہی رہا۔۔۔" نازنین نے اپنے ہاتھ پہ دھرے مصطفی کے ہاتھ پہ اپنا دوسرا ہاتھ دھرا تھا۔
" تم مجھے اب بھی نہی سمجھی۔۔۔" مصطفی نے اسے افسوس بھری نظروں سے تکا۔ اور مسکا کر اس سے مخاطب ہوا۔ " یہ مصطفی اگر تم سے چاہتا ہے ، کہ تم اس پہ آنکھ بند کرکے بھروسہ کرو۔۔۔ تو۔" مصطفی نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ اور پھر کلام وہیں سے جوڑا جہاں سے چھوڑا تھا۔
" یہ مصطفی اتنی تہذیب تو جانتا ہے کہ اگر تم سے میری توقعات اندھے اعتماد کی ہیں۔ تو یہ مصطفی بھی تم پہ ویسے ہی اندھا اعتماد کرے۔" مصطفی نے اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنے لب دھرے تھے۔
نازنین کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو چمکے تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ پر وہ کہہ نا سکی۔ اسکے لب پھڑپھڑا کر رہ گئے۔
" مصطفئ۔۔۔!!" اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتی مصطفی نے اسکے لبوں پہ اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی دھری تھی۔
" نہی کچھ مت کہو۔" مصطفی نے ساتھ میں سر کو نفی میں جنبش بھی دی۔
" پر میں کہنا چاہتی ہوں۔۔" نازنین نے نرمی سے کہا۔
" ٹھیک ہے جو بھی کہنا ہے۔ وہ رات میں کہنا ، ابھی مجھے دیر ہورہی ہے۔ پر ہاں۔۔!!
میرا ایک کام کرنا بلکل مت بھولنا۔۔۔!!!
آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر آج یہ ضرور پوچھ لینا کہ میں نے تمہیں ، وہ عمر کے تقاضے والی بات کیوں کہی۔۔" مصطفی سنجیدگی سے کہتا۔ آخر میں شرارت سے ہنسا تھا۔
" تم خود ہی ، بتا دو۔۔۔" نازنین نے منہ بنا کر کہا۔
" نہی یہ جواب تمہیں آئینے سے ہی لینا پڑے گا۔۔" وہ اسکی ناک دباتا۔شرارت سے گویا ہوا۔
" کل رات تم کتنے غصہ میں تھے۔۔" نازنین نے اسکے ہلکے پھلکے انداذ کو دیکھ کر کہا۔
" ہاں میں کل رات غصہ میں تھا۔ اور شدید غصہ میں تھا۔ مجھے کل رات جب عیسی کی حقیقت پتا چلی تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ یقین مانو اگر کل رات میں اٹھ کر کمرے میں نا جاتا ، تو نجانے میں تمہارے ساتھ یا پھر شاید اپنے ساتھ کچھ غلط کر بیٹھتا۔" مصطفی کی بات سن کر نازنین کا رنگ پھیکا پڑا تھا۔
" مصطفی کیا تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میرے اس شخص کے ساتھ کوئ برے تعلقات تھے۔۔" نازنین کا اترا چہرہ دیکھ۔ مصطفی اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔
" نازی۔۔۔!!!" مصطفی خفا ہوا۔
" کیا کہا تم نے۔۔۔؟" نازنین کی آنکھوں میں ایک عجب سی شمع چمکی تھی۔
" نازی۔۔!!" مصطفی نے نا سمجھی سے دہرایا۔
" پھر کہو۔۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتی اس سے فرمائش کر رہی تھی۔
" نازی۔۔۔!!" وہ اسکی بات سمجھتا مسکرایا تھا۔
" پھر کہو۔۔" وہ بھی دلکشی سے مسکراتی ، لب دبا کر گویا ہوئ۔
" نازی۔۔۔ !!!
نازی۔۔۔!!! " وہ اپنے لہجہ میں مزید چاشنی گھولتا ، اسکی دل کی دھڑکنوں میں، انتشار برپا کر گیا تھا۔
" میرا دل چاہتا ہے کہ ، یہ وقت یہیں تھم جائے۔" نازنین نے نگاہیں جھکا کر کہا۔
" کاش ۔۔۔۔ میں تمہاری اس فرمائش کو پورا کرسکتا، پر یہ اختیار تو اوپر والے کے ہاتھ میں ہے۔۔۔" مصطفی نے آگے ہوکر اسکے گال پہ اپنا ہاتھ دھرا تھا۔
نازنین آنکھیں موند کر مسکرائ تھی۔ مصطفی کئ پل اسے یونہی تکتا رہا۔ بے خودی سی بے خودی تھی۔ وہ دھیرے سے اسکے لبوں کو چھوتا اس سے دور ہوا تھا۔
نازنین دھیرے سے پلکیں اٹھا کر واپس جھکا گئ تھی۔ اسکا لمس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند تھا۔
" چلتا ہوں۔ دیر ہورہی ہے۔" مصطفی اسے کھڑا کرتا اپنی بانہوں میں قید کرکے گویا ہوا۔
نازنین نے مسکرا کر اسکے سینے میں منہ چھپایا تھا۔ اور گہری سانس لیکر اسکی خوشبو کو اپنے اندر اتارا ۔ مصطفی اسکی حرکت پہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔
مصطفی اس سے دور ہوتا ، ہاتھ ہوا میں دائیں بائیں ہلاتا نکل گیا تھا۔ نازنین خواب کی سی کیفیت میں کھڑی مسکرا رہی تھی۔
☆☆☆☆☆
" کون ہو تم۔۔؟؟" چوکیدار نے اس خوبر جوان کے آگے اپنا ڈنڈا لہرایا اور خود گیٹ کے بیچ و بیچ آکر کھڑا ہوگیا۔
" میں اسفند۔۔۔ اسفندیار احمد ۔۔۔" اسفند نے چوکیدار کو کھا جانے والی نظروں سے گھور کر کہا۔
" کون اسفند ۔۔۔ ام نہی جانتا کوئ اسپند مسپند کو۔۔۔" چوکیدار ہاتھ نچا کر کہتا ، اپنا ڈنڈا زمین پہ بجا کر گویا ہوا۔
" ارے خان صاحب ۔۔۔ اندر میرا نام بتاؤ پہچان جائیں گے۔۔" اسفند نے صلح جوئی سے کام لیا۔
" تمارا نام۔۔۔ اندر کوئ کیوں پیچانے گا۔ تم کیا کوئ کہیں کا وزیر اعظم لگا ہے۔ یا پھر تمہارا دس ، دس ڈامپر چلتا ہے۔۔ بولو۔۔۔؟؟" چوکیدار نے ڈنڈا زور سے اچھال کر پرے پھینکا تھا۔ اسفندیار اسکا جاہ و جلال دیکھ اچھل کر پیچھے ہوا تھا۔
" خان صاحب نا تو میں ، وزیر اعظم ہوں۔ نا ہی میرے دس دس ڈمپر چلتے ہیں۔ پھر بھی مجھے اندر والے پہچان جائیں گے۔" اسفند نے احتیاطی طور پر اپنے دونوں ہاتھ بیچ میں ہائل کیئے ہوئے تھے۔
" تم کیا ام کو بیوقوف سمجھی ہے۔ ام یہاں تیس سال سے کام کرتی ہے۔ پر کوئ تم جیسا گندی شکل والا یہاں نہی آیا۔" چوکیدار اسپہ چڑھ دوڑا تھا۔ اسفند کی آنکھیں ابل کر باہر آئی تھیں۔ اسفند نے نگاہین نیچی کرکے اپنے گریبان کو دیکھا۔ جو چوکیدار کے قبضہ میں تھا۔
" ابی تم ام کو سچ ، سچ بتاؤ ، کون اے تم جاسوس۔۔؟ ، یا پھر ڈاکو ۔۔؟؟" چوکیدار نے خونخواری سے پوچھا۔
" یار میں نا ہی جاسوس ہوں ، اور ڈاکو تو بلکل نہی ہوں۔۔۔" اسفند نے چوکیدار کے دونوں ہاتھ با مشکل اپنے گریبان پہ سے ہٹائے تھے۔
" زیادہ چالاکی نہی۔ امارا نظر چیل کا نظر سے بھی زیادہ تیز ہے۔ چیر پھاڑ کرکے تم کو اس مینشن کی چھت پہ الٹا لٹکا دے گا۔" چوکیدار نے اپنی داڑھی پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔
" میں چالاکی نہی مار رہا ، میں شہلا سے ملنے آیا ہوں۔۔" اسفںد نے عاجز آکر کہا۔
" شہلا ۔۔۔ میڈم سے۔۔۔ اگر تم میری دوسری میڈم کا کہتا ناں تو میں مان بھی لیتا ، پر شہلا میڈم تو امارا کسی سے ملتا ای نئ ہے۔ اور پھر۔وہ اگر ملے گا تو تم سے ملے گا۔ ہنہ جاؤ جاکر اپنا شکل دھو کر آؤ۔۔۔" چوکیدار نے اسے سر سے لیکر پیر تک ایسی نظروں سے تکا تھا۔ کہ اسفند نا چاہتے ہوئ بھی شرمندہ ہوا تھا۔
وہ چوکیدار کو بھی کچھ کہہ نہی سکتا تھا۔ وہ آیا ہی ایسے ہولیہ میں تھا۔ شہلا کو دو دن سے کال ملا رہا تھا۔ پر وہ کل ریسیو ہی نہی کر رہی تھی۔ اسفند کو شہلا کی بہت فکر ہورہی تھی۔ اسفند دو دن سے شہر سے باہر تھا۔ وہ آج ہی واپس آیا تھا۔ ابھی وہ شارٹس اور ٹی شرٹ پہنے ریلیکس ہوکر بیٹھا تھا۔ کہ اسے شہلا کی فکر ستانے لگی۔ اسنے شہلا کا نمبر ملایا۔ پر باقی دنوں کی طرح اس نے کال نا اٹھائ۔ وہ اس کی فکر میں کپڑے تبدیل کیئے بغیر ہی اس سے اس ایڈرس پہ ملنے چلا گیا۔ جہاں سے اس نے اکثر شہلا کو نکلتے اور واپس اندر جاتے دیکھا تھا۔
" تم ایک بار بتا تو دو۔۔۔ اپنی میڈم کو۔۔" اسفند نے منت کی۔
" ٹھیک اے ام پوچھتا ہے۔" آخر کار چوکیدار کو اس پہ ترس آ ہی گیا۔
چوکیدار دیوار پہ لگے انٹر کام کو کان سے لگا کر ریسیو ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
" میڈم ۔۔۔ کوئ لڑکا ہے۔ چڈا اور اوپر پورانہ سا شرٹ پہن کر آیا ہے۔ دکھنے میں تو کوئ زکوة ، خیرات مانگنے والا لگتا ہے۔ پر کہتا ہے۔ اسکو ہماری شہلا میڈم سے ملنا ہے۔" چوکیدار کے الفاظ اپنے لیئے سن کر اسفندیار مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔
" کون ہے ، اسے کہو کیمرے کے سامنے آئے۔۔" شعلہ نے ماتھے پہ بل سجا کر کہا۔
" میڈم کہہ رہا ہے کیمرہ کے سامنے آؤ.." چوکیدار نے اسفند سے کہا۔
اسفند جھٹ کیمرے کے سامنے آیا۔ شعلہ نے بغور اسے دیکھا۔ اور پھر چوکیدار کو مخاطب کیا۔
" اس سے پوچھو کیا یہ وہی ہے ، جس سے اس دن شہلا ملی تھی۔؟"
" میڈم پوچھ رہا ہے۔ کیا تم وہی ہے جس سے اس دن میڈم ملا تھا۔۔؟" چوکیدار نے اسفند کو گھور کر پوچھا۔
" ہاں میں وہی ہوں۔۔" اسفند نے سر اثبات میں ہلا کر جھٹ جواب دیا۔
" میڈم وہ کہہ رہا ہے کہ وہی ہے۔۔" چوکیدار نے شعلہ کو بتایا۔
" اس سے پوچھو ، اس دن شہلا نے کونسے رنگ کا لباس پہنا تھا۔" شعلہ نے احتیاطی طور پہ پوچھا۔
" نیلا مطلب آسمانی رنگ کا۔۔" اسفند نے سہی رنگ بتایا۔
جب چوکیدار نے شعلہ کو بتایا۔ تو شعلہ نے چوکیدار کو حکم دیا کے اسفند کو اندر آنے دے۔
اسفند دانت چبا کر چوکیدار کو گھورتا ایک سویگ کے ساتھ اندر گیا تھا۔ اور چوکیدار نے بھی تمسخر سے اسے دیکھا تھا۔
اسفند کو ایک ملازم نے اندر لاکر بٹھایا تھا۔ اسفند سر جھکائے بیٹھا تھا۔ ایک تنقیدی نظر ڈرائینگ روم کی آرائش پہ ڈالتا۔ وہ شہلا کا انتظار کر رہا تھا۔
ڈرائنگ روم میں کسی صنف نازک کے قدم پڑے تھے۔ اسفند نے اسکے قدموں سے نظر اوپر لیجا کر دیکھا تو اسے سکتہ ہوا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا۔ بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ مگر اس سے پہلے وہ کچھ کہتا۔ مقابل کھڑی شعلہ نے تھیکے نقوش لیئے قدرے کرخت لہجہ میں اسفند کو مخاطب کیا۔
" کون ہو تم۔۔۔ اور تمہیں کیسے پتہ چلا کہ شہلا کی ماں اس دنیا میں نہی رہی۔۔؟" شعلہ صوفہ پہ کسی ملکہ کی مانند آکر بیٹھی تھی۔
" جی وہ میں اسفندیار احمد ہوں۔ اور شہلا ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔۔۔ ، کچھ ماہ پہلے میں نے اسے یہاں سے نکلتے دیکھا تھا۔ اور پھر مجھے پتہ چلا کہ وہ یہاں رہتی ہے۔ پھر میں اس سے ملا۔ اور اس نے مجھ سے اپنی فیملی کے بارے میں پوچھا۔ مجھے پہلے سے پتا تھا۔ اسکی امی کے انتقال کا پر میری ہمت نا ہوئ اسے بتانے کی اسی لیئے میں نے اسے شروع میں نہی بتایا۔ پر پھر مجھے لگا۔ کہ مجھے یہ بات اس سے مزید نہی چھپانی چاہیئے اسی لیئے میں نے اسے سچ بتا دیا۔۔" اسفند نے اسے ساری بات بتائ۔
شعلہ کئ لمحے خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ اور پھر گہری سانس لیکر تقریباً حکم صادر کیا۔
" ٹھیک ہے۔ اب تم جاسکتے ہو۔ اور ہاں ۔۔۔۔ دوبارہ شہلا سے رابطہ کرنے کی کوشش نا کرنا۔ نہی تو پچھتانے کے بھی قابل نہی رہو گے۔۔"
" پر آپ ہوتی کون ہیں۔ شہلا کو مجھ سے دور کرنے والی۔۔" وہ بھڑکا تھا۔
" میں کون ہوتی ہوں۔ میں تمہیں یہ بتانے کی پابند نہی۔ پر ہاں ، تم کون ہوتے ہو ، اسکا نام اسقدر حق سے لینے والے بتاتے جاؤ۔۔۔" شعلہ نے بگڑے تیور سمیت کہا۔ غصہ تو آجکل ویسے بھی اسکی ناک پہ دھرا رہتا۔
" میں اس سے پیار کرتا ہوں ، اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" اسفند نے جذباتیت سے کہا۔
" پر میرے خیال سے وہ تم سے کوئ پیار ، ویار نہی کرتی۔۔" شعلہ نے سرد لہجہ میں کہا۔
" یہ میرا اور شہلا کا مسئلہ ہے۔۔" اسفند جل کر رہ گیا۔
" پر اب نہی رہا۔" شعلہ نے ماتھے پہ ڈھیروں بل سجا کر کہا۔
" پلیز آپ شہلا کو بلا دیں۔۔۔" اسفند نے اکڑ کر کہا۔
" مجھے اکڑ مت دکھاؤ ، ایسی حالت میں یہاں سے تمہیں تمہارے گھر پھکواؤں گی کہ تم ساری زندگی اکڑے ہی رہ جاؤ گے۔۔۔" شعلہ کا لہجہ ایسا تھا۔ کہ ایک پل کو اسفند کا رنگ فق ہوا تھا۔
" میں ابھی تو جا رہا ہوں۔ پر یہ یاد رکھیئے گا کہ میں شہلا سے شادی کرکے رہوں گا۔" اسفندیار سنجیدگی سے کہتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ شعلا گہری سانس لیتی آٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ تھی۔
اسفند اپنی گاڑی میں بیٹھا بار بار حیدر کا نمبر ملا رہا تھا۔ کچھ دیر رنگز جانے کے بعد اسفند نے کال ریسیو کر لی تھی۔
" کیا ہوا خیریت۔۔۔؟" حیدر نے موبائل کان سے لگاتے پوچھا۔
" جس کی تم لوگوں کو پچھلے پانچ مہینے سے تلاش تھی وہ مل گئ۔" اسفندیار نے پرجوشی سے کہا۔
" ک۔۔ کون۔۔؟؟" حیدر سیدھا ہوکر بیٹھا۔
" تمہاری بھابھی ، میر عالم کی بیوی۔۔۔!!" اسفندیار نے بم پھوڑا۔
" کہاں ہے وہ۔۔۔ تم مجھے بتاؤ کہاں ہے وہ آخر۔۔۔" حیدر نے مٹھیاں بھینچ کر کہا۔
" ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں۔۔" اسفند نے مسکرا کر کہا۔
" پلیز جلدی۔۔۔" حیدر نے بے تابی سے کہا۔
کچھ دیر بعد ، اسفند نے ایڈریس سینڈ کر دیا تھا۔ حیدر کو جیسے ہی ایڈریس ملا اسنے ، مصطفی کو کال ملائ اور اسے بھی اس ایڈریس پہ جلدی پہنچنے کو کہا۔
☆☆☆☆☆
مصطفی دفتر سے گھر آیا تو نازنین اسے نیچے کہیں بھی نہی دکھی۔ مصطفی تھکا ماندہ اوپر اپنے کمرے میں آیا تو ، اسے نازنین کھڑکی کے پاس کھڑی دکھی۔
مصطفی مسکرایا تھا۔ اور قدم قدم چلتا اسکی جانب بڑھا تھا۔ مصطفی کی چال میں سرشاری سی تھی۔
مصطفی نے اسے پشت سے ہی اپنی بانہوں کے حصار میں لیا تھا۔ اور اسکے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکاتا دھیرے سے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا۔
" نازی ، لگتا ہے آئینے نے جواب دے دیا تمہیں۔۔۔" وہ خمار آلود لہجہ میں کہتا ، اپنا ہاتھ اسکے پیٹ پہ دھرتا ایک جھٹکے سے اسے اپنی جانب موڑ گیا تھا۔ نازنین اسکی بات پہ مسکرائ تھی۔ اسکی جھکی پلکیں لرز رہی تھیں۔ اسکے شنگرفی لبوں کا بھی اسکی پلکوں سے جدا حال نا تھا۔
" ہمم آئینے نے جواب دیا ، پر آئینے نے کہا ، بس یہ آخری بار ہے ، اسکے بعد جب بھی جواب لینا اپنے شوہر سے لینا۔۔!!" وہ پلکیں جھکائے دلکش سے لہجہ میں کہتی مصطفی کو مزید اپنا دیوانہ بنا رہی تھی۔
" ایسی بات ہے۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی اسکے لبوں پہ اپنے لب دھرے تھے۔ نازنین نے اپنے دونوں ہاتھ اسکی گردن پہ لپیٹے تھے۔ مصطفی کے لمس میں شدت تھی ، جنون تھا۔ نازنین کا پورا وجود اسکے لمس پہ لرز کر رہ گیا۔ مصطفی اسکی سانسوں کو پیتا مزید مدہوش ہونے لگا تھا۔ مدہوشی کے عالم میں مصطفی کے ہاتھ بے باکی سے نازنین کے وجود پہ گردش کرنے لگے تھے۔ نازنین مصطفی کے لمس پہ سٹپٹائ تھی۔ نازنین نے اسکی گرفت سے نکلنا چاہا۔ پر مصطفی نے اسے خود سے دور نا جانے دیا۔ اسکے لبوں کو اپنے مہکتے لمس سے آزاد کرتا وہ اسے اپنی بانہوں میں لیتا بستر پہ لایا تھا۔ نازنین گہری سانسیں لیتی آنکھیں موند گئ تھی۔ اسکا پورا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔ انکے پہلے ملن کے بعد آج پھر مصطفی نے اسکی جانب پیش رفت کی تھی۔ اُس لمس میں اور آج کے لمس میں بہت فرق تھا۔
مصطفی اپنی شرٹ اتارتا اسکے اوپر سائے کی مانند لہرایا تھا۔ نازنین نے گہری سانسیں لیتے ، اپنی آنکھیں ذرا سی اوپر کو اٹھائیں۔ پر مصطفی کی نظروں کی تاب نا لاتے ہوئے واپس جھکا گئ۔
مصطفی نے اپنی شہادت کی انگلی اسکے ماتھے پہ رکھی تھی۔ اور شہادت کی انگلی سے اسکے چہرہ پہ سیدھی لکیر کھینچتا اسکی گردن تک آیا تھا۔ نازنین کا حلق خشک ہوا تھا۔
مصطفی جھکتا اسکی گردن پہ اپنے دانت نرمی سے گاڑھ گیا تھا۔ نازنین نے سسک کر اپنا آپ مصطفی کے سینے میں ہی چھپایا تھا۔
مصطفی بہکتا ہوا ، اسپہ اپنی گرفت مزید سخت کر گیا تھا۔ یکدم فسوں خیز ماحول میں مصطفی کے موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ پر مصطفی نے خاص توجہ نا دی۔ اسکی انگلیاں سرکتی ہوئ نازنین کے پیٹ میں دھنسنے لگی۔
" مصطفی۔۔۔" نازنین نے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔ کیونکہ موبائل مسلسل بج رہا تھا۔
" کیا ہوا۔۔" مصطفی چڑا تھا۔
" کال آرہی ہے دیکھ لو ، شاید ضروری ہو۔۔۔" نازنین نے جھکی نظر سمیت کہا۔
" بعد میں دیکھ لونگا۔۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی اسکے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا تھا۔
" مصطفی ، پلیز ۔۔۔" نازنین نے مجبوراً اسے آنکھیں دکھائیں۔
مصطفی بدمزہ ہوتا اس سے دور ہوا تھا۔ موبائل اٹھا کر دیکھا تو حیدر کی کال تھی۔ مصطفی نے نازنین کو ایک نظر تکا اور کال ریسیو کی۔
" مصطفی ایک ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں ، ابھی اسی وقت پہنچو۔۔۔" حیدر کی عجلت بھری آواز سن کر مصطفی بھی پریشان ہوا تھا۔
" خیریت۔۔۔؟؟" مصطفی پوچھے بنا نا رہ سکا۔
" تم بس پہنچو۔۔" حیدر کا انداز حاکمانہ تھا۔
مصطفی محض دل مسوس کر رہ گیا تھا۔ اسنے ایک خفا سی نظر لیئے نازنین کو تکا۔ جو سیدھی بیٹھ چکی تھی۔ اور اپنے کپڑے ٹھیک کر رہی تھی۔
" یار مسئلہ کیا ہے تمہارے بھائ کا۔۔۔" مصطفی منہ بنا کر کہتا۔ نازنین کو جبڑوں سے تھام کر اسکے لبوں پہ شدت سے جھکا تھا۔
اسکی حرکت پہ نازنین کے گال دہک اٹھے تھے۔
" کوئ کام ہوگا اس لیئے بلا رہے ہیں تمہیں حیدر بھائ جاؤ، جلدی آنا۔۔" نازنین نے لب کچل کر کہا۔
مصطفی منہ بنا کر اٹھا تھا۔ نازنین اسکے بگڑے موڈ کو دیکھ مسکا کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
" یہاں ہم رات کے بارہ بجے کیا کر رہے ہیں۔۔؟؟ اور یہ کس کا گھر ہے۔۔۔؟؟" مصطفی کے ماتھے پہ بل نمودار ہوئے تھے۔
" سب پتہ چل جائے گا ، چلو آؤ۔۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
مصطفی کا خراب موڈ مزید خراب ہوا تھا۔
" جب کچھ بتانا نہی تھا ، تو بلایا کیوں۔۔ اتنے اچھے مومنٹ برباد کردیئے۔۔" مصطفی من ہی من بڑبڑایا تھا۔
" دروازہ کھولو۔۔" حیدر نے چوکیدار کے سر پہ بندوق تان کر کہا۔
" او ماڑا ، یہ تمہارا ہاتھ میں تو بندوق ہے، اس میں گولی تو نئ ہے ناں۔۔۔" چوکیدار نے ہاتھ اوپر کرے خوفزدہ لہجہ میں پوچھا۔
حیدر کے ماتھے پہ بل آئے تھے۔ مصطفی نے پہلے بندوق کو اور پھر حیدر کو صدمہ کی کیفیت میں تکا تھا۔
" اوہ مائے گاڈ ، یہ مجھے واردات کے لیئے لیکر آیا ہے۔" مصطفی من ہی من میں گویا ہوا۔
" ہاں ہوسکتا ہے کہ یہ مجھے واردات کے لیئے لایا ہو۔ کیونکہ یہ کچھ دن پہلے ہی تو بتا رہا تھا۔ کہ اسکا بزنس لاس میں جارہا ہے۔ بیچارہ ۔۔۔!!" مصطفی کے خیالات اڑتے ، اڑتے نجانے کس دشہ پہنچ گئے تھے۔
" اس میں گولی بھی ہے۔ اور یہ چلے گی بھی ، دروازہ کھولو۔۔ نہی تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔۔" حیدر نے بندوق کی نال چوکیدار کے سر پہ بجائ تھی۔
چوکیدار خوفزدہ ہوتا پیچھے ہوا تھا۔ اور دروازہ کھول دیا تھا۔ مصطفی اور حیدر طویل پھتریلی روش کو پار کرتے گھر کے اندر آئے تھے۔ وہ گھر تو ناں تھا۔ ایک محل تھا۔ جہاں گم ہونے کا خدشہ تھا۔
چلتے چلتے مصطفی ٹھنکا اور رکا۔ سامنے دیوار پہ لگی پینٹگ دیکھ اسکے قدم آگے بڑھنے سے انکاری ہوگئے تھے۔
حیدر نے مڑ کر مصطفی کو دیکھا جو اس سے بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ دیوار پہ بنی پینٹنگ کو نجانے کیوں اس قدر گھور رہا تھا۔ حیدر اسے لینے واپس اسکے پاس آیا۔ پر دیوار پہ لگی پینٹنگ دیکھ حیدر بھی تھما تھا۔
" حیدر۔۔۔ امی۔۔۔ میری امی۔۔۔ کی پینٹنگ یہاں۔۔۔ کیسے۔۔؟؟" مصطفی گنگ تھا۔
" پتہ نہی۔۔" یہ بات تو حیدر کی سمجھ سے بھی باہر تھی۔
" کون ہو تم لوگ اور اندر کیا کر رہے ہو۔؟" اپنے پیچھے سے زنانہ کڑک دار آواز سن کر دونوں ایک ساتھ مڑے تھے۔
اب رنگ فق ہونے کی باری شعلہ کی تھی۔ وہ ان دونوں کو اپنے سامنے کھڑا دیکھ۔ لڑکھڑا کر دو قدم پیچھے ہوئ تھی۔ مصطفی کا خون کھول اٹھا تھا اسے دیکھ کر۔
" کون ہیں ہم ۔۔۔ یہ تم پوچھ رہی ہو۔ اب تمہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے سے کوئ نہی روک سکتا۔ تم نے میرے بھائ کو زندگی اور موت کے بیچ لا کھڑا کیا ہے۔ اور تم کہتی ہو ہم کون ہیں۔۔۔؟؟" حیدر گن اسکی جانب پوائنٹ کرتا غرایا تھا۔
" کیا کہہ رہے ہو۔ مجھے نہی پتا۔ میں نے کچھ نہی کیا۔۔۔؟" وہ ہمت مجتمع کرتی مکمل اعتماد کے ساتھ گویا ہوئ۔
" جب اُس حال میں پہنچو گی تو سب پتا چل جائے گا۔۔۔" اس سے پہلے کے حیدر اس پہ بندوق چلاتا۔
مصطفی نے حیدر کے ہاتھ کا رخ فرش کی جانب کر دیا۔ حیدر نے خونخوار نظروں سے مصطفی کو گھورا۔
" نہی۔۔۔ حیدر ۔۔ نہی۔۔" مصطفی نے سر نفی میں ہلایا۔ اور پھر شعلہ کو تکا۔
" کون ہو تم اپنی حقیقت بتا دو۔۔؟" مصطفی نے ایک آس سے پوچھا۔
" شعلہ ہوں میں اس سے زیادہ میری کوئ حقیقت نہی۔۔" شعلہ نے سرد لہجہ میں جواب دیا۔
مصطفی کی آنکھوں میں بے بسی سے آنسو چمکے تھے۔
" اگر تم شعلہ ہو۔ تو تمہارے گھر میں میری امی کی پینٹنگ کیا کر رہی ہے۔۔۔؟؟" مصطفی دو قدم آگے آیا تھا۔
" مجھے نہی پتہ یہاں بہت سی لڑکیاں رہتی ہیں ، شاید تمہاری ماں کو ان میں سے کوئ جانتا ہو۔۔۔" شعلہ کے چہرہ پہ ایک سایہ سا لہرایا تھا۔
جو کم از کم مصطفی کی زیرک نگاہوں سے ، چھپ نہی سکا تھا۔ مصطفی اسکے بہانے پہ تمسخر سے ہنسا تھا۔
" اچھا۔۔۔!!
چلو مان لیا۔ پر یہ تمہارے چہرہ پہ ایک رنگ سا آکر گیا۔ اسکے بارے میں کوئ بہانہ ہو تو بتانا ضرور۔۔۔" مصطفی نے مزید قدم لیئے اور اسکی آنکھوں جھانک کر مستفسر ہوا۔
" تمہاری باتیں مجھے بلکل سمجھ نہی آرہیں۔۔" شعلہ نے اپنے خشک ہوتے لبوں پہ زبان پھیری تھی۔ اور اپنے گرد لپٹی سیاہ شال کو اپنے گرد مزید سیٹ کیا تھا۔
" بیا۔۔۔ پلیز یہ ڈرامہ بند کرو۔۔۔" مصطفی نے اسے کندھے سے تھاما تھا۔
شعلہ نے ایک نظر اپنے کندھے کو تکا، اور پھر وہی نظر سیدھا مصطفی کے چہرے پہ پڑی۔
" میں کوئ بیا نہی ہوں۔ اور۔۔۔ میں تو یہ نام بھی زندگی میں پہلی بار سن رہی ہوں۔۔" شعلہ نے اپنے کندھے پہ سے مصطفی کا ہاتھ جھٹکا تھا۔
" تم بیا ہو۔۔۔!!
اور اس بات سے تم انکار نہی کر سکتی۔ بیا پلیز مجھ پہ رحم کھاؤ ، میں ترس گیا ہوں اپنی بہن سے باتیں کرنے کو۔ اپنے کسی خون کے رشتے کو اپنے پاس محسوس کرنے کو۔۔۔" مصطفی کے چہرے سے اسکے کرب کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
" ہاں ہوں بیا۔۔۔۔!!
تو ، نہی چاہیئے مجھے کوئ خون کا رشتہ اپنی زندگی میں ، کوئ کسی کا نہی ہوتا ، کوئ بھی کسی کا نہی ہوتا۔ اور تم کیا پوچھنے آئے تھے۔ کہ تمہارے بھائ کو اس حال میں ، میں نے پہنچایا ہے۔۔۔ تو ہاں ۔۔۔۔!!
میں نے ہی پہنچایا ہے اسے اس حال میں کہ نا وہ جی سکتا ہے نا ہی مر سکتا ہے۔۔۔" شعلہ نے چلا کر کہا۔
" بیا۔۔۔!!" مصطفی نے کرب سے آنکھیں مینچی تھیں۔
" اب تم دونوں یہاں سے جاسکتے ہو۔ مجھے کسی سے کوئ تعلق نہی رکھنا۔۔۔" شعلہ نے ہاتھ باندھ کر سرد انداز میں کہا۔
" بیا میں کچھ نہی جانتا ، تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو۔ عالم کو تمہاری ضرورت ہے۔۔" مصطفی نے نرمی سے کہا۔
" میں یہاں سے کہیں نہی جا رہی ، اسے میری ضرورت ہے تو میں کیا کروں۔۔۔۔ بتاؤ مجھے۔۔!!
مصطفی ایک وقت تھا ، جب مجھے بھی اُسکی اور تمہاری ضرورت تھی۔ پر تم دنوں چلے گئے تھے۔ ایک جھوٹی امید دلا کر۔۔۔" وہ سسکی تھی۔
مصطفی نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دینا چاہا۔ جب شعلہ نے اپنا ہاتھ اسے روکنے کے لیئے حائل کیا۔ مصطفی کے قدم اپنی جگہ جمے۔
" پلیز تم دونوں یہاں سے چلے جاؤ۔۔۔" شعلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
مصطفی دلبرداشتہ ہوتا وہاں سے نکل گیا۔ اور حیدر بھی جاتے جاتے رکا تھا۔
" تم ایکسپیکٹ کر رہی ہو بیا۔۔۔؟؟" حیدر نے بھنوئیں آچکا کر پوچھا۔
" نہی۔۔" دوٹوک جواب دیتی وہ رخ موڑ گئ تھی۔ حیدر اسے جانچتی نظروں سے دیکھتا وہاں سے نکل گیا تھا۔
شعلہ کی آنکھیں بھیگی تھیں۔ وہ مرے مرے قدم لیتی ، زینوں پہ جا کر بیٹھ گئ تھی۔ اور پھر جو آنکھوں سے اشک رواں ہوئے ، تو وہ رک نا سکے۔
شعلہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے۔ میر عالم کی سنگت میں بتایا ہر پل اسکی بند آنکھوں کے گرد لہرایا تھا۔ وہ لب کچلتی اپنی سسکیاں دبا رہی تھی۔ ماضی کے خیال اسکے حواس سن کر رہے تھے۔ شعلہ کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا۔ اسکی آنکھیں بند ہوئ تھیں۔ اور وہ وہیں زینوں پہ بے ہوش پڑی تھی۔
" مما۔۔۔ اب کیا ہوگا۔" بیا نے اپنے دونوں بازو اپنی ماں کے گرد باندھ کر پوچھا۔
" کچھ نہی ہوگا۔ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ مصطفی ادھر آؤ۔۔" اسکی ماں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر بٹھایا تھا۔
گھر کا دروازہ دھڑ دھڑا رہا تھا۔ مصطفی گھبرایا سا اپنی ماں کے پاس آیا تھا۔
" گھبراؤ مت ، تم دونوں ، بس سب ٹھیک ہوجائے گا۔" انکی ماں نے دونوں کے گرد اپنے بازو لپیٹے تھے۔
ان دونوں بچوں کی آنکھوں میں خوف ہلکورے لے رہا تھا۔ رنگت تو انکی ماں کی بھی زرد پڑی تھی۔ پر انہیں اپنے بچوں کی خاطر اپنے حواس سنبھالنے تھے۔
" مما بابا کے جانے کے بعد سے یہ سب ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔؟" مصطفی نے سہمے ہوئے لہجہ میں پوچھا۔ تیرہ سالہ مصطفی اپنی چھوٹی بہن بیا کے مقابلے میں کافی سمجھدار تھا۔
" تم دونوں ادھر بیسمنٹ میں چھپ جاؤ۔۔۔" انکی ماں نے آٹھ کر کمرے میں پڑا ایک صوفہ اپنی جگہ سے گھسیٹنا شروع کیا تھا۔ مصطفی بھی آٹھ کر اپنی ماں کی مدد کرنے لگا۔
" مما آپ نے بتایا نہی کہ یہ لوگ یہ سب کیوں کر رہے ہیں۔۔" مصطفی نے اپنی ماں کے ساتھ صوفہ گھسیٹتے اپنا سوال دوبارہ دہرایا۔
" شش۔۔۔ خاموش۔۔۔ بیا ادھر آؤ ، مصطفی بہن کو لیکر نیچے جاؤ میں صوفہ واپس اپنی جگہ پہ کر دونگی تاکہ کسی کو شک نا ہو کہ یہاں۔ نیچے تم دونوں چھپے ہو۔" انکی ماں نے انہیں نیچے جانے کو کہا۔
مصطفی نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
" مما ۔۔ ہم اکیلے نیچے نہی جائیں گے آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں گی۔۔۔" مصطفی نے ضدی لہجہ میں کہا۔
" مصطفی ۔۔۔۔!!
خاموشی سے دونوں نیچے جاؤ۔۔" انکی ماں نے ذرا سختی سے کہا۔
" پر ماما۔۔۔" مصطفی نے کچھ کہنا چاہا۔ باہر سے یکدم مین دروازہ کھلنے کی آواز آئ۔ اور بہت سے قدموں کی چاپ کمرے تک آنے لگی۔ انکا رنگ خوف سے زرد پڑا تھا۔
" مصطفی اب ایک لفظ نہی نیچے جاؤ جلدی۔۔۔ بیا۔۔۔" انکی ماں نے ان دونوں کو نیچے بیسمنٹ میں بند کر دیا تھا۔ اور صوفہ گھسیٹ کر ادھر بیسمنٹ کے چھوٹے سے دروازے پہ کر دیا تھا۔
وہ خوف کے زیر اثر ایک کونے میں جاکر کھڑی ہوگئ تھیں۔ اور موبائل کان سے لگایا تھا۔ مقابل نے جھٹ انکا کال ریسیو کیا تھا۔
" عالم ۔۔۔۔ پلیز آجاؤ ، میرے بچوں کو بچا لو۔۔" انہوں نے جلدی سے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔
مصطفی نے نیچے جانے کے بجائے ، بیسمنٹ کے دروازے کو ہلکا سا کھولے رکھا۔ اور نیچے بیسمنٹ میں جاتے زینوں پہ کھڑا ، وہ جھری کی مانند کھڑے دروازے سے باہر کے تمام منظر دیکھ سکتا تھا۔
یکدم کمرے کا دروازہ زور دار آواز کے ساتھ کھلا تھا۔ انکی ماں نے اپنے چہرہ پہ دونوں ہاتھ دھرے تھے۔ اور خوف سے دیوار سے جاکر بلکل چپک کر کھڑی ہوگئ تھیں۔
اندر آنے والا شخص اپنی منچھوں کو تاؤ دیتا ، انکی ماں کے قریب آیا تھا۔
" کیا لگا تھا ، تجھے بچ جائے گی۔ تیرا شوہر جو مرنے سے پہلے میری ساری جائداد حکومت کے حوالے کر گیا۔ میرے سارے دھندے بند کروا دیئے۔ اب بدلہ لینے کا وقت آیا ہے۔ یہ چوہدری ایسا بدلہ لیگا۔ کہ سننے والوں کے وجود میری وحشت سے کانپ اٹھیں گے۔" وہ خونخوار لہجہ میں کہتا۔ ایک جناتی قہقہہ لگا گیا تھا۔ اسکے قہقہ کی آواز اس قدر بلند تھی کے کمرے کے در و دیوار کانپ اٹھے تھے۔
" دیکھو تمہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے جانے دو۔۔۔" وہ سسکی تھیں۔
" ایسے کیسے جانے دوں۔۔۔ رانی ابھی تو تیرا شباب لوٹنا ہے۔۔۔۔اور۔۔۔" ایک زناٹے دار تھپڑ انکی ماں نے چوہدری کے دائیں گال پہ جڑا تھا۔
چوہدری خونخوار ہوتا۔ پے در پے انکی ماں کے کے رخسار پہ تھپڑ مڑنے لگا۔ مصطفی خوف آنکھیں مینچ گیا۔
" اب میں تجھے بتاؤں گا کہ چوہدری سے الجھنے کا انجام کیا ہوتا ہے۔ جیسے تیرے شوہر کو قبر میں اتارا تھا ناں۔۔۔ اس سے زیادہ بد تر موت تجھے دونگا۔" چوہدری نے آگے بڑھ کر انکی ماں کے جسم پہ پڑا لباس تار تار کر دیا تھا۔ انکی ماں اپنی عزت بچانے کو چلائ تھی۔ لوگوں کو اپنی مدد کے لیئے پکارا تھا۔ پر جیسے پورا گاؤں دن دہاڑے سو گیا تھا۔ یا پھر سب کا ضمیر ہی مر گیا تھا۔
" نہی۔۔۔ چوہدری۔۔۔۔ نہی خدا کا واسطہ ہے تجھے نہی۔۔۔" انکی ماں اپنے ارد گرد آپ نے بازو لپیٹتی سسکی تھی۔
" یہی۔۔۔ تڑپ ۔۔ یہی سسک مجھے چاہیئے تھی۔۔
" وہ سفاکی سے اونچی آواز میں کہتا۔ مزید اسکے آگے بڑھا تھا۔
اور پھر وہ ہوا۔ جو ہونا نہی چاہیئے تھا۔ چھوٹا سا مصطفی وہ تمام منظر دیکھتا۔ پھتر کا ہوگیا تھا۔ وہ اپنی ماں کے لیئے کچھ کر ہی نا سکا یہ ملال اسکے دل میں بس گیا۔
وہ چوہدری انکی ماں کی عزت انکی نظروں کے سامنے پامال کر گیا تھا۔ پر وہ دنوں کچھ نا کر سکے تھے۔ انکی ماں ایک کونے میں پڑی سسک رہی تھی۔ چوہدری نے انکی ماں کے بال مٹھی میں جکڑے اور اسے کسی سامان کی مانند گھسیٹنا شروع کیا۔ وہ چلا رہی تھیں۔ خوف سے کیونکہ وہ جانتی تھیں۔ کہ اب یہ شخص انہیں کس طرح زلیل کرنے والا ہے۔
" نہی مجھے یہاں سے باہر نا لیکر جاؤ ، تمہیں خدا کا واسطہ ہے مجھے اسقدر رسوا نا کرو کہ میری روح کو بھی چین نا آسکے۔۔" انکی ماں تڑپی تھی۔
" یہی تو میں چاہتا ہوں ، کہ عالمگیر کے پورے خاندان کو ، مرنے کے بعد بھی سکون میسر نا آئے۔" وہ شیطانی قہقہ لگاتا اسکے بال ایک جھٹکے سے چھوڑ گیا۔
انکی ماں کو چیل جیسی نظروں سے تکتا وہ شیطانیت سے مسکرایا۔ اور اپنی جیب سے پسٹل نکال کر ایک گولی انکی ماں کی ٹانگ پہ ماری ، بیا بھی زینوں پہ کھڑی اپنے بھائ کے ساتھ باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔ اس سے پہلے کے خوف کے مارے وہ چیختی۔ مصطفی نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھ کر اسے چیخنے سے روکا۔
انکی ماں درد سے تڑپتی پیچھے کو سرک رہی تھی۔ انکے پیر سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔ پوری فضا میں خون کی بدبو پھیل گئ تھی۔
وہ فرعونی قہقہہ لگاتا۔ ایک گولی انکے کندھے پہ مار گیا تھا۔ وہ چیخی تھیں۔ انکی چیخ دلسوز، دل دہلا دینے والی تھی۔
" خدا تمہیں غارت کرے ، تباہ ۔۔۔۔ ہوجاؤ تم۔۔۔" قرب کے باعث انکی زبان سے اس شیطان کے لیئے بد دعائیں نکلنے لگی تھیں۔
" کیا بتاؤں ، پہلے تمہارے شوہر کو ایسے تڑپتا دیکھا اب تمہیں۔۔۔ بتا نہی سکتا کتنی خوشی ، ہے مجھے۔ کس قدر برتری کا احساس میں محسوس کر رہا ہوں۔" وہ وقت کا فرعون بن گیا تھا۔
" نہی مجھے چھوڑ دو۔۔ ۔۔ اللہ۔۔" اسکی ماں زمین پہ سمندر کی مانند بہے خون پہ پیچھے سرک رہی تھی۔ پر جیسے ہی اسکی ماں کی پشت دیوار سے ٹکرائ۔ وہ بے ساختہ اپنے رب کو پکار گئیں۔
" اب تم کسی کو بھی پکار لو ، پر موت تمہارا مقدر ہے۔ اور تمہارے بعد تمہاری اولاد کی باری ہے۔ ایسے ہی تڑپا تڑپا کر تمہارے بچوں کو ماروں گا۔ اور تمہاری۔۔۔ بیٹی۔۔۔ اسکا مقدر تو تم سے بھی بدتر بنا دوں گا۔ سوچو جب وہ حسن کے بازار میں بک جائے گی۔ اور ہر شخص اسے منہ مار کر جھوٹا کر دے گا۔ وہ زندگی سے بیزار آجائے گی۔ موت کی بھیک مانگے گی۔ پر میں اسے موت نہی دونگا۔ وہ تڑپے گی۔ بلکل تمہاری طرح۔۔۔!!
پر اسے موت جیسا تحفہ نہی ملے گا۔" وہ خباثت سے کہتا اپنی ہی بات پہ مسکرایا تھا۔
" تم تو کیا تمہارا سایہ بھی میری بیٹی یا۔۔۔۔ میرے بیٹے کو چھو نہی سکتا۔" وہ درد کی شدت سے آنکھیں مینچتیں کسی بھپری ہوئ شیرنی کی مانند غرائ تھیں۔
" بہت بول لیا۔ اب تمہارا دنیا میں وقت ختم ہوگیا ہے۔" وہ جارہیت سے کہتا۔ انکے سینے میں کئ گولیاں اتار گیا تھا۔
پے در پے گولیاں سینے پہ لگنے کے باعث خون کے چھینٹے انکے چہرے پہ بھی آکر گرے تھے۔ اور یکدم انکا وجود بے جان ہوگیا تھا۔ مصطفی اور بیا کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ وہ دونوں اپنی سسکیاں دبائے اس ظالم شخص کو دیکھ رہے تھے۔
اس شخص نے اپنے آدمیوں کو ان دونوں کو ڈھونڈنے کے لیئے ، پورے گھر میں چھوڑ دیا تھا۔ جب وہ دنوں نا ملے تو وہ سب انکی ماں کی لاش کو وہیں چھوڑ کر چلے گئے۔
مصطفی اور بیا خوف کے زیر اثر وہاں سے اب بھی نا نکلے تھے۔ جب قریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہاں میر عالم آیا۔ میر عالم نے وحشت ناک نظروں سے اپنی عزیز از جان پھپھو کا حال دیکھا تھا۔ اور انکا برہنہ وجود دیکھ نظریں جھکا گیا تھا۔ بیڈ پہ پڑی بیڈ شیٹ اٹھا کر اسنے ان پہ ڈالی تھی۔ اور مصطفی اور بیا کو پکارا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اسے صوفہ کے پاس سے کھٹکٹانے کی آواز آئ تھی۔ میر عالم نے آگے بڑھ کر صوفہ کھسکایا۔ اور بیسمنٹ کا دروازہ کھولا۔ میر عالم نے شکر کا سانس لیا۔ اور ان دونوں کو باہر نکالا۔
" تم ۔۔۔ تم دونوں ٹھیک ہو۔۔" عالم نے فکر مندی سے پوچھا۔
" ہاں ہم ٹھیک ہیں۔۔۔" مصطفی نے ہی ہمت کرکے کہا۔
بیا مصطفی کا بازو مضبوطی سے پکڑے اپنی ماں کو سہمی ہوئ نظروں سے تک رہی تھی۔ میر عالم نے پھپھو کا خون میں لپٹا وجود اٹھایا تھا۔ اور ان دونوں کو ساتھ لیتا گاڑی میں بٹھایا تھا۔ وہ جلد از جلد ان سب کو یہاں سے لیکر نکل جانا چاہتا تھا۔ اور وہ رش ڈرائیونگ کرتے وہاں سے نکل گئے تھے۔
میر عالم آج پھپھو کے گھر ہی آرہا تھا۔ جب راستے میں پھپھو کی کال آئ۔ اور وہ اپنی گاڑی کی اسپیڈ مزید تیز کرتا وہاں پہنچا تھا۔
تقریباً ایک گھنٹے سے وہ لوگ سفر پہ گامزن تھے۔ مصطفی نے میر عالم کو دیکھ کر گاڑی روکنے کو کہا۔
میر عالم نے پریشانی سے پوچھا۔
" مصطفی خیریت۔۔۔؟؟
ابھی ہم نہی رک سکتے ، اگر رکنا ضروری ہے تو رک جائیں گے۔ نہی تو رکنا درست نہی۔۔"
" مجھے واشروم آرہا ہے۔" مصطفی نے بیچارگی سے کہا۔
" اوکے میں آگے روک دیتا ہوں۔" میر عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
اور کچھ دیر بعد انہوں نے گاڑی روکی۔ مصطفی اور میر عالم واشروم جانے کے لیئے اترے تھے۔
" بیا۔۔۔ تمہیں واشروم جانا ہے۔۔" میر عالم نے کھڑکی میں جھک کر پوچھا۔
اسنے تھوک نگل کر سر نفی میں ہلایا۔
" اوکے پھر تم یہاں ، گاڑی سے مت نکلنا اوکے ہم جلدی آتے ہیں۔" میر عالم نے اسے گاڑی سے باہر نا نکلنے کی تاکید کی اور مصطفی اور عالم وہاں سے گزر گئے۔
بیا تنہا گاڑی میں بیٹھی تھی۔ جب کسی آدمی نے کھڑکی بجائ۔ بیا نے خوفزدہ نظروں سے اس آدمی کو دیکھا۔
" وہ ایک آدمی اور لڑکا تمہارے ساتھ ہیں ناں ، وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔" بیا نے بلکل ذرا سا شیشہ نیچے کیا ، تو اس آدمی کی آواز اندر آئ۔
بیا نے اب بھی اسے خوفزدہ نظروں سے تکا۔
" وہ جو تمہارے ساتھ آدمی ہے۔ وہ کہہ رہا ہے یہاں خطرہ ہے چلو۔ وہ تمہیں بلا رہے ہیں۔۔" اس شخص بڑے ہی نرم لہجہ میں کہا۔
بیا خطرے کا سن کر بنا تامل کیئے دروازہ ان لاک کر گئ۔ وہ جیسے ہی اتری اس شخص نے اسکے سر اور چہرے پہ سیاہ کپڑا ڈالا۔ بیا چلائ۔ عالم کو بیا کی آواز آئ۔ تو وہ بھاگتے ہوئے وہاں آئے۔ مصطفی بھی انکے ساتھ تھا۔
پر کوئ شخص اسے کندھے پہ ڈالتا ، وہاں سے بھاگا تھا۔ عالم مصطفی کو لیکر جلدی۔سے گاڑی میں بیٹھا تھا۔ پر وہ لوگ بیا کو لیجا چکے تھے۔ عالم نے انکا بہت پیچھا کیا۔ پر وہ بیا کو بچانے میں ناکام رہے۔
اس دن پھپھو کی ضد پہ بیا اور عالم کا نکاح بھی ہوچکا تھا۔ عالم مصطفی کو لیکر گھر آگیا تھا۔ اور پھپھو کو پھپھا کی قبر کے برابر میں دفنا دیا تھا۔
سالوں پہ سال بیتتے جا رہے تھے۔ پر بیا کے ملنے کا کوئ نام و نشان نہی تھا۔
اب تو عالم اور مصطفی اسکے ملنے کی امید بھی چھوڑ گئے تھے۔ اور زندگی میں آگے بڑھنے لگے تھے۔
☆☆☆☆☆
" بیا کیا ہوا ۔۔۔؟؟
اٹھو آنکھیں کھولو۔۔۔ بیا ۔۔۔ بیا۔۔۔" شہلا بیا کے گال تھپتھپا رہی تھی۔
بیا نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائ۔ وہ جب بے ہوش ہوئ تھی تب وہ زینوں پہ پڑی تھی۔ اور اس وقت وہ اپنے کمرے میں اپنے بستر پہ تھی۔
" کیا ہوا تھا تمہیں۔۔؟؟" شہلا نے اسکا ہاتھ تھامتے فکر مندی سے پوچھا۔
" پتا نہی۔۔ بس ذرا سے چکر آگئے تھے۔ تو میں وہاں زینوں پہ بیٹھ گئ۔۔۔" بیا نے نقاہت سے کہا۔
" تم اپنا بلکل خیال نہی رکھتی۔ ایک تو میں بھی اپنے میں ہی لگ گئ تھی۔ اس وقت تمہیں توجہ کی ضرورت ہے۔ اور میں بس۔۔۔" شہلا کو افسوس ہوا۔
" اٹس اوکے شہلا ایسی حالت میں یہ سب ہوتا رہتا ہے۔ اٹس اوکے۔۔۔!!" اسنے شہلا کو تسلی دی۔
شہلا اسکی بات پہ ہلکا سا مسکا کر رہ گئ تھی۔
" جوس بنوایا ہے ، تمہارے لیئے اٹھو اور پیو۔۔۔" شہلا نے کہتے ساتھ ہی سائڈ ٹیبل پہ پڑا جوس کا گلاس اٹھایا تھا۔ بیا منہ بناتی اٹھی تھی۔
" یار دل نہی کر رہا میرا بلکل۔۔۔" بیا نے نخریلے پن سے کہا۔
" زیادہ نخرے دکھانے کی ضرورت نہی ، یہ میرے بھانجے اور بھانجی کے لیئے ہے۔۔۔" شہلا نے اسے گھورا۔
" ایک ہی بے بی ہے ، کوئ دو ، دو نہیں ہیں۔۔" بیا اسکی بات پہ مسکرائ تھی۔
" یار میں تو چاہتی ہوں۔ دو دو بے بیز ہوں۔ اور میں دونوں کے ساتھ خوب سارا کھیلوں۔۔" شہلا نے چہک کر کہا۔
" پاگل نا ہو تو۔۔۔" بیا نے اسکی بات پہ آنکھیں دکھا کر کہا۔ اور جوس کا گلاس تھامتی لبوں سے لگا گئ تھی۔
" شہلا ایک بات پوچھوں۔۔" بیا نے نگاہیں جھکا کر بڑے ہی پر سوچ انداز میں پوچھا۔
" اتنا تامل کیوں کھا رہی ہو۔ بلا جھجک پوچھو۔۔۔" شہلا نے بیڈ پہ گرتے کہا۔
" تم اسفند کو پسند کرتی ہو۔۔؟" بیا کے سوال پہ شہلا نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا تھا۔
" تمہیں لگتا ہے کہ میں اس میں دلچسپی لے سکتی ہوں۔۔۔؟؟" سوال پہ سوال داغا گیا۔
" ہاں ۔۔۔ اتنا بھی برا نہی۔۔ اگر انسانوں والے ہولیہ میں آئے تو ، قابل قبول ہے۔۔" بیا نے کندھے آچکا کر کہا۔
" پر مجھے نہی پسند وہ۔۔۔" شہلا نے منہ بنا کر کہا۔ لبوں کی تراش میں ایک شرمیلی سی مسکان مچلنے کو بے تاب تھی۔
اسکے ذکر پہ شہلا کے چہرہ کا رنگ ہلکا سا گلابی ہو گیا تھا۔ بیا نے اسے بغور دیکھا۔ اور سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔
" چلو تمہیں نہی پسند تو پھر کیا ، کیا جا سکتا ہے۔۔۔" بیا نے مصنوئ افسوس سے کہا۔
بیا کی بات پہ شہلا کا رنگ یکدم پھیکا پڑا تھا۔ اور وہ بیا کو آنکھیں موند کر سوتا دیکھ منہ بنا کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی رات دو بجے کے قریب گھر واپس آیا ، اسکی چال میں سستی سی تھی۔ جب وہ کمرے میں آیا تو نازنین ٹی وی آن کیئے بیٹھی۔ کوئ ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔ مصطفی کو دیکھ کر وہ مسکرائ تھی۔ مصطفی بھی دھیمے سے مسکراتا اسکے بلکل قریب بیڈ پہ آکر ڈھے گیا تھا۔ نازنین نے اٹھنا چاہا۔ پر وہ اسکا ہاتھ تھامتا ، اپنے لبوں سے لگا گیا۔ نازنین نے لجا کر اسے تکا۔ اور پھر ٹی وی کی آواز بند کرتی اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتی اس سے مستفسر ہوئ۔
" کیا ہوا ، بھائ نے کیوں بلایا تھا؟؟" نازنین نے نرم سے لہجہ میں پوچھا۔
" شعلہ کا پتا چل گیا پے۔ اسی سے ملنے گئے تھے۔۔۔" مصطفی نے سر اٹھا کر نازنین کو تکا۔
" کیا سچ میں اسکا پتہ چل گیا ہے۔ کہاں ہے وہ۔ اور اسنے بھائ کے ساتھ ایسا کیوں کیا مصطفی۔۔۔؟؟" نازنین نے پے در پے کئ سوالات داغے۔
" ابھی کچھ پتا نہی۔ تم گھبراؤ مت ، سب ٹھیک ہوجائے گا۔" مصطفی نے اسے کھینچ کر اپنے بازو پہ لٹایا تھا۔
" مصطفی ۔۔۔ بھائ کب ٹھیک ہونگے۔۔۔" وہ اسکی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتی اداسی سے مستفسر ہوئ۔
" بہت جلد ۔۔۔۔ تم بس انکے لیئے دعا کیا کرو۔۔" مصطفی نے اسکے ماتھے پہ لب دھر کر کہا۔
نازنین گہری سانس خارج کرتی پلکوں کو دھیرے سے اثبات میں جنبش دے گئ تھی۔ مصطفی اسکو دیکھ کر مسکرایا تھا۔
" تم جانتی ۔۔۔ ہو تمہارا چہرہ مجھے ساری زندگی میں کبھی اچھا نہی لگا۔۔۔" مصطفی مسکرا کر گویا ہوا۔
" اچھا تو پھر دور رہو ناں اتنا چپک کیوں رہے ہو۔۔۔" وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے دور دھکیلنے لگی تھی۔ اور وہ قہقہہ لگاتا اسکے گرد اپنے مضبوط بازوؤ کا حصار باندھ رہا تھا۔
" یار یہ تو میں ، تمہیں پہلے کی بات بتا رہا ہوں۔۔۔" مصطفی نے اسکے دونوں ہاتھ قابو کرکے کہا۔
" اب میں تمہیں کیسی لگتی ہوں۔؟؟" نازنین مصطفی کو خشگمین نظروں سے گھورتی مستفسر ہوئ۔
" اب ۔۔۔ تو تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو کہ۔۔۔ کبھی کبھی میرا دل کرتا ہے تمہیں کچا چبا جاؤں۔۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی اپنے دانت ہلکے سے اسکی ٹھوڑی پہ دھرے تھے۔
وہ اسکے لمس پہ مسکرا کر آنکھیں موند گئ۔ پر شرارت کرنا وہ اب بھی نا بھولی تھی۔
" ہاں ویسے ہی ناں۔۔۔ جیسے شادی کی پہلی رات تمہارے مجھے کچا چبا کر کھا جانے کے ارادے تھے۔" وہ مزاقاً گویا ہوئ تھی۔
مصطفی اسکی ٹھوڑی پہ محبت بھرا لمس چھوڑتا پیچھے ہٹا تھا۔ اور خفگی بھری نظروں سے نازنین کو تک کر گویا ہوا۔
" میں اسکے لیئے شرمندہ ہوں۔۔۔" مصطفی کو سیریس ہوتا دیکھ ، وہ لب دبا کر مسکرائ تھی۔
" میں بھی سیریس ہوں۔ اور اب میں نے سوچ لیا ہے ہر بات کے بدلے لوں گی۔ اور گن گن کر لوں گی۔۔" نازنین نے کہتے ساتھ ہی لرزتی پلکوں سمیت اسکی گردن میں منہ دیتے اپنے دانت پوری شدت سے اسکی گردن پہ گاڑھے تھے۔ وہ بنا اف کیئے مسکرایا تھا۔
" اگر ایسے بدلے لوگی۔ تو اس بندہ نا چیز کے تو مزے لگ جائیں گے۔۔۔" وہ اسے خود میں بھینچتا مسکرایا تھا۔
" یہ تو صرف ٹریلر تھا ، میرے بدلے بہت خطر ناک ہوتے ہیں۔۔" وہ لب دبا کر گویا ہوئ۔
" مجھ سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے۔۔۔" مصطفی نے اپنی بھاری ٹانگ اسکے وجود پہ ڈال کر اسے مکمل طور پر اپنی قید میں لے لیا تھا۔ وہ آنکھیں موندے اسکی بات پہ کھلکھلائ تھی۔
☆☆☆☆☆
حیدر جب گھر آیا تو ، ساوری باہر بالکنی میں رکھے جھولے پہ بیٹھی تھی۔ وہ جھولے کے کنارے پہ سر ٹکائے ، آسمان کو خاموش نظروں سے تک رہی تھی۔
حیدر اسکے پاس آیا تھا۔ اور چیئر گھسیٹ کر اسکے مقابل بیٹھا۔
" کیا سوچ رہی ہو۔۔؟؟" حیدر نے اسکا ہاتھ تھام کر نرمی سے پوچھا۔
" کچھ نہی۔۔" وہ اپنے خیالوں سے چونکی ، اور اسے تکا۔
" کچھ تو سوچ رہی ہو ، ایسے ہی تو کوئ یوں خیالوں میں ڈوبا نہی بیٹھا رہتا۔۔۔" وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا مستفسر تھا۔
ساوری نے اسکی نظروں سے نظریں چرائ۔
" کچھ بھی نہی سوچ رہی تھی۔ تنہا تھی ، اکیلا پن محسوس ہو رہا تھا۔ اسی لیئے یہاں ایسے آکر بیٹھ گئ۔۔"
" جو بھی ڈر ہیں۔ خوف ہیں ، مجھ سے شیئر کیوں نہی کرتی۔۔تم۔۔؟؟" حیدر نے اسکا دوسرا ہاتھ بھی تھاما تھا۔
" اپنے ڈر ، خوف ، وہمے ان لوگوں سے شیئر کیئے جاتے ہیں۔ جن سے کوئ تعلق ہو۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتی ، اسے ایک نظر دیکھ کر رکی تھی۔
" اور۔۔۔ آپ سے میرا کوئ تعلق نہی۔۔" اسنے اپنے دونوں ہاتھ اسکی گرفت سے نکال کر تلخی سے کہا۔
" کوئ تعلق ہو نا ہو ، دوستی کا تعلق تو ہے ناں۔۔ " حیدر نے نرمی سے کہا۔
" دوستی۔۔۔!!!
ہنہ۔۔۔ جانتے بھی ہیں کہ دوستی کا حق ادا کرنا کتنا مشکل ہے۔ اکثر لوگ دوستی کے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں ، اور آپ جیسے لوگوں کے فیل ہونے کے امکانات تو بہت زیادہ ہوتے ہیں۔۔" وہ تمسخر سے کہتی بالکنی سے آٹھ کر چلی گئ تھی۔
حیدر گہری سانس لیتا اسکے پیچھے گیا تھا۔ وہ کچن میں کھڑی دودھ گلاس میں انڈیل رہی تھی۔
" ساوری ۔۔۔۔ مجھے تم سے محبت ہوگئ ہے۔۔۔" حیدر نے ایک جذب سے کہا۔
ساوری کے ہاتھ تھمے تھے۔ اسنے نظریں موڑ کر اسے دیکھا۔ دودھ کا گلاس سلیب پہ پٹخ کر ، اسکے مقابل آئ تھی۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ اسکے گال پہ رسید کیا تھا۔ حیدر نے بے یقینی کے عالم میں اسے تکا تھا۔
" سمجھ کیا رکھا ہے مجھے ، پہلے دوستی ۔۔۔ کا جھانسہ، اب محبت کا۔۔۔۔!!!
بچی نہی ہوں میں ، سب سمجھتی ہوں۔ میں آپکے بچے کو جنم دے رہی ہوں۔ پیسے کی خاطر یہ ایک سودا ہے۔ اور اس سودے میں ، میں مزید کوئ سودا نہی چاہتی۔ اپنے دل کا سودا تو بلکل نہی لگا سکتی۔۔۔!!" وہ چلا کر کہتی کچن سے نکل کر اپنے کمرے میں بند ہوگئ تھی۔ حیدر ماتھا مسلتا اپنی آنکھیں موند کر رہ گیا تھا۔
وہ جتنا ساوری اور اپنی لائف آسان کرنے کی کوشش کرتا چیزیں اتنی ہی مشکل ہوتی چلی جاتیں۔ وہ تاسف سے سر ہلاتا لاؤنج میں صوفہ پہ آکر لیٹ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" مصطفی اٹھو ناں۔۔۔!!
دیر ہو رہی ہے۔ آفس نہی جانا کیا آج۔۔۔" وہ نہائ دھوئ پرپل کلر کے لان کے پرنٹڈ سوٹ میں کھڑی اسے جگانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔ بال اسکے ہلکے ہلکے گیلے ہو رہے تھے۔
" نہی آج دل نہی کر رہا جانے کا۔۔" مصطفی نے کروٹ بدلتے تکیہ اپنے منہ پر رکھا۔
" ایسے کیسے دل نہی کر رہا ، چلو شرافت سے اٹھو کام چور کہیں کے۔۔۔" وہ اسکے کندھے کو مسلسل جھنجوڑ رہی تھی۔
" یار ۔۔۔۔ پلیز ترس کھا لو مجھ پر اور چھوڑ دو مجھے۔۔۔۔" وہ منت کر رہا تھا۔
" کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ وہ انسان جس کو کام کے سوا کچھ سوجتا نہی تھا۔ آج اسکو چھٹی کرنی ہے۔ حیرت کی بات ہے۔" وہ کشن اسکے منہ پہ سے ہٹا کر گویا ہوئ۔
" یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔ وہ لڑکی جسکے لیئے سونے کے علاوہ کچھ بھی ضروری نا تھا۔ وہ اب کیوں اتنا جلدی اٹھنے لگی ہے۔۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی اسکی کلائ تھام کر اسے کھینچا تھا۔ وہ سیدھی اسکے پہلو میں آکر گری تھی۔
" مصطفی۔۔۔!!" اسنے اسکی حرکت پہ اسے گھورا تھا۔
" جی مصطفی کی جان ۔۔۔" وہ اسکے گیلے بالوں میں منہ دے کر گویا ہوا۔
" یار۔۔۔ دیر ہورہی ہے تمہیں۔ یہ چھچھور پنتیاں بعد میں کر لینا۔۔۔" وہ اس سے دور ہوکر بیٹھی تھی۔
" نہی مجھے تو ابھی ہی کرنی ہیں۔۔" وہ خماریت سے کہتا اس سے پہلے کے اسے دوبارہ خود پہ گراتا۔ نازنین اسکے پاس سے آٹھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آئ تھی۔ اور اپنے بالوں میں کنگھا کرنے لگی تھی۔
" شرافت سے میرے پاس واپس آؤ۔۔۔" مصطفی نے بگڑے ہوئے تیور لیئے کہا۔
" شرافت سے اٹھو ، اور آفس کے لیئے تیار ہو۔۔۔" نازنین نے بگڑے تیور لیئے حکم صادر کیا۔
" تم مجھ پہ حکم چلا رہی ہو۔۔۔؟؟" مصطفی کو اچنبھا ہوا۔
" جو بھی سمجھو۔۔۔" وہ بال پشت پہ جھٹکتی، اترا کر گویا ہوئ۔
" زیادہ اتراؤ مت ، پتا ہے ناں کہ اب کچھ کہوں گا نہی تو ، نخرے دکھانے لگ گئ ہو۔۔۔" مصطفی نے خفگی سے کہا۔ اور بستر سے اٹھ کر اسکی پشت پہ آکر کھڑا ہوا تھا۔
نازنین اسے شیشہ میں دیکھ کر گھورتی ، اس سے تھوڑی دور ہوئ تھی۔ مصطفی منہ بناتا فلیکس کے ساتھ گویا ہوا۔
" تمہارے پاس نہی آیا ، زیادہ خوش فہم ہونے کی ضرورت نہی۔"
" میرے پاس نہی آئے تو پھر کس کے پاس آئے ہو یہاں۔۔۔" وہ بنا مڑے اپنے بالوں کو جوڑے کی شکل میں باندھنے لگی تھی۔ جب مصطفی نے جھک کر ایک لمحے میں ، اسکے گال پہ اپنے لب رکھے تھے۔ نازنین نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا تھا۔ اور مصطفی کمینگی سے مسکراتا۔ واشروم میں بند ہوگیا تھا۔
" چپکو۔۔۔" نازنین بڑبڑائ تھی۔ اور پھر اپنی بڑبڑاہٹ پہ مسکرا کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی اور نازنین ناشتہ کر رہے تھے۔ جب اوپر سے نرس بھاگتی ہوئ نیچے آئ تھی۔
" سر عالم سر کو ہوش آگیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو بھی کال کر دی ہے۔ بس وہ بھی ابھی آتے ہونگے۔۔"نرس نے پھولے ہوئے سانس سمیت کہا۔
" سچ۔۔۔ بھائ۔۔" مصطفی اور نازنین اوپر کی جانب بھاگے تھے۔
جب وہ دونوں اوپر آئے تو ، عالم کی آنکھیں کھلی ہوئ تھیں۔ اور وہ سرد نظروں سے چھت کو گھور رہا تھا۔
" بھائ۔۔۔" نازنین اسکے برابر آکر بیٹھی تھی۔ عالم نے اسے سنجیدگی سے تکا۔
" بھائ آپ ٹھیک ہیں ناں۔۔۔!!" نازنین کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
" ٹھیک ہوں میں۔ تم پریشان نا ہو۔۔۔" عالم کی آواز میں نقاہت تھی۔
" عالم بھائ ۔۔۔ " مصطفی کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔
" میں ٹھیک ہوں مصطفی۔۔۔" عالم نے اسکے چہرے پہ چھایا اضطراب دیکھ گہری سانس لیکر کہا۔
" ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں۔" ملازمہ نے آکر بتایا۔
" ہاں ان سے کہو اوپر آجاؤ..." مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔
ملازمہ سر ہلاتی باہر چلی گئ۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحب آئے۔ او عالم کا چیک اپ کیا۔ اس سے چند سوال کیئے۔ اور پھر اسکا زندگی کی جانب ایک نیا ویلکم کیا۔
" اب یہ بہتر ہیں۔ پر چلنے پھرنے میں انہیں دکت ہوگی۔ پر انشااللہ دھیرے دھیرے یہ بہت جلد ری کور کر جائیں گے۔۔" ڈاکٹر صاحب نے مسکرا کر بتایا۔
" تھینک یو سو مچ ڈاکٹر صاحب۔۔۔" مصطفی نے انکا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔
" مینشن ناٹ۔۔۔ میں امید کرتا ہوں۔ ایک ہفتے بعد آپ اپنا چیک اپ کرانے خود ہاسپٹل آئیں گے۔۔" ڈاکٹر صاحب نے عالم کو دیکھ کر مسکا کر کہا۔ جس پہ عالم محض پھیکا سا مسکا کر رہ گیا۔
ڈاکٹر صاحب کوئ آدھا گھنٹہ بیٹھے تھے۔ اور اس دوران انکے ساتھ ناشتہ بھی کر لیا تھا۔ اور پھر چلے گئے۔
عالم نے مصطفی کو خاموش نظروں سے تکا۔ تو مصطفی انہیں دیکھ کر مسکرایا تھا۔
" وہ کہاں ہے۔۔۔؟" عالم نے سنجیدگی سے پوچھا۔
" ک۔۔ کون۔۔؟" مصطفی نے تھوک نگل کر پوچھا۔
" اچھے سے جانتے ہو کس کا پوچھ رہا ہوں۔ اور جھوٹ مت بولنا۔ کیونکہ تم یہ سوچ کر کہ میں کچھ سن نہی رہا بہت کچھ کہہ چکے ہو۔" عالم نے درشتی سے پوچھا۔
" وہ مل گئ ہے۔ اور ۔۔ عالم۔۔ وہ بیا ہے۔۔" مصطفی کی بات پہ عالم کے گلے میں ایک گٹلی ابھر کر معدوم ہوئ تھی۔
" اسے بلاؤ۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" وہ یہاں نہی ہے۔۔۔" مصطفی نے اسے آگاہ کیا۔
" وہ جہاں بھی ہے ، مصطفی اسے میرے پاس واپس لیکر آؤ۔۔" عالم کے لہجہ میں ایک گرج تھی۔
" پر وہ آنے کو تیار نہی۔۔" مصطفی نے بیچارگی سے کہا۔
" مجھے نہی پتہ اسے یہاں لیکر آؤ ، اور اسے یہ مت بتانا کہ میں ہوش میں آچکا ہوں۔۔۔" عالم نے سرد نظریں سامنے دیوار پہ ٹکائے کہا۔
" میں کوشش ہی کرسکتا ہوں۔۔۔" مصطفی نے بیچارگی سے کہا۔
" مجھے کوشش نہی۔ وہ چاہیئے۔۔۔" عالم نے آنکھیں موند کر کہا۔
مصطفی دھیرے سے سر ہلاتا۔ چلا گیا۔
☆☆☆☆☆
" بیا پلیز چلو میرے ساتھ۔ تمہارے شوہر کو تمہاری ضرورت ہے۔۔" مصطفی نے اسکی منت کی۔
" اسے میری ضرورت ہے۔ پر مجھے اسکی کوئ ضرورت نہی۔۔۔" شعلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
" پلیز بیا چلو۔۔ تم جو کہو گی میں وہ کرونگا۔۔" مصطفی نے اسے منانا چاہا۔
" ہنہ سوچ لو ، میں جو کہوں گی وہ کروگے۔۔" شعلہ جلتے لہجہ میں مستفسر ہوئ۔
" ہاں تم جو کہو گی میں کرونگا بیا۔۔۔" مصطفی نے چہک کر کہا۔
" ٹھیک ہے اپنی بیوی کو طلاق دے دو پھر۔۔۔" شعلہ نے سرد لہجہ میں کہا۔
مصطفی اپنی جگہ پھتر کا ہوا۔ اسے سمجھ نہی آرہا تھا کیا جواب دے۔ وہ کئ لمحے خاموش بیٹھا رہا۔
" کہنا بہت آسان ہوتا ہے مصطفی ، پر اپنے کہے پہ عمل پیرا ہونا بہت مشکل۔۔۔ تم جاسکتے ہو اب یہاں سے۔۔" شعلہ نے تمسخر سے کہا۔
" میں تمہاری بات ماننے کے لیئے تیار ہوں۔ پر میں طلاق ابھی نہی دے سکتا ۔۔۔ کچھ ماہ بعد دے دونگا۔۔۔" مصطفی نے کچھ سوچ کر کہا۔
" ٹھیک ہے پھر اسے تمہارے لیئے تھوڑا اور آسان بنا دیتے ہیں۔ اپنا رویہ اپنی بیوی کے ساتھ پہلے جیسا کردو۔ مجھے بھی تو پتا چلے میرا بھائ مجھ سے کتنا پیار کرتا ہے۔۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
" ٹھیک ہے۔ پھر چلو میرے ساتھ۔۔۔" مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔
" یاد رکھنا جس دن تم نے میری بات کے خلاف قدم اٹھایا ، اس دن میں ایسی جگہ چلی جاؤں گی کہ تم مجھے چاہ کر بھی نہی ڈھونڈ پاؤ گے۔۔" شعلہ نے درشتی سے کہا۔
" میں تمہاری بات کی خلاف ورزی نہی کرونگا۔۔۔" مصطفی نے جھٹ کہا۔
" ٹھیک ہے۔ میں آتی ہوں اپنا سامان لیکر۔۔۔" وہ اپنے کمرے میں آکر اپنا سامان باندھ رہی تھی۔ جب شہلا اسکے کمرے میں آئ۔
" مجھے یقین نہی آرہا تم واپس جا رہی ہو ، میں تمہارے لیئے بہت خوش ہوں۔ شعلہ تم نے یہ فیصلہ لیکر بہت اچھا کیا۔ ہم جہاں سے ہوکر آئ ہیں ناں۔ ان لڑکیوں کے گھر بس جانا بڑی بات ہے۔۔۔" شہلا نے محبت سے کہا۔ اسکی آنکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔
" بے فکر رہو ، گھر تو میں تمہارا بھی بسا کر ہی رہونگی۔۔۔" شعلہ نے اسکے گلے لگتے کہا۔
شہلا پھیکا سا مسکائ تھی۔
" چلتی ہوں ، کوئ بھی بات ، پریشانی ہو تو مجھے بلا جھجک کال کرنا۔۔۔" شعلہ نے کہتے ساتھ ہی اپنا بیگ اٹھانا چاہا۔ جب شہلا نے اسکے ہاتھ سے بیگ لیا اور اسکے ساتھ لیکر باہر گئ۔ مصطفی نے اسکا بیگ گاڑی کی ڈگی میں رکھا۔ اور شعلہ کا سفر پھر سے عالم کی طرف گامزن ہوگیا۔
☆☆☆☆☆
شعلہ جیسے ہی اندر آئ۔ نازنین جو لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر کھڑی ہوگئ۔
" بھابھی آپ۔۔۔" نازنین اسے دیکھ کر خوفزدہ ہوئ۔
پر شعلہ کے پیچھے آتے مصطفی کو دیکھ اسکی ہمت بندھی تھی۔
" آؤ تمہیں عالم کے کمرے میں چھوڑ آؤں۔" مصطفی نے نرمی سے کہا۔ اور نازنین کو سرے سے نظر انداز کرتا اوپر چلا گیا۔
نازنین کو عجیب تو لگا۔ پر اسے لگا کہ شاید وہ پریشان ہو۔ خیر وہ وہیں صوفہ پہ واپس بیٹھ گئ۔
" یہ کمرہ عالم کا ہے۔ تمہارا سامان ملازمہ لے آئے گی۔۔" مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔ اور دروازے سے ہی واپس لوٹ گیا۔ شعلہ نے قدم کمرے میں رکھے۔ تو وہ بستر پہ آنکھیں بند کیئے ہوش و خرو سے بیگانا پڑا تھا۔
شعلہ چلتے چلتے اسکے سر پہ آکر کھڑی ہوئ تھی۔
" تم زندہ کیسے بچ گئے۔۔۔" وہ ہنسی تھی۔
" تمہیں تو مرنا تھا۔ عالم تم زندہ کیسے بچ گئے۔۔۔" وہ اسکا ہاتھ تھام کر بے بسی سے ہنسی تھی۔ آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔ اور یکدم بے قابو ہوتے آنکھوں سے پھسلتے۔ عالم کے ہاتھ کی پشت پہ گرے تھے۔
" بہت پیار کرتی ہوں تم سے۔۔۔ پر جو تم نے میرے ساتھ کیا تھا۔ وہ میں کبھی بھول نہی پاؤں گی۔ اور اسکا بدلہ تو لینا ہی تھا میں نے۔۔۔!!
تمہیں۔۔۔ پتہ۔۔ ہے۔۔ ماں بننے والی ہوں میں۔ اور افکارس تم باپ۔۔۔" وہ اپنی بات مکمل کرتی سسکی تھی۔
" میں کتنا بھاگی تم سے پر وہ آخری رات جب میں یہاں سے اپنا انتقام پورا کرکے بھاگنے والی تھی۔ اس رات تم نے مجھے کمزور کردیا۔ میری روح کو تو فتح کر لیا تھا۔ پر میرے جسم کو بھی اپنی ملکیت بنا دیا میر۔۔۔" وہ لب دبا کر کہتی اسکا ہاتھ تھام کر دھیرے سے اپنے پیٹ تک لائ تھی۔ اور اپنے ابھرے ہوئے پیٹ پہ عالم کا ہاتھ دھرا۔
" دیکھو تمہارا بچہ۔۔۔ بہت شرارتی ہے ، ابھی سے میں سوچتی ہوں۔ جب یہ اس دنیا میں آجائے گا۔ تو کتنا شرارتی ہوگا۔ تم اسکے دل کی دھڑکن محسوس کرسکتے ہو ناں۔۔۔" وہ کہتے ساتھ ہی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
عالم نے اپنی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تھا۔ دھیرے سے اسکے پیٹ پہ اپنا ہاتھ سرکایا تھا۔ شعلہ کا پورا وجود ایک جگہ تھما تھا۔ اسنے بے یقینی کے عالم میں میر عالم کو دیکھا۔ وہ آنکھیں کھولے۔ اسے زخمی نگاہوں سے تک رہا تھا۔
" تم۔۔۔ تمہیں ہوش آگیا۔۔۔" وہ بے یقین ہوئ۔
" بہت پہلے ہی ہوش آگیا تھا۔ پر اب اس پہر لگتا ہے کہ سچ میں ہوش میں آگیا ہوں۔ تم نے مجھے مارنا چاہا۔ اور اب بھی تم مجھے مارنا چاہتی ہو۔ تم نے میرے اعتماد کا قتل کیا ہے۔ شعلہ اسکے لیئے تمہیں کبھی معافی نہی ملے گی۔۔" عالم کی آنکھوں میں ایک سرد پن تھا۔ جسے دیکھ شعلا کی ریڑھ کی ہڈی سنسنائ تھی۔
" مجھے یہ بات کہتے ہوئے بلکل بھی افسوس محسوس نہی ہورہا۔ کہ مجھے اپنی بیوی ، اپنے بچے کی ماں سے شدید نفرت ہے۔۔۔" عالم نے کہتے ساتھ ہی اسکے پیٹ پہ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا۔
" میرے خیالات بھی تمہارے لیئے کچھ ایسے ہی ہیں۔ نفرت ہے مجھے تم سے۔۔۔" شعلا نے سرد لہجہ میں تلخی سے کہا۔ اور اسکے پاس سے آٹھ گئ۔
عالم اسکے سراپے کو گھور کر رہ گیا تھا۔ اسے لگا تھا۔ شاید اسے اب اپنے کیئے پہ پشتاوا ہو۔ پر اسکی وہ مثال تھی۔ کہ رسی جل گئ ، پر بل نا گیا۔
" تم نے میری اتنے سالوں کی محنت کو خاک میں ملا دیا ، شعلہ ۔۔۔ تم نے جو کیا اسکے لیئے تمہیں بہت پشتانا پڑے گا۔" عالم بستر پہ آٹھ بیٹھا تھا۔ پیر بستر سے نیچے اتار کر اسنے جیسے ہی کھڑے ہونے کی کوشش کی تو ، اسکے پیر لڑکھڑائے اس سے پہلے کے وہ زمین بوس ہوتا۔ شعلہ آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔
عالم نے بے رخی سے اسے خود سے دور جھٹکا تھا۔ اور دیوار کا سہارا لیتا بہ مشکل واشروم تک گیا تھا۔ شعلہ نے اسے نم آنکھیں لیئے تکا۔ اور اپنے آنسو گالوں کی زینت بننے سے پہلے ہی صاف کر لیئے۔
مصطفی شعلہ کو گھر چھوڑ کر دفتر چلا گیا تھا۔ نازنین کچن میں لگی کھانا بنا رہی تھی۔ جب شعلہ نیچے اسکے پاس آئ۔ نازنین نے اسے دیکھ کر نظر انداز کیا۔
" نظر انداز کر رہی ہو مجھے۔۔۔؟؟" شعلہ نے سلیب پہ ہاتھ ٹکا کر پوچھا۔
" کیا مجھے آپ کو نظر انداز نہی کرنا چاہیئے۔۔۔" نازنین نے پر شکوہ نگاہیں اسکے چہرے پہ گاڑھ کر کہا۔
شعلہ نے اسے تنقیدی نگاہوں سے تکا۔ اسے لگا شاید مصطفی نے اسے شعلہ کی یہاں آنے کی شرط کے بارے میں بتا دیا ہے۔
" کوئ خاص وجہ۔۔؟؟" شعلہ نے آبرو آچکا کر پوچھا۔
" آپ نے میرے بھائ کو مارنے کی سازش کی ، اور تقریباً آپ اپنے عمل میں کامیاب بھی ہونے والی تھیں۔ کیا اس سے بڑی کوئ وجہ ہوسکتی ہے آپ کو نظر انداز کرنے کی۔۔۔" نازنین نے سالن میں چمچ چلاتے کہا۔
شعلہ اسکی بات پہ گہری سانس لیتی کندھے آچکا کر گویا ہوئ۔
" ہاں تمہارا مجھے نظر انداز کرنا درست ہے۔ پر مجھے ایک بات سمجھ نہی آرہی۔ جب میں آئ تو تم نے تب مجھے جانے کو کیوں نہی کہا یہاں سے۔۔۔؟؟"
" کیونکہ آپ کو مصطفی لائے ہیں۔ اور میں انکی کسی بات سے انکار نہی کرسکتی۔۔۔" نازنین نے سنجیدگی سے اسے جواب دیا۔
" اوہ ۔۔ سہی۔۔" وہ سر ہلاتی کچن سے نکل گئ اور نازنین اسے جاتا دیکھ کر رہ گئ۔
☆☆☆☆☆
اسفند مارٹ میں گروسری شاپنگ کر رہا تھا۔ جب اسے سامنے سے آتی شہلا دکھی۔ وہ چہکتا ہوا اسکے برابر میں جاکر کھڑا ہوا تھا۔
" کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟" اسفند اسکی پشت پہ کھڑا گویا ہوا۔
شہلا چونکی اور دل پہ ہاتھ رکھتی مڑی ، اور اسفند کو دیکھ کر اسکے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کے جال بچھے تھے۔
" لوگ یہاں آکر کیا کرتے ہیں۔۔" شہلا نے دانت پیس کر کہا۔
" گروسری خریدتے ہیں۔۔۔" اسفند نے ہاتھ بڑھا کر شہد کا جار اٹھایا۔
شہلا بلکل ریک کے قریب ہوگئ ، اس ڈر سے کہ کہیں انکے کندھے ہی آپس میں مس نا ہوجائیں۔
" تو میں بھی وہی خریدنے آئ ہوں۔۔۔" وہ اسکے پاس سے نکلی تھی۔ اور اپنی ٹرالی کو بھی ساتھ گھسیٹا تھا۔
" ہاں وہ تو میں بھی دیکھ سکتا ہوں۔۔" اسفند نے مسکا کر کہا۔
شہلا آنکھیں گھما کر رہ گئ۔ اسکی خریداری مکمل ہوچکی تھی۔ بس اب اسے بلنگ کرانی تھی۔ اور یہاں سے نکلنا تھا۔ اسفند بھی اپنی ٹرالی میں شہد کی باٹل رکھتا اسکے پیچھے ہو لیا تھا۔ شہلا نے مڑ کر اسے گھورا تھا۔
دونوں بلنگ کاؤنٹر کے پاس کھڑے تھے۔ شہلا اپنا سامان ٹرالی سے نکال نکال کر کاؤنٹر پہ رکھ رہی تھی۔ اسفند بھی اسکا سامان جلدی اٹھا کر رکھنے لگا۔ شہلا جل کر رہ گئ۔
" اٹس اوکے میں کر لوں گی۔۔۔" شہلا نے سنجیدگی سے کہا۔
" ارے۔۔۔ اگر تم کروگی تو میں کس کام کا یہاں کھڑا ہوں۔۔" اسفند نے فری ہوکر کہا۔
شہلا ارد گرد لوگوں کو دیکھ کر اپنے منہ کو زبردستی مسکراہٹ کی شکل میں ڈھال گئ تھی۔ بل دینے کی باری آئ ، جب تک شہلا اپنے پرس سے کیش نکالتی۔ اسفند اپنا کارڈ کاؤنٹر پہ رکھ چکا تھا۔ اور بل بھی پے ہوچکا تھا۔ شہلا نے پیسے نکال کر کاؤنٹر پہ رکھے۔ تو کاؤنٹر پہ بیٹھے اکاؤنٹنٹ نے اسکے پیسے کھسکا کر اسکی جانب واپس کیئے۔
" میم سر نے بل پے کر دیا ہے۔"
شہلا نے مڑ کر اسفند کو دیکھا جو وہاں سے غائب تھا۔
" کہاں چلا گیا یہ۔۔۔؟؟" اسنے اسی لڑکے سے پوچھا۔
"میم وہ تو اپنا سامان لیکر چلے گئے ، آپکے سامان کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی بھی بلنگ کرا لی تھی۔"
شہلا جلتی کڑھتی اپنی ٹرالی گھسیٹتی باہر آئ تھی۔ ڈرائیور آگے آیا تھا۔ اور اسنے سارے شاپر اٹھا کر گاڑی میں رکھے تھے۔ وہ موبائل نکال کر اسفند کو کال کر نے لگی۔ چند بیلز جانے کے بعد کال ریسیو ہوگئ۔
" ابھی تو ملے تھے ، اتنی جلدی تمہیں میری یاد ستانے لگی۔۔" وہ شوخی سے گویا ہوا۔
شہلا نے گہری سانس لیکر اپنے غصہ کو قابو میں کیا۔ اور تقریبا ایک ایک لفظ چبا کر گویا ہوئ۔
" زیادہ شوخ ہونے کی ضرورت نہی۔ اپنی بینک اکاؤنٹ کی ڈیٹیلز دو ، تاکہ تمہارے پیسے تمہیں بھجواؤں۔۔۔"
" کون سے پیسے۔۔۔؟؟" وہ انجان بنا۔
" ابھی جو تم۔نے میرے بل کے پے کیئے وہ والے پیسے۔۔۔" شہلا نے خود کو غصہ کرنے سے روکا تھا۔
" تم مجھے وہ پیسے واپس کرنا چاہتی ہو۔۔؟؟" مقابل نے تاسف سے پوچھا۔
" ہاں ۔۔۔" اسنے ذرا گردن اکڑا کر کہا۔
" اوکے پھر تم ، اس ایڈریس پہ آجانا ابھی تمہیں مسیج میں بھیج رہا ہوں۔۔۔" اسفند نے کہتے ہی کال کاٹنا چاہی۔
" نہی میں نہیں آسکتی ، میں کچھ مصروف ہوں۔۔۔" اسنے بہانا گڑھا۔
" اوکے پھر پیسے دینے کی ضرورت نہی۔۔۔" اسفند نے کہتے ہی کال کاٹ دی تھی۔ وہ اسکی حرکت پہ جل بھن کر رہ گئ تھی۔ اور کچھ دیر بعد اسکے موبائل کی سیاہ سکرین ایک بار پھر روشن ہوئ تھی۔ شہلا نے اپنا موبائل پرس میں پھینکا تھا۔ اور باہر کے نظاروں میں گم ہوگئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی جب رات میں گھر آیا تو نازنین سجی سنوری ڈائیننگ ٹیبل پہ ملازمہ کے ساتھ کھانا لگا رہی تھی۔ مصطفی نے اسکے دلکش سراپے سے نظریں چرائ تھیں۔
نازنین اسے دیکھ کر مسکرائ تھی۔
" آگئے تم۔۔۔؟؟" وہ لاڈ سے گویا ہوئ۔
" تو آنا ہی تھا میں نے گھر۔۔" مصطفی نے سرد مہری سے کہا۔
" لگتا ہے آج تھک گئے ہو۔۔۔؟؟" نازنین کو لگا شاید تھکاوٹ کی وجہ سے وہ سرد مہری دکھا رہا ہے۔
" پانی دو گی ، یا پھر دماغ ہی چاٹتی رہوگی۔۔۔" اسنے بیزاریت سے کہا۔
" دے دیتی ہوں پانی ، لڑ کیوں رہے ہو۔۔" نازنین اسکے بگڑے تیوروں کا اثر لیئے بغیر چہکی تھی۔
وہ پانی لائ اسے دیا۔ اور اسکا سامان اٹھا کر روم میں رکھ کر آئ۔ عالم کا کھانا کمرے میں ہی پہنچا دیا تھا۔ اور شعلہ نیچے آئ تھی۔ کھانا کھانے۔ نازنین اور مصطفی بھی بیٹھے تھے کھانا کھانے۔ خاموشی سے کھانا کھایا گیا۔ نازنین برتن اٹھا کر کچن میں لیکر گئ۔
" کوشش کرو یہ تم سے خود ہی طلاق لے لے۔۔۔" شعلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
مصطفی نے نگاہیں چرائ۔ اور دھیرے سے سر اثبات میں ہلاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ شعلہ بھی آٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئ۔ نازنین ملازمہ کو کچن سمیٹنے کی ہدایت دیتی۔ اوپر کمرے میں آئ تو مصطفی بیڈ پہ آڑا ترچھا پڑا تھا۔ اور آنکھوں پہ بازو دھرا تھا۔ وہ پریشانی سے اسکے قریب آئ تھی۔
" کیا ہوا مصطفی ، طبیعت ٹھیک نہی ہے کیا تمہاری۔۔۔" وہ اسکے سر پہ کھڑی اسکا بازو اسکے چہرے سے ہٹانے لگی جب ، مصطفی نے پوری شدت سے اسے خود سے دور جھٹکا۔
" کیا ہوا مصطفی۔۔۔؟؟ ایسے کیوں بی ہیو کر رہے ہو۔" اپنی آنکھوں کی نمی دھکیلتی وہ کپکپاتی آواز میں مستفسر ہوئ۔
" تھوڑی دیر اکیلا نہی چھوڑ سکتی تم مجھے۔۔۔!!" مصطفی نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر بیزار سے لہجہ میں کہا۔
نازنین نتھنے پھلائے ، کمرے کی لائٹس آف کرتی اپنی جگہ پہ جا کر لیٹی تھی۔ اور اندھیرے میں ہی بڑبڑانا شروع کر دیا تھا۔
" سب مرد ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جب پتا لگ جائے نا کہ بیوی تو بھئ ہماری محبت میں پاگل ہے۔ کچھ بھی کریں۔ کیسے بھی دل کیا اسے جھڑک دیں گے۔ وہ تو پاگل کی بچی ہے اسنے کونسا کچھ بولنا ہے۔ پر ۔۔۔۔ کان کھول کر سن لو تم مصطفی ۔۔۔ اگر تھوڑی دیر میں تمہارا یہ سوجا منہ درست زاویے پہ نا آیا ناں۔ تو جان لے لونگی میں تمہاری۔" وہ بڑبڑاتی ہوئ مڑی تھی۔ اور اندھیرے میں ہی اسکے گرد اپنی بانہوں کا حصار بنا گئ تھی۔
مصطفی آنکھیں موند کر رہ گیا تھا۔ اتنا آسان تو نا تھا۔ اب اسے خود سے دور جھٹک دینا۔ مصطفی نے گہری سانس لیکر اسکے گرد بازو ہمائل کیا۔
" نازنین۔۔۔ میں تھک گیا ہوں۔۔۔" اسنے بے بسی سے کہا۔
" ہاں تو تم اکیلے تو نہی تھکے ناں ، میں بھی صبح سے لگی ہوں۔ گھر کے کام کرکے میں بھی تھک چکی ہوں۔۔" وہ۔اسکے سینے پہ اپنا سر ٹکاتی لاڈ سے گویا ہوئ۔
" نازنین پلیز پیچھے ہو جاؤ۔۔" وہ یکدم سرد مہری سے گویا ہوا۔
" خفا ہو۔۔؟" وہ اداسی سے مستفسر ہوئ۔
" نہی میں خفا نہی ہوں ، بلکہ بیزار آگیا ہوں تم سے۔۔۔" مصطفی دبے دبے لہجہ میں چلایا تھا۔
نازنین کا رنگ فق پڑا تھا۔ اور وہ اس سے جھٹ دور ہوکر کروٹ بدل گئ تھی۔ مصطفی لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔ اور کچھ لمحے بعد اندھیر کمرے میں اسکی سسکیاں گونجنے لگی تھیں۔
☆☆☆☆☆
شعلہ کمرے میں آئ تو ، عالم بستر پہ پڑا چھت کو گھور رہا تھا۔ وہ اسے نظر انداز کرتی ، نائٹ ڈریس پہن کر باہر آئ تھی۔ اسکی سلک کی سیاہ نائٹی میں اسکے پیٹ کا ہلکا ابھار واضح ہو رہا تھا۔ عالم نے اسے دیکھ نفرت سے نظریں پھیری تھیں۔ وہ لب بھینچ کر بستر پہ دوسری جانب لیٹی تھی۔
" نفرت ہوگئ ہے تم سے مجھے۔۔۔" عالم کی سرد آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ۔ تو ایک پل کو تھمی۔ اور پھر تمسخر سے مسکرائ۔
" نفرت تو مجھے بھی تھی۔ دیکھو برباد کردیا، اب تمہاری باری ہے۔ دیکھتی ہوں ، تم کیسے برباد کرتے ہو مجھے۔" وہ آنکھیں موند کر گویا ہوئ۔
" میری نفرت ، تمہاری نفرت جیسی نہی ہے شعلہ میری نفرت تمہاری نفرت کی طرح انسٹینٹ نہی ہے۔ کہ ایک پل میں سب ختم کردے۔ میری نفرت بہت (slow) ہے۔ وہ دھیرے دھیرے تمہیں برباد کرے گی۔ میری نفرت بلکل (slow poison ) جیسی ہے۔ جو تمہیں دھیرے دھیرے ختم کردے گی۔ اور تمہیں پتا بھی نہی چلے گا۔" عالم کا انداز کافی سرد تھا۔
" ہنہ۔۔۔ جناب برباد آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ جن کے پاس کچھ ہو۔ ہم جیسے جن کے نا آگے کوئ ہو نا ہی پیچھے ، انکا بربادی سے کیا سروکار۔۔۔" وہ پر سوز لہجہ میں کہتی ، کمفرٹر خود پہ ڈال کر آنکھیں موند گئ۔
عالم اسے کئ لمحے تکتا رہا اور پھر آنکھیں موند گیا۔
شعلہ کو برباد کرنا تو اب اسکی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بن گیا تھا۔ اور عالم یہ تہیہ کر چکا تھا۔ کہ اسے شعلہ کو برباد کرنا ہے ہر صورت میں ، مطلب ہر صورت میں۔
" پہلے شاید کوئ تمہارے آگے پیچھے نا تھا۔ پر اب تو ہے تمہارا بچہ۔۔۔" عالم کی آواز جیسے ہی اسکے کانوں میں پڑی ، شعلہ کی آنکھیں جھٹ کھلی تھیں۔
" ہنہ۔۔ اگر تم اسے تکلیف دے کر مجھے برباد کرنا چاہتے ہو تو شوق سے کرنا ، پر یاد رکھنا اسے تکلیف دے کر ختم تو تم بھی ہوجاؤ گے۔۔۔" شعلہ نے سرسراتے لہجہ میں کہا۔
عالم اسکی اڑی رنگت دیکھ کر ، تمسخر سے مسکرایا تھا۔
" اتنا کیوں ڈر گئ ہو ، ابھی تو اسے اس دنیا میں آنے میں بھی بہت وقت لگے گا۔۔۔" عالم نے اسکی اڑی رنگت دیکھ مزید اسے ڈرایا۔
" مجھے نیند آرہی ہے۔۔" اسنے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر نادیدہ پسینے کو صاف کیا۔ اور آنکھیں موند گئ۔
☆☆☆☆☆
مصطفی صبح اٹھا تو نازنین کمرے میں نہی تھی۔ وہ اپنا دکھتا سر دباتا واشروم میں گیا تھا۔ آفس کے لیئے تیار ہوتا وہ نیچے آیا تھا۔ نازنین نے خاموشی سے ناشتہ لگایا۔ اور واپس اوپر آگئ۔ مصطفی نے تنہا ناشتہ کیا۔ اور اپنا سامان لینے اوپر آیا تو نازنین بیگ میں لگی کپڑے ڈال رہی تھی۔ مصطفی کا دل یکدم بند ہوا۔ نازنین اسے مکمل طور پہ نظر انداز کررہی تھی۔ مصطفی اس سے بات کرنا چاہتا تھا۔ پر شعلہ کی بات یاد کرکے اسکے قدم اپنی جگہ جم گئے۔ وہ خاموشی سے اپنا سامان لیتا کمرے سے نکلنے ہی والا تھا۔ جب نازنین کی بس ہوئ۔
" ہو کیا گیا ہے تمہیں۔۔۔؟؟" وہ اسے بازو سے تھام کر سسکی تھی۔
" کچھ نہی ہوا۔ پلیز پیچھے ہٹو۔۔" مصطفی نے اسے خود سے دور کرنا چاہا۔
" ایسے کیسے دور ہٹوں ، تمہیں اندازہ ہے میں کل رات سے کس ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔۔" وہ اسکے سینے سے لگتی بھیگے لہجہ میں مستفسر ہوئ۔
" نازنین۔۔۔ پلیز ۔۔۔ مجھے دیر ہورہی ہے۔۔۔" مصطفی نے بیچارگی سے کہا۔
" ہوجائے دیر پر میرے سوالوں کے جواب دیئے بغیر تم یہاں سے کہیں نہی جاؤ گے مصطفی نہی تو میں تمہاری جان لے لوں گی۔۔۔" وہ مزید اس سے چپکی تھی۔
" نازی۔۔۔ پلیز۔۔۔" وہ اسکے گرد بازو لپیٹتا محبت سے منت کرنے لگا۔
" پلیز ۔۔۔ ولیز کچھ نہی مجھے بتاؤ ، آخر کیا ہوا ہے تمہیں۔۔۔؟؟" وہ اسکے سینے پہ اپنے لب دھرتی مستفسر ہوئ۔
اور یہاں مصطفی پگھل گیا۔ اسے مکمل طور پر اپنی بانہوں کے حصار میں قید کرتا۔ کئ لمحوں تک اسکی خوشبو کو خود میں اتارتا رہا۔ اور پھر شعلہ کی حقیقت اور اسکی شرط سب اسے بتا دی۔ نازنین توجہ سے تمام بات سن کر اسے خشگمین نظروں سے گھورتی رہی۔
" کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو۔۔۔؟؟" مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔
" اگر تم مجھے یہ سب پہلے بتا دیتے تو کیا چلا جاتا تمہارا۔۔ ؟؟" وہ کمر پہ ایک ہاتھ رکھتی بھنوئیں آچکا کر مستفسر ہوئ۔
" کیسے بتاتا ، مجھے تو کچھ سمجھ ہی نہی آرہی تھی۔۔۔" مصطفی نے چڑ کر کہا۔
" ایسے ہی بتاتے جیسے ابھی بتایا ہے یار۔۔۔۔" وہ خفا ہوئ۔
" اب سنو میں ، تمہیں سمجھاتی ہوں کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے۔۔۔" نازنین نے اسے تمام بات سمجھائ اور مسکرائ۔ مصطفی بھی اسکے پلین پہ مسکرایا تھا۔
"واہ اتنا اچھا آئیڈیا میرے پاس کیوں نہی آیا۔۔" مصطفی کو حیرت ہوئ۔
" عقل کی کمی کی وجہ سے نہی آیا۔۔۔" نازنین نے زبان دکھا کر کہا۔
اور مصطفی اسے گھورتا نکل گیا۔ وہ پیچھے کھڑی مسکرا کر رہ گئ۔
ساوری کا نواں مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ اسکی حالت اکثر بہت خراب رہنے لگی تھی۔ آج بھی حیدر اسکی حالت دیکھ کر آفس کے لیئے نکلنے کو تاخیر کرنے لگا۔ میڈ آئ تو وہ میڈ کو ضروری ہدایات دیتا آفس کے لیئے نکل گیا۔ ابھی اسے آفس آئے دو گھنٹے بہ مشکل ہوئے تھے۔ کہ میڈ کا فون آیا۔
" ہیلو ۔۔۔ جی کہیئے۔۔" حیدر نے موبائل کان سے لگایا۔ اور ساتھ ساتھ سامنے رکھے ڈوکومینٹس پہ بھی ایک نظر ڈالی۔
" سر۔۔۔ آپ پلیز۔۔۔ جلدی گھر آجائیں ، میم کی بلکل طبیعت ٹھیک نہی ہے۔" میڈ کی بوکھلائ آواز سنتا وہ فورا کال کاٹ کر اٹھا تھا۔ اور آدھے گھنٹے کا راستہ اسنے کوئ دس منٹ میں طے کیا تھا۔ جب وہ اوپر اپنے فلیٹ میں پہنچا۔ تو ساوری درد سے تڑپتی سسک رہی تھی۔ حیدر نے میڈ کو گھر پہ رہنے کو کہا۔ اور ساوری کو لیکر جلدی سے ہاسپٹل کے لیئے نکلا۔ ایمرجنسی میں اسے گائنی وارڈ لے جایا گیا۔ حیدر جلے پیر کی بلی کی مانند یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔ اسنے اپنی امی کو کال کرکے بتایا کہ وہ یہاں آجائیں۔ پر انہوں نے یہاں آنے سے انکار کردیا۔ اور جس ہاسپٹل میں وہ پیسے دے چکے تھے۔ وہاں در فشاں کو اسکی امی اور خالہ لے گئے۔ انکی اس حرکت پہ حیدر کا دل جل کر رہ گیا تھا۔ اسکا دل بند ہونے کو تھا۔ اور ان لوگوں کو بس اپنے مطلب کی پڑی تھی۔ دو گھنٹے ہوچکے تھے۔ پر کوئ خبر نہی ملی تھی۔ وہ سر تھامے بے چین سا بیٹھا تھا۔ جب اسکا فون بجا۔ اسنے اپنی ماں کا نام دیکھ کر کال اٹھائ۔
" کیا ہوا۔ بچہ نہی لیکر آئے تم ابھی تک۔۔۔؟؟" اسکی امی نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
" امی ساوری کی طبیعت بلکل ٹھیک نہی ، وہ بہت کریٹیکل کنڈیشن میں ہے۔" حیدر نے ہارے ہوئے انداز میں کہا۔
" اوہ ۔۔۔ اچھا۔ چلو جیسے ہی بچہ ہوجائے اسے لیکر آجانا۔۔۔" اسکی ماں نے کہتے ساتھ ہی کال کاٹ دی ، اور وہ بے یقین سا اپنے موبائل کی روشن اسکرین کو دیکھتا رہ گیا۔ کتنا آسان تھا۔ ان سب کے لیئے یہ سب ، مشکل میں تو بس دو ہی لوگ تھے۔ حیدر اور ساوری۔۔۔!!
کافی انتظار کے بعد رات آٹھ بجے کے قریب اللہ تعالی نے ساوری کو ایک بیٹی سے نوازا۔ اور اللہ کے کرم سے وہ آپریشن سے بھی بچ گئ۔ حیدر کی آنکھوں سے چند موتی شکر کے لڑکھے تھے۔
کچھ دیر بعد ڈاکٹر اسکی بیٹی کو لیکر آئ۔ اور اسکی۔گود میں دے دیا۔ وہ کئ لمحے تک اس پھول جیسی گلابی گڑیا کو تکتا رہا۔ وہ بلکل اپنی ماں جیسی تھی۔ حیدر سسکا تھا۔ اور پھر کچھ دیر بعد اسکی ماں کی کال آئ۔ اسنے انہیں سمجھانا چاہا۔ کہ ایک بار ساوری کو ہوش آجائے اور وہ اپنی بیٹی کو دیکھ لے پھر بھلے لے جائیں۔ پر انہوں نے اسکی ایک نا سنی۔ اور ناچار حیدر کو بچی کو انکے پاس پہنچانا پڑا۔ پوری رات ساوری دواؤں کے زیر اثر سوئ رہی۔ اور صبح اٹھتے ہی اسکا پہلا سوال اسکے بچے کے بارے میں تھا۔
" میرا۔۔۔ بچہ۔۔ کہاں ہے۔۔؟" اسنے نقاہت سے آٹھ کر پوچھا۔
" اسے جہاں ہونا چاہیئے تھا وہاں۔۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔
" کہاں ہے۔۔۔؟؟" اسکی آنکھوں سے واضح خوف جھلک رہا تھا۔
" در فشاں کے پاس۔۔۔" حیدر نے سرد لہجہ میں کہا۔
" آپ نے اسے در فشاں کو دے دیا۔ میں نے اسے ایک بار بھی۔۔۔ نہی دیکھا۔۔۔" وہ سسکی تھی۔
" ساوری۔۔۔ یہ سب تو ہونا تھا ناں۔۔۔!!" حیدر نے کرختگی سے کہا۔ اس وقت اگر وہ نرم پڑ بھی جاتا تو کیا کرتا آخر ، کچھ نہی کرسکتا تھا اسکے لیئے وہ۔
" مجھے میرا بچہ واپس چاہیئے۔" وہ تقریباً چلائ تھی۔
" میری بات سنو۔۔۔ دیکھو تمہارے لیئے اس وقت ایسے چیخنا چلانا درست نہیں۔" حیدر اسے کندھوں سے تھامتا دلاسہ دینے کی اپنی سی ایک کوشش کر رہا تھا۔
" میں نے سوچا تھا میں کر لوں گی یہ۔۔۔۔ پر بہت مشکل ہے میں نہیں کرپاؤں گی۔" وہ سسک رہی تھی۔
" پر تمہیں یہ کرنا ہوگا ۔۔۔۔ کانٹریکٹ میں جو تھا وہی ہے ایسی کوئ انہونی نہیں ہوئ۔" وہ رساں سے گویا ہوا۔
" اوہ ۔۔۔ میں ۔۔۔ ت۔۔۔تو بھول گئ تھی۔ ٹھیک ہے آپکا کنٹریکٹ پورا ہوگیا۔ اب مجھے آزادی دے دیں۔" اسنے چہرہ جھکا کر کہا۔
" نہیں ابھی کنٹریکٹ پورا نہیں ہوا۔ کنٹریکٹ کے مطابق بیٹا ہونے کے بعد تمہیں آزادی ملنی ہے اور کل رات تمہارے ہاں بیٹی پیدا ہوئ ہے۔۔۔۔" وہ کہتا خاموشی سے کمرے سے نکل گیا تھا۔
ساوری کی آنکھوں سے آنسو لڑھکنے لگے تھے۔ اسکا صدمہ سے برا حال تھا۔ قسمت نے بھی اسکے ساتھ کیسی گیم کھیلی تھی۔ حیدر باہر نکل کر اپنا سر تھام گیا تھا۔ بہت مشکل تھا اسکے لیئے ساوری کو اس حال میں دیکھنا۔ پر وہ کچھ بھی تو نہی کرسکتا تھا اسکے لیئے۔ وہ بے بسی کی انتہا پہ تھا۔
☆☆☆☆☆
شعلہ کے بھی بس آخر کے دن تھے۔ وہ اپنا بھاری وجود لیئے بستر پہ پڑی تھی۔ اسکا جسم مکمل طور پر سوج چکا تھا۔ میر عالم اب بلکل ٹھیک ہوچکا تھا۔ اسنے اور مصطفی نے ساتھ کام کرکے اپنی فروزن فوڈز کی کمپنی کو نمبر ون پہ لا کھڑا کیا تھا۔ پر میر عالم کی نفرت شعلہ کے لیئے اسی طرح تھی۔ اسمیں کمی تو نہی مگر زیادتی ضرور ہوگئ تھی۔ شعلہ بھی خود کو اس سے غافل کر گئ تھی۔
شعلہ دھیرے دھیرے نیچے آرہی تھی۔ جب مصطفی اور نازنین کے کمرے سے جھگڑنے کی اور سامان ٹوٹنے کی آوازیں آرہی تھی۔ اب تو یہ روز کا ہی معمول بن گیا تھا۔ وہ صوفہ پہ بیٹھے پریشان سے عالم کو دیکھ مسکرائ تھی۔ وہ یہی تو چاہتی تھی۔ کہ عالم کو سکون نا آئے۔ اب نازنین میں تو اسکی جان بستی تھی۔ مصطفی کو لگا تھا۔ کہ شعلا کو نہی پتہ عالم کے ہوش میں آنے کا ، پر اسے سب پتہ تھا۔ ہر بات کی خبر تھی۔ اسی لیئے یہاں آنے سے پہلے وہ اسکی بے سکونی کا مکمل انتظام کر چکی تھی۔
" تنگ آگیا ہوں ، میں تم سے ۔۔۔" مصطفی کے چیخنے کی آواز باہر تک آئ تھی۔ عالم پہلو بدل کر رہ گیا تھا۔ بے چینی اسکے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
" تنگ تو میں آچکی ہوں ، تم جیسے جنگلی انسان کے ساتھ رہنا میرے لیئے اب عذاب بن کر رہ گیا ہے۔۔۔" نازنین بھی حلق کے بل چلائ تھی۔
شعلہ مسکراتی ہوئ باہر گارڈن میں چلی گئ تھی۔ اور عالم اپنے کیئے فیصلے پہ آج ہزارویں دفعہ پشتایا تھا۔
" تم نے مجھے جنگلی کہا۔۔۔ سمجھتی کیا ہو خود کو۔۔۔" کمرے میں مصطفی نے نازنین کو کمر سے تھام کر اپنے قریب کیا۔ اور چلایا۔
" میں خود کو جو بھی سمجھوں تم ہو کیا۔ ایک غلام سے زیادہ تمہاری کوئ حیثیت نہی۔۔۔" نازنین چلا کر کہتی اسکی گردن کے گرد اپنے بازو باندھ گئ تھی۔
مصطفی اسکی کمر پہ اپنے ہاتھ سرکاتا ایک آئبرو آچکا کر مسکرایا تھا۔ اور پھر حلق کے بل چلایا۔
" تم بھی کہیں کی ملکہ نہی لگی۔ ارے شکل دیکھو اپنی ، اور بات دیکھو۔۔۔" وہ چلاتے ہی اسکے گالوں پہ بوسہ دینے لگا۔
" تم میری شکل تک کو بیچ میں لے آئے۔۔۔" وہ چلائ۔
" اب میرے منہ نا لگنا ، میں جا رہا ہوں نہانے ، دماغ تھوڑا ٹھنڈا کر لوں۔۔۔ نہی تو تم نفسیاتی عورت نے میری جان عذاب کر دی ہے۔۔۔" وہ چلایا تھا۔ اور نازنین کو ساتھ لیئے واشروم کا دروازہ دھاڑ کی آواز سے بند کر گیا تھا۔ نازنین اسکی چیخنے کی ادا کاری پہ دلکشی سے مسکرائ تھی۔
" واہ ۔۔ پہلے سے کافی بہتر چلانے لگے ہو۔۔۔" وہ شرارت سے گویا ہوئ۔
" کبھی تم نے یہ نہی کہا کہ پہلے زیادہ اچھا رومینس کرنے لگے ہو۔ بس ہمیشہ ایسی فالتو چیزوں پہ ہی کمپلیمنٹ کرنا۔ مصطفی اسے اپنے ساتھ جھٹکے سے شاور کے نیچے لایا تھا۔ اور شاور آن کر دیا تھا۔ نازنین نے بوکھلا کر اس سے دور ہونا چاہا۔
" یہ کیا کر رہے ہو۔ پاگل ہوگئے ہو۔۔۔ کیا۔۔۔" وہ اسکے حصار میں مچلی تھی۔ وہ مزید اسے خود سے قریب کر گیا تھا۔
" پاگل ہی تو ہوگیا ہوں ، تمہارے حسن ، عشق اور قربت نے پاگل بنا دیا ہے۔" وہ اپنا چہرہ اسکے چہرے کے قریب لاکر گویا ہوا۔
" مصطفی۔۔۔۔" اسکے دل نے ایک بیٹ مس کی۔
" شش۔۔۔ کچھ لمحے خاموش رہنے میں کوئ برائ نہی۔۔" وہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتا اسکی گردن کی پشت سے اسکا سر اونچا کر کے اپنے لب دھیرے سے اسکے گال پہ دھر گیا تھا۔ نازنین کا حلق سوکھا تھا۔ اسکی پلکیں لرزتی سجدہ ریز ہوگئ تھیں۔ نازنین کے لب پھڑپھڑانے لگے تھے۔ وہ تشنگی سے اسکے لبوں کو تکتا دھیرے سے اسکے نچلے لب پہ اپنا نرم سا لمس چھوڑتا اسکی ٹھوڑی پہ بوسہ دینے لگا۔ نازنین جی جان سے کپکپائی تھی۔ مصطفی ٹھوڑی پہ بوسہ دیتے اسکی گردن پہ آیا تھا۔ اپنی ناک اسکی گردن پہ رگڑتا اپنے دانت پوری شدت سے اسکی گردن پہ گاڑھ گیا تھا۔ ساوری اسکے لمس کی شدت پہ سسکی تھی۔ مصطفی نے اسکی گردن سے منہ نکال کر اسے تکا۔ اور پھر اسکے کپکپاتے بھیگے گلابی لبوں پہ پوری شدت و جنون کے ساتھ جھکا تھا۔ نازنین کے دل کی دھڑکن یکدم تیز سے تیز ہوگئ تھی۔ اسکے لمس میں اس قدر شدت تھی کے نازنین کو اپنا آپ فنا ہوتا محسوس ہوا۔ مصطفی نے نازنین کے بالوں کو اپنی گرفت سے آزاد کیا ، البتہ اسکے لب اب بھی مصطفی کی قید میں ہی تھے۔ اسکے دونوں ہاتھوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں جکڑتا وہ اسے دیوار سے چپکا گیا تھا۔ نازنین آنکھیں موندے اسکی شدتیں برداشت کر رہی تھی۔ مصطفی نے اسکے لبوں کو آزاد کیا۔ تو وہ گہری سانسیں لے رہی تھی۔ مصطفی نے خمار آلود نظروں سے اسے تکا۔ مصطفی کی آنکھوں میں ایک نشہ سا تھا۔ مصطفی نے اپنی شرٹ اتار کر پھینکی تھی۔ نازنین اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی ، اپنے اور اسکے درمیان ایک فاصلہ قائم کر گئ تھی۔
" مصطفی۔۔۔ پاگل ہوگئے ہو۔ باتھروم میں بھی تمہیں چین نہی۔۔۔" وہ اسپہ بھڑکی تھی۔
" تم چین آنے کہاں دیتی ہو۔۔" وہ اسکی تھائ پہ ہاتھ پھیرتا خماری سے گویا ہوا۔
" حد ہے۔۔۔ یار۔۔" وہ اسکا رومینٹک موڈ دیکھ کر چڑی تھی۔
" حد ہی تو نہی ہے کوئ میرے پیار کی۔۔۔" وہ اسکے سراپے کو سحر انگیز نظروں سے تک کر گویا ہوا۔
" مصطفی ۔۔۔ ہوش میں آؤ یار ، مجھے حیدر بھائ کی بیٹی بھی دیکھنے جانا ہے۔۔" وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے ہوش دلانے لگی۔
" ہاں بس تم لوگوں کی ہی بیٹیاں دیکھتی رہ جانا ، ہمارے اپنے بچے کب آئیں گے۔" وہ شرارت سے گویا ہوا۔
" انہیں جب آنا ہوگا تو آجائیں گے۔۔۔" نازنین نے اسے آنکھیں دکھا کر کہا۔
" ایسے کیسے آجائیں گے ، ہم محنت کریں گے ، تو وہ آئیں گے ناں۔۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی بنا اسکی مزید سنے اسکی دونوں ٹانگیں اپنے پیٹ کے گرد لپیٹتی تھیں۔ اور اسے گود میں اٹھاتا۔ ایک بار پھر اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ نازنین کو اب اسکی حرکت پہ تاؤ آیا تھا۔ نازنین نے اسکی مدہوشی کا فائدہ اٹھاتے اسکے ہونٹ پہ چاک کاٹا تھا۔ پر مصطفی بنا اثر لیئے اپنے عمل میں مزید شدت لے آیا تھا۔ وہ اسے لیئے واپس شاور کے نیچے آیا تھا۔ اسکی گردن ، ہونٹ ، چہرہ پہ جابجا اپنا پر شدت لمس چھوڑنے لگا۔ نازنین کو لیئے وہ باتھ ٹب میں آیا تھا۔ باتھ ٹب مکمل طور پہ جھاگ سے بھرا ہوا تھا۔
" مصطفی بعد میں کریں گے ناں۔۔۔ پلیز ابھی دیر ہورہی ہے۔۔۔" نازنین نے دانت کچکچا کر کہا۔
" جو کام آبھی ہوسکتا ہے ، اسے بعد پہ ڈالنا بےوقوفی ہے۔۔۔" مصطفی نے کہتے ساتھ ہی اسکے کپڑے اسکے تن سے جدا کرنا شروع کیئے۔
اور اسکا وجود دھیرے سے باتھ ٹب کے اندر سرکایا۔ اور اپنی انگلیوں کا لمس جابجا چھوڑنے لگا۔ نازنین نے اسے جی بھر کر آنکھیں دکھائیں۔ پر وہ اپنی منمنائ سے باز نا آیا۔ شدت سے اسکی اور اپنی جان ایک کرتا وہ اسے اپنے سینے سے لگا گیا تھا۔ نازنین آنکھیں موند کر رہ گئ تھی۔ اور مصطفی مزید مدہوش ہونے لگا تھا۔
☆☆☆☆☆
ساوری گم صم سی پڑی چھت کو گھور رہی تھی۔ ساوری کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کردیا گیا تھا۔ حیدر اسے گھر لے جانے کے لیئے آیا تھا۔ وہ صبح گھر چلا گیا تھا۔ کیونکہ درفشاں کے اسٹار ہونے کی وجہ سے میڈیا گھر کے باہر خبر سنتے ہی جمع ہوگیا تھا۔ حیدر نے ساوری کو ہاتھ کا سہارا دینا چاہا پر وہ اسکی پھیلی ہتھیلی کو نظر انداز کرتی۔ خود ہی بیڈ سے اتری تھی۔
" مجھے بھائ بھابھی کے پاس چھوڑدیں۔ ایک ہفتے بعد واپس آجاؤں گی۔۔۔" ساوری نے سنجیدگی سے کہا۔
" اوکے۔۔۔" اسکی حالت کے مدنظر اسنے اسے اجازت دے دی۔
" وہ کیسی ہے۔۔۔؟؟" وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے تھے۔ جب ساوری کی نم آواز حیدر کے کانوں میں پڑی۔ حیدر لب بھینچ کر رہ گیا۔
" بلکل تمہارے جیسی۔۔۔" حیدر نے مسکا کر بتایا۔
" اچھا۔۔۔!!
اگر دکھنے میں میرے جیسی ہے ، تو پھر ٹھیک ہے پر نصیب مجھ جیسے ناہوں۔۔۔" ساوری نے تمسخر سے کہا۔
" تصویر دیکھو گی۔۔۔؟؟" حیدر نے اسکا دیہاں بٹانے کو کہا۔
" نہی اگر اسکی تصویر دیکھ لی تو پھر خود کو روک نہی پاؤں گی۔۔۔" ساوری نے بھیگے لہجہ میں کہا۔
حیدر کی گرفت اسٹیئرنگ پہ سخت ہوئ تھی۔
" یہ کچھ پیسے رکھ لو۔۔۔" حیدر نے جیب سے چند پانچ پانچ ہزار کے نوٹ اسکے سامنے کیئے۔
" مجھے ضرورت نہی۔۔۔" اسنے سنجیدگی سے منع کیا۔
" خاموشی سے پیسے لو۔ میں ایک ہفتے بعد لینے آؤں گا۔ پھر بھی اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو کال کرکے بتا دینا۔" حیدر نے سنجیدگی سے کہا۔ اور پھر اسے اسکے بھائ کے گھر چھوڑ کر خود چلا گیا۔
☆☆☆☆☆
" امی آپ ساوری سے ملنے بھی نہی گئیں۔۔۔" نازنین کا حیرت سے برا حال تھا۔
" ہاں تو یہاں ہم اپنی خوشیاں منائیں ، یا اسکے پیچھے چکر کاٹیں۔۔" امی نے برا منایا۔
" امی یہ خوشی بھی آپکو اسی کی وجہ سے میسر آئ ہے۔۔۔" نازنین نے انہیں کچھ احساس دلانا چاہا۔
" تو پیسے دے دیئے ہیں نا اسے اور کیا چاہیئے۔۔۔" امی نے سر جھٹک کر کہا۔
" امی ، اس لڑکی نے اپنی اولاد دی ہے۔۔۔ کون کرتا ہے ایسا ، کون دیتا ہی کسی کو اپنے جسم کا حصہ۔۔۔" نازنین نے انہیں کچھ ہوش دلانا چاہا۔
" اپنی اولاد نہی دی ، حیدر کی اولاد ہے وہ۔" امی نے بگڑے تیوروں سمیت کہا۔
" امی آپ لوگوں کو تو سمجھانا ہی فضول ہے۔۔۔" نازنین نے افسوس سے کہا۔
" ہاں تو نا سمجھاؤ۔۔۔" انہیں اسکا ایسے پرائ لڑکی کے لیئے اسٹینڈ لینا برا لگ رہا تھا۔
" آئ تھنک مجھے چلنا چاہیئے۔۔۔" نازنین نے سنجیدگی سے کہا۔
" کھانا تو کھا کر جاؤ۔۔" وہ اسے خفا ہوکر جاتا دیکھ جھٹ پیار سے گویا ہوئیں۔
" نہی شکریہ اسکی کوئ ضرورت نہی ، چلتی ہوں میں۔۔" وہ اپنا بیگ کندھے پہ ڈالتی نکل گئ۔
اور وہ محض سر تھام کر رہ گئیں۔
وہ گہری نیند میں تھی۔ جب اسے بچے کے رونے کی آوازیں آنے لگی۔ وہ گہری نیند میں بھی بے چین سی ہوگئ۔اسکے چہرے سے اضطراب جھلکنے لگا۔ بچے کے رونے کی آوازیں مزید تیز سے تیز تر ہوتی جارہی تھیں۔ وہ یکدم متحوش سی چلا کر اٹھی تھی۔
" میری بچی۔۔۔ میری بچی رو رہی میری ۔۔۔۔ بچ۔۔۔ بچی مجھے ۔۔۔۔ دو۔۔۔" وہ اٹھ کر بیٹھنے کے بعد بھی چلا رہی تھی۔ بھابھی نے اٹھ کر فوراً اسے کندھوں سے تھاما تھا۔
" کیا ہوا ساوری۔۔۔؟؟" بھابھی نے اسکے گالوں پہ ہاتھ دھر کر کہا۔
" بھابھی۔۔۔ بھابھی۔۔۔ میری بیٹی رو ۔۔۔ رہی ہے۔ اسے میری ضرورت ہے۔" ساوری سسکنے لگی تھی۔
" ساوری بس خاموش ہوجاؤ ، اللہ تعالی تمہارے حال پہ رحم کریں۔۔" بھابھی نے اسے اپنے سینے سے لگایا۔
وہ پھوٹ پھوٹ کر رہ رہی تھی۔
" بھابھی وہ بہت چھوٹی ہوگی ناں۔۔۔!!
وہ میرے بغیر کیسے رہ رہی ہوگی۔ بھابھی مجھے اسکی فکر ہورہی ہے۔" وہ سسکیاں لے لے کر گویا ہوئ۔ اسکی حالت دیکھ بھابھی کا دل کٹ کر رہ گیا۔ کہیں نا کہیں انکا دل بھی پشتاوے سے بھر گیا۔
" میں حیدر کو کال کرتی ہوں رکو۔۔۔" بھابھی نے نرمی سے کہا۔
" نہی کوئ ضرورت نہی ہے انہیں کال کرنے کی۔ میری بچی چھینی ہے اس انسان نے مجھ سے میں معاف نہی کرونگی اسے کبھی۔۔۔" نازنین نے ضدی انداز میں کہا۔
" پر ساوری۔۔۔" بھابھی نے کچھ کہنا چاہا۔
" بھابھی میں یہاں محض آپ لوگوں کے لیئے آئ ہوں۔ اگر آپ مجھے یہاں سے بھگانے کے چکروں میں ہیں تو بتا دیں میں چلی جاؤں گی۔" وہ بھابھی سے بھی بد ظن ہوئ۔
" اللہ نا کرے کیسی باتیں کر رہی ہو۔۔۔" بھابھی نے اسکی بات پہ اسے گھورا۔
وہ منہ بناتی واپس بستر پہ لیٹ گئ۔ آنکھوں سے آنسو خاموشی سے بہنے لگے تھے۔ اور کب اسکی سسکیاں بندھ گئیں اسے کوئ خبر ہی نا ہوئ۔
" تم بلکل پاگل ہو ساوری۔۔۔" بھابھی نے اسکے بال سہلاتے کہا۔
" پاگل ہی ہوں بھابھی میں ، کہ اپنی اولاد دے دی۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
" ساوری صبر رکھو سب ٹھیک ہوجائے گا انشااللہ ۔۔۔" بھابھی نے اسے حوصلہ دیا۔
" نجانے کب ۔۔۔ اس انتظار میں شاید زندگی ہی میرا ساتھ چھوڑ دے۔" وہ لب دبا کر سسکی تھی۔
" سوجاؤ ، آرام کروگی تو بہتر محسوس کروگی۔۔۔" بھابھی نے اسپہ کمبل ڈالتے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا تھا۔ وہ آنکھیں موند گئ تھی۔ پر آنکھوں کے کنارے سے آنسو بہنا نہی رکے تھے۔
☆☆☆☆☆
حیدر کی گود میں اسکی بیٹی تھی۔ حیدر نے جھک کر اسکے گالوں پہ پیار کیا تھا۔ اسکی ننھی سی نسک کو اپنی شہادت کی انگلی سے چھوا۔ آنکھوں میں نمی در آئ تھی۔
" آپکی ماما آپ کو بہت مس کر رہی ہیں بے بی۔۔۔" حیدر نے اسے دیکھتے سرگوشیانہ کہا۔
" آپ کو پتا ہے۔ آپ بلکل اپنی ماما جیسی ہو۔ آپکی ماما بہت پیاری ہیں۔۔۔" حیدر اس سے مزید باتیں کرنے لگا۔
" چلو میں آپکی تھوڑی سی پکچرز لیتا ہوں۔ پھر آپکی ماما کو دکھاؤں گا۔ اوکے۔۔۔" حیدر نے پاکٹ سے موبائل نکال کر اسکی تصویریں کھینچیں۔ وہ ابھی بیٹھا اپنی بیٹی سے بات کر رہا تھا۔ جب واشروم سے در فشاں نہائ دھوئ نکلی۔ حیدر نے اسے سراسر نظر انداز کیا۔
" اب تو تم گھر پہ ہی رہو گے زیادہ۔۔۔!!" در فشاں نے بالوں کو پیچھے جھٹک کر کہا۔
" نہی ، میں وہیں رہوں گا ، جہاں میں پچھلے ایک سال سے رہ رہا ہوں۔۔۔" حیدر نے سنجیدگی سے جوب دیا۔
" ضرورت کیا ہے وہاں جا کر رہنے کی ، بچی ہوگئ ناں، کبھی کبھی جاتے رہنا بیٹا بھی ہوجائے گا۔ اور پھر اسے آزاد کردینا۔۔۔" در فشاں نے بستر پہ بلکل اسکے برابر بیٹھتے کہا۔
" میں نے تم سے کوئ مشورہ نہی مانگا۔۔۔" حیدر نے اسکے پہلو سے اٹھنا چاہا۔
" کہاں جا رہے ہو۔۔۔" در فشاں نے اسے کالر سے تھام کر روکا تھا۔
حیدر نے اسے سنجیدگی سے تکا۔ درفشاں نے اسکی گود سے بچی کو لیا اور اسے بستر پہ لٹایا۔ اور دھیرے سے سرکتی حیدر کے قریب ہوئ تھی۔
" حیدر میاں بیوی ہم دونوں ہیں ، اور وہ محض ایک ڈیل ہے۔۔۔" در فشاں نے حیدر کے گال پہ ہاتھ دھرا۔
" مجھے نیند آرہی ہے۔ " حیدر نے اسکے پاس سے اٹھنا چاہا۔
" حیدر پلیز ، بیوی ہوں تمہاری ضرورت ہے مجھے اس وقت تمہاری۔" وہ کہتے ساتھ ہی اسکے سینے سے لگی تھی۔
حیدر جوں کا توں بیٹھا رہا ، وہ حیران تھا۔ کہ جب تک ساوری اسکی زندگی میں نا تھی۔ وہ در فشاں کی ذرا سی توجہ ذرا سی قربت مل جانے پہ خوش ہو جایا کرتا تھا۔ اور آج اسکا اتنا قریب آجانا بھی بے معنی سا تھا۔ حیدر نے اسے دھیرے سے خود سے دور کیا۔ در فشاں نے منہ بنا کر اسے تکا۔
" در اب بہت دیر ہوچکی ہے۔۔۔" حیدر کہتے ساتھ ہی کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔ در فشاں جل بھن کر رہ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
مصطفی اور نازنین سو رہے تھے جب تیز آواز کے ساتھ انکے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑایا۔ مصطفی نے روم کی لائٹس کھولیں۔ اور نازنین کو بھی اٹھایا وہ دونوں دروازہ کھول کر کھڑے ہوئ تو سامنے درد سے تڑپتی شعلہ کھڑی تھی۔
" بیا تم ٹھیک ہو۔۔۔" مصطفی نے آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھاما۔
" ہاسپٹل چلو۔۔۔" شعلہ نے بہ مشکل کہا۔
" بھائ کو اٹھا دیتیں آپ ، خود کو بے وجہ ہی اتنی تکلیف دی آپ نے۔۔۔" نازنین کو اسکی حالت دیکھ ترس آیا تھا۔
شعلہ بنا جواب دیئے لب بھینچ کر رہ گئ۔ مصطفی شعلہ کو گاڑی تک لیکر گیا۔ نازنین عالم کو جگانے اوپر بھاگی تھی۔ اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔
" بھائ اٹھیں بھابھی کی طبیعت ٹھیک نہی ہے۔۔۔" نازنین کی بات سن کر وہ یکدم حواس میں لوٹا تھا۔ اور پیروں میں چپل اڑستا نیچے بھاگا تھا۔ نازنین کچھ ضروری سامان لیتی انکے پیچھے نیچے آئ تھی۔ اور وہ سب کوئ پچس منٹ میں ہاسپٹل کے کوریڈور میں موجود تھے۔ ان تینوں کو بیٹھے ابھی ایک گھنٹا ہی ہوا تھا۔ کہ نرس سکن کلر کے کمبل میں لپٹا بچہ لیکر آئیں۔ عالم کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئ تھی۔ پیر جمے تھے۔ نرس نے بچہ عالم کو دیا تو ، عالم بے یقینی سے اسے کئ لمحے تک تکتا رہا اور پھر اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
نازنین نے سب کو کال کر کے خوشخبری دی کہ عالم کہ ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ اور یہ سنتے ہی ، حیدر کی امی کو افسوس ہوا تھا۔ بیٹا تو پہلے حیدر کے گھر ہونا چاہیئے تھا ، بقول انکے۔ بچے کو لیئے وہ لوگ صبح نو بجے تک گھر آگئے تھے۔ شعلہ بچے کو دیکھ کر کئ لمحوں تک روتی رہی ، پر عالم نے آگے بڑھ کر اسے تسلی کا ایک لفظ بھی نا کہا۔
" نام کیا رکھیں گے آپ دونوں اسکا۔۔۔" نازنین نے بچے کو پیار سے دیکھ کر پوچھا۔
" میں نے نام سوچ لیا ہے۔۔۔" عالم نے جھٹ کہا۔
" پر اسکا نام میں رکھوں گی۔۔۔" شعلہ نے تنک کر کہا۔
" ایسے کیسے تم رکھو گی اسکا نام ، میرا بیٹا ہے ، میں باپ ہوں اسکا ، اور نام تو میں ہی رکھوں گا۔۔۔" عالم نے گرج کر کہا۔
" نام کیا سوچا ہے آپ نے۔۔۔" مصطفی نے عالم کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر پوچھا۔
" عارض عالم خان۔۔۔" میر نے گردن اکڑا کر بتایا۔
" بلکل بھی اچھا نام نہی ہے یہ ، میں نے اپنے بیٹھے کا نام سوچ کر رکھا ہے اور میں وہی نام رکھوں گی جو میں نے سوچا ہے۔" شعلہ نے جل کر کہا۔
" میں بھی دیکھتا ہوں ، کیسے رکھتی ہو تم نام اپنی پسند کا۔" عالم بھڑکا تھا۔
شعلہ نے اسے کاٹ دار نظروں سے تکا تھا۔
" آئ تھینک ہم دونوں کو چلنا چاہیئے ، یہ ڈسکشن آپ دونوں کی ہے۔ جب نام ڈسائڈ ہوجائے تو ہمیں بتا دیجیئے گا۔۔۔" مصطفی نے مسکرا کر کہا۔ اور کمرے سے نکل گیا نازنین بھی مصطفی کے پیچھے ہی نکل کر چلی گئ۔
" نام تو میں ہی رکھوں گا۔۔۔" مصطفی نے جل کر کہا۔
" دیکھتی ہوں ایسے کیسے رکھو گے۔۔۔" شعلہ نے بھنا کر کہا۔
" رکھ دیا ہے میں نے اسکا نام عارض عالم خان۔" میر نے اسکے برابر سے اپنے بیٹے کو اٹھایا تھا۔
" میرے بیٹے کو واپس لٹاؤ ادھر۔۔۔" شعلہ نے بھڑک کر کہا۔
" میرا بھی بیٹا ہے یہ ، صرف تمہارا نہی ہے۔۔۔" عالم نے جل کر کہا۔
" یہ صرف میرا بیٹا ہے۔ میں نے اسے جنم دیا ہے۔۔۔" شعلہ بیڈ سے اٹھ کر اسکے مقابل آئ تھی۔
" اگر میں نہی ہوتا تو یہ بیٹا بھی نہی ہوتا۔ میری محنت کا رزلٹ ہے یہ۔۔۔" عالم نے بچہ اس سے دور کرکے کہا۔
" میں تمہاری جان لے لوں گی عالم ، میرا بچہ دو مجھے۔۔۔" شعلہ کا رنگ اسکی بکواس پہ سرخ پڑ گیا تھا۔
" نہی دونگا۔۔۔" عالم کا انداز چیلنجنگ تھا۔
" ابھی اسی وقت میرا بیٹا دو مجھے ، تم پہ مجھے بلکل بھی بھروسہ نہی۔۔۔" شعلہ نے نم لہجہ میں کہا۔
" بھروسے کے قابل تو تم نہی شعلہ کب نجانے کیا کرجاؤ ، کچھ پتا نہی۔۔۔" عالم بچے کو لیئے بیڈ پہ آکر لیٹا تھا۔
" میر پلیز ۔۔۔۔" شعلہ نے منت کی۔
" پلیز پوری رات جاگا رہا ہوں ، تم بھی سوجاؤ ، اور مجھے بھی سونے دو۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔ اور بچے کو اپنے پہلو میں لٹا کر آنکھیں موند گیا۔ شعلہ نے گھڑی کی جانب دیکھا تو صبح کے دس بج رہے تھے۔
☆☆☆☆☆
ایک ہفتہ کیسے بیتا کچھ پتا ہی نا چلا ، حیدر ساوری کو لیکر واپس گھر آگیا تھا۔ ساوری پورا پورا دن اداس گم صم سی بیٹھی رہتی۔ ابھی بھی حیدر آفس سے آیا۔ تو اسے ایسے بیٹھے دیکھ کر اسکا دل کٹا تھا۔
وہ اسکے برابر میں آکر بیٹھا تھا۔
" کیا ہوا۔۔۔؟؟" حیدر نے اسے کمر سے تھام کر اپنے قریب کیا۔
ساوری نے چونک کر اسے دیکھا۔ اور پھر سر دھیرے سے نفی میں ہلاتی اس سے دور ہونے لگی۔ حیدر نے اسکی کوشش کو ناکام کر دیا۔
" ساوری۔۔۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے بہت جلد ہماری بچی ہم دونوں کے ساتھ ہوگی۔۔۔" حیدر نے نرمی سے کہا۔
" آپ مجھے جھوٹے آسرے دے رہے ہیں۔ سب سمجھ میں آتی ہے میرے۔۔" ساوری نے خفگی سے کہا۔
" نہی میں تمہیں کوئ آسرے نہی دے رہا۔ سچ کہہ رہا ہوں۔" حیدر نے اسکے چہرے پہ آئ آوارہ لٹ کو کانوں کے پیچھے اڑسا تھا۔
" حیدر آپ سچ کہہ رہے ہیں ناں۔۔۔" ساوری کی آنکھوں میں ایک امید کی لہر چمکی تھی۔
" ہمم میں بلکل سچ کہہ رہا ہوں۔۔" حیدر نے دھیرے سے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔
وہ اسکے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔ حیدر اسکی کمر سہلاتا اسے حوصلہ دے رہا تھا۔
" آپ میرا بیٹا بھی پھر کسی کو نہی دیں گے ناں۔۔۔" ساوری نے ایک آس سے پوچھا۔
" نہی ہماری بیٹی اور ہمارا بیٹا دونوں ہمارے ساتھ ہی رہیں گے ہمیشہ۔۔۔" حیدر نے اسکے گال تھپتھپائے تھے۔
" اگر وہ لوگ نا مانے تو۔۔؟؟" ایک اور خدشہ اسے لاحق ہوا۔
" ایسے کیسے نہی مانیں گے۔۔۔ میں کوئ چانس ہی نہی چھوڑوں گا انکے پاس نا ماننے کا۔۔۔" حیدر نے ساوری کے ماتھے پہ عقیدت بھرا مہکتالمس چھوڑا۔
" سچ۔۔۔!!" ساوری بے یقین ہوئ۔
" مچ۔۔۔" حیدر نے مسکا کر کہا۔ اور دھیرے سے اسکے گلابی ہونٹوں پہ اپنے لب دھرے۔ ساوری کی رنگت میں یکدم گلال گھلا تھا۔ وہ لب کچلتی شرمائ سی اسکے برابر سے اٹھی تھی۔ حیدر نے اسکی کلائ تھام کر اسے کھینچ کر اپنی تھائ پہ بٹھایا تھا۔ اور اسکی گردن میں چہرہ چھپا گیا تھا۔
" آئ لو یو۔۔۔ ساوری۔۔۔" حیدر نے مدہوش سے لہجہ میں کہا۔
ساوری اسکی بات پہ لب کچل کر رہ گئ۔
" کیا تمہیں مجھ سے محبت نہی۔۔۔" حیدر نے اسے تھوڑی سے تھام کر پوچھا۔
" ن۔۔ن۔۔نہہ۔۔نہی۔۔" ساوری نے گھبرا کر کہا۔
" ہوگی بھی کیسے ، میں نے کبھی کونسا تمہیں کوئ خوشی یا سکھ دیا۔۔۔" حیدر نے اداسی سے کہا۔
" ایسی بات نہی ہے پر۔۔" ساوری کو سمجھ نا آئ کہ وہ کیا کہے۔
" اٹس اوکے۔۔۔" حیدر نے کہتے ساتھ ہی اسے اپنی گرفت سے آزاد کردیا تھا۔
وہ پھیکا سا مسکا کر رہ گئ تھی۔ اسے سمجھ نہی آرہی تھی۔ کہ وہ بھابھی کہ مشورے پہ عمل کرے بھی تو آخر کیسے کرے۔ وہ اپنے بال سیٹ کرتی سائڈ پہ ہوکر بیٹھ گئ تھی۔ حیدر اسے دیکھ کر دھیما سا مسکایا تھا۔ اور وہ مسکا بھی نا سکی تھی۔
شعلہ اسکی بات سن کر بھڑکی تھی۔ اور طیش کے عالم میں اسکے مقابل آکر کھڑی ہوئ تھی۔
" Are you out of your mind..."
اسکے چلانے پہ میر عالم نے اسے ٹھنڈی نظروں سے تکا تھا۔ اور پر اسراریت سے مسکرایا تھا۔
" میں نے جو کہا ہے ، امید ہے کہ تم اسے سمجھ جاؤ گی۔۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" میں تمہارا منہ توڑ دونگی۔ میرا بیٹا ہے وہ اور میں اپنے بیٹے کا خود خیال رکھ سکتی ہوں۔ اگر تمہیں اتنا ہی کسی آیا کو رکھوانے کا شوق ہے۔ تو اپنے لیئے رکھواؤ ، میرے بیٹے کے لیئے ابھی میں زندہ ہوں۔۔۔" وہ بھنا کر کہتی مڑی تھی۔ جب عالم نے اسے کہنی سے تھام کر کھینچا تھا۔ اور اسے دیوار سے لگایا تھا۔
" ہنہ میرا منہ توڑنا اتنا آسان نہی ہے۔ اور دوسری بات یہ میرا آخری فیصلہ ہے کہ میرے بیٹے کو تم نہی سنمبھالو گی۔" عالم نے اسکے چہرہ پہ جھک کر دہکتے لہجہ میں کہا۔ شعلہ کو اسکی گرم سانسوں سے اپنا چہرہ جلتا ہوا محسوس ہوا۔
" عالم میں جانتی ہوں ، تم یہ اب مجھ سے بدلہ لینے کے لیئے کر رہے ہو۔ پر میرے بیٹے کو بیچ میں گھسیٹنے کی کوئ ضرورت نہی ہے۔ بدلہ لینا ہے ناں۔۔۔۔!!!
تو مرد بنو ، اور اپنے بل پہ بدلہ لو۔ ناکہ اپنے بدلہ میں میرے بیٹے کو استعمال کرو۔۔" شعلہ نے سلگ کر ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
" ہنہ ٹھیک ہے ایسا ہے تو ایسا ہی ٹھیک ہے۔ اب اگر میں مرد بن کر بدلہ لینے پہ آیا ناں تو تم برداشت نہی کر پاؤ گی۔ اور اب میں ویسا ہی کرونگا۔ پر ہاں میرا بیٹا آیا ہی سنمبھالے گی۔ تمہارا کیا بھروسہ کب دھوکہ دے کر چلی جاؤ۔ اور میں نہی چاہتا کہ میرا بیٹا تم سے ذرا بھی مانوس ہو۔۔۔" عالم کے الفاظ تھے۔ یہ تیز دھار آرا ، شعلہ کے دل پہ پڑے تھے۔
" اگر میں تمہیں دھوکہ دے کر جاؤں گی ناں۔۔۔!!
تو اپنا بیٹا تمہارے آسرے چھوڑ کر نہی جاؤں گی۔ بلکہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لیکر جاؤں گی۔۔۔" وہ غرائ تھی۔
" یہی تو مسئلہ ہے تمہارا ، تمہارے لیئے کبھی میں اہمیت کا ہامل رہا ہی نہی۔ تم جیسی خودپرست لڑکی سے محبت کی ، پر دھوکہ ملا۔ تم پہ بھروسہ کیا ، پر دھوکہ ملا۔ تم نے کبھی میر عالم خان کو اہم جانا ہی نہی۔ وہ تو بس۔۔۔" عالم دیوار پہ مکا مارتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کر گیا تھا۔ شعلہ نے آنکھیں مینچی تھیں۔
" سہی کہا تم نے میں نے بھی آج سے بہت سال پہلے بھروسہ کیا تھا۔ میر عالم خان پہ پر اسنے بھی میرا بھروسہ توڑ دیا۔ تو پھر کیوں آج وہی میر عالم خان چاہتا ہے کہ میں اسے دھوکہ نا دوں۔" وہ سسک کر کہتی۔ کمرے سے نکل گئ تھی۔ اور وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" نازنین میری ٹائ باندھ دو۔۔۔" مصطفی نے اسے بیڈ شیٹ درست کرتے دیکھ کر کہا۔
" خود ہی باندھ لو۔" وہ منہ پھلا کر خفگی سے گویا ہوئ۔
" یار سوری ناں۔۔ اب کب تک ایسے ناراض رہو گی۔۔" مصطفی نے بیچارگی سے کہا۔
" مجھے نہی چاہیئے تمہارا سوری اپنے پاس رکھو اپنا سوری تم۔۔۔" نازنین نے تپے ہوئے انداز میں کہا۔
" یار ۔۔۔۔ کب تک ایسے ناراض رہو گی۔۔۔" مصطفی اسکے سر پہ آکر کھڑا ہوا تھا۔
" جب تک میرا دل کرے گا۔۔" اسنے تڑخ کر کہا۔
" تو اپنے دل سے کہو ناں کہ ناراضگی ختم کرے۔" مصطفی نے اسے کندھے سے تھام کر اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
" اچھا ٹھیک ہے۔ سوری آج جلدی آؤں گا پکا۔۔۔" مصطفی نے اسکی ٹھوڑی کو اونچا کرکے پیار سے کہا۔
" مجھے تم پہ ذرا بھروسہ نہی۔ پچھلے ایک ہفتے سے یہ جھوٹے وعدے کر رہے ہو۔۔" نازنین کے شکوہ پہ مصطفی کے ماتھے پہ بل آئے تھے۔
" تو میں کیا کروں تم بتاؤ ، کام کتنا ہوتا ہے۔ جب فری ہوتا ہوں تو گھر ہی واپس آتا ہوں ناں۔ اپنے لیئے کوئ گرل فرینڈ تو نہی پال رکھی میں نے۔۔۔" مصطفی نے چڑ کر کہا۔
" بس فضول ہی ہانکنا ، تمہاری کوئ گرل فرینڈ ہوتی تو تم ابھی زندہ نا ہوتے۔۔۔" نازنین نے تڑخ کر کہا۔
" میں جا رہا ہوں دیر ہورہی ہے۔ اور آج آجاؤں گا جلدی۔۔۔" مصطفی نے کمرے سے نکلتے چلا کر کہا۔
اسکے چلانے پہ نازنین نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
" آواز باہر چلی گئ ناں تو پھر لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اپنا یہ اسپیکر تو تھوڑا ہلکا رکھا کرو۔" نازنین نے اسے ڈپٹا۔
وہ خجل سا مسکراتا کمرے سے نکل گیا۔ تو وہ منہ بناتی مسکائ تھی۔
☆☆☆☆☆
ساوری نے چائے کا کپ اور ناشتہ کمرے میں ہی حیدر کو لاکر دیا تھا۔ حیدر اس بدلاؤ پہ مسکرایا تھا۔ آج پورے گیارہ ماہ بعد اسنے اسکے آگے ناشتہ رکھا تھا۔ یا اسکا کوئ کام کیا تھا۔ وہ تولیہ بیڈ پہ اچھالتا۔ اسکے پاس آیا تھا۔
" تمہارے لیئے ایک سرپرائز ہے۔۔۔" حیدر نے اسکے مکھڑے کو نرمی سے تکا۔
"۔۔ ک۔۔ کیسا۔۔ سرپرائز۔۔۔؟؟" ساوری نے بوکھلا کر پوچھا۔
" ابھی بتا دیا تو سرپرائز کیسا۔" حیدر اسکی سادگی پہ نثار ہوا تھا۔
" پھر بھی کوئ ہنٹ ہی دے دیں۔۔" ساوری نے لب دھیمے سے ہلائے۔
" ہنٹ۔۔۔ ہممم بس ایسا سرپرائز ہے کہ تم دیکھتے ہی خوشی سے جھوم اٹھو گی۔ اور مجھے ایک کس بھی دے ڈالو گی۔۔" حیدر نے شرارت سے کہا۔
" توبہ یہ کیسی ہنٹ ہوئ بھلا ، اور میں کیوں ایسی بے ہودہ حرکت کرنے لگی۔۔۔" ساوری کانوں کی لوؤں تک سرخ ہوئ تھی۔ اسکا چہرہ ایسا ہو رہا تھا۔ جیسے مانوں ابھی خون چھلکا دے گا۔
" اہہ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ پر سرپرائز تمہیں بہت پسند آئے گا۔۔۔" حیدر نے اسکی ناک دبائ۔
" اچھا۔۔۔" اسنے دھیرے سے کہا۔ اور حیدر کے اسکی ناک دبانے پہ وہ ہلکا سا مسکائ تھی۔
" ویسے تمہیں ذرا بھی اندازہ نہی ہوا کہ میں کس سرپرائز کی بات کر رہا ہوں۔۔؟؟" حیدر نے نرمی سے پوچھا۔تو وہ محض سر کو دھیرے سے نفی میں ہلا کر رہ گئ۔ حیدر اسکی معصوم سی صورت دیکھ مسکرایا تھا۔
" تم اتنی ہی پیاری ہو جتنی مجھے لگتی ہو۔ یا پھر بس یہ میرے دیکھنے کا نظریہ ہے۔۔" یہ بات کہتے حیدر کے حلق کی گٹھلی ابھر کر معدوم ہوئ تھی۔
وہ اسکی بات پہ لب کچل کر رہ گئ تھی۔ بہت مشکل تھا۔ حیدر کے ساتھ اپنا محبت بھرا آشیانہ بنانا۔ اسے بھابھی کا مشورہ انتہائ فضول لگا۔ بات یہاں حیدر کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی تو تھی ہی نہی۔ وہ تو خود ہی دل و جان سے اس پہ نثار تھا۔ بات تھی ساوری کے جذبات کی۔ جو حیدر کے التفات بھرے انداز پہ بوجھل سے ہوجاتے۔ کسی اور کا حق چھیننے کا احساس شدت سے اس پہ حاوی ہوجاتا۔
" میں آتی ہوں۔۔" ساوری نے پھیکے سے لہجہ میں کہا۔ اور کمرے سے نکل گئ۔ حیدر گہری سانس لیکر رہ گیا۔
☆☆☆☆☆
شعلہ عارض کو گود میں لیئے لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ جب آیا اندر آئ۔ اور شعلہ کو سلام کیا۔ نازنین بھی تب لاؤنج میں ہی بیٹھی تھی۔
" وعلیکم اسلام آنے میں بڑی دیر کر دی آپ نے بچہ تو اب گھر پہ نہی۔ کس کا خیال رکھیں گی آپ اب۔۔۔؟؟" شعلہ نے مسکرا کر بڑے پی نرم لب و لہجہ میں کہا۔
" میم ، سر نے تو یہ ہی ٹائم دیا تھا۔" آیا کا رنگ فق ہوا تھا۔ پہلے ہی دن نوکری پہ دیر سے پہنچنا نوکری سے ہاتھ دھونے کے برابر تھا۔
" اچھا۔۔۔ حیرت ہے ویسے ، غلط ٹائم دیا ہے انہوں نے آپکو اب آپ بیٹھیں بچے کے آنے کا انتظار کریں۔۔۔" شعلہ نے ایک بار پھر چاشنی سے لہجہ میں کہا۔
نازنین نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ کیونکہ عارض تو اسکی گود میں تھا۔ پھر وہ اس بیچاری آیا کے ساتھ ایسا کیوں کر رہی تھی۔ اسکی سمجھ سے باہر تھا۔
" آپ آرام سے بیٹھئیے ۔۔۔ میں اوپر چلتی ہوں۔۔" شعلہ نے اپنی پوری کی پوری بتیسی کی نمائش کر کے کہا۔
" جی میم۔۔۔ پر۔۔۔" آیا نے کچھ کہنا چاہا۔
" آپ انتظار کیجیئے بچہ جیسے ہی آئے گا میں آکر آپ کو دے دوں گی۔۔" وہ آنکھیں گھما کر کہتی عارض کو اپنے سینے سے لگا اوپر چلی گئ۔
" آپ ویٹ کریئے ، بھابھی نے کہا ہے تو میں کچھ کر نہی سکتی۔۔" نازنین نے پھیکی سی ہنسی ہنس کر کہا۔
" ہمم۔۔" آیا نے پریشانی سے کہا۔
اور اپنا موبائل نکال کر عالم کو فون کیا۔ عالم کو تمام بات بتائ تو وہ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔ اور شعلہ کو کال ملائ۔
" تھوڑی دیر بعد کیا نیا بچہ پیدا کرنے والی ہو۔۔۔" چھوٹتے ہی عالم نے کہا۔
" نہی۔۔۔" اسنے عارض کو تھپکتے کہا۔
" عارض کو آیا کو دو۔ میرا دماغ مت خراب کرو شعلہ۔۔۔" عالم بھڑکا تھا۔
" ایک بار نہی ہزار بار تمہارا دماغ خراب ہو میرا بچہ میرے پاس ہی رہے گا۔ بس۔۔۔!!" وہ چٹخ کر کہتی کال کاٹ گئ تھی۔ عالم اپنا سر ہاتھوں میں تھام کر رہ گیا تھا۔
" شہلا بس بہت ہوگیا ، میں نے بہت سن لی تمہاری ، اب وہی ہوگا جو میں چاہوں گا۔" اسفند نے بگڑے تیور لیۓ کہا۔
" مجھ سے اتنا فری ہونے کی کوئ ضرورت نہیں ہے تمہیں ، اور رہی بات میری نا سننے کی ، تو تم کان کھول کر سن لو جو میں نے کہا ہے ہوگا تو وہی ، تم مجھے آزادی دو گے۔۔۔" شہلا کا انداز حتمی تھا۔
" ایسا کچھ نہی ہونے والا تم نے مجھے کہا ، کہ میں خاموشی اختیار کروں ، اور میں نے خاموشی اختیار کی ، پر بس اب نہی۔" اسفند کی باتوں سے اسکے ارادے کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔
" اسفند پلیز تم ایسا کچھ بھی نہی کرو گے۔"شہلا پریشان ہوئ۔
" میں ایسا ہی کرونگا ، اور تمہیں ڈر آخر ہے کس بات کا ، اتنا کیوں ڈرتی ہو تم شعلہ بھابھی سے۔۔۔" اسفند چڑ کر رہ گیا تھا۔
"میں ڈرتی نہی ہوں ، بس مجھے فکر ہے اسکی ، وہ مجھ سے خفا ہوجاۓ گی۔۔۔" شہلا نے فکرمندی سے لب کچلے۔
'' کیوں خفا ہوگی ، کیا تمہارا اپنی زندگی پہ اتنا بھی حق نہی کہ تم اپنے فیصلے خود لے سکو۔۔۔" اسفند سے اسکی بات پہ اپنی ناک سکوڑی تھی۔
" اسفند تم اپنے ہوش میں ہو کہ تم کہہ کیا رہے ، ہم دونوں ایک دوسرے کی فیملی ہیں۔ ہمارے ہر اچھے برے وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ صرف ہم دونوں ہی تھے ، جب ہمارے پاس کوئ نہی تھا ، تب اللہ کے بعد ہم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھے ، تمہارے لیۓ یہ کہنا بہت آسان ہے۔ پر شعلہ کی خوشی سے بڑھ کر کچھ بھی نہی۔ ویسے بھی وہ میری فیملی کا اکلوتا میمبر ہے۔ اور میں نہی چاہتی کہ وہ مجھ سے خفا ہوجاۓ۔"
شہلا نے اسفند کو تکا جو اسے سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔
" تو تم بتاؤ میں کیا کروں ، میں تمہیں چھوڑنا نہی چاہتا۔۔۔" اسفند نے اسکا ہاتھ تھاما تھا۔
شہلا نے ایک نظر اپنے ہاتھ پہ دھرے اسکے ہاتھ کو دیکھا اور نگاہیں جھکا گئ۔ لب کچل کر ، سر اٹھایا ، وہ کچھ اضطراب میں گھر گئ تھی۔ شہلا نے گہری سانس لی۔
" میں ایسا نہی چاہتی ، تم نے مجھ سے نکاح کیا اس وقت ، جب مجھے کسی کی مدد کی شدید ضرورت تھی۔ تم نے مجھے اس وقت سہارا دیا ، میں تمہاری عمر بھر احسان مند رہوں گی۔" شہلا نے بہت سوچ سمجھ کر الفاظ کا چناؤ کیا۔
" کیسا نہی چاہتی تم۔۔۔؟؟" اسفند نے سنجیدگی سے اسکے چہرے پہ چھاۓ اضطراب کو تکا۔
" میں۔۔۔۔ تم سے کوئ تعلق نہی رکھنا چاہتی۔۔" شہلا نے اپنا گال کھجا کر بات کا اثر زائل کرنا چاہا۔
" تم کیا چاہتی ہو ، اسکی تو بات ہو ہی نہیں رہی اس وقت ، اور میں تمہیں یہ بتاتا چلوں کہ اب وہ ہوگا ، جو میں چاہتا ہوں۔۔۔" اسفند کے دماغ کی رگیں تن گئ تھیں۔ شہلا نے مزید کچھ کہنا چاہا ، پر اسفند نے ہاتھ اٹھا کر اسے ایسی سرد نظروں سے تکا، کہ وہ کچھ کہنے کی ہمت چاہ کر بھی نا کر پائ۔
٭٭٭٭٭
شام کا وقت تھا۔ عالم اپنا کام جلدی سمیٹ کر گھر آگیا تھا۔ اور جو تھوڑا بہت کام پینڈنگ تھا ، وہ انہوں نے مصطفی کے سپرد کر دیا تھا۔ کام لے تو لیا تھا، مصطفی نے پر اسکی اندر سے حالت نازنین کی ناراضگی کا سوچ کر ہی خراب ہونے لگی تھی۔ عالم شعلہ سے بازپرس کرنے کے پورے ارادے میں تھا۔ وہ جیسے ہی اندر آيا ، شعلہ اسے دیکھ کر مسکرا کر کھڑی ہوئ۔
" لو آگیا بچہ جس کی ٹیک کیئر کے لیۓ ، آپکو ہائیر کیا گیا تھا۔" شعلہ نے ہاتھ عالم کی طرف پھیلا کر آیا کا دیہان عالم کی جانب مبذول کرایا۔
آیا کا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ عالم کا طیش سے رنگ سرخ ہوا تھا۔ اور نازنین لب دبا کر اپنے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھتی اپنی ہنسی چھپانے کی کوشش کرنے لگی تھی۔
" یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔۔" عالم نے دانت چبا کر کہا۔
" یہ تو بات ہے ، بکواس وہ تھی جو تم صبح کرکے گۓ تھے۔۔" شعلہ کے ہونٹوں پہ سلگتی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔
" آپ پلیز کل صبح وقت پہ آجائیے گا۔ ابھی اپ جا سکتی ہیں۔۔۔" میر عالم نے آیا کو جانے کا کہا۔
وہ دھیرے سے سر اثبات میں ہلاتی چلیں گئیں۔ عالم کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔
" آج جتنا تماشا کرنا تھا تمہیں ، تم کر چکی ، اب اسکے بعد میں کوئ ڈرامہ برداشت نہی کرونگا۔" عالم کا انداز سنجیدہ تھا۔
شعلہ اسکی بات پہ تمسخر سے مسکرائ تھی۔ اپنے ہاتھ کمر کے پیچھے باندھتی ، قدم قدم چلتی وہ اسکے مقابل آکر کھڑی ہوئ تھی۔ اپنی آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑھی تھیں۔
" یہ سارا تماشہ تمہارا لگایا ہوا ہے۔۔۔" اسنے سنجیدگی سے کہا۔
نازنین انکی جنگ خطرناک ہوتی دیکھ کر عارض کو لیکر وہاں سے کھسکی تھی۔
" عارض کو تم نہی پالو گی ، یہ بات تو طے ہے۔۔" عالم کا لہجہ تحقیر آمیز تھا۔
" مسٹر میر عالم صاحب یہ تو آپ کو تب سوچنا چاہیۓ تھا۔ جب آپ اپنی مردانہ روح کی تسکین کی خاطر میرے قریب آۓ تھے۔ اب تو کچھ نہی ہوسکتا ، آپکی اولاد کی ماں ، میں ہی ہوں۔ اور بچوں کی تربیت مائیں ہی کیا کرتی ہیں۔" وہ مکمل اعتماد کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتی مڑی تھی۔ جب عالم نے اسکا بازو تھام کر اسے واپس اپنی جانب موڑا تھا۔
" اگر تمہیں لگتا ہے ، کہ تم ایسے گھٹیا الفاظ استعمال کرکے مجھے میرا جائز حق لینے پہ بھی شرمندہ کروگی ، تو یہ تمہاری سوچ ہے۔ میں شرمندہ ہونے والا نہی ہوں۔۔۔" عالم نے ایک افسوس بھری نظر اسپہ ڈالی۔
" مجھے پتہ ہے کہ تم شرمندہ ہونے والے تو ہو نہیں ، تم نے جو میرے ساتھ بہت سال پہلے کیا تم اسپہ شرمندہ نہی ہوۓ ، تو تم کسی اور بات پہ شرمندہ ہونے والے انسان ہو ہی نہی۔۔۔" وہ جلتی آنکھوں سے اسے گھورتی اپنا باوز ایک جھٹکے سے اسکی گرفت سے آزاد کرواتی وہاں سے نکل گئ تھی۔
٭٭٭٭٭
مصطفی گھر آیا تو ، نازنین منہ سجاۓ بیٹھی تھی۔ مصطفی نے اسے کسی طریقے سے کمرے میں بلانا چاہا۔ پر وہ ڈھیٹ بن کر ایک جگہ بیٹھی رہی۔ کھانا خاموش فضا میں کھایا گیا۔ پھر عالم نے مصطفی کو کچھ ضروری ڈسکشن کے لیۓ اپنے پاس بٹھا لیا مصطفی دل مسوس کر رہ گیا۔
" مصطفی تمہارا دیہان کہاں ہے ، میں کب سے لگا بولے جا رہا ہوں ، پر تم ہو کہ تمہیں فرست ہی نہی خیالوں سے باہر آنے کی۔" عالم چڑا۔
" وہ عالم بھائ تھک گیا ہوں نیند آرہی ہے اور بہت سولڈ آرہی ہے۔" مصطفی نے سر کھجا کر کہا۔
" پہلے تو تم ایسے نہی تھے اب کافی سست ہوگۓ ہو۔ اور تم جانتے ہو ، مجھے سست لوگ بلکل نہیں پسند۔" عالم نے اسکی سستی پہ چوٹ کی۔
" آپ ٹائم بھی تو دیکھیں ناں۔۔۔!!" مصطفی نے جمائ لیکر کہا۔ عالم افسوس سے سر نفی میں ہلا کر رہ گیا۔
" جاؤ سوجاؤ ، ویسے تمہارے اور نازنین کے بیچ لگتا ہے سب ٹھیک ہوگیا ہے، آجکل لڑتے نہی ہو۔ خیر اچھی بات ہے، عمر بھر کا ساتھ ہے ساری عمر یوں جھگڑتے ، تو گزر نہیں سکتی۔۔۔" عالم کا لہجہ نرم و پرسکون تھا۔
" آپ کی بہن کی اور میری کبھی نہی بن سکتی۔۔۔" مصطفی نے بہ مشکل اپنا لہجہ سنجیدہ بنایا۔
" کوئ بات نہی وہ بیوقوف ہے پر تم تو سمجھدار ہو۔ تم زرا استقامت سے کام لے لیا کرو۔" عالم نے مصطفی کے کندھے پہ ہاتھ دھرا۔
" ساری زندگی میں ہی استقامت سے کام لیتا رہوں گا ، اسے تو کوئ کچھ سمجھاتا ہی نہی۔" مصطفی نے مصنوئ خفگی سے کہا۔ اور وہاں سے چلا گيا ، عالم نے پر سوچ نظروں سے اسکی پشت کو تکا۔ اور سر جھٹکتا وہ بھی زینے چڑھنے لگا۔
عالم کمرے میں آیا تو شعلہ عارض کو اپنے برابر میں لٹاۓ ، اپنا موبائل چلا رہی تھی۔
" شہلا کہاں مصروف تھیں ، تم پورا دن ، میں انتظار کرتی رہی تمہارا پر تم آج بھی مجھ سے ملنے نہیں آئیں۔" شعلا نے وائس نوٹ بھیجا۔
عالم چینج کرکے آیا ، اور بیڈ پہ لیٹتے ہی کروٹ عارض کی جانب لی۔ اور اپنے لب دھیرے سے عارض کے نرم روئ جیسے گالوں پہ دھرے۔
" یہ کیا کر رہے ہو ، پیچھے ہٹو ریشس ہوجائیں گے میرے بچے کہ فیس پہ، اتنا بڑا سر لیکر تم میرے بچے کے سر پہ آن ٹپکے ہو۔۔" شعلہ نے عالم کو گھرکا۔
" میرا بیٹا ، میری مرضی تم کون ہوتی ہو مجھے روکنے ٹوکنے والی۔" عالم نے ناک پہ سے مکھی اڑائی۔
" یہ کیا تم ہر وقت میرا بیٹا ، میرا بیٹا کی گرداب لگائے رکھتے ہو۔ مت بھولو کہ اسکی ماں میں ہوں۔ تو اس حساب سے یہ میرا بیٹا ہوا۔۔۔" شعلہ نے بھنا کر کہا۔
" ہاں تم تو اسے درخت سے لائ ہو ناں ، باپ کا تو کوئ ذکر ہی نہی آتا تمہاری ڈکشنری میں۔۔" عالم نے اسے باقائدہ گھورا۔
" کاش یہ درخت کی ہی پیدا وار ہوتا ، تمہیں تو مجھے نا ٹالریٹ کرنا پڑتا ، اپنے بچے کے باپ کی صورت میں۔۔۔" وہ سر جھٹک کر کہتی ، عالم کو سلگا گئ تھی۔
" اب تم بہت زیادہ اوور ہورہی ہو۔۔۔"
" اور جب تم اوور ہوتے ہو ۔۔۔؟؟ اسکا کیا ، اپنا اوور ہونا تو پھر کسی کو دکھتا ہی نہی۔" وہ تڑخ کر کہتی ، عارض پہ کمبل درست کرتی اٹھی تھی۔ عالم بھی اسکے پیچھے اٹھا تھا۔ اور اسکے راستے کے درمیان خود کو ہائل کر گیا تھا۔
" اب کیا مسئلہ ہے۔۔۔؟؟" شعلہ نے بیزار آکر کہا۔
" مسئلہ ۔۔۔۔ تو بہت چھوٹا لفظ ہے۔ مجھے تم سے مسئلے ہیں ، خیر میں جاننا چاہتا ہوں ، تم نے میرے ساتھ اتنا سب کیوں کیا۔۔۔؟؟" عالم کی آنکھوں سے آگ برس رہی تھی۔
" یہ تم مجھ سے پوچھنے کے بجائے خود سے پوچھو۔۔۔" شعلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
" مجھے نہی یاد پڑتا کہ میں نے تمہارے ساتھ کچھ غلط کیا ہے جس کی بنا پہ تم نے میرے ساتھ یہ سب کچھ کیا۔۔۔" عالم نے درشت لہجہ اپنایا۔
" تمہیں یاد نہی۔۔۔!!
اور میں اپنی زندگی کے وہ برے ترین دن یاد کرنا نہی چاہتی۔۔۔" شعلہ کی آنکھوں میں آنسوؤں کے چند قطرے چمکے تھے۔
" ایسا کیا ، کیا تھا میں نے۔۔۔؟" عالم کو اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ حیرت کا شدید ترین جھٹکا لگا تھا۔
" مجھے نہی پتہ۔۔" وہ اسکے برابر سے نکلنے ہی والی تھی کے ، عالم نے اسے بازو سے تھام کر اپنے مقابل کیا تھا۔ اور ہلکا سا جھٹک کر اپنے قریب کیا تھا۔ شعلہ کا نرم وجود عالم کے فولادی سینے سے جا ٹکرایا تھا۔
" تمہیں سب پتہ ہے مجھے بتاؤ ، کس بات کی دشمنی نکال رہی تھیں تم مجھ سے۔۔۔؟؟" عالم نے اپنی گرفت اسکے بازو پہ مزید سخت کی۔
" میر عالم خان یہ مت بھولو کہ میں کوئ کمزور عورت نہی ، ابھی تمہیں ایسے حال میں پہنچانے کی طاقت اور ہمت دونوں رکھتی ہوں۔ کہ تم دو دن تک اپنی جگہ سے ہلنے کے قابل بھی نہی رہو گے۔ اسی لیئے تمہارے لیئے بہتر یہی ہے کہ میرا بازو چھوڑ دو۔ اس بات کی اجازت میں اپنے " آپ " کو بھی اب نہی دیتی کہ میں خود کو تکلیف پہنچاؤں ، تو پھر تم تو نظروں سے گرے ہوئے مرد ہو۔ یہ نا ہو کہ اپنے اس عمل سے میرے دل سے بھی اتر جاؤ..." اسکے اس اظہار پہ عالم کی گرفت خود بہ خود اسکے بازو پہ ڈھیلی ہوئ تھی۔
" چلو تم نے یہ تو مانا کہ میں تمہارے دل میں بسا ہوں۔۔" عالم کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔
" میں نے تو کبھی یہ ماننے سے انکار نہی کیا کہ تم میرے دل میں بستے ہو۔ پر ہاں اس بات کا اظہار بھی کبھی کرنا نہی بھولی۔ کہ تم سے نفرت بھی بہت کرتی ہوں۔۔" شعلہ کی بات عالم کے سر پہ سے گزری تھی۔
" بھلا یہ کیسی محبت ہوئ جہاں نفرت کی بھی گنجائش ہے۔۔" عالم نے اپنی حیرت کو چھپانا ضروری نا سمجھا۔
" یہ تم خود سے بھی پوچھ سکتے ہو۔۔۔" شعلہ نے ایک سنجیدہ سی نگاہ اسکے اوپر ڈالی۔
" میں تو اپنے جذبات کو لیکر بلکل کلیئر ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے۔ تھی ، اور ہمیشہ رہے گی۔ پر۔۔۔ ناراضگی میری اب بھی اپنی جگہ ہے۔۔" عالم کا لہجہ آنچ دیتا ہوا تھا۔
" واہ۔۔۔ نفرت کو ناراضگی میں بدل دیا۔۔۔ زبردست داد دینی پڑے گی۔۔" وہ اسکی بات تمسخر میں اڑا گئ تھی۔
" نفرت تو تمہیں بھی نہی ، ناراضگی ہے۔ جو دور ہوسکتی ہے۔۔۔" عالم اسکے قریب آیا تھا۔
" تمہاری ناراضگی دور ہوسکتی ہوگی۔ پر میری ناراضگی کبھی ختم نہی ہوگی۔۔" شعلہ نے اس سے دور ہونا چاہا۔ پر وہ۔اپنا مضبوط بازو اسکی کمر کے گرد لپیٹ گیا۔
" بدتمیزی مت کرو۔ دور ہٹو۔۔" وہ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھتی اسے خود سے پیچھے دکھیل گئ تھی۔
عالم نے خود کو دیکھا اور پھر جذباتی سا ہوتا ایک جھٹکے سے اسکے لبوں کو اپنی شدید گرفت میں لے کر اسکی سانسیں روک گیا۔ شعلہ سٹپٹا کر رہ گئ۔ کیونکہ وہ اس سے ایسا کچھ ایکسپیکٹ نہی کر رہی تھی۔ وہ دھیرے سے اس سے دور ہوا تو ، شعلہ سرخ رنگت سمیت کئ لمحہ تک اپنی پلکوں کی باڑ نا اٹھا سکی۔ عالم اسے دیکھتا رہ گیا۔ وہ عالم کو خود کو تکتا پاکر واشروم میں جاکر خود کو بند کر گئ تھی۔ عالم اپنی حرکت پہ خود کو دل ہی دل میں کوستا رہ گیا تھا۔
" اتنی بھی جذباتیت دکھانے کی ضرورت کیا تھی مجھے۔۔۔" عالم سر جھٹکتا۔ اپنی جگہ پہ آکر لیٹ گیا تھا۔ اور اسکے نکلنے سے پہلے ہی آنکھیں موند کر سوگیا۔
" آگئے۔۔۔ مل گئ فرصت۔۔!!" مصطفی کمرے میں آیا تو وہ ٹی وی آن کیئے ، صوفہ پہ بیٹھی تھیکے نقوش لیئے مستفسر ہوئ۔
" تمہارے لیئے تو ہمیشہ ہی فرصت ہوتی ہے۔" مصطفی نے چہرے پہ زبردستی کی مسکراہٹ سجائ۔
" ہاں دکھ رہا ہے ، تمہارا تھوبڑا دیکھ کر۔" نازنین نے آنکھیں مٹکائیں۔
" سوری یار ، پر دیکھو غلطی میری نہی ہے۔ تمہارے بھائ کی ہی وجہ سے مجھے دیر ہوگئ۔" مصطفی نے اسکے بلکل قریب بیٹھ کر کہا۔ اور اپنا سر اسکے کندھے پہ ٹکا دیا۔
" مجھے نہیں چاہیئے ، تمہارے ایسے lame excuses۔" نازنین نے اسکا سر اپنے کندھے پہ سے جھٹکا تھا۔
" یاررر۔۔۔ سچ کہہ رہا ہوں۔ اچھا پلیز آخری بار معاف کردو۔۔" مصطفی نے اسکے کندھوں کے گرد اپنا مضبوط بازو حائل کیا۔
نازنین نے نگاہیں گھما کر اسے دیکھا۔ نازنین کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
" مصطفی میرے بھی کچھ خواب ہیں ہمارے لیئے۔ جو پورے ہوکر ہی نہی دیتے۔ کوئ نا کوئ مسئلہ ہمیشہ درپیش رہتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ ہم کبھی ایک خوشحال زندگی گزار ہی نہی پائیں گے۔۔" نازنین نے اپنی بات مکمل کرکے گہری سانس لی تھی۔
" کیا خواب ہیں تمہارے ہمارے لیئے ، تم نے کبھی بتائے نہی۔ کہ مجھے پتہ چلتے۔ میں تو خود تمہارے ساتھ وقت گزارنا چاہتا ہوں ، پر کچھ وجوہات کی بنا پر ہم ویسے لائف نہی گزار پا رہے جیسے ہم گزارنا چاہتے ہیں۔۔" مصطفی نے نرمی سے کہا۔
" تمہیں پتا ہے میں کیا سوچتی تھی۔۔۔" نازنین نے مصطفی کے کندھے پہ سر رکھ کر کہا۔
" کیا سوچتی تھیں۔۔" مصطفی نے اسکے بالوں پہ پیار کیا۔
" میں سوچتی تھی۔ کہ ہم ہر ویکینڈ باہر ڈنر کیا کریں گے۔ لانگ ڈرائیو ، اور پھر تھوڑی سی واک ، اور مختلف ممالک ایک ساتھ گھومیں گے۔ اور ایک چیز تو بہت ہی فنی ہے۔ جو میں نہی بتاؤں گی۔" نازنین بتاتے ، بتاتے مسکرائ تھی۔
" کیا سوچتی تھیں۔ اسکا بھی بتاؤ ، نہی تو میں ناراض ہوجاؤں گا۔۔۔" مصطفی نے اسے دہمکی دی۔
" میں نہی بتا رہی ، ناراض ہونا ہے تو ہو جاؤ۔۔۔" نازنین نے زبان چڑھا کر کہا۔
" تم بتا رہی ہو یا نہی۔۔۔؟" مصطفی نے ذرا سختی سے کہا۔
" نہی بتا رہی میں۔۔۔" نازنین نے منہ بنا کر کہا۔
" بتا دو ناں ۔۔۔!! جان من۔۔۔" مصطفی نے اسکا چہرہ جبڑوں سے تھام کر اپنی جانب کیا۔ نازنین اسے کئ لمحے تکتی رہی اور پھر دوبارا سر نفی میں ہلا گئ۔ مصطفی کی تو بس ہوگئ تھی۔
" ٹھیک ہے نا بتاؤ ، آئیندہ سے میں بھی اپنی کوئ بات تم سے شیئر نہیں کرونگا۔" مصطفی نے خفگی سے کہا۔
" تو نا کرنا میں کونسا مری جا رہی ہوتی ہوں۔۔" نازنین نے اسکے سینے پہ سر رکھ کر کہا۔
" میں تم سے سچ میں ناراض ہوں۔۔۔" مصطفی نے جل کر کہا۔
" ٹھیک ہے ہوتے رہو تم ناراض پر اگر اب میں ہوگئ ناں ناراض تو بلکل نہی مانوں گی۔۔۔"نازنین نے سر اٹھا کر اسے دھمکی دی۔
" تم مجھے دھمکا رہی ہو۔۔۔؟" مصطفی نے اسے خشگمین نظروں سے گھورا۔
" ہاں۔۔۔ میں تمہیں دھمکا رہی ہوں۔ کچھ کرسکتے ہو ، نہی ناں۔۔۔" وہ اکڑ کر گویا ہوئ۔
" جان لے لوں گا تمہاری۔۔۔" وہ پوری شدت سے اسے
خود میں بھینچ کر گویا ہوا۔
" آہہہ کیا کر رہے ہو ، ہڈیاں توڑ دو گے میری۔۔۔" نازنین اسکی گرفت میں مچلی تھی۔
" بس میرا پیار بھی تمہیں ظلم ہی لگتا ہے۔۔۔" مصطفی نے اپنی گرفت اسپہ ڈھیلی کرکے جل کر کہا۔
" کچھ بھی ، پیار ایسا ہوتا ہے کیا۔ کہ کسی کو اتنا زور سے ہگ کرو کہ آدھے گھنٹے تک اس بندے کی ہڈیوں کا درد ہی نا جائے۔۔" نازنین نے اسکی گرفت اپنے گرد ڈھیلی پڑتے دیکھ ، خود اسکے گرد اپنی گرفت ٹائٹ کی تھی۔
" اب جو تم میری ہڈیاں توڑنے کی ناکام کوشش میں لگی ہو اسکا کیا۔۔۔؟؟" مصطفی نے سنجیدگی سے کہا۔
" میں تو پیار کرتی ہوں تم سے تو میں تو کچھ بھی کر سکتی ہوں۔۔۔" وہ شرارت سے مسکرائ تھی۔
" تو تم کہنا چاہتی ہو کہ میں تم سے پیار نہی کرتا۔۔۔" مصطفی تو لڑنے کی پوری تیاری میں تھا۔
" میں نے یہ تو نہی۔۔۔ کہا۔۔" نازنین نے اسکی شرٹ کے بٹن سے چھیڑ خانی کرتے کہا۔
" تو پھر مطلب کیا ہے تمہاری بات کا۔۔۔؟؟" مصطفی اسی بات پہ اٹک گیا تھا۔
" میری بات کا مطلب یہ ہے کہ مجھے پیار ہے تو میں اظہار بھی کرتی ہوں۔ تم نہی کرتے اظہار۔۔" نازنین نے لب بسور کر کہا۔
" اتنا پیار تو کرتا ہوں۔ پھر تم خود ہی تنگ آجاتی ہو۔۔۔" مصطفی نے خفگی سے کہا۔
" میں وہ والے پیار کی بات نہی کر رہی ، میں بات کر رہی ہوں ، اظہار والے پیار کی۔۔" نازنین نے مسکا کر کہا۔
" میں الفاظ سے زیادہ عمل پہ یقین رکھتا ہوں۔۔۔" مصطفی کی خفگی ہنوز قائم تھی۔
" موڈ درست کرو اپنا نہی تو میں کہہ رہی ہوں۔ میرے پاس سرپرائز ہے دونگی نہی میں تمہیں۔۔۔" نازنین نے دھمکی آمیز لہجہ میں کہا۔
" کیا سرپرائز ہے۔۔۔؟؟" مصطفی نے زبردستی شکل درست کی۔
" تم گیس کرو ناں۔۔۔" نازنین نے شرما کر کہا۔
" کیا گیس کروں۔۔۔" مصطفی نے اسکے چہرے پہ شرمیلی مسکراہٹ دیکھ نا سمجھی سے کہا۔
" تمہیں کیا لگتا ہے کیا خوشخبری ہوسکتی ہے۔۔۔" نازنین نے مسکا کر کہا۔
" آں۔۔۔ تم پریگننٹ ہو۔۔۔؟؟" مصطفی نے چہک کر پوچھا۔
نازنین نے اسے شدید بری نظروں سے گھورا۔
" نہی۔۔۔ مطلب تم اتنا ہی گیس کرسکے۔۔۔" نازنین نے منہ سجا کر کہا۔
" اچھا پھر ، تم ۔۔۔" مصطفی نے سوچنے کے انداز میں نظریں گھمائیں۔
" تم ہی بتا دو کیا ہے۔ مجھے نہی سمجھ آرہی۔۔۔" مصطفی نے تنگ آکر کہا۔
" میں نے ہم دونوں کے لیئے ، ترکی کے ٹرپ کی مکمل تیاری کر لی ہے۔ بس اب لاسٹ لاسٹ فارمیلیٹیز باقی ہیں۔۔" نازنین نے گویا دھماکا کیا۔
" پاگل ہوگئ ہو۔ بیا کو پتہ چل گیا تو وہ یہاں سے چلی جائے گی۔" مصطفی جھٹکے سے سیدھا آٹھ بیٹھا تھا۔
" بس اب ہم دونوں بلکل بھی سیکریفائز نہی کرنے والے۔ اب یہ بھائ اور بھابھی دونوں کا معاملہ ہے۔ اور خبردار جو تم نے میری بات سے اختلاف کیا۔۔۔" نازنین نے خونخوار انداز اپنا کر کہا۔
" پر۔۔۔" مصطفی نے کچھ کہنا چاہا۔
" پر ور کچھ نہی۔ اب بس بلکل خاموش ۔۔۔" وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کرتی واپس اسکے گرد اپنا حصار باندھ گئ تھی۔
مصطفی حیران پریشان سا رہ گیا تھا۔ اور پلکیں جھپک کر اوپر کی جانب دیکھ دل ہی دل میں اپنی عافیت کی دعا مانگی تھی۔
☆☆☆☆☆
" تمہارا سرپرائز لے آیا میں۔۔۔" حیدر نے اسے پشت سے بانہوں کے حصار میں لیا۔ ساوری اسکی اچانک قربت پہ گھبرائ تھی۔
" کہ۔۔کہاں ہے سر پرائز۔۔۔؟" ساوری نے اسکا حصار اپنے گرد سے توڑا تھا۔
" باہر ہے۔۔۔" حیدر نے کہتے ساتھ ہی اسکا دوپٹہ اسکے گلے سے اتار کر آنکھوں کے گرد باندھا تھا۔ وہ دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پہ بندھے دوپٹہ پہ رکھتی بوکھلا کر مستفسر ہوئ۔
" یہ کیا کر رہے ہیں آپ ، مجھے کچھ دکھ نہی رہا۔۔۔" ساوری نے پریشانی سے کہا۔
" ہاں بس پانچ منٹ پھر کھل جائے گا۔" حیدر نے اسے کندھوں سے تھاما۔ اور اسے لیئے دھیرے دھیرے لاؤنج میں آیا تھا۔ اسے لیکر اپنے ساتھ نیچے کارپیٹ پہ بیٹھا تھا۔ ساوری کی گود میں حیدر نے سفید کمبل میں لپٹی ، بچی کو ڈالا تھا۔ ساوری کے ہاتھ اپنی جگہ تھم سے گئے تھے۔ حیدر نے ذرا سا آگے ہوکر اسکی آنکھوں پہ سے دوپٹہ ہٹایا ، ساوری نے نظریں نیچی کرکے اپنی بچی کو تکا۔ اسکے ہاتھ اپنی بچی کے چہرہ کو چھوتے ہوئے کپکپا رہے تھے۔ اسنے بے یقینی کے عالم میں حیدر کو تکا۔ اور کچھ کہنے کی چاہ میں اسکے لب محض پھڑپھڑا کر رہ گئے۔ آنسو جو آنکھوں کے کناروں میں اٹکے پڑے تھے۔ یکدم پھسل کر اسکے گالوں کی زینت بنے تھے۔ حیدر لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔ کئ لمحے وہ اسکے ٹوٹے بکھرے وجود کو تکتا رہا۔ اور وہ اپنی بچی کو ، کئ لمحے بعد اسکی کپکپاتی آواز خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کر گئ۔
" نام کیا رکھا ہے اسکا۔۔۔؟؟"
" آئرہ ۔۔۔" حیدر نے آئرہ کے گال کو ہلکا سا چھو کر کہا۔
" بہت پیارا نام ہے۔۔۔" اسنے سسک کر کہا۔
" میں نے رکھا ہے۔۔۔" حیدر نے اسکے آنسو پونچھے۔
" ہمم۔۔۔" ساوری نے لب دبا کر اپنی سسکی دبائ۔
" پیاری ہے ناں ہماری بیٹی۔۔۔؟" حیدر نے آئرہ کو دیکھ کر ساوری سے پوچھا۔
" بہت زیادہ پیاری ہے۔ مجھے ۔۔۔۔۔ تو۔۔۔ ہہہ ۔۔ ڈر لگ رہا ہے یہ سوچ کر ہی کہ اسکو کپڑے پہنانا کتنا مشکل ہوتا ہوگا ناں۔۔۔ اتنی چھوٹی سی ہے یہ۔۔۔" ساوری نے ہنستے ، روتے اور بے یقین سے لہجہ میں کہا۔
" نہی بلکل نہی۔ اب یہ کل صبح تک تمہارے پاس رہے گی ناں تو تمہیں ، اندازہ ہوجائے گا ، کہ اتنا بھی مشکل نہی۔۔۔" حیدر نے مسکا کر کہا۔
وہ بے یقینی سے سر اٹھا کر حیدر کو دیکھ کر مسکرائ تھی۔
" سچ میں۔۔۔!!" وہ بے یقین تھی۔
" ہاں سچ میں ۔۔۔" حیدر مسکرایا تھا۔
ساوری کے چہرے پہ اتنی بڑی مسکان نمودار ہوئ تھی۔ کہ حیدر اسکے چہرے پہ چھائ معصومیت بھری خوشی میں ہی کھو گیا تھا۔ ساوری نے دھیرے سے آئرہ کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔ اور آنکھیں موند گئ تھی۔
" کیسا لگ رہا ہے۔۔۔؟؟" حیدر نے اسکے قریب سرک کر پوچھا۔
" بہت اچھا ، بہت سکون مل رہا ہے۔۔۔ حیدر۔۔۔" ساوری کے چہرہ پہ مامتا چمک رہی تھی۔
" اگر مجھے بھی ذرا سا ہگ کر لو ، تو اس سے بھی زیادہ سکون ملے گا۔۔۔" حیدر نے شرارتاً کہا۔
ساوری نے جھٹ اپنی آنکھیں کھول کر حیدر کو تکا اور اسکی بات پہ کھلکھلائ تھی۔
" نہی۔۔ شکریہ نہی چاہیئے مجھے آپکو ہگ کرنے کے بعد والا سکون۔۔۔" وہ جلا کر کہتی ، آئرہ کو لیئے اٹھی تھی۔
حیدر بھی اسکے پیچھے اٹھا تھا۔ اور اسکے پیچھے لپکا تھا۔
" تم نے مجھے کس بھی نہی دیا۔۔۔!!" حیدر نے پیچھے سے ہانک لگائ۔
" میں نے نہی کہا تھا۔ کہ میں آپکو کس دونگی۔۔۔" ساوری کانوں کی لوؤں تک سرخ ہوگئ تھی۔ اور وہ تھا کہ اسکا پیچھا ہی نہی چھوڑ رہا تھا۔
" یہ کیا بات ہوئ ۔۔۔" حیدر نے منہ بنا کر کہا۔
" کوئ بات نہی ہوئ یہ۔ آج کھانا باہر سے لے آئیں گے آپ۔ میں کل تک جتنا بھی وقت ہے میں سارا بس آئرہ کے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں۔۔۔" ساوری نے آئرہ کو بیڈ پہ بیچ میں لٹاتے کہا۔
" ہاں۔۔۔ ہاں میں ابھی آڈر کر دیتا ہوں۔۔۔" حیدر نے چہک کر کہا۔ اور بستر کی دوسری جانب آکر ڈھیر ہوگیا۔
" آپ یہاں سوئیں گے۔۔؟؟" ساوری نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
" کیوں کوئ مسئلہ ہے کیا۔۔۔؟؟" حیدر نے کچھ حیرت سے پوچھا۔
" ہاں مسئلہ ہے اور بہت بڑا مسئلہ ہے۔ آپ رات میں بہت برا سوتے ہیں۔ آئرہ کو کچھ ہوگیا تو۔ نہی ۔۔۔ نہی میں یہ رسک بلکل نہی لوں گی۔ آپ دوسرے روم میں جا کر سوجائیں۔" ساوری کا انداز ہتمی تھا۔
" میں تو نہی جارہا، بھئ میرا بھی دل کرتا ہے اپنی بیٹی کے ساتھ ٹائم اسپینڈ کرنے کا۔ میں تو یہیں سوؤں گا۔۔۔" حیدر بضد ہوا۔
" آپ پاگل ہوگئے ہیں حیدر ، میں سچ کہہ رہی ہوں۔ آپ بہت برا سوتے ہیں۔۔ " ساوری نے پریشانی سے کہا۔
" تو پھر تم بیچ میں سوجاؤ ، پر سوؤں گا تو میں ادھر ہی۔۔" حیدر اپنی بات پہ بضد تھا۔
" آپ ۔۔۔ حیدر کچھ بھی۔۔۔" ساوری نے حیرت سے کہا۔
" کچھ بھی ۔۔۔۔ وچھ بھی۔۔۔ کچھ نہی ہوتا ، سوؤں گا تو میں ادھر ہی۔۔۔" حیدر نے حتمی لہجہ اپنا کر کہا۔
" اوکے۔۔ اچھا۔۔۔ سہی سو جانا یہاں پر پہلے کھانا تو آڈر کر دیں۔۔۔" ساوری نے خفگی سے کہا۔
حیدر لب دبا کر مسکرایا تھا۔ اور سر ہلاتا جلدی جلدی کھانے کا آڈر دینے لگا۔
کچھ دیر میں کھانا آیا۔ ان دونوں نے مل کر کھانا کھایا۔ اور پھر حیدر ڈھیٹ بنا واپس بستر پہ چوڑا ہوکر لیٹ گیا تھا۔
" حیدر۔۔۔!!" ساوری نے اسے احتجاجاً پکارا۔
" میں نے کہا تو ہے ، بیچ میں تم آجاؤ۔۔۔" حیدر نے معصوم شکل بنائ۔
" پر۔۔۔۔ حیدر ۔۔۔" وہ جز بز ہوئ۔
" میں تو تھک گیا ہوں سو رہا ہوں۔ باقی تمہاری مرضی۔۔۔" حیدر نے جمائ لیکر ایک نظر اسے دیکھا۔
جو چھوٹے ، چھوٹے قدم لیتی بیڈ تک آئ تھی۔ اور پھر آئرہ کو لیکر بیڈ کے کنارے والی سائڈ پہ لٹایا۔ اور تکیوں کی باڑ لگا دی۔ اسکی اس قدر احتیاط پہ حیدر قہقہ لگا کر رہ گیا تھا۔
" ابھی وہ بہت چھوٹی ہے نہی گرے گی۔۔۔" حیدر کو خود پہ ہنستے دیکھ ساوری خجل سی مسکائ تھی۔
" میں پھر بھی کوئ رسک نہی لینا چاہتی۔۔۔" ساوری نے اپنا تکیہ بیچ میں درست کیا اور لیٹی۔
حیدر اسکی جانب کروٹ کے بل پلٹا تھا۔ ساوری نے اسے خود کو تکتا پا کر اپنی توجہ آئرہ کی جانب مبذول کر دی۔
" مجھے نظر انداز کرنا بند کرو۔ آج میں نے تمہیں اتنا اچھا سر پرائز دیا۔ پر تم نے کیا دیا۔۔۔؟؟ کچھ بھی نہی۔۔۔" حیدر نے خفگی سے کہتے اپنی ٹانگ اسکے اوپر ڈالی تھی۔ ساوری نے عاجز سی شکل بنا کر حیدر کو تکا۔
" آپ نے مجھے اتنا پیارا سرپرائز دیا۔ اسکے لیئے بہت بہت شکریہ۔ پر میں کچھ نہی دے سکتی آپ کو۔۔۔" ساوری نے حیدر کی ٹانگ کو اپنے اوپر سے ہٹانے کی ایک ناکام کوشش کی۔
" بھلا یہ کیا بات ہوئ۔ میں نے کونسا تم سے دنیا جہاں کے قیمتی خزانے مانگ لیئے۔ میں نے تو بس تم سے ایک کِس مانگی تھی بس۔۔۔!!" حیدر نے اسے اپنی قید میں لیتے گہری سانس بھری۔
" آپ۔۔۔ پلیز ابھی پیچھے ہٹ جائیں۔ مجھے آئرہ کے ساتھ وقت گزارنا ہے ابھی بس۔۔۔" وہ منت كرنے لگی۔
" بھلا یہ کیا بات ہوئ یارر۔۔۔!!
دیکھو آئرہ ابھی سو رہی ہے۔ اور مجھے میرا ریٹرن گفٹ ابھی اسی وقت چاہیئے۔۔۔" وہ بضد تھا۔
ساوری نے تھوک نگل کر سہمی ہوئ نظروں سے اسے تکا۔
" آپ جو مانگ رہے ہیں ناں ، وہ میں نہی دے سکتی۔۔۔" ساوری منمنائ۔
" کیوں نہی دے سکتیں بھئ۔ ایک کس ہی مانگی ہے جان نہی مانگی تم سے تمہاری۔۔۔" حیدر نے خفگی سے کہا۔
" آپ جان مانگ لیتے میں دے دیتی ، پر یہ ۔۔۔ نہی۔۔۔ نہی۔۔" ساوری سوچ کر ہی گھبرا گئ تھی۔
" ارے اچھا دیکھو میں آنکھیں بند کرتا ہوں۔ تم جلدی سے کِس کردینا۔۔ بات ختم۔۔۔" حیدر نے آنکھیں بند کرکے اپنا وجود اسکے اوپر سائے کی مانند پھیلایا تھا۔
ساوری سہمی ہوئ نظروں سے کبھی اسے دیکھتی تو کبھی اسکی بند آنکھوں کو اور کبھی اسکے لبوں کو ، ساوری کو اپنی جان خشک ہوتی محسوس ہوئ۔
"حیدر مجھ سے نہی ہوگا۔۔۔" اسنے رونی صورت بنا کر کہا۔
حیدر نے آنکھیں کھول کر اسے گھورا۔ اور دوبارہ آنکھیں بند کیں۔
" مجھے نہی پتہ مجھے بس میرا ریٹرن گفٹ چاہیئے۔" اسکی بے حسی پہ ساوری جل کر رہ گئ۔
" آپ تنگ کر رہے ہیں اب مجھے۔۔۔" اسنے شکوہ کیا۔
" تم تنگ ہو رہی ہو۔ مجھے خوشی ہے اس بات کی چلو کِس دو۔۔۔" حیدر نے اپنا چہرہ مزید اسکے چہرے کے قریب کیا۔
" حیدر پلیز۔۔۔" ساوری نے آخری کوشش کی خود کو بچانے کی۔
" ohh come on babe kiss me...."
حیدر نے اپنا چہرہ مزید اسکے قریب کرکے مدہوش کن لہجہ میں کہا۔ ساوری لب کچلتی ، کئ لمحے اسے تکتی رہی۔ اور پھر گہری سانس لیتی سر اٹھا کر اسکے لبوں کو ہلکا سا چھوتی پیچھے ہوگئ تھی۔
حیدر نے جھٹ آنکھیں کھول کر اسے دیکھا کم گھورا زیادہ تھا۔
" یہ کِس تھی۔۔۔" حیدر نے صدمہ سے پوچھا۔
" ہاں۔۔۔" ساوری نے جھٹ سر کو اثبات میں ہلایا۔
" are you serious..."
حیدر نے جل کر کہا۔
" ہمم۔۔" ساوری سہم کر ہلکا سا منمنائ۔
" میں تمہیں بتاتا ہوں کِس کیا ہوتی ہے کیسی ہوتی ہے۔" حیدر سنجیدگی سے کہتا ، اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ ساوری اپنی آنکھیں مینچ گئ تھی۔ حیدر کے لمس کی شدت اس قدر تھی۔ کہ ساوری کا دل اچھل کر حلق تک آگیا تھا۔ ایک فسوں سا تھا جو انکے گرد بن گیا تھا۔ حیدر اسکے لبوں کو آزاد کرتا ، اسکی بند پلکوں اور لرزتے لبوں کو خماریت سے دیکھتا رہ گیا تھا۔
" کیسی لگی میری کس۔۔۔؟" حیدر اسکے کان کی لوؤں پہ لب رکھتا مستفسر ہوا۔
ساوری کے دل کی دھڑکن یکدم مزید تیز ہوئ تھی۔ وہ گہری ، گہری سانسیں بھرنے لگی تھی۔ اسکا چہرہ کندھاری انار کی مانند سرخ ہوگیا تھا۔ حیدر اسے خمار آلود نظروں سے تکتا اپنی ناک اسکی گردن پہ رگڑتا اسے مزید خود میں سمٹنے پہ مجبور کر گیا تھا۔
" تم نے بتایا نہی۔۔۔" حیدر نے اسکے نچلے لب کو اپنے لبوں سے ہلکا سا چھوا۔
" کیا۔۔۔۔" اسنے دھڑکتے دل سمیت پوچھا۔
" کِس کا۔۔۔" حیدر نے اسکے لجائے روپ کو تکتے کہا۔
" حیدر ۔۔۔پلیز۔۔۔" ساوری نے اسکے کالر کو مٹھی میں جکڑ کر کہا۔
" ساوری۔۔۔ تم کیا ہو میرے لیئے تمہیں خود معلوم نہی۔۔۔" حیدر نے اسکی نازک مرمریں گردن پہ اپنے دانت گاڑھے تھے۔ ساوری سسک کر مزید اسکی بانہوں میں خود کو سمیٹ گئ تھی۔
اس سے پہلے کے وہ مزید جسارتوں پہ اترتا کمرے میں آئرہ کے رونے کی آواز گونجی ، ساوری نے آئرہ کی آواز سنتے ہی بنا لمحے کی تاخیر کیئے۔ حیدر کو خود سے دور کیا تھا۔ اور خود آئرہ کو گود میں لیکر بیٹھ گئ تھی۔ وہ آئرہ کو دودھ پلا رہی تھی۔ اور حیدر اس سے شکوہ کر رہا تھا۔
" میری تو کوئ اہمیت ہی نہی تمہاری نظروں میں۔۔۔۔" حیدر نے جل کر کہا۔
" ایسی تو کوئ بات نہی ہے۔۔۔" ساوری نے آئرہ کو تھپکتے کہا۔
" ایسی ہی بات ہے۔۔۔" حیدر نے خفا ہوکر کہا اور اسکی جانب پیٹھ کرکے لیٹ گیا۔ ساوری نے ایک نظر حیدر کی پشت کو تکا۔ اور آئرہ کو سینے سے لگائے سلانے لگی۔ کچھ ہی دیر میں آئرہ پھر سے پرسکون نیند کی وادیوں میں اتر گئ تھی۔ وہ آئرہ کو پیار کرتی اپنی جگہ پہ لٹاتی، حیدر کی جانب مڑی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد وہ حیدر کی پشت سے اسکے گرد اپنا ایک ہاتھ اسکے اوپر ڈال کر اسے ہگ کرکے لیٹی تھی۔ حیدر جو نجانے کن سوچوں میں ڈوبا تھا۔ یکدم چونکا تھا۔ یہ بدلاؤ بہت انوکھا تھا۔ حیدر نے مسکرا کر اسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پہ رکھا تھا۔ اور سکون سے آنکھیں موند گیا تھا۔ ساوری بھی پرسکون سی ہوکر آنکھیں موند گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
صبح کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ہر ذی روح اپنے دن کی شروعات کر چکا تھا۔ ساوری حیدر کے سینے سے لگی سو رہی تھی۔ جب انکی ڈور بیل پہ در پہ بجنے لگی۔ حیدر آنکھیں مسلتا اٹھا تھا۔ ساوری بھی کسلمندی سے آنکھیں کھولتی اٹھنے لگی تھی۔ جب حیدر نے اسے روکا۔
" تم مت اٹھو سوجاؤ۔۔۔" حیدر نے اسے آرام کرنے کو کہا۔ اور خود باہر گیا۔ جیسے ہی دروازہ کھولا۔ سامنے درفشاں کھڑی تھی۔ حیدر کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بچھا تھا۔
" میں ایک دن کے لیئے شہر سے باہر کیا گئ۔ تم نے تو اپنے اصل رنگ ہی دکھانا شروع کردیئے۔۔۔" وہ تقریبا چلائ تھی۔
" آہستہ بات کرو۔۔" حیدر نے باہر کوریڈور میں ادھر ادھر دیکھا کوئ نہی تھا۔ اسے اندر گھسیٹتا وہ دروازہ بند کرنے والا تھا۔ جب اسکی ماں اور درفشاں کی امی بھی اندر آئیں۔ حیدر نے دروازہ بند کیا اور انکی جانب آیا۔ اس سے پہلے کے وہ درفشاں کو کچھ سناتا۔ ساوری بغیر دوپٹہ کے پریشان سی باہر آئ تھی۔
" حیدر کوئ آیا ہے کیا۔۔۔؟؟" ساوری نے پریشانی سے پوچھا۔
" مما دیکھ رہی ہیں آپ ، یہ دن رات یہاں پڑا رہتا ہے اس کے ساتھ رنگرلیاں مناتا رہتا ہے۔ اور اب تو حد ہی کر دی۔ بچی بھی اسکو لاکر دے دی۔ میں کام سے گئ تھی۔ کوئ مری نہی تھی میں۔۔۔" درفشاں چلا رہی تھی۔ ساوری نے غلط نا ہوتے ہوئے بھی شرمندگی سے سر جھکایا تھا۔
" زبان سنمبھال کر بات کرو درفشاں۔ بیوی ہے وہ میری۔۔۔" حیدر بھڑکا تھا۔
" اوہ تو مطلب تم اسکو اپنی بیوی مانتے ہو۔ افسوس پر اگر تم بھول گئے ہو تو تمہیں یاد دلاتی چلوں، کہ یہ خریدے ہوئے ایک قیمتی سامان سے زیادہ کچھ بھی نہی۔۔۔" در فشاں نے ساوری کو خون آشام نظروں سے گھور کر کہا۔
" کیسی عورت ہو تم تمہیں شرم نہی آتی۔ ایک عورت کو بار بار کم مائیگی کا احساس دلا کر۔۔۔" حیدر نے درفشاں کو جھڑکا۔
"نہی مجھے نہی آتی شرم تو کیا اسے آتی ہے شرم ، میرے شوہر پہ قبضہ جما کر بیٹھی ہے۔ زلیل عورت۔۔۔!!" درفشاں بھی حلق کے بل چلائ تھی۔
" درفشاں میں تم سے آخری بار کہہ رہا ہوں زبان سنمبھال کر بات کرو۔۔۔" حیدر نے اسے وارن کیا۔
" نہی کرونگی زبان سنمبھال کر بات یہ ایک انتہائ نیچ عورت ہے۔ جسکا تعلق ایک نیچ خاندان سے ہے۔" در فشاں نے ساوری کے مقابل کھڑے ہوکر کہا۔
" بچی لاؤ ، اب اسکے بعد تم اسکی شکل دیکھنے کو بھی عمر بھر ترس جاؤ گی۔۔۔" در فشاں نے چلا کر کہا۔
ساوری ایک دم خوف سے اچھلی تھی۔ خوف سے اسکا رنگ زرد پڑا تھا۔ مگر پھر بھی اسنے سر نفی میں ہلایا تھا۔
" میں نے کہا بچی کو باہر لیکر آؤ۔۔۔" در فشاں نے ایک بار پھر حکم صادر کیا۔
" نہی۔۔۔" ساوری نے ہمت کرکے زبان سے بھی انکار کیا۔
درفشاں نے جلن ، حسد، غصہ کا شکار ہوکر ایک زناٹے دار تھپڑ ساوری کے منہ پہ مارا تھا۔ ساوری کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔ حیدر نے طیش کے عالم میں ساوری کو اپنے پیچھے کیا تھا۔ اور ایک زناٹے دار تھپڑ در فشاں کے منہ پہ جوابی کاروائ کے طور پہ رسید کیا تھا۔ ساوری نے حیدر کو اسقدر غصہ میں دیکھ کر اپنا ہاتھ ہونٹوں پہ رکھ تھا۔ حیدر اور درفشاں کی امی بھی کھڑی ہوگئ تھیں۔
" حیدر یہ کیا ، کیا تم نے۔۔۔؟؟" حیدر کی خالہ بھڑک کر بیچ میں آئ تھیں۔
" میں نے کیا ، کیا وہ آپکو دکھ گیا۔ پر آپ کی صاحبزادی نے جو میری بیوی کے ساتھ کیا ، وہ آپکو دکھا نہی۔۔ یا پھر آپ نے دیکھ کر بھی ان دیکھا کر دیا۔۔۔" حیدر ان پہ بھی برہم ہوا تھا۔
" بیوی نہی ہے وہ تمہاری ایک کنٹریکٹ میرج پہ خریدی ہوئ لڑکی ہے۔۔۔" اسکی خالہ نے چلا کر کہا۔
" میں نہی مانتا اس کنٹریکٹ کو میں صرف اس نکاح کو مانتا ہوں۔ جو میں نے اپنے اللہ کو حاظر ناظر جان کر کیا تھا۔ میں مانتا ہوں تو صرف اس نکاح کو جو میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ میں اس کے سوا کسی شے کو نہی مانتا۔۔۔" حیدر کے چہرہ پہ سرخی چھلک آئ تھی۔ دماغ کی رگیں تن گئ تھیں۔
" ٹھیک ہے پھر طلاق دو ، اسے ابھی اور اسی وقت اگر بیوی ہے تو بیوی رہنے نہیں دونگی میں اسے تمہاری۔۔۔" درفشاں نے حیدر کو گریبان سے تھام کر کہا۔
" بکواس بند کرو دور ہٹو۔۔۔" حیدر نے اسے خود سے دور جھٹکا تھا۔ ساوری سہم کر پیچھے دیوار سے چپک گئ تھی۔
" میں کہتی ہوں اس بد چلن عورت کو ابھی اسی وقت طلاق دو۔۔۔" درفشاں حلق کے بل چلائ تھی۔
" ایسا کبھی نہی ہوگا۔۔۔" حیدر نے جبڑے بھینچ کر کہا۔
" در۔فشاں بس ابھی یہاں سے چلو۔۔۔" حیدر کی امی کو حیدر کے تیور کچھ ٹھیک نا لگے اسی لیئے انہوں نے در فشاں کو وہاں سے چلنے کو کہا۔
" میں یہاں سے ایک ذرا نہی ہلنے والی۔ خالہ اس سے کہیں کہ یہ اس لڑکی کو ابھی اسی وقت طلاق دے۔۔۔" در فشاں اپنی ضد سے باز نا آئ۔
" بہت خواہش ہے تمہیں ٹھیک ہے پوری کردیتا ہوں میں تمہاری خواہش۔۔۔" حیدر نے غرا کر کہا۔
حیدر کی بات پر ساوری کا رنگ فق پڑا تھا۔ اسکا دل خوف سے دھڑدھڑانے لگا تھا۔
" درفشاں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔!!" حیدر کہ منہ سے اپنے لیئے طلاق سن کر در فشاں کے قدم لڑکھڑائے تھے۔ وہ بے یقینی کے عالم میں حیدر کو سر نفی میں ہلاتی تک رہی تھی۔
" تم مجھ پہ ۔۔۔۔ اس دو ٹکے کی لڑکی کو فوقیت دے رہے ہو۔۔۔" وہ بے یقینی سے گویا ہوئ۔
" میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔۔۔" حیدر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پھر وہی بھاری الفاظ دہرائے۔
" حیدر یہ کیا کر رہے ہو تم بس خاموش ہو جاؤ بسس۔۔" حیدر کی امی نے حیدر کو مزید کچھ کہنے سے روکنا چاہا۔
" درفشاں میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔ آج ابھی اور اسی وقت سے تم مجھ پہ حرام ہو۔۔۔" حیدر نے اپنی ماں کی بھی نے سنی اور درفشاں کو آزاد کردیا۔
" شرم نہی آئ تمہیں میری بچی کو طلاق دے دی تم نے۔۔۔" در فشاں کی ماں کا صدمہ سے برا حال تھا۔
حیدر بغیر کوئ جواب دیئے ساوری کی کلائ تھامتا ، اسے اپنے ساتھ کمرے میں لے گیا تھا۔ اور درفشاں اپنی جگہ جامد سی کھڑی تھی۔ درفشاں کی ماں درفشاں کو سینے سے لگاتی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔ پر درفشاں نے تب بھی کوئ رسپونس نا دیا۔ درفشاں کی اماں ساوری کو بکتی جھکتی، اور اپنی بہن سے لڑتی نکل گئ تھیں۔ پر شاید وہ یہ بھول گئ تھیں۔ کہ یہ سب انہی کا تو پلین تھا۔ حیدر کی دوسری شادی ، کنٹریکٹ میریج بچہ اور سب کچھ۔ پر اب وہ اپنے کیئے کا الزام با آسانی دوسروں پہ ڈال چکی تھیں۔
☆☆☆☆☆
" حیدر آپ نے اسے طلاق دے دی۔۔۔" ساوری نے بے یقینی سے کہا۔
" دے دی تو بس دے دی ، اب میرے سر میں مزید درد کرنے کی ضرورت نہی ہے فلحال۔۔" حیدر کا سر دکھنے لگا تھا اتنے سارے تماشے کے بعد ، اور جو سچ بات تھی وہ یہ تھی کہ اسے دکھ تھا۔ ہاں وہ اسکی پہلی بیوی تھی۔ بھلے ہی انکی شادی ایک ارینج میریج تھی پر پہلی شادی ارمانوں بھری شادی ، وہ عورت جس کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کے کئ سال گزارے تھے۔ پر شاید وہ کبھی اسکی نا ہوسکی تھی۔ ہاں یہ سچ تھا۔ وہ اس ارینجڈ میریج کی شادی کے بعد بھی ، اپنے محبوب کو بھلا نہی پائ تھی۔ اور اسی وجہ سے شاید اسنے ہمیشہ حیدر کو خود سے ایک فاصلے پہ رکھا۔ میاں بیوی کا تعلق ایک انسان نہی لے کر چل سکتا۔ یہ رشتہ دو پہیوں کی گاڑی ہے۔ جسے دو لوگوں کو مل کر چلانا پڑتا ہے۔ اگر ایک بھی پہیا زنگ آلود ہوجائے یا پھر کام کرنا چھوڑ دے تو اثر پورے رشتے پہ پڑتا ہے۔ رشتہ بھی بس ایک جگہ جم کر ہی رہ جاتا ہے ، چلنا چھوڑ دیتا ہے۔ جیسے جسم میں خون کی روانی اہم ہے۔ ویسے ہی میاں بیوی کے رشتے میں محبت، عزت اور ایک دوسرے کا احساس ہونا بھی ضروری ہے۔ جب یہ چیزیں ایک رشتے میں باقی نا رہیں تو پھر دو لوگوں کا یہ خوبصورت تعلق بھی زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ اور شاید انکا تعلق بہت پہلے ہی زنگ آلود ہوچکا تھا۔
" آپ ایسے بھڑک کیوں رہے ہیں۔ میں نے نہی کہا تھا آپکو اسے چھوڑنے کا۔۔۔" ساوری کو برا لگا تھا۔
" میں نے یہ کب کہا ، کہ تم نے مجھے ایسا کرنے کو کہا ہے۔۔۔" حیدر کے ماتھے پہ بل آئے تھے۔
" ناشتہ کرنا ہے تو بتا دیں بنا دوں۔" اسنے اسکے بگڑے تیور دیکھ نظریں ادھر ادھر پھیر کر دھیرے سے کہا۔
" آف کورس کرونگا ناشتہ بھوک ہڑتال پہ تو جانا نہی ہے۔۔۔" وہ خفگی سے کہتا آئرہ کو گود میں لیئے باہر آیا تھا۔ اسکی امی باہر صوفہ پہ بیٹھی تھیں۔ وہ اب بھی گم صم سی بیٹھی تھیں۔ ساوری انکو ایک نظر دیکھ خاموشی سے کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئ تھی۔ حیدر خود کو کمپوز کرتا اپنی امی کے پاس آکر بیٹھا تھا۔
" حیدر یہ تم نے کیا کر دیا۔۔۔" اسکی امی نے شکوہ کیا۔
" امی یہ وہ کام تھا جو شاید مجھے بہت سال پہلے کر لینا چاہیئے تھا۔ پر میں نے نہی کیا ، بیوقوفوں کی طرح تاخیر کرتا گیا۔" حیدر نے آئرہ کو اپنی ماں کی گود میں ڈال کر سنجیدگی سے کہا۔
" پر حیدر۔۔۔" اسکی ماں جز بز ہوئ تھیں۔
" امی میں اپنی بیٹی کہ ساتھ یہ ظلم نہی کرسکتا تھا۔ اسے اسکی سگھی ماں سے دور کرکے ، سوتیلی ماں کے رحم و کرم پہ نہی چھوڑ سکتا تھا۔ اور سب سے بڑی بات اتنے سالوں میں ، در فشاں میری زندگی میں اپنا وہ مقام نا بنا سکی۔ جو ساوری نے اس ایک سال میں بنا لیا امی۔۔۔!!" حیدر نے گہری سانس خارج کی۔
" حیدر پر میرے میری بہن سے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔۔۔" انہیں فکر لاحق تھی۔
" امی اگر آپ چاہیں تو ہم یہیں رہ لیں گے۔ میں ساوری کو آپکے گھر نہی لاؤں گا۔ بھلے آپ مجھے اس عمل کے لیئے معاف نا کریں۔ پر اس سے زیادہ میں کچھ نہی کرسکتا۔۔۔" حیدر اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا تھا۔ اور اسکی ماں حیران ، پریشان سی بیٹھی رہ گئ تھیں۔
" میں آپ سے یہاں بات کرنے آیا ہوں۔" اسفند نے سنجیدگی سے کہا۔
اتنی صبح صبح اسفند کو اپنے گھر دیکھ کر عالم بھی ڈرائنگ روم میں آیا تھا۔ پر اندر آتے ہی اپنی بیگم کے تیور اور سامنے والے کا معمول سے ہٹ کر شریف بن کے بیٹھنے کی کوشش اسے اشتیاق میں ڈال گئ تھی۔ اسفند اسے دیکھ کر اٹھا تھا۔ اور عالم سے بغلگیر ہوا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے اپنی اپنی نشست سنمبھال گئے تھے۔
" کیا ہوا خیریت اتنی صبح۔۔۔؟؟" عالم پوچھے بنا نا رہ سکا۔
" وہ مجھے بھابھی سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔۔" اسفند نے عالم کو دیکھا۔
" جو بھی بات کرنی ہے کرو۔ جلدی۔۔۔!!" شعلہ نے بگڑے تیوروں سمیت کہا۔
" دیکھیں اس میں شہلا کی کوئ غلطی نہی وہ مجھے اچھی لگتی تھی۔ اور پھر جب وہ مجھے اتنے سال بعد دوبارہ دکھی تو ، میں نے اس سے بات کرنا چاہی۔ اور پھر ایک فن میں نے سب کو یہ کہا کہ میں باہر ملک جا رہا ہوں۔ تب شہلا کی بھی دبئ جانے کی تیاری تھی۔ جس دن وہ فلائٹ کے لیئے نکلی میں نے اسے بہت طریقے سے کڈنیپ کرا لیا۔ اور پھر میں نے اس سے زبردستی نکاح کر لیا۔" اسفند نے گردن جھکا کر کسی مجرم کی مانند اپنے گناہوں کا اعتراف کیا۔ عالم تو پہلو ہی بدل کر رہ گیا تھا۔
" ہاں ٹھیک ہے طلاق نامہ بھجوا دینا ختم ہوجائے گا سب۔۔۔" شعلہ نے ماتھے پہ لاتعداد بل سجا کر کہا۔
" آپ پاگل ہوگئ ہیں۔ میں نے اس سے نکاح کیا ہے۔ میں نہی دونگا اسے طلاق۔ میں اسکے ساتھ اور وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔۔۔" اسفند نا چاہتے ہوئے بھی بھڑکا تھا۔
" میں شہلا سے اسکی مرضی پوچھ چکی ہوں۔ اور اسنے صاف الفاظ میں کہہ دیا ہے۔ کہ وہ تمہارے ساتھ نہی رہنا چاہتی۔۔۔" شعلہ نے پرسکون ہوکر کہا۔
" اور ایسا اسنے کب کہا۔۔۔؟؟" اسفند کا سکون برباد ہوا تھا۔
" کل رات۔۔" شعلہ نے زہر خند لہجہ میں خواب دیا۔
" نہی وہ ایسا کیسے کر سکتی ہے۔ وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ پر بس آپکی وجہ سے مجھے چھوڑ رہی ہے وہ۔۔۔" اسفند سرخ نظروں سے شعلہ کو گھورتا چلایا تھا۔
" اپنی آواز نیچی رکھو ، میرے گھر میں بیٹھ کر مجھ پہ چلانے کی اجازت کسی کو بھی نہی ہے۔۔۔" شعلہ بھی بھڑکی تھی۔
" اسفند شعلہ کا اس میں کیا کام کیا پتہ وہ لڑکی خود تمہارے ساتھ نا رہنا چاہتی ہو۔۔۔" اسفند نے سنجیدگی سے کہا۔
" وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔۔۔" اسفند نے زخمی لہجہ اپنایا تھا۔
" میں نے کہا ناں وہ تمہارے ساتھ نہی رہنا چاہتی۔۔۔" شعلہ چلائ تھی۔
" آپ جانتی نہی ہیں ، کتنا ظلم کر رہی ہیں۔ اس پر بھی اور مجھ پر بھی۔۔۔" اسفند بکھرے ہوئے لہجہ میں کہتا۔ وہاں سے نکل کر چلا گیا تھا۔
" اس سب میں تمہارا ہاتھ ہے۔۔۔؟" عالم نے نرمی سے پوچھا۔
" ہاں ہے۔۔۔ تو۔۔؟" وہ بھی ڈھیٹ تھی۔ سہی بات کہاں آسانی سے اسے بتاتی۔
" تمہاری دوست ہے۔ اسے کہو ماں جائے۔ اسفند اچھا لڑکا ہے۔۔۔" عالم نے اپنی سی ایک کوشش کرنی چاہی۔
" بے فکر رہو میں جے اسکے لیئے ، اسفند سے بھی اچھا لڑکا ڈھونڈ لیا ہے۔۔۔" وہ ایک ادا سے کہتی ڈرائنگ روم سے کسی ہوا کے جھونکے کے مانند نکل کر چلی گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
عالم دفتر جا چکا تھا۔ وہ عارض کو نازنین کے پاس لائ تھی۔
"پلیز اسکا خیال رکھ لو تھوڑی دیر ، مجھے ذرا باہر تھوڑا کام ہے میں وہ کرکے آتی ہوں۔" شعلہ نے نرمی اے کہا۔
اور بنا اسکی سنے ڈرائیور کے ساتھ نکل گئ۔ اپنے گھر شہلا کے پاس پہنچی تو وہ اسے کہیں نا دکھی۔ وہ اسکے کمرے میں آئ تو۔ وہ بیڈ پہ پڑی سسک رہی تھی۔
" رو کیوں رہی ہو۔۔۔؟" شعلہ کی کرخت آواز سن کر وہ یکدم سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔
" میں رو تو نہی رہی۔۔۔" شہلا نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے تھے۔
" مجھے دھوکہ دینے کی کوشش میں ہو۔۔۔؟؟" شعلہ نے خفگی سے کہا۔
" ایسا کچھ بھی نہی تم غلط سمجھ رہی ہو۔۔۔" شہلا نے نگاہیں چرا۔کر کہا۔
" میں جو سمجھ رہی ہوں بلکل ٹھیک سمجھ رہی ہوں۔ اور شاید مجھ سے ہی غلطی ہوگئ۔ میں نے تمہیں سمجھنے کا دعوی تو کیا ہمیشہ پر تمہیں سمجھ نا سکی۔۔۔" شعلا نے سنجیدگی سے کہا۔ اور اپنا موبائل کان سے لگا کر کال اٹینڈ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔
" ہیلو۔۔۔ عالم اسفند کو کال کرکے کہہ دو کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے جائے۔۔۔" شعلہ نے کہتے ہی کال کاٹ دی تھی۔ شہلا نے بے یقینی سے شعلا کو ٹکا تھا۔
" تم ۔۔۔۔ " شہلا نے کچھ کہنا چاہا پر اسکے لب جیسے سل گئے۔
" مجھے تم سے اس بات کی امید نہی تھی۔" شعلا سنجیدگی سے کہتی اسکے کمرے سے نکل کر چلی گئ تھی۔ شہلا اسکے پیچھے لپکی تھی۔ شعلہ اپنے کمرے میں گئ تھی۔ اور کبرڈ سے اپنی پسٹل اور مزید سامان لیکر جب وہ مڑی تو سامنے شہلا کھڑی تھی۔
" شعلا۔۔۔ میری بات سنو۔۔۔" شہلا نے اسے روکنا چاہا۔
" میں بہت ضروری کام سے گھر سے نکلی تھی۔ مجھے جانا ہے پلیز پیچھے ہٹو، میرا بیٹا گھر پہ میرا انتظار کر رہا ہوگا۔" شعلا اجنبی بنتی اسکے برابر سے نکل گئ تھی۔ شہلا کی آنکھوں میں آنسو چمکے تھے۔ اسنے سسک کر اپنے منہ پہ ہاتھ دھر کر اپنی سسکیوں کو دبایا تھا۔
" اسفند یہ کیا کر دیا تم نے۔۔۔" وہ بے بس سے لہجہ میں کہتی۔ کرب سے آنکھیں مینچ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
" کون ہو تم۔۔۔؟؟" ایک عمر رسیدہ شخص دیوان پہ کسی فرعونی کی مانند بیٹھا تھا۔ پر اپنے سامنے کھڑی لڑکی اور پھر اسکے ہاتھ میں موجود پسٹل دیکھ وہ گھبرایا تھا۔
" مجھے نہی پہچانا۔۔۔۔!!" شعلہ کے ہونٹوں پہ پر اسرار سی مسکراہٹ چمک رہی تھی۔
" میں تمہیں جانتا ہی نہی ، تو پہچانیں گا کیسے۔۔۔" وہ شخص گھبرایا تھا۔
" تم نے مجھے نہی پہچانا۔۔۔" شعلہ نے مصنوئ طور پہ حیرت کا اظہار کیا۔
" ارے او بختو ادھر آآ نکال اس کمینی کو ادھر سے ، نجانے کہاں سے آگے ہے۔ اور ہمت دیکھو مجھ پہ یہ پسٹل تان کر کھڑی ہوگئ ہے۔ نادان لگتی ہے اسی لیئے معاف کر رہا ہوں۔ ورنہ پہلے تو میں اپنی جان کے دشمن کو چھوڑتا نہی ، اور پھر اگر وہ دشمن اتنا حسین دلکش ہو۔ پھر تو اس کے سلامت نکلنے کے چانس ختم ہوجاتے ہیں۔۔۔" وہ کمینگی سے اکشے سراپے کو سر سے لیکر پیر تک دیکھتا رہ گیا تھا۔
" ہنہ۔۔۔ یہاں سے تو میں ہر حال میں سلامت جاؤں گی۔ یہ بات تو یاد رکھنا۔ پر بتانے یہ آئ تھی میں کہ بہت جلد تیری موت میرے ہاتھوں واقع ہونے والی ہے۔۔۔" شعلہ نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا۔
" تو ہے کون۔۔۔۔؟؟" اس شخص کے حیرت کی کوئ انتہا نہی رہی تھی۔
" تیری موت۔۔۔" کہتے ساتھ ہی شعلہ نے اسکے پیر پہ گولی چلائ تھی۔ اور وہ چلاتا رہ گیا تھا۔ جب تک اسکے ملازم آتے وہ وہاں سے فرار ہوچکی تھی۔
" ہا۔۔۔ میری ٹانگ۔۔۔ حرام خوروں۔۔۔" وہ اپنے آدمیوں پہ چلایا تھا۔
" دیکھو کہاں چلی گئ ۔۔۔" وہ شخص کررہا ہوا اپنے آدمیون پہ حکم صادر کرنے لگا۔
چند آدمی ادھر ادھر شعلہ کو ڈھونڈنے بھاگے تھے۔ پر شعلہ انہیں کہیں نا ملی تو وہ واپس ناکام لوٹ آئے۔
☆☆☆☆
وہ وہاں سے جب واپس آئ تو خاموشی سے پسٹل اپنے کپڑوں میں دبا کر پر سکون ہوگئ تھی۔ ابھی شام کے سائے مکمل طور پہ نہی چھائے تھے۔ جب عالم بھی گھر آگیا۔
" آہ۔۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے۔" وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر چلائ تھی۔
میر عالم نے آئبرو آچکا کر اسے دیکھا۔
" کیسی بد تمیزی۔" انجان بننے کا ہنر تو انہیں ویسے بھی خوب آتا تھا۔
" میری پسٹل کہاں کر دی تم نے۔۔؟" وہ اسکے سر پہ کھڑی مستفسر ہوئ۔
" پسٹل کا لڑکیوں کے ساتھ کیا کام۔" میر عالم نے کتاب بند کرکے سائڈ ٹیبل پہ رکھی۔
" او ہیلو ذیادہ شوہر بننے کی ضرورت نہیں۔"۔ وہ ہاتھ اٹھا کر کہتی۔ میر عالم کو زہر لگی تھی۔
" شوہر ہی ہوں۔" اسنے سرد لہجہ میں کہا۔ وہ اسے خونخوار نظروں سے گھورتی۔ واپس ہر چیز الٹ پلٹ کر اپنی پسٹل ڈھونڈنے
لگی تھی۔
"فائدہ نہی ہے ڈھونڈنے کا ، کیونکہ تمہاری پسٹل اب کبھی تمہیں نہی ملنے والی۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
" عالم میری پسٹل دو۔۔۔" وہ بھڑک کر گویا ہوئ۔
" ٹھیک ہے۔ تو پھر پہلے بتاؤ کہاں گئ تھیں تم آج۔۔۔" عالم نے اپنی سرخ تنقیدی نظریں اس پہ گاڑھیں۔
" میں تمہاری پابند نہی ہوں۔۔۔" وہ چلائ۔
" تم میری ہی پابند ہو۔۔" لہجہ سخت اور انداز خطرناک تھے۔
" میرا پرسنل کام تھا۔۔۔" وہ دانت پیس کر گویا ہوئ۔
" جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے۔ تمہارا ہر پرسنل کام مجھ سے یا میرے بیٹے سے جڑا ہے۔ ہمارے علاوہ کیا پرسنل ہے۔۔۔۔؟ پلیز بتانا پسند کریں گی آپ۔۔۔۔" عالم نے درشتگی سے اسے تکا تھا۔ شعلا ناچاہتے ہوۓ بھی اسکی باز پرس پہ گھبرائ تھی۔
" یہ کونسی کتاب میں لکھا ہے ، کہ ایک انسان کی پرسنل لائف صرف اسکی فیملی تک محدود ہوگی۔۔۔" اسنے چہرے کے
تاثرات درست کرکے ، اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھ کر جواب دیا۔
" مجھے ادھر ، ادھر کے کوئ ہیلے بہانے نہی سننے ، شرافت سے بتاؤ تم کہاں گئ تھی۔۔۔؟؟" عالم اسکے مقابل آیا تھا۔ اور اسے بازو سے جکڑتا سرد تاثرات لیئے مستفسر ہوا۔
" کہیں نہی گئ تھی۔۔۔" وہ بھی اسکی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھ کر گویا ہوئ۔
" غلط کر رہی ہو تم یہ ، بہت غلط۔۔۔" عالم نے اسکا بازو مزید مضبوطی سے دبا کر شعلہ کو دیوار سے لگایا تھا۔ شعلہ سسک کر رہ گئ تھی۔
" میرا بازو چھوڑو۔۔۔" شعلا نے اپنی سرخ نظریں اسکی نظروں میں گاڑھ کر جیسے اسے وارن کیا۔
" کیوں گئ تھی تم وہاں۔۔؟؟" عالم اسکی بات ، نگاہیں، تاثرات سب نظر انداز کرتا جارہیت سے اسکے بازو کو جھنجھوڑتا مستفسر تھا۔
" تم کیا کہہ رہے ہو مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی۔۔۔" وہ سسک کر گویا ہوئ۔
" بس ۔۔۔ کردو جھوٹ بولنا سب پتا ہے مجھے کہ تم گئ کہاں تھی۔ اور کیا کر کہ آرہی ہو۔۔۔" عالم کی غصہ سے رگیں تن گئ تھیں۔
" پتا ہے تو مجھ سے کیوں ، باز پرس کر رہے ہو۔۔۔ میرا بازو چھوڑو۔۔۔" وہ بھی پھٹ پڑی تھی۔
" تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے کیا ، کیا ہے۔۔۔؟؟" وہ اس پہ مزید جھکا تھا۔
" مجھے مت بتاؤ ، مجھے اچھے سے پتا ہے کہ میں کیا کرکے آئ ہوں۔۔" وہ اسکی گرفت میں مچلی تھی۔
" کس ارادے سے گئ تھیں تم وہاں۔۔۔؟" وہ ایک ایک لفظ اپنے دانتوں تلے چباتا اس سے مستفسر تھا۔
" اچھے سے جان گئے ہو کہ کیوں گئ تھی۔ بدلہ لینے گئ تھی۔ اپنے ماں باپ کے اس قدر بے دردی سے کیئے گئے قتل کا بدلہ۔۔۔!!
میری آدھی زندگی خراب کر دینے کا بدلہ۔۔۔" وہ چلائ تھی۔
" بدلہ۔۔۔!!
اسی لیئے میں نہی چاہتا تھا۔ کہ میرا بیٹا تمہارے ساتھ اٹیچ ہو۔ اس سے تو بہتر تھا۔ کہ اسے کوئ آیا ہی سنمبھال لیتی۔
عارض کو دیکھو۔۔۔!!
کتنا چھوٹا ہے ، تمہیں کیا لگتا ہے۔ اسکو ختم کرنے کے لیئے کتنی گولیاں کافی ہونگی۔ میرے خیال سے تو ایک ہممم ، سہی کہہ رہا ہوں ناں میں۔ ایک گولی اور کام ختم ، زندگی ختم۔۔۔!!
مر جائے گا عارض۔۔ وہ بھی۔۔۔ صرف ایک گولی سے۔۔" عالم نے اسے دیکھتے بے دردی سے کہا۔
" عالم۔۔۔۔" وہ تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔ اپنے چھوٹے سے بیٹے کے لیئے ایسے الفاظ سن کر۔
" برداشت نہی ہوا ناں۔۔ !!
مار دیں گے وہ اسے ، جس دن انہیں پتہ چل گیا۔ سب سے پہلے ہمیں تکلیف دینے کے لیئے اسے ہی مار دیں گے۔۔ " عالم نے اسے کچھ ہوش دلانا چاہا۔
عالم کی گرفت اسکے کندھوں پہ ڈھیلی پڑی تو وہ عارض کو دیکھتی اپنی جگہ لڑکھڑا کر ہی تو رہ گئ تھی۔ عالم نے سچ ہی تو کہا تھا۔ اگر انہیں عارض کا پتہ چل گیا ، تو وہ سب سے پہلے اسکے چھوٹے سے بچے کو اپنا ٹارگٹ بنآئیں گے۔
" تمہارا پتہ لگانا اتنا مشکل نہی ہے اب۔ سمجھنے کی کوشش کرو۔۔ پلیز۔۔۔ میں نہی چاہتا ہمارا بچہ ہمیں کھو دے ، یا پھر ہم اسے۔۔۔" عالم کے الفاظ تھے یا خنجر۔۔۔!!
وہ گہری سانسیں لیتی دھیرے دھیرے اپنے بیٹے کے قریب آئ تھی۔ اور اسکے سوئے چہرے پہ دھیرے سے ہاتھ پھیرا تھا۔
" میرا۔۔۔ بچہ۔۔۔" اسے اپنی غلطی کا اندازہ ہوچکا تھا۔ وہ اسکے چھوٹے سے وجود کو دیکھ سسک پڑی تھی۔ ہاں وہ جو کہہ رہا تھا۔ وہ سچ تھا۔ وہ حقیقت تھا۔ یہ سب تو وہ انتقام کی آگ میں جلتے سوچ ہی نا سکی۔
" اس نے جو تمہارے ساتھ ، تمہارے ماں باپ کے ساتھ کیا۔ اسکا حساب اس سے اللہ لیں گے۔ تم اور میں کون ہوتے ہیں۔ بدلہ لینے والے۔۔۔" عالم نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تھا۔ شعلا نے ایک نظر عالم کو دیکھا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ عالم نے اسکے قریب بیٹھ کر اسکے چہرے کو تھاما۔
" شعلہ پلیز ، رونے سے کچھ نہی ہوگا۔ اب تمہیں کچھ دن احتیاط کرنی ہوگی۔ عارض کا سایہ بن کر رہنا ہوگا۔ میں تب تک کچھ نا کچھ کرتا ہوں۔" عالم نے اسے دھیرے سے اپنے سینے سے لگایا تھا۔
شعلہ نے عالم کو خود سے دور جھٹکا تھا۔
" مجھ سے ایک غلطی ہوگئ ہے۔ تو اسکا مطلب یہ نہی ، ہے کہ تم مجھے سے فری ہونے لگو۔۔۔" وہ اپنا چہرہ تھپتھپاتی۔ اٹھی تھی۔ عالم سر نفی میں ہلا کر رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" اسفند تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔؟؟ میں نے تم سے کہا تھا۔ کہ پلیز مت بتانا شعلہ کو کہ میں بھی تمہارے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔۔۔ وہ مجھ سے ناراض ہوگئ ہے۔۔۔" وہ تڑپ کر گویا ہوئ۔
" ناراض ہے تو ہونے دو۔ پر یہ ہماری زندگی ہے اور ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ تو پھر کوئ دوسرا ، تیسرا کیا معنی رکھتا ہے۔۔" اسفند نے اسکا ہاتھ تھام کر کہا۔
" اسفند۔۔۔ وہ میری بہن ہے۔ بھلے اسکا اور میرا خون کا رشتہ نہی ہے۔ پر ہمارا رشتہ احساس کا ہے۔ محبت کا ہے۔۔" شہلا نے اسکے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ کھینچے۔
" ٹھیک ہے پھر تم بیٹھی رہو، جب تک تمہیں شعلا بھابھی معافی نہی دے دیتیں۔ ایسے ہی بیٹھ کر روتی رہو۔۔" اسفند نے چڑ کر کہا۔
" جب تک وہ اپنی ناراضگی ختم نہی کرے گی۔ میں تمہارے ساتھ اپنی نئ زندگی کی شروعات نہی کرونگی۔۔۔" شہلا نے سنجیدگی سے کہا۔
اسفند نے اسکے رونے کے باعث سرخ چہرے کو تکا۔ اور گہری سانس لیکر اسکے قریب آیا تھا۔
" میں بھی تم پہ کسی بھی معاملے میں مزید زبردستی نہی کرنا چاہتا۔ تم اس وقت ہمارے رشتے کی نئ شروعات نہی چاہتی۔ تو ٹھیک ہے۔ نہی ہوگی نئ شروعات۔ پر پلیز خود کو رو رو کر ہلکان مت کرو۔ تمہیں اس حال میں دیکھ کر مجھے تکلیف ہوتی ہے۔۔۔" اسفند نے نرمی سے کہا۔
" ہمم۔۔" شہلا نے دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا تھا۔ اسفند اسکا سر دھیرے سے اپنے کندھے پہ رکھا تھا۔ اور اسکے گرد اپنا مضبوط بازو ہائل کر گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" حیدر میں نے سارا سامان پیک کر لیا ہے۔" ساوری نے صوفہ پہ حیدر کے برابر بیٹھتے کہا۔
" گڈ پھر کل ہم اپنے اصل گھر چلے جائیں گے۔" حیدر نے اسے کھینچ کر اپنے ساتھ لگا کر بٹھایا تھا۔
" میں بہت ایکسائٹڈ ہوں۔ فائنلی ہم اپنی زندگی شروع کرنے جا رہے ہیں۔۔" ساوری نے حیدر کے سینے میں منہ ڈال کر گہری سانس لیکر کہا۔ حیدر اسکی ادا پہ مسکرایا تھا۔
" بھئ میں تو اپنی زندگی پہلے ، ہی شروع کر چکا ہوں۔ تم نے ہی تاخیر کی ہے۔۔" حیدر نے اسکے رخسار پہ اپنی ناک رگڑی تھی۔
" پر میں تو خوف زدہ تھی ناں ، کہ کہیں آپ مجھ سے دور نا ہوجائیں۔۔۔" وہ دھیرے سے منمنائ تھی۔
" میں تمہیں کبھی چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہی نہی تھا۔ پہلے دن سے میرے ذہن میں یہی تھا۔ کہ میں ہمیشہ تمہیں اپنے نکاح میں رکھوں گا۔ اپنی بیوی بنا کر۔۔۔" حیدر نے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں نرمی سے جکڑا تھا۔ وہ اسکا اور اپنا ہاتھ ایک ساتھ دیکھ دھیرے سے مسکرائ تھی۔
" ایسا لگتا ہے۔ جیسے خواب دیکھ رہی ہوں۔ ابھی آنکھ کھولوں گی۔ اور سب ختم ہوجائے گا۔ ٹوٹ کر بکھر جائے گا سب کچھ۔۔۔" اسنے سر ذرا سا اوپر اٹھا کر حیدر کو تکا تھا۔
حیدر اسے بے خودی میں کئ لمحے یونہی تکتا رہا۔ اور پھر دھیرے سے اسکی سانسوں کو اپنی سانسوں سے مہکا گیا تھا۔ وہ اسکی جسارت پہ سر سے لیکر پیروں کے ناخن تک سرخ ہوئ تھی۔ حیدر اسکے شرمانے پہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔
" you know what babe.... Your simplicity is your beauty,You are not pretentious like others,Maybe that's why I fell in love with you۔۔۔"
وہ جذب سے کہتا ، اسکے ہاتھ کی پشت پہ اپنے لب دھر گیا تھا۔
" مجھے اپنا آپ بہت معتبر لگنے لگا ہے۔۔۔" وہ نم لہجہ میں کہتی اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ وہ اسکی بات پہ مسکرایا تھا۔
" تم معتبر ہو۔۔" اسکے لہجہ میں محبت ہی محبت تھی۔
" اور مجھے معتبر آپ نے بنایا ہے۔۔" وہ عقیدت سے گویا ہوئ۔
" نہی تم معتبر تھیں ، تمہارے ساتھ نے مجھے بھی معتبر بنا دیا ہے۔۔" وہ اسکے مکھڑے کو تکتا ہولے سے مسکرایا تھا۔
" آپ درفشاں کو چھوڑ کر اداس تو نہی۔۔۔۔ ہیں۔۔؟؟" اسنے ڈر کر پوچھا۔
" نہی۔۔۔" حیدر نے نرمی سے جواب دیا۔
" آپ بھی کیا سوچتے ہونگے۔ میری وجہ سے آپکا اتنا پرانا رشتہ خراب ہوگیا۔۔" وہ اسکی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتی گویا ہوئ۔
" نہی میں ایسا نہی سوچتا۔۔۔" حیدر نے نفی کی۔
" میری وجہ سے آپکی زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ آئے ناں۔۔۔" ساوری نے اپنی ٹھوڑی اسکے سینے پہ ٹکا کر اسکے چہرے کو تکا تھا۔ وہ اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا اور پھر مسکرا کر گویا ہوا۔
" تم تو کسی دعا کی مانند ہو ساوری۔۔۔!!" حیدر نے دھیرے سے اسکی ناک دبا کر کہا۔
" وہ کیسے۔۔۔۔؟؟" وہ حیران ہوئ تھی۔
" وہ ایسے کہ تم میری زندگی میں ، خوشیوں کی کنجی بن کر آئ ہو۔ تم نے مجھے اولاد دی ، تم نے مجھے پیار دیا ، تم میرے جینے کی وجہ بن گئ۔۔۔" حیدر نے مخموریت سے کہا۔
ساوری منہ کھول کر اسے کئ لمحوں تک تکتی رہی۔ اور پھر دھیرے سے مسکائ تھی۔
" آپ کو پتہ ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنے نصیب سے شکوے رہے۔ کہ مجھے کچھ اچھا نہی ملتا۔ پر ۔۔۔۔ اب ایسا لگتا ہے کہ جو سب سے اچھا تھا۔ وہ ملنے کی تیاری تھی۔ ان عام سی چیزوں کا نا ملنا۔۔۔" ساوری نے مسکرا کر کہا۔ حیدر نے جھک کر اسکے ماتھے پہ عقیدت بھر بوسہ دیا۔ اور ساوری محبت سے اسکے گرد اپنے بازو باندھ گئ تھی۔
نازنین ترکی جانے کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ آج رات ایک بجے کی انکی فلائٹ تھی۔ نازنین کپڑ ے پیک کر رہی تھی۔ مصطفی اوند ھے منہ بستر پہ پڑا تھا۔ آ نے وا لے ہنگا مے کا سوچ کر ہی اسکا حال برا ہورہا تھا۔ نازنین کی آواز اسے سوچوں کے گرداب سے باہر لائ تھی۔
" تم کتنے سکون سے پڑے ہو تمہیں زرا کوئ ہوش ہے کہ ، ہمیں کچھ گھنٹے بعد نکلنا ہے۔" وہ اسے پرسکون پڑا دیکھ چڑ کر گویا ہوئ۔
" اسی بات کی تو ساری ٹینشن ہے۔" وہ مرے ہوئ لہجہ میں گویا ہوا۔
" تم پاگل ہو فالتو کی ٹینشن نا لو ، میں کہہ رہی ہوں ناں کسی کو پتہ بھی نہی چلے گا۔ اور ہم ترکی میں بیٹھے ہونگے۔۔" نازنین نے چہک کو کہا۔
" اور جب ہم ان سب کو نہی ملیں گے۔ اور یہ سب پریشان ہونگے اسکا کیا۔۔۔؟؟" مصطفی نے اسے کچھ ہوش دلانا چاہا۔
" ارے تم وہ ٹینشن لینا بند کر دو ، اسکا بھی میں نے جگاڑ کر کے رکھا ہے۔۔۔" وہ لب دبا کر گویا ہوئ۔
" کیا جگاڑ کیا ہے۔۔۔؟؟" وہ پوچھے بنا نا رہ سکا۔
" سوچو ۔۔۔۔۔ سوچو۔۔۔۔" نازنین اسے اشتیاق میں ڈالتی ، بیگ کی زپ بند کرنے لگی تھی۔
" تم مجھے سوچنے کو کہہ رہی ہو ، ہنہ میرے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں ہی سلب ہوچکی ہیں۔" اسنے بیڈ پہ سیدھے بیٹھتے کہا۔
"کیا یار کسی کام کے نہی تم ، بس باتیں بگھار نے میں ماہر ہو تم۔۔۔" نازنین نے جل کر کہا۔
" اب بتا بھی دو۔۔۔" مصطفی نے اپنی گود میں تکیہ دبایا۔
" دیکھو ہم خاموشی سے نکل جائیں گے۔ پیچھے کوئ ہمارے لیۓ پریشان نا ہو تو ، اسکے لیۓ میں نے ایک لیٹر لکھ کر میڈ کو در دیا ہے۔" نازنین نے چہک کر بتایا۔
مصطفی کی بھوںیں داد د ینے کی ساخت میں ڈھلی تھیں۔ نازنین اپنے بار جھٹک کر اپنے کارنا مے پہ ایک ادا سے مسکرائ تھی۔ مصطفی کچھ پرسکون ہوگیا تھا۔
٭٭٭٭٭
رات کے ساڑ ھے گیارہ بج رہے تھے۔ کیب والا باہر کھڑا تھا۔ مصطفی اور نازنین چھپ ، چھپ کر سارا سامان لیکر باہر گاڑی میں رکھ کر نکل گۓ تھے۔ وہ دونوں کیب میں بیٹھے تھے۔ اور دونوں کے لبوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
" دیکھا میں نے کہا تھا ، ناں اتنا بھی مشکل نہی جتنا تمہیں لگ رہا ہے۔۔۔" نازنین نے چہک کر کہا۔
" ہاں سہی کہا تھا تم نے ، پر مجھے یہ سوچ کر ہنسی آرہی ہے کہ جب ان دونوں کو یہ پتہ چلے گا ، کہ ہم دونوں اتنے ٹائم سے ڈرامہ کر رہے تھے۔ تو ان پہ کیا بیتے گی۔۔۔۔۔۔" وہ ناچاہتے ہوۓ بھی ہنسا تھا۔
" کیا بیتے گی یہ چھوڑو ، یہ سوچو صدمہ کتنے دن تک رہے گا۔ " نازنین اپنا سر گاڑی کے شیشے سے ٹکا کر باہر کے چلتے منظر کو دیکھنے لگگی تھی۔
" ہمارے واپس آنے تک تو ختم ہو ہی جاۓ گآ۔۔۔" مصطفی نے ہلکا سا قہقہ لگا کر کہا۔
" بھابھی تو تم سے بہت ناراض ہونے والی ہیں۔۔" نازنین نے اپنا سر اسکے کندھے پہ ٹکایا تھا۔
" ہاں بیا مجھ سے بہت ناراض ہوگي ، بلکہ مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ تو میری شکل بھی نہی دیکھنا چاہے گی۔۔۔۔۔" مصطفی نے گہری سانس حارج کی۔
" اٹس اوکے ہم دونوں انہیں مل کر منا لیں گے۔۔۔" نازنین نے اسکی شرٹ کے بٹنوں سے چھیڑ خانی کرتے کہا۔
" پتہ نہی وہ راضی ہوگی بھی کہ نہی۔۔۔" مصطفی نے پریشانی سے کہا۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ وہ مان جائیں گی۔" نازنین نے پرسوچ لہجہ میں کہا۔
" اور تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے۔۔۔؟؟" مصطفی پوچھے بنا نا رہ سکا۔
" کیونکہ میں نے یہ بات نوٹ کی ہے کہ انکو مجھ سے ، کوئ پرسنل پروبلمز نہی ہیں۔ وہ مجھ سے ٹپکل نندوں یا پھر بھابھیوں و ا لے گرجس نہی رکھتیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے انکے یہ سب کرنے کی وجہ کچھ اور ہے۔ جو فلحال مجھے سمجھنے میں دکت آرہی ہے۔۔۔" نازنین کا انداز کچھ اور تھا۔
" آئ وش ایسا ہی ہو ، جیسا تم سوج رہی ہو۔۔۔" مصطفی نے اسکا ہاتھ محبت سے تھاما تھا۔ وہ مسکا کر سکون سے آنکھیں موند گئ تھی۔
٭٭٭٭٭
شعلہ کروٹ پہ کروٹ لیکر تھک چکی تھی۔ پر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اسنے مڑ کر اپنے بیٹے کو دیکھا۔ جو پرسکون نیند سو رہا تھا۔ وہ اسے یک ٹک محبت سے تکتی مسکرائ تھی۔ دھیرے سے اسکے چہرے پہ ہاتھ پھرتی وہ آنکھیں موند گئ تھی۔ یہ ننھا سا وجود اسکی کمزوری بن کر رہ گیا تھا۔ اسنے آج تک جو بھی کیا تھا ، انجام کی فکر سے آزاد ہوکر کیا۔ جب بھی کسی پہ وار کیا ، سامنے سے کیا ، دشمن کے غار میں جاکر اسے ہمیشہ گھیرا۔
" تم سوئ نہی ابھی تک ، کوئ پریشانی ہے۔۔" وہ جو خود بھی ٹینشن کے باعث سو نی پا رہا تھا۔ اسے جاگتا دیکھ اٹھ کر بیٹھا تھا۔
" نیند نہی آرہی ، اگر انہوں نے میرے بیٹے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو میں ان تمام لوگوں کی جان لے لوں گی۔۔۔۔" وہ بھی اٹھ بیٹھی تھی۔
" یہ سب تو تمہیں پہلے سوچنا چاہیۓ تھا۔ اب کیا فائدہ یہ سب سوچنے کا۔۔۔۔"
عالم کی بات پہ اسنے سرد نظروں سے عالم کو تکا تھا۔
" میں تمہیں آخری بار کہہ رہی ہوں ، مجھے ان دیکھے گلٹ میں ڈالنا بند کرو۔۔۔۔۔" وہ بھڑکی تھی۔
" یہ گلٹ میری وجہ سے نہی ہے۔ یہ گلٹ تمہارے اندر کا ہے جو تمہیں سونے نہی دے رہا۔۔۔" وہ اسے دیکھتا سنجیدگی سے گویا ہوا۔
" اچھا ۔۔۔۔!!!
چلو مان لیکا میں گلٹ کے باعث نہی سو پا رہی ، تو تم کیوں جاگ ر ہے ہو۔۔۔؟ تمہیں کس بات کا گلٹ ہے بتانا پسند کروگے۔۔۔"وہ اسے خونخوار نظروں سے گھور رہی تھی۔
" ہاں میں بھی نہی سو پا رہا ، پر میں فکر مند ہوں تمہارے لیۓ عارض کے لیۓ۔۔" وہ اپنا سر مسل کر گویا ہوا۔
" اوہ پلیز میرے لیۓ ، پریشان ہونے کا ڈرامہ کرنے کی کوئ ضرورت نہی۔۔۔" وہ جل کر گویا ہوئ۔
" میں کوئ ڈرامہ نہی کر رہا میں سچ میں تم دونوں کے لیۓ پریشان ہوں۔۔" عالم نے اسے یقین دلانا چاہا۔
" میرے لیۓ پریشان ہونے کی کوئ ضرورت نہی ہے، میں اپنے لیۓ خود پریشان ہو سکتی ہوں۔۔" وہ اسے جھڑکتی کمفرٹر سر تک تان گئ تھی۔ عالم اسکی بد گمانی پہ نفی میں سر ہلا کر رہ گيا تھا۔
وہ لوگ صبح کا اجالا لگنے سے پہلے ہی ترکی پہنچ گئے تھے۔ استنبول میں لینڈ کرنے کے بجائے وہ لوگ کیپیڈوکیا (cappadocia) گئے تھے۔ انکا وہاں گھوم کر پھر استنبول جانے کا ارادہ تھا۔ نازنین کا تھکن سے برا حال تھا۔ وہ ہوٹل روم میں آتے ہی اوندھے منہ بستر پہ گری تھی۔ تھکن سے برا حال تو مصطفی کا بھی تھا۔ وہ بھی اوندھے منہ پڑا تھا۔ خیر ابھی اس وقت تو انہیں کہیں جانا نہی تھا۔ بس فریش ہوکر آرام کرنا تھا۔ اور اگلے دن سے ترکی کو ایکسپلورر کرنا تھا۔
" مصطفی جاؤ تم فریش ہوجاؤ۔ پھر میں بھی فریش ہوجاؤں گی۔ بس پھر لمبی تان کر سو جائیں گے۔۔۔" نازنین نے مصطفی کا کندھا ہلا کر اسے فریش ہونے کو کہا۔
" نہی پہلے تم فریش ہوجاؤ ، پھر میں فریش ہوجاؤں گا۔ ابھی میری بلکل ہمت نہی ہے۔۔۔" مصطفی نے سستی سے کہا۔ اور ساتھ ہی جمائ لیتا آنکھیں موند گیا۔ اسے جمائ لیتا دیکھ نازنین کو بھی جمائ آئ۔ وہ بھی جمائ لیکر سستی سے آنکھیں موند گئ۔ سفر کی تھکان کے باعٹ وہ دونوں اوندھے منہ پڑے دنیا وما فیہا سے بیگانے پڑے تھے۔ وہ دونوں سوئے تو بس سوتے ہی رہ گئے۔ نئے دن کا سورج سر پہ آن کھڑا تھا۔
ادھر شعلہ اور عالم کو ملازمہ نے انکا دیا خط دیا تھا۔ شعلہ کو جب پتا چلا تو وہ کئ لمحے یونہی بیٹھی رہی۔ اور عالم کا تو حیرت سے برا حال تھا۔
" یہ ان دونوں نے تماشہ کیا لگا رکھا ہے۔ ابھی کل تک جنگلیوں کی طرح لڑ رہے تھے۔ اور آج دونوں ایسے بغیر بتائے ، ترکی ویکیشن پہ چلے گئے۔۔۔" عالم نے کندھے جھٹک کر حیرت کا اظہار کیا۔
" کتنا عجیب دور ہے ناں۔۔!!
کوئ کسی کا نہی ہے۔۔" شعلہ نے پھیکے لہجہ میں کہا۔
" کیوں کیا ہوا۔۔۔؟؟ تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔۔۔؟؟" میر عالم کو اسکے انداز و اطوار کچھ عجیب لگے۔
" کچھ نہی۔۔۔" دو لفظی جواب دیا گیا۔
وہ دونوں ناشتہ کرنے بیٹھے تھے۔ عارض کو ملازمہ لیکر بیٹھی تھی گود میں۔ شعلہ ایک نظر عارض پہ ڈال کر اسے بھی دیکھ رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ ناشتہ بھی کر رہی تھی۔
" اگر عارض تھوڑا سا بڑا ہوتا تو ہم بھی ویکیشن پہ چلتے۔۔۔" میر نے اسکے بگڑے تیور دیکھ کر کہا۔
" Excuse me...!!"
شعلہ نے اسے آنکھیں دکھائیں۔ جیسے کہہ رہی ہو ، فری ہونے کی ضرورت نہی۔ عالم نے اسکے انداز پہ با مشکل اپنی امڈتی مسکراہٹ کو دبایا تھا۔
" کیا میں نے کچھ غلط کہا ہے۔۔۔؟؟" عالم نے انجان بنتے پوچھا۔
" صرف غلط نہی بہت غلط کہا ہے۔۔۔" وہ اسے گھور کر گویا ہوئ۔
" پر میری بات میں غلط تھا کیا۔۔۔؟؟ میر عالم نے اسے تپانے کو بات کو مزید بڑھانا چاہی۔
" بات میں غلط کیا تھا۔ یہ مت پوچھو ، یہ پوچھو کہ تمہاری بات میں صحیح کیا تھا۔" وہ اپنے بال پیچھے جھٹک کر گویا ہوئ۔
" میری بات اتنی بھی غلط نہی تھی۔ کیا فیملی کے ساتھ لوگ ویکیشن پہ نہی جاتے۔۔۔؟" عالم نے اسے بظاہر دیکھ کر پوچھا۔
" جاتے ہیں ، پر اپنی فیملی کے ساتھ ، اور میں تمہاری فیملی نہی ہوں۔۔۔" وہ چائے کا کپ لبوں سے لگا گئ تھی۔
" اچھا تم میری فیملی نہی تو پھر فیملی کون ہے ۔۔۔؟" میر عالم نے اسکا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔
" مجھے نہی پتہ کون ہے تمہاری فیملی پر ، کم از کم میں تمہاری فیملی کا حصہ نہی ہوں عالم۔۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتی ، اسکے ہاتھ سے اپنا ہاتھ آزاد کروا گئ تھی۔
" تمہیں ایسا کیوں لگتا ہے۔ کہ تم میری فیملی نہی ہو۔۔۔؟؟" عالم نے گہری سانس لے کر پوچھا۔
" جانتے ہو فیملی ہوتی کیا ہے۔ فیملی اس لیئے ہوتی ہے۔ کہ ایک گھر میں رہنے والے چند افراد ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔ ہر مشکل میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں۔ ایک دوسرے کی ہر مشکل میں کسی ڈھال کی مانند ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں۔ جیسے ایک فیملی ایک دوسرے کی خوشیوں پہ پورا حق رکھتی ہے۔ ویسے ہی ایک دوسرے کی تکالیف کو بھی اپنا سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ پر ہمارا تعلق اس سب سے بہت الگ ہے۔ بہت مختلف ہے۔۔۔" وہ رساں سے کہتی اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔
عالم اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔ اس کو زندگی کی طرف لانا بہت مشکل تھا۔ اس بات کا تو میر عالم کو اچھے سے اندازہ تھا۔ شعلہ عارض کو لیکر لاؤنج میں صوفہ پہ جاکر بیٹھی تھی۔
" تم جو بھی کہو ، پر اب ہماری خوشی اور غم دونوں ایک ہیں۔۔۔" وہ بھی اسکے پیچھے آیا تھا۔ اور صوفہ پہ رکھا اپنا کوٹ اٹھا کر پہنا تھا۔
" غلط فہمیوں کا علاج پھر بھی مل ہی جاتا ہے۔ پر خوش فہمیاں کیسے ختم ہوں۔۔۔" اسنے اک ادا سے کہا۔
" ہمم بلکل میں تمہاری بات سے سو فیصد متفق ہوں۔۔" کوٹ کے سامنے والا بٹن بند کرتا وہ دلکشی سے مسکرایا تھا۔ اور اسکے قریب آکر جھک کر پہلے عارض کو پیار کیا۔ اور پھر اسکے ماتھے پہ عقیدت سے بوسہ دیتا پیچھے ہوا تھا۔ شعلہ اسکے لمس پہ ہمیشہ کی طرح اپنی دھڑکنے ہی گنتی رہ گئ تھی۔ اسکی قربت اسکا لمس ، شعلہ کے گرد ایک جادو سا کر جاتا تھا۔ اور وہ اسکے لمس کے جادو میں جکڑی یک ٹک اسے دیکھتی رہ جاتی۔ وہ اسے اپنی جگہ منجمد ہوتا دیکھ مسکرایا تھا۔
"اللہ حافظ۔۔" سنجیدگی سے کہتا ، وہ نکل گیا تھا۔ اور شعلہ اسکی خوشبو اب بھی اپنے ارد گرد محسوس کر رہی تھی۔
☆☆☆☆☆
دوپہر کہیں دو بجے کے قریب وہ لوگ جاگے تھے۔ دونوں فریش ہوکر ہوٹل سے باہر ایک اوپن ائیر ریسٹورنٹ میں آکر لنچ کر نے بیٹھے تھے۔ نازنین نے پیروں کو چھوتی ہلکے نیلے مگر چھوٹے پھولوں والی فراک پہنی تھی۔ بالوں کو کھلا چھوڑا تھا۔ اور کانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹاپد پہنی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ مصطفی نے وائٹ ٹی شرٹ اور جینز پہنی تھی۔ ریسٹورنٹ کو پھولوں سے سجایا گیا تھا۔ خوبصورت سی سفید کرسیاں اور ان کرسیوں کے بیچ گول ٹیبل دھرا تھا۔ نازنین موبائل ہاتھ میں پکڑے ارد گرد کے مناظر کیپچر کر رہی تھی۔ مصطفی ریلیکس سا بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
" بیا گھر تو چھوڑ کر نہی چلی گئ ہوگی۔۔۔؟؟" مصطفی نے پریشانی سے پوچھا۔
" آہاں نہی ۔۔" وہ موبائل بند کرکے ٹیبل پہ رکھ کر گویا ہوئ۔
" ناراض تو ہوگئ ہوگی مجھ سے بیا۔۔۔" وہ اداسی سے گویا ہوا۔
" ہاں ہوئ ہونگیں۔ پر میرے خیال سے یہ ویکیشن ہم سے زیادہ اب دونوں کو سپیس دے گا۔یہ ویکیشن ہم سے زیادہ انکے لیئے ضروری تھا۔۔۔" نازنین نے پاؤٹ بنا کر مصطفی کو تکا۔
" شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔" مصطفی اسے کیوٹ ، کیوٹ شکلیں بناتا دیکھ مسکرایا تھا۔
" اوکے کھائیں گے کیا۔۔۔؟؟" وہ ٹھوڑی کے نیچے اپنا ہاتھ ٹکا کر مستفسر ہوئ۔
" کرتے ہیں کچھ اچھا سا آڈر۔۔۔" مصطفی نے مینیو کارڈ کھولا۔
ویٹر کو مصطفی نے بلایا تو وہ وہاں آیا تھا۔ ویٹر ایک نو عمر ترکش لڑکا تھا۔ دبلا پتلا ، لمبا قد ، گوری اور سرخ رنگت۔۔۔!!
" اس علاقے کی اسپیشل ڈش کیا ہے۔۔۔؟؟" مصطفی نے انگریزی میں پوچھا۔
" سر پوٹری کباب۔۔۔!!" ویٹر نے مسکرا کر بتایا۔
" اوکے اور یہ پوٹری کباب ہوتا کیسا ہے۔۔۔؟؟" مصطفی پوچھے بنا نا رہ سکا۔
" سر پوٹری کباب مڈ کے گلاس میں بنتا ہے۔ اور اسکے اندر دمبہ کا گوشت یا پھر بکرے اور چکن کا بھی آپ کو مل جائے گا۔جس میں کچھ سبزیاں بھی ڈپ
لتی ہیں۔جیسے پیاز ، ٹماٹر وغیرہ۔۔۔" اسنے ڈش کو describe کیا۔
" اوکے پھر ایسا کرو ، پوٹری کباب ہی لے آؤ دو۔۔" مصطفی نے اسے آڈر دیا۔ ویٹر سر ہلا کر چلا گیا۔
مصطفی نازنین کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔
" میں سوچ رہا ہوں کہ اب یہاں تک آ ہی گئے ہیں تو ، باقی باتوں کی فکر چھوڑ کر ہم دنوں اپنے ویکیشن پہ فوکس کریں۔۔۔" وہ اسے دیکھتا شرارت سے گویا ہوا۔
" بلکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم ، ہمیں اپنے ویکیشن پہ فوکس کرنا چاہیئے۔۔۔" وہ اسکی بات کا مطلب سمجھے بغیر ہی چہک کر گویا ہوئ۔
" ہاں ناں اب تم دیکھنا ، ہم جب تک اس ویکیشن سے واپس لوٹیں گے ناں۔۔!! تو میری کوشش یہ ہوگی کہ ہم دو سے تین ہوجائیں۔۔" مصطفی نے معنی خیزی سے کہا۔
" ہیں۔۔۔!!
ہم دو لوگ آئے ہیں۔ تو ہم دو سے تین کیسے ہونگے۔۔۔؟؟" وہ اسکی بات پہ بھونچکا گئ تھی۔
" اس بات کی ٹینشن تم مت لو ڈارلنگ۔۔" مصطفی نے آنکھ مار کر کہا۔
" تمہیں بلکل شرم نہی آتی مصطفی۔۔۔۔" وہ اسکی بات سمجھتی حیا سے سرخ پڑتا چہرہ جھکا کر ایک ایک لفظ چبا کر گویا ہوئ۔
" نہی۔۔۔ اس میں شرم کی کیا بات ہے۔۔۔!!
لوگ شادی کیوں کرتے ہیں ، فیملی بڑھانے کے لیئے ناں۔۔۔" مصطفی نے اسے چاہت سے دیکھا۔
" اچھا ، اچھا بس اب اس سب کے بارے میں بات کرنا بند کرو۔۔۔" وہ پزل ہو رہی تھی۔
" یار ایک تو تم ناں اچھے خاصے موڈ کا بیڑا غرق کر دیتی ہو۔۔۔" مصطفی نے خفا ہونے کی اداکاری کی۔
" بس اب زیادہ بننے کی ضرورت نہی ہے۔۔۔" وہ اسے موڈ خراب کرتا دیکھ ڈانٹ گئ تھی۔ وہ منہ کے زاویے درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
" حیدر آپ اسے سنبھالیں ، میں کھانا بنا لوں دیر ہورہی ہے۔۔۔" وہ آئرہ کو حیدر کی گود میں ڈالتی خود کچھ کی جانب بھاگی تھی۔
حیدر اسکی جلد بازی پہ سر نفی میں ہلا کر رہ گیا تھا۔
" میں تمہیں ہزار بار کہہ چکا ہوں ساوری ، گھر کے کام ملازموں سے کروا لیا کرو۔ اور تم بس اپنا اور آئرہ کا خیال رکھا کرو یار۔۔۔" وہ ذرا اونچی آواز میں گویا ہوا۔
" تو کیا ہوگیا حیدر۔۔۔!! اب یہ تو رونا دھونا کبھی بند نہی کرتی تو اسکا مطلب کیا ہے۔ میں اپنی باقی زمداریوں سے منہ موڑ لوں۔" اسکی مصروف سی آواز باہر بر آمد ہوئ۔
" تمہارا کچھ نہی ہوسکتا۔۔۔" حیدر نے سر نفی میں ہلا کر کہا۔
" آپ کو پتہ تو ہے۔ امی کو ملازموں کے ہاتھ کا کھانا بلکل پسند نہی ، اور آپ ہیں کہ۔۔ وہ بیچاری ویسے بھی کتنا سیکریفائز کر چکی ہیں۔ ہم لوگوں کے لیئے۔ میں نہی چاہتی کہ اب ان کو ہماری وجہ سے پرابلم ہو۔۔" وہ سالن میں چمچ چلاتی گویا ہوئ۔
" اوکے ، اوکے چلو پھر جلدی بناؤ کھانا بھوک تو مجھے بھی بہت زور کی اور شدید لگی ہے۔۔" مصطفی نے مسکرا کر کہا۔
" بس ابھی بننے ہی والا ہے۔۔" وہ گندے ہوئے برتن بھی ساتھ ساتھ دھونے لگی۔
" تم برتن چھوڑو ، وہ میں دھو دیتا ہوں۔ تم آئرہ کو لو۔۔۔" وہ اٹھ کر اسکے پاس کچن میں آیا تھا۔
" ارے نہی آپ کیوں دھوئیں گے برتن ، میں کس لیئے ہوں۔ میں دھوؤں گی ناں۔۔۔" وہ برا منا گئ۔
" کیا ٹیپکل حرکتیں کر رہی ہو۔ میں دھوؤں برتن یا تم کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔؟؟" حیدر نے اسے گھور کر کہا۔
" میں نہی چاہتی آپ مجھ سے کبھی تنگ آئیں۔ میری حیثیت کیا تھی آپکی زندگی میں ، اور آپ نے مجھے کیا مقام دے دیا یہ تو میں کبھی نہی بھلا پاؤں گی۔۔۔" ساوری نے ہونٹوں پہ پیاری سی مسکان سجا کر کہا۔
" میں تم سے کیوں تنگ آؤں گا بھلا۔۔۔!!
اور میں نے تمہیں کوئ مقام نہی دیا۔ تمہارا اپنا ایک مقام تھا ، ہے ، اور ہمیشہ رہے گا۔ تم انمول تھیں ، تم انمول ہو ، اور تم ہمیشہ انمول رہو گی۔۔۔" حیدر نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر کہا۔ ساوری کی آنکھیں لمحوں میں بھیگیں تھیں۔
" آپ بہت اچھے ہیں۔ حیدر مجھ سے ہی آپکو سمجھنے میں غلطی ہوگئ تھی۔۔" وہ نم کپکپاتے لہجہ میں گویا ہوئ۔
" تمہیں پتہ ہے اچھا مرد بھی تب تک ہی اچھا ہوتا ہے۔ جب تک اسکی زندگی میں موجود اسکی محرم عورت اچھی ہو۔ پر جس دن وہ عورت اپنا مقام خود بھلا دے۔ اور اسے شوہر، بچوں سے زیادہ باقی دنیا پیاری ہوجائے تو میرے جیسے مرد بھی ایسی عورتوں سے بیزار آنے لگتے ہیں۔" وہ کہتے کہتے ایک پل کو رکا تھا۔
" تم جانتی ہو تم میں خاص کیا ہے۔۔۔؟؟" حیدر نے اس سے پوچھا۔
" کیا۔۔۔؟؟" وہ پوچھے بنا رہ نا سکی۔
" تم میں خاص یہ ہے کہ تم دوسروں کو خاص سمجھتی ہو۔ تمہاری خاصیت یہ ہے کہ تم صرف چہرہ کی خوبصورتی کو نہی مانتی۔ تم دل کی خوبصورتی کی بھی قائل ہو۔ اور ہر پل اپنے باہر سے زیادہ تم اپنا من سنورنے کی کوشش میں لگی رہتی ہو۔ تم بہت خاص ہو۔۔" وہ مسکرایا تھا۔
" میں لاجواب ہوں ۔۔۔۔ آپ نے میری اسقدر تعریف کرکے مجھے لاجواب کر دیا ہے۔۔۔" وہ نم آنکھیں لیئے مسکرائ تھی۔
حیدر دھیرے سے اسے اپنے سینے سے لگا گیا تھا۔ اور اسے پتہ ہی نا چلا کب وہ سسکیاں لے ، لے کر رونے لگی۔ حیدر اسکی پیٹھ سہلاتا اسے حوصلہ دے رہا تھا۔
عالم آج شعلہ کے گھر میں تنہا ہونے کا سوچ کر جلدی گھر آگیا تھا۔ وہ واشروم میں فریش ہونے گیا۔ فریش ہوکر جب وہ باہر آیا تو ، شعلہ کمرے کی کھڑکی کھولے کھڑی آسمان پہ پورے چاند کو تک رہی تھی۔
وہ دھیرے دھیرے چلتا اسکی پشت کے پاس جا کر کھڑا ہوا تھا۔ اسے سے پہلے کہ وہ مڑ کر اسے دیکھتی۔ عالم نے پشت سے ہی اسے اپنی بانہوں کے حصار میں لیا تھا۔ وہ جو اس سے لڑنے کے ارادے سے مڑنے والی تھی۔ یکدم جھاگ کی مانند بیٹھ گئ تھی۔ غصہ ، لڑنا ، جھگڑنا وہ سب بھول چکی تھی۔ اپنی جگہ منجمد ہو کر رہ گئ تھی۔ عالم اپنا گال اسکے گال کے ساتھ رگڑتا اسے مزید خود میں بھینچ گیا تھا۔
شعلہ کی پلکیں لرزتے ہوئے عارضوں پہ جھک آئ تھیں۔ عالم نے گہری سانس کھینچ کر اسکے جسم سے اٹھتی بھینی، بھینی خوشبو کو اپنے اندر اتارا تھا۔ شعلہ کا دل سست روی سے چلنے لگا تھا۔
" آج کا دن کیسا گزرا۔۔۔ ہمم۔۔" میر عالم نے اسکے گال پہ پیار کیا۔
شعلہ بنا جواب دیئے خود میں مزید سمٹ گئ تھی۔ وہ اسکے حسن کے جادو میں بہکنے لگا تھا۔ پر آج اسے نہی بہکنا تھا۔ آج اسے شعلہ کو بہکانا تھا۔ وہ اسکا رخ اپنی جانب موڑ کر اپنے ہاتھ دھیرے سے اسکے کندھوں پہ پھیرتا اسکی کمر تک لایا تھا۔ اور ہلکا سا جھٹکا لے کر اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔ شعلہ لب کچل کر اسکی گرفت میں مچلی تھی۔ پر پلکوں کی باڑ اٹھانے کی ہمت نا کرسکی۔
" میں نے کچھ پوچھا ہے۔۔" وہ اسکی مزاحمت نظر انداز کرتے سنجیدگی سے مستفسر ہوئے۔
" آپ ۔۔۔۔ پ۔۔۔پ۔۔۔پل۔۔۔پلیز۔۔۔ چھوڑیں مجھے۔۔" شعلہ کی کپکپاتی آواز سن عالم کے لبوں پہ ایک شریر سی مسکان رینگی تھی۔
" جان من چھوڑنے کے لیئے تو نہی پکڑا۔۔" میر عالم نے اسکے گلابی کپکپاتے لبوں کو ہلکا سا چھوا۔
وہ اسکے لمس پہ کرنٹ کھا کر اس سے دور ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ جب اپنا آپ چھڑانے کی کوشش میں وہ مکمل طور پہ ناکام ٹہری ، تو پلکوں کی باڑ اٹھا کر اسے شدید بری نظروں سے گھورا تھا۔ پر دل کی حالت اس قدر بے ترتیب تھی کہ وہ میر عالم کو سہی سے گھور بھی نہی پائ تھی۔ حیا کے بوجھ تلے اسکی پلکیں جھکنے لگی تھیں۔ میر عالم اسکی اس ادا پہ دلکشی سے مسکرائے تھے۔
" کیوں ناراض ہو مجھ سے اسقدر۔۔؟؟" عالم نے اپنا ایک ہاتھ اسکے گال پہ دھر کر پوچھا۔
" ناراض نہی ہوں ، نفرت کرتی ہوں۔۔" وہ بے ترتیب لہجہ میں کہتی۔ خود کو اسکے شکنجے سے آزاد کرانے کی کوشش میں ناکام ہوئ۔
شعلہ نے گہری سانس لیکر عالم کو دیکھا۔
" پلیز پیچھے ہٹیں۔۔!!" وہ اسے خود سے دور جھٹکتی چلائ تھی۔ بھیگی بلی سے وہ یکدم شیرنی بن گئ تھی۔
عالم نے بنا اسے خود سے دور جانے کا موقع دیئے ہاتھ سے تھام کر دیوار سے لگایا تھا۔ شعلہ اسکی حرکت پہ سلگ کر رہ گئ تھی۔
" یہ کیا بدتمیزی ہے۔ سمجھ نہی آتی ایک بات پیچھے ہٹو۔" وہ چڑ کر کہتی اپنی سرخ و سفید رنگت لیئے سیدھا عالم کے دل میں اتری تھی۔
" آج تو پیچھے ہٹنا نا ممکن ہے۔۔۔" عالم آنکھیں بند کرکے اسکے چہرے پہ جھکنے لگا تھا۔ شعلہ یکدم بیچ میں اپنا ہاتھ اپنے ہونٹوں پہ دھر گئ تھی۔ عالم کو اسکا لمس کچھ الگ لگا تو اسنے آنکھیں کھول کر شعلہ کو دیکھا۔
اور ہونٹوں کے مقام پہ اسکے ہاتھ دیکھ وہ سلگ کر رہ گیا تھا۔
" اب تو تمہاری خیر نہی۔۔۔" وہ اسے بے خود نظروں سے دیکھتا مسکرایا تھا۔
" اپنی لمٹس مت کراس کیجیئے۔" وہ بے بس سے غرائ تھی۔
" اوکے اگر تم چاہتی ہو کہ میں اپنی لمٹس کراس نا کروں ، تو پھر مجھے بتاؤ ، مجھ سے اسقدر نفرت کی وجہ کیا ہے۔ کیونکہ جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ، اسکے بعد میں نے سوچا تھا میں تم سے بہت نفرت کرونگا۔ تمہیں نفرت کے سوا کچھ نہی دونگا۔ تمہیں اذیت دونگا۔ تمہارا ایک ، ایک پل میری نفرت کی نظر ہو کر گزرے گا۔ پر میں نہی کرسکا۔ تم سے محبت اتنی تھی۔ کہ نفرت شدید خواہش کے بعد بھی نا ٹک سکی۔ تو تم کیسے کرسکتی ہو اتنی نفرت مجھ سے۔" عالم نے بے چینی سے پوچھا۔
" سب۔۔۔ سمجھ آرہی ہے مجھے۔۔۔!!
یہ نفرت نہی تو کیا ہے۔ سب۔جانتے بوجھتے بھی آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنا گندہ ماضی دھراؤں۔۔۔۔" اسکی آنکھوں میں موتی چمکے تھے۔
" ہاں ایسا ہے تو تم ایسا ہی سمجھ لو۔ ہاں میں سب جانتے بوجھتے بھی چاہتا ہوں کہ تم۔اپنا ماضی دھراؤ۔۔۔" عالم نے اسے اپنے قریب لاکر کہا۔ وہ افسوس سے کئ لمحے عالم کو دیکھتی رہی۔ اور پھر گہری سانس لیکر اسے اپنا ماضی بتانے لگی۔
☆☆☆☆☆
ماضی
اس دن عالم نے بہت کوشش کی تھی بیا کو بچانے کی پر وہ اسے بچانے میں ناکام ٹہرا۔ جو لوگ بیا کو لیکر گئے تھے۔ وہ وہی انکے دشمن تھے۔ ان آدمیوں نے دس سالہ بیا کو اس ظالم شخص کے قدموں میں لاکر پٹخا تھا۔ بیا درد کی شدت سے چلا کر رہ گئ تھی۔ وہ فرعون صفت شخص اسکی چیخ و پکار سن کر ایک جناتی قہقہ لگاتا ، اسکے گندی نظروں سے تکنے لگا تھا۔
بیا ڈر و خوف سے خود میں سمٹ کر بیٹھنے لگی تھی۔ وہ فرعون اسے مارنے کے بجائے۔ اپنے گھر کی ملازمہ بنا گیا تھا۔ جہاں اس سے کسی باندھی جیسا سلوک ہوتا۔ صبح سے شام تک گدھے گھوڑوں کی طرح اس معصوم بچی سے کام لیا جاتا۔ وہ کام جو شاید اسکی عمر کے بچوں کے کرنے کے تھے ہی ناں ، وہ کام اسکو شدید زلالت دے کر کروائے گئے۔ ہر کوئ اسکو جوتی کی نوک پہ رکھتا تھا۔ ذرا سا کام خراب ہوجانے پہ جس کا دل کرتا جتنا دل کرتا اسے مار کر خونم خون کر دیتے۔ پر بیا کا پرسان حال کوئ نا تھا۔ وہ ہر رات سونے سے پہلے یہ سوچ کر سوتی کہ صبح مصطفی اور عالم اسے آکر ساتھ لے جائیں گے۔ پر اسکا انتظار ، انتظار ہی رہا۔ کوئ اسے ڈھونڈنے بچانے نا آیا۔ وہ پورے چودہ سال کی ہوچکی تھی۔ وہ صحت مند سی بچی۔ دو دو دن بعد کھانا ملنے ، اور اپنی عمر سے زیادہ مشقت کرنے کے باعث بلکل لاغر ہوچکی تھی۔ وہ جیسے جیسے جوان ہونے لگی تھی۔ اس گھر کی خواتین کو اپنے شوہروں کی فکر ہونے لگی تھی۔ ہر کوئ اپنا شوہر اسکے ساتھ باندھ کر چلی جاتی۔ روز وہ تمام عورتیں اسے پے در پے کئ تھپڑ دے مارتی۔ اور جو تھپڑ سے زیادہ تکلیف دہ تھے۔ وہ انکے الفاظ تھے۔
" بابا جان یہ لڑکی بد چلن ہے۔ آئے روز گھر کے مردوں کو اپنی طرف لبھانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ ہمیں نہی پتہ بس اس گند کو کہیں اور پھینک آؤ۔۔"اس فرعون کی لاڈلی بیٹی بڑی ناز برداری سے گویا ہوئ۔
" اچھا ٹھیک ہے ، کرتے ہیں اسکا بھی کوئ بندوبست ، انہوں نے اسے سر سے لیکر پیر تک دیکھ کر کہا۔ چودہ سالہ بیا خوف سے خود میں ہی سمٹ کر رہ گئ۔ اسے نہی پتہ تھا۔ اب یہ لوگ اسکے ساتھ کیا کرنے والے ہیں ، پھر بھی اسے اس مشکل وقت میں ایک سورج کی کرن کا انتظار تھا۔ اور اسکے لیئے وہ کرن اسکا بھائ اور میر عالم تھے۔ آج بھی وہ۔کل کی فکر کے بجائے بس مصطفی اور عالم کے انتظار میں تھی۔
☆☆☆☆☆
اگلے دن صبح وہ گھٹیا انسان اسے کوٹھے پہ بیچ آیا تھا۔ وہ خوفزدہ سی ارد گرد کے رنگین ماحول کو دیکھ رہی تھی۔ خوف کی ایک لہر اسکے پورے وجود پہ طاری ہوچکی تھی۔ وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتی بائ کے بتائے ہوئے کمرے میں آئ تھی۔
" اچھے سے تیار ہونا آج تیری بھی بولی لگا ہی دیتے ہیں۔۔" بائ اسکے نئی ام چھوئ جوانی کو دیکھ کر پان منہ میں دبا کر گویا ہوئ۔
" جی۔۔۔ م۔۔۔ میں سمجھی نہی۔۔۔" وہ۔حیران ہوئ۔
" ارے ٹینشن کس بات کی لیتی ہے تو ، اب سمجھ جائے گی دھیرے ، دھیرے۔۔۔" وہ اسکی چڑھتی جوانی کو کیش کرانے کا سوچ کر ہی چہک اٹھی تھی۔
" پر۔۔۔" بیا کو ارد گرد کا ماحول عجیب لگا تھا۔
" پر ور کچھ نہی ہوتا رانی۔ چل جلدی سے لگ تیار ہوجا۔ بلکہ میں کسی کو بھجواتی ہوں۔ " بائ اسکا چہرہ ٹھوڑی سے تھام کر کہتی۔ ایک ادا سے کمرے سے نکل گئ۔
بیا کو سمجھ نہی آرہا تھا وہ کہاں ہے۔ پر اسکی چھٹی حس اسے بار بار کچھ غلط ہونے کا احساس دے رہی تھی۔ اسنے ایک نظر گھما کر پورا کمرہ دیکھا تھا۔ اسکی آنکھوں میں معصوم سی خوشی چمکی ، وہاں اسے زمین پہ برآمدے میں سونا پڑتا تھا۔ چاہے سردی ہو یا گرمی ، بارش ہو یا طوفاں ، پر یہاں تو اسے کمرہ دیا گیا تھا۔ کمرے میں بیڈ بھی تھا۔ اور ضرورت کی تمام اشیاء موجود تھیں۔ وہ سب بھلائے چھوٹے ، چھوٹے قدم لیتی بیڈ پہ دھیرے سے ہاتھ پھیر کر بیٹھی تھی۔ دھیرے سے اپنا سر نرم تکیہ پہ رکھا تو اسے پتہ ہی نا چلا نرم بستر پہ لیٹتے کب اسکی آنکھیں بند ہوئیں اور وہ گہری نیند میں ڈوب گئ۔
وہ گہری نیند میں تھی جب کسی نے اسکے کندھے کو زور سے ہلایا۔وہ ڈر کر اٹھی تھی۔ اسکے سامنے سجی سنوری ایک خوبصورت سی لڑکی کھڑی تھی۔ وہ مسکا کر اسے دیکھنے لگی تھی۔
" آؤ تمہیں تیار کر دوں۔۔" اس لڑکی نے پیار سے اسکے چہرہ پہ ہاتھ پھیر کر کہا۔
" یہاں۔۔۔ کسی کی شادی ہے۔۔۔" وہ باہر سے گانوں کی آواز ، اور سامنے کھڑی لڑکی کو اتنا سجا سنورا دیکھ اشتیاق سے مستفسر ہوئ۔
اس لڑکی نے اسے سر سے لیکر پیر تک مسکرا کر دیکھا۔ وہ چودھا سالہ بچی اپنے قد کاٹھ سے کسی سترہ سالہ جوان لڑکی جیسی ہی دکھتی تھی۔
" ہاں یہاں روز بارات آتی ہے۔ اور اس بارات کے ساتھ دلہن بن کر کئ لڑکیوں کے ارمان ، عزتیں، اور آہیں رخصت ہوتی ہیں۔" انہوں نے نرمی سے کہا۔
" مطلب۔۔۔!!" وہ حیران ہوئ۔
" مطلب یہ کہ تم جلدی سے یہ پہنو ادھر واشروم ہے۔" اس لڑکی نے اسکی بات کا جواب دیئے بغیر ہی اسے کپڑے پہننے کے لیئے بھیجا۔
کچھ دیر بعد جب وہ کپڑے پہن کر نکلی تو ، وہ لڑکی سنجیدگی سے اسے کئ لمحے تکتی رہی۔ وہ اسکو زیور پہنا کر ہلکا ہلکا میں آپ کرنے لگی تھی۔
" تمہیں ناچنا آتا ہے۔۔؟؟" اس لڑکی نے شیشہ میں اسکا عکس دیکھ کر پوچھا۔
" ناچنا۔۔!!" وہ حیران پوئ۔
" ہاں ۔۔۔ ناچنا۔۔" وہ اسکے کندھوں پہ ہاتھ رکھتی شیشہ میں دکھتے اسکے عکس کو دیکھ کر مسکرائ تھی۔
" نہہ۔ نہی۔۔۔" بیا نے نفی میں سر ہلایا۔
" ہمم ۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔" اس لڑکی کے چہرے پہ پریشانی نما یا ہوئ تھی۔
" کیا ہوا کوئ پریشانی والی بات ہے۔۔۔؟" بیا نے مڑ کر پوچھا۔
" نہی کوئ پریشانی والی بات تو نہی۔۔۔" انہوں نے گہری سانس لیکر کہا۔
" تم بیٹھو میں آتی ہوں۔۔" وہ اسے کمرے میں بیٹھنے کی ہدایت دیتی خود نکل گئ تھیں۔
☆☆☆☆☆
" بائ۔۔وہ بہت چھوٹی ہے۔ اسے ناچنا نہی آتا پر میں جلد اسے سکھا دونگی ، خدارا آپ اسے اتنے بڑے امتحان میں نا ڈالیں کچھ سال اسے ناچنے دیں۔ اسکے بعد آپ کے دل میں جو آئے آپ وہی کریئے گا۔" اس نے ہمت کرکے اپنا مدعہ بیان کیا۔
" تو کیا چاہتی ہے ہر نئ آنے والی کو میں بس کھانے بٹھا دوں۔ جب سب بیٹھ کر کھائیں گی تو دھندا کیسے چلے گا۔۔۔" وہ بھڑک ہی اٹھی تھیں۔
" وہ ناچے گی ناں۔ ناچ کر کمائے گی پر۔۔۔ ابھی وہ سب نہی۔۔۔" اسنے بے بسی سے کہا۔
" ارے یہاں مرد لوگ ناچنے گانے سے لطف اندوز ہونے کے بعد بھی کچھ مانگتے ہیں۔ جب سب ناچتی ہی رہیں گی تو کوٹھا ایک دن ٹھپ ہوجائے گا۔۔" وہ ہاتھ ناچاتی دانت پیس کر گویا ہوئیں۔
" ایسا نہی ہوگا۔" اسنے سنجیدگی سے جواب دیا۔
" ٹھیک ہے ، پر زیادہ دن میں انتظار نہی کرونگی۔۔" بائ نے انگڑائی لے کر کہا۔ وہ دھیرے سے سر ہلاتی واپس اسکے پاس آئ تھی۔
" آج سے ہم ناچنا سیکھیں گے۔" اسنے مسکرا کر بتایا۔
" ناچنا۔۔ پر کیوں۔۔؟" اسنے منہ بنایا۔
" کیونکہ یہاں ناچ کر عزت بیچنے والیوں کی عزت سلامت رہتی ہے۔۔" انکا لہجہ گہرا تھا۔
" میں سمجھی نہی۔۔" بیا نے ہنس کر کہا۔
" خیر ہے سمجھنے کو پوری عمر پڑی ہے۔ سمجھ جاؤ گی۔۔"
" آپ کا نام کیا ہے۔۔؟؟" بیا نے اسکے چہرے کو دیکھ اشتیاق سے پوچھا۔
" نام تو میرا جنت تھا۔ اب مجھے سب الفت کے نام سے جانتے ہیں۔" وہ اسے بتاتی ٹیپ ریکارڈر کے پاس آئ تھی۔ اور کچھ ہی دیر میں اس پہ ایک مدھر دھن بجنے لگی تھی۔ اور الفت دھیرے ، دھیرے اسے اس مدھر دھن پہ ناچنا سکھانے لگی تھی۔ سیکھتے سیکھتے کئ مہینے بیت گئے۔ اب وہ ناچنا سیکھ چکی تھی۔ اور آئے روز محفل میں ناچنا اسکا معمول بن گیا تھا۔ اب تو وہ یہ بھی جان گئ تھی۔ کہ وہ کہاں آ پھنسی ہے۔ جب وہ ناچتی تو دیکھنے والے اسکی داد میں زمین آسمان کی قلابیں ایک کر دیتے۔ نوٹوں کی بھر مار جب اسکے وجود سے ٹکراتی ، تو اسے ایسا لگتا جیسے کسی نے اس پہ پتھر برسائے ہوں۔ لوگوں کی غلیظ نظریں ، تبصرے سب اسے کسی رینگتے زہریلے سانپ کی مانند اپنے وجود پہ محسوس ہوتے۔ پر جب تک وہ یہاں سے نکل نہی سکتی تھی۔ تب تک وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر ناچ ہی سکتی تھی۔ وقت دھیرے دھیرے ایسے ہی بیتتنے لگا تھا۔ وہ اکیس سالہ حسین جوان دلکش خوبصورت دوشیزہ بن چکی تھی۔ آج کسی بڑی جگہ پہ فنکشن تھا۔ امیروں کا فنکشن بلکہ عیاشوں کا فکشن جہاں جانے کے لیئے بہت سی رقاصہ تیار ہوئ تھیں۔ ان میں سے ایک وہ بھی تھی۔ " شعلہ" ہاں اسکا نام بیا سے شعلہ ہوچکا تھا۔ اسکی ایک ساتھی بھی یہاں بن گئ تھی۔ اسکا نام شہلا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ڈھال بن کر کھڑی رہتی تھیں۔ اور الفت کا ساتھ تو انکے لیئے ایسا تھا۔ جیسے انکی ماں کا۔ وہ لوگ جیسے ہی پہنچی وہاں ایک محفل لگی تھی۔ ملک کے تمام نامور سیاستدان وہاں موجود تھے۔ دو ، دو کرکے ناچنے کے لیئے لڑکیاں گئ تھیں۔ اور سب سے آخر میں باری شعلہ کی تھی۔ وہ بھاگتی ہوئ محفل میں ناچنے کے لیئے کمرے سے نکلی تھی۔ ارد گرد جگمگاتی لائٹیں ، رنگین پردے ، پھولوں کی سجاوٹ ماحول کو حسین بنا رہی تھیں۔
وہ نارنجی رنگ کا بھاری کا مدار شرارہ پہنے ہونٹوں پہ سرخ لپ اسٹک اور آنکھوں پہ گہرہ میک اپ ، ماتھے پہ بھاری جھومر، پہنے وہ بھاگتے بھاگتے کسی سے بری طرح سے ٹکرائ تھی۔ مقابل نے اسے تھامنے کے بجائے خود کو اس سے بچانا چاہا تھا۔ وہ لڑکھڑا کر دیوار کا سہارا لیتی بہ مشکل کھڑی ہوئ تھی۔ نگاہیں اٹھا کر جیسے ہی مقابل کو دیکھا۔ وہ اپنی جگہ جیسے تھم سی گئ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس سے کوئ بات کرتی۔ وہ اسے بغیر ایک نظر دیکھے اسکے پہلو سے ہوکر نکل گیا تھا۔ وہ حیران و پریشان سی کھڑی تھی۔
" شعلہ جلدی کرو۔۔" شہلا نے اسے کلائ سے تھام کر اپنے پیچھے گھسیٹا تھا۔
" شہلا۔۔۔۔ وہ۔۔" اسنے شہلا کے پیچھے چلتے کچھ کہنا چاہا ، پر اسکے لب نجانے کیا سوچ کر سل گئے تھے۔
" جلدی۔۔۔" وہ۔اسکو رکتے دیکھ اسکا ہاتھ کھینچ کر اسے ڈانس فلور پہ چھوڑ آئ تھی۔ ارد گرد سب بیٹھے تھے۔ اور بلکل اسکے سامنے میر عالم بیٹھا تھا۔ شعلا کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے تھے۔ دھیرے دھیرے اسکے پیر تھتھرانے لگے تھے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا،
اسکا ہاتھ ہوا میں لہرا کر اسکے چہرے پہ سے دھیرے دھیرے سرکنے لگا تھا۔ وہ جھومتی ہوئ دھیرے دھیرے چہرے پہ پڑا گھونگھٹ اٹھانے لگی تھی۔
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا،
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا،
گھونگھٹ کو اٹھا کر پیچھے پلٹا تھا۔ اور پیروں کو آپس میں الجھا کر وہ آنکھوں میں نمی لیئے مسکرائ تھی۔
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
وہ ہاتھوں کو دائیں بائیں لہراتی تھوڑی کو ذرا سا اوپر اٹھاتی میر عالم کے پاس سے لہراتے ہوئے گزری تھی۔ میر عالم کے ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بچھا تھا۔
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا،
وہ زمین پہ بیٹھ کر اپنا پیر پیٹ کے پاس رکھتی اپنا سر اپنے گھٹنے پہ دھر کر مسکرائ تھی۔ اسکی مسکراہٹ پہ یکدم تالیوں اور سیٹیوں کی آواز گونجی تھی۔
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا،
وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتی اپنے دونوں ہاتھ آپس میں ملا کر چھوڑتی اک ادا سے آنکھوں میں آئ نمی کو جھٹکتی جھومی تھی۔
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا،
کمر پہ ہاتھ رکھتی بل کھاتی لہراتی وہ ہر کسی کے پاس سے ہوکر گزرنے لگی تھی۔
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا،
وہ ایک ہاتھ دل پہ رکھتی سر کو نفی میں ہلاتی ، چہرے پہ افسردہ تاثرات لے آئ تھی۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شبِ غم بری بلا
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا،
وہ دونوں بازو چہرے کے پاس لاکر دھیرے دھیرے ہٹانے لگانی تھی۔ عالم وہاں سے اٹھ کر نکلنے کی تگ و دود میں تھا۔ اسکو جاتے دیکھ اسکی سانسیں اٹکی تھیں۔ وہ ناچتے ناچتے اسکے قریب آئ تھی۔
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا،
وہ اسکے گرد گھومتی آنکھوں سے اپنا شکوہ بیان کرنے لگی تھی۔ میر عالم نے سرد نظریں بیزاریت سے ادھر ادھر گھمائ تھیں۔
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا،
وہ اسکے قریب آکر اسکے دل کے مقام پر اپنا ہاتھ رکھ گئ تھی۔ عالم نے اسے خود سے دور جھٹکا تھا۔ شعلہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکا تھا۔ مگر وہ مسکرائ تھی۔
یہ مسائلِ تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا،
وہ اسے جاتا دیکھ اسکی پشت کو دیکھ آنکھیں مینچ گئ تھی۔ یکدم تالیوں اور سیٹیوں کی آواز گونجی تھی۔ وہ وہاں سے بھاگی تھی۔ عالم کو ڈھونڈنے پر وہ وہاں سے شاید جا چکا تھا۔ اسکا کوئ اتہ پتہ نا تھا۔ وہ اپنے آنسو پیتی ، واپس اسی کمرے میں آئ تھی جہاں وہ سب ٹہری ہوئ تھیں۔
☆☆☆☆☆
" کیا ہوا شعلہ رو کیوں رہی ہو تم۔۔۔؟" شہلا نے اسکے کندھے پہ ہاتھ دھرا۔
" کچھ نہی بس ویسے ہی آنکھ بھر آئ تھی۔۔" اسنے لب کچل کر جواب دیا۔
" تم مجھ سے چھپا رہی ہو۔۔۔؟؟" شہلا نے شکوہ کیا۔
" وہ ۔۔۔ یار۔۔۔ میرا کزن یہاں تھا۔ پر ۔۔۔ شاید ۔۔۔ اسنے مجھے پہچانا نہی۔ مجھے واپس جانا تھا۔میرا دم گھٹتا ہے یہاں۔۔۔" وہ سوکھا حلق تر کرکے کہتی آخر میں پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھی۔
" تم پریشان نا ہو۔ اگر تمہارا کزن یہاں پہ تھا۔ تو اسکا مطلب وہ ایک بڑی نامور ہستی ہے۔ ہم الفت باجی سے بات کریں گے۔ وہ کوئ نا کوئ حل نکال ہی لیں گی۔۔" شہلا نے اسکے ہاتھ تھام کر اسے تسلی دی۔
" پتہ نہی میں اس دلدل سے کبھی نکل بھی پاؤں گی یا نہی۔۔" وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے زیور اتار رہی تھی۔
" نکل جاؤ گی تم دیکھنا۔ اپنے گھر واپس جا کر اپنی زندگی شروع کروگی۔۔۔" شہلا نے مسکرا کر کہا۔
" میں تمہیں بھی ساتھ لے کر جاؤں گی۔ اور تم دیکھنا میں تمہاری شادی اپنے بھائ سے کراؤں گی۔۔" شعلا نے پر امید لہجہ میں کہا۔
" اچھا۔۔۔ اور اگر تمہارا بھائ پہلے ہی شادی کر چکا ہو تو۔۔؟؟
پھر کیا کروگی۔۔؟؟" شہلا نے مسکرا کر پوچھا۔
" ایسا نہی ہوگا۔ اور اگر ہوا بھی تو میں کبھی اپنی بات سے نہی پھروں گی۔۔۔" شعلہ نے مسکا کر کہا۔
" چلو اسی بہانے تمہارا موڈ تو کچھ بہتر ہوا۔" شہلا نے نرمی سے مسکا کر کہا۔
" میرا موڈ اب تبھی بہتر ہوگا جب میں اس غلیظ ترین زندگی سے چھٹکارا پا لوں گی۔۔۔" وہ لب کچل کر گویا ہوئ۔
" انشااللہ یہاں سے جلد ہم فرار ہوجائیں گے۔۔" شہلا نے بھی ایک عزم سے کہا۔ وہ دونوں اداسی سے مسکائ تھیں۔
شعلہ نے واپس آتے ہی الفت کو تمام بات سے آگاہی دی تھی۔ الفت پر سوچ سی بیٹھی تھی۔ بہت سوچنے کے بعد الفت نے شعلہ سے وعدہ کیا تھا۔ کہ وہ اسے اسکے بھائ اور کزن سے ملوا کر رہے گی۔ شعلہ کو الفت کے وعدے پہ پورا یقین تھا۔ کیونکہ وہ یہ بات بہت اچھے سے جانتی تھی۔ کہ الفت وعدہ کرتی نہی پر جب کرتی ہے ، تو ہر حال میں اپنے وعدہ کی پاسداری رکھتی ہے۔
الفت کے وعدہ نے شعلہ کو ایک نئ امید کی کرن دکھائی تھی۔ الفت کے وعدہ کو ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ پر اب تک کچھ نا ہوسکا تھا۔ ادھر سے بائ کا زور بہت بڑھ رہا تھا۔ کہ۔شعلہ کو اب ناچنے کے علاوہ بھی دھندے میں حصہ لینا چاہی۔ پر الفت اسے کچھ دن صبر کرنے کا کہہ کر ٹال جاتی۔ الفت نے بہت مشکل سے میر عالم کا نمبر نکلوایا تھا۔ وہ نمبر لیتے ہی بھاگتی دوڑتی اسکے کمرے میں آئ تھی۔
" شعلہ۔۔۔" الفت نے چہک کر اسے آواز دی۔
" ہاں۔۔۔" وہ واشروم سے نکل کر اسکے سامنے آئ تھی۔
" ایک بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔"
"کیسی خوشخبری۔۔؟؟" شعلہ نے اسکے دمکتے چہرے کو اشتیاق سے تکا۔
" تمہارے کزن کا نمبر مل گیا۔۔۔" الفت نے مسکرا کر بتایا۔
" کیا سچ ۔۔۔ سچ۔۔ میں۔۔۔" اسکی آنکھیں نم ہوگئ تھیں۔
" ہاں سچ میں ، چلو میرے موبائل سے کال ملاتے ہیں۔۔" الفت نے موبائل نکالا۔ شعلہ نے حیرت سے اسے تکا۔
" یہ آپکے پاس کہاں سے آیا۔۔۔؟؟" شعلہ پوچھے بنا رہ نا سکی۔
" وہ سب چھوڑو تم ، یہ لو کال ملاؤ۔۔" انہوں نے اسے موبائل زبردستی تھمایا۔
" کال ملاؤ۔۔" الفت نے مسکا کر کہا۔
وہ کئ لمحے کبھی موبائل کو تکتی تو کبھی الفت کو آخر کار اسنے نمبر ملا ہی لیا۔ چند بیلوں کے بعد کال اٹھا لی گئ۔ شعلہ نے گہری سانس لی۔ دوسری جانب سے گھمبیر مردانہ آواز بر آمد ہوئ۔
" ہ۔۔ہیلو۔۔۔ میں ۔۔شعہ۔۔۔ نہی ۔۔۔ میں بیا ۔۔۔ میں بیا۔۔۔" وہ عالم کی آواز سن کر گھبرا ہی تو گئ تھی۔
" کون بیا۔۔۔؟؟" عالم نے نا سمجھی سے پوچھا۔
" میں بیا۔۔۔ آپکی۔۔۔ پھپھو کی بیٹی۔۔۔" وہ اپنا تعارف کراتے سسک پڑی تھی۔
" کیا۔۔۔؟؟" عالم کی صدمہ بھری آواز ابھری تھی۔
" کیا ہوا عالم بھائ۔۔۔ اب خیریت ہے۔۔۔؟؟" پیچھے سے مصطفی کی آواز بھی آئ تھی۔ شعلہ آنکھیں موند گئ تھی۔ اسکی آنکھوں سے گرم سیال روانی سے بہنے لگا تھا۔
" بیا کا فون ہے۔۔" عالم کی آواز ایک بار پھر بر آمد ہوئ۔
" بیا کا۔۔۔؟؟" حیرت بھری آواز۔
شعلا کا سانس اٹکا تھا۔ اور یکدم کال ہولڈ پہ ہوئ تھی۔ کچھ دیر بعد جب کال ہولڈ سے ہٹی تو میر عالم کی آواز ایک بار پھر بر آمد ہوئ۔ ۔
" تم کہاں ہو بیا۔۔۔؟؟" عالم کا یہ سوال کرنے کی دیر تھی۔ کہ وہ سسکی۔
" میں۔۔۔۔ کوٹھے۔۔۔ پہ۔۔۔" اس سے آگے وہ کچھ کہنے کی ہمت نا جٹا پائ۔
" کون سے کوٹھے پہ۔۔؟؟" عالم نے پوچھا۔ بیا نے تمام تفصیلات بتائ اور کال کاٹ دی۔ الفت نے اسے گلے سے لگا کر تسلی دی تھی۔ اور شعلہ کے کمرے کے باہر کھڑے وجود کو تمام بات کی خبر لگ گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
" بائ ۔۔ بائ۔۔" زرتار لباس میں ایک دبلی پتلی لڑکی بھاگتی ہوئ بائ کے کمرے میں گھسی تھی۔ بائ جو آئینے کے سامنے کھڑی اپنا عکس نہار رہی تھی۔ اسکی اس مداخلت پہ غصہ سے سرخ چہرہ لیئے مڑی تھی۔
" کیا موت پڑ گئ ہے۔ جو ایسے اندھا دھند بھاگی چلی آرہی ہے۔۔" بائ نے دانت پیس کر کہا۔
" بائ ایسی خبر لائ ہوں کہ تو جھوم اٹھے گی۔ میری بات سن کر تو مجھے کچھ بھی دینے کو راضی ہوجائے گی۔ ایسی پتے کی خبر پے کہ نا پوچھ۔۔۔" وہ چہکتی ہوئ جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کرکے اندر آئ تھی۔
" ایسی کونسی خبر ہے۔ جس پہ تو اس قدر اٹھلا رہی ہے۔۔" بائ نے اشتیاق سے پوچھا۔
" بائ وہ شعلہ ، الفت کے پاس نجانے کہاں سے موبائل آگیا ہے۔ اور اسنے شعلا کے گھر کا نمبر نکال لیا ہے۔ اور تو اور شعلہ کی بات بھی کرا دی ہے۔ اور تو اور یہاں کا پتہ بھی بتا دیا ہے۔ بس کچھ ہی دیر میں پہنچتے ہونگے وہ لوگ۔۔۔"
" سچ کہہ رہی ہے تو ۔۔" بائ نے تصدیق کرنا چاہی۔
" ہاں سچ کہہ رہی ہوں۔ کوئ شک ہے تو جا ان سے خود جا کر پوچھ لے۔۔۔" وہ چہکی تھی۔
" ٹھیک ہے اب یہ تیری ذمےداری ہے۔ کہ شعلا کو ڈھونڈنے کوئ بھی آئے وہ پہلے سیدھا میرے پاس آئے۔" بائ نے بال کمر پہ جھٹک کر کہا۔
" ٹھیک ہے بائ۔۔۔" وہ چہک کر کہتی کمرے سے نکل گئ تھی۔
بائ کے ہونٹوں پہ شاطرانہ مسکراہٹ کوندی تھی۔ وہ زیر لب گناگناتی دوبارہ آئینے کی جانب مڑی تھی۔ اور خود کو دیکھ کر مسکرائ تھی۔
کچھ دیر بعد پھر شنو بائ کے کمرے میں حاظر ہوئ تھی۔ بائ بیتابی سے اٹھ بیٹھی تھی۔
" آگئے کیا وہ لوگ۔۔۔؟؟"
" ارے نہی بائ۔ آئے نہی ہیں۔ پر انکے بارے میں کچھ معلومات ملی ہے۔۔۔" شنو نے رازداری سے کہا۔
" کیسی معلومات۔۔۔؟؟" بائ پوچھے بنا نا رہ سکی۔
" ارے اسکا بھائ اور کزن تو بڑے ہی مشہور لوگ ہیں۔۔" شنو نے پر اسراریت سے بتایا۔
" کون ہیں۔ ذرا ہمیں بھی تو پتہ چلے۔۔۔" بائ نے شنو کو ٹھوڑی سے تھام کر پوچھا۔
" بائ ۔۔۔ وہ میر عالم خان۔۔۔ وہ سیاستدان ۔۔۔ اور اسکا رائٹ ہینڈ ۔۔۔ مصطفی۔۔۔" اسنے جیسے ہی بتایا یکدم بائی کی آنکھوں میں روشنی کوند آئ تھی۔
" کیا کہہ رہی ہے تو۔۔۔ مطلب اتنی بڑی آسامی ہمارے کوٹھے پھدارنے والی ہے۔۔۔" بائ نے اپنی بات کے اختتام پہ خوشی کے باعث قہقہ لگایا تھا۔
" ہاں ہاں بائ بلکل سچ کہہ رہی ہوں۔۔" شنو نے اپنے نادیدہ کالر کھڑے کر کے کہا۔
" بس اب تو میری بات یاد رکھ غلطی بلکل نا ہو۔ نہی تو گچی مروڑ دوں گی تیری۔۔۔" بائ نے جارہیت سے کہا۔
" بائ ۔۔۔ ایسے تو مت بولو اتنی پتے کی بات بتائ آپکو پھر بھی آپ مجھے دھمکیاں دے رہی ہو۔۔۔" شنو نے منہ بنا کر کہا۔
" چل جا یہاں سے زیادہ نا بول۔۔۔" بائ نے اسے خود سے ذرا دور جھٹکا۔ شنو منہ بناتی بائ کے کمرے سے چلی گئ۔
☆☆☆☆
عالم اور مصطفی بیا کے بتائے ہوئے پتے پہ پہنچ چکے تھے۔ وہ دونوں اندر آئے تو ایک لڑکی بھاگتی ہوئ انکے پاس آئ تھی۔ اور رازداری سے جھک کر مستفسر ہوئ تھی۔
" آپ لوگ بیا سے ملنے آئے ہیں ناں۔۔؟؟"
عالم نے سر کو اثبات میں جنبش دی۔ تو وہ چہکی تھی۔
" اندر آئیے ، اندر آئیے۔۔۔" وہ انکو اندر لے آئ تھی۔ اور ادھر ادھر ٹرن لیئے بغیر ہی سیدھا ان دونوں کو بائ کے کمرے میں لے آئ تھی۔ بیا اور الفت ادھر ان دونوں کی کال کا انتظار کر رہے تھے۔ پر انہیں کال وغیرہ کرنے کا تو موقع ہی نا ملا۔
" ارے آگئے آپ لوگ ، خوش آمدید۔۔۔" بائ نے پلو درست کرکے انہیں صوفہ پہ بیٹھنے کو کہا۔
" جی بیا کو بلا دیں۔۔" ان دونوں نے یک زبان ہوکر کہا۔
" آجائے گی وہ پر اسکو یہاں سے میں ایک ہی شرط پہ جانے دونگی۔۔" بائ نے مسکرا کر کہا۔
" کیسی شرط۔۔۔؟؟" مصطفی نے بے چینی سے پوچھا۔
" شرط یہ ہے کہ میں نے سنا ہے تمہاری میر صاحب تمہاری ایک دلکش ، خوبصورت جوان بہن بھی ہے۔۔۔؟" ابے نے بات کو سوالیہ انداز میں ادھورا چھوڑا۔
عالم مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا تھا۔ اسنے گہری سانس لیکر بائ کوتکا۔
" تو۔۔۔؟؟" عالم نے آخر کار ہمت جٹا کر اسکا اصل مقصد پوچھ ہی لیا۔
" تو یہ کہ اسے یہاں چھوڑ جاؤ اور بیا کو ساتھ لے جاؤ۔۔۔" بائ نے شاطرانہ انداز لیئے کہا۔
" کیا بکواس کر رہی ہیں آپ۔۔۔؟؟" عالم اور مصطفی دونوں ایک ساتھ ہی بھڑک اٹھے تھے۔
" بکواس نہی ہے۔ بیا کے یہاں سے نکلنے کی قیمت ہے۔ اگر تم لوگوں نے یہ ادا کردی تو میں بیا کو آزاد کر دونگی۔" بائ مسکرائ تھی۔ مصطفی بھڑک اٹھا تھا۔ اس سے پہلے وہ جذباتیت سے کام لیتا کچھ الٹا سیدھا کہتا۔ عالم نے اسکے ہاتھ پہ ہاتھ دھر کر اسے روکا تھا۔
" ٹھیک ہے ہم ، سوچ کر بتائیں گے۔ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے یوں اچانک نہی لے سکتے۔۔۔" عالم نے کھڑے ہوتے کہا۔
" ٹھیک ہے۔ پر یہ بات یاد رکھنا کہ کسی بھی قسم کی چالاکی بیا کے لیئے فائدہ مند ثابت نہی ہوگی۔۔۔" وہ انکو دھمکی دینا تو بلکل نہی بھولی تھی۔
" ہم سمجھ گئے۔ پلیز اسے کوئ نقصان مت پہنچائیے گا۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔ اور مصطفی کو لیکر نکل گیا۔
بائ نے شنو کو لیا اور بیا کے کمرے کی جانب گئ۔
بیا کے کمرے میں آتے ہی بائ نے الفت کا موبائل اس سے چھینا تھا۔ الفت اور بیا کی ررنگت یکدم زرد پڑی تھی۔ بائ خونخوار نظروں سے ان دونوں کو گھور رہی تھی۔
" کہاں سے آیا تیرے پاس یہ موبائل۔۔؟" بائ نے الفت کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر پوچھا۔ الفت نے اپنے بال بائ کی گرفت سے آزاد کروانا چاہے پر ناکام رہی۔ بیا یکدم آگے آئ تھی۔ وہ بائ کی گرفت سے الفت کو آزاد کروانے لگی بائ نے ایک زور دار دھکا بیا کو دیا وہ سیدھا زمین بوس ہوئ تھی۔ اسکا سر سیدھا بیڈ کی پائنتی سے جا کر لگا تھا۔ بیا کی کنپٹی پہ ہلکی سی خون کی لکیر نمودار ہوئ۔ بیا اپنا سر ہاتھوں میں تھامتی واپس اٹھی تھی۔ اب کے بائ نے شنو کو اشارہ کیا تھا۔ شنو نے بیا کی کلائ تھام کر مروڑی تھی۔ بیا کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا تھا۔
" لگاتی ہوں آج اسکے بھی دام بہت کھا لیا بیٹھ کر۔ ارے تجھے کیا لگا تھا۔ وہ دونوں تجھے آکر لے جائیں گے۔ ارے آئے تھے وہ میں نے ان کے آگے تیری قیمت جاننے کو ایک شرط کیا رکھی وہ تو ڈر ہی گئے۔ اور صاف الفاظ میں کہہ کر گئے ہیں۔ کہ دوبارہ انہیں فون نا کرنا۔ تیرے جیسی گندی عورت سے وہ لوگ کوئ تعلق نہی رکھنا چاہتے۔ تجھ جیسی گری ہوئ کوٹھے میں رہنے والی عورت کو اپنے ساتھ لے جا کر وہ معاشرے میں اپنی ساکھ خراب نہی کرسکتے۔۔" بائ نے زہر خند لہجہ میں کہا۔
بیا بائ کے الفاظ سن کر چونکی تھی۔ اسنے بے یقینی کے عالم میں بائ کو دیکھا تھا۔ اور سر کو نفی میں جنبش دی تھی۔
" نہی۔۔۔ ایسا کیسے کر سکتے ہیں وہ۔۔۔" وہ سسکی تھی۔
" ایسا ہی کیا ہے انہوں نے ، نہی تو آئے تھے تو لے کر جاتے نا تجھے مجھے آ کر کیوں بتایا کہ تونے یہاں سے فون کیا ہے۔۔" بائ نے اسکے ذہن میں مزید زہر گھولا۔
بیا کو لگا جیسے آج وہ حقیقتا پوری دنیا میں تن تنہا کھڑی ہو۔ نا کوئ چھاؤں تھی۔ نا کوئ سائبان جن کے آنے کی امید تھی۔ وہ تو شاید آنے سے پہلے ہی لوٹ چکے تھے۔ بیا پھترا کر رہ گئ تھی۔
" اب میں مزید کوئ ڈرامہ برداشت نہی کرونگی۔ آج شام تجھے خود کو پیش کرنا ہوگا۔ ہر صورت۔۔۔" بائ نے الفت کو ایک جھٹکے سے چھوڑ کر بیا کے سامنے انگلی لہرا کر اسے وارن کیا تھا۔ بائ اور شنو واپس چلے گئے تھے۔ اور بیا لڑکھڑاتے قدموں سمیت زمین پہ بیٹھی تھی۔ اور گھٹنوں پہ سر رکھ کر سسک پڑی تھی۔ الفت بھی اسے ٹوٹتا دیکھ سسکی تھی۔
" پریشان نا ہو۔ اپنے ساتھ چھوڑ دیں گے۔ پر میں اور شہلا کبھی تیرا ساتھ نہی چھوڑیں گے۔۔" الفت نے اسے خود میں بھینچا تھا۔ شعلہ کے اندر کا غبار ایسے نکلا کہ اسکی ہچکیاں بندھ گئ پر اسکے رونے میں کمی نا آئ۔
" بس بیا یہ وقت بھی گزر جائے گا۔۔۔" الفت نے اسے تسلی دی۔ بیا آنسو پونچھتی سر ہلا کر مسکائ تھی۔
اور پھر سچ میں شعلا کے دن بدل گئے۔ جس رات اسکا گاہک اسکے کمرے میں آیا تو بنا کچھ کہے بستر پہ سوگیا۔ بیا کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ مگر اسنے من ہی من شکر ادا کیا۔ صبح کا سورج جب نکلا تو وہ بیا کے لیے اپنے ساتھ ایک نئ نوید لایا تھا۔ اس نیک شخص نے بیا کی دوگنی تگنی قیمت ادا کر دی تھی بائ کو۔ اور بیا کو خرید لیا تھا۔ وہ شخص پکی عمر کا آدمی تھا۔ وہ بیا کو خرید کر اپنے ساتھ اپنے محل نما گھر لے آیا تھا۔ بیا حیرت زدہ تھی۔ اس شخص نے اسے اپنی بیٹیوں جیسا درجہ دیا تھا۔ وہ کوئ ایک سال بعد شہلا کو بھی وہاں سے آزاد کروا لائ تھی۔ آزاد تو اسنے الفت کو بھی کرانا چاہا پر وہ انکار کر گئ۔
اس شخص نے بیا کی شخصیت کو نکھار کر رکھ دیا تھا۔ بیا کو اسنے حقیقتا شعلہ بنا دیا تھا۔ شعلہ ایک رائیس باپ کی بگڑی ہوئ بیٹی بن چکی تھی۔ وہ شخص اپنی ساری زندگی شراب ، کباب اور شباب کے ساتھ گزارتا آیا تھا۔ پر اب وہ اپنے گناہوں کا ازالہ کرنا چاہتا تھا۔ اور وہ ایک ایک کرکے کوٹھے کی لڑکیوں کو آزاد کروانے لگا تھا۔ پر ان تمام لڑکیوں میں شعلہ کا کردار سب سے اہم تھا۔ وہ بلیک بیلٹ بن چکی تھی۔ اور مزید خود کو طاقت ور بنانےلگی تھی۔ کہیں نا کہیں اسکے لاشعور میں یہ بات بیٹھ گئ تھی۔ کہ اسے میر عالم سے بدلہ لینا ہے۔ اسکی زندگی خراب کرنے کا اور وہ اس بدلہ کی آگ میں ہر حد سے گزر گئ۔ وہ شخص اپنی تمام جائداد اور اپنی تمام زمداریاں شعلہ کے نام کرتا خود اس دنیا سے رخصت ہوچکا تھا۔ اور اس شخص کا فیصلہ بلکل درست تھا۔ شعلہ نے گھر کا اوپری حصہ مکمل طور پہ کوٹھے سے چھڑائ گئ عورتوں کے لیئے صرف کر دیا تھا۔
☆☆☆☆☆
حال
" ایک منٹ شعلہ یہ وہ سچ ہے جو تمہیں پتہ ہے اسکے علاوہ بھی ایک سچ ہے۔۔" میر عالم نے اسکی بے وجہ کی بدگمانی دور کرنا چاہی۔
" مجھے نہی جاننا کوئ سچ۔۔۔" وہ۔سنجیدگی سے کہتی عالم کے پاس سے اٹھی تھی۔
عالم نے اسے کلائ سے تھام کر اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ سیدھا اسکی گود میں آکر گری تھی۔
" یہ کیا بد تمیزی ہے چھوڑو مجھے۔۔۔" شعلہ نے چڑ کر کہا۔
" شعلہ۔۔۔ یہ سچ نہی ہے۔ حقیقت کچھ اور ہے جس سے تم انجان ہو۔۔۔" عالم نے اسکے گال پہ ہاتھ دھر کر کہا۔
" ایسی بھی کونسی حقیقت ہے جو مجھے نہی پتہ ، سب کچھ تو معلوم ہے مجھے۔۔۔" وہ اسکی گرفت سے نکلنے کو مچلی تھی۔ من ہی من وہ ڈر رہی تھی۔ کہیں اسکی قربت کا جادو چل ہی نا جائے۔
" اس دن ہم واپس آنے والے تھے تمہیں لینے پر کسی نے فیک ویڈیو شاید بھیجی تھی۔ تمہیں مار دیا گیا تھا۔ ہمیں لگا تم مر چکی ہو۔ اور ہمیں تمہاری ڈیڈ باڈی بھی دی گئ تھی۔ جسے ہم نے دفنا دیا تھا۔ اور اسکے بعد تو سوال ہی نہی اٹھتا تھا۔ تمہیں ڈھونڈنے کا۔ ایک مرے ہوئے انسان کو کوئ کیا ڈھونڈتا۔" عالم نے سنجیدگی سے اسے بتایا۔
" جھوٹ مت بولو۔۔۔" شعلہ نے چڑ کر کہا۔
" میں جھوٹ نہی بول رہا۔۔" عالم نے اسکا چہرہ اپنی جانب کرکے کہا۔
" میں پھر بھی اتنی آسانی سے معاف نہی کرونگی تمہیں۔۔" بیا نے سرد لہجہ اپنایا۔
" جتنا ٹائم لینا ہے لے لو۔۔۔" عالم نے اسکے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکایا تھا۔
" اب پیچھے بھی ہٹ جاؤ ، تم تو بلکل چپک ہی گئے ہو۔۔۔" شعلہ نے اسکی قربت کا اثر ختم کرنا چاہا۔
" چپکا کہاں ہوں میں ابھی ، ابھی تو بس ذرا سا قریب آیا ہوں۔۔۔" عالم نے آنکھیں کھول کر اسکے چہرے کے نقوش کو بغور تکا۔
" عالم۔۔۔ پلیز۔۔۔ میں ناراض ہوں۔۔۔" اسنے اسے یاددہانی کروانا چاہی۔
" وہ تو تم مجھ سے ساری عمر ناراض رہنے والی ہو۔۔۔" عالم نے اپنی ناک دھیرے سے اسکے گال پہ رگڑی تھی۔ شعلہ خود میں سمٹ کر رہ گئ تھی۔ اسکی قربت کا جادو چلنے لگا تھا۔ اسکے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئ تھیں۔ عالم اسکے تھرتھراتے لبوں کو دیکھ اسکے لبوں پہ جھکا تھا۔ شعلہ نے اسکا کالر اپنی مٹھیوں میں جکڑا تھا۔اور آنکھیں موند گئ تھی۔ قربت کے لمحے سست روی سے سرکنے لگے تھے۔ عالم اسکے لبوں کو اپنی گرفت سے آزاد کرتا۔ خمار آلود نظروں سے اسکے سرخ لجائے چہرے کو تکنے لگا۔
" آئ لو یو ۔۔۔ ڈارلنگ۔۔۔" عالم نے اسکے نچلے لب پہ اپنا انگوٹھا پھیرا۔ اسکی پلکیں عارضوں پہ ایسی جھکی تھیں۔ کہ اٹھنے کا نام لینے سے انکاری تھیں۔
" ان میٹھی ، میٹھی ۔۔۔۔ باتوں۔۔۔۔ سے کچھ ۔۔۔۔ نہی ہونے والا۔۔۔" اسنے بکھری سانسوں سمیت کہا۔
" دیکھتی جاؤ میں ان میٹھی ، میٹھی باتوں سے کیا کچھ کر سکتا ہوں۔۔۔" شریر سی مسکان عالم کے ہونٹوں پہ کوندی تھی۔
" پلیز۔۔۔" وہ اسکی مسکراہٹ کے جادو میں بہکنے لگی تھی۔
" کیا۔۔۔؟؟" عالم نے سمجھتے ہوئے بھی جان بوجھ کر اسے تنگ کرنے کو پوچھا۔
" اب بس بھی کریں۔۔۔ پیچھے ہٹیں۔۔۔" شعلہ نے بہ مشکل ہی اپنا لہجہ برہم بنایا۔
" ایسے کیسے بس کریں۔ ابھی تو کچھ کیا ہی ، نہی ذرا سی قربت نواز کر تو آپ اتنا دور چلی گئ تھیں۔ اور ہمیں بھی دوسرے جہاں پہنچا دیا تھا۔"
شعلہ اسکی قربت میں مچلنے لگی تھی۔ اسکے ارادے جان کر تو اسکی ہتھیلیاں بھیگ گئ تھیں۔
" مجھے۔۔۔ نیند آرہی ہے۔۔۔" شعلہ نے بہانا بنایا۔
" ہاں تو سو جائیں گے ناں مگر آرام سے۔" عالم نے اسکی گردن میں چہرہ چھپا کر گہری سانس بھری۔
شعلہ کی اپنی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگیں۔ اسنے دھیرے سے عالم کو خود سے دور کرنا چاہا۔ پر ناکام رہی۔
" عالم۔۔۔ پلیز۔۔۔۔ مجھے اب بھی آپ پر یقین نہی ہے۔۔۔" شعلہ کی آواز عالم کے کانوں سے ٹکرائ تو عالم کی گرفت شعلہ پہ ڈھیلی پڑی تھی۔ عالم نے کئ لمحے سنجیدگی سے اسے تکا۔
" اگر آج میری کسی بات پہ یقین و بھروسہ نہی ہے ناں شعلہ تو پھر کبھی آنے والے وقت میں بھی مجھ پہ یقین نہی آئے گا تمہیں۔۔" عالم نے اسے خود مکمل طور پہ آزاد کیا تھا۔ وہ ایک جھٹکے سے اسکی گود سے اٹھی تھی۔
" مجھے۔۔ تھوڑا ۔۔۔ وقت لگے گا۔۔۔" شعلہ نے نگاہیں چرا کر کہا۔ اور بیڈ پہ سر تک کمبل تان کر لیٹ گئ۔ وہ کئ لمحے پر تپش نگاہوں سے کمبل کی آڑ میں چھپے اسکے وجود کو تکتا رہا۔
☆☆☆☆☆
" ساوری۔۔۔۔" حیدر ابھی آفس سے آیا تھا۔ آج اسے آنے میں دیر ہوگئ تھی۔ جب وہ گھر آیا تو پورا گھر نیم اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کمرے میں آیا تو کمرے کا بھی وہی حال تھا۔ ساوری بھی سو چکی تھی۔ وہ پہلے واشروم فریش ہونے گیا۔ فریش ہوکر کپڑے چینج کرکے وہ ساوری کے پاس آیا تھا۔ اسکے کان کے پاس جھک کر دھیرے سے اسے پکارا تھا۔ پر ساوری اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوئ۔
" ساوری۔۔۔۔۔جان من پلیز اٹھ جاؤ بہت بھوک لگ رہی ہے۔۔۔" حیدر ایک بار پھر اسکے کان کے پاس جھکا نرم سی سرگوشی کرتا چہرہ اوپر اٹھا کر اسے تکنے لگا۔ اب اسکی آنکھوں میں ذرا سی جنبش پیدا ہوئ تھی۔ اسنے نیند سے بوجھل چندھیائ ہوئ آنکھیں کھول کر حیدر کو دیکھا۔ کئ لمحے تو وہ سن دماغ لیئے اسے دیکھتی رہی۔ جب آہستہ آہستہ اسکے حواس بہال ہوئے تو وہ سیدھا آٹھ بیٹھی تھی۔
" آپ۔۔۔ آگئے۔۔۔ آج آنے میں اتنی ۔۔ دیر کردی۔۔۔" وہ دوپٹہ اٹھا کر کھول رہی تھی۔
" ہاں آج ایک اہم میٹنگ تھی۔ جو کافی دیر تک چلی اس وجہ سے ۔۔" حیدر نے اٹھتے ہوئے اسکے گال پہ بوسہ دیا۔ ساوری نے ہلکا سا مسکا کر اپنا دوپٹہ کندھوں پہ پھیلایا تھا۔ وہ کمبل ہٹا کر بیڈ سے اٹھنے لگی تو حیدر نے اپنا ہاتھ اسکی جانب پھیلایا جس پہ اسنے بنا تاخیر کیئے اسکا ہاتھ تھام لیا۔
وہ دونوں کمرے کا دروازہ آہستہ سے بند کرکے باہر آئے ، دونوں کچن کی لائٹس آن کرکے بیٹھ گئے تھے۔ ساوری نے کھانا گرم کیا ، اور ٹیبل پہ اسکے آگے کھانا رکھ کر خود بھی دوسری کرسی گھسیٹ کر بیٹھی تھی۔ حیدر اسکی نیند کا خیال کرتا جلدی جلدی کھانا کھانے لگا تھا۔
" اوہو آہستہ کھائیں کھانا۔ کوئ بھاگا تو نہی جارہا ناں آپکا کھانا آپ سے دور۔" ساوری نے اسے آنکھیں دکھائیں۔
" اوکے۔۔۔" سعادت مندی سے اسکی بات مانی گئ۔ ساوری کے ہونٹوں پہ ایک پیاری سی مسکان نمودار ہوئ تھی۔
" آج کا دن کیسا گزرا۔۔۔" ساوری نے اپنی ہتھیلی ٹھوڑی تلے رکھ کر پوچھا۔
" بہت اچھا۔۔۔ مگر کافی ٹف تھا آج کا دن ، بس اب تم دعا کرو یہ پروجیکٹ مکمل ہوجائے ، میں اس سے فارغ ہوجاؤں ، پھر ہم ولیمہ کی تقریب رکھیں گے۔ اور پھر آؤٹ آف کنٹری ہنی مون منانے بھی جائیں گے۔۔۔" حیدر ہنی مون کا ذکر کرتے وقت مکمل طور پہ اس پہ جھک آیا تھا۔
" اس سب کی کوئ ضرورت نہی فضول خرچیاں کرنے کے علاوہ آپ کو کچھ نہی سوجھتا۔۔۔" اسنے اسے پیچھے کیا۔
" سوجھتا ہے ناں۔۔۔ بہت کچھ سوجھتا ہے۔۔۔" حیدر نے سرسری انداز لیئے کہا۔
" اچھا۔۔۔ کیا سوجھتا ہے مثلاً ۔۔؟" وہ آئبرو آچکا کر اس سے مستفسر ہوئ۔
" تم سے پیار کرنا ، تمہارے ساتھ محبت بھری چھیڑ خانی کرنا۔ تمہیں اپنی بانہوں میں قید کر لینا اور۔۔۔ بہت کچھ ۔۔۔ جو اگر میں بتانے پہ آیا تو تم نے سرخ ٹماٹر بن جانا ہے۔۔۔" حیدر نے شرارت سے کہا۔
ساوری سرخ رنگت لیئے ہولے سے مسکرائ تھی۔
" آپکو بس یہ سب ہی سوجھتا ہے کبھی کام کا کچھ نہی سوجھتا۔۔۔" اسنے مسکرا کر کہا۔
" یار۔۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے یہ سب جو مجھے سوجھتا ہے۔ یہ کسی کام کا نہی بہت کام کا ہے یہ سب۔۔۔" حیدر نے اسکی ناک دبا کر کہا۔
" اوکے اوکے آپ بلکل درست کہہ رہے ہیں جناب اعلی پر چلیئے ذرا اب جلدی کریں۔ کمرے میں عائرہ اکیلی ہے۔۔" ساوری نے اسکی شوخی پہ ٹھنڈا پانی پھیرا۔
" ہاں میں تو جلدی ، جلدی ہی کر رہا تھا۔ مگر تم نے کہا کہ نہیں آہستہ کھاؤ۔ اب بھلا بتاؤ اس میں میری کیا غلطی ہے۔۔" حیدر نے مصنوئ خفگی لیئے کہا۔
" اچھا چلیں میری غلطی ہے۔ بس سوری۔۔۔" ساوری نے کان پکڑ کر معافی مانگی۔
حیدر اسکے گال پہ نرم سا بوسہ دے کر پیچھے ہٹا تھا۔
" اٹس اوکے ڈارلنگ۔۔۔" حیدر نے شوخی سے کہا۔ تو وہ کھلکھلا اٹھی۔
مصطفی اور نازنین آدھی رات کو اپنے ہوٹل سے نکل کر ترکی کی سڑکوں پہ واک کر رہے تھے۔ مصطفی اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے اپنے ساتھ لگائے چل رہا تھا۔ رات کی خنکی، چاند اور ارد گرد پھیلی پودوں کی خوشبو ماحول کو خوابناک بنا رہی تھی۔
" مصطفی ایک بات پوچھوں۔۔۔؟؟" نازنین نے اسکے کندھے پہ سر ٹکا کر کہا۔
" تم کب سے اجازت ملنے کا انتظار کرنے لگیں۔" مصطفی نے حیرت کا اظہار کیا۔
" ہاں یہ بھی ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔۔" وہ سنجیدگی سے کہتی مصطفی سے الگ ہوکر اسکے دونوں ہاتھ تھام گئ تھی۔ مصطفی نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔ ایسا پہلی بار ہورہا تھا۔ کہ وہ۔اسقدر فارمل ہورہی تھی کوئ بات کرنے کو۔ نازنین نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے آنکھیں موند کر گہری سانس لی اور پھر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
" مصطفی۔۔۔۔ میں ڈاکٹر کے پاس گئ تھی۔ جب ہم پاکستان میں تھے۔ تو ڈاکٹر نے کہا۔۔۔" وہ بات کرتے کرتے رکی تھی۔ مصطفی پریشان ہوا تھا۔ اسکے ہاتھ چھوڑ کر وہ اسکے گالوں پہ ہاتھ دھرتا فکر مندی سے مستفسر ہوا۔
" کیا ہوا تمہاری طبیعت خراب ہے کیا ۔۔؟؟" وہ پریشان ہوا۔
" نہی میری طبیعت نہی خراب میں۔۔ بلکل ٹھیک ہوں پر۔۔ میں گائنی کی ڈاکٹر کے پاس گئ تھی۔۔۔" اس سے پہلے کے وہ مزید کچھ کہتی مصطفی اسکی سنے بغیر ہی چہک اٹھا تھا۔ اور اسے گود میں اٹھاتا خوشی سے گول گول گھومنے لگا تھا۔
" اوہ مطلب میں پاپا اور تم ماما بننے والی ہو۔۔۔ تم جانتی نہی ہو نازنین تم نے کتنی بڑی خوشی دی ہے مجھے۔" مصطفی کی سرشاری دیکھ ایک پل کو اسکا رنگ پھیکا پڑا تھا۔
" نہی۔۔۔ مصطفی۔۔۔ ایسا نہی ہے۔ انفیکٹ ۔۔۔ میں نے کچھ ٹیسٹ کروائے تھے۔ اور انکی رپورٹ یہ ہے کہ میں کبھی ماں نہی بن ۔۔۔۔ سکتی۔۔۔" یہ بات کہتے کتنے ہی آنسو نازنین کے رخسار کی زینت بنے تھے۔ ایک پل کو مصطفی بھی اپنی جگہ جم کر رہ گیا تھا۔ اسکا رنگ بھی فق ہوگیا تھا۔ پر اگلے ہی لمحے وہ زبردستی کی مسکان ہونٹوں پہ کھینچ لایا تھا۔
" ڈونٹ وری یار ، پریشان نا ہو۔ تو کیا ہوا اگر تم بچہ کو جنم نہی دے سکتی۔ ہم بچہ ایڈاپٹ تو کرسکتے ہیں ناں۔۔۔" مصطفی نے اسکے گال تھام کر اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا تھا۔ نازنین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تھا۔ وہ سیدھا مصطفی کے سینے سے لگ کر پھوٹ، پھوٹ کر رو پڑی تھی۔ مصطفی نے اپنے بازو محبت سے اسکے گرد باندھے تھے۔ اور قرب سے آنکھیں مینچ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
صبح کے نو بج رہے تھے۔ پر عالم ابھی تک نہی اٹھا تھا۔ شعلہ کمرے میں ادھر ، ادھر ہوتی رہی چیزیں پٹخ، پٹخ کر شور مچاتی رہی کہ وہ اٹھ جائے۔ مگر وہ تو اپنی جگہ سے ٹس سے مس نا ہوا۔ وہ اسپہ مٹی ڈالتی عارض کو لیکر نیچے آگئ تھی۔ اور وہ دو گھنٹے سے نیچے ہی تھی۔ ابھی تک عالم نہی اٹھا تھا۔ اب تو دن کے گیارہ بج چکے تھے۔ وہ پریشان سی اوپر آئ تھی۔ عالم اب بھی کمبل میں دبکا پڑا تھا۔ اسنے پریشانی سے آکر جیسے ہی اسکے چہرے پہ سے کمبل ہٹایا۔ وہ بخار میں تپ رہا تھا۔ شعلہ کے تو یکدم ہاتھ پیر پھول گئے۔ اس نے سب سے پہلے ڈاکٹر کو بلایا۔ ڈاکٹر صاحب نے چیک اپ کیا۔ انجیکشن لگایا اور کچھ دوائیں لکھ کر دیں۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد اسنے سب سے پہلے ملازم کو دوائیں لینے میڈیکل اسٹور بھیجا اور پھر خود کچن میں آکر یخنی بنائ۔ یخنی لیکر وہ اوپر آئ۔ عالم اب بھی بخار میں نڈھال پڑا تھا۔ وہ یخنی سائڈ پہ رکھتی عالم کو سہارا دے کر بٹھانے لگی۔ پر بیٹھنے کے بعد بھی اسکی آنکھیں بخار کی شدت سے کھلنے سے انکاری تھیں۔ شعلہ نے با مشکل اسے سوپ پلایا۔ ملازم اسکی دوائیں بھی لے آیا تھا۔ شعلہ نے یخنی پلانے کے کچھ دیر بعد اسے دوائیں دی۔ وہ اٹھ کر اسکے پاس سے جانے لگی تھی۔ جب میر عالم نے اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
" میرا۔۔۔ سر دبا۔۔۔دو۔۔" اسکی نقاہت زدہ آواز سن کر وہ واپس بیٹھی تھی۔ اسکا سر اٹھا کر اپنی گود میں رکھا تھا۔ اور دھیرے دھیرے نرم ہاتھ سے اسکا سر دبانے لگی تھی۔
" شعلہ میں سچ کہہ رہا ۔۔۔۔ تھا ۔۔۔ کل رات۔۔۔" عالم کی غنودگی میں ڈوبی آواز آئ۔
" اوکے بس ابھی خاموش ہوجاؤ۔ خود کو مزید پریشان نا کرو۔۔" شعلہ نے اسکا سر دباتے نرمی سے کہا۔
" تم۔میرا یقین کیوں نہی کرتی۔۔۔؟؟" سوال داغا گیا۔
" تم نے کبھی اپنا یقین دلایا ہی نہی۔ تو آخر میں کیسے کروں تم پہ یقین۔۔۔" شعلہ نے بھی شکوہ کیا۔
" یہ غلط بات ہے ہر دم تو تم کو اسپیشل فیل کراتا رہتا ہوں۔۔۔" اسنے بگڑے تیور لیئے کہا۔
" اب یہ سراسر جھوٹ ہے۔ مجھے نہی یاد پڑتا کہ تم نے مجھے کبھی اسپیشل فیل کروایا ہو۔۔۔" شعلہ شکوہ کیئے بنا نا رہ سکی۔
" نہی میں۔۔۔ تمہیں اسپیشل فیل کراتا ہوں۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ تم اسپیشل فیل نہیں کرتی۔۔۔"
" تم نے میرے لیئے آج تک کچھ بھی اسپیشل نہی کیا ہے اوکے۔ اور تم کبھی کچھ اسپیشل کر ہی نہی سکتے۔ بڈھے نا ہو تو۔۔۔" وہ جل کر گویا ہوئ۔
" یہ تم میری توہین کر رہی ہو۔۔۔" وہ اسکے ہاتھ تھام کر خفگی سے گویا ہوا۔ بخار کی شدت کچھ کم ہوئ تھی۔
" جو بھی سمجھو سچ ہی کہا ہے میں نے۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولی۔
" اچھا چلو مان لیا میں نے تمہارے لیئے کچھ بھی نہی کیا۔ تو تم نے کبھی میرے لیئے کچھ کیا۔ کبھی تم میرے لیئے کوئ خوبصورت سا رنگ پہن کر سج سنور کر کبھی میرا انتظار کیا ہے۔ بولو ۔۔۔؟ کیا ہے کبھی۔۔۔؟؟
نہی ناں جب دیکھو یہ سیاہ رنگ پہن کر بدروح بنی پھرتی رہتی ہو۔۔" عالم نے بھی جل کر نقاہت زدہ آواز میں کہا۔
شعلہ نے اسے خونخوار نگاہوں سے گھورا تھا۔
" بدروح کسے کہا۔۔۔؟؟"
" تمہیں۔۔۔" عالم نے اسکا سر پکڑ کر اسکا چہرہ اپنے چہرہ پہ جھکایا تھا۔
" تمہاری ہمت کیسے ہوئ مجھے بد روح کہنے کی۔۔۔" وہ دانت پیس کر گویا ہوئ۔
" جیسے ہوتی ہے۔ ویسے ہی ہوئ ہے۔" عالم نے اسکی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ بخار کے باعث عالم کی آنکھیں خمار آلود سی لگ رہی تھیں۔
" بھاڑ میں جاؤ تم۔۔" وہ جل کر کہتی اس سے دور ہوئ۔ عالم نے بگڑے تیور لیئے ایک بار پھر اسے خود پہ جھکایا تھا۔ ایک پل کو انکے درمیان سب کچھ رک گیا۔ عالم سرخ نگاہیں لیئے اسے کئ لمحے تکتا رہا۔ اور جب وہ گویا ہوا۔ تو اسکے لہجہ میں شدت تھی جنون تھا۔ دیوانہ پن تھا۔
" تم مجھ سے لڑو جھگڑو ، جو من میں آئے کرو پر پلیز مجھ سے دور جانے کا سوچنا بھی مت۔۔۔ پلیز۔۔۔۔" اسکے لہجہ میں جنوں تھا۔ شدت تھی تڑپ تھی۔ شعلہ اسکی آنکھوں سے چھلکتے جنوں کو دیکھ نگاہیں چرا گئ تھی۔
" نگاہیں کیوں چرا رہی ہو جانِ تمنا۔ نگاہیں چرانے کا موسم تو گیا۔ اب نظروں سے نظریں ملانے کا وقت آیا ہے۔۔" اس کا لہجہ بے خود سا تھا۔
" میں نیچے جا کر دیکھتی ہوں عارض رو رہا ہوگا۔۔۔ کب سے ملازمہ کے پاس ہے۔۔۔" وہ اسکی قربت کا اثر ذائل کرتی اٹھی تھی۔
عالم نے اسکی کلائ تھامی تھی۔ وہ گہری سانس لیکر بنا مڑے اسکے ہاتھ سے اپنی کلائ چھڑانے کی کوشش میں ہلکان ہونے لگی۔
" شعلہ کیوں نہی معاف کرسکتی تم مجھے ان غلطیوں کے لیئے جو کبھی مجھ سے سرزد ہی نہی ہوئیں۔۔۔" عالم کا لہجہ بکھرا ہوا تھا۔
" کم از کم تب تک معاف نہی کر سکتی جب تک میرے وہ زخم بھر نہی جاتے۔۔۔" وہ سنجیدگی سے گویا ہوئ۔
" زخم اگر بھرنے دو گی تو وہ بھریں گے ناں۔۔۔۔!!
اگر ان زخموں کو بار بار کھرچتی رہو گی تو ان سے خون بھی رسے گا اور وہ بھریں گے بھی نہی۔ تکلیف الگ ہوگی۔۔" وہ اسکی بات پوری ہوتے ہی اسکے ہاتھ سے اپنی کلائ چھڑاتی کمرے سے باہر بھاگی تھی۔
وہ اپنے خالی ہاتھ کو بے بسی سے تکتا رہ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆۔
" حیدر گھر کب تک آئیں گے آپ۔۔۔؟؟" ساوری نے موبائل کان سے لگائے پوچھا۔
" کیوں میری یاد آرہی ہے۔۔" حیدر شوخ ہوا۔
" نہی بھلا آپکی یاد کیوں آنے لگی مجھے۔۔" وہ لب کچل کر گویا ہوئ۔ حیدر کی ذرا سی شوخی پہ اسکا چہرہ گلابی ہونے لگا تھا۔
" مطلب تمہیں میری یاد نہی آرہی۔۔۔؟" حیدر نے ذرا سختی سے پوچھا۔
" نا۔۔۔ بلکل نہی۔۔۔" اسنے منہ بنا کر کہا۔
" پر یار مجھے تو تمہاری بہت یاد آرہی ہے۔ میرا بلکل کام میں دل نہی لگتا اب۔۔۔" وہ بوجھل گھمبیر آواز لیئے گویا ہوا۔
" حیدر حد ہے۔ ابھی چار گھنٹے ہوئے ہیں آپکو گھر سے دفتر گئے اور آپکو میری یاد بھی آنے لگ گئ۔" اسنے افسوس کیا۔
" یہ چار گھنٹے تمہارے لیئے ہونگے۔ میرے لیئے تو یہ چار صدیاں ہیں۔" حیدر کا اندازِ بیاں خاصہ فلمی تھا۔
" افف۔۔ اچھا یہ سب چھوڑیں ، میں نے کال اس لیئے کی تھی کہ آج جلدی آجائیے گا۔ آئرہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہی اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا ہے۔۔۔" وہ ایک ہی سانس میں اپنی تمام بات مکمل کر گئ تھی۔
" ہاں وہ تم مجھے صبح بھی یاد دلا چکی ہو۔ اور مجھے بہت اچھے سے یاد بھی ہے۔ اب بس بھی کرو۔ کام کی باتیں۔ اس بات کا کوئ حل نکالو یار۔۔۔ تم مجھے یاد آرہی ہو۔ اور وہ بھی بہت زیادہ۔۔۔" حیدر پھر پٹری سے اترا تھا۔
" اسکا میرے پاس کوئ حل نہی ہے۔ اسکا حل آپ خود ہی ڈھونڈ لیں مجھے بہت کام پڑے ہیں۔۔" وہ ہنس کر گویا ہوئ۔ اس سے پہلے کے وہ کال کاٹتی حیدر کی بیتاب سی آواز بر آمد ہوئ۔
" اچھا ایک بار وہ تین میجیکل ورڈز تو کہہ دو۔۔۔" حیدر کی فرمائش پہ ساوری کے لبوں پہ ایک شرمیلی سے مسکان در آئ۔
" اوکے۔۔۔ سنیئے۔۔" اسنے شرارت سے کہا۔
" ہم تو تیار بیٹھے ہیں۔ آپ سنائیے۔۔" حیدر نے بے صبری سے کہا۔
" I... .."
ساوری کی میٹھی رسیلی آواز اسکے کانوں میں پڑی۔ تو وہ پر جوش سا مزید سننے کو بیتاب ہوا۔
" آگے۔۔۔۔ کہو۔۔۔"
" I.... I.... hate you..."
اور کہتے ساتھ ہی کال کاٹ دی گئ تھی۔ حیدر حیران و پریشان سا موبائل کی اسکرین کو گھورتا رہ گیا۔ اسکا پورا موڈ وہ خراب کر چکی تھی۔ اور پھر کئ گھنٹے تک وہ ہر کسی پہ بھڑکتا رہا تھا۔
میر عالم کی طبیعت اب کافی سنمبھل چکی تھی۔ شعلہ عارض کو سینے سے لگائے دھیرے دھیرے جھلا رہی تھی۔ تاکہ وہ سوجائے۔ عالم بیڈ پہ ہی نیم دراز ہوا کسی کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا۔ عالم نے شعلہ کو دیکھا اور کتاب بند کرکے سائڈ پہ رکھی۔
" یہ کب سوئے گا۔۔۔؟؟" عالم کا سوال بے ساختہ تھا۔
" کیوں کوئ کام ہے۔۔؟؟" وہ ماتھے پہ بل سجا کر نا سمجھی سے مستفسر ہوئ۔
" ہاں کام تو ہے۔۔۔" میر عالم نے ماتھا کھجا کر کہا۔
" کیا کام یے۔۔؟" وہ آنکھیں گھما کر مستفسر ہوئ۔
" عارض کے بہن بھائیوں کے بارے میں کچھ سوچا تم نے۔۔؟" وہ انتہائ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
" کیا فضول باتیں کر رہے ہو۔ اسکے بہن بھائ کہاں سے آگئے۔ میرا تو یہ ایک ہی بیٹا ہے۔ ہاں البتہ اگر تم نے کہیں دوسری تیسری شادی کر لی ہو۔ اور وہاں تم نے الگ ایک انڈیا پاکستان کی ٹیم بنا لی ہے۔ وہ الگ بات ہے۔۔" شعلہ تمسخر سے ہنسی تھی۔
" نہی ابھی ٹیم بنی نہی ہے۔ پر بنے گی ضرور۔۔۔" عالم اسے شرارت بھری نظروں سے تک رہا تھا۔
" بہت ہی فضول قسم کے انسان ہو۔" وہ جل کر کہتی عارض کو دھیرے سے بیڈ پہ لٹا کر اپنا تکیہ درست کر رہی تھی۔ جب میر عالم کا ہاتھ اسکے نازک ہاتھ پہ آ دھرا تھا۔
"کچھ بھی کہہ لو ٹیم تو بن کر رہے گی۔ اتنی خوبصورت آخر ہو کیوں تم۔۔۔؟؟" وہ اسکے چہرے کے ہر ہر نقش کو دیکھ بے خود سا گویا ہوا۔
" مجھے کیا پتہ ، اللہ نے بنایا ہے۔ اس میں میری کوئ قدرت نہی ، جو مجھے پتہ ہو کہ میں اتنی خوبصورت کیوں ہوں۔۔۔" وہ معصوم سی شکل بنا کر گویا ہوئ۔
" سچ میں تم کتنی پیاری ہو۔ تمہاری آنکھیں ایک دم حسین بڑی ، بڑی ایک دم بھینس کی آنکھوں جیسی ہیں۔۔" وہ ایک جذب سے اسکی تعریف کر رہا تھا۔ اور وہ اسکے کمپلیمنٹ پہ دانت پیس کر گویا ہوئ تھی۔
" اور۔۔۔ اور کرو ناں ۔۔۔ میری تعریف۔۔۔" تعریف کو تو جیسے اسنے اپنے دانتوں تلے پیس ہی ڈالا تھا۔
" اور تمہاری یہ ناک ۔۔۔۔ ہائے ہائے۔۔۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئ پتلا لمبا ہائ وے کا روڈ ہو۔۔" میر عالم نے ساتھ ہی اسکی ناک پہ دھیرے سے اپنی انگلی بھی پھیری تھی۔
" اور تمہارے یہ ہونٹ۔۔۔۔ انکی تو میں کیا ہی تعریف کروں۔۔۔ یہ رسیلے ہونٹ تمہارے۔ اور ان ہونٹوں کا گلابی پن ، اور انکا نشہ۔۔۔۔ افف۔۔۔ یہ ہونٹ تو بلکل تمہارے۔۔۔۔ وہ کہتے ہیں ناں وہ کیا ہوتا ہے۔۔۔ ہاں بلکل گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہیں۔۔۔ دل کرتا ہے ۔۔۔ ان کا رس نچوڑ کر رکھ دوں۔ جب بھی تم بہت پاس آکر دور جانے کی کرتی ہو۔ تو دل کرتا ہے کہ ان لبوں کو ایک دوسرے سے ایسا جوڑ دوں کے تم دور جانے کا سوچ بھی نا سکو۔" میر عالم پھلانگ کر اسکی جانب آیا تھا۔ اور وہ جو پہلے کی گئ تعریف پہ غصہ سے لال پیلی ہورہی تھی۔ اب وہ حیا کے مارے سرخ ہوچکی تھی۔
میر اسکے اوپر آکر جھک گیا تھا۔ شعلا نے ڈر کر زور سے آنکھیں مینچ لیں۔ عالم نے دھیرے سے اسکے ہونٹوں پہ انگوٹھا پھیرا۔ شعلہ کا نچلا لب ذرا سا وا ہوا۔ اسکے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ پلکیں آرضوں پہ جھکی لرز رہی تھیں۔ عالم اسکی حالت بے حال ہوتے دیکھ مسکایا تھا۔ اپنا ہاتھ اسکی گردن میں لے جا کر اسکا سر دھیرے سے اوپر کرکے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پہ رکھتا اسکی اور اپنی سانسیں الجھا گیا تھا۔ اسکا لمس محسوس کرتے ہی شعلہ نے ذرا سی مزاحمت کی۔ پر عالم اسکی مزاحمت نظر انداز کرتا اپنی من مانیوں پہ اتر آیا تھا۔ اسکے ہاتھ دھیرے دھیرے شعلہ کے حسیں بدن کی رعانیوں سے کھیلنے لگے تھے۔ شعلہ کا سانس بند ہونے لگا تھا۔ میر دھیرے سے اسکے لب آزاد کرتا۔ اسکے گال پہ شدت سے اپنے لب دھر کر پیچھے ہوا تھا۔
میر عالم نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ اتار کر دور پھینکی تھی۔ شعلہ شرما کر کروٹ بدل گئ تھی۔ میر عالم اسکی کمیز کی ڈوریاں کھولنے لگا تھا۔ شعلہ آنکھیں مینچے پڑی تھی۔ میر عالم نے دھیرے سے اسکی کمر پہ اپنی ناک رگڑی تھی۔ شعلہ اسکے لمس کی شدت سے جی جان سے کانپ کر رہ گئ تھی۔ عالم کے دہکتے لب جب اسکی کمر سے ٹکرائے تو اسکی سانسیں اتھل پتھل ہونے لگیں۔
" عالم۔۔۔" سرگوشی نما آواز شعلہ کے لبوں سے آزاد ہوئ۔
" شش۔۔۔" عالم اسکا رخ اپنی جانب کرکے ، شہادت کی انگلی اسکے لبوں پہ دھر گیا تھا۔ شعلہ کا سانس اٹکا تھا۔ اسنے سیاہ پلکوں کی جھالر ذرا سی اٹھائ تھی۔ میر عالم نے جھک کر اسکی آنکھوں پہ نرم دہکتے لب دھرے تھے۔ اسکی آنکھوں کے بعد اسکے لب سرکتے ہوئے اسکے رخسار چھونے لگے ، ٹھوڑی پہ لب رکھ کر وہ اسکے لبوں پہ آیا تھا۔ اور ایک بار پھر اسکے لبوں سے محبت کا جام پینے لگا تھا۔ شعلہ آنکھیں مینچے بے جان سی اسکے رحم و کرم پہ پڑی تھی۔ عالم نے اسے اپنی پناہوں میں بھینچا تھا۔ اسکے لمس میں شدت سی در آئ تھی۔ شعلہ اسکے گرد نرمی سے اپنے بازو باندھ گئ تھی۔ اسکے لمس پہ عالم کی گرفت میں مزید جنوں اتر آیا تھا۔ چاند دھیرے سے بادلوں کی اوٹ میں ہو گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
صبح کا سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ عالم شعلہ کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ کب سے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر وہ اٹھنے کا نام نہی لے رہی تھی۔
" جانٍ تمنا ۔۔۔ اٹھ جاؤ نہی تو پھر میں نہی اٹھنے دونگا۔۔۔" عالم اسکی گردن میں چہرہ چھپا کر گویا ہوا۔
" یارر مجھے اٹھا کر کیا ملے گا تمہیں ، مجھے سونے دو تم جاؤ آفس کل بھی نہی گئے تھے۔۔" وہ کروٹ بدل کر گویا ہوئ۔
" کیا مطلب۔۔۔ ہے اس بات کا میں نے سوچا تھا۔ آج صبح تم اچھی بیویوں کی طرح مجھے جگاؤ گی۔ مجھ سے پوچھو گی۔ کہ اجی سنیئے ناشتہ میں کیا لیں گے۔۔۔؟
پھر میں کہوں گا۔ بس ایک میٹھی اور کڑک سی کِس۔۔" عالم اسے خود میں بھینچ کر گویا ہوا۔
" چھی۔۔۔ اب یہ بہت زیادہ ہورہا ہے۔۔" وہ کہنی اسکے پیٹ میں مار کر اس سے دور ہوئ تھی۔ عالم اپنی تکلیف نظر انداز کرتا۔ مزید اسکے قریب آیا تھا۔ وہ اس سے مزید دور سرکی تھی۔ عالم مزید قریب ہوا اور اب کی بار وہ سرک کر بیڈ سے نیچے گری تھی۔ عالم کی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔ شعلہ زمین پہ پڑی اپنی کمر تھام کر کرآہ رہی تھی۔ عالم جلدی سے بیڈ سے اتر کر اسکی اٹھنے میں مدد کرنے لگا۔
" لگی تو نہی۔۔۔" عالم نے بتیسی کی نمائش کرکے پوچھا۔
" نہی۔۔۔" وہ چبا کر گویا ہوئ۔
" پکا ناں۔۔؟" عالم نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔
" ہمم۔۔" وہ زبردستی کی مسکان ہونٹوں پہ لاکر گویا ہوئ۔ اور اسکے بازو پہ ہاتھ رکھ کر اسے پرے دھکیلا تھا۔
" ارے اگر لگی نہیں ہے۔ تو مجھ سے کیوں چڑ رہی ہو۔۔۔" عالم اسکے پیچھے ، پیچھے چلتے گویا ہوا۔
" پیچھے آنا بند کرو میرے۔" شعلہ رک کر مڑی تھی۔
" تمہیں کیا تکلیف ہے۔ میں اپنی بیوی کے پیچھے آرہا ہوں۔۔" وہ اسکا چہرہ واپس آگے موڑ کر بولا۔
" زیادہ اوور اسمارٹ نا بنو۔ پیچھے جاکر بیڈ پہ بیٹھو۔ اور اگر سکون سے نہی بیٹھا جا رہا تو شرافت سے آفس کے لیئے نکل پڑو۔" وہ اسے گھور کر کہتی واشروم میں گھسی تھی۔ اور وہ بھی اسکے پیچھے پیچھے اندر آیا تھا۔ شعلہ نے کمر پہ ہاتھ رکھ کر چندھیائ ہوئ نظروں سے گھورا تھا۔ میر عالم نے اسکی گھوری پہ نا سمجھی سے کندھے اچکائے تھے۔ شعلہ نے شہادت کی انگلی سے اسے باہر نکلنے کا اشارہ کیا تھا۔ عالم نے مسکراتی نگاہوں سے اسکی انگلی کے اشارہ کو دیکھا۔
" باہر نکلو۔۔۔" وہ دانت پیس کر اسے باہر نکلنے کا بولی۔
" نکل جاؤں گا۔ پر پہلے ایک بار پیار سے مسکرا کر دیکھو مجھے۔۔" وہ اسکے قریب ہوتا فرمائشی انداز میں گویا ہوا۔
" کس خوشی میں۔۔؟؟" وہ دونوں ہاتھ باندھ کر کسی سخت گیر استانی کی مانند مستفسر ہوئ۔
" کس خوشی میں۔۔؟؟ یہ بھی بھلا کوئ پوچھنے والی بات ہے۔ افکارس اتنی رومینٹک رات گزارنے کے بعد کم از کم تم مجھے آفس بھیجنے تک تو محبت بھری مسکان دے کر رخصت کر ہی سکتی ہو۔۔" وہ اسکی کمر کے گرد اپنے ہاتھ لپیٹ کر گویا ہوا۔
" یہ کیا فالتو کی حرکت کر رہے ہو۔ اب رات کو تمہیں من مانی کرنے دے دی۔ اسکا مطلب ہر گز نہی کہ تم بس ہر وقت ہی لگے رہو۔۔۔" وہ جھنجھلا کر کہتی۔ اسکے ہاتھ اپنی کمر پہ سے ہٹانے کے جتن کرنے لگی۔
" کیا مطلب تمہیں کیا لگتا ہے۔ میں تمہاری اجازت کا انتظار کرونگا۔" وہ ذرا سختی سے گویا ہوا۔ پر مقابل کھڑی لڑکی پہ کہاں اسکا غصہ اثر انداز ہونا تھا۔
" زیادہ خود کو ہٹلر بنانے کی ضرورت نہی ہے۔ اب باہر نکلو۔ مجھے نہانا ہے۔ عارض جاگ گیا ناں تو میں ہر کام سے رہ جاؤں گی۔۔" وہ ٹھنڈے لہجہ میں اس پہ حکم صادر کر رہی تھی۔
" چلو چھوڑ دیتا ہوں۔ کیا یاد کرو گی۔ پر آج رات میں گھر نہی آؤں گا۔ بلکہ تم ڈرائیور کے ساتھ پہلے عارض کو حیدر کی بیوی کے پاس چھوڑو گی۔ اسکے بعد تم ڈرائیور کے ساتھ میرے بھیجے گئے ایڈریس پہ پہنچو گی۔ تم نے تو میرے لیئے کچھ اسپیشل نہی کیا۔ پر میں نے تمہارے لیئے کچھ بہت اسپیشل پلین کیا ہے۔" وہ اسکے ہونٹوں پہ نرمی سے جھکتا واپس پیچھے ہٹا تھا۔
" نہی چاہیئے تمہارا کوئ اسپیشل پلین۔ بھلا فائدہ کیا ہوا تمہارے اسپیشل پلین کا طعنہ مار مار کر آخر میں بیوی کو اسپیشل پلین کا چونا لگا جاؤ.." وہ خفگی سے گویا ہوئ۔
" چلو زیادہ بنو مت میں کہہ رہا ہوں وقت پہ پہنچ جانا۔۔" عالم نے اپنی باہوں میں سما کر اسے خود میں بھینچا تھا۔ شعلہ کے ہونٹوں پہ سکون بھری ایک پیاری سی مسکان دوڑ آئ تھی۔
" اوکے میں چلتا ہوں۔۔" عالم اسکے ماتھے پہ بوسہ دے کر اس سے دور ہوا تھا۔
" نیچے سے ملازمہ کو بولو عارض کے پاس آکر بیٹھ جائے۔۔" وہ اسے نکلتا دیکھ کر واشروم کا دروازہ بند کرکے گویا ہوئ۔
وہ سر کو اثبات میں جنبش دیتا نکل گیا تھا۔ ملازمہ کو شعلہ کا پیغام دے کر۔ کلائ پہ بندھی گھڑی میں وقت دیکھتا وہ دفتر کے لیئے نکل چکا تھا۔
☆☆☆☆☆
شام کا وقت تھا۔ شعلہ آئینے کے آگے کھڑی خود کو ایک نظر دیکھ تسلی کرتی مڑی تھی۔ آج اسکا لباس سیاہ کے بجائے سرخ تھا۔ سرخ رنگ کی کھڑی لمبی ٹخنوں کو چھوتی کمیز اور اسکے ساتھ تنگ کھڑا بجامہ اسے مزید دراز قامت بنا رہا تھا۔ (Rose gold) کلر کی ہائ ہیلز ، کانوں میں درمیانے سائز کے ہوپس اسکے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ چہرے پہ سجا ہلکا ، ہلکا میک اپ اور بالوں کو آگے سے ٹویسٹ کرکے پیچھے ڈھیلی سی پونی اور بالوں میں سے نکلتی آوارہ لٹیں اس کے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ وہ عارض کو بھی تیار کرچکی تھی۔ اپنا بیگ اٹھاتی عارض کو گود میں لے کر وہ نیچے آئ تھی۔ ملازمہ منہ کھولے اسے تکتی رہ گئ تھی۔
" میڈم آج تو آپ بڑی پیاری لگ رہی ہو ۔۔" ملازمہ کی بات پہ شعلا ہلکا سا مسکائ تھی۔
" تھینک یو۔۔ بائے دا وے گھر کا خیال رکھنا اور عارض کے کپڑے اوپر روم میں باسکٹ میں ہیں۔ انکو اٹھا کر لانڈری میں دھلوا دو ۔۔۔" وہ ملازمہ کو ضروری ہدایات دیتی۔ باہر آکر گاڑی میں بیٹھی تھی۔ کچھ ہی دیر میں گاڑی حیدر اور ساوری کے گھر کی جانب گامزن تھی۔ جب یکدم گاڑی کے ٹائر چرچرائے تھے۔ گاڑی ایک جھٹکے سے رکی تھی۔ شعلہ نے عارض کو اپنے سینے میں بھینچا تھا۔ اسکی چھٹی حس اسے خطرے کا الارم بجا رہی تھی۔
" کیا ہوا گاڑی کیوں روکی۔۔۔؟؟" شعلہ نے اپنا آپ سنمبھال کر پوچھا۔
" میم آگے کوئ بہت سارے آدمی کھڑے ہیں۔ مجھے تو چور لگتے ہیں۔" ڈرائیور بھی ڈر چکا تھا۔
" تم عارض کو لو۔ اور گاڑی کے دروازے اچھے سے لاک کر دو۔۔۔ میں آتی ہوں۔۔۔" وہ عارض ڈرائیور کو تھاماتی گاڑی سے نیچے اتری تھی۔ وہ گاڑی سے اتر کر جیسے ہی انکی طرف قدم بڑھاتی آئ تھی۔ پیچھے سے ڈرائیور گاڑی لیکر فرار ہوگیا تھا۔ شعلہ نے حیرت زدہ ہوکر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اسے کچھ سمجھ نہی آئی۔ اسنے ڈرائیور کو کھڑے ہونے کو کہا تھا۔ اور وہ عارض کو گاڑی میں لیکر نکل گیا۔ ایک دم سے بہت ساری گاڑیوں کے اسٹارٹ ہونے کی آواز پہ وہ مڑی تو وہ اب چلے گئے۔ وہ سب سمجھتی چلاتی ہوئ اپنی گاڑی کے سمت بھاگی تھی۔ ڈرائیور بھی غدار نکلا تھا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔ وہ چلاتی ہوئ گاڑی کے پیچھے بھاگ رہی تھی۔ جب اونچی ہیل کے باعث وہ لڑکھڑا کر روڈ پہ ہی گری تھی۔ اسکے حواس سلب ہونے لگے تھے۔
"۔۔ عارض۔۔۔ میرا بچہ۔" وہ پھوٹ پھوٹ کر رہ رہی تھی۔
" نہی ۔۔۔ یہ رونے کا ٹائم نہی ہے۔ میرے بچے کو مار دیں گے وہ لوگ۔۔۔" وہ اپنے کراس باڈی بیگ میں سے موبائل نکال کر عالم کے نمبر پہ کال ملانے لگی۔ پہلی ہی بیل پہ عالم نے کال اٹینڈ کر لی۔ دوسری جانب سے عالم کی ہشاش سی آواز آئ۔
" ابھی تک نہی پہنچی تم۔ کب سے انتظار کر رہا ہوں۔۔"
" عالم۔۔۔ وہ لوگ عارض کو لے۔۔۔ گئے۔۔۔ عالم میرا ۔۔۔ بچہ ۔۔۔ وہ لوگ مار دیں گے میرے بچے کو۔۔۔ عالم۔۔۔۔۔ہہہ۔۔۔" وہ چلائ تھی۔
" کیا کہہ رہی ہو۔ تم۔مجھے کچھ سمجھ نہی آرہی۔۔۔" عالم کو کسی انہونی کا احساس ہوا تھا۔
" عالم ۔۔۔ وہ شخص ہمارے بچے کو لے گیا عالم۔۔۔" شعلہ ایک بار پھر سسکی تھی۔
" تم کہاں ہو اسوقت مجھے بتاؤ۔ میں تمہیں لینے آرہا ہوں۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔
شعلہ نے اسے اپنا پتہ بتایا۔ تو عالم نے کال کاٹ دی کوئ بیس منٹ بعد عالم وہاں پہنچ چکا تھا۔ شعلا ویسے ہی روڈ کے بیچ و بیچ لٹی پٹی حالت میں بیٹھی تھی۔ عالم گاڑی سے اتر کر اسکے پاس آیا تھا۔ اور اسے اپنے ساتھ کھڑا کیا تھا۔ وہ عالم کو اپنے سامنے دیکھ اسکے سینے سے لگتی سسک پڑی تھی۔
" ساری میری۔۔۔۔ غلطی ہے۔۔۔ عالم سب میرا قصور ہے۔۔۔" وہ اسکے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
" شش سب ٹھیک ہوجائے گا۔ چلو جلدی۔۔۔ اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے۔۔۔" عالم نے اسکی پیٹ سہلا کر اسے گاڑی میں لاکر بٹھایا۔ اور گاڑی وہ حیدر کے گھر کی جانب رواں دواں کر گیا۔
☆☆☆☆☆
" عالم بھائ یہ ڈرائیور نیا تھا ناں۔۔۔؟؟" حیدر نے عالم سے پوچھا۔
" ہاں ابھی کوئ پندرہ دن پہلے ، اس نئے ڈرائیور کو جاب دی تھی۔ مگر ریفرنس پہ دی تھی۔ پچھلے ڈرائیور کا جاننے والا تھا یہ۔۔" عالم نے گہری سانس لیکر اسے بتایا۔
" پرانے ڈرائیور کا کوئ کنٹیکٹ نمبر۔۔۔؟؟" حیدر نے جھٹ پوچھا۔
" نمبر ۔۔ ہاں شاید مصطفی کے پاس ہو۔ میں اسے کال کرکے اس سے مانگ لیتا ہوں۔۔" عالم نے موبائل پاکٹ سے نکال کر واٹس ایپ کھولا تھا۔ صد شکر اس وقت مصطفی آنلائن ہی تھا۔ عالم نے مصطفی کو کال ملائ۔ تھوڑی ہی دیر میں اسکی کال اٹھا لی گئ۔
" اسلام و علیکم عالم بھائ کیسے ہیں آپ۔۔۔ گھر میں سب کیسے ہیں۔۔۔؟؟" مصطفی کی سرشار سی آواز آئ۔
" وعلیکم ۔۔۔ اسلام ۔۔۔۔ آآ۔۔۔ مصطفی ۔۔۔ کیا پرانے ڈرائیور کا نمبر تمہارے پاس ہے۔۔؟" عالم نے سلام کا جواب دے کر جھٹ کام کی بات پوچھی۔
" کیوں خیریت۔۔۔؟؟" مصطفی کی حیران و پریشان سی آواز آئ۔
" وہ ایک اور ڈرائیور کی ضرورت ہے تو مجھے لگا اسی سے پوچھ لیں کیا پتہ دوسرا کوئ ڈرائیور بھی اسکی نظر میں ہو۔۔۔" میر عالم نے بہانا گھڑا۔
" مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے۔ بات یہ نہی جو آپ بتا رہے ہیں۔ بات کچھ اور ہے۔۔۔" مصطفی کو تشویش لاحق ہوئ۔
" ارے سچ کہہ رہا ہوں۔ تم بھی ناں۔۔۔!!
عجیب ہو ایک دم سے تمہارے اندر کا جاسوس جاگ جاتا ہے۔۔" عالم نے بات کو مذاق میں اڑانا چاہا۔
" پلیز کیا ہوا ہے۔ آپ ۔مجھے بتائیں۔ نہی تو ہم جس طرح سے گھر سے نکل کر گئے تھے۔ اُس بات پر تو آپ مجھ سے باز پرس کرتے۔ مگر آپ نے تو ڈائریکٹ ڈرائیور کا پوچھا۔" مصطفی بھی اسکی رگ رگ سے واقف تھا۔
" نہی یار ایسی کوئ بات نہی ہے۔ تم فالتو میں سوچ رہے ہو۔ بس میں تو ایسے ہی پوچھ رہا تھا۔۔۔" عالم سر تھام کر رہ گیا تھا۔ وہ مصطفی کو عارض کے اغوا ہونے کا بتا کر نازنین اور مصطفی کو پریشان نہی کرنا چاہتا تھا۔
" ٹھیک ہے آپ نا بتائیں کیا بات ہے۔ میں بیا کو کال کرکے پوچھا لیتا ہوں۔۔" مصطفی کی بات سن کر عالم کو آخر ہار ماننی ہی پڑی۔ اور اسنے تمام صورتحال سے مصطفی کو آگاہ کیا۔ مصطفی اسکی بات سن کر چکرا کر رہ گیا تھا۔ اسنے ڈرائیور کا نمبر عالم کو دیا۔ اور جلد سے جلد پاکستان واپس آنے کا بتا کر کال کاٹ دی۔ عالم اور حیدر نے پرانے ڈرائیور کو کال کی تو اسنے لاعلمی کا اظہار کیا۔ حیدر اور عالم پوری رات عارض کو ڈھونڈتے رہے۔ انہیں جہاں ، جہاں شک تھا۔ کہ عارض کو وہ لوگ وہاں لے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے ہر جگہ چھان لی تھی۔ وہ دونوں فجر سے کچھ دیر پہلے تھکے ماندے گھر لوٹے۔ شعلہ جو جلے پیر کی بلی بنی انکا انتظار کر رہی تھی۔ عالم کو اندر آتا دیکھ عالم کی جانب لپکی تھی۔
" عالم۔۔۔۔ عارض ۔۔۔ مل گیا ناں۔۔۔۔ عارض کہاں۔۔۔ ہے۔۔۔ میر۔۔۔؟؟" وہ پے در پے کئ سوال کرتی عالم کے شکستہ خوردہ وجود کو دیکھ کر ایک پل کو رکی تھی۔
" میرا بیٹا کہاں ہے عالم۔۔۔؟؟" وہ اسکو گریبان سے تھام کر سسکی تھی۔ ساوری نے منہ پہ ہاتھ دھرا تھا۔ وہ بہت زیادہ اسٹریس میں تھی۔ جس کے باعث اسے خود اندازہ نہی تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔
" ہم۔۔۔ نے بہت کوشش۔۔۔ کی اسے ڈھونڈنے کی مگر۔۔۔۔" عالم نے گہری سانس لیکر کہا۔
" مگر کیا۔۔۔۔؟؟
مجھے کوئ اگر مگر نہی سننی مجھے میرا بچہ لاکر دو۔ تم نے کہا تھا۔ تم اسکو اور مجھے پروٹیکٹ کروگے۔ پر تم۔۔۔ میرے بچے کو پروٹیکٹ نہی کرسکے۔۔ عالم میں تمہیں جان سے مار ڈالوں گی۔۔۔" وہ اسے گریبان سے جکڑے سرخ آنسوؤں بھری نظروں سے گھور کر گویا ہوئ۔
" شش۔۔۔ رونا بند کرو آجائے گا وہ۔ پریشان نا ہو۔۔۔" عالم نے اپنے بازو اسکے گرد لپیٹے تھے۔
" کیسے۔۔۔ رونا بند کروں میں۔ میرا چھوٹا۔۔۔ سا بچہ کس حال میں ہوگا عالم۔۔۔ تمہیں کیا پتہ۔۔۔ تم تو جانتے ہو اس آدمی کو کتنا ظالم ہے وہ۔۔۔" وہ سسک کر گویا ہوئ۔
" جانتا ہوں۔ پر یہ وقت جذباتیت دکھانے کا نہی ہے۔ دعا کرو۔۔۔ کہ عارض کو کچھ نا ہو۔۔۔" عالم نے آنکھیں قرب سے موند لی تھیں۔
حیدر انکا درد محسوس کرتا لب بھینچ گیا تھا۔ مگر وہ بھی بے بس تھا۔ کچھ نہی کرسکتا تھا۔ وہ اپنے جان عزیز بھائ کے لیئے۔
تین دن گزر چکے تھے۔ پر اب تک وہ لوگ عارض کا پتہ نہی لگا سکے تھے۔ عالم کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ انہوں نے پولیس رپورٹ بھی دائر نہی کرائ تھی۔ یہ سوچ کر کہ کہیں وہ لوگ عارض کو نقصان نا پہنچا دیں۔ شعلہ بے حال سی پڑی تھی۔ رو رو کر اسکا وجود نڈھال ہوچکا تھا۔ کل سے تو وہ شدید بخار کی لپیٹ میں تھی۔ عارض کا سوچ سوچ کر وہ اپنا حال بے حال کر بیٹھی تھی۔ عالم بے حد مجبور تھا۔ وہ کچھ بھی نہی کرسکتا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ جیسے کسی گہرے سمندر میں اسے ہاتھ پیر باندھ کر پھینک دیا ہو۔ نازنین اور مصطفی آج صبح ہی ترکی سے واپس آچکے تھے۔ نازنین شعلہ کے پاس بیٹھی اسے کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ حیدر اور ساوری بھی انہی کے ساتھ انکے گھر آگئے تھے۔ ذرا سی آہٹ پہ شعلا چونک اٹھتی تھی۔ اسکی انتظار کرتی نگاہیں داخلی دروازے کی جانب ہر پل مرکوز رہتیں۔ مگر شاید اسکا انتظار محض انتظار ہی بن کر رہ گیا تھا۔ وہ سب افسردہ سے بیٹھے تھے۔ جب عالم کا موبائل بجا۔ عالم نے موبائل کی اسکرین کو غور سے دیکھا۔ کسی پرائیوٹ نمبر سے کال تھی۔ عالم نے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا۔
" بیٹے کی یاد تو بہت آرہی ہوگی۔۔۔" اس شخص کی آواز جیسے ہی عالم کی سماعتوں سے ٹکرائ عالم اسے پہچان گیا۔
" شرافت سے بتاؤ میرا بیٹا کہاں ہے۔۔؟؟" عالم بے بسی سے چلایا تھا۔
سب یکدم عالم کی جانب متوجہ ہوئے تھے۔
" بتا دیں گے ، بتا دیں گے۔۔ اتنی بھی جلدی کیا ہے۔۔" مقابل نے شیطانی مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجا کر کہا۔
" میرے بیٹے کو اگر ذرا سی بھی کھروچ آئ ناں تو میں کھڑے ، کھڑے تم سب کی لاشیں گرا دوں گا۔۔۔" عالم تقریبا چلایا تھا۔
شعلا ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ نازنین نے اسے اپنے گلے سے لگایا تھا۔
" لگتا ہے بیٹے سے بڑا پیار ہے۔۔۔ پر ہو بھی کیوں ناں اولاد جو ہے۔۔" مقابل کا شیطانی قہقہ میر عالم کا خون کھولا گیا تھا۔
" دلاور خان ۔۔۔ میری بات کان کھول کر سن لو اگر میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو میں اب ختم کردونگا۔ تباہ کردوں گا تم سب کو۔۔۔" عالم کی آنکھوں سے وحشت ٹپک رہی تھی۔
" ٹھیک ہے۔ تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔ نہی لگاؤں گا تمہارے بیٹے کو ہاتھ ، مگر اسکے لیئے بھی میری ایک شرط ہے۔" دلاور خان کی بات سن کر عالم نے آنکھیں موند کر گہری سانس خارج کی تھی۔
" مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔" میر عالم نے جلد بازی سے کام لیا۔ حیدر اور مصطفی اسکی جذباتیت پہ سر تھام کر رہ گئے تھے۔
" ٹھیک ہے۔ پھر کل تمہارے گھر کے سامنے ہماری گاڑی آئے گی اس میں تمہارا بیٹا ہوگا اپنا بیٹا لے کر۔ اپنی طوائف بیوی کو گاڑی میں ڈال کر ہمیں بھجوا دینا۔۔"
" میں جان لے لوں گا تیری اس بکواس پہ۔۔۔" عالم بھڑکا تھا۔
" ٹھیک ہے۔ پھر کل تمہاری بیوی اگر نہی آئ تو تم کو اپنے بیٹے سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔۔" دلاور خان کا لہجہ ہتمی تھا۔ کہتے ساتھ ہی اسنے مزید سنے بغیر کال کاٹ دی۔
" بات سنو میری تم ایسے کال نہی کاٹ سکتے۔۔" وہ بے بسی سے چلایا تھا۔ موبائل اٹھا کر اسنے دیوار پہ دے مارا تھا۔
" آرام سے بھائ۔ یہ وقت جوش سے نہی بلکہ ہوش سے کام لینے کا ہے۔" مصطفی نے میر کا غصہ بے قابو ہوتے دیکھ کر کہا۔
" کیا کہا ہے۔۔۔ اس نے۔۔؟؟" شعلہ عالم کے مقابل آکر بیٹھی تھی۔ اسکی آنکھیں رونے اور مسلسل رت جگے کے باعث سرخ ہورہی تھیں۔ عالم نے گہری سانس لیکر لب بھیج دیئے تھے۔ اور ارد گرد ان سب کی موجودگی کو سرے سے نظر انداز کرتا اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا گیا تھا۔ شعلہ کی آنکھوں سے ایک بار پھر تسلسل سے آنسو بہنے لگے تھے۔
" کیا۔۔۔ کیا ہوا ہے۔۔۔" وہ اسکے سینے سے لگی خود کو بہ مشکل سنمبھال کر مستفسر ہوئ۔
" کچھ نہی۔۔۔ عارض بلکل ٹھیک ہے۔۔" وہ اسے خود سے ذرا سا دور کرتا اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لیتا کئ لمحے اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا۔
" مگر کل صبح کے بعد شاید وہ ۔۔۔۔ ٹھیک نا رہے ۔۔۔" عالم کی بات پہ وہ یکدم پھترا کر رہ گئ تھی۔ عالم کی آنکھیں مارے ضبط کے سرخ ہوچکی تھیں۔
" اسنے کسی شرط کی بات کی تھی۔۔۔۔ کیا شرط رکھی اس نے۔۔؟" حیدر اسکی نا امیدیں سے بھری بات نظر انداز کرتا مستفسر ہوا۔
" وہ جو چاہتا ہے۔ میں وہ نہی کر سکتا۔" عالم کی بے بسی حد سے سوا تھی۔
اسکی بات سن کر ، شعلہ کے پھترائے وجود میں یکدم جنبش ہوئ۔ اسنے میر کے ہاتھ اپنے چہرے پہ سے از حد بے رخی سے جھٹکے تھے۔ اور اسے گریبان سے تھام کر حلق کے بل چلائ تھی۔
" تم میرے بچے کو نہی بچا سکتے۔ بہت باپ ۔۔۔ ہونے کا دعوی کر رہے تھے ناں تم۔ یہ ہو تم ، بس اتنی ہی محبت تھی تمہیں عارض سے۔ میرے بچے کو اگر کچھ بھی ہوا ناں تو۔ میر عالم میں اپنے بیٹے عارض عالم کی قسم کھا کر کہتی ہوں۔ میں تمہیں زندہ نہی چھوڑوں گی۔ پچھلی بار تم مرے اس لیئے نہی کیونک میں تمہیں مارنا نہی چاہتی تھی۔ صرف تمہیں تباہ کرنا چاہتی مگر اس بار۔۔۔۔ تم زندہ نہی بچو گے۔ میں ۔۔۔ عارض کی ماں۔۔۔ ابھی زندہ ہے۔ اور وہ آج بھی وہی شعلہ ہے۔ جو دشمن سے چھپ کر بیٹھنے کے بجائے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے تباہ کرکے آتی ہے۔ میں جاؤں گی اور اپنے بچے کو آپنے بل پہ بچا کر لاؤں گی۔ تم بیٹھے رہو یہیں ، اور بس سوگ مناتے رہو۔" وہ اسکا گریبان ایک جھٹکے سے چھوڑ کر اٹھی تھی۔ وہ اسکے مقابل سے اٹھ کر نکلنے لگی تھی۔ جب عالم نے اسکی کلائ تھام کر اسے ایک جھٹکے سے واپس صوفہ پہ گرایا تھا۔
" بکواس بند کرو۔ تم نے اگر گھر سے اپنے قدم نکالنے کی غلطی کی ناں تو میں تمہاری ٹانگیں توڑ دونگا۔" عالم کا لہجہ و انداز اسے دھمکاتا ہوا تھا۔
" بکواس مجھے نہی تمہیں بند کرنے کی ضرورت ہے۔ آج میں تمہاری مصلحتوں میں نہی پڑھنے والی۔ میں اپنے بچے کو خود واپس لاؤنگی۔۔" وہ اسکی گرفت سے اپنی کلائ ایک جھٹکے سے چھڑا کر اٹھی تھی۔
" بیا۔۔۔ پلیز اسٹاپ جذباتی پن سے کام نا لو۔" نا چار مصطفی کو بیچ میں آنا پڑا تھا۔ وہ اسے کندھوں سے تھام کر سمجھا رہا تھا۔
" مصطفی۔۔۔۔!!
تم کہہ رہے ہو یہ کہ میں جذباتی ہورہی ہوں۔ مصطفی تم نے تو دیکھا ہے اسے کہ کس قدر ظالم انسان ہے وہ۔ درندہ ہے ، درندہ اور درندہ تو کسی کو نہی چھوڑتے۔ میرے بچے کو اگر کچھ بھی ہوا۔ تو میں مر جاؤں گی مصطفی۔۔۔!!
وہ بہت چھوٹا ہے۔ وہ تو۔۔۔ ابھی معصوم ہے۔ مصطفی اسکا کیا قصور ہے۔ جانتی ہوں۔ یہ میری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ پر اب میں خود اپنی غلطی سدھاروں گی۔ میں اپنے بچے کو واپس لاؤں گی۔ بھلے اسکے لیئے مجھے اپنی جان بھی گنوانی پڑے۔۔" وہ مصطفی کے ہاتھ اپنے کندھوں سے ہٹاتی باہر کی جانب بھاگی تھی۔ میر طیش کے عالم میں اسکے پیچھے لپکا تھا۔ باقی سب بھی انکے پیچھے آئے تھے۔
" شعلہ۔۔۔" عالم اسکا نام پکارتا ہوا اسکا ہاتھ تھام کر اسے اپنی جانب موڑ گیا تھا۔
" میں نہی رکوں گی۔۔۔" وہ سر نفی میں ہلاتی مکمل اعتماد سے گویا ہوئ۔
" ذرا ہوش سے کام لے لو۔۔۔" وہ اسے جھنجھوڑ کر گویا ہوا۔
شعلا کے ہونٹوں پہ ایک زخمی مسکان ابھری تھی۔ وہ عالم کی آنکھوں میں دیکھتی عالم کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑاتی اوپر کی جانب جمپ مارتی اسکے پیٹ پہ ایک زور دار ضرب رسید کرکے اسکی جیب سے گاڑی کی چابیاں ایک لمحے میں اچک چکی تھی۔
" شعلہ چابیاں واپس دو۔۔۔" میر عالم نے خود کو سنمبھال کر اسے وارننگ دیتی نظروں سے تکا۔
وہ سر کو نفی میں ہلاتی۔ جیسے ہی گاڑی کی جانب بڑھی مصطفی اسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
" یہ وقت نہی ہے۔ ایسا مت کرو۔ ہمیں سکون سے بیٹھ کر ایک پلین بنانے کی ضرورت ہے۔ آور اسی کے مطابق ہم سب کو چلنا ہوگا۔ تمہارا جذباتی پن عارض کی جان نہی بچا پائے گا۔ یہ بات تم اچھے سے جانتی ہو۔۔" مصطفی نے بیچارگی سے اسے اسکے اٹھائے گئے قدم سے آنے والی پریشانی سے آگاہ کرنا چاہا۔
" جانے دو مصطفی اسے۔ جو دل میں آتا ہے اسکے یہ وہی کرے۔ میری طرف سے بھاڑ میں جائے۔ آج عارض خطرے میں ہے تو صرف اسکی وجہ سے ، اسکے جذباتی پن کی وجہ سے۔ اب اگر عارض کو کچھ بھی ، مطلب کچھ بھی ہوا تو اسکی زمدار یہ ہوگی۔ اور اسکے لیئے میں اسے کبھی معاف نہی کرونگا۔" عالم کی بات سن کر وہ ضبط کے مارے مٹھیاں بھینچ گئ تھی۔
ہاں یہ سچ ہی تو تھا۔ سب اسی کی وجہ سے ہوا تھا۔ بدلہ کی آگ میں جلتے جلتے وہ اپنے بیٹے کو ہی اس آگ میں جھونک گئ تھی۔
" چاہتے کیا ہو تم لوگ مجھے بتاؤ۔ تم سب کی طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں۔ تم لوگ نہی سمجھ سکتے اس وقت میں کس تکلیف سے گزر رہی ہوں۔۔" وہ بے بسی سے چلا کر گویا ہوئ۔ ۔
" صحیح کہہ رہی ہو ہمیں نہی پتہ تم کس تکلیف سے گزر رہی ہو۔ کیونکہ میں بہت خوش ہوں ناں کہ میرا چھوٹا سا بچہ اس زلیل آدمی کے چنگل میں ہے۔" عالم طنزیہ کہتا اندر چلا گیا تھا۔
" اس سے کہہ دو مجھ سے ایسے طنزیہ لہجہ میں بات نا کرے۔ ورنہ جان لے لوں گی میں اسکی۔۔" شعلہ گاڑی کی چابیان زور سے پھینک کر مصطفی کو انگلی دکھا کر بولی۔ مصطفی گہری سانس بھر کر رہ گیا۔
" اوکے چلو اندر۔۔" مصطفی اسے لیکر اندر چلا گیا تھا۔ حیدر ساوری اور نازنین بھی انکے پیچھے ہو لیئے تھے۔
☆☆☆☆☆
وہ اوپر کمرے میں آئ تو ، عالم اپنا پیٹ پکڑ کر بیٹھا ہوا تھا۔ عالم مکمل طور پہ اسے نظر انداز کر رہا تھا۔ شعلہ نے کھا جانے والی نگاہوں سے اسے گھورا۔ اور کمرے میں ترتیب سے پڑی ہر چیز کو ایک پھر اٹھا ، اٹھا کر پٹخنے لگی تھی۔ عالم نے اسکی حرکت پہ سر جھٹکا تھا۔
" پتہ نہی لوگ خود کو کیا سمجھتے ہیں۔ میرا بیٹا میرے پاس نہی ہے۔ تو میں تو پریشان ہونگی ناں۔۔۔ میں غصہ بھی کروں گی میں لڑوں گی بھی۔ پر یہاں تو لوگوں کے اپنے نخرے ختم نہی ہوتے۔۔" وہ اونچا اونچا بڑبڑانے لگی تھی۔
" وہ تمہارا اکیلے کا بیٹا نہی ہے۔ میرا بھی لخت جگر ہے۔ تم عورت ہو تو تم رو دھو کر لڑ جھگڑ کر اپنا درد باہر نکال رہی ہو۔ پر میں ۔۔۔ میرا دل پھٹا جارہا ہے۔ کسی کو میرا بھی کوئ احساس نہی میرا بی پی شوٹ کر جائے گا تب تمہیں چین آئے گا۔۔۔" وہ خفگی سے کہتا گہری سانس لیتا اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس آیا تھا۔ جو اب بھی ہر چیز کو اٹھا کر واپس پٹخ رہی تھی۔
" ادھر دیکھو۔۔۔" عالم نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا۔
" نہی دیکھنا۔۔۔" وہ آنکھوں میں تیرتی نمی چھپا کر نروٹھے پن سے گویا ہوئ۔
" اچھا اوکے سوری۔۔۔" عالم نے اسکا چہرہ ٹھوڑی سے تھام کر اوپر کیا۔ اسکی آنکھیں جو لبالب نمکین پانیوں سے بھری تھیں۔ یکدم آنسو تواتر سے پھسلتے اسکے رخسار کی زینت بن گئے تھے۔
" عارض بلکل ٹھیک ہوگا۔ تم دیکھنا کل عارض ہمارے ساتھ ہوگا۔۔۔ انشاءاللہ ۔۔" عالم نے پر امید لہجہ میں کہا اور شعلہ کو اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
" انشاءاللہ۔۔" وہ اسکے سینے پہ اپنے گال رگڑ کر آنسو صاف کرتی گویا ہوئ۔
عالم اسکی کمر سہلا کر اسے مزید خود میں بھینچ گیا تھا۔ کمرے کے دروازے پہ دستک ہوئ تو وہ دونوں ایک دوسرے سے دور ہوئے۔ عالم نے دستک دینے والے کو اندر آنے کی اجازت دی۔
" بھائ وہ۔۔ آپ نے جو مصطفی سے کہا تھا ، وہ کام ہوگیا ہے۔" نازنین ذرا سا دروازہ کھول کر دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے ہوکر گویا پوئ۔
" اوکے۔۔ شعلہ چلو۔۔۔" عالم نے سنجیدگی سے کہا۔ اور نازنین کے پیچھے ہی کمرے سے نکل کر چلا گیا تھا۔ شعلہ بھی انکے پیچھے ہی نیچے آئ تھی۔ ساوری اور نازنین لاؤنج میں بیٹھے آئرہ کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ مصطفی ، عالم اور حیدر اسٹڈی روم میں تھے۔ شعلہ جیسے ہی لاؤنج میں آکر آنکے پاس بیٹھنے لگی۔ حیدر نے اسٹڈی روم سے نکل کر اسے اندر آنے کو کہا۔ وہ سر ہلاتی۔ اسٹڈی روم میں آئ۔
" شعلہ۔۔۔ سنو میری بات ہم نے ایک پلین بنایا ہے۔ اٹس رسکی پر پھر۔بھی ہمیں یہ کرنا پڑے گا۔ بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا تمہیں۔ کیونکہ یہ کام تمہیں ہی کرنا ہے۔ ہمارے پاس کوئ بیک اپ پلین نہی ہے۔ اسی لیئے جو کرنا ہے وہ اسی پلین کے ساتھ کرنا ہے۔ یہ دیکھو یہ جیکٹ اس کی ساخت مکمل طور پہ خودکش جیکٹ جیسی ہے۔ پر یہ خودکش جیکٹ نہی ہے۔ پر یہ بات صرف تم میں اور حیدر ، مصطفی جانتے ہیں۔ وہ لوگ نہی جانتے۔ دلاور خان نہی جانتا یہ بات۔ بس ہمیں اسی بات کا فائدہ اٹھانا ہے۔ اور تمہیں کیسے بھی کرکے وہاں سے خود کو بچا کر نکلنا ہے۔ وہ بہت شاطر ہے اور اسنے شرط ہی تمہارے اسکے پاس جانے کی رکھی ہے۔ کر لو گی ناں تم یہ۔" وہ اسکے دونوں ہاتھ تھامتا فکر مندی سے مستفسر ہوا۔
" میں کرسکتی ہوں یہ۔ اس سے زیادہ خطرناک کام کرچکی ہوں یہ بھی کرلوں گی۔" وہ ایک عزم لیئے گویا ہوئ۔
" بس۔۔ ہم تمہارے وہاں پہنچ جانے کے بعد پولیس کو بھی انفارم کر دیں گے۔ اوکے۔۔۔ بس تم انہیں الجھائے رکھنا ہے۔۔" عالم نے اسکے چہرے کو دونوں ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر کہا۔
" ہمم۔۔۔" شعلا نے سر اثبات میں ہلایا۔ عالم گہری سانس لیتا لب بھینچ کر پھیکا سا مسکایا تھا۔
☆☆☆☆☆
اگلے دن پلین کے مطابق شعلہ صبح کا اجالا نکلنے سے پہلے ہی سیاہ چادر اوڑھ کر عالم کے ساتھ باہر نکل گئ تھی۔ دلاور خان کا آدمی گاڑی کے باہر عارض کو گود میں لیئے کھڑا تھا۔ شعلہ کی آنکھیں یکدم نم ہوئ تھیں۔ عالم نے اس آدمی سے عارض کو لیا۔ تو شعلہ شکر کا سانس لیتی خاموشی سے گاڑی میں بیٹھی تھی۔ عالم نے شعلہ کو سنجیدگی سے تکا۔ شعلہ نے ہلکے سے آنکھیں جھپک کر اسے تسلی دی۔
" یہاں کھڑا کیا کر رہا ہے چل جلدی سیدھا نکل۔۔۔" اس آدمی نے عالم کو اپنی جگہ جمے دیکھ کر کہا۔
میر عالم کی کنپٹی کی رگیں طیش کے باعث ابھر آئ تھیں۔ مگر وہ ضبط کرتا گھر کی جانب واپس مڑا تھا۔ وہ دروازہ کھول کر ابھی اندر قدم رکھنے ہی والا تھا۔ جب گاڑی اسٹارٹ ہونے کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائ۔ اسنے مڑ کر دیکھا تو وہاں سے گاڑی نکلتی ہوئ دور نظر آرہی تھی۔ عالم نے سامنے کھڑے بڑے درخت کے پیچھے کھڑے لوگوں کو پلکوں کی جنبش سے اشارہ کیا تھا۔ اور خود واپس اندر چلا گیا۔
☆☆☆☆☆
شعلہ گاڑی سے اتری تو اس شخص نے اسے بازو سے تھام کر گھسیٹنا چاہا۔
" دور رہو۔۔۔ میں خود چل رہی ہوں ناں ہاتھ نا لگاؤ مجھے۔۔" وہ ہاتھ کے اشارے سے اس شخص کو روکتی ماتھے پہ لاتعداد شکنوں کا جال بچھائے اسکے ہمراہ ہوئ تھی۔
وہ شخص تمسخر سے ہنستا اس سے آگے ، آگے چلنے لگا تھا۔ شعلہ نے اپنے گرد لپٹی سیاہ چادر کو مضبوط سے تھاما۔ وہ لوگ ایک تاریک گلی میں اترنے لگے تھے۔ اور پھر ایک گلی سے کئ گلیاں نکل رہی تھیں۔ ان گلیوں سے گندی دبی دبی بدبو آرہی تھی۔ شعلا کا دل بند ہونے لگا۔ شراب کی بدبو اسکا سانس بند کرنے لگی تھی۔ ان پتلی تاریک گلیوں سے نکل کر وہ ایک کھلے میدان میں آئے تھے۔ جسکے چاروں طرف کھنڈر عمارتیں کھڑی تھیں۔ شعلہ مستحکم قدم اٹھاتی اس کھلے میدان کے بیچ و بیچ آکر کھڑی ہوئ تھی۔ ایک کھنڈر عمارت سے وہی درندہ آرہا تھا۔ شعلہ کی زندگی کے بدترین ماہ و سال اسکی نظروں کے سامنے ایک بار پھر کسی فلم کی مانند چلنے لگے۔ شعلہ کی آنکھوں میں ایک آگ تھی۔ جو مقابل کو جھلسا کر بھسم کردینا چاہتی تھی۔ وہ شخص تکبر بھری چال چلتا اسکے پاس آیا تھا۔ پہلے جیسی اس آدمی کی جوانی بھی نہی رہی تھی۔ مگر شاید آج بھی اسے خوف خدا نہی آیا تھا۔ وہ شخص غلیظ نظروں سے اسے دیکھتا اپنی منچھوں کو تاؤ دیتا قہقہہ لگا کر اسے بڑی گہری نظروں سے تک رہا تھا۔
" دلکش۔۔۔۔ حسین ۔۔۔۔ قیامت ۔۔" اس شخص نے اسکے رخسار کو چھونا چاہا۔ شعلہ نے آنکھیں موند کر کھولیں۔ اور اسکا ہاتھ اسکے چہرے کو چھونے سے پہلے ہی شعلہ نے جھٹکا تھا۔
" افف آگ ہو تم تو۔۔" دلاور خان خباثت سے مسکرایا تھا۔
شعلہ کے ہاتھ چادر کے اندر حرکت کرنے لگے تھے۔ اور یکدم اسنے چادر کو خود سے دور جھٹکا تھا۔ چوہدری دلاور خان اسکے جسم پہ خود کش جیکٹ دیکھ کر دو قدم پیچھے ہوا تھا۔ اسکے چہرے کا رنگ اڑا تھا۔
" دھوکا کیا ہے تم لوگوں نے ، بہت پشتانا پڑے گا تمہیں اور تمہارے خاندان کو۔۔۔" دلاور خان غصہ سے سرخ لال بھبھوکا چہرہ لیئے غرایا تھا۔
" جو کرنا ہے کر لو۔ مگر آج نا میں یہاں سے زندہ جاؤں گی ناں تم۔۔۔ آج تم سب کو یہاں میرے ساتھ مرنا ہوگا۔ بہت آسان ہوتا ہے۔ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا۔ لوگوں کے چہرے پہ خوف حراص دیکھ کر تمہارے اندر کے چھپے شیطان کو بڑی تسکین حاصل ہوتی ہے ناں۔۔۔۔!!
آج تمہارے چہرے پہ خوف دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔" وہ ٹھنڈے مستحکم انداز میں بولی۔
" مرے گی تو صرف تو۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔۔" وہ اپنے آدمیوں کو اشارہ کرتا نکلنے کی کرنے لگا تھا۔ جب شعلہ کی بات سن کر اسکے قدم زنجیر ہوئے تھے۔
" جتنا بھاگنا ہے بھاگ لو۔ صرف تین منٹ ہیں۔ دھماکا ہونے میں۔۔۔ جب تک تم یہ گلیاں پار کروگے تب تک یہ بلاسٹ ہوچکا ہوگا۔ اور تم اپنے انجام کو پہنچ جاؤ گے۔۔" وہ دانت پیس کر گویا ہوئ۔
" تمہیں کیا لگتا ہے تمہاری اس بات سے میں ڈر جاؤں گا۔۔۔" وہ شخص بوکھلائے ہوئے لہجہ میں گویا ہوا۔
" ڈر تو تم گئے ہو۔ اور وہ ڈر تمہارے چہرے سے صاف واضح ہے۔۔۔" وہ تمسخر سے گویا ہوئ۔
وہ شخص خوف کے باعث مکمل طور پہ پسینے سے شرابور ہوچکا تھا۔
" نہی میں نہی مر سکتا۔۔۔" وہ چلایا تھا۔ وہ ان تنگ اندھیرے گلیوں کی جانب بھاگا تھا۔ شعلہ اسے اور اسکے آدمیوں کو دیکھ استہزا سے مسکرائ تھی۔ وہ جیسے ہی ان تنگ گلیوں میں گھسے پولیس اہلکاروں نے انکو پکڑ لیا۔ وہ تین منٹ پورے ہوچکے تھے۔ مگر کوئ دھماکا نا ہوا۔ وہ اسکی چالاکی سمجھ چکا تھا۔ وہ پولیس والے کی گن اچکتا شعلہ کے دل کے مقام پہ گولی چلا گیا تھا۔ گولی کی آواز کے سنگ ارد گرد ایک زور دار آواز گونجی اور یکدم خاموشی چھا گئ۔ شعلہ کی آنکھیں ابل کر باہر کو آئ تھیں۔ وہ اپنے دل کے مقام پہ ہاتھ رکھتی۔ دھیرے سے زمین بوس ہوئ تھی۔ عالم جو اسکی جانب آرہا تھا۔ چیختا ہوا اسکی جانب لپکا تھا۔
" شعلہ۔۔۔۔" اسے بانہوں میں بھر کر وہ دیوانہ وار بھاگا تھا۔ شعلہ کے زخم سے بہتا خون عالم کے تمام کپڑوں کو رنگ چکا تھا۔ مصطفی اور حیدر بھی عالم کے پیچھے بھاگے تھے۔ چوہدری دلاور خان اور اسکے آدمیوں کو پولیس گرفتار کرکے لے گئ تھی۔ انکے تمام غیر قانونی کام ایکس پوز ہوچکے تھے۔ پولیس ویسے بھی انکو پکڑنے کی کوشش میں لگی تھی۔ اور آج وہ اس ظالم انسان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔
شعلہ کی حالت انتہائ کریٹیکل تھی۔ عالم پریشان سا آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھا تھا۔ حیدر مصطفی ، نازنین ، ساوری اور بچے سب لوگ یخ بستہ راہداری میں پڑی بینچز پہ بیٹھے تھے۔ عارض بخار کی شدت سے تپ رہا تھا۔ نازنین ابھی اسکا چیک اپ کروا کر آئ تھی۔ اسے دوا پلا کر اب نازنین اسے سلانے کے جتن کر رہی تھی۔ اب تو تین گھنٹے ہونے کو آ گئے تھے۔ مگر شعلہ کا آپریشن بھی مکمل نہی ہوسکا تھا۔
آخر کافی انتظار کے بعد سرجن باہر آئے تھے۔ عالم بیتاب سا انکی جانب لپکا تھا۔
" فکر کی کوئ بات نہی وہ اب خطرے سے باہر ہیں۔" ڈاکٹر نے مسکرا کر بتایا اور وہاں سے چلے گئے۔ عالم شکر کرتا آسمان کی جانب دیکھ کر مسکرایا تھا۔
" میں آتا ہوں۔۔" وہ دمکتے چہرے کے سنگ کہتا وہاں سے نکل گیا تھا۔ وہ دو رکعت شکرانے کے نفل ادا کرکے واپس آیا۔ تو تب تک اسے آئ سی یو میں شفٹ کر دیا گیا تھا۔ پر اس وقت اس سے ملنے کی اجازت کسی کو نہی تھی۔
" تم سب گھر جاؤ آرام کرو۔ میں یہاں ہوں۔۔" عالم نے ان چاروں کو گھر جانے کا کہا۔
" نہیں بھیا ہم یہیں رہیں گے۔ آپ کے ساتھ۔۔۔" نازنین سرے سے ہی مکر گئ۔
" بیٹا ضد نہیں کرنی بلکل گھر جائیں۔ آرام کریں۔ آپ فریش رہو گی۔ تو عارض کا خیال رکھ سکو گی۔ نہی تو عارض کی ماما کی حالت شاید ابھی اتنی اسٹیبل نا ہوسکے کہ وہ عارض کا خیال رکھ سکیں۔۔" میر عالم نے نازنین کو اپنے بازوؤں کے ہلکے میں لیکر سمجھایا۔
" پر بھائ۔۔۔" اسنے احتجاج کرنا چاہا۔
" پر ور کچھ نہی ، بس اب تم سب گھر جاؤ۔۔۔" میر عالم نے سنجیدگی سے کہا۔ تو نا چار ان اب کو اسکی بات ماننی پڑی تھوڑی دیر بعد وہ سب گھر جا چکے تھے۔ اور عالم تنہا بیٹھا تھا۔ اسکا سر شدید تکلیف کے باعث پھٹ رہا تھا۔ بے شک شعلہ اب خطرے سے باہر تھی۔ مگر پھر بھی وہ اسکے لیئے بہت فکر مند تھا۔ اسے ابھی تک ہوش نہی آیا تھا۔ اب عالم اسے کھونے کی سکت نہی رکھتا تھا۔ وہ اپنی ہر غلطی کے بعد بھی اسکی محبت کو جھٹلا نہی پایا تھا۔ وہ اسکے نکاح اسکی زندگی اور اسکے دل میں آنے والی پہلی عورت تھی۔ اور سب سے بڑی بات وہ اسکے بچے کی ماں تھی۔ وہ اس کے لیئے بہت معتبر تھی۔
نئے دن کا سورج ایک بار پھر نکل چکا تھا۔ اسے بھی ہوش آچکا تھا۔ ڈاکٹر نے عالم کو اس سے ملنے کی اجازت دے دی تھی۔ عالم آئ سی یو میں اسکے پاس آیا۔ اسکا وجود مشینوں میں جکڑا پڑا تھا۔ عالم نے اسکے پاس آکر اسکا ہاتھ تھاما۔ شعلہ کی آنکھیں دھیرے سے وا ہوئیں۔ عالم کو دیکھ وہ نقاہت سے ہلکا سا مسکائ تھی۔
" تم ٹھیک ہو۔۔؟" عالم نے اسکے ہاتھ کو لبوں سے چھوا۔
" ہمم۔۔۔" اسنے نقاہت سے آنکھیں موند کر جواب دیا۔
اب عالم دھیرے دھیرے اسکے بالوں پہ ہاتھ پھیر رہا تھا۔ دھیرے سے جھک کر عالم نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا۔
" کیا ۔۔۔ ہوا۔۔؟" شعلہ نے نحیف سی آواز میں اس سے پوچھا۔ تو وہ اسے کئ لمحے خاموشی سے تکنے کے بعد ہولے سے مسکرا کر سر نفی میں ہلاتا گویا ہوا۔
" میں ڈر گیا تھا۔ اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو ۔۔تم نہیں جانتی میرے ساتھ کیا ہوتا۔" عالم کا لہجہ اب قدرے بھیگا ہوا محسوس ہوا شعلہ کو۔
" اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑوں گی تمہارا۔" عالم اسکی بات پہ مسکرایا تھا۔
" میں بھی تم سے اتنی جلدی پیچھا نہیں چھڑانا چاہتا۔۔" عالم نے اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جذبات سے چور ہوتے لہجہ میں کہا۔
" عارض کیسا ہے۔۔۔؟؟" وہ فکر مند تھی۔
" وہ بلکل ٹھیک ہے۔ ڈونٹ وری۔۔۔" عالم نے اسے تسلی دی۔
" پکا ناں۔۔۔" شعلہ کو اب بھی یقین نا آیا۔
" پکا۔۔۔ بس اب تم جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ ، تاکہ ہم گھر چلیں۔ اور تم میرے ساتھ عارض کے ساتھ بہت سارا وقت گزارو۔۔۔" عالم ساتھ ، ساتھ اسکے بال سہلا رہا تھا۔
" انشاءاللہ۔" وہ مسکرائ۔
☆☆☆☆☆
ساوری اور حیدر آج اپنے گھر واپس آگئے تھے۔ ساوری آئرہ کو لٹا کر مڑی تو حیدر اسکی پشت پہ کھڑا تھا۔
" کچھ چاہیئے۔۔؟؟" وہ واپس مڑ کر سائڈ ٹیبل پہ پڑی بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔
" ہاں۔۔۔ چاہیئے تو سہی۔۔۔" حیدر اسے پشت سے بانہوں میں بھرتا محبت سے گویا ہوا۔
" کیا چاہیئے جلدی بتائیں۔ پھر میں کچن میں جاؤں۔ امی کو نجانے کیا ہوگیا ہے۔ بہت زیادہ غصہ کر رہی ہیں۔" وہ حیدر کی گرفت سے نکلنے کو مچلی تھی۔
" جو چاہیئے وہ تم نا دو میں خود لے لوں گا بس تم خاموش ہوجاؤ۔۔۔" حیدر اسکی گردن پہ اپنے لب رکھتا گھمبیر لہجہ میں گویا ہوا۔
" نہیں ناں۔۔۔ پلیز ابھی نہی۔ ابھی آپ پیچھے ہٹیں۔ کام کرنا ہے۔ امی مزید خفا ہوجائیں گی۔۔" ساوری نے اسکے ارادے جان کر نکلنا چاہا۔ کیونکہ اگر اب وہ اسکے پاس پھنس جاتی تو تین چار گھنٹوں میں تو اسے اس سے رہائی ملنی نا تھی۔
" خاموش اب آواز نا آئے۔" حیدر نے اسکا چہرا اپنی جانب موڑ کر اسکے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیا۔ ساوری پھڑپھڑا کر رہ گئ۔ پر حیدر نے اسے چھوڑا نہیں۔ وہ بیتاب سا اسکے لبوں کو قید کیئے اسکی سانسیں پی رہا تھا۔ اسکی قربت سے ، اسکے لمس کی شدت سے وہ بھی بہکنے لگی تھی۔
حیدر اسکے لبوں کو چھوڑتا اسکا رخ اپنی جانب کرتا اسکا وجود دیوار سے لگا کر اسکی گردن پہ جا بجا اپنا دہکتا لمس چھوڑنے لگا۔ ساوری نے سسک کر اپنی آنکھیں مینچ لی تھیں۔
حیدر نے اسکا دوپٹہ اتار کر سائڈ پہ پھینکا تھا۔ اسے کمر سے جکڑ کر بلکل اپنے قریب کر چکا تھا۔ حیدر کے لب دھیرے دھیرے ساوری کے وجود پہ پھسلنے لگے تھے۔ وہ اسکے انگ ، انگ کو مدہوشی سے چومتا اسے اٹھا کر بیڈ پہ لایا تھا۔ ساوری کی حیا کے مارے نگاہیں جھکی ہوئ تھیں۔ چہرہ سرخ ہوا تمتما رہا تھا۔
" حیدر۔۔۔۔" ساوری نے ہلکی سی مزاہمت کی اسکی گرفت سے آزاد ہونے کے لیئے۔ حیدر اسکی مزاہمت نظر انداز کرتا ایک بار پھر اس پہ جھکا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی قربت میں مدہوش ہونے لگے تھے۔ حیدر کے لمس میں نرمی بھی تھی مگر جنوں بھی تھا۔ وہ اسے جنونیت سے خود میں بھینچ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔ شعلہ کو آج ہاسپٹل سے ڈسچارج کیا تھا۔ وہ اپنے گھر واپس آچکی تھی۔ اس وقت وہ عارض کو گود میں لیئے بے تابی سے پیار کر رہی تھی۔
"مما کا بچہ۔۔ مما کی یاد نہی آئ میرے بیٹے کو۔۔۔" وہ اسے خود میں بھینچ کر اس سے بڑے پیار سے باتیں کر رہی تھی جیسے وہ سب سمجھ رہا ہو۔
" میرا گڈا۔۔۔ میرا چاند۔۔۔ میرے جگر کا ٹوٹا۔۔۔" وہ آنکھیں موند کر اسے اپنے سینے سے لگائے اپنے ارد گرد دنیا جہاں کی ہر خوشی محسوس کر رہی تھی۔
" کیا ہوگیا۔۔۔ مما کی جان۔۔۔" شعلہ کے زور سے بھینچنے پہ اسنے لب بسور کر رونا شروع کردیا تھا۔ وہ ہلکا قہقہ لگاتی اس سے مستفسر تھی۔عالم مسکراتا ہوا سر کو نفی میں جنبش دے کر رہ گیا تھا۔
" سارا پیار بیٹے کے لیئے۔ اور بیٹے کے باپ کے لیئے کچھ بھی نہی۔۔۔" عالم نے مصنوئ خفگی سے کہا۔
" ہاں تو۔۔۔ میرا بیٹا تو اتنا پیارا ہے۔ اسے پیار نہی کرونگی تو کسے کرونگی۔ شکر ہے میرا بیٹا اپنے باپ پر نہی گیا ورنہ بلکل اپنے باپ جیسا ہوتا۔۔" وہ اپنی مسکان دبا کر گویا ہوئ۔
" او ہیلو میرا بیٹا بلکل مجھ جیسا ہے۔ اور بلکل اپنے باپ کی طرح بے حد ہینڈسم بھی ہے۔۔" عالم نے ناک چڑھا کر کہا۔
" اوپس تم نے تو میری بات دل پہ ہی لے لی۔۔۔" شعلہ نے با مشکل اپنا امڈتا قہقہ دبایا۔
" ایسی بات کوئ بھی دل پر لے گا۔۔" وہ خفگی سے بولا۔
" کوئ نہی لیتا ایسی باتیں دل پہ ، تم ہی لیتے ہو بس۔۔" شعلہ نے اسے مزید چڑایا۔ اور وہ چڑ بھی گیا تھا۔
" تم۔۔۔ تم کیا لگا رکھی ہے۔ بڑا ہوں تم سے آپ کہہ کر نہی پکار سکتی۔۔" وہ اس قدر تپ چکا تھا۔ کہ اسنے اتنی سی بات کو پکڑ کر اپنی بھڑاس نکالنا شروع کردی۔
" ہاں سہی کہہ رہے ہو تم۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ آپ۔۔۔ بہت بڑے ہیں مجھ سے۔ مجھے آپکی عزت کرنی چاہیئے۔ ویسے اگر آپ وقت پر شادی کر لیتے تو میری عمر کے ابھی آپکے بچے ہوتے۔۔۔" وہ لب کچلتی اسے عمر کا طعنہ مارنے سے باز نا آئ تھی۔ وہ مزید جل بھن کر رہ گیا تھا۔
" بس بھی کرو اب۔ تم ہی کہہ کر بلاؤ مجھے۔ اب اتنا بھی بڑا نہی ہوں میں۔۔۔" اسکے ماتھے پہ یکدم کئ بل نمودار ہوئے تھے۔
" ارے۔۔۔ نہی نہی۔۔۔ میں " تم " کہہ کر بلکل توہین نہی کرسکتی آپکی۔ میرے بابا سے آپ بہ مشکل پانچ سال ہی چھوٹے تھے۔ نہی یہ گناہ میں نہی کرونگی۔ اب اگر آپکی اور میری شادی نا ہوتی۔ تو مجھے تو آپکو انکل بولنا پڑتا۔ تو جب تب عزت لازم ہوتی مجھ پر اب بھی ویسے ہی مجھے آپکی عزت کرنی چاہیئے۔۔"
عالم کا چہرہ غصہ کی تمازت سے سرخ ہوچکا تھا۔ وہ چڑ کر بیڈ پہ سے اٹھا تھا۔
" آفس جا رہا ہوں میں۔ شاید آج دیر سے آؤں۔" وہ برے موڈ کے ساتھ کہتا وارڈ روب سے اپنے کپڑے نکالتا واشروم میں بند ہوچکا تھا۔
وہ ہلکا سا قہقہ لگا کر رہ گئ تھی۔ عالم کے اتنی سی بات پہ آگ بھولا ہونے پہ اسنے سر کو نفی میں ہلایا تھا۔ اسی وقت نازنین کمرے کا دروازہ ناک کرتی اندر آئ تھی۔
" بھابھی کیا میں اندر آجاؤں۔۔۔؟"
" ہاں آجاؤ نازنین۔۔۔" شعلہ نے خوشدلی سے اسے اندر آنے کی اجازت دی۔
" وہ بھابھی آپ سے بات کرنے تھی مجھے۔۔۔" نازنین کافی دیر خاموش بیٹھی رہی پھر آخر کار خاموشی سے اکتا کر گویا ہوئ۔
" ہاں کہو۔۔۔" شعلہ نے عارض کو پیار کرکے کہا۔
" بھابھی آپ ناراض تو نہیں ہیں ناں ہم سے۔۔؟؟" وہ لب کچل کر مستفسر ہوئ۔
" نہی میں ناراض نہیں ہوں۔ بلکہ میں تم سے اور مصطفی سے بھی معافی مانگنا چاہتی ہوں۔ دیکھو مجھے تم سے نا کوئ دشمنی تھی۔ نا ہی کوئ خار۔ اس وقت میں نے جو کچھ مصطفی کو کرنے کو کہا۔ وہ محض تمہارے بھائ کو تکلیف دینے کے لیئے۔ تاکہ جب تم دونوں لڑو، جھگڑو تو اسے پشتاوا ہو۔ اسے ایسا لگے جیسا یہ فیصلہ اسکی زندگی کا بدترین فیصلہ تھا۔ میں بس تمہارے بھائ کو پریشان دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔" شعلہ نے مدہم لہجہ میں تمام باتوں کا اعتراف کیا۔
" آپ نے بھائ کو پریشان دیکھنے کے لیئے ہمیں پریشان کر دیا تھا۔" نازنین پھیکا سا مسکائ۔
" جانتی ہوں بہت غلط کیا ہے میں نے۔ امید کرتی ہوں تم معاف کردوگی۔۔" وہ اسکے ہاتھ کی پشت پہ ہاتھ رکھ کر گویا ہوئ۔
" ہمم اٹس اوکے بھابھی۔۔۔ ویسے اب آپ کو تکلیف تو نہی ناں۔۔۔؟؟" وہ مسکرا کر اس سے اسکی طبیعت کا پوچھنے لگی۔
" نہی اب اللہ کا شکر ہے پہلے سے کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔۔" وہ بھی مسکائ۔
" چلیں پھر آپ آرام کریں میں چلتی ہوں۔ عارض کو مجھے دے دیں۔" نازنین نے شعلہ کی جانب ہاتھ پھیلائے۔ شعلہ نے مسکرا کر عارض کو نازنین کو دے دیا۔ نازنین مسکرا کر کمرے سے نکل کر چلی گئ۔ تو شعلہ بستر پہ ٹھیک سے لیٹتی آنکھیں موند گئ تھی۔کچھ دیر بعد عالم باتھ روم سے نکلا آفس کے لیئے تیار ہوا۔ اور آکر اسے دیکھا۔ تو وہ شاید سو رہی تھی۔ عالم نے جھک کر اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا بوسہ دیا۔ اور کمرے کا دروازہ احتیاط سے کھول کر بند کرتا نکل گیا۔
☆☆☆☆☆
چار ماہ بیت چکے تھے۔ شعلہ کا زخم مکمل طور پہ مکمل ہوچکا تھا۔ وہ واپس اپنی روٹین میں آچکی تھی۔ حیدر اپنا اور ساوری کا ولیمہ کرنا چاہتا تھا۔ مگر ساوری کے ایک بار دوبارہ پریگننٹ ہونے کی وجہ سے ولیمہ کے ارادہ فلحال کے لیئے ترک کرنا پڑا۔
نازنین اور مصطفی نے اپنا ولیمہ ارینجڈ کر لیا تھا۔ اور آج شام کو انکے ولیمہ کی تقریب تھی۔ شعلہ آئینے کے سامنے بیٹھی تیار ہورہی تھی۔ جب عالم بلیک ٹاکسیڈو میں ملبوس اندر کمرے میں آیا۔ شعلہ سیاہ پیروں کو چھوتی فراک پہنے ہمیشہ کی طرح دلکش لگ رہی تھی۔ عالم کے دل میں اسے ایسے نک سک سا تیار دیکھ کر بری طرح ہلچل مچی تھی۔ عالم بیڈ پہ عارض کے پاس آکر بیٹھا۔ جو غوں غاں کی آوازیں نکالتا چھت پہ چلتے پھنکے کو دیکھ اپنے دونوں ہاتھ پیر ہلا رہا تھا۔ عالم نے اسپہ جھکتے اسے بہت سارا پیار کیا۔ اور پھر سیدھا ہوکر بیٹھا۔
" آج بھی سیاہ رنگ۔۔۔ کوئ اور رنگ نہی تھا کیا۔۔۔؟؟" عالم نے اسے چڑانے کو کہا۔
" مجھے سیاہ رنگ کے علاوہ کوئ رنگ دکھتا ہی نہی۔۔۔" وہ کانوں میں نازک ڈائیمنڈ کے ٹاپ پہنتی گویا ہوئ۔
" اتنا بھی کیا سیاہ رنگ سے obsession ہے تمہیں ، اور رنگ بھی ہیں۔ وہ بھی کبھی پہنو۔۔" عالم آٹھ کر اسکی پشت پہ آکر کھڑا ہوا تھا۔
" یہ رنگ مجھے پسند ہے۔اور مجھ پہ جچتا بھی بہت ہے۔ اور رنگ پہننے کی اب عادت بھی نہی رہی جو سچ بات ہے۔۔" شعلہ نے اپنی رنگ فنگر میں انگوٹھی ڈالی۔
عالم نے اسکا نازک ہاتھ تھام کر اسے اپنے مقابل لاکر کھڑا کیا۔ شعلہ نے اپنے دونوں بازو اسکی گردن کے گرد باندھے اور مسکرا کر تھوڑا اسکے قریب آئ۔
" رنگوں میں کیا رکھا ہے۔ تم بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں۔۔" وہ پلکیں جھکا کر دھیمے مگر محبت بھرے لہجہ میں مستفسر ہوئ۔
" بہت ، بہت خوبصورت۔۔" عالم نے اپنا ایک ہاتھ اسکی کمر کے گرد لپیٹا۔
شعلہ نے خفگی سے پلکیں اٹھا کر عالم کو تکا۔
" بس خوبصورت لگ رہی ہوں۔ جاؤ میں نہی کرتی تم سے بات تعریف کرنا بھی نہی آتی۔۔۔" وہ اپنے ہاتھ اسکی گردن سے ہٹا کر ، عالم کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹاتی دور ہوکر خفگی سے گویا ہوئ۔
" ارے۔۔۔ ادھر آؤ۔۔" عالم اسے خفا ہوتے دیکھ اسکے پاس آیا تھا۔ اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے اسکی آنکھوں میں مسکراتی نگاہوں سے دیکھتا اسکی تعریف کرنے لگا۔
" تم دنیا کی سب سے خوبصورت بیوی ہو۔ تم چاند سے زیادہ پیاری ہو۔ تمہارا یہ من موہنا روپ مجھے ہر دن نئے سرے سے تمہارا دیوانہ بناتا ہے۔ پہلے مجھے تم سے محبت تھی۔ پر اب لگتا ہے کہ مجھے تم سے عشق ہونے لگا ہے۔ تم بہت پیاری ، بہت حسین و دلکش ہو۔۔" عالم مخموریت سے کہتا اسکے لبوں پہ جھکنے لگا تھا۔ جب شعلہ چیخی۔
" کس مت کرنا۔۔"
" مگر کیوں۔۔؟" عالم نے اسے گھورا۔
" کیوں کا کیا مطلب ہے۔ کیا تمہیں دکھ نہی رہا کہ میں نے کتنی محنت سے میک اپ کیا ہے۔۔۔" وہ بھنا کر بولی۔
" ہاں تو کس کے لیئے کیا ہے میک اپ میرے لیئے ناں۔" عالم اسکی بات کو بغیر سیریس لیئے دوبارہ اسکے لبوں پہ جھکنے کے قریب تھا۔ شعلہ نے اسے خود سے دھکا دے کر دور جھٹکا تھا۔
" تم سے کس نے کہہ دیا کہ یہ میک اپ میں نے تمہارے لیئے کیا ہے۔ یہ سب میں نے اپنے لیئے کیا ہے۔ تو مجھ سے دور رہو فلحال۔۔" وہ اسکا بہکا روپ دیکھ کر اسے وارن کرتی عارض کو اٹھا کر کمرے سے نکل گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
باہر نازنین اور مصطفی کے ولیمہ کا فنکشن اسٹارٹ ہوچکا تھا۔ نازنین اور مصطفی ساتھ اسٹیج پہ بیٹھے تھے۔ سب ان سے آکر مل رہے تھے۔ اور انکی شادی کی مبارکباد دے رہے تھے۔ کیونکہ بہت سے لوگوں کو یہ بلکل نہی پتہ تھا۔ کہ انکے نکاح کو ڈیڑھ سال ہونے کو آگیا ہے۔ اور وہ دونوں پچھلے ڈیڑھ سال سے ساتھ ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
ساتھ ساتھ ان دونوں کا فوٹو شوٹ بھی ہورہا تھا۔ نازنین نے ٹی پنک کلر کی نفیس کام والی میکسی پہن رکھی تھی۔ مناسب میک اپ اور خوبصورت ہیئر اسٹائل اسے اور دنوں کے مقابلے میں مزید حسین بنا رہا تھا۔ مصطفی اسکو اس روپ میں دیکھ دیوانہ ہی ہوا جا رہا تھا۔ اسکی دیوانگی کا اندازہ وہ اتنے لوگوں کے بیچ اسکی بہکی بہکی حرکتوں سے بخوبی لگا سکتی تھی۔
تمام لوگ انکے ساتھ تصاویر کھنچوا کر واپس نیچے چلے جاتے۔ نازنین کیمرہ مین کو دیکھ کر کیوٹ کیوٹ پوز دے رہی تھی۔ جب مصطفی بلکل اسکے قریب آکر کھڑا ہوا۔ اسکی پشت پہ کھڑے ہوکر اپنا ہاتھ اسکے پیٹ تک لے جا کر اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا تھا۔ نازنین اسکی حرکت پہ یکدم بوکھلائ تھی۔ کیونکہ نیچے اسکے دونوں بڑے بھائ کھڑے تھے۔ جو وقفے وقفے سے اسے دیکھ رہے تھے۔
" مصطفی یہ کیا کر رہے ہو۔ ذرا سی شرم کر لو نیچے بھائ لوگ ہیں کتنی غلط بات ہے۔۔۔" وہ اسکی گرفت سے نکلنے کو پھڑپھڑائ۔
" سیدھی کھڑی رہو۔ فوٹو شوٹ نہیں کروانا کیا۔" وہ نا محسوس انداز میں دھیرے سے اسکے رخسار چھو کر گویا ہوا۔
" مصطفی پلیز کتنی بری بات ہے۔۔۔ سب ہمیں ہی دیکھ رہے ہیں۔۔" وہ سرخ دہکتے گال لیئے خفگی سے گویا ہوئ۔
" دیکھنے دو۔ بیوی ہو میری کوئ گرل فرینڈ تو ہو نہی کہ تم سے اپنی محبت چھپا کر رکھوں میں۔۔" مصطفی نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا اور اپنے لب اسکے ماتھے پہ دھرے۔ کیمرہ مین نے جلدی جلدی سے اس پوز میں انکی تین چار فوٹو گرافس لیں۔
" کیا بے تکی بات کر رہے ہیں آپ۔ پیچھے ہٹیں نیچے جا کر دیکھیں۔۔ کوئ کام ہو تو وہ کر لیں۔۔" نازنین نے اسے خود سے دور کرکے کہا۔
" یار آج ہمارا دن ہے۔ آج بھی میں کام دیکھوں۔۔" وہ اس سے دور ہوتا خفا ہوا۔
" تو کیا ہوا۔ ایسی فالتو حرکتیں کرنے سے اچھا تو کام کرنا ہے۔۔" وہ اپنا دوپٹہ سنمبھالتی اس سے پیچھے ہوئ۔
" کیا مطلب ہے تمہارا فالتو حرکتیں۔ مجھے تو لگتا ہے تم۔مجھ سے تنگ آنے لگی ہو۔ جبھی ایسا کر رہی ہو۔" اچانک ہی اسکا خوشگوار موڈ بگڑا تھا۔
" شاید ایسا ہی ہو۔۔۔" نازنین نے اسے چڑانے کو کہا۔
" بات کرنا ہی فضول ہے تم سے۔۔" وہ خفگی سے کہتا نیچے باقی سب کے پاس چلا گیا تھا۔ اور وہ اپنی مسکان دباتی رہ گئ تھی۔
مصطفی نازنین سے ابھی تک ناراض تھا۔ کمرے میں آنے کے بعد بھی وہ اسکی جانب نہی دیکھ رہا تھا۔ اسکی خفگی محسوس کرتی وہ واشروم میں بند ہوگئ تھی۔ مصطفی تپ کر رہ گیا تھا۔
" یہ مجھے منا سکتی تھی مگر۔۔۔ جان بوجھ کر ایسا کر رہی ہے۔ سب سمجھ میں آتی ہے۔۔" وہ غصہ کے باعث خود سے ہی بڑبڑا رہا تھا۔ وہ اپنے فارمل کپڑے پہن کر بیڈ پہ اپنی جانب آکر لیٹا تھا۔ ابھی اسکی آنکھ لگے کچھ ہی دیر ہوئ تھی۔ جب اسے اپنے سینے پہ کسی کا لمس محسوس ہوا تھا۔ اپنے ارد گرد پھیلی خوشبو کو محسوس کرتا وہ اس بات کا اندازہ لگا چکا تھا۔ کہ اسکے اس قدر قریب کون موجود ہے۔ مگر وہ پھر بھی ڈھیٹ بنا پڑا رہا۔ ظاہر سی بات ہے اسکی انا کہاں اسے گوارہ کر رہی تھی کہ وہ اتنی جلدی مان جائے۔
نازنین اسکے سینے پہ سر رکھ کر لیٹی تھی۔
" جانتی ہوں ناراض ہو۔ اور یہ بھی جانتی ہوں جاگ رہے ہو۔۔۔" وہ ذرا سا سر اٹھا کر اسکی جانب دیکھتی گویا ہوئ۔
" اچھا سوری ۔۔۔۔ مگر اس وقت تم بھی تو دیکھتے ناں کہ کتنے سارے لوگ تھے ادھر اور لوگوں کو تو چھوڑو یار۔۔۔ میرے دونوں بڑے بھائ اس وقت وہاں موجود تھے۔ تم بتاؤ میں کیا کرتی۔۔۔؟؟" نازنین نے بیچارگی سے کہا۔
" ہاں تم بس دنیا کا ہی سوچتی رہنا میرا کبھی نا سوچنا۔۔۔" وہ اپنی آنکھوں پہ سے بازو ہٹا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ وہ بھی سیدھی ہوکر بیٹھی تھی۔
" اچھا ناں سوری۔۔۔" وہ اسکے کندھے پہ لٹکی تھی۔
" دوبارہ تم نے ایسا کیا ناں تو میں سچ میں ناراض ہوجاؤں گا۔۔۔" حیدر نے اسکی ناک دبا کر کہا۔
" اوکے۔۔۔" وہ اسکی دھمکی پہ لب دبا کر مسکائ تھی۔
" تم نے چینج کیوں کیا یاررر۔۔۔" اب محترم نے خفگی کے لیئے نیا موضوع پکڑا تھا۔
" تھک گئ تھی۔۔" نازنین نے معصوم سی شکل بان کر جواب دیا۔
" نازنین مجھے تم سے ایک بات کرنی تھی۔۔۔" مصطفی نے اسکے گرد اپنا بازو لپیٹا۔
" ہاں کہو۔۔"
" میں چاہ رہا تھا۔ اگر ایک بار تمہارا ٹریٹمنٹ کروا کر دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اعلاج کا بعد بھی نا ہو سکے تو پریشانی کی کوئ بات نہی ہم ایڈاپٹ کر لیں گے۔۔۔" مصطفی نے ایک ایک لفظ بہت سوچ سمجھ کر ادا کیا۔
" ہمم تم جیسا چاہتے ہو ویسا ہی ہوگا۔۔" وہ لب کچل کر اسکے سین سے لگ گئ تھی۔ مصطفی نے اسکے گرد اپنے بازو باندھے تھے۔ اور چہار سو دونوں کے بیچ خاموشی چھا گئ۔ وہ خاموش تھے مگر اس وقت ان کا انگ انگ چلا رہا تھا۔ دونوں خود کو بے بس محسوس کر رہے تھے۔
" ٹینشن مت لو سوجاؤ۔۔۔" مصطفی اسے سینے سے لگائے ہی لیٹا تھا۔ اور اسپہ اور خود پہ کمبل درست کرتا اسکے بال سہلاتے لگا تھا۔ نازنین مصطفی کو دیکھتی آنکھیں موند گئ تھی۔
☆☆☆☆☆
عالم کمرے میں آیا تو شعلہ میڈم کمرے کی لائٹس آف کیئے سوئ پڑی تھیں۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا اسکے پاس آیا تھا۔ نیچے جھک کر اسنے اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا تھا۔ وہ نیند سے بھاری ہوتی آنکھیں کھول کر اسے نا سمجھی سے تکنے لگی۔
" یہ۔۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔۔۔" وہ نیند میں ڈوبی آواز لیئے اس سے مستفسر تھی۔
" تھوڑی دیر خاموش نہیں ہوسکتی تم ۔۔؟؟" عالم نے اسے مصنوئ گھورا۔
" میرے خاموش ہوجانے سے کیا ہوگا۔۔" وہ اسکے چہرے کو ایک نظر تک کر واپس آنکھیں موند گئ تھی۔
" کچھ خاص نہی بس تھوڑا سا سکون میسر آجائے گا۔۔" عالم اسے لے کر ٹیرا پہ آیا تھا۔ اور اسے زمین پہ بٹھا کر خود بھی اسکے برابر بیٹھا۔ شعلہ کا سر اپنے کندھے پہ ٹکایا۔ اور سامنے آسمان پہ چمکتے پورے چاند کو دیکھتا۔ اسکا ہاتھ اپنے دوسرے ہاتھ میں جکڑ گیا تھا۔
" نیند آرہی ہے مجھے۔۔۔" وہ بوجھل آنکھوں سے چاند ، تاروں کو تکی لاڈ سے گویا ہوئ۔
" کتنی نیند آتی ہے تمہیں جانِ من۔۔۔!!
مجھے تو تمہاری نیندوں سے دشمنی ہونے لگی ہے۔۔۔" وہ اسکے ہاتھ کی پشت ہونٹوں سے لگا کر ہنستے ہوئے گویا ہوا۔
" دشمنی ہونے لگی ہے۔ یا پکی دشمنی ہے۔۔۔!!
پچھلے کچھ دنوں سے تم میری نیند کے ہی دشمن بنے ہوئے ہو۔ سونے ہی نہی دیتے۔۔!!" وہ جل ، بھں کر گویا ہوئ۔
" ہاہاہا۔۔۔ اچھا لگتا ہے۔ جب تم ایسے ذرا ذرا سی بات پہ تپ جاتی ہو۔۔" عالم کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
" تمہارا مطلب ہے کہ میری بے بسی۔۔۔ میرا خون جلنا تمہیں مزہ دیتا ہے۔۔؟؟" شعلہ نے اسکے کندھے پہ سے سر اٹھا کر اسے گھورا۔
" ہاں بہت مزہ دیتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم غصہ میں کش قدر حسین لگتی ہو۔ یہ تمہاری ناک لال ہوجاتی ہے۔ گال تو ایسے ہوجاتے ہیں۔ جیسے سرخ انگار۔۔۔" عالم اسکے گال دھیرے سے چھو کر گویا ہوا۔
" کچھ بھی نا بولا کرو۔۔" وہ خفگی اے اسکی جانب سے رخ موڑ گئ۔
" تم کش قدر حسین ہو جانِ جاں ۔۔۔ تمہیں اندازہ نہی ہے۔ تمہیں یاد ہے ہم دونوں کی پہلی ملاقات ۔۔۔۔!!
اففف ۔۔۔۔!!
کس قدر ظالم و حسین لگ رہی تھیں تم ، مجھے وہ دن یاد آتا ہے تو میرا دل اپنی جگہ سے باقاعدہ سرک جاتا ہے۔" وہ اسکا رخ اپنی جانب موڑ کر ایک جذب سے گویا ہوا۔
شعلہ نے عالم کو ٹکا مگر اسکی بولتی آنکھوں میں زیادہ دیر نا دیکھ پائ وہ اور نظریں جھکا گئ۔ اسکی پلکوں کی چلمن جو اسکے رخسار کی زینت بنی ، تو چہرے پہ جابجا حیا کی لالی کوند آئ۔ شعلہ سے کچھ کہا ہی نا گیا۔ وہ اضطراب کی کیفیت میں اپنے لب کچل کر رہ گئ۔
" نیند آرہی ہے مجھے بہت۔۔۔" وہ اسکی نگاہیں خود پہ ٹکی دیکھ لیا کر گویا ہوئ۔
" پر مجھے نہی آرہی۔۔" عالم نے اسکے چہرے پہ گرتی آوارہ لٹوں کو پیچھے کیا تھا۔
" ارے ۔۔۔ اٹھو صبح پھر آفس بھی جانا ہے تمہیں ، بہت سست ہوتے جارہے ہو دن بہ دن تم۔۔" وہ کھڑی ہوئ اور اسکا ہاتھ تھام کر اسے کھینچ کر اپنے ساتھ کھڑا کیا۔
" طاقت بہت ہے۔۔۔ تم میں۔۔" وہ اسکے پیچھے ہو لیا تھا۔
" تو تم نے کیا اتنا ہلکا لے رکھا تھا مجھے۔۔۔" وہ چلتے پیچھے مڑ کر شرارت سے گویا ہوئ۔
" نا بلکل نہیں ، تمہیں ہلکا لینے کی غلطی کوئ مجنون ہی کرسکتا ہے۔۔" وہ ڈرنے کی ایکٹنگ کر رہا تھا۔ شعلہ کا قہقہ بے ساختہ تھا۔
" پوری فلم ہو تم۔۔" وہ لاڈ سے اسکے گرد بانہیں باندھ گئ تھی۔
" اور تم پورا ڈرامہ۔۔" وہ اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا بوسہ دے کر اسے چڑانے کو شرارت سے گویا ہوا۔
" بہت بڑے ہو تم۔۔" وہ اسکے سینے پہ گھونسا مارتی بیڈ پہ اپنی جگہ آکر لیٹی تھی۔ وہ ہلکا سا مسکاتا بیڈ کی دوسری جانب لمبا لمبا پڑ گیا۔
☆☆☆☆☆
ایک سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ ساوری کے ہاں بیٹا پیدا ہوا تھا۔ جسکا نام ساوری نے احمد رکھا تھا۔ وقت ریت کی مانند پھسلتا جا رہا تھا۔ مگر نازنین کے ہاں کوئ خوش خبری نہی آئ تھی۔ انہوں نے بہت علاج کروائے۔ مگر ناکامی ہی رہی ، آج نازنین اور مصطفی نے ایک پیاری سی بچی کو یڈاپٹ کیا تھا۔ جسکا نام انہوں نے رباب رکھا تھا۔ نازنین بہت خوش تھی اس بچی کو پا کر اسے تو جیسے نئ زندگی مل گئ تھی۔ ساوری اور حیدر آج ان سب کو اپنے ولیمے کی دعوت دینے آئے تھے۔ شعلہ شہلا کو بھی معاف کرچکی تھی۔ وہ بھی اپنی زندگی میں بہت خوش تھی۔ مگر وہ لندن میں اپنے شوہر کے ساتھ قیام پذیر تھی۔
" شعلہ پلیز بہانے مت بناؤ ، میں انتظار کرونگی تمہارا۔۔" ساوری نے ذرا خفگی سے کہا۔
" یار تم بتاؤ آخر میں کیسے آؤں ، ایک تو بلکل آخری دن چل رہے ہیں میرے۔ حالت بہت عجیب سی ہوئ ہے۔ اور یہ موصوف عارض صاحب جو تنگ کرتے ہیں مجھے۔ اللہ نے ان محترم کے پیر کیا چلا دیئے انہوں نے تو میری زندگی آدھی کر دی ہے۔۔۔" شعلہ کے شکوہ جب شروع ہوئے تو ، ٹیبل پہ پڑے شوپیس سے کھیلتا عارض چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اپنی ماں کے پاس آیا تھا۔
" ممما۔۔۔ مما۔۔۔ کا۔۔۔ وا۔۔" ( مما ، مما کیا ہوا ) عارض کی معصومانہ آواز اور اسکے ننھے ہاتھ اپنے گھٹنوں پہ محسوس کرکے شعلہ نے اسے مصنوئ گھورا۔
" مما کو بہت تنگ کرتے ہو آپ۔۔" وہ اسے اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا گئ تھی۔
" مما۔۔۔ می ۔۔ نئ۔۔ تن۔۔ ترتا۔۔" ( مما میں نہیں تنگ کرتا۔) وہ اپنی ماں کے گرد چھوٹے ، چھوٹے بازو باندھ کر گویا ہوا۔
" آپ نہیں تنگ کرتے تو کون کرتا ہے تنگ مما کو آپ ہی تنگ کرتے ہو۔۔" شعلہ نے اسکے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرا۔
" بابا۔۔ تن ۔۔ ترتے۔۔۔ ممممما تو۔۔" ( بابا تنگ کرتے مما کو۔۔) اسکی معصومانہ سی بات پہ شعلہ نےہلاک سا قہقہ لگایا تھا۔ نازنین اور ساوری بھی اسکی باتوں پہ ہنس دی تھیں۔
" اوکے ٹھیک ہے بھئ میرا چاند مجھے تنگ نہیں کرتا ، میرا بیٹا تو بہت اچھا ہے۔۔" شعلہ نے اسے خود میں بھینچا تھا۔
" دیکھو اب تو عارض نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ تنگ نہی کرتا ، آجانا نہی تو قسم سے میں ناراض ہوجاؤں گی۔۔" ساوری نے چائے کا کپ لبوں سے لگا کر دھمکی آمیز لہجہ اپنایا۔
" اچھا ٹھیک ہے آجاؤں گی ، اب دھمکیاں دینا بند کرو۔۔" شعلہ مسکرائ تھی۔
" نازنین یہ تمہاری ذمےداری ہے۔اسے ضرور لانا۔۔۔" ساوری نے اب نازنین کو گھیرا۔
" بے فکر ہوجائیں آپ بھابھی میں انہیں ہر صورت ساتھ لیکر آؤں گی۔۔" نازنین نے مسکرا کر کہا۔
" اچھا چلو پھر میں چلتی ہوں۔ دیر ہو رہی ہے۔ بچوں کو گھر چھوڑ کر آئ ہوں امی کے پاس ابھی تک تو ان دونوں نے امی کو پاگل کر دیا ہوگا۔" وہ ہنستی ہوئ اٹھی تھی۔ شعلہ ور نازنین سے مل کر وہ نکل گئ۔
☆☆☆☆☆
ساوری سجی سنوری آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ حیدر اسے ابھی ، ابھی پارلر سے واپس لایا تھا۔ اب بس وہ حیدر کے تیار ہونے کا انتظار کر رہی تھی جیسے ہی حیدر تیار ہوجاتا تو ان دونوں نے نیچے لان میں ایک ساتھ اینٹری دینی تھی۔
وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنا جائزہ لے رہی تھی۔ بیڈ پہ سویا دو ماہ کا احمد شدید رونے لگا تھا۔ وہ اپنا بھاری کا مدار لباس سنمبھالتی احمد کے پاس آئ تھی۔
" مما کا بچہ کیوں رو رہا ہے۔ بس۔۔ بس ۔۔۔ ماں صدقے ماں کی جان۔۔۔" ساوری نے اسے گود میں اٹھایا اور اسکا فیڈر اٹھا کر اسکے منہ سے لگایا ماں کی آغوش اور فیڈر ملتے ہی اسنے رونا دھونا بند کر دیا تھا۔
حیدر واشروم سے اپنے بال تولیہ سے رگڑتا نکلا تھا۔
" لاڈ صاحب کیوں رو رہے ہیں۔۔؟؟" حیدر نے باڈی اسپرے اٹھا کر اپنی باڈی پہ چھڑکا۔
" بھوک لگ رہی ہے موصوف کو۔۔" ساوری نے اپنے بیٹے کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔
" میری شہزادی کہاں ہے۔۔؟" اسنے اپنی وائٹ شرٹ اٹھا کر پہنے پوچھا۔
" وہ اپنی دادی کے پاس ہے۔ امی نے کہا کہ تم کیسے اتنے بھاری ڈریس کے ساتھ دو ، دو بچوں کو سنمبھالو گی۔ تو اسی لیئے وہ آئرہ کو ساتھ لے گئیں نیچے اور احمد کو یہیں چھوڑ دیا۔" وہ حیدر کو محبت سے تک رہی تھی۔
" ایسے مت دیکھو ، میں پاگل ہوجاؤں گا۔۔" وہ اسکی پیار بھری نظروں میں جھانکتا شرارتاً گویا ہوا۔
" پاگل تو آپ ویسے بھی ہیں۔۔" ساوری نے نگاہیں جھکائیں ، اور لب کچلے۔
" ہاں مگر ایسے دیکھو گی تو سچ مچ والا پاگل ہوجاؤں گا۔۔" وہ اپنے بلیئزر کے بٹن بند کرتا اسکے پاس آیا تھا۔ احمد کو اسکی گود سے لیکر سائڈ پہ لٹایا۔ اسکا ہاتھ تھاما۔ اور اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔
" کیسا لگ رہا ہوں میں۔۔؟؟" حیدر نے اپنا ایک ہاتھ پھیلا کر اس سے پوچھا۔
" بہت پیارے ، بہت ہینڈسم ۔۔" ساوری دلکشی سے مسکرائ۔
" تھینک یو۔۔ ملکہ من آپ بھی آج بہت حسین و جمیل و دلکش لگ رہی ہیں۔" حیدر نے اسکے ماتھے پہ عقیدت بھرا بوسہ دیا۔
" بہت شکریہ۔۔" ساوری نے شاہی انداز میں اپنا ہاتھ سلام کی صورت میں ماتھے تک لگایا۔ حیدر ہلکا سا قہقہ لگا کر اسکے گرد اپنا حصار تنگ کر گیا تھا۔ ساوری آنکھیں موند کر مسکرائ تھی۔
" اب اس میں تو ساری غلطی آپ کی ہے۔ بھلا میرا کیا قصور۔۔؟؟" وہ اسکے ہاتھ اپنے چہرے پہ سے ہٹا کر لاڈ سے گویا ہوئ۔
" ہاں سہی کہہ رہی ہو۔ یہ دل کیا دیا ہم نے آپ کو کہ ہر قصور ہمارا ہی نکلتا ہے آپکی عدالت میں۔۔" حیدر اسکی چالاکی پہ ہلکا سا قہقہ لگا کر گویا ہوا۔
" اب محبت کی ہے۔ تواس کے لیئے ایسی چھوٹی موٹی قربانیاں تو دینی پڑیں گیں ناں۔۔!!" وہ شرارت سے مسکائ حیدر اس پہ نصار ہوتا اپنے لب بھر پور شدت سے اسکے رخسار پہ دھر گیا تھا۔
" نیچے چلیں سب ہمارا انتظار کر رہے ہونگے۔۔" حیدر نے اس سے دور ہوکر اپنا ہاتھ اسکے آگے پھیلایا۔
ساوری نے سر اثبات میں ہلایا مگر اسکا ہاتھ نا تھاما۔
" احمد کو اٹھائیے۔۔" وہ مسکرا کر کہتی اکیلی ہی کمرے سے نکل گئ تھی۔ حیدر گہری سانس لیتا اپنے لعل کو اٹھا کر اپنی بیوی کے پیچھے ہو لیا تھا۔
☆☆☆☆☆
حیدر کی گود میں احمد تھا۔ آئرہ بھی اپنی ماں کو اتنا پیارا تیار دیکھ دادی کے پاس سے بھاگ کر اپنی ماں کے ساتھ چمٹ گئ تھی۔ وہ چاروں ایک ساتھ چلتے اسٹیج تک آئے تھے۔ لوگوں کی رشک بھری نظریں ان چاروں پہ مرکوز تھی۔ ان کی ہیپی فیملی دیکھ بہت سے لوگوں میں حسد بھی پیدا ہوا تھا۔ اور بہت سے لوگوں کے لبوں سے بے ساختہ خوشی کے باعث
" ماشاللہ" بھی ادا ہوا تھا۔
" کتنے پیارے لگ رہے ہیں ناں دونوں۔۔۔" شعلہ نے اپنا سر عالم کے کندھے پہ ٹکایا تھا۔
" ہاں ماشااللہ سے بہت پیارے لگ رہے ہیں۔ تم تو بہتر محسوس کر رہی ہو ناں۔۔؟" عالم نے اسکے زرد پڑتے چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔
" ہاں بس ذرا سی گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔" وہ دھیمے سے بولی۔ عارض جو مصطفی کے ساتھ نجانے کونسی راز و نیاز کی باتیں کر رہا تھا۔ اپنی ماں کی تربیت خراب دیکھ کر وہ مصطفی کی گود سے اتر کر اپنے باپ کے پاس آیا تھا۔
" بابا مممما۔۔۔ تو ۔۔۔۔ تیا وا۔۔" ( بابا مما کو کیا ہوا۔۔) عارض نے عالم کو اپنے ننھے ہاتھوں سے جھنجھوڑا تھا۔
" بیٹا مما کی طبیعت ٹھیک نہی ہے۔ تنگ نہی کرنا ہے آپ نے بلکل بھی اپنی مما کو۔۔" عالم نے اسے ساتھ ہی نرمی سے تنبیہہ بھی کی۔
" می نائ تن ترتا ممما تو۔۔" ( میں نہیں تنگ کرتا مما کو) وہ اپنے باپ کو غصہ سے گھور کر گویا ہوا۔
" تو کون کرتا ہے تنگ مما کو آپ ہی کرتے ہو۔ دیکھو ابھی بھی مما کی کتنی طبیعت خراب ہورہی ہے۔ اور آپ کو کوئ فکر ہی نہی ہے۔۔ الٹا آپ مجھ سے اپنے بابا سے لڑ رہے ہو۔" عالم نے اپنے شاطر طوطے کو ذرا الجھانا چاہا۔ نازنین نفی میں سر ہلاتی اٹھ کر شعلا کے لیئے پانی لائ تھی۔
" بھابھی یہ لیں آپ پانی پیئں ، بھیا کو تو نجانے کب عقل آئے گی۔۔" نازنین نے پانی کا گلاس شعلہ کے لبوں سے لگایا۔
" کیا ہوا اب میں نے کیا کردیا۔۔؟؟" عالم نے عارض کو کھینچ کر اپنی گود میں بٹھایا تھا۔
" بھابھی کی حالت دیکھیں آپ انہیں گھبراہٹ ہورہی ہے۔ یہ نہی کہ انہیں پانی پلائیں۔ الٹا آپ عارض کے ساتھ اپنا ہی ڈسکشن کھول کر بیٹھ گئے۔" نازنین نے ٹپے ہوئے انداز میں کہا۔
" تو میں کیا کروں یار۔۔" عالم نے شعلہ کے گرد بازو باندھ کر معصوم سی شکل بنا کر نازنین سے پوچھا۔
" بھائ۔۔۔ سیریسلی۔۔۔ عارض کی دفعہ آپکی لاتعلقی سمجھ میں آتی تھی۔ کہ آپ بھابھی سے ناراض تھے۔ مگر اب تو بھابھی کا خیال رکھیں ناں۔۔!!" نازنین نے بھنا کر کہا۔ اور مصطفی کی گود سے اپنی بیٹی رباب کو لیا تھا۔ وہ رباب کو کے گرد اسکا کمبل اچھے سے درست کرتی اسے اپنی بانہوں میں چھپا گئ تھی۔ یہ بچی دو ماہ کی تھی۔ اور بہت پیاری تھی۔ آج پورے دو دن مکمل ہوچکے تھے۔ نازنین بھی بہت خوش تھی اور مصطفی بھی۔ ان دونوں کو سچ میں اپنا آپ ماں باپ کے عہدہ پہ فائز ہوتا محسوس ہورہا تھا۔
" اچھا ناں نانی اماں طعنہ تو نا ماریں۔ رکھ رہا ہوں خیال۔۔" عالم نے نازنین کو برہم ہوتے دیکھ شعلہ کو مزید اپنے قریب کیا۔ عالم کی گود میں بیٹھے ڈیڑھ سالہ عارض نے اپنی ماں کے چہرے پہ دھیرے دھیرے سے ہاتھ پھیرا۔
" مما بش ۔۔۔ دلد ۔۔۔ ہو لیا ۔۔۔ اے۔۔" ( مما بس درد ہورہا ہے۔) وہ پیار سے اپنی ماں کو دیکھ کر پوچھ رہا تھا۔
" میرا بچہ۔۔ پریشان نا ہو مما بلکل ٹھیک ہیں۔۔۔" وہ اسے پیار کرکے نقاہت زدہ آواز میں گویا ہوئ۔
" تم اگر بہتر محسوس نہیں کر رہی تو ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔" عالم نے نرمی سے پوچھا۔
" نہی بہتر محسوس کر رہی ہوں۔۔" وہ اسکے کندھے پہ سے سر اٹھا کر سیدھی بیٹھی تھی۔ ڈاکٹرز نے اسے ایک ہفتے بعد کی ڈیٹ دی تھی۔ مگر حالت اسکی ابھی سے خراب ہونے لگی تھی۔
ساوری اسکی حالت خراب ہوتی دیکھ کر نیچے انکے پاس آکر بیٹھ گئ تھی۔
" کیا ہوا ہے۔ تکلیف ہورہی ہے کیا۔۔۔؟؟" ساوری نے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر اس سے پوچھا۔
" نہی میں ٹھیک ہوں۔ تم نیچے کیوں آگئیں۔" شعلہ نے بہ مشکل مسکا کر پوچھا۔
" تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ نازنین نے بتایا تو میں نیچے آگے ویسے بھی میں بہت تھک گئ تھی۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Ishq Ek Tamana Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Ishq Ek Tamana written by Momina Shah Ishq Ek Tamana by Momina Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment