Tumhe Jana Ijazat Hai Season 2 By Amrah Sheikh New Novel Episode 26
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Kabhi Tere Dil Main Basa Karu By Faryal Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Kabhi Tere Dil Main Basa Karu
Writer Name: Faryal Khan
Category: Complete Novel
رات کے قریب بارہ، ساڑھے بارہ کا وقت تھا۔ ہر طرف ایک سکوت سا طاری محسوس ہو رہا تھا۔ صاف ستھرے ہسپتال میں بھی کچھ زیادہ خاص چہل پہل نہیں تھی، بس نائٹ ڈیوٹی پر موجود اسٹاف کے لوگ ہی وقفے وقفے سے یہاں وہاں جاتے نظر آرہے تھے۔ یا ہسپتال میں داخل لوگوں کے اکا دکا اٹینڈر یہاں رکے ہوئے تھے۔
”اب بات گھماؤ نہیں، تم نے پہلے بھی یہ ہی کہا تھا کہ جب تمہاری نوکری لگ جائے گی تب تم اپنے گھر والوں کو بھیجو گے، اور اب ایک ہفتہ ہوگیا ہے تمہاری نوکری لگے مگر تم نے تو ان سے بات تک نہیں کی ہے۔“ کوئی خاص مصروفیت نہ ہونے کے باعث کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے، پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے وہ جوان نرس کسی سے موبائل پر گفتگو کر رہی تھی۔
”ہاں بس ہر بار یہ ہی ڈائلوگ ہوتا ہے تمہارا کہ موقع نہیں ملا یا بات کرنے ہی لگا تھا کہ فلاں بات ہوگئی! مجھے تو لگتا ہے کہ تم ٹائم پاس کر رہے ہو میرے ساتھ۔“ وہ نروٹھے پن سے بول رہی تھی۔
”اور نہیں تو کیا؟ ملنے اور فون پر بات کرنے کیلئے تو تم ہر وقت تیار رہتے ہو اور جیسے ہی شادی کی بات بیچ میں آتی ہے تو تمہاری کوئی نا کوئی مجبوری آڑے آجاتی ہے، معذرت کے ساتھ مگر جو مرد چھپ کر محبت کرنے کیلئے آزاد اور اعلانیہ شادی کیلئے مجبور ہو اسے پھر محبت بھی نہیں کرنی چاہئے، یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ محبت کے نام پر کسی کے جذبات سے کھیل کر ٹائم پاس نہیں کرنا چاہئے۔“ وہ آج خاصی خفا لگ رہی تھی مخالف پر۔ نہ جانے اور کتنی دیر یہ سلسلہ جاری رہتا اگر اچانک ہسپتال میں شور نہ اٹھتا۔
”کوئی ہے! جلدی آؤ، آگ لگ گئی ہے، جلدی آؤ!“ ایک دوسری نرس حواس باختہ سی چیختی ہوئی کوریڈور میں آئی۔
”میں بعد میں بات کرتی ہوں۔“ اس نے عجلت میں کہہ کر لائن کاٹی اور باقی لوگوں کے ساتھ وہ بھی بھاگتی ہوئی اس طرف آئی جہاں رش لگنا شروع ہوگیا تھا۔
یہ ایک پرائیویٹ روم تھا جس کے کھلے دروازے سے نظر آتا جو منظر سب نے دیکھا اس سے سب کے ہوش اڑ گئے۔
سامنے ایک لڑکی کو پوری طرح سے آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ وہ لڑکی مریضوں کے مخصوص نیلے لباس میں ملبوس تھی جو پوری طرح جل چکا تھا۔ لڑکی یہاں وہاں چیختی چلاتی چیزوں سے ٹکرا رہی تھی۔ اور جھولے میں لیٹا بچہ بھی شور شرابے سے ڈر کے بلک بلک کر رونے لگا تھا جیسے اس جلتی ہوئی لڑکی نے ایک دن پہلے جنم دیا تھا۔
سب لوگوں سے جتنا ممکن تھا آگ بجھانے کی کوشش میں لگ گئے۔پر آگ کافی پھیل چکی تھی۔کافی مشکل سے آگ پر قابو پایا گیا۔لڑکی بری طرح جھلس کر بس ایک جلے ہوئے گوشت کا لوتھڑا رہ گئی تھی۔اس کے اصل خدوخال کھوچکے تھے، اور اس کی بس چند سانسیں ہی باقی لگ رہی تھیں جسے سب فوراً ایمرجینسی میں لے کر بھاگے۔
اب کیا ڈھونڈتے ہو! جلے ہوئے کاغذ کی راکھ سے!
وہ فسانہ ہی جل گیا جس کا عنوان کبھی تم تھے
انتخاب
*****************************************
فجر کی اذان ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا اسی لئے مسجد خالی تھی۔ کیونکہ یہ مسجد کھلی ہی رہتی تھی اس لئے وہ اکثر بلکہ روز ہی تہجد کے وقت یہاں آجاتا تھا اور فجر تک ایک کونے میں بیٹھ کر رو رو کر نہ جانے رب سے کیا مانگتا رہتا تھا۔
”آپ جانتے ہیں مولوی صاحب اس لڑکے کو؟ یہ اپنے علاقے کا بھی نہیں ہے مگر اکثر میں نے اسے یہاں ایسے ہی دیکھا ہے، پتا نہیں کہاں سے آتا ہے اور کون ہے؟“ ایک آدمی نے اس لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تعجب خیز انداز میں پوچھا۔
”شاید شرمندہ ہے۔“ انہوں نے پرسوچ انداز میں ٹھہرا ہوا جواب دیا۔
”آپ نے کبھی اس سے پوچھا نہیں کہ یہ کون ہے اور یہاں ایسے کیوں بیٹھا رہتا ہے؟“ آدمی نے تجسس کے مارے کریدا۔
”نہیں، یہ اس کا اور اللّه پاک کا معاملہ ہے، ہم کون ہوتے ہیں دخل اندازی کرنے والے، دلوں کے حال تو اللّه پاک ہی بہتر جانتا ہے، بس اس کی جو بھی مشکل ہے اللّه پاک آسان کرے۔“ وہ ہنوز لڑکے کو دیکھتے ہوئے دعا گو انداز میں بولے۔
”امین!“ آدمی نے بھی گہری سانس لیتے ہوئے بات ختم کی۔ جب کہ لڑکے کا سر دونوں ہاتھوں میں جھکا ہوا تھا اور رونے کے باعث جسم ہنوز ہلکے ہلکے ہل رہا تھا۔
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پاکر میں رو پڑوں
مجھے منزلِ عشق پر یقین ہو
تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں
کبھی سجالوں تجھکو پلکوں پر
کبھی تسبیحوں میں پڑھا کروں
کبھی چوم لوں تیرے ہاتھوں کو
کبھی تیرے دل میں بسا کروں
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پاکر میں رو پڑوں
انتخاب
*****************************************
اس چھے سالہ معصوم بچے سمیت سارا عالم نیند میں ڈوبا ہوا تھا جو اپنے باپ کی تصویر سینے سے لگائے سو رہا تھا۔
لیکن اس کے پہلو میں لیٹی اس کی ماں کی آنکھوں سے سالوں ہوئے نیند روٹھ چکی تھی۔ اس نے آہستہ سے بچے کے ہاتھ کے نیچے سے فوٹو فریم نکال کر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ دیا۔ بچے کی پیشانی پر آئے بال درست کیے، اس کا کمبل ٹھیک کیا اور اس کے گال پر ہلکا سا بوسہ دے کر وہ بھی اس پر ہاتھ ڈال کے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر نیند کی جگہ اس کی آنکھوں میں پھر نمی سے اتر آئی۔
پھر وہ ہی یاد آنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
انتخاب
*****************************************
کروٹیں بدل بدل کر اب وہ تھک چکا تھا۔ مگر نیند کی تو شاید اس کی آنکھوں سے کوئی دشمنی ہوگئی تھی۔ تب ہی تو اس پر مہربان نہیں ہو رہی تھی۔
وہ دونوں ہاتھوں کو سر کے نیچے رکھ کر چھت کو تکنے لگا۔سونے کی کوشش کر رہا تھا۔تب بھی اس کا خیال آرہا تھا۔ اب جاگ رہا تھا تب بھی اس کی یادیں پیچھا نہیں چھوڑ رہی تھیں۔
کتنا عرصہ گزرچکا تھا۔۔۔۔۔۔۔پر وہ اپنی زندگی میں آگے بڑھ ہی نہیں پا رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے خود بھی آگے بڑھنے کی، اسے بھولنے کی کوشش نہ کی ہو! اس نے اس کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے، اس کو بھولنے کیلئے خود کو بےانتہا مصروف کرلیا تھا۔ پر مصروفیت بھی تو صرف دن بھر ہوتی ہے نا! پھر رات بھی تو آنی ہوتی ہے، اور آتشِ ہجر میں جلنے والوں کیلئے رات کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔
رات کٹتی رہی ، چاند ڈھلتا رہا
آتشِ ہجر میں کوئی جلتا رہا
گھر کی تنہائیاں دل کو ڈستی رہی
کوئی بےچین کروٹ بدلتا رہا
آس و امید کی شمع روشن رہی
گھر کی دہلیز کوئی تکتا رہا
رات بھر چاندنی گنگناتی رہی
رات بھر کوئی تنہا سسکتا رہا
اشک پلکوں پر آکے بکھرتے گئے
نام لب پر تیرا لرزتا رہا
آج پھر رات ہوگئی بسر
آج پھر کوئی خود سے الجھتا رہا
انتخاب
*****************************************
”اماں! میرے وہ نئے والے کھسے کہاں ہیں جو پچھلے ہفتے بدھ بازار سے لئے تھے؟“ اریبہ باہر صحن میں رکھے چپلوں کے اسٹینڈ کا جائزہ لے کر دوبارہ چھوٹے سے لاؤنج میں آئی۔
”رکو میں دیتی ہوں۔“ فرحت دوپٹے کے پلو سے ہاتھ صاف کرتی کچن سے نکل کر آنے کے بعد اس کے اور اپنے مشترکہ کمرے میں گئیں۔ وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے آئی۔
انہوں نے پلنگ پر بچھی نیچے لٹکتی ہوئی چادر کو اوپر اٹھایا اور جھک کر پلنگ کے نیچے سے ایک شاپر نکالا۔ شاپر کی گراہ کھولنے پر اندر سے ایک اور شاپر نکلا اور اس شاپر سے بلآخر اس کے میرون کھسے نکل آئے۔
”یااللّه! امی ان کو اتنا چھپا کر رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟“ اریبہ نے بےساختہ اپنا سر پیٹا۔
”ہاں باہر رکھ دیتی نا تا کہ تو گلی محلے میں آنے جانے پر پہن کر برابر کردے اور کہیں اچھی جگہ پر پہن کر جانے کیلئے کوئی ڈھنگ کی چیز نہ بچے۔“ انہوں نے بھی دوبدو جواب دیتے ہوئے کھوسے زمین پر رکھے۔
”یہ ساڑھے تین سو کی سیل والے کھسے پہن کر بھلا کون سی ریڈ کارپٹ سیرمنی میں جانا تھا مجھے!“ اس نے طنزیہ انداز میں دونوں ہاتھ کمر پر رکھے۔
”شکر کرو کہ اتنا بھی ہے ورنہ۔۔۔۔۔۔۔!“
”ورنہ کچھ لوگوں کو تو یہ بھی نصیب نہیں ہوتا ہے، پتا ہے اماں تمہارا گھسا پٹا ڈائلوگ!“ اس نے بےزاری سے ان کی بات اچک کر مکمل کی اور پلنگ پر پڑا سیاہ عبائے اٹھا کر پہننے لگی۔
”اتنی ناشکری اچھی بات نہیں ہوتی ہے اریبہ! اگر اللّه کی عطا پر اس طرح ناک منہ بنایا جائے تو وہ ناراض ہوجاتا ہے۔“ انہوں نے تاسف سے سمجھانا چاہا۔
”اب کون سی ناشکری کردی میں نے اماں!“ اب وہ پلنگ پر سے ریڈ اسکارف اٹھا کر ایک ساف ستھری مگر پرانی سنگھار میز کے سامنے آگئی۔
”جو مل جائے اس پر نقص نکالنے کو ناشکری ہی کہتے ہیں۔“ انہوں نے دھیان دلایا۔ مگر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ شیشے میں دیکھ کر اسکارف باندھتی رہی۔
”ابھی بھی اچھا خاصا تمہارے ابو کی پینشن اور میرے سلائی کے پیسے ملا کر گزارا ہوجاتا ہے، گھر چھوٹا سہی مگر الحمدللہ ہمارا اپنا ہے، کچھ عرصے بعد کوئی اچھا رشتہ ملتے ہی تمہاری شادی کردوں گی میں تو پھر کیا ضرورت ہے بلاوجہ نوکری ڈھونڈنے جانے کی! اللّه بخشے ابھی تمہارے ابو زندہ ہوتے نا تو کبھی تمھیں اس طرح گھر سے باہر نہ نکلنے دیتے۔“ اسے خاموش پا کر وہ پھر اپنی پرانی بات دہرانے لگی۔
”اماں ضروری تو نہیں ہے نا کہ انسان ساری زندگی بس جو ہے اسے ہی پکڑ کر لکیر کا فقیر بنا بیٹھا رہے! حالات بدلنے کیلئے کم از کم کوشش تو کرنی چاہئے نا!“ اس نے بھی اسکارف باندھ کر ہمیشہ والی دلیل دی۔
”کون سے حالات بدلنے ہیں تجھے! ابھی کیا فاقے ہو رہے ہیں ہمارے گھر!“ وہ اس کی بات پر تپ گئیں۔
”صرف کھانا پینا ہی زندگی نہیں ہوتی اماں!“ اس نے پلنگ پر رکھا پرس کندھے پر لیتے ہوئے کہا اور کھسے پہننے لگی۔
”تو پھر کیا ہوتی ہے زندگی؟“ انہوں نے تیکھے انداز میں جاننا چاہا۔
”زندگی وہ ہوتی ہے جس میں چھوٹی چھوٹی خواہشوں کیلئے ترسنا نہ پڑے!“ اس نے اپنا فلسفہ پیش کیا۔
”اور خواہشیں وہ ہوتی ہیں جو مرتے دم تک پوری نہیں ہوتیں، ایک پوری ہوتی ہے تو دوسری سر اٹھا لیتی ہے، اسی لئے خواہشوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے انہیں لگام لگا لینی چاہئے اس سے پہلے کہ یہ تمہاری لگام اپنے ہاتھ میں لے کر تمھیں تھکانا شروع کردیں۔“ انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا تو وہ خفگی سے انہیں دیکھ کر رہ گئی۔
”کبھی میری کسی بات سے اتفاق کرکے کوئی اچھی بات نہ کہنا اماں تم!“ اس نے اسی انداز میں شکوہ کیا۔
”اچھا چھوڑ یہ باتیں، چل جلدی سے ناشتہ کرلے، پراٹھے بنا لئے ہیں میں نے۔“ انہوں نے خود ہی موضوع بدلا۔
”ابھی نہیں کرسکتی دیر ہو رہی ہے، واپس آکر کھالوں گی۔“ وہ عجلت میں کہتی ہوئی کمرے سے نکلی۔
”ارے لیکن خالی پیٹ گھر سے نہیں جاتے۔“ وہ بھی کہتی ہوئیں اس کے پیچھے آئیں۔
”میرے پرس میں بسکٹ ہے، بس میں کھا لوں گی، الله حافظ! میرے لئے دعا کرنا۔“ وہ بلند آواز سے کہتی ہوئی باہر نکل گئی۔
”یااللّه! اس بےوقوف کی حفاظت کرنا!“ انہوں نے زیر لب فکر مندی سے دعا کی۔
*****************************************
صبح ہوتے ہی ”منصور ولا“ کے عالیشان ڈائینگ روم میں لذیز ناشتہ سجنا شروع ہوگیا تھا۔ جسے کھانے والے صرف تین لوگ تھے۔ پہلی مسز گوہر زاہد جو ٹیبل کے گرد بیٹھی موبائل میں مصروف تھیں۔ دوسرے زاہد منصور، جو کتھئی تھری پیس سوٹ میں تیار بریف کیس لے کر ہی ڈائینگ روم کی طرف آرہے تھے، اور تیسرا ان دونوں کا اکلوتا بیٹا صارم منصور جو ابھی تک بیڈ پر اوندھا پڑا سو رہا تھا۔
”صارم ابھی تک جاگا نہیں گوہر!“ زاہد منصور نے اپنی سنگل کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، کل دوستوں کے ساتھ کسی گیٹ ٹو گیدر میں گیا ہوا تھا تو وہاں سے لیٹ واپس آیا تھا۔“ انہوں نے موبائل اسکرین آف کرکے اسے ٹیبل پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”اگر آپ کہتی کہ کل وہ دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے کے بجائے جلدی گھر آگیا تھا تب مجھے زیادہ حیرت ہوتی۔“ اپنے بیٹے کی لاپرواہی سے نالاں زاہد منصور نے کہتے ہوئے بریڈ اٹھا کر اپنی پلیٹ میں رکھی۔ جب کہ گوہر بنا کچھ بولے ان کے گلاس میں جوس نکالنے لگیں۔
”میں فی الحال آفس نہیں جا رہا بلکہ شیرازی گروپس کی ایک ضروری میٹنگ اٹینڈ کرنے جا رہا ہوں، آفس دوپہر تک آؤں گا، آپ ذرا اپنے لاڈلے کو جگا کر کہہ دیں کہ آج جلدی آفس چلا جائے اور انٹرویو کیلئے کچھ لوگ آئیں گے انہیں ڈیل کرلے۔“ انہوں نے سنجیدگی سے بتا کر جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔
”ٹھیک ہے، میں کہہ دوں گی اسے۔“ انہوں نے اثبات میں سرہلایا۔
تھوڑی دیر بعد عجلت میں ناشتہ کرکے زاہد منصور جا چکے تھے جب کہ ان کے حکم کی تعمیل کرنے کے ارادے سے گوہر صارم کے کمرے میں آئیں۔
حسب توقع کمرے کی لائٹس بند تھیں، اے سی آن تھا اور کھڑکی پر لٹکے موٹے پردوں نے بھی دھوپ کو اندر آنے سے روک کر کمرے میں اندھیرا کر رکھا تھا جس کے باعث وہ بیڈ پر اوندها لیٹا مزے سے سو رہا تھا۔
گوہر نے پہلے ریموٹ سے اے سی بند کیا اور پھر بڑی سی کھڑکی کے پردے سمیٹ دیے جس کی دوسری جانب بےتاب سی دھوپ فوراً اندر لپکی اور آکے بیڈ پر سوئے صارم سے سرتاپا لپٹ گئی۔
یکدم تیز دھوپ پڑے کے باعث صارم نے ناگواری سے اپنی شہد رنگ آنکھیں کھولیں جنہوں نے دھوپ میں پہلا تاثر کانچ سا دیا۔ جب کہ کھڑے نین نقش والے چہرے پر سلیقے سے موجود شیو اور ماتھے پر بکھرے بالوں کے ساتھ وہ پہلی نظر میں کوئی مغرور شہزادہ سا لگا۔
”گڈ مارننگ!“ وہ خوش دلی سے بولیں۔
”ایسی مارننگ گڈ نہیں ہوتی مام جس میں زبردستی گہری نیند سے جگایا جائے۔“ اس نے سخت بےزاری سے شکوہ کیا۔
”اگر نہیں جگاتی تو مارننگ، ایوننگ سب بہت بیڈ ہوسکتی تھیں تمہاری۔“ وہ کہتے ہوئے بیڈ کے قریب آئیں۔
”مطلب؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”مطلب تمہارے ڈیڈ آرڈر دے کر گئے ہیں کہ آج تمھیں آفس جلدی پہنچ کر کچھ لوگوں کا انٹرویو کرنا ہے، وہ خود کسی میٹنگ میں گئے ہیں دوپہر تک آفس آئیں گے۔“ انہوں نے وضاحت کی تو اس کی نیند سے بوجھل آنکھیں پوری کھل گئیں۔
”پھر سے انٹرویوز میں پاگلوں کے ساتھ دماغ کھپانا پڑے گا۔“ اس نے کوفت سے کہتے ہوئے سر بیڈ پر پٹخا۔ کیونکہ گھنٹوں مختلف لوگوں سے ایک ہی قسم کا سوال پوچھنے میں اور آگے سے وہ ہی گھسا پٹا جواب ملنے سے اس کی جان جاتی تھی۔ اور اب مرتا کیا نہ کرتا کہ تحت اسے یہ کرنا ہی تھا۔
*****************************************
”میں نے کچھ نہیں کیا، میں نے کچھ نہیں کیا۔“ عمر گہری میٹھی نیند میں تھا جب کسی نے اسے اتنی زور سے لات ماری کہ وہ اپنے سنگل بیڈ سے نیچے گرتے ہوئے ہڑبڑا کر بولا۔
”نہیں کیا تو اب باتھ روم جا کے کر اور تیار ہو جلدی سے، لیٹ ہوجائیں گے ہم یونی سے۔“ اس کے سر پر کھڑے ارحم نے برہمی سے حکم دیا۔
”ایسے اٹھاتے ہیں انسان کو نیند سے۔“ عمر نے ہوش ٹھکانے آنے کے بعد اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے شکوہ کیا۔
”نہیں، آواز دے کر ہی جگایا جاتا ہے مگر انسان کو، تو ان لوگوں میں سے ہے جن کیلئے کسی نے کہا ہے کہ لاتوں کے بھوت آواز سے نہیں اٹھتے۔“ اس نے اسی انداز سے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے۔
”جی نہیں یہ کہاوت ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔“ اس نے بھی دوبدو ہوکر تصحیح کی۔
”تو نہ باتوں سے مانتا ہے اور نہ جاگتا ہے، اسی لئے یہ فضول کی بحث چھوڑ اور جلدی جا کر تیار ہو، آدھا گھنٹہ تو باتھ روم میں لگتا ہے تجھے۔“ وہ اسی طرح کہتے ہوئے باہر کی جانب بڑھا۔
”باتھ روم میں تبریز تو نہیں ہے؟“ عمر نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
”نہیں وہ انڈے ڈبل روٹی لینے گیا ہے ناشتے کیلئے۔“ ارحم اسے بلند آواز سے جواب دیتا لاؤنج سے متصل بالکونی میں آگیا تا کہ تبریز کو دیکھ سکے جو ابھی تک ناشتے کا سامان لے کر نہیں لوٹا تھا۔
آٹھ منزلہ بلڈنگ کے چوتھے فلور پر موجود ارحم نے جیسے ہی بالکونی سے نیچا جھانکا تو وہ ہی ہوا جس کا اسے خدشہ تھا۔
بلڈنگ کے داخلی دروازے کے ساتھ جھاڑیوں میں ایک کُتیا نے کچھ بچے دیے ہوئے تھے اور تبریز بائیک دروازے پر رکے ہوئے پنجوں کے بل بیٹھا ایک پیالے میں ان بچوں کو دودھ پلا رہا تھا۔ جب کہ بائیک کی ہینڈل پر لٹکتا ڈبل روٹی اور انڈے کا شاپر بتا رہا تھا کہ وہ سامان لے کر آچکا ہے۔
سفید جوتوں کے ساتھ ڈارک بیلو جینز پر وائٹ شرٹ پہنے، شرٹ کی آستین کہنیوں تک فولڈ کیے، کلین شیو تازہ چہرے پر پیاری سی مسکان لئے وہ ان چھوٹے چھوٹے بچوں کو دودھ پیتا دیکھ رہا تھا۔ جب کہ ان کی ماں بھی ایک کنارے پر اطمینان سے بیٹھی ہوئی تھی کیونکہ جانور انسانوں کے ارادے سونگھ لیتے ہیں اور اسے تبریز سے کسی خطرے کی بو نہیں آرہی تھی۔ اور آتی بھی کیسے؟ وہ اپنے دل میں ان بےزبانوں کیلئے محبت جو رکھتا تھا۔
”تبریز!“ ارحم نے بلند آواز سے پکارا تو وہ گردن موڑ کر متوجہ ہوا۔
ارحم نے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے اسے جلدی آنے کا کہا تو جواباً تبریز نے بھی پانچ منٹ کا اشارہ کیا اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
”یااللّه! کن پاگلوں کے بیچ پھنس گیا ہوں میں۔“ ارحم سر پیٹ کر دہائی دیتا ہوا واپس اندر چلا گیا۔
*****************************************
”مس اریبہ افتخار!“ اریبہ دھڑکتے دل کے ساتھ ویٹنگ روم میں بیٹھی ڈھیروں دعائیں مانگ رہی تھی کہ تب ہی ایک لڑکی نے آکر پکارا۔
”جی میں ہوں۔“ وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”آپ آجائیں!“ لڑکی نے اجازت دی تو وہ سر ہلاکر پرس سنبھالتی، اپنی فائل سینے سے لگائے اس کے پیچھے ایک روم کے باہر پہنچی جس کے باہر چھوڑ کر وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی۔
”ٹک ٹک ٹک!“ اس نے آہستہ سے کانچ کے دروازے پر دستک دی۔
”کم اِن!“ دوسری جانب سے گھمبیر مردانہ آواز میں اجازت ملی تو وہ دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر آگئی۔
سامنے کرسی پر ایک چھبیس، ستائیس سالہ وجیہہ جوان لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔ اس نے ڈارک بیلو کلر کا تھری پیس پہنا ہوا تھا۔ جب کہ کھڑے نین نقش والے چہرے پر نفاست سے سجی شیو اسے مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔
”السلام علیکم!“ اس نے ٹیبل کے قریب آکر دھیرے سے سلام کیا۔ اریبہ کی آواز پر اس نے نظر اٹھا کر دیکھا اور پل بھر میں اس کا بھرپور جائزہ لے لیا۔
اریبہ درمیانہ قد کاٹھ کی حامل گندمی رنگت والی ایک پیاری لڑکی تھی جس نے اس وقت سیاہ عبایا پہن کر سرخ اسکارف باندھا ہوا تھا ہوا تھا۔
”وعلیکم السلام ، بیٹھیں۔“ اس نے سرتاپا اسے دیکھتے ہوئے کرسی کی جانب اشارہ کیا۔ تو وہ آہستہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
”کیا نام ہے آپ کا؟“ وہ لیپ ٹاپ بند کرکے پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”اریبہ! اریبہ افتخار نام ہے۔“
”نائیس! آئی ایم صارم منصور!“ اس نے اپنا تعارف دیا تو جواباً کیا کہنا ہے وہ فوری طور پر سمجھ نہ سکی۔
”آپ یہاں جاب انٹرویو کیلئے آئی ہیں یا صرف بیٹھنے کیلئے؟“ صارم نے سنجیدگی سے سوال کیا۔
”جی انٹرویو کیلئے ہی آئی ہوں۔“ اس نے جلدی سے جواب دیا۔ کیونکہ وہ کافی نروس تھی۔
”تو پھر دیں انٹرویو، آئی مین اپنے بارے میں بتائیں، آپ کی کالیفکیشن؟ اس سے پہلے کوئی ایکسپیرینس؟“ اس نے پروفیشنل انداز میں سوال کیے۔ تو اریبہ نے اپنی فائل اس کی جانب بڑھائی اور ساتھ ساتھ خود بھی اپنے بارے میں بتانے لگی۔ صارم بھی اس کی فائل دیکھتے ہوئے اس سے کچھ نا کچھ سوالات کرتا رہا۔
”ہممم! آپ کی فیملی میں کون کون ہے؟“ اس نے فائل بند کرتے ہوئے ایک غیرمتوقع سوال کیا جس پر وہ تھوڑی متعجب ہوئی مگر اظہار نہیں کیا۔
”بس میں اور میری امی ہیں، کچھ سالوں پہلے بیماری کی وجہ سے ابو کا انتقال ہوگیا ہے۔“ اس نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے جواب دیا۔ تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”ویل! کالیفیکیشن کے حساب سے تو آپ اس جاب کیلئے ٹھیک لگ رہی ہیں، مگر ایکسپیرینس۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔
”سر مجھے صرف ایک بار کام سمجھانے کی دیر ہے میں بہت جلدی سب سیکھ جاتی ہوں۔“ اس نے جلدی سے کہا گویا وہ اسے رجیکٹ ہی نہ کردے!
”رئیلی!“ صارم نے اس کی بچوں جیسی پرجوشی دیکھ کر دلچسپی سے آئبرو اچکائی۔
”جی بالکل سر! آپ مجھے ایک موقع دے کر تو دیکھیں آپ کو مایوسی نہیں ہوگی!“ اس نے دل و جان سے یقین دلانا چاہا۔ اس کا انداز قابل دید تھا جس کے باعث وہ سوچ میں پڑ گیا۔
”چلیں ٹھیک ہے، دیا آپ کو ایک موقع!“ وہ نتیجے پر پہنچا۔
”سچی سر!“ وہ بےیقینی سے پوچھ بیٹھی۔
”آپ کو لگتا ہے کہ میں اس معاملے میں آپ سے مذاق کروں گا؟“ اس نے سادہ لہجے میں الٹا سوال کیا۔
”سوری! وہ میں کچھ زیادہ ہی اکسائیٹیڈ ہوگئی تھی۔“ وہ شرمندہ ہوئی۔
”کل سے آپ جوائن کرسکتی ہیں مس اریبہ! ماہی آپ کو کام سمجھا دیں گی۔“ اس نے خوشی کی نوید سناتے ہوئے اس کی فائل واپس کی۔
”تھینک یو سر، تھینک یو سو مچ۔“ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ جب کہ صارم نے محسوس کیا کہ مسکراتے ہوئے وہ زیادہ پیاری لگتی ہے۔
وہ اپنی فائل لے کر خوشی خوشی واپس چلی گئی تھی جس کے بعد صارم نے بھی مسکراتے ہوئے دوبارہ لیپ ٹاپ کھول لیا۔
”ہائے صارم!“ تب ہی حوریہ ایک ادا سے کہتی ہوئی اس کے روم میں آئی۔
صارم نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جو تنگ لباس پر میک اپ سے بھرا چہرہ لئے اس کی ٹیبل کی جانب آرہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوئی اور ذہن نے بےساختہ حوریہ اور میک اپ سے عاری اریبہ کا موازنہ کیا جس کی سادگی میں اسے ایک عجیب سی تازگی محسوس ہوئی تھی۔ ایسی تازگی جو آج سے قبل اس نے اپنے سرکل کی لڑکیوں میں نہیں دیکھی تھی۔
*****************************************
یونیورستی کی افراتفری حسب معمول عروج پر تھی۔ کندھے پر بیگ لٹکائے کوئی نا کوئی یہاں سے وہاں گزر رہا تھا تو کوئی گروپ بنا کر گھانس یا سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا تھا۔
کلاس شروع ہونے میں کیونکہ ابھی تھوڑا وقت تھا اسی لئے لیڈیز بیگ کندھے پر لٹکائے، رجسٹر سینے سے لگائے عافیہ کینٹین کی جانب جارہی تھی۔
وہ درمیانے قد اور گندمی رنگت کے ساتھ زیادہ حسین و جمیل تو نہیں لیکن ایک پرکشش لڑکی ضرور تھی۔ اس نے براؤن کلر کی لینن کی فراک براؤن ٹائیٹس کے ساتھ پہنی ہوئی تھی۔ بال کیچر میں قید کیے گلے میں اسکارف اوڑھا ہوا تھا۔ اور یہ ہی اس کا مخصوص انداز تھا۔
”ایکسکیوزمی عافیہ جی!“ کسی کی پکار پر وہ رک کر پلٹی۔
پیچھے بیلو جینز کے ساتھ سفید شرٹ پہنے، کلین شیو چہرے والا خوبرو تبریز کندھے پر بیگ لٹکائے کھڑا تھا۔
”ہائے!“ اس نے مسکراتے ہوئے پہل کی۔
”السلام علیکم!“ اس کے برعکس عافیہ نے سنجیدگی سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ اس نے شرمندگی سے جواب دیا۔
”جی بولیں کیا کام ہے؟“ وہ سیدھا پائنٹ پر آئی۔
”وہ دراصل میں کل یونی نہیں آیا تھا میری طبیعت خراب تھی تو کیا آپ مجھے کل والے والے نوٹس دے سکتی ہیں؟ میں جاتے وقت آپ کو واپس کردوں گا پرامس!“ اس نے مدعہ بیان کرتے ہوئے آخر میں جلدی سے یقین دہانی بھی کرائی۔
”آپ کے دوست آئے تھے کل، انہوں نے لیکچر نوٹ کیا ہے ان سے لے لیجئے۔“ اس نے سنجیدگی سے مشورہ دیا۔
”ارحم اور عمر دونوں آج نہیں آئے ہیں نا! وہ ایک دوست کی شادی میں گئے ہوئے ہیں، پتا نہیں کل بھی آئیں گے یا نہیں!“ اس نے جھوٹا مسلہ بتایا تو وہ پل بھر کو سوچ میں پڑ گئی۔
در حقیقت اسے کوئی نوٹس نہیں چاہیے تھے بلکہ وہ تو بہانے سے بات کرنے آیا تھا۔ جب کہ عمر اور ارحم عافیہ کی نظروں سے اوجھل ہونے کیلئے کلاس بنک کرکے دوسرے ڈپارٹمنٹ میں جا کر بیٹھ گئے تھے۔
”ٹھیک ہے، لے لیجئے مگر یاد سے واپس کر دیجئے گا مجھے۔“ وہ رضا مند ہوکر اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈنے لگی جس کے باعث تبریز کا چہرہ کھل اٹھا۔
”ارے تبریز تو یہاں ہے، ہم تجھے کینٹین میں ڈھونڈ رہے تھے۔“ تب ہی عمر کہتا ہوا ان کی طرف آیا تو دونوں اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو عمر!“ اس کے قریب آنے پر تبریز نے گھبرا کر حیرانی سے کہا جیسے اس کی پول کھولنے لگی ہو!
”یونی کیا کرنے آتے ہیں؟ پڑھنے آتے ہیں نا! تو میں بھی وہ ہی کرنے آیا ہوں، بلکہ ہم تینوں تو ایک ساتھ تھوڑی دیر پہلے ایک ہی بائیک پر یونی آئے ہیں نا! دماغ چل گیا ہے کیا تیرا!“ عمر نے لاپرواہی سے کہتے ہوئے تبریز کے سر پر چپت لگائی۔ جب کہ اس کی بات پر عافیہ حیرت سے تبریز کو دیکھنے لگی۔
”چل کینٹین میں آجا ارحم وہیں انتظار کر رہا ہے، ابھی تو کلاس میں ٹائم ہے۔“ عمر کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا جب کہ وہ دونوں وہیں کھڑے رہے۔ تبریز کے چہرے پر گھبراہٹ و شرمندگی کے ملے جلے تاثر تھے جب کہ عافیہ تیکھے انداز میں اسے گھور رہی تھی۔
”وہ۔۔۔۔بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔“ وہ ناسمجھی سے کوئی بات بنانے ہی لگا تھا کہ اگلے ہی پل عافیہ برہمی سے تیز تیز قدم اٹھاتی بنا اس کی کوئی بات سنے وہاں سے چلی گئی۔ جسے وہ بےبسی سے دیکھ کر رہ گیا۔ عافیہ کے سامنے تو وہ جھوٹا بن گیا تھا۔ اور جس کی وجہ سے بنا تھا اس کا خیال آتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
*****************************************
”نہیں نہیں! تبریز لگ جائے گی مجھے، پاگل ہوگیا ہے کیا؟ ارحم یار بچا مجھے۔“ عمر بھاگتے ہوئے آکر ارحم کو آڑ بنا کر اس کے عقب میں چھپ گیا۔ کیونکہ تبریز ہاتھ میں بہت موٹی سی بک لے کر اسے مارنے کیلئے پیچھے آرہا تھا۔
”تو ہٹ جا ارحم آگے سے، آج یہ زندہ نہیں بچے گا۔“ وہ غصے سے پاگل ہو رہا تھا۔
”ابے یار کیا ہوگیا؟ آرام سے بات کرو۔“ ارحم نے جلدی سے ٹوکا۔ تینوں اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں تھے۔
”کیا ہوا ہے؟ کیوں جنگلی بیل بنا ہوا ہے تو!“ ارحم نے جاننا چاہا۔
”اسی کا پلان تھا نا کہ میں عافیہ کے سامنے یہ شو کروں تم دونوں آج یونی نہیں آئے ہو اور مجھ نوٹس چاہیے، اس بہانے میری اس سے بات چیت ہوجائے گی، اور تم دونوں آج کلاس بنک کرنے والے تھے!“ اس نے رک کر یاد دلایا۔
”ہاں، اسی لئے تو ہم کلاس میں نہیں آئے تھے، بلکہ پچھلے والے ڈپارٹمنٹ میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں عافیہ نہیں آتی ہے نا!“ اس نے تائید کی۔
”ہاں، مگر اس کمینے کو کیڑا کاٹ گیا اور جب میں عافیہ سے بات کر رہا تھا تو عین اسی وقت یہ وہاں پہنچ گیا اور اس کے سامنے سب بول دیا کہ ہم تینوں ساتھ ہی تو یونی آئے ہیں۔“ اس نے دانت پیس کر اس کے عقب میں موجود عمر کو گھورا۔
اس کی بات پر ارحم نے بھی اس کی جانب گردن موڑی۔
”تو مجھے باتھ روم کا بول کر یہ کرنے گیا تھا!“ ارحم نے بھی تیکھے انداز میں پوچھا۔
”ہاں تو کیا ہوگیا یار! مذاق کر رہا تھا میں۔“ عمر نے ہنستے ہوئے کہا۔
”بھاڑ میں جائے تو اور تیرا مذاق، سارا پلان فیل کردیا تو نے، کیا اہمیت رہ گئی ہوگی اس کی نظر میں میری، اب وہ تو مجھے جھوٹا ہی سمجھے گی۔“ اس کا دکھ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔
”ہاں تو تم بھی تو ڈرپوک ہو، جب پسند کرتے ہو تو بولتے کیوں نہیں سیدھا جا کر؟ کب سے بس بات کرنے کے بہانے ہی ڈھونڈ رہے ہو! تمہاری جگہ میں ہوتا نا تو اب تک آئی لو یو بول بھی چکا ہوتا۔“ عمر نے مصنوعی بھرم کے ساتھ کالر اکڑائے۔
”تو، تو منہ ہی نہ لگ میرے۔“ تبریز نے غصے سے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔
”چل چھوڑ نا یار، کوئی اور راستہ ڈھونڈیں گے اس سے بات بڑھا کر اسے امپریس کرنے کا، فی الحال جب عافیہ نے ہمیں دیکھ ہی لیا ہے تو چلو چل کر کلاس لے لیتے ہیں۔“ ارحم نے معاملہ فہم انداز میں بات ختم کی اور ان دونوں کے ہمراہ کلاس کی طرف بڑھ گیا۔ جس دوران عمر نے تبریز کو تنگ کرکے لطف اندوز ہونے کا سلسلہ ترک نہیں کیا۔
*****************************************
”اماں۔۔۔۔اماں۔۔۔۔۔!“ اریبہ خوشی سے چلاتی ہوئی گھر میں داخل ہوئی تھی۔
”یااللّه رحم! کیا ہوگیا؟“ فرحت دہل کر کچن سے باہر آئیں۔
”اماں مجھے نوکری مل گئی ہے۔“ اس نے انہیں بازؤں سے پکڑ کر گول گھمایا۔
”ہیں سچ!“ انہیں یقین نہ آیا۔
”ہاں، کل سے جوائن کرنا ہے مجھے۔“ اس نے تائید کی۔
”شکر الحمدللہ! تجھے زیادہ خوار نہیں ہونا پڑا۔“ انہوں نے بے ساختہ شکر ادا کیا۔
”دیکھا! میں کہتی تھی نا کہ کوشش کرنے والوں کا تو قدرت بھی ساتھ دیتی ہے۔“ اس نے فخر سے یاد دلایا۔
”اب اس مینا کو بتاؤں گی میں، خود ایک چھوٹی سی فیکٹری میں پیکینگ کی نوکری کیا لگ گئی تو خود کو توپ سمجھنے لگی تھی، کتنا کہا تھا اس سے مجھے بھی اپنے ساتھ لگوا لے مگر کیسے صاف کہہ دیا تھا اس نے کہ ہماری فیکٹری میں مزید بےروزگاروں کیلئے جگہ نہیں ہے، اب بتاؤں گی اسے کہ جاب ہوتی کیا ہے؟“ اس نے تیکھے انداز میں آنکھیں سکیڑیں۔
”بری بات، کسی پر اپنی برتری نہیں جتاتے اللّه پاک کو یہ پسند نہیں ہے۔“ انہوں نے فوراً ٹوکا۔
”مگر اماں میری نوکری سچ میں اس آٹھویں فیل مینا سے بہت اچھی ہے، مجھے کسی فیکٹری میں محنت نہیں کرنی بلکہ آفس میں بیٹھ کر کام کرنا ہے، میرا بی کام بیکار نہیں گیا۔“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔
”ہمیں جو بھی ملتا ہے اس میں ہمارا اپنا اتنا کمال نہیں ہوتا جتنی اللّه کی مہربانی ہوتی ہے، اسی لئے کچھ مل جانے پر اترانے کے بجائے اللّه کا شکر ادا کرنا چاہئے، کیونکہ وہ شکر کرنے والوں کو اور دیتا ہے۔“ اب کے انہوں نے رسان سے سمجھانا چاہا۔ جواباً وہ کچھ نہ بولی۔
”اچھا اب چھوڑ ان باتوں کو، چل اب منہ ہاتھ دھو کر آجا، کھانا کھا لے، صبح سے خالی پیٹ گئی ہوئی تھی۔“ انہوں نے موضوع بدلتے ہوئے فکرمندی سے کہا۔ ماں تھیں نا! جو اولاد سے لاکھ خفا ہوجائے مگر فکر کرنا نہیں چھوڑتی۔
*****************************************
عافیہ ڈوپلیکیٹ چابی سے اپنے ایک سو بیس گز کے گھر کا دروازہ کھول کر اندر آئی جہاں حسب معمول سناٹا ہو رہا تھا۔ وہ سنگ مرمر کا صحن عبور کرتی کشاده لاؤنج میں آئی تو وہاں صوفے پر ہی اسے نورین بیٹھی مل گئیں جو ویڈیو کال پر یقیناً ثانیہ سے بات کر رہی تھیں کیونکہ یہ تو دو پسندیدہ مشغلے تھے ان کے۔ پہلا عافیہ کی شادی کی بات کرنا، دوسرا ثانیہ سے بات کرنا۔
”ارے یہ لو عافیہ بھی آگئی، ادھر آؤ عافیہ، دیکھو ثانیہ کی کال ہے۔“ انہوں نے اسے پاس بلايا۔
”کل ہی بات ہوئی تھی مما آپی سے میری، اور وہ لاہور سے کال کرتی ہیں لندن سے نہیں جو آپ ہر بار اتنی اکسائٹیڈ ہوجاتی ہیں۔“ اس نے بیگ اور رجسٹر صوفے پر رکھتے ہوئے جواب دیا۔
”ماں کیلئے اولاد ہر صورت عزیز ہوتی ہے پھر چاہے وہ لندن میں ہو یا لاہور میں۔“ انہوں نے بھی دوبدو جواب دیا۔ وہ کچھ کہنے کے بجائے ان کے برابر میں آکر بیٹھ گئی۔
”کیسی ہو عافیہ؟“ ثانیہ اس سے مخاطب ہوئی جو موبائل ایک طرف اسٹینڈ پر رکھے اپنی ایک سالہ بیٹی کو سریلیک کھلانے کے ساتھ ساتھ ان سے بات بھی کر رہی تھی۔ جب کہ اس کا چار سالہ بیٹا پیچھے ڈریسنگ ٹیبل پر اس کے میک اپ کا بیڑا غرق کرنے میں مصروف تھا۔
”مجھے چھوڑیں آپی ذرا اپنے صاحبزادے پر دھیان دیں پیچھے، دیکھیں آپ کا میک اپ تباہ کر رہا ہے۔“ اس نے نورین کے کندھے پر سر رکھتے ہوئے مزے سے دھیان دلایا۔
”عالیان! کتنی بار کہا ہے میری چیزوں کو مت چھیڑا کرو۔“ اس کی بات پر اگلے ہی پل اس نے بھی اپنے بیٹے کی خبر لی۔
”کھانے میں کیا بنایا ہے مما؟ بھوک لگ رہی ہے؟“ عافیہ نے تھکن زدہ انداز میں پوچھا۔ جب کہ ثانیہ ہنوز اپنے بچوں پر چیخنے چلانے میں مصروف تھی۔
”کوفتے بنائے ہیں، جاؤ کھا لو۔“ انہوں نے سادگی سے جواب دیا ان کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گئی۔
ادھر ثانیہ نے جب تک اپنے بیٹے کو میک اپ سے دور کیا تب تک اس کی بیٹی نے ہاتھ مار کے سریلیک کا پیالہ گرا کر کام بڑھا دیا۔
”میں بعد میں بات کرتی ہوں مما! ان دونوں نے تو دو منٹ سکون سے بیٹھنا محال کر رکھا ہے میرا۔“ ثانیہ نے عجلت میں کہتے ہوئے لائن ڈسکنیکٹ کی تو اس گھن چکر بنا دیکھ یہ دونوں بھی مسکرا دیں۔
”پاگل ہے یہ بھی پوری۔“ انہوں نے مسکراتے ہوئے موبائل رکھا۔
”جاؤ جا کر کھانا کھا لو، تمھیں پسند ہیں نا کوفتے!“
”ہممم! پاپا کو بھی پسند تھے نا!“ اس نے تاسف سے یاد کیا۔
”ہاں، پہلے انہیں پسند تھے تو ان کیلئے بناتی تھی اب ان کے بعد ان کی بیٹی کیلئے بنا دیتی ہوں۔“ انہوں نے بھی محبت سے کہتے ہوئے اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔
”پھر شادی کے بعد تم بنایا کرنا اپنے شوہر اور بچوں کے پسندیدہ کھانے۔“ ان کی اگلی بات پر عافیہ کے تاثر یکدم بگڑے۔
”یہ آپ کی تان ہمیشہ میری شادی پر آکے ہی کیوں ٹوٹتی ہے؟“ وہ چڑ کر سیدھی ہوئی۔
”کیوں؟ شادی نہیں کرو گی کیا تم!“ انہوں نے الٹا سوال کیا۔
”ہاں نہیں کروں گی میں شادی، نہیں چھوڑ کر جاؤں گی آپ کو اکیلا!“ وہ حتمیٰ انداز میں کہتی تیزی سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی اور وہ تاسف سے سر ہلا کر رہ گئیں۔
*****************************************
”آج کھانا بنانے کی باری کس کی ہے؟“ ارحم پوچھتے ہوئے لاؤنج میں آیا۔ جہاں تبریز ڈبل صوفے پر لیٹا ٹی وی دیکھ رہا تھا اور عمر سنگل صوفے پر بیٹھا موبائل میں مصروف تھا۔
”کچھ پوچھ رہا ہوں میں بہروں!“ وہ دوبارہ بولا۔
”اشارے سے پوچھو، بہروں کو ایسے سمجھ نہیں آتا۔“ عمر نے چینل بدلتے ہوئے الٹا جواب دیا۔
”آج کھانا بنانے کی باری تیری ہے نا تبریز! آج تیری آفس سے چھٹی تھی!“ ارحم اسے نظر انداز کرتے ہوئے اس سے مخاطب ہوا۔ تبریز پڑھائی کے ساتھ ساتھ شام کو پارٹ ٹائم جاب بھی کرتا تھا۔
”ہاں، لیکن میں کھانا نہیں بناؤں گا۔“ اس نے موبائل میں مصروف رہتے ہوئے ہی جواب دیا۔
”کیوں؟“ دونوں نے یک زبان پوچھا۔
”تم دونوں میری مدد کر رہے ہو جو میں تم لوگوں کا کام کروں!“ اس نے نظر اٹھا کر شکوہ کیا۔
”اوہ ہیلو! یہ ہمارا کام نہیں ہے، یہ ایگریمنٹ ہوا تھا۔“ عمر نے صوفے پر اٹھ بیٹھا۔
”یاد ہے نا جب ہاسٹل چھوڑ کر ہم تینوں نے رینٹ شیئر کرنے کی شرط پر یہ فلیٹ لیا تھا تو کیا طے ہوا تھا؟ کہ روز ایک بندہ ناشتہ بنائے گا، دوسرا کھانا پکائے گا اور تیسرا برتن دھوئے گا، تو اس حساب سے آج کھانا بنانے کی باری آپ کی ہے کیونکہ ناشتہ میں نے بنایا تھا اور برتن ارحم دھوئے گا، یہ ہمارا کام نہیں ہے، کھانا سب کھاتے ہیں۔“ عمر نے سب تفصیل سے گنوا کر یاد دلایا۔
”نہ مجھے کھانا کھانا ہے اور نہ میں کھانا پکاؤں گا، میں بھوکا رہوں گا، اب تم لوگ دیکھ لو کہ تمھیں کیا کرنا ہے؟“ وہ حتمیٰ انداز میں کہتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
”کیوں بھوکے رہو گے تم؟“ ارحم نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھے۔
”میری مرضی!“ وہ ٹکا سا جواب دے کر باہر چلا گیا جسے دونوں دیکھ کر رہ گئے۔
”جب پتا تھا کہ آج کھانا پکانے کی باری اس کی ہے تو کیوں پنگا لیا تو نے خواہ مخواہ اس سے؟ کرنے دیتا عافیہ سے بات۔“ اب ارحم اس کی کلاس لینے لگا۔
”چھوڑ یار! ابھی تھوڑی دیر تک دماغ ٹھنڈا ہوگا تو خود ہی گھوم پھر کر واپس آجائے گا۔“ عمر نے دوبارہ صوفے پر لیٹتے ہوئے اطمینان سے کہا۔
”اور تب تک ہم بھوکے بیٹھے رہیں گے؟“ اس نے سوال اٹھایا۔
”نہیں، فوڈ پانڈا زندہ باد!“ عمر نے دائیں آنکھ دباتے ہوئے اس مسلے کا بھی حل نکال لیا۔
*****************************************
رات کے وقت عالیشان بنگلے میں جاری رنگارنگ پارٹی کی رونق عروج پر تھی جہاں بڑے بڑے بزنس مین شریک تھے۔ کچھ صرف کاروباری معاملات پر بات چیت کرنے یہاں آئے تھے تو کچھ شراب و شباب سے مزئین سے محفل کا بھرپور مزہ لے رہے تھے جہاں ہر طرف ہوش ربا لباس زیب تن کیے مصنوعی حسینائیں اپنی اداؤں سے ان حضرات کا دل لبھانے میں کوشاں تھیں۔
ڈارک بیلو ٹو پیس میں صارم ان سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں سوفٹ ڈرنک کا گلاس ہاتھ میں لئے اس کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر رہا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے باپ زاہد منصور کو دیکھا جو ذرا فاصلے پر اپنے ہی جیسے کچھ کاروباری حضرات کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے۔ اور ان ہی کی وجہ سے اسے بھی یہاں آنا پڑا تھا۔
”ہائے ہینڈسم!“ تب ہی سرخ رنگ کا نہایت تنگ اور چمکیلا لباس پہنے مہوش اس کے پاس آئی جس کے ہونٹ ایسے سرخ ہو رہے تھے جیسے کسی کا کلیجہ چبا کر آئی ہو۔
صارم نے بس ایک نظر اسے دیکھا اور کوئی جواب دینے کے بجائے وہ پورے انہماک سے کولڈ ڈرنک پینے لگا جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اسے اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
”ارے! بات کرنا تو دور، اب تو تم نظر بھر کر دیکھتے بھی نہیں ہو، دل بھر گیا ہے یا نظر میں کوئی اور سما گئی ہے؟“ اس نے ایک ادا سے شکوہ کیا تو صارم نے بےساختہ نظر اٹھا کر اس کا میک اپ سے اٹا چہرہ دیکھا۔
اس کے ذہن میں پھر چھم سے اریبہ کا سیدھا سادہ سراپا ابھر آیا۔ صبح بس ایک بار ہی تو ملا تھا وہ اس سیدھی سادی نروس سی لڑکی سے مگر اس کے بعد نہ جانے کیوں ہر چہرہ صارم کو اس کے آگے پھیکا لگا۔
”ہیلو! کہاں کھو گئے!“ مہوش نے اس کی نظروں کے سامنے چٹکی بجائی تو وہ واپس حال میں آگیا۔
”کہیں نہیں، بس ایک بات کہنا چاہوں گا تم سے۔“ وہ اطمینان سے گویا ہوا۔
”وہ کیا؟“ اس نے ایک ادا سے اپنے بال ایک جانب سے دوسری طرف کیے۔
”تم سے میرا دل بھرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سویٹ ہارٹ!“ وہ کہتے ہوئے ذرا سا قریب ہوا تو مہوش کے لبوں پر بھی مسکراہٹ امڈ آئی۔
”کیونکہ تم پر میرا دل کبھی آیا ہی نہیں تھا!“ صارم کی اگلی بات پر اس کی مسکراہٹ یکدم غائب ہوئی۔ اور اس سے قبل کہ وہ کچھ کہتی صارم بڑے بڑے قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا جسے وہ دانت پیستے ہوئے دیکھ کر رہ گئی۔
*****************************************
نئے دن کا سورج پھر سے نکل آیا تھا جس کے بعد معمول کی روانی بھی رواں دواں تھی۔
اپنے مخصوص حلیے میں کینٹین میں موجود عافیہ جیسے ہی جوس اور سینڈوچ لے کر پلٹی تو پیچھے موجود تبریز کو دیکھ کر پل بھر کو چونک گئی۔
”ہائے عافیہ جی!“ اس نے مسکرا کر پہل کی۔
”پہلی بات تو یہ کہ کسی سے ملتے وقت ”ہائے“ نہیں کہتے سلام کرتے ہیں۔“ وہ سنجیدگی سے کہہ کر آگے بڑھی۔
”اور دوسری بات؟“ وہ بھی جلدی سے اس کے پیچھے آیا۔
”دوسری بات یہ کہ میں جھوٹے لوگوں سے بات نہیں کرتی۔“ اس نے چلتے ہوئے اسی انداز میں جواب دیا۔
”میں نے کب جھوٹ بولا آپ سے؟“ وہ انجان بنا۔ دونوں کینٹین سے باہر آچکے تھے۔
”آپ کی یاد داشت واقعی اتنی کمزور ہے کہ ایک دن پہلے بولا گیا جھوٹ بھی یاد نہیں رہتا یا ایک دن میں اتنے جھوٹ بولتے ہیں کہ کب؟ کس سے کیا جھوٹ بولا ہے یہ یاد رکھ پانا مشکل ہوجاتا ہے!“ اس نے رک کر تیکھے انداز میں سوال نہیں کیا تھا سیدھا طنز مارا تھا۔ وہ تھوڑا شرمندہ ہوا۔
”وہ بات دراصل یہ ہے کہ میرے پاس نوٹس تھے نہیں، عمر اور ارحم نے نوٹس دینے سے انکار کردیا تھا، مجھے لگا اگر میں آپ سے ڈائریکٹ مانگتا تو شاید آپ انکار کر دیتی اسی لئے یہ بہانہ بنایا، سوری!“ اس نے پچھلے جھوٹ کی صفائی میں ایک اور جھوٹ بولا۔ کیونکہ در حقیقت اسے کوئی نوٹس نہیں بلکہ عافیہ سے بات کرنے کا بہانہ چاہیے تھا۔
”پتا ہے اگر شروعات میں ہی کسی کی کوئی بات جھوٹ نکل آئے نا! تو مستقبل میں اس کے سارے سچ مشکوک ہوجاتے ہیں، اسی لئے جھوٹ بولنے سے منع کیا جاتا ہے، مگر افسوس! لوگ سمجھتے نہیں ہیں۔“ وہ سنجیدہ تاسف کے ساتھ اسے دیکھتے ہوئے بولی اور پھر اس کی مزید کوئی بات سنے بنا تیز تیز قدم اٹھا کر وہاں سے چلی گئی۔ اور وہ وہیں کھڑا اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
*********************************
”ابے یار! کہاں رہ گیا یہ تبریز کا بچہ؟ اتنی تیز بھوک لگ رہی ہے۔“ ارحم نے کوفت سے دہائی دی۔
”تبریز کا بچہ بھی اسی یونی میں پڑھتا ہے!“ عمر نے مصنوعی تعجب کا اظہار کیا تو ارحم اسے گھورنے لگا۔
کینٹین میں رش تھا اس لئے دونوں اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک پیڑ کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔اور تبریز کو کچھ کھانے کیلئے لینے بھیجا تھا۔
”مجھے لگ رہا ہے کہ یہ پھر عافیہ کے چکر میں پڑگیا ہوگا!“ اس کی گھوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے عمر نے اندازہ لگایا۔
”ہممم! مجھے بھی یہ ہی لگتا ہے، اور کام کیا ہے اس کے پاس!“ اس نے بھی تائید کی۔
”پتا نہیں کیوں اس کے پیچھے وقت برباد کر رہا ہے، لفٹ ہی نہیں کراتی وہ تو کسی لڑکے کو، خود میں نے ایک بار ٹرائی کیا تھا۔“ عمر نے بےنیازی سے تجزیہ کیا تو وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگا۔
”آنے دے تبریز کو، ابھی بتاتا ہوں تیری کرتوت۔“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر دھمکی دی۔
”ابے یار ایسے ہی مستی مذاق کیلئے، میں سیریس نہیں تھا۔“ اس نے بات واضح کی۔
”لیکن تبریز سیریس لگ رہا ہے۔“ ارحم نے خیال ظاہر کیا۔
”لو آگیا وہ!“ عمر نے اس کے عقب میں دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے بھی پلٹ کر دیکھا۔ وہ تب تک ان کے قریب آچکا تھا۔
”کہاں رہ گیا تھا تو ، بریانی لینے گیا تھا یا بنانے؟“ عمر نے اس کے آتے ہی طنز مارا۔
”لے آیا نا! اب ٹھونس لو، خود تو دونوں نواب جاتے ہو نہیں، بس بیٹھے بیٹھے آرڈر دے دیتے ہو اور اس پر باتیں الگ سناتے ہو۔“ اس نے بیٹھتے ہوئے عافیہ کی جھنجھلاہٹ ان دونوں پر نکالی تو دونوں ہکابکا سے اسے دیکھنے لگے۔
”پھر عافیہ سے ذلیل ہو کر آرہا ہے نا تو!“ ارحم نتیجے پر پہنچا تو اس کی خاموشی نے ارحم کی تصدیق کردی جو چپ چپ بلاوجہ گھانس نوچنے لگا تھا۔
”اتنا ٹائم ہوگیا ہے تجھے اس کے ہاتھوں بے عزت ہوتے ہوئے، پھر بھی تجھے چین نہیں آیا!“ عمر نے چاولوں سے بھرا چمچ منہ میں رکھتے ہوئے اسے غیرت دلانا چاہی۔
”ہاں! جب وہ کوئی رسپانس ہی نہیں دے رہی ہے، تو پھر تو کیوں اس کے پیچھے خوار ہو رہا ہے۔“ ارحم نے بھی تائید انداز میں کہا۔
”اور نہیں تو کیا، اس کے بجائے کہیں اور ٹرائی کرلے۔“ عمر نے شرارت سے ٹکڑا لگایا۔
”زبان سنبھال کر، وہ کوئی انعامی کوپن نہیں ہے جو میں کہیں اور ٹرائی کرلوں، میں پسند کرتا ہوں اسے۔“ آخری بات پر وہ برہم ہوا۔
”ہاں لیکن وہ تو پسند نہیں کرتی نا تمھیں، بلکہ پسند تو دور وہ تو تم سمیت کسی لڑکے سے بات تک نہیں کرتی ہے، تم ہی باؤلے ہوئے پڑے ہو اس کے پیچھے، پتا نہیں ایسا کیا نظر آگیا ہے تمھیں اس عام سی لڑکی میں؟“ عمر نے بھی چڑ کر دوبدو کہا۔
”اس عام سی لڑکی کو اپنے وقار کا احساس ہے جو اسے سب سے خاص بناتا ہے۔“ وہ خوابناک انداز میں گویا ہوا۔
”وہ نئے دور کی ان سوکالڈ براڈ مائینڈیڈ لڑکیوں جیسی نہیں ہے جن کے نزدیک تنگ اسٹائلش کپڑے پہننا اور لڑکوں سے دوستی کرنا آزاد خیالی ہوتی ہے، وہ ایک گہرے سمندر کے جیسی ہے، جس کے ذہن میں علم کی روشنی ہے اسی لئے اکثر زبان خاموش رہتی ہے، اسے اٹھنے، بیٹھنے، بات کرنے کا طریقہ پتا ہے، وہ کبھی بھی کہیں بھی ہنسی ٹھٹھے کرنا نہیں شروع ہوجاتی ہے، بلکہ سلیقے سے مسکراتی ہے، اپنی سہیلیوں اور ٹیچرز سے دھیمے انداز میں بات کرتی ہے اور کسی غیر مرد کیلئے اس کا لہجہ بالکل سپاٹ و سنجیدہ ہوتا ہے، وہ بالکل شہزادیوں جیسی ہے، جیسے ہر ایرے غیرے کو شہزادی تک پہنچنے کی اجازت نہیں ہوتی ہے نا ویسے ہی اس نے بھی خود کو حدود میں رکھا ہے، اور اس کا یہ احتیاط، یہ سلیقہ، یہ وقار ہی اسے سب عام لڑکیوں میں خاص بناتا ہے۔“ وہ کھوئے ہوئے انداز میں ایسے بولے جا رہا تھا جیسے کوئی شاعر اپنی پسندیدہ شاعری سنا رہا ہو۔ اور یہ دونوں اس سے بےپرواہ بریانی پر ہاتھ صاف کرنے میں مصروف تھے۔
*****************************************
اریبہ کا آج آفس میں پہلا دن تھا۔ وہ اپنے مخصوص سیاہ عبائے پر سرخ اسکارف پہنے اپنی ڈیسک پر موجود تھی جہاں جینز اور ٹاپ میں ماہی اسے کام سمجھا رہی تھی۔ اریبہ کا کام صارم کو کالز ٹرانسفر کرنا اور اس کیلئے آنے پیغامات اس تک پہنچانا تھا۔ وہ بڑے انہماک سے اپنی کرسی پر بیٹھی ماہی کی باتیں سن رہی تھی جب بولتے بولتے اریبہ کے عقب میں دیکھ کر خاموش ہوگئی۔ اریبہ نے بھی پلٹ کر اس کے تعاقب میں دیکھا تو صارم کو نزدیک کھڑا پایا جو دونوں بازو سینے پر باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
”سر آپ!“ وہ بھی ہڑبڑا کر اپنی جگہ پر سے اٹھ گئی۔
”ہاں کیوں، میں اپنے آفس نہیں آسکتا کیا؟“ اس نے دلچسپی سے سوال کیا۔
”نہیں۔۔۔۔میرا مطلب۔۔۔۔!“ گھبراہٹ کے مارے اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا بولے؟ جس سے وہ محظوظ ہوا۔
”آپ نے انہیں کام سمجھا دیا ماہی؟“ وہ اریبہ کو چھوڑ کر اس سے مخاطب ہوا۔
”یس سر! یہ کافی حد تک سمجھ گئی ہیں، اور کچھ پوچھنا ہوا تو وہ بھی میں سمجھا دوں گی۔“ اس نے فرمابرداری سے جواب دیا۔
”گڈ!“ اس نے سرہلایا۔
”تھینک یو!“ ماہی کہہ کر وہاں سے چلی گئی جس کے بعد اب وہاں صرف وہ دونوں رہ گئے تھے۔ اریبہ ہنوز نروس سی اپنی انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔
”آپ کا نام کیا تھا مس!“ اس نے ذہن پر زور دیا۔
”اریبہ!“ وہ جلدی سے بولی۔
”یس اریبہ! آپ سے ایک ریکویسٹ ہے۔“
”جی سر بولیں!“
”نیکسٹ ٹائم آپ پلیز یہ برقعہ پہن کر مت آئیے گا۔“ اس کی سادہ سی بات پر اریبہ نے بےساختہ اپنا سیاہ عبایا دیکھا۔
”آئی مین آپ کوئی اور کمفرٹیبل ڈریس پہن سکتی ہیں لائک شلوار قمیض، جینز ٹاپ ضروری نہیں ہے لیکن برقعہ یہاں کوئی نہیں پہنتا ہے اور ان سب کے بیچ آپ تھوڑی عجیب لگیں گی اسی لئے۔“ اس کا تعجب بھانپتے ہوئے صارم نے اگلے ہی پل اپنی بات کی وضاحت کی جس سے اس کا تعجب بھی تھوڑا کم ہوا۔
”ٹھیک ہے سر! میں آئندہ خیال رکھوں گی۔“ اس نے معاملہ فہم انداز میں جواب دیا۔
”گریٹ! آپ بہت جلدی باتیں سمجھ جاتی ہیں، آئی لائک اِٹ!“ اس نے مسکراتے ہوئے سراہا۔
”ٹھنک یو سر!“ جواباً وہ بھی بچوں کی مانند خوشی سے مسکرائی جس کے نتیجے میں اس کا چہرہ پھر کل کی طرح ویسا ہی پیارا لگا جیسا کل پورا دن صارم کے ذہن میں بسا رہا تھا۔
*****************************************
”آج ثانیہ کا فون آیا تھا دوپہر میں۔“ نورین نے ایسے بتایا جیسے یہ کتنی نئی بات ہو!
”کیا کہہ رہی تھیں؟ آرہی ہیں کیا وہ کراچی؟“ اس نے بھی عام سے انداز میں پوچھا۔ دونوں ماں بیٹی اس وقت لاؤنج کے ایک ڈبل صوفے پر ساتھ بیٹھیں، ٹی وی دیکھتے ہوئے شام کی چائے پی رہی تھیں۔
”نہیں، ابھی تو عالیان کا نیا نیا ایڈمیشن کروایا ہے اسکول میں، اب صرف چھٹیوں میں آئے گی۔“ انہوں نے نفی کے بعد اضافی جواب دیا۔ جب کہ عافیہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے چپ چاپ چائے پیتی رہی۔
”تمہارے لئے خاص طور پر فون کیا تھا اس نے۔“ وہ اب آہستہ آہستہ مدعے پر آرہی تھیں۔
”میرے لئے! کیوں؟“ وہ متعجب ہوئی۔
”ایاز کا چھوٹا بھائی ہے نا فیاض! ثانیہ کا دیور، اس کی پڑھائی مکمل ہوگئی ہے اور اب اس کے لئے بھی کوئی لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں وہ لوگ تو ثانیہ تمہیں اپنی دیورانی بنانا چاہ رہی ہے۔“
انہوں نے اصل بات بتائی تو عافیہ نے یکدم حیرت سے آنکھیں پھیلائے انہیں دیکھا۔
”کیا! امی باجی کو کیا ہوگیا ہے؟“ وہ حیرت سے سیدھی ہوکر بیٹھی۔
”کیوں کیا مسلہ ہے اس میں؟“ انہیں اعتراض کا کوئی پہلو نظر نہ آیا۔
”مسلہ یہ ہے کہ مجھے نہیں کرنی اس کارٹون سے شادی۔“ اس نے کہتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھا۔
”بری بات ہے عافیہ ایسے نہیں کہتے کسی کو۔“ انہوں نے ٹوکا۔
”ٹھیک ہے نہیں کہتی پر میں اس سے شادی نہیں کروں گی۔“ وہ ہنوز انکاری تھی۔
”لیکن کیوں؟ کیا برائی ہے اس رشتے میں؟ اور ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچو، اس میں تم دونوں بہنوں کا ہی فائدہ ہے، پتا نہیں پرائے گھر جاکر تمہیں کیسی جیٹھانی ملے؟ اور دوسری صورت میں ثانیہ کو کیسی دیورانی ملے؟ تم دونوں تو بہنیں ہو، ساتھ رہ کر راج کرو گی پورے گھر پر۔“ انہوں نے دور اندیشی پہلو اجاگر کرتے ہوئے سمجھانا چاہا۔
”واہ! مطلب صرف دیورانی جیٹھانی کے چکر میں شوہر پر سمجھوتہ کرلوں میں! مجھے پوری زندگی شوہر کے ساتھ گزارنی ہے جیٹھانی کے ساتھ نہیں۔“ اس نے چڑ کر دھیان دلایا۔
"شوہر صبح کا کام پر گیا رات کو گھر آتا ہے، پورا دن گھر میں دیورانی جیٹھانی اور ساس نندوں کے ساتھ گزارنا پڑتا ہے، تمہیں تو صرف ایک ساس اور جیٹھانی ہی ملے گی وہ بھی تمہاری سگی بہن۔“ انہوں نے بھی اپنی بات پر زور دیا۔
”شوہر ہے یا پیسہ کمانے کی مشین جو صرف کام ہی کرتا رہے گا! اگر وہ پورا دن کام پر ہوگا تو رات کو تو گھر آئے نا! شادی صرف سسرال کا نام نہیں ہے میاں بیوی کے بھی ذہنی و جسمانی تعلق کا نام ہے، اور میں ایسے شخص کے ساتھ اپنے رات دن نہیں گزار سکتی جسے تمیز تہذیب چھو کر بھی نہیں گزری ہے۔“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی انکار کیا۔
”بدتمیز! شرم نہیں آتی ماں کے سامنے ایسی بےحیائی کی باتیں کرتے ہوئے؟“ انہوں نے برہمی سے ڈپٹا۔
”اس میں بےحیائی کیا ہے؟ سچی بات تو ہے، بلکہ یہ تو افسوس کا مقام ہے کہ لوگ ازدواجی زندگی پر بات کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں، اسی وجہ سے تو اتنے مسائل پیدا ہوتے ہیں، مگر میں نے کہہ دیا کہ میں اس لوفر سے ہرگز شادی نہیں کروں گی، ایاز بھائی تو پھر بھی انسان کے بچے ہیں لیکن ان کا بھائی۔۔۔۔! نہیں! کبھی نہیں۔“ اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگایا۔
”تو پھر کس سے کرو گی تم شادی؟“
”انسان سے۔“
”اور وہ کہاں ہے؟“
*****************************************
”باتھروم میں ہے۔“ ارحم نے پاپ کارن کھاتے ہوئے عمر کو جواب دیا جو ابھی ابھی کال سن کر واپس آیا تھا۔
"یار تبریز جلدی باتھ روم سے باہر آ، تیرے چکر میں فلم اسٹاپ کی ہوئی ہے۔“ عمر نے کوفت سے آواز لگائی۔
تینوں اس وقت ایک بڑا سا پاپ کارن کا پیک لے کر لاؤنج کے صوفے سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ارحم درمیان میں بیٹھا تھا، اس کے دائیں و بائیں عمر اور تبریز موجود تھے۔ جب کہ لپ ٹاپ بیچ میں رکھی ایک میز پر رکھا ہوا تھا۔ ارحم نے ان لوگوں کو یہ فلم سجیسٹ کی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر تھا کہ یہ لوگ فلموں سے عافیہ کو امپریس کرنے کا کوئی آئیڈیا ڈھونڈ رہے تھے۔
”کیا یار! جہاں جاتا ہے وہیں کا ہوجاتا ہے، اتنی دیر لگاتا ہے باتھروم میں کوئی۔“ عمر نے تبریز کے واپس آنے پر اسے لتاڑا۔
”اچھا نا اب آگیا میں! تم بھی تم فلم اسٹاپ کروا کر کال سننے گئے تھے، ہم نے کچھ کہا تھا!“ اس نے بیٹھتے ہوئے گویا احسان جتایا۔
”اگر تم لوگوں کی بکواس ہوگئی تو فلم پلے کروں؟“ ارحم نے طنزیہ انداز میں مداخلت کی۔
”یہ ہے کون سی فلم؟ بالی ووڈ کی تو نہیں ہے۔“ عمر نے سوال کیا۔
”یہ ساؤتھ انڈین فلم ہے "Shivaji The Boss" اس میں بھی ہیروئین ہیرو سے شادی کیلئے راضی ہیں ہوتی ہے۔“ ارحم نے جواب دیا۔
"پھر کیا ہوتا ہے؟ ہیروئین کیسے مانتی ہے؟“ تبریز نے جاننا چاہا۔
”خود ہی دیکھ لو۔“ اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے ہاتھ بڑھا کر اسٹاپ ہوئی فلم پلے کردی۔ تینوں پوری توجہ سے پاپ کارن کھاتے ہوئے فلم دیکھنے لگے۔
”اب دیکھو، یہ سین ہے دیکھنے والا۔“ ارحم نے سنسنی پھیلائی۔
فلم کا سین کچھ یوں چل رہا تھا کہ ہیرو ہیروئین کے پیار میں جان دینے کیلئے ٹرین کی پٹری کے بیچ و بیچ کھڑا تھا۔ سامنے سے ٹرین فل سپیڈ میں آرہی تھی۔ تب ہی اچانک ہیروئین ٹرین کے سامنے آتی ہے اور اپنی لال ساڑھی کا پلو کھول کر ٹرین کو روکنے کا اشارہ کرتی ہے۔ ٹرین رک جاتی ہے، پھر ہیروئین روتے ہوئے ہیرو کے گلے لگ جاتی ہے اور گانا شروع ہوجاتا ہے۔
”یہ سین بول رہا تھا تو؟“ عمر نے سین دیکھ کر پوچھا۔
”ہاں، زبردست ہے نا!“ ارحم نے پاپ کورن کھاتے ہوئے فخر سے تائید چاہی۔ جس کا فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے تبریز اور عمر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”کیا ہوا؟“ ارحم نے ناسمجھی سے پوچھا۔
”شکر کر یہاں کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جسے ہم آلہ قتل کے طور پر استعمال کر پاتے۔“ تبریز نے اسے خونخوار نظروں سے گھورا۔
”کیوں کیا برائی ہے اس پر عمل کرنے میں؟ ہم کل عافیہ کو جا کر بولتے ہیں کہ تبریز تمہارے پیار میں ٹرین کے آگے جان دینے جارہا ہے، وہ بھاگتی ہوئی آئے گی اور ایسے ہی ٹرین کے آگے آکر تمھیں بچالے گی، کیسا؟“ ارحم نے پلان ترتیب دے کر آخر میں فخر سے تائید چاہی۔
”بالکل بکواس! پہلی بات تو وہ آئے گی ہی نہیں، اور اگر آ بھی گئی تو وہ ساڑھی نہیں پہنتی، اور ساڑھی تو چھوڑ کہیں وہ اس وقت ہرا سوٹ پہنے ہوئے ہوئی تو ٹرین رکنے کے بجائے دونوں کو اڑاتی ہوئی لے جائے گی، پھر ان کی چوتھی کی رسم کی جگہ ان کے چوتھے کی تیاری کرنا تو۔“ عمر نے طنزیہ انداز میں حقیقت کا آئینہ دکھایا جو فلمی زندگی کے برعکس تھا۔
”تو پھر اب کیا کریں؟“ اس کی بات پر ارحم بھی سوچ میں پڑ گیا۔
”کوئی دوسری فلم دیکھتے ہیں۔“ عمر نے مشورہ دیا۔
”فلم چھوڑ یار، گوگل کے پاس ہر چیز کا جواب ہوتا ہے، گوگل پر سرچ کر کہ ہاؤ ٹو امپریس آ گرل؟“ تبریز نے خود ہی تجویز دی۔ جس پر عمل کرتے ہوئے عمر نے گوگل پر سرچ کیا۔
”واٹ ڈِڈ یو مین؟“ (آپ کا کیا مطلب ہے) سرچ کرنے کے بعد لکھا ہوا آیا۔
”لو! گوگل کو خود نہیں پتا!“ عمر نے لیپ ٹاپ کی جانب اشارہ کیا۔
”جاہل انسان امپریس کی سپیلنگ غلط لکھی ہے تم نے۔“ تبریز نے اس کے سر پر چپت لگائی۔
”تو آپ ہی لکھ لیجئے پروفیسر صاحب!“ اس نے طنزیہ انداز میں پیشکش کی تو تبریز خود سرچ کرنے لگا۔
”اس میں کچھ اسٹیپس ہیں، سب سے پہلے لکھا ہے ”ڈریس ٹو امپریس“ مطلب کہ اپنے آپ پر دھیان دینا ہے، روز نہانا ہے، برش کرنا ہے، اچھا پرفیوم لگانا ہے، صاف اور اچھے کپڑے پہنے ہیں، لو یہ سب تو اس سے نہ ہوپائے گا۔“ عمر نے پڑھ کر بتاتے ہوئے خود ہی بیچ میں پیشن گوئی کی۔
”اور دوسرا سٹیپ کیا ہے؟“ ارحم کو تجسس ہوا۔
”دوسرا سٹیپ ہے Be Polite.“
”مطلب تبریز کو اب پائیلٹ بننا پڑے گا؟“
”ارے پائیلٹ نہیں پولائٹ، مطلب خوش اخلاقی سے پیش آنا ہوگا۔“ عمر نے وضاحت کی۔
”اتنی خوش اخلاقی سے تو پیش آتا ہوں مگر وہ پھر بھی غصہ ہوجاتی ہے۔“ تبریز منہ بسور کر بچوں کی مانند بولا۔
”تیسرا سٹیپ پڑھ!“ ارحم نے آرڈر دیا۔
”ارے چھوڑو یار، اگر گوگل سے یہ سب ہونے لگتا تو پتا نہیں دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی ہوتی! ہم ایسے ہی کچھ سوچتے ہیں۔“ تبریز نے خود ہی اپنے اس آئیڈیا کی تردید کی۔
”کوئی اور آئیڈیا ہے تمہارے پاس؟“ عمر نے پوچھا۔
"ابھی تک تو نہیں ہے، پر جلد کچھ نا کچھ ضرور سوچ لوں گا۔“ وہ پُر یقین تھا۔
”بیٹا ابھی تو بس کل ہونے والے ٹیسٹ کے بارے میں سوچو جو سر عدنان لینے والے ہیں۔“ ارحم نے لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے یاد دلایا۔
*****************************************
”اچھا اماں میں چلتی ہوں، اللّه حافظ!“ اریبہ نے کچن کے دروازے پر کھڑے ہوکر کہا۔
”ٹھیک ہے، اپنا۔۔۔۔۔۔۔“ فرحت کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی وہ بولتے بولتے رک گئیں۔
”اریبہ! تو ایسے دفتر جائے گی؟“ انہیں حیرانی نے گھیر لیا۔
”ہاں! کیوں کیا ہوا؟“ اس نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
اسے آفس جوائن کیے ایک ہفتہ ہوگیا تھا۔ شروع کے چند دن تو وہ سادہ سے شلوار قمیض پر بڑی سی چادر اوڑھ کر جاتی رہی۔ مگر آج اس نے ایک سفید فلاپر کے ساتھ گلابی لانگ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ چادر کے بجائے کندھے پر سفید دوپٹہ تھا۔ سارے بالوں کی اونچی کرکے پونی باندھی ہوئی تھی۔ جب کہ ہونٹوں پر ہلکی سی لپ اسٹک اور آنکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا۔
”یہ کیا ہوگیا ہے تجھے؟ میں دیکھ رہی ہوں کہ دھیرے دھیرے تیرے رنگ ڈھنگ بدل رہے ہیں، یہ اتنا سج سنور کر جانے کی کیا تُک ہے؟“ انہوں نے اسے سرتاپا گھورتے ہوئے ٹوکا۔
”اماں میں کوئی گھروں میں جھاڑو پونچھے کا کام کرنے نہیں جاتی، آفس جاتی ہوں، اور یہ تو کچھ بھی نہیں ،اگر تم وہاں کام کرنے والی لڑکیوں کو دیکھ لو نا تو کبھی میرے اس حلیے پر اعتراض نہ کرو، جیسا دیس ہوتا ہے ویسا ہی بھیس بھی رکھنا پڑتا ہے۔“ اس نے بےنیازی سے ایک کمزور دلیل دی جس پر وہ ہکابکا سی اسے دیکھتی رہیں۔
”اب جارہی ہوں میں دیر ہو رہی ہے مجھے، دروازہ بند کرلینا، اللّه حافظ!“ اس نے اسی لاپرواہی سے مزید کہا اور بنا ان کا جواب سنے چلی گئی۔ جبکہ وہ حیران و پریشان اپنی جگہ پر کھڑی رہ گئیں۔
*****************************************
”عافیہ! مجھے تم سے کچھ کہنا ہے، میں یہ بات کب سے کہنا چاہ رہا تھا پر ہمت نہیں ہو رہی تھی، لیکن اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے بول دینا چاہئے، بات دراصل یہ ہے عافیہ کہ۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔کہ۔۔۔۔۔۔!“
”ابے کیا کہ کہ کہ کر رہا ہے؟ پچھلے آدھے گھنٹے سے تو پوری بات بول کر بس یہاں آکے ڈر فلم کا شارخ خان بن جاتا ہے، ایک چھوٹا سا آئی لو یو بھی نہیں بولا جارہا تجھ سے! لعنت ہے یار!“ اس کی بات کاٹ کر عمر نے غصے سے لتاڑا۔
تینوں اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں اپنے مخصوص پیڑ کے نیچے بیٹھتے ہوئے تھے۔
”تو یار میں کیا کروں؟ مجھ سے بولا ہی نہیں جارہا، ابھی تم لوگوں کے سامنے صرف بولنے کی پریکٹس کر رہا ہوں تو یہ حال ہے، عافیہ کے سامنے تو میرا منہ ہی نہیں کھلے گا۔“ تبریز کی گھبراہٹ عروج پر تھی۔
”تو اس میں اتنا گھبرانے والی کون سی بات ہے؟“ ارحم نے سوال اٹھایا۔
”یار میں اس بات سے گھبرا رہا ہوں کہ کہیں وہ انکار نہ کردے! ابھی کم از کم تھوڑی بہت ہی سہی مگر بات چیت تو ہوجاتی ہے، اگر میں نے اظہار کیا اور اس نے انکار کر دیا تو میں اس کی نظروں سے بالکل ہی گر جاؤں گا۔“ وہ اپنا ڈر زبان پر لیا۔
”ہاں تو کیا ہوا اگر انکار کردیا تو! زیادہ سے زیادہ تھپڑ مار کر ذلیل ہی کرے گی نا! تو کر لینا تھوڑا برداشت۔“ عمر نے اطمینان سے حل پیش کیا تو دونوں اسے گھور کر رہ گئے۔
*****************************************
”کیسی ہو یار اور کہاں غائب ہو؟ کالج کے بعد تو بالکل ہی غائب ہوگئی ہو تم۔“ عافیہ نے اپنائیت بھرا شکوہ کیا اور مخالف کا جواب سننے لگی۔
وہ اس وقت یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ایک بینچ پر اکیلی بیٹھی فون پر اپنی کسی پرانی دوست سے بات کر رہی تھی۔
”اچھا! سچی یار بہت مس کرتی ہوں میں تمھیں، کتنا مزہ آتا نا اگر یونیورسٹی بھی ہم ساتھ جاتے کالج کی طرح مگر تم نے پڑھائی کنٹنیو ہی نہیں کی۔“ عافیہ بول کر رکی۔
”اور تم اپنے بارے میں بتاؤ، شادی وادی کی کوئی بات بنی؟“ عافیہ نے یوں ہی پوچھا۔
”اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں یار میری شادی ابھی کہاں؟ لیکن مما پیچھے پڑی ہوئی ہیں آج کل میرے شادی کیلئے۔“ وہ اپنے ناخن کھرچنے لگی۔
”بس مجھے نہیں کرنی ابھی شادی۔“
”ارے نہیں، میں تو کسی کو پسند نہیں کرتی۔“ بات کرتے ہوئے بےساختہ عافیہ کی نظر ذرا دور ایک پیڑ کی جانب اٹھی جس کے نیچے تبریز اپنے دونوں دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔
”مگر یہاں ایک لڑکا ہے جو مجھ میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لے رہا ہے۔“ اس نے تبریز کو دیکھتے ہوئے کہا۔ مطلب اس کی پسندیدگی سے وہ بھی بےخبر نہیں تھی۔
”کیا مطلب کیسا دکھتا ہے؟ انسان جیسا دکھتا ہے، اور میں کوئی اس کے ساتھ سیریس تھوڑی ہوں جو تمھیں اس کی تفصیلات بتاؤں، وہ تو بس ایسے ہی ایک بات کہہ دی تھی میں نے۔“ اس نے خود ہی بات گول مول کی۔
”ہائے عافیہ! کیا میں بھی تمہارے ساتھ یہاں بیٹھ جاؤں؟“ ارم نے قریب آکر پوچھا۔
”ہاں ضرور، اچھا یار میں تم سے پھر بعد میں بات کروں گی، اللّه حافظ!“ اس نے ارم کو کہہ کر اپنی دوست سے اجازت چاہی اور لائن کاٹ دی۔
”تم یوں اکیلے رہ کر بور نہیں ہوتی؟“ ارم نے بھی بیٹھتے ہوئے بات شروع کی۔
”نہیں، چار نام نہاد دوستوں میں بیٹھ کر اِس کی اُس کی غیبت کرنے سے بہتر ہے کہ انسان ایک پرسکون گوشے میں تنہا بیٹھ کر تھوڑی دیر اپنے دل دماغ کی سنے، اس سے اچھا محسوس ہوتا ہے کیونکہ منافق محفل سے تنہائی بہتر ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”اف! تم اور تمہاری فلاسفی، مجھے آج تک سمجھ نہیں آئیں۔“ اس نے ہاتھ کھڑے کرکے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا تو عافیہ ہنس دی۔
”چلو میری چھوڑو تم اپنی بتاؤ، آج یہاں کیسے؟“ اس نے خود ہی بات بدلی تو ارم کچھ کہنے کیلئے لفظ ترتیب دینے لگی۔
”یار مجھے تم سے ایک بات شیئر کرنی ہے۔“ ارم نے تہمید باندھی۔
”ہاں بولو؟“
”میں یہاں ایک لڑکے کو پسند کرنے لگی ہوں۔“ اس نے نظریں جھکا کر دھیرے سے کہا۔
”کس لڑکے کو؟“ وہ حیران ہوئی۔
”وہ جو وہاں پیڑ کے نیچے تین لڑکے بیٹھے ہوئے ہیں نا! ان میں سے ہی ایک ہے۔“ ارم نے آنکھوں سے اس جانب اشارہ کیا جہاں تبریز اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ عافیہ کو اچانک کچھ ہوا۔
”کون سا والا ہے؟“ اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔
”وہ جس نے پنک کلر کی شرٹ پہنی ہوئی ہے۔“ اس نے نشانی بتائی تو عافیہ نے بےاختیار دوبارہ ان لوگوں کی جانب دیکھا۔
تبریز نے ڈارک بیلو شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ پنک شرٹ تو عمر نے پہنی ہوئی تھی جسے دیکھ کر بےاختیار ہی اس کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔
”کوئی طریقہ بتاؤ نا عافیہ اسے امپریس کرنے کا، اس سے بات کرنے کا۔“ ارم نے نئی فرمائش کی۔
”ہیں! میں کیا بتاؤں؟“ وہ حیران ہوئی۔
”کوئی بھی طریقہ کہ کسی طرح اس سے بات ہوجائے! تم اتنی انٹیلیجنٹ ہو، شاعری اور فلسلفے بھی پڑھتی رہتی ہو، ان میں سے ہی کوئی آئیڈیا دے دو۔“ اس نے لجاجت سے اصرار کیا۔
”تم پاگل ہوگئی ہو ارم!“ عافیہ نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے اسے اطلاع دی۔
*****************************************
آفس ٹائم تقریباً ختم ہوچکا تھا۔ کافی سارے ملازمین جا چکے تھے اور باقی رہ جانے والے جانے کی تیاری میں تھے۔
اپنی ڈیکس پر موجود اریبہ بھی اپنا سامان سمیٹنے میں مصروف تھی۔ تب ہی خاصے بےباک حلیے میں مہوش وہاں آئی اور اپنے سن گلاسسز اتارتے ہوئے ایک حقارت بھری نظر اریبہ پر ڈالی۔
”یس میم! ہاؤ کین آئی ہیلپ یو؟“ (میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں) اریبہ نے خوش اخلاقی سے استفسار کیا۔
”تمھیں ”ہیلپ“ کی اسپیلنگ بھی آتی ہے بہن جی؟“ مہوش مذاق اڑاتے ہوئے انداز میں ہنسی تو یک لخت اریبہ کی مسکراہٹ سمٹ کر غائب ہوگئی۔
حلانکہ آج وہ پچھلے ہفتے کے مقابلے کافی بہتر حلیے میں تھی مگر مہوش جیسے سو کالڈ براڈ مائینڈیڈ لوگوں کیلئے یہ بھی قابل حقارت تھا جنہیں خود شرم و حیا کا کچھ پتا نہیں تھا۔
”یہ کس طرح کے لوگوں کو جابز ملنے لگی ہیں اب جنہیں کوئی فیشن سینس ہی نہیں ہے۔“ وہ اسی انداز میں مزید بولی تو اریبہ نے کوئی غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی بےساختہ شرمندہ ہوکر نظریں چرالیں کیونکہ ذلت کا احساس ہوتے ہی اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔
”اسی طرح کے لوگوں کو جابز مل رہی ہیں جنہیں فیشن کا نہ سہی مگر اس جاب کا سینس ضرور ہے جو ان کی ذمہ داری ہے اور وہ یہاں واقعی جاب کرنے آتے ہیں نا کہ بلاوجہ کی ماڈلنگ!“ تب ہی وہاں ترکی بہ ترکی ایک طنزیہ مردانہ آواز ابھری۔
دونوں نے چونک کر آواز کے سمت دیکھا تو صارم کو دونوں ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں پھنسائے نزدیک کھڑا پایا۔ جب کہ یکدم نظر اٹھانے کے باعث اریبہ کی آنکھ میں جمع آنسوں گال پر پھسلا تھا۔
”پریزنٹیشن نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے صارم!“ مہوش کو اس کا جواب پسند نہیں آیا تھا۔
”ہاں، جسے عام لفظوں میں سلیقہ کہتے ہیں، جس میں سب سے اہم بات کرنے کا سلیقہ ہوتا ہے جو اکثر فیشن سینس رکھنے والے لوگوں میں نہیں پایا جاتا۔“ صارم نے سرتاپا مہوش کو دیکھتے ہوئے اس پر سیدھا سیدھا طنز مارا تھا۔
اس معمولی لڑکی کے سامنے صارم کے اس رد عمل پر وہ بیچ و تاب کھا کر رہ گئی تھی۔ جب کہ اپنی آنکھیں صاف کرتی اریبہ بھی صارم کی اس طرفداری پر حیران تھی۔
”میں ایک امپورٹنٹ کام کے سلسلے میں تم سے ملنے آئی تھی صارم! تمہارے روم میں چلیں!“ مہوش نے بمشکل خود پر قابو رکھتے ہوئے موضوع بدلا۔
”غلط ٹائم پر آئی ہو تم، اب تو میں جا رہا ہوں، کل آکر کر لینا جو بھی بات ہے۔“ اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے اطلاع دی۔
”ہاں تو دس منٹ رک کر میری بات سن لو!“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔
”سوری میرے پاس ٹائم نہیں ہے مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے، تم کل آجانا۔“ اس نے صاف انکار کیا تو وہ ہکابکا رہ گئی۔
”آل موسٹ سب جا چکے ہیں، آپ بھی جاسکتی ہیں اریبہ، سی یو ٹومارو!“ صارم سادہ انداز میں اریبہ سے کہتا تیز تیز قدم اٹھا کر وہاں سے چلا گیا جسے مہوش ہکابکا سی دیکھتی رہ گئی۔
صارم کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی مہوش نے ایک قہر آلود نگاہ اریبہ پر ڈالی اور پیر پٹختی ہوئی وہ بھی وہاں سے چلی گئی۔
ابھی یہ جو کچھ بھی ہوا تھا اریبہ کیلئے بھی بہت نیا اور غیر متوقع تھا جس کی وجہ سے وہ بھی کافی حیران تھی۔
اسی کیفیت میں اس نے اپنی چادر اوڑھی اور پرس لے کر آفس سے باہر آگئی۔ وہ سڑک کے کنارے چلتے ہوئے بس اسٹاپ کی جانب جا رہی تھی مگر ذہن ہنوز چند لمحات پہلے والے منظر میں ہی اٹک کر رہ گیا تھا۔
وہ بس اپنی ماں اور محلے کی سہیلیوں کے سامنے ہی لڑنے بھڑنے والی شیرنی بنتی تھی۔ باقی اجنبی دنیا کے سامنے تو بس وہ بھیگی بلی ہوتی تھی اور یہ ہی وجہ تھی کہ فرحت اس کیلئے فکرمند رہتی تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ان کی یہ بڑ بولی بیٹی اندر سے کتنی ڈرپوک ہے۔
ابھی اگر صارم صحیح وقت پر آکے مہوش کی بولتی نہ بند کرتا تو پتا نہیں اور کتنی دیر وہ اپنے لفظوں سے اس کی دھجیاں اڑاتی اور وہ چپ چاپ سر جھکائے آنسوں بہاتی رہتی۔
وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں آہستہ آہستہ چل رہی تھی کہ پیچھے سے آتی ایک سفید کار اس کے نزدیک رکی تو وہ بھی چونک کر متوجہ ہوئی۔
”آپ پیدل گھر جاتی ہیں اریبہ؟“ صارم نے کھڑکی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں سر بس سے جاتی ہوں، اسٹاپ کی طرف ہی جا رہی تھی۔“ اس نے جلدی سے جواب دیا۔
”میں لفٹ دے دوں آپ کو؟“ اس نے پیشکش کی۔
”ارے نہیں نہیں سر! میں بس سے چلی جاؤں گی۔“ اس نے فوراً انکار کیا۔
”میں بس اسٹاپ تک لفٹ دینے کا کہہ رہا ہوں، میں یہیں سے گزروں گا اسی لئے آفر کی۔“ اس نے اپنی بات کی وضاحت کی تو وہ پل بھر کو سوچ میں پڑ گئی۔
”ٹھیک ہے سر!“ وہ سر ہلا کر ہچکچاتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جس کا دروازہ صارم نے پہلے ہی کھول دیا تھا۔
گاڑی میں اے سی کی ٹھنڈک اور پرفیوم کی خوشبو نے مل کر ایک عجیب دلفریب سا سرور طاری کر رکھا تھا جسے اریبہ نے بےساختہ ایک گہری سانس لے کر اپنے اندر تک اتارا۔ گاڑی دوبارہ چل پڑی تھی اور ان دونوں کے مابین مکمل خاموشی حائل تھی۔
”آپ کا شکریہ سر!“ وہ دھیرے سے گویا ہوئی۔
”ارے شکریہ کی کوئی بات نہیں میں یہاں سے گزر رہا تھا تو آپ کو دیکھ کر رک گیا اور اسی راستے پر جانا تھا تو لفٹ بھی دے دی۔“ اس نے سہولت سے جواب دیا۔
”نہیں لفٹ کیلئے نہیں۔“
”تو پھر؟“
”وہ اس وقت میم کے سامنے میری فیور کرنے کیلئے۔“ اس نے نظریں جھکائے آہستہ سے وضاحت کی۔
”اس کیلئے بھی شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ میں آپ کو کہنا چاہوں گا کہ غلطی آپ کی تھی۔“ وہ موڑ مڑتے ہوئے بولا۔
”میری کیا غلطی؟“ اس نے یکدم نظریں اٹھائیں۔
”غلط کے آگے چپ رہنا سب سے بڑی غلطی ہوتی ہے، جب سامنے والا بولے جائے اور ہم کچھ نہ کہیں تو اسے شہ مل جاتی ہے، پھر آپ جتنا دبتے ہیں دنیا آپ کو اتنا دباتی چلی جاتی ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
”آج تو چلیں میں صحیح وقت پر آگیا مگر ضروری نہیں ہے کہ ہر بار کوئی دوسرا ہی آپ کی فیور میں آگے آئے، اسی لئے مقابل کو لاجواب کرکے اپنا دفاع ہمیں خود کرنا آنا چاہئے۔“ وہ اسی طرح بولتا گیا۔
”مگر آپ تو کچھ کہنے کے بجائے سر جھکا کر رونے لگی تھیں، اور آپ جیسے لوگوں کیلئے ہی کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
”ذرا سی بات پر آنکھیں بھیگو لیتے ہو محسن“
”سنو ایسا نہیں کرتے زمانہ بیچ کھائے گا“
اس نے شاعرانہ انداز میں بات مکمل کی۔ جب کہ وہ مبہوت سی اسے دیکھے گئی جو ڈرائیو کرتے ہوئے باتوں میں مصروف تھا۔
”اتنی پیاری آنکھیں ہیں آپ کی، ان میں آنسوں اچھے نہیں لگتے، انہیں سامنے والے کی آنکھوں سے ملا کر جواب دینا سیکھیں۔“ اس نے گاڑی روکتے ہوئے براہ راست اپنی شہد رنگ آنکھوں سے اس کی رات سی سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔ اریبہ کو لگا یہ محض آنکھیں نہیں کوئی جادوئی سمندر ہے جس میں وہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈوب جائے گی۔
”اسٹاپ!“ صارم کے اچانک کہنے پر وہ چونکی۔
”بس اسٹاپ آگیا ہے۔“ اس کا سوالیہ تاثر بھانپ کر صارم نے دھیان دلایا تو وہ بھی گویا واپس ہوش میں آتے ہوئے گاڑی سے اتر گئی۔
”تھینک یو سو مچ سر!“ اس نے کھڑکی پر جھک کر کہا۔
”موسٹ ویلکم!“ وہ بھی مسکراتے ہوئے جواب دے کر آہستہ سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا جسے وہ نظروں سے اوجھل ہوجانے تک دیکھتی گئی۔
*****************************************
ارحم اس وقت اپنے سنگل بیڈ پر کتابیں پھلائے بیٹھا پڑھنے میں مصروف تھا۔ جب کہ تبریز اپنی جاب پر جا چکا تھا۔
تب ہی عمر خاموشی سے آکر اس کے برابر میں بیٹھا۔ ارحم نے ایک سرسری نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس نے دانتوں کی نمائش شروع کردی۔
”کیا ہے؟“ اس نے کام کرتے ہوئے پوچھا۔
”تجھے یاد ہے وہ جو پچھلے ہفتے میں چیک والی شرٹ لے کر آیا تھا اور وہ تجھے بہت اچھی لگی تھی!“ اس نے پرجوشی سے یاد دلایا۔
”ہاں تو!“
”تو وہ تو پہننے کیلئے لے سکتا ہے بس بدلے میں میرا اسائنمنٹ بنا دے۔“ اس نے پیشکش کرتے ہوئے اصل مدعہ بیان کیا۔ تو اس نے پھر نظر اٹھا کر دیکھا۔
”مجھے نہیں چاہیے تیرا احسان۔“ اس نے ناک پر سے مكھی اڑائی۔
”مطلب تو بنا شرٹ لئے ہی کام کردے گا؟“ وہ خوش ہوا۔
”نہیں، میں کسی صورت تیرا کام نہیں کروں گا، کام ہوتے ہی بدل جاتا ہے تو۔“ اس نے صاف انکار کیا۔
”اب نہیں بدلوں گا، تو پلیز میرا کام کردے نا، بھائی نہیں ہے۔“ عمر نے لاڈ سے کہتے ہوئے اسے بازؤں کے حصار میں لیا۔
”نہیں، خود کر اور مجھے بھی کرنے دے۔“ ارحم نے کوفت سے اس کے بازو ہٹائے۔
”مطلب تو میرا کام نہیں کرے گا؟“ اس نے آخر بار پوچھا۔
”نہیں!“ ایک لفظی جواب ملا۔
”صحیح ہے بیٹا، اب تو ہاتھ لگا کر دکھا میری شرٹ کو۔“ وہ بھی برہمی سے کہتا اٹھ کر کمرے سے چلا گیا۔
”دکھا کتنی جلدی بدلا تو!“ ارحم نے پیچھے سے ہانک لگائی جسے اس نے سن کر ان سنا کردیا۔
*****************************************
رات آہستہ آہستہ سرک کر گہری ہوتی جا رہی تھی۔ باہر صحن میں جھینگر کی مخصوص آواز جب کہ کمرے گہری نیند سوئی فرحت کے خراٹے گونج رہے تھے۔ لیکن ان کے پہلو میں چت لیٹ کر چھت کو تکتی اریبہ کو اب تک نیند کا جھونکا نہیں آیا تھا۔ اس کا دل، دماغ تو بس آج شام کہی صارم کی باتوں اور اس کی طرفداری پر اٹک گیا تھا۔
صارم کا عین موقعے پر آنا۔۔۔۔۔۔اس کی حمایت کرنا۔۔۔۔۔اسے سمجھانا۔۔۔۔۔یہ سب اس کیلئے بہت انوکھا سا تھا۔
”اتنی پیاری آنکھیں ہیں آپ کی، ان میں آنسوں اچھے نہیں لگتے، انہیں سامنے والے کی آنکھوں سے ملا کر جواب دینا سیکھیں۔“
اس کے ذہن میں پھر صارم کی گھمبیر آواز گونجی۔
وہ اچانک بیڈ سے اٹھی اور موبائل کا ٹارچ جلا کر شیشے کے آگے کھڑی ہوگئی۔ وہ ٹارچ اپنے چہرے کی جانب کیے بہت غور سے اپنی آنکھوں کو دیکھنے لگی۔
”ایسا کچھ بھی تو خاص نہیں ہے میری آنکھوں میں ، وہی عام سی آنکھیں ہیں جیسی سب کی ہوتی ہیں۔“ اس نے اپنی سیاہ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے دل میں سوچا۔
”شاید دیکھنے والے کی نظر خاص تھی۔“ اگلے ہی پل دل نے کہا تو وہ بےساختہ مسکرادی۔
*****************************************
”تبریز، عمر اور ارحم تینوں یونیورسٹی کے پہلے سال سے ساتھ ہیں، تینوں ہی دوسرے شہر سے یہاں پڑھنے آئے تھے، پہلے یہ لوگ ہاسٹل میں رہتے تھے مگر جب یہ وہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہوئے تو تینوں نے ہی ہاسٹل کی فیس دینے کے بجائے ایک چھوٹا سا فلیٹ رینٹ پر لے لیا، جس کا رینٹ تینوں شیئر کرتے ہیں اور گھر کے کام بھی آپس میں بانٹے ہوئے ہیں۔“ ارم یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر عافیہ کے ہمراہ بیٹھی چپس کھاتے ہوئے تفصیلات بتا رہی تھی جنہیں کتاب پڑھتی ہوئی عافیہ سرسری انداز میں سنے جا رہی تھی کیونکہ اسے ان لوگوں کے شجر نسب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
”تمھیں اتنی معلومات کہاں سے مل گئی ان لوگوں کو بارے میں؟ اور مل بھی گئی تو تم مجھے کیوں بتا رہی ہو؟“ اس نے بےنیازی سے کہتے ہوئے کتاب کا صفحہ پلٹا۔
”عمر نے بتایا ہے یہ سب، آج کل اس سے بات چیت ہونے لگی ہے میری، بہت اچھے سے جواب دیتا ہے وہ مجھے، بلکہ ہم نے تو نمبر بھی ایکسچینج کر لئے ہیں۔“ اس کے چہرے پر شرمیلی مسکراہٹ ابھری۔
”اس کی فیملی میں اس کے امی ابو، تایا، تائی، ان کے بچے اور بھائی بھابھی ہیں، وہ سب سے چھوٹا ہے اسی لئے وہ کہتا ہے کہ اپنی امی کا بھی لاڈلا ہے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے بلاوجہ علم میں اضافہ کیا۔
”اور اس کے باقی دونوں دوستوں کی فیملی میں کون کون ہے؟“ عافیہ نے سرسری انداز میں پوچھا۔ در حقیقت وہ تبریز کے بارے میں جاننا چاہ رہی تھی۔
”ارحم کی فیملی میں اس کے امی ابو ہیں، اس سے بڑی ایک بہن شادی شدہ ہے اور اس سے چھوٹا بھائی ابھی اسکول میں ہے، مطلب ارحم منجھلا ہے، اور تبریز کی فیملی میں بس اس کی امی اور ایک چھوٹی بہن ہے، اس کے ابو کا کئی سالوں پہلے ایک ایکسڈینٹ میں انتقال ہوگیا تھا جس کے بعد وہ ہی گھر کا سربراہ ہے، اسی لئے وہ صبح یونی پڑھنے آتا ہے اور شام کو جاب بھی کرتا ہے۔“ اس نے اپنی دھن میں ان دونوں کی بابت بتایا۔ تبریز کے بارے میں جان کر عافیہ کو تھوڑا تعجب ہوا کہ وہ در حقیقت کافی ذمہ داریاں نبھا رہا ہے جس سے وہ تھوڑی متاثر بھی ہوئی لیکن ارم کے سامنے کوئی اظہار نہیں کیا۔
*****************************************
”تبریز! تبریز!“ عمر پرجوشی سے چلاتا ہوا یونیورسٹی گراؤنڈ کے اسی پیڑ کے نیچے آیا جہاں یہ لوگ اکثر بیٹھا کرتے تھے اور اس وقت بھی ارحم اور تبریز کتابیں کھولے وہیں بیٹھے تھے۔
”کیا ہوگیا؟ کس نے تیری دم پر پیر رکھ دیا جو اتنا چلا رہا ہے۔“ تبریز نے سر اٹھا کر پوچھا۔
”یہ دیکھ میں کیا لے کر آیا ہوں۔“ عمر نے کتھئی رنگ کا گیٹار آگے کرتے ہوئے دکھایا۔
”پتا ہے مجھے یہ گیٹار ہے، اس میں اتنا اچھلنے والی کون سی بات ہے؟“ اسے اب بھی کوئی دلچسپی نہ ہوئی۔ جب کہ ارحم اس کی بنا سر پر کی باتوں پر دھیان دینے کے بجائے ہنوز پڑھتا رہا۔
”یہ صرف گیٹار نہیں ہے، ہر لڑکی کے دل کے تار چھیڑنے والا آلہ ہے۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے نزدیک بیٹھا۔
”بونگے سے بونگا لڑکا بھی اگر اسٹائل سے گیٹار بجا کر گانا گائے نا تو ان لڑکیوں کا دل یوں پگھلتا ہے یوں۔“ اس نے چٹکی بجاتے ہوئے مزید کہا۔
”مطلب تو مجھے بونگا کہہ رہا ہے؟“ تبریز نے آئبرو اچکائی۔
”نہیں، میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ اچھا خاصا ہینڈسم تو، تو ماشاءالله پہلے ہی ہے، اس پر اگر تو گیٹار بجا کر گانا گائے گا تو عافیہ تو کیا یونی کی ساری لڑکیاں تیری جانب کھنچی چلی آئیں گی میرے چیتے۔“ عمر نے کہتے ہوئے آخر میں اس کا گال کھینچا تو تبریز اور ارحم بےساختہ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”اس دن عافیہ کے سامنے جان بوجھ کر آنے کے بعد اس نے تجھے جھوٹا تو ثابت کر ہی دیا تھا، اور آج اسی گیٹار سے پٹوا کر یہ باقی کا قصہ بھی ختم کروا دے گا، پھر نہ رہے گا گیٹار، نہ بجیں گے محبت کے تار۔“ ارحم نے پہلے ہی مستقبل کی پیشن گوئی کی تو تبریز بھی عمر کو دیکھنے لگا۔
”یار میں سیریس ہوں۔“ اس نے تنک کر کہا۔
”ہاں وہ تو بہت زیادہ ہی ہو، تبریز! جلدی پاگل خانے فون کرکے بول کہ پیشنٹ کی دماغی حالت بہت سیریس ہے، آکر اسے لے جائیں اس سے پہلے کہ یہ کاٹنا شروع کردے۔“ ارحم نے مصنوعی فکر ظاہر کی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
”یہ باتیں چھوڑ پہلے یہ بتا کہ تجھے یہ گیٹار ملا کہاں سے؟“ ان دونوں کی بکواس نظر انداز کرتے ہوئے تبریز نے سوال کیا۔
”وہ ڈبل بیٹری سنگل پاؤر چشمش ہے نا وصی! وہ لے کر آیا ہوا تھا، اتفاق سے کل ہی میں نے اسے اس کے فیسبک اکاؤنٹ کا بھولا ہوا پاسورڈ ریکور کرنا سکھایا تھا تو آج اسی احسان کے بدلے میں اس سے تھوڑی دیر کیلئے یہ سوچ کر گیٹار لے آیا کہ تجھے بجانا آتا ہے تو شاید اس سے تیرا کام بن جائے، کیسا؟“ اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا تو دونوں نے اسے دیکھ کر پل بھر کو ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔
”شاباش بیٹا! بس ایک پڑھائی کے سوا تم یونی میں باقی سارے کام بہت دلجمی سے کر رہے ہو۔“ ارحم نے باقاعدہ تالی بجا کر سراہا۔
”یار دیکھ تو اس دن ناراض ہوگیا تھا نا کہ میں نے عافیہ کے سامنے تیری ایمیج خراب کردی تھی! تو اب میں اس کی تلافی کا موقع دے تو رہا ہوں تجھے۔“ اس نے ارحم کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے گیٹار تبریز کی جانب بڑھایا تو بجائے کچھ کہنے کے وہ سوچ میں پڑ گیا۔
*****************************************
”یار میں پاگل تو نہیں لگ رہا نا!“ تبریز نے نروس انداز میں پوچھا۔ تینوں اس وقت کینٹین میں ایک ٹیبل کے گرد موجود تھے جہاں تبریز گیٹار پکڑے بیٹھا عافیہ کا انتظار کر رہا تھا۔
”نہیں، بالکل ہیرو لگ رہا ہے۔“ عمر نے انگوٹھا اور شہادت کی انگلی جوڑ کر ”زبردست“ کا نشان بنایا۔
”ایسا کر کہ یہاں نیچے ایک رومال بھی بچھا لے، اگر عافیہ نے بھاؤ نہیں دیا تو ہوسکتا ہے لوگ تیرا گانا سن کر کچھ بھیک ہی دے جائیں!“ ارحم نے چپس کھاتے ہوئے بےنیازی سے طنز مارا تو وہ اسے گھور کر رہ گیا۔
”او! عافیہ آرہی ہے۔“ تب ہی عمر نے تبریز کے عقب میں دیکھتے ہوئے اطلاع دی۔
”چل تبریز!“ عمر نے گرین سگنل دیا۔
”ہاں چل بھاگتے ہیں۔“ تبریز گھبراہٹ کے مارے جانے کیلئے اٹھنے لگا۔
”ابے چل گیٹار بجانا شروع کر۔“ عمر نے دانت پیستے ہوئے اسے واپس بٹھایا۔ تب تک عافیہ کینٹین میں آچکی تھی۔ مرتا کیا نہ کرتا کے تحت تبریز نے تھوک نگلتے ہوئے گیٹار کے تار چھیڑے۔
گیٹار کی آواز پر بےساختہ عافیہ سمیت وہاں موجود سب لوگوں نے اس کی جانب دیکھا۔
اس نے گیٹار بجانا شروع تو کردیا تھا مگر وہ اتنا نروس تھا کہ گانا اس کے حلق سے باہر ہی نہیں آرہا تھا۔ تب ہی عمر نے مسکراتے ہوئے بظاہر دوستانہ انداز میں اس کے سر پہ چپت لگائی جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا۔
”دو لفظ کی ہے“
”بات ایک ہی ہے“
”کیوں درمیاں پھر رکی رکی“
”کہہ بھی نہ پائیں“
”رہ بھی نہ پائیں“
”کیوں بےوجہ یہ ہے بےبسی“
”تم میں ہم ہیں، ہم میں تم ہو“
”تم سے ہم ہیں، ہم سے تم ہو“
”قسمتوں سے ملتے ہیں دو دل یہاں“
”ہر کسی کو نہیں ملتا“
”یہاں پیار زندگی میں“
”خوش نصیب ہیں وہ“
”جن کو ہے ملی“
”یہ بہار زندگی میں“
”ہر کسی کو نہیں ملتا“
”یہاں پیار زندگی میں“
بلآخر ہمت کرکے پہلا شعر گاتے ہی اس کا تسلسل بن گیا تھا۔ وہ گیٹار بجاتے ہوئے گا رہا تھا اور سب آس پاس کھڑے اسے سن رہے تھے۔۔۔۔۔۔عافیہ بھی!
بس اتنا گا کر وہ خاموش ہوگیا تھا جسے سراہتے ہوئے سب نے تالیاں بجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔سوائے عافیہ کے!
”واؤ! تم اتنے اچھے سنگر اور گیٹارسٹ ہو اور ہمیں پتا ہی نہیں تھا۔“ ارم نے چہکتے ہوئے تعریف کی جو موبائل میں باقاعدہ اس کی ویڈیو ریکارڈ کرچکی تھی۔
”ارے لوگوں کو ابھی کچھ پتا ہی کہاں ہے ہمارے یار کے بارے میں!“ عمر نے تبریز کے گرد بازو حائل کرتے ہوئے فخر سے کہہ کر در حقیقت عافیہ کو سنایا تھا۔
وہ چند لمحے یوں ہی ایک کونے میں چپ چاپ کھڑی رہی اور پھر بنا کوئی رد عمل دیے وہاں سے چلی گئی۔ تبریز کا امید سے ٹمٹماتا دل یکدم بجھ گیا۔
اب عمر تبریز سے گیٹار لے کر بجاتے ہوئے ارم پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش کر رہا تھا جو اس میں خاصی دلچسپی لیتی تھی اور اس وقت سب سے زیادہ پرجوش بھی وہ ہی تھی۔ جب کہ اس سارے رونق میلے کے بیچ سے تبریز چپ چاپ اٹھ کر چلا آیا۔
*****************************************
کچھ ہی دنوں میں اریبہ کی صارم سے بہت اچھی بات چیت ہوگئی تھی جس کا سیدھا اثر اس کی شخصیت پر کچھ یوں ہوا کہ اب وہ پہلے کی نسبت خاصی پر اعتماد ہوگئی تھی۔ کیونکہ وہ وقتاً فوقتاً ناصرف اس کے کام کو سراہتا تھا بلکہ اسے خود اعتمادی کی ترغیب بھی دیتا رہتا تھا جس کا خاطر خواہ نتیجہ بر آمد ہو رہا تھا۔
ابھی بھی وہ اپنی ڈیکس پر موجود کام کر رہی تھی کہ اپنے مخصوص بےباک انداز میں مہوش وہاں آئی اور اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالی ہوئی سیدھی صارم کے روم کی جانب بڑھی۔
”ایکسکیوزمی میم!“ اریبہ کی پکار پر وہ رک کر پلٹی۔
”آپ ابھی اندر نہیں جا سکتیں، سر ایک آن لائن میٹنگ میں مصروف ہیں۔“ اس نے سادہ مگر مضبوط انداز میں وجہ روکنے کی وجہ بتائی۔
”اپنے کام سے کام رکھو لڑکی۔“ اس نے ناگواری سے اریبہ کو نظر انداز کیا۔
”میرا کام سر کے آرڈرز فالو کرنا ہے، اور میں اپنا کام ہی کر رہی ہوں، سر نے منع کیا ہے کہ ابھی کسی کو روم میں نہ جانے دوں۔“ اس نے تحمل سے وضاحت کی جس سے وہ مزید زچ ہوئی۔
”اب تم مجھے سکھاؤ گی کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟“ اس نے دانت پیس کر یوں کہا جیسے ابھی اسے کچا چبا جائے گی۔
”جی بالکل! اگر ایک شخص کو اخلاقیات کا نہیں پتا تو اس کے بارے میں اسے سکھانا ہمارا فرض ہے۔“ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے اطمینان سے جواب دیا جس سے مہوش کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
وہ ایک لمحہ بھی مزید برباد کیے بنا تن فن کرتی صارم کے روم میں داخل ہوئی جہاں وہ ابھی ابھی لیپ ٹاپ پر جاری آن لائن میٹنگ سے فارغ ہوا تھا اور مہوش کو یوں آندھی طوفان کی طرح اندر آتا دیکھ چونک گیا تھا جس کے پیچھے اریبہ بھی چلی آئی تھی۔
”سر میں نے انہیں روکا تھا مگر انہوں نے میری بات نہیں سنی۔“ اس کے کچھ کہنے سے قبل ہی اریبہ بول پڑی۔
”صارم! اس لڑکی سے کہو کہ ابھی اسی وقت مجھ سے معافی مانگے۔“ مہوش نے برہمی سے حکم صادر کیا۔
”لیکن ہوا کیا ہے؟“ وہ بھی ناسمجھی کے عالم میں اپنی جگہ پر سے اٹھ کر آگے آیا۔
”اس دو ٹکے کی لڑکی کی اتنی ہمت کہ اس نے ناصرف مجھے روکا بلکہ آگے سے الٹا جواب بھی دیا، اس سے کہو کہ ابھی مجھے سوری بولے ورنہ میں اسے نوکری سے نکلوا دوں گی۔“ وہ غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ کیونکہ ایک تو پہلے ہی صارم نے ایک بار اریبہ کے آگے اسے نظر انداز کیا تھا جس کی چنگاری اب تک باقی تھی مزید اس میں آگ اریبہ کے دوبدو جواب سے لگ گئی تھی۔
”پہلی بات تو یہ کہ میں کوئی دو کوڑی کی لڑکی نہیں ہوں، عزت سے کماتی ہوں اور اپنی محنت کا کماتی ہوں اسی لئے میری بھی اتنی ہی عزت ہے جتنی آپ کی ہے، دوسری بات کہ میں نے صرف اپنی ڈیوٹی نبھائی ہے کچھ ایسا نہیں کیا ہے جس کیلئے معافی مانگنی پڑے اسی لئے، آئی ایم ناٹ سوری!“ صارم کے بولنے سے قبل ہی اریبہ نے اپنی سیاہ آنکھیں اس کی نیلے لینس والی آنکھوں میں ڈال کر اٹل انداز سے کہا اور بات مکمل ہوتے ہی وہاں سے چلی گئی۔ دونوں بس اسے دونوں دیکھ کر رہ گئے۔
*****************************************
”تبریز آفس چلا گیا کیا؟“ عمر نے دھپ سے صوفے پر ارحم کے برابر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، تھوڑی دیر تک جائے گا، ابھی باہر کہیں گیا ہے۔“ ارحم نے ریموٹ سے چینل بدلتے ہوئے جواب دیا۔
”ویسے تیرا نہیں خیال کہ وہ عافیہ کے پیچھے خواہ مخواہ ہی پاگل ہوا پڑا ہے؟ نہ اس سے اظہار کرتا ہے، نہ اس کے سوا کسی اور کو دیکھتا ہے، اور وہ عافیہ بھی بڑی کوئی ڈھیٹ ہڈی ہے، مجال ہے جو اس کے رویے میں ذرا بھی لچک آئی ہو!“ عمر نے دانت سے انگوٹھے کا ناخن چباتے ہوئے تجزیہ کیا۔
”ایسی لڑکیوں کو ڈھیٹ نہیں مضبوط کہتے ہیں، اور اسی مضبوطی نے تبریز کو متاثر کیا ہے۔“ ارحم نے ٹی وی دیکھتے ہوئے تصحیح کی۔
”بھئی میری سمجھ سے تو یہ دونوں ہی باہر ہیں، اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہو تو اظہار کرو، اس کے ساتھ گھومو پھرو، باتیں کرو، یہ کیا کہ بس چوری چھپے ایک دوسرے کو دیکھا جائے، نہ کچھ کہا جائے نہ سنا جائے۔“ عمر نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”غلط! اگر آپ کسی کو پسند کرتے ہو تو اس سے اظہار کرو، اور ایک حلال رشتہ قائم کرلو، پھر جتنا مرضی چاہے اس کے ساتھ گھومو پھرو، باتیں کرو، نہ اللّه ناراض ہوگا اور نہ دنیا سوال اٹھائیں گی۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے اپنی رائے دی جو کہ بالکل درست تھی۔
اس سے قبل کہ دونوں کے مابین مزید کوئی بات ہوتی تبریز بھی فلیٹ کا دروازہ بند کرتا ان لوگوں کی جانب چلا آیا جس کے تاثر بیک وقت کافی سنجیدہ اور رنجیده سے تھے۔ اسے دیکھ کر دونوں متعجب ہوئے۔
”کیا ہوا تبریز؟“ ارحم نے پہل کی۔ تب تک تبریز سنگل صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔
”تھوڑی دیر پہلے تحریم کا فون آیا تھا، بتا رہی تھی کہ اماں کی طبیعت خراب ہونے پر وہ انہیں ہسپتال لے کر گئی تھی جہاں ڈاکٹر نے کچھ ٹیسٹ لکھ کر دیے ہیں جو یہاں کراچی سے کروانے ہے۔“ وہ بتانے لگا۔
”تو کیا پیسوں کا کوئی مسلہ آرہا ہے؟“ عمر نے اندازہ لگایا۔
”نہیں، پیسے تو ہیں، اماں جوڑ کر رکھتی ہیں، مجھے دو باتوں کی فکر ہو رہی ہے۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے بتایا۔
”کون سی باتیں؟“ ارحم نے جاننا چاہا۔
”پہلی تو یہ کہ پتا نہیں ٹیسٹ رپورٹ میں کیا آئے گا؟ اور دوسری جب وہ دو روز کیلئے یہاں آئیں گی تو انہیں کہاں رکھوں گا؟“ اب اس نے اصل مسلہ بتایا۔
”یار بیماری کی شفا تو اللّه کے اختیار میں ہوتی ہے، لیکن تم فکر نہ کرو وہ سب اچھا کرے گا۔“ ارحم نے تسلی دی۔
”اور رہی بات رہنے کی تو یہ فلیٹ ہے نا! دو دن کی تو بات ہوگی تم آنٹی کو کمرے میں ٹھہرا لینا ہم لوگ یہاں لاؤنج میں سوجائیں گے۔“ ساتھ ہی اس نے دوسرا مسلہ بھی حل کیا۔
”ہاں نا! ہم لوگ تو آدھا دن ویسے بھی یونی میں ہوتے ہیں، وہاں سے آنے کے بعد تو آفس چلا جاتا ہے اور ہم بھی اکثر کہیں نا کہیں نکل جاتے ہیں، فلیٹ تو خالی ہی پڑا رہتا ہے، یہاں آرام سے رہ لیں گی آنٹی۔“ عمر نے بھی تائید کی۔
”پکا! تم لوگوں کو کوئی مسلہ تو نہیں ہوگا!“ اس نے تصدیق چاہی۔
”کیسا مسلہ یار! وہ ہماری بھی ماں جیسی ہیں اور بھلا ماں کے گھر آنے سے کس کو مسلہ ہوتا ہے؟“ ارحم نے فراخ دلی سے جواب دیا۔
*****************************************
آفس ٹائم ختم ہونے کے بعد اریبہ اب چادر اوڑھے اپنا پرس سنبھال کر آہستہ آہستہ چلتی بس اسٹاپ پر جا رہی تھی۔
آج اس نے مہوش کو دوبدو جواب تو دے دیا تھا مگر اب خود بھی کشمکش کا شکار تھی کہ آیا اس نے درست کیا یا نہیں؟
آج حسب معمول صارم بھی جاتے ہوئے اسے خوش اخلاقی سے ”سی یو ٹومارو“ کہنے کے بجائے فون پر بات کرتا عجلت میں بنا کچھ بولے ہی چلا گیا تھا؟ کیا وہ اس بات پر اس سے ناراض ہوگیا تھا؟
وہ ان ہی سب سوچوں میں غرق چل رہی تھی جب پاس آئی گاڑی کے ہارن دینے پر چونک کر ہوش میں آئی۔
”آجائیں میں لفٹ دے دیتا ہوں۔“ صارم نے پیشکش کی۔
وہ اکثر اوقات اسے بس اسٹاپ تک لفٹ دے دیا کرتا تھا اسی لئے اس بار بھی وہ چپ چاپ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
گاڑی دوبارہ رواں ہوچکی تھی اور ان کے مابین بھی گہری خاموشی حائل تھی۔ جسے ہمت کرکے اریبہ نے ہی توڑا۔
”آئی ایم سوری سر!“
”کس لئے؟“
”آج میں نے مہوش میم کو اس طرح جواب دیا جو شاید مجھے نہیں دینا چاہئے تھا، اور آپ کو بھی وہ برا لگا!“ وہ انگلیاں مڑوڑتے ہوئے بولی۔
”آپ سے کس نے کہا کہ مجھے برا لگا؟“
”کسی نے نہیں، مگر وہ آپ کی دوست ہیں نا تو میں نے اندازہ لگایا کہ شاید آپ کو بھی برا لگا۔
” اور آپ کو یہ کس نے کہا کہ وہ میری دوست ہے؟“
”کسی نے نہیں، میں نے خود اندازہ لگایا۔“
”آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ نہ تو وہ میری دوست ہے اور نہ ہی مجھے برا لگا، آپ کے دونوں اندازے غلط ہیں۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”تو پھر وہ آپ کی کون ہیں؟“ وہ حیران ہوئی۔
”کوئی نہیں، وہ بس میرے ڈیڈ کے بزنس پارٹنر کی لاڈلی بیٹی ہے۔“ یہ جان کر اریبہ کو ایک عجیب سا اطمینان ہوا کہ اس کا مہوش سے کوئی رشتہ نہیں تھا۔
”اور ڈیڈ کی وجہ سے میں اسے کچھ بول نہیں پاتا کیونکہ نالائق تو میں ان کی نظر میں پہلے ہی ہوں، اگر ان میڈم کو کچھ کہہ دیا تو وہ مجھے ڈیڈ کی نظر میں بدتمیز بھی بنا دیں گی۔“ اس نے جلے دل کا درد بتایا۔
”آپ نے آج بالکل ٹھیک کیا، آئی رئیلی لائک اٹِ!“ اس نے دل سے سراہا۔
”سچی سر!“ وہ خوش ہوئی۔
”بالکل! میں آپ کے اندر یہ ہی کانفیڈینس تو دیکھنا چاہتا ہوں۔“ اس نے بھرپور تائید کی۔
”تھینک یو سر! اور یہ کانفیڈینس بھی آپ کی موٹیویشن کی وجہ سے ہی آیا ہے۔“ وہ بےحد خوش تھی جسے دیکھ کر وہ بھی مسکرایا۔
”ارے! باتوں باتوں میں ہم اسٹاپ سے کافی آگے آگئے۔“ صارم کو اچانک خیال آیا تو اریبہ بھی حیران ہوئی۔
”کوئی بات نہیں سر! آپ مجھے آگے کیسی اسٹاپ پر اتار دیں۔“ اس نے حل پیش کیا۔
”نہیں، اب جب سفر شروع ہو ہی گیا ہے تو اسے منزل تک بھی لے چلتے ہیں۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے کوئی فلسفیانہ جملا کہا۔
”مطلب؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”مطلب میں آپ کو گھر تک ہی چھوڑ دیتا ہوں۔“ اس نے پیشکش کی۔
”ارے نہیں نہیں سر آپ کیوں زحمت کر رہے ہیں!“ اس نے جلدی سے منع کیا۔
”کیوں! مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟“ اس نے سوال اٹھایا۔
”نہیں نہیں وہ بات نہیں ہے۔“ اس نے فوراً نفی کی۔
”تو پھر؟“
”میں تو بس اسی لئے کہہ رہی تھی کہ آپ کو خواہ مخواہ زحمت ہوگی!“ اس نے دھیرے سے وجہ بتائی۔
”نہیں ہوگی، گاڑی میں ہی تو ڈراپ کرنا ہے، آپ ایڈریس بتائیں۔“ اس کے اصرار کے آگے اریبہ کو ہار ماننی پڑی۔
*****************************************
”ٹھیک ہے اماں تو پھر میں صبح پہنچ جاؤں گا ٹائم پر آپ کو لینے بےفکر رہیں، اللّه حافظ!“ تبریز نے بات سمیٹتے ہوئے انہیں تسلی کرائی اور پھر ڈسکنیکٹ کرکے سائیڈ ٹیبل پر موبائل چارج پہ لگانے لگا۔
تینوں اس وقت اپنے مشترکہ کمروں میں اپنے اپنے سنگل بیڈ پر موجود تھے۔ تبریز ابھی ابھی نگار سے بات کرکے فارغ ہوا تھا۔ ارحم بھی اپنے بیڈ پر لیٹا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ جبکہ عمر مسکرا مسکرا کر فون پر کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا جسے دونوں بہت دیر سے نوٹ کر رہے تھے۔
”آرہی ہیں آنٹی کل؟“ ارحم نے پوچھا
”ہاں، صبح کی بس سے آرہی ہیں، اور انہیں پک اپ کرکے ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر جانا ہوگا تو کل میں یونی نہیں جاؤں گا۔“ اس نے اضافی جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، میں اور عمر چلے جائیں گے۔“ اس نے سر ہلایا۔
”یہ اس کو کیا ہوا ہے؟“ تبریز نے عمر کی جانب آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں، کافی دیر سے ایسے ہی دانت نکال نکال کر فون پر لگا ہوا ہے۔“ ارحم نے کاندھے اچکائے۔
”کس سے بات کر رہا ہے تو عمر؟“ تبریز نے براہ راست پوچھا۔
”ارم سے۔“ دو لفظی جواب ملا۔
”کون ارم؟“
”وہ ہی عافیہ کی دوست، جو مجھ میں کافی دلچسپی لے رہی تھی۔“ اس نے ہنوز ٹائپ کرتے ہوئے یاد دلایا۔
”اس کا نمبر تیرے پاس کہاں سے آیا؟“ وہ متعجب ہوا۔
"خود دیا ہے اس نے، اگر تو بولے تو عافیہ کا نمبر مانگوں اس سے تیرے لئے؟“ اس نے بتاتے ہوئے پیشکش کی۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے، مجھے نہیں پسند اس طرح فون والا چھچھورپن۔“ اس نے صاف انکار کیا۔
”مرضی ہے۔“ وہ لاپرواہی سے کاندھے اچکا کر پوری طرح فون کی جانب متوجہ ہوگیا۔ جب کہ تبریز بازو آنکھوں پر رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ اسے صبح جلدی اٹھ کر نگار کو پک اپ کرنے جانا تھا۔
*****************************************
”بس کردو اماں اور کتنا تیل انڈیلو گی سر پہ!“ زمین پر بیٹھی اریبہ نے کوفت سے ٹوکا۔
”بیٹھی رہ چپ چاپ! سارے بال سوکھے پڑے ہیں، پتا نہیں کب سے تیل نہیں لگایا ہے سر پہ اور پھر رونا روتی ہے کہ سر میں درد ہو رہا ہے۔“ صوفے پر موجود فرحت نے بھی اس کے سر پر چپت لگائی۔
”سر درد کا تیل سے کیا تعلق؟“
”وہ ہی تعلق ہے جو پودوں کا پانی سے ہوتا ہے، جس طرح بنا پانی کے پودا سوکھ جاتا ہے ایسے ہی تیل کی مالش نہ ملنے پر بال بھی مرجھا جاتے ہیں، تیل کی مالش سے بالوں کی جڑوں اور دماغ دونوں کو سکون ملتا ہے۔“ انہوں نے اس کے سیاہ بالوں میں مالش کرتے ہوئے لکچر دے ڈالا۔
”اور پھر تجھے دفتر کا کام بھی تو کرنا ہوتا ہے اس سے بھی تھک جاتی ہوگی، صبح کی گئی شام کو آتی ہے، پتا نہیں کتنا دماغ کھپانا پڑتا ہوگا دفتر میں!“ ان کے انداز میں فکر تھی۔
”ہاں، آپ کو تو ویسے بھی برا لگتا ہے نا میرا نوکری کرنا۔“ وہ نروٹھے پن سے بولی۔
”والدین کو کبھی بھی اولاد کا کوئی عمل برا نہیں لگتا، انہیں بس ڈر لگتا ہے کہ اس عمل کا کوئی خطرناک رد عمل نہ آجائے اسی لئے وہ اولاد کو روکتے ٹوکتے ہیں! کیونکہ جہاں محبت ہوتی ہے نا وہاں محبوب کی فکر بھی خودبخود چلی آتی ہے۔“ انہوں نے محبت سے تصحیح کرتے ہوئے اس کے دل سے وہ غلط فہمی دور کی جو اکثر اولاد والدین کیلئے دلوں میں پال بیٹھتی ہے، بنا یہ سوچے سمجھے کہ وہ ہمارے دشمن نہیں ہوتے بلکہ ہمیں دشمن دنیا سے بچانے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔
**************************************
نئے دن کا سورج بہت سی مصروفیت لے کر پھر سے طلوع ہوگیا تھا۔ یونیورسٹی میں بھی حسب معمول طلبات کا سیلاب امڈ آیا تھا جو کندھوں پر بیگ لئے یہاں سے وہاں گھومتے پھر رہے تھے۔
کلاس لے کر عافیہ بھی اب کینٹین کی جانب جارہی تھی جس کی نظریں غیر ارادی طور پر مسلسل کسی کو یہاں وہاں ڈھونڈ بھی رہی تھیں لیکن وہ کہیں بھی نظر نہیں آیا۔
جب وہ سینڈوچ اور جوس لے کر واپس جانے لگی تو اس کی نظر کینٹین میں کونے کی ٹیبل پر بیٹھی ارم پر پڑی جو مسکراتے ہوئے ناصرف عمر سے باتیں کر رہی تھی بلکہ دونوں ایک ہی پلیٹ میں بریانی کھا رہے تھے۔ ایک سیکنڈ کیلئے اسے یہ سب بہت عجیب لگا۔ لیکن پھر وہ اسے نظر انداز کرکے کینٹین سے باہر آنے کے بعد اسی پیڑ کے نیچے بیٹھ گئی جہاں تبریز اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھتا تھا۔
پتا نہیں کیوں؟ آج اسے سب کچھ بہت خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ جیسے لوگوں سے بھری یہ پوری یونیورسٹی سنسان پڑی ہوئی ہے، اور وجہ تھی، اس کی غیر موجودگی جس کی موجودگی کو وہ کسی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔
ہر لڑکی کی طرح اس کا دل بھی کسی کی نگاہ الفت محسوس کرتے ہوئے لے بدلنے لگا تھا۔ مگر وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں تھی جو اپنے بدلتے جذبات کے دھاروں میں بہہ جائے۔ وہ ایک مضبوط لڑکی تھی جسے اپنے جذبات پر قابو پانا آتا تھا، کیونکہ اسے اپنی حدود پتا تھیں۔
”ہائے عافیہ!“ تب ہی ارم بھی اسی کی طرف چلی آئی۔
”ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملتا ہے تو ”ہائے ہیلو“ نہیں ”السلام علیکم“ کہتا ہے، اس سے دلوں میں محبت بڑھتی ہے۔“ عافیہ نے کئی بار کی بات دوبارہ دہرائی۔
”اچھا سوری! السلام علیکم!“ وہ بھی تصحیح کرتے ہوئے اس کے پاس آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔
”وعلیکم السلام!“ پیڑ سے ٹیک لگائے بیٹھی عافیہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
”کیا کر رہی تھی تم؟“ اس نے بےتكا سوال کیا۔
”سینڈوچ کا ریپر اتار رہی تھی۔“ اس نے اپنے ہاتھوں کی جانب اشارہ کیا۔
”تم بتاؤ، تم کیا کر رہی تھی کینٹین میں؟“ اس نے بات بدلی۔
”عمر سے باتیں، مگر اس کا وہ دوست ہے نا ارحم، اسے اکیلا چھوڑتا ہی نہیں ہے، ابھی بھی اسے لے گیا۔“ اس نے بتاتے ہوئے آخر میں منہ بسورا۔
”وہ تو تین دوست ہمیشہ ایک ساتھ رہتے ہیں نا، آج تیسرا والا نظر نہیں آرہا۔“ اس نے ارم کی جانب سینڈوچ بڑھا کر سرسری انداز میں کریدا۔
”ہاں عمر بتا رہا تھا کہ آج اس کی امی آرہی ہیں تو وہ انہیں لینے گیا ہے، اس لئے آج یونی نہیں آیا۔“ اس نے سینڈوچ کا تھوڑا سا کنارہ توڑتے ہوئے اطلاع دی تو عافیہ کو بےساختہ تسلی ہوئی کہ سب خیریت ہے۔
”تم عمر سے کیا بات کر رہی تھی؟“ اس نے موضوع بدلا۔
”بس تھیں کچھ پرسنل باتیں۔“ وہ معنی خیزی سے مسکرائی۔
”عمر نے تمہاری جانب ہاتھ بڑھایا تھا یا تم نے اس کی جانب؟“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر ٹٹولا۔
”میں نے بڑھایا تھا ہاتھ جسے اس نے تھام لیا۔“ اس نے برملا اعتراف کیا۔
”دیکھو ارم میری بات کا برا مت ماننا لیکن ایک لڑکی اور لڑکے کا دوستی کرنا ٹھیک ہی نہیں ہے، اور خود سے کسی لڑکے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا تو بالکل ہی غلط ہے، منہ پر بھلے ہی وہ تم سے کتنے اچھے سے کیوں نہ ملے مگر پیٹھ پیچھے ایسے لڑکے تم جیسی لڑکیوں کی نہ تو عزت کرتے ہیں اور نہ ہی انھیں اچھا سمجھتے ہیں۔“ اس نے رسان سے سمجھانا چاہا۔
”عمر ایسا نہیں ہے وہ بھی مجھے پسند کرتا ہے۔“ اس نے نفی کرتے ہوئے کمزور سی دلیل دی۔
”وہ کیسا بھی ہو، پر تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہئے، تم خود کو اس کے لئے کھلونا مت بناؤ، جو باآسانی دستیاب ہو وہ اپنی قدر کھو دیتا ہے اور عورت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ایسے ہی کسی غیر مرد کو خود پر اتنی دسترس دے دے، عورت کو اپنے مقابل وقار کی کم از کم اتنی مضبوط اور اونچی دیوار تو کھڑی رکھنی چاہئے جسے آسانی سے کوئی بھی پھلانگ کر اس تک نہ پہنچ سکے۔“ اس کی آواز نرم تھی مگر انداز اٹل تھا۔
”میں پھر کہہ رہی ہوں اور بار بار کہوں گی کہ وہ ایسا نہیں ہے، غلط وہ نہیں تمہاری سوچ ہے، تم ابھی تک اسی دقیانوسی سوچ کے ساتھ جی رہی ہو کہ ایک لڑکا اور لڑکی دوست نہیں بن سکتے، ان کا آپس میں بات چیت کرنا ٹھیک نہیں ہے، ایک دوسرے سے کھل کر ملنا ٹھیک نہیں ہے، لیکن مجھ سے یہ نہیں ہوگا، تم جیسی چھوٹی سوچ کی لڑکیوں کی طرح گھٹ گھٹ کر نہیں مرنا مجھے، میں کھل کر اپنی زندگی جینا چاہتی ہوں جس کا مجھے پورا حق ہے۔“ وہ اس کی بات سمجھنے کے بجائے یکدم طیش میں آگئی۔ کیونکہ اس وقت وہ اس نہج پر تھی جہاں ہر خیر خواہ دشمن ہی معلوم ہوتا ہے۔
”ارم تم آرام سے میری بات تو سنو۔“ عافیہ نے اسے پرسکون کرنا چاہا۔
”نہیں، مجھے تمہاری کوئی بات نہیں سنی ہے، خود تو پرانے خیالوں میں جی کر سب سے الگ تھلگ رہتی ہو اور کوئی دوسرا آزادی سے جینا چاہے تو وہ بھی برا لگتا ہے تم جیسے لوگوں کو۔“ اس نے حد درجہ تلخی سے کہا اور بنا اس کا جواب سنے تیزی سے چلی گئی۔ جبکہ وہ بےبسی سے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گئی۔
*****************************************
”آپ کیا کھائیں گی؟“ مینو کارڈ دیکھتے ہوئے صارم نے مقابل بیٹھی اریبہ سے پوچھا جو حیران سی ستائشی نظروں سے اس ریسٹورنٹ کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جہاں اس وقت دونوں لنچ کیلئے موجود تھے۔
”کچھ بھی آرڈر کردیں سر!“ اس نے نروس انداز میں کندھے اچکائے۔ صارم نے ایک نظر اس کے مبہم گھبرائے ہوئے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنی مرضی سے ہی آرڈر دے دیا۔
”وہ کلائینٹ کب تک آئیں گے جن سے ملنے ہم یہاں آئے ہیں؟“ اریبہ نے گھبراہٹ زائل کرنے کی غرض سے پوچھا۔
”کیوں؟ مجھ سے ڈر لگ رہا ہے؟“ اس نے محظوظ ہوتے ہوئے دونوں بازو ٹیبل پر رکھے۔
”نہیں نہیں، وہ آپ نے کہا تھا نا کہ ایک کلائینٹ سے ملنا ہے اور سب ڈیٹیلز نوٹ کرنی ہیں، تو اسی لئے پوچھ رہی تھی بس۔“ اس نے جلدی سے نفی کی تو وہ ہلکے سے مسکرایا۔
”ریلیکس! اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں۔“
”کیونکہ یہ میرا کام نہیں ہے نا سر! یہ سب تو آپ کی سیکرٹری ہینڈل کرتی ہے۔“ اس نے گویا وجہ بتائی۔
”جی، مگر وہ آج چھٹی پر ہے اور یہ میٹنگ ارجنٹ آگئی ہے اسی لئے آپ کو زحمت دی میں نے، بلکہ شاید پریشان ہی کردیا۔“ صارم نے اس کے پیارے سے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جس پر تفکر کے سائے منڈلا رہے تھے۔
”نہیں نہیں سر، آپ نے کوئی زحمت نہیں دی، میں بس اسی لئے تھوڑی نروس ہوں کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی نہ ہوجائے!“ اس نے نفی کرتے ہوئے اصل مسلہ بتایا۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے پریشان ہونے کی، میں ہوں نا آپ کے ساتھ!“ اس نے مسکراتے ہوئے اپنی کتھئی آنکھوں سے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس قدر یقین سے کہا تھا کہ وہ اپنی جگہ پر مبہوت ہوگئی۔
کیا کہہ گئی کسی کی نظر کچھ نہ پوچھئے
کیا کچھ ہوا ہے دل پہ اثر کچھ نہ پوچھئے
اختر شیرانی
*****************************************
”آئیں اماں، آؤ تحریم!“ تبریز نے فلیٹ کا گیٹ کھولتے ہوئے اندر آیا جس کے پیچھے وہ دونوں بھی گھر میں داخل ہوئیں اور فلیٹ کا جائزہ لینے لگیں۔ اس نے دونوں کے بیگز لاؤنج میں ہی کنارے پر رکھ دیے۔
”بیٹھیں آپ، میں پانی لے کر آتا ہوں آپ کے لئے۔“ وہ صوفے کی جانب اشارہ کرتا ہوا کچن میں چلا گیا۔
وہ دونوں ایک ڈبل صوفے پر بیٹھ چکی تھیں۔ جس کی پشت پر کچھ ٹی شرٹس اور اس کے نیچے پیزا کے خالی باکس پڑے ہوئے تھے۔
”یہ لیں!“ تبریز نے واپس آکر پانی سے بھرا گلاس نگار کی جانب بڑھایا۔انھوں نے گلاس لے لیا۔ جبکہ تبریز نے ہاتھ میں پکڑی بوتل ٹیبل پر رکھی اور خود بھی ایک سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔
”بھیا آپ نے تو بتایا تھا کہ آپ دو لڑکوں کے ساتھ رہتے ہیں، پر یہاں تو کوئی نظر نہیں آرہا۔“ تحریم نے آس پاس کا جائزہ لیا۔
”وہ دونوں ابھی یونیورسٹی گئے ہوئے ہیں، آنے والے ہی ہوں گے کچھ دیر تک۔“ اس نے سادگی سے بتایا۔
”یہ گھر کا حشر کیا کرکے رکھا ہے تم لوگوں نے؟ الجھن نہیں ہوتی تم لوگوں کو اتنے گندے گھر سے؟“ نگار کی صفائی پسند طبیعت مچل اٹھی تھی جس کی وجہ سے وہ چپ نہ رہ سکیں۔
”بس اماں ٹائم ہی نہیں ملتا گھر کی صفائی پر دھیان دینے کا۔“ وہ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کھسیانا ہوا۔
”ہاں ہاں، بہت بڑی بڑی فیکٹریاں چل رہی ہیں نا تم لوگوں کی جن کو سنبھالنے کی وجہ سے ٹائم نہیں ہے تم لوگوں کے پاس!“ انھوں نے طنز مارا۔ جواباً وہ خاموشی ہی رہا۔
”آپ آفس جائیں گے کیا بھیا؟“ تحریم نے ٹیبل پر سے بوتل اور گلاس اٹھاتے ہوئے موضوع بدلا۔
”ہاں، پہلے اماں کا ٹیسٹ کروا کر لے آؤں پھر جاؤں گا، کیونکہ یونی کی تو چھٹی کرلی تھی، پر آفس سے چھٹی نہیں کرسکتا۔“ اس نے اثباتی جواب دیا۔
”آپ لوگ تھک گئے ہوں گے اندر کمرے میں جاکر آرام کرلیں، تب تک میں آپ لوگوں کیلئے کچھ کھانے کا لے کر آتا ہوں پھر ہاسپٹل چلیں گے۔“ اس نے انہیں اکلوتے کمرے کی راہ دکھائی۔
”کیوں! گھر میں کچن نہیں ہے؟“ نگار نے سوال اٹھایا۔
”جی ہے۔“
”اور سودا سلف؟“
”نہیں وہ نہیں ہے۔“
”کیوں! تم لوگ کیا فاقے کرتے ہو؟“
”نہیں ہم گھر پر بہت کم کھانا بناتے ہیں، زیادہ تر کھانا باہر سے لاتے ہیں۔“ اس نے فخر سے بتایا۔
”اب کوئی ضرورت نہیں ہے فضول خرچی کی، تحریم کچھ کھانے کیلئے بنالے گی۔“ انھوں نے فیصلہ سنایا۔
”اماں بیچاری اتنے لمبے سفر سے تھک کر آئی ہے، آپ کہاں اسے کچن میں محنت کرنے بھیج رہی ہیں۔“ اس نے حیرانی سے بہن کے حق میں احتجاج کیا۔
”کراچی تک بس کو دھکا لگا کر نہیں آئی ہے جو تھک گئی ہوگی، اے سی والی بس میں آرام سے بیٹھ کر آئی ہے، پکالے گی یہ کھانا۔“ انہوں نے اصول پسندی کی انتہا کردی۔
”ہاں بھیا، اماں ٹھیک کہہ رہی ہیں میں پکالوں گی کھانا۔“ اس نے ضد بحث طویل ہونے کے ڈر سے ہامی بھری۔
”میں کمرے میں جارہی ہوں، تبریز تم یہ بیگ اٹھا کر کمرے میں لاؤ اور تحریم تم کچن میں جاؤ۔“ انہوں نے صوفے پر سے کھڑے ہوتے ہوئے حکم جاری کیا تو وہ دونوں بھی کھڑے ہوگئے۔
تبریز بیگز لے کر ان کے ساتھ کمرے میں آگیا جب کہ تحریم کچن میں چلی گئی جس کا حشر لاؤنج سے کئی گنا زیادہ برا ہو رہا تھا۔
”توبہ ہے! ہر جگہ کباڑا کرکے رکھا ہوا ہے۔“ انہوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ایک بار پھر ”تعریفی“ کلمات کہے تو وہ بےساختہ سر پیٹنے لگا کہ کاش وہ تھوڑی سی صفائی ہی کردیتا۔
”اچھا کردوں گا آج صفائی، ابھی آپ آرام کریں۔“ اس نے جان چھڑاتے ہوئے بیگز ایک سائیڈ پر رکھے اور کمرے سے باہر نکل کر تحریم کے پاس کچن میں آیا۔ جہاں وہ حیران پریشان سی کھڑی تھی۔
”بھیا! آپ لوگوں نے کتنے سالوں سے کچن استمعال نہیں کیا ہے؟“ اس کی حیرت عروج اور تھی۔
”ارے وہ سب چھوڑ تو، کھانا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں۔“ اس نے منع کیا۔
”وہ اماں ہیں ہماری، خوشبو سے ہی پہچان لیں گی کہ کھانا باہر کا ہے۔“ اس نے پہلے ہی باور کرایا۔
”ہاں تو پہچان لیں، میں ان سے کہہ دوں گا کہ گیس نہیں آرہی تھی، اب تو جاکر آرام کر تھک گئی ہوگی۔“ اس نے پہلے سے ہی بہانہ تراش رکھا تھا۔
”کراچی تک میں بس کو دھکا لگا کر نہیں آئی ہے جو تھک گئی ہوں گی، اے سی والی بس میں آرام سے بیٹھ کر آئی ہوں۔“ اس نے شرارت سے نگار کی نقل اتاری جس پر دونوں ہی ہنس دیے۔
*****************************************
یونیورسٹی سے واپس لوٹنے پر عافیہ کو اپنے گھر کی خاموش فضا میں کچھ غیر معمولی آوازیں محسوس ہوئیں جن کے تعاقب میں وہ سیدھا ڈرائینگ روم میں چلی آئی جہاں سے یہ اجنبی آوازیں آرہی تھیں۔
”لیجئے، عافیہ بھی آگئی۔“ نورین نے اسے دیکھتے ہی یوں کہا جیسے ابھی اسی کا ذکر ہوا ہو۔
ڈرائینگ روم میں ایک پرانا اور تین نئے چہرے موجود۔ ایک تو ان کی محلے والی خالدہ ہی تھیں جب کہ دو ادھیڑ عمر خاتون اور ایک درمیانی عمر کی لڑکی تھی جن کی نگاہوں کا محور دروازے پر کھڑی عافیہ بنی ہوئی تھی۔
”ماشاءالله! آپ کی بیٹی تو واقعی بہت پیاری ہے۔“ ایک خاتون نے لب کشائی کی۔ جب کہ عافیہ نے سوالیہ نظروں سے نورین کو دیکھا۔
”عافیہ! جاؤ بیٹا فریش ہوکر آجاؤ پھر تسلی سے بات کرتے ہیں۔“ اس کی الجھن بھانپتے ہوئے انہوں نے اسے وہاں سے چلتا کیا۔ وہ ناسمجھی کے عالم میں بنا کچھ بولے وہاں سے چلی گئی جس کے پیچھے مہمانوں سے معذرت کرتے ہوئے نورین بھی آگئیں کیونکہ اس کے سوالات کے جواب بھی تو دینے تھے۔
*****************************************
”ٹینگ ٹونگ!“ ڈور بیل بجی تو ڈبل صوفے پر لیٹی تحریم اٹھ کر دوپٹہ سر پر اوڑھتے ہوئے دروازہ کھولنے آئی۔ اسے لگا کہ تبریز کھانا لے کر آگیا ہے۔
اس نے گیٹ کھولا تو سامنے غیرمتوقع طور پر گرے جینز کے ساتھ وائٹ ٹی شرٹ پہنے کلین شیو چہرے کے ساتھ ارحم کندھے پر بیگ لٹکائے کھڑا تھا۔
”آپ کون اور ہمارے گھر میں کیا کر رہی ہیں؟“ ارحم نے اس اجنبی لڑکی کو تعجب سے دیکھتے ہوئے الٹا سوال کیا۔ جس نے پنک کلر کا شلوار قمیض زیب تن کیے ہوا تھا سر اور سینے پہ سلیقے سے ہم رنگ دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا۔
”میں تحریم ہوں۔“
”کون تحریم؟“
”تبریز بھائی کی بہن، آپ ان کے دوست ہیں نا جو یہاں ساتھ رہتے ہیں!“ اس نے بتاتے ہوئے تائید بھی چاہی تو وہ مزید حیران ہوا۔
”جی مگر آپ یہاں کیسے؟“ اس کی حیرت کم نہ ہوئی۔
”اماں کے ساتھ آئی ہوں، آپ آئیں اندر۔“ وہ کہتی ہوئی ایک کنارے پر ہوئی تو ناسمجھی کے عالم میں ارحم اندر آگیا۔ وہ بھی گیٹ کھلا چھوڑے اس کے پیچھے نروس سی لاؤنج میں آگئی۔
”تبریز کہاں ہے؟“ ارحم نے لاؤنج کے وسط میں رک کر پوچھا۔
”وہ باہر سے کچھ کھانے کیلئے لینے گئے ہیں۔“ سادہ سا جواب ملا۔
دونوں ایک دوسرے کو براہ راست دیکھنے سے گریز کر رہے تھے۔ اور اب یہ جان کر کہ تبریز بھی گھر میں نہیں ہے ارحم مزید غیر آرام دہ ہوگیا تھا۔
”میں بھی باہر جا رہا ہوں، تبریز آئے گا تب آجاؤں گا۔“ اسے فی الحال بس فرار ہی بہتر راہ لگی۔
وہ پلٹ کر الٹے پاؤں واپس جانے ہی لگا تھا کہ کھلے دروازے سے عمر بھی کندھے پر بیگ لئے اندر آگیا۔
”ارے! یہ کون ہے؟“ عمر بھی اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ جب کہ ارحم بھی اپنی جگہ رک گیا۔
”یہ میری بہن ہے۔“ اسی پل تبریز کہتا ہوا اس طرف آیا جو ابھی ابھی لوٹا تھا۔
”مگر یہ یہاں کیسے؟“ عمر ابھی تک حیران تھا۔
”تم جا کر کھانا نکالو تحریم۔“ تبریز نے بجائے ان لوگوں کو جواب دینے کے کچھ شاپر اس کی جانب بڑھائے جنہیں لے کر وہ کچن میں چلی گئی۔
”تم نے تو کہا تھا کہ صرف تمہاری امی آرہی ہیں تو پھر یہ یہاں کیسے؟“ اس کے جاتے ہی ارحم ذہن میں کلبلاتا سوال زبان پر لیا۔
”اماں ہی ساتھ لے کر آئی ہیں، کہہ رہی تھی کہ وہاں گھر میں اسے اکیلا چھوڑتے ہوئے وہ ڈر رہی ہے تھیں، مجھے بھی نہیں پتا تھا کہ یہ آرہی ہے، ابھی بس اسٹنڈ پر اسی بات پہ اماں سے اچھی خاصی ضد بحث ہوئی میری کہ بھلا اسے ساتھ کیوں لے آئیں؟ وہ کیسے رہے گی یہاں!“ تبریز نے سنجیدگی سے بتایا۔
”آنٹی کا ڈر بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا یار کہ بیچاری وہاں اکیلے کیسے رہتی!“ عمر نے سچے و سادے انداز میں کہا۔
”ہاں لیکن یہاں بھی تو عجیب لگ رہا ہے نا!“ ارحم کو فکر لاحق ہوئی۔
”بس کل تک کی بات ہے، ابھی میں ان دونوں کو کھانے کے بعد ہاسپٹل لے کر جا رہا ہوں، کل شام تک رپورٹ آجائے گی اور پھر پرسوں یہ لوگ واپس روانہ ہوجائیں گے۔“ تبریز نے خود ہی وضاحت کی۔
”بات ان کے ایک یا دو دن رکنے کی نہیں ہے، بس۔۔۔۔۔۔!“ ارحم کچھ کہتے ہوئے رک گیا۔ جس کا مفہوم دونوں سمجھ گئے تھے کہ یوں ایک چھت کے نیچے سب کا ساتھ رہنا تھوڑا معیوب لگ رہا تھا، مگر مجبوری تھی۔
”دو دن کی تو بات ہے، ایڈجسٹ کرلیں گے، صبح تو ویسے ہی ہم یونی میں ہوتے ہیں پھر اس کے بعد سیدھا گھر نہیں آئیں گے، فہیم کے فٹنس کلب میں چلے جائیں گے اور رات کو سونے کیلئے گھر آجایا کریں گے۔“ عمر نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بیچ کی راہ نکالی جو ان دونوں کو بھی معقول لگی۔
*****************************************
عافیہ اس وقت برتن دھونے کے بجائے انہیں پٹخ پٹخ کر ان پر اپنا غصہ نکال رہی تھی اور یہ غصہ کس بات کا تھا؟ اس کا اندازہ نورین کو بھی بخوبی تھا۔
”ان بیچاروں پر کیوں غصہ نکال رہی ہو؟ یہ تھوڑی لائے تھے لڑکے والوں کو ہمارے گھر۔“ نورین نے کچن کاؤنٹر کے پاس کھڑے ہوکر رسان سے طنز مارا۔
”جو لایا تھا اور جس نے بلايا تھا ان پر تو میں غصہ کرنے سے رہی اور اگر اندر ہی دبا کر رکھا تو میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔“ اس نے بنا پلٹے برہمی سے جواب دیا۔
”کیوں ہے آخر تمھیں یہ بلاوجہ کا غصہ؟ تم نے کہا کہ تم ریاض سے شادی نہیں کرنا چاہتی تو میں نے وہ بات مان کر دوسری جگہ تمہارا رشتہ دیکھا، لیکن اب تم اس پر بھی راضی نہیں ہو، کتنے روکھے انداز میں جواب دے رہی تھی تم ان کے سوالوں کے، کیا سوچ رہے ہوں گے وہ لوگ! آخر چاہتی کیا ہو تم؟“ انہوں نے بھی تھوڑی برہمی دکھاتے ہوئے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔
”میں فی الحال شادی نہیں کرنا چاہتی بس۔“ وہ نل بند کرکے ان کی جانب پلٹی۔
”کیوں نہیں کرنا چاہتی؟ کیا کسی اور کو پسند۔۔۔۔۔۔۔۔!“
”مما پلیز! ایسا کچھ نہیں ہے۔“ وہ بول ہی رہی تھیں کہ عافیہ نے ٹوک دیا۔
”بس مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ہے اور اگر آپ یوں ہی مجھ پر زبردستی کرتی رہیں تو میں خود کو آگ لگا کر خودکشی کرلوں گی پھر میری میت کو رخصت کرکے اپنا ارمان پورا کر لیجئے گا۔“ اس نے اٹل انداز میں دھمکی دی اور بنا کچھ سنے کچن سے باہر نکل گئی جسے وہ بےبسی سے دیکھتی رہیں۔
*****************************************
”دل دیوانہ بےقرار ہونے لگا ہے“
”ہلکا ہلکا سا خمار ہونے لگا ہے“
”تو بھی یہ سن لے یار“
”مجھے پیار ہونے لگا ہے“
”مجھے پیار ہونے لگا ہے“
اریبہ اس وقت لاؤنج میں موجود صوفے پر لیٹی مسکراتے ہوئے ٹی وی پر نا صرف یہ گیت سن رہی تھی بلکہ خود بھی ساتھ ساتھ خود بھی بلند آواز میں گنگنا رہی تھی۔ جو کچن میں کام کرتی فرحت کو بہت ناگوار گزر رہا تھا۔
”مجھ کو تیرا۔۔۔۔سچ!“
”مجھ کو تیرا اعتبار ہونے لگا ہے“
”ہلکا ہلکا سا خمار ہونے لگا ہے“
”تو بھی یہ سن لے یار“
”مجھے پیار ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
”کیا ہوا اماں؟ ٹی وی کیوں بند کردیا؟“ وہ حیران ہوتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔
”عشاء کا وقت ہونے والا ہے اماں کی بچی، چل کچن میں آکر روٹیاں بنا، سالن بنا دیا ہے میں نے۔“ انہوں نے سختی سے دھیان دلاتے ہوئے حکم صادر کیا۔
”اچھا آرہی ہوں نا ٹی وی تو کھول دیں، اتنا اچھا گانا آرہا تھا۔“ اس نے ٹال کر اصرار کیا۔
”اس بےہودگی کو تو اچھا کہہ رہی ہے! پیچھا چھوڑو بس اس کا اور کچن میں آ ابھی اسی وقت، میں دیکھ رہی ہوں کہ گھر کے کاموں میں تیری دلچسپی کم ہوتی جارہی ہے۔“ وہ بھی ٹلنے والی نہیں تھیں۔
”اماں چولہے کے آگے جانے سے میری اسکن خراب ہوجائے گی، ابھی کل ہی تو میں نے بلیچ کی ہے۔“ اس نے منہ بناتے ہوئے نزاکت دکھائی۔
”کیا! اب تو نے یہ سب بھی شروع کردیا ہے؟“ انہیں حیرت کا جھٹکا لگا۔
”کوئی انہونی بات تو نہیں کردی ہے میں نے، سب ہی کرتے ہیں۔“ اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
”تو ضروری ہے جو سب کریں گے تو بھی وہی کرے گی؟“
”ہاں!“
”یعنی سب کنویں میں کودیں گے تو، تو بھی کودے گی؟“
”اماں یہ کیا بیکار کی ضد بحث شروع کردی ہے تم نے؟“ وہ یکدم چڑ گئی۔
”اٹھ اور جلدی کچن میں آ ابھی۔“ انہوں نے سختی سے حکم دیا اور ریموٹ لے کر کچن میں چلی گئیں۔
”یہ لوگ مجھے خوش دیکھ ہی نہیں سکتے۔“ اسے ناچاہتے ہوئے بھی بڑبڑاتے ہوئے اٹھنا پڑا۔
*****************************************
نورین اس وقت اپنے بیڈ پر پیٹ تک کمبل اوڑھے سیدھی لیٹی ہوئی تھیں اور ایک بازو انہوں نے آنکھوں پر رکھا ہوا تھا۔
تب ہی عافیہ بھی آکر ان کے برابر میں لیٹتے ہوئے ان سے چپک گئی۔ انہوں نے بازو ہٹا کر اسے دیکھا۔
”آئی ایم سوری!“ اس نے دھیرے سے کہا۔
”کس لئے؟“ وہ انجان بنیں۔
”آپ سے بدتمیزی کی نا میں نے اسی لئے ناراض ہیں آپ۔“ کچھ دیر قبل والے رویے پر وہ نادم تھی۔
”میں تمہاری بدتمیزی پر ناراض نہیں ہوں، تمہاری ضد سے پریشان ہوں۔“ وہ تصحیح کرتے ہوئے اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگیں۔
”تو نہ ہوں پریشان، چھوڑ دیں مجھے میرے حال پر۔“ اس نے حل پیش کیا۔
”یہ ہی تو مسلہ ہے، ماں کبھی بھی اولاد کو اس کے لاپرواہ حال پر تنہا نہیں چھوڑ سکتی، کیونکہ خدا نے اس کے دل میں اپنی محبت کا ایک ٹکڑا جو رکھا ہے۔“ انہوں نے ٹھہرا ہوا جواب دیا۔
”میں بھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی، میری محبت بھی تو سمجھیں نا آپ!“ اس نے ان کا داؤ ان ہی پر چلنا چاہا۔
”یہ محبت نہیں بےوقوفی ہے۔“ انہوں نے فرق واضح کیا۔
”میری دلی خواہش ہے کہ اپنے جیتے جی تمھیں دلہن بنا کر محفوظ پناہ میں رخصت کردوں مگر تم ہو کہ میری یہ خواہش پوری ہی نہیں ہونے دیتی ہو اور دعوے کرتی ہو محبت کے۔“ انہوں نے چاؤ سے بتاتے ہوئے آخر میں طنز مارا تو وہ فوری طور پر کچھ نہ بولی۔ تھوڑی دیر کیلئے دونوں کے درمیان خاموش حائل ہوگئی۔
”اچھا ٹھیک ہے لر لیجئے گا یہ خواہش بھی پوری مگر میری پڑھائی پوری ہونے کے بعد۔“ اس نے خاموشی توڑتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔
”رہنے دو، تم تب بھی راضی نہیں ہوگی۔“ انہوں نے پہلے ہی پیشن گوئی کی۔
”ہوجاؤں گی، پکا پرامس، بلکہ جس سے بھی آپ کہیں گی اس سے ہی شادی کروں گی لیکن پلیز تب تک دوبارہ یہ ذکر نہ کیجئے گا۔“ اس نے یقین دہانی کراتے ہوئے آخر میں گزارش کی تو وہ سوچ میں پڑ گئیں۔
”ٹھیک ہے، دیکھتی ہوں کہ تب کتنی مانتی ہو تم میری بات؟“ انہوں نے اس پر احسان عظیم کیا تو وہ مسکراتے ہوئے ان سے مزید لپٹ گئی۔
*****************************************
آج اتوار تھا اسی لئے ارحم اور عمر یونیورسٹی نہیں گئے تھے مگر تبریز کو ایک ضروری کام سے صبح صبح کہیں جانا پڑا تھا۔
وہ اب واپس آیا تھا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ یقیناً دونوں ابھی تک اوندھے پڑے سو رہے ہوں گے مگر وہ جیسے ہی فلیٹ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو خلاف توقع سامنے لاؤنج کا منظر دیکھ کر ہکابکا رہ گیا۔
ارحم اسٹول پر کھڑا ہاتھ میں جھاڑن پکڑے چھت کے جالے صاف کر رہا تھا، عمر جھاڑو پکڑے جھاڑو لگا رہا، اور نگار بی بی ایک کی جانب کھڑے ہوکر ان دونوں کو ہدایت دے رہی تھیں۔ ارحم اور عمر کی شکل دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ دونوں بہت ہی بے دلی سے کام کر رہے تھے۔
”یہ سب کیا ہو رہا ہے اماں؟“ وہ اندر آتے ہوئے حیرت سے بولا۔
"نظر نہیں آرہا صفائی ہو رہی ہے، تم لوگوں کو تو خیال ہے ہی نہیں تو میں نے ہی کروانی شروع کردی۔“ انہوں نے بھڑکتا ہوا جواب دیا۔
”مگر کیا ضرورت تھی ان سب؟ اتنا بھی گندا نہیں تھا گھر!“ اسے یہ سب بلاوجہ ہی لگا۔
”بالکل ضرورت تھی، اور چلو تم بھی پونچھا اٹھاؤ اور کام پر لگو شاباش!“ انہوں نے توپوں کا رخ اس کی جانب کیا۔
”بھئی اماں! میں نہیں کر رہا۔“ اس نے منہ بناتے ہوئے انکار کیا تو وہ تیز نظروں سے اسے گھورنے لگیں۔
”میرا مطلب کہ میں پونچھا نہیں لگا رہا، ڈسٹنگ کردوں گا۔“ ان کی تیز نظروں کی زد میں آکر اس نے بیان بدلا۔
”ڈسٹنگ کوئی اتنا بڑا کام نہیں ہے، وہ تحریم کردے گی، تمہیں پونچھا نہیں لگانا تو جاکر برتن دھو، کچن میں ڈھیر لگا ہوا ہے۔“ انہوں نے دوسرا کام سونپا۔
عمر اور ارحم جو اتنی دیر سے منہ بناکر کام کر رہے تھے۔اب تبریز کو بھی لپیٹ میں آتا دیکھ کر انجوئے کرنے لگے۔ وہ دونوں کو گھور کر منہ بناتا ہوا کچن میں چلا گیا۔
”اے لڑکے! چلو نیچے اترو اور اب پونچھا لگاؤ تم۔“ انہوں نے نیا فرمان جاری کیا۔
”آنٹی میرا نام ارحم ہے۔“ اس نے ان کے علم میں اضافہ کیا۔
”کوئی بھی نام ہو، آکر پونچھا لگاؤ۔“ انہیں نام میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
”آنٹی پونچھا تو ہے ہی نہیں ہمارے پاس۔“ عمر نے کندھے اچکائے۔
”اچھا! ایسا کرو تبریز کی کوئی شرٹ لے آؤ اور اسے پونچھا بنالو۔“ انہوں نے پل بھر کو سوچ کر نئی ہدایت دی۔
”نہیں اماں! یہ زیادتی ہے۔“ تبریز نے کچن میں سے ہی دہائی دی۔
”چپ! برتن دھو تو، اور تم لڑکے، جاؤ جا کر تبریز کی کوئی شرٹ لے کر آؤ۔“ انہوں نے اسے ڈپٹتے ہوئے ارحم کو حکم دیا۔
جس پر وہ فرمابرداروں کی طرح سر ہلاکر کمرے سے شرٹ لینے چلا گیا۔
”اے لڑکے! صحیح سے جھاڑو دو، دیکھو کتنا کچرا ہے صوفے کے نیچے۔“ انہوں نے عمر کی خبر لی جو گھٹنوں کے بل بیٹھا جھک جھک کے صوفے کے نیچے سے اپنے ہاتھوں جمع کیا کچرا نکالنے لگا۔
”یہ لیں آنٹی، آگیا پونچھا۔“ تھوڑی دیر میں ارحم شرٹ لے کر حاضر تھا۔
”مجھے کیا دکھا رہے ہو! جاؤ بالٹی میں پانی بھر کر لاؤ اور اچھی طرح پونچھا لگاؤ پورے گھر کا۔“ انھوں نے لتاڑا کر حکم دیا تو وہ پانی لینے چلا گیا۔
جب تک وہ واپس آیا عمر جھاڑو لگا چکا تھا جس کے بعد نگار نے ارحم سے اچھی طرح کونے کونے میں پونچھا لگوایا۔
”دھو دیے اماں برتن۔“ تبریز نے لاؤنج میں آکر اتنے فخر سے بتایا جیسے کوئی ملک فتح کرکے آگیا ہو!
”تو! کوئی کمال تو نہیں کیا، تم ہی لوگوں نے گندے کیے تھے سارے برتن۔“ انہوں نے اس کے ”عظیم کارنامے“ پر کوئی خاص شاباشی نہیں دی۔ جس پر وہ منہ بناکر رہ گیا۔
”سائیڈ پر ہو۔“ ارحم کی آواز پر تبریز نے نیچے دیکھا جہاں وہ پونچھا لئے پنجوں کے بل بیٹھا ہوا تھا۔
”یہ کیا کِیا؟“ پونچھا دیکھتے ہی تبریز کی چیخ نکل گئی۔
”پونچھا لگایا ہے۔“ وہ اطمینان سے بولا۔
”یہ میری نئی شرٹ تھی، بس ایک بار ہی پہنی تھی میں نے، تو کوئی پرانی شرٹ نہیں لے سکتا تھا اُلّو!“ وہ صدمے سے پاگل ہونے لگا۔
”بس کرو! اتنا چلانے والی کوئی بات نہیں ہے، ایک شرٹ ہی تو تھی، دوسری لے لینا، اب کپڑا لو اور ڈسٹنگ کرو پورے گھر کی۔“ نگار نے ٹوکتے ہوئے نیا کام دیا۔
”کیا! یہ چیٹنگ ہے اماں، آپ نے تو کہا تھا کہ ڈسٹنگ تحریم کردے گی!“ اس نے احتجاج کیا۔
”وہ کھانا بنائے گی، اس لئے تم ڈسٹنگ کرو۔“ انہوں نے حتمیٰ فیصلہ سنایا تو ناچاہتے ہوئے بھی وہ منہ بنا کر پیر پٹختا ہوا ڈسٹنگ کیلئے کپڑا لینے چلا گیا۔
جب کہ عمر نے اپنے موبائل پر موصول ہوتی ارم کی کال نگار کی آنکھ سے بچاتے ہوئے جلدی سے یہ سوچ کر ڈسکنیکٹ کردی کہ کہیں ان کی خونخوار نظر اس کے بیچارے موبائل نہ پڑ جائے جو کام کے وقت بج اٹھا تھا۔
*****************************************
”چلو جلدی سے ناشتہ کرو، کن خیالوں میں گم ہو؟ آج سنڈے ہے واشنگ مشین بھی لگانی ہے ناشتہ کے بعد۔“ نورین نے عافیہ کو ٹوکا جو ناشتہ کرتے کرتے کسی سوچ میں گم ہوگئی۔
”ایک دوست کے بارے میں سوچ رہی ہوں مما!“ اس نے اپنی سوچ بیان کی۔
”کیا ہوا دوست کو؟“
”شاید پیار ہوگیا ہے۔“
”کس سے؟“
”لڑکے سے۔“
”تو تمھیں کیا مسلہ ہے پھر؟“
”مجھے مسلہ نہیں فکر ہے، میں اسے سمجھا رہی ہوں کہ ایسے کسی کی میٹھی میٹھی باتوں پر اتنا بھروسہ مت کرو، پر وہ میری کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے الٹا مجھ سے لڑنے لگتی ہے کہ میری سوچ پرانی ہے اور میں اسے خوش نہیں دیکھ سکتی۔“ اس نے تاسف سے بتایا۔
”تمہاری بات ٹھیک ہے کہ کسی بھی لڑکی کو اتنی جلدی آنکھیں بند کرکے کسی پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے مگر تمہارا فرض ہے سمجھانا، آگے اس کی مرضی، تم اپنی اینرجی ضائع مت کرو۔“ انہوں نے سہولت سے مشورہ دیا تو وہ کچھ نہ بولی۔
”اب چلو جلدی سے برتن سمیٹ کر کچن میں لاؤ، میں برتن دھوتی ہوں تب تک تم سارے میلے کپڑے اور بیڈ شیٹس ایک جگہ کرلو۔“ وہ اس پر کوئی خاص توجہ نہ دیتے ہوئے اٹھ کر کچن میں چلی گئیں جو ہنوز کسی سوچ میں گم تھی۔
*****************************************
”گڈ مارننگ!“ صارم نے کرسی کھینچ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
سنڈے ہونے کی وجہ سے سب لوگ اس وقت ایک ساتھ ناشتہ کرنے ڈائینگ روم میں جمع تھے۔
”گڈ مارننگ! کہاں ہو آج کل؟“ زاہد منصور نے جواب کے ساتھ سوال کیا جب کہ گوہر نے بوائل ایگز کی پلیٹ اس کے سامنے رکھی۔
"آفس میں ہی بزی ہوتا ہوں ڈیڈ۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
”آفس تو میں بھی جاتا ہوں، پر اتنا بزی تو نہیں ہوتا جتنے تم رہتے ہو، آفس میں بزی ہوتے ہو یا آفس میں کسی ساتھ بزی ہوتے ہو!“ انہوں نے کھوجتے ہوئے انداز میں کریدا جس کا اس نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ اسے اندازہ تھا کہ اریبہ کے ساتھ بڑھتی اس کی بےتکلفی کے قصے ان تک پہنچ چکے ہیں۔
”اور تو اور اب تم نے معمولی ورکرز کیلئے بزنس پارٹنر شپس کو بھی خطرے میں ڈالنا شروع کردیا ہے۔“ انہوں نے اسی طرح مزید کہا تو اسے شک نہیں یقین ہو چلا تھا کہ یہ چغل خوری مہوش نے کی تھی۔
”میں نے کسی کی فیور نہیں کی تھی ڈیڈ، بس جو صحیح تھا وہ کیا۔“ اس نے خود پر قابو رکھتے ہوئے تحمل سے وضاحت کی۔
”مجھے وضاحتیں نہیں چاہیے کہ کیا اور کیوں ہوا؟ تم بس اتنا سمجھ لو کہ جو ہوچکا اب وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہئے۔“ انہوں نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے اپنا حکم صادر کیا۔ وہ کچھ کہنے کے بجائے نظریں جھکائے پلیٹ میں موجود انڈے سے کھیلتا رہا۔
”تھوڑے سمجھدار ہوجاؤ اب تم، خیر سے شادی کے لائق ہوگئے ہو، تمہاری ماں نے تمہارے لئے لڑکیاں ڈھونڈنا شروع کردی ہیں، کچھ ہی دنوں میں کوئی لڑکی فائنل کرنے والے ہیں ہم تمہارے لئے۔“ انہوں نے سرسری انداز میں بم گرایا۔
”کیا شادی! پر اتنی جلدی کیا ہے ڈیڈ؟“ وہ حیران ہوا۔
”جلدی! ستائیس سال کے ہوچکے ہو تم، اور اسے جلدی کہہ رہے ہو۔“ انہوں نے گویا یاد دلایا۔
”تمہارے ڈیڈ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اب ہم جلد از جلد تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں، اور اگر تمہیں خود سے کوئی لڑکی پسند ہے تو بتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔!“
”کوئی ضرورت نہیں ہے کچھ بھی بتانے کی، تمہاری شادی صرف ہماری مرضی سے ہوگی۔“ گوہر رسان سے بول ہی رہی تھیں کہ یکدم زاہد نے ان کی بات کاٹ کر۔
”میں کل دبئی جا رہا ہوں، دو ہفتے تک واپسی ہوگی اس کے بعد میں خود سیریسلی تمہاری شادی کے میٹر کو دیکھنے والا ہوں لہٰذا اگر کہیں تمہارا کوئی عشق معشقا چل رہا ہے تو اس دوران اسے جلد از جلد وائنڈ اپ کردو، آئی سمجھ!“ انہوں نے بات ختم کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں فیصلہ سنایا۔
وہ دونوں ہی زاہد منصور کی اس حد درجہ سختی پر حیران تھے مگر کسی کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ ان کے آگے اختلاف رائے میں کچھ بولے۔ لیکن زبان سے خاموش صارم نے اندر ہی اندر بہت کچھ سوچنا شروع کردیا تھا۔
*****************************************
”یااللہ! میری کمر!“ عمر نے صوفے پر لیٹتے ہوئے دلخراش دہائی دی۔ صبح سے کام میں لگے یہ تینوں اب دوپہر میں فارغ ہوئے تھے اور لنچ کے بعد سستانے کیلئے لاؤنج میں لیٹے تھے۔ تبریز اور ارحم کارپٹ پر تکیہ رکھے لیٹے تھے، عمر ڈبل صوفے پر تھا جب کہ نگار اور تحریم اندر بیڈ روم میں آرام کر رہی تھیں۔
”تم دونوں نہیں تھکے؟“ عمر نے ان کی جانب دیکھا۔
”تھک گئے تھے، مگر اتنا زبردست کھانا کھا کر ساری تھکن اتر گئی اور اب تو بس مزے کی نیند آرہی ہے۔“ ارحم نے اطمینان سے جواب دیا۔
”آخر میری بہن نے جو کھانا بنایا تھا، زبردست تو ہونا ہی تھا۔“ تبریز نے پورا سہرا اپنے سر باندھا۔
”ویسے یار آج ایک بات تو اچھی طرح سمجھ آگئی۔“ ارحم اچانک بولا۔
”کون سی بات؟“ یک زبان سوال آیا۔
”یہ ہی کہ عورتیں واقعی بہت محنت کرتی ہیں، جو مرد کہتے ہیں نا کہ ”تم دن بھر کرتی ہی کیا ہو؟“ ان سے بھی ایک دن ایسے کام کروانا چاہئے تا کہ ان کی سمجھ میں آئے کہ عورتیں سارا دن کرتی ہی کیا ہیں!“ اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دل سے اعتراف کیا۔
”صحیح بول رہا یار! میں نے تو سوچ لیا ہے، شادی کے بعد میں اپنی بیوی کیلئے ایک ماسی رکھ لوں گا، ورنہ بیچاری میری بیوی تو پاگل ہوجائے گی۔“ عمر نے تائید کرتے ہوئے ابھی سے منصوبہ بندی کی۔ جس پر دونوں نے کوئی توجہ نہ دی۔
”ارے شادی سے یاد آیا، کل عافیہ تیرا پوچھ رہی تھی تبریز۔“ عمر نے اچانک بریکنگ نیوز دی۔
”کیا! عافیہ میرا پوچھ رہی تھی! کس سے؟ اور کیوں؟“ اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بے تابی سے کئی سوال پوچھ ڈالے۔
”ارم بتا رہی تھی کل جب تم آنٹی کو لینے جانے کی وجہ سے یونیورسٹی نہیں گئے تھے تو عافیہ نے ایسے ہی سرسری طور پر تمہارا پوچھا تھا کہ میرے اور ارحم کے ساتھ ایک اور لڑکا بھی ہوتا ہے نا! وہ نظر نہیں آرہا آج۔“ اس نے من و عن تفصیل بتائی۔ جسے سن کر اس کا دل ایک انوکھی خوشی سے دھڑکا۔
”اوہ ہو! لگتا ہے وہاں بھی چنگاری سلگ گئی ہے۔“ ارحم نے معنی خیزی سے تکا لگایا۔
عجیب ہے وہ شخص، مجھ سے گریزپا بھی ہے
میں نظر نہ آؤں تو مجھے ڈھونڈتا بھی ہے
انتخاب
*****************************************
”سب خیریت تو ہے نہ سر؟ چھٹی کے دن آپ نے ارجنٹ مجھے یہاں کیوں بلایا؟ اتنی مشکل سے اماں کو تسلی کروا کر آئی ہوں۔“ اریبہ ذہن میں کلبلاتے سوال زبان پر لائی۔ دونوں اس وقت ایک کافی شاپ پر ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔
”تمھیں مجھ پر یقین ہے؟“ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے صارم نے غیرمتوقع سوال کیا۔
”کیا مطلب؟ یہ کیسا سوال ہے؟“ وہ کچھ سمجھی نہیں۔
”پلیز جواب دو اریبہ کیا تمھیں مجھ پر یقین ہے؟“ اس نے سنجیدگی سے اپنی بات پر زور دیا۔
”جی ہے۔“ اس کا سر اثبات میں ہلا۔
”اگر میں کہوں کہ مجھے تم سے محبت ہوگئی ہے تو کیا تم مان لو گی؟“ اگلے سوال پر وہ ششدر رہ گئی۔ اس کی آنکھیں حیرت کے مارے ساکت ہوگئی تھیں۔
”ایسے۔۔۔۔کیسے۔۔۔!“ وہ بس اتنا ہی کہہ سکی۔
”کیا؟ کب؟ کیوں اور کیسے کا جواب تو میرے پاس بھی نہیں ہے، بس جب آج ڈیڈ نے میری شادی کی بات کی تب مجھے احساس ہوا کہ میرا دل کیا چاہتا ہے؟ اور اب میں تمہاری چاہت جاننا چاہتا ہوں تا کہ کوئی فیصلہ کر سکوں۔“ اس نے اپنی کیفیت بتاتے ہوئے اس کی مرضی جاننا چاہی جو ابھی تک ہکابکا سی بیٹھی تھی۔ اسے تو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کا خواب یوں بھی پورا ہوسکتا تھا۔ اس کی چاہت خود اسے چاہنے کا اظہار کر رہی تھی۔
”مجھ سے شادی کرو گی؟“ اس نے بنا کسی لگی لپٹی کے پوچھتے ہوئے اسے مزید حیران کردیا۔
”مگر سر ہمارے اسٹیٹس میں بہت فرق ہے۔“ زبان کی نوک پر اقرار کو روک کر اس نے وہ خدشہ ظاہر کیا جو غلط نہیں تھا۔
”مجھے تمہارے اسٹیٹس سے نہیں تم سے شادی کرنی ہے۔“ اس نے تصحیح کی۔
”اور آپ کے گھر والے؟ وہ مان جائیں گے؟“ اس نے نیا خدشہ اٹھایا جس کے باعث صارم نے گہری سانس لی کیونکہ یہ ہی تو اصل مسلہ تھا۔
”نہیں مانیں گے وہ، اور انہیں منانے کا بس ایک ہی راستہ ہے۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”کیسا راستہ؟“
”ہم کورٹ میرج کرلیتے ہیں۔“ اس کی بات پر وہ ششدر رہ گئی۔
”کیا! ایسا کیسے ہوسکتا ہے!“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔
”ایسا ہی کرنا پڑے گا اریبہ، اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہے، کیونکہ اگر ابھی میں نے غلطی سے بھی ڈیڈ کے سامنے ذکر کردیا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو راضی ہونا بہت دور کی بات وہ تمھیں سب سے پہلے مجھ سے دور کریں گے اور میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر پاؤں گا، لیکن اگر ہم قانونی و شرعی طور پر ہسبنڈ وائف ہوں گے تو ناصرف میں ہر طرح کے اسٹینڈ لے سکوں گا بلکہ ہم اس معاملے میں قانون کی مدد بھی لے سکتے ہیں۔“ اس نے ٹیبل پر آگے جھکتے ہوئے وضاحت کی تو وہ سوچ میں پڑ گئی جیسے شش و پنج کا شکار ہو کہ کیا کہے اور کیا نہیں؟
”مجھے پتا ہے کہ تمہارے لئے یہ سب بہت مشکل ہے اور میرے لئے بھی آسان نہیں ہے، میں خود بھی یہ ہی چاہتا تھا کہ تمھیں باقاعدہ دھوم دھام سے رخصت کرکے اپنے گھر لاؤں اور میں ایسا ہی کروں گا، ابھی ہم صرف اپنا کیس اسٹرونگ کرنے کیلئے نکاح کریں گے اور جب سب مان جائیں گے تو تمھیں پوری شان و شوکت سے اپنے گھر لے کر آؤں گا، یہ میرا وعدہ ہے!“ اس نے اریبہ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے جذبات سے چور انداز میں یقین دہانی کرائی تو اریبہ نے دھڑکتے دل کے سنگ بےساختہ لب بھینچ لئے۔
”میں اماں کو بتا سکتی ہوں اس نکاح کے بارے میں؟“ اس نے تشویش سے سوال کیا۔
”نہیں، وہ تو اور پریشان ہوجائیں گی کہ پتا نہیں ہم ایسے نکاح کیوں کر رہے ہیں؟ تم تو ملی ہو نا ڈیڈ سے اسی لئے سمجھ سکتی ہو کہ میں اتنا بڑا قدم کیوں اٹھا رہا ہوں لیکن آنٹی نہیں سمجھیں گی، وہ ماں ہیں اسی لئے ان کا پریشان ہونا فطری ہے جس سے مزید مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔“ اس نے تمام پہلو اجاگر کرتے ہوئے تحمل سے نفی کی تو وہ خاموش ہوگئی کیونکہ صارم کی بات میں وزن لگا تھا اسے اور پھر جس طرح فرحت چھوٹی چھوٹی باتوں پر گھبرا جاتی تھیں اسے دیکھتے ہوئے اس نے خود بھی ارادہ ملتوی کردیا۔
”اس سے پہلے کہ ڈیڈ واپس آکر میری زندگی کی ڈور اپنے ہاتھ میں لیں، میں اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ اپنی پسند سے کرنا چاہتا ہوں، کیا تم اس میں میرا ساتھ دو گی؟“ اس نے پھر ایک آس کا سمندر اپنی آنکھوں میں سمو کر پوچھا تو کچھ کہنے سے قبل اس نے ایک گہری سانس لی۔
”ہمیں کب نکاح کرنا ہے؟“ اس نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا جس کے باعث وہ بےساختہ ایسے مسکرایا جیسے کوئی جنگ جیت گیا ہو۔
”کل!“ ایک لفظی جواب ملا۔
*****************************************
خیر سے نگار کی رپورٹس بالکل ٹھیک آئی تھیں جس سے سب کو تسلی ہوئی اور اب اگلے دن پیر کو یعنی اس وقت وہ واپس جانے کی تیاری میں تھیں۔
ارحم ٹیکسی لے آیا تھا جس میں عمر اور تبریز ان کا سامان رکھ رہے تھے کیونکہ تبریز ان دونوں کو واپس بس اسٹینڈ پر چھوڑنے جا رہا تھا۔
”اتنا اچھا لگا آنٹی آپ سے مل کر، کچھ دن اور رک جاتیں تو اچھا تھا۔“ عمر نے چہرے پر مصنوعی تاسف سجا کر کہا۔
”زیادہ اوور ایکٹنگ مت کر، سچ مچ رک گئیں تو گھر کے سارے کام پھر تو ہی کرنا۔“ تبریز نے اس کی کمر پر چٹکی کاٹتے ہوئے کان میں سرگوشی کی۔
”چلیں اماں بیٹھیں دیر ہو رہی ہے۔“ تبریز نے جلدی سے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا۔
پہلے نگار اندر بیٹھیں اور ان کے بعد تحریم۔ جب کہ پچھلی نشست کا دروازہ بند کرنے کے بعد تبریز خود بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا جس کے بعد ٹیکسی آگے بڑھ گئی۔
”الله حافظ آنٹی، اپنا خیال رکھیے گا۔“ عمر نے پیچھے سے ہانک لگائی۔
”شکر ہے گئیں، اب آرام سے نیند پوری کریں گے۔“ عمر نے کہتے ہوئے انگڑائی لی تو ارحم اسے گھورنے لگا۔
”یونی نہیں چلنا کیا؟“ ارحم نے اس کا ارادہ بھانپتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں یار! میں تو جا رہا ہوں سونے، میری مان تو بھی آج چھٹی کرلے کل سے تینوں ساتھ ہی چلیں گے۔“ اس نے اطمینان سے کہتے ہوئے ساتھ مشورہ بھی دیا اور بلڈنگ کے اندر چلا گیا جس کے پیچھے ارحم بھی آیا۔
*****************************************
آج حسب معمول اریبہ ویسے نک سک سے تیار نہیں ہوئی تھی جیسے ہمیشہ ہوتی تھی۔ آج اس نے کیمل کلر کے سادہ سے سوٹ پر اوپر سے میرون چادر اوڑھی اور اپنا پرس کندھے پر لے کر کمرے سے باہر آگئی۔
”اماں! میں جا رہی ہوں۔“ اس نے کچن کے دروازے پر رک کر اطلاع دی۔
”ارے! ناشتہ تو کرکے جا!“ توے پر پراٹھا سینکتی فرحت نے تعجب سے ٹوکا۔
”دل نہیں چاہ رہا اماں، آفس میں کچھ کھا لوں گی۔“ اس نے بےدلی سے نفی کی۔
”اگر طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو آج چھٹی کرلے بیٹا۔“ وہ متفکر سی اس کی جانب آئیں۔
”نہیں اماں، آج جانا بہت ضروری ہے، بس تم دعا کرنا کہ آج جو کام میں کرنے جا رہی ہوں وہ میرے لئے اچھا ثابت ہو۔“ وہ کہتے ہوئے بےساختہ نظریں چراگئی۔
”میں تو ہر وقت ہی دعا کرتی رہتی ہوں بیٹا تیرے لئے، اللّه تیرے حق میں سب کچھ بہتر سے بہترین کرے۔“ انہوں نے محبت سے دعا دی تو بجائے کچھ کہنے کے چند لمحے انہیں دیکھتے رہنے کے بعد وہ بےساختہ ان کے گلے لگ گئی۔
وہ جانتی تھی کہ جو وہ کرنے جا رہی ہے وہ غلط نہیں ہے مگر جس طرح کرنے جا رہی ہے وہ غلط ہے اسی لئے کہیں نا کہیں ضمیر دل پر ڈنک مار رہا تھا مگر اس کے سوا فی الحال کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا اپنی چاہت تک پہنچنے کا اور اسے یقین تھا کہ اس کٹھن راستے کے بعد آنے والی منزل بہت خوبصورت ہوگی۔ اتنی خوبصورت جو اس راستے کی ساری تھکن اتار دے گی۔
*****************************************
ارم تقریباً پوری یونیورسٹی میں عمر کو ڈھونڈ چکی تھی مگر وہ کہیں نہیں ملا اور اس کا نمبر بھی بند جا رہا تھا کیونکہ وہ موبائل آف کرکے گھر پر سویا پڑا تھا۔
وہ جھنجھلائے ہوئے انداز میں تیزی سے میسج ٹائپ کرتی ہوئی کوریڈور سے گزر رہی تھی کہ تب ہی عافیہ سے ٹکرا گئی۔ پل بھر کو دونوں کی نظریں ملیں مگر کوئی بات کرنے کے بجائے ارم آگے بڑھ گئی۔
”عمر کی غیر موجودگی کی وجہ سے یہ بےچینی ہے نا!“ عافیہ کی بات نے اس کے قدم روک لیے۔ وہ بےساختہ اس کی جانب پلٹی۔
”مجھے نہیں پتا کہ وہ آج کیوں نہیں آیا مگر ایک بات ضرور کہنا چاہوں گی تم سے ارم!“ وہ رسان سے گویا ہوئی۔
”عادت محبت سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، اسی لئے کبھی بھی خود کو کسی کا اتنا عادی نہیں بنانا چاہیے کہ اس کے نظر نہ آنے پر ہم ایسے پاگل ہونے لگیں جیسے نشہ نہ ملنے پر کوئی نشئی پاگل ہونے لگتا ہے، کیونکہ محبت نشہ نہیں ہے جس کی وقفے وقفے سے ڈوز لینی پڑے، محبت اطمینان ہے جو ایک بار دل میں اتر جائے تو پھر تا عمر یہ سکون رگ و پے میں بس جاتا ہے۔“ اس نے ہمیشہ والے اپنے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”ہوگیا! دے چکی لیکچر! اب میں جاؤں۔“ اس کے برعکس ارم نے ناگواری ظاہر کی۔
”جاؤ!“ عافیہ نے برا مانے بنا اطمینان سے جواب دیا تو وہ تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔
عافیہ کو ارم کی تلخی سے کوئی شکایات نہیں تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ ارم اس وقت اس نہج پر ہے جہاں اس وقت ہر خیر خواہ دشمن ہی لگتا ہے۔ مگر عافیہ نے پھر بھی اپنی دوست کیلئے اپنی ادنا سی کوشش جاری رکھی ہوئی تھی۔
*****************************************
کچھ دیر قبل جب وہ اس عمارت میں داخل ہوئی تھی تب وہ اریبہ افتخار تھی اور اب جب واپس آئی تھی تو اریبہ صارم ہوگئی تھی۔ اس کی پہچان بدل گئی تھی مگر فی الحال وہ اپنا یہ تعارف سب کے سامنے نہیں لاسکتی تھی۔
روڈ پر متوازن رفتار سے دوڑتی گاڑی کے اندر اس وقت ایسی گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی جیسے اس میں سفر کرنے والے دو بالکل ہی اجنبی لوگ ہوں مگر در حقیقت دونوں نے کچھ دیر قبل ہی زندگی کا پورا سفر ایک ساتھ طے کرنے کا قلمی و زبانی عہد کیا تھا۔
”ایک راز کی بات بتاؤں، ہسبنڈ وائف آپس میں باتیں کرسکتے ہیں، اس پر ابھی ٹیکس نہیں لگا۔“ صارم نے ڈرائیو کرتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں خاموشی کو توڑا۔ اریبہ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جس کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے ملے جلے تاثر تھے۔
”میں آج آفس جا کر کام نہیں کرسکوں گی، پلیز مجھے گھر ڈراپ کردیں۔“ اس کی شوخی کا کوئی جواب دینے کے بجائے اریبہ نے دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے سادگی سے کہا۔
صارم نے گردن موڑ کر اس کی جانب دیکھا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سی الجھن نظر آئی جو شاید اسے خوش نہیں ہونے دے رہی تھی۔
”ایسی پریشان صورت لے کر جلدی گھر جاؤ گی تو تمہاری امی بھی فکرمند نہیں ہوجائیں گی!“ اس نے سوال اٹھایا۔
”نہیں، میں انہیں کہہ دوں گی کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی جلدی آگئی۔“ اس نے اپنی کنپٹی مسلتے ہوئے تیار شدہ جواز پیش کیا گویا اس کے سر میں درد ہو رہا ہو!
صارم نے ایک نظر اسے دیکھا جو آنکھیں موند کر سیٹ سے سرٹکائے شاید خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہی تھی اور پھر دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے اس نے بھی پوری توجہ ڈرائیونگ پر مبذول کرلی۔
تھوڑی دیر بعد گاڑی رکنے کے احساس پر اریبہ نے آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک انجان جگہ پر پایا جب کہ اس کے کچھ پوچھنے سے قبل ہی صارم گاڑی سے اتر کر گھوم کے اس کی جانب آچکا تھا۔
”چلو باہر آؤ!“ اس نے دروازہ کھول کر کہا۔
”لیکن کیوں؟“ وہ متعجب ہوئی۔
”آؤ تو پھر بتاتا ہوں۔“ اس نے اصرار کرتے ہوئے اریبہ کو گاڑی سے اتارا اور اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرکے آگے بڑھ گیا۔
دونوں ایک نہایت جدید طرز پر بنی خوبصورت و بلند بلڈنگ کے پارکنگ لاٹ سے لفٹ کی جانب آئے جس میں سوار ہوکر صارم نے آٹھویں منزل کا بٹن دبا دیا۔
”ہم کہاں جا رہے ہیں؟“ اریبہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔
”مجھ پر یقین ہے نا!“ صارم نے الٹا سوال کیا تو اس نے اثبات میں سرہلایا۔
”تو بس اس یقین کا عملی ثبوت بھی دو اور بالکل ریلیکس رہو۔“ اس کے اطمینان سے کہنے پر وہ کچھ نہ بول پائی۔
تھوڑی دیر میں لفٹ مطلوبہ فلور پر رکی جس سے نکل کر کشادہ کوریڈور سے گزرتے ہوئے وہ ایک فلیٹ میں آگئے۔
صارم نے اپنے پاس موجود چابی سے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے اسے اندر آنے کا کہا اور خود بھی اس کے پیچھے آگیا۔
”یہاں بیٹھو، میں ابھی آیا۔“ اس نے لاؤنج کے آرام دہ صوفے کی جانب اشارہ کیا اور خود دوسری سمت چلا گیا۔
وہ حیران پریشان سی ناسمجھی کے عالم میں ایک ڈبل صوفے پر بیٹھ گئی۔
یہ ایک نہایت اسٹائلش کشادہ فرنشڈ فلیٹ تھا جس کی ایک ایک چیز اپنی قیمت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
”یہ لو پانی پیو!“ صارم پانی کا گلاس لیے اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
”یہ کس کا فلیٹ ہے اور ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟“ وہ گلاس تھامتے ہوئے ذہن کے سوال زبان پر لائی۔
”میرا ہی فلیٹ ہے، اور ہم یہاں اسی لئے آئے ہیں تا کہ تم ریلیکس ہو سکو، مجھے پتا ہے تم اس وقت بہت پریشان ہو۔“ اس نے سادہ سا جواب دیا۔
”ہاں لیکن یہاں آنے کی کیا ضرورت تھی؟“ وہ اب بھی الجھی ہوئی تھی۔
”پہلے پانی پیو، پھر بات کرتے ہیں۔“ اس نے نرمی سے اصرار کیا تو اریبہ نے کانچ کا گلاس لبوں سے لگا کر ٹھنڈا پانی اپنے خشک ہوتے حلق میں اتار لیا۔
”کچھ کھاؤ گی؟“ صارم نے اس سے گلاس لے کر ٹیبل پر رکھا۔
”نہیں، میں ٹھیک ہوں، آپ بس مجھے گھر ڈراپ کردیں۔“ وہ ابھی بھی نروس تھی۔
”کر دوں گا، پہلے یہ بتاؤ کیا تم اس فیصلے سے خوش نہیں ہو؟“ وہ رسان سے گویا ہوا۔
”اگر خوش نہیں ہوتی تو یہ فیصلہ کرتی ہی کیوں؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”جب خوش ہو تو پھر یہ پریشانی کیسی؟“ اس نے نرمی سے پوچھا۔
”آپ کو نہیں لگتا کہ سب کچھ بہت جلدی جلدی ہوگیا!“ اریبہ کا الجھا ہوا انداز سوالیہ تھا۔
”ہاں ہوا ہے، اور میں نے جان بوجھ کر سب جلدی جلدی کیا ہے۔“ اس نے تائید کی۔
”میں چاہتا تو اظہار محبت کے بعد بنا نکاح کے ہی تمہارے ساتھ وقت گزار سکتا تھا مگر میری خواہش تھی کہ اب جب میں تمہارا ہاتھ تھاموں تو پورے حق سے تھاموں۔“ صارم نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے گھمبیرتا سے کہا اور بات کے اختتام تک اسے لبوں کے پاس لا کر چوم لیا۔
وہ تو بس اسے دیکھتے ہوئے اپنی جگہ پر مبہوت ہی ہوگئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا کہ سامنے موجود شخص حقیقت نہیں بلکہ کوئی حسین خواب ہے۔ مگر ذہن پر طاری خوف اسے اس خوبصورت خواب کی تعبیر محسوس نہیں کرنے دے رہا تھا۔
”مجھے ڈر لگ رہا ہے صارم۔“ وہ اچانک گویا ہوئی۔
”کس بات سے؟“
”اس بات سے کہ کہیں میں نے کچھ غلط تو نہیں کردیا!“ وہ دل کا ڈر زبان پر لائی جو اس کی آنکھوں میں بھی واضح تھا۔
”پتا ہے یہ سوچ بچار، ڈر خوف سب فیصلہ لینے سے پہلے کے کام ہیں، بہادر انسان جب ایک بار کوئی فیصلہ لے لیتا ہے تو پھر بنا ڈرے اس پر ثابت قدم رہتا ہے۔“ وہ تحمل سے گویا ہوا۔
”تم بھی تو بہت بہادر ہوگئی تھی نا! تو پھر یہ ڈر کیسا؟ وہ بھی میرے ہوتے ہوئے! کیا مجھ پر یقین نہیں رہا؟“ اس نے کہتے ہوئے نرمی سے اس کی لٹ پیچھے کی۔
”آپ پر یقین ہے مجھے، خود سے بھی زیادہ یقین، بس حالات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ ہمارے خلاف نہ ہوجائیں!“ وہ بےساختہ صارم کا ہاتھ دونوں ہاتھوں میں پکڑتے ہوئے بولی۔
”ابھی بھی تو حالات کو اپنی مرضی کے مطابق موڑ لیا نا ہم نے! آگے بھی میں سب سنبھال لوں گا، اپنے اس نئے نویلے شوہر پر یقین رکھو۔“ اس نے مسکراتے ہوئے یقین دہانی کرائی تو وہ بھی بےساختہ ہنس دی۔
”ایسے ہی ہنستی رہا کرو، اچھی لگتی ہو۔“ اس نے محبت پاش انداز میں کہہ کر آخر میں اس کا ماتھا چوما تو اس کے پورے وجود میں پہلے پہل کے اس لمس سے پرکیف سرسراہٹ دوڑ گئی۔
”چلو اب میں تمھیں گھر ڈراپ کردیتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
”بس اتنی سی دیر کیلئے آئے تھے ہم یہاں؟“ وہ بھی تعجب سے کھڑی ہوگئی۔
”ہاں کیوں؟ تمہارا مزید یہاں رکنے کا ارادہ ہے؟“ اس نے معنی خیزی سے پوچھا تو وہ بےساختہ جھینپ کر نظریں چرا گئی۔
پھر دونوں اسی طرح فلیٹ سے باہر آکر لفٹ سے نیچے آئے اور دوبارہ کار میں سوار ہوگئے جو اپنی منزل کی جانب ڈورنے لگی تھی۔ پورے راستے وہ اس بازو سے لپٹ کر بیٹھی اس سے باتیں کرتی رہی اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے بلآخر دونوں گھر کے قریب پہنچ گئے۔
”بس بس یہاں روک دیں آگے کہاں جا رہے ہیں۔“ اریبہ حیران ہوئی۔
”تمھیں دروازے تک ڈراپ کرنے جا رہا ہوں۔“
”اگر اماں نے دیکھ لیا تو!“
”تو دیکھ لیں، اچھا ہے اس بہانے میں بھی اپنی ساس سے مل لوں گا۔“ اس کا اطمینان قابل دید تھا۔
اپنے کہے کے مطابق صارم نے دروازے کے پاس گاڑی روکی اور خود بھی اریبہ کے ساتھ گاڑی سے باہر آگیا جو دروازے پر دستک دے چکی تھی۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھل گیا۔
”اریبہ! اتنی جلدی آگئی تو!“ فرحت اسے دیکھ کر حیران ہوئیں۔
”اور یہ کون ہے؟“ ساتھ ہی ان کی نظر صارم پر پڑی۔
”یہ میرے باس ہیں اماں، صارم منصور!“ اس تعارف کرایا۔
”السلام علیکم آنٹی!“ اس نے ادب سے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام! آؤ اندر آؤ۔“ وہ انہیں راستے دیتے ہوئے کنارے پر ہوئیں تو دونوں اندر صحن میں آگئے۔
”سب خیر تو ہے نا بیٹا؟“ فرحت کو پریشانی لاحق ہوئی۔
”جی آنٹی سب ٹھیک ہے، بس ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسی لئے آج انہیں چھٹی دے کر گھر تک لفٹ دے دی۔“ صارم نے رسان سے جھوٹی وضاحت کی۔
”دیکھا! میں نے صبح کہا بھی تھا کہ طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو چھٹی کرلو، مگر یہ میری سنتی ہی کب ہے!“ انہوں نے اریبہ کی جانب دیکھا۔
”کوئی گھبرانے والی بات نہیں ہے آنٹی، بس شاید مسلسل کام کی تھکن کی وجہ سے ایسا ہوگیا۔“ اس نے تسلی کرائی۔
”ہاں شاید، خیر بیٹا تم آؤ نا اندر میں تمہارے لئے چائے بناتی ہوں۔“ انہیں اب اس کی خاطر مدارت کا خیال آیا۔
”بہت شکریہ آنٹی، لیکن فی الحال مجھے کچھ ضروری کام ہے، جلد دوبارہ آؤں گا، تب تک ان کا خیال رکھیے گا۔“ اس نے سلیقے سے انکار کرتے ہوئے آخر میں معنی خیزی سے اریبہ کو دیکھا جس نے جواباً مسکراتے ہوئے نظریں جھکالیں۔
*****************************************
وقت آہستہ آہستہ اپنے مدار پر گھوم رہا تھا اور سب کچھ معمول کے مطابق ایسے رواں دواں تھا جیسے سکون سے ایک دریا بہہ رہا ہو۔
”کس کا فون ہے؟ اٹھا کیوں نہیں رہا تو کب سے بج رہا ہے۔“ تبریز نے کچن سے لاؤنج میں آتے ہوئے عمر کو کہا جو ٹی وی دیکھ رہا تھا۔
”ضروری نہیں ہے۔“ اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
تب تک فون بند ہوچکا تھا۔ تبریز صوفے سے ٹیک لگا کر کارپیٹ پر بیٹھ گیا۔ارحم بھی صوفے سے ٹیک لگا کر کارپیٹ پر بیٹھا ہوا کل صبح کے ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا۔
تب ہی پھر فون بجا۔ جس پر اس نے کوئی دھیان نہیں دیا مگر تبریز نے آگے بڑھ کر اس کا فون اٹھالیا۔ اسکرین پر ارم کا نام لکھا ہوا تھا۔
”ارم کی کال آرہی ہے، ریسو کر۔“ اس نے دھیان دلایا۔
”مجھے نہیں کرنی اس سے بات۔“ وہ ہنوز ٹی وی دیکھتے ہوئے بولا۔
”میں نے نوٹ کیا ہے کہ اب یونی میں بھی تم اسے اگنور کرنے لگے ہو ، کیا بات ہے؟ کیا جھگڑا ہوا ہے تم دونوں کا؟“ ارحم نے بھی خیال ظاہر کرتے ہوئے تائید چاہی۔
”نہیں، بس شادی کا دورہ پڑا ہوا ہے میڈم کو۔“ اس نے لاپرواہی سے بتایا۔
”کیا مطلب؟“
”مطلب کہ وہ میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے کہ میں اپنے گھر والوں کو اس کے گھر ہمارے رشتے کی بات کرنے بھیجوں۔“ اس نے وضاحت کی۔
”تو بھیج دو، اس میں حرج ہی کیا ہے؟ یہ تو اچھی بات ہے۔“ تبریز نے مشورہ دیا۔
”کیا! پاگل ہوگیا ہے؟ میں اور اس سے شادی کروں گا!“ عمر کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
”ہاں کیوں، تم دونوں پسند کرتے ہو نا ایک دوسرے کو!“ تبریز نے یاد دلایا۔
”نہیں، بس ایسے ہی بات چیت تھی، میں نہیں کروں گا اس سے شادی وادی۔“ اس نے صاف انکار کیا جس سے دونوں حیران ہوئے۔
”رات رات بھر فون پر بات کرنا، کبھی کینٹین میں تو کبھی گراؤنڈ میں بیٹھے رہنا، اور تو اور کلاس بنک کرکے باہر گھومنے تک چلے جانا، ان سب کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ یہ بس ایسے ہی بات چیت تھی!“ اس نے تعجب سے یاد دلایا۔
”کیا ہے یار! کیوں خواہ مخواہ دماغ خراب کر رہا ہے!“ اس نے چڑ کر بات بدلنی چاہی۔
”کیونکہ مجھے جواب چاہیے کہ جب تمھیں شادی ہی نہیں کرنی تھی تو پھر اس کو جھوٹے خواب کیوں دیکھائے؟“ تبریز دوبدو ہوا۔
”میں نے اس کو کوئی جھوٹے خواب نہیں دکھائے، وہ خود آئی تھی میرے پیچھے، تو میں بھی بس ٹائم پاس کر رہا تھا اور ویسے بھی ارم جیسی لڑکیاں صرف ٹائم پاس کیلئے ہی ہوتی ہیں شادی کیلئے نہیں، پتا نہیں میرے علاوہ اور کس کس سے چکر چلایا ہوا ہوگا اس نے۔“ اس کا لہجہ حقارت سے چور تھا۔
ارحم اور تبریز ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”یہ غلط بات ہے عمر، کوئی بھی لڑکی ٹائم پاس کیلئے نہیں ہوتی اور ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی اور کے ساتھ بھی انولو ہو! وہ تمہارے ساتھ سیریس ہے تب ہی تو شادی کا کہہ رہی ہے۔“ ارحم نے نرمی سے سمجھانا چاہا۔
”میں کسی ایسی لڑکی سے شادی کروں گا جس کی زندگی میں آنے والا میں پہلا مرد ہوں، مجھ سے پہلے اس نے کسی اور کو دیکھا بھی نہ ہو نا کہ ارم جیسی چھچھوری لڑکی سے۔“ اس نے گویا اپنا معیار بتایا۔
”واہ! تم نے یہ بات سوچی بھی کیسے کہ تم ایک ایسی لڑکی کے لائق ہو جس کی زندگی میں پہلے کبھی کوئی مرد نہ آیا ہو؟ خود تمہاری زندگی میں ارم سے پہلے کتنی لڑکیاں آکر جاچکی ہیں کچھ یاد ہے تمھیں؟ خود نے تو گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے اور لڑکی چاہئے دودھ کی دھلی، اگر اتنی ہی پاکیزہ بیوی چاہتے ہو نا تو پہلے خود کو تو پاک کرو۔“ تبریز نے اس کی سوچ پر افسوس کرتے ہوئے طنز مارا۔
”تو ہمارے معاملے میں مت پڑ تبریز!“ عمر نے چڑ کر ٹوکا۔
”معاملہ تمہارا نہیں بلکہ صحیح اور غلط کا ہے، تم جیسے مرد ہی ہوتے ہیں جو دوسروں کا جھوٹا کھانے کیلئے تو تیار ہوجاتے ہیں پر اپنے جھوٹے کیے ہوئے کو خود ہی دھتکار دیتے ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہر لڑکی ہی بدکردار ہوتی ہے، لیکن اس بات کی بھی کیا گارنٹی ہے کہ جس سے تم مستقبل میں شادی کرو گے اس کی زندگی میں آنے والے تم پہلے مرد ہوگے؟“ اس نے اسی طرح کہتے ہوئے سوال اٹھایا۔
”اور بقول تمہارے کہ ارم ایک چھچھوری لڑکی ہے جس نے خود تمہاری جانب پہل کی تھی تو تم اپنی پارسائی کا ثبوت دے دیتے، منع کردیتے ارم کو کہ وہ تم سے کوئی توقع نہ رکھے کیونکہ وہ تمہارے اسٹینڈرڈ کی نہیں ہے، تمھیں اپنے لئے دودھ کی دھلی لڑکی چاہیے۔“ اس نے اسی طرح حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
”تمھیں کیوں مسلہ ہو رہا ہے ان سب سے؟ یا کہیں تمہیں یہ فکر تو نہیں ہو رہی کہ جب ارم عافیہ کے سامنے میری بےوفائی کا رونا روئے گی تو اس سے عافیہ کی نظروں سے تمہاری ریپوٹیشن بھی خراب ہوجائے گی کیونکہ تم میرے دوست ہو؟“ عمر نے چبھتا ہوا طنز کا تیر چلایا۔
”بھاڑ میں گئی میری ریپوٹیشن، مجھے اپنی سچائی کیلئے کسی اور کے کیریکٹر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت نہیں ہے، میں اس وقت تمہاری بات کر رہا ہوں۔“ اس نے بھی برہمی سے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”ہاں تو کیوں کر رہے؟ مت کرو، تم بھی تو عافیہ کو پسند کرتے ہو نا! اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتے ہو، وہ غلط نہیں ہے؟ میں کچھ بولتا ہوں اس معاملے میں؟ تو تم خواہ مخواہ کیوں میرے ابا بن رہے ہو!“ وہ بھی لحاظ بھول کر دوبدو۔
”کسی کو پسند کرنے میں اور پسند کے نام پر کسی کے ساتھ ٹائم پاس کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے عمر!“ اب ارحم نے بھی مداخلت کی۔
”تبریز عافیہ کو پسند کرتا ہے، اس سے شادی کرنا چاہتا ہے اور پڑھائی مکمل ہوتے ہی وہ آنٹی کو اس کے گھر بھیجنے والا ہے، مگر تم کسی کے جذبات کے ساتھ کھیل کر اب مُکر رہے ہو، اور ہم تمہارے ابا نہیں بن رہے بلکہ دوست ہونے کی حیثیت سے سمجھا رہے ہیں۔“ وہ اسی تحمل سے مزید بولا۔
”مجھے نہیں سمجھنا کچھ بھی، اپنی نصیحتیں اپنے پاس رکھو تم لوگ۔“ وہ تنفر سے کہتا ہوا اٹھا، اپنا موبائل اٹھا کر پینٹ کی جیب میں ڈالا اور بنا کچھ بولے باہر نکل گیا۔ جب کہ ارحم اور تبریز ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
”اللّه اسے ہدایت دے۔“ ارحم نے دعا کی۔
”امین!“
*****************************************
”بس کردو ارم کب سے روئے جا رہی ہو، میں نے تمھیں پہلے ہی منع کیا تھا ان سب کیلئے، پر تم نے میری بات ہی نہیں سنی ۔“ عافیہ نے پھر سمجھایا۔
ارم نے اس وقت عافیہ کو اپنے گھر بلایا ہوا تھا۔اور اپنے بیڈروم میں بیٹھی ہوئی اس کے سامنے رو رہی تھی۔
”مجھے کیا پتا تھا کہ وہ میرے ساتھ ایسا کرے گا؟“ اس نے روتے ہوئے صفائی دی۔
”کیا مطلب! اس نے کیا تمہارے ساتھ کچھ۔۔۔۔کہیں تم نے کوئی حد تو نہیں پار کردی ارم؟“ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”نہیں یار، ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن وہ مجھے اگنور کرنے لگا ہے۔“ اس نے نفی کرکے بات واضح کی تو عافیہ نے شکر کا سانس لیا۔
”ہاں تو کرے گا، کیونکہ تم نے اپنی قدر و قیمت خود گرائی ہے اس کی نظروں میں، ایسے لڑکے تم جیسی لڑکیوں سے شادی نہیں صرف ٹائم پاس کرتے ہیں یہ سوچ کر کہ پتا نہیں میرے علاوہ کس کس سے چکر چلایا ہوا ہوگا اس نے۔“ اس نے تلخی سے حقیقت بتائی۔
”نہیں، میں تو صرف عمر سے پیار کرتی ہوں اور اس کے علاوہ میرا کوئی بوائے فرینڈ بھی نہیں ہے۔“ اس نے جلدی سے خود کا دفاع کیا۔
”سب سے پہلی بات تو کہ جب اسلام میں گرل فرینڈ بوائے فرینڈ جیسے حرام رشتے کی اجازت ہی نہیں ہے تو پھر تم لوگ ایسے کام کرتے ہی کیوں ہو؟ اور دوسری بات کہ یہ تو تم جانتی ہو نا کہ تم اس کے ساتھ سیریس ہو پر اسے تو یہ ہی لگتا ہوگا کہ پتا نہیں میرے علاوہ کس کس سے چکر چلایا ہوا ہوگا اس نے؟ تم جیسی لڑکیاں خود کھلونا بنتی ہو، خود موقع دیتی ہو کسی دوسرے کو خود سے کھیلنے کا اور پھر جب وہ کھیل کر، دل لگی کرکے چلا جاتا ہے تو بیٹھ کر روتی رہتی ہو۔“ وہ تاسف بھری سنجیدگی سے جذباتی انداز میں بولتی چلی گئی۔
”جب تک کوئی شے چھپی ہوئی رہتی ہے، راز رہتی ہے، تب تک وہ پرکشش ہوتی ہے، اس چیز کی قیمت ہوتی ہے، مگر جیسے ہی وہ شے کھل کر سامنے آتی ہے، راز پر سے پردہ اٹھتا ہے تو اس شے کی پھر پہلے جیسے قیمت نہیں رہتی، اللّه پاک نے عورت کا وجود بھی ایک راز بنایا ہے، اسے چھپا کر رکھنے کا حکم دیا ہے، اگر یہ ہر کسی کیلئے کھل کر عام ہوگیا، اس راز پر سے پردہ اٹھ گیا تو پھر اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہے گی، اس بات کو سمجھو۔“ اس نے اسی طرح مزید کہتے ہوئے سلیقے سے اسلام کا موقف اسے سمجھایا۔
”تمہاری ساری باتیں ٹھیک ہیں ، پر اب میں کیا کروں؟“
اس نے آنسوں صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
”انسان کی بچی بنو۔“ وہ جھٹ سے بولی۔
”کیا مطلب؟“
”مطلب اب روتی دھوتی اس کے آگے منت سماجت کرنے مت چلی جانا۔“
”تو پھر کیا کروں؟“
”شکر کرو کہ وقت رہتے ہی تمہیں سنبھلنے کا موقع مل گیا، اب یہ لڑکوں سے دوستی وغیرہ کا سلسلہ ختم کرو، طریقے سے پڑھائی پر توجہ دو اور اپنی عزت اور عفت کی حفاظت کرو اپنے محرم کیلئے، یہ اس کی امانت ہے، سمجھی!“ اس نے لوہا گرم دیکھ کر ایک اور ضرب لگائی۔ جو کہ کاری ثابت ہوئی اور ارم نے اثبات میں سرہلا دیا۔
”آئی ایم سوری یار! اس کی وجہ سے میں نے تم سے بھی بہت مس بیہیو کیا مگر تم پھر بھی میری ایک کال پر میرے گھر چلی آئی۔“ وہ اپنے گزشتہ رویے پر نادم ہوئی۔
”ہاں کیونکہ دوست وہ نہیں ہوتا جو مشکل وقت میں ضرورت پڑنے پر مدد کرنے کے بجائے پرانے شکوے لے کر بیٹھ جائے، بلکہ دوست وہ ہوتا ہے جو سب تلخیاں بھلا کر تمہارے لئے حاضر ہو، اور میں تمہاری دوست ہوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا تو پرنم آنکھوں سے اسے دیکھتے رہنے کے بعد ارم بےساختہ اس کے گلے لگ گئی۔
*****************************************
”کیا کر رہی تھی مسز صارم؟“ وہ موبائل کان سے لگائے بیڈ پر لیٹ گیا۔
”انتظار!“ ایک لفظی جواب ملا۔
”کس کا؟“
”آپ کا کہ آپ کب ہماری شادی کے بارے میں سب کو بتائیں گے؟“ رات کے وقت صحن میں ٹہلتی اریبہ نے وضاحت کی۔ جب کہ فرحت کے خراٹے یہاں تک سنائی دے رہے تھے۔
”یار ابھی مشکل سے ایک ہفتہ ہوا ہے ہماری شادی کو اور تم اس ایک ہفتے میں ایک ہزار بار یہ بات دہرا چکی ہے، میں نے کہا تو ہے کہ ڈیڈ کے دبئی سے واپس آنے کے بعد میں بات کروں گا۔“ وہ تھوڑا چڑ گیا۔
”اچھا نا غصہ کیوں ہو رہے ہیں!“ اس کی بگڑتے تیور دیکھ کر وہ نرم پڑی۔
”تم باتیں ہی ایسی بےاعتباری والی کرتی ہو۔“ خفگی بھرا جواب ملا۔
”اگر آپ پر اعتبار نہیں ہوتا تو اتنا بڑا قدم اٹھاتی میں؟“ اس نے نرمی سے سوال کیا جس پر وہ کچھ نہ بولا۔ بولتا بھی کیسے؟ اس کا یہ اعتبار ہی تو اسے لاجواب کردیتا تھا۔ اسے اپنے تلخ لہجے پر تھوڑی ندامت ہوئی کہ خواہ مخواہ آفس کی جھنجھلاہٹ اس پر نکال دی۔
”اچھا سوری! چلو کل کہیں گھومنے چلیں۔“ صارم نے ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں موضوع ہی بدل دیا۔
”ابھی پرسوں ہی تو اتنی شاپنگ اور ڈنر کیا تھا۔“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں تو کیا ہوا؟ نیولی میرڈ کپلز ایسے ہی گھومتے پھرتے رہتے ہیں، اور ویسے بھی بس یہ ہی دن ہیں ہمارے پاس ٹینشن فری ہوکر اپنی نئی نویلی شادی انجوئے کرنے کیلئے، کیونکہ جب ڈیڈ واپس آجائیں گے اور ہماری شادی کا بم پھٹے گا تو پھر یہ بےفکریاں نہیں ہوں گی بلکہ گھر والوں کو منانے میں ہلکان ہو رہے ہوں گے ہم!“ اس نے مستقبل کا نقشہ کھینچا۔
”آپ ڈرا رہے ہیں مجھے؟“
”نہیں، بس ذہنی طور پر تیار کر رہا ہوں، ورنہ میرے ہوتے ہوئے بھلا تمھیں ڈرنے کی کیا ضرورت!“ اس کے پریقین اطمینان پر بےساختہ وہ بھی مطمئن سی مسکرادی۔
*****************************************
”ارے واہ! کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی!“ عافیہ نے ارم کو دیکھ کر خوشگوار حیرت کا اظہار کیا۔
ارم ابھی ابھی کلاس میں آکر اس کے برابر میں بیٹھی تھی۔ اور جب وہ کلاس میں داخل ہوئی تھی تو کچھ لمحوں کیلئے پوری کلاس ہی اس کی جانب متوجہ ہوگئی تھی۔کیونکہ ہمیشہ جینز ٹاپ اور فل میک اپ میں رہنے والی ارم نے آج سادہ سا پنک کلر کا شلوار قمیض پہنا ہوا تھا۔دوپٹہ سینے پر اوڑھا ہوا تھا۔ چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے عاری تھا اور اپنے سٹیپ کٹنگ بالوں کی پونی باندھی ہوئی تھی جنہیں وہ ہمیشہ کھلا رکھتی تھی۔
”مذاق اڑا رہی ہو تم میرا؟“ اس نے شکوہ کیا۔
”نہیں نہیں تعریف کر رہی ہوں، لڑکیاں ایسے ہی لباس میں اچھی لگتی ہیں تم بھی اچھی لگ رہی ہو، ایسی ہی رہنا، اب جو بھی سولہ سنگھار کرنا ہو شادی کے بعد اپنے شوہر کیلئے کرنا۔“ عافیہ نے مسکرا کر اسے سراہا اور ساتھ تاکید بھی کی۔ اس نے کچھ نہیں کہا بس ہلکے سے مسکرادی۔
”یار عمر کے فراق میں اس بیچاری کی تو کایا ہی پلٹ گئی۔“ دوسری لائن میں بیٹھے ارحم نے تبریز کے کان میں سرگوشی کی۔ جسے عمر نے بھی سن لیا پر کوئی رد عمل نہیں دیا۔ تب ہی سر کلاس میں آگئے اور سب ان کی جانب متوجہ ہوگئے۔
*****************************************
”نہ نہ کرتے ہوئے بھی اتنا کچھ لے ہی لیا بلآخر آپ نے۔“ شاپنگ بیگز ہاتھ میں لئے اریبہ کہتی ہوئی فلیٹ میں داخل ہوئی جس کے پیچھے صارم بھی دروازہ بند کرتا لاؤنج میں آگیا۔
”ہاں تو اپنے لئے لیا ہے میں نے، تمھیں کیوں فکر ہو رہی ہے؟“ وہ گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھا۔
یہ لیڈیز ڈریسز آپ نے خود کیلئے لی ہیں؟“ اس نے بھی برابر میں بیٹھتے ہوئے تعجب سے پوچھا۔
”ہاں جب تم یہ پہن کر میرے لئے تیار ہوگی تو میں تمہیں دیکھوں گا تو ہوئی نا میرے لئے!“ اس نے شوخی سے وضاحت کی تو وہ نفی میں سرہلاتے ہوئے مسکرادی۔
”بلکہ ایک کام کرو۔“ اس نے کہتے ہوئے چار میں سے ایک شاپنگ بیگ اٹھایا۔
”تم یہ ابھی پہن کر آؤ۔“ اس نے بیگ اریبہ کو دیتے ہوئے فرمائش کی۔
”کیا ابھی!“ وہ حیران ہوئی۔
”ہاں تو، یہ کیا ریمپ پر واک کرنے کیلئے لی ہے! چلو جلدی سے پہن کر دکھاؤ کہ کیسی لگ رہی ہے؟“ اس کا بےتحاشا اصرار دیکھتے ہوئے بلآخر وہ بیگ لے کر بیڈ روم میں چلی گئی۔ جب کہ وہ فی الحال موبائل پر آئے میسجز چیک کرنے لگا۔
تھوڑی دیر گزر جانے کے بعد بھی جب اریبہ واپس نہیں آئی تو وہ خود بھی اٹھ کر اس کشادہ اسٹائلش بیڈ روم میں آگیا جہاں اریبہ نہیں تھی۔
”اریبہ! کوئی مسلہ ہوگیا ہے کیا ڈریس میں؟“ صارم نے باتھ روم کے دروازے پر دستک دے کر پوچھا۔
”نہیں، بس کبھی یہ سب پہنا نہیں ہے نا اسی لئے تھوڑی کنفیوژن ہو رہی تھی، بس دو منٹ میں آئی۔“ اس نے بھی اندر سے بلند آواز جواب دیا۔
اس کی طرف سے مطمئن ہوکر وہ وہیں کمرے میں بنے بڑے سے گلاس ڈور کے سامنے آگیا جس کی دوسری جانب کشادہ بالکونی تھی۔ دوپہر کا وقت ہونے کی وجہ سے سورج کی تیز روشنی گلاس ڈور سے سیدھا اندر آتے ہوئے آنکھوں میں اتنی چبھ رہی تھی کہ اس نے اپنی آنکھیں سکیڑی ہوئی تھیں۔ آنکھوں کو اس زحمت سے بچانے کیلئے اس نے کتھئی رنگ کا موٹا، بھاری پردہ کھینچ کر سیدھا کیا جس نے دھوپ کا راستہ روکتے ہوئے پل بھر میں کمرے میں نیم اندھیرا کردیا۔
”صارم!“ تب ہی اریبہ کی پکار پر وہ پلٹا اور اس پر نظر پڑتے ہی مبہوت رہ گیا۔
”ٹھیک لگ رہی ہوں؟“ اس نے رائے مانگی۔
سلیولیس ریڈ ساڑھی میں آزاد سیاہ زلفوں کے ساتھ اس کا سادہ سا روپ بھی بہت قاتلانہ لگ رہا تھا جب کہ وہ خود کنفیوژ سی کبھی کندھے سے تو کبھی پیر کے پاس سے بار بار ساڑھی ٹھیک کر رہی تھی کیونکہ ساڑھی پہننے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔ وہ اسی ٹرانس کی کیفیت میں اس کی جانب آیا۔
”اف! خوبصورت!“ وہ نزدیک رک کر خوابناک انداز میں بولا۔
”تھینکس!“ وہ بھی مسکرائی۔
”تم تھینکس کیوں بول رہی ہو؟ میں تو ساڑھی کی تعریف کر رہا ہوں۔“ اس نے بظاہر سنجیدگی سے تصحیح کی تو اریبہ کی شرمیلی سی مسکراہٹ پل بھر میں سمٹ کر غائب ہوئی جیسے امیدوں پر اوس گر گئی ہو۔
”تو مجھے پہننے کا کیوں کہا؟ ایسے ہی اس کی شان میں قصیدے پڑھ لیتے!“ اگلے ہی پل اس نے تنک کر برہمی سے کہا اور پلٹ کر جانے لگی جس کا ہاتھ پکڑ کر صارم نے اسے دوبارہ اپنی طرف کھینچ لیا۔
”مذاق کر رہا تھا یار!“ اس نے مسکراتے ہوئے اسے اس کے گرد بازو حمائل کیے۔
”بہت اچھی لگ رہی ہو، اتنی اچھی کہ مجھے دوبارہ اپنے نکاح والے فیصلے پر خوشی ہو رہی ہے۔“ اب کی بار اس نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا جس سے اریبہ کو لگا کہ اس کا سنگھار وصول ہوگیا ہے۔
”اب اگر خوشی منا لی ہو تو میں چینج کرلوں؟“ اس نے نرمی سے اجازت چاہی۔
”نہیں، خوشی کا یہ دور اور طویل ہونا چاہئے۔“ وہ کندھے پر سے اس کے بال پیچھے کرتے ہوئے گھمبیر انداز میں اتنا قریب ہوا کہ اسے باقاعدہ سانسیں محسوس ہوئیں۔
”صارم! ابھی ہمارا صرف نکاح ہوا ہے، ابھی ہمارے گھر والوں کو اس رشتے کا علم نہیں ہے۔“ اس نے دبا دبا لفظوں میں یاد دلا کر ٹوکنا چاہا کیونکہ وہ اس کے بہکتے ہوئے ارادے بھانپ گئی تھی۔
”ہاں تو انہیں بھی بتا دیں گے، بس اگلے ہفتے ڈیڈ واپس آرہے ہیں پھر رخصتی کی فارملیٹی بھی پوری ہوجائے گی، مگر ہسبنڈ وائف تو ہم ابھی بھی ہیں نا!“ اس نے آہستہ سے کہتے ہوئے آخر میں اس کی گردن چومنے کی کوشش کی جس سے وہ بری طرح بےچین ہوئی۔
”صارم پلیز! ابھی یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔“ وہ کسمسا کر اس کے حصار سے نکلی۔
”کیوں ٹھیک نہیں ہے؟ تم بیوی ہو میری، ہم نے نکاح کیا ہے۔“ اس نے تعجب سے یاد دلایا۔
”ہاں لیکن ہمارا رشتہ ابھی دنیا کے سامنے نہیں آیا ہے، اور جب تک یہ بات گھر والوں کے علم میں نہیں آجاتی تب تک ہمیں آگے نہیں بڑھنا چاہئے۔“ اس نے ڈھکے چھپے لفظوں میں انکار کیا۔
”تم نے مجھ سے شادی کی ہے یا دنیا والوں سے جو مجھ سے زیادہ ان کی فکر ہے تمہیں!“ اب وہ بھی تھوڑا خفا ہوا۔
”یا پھر تمہیں یہ لگتا ہے کہ میں نے تم سے شادی صرف دل بہلانے کیلئے کی ہے!“ وہ اگلے ہی پل صدمے سے نتیجے پر پہنچا۔
”نہیں ایسا نہیں ہے۔“ اس نے جلدی سے نفی کی۔
”ایسا ہی ہے، تمھیں مجھ پر بھروسہ ہے ہی نہیں اگر ہوتا تو یوں كتراتی نہیں تم مجھ سے۔“ اس کا لہجہ تھوڑا سخت ہوا۔
”نہیں صارم آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔“ اس نے چند قدم آگے آکر وضاحت کرنا چاہی۔
”غلط تو میں آج تک سمجھ رہا تھا، میں سمجھتا تھا کہ جیسے مجھے تم پر بھروسہ ہے ایسے ہی تمھیں بھی مجھ پر بھروسہ ہوگا، جیسی محبت میں تم سے کرتا ہوں ویسے ہی تم بھی مجھ سے کرتی ہو مگر۔۔۔۔۔۔۔۔!“ اس نے دکھ سے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔
”جب تمھیں مجھ پر بھروسہ ہی نہیں ہے تو پھر شادی کا کیا فائدہ؟ کیونکہ ہر رشتے میں اعتماد پہلا اصول ہوتا ہے جو کہ شاید ہمارے رشتے میں نہیں ہے، تو پھر یہ رشتہ بھی نہیں رہنا چاہئے۔“ اس کی تلخی سے کہی گئی اگلی بات نے اریبہ پر بجلی گرا دی۔
”نہیں صارم میری بات تو سنیں۔“ وہ جلدی سے آگے آئی۔
”اب کہنے سننے کیلئے کچھ بچا ہی کہاں ہے؟“ اس نے دکھ سے کہتے ہوئے رخ موڑا۔
”نہیں! مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے، خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے، آپ ایسا کیوں سوچ رہے ہیں!“ وہ کہتی ہوئی اس کے مقابل آکر کھڑی ہوئی۔
”ایک ہفتہ ہونے والا ہے ہمارے نکاح کو اور اس بیچ تم کتنی بار ایسی باتیں کرچکی ہو جن میں صاف اعتباری جھلکتی تھی مگر میں یہ سوچ کر نظر انداز کر دیتا تھا کہ شاید تمھیں تھوڑا وقت چاہیے اس نئے رشتے کو قبول کرنے کیلئے، لیکن تم تو مجھے ہی اب تک قبول نہیں کر پائی تو اس رشتے کو کیسے کرو گی۔“ اس کے رنجیدہ لہجے سے زیادہ اس کی آنکھوں سے دکھ چھلک رہا تھا جس سے اریبہ کا دل کٹ کر رہ گیا۔
”میں سمجھا تھا جیسے میں اس رشتے پر راضی ہوں ویسے ہی تم بھی راضی ہو اسی لئے تمہاری رضا مندی کے ساتھ تمہیں یہاں لایا تھا، تم سے کوئی زور زبردستی کرنے کی نیت نہ میری پہلے تھی اور نہ اب ہے، اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں تو چلو واپس چلتے ہیں۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔
”مجھے آپ پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے، میں نے صرف زبان سے نہیں دل سے آپ کو اور اس رشتے کو قبول کیا ہے، اور میں اس رشتے کو نبھانے کیلئے بھی دل و جان سے راضی ہوں۔“ اریبہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے یقین دلانا چاہا۔
”اگر سچ میں ایسا ہے تو پھر یوں بےاعتباری کی باتیں کرکے کیوں مجھے تکلیف دیتی ہو!“ صارم نے اسے قریب کرتے ہوئے نرمی سے شکوہ کیا۔
”بےاعتباری نہیں بس ایک عجیب سا خوف رہتا ہے مجھے کہ کہیں آپ مجھ سے دور نہ چلے جائیں!“ وہ کہتے ہوئے اس کے سینے سے لگ گئی۔
”اگر تم سے دور ہی جانا ہوتا تو تمہیں قریب کیوں لاتا؟“ اس نے بھی دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرلئے تھے۔ جواباً وہ کچھ نہ بولی۔
”خیر چلو واپس چلتے ہیں۔“ صارم نے خود ہی موضوع بدلا۔
”اتنی جلدی! ابھی تو دوپہر ہی ہے، ابھی واپس جاؤں گی تو اماں سوال کریں گی کہ میں آفس سے جلدی کیوں آگئی؟“ وہ دھیان دلاتے ہوئے الگ ہوئی۔
”تو پھر شام تک کہاں رہو گی؟“
”یہیں رہوں گی۔“
”اکیلے رہ لو گی؟“
”اکیلے کیوں؟ آپ بھی تو ہیں نا میرے ساتھ!“
”نہیں، میں جا رہا ہوں۔“
”اور اگر میں نہ جانے دوں!“ اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے دونوں بازو اس کے کندھوں پر رکھے۔
”تو پھر تمہارا حکم بھلا کیسے ٹال سکتا ہوں!“ اس نے بھی شرارت سے کہہ کر اسے خود سے قریب کرتے ہوئے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے شدتوں کی ابتدا کی جسے اس بار اس نے بالکل بھی نہیں روکا ٹوکا کیونکہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے اعتبار تھا۔
لے تھام کر تیرا ہاتھ پیا
تجھے سونپ دی اپنی ذات پیا
*****************************************
عافیہ اور ارم کلاس کے بعد کینٹین سے کچھ کھانے پینے کی چیزیں لے کر باتیں کرتی ہوئی گراؤنڈ میں آچکی تھیں کہ تب کسی نے انہیں پکارا۔
"ارم!“ پکارا پر دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے عمر کھڑا ہوا تھا۔
”مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے۔“ وہ سادگی سے گویا ہوا۔
”کیا بات کرنی ہے؟“ ارم کا انداز میں بھی سرسری تھا۔
”اکیلے میں کچھ بات کرنی ہے۔“
”نہیں! جو بات کرنی ہے ایسے ہی بولو۔“ اس نے سختی دکھائی۔
"یار یہ عمر کہاں گیا؟“ تبریز نے آس پاس دیکھتے ہوئے کہا۔ دونوں ابھی ابھی کینٹین سے چیزیں لے کر گراؤنڈ میں آئے تھے۔
”وہ دیکھ! وہ ارم اور عافیہ کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔“ یکدم ارحم نے ایک جانب اشارہ کیا۔
”چل دیکھتے ہیں کہ کیا کر رہا ہے یہ؟“ تبریز کو تجسس ہوا اور دونوں جلدی سے ان کی جانب آئے۔
”ارم میں تم سے معافی چاہتا ہوں۔“ وہ شرمندہ تھا۔
”کس بات کی معافی؟“ وہ انجان بنی۔
”اپنے گزشتہ تلخ برتاؤ کی۔“ اس نے وضاحت کی۔ تب تک وہ دونوں بھی قریب آچکے تھے۔
”تم نے ایسا کیا ہی کیوں کہ تمھیں معافی مانگنی پڑے؟“ وہ شکوہ کر گئی۔
”پتا نہیں، پر اتنا ضرور کہوں گا کہ اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے بلکہ کسی نے احساس دلایا ہے۔“ اس نے آخری جملہ تبریز کی جانب دیکھ کر کہا تو عافیہ نے بھی اس کی جانب دیکھا۔
”تم چاہتی تھی نا کہ میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر ہمارے رشتے کی بات کرنے بھیجوں، تو بس یونی ختم ہونے میں کچھ دن ہی رہ گئے ہیں نا! پھر میں ان سے بات کروں گا۔“ اس نے گویا خوشخبری سنائی۔ جس سے تبریز اور ارحم کو نہایت خوشگوار حیرت ہوئی۔
”اور اگر تم پھر مکر گئے تو؟“ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
”اتنے گواہوں کی موجودگی میں کہہ رہا ہوں ، نہیں مکروں گا۔“ اس نے یقین دلایا۔
فوری طور پر کچھ کہنے کے بجائے ارم نے عافیہ کی جانب دیکھا۔ تو عافیہ نے مسکرا کر آنکھوں سے ”اوکے“ کا اشارہ کیا۔
”ٹھیک ہے، اب جب تم اپنے گھر والوں کو لے کر آؤ گے تب بھی کوئی بات ہوگی۔“ وہ گہری سانس لے کر بولی۔ کیونکہ اب عافیہ کی باتیں اسے بہت اچھے سے سمجھ آگئیں تھیں۔
”مطلب تم نے مجھے معاف کردیا؟“ اس نے خوشی سے تائید چاہی تو بجائے زبانی کچھ کہنے کے اس نے ہلکے سے اثبات میں سرہلایا۔
”اچھا موقع ہے تبریز لگے ہاتھوں تو بھی عافیہ سے بات کرلے۔“ ارحم نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو تبریز نے اسے کہنی مار کر چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
*****************************************
تپتا ہوا سورج اپنے عروج سے نیچے آکر اب غروب ہونے کے قریب تھا جس کے باعث ہوا کے گرم تھپڑ بھی ٹھنڈے جھونکوں میں تبدیل ہوگئے تھے۔
اریبہ نے گلاس ڈور پر لٹکتے بھاری پردے سمیٹ کر گلاس ڈور کھولا تو روشنی اور ٹھنڈی ہوا ایک ساتھ اندر چلی آئیں۔
بالکونی کا گلاس ڈور کھول کر وہ خود بیڈ پر صارم کے پاس آئی جو ابھی تک شرٹ سے عاری کمبل اوڑھے اوندها سو رہا تھا۔
”صارم اٹھ جائیں بہت دیر ہوگئی ہے ہمیں۔“ اریبہ نے پاس بیٹھ کر اس کا کندھا ہلایا۔
”صبح ہوگئی؟“ وہ موندی موندی آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا۔
”صبح نہیں شام ہو رہی ہے، ہم دوپہر سے یہاں ہیں اور اب مغرب کا وقت ہونے والا ہے۔“ اس نے وقت کا احساس دلایا۔
”آفس ٹائم بھی اوور ہوگیا ہے، اماں انتظار کر رہی ہوں گی میرا، مجھے گھر چھوڑ دیں۔“ اس نے متفکر انداز میں مزید کہا۔
”کہہ دینا آج آفس میں کام زیادہ تھا، تھوڑی دیر اور رک جاتے ہیں۔“ اس نے سہولت سے مشورہ دیتے ہوئے اریبہ کو پکڑ کر اپنی جانب کھینچ لیا۔
”نہیں، میں نے آپ کی بات مانی نا! اب آپ میری سنیں اور پلیز اٹھیں جلدی۔“ اس نے حصار سے نکلنا چاہا۔
”اچھا تو مطلب حساب کتاب سے چل رہی ہو!“ وہ محظوظ ہوا۔
”ہاں یہ ہی سمجھ لیں۔“
”ٹھیک ہے، چلو پھر ابھی میں تمہاری بات مان لیتا ہوں لیکن اس حساب سے کل پھر تمھیں میری بات ماننی پڑے گی!“ اس نے معنی خیزی سے کہتے ہوئے گھیرا تنگ کیا۔
”کل کی کل دیکھیں گے ابھی پلیز اٹھیں نا بہت دیر ہوگئی ہے۔“ اس نے عاجزی سے منت کی تو وہ اسے کس کر بوسہ دیتے ہوئے اٹھ گیا۔
*****************************************
عمر جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو غیرمتوقع طور پر کھانے کی لذیز خوشبو اس کی ناک سے ٹکرائی تو وہ سیدھا کچن میں آگیا جہاں سے باتوں کی آواز بھی آرہی تھی۔
”مصالحہ بھون لیا اچھی طرح؟“ ارحم نے تائید چاہی جو کچن کاؤنٹر پر بیٹھا پیکٹ کے پیچھے سے ریسیپی پڑھ کر بتا رہا تھا۔
”ہاں!“ پتیلی میں چمچ چلاتے تبریز نے جواب دیا۔
”تیل الگ ہوگیا ہے؟“
”تیل الگ کیسے ہوگا؟ وہ تو سارے مصالحے کے ساتھ مکس ہوگیا ہے۔“ تبریز کو تعجب ہوا۔
”پتا نہیں، یہاں تو یہ ہی لکھا ہے کہ مصالحہ اتنا بھونیں کہ تیل الگ ہوجائے۔“ ارحم نے کہتے ہوئے پیکٹ اس کی جانب بڑھایا۔
”یہ کیا کر رہے ہو تم لوگ؟“ عمر نے تعجب سے مداخلت کی۔
”کھانا بنا رہے ہیں۔“ یک زبان جواب ملا۔
”لیکن آج تو کھانا بنانے کی باری میری تھی نا!“ اس نے یاد دلایا۔
”ہاں، مگر آج اتنا اچھا کام کیا ہے تم نے تو سوچا تمھیں کچن سے چھٹی دے کر اچھا کھانا کھلا کر ٹریٹ دے دیں۔“ ارحم نے پیر جھلاتے ہوئے جواب دیا۔
”کون سا کام؟“ وہ سمجھا نہیں۔
”ہمارے ایک بار کہنے پر اپنی غلطی سدھار کر ارم سے معافی مانگنے والا کام!“ تبریز نے پتیلی میں چکن ڈالتے ہوئے وضاحت کی۔
”غلطی میری ہی تھی نا یار! کل تم لوگوں سے ضد بحث کے بعد بہت دیر سوچا میں نے اس بارے میں جس میں مجھے میں ہی قصور وار لگا اسی لئے سوچا کہ وقت رہتے ہی اپنی غلطی سدھار لوں!“ اس نے دھیرے سے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
”پہلی بار کچھ اچھا سوچا تم نے، ویسے اب تو سیریس ہے نا عمر؟“ ارحم نے تائید چاہی۔
”ہاں ہاں، یونی ختم ہوتے ہی واپس جا کر سب سے پہلے امی ابو سے یہ ہی بات کروں گا۔“ اس نے تسلی کرائی۔
”پتا ہے میں تبریز سے کہہ رہا تھا کہ لگے ہاتھ تو بھی عافیہ سے اپنے دل کی بات بول دے مگر اس نے سنی ہی نہیں۔“ ارحم نے اپنا نادر مشورہ بتایا۔
”ہاں، تا کہ میں تو پٹتا ہی مگر میرے ساتھ ساتھ عمر کا بھی پار لگتا ہوا بیڑا غرق ہوجاتا۔“ تبریز نے طنزیہ انداز میں بات مکمل کی۔
”نہیں ہوتا یار، بلکہ اب تجھے بھی بول دینا چاہئے، کچھ ہی دن تو رہ گئے ہیں یونی آف ہونے میں۔“ عمر نے بھی ارحم کی تائید کی۔
”میری چھوڑو یار، بس آج ٹریٹ انجوئے کرو۔“ اس نے پتیلی کا ڈھکن ڈھکتے ہوئے بات بدلی۔
”یار تم لوگوں نے خواہ مخواہ محنت کی، میں بنا لیتا نا!“ عمر نے اخلاقی تشکر کا مظاہرہ کیا۔
”اس میں کون سی بڑی بات ہے، وہ تو تم اب بھی بنا سکتے ہو، یہ لو۔“ اس کی بات پر تبریز نے اس کے ایک ہاتھ میں چمچ پکڑایا، ارحم نے اس کے دوسرے ہاتھ میں پیکٹ تھمایا اور دونوں بےنیازی سے کچن سے باہر نکل گئے۔
”میں نے اخلاقاً کہا تھا کمینوں!“ اس نے چڑ کر پیچھے سے آواز لگائی۔
*****************************************
گاڑی سگنل پر رکی ہوئی تھی۔ صارم اسٹئیرنگ تھامے سگنل کھلنے کا ویٹ کر رہا تھا جب کہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اریبہ اپنے موبائل میں مصروف تھی۔
تب ہی ان کی کار کے بالکل برابر میں ایک بائیک آکر رکی جس پر سوار آدمی اریبہ کو گھورنے لگا۔ صارم کو یہ حرکت سخت ناگوار گزری اور اگلے ہی پل اس نے اپنی طرف کا بٹن دبا کر اس کی کھڑکی کا شیشہ اوپر کردیا۔
”ارے اتنی اچھی ہوا آرہی تھی شیشہ کیوں چڑھا دیا!“ اس نے چونک کر سر اٹھایا مگر اسے کوئی جواب دینے کے بجائے وہ مضبوطی سے اسٹیرنگ تھامے جبڑے بھینچ کر سامنے دیکھتا رہا گویا ضبط کر رہا ہو!
پہلے پہل تو اریبہ کو اس کا رویہ سمجھ نہ آیا مگر جب اس نے بند شیشے کے اس پر بائیک سوار کو دیکھا تو سارا ماجرا سمجھتے ہوئے دلکشی سے مسکرادی۔
”ڈئیر ہسبنڈ کو جیلیسی ہو رہی ہے!“ اس نے شرارتاً کہتے ہوئے ایسے صارم کا گال کھینچا کہ وہ بھی ناچاہتے ہوئے ہنس پڑا۔
”اسے جیلیسی نہیں پروٹیکشن کہتے ہیں۔“ اس نے اپنی ہنسی سمیٹتے ہوئے تصحیح کی تب ہی سگنل کھل گیا اور سب گاڑی آگے بڑھنے لگیں۔
تھوڑی دیر بعد وہ لوگ گھر کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔ صارم نے اسی مخصوص موڑ پر گاڑی روکی جہاں وہ اکثر اسے ڈراپ کرتا تھا۔
”کل آفس میں ملتے ہیں، الله حافظ!“ اریبہ نے کہہ کر اترنے کیلئے گیٹ کا لاک کھولا۔
”ایسے الله حافظ بولتے ہیں شوہر کو!“ اس کے شکوہ کنا انداز پر وہ رک گئی۔
”تو اور کیسے بولتے ہیں؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”ادھر آؤ میں سکھاؤں۔“ صارم نے کہتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر قریب کیا اور ماتھا چوم لیا۔
”ایسے کہتے ہیں، اب یاد رکھنا یہ سبق، میں یہ روز سنوں گا۔“ اس نے مصنوعی حکم جاری کیا۔
”جو حکم سرکار!“ اریبہ نے بھی مسکراتے ہوئے اس کے گال پر جوابی بوسہ دیا۔
”الله حافظ!“ وہ کہہ کر گاڑی سے اتر گئی۔
”اور گاڑی کو گاڑی سمجھ کر ہی آہستہ چلائیے گا، جہاز کی طرح اڑانے مت لگ جائیے گا روڈ پر۔“ اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے اس کی رش ڈرائیونگ کے پیش نظر تاکید کی۔
”جو حکم سرکار!“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے فرمابرداری کا مظاہرہ کیا اور پھر کار آگے بڑھا دی جس کے نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد وہ بھی سرشاری سے مسکراتی ہوئی گھر کی جانب بڑھ گئی۔
*****************************************
وقت بھی بڑی عجیب چیز ہے، جب کسی کے انتظار میں گزارو تو لگتا ہے قطرہ قطرہ کشکول میں گر رہا ہے اور یہ ہی وقت جب من پسند شخص کی قربت میں گزرے تو دیکھتے ہی دیکھتے مٹھی میں موجود ریت کی طرح پھسل جاتا ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی۔
صارم کی سنگت میں اریبہ کے شب و روز بھی ایسے ہی خوبصورتی سے گزر رہے تھے۔ ایک ہفتے بعد زاہد منصور دبئی سے تو واپس آگئے تھے مگر بدقسمتی سے اسی وقت کچھ کاروباری مسلہ ہوگیا تھا جس کی سنگینی دیکھتے ہوئے فی الحال صارم اور اریبہ نے خاموش رہنے میں عافیت جانی اور دونوں صحیح وقت کا انتظار کرنے لگے۔
اریبہ اس وقت فلیٹ کے کچن میں موجود صارم کی فرمائش پر کافی بنا رہی تھی۔ دونوں اکثر اوقات زیادہ تر وقت ایسے ہی یہاں فلیٹ میں ایک دوسرے کے ساتھ گزارتے تھے جیسے ابھی یہاں موجود تھے۔
”بن گئی کافی؟“ صارم نے کچن میں جھانک کر پوچھا۔
”نہیں!“ سپاٹ جواب ملا جس نے صارم کو بہت کچھ باور کروا دیا۔ بجائے کچھ کہنے کے وہ اس کے قریب آیا اور پیچھے سے دونوں بازو اس کے گرد حمائل کرکے ٹھوڑی اس کے کندھے پر رکھ لی۔
”ابھی تک کل والی بات پر ناراض ہو؟“ اس نے لاڈ سے پوچھا۔
”ہوں بھی تو آپ کو کون سا کوئی فرق پڑتا ہے میری کسی بات سے۔“ انداز اب بھی ویسا ہی روکھا تھا۔
”بلاوجہ اتنا بڑا الزام!“ اس نے مصنوعی حیرت دکھائی تو فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ اس کا حصار کھول کر اس کی جانب پلٹی۔
”آل موسٹ ایک مہینہ ہوچکا ہے ہمارے اس خفیہ نکاح کو جو صرف دو ہفتے کے وعدے پر کیا تھا آپ نے، اب تو سر زاہد بھی واپس آگئے ہیں مگر آپ نے ابھی تک اپنے گھر والوں سے بات نہیں کی، ان سب کے باوجود آپ کو میری فکر بلاوجہ لگ رہی ہے!“ اس نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے سنجیدگی سے دھیان دلایا۔
”ہاں تو کیسے کرتا بات؟ تم نے دیکھا نا کہ ڈیڈ کے واپس آتے ہی اچانک احمد گروپس نے کس طرح ڈیل کینسل کی ہے! کیسا نقصان ہوا ہے ہمیں جس کی وجہ سے ڈیڈ سخت پریشان تھے اور میں ایسی سیچویشن میں انہیں یہ بتاتا کہ میں نے تم سے شادی کرلی ہے!“ اس نے بھی سنجیدہ ہوکر اپنے دفاع میں کچھ نقطے اجاگر کیے۔
”ہاں ہوا تھا آفس میں مسلہ مگر اب وہ حل ہوچکا ہے، اب تو بات کرلیں صارم، اماں دن بہ دن میری شادی پر زور دینے لگی ہیں، اور کتنا ٹالوں میں انہیں!“ اس نے بےبسی سے سوال کیا جیسے اب تھک گئی ہو۔
”پریشان نہ ہو، میں موقع دیکھ کر آج یا کل بات کرتا ہوں ڈیڈ سے۔“ صارم نے دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھام کا اطمینان دلایا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گئی۔
*****************************************
”عمر! ٹی وی کا ریموٹ دینا۔“ تبریز نے پکار کر ہاتھ آگے بڑھایا لیکن عمر نے کوئی جواب نہیں دیا اور ہنوز فون میں مگن رہا۔
”ارحم ریموٹ دو ٹی وی کا۔“ اس نے جواب نہ پاکر ارحم کو پکارا۔ مگر ارحم بھی کوئی جواب کے بجائے اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھتا رہا۔
”تم دونوں کو ہو کیا گیا ہے؟ تم دونوں سے بات کر رہا ہوں میں۔“ وہ الجھا۔
”یہ ہی تو افسوس ہے کہ ہم سے بات کر رہے ہو مگر جس سے کرنی ہے اس سے نہیں کر رہے۔“ ارحم نے اس کی جانب دیکھ کر شکوہ کیا اور دوبارہ نوٹ بک کی جانب متوجہ ہوگیا۔
”کیا مطلب؟ کس سے بات کروں؟“ وہ سمجھ نہیں پایا۔
”عافیہ سے، ایک ڈیڑھ ہفتے بعد یونی میں فنکشن ہے، بس پھر اس کے بعد ہمارا یونی تک کا سفر ختم ہوجائے گا لیکن تم نے ابھی تک اس سے بات نہیں کی۔“ عمر نے تفصیلی توجہ دلائی۔
”ہاں تو کیسے کروں؟“ اس نے نظریں چرائی۔
”منہ سے کرو۔“ ارحم نے مشورہ دیا۔
”نہیں یار، میں نے سوچ لیا ہے کہ میں کوئی بات کرنے کے بجائے ارم سے اس کے گھر کا ایڈریس لے کر سیدھا امی اور تحریم کو رشتے کی بات کرنے بھیج دوں گا، اور پھر جو بھی باتیں کرنی ہیں وہ شادی کے بعد کروں گا۔“ اس نے بھی سنجیدگی سے اپنا ارادہ بتایا۔
”اور اگر اس نے تمہاری امی کو انکار کردیا تو!“ عمر نے خدشہ ظاہر کیا تو تبریز نے بےساختہ اس کی جانب دیکھا۔
”نہیں، نہیں کرے گی انکار۔“ اس نے جیسے خود کو تسلی دی۔
”ویسے میرا مشورہ مانو تو آنٹی کو گھر بھیجنے سے پہلے بس ایک بار سرسری طور پر اس سے کہہ دو کہ تم اسے پسند کرتے ہو اور رشتے کی بات کرنے کیلئے آنٹی کو گھر بھیجنا چاہتے ہو کیا اسے کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟ اس سے بہت سی باتیں واضح ہوجائیں گی۔“ عمر نے مخلصانہ مشورہ دیا۔
”عمر ٹھیک کہہ رہا ہے تبریز! آنٹی کو ان سب میں انولو کرنے سے پہلے ایک بار اس کی مرضی پوچھ لو، اس سے اجازت لے لو تا کہ تمھیں کوئی بھی فیصلہ لینے میں آسانی ہو۔“ ارحم نے بھی اس کی بھرپور تائید کی تو ان دونوں کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گیا۔
*****************************************
”ٹک ٹک ٹک!“ صارم نے آہستہ سے دروازے پر دستک دی۔
”آجاؤ!“ بھاری آواز میں اجازت ملنے پر وہ دروازہ دھکیلتے ہوئے آہستہ سے اندر داخل ہوا۔
سامنے زاہد منصور اپنی ایزی چیئر پر بیٹھے چشمہ لگائے کوئی کتاب پڑھنے میں مصروف تھے۔
”آپ نے بلایا ڈیڈ؟“ اس نے ادب سے پوچھا۔
”ہممم! آؤ بیٹھو۔“ انہوں نے نظریں ہنوز کتاب پر مرکوز کیے ہوئے اپنے سامنے صوفے کی جانب اشارہ کیا۔ وہ آکر ڈبل صوفے پر بیٹھ گیا۔
”میں نے تمھیں یہ بتانے کیلئے بلایا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے لڑکی پسند کرلی ہے۔“ انہوں نے کتاب پڑھتے ہوئے اطمینان سے بتایا جیسے شادی کیلئے لڑکی نہیں عید کا سوٹ پسند کیا ہو! وہ ہکابکا رہ گیا۔
”کون۔۔۔کون ہے وہ؟“ اس نے حیرت کو قابو کرتے ہوئے پوچھنے کی جسارت کی۔
”میرے دوست شاہنواز کی بیٹی، اقصیٰ!“ ان کا انداز اب بھی سرسری تھا۔ جب کہ صارم کے ذہن میں یکدم سیدھی سادی کم گو سی اقصیٰ کا سراپا ابھرا جسے اکا دکا بار اس نے کسی دعوت وغیرہ میں ہی دیکھا تھا۔
”کچھ دنوں میں جا کر ہم شادی کی تاریخ طے کر آئیں گے، بس یہ ہی بتانے کیلئے بلایا تھا تمہیں، اب تم جاسکتے ہو۔“ انہوں نے ساری بات کے دوران ایک بار بھی نظر اٹھا کر اپنے بیٹے کو نہیں دیکھا تھا جو کچھ کہنے کیلئے لفظ تول رہا تھا۔
”ڈیڈ! اگر میں کہوں کہ میں شادی کرچکا ہوں تو!“ اس نے محتاط انداز میں کریدا۔ اب ان کی سپاٹ نظریں اس کی جانب اٹھیں اور ان نظروں میں کچھ ایسا تھا جسے محسوس کرتے ہوئے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی۔
”تو فوری طور پر ایک بلینک چیک اس کے منہ پر مار کر اسے طلاق دو ورنہ دوسری صورت کوئی ایسی فٹ پاتھ ڈھونڈ لو جہاں گھر جائیداد سے عاق ہونے کے بعد تم بیٹھ کر بھیک مانگ سکو۔“ انہوں نے شعلہ بار نظریں اس کے چہرے پر گاڑ کر بہت سفاکی سے اسے کافی کچھ باور کروا دیا تھا۔
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ زاہد منصور کہنے نہیں کرنے والوں میں سے تھے اور جتنا انہوں نے بتایا تھا اس سے بھی زیادہ بھیانک انجام ہوسکتا تھا صارم کا اس عیش و عشرت بھری زندگی سے عاق ہونے کے بعد کیونکہ یہ سب اس کا نہیں اس کے باپ کا تھا جو ایک پل میں اس سے سب چھین سکتے تھے۔
*****************************************
”ثانیہ بتا رہی تھی کہ فیاض کی نوکری لگ ہے دبئی میں۔“ نورین نے سرسری انداز میں ذکر چھیڑا۔
”تو میں کیا کروں؟“ عافیہ نے بھی ناشتہ کرتے ہوئے لیا دیا سوال کیا۔
”کچھ نہیں، تم اپنی پڑھائی کرو بس۔“ ان کے سادہ سے انداز میں ماؤں والا روایتی طنز پوشیدہ تھا جسے وہ اچھے سے بھانپ گئی۔
”ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ، میں لیٹ ہو رہی ہوں یونی سے، چلتی ہوں۔“ اس نے چائے کا آخری گھونٹ لے کر کپ میز پر رکھا اور دوسری کرسی پر سے اپنا بیگ اٹھا کر انہیں ”الله حافظ“ کہتی باہر کی جانب بڑھ گئی۔ جب کہ وہ بےبسی سے ایک گہری سانس لے کر اپنا بچا ہوا ناشتہ مکمل کرنے لگیں۔
*****************************************
اریبہ ابھی ابھی فریش ہوکر باتھ روم سے نکلی تھی جب بیڈ پر پڑا اس کا موبائل میسج موصول ہونے پر بجا۔ اس نے قریب آکر موبائل اٹھایا تو صارم کا میسج ملا۔
”آج آفس مت آؤ، میں تھوڑی دیر تک تمہیں خود پک اپ کرنے آرہا ہوں، کچھ ضرور بات کرنی ہے۔“
یہ مختصر سا میسج پڑھ کر وہ متعجب تو ہوئی مگر فی الحال کیا اور کیوں جیسے سوال ملتوی کرتے ہوئے ”اوکے“ کا رپلائی کیا اور موبائل واپس رکھ کر سنگھار میز کے سامنے آگئی۔
*****************************************
”تبریز یاد ہے نا آج کیا کرنا ہے؟“ بائیک چلاتے ارحم نے تائید چاہی۔
”ہاں، جو کل یاد کیا تھا آج وہ ٹیسٹ دینا ہے سر عدنان کو۔“ بیچ میں بیٹھے تبریز نے جواب دیا۔
”ابے وہ ٹیسٹ نہیں امتحانِ عشق کی بات کر رہے ہیں ہم، آج تجھے ہر حال میں اس میں پاس ہونا ہے۔“ سب سے پیچھے بیٹھے عمر نے اس کے سر پہ چپت لگاتے ہوئے تصحیح کی۔
”کوشش کروں گا یار!“ وہ ابھی سے نروس ہونے لگا۔
”کوشش نہیں تمھیں یہ ہر حال میں کرنا ہے۔“ ارحم نے حکم صادر کیا۔
”ہاں، اور تیری مشکل آسان کرنے کیلئے میں نے نا تیرے لئے ایک شعر بھی ڈھونڈا ہے، تو یہ سنا دینا عافیہ کو تیری بات بن جائے گی، عرض کیا ہے، ٹوئینکل ٹوئینکل لٹل اسٹار، یو آر مائی پہلا پیار، کیسا ہے!“ عمر نے کہتے ہوئے آخر میں فخر سے پوچھا۔
”ایسا ہے کہ اگر عافیہ کا ہاں کرنے کا موڈ ہوا بھی تو یہ شعر سننے کے بعد وہ پکا انکار ہی کرے گی۔“ ارحم نے پہلے ہی پیشن گوئی کردی۔
”تو نے ارم کو بھی ایسی شاعری سنائی ہے کبھی؟“ تبریز نے سوال کیا۔
”نہیں، اسے شعر و شاعری پسند نہیں ہے۔“ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔
”تب ہی بچ گیا تو۔“ تبریز نتیجے پر پہنچا۔
”کیا مطلب؟“ وہ سمجھا نہیں۔
*****************************************
”مجھے بھی آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے صارم۔“ اریبہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے پرس کندھے سے اتارا۔
”پہلے میری بات سنو، وہ زیادہ اہم ہے۔“ وہ بھی کہتا ہوا سنگل صوفے پر بیٹھ گیا۔ دونوں اس وقت اسی فلیٹ میں موجود تھے جہاں اب تک یہ لوگ کئی قربت بھرے لمحات ایک دوسرے کی سنگت میں گزار چکے تھے۔
”میں نے ڈیڈ سے بات کی تھی تمہارے متعلق مگر وہ کسی صورت تمہیں قبول کرنے کیلئے راضی نہیں ہیں۔“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔ وہ بھی ہمہ تن گوش تھی۔
”بلکہ انہوں نے مجھے وارننگ بھی دی ہے کہ اگر میں نے تمہیں طلاق دے کر اقصیٰ سے شادی نہیں کی تو وہ مجھے گھر جائیداد سے عاق کردیں گے۔“ اس نے مزید بتایا۔
”تو پھر آپ نے کیا کہا؟“ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
”ڈیڈ کے سامنے کچھ بھی کہنے کی کسی کی کبھی ہمت نہیں ہوئی، ان کا ہر فیصلہ سب کو چپ چاپ ماننا پڑتا ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے بھی مان لیا۔“ ایک پل کے توقف کے بعد کہا گیا آخری جملا اس پر بجلی بن کر گرا۔
”ویسے تو تمہارا حق مہر ایک لاکھ تھا مگر یہ بلینک چیک ہے، اس پر سائن کردیے ہیں تم اپنی مرضی سے جتنی چاہو رقم بھر کر اسے کیش کروا لینا۔“ اس نے کوٹ کی جیب سے ایک چیک نکال کر درمیان میں موجود کانچ کی میز پر رکھا۔
”میں کچھ دنوں میں تمہیں تمہارا ریزیگنیشن لیٹر اور ڈائورس پیپرز بھیجوادوں گا، اس چیک کے بعد تمہیں جاب کی ضرورت تو رہے گی نہیں اسی لئے کاروباری اور ازدواجی، ہمارے دونوں تعلق اب سے ہمیشہ کیلئے ختم!“ وہ اطمینان سے اس کے دل پر چھری چلاتا گیا اور وہ اس قدر صدمے میں تھی کہ چیخ بھی نہ سکی۔
اسے لگ رہا تھا کہ ایک پل میں کسی نے اسے عرش سے فرش پر دھکا دیا ہے جس کے باعث اس کے جسم کی ایک ایک ہڈی چور چور ہوگئی ہے اور اب وہ کبھی اپنی جگہ پر سے ہل بھی نہیں سکے گی۔
”آ۔۔۔آپ۔۔۔آپ مجھے طلاق دیں گے صارم؟“ پھڑپھڑاتے لبوں نے بمشکل بےیقین سا سوال کیا۔
”ہاں!“ یک لفظی جواب ملا۔
”آپ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ تو محبت کرتے تھے مجھ سے!“ دکھ و بےبسی کے مارے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔
”آپ نے وعدہ کیا تھا مجھ سے کہ ہمیشہ میرا ساتھ دیں گے، اپنے گھر والوں سے بات کریں گے اس رشتے کو دنیا کے سامنے قبول کریں گے، تو پھر اب ایسا کیوں؟“ وہ بےیقینی کی کیفیت میں تھی۔
”لگتا ہے اصل بات بتانی ہی پڑے گی۔“ اس نے گہری سانس لیتے ہوئے خودکلامی کی اور پھر گویا ہوا۔
”تم سے کس نے کہا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟“
”آپ نے ہی تو کہا تھا۔“
”میں نے کہا اور تم نے مان لیا؟“ اس کی بات پر وہ لاجواب ہوگئی۔
”اپنی عقل لگا کر سوچا نہیں کہ مجھ جیسا ایک امیر و خوبصورت انسان بھلا تم جیسی معمولی لڑکی سے محبت کیوں کرے گا؟“ اس کے انداز میں حقارت تھی جس نے اریبہ کو ہکابکا کردیا۔
”نہیں سوچا ہوگا، تم جیسی لڑکیاں حقیقت اور فیکٹس اینڈ فیگرز کو سوچتی ہی کب ہو، تم جیسی لڑکیوں کی سوچوں پر تو وہ فلمیں، ڈرامے اور ناولز سوار ہوتے ہیں جن میں ایک امیر کبیر خوبصورت باس کو اپنی سیدھی سادی غریب ورکر سے محبت ہوجاتی ہے، پھر وہ دنیا سے بغاوت کرکے اس سے شادی کرتا ہے، اسے ننھی منی بنا کر رکھتے ہوئے اس کے ناز نخرے اٹھاتا ہے اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں، جب کہ حقیقت میں کہانی ایسی نہیں ہوتی، البتہ ایسی زندگی کی خواہش مند لڑکیاں بہت آسان شکار ضرور ثابت ہوتی ہیں۔“ وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگ پر ٹانگ رکھے بےنیازی سے اس کی دھجیاں اڑا رہا تھا جسے وہ دم سادھے سن رہی تھی۔
اس کی بات سفاک تھی، کڑوی تھی، تلخ تھی مگر۔۔۔۔۔حقیقت تھی!
واقعی اریبہ نے کیوں ایک پل کو بھی نہ سوچا کہ صارم جیسا انسان جس کیلئے لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں تھی وہ بھلا اس سے محبت کیوں کرنے لگا؟ وہ بھی اتنی جلدی؟ کیوں وہ صارم کی میٹھی میٹھی باتوں کے پیچھے چھپے اس کے زہریلی ارادے نہیں بھانپ سکی؟ عورت کو تو قدرت نے صلاحیت دی ہے نا مرد کی نیت جانچنے کی تو پھر وہ ایسا کیوں نہیں کر پائی؟ اور جواب تھا کیونکہ وہ ایسا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
صارم جیسے خوبرو شخص کی نگاہِ الفت پاتے ہی اس نے اپنے عقل و شعور کی آنکھیں بند کرکے خود کو اس کے سامنے پیش کردیا تھا کیونکہ اسے واقعی لگا تھا کہ کہانیوں کی طرح اصل زندگی میں بھی ایک خوبصورت شہزادے کو ایک غریب لڑکی سے پہلی نظر میں محبت ہوجاتی ہے۔
اس کے ذہن میں وہ سارے لمحات اندھی کی طرح گردش کرنے لگے تھے جب صارم نے اس سے محبت کا اظہار کیا تھا، اسے خود پر یقین دلایا تھا اور اس نے یقین کر لیا تھا۔ اس نے اپنے یقین کا یقین دلانے کیلئے تن اور من دونوں اسے سونپ دیے تھے جن سے وہ کھیل چکا تھا۔
”میں نے آپ پر یقین کیا تھا صارم!“ اس کی کانپتی ہوئی آواز کسی کھائی سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
”تو کیوں کیا تھا سویٹ ہارٹ؟ اپنی عقل لگاتی اور نہیں کرتی۔“ اس نے سیدھا سیدھا اس کا مذاق اڑایا۔
”میں نے کہا مجھے تم سے محبت ہے، تم نے مان لیا، میں نے کہا کہ ہم چھپ کر شادی کریں گے، تم نے مان لیا، میں نے کہا میں جلد سب کو اس شادی کا بتاؤں گا، تم نے مان لیا، اگر تمہاری جگہ کوئی مضبوط کردار کی سمجھدار لڑکی ہوتی تو وہ کبھی اتنی آسانی سے میری باتوں میں نہیں آتی، میں کامیاب ہوا نہیں ہوں، مجھے تم نے کامیاب کیا ہے جانِ من۔“ اس کی شہد رنگ آنکھوں میں عجیب شیطانی سے چمک تھی۔
”جانتی ہو تم میں مجھے پہلے دن سے اسی لئے انٹرسٹ ہوا تھا کیونکہ تم باقی لڑکیوں کی طرح زیادہ سمجھدار یا ہوشیار نہیں تھی اور میں تب ہی سمجھ گیا تھا کہ تمہیں شیشے میں اتارنا بہت آسان رہے گا۔“ وہ اول روز سے اپنے ارادے بتانے لگا۔
”اپنی کلاس کی خوبصورت لڑکیوں سے تو بہت افئیر رہے میرے مگر میں ان سب چالاک حسیناؤں سے بور ہوچکا تھا، اب میں اپنا ٹیسٹ بدلنا چاہتا تھا، موڈ فریش کرنا چاہتا تھا اور تب ہی تم آگئی جو ذرا سی تعریف پر ہی خوش ہوجاتی تھی، اسی لئے میں نے سوچا کہ اس بار کچھ نیا ٹرائی کیا جائے!“ اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتاتے ہوئے آخر میں دائیں آنکھ دبائی۔ اریبہ کے کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے یہ بھیانک حقیقت سن کر۔
”بس ایک پرابلم یہ تھی کہ تم جیسی لڑکیوں کی تان ہمیشہ شادی پر آکے ٹوٹتی ہے، تمہیں لگتا ہے کہ اگر کوئی شخص تم سے شادی کا وعدہ کر رہا تو وہ شادی کرے گا بھی، میں تمہیں بھی شادی کے وعدے پر ہی ٹرخا کر رکھنا چاہتا تھا مگر پھر تم اتنی آسانی سے میرے بیڈ روم تک نہیں آتی نا! اسی لئے اس خفیہ شادی کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑا، اور ابھی بھی کم از کم کچھ مہینے اور ایسے ہی تمہارے ساتھ انجوئے کرنے کا موڈ تھا میرا، مگر ڈیڈ نے ارجنٹ شادی کا فیصلہ سنا کر مجھے اپنے سارے قصے وائنڈ اپ کرنے کا آرڈر جاری کردیا، وہ باپ ہیں نا میرے، جانتے ہیں مجھے اچھی طرح!“ اس کا اطمینان قابل دید تھا۔ جسے دیکھ دیکھ کر اریبہ کی آنکھیں جلنا شروع ہوگئی تھیں۔
”آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا صارم!“ اس کے لہجے میں عجیب سی چبھن تھی۔
”او کم آن! اب زیادہ اوور ری ایكٹ مت کرو، میں بہت اچھے سے سمجھتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کی نیت، تم نے بھی کوئی محبت میں مجھ سے شادی نہیں کی تھی بلکہ یہ سب صرف پیسے کی چکاچوند تھی جو تمھیں مجھ تک کھینچ لائی اور تم نے اتنے بڑے بڑے قدم اٹھا لیے، ورنہ میری جگہ اگر کوئی کنگلا شخص تم سے یہ ساری ڈیمانڈز کرتا جو میں نے کیں کیا تب تم انہیں پورا کرتی؟ اس سے محبت کرتی؟ چھپ کر شادی کرتی؟ اس کی بانہوں میں وقت گزارتی؟ کبھی نہیں!“ اس نے درشتی سے کہتے ہوئے اس کی ذات کے پرخچے اڑائے۔ اور افسوس کہ یہ موقع اریبہ نے خود اسے دیا تھا۔
”اور تم لکی ہو کہ تم سے شادی کرلی تھی میں نے اسی لئے ڈیڈ نے تم سے پیچھا چھڑانے کیلئے یہ بلینک چیک دیا ہے تا کہ تمہیں کوئی شکایات نہیں رہے اور تم ہمیں ڈسٹرب نہ کرو، ورنہ آج سے پہلے میں نے کسی سے شادی نہیں کی تھی نا تو معاملات بھی میں خود ہی آسانی سے ختم کرلیا کرتا تھا۔“ وہ اپنی پراطمینان ٹون میں واپس آیا۔ وہ کچھ نہ بولی بس ساکت سی اسے دیکھتی گئی جس کی رنگ بدلنے کی رفتار نے گرگٹ کو بھی مات دے دی تھی۔
”اب جب رونے دھونے سے فارغ ہوجاؤ تو یہ چیک لے کر یہاں سے چلی جانا اور دوبارہ مجھ سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا، کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔“ وہ اپنی بات مکمل کرکے کھڑا ہوا اور بےنیازی سے جانے کیلئے قدم بڑھائے۔
”صارم!“ اس نے جذبات سے عاری لہجے میں پکارا۔
”اب کیا ہے؟“ وہ رک کر پلٹا۔
”میں آپ کے بچے کی ماں بننے والی ہوں۔“ اس نے اسی سپاٹ انداز میں اطلاع دی۔ اور اب حیران ہونے کی باری صارم کی تھی۔
”یہ کیا بکواس ہے؟“ وہ یکدم سٹپٹا کر واپس اس کی جانب آیا۔
”بکواس نہیں یہ آپ کی چند روزہ جھوٹی محبت کی نشانی ہے۔“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے تلخی سے تصحیح کی۔
”اور اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو یہ رہا ثبوت۔“ اس نے بیگ سے ایک خاکی رنگ کا لفافہ نکال کر صارم کی جانب اچھالا جو اس کے سینے سے لگ کر پرش پر گرا۔
اس نے جھک کر سفید ماربل کے فرش پر سے وہ خاکی لفافہ اٹھا کر کھولا جس میں اریبہ کی پریگنینسی ٹیسٹ رپورٹ تھی۔جس پر بہت واضح ”پازٹیو“ لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر چند لمحوں کیلئے وہ ششدر رہ گیا۔
”اب بتائیں، اب کیا کریں گے آپ؟“ اسے حیرت زدہ سا دیکھ کر اریبہ نے طنزیہ انداز میں جواب مانگا۔
”وہی جو پہلے کر رہا تھا۔“ اگلے ہی پل اس کی حیرت زائل ہوئی اور اس نے اطمینان سے رپورٹ پھاڑ دی جس سے اریبہ حیران ہوئی۔
”آپ ایسا نہیں کرسکتے، بھلے ہی رپورٹ آپ نے پھاڑ دی ہے مگر بچہ تو میری کوکھ میں ہے نا!“ اس نے دوسرا پہلو اٹھاتے ہوئے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا۔
”اس کا بھی حل ہے، میں کسی اچھی ڈاکٹر سے اپائنٹمینٹ لے لیتا ہوں تمہارے ابارشن کیلئے۔“ اس کا اطمینان ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔
”یہ آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ وہ پہلے والے صارم کیوں نہیں رہے! بھلا کوئی باپ خود اپنے بچے کو مارتا ہے۔“ وہ دکھ و حیرانی سے چلاتے ہوئے رو پڑی۔
”میں کیسے مان لوں کہ یہ میرا ہی بچہ ہے؟ ہوسکتا ہے تم کسی اور کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
”صارم! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟ ایسا سوچا بھی کیسے آپ نے؟ یہ آپ کا ہی بچہ ہے۔“ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے چیخ پڑی۔
”چلاؤ مت، جو حقیقت ہے وہ ہی کہہ رہا ہوں، جب تم اپنی ماں کو دھوکا دے کر مجھ سے تعلق قائم کرسکتی ہو، تو تمہارا کیا بھروسہ کہ مجھے بھی دھوکے میں رکھ کر اور کس کس سے تم نے۔۔۔۔۔۔۔۔“
”بس کردیں صارم، خدا کیلئے بس کردیں۔“ اس نے تڑپ کر دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھے۔
”کیوں! سچ سنا نہیں جا رہا؟“ اس نے طنز مارا۔
”آپ کو اتنی بےاعتباری ہے مجھ پر؟“ وہ دکھ سے بولی۔
”ہاں! نہیں ہے مجھے تم پر بھروسہ۔“ اس نے بھی دھڑلے سے اعتراف کیا۔
”اور محبت! جس کے آپ صبح شام دعوے کیا کرتے تھے؟“ اس نے یاد دلایا۔
”وہ بھی جھوٹ تھے، میں بس تمہارے ساتھ وقت گزاری کر رہا تھا، تم جیسی لڑکیاں شریف گھرانوں کی بہو بننے کیلئے نہیں، ٹائم پاس کیلئے ہوتی ہیں۔“ اس نے سفاکی سے باور کرایا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی جس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا۔
”تو اگر ٹائم پاس ہی کرنا تھا تو اپنے جیسے ہی کسی لڑکی سے کرتے جو آفس میں دن بھر آپ کے آگے پیچھے گھومتی رہتی ہیں، میری زندگی کیوں برباد کی آپ نے؟“ اس نے بھی صدمے کو ایک جانب رکھ کر طنز مارا۔
”کیونکہ وہ کمزور نہیں ہوتی، ان کا بیک گراؤنڈ اسٹرونگ ہوتا ہے جبکہ تم جیسی لڑکیاں سوائے رونے دھونے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔
”میں کمزور نہیں ہوں، میں لڑوں گی اپنے حق کیلئے۔“ اس نے آنسوں صاف کرتے ہوئے دھمکی دی۔
”اچھا! کیسے لڑوگی؟ کیس کرو گی مجھ پر؟ کون یقین کرے گا تمہارا؟ میں تو مکر جاؤں گا کہ یہ ناجائز بچہ میرا نہیں ہے، پھر؟“ اس نے پہلے ہی آگاہ کیا۔
”یہ آپ کا ہی بچہ ہے اور یہ ناجائز نہیں ہے، نکاح کیا ہے ہم نے۔“ وہ اپنی بات پر زور دیتے ہوئے چلائی۔
”اچھا! نکاح کیا ہے تو ذرا دکھاؤ کہاں ہے نکاح نامہ؟“ اس کا اطمینان تو ٹس سے مس نہیں ہوا مگر اس کے سوال نے اریبہ پر بجلی گرا دی کہ واقعی نکاح نامے کا تو اسے کبھی خیال ہی نہیں آیا۔
”آپ کے پاس ہے نکاح نامہ!“ اس نے جیسے اطلاع دی۔
”ہاں بالکل ہے، اور تمہیں کیا لگتا ہے کہ وہ میں تمہیں لاکر دے دوں گا تا کہ تم سب کو ہمارے بارے میں بتا سکو؟“ اس نے اعتراف کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں پوچھا۔ تو وہ لاجواب ہوگئی۔
مطلب وہ سب کچھ لٹا کر بھی خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔ نہ اس کے حصے میں جیت آئی تھی اور نہ اپنے دفاع کیلئے کوئی ہتھیار موجود تھا۔ اس کے حصے میں صرف خسارہ ہی آیا تھا۔
”آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں صارم؟ پلیز ایسا مت کریں، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے دھوکا نہیں دیں گے۔“ وہ شکستہ سی اس کے قدموں میں گر گئی۔
”وعدے جھوٹے بھی تو ہوتے ہیں سویٹ ہارٹ!“ اس نے ذرا سا جھک کر اس کے گال پر آئی لٹ کو انگلی سے پیچھے کیا۔
ٔ”اگر آپ نے ہی اس بچے کو اپنا نام دینے سے انکار کردیا تو میں سب کو کیا کہوں گی کہ یہ بچہ کس کا ہے؟ کون یقین کرے گا میرا کہ میں نے نکاح کیا تھا؟ پلیز صارم ایسا مت کریں، میں مرجاؤں گی۔“ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے التجا کی۔ وہ اس کے پیروں پر گری اپنے بچے کیلئے اس کی پہچان کی بھیک مانگ رہی تھی۔
”تو مرجاؤ، اتنی بڑی دنیا کے اتنے سارے لوگوں میں سے اگر ایک انسان کم ہوجائے گا تو کوئی فرق نہیں گا۔“ اس کی بےرحمی عروج پر تھی جس سے اس کے آنسوؤں میں شدت آنے لگی۔
”میری مانوں تو یہ رونا دھونا چھوڑو، یہ بلینک چیک لو، ابارشن کرواؤ اور آگے بڑھ جاؤ، ابھی پوری زندگی پڑی ہے تمہارے سامنے، کسی کو کیا پتا چلے گا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا!“ اس نے بےنیازی سے بڑا نادر مشورہ دیا۔
”نہیں، میں کسی صورت ابارشن نہیں کرواؤں گی، اپنی ماں کو دھوکا دے کر ایک گناہ تو پہلے ہی کرچکی ہوں، اب اپنے بچے کی جان لے کر اور گناہگار نہیں ہونا چاہتی میں۔“ اس نے صاف انکار کیا۔
”مرضی ہے تمہاری، جو کرنا ہے کرو مگر تھوڑی دیر بعد یہاں سے اور میری زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلی جانا، ورنہ پھر آگے تمہارے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا اس کی ذمہ داری تم خود ہوگی، آئی سمجھ!“ اس نے آخری بار سختی سے تنبیہہ کی اور بنا اس کی کوئی مزید بات سنے تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے چلا گیا۔
”صارم!“ وہ آخری بار روتے ہوئے حلق کے بل کرب سے چلائی اور جواباً اس کی پکار بند دروازے سے ٹکرا کر واپس پلٹ گئی۔
اک تجھ پہ تھا بھروسہ
تو زبان سے پھر گیا
اک پل میں آسماں سا
کوئی جیسے گر گیا
تیرے قدموں پہ تھا
رکھا میں یہ جہاں
ٹھکرایا تو مجھ کو
اب جاؤں میں کہاں
میری سمجھ نہ کچھ بھی آئے
میری جان چلی نہ جائے
اک تیرے بعد جینا ہے سزا
تو نے توڑا ہے دل کانچ سا
کُمار
*****************************************
”تبریز! عافیہ تھوڑی دیر پہلے ہی لائبریری گئی ہے، اچھا موقع ہے لائبریری میں جا کر ہی بول دے، اگر اس نے تجھے تھپڑ وغیرہ بھی مارا تو زیادہ لوگوں کو پتا نہیں چلے گا، کیونکہ رش کم ہی ہوتا ہے۔“ عمر نے قریب آکر مشورہ دیا تو وہ اسے گھورنے لگا۔
”چل تبریز اٹھ جلدی!“ ارحم بھی فوری طور پر گھانس پر سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی اٹھا لیا۔
”یار کیا ہوگیا ہے تم لوگوں کو؟“ تبریز نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے ٹوکا۔
”بس تم چلو آج فیصلہ ہو ہی جائے۔“ عمر نے اسے بازو پکڑ کر کھینچا۔ آج تو لگ رہا تھا کہ دونوں نے قسم کھائی ہوئی تھی اس سے اظہارِ محبت کروانے کی۔
”یار مجھے ڈر لگ رہا ہے۔“ تبریز نے دونوں کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔ وہ سچ میں نروس تھا۔
”جب پیار کیا تو ڈرنا کیا؟“ دونوں نے یک زبان کہا۔
تھوڑی دیر میں وہ لوگ لائبریری میں موجود تھے۔ عافیہ ایک ٹیبل پر بیٹھی کتاب پر کچھ لکھ رہی تھی اور خوش قسمتی سے اس وقت وہاں زیادہ لوگ بھی نہیں تھے۔
”وہ رہی عافیہ، جاؤ جلدی سے جا کر بول دو۔“ عمر نے سرگوشی کی۔
”تم لوگ بھی چلو!“ اس نے بےتكی بات کی۔
”پاگل ہے کیا؟ تجھے بولنا ہے تو جا۔“ ارحم نے بھی سرگوشی کرتے ہوئے اسے آگے کیا۔
”ہم لوگ وہاں اس بک شیلف کے پیچھے چھپ جاتے ہیں چلو۔“ عمر نے مشورہ دیا۔
پھر یہ دونوں عافیہ کے عقب میں بنے بک شیلف کے پیچھے چھپ گئے۔ جہاں سے انہیں تبریز صاف نظر آرہا تھا جب کہ عافیہ کی صرف پشت نظر آرہی تھی۔ دونوں نے اسے اشارہ کیا تو وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔
”ہائے عافیہ جی!“ اس نے ٹیبل کے قریب آکے پکارا۔
”السلام علیکم!“ حسب معمول اس نے ہائے کا جواب دینے کے بجائے لمحے بھر کو سر اٹھا کر سلام کیا اور واپس کتاب کی جانب متوجہ ہوگئی۔ جب کہ وہ دل میں خود کو کوس کر رہ گیا کہ کیا ضرورت تھی ہائے بول کر شروعات میں ہی بیڑا غرق کرنے کی!
”وعلیکم السلام!“ اس نے دھیرے سے جواب دیا اور ان لوگوں کی جانب دیکھا جو بک شیلف کے پیچھے سے جھانک رہے تھے۔
”بول نا!“ اس کے دیکھتے ہی دونوں نے اکسایا۔
”وہ مجھے۔۔۔۔آپ سے کچھ بات۔۔۔۔۔کرنی ہے۔“ اس نے رک رک کر تہمید باندھی۔
”پھر سے نوٹس چاہیے؟“ اس نے سر اٹھائے بنا مصروف انداز میں تائید چاہی۔
”نہیں نہیں، وہ بات نہیں ہے۔“ اس نے جلدی سے نفی کی۔
”تو پھر؟“
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟“ اس نے جواب دینے کے بجائے عافیہ کے سامنے والی کرسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
”بیٹھ جائیں۔“ اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے اجازت دی۔
وہ کرسی کھنچ کر بیٹھ گیا۔ جبکہ وہ ہنوز کتاب کی جانب متوجہ تھی۔
”دراصل میں کب سے آپ سے یہ بات کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔۔پر ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔ابھی بھی ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں آپ برا نہ مان جائیں!“ اس نے پھر کافی لمبی تہمید باندھی جس نے عافیہ کو کھٹکنے پر مجبور کردیا۔
”آخر ایسی بھی کیا بات ہے؟“ وہ کتاب بند کرتے ہوئے پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
”بات دراصل یہ ہے کہ۔۔۔۔۔آئی۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔“ وہ بات مکمل کرنے ہی والا تھا کہ عافیہ کا ٹیبل پر رکھا فون کال آنے کی وجہ سے وائبریٹ ہونے لگا۔
”مما کی کال اس وقت!“ عافیہ نے خودکلامی کی۔
”ایکسکیوزمی! میں ابھی آئی۔“ وہ معذرت کرتے ہوئے کھڑی ہوئی اور جلدی سے لائبریری سے باہر چلی گئی۔ جبکہ اس کے جانے کے بعد وہ دونوں بھی شیلف کے پیچھے سے نکل آئے۔
”کیا ہوا؟ بول دیا تو نے؟“ ارحم کو اشتیاق ہوا۔
”نہیں یار! بولنے ہی والا تھا کہ اس کی مما کی کال آگئی۔“ اس نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے بتایا۔
”اتنی دیر میں تجھ سے تین الفاظ بھی نہیں بولے گئے!“ عمر نے اسے لتاڑا۔
”کون سے الفاظ؟“
”آئی لو یو!“
”یار بولنے ہی والا تھا پر عین وقت پر کال آگئی۔“ اس نے صفائی دی۔
”چلو اب جب واپس آئے تو بول دینا جلدی سے۔“ ارحم نے دوسرا حل پیش کیا کہ تب ہی عافیہ عجلت میں اندر داخل ہوئی اور جلدی سے اپنی کتابیں بیگ میں رکھنے لگی۔
”کیا ہوا عافیہ جی؟ اتنی جلدی میں کیوں ہیں؟ سب خیر تو ہے نا؟“ تبریز کو بھی تشویش ہوئی۔
”نہیں، مما کی کال آئی تھی ایک ایمرجینسی ہوگئی ہے، مجھے ارجنٹ گھر بلایا ہے۔“ اس نے کتابیں بیگ میں ڈالتے ہوئے عجلت میں بتایا۔
”اگر کوئی زیادہ سیریس میٹر ہے تو ہم بھی چلیں آپ کی ہیلپ کیلئے؟“ تبریز نے پیشکش کی۔
”نہیں میں مینج کرلوں گی، شکریہ!“ اس نے اسی طرح جواب دیا اور برق رفتاری دکھاتے ہوئے وہاں سے باہر چلی گئی۔ جب کہ یہ دونوں تبریز کو گھور کر رہ گئے۔
*****************************************
جو قیامت اریبہ پر ٹوٹی تھی اس کے بعد کب وہ فلیٹ سے نکلی، رکشے میں گھر پہنچی اور آکر بستر پر گری؟ اسے کچھ ہوش نہیں تھا۔ یاد تھا تو بس اتنا کہ وہ برباد ہوگئی ہے، اس کی دنیا لٹ چکی ہے، جس کی ذمہ دار وہ خود تھی۔
”اریبہ! اٹھ جا بیٹا کچھ کھا لے۔“ فرحت نے اس کے سرہانے کھڑے ہوکر پکارا۔ پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”اریبہ! صبح ناشتہ بھی نہیں کرکے گئی تھی، آفس سے بھی جلدی آکر کمرے میں پڑی ہوئی ہے، کیا ہوگیا تجھے؟ میں پچھلے ہفتے سے دیکھ رہی ہوں کہ تیری طبیعت بہت گری گری سی لگ رہی ہے۔“ انہیں صحیح معنوں میں اس کی فکر ہو رہی تھی۔ مگر وہ سن کر بھی ان کی کسی بات کا جواب نہیں دے پا رہی تھی۔ بس چپ چاپ بیڈ پر اوندھی پڑی تھی۔
”اریبہ اٹھ جا! کیوں مجھے ڈرا رہی ہے!“ اب انہوں نے اس کا کندھا جھنجھوڑا۔
تب ہی اچانک وہ اٹھی اور باتھروم کی جانب بھاگی۔ فرحت بھی جلدی سے اس کے پیچھے آئیں۔ اسے الٹی ہو رہی تھی۔ وہ جلدی سے اس کی پیٹھ سہلانے لگیں جب کہ اندر ہی اندر ان کے دل میں ہزاروں خدشات سر اٹھا رہے تھے۔ الٹی کرکے وہ واپس کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھ گئی۔
”کیا ہوا ہے تجھے؟“ انہوں نے بھی کمرے میں آکر کھوجتی ہوئی نگاہوں سے پوچھا۔ مگر وہ خاموشی سے انہیں دیکھتی رہی۔
”میں کچھ پوچھ رہی ہوں تجھ سے، کیا ہوا ہے تجھے؟“ اب کی بار انہیں غصہ آگیا۔
”انہوں نے نکاح کیا تھا مجھ سے، یہ ناجائز نہیں ہے۔“ آخر کار اس نے زبان کھول دی۔ اور فرحت پر تو گویا ساتوں آسمان ہی ٹوٹ پڑے، پیروں تلے زمین نکل گئی، سماعتوں پر جیسے بم گرگیا اور زبان گنگ ہوگئی۔
”اماں! میرا یقین کرو انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ۔۔۔۔۔۔“
”چٹاخ!“ انہوں نے زوردار تھپڑ مارا جس سے اس کی بات بیچ میں ہی رہ گئی۔
”یہ دن دیکھانے سے پہلے تو مر کیوں نہیں گئی کمبخت!“ وہ غم و غصے سے چلائیں۔
”اماں میری بات تو سنو۔“ اس نے ان کے قریب آتے ہوئے وضاحت کرنی چاہی۔
”خبردار! جو تو میرے قریب آئی یا اپنی گندی زبان سے مجھے اماں کہا تو۔“ انہوں نے پیچھے ہٹتے ہوئے ٹوکا۔
”ایسا مت بولو اماں، تمہارے سوا میرا اور ہے ہی کون؟ تم بھی ایسا کرو گی تو میں اور کہاں جاؤں گی؟“ وہ بےبسی سے رو پڑی۔
”یہ سب تجھے تب سوچنا چاہئے تھا جب تو یہ سب کر رہی تھی۔“ وہ نفرت سے بولیں۔
”غلطی ہوگئی مجھ سے معاف کردو۔“ اس نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے۔ فرحت نے کچھ نہیں کہا اور وہاں سے ہٹ کر بیڈ پر آ بیٹھں۔ وہ بھی جلدی سے ان کے پیروں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔
”کون ہے وہ؟“ انہوں نے بنا اس کی جانب دیکھے پوچھا۔
”وہ ہی جو اس دن مجھے گھر ڈراپ کرنے آئے تھے، میرے باس صارم منصور!“ اس نے آہستہ سے بتایا۔
”بلا اسے ابھی۔“
”وہ نہیں آئیں گے۔“
”کیوں؟“
”کیونکہ انہوں نے مجھے دھوکا دیا ہے، وہ بس میرے ساتھ وقت گزاری کر رہے تھے، اب انہوں نے مجھے چھوڑ کر نوکری سے بھی نکال دیا ہے اور کچھ دنوں میں طلاق بھی دے دیں گے۔“ اس نے دکھ سے اپنی آپ بیتی سنائی جسے سن کر ان پر ایک اور بم گرا۔ وہ پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگیں۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس وقت وہ غصہ کریں یا ماتم؟
”وہ تو میرے بچے کو بھی مارنا چاہتے تھے پر میں ایسا نہیں کروں گی، میں نے سوچ لیا ہے اماں کہ میں کہیں اور نوکری کرلوں گی، اس بچے کو جنم دوں گی، اچھا انسان بناؤں گی، بس تم میرا ساتھ دینا۔“ اس نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے سہارا مانگا۔ مگر وہ خاموشی سے اسے تکتی رہیں۔
”اماں کچھ تو بولو مجھے ڈر لگ رہا ہے تمہاری خاموشی سے۔" اریبہ نے تشویش کے عالم میں انہیں ہلایا تو وہ بےسدھ ہوکر بیڈ پر گی گئیں۔
”اماں! اماں! کیا ہوا تمہیں؟“ اس نے گھبرا کر ان کے گال تھپتھپائے۔ مگر انہوں نے کوئی حرکت نہ کی جس کے باعث اس کا دل بھی بند ہونے لگا۔
**************************************
فرحت کو ہارٹ اٹیک ہوا تھا اس وقت وہ ایمرجینسی میں تھیں اور اریبہ ویٹنگ ایریا میں ایک جاننے والی کے ساتھ بیٹھی ہوئی مسلسل رو رو کر اپنی ماں کیلئے دعائیں کر رہی تھی مگر ابھی تک ڈاکٹر نے کچھ نہیں کہا تھا۔
”فرحت بی بی کے ساتھ کون ہے؟“ نرس نے آکر پوچھا۔
”جی میں ہوں۔“ وہ جلدی سے کھڑی ہوئی۔
”آجائیں آپکو ڈاکٹر بلارہے ہیں۔“ اس کے اطلاع دینے پر وہ جلدی سے نرس کے پیچھے ایمرجینسی کی جانب آئی۔
”کیا ہوا ڈاکٹر؟ میری اماں ٹھیک تو ہیں نا!“ اس نے بے تابی سے پوچھا۔
”سوری، ہارٹ اٹیک بہت خطرناک تھا، یہاں آنے سے پہلے ہی ان کی ڈیتھ ہوچکی تھی۔“ ادھیڑ عمر ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ انداز میں بتایا تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”تھوڑی دیر میں آپ ڈیتھ باڈی کو لے جاسکتی ہیں۔“ انہوں نے اسی انداز میں آگاہ کیا اور ایکسکیوز کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
جب کہ وہ ہکابکا سی وہیں فرش پر بیٹھ گئی۔ اس کا آخری سہارا بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا تھا اور وہ کچھ نہیں کرسکی تھی۔
”نہیں! نہیں! اماں نہیں جا سکتی، مرنا تو مجھے چاہئے تھا، اماں میری وجہ سے گئی ہیں، میں نے مارا ہے انہیں، میں ان کی قاتل ہوں۔“ وہ روتے ہوئے زور زور سے کہہ رہی تھی۔ جس سے آس پاس کے چند لوگ اسے سنبھال کر چپ کرانے آگئے۔
”نہیں! اماں مجھے چھوڑ کر کیوں چلی گئی تم؟ اب میں اکیلی کیا کروں گی؟ اتنی بڑی سزا مت دو مجھے، تمہاری جگہ میں کیوں نہیں مرگئی۔“ اس کی دہائیوں میں شدت آنے لگی۔
وہ رو رہی تھی، چلا رہی تھی مگر اب سب بیکار تھا۔ ان کے جیتے جی ان کی کسی نصیحت کو نہ مان کر بلآخر اس کے حصے میں صرف پچھتاوا آیا تھا۔
شک تو تھا محبت میں خسارے ہوں گے
یقین نہ تھا کہ سارے ہی ہمارے ہوں گے
انتخاب
*****************************************
”ارحم! ایک شعر عرض کیا ہے سن!“ صوفے پر لیٹے عمر نے پکارا۔
”بکو!“ اس نے کپڑے استری کرتے ہوئے حسب معمول ٹکا سا جواب دیا۔
”ایک عجیب سی کیفیت ہے۔“
”ایک عجیب سی کیفیت۔۔۔۔۔۔۔۔!“
”ہاں تو نہا لے جا کر کیفیت ٹھیک ہوجائے گی۔“ اس کا شعر مکمل ہونے سے قبل ہی ارحم نے ٹوکا۔
”بیچ میں بکواس کرنی ضروری تھی!“ اس نے خفگی سے گھورا۔ تب ہی فلیٹ کا دروازہ کھلا اور تبریز اندر آیا جو کہیں باہر گیا ہوا تھا۔
”تبریز! تو بھی اپنے وہ کپڑے دے دے جو کل پارٹی میں پہننے والا ہے میں استری کر دیتا ہوں۔“ ارحم نے پیشکش کی جو استری اسٹینڈ نہ ہونے کے باعث کارپٹ پر چادر بچھائے بیٹھا اس پر اپنے اور عمر کے کپڑے استری کر رہا تھا۔
”میں نہیں آرہا یار پارٹی میں۔“ وہ بےدلی سے کہتا سنگل صوفے پر بیٹھا۔
”کیوں؟“ یک زبان سوال آیا۔
”دو ہفتے ہوگئے ہیں یار عافیہ جو اس دن ارجنٹ گھر سے کال آنے کے بعد گئی تھی ابھی تک دوبارہ یونی نہیں آئی، پتا نہیں اس کے ساتھ کیا مسلہ ہوا ہوگا؟“ اس نے وہ فکر ظاہر کی جو اسے کب سے پریشان کر رہی تھی۔
”ارم نے بتایا تو تھا نا کہ کچھ مسلہ ہوگیا ہے اس کے گھر میں اسی لئے نہیں آرہی۔“ عمر نے صوفے پر اٹھ کر بیٹھتے ہوئے یاد دلایا۔
”ہاں بس اتنا ہی پتا ہے اسے بھی، مسلہ کیا ہوا ہے یہ تو اسے بھی نہیں معلوم نا!“ اس نے تصحیح کی۔
”تو اس کا پارٹی میں نہ جانے سے کیا تعلق؟ بلکہ ہوسکتا ہے کہ کل عافیہ بھی آجائے!“ ارحم نے خیال ظاہر کیا۔
”اتنے دنوں سے یونی تو آ نہیں رہی اور پارٹی میں آئے گی!“ اس نے الٹا طنز مارا۔
”ہاں، ارم نے بتایا تھا کہ عافیہ نے کہا ہے شاید وہ کل آئے۔“ تب ہی عمر نے کہا تو تبریز نے بےساختہ اس کی جانب دیکھا۔
”سچ میں؟“ اس نے تائید چاہی۔
”ہاں سچی یار!“ اس نے زور و شور سے سر ہلایا تو تبریز بھی سوچ میں پڑ گیا۔
*****************************************
پورا ”منصور ولا“ اس وقت جھلمل کرتی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا اور ہوتا بھی کیوں نہیں؟ آج زاہد منصور کے اکلوتے بیٹے کی بارات جو تھی۔ وہ اپنے قول کے اتنے پکے ثابت ہوئے تھے کہ آدھے معاملات تو وہ پہلے ہی طے کرچکے تھے اور باقی آدھے بھی انجام تک پہنچا کر بلآخر انہوں نے شاہنواز سے اپنی دوستی رشتے داری میں بدل لی تھی جس کا سیدھا فائدہ ان کے کاروبار کو ہوا تھا کیونکہ بہو جہیز میں لاکھوں کے شیئرز جو لائی تھی اسی لئے وہ اس شادی میں بالکل دیر نہیں کرنا چاہتے تھے۔
کچھ دیر قبل ہی اقصیٰ رخصت ہوکر ”منصور ولا“ آئی تھی اور اب سب رسموں سے فارغ ہوکر خوشی خوشی صارم اپنے کمرے میں آیا تھا جہاں اس کی نئی نویلی دلہن پھولوں سے سجے بیڈ پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی گلاب و موتیا کی دلفریب خوشبو اس کی سانسوں سے ٹکرائی جس نے مزاج کو مزید سرشار کردیا۔ وہ متوازن انداز میں چلتا بیڈ کے قریب آیا جس کے وسط میں اقصیٰ اپنا سرخ لہنگا پھیلائے بیٹھی تھی۔ وہ آکر اس کے نزدیک بیٹھ گیا جو دلہن بنی بہت پیاری لگ رہی تھی۔
”اچھی لگ رہی ہو تم!“ اس نے بات شروع کی۔
”تھینکس!“ وہ مسکائی۔
”پتا ہے یہ لہنگا میں نے پسند کیا تھا تمہارے لئے اور یہ تم پر اچھا بھی لگ رہا ہے۔“ اس نے دلچسپی سے بتایا۔
”اچھا! مطلب آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں صرف آپ کی پسند کہ لہنگے گی وجہ سے اچھی لگ رہی ہوں؟“ اس نے تھوڑا مصنوعی نروٹھا پن دکھایا تو یک لخت صارم کے ذہن میں ایسی ہی نروٹھی سی ایک آواز گونجی اور ساتھ ہی ایک منظر تازہ ہوا۔
”اف! خوبصورت!“
”تھینکس!“
”تم تھینکس کیوں بول رہی ہو؟ میں تو ساڑھی کی تعریف کر رہا ہوں۔“
”تو مجھے پہننے کا کیوں کہا؟ ایسے ہی اس کی شان میں قصیدے پڑھ لیتے!“
وہ لمحات، وہ انداز، وہ شخص یاد آتے ہی اس کی بےساختہ مسکراہٹ غائب ہوئی تھی اور وہ اپنی جگہ پر ساکت ہوگیا۔
”صارم!“ اسے یوں بت بنا دیکھ اقصیٰ نے پکارا تو وہ یکدم چونکا۔
”کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟“
”ہاں میں ٹھیک ہوں، تم تھک گئی ہوگی نا! جاؤ چینج کرکے فرش ہوجاؤ۔“ صارم نے اس کے خیالات کو جھٹکتے ہوئے بات ہی بدل دی جس پر وہ خاصی متعجب ہوئی۔
”آپ کو برا لگا کیا؟ میں نے تو بس مذاق میں کہا تھا، آئی ایم سوری۔“ اس نے متفکر ہوکر وضاحت دی کہ کہیں صارم کو اس کا مذاق تو برا نہیں لگ گیا تب ہی یکدم اس کا ہشاش بشاش مزاج بدل گیا ہے!
”نہیں وہ بات نہیں ہے، بس تھوڑی فنکشن کی تھکن ہے، تم بھی تھک گئی ہوگی اسی لئے کہہ رہا ہوں چینج کرکے ایزی ہوجاؤ۔“ اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے بات بنائی تو وہ مزید کوئی سوال کرنے کے بجائے اپنا لہنگا سنبھالتی بیڈ سے اتر کر چینج کرنے چلی گئی۔ جبکہ وہ اٹھ کر گیلری میں آگیا۔ اسے اچانک ہی بہت گھٹن سی محسوس ہونے لگی تھی جس کے باعث اس نے شیروانی کے اوپری بٹن کھول دیے اور گہری سانس لینے لگا۔
”آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں صارم! پلیز ایسا مت کریں، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے دھوکا نہیں دیں گے۔“
اس کے ذہن میں پھر وہ ہی آواز گونجی۔
”اگر آپ نے اس بچے کو اپنانے سے انکار کردیا تو میں سب کو کیا کہوں گی کہ یہ بچہ کس کا ہے؟ کون یقین کرے گا میرا کہ میں نے نکاح کیا تھا! پلیز صارم ایسا مت کریں، میں مرجاؤں گی۔“
اس کی دلسوز سدائیں اسے مسلسل اپنے قریب آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔ اسے لگ رہا تھا کہ ان چیخوں سے اس کے کان کے پردے پھٹ جائیں گے۔ اس آخری ملاقات کے بعد اسے لگا تھا کہ اس نے قصہ ختم کردیا ہے۔ مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس کی سدائیں اس کی روح سے اس قدر چپک جائیں گی کہ اسے چین نہیں لینے دیں گی۔
اسے لگتا تھا کہ دولت ہر چیز کا حل ہے اسی لئے اپنی طرف سے اریبہ کو منہ مانگی رقم دینے کے بعد وہ یہ سوچ کر مطمئن تھا کہ وہ بھی اتنی رقم پانے کے بعد ناصرف اسے بھول گئی ہوگی بلکہ باقی کی زندگی عیش سے گزار لے گی۔ مگر وہ سمجھ نہیں پایا کہ اریبہ کو در حقیقت اس کی دولت نہیں اس کا ساتھ چاہیے تھا اور وہ ہی اس نے نہیں دیا۔
نہ جانے وہ اور کتنی دیر یوں ہی کھڑا اس اندیکھی جنگ میں الجھا رہتا اگر اقصیٰ آکر اسے نہیں پکارتی۔
”صارم! یہاں کیا کر رہے ہیں آپ؟“ اس کی آواز پر وہ چونک کر پلٹا جو چینج کرنے کے بعد اب ریڈ کلر کے نائٹ سوٹ میں تھی۔
”کچھ نہیں، تم چلو میں بھی آیا۔“ اس نے مختصر جواب دیا تو وہ سرہلا کر چلی گئی۔
چند لمحے گہری گہری سانسیں لے کر خود کو نارمل کرنے کے بعد وہ بھی کمرے میں آیا اور بالکونی کے گلاس ڈور کو بند کرکے اس پر پردہ لگا دیا۔
بچھڑنا ہے تو خوشی سے بچھڑو
سوال کیسے؟ جواب چھوڑو
کسے ملی ہیں جہاں کی خوشیاں
ملے ہیں کس کو عذاب چھوڑو
نئے سفر پر جو چل پڑے ہو
مجھے خبر ہے کہ خوش بڑے ہو
ہے کون اجڑا تمہارے پیچھے؟
یہ کس کے ٹوٹے ہیں خواب چھوڑو
محبتوں کے تمام وعدے
نبھائے کس نے بھلائے کس نے
تمہیں پشیمانی ہوگی جاناں
جو میری مانو حساب چھوڑو
انتخاب
*****************************************
ایک بھرپور روشن صبح زمین پر اتر کر سیدھا اس کمرے میں چلی آئی تھی جس کے مکین ابھی تک میٹھی نیند میں تھے۔
پھولوں سے سجے بیڈ پر صارم سیدھا لیٹا ہوا تھا اور وہ اس کے سینے پر سر رکھ کر سو رہی تھی۔
صارم نے نیند میں کروٹ لی اور اپنے ساتھ سوئے وجود کو خود میں مزید بھینچ لیا جس کے باعث اس کے بالوں کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ یہ خوشبو اسے کچھ مانوس سی لگی اور نیند میں مدہوش ہوئے ذہن نے یاد دلایا کہ یہ خوشبو تو اریبہ کی زلفوں سے آیا کرتی تھی۔ اریبہ کو اپنے پاس محسوس کرتے ہوئے وہ اسے خود میں مزید بھینچنے لگا اور اس کا چہرہ دیکھنے کیلئے صارم نے موندی موندی آنکھیں کھولیں تو اریبہ کے بجائے ایک اجنبی چہرہ اپنے سینے سے لگا دیکھ سٹپٹاتے ہوئے یکدم اس سے الگ ہوا جس کے باعث اس اجنبی کی بھی نیند ٹوٹ گئی۔
”تم کون ہو؟“ وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے حیرت سے بولا۔ اس کی آنکھوں میں اجنبیت تھی۔
”کیا ہوگیا صارم؟ میں اقصیٰ ہوں آپ کی بیوی، کل ہماری شادی ہوئی ہے۔“ اس کا حیرت زدہ سا ناآشنا تاثر دیکھتے ہوئے اقصیٰ نے بھی متعجب انداز میں وضاحت کی۔
اس کی بات پر آہستہ آہستہ صارم کا ذہن بیدار ہوا تو اسے سب کچھ یاد آیا۔ اس کے ذہن و دل پر اریبہ کے ساتھ گزرے لمحات ایسے نقش ہوئے تھے کہ نیند میں بھی اس کا خیال نہیں جا رہا تھا اور ابھی بھی غنودگی کے عالم میں اسے لگا اس کی بانہوں میں اریبہ ہی ہے۔ اس نے بےساختہ آنکھیں میچھ کر اپنی پیشانی مسلی۔
”آپ ٹھیک تو ہیں نا! کہیں کوئی خواب تو نہیں دیکھا!“ وہ بھی اس کی یہ عجیب الگ دیکھ کر متفکر ہوئی۔
”ہاں میں ٹھیک ہوں، بس شاید کل کی تھکن نہیں اتری ہے۔“ اس نے نظریں ملائے بنا بات بنائی اور پھر بستر سے نکل کر فریش ہونے چلا گیا جسے وہ ناسمجھی سے دیکھ کر رہ گئی۔
باتھ روم میں آکر وہ شاور کھولے اس کے نیچے ایسے کھڑا تھا جیسے اس کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی ہو اور یہ اسے بجھانے کی کوشش ہو!
دونوں ہاتھ دیوار پر ٹکائے، آنکھیں بند کیے وہ ہلکا سا سر جھکائے کھڑا تھا اور شاور سے نکلتا ٹھنڈا پانی اس کے لباس سے عاری کسرتی جسم پر پھسلتا جا رہا تھا۔ جس قصے کو وہ اپنی زندگی کا ایک معمولی باب سمجھ کر اپنے تئیں ختم کر آیا تھا در حقیقت وہ قصہ اس کے ذہن و دل پر پنجے گاڑ کر اس کی روح سے چمٹ گیا تھا۔ کبھی نہ الگ ہونے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔
جسے سمجھا تھا تو نے زخم معمولی
ابھی تو وہ اذیت کا ناسور بنے گا
جو شمع جلائی تھی کسی کے دل میں
اس کی جلن میں خود تو بھی جلے گا
ہے بےبسی کیا چیز؟ تڑپ کیا ہوتی ہے؟
چھوڑ کر جانے والے کو بھی اب پتا چلے گا
از فریال خان
*****************************************
پارٹی کی وجہ سے آج یونیورسٹی کی رونق ہی الگ تھی۔ کافی سارے لڑکے لڑکیاں ہنستے مسکراتے آڈیٹوریم میں اکھٹا اس پارٹی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کیونکہ یہ ان سب کے کئی سالہ سفر کا اختتام تھا۔ اس کے بعد کتنے ہی دوست یونیورسٹی سے نکلنے کے بعد اپنی اپنی زندگیوں کے جھمیلوں میں الجھ کر ایک دوسرے کو کھونے والے تھے یہ کوئی نہیں جانتا تھا اسی لئے سب آج ہی جی بھر کر ایک دوسرے سے مل رہے تھے اور یہاں ساتھ بنی اپنی پرانی یادیں تازہ کر رہے تھے۔
ان سب کے برعکس وائٹ شوز پر بیلو جینز، اور بیلو شرٹ کے اوپر وائٹ جیکٹ پہنے کلین شیو بجھے چہرے پر متلاشی نظریں لئے تبریز کب سے بس اس ایک چہرے کو ڈھونڈ رہا تھا جس کی غیر موجودگی سے اسے یہ سب کچھ ویران لگ رہا تھا۔
”چل نا یہاں آ، دیکھ وصی کتنا اچھا گانا گا رہا ہے گیٹار پر!“ عمر کہتا ہوا تبریز کے پاس آیا۔
”تو نے کہا تھا کہ عافیہ آج آئے گی، کہاں ہے وہ؟“ اس کی بات نظر انداز کرکے اس نے اپنا سوال اٹھایا۔
”آجائے گی، تب تک تھوڑا انجوئے ہی کرلے۔“ اس نے سہولت سے کہا۔
”تو کر جا کے انجوئے!“ حسب توقع ٹکا سا جواب آیا۔ اس سے قبل کہ عمر جواباً کچھ کہتا اسے عافیہ آتی ہوئی نظر آئی۔
”وہ دیکھ آگئی!“ عمر کے کہنے پر تبریز نے بھی اس کے تعاقب میں دیکھا۔
نیلے رنگ کے سادے سے سوٹ میں، اپنے مخصوص انداز میں تیار عافیہ متلاشی نظروں سے غالباً ارم کو ڈھونڈتی ہوئی آرہی تھی۔ اسے دیکھ کر تبریز کو لگا جیسے گھٹن زدہ ماحول میں اچانک ٹھنڈی ہوا چل پڑی ہو جس میں اب وہ باآسانی سانس لے سکتا ہے۔
”تبریز! یہاں آ یار!“ تب ہی ارحم نے پکارا جو باقی گروپ فرینڈز کے ساتھ بیٹھا تھا اور ان سب کا مرکز گیٹار بجاتا وصی بنا ہوا تھا۔
”اب تو آگئی وہ، دیکھ لیا اسے، چل اب چل کر ایک گانا سنا دے، تیرے نام پر بھرم مار کر آیا ہوں ابھی میں۔“ عمر نے دوبارہ کہا تو اب کی بار وہ بنا ناک منہ بنائے خوشدلی سے اس کے ساتھ باقی گروپ کے پاس آگیا۔
عافیہ نے ارم کو ڈھونڈ لیا تھا اور اب دونوں ساتھ کھڑی آپس میں کچھ بات چیت کر رہی تھیں جن سے کچھ ہی فاصلے پر تبریز گروپ میں بیٹھا ہوا تھا۔
”آل رائٹ، تو اب میرا دوست گانا گا کے سنائے گا۔“ عمر نے کہتے ہوئے کرسی پر گیٹار لیے بیٹھے تبریز کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ سب نے تالیاں بجا کر اس کی حوصلہ افزائی کی اور اگلے ہی پل اس نے گیٹار کے تار چھیڑے جس سے عافیہ اور ارم بھی متوجہ ہوئیں۔
”کاش اک دن ایسا بھی آئے“
”وقت کا پل پل تھم جائے“
”سامنے بس تم ہی رہو“
”اور عمر گزر جائے“
وہ براہ راست عافیہ کو دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے در حقیقت اسی کیلئے گا رہا تھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی جب کہ باقی سب بھی اس کی گائیکی سے کافی متاثر ہو رہے تھے۔
”تجھے دیکھ کر“
”تجھے سوچ کر“
”میں نے جو پل جیا تھا“
”اسے دل کے ہی کسی کونے میں“
”بس قید کر لیا تھا“
”کچھ اور لمحے تم سے ملے“
”تو دنیا سنور جائے“
”کاش اک دن ایسا بھی آئے“
”وقت کا پل پل تھم جائے“
”سامنے بس تم ہی رہو“
”اور عمر گزر جا۔۔۔۔!“
”او ہیلو!“ وہ گانا گا رہا تھا کہ یکدم عمر نے ٹوکا۔
”تمہیں عشق عاشقی کرنی ہے تو کرو مگر مجھے تو بد دعا مت دو یار!“ عمر نے خفگی سے شکوہ کیا۔
”میں نے تجھے کب بد دعا دی؟“ تبریز حیران ہوا۔
”ابھی دو بار تم نے کہا نا کہ سامنے بس تم ہی رہو اور عمر گزر جائے! میں کیوں گزروں؟ گزریں میرے دشمن۔“ اس نے تنک کر وضاحت کی تو تبریز اسے گھور کر رہ گیا جب کہ باقی سب کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا جس میں ارم بھی شامل تھی۔ مگر عافیہ نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ تبریز کو محسوس ہوا جیسے وہ کچھ پریشان سی ہے۔
”لے! تو ہی گا لے اب۔“ وہ گیٹار اسے تھماتا کرسی پر سے اٹھا تو عمر فوراً اس کی جگہ پر گیٹار سنبھالتے ہوئے بیٹھا۔
”اب میں بتاتا ہوں کہ گانا کیسے گاتے ہیں؟“ اس نے ایک ادا سے کہتے ہوئے گیٹار بجایا۔
”اینڈ دس از اسپیشلی فار مائی ڈئیر فرینڈ۔“ (اور یہ خاص طور پر میرے عزیز دوست کیلئے ہے) اس نے تبریز کی جانب اشارہ کیا۔
”ہتھیلی پر تمہارا نام“
”لکھتے ہیں مٹاتے ہیں“
”تم ہی سے پیار کرتے ہیں“
”تم ہی سے ہی کیوں چھپاتے ہیں“
”زبان پر بات ہے لیکن“
”سنانا ہی نہیں آتا“
”ہمیں تم سے محبت ہے“
”بتانا بھی نہیں آتا“
”چھپانا بھی نہیں آتا“
”جتانا بھی نہیں آتا“
”ہمیں تم سے محبت ہے“
”بتانا بھی نہیں آتا“
عمر نے صحیح معنوں میں تبریز کے حالات کی ترجمانی کردی تھی جس کے باعث پل بھر کو وہ گڑبڑایا کہ کہیں سب کو اس کی خبر نہ ہوجائے مگر سب گانا انجوئے کرنے میں مصروف تھے۔ اس نے کن انکھیوں سے عافیہ کو دیکھا جو یہاں ہوتے ہوئے بھی کہیں اور کھوئی ہوئی لگی۔
”چوری چوری، چپکے چپکے“
”تم کو دیکھا کرتے ہیں“
“حالِ دل سنانے سے پھر“
”نہ جانے کیوں ڈرتے ہیں“
”کتنا پاگل دل ہے میرا“
”منانا بھی نہیں آتا“
”ہمیں تم سے محبت ہے“
”بتانا بھی نہیں آتا“
”چھپانا بھی نہیں آتا“
”جتانا بھی نہیں آتا“
”ہمیں تم سے محبت ہے“
”بتانا بھی نہیں آتا“
معنی خیز نظروں سے تبریز کو دیکھتے ہوئے اس نے گانا مکمل کرلیا تھا جسے سب نے تالیاں بجاتے ہوئے خوب سراہا۔ داد وصول کر عمر گیٹار دوسرے لڑکے کو دیتے ہوئے خود کرسی پر سے اٹھ گیا تھا کیونکہ سب باری باری گا رہے تھے۔ جب کہ تبریز ہمت کر کے عافیہ کی جانب آیا۔ جس کے پیچھے عمر اور ارحم بھی تھے۔
”السلام علیکم!“ اس بار اس نے صحیح پہل کی۔
”وعلیکم السلام!“ اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
”کیسی ہیں آپ؟ اور اس دن اچانک کہاں چلی گئی تھیں؟ سب ٹھیک تو ہے نا!“ اس نے مہذب انداز میں پوچھا۔
”جی میں ٹھیک ہوں، بس اس دن مما کی طبیعت خراب ہوگئی تھی اسی لئے اچانک جانا پڑا۔“ وہ ہی دھیما سا جواب ملا۔
”اوہ! تو اب کیسی طبیعت ہے آنٹی کی؟“
”الحمدللہ ٹھیک ہے۔“
”آپ اتنے دنوں سے یونی کیوں نہیں آرہی تھیں؟“ اس نے ہمت کرکے پوچھ ہی لیا۔
”کیونکہ میڈم اپنی منگنی میں مصروف تھیں۔“ اس کے بجائے ارم نے چہکتا ہوا جواب دیا جس سے نا صرف تبریز پر بجلی گری بلکہ عمر اور ارحم بھی حیران رہ گئے۔
”کیا منگنی!“ اس نے حیرت سے دہرایا۔
”جی، میں بھی ایسے ہی حیران ہوئی تھی ابھی یہ جان کر اور اس سے لڑائی بھی کی کہ بھلا مجھے کیوں نہیں بلايا تو اس نے بتایا کہ اس کے فیانسی فیاض کو اس ہفتے دبئی جانا تھا اسی لئے جلدی جلدی سب ہوا۔“ اپنی چنچنل فطرت سے مجبور ارم بنا رکے کہتی گئی جسے حیرت سے سنتے ہوئے تبریز کی نظر بےساختہ عافیہ کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی پر پڑی جس میں ایک نئی سونے کی انگوٹھی جگمگا رہی تھی۔
تبریز نے اس کے چہرے کی جانب دیکھا جس پر قوس قزح کا ایک بھی دلفریب رنگ نہیں تھی اور نظریں ہنوز جھکی ہوئی تھیں۔ شاید وہ خود بھی اس کی ان آنکھوں میں دیکھنے سے کترا رہی تھی جن میں کچھ ان کہے معصوم خواب ٹوٹ کر اپنی موت آپ مر گئے تھے۔
تمنا جس کی تھی ہمیں کسی اور کا مقدر ہوگیا
جسے کرنا تھا حاصل وہ شخص ہم سے کھو گیا
جس کے سنگ جینے کے دیکھے تھے سپنے
جس کی قربت میں سوچے تھے شب و روز اپنے
اپنے نام کے سنگھار سے جس کو سجانا تھا
روٹھنا تھا کبھی اس سے کبھی اس کو منانا تھا
بھیگنا تھا جس کے ساتھ سرما کی پہلی بارش میں
حالات کے سرد و گرم سے بھی اسے بچانا تھا
پر ہائے ہمارے دل میں ہی رہ گئی دل کی بات
اور جڑ گیا اس کا نام کسی اور نام کے ساتھ
تمنا جس کی تھی ہمیں کسی اور کا مقدر ہوگیا
جسے کرنا تھا حاصل وہ شخص ہم سے کھو گیا
فریال خان!
*****************************************
مطلوبہ پتے پر گاڑی روکنے کے بعد آنکھوں پر سیاہ سن گلاسسز لگائے صارم گاڑی سے باہر آیا اور زمین پر قدم رکھنے سے بھی قبل بہت تیزی سے اس کے ذہن میں پھر سے وہ یادیں تازہ ہوگئیں جو اسے بےچین کرکے یہاں تک کھینچ لائی تھیں۔
وہ گاڑی سے ذرا فاصلے پر چل کر اس گھر کے سامنے آیا جس کے مكین سے کچھ عرصہ قبل تک اس کے بہت قریبی تعلقات رہے تھے مگر دروازے پر لگا تالا دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
اس نے گردن موڑ کر آس پاس دیکھا کہ کسی سے اس کی بابت پوچھ سکے۔ تب ہی اسے ایک درمیانی عمر کا آدمی گلی سے گزرتا ہوا نظر آیا۔
”ایکسکیوزمی!“ صارم پکارتا ہوا اس کی جانب آیا تو آدمی بھی رک گیا۔
”یہاں اریبہ افتخار رہتی تھیں اپنی مدر کے ساتھ، آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں گئی ہیں اور کب تک آئیں گی؟“ اس نے گھر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مہذب انداز میں پوچھا۔
”دو ڈھائی ہفتے پہلے اس کی اماں کا انتقال ہوگیا تھا، اس کے بعد وہ بھی یہاں سے چلی گئی۔“ آدمی نے عام سے انداز میں بتایا تو یہ غیرمتوقع خبر سن کر وہ حیران رہ گیا۔
”کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں گئی ہیں؟ یا ان کا کوئی کانٹیکٹ نمبر آپ کے یا کسی اور کے پاس ہو؟“ اس نے حیرت پر قابو پاتے ہوئے جلدی سے دوسری راہ ڈھونڈی۔
”نہیں، یہاں کسی کو بھی نہیں پتا کہ وہ کہاں گئی ہے اور نہ ہی کسی کا اس سے کوئی رابطہ ہے۔“ اس کی لاعلمی نے یہ راہ بھی بند کردی جس سے اس کا دل مزید بوجھل ہوگیا۔
”ٹھیک ہے، شکریہ!“ صارم کے کہنے پر وہ بندہ دوبارہ اپنے راستے چلا گیا جب کہ وہ خود بھی شکستہ قدموں سے واپس ڈرائیونگ سیٹ پر آکے بیٹھ گیا۔
ایک موہم امید کے تحت اس نے دوبارہ اپنے موبائل میں اریبہ کا نمبر ڈائل کیا جس پر وہ کل سے اب تک کئی کالز اور میسجز کر چکا تھا اور حسب سابق ابھی بھی نمبر بند ملا۔ اس نے موبائل ڈیش بورڈ پر پھینکتے ہوئے تھک کر سیٹ کی پشت سے سر ٹکا لیا۔ زندگی میں پہلی بار اس کی ایسی حالت ہوئی تھی کہ اسے کسی صورت چین نہیں آرہا تھا اور دل پر ایک عجیب سا بھاری پن تھا۔
اچانک ڈیش بورڈ پر پڑا اس کا موبائل بجا۔ اس نے یکدم پرجوشی سے سیدھے ہوتے ہوئے موبائل اٹھایا۔ اسے لگا تھا کہ اریبہ نے کال کی ہوگی مگر اسکرین پر لفظ ”ڈیڈ“ لکھا دیکھ کر اس کا دل پھر سے بجھ گیا۔
”جی ڈیڈ؟“ اس نے بےدلی سے موبائل کان پر لگایا۔
”ڈیڈ کے بچے کہاں ہو تم؟ رات کو تمہارا ولیمہ ہے، گھر میں اتنے کام پڑے ہیں اور تم خود غائب ہو۔“ دوسری جانب سے زاہد منصور برسے۔
”اریبہ سے ملنے آیا تھا۔“ نہ جانے کیوں وہ سچ بول گیا۔
”کیا! اس سے کیوں ملنے پہنچ گئے؟“ وہ حیران ہوئے۔
”ایسے ہی، کچھ دنوں سے عجیب سی بےچینی ہو رہی تھی، اور کل سے بار بار اس کا خیال آرہا تھا تو سوچا اس سے ایک بار مل لوں! مگر وہ تو یہاں سے جا چکی ہے۔“ وہ سادگی بھری بےبسی سے کہہ گیا۔
”تو تم کیا سمجھے تھے کہ منہ مانگی رقم ملنے کے بعد بھی وہ اس چھوٹے سے گھر میں رہتی؟ چلی گئی ہوگی وہ کہیں عیش و عشرت کی زندگی گزارنے، سمجھایا تھا نا تمہیں کہ اس جیسی لڑکیاں صرف پیسے کیلئے تعلقات بناتی ہیں، پیسا مل گیا تو مقصد پورا۔“ ان کے انداز میں حقارت و نفرت کی آمیزش واضح تھی جس سے یہ باآسانی سمجھا جا سکتا تھا کہ صارم کی اس لاپرواہ شخصیت کے ذمہ دار کہیں نا کہیں وہ بھی تھے جنہوں نے کبھی اپنے بیٹے کو یہ سمجھانے کی زحمت نہیں کی کہ ایک عورت کھلونا نہیں ہوتی۔
”مگر ڈیڈ دو دن پہلے میں نے مینیجر سے پتا کیا تھا اس کے مطابق اب تک کوئی چیک کیش نہیں ہوا ہے۔“ اس نے اپنی فکر کی ایک اور وجہ بتائی۔
”یہ بات دو دن پہلے کی ہے، مگر کل شام کو ہی مجھے پچاس لاکھ کا چیک کیش ہونے کی اطلاع ملی ہے۔“ انہوں نے غلط بیانی کی۔
”رئیلی ڈیڈ؟“ وہ حیران ہوا۔
”ہاں، وہ اپنی مرضی کی اچھی خاصی رقم لے کر جا چکی ہے لہٰذا اب تم بھی اس کا خیال دل دماغ سے نکال کر اس کے گھر کے باہر ہی چھوڑ کر واپس آؤ۔“ انہوں نے تائید کرتے ہوئے ساتھ سختی سے حکم بھی صادر کیا جسے بجا لانے کے سوا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا اسی لئے رابطہ منقطع کرکے اس نے بوجھل دل سے واپسی کیلئے گاڑی موڑ لی۔
خدا کرے مجھے دیکھنے کی
تجھے خواہش ہو شدید تر
خدا کرے کہ پھر مجھ سے
تیرا سامنا نہ ہو عمر بھر
فریال خان
*****************************************
کب دن بھر کے ہنگامے اپنے اختتام کو پہنچے؟ کب دن ڈھلا؟ کب رات نکل کر گہری بھی ہوگئی اسے کچھ پتا نہ چلا جو بلڈنگ کے باہر بنی فٹ پاتھ پر دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں پیوست کیے بیٹھا تھا۔
جن چھوٹے چھوٹے کتے کے بچوں کو وہ اکثر دودھ ڈال دیا کرتا تھا وہ بھی اس وقت اس کی اداسی بھانپ کر اس کے پیر سے لپٹ رہے تھے مگر اسے کسی کا ہوش نہیں تھا۔
تب ہی عمر اور ارحم بھی خاموشی سے اس کے دائیں بائیں آکر بیٹھ گئے۔
”دیکھو! تمہاری اولاد بھی تمہارے لئے پریشان ہو رہی ہے۔“ عمر نے اس کے پیر سے لپٹتے پپیز کو دیکھتے ہوئے اس کا موڈ بدلنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔ مگر تبریز نے کوئی جواب نہیں دیا اور یک ٹک کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتا رہا۔
”چل عافیہ سے بات کرتے ہیں چل کر، اسے بتاتے ہیں کہ تو اسے کتنا چاہتا ہے۔“ ارحم اچانک بولا۔
”فائدہ نہیں ہے۔“ سپاٹ جواب ملا۔
”کیوں فائدہ نہیں ہے؟ صرف منگنی ہی ہوئی ہے نا اور وہ ٹوٹ بھی سکتی ہے۔“ ارحم نے راستہ نکلا۔
”نہیں، کیونکہ محبت بزدلوں پر نہیں جچتی۔“ اس نے تصحیح کی۔
”کون ہے بزدل؟“ عمر نے سوال کیا۔
”میں ہوں، جو اتنا عرصہ اسے کچھ بتا ہی نہیں پایا اور کوئی اور اسے اپنے نام سے منسوب کرکے چلا گیا۔“ اس نے خود کو ملامت کی۔
”نہیں، تم نے تو اسی لئے نہیں کہا تھا نا کہ عافیہ کو یہ سب پسند نہیں ہے اور تم ڈائریکٹ آنٹی کو بھیج کر رشتے کی بات کرنا چاہتے تھے۔“ ارحم نے اس کی غلط فہمی دور کرنی چاہی۔
”نہیں، یہ صرف ایک کمزور سی دلیل ہے اپنی کوتاہی چھپانے کیلئے جو ہر وہ شخص دیتا ہے جو صحیح وقت پر صحیح فیصلہ نہ کرسکے کہ میں تو ویسا کرنے والا تھا مگر ایسا ہوگیا، سچ یہ ہی ہے کہ اسے میں نے خود اپنے ہاتھ سے گنوا ہے، کاش! میں وقت رہتے تھوڑی ہمت دکھا پاتا۔“ اسے خود پر غصہ آنے لگا۔
”لیکن اچھا ہی ہوا کہ میں نے اس سے کچھ نہیں کہا کیونکہ جتنی مضبوط اور بہادر وہ خود ہے نا اسی طرح کا وہ پارٹنر بھی ڈیزرو کرتی ہے نہ کہ میرے جیسا بزدل انسان جو ایک اظہار محبت تک نہ کرسکا!“ اس نے خود کو جی بھر کر کوسا۔
”تو بزدل نہیں ہے یار! تو گھر سے دور رہ کر پڑھ بھی رہا ہے، کما بھی رہا ہے، خود کو بھی سنبھال رہا ہے، اپنا گھر بھی چلا رہا ہے، کوئی دوست غلطی پر ہو تو اسے بھی سمجھا رہا ہے، تو بالکل پرفیکٹ ہے یار!“ عمر نے کہتے ہوئے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔
”مگر میں ایک اچھا محب نہیں بن سکا۔“ اس نے دکھ سے بات جوڑی۔
”تیری محبت کتنی سچی اور پاکیزہ تھی ہم جانتے ہیں، بس تیری سوچ الگ تھی کہ تو اظہار محبت سے پہلے حلال رشتہ قائم کرنا چاہتا ہے مگر ایسا ہو نہیں سکا، لیکن یقین کر اس میں تیری غلطی نہیں ہے، بس شاید تم دونوں ایک دوسرے کے نصیب میں تھے ہی نہیں۔“ ارحم بھی اس کا دکھ ہلکا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس سے لپٹا۔
”میں ایک اچھا محب نہیں بن سکا۔“ وہ پھر اپنی بات دہراتے ہوئے دونوں ہاتھوں میں سر دے کے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا جسے دلاسا دینے کیلئے دونوں نے کس کر بھینچ لیا۔
”تو بہت اچھا بیٹا، بھائی، دوست اور انسان ہے میرے یار!“ ارحم نے بھی گلوگیر انداز میں اسے احساس دلانا چاہا۔
اپنے دوست کا درد محسوس کرتے ہوئے ان دونوں کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں تھیں جو اسے خود میں بھینچ کر تسلی دینے کے سوا اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اور اسے اس وقت ضرورت بھی ایسی ہی اپنائیت بھری تسلیوں کی تھی جو وہ لوگ بخوبی پوری کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ لوگ دوست تھے، دوست! جو سکھ میں تنگ کرے اور دکھ میں سینے سے لگانے کیلئے حاضر ہو۔
کوئی عبادت کی چاہ میں رویا
کوئی عبادت کی راہ میں رویا
کوئی یار کی بےوفائی پہ رویا
کوئی یار کو منا کے رویا
عجیب ہے یہ نماز محبت کا سلسلہ اقبال
کوئی قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا
علامہ اقبال
*****************************************
سات سال بعد
وقت کا کام ہے گزرنا، اور وہ اپنا کام بخوبی انجام دیتا رہتا ہے، بنا رکے، بنا تھکے۔کسی کے آجانے سے۔۔۔۔۔۔۔کسی کے چلے جانے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کے پالینے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی کھو دینے سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
کچھ لوگوں کیلئے یہ مرہم ثابت ہوتا ہے، جو دھیرے دھیرے ان کے زخم مندمل کردیتا ہے۔
تو کچھ لوگوں کیلئے ایسی ہوا جو ان کے اندر جلتی ہلکی سی چنگاری کو دھیرے دھیرے بھڑکا کر آگ کی شکل دے دیتی ہے۔
تو کچھ لوگوں کیلئے ایسی دھول جو ان کے ماضی کے کارناموں پر پڑجاتی ہے اور انہیں ان کا ماضی یاد بھی نہیں رہتا کہ انہوں نے اپنی ذات سے کتنوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
پر کسی کے بھول جانے سے کیا ہوتا ہے؟ قدرت سارا لین دین بخوبی یاد رکھتی ہے۔
کچھ دیر قبل ہی عصر کی اذان ہوئی تھی۔ سورج عروج سے نیچے آگیا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگی تھیں جس سے موسم کافی خوشگوار محسوس ہونے لگا۔
ایک سفید رنگ کی آلٹو کار درمیانی رفتار سے اس کشادہ گلی میں داخل ہوئی تھی جس کے دونوں اطراف میں ترتیب و خوبصورتی سے ایک سو بیس گز کے گھر لائن سے بنے ہوئے تھے۔
اپنے مطلوبہ گھر کے آگے پہنچ کر گاڑی رکی اور ڈرائیونگ سیٹ پر سے ایک وجیہہ جوان باہر آکر ارد گرد کا جائزہ لینے لگا جو اور کوئی نہیں بلکہ تبریز تھا۔
وقت نے اپنی چھاپ کافی مثبت انداز میں اس پر چھوڑی تھی۔ جیننز، شرٹ اور جیکٹ زیب تن كیے اس کا جسم پہلے کی نسبت زیادہ مضبوط ہوچکا تھا اور بھولے بھالے چہرے پر بھی شیو نفاست سے شیو سجا لی گئی تھی جو اس کی شخصیت کو ایک سنجیدہ سوبر سا تاثر دے رہی تھی۔
آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد اس نے کار کی ڈگی کھول کر اس میں سے اپنے بیگز نکالے۔ ہینڈ کیری کو کھنچتے ہوئے، ایک بیگ کو کندھے پر ڈال کر وہ گھر کے گیٹ کی جانب آیا اور چابی سے لاک کھولنے لگا۔
دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا جہاں سب سے پہلے ماربل کا بڑا سا صحن تھا۔ بائیں طرف ماربل کی سیڑھیاں اوپر چھت پر جارہی تھی۔ جب کہ دائیں طرف ایک دیوار تھی جو کچھ زیادہ لمبی نہیں تھی اور برابر والے گھر کے صحن سے ملی ہوئی تھی۔سامنے ہی لاؤنج کا دروازہ تھا جس سے آگے جا کر اندر دیگر کمرے تھے۔
وہ گیٹ بند کرکے اندر کشادہ لاؤنج میں آگیا۔ جہاں بائیں جانب اوپن کچن تھا اور دائیں طرف چار کمرے بنے ہوئے تھے۔ یہ گھر فرنشڈ تھا جس کی وہ کل تھوڑی بہت صاف صفائی کر گیا تھا اور اب باقی رہ جانے والا کام یہاں رہتے ہوئے آہستہ آہستہ کرنا تھا۔
اس نے اپنے بیگز ایک سائیڈ پر رکھے۔ لاؤنج کا پنکھا چلایا اور وہیں رکھے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ پہلے چند لمحے گہرے سانس لے کر اس نے خود کو پرسکون کیا پھر جیب سے موبائل نکال کر کسی کو کال کرنے ہی لگا تھا کہ ڈور بیل بج گئی۔ وہ بےساختہ مسکرایا اور اٹھ کر گیٹ کھولنے آیا۔
”ہم آگئے!“ گیٹ کھلتے ہی ارحم نے اپنی آمد کی اطلاع دی۔
”اوہ! مجھے تو پتا ہی نہیں تھا۔“ تبریز نے بھی مصنوعی حیرت دکھائی۔
”اب ہٹو بھی دروازے سے۔“ وہ اسے پیچھے دھکیلتے ہوئے اندر داخل ہوگیا۔
ٔ”السلام و علیکم بھیا!“ اس کے پیچھے تحریم بھی ایک سالہ بچے کو گود میں لئے سلام کرتی ہوئی اندر آئی۔
”السلام علیکم ماموں!“ اس کے ساتھ اندر آئی پانچ سالہ مہک نے بھی ماں کی تقلید میں اسے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام ماموں کی جان!“ تبریز نے جواب دیتے ہوئے مہک کو گود میں لے لیا۔
”گھر تو ماشاءاللہ اچھا ہے اور علاقہ بھی۔“ ارحم نے گھر کا جائزہ لیا۔
”ہاں پر جب تک گھر میں گھر والی نہ ہو گھر کتنا بھی اچھا کیوں نہ ہو گھر نہیں مکان ہوتا ہے۔“ تحریم نے طنزیہ انداز میں فلسفہ دیا۔
”تو پھر شروع ہوگئی، تم لوگ یہاں مجھ سے ملنے آئے ہو یا پھر لیکچر دینے!“ تبریز نے بھی لاؤنج کی جانب جاتے ہیں طنز مارا۔
”تو کیا غلط بولا ہے میں نے بھیا! ہم سب کی شادیاں ہوگئیں ہیں، بس ایک آپ ہی ابھی تک اکیلے رہ گئے ہیں، آپ کو پتا ہے اماں کی روح کو بھی کتنی تکلیف ہوتی ہوگی آپ کو ایسے دیکھ کر کتنے ارمان تھے ان کے آپ کی شادی کے حوالے سے۔“ وہ بھی اس کے پیچھے آتے ہوئے نان اسٹاپ شروع ہوچکی تھی۔
”تو اس کو کیوں لایا ساتھ؟ اکیلا نہیں آسکتا تھا؟“ تبریز صوفے پر بیٹھتے ہوئے ارحم سے مخاطب ہوا۔
”میں نہیں لایا بلکہ یہ مجھے ضد کر کرکے لائی ہے کہ ابھی چلیں، ورنہ میں تو کل آتا۔“ ارحم بھی جواب دیتے ہوئے ایک ڈبل صوفے پر بیٹھ گیا۔
”ہاں تو کل بھی تو آنا ہی تھا نا! اور پھر جب انسان کے پاس گاڑی ہو تو حیدر آباد سے کراچی آنے میں بھلا کتنی دیر لگتی ہے؟ اور ویسے بھی آج ہم یہاں رکیں گے، میں ایک ہفتے کا کھانا بنا کر فریز کرکے کل آرام سے واپس جاؤں گی۔“ وہ بھی کہتی ہوئی ارحم کے برابر میں بیٹھی۔
”کہنے کو اماں ہمارے بیچ نہیں رہی ہیں پر ان کی پوسٹ بہت اچھے سے سنبھالی ہوئی ہے تو نے میری اماں بن کر۔“ تبریز نے مسکراتے ہوئے پھر اسے تنگ کیا۔
”ہاں تو اماں مجھے کہہ کر گئیں تھیں کہ بھائی کا خیال رکھنا۔“ اس نے گویا وصیت یاد دلائی۔
”وہ تو انہوں نے مجھے بھی کہا تھا کہ بہن کا خیال رکھنا مگر میں تو نہیں رکھتا۔“ اسے شرارت سوجھی۔
”مت رکھیں، میرا خیال رکھنے کیلئے میرے شوہر ہیں آپ بھی اپنے لئے خیال رکھنے والی ایک بیوی لے آئیں پھر میں بھی نہیں رکھوں گی آپ کا خیال۔“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”کیا کھا کر آئی ہیں ناشتے میں! بڑا دماغ چل رہا ہے۔“ اس نے مذاق میں موضوع بدلا۔
”بھیا آپ ایسے ہی ہمیشہ مستی مذاق میں بات گھما دیتے ہیں، آپ سیریس کب ہوں گے؟“ وہ بھی ٹلنے والی نہیں تھی۔
”اچھا بعد میں لڑتی رہنا، ابھی فی الحال جلدی سے چائے بنا لو اور اس کے ساتھ کچھ اسنیکس فرائی کرلو، وہ رہا کچن۔“ اس نے بات بدلتے ہوئے کچن کی جانب اشارہ کیا۔
”ابھی تو تم آئے ہو، ابھی سودا وغیرہ کہاں ہوگا کچن میں؟ میں باہر سے کچھ لے آتا ہوں۔“ ارحم نے پیشکش کی۔
”کل جب میں صفائی وغیرہ کرنے آیا تھا تو کچھ سودا سلف لیتا ہوا آیا تھا۔“ اس نے وضاحت کی۔
”ہاں ٹھیک ہے میں گھر میں بنا لیتی ہوں، آپ بس ریان کو سنبھال لیں۔“ تحریم نے اپنے گود میں سوئے ہوئے ایک سالہ بیٹے کو ارحم کی جانب بڑھایا۔
”اسے اندر بیڈ پر لیٹا دو ارحم، آرام سے سوتا رہے گا۔“ تبریز نے مشورہ دیا جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ارحم بیڈ روم میں چلا گیا اور تحریم کچن میں۔
”ماموں!“ اس کی گود میں بیٹھی مہک نے پکارا۔
”جی میری جان؟“
”میں آپ کا گھر دیکھ لوں؟“ اس نے معصومیت سے اجازت چاہی۔
”ہاں بالکل، تمہارا ہی گھر ہے جاؤ دیکھ لو۔“ اس نے محبت سے اجازت دی تو وہ خوشی خوشی اس کی گود سے اتر گئی۔ جس کے بعد تبریز بھی وہاں سے اٹھ کر بیڈ روم میں آگیا جہاں ارحم ریان کو تھپک کر سلا رہا تھا جو لٹانے کے باعث کسمسانے لگا تھا۔
”کب جا رہے ہو پھر تم لوگ واپس حیدر آباد؟“ تبریز پوچھتے ہوئے بیڈ کی دوسری جانب بیٹھا۔
”میرا تو آج شام کا ہی موڈ ہے پر تحریم لگتا ہے تمہاری شادی کروا کر ہی جائے گی۔“ اس نے شرارتاً پیشن گوئی کی۔
”وہ تو پاگل ہے، تو بھی اس کے ساتھ پاگل ہوگیا ہے؟“ اس نے طنز مارا۔
”تم تو ٹھیک ہو نہیں رہے تو ہم ہی پاگل ہوگئے۔“ اس نے اطمینان سے جواب دیا۔
”عمر سے بات ہوئی آج تمہاری کوئی؟“ تبریز نے موضوع بدلا۔
”ہاں صبح فون آیا تھا اس کا، کہہ رہا تھا کہ آئے گا وہ بھی ارم کے ساتھ کچھ دنوں میں کراچی۔“ اس نے مختصر بتایا جس کے بعد دونوں کے درمیان خاموشی حائل ہوگئی۔
”تبریز!“
”بولو!“
”تحریم واقعی بہت فکرمند ہے تمہارے لئے۔“ اس نے احساس دلایا۔
”کیوں! مجھے کیا کینسر ہے؟“ اس نے مذاق بھرے طنز میں پوچھا۔
”کینسر ہوتا تو پھر بھی اتنی فکر کی بات نہ تھی، پر تمہیں تو کینسر سے بھی زیادہ خطرناک عشق کی بیمار ہے۔“ وہ سنجیدگی سے بولا۔
”چل بے! مجھے کوئی عشق وشق کی بیماری نہیں ہے۔“ وہ صاف مکر گیا۔
”اچھا! تو پھر اب تک تم نے شادی کیوں نہیں کی؟“ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔
”کوئی لڑکی ہی نہیں ملی۔“ اس نے کندھے اچکائے۔
”رہنے دے، ابھی تحریم کو صرف بولنے کی دیر ہے، لائن لگا دے گی وہ تیرے لئے لڑکیوں کی، وہ تو کب سے منتظر ہے تیرے ایک اشارے کی۔“ اس نے طنزیہ انداز میں باور کرایا جو سراسر درست تھا۔ تبریز نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور بس سوئے ہوئے ریان کو دیکھتا رہا۔
”تبریز سات سال بہت ہوتے ہیں آگے بڑھنے کیلئے، کسی کو بھولنے کیلئے، چلو اگر عافیہ کے واپس آنے کی کوئی امید ہوتی تو سمجھ میں آتا، مگر اب تک تو وہ بھی شادی کرکے اپنی زندگی میں اپنی فیملی کے ساتھ خوش ہوگی، پھر تم کیوں آگے نہیں بڑھ رہے؟ ابھی تک اس کے انتظار میں ہو۔“ اس نے ایک بار پھر رسان سے سمجھانا چاہا۔
”میں عافیہ کے انتظار میں نہیں ہوں۔“ وہ چادر کی سلوٹوں سے کھیلنے لگا۔
”تو پھر کس کے انتظار میں ہو؟“
”کسی کے بھی نہیں، بس مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے کسی اور لڑکی سے شادی کی تو یہ اس کے ساتھ ناانصافی ہوجائے گی، آنے والی پتا نہیں مجھ سے کیا کیا امیدیں لگا کر آئے گی اور میں ان میں پورا نہیں اتر پاؤں گا، میں اسے وہ محبت، وہ عزت، الفت، وہ توجہ نہیں دے پاؤں گا جس کی وہ حقدار ہوگی، تو کسی کا حق مارنے سے بہتر میں اکیلا ہی ٹھیک ہوں۔“ اس نے اصل وجہ بتائی جو ارحم کو بالکل بےتكی لگی۔
”یہ سب تمہاری غلط فہمی ہے، ابھی تمہاری زندگی میں کوئی نہیں ہے اس لئے تم عافیہ کو نہیں بھول پا رہے ہو، بس اسے ہی سوچتے رہتے ہو، جب تمہاری زندگی میں کوئی ہوگی تو یکدم نہ سہی، پر آہستہ آہستہ تم اس کی جانب مائل ہوجاؤ گے۔“ اس نے گویا مرض پکڑ کر حل بتایا۔
”تو تحریم کا جوٹھا کھا کر آیا ہے؟“ اس نے پھر شرارتاً موضوع بدلنا چاہا۔
”یار تبریز میں سیریس ہوں۔“ وہ بھی موضوع پر ڈٹا رہا۔
”ہاں تو کیوں ہے؟ مت ہو، اور یہ عافیہ والی بات تو نے تحریم کو بتائی تو نہیں؟“ اس نے آنکھیں سکیڑ کر کریدا۔
”نہیں، مگر اس نے ایک دو بار پوچھا تھا کہ کیا تم کسی کی وجہ سے شادی نہیں کر رہے ہو؟ تو میں نے لاعملی کا اظہار کردیا تھا۔“ اس نے سادگی سے اپنا کارنامہ بتایا۔
”ہممم! بتانا بھی مت ورنہ اور میری جان میں مصیبت کردے گی۔“ اس نے سختی سے تاکید کی۔
”پاپا! آپ کو مما بلا رہی ہیں اوپر سے ٹرے اتار دیں ان کا ہاتھ نہیں جا رہا۔“ مہک نے کمرے میں آکر ارحم کو پیغام پہنچایا۔
وہ اٹھ کر اس کے ساتھ باہر چلا گیا۔ جبکہ تبریز سوئے ہوئے ریان کو دیکھتے ہوئے بےساختہ دوبارہ سات سال قبل والے اس منظر میں چلا گیا جب ارحم نے یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد جاتے جاتے تبریز سے اپنی خواہش ظاہر کرکے اجازت مانگی تھی۔
*****************************************
سات سال پہلے (فلیش بیک)
”لگ جا گلے کہ پھر یہ حسین رات ہو نہ ہو“
”شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہو نہ ہو“
عمر نہایت بےسرے انداز میں گاتے ہوئے دونوں بانہیں کھول کر ارحم کی جانب آیا۔
”کیوں؟ تو خودکشی کرنے جا رہا جو اب ملاقات نہیں ہوگی۔“ ارحم نے لاپرواہی سے اس کے بازو نیچے کیے اور بیڈ پر رکھے بیگ کی زپ کھولی تا کہ سامان رکھ سکے۔
”یار یونی ختم ہوگئی ہے نا! اب ہم لوگ واپس اپنے اپنے گھر جا رہے ہیں، پھر کہاں ساتھ رہنا ہوگا؟ پھر تو شاید رابطے بھی ختم ہوتے ہوتے کم ہوجائیں۔“ وہ کہتے ہوئے دھپ سے اپنے سنگل بیڈ پر گرا۔
”خبردار جو تم لوگوں نے آپس میں رابطہ ختم کرنے کی کوشش کی تو، جان لے لوں گا میں تم دونوں کی۔“ بیڈ پر بیٹھے اپنا بیگ پیک کرتے تبریز نے دھمکی آمیز انداز میں مداخلت کی۔
”تو جان لینے کے بعد بھلا رابطہ کیسے رہے گا؟“ عمر نے دلچسپی سے پوچھا۔
”پھر مر کر تینوں ساتھ جنت میں چلے جائیں گے نا تو کبھی رابطہ ختم نہیں ہوگا!“ ارحم نے وضاحت کی۔
”اس کی کیا گارنٹی ہے؟ ہوسکتا ہے صرف میں ہی اکیلا جنت میں جاؤں اور تم دونوں جہنم میں چلے جاؤ پھر؟“ اس کی خوش فہمیاں عروج پر تھیں۔
”ویسے اگر ایسا ہوا تو جب میں جنت کے باغ میں حوروں کے بیچ بیٹھا ان کے ہاتھ سے پھل کھا رہا ہوں گا تو تم لوگ بہت یاد آؤ گے مجھے، بلکہ میں فارغ ٹائم پر حوروں کو تم لوگوں کے قصے بھی سنایا کروں گا، ایسا ہوسکتا ہے نا ویسے؟“ اس نے تصور کی آنکھ سے منصوبہ بندی کرتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔
”ہاں، اگر حوروں کے حصے میں یہ سزا لکھی ہوگی تو ہوسکتا ہے۔“ ارحم نے کپڑے رکھتے ہوئے بےنیازی سے جواب دیا۔
”جیلس لوگ!“ عمر نے اس کی بات ہوا میں اڑائی۔
”تجھے پیکنگ نہیں کرنی؟“ تبریز نے اسے اطمینان سے لیٹا دیکھ کر پوچھا۔
”نہیں، میں کل ہی اپنا بوریا بستر سمیٹ چکا ہوں، اب بس ہجرت کرنی ہے۔“ اس نے فخر سے اپنا کارنامہ بتایا۔
”تو فارغ ہے تو بجلی کا بل بھر کے آجا عمر!“ ارحم نے کام یاد دلایا۔
”وہ میں نے صبح بھر دیا تھا۔“ اس کے بجائے تبریز نے جواب دیا۔ جس کے بعد تھوڑی دیر کیلئے وہاں خاموشی حائل ہوگئی۔
ارحم نے ذرا سی نظر اٹھا کر دونوں کو دیکھا۔ تبریز بیگ میں سامان رکھ رہا تھا جب کہ عمر پیر جھلاتے ہوئے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا جسے وہ کسی طرح یہاں سے چلتا کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ اسے تبریز سے اکیلے میں بات کرنی تھی اگر اس کے سامنے بات کرتا تو وہ اسے بہت تنگ کرنے والا تھا۔
”تو یونین آفس میں سہل بھائی سے مل لیا عمر؟ انہیں تجھ سے کچھ کام تھا!“ ارحم کو اچانک خیال آیا۔
”میں سب سے مل بھی لیا، پیکنگ بھی کرلی، سارے بل بھی بھر دیے اور مالک مکان کو بھی بول دیا، سب کام کر لئے ہیں میں، تو کیوں مجھے یہاں سے ٹرخانے میں لگا ہوا ہے؟“ سب بتاتے ہوئے اس نے آخر میں آنکھیں سکیڑیں۔
”میں بھلا تجھے کیوں ٹرخاؤں گا؟“ وہ صاف مکر گیا۔
”کیونکہ ہوسکتا ہے میرے پیٹھ پیچھے تم دونوں کو میرے قتل کی سازش کرنی ہو!“ اس کا انداز مشکوک تھا۔
”تجھے قتل کرنے کیلئے ہمیں سازش کی ضرورت نہیں ہے، ایسے ہی بہت وجوہات ہیں اس نیک کام کیلئے۔“ اس کے بجائے تبریز نے جواب دیا۔
”تم لوگوں سے یہ ہی امید تھی بےغیرتوں!“ اس نے مصنوعی ناراضگی دکھائی۔
ابھی وہ لوگ بات کر رہے تھے کہ عمر کا موبائل بج اٹھا جس پر موصول ہوتی کال سننے کیلئے وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔ اور یہ ہی ارحم کیلئے موقع غنیمت تھا۔
”تم واپس جا کر کیا کرو گے تبریز؟ میرا مطلب میں اور عمر تو اپنے اپنے فادر کے ساتھ ان کا کام سنبھال لیں گے، تمہارا بھی کسی کاروبار کا ارادہ ہے یا جاب کرو گے؟“ اس نے بات شروع کی۔
”کاروبار کیلئے اچھا خاصا سرمایا چاہیے ہوتا ہے یار جو جاب کرکے ہی جمع کیا جا سکتا ہے، مگر فی الحال کچھ دن میں سکون سے اماں اور تحریم کے ساتھ گھر پر گزاروں گا، ان کے ہاتھ کے کھانے کھاؤں گا پھر کراچی واپس آجاؤں گا کیونکہ یہاں اچھی خاصی جاب ہوگئی ہے جسے اگر میں محنت سے کرتا رہا تو پرموشن کے چانسز بھی ہیں، اسی لئے اسے کنٹنیو رکھوں گا، ابھی بھی آفس سے چھٹی لی ہے ایک مہینے کی۔“ اس نے سادگی سے تفصیل بتائی۔
”تو پھر واپس آکر تم رہو گے کہاں؟ کیونکہ یہ فلیٹ تو ہم خالی کرچکے ہیں۔“ اسے فکر ہوئی۔
”ایک کولیگ سے بات ہوگئی ہے، وہ ایک جگہ ایک دوست کے ساتھ روم شیئر کر رہا ہے تو میں بھی وہیں رہوں گا جیسے ہم لوگ یہاں رہتے تھے۔“ اس نے حل بتایا۔
”مطلب پھر سے نئے دوست بن جائیں گے تمہارے؟“ وہ مسکرایا۔
”نہیں، دوستی اور محبت ہر بار ہر کسی سے نہیں ہوتی، اور میں یہ دونوں ایک بار کرچکا ہوں۔“ بولتے ہوئے آخر میں اس کی مسکراہٹ بھی پھیکی پڑی جس کا پس منظر ارحم اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔
”ہاں لیکن اگر پہلی محبت غلط شخص سے کرلی ہو تو کسی صحیح انسان کیلئے محبت کو دوسرا موقع لازمی دینا چاہئے۔“ اس نے بھی ترکی بہ ترکی کہا تو وہ بس پھیکےپن سے ہنس دیا۔
”ارم بتا رہی تھی کہ اگلے مہینے عافیہ کی شادی متوقع ہے، میری مانو تو تم بھی جلد از جلد شادی کرلینا، کوئی ساتھ ہوگا تو پچھلی باتیں آسانی سے بھلا سکو گے۔“ اس نے مخلصانہ مشورہ دیا۔
”ابھی کہاں میری شادی، ابھی پہلے مجھے خوب محنت کرکے خود کو اسٹیبل کرنا ہے، اماں کا پراپر علاج کروانا ہے، تحریم کی شادی کرنی ہے، پھر بعد میں اپنے لئے کچھ سوچوں گا۔“ اس نے وہ باتیں کہیں جو صرف باتیں نہیں بلکہ ہر گھر کے ذمہ دار بیٹے کے وہ فرائض تھے جنہیں پورا کرتے ہوئے اکثر وہ بیٹے اپنا آپ بھی فراموش کر دیا کرتے تھے۔
تبریز کی بات سے اسے حوصلہ ہوا کیونکہ وہ وہیں آگیا تھا جہاں ارحم اسے لانا چاہ رہا تھا۔
”ویسے تمہاری بہن کی شادی کب تک ہے؟ میرا مطلب کوئی رشتہ وشتہ دیکھ رکھا ہے اس کیلئے؟“ اس نے سرسری انداز میں کریدا۔
”فی الحال نہیں، مگر اماں تلاش میں ہیں، جیسے ہی کوئی اچھا رشتہ ملے گا تو بات طے کردیں گے اور پھر مناسب وقت پر شادی۔“ اس نے مصروف انداز میں سادگی سے بتایا جس کے بعد ارحم کچھ نہیں بولا۔ وہ ہنوز کشمکش کا شکار تھا کہ جو بات اس کے دل میں ہے اسے زبان تک کیسے لائے؟
بلآخر ہمت جمع کرتے ہوئے وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور بیڈ پر تبریز کے مقابل آکر بیٹھ گیا جس سے تبریز بھی متعجب ہوا۔
”تبریز! تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے پہل کی۔
”ہاں بولو!“ وہ بھی متوجہ تھا۔
”دیکھو تم مجھے پچھلے چار پانچ سالوں سے جانتے ہو، جیسا میں تمہارے سامنے ہوتا ہوں وہ ہی پیٹھ پیچھے بھی ہوتا ہوں، کوئی بری عادت مجھے نہیں ہے تمہیں معلوم تو ہے نا، اسی لئے جو بات میں کرنے لگا ہوں اس پر پلیز مجھے غلط مت سمجھنا۔“ اس نے کافی لمبی تہمید باندھی۔
”کیا کہنا چاہ رہا ہے سیدھی طرح بول!“ وہ الجھا۔
”بات دراصل یہ ہے کہ اگر تمہاری رضا مندی ہو تو یہاں سے واپس جا کر میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔۔۔۔اپنا رشتہ لے کر۔۔۔۔۔تحریم کیلئے۔“ بلآخر اس نے ہمت کرکے بول ہی دیا جسے سن کر پہلے تو تبریز کو اپنی سماعت پر یقین ہی نہیں آیا۔ جب کہ ارحم بھی تشویش زدہ تھا کہ پتا نہیں تبریز کا اگلا رد عمل کیا ہونے والا ہے۔
”واہ بھئی! تو، تو بڑا ہی چھپا رستم نکلا۔“ تب ہی عمر کی اچانک آمد پر یہ دونوں چونکے۔
”میرے سامنے یہ بات کرتے ہوئے شرم آرہی تھی تجھے؟“ وہ لڑاکا عورتوں کی طرح دونوں ہاتھ کمر پر رکھے دوبدو ہوا۔
”تو سکون سے سیریس ہوکر بات نہیں کرنے دیتا۔“ اس نے بھی بنا ڈرے اصل بات بتائی۔
”واہ بھئی واہ! یہ صحیح ہے۔“ اس نے طنزیہ انداز میں تالی بجائی۔
”تبریز! تجھے بھی قسم ہے تو ہاں نہیں کرے گا اس رشتے کیلئے۔“ عمر اس سے مخاطب ہوا۔
”مجھے تبریز سے شادی کرنی بھی نہیں ہے۔“ ارحم نے بےنیازی سے جتایا۔
”تبریز کی بہن سے تو کرنی ہے نا؟ اور جب تک بھائی راضی نہیں ہوگا تب تک بہن کی بھی شادی نہیں ہوگی، ہے نا تبریز!“ وہ فل آگ لگانے کے موڈ میں تھا۔
”نہیں، جب تک میں اپنی بہن کی رضا مندی نہیں جان لیتا تب تک ہاں یا نہ نہیں کہوں گا۔“ ان کے برعکس وہ سنجیدگی سے گویا ہوا۔
”تم واقعی سیریس ہو ارحم؟ جو بات تم نے کی ہے پورے ہوش و حواس میں کی ہے؟“ تبریز اس وقت دوست نہیں ایک ذمہ دار بھائی کی حیثیت سے بات کر رہا تھا۔
”ہاں بالکل! تمہیں لگتا ہے کہ تمہاری بہن کیلئے کوئی غلط فیلنگ رکھ کر میں تم سے ایسی بات کروں گا، میں سچ میں اس پسندیدگی کو حلال رشتے میں بدلنا چاہتا ہوں اسی لئے ڈائریکٹ تم سے بات کر رہا ہوں، اگر تمہیں میری بات پر یقین نہیں تو اپنی بہن سے پوچھ لینا کہ جب تک وہ یہاں رہی تب تک ایک بار بھی کیا میں نے اسے نظر اٹھا کر براہ راست دیکھا یا کوئی الٹی سیدھی حرکت کی اس کے ساتھ؟“ اس نے بھی سنجیدگی سے اپنی صداقت کا یقین دلایا۔ اس کے لہجے کی مضبوطی نے تبریز کو بھی سوچنے پر مجبور کردیا۔
بےشک ارحم اس کا اچھا دوست تھا مگر اس وقت اسے دوستی ایک سائیڈ پر رکھ کر ذمہ دار بھائی بن کر سوچنا تھا کیونکہ یہ اس کی بہن کی زندگی کا سوال تھا۔
”میں گھر جا کر اماں اور تحریم سے بات کرکے تمہیں بتاؤں گا، اگر تحریم نے ہاں کی تب ہی میں تمہیں گھر والوں کے ساتھ آنے کی اجازت دوں گا ورنہ۔۔۔۔۔۔“
”ورنہ دوسری صورت میں یہ خیال ہمیشہ کیلئے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال پھینکوں گا جیسے یہ کبھی میرے ذہن میں آیا ہی نہ ہو، یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔“ تبریز بول ہی رہا تھا کہ ارحم نے ٹھہرے ہوئے انداز میں اس کی بات اچک کر مکمل کرلی۔
”میں بالکونی سے اپنے کپڑے لے کر آتا ہوں۔“ تبریز بات بدلتے ہوئے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا جہاں صرف یہ دونوں رہ گئے تھے۔
”گھننے میسنے، مجھے بتایا بھی نہیں تو نے۔“ اس کے جاتے ہی عمر نے ارحم پر دھاوا بول دیا۔
*****************************************
حال
”ماموں!“ مہک کی پکار پر وہ یکدم ماضی سے چونک کر حال میں آیا۔
”جی بیٹا؟“
”مما بلا رہی ہیں، آجائیں چائے بن گئی ہے۔“ اس نے سادگی سے اطلاع دی۔
”آپ چلو میں ابھی آیا۔“ اس کا جواب لے کر وہ سر ہلاکر چلی گئی۔
جب کہ تبریز نے جانے سے قبل بےخبر سوئے ریان کے دائیں بائیں دو تكیے رکھ کر دیے کہ کہیں وہ گر نہ جائے!
وہ اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا جیسے ابھی کل کی ہی بات ہو جب ارحم نے تحریم کیلئے پرپوزل پیش کیا تھا اور جب اس نے گھر جا کر نگار اور تحریم سے ان کی مرضی پوچھی تو تحریم نے سر جھکا کر اپنی رضا مندی ظاہر کردی تھی جس کے بعد پہلے دونوں کی شادی ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کی فیملی بھی مکمل ہوگئی جس میں تبریز کی بھی جان بستی تھی۔
اس نے ریان کے پھولے ہوئے گال پر بوسہ دیتے ہوئے دل میں اپنی بہن کی خوشیوں کی سلامتی کی دعا کی اور اٹھ کر کمرے سے باہر آگیا۔
*****************************************
بیلو شارٹس پر ریڈ ٹی شرٹ پہنے ایک چھے سالہ بچہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا جہاں اس کی ماں جائے نماز پر کھڑی عصر کی نماز پڑھ رہی تھی۔
وہ اندر آکے چپ چاپ اپنی ماں کے قریب ہی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھنے کے بعد اس کی نماز مکمل ہونے کا انتظار کرنے لگا۔
وہ جو اس کی موجودگی محسوس کرچکی تھی اس نے سلام پھیر کر سوالیہ انداز میں اپنے بیٹے کو دیکھا۔
”کل اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے مما!“ اس نے دھیرے سے بتایا تو وہ اپنے بیٹے کی اس اداسی کی وجہ سمجھ گئی جو اسکول سے آنے کے بعد سے اس کے چہرے پر چھائی ہوئی تھی۔
”سب کے مما اور پاپا دونوں آئیں گے، بس میری ہی پاپا نہیں آتے۔“ وہ اسی طرح مزید بولا تو بجائے کچھ کہنے کے اس کی ماں نے اسے خود سے قریب کرکے سینے سے لگا لیا۔
”میرے عریش کیلئے اس کی مما اکیلی ہی کافی ہیں۔“ اس نے محبت پاش مگر مضبوط انداز میں جواب دیتے ہوئے اپنے اس بائیں ہاتھ سے اس کا سر سہلایا جس پر آج تک آگ سے جھلسنے کا نشان موجود تھا۔
*****************************************
سفید کار نے گھر کے باہر مخصوص انداز میں ہارن دیا جس کے باعث تھوڑی دیر میں ہی کتھی رنگ کا دروازہ کھلا اور گاڑی اس دو سو گز کے گھر کے چھوٹے سے کار پورچ میں آکر رک گئی۔
گاڑی کے اندر آنے کے بعد اقصیٰ نے واپس دروازہ بند کیا اور صارم کے پاس آئی جو ڈرائیونگ سیٹ سے باہر آگیا تھا۔
”السلام علیکم!“ اقصیٰ نے اس کا بیگ لیتے ہوئے سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ وہ اسے بیگ دے کر اندر کی طرف بڑھ گیا جس کے پیچھے وہ بھی آئی۔
اندر آتے ہی صارم سیدھا اپنے کمرے میں آگیا اور اقصیٰ اس کا بیگ لاؤنج میں ہی رکھ کر کچن میں چلی گئی کیونکہ ان سات سالوں میں اسے اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ صارم کو گھر واپس آتے ہی فریش ہوکر اسٹرونگ چائے چاہیے ہوتی تھی۔
جب تک وہ چائے تیار کرکے لاؤنج میں آئی تب تک وہ بھی فریش ہوکر آگیا تھا۔
”تمہاری یہ بات مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ میرے گھر آتے ہی چائے تیار کر لیتی ہو۔“ صارم نے اس سے کپ لیتے ہوئے مسکرا کر سراہا۔
”پچھلے سات سالوں میں اور تو کچھ دے نہیں سکی آپ کو اسی لئے کوشش ہوتی ہے کہ یہ ہی چھوٹی موٹی ضرورتیں بنا بولے پوری کردوں۔“ وہ بھی تاسف سے کہتی اپنا کپ لے کر صوفے پر اس کے برابر ہی بیٹھ گئی۔
وہ اس کے لہجے میں چھپی بےبسی کی اذیت بھانپ گیا تھا۔ صارم نے پہلے اپنا کپ سامنے کانچ کی میز پر رکھا اور پھر اس کے ہاتھ سے بھی اس کا کپ لے کر وہیں رکھنے کے بعد دونوں ہاتھوں سے اس کے ہاتھ پکڑ لئے۔
”مام ڈیڈ کے ایکسیڈینٹ کے بعد، بزنس برباد ہوکر ختم ہونے کے بعد، میری بدمزاجی جھیلنے کے بعد بھی تم بنا ماتھے پر ایک شکن لائے اب تک میرا ساتھ دیتی آرہی ہو، اور اس سے زیادہ بھلا ایک بیوی اپنے شوہر کو کیا دے سکتی ہے؟“ وہ نرمی سے حالات کا جائزہ دلاتے ہوئے گویا ہوا۔ کیونکہ واقعی گزشتہ سات سالوں میں اقصیٰ ایک سیدھی سادی وفا شعار بیوی ثابت ہوئی تھی۔
”اولاد! بیوی کی طرف سے ملنے والی سب سے بڑی خوشی اولاد ہوتی ہے شوہر کیلئے جو یہ بانجھ بیوی آپ کو کبھی نہیں دے سکے گی۔“ اس نے تڑپ کر اپنی بےبسی کا احساس دلایا۔
”اگر واقعی اولاد اتنی بڑی خوشی اور کڑی ہوتی ہے تو پھر اکثر اولاد ہونے کے باوجود بھی ہسبنڈ وائف میں تعلق کیوں ہوجاتی ہے؟“ کوئی جواب دینے کے بجائے اس نے سوال اٹھایا تو وہ لاجواب ہوگئی۔
”تمہاری جگہ کوئی اور عورت ہوتی نا تو شاید مام ڈیڈ کے جانے کے بعد جب بزنس ختم ہوا تھا تو وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی جاتی مگر تم نہیں گئی، اور اب جب تمہارے سہارے سے میں دوبارہ کھڑا ہوسکا ہوں تو ایسے میں تمہیں کیسے چھوڑ دوں جب کہ میں تمہارے ساتھ خوش ہوں۔“ اس نے اسی محبت سے مزید کہا۔
”کتنی بار آدھی رات کو جائے نماز پر آپ کو روتے ہوئے دیکھا ہے میں نے اور پھر بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ خوش ہیں میرے ساتھ؟ خوش لوگوں کے چہرے اتنے اداس اور آنکھیں اتنی ویران ہوتی ہیں؟“ اس نے یک لخت تاسف سے صارم کے اس چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا جو سات سال قبل تک نہایت ہشاش بشاش ہوا کرتا تھا مگر اب وہ چاہ کر بھی کھل کر ہنس نہیں پاتا تھا۔
”میں تمہاری وجہ سے نہیں روتا۔“ اس نے نظریں چرائیں۔
”تو پھر کس وجہ سے روتے ہیں؟ ایسا کون سا درد ہے جو آپ اکیلے جھیل رہے ہیں اور مجھے بھی نہیں بتا سکتے؟“ اس نے فکرمندی سے جاننا چاہا۔
”مام ڈیڈ کی یاد آجاتی ہے بس کبھی کبھی، اور کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے بات بناتے ہوئے ختم کرنی چاہی کیونکہ وہ اپنا جلا ہوا دل اسے نہیں دکھا سکتا تھا جو پچھلے سات سالوں سے نہ مکمل جل رہا تھا نہ بجھ رہا تھا بس پچھتاوے کی آگ میں سلگتے ہوئے اسے اذیت دے رہا تھا۔
*****************************************
تبریز ابھی ابھی مغرب کی نماز پڑھ کر گھر واپس آیا تھا اور جیسے ہی وہ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو لذیز کھانے کی خوشبو اس کے نتھنوں سے ٹکرائی جو تحریم کچن میں بنا رہی تھی۔
وہ دروازہ بند کرکے آگے آیا تو اس کی نظر دائیں جانب والی دیوار پرگئی۔ جس پر ایک چھے سالہ بچہ لٹکا ہوا تھا۔ تبریز سے نظریں ملنے پر وہ بچہ مسکرایا تو اس نے بھی اسے جوابی مسکراہٹ سے نوازا۔
”کیا نام ہے آپ کا؟“ وہ پوچھتا ہوا دیوار کے قریب آیا۔
”عریش!“
”یہاں تک کیسے پہنچے؟“
”اسٹول پر چڑھ کے۔“
”اور اسٹول پر کیوں چڑھے ہو؟ گر جاؤ گے تو چوٹ لگ جائے گی نا!“
”آپ کو دیکھنے کیلئے چڑھا ہوں۔“
”اور مجھے کیوں دیکھنا تھا آپ کو؟“
”تا کہ آپ سے اپنی وہ بال لے سکوں۔“ اس نے ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ تبریز نے بھی اس کے ہاتھ کے تعاقب میں دیکھا تو صحن کے کونے میں ایک پیلے رنگ کی فٹ بال پڑی ہوئی تھی۔
”میں کھیل رہا تھا تو یہ یہاں آگئی پلیز یہ واپس دے دیں انکل!“ اس نے مزید وضاحت کرتے ہوئے آخر میں معصومیت سے گزارش کی تو تبریز کو اس پر بےساختہ پیار آیا۔
وہ مسکرا کر آگے بڑھا اور بال اٹھا کر اس کے گھر کی جانب اچھل دی جو اس کے صحن میں آکر گری۔
”تھینک یو انکل!“ وہ خوش ہوگیا۔
”ویلکم!“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا جس کے بعد وہ اسٹول سے اترگیا جب کہ تبریز بھی اندر کی جانب چلا گیا۔
***********************************
ایک نیا دن پھر سے نکل آیا تھا۔ صبح کی نرم سی دھوپ سے لطف اندوز ہوتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد حسب معمول اپنے اپنے کام پر جانے کیلئے گھر سے نکل چکی تھی۔
صارم گاڑی سگنل پر روکے اس کے گرین ہونے کا انتظار کر رہا تھا کہ تب ہی ایک بوڑھے بھیکاری نے شیشے پر دستک دی۔ جسے اس نے نیچے کردیا۔
”اللّه کے نام پر کچھ دے دو صاحب!“ اس نے وہ ہی مخصوص التجا کی تو صارم بنا کچھ بولے اپنے کوٹ کی جیب سے پیسے نکالنے لگا اور سب سے پہلے ہاتھ میں آنے والا پانچ سو کا نوٹ اس کی جانب بڑھایا۔
”اوئے! تو پھر آگیا!“ اس کے پیسے لینے سے قبل ہی ایک پولیس والا بھیکاری پر چلاتا ہوا اس کی طرف آیا تو وہ ڈر گیا۔
”منع کیا تھا نا تجھے کہ دوبارہ ادھر نظر نہ آنا!“ وہ اس پر برسا۔
”صاحب یہ پورا گروہ کام کر رہا ہے یہاں، ان کو مت دو، یہ اس کے مستحق نہیں ہوتے۔“ پولیس والے نے اسے ٹوکا۔
”اور کیا ہم ہر بار اس کے مستحق ہوتے ہیں جو ہمیں ملا ہوتا ہے؟“ اس نے عجیب کھوئے ہوئے انداز میں سوال کیا تو دونوں ہی متعجب ہوگئے۔
”مجھے نہیں پتا کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں؟ میں بس کسی ایسے انسان کو ڈھونڈ رہا ہوں جو مجھے سکون کی دعا دے دے اور میں چین سے سو سکوں، دعا کرنا کہ مجھے سکون مل جائے۔“ صارم نے نوٹ بھیکاری کے کشکول میں ڈالتے ہوئے ایسے التجا کی جیسے وہ خود بھیکاری ہو اور اس سے کچھ مانگ رہا ہو۔
تب ہی سگنل کھلا اور وہ گاڑی آگے بڑھا لے گیا جسے پیچھے رہ جانے والے یہ دونوں حیرت سے دیکھ کر رہ گئے کہ کیسا پاگل شخص تھا یہ؟ اور واقعی پاگل تھا۔۔۔۔۔سکون کی تلاش میں۔
*****************************************
کل رات ارحم کی امی کی طبیعت خراب ہونے کے باعث ان دونوں کو رات میں ہی حیدر آباد واپس جانا پڑا تھا جس کے بعد تبریز گھر میں اکیلا رہ گیا تھا جو ناشتے سے فارغ ہوکر اب آفس جانے کیلئے تیار ہوکر گھر سے باہر آگیا تھا۔
وہ دروازہ لاک کر رہا تھا تب اس کی نظر ذرا فاصلے پر موجود عریش پر پڑی جو اسکول یونیفارم میں تیار بیگ کندھوں پر لئے ایک بلی کے بچے سے کھیل رہا تھا۔
”ہائے لِٹل فرینڈ!“ وہ بھی مسکراتا ہوا اس کی جانب آیا تو عریش اس طرف پلٹا۔
”مما کہتی ہیں کہ جب کسی سے ملتے ہیں تو ہائے نہیں السلام علیکم کہتے ہیں۔“ اس نے معصومیت سے ٹوکا تو یکدم تبریز کی مسکراہٹ اپنی جگہ ساکت ہوئی اور ذہن کے پردے پر چھم سے ایک باوقار سراپا لہرا گیا۔
”چلو عریش، گاڑی میں بیٹھو۔“ ابھی تبریز اس کی بات سے ہی نہیں سنبھالا تھا کہ اس کے عقب میں وہ ہی نسوانی آواز ابھری جسے وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔۔۔جسے سننے کیلئے سات سال سے اس کی سماعت ترس رہی تھی۔
وہ آہستہ ہوتی دھڑکن کے ساتھ پلٹا تو مزید ششدر رہ گیا۔ اسے لگا جیسے زندگی کی کتاب کے پنے یکدم تیز ہوا سے پلٹ کر بہت پیچھے چلے گئے ہوں۔
”عافیہ!“ بےاختیار اس کے لب پھڑپھڑائے۔
وہ آج بھی نہیں بدلی تھی۔ اس نے میرون رنگ کا سادہ سا سوٹ پہن کر ہم رنگ دوپٹہ سینے پر اوڑھا ہوا تھا۔اور سر پر بلیک کلر کا اسکارف باندھا ہوا تھا۔
ہاں بس چہرے پر اب پہلے جیسی مسکراہٹ اور تازگی کم ہوگئی تھی جو خود بھی اچانک تبریز کو اپنے سامنے دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔
”مما یہ ہیں تبریز انکل جنہوں نے کل مجھے بال واپس دی تھی۔“ عریش نے تعارف کرایا تو اس کی آواز پر دونوں چونک کر ہوش میں آئے۔
”تبریز! تم یہاں؟“ وہ حیرت زدہ سی اس کی جانب آئی۔ وہ بھی تب تک خود کو سنبھال چکا تھا۔
”ہاں، کل ہی شفٹ ہوا ہوں، اور تم؟“ وہ بھی چند قدم آگے بڑھا۔
”میں تو پچھلے پانچ سال سے یہاں رہ رہی ہوں۔“
”اچھا! یہ تمہارا بیٹا ہے؟“ اس نے بےتکا سوال پوچھا۔
”جب یہ مجھے مما بول رہا ہے تو ظاہر ہے میرا ہی بیٹا ہوگا نا۔“ وہ اس کی بےوقوفی پر مسکرائی۔
”کب کی تم نے شادی؟“ اس نے دل پر پتھر رکھ کر پوچھا۔
”یونیورسٹی ختم ہوتے ہی شادی ہوگئی تھی میری۔“
”اور تمہارے ہسبنڈ کہاں ہیں؟“ اس نے اپنے رقیب کی بابت جاننا چاہا۔
”وہ کام کے سلسلے میں دبئی میں ہوتے ہیں۔“ اس نے سادگی سے بتایا۔
”اور ہم سے ملنے بھی نہیں آتے۔“ عریش نے نروٹھے پن سے ٹکڑا لگایا۔
”دراصل وہ بہت مصروف ہوتے ہیں تو ہر تین سال بعد ایک بار ہی آسکتے ہیں۔“ عافیہ نے مسکراتے ہوئے وضاحت کی کہ کہیں تبریز کچھ غلط نہ سوچ لے۔
”اچھا!“ اب اس سے آگے وہ کیا بولتا بھلا؟
”اور تم سناؤ کیا حال ہے؟ تم نے بھی شادی کرلی ہوگی اب تک؟“ اس نے خود ہی ہلکے پھلکے انداز میں موضوع بدلا۔
”ٹھیک ہوں، مگر شادی نہیں کی اب تک۔“
”ابھی تک شادی نہیں کی! مگر کیوں؟“ اسے حیرت ہوئی۔
”کیونکہ تم نہیں ملی نا!“ وہ پھیکے پن سے مسکرایا۔
”اچھا مذاق ہے۔“ اس نے ہنستے ہوئے بات ہوا میں اڑائی کیونکہ وہ اسے مذاق ہی سمجھی تھی۔ لیکن در حقیقت مذاق تو تبریز کے ساتھ کیا تھا قسمت نے جس پر نہ وہ رو سکتا تھا اور نہ ہنس سکتا تھا۔
”مما اسکول چلیں۔“ تب ہی عریش نے دھیان دلایا۔
”ہاں چلو، اچھا میں چلتی ہوں، اب تو ہم پڑوسی بن گئے ہیں تو ملاقات ہوتی رہے گی۔“ اس نے اجازت چاہی تو تبریز نے بھی مسکرا کر سر ہلا دیا۔
عافیہ نے نزدیک کھڑی اپنی چھوٹی سی گرے کار کا فرنٹ ڈور کھول کر پہلے عریش کو بٹھایا اور پھر خود بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر کار آگے بڑھادی۔
جب کہ وہ وہیں کھڑا کار کو دور جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ جسے قسمت دوبارہ سامنے تو لے آئی تھی مگر اب وہ اس پر کوئی حق نہیں جتا سکتا تھا۔ اور مل جانے کا یہ درد اس انتظار سے زیادہ اذیت ناک ثابت ہوا جو وہ پچھلے سات سالوں سے کر رہا تھا۔ اس کے دل میں بےاختیار ایک ہوک سی اٹھی کہ جب کسی اور کا ہو کر ہی ملنا تھا تو کاش۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے نہ ملی ہوتی!
بعد مدت اسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو
خوش نہ تھا مجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو
اس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا، لوگو
اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کسی وقت میں اپنا، لوگو
رات وہ درد مرے دل میں اٹھا
صبح تک چین نہ آیا، لوگو
پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہوئی
ابر پھر ٹوٹ کے برسا، لوگو
انتخاب
*****************************************
صارم اس وقت اپنی فیکٹری میں موجود تھا اور اس کے ساتھ بیٹھا سپر وائزر اسے کام کے متعلق ساری تفصیلات بتا رہا تھا۔
اس نے کچھ عرصہ قبل ہی کافی جدوجہد کے بعد یہ چھوٹی سی گارمنٹس فیکٹری شروع کی تھی جو بہت اچھی نہ سہی مگر گزارے لائق چل رہی تھی۔
”حنیف سر!“ ایک لڑکی پکارتی ہوئی سوپر وائزر کے پاس آئی تو دونوں ہی اس کی جانب متوجہ ہوگئے۔
”سر کل میں نے بتایا تھا نا کہ میری دوست اریبہ کو نوکری کی ضرورت ہے اور آپ نے کہا تھا کہ آج میں اسے بلا لوں تو وہ آگئی ہے، اسے بلا لوں؟“ اس نے یاد دلاتے ہوئے اجازت چاہی۔ جب کہ اریبہ نام سن کر صارم اپنی جگہ چونکا۔
”ابھی میں سر سے کچھ ضروری بات کر رہا ہوں تم اسے تھوڑی دیر بعد۔۔۔۔۔۔“
”کہاں ہے وہ؟“ حنیف بول ہی رہا تھا کہ صارم بےتابی سے پوچھتا کرسی پر سے اٹھا۔
”باہر کھڑی ہے سر۔“ اس کے بتانے پر صارم سب چھوڑ چھاڑ کر دیوانہ وار باہر بھاگا جسے دونوں حیرت سے دیکھ کر رہ گئے۔
وہ زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ باہر آیا تو چادر اوڑھے ایک لڑکی وہاں ملی جس کی پشت صارم کی جانب تھی۔
”اریبہ!“ وہ شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر پکارتا قریب آیا تو لڑکی بھی چونک کر پلٹی۔
اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی تیزی سے ٹمٹمائے امیدوں کے چراغ پھر بجھ گئے۔ وہ کوئی اور تھی۔
”جی سر؟“ لڑکی نے ادب سے پوچھا۔
”آپ اریبہ ہیں؟“ اس نے تائید چاہی۔
”جی سر یہ ہی میری دوست ہے اریبہ جسے نوکری چاہیے۔“ وہ پہلی لڑکی بھی سپر وائزر کے ہمراہ اس کے پاس آچکی تھی۔ جب کہ اریبہ پر امید نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی جسے روزگار کی اشد ضرورت تھی۔
”حنیف!“
”یس سر!“
”تنخواہ طے کرکے اسے کل سے فیکٹری بلا لو۔“ صارم نے سنجیدگی سے حکم دیا اور بنا اس کی کوئی بات سنے وہاں سے چلا گیا جس پر حنیف حیران ہوا جب کہ دونوں لڑکیوں کے چہرے خوشی سے کھل گئے۔
وہ جسے سالوں پہلے اپنا نام دینے سے انکار کرکے روتا بلکتا چھوڑ آیا تھا آج اس کا نام سن کر دیوانوں کی طرح اس سے ملنے کیلئے لپکا تھا مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مداوا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
*****************************************
تبریز آفس تو آگیا تھا پر کسی بھی کام میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ لگتا بھی کیسے؟ جس سے سالوں سے دل لگا رکھا تھا آج وہ ملی بھی تو کسی اور کی ہو کر۔ اور یہ درد وہ کیسے برداشت کرے یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
بہت مشکل سے اس نے آفس میں پورا دن گزارا اور چھٹی ہوتے ہی بنا کسی سے کوئی بات چیت کیے وہ آفس سے نکل آیا۔
راستے میں ہی مغرب کی اذان ہوگئی تو اس نے کار اسی مسجد کی جانب موڑ لی جہاں وہ تقریباً روزانہ ہی واپسی پر مغرب کی نماز ادا کیا کرتا تھا۔
مسجد پہنچ کر اس نے وضو کیا اور حسب عادت صف میں ایک پرسکون گوشہ نماز کیلئے منتخب کرکے تمام نمازیوں کے ساتھ نماز شروع کردی۔ مگر جب نماز پڑھ کر دعا مانگنے کیلئے ہاتھ اٹھائے تو سمجھ نہیں آیا کہ کا مانگے؟
پہلے تو وہ دو دعائیں مانگتا تھا کہ یا تو اسے عافیہ مل جائے یا پھر اس کے دل سے اس کی جستجو ختم ہوجائے۔ لیکن جس طرح آج وہ اس سے ملی تھی اس کے بعد تو بس دوسری دعا ہی آخری راستہ رہ گئی تھی کہ کسی طرح اس کے دل سے اس کی جستجو ختم ہوجائے ورنہ اس کا جینا محال ہوتا چلا جائے گا۔
وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اپنے عقب سے سسکی سنائی دی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے ایک آدمی ہاتھوں میں منہ چھپائے رو رہا تھا اور رونے کی وجہ سے اس کا جسم کانپ رہا تھا۔
تبریز اکثر اسے یہاں ایسے ہی روتے ہوئے کئی بار دیکھ چکا تھا جو سارے نمازیوں کے چلے جانے کے بعد بھی کافی دیر ایسے ہی بیٹھا نہ جانے کیا مانگتا رہتا تھا؟
پہلے اس نے سوچا کہ اس بات کرے کہ اس کے ساتھ کیا مسلہ ہے؟ لیکن پھر یہ سوچ کر ارادہ ملتوی کردیا کہ وہ کون ہوتا ہے بندے اور اس کے رب کا معاملات میں دخل اندازی کرنے والا؟
وہ پھر کافی دیر دعا مانگتا رہا۔ کیونکہ عافیہ کو مانگنے کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں تھیں۔ جن میں سرِفہرست تھا ان نعمتوں کا شکر جو خدا نے اسے دے رکھی تھیں جیسے کہ بہن، دوست اور وہ ساری نعمتیں جو ایک صحت مند انسان کو میسر ہوتی ہیں۔
ان سب کے دوران وقفے وقفے سے اسے سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔مسجد سے اب تقریباً سارے نمازی جا چکے تھے۔بس ایک دو بڑے بزرگ یا پھر مسجد کے امام صاحب وغیرہ تھے مسجد میں۔ اور ایک کونے میں وہ دونوں۔
جب اتنی دیر گزر جانے کے بعد بھی اس کی سسکیوں میں کمی نہیں آئی تو تبریز سے رہا نہیں گیا۔
”کیا بات ہے دوست؟“ تبریز نے اس کی جانب گھوم کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
آدمی نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ اس کا پورا سرخ چہرہ آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا اور آنکھیں بھی سوجی ہوئی تھیں۔ جنہیں دیکھ کر تبریز کو بےساختہ اس پر ترس آیا۔
”میں نے اکثر آپ کو یہاں ایسے ہی دیکھا ہے، اگر آپ کو ٹھیک لگے تو مجھ سے بانٹ سکتے ہیں آپ اپنی پریشانی، کہتے ہیں کہ بانٹنے سے دل کا بوجھ کم ہوجاتا ہے۔“ اس نے دوستانہ انداز میں پیشکش کی۔ مگر وہ آدمی چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔
”اگر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں ہے، آپ کی جو بھی مشکلیں ہیں اللّه پاک انہیں آسان کرے، امین!“ اس نے خود ہی سہولت سے بات ختم کردی اور جانے کیلئے کھڑا ہونے لگا۔ کیونکہ اسے لگا شاید وہ شخص کچھ بتانا نہیں چاہتا اور زبردستی کریدنا اس کی عادت نہیں تھی۔
”بتانا چاہتا ہوں دوست۔“ آدمی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تو وہ واپس بیٹھ گیا۔
”بتائیں، میں سن رہا ہوں۔“ وہ ایک اچھے سامیع کی طرح ہمہ تن گوش تھا۔
”میرا نام صارم منصور ہے، میں ایک کروڑپتی باپ کا بگڑا ہوا اکلوتا بیٹا تھا۔“ اس نے اپنے بارے میں بتانا شروع کیا۔
اور پھر بنا اس سے کوئی پردہ رکھے اسے اپنے اور اریبہ کے بارے میں اول سے آخر تک من و عن سب بتا دیا جسے وہ بغور سنتا چلا گیا۔
”اپنے مطابق میں اسے اپنی زندگی سے نکال چکا تھا مگر یہ میری غلط فہمی تھی، وہ جا کر بھی میرے ذہن و دل سے نہیں گئی بلکہ کسی پھانس کی طرح میرے دل میں گڑ گئی، میں اسے کے خیال جھٹک کر اپنی زندگی میں پوری طرح گم ہونے کی کوشش میں تھا یہاں تک کہ میں نے ان جگہوں پر بھی جانا چھوڑ دیا تھا جہاں کبھی میں اریبہ کے ساتھ گیا تھا مگر پھر پتا نہیں کیوں ایک دن خودبخود میرے قدم اسی فلیٹ کی جانب اٹھ گئے جہاں ہم لوگوں نے کچھ وقت ساتھ گزارا تھا، میں نے شاید ایک ڈیڑھ سال بعد اس فلیٹ میں قدم رکھا تھا، جس کے بعد مجھے پہلا احساس یہ ہی ہوا کہ وہ ابھی تک وہاں بیٹھی رو رہی ہے، جیسے ابھی تک وہاں اس دھل مٹی سے اٹے فلیٹ میں اس کی سسکیاں گونج رہی ہیں، میں ڈر کر وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ پتا ہے میں نے وہاں کیا دیکھا؟“ کھوئے ہوئے انداز میں بتاتے ہوئے وہ ایک جگہ رکا۔
”کیا دیکھا؟“ اسے بھی جاننے کا تجسس ہوا۔
”ایک سال پہلے جو بلینک چیک اسے دیتے ہوئے میں نے لاونج کی میز پر رکھا تھا وہ دھول مٹی سے اٹا ہوا ابھی تک اس میز پر ویسا ہی پڑا تھا۔“ اس کے لہجے میں پچھتاوے کی آنچ تھی جس سے تبریز کا دل بھی پسیچ گیا۔
”میں جو سمجھ رہا تھا کہ اریبہ نے مجھ سے دولت کیلئے محبت کی اور دولت مل جانے پر وہ اب کہیں ایک خوشحال زندگی گزار رہی ہوگی مجھے اس روز پتا چلا کہ اس نے تو چیک کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔“ اس کے لہجے میں درد اتر آیا۔
”اس انکشاف نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا، میں فوراً گھر پہنچا تا کہ ڈیڈ سے ان کی غلط بیانی پر سوال کرسکوں مگر اس کی بھی نوبت نہ آئی کیونکہ گھر پر پہلے ہی مام ڈیڈ کی موت کی خبر میری منتظر تھی، ڈیڈ کے جانے کے بعد میری دنیا ہی پلٹ گئی، میں عرش سے فرش پر آ گرا، بزنس تباہ ہوگیا، ہمارا گھر گاڑیاں سب کچھ بک گیا، میں پاگل ہونے کے بہت قریب تھا جب میری بیوی نے مجھے سنبھالا، وہ میری بدمزاجی کو نظر انداز کیے مسلسل میرے ساتھ رہی، مجھے سمجھاتی رہی، اور اس کے فادر نے ہی مجھے دوبارہ فائینینشل سپورٹ کی، ہم نے ایک مناسب گھر گاڑی لے لی، ایک چھوٹی سی گارمنٹس فیکڑی اسٹارٹ کرلی مگر۔۔۔۔!“ وہ کہتے ہوئے رکا۔
”مگر کیا؟“ اسے تجسس ہوا۔
”مگر میرا چین سکون پھر بھی نہیں لوٹا، مجھے اریبہ کی فکر ہونے لگی کہ پتا نہیں وہ کہاں کس حال میں ہوگی؟ مجھے احساس ہوا کہ میں اسے غلط سمجھ بیٹھا تھا، وہ میری کلاس کی لڑکیوں کے جیسی دولت کی لالچی نہیں تھی، اسے تو محبت کی طلب تھی جو چند دن اسے دے کر میں نے چھین لی، مجھے یہ احساس ہر وقت ڈنک مارنے لگا کہ میں نے اس کے ساتھ غلط کر دیا ہے، میں اس کی تلاش میں پاگل ہوگیا، کوئی علاقہ، کوئی فیکٹری، کوئی آفس ایسا نہیں تھا جہاں میں نے اسے نہ ڈھونڈا ہو، مگر وہ کہیں نہیں ملی، جو ڈائورس پیپرز میں نے اسے بھجوائے تھے وہ بھی گھر خالی ہونے کی وجہ سے واپس آگئے تھے، پچھلے محلے میں بھی کسی کو اس کی خبر نہیں تھی، میری بڑھتی ہوئی بےچینی دیکھ کر اقصیٰ نے مجھے سمجھایا کہ مجھے اللّه سے رجوع کرنا چاہئے تو سکون کی تلاش میں، میں نے نماز کی پابندی شروع کردی مگر مجھے اس میں بھی سکون نہیں ملا، پھر ایک دن خطبے میں امام صاحب نے بتایا کہ جب تک بندا معاف نہ کرے تب تک اللّه بھی معاف نہیں کرتا، تب میری سمجھ میں آیا کہ مجھے نماز میں بھی سکون کیوں نہیں مل رہا؟ کیونکہ میں اللّه کی بندی کا مجرم تھا اور بس وہ ہی مجھے معاف کرکے سکون دے سکتی ہے، میری تلاش میں مزید شدت آگئی مگر میں کامیاب نہیں ہوا اور آج تک اس کی تلاش جاری ہے۔“ شکستہ انداز میں اپنا حالِ دل اسے سنا کر اب وہ خاموش ہوگیا تھا۔
تبریز چپ چاپ سنجیدگی سے اس اجنبی کو سن رہا تھا جو اپنے دل کے بوجھ سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ پہلی ملاقات میں ہی اسے اس کے سامنے بنا سوچے سمجھے کھول کر رکھ دیا۔
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بلآخر تبریز نے کہنے کیلئے لب وا کیے۔
”دیکھو دوست، بے شک ہم انسان بہت گناہگار ہیں، ہم نہیں جانتے کہ اللّه پاک ہمیں ہمارے کون سے گناہ کی سزا دے رہا ہے اور کون سی نیکی کے بدلے ہمیں بخش دیا ہے؟ آپ سے غلطی ہوئی افسوس کی بات ہے، پر آپ نے اسے قبول کیا، اس پر نادم ہو، یہ خوشی کی بات ہے کیونکہ عقل کی ہزار دلیلیں ہمارا ایک چھوٹے سے چھوٹا گناہ معاف نہیں کروا سکتیں مگر ندامت کا ایک آنسو بھی ہمارے بڑے سے بڑے گناہ بخشوا سکتا ہے اور اللّه جسے چاہے بخش دے۔“ وہ رسان سے گویا ہوا۔
”مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اللّه اپنے اور اپنے بندے کے درمیان کے معاملات تو معاف کردیتا ہے پر وہ حقوق العباد معاف نہیں کرتا، جب تک وہ بندہ خود معاف نہ کردے جس کا دل دکھا ہے، تو میرا مشورہ آپ کو یہ ہی ہے کہ آپ مس اریبہ کی تلاش جاری رکھیں اور اللّه سے دعا کریں کہ وہ جہاں بھی ہوں اللّه ان کے دل میں آپ کیلئے رحم ڈال دے کہ وہ آپ کو معاف کرسکیں۔“ اس نے نرمی سے مشورہ دیا۔
”تلاش ہی تو کر رہا ہوں، پتا نہیں کب ختم ہوگا اسے تلاشنے کا یہ عذاب؟“ اس کے انداز میں صدیوں کی تھکن تھی۔
”جلد ہوجائے گا، اللّه اپنے بندوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہیں آزماتا۔“ تبریز نے حوصلہ افزا انداز میں اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو صارم نے بےساختہ اسے دیکھا۔
”کیا میں اس فرشتے کا نام جان سکتا ہوں جس کے سامنے ابھی میں نے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا ہے؟“ صارم کے سوال پر وہ ہنس دیا۔
”فرشہ نہیں میں تو ایک بندہ ناچیز ہوں جسے تبریز حیدر کہتے ہیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”بہت اچھا لگا آپ سے مل کر تبریز، ایسا لگ رہا ہے جیسے دل کا کافی بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔“ اس نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے برملا اعتراف کیا۔
”ہوتا ہے، میں نے کہا تھا نا کہ بانٹنے سے دل کا بوجھ کم ہوجاتا ہے اور وہی ہوا۔“ وہ مسکرایا۔
”ہممم! شاید!“
”آپ روز یہاں ہی نماز پڑھنے آتے ہیں؟“ صارم نے پوچھا۔
”نہیں، فجر اور عشاء میں اپنے گھر کے قریب والی مسجد میں پڑھتا ہوں، ظہر اور عصر میں آفس میں ہوتا ہوں تو وہ آفس کے قریب والی مسجد میں پڑھتا ہوں اور مغرب راستے میں ہوجاتی ہے تو اس مسجد میں آجاتا ہوں یہ راستے میں آتی ہے نا! اور اکثر آپ کو مغرب میں ایسے ہی دیکھا ہے میں نے۔“ اس نے کافی تفصیل سے اپنی روٹین بتا دی۔
”اچھا! اور گھر کہاں ہے آپ کا؟“ صارم کے پوچھنے پر تبریز نے اپنے علاقے کا نام بتایا۔
”بہت اچھا لگا آپ سے مل کر کل پھر اسی وقت ملاقات ہوگی، میں انتظار کروں گا آپ کا۔“ صارم نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”اگر زندگی رہی تو کل ضرور ملیں گے۔“ تبریز نے بھی مسکراتے ہوئے ہاتھ ملایا۔
*****************************************
آج خلاف معمول تبریز کو گھر آتے آتے تھوڑی دیر ہوگئی تھی کیونکہ آج صارم کے ساتھ کافی دیر باتیں جو کرتا رہا تھا۔
گھر آکر اس نے کپڑے چینج کیے، کچن میں آکر فریج میں سے کھانا نکال کر مائکرو ویو اوون میں رکھا اور خود ٹی وی آن کرکے لاؤنج کے صوفے پر آ بیٹھا۔
ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ یکدم کچن سے زوردار دھماکے کی آواز آئی۔ وہ بری طرح ہل گیا۔
کچن میں آکر دیکھا تو جو کھانا اس نے مائکرو ویو میں رکھا تھا وہ یہاں وہاں بکھرا ہوا تھا اور مائکرو ویو اوون بھی بلاسٹ ہوچکا تھا۔
”آہ!“اس کے منہ سے کراہ نکلی۔
اس نے بےدھیانی میں سلپ پر ہاتھ رکھ دیا تھا جہاں اوون بلاسٹ ہونے کی وجہ سے پلاسٹک کے گرم گرم ٹکرے پڑے ہوئے تھے جو کہ اس کی ہتھیلی پر چبھ گئے تھے۔
وہ پریشان کھڑا ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یہ سب کیا ہوا ہے؟ اور اب وہ کیا کرے؟ کہ تب ہی ڈور بیل بجی۔
وہ سب ایسے ہی چھوڑ کر گیٹ کھولنے باہر آیا جہاں سامنے عافیہ عریش کے ساتھ متفکر سی کھڑی تھی۔
”سب خیریت تو ہے نا تبریز؟ ابھی تمہارے گھر سے بہت زوردار بلاسٹ کی آواز سنی میں نے۔“ اس نے تشویش سے پوچھا۔
”خیریت ہے بھی اور نہیں بھی۔“ اس نے کندھے اچکائے۔
”کیا مطلب؟“ وہ سمجھی نہیں۔
”دیکھ لو آکر خود ہی۔“ وہ ایک کنارے پر ہوا تو دونوں اندر آگئے۔ تبریز بھی دروازہ بند کرتے ہوئے پیچھے آیا۔
”اوہ مائی گاڈ!“ کچن کا حشر دیکھ کر اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔
”کیسے ہوا یہ سب؟ اوون میں کچھ رکھ کر بھول گئے تھے کیا تم؟“
”نہیں بھولا نہیں تھا، بس فریج سے کھانا نکال کر اوون میں رکھا، لاؤنج میں آکر ٹی وی ان کیا اور تھوڑی دیر بعد یہ بلاسٹ ہوگیا۔“ اس نے سادگی سے تفصیل بتائی۔
”تم نے کہیں اسٹیل کا برتن تو نہیں رکھ دیا تھا مائکرو ویو اوون میں؟“ اس نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے تائید چاہی تو وہ بھی پل بھر کو سوچ میں پڑ گیا جس کے باعث اسے یاد آیا کہ صارم کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے بےدھیانی میں اسٹیل اوون میں رکھ دیا تھا۔
”ارے ہاں، میں نے بےدھیانی میں اسٹیل رکھ دیا تھا۔“ اس نے اپنی عقل پر ماتم کیا۔
”دھیان کہاں تھا تمہارا؟ اور تمہیں کہیں چوٹ تو نہیں لگی؟“ اس نے کہتے ہوئے اس کا جائزہ لیا تو اس کی نظر تبریز کے بائیں ہاتھ پر پڑی جس کی ہتھیلی سے خون نکل رہا تھا۔
”دیکھو تمہارے ہاتھ پر لگ گئی نا چوٹ!“ اسے تشویش ہوئی۔
”ہاں وہ بےدھیانی میں سلپ پر ہاتھ رکھ دیا تھا میں نے تو اوون کا گرم پلاسٹک لگ گیا، خیر ہے معمولی سی چوٹ ہے ٹھیک ہوجائے گی۔“ اس نے لاپرواہی کا مظاہرہ کیا۔
”خون نکل رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو معمولی ہے، عریش جلدی سے جا کر فرسٹ ایڈ باکس لے کر آؤ بیٹا۔“ عافیہ نے حکم دیا تو وہ سرہلا کر جلدی سے باہر کی جانب بھاگا۔
”تم بلاوجہ زحمت کر رہی ہو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے۔“ وہ شرمندہ ہوا۔
”ہاں بس رہنے دو اتنے بڑے ہوگئے ہو اور یہ ہی نہیں پتا کہ مائکرو ویو اوون میں اسٹیل نہیں رکھتے۔“ اس نے طنز مارا۔
”اس بات کا عمر سے کیا تعلق؟“ اسے حیرت ہوئی۔
”عریش اتنا سا ہے اور اسے یہ باتیں پتا ہیں جبکہ تم اتنے بڑے ہوگئے ہو اور اپنی لاپرواہی دیکھو ذرا۔“ اس نے موازنہ کیا۔
”ہاں تو وہ آخر بیٹا کس کا ہے؟ اب سمجھدار ماں کی اولاد سمجھدار ہی ہوگی نا!“ وہ ستائشی انداز میں بولا۔
”مطلب تم اپنی ماں کو بےوقوف کہہ رہے ہو؟“ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔
”نہیں نہیں، میں تو عریش کی تعریف کر رہا تھا بہت اچھا بچہ ہے۔“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
”یہ لیں مما!“ تب ہی عریش نے واپس آکر باکس اس کی جانب بڑھایا جسے لے کر تینوں ہی لاؤنج کے صوفے پر آکر بیٹھ گئے اور عافیہ اس کا زخم صاف کرنے لگی۔
”درد ہو رہا ہے؟“ عریش نے اشتیاق آمیز انداز میں پوچھا۔
”بہت زیادہ!“ وہ عافیہ کی جانب دیکھتے ہوئے گمبھیر لہجے میں بول گیا۔ جسے پر یکدم اس نے نظر اٹھا کر تبریز کو دیکھا تو اس نے فوراً نظریں عریش کی جانب کرلی۔
”سچ میں بہت درد ہو رہا ہے تبریز؟“ وہ سنجیدہ ہوگئی۔
اس نے مسکرا کر نفی میں سرہلایا۔ تو وہ واپس اس کے ہاتھ کی جانب متوجہ ہوئی۔
”آپ کو سچ میں درد نہیں ہو رہا؟“ عریش کو تعجب ہوا۔
”نہیں، مرد کو درد نہیں ہوتا۔“ اس نے فلمی ڈائلوگ مارا۔
”جی نہیں، مما کہتی ہیں مرد کو بھی درد ہوتا ہے پر وہ بتاتا نہیں ہے، ہے نا مما!“ اس نے کہتے ہوئے تائید چاہی تو عافیہ نے بس اثبات میں سرہلانے پر اکتفا کیا۔
”یہ تمہارے ہاتھ پر کیا ہوا عافیہ؟“ تبریز کی نظر اب اس کے بائیں ہاتھ پر پڑی جس کی پشت پر آگ سے جھلسنے کا نشان تھا۔
”کچھ خاص نہیں، غلطی سے جل گیا تھا۔“ اس کا انداز ٹالنے والا تھا جو تبریز کو تسلی بخش نہ لگا۔
”یونیورسٹی کے دوستوں سے رابطہ ہے تمہارا؟“ عافیہ نے اس کا دھیان اپنے ہاتھ پر سے ہٹانے کیلئے موضوع بدلا۔
”میرے کُل دو ہی تو دوست تھے عمر اور ارحم، دونوں سے الحمدللہ نا صرف اب بھی رابطہ ہے بلکہ ارحم تو اب میرا بہنوئی بھی ہے، عمر اور ارم نے بھی شادی کرلی ہے اور دو بیٹے ہیں ان کے۔“ وہ بھی اس موضوع پر آگیا۔
”اچھا ماشاءالله!“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
”تمہارا رابطہ نہیں ہے نا ارم سے؟“
”نہیں یونیورسٹی کے بعد پہلے میں کچھ اپنے ذاتی مسائل میں مصروف رہی پھر فون گم ہوجانے کی وجہ سے سارے پرانے کانٹیکٹس بھی کھو گئے۔“ اب وہ پٹی باندھنے لگی تھی۔
”تم اور ارم تو دوست تھے تو اس کے گھر چلی جاتی تم!“
”ہاں مجھے خیال ہی نہیں رہا اور پھر میں نے بتایا نا کہ میرے ساتھ بھی کچھ ذاتی مسائل تھے تو بس ان ہی سب میں الجھ کر رہ گئی تھی میں، اور ویسے بھی پڑھائی ختم ہونے کے بعد پھر کہاں زیادہ دیر پرانے دوستوں سے رابطہ رہ پاتا ہے؟“ تبریز کو لگا کہ وہ ٹال مٹول سے کام لے کر بات ختم کرنا چاہ رہی ہے۔ اسی لئے اس نے بھی پھر زیادہ نہیں کریدا۔
وہ نظریں جھکائے چاپ چاپ بینڈج کر رہی تھی اور وہ موقع غنیمت جان کر اپنی آنکھوں سے اس چہرے کو چھونے لگا جس پر جھکی سیاہ پلکیں اسے مزید دلکش بنا رہی تھیں۔ اس کا دل چاہا کہ کاش یہ پل یہیں تھم جائے اور وہ ساری عمر یوں ہی بیٹھا اسے دیکھتا رہے۔ وہ اس کے اتنے ہی قریب رہے۔
”لو ہوگئی تمہاری بینڈج، لیکن پھر بھی صبح ڈاکٹر کے پاس ضرور چلے جانا۔“ اس نے سامان سمیٹتے ہوئے تاکید کی تو تبریز نے فوری طور پر اس کے چہرے سے نظریں ہٹا لیں۔
”ٹھیک ہے، تھینک یو سو مچ۔“ وہ شکر گزار ہوا۔
”کوئی بات نہیں، مگر اب تم کچن کی صفائی کیسے کروگے؟“ وہ کہتی ہوئی کھڑی ہوگئی۔
”کرلوں گا دوسرا ہاتھ تو ٹھیک ہے۔“ اس نے بھی کھڑے ہوتے ہوئے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے، اگر کچھ چاہئے ہو تو بلاجھجھک کہہ سکتے ہو۔“ اس نے سہولت سے پیشکش کی۔ تو تبریز کا دل چاہے کہہ دے کہ ہاں تمہارا ساتھ چاہیے زندگی بھر کیلئے مگر وہ محض ایسا سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر رہ گیا۔
پھر وہ عریش کو لے کر باہر کی جانب بڑھ گئی جنہیں چھوڑنے تبریز بھی دروازے تک آیا۔
اس کے گھر میں جانے کے بعد وہ گیٹ بند کرکے واپس لاؤنج میں آکر گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گیا اور کچھ دیر ایسے ہی خالی ذہن سے چھت کو تکتا رہا۔ پھر اپنا پٹی بندھا ہاتھ آنکھوں کے سامنے کرلیا۔
”جب تم میری ہو ہی نہیں سکتی تو کیوں آگئی واپس؟“ اس نے خودکلامی کرتے ہوئے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
شاید نئے سرے سے خود پر جبر کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خود کو یقین دلا رہا تھا کہ وہ نہ کبھی اس کی تھی اور نہ کبھی ہوسکتی ہے۔
نہ جانے اور کتنی ہی دیر وہ ایسے بیٹھا رہتا اگر دروازے پر دستک نہ ہوتی۔ دستک پر اس نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر گیٹ کھولنے آیا جہاں سامنے عریش ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لے کر کھڑا تھا۔
”یہ مما نے آپ کے لئے بھیجا ہے۔“ اس نے ٹرے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔
”ارے! اس کی کیا ضرورت تھی۔“ وہ حیران ہوا جبکہ عریش نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔
”اچھا مما کو میری طرف سے تھینک یو بول دینا، ٹھیک ہے۔“ اس نے ٹرے لیتے ہوئے پیغام دیا تو وہ سر ہلا کر واپس چلا گیا جب کہ تبریز بھی دروازہ بند کرکے واپس کچن میں آگیا۔
اس نے کھانے کی ٹرے کچن کاؤنٹر پر رکھی اور چند لمحے بغور اسے دیکھتے رہنے کے بعد اپنی قسمت پر پھیکےپن سے مسکرا دیا۔
یوں تو طے کرے گی زندگی ایسے بھی اپنا سفر
لیکن بات کچھ اور ہوتی جو۔۔۔۔۔۔آپ ہوتے ہمسفر
فریال خان
*****************************************
معصوم عریش سمیت اس وقت سارا عالم نیند میں ڈوبا ہوا تھا جو اپنے باپ کی تصویر سینے سے لگائے سو رہا تھا۔
پر اس کے پہلو میں لیٹی عافیہ کی آنکھوں سے نیند روٹھی ہوئی تھی۔ وہ سیدھی لیٹی چھت کو تکتے ہوئے وہ سب سوچ رہی تھی جو چاہ کر بھی کسی سے کہہ نہیں سکتی تھی۔ اور دل کی دل میں دبائے رکھنا نہ جانے کیوں آج اسے تھوڑا مشکل لگا۔
ان سوچوں سے اپنی جان چھڑانے کیلئے اس نے عریش کی جانب کروٹ لی اور اس کے ہاتھ کے نیچے سے فوٹو فریم نکال کر سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھ دیا۔
اس نے عریش کی پیشانی پر آئے بال درست کیے۔اس کا کمبل ٹھیک کیا اور اس کے گال پر ہلکا سا بوسہ دے کر وہ بھی اس پر ہاتھ ڈال کے پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگی۔پر نیند کی جگہ اس کی آنکھوں میں پھر آنسوں آگئے۔۔۔۔بےبسی کے آنسوں!
پھر وہ ہی یاد آنے لگے ہیں
جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
*****************************************
کروٹیں بدل بدل کر اب تبریز تھک چکا تھا پر نیند کی تو شاید اس کی آنکھوں سے کوئی دشمنی ہوگئی تھی شاید تب ہی اس پر مہربان نہیں ہو رہی تھی۔ پہلے تو وہ اسے یاد کرتے کرتے سوجایا کرتا تھا مگر اب کیا کرے؟ افسوس کہ وہ کسی اور کی ہوچکی ہے؟
کتنا عرصہ گزرچکا تھا مگر وہ آگے بڑھ ہی نہیں پا رہا تھا اپنی زندگی میں۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے خود بھی آگے بڑھنے کی بھولنے کی کوشش نہ کی ہو۔ اس نے اس کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے، اسے بھولنے کیلئے خود کو بےانتہا مصروف کرلیا تھا۔پر مصروفیت بھی تو صرف دن بھر ہوتی ہے نا پھر رات بھی تو آنی ہوتی ہے اور آتشِ ہجر میں جلنے والوں کیلئے رات کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔
رات کٹتی رہی ، چاند ڈھلتا رہا
آتشِ ہجر میں ، کوئی جلتا رہا
گھر کی تنہائیاں ، دل کو ڈستی رہی
کوئی بےچین کروٹ بدلتا رہا
آس و امید کی شمع روشن رہی
گھر کی دہلیز کوئی تکتا رہا
رات بھر چاندنی گنگناتی رہی
رات بھر کوئی تنہا سسکتا رہا
اشک پلکوں پر آکے بکھرتے گئے
نام لب پر تیرا لرزتا رہا
آج پھر رات ہوگئی بسر
آج پھر کوئی خود سے الجھتا رہا
انتخاب
*****************************************
فجر کی اذان ہونے میں ابھی آدھا گھنٹہ تھا اسی لئے مسجد خالی تھی۔ کیونکہ یہ مسجد کھلی ہی رہتی تھی اس لئے صارم اکثر بلکہ روز ہی تہجد کے وقت یہاں آجاتا تھا اور فجر تک ایک کونے میں بیٹھ کر رو رو کر رب سے معافی مانگتا رہتا تھا۔
”آپ جانتے ہیں مولوی صاحب اس لڑکے کو؟ یہ اپنے علاقے کا بھی نہیں ہے مگر اکثر میں نے اسے یہاں ایسے ہی دیکھا ہے، پتا نہیں کہاں سے آتا ہے اور کون ہے؟“ ایک آدمی نے اس لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تعجب خیز انداز میں پوچھا۔
”شاید شرمندہ ہے۔“ انہوں نے پرسوچ انداز میں ٹھہرا ہوا جواب دیا۔
”آپ نے کبھی اس سے پوچھا نہیں کہ یہ کون ہے اور یہاں ایسے کیوں بیٹھا رہتا ہے؟“ آدمی نے تجسس کے مارے کریدا۔
”نہیں، یہ اس کا اور اللّه پاک کا معاملہ ہے، ہم کون ہوتے ہیں دخل اندازی کرنے والے، دلوں کے حال تو اللّه پاک ہی بہتر جانتا ہے، بس اس کی جو بھی مشکل ہے اللّه پاک آسان کرے۔“ وہ ہنوز لڑکے کو دیکھتے ہوئے دعا گو انداز میں بولے۔
”امین!“ آدمی نے بھی گہری سانس لیتے ہوئے بات ختم کی۔ جب کہ صارم کا سر دونوں ہاتھوں میں جھکا ہوا تھا اور رونے کے باعث جسم ہنوز ہلکے ہلکے ہل رہا تھا۔
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پاکر میں رو پڑوں
مجھے منزلِ عشق پر یقین ہو
تجھے دھڑکنوں میں سنا کروں
کبھی سجالوں تجھکو پلکوں پر
کبھی تسبیحوں میں پڑھا کروں
کبھی چوم لوں تیرے ہاتھوں کو
کبھی تیرے دل میں بسا کروں
کبھی یوں بھی آ میرے روبرو
تجھے پاس پاکر میں رو پڑوں
انتخاب
*****************************************
”کیا! تیری پڑوسن عافیہ ہے؟“ ارحم تقریباً چلا اٹھا۔
”چلا، اور زور سے چلا تا کہ تحریم کو سب بتا چل جائے۔“ تبریز نے طنز مارا۔
”ارے وہ بیڈ روم میں ہے مہک کو اسکول کیلئے تیار کر رہی ہے میں ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہوا ہوں۔“ اس نے تسلی کرائی۔
صبح کے سات بج رہے تھے۔آفس جانے میں تھوڑا ٹائم تھا تو دل کا بوجھ ہلکا کرنے کیلئے تبریز نے اسے فون کرلیا۔
”کیسی ہے وہ؟ کس کے ساتھ رہ رہی ہے؟“ اسے مزید تجسس ہوا۔
”ویسی ہی ہے جیسی یونی میں تھی، بالکل بھی نہیں بدلی بلکہ پہلے سے زیادہ باوقار ہوگئی ہے، اپنے چھے سالہ بیٹے کے ساتھ رہتی ہے یہاں، ہسبنڈ اس کا دبئی میں ہے۔“ اس نے صوفے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے دھیرے سے بتایا۔
”کیا بیٹا! مطلب اس کے ملنے کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا!“ وہ حیران رہ گیا۔
”ہممم! اس سے تو بہتر تھا کہ وہ نہ ملتی، کم از کم میں اس امید پر تو رہ لیتا کہ شاید کہیں وہ مل جائے! پر اب کس امید پر جیوں؟“ وہ تاسف سے بولا۔
”اچھا ہوا وہ مل گئی اب تم امید پر نہیں حقیقت میں جیو، خیالوں کی دنیا سے باہر آؤ میری جان حقیقت کو تسلیم کرو، وہ اب تمہاری دسترس سے بہت دور جا چکی ہے لہٰذا تم بھی اب آگے بڑھو۔“ اس نے پھر سمجھایا۔
”کیسے؟“
”شادی کرو، ذمہ داری پڑے گی تو خود ہی بھول جاؤ گے سب، ابھی اکیلے رہتے ہو اس لئے ان سب خیالات سے نکل نہیں پا رہے ہو تم۔“ اس نے پھر وہی بات دہرائی۔
”آپ فون پر لگے ہوئے ہیں تیار نہیں ہوئے ساڑھے سات بجے جانا ہے نا آپ کو!“ تب ہی تحریم کہتی ہوئی ڈرائینگ روم میں آئی۔
”ہاں بس جارہا ہوں، تبریز سے بات کر رہا تھا۔“
”بھیا کا فون ہے! لائیں دیں مجھے بھی بات کرنی ہے۔“ وہ بھی بات کرنے کو لپکی تو ارحم نے فون اسے دے دیا۔
”السلام علیکم بھیا کیسے ہیں؟ دل لگ گیا گھر میں؟ کوئی مسلہ تو نہیں ہے؟“ اس نے فون کان سے لگاتے ہی کئی سوال کرڈالے۔
”ارے میری ماں سانس تو لے لو، ٹھیک ہوں میں تم فکر مت کرو، دل بھی لگ گیا ہے اور کوئی مسلہ بھی نہیں ہے۔“ اس نے سارے سوالوں کے جواب دیے۔
”اچھی بات ہے اور پھر کیا سوچا آپ نے؟“
”کس بارے میں؟“
”اپنی شادی کے بارے میں، بھابھی ڈھونڈوں میں پھر اپنے لئے؟“ اس نے یاد دلاتے ہوئے اجازت چاہی۔
”تیری سوئی پھر وہیں آکر اٹک گئی، اب دیر نہیں ہو رہی ارحم کو آفس اور مہک کو اسکول بھیجنے میں؟“ اس نے بات بدلنی چاہی۔
”ارے ہاں جا رہی ہوں بس آپ ہاں یا نہ میں جواب دے دیں۔“ وہ بھی اپنی بات پر اڑی رہی۔
”ہاں ٹھیک ہے ڈھونڈ لو۔“ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔
”سچی بھیا!“ وہ خوشی سے چلائی۔
”ہاں میری ماں!“ اس نے ہار مانی۔
”بس ٹھیک ہے اب دیکھیں میں آپ کے لئے کتنی پیاری دلہن ڈھونڈتی ہوں۔“ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔
”ٹھیک ہے ڈھونڈ لینا پر پہلے اپنے دلہے پر دھیان دو، آفس بھیجو اسے۔“ اس نے دھیان دلایا۔
”جی جاری ہوں الله حافظ اپنا خیال رکھیے گا۔“
”الله حافظ!“
*****************************************
ارحم سے بات کرنے کے بعد تھوڑی دیر تک تبریز بھی آفس کیلئے تیار ہوکر گھر سے باہر آگیا جہاں اسے ایک بلی نظر آئی۔ اور کسی جانور پر نظر پڑے کے بعد تبریز اسے کھانا نہ کھلائے ایسا بہت کم ہی ہوا کرتا تھا۔ ابھی بھی وہ گھر سے ایک پیالے میں اس کیلئے دودھ لایا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر اسے پلانے لگا۔
”السلام علیکم!“ تب ہی یونیفارم میں تیار عریش بھی اس کے پاس آگیا۔
”وعلیکم السلام!“ اس نے خوشدلی سے جواب دیا۔
”آپ کو بھی کیٹس پسند ہیں؟“ عریش نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”بالکل، آپ کو بھی پسند ہیں کیا؟“
”جی، اور پتا ہے میں ان کیلئے کیٹ ہاؤس بنانے کا سوچ رہا ہوں۔“ اس نے اپنا معصومانہ منصوبہ بتایا۔
”یہ تو بہت اچھی بات ہے، بلکہ ایسا کرتے ہیں سنڈے کو ہم دونوں مل کر ان کیلئے ہاؤس بنائیں گے۔“
”سچی انکل! آپ بھی میری مدد کریں گے؟“وہ خوش ہوگیا۔
”ہاں بالکل!“ اس نے مسکرا کر تصدیق کی۔
”چلو عریش!“ تب ہی عافیہ کہتی ہوئی ان کے پاس آئی تو تبریز اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔
”مما! پتا ہے انکل کیٹ ہاؤس بنانے میں میری ہیلپ کریں گے۔“ اس نے خوشی سے بتایا تو عافیہ نے پہلے تبریز کو دیکھا اور پھر دودھ پیتی بلی کو۔
”جانوروں کو کھانا کھلانے کی عادت ابھی تک ہے تمہاری!“ وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوئی۔
”تمہیں کیسے پتا چلا میری اس عادت کا؟“ اس نے تعجب خیز انداز میں سوال کیا تو عافیہ کی مسکراہٹ بےساختہ یوں غائب ہوئی جیسے کوئی نہ کہنے والی بات کہہ گئی ہو!
”وہ یونیورسٹی ٹائم پر دیکھا تھا ایک دفعہ!“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
”چلو عریش ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔“ اگلے ہی پل اس نے عریش کا ہاتھ تھاما اور اپنی گاڑی میں سوار ہوکر وہاں سے چلی گئی۔
جب کہ تبریز ہنوز متعجب سا اس کا الجھا ہوا رویہ سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔
*****************************************
اس روز کی اتفاقیہ ملاقات کے بعد سے پھر تو یہ دونوں کی روٹین ہی بن گئی تھی کہ مغرب کی نماز پڑھ کر دونوں مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر دیر تک باتیں کرتے رہتے تھے۔
کچھ ہی دنوں میں دونوں کی کافی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔
پر آج تبریز کو آفس میں کچھ زیادہ کام نہیں تھا اس لئے عصر کے وقت ہی وہ گھر کیلئے روانہ ہوگیا۔ عصر اور مغرب کی نماز اس نے گھر کے قریب والی مسجد میں ہی پڑی اور اب اسی مسجد میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا۔ نماز کے بعد اس نے دعا مانگ کر چہرے پر ہاتھ پھیرا۔
”کیسے ہو دوست؟“ اس کے عقب سے آواز آئی وہ چونک کر پلٹا تو پیچھے صارم بیٹھا ہوا تھا۔
”ارے! تم یہاں؟“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔
”ہممم! مغرب میں تم اس مسجد میں ملے نہیں تو سوچا تمہارے ایریا کی مسجد میں آکر تم سے مل لوں۔“ اس نے وضاحت کی۔
”ہاں آج میں آفس سے جلدی نکل گیا تھا اس لئے مغرب کی نماز بھی یہاں ہی پڑھ لی تھی تم صرف مجھ سے ملنے یہاں آئے ہو؟“ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا۔
”ہممم! تم سے ملنے آیا ہوں، عجیب بات ہے نا کہ کچھ دنوں پہلے ہی ہماری دوستی ہوئی ہے پر مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے میں تمھیں کب سے جانتا ہوں اور دیکھو آج صرف ایک دن تم سے ملاقات نہیں ہوئی تو بےاختیار ہی میں تمھیں ڈھونڈتا ہوا یہاں آگیا۔“ اس نے اپنی بے چین کیفیت بتائی۔
”ہوتا ہے، کچھ لوگوں سے چند ہی ملاقاتوں میں بہت گہرا تعلق محسوس ہونے لگتا ہے اور کچھ لوگوں کے ساتھ ساری زندگی رہ کر بھی وہ خاص انسیت نہیں ہوپاتی۔“ تبریز نے بھی تائید کی۔
”چلو اب جب تم یہاں تک آہی گئے ہو تو آج میرے گھر بھی چلو۔“ اگلے ہی پل نے پیشکش کی۔
”نہیں یار میں تو بس تم سے ملنے آیا تھا۔“ وہ ہچکچایا۔
”ہاں تو میں بھی تمہارے ساتھ ہی چل رہا ہوں تمہیں گھر پر چھوڑ کر بھاگ نہیں جاؤں گا، چلو اٹھو۔“ وہ شرارت سے کہتا ہوا کھڑا ہوگیا تو صارم کو بھی اس کی تقلید کرنی پڑی دونوں باتیں کرتے ہوئے آہستہ آہستہ تبریز کے گھر کی جانب جانے لگے۔
”کوئی ہے نہیں کیا تمہارے گھر میں؟“ صارم نے گھر میں داخل ہوکر گھر کا سناٹا دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں میں اکیلا ہی رہتا ہوں۔“ اس نے گیٹ بند کرتے ہوئے جواب دیا۔
”کیا مطلب؟ تمہاری فیملی کہاں ہے؟“ وہ تبریز کے پیچھے لاؤنج میں آیا۔
”بڑی جلدی خیال آگیا آپ کو میرے بارے میں پوچھنے کا ورنہ اتنے دنوں سے تو آپ کو اپنے ہی دکھڑے سنانے سے فرصت نہیں تھی۔“ تبریز نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے شرارت سے طنز مارا۔ صارم بھی اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ چکاتھا۔
"سوری یار خیال ہی نہیں آیا، دراصل اتنے عرصے بعد کوئی دل کا حال سنانے والا ملا تو میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگیا۔“ وہ شرمندہ ہوا۔
”کوئی بات نہیں یار میں بھی مذاق ہی کر رہا ہوں دراصل میرے ابو کا تو کافی عرصہ قبل ہی انتقال ہوگیا تھا امی کا بھی ابھی پانچ سال قبل انتقال ہوگیا ہے، ایک بہن ہے جس کی شادی ہوگئی ہے اب وہ اپنی فیملی کے ساتھ حیدر آباد میں رہتی ہے اور میں یہاں ہوں۔“ اس نے اپنے بارے میں مختصر بتایا۔
”اوہ اچھا! تو تم شادی کرلو ایسے اکیلے گھر میں تنہائی سے وحشت نہیں ہوتی تمہیں؟“ اسے تعجب ہوا۔
”نہیں یار اب تو اچھی لگنے لگی ہے یہ تنہائی، وحشت نہیں ہوتی سکون ملتا ہے۔“ وہ پھیکی سی ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
”ہممم! کہیں تم بھی ماضی کے ناکام عاشق تو نہیں ہو؟“ صارم نے معنی خیز انداز میں آنکھیں سکیڑیں تو تبریز نے بجائے چھپانے کے مسکرا کر اثبات میں سرہلایا۔
”میں تو تمہیں اپنا حالِ دل سنا چکا ہوں اب تم بھی کچھ اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرو۔“ اس نے فرمائشی پیشکش کی۔
”کوئی زیادہ لمبی چوڑی داستانِ محبت نہیں ہے میری، یونیورسٹی میں ملی تھی وہ، رسمی سی علیک سلیک تھی اس سے پر میں کچھ الگ ہی محسوس کرنے لگا تھا لیکن بولنے سے بھی ڈرتا تھا کہ کہیں وہ انکار نہ کردے دوستوں کے زور دینے پر بولنے کی کوشش بھی کی، پر بول نہیں پایا اسی دوران اس کا رشتے کہیں اور طے ہوگیا اور یوں یہ کہانی شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئی۔“ اس بہت ہلکے پھلکے انداز میں وہ آپ بیتی سنائی جو کبھی اس پر قیامت کی مانند گزری تھی۔
”اوہ سو سیڈ! کتنا عرصہ ہوگیا ہے اس بات کو؟ اور اب وہ لڑکی کہاں ہے کچھ پتا ہے تمہیں؟“ اس نے تاسف سے پوچھا۔
”سات سال ہوگئے ہیں، اس کی شادی ہوچکی ہے اور ایک چھے سالہ بیٹا بھی ہے اس کا۔“
”تمہیں کیسے پتا؟ ملتے ہو کیا آپ بھی اس سے؟“ اسے تعجب ہوا۔
”نہیں، ملتا نہیں ہوں ملنا چاہتا تھا اور قدرت نے ملوا بھی دیا پر ملنے کے بعد اب سوچتا ہوں کہ کاش نہ ہی ملتا۔“ اس نے تاسف سے آہ بھری۔
”کیا مطلب؟“ وہ سمجھ نہیں پایا۔
”مطلب کہ یہ جو میرے گھر کے برابر والا گھر ہے نا اسی میں رہتی ہے وہ۔“ اس نے سادگی سے بتایا۔
”نہیں یار! تمہارے برابر والے گھر میں!“ اسے یقین نہیں آیا۔ تبریز نے اثبات میں سرہلایا۔
”چلو، جو قدرت کو منظور، ہوسکتا ہے اللّه نے تمہارے لئے اس سے بھی زیادہ بہترین منتخب کیا ہوا ہو! تم دل چھوٹا مت کرو اور میری مانو تو شادی کرلو شادی کے بعد ذمہ داری پڑے گی تو خود ہی یہ سب باتیں بھول جاؤ گے ایسے اکیلے تو تم اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پاگل ہوجاؤ گے۔“ اس نے بھی تسلی دیتے ہوئے وہی بات سمجھائی۔
”ہممم! سب یہ ہی کہتے ہیں کہ شادی کرلو۔“ تبریز کی بات مکمل ہوتے ہی ڈور بیل بجی۔
”ایکسکیوزمی! ابھی آیا۔“ وہ کہتا ہوا باہر آیا۔
گیٹ کھولا تو سامنے عریش کھانے کی ٹرے لئے کھڑا تھا۔
”السلام علیکم! مما نے یہ آپ کے لئے بھیجا ہے۔“ اس نے ٹرے آگے کرکے بتایا۔
”وعلیکم السلام! آپ کی مما اتنی زحمت کیوں کرتی ہیں؟ خیر آؤ اندر!“ اس نے ٹرے لیتے ہوئے اپنائیت سے کہا اور اندر آگیا۔
عریش بھی اس کے پیچھے لاؤنج میں آگیا۔ تبریز کچن میں جا کر برتن خالی کرنے لگا جب کہ عریش لاؤنج میں کھڑا ہوگیا۔
کہ تب ہی اس کی نظر صارم پر پڑی وہ بھی اس سے نظریں ملنے پر مسکرایا۔
”پاپا!“ عریش اسے دیکھ کر چلایا۔
تبریز اور صارم دونوں حیران ہوگئے۔ جبکہ عریش بھاگتا ہوا جاکر صوفے پر بیٹھے صارم کے گلے لگ گیا۔
”آپ کہاں تھے پاپا؟“ اس نے گلے لگ کر پوچھا۔ جبکہ یہ دونوں ہکابکا سے کبھی عریش کو دیکھ رہے تھے تو کبھی ایک دوسرے کو۔
آپ کہاں تھے پاپا؟“ عریش نے گلے لگ کر پوچھا۔ جبکہ دونوں ہکابکا سے کبھی عریش کو دیکھ رہے تھے تو کبھی ایک دوسرے کو۔
”بیٹا یہ آپ کیا کہہ رہے ہو؟ یہ آپ کے پاپا ہیں؟“ تبریز نے قریب آتے ہوئے حیرانی سے پوچھا۔
”جی، یہ میرے پاپا ہیں صارم منصور۔“ اس نے الگ ہوتے ہوئے کہا تو صحیح نام بتانے پر دونوں اور حیران ہوگئے۔
”صارم! یہ میری اسی یونیورسٹی فیلو عافیہ کا بیٹا ہے جس کا ابھی میں نے تمہیں بتایا، مطلب تم عافیہ کے شوہر ہو؟“ تبریز کی حیرت انتہا پر تھی۔
”نہیں تبریز! میں تو اس بچے کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں اور عافیہ کا ذکر بھی ابھی تمہارے منہ سے ہی پہلی بار سنا ہے میں ان دونوں کو نہیں جانتا۔“ اس نے صوفے سے اٹھتے ہوئے وضاحت کی۔
”عریش! آپ ایسا کیوں بول رہے ہو کہ یہ آپ کے پاپا ہیں؟“ تبریز نے پھر پوچھا۔
"کیونکہ میرے پاس ان کی فوٹو ہے، مما نے دی تھی۔“ اس کا ہر جواب ان پر حیرت کے نئے در کھول رہا تھا۔
”آپ جلدی سے جا کر اپنی مما کو بلا کر لاؤ عریش۔“ تبریز کی سمجھ میں فی الحال یہ ہی حل آیا تو وہ اثبات میں سرہلاکر جلدی سے باہر بھاگا۔ جبکہ دونوں حیران و پریشان کھڑے تھے۔
”تبریز میں سچ کہہ رہا ہوں میں نہیں جانتا کسی عافیہ کو۔“ اس نے پھر یقین دلانا چاہا۔
”یہ تو عافیہ ہی بتا سکتی ہے کہ پھر یہ تمہیں پاپا کیوں کہہ رہا ہے؟“ اس کا انداز بھی پرسوچ تھا۔
چند لمحوں بعد ہی عریش عافیہ کو لے کر لاؤنج میں داخل ہوا جہاں صارم پر نظر پڑتے ہی وہ بھی حیران رہ گئی جبکہ وہ اسے نہیں پہچانا۔
”مما! یہ ہی میرے پاپا ہیں نا!“ اس نے دونوں کو آمنے سامنے کھڑا کرکے تائید چاہی تو اس نے صارم کی جانب دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا جس سے وہ حیران رہ گیا۔
”یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ میرا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے؟ میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں ہوں۔“ وہ جلدی سے بولا۔
”عافیہ تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا ہسبنڈ دبئی میں ہے تو پھر یہ تمہارا ہسبنڈ کیسے ہوسکتا ہے؟“ تبریز نے بھی سوال اٹھایا جس کا اس نے فوری طور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ عریش کی جانب متوجہ ہوئی۔
”عریش! بیٹا آپ گھر جاؤ میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں۔“ ان دونوں کو نظر انداز کرتے ہوئے وہ پنجوں کے بل اس کے سامنے بیٹھی۔
”نہیں میں نہیں جاؤں گا مجھے پاپا سے باتیں کرنی ہیں۔“ اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے انکار کیا۔
”میرا اچھا بیٹا ہے نا، پاپا کہیں نہیں جا رہے آپ گھر جاؤ میں انہیں وہیں لے کر آرہی ہوں۔“ اس نے پیار سے سمجھایا۔
”ٹھیک ہے پر جلدی آئیے گا۔“
”ہممم! اب جاؤ جلدی سے، شاباش۔“ اس کے کہنے پر عریش نے ایک ترسی ہوئی نظر صارم پر ڈالی اور پھر خاموشی سے باہر نکل گیا۔ جبکہ وہ واپس کھڑی ہوگئی۔
”ہاں! تو کیا کہہ رہے تھے تم کہ عریش تمہارا بیٹا کیسے ہوسکتا ہے تم تو مجھے جانتے بھی نہیں ہو؟“ وہ اس سے مخاطب ہوئی۔
”ہاں میں سچ میں آپ کو نہیں جانتا۔“ وہ اپنی بات پر قائم تھا۔
”اریبہ افتخار کو بھی نہیں جانتے؟“ اس نے طنزیہ انداز میں تائید چاہی۔
”کون ہو تم؟“ اب وہ کھٹکا۔
”میرے سوال کا جواب دو اریبہ کو بھی نہیں جانتے؟“ اس نے آواز اونچی میں اپنی بات پر زور دیا۔
”ہاں جانتا ہوں، تو؟“
”کس رشتے سے جانتے ہو؟ کیا لگتی تھی وہ تمہاری؟“ دوسرا سوال آیا۔
”دیکھو سیدھی طرح جواب دو کہ تم کون ہو اور اتنا سب کیسے جانتی ہو؟“ اب اس نے بھی سختی دکھائی۔
"میں عافیہ ہوں، اریبہ کی اسکول کی دوست، یہ عریش تمہارا اور اریبہ کا وہ ہی بچہ ہے جسے تم دنیا میں آنے سے قبل ہی ختم کرنا چاہتے تھے، اپنا نام نہیں دینا چاہتے تھے مسٹر صارم منصور!“ اس نے چلاتے ہوئے انکشاف کیا۔
اور اس کے منہ سے یہ سب سن کر وہ ہکابکا رہ گیا۔جبکہ تبریز خاموش تماشائی بنا ناسمجھی سے دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔
”کیا! عریش میرا بیٹا ہے!“ وہ بےیقینی سے بولا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ جو اتنے سال سے اولاد کیلئے ترس رہا تھا اس کی اولاد دنیا میں سانس لے رہی تھی۔
”اریبہ! اریبہ کہاں ہے؟ مجھے اس سے۔۔۔۔۔۔اس سے ابھی ملنا ہے معافی مانگنی ہے پلیز مجھے اس کے پاس لے چلو۔“ وہ یکدم دیوانہ وار بولا۔
”بہت دیر ہوگئی ہے، اب تم اس سے نہیں مل سکتے۔“ اس کا انداز سپاٹ تھا۔
”کیوں! کیوں نہیں مل سکتا؟“
”کیونکہ وہ اس دنیا سے ہی چلی گئی ہے، وہ مر چکی ہے اور اس کی موت کے ذمہ دار بھی صرف تم ہو۔“ اس نے تلخی سے ایک اور انکشاف کیا۔ جس سے اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ جب کہ تبریز بھی حیران ہوا۔
”کیا! اریبہ۔۔۔۔۔“ وہ حیرانی سے بس اتنا ہی کہہ پایا۔
”ہاں! تمہاری بےوفائی برداشت کرنے سے زیادہ آسان اسے موت کو گلے لگانا لگا اس لئے چلی گئی وہ۔“ اس نے چلاتے ہوئے تائید کی تو صارم کا دل چاہا کہ ابھی زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے یا کسی طرح زمین تلے ابدی نیند سوئی اریبہ کو کھینچ کر واپس لے آئے اور پھر کہیں نا جانے دے۔
”ک۔۔۔کیا ہوا تھا اسے؟“ اس نے حلق میں بنتے آنسوں کے گولے کو نگلتے ہوئے بمشکل پوچھا تو ایک قہر آلود نظر اس پر ڈال کر وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔
*****************************************
”میں اور اریبہ پہلے ایک ہی محلے میں رہتے تھے، اسکول کے سیکنڈری سیکشن میں ہم دوست بنے تھے اور ایف ایس سی تک ساتھ رہے، پھر اس کے بعد ہمارے حالات بدلے تو ہم نے پرانا محلہ چھوڑ دیا اور اریبہ نے بھی آگے تعلیم جاری نہ رکھی جب کہ میں نے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا، لیکن اکثر فون پر ہماری بات چیت ہوتی رہتی تھی، تب ہی جاب جوائن کرنے کے بعد آہستہ آہستہ اس کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگے، اس کی زبان پر بس ایک ورد ہوتا تھا، صارم سر، صارم سر!
میں نے شروعات میں اسے دبے دبے لفظوں میں سمجھایا کہ اسے اتنی جلدی کسی غیر مرد سے اتنا متاثر نہیں ہونا چاہئے مگر وہ بجائے میری بات سمجھنے کے مجھ سے الجھ پڑتی تھی کہ صارم سر ایسے نہیں ہیں اسی وجہ سے ہماری ایک بار اتنی زیادہ تلخ کلامی ہوئی کہ پھر ہم نے بات چیت کرنا تقریباً بند کردیا۔
سب ایسے ہی چل رہا تھا، ایک دن میں یونی کی لائبریری میں بیٹھی کچھ نوٹس بنا رہی تھی تب تبریز مجھ سے کچھ بات کرنے آیا تھا، ابھی اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میرے پاس مما کی کال آئی، مما نے بتایا کہ فرحت آنٹی، اریبہ کی امی کی طبیعت خراب ہوگئی ہے، اریبہ کا فون آیا تھا وہ اس کے ساتھ ہاسپٹل جا رہی ہیں میں بھی جلدی وہاں پہنچوں۔ کیونکہ ان دنوں میں اریبہ سے بات نہیں کر رہی تھی اس لئے اس نے مما کو فون کیا۔
میں یونی سے جلدی ہاسپٹل آئی، وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ فرحت آنٹی کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا ہے اریبہ روتے روتے بےہوش ہوگئی تھی اس لئے اسے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرلیا ہے۔
مما کے بتانے پر میں اریبہ سے ملنے روم میں آئی جہاں اس نے مجھے روتے ہوئے بتایا کہ وہ صارم سے چھپ کر نکاح کر چکی ہے اور اب پریگنینٹ ہے مگر اب صارم نے اسے اپنانے سے انکار کردیا ہے۔
میں یہ سن کر دنگ رہ گئی، مجھے صارم اور اریبہ پر بہت غصہ آیا لیکن اریبہ پر تھوڑا ترس بھی پر اس وقت میں اسے کیا کہتی؟ اس لئے تسلی دینے لگی۔
فرحت آنٹی کی تدفین وغیرہ کے بعد اریبہ کو گھر میں اکیلا چھوڑنا خطرناک تھا کیونکہ وہ اتنے صدمے میں تھی کہ اسے اپنا اور اپنے بچے کا کچھ ہوش ہی نہیں تھا اس لئے میں اسے اپنے گھر لے آئی اور اس کا سارا ماضی میری مما سے بھی چھپ نہیں پایا مجھے انہیں سب بتانا پڑا جسے سن کر انہوں نے اسے گھر میں رکھنے سے انکار کردیا میں نے ان کی منت بھی کی ضد بحث بھی کی پر وہ نہیں مانی اور مجھ سے بھی ناراض ہوگئیں۔ پھر کافی ضد بحث، منت سماجت کے بعد مما اس شرط پر اسے رکھنے کیلئے راضی ہوگئیں کہ بس ڈیلوری تک وہ یہاں رہے گی اور دوسری اور سب سے بڑی شرط کے مجھے ان کی مرضی سے اپنی بہن کے دیوار فیاض سے شادی کرنی ہوگی۔
میں نے ان سے سوچنے کیلئے وقت مانگا اور سوچتے ہوئے آخر کار میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر میری ایک ہاں سے دو زندگیاں دربدر ہونے سے بچتی ہیں تو مجھے ایسا کرلینا چاہئے تو میں نے مما کی بات مان لی اور انہوں نے میری اور یوں ثانیہ باجی آکر مجھے اپنے دیوار کے نام کی انگوٹھی پہنا گئیں۔
سب کچھ ایسے ہی چلتا رہا اریبہ بس پورا دن کمرے میں ہی بند پڑی رہتی تھی یا پھر وقفے وقفے سے اسے رونے کے دورے پڑتے تھے جن میں اسے ایسی حالت میں سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔
وہ اب پہلے والی نارمل لڑکی نہیں رہی تھی اور کتنی ہی بار وہ خودکشی کی کوشش بھی کرچکی تھی، لیکن وقت پر پہنچ کر اسے بچالیا جاتا تھا۔ پہلے میں نے سوچا کہ صارم پر کیس کروں اس سے لڑوں کہ اپنی بیوی اور بچے کو اپنائے مگر مما نے مجھے ایسا نہیں کرنے دیا کیونکہ ان کے خیال میں، میں اکیلی اس کا مقابلہ نہیں کر پاتی اور ان کی طاقت کے آگے ہم ہار جاتے۔ دوسرا مجھے صارم کے بارے میں کوئی علم بھی نہیں تھا کہ وہ کون ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ یہ سب اریبہ جانتی تھی اور اس نے اپنے لبوں کو سی رکھا تھا اسی لئے میں بھی خاموش ہوگئی۔
کچھ ہی عرصے بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ ہسپتال جانے سے پہلے اس نے خود ایک بیگ تیار کرکے اپنے ساتھ رکھا تھا اور مجھے آج تک افسوس ہے کہ کاش میں نے وہ بیگ پہلے چیک کرلیا ہوتا کیونکہ وہ اس بیگ میں اپنی موت کا سامان لے کر گئی تھی۔“
*****************************************
سات سال پہلے (فلیش بیک)
کل اریبہ کی ڈیلوری ہوئی تھی مگر کمزوری کے باعث اسے فوری طور پر چھٹی نہیں دی گئی تھی اور اس وقت وہ پرائیویٹ روم کے بستر پر لیٹی ہوئی تھی۔ جب کہ پاس ہی جھولے میں اس کا ایک دن کا بیٹا بےخبر سو رہا تھا۔
تب ہی ایک جوان نرس کمرے میں داخل ہوئی اور اس کی ڈرپ بدلنے لگی۔
”سسٹر!“ اس نے آہستہ سے پکارا۔
”جی بولیں؟“
”پلیز میرا بیگ دے دیں گی۔“ اس نے صوفے پر رکھے بیگ کی جانب اشارہ کیا تو ڈرپ بدلنے کے بعد نرس نے اسے پنک کلر کا بیگ دیا اور واپس جانے لگی۔
”سسٹر!“ اس کی پکار پر وہ رک کر پلٹی۔
”آپ کا نام کیا ہے؟“
”سمبل!“
”کسی سے محبت کرتی ہو سمبل؟“ اس کے غیرمتوقع سوال پر وہ متعجب ہوئی۔
”آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔
”کیونکہ یہ ہر انسان کرتا ہے اور زیادہ تر یہ غلط شخص سے کر بیٹھتا ہے۔“ اس نے آہستہ سے جواب دیا جس پر وہ کچھ نہ بولی۔
”مگر میری ایک بات یاد رکھنا کہ جو مرد چھپ کر محبت کرنے کیلئے آزاد اور اعلانیہ شادی کیلئے مجبور ہو اسے پھر محبت بھی نہیں کرنی چاہئے، اور نہ اس کی محبت پر اعتبار کرنا چاہئے، کیونکہ وہ محبت نہیں ہوتی۔“ اس نے اپنے تلخ تجربے کی روشنی میں اسے گرنے سے بچانا چاہا۔ جب کہ سمبل کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
”آپ کو آرام کی ضرورت ہے، آپ سوجائیں۔“ سمبل اس کی الجھی ہوئی باتوں سے گھبرا کر اسے تسلی دیتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد اریبہ نے پہلے اپنی ڈرپ نوچ کر نکالی جس کے باعث ہاتھ سے خون نکلا مگر اسے اس معمولی زخم کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر آہستہ سے اپنے بیٹے کے پاس آئی اور جھک کر اس کا ماتھا چوما۔ ساتھ ہی اس کی آنکھ سے ایک آنسوں بھی نکل کر اس کے بیٹے کے گال پر گرا۔
اسے پیار کرکے وہ واپس بیڈ کی جانب آئی۔ اس پر رکھے پنک بیگ کی زپ کھولی اور بچے کے کپڑوں کے بالکل نیچے چھپی ماچس کی ڈبیہ اور ایک لیٹر والی ہرے رنگ کی بوتل نکالی جس میں مٹی کا تیل تھا۔
اس نے بیگ رکھ کر بوتل کا ڈھکن کھولا اور برستی آنکھوں سے وہ تیل خود پر چھڑکنے لگی۔ اسے اول سے آخر تک ہر وہ لمحہ یاد آرہا تھا جو آج اس کیلئے عذاب بن گیا تھا۔
جب وہ پہلی بار صارم سے ملی تھی۔۔۔۔۔
اس کی باتوں سے متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔
اس کی محبت پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئی تھی۔۔۔۔
اس کیلئے اپنی ماں کو اندھیرے میں رکھا تھا۔۔۔۔۔۔
اسے اپنا تن من سب سونپ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
جب وہ بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس کے آگے روئی تھی۔۔۔۔۔گڑگڑائی تھی۔۔۔۔۔۔
اس کی ماں یہ صدمہ برداشت نہ کرسکی۔۔۔۔۔۔
وہ تیل کی بوتل خود پر خالی کر چکی تھی۔ اس نے بوتل ایک طرف پھینکی اور ماچس کی تیلی سلگا کر نگاہوں کے سامنے کی۔
وہ بہت بری بیٹی ثابت ہوئی تھی۔۔۔۔۔اس نے اپنے عورت ہونے کے وقار کو خود گرایا تھا۔۔۔۔اس نے صارم سے متاثر ہوکر خود اسے اجازت دی تھی کہ وہ اس سے کھیل جائے۔
اس نے عافیہ کی بھی نہیں سنی تھی۔۔۔۔۔وہ مجرم تھی۔۔
وہ گناہگار تھی۔ اسے یقین ہوچلا تھا کہ وہ برباد ہوگئی ہے اور اب کبھی نہیں سنبھل سکتی۔۔۔۔دنیا اسے کبھی قبول نہیں کرے گی۔۔۔۔اللّه اسے کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔اس نے گناہ کیا تھا اسی لئے اسے جینے کا کوئی حق نہیں تھا۔
رات کے قریب بارہ، ساڑھے بارہ کا وقت ہونے کا باعث ہر طرف ایک سکوت سا طاری محسوس ہو رہا تھا۔ صاف ستھرے ہسپتال میں بھی کچھ زیادہ خاص چہل پہل نہیں تھی، بس نائٹ ڈیوٹی پر موجود اسٹاف کے لوگ ہی وقفے وقفے سے یہاں وہاں جاتے نظر آرہے تھے۔ یا ہسپتال میں داخل لوگوں کے اکا دکا اٹینڈر یہاں رکے ہوئے تھے۔
”اب بات گھماؤ نہیں، تم نے پہلے بھی یہ ہی کہا تھا کہ جب تمہاری نوکری لگ جائے گی تب تم اپنے گھر والوں کو بھیجو گے، اور اب ایک ہفتہ ہوگیا ہے تمہاری نوکری لگے مگر تم نے تو ان سے بات تک نہیں کی ہے۔“ کوئی خاص مصروفیت نہ ہونے کے باعث کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے، پین کو انگلیوں میں گھماتے ہوئے سمبل کسی سے موبائل پر گفتگو کر رہی تھی۔
”ہاں بس ہر بار یہ ہی ڈائلوگ ہوتا ہے تمہارا کہ موقع نہیں ملا یا بات کرنے ہی لگا تھا کہ فلاں بات ہوگئی! مجھے تو لگتا ہے کہ تم ٹائم پاس کر رہے ہو میرے ساتھ۔“ وہ بظاہر نروٹھے پن سے بول رہی تھی لیکن در حقیقت تھوڑی دیر قبل کہی گئی اریبہ کی باتوں نے اسے سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
”اور نہیں تو کیا؟ ملنے اور فون پر بات کرنے کیلئے تو تم ہر وقت تیار رہتے ہو اور جیسے ہی شادی کی بات بیچ میں آتی ہے تو تمہاری کوئی نا کوئی مجبوری آڑے آجاتی ہے، معذرت کے ساتھ مگر جو مرد چھپ کر محبت کرنے کیلئے آزاد اور اعلانیہ شادی کیلئے مجبور ہو اسے پھر محبت بھی نہیں کرنی چاہئے، یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ محبت کے نام پر کسی کے جذبات سے کھیل کر ٹائم پاس نہیں کرنا چاہئے۔“ وہ غیر ارادی طور پر اریبہ کی بات دہرا گئی۔ نہ جانے اور کتنی دیر یہ سلسلہ جاری رہتا اگر اچانک ہسپتال میں شور نہ اٹھتا۔
”کوئی ہے! جلدی آؤ، آگ لگ گئی ہے، جلدی آؤ!“ ایک دوسری نرس حواس باختہ سی چیختی ہوئی کوریڈور میں آئی۔
”میں بعد میں بات کرتی ہوں۔“ اس نے عجلت میں کہہ کر لائن کاٹی اور باقی لوگوں کے ساتھ وہ بھی بھاگتی ہوئی اس طرف آئی جہاں رش لگنا شروع ہوگیا تھا۔ جب کہ چیخ و پکار سن کر عافیہ بھی بھاگتی ہوئی آئی جو فون پر اپنی مما سے بات کر رہی تھی اور پرائیویٹ روم کے کھلے دروازے سے نظر آتا جو منظر سب نے دیکھا اس سے سب کے ہوش اڑ گئے۔
سامنے اریبہ کو پوری طرح سے آگ نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔ جو بری طرح جلتی ہوئی یہاں وہاں چیختی چلاتی چیزوں سے ٹکرا رہی تھی۔ اور جھولے میں لیٹا بچہ بھی شور شرابے سے ڈر کے بلک بلک کر رونے لگا تھا جیسے اس نے ایک دن پہلے جنم دیا تھا۔
عافیہ یہ سب دیکھ کر حواس باختہ سی اسے بچانے اندر آئی اسے کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے فٹافٹ اپنی چادر اتار کر اس پر ڈالنی چاہی جس سے آگ تو نہ بجھی مگر عافیہ کا بایاں ہاتھ بری طرح جل گیا۔
لوگوں نے عافیہ کو یہ بےوقوفی کرنے سے روکتے ہوئے پیچھے کھینچا اور ان سے جتنا ممکن تھا آگ بجھانے کی کوشش میں لگ گئے۔پر آگ کافی پھیل چکی تھی۔کافی مشکل سے آگ پر قابو پایا گیا۔ اریبہ بری طرح جھلس کر بس ایک جلے ہوئے گوشت کا لوتھڑا رہ گئی تھی۔اس کے اصل خدوخال کھوچکے تھے، اور اس کی بس چند سانسیں ہی باقی لگ رہی تھیں جسے سب فوراً ایمرجینسی میں لے کر بھاگے جب کہ اپنے جلے ہوئے ہاتھ کو فراموش کرکے عافیہ نے فوراً جھولے میں روتے بچے کو گود میں اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔
اب کیا ڈھونڈتے ہو! جلے ہوئے کاغذ کی راکھ سے!
وہ فسانہ ہی جل گیا جس کا عنوان کبھی تم تھے
انتخاب
*****************************************
”صرف کچھ دیر کیلئے میں اسے اکیلا چھوڑ کر باہر گئی تھی اور اتنی سی دیر میں اس نے دنیا چھوڑ کر جانے کی تیار کرلی، وہ تھوڑی سی دیر میں ہی بہت بری طرح جل گئی تھی۔ ڈاکٹر اسے آپریٹ کر رہے تھے اور میں پریشان سی اس کے لئے دعا کر رہی تھی، کافی دیر بعد ڈاکٹر نے آکر بتایا کہ وہ ہلکے ہلکے ہوش میں ہے اور مجھ سے ملنا چاہتی ہے پر اس کا بچنا ناممکن ہے۔
میں دھڑکتے دل کے ساتھ روم میں داخل ہوئی اندر اریبہ تو کہیں نہیں تھی بس ایک جلے ہوئے گوشت کا لوتھڑا بستر پر پڑا ہوا تھا جس میں بس چند سانسیں ہی باقی تھیں۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل کٹ کر رہ گیا۔ میں بہت مشکل سے ہمت جمع کرکے اس کے قریب بیٹھ گئی اور اس سے پوچھا کہ یہ تم نے کیا کیا؟ کیوں کیا؟ پر وہ کچھ کہنے کے قابل نہیں تھی، بہت مشکل سے وہ بس دو جملے بول پائی،
پہلا یہ کہ میرے بچے کا خیال رکھنا اور دوسرا "لآ اِلَهَ اِلا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ" اور وہیں اس کا دم نکل گیا۔ میں ہکابکا سی اسے دیکھتی رہ گئی۔ میں اس دن اس کے سرہانے بہت روئی، اسے چیخ چیخ کر پکارا مگر وہ بےوقوف لڑکی واپس نہیں آئی۔
میں نے کافی مشکل سے خود کو سنبھالا، محلے کے کچھ پڑوسیوں کی مدد سے اس کی تدفین کرائی اور بچے کو گھر لے آئی۔ گھر آکر میں کافی دیر بچے کو گود میں لے کر اس کمرے میں بیٹھی رہی جہاں وہ اکثر تنہا بیٹھی یا تو روتی رہتی تھی یا کچھ لکھتی رہتی تھی۔
اچانک مجھے یاد آیا کہ وہ اکثر ڈائری لکھا کرتی تھی، تھوڑا بہت ڈھونڈنے کے بعد ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں وہ ڈائری مل گئی، میں اسے پڑھنے لگی۔
صارم سے ہونے والی پہلی ملاقات سے لے کر ڈیلوری والے دن سے پہلے تک کی ساری باتیں اس میں لکھی ہوئی تھیں اس کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ بہت بری طرح ٹوٹی ہوئی تھی، تنہا تھی، شرمندہ تھی اور آخری کے صفحوں پر، وہ مجھ سے کچھ اس طرح مخاطب تھی۔
”عافیہ! میں جانتی ہوں کہ تم میری ڈائری پڑھ رہی ہو اور یہ بھی جانتی ہوں کہ تمہارے ذہن میں اس وقت بہت سے سوال ہوں گے پر میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا، اب میں اور جینا نہیں چاہتی تھی، میں بہت گناہگار تھی، میری وجہ سے میری ماں دنیا سے چلی گئی اس سے بڑا گناہ اور کیا ہوسکتا ہے میرے لئے اور جو لوگ کہتے ہیں نا کہ خودکشی کرنا بزدلی کا کام ہے، غلط کہتے ہیں کیونکہ اپنے ہاتھ سے اپنی جان لینے کیلئے بہت ہمت چاہئے ہوتی ہے، جو ہر کسی میں نہیں ہوتی تم سے جب بھی جتنا بھی ہوسکے میری زندگی کو دوسری لڑکیوں کیلئے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بنانا اگر دوبارہ کبھی میرے جیسی کوئی اریبہ کسی صارم کی جھوٹی محبت کے جال میں آکر اپنی ماں کو دھوکا دینے کا سوچے یا خود کو بنا کچھ سوچے سمجھے اپنے محبوب کے حوالے کرنے کیلئے تیار ہوجائے تو اسے روکنا اور بتانا کہ ایسی باتوں کا انجام کتنا عبرت ناک ہوتا ہے، بس تم سے آخری التجا ہے کہ میرے بچے کا خیال رکھنا اور اس کو اس کے باپ کی طرح ظالم اور خودغرض مت بننے دینا کیونکہ بس اس کو ہی دنیا میں لانے کیلئے اب تک جی رہی تھی میں جہاں مجھ پر اتنے احسان کیے تم نے، وہاں یہ احسان اور کردینا، تمہاری نافرمان، گناہگار، بدقسمت دوست، اریبہ!“
”یہ سب پڑھ کر مجھے اور دکھ ہوا، میں اب اسے کیسے بتاتی کہ اس نے اپنی جان لے کر کوئی بہادری کا کام نہیں کیا ہے بلکہ اس نے اللّه کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور مایوسی کفر ہے، اس کی بات ٹھیک تھی کہ اپنے ہاتھ سے اپنی جان لینے کیلئے بہت ہمت چاہئے ہوتی ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی پر خودکشی کرنے والوں کو بزدل بھی اس لئے کہتے ہیں کہ جتنی ہمت وہ اپنی جان لینے کیلئے دیکھاتے ہیں اتنی ہی ہمت اگر مصیبتوں کا سامنے کرنے کیلئے کرلیں تو خودکشی کی نوبت ہی نہ آئے پر اب میں کر بھی کیا سکتی تھی سوائے اس کی مغفرت کی دعا کرنے کے سو دن رات وہ ہی کرنے لگی۔
اس کے سوئم کے بعد مما نے مجھ پر زور دینا شروع کردیا کہ میں اس بچے کو کسی یتیم خانے میں دے دوں اور شادی کرکے اپنی زندگی پر توجہ دوں پر میں ایسا نہیں کرسکتی تھی، مجھے اریبہ کی آخری خواہش پوری کرنی تھی، مگر مما کسی صورت ماننے کو تیار نہیں تھیں میں بیچ میں پھنس گئی تھی کہ دوست کی آخری خواہش پوری کروں یا ماں کا حکم مانوں؟ پر ظاہر ہے کہ ماں کا حکم ہی افضل تھا تو پھر میں نے مما کے آگے یہ شرط رکھی کہ وہ چاہتی ہیں نا کہ میں فیاض سے شادی کرلوں تو میں اسی صورت میں شادی کروں گی کہ شادی کے بعد بھی یہ بچہ میرے پاس ہی رہے گا، میں اسے ماں بن کر پالوں گی تھوڑی سی ضد بحث کے بعد مما فیاض کی فیملی سے اس متعلق بات کرنے کیلئے مان گئیں پر شاید قدرت کو مجھ پر رحم آگیا تھا۔
اگلے دن ہی ثانیہ باجی کا فون آیا اور انہوں نے بتایا کہ فیاض اپنی مرضی سے کسی لڑکی سے شادی کرکے اسے گھر لے آیا ہے، مما حیران ہوگئیں اور میں نے شکر ادا کیا پھر مما نے مجھ سے یہ وعدہ لیا کہ جب تک میری شادی کہیں اور نہیں ہوجاتی صرف تب تک میں اس بچے کو اپنے پاس رکھ سکتی ہوں جیسے ہی میرے بات کہیں اور طے ہوگی میں اس بچے کو یتیم خانے میں چھوڑ دوں گی میں ایسا چاہتی تو نہیں تھی لیکن پھر بھی وعدہ کرلیا۔
تھوڑا وقت گزرا میں نے اس بچے کا نام عریش رکھا، مما سے بھی وہ کافی مانوس ہوگیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال گزرگیا، عریش ایک سال کا ہوگیا، اریبہ کو دنیا سے گئے ایک سال ہوگیا پر خدا کا شکر تھا کہ اس بیچ مما کو میرے لئے کوئی معقول رشتہ نہیں ملا۔
ایک دن مما مارکیٹ گئیں اور کچھ دیر بعد مجھے اطلاع ملی کہ ان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے میں عریش کو اپنے پڑوسیوں کے گھر چھوڑ کر جلدی سے ہاسپٹل بھاگی پر مما وہاں آخری سانسیں لے رہی تھیں، انہوں نے آخری بار مجھے اپنا خیال رکھنے کی تاکید کی اور ایک آہ کے ساتھ ہی وہ بھی مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی گئیں، میری تو مانوں دنیا ہی ویران ہوگئی، وہ وقت جس اذیت میں، میں نے گزارا تھا وہ بس میں جانتی ہوں یا میرا رب، بہت بہت مشکل سے میں نے خود کو سنبھالے رکھا، حواس قابو سے باہر نہیں ہونے دیے۔
مما کے جانے کے بعد پھر میرا اس گھر میں دل نہیں لگتا تھا، ثانیہ باجی نے مجھے اپنے ساتھ لاہور لے جانے کی کوشش کی مگر میں نہ مانی تو تھک ہار کر وہ واپس چلی گئیں، پھر میں عریش کو لے کر یہاں شفٹ ہوگئی اور جاب کرنے لگی، اب ہر کسی کو تو میں ساری تفصیل بتا نہیں سکتی تھی اس لئے سب سے یہ ہی جھوٹ بولا کہ میرے ہسبنڈ دبئی میں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں تک کے عریش کو بھی۔“
*****************************************
عافیہ ساری کہانی سنا کر اب خاموش ہوچکی تھی، بلکہ کہانی نہیں قیامت تھی وہ جو اس پر گزری تھی۔
تینوں صوفوں پر آمنے سامنے خاموشی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کا چہرہ پوری طرح آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا۔ کہنے کو تو بہت کچھ تھا پر زبان پر آتے آتے لفظ دغا دے جارہے تھے اس لئے سب خاموش تھے جس کے باعث گھڑی کی ٹِک ٹِک ہی سنائی دے رہی تھی۔
اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوئے بلآخر صارم نے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اس سکوت کو توڑا۔
”مجھے میرا بیٹا واپس دے دو۔“ اس نے رندھی ہوئی آواز میں التجا کی۔ عافیہ نے اس کی جانب دیکھا۔
”اریبہ تو اب رہی نہیں، کیا پتا ایسے ہی میری غلطی کا ازالہ ہوجائے! مجھے عریش دے دو۔“ اس نے اسی طرح مزید کہا۔
”عریش کو تمہارے حوالے کردوں کس لئے؟ تا کہ تم اسے بھی ایسے ہی مارو جیسے اس کی ماں کو تڑپا تڑپا کر مارا تھا!“ وہ زہرخندہ لہجے میں بولی۔
”نہیں، اللّه نہ کرے میں اسے تڑپا تڑپا کر کیوں ماروں گا بیٹا ہے وہ میرا۔“ اس نے جلدی سے ٹوکا۔
”اریبہ بھی بیوی تھی تمہاری، پھر اسے کیوں مارا تم نے تڑپا تڑپا کر؟ کیوں چھوڑ دیا تھا اسے سسک سسک کر مرنے کیلئے؟“ وہ پھر طیش میں آچکی تھی۔
”اریبہ کو میں نے نہیں مارا اس نے خود اپنی جان لی ہے۔“ اس نے دھیان دلایا۔
”تمہاری وجہ سے اس نے اپنی جان لی ہے اگر تم اس کے ساتھ بےوفائی نہ کرتے، اپنے جائز رشتے اور بچے کو سب کے سامنے قبول کیا ہوتا تو آج وہ یہاں زندہ ہوتی۔“ اس نے چلاتے ہوئے تصحیح کی۔
”ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ یہ سب میری غلطی ہے، تو اب میں اس غلطی کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں، عریش کو اپنا کر اپنا نام دینا چاہتا ہوں۔“ اس نے اعتراف کیا۔
”نہیں، ہرگز نہیں، میں عریش کو کبھی تمہارے حوالے نہیں کروں گی۔“ اس نے نفی میں سرہلاتے ہوئے انکار کیا۔
”پلیز عافیہ ایسا مت کرو، تبریز پلیز تم اسے سمجھاؤ۔“ وہ خاموش بیٹھے تبریز کو بیچ میں لایا۔
”کوئی بھی کچھ بھی بول لے پر میں عریش کو تمہارے حوالے کبھی نہیں کروں گی، آئی سمجھ!“ اس نے کھڑے ہوتے ہوئے پہلے ہی فیصلہ سنایا۔
”پلیز عافیہ ایسا مت کرو، مجھ سے میرا بچہ نہ چھینو، میں مرجاؤں گا۔“ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل اس کے پیروں کے پاس گرتے ہوئے التجا کی۔ وہ اس کے پیروں پر گرا اپنے اس بچے کیلئے اس سے بھیک مانگ رہا تھا جسے سات سال قبل اس نے خود ٹھکرایا تھا۔
”تو مرجاؤ، اتنی بڑی دنیا کے اتنے سارے لوگوں میں سے اگر ایک انسان کم ہوجائے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ عافیہ کی بےرحمی عروج پر تھی جس سے اس کے آنسوؤں میں شدت آنے لگی۔
وہ بنا اس کا جواب سنے تیزی سے باہر نکل گئی۔ جب کہ صارم کے ذہن میں یکدم سات سال پہلے کا منظر گھوم گیا۔
”پلیز صارم ایسا مت کریں، میں مرجاؤں گی۔“ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر روتے ہوئے التجا کی۔ وہ اس کے پیروں پر گری اپنے بچے کیلئے اس کی پہچان کی بھیک مانگ رہی تھی۔
”تو مرجاؤ، اتنی بڑی دنیا کے اتنے سارے لوگوں میں سے اگر ایک انسان کم ہوجائے گا تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔“ اس کی بےرحمی عروج پر تھی جس سے اس کے آنسوؤں میں شدت آنے لگی۔
اس نے بھی تو اریبہ کی التجاؤں کو ایسی ہی بےرحمی سے نظر انداز کیا تھا نا! اور آج مکافاتِ عمل کا وہ زور دار تھپڑ اس کی روح پر رسید ہوا تھا کہ وہ درد سے بلبلا اٹھا تھا۔
”عافیہ نہیں، پلیز رک جاؤ۔“ وہ جلدی سے اسے روکنے کیلئے باہر بھاگنے لگا کہ تب ہی تبریز نے اسے پکڑ لیا۔
”تبریز۔۔۔وہ عافیہ۔۔۔۔عافیہ کو روکو، اس سے بولو کہ مجھ پر ایسا ظلم مت کرے، مجھ سے میرا بچہ نہ چھینے، بہت تڑپے ہیں میں اور اقصیٰ اس کے لئے۔“ وہ بچوں کی طرح التجا کرتے ہوئے رو رہا تھا۔
”میری بات سنو صارم! یہاں بیٹھو آرام سے۔“ تبریز اسے پکڑ کر صوفے کے پاس لایا۔
”مجھے نہیں بیٹھنا تم بس عافیہ کو سمجھاؤ۔“ وہ بضد تھا۔
”سمجھا دوں گا لیکن پہلے تم یہاں بیٹھو۔“ اس نے زبردستی اسے صوفے پر بٹھایا اور خود بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔
”دیکھو! ابھی عافیہ غصے میں ہے، سات سال سے جو غبار، جو لاوا اس کے اندر دبا ہوا ابل رہا تھا وہ آج پھٹا ہے، ابھی اسے تھوڑا وقت دو، جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا، پھر بات کرتے ہیں اس سے۔“ اس نے تحمل سے سمجھایا۔
”کب ٹھنڈا ہوگا اس کا غصہ؟ کہیں وہ میرے بیٹے کو مجھ سے دور نہ لے جائے۔“ اس کے انداز میں خوف تھا۔۔۔۔کھو دینے کا خوف!
”نہیں لے کر جائے گی میں ہوں نا یہاں، میں سمجھاؤں گا اسے، تم ابھی گھر جاؤ، ابھی تمھیں بھی آرام کی ضرورت ہے۔“ اس نے تسلی دی۔
”دیکھ لو تبریز، کہیں میں پھر اپنے بیٹے کو کھو نہ دوں۔“ وہ ڈر رہا تھا۔
”دوست کہتے ہو نا مجھے! تو پھر بھروسہ بھی رکھو کہیں نہیں جائے گی عافیہ عریش کو لے کر۔“ اس نے یقین دلایا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی سوچ میں پڑ گیا۔
*****************************************
عافیہ گھر آکر بیڈروم میں جانے کے بجائے لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھی دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے رو رہی تھی۔
آج صارم سے مل کر پھر اس کے ذہن میں وہ سات سال قبل والا منظر تازہ ہوگیا تھا جب اریبہ اس کی آنکھوں کے سامنے آگ میں لپٹی ہوئی تھی اور وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرپائی تھی۔ پھر اسے اریبہ کی وہ ہی دلخراش چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔
”ایسا کیوں کیا تم نے اریبہ؟ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، خودکشی مسلوں کا حل نہیں ہوتی، خود کو بھی اذیت دی اور مجھے بھی۔“ اس نے روتے ہوئے خودکلامی کی۔
جب تھوڑی دیر رو کر وہ ہلکی ہوگئی تو پھر اسے عریش کا خیال آیا۔ وہ منہ صاف کرتی ہوئی بیڈروم میں آئی جہاں وہ بیڈ پر صارم کی فوٹو سینے سے لگائے اس کا انتظار کرتے کرتے ہی سو گیا تھا۔ اسے اس وقت اس پر بہت پیار اور ترس آیا۔
صارم کی یہ تصویر اسے اریبہ کی ڈائری سے ملی تھی جو ہوش سنبھالنے کے بعد اس نے عریش کو دے دی تھی۔
اس نے عریش کے ہاتھ سے آہستہ سے تصویر لے کر اس کو کمبل اوڑھایا اور اس کے برابر میں ہی بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی۔
”اتنی آسانی سے میں عریش کو تمہارے حوالے نہیں کروں گی صارم منصور!“ اس نے تلخی سے خودکلامی کی۔
”بہت تڑپی ہے اریبہ تمہاری وجہ سے اب تمہاری باری ہے۔“ وہ زہرخندہ انداز میں زیرلب بولی۔
*****************************************
صارم شکستہ انداز میں گھر لوٹا تو اس کے انتظار میں بیٹھی اقصیٰ اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی جس نے ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔
”صارم! آپ ٹھیک تو ہیں نا؟“ وہ بےتابی سے اس کی جانب لپکی جس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں۔
”کچھ پوچھ رہی ہوں میں آپ سے، جواب دیں۔“ اس کی فکر بڑھی۔
بجائے کوئی جواب دینے کے صارم نے اقصیٰ کا ہاتھ پکڑا اور اسے لاؤنج کے ایک سنگل صوفے پر بٹھا کر خود فرش پر اس کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا جہاں نیم اندھیرا ہو رہا تھا۔
”کچھ بتائیں تو صارم کیا ہوا ہے؟ مجھے فکر ہو رہی ہے۔“ وہ الجھی۔
”آج میں اپنے بیٹے سے ملا اقصیٰ!“ اس کی بات پر وہ دنگ رہ گئی۔
”کیا! بیٹا؟“
اس کی حیرت پر پہلے صارم نے اثبات میں سرہلایا اور پھر پہلی بار اسے اپنے اور اریبہ کے بارے میں سب سچ سچ بتا دیا جسے سن کر اقصیٰ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
”ہاں یہ سچ ہے کہ ماضی میں بہت سی عورتوں سے میری دوستیاں رہیں، ان کے ساتھ گھومنا پھرنا رہا مگر خدا کی قسم ان میں سے کسی کے ساتھ میرا کبھی کوئی جسمانی تعلق نہیں رہا، تمہارے علاوہ صرف اریبہ وہ عورت تھی جس کے میں اتنے قریب آیا مگر اس سے بھی میں نے نکاح کیا تھا، وہ بیوی تھی میری جو اب میری وجہ سے اس دنیا سے جا چکی ہے مگر ہمارا بچہ اب بھی موجود ہے اور ہم اسے واپس لے کر رہیں گے۔“ وہ دونوں ہاتھوں سے اس کا ہاتھ پکڑے سب بتا چکا تھا جب کہ وہ اپنی جگہ بالکل ساکت ہوچکی تھی۔
”جو کچھ بھی میں نے تمہیں بتایا وہ سب میرا ماضی تھا اقصیٰ، یقین جانو تمہارے آنے کے بعد میں نے ہر برا کام چھوڑ دیا تھا، اب میری زندگی میں صرف تم ہو اور دن رات ڈستا ہوا پچھتاوا کہ کاش میں نے اریبہ کے ساتھ یہ سب نہ کیا ہوتا، وہ تو مجھے معاف کیے بنا ہی عمر بھر کی سزا دے کر چلی گئی، لیکن پلیز تم تو مجھے معاف کردو، پلیز!“ اس نے پرنم آنکھوں کے ساتھ منت کی۔
بجائے کوئی جواب دینے کے اقصیٰ نے ایک سپاٹ نظر اسے دیکھا اور پھر اس کے ہاتھوں میں سے اپنا ہاتھ کھینچ کر ہٹا لیا جس سے وہ دنگ رہ گیا۔ اپنی محبت کرنے والی بیوی کی آنکھوں میں اس نے پہلی بار اپنے لئے اجنبیت دیکھی تھی۔
”اقصیٰ پلیز ایسا مت کرو، تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔“ اس نے پھر گزارش کی مگر وہ کوئی جواب دینے کے بجائے اٹھ کر تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔ جسے وہ وہیں بیٹھا بےبسی سے دیکھ کر رہ گیا۔۔۔۔۔۔اسے یہاں سے بھی معافی نہیں ملی تھی۔۔۔۔۔۔اس کا آخری سہارا بھی اس کے ہاتھ سے پھسلا تھا۔
*****************************************
رات کے قریب دس گیارہ بج چکے تھے۔ صارم کو تبریز نے تسلی دے کر گھر بھیج دیا تھا اور خود وہ اپنے گھر کی چھت کی باؤنڈری پر بیٹھا سگریٹ پی رہی تھا۔
موسم ابر آلود تھا۔ پورا آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا جس سے امکان ظاہر تھا کہ بارش ہونے والی ہے اور ایسا حبس کچھ لوگوں کی زندگیوں میں بھی چھایا ہوا تھا۔
آج اتنے سارے انکشافات ہونے پر جہاں وہ حیران تھا وہیں اسے ایک انوکھی سی خوشی بھی ہو رہی تھی۔ یہ جان کر کہ عافیہ نے بھی ابھی تک شادی نہیں کی، عریش اس کا بیٹا نہیں ہے۔
پر اس خوشی پر ایک ڈر بھی غالب تھا کہ پتا نہیں عافیہ کے دل میں بھی اس کے لئے ایسے ہی جذبات تھے یا نہیں؟
وہ ابھی یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ اسے برابر والی چھت سے گریل کھلنے کی آواز آئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ عافیہ تھی جو بارش کے خدشے سے دھلے ہوئے کپڑے اٹھانے چھت پر آئی۔
دونوں چھتوں کے بیچ بنی دیوار زیادہ اونچی نہیں بلکہ محض تین فٹ کی ایک باؤنڈری تھی۔
وہ رسیوں پر لٹکے کپڑے سمیٹنے لگی۔ تب تک وہ بھی سگریٹ باہر پھینک کر اس کی چھت کی دیوار کے قریب آیا۔
”عافیہ!“
”ہممم! بولو؟“
”مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے؟“ اس نے تہمید باندھی تو وہ کپڑے بائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے اس کی جانب آئی۔
”بولو؟“ اس نے دیوار کے قریب آکر پوچھا۔
تبریز نے اسے مخاطب تو کرلیا تھا پر اب بات کیسے شروع کرے یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
”صارم کی وکالت کرنے آئے ہو؟“ وہ اسے الجھن کا شکار دیکھ کر خود ہی بولی۔
”وکالت نہیں کر رہا بس ایک بات کہنی ہے، مانا صارم نے غلطی کی تھی پر اب وہ اس غلطی پر شرمندہ ہے، اپنی غلطی مان لی ہے اس نے، پچھلے سات سال سے وہ بھی پچھتاوے کا عذاب بھگت رہا ہے، اب تمہیں بھی اسے معاف کردینا چاہئے کیونکہ اگر آج تمہاری جگہ یہاں اریبہ ہوتی تو وہ بھی شاید یہ ہی کرتی!“ اس نے تحمل سے سمجھانا چاہا۔
”ہممم! ٹھیک کہہ رہے ہو، وہ بھی یہ ہی کرتی جو مجھ سے کہہ کر گئی تھی، مگر میں اریبہ نہیں ہوں۔“ توقع کے برعکس وہ گہری سانس لے کر بولی۔
”کیا مطلب؟ کیا کہہ کر گئی تھی اریبہ؟“ وہ کھٹکا۔
”صارم کے سامنے جو کچھ بھی میں نے بتایا وہ آدھی بات تھی۔“ اس نے نیا انکشاف کیا۔
”کیا! تو پھر پوری بات کیا ہے؟ اریبہ کیا کہہ کر گئی تھی تمہیں؟“ اسے حیرانی کے ساتھ مزید جاننے کا تجسس ہوا۔
آسمان پر چاند موجود تو تھا پر سیاہ بادلوں نے اسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا جس سے وہ اہل زمیں پر اپنا سحر طاری نہیں کر پا رہا تھا اور اگر وہ بادلوں سے باہر آ بھی جاتا تو کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ اہلِ زمیں تو اس وقت اپنی خواب گاہوں میں گہری میٹھی نیند سو رہے تھے مگر تبریز پر نیند مہربان نہیں ہو رہی تھی اسی لئے وہ چھت پر چلا آیا جہاں وقفے وقفے سے ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
چھت پر آنے کے بعد اسے یہ دیکھ کے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا کہ عافیہ بھی اپنی چھت کی باؤنڈری کے پاس دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کھڑی باہر گلی کی جانب دیکھ رہی تھی۔ غالباً اسے بھی نیند نہیں آرہی تھی۔ اور جو کچھ آج ہوا تھا اس کے بعد سکون سے سونا کم از کم اس کیلئے اتنا آسان نہیں تھا۔
وہ چند لمحے ایک جگہ کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر کسی نتیجے پر پہنچتے ہوئے دونوں چھتوں کے بیچ بنی چھوٹی سے دیوار کود کر وہ بھی اس کی چھت پر آگیا۔ آہٹ پر عافیہ نے پلٹ کر دیکھا۔
”کیا کر رہی ہو اس وقت یہاں؟“ اس نے بےتكا سوال کیا۔
”وہ ہی جو تم کر رہے ہو۔“ وہ اس کی جانب رخ کرتے ہوئے کمال مہارت سے بات گھما گئی۔
”میں کر نہیں رہا، کرنے آیا ہوں۔“ وہ قریب آتے ہوئے بولا۔
”کیا کرنے آئے ہو؟“
”وہ ہی جو بر وقت نہیں کر پایا اور پھر سات سال اس کی سزا بھگتی ہے۔“ وہ اس کے مقابل آکر رکا جو سر اٹھائے اسے دیکھ رہی تھی۔
”سات سال پہلے جب میں نے پہلی بار تمہیں یونیورسٹی میں دیکھا تھا تب تم مجھے سب سے الگ لگی تھی اور تمہاری اسی سادگی بھرے وقار کی وجہ سے میں اپنے دل میں تمہارے لئے کچھ خاص جذبات محسوس کرنے لگا تھا جو پہلے کبھی کسی کیلئے نہیں کیے تھے، پر تمہیں بتاتے ہوئے ڈرتا تھا کہ کہیں تم انکار نہ کردو! بہت بار کوشش کی لیکن اسی کوشش میں بہت دیر ہوگئی، تم مجھ سے بہت دور چلی گئی، تمہارے ملنے کی کوئی امید نہ ہوتے ہوئے بھی ایک امید تھی کہ شاید تم پھر کہیں مل جاؤ!“ آج وہ سارے ڈر بالائے طاق رکھ کر حالِ دل سنانے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ جسے وہ سن بھی رہی تھی۔
”سنا تھا کہ قدرت بہت کم خوش نصیب لوگوں کو ایسا موقع دوبارہ دیتی ہے اور اتنے نشیب و فراز دیکھنے کے بعد اب قدرت نے دوبارہ مجھے ایک موقع دیا ہے جسے میں اپنے فضول خدشات کی وجہ سے ضائع کرکے تمہیں پھر سے کھونا نہیں چاہتا، میں نہیں جانتا کہ تمہارے دل میں کیا ہے مگر میں اپنے دل کی دل میں رکھ کر پھر سے ساری زندگی پچھتانا نہیں چاہتا کہ کاش ایک بار تم سے کہہ دیا ہوتا کہ میں اپنی آگے کی ساری زندگی تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟“ آخر کار بنا کسی لگی لپٹی اور فلسفے کے اس نے سیدھے صاف لفظوں میں وہ کہہ ہی دیا تھا جو کب سے دل میں بسا رکھا تھا۔۔۔۔جو کب سے دل میں چھپا رکھتا تھا۔
اس کی پوری بات کے دوران عافیہ نے نہ ایک لفظ کہا تھا اور نہ ہی کوئی ناگوار، حیرت زدہ تاثر دیا تھا۔ وہ بس خود سے دراز تبریز کو سر اٹھائے دیکھتے ہوئے سنے جا رہی تھی جس دوران ٹھنڈی ہوائیں وقفے وقفے سے دونوں کو چھیڑ کر گزرتی رہیں اور چاند بھی بادلوں کی اوٹ سے نکل آیا تھا۔
”پلیز عافیہ، کچھ تو بولو، کچھ تو بتاؤ کہ تمہارے دل میں کیا ہے؟“ اسے خاموش پا کر تبریز نے لجاجت سے اصرار کیا۔
”چٹاخ!“ اگلے ہی پل عافیہ نے ایک زوردار تھپڑ اس کے بائیں گال پر رسید کیا۔ وہ اپنا ہاتھ گال پر رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Kabhi Tere Dil Main Basa Karu Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic Kabhi Tere Dil Main Basa Karu written by Faryal Khan .Kabhi Tere Dil Main Basa Karu by Faryal Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment