Dasht E Harjai Season 1 By Sara Urooj Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 12 December 2024

Dasht E Harjai Season 1 By Sara Urooj Complete Romantic Novel

Dasht E Harjai Season 1 By Sara Urooj Complete Romantic Novel  

Sara Urooj  Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre: Forced Marriage Based Novel Enjoy Reading...

Dasht E Harjai By Sara Urooj Complete Novel 

Novel Name: Dasht E Harjai 

Writer Name: Sara Urooj

Category: Complete  Novel


رات کی تاریکی ہر سو چھائی ہوئی تھی فضا میں چلتی تیز ہوا سے درختوں کے ہلتے جھنڈ جن سے خاموشی میں ایک سرسراہٹ پیدا ہوتی۔۔ ۔۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے ماحول کو اور ہیبت ناک بنایا ہوا تھا۔ایسے میں وہ شخص رات کے اس پہر اپنی مطلوبہ قبر کے پاس بیٹھا ہر چیز ، ہر خوف کو بلائے تاک رکھے قبرستان میں بیٹھا اپنے کیے تمام تر ظلم ،نا انصافی کو یاد کرتا اشق بار تھا۔۔

پر اب آنسوں بہانے کا کیا فائدہ ۔کیونکہ وقت بیت چکا تھا معاف کرنے والی جا چکی تھی بے وفائی کا غم ،محبت نا ملنے کا غم اور بھی بہت سے غم اپنے ساتھ قبر میں لیے جا چکی تھی جب کہ مقابل کے لئیے  پیچھے تحفے میں ایک چیز ایک احساس چھوڑ چکی تھی جو آخر تک اس کے ساتھ رہنا تھا۔۔

پچھتاوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                        🌷🌷🌷🌷🌷🌷

نو وے موم ۔۔۔ایسا کبھی نہیں ہو گا۔

آپ کو میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ میں اس دیہاتن سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔

بیٹا بات کو سمجھو۔۔۔نکاح میں ہے وہ تمہارے۔۔۔اب سے نہیں بچپن سے۔۔نام جڑا ہے اس کا تمہارے ساتھ۔۔۔

مسسز شمائیلہ نے اپنے خود سر اور ضدی بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔

سو واٹ مام۔۔۔؟؟ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔

مجھ سے پوچھ کر کروایا تھا نکاح آپ نے۔۔

ویسے بھی اس کا اور میرا کوئی جوڑ نہیں ہے۔۔۔

ہم کہاں ہائی کلاس سوسائیٹی اور وہ کہاں ٹیپیکل لوگ۔۔سوری میں اس کے ساتھ ایڈجیسٹ نہیں کرسکتا۔۔۔

میں شادی اپنی مرضی سے کروں گا۔۔

اپنے ٹائپ کی لڑکی سے جو میرے ساتھ کھڑی ہو تو پتہ بھی چلے کہ میر حازم کے ساتھ کھڑی ہے۔۔

بیٹا تم تو اس سے ملے بھی نہیں ہو۔۔ایک دفع سماہرہ سے مل تو لو۔۔بیوی ہے تمہاری وہ۔۔

کم از کم میری عزت کا خیال کر لو ۔۔کیا جواب دوں گی بھائی کو۔۔کتنی چاہت سے میں نے سماہرہ کو تمہارے نکاح میں رکھا تھا۔۔تم  بھی تو خوش تھے ۔۔

پر اب کیوں تم نے اپنے آپ کو انگریزوں کے ماحول میں ڈھال لیا ہے۔۔

میں اس رشتے کو نہیں مانتا ۔۔یہ سب آپ نے اپنے شوق سے کیا ہے ماموں لوگوں کو کیسے سمجھانا ہے وہ آپ خود دیکھیں گی۔۔وہ نہایت بدتمیزی سے کہتا اپنا فون اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے چلا گیا۔۔

جبکہ پیچھے مسسز شمائیلہ اپنے خود سر اور ضدی بیٹے کی ہٹ دھرمی پر کلس کر رہ گئیں۔۔

میر حازم ۔۔میر زاویار اور شمائیلہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔۔جس کا نکاح مسسز شمائیلہ نے بچپن میں  اپنے بھائی کی بیٹی سمائرہ سے کروایا تھا۔وہ اپنے بھائی کی بیٹی کو اپنی دلہن کے روپ میں تصور کیے بہت خوش تھیں۔۔۔اس بات سے انجان کے ان کا بیٹا ان کے تمام خوابوں کو چکنا چور کر دے گا۔۔

نکاح کے اگلے دن میر زاویار کی فیملی واپس امریکہ جا چکی تھی کیونکہ ان کا کاروبار باہر کے ملک میں سیٹل تھا۔۔باہر کے ملک میں رہتے ہوئے میر حازم کو باہر کی ہوا لگ چکی تھی۔جس کی وجہ سے وہ اس ماحول کا عادی ہو چکا تھا۔۔اس کو ہر چیز ویل سیٹلڈ چاہیے ہوتی تھیں۔۔جبکہ وہ اپنی دنیا میں مگن یہ تک بھول چکا تھا کہ وہ کسی کے نام کے ساتھ منسوخ ہے۔۔کوئی کتنی شدت سے اس کی واپسی کا منتظر ہے۔۔دوسری طرف سمائرہ کے دل میں حازم کی محبت  اندر تک جڑ پکڑ چکی تھی وہ اس کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ہر رات اس امید سے سوتی کہ شائد اگلا دن میر حازم کا دیدار کروائے گا۔

                     🌷🌷🌷🌷🌷

وہ آفس میں اپنی راکنگ چیر پر بیٹھا آفس کی فائل سائین کر رہا تھا کہ اس کے فون کی بجتی بیل نے اس کا تسلسل توڑا۔۔۔۔

ہیلو۔۔۔!!

واٹ۔۔۔؟؟

آپ وہیں رکیئے میں ابھی آتا ہوں۔ 

مقابل سے ملنے والی خبر پر وہ تمام کام کو چھوڑتا جلدی سے گھر کی جانب روانہ ہوا۔۔

نجمہ۔۔نجمہ۔۔

وہ ہڑبڑاتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور  میڈ کو آواز دیتے ہوئے بولا۔۔

ج۔۔جی صاحب۔۔

مام کہاں ہیں۔۔؟؟

جی وہ اپنے کمرے میں۔۔۔

مام۔۔۔!!!

وہ دروازا کھولتا  اندر کی جانب آیا جبکہ حازم کو دیکھ کر وہ منہ موڑ چکی تھیں۔۔

ناراض ہیں آپ۔؟؟ 

ائیم سوری موم مجھے آپ سے ویسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔

پلیز ناراض تو نہ ہوں۔۔وہ کسی بچے کی طرح ہاتھ سے ان کا چہرا اپنی جانب کرتے ہوئے بولا۔۔

کیوں آئے ہو اب بھی نا آتے بات تو تم نے میری ماننی ہی نہیں ہے۔۔

اچھا ہے جلدی مر جاوں گی۔۔جان چھوٹے گی تمہاری بھی پھر کرتے رہنا اپنی مرضی۔۔

موم۔۔۔پلیز ایسا تو نا بولیں آپ جانتی ہیں ڈیڈ کے بعد میرا سب کچھ  آپ ہی ہیں۔۔

وہ ایکدم تڑپتے ہوئے بولا۔۔

بیٹا تو مان لو نا میری بات۔۔یوں اس عمر میں مجھے میرے اپنوں کے سامنے رسوا نا کرو بیٹا ۔۔

میں چاہتی ہوں اپنی آنکھوں کے سامنے تمہارا گھر بستے ہوئے دیکھ لوں۔۔

روز خواب میں تمہارے بابا مجھے لینے آتے ہیں۔۔میں بھی  ان کے پاس جانا چاہتی ہوں۔۔وہ بہت اکیلے ہیں۔۔مجھے پکارتے ہیں۔۔

بیٹا ۔۔میرے پاس وقت بہت کم ہیں۔۔

اپنی ماں کی یہ آخری خواہش سمجھ کر پورا کر دو۔۔

مام۔۔۔می۔۔میں تیار ہو ۔۔بس آپ اس طرح کی باتیں نا کرا  کریں۔۔وہ آنکھوں میں آئی نمی کو پرے دھکیلتے ہوئے بولا۔۔۔

بہت شکریہ بیٹا۔۔۔تم نہیں جانتے تمہارے اس فیصلے نے مجھے کتنا پرسکون کیا ہے۔۔

وہ اس کی پیشانی کے بالوں کو ہٹائے  محبت اس ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے بولیں۔۔

اب آپ ریسٹ کریں  موم میں چلتا ہوں۔۔                        🌷🌷🌷🌷

سمائرہ۔۔۔

سمائرہ۔۔۔۔۔

کون سی بلا ہو تم ۔۔۔جس نے میری موم کو اپنا اسیر بنا لیا ہے ۔۔کہ وہ تمہارے لئیے مجھ سے ناراض  تک ہو گئیں۔

بس ایک دفع ۔۔تم میر حازم کی دسترس میں آہ جاو۔۔

میں تمہیں ایسا سبق سکھاوں گا کہ تمہارے پاس آخری راستہ فرار کا ہو گا۔۔حیات تنگ نہ کی تم پر تو میرا نام میر حازم نہیں۔۔

وہ کمرے سے منسلک بالکونی میں ، سیگرٹ کے گہرے گہرے کش لگاتا اپنے اشتحال پر قابو پاتا سماہرہ کے خلاف پروپریگینڈا بنا رہا تھا۔۔

آج وہ دن آن پہنچا تھا جب وہ پورے حق کے ساتھ اس کی شریکِ حیات کے روپ میں بیٹھ کر میر حازم کا انتظار کر رہی تھی۔۔پورے کمرے کو سرخ اور سفید رنگ کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔کمرے میں موجود گلاب کے پھولوں اور خوشبو والی موم بتی کی بھینی بھینی خوشبو ماحول کو اور ذیادہ خواب ناک بنارہی تھی۔

وہ پری وش لال رنگ کے خوبصورت جوڑے میں ملبوس بیڈ پر بیٹھی حازم کے آنے کی منتظر تھی ،وہ بہت خوش تھی کہ اس کا برسوں کا سفر آج ختم ہونے والا تھا۔۔مگر وہ پری پیکر اس بات سے بے خبر تھی کہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ۔۔

🌷🌷🌷🌷🌷🌷🌷

رات کے ڈھائی بج چکے تھے لیکن حازم کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں تھا ، البتہ اس کا انتظار کرتے کرتے سماہرا کی آنکھ لگ چکی تھی۔

تین بجے کے قریب حازم کمرے میں داخل ہوا جہاں وہ پری پیکر اس کو بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے سوتے ہوئے نظر آئے۔۔ایک پل کے لیے وہ اس کے ہوش روبا حسن میں کہیں کھو سا گیا تھا۔۔لیکن پھر تمام تر پچھلی باتوں کو یاد کرتا اپنی سوچوں کو جھٹکتا اس تک پہنچا۔۔اور جھنجھوڑ کر اسے اٹھایا۔۔۔


یہاں میری نیندیں میرے سکون کو برباد کر کے خود سکون فرما رہی ہو۔۔؟

سماہرہ نے نیند میں سے جھنجھوڑ کر ایسے اٹھائے جانے پر بوجھل آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا۔۔۔

جیسے بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو؟؟


مجھے معاف کر دیں۔۔وہ میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔

وہ معصومیت سے سر جھکائے بولی تھی۔۔


جبکہ اس کا جواب سن کر حازم نے سماہرہ کی جانب ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔۔


یہاں تمہیں مزاق سوج رہا ہے ۔۔۔

وہ معصوم اس کو غصے سے پھنکارتے دیکھ لرز سی گئی۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟؟


او! یہ ہی سوچ رہی ہو نا کہ میں نے عام دُلہوں کی طرح تمہارا دیدار نہیں کیا۔۔تمہاری شان میں کوئی قصیدے نہیں پڑھے؟؟


تعریف اس صورت میں کی جاتی اگر اس میں میری رضامندی شامل ہوتی۔۔۔اور میں تمہیں یہ بتاتا چلوں کہ اس شادی میں میری کوئی خواہش کوئی رضامندی نہیں ہے۔

وہ تنزیہ انداز میں کہتا ہوا اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر گیا۔۔۔


حازم کے ایسے کہنے پر اس نے پلکوں کی گھنی جھالڑوں کو اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں اس کے لئیے صرف نا پسندگی تھی۔۔


تم اگر اس لمحے یہاں موجود ہو تو صرف موم کی وجہ سے ۔۔پتہ نہیں تم نے ان پر کیا جادو کیا ہے کہ وہ مجھ سے منہ تک موڑ گئیں صرف تمہاری بدولت۔۔۔۔۔

وہ ناگواری سے اس کو تکتے ہوئے بولے۔۔


اس بات سے انجان سامنے موجود لڑکی کا دل وہ اپنے لفظوں سے چھلنی چھلنی کر رہا ہے۔۔وہ شادی کی پہلی ہی رات اپنے شوہر کے منہ سے لفظوں کی صورت میں ٹپکتی نفرت سے دلبر داشتہ ہو رہی تھی۔۔آنسوں روانی سے بہنے کے لئے تیار تھے۔۔لیکن وہ اس سنگدل کے سامنے بہا کر خود کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔۔


اب پوری رات کیا یہیں بیٹھے رہنے کا ارادہ ہے۔ اٹھو یہاں سے ۔۔۔وہ اس کو اٹھنے کا حکم دیتا خود مزے سے پورے بستر پر نیم دراز ہو چکا تھا۔۔


جبکہ وہ اپنی تذلیل پر آنسوں سے بھری آنکھوں اور ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ ڈریسنگ روم میں بند گئی۔۔ اور وہیں دروازے کے ساتھ بیٹھتی ہوئی کب سے روکے گئے آنسوں کو بہانے لگی۔۔


بخشا گناہوں کو سن کے دعاوں کو ،

ربا پیار ہے تو نے سب کو ہی دے دیا۔۔

میری بھی آنہوں کو سن کے دعاوں کو،

مجھ کو وہ دلا میں نے جس کو ہے دل دیا۔۔


ٹھنڈے فرش پر بیٹھی وہ سسک رہی تھی۔۔ہر لڑکی کی طرح اس نے بھی کئی خواب دیکھے تھے لیکن جس شخص سے اس نے امیدیں لگائیں وہ ہی اس کے خوابوں کا قاتل ثابت ہوا۔۔بچپن سے اس دل میں اس کے لئیے محبت تھی ۔۔وہ محبت بڑھتی عمر کے ساتھ پروان چڑھی لیکن مقابل کی نظروں میں اس کی کوئی

اہمیت نہیں تھی۔۔


وہ بیچاری ارمانوں کی ماری معصوم وہیں ٹھنڈے فرش پر روتے روتے سو چکی تھی۔۔جبکہ حازم ہر بات سے بے خبر خود اپنے مہنگے بیڈ پر سکون کی نیند فرما رہا تھا۔۔


🌷🌷🌷🌷🌷

سماہرہ کی آنکھ صبح تہجد کی نماز کے وقت کھلی اپنے آپ کو فرش پر دیکھ کر ماحول کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن یکدم گزشتہ رات کے لمحات یاد کر کے ایک دفع پھر اس کا دل خون کے آنسوں رونے لگا۔۔کہ کس طرح حازم نے اس کو حقیر جانا ۔۔وہ اس کے لئیے ایک زبردستی کا بوجھ تھی۔۔۔یہ سوچتے ہی آنسوں ایک بار پھر سے اس کی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔۔شادی کی پہلی صبح اتنی تلخ ہو گی۔۔ایسا تو نہیں سوچا تھا اس نے۔۔۔۔


وہ جلدی سے اٹھ کر فریش ہوئی اور اپنا تمام حالِ دل اپنے خدا کے آگے بیان کیا بے شک اس کے سوا کوئی دلوں کے راز نہیں جانتا۔۔دورانِ نماز اشک اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔۔


نماز کے بعد جائے نماز لپیٹ کر اس کو جگہ پر رکھتی بالکونی میں آہ گئی جہاں پودوں پر گرتی اوس۔۔فلک سے چلتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ، اس کو معتبر کر رہے تھے۔کھلی فضا میں اس نے ایک لمبا سانس اندر کی جانب کھینچا جیسے خود کو ہلکا کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔


تھوڑی دیر بالکونی میں کھڑے ہونے کے بعد وہ واپس کمرے میں آئی ، ایک نظر بستر پر پھیل کر لیٹے حازم کو دیکھا اور خود صوفے پر آکر لیٹ گئی۔۔



🌷🌷🌷🌷🌷🌷

حازم کمرے میں داخل ہوا تو اس کی نظر تیار ہوتی سماہرہ پر گئی جو گرین اور گولڈن رنگ کے لباس میں ملبوس اپنے کمر تک آتے گھنے بالوں کو کھولے آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔


اس کے لمبے بالوں کو دیکھ کر دل ہی میں اس نے تعریف کی تھی ۔مگر تعریف زبان پر آنے سے انکاری تھی کیونکہ انا اور غرور آڑے آہ رہی تھی ۔


کاجل کے بعد اس نے لپ اسٹک اٹھائی تاکہ اپنے خوبصورت ہونٹوں کو اس سے رنگ سکے لیکن حازم آگے بڑھتا اس کے ہاتھ سے لپ اسٹک پکڑتا اس کی خواہش کو ناکام کر گیا۔۔


مجھے یہ سب فضول کے ڈرامے بالکل پسند نہیں ہیں ۔۔

وہ لپ اسٹک کو ڈریسنگ ٹیبل پر پٹختے ہوئے بولا۔۔

آئندہ اس چیز کا خیال رکھنا۔۔


وہ نہایت تلخ لہجے میں اس سے مخاطب ہوا۔۔اور ڈرسینگ سے منسلک الماری میں گیا وہاں اس ایک چھوٹا سا لال رنگ کا باکس نکال کر لایا اور احسان کرنے والے انداز میں اس کی جانب کیا۔۔


یہ لو۔۔!! پہن لینا۔۔۔موم نے دیے تھے۔۔


سماہرہ نے درد سی بھری آنکھیں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا جیسے یہ باور کروانا چاہ رہی ہو۔۔سارے ارمان تو چکنا چور کر چکے ہو۔۔اب اس کھوکھلی چیز کا کیا فائدہ۔۔


میں نے یہ پہنے کے لئیے دیے ہیں نا کہ انہیں یہاں رکھنے کے لئیے۔۔۔


اس کو باکس ڈروز میں رکھتے دیکھ کر بولا۔۔

میری بات نظرانداذ کی جائے۔۔یہ مجھے بالکل بھی گوارا نہیں ہے۔۔


وہ غصے میں اس کی جانب بڑھا ،باکس کو تھام کر ان میں سے سونے کے نفیس کنگن نکال کر سختی سے اس کی کلائی تھام کر اس میں پہناتے ہوئے بولا۔۔


سس۔۔۔سختی سے کلائی تھامے جانے پر اس کی سسکی نکلی تھی۔۔

چلو اب نیچے۔۔اور اپنا موڈ ٹھیک رکھنا ۔۔آئندہ شکایت کا موقع نا ملے۔۔

وہ کہتا باہر کی جانب بڑھا جبکہ وہ اپنی کلائی کو سہلانے لگی جہاں اس کی انگلیوں کے نشان واضع تھے۔

سماہرا اور حازم کی شادی کو ایک ہفتہ ہو چکا تھا۔سب کچھ اپنے معمول کے مطابق چل رہا تھا۔۔اس پورے ہفتے میں ان دونوں کے درمیان بات نا ہونے کے برابر تھی۔

حازم روز صبح جلدی آفس چلا جاتا اور رات کو دیر سے گھر آتا تھا۔۔ان کے مابین تعلق کو دیکھ حازم کی ماں بھی بہت پریشان تھیں۔ان نے حازم کو کافی دفع سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اس طرح سماہرا سے لاتعلقی نا برتے ۔ایک اچھے شوہر کی طرح اس کا خیال رکھا کرے۔اپنے اور اس کے رشتے کو پروان چڑھائے۔

لیکن وہ ان سے صاف کہہ چکا تھا کہ ان کے کہنے کے مطابق وہ شادی تو کر چکا ہے۔۔پر ایسا کوئی رشتہ وہ نہیں بنانا چاہتا۔۔حازم کی بات سن کر اس کی ماں بہت دلبر داشتہ ہوئیں تھیں۔۔


مما سوپ پی لیں۔۔پھر آپ نے میڈیسن بھی لینی ہے۔۔

سماہرا شمائلہ بیگم کے کمرے کا دروازا ناک کر کے داخل ہوئی جہاں وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئیں تھیں۔۔


دو دن سے شمائلہ بیگم کی طبعیت کافی ناساز تھی۔ان کی دیکھ بھال کی تمام تر ذمداری اس نے اپنے زمے لی تھی۔


سمی تم کیا گھر میں ایسے اتنے سادہ حلیے میں گھوم رہی ہو۔۔؟

بیٹا تھوڑا تیار ہو کر رہا کرو۔۔

نا ہاتھوں میں چوڑیاں ہیں۔۔نا ہونٹوں پر لپ اسٹک۔۔

کہیں سے بھی سہاگن نہیں لگ رہی ۔۔۔

شمائلہ بیگم سوپ پیتے اس کا جائزہ لیتے ہوئے بولیں۔۔جو کہ سادہ کوٹن سوٹ میں ملبوس سر پہ نفاست سے ڈوپٹہ اوڑھے ان کے سامنے بیٹھی انہیں اپنے ہاتھوں سے سوپ پلا رہی تھی۔۔۔


شمائلہ بیگم کی بات سن کر ایک پل کے لئیے اسکا ہاتھ تھما اور دو دن پہلے کا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔


چھن۔۔چھن۔۔چھن۔۔

شام کا وقت تھا سماہرا چھن چھن کرتی چوڑیوں کے ساتھ کمرا سمیٹنے میں مصروف تھی۔


جبکہ بالکونی میں بیٹھا حازم اس شور سے چڑ رہا تھا ۔۔

ایک تو اس کو یہ لڑکی بے انتہاہ کی بری لگتی تھی ، اوپر سے اس کے شوق چوڑیاں پہننا، بالوں میں پراندہ ڈالنا اس کو سخت کوفت میں مبتلا کرتے تھے۔


اتارو انہیں فوراً۔۔

وہ اس شور سے تنگ آتا کمرے میں آیا اور اس کے سر پر کھڑا اسے حکم دیتے ہوئے بولا۔۔


جبکہ وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتی اس کی سائڈ سے نکلنے لگی کیونکہ وہ جس کام کو کرنے کا کہہ رہا تھا وہ اس کے بس سے باہر تھا۔۔


اپنی بات کو یوں ہوا میں اڑائے جانے پر اس کا دماغ پل میں گھما تھا اس نے باہر جاتی سماہرا کی چٹیا پکڑ کے اپنی جانب کھینچا۔۔وہ اس کاروائی کے لئیے تیار نا تھی اس لئیے سیدھا اس کے سینے سے آہ لگی۔۔


سمجھ نہیں آتی۔۔بہری ہو؟؟

کیا بکواس کی ہے میں نے؟؟

اس شور شرابے کو اتارو ۔۔۔نفرت ہے مجھے ایسی چیزوں سے۔۔سر میں درد کر کے رکھ دیا ہے۔۔

جب دیکھو چھن چھن۔۔۔۔چھن چھن۔۔۔


چوڑیوں کو توڑنے کے ارادے سے اس نے سماہرا کی کلائی کو اپنے ہاتھوں کی سخت گرفت میں لیتے ہوئے دھاڑنے کے انداذ میں کہا۔۔

جبکہ اس کے ارادے جان وہ رونے لگی تھی۔۔


ن۔۔نہیں حازم پلیز ۔۔۔۔ان۔۔انہیں توڑیے گا مت۔۔۔

می۔۔میں اتار دیتی ہوں۔۔۔

وہ آنسوں بھری آنکھوں سے اس سے التجا کرتی ہوئی بولی۔۔


حازم کی کلائی پر سخت گرفت کے باعث کچھ چوڑیاں زمین پر گری تھیں۔۔کچھ اس کی کلائی میں پیوست ہوئیں تھیں ۔۔دودھیا رنگت کی کلائی سے خون ٹپ ٹپ کرتا نیچے ٹائلوں کے فرش پر گر رہا تھا۔۔


کانچ کی چبھن اپنے ہاتھ پر محسوس کیے اس کے آنسوں میں روانی آئی تھی ۔رونا ہاتھ پر چوٹ لگنے سے ذیادہ چوڑیوں کے ٹوٹنے کا تھا۔۔

وہ نیچے فرش پر بکھری چوڑیوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

اس کو چوڑیاں نہیں اپنا آپ ٹوٹتا محسوس ہوا۔۔


اس کو بچپن سے ہی عشق تھا چوڑیوں سے۔۔وہ ایک پل کے لئیے چوڑیوں کو اپنی کلائی سے جدا نہیں ہونے دیتی تھی۔۔

اس کی سہلیاں اس کو "چوڑیوں کی شیدائی" بولتی تھیں۔۔۔


سمی بیٹا پانی پکڑانا۔۔۔!!!

وہ شمائلہ بیگم کی آواز سن کر ہوش میں آئی۔۔جو کھانستے ہوئے اس سے پانی پکڑانے کا بول رہی تھیں۔۔

جی۔۔مما۔۔


بیٹا۔۔میں نے بہت چاہت سے اپنے حازم کے نکاح میں لیا تھا تمہیں۔۔وہ پیار اس کے چہرے پر پیار کرتی بولیں تھیں۔۔اگر وہ تم سے دوری برت رہا ہے تو تم اس کے پاس جاو ۔۔اس کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھو۔۔

اس سے باتیں کیا کرو۔۔

محرم کے رشتے میں ایک کشش ہوتی ہے بیٹا۔۔


مما آپ نہیں جانتی وہ بے انتہاہ نا پسند کرتے ہیں مجھے۔۔بعض اوقات میاں بیوی اپنے اس خوبصورت رشتے کو خود ہی خراب کر لیتے ہیں۔۔وہ کبھی میرے نہیں ہو سکتے۔۔۔ان کو میری جیسی عام لڑکی نہیں چاہیے۔۔

وہ دل میں سوچتے ہوئے بولی۔۔اور ایک آنسوں بے مول ہو کر اس ہاتھ پر گرا تھا جسکا اسے خود اندازا نہیں تھا۔۔


دیکھنا انشاللہ تم دونوں کا رشتہ ضرور کامیاب ہو۔۔ایسے روتے نہیں۔۔مایوس نہیں ہو۔۔آمین

وہ ان کے سر پر پیار دیتے ہوئے بولیں۔۔

______________________

حازم آفس سے آنے کے بعد سیدھا شمائلہ بیگم کے کمرے میں ان سے ملنے گیا لیکن ان نے حازم سے کوئی بات نا کی اور یہ کہہ کر کمرے سے نکل جانے کا کہا۔۔


جب تک وہ اپنے اور سماہرا کے رشتے کو صحیح نہیں کر لے گا۔۔اس کو اپنی بیوی ہونے کا حق نہیں دے گا۔۔تب تک اپنا چہرا نا دکھائے۔۔یہ سن کر اس نے بہت واویلا مچایا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں اور آپ ایک پرائی لڑکی کے لئیے اپنے بیٹے سے ایسا سلوک کریں گی۔۔


شمائلہ بیگم نے حازم کے جواب میں غصے سے کہا کہ وہ بھی ان کی بیٹی ہے ۔ خبردار جو اس کو پرائی کہا۔۔

اپنی ماں کے آگے کے الفاظ سن کر وہ غصے میں گھر سے ہی چلا گیا تھا۔۔


رات کے ڈیڑھ بجے وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا ہاتھ میں موجود کوٹ کو اٹھا کر صوفے پر مارا۔، گرنے کے انداذ میں بیڈ پر بیٹھا۔۔


سماہرا کیچن کے کام سے فارغ ہو کر کمرے میں آئی تو حازم کو ہاتھوں میں سر گرائے بیڈ پر بیٹھے پایا۔۔

یہ کب آئے؟وہ خود سے ہمکلام ہوتے ہوئے بولی۔۔


حازم!!

اپنے نام کی پکار پر اس نے خون آشام آنکھیں اٹھا کر سامنے کھڑی سماہرا کی جانب اٹھائیں۔۔جسے دیکھ کر ایک لمحے کے لئیے وہ لرز سی گئی۔۔

وہ۔۔ی۔یہ پو۔۔پوچھنا تھا۔۔کھان۔۔کھانا لاوں آپ کے لئیے۔۔

وہ اپنے خوف پر قابو پاتی بولی۔۔۔

زہر لا دو۔۔!!

وہ پھاڑ کھانے والے انداز میں بولا۔۔

اس کی دھاڑ پر خوف سے اس نے اپنی دونوں آنکھیں بھینچی تھیں۔۔


تم وہ ہو جس کی وجہ سے میری ماں مجھ سے بات کرنا گوارا نہیں کرتیں۔۔میری ماں کو مجھ سے دور کرنا چاہتی ہو نا تم۔۔۔

کیا پول پٹیاں پڑھاتی رہی ہو موم کو تم۔۔۔

کہ میں پر جابر ہوں۔بہت ستم ڈھاتا ہوں تم پر۔۔تمہیں تمہارے حقوق نہیں دیتا۔۔

اس کی گردن میں ہاتھ ڈالے اپنا چہرا اس کے چہرے کے قریب تر کرتے ہوئے بولا۔۔


ن۔۔نہیں می۔۔میں نے ک۔کوئی ش۔شکایت نہیں ۔۔کی۔۔

جھوٹ۔۔۔۔!!اس نے چیختے ہوئے اس کی گردن پر گرفت اور مضبوط کی۔۔


لیکن آج کے بعد تم کوئی شکایت کرنے کے قابل نہیں رہو گئی۔۔کیونکہ تمہاری تمام شکایت میں دور کر دوں گا۔۔

کہتے ہی اس نے سماہرا کو بیڈ کی جانب دھکا دیا۔۔

وہ اوندھے منہ جا کر بیڈ پر گری تھی۔۔سیدھی ہو کر

وہ جلدی سے دوسری جانب سے اترنے لگی کہ اس کو اپنا آپ حازم کی سخت گرفت میں محسوس ہوا۔۔

ن۔نہی۔۔نہیں۔۔۔۔ح۔۔حازم۔۔۔۔پ۔۔پلیز ن۔۔نہیں۔۔۔۔

مجھے۔۔۔یوں۔۔بدلے کی بھینٹ مت چڑھائیں۔۔۔

وہ روتے ہوئے التجائیں کرتے ہوئے بولی۔۔جبکہ وہ اس کا ڈوپٹہ اس کے وجود سے جدا کر چکا تھا۔۔۔۔

حا۔۔حازم۔۔۔مجھے یوں رسوا نا کریں۔پلیز۔۔۔۔۔ حا۔۔ز۔۔

جب کے وہ اسی کی تمام مزاحمت کو نظر انداز کیے اس کو خاموش کروا چکا تھا۔۔۔اپنا تمام غصہ، وحشت،بدلہ سب اس معصوم کی نظر کر رہا تھا۔۔۔

حازم تولیے سے بال رگڑتا واشروم سے باہر نکلا تو بے ساختہ طور پر اس کی نظر سماہرا پر گئی۔جو آنکھوں کو بند کیے صوفے سے ٹیگ لگائے بیٹھی تھی۔

تم کیا بیٹھی یوں  ماتم کر رہی ہو۔۔ناشتہ بناو جا کر میرے لئیے۔۔کوئی جابرانہ یا دنیا سے انوکھا کام نہیں کیا ہے ۔تمہاری اور موم کی خواہش کے مطابق بس اپنا حق وصول کیا ہے۔۔۔میں تمہارا کوئی عاشق نہیں ہوں جس کو یوں نکھرے دکھا رہی ہو۔۔۔

ناٹک تو ایسے کر رہی ہو جیسے بہت  ظلم ڈھا دیا ہو تم پر ۔۔وہ بالوں میں کنکھی پھیرتے ہوئے بولا۔۔

کون سا حق؟ کیسا حق؟ کس حق کی بات کر رہے ہیں آپ مسٹر حازم؟

وہ دھیمے قدم چلتی اس تک آئی اس کی آنکھوں میں دیکھتے سوال کرتی بولی۔۔

یہ ہے آپکا سو کالڈ حق۔۔وہ ۔۔۔کندھے اور گردن پر اس ستمگر کے دیے گئے نشان کی جانب اشارا کرتے ہوئے بولی۔۔

جسے ایک پل کے لئیے دیکھ حازم بھی شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔۔

۔۔نہیں حازم یہ حق نہیں ہے۔۔یہ غصہ ، نفرت اور وحشت ہے جو آپ کے دل میں میرے لئیے بھری ہے۔

وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔۔

آپ جیسے مرد اسی طرح اپنا غصہ اوسیفیشن اپنی بیویوں پر نکالتے ہیں اور   اسے حق کا نام دے دیتے ہیں۔۔تاکہ بعد میں شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔۔

اگر آپ لوگ زیادہ ہی حق پر اکڑتے ہیں تو بیویوں کے دوسرے حقوق کیوں یاد نہیں رہتے آپ لوگوں کو۔۔

عزت دینا ، محبت کرنا، خیال رکھنا ، بھروسہ رکھنا، اعتبار کرنا۔۔یہ سب چیزیں میاں بیوی کے رشتے کے لئیے ضروری ہیں۔۔

لیکن آج کل آپ لوگوں کے ذہن میں صرف ایک ہی حق سر چڑ بول رہا ہے۔باقی کہیں دفن ہو چکے ہیں۔۔ہمارے خوابوں کی طرح۔۔۔

تلخ مسکان چہرے پر سجائے ،آنکھوں میں بے بسی لیے۔۔وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔

جب کہ حازم اس کو حیرت سے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔

جس لڑکی کی زبان اس کے آگے چلتی نہیں تھی آج وہ بے خوف اس کو آئینہ دکھا گئی تھی۔  

                  ______________________

ناشتہ بنانے کے بعد سماہرا کا رخ شمائلہ بیگم کے کمرے کی جانب تھا تاکہ ان کو ناشتہ کروا کر میڈیسن  دے سکے۔

جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کو کچھ معمول سے ہٹ کر محسوس ہوا۔۔اس کی نظر شمائلہ بیگم کی جانب اٹھی جو کہ کروٹ لئیے لیٹی تھیں۔

وہ ناشتہ ٹیبل پر رکھتی ان تک آئی اور ان کو آواز دے کر اٹھانے لگی۔۔

مما۔۔۔مما جی۔۔!!۔ناشتہ کر لیں میڈیسن کا ٹائم ہو رہا ہے۔۔

لیکن آگے سے جواب نادارا۔۔۔

اس کو کچھ گڑ بڑ کا احساس ہوا۔

آگے بڑ کر سماہرا نے ان کو رخ اپنی جانب کیا مگر ان کا ڈھیلا وجود دیکھ اس کی چیخ بلند ہوئی۔۔۔

مما۔۔۔۔!!!

سماہرا کی چیخ سن سیڑھیوں سے اترتا حازم جلدی سے کمرے کی جانب آیا جہاں وہ شمائلہ بیگم کے وجود سے لپٹی رو رہی تھی۔۔

کیااا ہوا۔۔۔؟؟؟

حا۔۔حاز۔۔حازم۔۔۔مما ۔۔۔۔ہ۔۔ہمیں چ۔چھوڑ کر چلی گئیں۔۔

وہ روتے ہوئے ہچکیوں کے درمیان بولی۔۔

سماہرا کی بات سن کر یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟

وہ غصے میں کھولتا اس کی جانب آیا۔۔۔

لیکن جیسے اس کی نظر اپنی ماں کے بے جان وجود پر پڑی تو اس کو کھڑا رہنا محال لگا۔۔۔

موم۔۔۔آپ ناراض ہیں۔۔۔آئی ایم سوری۔۔۔پر اس دنیا میں تنہاہ  چھوڑ کر نا جائیں۔۔ناراضگی کی اتنی بڑی سزا نا دیں۔۔

وہ ان کے ٹھنڈے وجود کو خود میں بھینچے روتے ہوئے ہوئے بولا۔۔

اپنے کندھوں پر نرم ہاتھوں کا لمس محسوس کر کے اس نے پیچھے دیکھا جہاں سماہرا کھڑی تھی۔۔

سمی۔۔۔سمی تم بولو نا موم کو وہ تمہاری بات سنیں گی۔۔بے خیالی میں اس کو یہ بھی معلوم نا ہوا کہ وہ اسکو اس نام سے پکار گایا جس سے بچپن میں پیار سے بلاتا تھا۔۔

نہیں۔۔وہ اب کسی کی نہیں سنیں گی۔۔۔۔وہ ٹپ ٹپ بہتے آنسوں کے ساتھ نفی میں سر ہلاتے ہوئے بولی۔۔۔

                  ______________________

اپنی ماں کی تدفین کرنے کے بعد وہ تھکے ہوئے وجود کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔جہاں اس کی نظریں سسکیوں کے ساتھ روتی سماہرا پر گئی۔۔

یہ لڑکی ہی منحوس ہے۔۔اس کے قدم اس گھر کے لئیے بھاری ثابت ہوئے ہیں۔۔توبہ توبہ اپنی ساس کو کھا گئی۔

یہ سارے جملے اس کو دورانِ تدفین سننے پڑے تھے۔

لیکن وہ صبر کا گھونٹ بھر چکی تھی۔۔۔

تم کیوں رو رہی ہو؟ تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ تمہارا مقصد پورا ہوا۔۔میری ماں کو مجھ سے دور کر دیا۔

وہ گھٹنے کے بل اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا۔۔

تم ایک کالا سایہ ہوا جس نے میری خوشگوار زندگی  کو اندھیرے اور ویرانی میں بدل دیا ہے۔۔

تمہاری وجہ۔۔سے صرف تمہاری وجہ سے میری ماں  مجھ سے ناراض ہو کر اس دنیا سے چلی گئیں۔۔

مجھے ان سے معافی مانگنے تک کا موقع نہیں ملا ۔

اور ان سب کی زمہ دار تم ہو۔

صرف تم۔۔۔وہ چیختے ہوئے بولا۔۔غصے اور غم کی وجہ سے اس کی نسیں پھول رہی تھیں۔۔۔گوری رنگت میں سرخی سی مل گئی۔۔

میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا۔تمہیں مر جانا چاہیے۔۔

کہتے ہی حازم نے سماہرا کی سرائی دار گردن کو اپنی گرفت میں لے کر دبایا تھا۔سماہرا کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا ۔۔آنکھیں بار ابل آنے کو تیار تھیں۔۔اس نے حازم کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھے اپنا اپ چھڑانے کی کوشش کی جس پر اس کی گرفت مزید سخت ہوئی۔۔حازم کے سر پر اس وقت صرف خون سوار تھا۔۔وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔۔

ٹھک ۔۔۔ٹھک۔۔۔دروازے کی آواز پر اس نے سماہرا کو رہائی بخشی تھی۔حازم کے چھوڑنے پر وہ دونوں ہاتھ زمین پر رکھے کھانسنے لگی تھی۔

اور   شکوہ کناں نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا جیسے یہ احساس دلانا چاہ رہی ہو۔۔۔ان سب میں میری کیا غلطی ہے۔۔

وہ اس کی نظروں کے مفہوم کو نظر انداز کرتا دروازا کھولنے گیا جہاں ملازمہ کھڑی تھی۔

صاحب نیچے آپ کو بی بی کے ابو بلا رہے ہیں۔۔

ہم تم جاو ہم آتے ہیں۔۔

نیچے جا کر اگر کوئی بکواس کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔۔سماہرا کا ہاتھ پکڑے وہ اس کو نیچے لے کر آیا۔۔جہاں اس کے بابا اپنا بیگ پکڑے جانے کے لئیے تیار تھے۔۔

وہ اپنا ہاتھ حازم سے چھڑا کے اپنے بابا کے پاس بھاگی اور ان کے گلے لگ گئی۔۔کافی دونوں بعد کسی اپنے کا لمس پاکر وہ پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔۔

گڑیا۔۔بابا کی جان روتے نہہ۔۔ان کی بات منہ میں ہی رہ گئی جب ان کی نظر اس کی گردن کے نشان پر گئ۔۔

ی۔۔یہ۔۔تم نے ک۔۔کیاںہ۔۔ہے۔۔۔

ان نے حازم کی جانب دیکھتے ہوئے سوال کیا ۔۔ان کو اپنی آواز کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔

ماموں وہ ہم دونوں میاں بیوی کا معملہ ہے آپ بیچ میں نا بولیں۔۔

وہ نہایت تلخ وہ گستاخانہ لہجے میں گویا ہوا۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چٹاخ۔۔۔۔۔۔

سماہرا کے بابا کے ہاتھ سے پڑھنے تھپڑ نے حازم کی چلتی زبان کو قفل لگایا۔۔۔

یہ کس طرح بات کر رہے ہو؟؟۔۔۔

لگتا ہے باہر کے ملک میں رہ کر تم تمیز و تہذیب بھول چکے ہو۔افسوس ہو رہا ہے مجھے اپنی مرحوم بہن پر جو تمہاری صحیح تربیت نا کر سکی۔۔

ماموں پلیز۔۔میری موم کے بارے میں ،میں ایک لفظ برداشت نہیں کروں گا۔۔وہ غصے کے عالم میں مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولا۔۔

کیوں ۔۔؟ کیوں نا بولوں۔۔تم میں کہیں سے بھی اپنے والدین کے جراثیم نہیں ۔۔۔

کیا تمہارے باپ نے آج تک تمہاری ماں پر ہاتھ اٹھایا۔ ؟

تو تم نے اپنی بیوی پر کیسے ہاتھ اٹھایا۔

عورت پر ہاتھ اٹھانا مرد کی مردانگی نہیں بلکہ بزدلی ہوتی ہے۔۔

اب میں یہاں ایک لمحہ اپنی بیٹی کو تم جیسے وحشی اور انسانیت سے گرے ہوئے انسان کے ساتھ نہیں رہنے دوں گا۔۔

اگر آپ اپنی بیٹی کو لے کر یہاں سے گئے تو واپسی کے دروازے اس کے لئیے ہمیشہ بند رہیں گے۔۔اور اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ خلع دلائیں گے تو میں آپ کو یہ  یاد کروا دوں کہ ہمارے خاندان میں خلع لینا مکرو ہے۔۔

اور طلاق میں دوں گا نہیں۔۔

اب فیصلہ آپ پر ہے۔۔۔

وہ تنزیہ  مسکراہٹ کے ساتھ جتانے والے انداذ میں کہتا گھر سے نکل گیا۔۔یہ بات اس کی انا کو کہاں گوارا تھی کہ کوئی اس کو دھتکارے ۔

گڑیا چلو۔۔تم میرے ساتھ۔۔

نہیں بابا۔۔میں انہیں اس حال میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔خدا کو حاضر و ناظر جان کر میں نے انہیں قبول کیا ہے۔

۔رخصتی کے وقت آپ نے اور ماما نے کہا تھا کہ شادی کے بعد سسرال ہی عورت کا اصل گھر ہوتا ہے۔۔

اس کو سنوارنا ،بنانا سب عورت کے ہاتھ میں ہے۔۔

اور۔میں اپنا گھر توڑنا نہیں چاہتی ہے۔

میں ایک طلاق یافتہ عورت بن کر لوگوں کی نظروں میں مظلوم نہیں بننا چاہتی ۔۔

یہ داغ نہیں چاہتی میں اپنے دامن پر۔۔

آپ نے کہا تھا کہ آپ کا بھرم رکھوں ۔۔۔اور آپ کی یہ گڑیا کبھی اپ کا بھرم ٹوٹنے نہیں دیگی۔۔وہ مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجائے اپنے بابا سے بولی وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی کو پرے دھکیلتے اس کے سر پر ہاتھ رکھے ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دے کر جا چکے تھے۔۔

                   _____________________

حازم کی ماں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے ایک مہینہ بیت چکا تھا۔۔کہتے ہیں کسی کے جانے سے وقت رکتا نہیں ہے۔۔، تھوڑے عرصہ کے لئیے ان کے ساتھ بتائے گئے لمحے یاد آتے ہیں۔انسان ان لمحوں کے حصار میں ہوتا ہے۔۔۔پر بہت جلد وہ واپس اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی حال حازم کا بھی تھا وہ بھی اپنی زندگی میں مگن ہو چکا تھا۔۔

                  ______________________

ہیل کی ٹک ٹک کرتی آواز پورے فلور پر گونج رہی تھی۔

وہ لڑکی گرلز پینک کوٹ پینٹ میں ملبوس بالوں کو ہائی پونی میں مقید کیے آنکھوں میں مہنگے سن گلاسس لگائے آگے بڑھ رہی تھی۔۔جب کہ اس لڑکی کے گارڈز اس کے پیچھے ہاتھوں میں گن تھامے اسکی پیروری کر رہے تھے۔۔

وہ اپنے آفس کے گلاس کے دروازے کو دھکیل کر اندر داخل ہوئی اور مغرور چال چلتی چکور میز کے سامنے رکھی راکنگ چئیر پر جا بیٹھی۔۔جہاں اس کا لیپ ٹپ ،ٹیشو باکس ،پین اور ایک ٹیلی فون رکھا تھا جس سے آفس کے ورکرز سے بآسانی رابطہ کیا جا سکتا تھا۔۔

                     ______________________

سماہرا کو صبح سے اپنی طبیعت بوجھل بوجھل محسوس ہو رہی تھی۔۔کسی کام میں دل نہیں لگ رہا تھا۔۔اس کا سر درد کی شدت سے پھٹا جا رہا تھا۔لیکن پھر بھی وہ میڈیسن لیتی کیچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔۔کیونکہ وہ جانتی تھی  اگر نا بنایا تو ذلت اسی کے حصے میں آنی ہے۔۔

بابا کے ڈانٹنے کے بعد اس نے سماہرا پر دوبارا ہاتھ تو نا اٹھایا پر لفظوں کی چوٹ دینے سے باز نا آیا۔۔۔

حازم گھر آیا تو سامنے کا منظر دیکھ اس کی پیشانی پر شکن نمایاں ہوئیں۔

کیونکہ سماہرا لائٹس اوف کرکے بیڈ پر سکون کی نیند فرما رہی تھی۔۔اس نے آگے بڑھ کے اسکا ہاتھ کھینچ کر اٹھایا تھا۔۔۔

تم میں مینرز نہیں ہیں کیا؟

جب تک شوہر گھر پر نہیں آ جاتا تب تک سوتے نہیں ہیں۔۔اس دن تمہارے بابا مجھے تو بڑا درس رہے تھے۔۔اگر تمہیں تھوڑی عقل دے جاتے تو کیا تھا۔۔

سماہرا جو پندرا منٹ پہلے دوائی لے کر لیٹی تھی۔۔اچانک یوں اٹھائے جانے پر ہڑبڑا کر اٹھی اور حیرت  سے حازم کو دیکھا۔۔

اب یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو؟

کھانا لگاو۔۔میں فریش ہو کر آتا ہوں۔۔

وہ حکم دیتے ہوئے جا چکا تھا مگر اپنی انا ،اپنے غرور اور غصے میں اس کے سر پر باندھے گئے دوپٹے کو نا دیکھ پایا یا پھر دیکھ کر بھی انجان بن گیا تھا۔۔

وہ فریش ہو کر نیچے آیا تب تک وہ کھانا لگا چکی تھی۔۔وہ کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ گیا۔۔اور کھانا کھانے لگا۔۔

تمہیں کیا ہوا؟؟

وہ اس کو ٹیبل پر سر ٹکائے دیکھ کب بولا۔۔

کچ۔کچھ نہیں بس۔۔ایسے ہی سر میں درد ہے۔۔

اچھا۔۔ایک لفظی جواب دیے وہ واپس کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔

                   ______________________

You are my love, you are my life...

(تم میرا پیار ہو ، میری زندگی ہو)

I love you so much , I will get you and hide in my soul.....

( میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں، میں تمہیں حاصل      کر کے اپنی روح میں چھپا لوں گی)

وہ لڑکی شاندار کمرے میں موجود جہاں اس کے آرام کی ہر آرائش مہیا تھی۔۔۔نائیٹ بلب کی روشنی میں کسی خوبرو نوجوان کی تصویر ہاتھوں میں تھامے ایک ٹرانس سی کیفیت میں بول رہی تھی۔۔۔

                 _______________________

برتن سمیٹ کر جلدی سے اوپر پہنچو؟

حازم سماہرا سے کہتا کمرے میں چلے گیا۔۔جب کہ وہ سر میں اٹھنے والے درد کو برداشت کرتی کیچن سمیٹ کر کمرے میں آئی جہاں حازم پہلے سے بیڈ پر لیٹا اسی کا انتظار کر رہا تھا۔۔

میں نے سونے کے لئیے نہیں کہا..پہلے سر دباو میرا۔۔سر درد ہو گیا ہے۔۔۔سارا دن آفس میں ورکرز کے ساتھ سر کھپانا پڑتا ہے۔۔

وہ اس کو لیٹتے دیکھ کر بولا۔۔

جبکہ وہ خاموشی سے اپنے نازک ہاتھوں سے اس کا سر دبانے لگی۔۔

تھوڑا زور سے دباو!! جان نہیں ہے کیا ہاتھوں میں۔۔

تمہیں نا کبھی عقل نہیں آنی ہے۔۔۔یہاں لیٹو میں بتاتا ہوں کیسے دباتے ہیں۔کہنے کو تو ایک سلیقہ شعار لڑکی ہو مگر کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر سکتی ۔۔

حازم  اٹھ کر بیٹھا اور سماہرا کا سر اپنی گود میں رکھ کر آرام آرام سے اس کے سر کی مالش کرنے لگا۔۔

اس طرح دباتے ہیں۔۔وہ اس کے سر کی فیزیو کرتے ہوئے بولا۔۔جبکہ دوسری طرف سماہرا سر میں سکون ملنے کے باعث نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔۔

سماہرا کو سوتے دیکھ اس نے اس کو صحیح سے لٹایا اور خود بھی اس کے ساتھ لیٹ گیا۔۔اور اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا۔۔

وہ جانتا تھا کہ اس کے سر میں درد ہو رہا ہے۔۔لیکن یہ چیز اس کی انا کو گوارا نا تھی وہ خود سے اسے دبانے میں پہل کرے۔۔۔ اسی لئیے اس کو سیکھانے کا ناٹک رچائے اس کے سر کی مالش کر گیا۔۔۔

حازم کا دل سماہرا کے لئیے نرم پڑ رہا تھا۔۔لیکن وہ ایسا کچھ سوچنا بھی نہیں چاہتا تھا۔۔کیا ان کی زندگی، ان کی کہانی مکمل ہو پائے گی۔۔؟؟

یا لے گی سماہرا کی زندگی نیا موڑ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ ایک بڑا ہال نما میٹنگ روم تھا جس کے وسط میں ایک لمبی گول میز رکھی گئی تھی،جہاں دنیا کے مشہور بزنس ڈیلر اپنی نسشت کے سامنے لیپ ٹاپ رکھے بیٹھے، آنے والی شخصیت کا انتظار کر رہے تھے۔۔

قدموں کی چاپ سے سب داخلی دروازے کی جانب متوجہ ہوئے جو اس بات کا اشارا تھا کہ ان کا انتظار ختم ہوا کیونکہ وہاں سے ایک میچیور لڑکی اپنی سیکٹری کے ساتھ داخل ہوئی۔۔


اس لڑکی کے اندر داخل ہوتے ہی حازم پر ایک سحر سا تاری ہوا تھا۔۔ وہ دم بخود سا اسکو دیکھ رہا تھا۔گوری رنگت ، لمبی ناک ، ہلکے میک اپ سے سجا چہرا ، باریک کٹاو دار لب، گہری نیلی آنکھیں۔۔اوپر سے ویل کونفیڈینٹ ۔۔۔

اس لڑکی کو دیکھتے ہی حازم کے دل سے آواز آئی تھی۔۔۔(یہ لڑکی میر حازم کے لئیے پرفیکٹ ہے).

ہیلو!

گڈ مارننگ!!

مائے نیم از روباب شمس۔۔

روباب نے اندر داخل ہو کر اپنا تعارف کروایا اور پھر پریزینٹیشن شروع کی۔۔اس کی آواز میں ایک کشش سی تھی جس نے میر حازم کے ساتھ سب کو اپنی جانب جکڑا ہوا تھا۔۔۔

______________________

سماہرا جو کمرا صاف کرنے کے بعد کیچن میں کھانا بنانے کے لئیے داخل ہوئی تھی چکر آنے کے باعث ٹیبل کا سہارا لیا۔۔

کیا ہوا بی بی جی۔۔۔!!

یہ لیں پانی پیئں۔۔۔

ملازمہ جو برتن دھو رہی تھی سماہرا کو دیکھ اس تک آئی۔۔

کچھ نہیں بس چکر سے آ رہے ہیں۔۔اور سر میں درد رہتا ہے۔۔وہ پانی پکڑتے ہوئے بولی۔۔

بی بی جی۔۔میری مانیں تو آپ ایک بات ڈاکٹر سے رابطہ کر لیں۔۔

وہ برتن دھوتے ہوئے بولی۔

ہمممم۔۔۔۔۔

______________________

میر حازم جیسا کہ آج کی پریزینٹیشن کے مطابق ہم یہ ڈیل آپ کے ساتھ فائنل چکے ہیں اور یہ امید رکھتے ہیں کہ آپ ہمارے بزنس کو مزید آگے لے کر جائیں گے۔۔

میٹنگ ختم۔ہونے کے بعد روم میں صرف حازم اور رباب تھے۔۔

یس شیور۔۔۔

مس روباب۔۔۔

وہ اس کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں اپنے لئیے پسندگی اور ستائش دیکھ بہت خوش ہوئی تھی۔۔۔لیکن یہ خوشی کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔

کیونکہ اس نے آج تک جھکنا نہیں سیکھا تھا۔۔

اوکے میر حازم میں چلتی ہوں۔۔باقی کی ڈیسکشن کل ہم کسی ریسٹورنٹ میں کریں گے۔۔

وہ اپنی نین نشیلی آنکھوں پر چشموں کا پہرا لگاتے ہوئی بولی۔۔

اگر آپ یہ ڈیسکشن میرے گھر پر لنچ کر کے کریں گی تو مجھے ذیادہ خوشی ہو گی۔۔

وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔

اور آپ کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ میں آپ کی بات مانوں گی۔۔؟

وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو سینے پر باندھ کر بولی۔۔

کیونکہ میر حازم کو آج تک کسی نے انکار نہیں کیا۔۔۔

چہرے پر غرور سے بھرپور مسکراہٹ سجا کر جواب دیا گیا۔۔

اور اگر میں انکار کر دوں؟؟وہ گلاسسز کو ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔۔

تو پھر میں یہ سمجھوں گا کہ آپ مجھ سے گھبرا رہی ہیں۔۔اور میرا چیلنج ریجیکٹ کیا۔۔۔۔!!

جی نہیں۔۔۔

آئی لائک چیلنجس۔۔۔

سو کل کا لنچ آپ کے گھر پر مسٹر میر حازم ۔۔۔۔

وہ مسکرا کر بولتی اپنا فون ٹیبل سے اٹھائے باہر کی سمت چل دی۔۔۔جبکہ میر کے بقول اسکا کا دل بھی اپنے ساتھ لے جا چکی تھی۔۔۔___________________

آپ دوائیاں وقت پر لیجئیے گا۔۔

اور ہر ہفتے چیک اپ کے لئیے آتی رہنا۔

ڈاکٹر نے کہتے ہی ایک پرچہ سماہرا کی جانب بڑھایا۔۔

جسے اس نے مسکرا کر تھام لیا۔

سماہرا طبعیت زیادہ خراب ہونے کی صورت میں ڈرائیور کے ساتھ نزدیکی کلینک پر آئی تھی جہاں ڈاکٹر نے اسے امید سے ہونے کی خبر سنائی تھی جسے سنتے ہی وہ سکتے میں آ گئی تھی۔۔

ایک خوشی کا احساس اس کے پورے بدن ۔میں سرایت کر گیا۔لیکن جلد ہی یہ سوچ کر مایوس ہو چکی تھی۔۔

کیا حازم اس بات سے خوش ہو گا۔وہ تو اس کے وجود کو نا پسند کرتا ہے۔۔اسی سوچ کے ساتھ وہ واپس گھر آ چکی تھی۔۔____________________

کیا ہوا تم اتنی خاموش ہو کیوں ہو؟

وہ لوگ رات کا کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر سونے کے روم میں آ چکے تھے۔۔

حازم نے سماہرا کو دیکھ کر کہا جو کہ چھت کو گھورتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھ۔۔

کچھ نہیں۔۔۔

وہ ویران آنکھوں سے اس کے وجود کو تکتے ہوئے بول۔۔

کوئی بات پریشان کر رہی ہے تو کہہ سکتی ہو۔۔۔

وہ آج معمول سے ہٹ کر خوشگوار لہجے میں اس سے سوال کر رہا تھا۔۔

سماہرا نے حیرانی سے اس کی جانب دیکھا تھا۔

وہ دراصل آج۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹرن۔۔۔۔ٹرن۔۔۔۔

وہ جو بولنے لگی تھی فون کی بیل نے اس کی بات کو کاٹا تھا۔۔۔

ویٹ۔۔میں فون سن کر آتا ہوں۔۔وہ کہتا فون لے کر بالکونی میں چلے گیا۔۔

آپ کے پاس تو میرے لئیے وقت ہی نہیں۔۔

وہ اداسی سے سوچتے ہوئے تکیہ سیدھا کر کے لیٹ چکی تھی۔۔

ہاں بولو کیا بول رہی تھی۔

حازم جب فون سن کر روم میں آیا تو اس کو سوتے دیکھ ایک لمبی سانس ہوا مین خارج کرتا خود بھی لیٹ چکا تھا۔۔

آج گیسٹ آ رہے ہیں سو اس حساب سے کھانے وغیرہ کی تیاری کر لینا۔

گھر کے عام لباس میں ملبوس حازم نے کیچن میں کام کرتی س۔اہرا سے کہا۔


جی بہتر۔۔۔۔۔۔۔

آپ مجھے بتا دیں کتنے گیسٹ ہیں اور مینیو میں کیا کیا رکھنا ہے تو میں اس حساب سے بنا لوں گی۔

وہ بھاپ اڑاتی گرم گرم کافی حازم کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔

زیادہ نہیں ہیں ۔۔۔بس میری بزنس پاٹنر ہیں اور ہو سکتا ہے انکے ساتھ انکی ایسیسٹنٹ بھی ہوں۔۔


سو اسی حساب سے تین چار ڈیشز بنا لینا ۔۔


جی آپ پریشان نا ہوں میں بنا لوں گی۔


ہممم۔۔۔۔۔۔۔

______________________


کمرے کی کھڑکی سے پڑتی سورج کی کرنیں اسکے حسین چہرے پر پڑ رہی تھیں۔۔ان کرنوں سے بچنے کے لئیے اس نے سائڈ پر رکھا کشن کروٹ بدلتے ہوئے اٹھا کر اپنے چہرے پر رکھا ۔۔


جس سے اس کا ہاتھ اپنے تکیے کے بائیں جانب رکھی کسی ٹھوس چیز سے ٹکرایا۔۔


پہلے تو اسے کچھ سمجھ نہیں آئی لیکن حواس بیدار ہوتے ہی اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکان آئی تھی۔۔

جیسے سمجھ چکی ہو وہ کیا چیز ہے۔۔۔۔


ہاں!!

وہ اس کی محبت دیوانگی کی تصویر تھی اسکے خوابوں کے شہزادے کی جو انقریب اسکا ہونے والا تھا۔۔لیکن ایسا صرف اس کو لگتا تھا لیکن قسمت میں کیا لکھا ہے وہ صرف قسمت لکھنے والا جانتا ہے۔۔


______________________


سماہرا جب ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر کمرے میں آئی تو حیرت کی زیاتی سے اس کا منہ کھل گیا۔۔


کیونکہ پورا کمرا لنڈے بازار (ایل - بی) کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔کیونکہ حازم الماری کے تمام کپڑے بکھیرے بیٹھا تھا۔۔


اس کے لئیے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا ،ہر چیز کو کتنی نفاست سے رکھنے والا حازم آج کمرے کا یہ حال کیے بیٹھا تھا۔۔۔


کچھ یاد آتے ہی وہ جلدی سے الماری کی جانب آئی۔۔اور ڈروذ کو لاک لگا دیکھ شکر کا سانس لیا تھا اس نے۔۔۔۔۔


یہ کیا کیا آپ نے؟؟

وہ حیران پریشان کھڑی اس سے سوال کرتے ہوئے بولی۔۔۔


یار میں نے کون سا شوق سے کیا ہے۔۔؟؟

میری رویل بلو کلر کی شرٹ نہیں مل رہی۔۔


اف۔۔۔وہ تو میں نے چھت پر سکھانے کے لئیے ڈالی ہے آپ انے ایک مرتبہ پوچھ تو لیا ہوتا۔۔۔


آپ ایک مرتبہ مجھ سے پوچھ تو لیتے!!!

میں نے کتنی محنت سے کل الماری سیٹ کی تھی۔۔

اور آگے بڑھ کر کپڑے سمیٹنے لگی تھی۔۔۔

اسے چھوڑو۔۔۔۔


وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا۔۔

میرا مطلب۔۔ہے کہ اسے بعد میں کرنا پہلے جا کر میری شرٹ لاو ۔۔


وہ جلدی سے اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے بولا۔۔

وہ بنا کچھ کہے اوپر سے شرٹ لاکر اسے پریس کرنے لگی۔۔پھر الماری میں ایسے ہی کپڑے ڈال اسے بعد میں سیٹ کرنے کا سوچ کر کیچن میں کھانا بنانے چلی گئی۔۔


______________________

کیچن میں آکر جلدی جلدی اس نے پاستہ اور بریانی کے لئیے مصالحہ تیار کیا ۔۔ساتھ ساتھ رائتہ اور سلاد بنایا ۔۔۔بریانی کو دم لگانے کے بعد اس نے میٹھے میں کسٹرڈ بنایا اور اسے ٹھنڈا۔ ہونے کے لئیے فریج میں رکھا۔


اہہہمممم۔۔۔۔

کتنی زبردست خوشبو آ رہی ہے۔۔

تیار ہونے کے بعد حازم کیچن میں داخل۔ہوا جہاں سماہرا کباب تل رہی تھی۔۔۔


سماہرا نے حازم کی جانے والی پہلی تعریف پر مسکرا کر اس کی جانب دیکھا تو اس حسن کے دیوتا پر اس کی نظریں منجمد ہو گئیں۔۔۔


سسسسسس۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو حازم کے حسن میں کھوئی تھی۔۔غلطی سے ہاتھ فرائی پین پر لگنے سے اس کی سسکی اُبھری۔۔۔خوبصورتآنکھوں میں یکدم نمی جھلکی تھی۔۔


دھیان کہاں ہوتا ہے تمہارا؟؟

مجال ہے کوئی کام ڈھنگ سے کر لو۔۔


حازم جلدی سے برنول لیتا اس تک آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر دیکھنے لگا جہاں جلنے کے باعث ہاتھ لال سرخ ہو رہا تھا۔۔۔


ہاتھ جلا کر بیٹھ گئی ہو۔۔تاکہ سرونگ نہ کرنی پڑے۔۔


سماہرا جو سمجھ رہی تھی کہ وہ اس کی فکر میں بول رہا ہے ۔لیکن اس کی آخری لفظوں سے اس کو اپنا دل چھلنی ہوتا محسوس ہوا۔۔


آپ فکر نا کریں۔۔سرونگ وغیرہ سب وقت پر ہو جائے گا۔۔

وہ اپنا ہاتھ آرام سے اس کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے بولی۔۔اور برنول۔اپنے ہاتھ پر لگانے لگی۔۔۔


او ہاں!!

وہ جاتے جاتے پلٹا۔۔۔۔سماہرا نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔باہر اس حلیے میں مت آ جانا۔۔۔

میں نہیں چاہتا کسی کے سامنے میری انسلٹ ہو۔۔۔

وہ کہتا باہر کی جانب قدم بڑھانے لگا۔۔


جبکہ سماہرا ہاتھ پر برنول لگا کر کباب کی جانب متوجہ ہوئی جو کہ ان کے مقالمے کے دوران کافی حد تک اس کے دل اور نصیب کی ماند جل چکا تھا۔

______________________

ڈارک اورنج جینس پر ملٹی رنگ کا کُرتا پہنے گلے میں اسٹالر ڈالے وہ خود پر مہنگے پرفیوم کی بارش کیے وہ اپنی چمچماتی گاڑی میں بیٹھ کر حازم کے گھر کی جانب روانہ ہوئی جہاں اس پر ایک ناقابلِ یقین راز آشکار ہونا تھا۔۔


صاحب آپ کی مہمان آ چکی ہیں۔ملازمہ نے اس کو آکر روباب کے آنے کی اطلاع دی۔

آپ انہیں سیٹنگ روم۔میں بیٹھائیں میں آتا ہوں۔۔

جی۔۔۔

ملازمہ کہتی جا چکی تھی۔۔

شیشے میں سے خود پر ایک طائرانہ نظر دوڑائے اپنے بالوں اور کوٹ کو سیٹ کرتا وہ باہر کی جانب چل دیا۔۔۔


گڈ آفٹر نون مس روباب۔۔

اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اس سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔۔

جس پر روباب نے بھی اس خوشکل نوجوان کے سراپے پر ایک نظر ڈال کر مسکرا کر جواب دیا۔


مسٹر حازم پروجیکٹ کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔؟

وہ جوس کا سپ لیتے ہوئے بولی جو کہ سماہرا نے ملازمہ کے ہاتھ بھیجوایا تھا۔

ہممم۔۔۔۔۔آپ تھوڑا ایزی ہو جائیں۔۔پھر ڈیسکشن اسٹارٹ کرتے ہیں۔۔

میں ایزی ہوں۔۔آپ پلیز اسٹارٹ کریں۔۔

اوکے مس۔۔۔ایز یور وش۔۔۔

وہ جو ملاقات کو طویل کرنا چا رہا تھا لیکن روباب کی بات پر اس کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے بولا۔۔۔

اپنا لیپ ٹاپ اور فائل اسٹڈی سے لانے کے بعد اس نے پروجیکٹ کے بارے میں اپنے خیالات روباب سے ڈسکس کیے۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے کی ڈسکشن کے بعد وہ دونوں فارغ ہوئے ۔۔اتنی دیر میں سماہرا نے ملازمہ کے ہاتھ کھانا لگنے کا پیغام بھیجوایا۔۔۔تو وہ دونوں لنچ کی نیت سے ہال کی جانب روانہ ہوئے۔۔

ہیو آ سیٹ مس روبب۔۔۔۔۔!!!!!

وہ کرسی دھکیل کر اسکو بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے بولا۔۔

جسے اس نے مسکرا کر قبول کیا۔۔

جبکہ ملازمہ کا یہ دیکھ منہ کھل گیا تھا۔۔لو بھلا اپنی بیوی کا خیال رکھا نہیں جاتا اور غیر لڑکیوں کی کیسے آو بھگت کر رہا ہے۔۔۔

وہ دل میں سوچتے ہوئے بولی۔۔۔

واو۔۔۔مسٹر حازم آپکی ملازمہ کے ہاتھوں میں تو تو بہت ٹیسٹ ہے۔۔وہ کباب کی پہلی بائٹ لیتے ہوئے بولی۔۔۔

یہ سب ملازمہ نے نہیں میری وائف نے بنایا ہے ۔۔۔وہ مسکرا کر جواب دیتے ہوئے بولا۔۔۔

جبکہ اس کی بات سن روباب کو نوالہ اپنے حلق میں پھنستا محسوس ہوا۔۔۔اس کی مسکراہٹ یکدم سمٹی تھی۔۔۔

جسے انجانے میں حازم بھی نوٹ مر چکا تھا۔۔۔

وہ اسے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ کیا ضرورت تھی وائف کا زکر چھیڑنے کی۔۔۔۔۔

آر یو میرڈ۔۔؟؟؟

وہ اپنی حیرت پر قابو پاتے ہوئے بولی۔۔۔۔

یس۔۔۔۔وہ سنجیدگی سے بولا۔۔

او۔۔کونگریچولیشن !!!

مجھے نہیں پتا تھا ۔۔وہ بھرائی ہوئی آواز کے ساتھ بولی تھی اس کے دل کی دنیا یکدم ویران ہوئی تھی۔ہر چیز سے اس کا دل اچاٹ سا ہو گیا تھا۔۔

بائے دا وے۔۔آپ کی وائف نظر نہیں آ رہیں۔۔

جی۔۔۔وہ اوپر روم میں ہے۔۔۔۔شائد سو رہی ہیں۔۔۔

وہ شرمندگی سے بولا تھا۔۔۔

اس کو سماہرا پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔مطلب یہ لڑکی خود کو سمجھتی کیا ہے۔۔۔

اوو۔۔۔اٹس اوکے۔۔۔نو ایشو۔۔۔

Thank you so much for this special and greatful lunch....

(بہت شکریہ اتنے اچھے اور خاص لنچ کے لئیے)

وہ کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

Oh...ok dear... it's mine pleasure...

Good bye...

(او۔۔کوئی بات نہیں یہ تو میرا فرض تھا۔۔۔)

ہم گڈ بائے۔۔۔

وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے گھر کی جانب روانہ ہو گئی۔۔

______________________

روباب کے جانے کے بعد حازم کمرے میں آیا اور غصے سے سماہرا کی جانب بڑا جو کہ الماری کے کپڑے سیٹ کر رہی تھی۔۔۔

تم۔ سمجھتی کیا ہو خود کو؟

بہت ذیادہ ایٹیٹیوڈ ہے تم میں۔۔۔

وہ اشتعال کے عالم میں اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنی جانب گھماتے بولا۔۔۔

آج تمہاری وجہ سے مجھے روباب کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی۔۔۔

کتنا ایمبیرس فیل کر رہا تھا میں۔۔

کیا ہو جاتا اگر تم تھوڑی دیر کے لئیے نیچے آ جاتیں۔۔۔

تمہیں نظر نہیں لگ جانی تھی۔۔۔۔

مسٔلہ کیا ہے آپ کے ساتھ۔۔۔آپ آج ایک مرتبہ بتا دیں۔۔۔

کبھی آپ کو میری ڈریسنگ کا ایشو ہوتا۔۔

کبھی اپنی ایمج کا۔۔۔

اس لئیے نہیں آئی تھی کہیں آپ کو مجھ جیسی ٹیپیکل

لڑکی کی وجہ سے اپنی ہائی کلاس سوسائٹی میں شرمندگی نا اٹھانی پڑے۔۔۔۔

وہ اس سے اپنا چھڑاتی کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔جبکہ پیچھے حازم غصے سے پیچ وتاب کھاتا رہ گیا۔۔۔

چاند کی مدھم چاندنی میں ہر چیز اونگھتی محسوس ہو رہی تھی رات کے اس اندھیرے میں  وہ بالکونی میں کھڑی تھی ہیں۔۔۔۔

آج تو پہر کی حازم کی بات سن کر کر اس کی خواہش انگلش مایوسی کے اندھیروں  میں گم ہو گئی تھی اس کا دل کہہ رہا تھا کہ کہ بھول جاؤں اسے سے وہ تمہارے نصیب میں نہیں نہیں جبکہ دماغ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔

وہ تمہارا عشق  ہے،تم اسے حاصل کر سکتی ہو ہو کیا ہوا اگر وہ شادی شدہ ہے ۔۔۔!!!!! مرد پر تو چار شادیاں جائز ہیں۔۔۔۔۔

لیکن میں ایک عورت ہو کر کسی دوسری عورت کا گھر برباد نہیں کر سکتی دل نے دلیل دی تھی۔۔۔۔۔۔

تم کسی کا گھر برباد نہیں کر رہی ۔۔۔تم نے صرف اپنی محبت کو حاصل کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ویسے بھی محبت اور جنگ میں ہر چیز جائز ہوتی ہے  دماغ میں دل کی بات کو پرے دھکیلا تھا۔۔۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

حازم پچھلے دس منٹ سے گاڑی میں بیٹھا سماہرا کا انتظار کر رہا تھا۔۔روباب نے حازم اور  سماہرا کو اپنے گھر میں پارٹی پر انوائٹ کیا تھا جو کہ اس نے بزنس ڈیلنگ کی بنا پر رکھی تھی۔۔۔جس میں اس کے  سرکل میں موجود  جاننے والے ، دوست وغیرہ بھی موجود تھے۔

گاڑی کے اس پار سے اسکو سماہرا اپنی جانب آتی نظر آئی اس کو دیکھ کر اس کے ماتھے کی شکنوں میں اضافہ ہوا تھا۔۔۔

یہ کیسی ڈریسنگ کی ہے تم نے؟

کوئی دھنگ کا ڈریس نہیں ہے تمہارے پاس؟؟

یہ تنبو پہن کر کوئی پارٹی میں جاتا ہے

وہ ناگواری سے اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

جس نے شلوار سوٹ میں ڈوپٹہ سر پر اوڑے اور شانوں کے گرد شال لپیٹی تھی۔۔۔۔

کیا ہوا ؟ ٹھیک تو ہے۔۔۔ وہ حیرانی سے استفسار کرتے ہوئے بولی۔۔۔

دروازہ بند کرو۔

وہ سماہرا کی بات کو سرے سے اگنور کرے گاڑی اسٹارٹ کر چکا تھا۔۔پورا راستہ خاموشی میں کٹا تھا۔۔۔

🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

اس تنبو کو اتارو فوراً۔۔۔

میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے کہیں کہ میر حازم ایک کارٹون کو لے گھوم رہا ہے۔

منزل پر پہنچنے کے بعد حازم نے سماہرا کو گاڑی میں سے اترنے  سے پہلے کہا۔۔۔۔

جبکہ سماہرا اس کی بات پر حیرت کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔۔کہ کیسا شوہر ہے جو اس کو صرف شال لینے کی بنا پر کارٹون کا خطاب دے رہا تھا۔۔۔

پر۔۔می۔۔میں کیسے ۔۔مجھے بہت عجیب فیل ہو گا۔۔۔وہ منمنناتے ہوئے بولی۔۔

اور اگر میں تمہیں اس حالت میں اپنے ساتھ اندر لے کر گیا تو مجھے بہت عجیب فیل ہو گا۔۔۔

تو مت لاتے نا آپ۔۔۔!!!!!!

وہ بھرائی آواز کے ساتھ بولی تھی۔

صحیح ہی تو کہہ رہی تھی اگر اتنی ہی اس کو ریپوٹیشن کی فکر تھی تو لے کر ہی کیوں آیا تھا۔۔۔

اس نے منتیں تو نہیں کیں تھیں۔ہمیشہ وہ اس کی ذات کی تذلیل کرتا تھا۔۔۔صرف اس بنا پر کہ اس کا تعلق میڈل کلاس  گھرانے سے ہے۔۔۔وہ لوگ ان کے اسٹینڈرڈ کے نہیں۔۔۔۔

میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہہ رہا ہوں ۔۔زبان چلانے والی عورتیں سخت ذہر لگتی ہیں۔۔

تم سے جتنا کہا گیا ہے بس اتنا کرو ۔۔۔

زیادہ چپڑ چپڑ نا کرو تو بہتر ہو گا ۔۔۔ہم دونوں کے لئے۔۔

اس کی کلائی سے تھامے اسکو اپنی جانب کھینچ کر پھنکارتے ہوئے بولا۔۔۔

اور دوسرے ہاتھ سے سماہرا کی شال اس کے وجود سے جدا کی۔۔۔

یہ بات یاد رکھ لو اب تم بد قسمتی سے ہی صحیح لیکن میرے ساتھ میری بیوی کے حق سے رہ رہی ہو۔۔۔تو اپنی جتنی بھی مڈل کلاس والے چونچلے ہیں وہ ختم کر دو۔۔۔۔

وہ اس کی کلائی پر  گرفت مزید سخت کرے سنجیدگی سے بولا تھا۔۔۔

جب وہ اس کی سخت گرفت سے اپنی کلائی نکالنے کے کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔

سماہرا اسے افسوس بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔اس کا دل چا رہا تھا کہ وہ چیخ چیخ کر روئے۔۔۔۔شائد وہ پہلا ایسا  شوہر تھا۔۔   جو اپنی ہائے کلاس سوسائٹی کی وجہ سے اپنی ہی بیوی کو بے پردہ کر رہا تھا۔۔

یا شائد اور بھی ایسے شوہر پائے جاتے ہونگے۔۔

جو اپنی عزتوں کو یوں بے پردہ کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔پر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وہ اس جہالت کو موڈرن فیشن کرارا دیتے ہیں۔۔۔

وہ دونوں اندر کی طرف آئے جہاں پارٹی عروج پر تھی۔روباب انہیں دیکھ کر ان کی جانب آئی  جبکہ حازم کی ہمیشہ کی طرح آج بھی اس حور شمائل دوشیزہ کے حسن میں کھو گیا تھا۔۔۔۔وہ بلیک رنگ کی لانگ میکسی میں لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔۔

ہیلو۔۔۔ہاو آر یو۔۔۔۔

ائم ہیپی اینڈ سرپرائز ۔۔۔۔!!!!!

وہ ان دونوں سے ملتے ہوئے بولی۔۔۔۔اور ایک نظر حازم کے پہلو میں موجود لڑکی کو دیکھا جو کہ ڈوپٹہ سیٹ کرنے میں لگی ہوئی تھی۔۔۔

جب کوئی اتنے پیار اور دل سے بلائے گا تو کون منا کرے گا بھلا۔۔۔۔۔

وہ محبت بھری نظروں سے اس کو دیکھ کر بولا۔۔

سماہراا۔۔۔۔۔ملو ان سے یہ میری بزنس پارٹنر۔۔۔

اور اب فرینڈ مس روباب ہیں۔۔وہ سماہرا کو دوپٹے کے ساتھ لگا دیکھ بظاہر مسکراتے، لیکن اپنے فضول میں آنے والے غصے کو  پیتے ہوئے بولا۔۔۔

جی۔۔۔جی۔۔

اسلام و علیکم۔۔۔۔

وہ سنبھل کر بولی۔۔۔

وعلیکم السلام۔۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔

روباب کو  لڑکی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔

وہ سماہرا کو رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے اس کو  خوش قسمت محسوس کر رہی تھی۔۔۔لیکن اگر وہ اس کی دل کی دنیا کا سفر کر لیتی تو شائد یہ خیال وہ اپنے ذہن سے نکال۔دیتی ۔

اس کی معصومیت دیکھ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ جیسا اس نے سوچا وہ سب نا کرے وہ اس معصوم کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔۔

لیکن ابھی وہ ان تمام سوچوں کو جھٹکتے اندر کی جانب لے گئی۔۔۔۔

یہ آپ کی وائف ہیں؟؟

پارٹی میں موجود ایک لڑکی نے آ کر حیرت سے حازم سے کہا۔۔

یس۔۔۔

او۔۔۔!!!!

ہمیں تو لگا آپ کی وائف کوئی ماڈرن ہوں گیں۔۔۔۔بٹ یہ تو۔۔۔۔

وہ سماہرا کو حقیر نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

مس۔۔اٹس نون آف یور  بزنس۔۔میری مرضی میں جس سے بھی شادی کروں ۔۔۔اور آپ کون ہوتی ہیں میری وائف بارے میں بولنے والی۔۔

حازم کو اسکا سماہرا کے لئے اس طرح کہنا کافی ناگوار گزرا تھا۔۔جو بھی تھا ، جیسا بھی تھی۔۔۔تھی تو وہ اس کی بیوی ہی۔۔۔

انجلینا آپکو آپکے فادر ڈھونڈ رہے ہیں۔۔ روباب معملہ بڑتا دیکھ ان تک آئی اور انجلینا کو وہاں سے بھیجنا چاہا۔۔۔۔وہ منہ بناتی وہاں سے جا چکی تھی۔

مسٹرحازم آئیں میں آپ کو اپنے انکل سے ملاتی ہوں۔

تم ادھر ہی رکو۔۔۔

کہیں جانا نہیں ۔میں ابھی آیا۔۔

جی بہتر۔۔

روباب اور حازم دونوں جا چکے تھے۔۔۔جب کہ وہ اکیلی کھڑی ماحول کا جائزہ لے رہی تھی۔۔

کہ اس کو اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس ہوئی۔۔

اس نے آس پاس دیکھا تو اس کی نظر کارنر ٹیبل پر بیٹھے ایک شخص پر گئی۔۔۔

جو کہ گرے کوٹ پینٹ پہنے ، ہاتھوں میں وائن کا گلاس تھامے پینا پلکیں جھپکائے  اسی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔

سماہرا کو اسکی نظریں خود کا ایکسرے کرتی محسوس ہوئیں۔۔۔اس نے گھبرا کر۔۔

حازم کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن وہ دونوں اس کو کہیں نظر نا آئے۔۔۔

وہ اس کی نظروں سے بچتی  باہر پول کی سائیڈ پر آگئی ۔وہ وہاں کھڑی پول کے پانی کو دیکھ رہی تھی جس میں پورے چاند کی چاندی کا عکس پڑ رہا تھا اور پانی میں اٹھتی موجوں سے وہ اس کو اپنے نصیب کی مانند ہلتا محسوس ہو رہا تھا۔

تم بھی میری طرح تنہاں ہو۔

جیسے اتنے سارے تاروں کے بیچ میں بھی تم اکیلے ہو۔۔بالکل اسی طرح میں بھی یہاں اپنے جیسے ہی انسانوں کے بیچ تنہاں ہوں۔۔۔

وہ چاند کو دیکھتے ہوئے اپنا درد اس سے بانٹ رہی تھی کہ اس کو اپنے کندھے پر ایک انجانا لمس محسوس ہوا۔۔اس نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو وہاں وہی شخص اپنی وجاہت کے ساتھ کھڑا تھا۔۔جو کہ تقریباً پینتیس کے لگ بھگ عمر کا ہو گا۔۔

وہ جلدی سے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔

آپ یہاں اکیلی کیا کر رہی ہیں؟

وہ اس کا گھبرانا محسوس کر چکا تھا۔۔۔اس لئے آرام سے استفسار کرتے ہوئے بولا۔۔۔

وہ بنا جواب دیے  واپس جانے لگی تھی کہ یکدم اسکا پاوں موڑا ۔۔۔

اس پہلے کہ وہ گرتی اس شخص نے جلدی سے اپنا ہاتھ آگے کیا ۔۔جس سے وہ اس کی بانہوں میں قید ہوئی۔۔دونوں کی دھڑکنیں یکدم تیز ہوئیں تھیں۔۔۔

ایک کی محبت سے۔۔

جبکہ دوسرے کی خوف ، غصے اور غم سے۔۔

حازم جو سماہرا کو ڈھونڈتے ہوئے باہر آیا تھا اس کو کسی غیر مرد کی بانہوں میں دیکھ کر اس کا غصہ سوا نیزے پر پہنچا تھا۔۔

وہ جلدی سے ان تک آیا اور کھینچ کر ان کو الگ کیا۔۔۔۔

ہاو ڈیر ۔۔یو ٹچ مائے وائف۔۔۔

وہ اس کا کالر کھینچتے ہوئے بولا۔۔۔

جبکہ لفظ وائف پر وہ حیرت سے سماہرا اور حازم کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔زندگی میں پہلی بار اس کا دل جس لڑکی پر آیا اور وہ بھی شادی شدہ۔۔۔۔

ائم سوری۔۔میں تو جس ان کی ہیلپ کر رہا تھا۔۔۔

اگر میں نہیں پکڑتا تو وہ پول میں گر جاتیں۔۔۔

وہ صفائی دیتے ہوئے بولا۔۔۔

تو گر جانے دیتے۔۔۔۔

حازم۔۔۔۔۔۔سماہرا نے خوف سے لبریز چہرے کے ساتھ اس کو پکارا۔۔۔

اس نے گھور کر اس کی جانب دیکھا۔۔۔اور چلا کر بولا۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔۔

مسٹر سلمان ۔۔اٹس کا لاسٹ وارنگ فار یو۔۔۔

وہ انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔۔

وہ کھینچ کر سماہرا کو لیتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔

اور سیدھا لا کر اس کو گاڑی کے ساتھ پن کیا۔۔۔

بہت شوق ہے تمہیں غیر مرد کی بانہوں کا ہار بننے کی۔۔۔وہ اس کو جبڑے کو دبوچتے ہوئے بولا۔۔۔

ن۔نہیں۔۔میں نے جان بوجھ کر نہیں۔۔۔

وہ اٹک اٹک کے بولی تھی۔۔۔جبکہ ظالم آنسوں نا چاہتے ہوئے بھی آنکھوں سے پھسلے تھے۔۔۔۔

ویسے تو بہت پارسا بنتی ہو۔۔۔اب کہاں گئی تمہاری وہ پارسائی۔۔۔

آپ میری۔۔۔

شٹ اپ۔۔۔جسٹ شٹ اپ۔۔

وہ دھاڑتے ہوئے بولا تھا۔۔خوف سے اس نے اپنی آنکھیں میچیں تھیں۔

اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔رہ رہ کر اس کو وہ لمحہ یاد آ رہا تھا۔۔جب سماہرا سلمان کی بانہوں میں تھی۔۔۔

وہ تو اس سے نفرت کا داوے دار تھا پھر اسے کیوں برا لگ رہا تھا۔۔۔

کہتے ہیں نکاح کے بعد اپنے محرم سےمحبت ہو جایا کرتی ہیں۔۔۔

بس اسے سمجھنا۔۔صرف انسان کو خود چاہیے۔۔۔

جاری ہے⁦♥️⁩

شبانہ ندیم

عمدہ 💖

پُر اثر پھر دعا نہ ہو جائے…

وہ رش ڈرائیونگ کرتا گھر تک پہنچا۔۔۔ دو مرتبہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا تھا۔سماہرا ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔گاڑی لاتے اس نے پارکنگ میں کھڑی کی اور بنا اس کی جانب دیکھے سیدھا اوپر چلا گیا۔۔

اس نے کمرے میں  داخل ہونے کے لئے جیسے ہی ناب گھمایا تو دروازہ اندر سے لاک تھا۔۔حازم نے  کمرے میں داخل ہوتے ہی لاک لگا دیا جس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اس کی موجودگی نہیں چاہتا۔۔۔

وہ پانچ منٹ دروازے سے سر ٹکائے کھڑی رہی پھر مایوسی سے اس بند دروازے کو دیکھ انکھوں سے نکلتے آنسوں کو صاف کرتی  نیچے شمائلہ بیگم کے روم میں آ گئی۔۔

کمرے میں داخل ہو کر ایک گہرا سانس لیا تھا اس نے۔۔۔

جیسے اپنے اندر کی گھٹن کو کم کرنا چا رہی ہو۔۔

پھر دھیمے قدم لیتی کھڑکی کے پاس آئی۔۔

مما آپ نے کہا تھا !! حازم  مجھ سے پیار  کرتے ہیں۔۔۔

لیکن وہ پیار کیا، وہ تو سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے۔۔۔

وہ آسمان کی جانب دیکھتے خیالوں میں شمائلہ بیگم سے باتیں کرتے ہوئے بولی۔۔۔

آپ اللّٰہ تعالیٰ سے کہیں نا ان کے دل میں میرے لئے محبت ڈال دیں۔۔۔۔۔۔

دوسری جانب حازم سیگریٹ لبوں میں دبائے گہرے گہرے کش لے رہا تھا۔۔۔اس کی اطراف میں سارا دھواں پھیلا ہوا تھا۔  سلمان کی آنکھوں میں سماہرا کے لئے پسندگی دیکھ کر اس میں ایک لاوا سا ابل رہا تھا۔۔۔۔

کہاں برداشت تھا اس سے کہ کسی کی بھی نظر اس کی چیز پر پڑے۔۔۔

چاہے وہ پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ چیز اس کی غیرت کو للکار رہی تھی کہ اس کی بیوی پر کسی غیر مرد کی نظر ہے۔۔۔۔۔

اس کی غیرت تب کہاں تھی جب وہ اپنی بیوی کو بنا پردے کے غیروں مردوں کے سامنے پیش کر  رہا تھا۔۔۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے

        "مرد اپنی گاڑیوں کو گرد و غبار  کے ڈر سے

          ڈھانپ لیتے ہیں لیکن اپنے گھر کی عورتوں 

       دنیا کی غلیض نظروں سے بچانے کے لئے پردہ

       نہیں کرواتے۔"✅ 

اس واقعے کو گزرے پورے دو دن بیت چکے تھے۔۔ ان دونوں  کا ابھی تک ایک دوسرے سے آمنا سامنا نہیں ہوا تھا۔۔۔حازم جو پہلے تھوڑی بہت کر لیتا اس کے بعد سے   وہ بھی ترک کر چکا تھا۔وہ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے نکل جاتا اور رات کو دیر سے لوٹتا تھا۔

سماہرا روز رات کو کھانا لگا دیتی تھی۔۔لیک۔ صبح اٹھ کر ٹیبل پر ویسے ہی پاتی تھی۔وہ بہت زیادہ دل

برداشتہ ہو چکی تھی ٹینشن کے بعض اس کی صحت بھی دن بدن گرتی جا رہی تھی۔۔۔۔اس نے فیصلہ کیا تھا وہ حازم کے منا لے گی۔  پر کیسے؟؟؟

یہ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔

           🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہیپی برتھ ڈے ۔۔حازم۔۔!!

حازم آفس کا کام کر رہا تھا ۔۔کہ روباب آفس کا کانچ کا دروازہ دھکیلتی اپنی مغرور  چال چلتی حازم کے پاس آئی۔۔اس سے گلے ملتے اس کی سالگرہ وش کی۔۔۔۔

واو۔۔۔واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز مس روباب۔۔۔

وہ خوشی سے سرشار  ہوتے ہوئے بولا۔۔۔

آپ کیسے پتہ آج میری برتھ ڈے  ہے؟؟؟؟

وہ اتنا ٹینس تھا کہ آج اپنی سالگرہ بھی بھولا بیٹھا تھا۔ 

بزنس پاٹنر کے ساتھ ہم اب اچھے فرینڈز بھی ہیں۔۔۔

سو۔۔۔۔یہ میرے لئے اتنا مشکل نہیں ہے۔۔۔

وہ ایک ادا سے اپنے بالوں کو جھٹکتے ہوئے بولی۔

اس نے انداذ نے حازم کے دل کی دنیا کو ہلایا تھا۔۔۔۔

سو۔۔حازم میں آپ لئے یہ گفٹ لائی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ آج آپ یہ پہن کر اپنے کچھ قیمتی لمحات میرے نام کریں۔۔۔آج کی ٹریٹ آپ کو میری طرف سے۔۔۔

وائے ناٹ۔۔اینڈ تھینک یو۔۔۔۔۔

وہ چہرے پر  مسکراہٹ سجائے  بولا۔۔

            🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

میں کیا کروں ماہی؟؟

مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی۔۔وہ اتنا ذیادہ ناراض ہو چکے ہیں۔۔۔کیسے مناوں انہیں۔۔؟؟

وہ پریشانی سے فون پر موجود اپنی بہن سے گویا ہوئی۔۔۔

اچھا سمی میری بات سنو۔۔۔

تم بھائی کو اپنی پریگنینسی کے بارے میں بتایا ہے کیا۔۔؟؟

نہیں ۔۔۔

کیا۔۔!!!!

تم پاگل ہو۔۔تمہیں بھائی کو بتانا چاہیے۔۔

اگر بھائی کو پتا چلے کہ وہ باپ بننے والے ہیں تو وہ کتنا خوش ہونگے۔۔اور سارے گلے شکوے بھول جائیں گے۔۔۔

میں نے بتانے کی کوشش کی تھی مگر ٹائم ہی ملا۔۔

میری بات مانو تو تم  بھائی کو اسپیشل طریقے سے مناو۔۔

کیا مطلب۔۔۔؟؟؟؟

اف لڑکی۔۔۔میں تو کنواری ہوں ابھی۔۔۔اور تم شادی شدہ ہو کر مجھ سے مطلب پوچھ رہی ہو۔۔۔

ماہی اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے بولی۔۔جبکہ اس کی بات کا مطلب سمجھ کر شرم سے اس کا چہرا سرخ ہو چکا تھا۔۔

تم کیا اول فول بول رہی ہو۔۔۔چھیچھوری کہیں کی۔۔

مجھ سے نہیں ہو گا  یہ سب۔۔۔

وہ گھبراتے ہوئے بولی۔۔۔

اچھا میری ماں جیسی تمہاری مرضی۔۔اب مجھے بخشو  آج چھوٹے کی برتھ ڈے ہے اس کی تیاری کرنی ہے۔۔

اور وہ تمہیں سب سے ذیادہ مس کر رہا ہے۔۔۔۔

ہہہممم پہلی ایسی سالگرہ ہے جس میں ، میں موجود نہیں ہونگی۔۔وہ مایوسی سے بولی۔۔۔

او تیری ۔۔۔۔۔

کیا ہوا!!! ماہی نے کہا۔۔۔

آج ،۔۔۔۔آج تو حازم کی بھی برتھ ڈے ہے۔۔۔۔۔۔۔

ان کی برتھ ڈے بھی چھوٹو کے ساتھ آتی ۔۔

یار دیکھو میں کتنی بھلکڑ ہو گئی ہوں۔۔۔۔

واو۔۔۔۔اٹس آ بیسٹ آئڈیا۔۔۔

تم ایک کام کرو ۔۔پیارا سا تیار ہو۔۔۔اور آج ان کی سالگرہ والے دن ان کو باپ بننے کی خوشخبری بھی دے دو۔۔۔

ہمم اوکے میں بعد میں بات کرتی۔۔۔منے کو پیار کرنا میری طرف سے۔۔۔

اللہ حافظ۔۔۔۔

                    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

حازم نے جب گفٹ کھولا تو اس میں بلیک رنگ کی شلوار قمیض ، برانڈڈ واچ ۔۔پرفیوم  تھے۔۔۔۔

اس کے چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ نے رقص کیا تھا۔۔

وہ اپنے آفس میں موجود اسپیشل روم میں تیار ہوا۔۔۔

اور اپنی تیاری پر آخری نظر ڈال مسکراتے ہوئے باہر کی جانب گیا۔۔۔

ریسٹورنٹ میں گاڑی موڑنے سے پہلے اس نے کچھ گفٹ لینے کا ارادہ کیا۔۔لیکن کچھ یاد آنے پر گاڑی گھر کی جانب موڑ لی۔۔

                  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

گھر پہنچ کر جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو۔۔۔

اس کی نظریں پلٹنا بھول گئیں۔۔۔کیونکہ سامنے ہی سماہرا شیشے کے سامنے کھڑی تیاری کو آخری ٹچ دے  رہی تھی۔

لانگ ریڈ رنگ کی فراک ، اس پر ڈارک میک اپ کیے، 

اپنے ہونٹوں کو سرخ لپ اسٹک سے رنگے۔۔۔

تمام رعنائیوں کے ساتھ اس کے سامنے تھی۔

سماہرا کو اپنی گردن پر کسی کی گرم سانسیں محسوس ہوئیں تو اس نے شیشے میں سے دیکھا تو ایک پل کے لئے اس کا سانس اٹکا تھا۔۔۔۔کیونکہ حازم مدہوش سا اس کے پیچھے کھڑا تھا۔

بیوٹیفل۔۔۔مائے ایشین بیوٹی۔۔۔۔

وہ خمار آلود آواز میں بولا۔۔۔

اس کی بات پر سماہرا کی پلکیں لرزیں تھیں۔۔۔

وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ کوئی بھی اس کو دیکھ کر مدہوش ہو جاتا ،۔۔۔یہاں تو پھر اس کا شوہر تھا۔۔۔

سماہرا نے اپنا رخ حازم کی جانب کیا ،

حاز۔۔۔۔سششش۔۔۔۔۔

اس نے سماہرا کے ہونٹوں پر شہادت کی انگلی رکھ کر خاموش کروایا۔اس نے اپنی آنکھوں کو بند کیا تھا۔۔۔۔۔اسے دیکھ کر وہ ایک سحر میں جکڑا جارہا تھا۔۔۔پورے کمرے میں فسوں سا چھایا تھا۔۔۔صرف دو  لوگوں کی سانسوں کی آوازیں تھیں۔۔۔

حازم مدہوش سا اس کے چاند سے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔اس کے دل میں ایک خواہش سی  جاگی تھی۔۔وہ جیسے ہی اپنی خواہش پر لبیک کہتا اس کر چہرے پر جھکا تھا۔۔سماہرا کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی جسے سنتے ہی وہ فوراً سے ہوش میں آیا تھا۔۔اور جھٹکے سے اس سے دور ہوا۔۔۔

ہیپی برتھ ڈے حازم۔۔۔۔وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بول رہی تھی کی یکدم زور دار جھٹکا لگنے کے باعث کو پیچھے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب گری تھی۔۔۔

یہ۔۔یہ میں کیا کرنے جا رہا تھا۔۔۔

میں نفس کا کمزور نہیں ہو سکتا۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔وہ چیختے ہوئے بولا۔۔۔۔

اسے یاد آیا اس کو  روباب کے پاس ڈنر پر جانا تھا ۔۔۔۔

وہ تو گفٹ لینے یہاں آیا تھا کیونکہ اس نے ایک بہترین ڈائمنڈ سیٹ رکھا ہوا۔۔۔۔جو کہ صرف اپنی من چاہی بیوی کو دینا تھا۔۔۔بیوی من چاہی نا ملی تو کیا ہوا اس نے سوچا کہ وہ یہ سیٹ روباب کو دے گا۔۔جبکہ اس کی اصل حقدار سماہرا تھی۔۔۔

وہ غصے سے سماہرا کی جانب بڑا جو کہ صدمے میں کھڑی اسی کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔

کتنی دفع کہا ہے اپنا یہ منحوس چہرا  لے کر میرے سامنے مت آیا کرو لیکن بات تمہارے اس چھوٹے سے دماغ میں بیٹھے تو تب نا۔۔وہ ایک ہاتھ  سے اس کے دونوں بازوں کو پکڑے غصے اور تیش کے عالم میں بول رہا تھا۔۔جبکہ سامنے موجود سماہرا سر جھکائے آنسوں بہانے میں مصروف تھی۔

یہ سب کر کے تم مجھے اپنے اس حسن کا گرویدا نہیں کر سکتی۔۔جانتا ہوں میں تم جیسوں کو۔۔۔

جو مردوں کو اپنے اس حسن کے جال میں پھنسانے کی کوشش کرتی ہیں۔۔پر افسوس میں تمہارے اس جال میں پھنسنے والا نہیں ہوں۔ختم کرو یہ سب تماشے۔۔۔

ایک ہاتھ سے اس کے بالوں میں مٹھیوں میں بھینچے 

دوسرے ہاتھ سے اس کے ہونٹوں پر لگی سرخ لپ اسٹک کو غصے سے رگڑتے ہوئے بولا۔۔جو کہ اسے بہکانے کا کام کر گئے تھے۔۔۔اس خود پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔۔

۔پتہ نہیں کیا دیکھ کر موم نے تمہیں میرے سر ڈال دیا ہے۔۔عجیب ہی آزاب ہو ۔۔۔وہ نخوت سے کہتا پیچھے کی جانب دھکا دیے نکلتا چلا گیا۔۔۔جبکہ وہ مسلسل آنسوں بہارہی تھی۔۔اس بے رحم کو اس کے آنسوں تک دیکھائی نہیں دے رہے تھے۔۔یا پھر سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ انجان بن رہا تھا۔۔

کیوں۔۔۔کیوں آپ کو میری محبت نہیں دکھتی۔۔؟؟

کتنی محبت سے اس نے یہ سب تیاریاں  اس کو سراپرائیز دینے کے لئیے۔کی تھیں۔۔لیکن وہ سنگدل اس کے ارمانوں  کا قتل کیے جا چکا تھا۔۔جو لمحات اس کو دینے چاہیے تھے وہ کسی اور نام کر رہا تھا۔۔۔

غصے سے اس نے ہاتھوں میں موجود چوڑیوں کو اتار کر پھینکا تھا۔۔۔کانوں میں پہنے گئے مہنگے جھمکے غصے سے دیوار پر مارے تھے۔۔۔۔

کتنی بد نصیب ہوں میں۔۔۔میرے محرم کی محبت ہی میری سزا۔۔ہے۔۔۔۔

کیوں۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔؟؟؟؟؟

وہ چیختے ہوئے بول رہی تھی۔۔رو رو کر اس کا برا حال تھا۔۔۔روتے روتے ایک دم وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی اور بیڈ پر ہی اوندھے منہ گر گئی۔۔۔

حازم جب رات گئے ایک حسین شام روباب کے ساتھ گزار کر گھر پہنچا تو ایک جھٹکا سا لگا تھا اس کو۔۔۔

کیونکہ کمرے میں سماہرا بے ترتیب حلیے ہیں اوندھے منہ بیڈ پر لیٹی تھی۔۔۔ڈوپٹہ اسکا زمین پر گرا اپنی نا قدری پر رو رہا تھا۔۔۔جبکہ چوڑیاں کچھ زمیں پر گریں کچھ بیڈ پر۔۔۔۔۔۔۔۔

جاہل لڑکی۔۔۔نخوت سے کہتا کپڑے لئے چینج کرنے چلا گیا۔۔۔

جب وہ چینج کر کے واپس آیا تو اس نے سماہرا کو دیکھا جو ابھی بھی اسی حالت میں لیٹی تھی۔۔

وہ اس کے پاس آیا۔۔

سماہرا۔۔۔سماہرا۔۔۔

۔اس کو آواز دے کر اٹھانے کی کوشش کی مگر وہ جواب نہیں دے رہی تھی۔۔۔

حازم کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی جہاں لپ اسٹک پھیلی تھی چہرے پر آنسوں کے مٹے مٹے  نشانات تھے۔۔

اس کو یک دم فجر لاحق ہوئی تھی۔۔اس نے سماہرا کی نبض چیک کی جو کہ بہت دھیمی چل رہی تھی۔

اس نے جلدی سے ڈاکٹر کو فون کیا۔۔اور جلدی گھر پر پہنچے کا کہا۔۔۔

اگلے بیس منٹ میں ڈاکٹر ان کے گھر پر موجود تھیں۔۔۔

جو کہ سماہرا کا چیک اپ کر رہی تھیں۔۔۔

کیا ہوا ڈاکٹر۔۔۔از ایوری تھینک از اوکے؟؟؟؟

نو مسٹر حازم۔۔۔

آپکی وائف نے کسی قسم کا ٹینس لیا ۔۔۔جس کی وجہ سے ان کا نروس بریک ڈاون ہوا ہے۔۔۔اگر وہ اسی طرح رہیں تو بے بی کی جان کو بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔

جو جتنا ہو سکے انہیں خوش رکھیں۔۔۔ویسے بھی آپ کی وائف بہت ویک ہیں۔۔۔۔

ڈاکٹر بولتی جا رہی تھیں جبکی حازم کا دماغ لفظ بے بی پر اٹکا تھا۔۔۔۔کیا سماہرا پریگننٹ تھی۔؟؟؟ اور اس نے مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔۔۔

وہ دل میں سوچتے ہوئے بولا۔۔۔

اوکے میں چلتی ہوں۔۔۔اپنی وائف کا خیال رکھیے گا۔۔۔میڈیسن اور ڈائٹ چارٹ ہے۔۔۔اس پر فالو  کیجئے گا۔۔۔

شکریہ۔۔۔۔

ڈاکٹر کہتی اپنی فیس لیے جا چکی تھیں۔۔جبکہ حازم تھکے قدموں سے چلتا اندر آیا جہاں وہ ہر چیز سے بے خبر سکون کی نیند لے رہی تھی۔۔۔

ائم سوری۔۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔۔۔۔

سماہرا کا ہاتھ تھامے اپنی آنکھوں کے ساتھ لگائے بولا۔۔۔

وہ کتنا اس ننی جان کا دل دکھا چکا تھا۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل کر سماہرا کے ہاتھ کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔وہ سماہرا کی ماں بننے کی خبر سن کر بہت خوش ہوا تھا۔۔۔۔خاندان میں وہ پہلا بچہ تھا جو  ان کے خاندان میں حازم کے بعد آنے والا تھا۔۔۔۔

اس کے دل میں سماہرا کے لئیے محبت پیدا ہو رہی تھی۔۔۔لیکن اپنی انا کے باعت اس چیز کا اعتراف کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔۔۔

اس کا دل دو حصوں میں بٹ چکا تھا۔۔۔۔

زندگی کے سفر میں چلتے چلتے کبھی کبھی یوں بھی ھو تا ہے

مرشد

بے پناہ چاہنے والے بے وجہ چھوڑ جاتے ہیں۔۔

صبح سماہرا کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر اپنے پہلو میں خالی جگہ پر گئی۔۔جسے دیکھ کر ایک زخمی مسکراہٹ اس کے چہرے پر چھائی تھی۔۔۔

کل اپنی آخری امید کی  موت پر وہ واقعی مایوس ہو چکی تھی۔۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وہ حازم کے آگے دوبارا کبھی نہیں جھکے گی۔۔۔۔

تم اٹھ گئیں۔۔؟؟

طبعیت کیسی ہے اب تمہاری؟

وہ جو سوچوں کے بھنور میں کھوئی تھی حازم کی آواز سے ہوش میں آئی جہاں وہ باتھ روم میں سے تولیے سے بال رگڑتا ہوا باہر نکل رہا تھا۔۔۔

پہلے تو سماہرا اس کو معمول کے خلاف گھر پر دیکھ کر شوکڈ ہوئی۔۔اور اس سے ذیادہ اس کا دھیما لہجہ سن کر۔۔۔

می۔میں تو ٹھیک ہوں۔۔مجھے کیا ہونا ہے؟

وہ نظروں کا زاویہ بدلتے ہوئے بولی۔۔۔

او۔۔۔تو تمہیں سچ میں نہیں پتا تمہیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔

وہ اپنی مسکراہٹ دبائے تولیے کو صوفے پر پھینکتے اس کے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھا جب کہ اس کو اپنے پاس بیٹھتے دیکھ وہ تھوڑا پیچھے کو کھسکی تھی۔۔۔

تم نے مجھ سے اتنی بڑی نیوز کیوں چھپائی۔۔؟؟ 

وہ مصنوعی غصہ چہرے پر سجائے ذرہ سا اس کی جانب جھکتے ہوئے بولا۔۔۔

ک۔۔کون س۔سی نیوز؟

وہ لڑکھڑاتے لہجے میں بولی۔۔۔۔

یہی کہ ہم پیرینٹس بننے والے ہیں۔۔

وہ خوشی سے چور لہجے میں بولا تھا۔۔۔جبکہ اب جھٹکا لگنے کی باری سماہرا کی تھی۔۔

انہیں کیسے پتا؟ اور یہ تو اتنے خوش ہو رہے ہیں۔۔۔

وہ حیرت کے عالم میں سوچتے ہوئے بولی۔۔۔

کیا ہوا یہی سوچ رہی ہو نا۔۔۔کہ مجھے کیسے پتا ؟

میں نے آپ کو بتانے کی کوشش کی تھی مگر آپ نے میری بات سنی ہی نہیں۔۔۔بلکہ مجھے بد کردار کا الزام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بات ادھوری چھوڑ چکی تھی۔۔۔کل کا منظر یاد کیے اس کی آنکھوں میں ظالم آنسوں پھر سے تیرنے لگے تھے۔۔

شرمندگی کے آثار حازم کے چہرے پر بھی چھائے تھے۔۔

ائم سوری سمی۔۔۔مجھے معاف کر دو۔۔

اب کبھی تمہیں کوئی دکھ نہیں دوں گا۔۔سمیٹ لوں گا تمہارے سب غم خود میں۔۔۔

وہ سماہرا کو شدت سے خود میں بھینچے احساس ِ ندامت سے بول رہا تھا۔۔۔۔

سماہرا ترسی حازم کی محبت کو۔۔۔۔

ایک بار پھر وہ اس بے وفا پر اعتبار کرنے جا رہی تھی۔۔

لیکن شائد وہ یہ بھول چکی تھی۔۔۔

انسان بے شک بدل جائے لیکن اس کی خصلت نہیں بدلتی۔۔۔

آج ہم پورا دن ساتھ گزاریں گے۔تمہاری پسندیدہ جگہ پر۔۔جس میں صرف تم ، میں اور ہمارا بچہ ہو گا۔۔

وہ اس کا چہرا اوپر کیے مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔

کوئی وعدہ نہیں پھر بھی 🥀

      انتظار تھا تیرا 🦋

دور ہونے _______پر بھی 🌹

        اعتبار تھا تیرا🦋

نا جانے کیوں بے رخی کی💕

        تم نے ہم سے🦋

کیا کوئی ہم سے زیادہ بھی🥀

طلبگار تھا تیرا.💔🦋

وہ دونوں اس وقت ساحل ِ سمندر پر موجود تھے۔۔۔

وہاں کی گیلی ریت پر چلتے خود کی روح کو سکون پہنچا رہے تھے۔۔حازم کا ایک ہاتھ پاکٹ جب کہ دوسرا اس کی گرد لپٹا ہوا تھا۔۔سمندر کی اٹھتی موجوں نے ایک الگ موسیقی برپا کی ہوئی تھی اس پر ستم شام کا ڈھلتا سورج ۔۔۔یہ جگہ سماہرا کی پسندیدہ جگہوں میں ایک تھی۔۔

خوش ہو؟

ٹھنڈی ریت پر چلتے ہوئے حازم نے سوال کیا۔۔

بہت۔۔۔۔وہ خوشی سے چہکتے ہوئے بولی۔۔کیونکہ شادی کے بعد پہلی بار وہ اس کے ساتھ باہر گھومنے آئی تھی۔۔

اسکو بچوں کی طرح خوش ہوتے دیکھ حازم کے چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ نے رقص کیا تھا۔۔۔

کیا آپ ہمیشہ ایسے رہیں گے؟

مطلب کبھی ناراض تو نہیں ہوں۔۔۔چھوڑیں گے تو نہیں۔۔۔

اس کے سوال پر وہ چلتے چلتے رکا۔۔۔اس کو پوری طرح اپنی جانب گھمایا اور اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام کر بولا ۔۔

میرا وعدہ ہے۔۔۔اب کوشش کروں گا کہ کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نا دوں۔۔۔۔اور اب تو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔وہ مسکرا کر اس کے وجود کی جانب اشارا کرتے بولا۔۔

جس پر اس نے شرما کر اپنا سر حازم کے سینے پر ٹکا دیا۔۔۔

دور کھڑی قسمت نے قہقہہ لگایا تھا۔۔۔

وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے،

وہ قرض ہی کیا جو ادا ہو جائے۔

کچھ وعدے پورے ہونے سے پہلے ہی ٹوٹ جایا کرتے ہیں،

وہ جو اب اپنی زندگی میں خوبصورت خواب دیکھ رہی تھی ۔۔اسے کیا پتا تھا کہ اس کی یہ خوشیاں ، چہرے کی یہ مسکان مدت کے لئے ہیں۔۔۔

ڈیم اٹ۔۔۔

اس نے زور سے فون دیوار پر مارا تھا۔۔

جس میں کچھ دیر پہلے اس کے گارڈ نے ان دونوں کی تصویریں بھیجیں تھیں۔۔۔

ہاو کڈ یو ڈو دز۔۔۔؟؟؟؟؟

وہ پرفیوم کی شیشیاں زمین بوس کرتے ہوئے بولی۔۔۔ 

تم میرے ہو۔۔۔۔

صرف میرے۔۔۔۔۔یو آر مائین۔۔۔۔۔۔

اپنے بالوں کو کھینچتے زمین پر بیٹھتے ہوئے بولی۔۔

                    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

دو دن بعد۔۔۔۔

حازم آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟؟؟

وہ غصے سے آفس کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔۔۔

کیا کیا ہے میں نے؟؟

وہ حیرانی سے استفسار کرتے ہوئے بولا۔۔۔

محبت کے وعدے قسمیں میرے ساتھ کھائی ہیں آپ نے اور اپنی بیوی سے نفرت کا دعوا کرنے کے بعد واپس آپ اس کے پاس لوٹ رہے ہیں۔۔

وہ روتے ہوئے بولی۔۔۔

روباب ڈارلنگ ٹرائے ٹو انڈر اسٹینڈ۔۔شی از ایکسیپٹنگ۔۔۔۔۔

وہ ماں بننے والی ہے میری اولاد کی۔۔جو۔میں کسی صورت اسے کھو نہیں سکتا۔۔۔۔

وہ پیار سے اس کا گال سہلاتے ہوئے بولا ۔۔

اس کا مطلب ۔۔۔آپ مجھ سے اب شادی نہیں کریں گے۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لیے بولی۔۔۔

میں۔۔۔۔

حازم پلیز ۔۔ڈونٹ سے نو۔۔۔

ائے کانٹ لیو ود آوٹ یو۔۔۔

وہ اس کے ہونٹوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھتے ہوئے بولی۔۔۔

میں نا کیوں بولوں گا۔۔۔؟؟؟

وہ اپنے دل کو سنبھالتے ہوئے بولا۔۔

ڈو یو لو می۔۔۔؟؟؟؟

وہ اس کے کالر کو تھامے اپنا چہرا اس کے چہرے کے قریب کرتے ہوئے بولی۔۔

یس۔۔افکورس آئے ڈو۔۔۔

آپ میرا عشق میرا جنون ہیں حازم ۔۔۔۔

تمہیں خبر ہی نہیں ہم کہاں سے گزرے ہیں

تیری تلاش میں ہم دو جہاں سے گزرے ہیں

زمانہ یاد کرے گا اب ہمیں بھی برسوں

کچھ ایسی مثال زمانے سے کر گزرے ہیں

تم بھی جان ہی لو گے جنون عشق کیا ہے

تم یہاں تک تو پہنچو جہاں سے ہم گزرے ہیں

۔🔥💓🔥

اس کو چہرا دونوں ہاتھوں میں بھرے خمار آلود آواز میں شعری کی صورت میں اپنا حالِ دل بیان کر رہی تھی۔۔۔

آپ کو مجھ سے ایک وعدہ کرنا ہو گا۔۔۔۔اور وہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روباب کی بات سن کر حازم کے اوپر ساتوں آسمان آ گرے تھے۔۔وہ لڑکھڑاتے قدموں سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔۔

حازم بالکونی میں کھڑا سگار کے کش لیتا روباب کی دوپہر میں کی گئی بات پر غور کر رہا تھا۔۔

اس کے لئے فیصلہ کرنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔۔

ایک طرف اس کی محبت تھی ،دوسری طرف اس کی چاہت کسی ایک کا انتخاب کرنا دوبھر ہو رہا تھا۔۔۔

کیا ہوا آپ کو۔ اتنے پریشان کیوں ہیں؟

سماہرا بالکونی میں اس کے ساتھ کھڑی حازم کے ٹینس چہرے کو دیکھتے ہوتے ہوئے بولی۔۔۔

کچھ بھی تو نہیں۔۔۔

وہ مسکرانے کی نا کام کوشش کرتے بولا۔۔

اور سماہرا کے چہرے کی جانب نظریں دوڑائیں۔۔جہاں کافی عرصے پر اس کے چہرے پر رونق آئی تھی صرف اس کی تھوڑی سی دی گئی توجہ پر ۔۔۔

اگر وہ کوئی غلط قدم اٹھا لیتا تو۔۔۔

یہ مسکراہٹ شائد ہمیشہ کے لئے جدا ہو جاتی ۔۔۔

وہ کیسے اس کی خوشیوں کو دوبارا چھین سکتا تھا۔۔۔

سماہرا کی پریگنینسی کو پورے چھ ماہ بیت چکے تھے، ان سارے ماہ میں حازم نے اسکا ہر طرح سے خیال رکھا کر خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔

جبکہ حازم کو سماہرا کے ساتھ خوش دیکھ کر روباب جل بھن رہی تھی۔۔اور کسی ایسے موقعے کی تلاش میں تھی،جس سے وہ حازم کو ہر طرح سے اپنا بنا سکے۔۔۔

اور آج شاید قسمت اس پر مہربان ہونے والی تھی۔۔۔

ہئئئئ۔۔۔۔حازم!!!!

لگتا ہے بہت ذیادہ تھک گئے ہیں، اسلئے میں آپ کے لئے کافی بنا کر لائی ہوں۔۔۔۔

حازم اور روباب دونوں اس وقت آفس کے VIP( اسپیشل روم) میں موجود فائیل آسائین کر رہے تھے۔۔

اوووو۔۔۔ تھینک یو سو مچ۔۔۔۔۔حازم نے اسکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کپ تھاما۔۔۔۔جسے اس نے بھی بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ وصول کیا۔۔۔۔

تم نے خود بنائی ہے؟

حازم نے کافی کا گھونٹ بھرتے سوال کیا۔۔۔

نہیں۔۔اپنے فرشتوں سے بنوائی ہے۔۔وہ اپنے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے بولی کہ بے ساختہ طور پر حازم کا قہقہ گونجا۔۔۔ 

اینجلز نے بنائی ہے تبھی بہت مزے کی ہے۔۔۔

وہ اسے چڑاتے ہوئے بولا

اینجلز نہیں۔۔۔۔صرف اینجل نے بنائی ہے۔۔۔اور وہ بھی صرف آپ کی اینجل۔۔

وہ ایک ادا سے بولی تھی ،کہ حازم عش عش کر اٹھا۔۔۔

مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے جیسے میں کافی نے وائین پی رہا ہوں۔۔ وہ اپنی بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ بولا۔۔۔جبکہ حازم کی   بات سن اس کا رنگ ایک پل کے لئے اڑا تھا۔

تم نے اپنی محبت کا نشہ ڈالا ہے۔۔۔وہ ہنستے ہوئے بولا۔۔۔

اور اس کی نازک کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی جانب کھینچا۔۔۔جس سے وہ پوری طرح اس کے حصار میں آ چکی تھی۔۔۔

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہمارے بعد نہ آئے گا اسے 

                          چاہت میں ایسا سکون۔۔۔

وہ زمانے سے کہتا پھرے گا 

              مجھے چاہو اس پاگل کی طرح۔۔۔

رات کی اس گہری خاموشی میں جہاں ہر ذی روح نیند کی آغوش میں تھی وہیں وہ شخص  اس پہر تنہائی میں اپنے خدا کے آگے سجدہ میں جھکا، اپنے لئے سکون کا طلبگار تھا۔جب سے اس نے اس اداس پری وش کو دیکھا تھا، تو اس کے تمام غم خود میں سمیٹنے کی خواہش جاگی تھی،لیکن جیسے ہی اس کو معلوم ہوا کہ وہ شادی شدہ ہے ۔۔اس کے ارمانوں پر ٹھنڈا پانی پڑا تھا،

وہ جانتا تھا کہ وہ کسی کی ہے، اور کسی شادی شدہ  کی خواہش کرنا حقیقتاً گناہ ہے۔۔۔۔۔

وہ اس کی زندگی کی خوشیوں کی دعا کر رہا تھا۔۔۔۔

دنیا میں جہاں برے انسان ہیں ،وہیں کچھ اچھے فرشتہ صفت انسان بھی پائے جاتے ہیں ، جو اپنی محبت کو رسوا نہیں ہونے دیتے ۔۔۔۔اور  اپنی محبت کو پانے کے لئے غلط حربے نہیں آزماتے بلکہ سب فیصلہ صرف اللہ پر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔۔

آخر مجبوریاں ہی فتح ہوتی ہیں 

محبتیں تو ہمیشہ ہار جاتی ہیں۔۔

   🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

خود تو ہوئے  رسوا لیکن،

تیرے بھید نہ کھولیں گے،

نیند تو کیا آئے گی فراز،

موت آئی تو سو لیں گے،

رات کا ایک بج رہا تھا  سماہرا پریشانی کے عالم میں حازم کا انتظار کر رہی تھی ۔۔کیونکہ ان گزرے چھ ماہ میں وہ روزانہ جلدی گھر آجایا کرتا تھا۔۔اس کی طبیعت بھی بہت ذیادہ بوجھل ہو رہی تھی۔۔اس کو حازم کی فکر لاحق ہو رہی تھی۔۔۔اس نے اس کے نمبر پر کال بھی کی تھی، مگر بیل جانے کے بعد فون سوئچ جا  رہا تھا۔۔۔

وہ انتظار کرتے کرتے آخر تھک ہار کر مایوسی سے اس کے لئے دل میں دعا کرتی لیٹ گئ۔۔

    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

آپ  مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں؟

وہ اس کے دل کے مقام پر انگلی پھیرتی سوال کرتے ہوئے بولی۔۔

بے انتہاہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔یک لفظی جواب اپنی اد کھلی آنکھوں۔ سے دیا گیا تھا ۔۔۔

سماہرا سے بھی ذیادہ؟؟؟

سماہرا صرف میری محبت ہے جبکہ تم میری چاہت ، محبت اور طلب ہو۔۔۔کہتا وہ مدہوش سا اسکے چہرے پر جھکا تھا ،اور اپنی تشنگی مٹانے لگا تھا۔۔۔۔(مجھے معاف کر دینا سماہرا حازم کو کھو دینے کے ڈر سے مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا ) خیالوں میں اس سے مخاطب ہوئے وہ اپنی آنکھوں کو بند کر چکی تھی۔۔۔چونکہ روباب حازم کو کافی میں ایسی دوائی ملا کر دی تھی۔۔جس سے انسان اپنے تمام ہوش وحواس کھو بیٹھتا ہے۔۔۔۔

اپنی ضد و جنوں کی خاطر بعض لڑکیاں بھی اخلاق سے گری ہوئی حرکتیں کر جاتی ہیں، بے شک دنیا میں وہ کامیابی حاصل کر لیں لیکن آخرت ان کی ناکام ہی ہوتی ہے۔

اور محبت کے نام پر جو کام وہ کرنے جا رہے تھے۔۔۔وہ زنا تھا۔۔۔اور اس گناہ کی کوئی معافی نہیں۔۔۔۔۔۔

   🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ابھی بھی تو اسی کے بارے میں سوچ رہا ہے نا؟؟؟

سلمان اور اسکا دوست دونوں اس وقت سلمان کے مینشن میں موجود تھے۔۔۔جہاں اس کے دوست نے  سلمان کی  حالت دیکھ کر کہا۔۔۔

اس کا چہرہ کافی ذیادہ مرجھایا ہوا تھا۔۔

یار بڈی۔۔۔کیا ہو گیا ہے تجھے؟؟؟

بھول کیوں نہیں جاتا اسے۔۔۔۔۔

وہ بھولتی ہی نہیں۔۔۔۔وہ مدھم سا مسکرا کر بولا۔۔۔

تو جانتا ہے جب پہلی بار دیکھا اسے تو کتنا درد تھا ان آنکھوں میں۔۔۔

جانے ایسا کیوں لگتا ہے جیسے روح کا رشتہ ہو؟؟؟

وہ خیالوں میں گویا ہوا۔۔۔

کاش آنسو جمع کیئے ہوتے

.آج اپنا بھی سمندر ہوتا

تو جانتا ہے نا وہ شادی شدہ ہے پھر بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یار میں اسے بھولنا چاہتا ہوں۔۔۔۔پر یہ کمبخت دل۔۔۔

جانے دل کہتا ہے ایک نا ایک دن وہ میری دسترس میں ہو گی۔۔۔

جو تو سوچ رہا ہے گناہ ہے؟؟

جانتا ہوں۔۔۔۔تبھی تو یہاں سے امریکہ شفٹ ہو رہا ہوں۔۔تاکہ اس کی یادوں سے پیچھا چھڑا سکوں۔

وہ زخمی سا مسکرا کر سر پیچھے صوفے پر گرا گیا۔۔۔۔

    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

صبح اس کی آواز کسی کے سسکنے کی آواز پر کھلی۔۔۔اس نے  نیند سے بوجھل آنکھوں  کے ساتھ آواز کی سمت دیکھا  تو نیند بھک سے اڑی تھی ۔۔

کیونکہ روباب اپنی لٹی ہوئی حالت کے ساتھ اس کے سامنے تھی۔۔۔۔

تم ۔۔تم یہاں کیا کر۔۔کر ر۔۔۔رہی ہو؟؟؟۔ او۔ اور یہ س۔سب؟؟؟

وہ حیرت کی زیاتی سے اس کے وجود سے نظریں چراتے ہوئے بولا۔۔۔

آپ نے ۔۔آپ نے مجھے کہیں کا نہیں چھوڑا حازم۔۔۔

میں نے آپ پر بھروسہ کیا ۔۔۔۔اور آپ نے۔۔۔۔۔۔

وہ ہچکیوں کی صورت میں اٹک اٹک کر بولی۔۔۔۔

آپ نے میری عزت داغدار کرنے میں پل نہیں لگائے۔۔۔

وہ آنسوں بہائے اس کے سامنے مظلوم ہونے کا ناٹک کرتی بولی۔۔۔

میں ایسا کیسے کر سکتا ہوں؟

اور مجھے کچھ یاد کیوں نہیں آ رہا۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے بالوں کو نوچتے ہوئے بولا۔۔۔

میں بے و قوف  ہوں جس نے آپ جیسے شخص پر بھروسہ کیا۔۔۔۔کہتے ہی وہ باہر کی جانب قدم بڑھانے لگی ۔۔۔۔جسے حازم نے آگے بڑھ کر ناکام بنایا۔۔۔۔

پاگل ہو۔۔۔ایسے حلیے میں باہر جاو گی۔۔۔

وہ اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولا جو اس وقت اسی کی شرٹ میں چھپی ہوئی تھی۔۔۔

اب آپ ہی بتائیں۔۔۔کیا کروں میں؟؟

میری عزت داغدار ہو چکی ہے۔۔۔جو کہ اب تمام عمر رہے گی۔۔وہ دروازے کے بیٹھتی چلی گئی۔۔

تمہاری اس حالت کا ذمہ دار میں ہوں ۔۔۔اور اس کو ٹھیک بھی میں ہی کروں گا۔۔۔حازم کی بات سن کر اس کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ چھائی تھی۔۔۔۔

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

بس آخــــــری ســوال اے!!! زندگــــی❣️

یـہ مصـروف لوگ دفنانے تو آئیں گے نـہ؟ ❤

🥀 🙃

سماہرا اداس سی کمرے میں بیٹھی حازم کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔کل سے اس کا فون بھی بند جارہا تھا۔۔

ایک دم اس کو شدید پیاس کا احساس ہوا وہ پانی پینے کی نیت سے نیچے جارہی تھی کہ یکدم اس کا پاوں مڑا اور وہ سیڑھیوں سے گرتی ہوئی زمین تک آئی۔۔۔

پورے گھر میں اس کی چیخ بلند ہوئی تھی۔۔۔

حازم جس نے ابھی گھر میں قدم ہی رکھا تھا سامنے کا منظر دیکھ اس کے ہوش صحیح معنوں میں اڑے تھے۔۔

وہ حواس باختہ سا اس کی جانب آیا جو اپنا پیٹ پکڑے  چلا رہی تھی۔۔۔

آہہہہہہ۔۔۔۔۔۔۔ح۔۔۔حا۔۔۔حاز۔۔۔حازم۔۔۔۔۔۔ٹوٹے ٹوٹے لفظوں میں اس کا نام لیتی اس کے آنسوں نکالنے کی وجہ بن گئی تھی۔۔۔۔۔

وہ بنا وقت ضائع کیے اس کو بانہوں میں اٹھائے ہسپتال کی جانب روانہ ہو چکا تھا۔۔۔

شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں وہ زیرِ علاج تھی۔۔۔

اور حازم پریشانی کے عالم میں چکر کاٹ رہا تھا۔۔تھوڑی دیر پہلے ڈاکٹر اس سے سائین لینے آئے تھے کہ وہ کس کی زندگی چاہتا ہے۔۔۔۔۔کانپتے ہاتھوں سے اس نے ماں کے نام پر نشان لگایا تھا۔۔۔۔۔

یا اللّٰہ میرے گناہوں کی سزا میری اولاد کو مت دینا۔۔۔۔

وہ آسمان کی جانب سر اٹھائے رحم کی اپیل کرتے بولا۔۔۔

ڈاکٹر میری وائف اور بیبی کیسے ہیں۔۔؟؟

مسٹر دیکھیں ہمیں بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے ۔۔آپ کے بیبی کو نہیں بچا سکے۔۔

اینڈ یور وائف از بیٹر۔۔۔۔!!!! 

ڈاکٹر کہہ  کر جا  چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کے جانے کے تھوڑی  دیر بعد حازم روم میں آیا ۔۔جہاں وہ اپنی قسمت سے انجان بہوش تھی۔۔۔۔

وہ مردہ قدموں سے چلتا اس تک آیا ، 

مجھے معاف کر دینا میں مجبور تھا۔۔۔

ایسے کرتے ایک موتی سماہرا کے چہرے پر گرا تھا۔۔۔

  🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

یہ لو تمہاری امانت۔۔

حازم نے کہتے ہی ایک ٹوکری  روباب کے ہاتھ میں دی۔۔

جو سوجی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔۔۔

جسے دیکھ کر وہ واقعی خوش ہوچکی تھی۔۔۔وہ ٹوکری تھماتے وقت اس کے ہاتھ ایک پل کو لرزے تھے۔۔۔دل کانپا تھا لیکن اس کی خوشی کے لئے وہ یہ کام کر گزرا۔۔۔ 

بہت بہت شکریہ۔۔۔۔۔

وہ اسے دیکھ خوشی کے مارے چہکتے ہوئے بولی۔۔۔

روباب۔۔۔۔میں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔۔۔امید کرتا ہوں تم بھی اپنا وعدہ نبھاؤ گئی۔۔۔

ضرور حازم کیوں نہیں۔۔۔۔مجھے اپنا وعدہ ہمیشہ یاد رہے گا۔۔۔

       🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہیوی ڈوز ہونے کی بعض سماہرا کو دو دن بعد ہوش آیا تھا۔اس نے ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے اپنے بچے کے بارے میں پوچھا تھا جس حازم نے لرزتی آواز میں کہا: وہ مر چکا ہے ہم  دفنا چکے ہیں۔۔۔

نہیں۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔

جھوٹ بولتے ہیں آپ لوگ۔۔۔۔۔۔

ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔میری اولاد مر نہیں سکتی۔۔۔۔

کھنیچ کر کینولہ اپنے ہاتھ سے نکالا تھا۔۔۔۔جس سے ننھی سے بوند کی لکیر اس کے ہاتھ پر نمایاں ہوئی تھی۔۔

حازم بتائیں کہا ہے میرا بچہ میری ممتا کہہ رہی ہے ۔۔۔

میرا بچہ زندہ ہے۔۔۔۔

نہیں قبول کر پارہی میں۔۔۔۔

مر چکی ہے ہماری بیٹی۔۔۔

حازم کی بات سن کر اس نے پانی بھری آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا تھا۔۔۔

بیٹی۔۔۔۔ہاہاہا اچھا ہوا وہ مر گئی۔۔۔ورنہ کوئی اسے بھی آپ کی طرح کا شوہر مل جاتا ۔۔۔وہ بھی میری طرح کی زندگی گزارتی۔۔۔۔

وہ آنکھوں میں آنسوں لئے چہرے پر مسکان سجائے قہقہ لگاتے بولی۔۔۔

وہ اس وقت نیم پاگل سی لگ رہی تھی۔۔۔زخم اس کے ہرے تھے اپنے دل کا تمام غبار آج اس کے سامنے نکال رہی تھی۔۔۔

حازم کا اس کی حالت دیکھ کر دل لرزا تھا۔۔۔کافی بار کوشش باوجود اس کو سچ نہیں بتا سکا۔۔۔

    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

اے بارش برس برس اور برس،

آج تو اس کی یادوں کو بہا لے جا۔۔۔۔۔۔

شہر کی اس گہری خاموشی ہر طرف اندھیرے کا راج تھا۔۔گرج چمک کے ساتھ ۔بارش اپنے عروج پر تھی۔۔ایسے میں وہ شخص بارش میں کھڑا کسی کی یادوں کو بھلانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔اس کے آنسوں بارش میں ہی گم ہو رہے تھے۔۔۔

کیا تھی وہ ؟؟؟ جس کا اسیر وہ پہلی ملاقات میں ہی ہو چکا تھا ۔۔۔۔شائد قسمت اس کی پاکیزہ محبت دیکھ اس کی محبت کے ساتھ ملانے کا فیصلہ کر چکی تھی۔۔۔۔

      🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ایک مہینے بعد۔۔۔

میں شادی کر رہا ہوں!!

ماحول کی گہری خاموشی میں اس کی آواز گونجی۔

مبارک ہو!!

وہ مسکرا کر بولی۔۔جب کے چہرے پر اداس سی مسکراہٹ نمایاں ہوئی۔۔۔

تمہیں کوئی اعتراض نہیں۔۔۔

وہ حیرت سے گویا ہوا۔۔۔

نہیں۔۔۔سر جھکائے اپنے ناخنوں سے کھیلتے  ،ہوئے  یک لفظی جواب  دیتے ہوئے بولی۔۔۔جب کہ یہ صرف وہ جانتی تھی کہ یہ اس نے کس دل سے کہا ہے۔۔۔

آنسوں ضبط کرنے کے باعث، چہرا لال سرخ جب کہ آواز بھاری ہو رہی تھی۔۔۔

تمہیں برا نہیں لگ رہا۔۔۔

وہ مدھم آواز میں بولا گویا اس کا ضبط آزمانا چا رہا ہو۔۔۔

نہیں۔۔۔!! 

سماہرا کا جواب سن کر اس کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔

کچھ وقفوں کے بعد اس کی غم میں ڈوبی آواز آئی۔۔

آپ کی شادی والے دن آپ کے لیے ایک عظیم تحفہ ہو گا۔۔۔جو یقیناً آپ سمیت آپکی ہونے والی بیوی کو بہت پسند آئے گا۔۔

سماہرا تم نہیں جانتی یہ میری خواہش کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی ہے۔۔اگر یہ میں نے نا کیا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکوں گا۔۔۔

وہ پیچھے کی بیڈ پر لیٹتے ہوئے بولا ٹانگیں اس کی بیڈ سے نیچے لٹک رہی تھیں۔۔۔

آج دوپہر میں حازم کے پاس روباب کی کال۔آئی تھی جس میں اس نے اپنے امید سے ہونے کی خبر سنائی تھی۔۔۔اور اس سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ جلد سے جلد اس سے شادی کر لے ورنہ جب حقیقت دنیا کی سامنے آ گئی تو دنیا والوں نے کچھ بھی ہو جائے اس کے بچے کو نا جائز ہی کہنا ہے۔۔۔

اس کی بات سنتے اس کو اپنے ضمیر پر بوجھ پڑتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔

    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

میری محبت کی داستاں ختم ہو چکی

جنازے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔💔💔

روباب اور حازم کا نکاح موقعے کی مناسبت کے مطابق سادگی سے رکھا گیا تھا۔۔سماہرا کا دل خون کے آنسوں رو رہا تھا۔۔کتنا دوبھر ہوتا ہے۔۔۔ شوہر کو کسی اور کو سونپنا۔۔۔اور شوہر بھی وہ جو آپ کی بچپن کی محبت ہو۔۔۔وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اسے کسی اور کا ہوتے دیکھ رہی تھی۔۔۔

کیسی قسمت پائی تھی اس داسی نے۔۔۔

پہلے اولاد کھوئی پھر شوہر۔۔۔آنسوں توا تر اس کا چہرا بھگو رہے تھے۔۔۔

جیسے ہی اس کو حازم کی آواز مائک پر سے سنائی دی۔۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔

کاش آنسو جمع کیئے ہوتے

آج اپنا بھی سمندر ہوتا

قبول ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب تو رونے سے بھی دل۔دکھتا ہے،

شائد اب ہوش ٹھکانے آئے ہیں۔۔

قبول ہے۔۔۔۔۔۔

یہ وہ آخری الفاظ تھے جو  اس نے اس ستمگر کے سنے تھے۔۔وہ پیچھے مڑ ایک نظر دیوار کی اوٹ سے اس کی جانب دیکھتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔

وہ چھوڑ آئی تھی اس گھر کو جس میں اس کا شوہر اپنا آپ کسی دوسری عورت کو سونپ چکا تھا۔۔۔

وہ رات کے وقت سنسان سڑک پر چل رہی تھی۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے کہاں جانا ہے۔۔اپنے ہی خیالوں میں وہ جا رہی تھی کہ  سامنے تیزی سے آتی گاڑی کو نا دیکھ سکی جس سے ٹکرانے کے  باعث  وہ اڑتی ہوئی دور جا گری۔۔۔۔

میں کوشش کروں گا کہ اب تمہیں کبھی کوئی دکھ نا دوں۔۔۔۔۔۔ہوش کھونے سے پہلے یہ آخری الفاظ تھے جو  اس کو سنائی دیے تھے۔۔۔

سلمان  جو گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا ۔۔۔اپنی گاڑی سے کسی کو ٹکراتے دیکھ وہ جلدی سے باہر نکلا۔۔۔اور فوراً اس کی طرف بڑا جو کہ خون سے لت پت وجود کے ساتھ اس کے سامنے تھی۔۔۔۔اسے دیکھ کر سلمان کو اپنا کلیجہ حلق کو آتا محسوس ہوا۔۔۔۔

اس نے اس پری سے ملنے کی خواہش کی تھی مگر ایسی ملاقات اس نے خواب میں بھی نہیں سوچی تھی۔۔

وہ جلدہی سے لئے اس کو ہسپتال روانہ ہوا۔۔۔

وہ اسے ہسپتال لئے روانہ ہوا۔اسکو اٹھانے کے باعث سلمان کے کپڑوں پر بھی خون لگ چکا تھا۔۔۔۔

سماہرا کو جلدی سے ایمرجنسی میں لے جایا گیا تھا۔۔۔اندر وہ زندگی اور موت کی جنگ کھیل  رہی تھی۔۔۔

باہر سلمان روتے ہوئے خدا سے اس کی زندگی مانگ رہا تھا ۔۔۔۔

ڈاکٹر۔۔پیشنٹ۔۔۔وہ ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر کو باہر نکلتا دیکھ ان کی جانب بڑھا جس پر ڈاکٹر نے اسے اپنے کیبن میں بلایا۔

وہ خوف زدہ سا اپنے قدم ڈاکٹر کے روم کی جانب بڑھا رہا تھا۔۔۔

دیکھیں مسٹر سلمان ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے  کہ ہم آپ کی وائف کو بچا نہیں سکے۔۔ 

شی از نو مور۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر کی بات سن وہ زلزلوں کی زد میں  آیا تھا۔۔۔ اس کا دماغ پوری طرح ماوف ہو چکا تھا۔۔

    🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

ہائے وہ آخری سفید لباس،🥀🥀

*چیخیں، صدمہ،چارپائی،جنازہ🥀🥀

زندہ لاش🥀🥀

ایسی کچھ چپ سی لگی ہے جیسے،

جیسے ہم تجھے  حال سنانے آئے،

عشق تنہاہ ہے سر منزل غم،

کون یہ بوجھ اٹھانے آئے۔۔۔

سماہرا کی لاش کو گھر لے آیا گیا تھا۔۔۔اس کے چہرے کو پہچانا مشکل ہو رہا تھا۔۔کیونکہ اس کا چہرا پورا خراب ہو چکا تھا۔

روباب بھی حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی اس نے ایسا تو نہیں چاہا تھا کہ اس کی وجہ سے کسی بے گناہ کی جان چلی جائے۔۔۔۔

قاتل ہو تم دونوں میری بیٹی ہے۔۔قاتل۔۔۔۔۔۔۔

اس کی ماں روتے ہوئے اپنی بیٹی کے ساتھ لپٹ کر حازم اور روباب کی جانب دیکھتے ہوئےبولیں۔۔۔

جبکہ ان ساتھ موجود 10 دس سالہ بچہ نفرت اور جنون آنکھوں میں  وحشت لیے ان دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔کوئی بھی اس کو دیکھ لیتا تو اس کو دس سال کا بچہ نا کہتا۔۔۔۔

کیا رنگ لانے والا تھا وہ بچہ۔۔۔

یا بنتا حازم کی بربادی کا باعث۔۔۔۔۔۔۔

     🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

رات کی تاریکی ہر سو چھائی ہوئی تھی فضا میں چلتی تیز ہوا سے درختوں کے ہلتے جھنڈ جن سے خاموشی میں ایک سرسراہٹ پیدا ہوتی۔۔ ۔۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازوں نے ماحول کو اور ہیبت ناک بنایا ہوا تھا۔ایسے میں وہ شخص رات کے اس پہر اپنی مطلوبہ قبر کے پاس بیٹھا ہر چیز ، ہر خوف کو بلائے طاق رکھے قبرستان میں بیٹھا اپنے کیے تمام تر ظلم ،نا انصافی کو یاد کرتا اشک بار تھا۔۔

پر اب آنسوں بہانے کا کیا فائدہ ۔کیونکہ وقت بیت چکا تھا معاف کرنے والی جا چکی تھی بے وفائی کا غم ،محبت نا ملنے کا غم اور بھی بہت سے غم اپنے ساتھ قبر میں لیے جا چکی تھی جب کہ مقابل کے لئیے  پیچھے تحفے میں ایک چیز ایک احساس چھوڑ چکی تھی جو آخر تک اس کے ساتھ رہنا تھا۔۔

پچھتاوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سماہرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پورے شہرِ خاموشاں میں اس کی آواز گونجی تھی۔۔۔۔۔

         🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥

سر آپ کی فلائٹ؟؟؟؟؟

کینسل۔ کر دو۔۔۔

وہ لال انگارہ آنکھوں سے بولا تھا جو کے رونے کے باعث ہو چکی تھیں۔۔۔

اور میرا کام ہو گیا کیا؟؟ 

اس نے بے تابی سے پوچھا تھا۔۔۔۔

یس سر۔۔۔۔۔

دونوں کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔

ختم شد۔۔۔۔۔۔۔


This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

“ Nafrat Se barhi Ishq Ki Inteha’’ is her first long novel. The story of this begins with the hatred of childhood and reaches the end of love ️. There are many lessons to be found in the story. This story not only begins with hatred but also ends with love. There is a great 👍 lesson to be learned from not leaving...., many social evils have been repressed in this novel. Different things which destroy today’s youth are shown in this novel. All types of people are tried to show in this novel.


"Mera Jo  Sanam Hai Zara Beraham Hai " was his second-best long romantic most popular novel. Even a year after At the end of Madiha Shah's novel, readers are still reading it innumerable times.


Meri Raahein Tere Tak Hai by Madiha Shah is the best novel ever. Novel readers liked this novel from the bottom of their hearts. Beautiful wording has been used in this novel. You will love to read this one. This novel tries to show all kinds of relationships.

 

 The novel tells the story of a couple of people who once got married and ended up, not only that but also how sacrifices are made for the sake of relationships.

How man puts his heart in pain in front of his relationships and becomes a sacrifice


Dasht E Harjai Romantic Novel


Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Dasht E Harjai  written by Sara  Urooj .  Dasht E Harjai by Sara Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.


Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

 

Thanks for your kind support...

 

Forced  Marriage Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Lin  

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like t episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

 

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages