Yeh Hum Aa Gaye Hain Kahan Novel By Tabeer Fatima Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Yeh Hum Aa Gaye Hain Kahan Novel By Tabeer Fatima Complete Romantic Novel |
Novel Name: Yeh Hum Aa Gaye Hain Kahan
Writer Name: Tabeer Fatima
Category: Complete Novel
خراب موڈ کے ساتھ غصے والی شکل بنا کے وہ ٹرین میں بیٹھی تھی،اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے،اتنا بےبس تو اسنے خود کو کبھی محسوس نہیں کیا۔آج اُسے وہاں جانا پڑ رہا تھا جہاں و کبھی جانا نہیں چاہتی تھی۔ابو کی موت نے کیسے سب کچھ بدل دیا،اب ہم انکے رحیمو کریم پی آگئے۔اسنے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے سفیان کو گھور کر دیکھا،اور دل ہی دل میں جلتی کڑھتی جارہے تھے۔
سفیان بھی اُسے کو گھور رہا تھا،کے کب وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکلے تو اُسے اشارہ دے کے دوپٹہ سر پر کرے،كبسے اُسکا دوپٹہ ڈھلک کے کندھوں پر پڑا ہوا تھا۔
جیسے ہی سفیان کے طرف دیکھا اسنے غصے سے ہاتھ کے اشارے سے دوپٹہ سر پر کرنے کو کہا۔کرن نے دوپٹہ سر پر کیا پر دل ہی دل میں کہتی جارہے تھے۔
"دوپٹہ سر پر کروں،اب مُجھسے پردہ بھی کرائیں گے،جاھل گوار گاؤں والے۔آگے نہ جانے کیا کیا کروائیں،
ویسے شکل سے جاھل لگتا تو نہیں۔اور دیکھ نے میں کیسی انگریزی فلم کا ہیرو لگ رہا ہے۔ گورا رنگ ہلکی داڑھی درمیانِ آنکھیں نہ چھوٹی نہ بڑی،لمبا قد،دفاع کرو میں بھی کیا سوچنے لگی۔"
اسنے اپنے سوچوں کو جھٹک کر ٹرین کے اطرف میں نظر دوڑائی،اُنکے علاوہ سامنے ایک پکی عمر کی عورت بیٹھی تھی اور مسلسل کچھ نہ کچھ کھائے جا رہی تھی،ہر اسٹیشن سے کچھ نہ کچھ لیتی،اور جو بھی ٹرین کے اندر کچھ بیچنے آتا وہ ضرور لیتی،کرن انکو اتنا کھاتے دیکھ حیران پریشان تھی۔اُنکے ساتھ ہی ایک لڑکا تھا۔ وہ بس سویا ہی رہا سارے سفر میں،ایک کھانے کی شوقین تو دوسرا سونے کا شوقین۔
"بیٹا سیفی اسامہ کو کہا تھا گاڑی کا؟وقت پر آجائیگا نہ؟"
دادا جان کی آواز نے اُسکی سوچوں کا محور توڑ دیا۔
"جی دادا جان کہہ دیا تھا،آجائیگا۔"سفیان دادا کو جواب دے کر موبائل میں مصروف ہوگیا۔
كرن بور ہورہی تھی۔،کبھی دادا کے طرف دیکھتی.دادا جان صحتمند تھے لاٹھی پکڑ کر چلتے نظر کا چشمہ ہر وقت پہین کر رکھتے،پہلے بھی دو تین بار آئے تھے دادا جان ابو کی بیماری کا سن کر تب اتنے بوڑھے نہیں لگتے تھے۔ابو کے جانے کے بعد ایک دم سے بوڑھے لگنے لگے۔
امی کی طرف دیکھا وہ جو چپ چاپ بیٹھی اپنی سوچ میں گم تھی۔اُنکے گود میں علی سر رکھ کر سو رہا تھا۔ کبھی سفیان کے طرف جو موبائل میں مصروف تھا،اور مسکراتا جارہا تھا۔
"ہم مسکرا کیسے رہا ہے ضرور کیسی لڑکی کا چکر ہوگا،جانے کب گاؤں آئے۔ میری تو قمر اکڑ گئی۔"
"داد جان اور کتنا وقت لگےگا؟"کرن سے صبر نہیں ہوا تو پوچھا۔
"بس بیٹا پہچنے والے ہے بس پندرہ منٹ،لگتا ہے میری بیٹی تھک گئی۔"دادا جان نے پیار سے کہا۔
سفیان نے کرن کی طرف دیکھا اور دل میں بولا "ہم تھک گئی ہے مدم۔ بڑی کوئی نازک مزاج ہیں،انکے تو مزاج ہی نہیں ملتے،اسکی کیسے بنیگی سب سے،گاؤں میں رہ پائے گی؟مجھے تو لگ رہا ہے پہلے دن ہی بھاگ جائیگی۔جب چچا کے آخری رسم ادا کرنے گاؤں لیجانے کے لیے آئے تھے،تو کیسے حلیہ میں تھی۔جینز کے ساتھ گھٹنوں تک شرٹ پہنے،دوپٹہ برائے نام مفلر کی طرح پہنے،براؤن بال شولڈر پر جھول رہے تھے۔مسلسل روتی جارہے تھی۔ جس وجہ سے اُسکی آنکھیں اور ناک لال ہورہی تھے،میں کبھی توجہ نہ دیتا کرن پر اگر دوسرے گیر لڑکوں کو اُسکی تکتا نہ پا تا،اُسے باپ کے دُکھ میں کچھ ہوش نہیں تھا،پر کچھ آوارہ لڑکے موقع سے فائدہ اٹھا کر کیسے اُسے تاڑ رہے تھے۔آج اُسکا حلیہ کچھ بہتر تھا،نیوی بلیو کلر کے شلوار قمیض پہنے دوپٹہ سر پر تھا اور شال اوڑھ ہوا تھا کالے رنگ کا جس پر چھوٹے چھوٹے ریڈ شیشے لگے تھے،موسم اب ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ نومبر کی شروعات تھی۔
اسٹیشن پر ٹرین رک گیا.ا اُنکی منزل بھی آگئی تھی۔اب ہر کسی کو اترنے کی جلدی تھی۔ اُدھر قولی بھاگ کر آرہے تھے،سفیان نے ایک قولی کو سامان اٹھانے کو کہا اور خود ٹرین سے نیچے کھڑا ہوکر دادا جي کو ہاتھ دیا ٹرین سے اترنے کے لیے،دادا اتر گئے،تو امی کو ہاتھ دیا امی نے بھی سفیان کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اترنے لگی،سفیان نے بے دھیانی میں کرن کے طرف ہاتھ بڑھایا،کرن اسکو گھورنے لگی،سفیان کو بھی ہوش آیا تو ہاتھ نیچے ہٹایا،
"رستے سے ہٹ جائیں تو میں نیچے اُتروں"کرن نے سفیان کو کہا سفیان تاؤ کھاتا ہوا پیچھے ہو لیا اور اسامہ کو فون کرنے لگا۔
"کیس طرف کھڑے ہو؟ اچھا اچھا ہم آرہے ہیں۔"کہہ کر فون کاٹا،دادا جان کو اشارہ کیا جہاں ایک بیس بائیس سال کا خوبرو لڑکا کھڑا ہوا تھا۔
........................................
"آسیہ اوہ آسیہ! ہوگیا کمرہ صاف مه رانی آتی ہی ہوگی۔ہاجرہ بیبی نے غصے سے سبزیاں کاٹ تے ہوئے کہا۔
"جی باجی ہوگیا کمرہ صاف،پر ہمارا غریب خا نا اُن مان بیٹی کے شایانِ شان کہا ہے۔"آسیہ بھی ہاتھ جھاڑ تی ہوئی دیورانی کی ہمنوا بن گئی۔
"فکر مت کرو آسیہ,نہیں رہیگی عظمیٰ یہاں،یاد نہیں جب سلمان اُسے شادی کرکے لایا تو ابا جی کتنے ناراض ہوئی تھے۔یونیورسٹی سے پسند کرکے لایا،پھر بھی بیچارے سلمان بھائی ابا جی کو منانے کے لیے یہاں لائے،پر ایک مہینہ بھی نہیں رہ پائی محترمہ ہر چیز پی کیڑے نکالتی،آخر کار اتنا تنگ کیا سلمان بھائی کو کے انھیں ابا جی کو ناراض کر کے شہر میں گھر لینا ہی پڑا،ابا جی بھی ناراض ہوگئے،کیوں کے اُنکے شرط تھی کے گاؤں ہی رہےگی عظمٰی،پر عظمیٰ نہ رہی نہ بچوں کو گاؤں کا منہ دیکھنے دیا،بھائی صاحب خود ہی آجاتے،ایک دو بار کرن کو بھی لائے جب وہ چھوٹی تھی،بعد میں وہ بھی نہیں آئی مان کی طرح۔۔
"لگتا ہے آگئی چاچی،زوبیہ نے اعلان کیا،آپ لوگ بھی چپ کریں دادا جان نے سن لیا تو ناراض ہوجائینگے۔"
زوبیہ بھاگتی ہوئی باہر گئی۔گاڑی اندر آرہی تھی گاڑی سے نیچے دادا جان سفیان چاچی کرن اور علی اُترے زوبیہ نے صبكو پہچان لیا غایبانا تعارف تو سب کا پہلے ہی ہوچکا تھا۔
عظمیٰ نیچے اتر کر ارد گرد کا جائزہ لینے لگی۔اب کافی چیزیں بدل گئی تھی۔صحن میں جہاں صرف میدان ہوتا تھا،اب وہاں لان بنا ہوا تھا کونے میں رنگ با رنگی پھول پودے لگے تھے،پیپل کا وہ بوڑھا درخت اب بھی اپنی جگہ پی ویسے ہی شان و شوکت سے کھڑا تھا جس میں جھولا باندھ ہوا تھا،اُسکے دوسرے طرف ہینڈ پمپ بھی لگا تھا۔گھر کو بھی باہر سے دیکھ کر لگتا تھا کے کافی تبدیلیاں وقت کے ساتھ کی گئی ہیں،رنگ بھی تازہ لگ رہا تھا۔
کرن بھی یہاں وہاں دیکھتی جارہے تھی۔اور حیران بھی ہورہی تھی جیسا نقشا اُسکی ما نے کھیچا تھا گھر کا ویسا تو بلکل نہیں لگ رہا تھا۔ئے سب آنکھوں کو بھلا لگ رہا تھا۔ٹھنڈے حوا کا جھونکا آیا تو کرن کو سردی کا احساس ہوا شال لپیٹ لیا اچھے سے۔
"چلیں اندر؟" سفیان نے بیگ گھسیٹتے ہوئے کرن کو کہا جو اپنے خیالوں میں گم تھی۔
کرن نے سفیان کے آواز پر چونک کر دیکھا تو سب اندر کا چکے تھے۔اور وہ راستے پر کھڑی تھی۔
"یاں راستہ دیں تو میں ہی اندر جاؤں"کرن غصے سے ہٹ گئی راستے سے۔
سفیان اندر گیا تو کرن نے بھی بولا" بھاڑ میں جاؤ بدلہ لیے رہا ہی۔"کرن پیر پٹکھتی ہوئی اندر چلی
عظمیٰ جیسے ہی اندر داخل ہوئی اُسے لگا وقت کہیں بہت پیچھے چلا گیا ہو۔جب وہ پہلی بار یہاں آئی تھی۔سلمان کی محبّت میں شادی تو کرلی تھی پر گاؤں میں رہ نہ اُسکے بس کی بات نہیں تھی۔
آسیہ اور ہاجرہ بیبی سے کھولے دل سے ملی پر وہاں و گرمجوشی نہیں ملی،تو عظمیٰ کا دل اور دُکھ گیا۔
کرن اندر آئی تو سب اُسے ہی دیکھ رہے تھے۔اُسے عجیب لگ رہا تھا یہاں سب اپنے تھے پر سبکے چہرے کرن کے لیے اجنبی تھے۔
سب بس دادا جان کے ڈر سے رسمی سے ملے بس زوبیہ اور اسامہ ہی کرن سے مل کر بہت خوش تھے۔
"آؤ کرن میں تمہیں تمھارا کمرہ دکھا تی ہوں،زوبیہ خوشی خوشی کرن کا ہاتھ پکڑ کر جا رہی تھی۔
سفیان جو سیڑھیاں چڑھ رہا تھا لڑکھڑا کر گرنے کی ایکٹنگ کر نے لگا۔
"دھیان سے بیٹا گر جاؤگے،چوٹ تو نہیں لگی۔؟"یہ ہاجرہ بیبی تھی سفیان اور زوبیہ کی امی۔
"نہیں امی چوٹ تو نہیں لگی پر لگتا ہے کیسی کی بد دعا لگتے لگتے بچی۔" کوں منہوس ماریے نے میرے بچے کو بد دعا دی؟ہاجرہ بیبی جذباتی ہوگئی۔
"
امی اگر کوئی مجھے کہے کے "بھاڑ میں جاؤ"تو بدلے میں آپ کیا کہینگے؟"
"بھاڑ میں جائے تمھارے دشمن"ہاجرہ نے ایک ایک لفظ دبا دبا کے ادا کیا۔
سفیان نے مصنوعی مُسکرا کر کرن کے طرف دیکھا جو زوبیہ کا ہاتھ پکڑے ہوئی تھی پر سفیان کی گرتے دیکھ وہاں روک گے تھے۔
کرن نے غصے والی شکل بنا کر زوبیہ کے ساتھ چلی گئی۔
" منہوس کہیں کا یہ بھی سن لیا۔ بڑا آیا مجھے سنانے والا،میں تو تم جیسے انسان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرونگی،یہ فري ہونے کے بہانے ہیں۔"کرن کی ایک یہ عادت بھی تھی کم بولتی تھی پر دل میں بولتی جاتی تھی۔
زوبیہ کرن کو ایک کمرے میں لائی جہاں دو سنگل بیڈ پڑے تھے آئینہ جو دیوار کے ساتھ لگا تھا، کونے میں ایک سنگل سوفا پڑا تھا اور ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جو باہر لان کے طرف کھلتی تھی۔کمرہ سادگی سے سیٹ مگر صاف ستھرا تھا کرن کو پسند آیا۔
"کیسا لگا؟ فلاحل تم اور چاچی یہ کمرہ ساتھ شیئر کرنا۔ شہر والا کمرہ تو بہت اچھا ہوگا نہ تمھارا۔ارے میں تُمہیں تم بولا رہی ہوں بُرا تو نہیں لگا نہ؟زوبیہ نے پوچھا۔
"نہیں زوبیہ بہت اچھا ہے یہ کمرہ میرے اور امی کے لیے کافی ہے۔اور مجھے بلکل بُرا نہیں لگا ویسے بھی ہم ایک ہی جیتنے ہونگے،پھر تکلف کیسا؟"
زوبیہ کرن کی باتیں سن کر بہت خوش ہوئے۔
"کرن تم تو بہت اچھی ہو ایسے ہی بھائی ڈرا رہے تھے کے جانے کیسی تیز طرار ہوگی غصے والی۔اور تم مجھے سبکے طرح زوبی کہنا۔ اچھا اب میں چلتی ہوں کھانے پر ملتے ہیں۔
کرن نے زوبی کی آخری بات غور سے سنی نہیں وہ بہت تھکی ہوئی تھی،بیڈ پر لیٹ گئی،امی ابھی تک نہیں آئی ضرور باتوں میں لگ گئی۔کرن کو نیند آنے لگی اور سوگئی،عظمیٰ کمرے میں آئی تو کرن کو سوتا پایا۔
"امی آپی تو سو گئی"علی نے کہا اور سوفے پر بیٹھ گیا۔
"ہاں بیٹا تھک گئی تماری آپی۔علی تم فریش ہو آؤ سو مت جانا اپنی آپی کے طرح پہلے کھانا خانا۔"
عظمیٰ کھڑکی کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ باہر دیکھنے لگی پیپل کا درخت ہوا کے ساتھ ہل رہا تھا اور جھولا جو باندھ تھا وہ بھی ہوا میں ہولے ہولے ہل رہا تھا۔اب کتنی تبدیلیاں آئی اس گھر میں,سلیمان جب بھی گاؤں سے واپس آتے بتاتے گاؤں کی گھر کی باتیں پر مجھے دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
"چاچی کھانا لگا دیا ہے۔کرن سو گئی کیا؟"
" ہاں بیٹا سو گئی۔"عظمیٰ نے دیکھا زوبیہ کو غور سے وہ بھی کرن کی ہم عمر ہی تھی پیاری سے لڑکی باتوں کی شوقین،صاف دل والی بچی جس کا اندازہ پہلی ملاقات میں ہی ہوجاتا ہے۔
......................................
صبح سویرے کرن کی آنکھ کھلی بیس منٹ تک تو کمرے میں ہی لیٹی رہی موبائل پر واٹساپ پر دوستوں کے پیغامات دیکھتی رہی۔چاۓ کے شدید طلب ہورہی تھی۔آرام آرام سے اٹھ کر باہر آئی۔ باہر بہت سردی تھی اسنے شال اچھے سے لپیٹ لیا۔سامنے ہی اسامہ کھڑا تھا،
"اؤ کرن اس طرف،ایک کمرے کے طرف اشارہ کیا۔
کرن اُس طرف گئی جہاں ایک کمرہ تھا سب وہاں نیچے بیٹھے تھے۔چاۓ ناشتا کر رہے تھے۔بیچ میں آگ جل رہی تھی۔جہاں آسیہ چاچی جلدی جلدی سے پراٹھے پکا رہی تھی۔
"جاگ گئی میری بچی!آجاؤ بیٹا بیٹھ جاؤ میرے سامنے یہاں۔آسیہ پُتر کرن کو ناشتا دو رات بھی کچھ نہیں کھایا بھوک لگ رہی ہوگی اسے۔"داد جان نے کرن کے طرف دیکھتے ہوئی کہا۔
کرن بیٹھ گئی۔
"کیسی ہو بیٹا رات کو ملاقات نہیں ہو پائی آپ سو گئی تھی۔
"آپ ریاض چاچو ہیں نہ؟اور آپ فیاض چاچو؟کرن پرجوش ہوکے کہنے لگی۔
"ارے آپ تو ہمیں پہچان گئی۔پر کیسے؟
"ابو آپ دونوں کا بہت ذکر کرتے تھی۔"
سفیان جّو چاۓ پینے میں مگن تھا کرن کے طرف دیکھا،"مطلب مدم کو اپنے رشتےداروں میں دلچسپی ہے۔ورنہ مجھے تو لگ رہا تھا اپنے آپ کے سوا کسی میں دلچسپی نہیں۔"
کرن کو یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔گاؤں کا ماحول وہ بھی آگ میں ہاتھ سینکنے لگی ہاتھ گرم ہوگئے تو اپنے گال پر رکھ کر گال گرم کرنے لگی بار بر ایسا کرتی۔
اور سفیان اُسکے بچکانہ حرکتیں دلچسپی سے نوٹ کر رہا تھا۔
"بیٹا تمنے تو بہت کم کھایا۔"دادا جان نے کہا
"بس کھا لیا،دادا جان مجھے ابو کے قبر پر جانا ہے۔"
"بیٹا ابھی تو بہت سردی ہے بعد میں جانا"دادا جان افسردہ ہوگئے۔
"نہیں مجھے ابھی جانا ہے۔میں آتے ہی جانا چاہتی تھی پر سو گئی۔
"اچھا سیفی گاڑی نکلو ہم چلتے ہیں۔"
"جی دادا جان چاۓ کا آخری گھوٹ جلدی میں پی کر سفیان اٹھ گیا۔
کرن پیچھے کے سیٹ پر بیٹھ گئی دس منٹ کے فاصلے پر قبرستان تھا۔
قبرستان پھچ کر کرن نیچے اترنے لگی۔
"دادا جان آپ گاڑی میں بیٹھے رہیں آپکو ٹھنڈ لگ جائے گی ڈاکٹر نے منع کیا ہے سردی میں نکلنے سے۔میں لیکے جاتا ہوں۔"سفیان کے بات پر داد جان چپ ہوگئے۔
"چلو"
کرن سفیان کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔سفیان ایک قبر پر آکے روک گیا۔
کرن نے تختی دیکھی جس پر سلیمان فاروقی لکھا تھا۔
کرن نیچے بیٹھ گئی۔دعائیں پڑھنے لگی،پھر آنسو اُسکے گالوں پر بہتے جارہے تھے۔
"ابو میرے پیاری ابو!میں آپکے بغیر بہت اکیلی ہوں۔امی بھی چپ چپ رہتی ہیں،کچھ بولتی ہی نہیں۔آپ کیوں ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔" کرن رونے لگی روتی روتی اُسکی ہچکی باندھ گئی۔
سفیان کو اُسکی حالات دیکھ کر بہت دُکھ ہورہاہے تھا،
"چلو اب چلیں۔"
" تھوڑی دیر اور رکنے دین پلیز۔" کرن نے سفیان کو التجائیں نظروں سے کہا،آنسو سے تر چہرہ لیے۔
سفیان کو وہ بہت معصوم لگی۔سفیان نے نظریں چرائیں۔
"دادا جان بیمار رہنے لگے ہیں،کل اتنا لمبا سفر کرکے آئے اؤ سردی میں یہاں آئے،ڈاکٹر میں منع کیا ہے،اٹھو اب بعد میں لاونگا۔"
"پکا؟
"ہاں پکا"سفیان کو ہسی آئی۔
کرن زوبیہ کے ساتھ لان میں کھڑی تھی دونوں باتیں کرتے جا رہے تھے۔شام کا وقت تھا آج سردی کچھ کم تھی۔زوبیہ نے چاۓ بنائی تو دونوں باہر چاۓ پینے آئے۔کرن جھولے پر بیٹھی تھی۔اور زوبیہ کی باتیں سنتی جارہے تھی۔
"یہ لان کتنا اچھے سے بنایا گیا ہے پھول بھی کتنے خوبصورت ہیں۔کرن خوش ہوکے کہ رہی تھی۔"
" ہاں یہ صوفیان بھائی کے شوق ہیں لان سجایا شہر سے رنگ با رنگی پھول مگائے،خود ہی دیکھ بھال کرتی ہیں پودوں کی،"
"زوبی یہاں ہو میں کب سے تمہیں آوازیں دےرہا ہوں"
سفیان جلدی میں زوبی کے پاس آیا،پھر کرن پر نظر پڑی وہ جھول میں جھول رہی تھی سفیان کو دیکھتے ہی اُسکے موں کے زاویے بگڑ گئے۔
"زوبی جلدی سے ایک اچھی سے چاۓ بنا دو پلیز۔"اچھا ابھی لاتی ہوں۔
سفیان یہاں وہاں دیکھنے لگا۔
"ارے چاۓ تو یہاں پڑی ہے پہلے سے ہی۔"جیسے ہی اسنے چاۓ کے طرف ہاتھ بڑھایا۔کرن جھولے سے جمپ کا کر ایک دم آگے آئی۔
"خبردار جو میری چاۓ پر بری نظر ڈالی،یہ میری چاۓ ہیں."چاۓ کے معاملے میں کرن بہت حساس تھی چاۓ کی دیوانی۔
"چاۓ پر بری نظر کیوں ڈالوں گا۔چاۓ پر تو اچھی نظر ڈالو نگا,اور چاۓ پر کونسا تمھارا نام لکھا ہے؟"بات کرتے کرتے سفیان کی نظر کرن کے کپڑوں پر پڑی۔اُسکا موڈ بہت خراب ہوا۔
"اور یہ کیسے کپڑے پہین ہوئے ہیں؟جاؤ جاکر کپڑے تبدیل کرو۔یہ گاؤں ہے یہاں سارا دن لوگوں کا آنہ جانا لگا رہتا ہے۔میں ہرگز برداشت نہیں کرونگا،ایسے اونٹ پٹانگ کپڑے۔"سفیان کرن پر برہم ہوگیا۔
"کیا برائی ہے ان کپڑوں میں؟کرن اپنے کپڑوں کی طرف دیکھ کر کہہ رہی تھی۔سبز کلر کا شرٹ پہنا ہوا تھا،جو آگے سے چھوٹا تھا اور پیچھے سے بڑا تھا آستین بھی اوپر کندھے سے آدھے کھولے ہوئے تھے، اور سگریٹ پینٹ جس کا فیشن تھا۔
زوبیہ چاۓ لائے پر دونوں کی شکل دیکھ کر سمجھ گئی کے کچھ ان بن چل رہی ہے۔
"کیا بات ہے کرن؟زوبی نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"اپنے بھائی سے پوچھو،اسکو میرے کپڑوں پر اعتراض ہے۔کبھی کہتا ہی دوپٹہ سر پر کرو،کل باہر نکلی تو اندر بھیج دیا ڈانٹ کے،رات کو لان میں مت نکلو،اسے میرے ہر بات پر اعتراض ہے۔میں ان سب کی عادی نہیں۔"کرن بہت غصے میں تھی۔
"تو عادت ڈال لو مدم یہاں تمہیں سفیان فاروقی کی سن نی پڑےگی۔"سفیان نے جلتے پر نمک چھیڑ دیا۔
"زوبی انسے کہو یہ پابندیاں اپنی بیوی کے لیے سنبھال رکھیں۔مجھ پر حکم نہ چلائیں۔کرن غصے سے اندر کے جانب بھاگی،کوئی جائے پناہ نہ ملا تو چھت پر آکے بیٹھ گئی۔کیوں کے کمرے میں جاتی تو امی سوال کرتی۔
"منہوس کہیں کا،سمجھتا کیا ہے خود کو بڑا آیا مجھ پر پابندیاں لگانے والا،اگر تم سفیان فاروقی ہو تو میں بھی کرن فاروقی ہوں۔کوئی گاؤں کی سادہ لڑکی نہیں جیسے ڈرا دھمکا کر اپنی منواؤگے۔"
زوبیہ سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر آئی۔
"یار تم یہاں ہو پریشان کرکے رکھ دیا,نیچے آؤ اب سردی ہے بہت،"زوبیہ پیار سے سمجھاتی ہوئی بولی۔
"مجھے مت سمجھاؤ زوبی اپنے بھائی کو سمجھاؤ۔"کتنا بدتمیز ہے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں اُسے اتنا پڑھ لکھنے کا کیا فائدہ،جب اندر سے گوار ہی رہنا ہے۔"کرن کا غصّہ آج عروج پر تھا۔
"دیکھ کرن میری پیاری بہن،یہ گاؤں ہے ہم کتنا بھی پڑھ لکھ لیں پر لباس کا دھان رکھنا پڑتا ہے۔سب لوگ تو پڑھے لکھے نہیں نہ فیشن کا انھیں پتہ ہے۔کل کو یہی لوگ کہینگے ہاشم فاروقی کی پوتی کیسے کپڑے پہنتی ہیں دادا جاں کی بيزتی ہوگی۔برائی لباس میں نہیں پر ماحول کا فرق ہے شہر میں ایسے کپڑے عام سمجھے جاتے ہیں۔یہاں نہیں۔میں بھی نہیں پہنتی۔"زوبی کو خود سمجھ نہیں آرہا تھا کرن کو کیسے سمجھائے۔
"یہی بات طریقے سے بھی کی جا سکتی ہے نہ زوبی۔"
"اچھا اب غصّہ تھوک دو چلو نیچے۔
........................................
بہو،سیفی کہاں ہے نظر نہیں آیا سارا دن۔اور اسامہ میری دوائیاں لایا تھا؟
"جی ابا جی،دوائیاں میں نے آپکے کمرے میں رکھ دیے ہیں۔سیفی کام سے شہر گیا ہے۔ہاجرہ بیبی نے جواب دیا۔
"بہو عظمیٰ سارا دن کمرے میں بند رہتی ہے۔تم اور آسیہ بہو اُس سے بات چیت کرو اُسکا خیال کرو،پرانی باتیں بھول جاؤ،گڑھے مردے اکھاڑنے سے اب کچھ ہاتھ نہیں آنے والا وہ بھی شرمندہ ہے،دُکھ میں ہے۔تم تو جانتی ہو سلیمان میرا سب سے لاڈلا بیٹا تھا۔جب منے سب بھولا دیا تو تم لوگ بھی اپنے دل صاف کر لو۔ہاشم صاحب سب نوٹ کر رہے تھے ایک مہینے سے ہاجرہ آسیہ کا رویہ عظمیٰ اور کرن کے ساتھ۔
"جی ابا جی،سہی کہا اپنے اب کیا فائدہ۔۔۔۔ہاجرہ کو ویسے ہی عظمیٰ کی حالت دیکھ کر دُکھ ہورہاہے تھا۔اور کرن کو ایک مہینے سے نوٹ کر رہی تھی،اُس میں کوئی نخرے نہیں تھے بلکل زوبی جیسے ہی تھی۔گاؤں میں بھی بہت خوش تھی۔
اسی وقت سفیان اندر آیا بلیک قمیض شلوار میں اتنا وجیہہ لگ رہا تھا کے ما نے ایک دم نظر دوسری طرف کرلی کہیں مان کی نظر نہ لگے۔
آتے ہی سلام کر کے چارپائی پر لیٹ گیا۔
"امی بہت تھک گیا ہوں زوبی سے کہہ کر چاۓ تو پلوایں ایک تو سردی نے زندگی مفلوج کردی،اسی لیے مجھے گرمیاں پسند ہیں۔"
"اچھا بیٹا تم آرام کرو کہتی ہوں چاۓ کا زوبی کو۔لگتا ہے کچن میں ہی ہے۔"گاؤں میں گیس نہیں تھا،لیکن سلنڈر اکثر لوگ استعمال کرتے،اُنکے گھر سلنڈر بھی تھا اور آگ پر بھی کھانا پکتا تھا۔
ہاجرہ کچن میں گئی تو کرن وہاں موجود تھی۔
"زوبی کہاں ہے؟ہاجرہ نے کرن سے پوچھا۔
"وہ نماز پڑھ رہی ہی چاچی۔کوئی کام تھا مجھے بتائیں۔"
"ہاں سیفی کے لیے چاۓ بنانی ہے،تم بنا لوگی؟"
"جی میں بنا کے لاتی ہوں۔کرنا کا موڈ تو خراب ہوا سیفی کا نام سن کر پر چاچی نے پہلی بار کوئی کام کہا تھا۔چاۓ بناتے ہوئے بار بار اُسکا دل کرتا نمک ڈالا دے چاۓ میں پر چاچی کے ڈر سے ارادہ ملتوی کر دیا۔
سفیان آنکھیں موندے چارپائی پر لیٹا تھا۔ساتھ والی کُرسی پر چاچی بیٹھ کے سلائی کر رہی تھی۔
"چاۓ"کرن چاۓ رکھ رہی تھی۔
سفیان حیرت سے دیکھا کرن نے چاۓ بنائی ورنہ اس دن کے ڈانٹ کے بعد کرن تین دِن سے سفیان کو نظر نہیں آئی تھی۔
"یہ سورج کہاں سے طلو ہوا ہے۔تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے؟چاۓ تمنے بنائی؟پھر ضرور نمک مرچ زہر کچھ نہ کچھ تو ڈالا ہوگا۔"سفیان کرن کو چڑھا رہا تھا۔
کرن چاۓ رکھ کر کوئی جواب دیے بنا پلٹ گئی۔سفیان دور تک اُسے جاتا دیکھ رہا تھا۔چاۓ کا سیپ ڈرتے ڈرتے لیا۔"ہممم چاۓ تو اچھی ہیں".
کل تمہاری پھوپھو آرہی ہے اپنے فیمیلی کے ساتھ۔ امی نے کرن اور علی کو بتاتے ہوئے کہا۔
"امی پھوپھو کی فیملی میں کوں کوں ہے؟ کرن نے کپڑے ته کرتے ہوئے دراز میں رکھنے لگی۔
دو بیٹیاں ہیں ایک شادی شدہ ہے ایک کنواری،دو بیٹے ہیں۔
"اچھا کل ملاقات ہوگی پھر،امی علی کی پڑھائی کا حرج ہورہاہے۔مجھے پریشانی ہے۔"کرن فکرمندی سے بولی۔
"بیٹا سفیان آج گیا تھا نہ شہر ایڈمشن ہوگیا علی کا کتابیں یونیفارم سب لیے آیا ہے۔یہاں سے بہت بچے جاتے ہیں گاڑی آتی ہے اُس میں علی بھی اُنکے ساتھ جائیگا۔"عظمیٰ خوش ہوتے بتا رہی تھی۔
اور کرن دل میں حیران تھی۔سفیان کے اس دھوپ چھاؤں والے رویے سے۔۔۔۔۔
آج صبح سے گھر میں افرا تفری تھی۔پھوپھو آرہے تھی وہ بھی دوسرے شہر سے،ظاہر ہے کچھ دِن رہینگی۔سب تیاریوں میں مصروف تھے۔صفائی کمرہ سیٹ کرنا۔کھانا بنانا،آج کرن بھی صبح سے زوبیہ کے ساتھ کام میں لگی تھی۔کرن نے کھانا بھی زوبی کے ساتھ بنوایا،دادا جان خوش لگ رہے تھے اپنی بیٹی کے آنے کا سن کر کیوں کے اُنکے اک ہی بیٹی تھی اور وہ اس سے بہت پیار کرتے۔اپنے نگرانی میں کام کاج کروا رہے تھے۔
"دیکھیں بھابھی کمرہ سیٹ کردیا ہے۔کوئی کمی تو نہیں رہ گئی۔"عظمیٰ نے ہاجرہ سے کہا۔
ہاجرہ نے بھی کمرے کا جائزہ لیا سب صحیح تھا۔
"ہاں ٹھیک ہے،میں ذرا زوبی کرن کو دیکھوں کھانا تیار ہوا کے نہیں سفیان انکو لینے گیا ہے۔"ہاجرہ عجلت میں کہتی ہوئی باورچی خانے میں گئی۔
"لڑکیوں کھانا تیار ہے نہ؟جی امی سب تیار ہے۔بس چاول دم پر رکھ دیئے ہیں کرن نے۔" زوبیہ نے کہا۔
"اچھا اب تم دونوں بھی جاؤ اپنا حلیہ درست کرو سفیان لینے گیا.
کچھ دیر بعد پھوپھو والے پھچ گئے،سب انسے میل کر بہت خوش تھے کیوں کے اُنکا مزاج بہت اچھا تھا حس مکھ تھی سبکی پسندیدہ۔اسامہ زوبی،عظمیٰ سب ملے،پھوپھو کی ایک بیٹی فروا جو شادی شدہ تھی اپنے شوہر کے ساتھ حیدراباد رہتی تھی اسلئے وہ نہیں آئی۔دوسری بیٹی اُروا اور دونوں بیٹے فرقان اور ہمدان اُنکے ساتھ آئے۔
پھوپھو علی کو گود میں بٹھا کے دادا جان سے اُنکے طبیعت پوچھنے لگی,سب باتوں میں مگن تھے۔
اسلام علیکم پھوپھو! کرن نھا کے آئی تو سیدھا پھوپھو کے پاس آئی۔
وعلیکم سلام۔تم کرن ہو نہ؟پھوپھو ایک دم اٹھ بیٹھی،کرن نے ہاں میں گردن ہلایا،پھوپھو نے اُسے گلے لگایا۔
کرن سب کو سلام کرنے لگی،ہمدان نے کرن کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔جب وہ بات کر رہی تھی یہ حس رہی تھی اُسکے گال پر پڑنے والا ڈمپل اور خوبصورتی میں اضافہ کرتا۔
سفیان نے نوٹ کیا ہمدان بس کرن کو دیکھے جارہا تھا۔سفیان کا موڈ بہت خراب ہوا۔
"کرن میرے لیے چاۓ تو بناؤ سر میں درد ہے۔"سفیان نے کرنا کو منظر سے ہٹانا چاہ۔
کرن کا اتنا موڈ خراب ہوا مرواتن اُسے اٹھنا پڑا،پر جاتے جاتے سفیان کو آنکھیں دیکھنا نہ بھولی۔
"چاۓ بنا دو،جیسے میں اسکی نوکر لگی ہوں۔خود کو ہاتھ پیر نہیں ہیں خود نہیں بنا سکتا،چاۓ بنانا کونسا فارسی ہے۔ اتنی ہی پسند ہے تو خود بنائے۔آج تو ایسی چاۓ پلاونگی آئندہ کبھی نہیں مگیگا چاۓ مُجھسے،کرن نے نمک چاۓ میں ملتے ہوئے کہا،اتنا مزہ آرہا تھا سرا مزا خراب کردیا۔"
"کیا ہوا کیوں بڑبڑا رہی ہو،"زوبی اندر آئی تو کرن کو خود سے باتیں کرتے ہوئی سنا۔
"کچھ نہیں،آپکے بھی صاحب کے لیے چاۓ لیے جارہی ہوں،کرن نے شیطانی مسکراہٹ سے کہا"اور چلی گئی باہر۔
"چاۓ۔"سفیان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا۔
"شکریہ۔سفیان نے نے دھانی میں چاۓ پینا شروع کیا جیسے ہی چاۓ کا سیپ لیا اُسکے مو سے چاۓ واپس نکلی۔سب اُسکی طرف متوجہ ہوگئے۔کیا ہوا؟
"کچھ نہیں کھانسی آگئی۔"اسنے غصے سے کرن کے طرف دیکھا۔
"اور لا دوں چاۓ؟"کرن کے بات پر سفیان اندر ہی اندر تاؤ کھاتا رہ گیا۔
....................................
سفیان باہر دوستوں کے ساتھ گیا ہوا تھا۔رات کو گھر واپس آیا تو زوبی کرن فرقان ہمدان اسامہ عروہ سب لوڈو کھیل رہے ہیں،سفیان وہاں سوفی پر بیٹھ گیا اور اپنے جوتے جرابیں اترنے لگا۔اور وہاں ہی بیٹھ گیا۔اسنے دیکھا ہمدان بات بات پر کرن سے فری ہورہاہے ہے۔ہمدان والو کو آئے ہوئے دو دن ہوگئے تھے،
"یاہو میں جیت گئی۔کرن نے خوشی سے نرہ لگیا،اور اُسے وقت اُسکی نظر سفیان پر پڑی،ایک پل کے لیے سفیان پر نظر ٹہہر گئی،عجیب کچھ تھا اُسکی نظروں میں،
"اب میں جارہے ہوں"کرن اٹھ کر جانے لگی۔
"نہیں پلیز کرن مت جاؤ جب تک ہمراہ گیم نہ پورا ہو۔ہمدان نے اُسے روکنے کے لیے کہا۔
"مجھے نماز پڑھنا ہے اور سویرے اٹھی، اب مجھے نیند آرہی ہے۔آپ لوگ کھیلوں۔"جاتے جاتے سفیان کے طرف دیکھنا نہ بھولی تھی۔
اسامہ عروہ کو پسند کرتا تھا۔اور زبانی کلامی یہ رشتا بہت پہلے ہی طے ہوچکا تھا۔اب جب یہ سب آئے تو سب بڑوں نے مگنی کی رسم رکھنی چاہی۔
سب بہت خوش تھے،آخر میں طے پایا کہ شوپنگ کے لیے شہر جائیںگے۔
"سفیان تم زوبی اور کرن کو لجاؤ شہر اپنے پسند کی خریداری کریں۔"
"اچھا دادا جان، کل سویرے تیار رہنا۔مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔صوفی کی بات پر زوبی نے سر ہلایا۔
اگلے صبح سویرے شہر کے لیے روانہ ہوگئے بڑوں نے جانے سے انکار کردیا پر لمبی لسٹ تھامے شوپنگ کی۔
"جلدی کرو پسند بھی کرلو کپڑے کب سے کھڑی ہو۔واپس بھی جانا ہے شام ہونے سے پہلے۔"سفیان نے کرن کو ڈانٹا۔
"ظاہر ہے کچھ پسند آیگا تو لوںگی نہ پیسوں سے لے رہی ہوں مفت میں نہیں۔"کرن کے پاس بھی ہر بات کا جواب تھا۔
"کرن میرے سر میں درد ہے پہلے ہی،زیادہ بحث مت کرو جلدی کرو،میں نوکر نہیں تمھارا جو کھڑا رہوں،زوبی نے بھی تو کرلی شوپنگ۔"سفیان کی طبیعت واقعی میں خراب تھی۔
"نہیں لینا مجھے کچھ،چلیں واپس،"کرن پر پٹھکتی ہوئی گاڑی کی طرف جارہی تھی۔
"کرن کرن رکو،زوبی اور سفیان اُسے آوازیں دیتے رہے پر وہ غصے سے آگے جاتی رہی،اچانک ایک گاڑی پیچھے سے آئی کرن کو ٹکر مرا،کرن کی چیخ کے ساتھ سفیان اور زوبی کی بھی چیخ نکلی۔
"کرن۔۔۔۔۔۔۔۔۔"دونوں بھاگے۔۔۔کرن نیچے زمین پر پڑی تھی۔
سفیان نے نیچے بیٹھ گیا ڈرتے ڈرتے کرن کو اٹھانا چاہا اُسکا چہرہ اپنے طرف کیا،اُسکے سر سے خوں به رہا تھا۔
"کرن کرن پلیز اٹھ جاؤ،زوبی اُسے جھنجھوڑ رہی تھی،کرن نے تھوڑا آنکھیں کھول کے زوبی کی طرف دیکھا اور بیہوش ہوگئی۔
سفیان تیزی سے اٹھا۔وہ لڑکا جس کی گاڑی سے کرن کو ٹکر لگا تھا۔اُسکا کالر پکڑ کر کہا تمھیں تو میں بعد میں دیکھ لونگا۔دعا کرو کرن کو کچھ نہ ہو۔اور گاڑی چالوآؤ جلدی ہسپتال چلو۔کرن کو اٹھا کر پیچھے کے سیٹ میں بٹھانے لگا۔اُسکا ہاتھ سیدھا کر رہا تھا تو سفیان نے دیکھا کرن کو جو کانچ کی چوڑیاں پہنی تھی۔وہ ساری ٹوٹ گئی تھی کچھ کانچ کلائی پر چبھ گئی اسلئے وہاں سے بھی خوں رس رہا تھا۔
سارے راستے زوبی روتی رہی۔اور سفیان کے دل میں ایک ڈر بیٹھ گیا،"اگر کرن کو کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔"
ہاسپٹل پھچ کر،کرن کو ڈاکٹر نے چیک کیا۔اور سفیان کو کہا ڈرنے کی کوئی بات نہیں،ایکسیڈنٹ سے بچ گئی وہ چھوٹی موٹی چوٹ ہیں جو گرنے کے وجاسے آئے اور وہ ڈر کے مارے بیہوش ہوگئی۔
یہ سن کر سفیان کے جان میں جان آئی۔
ڈاکٹر کی باتیں سن کر سفیان کی جان میں جان آئی۔
اسنے ماتھے کہ پسینہ ٹشو پیپر سے پوچھا،سردی میں بھی اُسے پسینہ آرہا تھا۔
اور وہ بیچارہ لڑکا ڈرا سہما بیٹھا تھا جس کی گاڑی سے ٹکر لگا تھا،آدھی جان تو اُسکی سفیان کے آنکھوں نے نکال ہے دی تھی،
جو پریشانی سے ادھر اُدھر تهل رہا تھا،اور اس لڑکے کو آنکھیں دیکھا نہ بھی نہیں بھول رہا تھا۔
"اچھا تم جا سکتے ہو۔"سفیان نے لڑکے کو کہا۔
"تھنک یو بھائی جان،آپنے میری جان چھوڑ دی،یہی بات تو میں آپکو بتانا چاہا رہا تھا کب سے کے میری ٹکر اُنھیں نہیں لگی مینے بریک مار دیا تھا ایں وقت پر،و ڈر کے مارے بیہوش ہوگی اور گرنے سے چوٹ لگی۔"
"اچھا زیادہ مت بولو جاؤ اب جاؤ,"سفیان اپنی غلطی چھپا رہا تھا۔
کرن کو ہوش آیا تو زوبی اور سفیان اُسکے پاس گئے۔
کرن اتنی ڈری ہوئی تھی کے زوبی سے گلے لگ کر بہت روئی۔ سفیان نے پانی کا بوتل اُسے پکڑایا،کرن نے روتے ہوئی گلاس ہاتھ سے لیا،پر بولنا نہیں بھولی۔
"یہ سب آپکے وجہ سے ہوا ہے۔اگر میں مار جاتی تو؟"
سفیان حکا بکا رہ گیا کرن کے الزام پر۔اور زوبی کی طرف دیکھا،اور زوبی نے اشارے سے چپ کرنے کو کہا،
اس لیے سفیان بھی چپ ہوگیا۔
"بولیے بولتے کیوں نہیں اگر میں مر جاتی تو؟"
"مری تو نہیں نہ؟مر جاتی تو دیکھا جاتا۔"اٹھو اب۔۔۔و بھی سفیان تھا۔
کرن زوبی کو شکایتی نظروں سے دیکھنے لگی کے دیکھو اپنے بھائی کو۔
راستے میں کھانے کے لیے بھی روکے تو کرن موں پھولا کر بیٹھی رہی کچھ نہیں کھایا۔
"زوبی کھانا بہت اچھا ہے نہ؟مزا آگیا،میں جب بھی آتا ہوں نے یہاں سے ہی کھاتا ہوں کھانا۔"وہ کرن کو چڑھانے کے لیے کہہ رہا تھا۔
گھر پہنچے تو سب کرن کے ماتھے پر پٹی دیکھ کار چونک گئے۔
"بیٹا دھان سے روڈ کراس کرنا تھا نہ،اگر تمکو کچھ ہوجاتا تو میرا کیا ہوتا۔"کرن مان کے گود میں سر رکھ کر لیتی تھی عظمیٰ اُسکے بال سہلاتی جا رہی تھی۔
........................
"ابا جان کرن مجھے بہت اچھی لگتی ہے،میں سوچ رہی ہوں اسامہ عروہ کے ساتھ ساتھ ہمدان اور کرن کی بھی مگنِی ساتھ کر لیتے ہیں آپکا کیا خیال ہے۔"
دادا جان بیٹی کی بات سن کر چونک گئے،
"ایسا نہیں ہوسکتا کرن کی مگنی ہمدان سے نہیں ہوسکتی۔"دادا جان نے روب سے کہا۔
"پر کیوں ابا جان،کیا برائی ہے میرے ہمدان میں؟وہ کرن کو پسند کرنے لگا ہے۔"دادا جان نے بیٹی کی بات آدھے میں کاٹ دی۔
"دیکھو بیٹی،ہمدان کو کہو اپنے قدم یہاں ہی روک دے۔کرن کیسی اور کی امانت ہے،کرن کی نسبت پہلے سے ہی میں طے کر چکا ہوں۔"دادا جان اٹھنے لگے۔
"پر ابا جان کیس سے؟مجھے کیسی نے بتانا ضروری نہیں سمجھا؟وہ رونے جیسے ہوگئی۔بیٹے کی خواہش جانتی تھی۔
"کیسی کو نہیں پتہ سوائے میرے۔"دادا جان نے کہا
"مگر کیس سے؟
"سفیان"دادا جان کہہ کر وہاں سے چلے گئے۔
جب کے پھوپھو کے موں سے سرگوشی میں نکلا سفیان؟؟؟؟
................................
پھوپھو دادا جان کے کمرے سے آئی تو اُنکا موں اترا ہوا تھا۔جو سب نے نوٹ کیا۔
کیا ہوا تمھارا موں کیوں اترا ہوا ہے؟ہاجرہ نے پوچھا۔
"آپ لوگوں نے مجھے گیر سمجھا مُجھسے اتنی بڑی بات چھپائی۔"
"کونسی بات؟لاؤنج میں بیٹھے سب پھوپھو اور ہاجرہ کے طرف متوجہ ہوئے۔
"آج میں نے کرن کو بابا سے ہمدان کے لیے مانگا،پر بابا نے کہا کرن کی نسبت پہلے سے طے ہے سفیان کے ساتھ۔"پھوپھو نے بم پھوڑا۔
سب کے موں سے ایک ساتھ کوئی نہ کوئی لفظ ادا ہوا،
کرن نے جھٹکے سے سفیان کے طرف دیکھا،سفیان نے بھی اُسے دیکھ کر کندھے اُچکائے جیسے کہہ رہا ہو مجھے کچھ نہیں پتہ۔
"ایسی تو کوئی بات نہیں آپکو غلط فہمی ہوئی ہے۔آسیہ نے کہا۔
"کیسی کو کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔کرن کی نسبت میں نے طے کی ہے سفیان سے اگر کیسکو کوئی عتراض ہے تو مجھے بتا دے؟"دادا جان نے کہا۔
"نہیں ابا ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔اپنے گھر کی بچی ہے۔"سفیان کے ابا نے کہا،تو ہاجرہ بیبی شوہر کو دیکھ کر رہ گئی۔دادا جان وہاں سے چلے گئے۔سب لوگ ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اُن میں کچھ لوگ خوش تھے کچھ پریشان تو کچھ حیران۔۔۔۔
دادا جان کے جاتے ہی کرن سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
اور سفیان گرنے کے انداز میں صوفے پر ڈھ گیا۔
جبکہ زوبی اسامہ بہت خوش تھے۔ہمدان گاڑی کی چابی اٹھا کر وہاں سے نکل گیا،جیسے جاتے ہوئے سفیان نے غور سے دیکھا۔
"کیا مصیبت ہے۔"کرن کہہ کر کمرے میں چلی گئی۔عظمیٰ اُسکے پیچھے پیچھے گئی۔
.............................
"امی یہ اچانک دادا جان کو کیا سوجھی؟میں ہرگز سفیان سے شادی نہیں کرونگی اس سے تو اچھا ہے میں ہمدان سے شادی کروں۔کرن غصے میں ادھر اُدھر چکرا رہی تھی۔
"بیٹا بیٹھ جاؤ آرام سے۔دیکھو تم كسیکو پسند کرتی نہیں ہو۔
شادی بھی آج نہیں تو کل کرنی ہی ہے۔تو سفیان میں کیا برائی ہے؟مان نے پیار سے سمجھنا چاہا۔
"امی اُس میں اچھائی بھی کوئی نہیں،ہر وقت جھگڑتا ہے مُجھسے بلا وجہ کے روک ٹوک، ایسے کپڑے مت پھینک،باہر مت نکلو،اس سے بات مت کرو ،ابھی سے یہ حال ہے شادی کے بعد تو اُسے سرٹیفیٹ مل جائیگا،میرا جینا عذاب کر دیگا۔"
"بیٹا سمجھنے کی کوشش کرو،"
"نہیں میں خود دادا جاں کو منع کر دونگی۔"وہ تیزی سے اٹھی اور سیدھا دادا جان کے کمرے کے طرف گئی۔
دروازہ کھولنے ہی و الی تھی کے اندر سے آتے باتوں کے آواز سے رُک گئی۔
یہ دادا جاں اور سفیان کی آواز تھے۔
"مگر دادا جاں یہ ممکن نہیں ہے۔"
"سوفی یہ سلیمان کی آخری خواہش تھی۔اسنے مُجھسے جاتے جاتے کہا تھا ابا جاں کرن اور علی کا خاص خیال رکھنا،اور میری خواہش ہے کرن کی شادی آپ سفیان سے کردیں،میں نہیں چاہتا کرن گیروں میں جائے جانے اُسکے ساتھ کیسا سلوک ہو،اور اتنے سال وہ آپ سب سے دور رہیں اب وہ ہمیشہ ہی اپنوں کے بیچ رہے۔اور مجھے سفیان بہت پسند ہے۔"
دادا جان کے الفاظ تھی کے ہتھوڑے کرن کو اپنا دماغ شال ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا۔وہ وہیں سے پلٹ کر واپس جانے لگی تھکے تھکے قدموں کے ساتھ۔
اُسکے آنکھوں سے آنسوؤں جاری تھے۔ باپ کی آخری خواہش سن کر،
آخری خواہش کی بھی تو کیا کی۔سفیان؟؟؟
پر سفیان ہی کیوں ابو؟
اگر آپ چاہتے تھے میں گھر میں رہوں تو اسامہ بھی تو تھا۔بات جڑے رہنے کی تھی تو فرقان ہمدان بھی تو تھے۔
ایک سفیان ہی ملا آپکو؟
جو مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا،میرے ہر کام میں کیڑے نکلتا ہے،بلہ وجہ روک ٹوک کرتا ہے،میں جانتی ہو وہ مجھے پسند نہیں کرتا۔نفرت کرتا ہے مُجھسے۔
مانا کے اُسکی شخصیت میں ایک عجیب سحر ہے۔مقابل کو چاروں شانے چت کرنے کا فن جانتا ہے۔پڑھا لکھا،پیسے والا،ہر لڑکی کو یہی تو چاہیے۔ پر کرن فاروقی کو یہ سب نہیں چاہیے۔
پر اب میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں رہا دادا جاں آپکے آخری خواہش سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔اور نہ ہی میں،آپ جانتے ہیں میں آپسے کتنی محبت کرتی ہوں۔آپکے خاطر میں سفیان نامی زہر کا گھونٹ بھی بھرنے کو تیار ہوں۔
کرن اوندھے موں بیڈ پر لیٹ کر یہ سوچ رہی تھی۔
امی کی آواز آئی۔
"کرن۔"کرن اٹھ بیٹھی اور مان کے گلے لگ کر رونے لگی،عظمیٰ اُسکا پیٹھ سہلاتی رہی۔
"امی ابو کی آخری خواہش ہے کہ میں سفیان سے شادی کروں"کرن روتی جارہی تھی۔
...................................
ہاجرہ بیبی اپنے شوہر کے ساتھ بحث میں لگی تھی۔
اپنے کیسے ایک دم سے ہاں کردی کرن کے لیے؟
"کیا برائی ہے کرن میں بیگم؟
"بات برائی کی نہیں پر ایسے اچانک بیٹھے بٹھائے ابا جی کو کیا سوجھا،میں نے بھی کچھ خواب دیکھے اپنے بیٹے کے لیے۔"عظمیٰ بُرا موں بنا کے بولی۔
"بیگم تو خواب یہاں بھی پورے ہوسکتے ہیں۔اور جب سفیان کو کوئی عتراض نہیں تو ہم کوں ہوئے ہیں اعتراض کرنے والے۔"
ہاجرہ بیبی چپ ہوگئی اب چاہیے وہ جتنا بولتی انکی کوئی نہیں سنتا۔نہ کوئی ابا جاں کے فیصلے کے خلاف جا سکتا تھا۔
ہاجرہ بیبی سفیان کے کمرے میں گئی دروازہ نوک کرکے اندر داخل ہوئی،
"امی آجائیں۔وہ جو موبائل میں مصروف تھا موبائل ایک طرف رکھ کر مان کے طرف متوجہ ہوا۔
"بیٹا تمسے کچھ بات کرنی تھی۔"
"جی بولیں امی۔"
"بیٹا ابا جاں کے فیصلے سے تم خوش ہو کے نہیں۔کرن اور تمہاری مگنی یوں اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی سارے فیصلے ہی اچانک ہوتے ہیں"۔سفیان حس کر بولا۔
"بیٹا تم خوش تو ہو؟آخر تمہاری بھی تو زندگی ہے۔تمہاری کوئی پسند بھی ہوگی۔شادی کے حوالے سے کتنے خواب ہونگے۔۔۔۔"
"امی آپ پریشان نہ ہوں۔آپ بس دعا کریں۔جو فیصلے بڑے کرتے ہیں،درسلا وہی پائیدار ہوتے ہیں۔
میں خوش ہوں امی آپ بے فکر رہیں۔
ہاجرہ بیبی جب سفیان کے کمرے سے نکل رہی تھی تو کافی مطمئن تھی سوفی نے اپنی باتوں سے اُنھیں مطمئن کر دیا تھا۔
پھر اگلے صبح دادا جاں نے اعلان کردیا کے مگنی کے جگہ سیدھا نکاح سادگی سے کردیا جائیگا۔اسامہ کا عروہ سے اور سفیان کا کرن سے۔رخصتی بعد میں ہوگی۔
لیکن ابا جی مگنی سے اچانک نکاح؟سفیان کے والد بولے۔
"ہاں بیٹا مگنِی کی اسلام میں کوئی شرعی حثیت نہیں ہے۔نکاح سے بچے مضبوط بندھن میں بندھ جائیںگے،مگنی تو آئے دن ٹوٹتے ہیں۔اس لیے میرا فیصلہ ہے سیدھا نکاح ہی کیا جائے،"
کرن کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہونے لگا۔اُس نے سفیان کی طرف دیکھا وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔جیسے اُسکے نہیں کیسی اور کے نکاح کی بات ہورہی ہو۔
"کیسا سرد مزاج ہے،سڑیل،روکھا پیکھا،کیسے اس کے ساتھ نبھیگی۔ابو آپ نے کیسی مشکل میں ڈال دیا مجھے۔"کرن اپنے سوچوں میں گم تھی۔
"لو جی کھو گئی خیالوں میں،جانے کیا کیا منصوبے بنا رہیں ہوگی نکاح سے بچنے کے لیے۔"سوفی دادا جان کے آواز پر سفیان چونک گیا۔"جی دادا جاں"
"میرے ساتھ آؤ کچھ باتیں کرنی ہیں۔"سفیان دادا کے پیچھے چلا گیا۔
"ہمم کیسے دادا جاں کا چیلا بنا پھرتا ہے۔بڑا ہوشیار ہے دادا کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے،اسکا پتہ تو کاٹنا پڑےگا۔"
سب اپنے اپنے پلانگ ڈسکس کرنے لاگے کرن اپنے قدم گھسٹتے ہوئے باہر آکر جھولے پر بیٹھ گئی۔اور ارد گرد کا جائزہ لینے لگی،چاندنی رات تھی پورچ میں تین گاڑیاں کھڑی تھی،آج لائٹ نہیں جل رہی تھی لون کی،شاید کوئی جلانا بھول گیا تھا،اسنے شال اپنے گرد اچھے سے اوڑھ کیوں کے بہت سردی تھی۔چاۓ کے بڑی طلب ہورہی ہے پر اندر جانے کا بھی دل نہیں کر رہا۔کرن خود سے مخاطب ہوئے،
لونج کا دروازہ کھولنے کی آواز آئی سفیان باہر نکلا،سیدھا جا کر ساری لائٹس جلائے سارے لون میں روشنی بکھر گئی۔سفیان کو جھولے پر کرن نظر آئی تو اُسکے جانب آگیا۔
کرن نے بھی سفیان کو اپنے جانب آتے دیکھا۔وہ جھولے سے اٹھنے لگی۔
"بیٹھ جاؤ مجھے تمسے کچھ بات کرنی ہے۔"کرن فرمانبردار بچوں کی طرح جھولے اور بیٹھ گئی۔
"دیکھو کرن بات کرتا ہوں میں سیدھی۔تمہیں اگر کوئی عتراض ہے نکاح پر تو بتا دو،میں جانتا ہوں تم مجھے پسند نہیں کرتی،ہو سکتا ہے کیسی اور کو پسند کرتی ہو،یہ نہیں بھی کرتی ہو۔ تو آج ہی بتا دو۔
پہلے تو مگنی کی بات ہوئی تھی تو میں نے سوچا چلو ابھی دادا جاں کی طبیعت ٹھیک نہیں ہم چپ چاپ مگنی کر لیتے ہیں،مگنی کا کیا ہے ٹوٹ بھی سکتا ہے۔
پر دادا جان بھی ہمرے دادا ہیں،
اُنہونے الٹی چال چلی،
اب میں تمہیں بتا رہا ہوں۔انکار کرنا ہے تو بتا دو مجھے میں سارا الزام خود پر لے لونگا،پر ایک بات میری یاد رکھنا نکاح کے بعد کیسی غلطی کی گنجائش نہیں ہوگی،ہمیں ہر حال میں پھر یہ رشتا نبھانا پڑےگا۔کیوں کے یہ ایک مقدس بندھن ہے۔اور مجھے سخت نفرت ہے آن لوگوں سے جو نکاح کو مذاق سمجھاتے ہیں۔"
سفیان اپنی بات مکمل کر کر کرن کے طرف دیکھنے لگا۔جسکو آج بھی وہی شال اوڑھ ہوا تھا جو اس دین ٹرین میں اوڑھ تھا. اور لائٹ پڑنے پر شال کے شیشوں کا عکس سارے لان میں جاگ ماگا رہا تھا۔
"مجھے کوئی عتراض نہیں۔"کرن اتنا کہہ کر اپنا نچلا ہونٹ داتوں سے کاٹنے لگی،سر ہنوز نیچے جھکا ہوا تھا۔
اُسکے جواب پر سفیان حیران رہ گیا۔اُسے لگ رہا تھا کرن دھڑ سے انکار کر دیگی۔
"سفیان تھوڑا کرن کے قریب آکر اُسے انگلی سے تمبھی کرنے لگا،
"کرن نکاح کے بعد میں کوئی غلطی برداشت نہیں کرونگا یاد رکھنا۔نہ میں تمہیں طلاق وغیرہ دونگا۔ابھی تمھارے لیے آپشن رکھا ہے،بعد میں یہ آپشن بھی نہیں ہوگا۔"کہتا سفیان اندر جانے لگا۔
پھر واپس مڑ کر کرن سے کہنے لگا،
"اب اندر آجاؤ بہت سردی ہے بیمار پڑ جاؤ گی۔"کہتا اندر چلا گیا۔
"اچھا ہے بیمار ہوجاؤں مر جاؤں تمہاری دھمکیوں سے جان چھوٹے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوبی کرن کو اندر لاؤ بیمار پڑ جائیگی۔
"اوہو بھائی ابھی سے کرن کی پروا کرنے لگے ہیں"۔زوبی نے معائنے خیزی سے کہا۔
"میں سبکی پروا کرتا ہوں۔"سفیان صوفے پر بیٹھ تے ہوئے بولا۔
"اور چاۓ بھی پلا دو۔"
"اچھا ہے بھائی آپکی شادی ہوجائے تو آپکو چاۓ پلانے والی آجائے،یہ وقت بے وقت آپکے چاۓ سے میں آجز آگئی ہوں۔"زوبی بول رہی تھی کے کرن بھی اندر آتی دکھائی دی۔
"چاۓ تو پھر بھی تمسے بنواؤگا،لوگوں کا کیا پتہ کبھی نمک کبھی مرچ ملاتے ملاتے ایک دن زہر ہی نہ ملا دیں میرے چاۓ میں۔"سوفی نے کرن کو چڑھانے کے لیے فکرا قصہ پر کرن بغیر کچھ کہے کمرے میں چلی گئی۔
اور سفیان کے لیے سوچوں کے نئے در وا کرکے چلی گئی۔
"آخر مسئلہ کیا ہے اسکے ساتھ آج کل چپ چپ ہے۔لگتا ہے کیسی نے زور ڈالا ہے اسے مجھے نکاح پر،کل بات کرونگا چاچی سے۔".
شام آخرکار بدل اُمڈ آئے۔عشا کے بعد بوندا بادی شروع ہوئی جو اب تک جاری تھی۔حالا کے بدل بہت گہرے چھائے ہوئے تھے پر بارش صرف بوندا بادی تک ہی محدود تھی۔کرن نے اپنی چاۓ کا آخری گھونٹ بھرا اور پیالي ایک طرف سرکہ دی۔وہ کھڑکی کھولے باہر کا منظر دیکھ رہی تھی۔رات اپنے پر پھیلائے ہوئے تھا پر باھر بلکل سناٹا تھا۔ کیوں کے گاؤں کے لوگ جلدی سو جاتے تھے۔اور صبح فجر کے اذان سے بھی بہت پہلے آٹھ کر اپنے کام کاج میں لگ جاتے۔کرن سوچنے لگی یہی بارش شہر میں ہوتی تھی تو کیسے لوگ گھروں سے باہر نکل آتے گھومنے جاتے،ایک رونق لگی ہوتی تھی۔ہم بھی تھوڑی بوندا بادی دیکھ کار فوراً ابو امی کے ساتھ گھومنے جاتے کھاتے پیتے بہت انجوائے کرتے تھے۔پر وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔اُسکے آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے،جب بھی ابو کا نام آتا ایسے ہی اُسکی آنکھیں بھیگ جاتی بات بے بات۔
اب کل میرا نکاح ہے ابو،پر آپ نہیں،آپ اتنے جلدی چلے گئے سب بہن بھائیوں سے چھوٹے تھے آپ تو یہ آپکی جانے کی عمر تو نہیں تھی۔کاش آپ ہوتے جب میں نکاح نامے پر دستخط کرتی آپکی طرف دیکھ کر۔۔۔۔۔
آپ نہیں پر میں آپکے پسند کے لڑکے سے شادی کر رہی ہوں،ہلا کے مجھے وہ اچھا نہیں لگتا۔پر میں دیکھنا چاہتی ہوں اُس سفیان نامی شخس میں آپنے ایسا کیا دیکھا جو اپنی بیٹی کے لیے پسند کر گئے۔
کرن کھڑکی بند کر کے پانی تلاشنے لگی،پانی کا جاگ خالی تھا،وہ نیچے گئی پانی لینے،تو کچن میں پہلے ہی خٹ پٹ محسوس ہوئی کرن ڈرتے ڈرتے کچن میں جھا کنے لگی تو سفیان پہلے سے کھڑا چاۓ بنا رہا تھا،کرن واپس جانا ہی چاہتی تھی دبے پاؤں کے سفیان نے دیکھ لیا،نہ چار اُسے اندر آنا پڑا۔
کرن پانی بھر رہی تھی سفیان کے جانب اُسکی پشت تھی،
چاۓ پیوگی؟سفیان نے کہا۔
"نہیں،میں پی چُکی تھوڑی دیر پہلے،"
"اچھا ایسا نہیں ہوا ایک کپ مجھے بھی دے دیتی،سفیان ہاتھ باندھ کر مسکراتے ہوئے اُسے دیکھ کر کہنے لگا۔
"اچھا وہ کیس خوشی میں؟میں نے آپکا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے؟کرن تپ گئی اُسکی بات پر۔
وہ کچن سے نکل رہی تھی کے سفیان راستے میں کھڑا ہوگیا۔
"ہٹو میرے راستے سے کیا بدتمیزی ہے؟کرن اُسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولی جو لال ہوکے رونے کی چغلی کھا رہے تھے۔
"تمہاری آنکھیں اتنی لال کیوں ہیں،کل ہمارا نکاح ہے اس خوشی سے نیند نہیں آرہی کیا؟سفیان ڈھیٹ بنا کھڑا رہا۔
کرن نے دیکھا یہ ہلے گا نہیں۔کرن اُسے دھکا دے کر بھاگ گئی۔سفیان جو اس کی امید نہیں رکھتا تھا ہڑبڑا گیا۔اور اونچی آواز میں ہنسنے لگا۔
"لو جی چائے بھی ٹھنڈے ہوگئی،پھر سے گرم کرنی پڑےگی۔"
............................
اٹھا جاؤ کرن ناشتا کرلو پھر پارلر سے بھی ٹائم لیا ہے،
زوبی اُسے اٹھا رہی تھی۔
"یار میں دو بجے سوئی ہوں،ابھی تو سات بجے ہیں پلز سونے دو۔"کرن کمبل موں تک لے گئی۔
"یار کیسی لڑکی ہو؟آج تمھارا نکاح ہے۔عروہ کو دیکھو صبح سے جاگ کر تیاریوں میں لگ گئی۔
"نکاح ہی تو ہے کونسا رخصتی ہے۔کرن کی زبان پھسل گئی ایک دم زبان دانتوں تلے دبا دیا۔
کہو تو رخصتی بھی آج ہی کروا دیتے ہیں کہتی ہوں بھائی سے۔
"خدا کے واسطے چپ کرو۔خبردار جو کسی سے کچھ کہا۔کرن اٹھ نے لگی
افف بوری پھسی اس زوبی سے اب اسکا موں نہیں رکےگا۔بڑبڑاتی ہوئی واشروم جانے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرا لان سجا دیاگیا کرسیاں بیچھا دی گئی جہاں بچے گاؤں کے شوق سے بیٹھے تھے۔
کرن عروہ بھی شہر سے پارلر سے تیار ہوکے آئے۔ عروہ نے لونگ بھاری گولڈن مروں ڈریس جب کے کرن نے پنک ڈریس جس پر رنگ با رنگی کڑھائی کی ہوئی تھی پہیے ہوئے تھے۔دونوں بہت اچھے لگ رہے تھے۔
عروہ ہر وقت میکپ میں ہی رہتی تھی اور کرن سادہ،اس لیے سبکی توجہ کا مرکز کرن تھی جو بہت پیاری لگ رہی تھی۔
نکاح ہوگیا مبارک سلامت کا شور ہوا۔عروہ اسامہ کو ساتھ بٹھایا گیا۔
سفیان نے سفید قمیض شلوار کے ساتھ اجرک پہنا ہوا تھا جو اس پر بہت جچ رہا تھا۔دونوں کے جوڑے بہت اچھے لگ رہے تھے۔
فنکشن ختم ہوا سب اپنے اپنے گھر گئے۔کرن کپڑے تبدیل کر کے لونج میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔سب تھک کر اپنے اپنے کمروں میں گئے۔کرن سر آنکھیں موندے سر کو انگلیوں سے دبا رہی تھی۔
"چاۓ"سفیان کے آواز پر چونک کر آنکھیں کھلی۔
سفیان کپ پکڑ کر کھڑا تھا۔جیسے کرن نے نہیں لیا۔تو اسنے ٹیبل پر رکھ دیا۔
چاۓ پی لو سر درد ٹھیک ہوجائےگا،اپنے لیے بنا رہا تھا سوچا اپنی نئی نویلی منہوکا کو بھی چاۓ پیلا دوں۔نکاح مبارک ہو۔سفیان اُسے چڑھنے لگا۔
"پہلے ہی میرے سر میں شدید درد ہے میرا دماغ خراب مت کرو۔کرن سفیان کے طرف دیکھ کار بولی۔
سفیان نے دیکھا اُسکے چہرے پر اب بھی میکپ کے نشان تھے بالوں کا ہیئر سٹائل ویسے ہی بنا ہوا تھا۔اب بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی،سفیان کو ایک عجیب احساس گھیر گیا نئے نئے رشتے کا وہ سیدھا دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوئی،سفیان اپنے فلنگز چھپاتا اندر چلا گیا۔کرن نے بھی کپ اٹھا کر چاۓ پینے لگی۔سفیان نے دیوار کے اونٹ سے اُسے چاۓ پیتے دیکھا اور حس کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔
منت منت
رن صبح اٹھی آنکھ کھولتے ہی اپنے ہاتھوں پر نظرپڑی جہاں مہندی لگی تھی۔وہ مہندی دیکھ رہیں تھی اُسکی نظر سفیان کے نام پر پڑی جو زوبیہ نے لکھی تھی۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا اب زندگی کیسی ہوگی۔اب تو ایک گھر میں رہتے ہوئی یہ شخص مجھے بہت تنگ کریگا۔پہلے ہی روک ٹوک سے باز نہیں آتا تھا اب تو سانس لینے بھی نہیں دیگا۔افف کیا کروں کہاں جاؤں؟کرن اپنی پریشانی میں تھی کے امی پر نظر گئی جو دروازے پر کھڑی اُسے ہی تک رہی تھی۔
"امی آجائیں کیا سوچ رہی ہیں۔؟کرن نے بال جوڑے میں قید کرتے ہوئے کہا۔
"تمہیں دیکھ رہی تھی سوچوں میں تو تم گم تھی۔عظمیٰ کرن کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔پیچھے سے علی آیا۔
"آپی مہندی کتنی اچھی ہے آپکی،علی بار بر مہندی دیکھ رہا تھا۔
ہاں بیٹا اللہ میری بچی کے نصیب بھی اچھے کرے عظمیٰ کرن کے ہاتھ چومتے ہوئے بولی۔
کرن میں آج بہت خوش ہوں تم محفوظ ہاتھوں میں چلی گئی، اگر اب مجھے کچھ ہو بھی جائے تو ڈر نہیں سفیان ہے تمھارے پاس نکاح ہوگیا تمھارا میں نے شکرانے کے نفل پڑھے۔
"امی آپکو سفیان اچھا لگتا ہے؟کرن نے مان سے سوال کیا۔
ہاں بیٹا سفیان مجھے بہت پسند ہے اب تو میں تم دونوں کے لیے بہت خوش ہوں۔زوبی اندر آئی۔
"لگتا ہے غلط وقت پر آگئی۔ماں بیٹی کی رازو نیاز چل رہی تھی۔زوبی ہستے ہوئے بولی۔
نہیں بیٹا کوئی رازوں نیاز نہیں تم آؤ بیٹھو ادھر۔
نہیں چاچی میں تو اپنی نئی بھابھی کو جاگنے آئی تھی۔آج پہلی صبح ہے مسز سفیان آفندی کی،تو کیسا لگ رہا ہے،زوبی مثنوی مائک ہاتھوں سے بنا کر کرن کے آگے کرنے لگی۔
تمہیں تو مجھے جاگانے کا ویسے ہی کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے ہوتا ہے،کرن موڈ خراب کر کے اٹھنے لگی،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیچے گئی تو وہاں سب پہلے سے ناشتا کرنے میں مصروف تھے اج ایک تو چھوٹی کا دن تھا سب گھر پر تھے۔کرن سلام کرکے دستر خان پر بیٹھ گئی،سفیان نے کرن کو غور سے دیکھا وہی شال سر پر اوڑھا ہوا تھا دھول دلایا چہرا لیے بالوں کے لٹیں ادھر ادر اُڑ رہی تھی ناشتے میں خود کو مصروف دیکھا رہی تھی آنکھیں نیچے کیے ہوئے۔
کرن نے دو تین بار سر اوپر اٹھایا سفیان کو خود کو تکتا پا کر سر نیچے کیا اور اٹھنے لگی۔
"کیا ہوا بیٹا کچھ کھا لو کھایا تو کچھ نہیں ناشتا ویسے ہی پڑا ہے تمہارا۔
بھوک نہیں دادا جاں۔"
کرن سیدھا کچن میں آئی اپنے لیے ناشتا بنانے لگی،اور ساتھ بڑبڑاتی جا رہی تھی،اتنی بھوک لگ رہیں تھی رات کو بھی کچھ نہیں کھایا بے۔۔۔
"تو کر لیتی نہ ناشتا تمنے تو کہا بھوک نہیں ہے۔اب اپنے لیے الگ سے ناشتا بنایا جا رہا ہے۔سفیان بھی بن بولا ئے بادل کی طرح آ جاتا تھا۔
"کرن آملیٹ سامنے رکھ کر پراٹھے جو پہلے سے پکے پڑے تھے ایک پراٹھا اٹھا کر کچن کے ہی کُرسی پر بیٹھ کر ناشتا کرنے لگی۔
"اپنے کھانے دیا ناشتا؟کرن نے بولا
"اب میں نے کیا کردیا۔جو تمنے ناشتا نہیں کیا بولو؟سفیان لڑاکا عورتوں کی طرح مقابلے بازی پر آگیا۔
"آپ جو ایسے بے شرمو کی طرح مجھے گھور رہے تھے۔کیسے کرتی میں ناشتا۔کرن مو ن پھٹ بھی تھی۔
اچھا تو آپکا بھی سارا دھان مجھ پر تھا۔
"جی نہیں میں تو ناشتا کرنے آئی تھی۔آپکو شرم نہیں دادا جان چچا چاچی سب بیٹھے تھے،آپ گھور رہے تھے مجھے"
سفيان کو بہت مزا آرہا تھا اس سے بحث کرنے میں اسے بہانے تھوڑا وقت مل جاتا تھا بات کرنے کا۔
"اچھا تو تمہیں مسئلہ کیس چیز سے ہے سبکے سامنے گھورنے سے ہے یہ میری بے شرمي پر؟
"دونوں پر"کرن ایک نوالہ توڑ کر موں میں ڈالنے لگی۔
تو تمھارے اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں بے شرم نہیں اپنی بیوی کو گھور نہ کوئی گناہ نہیں۔
"کونسی بیوی؟ہمراہی شادی تھوڑی ہوئی ہے۔کرن برتن رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"سفیان اُسکے قریب آ کر کہنے لگا،"شادی اور نکاح ایک ہی بات ہے مسز سفیان آفندی۔ اپنے اس چھوٹے سے دماغ پر ذرا زور ڈالو،سفیان اُسکے سر پر چپت لگا کر بولا
کرن سائڈ سے نکل کر بھاگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لون میں باہر بیٹھے تھے دادا جاں کرن نے سوچا اچھا موقع ہے اپنی بات مان وانے کا۔
دادا جان میں کچھ دنوں کے لیے حیدرآباد جانا چاہتی ہوں گھر کی بہت یاد آرہی ہے میرا امی علی کا بہت سامان بھی وہاں ہے،
"بیٹا جی سامان آپکا مگواتے ہیں فکر کی کیا بات ہے۔"
"بات سامان کی نہیں دادا جاں ہمیں اپنا گھر بہت یاد آرہا ہے بس آپ ہمارے ساتھ چلیے ہم کچھ دِن وہاں رہنا چاہتے ہیں ہماری بہت یادیں ہیں وہاں ۔"سفیان بھی اتا دکھائی دیا،کرن کا موڈ سخت خراب ہوا۔
"اچھا بیٹا جیسے آپکی خوشی سوفی بیٹا تیاری کر لینا کل ہم حیدرآباد جا رہے ہیں۔سفیان نے کرن کے طرف دیکھا۔
کرن کے چہرے کے ہوائی اڈ گئے۔
"پر دادا جانا سفیان کیوں؟انکو یہاں بھی بہت کام کاج ہیں آپ ہیں نہ ہمارے ساتھ۔کرن کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیا بہانہ بنائے۔ وہ جو سفیان سے بچنے کے لیے حیدرآباد بھاگ رہیں تھی دادا جان اُسے ہی ساتھ لا رہے تھے ۔
"نہیں مجھے کوئی خاص کام نہیں،ویسے بھی میرا بھی دل کر رہا ہے کہیں چینج جگہ گھومنے کا چلو آپکا شہر گھوم لیتے ہیں۔دادا جان میں ابھی پیکنگ کرکے آتا ہوں آپکی اور اپنی۔سفیان کرن کو فاتحانہ نظروں سے گھور کر چابی گھومتے ہوئی اندر کے جانب چلا گیا۔
وہ گاڑی میں حیدرآباد جا رہے تھے،کرن کا منہ اترا ہوا تھا۔سارے راستے چپ چپ تھی۔ سفیان گاڑی چلا رہا تھا اور ساتھ ساتھ علی کے ساتھ ہنسی مذاق بھی چل رہا تھا۔بیک ویؤ میرر سے کرن پر بھی وقتاً فا وقتاً نظر ڈالتا جو چپ چاپ چہرے پر دنیا جہاں کی معصومیت سموئے کھڑکی سے سر جوڑے جانے اتنے دلچسپی سے کیا دیکھ رہی تھی۔
گھر پُھچتے ہی چوکیدار نے دروازہ کھولا جو اس گھر کی حفاظت اور صفائی پر معمور تھا۔سلام صاحب۔
وسلام اسلم میاں کیسے ہو؟دادا جان نے پوچھا۔
"میں ٹھیک ہوں صاحب گھر صاف کردیا ہے میں نے صبح آپکا فون آیا تھا نہ سب سیٹ کر دیا۔"اسلم بات کرنے کا بہت شوقین تھا اُسکی زبان کینچی کی طرح چلتی تھی۔
"کرن بیبی کیسی ہیں آپ؟آپ کے بغیر گھر ویران پڑا رہتا ہے آپ لوگ سے ہی رونق ہوتی تھی۔"اسلم اُداس ہوکر کہنے لگا کرن کی بھی آنکھیں نم ہوئی۔
گھر پہنچ کر سفیان نے نوٹ کیا سب بہت اُداس ہوگئے اُن سب کو چچا کے ساتھ گزرا ہوا وقت یاد آرہا تھا گھر کے کونے کونے میں اُن کی یادیں بکھری تھی۔
سفیان اُنکے کیفیت سمجھ گیا دادا جاں کے ساتھ سب ہی اُداس ہوگئے اور اپنے اپنے کمروں میں۔ چلے گئے۔
"اسلم۔۔۔۔۔۔سفیان کی آواز پر اسلم بھاگتا ہوا آیا۔
"اسلم یہ پیسے لو کیسی اچھے سے ہوٹل سے کھانا لا دو،بائک تو ہے نہ تمہارے پاس؟ہاں دودھ بھی لانا سر میں درد ہے چاۓ کی طلب ہورہی ہے۔
"جی صاحب میں ابھی گیا ابھی آیا۔
سفیان لان میں گھومنے لگا اور با غور جائزہ لینے لگا، لان میں سلیمان چچا نے بہت شوق سے قسم قسم کے رنگ با رنگی پھول،پودے اتنے پیار سے لگائے،جب جب وہ گاؤں آتے ہماری زیادہ تر باتیں پھول پودوں لان کے بارے میں ہوتی،ہم دونوں چچا بھتیجا کے اکثر شوق ایک جیسے ہوتے تھے۔لیکن اب لان کی وہ حالات نہیں رہی تھی۔
اسلم کھانا لیا تو سفیان نے اسلم کے ساتھ کچن میں جا کر برتن نکال کر کھانا لگایا اور سب کو کھانے کا کہا سب آئے سوائے کرن کے کرن نے مجھے بھوک نہیں ہے کہہ کر ٹال دیا۔سفیان جانتا تھا وہ اُداس ہے اپنے بابا کے لیے کھانے کے دوران ہلکی بات چیت حسی مذاق سے سب کا دل تو بہلایا سفیان نے پر اُسکا اپنا دل کھانے سے اچاٹ ہوگیا۔
عظمیٰ برتن کچن میں رکھ رہی تھی سفياں بھی اُنکے ساتھ برتن کچن میں رکھوا رہا تھا۔
"چاچی اگر آپکو عتراض نہ ہو تو میں کرن کے لیے اُسکے کمرے میں کھانا لے جا سکتا ہوں؟سفیان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
"ارے اس میں پوچھنے ولی کونسی بات ہے بیٹا تم شوہر ہو کرن کے محرم ہو۔اچھا ہے تم جا کے کھانا کھلاو وہ اپنی باپ کو یاد کرکے بہت اُداس ہے دونوں باپ بیٹی میں بہت زیادہ محبت تھی۔اک پل کے لیے ایک دوسرے سے دور جاتے بھی اُنکا گزرا نہیں ہوتا تھا اب تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"ہاں میں۔ جانتا ہوں اُداس ہے۔اپ کھانا نکال دیں،میں لے جاتا ہوں۔"
"سفیان نے دروازہ نوک کیا،کرن نے کوئی آواز نہیں دی تو سفیان دروازہ کھول کر اندر آگیا،کرن بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر لیٹی تھی۔ کانوں میں ہینڈز فری لگے تھے،
چہرے پر عجیب رنگ آ جا رہے تھے اُداسی کے دُکھ کے اضطراب کے،یقیناَ و کوئی سیڈ سونگ سن رہی تھی۔
سفیان کے آنے کا بھی اُسے پتہ نہ چلا۔سفیان نے آکر کھانا ٹیبل پر رکھا اور کرن کے قریب آ کر اُسکے کانوں سے ہینڈز فری نکالے،کرن ڈر کے مارے اچھل پڑی۔
"آپ؟؟؟؟؟؟
کیا بدتمیزی ہے میری جان نکل دی تھی۔
آپ بنا اجازت میرے روم میں کیسے آئے۔"کرن کے سيلکی بال اُسکے کندھوں سے کچھ نیچے آتے تھے جو اس وقت کھولے تھے۔
میں۔ نے دروازہ نوک کیا تمھارے کانوں میں جب ہینڈز فری لگیں ہیں تو تمہیں کیا سنائی دیگا۔رہی بات اجازت کی تو اب اتنا حق میرے پاس حاصل ہے میں جب چاہیے تمھارے روم میں آسکتا ہوں آخر کو تم میرے نکاح میں ہو۔سفیان بیڈ پر دراز ہو کر لیٹنے لگا۔
کمرہ اچھا سیٹ کیا ہے تم نے،سائڈ سے کرن کی تصویر جو فریم ہو کے پڑی تھی اٹھا کر دیکھنے لگا۔جس میں کرن اپنے بابا کو کیک کھیلا رہی تھی اتنی خوش لگ رہیں تھی اُسکے ڈمپل نمایاں تھے۔اتنا خوش سفیان نے کرن کو کبھی نہیں دیکھا جتنا تصویر میں لگ رہی تھی۔
کرن نے تصویر چھین لی سفیان کے ہاتھ سے،اٹھو باہر جاؤ اب۔"کرن کا بس نہیں چل رہا تھا دھکے دے کر اُسے اپنے کمرے سے نکالے۔
سفیان اٹھ کھڑا ہوا،اچھا میں جاتا ہوں پہلے تم کھانا کھا لو۔
مجھے بھوک نہیں۔
جانتا ہوں میں تم کتنی پیٹو ہو،کہتی ہو بھوک نہیں پھر جاکے کھانا بنانے لگ جاتی ہو۔فلحال گھر میں کچھ نہیں،بھوکی مروگی کھاؤ جلدی پھر میں جاؤنگا۔"سفیان ایک ایک چیز اٹھا کر دیکھ رہا تھا،کرن کا غصّہ بڑھتا جا رہا تھا۔
جو ہی سفیان کے ہاتھ اُسکی ڈائری تک گئے کرن نے تیزی سے آگے بڑھ کر ڈائری اٹھا لی،اور جس تیزی سے اٹھی اُسے تیزی سے واپس بھاگ نہ چاہتی تھی سفیان نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا کرن اُسکے سینے سے آ لگی،نظر اٹھاکر سفیان کو دیکھا اُسکی آنکھوں میں عجیب خمار تھا کرن ڈر گئی۔
چھوڑیں مجھے کرن کے آنسو بہہ کر گالوں پر لڑک گئے۔سفیان نے دوسرے ہاتھ سے اُسکے آنسو صاف کیے اُسکے گال پر ہاتھ پھیرتا رہا۔کرن کے ماتھے پر اپنی محبت کا مہر سبط کیا۔وہ دونوں ایک دوسرے کے اتنے قریب تھے کے سانسوں کی آواز تک سنائی دے رہی تھی۔سفیان اُسکے کان کے قریب اتنا بولا میں جا رہا ہوں کھانا کھا لینا۔کہہ کر تیزی سے باہر کے جانب گیا۔کرن کا دل زور سے دھڑک رہا تھا،اسنے بھاگ کر دروازے پر کنڈی لگا دی۔بے شرم جاھل انسان۔
اُدھر سفیان باہر لان میں آکر ٹہلنے لگا،اسنے خود پر ضبط کیا اور کمرے سے باہر بھاگا کہیں کمزور نہ پڑ جاتا،اور دل میں احد کرنے لگا اب میں کرن کے کمرے میں نہیں جاؤنگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سفیان کی آنکھ دیر سے کھلی سب پہلے ہی جاگ رہے تھے،اُسکی نظر کرن پر پڑی جو اُسے نظرانداز کر کے تصویروں کے البم کھول کر دادا جاں کو دیکھا رہی تھی۔
سوفی آج دیر سے جاگے؟طبیعت تو ٹھیک تھی؟دادا جان نے پوچھا۔
"بس سر میں درد تھا نیند نہیں آرہی تھی دادا جان"
"کرن جاؤ سفیان کے لیے چاۓ ناشتا لگاؤ۔عظمیٰ نے کہا۔
"امی ناشتا پڑا ہے کچن میں خود کھا لینگے،کرن کے روکھی جواب پر جہاں دادا جان کو برا لگا وہاں عظمیٰ بھی اپنی جگہ شرمندہ ہوگئی۔
"کرن بری بات ہے بیٹا شوہر ہے تمھارا جاؤ گرم ناشتا چاۓ دو،دادا جان نے کرن کو تمبھی کی۔
کرن پير پٹختی ہوئی کچن میں آئی،اُسکے پیچھے سفیان آیا کرن نے ٹھنڈا ناشتا اُسکے سامنے رکھ دیا،جو سفیان چپ چاپ کھانے لگا،چاۓ بھی ٹھنڈے رکھ دی،
"ٹھنڈے چاۓ کا بھی اپنا ایک مزا ہوتا ہے"سفیان چاۓ پینے لگا کرن کچن سے باہر چلی گ
کرن نے اپنے سارے دوستوں کو میسیج کردیا تھا کے میں حیدرآباد آگئی ہوں۔اس لیے آج شام اُسکے دوست آرہے تھے امی اور کرن تیاریوں میں لگے تھے۔سفیان کچن میں آکے بیٹھ گیا،جہاں چھوٹا سا گول ٹیبل پڑا ہوتا تھا اور جسکے گرد تین کرسیاں،کچن کافی کشادہ تھا اور ہوادار تھا۔کچن کی کھڑکی باہر لوں کے طرف کھلتی تھی۔
"بیٹا چاۓ پیوگے؟عظمیٰ نے کباب بنا کر فریز کرنے کے لیے رکھے۔ پھر سفیان سے مخاطب ہوئی۔
"ہاں چاچی سچ میں بہت دل کر رہا ہے۔
چاۓ کے لیے تو آپ کو میری محبت پتہ ہے نہ۔"سفیان بہت خوشگوار موڈ میں تھا شاید موسم کا اثر تھا آج موسم بہت اچھا تھا۔
"چاۓ کی تو کرن بھی دیوانی ہے۔اچھا ہے تم دونوں کی پسند ایک جیسی ہے۔"
عظمیٰ نے چاۓ بنا کر سفیان کے سامنے رکھی۔
"شکریہ"کرن بہت مصروف دکھائی دے رہی تھی آ رہی تھی جارہی تھی۔سفیان باہر لوں میں آکر چاۓ پی نے لگا،سفیان نے دیکھا کرن بھاگتی ہوئی آئی گیٹ کھولا جہاں تین چار لڑکیاں نظر آئی اُن سے گلے مل رہی تھی۔غالباً کرن کو میسیج کیا ہوگا گیٹ کھولنے کا،سفیان نے دل میں سوچا۔
"کرن یہ ہینڈسم لڑکا کوں ہے؟اُسکی ایک دوست نے جاتے جاتے پوچھا۔
"کزن ہے میرا"کرن کی آواز سفیان کے سماعت سے ٹکرائیں۔
"ہممم صرف کزن؟"سفیان نے ہلکی آواز میں کہا،اور خالی کپ کچن کی کھڑکی میں رکھ دیا جو لوں کی طرف کھولتا تھا۔
میں بھی اب باہر چلا جاؤں محترمہ کی دوستین آئی ہیں۔دادا جان بھی اپنی وظائف میں لگے ہوئے ہیں۔
سفیان رات کو دیر سے واپس آیا اُسکے ہاتھ میں شوپنگ بیگ تھے۔
عظمیٰ اور کرن tv پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے۔
"بیٹا کہاں گئے تھے۔ اتنی دیر لگا دی۔"عظمیٰ آتے ہی پوچھا،عظمیٰ کی سفیان سے بہت بنتی تھی۔
"ایسے ہی چاچی باہر نکل گیا تھا،اپنے لیے کچھ شوپنگ بھی کرنی تھی۔"
"یہ آپ کے لیے،مجھے لیڈیز کی شوپنگ کا کوئی تجربہ تو نہیں آپ کو جانے کیسا لگے۔"عظمیٰ کی طرف ایک شوپر بڑھا کر بولا۔کرن سب سے لا تعلق بنی بیٹھی تھی۔
یہ تو بہت اچھا ہے ایک نفیس سا گرے کلر کا جوڑا تھا۔بیٹا کیوں تکلف کی؟
"بیٹا بھی بولتی ہیں،تکلف بھی کرتی ہیں۔سفیان کی بات پر کرن کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔
"ہمم بیٹا،فلمی ڈیلوگ کیسے مار رہا ہے۔انڈین فلمیں دیکھتا ہوگا۔"
سفیان نے ایک شاپر چاچی کو دیا اور کرن کے طرف اشارہ کیا کے کرن کے لیے ہے۔عظمیٰ حسنی لگی اور سفیان کو اشارہ دیا کے خود دو کرن کو،سفیان نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی اور کہا آپ دو۔
"کرن یہ سفیان تمھارے لیے لیا ہے کھول کے دیکھو۔عظمیٰ نے کرن کے طرف بڑھایا۔
"مجھے اسکی ضرورت نہیں۔کرن روڈ ہو کر کہا۔
"کرن یہ کیا طریقہ ہے ؟سفیان کتنے پیار سے لیا ہے،اُنہونے خود کھولا تو ایک بلیک کلر کا بہت خوبصورت شال تھا جس پر کلورفل کڑھائی کی ہوئی تھی۔
"دیکھو کرن کتنا پیارا ہے شال ہے۔کرن نے ایک آنکھ سے دیکھا۔
"میرے پاس ہے شال پہلے سے ہی۔"
عظمیٰ بہت شرمندہ ہوئی کرن کی باتوں سے۔
سفیان نے عظمیٰ کی شرمندگی مٹانے کے لیے مذاق میں کہا."ہاں ایک ہی شال ہے ہر وقت پہنے رکھتی ہو اُس نے بور کیا اس لیے میں نے یہ لیا۔"
کرن tv کا ریموٹ سوفے پر پٹخ کر بولی،"میری مرضی ہی میں جو پہنو جو کروں آپ کوں ہوتے ہیں؟آپ اپنے کام سے کم رکھیں میرے معاملے میں نہ پڑا کریں۔"
کرن۔۔۔۔۔۔عظمیٰ آواز دیتی رہی پر کرن بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سفیان بیٹا معاف کرنا،ایسی بدتمیز تو نہیں تھی جانے کیا ہوگیا ہے اسے،میں خبر لیتی ہوں اسکی۔
"نہیں چاچی آپ پریشان نہ ہوں،میں مانا لونگا کرن کو"بُرا تو سفیان کو بھی بہت لگا پر چاچی کی شرمندگی مٹانے کے لیے بولا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان چاچی کے پاس جا رہا تھا دادا جاں نے کیسی کام سے بھیجا تھا۔اندر جا رہا تھا کے چاچی اور کرن کی آوازوں سے وہی رُک گیا۔
"کرن تم حد سے زیادہ بدتمز ہوتی جا رہی ہو۔یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا؟و شوہر ہے تمہارا کتنے پیارا سے تمھارے لیے لیا تھا گفٹ،ایسے کوئی کرتا ہے۔"چاچی کی آواز سے لگ رہا تھا وہ بہت غصے میں ہیں۔ کرن ہنوز ویسے ہی بیٹھی تھی کوئی جواب نہیں دیا۔
"کرن جواب دو میں تمسے بات کر رہا ہوں۔آئندہ اگر تمنے سفیان سے اس لہجے میں بات کی تو مُجھسے بُرا کوئی نہیں ہوگا،یہ سفیان کو شاباش ہے جو تمھارے یہ نخرے برداشت کر رہا ہے اور کوئی ہوتا تو یہں تین لفظ کہہ کر طلاق دے کر روانہ کرتا۔
"اچھا ہے نہ کہ دے تین لفظ میں بھی یہی چاہتی ہوں۔نہیں رہ سکتی میں اُس شخص کے ساتھ مجھے نہیں پسند۔
کرن۔۔۔۔۔۔پسند نہیں تھا تو کیوں کی شادی؟عظمیٰ غصے سے چیخی۔
جذباتی ہوگی تھی یہ سن کر کے ابو کی آخری خواہش تھی کے میں سفیان سے شادی کروں۔
سفیان غصے اور دُکھ کے ملے جلے کیفیت لیے راستے سے ہی لوٹ گیا
ایسا کیا کام آگیا ہے سوفی جو تم یوں اچانک گاؤں جا رہے ہو؟دادا جاں سفیان کے گاؤں جانے کا سن کر پریشان تھے۔
"بس دادا جاں کام آگیا ہے ایک،آپکو بتایا تو تھا میرے دوست رحمان کام کرتا ہے ایک بہت بڑی بیرونی ملک کی کمپنی ہے کب سے مجھے بولا رہا ہے سوچا ایک بار دیکھ آؤں،گاؤں جاکے کچھ دن بعد وہاں سے سیدھا لاہور جاؤنگا۔"
"ایسی بات ہے تو بیٹا ہم بھی چلتے ہیں گاؤں سب۔"
"نہیں دادا جاں آپ لوگ ایک ماہ کے لیے آئے تھے ابھی تو صرف دو ہفتے ہی ہوئے ہونگے،میں وہاں پھچ کر اسامہ کو بھیج دونگا،آپ فکر نہ کریں۔ اچھا اب میں چلتا ہوں پیکنگ بھی کرنی ہے۔"
عظمیٰ بہت اُداس تھی سفیان کے جانے کا سن کر،جب کے کرن بہت خوش تھی کے پندرہ دن سکون سے گزر جائیںگے۔
"کرن میرا تمسے بات کرنے کا دل تو نہیں کر رہا ہے،پر جاؤ سفیان کے کمرے میں اُسکی مدد کرو پیکنگ میں۔"
کرن نے سوچا سفیان تو ویسے ہی جا رہا ہے امی کو بھی راضی کر لوں کل سے مُجھسے بات نہیں کر رہی۔
"اچھا جا رہی ہوں۔پلز آپ ناراض تو نہ ہو مُجھسے میری پیاری امی۔کرن مان کے گلے لگ گئی۔
کرن امی کے کہنے پر آ تو گئی پر دروازے پر کھڑی رہی اندر جانے سے ڈر لگ رہا تھا۔ہمت کر کے دروازہ نوک کیا۔
"آجائیں۔"سفیان نے آواز دی۔
دروازہ آرام سے کھولا سفیان نے دیکھا کرن ہے،اسنے رخ موڑ لیا اور اپنے کام میں لگ گیا،مختلف چیزیں بیگ میں ٹھوستا جا رہا تھا۔
"وہ امی نے کہا میں آپکی مدد کروں پیکنگ میں کرن نے بیگ کو ہاتھ لگا ہی تھا کے سفیان نے جھٹکے سے بیگ سرکہ کردوسری طرف کر لیا،کرن حیرت سے سفیان کو دیکھتی جا رہی تھی۔
"کوئی ضرورت نہیں،میں خود کر لونگا،تمنے پہلے ہی بہت کیا۔چلی جاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔"سفیان کو غصے میں دیکھ کر اُسکی باتیں سن کر کرن حیران رہ گئی۔
"مجھے بھی کوئی شوق نہیں آپکے کام کرنے کا،وہ تو میں امی کے وجہ سے آئی تھی۔اور ایسا کیا کردیا میں نے جو مجھ پر یوں غصّہ ہو رہے ہیں آپ؟
سفیان کرن کے قریب آیا،میں نے تمکو پہلے دِن ہی کہہ دیا تھا کے اگر انکار کرنا ہے تو آج ہی انکار کر دو،نکاح کے بعد میں کوئی بات نہیں سنو گا،اُس وقت کیوں انکار نہیں کیا؟اور اب طلاق کی باتیں کر رہی ہو؟مذاق سمجھ رکھ ہے تمنے شادی اور طلاق کو؟سفیان کی۔ آنکھیں شولا اگل رہی تھی۔کرن کو خوف آیا اُسکی آنکھوں سے۔کرن سمجھ گئی کل ولی باتیں سن لی سفیان نے اُسکی اور امی کی۔
کیسی سنگ دل ہو تم سنا ہے نکاح میں طاقت ہوتی ہے جو دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے۔تم جیسی پتھر دل انسان محبت کے لائق نہیں،میں ہی پاگل تھا جو ایک پاک رشتے میں باندھ کر تم جیسی سنگدل سے محبت کرنے لگا۔
سفیان کو پہلی بار اتنے غصے میں دیکھ کر کرن کی آواز ہی بھی نہیں نکل رہی تھی۔
اب دیکھ کیا رہی ہو چلی جاؤ،تماری یہ خواہش بھی پوری کرونگا ابھی دادا جاں یہ صدمہ نہیں صح پائینگے،جب تک وہ زندہ ہیں تھوڑا انتظار کرنا پڑیگا تمہیں۔
کرن کے آنسو بہنے لگے اُس سے کبھی کسی نے اتنے غصے میں بات نہیں کی تھی وہ چپ چاپ کمرے سے باہر چلی گئی اپنے کمرے میں آکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی،اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیوں رو رہی ہے۔شاید اُسے امید نہیں تھی کے سفیان اُس کے ساتھ اس طرح سے پیش آ سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان چلا گیا تھا۔کرن خوش رہنے کی بہت کوشش کرتی رہی پر اُسکا دل بھی نہیں لگا،اُسے رہ رہ کر سفیان کی باتیں یاد آتی۔
پندرہ دن بھی گزر گئے۔گاؤں جانے کہا بھی دل نہیں کر رہا تھا سفیان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔پر اب یہاں بھی دل نہیں لگ رہا تھا دادا جاں بھی بیچارے بور ہورہے تھے۔ صرف میری وجہ سے یہاں رہ رہیں ہیں۔
گاؤں پھچ کر وہ سر درد کا بہانہ بنا کر کمرے سے سارا دن نہیں نکلی۔
"کیا ہے زوبی میرے سر میں درد ہے یار سونے دو۔"کرن کمبل موں تک لیے جا رہی تھی ۔جیسے زوبی کھینچ رہی تھی۔
"کوئی سر ور درد نہیں ایک مہینہ میں یہاں بور ہوتی رہی تم وہاں مزے کرتی رہی۔اٹھ جاؤ اب شرفت سے۔
"چلو میں اٹھ رہی ہوں تم میرے لیے چاۓ بنا لاؤ۔
"ہاں چاۓ کیا پکوڑے بھی کھلاونگی بس اٹھ جاؤ۔
کرن فریش ہو کر آئی تو زوبی اُسے لوں میں لیے گئی جہاں چاۓ پکوڑے سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
گیٹ کھولا وہاں سے سفیان اندر اتا دکھائی دیا کیسی سے فون پر بات کرتا جا رہا تھا ۔بلو جینز کے ساتھ وائٹ شرٹ پہنے بلیک اسٹائلش جیکٹ پہنے ہلکی شیو کے ساتھ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔یہ شاید بہت دنوں بعد دیکھا تو کرن کو ایسا لگا،جاتے جاتے اک نظر دیکھا کرن کے طرف پھر فون پر بات کرتا ہوا اندر چلا گیا واپسی میں ایک بیگ اپنی گاڑی میں ڈال کر لاہور کے لیے روانہ ہوگیا۔
کرن کا ایک دم ہی سارے منظر سے دل اٹھ گیا،اور اندر چلی گئی،اور سوچنے لگی اُس ایک نظر میں کیا تھا جو میری دل کی ایک بیٹ مس ہوئی۔اُس ایک نظر میں
شکایت شکوے دُکھ دل کا ٹوٹنا،کیا کچھ نہیں تھا۔
وہ مُجھسے بھاگ رہا ہے۔میری وجہ سے چلا گیا۔
اپنے ایک کمرے کے فلیٹ کے ٹیرس پر کھڑا وہ سیگریٹ پی رہا تھا،اور باہر آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا،پر اُسکا دھان کہیں اور تھا۔اُسے گاؤں گئے ہوئے ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا،سگریٹ ختم کر کے پاؤں کے نیچے کرکے مسلہ،اور چاۓ کا مگ اٹھایا،چاۓ پیتے ہوئے بہت سی باتیں یاد آ جاتی،کبھی وہ کرن کے لیے چاۓ بنا رہا ہے،تو کبھی کرن اُسکے چاۓ میں نمک ڈال رہی ہے،کبھی خراب موڈ کے ساتھ چاۓ بنا رہی ہے،جو ہی کرن کا وہ خراب موڈ بنانا اُسے یاد آیا ایک زخمی مسکراہٹ نے اُسکی لبوں کا احاطہ کیا۔
وہ اب دل میں سوچتا جا رہا تھا بلکہ ہر روز سوچتا تھا۔رہ رہ کر اُسے کرن کی وہ باتیں یاد آتی تھیں،جب وہ طلاق کی بات کر رہی تھی،سفیان کو لگا اُسکا دل ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہو کیسی نے،ہر روز یہ بات سوچتے ہوئی اُسکی یہی کیفیت ہوتی تھی۔
کرن اُسے پسند تو شروع سے تھی،پر اُسے احساس تھا کے کرن اُسے پسند نہیں کرتی ہے۔اس لیے وہ خود کو روکے رکھتا،لیکن جب نکاح ہوا تو اُسکا اپنے دل پر اختیار نہیں رہا،اور وہ پسندیدگی محبت میں بدلتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لگا۔
"آجاؤ یار کھانا لے آیا ہوں ٹھنڈا ہو جائیگا۔"رحمان کے آواز پر وہ خیالوں کے دنیا سے نکل آیا۔
رحمان اکثر اُس سے پوچھتا کے کیا بات ہے پریشان رہتے ہو۔پر سفیان کی ایک عادت تھی وہ اپنی گھر کی پرسنل باتیں دوستوں سے شیئر کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن بھی چپ چپ رہتی۔گھر میں زوبی کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھی اُسکے مامون کے بیٹے کے ساتھ۔زوبی سے اب کام کاج نہیں کروایا جاتا۔گاؤں کے رسم کے مطابق وہ ایک مہینہ پہلے ہی بس اپنے کمرے تک محدود ہوگئی تھی۔اور گھر کے لوگوں کے علاوہ اپنا چہرہ بھی کیسی کو نہیں دیکھتا تی تھی۔اُنکے گاؤں میں دلہن کا چہرہ کیسکو نہیں دکھایا جاتا،اُن کے یہاں کہا جاتا تھا کے دلہن اپنا چہرا کیسکو نہ دکھائے اُسے حوریں اپنا حسن دے جاتی ہیں سب سے پہلے دولہا دیکھے۔
اس لیے کرن نے ساری ذمےداریاں سنبھال لی تھی ہاجرہ بیبی بھی بھی خوش تھی کرن سے،وہ سب کا بہت خیال رکھتی انکو کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھی۔
"عظمیٰ تمنے بہت اچھی پرورش کی اپنی بیٹی کی۔"جب ہاجرہ نے ایسا کہا تو عظمیٰ بہت خوش ہوئے اور کرن کی ساس اُس سے اب بہت محبت کرنے لگی تھی اس لیے وہ مطمئن رہنے لگی۔
"سفیان بھی آج شام کو آیگا. ایک ماہ کی چھوٹی کے کر کے آرہا ہی۔"یہ سن کر کرن کےدل کو کچھ ہوا۔وہ سارا کام ختم کر کے شام کو فریش ہو کر بلیک فروک پاجما پہنا اور ساتھ بلیک شال جو سفیان لایا تھا وہ اوڑھ لیا،کے شاید سفیان اس شال کو پہنا دیکھ کر اپنی ناراضگی ختم کرے۔کرن کو عجیب ڈر بھی لگ رہا تھا سفیان سے۔
کرن کچن میں تھی جب سفیان کو گاڑی سے اترتا دیکھا کچن کی کھڑکی سے، کرن کا دل تیزی سے دھڑکنے لگآ،اُسے خوشی بھی ہورہی تھی پر ڈر بھی بہت لگ رہا تھا۔ کرن نے دیکھا آج اُسے بھی بلیک قمیض شلوار پہنے ہوئی تھے۔یہ اتفاق تھا پر کرن سمجھ گئی آج ایک ایک یہ بات نوٹ کرنے والا تھا کے دونوں کو بلیک ڈریس۔۔۔افف
"کرن بیٹا چاۓ بنا لی سوفی آتے ہی چاۓ منگتا ہے۔"ہاجرہ نے پوچھا
"جی چاچی بنا لي۔"
"اچھا تو پھر لے آؤ نا۔"
افف اتنا تو میرے ہاتھ اپنے ایگزم دیتے ہوئے بھی نہیں کانپے جیتنا آج کانپ رہے ہیں۔اور ایسا لگ رہا ہے کیسی لڑکی کے لیے رشتا آتا ہے اور وہ مہمانوں کے سامنے چاۓ لیجاتے ہے اُس کی بھی یہی حالت ہوتی ہوگی،جو آج اپنے شوہر کو چاۓ پیش کرتے ہوئے میری ہو رہی ہے۔یہ اللہ مجھے ہمت دے۔
کرن ٹرے کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی کے اُسکے ہاتھوں کی کپکپاہٹ نظر نہ آئے آرام آرام سے آکر چاۓ سفیان کے سامنے رکھا۔
"اسلام علیکم۔ کرن کے سلام کرنے پر سفیان نے ایک نظر کرن کو دیکھا،"وعلیکم سلام"کہہ کر کوئی نوٹ نہ کرے جلدی میں بات بدل گیا۔
" امی زوبی کہاں ہے؟ "
"اپنے کمرے ہے بیٹا۔
"اچھا میں زوبی سے مل کے آتا ہوں۔سفیان عجلت میں کھڑا ہوگیا۔
"بیٹا چاۓ تو پی لو۔"
"امی ابھی راستے میں پی کر آیا تھا۔ابھی طلب نہیں ہورہی۔سفیان اٹھ کر جانے لگا۔
کرن چاۓ واپس کچن میں لیے آئی اُسکے آنسو بہنے لگے جنہیں جلدی صاف کیا کے کوئی دیکھ نہ لے۔ اور چاۓ سنک میں گرا دی۔
مطلب سفیان صاحب کو اب میری ہاتھ کی چاۓ تک نہیں پینی،مجھے اپنی زندگی میں خاک جگہ دے گا۔اُسکا دل کر رہا تھا یہاں سے چلی جائے کمرہ بند کر کی چھپ کر بیٹھ جائے۔پر ہر دو منٹ بعد اُسکے نام کی پکار گونجتی تھی کبھی دادا جانا کبھی چچا کبھی چاچی امی اسامہ علی سب کو اُس سے کوئی نہ کوئی کام ہوتا۔نوکر چاکر بھی بہت تھی پر کچن کا کام عورتیں خود کرتی تھیں۔
کرن اپنے کمرے میں جا رہی تھی کے پیچھے سے اسامہ بولا
"واہ بھائی واہ دونوں بلیک ڈریس میں یہ اتفاق ہے یاں طے شدہ ہے کے دونوں ایک کلر کا ڈریس پہنے گے"اسامہ نے حس کر کہا۔
چلو میں تم دونوں کی تصویر نکالوں۔اسامہ نے جیب سے موبائل نکلا۔
کرن جلدی سے برتن اٹھا کر جانے لگی۔
روکو کرن بھاگ کہاں رہی ہو۔اسامہ نے آواز دی۔
مجھے بہت کام ہیں۔کرن نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔
پرسفیان نے اُسے دور تک جاتے دیکھ اُسے بھی بلیک کلر کا ڈریس پہنا ہوا تھا اور حیرت سفیان کو ہوئے کرن کو وہی شال اوڑھا ہوا تھا۔
سفیان کے دل میں ایک امید جاگے،پھر خود ہی جھٹک دیا ضرور چاچی نے زبردستی پہنا دیا ہوگا۔
کرن برتن رکھ کر بڑبڑانے لگی جو میری ہاتھ کی چاۓ پینا گوارا نہیں کرتا وہ میرے ساتھ تصویر کیا بنوایگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن روز رات کو کھانے کے بعد ایک گھنٹہ والک کرتی تھی لوں میں،اب بھی وہ ہنڈسفری کانوں میں ڈالے واک کر رہی تھی،اور اپنا ذہن بٹانا چاہتی تھی۔سردی اب اتنی نہیں تھی پر راتیں اب بھی ٹھنڈے تھی۔
اُدھر سفیان لائٹ آف کرکے اپنے کمرے کی کھڑکی سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ یہ باز آنے والی نہیں سردی میں بھی واک کریگی۔ اُسے آئے ہوئے تیسرا دن تھا اُس دِن کے سلام کے بعد اُنکے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی۔
سفیان سوچ رہا تھا۔کتنی تبدیلی آئی تھی۔اس ایک مہینے میں،ہر کسی کی زبان پر کرن کرن تھا۔
اور وہ بغیر ماتھے پر کوئی شکن لائے سب کے کام کرتی جاتی،ساتھ ساتھ سب کے ساتھ وقت بھی گزارتی۔داداجان کے دوائیاں اُنکا پرہیزی کھانا سب وقت پر دیتی۔اسکو سب کا احساس ہے سوائے ایک میرے۔
سفیان کی آنکھیں نم ہوئی۔کرن میں چاہ کر بھی تمسے دست بردار نہیں ہو سکتا۔تم بھلے مجھے خود غرض سمجھ لو۔اگر ہمارا نکاح نہیں ہوتا تو میں چپ رہتا۔پر اب میں طلاق کے حق میں ہرگز نہیں۔کرن کو اندر جاتا دیکھ کر سفیان بھی کھڑکی بند کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوفی بیٹا کرن کو اپنے ساتھ لے جاؤ شوپنگ کروانے اب کم دِن رہ گئے ہیں شادی میں اس نے کوئی شوپنگ نہیں کی۔ایک تو سارا دن لگی رہتی ہے،آرام نہیں اسے،اب تم آئے ہو تو اسے ساتھ لیجاؤ شہر۔کرن تیار رہنا کل جانا سوفی کے ساتھ۔
کرن جو چچا کو دودھ دینے کمرے میں آئی تھی وہاں چچا اور چاچی کے ساتھ پہلے سے ہی سفیان بیٹھا تھا۔
کرن دودھ دے کر جا رہی تھی کے چاچی نے ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنے ساتھ بٹھایا۔
"بیٹا تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ سفیان بھی بیٹھا ہے۔پھر شوپنگ کی بات آئی۔
"چاچی میرے پاس بہت ڈریسز پڑے ہیں وہی پہین لوںگی۔
"کیوں بھائی ہماری بیٹی کیوں پرانے کپڑے پہنے گی۔سفیان کل کرن کو لےجانا جو اسے اچھا لگے لیے کے دینا۔سفیان نے سر ہلایا بس۔ چپ بیٹھا تھا فرمانبردار بچا بن کر۔کرن کو غصّہ آرہا تھا اُس کی فرمانبرداری پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح سب اٹھے تو دادا جاں نے کرن کا پوچھا،
ابا جی کرن کی طبیعت ٹھیک نہیں بخار تھا ساری رات،ابھی جا کے سوئی ہے۔"
"ارے کیا ہوا کل تک تو ٹھیک تھی،
جاگ جائے تو ڈاکٹر کے پاس لیجاتے ہیں۔"
"میرے ساتھ شوپنگ پر نے جانے کے بہانے ہیں کل تک تو بلکل ٹھیک تھی۔سفیان ناشتا کرتا جا رہا تھا اور دل من بولتا جا رہا تھا۔
پھر دادا جاں کے بہت قریبی دوست کے بھائی فوت ہوگئے۔تو گھر کے سب آدمی جنازے میں شامل ہونے گئے۔اور ہاجرہ آسیہ بھی گئے تعزیت کے لیے۔عظمیٰ گھر میں رک گئی زوبی اور کرن کے ساتھ۔
عظمیٰ اک دو بار گئی کرن سو رہی تھی۔پھر اسنے بھی کرن کو جگانا مناسب نہیں سمجھا کے ساری رات جاگتی رہی تھی۔
عظمیٰ نے کھانا بنایا،پھر زوبی کو کھانا دیا دیر تک زوبی کے ساتھ بیٹھی رہی۔اتنے میں بیل بجي،سب واپس آگئے تھے۔رات ہوگئی اُنھیں آتے آتے۔عظمیٰ سب کو کھانا دینے لگی۔
"عظمیٰ کرن کی طبیعت کیسی ہے۔دادا جان نے پوچھا
"ابا جی سو رہی ہے۔
"چاچی تب سے اب تک سو رہی ہے؟سفیان نے ایک دم پوچھا
ہاں بیٹا ساری رات جاگتی رہی تھی میں نے بھی اب نہیں جاگیا کے آرام کرے۔
کچھ کھایا پیا تھا؟
سفیان نے پھر سوال کیا اُسے پریشانی ہونے لگی اچانک کے اتنے گھنٹے سے سو رہی ہے کچھ کھائے پے بغیر۔
نہیں بیٹا۔عظمیٰ نے دیکھا سفیان ایک دم کُرسی پیچھے سرکہ کر تیز تیز چلتا ہوا کرن کے کمرے کے طرف بھاگا۔
سفیان نے کمرے میں قدم رکھا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔اسنے لائٹ آن کیا۔
بھاگتا ہوا کرن کے قریب آیا۔
"کرن کرن سفیان نے دو تین بار پکارا پر کرن نے جواب نہیں دیا،تو سفیان نے اُسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو اتنا تپ رہا تھا سفیان کو محسوس ہوا اُسکا ہاتھ جل گیا ہو۔"کرن کرن"وہ پھر سے اُسکے گال تھپتھپا رہا تھا۔پر کرن سو نہیں رہی تھی بیہوش تھی۔سفیان نے دروازے کے طرف دیکھا جہاں چاچی پریشان کھڑی تھی۔
"چاچی اسامہ کو کہیں جلدی گاڑی نکالے،میں کرن کو لاتا ہوں۔
سب بہت پریشان ہوگئے،سفیان کرن کو اٹھا کر گاڑی میں ڈالنے لگا چاچی بھی ساتھ بیٹھ گئی۔باقی سب کو جانے سے اسامہ نے روک لیا۔
اسامہ گاڑی میں چلاونگا۔سفیان اُس سے چابی لیتے ہوئے بولا۔
اور اتنے تیز گاڑی چلانے لگا،اسامہ نے دو تین بار کہا بھی بھائی دھان سے گاڑی آرام سے چلائیں۔پر سفیان اتنا پریشان تھا کے کیسی کی نہیں سن رہا تھا۔
جیسے ہی ڈاکٹر کے پاس پہنچے جلدی اُسے اندر لے جایا گیا۔
چاچی آپکو پتہ نہیں چلا کے وہ سو رہی ہے کے بے ہوش ہے۔؟اپنے اُسکا بخار بھی چیک نہیں کیا۔ایک تو اتنا بخار اوپر سے کچھ کھایا پیا نہیں بیہوش پڑی تھی۔اتنے لوگوں کے ہوتے ہوئے۔مجھے بھی خیال نہیں آیا۔مجھے لگا معمولی بخار ہے۔سفیان پریشانی سے چکر کاٹ تا جا رہا تھا۔
عظمٰی روئے جا رہی تھی۔بیٹا مجھے پتہ نہیں چلا۔
بس کردو سفیان،وہ پہلے سے ہی بہت پریشان ہے۔اوپر سے تم اُنھیں اور پریشان کر رہے ہو۔
سفیان کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا چپ ہوگیا۔
ڈاکٹر باہر آیا۔ڈاکٹر انکے ساتھ کوں ہے۔
سفیان آگے بڑھا "میں"
آپ کوں ہوتے ہیں مریض کے؟
"میں شوہر ہوں اُسکا۔"
ڈاکٹر کرن کیسی ہے کوئی خطرے کی بات تو نہیں۔سفیان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
خطرے کی بات تو تھی،اتنا زیادہ بخار چڑہ گیا مریضہ کو آپ لوگ کو پتہ نہیں چلا۔اُنکے دماغ میں بخار چڑہ جاتا تو؟
یہ بھی شکر ہے صحیح وقت پر لائے۔اُنکا bp بھی بہت زیادہ لو ہوگیا ہے۔اس لیے بیہوش ہوگئی۔اب کچھ دیر میں ہوش آجائیگا۔پریشان مت ہوں۔
سفیان اندر گیا کرن سو رہی تھی،اُسکے ہاتھ میں ڈرپ لگی تھی۔چہرے پر بلکل زردی چھائے تھی جیسے برسوں کی بیمار ہو۔سفیان کو اپنا دل کاٹتا ہوا محسوس ہوا.
کرن کو ہوش تو آگیا تھا،پر دوائیوں کے زیر اثر سو رہی تھی۔چاچی بھی ساری رات جاگتی رہی۔اسامہ اور سفیان کا فون مسلسل بج رہا تھا۔دادا فیاض ریاض صاحب کبھی زوبی۔
سفیان اسامہ نے انکو آنے سے منع کردیا اور کرن کی خیریت بتا دی پر پھر بھی سب بہت پریشان تھے۔
سفیان کرن کو ہی دیکھ رہا تھا ۔مسلسل تہل رہا تھا باہر کوریڈور میں۔اب اندر روم میں آیا تو بینچ پر بیٹھ گیا۔ وہ سوچ رہا تھا،اور خود کو مسلسل کوس رہا تھا۔کتنے لاپرواہی کی ہمیں نے کرن کا BP
خطرناک حد تک لو ہوگیا تھا۔سفیان نے دیکھا کرن نے نیند میں پُکارا "امی امی"سفیان اور عظمیٰ کرن کے قریب آئے۔
کرن آنکھیں کھلی،اسنے دونوں کو دیکھا اسنے بیٹھنا چاہا پر عظمیٰ نے روک دیا۔
"لیٹی رہو بیٹا۔اب کیسی طبیعت ہے؟عظمیٰ نے اُسکے ماتھے سے بال ہٹا کر بوسا دیا۔اور کرن کا سر اپنے گود میں رکھا۔
"ٹھیک ہوں۔امی پانی پلا دیں۔"کرن کو بہت پیاس محسوس ہورہی تھی۔
سفیان ایک دم اٹھا کرن کے طرف پانی بڑھایا،جیسے کرن نے چپ چپ لیے لیا۔دو گھونٹ بھر کر واپس سفیان کو دیا۔
"کیسی طبیعت ہے اب؟سفیان نے فکرمندی سے پوچھا۔
ٹھیک ہوں۔کرن نے جھکے ہوئے سر کے ساتھ ہی جواب دیا،اُسے بہت کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔
اسی وقت ڈاکٹر راؤنڈ پر آئی۔کرن کا فائل چیک کیا نرس نے bp۔چیک کیا جو ابھی بھی تھوڑا لو تھا۔
"آپکی وائف اب ٹھیک ہے ڈرنے کی کوئی بات نہیں،اگر آپ چاہئیں تو انہیں گھر لے جا سکتے ہیں،اب بھی انکا bp تھوڑا لو ہے،پہلے انہیں کچھ کھلائیں تاکہ انکے جسم میں طاقت آئے۔"مسکرا مسکرا کر ڈاکٹر نے سفیان سے کہا۔
"ڈاکٹر شام تک ہم یہیں رہنا چاہتے ہیں جب تک میری وائف کا bp بھی بلکل صحیح نہیں ہوجاتا،گاؤں سے ہاسپٹل دور ہے اس لیے میں کوئی رسک نہیں لینا چاہتا۔"سفیان بات کرتا ہوا ڈاکٹر کے ساتھ باہر چلا گیا۔
کرن کو حیرت کے سمندر میں چھوڑ گیا،جو سفیان کو "میری وائف"کہتے ہوئے سن کر ایک دم اُسکے چہرے کے طرف دیکھنے لگی،اُسے بہت اچھا لگ رہا تھا سفیان کے موں سے ایسا سن نہ،اور اپنے لیے فکرمند دیکھ کر کرن ایک دم اپنی بیماری بھول گئی ۔اُسے لگا اُسکے جسم میں توانائی آگئی ہو۔یہ سوچوں کا ہی نتیجہ تھا جو کرن کو نہ نیند آتی، نہ بھوک لگتی، سارا دن سفیان کے بارے میں سوچتی پریشان رہتی اسکے رویے سے ڈرتی،ایسے بیمار پڑ گئی۔
شام تک وہ ہاسپٹل میں رہے سفیان بار بار آتا اُسکی طبیعت پوچھتا،بخار چیک کرتا۔جب اُسکا bp نارمل ہوا تو وہ گھر کے لیے روانہ ہوئے۔
گھر پھچ کر سب کرن کے ارد گرد جمع ہوئے،
"میں اب ٹھیک ہوں،آپ سب پریشان نہ ہوں"
کچھ دن کرن کو ہلکا بخار رہا پھر ٹھیک ہوگئی،پر کمزوری تھوڑی ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر سب شادی کی تیاریوں۔ میں لگ گئے۔
کرن بیٹا تیار ہوجاؤ سب شوپنگ پر جا رہے ہیں،ہاجرہ کپڑے تح کرتی جارہی تھی۔
"چاچی میرا بلکل دل نہیں کر رہا۔
پر بیٹا چلنا تو ہے تمنے تو کپڑے بھی نہیں بنوائے اب تک۔عظمیٰ نے کرن سےکہا۔
"امی آپ لوگ لے آئیں گا میرے لیے ریڈی مید کپڑے،میں زوبی کی ساتھ ہوں،میں اُسکے ساتھ وقت گزرنا چاہتی ہوں۔
سب گاڑی میں بیٹھے تو سفیان نے دیکھا کرن نہیں۔
سب بیٹھ گئے امی؟
ہاں بیٹا بس چلو۔
بھائی آپکو جس کا انتظار ہے اُنہونے آنے سے منہ کردیا۔اسامہ کو گھور کر دیکھنے لگا سفیان۔
تم اپنا موں بند رکھو۔امی ابو نے خود کہا تھا کے کرن کی شوپنگ رہتی ہے۔سفیان اپنی شرمندگی مٹانے کے لیے بولا۔
ہاں بیٹا پر نہیں آئی کہنے لگی آپ لوگ ہی لیے آنہ اپنے پسند سے۔عظمیٰ بولی۔
اپلوگ بے فکر ہوجائیں سفیان بھائی خود اپنی پسند سے لینگے کرن کے کپڑے۔اسامہ کو مزا آرہے تھا سفیان کو تنگ کرنے میں۔
سب سفیان کو سارے راستے چھیڑتے اے ایسی حسی مذاق میں پھچ گے بازار،وہاں بھی ہاجرہ نے سفیان کو کہا اپنی پسند کے کپڑے لو،
سفیان ایک بوتیک میں گیا وہاں ایک ریڈ ڈریس پڑا تھا جس پر مروں نگین لگے تھے،اُسے بہت پسند آیا شادی جیسا بھی تھا زیادہ بھاری بھرکم نہیں تھا سوبر ڈریس تھا،اسنے کرن کو بھی ہمیشہ ایسے کپڑے ہی پہنے دیکھے۔اور تین اور جوڑے اسنے اپنی پسند سے لیکر پیک کروائے۔
میں نے کپڑے اپنی پسند سے تو لے لیے پر آپ لوگ میں سے کرن کو کوئی نہیں بتائیگا کے میں نے لیے ہیں یہ کپڑے۔سفیان گاڑی میں بیٹھ کر بولا۔
اچھا بیٹا نہیں بتاینگے ہم تم خود ہی بتانا۔ہاجرہ بیٹے کو خوش دیکھ کر دل ہی دل میں دعائیں کرنے لگی۔
سب پھچ گے سارے شوپنگ بیگز لونج میں ڈھیر کرکے رکھ دیئے۔کرن ایک ایک شاپر کھولتی جا رہی تھی،
میرے کپڑے کہاں ہیں؟
یہ تو آ نہیں رہی تھی یہ کپڑے دیکھنے کی اتنی جلدی مچائی۔اسکی ہمیشہ سے یہی عادت ہے،پھچ کر ہی سارے شوپنگ کھول کر رکھ دیتی ہے،تھکاوٹ بھی اترنے نہیں دیتی۔عظمیٰ کے بات پر سب حسنی لگے۔
چاۓ تو پلائے کوئی سارا دِن بازار کے چکروں میں سر میں درد پڑ گیا۔سفیان نے بولا تو عظمیٰ نے کرن کو اشارہ دیا۔کرن چپ چاپ چاۓ بنانے چلی گئی۔
یہ رہی چاۓ۔اب بتائیں میرے کپڑے کہاں ہیں؟
اسامہ نے کرن کو اشارہ کیا یہ ہیں تمھارے۔
کرن کھولتی گئی اُسے سب بہت پسند آئے۔
واؤ کتنے اچھے کپڑے ہیں کلر بھی کتنے اچھے ہیں،ویسے مجھے آپ لوگ سے امید نہیں تھی کے اتنے اچھے کپڑے لائینگے،یہ ریڈ والا کتنا اچھا ہے۔کرن پر جوش ہوکر دیکھنے لگی۔
سفیان کو حسی آرہی تھی سب معینہ خیزی سے مسکرا رہے تھے۔سفیان چاۓ مو ں سے لگائے اپنی حسی چھپا رہا تھا۔
میں زوبی کو دیکھا کر آتی ہوں،شوپنگ بیگز اٹھا کر زوبی کے پاس چلی گئی۔
"چلو پیسہ وصول"اسامہ سفیان کے طرف دیکھ کر ہاتھ جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا،
سفیان نے کُشن اسامہ کو مارا جیسے اسنے کینچ کر لیا۔
کہیں تو زوبی کی شادی کے ساتھ آپکی بھی رقصتی کروا دیتے ہیں۔وہ میرا مطلب ہے کرن کی،ویسے بھی ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں ہی تو جانا ہے۔
زیادہ فری نہیں ہوتے جارہے تم،آج کل تماری زبان کچھ زیادہ ہی چل رہی ہے لگتا ہے عروہ سے بات کرنی پڑےگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن جھولے میں بیٹھی تھی،ہر سوں چاندنی بکھری ہوئی تھی،گاؤں سے اُسے بہت انسیت ہو گئی تھی،یہاں کے سادہ لوگ،یہاں کی سر سبز زمین باغ،کھیت اور تو اور پیڑ بھی اتنے خوبصورت ہوتے کے کرن جب زوبی عروہ سب کے ساتھ گھومنے گئی تھی تو حیران رہ گئی۔ٹھنڈے ہوا اُسکے بال اڑا رہا تھا،لوں میں لگے رات کی رانی کی خوشبو ہر جگہ پھیلی تھی،کرن بھی بار بر وہ خوشبو اپنے اندر اترتی۔
سفیان کچن میں اپنے لیے چاۓ بنا رہا تھا کھڑکی سے کرن کو باہر بیٹھا دیکھا۔
"یہ لڑکی نہیں سدھرے گي،کتنی بار اُسے کہا رات کو باہر مت بیٹھو،پھر پڑ جائیگی بیمار۔
لونج کا دروازہ کھولا سفیان چاۓ کے دو مگ اٹھتا ہوا جھولے کے قریب آیا۔
ایک مگ کرن کے طرف بڑھایا۔
شکریہ،ویسے آپ بدلہ تو نہیں لے رہے؟کرن نے پوچھا
"کیسا بدلہ میں کچھ سمجھ نہیں۔،
"وہ جو میں نے آپکی چاۓ میں نمک ملائی تھی۔کہیں آپ نے بھی تو کچھ ملیا نہیں؟معصوم سے شکل بنا کر پوچھا۔
"پی کر دیکھو،ویسے تم باز نہیں آئیگی کتنی بار منع کیا اس ٹائم باہر مت نکلو ،بھوت ہوتے ہیں۔سفیان
کو شرارت سوجھی۔
کرن نے ڈر کر ادھر اُدھر دیکھا۔سچ میں بھوت ہیں؟
ہاں اُس پیڑ میں بھوت ہیں۔سفیان نے پیپل کے پیڑ کی طرف اشارہ کیا۔
آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔کرن چاۓ لیکر اندر کے جانب بڑھ گئی،پیچھے سے سفیان کا قيقہا گونجا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زوبی کی مہندی تھی آج،سفیان صبح سے کم میں مگن تھا۔پھوپھو بھی آئی ہوئی تھی۔سفیان کچن میں گیا تو ہمدان کرن کے ساتھ کھڑا کیسی بات پر حس رہا تھا۔
سفیان کا موڈ بہت خراب ہوا ہمدان کی دیکھ کر۔
"امی کہاں ہیں؟سفیان نے خراب موڈ کے ساتھ پوچھا۔
زوبی کے کمرے میں،کوئی کام تھا؟
"امی کو کہا تھا میرے کپڑے استری کروائے،نہیں کروائے اب میں کیا پھنوگا مہمان انے والے ہیں۔سفیان خماخا برہم ہو رہا تھا۔
میں کر دیتی ہوں استری،کونسے کپڑے پہنے گے آپ؟
آؤ تو میں نکل کے دوں۔سفیان کے پیچھے کرن چلی گئی ہمدان بھی باہر نکل گیا۔
یہ لو سفید قمیض شلوار نکل کر دیے کرن کو۔
کرن کپڑے لیے کر جا رہی تھی۔
روکو کرن،سفیان نے پیچھے سے آواز دی جس پر کرن سفیان کے طرف متوجہ ہوئی۔
"مجھے بلکل پسند نہیں کے تم ہمدان سے فری ہو۔مجھے وہ نہیں پسند،کرن کی آنکھوں میں دیکھ کار سفیان بولا
وہ خود آئے تھے،اب ظاہر ہے بات کرینگے تو میں بھی بات کرونگی نہ۔مجھے روڈ بن نہ نہیں آتا۔آپکی طرح۔
میں روڈ ہوں؟وہ کرن کے قریب آیا؟
ہاں آپ بازی اوکات روڈ بھی بن جاتے ہیں خود پسند بھی۔مجھے یہ نہیں پسند وہ نہیں پسند،کبھی دوسروں کی پسند کا بھی خیال رکھا کریں۔
اچھا میں خود پسند بھی ہوں۔بتاؤ تم اپنی پسند میں رکھونگا خیال۔
بتاؤ میں رکھونگا خیال تمہاری پسند کا۔سفیان اُسکے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔کرن ہنوز چپ کھڑی رہی۔
بتاؤ نہ،اتنا تو میں جانتا ہوں تمہاری پسند میں،
میں کہیں شامل نہیں،کیوں ایسا ہی ہے نہ؟سفیان کرن کو ٹٹول رہا تھا۔
"ہاں اگر آپ ایسے سمجھتے ہیں تو ایسا ہی ہے۔اب چھوڑیں میرا راستہ،کرن کی آنکھوں میں پانی آیا۔
ٹھیک ہے پھر چھوڑ رہا ہوں میں تمھارا راستہ،وہ پیچھے ہٹ گیا،جاؤ اب تمھارا راستہ صاف ہے۔سفیان غصے سے جتاتے ہوئے بولا۔
کرن سفیان کے آنکھوں میں دیکھتی رہی،جہاں صرف کرن کو بے اعتباری نظر آئی،سفیان کے کپڑے بیڈ پر پھینک کر وہ روتی ہوئی چلی گئی کمرے سے۔
اور سفیان بیڈ پر بیٹھ کر مٹھی میں اپنے بال پکڑ کر غصے کو قابو کرنے لگا۔
کمرے میں قدم رکھ کر دروازے کو لاک کر کے وہ وہی دروازے سے ٹیک دے کر نیچے بیٹھ گئی۔سر گھٹنوں میں دے کر رونے لگی،کیسا انسان ہے،اسکو میری آنکھوں میں محبت نظر نہیں آتی،میں نے خود کو کتنا بدل لیہ صرف سفیان کے لیے تاکہ میں اُسکی رنگ میں رنگ جاؤں۔عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج رکھتا ہے۔کبھی اتنا مہرباں بن جاتا ہے،کے خود پر رشک آنے لگتا ہے،کبھی اتنا روڈ ہوجاتا ہے،جیسے مجھے پہچانتا ہی نہیں۔رو رو کر جب اُسکے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو موں پر پانی کے چھینٹے مر کر آئینہ دیکھنے لگی،اُسکی آنکھیں اب بھی لال ہو رہی تھی۔اس لیے وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی۔
اُدھر سفیان کا غصّہ اترا تو اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا،اور اُسے یاد آیا کیسے کرن روتی ہوئی کمرے سے چلی گئی،کتنا دل دکھاتا ہوں میں اپنی باتوں سے اُسکا،کیا اتنے عرصے میں،میں اُسے جان نہیں پایا،
اُفف۔۔۔۔ٹیبل کو زور سے دھکا دیا جو زور کی آواز سے ٹیڑھا ہوکر زمین پر گر گیا۔
سفیان۔۔۔درواز نوک ہوا۔
ابو کی آواز سن کر سفیان نے ایک سانس باہر کھینچ کر نکالا۔اور درواز کھولا
جی ابو۔
"بیٹا اب تک ایسے بیٹھے ہو۔کتنے کام رہتے ہیں جلدی تیار ہوکر باہر آجاؤ۔وہ باہر چلے گئے۔
اور سفیان کو جو کپڑے ہاتھ لگے وہی پہین کر باہر بے دیلی سے کام کاج کی نگرانی کرنے لگا۔
ایسا ہی تھا اُسکا مزاج پہلے غصّہ آتا تھا،اور جب غصّہ اترتا تو شرمندگی گھیر لیتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہمان آتے ہی ہونگے بیٹا باہر آؤ نا،ہاجرہ نے کرن کو دیکھا جو زوبی کے ساتھ بیٹھی تھی۔
چاچی میں زوبی کے ساتھ رھونگی۔
بیٹا تم کزن کے ساتھ ساتھ بھابھی بھی ہو نہ زوبی کی سب پوچھیں گے تمھارا شاباش آؤ باہر۔کرن کو نہ چار اٹھنا پڑا۔
سفیان مردانے میں مصروف تھا۔مہندی ویسے بھی عورتوں کا فنکشن ہوتا ہے اور دو تین گھنٹے میں ہی نمٹ جاتا ہے،شادی ولیمے کا فنکشن بڑا ہوتا ہے جس میں سارا دِن اور رات لگتی رونق ہوتی ہے گاؤں میں۔
سفیان کام سے باہر گیا گھر آیا تو ویسے ہی سب بڑے، جلدی سو جاتے تھے کیوں کے سویرے جاگتے تھے۔سفیان زوبی کرن اسامہ ہی تھے جو دیر تک جاگتے تھے،زوبی اپنے کمرے تک محدود ہوگئی تھی۔کرن ضرور اپنے کمرے میں چھپ کر بیٹھی تھی۔اور اسامہ کا یہ وقت موبائل میں گزرتا عروہ کے ساتھ،اب بھی اسامہ اکیلا بیٹھا موبائل میں مصروف تھا اور مسکرائے جا رہا تھا۔
سفیان نے جوتے اُتارے،سوفے سے ٹیک لگا کر آنکھیں موندلیں،کچھ دیر ایسے ہی گزرا،پھر زوبی کا خیال آنے پر اٹھ کھڑا ہوا،زوبی کے ساتھ بھی وقت نہیں گزار پا تا،کچھ دِن کی مہمان ہے۔وہ زوبی کے کمرے کے سمیت گیا۔
جو ہی اسنے نوک کرنے کے لیے ہاتھ اٹھایا،اندر سے کرن کی آواز آئی جس پر اُسکے بڑھتے ہاتھ رُک گئے۔
"مجھے کیا ہوگا؟میں بلکل ٹھیک ہوں،تمہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے زوبی۔"کرن کی آواز اُسے روکنے پر مجبور کر گئی۔
"کرن میری بہن،اتنے عرصے میں،اتنا تو میں تمہیں جان گئی ہوں۔ضرور کوئی بات ہوئی ہے آنکھیں دیکھو اپنی،اور چہرا دیکھو۔کیا پریشانی ہے؟
کچھ نہیں یار بس تمھارے جانے کے دِن قریب آرہے ہیں میرا دل اُداس ہو رہا ہے۔کرن نے بات گول کردی۔
"بات مت گھماؤ کرن۔بھائی نے پھر کچھ کہا؟ضرور اُنہونے کوئی ایسی بات کی تمھارا چہرا اور آنکھیں چغلی کھا رہے ہیں۔
"مجھے نیند آرہی ہے،کرن کی آنکھیں نم ہوئی،ایک دم اٹھ کھڑی ہوئی جانے کے لیے۔زوبی نے اُسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
میں کرتی هوں بھائی سے بات۔زوبی نے دھمکی دی۔
"کوئی ضرورت نہیں بات کرنے کی۔نہ کسی کی باتوں کا اُن پر کوئی اثر ہوتا ہے۔
کرن یار وہ تمسے بہت محبت کرتے ہیں۔میں جانتی ہوں اپنے بھائی کو۔
زوبی تم اُنکا سائڈ مت لو۔اسے محبت نہیں کہتے،اگر انکو مُجھسے محبت ہوتی تو،ہر وقت اپنی باتوں سے مجھے تکلیف نہیں دیتے۔بس ایک غلطی کی سزا دی مجھے،میں نے اس دن امی کو غصے میں طلاق کا کہا،ہاں مانتی ہوں اُس وقت میں سفیان کو خاص پسند نہیں کرتی تھی۔نیا نیا ہمارا نکاح ہوا تھا،ہر رشتے کو وقت لگتا ہے۔
تب سے اب تک میں اس ڈر سے جی رہی ہوں کے وہ اپنی دھمکی کو عملی جامہ نہ پہنا دیں،تمہیں بتایا تھا نہ میں نے سفیان نے مجھے دھمکی دی کے جب تک دادا جاں زندہ ہیں ہم یہ رشتا نبھاینگے۔ کرن سانس لینے کو روکی،
اُدھر سفیان کی سانس رکنے لگی۔
تب سے میں ہر نماز میں دعا کرتی ہوں کے دادا جان سے پہلے میں۔۔۔۔۔کرن اللہ نہ کرے پاگل ہوگئی ہو۔زوبی نے اُسکی بات آدھے میں کاٹی۔
سفیان نے اپنا سر پکڑ لیا۔اور آنکھیں ضبط سے بند کردی۔
کرن رونے لگی روتی رہی،روتی رہی،زوبی نے اُسے رونے دیا۔تاکہ اُسکا بوجھ ہلکا ہو۔
اُدھر سفیان کی آنکھیں پانی سے بھر گئی اُسکا دل رو رہا تھا۔
زوبی سفیان کو میری آنکھوں میں محبت نظر نہیں آتی؟کرن کی ہچکیاں بندھ گئی تھی۔
ہاں نظر بھی کیسے آئیگی،میری آنکھوں میں تو خوف نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔کے اب سفیان مجھے چھوڑ دینگے۔۔۔۔۔۔۔
سفیان سے مزید برداشت نہیں ہوا وہاں سے ہی دبے پاؤں پلٹ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفیان اپنے کمرے میں ٹہلتا رہا بےچینی سے،آخر تھک کر بیڈ پر گرنے کے انداز میں لیٹ گیا،اور چھت کو گھورتا رہا۔اُسے کرن کی رونے کی آواز اب تک کانوں میں گونج رہی تھی۔
اسنے فیصلہ کر لیا تھا اپنی غلطی کے ازالے کا۔
صبح دادا جاں نے اعلان کردیا کے زوبی کے رُخصتی کے ساتھ ساتھ کرن کی بھی رخصتی ہے۔
پر ابا جاں یوں اچانک؟فیاض نے پوچھا
ہاں بیٹا ایک گھر کی تو بات ہے،اس کمرے سے اُس کمرے میں،پھر انشاءاللہ ولیمہ دھوم دھام سے کرینگے۔میں بھی اپنے بچوں کی خوشیاں زندگی میں دیکھنا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ آپکو لمبی عمر دے ابا جاں۔
لمبی عمر کی دعائیں مت دو بس بچے اپنے گھر کے ہوجائیں میں جاکے اپنے بیٹے سلیمان سے ملو۔
کرن کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔اب بھی اُسے وہی ڈر ستا رہے تھے کے بس دادا جاں کے کہنے پر رُخصتی کر رہا ہے۔کرن بھی کمرے میں ہی محدود ہوگی ویسے بھی کل اُسکی مہندی رکھی گئی،پرسوں رُخصتی تھی۔پھر چار دِن بعد ولیمہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا لگ رہا ہوں دادا جان؟سفیان آج بہت خوش تھا۔
ماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت اچھے لگ رہے ہوں اللہ تعالیٰ نظر بد سے بچائے۔
تھنک یو دادا جان آپ نے میری بات مان لی رُخصتی والی۔
اچھا اب چلو برخودار سب انتظار کر رہے ہیں۔
سارا گھر لوں دلہن کی طرح سجا دیا گیا تھا۔سب بہت خوش لگ رہے تھے۔خوش تو سفیان بہت تھا پر اُسے آگے بھی اک مرحلہ طے کرنا تھا۔اپنی ناراض دلہن کو ماننا تھا اور اُسکی بد گمانیاں دور کرنی تھی۔
اور دلہن کی صلاحیتوں سے بھی خوب واقف تھا۔کے آسانی سے نہیں مانیگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرن سفیان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔کمرہ بہت نفاست سے سجایا گیا تھا۔
پھولوں کی لڑیاں جهول رہی تھی سارے کمرے میں گلاب اور موتیاں کی خوشبو پھیلی تھی۔وہ ریڈ اور گولڈن شرارے کے ساتھ ہم رنگ جیولری پہنے بال جوڑے میں بندھے تھے جہاں سے لٹیں جھول رہی تھی سب نے اُسکی بہت تعریفیں کی تھی۔
کرن آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی کے دروازہ کھولا۔
سفیان اندر داخل ہوا تو کرن کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے پایا اور خود پیچھے آکر کھڑا ہو گیا۔
کرن نے آئینے سے اُسے دیکھا جو ہاتھ سینے پر بندھے مسکراتے ہوئے اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔
کرن نے اپنی چوڑیاں اُتارتی گئی،پھر ماتھا پٹی اترنے کے لیے ہاتھ بڑھائے کے سفیان نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے طرف رخ کیا۔
"کیا ہے یار میں نے تو تمہیں دیکھا بھی نہیں نظر بھر کر،کیوں نکال رہی ہو؟ کتنا اچھا لگ رہا ہے یہ تم پر۔ویسے بہت اچھی لگ رہی ہو۔
میں کیسا لگ رہا ہوں؟وہ کرن کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ کرن ہاتھ چھوڑا کر بیڈ پر بیٹھ کر جیولری اترنے لگی۔
کرن یار معاف کردو مجھے۔دیکھو میں ہاتھ بھی جوڑ رہا ہوں۔سفیان معصوم شکل بنا کر بولا۔
کرن سر جھُکا کر بیٹھ گئی۔
دیکھو میں ساری باتیں سن لی جو تم نے زوبی سے کی،میں بہت شرمندہ ہوں میں نے دادا جاں سے کہا کہ تمہاری رُخصتی کروا دیں تاکہ تمہیں مانا لوں،آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔
"آپکو کیسی بُری عادت ہے۔ کبھی میری اور امی کی باتیں چھپ کر سنتے ہیں۔ کبھی میری زوبی کی۔کرن نے حیرت سے سفیان کی طرف دیکھ کر کہا۔
یہ عادت نہیں اتفاق تھا۔سفیان نے صفائی دی اپنی۔
آپکے ساتھ روز روز ایسے اتفاق ہوتے ہیں۔کرن نے طنز کیا۔
ہاں پر دیکھو نہ کتنا حسین اتفاق تھا۔جو تمھارے موں سے اظہارِ محبت سن لیا،جو مجھے کہنا چاہیے تھا وہ تم زوبی کو کہہ رہی تھی۔سفیان کرن کے آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔
کرن شرما گئی۔
سفیان اُسکے ہاتھوں میں کنگن پہنانے لگا۔یہ تمہاری موں دکھائی۔
کرن میں تمسے بہت محبت کرتا ہوں۔ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں زندگی کا حسن چھپا ہوتا ہے۔حسی مذاق،روٹھنا ماننا۔
پر کبھی کبھی یہ چھوٹی سی باتیں چھوٹا سا مذاق رشتے توڑ دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے۔ہم ایک ہوگئے۔سفیان نے کرن کو گلے سے لگا کر پیار سے سمجھتا رہا۔
کرن بھی اپنی رب کی شکر گزر تھی۔
اور دل میں کہہ رہی تھی شکریہ ابو آپ نے سفیان کو پسند کیا میرے لیے۔ مجھے یقین ہے آگے سب اچھا ہوگا۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Hum Aa Gaye Hain Kahan Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yeh Hum Aa Gaye Hain Kahan written by Tabeer Fatima . Yeh Hum Aa Gaye Hain Kahan by Tabeer Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment