Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 76 to 80 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 21 November 2024

demo-image

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 76 to 80

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 76 to 80

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

maxresdefault%20(2)
Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 76 to 80

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

کوئ بتانا پسند کرے گا کہ یہ کیا ہورہا ہے ۔۔۔!!!!" 

دانت کچکچاتے ہوۓ دیار نے ان ملازموں کی سمت دیکھا۔ جو ساری دنیا کا سامان یہاں ہی شفٹ کرنے کے موڈ میں تھے۔ پر ان لوگوں نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے اس کے سوال کو نکال باہر کیا۔ 

چند منٹوں میں یہ حویلی ۔۔۔!! حویلی کم اور فلاور شاپ پلس گفٹ سٹور زیادہ لگنے لگی۔ جگہ جگہ چھوٹے بڑے گفٹس، پھولوں کے گلدستے، ٹیڈی بیئرز، کیکس اور چاکلیٹس کے باکسرز اور ناجانے کیا کیا رکھا ہوا تھا اور ہر ایک باکس پر ایک چٹ لگی تھی جس پر ان سب کے نام تھے۔ جیسے مینشن کیا گیا ہو کونسا گفٹ کس کا ہے۔

دیار جھلا گیا۔ کیا ہورہا تھا آخر اس کے گھر میں۔ جبکہ باقی سب کی کیفیت بھی اس سے مختلف نہ تھی۔

جب اچانک یہ سارے ملازم ان سب کے سامنے ادب سے سر جھکاکر کھڑے ہوۓ جیسے اپنا کام پورا ہونے کے بعد اب جانے والے ہوں۔

ایک ملازم چند قدم بہراور درانی کی جانب چل کر گیا اور انہیں ادب سے ایک لفافہ پیش کیا۔ جو انہوں نے نافہمی سے کھولا تو سامنے کچھ الفاظ درج تھے۔ 

"The one who was thrown outta this house years ago with a gift of slap on the face. Hopefully, you will like these few beautiful gifts sent by her. This is jus' the beginnin' and everyone is amazed. Wait and see what happens when you meet her. Get ready for the biggest shock of all!"

یہ جملے محض جملے نہیں روح کی ساری تکلیفوں کا نچوڑ تھے۔ہاں آج اس نے فیصلہ کرلیا کہ ان سے وہ ملے گی۔ ضرور ملے گی ۔۔۔!!!!

  بہراور درانی نے ملازم کو دیکھا جیسے اب پوچھنا چاہ رہے ہوں کون ہے یہ چٹ بھیجنے والا۔ پر ملازمین نے اپنا کام ختم ہونے پر سکون سے باہر کی راہ لے لی۔ ان کے سوالوں اور شبہات کو دور کرنا ان کے کام میں شامل نہیں تھا۔

لاؤنج میں کھڑے نفوس بس آنکھوں کے اشاروں سے ایک دوسرے سے معاملے کی تفصیلات مانگ رہے تھے لب تو ہلنے سے رہے اب۔ 

" یہ یقینا کوئ مزاق ہورہا ہے ہمارے ساتھ ۔۔!!! کوئ پرینک کررہا ہے ۔۔!!!" 

دیار کا لہجہ تیکھا ہوگیا۔ اسے تجسس پسند نہیں تھے۔ بیزاریت سے اپنا دایاں ہاتھ جھٹک کر وہ سارے لاونج میں ترتیب سے رکھے گفٹس دیکھنے لگا۔

"میں گارڈز سے پوچھتا ہوں کسی اجنبی کو بلا اجازت انہوں نے گھر میں آنے کیسے دیا۔ یہ میرا گھر ہے کوئ شاہراہِ عام نہیں کہ جس کا دل کیا منہ اٹھا کر اندر چلاآۓ گا ۔۔۔۔!!!!" 

بہراور درانی نے ہاتھ میں پکڑی وہ چٹ مٹھی میں دبوچی۔ چہرے پر غصے کی وجہ سے بل پڑے۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوۓ وہ گارڈز سے بات کرنے کے لیے ابھی جانے ہی والے تھے کہ لاونج کی خاموشی میں کسی کی ہائ ہیل کی ٹک ٹک سنائ دی۔ 

وہ وہیں رک گۓ۔ 

" تو کیا اب منہ باہر اتار کر آنا تھا۔ پہلے بتاتے نا کہ اس گھر میں منہ اٹھا کر آنے کی اجازت نہیں کیونکہ یہ گھر ہے شاہراہِ عام نہیں تو اپنا منہ میں گھر میں چھوڑ آتی۔ ویسے بھی آج موسم بہت گرم ہے تو میری سکن بھی جلنے لگی تھی۔ پہلے پتہ ہوتا تو بچت ہوجاتی۔ ویسے یہ منہ اتارنے کے بعد بندہ زندہ رہ سکتا ہے کیا ۔۔۔!!!!" 

سب نے آواز کی سمت نظریں اٹھائیں۔ وہاں انہیں کوئ صنف نازک دکھی۔  وائٹ شرٹ اور بلیک جینز کے ساتھ ہائ ہیل پہنے ہوۓ، اپنے لمبے سیاہ بال کھلے چھوڑ کر اپنا چہرہ پھولوں کے بکے سے چھپاکر وہ جواب کی منتظر تھی۔ انہوں نے بھنویں سکیڑیں۔ 

" کون ہو تم ۔۔۔؟؟؟ اندر کیسے آئ ۔۔؟؟" 

بہراور درانی نے تیوری چڑھائی۔ ان کے لیے یہ اجنبی تھی۔ 

" انسان ہوں میں۔۔۔!!! دروازے سے ہی آئ ہوں۔ باعزت طریقے سے دروازہ کھلوا کر اپنی گاڑی پوچ میں پارک کرکے تمیز سے اپنے پیروں پر چلتے ہوۓ یہاں تک کا فاصلہ طے کیا ہے میں نے۔ ابھی بھی شک ہے تو گارڈز سے پوچھ لیں کسی مائ کے لعل میں ہمت نہیں کہ درانی خاندان کے خون کو باہر روک کر رکھے ۔۔۔!!!" 

پھول اس نے اپنے چہرے سے زرا سے نیچے کئے تو اس کی سرمئ آنکھیں نظر آنے لگیں۔ جن میں چٹانوں سی سختی تھی جیسے یہ سوال برا لگا ہو اسے۔ دل کی دھک دھک کرنے کی رفتار تیز ہوئ۔ ہاں یہ روحیہ ہی ہے۔ ان کے دل نے فورا کہا۔  

" درانی خاندان کا خون ؟؟؟؟ کیا بکواس کررہی ہو تم۔ شرافت سے بتاؤ کون ہو اور یہاں کیا کرنے آئ ہو۔۔۔۔؟؟؟" 

انہوں نے اسے گھرکا۔ پھر دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر کرختگی سے کھڑے ہوۓ۔ 

" بیٹیاں پرائ ہوجائیں ۔۔!! اپسسسس ماۓ مسٹیک ۔۔!!! بیٹیاں پرائ کردی جائیں تو رگوں میں دوڑتے خون نہیں بدلتے بہراور لالہ۔ یہ میری شرافت ہی ہے جو تمیز سے بتارہی ہوں کہ میں کون ہوں؟؟؟ ورنہ تمیز اور اپنے قاتلوں کے لیے ۔۔۔!! استغفرُللہ ۔۔۔!!" 

اب کی بار جھٹکے سے اس نے اپنے چہرے سے پھول ہٹالیے۔ اس کی سرمئ آنکھیں وہی تل اور یہ غصہ ۔۔۔!!

ان کی نظروں کے سامنے تھا۔ دل مٹھی میں جکڑا گیا اس لمحے۔ سانس لینے کو یہ ہوا بھی تھم گئ ان کے لیے۔

 یہ تو روحیہ تھی۔ اس کہانی کا مظلوم ترین کردار ۔۔۔!! 

ہاں انہیں یہ جان سے عزیز تھی ایک زمانے میں۔ جس پر جان دیتے تھے وہ۔ پھر ایک دن اپنی جان کے صدقے میں اس کی جان لے لی گئ۔جان تو پھر بھی ان کی ہی گئ تھی۔ تو اب پہچاننا تو لازم تھا۔

وشہ ناسمجھی سے سب دیکھتی رہی جبکہ رخمینہ بیگم کی حالت بھی بہراور درانی جیسی ہی تھی۔ 

اگر ایک مردہ زندہ ہوکر سامنے آجاۓ کسی کے۔ جسے اس نے خود دفنایا ہو تو انسان صدمے سے بولنا ہی بھول جاۓ گا یہ بھی اسی کیفیت میں مبتلا تھے۔

" ڈاکٹر روحیہ ۔۔۔!!! آپ یہاں ۔۔؟؟ اس ایوری تھنگ اوکے ۔۔۔!!!" 

دیار کی ملاقات اس سے ہاسپٹل میں ہوئ تھی تو اس نے پہچان لیا اسے۔ روحیہ نے گردن موڑ کر ایک ترچھی نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی۔

" قبر دیکھنے آئ ہوں اپنی۔ کہ میرے بوجھ کو سر سے اتار کر کہاں دفنایا گیا ہے۔ یہاں ابھی اہنے لواحقین سے مل رہی ہوں میں۔ پھر واپسی پر قبرستان میں اپنی قبر پر پھول بھی ڈال کر آؤں بھتیجے ۔۔!!!" 

 روحیہ کے لفظوں میں درد کے ساتھ طنز کے تیر بھی تھے۔وہ لفظ بھتیجے پر وہ چونکا۔ 

لاؤنج میں پھر سے خاموشی چھانے لگی پر اس سے پہلے ہی بہراور درانی صدمے کی کیفیت میں دو قدم پیچھے ہوۓ۔

" روح ۔۔۔!!!" 

ان کے لب مدھم سی پکار کر بیٹھے۔ جیسے یقین کتنا چاہتے ہوں۔تو روحیہ نے سر کو خم دیا۔

" نوازش پہچاننے کے لیے ۔۔۔!!! مجھے تو لگا تھا ڈی این اے کروانا پڑے گا اب تب ہی آپ کو یقین آۓ گا میں آپ کی بہن ہوں۔ پر صد شکر کہ زیادہ بولنا نہیں پڑا۔ 

ورنہ یہ پھپھو کا دیوانہ تو اب بھی نہیں پہچان سکا مجھے۔ خیر چھوڑو اب میں کہوں یاد ہوں گی کسی کو۔ مردے کہاں یاد رہتے ہیں۔۔۔۔!!!

ذرا ایک گلاس پانی تو منگوادیں گلاس خشک ہوگیا ہے میرا۔ مانا میں مرچکی ہوں پر پانی تو پلاہی سکتے ہو نا مجھے۔۔۔!!!" 

دیار کا ماتھا ٹھنکا۔ پھپھو لفظ پر ۔۔۔!!!! 

اس نے غور سے روحیہ کی صورت دیکھی تو چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑنے لگا۔ اس نے کبھی اسے غور سے نہیں دیکھا تھا ورنہ پہچان لیتا۔ وہ تو مرچکی تھی۔ ہر جمعرات وہ اس کی قبر پر پھول ڈالنے جاتا تھا تو یہ کہاں سے آئ۔۔۔!!

اپنے ہاتھ میں پکڑے پھول روحیہ نے سائیڈ پر رکھے۔اسے سب بورنگ لگا۔ کسی نے خوشی سے چیخ کر اس کا استقبال نہیں کیا تھا۔ پھر ایک باکس اٹھا کر اسنے  کھولا وہ یقینا مٹھائ کا باکس تھا۔ پانی تو انہوں نے اب پلانا نہیں تھا تو خود ہی وہ بہراور درانی کے قریب آئ۔ 

" سانپ کیوں سونگھ گیا ہے سب کو یہاں پر۔ ارے یار میں مر کر واپس آئ ہوں لیکن آپ سب کو کھانے نہیں آئ۔ میں روح ہوں یہ سن کر آپ سب کی روح کیوں پرواز کرنے والی ہے۔ کوئ تو خوشی دکھاؤ۔ کہ مجھے بھی لگے میرے مرنے پر ڈھول نہیں بجے تھے یہاں۔ کوی تو ایموشنل لائن بولو۔ کہ روح تم کہاں تھی اتنے سالوں سے۔ کیسے بچی۔ کچھ تو بولو ۔۔!!!" 

ان لوگوں کے صدمے سے بے رنگ ہوۓ چہرے دیکھ کر اس کا دل کیا اپنا سر پیٹے۔ یہ لوگ وہی تھے جو اس کے واپس آنے کی دعائیں بھی کرتے تھے روز۔ اب جب دعا پوری ہوگئ تو کیا ہوگیا تھا انہیں ۔۔۔!!! 

روحیہ نے ٹھنڈا سانس بھرا۔ 

"آپ مزاق کررہی ہیں کیا ۔۔ ؟؟؟ دیکھیں ڈاکٹر روحیہ یہ مزاق والا ٹاپک نہیں تو بہتری اسی میں ہے ایسا ویسا اب مزید کچھ بھی نہ کہیے گا ۔۔۔!!!" 

جبڑے بھنچتے ہوۓ دیار نے اس کی صورت کو شرر باز نگاہوں سے گھورا جس کا منہ اس بات پر پوری طرح کھل گیا۔ میری بلی مجھے ہی میاؤں والا حساب ہوگیا تھا یہاں۔

" میں کونسا جوکر بن کر تمہارے سامنے کھڑی ہوں یا میرے سر پر سینگ لگے ہیں جو مجھے اپنی پھپھو نہیں مان سکتے تم۔ چھوٹے ہو تو چھوٹے بن کر رہو ورنہ ایک کان کے نیچے لگاؤں گی نا تو دن میں تارے اور رات میں سورج نظر آنے لگے گا تمہیں۔

 سنو بہو ۔۔۔!!! یہ تمہارے ساتھ بھی کھڑوس ہی ہے کیا ۔۔۔!!!" 

مٹھائ کا ڈبہ فورا وشہ کے ہاتھوں میں تھماتے ہوۓ اس نے ہاتھ نچا کر دیار پر طنزوں کی بارش کی۔ دیار جھٹکوں کی زد میں تھا۔ یہ اسی کی پھپھو کا انداز تھا۔ وہ پہچان سکتا تھا۔ پر وہ تو مر گئ تھی ؟؟ 

دماغ کے سامنے تو یہی بات گھومی۔ 

اس کے ساتھ ہی وشہ کے کندھے پر کہنی رکھ کر روحیہ نے کھوجتے ہوۓ ان دونوں کو دیکھا۔ وشہ کو اس وقت اپنی نوز پن یاد آگئ۔

" کھڑوس تو نہیں ہیں پر کھڑوس ہی ہیں۔ دیکھیں تو سہی ہمارا پیارا سا ناک ان کی وجہ سے کس حال میں پہنچ گیا۔ ہم نے کہا تھا ہمیں نوز پائیرسنگ نہیں کروانی پر یہ نہیں مانے۔ اور ہم پر ہنستے بھی ہیں یہ ۔۔ !!" 

روحیہ اس کی پھپھو ہو یا نہ ہو اسے تو دیار کی شکایت لگانی تھی کسی سے۔ روح نے ایک افسوس بھری نگاہ دیار کے چہرے پر ڈالتے ہوئے کہنی وشہ کے کندھے سے ہٹالی۔

"مسٹر  پاگل ۔۔!! یہ شوق آج تک تمہارے اندرسے نہیں گیا۔ میں نے تو مزاق میں کہا تھا اپنی بیوی کو نوز رنگ پہنانا تم۔ میں تو کوئ ایسی چیز نہیں پہن رہی۔ مجھے لگا تھا بڑے ہونے تک تم بھول جاؤ گے۔ پر بڑے ہی تیز ہو تم۔ معصوم سی بچی پر اپنی خواہش پوری کرلی تم نے ۔۔ !!! " 

دیار کے کان کھڑے ہوۓ بچپن میں ایک بار اس نے روح کو کہا تھا آپ بھی مما کی طرح نوز رنگ پہنا کریں لیکن تب جس قدیمی انداز میں نوز رنگ کے لیے ناک کے سرے پر سوراخ کیا جاتا تھا وہ دیکھ کر ہی چیخ اٹھی اور اس نے صاف صاف کہہ دیا تمہاری خاطر میں اپنی جان خطرے میں نہیں ڈالوں گی تو اپنی بیوی پر شوق پورے کرنا اپنے۔ میرے باران کو ایسی چیزیں نہیں پسند تو میں ایسا کچھ نہیں کرنے والی۔ 

اس کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔ تو یہی روح تھی ۔۔ !!! 

" زی ۔۔۔۔!!!" دل کی دھڑکنوں میں طوفان مچنے لگا تو لب بھی ہھڑپھڑاۓ۔ 

اسی کے ساتھ ہی بہراور درانی نے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ لیا اس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتے رخمینہ بیگم نے انہیں سہارا دیا۔ 

جب کوئ اپنا جو آپ سے بچھڑ گیا ہو واپس آنے کی کوئ امید ہی نہ ہو اچانک سے ایک روز مل جاۓ تو انسان کی کیفیت ایسی ہی ہوتی ہے۔

دیار نے ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے تو محسوس ہوا یہ خواب نہیں ہے۔ وہ مشکل سے مسکرایا۔ ایک ایسی مسکراہٹ جس میں آنسو بھی شامل ہوۓ۔ 

روحیہ کے لبوں پر بھی تبسم بکھرا۔ 

" آپ زندہ ہیں زی۔ یہ سچ میں آپ ہیں۔ کیا آپ زندہ ہیں۔ میری زی میرے سامنے ہیں۔ پلیز زی بتائیں یہ سب کیا حقیقت ہے۔ کوئ خواب تو نہیں ۔۔!!" 

اٹکتی سانسوں کو جیسے قرار سا آیا جونہی روحیہ نے ہاں میں سر ہلاکر اپنے ہاتھ چھڑواتے ہوۓ آنسو پونچھے۔ 

" زندہ ہوں میں۔ لالہ نے تو سوچا ہوگا روح مرگئ ۔ جان چھوٹ گئ ان کی اس بوجھ سے ۔ اب کبھی میں واپس نہیں آؤں گی پر میں آگئ ہوں واپس۔۔۔۔!! 

زیادہ دیر کے لیے نہیں آئ بس ایک بات بتانی تھی یا ایک دھبہ لگا تھا کردار پر جسے دھونا تھا وہی دھو نے آئ ہوں ۔۔ !!!" 

آنسو صاف کرکے وہ خود کو مضبوط کرنے لگی۔ اب لہجے میں نہ ہی کوئ شرارت تھی نا ہی غیر سنجیدگی بس درد تھا۔

بہراور درانی نے ندامت سے جھکا سر اٹھایا وہ چاہ کے بھی کچھ بول نہ پاۓ۔ لب جیسے کسی نے سی دیے تھے۔ 

" یاد ہے نا لالہ اس گھر کی چوکھٹ سے دھکا دیتے ہوۓ بابا نے کہا تھا میں بےحیا ہوں جو ایک نامحرم کے عشق میں پڑ کر اپنے لالہ کی جان نہیں بچارہی۔ مجھے آزادی دی گئ تھی جس کا غلط فایدہ اٹھایا میں نے۔ ایک تھپڑ ایک گالی سمیت میرے منہ پر لگا تھا ۔۔۔!!!" 

روحیہ کرب سے مسکرائی۔ یہ ہنسی اپنے نصیب پر طنز تھی۔ آنسو ایک بات پھر پونچھ کے اس نے سامنے ایک طرف رکھے لفافے سے نکاح نامہ اٹھایا پھر اسے ان کے سامنے لہرایا۔

" یہ اس طمانچے کا جواب ہے لالہ۔ میں بے حیاء نہیں تھی۔ محبت کے راستے پر آپ لوگوں نے چلایا مجھے۔ ارے مجھے تو محبت کا مطلب بھی نہیں پتہ تھا میرے ہاتھ میں باران کا ہاتھ دینے والے آپ سب تھے۔۔ !!!" 

استہزاء سے کہتے ہوۓ روحیہ نے آگے بڑھ کر وہ نکاح نامہ ان کے ہاتھ میں دے دیا اور سرخرو ہوکر ایک طرف کھڑی ہوگئ۔ چیخنے کی وجہ سے سر میں درد کی ٹھیس اٹھی جسے اس نے نظراندار کردیا۔ 

وہ اب ان پیپرز کو خالی خالی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"  نکاح نامہ ہے یہ۔ جس شخص کے نام پر سالوں بٹھا کے ایک نکاح نہیں نہ کرواسکے آپ۔ اس کی آفیشل وائف ہوں میں۔ اپنے نکاح کی خبر خود دیتے ہوۓ بھلے میں بےشرم لگوں آپ کو۔ پر میں بےحیاء نہیں تھی۔ افسوس ہوا یہ جان کر کہ میری بھتیجی بھی ونی کردی آپ نے۔ میری موت سے سبق نہیں سیکھا کوئ ۔۔۔!! اور یہ باران کی بھتیجی بھی ونی کروا کے لاۓ آپ۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ونی کی معاشرے میں کیا حیثیت ہے۔۔۔۔!!!"  

ان کی جانب تاسف سے دیکھ کر روحیہ نے دانت ایک دوسرے پر جماۓ۔ اس کا غصہ کم ہونے والا نہیں تھا۔ وشہ کے ذکر پر دیار کا حلق بھی درد سے تر ہوا۔ جانتا تو وہ بھی تھا اس لفظ نے کتنی اذیت دی تھی اسے۔

پر ان بزرگوں کو کون سمجھاۓ کہ بیٹی سر کا تاج ہوتی ہے۔ لڑائ جھگڑوں پر سر کے تاج اتار کر دوسروں کے پیروں میں رکھ دیں تو عزت نیلام ہوتی ہے انسان کے مسئلے حل نہیں ہوتے۔ "

 اب بھی سب خاموش ہی رہے جب نکاح نامہ ان کے ہاتھ سے لے کر روحیہ نے واپس لفافے میں ڈالا پھر  مٹھائ کا ڈبہ وشہ کے ہاتھ سے لے کر اس نے سامنے باکسز پر رکھتے ہوۓ باہر کی جانب قدم لیے۔ تو دیار نے اس کا راستہ روک لیا۔

" کہاں جارہی ہیں آپ ؟؟ سالوں بعد ملی ہیں بس چند منٹوں کے لیے۔ پلیز نہ جائیں ۔۔۔!!!" 

 دیار نے التجا کی۔ روح نے زخمی سی مسکراہٹ سے اس حویلی کے در و دیوار دیکھے۔

" یہ میرا گھر کبھی تھا ہی نہیں۔ اپنے شوہر کے گھر جارہی ہوں میں۔ اسے آزاد تو نہیں نا چھوڑنا۔ بڑی مشکل سے ہاتھ لگا ہے۔ اپنا خیال رکھنا اور وشہ کا بھی ۔۔۔!! اب کوئ شکایت آئ تو منہ تور دوں گی تمہارا۔ ساس ضرور ہوں پر تمہاری ۔۔۔!! اس کی نہیں۔۔۔!!! باۓ باۓ۔۔۔!!" 

وہ چلی گئ وہاں سے جیسے آئ تھی۔ بغیر اجازت لیے۔۔

اس کے جانے کے بعد بہراور درانی نے اپنا بایاں کندھا زور سے دبایا۔ انہیں شدید درد محسوس ہوا اپنے دل کے قریب۔ وہ کراہ اٹھے تو دیار نے اسے سہارا دے کر صوفے پر بٹھادیا اسی وقت رخمینہ بیگم ان کی میڈیسنز لے آئیں جو کھانے کے بعد ان کا سانس بحال ہونے لگا۔

کرنی باتیں کرنی تھیں انہیں اس سے۔ معافی مانگنی تھی۔ سوال کرنے تھے۔ پر اس زبان نے آج بھی ساتھ نہ دیا۔ 

وہ آج تک ان سے ناراض ہے یہ سوچ کر دل رونے کو چاہا۔ پھر مشکل سے اس ویران جگہ کو دیکھ کر ضبط کے بندھن ٹوٹنے پر وہ روپڑے۔ آنکھیں تو سب کی نم تھیں ابھی۔ اس نے کوئ شکوہ نہیں کیا سواۓ ایک تھپڑ کے۔ 

کسی کا گریبان نہیں پکڑا۔ جواب نہیں مانگا۔

بس آئ اور چلی گئ۔ کہاں گئ کسی کو نہیں پتہ۔ پر جاتے جاتے ان سب کو چپ ضرور لگواگئ۔  

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" کردو نہ معاف روح ۔۔!! باخدا میں مرنے کو بھی تیار ہوں۔ تم اللہ سے سفارش کرو وہ مجھے موت دے دے۔ پلیز روح اللہ کو کہو میری آزمائش ختم کردے۔ میں ٹوٹ گیا ہوں بہت۔ سانس نہیں آتا اب صحیح سے۔ جب تمہارے بارے میں سوچوں۔ اللہ کا واسطہ ہے روح بس ایک آواز دو مجھے۔ نہیں تو تمہارا باران مر جاۓ گا ۔۔۔!!!" 

شام ڈھل چکی تھی۔ وہ تپتا سورج بھی بس جانے کو تیار تھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں کی راہ لے رہے تھے۔ خنکی جو صبح سے غائب بھی ان ہوا میں واپس سے لوٹنے لگی۔ موسم اچانک ہی پلٹا کھاگیا۔

سب واپسی کی راہ لے رہے تھے سوائے اس دیوانے کے جو اب تک الجھ رہا تھا خود سے۔ کہتے ہیں بات کرتے وقت بھی دھیان رکھنا چاہیے کہ یہ لفظوں کے تیر کسی کو زندگی سے بیزار کرسکتے ہیں۔بڑی طاقت ہوتی ہے ان میں۔ تو بات کرنے سے پہلے سو کیا ہزار بار سوچو پھر کچھ بولو۔ 

آپ کو کہاں معمول ہے کہ جو شخص آپ کی نظر میں برا ہے ناجانے وہ زندہ کس امید پر رہ رہا ہو تو نہ چھیڑو کسی کے زخموں کو۔

کوئ سالوں بعد جینے کا مقصد ڈھونڈ لے تو خدارا اسے جینے دو۔ کیا چلا جاۓ گا آپ کا اگر کسی کی خوشی میں خوش نہیں ہوپارپے تو چپ ہی کرجائیں۔

کاش وہ جانتا ہوتا جس کے سامنے دل ہار بیٹھا ہے وہ تو اسی کی روح ہے۔ تو آج تکلیف میں نہ ہوتا۔

" بادل ۔۔۔!!!!" 

عقب سے کسی کی سریلی سی آواز آئ۔ باران نے اچھنبے سے سر اٹھایا۔ آنسوؤں سے تر یہ وجیہہ چہرہ اور وجاہت کا شاہکار یہ شخص ٹوٹی ہوئ امیدیں اکٹھی کرکے پیچھے مڑ کر دیکھنے لگا۔ آنکھوں سے چند موتی پھر سے گرے۔ وہاں روحیہ کھڑی تھی۔

سر پر سکارف لیے وہ اس خالی قبرستان میں شام کے وقت بیٹھے ہوۓ باران کو دیکھ کر ٹھٹھک گئ۔ یہاں اسکا کیا کام۔ 

وہ پہلے تو گھر گئ تھی جہاں اسے باران نہ ملا تو اس نے سوچا اپنے والدین کی قبروں پر فاتحہ ہی پڑھ لے۔ اسی نیت سے وہ یہاں واپس آئ تھی۔

" ت۔ تم یہاں کیا کررہی ہو۔ وہ بھی اکیلے۔ قبرستان میں تمہارا کیا کام۔۔۔!!!" 

آنسوؤں کا گولا حلق سے اتار کر اس نے نظریں چرائیں۔ 

روحیہ نے بجاۓ جواب دینے کے اس کے قریب آنا بہتر سمجھا۔

" سب چھوڑو یہ بتاؤ تمہارا قبرستان میں کیا کام ہے ۔۔!!!" 

روحیہ نے سامنے لگی تختی دیکھی جہاں اس کا ہی پرانا نام لکھا تھا۔ خشک ہونٹوں کو تر کرکے اس نے باران کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

" کسی کو منانے آیا ہوں یار۔ ساری زندگی اس کے نام پر گزارنے کی قسم کھائی تھی۔ قسم لے لو آج تک کسی عورت کو نظر بھر کر نہیں دیکھا کہ کہیں یہ روٹھ نہ جاۓ۔ بہت عزیز یے یہ مجھے۔ پر میں نے قسم تور دی۔ تم سے نکاح جو کرلیا۔اور وہ مجھے چھوڑ گئ۔ اسے شراکت پسند نہیں تھی۔ میرا دل ویران سا ہورہا یے روحیہ۔ مجھے س۔سانس نہیں آرہا ٹھیک سے اب۔ لگ رہا ہے وہ نہ مانی تو م۔میں مرجاؤں گا ۔۔۔ !!!" 

بولتے بولتے اس کا سانس بھاری ہونے لگا۔ کتنا درد تھا اس کے سینے میں۔ وہ بیان نہ کرسکا۔ لیکن روحیہ کے قدم لڑکھڑا گۓ۔ اس انکشاف پر ۔۔۔!!! اسے دھچکا لگا۔ 

" پر تم تو شادی شدہ ہو نہ پہلے سے۔۔۔!! مجھے لگا تھا تم نے شادی کی ہوئ ہے۔ فیملی ہے تمہاری ایک۔ پھر یہ کیا کہہ رہے ہو تم ۔۔۔!!" 

اس نے لفظوں پر زور دینے کی کوشش کی تو وہ اس بات پر قہقہہ لگا گیا۔ 

پھر ہنستے ہنستے کب اس کے رونے کی آواز یہاں گونجی روحیہ سمجھ نہ سکی۔ 

" شادی گناہ تھی میرے نزدیک یار۔ ایسا الزام تو نہ لگاؤ۔ میں نے یہی گناہ تو کیا ہے تو اب سکون نہیں آرہا ۔۔!!!" 

اس قبر کی ٹوہ سے لگ کر وہ دیوانہ عجب انداز سے اسے ٹوک گیا۔ اس کی نیلی سمندر جیسی آنکھیں طوفان کے بعد بکھری ہوئی لہروں کی طرح لگی روحیہ کو۔ اس کے حسین چہرے پر آج سالوں کی تھکن تھی۔ صبح تک تو وہ ٹھیک تھا خوش تھا کیسے بکھر گیا تھا اب۔ 

اس کے بالوں میں جو گرد کے ذرے تھے وہ اس بات کا ثبوت تھے وہ سارے دن سے یہاں بیٹھا ہے۔ 

" تمہیں پتہ ہے بچپن کا عشق ہے یہ میرا۔ روحِ ذکیہ درانی ۔۔۔!! میری روح ۔۔۔!!! چھوٹی سی تھی میں نے انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا اسے۔ میرے علاؤہ اس کا کوئ دوست نہیں تھا نہ میں نے کبھی بچپن سے ہی اس کے علاؤہ کسی کو دیکھا۔ دوستی بعد میں منگنی میں بدل گئ۔ سالوں کا عشق تھی یہ تو میں تو ہواؤں میں اڑنے لگا کہ روح میری ہوجاۓ گی۔ اسے پاکستان میں چھوڑ کر پڑھنے گیا تھا میں۔ یہاں چوک ہوگئ یار۔ 

کیا پتہ تھا میری واپسی پر روح کی قبر دکھا دیں گے یہ لوگ ۔۔۔!!! بڑے ظالم ہیں سب۔ کھاگۓ میری خوشیاں ۔۔۔!!!" 

بکھرے پھول سمیٹتے ہوۓ کسی فقیر کی طرح اس نے اپنی جھولی میں ڈال لیے ۔ روحیہ لڑکھڑا کر اس کے قریب ہی بیٹھ گئ۔ چند آنسو اس کے بھی بہے۔

کتنا غلط سمجھا تھا اس نے اس شخص کو۔ اس کا دل چاہا اس کے آنسو پونچھے۔ اسے بتاۓ میں روح ہوں۔ مجھے پہچانو تمہارا عشق ہو میں۔

" تمہارے جیسی تھی یہ روحیہ۔ جیسے نام ایک سا ہے نا۔ یہ بھی تم جیسی ہی تھی۔ تمہاری آنکھیں، بات کرنے کا انداز، میرے لیے جنون، یہ تل۔۔۔!!! 

سب اس جیسے ہیں۔۔۔۔!! تم اس کا عکس ہو۔ یا پھر یہی ہو۔۔۔۔!!!" 

اس کی آنکھوں میں دیکھ کر باران نے اس کے رخسار کو بائیں ہاتھ کی ایک انگلی سے چھوا جہاں تل چمک رہا تھا۔ پھر ہاتھ واپس کھینچ کے اس نے آنسو بے دردی سے رگڑ دیے۔

" تمہیں ایک چیز دکھاتا ہوں میں۔" 

باران نے اپنی قمیض کی جیب سے وہ پر نکالا۔ روحیہ کی نظریں رکیں اسی پر پر۔ اسے تو یہ یاد بھی نہیں تھا۔ 

"  بیوی ہو تم میری۔ جانتا ہوں میں اس وقت غصہ آرہا ہوگا تمہیں مجھ پر۔ اپنے عشق کی داستانیں جو سنارہا ہوں تمہیں۔ پر سن لو روحیہ۔ کل کا سورج کس نے دیکھا ہے۔ یہ مجھے اسی نے دیا تھا سالوں پہلے جب میں ابراڈ جانے والا تھا۔ اور کہاں تھا اس نے۔ اگر تم اسے سنبھال لو گے تو مطلب مجھے بھی سنبھال لوگے ۔۔۔!!!" 

وہ یک ٹک اسے دیکھتی رہی۔ دیوانگی کے کس درجے پر فائز تھا وہ۔ جو بن کہے اسے پہچان چکا تھا۔ پھر بھی الجھا تھا کہ وہ وہ اس نکاح پر اس سے ناراض نہ ہو۔

کتنی خوش قسمت تھی وہ جسے یہ شخص ملا شوہر کے روپ میں۔

اسے یہ پر یاد آیا جو بس مزاق میں اس نے اسے راستے سے اٹھا کر تھمایا تھا۔ اس نے تو وہ بھی دل سے لگا کر رکھا تھا۔

" م۔میں نے تو سنبھالا تھا نا یہ پھر وہ کیوں نہیں ہے زندہ۔ روح مر گئ تو میں کیوں زندہ ہوں آخر۔ روحیہ بتاؤ یار مجھے مجھے موت کیوں نہیں آتی۔ میں جانتا ہوں میرا رب دنیا میں نہ سہی آخرت میں اسے میرے حوالے کرے گا۔ بہت شدت سے جو مانگا ہے میں نے اسے۔تو کیوں میں ازمایا جارہا ہوں آج تک۔ مجھے کسی چیز کی طلب نہیں سواۓ اس کے۔ تو مار دے نا وہ مجھے۔ تاکہ میں روح سے مل سکوں ۔۔ !!!" 

وہ گڑگڑانے لگا موت کے لیے تو وہ تڑپ اتھی۔ روتے ہوۓ چند سسکیاں اسکی بھی شامل ہوگئیں اس کی آواز کے ساتھ اور آگے بڑھ کر اس نے باران کے ہاتھ پکڑے پھر جھک کر ان ہاتھوں پر محبت کی مہر ثبت کی۔

" م۔مت رو تم ۔۔۔!! مجھے تکلیف ہورہی ہے بڈی ۔۔۔!!! تم اتنی اذیت میں رہے ہو کاش مجھے پہلے پتہ ہوتا ۔۔۔!!!" 

روحیہ نے درد بھرے انداز میں اسے رونے سے روکنا چاہا۔ جس کا مقدر ہی رونا تھا۔

" میں آگئ ہوں نا تو تمہارے س۔سارے درد سمیٹ لوں گی۔ ٹرسٹ می بہت پیار کرتی ہوں تم سے۔ تمہارے جتنا تو نہیں پر اتنا ہے کہ تمہیں سب بھلا دو میں۔۔۔!!! 

تم بس رو مت۔ سب ٹھیک ہوجاۓ گا ۔۔۔!!!" 

اس کے آنسو صاف کیے روحیہ نے جس نے نفی میں سر ہلایا۔

" رونا میرا مقدر ہے۔ اور درد میرا ساتھی ہے۔ نا مقدر میں بدل سکتا ہوں۔ نہ ساتھی بیچ رستے چھوڑنے والوں میں سے ہوں میں۔۔۔!!! 

اچھا میرے چکر میں تم مت رو۔۔۔!!! خود کو ہلقان نہ کرو۔ میں تو ہوں ہی پاگل صدا کا۔ جو اپنے ساتھ ساتھ تمہیں بھی رلا رہا ہے۔ تمہاری آنکھیں نا اس جیسی ہیں۔ تمہارا لمس بھی اس جیسا ہے۔ جب تم چھوتی ہو نا مجھے تو میرے زخم بھرنے لگتے ہیں۔ میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ میں نہیں جانتا تم میں وہ کیوں دکھتی ہے مجھے پر دکھتی ہے بس ۔۔۔!!! اسے سب بے وفائی کہیں یا پھر دھوکہ۔۔۔!! میرے عشق کو گالی دیں یا جو چاہیں کہیں۔ مجھے تم میں وہ دکھتی ہے۔ ڈیٹس اٹ۔ کاش تم وہی ہوتی ۔۔۔!!!" 

اپنے رخساروں پر رکھے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے اس نے اور شدت سے رونے لگی۔

چہرہ بدل گیا پر اس شخص کو تو لمس بھی یاد تھا۔ وہ بھلے بدل گئ پر یہ تو ایک لمحے میں اسے پہچان گیا تھا۔ 

کیا تھا یہ شخص۔۔۔!!! 

اتنا عشق کہ زندگی اس کے پیچھے رول دی ۔۔۔!!! 

لوٹ آنے پر بن کہے اسے اپنا بناگیا۔ 

کیا تھا یہ شخص آخر ۔۔۔!!!! 

" تم دھوکے باز نہیں ہو بڈی ۔۔۔!! تمہارا دل کل بھی میرا تھا آج بھی میرا ہی ہے۔ میں تمہیں سمیٹ لوں گی اب۔ بہت خوشیاں دوں گی تمہیں۔ بہت سے بھی زیادہ ۔۔۔!! بس کل تک کا انتظار ہے سب بتاؤں گی ایک سرپرائز کی طرح۔ سب ٹھیک ہوجاۓ گا پھر ۔۔۔!!!" 

اس نے دل میں کہا۔ سامنے موجود اس شخص کی عزت اس کی نظروں میں مزید بڑھ گئ۔ حد سے زیادہ اپنا لگنے لگا اسے یہ شخص۔

" سنو ۔۔۔!!!!!" 

اس کے رخساروں سے ہاتھ ہٹا کر وہ اپنے آنسو پونچھنے لگا۔

" سناؤ ۔۔۔!!!"

وہ بھی اسی کے انداز میں بولی۔ تو وہ مسکرا اٹھا۔

" کل کو میں نہ دکھوں تو رونا مت۔ نا ہی کوئ الٹی سیدھی حرکت کرنا اوکے۔۔۔۔!!! ورنہ میرا ہی دل دکھے گا۔۔۔۔!! میں تمہارا کبھی تھا ہی نہیں یہ سوچ لینا۔ اور موو آن کرجانا۔ بھول جانا مجھے۔ تمہیں سب بتانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ تم نفرت کرو مجھ سے۔ کہ یہ شخص پہلے سے ہی کسی کا دیوانہ ہے تو تم بھول جاؤ ۔۔۔!!! اپنا بہت خیال رکھنا ۔۔۔!!!"

وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ تو ان لفظوں پر تڑپ کر وہ بھی اس کے مقابل کھڑی ہوئ۔

" بکواس نہیں کرو ۔۔۔!!! تم میرے تھے اور میرے ہی رہو گے۔ بیکاز آۓ ایم میڈ فار یو ۔۔!!!" 

وہ بے اختیار بول اٹھی۔ باران کیا کرتا اس وقت ۔۔۔!! 

اس کے پاس رہتا تو گلٹ سے مرجاتا۔ دور جاتا تو دوری مار دیتی۔ مرنا ہی تھا تو سوچا کیوں نہ روحیہ کی نظروں میں سرخرو ہوکر مروں۔۔۔!!! 

" گھر جاؤ اور آرام کرو۔ آفس میں کام ہے مجھے۔ ایک کیس کے سلسلے میں کہیں جانا ہے۔ لوٹ آؤ تو تمہارا نا لوٹا تو ڈھونڈنا مت۔ اللہ حافظ ۔۔۔!!" 

آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر عقیدت بھرا بوسہ تادیر کے لیے دے کر اس نے خود کے زخموں کو زرا سا مرہم بخشنے کی کوشش کی۔

تو رگ و پے میں سکون کی لہر دوڑ کر دل کے زخموں سے رستے خون کو ایک لمحے کے لیے روک گئ۔

" کاش تم میری روح ہوتی اصل میں ۔۔۔!!! جھوٹا ہی سہی یہ دعویٰ کردیتی یار تو میں خوشی سے جھوم اٹھتا۔ تمہیں خود میں بھینچ لیتا۔ اس مرہم کو خود پر حلال کرلیتا۔ پر تم نے تو جھوٹا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ میں ہار گیا ہوں آج ۔۔۔!!!" 

چند منٹ وہ اسی پوزیشن میں اس کے قریب رہا۔۔۔!!! 

پھر دل کی نہ مان کر وہ روح سے دور ہوگیا۔ دل نے دہائ دی نا چھوڑو اسے۔

پر چھوڑنا ضروری تھا۔

موت کہاں آسانی سے آتی ہے ۔۔!!!! 

" اللہ حافظ ۔۔۔!!!" 

پھر بس روحیہ کو اس کی پشت دکھی جو اس سے دور جارہا تھا۔ اور وہ چلا گیا دور۔

روحیہ نے اپنی پیشانی چھوئ اور رونے لگی۔

جاتے جاتے وہ اسے اپنا مزید دیوانہ کرگیا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

صبح کے وقت سورج کی ہلکی ہلکی کرنیں روحیہ کے رخساروں سے مس ہوئیں۔

کل رات وہ شام میں گھر آنے کے بعد سر درد کی وجہ سے نیم بےہوشی کی کیفیت میں چلی گئ تھی۔ اب اٹھ کے اس نے اپنے پہلو میں دیکھا شاید باران کل رات واپس آیا ہو۔

پر وہ نہیں آیا تھا۔

 " باران ۔۔۔!!!" 

آنکھیں مسلتے ہوۓ روحیہ اٹھ گئ۔ اپنے سلیپرز پہن کر وہ واش روم میں فریش ہونے کی نیت سے گئ۔ پر دل میں انجانے سے وسوسے جنم لے رہے تھے۔

فریش ہوکر سادہ سا ڈریس پہن کر اپنے بال خشک کرکے وہ کمرے سے باہر نکلی۔

گھر میں ملازمین کی فوج کام میں مگن تھی۔ 

سب معمول کے مطابق چل رہا تھا یہاں۔ کہ اچانک گھر کا دروازہ کھلا۔ اسے لگا باران آیا ہوگا۔

وہ مسکراتے ہوۓ باہر کی جانب بھاگی جہاں سے مسلسل گاڑیوں کے شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ 

جیسے ایک ساتھ کئی گاڑیاں یہاں آئ ہوں۔

وہ مین گیٹ کی جانب بھاگتی ہوئ آئ تو یہ گاڑیاں اسے اجنبی لگیں۔ باران ہمیشہ ایک گاڑی میں سفر کرتا تھا ایک ساتھ اتنی گاڑیاں اسے پسند نہیں تھیں ۔۔۔!!! 

سامنے وائٹ کلر کی کار کا بیک ڈور کھلا تو محسن اور  قاسم بھاگتے ہوۓ اس کی طرف آۓ۔ 

پندرہ سالہ قاسم اور گیارہ سالہ محسن اس کے قریب ہی رک گۓ۔

وہ حیرت کے مارے ان دونوں کو دیکھنے لگی کہ یہ پاکستان کب آۓ آسٹریلیا سے۔ 

ان سے مل کر اس نے سامنے دیکھا جہاں علی اور لائبہ بھی کھڑے تھے۔ 

" روحیہ ۔۔۔!! میری جان ۔۔۔!!!" 

لائبہ نے اسے گلے لگایا۔ وہ بس رونے والی تھی۔

" از ایوری تھنگ اوکے ۔۔۔!! آپ لوگ اچانک آگۓ۔ سب ٹھیک ہے نا برو " 

لائبہ سے الگ ہوکر وہ علی کے سامنے آئ جس نے آنکھیں اس سے چرانے کی کوشش کی پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ یہ خبر وہ اسے کیسے دیتا آخر۔

اتنی مشکل سے تو وہ زندگی کی جانب لوٹی تھی۔

" ہوا کیا ہے کوئ بتاۓ گا بھی ۔۔!! یا جان لینی ہے سب نے میری ۔۔۔!!!" 

غصے سے وہ چیخنے لگی۔ سب اسے ڈرا رہے تھے۔ جب پیچھے کھڑے حسن نے گہرا سانس لیا۔

" باران کی فلائیٹ تھی آج امیریکا کی۔ علی بھائ کی نظر تھی اس پر تو جانتے تھے وہ۔ باران یہاں سے جانا چاہتا ہے۔ تم سے دور ۔۔۔!!! صبح پانچ بجے کے قریب اس کی فلائٹ ٹیک آف کے بعد موسم کی خرابی کی وجہ سے کریش کرگئ۔ باران اسی فلائیٹ میں تھا تو انفورچونیٹلی وہ اب ہم میں نہیں رہا۔۔۔!!!" 

روحیہ کے سر پر یہ خبر کسی بومب کی طرح گری۔

وہ نہیں رہا ۔۔۔!!! 

پر کیوں ۔۔۔۔؟؟؟ ابھی تو اس نے اسے خوشیاں دینے کا سوچا تھا۔ تو وہ کیسے چلا گیا۔ 

کیسے ۔۔۔۔؟؟؟ 

 مسٔلہ یہ نہیں کہ ہم بچھڑ گۓ ہیں

مسٔلہ یہ ہے کہ اب ہم تا عمر نہیں ملیں گۓ

 وہ ابھی تو خوش ہوئ تھی۔ سچ جان کر ۔۔۔!!! 

وہ کیسے چھوڑ گیا یہ دنیا ۔۔۔!!! 

بس پندرہ سیکنڈ اس نے حسن کو دیکھا جس نے خبر دی تھی پھر بس وہ زمین بوس ہوگئ۔ اس نے نہیں پوچھا کیسے ۔۔۔؟؟ کیوں ؟؟؟ آخر وہی کیوں روۓ ہمیشہ ؟؟؟ 

بس اتنی مہلت نہیں تھی اس کے پاس۔

بعض اوقات کچھ کہانیاں نامکمل ہی رہتی ہیں۔ وہ درد دیتی ہیں ہمیشہ۔

اس کہانی کے ان کرداروں کے نصیب میں بھی خوشی نہیں تھی۔ 

ایک مہینے بعد)

کہتے ہیں زندگی کسی ایک کے دور جانے سے نہیں رکتی۔ کوئ چلاجاۓ تو چند دنوں میں لوگ اسے بھول جاتے ہیں اور اپنی زندگیوں میں مگن ہوجاتے ہیں پر میرا ماننا ہے جب کوئ پیارا چلا جاۓ تو بھلے سب کی زندگیاں معمول پر آجائیں پر کوئ ایک ایسا انسان ضرور ہوتا ہے جس کے لیے سب وہیں رک جاتا ہے۔ جو وقت کے گرداب میں اسی ایک لمحے پر اٹک کر رہ جاتا ہے۔ یہی سچ میں کسی ایک انسان کے جانے سے کم از کم کسی ایک انسان کی دنیا تو اجڑتی ضرور ہے ۔۔۔!! 

ہمیشہ نہیں لیکن جہاں بات دل کی ہو وہاں تو اجڑنا لازمی ہے۔ یہی حال روح کا بھی تھا۔ باران کی موت کی خبر صرف چند لوگوں کو معلوم تھی۔ علی، اس کی فیملی ، روح ، باران کی ٹیم کو۔۔۔!!! 

اس خبر کو زیادہ پھیلایا نہیں گیا ورنہ ایجنسی کی ساکھ خطرے میں پڑ جاتی۔ ان گنے چنے لوگوں کے علاؤہ باران کی فیملی کے نزدیک وہ واپس سے پیرس جاچکا تھا۔ سب سے دور ایک بار پھر ۔۔۔۔!!! 

اس خبر کو کچھ عرصے تک راز رکھا جاتا پھر اپنے طریقے سے یہ خبر سب تک اس کی ایجنسی پہنچا دیتی۔ 

" وہ نہیں مرا ۔۔!! وہ مر ہی نہیں سکتا۔ میرا باران بھلا میرے بغیر کیسے مر سکتا ہے ۔میں اس کی بیوی ہوں۔ اس کی روح ہوں۔ اس کا عشق ہوں تو کیسے وہ چھوڑ سکتا ہے مجھے۔ یہ سب لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ سب برے ہیں۔ میری خوشی کسی سے برداشت جو نہیں ہورہی تو کہہ دیا وہ مرگیا ہے۔ سب برے ہیں ۔۔۔!!!" 

تیز رفتار چلتی گاڑیوں کو دیکھتے ہوۓ روح نے پلکیں جھپک کر آنسو نکلنے دیے۔ جو اس کی سوجھی آنکھوں سے نکل کر گود میں گرے۔ وہ ہفتے پہلے ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوئ تھی۔اسے نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا۔ وہ موت کے قریب تھی پر ناجانے کیوں واپس بچ کر آگئ۔ تب سے علی اور لائبہ اسے دن میں پندرہ سے بیس گھنٹے نیند کی دوا دے کر سلاۓ رکھتے تھے۔ تاکہ وہ پرسکون رہے۔

پر سکون تو اب حرام تھا اس پر۔ جن چند گھنٹوں میں وہ ہوش میں ہوتی تب اسے سنبھالنا سب کے لیے مشکل ہوجاتا۔ وہ چیختی، چلاتی ، باران کو آوازیں دیتی۔

علی کو افسوس تھا اب اس وقت پر جب باران کے پاس اس نے روح کو بھیجا۔اسے امید تھی وہ ٹھیک ہوجاۓ گی پر وہ تو پہلے سے زیادہ برباد ہوگئ۔ 

اچھی بھلی وہ زندگی کی طرف لوٹی تھی اب واپس سے موت چاہتی تھی وہ۔ 

" نہیں کھانی اب مجھے کوئ بھی میڈیسن۔ نہیں سونا اب مجھے۔ مجھے جاگنا ہے۔ تمہیں ڈھونڈنا ہے۔ تمہارے گلے لگ کر رونا ہے۔ تمہیں بتانا ہے کہ میں ہی روح ہوں۔ ان سب نے مجھے ایک مہینے سے پاگل ڈیکلیئر کردیا ہے سب بتانا ہے تمہیں۔ تمہیں اپنے دکھوں کی داستان سنانی ہے۔ تمہارے پاس رہنا ہے باران ۔۔۔!!!  ایک دفعہ تو ملو نہ بڈی ۔۔۔!!!" 

دل کٹنے لگا۔ وہ رو رہی تھی۔ مسلسل اس ستمگر کو بلا رہی تھی جو اس کے پاس آنے کو تیار ہی نہیں تھا اب۔ اسے یاد تھا کہ کیسے ایک رات میں وہ اجڑ گئ۔ کاش وہ تب باران کو روک لیتی۔ سب بتادیتی۔ ایک رات کا انتظار نہ کرتی۔۔۔!! 

تو آج سب ٹھیک ہوتا۔ اسے وخشت ہوتی تھی اب سونے سے۔ کہ یہ نیند اسے لے ڈوبی تھی۔ 

زکام زدہ سانس کھینچتے ہوۓ اس نے اپنی جلتی آنکھوں کو رگڑ کر صاف کیا۔ 

" باجی تم یہ پھول خریدے گا۔ یہ بہت پیارا لگے گا تمہارا ہاتھوں پر۔ یہ لے گا تم ۔۔۔!!!" 

روحیہ نے دائیں جانب دیکھا جہاں چھوٹا سا بچہ ہاتھ میں گجرے اور پھول لیے کھڑا اسے امید بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے وہ اسے انکار نہیں کرے گی۔

" میں کیا کروں گی پھولوں گا۔ مجھے نہیں چاہیے۔ اجڑے لوگ بھی کیا پھول پہنتے ہیں۔لوگ ان پر پھول ڈالتے ہیں جب وہ سکون سے سوجائیں۔ میں بھی جب سوگئ نا تو پھول ڈال دیں گے سب مجھ پر ۔۔۔!!" 

انگلیاں مڑورتے ہوئے وہ پھر سے رونے لگی۔ اپنے ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ چھپایا۔ پر رونے کی وجہ سے سارا جسم لرزنے لگا تھا۔ 

اس بچے کو شاید روحیہ پر ترس آگیا تو وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گیا سڑک کے کنارے پر۔ 

" تم کیوں رورہا ہے باجی۔ اگر پھول خریدنے کو پیسے نہیں ہیں تو تم مفت میں لے لو۔ پر رو نہیں۔ ہم پٹھان ہے ہمارا غیرت گوارہ نہیں کرے گا کوئ ہمارا سامنے روۓ ۔۔۔!!!"

اسے لگا شاید بات پیسوں کی ہے تو وہ رورہی ہے۔ اب وہ سات سے آٹھ سال کا بچہ کہاں عشق کی باتیں سمجھتا۔ اس نے دو گجرے اتار کر اس کی جانب بڑھاۓ۔ 

عرصے بعد روحیہ کا دل کیا بلک بلک کر روپڑے۔ اپنے دل کا غبار نکال دے کہ ہمیشہ وہی کیوں تنہا رہ جاتی ہے۔ پر اتنی ہمت نہیں تھی اس میں تو سامنے دیکھتے ہوۓ اس نے آنسو حلق میں اتار دیے۔

" بیٹا بات پیسوں کی نہیں ہے۔ میرا سکون کھوگیا ہے۔ کوئ مجھے نہیں سمجھتا۔ سب پاگل کہتے ہیں۔ " 

" سکون کیسے کھوگیا۔ کدھر گیا۔ تم ہم کو بتاؤ ہم ڈھونڈ دے گا ۔۔۔!!!"

اس نے اپنے فہم کے مطابق اسے تسلی دینا چاہی۔ مہینے بعد اس بچے کے انداز پر ہنس پڑی وہ۔ یہ بالکل بادل کے انداز میں بولتا تھا۔ پھر معصوم سی صورت بناکر اس نے اس بچے کو دیکھا۔ 

" میرا شہزادہ کھوگیا ہے لٹل بےبی ۔۔۔!! سب کہتے ہیں وہ مرگیا۔ پر مجھے لگتا ہے وہ زندہ ہے۔ پر میں کیا کروں لٹل بےبی یہ بات میرا دل نہیں مانتا۔۔!!! سب مجھے جھوٹا سمجھنے لگے ہیں۔ سب اکتا گۓ ہیں مجھ سے۔ سالوں سے سب کو تنگ ہی تو کررہی ہوں میں۔ تو سب کا دل بھرگیا ہے اب۔ لٹل بےبی میں کیا کروں اب۔۔۔!! " 

اس نے معصوم سے انداز میں اسے بتایا۔ تو اس کی سوجی آنکھیں دیکھ کر بچے نے اپنی کنپٹی پر انگلی رکھ کر سوچنے کی ایکٹنگ کی۔ وہ اس کے لیے حل سوچ رہا تھا۔ 

" شہزادہ اور شہزادی میں سے اگر ایک بھی مر جاۓ تو کہانی ختم ہوجاتا ہے ۔ ہم کو تو ایسا ہی لگتا ہے۔ ہمارا بڑا آپی سناتا ہے ہمیں کہانیاں جن میں شہزادہ اور شہزادی ہمیشہ مل جاتا ہے۔ وہ نہیں بچھڑتا۔ 

تو ہم کو لگتا ہے تمہارا شہزادہ بھی اسی دنیا میں ہوگا۔ تم اس کو ڈھونڈے گا تو وہ مل جاۓ گا تمہیں۔ پر تم کو سچے دل سے ڈھونڈنا ہوگا ۔ سچے دل سے کچھ مانگو تو لازمی ملتا ہے۔۔۔!!!" 

اس کی باتوں میں یقین کی رمق تھی۔ بچے کی بات پر وہ مسکرانے لگی۔ اس سارے عرصے میں یہ واحد تھا جس نے اسے جھوٹا نہیں کہا۔ حقیقت قبول کرنے کو نہیں کہا۔ نا ہی پاگل سمجھا۔ بلکہ اس نے تو مشورہ دیا تھا اسے۔ 

اس نے دقت سے ہنستے ہوۓ سر ہاں میں تیزی سے ہلایا۔ پھر آنسو صاف کرکے وہاں سے اٹھ گئ۔

 ہمت اسے مل گئ تھی اب۔ باقی وہ سب خود ہی کرلیتی۔ 

" تھینکس چیمپ۔۔!! پھر ملیں گے۔ ابھی پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ تو میں یہ نہیں لوں گی۔ پر وعدہ جب اگلی بار ملے تو یہ گجرے بھی لوں گی۔اور تمہیں پیارا سا گفٹ بھی دوں گی۔ !!!" 

بچہ بھی مسکراتا ہوا وہاں سے آگے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد روحیہ نے ایک گہرا سانس خارج کیا۔ اور واپسی کی راہ لی۔

" بس کچھ وقت اور باران ۔۔۔!! باخدا تم جہنم میں بھی ہوۓ نا تو وہاں آکر تمہارا گلا دباؤں گی۔ جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔!!!" 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" آہاہ۔۔۔!! مس معصومہ لگی رہو کالز کرنے۔ اٹھانے والا تو میں بھی نہیں ہوں اب۔ بہت شوق تھا نا اس محبت کو ہمدردی کہنے کا تو لو اب تو ہمدردی میں بھی محبت نہیں دوں گا تمہیں۔ جب تک اپنے الفاظ تم واپس نہ لے لو ۔۔۔!!!" 

کرسی پر جھولتے ہوۓ فدیان کے لبوں پر گہری مسکراہٹ کی چھاپ تھی اس وقت۔ کیبن کی خاموشی میں کال ٹیون کی آواز کوئ مسلسل چوتھی دفعہ سنائ دی تو اپنے ہاتھ میں پکڑا پین کھول کر اس نے فون سائیلنٹ پر لگایا اور کام میں مگن ہوگیا۔

پچھلے ایک مہینے سے وہ معصومہ سے دور تھا اتنا دور کہ کوئ پانچ سے چھ دفعہ ہی اس نے معصومہ سے بات کی۔ صرف پانچ سے چھ منٹ کے لیے۔ وہ بھی رات کے وقت۔ آفس ٹائمنگ کے بعد۔ 

یہ انوکھی سزا دے رہا تھا وہ اسے اور خود کو۔ اور حیرت انگیز طور پر اسے بالکل پرواہ نہیں تھی وہ کیا کررہا ہے۔ اور کیا نتائج سامنے آسکتے ہیں اس کام کے۔

" سر یہ آج کے دن کا شیڈول ۔۔۔!! دو میٹنگز ہیں شام چار بجے تک۔ بعد میں آپ فری تھے تو کل کی ایک میٹنگ بھی میں نے رات سات بجے فکس کردی ہے۔ اور ڈنر ٹائمنگ دس بجے کے قریب کی ہے۔ 

کچھ ضروری فائلز ریڈ کرنے کے بعد آپ رات ایک بجے تک فری ہو جائیں گے۔ اور اگلے دن کی میٹنگ صبح دس بجے سے پھر شروع ۔۔۔!!!" 

فدیان نے زبان دانتوں کے بیچ میں گھماتے ہوۓ اپنی گھڑی پر نظر ڈالی۔ مطلب رات میں وقت نہیں تھا آج بیوی صاحبہ سے بات کرنے کو۔ جس حساب سے وہ کالز کررہی تھی اسے یقین تھا کل تک پاگل ہوجاۓ گی تو اس نے فون اٹھانے کا ارادہ کرلیا۔

" بہت سمجھدار ہوگۓ ہو تم۔ شاباش ایسے ہی لگے رہو ایک دن اس کمپنی کے مینیجر ہوگے تم۔ دیکھنا کہاں تک پہنچاؤں گا میں تمہیں۔۔۔۔!!!" 

اپنا فون اٹھاتے ہوۓ اس کی مسکراہٹ پھر سے گہری ہوئ۔ وہ محترمہ اب بھی کال کررہی تھی۔ 

" کہاں تک پہنچائیں گے مجھے سر ۔۔۔!!!" 

سیکرٹری نے تجسس سے استفسار کیا۔ تو فدیان نے لب سکیڑ کر وہ کام کٹ ہونے دی۔

" بارڈر کے پار افغانستان کی حدود میں پہنچاؤں گا میں تمہیں ۔۔۔!!! پھر وہاں سے طالبان کے حوالے کروں گا جو تمہارے ہاتھ پیر کاٹ کر تم میں بومب فٹ کرکے ااڑادیں گے تمہیں۔ تمہارے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوں گے۔ اور کھیل ختم۔ انشارٹ تمہیں ہوا میں شامل کرواکے دور دور تک پہنچاؤں گا ۔۔ !!!" 

وہ خاصی سنجیدگی سے بتا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ معصومہ کی بےتابی سے آتی ہوئی کالز اس کے دل میں سکون اتار رہی تھیں۔ پر اس کے سیکرٹری کے ہوش اڑے۔ 

" سر۔۔۔۔!!! آپ مجھے سچ میں مار دیں گے۔ م۔میں تو آپ کی ساری باتیں مانتا ہوں سر۔ آپ جو کہیں جب کہیں سب کرتا ہوں۔ پلیز یہ نہ کریں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھلے نہیں ہیں ابھی۔ پر کبھی تو ہوں گے نا۔ پلیز میری فیوچر وائف کو بیوہ اور میرے فیوچر کے بچوں کو یتیم نہ کریں۔ سر ۔۔۔۔۔!!! پلیز ۔۔۔!!!" 

اس نے آگے بڑھ کر اس کے پیر پکڑ لیے تو فدیان ہڑبڑا کر کرسی سے اٹھا۔ پھر اس کی رونی صورت دیکھی جو بس ہاۓ ہاۓ کرکے رونے کے موڈ میں تھا۔ اس کا دل کیا کہیں ٹکر مار لے۔ یہ سیکرٹری تو بالکل ہی سیدھا سیدھا اور بھولا بھالا تھا۔ جسے وہ جو کہے اس کے لیے پتھر پر لکیر تھی۔ 

" دیکھ بیوی تو میری ہے۔ پر چھوٹے چھوٹے بچے تو میرے بھی نہیں۔" 

فدیان نے ٹھوڑی دو انگلیوں سے کھجانا شروع کی۔ 

"  تو دعا کر تیری بھابھی کو اللہ عقل سے نواز دے۔ وہ بس وہ بول دے جو میں چاہتا ہوں تو میں تیری جان بخش دوں گا۔ اپنے چھوٹے چھوٹے مستقبل کے بچوں کے آتے ہی تیری شادی تیرا بھائ کرواۓ گا۔ پر اس کے لیے میرا گھر بسنا ضروری ہے۔ تو تو جاکر کام ختم کر پھر دعا بھی مانگنا۔ جتنی جلدی میری بیوی تین لفظ مجھے بولے گی اتنی جلدی تیری جان بخشی جاۓ گی۔ ورنہ طالبان کے ہاتھوں کا کھلونا بننے کو تیار رہ ۔۔ !!!" 

اپنی کرسی گھماتے ہوۓ فدیان کے سامنے معصومہ کی صورت آئ تو دل نے ایک بیٹ مس کی۔ ایک مہینہ اس سے دور رہتے ہوۓ اسے وہ اب جان سے بھی پیاری ہوگئ تھی۔ دل کی بس ایک خواہش تھی کہ وہ اب کی بار اسے ملے گی تو وہ کبھی اسے خود سے دور نہیں کرے گا۔ کسی قیمتی شے کی طرح سمبھال کر رکھے گا۔

پر شرط یہی ہے وہ اس کی محبت کو محبت سمجھے ہمدردی نہیں۔۔۔۔!!! 

" اللہ آپ کی ساری مرادیں پوری کرے سر ۔۔۔!! چاند سے بچوں سے آپ کو نوازے۔ آپ کی وائف جی آپ کی ساری باتیں مان لیں۔ الہیٰ آمین ۔۔۔!!! بس سر مجھے کچھ نہ کرنا ۔۔۔!!!" 

اپنی ٹائ ٹھیک کرکے اس کا سیکرٹری وہاں سے اٹھ گیا تو فدیان نے اسے اشارہ کیا یہاں سے جانے کا۔ سر کو ادب سے خم دے کر وہ دل میں فدیان کے لیے دعائیں کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی فدیان نے فون اٹھایا اور گلا کھنکار کر چہرے پر سنجیدگی طاری کرکے اس کی کال اٹینڈ کی۔

" فادی کہاں مصروف ہیں آپ۔ کہ میری بیس مس کالز کے بعد بھی فون نہیں اٹھاتے آپ۔ ایسا کونسا کام ہے کہ میرے لیے ایک منٹ نہیں ہے آپ کے پاس ۔۔۔!!!" 

کال چھوٹتے ہی معصومہ نے بےتابی سے پوچھا۔ وہ کمرے میں بیٹھی تھی اس وقت۔ یہاں آنے کے بعد یشاور سے لڑنا اور بہار اور اپنی ماں کے ساتھ وقت گزارنا ہے اس کے مشاغل تھے۔ اور یادوں میں فدیان کی باتیں، اس کا انداز سب یاد کرکے اسے کالز کرنا تو اس کا فرض تھا۔ 

ایک دو دن بعد سے ہی اسے فدیان کی یاد ستانے لگی تھی۔ کھانا کھاتے ہوۓ ، اپنے بال بناتے ہوۓ، سونا کو دیکھتے ہوۓ غرض ہر وقت فدیان اس کے ذہن پر سوار رہتا۔ وہ جانتی تھی وہ فدیان سے محبت کرتی ہے۔ شدید والی محبت ۔

پر اسے یہ نہیں پتہ تھا وہ بھی اس سے عشق کرتا ہے۔ 

کرسی کے سرے پر بازو رکھ کر نچلا لب فدیان نے دانتوں تلے دبایا۔

" معصومہ نہیں ہوتا میرے پاس ٹائم۔ یہاں کام ہی بہت ہے۔ ہر وقت کام کام اور کام ۔۔!! ابھی بھی مس مہرو سے میٹنگ تھی میری۔ بیچ میں مجھے تمہاری کال پک کرنا پڑی۔ تم بولو کوئ کام ہے کیا۔ ورنہ میں فون رکھ دوں ۔۔۔!!!" 

دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے اس کی اتنی بےتابی پر لیکن موصوف کیوں بتاتے اسے یہ بات۔ معصومہ کے چہرے پر چھاۓ تنگ غائب ہوۓ مس مہرو کے نام پر۔

پچھلی دو کالز میں بھی فدیان نے مس مہرو کا ہی نام لیا تھا۔

" تو اب کیا میں آپ کو بغیر کام کے کال بھی نہیں کرسکتی۔ ویسے یہ مس مہرو کون ہیں۔۔۔!!!" 

مس مہرو بولتے ہوئے معصومہ کا حلق کڑوا ہوگیا۔

فدیان اس کی جیلسی محسوس کرسکتا تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر اس نے سر کرسی کی پشت سے ٹکایا۔

" پارٹنر ہیں میری۔۔۔!! یہاں ہی ہوتی ہیں میرے کیبن میں۔ اصل میں پروجیکٹ کی ڈیمانڈ ہی کچھ ایسی ہے کہ انہیں ساتھ رکھنا پڑتا ہے مجھے ۔۔۔!!!" 

بامشکل قہقہہ روکا اس نے۔ معصومہ کے لب صدمے سے کھلے۔ 

" فادی یہ گناہ ہے۔ کسی نامحرم کے ساتھ کام کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اللہ ناراض ہوجاتا ہے ایسے۔ آپ کیوں گناہ کمارہے ہیں۔ویسے کیا آفس میں جگہ تھوڑی ہے جو آپ انہیں اپنے کیبن میں ساتھ رکھ رہے ہیں۔۔۔!!!" 

آنکھوں میں نمی چمکی۔ اسے تو پہلے ہی پتہ تھا یہ شخص اس سے پیار نہیں کرتا اب تو یقین ہورہا تھا۔

فدیان کی خوشی تو عروج پر تھی ابھی۔ 

" معصومہ یار اکیلی ہوتی ہے وہ اس ملک میں۔ اچھا نہیں لگتا نا کہ میں ایک الگ کیبن دے کر اس کی تنہائی میں اضافہ کروں۔ اچھا رات میں کال نہ کرنا مجھے ان کے ساتھ ڈنر پر جانا ہے۔ تم اپنے گھر والوں کے ساتھ انجواۓ کرو ۔ ۔!! 

اللہ حافظ ۔۔۔!!!" 

بات ختم کرکے کال بند کردی اس نے۔ وہ امیجن کرسکتا تھا اس وقت معصومہ کی حالت کیا ہوگی۔ پر مزہ آرہا تھا اسے معصومہ کو تپا کر۔

معصومہ نے کچھ بولنا چاہا تو پتہ لگا موصوف نے کال ہی کٹ کردی ہے۔ اپنا فون بیڈ پر پٹخ کر غصے سے لال پیلا ہوتے ہوۓ اس نے نچلا ہونٹ لٹکایا۔ اب رونے دھونے کے سوا کوئ چارہ نہ تھا۔ 

بیچاری تو سکون کے لیے یہاں آئ تھی۔ پیچھے شوہر نے کہیں اور سکون ڈھونڈ لیا۔

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" آپ کے ہاتھ میں تو بہت ذائقہ ہے موم ۔۔۔!! کیا بریانی بنائ ہے آپ نے۔ میرا دل کررہا ہے آپ کے ہاتھ چوم لوں۔۔۔۔!!" 

مزے سے پلیٹ میں موجود بریانی کی آخری سپون بھی زرلشتہ نے منہ میں ڈالی۔ تو اس قدر تعریف پر سحرش نے مسکراتے ہوۓ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

وہ ایک مہینے سے ان کے ہی ساتھ تھی۔ اب تو اس کی صحت بھی کافی بہتر تھی۔ وہ پھولے پھولے سے گال جو درمان کو ماننے پر مجبور کرتے تھے کہ اس سے زیادہ کوئ کیوٹ نہیں ہے اس دنیا میں وہ مزید تھوڑے سے پھول چکے تھے اب۔ ان کی لالی بھی واپس آگئ تھی۔ اور وہ پہلے کی طرح جو دل میں آۓ بغیر ڈرے بول دیتی تھی۔ ویسے بھی درمان نے ایک مہینے سے اس کی نہ صورت دیکھی تھی نا آواز سنی تھی اب تو وہ بھی ترس رہا تھا اس کی ایک جھلک دیکھنے کو۔ 

" میری بیٹی کو پسند آگیا یہ سب میرے لیے یہی بہت ہے۔ ابھی تو آئس کریم بھی رکھی یے فریج میں وہ بھی کھانی ہے تم نے۔ اور اس ویک چیک اپ کے لیے درمان کے ساتھ جانا ہے۔ پچھلی بار بھی ڈاکٹر اس کا پوچھ رہی تھی۔ " 

درمان اولاد تھی ان کی۔ ماں کو یاد تو ستاتی تھی۔ پر زرلشتہ کے سامنے انہیں بات کرتے وقت ہچکچاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا۔ جو درمان غصے میں اس کے ساتھ کرتا تھا وہ اب کیسے اسی بیٹے کا ذکر فخر سے کر لیتیں۔

" وہ مارتے ہیں نا مجھے۔ اب بھی ڈانٹیں گے جب ڈاکٹر وہ سب انہیں بتاۓ گی جو آپ کو بتاتی ہے۔ ایک آدھ تھپڑ بھی مار دیں گے وہ تو۔ میں آپ کے ساتھ ہی جاؤں گی نا ڈاکٹر کے پاس ان کے ساتھ نہیں جاؤں گی پلیز ۔۔۔!!!" 

درمان کا اس دن کا روپ یاد آتے ہی اس نے جھرجھری لی۔ پھر رسان سے انہیں انکار کرنا چاہا۔ جن کی رنگت ماند پڑگئ۔

" بیٹا تو خیال رکھا کرو نہ اپنا کہ یہ سب سننا ہی نہ پڑے ۔۔۔!!! شوہر تو غصہ کرتے ہی ہیں۔ مرد کی فطرت یہی ہوتی ہے۔ اس نے جو کیا میں جانتی ہوں غلط ہے پر میرا بیٹا شوہر تو بیویوں کی آبرو بھی روند دیتے ہیں۔ انہیں کمتر ، حقیر ، پیر کی جوتی اور ناجانے کیا کیا سمجھ لیتے ہیں۔

 اور انہیں بالکل احساس نہیں ہوتا۔ پر اصل مرد تو وہ ہے نا جسے اپنی غلطی کا احساس ہوجاۓ وقت پر۔ اور معافی بھی مانگے ساتھ سزا بھی قبول کرے۔ درمان تو بچپن سے ہی غصے کا تیز ہے ۔  اسے نہیں پتہ ہوتا وہ کیا کررہا ہے غصے میں۔ اس نے جو کیا غلط ہے پر وہ شرمندہ یے تو کیا گنجائش نہیں نکل سکتی کوئ۔۔۔۔!!!" 

 وہ لفظوں کی تلاش میں تھیں کیسے اسے سمجھائیں۔ آخر اب کیسے اسے بتاتیں کہ جس اولاد کو سالوں بس سوچا ہے انہوں نے اب اسے سینے سے لگانے کی تمنا کتنی شدت پکڑ چکی ہے۔ زندگی کا کوئ بھروسہ نہیں پر اپنی اولاد کو ایک بار سینے سے لگانا تو وہ ڈیزرو کرتی ہیں۔ 

زرلشتہ کو کچھ کچھ بات سمجھ میں آگئ۔ دیکھا جاۓ تو درمان زرلشتہ کے آنے کے بعد اس کی خاطر حد سے زیادہ بدل گیا تھا۔ نا اسے اب ہر وقت غصے کی عادت رہی تھی نا ہی اس نے کبھی زرلشتہ کا مزاق بنایا تھا۔ ہاں وہ کبھی کبھار غصے کے سامنے ہار ضرور جاتا تھا پر جلد ہی خود پر قابو بھی پالیتا تھا۔ 

زرلشتہ کو ماضی اب بھی یاد نہیں آیا تھا پر درمان نے یادداشت جانے کے بعد جتنا اسے پیار دیا تھا وہ سب اسے یاد تھا۔ 

" صحیح کہہ رہی ہیں آپ۔ وہ جیسے بھی ہیں میرے شوہر ہیں۔ یہاں تو میرے گھر والوں نے یادداشت جانے کے بعد دوبارا پوچھا بھی نہیں۔ سب بھول گۓ ہیں مجھے پر انہوں نے تو بہت خیال رکھا تھا میرا۔ کھانا بھی خود بناتے تھے اور کھلاتے بھی تھے۔ نہ ڈانٹتے تھے نہ میری شرارتوں پر انہیں غصہ آتا تھا۔

بس ایک بار غصہ کیا انہوں نے تب غلطی میری ہی تھی۔ جب وہ بار بار کہہ رہے تھے چپ کرجاؤ۔ بات ختم کردو۔ یا یہاں سے چلی جاؤ۔ تو میں نے ہی بات جاری رکھی۔ غلطی میری بھی تھی۔۔۔۔!!! 

ٹھیک ہے میں گنجائش نکال لوں گی۔ آپ ٹینشن نہ لیں ۔۔۔!!!" 

اب اتنی بھی بیوقوف وہ نہیں تھی جو بات سمجھ نہ لیتی۔ وہ جانتی تھی جو جو ان کے ساتھ ہوا ہے۔ سب بتایا تھا انہوں نے اسے اور شنایہ نے ان کے بچے چھین لیے۔ درمان اور فدیان کسی غیر عورت کے شر کی نظر ہوگۓ اور اس کے ساتھ بھی سب جس نے کیا سب جانتی تھی اب وہ۔

سحرش کو یہی امید تھی اس سے۔انہوں نے اس کے رخسار کو محبت سے چھوا۔ پیاری تو وہ انہیں لگتی تھی حد سے زیادہ۔

" ویسے موم ۔۔۔!! ایک بات تو بتائیں۔ بیٹی کا آپ کو اتنا شوق ہے تو بدلہ کیوں نہیں لے لیتی آپ ۔۔۔!!!" 

سامنے سے پانی کا گلاس اٹھا کر اس نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا تو وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگیں۔

" مطلب کیسا بدلہ ۔۔۔!!!" 

" آپ بتائیں بدلہ لینا ہے کیا آپ نے اس عورت سے جو آپ کی محرومیوں کی وجہ ہے۔ حساب برابر کرنا چاہتی ہیں کیا آپ ۔۔!!!" 

گلاس واپس رکھ کر اس نے ان کے دونوں ہاتھ پکڑ کر کچھ جاننا چاہا۔ 

" مجھے تو بدلہ چاہیے تھا پر وہ عورت ہی مرگئ۔ ورنہ اچھے سے اسے سبق سکھاتی میں ۔۔۔!!" 

سب یاد آتے ہی ان کے لفظوں میں درد گھلا۔ 

" بدلہ اب بھی لیا جاسکتا ہے زیادہ نہ سہی پر تھوڑا ہی۔ پلی پلائی بیٹی چاہیے آپ کو۔۔۔۔!!!" 

اب کی بار آنکھوں میں شرارت تھی۔ انہیں اب بھی کچھ سمجھ نہ آیا۔

" کہاں سے مل رہی ہے لا دو مجھے۔ ویسے ایک تو تم ہو میرا پیارا سا دل۔ دوسری ہے میری دوسری بہو جسے کچھ دنوں میں یہاں لے آؤں گی میں بہت رہ لیا اس نے میکے میں اور تیسری بھی مل جاۓ تو مزہ آجاۓ گا ۔۔!!" 

بے نیازی سے کرسی کھینچ کر وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔ اگر وہ تیسری بھی انہیں دے دے گی تو برائ تو نہیں کوئ۔  

" موم ۔۔۔!!! میرے بھائ کو اپنا داماد بنالیں۔۔۔! اس بہانے لالہ کو اپنی بھولی ہوئ بہن یاد آجاۓ گی۔۔۔!!! " 

" پر وہ تو شادی شدہ ہے نا پہلے سے۔ کچھ بھی بولتی ہو تم ۔۔۔!!!!" 

انہوں نے مصنوعی خفگی ڈانٹ اسے پلائی۔ جس کی آنکھوں کی چمک اب بھی ویسی کی ویسی تھی۔

" میری بھولی بھالی ساس ۔۔۔!! جس عورت نے آپ کے دونوں بیٹے آپ سے دور کیے انہیں اپنا کہا اور آپ کو ان کے ذہن سے نکال دیا آپ اس عورت کی اکلوتی بیٹی کو اس سے چھین لیں۔ اس ظالم عورت کو اس کے ذہن سے نکال کر اپنی ممتا کی چھاؤں اسے دے دیں۔ آپ کو بیٹی مل جاۓ گی سگھی والی اور بدلہ بھی پورا ہوجاۓ گا۔ وشہ کو اپنا بنالیں۔۔!!!" 

اس نے ساری بات مختصراً ہی سہی انہیں سمجھادی۔ کیا دماغ تھا اس کا۔ وہ داد دینے والی نظروں سے بس اسے تکنے لگیں۔

" یہ میں نے کیوں نہیں سوچا۔۔۔!! جیسے میرے بیٹے اسے اپنی ماں سمجھتے رہے اگر وشہ یعنی شنایہ کی اکلوتی بیٹی بھی دنیا کی نظروں میں میری بن جاۓ تو بدلہ تھوڑا ہی سہی میں لے لوں گی۔۔۔!! 

میرا شوق بھی پورا ہوجاۓ گا اور شنایہ کی روح بھی ضرور تڑپے گی۔ میرا بیٹی تو جینئس ہے ۔۔۔!!!" 

ان کے چہرے پر قوس قزح کے رنگ بکھرے کہ اب ان کی بھی ایک بیٹی ہوگی۔ جسے لوگ ان کا سگھا سمجھیں گے۔ وہ حیران تھیں کہ یہ خیال انہیں کیوں نہیں آیا۔ 

دوسری طرف زرلشتہ خوش تھی کہ کسی بہانے ہی سہی اس کے لالہ کی وائف کو بھی اسی گھر میں لایا جاۓ گا پھر شاید ہی وہ ان کا دیدار کرلے جو بھول گۓ ہیں اسے۔ 

اب سحرش صاحبہ سوچنے لگیں آخر وشہ کو اپنا کیسے بنائیں۔ اچھا کام مل گیا تھا انہیں بھی اب۔ اور زرلشتہ کو ایک اور خوشی بھی تھی کہ مزید کچھ عرصے تک اب درمان کا ذکر اس کے سامنے نہیں ہوگا۔

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

کمرے کی ہولناک خاموشی میں دن کے وقت بھی ساری لائٹس آف کرکے بیڈ پر لیٹ کر ہاتھ میں پکڑے فون سے دشمنِ جان کی تصویریں دیکھتے درمان کی آنکھوں میں آج اداسی ہی اداسی تھی۔

ایک مہینے سے وہ دور تھا اس سے۔ بس اس کی یادوں کے سہارے جی رہا تھا۔ دوسری جانب اس کی ماں نے بھی پلٹ کر اس کی خبر نہیں لی تھی۔ جیسے اسے سزا دے رہی ہوں وہ۔ 

اس کے پاس اس وقت زرلشتہ کا وہی پرانا فون تھا جو اس نے اس کے ہاتھ سے چھینا تھا بہت پہلے۔ جب وہ اس فون کے ذریعے بگ باس شو کا کوئ کلو ڈھونڈنے والی تھی۔

وہ اور اس کی معصوم حرکتیں ۔۔۔۔!!! 

فون کا پاسورڈ کیوٹ پٹھان ہی تھا جو اس نے بس یونہی لکھ دیا تو فون کھل گیا۔ 

اس فون میں زرلشتہ کی تصویریں تھیں۔ کچھ وائس نوٹس تھے واٹس ایپ پر۔ سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر اس نے کبھی اپنی پکس پوسٹ نہیں کی تھی یہ دیکھ کر اسے خوشی ہوئ۔ کہ بھلے وہ ڈریسنگ کے معاملے میں بچی ہی تھی پر اتنا پتہ تھا اسے یہ کام نہیں کرنا۔

اسے وہاں فون میں ایک ڈائری سیو ہوئ ملی۔ جہاں زرلشتہ کی خواہشیں اور وہ سب درج تھا جو وہ اپنی زندگی میں چاہتی تھی۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا اس کے کیوٹ پٹھان کو کیسی ڈریسنگ کرنی چاہیے اور اسے کیسا ہونا چاہیے۔

سب لکھا تھا وہاں۔ وہ اس کی معصوم سی سوچ پر بس مسکرا ہی سکا۔ ورنہ جانتا تھا وہ کہ کیوٹ پٹھان نہیں ہے وہ اس کے لیے۔ وہ ظالم ہی رہے گا ہمیشہ۔۔۔!!

اپنی بحار سے جلتی ہوئ آنکھوں کو دو انگلیوں سے رگڑ کر اس نے دوبارہ زرلشتہ کی تصویر دیکھی۔ جو کافی پرانی تھی۔

اپنی پٹاخہ کا بچپن بھی دیکھ لیا تھا اس نے اب تو۔ 

ایک تصویر کو زوم کرکے درمان نے اس کی صورت دیکھی تو دل نے ضد کی اسے واپس سے وہی چاہیے۔ 

اس تصویر پر لب رکھ کر وہ بس اس دل کو تسلی ہی دے سکا وہ آجاۓ گی واپس۔ بہت جلد۔

" سوری ہنی ۔۔۔!!! اچھا نہیں کیا میں نے تمہارے ساتھ۔ تمہارا ساتھ میں ڈیزرو ہی نہیں کرتا تھا شاید۔ لیکن اب تمہاری دوری برداشت نہیں ہورہی مجھ سے۔ یہ خاموشی میری جان نکال رہی ہے زری۔ ایک بار تو اپنے مان کو معاف کر دو۔ باخدا ساری زندگی تمہیں پیار سے اپنے پاس رکھوں گا کبھی نہیں ڈانٹوں گا بس ایک بار معاف کر دو ۔۔۔!!!" 

ہاں وہ ٹوٹ گیا تھا اس دوری کی وجہ سے۔ ہمت ہی نہیں ہوتی تھی زرلشتہ کو کال کرنے کی۔ اس سے بات کرنے کی۔ اس کے پاس جانے کی۔

پچھلے دو ہفتوں سے اسے بحار تھا جو ہجر کے بدلے میں اسے ملا۔ نہ جس کی اس نے کوئ دوا لی نہ ہی دو ہفتوں سے قدم اس گھر سے باہر نکالے۔

بس خود کو اس تنہائ کے حوالے کرکے شاید اس نے خود کو اس غلطی کی سزا دی جو جانے انجانے میں کی تھی اس نے۔

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" علی روحیہ گھر میں نہیں یے۔ میں پورا گھر دیکھ چکی ہوں وہ مجھے کہیں نہیں ملی ۔ صبح اسے نیند کی دوا دے کر سلایا تھا میں نے ناشتے کے بعد۔ پھر قاسم اور محسن کے کاموں میں میں لگ گئ۔مجھے نہیں پتہ وہ کہاں گئ۔۔۔!!!" 

لائبہ کی بات سن کر علی کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بجی۔ اپنا لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کر وہ صوفے سے بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر لائبہ کے قریب گیا۔

" گھر میں نہیں ہے تو وہ کہاں گئ۔ باہر گارڈز سے پوچھا تم نے۔ اگر نگرانی نہیں کرسکتے تو کس چیز کی تنخواہ لے رہے ہیں یہ لوگ ۔۔۔!!!" 

لائبہ نے بےبسی سے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔

" علی وہ بیمار ہے۔ مجھے ڈر ہے وہ خود کے ساتھ کچھ کر نہ لے۔ ہم واپس آسٹریلیا چلتے ہیں۔ پلیز اسے ڈھونڈیں ہم مزید یہاں نہیں رہ سکتے ۔۔۔!!!" 

لائبہ نے ڈرتے ہوۓ بتایا علی کی سرخ آنکھیں اسے ڈرا رہی تھیں۔

" اسے کچھ ہوا تو ان گارڈز کی قبریں میں خود کھودوں گا۔ ٹھیک کہہ رہی ہو تم اب جب کوئ وجہ ہی نہیں تو ہم مزید یہاں نہیں رہ سکتے ۔۔۔!!!"

غصے سے بپھرتے ہوۓ اس نے قدم باہر کی جانب لیے۔ وہ مرنے مارنے کی حالت میں تھا اس وقت۔

ابھی وہ دروازے تک پہنچا ہی تھا جب اجڑی بکھری صورت لیے روحیہ گھر میں داخل ہوئ۔ وہ پیدل کئ کلومیٹر چل کر واپس آئ تھی اس کے پیروں سے خون رس رہا تھا شاید جوتا راستے میں ٹوٹ گیا تھا اسی وجہ سے۔ 

علی تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔

" مسئلہ کیا ہے روحیہ تمہارے ساتھ۔ ایک جگہ ٹک کر کیوں نہیں بیٹھ جاتی تم۔ جانتی ہو نا تم کہ تم عدت میں ہو تو کیوں گھر سے باہر گئ تھی تم۔ وہ بھی اکیلے اگر کچھ ہوجاتا تو ہم کس دیوار پر سر مارتے۔ " 

آج پہلی دفعہ علی کا لہجہ سخت ہوا روحیہ کے لیے۔ اسے شانوں سے دبوچ کر اس نے اپنے سامنے کیا۔ جو اس کی سانسیں چھیننا چاہتی تھی اب تبھی تو رلاۓ جارہی تھی اپنے پیچھے۔ 

" زندہ یے میرا شوہر۔ کسی عدت میں نہیں ہوں میں۔  جھوٹ نہ بولیں میرے سامنے۔ میں یہ بات برداشت نہیں کروں گی کہ کوئ میرے باران کے بارے میں کچھ غلط کہے۔ باران زندہ ہے ۔۔۔!!! زندہ ہے ۔۔۔!! زندہ یے ۔۔۔!!!!!" 

علی کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر اس نے چیختے ہوۓ کہا۔ تو فورا لائبہ کمرے سے اس کے لیے سکون کا انجیکشن لینے چلی گئ۔ اس وقت وہ اپنی جان لینا چاہتی تھی شاید چیخ چیخ کر۔

علی کے ہاتھ جھٹک کر وہ اس سے دور ہوگئ۔

" روحیہ تمیز کے دائرے میں رہو۔ تمہارا یہ بچپنا اگر ختم نہیں ہوا تو بہت برا پیش آؤں گا میں۔ مزاق بنارکھا ہے ان باتوں کو تم نے۔ باران ۔۔۔!!! باران ۔۔۔!!! باران ۔۔ !!! ہم تو جیسے فضول ہیں نا تمہارے سامنے۔ جن کی کوئ ویلیو ہی نہیں۔ کہہ دو کہ تمہیں ہم سے کوئ لگاؤ نہیں۔ ہم بھلے مر جائیں تمہیں فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔!!!" 

شعلے برساتی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے علی ایک قدم مزید آگے ہوا۔ لہجے میں مان ٹوٹنے کی کرچیاں تھیں ابھی۔

روحیہ اس بات پر تڑپ کر اس کی طرف آئ اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔

" بھائ ۔۔۔!!!!! مجھے سمجھیں نا۔ کیوں نہیں سمجھ رہے آپ مجھے۔ وہ زندہ ہے۔ جان بوجھ کر دور گیا ہے مجھ سے۔ دیکھیں میں آپ کے پیر پکڑنے کو تیار ہوں ایک بار باران لادیں مجھے۔ قسم سے پوری زندگی مزید کچھ نہیں مانگوں گی۔ بس ایک بار۔۔۔!!!" 

اس کا ہاتھ چھوڑ کر روحیہ نے اس کے پیر پکڑنے کو ہاتھ آگے بڑھاۓ۔ ہاں وہ آج باران کی خاطر بھیک مانگنے کو بھی تیار تھی۔

یہاں تو بس بھائ کے پیر پکڑنے تھے۔ علی تڑپ اٹھا اس بات پر۔ کہاں اس نے اسے شہزادیوں والی زندگی دی تھی اور کہاں آج وہ اس کے پیروں میں بیٹھ گئ تھی۔

نیچے جھک کر اس نے اسے زبردستی شانوں سے تھام کر اٹھایا جو رو رو کر ہلقان ہوگئ تھی۔ اسے خود سے لگاتے اسے سیڑھیوں سے اترتی لائبہ دکھی جس کے ہاتھ میں انجیکشن تھا۔

" روحیہ میرا بیٹا ۔۔۔!!! میں کہاں سے لاؤں اسے۔ مجھے ایک بار پتہ چل جاۓ کہ وہ کہاں ہے تو دوسرے لمحے اسے تمہارے سامنے پیش کروں پر میں مجبور ہوں میرا بیٹا۔ معاف کر دو اپنے بھائ کو ۔۔۔!!!" 

آج علی کہ آواز بھی بس بےبسی کی حدیں پار کرگئ۔ آپ کا کوئ پیارا آپ کی آنکھوں کے سامنے مررہا ہو اور آپ اسے بچانے کو کچھ کر بھی نہ پائیں۔ تو جو ازیت ملتی ہے نا اسی اذیت میں تھا وہ۔

" وہ زندہ ہے۔ میں پاگل نہیں ہوں بھائ۔ وہ زندہ ہے۔ میں جانتی ہوں نا ۔۔۔!!!" 

اپنے بازو میں سوئی کی چبھن محسوس کرکے اس نے درد سے کہا۔ تو اس کا سر سہلاتے ہوۓ علی نے لائبہ پر بےبس سی نگاہ ڈالی۔

" چھوڑ دیں اسے آزاد۔ جو چاہتی ہے کرلینے دیں اسے علی۔ جب خود اسے ڈھونڈے گی نا تو اس کے دل کو قرار آجاۓ گا۔ نہیں تو یہ تڑپ تڑپ کر مر جاۓ گی۔ آج پیر زخمی تھے کہیں خدانخواستہ کوئ بڑا نقصان نہ ہوجاۓ۔ اس کی مشکل کا یہی حل ہے جو یہ چاہتی ہے اب ہم بھی وہی کریں ۔۔۔!!! ڈھونڈنا ہے اسے باران کو اسے ڈھونڈنے دیں۔۔۔!!! نا قید کریں اسے۔۔۔!!!" 

وہ مسلسل باران کا نام لے رہی تھی۔ علی کو لائبہ کی بات ماننے لائق لگی۔ اپنی جان سے عزیز بہن کو آنکھوں کے سامنے مرنے دینا عقلمندی نہیں تھی۔ اسے اٹھا کر وہ اسے اس کے روم میں چھوڑ آیا جو نیم غنودگی میں بھی سب کو بتانا چاہتی تھی باران زندہ ہے۔ 

" اس کے ہوش میں آتے ہی بتادینا اسے جو یہ چاہتی ہے بےفکر ہوکر کرے۔ میری سپورٹ کل بھی اس کے ساتھ تھی آج بھی اس کے ساتھ ہے۔ " 

علی چلا گیا وہاں سے۔ مزید روحیہ کی تکلیف اس سے نہ دیکھی گئ۔ اور لائبہ اس کے زخم صاف کرنے کے لیے دوا لینے چلی گئ۔

" بابا جان ۔۔!!! آپ ہمت تو کریں ان کے پاس جانے کی۔ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا۔ ایک دفعہ روبرو ہوکر ان کی شکایتیں سنیں۔ انہیں صفائ دیں۔ غلط فہمی دور کریں۔  تاکہ وہ بھی سکون میں آجائیں اور آپ کی بے چینی بھی ختم ہو " 

ٹرے سے پانی کا گلاس اٹھا کر دیار نے بہراور درانی کے ہاتھ میں تھمایا۔ لہجے میں لچک تھی۔ وہ خود بیڈ پر نیم دراز بظاہر ارد گرد سے گم سم پر حقیقت میں مکمل دیار کی باتوں کی طرف متوجہ تھے۔ کافی دنوں سے ہمت کررہے تھے وہ روحیہ کا سامنا کرنے کی پر یہ ہمت ہی تو ہر کسی کو نہیں ملتی۔ 

 دراز سے ان کی میڈیسن نکال کر دیار نے ان کے ہاتھ پر رکھ دی۔ جو پھانک کر انہوں نے دو گھونٹ پانی حلق سے نیچے اتار کر گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا۔ 

" وہ نہیں سنے گی مجھے دیار۔ میں اس کی نظروں میں اس کا مجرم ہوں۔ جس نے خود کو بچانے کی خاطر اسے ونی کروا دیا۔ تم تو سب جانتے ہو وہاں اس بیچاری نے کیا کیا فیس کیا ہے۔ اپنی اولاد تک اس نے کھودی۔ ناجانے کتنی بار اس نے ہمیں یاد کیا ہوگا۔ آوازیں دی ہوں گی۔ پر ہم  اسے نہیں بچاسکے۔ میں تو بھائ تھا اس کا۔ بڑا بھائ ۔۔۔!!! 

میں نے بھی اس کی خاطر کچھ نہیں کیا۔ تو کس منہ سے اس کا سامنا کروں ۔۔!!!" 

ندامت سے چور لہجہ ان کے دل کی کیفیت کا عکاس تھا۔ لب میچتے ہوۓ انہوں نے کمرے کی کھڑکی پر جھولتے پردے دیکھے۔ ذہن کے پردوں پر تو ندامت پنجے گاڑے بیٹھی تھی اب تک۔

ان کی بات سن کر دیار نے یوں سر کو نفی میں جنبش دی جیسے وہ اب بھی غلط ٹریک پر پھنسے ہوۓ ہوں۔ کمفرٹر سائیڈ پر کرکے وہ وہ ان کے قدموں کی جانب براجمان ہوا۔ 

" بابا جان ۔۔۔!!!! وہ خود اپنی مرضی سے اس گھر کی چوکھٹ عبور کرکے ہم سب کو بتانے آئ تھیں کہ وہ زندہ ہیں۔ دن کے اجالے میں پورے حق کے ساتھ انہوں نے اس گھر کی دہلیز پر قدم رکھے۔ جہاں بے شمار تلخ یادیں ان کی منتظر تھیں۔

انہوں نے نہ آپ سے بدتمیزی کی نہ ہی یہ بتایا کہ وہ زندہ کیسے تھیں۔ نا ہی کوئ طعنہ دیا کہ ہم ان کی مدد کو نہیں آۓ نا ہی یہ کہا کہ وہ ہم سے نفرت کرتی ہیں۔ کہا تو بس اتنا کہ باران سے نکاح کرلیا ہے انہوں نے۔" 

بعض اوقات بات بڑی آسان ہوتی ہے پر ہم سمجھنے میں اسے زمین سے آسمان تک پہنچا دیتے ہیں۔ وہ بھی اتنی آسان سی بات نہیں سمجھ سکے تھے ورنہ ایک مہینہ پہلے ہی روح کا سامنا وہ کر چکے ہوتے۔ 

" بابا جان وہ چاہتی ہیں کہ پرانی باتیں جو تلخی اور سواۓ درد کے کچھ نہیں دیں گی۔ہم انہیں ختم کرکے ایک نیا آغاز کریں۔ سب بھول جائیں۔ وہ راہ تک رہی ہوں گی آپ کی تو آپ کو جانا چاہیے ان سے ملنے کے لیے۔ ایک بار آپ انہیں سن تو لیں۔ جان تو لیں وہ کیا چاہتی ہیں۔ وہ سب کو معاف کیسے کریں گی۔ کیا ان کا حق نہیں یے اپنوں پر غصہ نکالنا۔ 

آپ کی بہن آپ کے سامنے ہے اب۔ جائیں اور منالیں انہیں ۔۔ !!!" 

انہیں سمجھاتے ہوۓ دیار نے ایک مدھم سی مسکراہٹ کے سنگ جواب کا انتظار کیا۔ ساری بات سمجھ کر بہراور درانی نے مدھم مگر افسردہ سی مسکراہٹ پیش کی۔ یعنی وہ سمجھ چکے تھے ساری صورتحال۔

بعض اوقات سالوں کی رنجشوں کو بڑھانے کی بجاۓ خود ہی جھک کر ختم کردینا چاہیے۔ یہ جھکنا دونوں فریقین کی زندگیوں کو سکون میں لانے کی وجہ بن سکتا ہے۔ 

" ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔ میں ملوں گا اس سے۔ منالوں گا اسے۔ایک دفعہ نہیں ہزار بار اس کے پاس جاؤں گا۔جب تک وہ خود معاف نہ کردے میں کوشش جاری رکھوں گا۔ یہ اس کا حق ہے ۔۔۔!!"  

انہوں نے عزم سے کہا۔ آواز میں اب وہ پہلے والی ندامت نہیں تھی بلکہ مصمم ارادہ تھا کہ وہ یہ ضرور کرلیں گے۔

دیار ان کے سمجھتے ہی وہاں سے اٹھا اور کمفرٹر ٹھیک کرکے اس نے سائیڈ ڈرار پر رکھی ٹرے اٹھائ۔ 

" آپ اب آرام کریں۔ جلدی سے ٹھیک ہو جائیں۔ اپنی بہن کو آپ نے منانا ہے اب۔ " 

مسکراتے ہوۓ اس نے انہیں جتایا کہ انہیں ٹھیک ہونا ہوگا۔ انہوں نے سر کو ہلکی سی جنبش دی جیسے کہا ہو جلد وہ ملیں گے اس سے۔ تو وہ وہاں سے چلا گیا۔ 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" یہ کونسا نیا شوق پال لیا ہے تم نے فون یوز کرنے کا۔ ایک وہ بلی جو تم نے پالی ہے وہ کم ہے جو فون بھی پال لیا ہے۔ بگڑ گئ ہو تم ۔۔۔!!!" 

فون میں سر دے کر معصومہ پورے جوش و خروش سے اس وقت فدیان کی انسٹاگرام آئ ڈی پر اس کی نئ اپلوڈ شدہ تصاویر پر لو ری ایکٹ کرنے والی لڑکیوں کو ری پورٹ کررہی تھی۔ تاکہ ان کے اکاؤنٹ کسی طریقے سے اڑ جائیں تباہ ہوجائیں۔ یا اس جہانِ فانی سے مکمل طور پر نیست و نابود ہو جائیں جب اچانک کسی نے اس کے ہاتھ سے فون جھپٹ لیا۔

وہ جھٹکے سے فون کی جانب لپکی تو سامنے یشاور پر نظر پڑی۔ پہلے سے خراب موڈ مزید بگڑا۔

" سونا کو بیچ میں نہ لایا کریں۔ اور تنگ کرنے کے لیے کوئ اور بندا ڈھونڈ لیں۔ میرا موڈ پہلے ہی بگڑا ہوا ہے مزید میرے غصے کو ہوا نہ دیں۔۔۔!!!" 

غصے سے معصومہ نے دھمکی دی اسے جو اب سامنے فدیان کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔

" میری کیا مجال جو اس موٹی آلسی بلی کو بیچ میں لاؤں وہ تو خود جہاں تم ہو وہاں گھسی چلی آتی ہے۔ جہاں تک بات رہی تمہارے غصے کو ہوا دینے کی تو لو دے دی ہوا ۔۔۔!!!" 

فون دائیں ہاتھ میں لے کر یشاور نے سامنے ٹیبل پر پری فائل سے ایک پیپر اٹھایا اور معصومہ کو چڑانے کے لیے اسے ہوا دی۔ 

اس نے دانت نکوسے جیسے مشکل سے ضبط کیا ہوا اس نے۔

" سونا موٹی نہیں ہے۔ آپ موٹے ہیں۔ کبھی خود کو شیشے میں دیکھیں تو پتہ چلے نہ۔۔۔!!! اور کس حق سے ہر وقت فری ہوتے رہتے ہیں آپ میرے ساتھ۔ جان چھوڑیں میری اور فون واپس کریں۔۔۔!!!" 

وہ کاٹ کھانے والے انداز میں بولی تو حق والی بات پر یشاور کو بےساختہ یاد آیا کہ کیسے اس کی ماں اور بیوی پر اس آفت نے قبضہ کیا ہوا ہے اور اب حق کی بات کررہی ہے۔ ساتھ ہی اس کی سالوں کی محنت اس کے سکس پیکس کو موٹاپا سمجھ رہی ہے۔ 

" بہن ہو تم میری۔ کچڑے سے نہیں اٹھایا تھا تمہیں۔ ہوسکتا ہے اٹھایا ہو۔ اگر اٹھایا بھی تھا تو پالا پوسا میری ماں نے ہی ہے تمہیں۔ تو بہن ہوئ اس حساب سے تم میری۔ جنگلی چڑیل ۔۔۔!!! منہ میں زبان کیا لگ گی ادب لحاظ بھول گئ ہو تم۔ اب یہ فون تمہیں نہیں ملے گا " 

اس نے اس کے فہم میں اصافہ کیا۔ بھلے معصومہ حقیقت میں اس کی سگھی بہن نہیں تھی پر دودھ شریک بہن ضرور تھی۔ کیونکہ پیدائش کے بعد سے وہ سبرینہ صاحبہ کے پاس ہی تھی۔

اس حساب سے کچھ بھی ہوجاۓ وہ یشاور کی بہن ہی رہتی۔ غصے سے گہرا سانس لے کر معصومہ نے اپنی آستینیں فولڈ کیں۔ 

" فون واپس کریں میرا ۔۔۔!!! ورنہ منہ نوچ لوں گی آپ کا۔ میں بہت ضروری کام کررہی ہوں اس وقت۔ مجھے تنگ نہ کریں۔۔۔۔!!!" 

دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو پنجوں کی شکل میں لاکر معصومہ نے اسے دھمکی دی اپنے کام کے بیچ میں پڑا حلل اسے پسند نہیں آیا تھا۔

" تو اپنے شوہر پر نظر رکھ رہی ہو تم۔ سچی معصومہ اتنی بڑی کب سے ہوگئ تم کہ اپنے شوہر پر نظر بھی رکھو۔ ہاہاہاہاہا سیریسلی ۔۔۔!!!! پہلے اپنے پیروں پر تو کھڑی ہوجاؤ پھر اس کو قابو بھی کرلینا۔۔۔!!! " 

یشاور نے فون کی سکرین کی جانب پھر سے دیکھا تو وہاں لڑکیوں کے کمنٹس پڑھ کر یہی سمجھ میں آیا اسے۔ 

ہنستے ہوۓ وہ اس وقت معصومہ کو زہر لگا تبھی اس پر جنگلی بلی کی طرح جھپٹ کر معصومہ نے اس کے بال اپنی مٹھی میں جھکڑ لیے۔

ایک مہینے سے جتنا پولائیٹ اس نے یشاور کو پایا تھا اب تو اس کی ہمت اتنی بڑھ گئی تھی کہ وہ اسے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھی۔

یشاور کراہ اٹھا اس کے بال نوچنا چاہتی تھی یہ۔ صوفے سے اتر کر معصومہ نے ایک ہاتھ اس کے بالوں میں جبکہ دوسرا فون کی طرف بڑھادیا۔

" بھری جوانی میں کیا گنجا کرو گی تم مجھے چڑیل۔۔۔!!" 

وہ درد سے بلبلایا پر فون بھی اس کی اپنی گرفت میں تھا۔ ڈھیٹ پن میں اس کے نمبر بھی تھوڑے نہیں تھے۔

جو لڑائیاں بہن بھائ بچپن میں لڑتے ہیں یہ دونوں بڑے ہوکر  لڑرہے تھے۔ 

کوئ نہ مانتا کہ معصومہ دنیا کی ڈرپوک ترین لڑکی اور یشاور دنیا کا بےحس ترین انسان تھا کسی وقت میں۔ 

" لیں ہوگئ میں اپنے پیروں پر کھڑی۔ اب فون واپس کریں میرا لالہ ۔۔!!! میں اپنے شوہر پر نظر رکھوں یا کسی نظر نامی بندے کو ان کے راستے میں مار کر گراؤں وہ میرا مسئلہ ہے آپ کا نہیں۔ میرا فون دیں۔ ان لڑکیوں کی آئ ڈیز کو ریپورٹ کرنا ہے مجھے۔ میرے شوہر پر گندی نظر ہے ان کی۔ مجھے میرا کام کرنے دیں ۔۔ !!!" 

 فون تک پہنچنے کی جدو جہد میں وہ ہلقان ہونے لگی۔ یشاور نے اسے اگنور کرتے ہوۓ فدیان کی آئ ڈی دیکھنا جاری رکھی۔ 

" ویسے چڑیل یہ جو تم ایک ایک لڑکی کی آئ ڈی ریپورٹ کررہی ہو نا یہ بڑا لمبا چوڑا کام ہے۔ اس میں تو سالوں لگ جائیں گے۔تب تک تو تم بھی بوڑھی ہوگئ ہوگی۔ میرے پاس اس سے بہتر آئیڈیا ہے۔ اگر انٹرسٹڈ ہوتو بتاؤ۔یہ جھنجھٹ ہی ختم کردوں گا میں ۔۔۔!!!" 

 یشاور نے خلوص سے پوچھا تو اس کے بال نوچتے ہوۓ معصومہ کے ہاتھ رک گۓ اس نے فورا اس کی جانب دیکھا۔ جس کا اشارہ بالوں کی طرف تھا کہ ان پر تو رحم کھاؤ پھر بتاؤں گا تو وہ تمیز سے اس کے بال چھوڑ کر وہیں صوفے پر بیٹھ گئ۔ 

" کونسا طریقہ۔۔۔۔ !!!" 

اپنے بال بال سے سیٹ کرکے یشاور نے فون آف کیا۔ 

" بڑی جلدی لائن پر آئ ہو تم۔ مجھے تو لگا تھا کہوگی اپنے طریقے اپنے پاس رکھو۔ خیر سے لالچی بھی ہو تم مطلبی چڑیل ۔۔۔!!! " 

ذرا سا اس سے وہ دور کھسک گیا کہیں وہ پھر سے حملہ نہ کردے۔ اس قدر تعریف پر معصومہ نے آنکھیں سکیڑیں۔ جیسے پھر سے وارننگ دے رہی ہو اسے۔

" تو آپ کونسا کسی سلطنت کے ولی عہد ہیں۔ شھزادہ سلیم ہیں یا پھر انار کلی کا رقص دیکھنے والے شاہی دربان ہیں جس سے میں اپنا لالچ پورا کروں گی۔ آپ بھی تو جن ہی ہیں کسی درخت کی ٹہنی جیسی آنکھیں ہیں آپ کی ہری ہری۔ آۓ بڑے دل سے پاکستانی ۔۔۔!! " 

ہاتھ نچاتے ہوۓ وہ بالکل روح کی ہی بیٹی لگ رہی تھی۔ وہی غصہ، وہی انداز وہی لہجہ۔ 

یشاور نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھا اب اسے اس کی آنکھوں سے بھی مسئلہ ہے۔ بڑی مشکل سے چہرے پر عود آئ جھنجھلاہٹ دور کرکے اس نے گلا کھنکار کر رخ اس کی جانب کیا۔

" دیکھو معصومہ میرا ایک دوست ہیکر ہے۔ وہ دو منٹ میں فدیان کی یہ آئ ڈی جو تمہیں انسیکیور کررہی ہے اسے صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے مکمل طور پر۔ ساتھ ہی مستقبل میں میری ذمہداری ہوگی کہ فدیان دوبارہ کبھی بھی اپنے نام کی کوئ ڈیشنگ آئ ڈی نہ بناۓ۔ پھر یہ لڑکیاں اسے کہیں بھی اپروچ نہیں کرسکتی۔ یقین جانو دو منٹ کا کام ہے یہ۔ لیکن ہر کام کی ایک قیمت ہوتی ہے وہ قیمت ادا کرو تو میں کچھ سوچ سکتا ہوں ۔۔۔!!!" 

بڑے اطمینان سے اسے اپنی پہنچ بتاتے ہوۓ یشاور نے آنکھیں آخر میں گھمائیں۔

 تو کونسی چیز ہے اس زمانے میں جو بغیر پیسوں کے ملتی ہے۔ معصومہ نے بات پر غور کیا تو اسے یہی حل مناسب لگا۔ آسان بھی تھا اور پائیدار بھی۔ 

" کتنے پیسے چاہیئیں آپ کو بتادیں۔ میں اپنے بھائ سے لے کر دے دوں گی ۔۔۔!!" 

ایک ہاتھ ہوا میں لے جاکر اسے جھٹکتے ہوۓ اس نے بے پرواہی دکھائ تو یشاور کے کان کھڑے ہوۓ۔ یعنی قیمت اسے وہ دے گی ضرور پر اسی سے لے کر۔ 

صدقے جانے کو دل کیا اس کا اس آفت کی پڑیا پر۔ جسے ایسا زرلشتہ اور فدیان نے ملی جلی بھگت سے بنایا تھا۔ کہاں ڈری سہمی معصومہ اور کہاں بے خوف یہ لڑکی۔

" پیسے نہیں چاہییں مجھے انہیں تم اپنے شاہی کنیزوں کا رقص دیکھنے والے بھائ کے اکاؤنٹ میں ہی رہنے دو۔ قیمت اس سے بڑی ہے۔ تمہیں مجھ سے دوستی کرنی ہوگی۔ ہمیشہ کے لیے۔ جیسے دو اچھے بہن بھای تمیز اور محبت سے رہتے ہیں تم بھی ایسے ہی رہو گی میرے ساتھ۔ یعنی میری عزت کروگی ۔۔۔!!!" 

اس نے کندھے اچکاۓ۔ بس اتنی سی قیمت تھی۔ 

" دوستی وہ بھی آپ سے۔ ایک ہری ٹہنی جیسی آنکھوں والے جن سے۔ ساتھ میں عزت بھی دوں میں آپ کو اور احترام بھی کروں۔ لالہ ہواؤں میں نہ اڑیں زمین پر رہیں۔ گرمی بہت ہے جل بھن جائیں گے آپ ۔۔۔!!" 

مضحکہ خیز انداز میں اس بیچارے کی عزت کی لسی کردی معصومہ نے۔ اور مسکراہٹ دبانے لگی۔کیا چیز تھی وہ آخر۔ بامشکل اپنی رونی صورت یشاور نے اس کی نظروں سے چھپائ۔

" لگتا ہے شوہر کو قابو نہیں کرنا تم نے۔ بدتمیزی ہی کرنی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے پھر رہنے دیتے ہیں ہیکنگ والا پروسیس تم کرو بدتمیزی ۔۔۔!!!" 

ناراض ہوکر وہ ابھی اٹھنے ہی والا تھا جب اچانک معصومہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔

" اوووووو میرا سونا بھائی ناراض ہوگیا ہے۔ کیا ہوگیا ہے میرے قابلِ عزت لالہ جان کو۔ بہن مزاق کررہی تھی۔ اور آپ مزاق بھی نہیں سمجھ سکے۔ میں اور آپ جیسے پیارے سے بھائ کو برا کہوں۔ کبھی نہیں۔

اچھے والے بھائ ہیں نا آپ میرے تو بیٹھیں نا پلیز ۔ !!" 

ایک ہوتا یے گرگٹ کا رنگ بدلنا،دوسرا ہوتا یے موسم کا رنگ بدلنا اور آخر میں آتا یے بہنوں کا پل میں رنگ بدلنا ۔۔۔ !!! 

اور سب سے خطرناک بھی وہی ہوتی ہیں۔ اس کے پٹڑی پر آتے ہی یشاور بغیر چوں چراں کیے واپس بیٹھ گیا۔

" تو دوستی ڈن سمجھوں میں ۔۔۔!!!" 

" آفکورس برو ۔ بھلا یہ کوئ پوچھنے والی بات ہے۔ چلیں نا ان کی آئ ڈی اڑادیں اس دنیا سے۔ بس انہیں جھٹکا لگنا چاہیے۔ بہت بڑا ۔۔۔!!!" 

اسے مکھن لگانے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی بات بھی اس کے کان میں ڈالی۔

یشاور نے اس کا فون واپس رکھا۔ بہار اور سبرینہ صاحبہ گھر نہیں تھیں وہ بازار گئ ہوئ تھیں۔ فلوقت یہی دو بگڑے بہن بھائ یہاں موجود تھے۔

" ہوجاۓ گا تمہارا کام۔ یشاور خان تمہارا بھائ ہے۔ ٹینشن لینے کی تو اب کوئ ضرورت ہے ہی نہیں۔ لو اپنا فون اور بس دو منٹ بعد یہ آئ ڈی ختم۔ یاد رکھو گی اپنے بھائ کو تم  " 

اتنا کہہ کر وہ وہاں سے اٹھ گیا یقینا اپنا فون لے کر اپنی آئ ٹی ٹیم کو میسج کرنے وہ گیا تھا۔

بس معصومہ نے دو منٹ بعد وہ آئ ڈی سرچ کی تو لکھا ہوا آیا یہ پیج لوڈ نہیں ہوسکتا کسی مسئلے کی وجہ سے۔

اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ تقریبا اچھلی صوفے سے۔ دل کیا خوشی سے چیخ اٹھے۔ فدیان کے ملین فالوورز بس دو منٹ میں ختم ہوگۓ۔ اور کیا چاہیے تھا اسے۔

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" کیوں ناکام عاشقوں کی طرح یہاں پڑا ہوا ہے تو۔ کوئ کان دھندا نہیں ہے کیا تجھے۔ جا اپنے گھر کی راہ لے اور سکون سے رہ وہاں۔ کیوں اپنی جان کا دشمن بنا ہوا ہے ۔۔۔!!!" 

دیار کو کچھ نہیں پتہ تھا آخر درمان کے ساتھ مسئلہ کیا ہے کافی دنوں سے وہ آفس بھی نہیں آیا تھا نا ہی کال پک کی تو مجبورا دیار کو اس کے گھر آنا پڑا۔ یہاں درمان نے اسے بتایا زرلشتہ اس کی ماں کے ساتھ جاچکی ہے حویلی اور وہ اکیلا یہاں رہ رہا ہے۔

دیار کو اپنے آپ میں اب کوئ ہمدرد بیوی نظر آنے لگی پہلے اپنے بابا کو وہ تسلیاں دے رہا تھا اور اب اسے تسلیاں دینے پہنچا ہوا تھا۔ 

پردے ہٹا کر اس نے کھڑکیاں کھول دیں۔ یہ گھر اسے گھر کم قید خانہ اس وقت زیادہ لگا۔ 

" مجھے نہیں جانا کہیں بھی دیار۔ تو کیوں آیا ہے یہاں۔ میرا دماغ نہ خراب کر اور جا یہاں سے میں ٹھیک ہوں ۔۔۔!!!" 

بیڈ پر واپس سے بیٹھ کر اس نے بیڈ کراؤن سے سر ٹکایا۔ آنکھوں کے نیچے حلقے واضح تھے۔ اور مزاج میں چڑچڑاپن دیار نے گہرائ سے محسوس کیا۔

اس کے قریب آکر دیار نے دو انگلیوں سے اس کی آنکھوں کے کنارے نیچے کی سمت کھینچے تو چڑ کر درمان نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

" زندہ ہوں میں دیار۔ مرا نہیں ہوں جو تو آنکھیں چیک کررہا ہے۔ تو بس جا یہاں سے۔ مجھے اکیلا رہنے دے۔ " 

اس کی ایک ہی رٹ تھی ابھی بھی۔ تکیہ اٹھاکر اسے خود میں دبوچ کر وہ بیڈ پر دوسری سمت لیٹا۔ بحار نے اس کی رنگت بھی پھیکی کردی تھی پر مجال جو اس شخص کے اندر اپنے لیے اب رحم بچا ہو۔ 

جو اس نے زرلش کے ساتھ کیا اب اس کی سزا خود کو دے کر یہ سکون کی تلاش میں تھا۔

" قبرستان نہ چھوڑ آؤں میں تجھے یا منشیات کا کیس ڈال کر تجھے دس بیس سالوں کے لیے اندر کروادوں تاکہ تیرا اکیلے رہنے کا شوق پورا ہو۔ 

ذلیل انسان تیری نہیں اپنی بیوی کی فکر ہے مجھے جس کا تو بدقسمتی سے بھائ ہے۔ ورنہ جیسے تیرے کرتوت ہیں نا تجھے اپنے ہاتھوں سے مار کر دفنا آؤں۔

کمینے انسان اٹھ اور گھر جا اپنی ماں کے پاس۔۔۔!!!" 

دیار نے اس کا بازو پکڑ کر اسے زور لگا کر بٹھاتے ہی سائیڈ سے تکیہ اٹھا کر بس دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے اس کے منہ پر دے مارا۔ جو بس خاموشی سے چہرے کا زاویہ پھیر کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی اپنی دشمن جان کی تصویر کو تکنے لگا۔

" انہیں ضرورت نہیں یے میری۔ ہوتی تو ایک مہینے میں ایک بار تو پتہ کرنے ضرور آتیں میں زندہ ہوں یا مر مرا گیا ہوں۔ پر وہ نہیں آئیں۔ مجھے نہیں لگتا یہاں کسی کو میری ضرورت ہے۔ اب مجھے بھی کسی کی ضرورت نہیں رہی۔ اکیلا خوش ہوں میں ۔۔!!!" 

تکیہ سائیڈ پر پھینک کر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اس نے۔ انداز ضدی تھا۔ دیار نے گہرا سانس فضا کے سپرد کیا۔

" بالکل اپنے چچا کی سوچ کاپی کررہا ہے تو خود سے اندازے لگاکر کسی کی خوشیاں ہی چھین لو۔ آخر خون ایک ہے تو حرکتیں بھی سب کی ایک سی ہی ہونی ہیں۔ اوپر سے دوسرے بھائ کی سوچ بھی ایسی ہی ہے۔

تم سب ہی سائیکو ہو۔ بیوی منہ نہ لگاۓ تو تمہاری قدر نہیں اگر جان چھڑکتی ہو تو پھر بھی خوش نہیں رہنا۔ وہ دونوں تو میرے قابو میں نہیں پر تجھے تیرے گھر میں پھینک کر نہ آؤں تو مجھے دیار درانی نہ کہنا۔ ساری کہانی الجھا رکھی ہے۔ دی اینڈ ہونے نہ دینا اس ناول کا آفریدی قبیلے کے سپوتوں !!!" 

اس کے ڈھیٹ پن سے زچ ہوکر دانت آپس میں رگڑتے ہوۓ اس نے اپنی کنپٹی سہلائ۔ باران کا کیس بھی پرسوں ہی کھلا تھا اس کے سامنے۔ روح کی معلومات نکلواتے اسے پتہ چلا باران نے کیا بیوقوفی کی ہے۔ لگے ہاتھوں یہاں آنے سے پہلے فدیان سے ملا تو پتہ چلا بیوی تو وہ بھی میکے چھوڑ آیا ہے وہ بھی ایک مہینے سے۔ اور یہ اس کا دوست، اس کی اکلوتی بہن کا شوہر تو ناکام عاشق بن ہی چکا تھا بس مرنے کی کمی تھی۔ 

" پانچ منٹ ہیں تیرے پاس درمان یا تو تو میرے ساتھ بغیر چوں چراں کیے اپنے گھر چل اپنی ماں کے پاس۔ ورنہ چھٹے منٹ تجھ پر حلع کا مقدمہ ہوگا۔ اپنی بہن ایک ایسے انسان کے حوالے میں نہیں کروں گا  جو اس حال میں اسے اکیلے چھوڑ کر یہاں مرنے کی تیاریوں میں ہے۔ فیصلہ تیرا یے اور تو جانتا ہے دو دن کے اندر میری بہن اس نکاح سے آزاد ہوگی۔

سوچ لے اب۔۔۔!!!" 

آخری ہتھیار  استعمال کرکے اس نے دو قدم پیچھے لے لۓ۔ بات جتنی کڑوی تھی نتائج اس سے بھی خطرناک ہوسکتے تھے یہاں۔

درمان کو جھٹکا لگا حلع کے نام پر۔ چند سانحے دیار کی صورت دیکھ کر وہ غصے سے اٹھا اور اس کا گریبان دبوچ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑیں۔ 

" مت بھول میری بہن بھی تیرے پاس ہے۔ یہ بکواس میں بھی کرسکتا ہوں۔ پر اتنا گرا ہوا نہیں ہوں جو عزت پر دھمکی دے۔ تونے سوچا بھی کیسے زرلشتہ کو چھوڑوں گا میں وہ بھی اپنی زندگی میں۔ ناممکن " 

گریبان جھٹکتے ہوۓ وہ پیچھے ہوا۔ دیار نے دل میں شکر ادا کیا کہ ایک دو مکے نہیں پڑے اسے۔ ورنہ اسے لگا تھا آج تو درمان کے ہاتھوں وہ مرے گا۔ 

" اس کے علاؤہ کوئ حل نہیں۔ تو اگر اسے ساتھ نہیں رکھ سکتا تو چھوڑنا تو تجھے ہوگا۔ چاہے تیری جان ہی کیوں نہ لینی پڑے مجھے ۔۔!!" 

 اس نے پھر سے بات دہرائی۔ اب کی بار درمان کی آنکھوں سے ابھلتے لاوے کو دیکھ کر اس کے حلق میں کانٹے چبھے۔ یہاں اگر درمان اسے مار بھی دیتا تو کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوتی۔ 

"تو کس نے روکا ہے مار نا۔ میں موت سے نہیں ڈرتا۔  تجھے مارنا ہے تو شوق سے ماردے پر زرلشتہ میری آخری سانس تک میرے ہی نکاح میں رہے گی۔ نہ آج سے پہلے درمان آفریدی نے اپنی ملکیت چھوڑی نہ آئندہ چھوڑے گا ۔ تو تو کیا اس دنیا کی کوئ عدالت میری زندگی میں اسے مجھ سے دور نہیں کرسکتی سواۓ موت کے۔ ہمت ہے تو نکال بندوق اور ختم کردے میرا قصہ اگر بہن آزاد چاہیے تجھے تو مار آج یہیں مجھے۔ میں افف بھی نہیں کروں گا ۔۔!!!" 

دیار کی توقع کے الٹ وہ سینہ تان کر سامنے کھڑا ہوا۔ وہ بے خوف آنکھیں،سرکش لہجہ، ابھرتی نسیں۔۔۔۔!! 

ہاں وہ پاگل تھا زرلشتہ کے پیچھے اتنا کہ اب خود تو مرجاتا پر اسے نہ چھوڑتا۔

اپنے گھر والوں کی طرح بیوقوف نہیں تھا وہ جو محبت چھوڑ کر اسے تڑپائیں یا اسے دور بھیج کر آزمائیں۔ وہ دور تھا اس سے کیونکہ جانتا تھا غلطی اسی کی ہے اور سزا کا حقدار ہے وہ۔

جب اسے لگتا سزا پوری ہوگئ ہے تو وہ خود ہی اسے اپنے پاس واپس لے آتا۔

اسے کسی صورت مانتا نہ دیکھ کر دیار نے اپنی جینز  سے پسٹل نکالی جو ہمہ وقت اس کے پاس ہی ہوتی تھی۔

وہ شاید آج اسکے جنون کی حد دیکھنے نا متمنی تھا۔

" ٹھیک ہے پھر یاد رکھنا تو خود مرنا چاہتا ہے۔ میں قاتل نہیں بنوں گا یہ سب تیری مرضی سے ہورہا ہے۔ اپنی بہن تو آج میں تیرے نکاح سے آزاد کرواؤں گا۔ بہت شوق ہے نا تجھے مرنے کا تو آج مرجا ۔۔۔!!!" 

پسٹل کا رخ درمان کی طرف کیا اس نے جو بے خوفی سے خود مزید قریب آیا۔ آنکھوں میں زرا بھی ڈر نہیں تھا موت کا۔

اپنا بحار سے تپتا ہاتھ اس نے دیار کے پسٹل پکڑے ہاتھ پر رکھ کر اس کا رخ سیدھا اپنے دل کی طرف موڑا اور وہاں دباؤ بڑھایا۔

" تو مار دے۔ تجھے بھی مارنے کا بڑا شوق ہے تو آج مار کر قصہ ختم کر ۔۔ !! آج میں بچ گیا تو یاد رکھنا آزادی کا پروانہ تیری بہن کو پھر میری موت بھی نہیں دے گی۔ جب بھی میں مرا وہ میری بیوہ کہلاۓ گی اور اسے تب بھی میرا ہی رہنا ہوگا۔ چاہے تو کل مروں یا پرسوں۔ وہ پھر مجھ سے دور نہیں ہوسکتی ۔۔ !!!" 

جنون کی حد پر پہنچتے درمان نے مہارت سے خود ہی اپنا انگوٹھا ٹریگر پر رکھ لیا۔ دیار کو امید تھی وہ اب تو پیچھے ہٹ جاۓ گا۔ پر جیسے اس نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ٹریگر دبادیا دیار کا دل ایک سو نوے سے سیدھا دو سو کی سپیڈ کراس کرگیا۔ 

ٹریگر دب گیا اور گولی درمان کے دل کے اندر۔۔۔۔۔۔!!!!!! 

اپنا ہاتھ اس نے کھینچا پر دیر ہوگئ تھی۔ 

اسے سمجھ نہ آیا کیسے اپنا دوست مار دیا اس نے پر یہ سب بہت جلدی میں ہوا سمجھ تو کسی کو نہیں آئ تھی۔

" کمینے انسان۔۔۔!! گولیاں تو ڈال کر رکھا کر اس میں۔ سارا مزہ خراب کردیا تیری کنجوسی نے۔ موت کا فرشتہ دیکھنا تھا مجھے پر تیری منحوس صورت ہی نظر آئ۔ دفع ہو اب یہاں سے۔ آیا بڑا مارنے والا۔ بندوق میں گولی یے نہیں اور کمینے کو مجھے مارنا ہے ۔ ۔!! " 

یہ وہ آواز تھی جو دیار کو حقیقت میں لے آئی۔ اس نے آگے بڑھ کر درمان کے سینے کی جانب دیکھا جہاں خون نہیں تھا نہ ہی درمان کے چہرے پر درد وہاں تو شکایت تھی۔ 

دیار نے رکا ہوا سانس جانے دیا اسی کیفیت میں دونوں ہاتھ اس نے گھٹنوں پر رکھے۔ پھر اگلے ہی پل جھٹکے سے اپنی پسٹل کی گولیاں چیک کیں جس میں پانچ گولیاں موجود تھیں اور بس وہی ساکٹ خالی تھی۔ جو درمان پر چلی۔

" کمینے منحوس کیا کھاکر پیدا ہوا تھا تو۔ آج تیری وجہ سے میرا بھی گھر اجڑ جاتا۔ ہوگیا ہے تیرا یہ موت موت کا کھیل ختم تو آ مر میرے پیچھے۔ تجھے تیرے گھر پھینک آؤں میں۔ اب کوئ بکواس نہ کرنا۔ دل تو میرا نکال لیا تونے۔ گولی اگر اس میں ہوتی اور چل جاتی تو تیری سوچ یے کونسی قیامت آتی ۔۔!!" 

اپنے دھک دھک کرتے دل پر ہاتھ رکھ کر گہرے سانس لیتے اسے وہ وقت یاد آیا جب مہینوں پہلے اس نے درمان کو مرتا ہوا دیکھا تھا۔ تب تو سب انجانے میں ہوا مگر اگر آج گولی چل جاتی تو وہ خود کو کبھی معاف نہ کرپاتا۔ 

بغیر اس کی بات سنے وہ چلا گیا۔ صبح گن میں گولیاں ڈالتے ہوئے بے دھیانی میں اس نے پانچ ہی گولیاں ڈالی تھیں اور اسے خود بھی یاد نہیں تھا۔

درمان نے شانے اچکادیے۔ جیسے یہاں اس کی موت کی نہیں کسی اور کی موت کی بات چلی ہو۔

۔" ہتھیار اپنے پورے نہیں اور ڈرا مجھے رہا ہے۔ تھپڑ کھانے بھیج دے گا پھر سے۔ وہ پانچ تو مار گئ ہیں اب چھٹا بھی لگادیں گی۔ روز روز تھپڑ میں نہیں کھاؤں گا۔ چاہے تو گولی مار دیں۔ پر تھپڑ کا درد زیادہ ہوتا ہے۔ گولی کا اتنا نہیں ہوتا ۔۔۔!!" 

اپنے گال پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اس نے بیچارگی سے سوچا۔ عجیب تھا وہ بھی جسے بندوق کی گولی سے ڈر نہیں لگتا تھا تھپڑ سے ڈر لگتا تھا۔ 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"آگیا ہے تیرا گھر. دفع ہوجا اب یہاں سے۔ کہیں پھر سے تیرا شیطانی دماغ ایکٹو نہ ہوجاۓ۔ اور تو کوئ نیا شوشہ نہ چھوڑ دے۔ نکل میری گاڑی سے ۔۔ !!!" 

 گاڑی عین آفریدی حویلی کے سامنے رکی۔ درمان نے فرنٹ سیٹ کے ڈور سے اس حویلی کے گیٹ کو دیکھا پھر وہ پانچ تھپڑ یاد کرکے اس کی آنکھیں ڈبڈبانے لگیں۔ ہاتھ خود بخود گال پر پہنچا جیسے چھٹے تھپڑ کا یقین تھا اسے۔ خوف کو حلق کے راستے دبا کر وہ ڈھیٹوں کی طرح وہیں سیٹ پر بیٹھا رہا۔

" ذلیل انسان ۔۔ !! کیوں مجھ بیچارے کو میری ظالم ماں کے حوالے کررہا ہے تو جانتا ہے پہلے پانچ تھپڑوں کا درد اب تک نہیں گیا اب چھٹا بھی پڑگیا تو میرا منہ ہی اتر کر نیچے گرے گا۔

دیکھ میرے جگری دوست ہم تو بھائ ہیں نا ایک کام کر مجھے کسی پہاڑی سے دھکا دے دے پر یہ ظلم نہ کر ۔۔ !!! وہ بہت زور سے مارتی ہیں پھر ذلیل بھی کرتی ہیں مجھے نہیں جانا ان کے پاس۔۔۔۔!!!" 

معصوم سی صورت بناکر جو التجا اس بیچارے نے کی اس وقت دیار کو اس کی ڈھٹائی اور ایک ہی رٹ پر جی بھر کر غصہ آیا۔

" دیکھ کمینے انسان۔۔۔!!! تو سائیکو کیس ہے۔ اکیلا رہا تو یا تو خود مرے گا یا کسی کو مارے گا۔ اور میں نہیں چاہتا میرا بھائ اس دنیا سے اس بھری جوانی میں کوچ کر جاۓ۔ میں چاہتا تو ہوں کہ تجھے دھکے دے کر ان کے قدموں میں پھینکوں پر ڈر ہے کہ تیرا یہ بحار سے تپتا جسم میرے چھونے سے مجھے بھی نہ جلادے۔ تو عزت قبول کر اور اندر جاکر مر ۔۔۔!!!" 

اس نے گاڑی انلاک کی۔ تو درمان کو چار و ناچار یہاں سے باہر نکلنے پر رضامند ہونا پڑا۔ لیکن گاڑی کا دروازہ کھولنے سے پہلے ہی اسے کچھ یاد آیا تو وہ واپس سے وہیں بیٹھ گیا۔

" ویسے دیار وہ تو کچھ اس وقت کہہ دیا تھا چاچو کے بارے میں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیسے میرے اور فدیان والی کیٹیگری میں فٹ ہوگۓ۔ فدیان کا مجھے پتہ ہے دماغ خراب ہوا ہے تو معصومہ کو گھر چھوڑ کر چوبیس گھنٹے آفس میں گزار رہا ہے اسے تو معصومہ ہی سیٹ کرے گی پر چاچو کا کیا معاملہ ہے ۔۔ !!!"

وہ دونوں اب یوں بات کررہے تھے جیسے لڑائ اور بات خون خرابے تک پہنچی ہی نہ ہو۔ کچھ دیر پہلے درمان کے نہیں کسی اور کے دل کے مقام پر پسٹل رکھ کر چلی تھی۔ عجیب تھے وہ حد سے زیادہ عجیب۔

" درمان یہ بات تم لوگوں سے چھپائ گئ پر میں نہیں چاہتا مزید چھپائی جاۓ وہ ایک مہینہ پہلے باران چاچو پلین کریش میں انتقال کرگۓ ہیں۔ انہوں نے زی پھپھو سے نکاح کیا تھا اور وہ بیچاری بہت بری حالت میں ہیں۔ وہ حقیقت قبول نہیں کررہیں۔ بہت عجیب صورتحال چل رہی ہے۔۔۔!!!" 

متفکر اور پرنم لہجے میں اس نے یوں بتایا جیسے درمان کے لیے یہ خبر جھٹکا ہوگی پر وہ جتنے سکون سے بیٹھا تھا اسے تعجب ہوا۔ 

سامنے سے پانی کی بوتل اٹھا کر درمان نے کھولی۔

" تجھ سے بیوقوفی کی امید نہیں تھی مجھے۔ پاگل انسان۔ خبر تصدیق کے بغیر کون مانتا ہے ۔۔۔!!!" 

ایک گھونٹ پانی حلق سے اتارتے ہوۓ کہا۔

" تجھے دکھ نہیں ہورہا کہ تیرے چاچو اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔!!!" 

اسے درمان کی دماغی حالت عجیب لگی کیونکہ اس بات پر اس کی ہنسی چھوٹ گئ تھی۔ وہ ہنستا گیا۔ 

ہنستا گیا۔ یہاں تک کہ سامنے ڈیش بورڈ پر ہاتھ رکھ کر اس نے ہنسی روکی۔ 

" میرے چاچو اس دنیا میں نہیں رہے۔ کیا مضحکہ خیز بات ہے یہ۔ اگر ایسا ہوتا نا تو ان کی ایجنسی تباہی مچاچکی ہوتی۔ جس شخص نے دھڑلے سے اپنے سگے بھتیجے کے سینے میں گولیاں اتروائیں، فدیان کو اغواہ کروایا اور ہمارے سامنے بادل خان بن کر گھومتے رہے۔ تمہیں کیا لگتا ہے ان کی ایجنسی کیا انہیں کسی ناکارہ جہاز میں سفر کرنے دے گی۔ وہ اگر گھر سے بھی نکلیں نا بازار کے لیے تو ایجنسی ایکٹو رہتی ہے کسی بھی صورتحال میں انہیں بچانے کے لیے اور تو بات کرتا پلین کریش میں مرنے کی۔۔۔۔!!!"

دیار کی سوچ پر ہنستے ہوۓ وہ اسے سوچ میں ڈال گیا۔ یہ باتیں دیار کی سمجھ میں نہ آئی۔ بہت عجیب سی باتیں کررہا تھا وہ۔

" ایجنسی ۔۔۔!! کون سی ایجنسی۔ بحار تیرے دماغ کو تو نہیں چڑھ گیا کہیں۔!!!" 

وہ جھلایا۔ 

" دیکھ دیار بقول تیرے چاچو ایک مہینہ پہلے غائب ہوۓ پر ہماری فیملی کو کسی نے نہیں بتایا جانتا کون ہے تو اور تیری فیملی۔ کیونکہ چاچو نہیں چاہتے تھے۔ ہم اس بارے میں جانیں اور ان کا پلین خراب ہو۔ انہوں نے نکاح کیا وہ تو جانتا ہوں میں۔ تمہاری پھپھو بھی زندہ ہیں یہ بھی پتہ ہے مجھے۔ پر یہ اگلی بات میرے لیے مزاق ہے۔ مجھے لگا تھا وہ ہنی مون پر گۓ ہیں۔ پر یہاں تو موصوف نے نیا کٹا کھولا ہوا ہے۔ ویسے چاچو کے دماغ پر انہیں نوبل پرائز دینا بنتا ہے۔ اچھے اچھوں کو بیوقوف بنانے کا ہنر آتا ہے انہیں ۔۔۔!!!" 

سرے سے سرا جڑنے لگا۔ وہ یہ سب کیسے جانتا ہے دیار کو اس پر حیرانی نہیں ہوئ اسے تو حیرت ہوئ کہ یہ سب اس نے کیوں نہ جانا۔

" تجھے کیسے پتہ۔ یہی سچ ہے ؟؟؟" کچھ جاننے کو سوال کیا گیا۔ 

" تونے ہی کہا تھا ہم آفریدیز سائیکو کیسز ہیں۔ حقیقت میں بھی ہم دل اور دماغ ساتھ لے کر چلتے ہیں چاہے بات محبت کی ہویا دشمنی کی۔ تو ہمارا میٹر گھومتا رہتا ہے۔ جب میں تجھے سائیکو لگتا ہوں تو وہ میرے بھی استاد ہیں۔۔۔!!!" 

جواب بھی بے فکری اور شرارت سے دیا گیا۔ 

" میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا یار۔ ادھر زی کی حالت پہلے ہی خراب ہے۔ میں کیا کروں اس سب میں۔ مجھے نہیں پتہ ۔۔ !!!" 

سر ہاتھوں میں گراتے ہوۓ وہ بےبس لگا درمان کو۔ 

" تو کچھ نہ ہی سمجھ تو اچھا ہے دیار۔ میرے پر چھوڑ دے۔ اگر وہ تیری پھپھو ہیں تو میری بھی پھپھو ساس پلس چاچی پلس بچپن کی دوست ہیں۔ تجھ سے زیادہ تو میں پسند تھا ایک زمانے میں انہیں۔ بس کچھ دن رک جا میں اپنی ماں کے ہاتھوں نہ مرا تو انشا اللہ تیری پھپھو کو پار لگوادوں گا ۔ باۓ باۓ" 

دروازہ کھلا اور اگلے ہی پل درمان یہ جا اور وہ جا۔ 

دیار کو الجھا کر وہ سکون میں تھا۔ اور دیار تو شاکد تھا یہ ہوکیا رہا ہے

 آگۓ آوارہ گردی کرکے تم۔ مل گیا تمہیں سکون۔ ماں اور بیوی تو مہینہ پہلے گھر آگئ تھیں یہ تم کونسے جنگل سے یہاں آۓ ہو جو ایک مہینہ لگ گیا تمہیں۔ اور آتے ہی بغیر کچھ کہے کہاں گھسے چلے جارہے ہو۔ بدتمیز۔ " 

درمان نے آنکھیں میچ لیں۔ سکون سے اچھا بھلا وہ اپنے کمرے کی طرف بغیر کسی کی نظروں میں آۓ جانے والا تھا جب اچانک لاؤنج میں بیٹھی سحرش صاحبہ نے اسے دیکھ لیا۔ 

پیچھے مڑ کر اپنا کان کھجاتے ہوۓ درمان نے ذرا سی نظر ان کے چہرے پر ڈالی پھر سر جھکا لیا۔

" وہ میں اپنے کمرے میں جارہا تھا۔" 

کسی کے سامنے نہ ڈرنے والے شخص کی زبان کو یہاں تالے لگ گۓ۔ انہوں نے اچٹتی نگاہ اس کے جھکے سر پر ڈالی۔

" تمہیں اس شنایہ نے سکھایا نہیں کہ گھر میں آنے کے بعد پہلے گھر کے بڑوں کو سلام کرتے ہیں ان کی دعائیں لیتے ہیں اس سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔ نحوستیں گھر سے دفع ہوجاتی ہیں۔ پر ایک تم ہو گھوڑے جتنا قد ہوگیا پر غصے کے سوا تمہیں کچھ نہ آیا۔ کوئ تو عقل کی بات جو تم نے اس شنایہ سے سیکھی ہو۔ یہاں آؤ میرے پاس۔ ۔۔۔!!!"'

اسے جھاڑتے ہوئے انہوں نے اپنے پاس آنے کا حکم  دیا ۔ ہاتھوں میں خارش محسوس ہوئی انہیں دل کیا ایک دو تھپڑ مزید اس کے کان کے نیچے لگاہی دیں۔ بہت بگڑا ہوا جو ہے یہ۔ 

اس قدر بےعزتی پر درمان کا پارا ہائ کیا ہونا تھا جو تھوڑی بہت ہمت تھی ان سے بات کرنے کی وہ بھی کہیں جاکر سوگئ۔ کہ لو درمان اکیلے نمٹو ان سے۔ میں ان کے سامنے دودھ کم پانی زیادہ ہوں۔ 

حلق میں تھوک اتارتے ہوۓ وہ چند قدم ان کے قریب آیا۔

" السلام علیکم ۔۔۔!!!" 

ہچکچاتے ہوۓ آج پہلی بار اپنی ماں کو سلام کیا اس نے تو فیلنگ ہی الگ تھی۔ جہاں ڈر تھا وہاں ایک عجیب سی خوشی بھی تھی کہ سامنے کھڑی عورت اس کی سگھی ماں ہے۔

" نیچے ہو ذرا ۔۔!! بہت لمبے ہو تم تو میرا ہاتھ تمہارے سر تک نہیں پہنچے گا۔ ذرا نیچے آؤ میں تمہیں پیار کروں ۔۔۔!!!" 

جواب دینے کے بجاۓ انہوں نے حکم سنایا۔تو درمان زبان دانتوں کے بیچ میں رگڑتا ہوا نیچے جھکا

 اسی لمحے انہوں نے اس کا دایاں کان اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے زور سے کھینچا درمان کی ہلکی سی سسکی نکلی۔ پہلے ہی کئ ہفتوں کے بحار کی وجہ سے سارا جسم دکھ رہا تھا اوپر سے یہ ظلم۔۔۔!!! 

" سلام تو کرلیا بیٹا جی پر تمیز تم میں یے ہی نہیں۔میں کوئ گلی سے گزرتی ہوئی آنٹی ہوں جسے روکھا سا سلام کیا تم نے۔ زرا تمیز سے میرا ماتھا چومتے مجھے موم کہہ کر بلاتے جیسے بچپن میں بلاتے تھے۔ پھر ہاتھ چوم کر سلام کرتے تو میری ممتا کو بھی سکون آجاتا۔

پر نہیں اس شنایہ کی تمیز دار اولاد نے میری ممتا کو قرار آنے ہی نہیں دینا۔۔۔!!!" 

انہیں محسوس ہوا جیسے درمان کا کان نہیں کسی جلتی بھٹی میں ہاتھ دے دیا ہو انہوں نے پر ابھی کے لیے وہ اسے اگنور کرگئیں۔

کراہتے ہوۓ درمان نے لب بھینچے۔ ماں سے پڑی مار کا تو درد ہی انوکھا ہوتا یے۔ 

" میں اس عورت کی نہیں آپ کی اولاد ہوں موم۔ تو خدارا ہاتھ ہلکا رکھیں۔ میں کرتا ہوں نا ویسے سلام جیسے آپ چاہتی ہیں پر مارنا تو بند کریں نا۔ کان کھینچیں گی تو ماتھا کیسے چوموں گا۔ آپ مجھے چھوڑیں اور صوفے پر بیٹھیں۔ میں دوبارہ ایک اچھا بیٹا بن کر آتا ہوں۔۔۔!!!" 

اپنے کان پر رکھے ان کے ہاتھ کو ہٹانے کی چھوٹی سی کوشش کی اس نے۔ ورنہ تو اب سارا گھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔

اس کے منہ سے اولاد والی تصحیح سن کر وہ مسکرائیں اور اس کا کان چھوڑدیا۔ درمان نے اس سرخ ہوۓ کان کو مسلتے ہوۓ گہرے سانس لیے۔ آج اسے پتہ چلا وہ ہر جگہ ظالم کیوں مشہور ہے۔ آخر سحرش جیسی ماں تھی اس کی۔ ظالم تو اس نے ہونا ہی تھا۔

بغیر کچھ کہے وہ جاکر صوفے پر بیٹھ گئیں۔ درمان کان کو چھوڑ کر واپس سے دروازے کی طرف گیا۔ اپنی ماں کی یہ خواہش بھی تو اسے پوری کرنی تھی۔

وہاں جاکر اس نے خود کو کمپوز کیا پھر مشکل سے مسکرا کر وہ واپس سے ان کے پاس آیا۔ 

" السلام علیکم موم۔۔۔!! میری پیاری سی موم۔ دیکھیں آپ کا بیٹا آیا ہے آپ کے پاس۔ کیسی ہیں آپ میری جان۔ " 

آگے بڑھ کر ان کا ہاتھ تھامے ہوئے اس نے اس پر بوسہ دیا پھر ان کی پیشانی عقیدت سے چومی۔ اور اب تھک کر ان کے قدموں میں ہی بیٹھ گیا۔ مزید اب اس میں مار کھانے کا حوصلہ نہیں تھا۔

وہ ٹھٹھکیں انہیں اب پھر سے محسوس ہوا درمان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ درمان نے ان کے گھٹنوں سے سر لگاکر آنکھیں بند کیں۔ 

" وعلیکم السلام بیٹا جی۔ میں تو ٹھیک ہوں پر تم ٹھیک نہیں لگ رہے مجھے۔ کچھ ہوا ہے کیا ؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ آج وہ پہلے والا غصہ کہاں چھوڑ کر آۓ ہو۔اور تمہیں کیا بحار بھی ہے؟ ہوا کیا ہے میرے بیٹے کو ۔۔۔!!!" 

اس کے بکھرے ہوۓ سلکی بالوں میں انہوں نے ہاتھ پھیرا۔ ماں کا لمس محسوس ہوتے ہی درمان کے چہرے پر مسکراہٹ آئ۔ 

" بس نیند پوری نہیں ہوئ تو سردرد کررہا ہے۔ باقی میں فٹ ہوں۔ مجھے کیا ہونا ہے۔ آپ سچ میں بہت اچھی ہیں۔ پہلے کیوں نہیں تھیں میرے پاس۔ اگر ہوتیں تو کم از کم مجھے قابو میں رکھ لیتیں۔" 

لاڈ سے کہا اس نے۔ ان کے قدموں میں اس کی جنت تھی اور جنت میں آکر کون بے چین رہے۔ اس کی باتوں پر وہ بھی مسکرائیں اور جھک کے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے ان کی آنکھیں بھی نم ہوئیں۔ عجیب اولاد تھی ان کی جسے وہ ظالم بن کر بھی پیاری لگ رہی تھیں۔ 

" بٹرنگ کی ضرورت نہیں ہے۔ میری مار سے تو اب تم نہیں بچ سکتے۔ یہ تمہارا مقدر ہے۔ اچھا میں ایسا کرتی ہوں تمہارے سر میں تیل سے مالش کردیتی ہوں۔ سردرد ٹھیک ہوجاۓ گا۔ اور ساتھ ہی کچھ کھانے کو بھی بنادیتی ہوں تمہارے لیے۔ اب شکل دکھاہی دی ہے تو معاف کردینا چاہیے تمہیں۔۔۔!!!" 

اس کی پیشانی سے بال ہٹاتے ہوۓ وہ پیار سے بولیں ان کا پیار ایسا ہی تھا۔ درمان نے بس ہمم کہا یہاں سے اٹھنے کا اس کا دل نہیں تھا ابھی۔ انہوں نے ملازمہ کے ہاتھوں تیل کی بوتل منگوائی اور اس کے سر کی مالش کرنا شروع کی۔

" زرلشتہ کو میں نے یہیں فرسٹ فلور پر شفٹ کردیا ہے سیڑھیاں اترنا اس کے لیے ٹھیک نہیں۔ تو تم بھی اس کے پاس وہاں ہی رہنا۔ ٹھیک ہے نا۔ اب بہت بہتر ہے وہ۔ اس کا خیال رکھنا ہے تمہیں ۔۔۔!!" 

دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے وہ اس کے بالوں میں تیل لگانے میں مگن تھیں۔ اس بات پر درمان نے افسوس سے لب دباۓ۔

" میں اپنے پہلے روم میں ٹھیک ہوں۔ اسے سکون سے رہنے دیں۔ جو میں نے کیا اس کے بعد اس کا سامنا مجھے نہیں کرنا۔ میرا اس کے پاس نہ جانا اس کی تکلیفوں کا علاج ہے ۔۔۔!!!" 

انداز میں احساس ندامت واضح تھا۔ ان کی چلتی انگلیاں رکیں۔

" بیٹا یہ سزا کچھ زیادہ نہیں یے۔ کیوں ایک کے بعد ایک بیوقوفی کرکے اسے مزید خود سے دور کررہے ہو۔ میرا بیٹا غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں اور اصل انسان تو وہ ہے نا جو اپنی غلطی پر نادم ہو اور دوبارہ اسے نہ دہرانے کی قسم کھاۓ۔ تم بھی وعدہ کرو اب نہیں ڈانٹو گے اسے  معافی مانگو اس سے۔ رشتوں میں دوریاں آجائیں تو فاصلے راستے ہی الگ کردیتے ہیں۔ جلدبازی میں فیصلہ نہ لو۔ عقل سے کام لو ۔۔۔!!!" 

انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو وہ اب کی بار چپ ہی رہا۔ اس وقت وہ اس موضوع پر بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

سہ پہر تک درمان کے ساتھ باتیں کرکے اسے اپنا بنایا ہوا لذیذ کھانا کھلا کے انہوں نے آرام کرنے کا کہہ کر زرلشتہ کے کمرے میں بھیج دیا۔ جہاں زرلشتہ ناشتے کے بعد سے سوئی ہوئ تھی۔ 

درمان کمرے میں داخل ہوا تو نظریں دشمنِ جان پر بھٹکیں جو ارد گرد سے بے خبر ہوکر سکون سے اپنے ٹیڈی کو گلے لگاکر نیند کی وادیوں میں کھوئ تھی۔

یہ کمرہ ، یہ حویلی، بیڈ پر سوئ اپنی بیوی اور اپنے باقی کے فیملی میمبرز سب کو اس نے بہت یاد کیا تھا۔

ہمیں یہ رشتے، یہ سکون سب مفت میں اور بن مانگے ملا ہے تبھی ہمیں ان کی قدر نہیں۔ پر جن لوگوں کی زندگیوں میں یہ سب نہیں ہوتا قدر انہیں ہوتی ہے ان سب کی۔ درمان کو بھی قدر آگئ تھی ان سب کی۔

اپنے تھکن سے چور وجود کو تقریبا گھسیٹ کر وہ بیڈ کے قریب آیا۔ نظریں اس کے بھولے بھالے سے چہرے پر جمی تھیں۔ اس کے لال پھولے ہوۓ گال پیشانی پر بکھرے بال اور اس کی سانسوں کی آواز انہوں نے درمان کے دل کو جیسے اپنے سحر میں جھکڑا۔

 ہاتھ بڑھا کر درمان نے اس کے گالوں پر بکھرے بال پڑے کیے۔

لبوں پر زخمی سی مسکراہٹ تھی اس لمحے۔ اسے یاد آیا آج تک کتنی تکلیف اس کی بدولت اس لڑکی کو ملی ہے تو اس کا ہاتھ خود ہی اس کے چہرے سے دور ہوگیا۔

" سوری زرلشتہ ۔۔۔!!!! مجھے اتنا روڈ نہیں ہونا چاہیے تھا تمہارے ساتھ۔جانتا ہوں میرا سوری کہنا تمہاری تکلیف کا مرہم نہیں تو بس مجھے انتظار رہے گا کب تم دل سے معاف کرو مجھے۔ ہر سزا کے لیے تیار ہوں میں  ۔۔۔!!!" 

ایک قدم پیچھے لےکر اس نے پھر آنکھ کا نم ہونا صاف کرکے وہ شاور لینے کے لیے واش روم چلا گیا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

شام کے وقت ایک نیا عزم لے کر سحرش صاحبہ سیدھا فدیان کے آفس میں آئیں۔ درمان کو پیار کرنے کے بعد اب دل نے خواہش کی کہ اپنا دوسرا بیٹا بھی آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیے۔ اسے بھی ایک بار تو ماں کہنا چاہیے انہیں۔ وہ تو بہت چھوٹا تھا جب قسمت نے اسے ان سے دور کردیا اس نے تو پہچانا بھی نہیں تھا کبھی انہیں۔ اب دل کو امید تھی ایک بار تو اسے اپنے سینے سے لگا کر اس تڑپتے دل پر پھوار برسائیں۔

اپنی شال درست کرکے انہوں نے مین ڈور کراس کیا۔ نظریں وہاں کام کررہے ورکرز پر ذرا سی ڈالیں انہوں نے۔ اور آگے بڑھ گئیں۔ گیٹ سے لاسٹ فلور تک ان ورکرز پر ان کی عقاب نظریں جمی رہیں۔ جنہوں نے انہیں نوٹ نہیں کیا تھا۔ کچھ خوش گپیوں میں مگن تھے تو کچھ آرام سے کرسی پر نیم جاگی کیفیت میں جھول رہے تھے۔

بہت ہی تھوڑے تھے ایسے ورکرز جو کام کررہے ہوں۔ آفس بند ہونے میں تھوڑا ٹائم ابھی باقی تھا۔ 

ایک ورکر سے فدیان کے آفس کا پوچھ کر وہ اس کے کیبن کے باہر آئیں جہاں اس کا سیکرٹری بیٹھا فائلوں میں سر دیے ایک انگلی دانتوں تلے دبا کر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا۔

وہ وہاں ہی کھڑی ہوئیں۔

" فدیان سے ملنا ہے مجھے۔ " انہوں نے سرسری سا کہا۔ دل میں اس وقت بےچینی سے دھڑکنیں تیز  ہورہی تھیں۔ آخر تئیس سالوں بعد اپنی اولاد کو قریب سے دیکھیں گی وہ۔

سیکرٹری نے سر اٹھایا اور رسمی سی مسکراہٹ پیش کی۔

" شور میم ۔۔۔!! کیا کہوں ان سے کون ملنے آیا ہے ۔۔؟؟" 

ریسیور اٹھاتے ہوۓ اس نے فارمیلٹی پوری کی۔ وہ مسکرائیں۔ ارادہ فدیان کو سرپرائز دینے کا تھا۔ 

" کہو سحرش صاحبہ آئ ہیں۔ بہت ضروری کام ہے انہیں ان سے۔ تو ابھی ملنا ہے ۔۔۔!!!" 

بےتابی سے اپنی شال کا سرا انہوں نے ہاتھ میں جھکڑا۔ لبوں پر چھائ مسکراہٹ مزید گہری ہوئ پر وہ مسکراہٹ بس چند سیکنڈ کی مہمان تھی۔

" سوری میم ۔۔۔!!! سر اس وقت فری نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس فالتو وقت نہیں ہر کسی سے ملنے کا وہ کسی سحرش کو نہیں جانتے۔جو بھی کام ہے مجھے بتادیا جاۓ میں بعد میں انہیں بتادوں۔۔۔!!!" 

ریسیور سیکرٹری نے واپس رکھتے ہوۓ بتایا۔سحرش کے چہرے پر حیرت در آئ۔ کیا اس کے پاس اپنی ماں سے ملنے کا وقت نہیں ہے۔ کیا اپنی ماں سے ملنے کے لیے اسے فالتو وقت کی ضرورت ہے۔ ساری خوشی اڑ گئ اسی پل۔

لب سختی سے بھینچ کر انہوں نے خود کو پرسکون کرنا چاہا یہ فدیان کا آفس تھا یہاں وہ تماشہ لگانے کے حق میں نہیں تھیں۔

" اس جاہل کو بتاؤ کس سکول کے پیچھے بیٹھ کر پڑھتا رہا ہے جس نے اسے سکھایا کہ اپنی سگھی ماں سے فالتو وقت میں ملنا چاہیے۔ اس بدتمیز، بدتہذیب سے پوچھو کہ اپنی ماں کا نام یاد ہے اسے یا بھول بھال گیا۔۔۔!!!" 

دونوں ہاتھ سختی سے مٹھی میں بھینچ کر وہ سخت غصے پر قابو پارہی تھیں۔

 ماں کا لفظ سن کر سیکرٹری جھٹکے سے اٹھا۔ 

" آپ ان کی ماں ہیں۔ سوری میم میں پھر سے انہیں بتاتا ہوں۔ اصل میں کام کا بوجھ زیادہ ہے نا تو سر چیزیں بھول جاتے ہیں میں پھر سے بتاتا ہوں۔ آپ غصہ نہ ہوں ۔۔۔!!!" 

بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر اس نے ریسیور اٹھایا اور پھر سے فدیان کو کال کرکے بتایا اس کی ماں آئ ہے یہاں اس سے ملنے۔

اسی لمحے سحرش صاحبہ نے ریسیور اس کے ہاتھ سے چھین کر اپنے کان سے لگایا۔

" کہا نا میں نے فضول لوگوں سے ملنے کے لیے وقت نہیں ہے میرے پاس۔ جو بھی ہے اسے باہر سے ہی فارغ کرو اور جان چھڑواؤ۔ پتہ نہیں کہاں کہاں سے لوگ مانگنے چلے آتے ہیں۔ ہنہہ۔۔۔!! اور اب مجھے فون نہ کرنا میرا دماغ پہلے ہی تپاہوا یے ۔۔۔!!!" 

ان کا منہ کھلا۔ ساری بدتمیزی کرکے فدیان صاحب کال رکھ چکے تھے۔ کیا یہ ویلیو تھی ان کی اپنے بیٹے کی نظروں میں ۔۔ !!! 

ریسیور پھینک کر وہ دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اس کے کیبن کے بند دروازے کو گھورنے لگیں۔

" سنو لڑکے تمہاری ماں نے آج تک تمہیں جس جس ہتھیار سے مارا ہے نا مجھے اگلے دو منٹ میں وہ سب یہاں چاہیے۔ اولاد ہاتھ سے نکل رہی ہے اسے کھونٹے سے باندھا پڑے گا۔ ساتھ ہی موصوف کا گرم دماغ ٹھنڈا کرنے کے لیے دو بالٹیوں میں برف والا ٹھنڈا یخ پانی بھی لاؤ۔ بہت پر لگ گۓ ہیں اس نالائق کو آج اسے پتہ چل ہی جانا چاہیے ماں کون ہے اور بیٹا کون۔۔۔!!!! جلدی کرو کہیں تمہیں نا الٹا لٹکادوں میں ۔۔۔!!!" 

اپنی آستینیں فولڈ کرکے انہوں نے سخت لہجے میں کہا تو سیکرٹری آخری جملے پر دم دبا کر سیدھا وہاں سے دوسری طرف گیا بگڑی ہوئ اولاد کے علاج کے ہتھیار جمع کرنے کے لیے۔

" میرا بیٹا بس دو منٹ رکو پھر تم جان جاؤ گے سحرش کون ہے۔۔۔!!!" 

پرانے وقتوں کی مائیں بدتمیزی برداشت نہیں کرتی تھیں وہ اولاد کو اس کے مقام پر لانا جانتی تھیں۔

وہ بھی تیار تھیں فدیان کا دماغ ٹھکانے لگانے کے لیے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" سر آپ کے پاس وقت ہے کیا کچھ ضروری بات کرنی ہے ۔۔۔!!!" 

فدیان پہلے ہی اکاؤنٹ کے ہیک ہونے کے صدمے سے باہر نہیں نکلا تھا ابھی۔ اس نے ریسورسز یوز کیے پر سمجھ نہ آیا یہ حرکت کس کی ہے۔ اچانک کسی کی آواز دوبارہ سے سن کر اس نے غصے سے فائلز دور پھینکیں۔

" نہیں یے وقت میرے پاس ۔۔۔!!! کیوں دماغ خراب کررہے ہو تم سب میرا۔ جاؤ یہاں سے پھر شکل نہ دکھانا ۔۔۔!!!" 

اپنی ہی کیفیت میں نا اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دیکھا دیکھا بس وہ کہہ دیا جو منہ سے نکلا۔ کچھ سیکنڈ تک خاموشی چھائی اسے لگا آنے والا چلا گیا ہے۔ پر اگلے ہی لمحے ایک جوتا اڑتا ہوا اس کے سر میں لگا۔ فدیان نے ناسمجھی سے اپنی گود میں گری لیڈیز چپل دیکھی پھر ٹرانس کی کیفیت میں دروازے کو دیکھا۔

" شکل نہ دکھاؤں تمہیں تو کیا پلاسٹک سرجری کروا لوں۔ عقل کے اندھے، بدتمیز یہ سیکھا ساری زندگی میں تم نے کہ ماں پر چیخو۔ آؤ تمہارا دماغ ٹھیک کروں میں ۔۔۔!!!" 

وہاں تو اس کی ون اینڈ اونلی ماں کھڑی تھیں۔ درمان کی طرح اسے بھی اس وقت اپنی ذلت محسوس ہوئ وہ جوتا غصے سے ہاتھ میں لے کر وہ اپنی نشست سے اٹھا اور گھورتے ہوۓ انہیں دیکھا۔

" کون ہیں آپ محترمہ ؟؟؟؟ اور کیا کررہی ہیں میرے آفس میں " 

اس کا غصہ دیکھنے کی دیر تھی انہوں نے دوسرا جوتا بھی نشانہ باندھ کر اسے مارا جو سیدھا اس کی گردن پر لگا۔ فدیان نے کراہتے ہوۓ پہلو بدل لیا۔ 

" تم تو جانتے ہو میں کون ہوں۔ آخر جہاں سے مانگنے آئ ہوں تمہیں تو پتہ ہوگا نہ۔ نالائق مجھے آنکھیں دکھاتے ہو۔ کہتے ہو جو بھی ہے اسے باہر سے فارغ کرو میرے پاس ملنے کا وقت نہیں۔ میرے شوہر نے کبھی آنکھیں نہیں دکھائیں مجھے تو تم کس کھیت کی مولی ہو ۔۔۔!!!" 

ننگے پیر تن فن کرتے ہوۓ ہوۓ وہ اس کے سر پر پہنچیں پھر اس کا گریبان پکڑ کر انگارے چباتے ہوۓ اگلے ہی پل الٹے ہاتھ کا تھپڑ اس کے منہ پر مار دیا۔

فدیان نے گال پر ہاتھ رکھا واقعی تھپڑوں کے معاملے میں ان کا ہاتھ بہت بھاری تھا۔ 

" آپ نے مجھے ہاتھ بھی کیسے لگایا ۔۔!!"وہ کھاجانے والے انداز میں بولا۔ اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہونے کا غصہ ان پر نکلنے والا تھا۔

" ایسے لگایا ۔۔۔!!!" 

جوتا اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہی انہوں نے اس کے بازو اور کمر پر ہے درپے کئ دفعہ اسے مارا۔ پھر زور کا دھکا دے کر اسے اپنے سے تھوڑا دور دھکیل دیا۔

وہ تو اب بھی شاکڈ تھا یہ ہوکیا رہا ہے۔ تب اچانک ہی دروازہ کھلا اور سیکرٹری صاحب نے کچھ پائپ، ہینگرز، چارجر کی تاریں، جوتے، آفس کے کچن سے لیے خالی ڈبے اور بھی تھوڑا سا سامان وہاں رکھتے فورا دروازہ بند کردیا۔ کہیں اسے ہی مارنا نہ شروع کردیں وہ۔ 

" آپ عورت ہیں تو میں لحاظ کررہا ہوں ورنہ آپ جانتی نہیں ہیں کیا ہوتا آپ کے سامنے ۔۔ !!" 

اسے اب بھی عقل نہیں آئ تھی تو اس نے للکارا۔ سحرش صاحبہ نے پائب کا ٹکڑا اٹھایا اب فدیان کی شامت آگئ۔ وہ آگے آگے تھا تو وہ ہیچھے پیچھے ۔

" آہ کیا کررہی ہیں آپ محترمہ۔ آہ آہ آہ آہ آہ کیوں ماررہی ہیں ۔ ۔؟؟؟ "

کیبن میں رکھے صوفوں کی طرف بھاگتے ہوۓ وہ درد سے کراہنے لگا سحرش کا غصہ مزید بڑھا۔

" بھیک مانگ رہی ہوں نا تو تم دے نہیں رہے اسی لیے مار رہی ہوں۔ اور یہ مس مہرو کون ہے ؟؟؟ بتاؤ مجھے آج اپنی بہو کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والی کو ٹنڈا کروں گی میں ۔۔ !!!" 

فدیان صوفے پر گرا پر ان کا تشدد جاری رہا۔ پائپ کی ضربیں بہت سخت نہیں تھیں اتنی تھیں کہ اسے درد ہو پر نیل نہ پڑیں۔ بس ڈرا رہی تھیں وہ اسے۔

پائپ پھینک کر انہوں نے اب ہینگر اٹھاۓ اور دوسرے ہاتھ میں چارجنگ کی تار لی۔ مس مہرو کا نام سن کر فدیان وہاں سے اٹھنے ہی والا تھا لیکن پائپ میں پیر پھسنے کی وجہ سے نیچے گرگیا۔

اب کیبن میں اس کی چیخوں کی آواز تھی۔

" کون ہے  مہرو ۔۔۔۔!!!!" 

یہاں سے آنے سے پہلے وہ معصومہ سے مل کر آئ تھیں جو انہیں دیکھ کر شاکڈ ہوئ ساتھ ہی مس مہرو کا بھی بتادیا۔ اور روتے ہوۓ بتایا۔ جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اس وقت۔ 

 ان کا تو دل ہی کانپ گیا اس لمحے۔ کہ کہیں پھر سے کوئ شنایہ آکر اس بچی کو سحرش نہ بنادے۔

"  میری ماں ہیں تو منہ سے بتائیں نا ہڈیاں کیوں توڑ رہی ہیں میری۔ آہ۔۔۔!!! غلطی ہوگئ جو آپ کو کچھ کہہ دیا معاف کردیں۔اور یقین جانیں مس مہرو کوئ نہیں یے یہاں " 

بچنے کی کوشش میں وہ ہلقان ہوتے ہوئے دروازے کی طرف جانے لگا جب دروازہ کھلنے پر سیکرٹری نے وہ پانی کی بھری بالٹی جس میں برف کے ٹکڑے تھے چھوٹے چھوٹے اس پر پوری کی پوری پھینک دی۔ وہ کانپ گیا۔ کیونکہ سارا پانی اسے سر سے پیر تک بھگوگیا تھا۔ اس نے بیچارگی سے سحرش کو دیکھا جو بھاری ہوتا سانس نارمل کرکے اپنے جوتے پہن کر اس تک آئیں پھر الٹے ہاتھ کا تھپڑ بھی جھڑ دیا۔

۔" مجھے اس دنیا میں ان مردوں سے سخت چڑ ہے جو اپنی بیوی کے ہوتے ہوۓ دوسری لڑکی کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھیں۔ ان کے لیے کوئ معافی نہیں میرے نزدیک چاہے تو وہ میرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ جو بھی ہے مہرو اسے چھوڑو اور میرے ساتھ چلو راستے میں معصومہ کو بھی پک کرلیں گے ۔۔۔!!!" 

وہ تو الگ قسم کی ماں تھیں مار کر خود ہی انہوں نے اس کا کالر ٹھیک کیا۔ پھر اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر چلی گئیں وہاں سے۔ اسے کہتے ہیں دبنگ سٹائل ماں ۔۔۔!!! 

فدیان نے اپنے بال ہاتھ سے ٹھیک کیے۔ اسے اب عجیب سا لگا کہ سارا سٹاف کیا سوچے گا اس کے بارے میں۔ کیا وہ اب کسی سے نظریں ملانے کے قابل رہا ہے پر اسے حیرت تب ہوئ جب اس آفس میں اسے ورکرز نہ دکھے۔ 

آفس میں اس کے سیکرٹری اور اس کے علاؤہ بس اس کی ماں تھی۔ سب جاچکے تھے۔ یعنی انہیں اس کی ایگو اور سب کی نظروں میں عزت بھی عزیز تھی تبھی تو سٹاف کو گھر بھیج دیا انہوں نے۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی انہوں نے رخ پھیر لیا یہ ناراضگی کا اعلان تھا۔ یعنی منہ بھی اس کا توڑا انہوں نے۔ مارا بھی اسے، ذلیل بھی اسے کیا اب ناراض بھی خود ہوگئیں۔ 

اپنی ماں سے پہلی ملاقات وہ اب کبھی بھولنے والا نہیں تھا۔ 

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" سر گاڑی روکیں ۔۔۔!!!" 

راسم نے گاڑی کے سامنے کھڑے دو لوگوں کے اشارے کو نوٹ کرکے گاڑی سائیڈ پر پارک کی۔ 

وہ دونوں اہلکار چلتے ہوئے اس کی گاڑی کے قریب آۓ اور ڈور ناک کیا۔ راسم نے شیشہ نیچے کرکے اپنا ڈرائیونگ لائیسنس اور چند ضروری پیپرز ڈیش بورڈ سے نکالے اور ان کی جانب بڑھادیے۔ اسے لگا یہ لوگ لائیسنس چیک کرنے کے لیے کھڑے ہیں۔

لائیسنس دیکھنے کے بعد اہلکار نے غور سے راسم کی صورت دیکھی نیچے جھک کر پھر اس کا دیا ہوا سی این آئ سی کارڈ دیکھا۔

" بیوقوف سمجھ رکھا ہے کیا ہمیں۔ یہ کس کا شناختی کارڈ دکھا رہے ہو اور یہ لائیسنس بھی تمہارا نہیں ہے۔ گاڑی کے پیپرز بھی اصل نہیں ڈپلیکیٹ ہیں۔ ہم لوگ شکل سے کیا میٹرک فیل لگتے ہیں تمہیں یا پھر پرائمری پاس ۔۔۔!!!" 

پیپرز اہلکار نے اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوۓ مضحکہ خیز انداز میں کہا ۔ صبح یاد سے راسم نے سارے پیپرز چیک کیے تھے۔ ایجنسی میں آنے کے بعد چھوٹی سے چھوٹی چیز سے باخبر رہنا اس کی عادت بن گئ تھی۔ پھر یہ اتنی بڑی غلطی کب ہوئ ۔۔؟؟؟ 

راسم نے فورا پیپرز دیکھے جو واقعی اس کے نہیں تھے۔ کس کے تھے یہ بھی وہ نہیں جانتا تھا۔

" یہ تو میرے نہیں ہیں پھر  میرے پاس کیسے آۓ ؟؟" 

تعجب سے وہ پیپرز سامنے رکھ کر اس نے گاڑی میں چیک کیا کہ اس کے پیپرز کہاں گۓ۔ پر گاڑی میں پیپرز تو کیا اس کی ایجنسی کا کارڈ بھی نہیں تھا۔ وہ جسے وہ ہمیشہ اپنی پاکٹ میں رکھتا ہے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں پاکستانی اداروں میں استعمال کرسکے وہ بھی نہیں تھا یہاں۔ 

"یہ ڈرامے بعد میں کرنا ابھی تو گاڑی سے باہر نکلو تم۔ جس شخص کا شناختی کارڈ بھی نقلی ہے اسے جانے دینا ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ راشد تم اس کی گاڑی کی تلاشی لو مجھے تو یہ شکل سے ہی دو نمبر انسان لگ رہا ہے۔ کپڑے دیکھو کیسے برینڈڈ پہنے ہیں اس نے یہاں کے تو نہیں لگتے نہ ہی عام آدمی کی پہنچ ہوسکتی ہے اتنی۔ مجھے پورا یقین ہے یہ کوئ دہشت گرد ہے ۔۔۔!!!" 

اس کی گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوۓ اہلکار نے اسے باہر نکالا پھر غور سے اس کی چارمنگ پرسنیلٹی پر ٹونٹ کیا۔ دوسرا اہلکار اب اس کی گاڑی کی تلاشی لینے میں مگن تھا۔

اور راسم تو اپنے کوٹ کی پاکٹ سے بار بار اپنا کارڈ ٹٹولنے کی کوشش میں تھا ورنہ اس کی ایجنسی کی نظروں میں اس کی کیا عزت رہ جاتی۔

" سر اس کی گاڑی کی سیٹس کے نیچے منشیات کی بھاری مقدار چھپائی گئ ہے۔ سیٹس کیا سر اس کی تو گاڑی کی چھت میں بھی مہارت سے اس زہر کو چھپایا گیا ہے۔ آپ کا شک ٹھیک ہے سر یہ انسان نوجوان نسل کو تباہ کرنے کے ارادے سے یہاں آیا ہے ۔۔۔!!!" 

سیٹس چیک کرتے ہوۓ وہ فومنگ سیٹس پھٹ گئیں اور بھاری مقدار میں سفید پاؤڈر جو چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں بند تھا وہ نظر آنے لگا۔

اس الزام پر صدمے کی کیفیت میں راسم نے سیٹس دیکھیں جہاں سچ میں پاؤڈر نشہ موجود تھا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔ یہ اسکا تو نہیں تھا۔

پر سیٹس فومنگ سیٹس میں کب بدلیں آخر اسے تو خبر ہی نہیں۔

" اور سر یہ کارڈ بھی ملا ہے یہاں سے۔ یہ شخص فرانس کا ہے۔ اس کے پاس وہاں کا کارڈ ہے۔ " 

پہلے اہلکار نے اوووو کہا۔ راسم نے اس دوسرے اہلکار کے ہاتھ سے کارڈ جھپٹا یہ تو اس کا فارن کارڈ تھا جو اس کے گھر میں موجود تھا یہاں کیسے آیا۔

" یہ سب میرا نہیں ہے آفیسر۔ ہو ہی نہیں سکتا یہ سب میرا ۔۔!! میں ڈوئل نیشنیلٹی ہولڈر ضرور ہوں پر میرا تعلق فرینچ سیکرٹ ایجنسی سے ہے ۔ میجر راسم زئ ایجنٹ تھری اوو ٹو۔۔!! رکیں مجھے میری ایجنسی میں رابطہ کرنے دیں آپ پر واضح ہوجاۓ گا میں یہاں پاکستان کو نقصان پہنچانے نہیں آیا ۔۔۔!!!" 

 راسم نے انہیں صفائ دینا چاہی جو اب بھی اسے ہی گھور رہے تھے راسم نے اپنا فون نکالا ہی تھا جب پہلے اہلکار نے فون جھپٹ لیا۔ اور دوسرے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئ اشارہ کیا تو اس نے سر کو خم دے کر پولیس موبائل منگوانے کا میسج کسی کو سینڈ کردیا۔

" یہ سب تمہارا نہیں ہے تو کیا یہاں گرمی دانوں کا پاؤڈر بیچنے آؤ ہو تم۔ تم سیکرٹ ایجنسی سے تعلق رکھتے ہو تو اس ملک کا صدر میں بھی ہوں۔ آؤ تمہیں اپنا ہاؤس دکھا لاؤں ۔ راشد ڈال اسے ڈالے میں اور اپنے ملک کی جیلوں کا دورا کروا۔

ودیشی بابو یہاں گرمی دانوں کا پاؤڈر بیچنے آۓ ہیں۔ خاطر مدارت تو بنتی ہے نا  ۔۔۔!!!" 

لطیف سا طنز کرتے ہوۓ وہ راسم کی بات پر ہنس پڑے اتنے میں پولیس وین بھی وہاں موجود تھی۔

راسم نے گہرا سانس بھرا۔ یہ کسی کی سازش تھی اور اسے اب خود کو بچانا تھا۔ تبھی کچھ بھی کہے بغیر وہ ان دونوں کے ساتھ چلا گیا۔ 

وہ اسے جیل لے کر آئے اور یہاں آتے ہی اس پر پکی ایف آئی آر کاٹ دی گئ۔ وہ اپنا فون مانگ رہا تھا لائیر کو کال کرنے کے لیے پر یہ لوگ دینے والے نہیں تھے۔

منشیات کے ساتھ پولیس والوں کو مارنے، اقدام قتل اور دہشت گردی کے مقدمات میں بھی اسے ملوث کردیا گیا۔ بس آدھا گھنٹہ لگا دا گریٹ راسم زئ کو پاکستان کے ریکارڈ میں دہشت گرد اور مافیا مین ثابت کرنے میں۔

یہ کس نے کیا وہ نہیں جانتا تھا پر یہ ہوچکا ہے اسے معلوم تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" ویلکم مسٹر راسم زئ ۔۔۔!!! ان لوگوں نے زیادہ تو نہیں نہ تنگ کیا آپ کو۔ اگر کیا ہے تو بتادیں میں ایکسٹرا انعام ان کی نظر کردوں ۔۔ !! ویسے جیل کی ہوا کیسی لگی سسرال والی فیلنگ آئ یا نہیں ۔ !!" 

راسم نے سر اٹھایا وہ اندھیرے ٹارچر سیل میں رکھی دو کرسیوں میں سے ایک پر براجمان تھا اس وقت۔ جس کے وسط میں وائٹ کلر کا بلب لٹک رہا تھا جس کی روشنی اس کے چہرے پر پڑرہی تھی۔ 

راسم نے آنے والے کو پہچاننا چاہا لیکن یاد نہ آیا یہ کون ہے۔ 

" کون ہو تم ؟؟ اور کیوں لاۓ ہو مجھے یہاں ؟ کیا چاہتے ہو مجھ سے ؟؟" 

بغیر ادھر ادھر کی ہانکے راسم نے پتے کی بات کی۔ اتنا تو اسے بھی علم تھا ان لوگوں کا مقصد کچھ اور ہے۔ ورنہ اس کا کسی سے کیا بیر ۔

مقابل نے ہاتھ میں پکڑی گاڑی کی کیز شہادت کی انگلی پر گھمائ اور کروفر سے چلتے ہوۓ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر۔ انداز ہی الگ تھا اس کا۔ 

" بڑے عقلمند ہو تم۔ کوئ دہائ نہیں دی کوئ رونا نہیں رویا بس سیدھا مدعے پر آگۓ۔ تو سنو مجھے باران آفریدی کی انفو چاہیے کہ اس وقت وہ دنیا کے کسی کونے میں ہیں اور کیا کررہے ہیں ۔۔!!" 

انگلی پر گھومتی کیز سٹائل سے دوسرے ہاتھ میں اچھال کر دونوں کہنیاں وسط میں رکھے چھوٹے ٹیبل پر ٹکا کر اس نے مسکراتے لہجے میں انتہائی گہرا سوال کیا۔ تو اس نام پر ایک لمحے کو راسم بھی ساکت ہوا۔ 

پھر گڑگڑاہٹ پر قابو پاکر اس نے نارمل ہونے کی کوشش کی۔ 

" دو گز زمین کے ٹکرے میں وہ اس وقت فرشتوں سے گفت و شنید کررہا ہوگا۔ اگر ایجنسی اسے دفناچکی ہوئ تو ورنہ کسی سرد خانے میں موجود ہوگا۔ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا۔۔ !!!" 

ریلیکس ہوکر راسم نے بات کو وہی رخ دیا جو روز روح سنتی تھی سب سے۔ مقابل کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئ۔ جیسے مزاق ہوا ہو اس کے سامنے۔

" نائس جوک ۔۔!! پر مجھے اس قسم کے واہیات مزاق نہیں پسند نا ہی مزاق کرنے والے۔ بات کسی کی جان کی نہ ہوتی تو مجھے کوئ پرابلم نہیں تھی وہ امریکہ کے نام پر نیدر لینڈ جائیں یا ساؤتھ کوریا۔ کیونکہ یہ ان کی زندگی ہے۔ میں بیچ میں نہ آتا۔ پر میں کسی معصوم سے وجود کو ایک غلط فہمی کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔ سیدھا سیدھا بتاؤ باران صاحب کہاں ہیں ورنہ ۔۔۔!!!" 

شروع کی بات اس نے ہنستے ہوۓ کی پر آخر تک چہرہ مکمل سپاٹ ہوگیا۔ اسے یہاں لانے والا یہی تھا دوپہر میں اس نے راسم کی گاڑی جو سروسنگ کے لیے گئ ہوئ تھی اس کی سیٹس میں ڈرگز چھپائیں اور اس کے پیپرز بھی مہارت سے چینج کردیے۔ اس کا کارڈ جو پولیس والوں نے دیکھا وہ ڈپلیکیٹ تھا۔ یہ سب بس اس نے راسم کو تنہا کرکے ٹریپ کرنے کو کیا۔

دانستہ طور پر ادھوری چھوڑی گئ بات کے جواب میں راسم نے ابرو اچکائیں۔

" ورنہ کیا ؟؟؟؟ وہ مرچکا ہے۔ میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتا۔۔۔!!" 

وہ اب بھی اپنی بات پر قائم رہا جب مقابل کی نیلی آنکھیں اس بلب کی روشنی میں چمکیں۔ راسم کی ڈھٹائی پر غصہ نہیں اسے ہنسی آرہی تھی۔

اپنی پاکٹ سے اپنا سیل نکال کر درمان نے اس کی طرف بڑھایا مسکراہٹ جلادینے والی تھی۔

جی ہاں وہ درمان تھا۔ دیار سے بات کرنے کے بعد ہی سارا پلین اس نے ترتیب دیا۔ بس تھوڑی سی محنت کی اس نے اور راسم صاحب اس کے ٹریپ میں پھنس گۓ۔

" ورنہ جو تم لوگ کرتے پھررہے ہو میں بھی کرسکتا ہوں۔ تمہیں تمہاری ایجنسی کے نزدیک بدنام کرکے سکون سے کسی جگہ قید کرکے ان کی نظروں میں تمہیں مفرور بنانا یقین کرو بہت آسان ہے میرے لیے۔" 

یک طرفہ مسکراہٹ ایک وارننگ تھی راسم نے وہ ویڈیو پلے کی جس میں اس کی پشت دکھ رہی تھی اور وہ کسی سے بات کررہا تھا ساتھ ہی گاڑی میں رکھی منشیات کا شاٹ بھی تھا۔ 

راسم ششدر تھا اس وقت۔ یہ تو شام کی ویڈیو تھی جب پولیس والوں نے اسے روکا پر بنی اس اینگل سے تھی کہ کوئ بھی یہی سمجھتا وہ ڈرگ ڈیلنگ کررہا ہے۔

وہ اہلکار سول کپڑوں میں تھا اس وقت۔ جس اہلکار نے پولیس کی وردی پہنی تھی وہ منظر سے پڑے تھا۔ ویڈیو اگر چیک کروائ جاتی تو ثابت ہوجاتا یہ اصل ہے۔ زیرو ایڈیٹنگ کے ساتھ۔ 

"مجھے لوگ ظالم سمجھتے ہیں اور میں ظالم ہوں میرا دل زرا نہیں دکھے گا اگر تم نے اپنا منہ بند رکھا تو۔ " 

اس کے چہرے کے تاثرات سے حظ اٹھاتے ہوۓ درمان نے کہا۔

ایک ماہر ایجنٹ کو پھنسانا آسان کام نہیں پر اتنا مشکل بھی نہیں کہ ہو ہی نہ سکے۔ راسم کی سیکرٹ چپ اس کے قبضے میں تھی جو پولیس والوں نے ہی مہارت سے اس کی واچ سے نکالی تھی۔ اور راسم ہمیشہ اکیلے سفر کرنا پسند کرتا تھا تو اس کی ایجنسی کے نزدیک اس وقت وہ پہاڑوں کے بیچ و بیچ کسی تفریحی مقام پر قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اٹھانے میں مگن تھا اور حقیقت میں درمان کے قبضے میں تھا۔

" یہ دونوں پولیس آفیسرز ہیں۔ تم مجھے پھنسا نہیں سکتے " 

اس نے ریلیکس رہنے کی آخری کوشش کی۔ تبھی درمان نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھائیں۔

" یہ کب پولیس میں گۓ۔ مجھے تو یاد نہیں۔ یہ تو عام شہری ہیں۔ تم جانتے ہو اس کے بعد نہ پاکستان کی ایجنسیز سپورٹ کریں گی مزید تمہیں۔ نہ ہی تمہاری ایجنسی ایک غدار کو رکھے گی۔ تم بھی کلبھوشن یادیو بن کر پاکستان میں سڑو گے اور تمہاری مستقبل قریب میں زوجہ بھی نفرت کریں گی تم سے۔ 

ناؤ چوائس از یورز۔ یا تو مجھے باران چاچو کی کرنٹ لوکیشن دو یا پھر بدنام ہونے کو تیار رہو " 

راسم کے لب وا ہوۓ۔ وہ ٹریپ میں پھنس چکا تھا مکمل طور پر۔ نا ہی کوئ چپ تھی اس کے پاس اب نہ ہی کوئ ذریعہ اپنی ایجنسی سے رابطہ کرنے کا۔ 

اس نے اپنا سر پکڑا۔ یہ کیا ہورہا تھا اس کے ساتھ۔

اس نے ایجنسی بس سبرینہ سے شادی کے لیے جوائن کی تھی۔ اور اگر وہی نہ ملی تو کیا فایدہ ہوا چار سال ضائع کرنے کا۔ 

 اسے دکھ اس بات کا نہیں تھا تھا کہ اس کی ایجنسی اسے غدار سمجھے گی( سامنے بیٹھے شخص کے لیے اسے غدار ثابت کرنا مشکل نہیں یہ باران کا رشتے دار جو ہے راسم بھی جانتا ہے یہ چاہے تو اسے تباہ بھی کردے )  دکھ تھا تو اتنا کہ سبرینہ لاحاصل رہے گی۔

اپنی ٹھوڑی اس نے ٹینشن کے مارے دو انگلیوں سے کھجانا شروع کردی۔ درمان ایک ہاتھ ٹیبل پر رکھ کر جواب کا منتظر تھا۔

" دیکھو باران کے معاملے میں نہ پڑو تم۔ وہ میرے ساتھ ساتھ تمہیں بھی مروادے گا اگر میری غداری کا اسے پتہ چلا تو۔ بات یہیں ختم کرو۔ اس کا یہاں سے جانا ہی بہتر تھا " 

فون ایک طرف رکھ کر راسم نے اسے سمجھانے کی کوشش کی جس نے دانت آپس میں رگڑے۔ جیسے کچھ سوچا ہو۔ ہاں باران اسے مروا بھی سکتا تھا اپنے چچا سے کسی اچھے کام کی توقع اسے نہیں تھی۔

وہ سینے میں پیوست ہوئ گولیاں اسے یاد آئیں پھر ان کا بچھایا ہوا ٹریپ ۔۔۔!!!  باران کے جنون سے وہ واقف تھا اب اچھے سے۔ وقت آنے پر وہ اہنے سگے خون کو بھی نہ بخشتا ۔۔۔!!! 

باران کی اصلیت اسے کچھ عرصے پہلے پتہ چلی تھی جب شنایہ بیگم کا انتقال ہوا تو اس نے باران کے کمرے میں اس کا کارڈ دیکھا۔پھر اس نے اپنے سورسز یوز کیے تو وہ سب جان گیا۔ روح زندہ یے اسے یہ بھی تب ہی پتہ چلا۔

اپنے چاچو کی اصلیت جان کر شاکڈ ہونے کی بجاۓ اسے ہنسی آئ تھی اور دیار کی بات پر اس نے بھی مہر لگادی تھی کہ آفریدیز سائیکو ہیں مکمل طور پر ۔۔۔!!! 

روحیہ اور دیار سے بھی وہ واقف تھا  تو اسکے دل نے کہا درانیز بھی سائیکو ہی ہیں بس مانتے نہیں پر جنون اور پاگل پن ان میں بھی ان جتنا ہی ہے۔۔۔۔!!!

آفریدیز کی طرح انہیں بھی جنونی عشق ہی پسند ہے۔ وہ عشق جس میں نہ شراکت ہو دور دور تک نہ ہی ملاوٹ ہو ۔۔۔۔!!!

" مت بھولو میں ان کا بھتیجا ہوں۔ اپنی بات سے تو میں بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ میں وہی ہوں جسے مار کر بچانے کے لیے بھی وہ خود ہی پاگل ہوۓ پھررہے تھے۔ اپنی فیملی کے لیے ان کا جنون تم بھی جانتے ہو یقینا۔ تو میری تو خیر ہے مجھے کچھ نہیں ہونا۔ اور نہ تمہیں کچھ ہوگا۔ 

میرا نام سن کر وہ چھوڑ دیں گے اس معاملے کو۔ اور اس سے ان کی ہی خوشیاں جڑی ہیں۔ اکیلے رہ کر پہلے کیا ملا تھا انہیں جو اب پھر سے وہی سب کررہے ہیں۔ شادی شدہ ہیں اب وہ ان کا بھی حق ہے بیوی سے ذلیل ہونا۔ تو میری مانو ان کا ایڈریس دے دو ان کی وائف ساری زندگی تمہیں دعائیں دی گی ۔۔۔!!!" 

یہ سب کہتے درمان کو عجیب لگا۔ کہیں راسم ہنس نہ پڑے۔ کہ باران کو کہاں فکر تھی ان کی۔ لیکن رعب ڈالنا بھی تو ضروری تھا۔

 اس نے بس تکا لگایا تھا پر راسم کے تاثرات بتاگۓ باران ان کے معاملے میں اتنا جنونی نہیں کہ مار ہی دے۔ اور راسم بھی جانتا تھا درمان کی باری اس نے ڈاکٹرز کو قتل کی دھمکیاں دی تھیں کہ اگر اس کے بھتیجے کو کچھ ہوا تو کسی کی خیر نہیں۔ خود مار کر خود ہی پاگل ہونے والا تھا وہ۔ صرف درمان نہیں دیار اور فدیان کی باری بھی اس نے سب کی جان سولی پر لٹکار کر رکھی وہ الگ بات ہے کوئ اس بارے میں نہیں جانتا۔  

راسم کو تھوڑا حوصلہ ملا پر یہ حوصلہ کم تھا ابھی۔ باران سے غداری کی سزا موت ہوتی یہ سوچ کر وہ کانپ گیا۔ ابھی تھوڑا ڈر باقی تھا۔ 

" تم جانتے ہو ان کی وائف کون ہے ؟؟" 

کچھ جاننے کو سوال کیا گیا۔

" ڈاکٹر روحیہ زہرہ !!!!" 

اس نے فورا کندھے اچکاۓ۔

" نہیں ۔۔۔!!! روحِ ذکیہ درانی ۔۔۔!!!" 

لفظوں کو ٹھہر ٹھہر کر ادا کرکے اس کی درستگی کی گی۔

راسم کو تقریبا جھٹکا لگا۔ یہ نام تو دل کا ناسور تھا۔

" جھوٹ مت بولو !!! وہ مرچکی ہے۔ باران کی بیوی وہ نہیں ..!!" 

اسے امید تھی درمان کو غلط فہمی ہوئ ہے۔ درمان نے نفی میں سر ہلایا۔

" زندہ ہیں وہ۔ ارتضیٰ علی کی بہن کوئ اور نہیں روح ذکیہ درانی ہیں۔ وہی عورت جس کے تم مجرم ہو۔ جو دنیا کی نظروں میں مرگئ وہ اصل میں زندہ تھی اور اب باران چاچو کی بیوی ہیں وہ ۔۔۔!!!" 

درمان نے پھر چیدہ چیدہ اسے سب بتادیا جو روحیہ کے بارے میں اسے پتہ تھا۔ 

سب جان کر راسم کی آنکھیں ناجانے کیوں پر نم ہوئیں۔ اپنے گناہ اسے یاد آۓ۔ ہاں وہ بھی سالوں سے تڑپ رہا تھا ان بیتے پلوں پر جو روحیہ کے لیے جہنم بناۓ گۓ۔ 

وہ روز سوچتا تھا کاش اس رات اسے خود اس کے گھر چھوڑ آتا تو وہ زندہ ہوتی۔ آج خوش ہوتی وہ۔اور اس کا گلٹ دور ہوجاتا۔ 

پر قسمت اس پر مہربان نہیں تھی تب پر اب ہوگئ۔ 

نمی آنکھوں میں دھکیل کر راسم نے اپنی دائیں ابرو کو انگوٹھے سے ہلکا سا مسلا پھر آگے ہوکر تسلی سے بیٹھ گیا۔

ہاں اس کا بچا کچا ڈر ختم ہوگیا یہ جان کر کہ روح باران تک پہنچ چکی ہے۔ باران اپنی منزل پر کھڑا ہوکر بھی انجان ہے۔ 

" اس کی فلائیٹ امیریکہ کی ہی تھی وہ ایئر پورٹ گیا بھی تھا یہاں تک کہ فلائیٹ ٹیک آف ہونے سے پہلے اس نے سیٹ بھی سنبھالی تھی۔وہ سب چھوڑنے والا تھا جب ٹیک آف سے پانچ منٹ پہلے اسے سر میں درد کی شدید ٹھیسیں محسوس ہوئیں۔ماضی میں وہ کوما میں رہ چکا ہے یہ تم بھی جانتے ہو پر وہ فائٹر یے خود سے بھی لڑنے والا اسی لیے سروائیو کرتا رہا لیکن روح اور روحیہ کی لڑائ اسے واپس سے موت کے منہ میں دھکیل گئی۔ 

خود سے ہوتی جنگ میں وہ ہارنے والا تھا

 اسے فورا ہاسپٹل شفٹ کیا گیا۔ اتنی بری حالت شاید ہی کبھی کسی نے اس کی دیکھی ہو جتنی تب تھی۔ جو خود ہی مرنا چاہے اسے کوئ کیسے بچاۓ" 

اس دن کا منظر راسم کی آنکھوں کے سامنے گھوما کسی فلم کی طرح۔ وہ وقت جب اس نے باران کو نیم بےہوشی اور شدید تکلیف کی حالت میں " روح مجھے مت چھوڑو " کا جملہ ٹوٹا پھوٹا بولتے سنا تھا۔ یہی سچ ہے۔اس رات باران کی طبیعت خراب ہوگئ تھی اچانک ہی تو اسے ہاسپٹل شفٹ کرنا پڑا۔ 

" ڈاکٹرز کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا۔ اسی لیے جب اس کی موت کی خبریں گردش کرنے لگیں تو ایجنسی نے ان خبروں کو دبادیا۔ تبھی تم لوگ نہیں جان پاۓ پر علی تک خبر پہنچ گئ۔ 

باران تقریبا ایک ہفتہ اپنے دماغ میں ہوتی جنگ سے اکیلے لڑتا رہا۔ ہم چاہتے تھے کہ اس کی وائف کو سب بتادیں لیکن وہ ہمیں کہیں نہیں ملی۔ نہ ہی گھر میں نہ ہی کہیں اور۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا وہ علی کے ساتھ  اسی صبح مینشن چھوڑ کر چلی گئ تھی جہاں باران نے اسے رکھا تھا۔ 

ہوش میں آنے کے بعد اس نے ہم سے پوچھا تھا کہیں روحیہ تو وہاں نہیں آئ تو سٹاف نے اسے بتادیا وہ علی کے ساتھ جاچکی ہے۔ زیادہ نہیں بس اتنی ہی خبر تھی ہمارے پاس تب۔ ساتھ ہی اسے بتایا گیا وہ سب اسے مردہ سمجھ چکے ہیں۔ یہی تو باران چاہتا تھا اور ہوگیا یہ سب۔ 

تبھی وہ وہاں سے سیدھا آئس لینڈ کے شہر Reykjavik شفٹ ہوگیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ وہاں ہماری ایجنسی کی جو برانچ ہے وہ اب اسے ہینڈل کررہا ہے۔ اس کے نزدیک روحیہ کو صبر آگیا ہوگا اور وہ اب مزید کچھ بھی برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

کاش میں جانتا ہوتا اس کی وائف روح ہی ہے تو کبھی اسے جانے نہ دیتا۔ لیکن اب جب میں جان گیا ہوں تو دل سے دعا ہے میری روح اس کے ساتھ وہ زندگی جۓ جو اس کا حق ہے ۔۔۔!!!" 

مختصرا قصہ یہی تھا کہ باران تک روحیہ کی حالت کی خبر پہنچی ہی نہیں تھی ورنہ وہ کبھی بھی اسے تکلیف میں نہ چھوڑتا۔ اسے اتنا پتہ تھا وہ اپنی فیملی کے ساتھ ہے۔ جو اس کے نزدیک اسے سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اور سنبھال لیں گے اسے تبھی وہ چلا گیا۔ اور اب بھی وہ اس کی حالت سے انجان تھا۔

درمان نے گہرا سانس لیا۔ اپنے چاچو کی زندگی کی تکلیفیں اسے بھی پتہ تھیں۔ کچھ لوگوں کے امتحان ختم نہیں ہوتے ان کی زندگی ہوتی ہی آزمائشوں کا گڑھ ہے۔ 

" ان کا ایڈریس دے دو مجھے۔ کاپریٹ کرنے کا شکریہ۔ جیسے خاموشی سے تمہیں یہاں تک لایا گیا ہے ویسے ہی خاموشی سے تمہیں اسی جگہ چھوڑ کر آئیں گے میرے لوگ جہاں تمہاری ایجنسی کی چپ ایکٹو ہے۔  جو آج ہوا اسے بھول جانا۔ کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہوگی اس بارے میں۔تم آسانی سے ہاتھ نہ آتے نہ ہی تمہاری ایجنسی سے دور ہوکر بات ممکن تھی تو یہی طریقہ میری سمجھ میں آیا۔ 

مجھے اجازت دو اب۔اللہ حافظ ۔۔۔۔!!!" 

اپنا فون درمان نے اٹھا کر پاکٹ میں رکھ لیا پھر درد اور غم کے احساس کو چھپانے کے لیے وہاں سے اٹھ کر جانے لگا۔ جو اسے پتہ چل گیا تھا یہ بہت تھا آگے کے لیے۔

" ویسے اگر کبھی ایجنسی جوائن کرنے کا دل کرے تو ہماری طرف بھی نگاہِ کرم ضرور ڈالنا۔ ایک اور سرپھرے کو ہماری ایجنسی نہ نہیں کہے گی۔ اور اللہ رحم کرے تمہارے خاندان والوں پر جنہیں سب ہی مینٹل ملے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک عجوبے ۔۔۔!!!" 

وہ دروازے کے پاس رکا۔ راسم کے جلے کٹے مشورے پر اس نے سر کو نفی میں جھٹکنے کے ساتھ ہی قدم دروازے سے باہر نکالے۔ اپنے اسی سرپھرے انداز سے تو اسے اب چڑ تھی۔ اسی انداز نے تو اس کی بیوی دور کردی تھی اس سے۔ 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" میں معافی مانگنے آیا ہوں تم سے ذکیہ۔۔۔!!! جو بھی ہوا سب میری ہی غلطی سے شروع ہوا۔ نہ میں اس دن غلطی سے کسی کا قتل کرتا نہ ہی تمہیں ونی کیا جاتا۔ نہ تم پر ظلم ہوتے نہ ہی تم ہم سب سے آج دور ہوتی ۔۔۔!!! میں جانتا ہوں مجھے معاف کرنا آسان نہیں پر پھر بھی ہوسکے تو معاف کردینا۔۔۔!!!" 

رات کے نو بجے اپنے دل اور ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوکر بہراور درانی سیدھا دیار سے روحیہ کا ایڈریس پوچھ کر اس محل نما حویلی کی حدود میں داخل ہوۓ۔ یہاں آکر روحیہ سے سامنا ہوا ان کا۔ جسے دیکھتے ہی شرمندگی ان پر غالب آگئ۔

وہ صوفے پر بیٹھے تھے اس کے مقابل اور روحیہ لب کاٹتے ہوۓ ان کی باتیں سن رہی تھی۔ جب اچانک ہی بہراور درانی کے ہاتھ اپنے سامنے جڑتے دکھے اسے تو اس نے فوراً ان کے ہاتھوں کو تھام لیا۔

" چھوڑ دیں سوری سوری کرنا پلیز۔ میں نے آگے بھی کہا ہے آپ سے مجھ سے معافی نہ مانگیں۔ مجھے اچھا نہیں لگے گا۔ جو میرے ساتھ ہوا میرا نصیب وہی تھا لالہ۔ میری قسمت میں آزمائش لکھی تھی تو ہم چاہے لاکھ کوششیں کرلیتے وہ آزمائش آکر ہی رہتی۔ اور یہ بات بھی سوچنا چھوڑ دیں کی جو بھی ہوا اس میں آپ کی غلطی ہے۔ حقیقت میں تو آپ نے قتل جیسا گناہ کیا ہی نہیں تھا کبھی۔آپ نے تو کسی پر اندھا اعتبار کرنے کی غلطی کی تھی۔" 

ہاتھ نیچے کرنے کے ساتھ روحیہ نے وہ بتانا شروع کیا جو جاننا ان سب کے لیے ضروری تھا۔ 

وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے آخر وہ کہنا کیا چاہتی ہے۔ تبھی اس رات ہاسپٹل میں جو بھی اس نے سنا تھا اس نے من و عن انہیں سب بتادیا کہ وہ مجرم کبھی تھے ہی نہیں اصل قاتل تو دلاور خان ہے۔

یہ انکشاف بہت بھاری پڑا انہیں کہ جس دوست کے پیچھے اپنی آدھی زندگی برباد کردی انہوں نے وہ ان کے بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی بہن کا بھی مجرم ہے اور ان کا بھی۔

کبھی کسی پر اندھا اعتبار نہیں کرنا چاہیے بھلے وہ کتنا ہی قریبی کیوں نہ ہو۔ یہ جو اندھا اعتبار ہوتا یے نا یہی چوٹ پہنچاتا ہے انسان کو۔ ایسی چوٹ کہ ساری زندگی بھی پچھتاوے کے لیے کم پڑجاۓ تو کبھی کسی پر اندھا اعتبار نہ کریں۔ آستین کے سانپ والی کہاوت بس ضرب الامثال نہیں یہ وہ سچ ہے اس معاشرے کا جس سے ہم منہ نہیں پھیر سکتے۔ 

آخر تک ان کا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ اتنا کچھ دلاور خان نے کیا ان کے ساتھ اور وہ بیوقوف بنتے رہے۔ کیسے مرد تھے وہ جو اپنے گھر کی عزت کو نہ بچاسکے اسے حفاظت نہ دے سکے۔ 

" لالہ پلیز بھول جائیں اب سب۔ جو ہوا جیسے بھی ہوا بس ہوگیا۔ جو ماضی کی بکھری کرچیاں ہیں انہیں سمیٹنے کی کوشش نہ کریں ہاتھ زخمی ہوجائیں گے آپ کے۔ جو وقت باقی ہے بس اسے یاد رکھیں۔ 

مجھے کوئ شکایت نہیں کسی سے۔ میں تھی ہی بدنصیب خوشیاں مجھے راس آہی نہیں سکتی تھیں۔۔۔!!!" 

ناامید ہوئ وہ۔ آج اتنے سالوں بعد روحیہ کی آنکھوں نے شکوہ کیا۔ چہرے پر شکایت تھی اور آواز میں مایوسی۔

 مایوسی کفر ہے ۔۔۔۔!!! سب جانتے ہیں۔ پر ناچاہتے ہوۓ بھی کئ لوگ مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہ دنیا انہیں اتنی ٹھوکروں پر رکھتی ہے کہ پھر اٹھ کر چلنے کا حوصلہ ان میں نہیں رہتا۔

روحیہ اب مایوس ہوچکی تھی۔ وہ بیزار ہوچکی تھی سب سے۔ 

بہراور درانی اس کے چہرے پر چھائ ویرانی دیکھ کر بس لب بھینچ گۓ۔ یہ وہ بہن تھی جسے دنیا کی ہر خوشی دینا چاہی تھی انہوں نے اور نصیب نے تو اسے رول کر آخری خوشی بھی چھین لی تھی۔ 

اس کے بعد روحیہ نے کوئ تلخ بات نہ کی نہ ہی ماضی میں کیا ہوا انہیں بتایا۔ بہراور درانی علی سے بھی ملے جو روحیہ کی نسبت کچھ روکھا روکھا تھا ان سے۔ وجہ روحیہ ہی تھی۔ علی کو روحیہ کے اصل بھائ کو دیکھ کر تھوڑی سی جلن محسوس ہورہی تھی ابھی۔ اپنا آپ بیچ میں غیر اہم سا لگا۔ تبھی وہ وہاں سے اٹھ کر کمرے میں چلا گیا۔ 

روحیہ نے اس کے انداز سے جان لیا تھا وہ انسیکیور فیل کررہا ہے۔ وہ تب مسکرائی بھی تھی یہ سوچ کر کہ اس دنیا میں یہ واحد شخص ہے جو خون کا کوئ رشتہ نہ ہونے کے باوجود بھی اس کے لیے ہر حد سے گزر گیا۔ وہ تو اپنوں کی ڈسی تھی۔ اسے پھر بھی سب جان کر عزت دی اس شخص نے۔ وہ اگر معاشرے کے بھیڑیوں سے بچ کر چار دیواری میں سکون اور عزت کی چادر اوڑھے مخفوظ تھی تو وجہ علی ہی تھا۔ 

 پیسہ پانی کی طرح بہانا ہویا ایک بھائ کی طرح سر پر شفقت بھرا سایہ کرنا ہو، اسے دنیا کی نظروں میں عزت دینی ہو یا اس کی خاطر اپنے سارے رشتے چھوڑنے ہوں، اس کی زندگی کو مقصد دینا ہو یا ضرورت پڑنے پر بےشمار بار اپنا خون اس کے علاج کے لیے پیش کرنا ہو وہ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہ کترایا۔پھر ناجانے کیا کچھ فیس کیا اس نے روحیہ کے لیے پر کبھی پیشانی پر کوئ بل نہ آنے دیا۔

اسلام انسانیت کا درس دیتا یے۔ غم گساری سکھاتا ہے۔ بےلوث محبت کا درس دیتا یے۔ ہم مسلمان بس اللہ کو مانتے ہیں اللہ کی نہیں مانتے۔ جبکہ بہترین انسان تو وہ ہوا نا جو اللہ کو بھی مانے اور اس کے احکام بھی مانے ۔۔۔۔!!!!!! 

بے لوث محبت کرنا سیکھیں۔ کسی درد میں ڈوبے کا احساس کرنا سیکھیں علی کی طرح کسی غیر کو عزت اور مان دے کر ظرف بڑا کرنا سیکھیں ۔۔۔۔!!! 

دنیا فانی ہے۔ یہاں کمایا گیا پیسہ، بڑھائ گئ نفرتیں یا دکھائ گئ کم ظرفی کسی کام نہیں آۓ گی۔ کچھ کام آۓ گا تو وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی ہے۔ جب تک سانسیں رواں ہیں کسی پر سانسیں تنگ نہ کریں۔ سب کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں ۔۔۔۔!!!!!! 

واپسی پر بہراور درانی نے روحیہ کو ساتھ لے جانے کی بات کی تو اس نے فورا انکار کردیا یہ کہہ کر کہ وہ احسان فراموش نہیں جو علی جیسا بھائ چھوڑ دے اپنوں کے ملتے ہی۔ وہ ان سب سے ملنے آیا کرے گی پر ساتھ نہیں جاسکتی۔ 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

" روحیہ علی کو کافی دے آؤ۔ کھانا بھی نہیں کھایا تھا انہوں نے۔ خالی پیٹ ہی سوجائیں گے اب۔ میں کچن سمیٹ لوں تب تک " 

کافی کا مگ لائبہ کے ہاتھ سے لےکر روحیہ سیدھا علی کے روم کی طرف قدم بڑھانے لگی۔ دروازے کے پاس پہنچ کر بغیر دروازہ کھٹکھاۓ وہ کمرے میں داخل ہوئ۔ سامنے علی ہاتھوں میں کوئ تصویر پکڑے دائیں ہاتھ کی مٹھی لبوں پر جماۓ صوفے پر بیٹھا اسی تصویر کو بغیر پلک جھپکاۓ دیکھ رہا تھا۔

وہ اپنے کام میں اتنا مگن تھا کہ اسے محسوس ہی نہ ہوا سامنے کوئ اسے ہی دیکھ رہا ہے۔

روحیہ سکون سے چلتی ہوئ علی کے پاس آئ تو نظریں اسی تصویر پر پڑیں جو اس کے ہاتھ میں تھی۔ تصویر میں موجود لڑکی اور اس کی صورت میں بہت مشابہت تھی اسی لیے اسے پتہ چل گیا یہ کون ہے ۔۔۔!! 

پچھلے سولہ سے سترہ سال میں پہلی بار اس نے علی کے ہاتھوں میں اس کی اصل بہن کی تصویر دیکھی تو معلوم ہوا وہ آج تک اس کے غم کو نہیں بھلا سکا۔ اور شاید آج غم تازہ ہونے کی وجہ بھی جانے انجانے میں وہی بنی ہے۔ 

کافی کا مگ اس نے ٹیبل پر رکھا۔ اور خود اس کے ہاتھوں سے وہ تصویر لے لی۔ اچانک علی ہوش میں آیا۔ آنسو روکنے کی سعی میں تھوک حلق میں اتار کر اس نے سختی سے لب بھینچے۔ اور یوں سکون آنکھوں میں لے آیا جیسے سالوں کا تجربہ ہو اسے اس کام میں۔ 

" برو ۔۔۔!!! ڈونٹ بھی انسیکیور پلیز ۔۔۔!!! میں پہلے بھی آپ کی ہی بہن تھی غلطی سے بس کسی غلط گھر میں انٹری دے دی میں نے۔ اب بھی آپ کی ہی اکلوتی بہن ہوں کیونکہ وقت آپ کے پاس لے آیا مجھے اور آگے بھی آپ کی ہی بہن رہوں گی کیونکہ آپ جیسا بھائ قسمت والوں کو بھی مشکل سے ملتا ہے۔آپ کی روحیہ کی روح مجھ میں ہے اور میں ہی روحیہ ہوں۔ نا اداس ہوا کریں آپ۔ آپ کا گولڈن ہارٹ اداس اچھا نہیں لگتا۔ بس یہ کافی لیں اور پی جائیں۔۔۔!!!" 

تصویر اور روح کو اگر کوئ دیکھے تو یقینا کہےگا یہ سیم ہی ہیں بس تلوں کا اور آنکھوں کا فرق ہے۔ اس نے وہ تصویر بیڈ پر رکھتے ہوۓ اسے جیسے یہ بات جتانے سے زیادہ حوصلہ دیا تھا۔ 

علی نے بات بڑھانے کی کوشش بھی نہیں کی اور کپ اٹھا کر ایک سپ لےکر جو آنسو حلق میں اٹکے تھے انہیں بھی پینا ہی مناسب سمجھا۔ 

" میرا بیٹا بس میرا ہی ہے۔  بھلا یہ بات مجھے یاد کروانے کی ضرورت ہے تمہیں۔ کل سے تو کافی ٹھیک لگ رہی ہو تم۔ لگتا ہے اپنے سگے بھائ سے مل کر فریش ہوگی ہو۔ اچھی بات ہے ۔۔۔!!! " 

انداز میں جلن کی ننھی سی لہر تھی تبھی۔ خفگی بھرا شکوہ کرکے اس نے کڑوی کافی کا پورا کپ ہی ایک سانس میں پی لیا۔ روحیہ نے اپنی سوجھی ہوئ آنکھوں کو سکیڑ کر دانت پیسے۔ 

بہراور درانی کے انے کا سن کر اپنے ڈارک سرکلز اور چہرے کی اداسی اس نے میک اپ سے چھپالی تھی۔ وہ اپنا درد ہر کسی کو نہیں بتاتی تھی سواۓ چند لوگوں کے جن میں علی اور لائبہ سر فہرست تھے۔ اور ان کے جاتے ہی وہ واپس سے اپنی پہلی والی بیمار حالت میں واپس آگئ۔ ابھی اس نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا جب علی کا سیل رنگ ہوا۔ 

کسی ان ناؤن نمبر سے میسج موصول ہوا تھا اسے۔ روحیہ مسلسل اسے گھورنے میں مگن تھی۔ علی کی پیشانی پر شکنیں ابھریں ایک ویڈیو پیغام دیکھ کر۔ 

نیچے ایک جگہ کا ایڈریس، چند پکس اور ایک میسج لکھا تھا۔

" شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں یہ تو میرا فرض تھا۔ بس میری پیاری سی زی سے کہیے گا پلیز مسکرادیں۔ آپ کے مقدر تک خوشیاں چل کر آچکی ہیں بس اب جانے نہ دیجۓ گا۔آپ کا باران میرے ہوتے کوئ اب واپس سے نہیں چھینے گا آپ سے۔ بندوبست میں کر چکا ہوں تو کل صبح کی فلائیٹ یے جائیں اور باران چاچو کو پالیں۔ " 

اس واٹس ایپ نمبر کی بائیو میں دیکھا علی نے جہاں درمان کے نام کے ساتھ اس کی پک تھی۔

علی کے لہجے میں ناسمجھی تھی ابھی بھی۔ اس نے اٹھ کر روحیہ کے ہاتھوں میں اپنا سیل تھمایا۔ جو یہ میسج پڑھ کر خود بھی تعجب کا شکار ہوئ۔

اس نے وہ ویڈیو اوپن کی جس میں راسم کے منہ سے اعتراف ریکارڈ تھا کہ باران زندہ یے۔ پھر ان پکس میں ماضی کی چند میڈیکل ریپورٹس تھیں باران کی۔ اور ایک لائیو لوکیشن پن تھی آئیس لینڈ کی۔ جہاں وہ موصوف موجود تھے۔

خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر روحیہ نے سامنے دیوار کو چند سانحوں تک تکا پھر دوبارہ اس پیغام کو دیکھنے لگی۔ آنسو تو کب سے منتظر تھے بہنے کو تو پھر سے بہنے لگے۔ کانوں میں بس اتنا گونج رہا تھا وہ زندہ یے۔ 

علی خاموشی سے وہاں کھڑا رہا دھچکا تو اسے بھی لگا تھا اس وقت۔ کہ باران کیسے زندہ تھا اور یہ کیسے کیا اس نے ؟؟؟؟ 

روحیہ کی ہچکی کمرے میں گونجی جب مکمل طور پر اسے یقین ہوگیا باران زندہ ہے۔ علی نے لب بھینچے۔ اب روح کا رونا ہی بہتر تھا۔ تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو۔ 

دائیں ہاتھ سے آنسو رگڑ کر روحیہ نے اس لوکیشن کو دیکھا۔ ساتھ ہی فلائیٹ کی انفارمیشن بھی اگلے ہی پل آگئ۔

درمان اپنا کام کرچکا تھا۔ اب بس روحیہ باران کے پاس ہوتی چند گھنٹوں میں۔ 

" بھائ وہ زندہ یے۔ میں کہتی تھی نا وہ زندہ ہے پر آپ سب نہیں مانتے تھے۔ دیکھیں درمان نے ڈھونڈ لیا اسے۔ کوئ نہیں ڈھونڈ پارہا تھا اسے پر اس نے ڈھونڈ لیا۔ مجھے یقین نہیں آرہا بھائ۔ میرا باران یہاں اس جگہ موجود ہے۔  !!!" 

جذبات حاوی ہوۓ اس کے دماغ پر۔ اسے لگا وہ لوکیشن نہیں باران کو دیکھ رہی ہے۔ وہ ہنسنے لگی اب۔ اس نے سکرین کی جانب اشارہ کیا جیسے علی کو بھی بتارہی ہو۔علی نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

" اللہ تمہاری خوشی اب ایسے ہی قائم رکھے۔ کسی کی نظر نہ لگے اب تمہاری اس خوشی کو۔ میرا بیٹا وہ یقینا زندہ یے۔ تمہاری بات سچی تھی۔ ہاں وہ زندہ یے ۔۔ !!!" 

علی نے گہرا سانس لیتے ہوۓ دل میں اللہ کی زات کا شکر ادا کیا کہ آخر کار اب روحیہ کی پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ 

روحیہ نے آنسو صاف کیے اور علی کی جانب دیکھ کر مسکرائ۔ یہ سوجھی ہوئ آنکھیں بس قرار چاہتی تھیں اب۔ 

" بھائ میں چلی جاؤں نہ اسے واپس لانے۔ پلیز ۔۔۔!!! میں اسے واپس لاؤں گی دیکھ لینا آپ۔ اس دفعہ نہ آپ سارے گارڈز اس ایریا میں بھیج دینا کہ وہ بھاگ نہ پاۓ۔ اور نا میں اسے اب کہیں جانے نہیں دوں گی۔ اب سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔ ہے نا برو اب تو میری تکلیفیں ختم ہو جائیں گی نا ۔۔۔!!!" 

وہ ایک مان سے پوچھ رہی تھی۔ کچھ لوگوں کو بہت کم خوشیاں ملتی ہیں لیکن جب ملتی ہیں تو وہ بیچارے ان خوشیوں کو سنبھالنے کی فکر میں گھلنے لگتے ہیں وہ بھی اب خوشیاں بچانے کی فکر میں تھی۔۔

" جی ضرور میرا بیٹا میں پوری فورس ہی اس ایریا میں بھیج دوں گا۔ جب تک میرا بیٹا نہیں چاہے گا وہ اب نہیں بھاگ سکے گا کہیں بھی۔ آپ جاؤ اور آرام کرو پیکنگ بھی آپ کی ہوجاۓ گی صبح تک۔ میرا بیٹا وہاں فریش ہوکر جائے گا تبھی تو اس کے کان کھینچ سکے گا نا۔۔۔!!!" 

اسے بہلاتے ہوۓ علی نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اس کے حکم دینے کی دیر تھی جب وہ اس کا فون بھی اپنے ساتھ ہی لے گئ۔ اب اسی لوکیشن کو دیکھ کر تو اسے سکون ملنا تھا۔

اس کے جانے کے بعد علی واش روم چلا گیا وضو کی نیت سے۔ روحیہ کی خوشیوں کے لیے نفل مانے تھے اس نے اب اسے اپنے اللہ کا شکر ادا کرنا تھا۔ 

•┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

آدھی رات کے وقت راسم اور باران والا معاملہ ختم کرکے درمان گھر میں داخل ہوا۔ گھر کی کچھ لائٹس آف تھیں اور کچھ آن۔ 

اس کا رخ سیڑھیوں کی جانب تھا پر ناجانے کیا سوچ کر وہ زرلشتہ کے کمرے کا رخ کرگیا۔ دل میں بس اس کی دید کی طلب تھی جس ہوا میں وہ سانس لے رہی ہے اسی ہوا کو محسوس کرنے کی خواہش تھی۔

بس اتنی سی تو چاہ تھی اس کی۔۔۔!!! 

وہ کمرے میں داخل ہوا تو زرلشتہ روم میں اسے نہ دکھی۔ بھنویں سکیڑ کر اس نے واش روم میں چیک کیا وہ وہاں بھی نہیں تھی۔ رات کے بارہ بجے آخر وہ کہاں جاسکتی ہے۔ فورا درمان کمرے سے نکلنے لگا جب دروازے کے پاس اس کے قدم تھمے۔

اس نے ہاتھ میں پکڑی گھڑی پر دوبارہ وقت دیکھا۔ رات کے بارہ ہونے والے تھے وہ سمجھ گیا اس کی بلی اس وقت کچن میں کچھ کھانے گئ ہے۔ اپنی حالت کی وجہ سے اسے راتوں کو بھی بھوک لگتی تھی۔ درمان سے بہتر کون جانتا یہ بات۔ آخر اس وقت اسے اس کی پسند کا کچھ بناکر کھلانے والا فریضہ وہی انجام دیتا تھا۔

اس نے اپنی رسٹ واچ کو اتار کر ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا پھر صوفے پر بیٹھ کر اپنے پاؤں جوتوں کی قید سے آزاد کیے۔ اپنا چکرا سر صوفے کی پشت سے ٹکاکر درمان نے آنکھیں بند کیں جو اس وقت بس یوں تھیں جیسے گرم پانی میں ابل رہی ہوں۔ سزا وہ بہت دے چکا تھا خود کو۔ پر یہ دل ابھی مزید سزا دینا چاہتا تھا۔ 

تقریبا دو منٹ لگے اسے نیم غنودگی کی کیفیت میں جانے میں۔ 

مزید پانچ منٹ بعد دروازہ کھلا۔ آنے والی ہستی زرلشتہ تھی۔ جو فریج میں رکھا چاکلیٹ کیک ختم کرکے آئ تھی اس وقت یہاں۔ 

زرلشتہ نے قدم اندر کی جانب لیے پھر دروازہ بند کردیا۔ تو نظروں کو اچانک وہ شخص دکھا جو یادداشت جانے کے بعد بھلے اسے پرنس چارمنگ کے بعد چند سیکنڈز کے لیے Beast لگا تھا پر ایک مہینے سے اس کے خوابوں، دل و دماغ اور روح تک میں بس وہی سمایا ہوا تھا۔ اسے نہیں پتہ وہ کیوں یاد آتا یے اسے.

پر آتا تھا یاد یہ شخص جو اس کے وجود میں سانس لیتی ایک ننھی سی بےضرر جان کا باپ اور اس کا شوہر ہے۔ 

اصولا تو زرلشتہ کو ڈرنا چاہیے تھا۔ جیسے وہ پہلے ڈری تھی اس سے۔ یا کمرے سے ہی باہر بھاگ جانا چاہیے تھا پر انجانے میں اس نے قدم صوفے کی جانب اٹھاۓ۔ دل نے دھک دھک کرکے جیسے روح تک کو بتایا جسے دیکھنے کی چاہ تھی تمہیں وہ خود یہاں بیٹھا ہے۔

آنکھیں ایک پل کے لیے بھی اس نے نہ جھپکیں کہیں یہ کوئ خواب نہ ہو اور پلک جھپکتے ہی وہ غائب نہ ہوجاۓ۔ اس خاموش کمرے میں درمان کی سانسوں کی بھاری آواز اور زرلشتہ کے قدموں کی چاپ سمیت زرلشتہ کے دل کی دھڑکن بھی تقریبا محسوس کررہی تھی یہ خاموشی۔ 

تو ستائے تجھے حق  ہے,تو محبوب جو ٹھہرا 

ہم بھی چپ چاپ سہیں,تو مطلوب جو ٹھہرا 

میرے محبوب مجھے کبھی  خوشی بھی ملے گی 

میرا ہر سکھ تیری ذات  سے منسوب جو ٹھہرا

ایک گھٹنہ صوفے پر موڑ کر رکھ کر وہ اس کے قریب ہی بیٹھ گئ۔ بکھرے بال، تھکا سا چہرہ، سوجھی ہوئ آنکھیں اور یہ اداس سا حلیہ ۔۔۔!! 

دل نے دہائ دی کیا کسی کو کسی کا ہجر اتنا بھی برباد کرتا ہے۔ جواب آیا کرتا ہے ۔۔۔!! 

سامنے موجود یہ شخص ہجر کاٹ کرہی تو آیا ہے۔ وہ نہیں جانتی تھی آخر کیوں درمان کو تکے جارہی ہے وہ۔ پر وہ تک رہی تھی۔ اسے بے ساختہ یاد آیا وہ دن جب ہاسپٹل میں اس شخص سے بحث کے دوران بس اس نے اسے چھوا تھا تو اس کا جسم اس آشنا سے لمس پر ہوش ہی کھوبیٹھا تھا۔ 

بےخودی کے عالم میں زرلشتہ نے ہاتھ بڑھاکر درمان کی پیشانی پر بکھرے بال سمیٹنے چاہے پر اسکی پیشانی کو چھونے کی دیر تھی وہ کرنٹ کھاکر اس سے دور ہوئ۔ تپتی ہوئ پیشانی نے جیسے اس کی پوروں کو بھی جلادیا تھا۔ بےیقینی کے عالم میں اپنے ہاتھ کو دیکھ کر اس نے فورا اس کے رخساروں کو ہاتھوں سے چھوا۔ وہ بحار میں تپ رہا تھا اس وقت۔

" درمان ۔۔ !!! آپ ٹھیک تو ہیں؟ کیا ہوا ہے آپ کو؟؟ آنکھیں کھولیں پلیز۔درمان ۔۔۔!!" 

اصولا تو درمان کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتی تھی وہ اب اس رات کے بعد۔ پر دل کی تڑپ کے آگے وہ ہار گئ۔ درمان کی نیند کچی ہی تھی تبھی اس نے اپنی آنکھیں کھولیں۔ ان جلتی آنکھوں کو سامنے محبوب دکھا۔ پھر اس کے ہاتھوں کا لمس اور آنکھوں میں اپنے لیے فکر ۔۔۔!!! 

بس چند لمحے اس نے سانس بھی نہ لیا۔ جیسے وقت تھم گیا ہو۔ 

" پلیز بیڈ پر آکر سوئیں۔ آپ نے کھانا کھایا کیا ؟ میڈیسن لی ؟ آپ کو میں چھوڑ کر اس لیے نہیں آئ تھی کہ اپنا حشر نشر کرلیں آپ۔۔!!" 

تکلیف کے مارے زرلشتہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں کچھ الگ تھا بہت الگ ۔۔۔!!! 

" چھوڑا ہی کیوں تھا مجھے ؟؟؟ اب اپنا حشر نشر کروں یا موت کی خبر نشر کروں تمہیں کیا تکلیف ہوگی۔  ۔!!" 

کرب کی شدت سے اس کے گلے میں گلٹی ابھر کر معدوم ہوئ۔ کوئ تکلیف تھی جو اس نے لبوں سے ادا ہونے کی بجاۓ دل میں اتار دی۔ سارے سوالوں میں جواب اس نے اپنے مطلب کے سوال کا دیا تھا بس۔ 

زرلشتہ کی آنکھیں پوری کھلیں۔ 

" اللہ نہ کرے آپ کو کچھ ہو۔ ورنہ ہم دونوں کا کیا ہوگا درمان۔ ذرا احساس نہیں آپ کو اپنی فیملی کا " 

منہ بناکر وہ اس کے برابر خالی جگہ پر کسی روٹھے ہوۓ بچے کی طرح منہ پھلا کر بیٹھ گئ۔ درمان نے آنکھیں بند کیں جو اب بند ہونا چاہتی تھیں۔ 

" تم دونوں کو کچھ نہیں ہوگا میرے جانے سے۔ انفیکٹ کسی کو بھی کوئ فرق نہیں پڑے گا۔ جیسے ایک مہینہ میرے بغیر گزار لیا تم نے۔ پوری زندگی بھی گزار لوگی۔ تب تو دل بھی سکون میں ہوگا کہ اب کوئ ظالم سفاک درندہ نما جن تمہیں تکلیف پہنچانے نہیں آۓ گا۔ میں بہت ظالم ہوں نا تبھی میرے جانے پر تمہارا کیا ہماری اولاد کا بھی دل نہیں دکھے گا۔ " 

لبوں پر زخمی مسکراہٹ تھی اس لمحے۔ جیسے ایک مہینہ اس نے گزارا تھا بس وہی جانتا تھا۔ گھٹن، تنہائ ، اذیت ، تکلیف کیا ہوتی ہے اسے اچھے سے اندازا ہوگیا تھا۔ جب تکلیف میں کسی کے کندھے پر کوئ تسلی بھرا ہاتھ نہ رکھے۔ روتے ہوۓ خود کو خود ہی چپ کروانا پڑے آپ کو۔تو وہ اذیت ناقابلِ بیان ہوتی ہے۔

لفظوں کے تیر سیدھا زرلشتہ کے دل پر لگے وہ تڑپ اٹھی۔ آنکھوں سے چند موتی گرے۔ گردن موڑ کر درمان کی صورت دیکھی اس نے جو تھکا ہوا لگا بہت آج ۔۔ !!! 

وہ درمان جو اس کے لیے خود رات کے دو بجے اٹھ کر کھانا بنانے پر بھی پیشانی پر بل نہیں ڈالتا تھا آج وہ تھکا ہوا تھا۔ 

" آپ ہم دونوں کو غلط سمجھ رہے ہیں درمان۔ اپنا سائبان کسے پیارا نہیں ہوتا۔ میں بھلے سب بھول گئ پر اتنا یاد ہے مجھے بیوی کا محافظ شوہر ہی ہوتا یے۔ اور آپ تو بہت اچھے والے شوہر ہیں" 

اپنی بات اسے سمجھانے کی کوشش کی زرلشتہ نے۔ وہ بےخبری میں پگھل گئ اس کے لیے۔ 

" ڈراموں میں اور موویز میں جو گندے والے لوگ ہوتے ہیں نا جو اپنی بیویوں کو ہرٹ کرتے ہیں۔ انہیں مارتے ہیں اور فورسلی ٹچ کرتے ہیں۔ ان کے رونے سے بھی انہیں فرق نہیں پڑتا پھر وہ کبھی اپنی غلطی بھی نہیں مانتے آپ ویسے نہیں۔

 آپ تو میری ساری باتیں مانتے ہیں۔ پیار بھی کرتے ہیں اور زبردستی میرا ہاتھ تک نہیں پکڑتے اگر مجھے برا لگے تو۔ آپ تو کیوٹ پٹھان ہیں نا۔ میرے خوابوں جیسے ۔۔۔!! پر جو اس رات ہوا۔۔۔۔!!!" 

باتوں کو آگے لے جاتے وہ اچانک چپ ہوئ تو درمان نے اپنا سر ہاتھوں میں گرایا۔ وہ چند سیکنڈ ہی تو اپنی نظروں میں اسے گراگۓ تھے۔ وہ بیچارہ نہ تو وقت واپس لاسکتا تھا نہ ہی معافی مانگ پارہا تھا۔ کیا کرتا وہ ۔۔۔!!! 

" آئ نو اس رات غلطی میری بھی تھی۔ میں نے ضد کی۔ جبکہ جانتی تھی یہ دکھتی رگ ہے آپ کی۔ میں اس رات آپ کا غصہ دیکھنے آئ تھی۔ آپ نے کبھی مجھ پر غصہ نہیں کیا میری غلطی کے باوجود بس مجھے غصہ دیکھنا تھا آپ کا۔ آۓ ایم سو سوری مجھے پتہ ہوتا آپ کو تکلیف ہوگی تو قسم سے کبھی نہ کچھ کہتی ایسا کچھ بھی۔ 

پر آپ سیڈ نہ ہوں ۔۔ !!!" 

۔

اچانک اس نے سر اٹھایا۔ اسے لگا تھا وہ روۓ گی پر وہ تو اس کی شرمندگی کم کرنا چاہ رہی تھی۔ کتنی عجیب تھی وہ بھی۔ 

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *