Orh Li Mohabbat Novel By Wahiba Fatima Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 21 November 2024

Orh Li Mohabbat Novel By Wahiba Fatima Complete Romantic Novel

Orh Li Mohabbat Novel By Wahiba Fatima Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Orh Li Mohabbat Novel By Wahiba Fatima Complete Romantic Novel 


Novel Name: Orh Li Mohabbat

Writer Name:Wahiba Fatima 

Category: Complete Novel

پورے لان میں  شور ہنگامہ اور ایک طوفانِ بدتمیزی سا برپا تھا ۔ لان کے درمیان نیٹ لگا کر بیڈ منٹن کھیلا جا رہا تھا۔ ایک جانب ملک کامران سراج کا اکیس سالہ لاڈلا پوتا ملک تابش سراج تھا جبکہ نیٹ کی دوسری جانب مومنہ اور سارا تھیں جو اب تک بڑی مہارت سے تابش کا مقابلہ کر رہیں تھیں۔ 

حاضرین میں سلمیٰ بیگم، صدیقہ بیگم، شازیہ بیگم سیام اور عرفہ تھے۔۔

وہ پسینے سے نہا چکا تھا مگر ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔

اٹھارہ سالہ سارا اور بارہ سالہ مومی بھی تو ہار ماننے کو تیار نہیں تھیں۔۔ ان کے قہقہے پورے لان میں  گونج رہے تھے۔ سلمیٰ بیگم انتہائی محبت سے اپنی اکلوتی لختِ جگر مومنہ کو مہارت سے کھیلتے دیکھ رہیں تھیں جسے یہ گیم تابش نے ہی بڑی محنت سے سکھائی تھی۔ 

ییےےےےےےےےےےے،،،،،،،،  کچھ ہی دیر میں مومی اور سارا کی خوشی سے دمکتی آوازیں پورے لان میں گونجیں۔۔ کیونکہ تابش ہار چکا تھا۔

تاشو آپ ہار گئے،،،  مومی مسکراتی اس کے قریب آئی جو زمین پر پڑا نروٹھے پن سے منہ چڑاتی سارا اور مومنہ کو گھور رہا تھا۔ مومنہ نے صلح جو انداز میں اپنا مومی ہاتھ اس کے آگے بڑھایا۔ جو وہ تھام کر اٹھ بیٹھا۔

مونا،  دیٹس ناٹ فئیر،  اپنے ہی گرو کو ہراؤ گی تم، دشمنوں کے ساتھ مل کر،، اس کا افسوس اب تک کم نہیں  ہو رہا تھا۔ تبھی مومی کو گھورتے کہا وہ شرمندہ سی ہو کر سر جھکا گئی۔ 

یہ تو ٹیلنٹ کی بات ہے،  اب شاگرد میں گرو سے زیادہ گٹس ہوں تو کیا کیا جائے،،  سارا ابھی تک اسے چڑا رہی تھی۔ 

وہ غصے میں  اٹھ کر واک آؤٹ کر گیا تو سارا سب کے ساتھ ہائی فائی کر کے قہقہے لگا کر ہنستی رہی۔ 

یہ طویل و عریض رقبے پر بنا سراج مینشن تھا۔۔جس کے آگے پیچھے دو پورشن بنے ہوئے تھے۔ 

جسے ایک چھوٹی سی دیوار الگ کرتی تھی۔ مگر دونوں گھر الگ ہوتے ہوئے بھی یوں لگتا تھا جیسے پورا سراج مینشن ایک ہی دھاگے میں  پرویا ہوا ہے۔ 

جہاں ملک کامران سراج کی تین اولادیں بستی تھیں۔ سب سے بڑا بیٹا ملک عمران سراج اور ان کی بیوی صدیقہ بیگم جن کی دو اولادیں تھیں۔ سب سے بڑا اور پورے سراج مینشن کا لاڈلا اکیس سالہ ملک تابش سراج اور ان کی چودہ سالہ بیٹی عرفہ تھی۔ 

دوسرے پورشن میں ملک فیضان سراج اور ان کی بیگم شازیہ جن کے ہاں بھی دو اولادیں اٹھارہ سالہ سارا اور سولہ سالہ بیٹا سیام تھیں۔ 

اس کی بعد چھوٹی بیٹی سلمیٰ تھیں۔ جن کے جینے کی وجہ ان کی بارہ سالہ بیٹی مومنہ سراج ہے۔۔ جنھوں نے اپنے والد ملک کامران سراج کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اپنی پسند سے غیر برادری میں شادی کی تھی۔ 

داجی نے سلمی کا رشتہ اپنے دوست کے بیٹے سے طے کر رکھا تھا۔ مگر جب سلمی نے اپنی من مرضی کرتے ہوئے کورٹ میرج کر لی تو ملک کامران سراج کو بے تحاشا سبکی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور تبھی ان کے کندھے شرمندگی سے جھک گئے۔۔ 

یہ سلمیٰ بیگم کی بدقسمتی کہ بہت جلد شوہر نے اپنے اصل رنگ دکھانے شروع کر دئیے۔ نوید احسن ایک انتہائی لالچی،  خود پرست اور رنگین مزاج آدمی ثابت ہوا۔ اول تو وہ حسن پرست آدمی کوئی اولاد چاہتا ہی نہیں تھا۔ اسی لئے ہی دو مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ امید سے ہوئیں اور انھیں پتا ہی نا چلا کہ نوید نے انھیں کچھ غلط میڈیسنز دیں ہیں اور وہ بری طرح بیمار ہوئیں اور اس دنیا میں لانے سے پہلے ہی اپنی اولادیں کھو بیٹھیں۔ مگر جسے الله رکھے اور کچھ سلمیٰ بیگم شوہر کے کرتوت معلوم ہو جانے پر محتاط ہو گئیں پھر جب مومنہ پیدا ہونے والی تھی تو وہ گھٹیا،  بے حس شخص انھیں ہاسپٹل میں تڑپتا چھوڑ کر بیرون ملک فرار ہو گیا۔ 

تب سلمیٰ کے دونوں بھائی ہی تھے جو دا جی کی ناراضگی کے باوجود بہن کو سہارا دینے کو آگے بڑھے۔ ناصرف انھیں سہارا دیا بلکہ انھیں اپنے ساتھ سراج مینشن واپس لے آئے۔ ان کا بے تحاشا خیال رکھا۔ بھابھیاں بھی بے حد سلجھی ہوئیں تھیں۔ جنھوں نے سلمیٰ بیگم کو کوئی طعنہ تشنہ دینے کی بجائے ہر ممکن ان کا خیال رکھا تھا۔ ان کی گود میں  موجود وہ گھنگھرالے بالوں اور براؤن آنکھوں والی ننھی سی گڑیا گھر بھر کی جان تھی۔ جو اب بارہ سال کی ہو چکی تھی۔ 

سلمیٰ بیگم نے لاکھ کوشش کی مگر اب تک دا جی انھیں معاف نہیں  کر پائے تھے تبھی ان سے کبھی ہمکلام نہیں ہوئے تھے ۔ہاں مومی میں دا جی کی جان ضرور اٹکی ہوئی تھی۔  

دونوں پورشن الگ تھے۔ مگر وہ سب ہر وقت ایک ساتھ رہتے تھے۔ سلمیٰ اور مومنہ عمران سراج والے پورشن میں ہی رہتیں تھیں۔ فیضان نے لاکھ چاہا کہ سلمی ان کے پاس رہے۔ مگر عمران سراج مان کر نہیں  دئیے۔ 

دونوں بھائیوں کا سامان کی لوڈنگ کا کاروبار تھا۔ ان کے اپنے ٹرالر اور کرینز تھے جن سے بھاری مشنری ایک شہر سے دوسرے شہر لے جائی جاتی تھی۔ گھر میں بے حد خوشحالی تھی۔ مگر اپنی کار صرف دو ہی تھیں جو ابھی عمران اور فیضان کے زیراستعمال تھیں۔ 

سب بچے ایک ساتھ کھیلتے کودتے بڑے ہوئے تھے۔ اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ تابش سراج کی اپنی کزن سارا میں دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی جو کہ تقریبا سب ہی نوٹ کر چکے تھے۔ تبھی دا جی نے سارا اور تابش کا تب نکاح کر دیا تھا جب سارا میٹرک میں تھی۔ اسے آگے پڑھنے کی اجازت ہی اسی نکاح کے شرط پر دی گئی تھی۔ 

اور اب سارا گرلز کالج میں  ایف ایس سی میں اپنے کالج میں  ٹاپ کر چکی تھی۔ 

تابش بے تحاشا خوش تھا۔ کہ من چاہے جیون ساتھی کو اپنا بنا چکا تھا اسے اور کیا چاہیے تھے۔ وہ سارا کے کافی لاڈ اٹھاتا تھا۔ اس کی ہر ڈیمانڈ پوری ہوتی۔ اور اکثر ان ڈیمانڈز میں  وہ باتیں بھی شامل ہوتیں جو دا جی کے اصولوں کے خلاف ہوتیں تھیں۔ 

مگر یہ ملک تابش سراج تھا ان کا لاڈلا پوتا جو ان سے ہر بات منوانا جانتا تھا۔ زندگی اپنے ڈگر پر 

یونہی رواں دواں تھی۔ کون جانتا تھا اس پرسکون زندگی کے موسم میں  کون کونسے طوفان اٹھنا باقی تھے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سارا اپنے گرلز کالج سے نکل کر اب اپنے روٹ کی جانب مڑی تھی جب ایک گاڑی کے پہیے اس کے بے حد قریب چرچرائے تو وہ بے تحاشا چونکی۔ مگر کار میں  موجود اس شخص کو دیکھ کر اس کے لبوں کو ہلکی سی شرمیلی سی مسکان نے چھوا۔ وہ مسکراتے اس کے اشارہ کرنے پر آ کر کار میں بیٹھ گئی۔ 

"مجھے یوں بلکل اچھا نہیں لگتا،  آپ کو کتنی مرتبہ کہا میں ایسے نہیں مل سکتی آپ سے،، سارا نے پہلو بدل کر فرہاد کاظمی سے کہا جو ہونٹوں پر گہری مسکان سجائے اسے ہی نہارنے میں  مصروف تھا۔ 

میں یہی تو کہنے آیا ہوں کہ رزلٹس کے بعد اس گرل کالج سے تو جان چھوٹ ہی گئی ہے اب تھرڈ ائر میں یونی میں آؤ یار، فرسٹ ڈویژن میں  پاس ہوئی ہو،  معمولی بات تو نہیں، مجھے بھی ایسے روز روز سڑکوں پر ملنا اچھا نہیں لگتا، اور اگر تم نے اپنا ڈاکٹر بننے کا ڈریم پورا کرنا ہی ہے تو اپنے خاندان کے تمام دقیانوسی تصوّرات کو پیچھے چھوڑ کر میرے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا،  تمھیں  یونی آنا ہو گا،، نہیں  تو دوسرا آپشن تو ہمیشہ موجود ہی ہے ہمارے پاس،، 

فرہاد کاظمی نے ضدی لہجے میں  کہا۔ سارا نے بری طرح اپنی انگلیاں چٹخائیں۔ 

دا جی کبھی بھی نہیں مانیں گے،،  سارا نے بےچینی سے کہا۔ 

تو وہ ملک تابش سراج کس مرض کی دوا ہے، اسے کہو دا جی کو منائے گا،  جس سے نکاح ہی تم نے صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لئے  کیا ہے،  اور مت بھولو سارا میں نے اپنے دل پر کےٹو جتنا پہاڑ رکھ کر تمھیں اس فضول، بیک ورڈ آدمی سے نکاح کی اجازت دی تھی، تاکہ ہم با آسانی اپنا ہر مقصد پورا کر سکیں،  تمہیں اس سراج مینشن سے بے دھڑک باہر نکلنے کی اجازت ہو،  ٹرپس پر اسی وجہ سے میرے ساتھ جا پائیں تم،  اور خاص کر اس کالج میں  ایڈمیشن ہوا تمھارا،  اس تابش کے زریعے ، اب بھی اسے ہی بولو کہ تمھیں اجازت لے کر دے،  تاکہ ہم دونوں اکھٹے ایک ساتھ آگے اپنی منزل کی جانب بڑھیں،،  

فرہاد کی لہجے میں  ان دیکھی آنچ اور حقارت سی تھی ملک تابش سراج کے زکر پر۔

اوکے میں جلد ہی کوشش کروں گی، 

نہیں تمھیں آج ہی کوشش کرنی ہے،،اگر نہیں تو سارا تم جانتی ہو میں نے مانچسٹر یونیورسٹی میں بھی اپلائے کیا ہوا ہے،  وہاں سے پوزیٹیو رسپانس ملنے پر تم جانتی ہو ناں تم نے پرامس کیا ہوا ہے کہ سب کچھ پیچھے چھوڑ کر تم میرے ساتھ چلو گی،، فرہاد نے اس کا سرد سا ہاتھ تھام کر ایک امید بھری نگاہ اس پر ڈالی۔ 

تو سارا نے بے اختیار ہی نگاہیں چرا لیں۔ 

نہیں  فی الحال میں  آج کوشش کروں گی کہ دا جی تابش کے کہنے پر مان جائیں،، فرہاد ہم ٹھیک تو کر رہے ہیں ناں، میرا ضمیر مجھے ہر وقت ملامت کرتا رہتا کہ میں  ایک بے قصور انسان کو محض اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کر رہی ہوں،،،  

شٹ اپ سارا،،  کوئی بےقصور نہیں  ہیں وہ تمھارے بیک ورلڈ، دقیانوسی گھر والے،  جنھیں اس بات سے کوئی فرق ہی نہیں  پڑتا کہ ان کے گھر کی بیٹی کیا چاہتی ہے، آخر اس کی اپنی کیا مرضی ہے،  بس بیٹوں کی فکر ہے،  اس تابش کو تو بڑا ایم بی کرنے کے یونی بھیج رکھا ہے،،  فضول مت سوچو،  اور اپنی منزل پر کونسٹریٹ کرو،،  فرہاد نے اسے بری طرح جھڑکا۔ 

اوکے مجھے جانا ہوگا،،،  سارا نے کہتے اس کی کوئی بھی بات سنے بغیر گاڑی سے نیچے اتر آئی۔ اب اسے بس پر بیٹھ کر سراج مینشن پہنچنا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ پاؤں جھلاتی تاشو کے روم تک آئی تھی۔ آ کر دروازے پر ہلکی دستک دے کر اندر داخل ہوئی۔ وہ جو کرکٹ کٹ میں  کہیں باہر جانے کو بلکل تیار کھڑا تھا بزی سا بالوں میں  برش کرتا آئینے میں سے مومی کو دیکھا جس کے چہرے کے زاویے بگڑ رہے تھے۔ جو یقیناً سلمیٰ بیگم سے ڈانٹ پھٹکار سن کر اس کے پاس آئی تھی۔ تابش کو ہنسی آئی مگر ضبط کر گیا کہ اگر ہنس پڑتا تو یقینا مومی کا بھونپو گھنٹے بھر کے لئے سٹارٹ ہو جاتا جو وہ سننے کے موڈ میں  ہر گز نہیں  تھا۔ 

واٹ ہیپنڈ مونا،،  کیا ہوا مومی ڈول کو،،  تابش نے اسے پیار سے پچکارا۔

وہ دھپ سے صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ لائٹ گرین فراک پہنے کرلی بال دو پونیوں میں  مقید تھے بیٹھ کر وہ گندے گندے منہ بنانے لگی۔ 

تاشو،، مما کے ساتھ کیا پرابلم ہے،  صرف اتنا ہی تو پوچھا تھا میرے پاپا کدھر ہیں،  مجھے ہوم ورک میں ان پر خود سے easy (مضمون) لکھنا ہے ،،  تو مجھے ان کے بارے میں معلوم ہوگا تو لکھوں گی ناں،  میں نے تو انھیں دیکھا بھی نہیں،،  انسلٹ کر کے نکال دیا مجھے روم سے،،  

وہ رونی سی شکل بنا کر اپنی خاطر داری کی ڈیٹیلز بتانے لگی۔ 

تابش نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔ اسے دل سے افسوس ہوا اور اپنی پھپھو کے لئے دکھ جو مومنہ کے اس سوال کو لیکر جانے کتنے دہرے عذاب سے گزری ہوں گی۔ 

ادھر آؤ میں لکھواؤں،،  تابش نے اپنی کِٹ بیڈ پر رکھی اور اس کے پاس صوفے پر جا بیٹھا۔ 

وہ خود نو سال کا تھا جب یہ چھوٹی سی گڑیا ان کے گھر آئی تھی۔ تابش سارا اور باقی سب گھر والوں نے اس کا عرفہ سے بھی بڑھ کر خیال رکھا تھا۔ 

تابش اکثر اسے ہوم ورک کروایا کرتا تھا۔ کبھی مومنہ اور عرفہ کو سارا پڑھایا کرتی کبھی تابش۔ 

ہر کھیل کود میں  وہ سب ساتھ ساتھ ہی رہے تھے۔ اور بیڈمنٹن بھی تابش نے ہی مونا کو سکھایا تھا۔ مومنہ عرفہ کی دیکھا دیکھی اسے تاشو ہی کہتی تھی۔ 

اب بھی وہ کافی خوبصورتی سے اسے مضمون لکھوا چکا تھا۔ 

او یہ تو اتنا ایزی تھا تاشو،، وہ سکون سے بولی۔

ہاں ایزی تو تھا یہ تمھارے میگی نوڈلز کو سلجھانے جتنا ایزی تھا،، تابش نے ہمیشہ کی طرح اس کی پونی کھینچ کر اس کے کرلی بالوں کو میگی نوڈلز کہا۔ ایک تو کرلی اوپر سے اتنے گھنے کہ جنھیں سلجھاتے ہوئے ہی سلمیٰ بیگم اکتا جاتیں تھیں۔ 

حسبِ معمول مومی بری طرح چڑ گئی۔ 

تاشو،، آپ کے سر پر ہی ہوں گے میگی نوڈلز،  خبردار، جو میرے ہیئرز کو کچھ کہا،، اس نے چھوٹی سی فنگر اٹھا کر وارننگ دی۔ تو تابش قہقہہ لگا کر ہنس پڑا تبھی سارا ہلکی سی دستک دے کر روم میں داخل ہوئی تھی۔ 

تابش کا چہرہ کھل گیا تھا۔ سارا اندر داخل ہو گئی۔ 

مونا جاؤ عرفہ کے پاس بیٹھ کر اپنا ہوم ورک کمپلیٹ کرو،،  میں ابھی آ کر باقی کا چیک کروں گا اگر مسٹیکس ہوئیں تو یہ تمھارے میگی نوڈلز پکا کر کھاؤں گا،،  

تابش نے اسے زرا خود پر سنجیدگی طاری کرتے کہا مگر سامنے بھی دا گریٹ نوڈلز گرل تھی۔ 

اووو،،،  تاشو ایسے کیوں نہیں کہتے کو آپ کو سارا آپی سے باتیں کرنی ہیں،،  مومنہ مسکراتی اپنی نوٹ بک اٹھا کر وہاں سے رفو چکر ہوئی تھی۔ ملک تابش سراج گہرا مسکرایا اور پوری طرح اس کی جانب متوجہ ہوا جو کنفیوز سی صوفے پر بیٹھی جانے کن سوچوں میں  گم تھی۔ 

پتا نہیں جی کونسا نشہ کرتا ہے

یار میرا ہر اک سے وفا  کرتا ہے

چھپ چھپ کے بےوفائیوں والے دن چلے گئے 

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دغا کرتا ہے

وہ تابش کے سامنے بیٹھی اپنی مدعا بیان کر کے اب بے چینی سے اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ 

"مجھے نہیں پتا تاشو،، مجھے ڈاکٹر بننا ہے اور  ہر قیمت پر یونی جانا ہے آپ دا جی کو منائیں،  کسی بھی صورت،،  وہ ایسے کیوں ہے، کیوں مجھے آگے پڑھنے نہیں دینا چاہتے، ہم اپنی مرضی اپنی آزادی سے کوئی کام کیوں نہیں کر سکتیں،  دا جی کیوں ہیں اتنے بیک ورڈ ،،  

سارا زبان سنبھال کر بات کرو پلیزززز،،  وہ جو مسکراتے اس کی ہر فرمائش سن رہا تھا اس کی آخری بات اور لہجہ کی بدتمیزی پر دنگ سا اب سنجیدگی سے اس کا بغور مطالعہ کرنے لگا کہ اس کے دماغ میں یہ سب باتیں آئیں کہاں سے۔ یہ تابش کو سارا اپنی زبان تو نہیں بولتی سنائی دے رہی تھی۔۔

"ایک بات سارا مجھے سمجھ یہ نہیں آتی آخر تم خواتین کو آزادی کس چیز کی اور کس سے چاہیے، گھر کے تحفظ اور چار دیواری سے آزادی چاہیے کیا،؟ یا وہ مرد جو تم لوگوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں، زمانے کے سردو گرم سے بچاتے ہیں کیا ان سے آزادی چاہیے، تم لوگ بھیڑ بکریاں تو نہیں  جو تم لوگوں کو آزاد چھوڑ دیں،، زمانے کے بھیڑیوں کے درمیان چھوڑ دیں، دوسری بات دا جی ایسا ہر گز نہیں چاہتے،  بس وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے آئندہ نسل میں سے اب کوئی سلمیٰ نوید احسن نا بنے،،  کوئی سرِ عام ان کی گھر کی عزت کو برباد کر کے چلتا نا بنے،،  

تابش نے اسے سمجھانا چاہا مگر اسے کیا معلوم وہ بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے۔ 

تو کیا اب جو سلمیٰ پھپھو نے کیا ضروری تو نہیں کہ وہی کچھ،  باقی سب بھی کریں گی،،  تابش کی بات پر وہ گڑبڑائی تو ضرور تھی مگر پھر چور کی داڑھی میں تنکے کے مترادف پھنکار کر بولی تھی ۔ 

تابش نے بے حد افسوس سے اسے دیکھا۔ 

مجھے افسوس ہے سارا میری ہر بات کے رائیگاں جانے پر اور افسوس کے اتنی ساری باتوں میں تم بس سلمیٰ پھپھو کی بات کو پکڑ کر اسے بھی منفی رخ کی جانب لے گئیں،، لیکن کوئی بات نہیں  تم فکر مت کرو،  ہر بار کی طرح اس بار بھی میں  تمھارے ساتھ ہوں، اور تمھارا ساتھ دوں گا رات تک تم ویٹ کرو، میں رات تک پوچھ کر بتا دوں گا، اب جاؤ تم اپنے روم میں،،  

تابش نے سنجیدگی سے کہا۔ جس سے اسے اندازہ ہو گیا کہ وہ ناراضگی سے بولا تھا۔ 

(اونہہہ بنا رہے بوتھا یہاں پرواہ کس کو ہے مگر ابھی تو ضرورت کا وقت ہے تو گدھے کو باپ بنایا جا سکتا ہے) 

اوکے رائٹ،  آئم سوری تاشو، اگر آپ کو برا لگا تو ائم سوری مگر آپ بات اچھے سے کرنا کہ یہ میری زندگی کا سب سے بڑا خواب ہے،،  اس نے کھوئے ہوئے سے لہجے میں کہا۔ 

اٹس اوکے،،  کوئی بات نہیں،،  تابش نے کہا اور خاموش ہو گیا۔ سارا کے جانے کے بعد وہ کافی دیر تک غائب دماغی سے اسی جگہ دیکھتا رہا جہاں سے وہ ابھی ابھی ہو کر گئی تھی۔ پھر اپنے خیالات سے باہر آتے سر جھٹک کر اپنی کٹ اٹھا کر باہر نکل گیا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ بڑی توجہ سے چچی امی کے کہنے پر ان کے ہاتھ سے سیام کی تمام شرٹس لے کر اب اس کی الماری میں ترتیب سے رکھ رہی تھی۔ 

جب وہ پسینے میں  نہایا کوچنگ کے بعد کرکٹ کھیل کر سیدھا اپنے روم میں آیا۔ 

سامنے ہی کسی کو اپنی الماری میں  منہ دئیے پایا۔ اس کی آہٹ پر عرفہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

تم یہاں کیا کر رہی ہوں عرفہ،،  سیام نے حیرت کہ ملی جلی کیفیت لیے اس سے پوچھا۔ وہ کیا جانے عرفہ اکثر اس کی غیر موجودگی میں اکثر اس کے روم میں آیا کرتی تھی۔ 

کیوں ؟ یہ وہ خود نہیں  جانتی تھی ابھی، 

یہ چچی امی نے شرٹس دیں تھیں کہ آپ کی الماری میں  رکھ دوں تو یہی رکھنے آئی تھی،  سیام، 

سیام اس کا یوں نام لینے پر چونکا۔ حالانکہ وہ اسے کم ہی مخاطب کرتی تھی۔ سیام سائنس کے ساتھ میٹرک میں تھا اور عرفہ ایٹتھ میں۔  اکثر وہ اسے اور مومی کو میتھس بھی پڑھا دیا کرتا تھا۔

عرفہ مجھے بھائی بولو،  بڑا ہوں تم سے،، سیام نے سنجیدگی سے کہا اور اپنا بیگ اور کٹ اپنی الماری میں رکھنے کے لئے آگے بڑھا مگر اس نے اثر کم ہی لیا۔ 

"مومی بھی تو آپ کو سیام ہی بولتی ہے تو اسی لئے میں نے بھی بول دیا،اس میں  کونسی بڑی بات ہے،،  عرفہ نے کندھے اچکا کر کہا تو سیام نے پیچھے مڑ کر اسے گھورا جو ڈریسنگ کے پاس بڑے گلدان میں جانے کیا تلاش کر رہی تھی اس کے گھور کے دیکھنے پر رنگ برنگے منہ بنا کر وہاں سے کھسک ہی گئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

شام کا وقت تھا۔ موسم کافی خوشگوار تھا۔ سب نے لان میں  بیٹھ کر شام کی چائے پی تھی۔ 

چائے بننے سے پہلے تابش دا جی کے روم میں تھا۔ جب چائے پی گئی تو وہ دونوں بھی باہر آ گئے۔ 

تابش نے باہر آ کر سب کو ایک خاص بات بتائی تھی جو سارا سے چھپائی جانی تھی۔ سب کے چہرے خوشی سے کھل سے گئے تھے۔ ۔ سارا کو اس کی ہفتے بعد آنے والی برتھ ڈے پر ایک بہت بڑا سرپرائز  ملنے والا تھا۔ 

سب سے ہلکا پیٹ تو مومی کا ہی تھا اسی لئے تابش نے اسے خاص الخاص گھرکا تھا کہ اگر اس نے سارا کو کچھ بتایا تو اس کی خیر نہیں۔

مومی سارا کو چائے کے لئے بلانے آئی تھی۔ سارا کے روم کا ڈور آدھا کھلا تھا ۔ اس کا چھوٹا سا زہن سارا کی باتوں کو گہرائی سے سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ آگے بڑھی۔ 

سامنے بھی وہ بڑے کانفیڈینس سے باتوں میں  لگی تھی جیسے پکا یقین ہو کہ اس وقت سب لان میں  چائے کے لئے  ہوتے ہیں اس کے پاس کوئی بھی نہیں  آئے گا۔ 

فرہاد پلیز سمجھنے کی کوشش کرو، میں  نے بات کی ہے ناں تابش سے،  اور مجھے پورا یقین کہ پوزیٹو رسپانس ہی ملے گا، میں بہت، بہت زیادہ خوش ہوں کہ مانچسٹر سے پوزیٹو رسپانس ملا ہے، مگر اس سے پہلے ادھر ٹرائی کرنے میں  کیا حرج ہے میں رات تک تمھیں بتا دوں گی،،  

سارا بات کرتے کرتے پیچھے مڑی تھی۔ جب مومی کو خود کو حیرت سے تکتے پایا۔ وہ بری طرح بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی تھی تبھی موبائل ہاتھ سے چھوٹ کر کارپٹ پر گرا تھا۔ 

(یہ موبائل بھی تو تابش کی ہی مہربانی تھی نہیں  تو انھیں کہاں اجازت تھی یہ چونچلے پالنے کی)۔ 

مومی واٹ دا ہیل، ایٹی کیٹس اور مینرز نام کی کوئی چیز ہے بھی کہ نہیں تم میں،  ڈور ناک نہیں  کرنا تھا کیا،،  سارا نے اپنی بوکھلاہٹ چھپانے کو اسے بری طرح جھڑکا جو ہونق سی بنی سارا آپی کا یہ جلالی اور عجیب سا روپ دیکھ رہی تھی۔ 

ائم سوری سارا آپی،  وہ ڈور کھلا تھا تو میں  اندر آ گئی،، آپ کو چائے کے لئے بلانے آئی تھی،   اس نے معصومیت سے کہا مگر سامنے والی نے اس کے سوری کو بھی برخورد اعتنا نا جانا تھا۔ 

اوکے اوکے،،  جاؤ تم میں  آتی ہوں ابھی،، سارا نے رکھائی سے کہا وہ منہ لٹکا کر واپس چلی گئ۔

سارا نے جلدی سے فون اٹھایا تو سامنے والا فون رکھ چکا تھا۔ وہ جی بھر کر بدمزہ ہوئی۔ 

افففففف،،،، گھر والے کیا کم ہے جو ان باہر والوں نے بھی ناک میں  دم کر رکھا ہے،،  وہ بڑبڑاتی وسرے پورشن کے لان میں آئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے اور وہ سب کے درمیان بیٹھی بری طرح انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ 

بار بار تابش کی جانب دیکھتی کہ ایک ہلکا سا اشارہ ہی کر کہ بتا دے کہ کیا بنا۔ مگر وہ تو جیسے جان بوجھ کر اسے اگنور کیے جا رہا تھا۔

تبھی مومی آکر آہستگی سے اپنے ہونٹوں کو ہاتھ سے چھپا کر اس کے کان میں  گھسی تھی۔ 

تاشو،، یو نو واٹ سارا آپی کا موڈ بری طرح آف ہے آپ سارا آپی کو وہ بات بتا دو جلدی سے ابھی مجھے بھی اتنا زیادہ والا ڈانٹا تھا انھوںنے،،  مومی نے اس کے کان میں  کہا تو تابش نے غصے سے اسے گھورا۔ 

مونا،، اب مجھ سے ڈانٹ نا کھا لینا جاؤ اندر جا کر ہوم ورک کمپلیٹ کرو،، میں  ابھی چیک کرنے آتا ہوں،،  تابش نے اس کی پونی کھینچ کر غصے سے کہا تو وہ غصے سے واک آؤٹ ہی کر گئی۔ 

تمام خواتین کچن میں  ڈنر کی تیاری کے لئے  چلیں گئیں۔ دا جی،  عمران اور فیضان بھی دا جی کے کمرے میں  گئے تو سارا بے چین سی تابش کے پاس آئی جو کھسکنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مگر اس سے پہلے ہی سارا اس کے سر پر سوار تھی۔ 

 تابش میں کب سے دیکھ رہی ہوں آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں آخر بتا کیوں نہیں  دیتے کہ کیا کہا دا جی نے،، سارا نے جھنجھلا کر کہا۔ 

وہ پکا سا منہ بنا کر سارا کی جانب پلٹا۔ 

ائم سوری سارا دا جی نے صاف انکار کر دیا ہے،  وہ بلکل نہیں  مان کر دے رہے اور اس بار تو  وہ میری بھی سننے کو تیار نہیں،  اور سوری ٹو سے میں  خود اس حق میں  نہیں تو تمھیں  کمپرومائز کرنا پڑے گا اب کی بار،، 

اس کے ایک ایک لفظ پر سارا کا منہ دھواں دھواں ہوا تھا۔ 

تابش نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کر کے اس کا سفید پڑتا چہرہ دلچسپی سے دیکھا۔ 

کمپرومائز،  مائی فٹ،  وہ تو میں  کسی صورت نہیں  کروں گی تابش،،  وہ دانت پیس کر بولی۔ 

اور کیا کرو گی تم سارا،،  تابش نے خود پر سنجیدگی طاری کرتے اسے غور سے دیکھا۔ 

میں  بھاگ جاؤں گی سراج مینشن سے اس جیل سے بلکہ جہنم سے ،،  وہ غصے کی انتہا سے آگ بگولہ ہوئی پھنکاری تو تابش قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ 

بلیک ٹراؤزر اور بلیک ہی ٹی شرٹ میں وہ اونچا لمبا سروقد کے ساتھ سامنے کھڑا شاندار مردانہ وجاہت لیے وہ بندہ اسے اپنی بیمار زہنیت کی بدلوت اس وقت زہر لگ رہا تھا۔ 

تمھارا سینس آف ہیومر بہت اچھا ہے سارا،  کافی اچھا جوک تھا،،  تابش نے اسے چھیڑا۔ 

سارا نے تابش کی نگاہوں میں  دیکھنے سے گریز ہی کیا تھا وہ پیر پٹختی وہاں سے اپنے روم میں  چلی گئی تھی۔ 

تابش دا جی کے پاس آیا تھا اور باقی سب بڑوں اور گھر والوں کو چٹخارے لے کر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو کر سارا کی کیفیت بتائی تھی۔ اس کی حالت سب نے انجوائے کی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات ڈنر پر سب کی ہنسی اور قہقہے گونج رہے تھے سوائے سارا کے جو خود پر خطرناک حد تک سنجیدگی طاری کیے کھوئی کھوئی سی چاولوں سے ہاکی کھیلنے میں مصروف تھی۔ 

کیا ہوا سارا بیٹا سہی سے کھانا کھاؤ بھئی،،  سلمیٰ بیگم نے اسے محبت سے پچکارا۔ 

کتنا کہا تابش سے کہ اسے بتا دے مگر اس پر تو سرپرائز کا بھوت سوار ہے ۔ سلمیٰ کو وہ سوگوار سی لگی تبھی دل کو کھینچ پڑی۔ 

(اونہہہ،،  بڑی ہمدردی آ رہی ہے سارا کیا دھرا تو انھی کا ہے، نا یہ وہ قدم اٹھاتیں اور نا ہماری زندگی عزاب ہوتی۔ اس پہ پھر دیدہ دلیری کے واپس بھی آ گئیں ہمارے سینوں پر مونگ دل نے کو ۔ ادھر ہی کیوں نا مر کھپ گئیں)  سارا اپنے دل ہی دل میں  زہر اگلتی رہی۔ اور ابھی حسرت تو یہ تھی کاش وہ زبان سے یہ سب انھیں کہہ پاتی۔ 

وہ کھانا کھا کر بدتمیزی سے اٹھ کر کسی سے بات کرے بغیر اپنے روم میں  چلی گئی تھی۔ 

تابش کتنی غلط بات ہے دیکھو منہ ہی اتر گیا ہے بچی کا،   سلمیٰ بیگم نے تابش کو ڈانٹا تو ہنس پڑا۔ 

ابھی موڈ فریش ہو جائے گا پھپھو اس کا ،  کیوں بھئی بچہ پارٹی آئسکریم کھانی ہے؟  

تابش نے شرارت سے کہتے عرفہ اور مومی کی جانب دیکھا۔ 

ییےےےےے،،،  مومی تو کھل ہی اٹھ تھی۔ بڑے سب مسکرا دئیے۔ 

پھر پوری پلٹن نے سارا کے کمرے پر دھاوا بولا تھا۔ اور اس کے نا نا کرنے کے باجود اسے زبردستی ساتھ لگا ہی لیا۔ 

گاڑی میں  خاموشی تھی جسے مومی کی آواز نے ہی توڑا۔ 

تاشو،  میرا بھی ڈریم ہے کہ میں بھی ڈاکٹر بنوں گی بڑے ہو کر،  جیسے سارا آپی بنیں گی،،  

مومی کی زبان پھسلی۔ سب کا دل کیا ماتھا پیٹ لیں۔ 

اونہہہہہہہ،، اس جہنم سے اجازت نامہ ملے گا تو بنو گی نا ڈاکٹر،،،  سارا نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔ 

بٹ سارا آپی وہ تو،،،  

اس سے پہلے مومی میڈم اور گوہر افشانی کرتی ڈرائیونگ کرتے تابش نے دانت پیستے فرنٹ سیٹ پر زان سے بیٹھی مومی کے منہ میں  چاکلیٹ ٹھونسی تھی۔ 

مونا،، یہ کھاؤ اور خاموش رہو،  کیونکہ تم خاموش زیادہ کیوٹ اور اچھی لگتی ہو،،  تابش نے دانت پیس کر آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے وارن کیا۔ 

اوپس،،،سوری تاشو،،  اس نے آہستگی سے تابش کی جانب جھکتے کہا۔ 

آئسکریم پارلر میں  بھی انھوںنے نے خوب طوفانِ بدتمیزی مچایا۔ 

تابش ،عرفہ، سیام اور مومی ایک دوسرے سے چھین چھین کر آئسکریم کھا رہے تھے۔ 

مومی،  عرفہ،  سیام یہ کیا بدتمیزی ہیں، کیا کہیں گے لوگ یہ کتنے جاہل اِل مینرڈ، اور بدتمیز لوگ منہ اٹھا کر یہاں چلے آئے ہیں،  تمیز نہیں  تم لوگوں میں،،  

سارا پھٹ پڑی تھی۔ وہ جو اسے ہی چِل کرنے کو ہلکی پھلکی شرارتیں کر رہے تھے۔ یک دم خاموشی چھائی تھی۔ تابش نے اسے سنجیدگی سے دیکھا جو بچوں سے زیادہ خود حلق پھاڑ رہی تھی اور ارد گرد کے لوگ متوجہ ہوئے تھے۔ 

مونا، عرفہ فنش کرو اسے، تابش نے انھیں کہا تو انھوںنے خاموشی سے اپنی آئسکریم فنش کی۔ 

مونا جو کہ تابش کے ساتھ والی چئیر پر بیٹھی تھی۔ اس کے منہ پر آئسکریم لگ گئی تھی۔ جوپاس بیٹھے تابش نے ہی دیکھی۔ تابش نے ٹشو پیپر لے کر اس کا چہرہ صاف کیا۔ 

بل پے کیا اور وہ خاموشی سے واپس چلے آئے۔ تابش کو اس کا یوں اوور ری ایکٹ کرنا عجیب سا لگ رہا تھا۔ اب تو وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ اسے سچ بتا دے۔ 

سراج مینشن پہنچ کر اس نے گاڑی پارک کی۔ 

سب اترنے لگے۔ 

رکو سارا مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے،،  تابش نے کہا۔ 

مگر شاید وہ اس وقت اسے منہ لگانے کے موڈ میں  ہر گز نہیں تھی۔ تبھی سنی ان سنی کرتی پاؤں پٹختی اپنے پورشن میں سیام سے پہلے ہی جا چکی تھی۔ 

تابش نے ایک سرد سی آہ بھری اور مومی اور عرفہ کے ساتھ اندر آ گیا۔ جانے وہ کیوں تھا اتنا پولائٹ،  اس قدر نرم اور دھیمے مزاج کا جو چپ چاپ اس کی بدتمیزیاں برداشت کر رہا تھا۔ 

گہری پراسرار سی رات تھی۔ جو اپنے دامن میں جانے کیا کیا غلط فہمیاں،  شکوے شکایت، اور ایسے طوفان سمیٹے بیٹھی تھی کہ اس طوفان کے آ جانے سے سراج مینشن کے رشتوں کا شیرازہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنے والا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح ناشتے پر معمول کی چہل پہل تھی۔ سب موجود تھے سوائے سارا کے۔ سب اسے اس کی ناراضگی ہی سمجھ بیٹھے تھے۔ 

چھوٹی امی ٹرے بنا کر دیں میں سارا کو ناشتا دے کر آتا ہوں،  ساتھ اس کے یونی جانے کی خوشخبری بھی سنا آتا ہوں،  مجھے نہیں لگتا وہ اتنے دن صبر کر پائے گی،  یہ نا ہو بیگم بیمار ہو جائے،،  

اس نے مسکراتے آخری جملہ ماں کے کان میں  گھس کر کہا تھا۔ جو کہ شازیہ بیگم نے بھی باخوبی سنا ۔ مسکرا کر ٹرے میں  پراٹھا، چیز آملیٹ اور چائے کا مگ رکھ کر دیا۔ 

دیکھنا تاشو،  سارا آپی جتنے غصے میں  ہیں کہیں چائے کا مگ آپ کے سر پر نا انڈیل دیں،،  مونا کے شوشے پر سب ہی ہنس دئیے تھے۔ 

 وہ ٹرے اٹھائے سب کی مسکراتی نگاہوں کو اگنور کیے پچھلے پورشن میں اس کے روم تک آیا تھا۔ 

ڈور کھلا تھا۔ وہ ہلکی دستک دے کر اندر داخل ہو گیا۔ اندر کوئی نہیں تھا۔ روم اور پورا گھر خالی تھا۔

حیرت انگیز۔ 

ٹرے سٹڈی ٹیبل پر رکھنے جھکا تو ایک پیپر فولڈ کیا ہوا ملا۔ تجسس تو بڑا ہوا مگر پہلے اسے سارے میں  چیک کیا واش روم بھی خالی تھا۔

سارا،، سارا اس نے دو چار مرتبہ آوازیں دیں مگر جواب ندارد۔ 

اخر ٹیبل تک آ کر وہ فولڈ کیا پیج جلدی سے کھول کر دیکھا۔ 

ڈئیر مسٹر دقیانوس ان چاہے شوہر جی،  

اوپس سوری،  مگر یہ سچ ہی تو ہے۔ 

تمھیں، تمھارے خاندان (صرف تمھارے اس لئے کہ اتنا چھوٹی سوچ رکھنے والا خاندان میرا  نہیں  ہو سکتا) اور تمھارے تمام تر دقیانوسی،  چیپ گھٹیا اور بیک ورڈ خیالات سے بہت دور جا رہی ہوں، 

اپنے تمام خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے،  بہت دور،  اتنی دور جہاں تک تم جیسے تھرڈ کلاس بندے کی رسائی ممکن نہیں،  تو ڈھونڈنے کی تو کوشش بھی مت کرنا،  بہت جلد کونٹیکٹ کروں گی، خلع کے لئے، 

 اور مجھے یقین ہے تم جیسے سو کالڈ غیرتوں کا پرچار کرنے والے میں اتنی غیرت تو ہوگی کہ ایک گھر سے بھاگی ہوئی لڑکی کہ واپسی کی امید لگانے کی بجائے تم طلاق اس کے منہ پر مارو گے،

فقط آزاد سارا، 

تابش کے لرزتے ہاتھوں سے صفحہ چھوڑ کر کارپٹ پر گرا تھا۔ وہ خود گھٹنوں کے بل کارپٹ پر بیٹھتا چلا گیا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤

جب بھی جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ

ایک چہرے پہ کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ

یاد رہتا ہے کسے 

گزرے زمانے کا چلن

 سرد پڑ جاتی ہے چاہت

 ہار جاتی ہے لگن

اب محبت بھی ہے کیا؟

 ایک تجارت کے سوا

ہم بھی نادان تھے جو اوڑھا 

بیتی یادوں کا کفن

ورنہ جینے کے لیئے سب کچھ بھلا لیتے ہیں لوگ

ایک چہرے پہ کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ

جانے وہ کیا لوگ تھے 

جن کو وفا کا پاس تھا

دوسرے کے دل پہ کیا گزرے گی

 یہ احساس تھا

 اب ہے پتھر کے صنم

 جن کو احساس نہ غم

 وہ زمانہ اب کہاں 

جو اہل دل کا راس تھا 

اب تو مطلب کے لیے نامِ وفا لیتے ہیں لوگ 

جب بھی جی چاہے نئی دنیا بسا لیتے ہیں لوگ 

ایک چہرے پے کئی چہرے لگا لیتے ہیں لوگ

دو دن سے ملک تابش سراج اپنے کمرے میں بند تھا۔ ایک قیامت تھی جو سراج مینشن پر ہو کر گزری تھی۔ 

سب اپنے اپنے کمروں میں  بند دبکے بیٹھے تھے۔ جیسے باہر نکلے تو کوئی اور طوفان آ جائے گا۔ 

ملک فیضان سراج کو ہارٹ کا مائنر سا اٹیک بھی آ چکا تھا۔ شازیہ بیگم رو رو کر پاگل ہو چکیں تھیں کہ ان کی تربیت میں آخر ایسی کونسی کمی رہ گئی تھی کہ ان کی سیرت ایسی نکلی۔ 

اصلی نام تو سیرت تھا مگر سب نے پیار سے بگاڑ کر سارا کر دیا تھا۔ وہ سارا جو سیرت کی کالی اور زہریلی نکلی۔ 

رہے دا جی تو وہ اتنا ہی گرجے برسے تھے جتنا ان سے بھڑکا گیا تھا۔ ایک مرتبہ پھر سراج مینشن میں ان کی جلالی آواز گونجی تھی۔ 

سراج مینشن میں  موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔جب اس سناٹے کو چیرتا لاؤنج میں رکھا وائرلیس فون چنگھاڑ اٹھا تھا۔ ان سب کے فونز پر میسجز آئے تھے جب وہ سب ایک مرتبہ پھر لاؤنج میں اکھٹا ہو چکے تھے۔ سب کے دل دہل چکے تھے۔ چہروں پر خون نچڑ آیا تھا۔ 

بس مومی اور عرفہ اپنے اپنے کمروں میں  دبکی بیٹھیں تھیں۔ 

دا جی،  سلمیٰ،  شازیہ،  صدیقہ،  عمران اور فیضان اور سیام سب لاؤنج میں  چلے آئے تھے۔ سب کے چہرے فق تھے۔ 

 کیونکہ تابش تین دن کے بعد آج اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ لال انگارا چہرہ اور پھٹتی ہوئی تنی رگیں۔ اس نے آ کر فون اٹھا کر سپیکر پر ڈالا تھا۔نمبر بیرون ملک تھا۔ 

"سارا بول رہی ہوں، ملک تابش سراج مجھے طلاق کب دو گے،، سیرت کی آواز سراج مینشن کے لاؤنج میں  گونجی۔ شازیہ بیگم دوپٹہ میں منہ دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ کاش ایسی ناخلف، ناہنجار اور نافرمان اولاد کا گلا وہ پیدا ہوتے ہی گھونٹ دیتی تو آج یہ دن نہیں  دیکھنا پڑتا۔ 

میں  ملک تابش سراج بقائمی ہوش حواس ملک سیرت فیضان تم جسیی بنجارن بکھارن کو بھیک سمجھ کر طلاق دیتا ہوں، 

طلاق دیتا ہوں،  

طلاق دیتا ہوں،  

تابش سراج کی آواز بھی بھاری گونجدار تھی۔ وہ بول رہا تھا اور کسی نے بھی اس کو روکنے کی یا چپ کرانے کی کوشش ہی نہیں  کی تھی کہ سیرت جیسی لڑکیاں تابش جیسے شوہر ڈیزرو ہی نہیں  کرتیں ہیں۔ یہ الفاظ سن کر ایک مرتبہ تو فون کے دوسری جانب بھی موت کا سا سناٹا چھایا تھا۔ 

میں اور میرا خاندان دقیانوسی ہونے کے ساتھ ساتھ بہت غیرت مند بھی ہیں مس سیرت،  اسی لئے امید کرتا ہوں کہ آئندہ زندگی میں کبھی تم سراج مینشن کے اردگرد بھی نا پھٹکتی نظر ہمیں نہیں تو زندہ زمین میں  گاڑھ دی جاؤ گی، کبھی لوٹ کر مت آنا، زندگی تم پر حرام ہو جائے تب بھی نہیں یا زمانے کی ٹھوکروں میں  روند دی جاؤ تب بھی نہیں،، 

ملک تابش سراج کے لہجے میں  حقارت ہی حقارت تھی۔ سیرت کو آگ لگی۔ 

تم یو فضول انسان تم بددعائیں دے رہے ہو مجھے،،  وہ پھنکاری۔ 

نہیں تم جیسی چیپ، گھٹیا اور دو ٹکے کی لڑکی کو تمھارے جیسی ہی لڑکیوں کی حقیقت بتا رہا ہوں،،  

تابش نے بول کر کھٹاک سے فون رکھا تھا اور صوفے پر بیٹھتا چلا گیا۔ 

یہ، یہ ہے میرا نصیب،،  دا جی پھر دھاڑے تھے۔ 

پہلے بیٹی نے رسوا کیا،  زمانے کو منہ دکھانے کے لائق نا چھوڑا، آخر اسی کے نقشِ قدم پر چلتی ہوئی اب رہی سہی کسر پوتی پوری کر رہی ہے،  ارے میں نے تو کسی کا کبھی دل نہیں دکھایا کبھی کسی کا برا نہیں  کیا تو ہر بار میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں میرا سر جھکا دیا جاتا ہے،  کیوں میری ہی اولادوں نے میری زندگی حرام کر رکھی ہے ،، آخر قصور کیا ہے میرا،،  

دا جی برداشت نہیں  کر پائے تھے تبھی بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے۔ سلمیٰ بے تحاشا روتی ان کے قریب آئیں تھیں۔ ان کے آگے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے تھے۔ 

مجھے معاف کردیں دا جی خدا کے لئے مجھے معاف کر دیں،  میں  اپنے کیے ہر عمل پر پچھتائی ہوں،  آپ کا دل دکھا کر روئی ہوں مجھے معاف کر دیں،،  

وہ بھی رو پڑیں تھیں۔ 

دا جی نے سلمیٰ  کے جڑے ہاتھ تھام لیے تھے اور عرصہ دراز کے بعد  اپنی اجڑی برباد ہو چکی لخت جگر کو سینے سے لگا کر پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دئیے تھے۔ سلمیٰ نے بھی آج رو رو کر اپنا تمام غم غلط  کیا تھا۔ وہ تو آج تک یہی دعائیں مانگتی رہیں تھیں کہ الله کرے کہ کوئی بھی لڑکی ان کے نقشِ قدم پر چل کر خود کو بھیڑیوں کے حوالے کرتے برباد نا کرے مگر جو قسمت کو منظور۔ 

دا جی نے کافی دیر بعد سلمی کو خود سے الگ کیا تھا۔ 

سب سن لو، میں نے ایک فیصلہ کیا ہے جس پر آج، ابھی، اور اسی وقت عمل ہوگا،  نہیں  تو میرا مرا منہ دیکھو گے سب،، عمران فیضان مولوی صاحب کا بندوبست کرو، نکاح ہوں گے، رخصتی بچیوں کے زرا بڑے ہونے پر،  آج ہی،  مومی کا تابش کے ساتھ اور عرفہ کا سیام کے ساتھ،، 

دا جی نے اٹل لہجے میں  حتمی فیصلہ سنایا تھا۔

سلمیٰ نے صدمے سے گنگ دا جی کو دیکھا۔ اپنی معصوم سی گڑیا کا چہرہ آنکھوں کے آگے لہرایا۔ بےبسی کی انتہا سے پہلو بدلا۔ آج ہی تو سالوں بعد باپ نے سینے سے لگایا تھا۔ آج ہی ان کے حکم عدولی کیسے کر دیتیں۔ اور وہ بھائی جنھوں نے اس وقت انھیں سہارا دیا جب وہ مکمل برباد ہو چکی تھیں اس بھائی کا وہی بیٹا جو مکمل برباد ہو چکا تھا کیسے انکار کر کے احسان فراموشی کر دیتیں۔ 

تابش تو جیسے پتھر کا بت بنا بیٹھا تھا جس پر اب کبھی کسی چیز کا جیسے اثر ہونا ہی نہیں  تھا۔ 

(مگر سیام کے قدموں سے ضرور زمین کھسکی تھی۔ یہ کیا بول دیا تھا دا جی نے،  ابھی تو تابش کے کی آنکھوں میں  اپنی بہن کی وجہ سے خود کے لئے  بےپناہ نفرت محسوس کر رہا تھا کجا کہ اب اس کی بہن سے ہی نکاح کر لیتا،  اور بھلا ان کی عمر ہی کیا تھی،  بھلا اسے کیا دلچسپی تھی عرفہ سے، اس نے تو ہمیشہ اسے چھوٹی بہن ہی سمجھا تھا) 

مگر سمجھنے اور ہونے میں  بھی تو فرق ہوتا ہے ناں۔ 

سنیں دا جی، میں صرف ایک ہی شرط پر یہ نکاح کروں گا، کہ مومی کو اپنی آئندہ کی زندگی میرے تابع رہ کر گزارنی پڑے گی،  وہ ہنسے گی تو میری مرضی سے،  روئے گی تو میری مرضی سے،  حتی کے سانس بھی لے گی تو میری مرضی سے،  کہیں آنا جانا،  اٹھنا بیٹھنا سب میری مرضی سے ہوگا،  مومی کا بھی اور یہ قوائد وضوابط عرفہ پر بھی لاگو ہوں گے،،  

تابش کہہ کر خاموش ہوا تھا۔اس کی آنکھوں میں  خون اترا ہوا تھا۔ سلمیٰ بیگم نے پہلو بدلا۔ بولنے کو منہ کھولا کہ سراسر ان کی معصوم بچی پر ظلم ہے۔ مگر دا جی نے ہاتھ اٹھا کر انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ 

عمران،  فیضان نکاح کی تیاری کرو،،  دا جی بول اپنے کمرے میں  گئے تھے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

میں یہ نکاح ہر گز نہیں  کروں گا،تماشا ہے کیا؟ سمجھ کیا رکھا ہے آپ لوگوں نے یہ مزاق ہے ہمارا یا گڈے گڈی کا کھیل،،  سیام چلایا اور کمرے کی تمام چیزیں تہس نہس کیں تھیں۔ 

چٹاخ،،،،،،،،،،، 

سیام کو شازیہ بیگم سے ایک زناٹے دار تھپڑ پڑا تھا۔ 

تماشا تو تمھاری بہن نے بنا دیا ہے ہمارا،  اب رہی سہی کسر تم پوری کر دو،  اب خدا کے لئے سیام یا دا جی کا حکم مانتے ہوئے یہ نکاح کر لو یا مجھے اور اپنے باپ کو تھوڑا تھوڑا زہر لا دو،  تاکہ ہم مریں اور ہماری ایک مرتبہ ہی اس نافرمان اولاد سے جان چھوٹ جائے جو جانے کون سے گناہوں کی سزا دے رہی ہے ہمیں،،  

شازیہ بیگم پھٹ پڑیں تھیں۔ اب تو رو رو کر آنکھیں بھی خشک ہو چکیں تھیں۔ اور سیام کے پاس کچھ اور کہنے کو یا مزید احتجاج کرنے کو کچھ بچا ہی نا تھا۔ 

ادھر عرفہ اپنی قسمت کے کیے جانے والے اس فیصلے پہ حیران پریشان تو تھی مگر بلکل خاموش تھی کہ اس میں اتنی سمجھ بوجھ تو تھی کہ گھر میں  کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے۔ 

مگر مومی حران پریشان سی گھر میں ہوئی اس غیر معمولی ہلچل پر حران سی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مما یہ کیا ہے،، کچھ ہی دیر بعد سلمیٰ بیگم نے نم آنکھیں لیے مومی کو سرخ پوشاک زیب تن کروائی تھی۔ 

"جو کچھ بھی ہے میری بچی، ہمیں دا جی کی مات ماننی ہے ابھی دا جی کے ساتھ ایک انکل آئیں گے وہ آپ سے جو بھی پوچھیں آپ نے یس بولنا ہے اور جہاں وہ بولیں ادھر سائن کر دینے ہیں،  میں آپ کی مما ہوں آپ کی ولی مطلب آپ کی گارڈین تو جو کچھ میں نے کہا ہے آپ نے وہی کرنا ہے،،  

سلمیٰ بیگم نے اس کو اس کی سمجھ بوجھ کے مطابق اچھے سے سمجھا دیا تھا۔ وہ معصومیت سے سر ہلاتی گئی یہ جانے کہ بغیر کہ اس یس کے بعد اور سائن کرنے کے بعد اس کی زندگی پرخار راہوں کی ڈگرپر گامزن ہونے والی ہے۔ اسے سانس بھی کسی کی مرضی کے مطابق لینا ہوگا۔ 

مومی اور عرفہ سلمیٰ کے روم میں  تھیں۔ کچھ ہی دیر بعد دا جی،  عمران اور فیضان کے ساتھ مولوی صاحب اندر آئے تھے۔ 

پہلے عرفہ کی رضامندی اور سئن لیے گئے پھر مومی سے۔ باہر بھی ایجاب وقبول کا مرحلہ طے پا گیا۔ 

ہر طرف مبارک باد کا شور سا اٹھا تھا۔ ملک تابش سراج کے وحشت سے بھر پور چہرے پر خطرناک قسم کی سنجیدگی طاری تھی۔ جبکہ سیام کا چہرہ بھی دیکھنے لائق تھا بڑی مشکل سے ضبط کیے بیٹھا رہا۔ 

سیکھ لے ہم سے کوئی ضبط جنوں کے انداز 

برسوں پابند رہے پر نہ ہلائی زنجیر

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ فرہاد کے ساتھ دوسرے دن مانچسٹر چلی آئی تھی۔ ایک چھوٹا سا کاٹیج تھا جہاں انھیں رہنا تھا یہ سپنوں کی دنیا تھی۔ اگلے دن ہی وہ یونی بھی دیکھ آئی تھی۔ اور ملک تابش سراج سے طلاق بھی مل گئی تھی۔ اب کیا چاہیے تھا کچھ بھی نہیں۔ 

اب بس سپنوں نے اڑان بھرنی تھی۔ 

وہ کاٹیج میں اپنے روم میں  اپنے بیڈ پر بیٹھی خیالوں کی دنیا میں  کھوئی مسکرا رہی تھی جب فرہاد کاظمی کھانے کی ٹرے لیے مسکراتے اندر داخل ہوا اور آ کر اس کے سامنے بیٹھا۔ 

خوش ہو؟  سو کالڈ پابندیوں اور گھٹن سے آزاد ہو کر؟  

ہاں بہہہہہہہہہت،،، وہ آنکھیں بند کر کہ ایک جزب سے بولی۔ 

کوئی پچھتاوا یا کوئی کسک میں،،  فرہاد نے اس ٹٹولا۔ 

بلکل نہیں،  زرا برابر بھی نہیں  وہ ڈیزرو کرتے تھے اسے،،  وہ لاپروائی سے کہتی اس کے ساتھ کھانا کھانے لگی۔ 

سنو فرہاد،  

اونہہہ،،،  

ہم نکاح کب کریں گے،،  سیرت مدعے پر آئی۔ 

فرہاد کاظمی بے تحاشا چونکا تھا۔ 

اففففف یار،، سانس تو لو،  کیا پاکستانی ٹیپکل عورتوں کی طرح آتے ساتھ ہی یہ نکاح شادی کی بات لے کر بیٹھ گئی ہو،  تم یہاں ڈاکٹر بننے آئی ہو یا بچے پیدا کرنے،،  فرہاد کا لہجے میں عجیب چبھن سی تھی۔ سیرت جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔ 

اوکے سوری،  میں  اپنی یونی پر کونسٹریٹ کرتی ہوں،،  وہ صلح جو لہجے میں  بولی۔ 

اونہہہ گڈ،،  اس نے ہنکارا بھرتے کھانے پر توجہ دی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ایک ہفتہ ہو چکا تھا مومی اپنے گھر کی روٹین اور ماحول سے فل بیزار، اب اکتا چکی تھی۔ 

فیضان اور شازیہ بیگم اپنے پورشن میں  ہی رہتے ۔ سیام نے ہفتے بھر سے شکل نہیں  دکھائی تھی۔ عرفہ بھی اپنے کمرے میں  بند رہتی۔ وہ پورے سراج مینشن میں  بولائی بولائی پھر رہی تھی۔ 

یہ آخر سب کو ہو گیا تھا۔ 

تاشو بھی تو جانے کہاں گم تھا اتنے دن سے۔ 

تبھی زہن میں  جھماکا ہوا۔ کیوں نا پڑھائی کے بہانے تاشو کے پاس جایا جائے اور اس سے آئیسکریم کے لئے  کہا جائے۔ 

پہلے بھی تو جب جب وہ بولتی تھی عرفہ کی بھی عید ہو جاتی۔ تاشو اس کے منہ سے نکلتے ہی اسے اور عرفہ کو آئسکریم کھلانے لے جاتا تھا۔ 

وہ ہاتھوں میں بکس تھامے تاشو کے روم میں  داخل ہوئی تھی۔ شام کا وقت تھا۔ واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ تاشو یقیناََ فریش ہو رہا ہوگا۔ 

وہ صوفے پر بیٹھ کر ببل گم چباتی پاوں جھلا کر ویٹ کرنے لگی۔ ٹی پنک ٹی شرٹ کے نیچے بلو جینز کی پینٹ پہنے۔ میگی نوڈلز کی پونی ٹیل بنائے وہ اب روم میں  ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ 

تابش ٹاول سے بال رگڑتا باہر آیا تھا اور اپنے روم میں مومی کو بیٹھے دیکھ حیرت کا جھٹکا سا لگا۔ حالانکہ یہ اس کے لئے حیرت کی بات تھی مومی کے لئے نہیں۔ 

مومنہ کیا کر رہی ہو یہاں، بغیر پرمیشن لیے کیوں آئی میرے روم میں،،  اس نے خطرناک حد تک سنجیدگی سے پوچھا تو مومی کی بڑی بڑی براؤن آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھیں کہ وہ کب سے مونا سے مومنہ بنی۔ 

تاشو مجھے پڑھا دیں ناں،،  یہ میتھس،،  

شٹ اپ مومنہ،، جسٹ شٹ اپ،خبردار مجھے اس فضول نام سے پکارا ،  وہ دھاڑا۔ وہ اچھل کر صوفے سے کھڑی ہوئی تھی۔ 

تو کیا جس طرح ڈانٹ رہے ہیں گبّر کہوں آپ کو،، وہ کڑوے کڑوے منہ بناتی کیوٹ سے انداز میں  بولی اور جلتی پر جیسے تیل ڈال گئی۔ اور جب کھڑی ہوئی تو تابش کو اس کے لباس نے سر تا پا جھلسا ڈالا تھا۔ 

گیٹ لاسٹ مومنہ،،  دفع ہو جاؤ میرے روم سے،، 

وہ دھاڑا تھا اور مومی کو اس کا بلاوجہ چیخنا چلانا سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ 

لیکن مجھے پڑھنا،،  

اس کے الفاظ منہ میں  ہی دم توڑ چکے تھے جب وہ دانت پیستا اس کی جانب لپکا۔ اسے بازو سے پکڑ کر سلمیٰ بیگم کے روم میں لایا تھا۔ 

لا کر بہت بری طرح ایک جھٹکے سے اس بیڈ پر پٹخا تھا۔ سلمیٰ بیگم حیران ہوئیں۔ 

کیا ہوا تابش یہ کیا،،؟  

پھپھو اس کے پاس ڈھنگ کا لباس نہیں ہے کیا؟  آئندہ میں اسے یا عرفہ کو ایسے بےہودہ لباس میں  نا دیکھوں، امی کو بھی بتا دیجئے گا،  نہیں تو لباس سمیت آگ لگا دوں گا،،  

وہ کہتا تن فن کرتا وہاں سے نکلا تھا۔ 

سلمیٰ بیگم کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اور مومی نے بے تحاشا حیرت سے اپنا یوں پٹخا جانا ملاحظہ کیا تھا۔ اس کا سر بیڈ کراؤن سے لگتے لگتے بچا تھا۔ 

ان سے اور مجھ سے یہی شرطِ وفا ٹھہری ہے

وہ ستم ڈھائیں مگر،،،،،،،، ان کو ستمگر نا کہوں

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤

زندگی،،،،،،، جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے 

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں 

سراج مینشن میں  حسبِ معمول سناٹا چھایا ہوا تھا۔ مومی اور عرفہ کو فیضان اب گاڑی میں اسکول چھوڑ کر آتے تھے۔ تین ماہ ہو چکے تھے سراج مینشن کی خوشیوں اور شرارتوں کو جیسے کسی کی نظرِ بد لگ چکی تھی۔ اور تین ماہ ہی ہو چکے تھے ان دونوں پر زندگی بے تحاشا تنگ کر دی گئی تھی۔ اب تو سراج مینشن میں  گھٹ گھٹ کر جیتے سانس بھی سوچ سمجھ کر لینا پڑتا تھا کہ کہیں سانس کی آواز بھی کسی کو سنائی دی اور لو جی پڑ گئی ڈانٹ پھٹکار۔ 

وہ سکول پہنچی تھیں ۔ عرفہ اپنی کلاس میں  چلی گئی۔ مومی بے تحاشا خوش تھی۔ کیونکہ اس کی بیسٹ فرینڈ دیبا کا برتھ ڈے تھا۔ وہ اسے وش کر چکی تھی اور گفٹ بھی دے چکی تھی۔ 

دیبا بے تحاشا امیر ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی اور آج اس کے گھر میں  برتھ ڈے پارٹی تھی۔ اس کے پاپا دیبا کو ہاف ٹائم میں  لینے آئے تھے۔ کسی پرسنل وجہ سے پارٹی جلدی ہی آرگنائز کی گئی تھی۔ 

دیبا مومی کو بھی ساتھ چلنے کے لئے بے حد ضد کرنے لگی۔۔ مومنہ تذبذب کا شکار تھی۔ اور پھر اس نے تاشو کی ڈانٹ کی وجہ سے انکار کر دیا۔ مگر دیبا اپنے پاپا کے سامنے ضد کرنے لگی تو پرنسپل نے سلمیٰ بیگم کو میسج کیا۔ 

مومنہ بیٹا میں  نے آپ کی مدر کو میسج کر دیا ہے۔اب آپ چلی جائیں،  دیبا بول جو رہی ہے کہ وہ چھٹی ہونے سے پہلے آپ کو چھوڑ جائے گی،، یوں بھی آج کلر ڈے ہے تو پڑھائی کا بھی اتنا حرج نہیں ہونا،،  پرنسپل نے کہا تو ناچار مومی کو دیبا کے ساتھ آنا ہی پڑا۔ 

 مومنہ گاڑی میں بیٹھی رنگ برنگے منہ بنا رہی تھی۔ 

کیا دیبا اب کیا میں  سکول یونیفارم میں پارٹی اٹینڈ کروں گی،،  مومی نے اسے جھڑکا تو دیبا کے پاپا مسکرائے۔ 

بیٹا آپ دیبا کا ہی کوئی ڈریس پہن لینا،،  پریشان نا ہوں۔ 

گھر قریب تھا تو جلد ہی پہنچ گئے۔ دیبا نے اسے اپنا ایک ڈریس دیا جو کہ فیروزی کلر کی باربی فراک تھی۔

پارٹی بہت شاندار تھی۔ مومی نے بہت انجوائے کیا۔  اور اب پارٹی کے اختتام پر مومی نے اس کی جان کھا رکھی تھی کہ اسے سکول چھوڑ کر آئے کیونکہ چھٹی کا ٹائم ہو چکا تھا۔۔ 

ناچار دیبا نے اس کا احساس کیا اور اپنی پارٹی چھوڑ کر اسے سکول تک چھوڑنے آئی تھی مومی نے یونیفارم بھی نہیں پہنا تھا اور یونہی اسی ڈریس میں چلی آئی۔ 

مگر یہ مومی کی بدقسمتی تھی کہ آج انھیں لینے ملک تابش سراج آیا تھا۔ مومی کو اس ڈریس میں  ایک گاڑی سے اترتے دیکھ اس کی آنکھوں میں  خون اتر آیا تھا۔ جسے دیکھ مومی بری طرح ڈر گئی تھی۔عرفہ بھی باہر آئی تھی اور اسے ایسے دیکھ دنگ رہ گئی۔ 

تابش نپے تلے قدم اٹھاتا مومی تک آیا تھا۔ 

کدھر گئیں تھیں مومنہ،؟  ایک ان دیکھی جھلساتی آگ اور آنچ سی تھی اس کے پھنکارتے لہجے میں۔ 

مومی کی زبان تالو سے چپک چکی تھی۔ 

دیبا ہی آگے آئی۔ 

یہ میرے ساتھ میری برتھ ڈے پارٹی میں گئی تھی تاشو بھائی، پرنسپل اور آنٹی سلمیٰ کی اجازت سے،، 

مومنہ گاڑی میں  بیٹھو جا کر،،  وہ لہو چھلکاتے چہرے سے بولا تھا۔ 

وہ مم،،  میرا بیگ اندر،، 

شٹ اپ مومنہ،،  سنا نہیں میں نے کیا کہا تمھیں،،  وہ دھاڑا تو کافی لڑکیاں ان کی جانب متوجہ ہوئیں۔ مومنہ لوگوں کے مخالف گروپ کی لڑکیوں نے حقارت آمیز نگاہوں سے اسے دیکھا جس سے مومی کو بے حد انسلٹ فیل ہوئی تھی۔ وہ بھاگ کر جا کر گاڑی میں  بیٹھی تھی۔ 

تابش پرنسپل کے آفس گیا تھا۔ اور پرنسپل کی شامت ہی آئی تھی۔ 

آپ کی ہمت کیسے ہوئی بغیر پرمیشن کے ہمارے گھر کی بچی ک کسی کے ساتھ بھیجنے کی ، امیر ہونے کا کیا مطلب ہے کہ شرافت کا سرٹیفکیٹ مل گیا ان کو، اگر مومنہ کو زرا بھر بھی نقصان پہنچتا تو کیا آپ زمہ دار تھیں اس چیز کی،،  اس کا سنجیدہ لہجہ کاٹ دار تھا۔ 

میں نے سلمیٰ بیگم کو کیا تھا میسج،،  پرنسپل گڑبڑا اٹھیں تھیں کیونکہ ان کے پاس تابش کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ 

ان کا رپلائے میں آیا میسج دکھائیں مجھے جس میں پھپھو نے یس بول کر پرمیشن دی ہو آپ کو،،  

اب پھر تابش کے سوال کا جواب نہیں  تھا پرنسپل کے پاس،  

آئی سوری مسٹر تابش، اٹس مائی فالٹ،  آئندہ یہ مسٹیک دوبارہ نہیں  ہو گی،،  پرنسپل کو سوری بول کر ہی جان چھڑانے پڑی تھی۔ 

اٹس اوکے،،  وہ بول کر باہر آیا۔ پیون نے اسے مومی کا بیگ لا کر دیا۔ 

اس کے باجود اس کا پورا وجود جھلس رہا تھا۔ 

آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر دھاڑ سے ڈور لگایا تھا۔ 

مومی سہمی سی اچھل کر گاڑی کے ڈور سے لگی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ سر جھکائے مجرموں کی طرح لاؤنج میں کھڑی تھی سب موجود تھے۔اور اس سے کچھ بھی سنے بغیر اس کی دھواں دھار انسلٹ ہو رہی تھی۔ 

ملک تابش سراج خوب گرج برس رہا تھا اس پر۔ 

اور وہ مسلسل روئے جا رہی تھی۔ 

میں نے تو انکار کیا تھا مما،،  پرنسپل میم نے زبردستی بھیج دیا مجھے ،، وہ سلمیٰ بیگم کی جانب دیکھتی بولی۔ سلمیٰ نے جانتے بوجھتے نگاہیں چرا لیں۔ 

یو شٹ مومنہ چھوٹی بچی ہو کیا تم نے سختی سے انکار کر دینا تھا اور اپنی فرینڈ کو کیوں نہیں منع کیا، 

تو کیا ہوا تاشو اگر میں  چلی گئی تو پرمیشن سے ہی گئی،،،،، 

چٹاخ،،،،  

تابش کا ہاتھ اٹھا تھا اور مومی کو پہلی مرتبہ کسی سے زناٹے دار تھپڑ رسید ہوا تھا۔ وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے گال پر ہاتھ رکھے تابش کو دیکھ رہی تھی کہ اس سے آخر ایسا کونسا جرم سرزد ہو گیا تھا۔ 

خبردار،  خبردار آئندہ تم کبھی بھی کسی کے بھی گھر نہیں جاؤ گی مومنہ، یہ میں پہلی اور آخری دفعہ بول رہا ہوں آئندہ منہ سے نہیں  بولوں گا وہیں زمین میں  زندہ گاڑھ دوں گا تمھیں،، اگر میری بات کی خلاف ورزی کی سمجھیں،  اچھی طرح  اپنے دماغ میں  بٹھا لو یہ بات،، کبھی باہر قدم نہیں نکالو گی تم اور عرفہ ، نا سکول سے نا گھر سے،  سمجھ لو اچھی طرح،،  تمھاری عافیت اسی میں ہی ہے کہ تم اپنے روم تک محدود رہو،  اور یہ بات تم جتنی جلدی سمجھو گی،  تمھارے لئے اتنا زیادہ بہتر ہے،،  

وہ کہتا وہاں سے اپنے کمرے میں  چلا گیا تھا۔ 

مومی کا صدمہ سے برا حال تھا وہ تو اس قدر سلجھی ہوئی اور سوبر بچی تھی کہ اس نے کہاں کھائی تھی مار کسی سے۔ اور پھر وہ بے تحاشا روئی تھی۔ اتنا روئی کے رات تک ایک سو دو بخار ہو چکا تھا اسے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عرفہ صدیقہ بیگم کے کہنے پر ڈروتی جھجھکتی بریانی کا ڈونگا ہاتھ میں  تھامے دوسرے پورشن میں آئی تھی۔ اتنے ماہ گزر چکے تھے۔ مگر سیام کا غصہ شاید اب بھی کم نہیں  ہوا تھا۔ تبھی وہ اس کے اس پورشن میں آیا ہی نہیں۔ عرفہ بھی تب ہی آتی تھی جب اس بات کا پکا یقین ہو کہ وہ سڑا بینگن گھر پر نہیں ہے۔ تبھی وہ ادھر آئی تھی۔ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ 

وہ ڈونگا کچن کی سلیب پر رکھتی باہر آ رہی تھی جب کسی چٹان سے ٹکرائی۔ سیام کے ماتھے پر ان گنت بل پڑے تھے۔ وہ جو بہن کی وجہ سے شرمندہ تھا اندر ہی اندر گھٹ رہا تھا۔ سارا غم و غصہ جیسے اس معصوم جان پر نکال دینا چاہتا تھا۔ 

کیا کر رہی ہو یہاں تم، کیا لینے آئی ہو، ؟ سوال کافی چبھتے سے لہجے میں پوچھا گیا۔ عرفہ خواہ مخواہ شرمندہ ہوئی۔ اور دامن بچا کر اس کے پہلو سے ہو کر نکلنا چاہا۔ 

سامنے والے کو یہ بھی کہاں گوارا ہوا بھنا کر اس کی کلائی دبوچی تھی۔ 

تمھاری ہمت کیسے ہوئی بغیر میری بات کا جواب دئیے یہاں سے جانے کی،  جواب دو کیوں آئی تھیں یہاں،،  

امی نے بھیجا تھا بریانی دینے ،، وہی لے کر آئی تھی۔ وہ بری طرح مزاحمت کرتی نا چاہتے ہوئے بھی بھرائے ہوئے لہجے بولی۔ 

ٹھیک،  تو آئندہ کے لئے  کان کھول کر سن لو مس عرفہ، اس پورشن میں پیر بھی نا رکھنا نل،  نہیں  تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا، سمجھیں تم،، سیام نے پھنکار کر کہتے جھٹکے سے اس کی کلائی چھوڑی تھی۔ اور خود لمبے لمبے ڈگ بھرتا جا کر اپنے کمرے میں  بند ہو گیا تھا۔ 

وہ روتی بلکتی اپنے پورشن میں آئی تھی۔ کبھی بھی دوسرے پورشن میں  نا جانے کے لئے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سیرت اپنے کمرے میں بیٹھی ضروری نوٹس بنا رہی تھی۔ جب کچھ غیر معمولی محسوس ہوا۔ باہر ایک شورشرابا اور ہنگامہ سا تھا۔ 

وہ حیرت زدہ سی ہو کر باہر آئی تو باہر کچھ اجنبی لوگوں ک دیکھ حیران ہوئی۔ جنھوں نے باہر ہنگامہ مچا رکھا تھا۔ اور ان سب کے بیچ فرہاد کاظمی مجرموں کی طرح سر جھکائے۔ 

ابھی وہ حیران بھی سہی طرح نہیں ہو پائی تھی کہ ایک کرخت سے چہرے والی عورت اس کی جانب لپکی اور سیرت کے چہرے پر تھپڑوں کی برسات کی تھی۔ 

تمھاری ہمت کیسے ہوئی حرافہ،  بازارو عورت میرے شوہر فرہاد پر ڈورے ڈالنے کی ، منہ مارنے کے لئے  تمھیں کوئی اور نہیں ملا یا کوئی اور پیسے والا،  پاکستان کے کس بازار سے لے کر آیا ہے یا گھٹیا دل پھینک آدمی تمھیں بتاؤ زرا مجھے،  کتنے پیسے لئے ہیں اپنی عزت کا سودا کر کے،  مجھے بتاؤ،  میں  تمھارے منہ پر ماروں وہ پیسے مگر میرے شوہر کی زندگی سے دفعہ ہو جاؤ، بازارو عورت،،  

وہ جانے کون تھی اور کیا کیا مغلظات بک رہی تھی۔ مگر سیرت کی سانس تو میرا شوہر لفظ پر اٹکی تھی۔ 

یہ اسے فرہاد کاظمی کی جانب سے ملنے والا پہلا تحفہ تھا۔ وہ بے یقینی سے فرہاد کو دیکھ رہی تھی۔ جس کے ماتھے پر شکن تک نا آئی تھی اس کے چہرے پر تھپڑوں کی بوچھاڑ دیکھ کر بھی۔ 

محلہ میں  شور غوغا اٹھا تو کسی نے پولیس بلا لی تھی۔ 

وہ سب فرہاد کے ماں، باپ،  بیوی اور بچے تھے۔ جنھیں پولیس نے ٹال کر واپس بھیج دیا تھا۔ 

فرہاد کاظمی پولیس سے نمٹ کر سکتے میں  گئی سیرت کی جانب بڑھا تھا۔ جب سیرت کو ہوش آیا اس نے جھٹکے سے خود کو کمرے میں بند کر کے دھاڑ سے دروازہ بند کیا تھا۔ 

دروازے سے لگ کر روتی وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی تھی۔ اپنی بربادی کا ماتم منانے کے لئے۔ 

تم مجھے چھوڑ گئے تھے وہ تمھیں چھوڑ گیا

اس کو کہتے ہیں میری جان ،،مکافات کا دکھ

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اور پھر مومنہ اور عرفہ کا سب کچھ ان کے ہاتھوں سے چھوٹتا چلا گیا۔ 

عرفہ تھوڑی سمجھدار تھی۔ کسی طرح کمپرومائز کر ہی لیا۔ 

مگر مومی،  وہ قیدِ تنہائی کا شکار ہو چکی تھی۔ اس قدر پابندیاں، 

اس قدر گھٹن زدہ ماحول، 

نا کھیلنے کودنے کی اجازت۔ نا اونچا بولنے  کی نا قہقہے لگانے کی۔ 

بس سکول کالج سے آتے ہی اپنے کمروں میں  قید ہو جاؤ۔ 

تمام دوستوں نے اس سے دوستی ختم کر لی۔

دوستی ہو بھی جاتی۔ وہ مومنہ کے گھر آتیں۔ مگر جب یہ جانے سے صاف انکار کر دیتی تو وہ پیچھے ہٹنے لگتیں۔ اسی طرح کسی نے بھی اس سے مستقل دوستی نا رکھی۔ 

فون رکھمے کی پرمیشن بھی نہیں  دی گئی تھی انہیں۔ 

مومنہ کے لئے اب تاشو صرف ملک تابش سراج تھا۔ 

جس سے اب اسے نفرت اور گھن محسوس ہوتی تھی۔ 

جس سے اس نے بس نفرت کی تھی۔ 

نفرت کرنی تھی۔ 

آج بھی،  کل بھی،  پرسوں اور برسوں ۔ 

دن مہینوں اور مہینے سالوں میں  بدل گئے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

چار سال گزر گئے تھے۔ ملک تابش سراج نے ایم بی اے میں ٹاپ کیا تھا۔ اور اپنا بزنس سٹارٹ کر چکا تھا۔ وقت کے ساتھ وہ اور زیادہ ہینڈسم بے تحاشا مردانہ وجاہت کا شہکار بن شکا تھا۔ 

سیام اب بی.کام کے لاسٹ ائیر میں  تھا۔ اور پہلے سے بھی زیادہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔ عرفہ ایف ایس سی میں  تھی۔ سنجیدگی اور خوبصورتی میں اضافہ ہوا تھا۔ وہ ایک گرلز کالج میں  ہی پڑھتی تھی۔  

اور مومی سائنس کے ساتھ میٹرک میں اے پلس کے ساتھ پاس ہو چکی تھی۔ وقت کے ساتھ وہ مزید باربی ڈول بن گئی تھی۔ شفاف معصوم اور بےاختیار حسن۔ ہاں بس یہ فرق پڑا تھا کہ سر پر موجود براؤن کرلی بالوں کی آبشار بلکہ میگی نوڈلز اب کمر سے نیچے تک جھولتے تھے۔ 

اس کے گریڈز اتنے بہترین تھے کہ ایک میڈیکل کالج نے خود اسے سکالر شپ پر ایڈمیشن دینے کی آفر کی تھی۔ 

آج کے دن وہ بہت خوش تھی۔ بہت زیادہ۔ اسے میڈیکل میں  جانا تھا۔ اپنا خواب پورا کرنا تھا۔ اسے ہارٹ سرجن بننا تھا۔ 

سب ڈنر کر رہے تھے۔ مومی کے اتنے اچھے بنمر لانے پر آج سلمیٰ بیگم نے خاص اہتمام کیا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ آج خلافِ معمول چہک رہی تھی۔

مگر سامنے بیٹھے ایک شخص کا ایک ایک زخم ایک ایک بخیہ ادھیڑ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خون اترچکا تھا۔ایک تو زخم ادھڑ رہے تھے دوسرا اس کالج کے بلکل سامنے بوائز میڈیکل کالج تھا۔ 

مگر مومی اس سب سے بے نیاز تھی۔ 

آپ کو پتا ہے امی،  وہ میڈیکل کالج شہر کا سب سے اچھا میڈیکل کالج ہے،، اور

مومنہ تم اس کالج میں نہیں جاؤ گی تم اسی کالج میں جاؤ گی جہاں عرفہ جاتی ہے،، ملک تابش سراج کی مصروف بھاری آواز ڈائننگ ہال میں  گونجی تھی۔ مومنہ کے تلؤؤں پر لگی اور سر پر بجھی تھی۔ اس بندے کو جانے کیا چڑ تھی اس کی خوشیوں ؟ کیا بیر باندھ کر بیٹھا تھا وہ اس سے؟ کس جنم کے گناہوں کا بدلہ لے رہا تھا اس سے۔ مومی کی آواز بلند تھی آج۔ 

مگر،،  

This is my last decision,,, 

تابش نے اس کی بات کاٹتے حتمی لہجے میں کہا تھا۔ 

آپ ہوتے کون ہیں میری زندگی کے فیصلے لینے والے ابھی میری ماں زندہ ہے،  امی آپ کریں گی یہ فیصلہ،،

آج مومی کے تیکھے لہجے میں  اسے برسوں پرانی ایک بغاوت کی جھلک دکھی تھی۔ تبھی وہ جارحانہ تیور لیے اپنی جگہ سے اٹھ کر اس تک آیا تھا۔ 

چٹاخ،،،،، 

چٹاخ،،،،،،،،،،،،،،،، 

ہو گیا فیصلہ، اب اس سے پہلے میں  تمھاری ٹانگیں توڑ دوں مومنہ جاؤ اپنے کمرے میں،،  وہ حکق کے بل چلایا تھا۔ مومنہ نے پھر گال پر ہاتھ رکھ کر ماں کی جانب دیکھا تھا۔ جو نم آنکھیں لیے پہلو بدل کر اس کی جانب سے رخ پھیر گئی۔ 

مومنہ اپنے کمرے میں بند ہوئی تھی آ کر۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات گئے تک اس کی دلدوز ہچکیاں سراج مینشن میں  گونجتی رہیں تھیں۔ جو کوئی بڑی توجہ سے سنتا رہا تھا۔ 

رات کا جانے کونسا پہر تھا۔جب ملگجے انھیرے میں ایک ہیولہ کلک سے ڈبلی کیٹ چابی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔ ہچکیوں سے نڈھال ہو کر وہ گہری نیند سو چکی تھی۔ کمرے میں  اندھیرا تھا مگر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر جلتے لیمپ کی مدھم ییلو روشنی آس پاس بکھر  رہی تھی۔ 

تاشو آہستگی سے چلتا بیڈ کے قریب آیا تھا۔ پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے وہ اسے بغور دیکھے گیا۔ 

مونا،،،،،  لبوں نے وا ہو کر ہلکے سے پکارا۔ 

اس وقت وہ صرف اور صرف تاشو تھا۔ مونا کا تاشو۔ اور وہ اس کی نوڈلز گرل مونا،  اس کی مومی گڑیا۔ 

رو رو کر سوجی آنکھیں، سرخ چھوٹی سی ناک،  گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح سرخ ہونٹ۔

وہ اس کے سرہانے بیٹھ گیا تھا۔ 

سیرت تو اس کی پسند تھی۔ جس پر اس نے اندھا اعتبار کیا تھا۔ مگر وہ واقعی اسے اندھا ثابت کر کے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ 

مگر مونا۔ 

مونا سے تو تاشو نے عشق کیا تھا۔ جانے کب کا،  جانے کب سے۔ تبھی تو وہ عرصہ دراز سے رات کے اس پہر اس کے روم میں  چلا آتا تھا۔ اسمِ محبت کا ورد کرتے۔ عشق عشق پکارتے۔ 

تابش نے اس کے چہرے سے کرلی بالوں کی چند شراتی لٹیں آہستگی سے پیچھے کیں۔ 

میری قسمت کے ہر اک پَنّے پہ 

میرے جیتے جی بعد مرنے کے 

میرے ہر کل ہر اک لمحے میں 

تو لکھ دے میرا اسے 

ہر کہانی میں، سارے قصوں میں 

دل کی دنیا کے سچے رشتوں میں

زندگانی کے سارے حصوں میں 

تو لکھ دے میرا اسے 

اے خدا اے خداا۔۔۔!!

جب بنا اسکا ہی بنا

وہ اس کے معصوم چہرے پر نگاہیں جمائے دل میں  اسی اونچی بہت اونچی مسند پر بٹھائے اس سے دل میں ہی مخاطب تھا۔ 

مونا آج خود سے نفرت کرنے کے لئے میں نے تمھیں ایک اور وجہ دے دی ہے ناں۔ مگر کیا کروں میرا مسئلہ تو یہی ہے کہ تمھیں خود سے دور جانے کی کوئی بھی وجہ نہیں دے سکتا۔ اپنے آخری سانس تک مونا کو تاشو کے ساتھ رہنا ہے ۔ اس کے پاس،  اس کی دسترس میں بہت قریب۔ 

تاشو نے آہستگی سے اس کے بالوں میں  ہاتھ پھیرا تھا۔ 

اس کا ہوں،  اس میں ہوں 

اس سے ہوں ،، اسی کا رہنے دے

میں تو پیاسا ہوں 

ہے دریا وہ،  زریعہ وہ 

وہ جینے کا مرے 

مجھے گھر دے، گلی دے، شہر دے 

اسی کے نام کے 

قدم یہ چلیں یا رکیں اب اسی کے واسطے

دل مجھے دے اگر 

درد دے اسکا پر 

اسکی ہو وہ ہنسی 

گونجے جو میرا گھر 

اے خدا اے خدا 

جب بنا اسکا ہی بنا 

جانتی ہو تاشو کس کے سہارے زندہ ہے۔ بس اس آس کے کہ ایک دن تم میرے پاس چلی آؤ گی۔ 

تمھاری نفرت کا سوچتا ہوں تو دل دہل جاتا ہے۔ مگر جانتی ہو کیا؟  مجھے میرے جنون،  عشق ، محبت پر اتنا بھروسہ ہے اتنا ایمان ہے کہ جانتا ہوں تمھاری یہ نفرت میرے عشق سے ٹکرائے گی تو بھر بھری ریت کی طرح بکھر کر پاش پاش ہو جائے گی۔ میں تمہیں اتنی محبت دوں گا اتنا پیار کروں گا کہ تم دنیا بھلا دو گی۔ تمہیں تکلیف بھی تو تبھی دیتا ہوں ناں کہ تمھاری ہنسی، اشکوں پر خوشیوں اور زخموں تک پر صرف اور صرف تاشو کا حق ہے،، سچی میری میگی نوڈلز والی مومی گڑیا،، 

وہ اپنی ہی سوچ پر مسکرایا۔ 

میرے حصے کی خوشی کو 

ہنسی کو تو چاہے  آدھا کر 

چاہے لے لے تو میری زندگی 

پر یہ مجھ سے وعدہ کر 

اسکے اشکوں پہ غموں پہ ،،

 دکھوں پہ ہر اسکے زخموں پر 

حق میرا کی رہے ہر جگہ

 ہر گھڑی ہاں عمر بھر ۔۔۔

اب  فقط ہو یہی وہ رہے مجھ میں ہی 

ہو جدا کہنے کو 

بچھڑے نا پر کبھی 

اے خدا ،، اے خدا 

جب بنا اُسکا ہی بنا 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ  دکھ بھی دے تو کر نہیں سکتی اسے  جدا 

لپٹی  ہوئی  بدن  سے  یہ  آکاس  بیل  ہے 

 حاصل  ہوئی تو  چیز کی وقعت  نہیں رہی 

جس گھر میں قید ہوں وہ رشتوں کی جیل ھے

 سنو عرفہ تمھاری چھوٹی مما نے سالن منگوایا ہے یہ ڈونگا اٹھاؤ اور فورا دے کر آؤ،، صدیقہ بیگم نے مصروف سے انداز میں کہا عرفہ کے ہوش اڑے۔ ڈونگا اٹھائے بغیر باہر نکلنے لگی تو صدیقہ بیگم کے ماتھے پر بل پڑے۔ 

کیا بدتمیزی ہے عرفہ میں  نے تمھیں کیا کہا ہے۔ 

امی میں مومی کو بلانے جا رہی تھی وہ دے آئے گی،،  عرفہ منمنائی۔ چار سال سے کہاں سامنا کیا تھا اس سڑے بینگن کا۔ بڑی مشکل سے دامن بچا رکھا تھا اپنا۔

کیوں تمھاری اپنی ٹانگیں ٹوٹی ہوئیں ہیں جو مومی کو آرڈر دینا ہے تم نے، اور تمھیں آخر تکلیف کیا ہے اپنے سسرال جاتے ہوئے،  ساری زندگی وہیں گزارنی ہے تو اب کیا موت پڑتی ہے،،  صدیقہ بیگم نے اسے بری طرح جھڑکا تو وہ ڈونگہ اٹھا کر نم آنکھیں لیے ڈرتی ڈرتی دوسرے پورشن میں آئی۔ 

وہ اور شازیہ بھی نوٹ کر چکیں تھیں کہ وہ اپنے سسرال میں تل بھی نہیں دھرتی ہے۔ تبھی آج صدیقہ بیگم نے اس جھڑک کر آج ادھر روانہ کیا تھا۔ 

وہ آئی بلا کو ٹال تو کا ورد کرتی دوسرے پورشن کی جانب گئی تھی۔ 

دوسرے پورشن میں حسبِ معمول کافی سناٹا تھا۔ وہ دبے قدموں آگے بڑھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سیام ایم بی اے فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد اب آگے پڑھائی کرنے کے لئے کینڈا جانے کے چکروں میں تھا۔ تمام تیاری مکمل تھی۔ اب بس بڑوں کو منانے کا پہاڑ سر کرنا تھا جو کہ ناممکن ہی لگ رہا تھا۔ رات وہ کافی بحث کر چکا تھا۔امی بابا سے ۔ رات کا احتجاجا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اب بھی بھوکا پیاسا اپنے کمرے میں بند تھا۔ 

عرفہ کچن میں  آئی ڈونگا شازیہ بیگم کو تھما کر کافی دیر ان کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہی تھی۔ 

وہ بتاتی رہیں کہ کافی دن سے بیمار ہیں اسی لئے صدیقہ بیگم ہی کھانا بنا کر بھیج رہی تھیں۔ گھر بھی اوندھا پڑا ہوا تھا۔ کام والی نے بھی شازیہ بیگم کی بیماری کا خوب ہی فائدہ اٹھایا تھا۔ اور بس لگتا ہے اپنی جان ہی چھڑاتی رہی تھی۔ 

عرفہ کافی سے زیادہ شرمندہ ہوئی۔ اور جلدی سے سارا کچن صاف کیا۔ جھوٹے برتن سنک میں  جمع کر کے دھوئے۔ 

شازیہ بیگم کا تھا ہی کون ان لوگوں کے علاوہ ۔ عرفہ کو بہت زیادہ شرمندگی نے آن گھیرا تھا وہ کیسے اتنی بے حس ہو کر اتنی غفلت اختیار کر سکتی تھی۔ 

اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ پھر دو گھنٹے لگا کر وہ سارے گھر کی ڈسٹنگ کر چکی تھی۔ شازیہ بیگم کے کمروں کی چادریں اور پردے بھی چینج کر دئیے۔ ایک جن کے کمرے سے دو فٹ دور  ہی رہنے میں عافیت سمجھی تھی۔ 

ابھی وہ بڑی دلجمعی سے فرش دھونے میں مصروف تھی۔ جب سیام اپنے کمرے سے نکل کر باہر آیا اور اپنا چمچماتا گھر دیکھا تو حیرت ہوئی۔ باہر پچھلے برآمدے میں سے شڑاپ شڑاپ پانی کا پائپ اور جھاڑو چلنے کی آواز پر وہ تجسس کے مارے ادھر گیا۔ 

وہ دوپٹہ کندھے سے لے جا کر کمر پر باندھے توجہ سے اپنے کام میں مصروف تھی۔ سیام کے دل کو جانے کیوں سکون سا ملا ۔ مگر دماغ تھوڑا بددماغ ہی تھا۔ 

یہ کیا ہو رہا ہے یہاں،،  اچانک ہی آنے والی اس سڑے بینگن کی آواز پر وہ اچھل کر پائپ سمیت پیچھے مڑی تھی۔ پائپ سے نکلتے تیز بہاؤ والے پانی نے سیام کا مزاج درست کرتے ہوئے اس کے ہوش ٹھکانے لگائے تھے۔۔

واٹ دا،، یہ کیا بدتمیزی ہے،،  وہ چلایا۔ عرفہ نے بھاگ کر ٹیپ بند کیا تھا۔ 

کام کر رہی تھی میں،،  وہ اطمینان سے پائپ لپیٹتی بولی۔ 

سیام نے اسے بغور دیکھا۔ صاف شفاف چہرے پر ایک دو جگہ پمپل اپنا جلوہ دکھا رہے تھے۔ نرم و نازک وجود مگر لہجے اب پر اعتماد سا تھا۔ 

سیام کا خود کا رنگ گندمی مائل تھا۔ تبھی وہ اسے سڑا بینگن کہتی تھی جس کا سیام کے فرشتوں کو بھی کو بھی خبر نا تھی۔ 

یو نو واٹ،  چاہے جتنی بھی کوششیں کر لو،  جتنے مرضی حربے آزما لو، جو چاہے کر لو، مجھے کبھی متاثر نہیں  کر پاؤ گی،  نا میں کبھی تمھاری طرف مائل ہو سکتا ہوں،  نا کبھی مجھے تم میں کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے،،  

وہ بڑے سکون سے بولا تھا جبکہ ہتک و ذلت کے احساس سے عرفہ کا چہرہ خطرناک حد تک سرخ پڑا تھا۔ جو وہ دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ عرفہ کی آنکھیں تیزی سے پانی سے لبا لب بھری تھیں۔ 

یوں لگتا تھا جیسے کسی نے مٹھی بھر مرچیں آنکھوں میں ڈال دیں تھیں۔ 

عرفہ نے پائپ اور جھاڑو وہیں گرایا تھا۔ اور اپنے الفاظ اس بےحس،  پتھر دل گھٹیا شخص پر ضائع کیے بغیر، کچھ بھی کہے بغیر تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی آئی تھی۔ اب یہ تو طے تھا کہ وہ زندگی میں کبھی پلٹ کر اس شخص کو دیکھے گی بھی نہیں۔ اس کی زندگی میں  شامل ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ موت کو گلے لگا لے گی۔ مگر اس کے سامنے کبھی اپنے وجود کو یوں ارزاں نہیں ہونے دے گی۔ 

وہ پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے بڑی دیر تک اس جگہ کو گھورتا رہا جہاں سے وہ ابھی ابھی گئی تھی۔ وہ جانے کونسی انا کی تسکین کے لئے اسے زہنی ٹارچر کرتا آ رہا تھا مگر آج ابھی ابھی اسے اس کی نم آنکھیں دیکھ کر ادراک ہوا تھا کہ وہ ان آنکھوں کے نمکین پانیوں میں پوری طرح ڈوب چکا ہے۔ اسے پر اس بات کا انکشاف ہوا تھا کہ وہ اس کے لئے  کیا معنی رکھتی ہے۔ تبھی اس کا سرخ چہرہ دیکھ سیام کو اپنا دل جیسے ڈوبتے سورج کی طرح اتھاہ گہرائیوں میں  اترتا محسوس ہوا تھا۔ 

اب عافیت اسی میں تھی کہ اپنے دل کی اس بدلتی کیفیت سے فرار ہونے کا رستہ اختیار کیا جائے ۔ تبھی وہ واپس اپنے روم میں  گیا تھا اپنا بیگ اٹھایا اور سیدھا دا جی کے پاس آیا۔ ان سے جھوٹ بولا کہ امی بابا نے اجازت دے دی ہے اب بس ان کی اجازت درکار ہے۔ 

بھلا دا جی کو کیا اعتراض ہونا تھا انھوںنے نے بھی اسے اجازت دے دی۔ تبھی وہ سراج مینشن سے نکلتا چلا گیا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ اس کی عصمت کا لٹیرا بڑی دیدہ دلیری سے آج پھر اس کے کمرے میں  چلا آیا تھا۔ 

تمھاری ہمت کیسے ہوئی فرہاد پھر سے میرے کمرے میں  آنے کی،،  وہ پھنکاری۔ 

جن تجوریاں کے خزانے لٹ چکے ہیں ان کو تالے نہیں لگائے جاتے میری جان،،  وہ خباثت سے بولتا ہنس دیا۔ اور بیڈ پر پسر کر لیٹ گیا۔ 

چار سال سے یہی تو ہو رہا تھا۔ فرہاد کاظمی کی دانست میں وہ اس کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہا تھا۔ 

جبکہ سیرت وہ حرام زندگی گزار رہی تھی۔ ایسا ہی تو ہوتا ہے سیرت جیسی لڑکیوں کے ساتھ۔ جو لڑکیاں اپنے گھر کی چار دیواری  کے  اقدار و روایات سے آزادی چاہتی ہیں وہ زمانے کی ٹھوکروں پر رکھ دی جاتی ہیں۔ 

فرہاد نے اسے منا لیا تھا جب وہ اس کے بیوی کا معلوم ہونے پر ناراض ہوئی تھی۔ اس نے بڑی چاپلوسی سے اسے منایا تھا۔ ہاتھ آیا شکار تو وہ بھی نہیں جانے دیتا تھا۔ خاص کر وہ من پسند شکار جس پر اس نے اتنا پیسا لگایا ہو۔ جب وہ اس کی باتوں کے جال میں کسی صورت نہیں  پھنسی اور نکاح پر اصرار کیا تب اس نے بہت مکاری اور دھوکے سے سیرت کے کھانے میں نشہ آور چیز ملا دی تھی۔ 

تب سے اب تک وہ جب جی چاہتا زور زبردستی سے اپنی من مرضی کر لیا کرتا تھا۔ 

اور سیرت کھلی آنکھوں سے اپنی بربادی کا تماشا دیکھتی رہی۔ مگر مجبوری تو یہ تھی کہ وہ کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ 

واپسی کے لئے تمام کشتیاں جلا کر نکلی تھی۔ 

فرہاد کاظمی سے جان چھڑاتی تو جانے کن کے چنگل میں  جا کر پھنستی۔ ویسے بھی وہ اگر ایم بی بی ایس کر پا رہی تھی تو فرہاد کاظمی کی فائنانشل سپورٹ سے۔ خود کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ ہر طرف سے خالی دامن تھی۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے تک وہ مکمل اس کی مھتاج تھی۔ بڑے ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی شاید کچھ اچھا ہو بھی جاتا اس کے ساتھ لیکن اگر وہ اتنے سارے دل اتنی بری طرح نا دکھاتی۔ 

اب تو اپنا بویا کاٹ رہی تھی۔ 

ایم بی بی ایس کا آخری سال تھا۔ کچھ دنوں سے طبیعت کچھ گری گری بھی تھی۔ 

وہ نہیں جانتی تھی کہ فرہاد کاظمی کی ناجائز اولاد پیدا کر کے وہ مزید زلت و رسوائیوں کی کھائیوں میں گرنے والی ہے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مزید چار سال بعد۔۔۔۔۔۔

سب بڑے خاندان میں ہوئی کسی کی ڈیتھ میں گئے ہوئے تھے۔ آج سنڈے تھا اور انتیس سالہ مشہور بزنس ٹائیکون ملک تابش سرج آج گھر پر تھا۔ دیر تک سوتے رہنے کے بعد وہ بلیک ٹراؤزر اور لائٹ بلو ٹی شرٹ میں گھنے بالوں میں  ہاتھ پھیرتا اپنے کمرے سے باہر نکلا تھا۔ 

بریک فاسٹ بھی نہیں  کیا تھا سو اب بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ تائم دیکھا ایک بج رہا تھا۔ 

لاونج میں میں آ کر بے اختیار نگاہ رگِ جاں کے روم تک اٹھی۔ ایک نرم مسکراہٹ نے گھنی مونچھوں تلے خود بخود عنابی لبوں کو چھوا۔ 

کیوں نا اپنی جان کو حسب معمول پریشان کیا جائے۔ 

جب سے سیام کینڈا گیا تھا عرفہ دوسرے پورشن میں  شازیہ بیگم کے پاس شفٹ ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ اکثر بیمار رہتی تھیں۔ فیضان کام پر جاتے تو ان کی دیکھ بھال والا کوئی نہیں  ہوتا تھا تو یہ زمہ داری بھی عرفہ نے سنبھال لی تھی۔ بی ایس سی اچھے نمبرز سے پاس کر کے اس نے خود ہی پڑھائی کو خیر آباد بول دیا تھا۔ 

شازیہ اور فیضان نے اپنی انسلٹ سے بچنے کے لئے  کسی کو بھی نہیں  بتایا تھا کہ ان کا لاڈلہ سپوت بھی بگھوڑی بہن کی طرح انھیں پیٹھ دکھا کر بھاگا ہے۔ 

مومی اب بی ایس سی کے فائنل ایر میں تھی۔ اب اس نے سب جھنجھٹوں کے ساتھ جینا سیکھ لیا تھا۔ بلکہ چار سال سے چھوٹی موٹی انتقامی کارروائیاں کر کے اس گبر کی اولاد سے اپنا بدلہ بھی لیتی رہی تھی اور اسے مبڑی صفائی سے مختلف طریقوں سے پریشان بھی کرتی آئی تھی۔ جو کہ سامنے والا اچھی طرح جانتا تھا ناصرف اگنور کرتا بلکہ یہ انتقامی کارروائیاں انجوائے بھی کرتا تھا۔ میٹرک کے واقعہ کے بعد اس نے نا ملک تابش کو دوبارہ منہ لگانے کی ضرورت سمجھی تھی نا ہی اس سے الجھی تھی۔ 

اسے ملک تابش سراج کی موجودگی میں اپنے کمرے تک محدود ہونا آ گیا تھا۔ گھر والوں کے طے کئے گئے اصولوں سے سمجھوتا کرنا بھی آ گیا تھا۔ 

ہاں مگر وقت کے ساتھ ساتھ ملک تابش سراج نے جو خود کے لئے اس کے فل میں نفرت کا بیج بویا تھا اب اس کے ساتھ وہ بھی بڑا ہو کر تناور درخت بن چکا تھا۔ وہ اسے اپنے دشمن اول کی صف میں رکھے ہوئے تھی۔ جانی دشمن۔ جس سے دوستی یا صلح ناممکن سی بات تھی۔ 

ملک تابش آہستگی سے چلتا اس کے روم تک آیا تھا۔ ہلکے سے دور ناک کیا۔ وہ جو خود رات چھپ چھپ کر مووی دیکھنے کے بعد ابھی گہری نیند میں تھی۔ بمشکل ہی مسلسل ہوتی دستک سے آنکھ کھلی۔ میگی نوڈلز پوری کمر اور چہرے پر بکھرے ہوئے تھے۔

یہ سمجھ کر کہ دروازے پر کون ہو سکتا تھا اس نے بہت گندا اور کڑوا سا منہ بنایا۔ 

اففففففف دنیا پر اور کون پیدا ہوا ہے مجھے پریشان کرنے والا اس گبر کی اولاد کے علاوہ۔ 

مسلسل ہوتی دستک کی وجہ سے اسے ناچار اٹھنا پڑا۔ دوپٹہ اٹھا کر سر پر اوڑھا اور پاؤں میں  چپل اڑسی۔ 

کلک کی آواز پر ہی تابش نے اپنی نرم مسکراہٹ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب کی تھی۔ 

جی،، 

دروازہ کھول کر وہ خمار آلود سرخ چہرہ لیے اپنی تمام تر رعنائیوں سمیت باہر آئی تھی۔ کہ ایک مرتبہ تو ملک تابش بھی کے ہوش ہی اڑ گئے تھے۔ 

بہت بھوک لگی ہے،  کھانا گرم کر کے لگا دو،، وہ سنجیدگی سے کہتا کچن میں  جانے کے لئے مڑا تھا۔

کاش میں  تمھیں زہر دے سکتی،  گببر کی اولاد، 

دل میں  ہی بول پائی۔ مومی نے مکا بنا کر ہوا میں لہرایا کہ کاش اے کاش وہ یہ مکا اس کی پہلو میں رسید کر کے اس کا پہلو سینک سکتی۔ 

اس کہ یہ حرکت وہ لاؤنج میں موجود کھڑکی کے شیشے میں  اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ تابش نے دانتوں تلے لب دبایا۔ 

مومی پاؤں پٹختی کچن میں آئی تھی۔ کھانا گرم کر کے دینے کا مطلب تھا اس لینڈ لارڈ کے لئے تازہ روٹیاں ڈال کر دینا۔ جو کہ اس وقت اسے زہر لگ رہا تھا۔ 

وہ کچن میں آئی تو وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا بظاہر اپنے بے حد قیمتی موبائل فون میں لگا ہوا تھا۔ 

مومی نے فرج سے آٹا نکالا۔ اور مہارت سے پیڑے بنانے لگی۔ اب ملک تابش بڑی فرصت سے اس کے جائزے لینے میں  مصروف تھا۔ 

میرون شلوار قمیض میں دوپٹہ سر پر جمائے وہ پہلے سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔ کیچر میں مقید کرنے کے چکر میں میگی نوڈلز بغاوت پر اترتے کمر پر اپنی من مرضیاں کرتے دوپٹے سے جھانک جھانک کر دعوتِ نظارا دے رہے تھے۔ 

مومی جانے کیا پوچھنے بہت اچانک پیچھے مڑی تھی۔ مگر اسے خود کو یوں عجیب طریقے سے تکتے پا کر کیا پوچھنے والی تھی بھول ہی گئی۔ 

ملک تابش نے فورا زاویہ نگاہ بدلا تھا۔ 

اونہہہہہہ،،،  قابلِ نفرت بندہ،  اب بھی غور فرما رہا ہو گا کہ کس چیز کو بہانہ بنا کر بےعزتی کروں۔ مومی دل ہی دل میں  تلملائی۔ کبھی کسی زمانے وہ اس کا کتنا اچھا دوست ہوا کرتا تھا مگر اب دشمنِ اول کی صف اول میں شامل تھا۔ 

میرے دل سے ستمگر تونے اچھی دل لگی کی ہے

کہ بن کے دوست اپنے دوستوں سے دشمنی کی ہے

میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے

مجھے غم دینے والے تو خوشی کو ترسے

وہ بڑی مہارت سے روٹی بنا رہی تھی۔ گھر داری بہت اچھے سے سیکھی تھی۔ صدیقہ اور سلمی بیگم سے۔ تین تازہ روٹیاں بنا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ کر اس کے سامنے رکھی۔ مٹر قیمہ اور مکس سبزی اوون میں  گرم کی۔ اور نکال کر ٹیبل پر رکھی۔ 

کٹنگ بورڈ پر اس کے ہاتھ بڑی تیزی اور مہارت سے تازہ سلاد کاٹ رہے تھے۔ 

تازہ سلاد بنا کر سامنے رکھی۔ جگ میں  تازہ پانی بھر کر پاس رکھا۔  بھوک تو ادے بھی بہت لگی تھی۔ مگر یہ بلا سر سے ٹل جاتی پھر ہی کوئی نوالہ حلق سے اترنا تھا سو وہ اب کھانا لگا کر باہر نکلتی اپنے کمرے کا رخ کرنا چاہتی تھی۔ مگر کوئی ایسا نہیں  چاہتا تھا۔ 

کچھ میٹھا ہی بنا دو،،  تابش بول کر پھر پلیٹ پر جھکا۔ 

رئیلی،،،  مومی دل میں چلا ہی تو اٹھی تھی۔ تم جیسے کریلے پلس نیم چڑھے کو بھی میٹھے کی تمنا ہے۔ 

وہ اچھی طرح جانتی تھی یہ بندہ میتھا بہت کم بلکہ برائے نام ہی کھاتا تھا اور اب یہ بھی جانتی تھی کہ وہ محض اسے پریشان کرنے کو یہ اوچھی حرکتیں کر رہا تھا۔ مومی نے دل میں  دانت کچکچائے۔ اور الماری سے پاستا نکالا۔ تاکہ فروٹ سیلڈ بنا کر اس کے منہ پر مارے۔ 

تو پھول بنے پت جھڑ کا تجھ پہ بہار نا آئے کبھی

میری ہی طرح تو تڑپے تجھ کو قرار نا آئے کبھی

جیئے تو اس طرح کہ زندگی کو تو ترسے

میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے

کاش وہ اپنی نفرت لفظوں میں  بیان کر سکتی تو ملک تابش سراج کے سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے کہ اس نے اپنے ساتھ اور اس کے ساتھ کیا کر دیا ہے۔ 

وہ اس کے کھانا فنش کرنے سے پہلے فروٹ کٹنگ کر کے سیلڈ مکس کر چکی تھی۔ تبھی پلیٹ میں  نکلا کر اس کے سامنے رکھی۔ اب جب وہ کھانا کھا ہی چکا تھا تو اس کے یہاں سے دفعان ہونے کے چانس دکھائی دے رہے تھے۔ تبھی مومی نے اپنے لئے ایک روٹی ڈالی تھی۔ 

وہ اس کی پیٹھ کو گھور کو رہ گیا۔ کاش کے پورے استحقاق سے بول سکتا کہ میرے ساتھ ہی نہیں  کھا سکتیں تھیں کھانا۔ مگر خود کے ہی کارنامے تھے۔جو وہ یوں اس کے سائے سے بھی گریز برتی تھی۔ 

حیرت انگیز وہ بیٹھا آہستہ آہستہ سیلڈ کھاتا رہا۔ کہ شاید وہ ظالم روٹی بنا کر اسی ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا لے۔ مگر یہ ملک تابش سراج کی خام خیالی ہی تھی۔ تبھی وہ ٹرے میں  کھانا لگا کر اپنے کمرے میں  جا چکی تھی۔ 

ملک تابش سراج نے ایک سرد سی آہ بھری۔ 

یقینا ایک آگ کا دریا ہوگا جو اسے پار کرنا پڑے گا۔ اور شاید یہ بھی اس کی خام خیالی ہی تھی کہ آٹھ سال سے ہر چیز پر سمجھوتہ کرنے والی ملک مومنہ تابش سراج اس بات پر سمجھوتہ کر لے گی کہ اپنا وجود ملک تابش سراج کو سونپے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ازیہ بیگم کی طبیعت خراب ہو جانے کی وجہ سے وہ جلدی واپس لوٹ آئیں تھیں۔۔اور اب اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھیں۔ چار سال سے گھٹ گھٹ کر جی رہی تھیں۔ بیٹی نے اگر اچھا نہیں کیا تھا تو بیٹے نے بڑے پھولوں کے ہار پہنا دئیے تھے۔ 

وہ سیام اور عرفہ کے بیچ ہونے والی آخری گفتگو اچھی طرح سن چکیں تھیں۔ تبھی چار سال سے بیٹے سے کلام کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔ دا جی اور فیضان سے تو اس کی بات ہوتی ہی رہتی تھی۔ 

ادھر چار سال سے وہ کونسا سکھی تھا۔ ہر حربہ آزما کر دیکھ لیا ہر طریقہ سے دل کو سمجھا لیا مگر اب کی بار وہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔ فیل ہوا تھا۔ محبت کے شکنجے نے اس کی روح تک میں بڑی بری طرح اپنے پنجے گاڑے تھے۔ جب راہِ فرار بھی کسی کام نہیں  آیا تو اب تو دل کرتا تھ اڑ کر پاکستان اپنی دشمنِ جاں کے پاس پہنچ جائے۔سیام کو یہ معلوم ہونے پر کہ وہ انھیں کے گھر میں  رہتی ہے کیسی انوکھی سی خوشی ہوئی تھی ۔ویسے بھی پڑھ لکھ کر بیشک بڑا کوئی کامیاب انسان بن جاتا مگر گھر کا سکون جب نصیب میں  نا ہو تو وہ کامیابی کس کام کی۔ اس کے علاوہ بھی احساسِ جرم ہر روز روح کو کچوکے لگاتا تھا کہ بیمار ماں کو اس وقت جب انھیں سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی۔ حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلا آیا۔ تف ہے اس جیسی اور سیرت جیسی اولادوں پر۔ تبھی اب پچھتا کر واپسی کی راہیں استوار کرنے لگا تھا۔ 

 عرفہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی۔ جب لاؤنج میں رکھا لینڈ لائن فون چنگھاڑ اٹھا۔ وہ نیپکن سے ہاتھ صاف کرتی لاؤنج میں آئی۔ 

فون چنگھاڑنا بند نہیں  ہوا تھا۔ 

اففف کیا مصیبت ہے اسے۔ عرفہ نے برا سا منہ بنایا۔ فون اٹھا کر کان کو لگایا۔

ہیلو،،؟ سامنے والا آواز سن کر صوفے پر بی5ھتا چلا گیا۔ 

ہیلو،،؟ دوسری مرتبہ بولا اور فون کو گھورا۔ 

"بات نہیں  کرنی تو میں رکھنے لگی ہوں، زیادہ پیسہ آ گیا ہے تو اپنی ماں بہن پہ خرچ کرو،  ہمیں پریشان مت کرو،، وہ چلائی۔ 

عرصہ دراز کے بعد سیام کے لبوں نے گہری مسکان کو چھوا تھا۔ 

پیسے بیوی پر بھی خرچ کیے جا سکتے ہیں،،  ایک جتاتی سی بھاری جانی پہچانی آزاد ائر پیس میں سے گونجی تو وہ بری طرح چونکی۔ مگر ساتھ ہی ماتھے پر بےشمار بل بھی آئے۔ زبان تالو سے چپک گئی جب کے سامنے والا تو چاہتا تھا کہ آج وہ بولتی رہے اور وہ سنتا رہے۔ 

کیسی ہو،،؟  بڑی دیر بعد اس کی سانسوں کی مدھر زیروبم سننے کے بعد وہ پوچھ بیٹھا۔ عرفہ نے جواب دینا ضروری نہیں  سمجھا تھا۔ مگر کاش بول دل میں  آئی بات بولنے کی خود کو اجازت دیتی کہ تمھاری غیر موجودگی میں  بلکل ٹھیک اور خوش ہوں ۔ 

مگر اس نے خاموشی سے جا کر فون اندر شازیہ بیگم کو تھما دیا اور خود کچن میں  چلی آئی۔ 

اس کی آنکھوں میں  چھپا کرب دیکھ شازیہ بیگم کسی نتیجہ پر پہنچی تھیں۔ تبھی آج عرصہ دراز کے بعد بیٹے سے بات کی تھی۔ 

آ گئی بھگوڑی اولاد کو بیمار ماں کی یاد،،؟  شازیہ بیگم کے چبھتے لہجے نے سامنے والے کو مزید شرمندہ کیا۔ 

ائم سوری ماں،،  کیا آپ مجھے معاف نہیں کر سکتیں، پلیز،  مجھے معاف کر دیجیئے،، بھیگا سا لہجہ تھا سامنے والے کا۔ شازیہ بیگم نے کچھ سوچا۔ 

ایک شرط پر،،  اگر منظور ہے تو معافی بھی مل سکتی ہے،،  

امی مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے آپ حکم کریں،،  

عرفہ کو طلاق دے دو،،  شازیہ بیگم نے اطمینان سے کہا جبکہ دوسری جانب اب اسے سانپ سونگھ چکا تھا۔ کئی لمحے تو وہ بول بھی نہیں  سکا۔ اب ڈائریکٹ انکار بھی تو نہیں  کر سکتا ہے۔ خود ہی تو بول بیٹھا تھا حکم کریں۔ 

ٹھیک ہے،  میں  پاکستان آ رہا ہوں، ہمیشہ کے لئے آپ کے پاس،  اس ٹاپک پر آ کر بات کروں گا آپ سے،،  اس نے مبہم سے انداز میں  بہانہ تراشا۔ 

تو ٹھیک ہے معافی بھی تب ہی مل جائے گی،،  شازیہ بیگم نے بول کر فون رکھ دیا تھا۔ 

ادھر اس نے اپنا سر پکڑا۔ کیا پتہ تھا کہ وقت کے ساتھ محبت ہاتھوں سے سوکھی ریت کی طرح پھال جائے گی۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

پورے آٹھ سال بعد پاکستان کی سرزمین پر پاؤں رکھا تھا۔ ایک کامیاب ہارٹ سرجن بن کر۔ 

اس کے علاوہ زندگی کے ہر امتحان میں بری طرح فیلئر تھی وہ، 

ایک بہت بڑی لوزر، 

جس نے اپنے تمام رشتے،  عزت،  نسوانیت،  خوداری اور انا ہار کر یہ مقام اور دولت حاصل کی تھی۔ 

قید تنہائی کی شکار آزاد سی سیرت اب بس انھیں اپنوں کی قید کی ٹھنڈی چھاؤں میں رہنا چاہتی تھی۔ اتفاق سے ہاسپٹل سراج مینشن کے قریب ہی تھا بلکہ یوں کہنا بہتر ہوگا کہ اس نے جان بوجھ کر سراج مینشن سے قریبی ہسپتال میں  ہی اپلائی کیا تھا۔ 

مما، ہم کدھر آئے ہیں، سیرت باہر بینچ پر کیپ کے انتظار میں بیٹھی گہری سوچ میں تھی۔ پاکستان کے ایک بڑے سرکاری ہاسپٹل میں  اپلائی کیا تھا۔ چار سال پہلے جب ایم بی بی ایس کمپلیٹ کر کے ہاؤس جاب مکمل کر کہ ایک اچھی جاب ملی تو فرہاد کاظمی کے منہ پر تھوک کر اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کیا تھا۔ مگر افسوس اس کی ناجائز بیٹی گود میں آ چکی تھی۔ جب سیرت نے اس بیٹی کو فرہاد کاظمی کے حوالے کرنا چاہا تو تب اس نے یہ بول دیا کہ یہ بچی میری نہیں ہے۔ جس کی ہے اسے دو۔ 

تب سیرت نے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر اپنی بچی کی پرورش کی تھی اور اب وہ چار سال کی ہو چکی تھی۔ 

پاکستان سے پرکشش مراعات حاصل ہوتے نظر آئے تو سر کے بل دوڑی چلی آئی۔ کیونکہ ہاسپٹل کی جانب سے گھر اور گاڑی دونوں مل رہے تھے۔ 

ہم نانو کے پاس آئے ہیں بیٹا،،  سیرت نے مسکرا کر اپنی گڑیا کو دیکھا۔ تبھی کیب آ گئی ۔ ڈرائیور نے اس کا سوٹ کیس کیب میں  رکھا۔ سیرت نے نیہا کا ہاتھ تھاما اور گاڑی میں  بیٹھ گئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شام کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔ اور ابھی تک سلمیٰ، صدیقہ بیگم اور دا جی گھر نہیں  لوٹے تھے۔ وہ بڑی شدت سے بوریت اور یکسانیت کا شکار تھی۔ اس منہوس مارے گبر کی اولاد سے بچ کر صبح سے اپنے کمرے میں  نظر بند تھی۔ 

اچانک طبیعت خراب ہوتی محسوس ہوئی۔

افففف،،  مجھے تو شاور لینا تھا،،  مومی سر پر ہاتھ مار کر اٹھی۔ کپڑے لے کر واش روم گئی تو بھنا اٹھی۔ واش روم میں پانی نہیں آ رہا تھا۔ اس نے برا سا منہ بنایا۔ 

اب کیا کروں،،؟  

زہن میں  جھماکا ہوا۔ سراج مینشن کو کچھ عرصے پہلے ہی جدید طرز پر دوبارہ رینویٹ کرایا گیا تھا اور اوپر تین چار کمروں میں اضافہ کر کہ واش روم بھی بنایا گیا تھا۔ 

وہ کپڑے اور اپنا سامان لے کر اوپر گئی۔ 

وہ جو لان میں اپنا لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا تھا مومی کو اوپر جاتے دیکھ ماتھے پر ڈھیر سارے بل آئے۔ بے تحاشا تجسس اور وہم و وسوسوں نے آن گھیرا۔ 

یہ مونا،  اوپر واش روم میں  کیا کرنے گئی ہے۔ اپنے روم میں  واش روم ہونے کے باوجود۔ کہیں کوئی اور بات تو نہیں ۔ کہیں سیل فون تو نہیں  رکھا ہوا۔کسی سے بات کرنے گئی ہو۔ نہیں  ایسے کیسے ہو سکتا ہے۔نہیں نہیں مجھے اس پر خود سے بھی زیادہ بھروسہ ہے۔ 

دل نے اسے بری طرح جھڑکا۔ 

وہ تو تمھیں سیرت پر بھی اندھا اعتماد تھا۔۔ کیا ہوا ملک تابش،،؟  وہ سچ مچ ہی تمھیں اندھا ثابت  کر کے ٹھینگا دکھا کر چلی گئی،،  نہیں؟  

دماغ نے دہائی دی۔ 

آخر اپنے دل و دماغ کے ہاتھوں مجبور وہ بھی اوپر اس کے پیچھے چلا آیا۔ اور باہر بےچینی سے ادھر ادھر چکر لگا کر اس کے باہر آنے کا ویٹ کرنے لگا۔ 

و

مومی شاور لے کر باہر نکلی تھی اور سامنے ہی اس جن کو کھڑا دیکھ ہڑبڑا کر اپنے دونوں ہاتھ فورا سے پہلے پیچھے چھپائے تھے۔ 

مومنہ کیا ہے تمھارے ہاتھوں میں،؟  کیا چھپایا ہے دکھاؤ مجھے،، سرخ چہرہ اور لال انگارا آنکھیں لیے اس نے مومنہ سے پوچھا۔ 

ادھر مومی کی آنکھیں حیرت و صدمہ سے پھیل گئیں تھیں وہ کیا سمجھ رہا تھا آخر۔ مومی نے بری طرح نفی میں  سر ہلایا۔ 

مومنہ دکھاؤ مجھے،،  کیا ہے تمھارے ہاتھوں میں؟  تم نے سیل فون رکھا ہوا ہے کیا،،؟ دکھاؤ مجھے،،؟  وہ دھاڑا۔ 

ناچاہتے ہوئے بھی مومی کی آنکھوں سے تواتر سے آنسو بہے تھے۔ یوں لگتا تھا کسی نے مٹھی بھر مرچیں آنکھوں میں  ڈال دیں۔ کلیجہ نوچ لیا جو یوں سینے میں  درد و جلن کو طوفان سا اٹھا تھا۔ 

آ،،، آپ عرفہ کو بلا لیں،، میں اسے دکھا دوں گی، مم، میرے ہاتھ میں  کیا ہے،،  اس نے روتے ہوئے اس بے حس پتھر شخص سے سر پھوڑا۔ 

نو،، تم مجھے ہی دکھاؤ گی کیا ہے تمھارے ہاتھ میں،، 

نہیں میں آپ کو نہیں دکھاؤں گی آپ عرفہ یا شازیہ مامی کو بلا لیں،،  نسوانیت نے بین کیے۔ عزتِ نفس کرلائی۔ مگر سامنے والے پہ اثر بھی تو ہو۔ 

مومنہ کیوں چاہتی ہو کہ اتنے سالوں بعد ایک مرتبہ پھر میں تم پر ہاتھ اٹھاؤں،  اور بخدا اب اگر میرا ہاتھ اٹھ گیا تو میں لحاظ کیے بغیر ادھیڑ کر رکھ دوں گا تمھیں،  دکھاؤ مجھے،،؟  وہ چلایا تھا۔ 

بےبسی کی انتہا تھی۔ مومنہ نے ہاتھ آگے کیا۔ ہاتھ میں پکڑا پیکٹ اس کے پیروں میں  دے کر مارا تھا۔ انداز یوں تھا جیسے منہ پر مارا ہو لو دیکھ لو۔ میرا کفن۔ 

پھوٹ پھوٹ کر روتے وہ بھاگتے نیچے اپنے کمرے میں جا کر بمد ہوئی تھی۔ 

ملک تابش کا دل کیا چلو بھر پانی میں ڈوب مرے۔ اپنی بے اعتباری کی وجہ سے کیسی شرمندگی حصہ میں آئی تھی۔ یہ دن بھی دیکھنا تھا جب خود سے ہی بے تحاشا نفرت محسوس کی تھی اس نے۔ کب تک وہ کسی سے ملی بے اعتباری اور بد اعتمادی کسی کے دامن میں  بھرتا رہے گا۔ 

وہ بھی وہاں سے یوں نیچے آیا تھا جیسے اوپر ایک پل بھی رکا تو دم گھٹ کر مر جائے گا۔ 

اب وقت تھا اپنی ہر غلطی ہر گناہ کے مداوے کا۔ اپنے ہر ظلم کا حساب دینے کا۔ ہر ظلم کے ازالے کا۔ 

کیا یہ ممکن ہوگا۔ وہ اب سوچ ہی سکتا تھا۔ 

کچھ دیر بعد ہی دا جی لوگ آئے تو وہ دا جی سے بات کرنے ان کے روم میں  گیا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اتنا تو اثر کر جائے میری وفائیں او بے وفا

 ایک روز تجھے یاد آئیں اپنی جفائیں او بے وفا

پشیماں ہوکے روئے تو ہسی کو ترسے

تیرے گلشن سے زیادہ ویران نا کوئی ویرانہ نا ہو

اس دنیا میں نا کوئی تیرا اپنا تو کیا بیگانہ نا ہو

کسی کا پیار کیا تو بے رخی کو ترسے 

میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے

مجھے غم دینے والے تو خوشی کو ترسے

رات گہری تھی وہ ڈنر کرنے بھی اپنے روم سے باہر نہیں نکلی تھی اور کای نے اس کہا بھی نہیں تھا۔ اب سلمیٰ بیگم ٹرے میں اس کے لئے  کھانا لے کر آئیں تھیں جسے وہ کھانے سے صاف انکار کر چکی تھی۔ 

وہ سلمی بیگم کی گود میں منہ دئیے نیم جان سی لیٹی تھی آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے اس بات کے گواہ تھے کہ ہر بار کی طرح اس بار بھی اس کے دل و جاں بلکہ روح تک پر کاری ضرب لگائی گئی ہے۔ سلمیٰ بیگم نے یاسین کی تلاوت مکمل کی اور زرا سا جھک کر اس کے ملیح مگر سوگوار چہرے پر پھونک ماری اور یاسین چوم کر عقیدت سے سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی۔ 

شاید مومنہ اسی بات کا انتظار کر رہی تھی۔ 

آپ کو پتا ہے امی، میں اس آدمی سے کس قدر شدید نفرت کرتی ہوں،؟  مومنہ نے کہا تو ہمیشہ کی طرح سلمیٰ بیگم نے بےبسی کے احساس سے چور اس کی آنکھوں میں  جھانکا جہان براؤن آنکھوں میں اس شخص کا زکر کرتے دنیا جان کی نفرت،  حقارت و قہر سمٹ آیا تھا۔ 

چلیں میں آپ کو بتاتی ہوں کہ میں ملک تابش سراج سے کتنی نفرت کرتی ہوں،  اتنی نفرت کہ اگر وہ مر بھی جائے تو یقین کریں امی میں جشن مناؤں،،  مومنہ نے آنکھیں موندے کہا جیسے اس دلفریب نظارے کو بند آنکھوں سے دیکھ کر محسوس کر رہی ہو۔ 

مومی،،،،، سلمیٰ بیگم روح تک کانپ اٹھی تھیں۔ حقیقت سے جو واقف تھیں جس سے ان کی بیٹی بلکل ناواقف تھی۔ سلمیٰ بیگم نے اسے ٹوکنا چاہا مگر آج وہ شاید سالہا سال کی بھڑاس نکال دینا چاہتی تھی۔

بیشک وہ آپ کا بھتیجا ہے اور ہمیشہ کی طرح آپ یہ بول کر میرا منہ بند مت کروانا کہ مجھ سے اتنا بڑا ہے،  ہونہہ مگر میں اس سے اتنی نفرت کرتی ہوں امی کہ سوچ ہے آپ کی،،  بچپن سے لے کر آج تک آپ جانتی ہیں اس نے کیا کیا،  اس نے میری شخصیت مسخ کر رکھ دی امی،  میری نسوانیت کی دھچیاں اڑائیں، ہر بار میرے پندار کو روند ڈالا،  امی مجھے نفرت ہے اس آدمی سے،  اس کے نام سے اس کی شکل سے، اس نے اتنی بار میرے کردار پر سوال اٹھائے کہ اب تو لگنے لگا ہے کہ میں واقعی ایک بدکردار لڑکی ہوں امی ،،  

مومنہ کا یہ کہنا تھا کہ سلمیٰ بیگم کی آنکھوں سے آنسو لڑیوں کی صورت ٹپ ٹپ برسے تھے مگر وہ آج جان بوجھ کر نظر انداز کر کے اپنے دل کی ہر بات بتا دینا چاہتی تھی۔ 

اچھا سنیں ناں امی،  آپ ایسا کریں میری جلد از جلد شادی کر دیں تاکہ میں  اس جہنم سے آزاد ہو سکوں،،  مومی نے اطمینان سے اپنے ہر مسئلے کا حل بتایا۔ 

اور سنیں میں  اس زلیل، بے حس،  بددماغ اور قابلِ نفرت شخص کی ہر ظلم و زیادتی کے بعد سالوں سے جو بات سوچتی آئی ہوں وہ آج آپ سے شئیر کرنا چاہتی ہوں میری شادی اس سراج مینشن سے ہزاروں کلو میٹر دور کرنا،  بلکہ ایسا کرنا بیرونِ ملک کر دینا تاکہ اگلی زندگی میں دوبارہ کبھی مجھے اس منحوس سراج مینشن اور اس منحوس شخص کی شکل نا دیکھنی پڑے،  کبھی بھی نہیں،  اور ہاں پتا ہے بعد میں  آپ کو ہی مجھے ملنے آنا پڑا کرے گا کیونکہ میں تو اس زلالت مینشن میں ایک قدم بھی نہیں  رکھوں گی،  امی ٹھیک ہے ناں،  ایسا ہی کریں گی ناں آپ،، مومنہ نے زرا سا سر اٹھا کر ماں کی آنکھوں میں  جھانکا جہان سے ساون بھادوں برستے سلمیٰ بیگم نے دھیمے سے اثبات میں سر ہلایا تو وہ تو جیسے ہر بوجھ سے آزاد ہو کر سکون سے آنکھیں موند گئی۔ 

پلٹ کر آنکھ نم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا

گئے لمحوں کا غم کرنا مجھے ہر گز نہیں آتا

محبت ہو تو بے حد ہو نفرت ہو تو بے پایاں 

کوئی بھی کام کرنا مجھے ہر گز نہیں  آتا

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ناشتے کی ٹیبل پر عام دنوں کی طرح غیر معمولی ہلچل سی تھی۔ مومنہ سلمی بیگم کے پہلو میں  اپنی پلیٹ پر مکمل جھکی ہوئی تھی مبادا کہیں نگاہ سامنے اٹھے اور حلق تک کڑوا ہو کر سارا دن خراب نا ہو جائے۔ 

تبھی دا جی نے سربراہی کرسی پر بیٹھے گلا کھنکارا تھا۔ 

ان کے پہلو میں ہی رکھی کرسیوں پر تایا اور چچا جان براجمان تھے۔ اور ان کے ساتھ ہی ان کا چہیتا سنجیدگی سے بیٹھا بڑی رغبت سے بریک فاسٹ سے انصاف کر رہا تھا۔ 

بھئ کافی دنوں کی سوچ بچار،  اور صلاح مشورے کے بعد ہم بڑوں نے ایک فیصلہ کیا ہے،،  دا جی نے بلند و رعب دار آواز میں کہا تو سب کے ساتھ مومنہ نے بھی بلا ارادہ دا جی کی جانب دیکھا تھا۔ 

وہ یہ کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ ملک تابش سراج کو اس کی امانت سونپ دی جائے، مطلب کہ اس کی منکوحہ ملک مومنہ سراج کو اس کے ساتھ رخصت کر دیا جائے،،  

یہ سن کر قریب بیٹھے ملک تابش سراب کے لبوں کو ایک مبہم سی فاتحانہ مسکراہٹ نے چھوا تھا۔

بات تھی کے پھندا جو مومنہ کے گلے میں لگا تھا۔

یا زمین اس کے سر پر الٹائی گئی تھی۔ ہمیشہ کی طرح اس کی روح پر کوڑے برسائے گئے تو وہ بلبلا اٹھی۔ اس کی ٹانگوں میں  ہوتی واضح لرزش سلمیٰ بیگم نے بھی دیکھی تھی۔ 

بے یقینی کی انتہا سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے قریب بیٹھی ماں کو دیکھا تو وہ جان بوجھ کر نگاہیں چرا کر سر جھکا گئیں۔ 

وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے میں  بند ہوئی تھی۔ سلمیٰ بیگم کا دل دہل چکا تھا۔ ابھی وہ رات کیا باتیں کر رہی تھی۔ اور اب یہ اتنا بڑا انکشاف۔ کیا رنگ لائے گی اس کی اتنی نفرت۔ 

بچی شرما گئی شاید،،  دا جی مسکرائے تھے۔ ملک تابش سراج نے ایک نگاہ اس بند دروازے کی جانب دیکھا۔ 

ارادہ چٹانوں سا مضبوط تھا۔ ہاں وہ منا لے گا اسے۔ 

پر کیا یہ سب اتنا آسان تھا۔؟

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

لاہور کے کمرشل ایریا پر بنی ایک پچاس منزلہ عمارت کا مالک ملک شجاعت کروفر سے بلڈنگ کے ففتھ فلور میں بنے اپنے شاندار ترین آفس میں  داخل ہوا تھا۔ 

جہاں بورڈ آف ڈائریکٹرز اور ان کی کمپنی کا ٹینڈر حاصل کرنے کو بزنس کی دنیا بڑے بڑے نام شامل تھے۔ 

 مگر ملک شجاعت نے سب کا فارغ کر دیا تھا یہ بول کر کہ وہ یہ ٹینڈر کسی کو دے چکے ہیں۔ جبکہ ملک شجاعت نے بس نوید احسن کو ہاتھ سے بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ 

سب کے ارمانوں پر پانی پڑا تھا۔ تبھی کچھ غصے میں تو کچھ لوگ جھنجھلاتے ہوئے وہاں سے نکلے تھے۔ 

اب اس آفس میں  ملک شجاعت اور نوید احسن آمنے سامنے بیٹھے تھے جبکہ ملک شجاعت کا اکلوتا   خوبرو بیٹا ملک ارشمعان ، کھڑکی میں ، دونوں ہاتھ پیچھے اپنی کمر پر باندھے ، شیشے کے اس پار جانے کیا تلاش کر رہا تھا۔ 

تو نوید احسن ٹینڈر چاہیے تمھیں؟  ملک شجاعت نے انتہائی پراسرار طریقے سے پوچھا تو نوید احسن چونکا۔ 

ججی،، جی،،  بلکل چاہیے،، نوید نے خوش ہو کر کہا تھا۔ 

نا صرف یہ ٹینڈر تمھیں ملے گا بلکہ ہماری کمپنی تمھاری کمپنی سے وہ ڈیل سائن کرے گی جس کو سائن کرنے کا خواب تم سالوں سال سے دیکھتے آئے ہو ، اب سوال یہ ہے کہ ہم تمھارے لئے اتنا کیوں کریں،  ظاہر سی بات ہے کوئی غرض کوئی رشتہ ہو تو ہی کوئی کسی کے لئے  کچھ کرتا ہے ناں تو ایسا کرو،  ہم ایسا کرتے ہیں کہ اپنی دوستی کو رشتے داری میں  بدل لیتے ہیں،  تمھاری بیٹی اور میرا بیٹا،،  کیا خیال ہے،،  

ملک شجاعت نے سکون سے کہا جبکہ ملک شجاعت کی ہر بات پر نوید احسن کی آنکھوں میں  چمک کا اضافہ ہی ہوا تھا۔ لیکن ان کی آخری بات پر نوید حیرت سے گنگ ضرور ہوئے تھے۔ 

مم،، میری کون سی بیٹی،،  میری تو کوئی بیٹی ہے ہی نہیں،،  وہ گڑبڑائے۔ جبکہ سامنے والا قیمتی سگار پیتے گہرا مسکرایا کہ نوید احسن کی ہسٹری جیوگرافی جو جانتا تھا۔ 

ارے جانے بھی دو نوید احسن، تم پیدا کر کے بھول گئے،،تمھاری بیوی سلمیٰ بیگم اور اس کی بیٹی ملک مومنہ نوید احسن ،یاداشت واپس آئی کہ نہیں،، تم گھامڑ ہو جو بھول گئے مگر میں نے اپنے بیٹے کی خواہش پوری کرنے کو تمام ڈیٹیلز نکلوائی ہیں اس بچی کی،،  دراصل ٹو دی پوائنٹ بات کرتا ہوں، اتفاق سے کالج آتے جاتے دیکھا ارشمعان نے اسے، اور محبت کرنے لگا،  اس سے بات کرنے کی کوشش کی، مگر بچی باحیا ہے،  بات تک نہیں  کی اس سے،،  مگر اب اس پگلے نے اسے حاصل کرنا اپنی ضد بنا لیا ہے، بچی کا اتا پتا نکلوایا تو معلوم پڑا کہ وہ تمھاری بچی ہے، اب جاؤ نوید احسن ٹینڈر تو آج ہی تمھارے نام ہوا لیکن اگر چاہتے ایک دو ماہ میں  یہ ڈیل بھی سائن ہو جائے تو بچی کو اس کی ماں سے چھین کر لاؤ کسی قیمت پر کسی بھی طریقے سے،، ملک شجاعت نے حتمی فیصلہ سنایا تھا۔ پیچھے کھڑکی پر کھڑے اس مغرور سے بندے کو لبوں پر ایک مخصوص نام سن کر گہری مسکراہٹ نے چھوا تھا۔ 

اوہہہ،،، تو بیٹی ہوئی تھی سلمیٰ کی،،  نوید احسن کھویا کھویا سا بولا۔ وہ شخص جس نے دنیا بھر کی دولت کمائی تھی۔ مگر اب بھی اور سے اور کی تلاش میں  تھا۔ مگر افسوس سکون اور اولاد جیسی دولت سے محروم تھا۔ 

اوکے جو آپ نے بول دیا،  سمجھو ہو گیا،  اب تو دنیا کی کوئی طاقت میری بچی کو مجھ سے ملنے سے نہیں  روک پائے گی،،  نا ہی کوئی مجھے اسے اپنے پاس لانے سے روک پائے گا،  باپ ہوں اس کا کون روکے گا مجھے،،  

ملک نوید احسن نے کہا تو سامنے موجود دونوں باپ بیٹا فاتحانہ سا مسکرائے۔ نوید احسن ان سے مصافحہ کرنے کو آگے بڑھا۔ 

ارے یار ہونے والے سمدھی ہو گلے لگو،،  ملک شجاعت نے نوید احسن کو پمپ کیا وہ بھی خوشی خوشی ان کے سینے سے لگ کر زہن میں  مختلف تانے بانے بنتے وہاں سے نکلا تھا۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

چار سال بعد سیام نے سراج مینشن قدم رکھا تھا۔ سب بڑے مین پورشن کے لاؤنج میں ہی موجود تھے۔ سب سے ملا۔ 

ماں نے سینے میں بھینچا تو برسوں بعد روح کو قرار آیا تھا۔ اور ادھر شازیہ بیگم کونسے گلے؟ کس سے شکوے؟  اب بیٹے کے سینے سے لگی چھم چھم نیر برسا رہی تھیں۔ سب سے مل کر پاس بیٹھ گیا۔ متلاشی نگاہیں کسی کو ڈھونڈنے کو چاروں جانب اٹھیں۔ مگر ناکام لوٹیں۔ نا وہ دشمنِ جاں نظر آ رہی تھی نا مومی۔ 

بلکہ مومی کی رخصتی کی باتیں اور تیاری کی شروعات کے پلین زور و شور سے جاری تھے۔ سیام نے بھی بہتی گنگا میں  ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا تھا۔ تبھی کچھ سوچ کر بڑوں کی باتیں سننے لگا۔ 

چائے بھی ملازمہ نے ہی آ کر سرو کی۔ بڑے کافی خوش تھے۔ 

مگر ادھر ملک تابش سراج تھا۔ جو بےچینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ کن اکھیوں سے بار بار حسرت بھری نگاہ اندر کی داخلی دروازے کی جانب ڈال لیتا۔وہ صبح سے اپنے کمرے میں  بند تھی۔ لنچ بھی سلمی بیگم اس کے پاس لے کر گئیں تھیں۔ دل تو چاہ رہا تھا ہر لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے اسے ایک مرتبہ دیکھ ہی آئے کہ وہ اتنا بڑا صدمہ کیسے برداشت کر رہی ہے۔ 

اس کی اس قدر خاموشی حیرت انگیز ، ناقابلِ ہضم اور ناقابلِ یقین بلکہ تشویشناک تھی۔ ملک تابش جانتا تھا جب کبھی اس پر اس حقیقت کا تدارک ہوگا وہ بہت زیادہ شور مچائے گی ۔ چیخے گی چلائے گی۔ احتجاج کرے گی۔ مگر اسے منا لیا جائے گا۔ 

کچھ وہ اپنے طریقے سے رعب جما کر زور زبردستی اسے جبراً منا ہی لے گا۔ مگر یہ کیا؟  

الٹی پڑ گئیں سب تدبیروں کہ مترادف سب اس کی سوچ کے برعکس ہوا تھا۔ 

کیا یہ سب برداشت کرنا اس کے لئے اتنا ہی آسان ہی کہ وہ خاموش ہو کر اپنے کمرے میں گوشہ نشین ہے یا یہ خاموشی کسی بہت بڑے بہت بھیانک طوفان کی آمد کا ہیش خیمہ ہے۔ وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہا تھا تبھی بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ 

سیام نے گلا کنکھارا،، دا جی میں بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں،  اب اگر آپ لوگ رخصتی کی بات کر ہی رہے ہیں اور اب جبکہ میں  بھی وقت پر آ گیا ہوں تو میں بھی رخصتی چاہتا ہوں،،  

اس نے نگاہیں جھکائے (بلکہ شازیہ بیگم سے نگاہیں چرا) کہ دا جی کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ گہرا مسکرائے۔ جبکہ باقی سب اور تابش نے بری طرح چونک کر اسے بغور دیکھا تھا۔ 

ارے سانس تو لو،  تھوڑا آرام تو کر لو پھر سنتے ہیں تمھاری فریاد بھی،، دا جی نے کچھ اس انداز سے کہا کہ ایک مرتبہ تو سیام بھی سٹپٹایا تھا۔ تبھی بیگ لے کر کھڑا ہوا۔ 

میں  تھک گیا ہوں،  آرام کروں گا،،  وہ کہتے بیگ گھسیٹتا اپنے پورشن کی جانب آ گیا۔ گزرتے وقت کی گردش نے اسے مزید طاقت ور گندمی رنگت میں مردانہ وجاہت کا شہکار بنایا تھا۔ 

بے چین خوش فہم نگاہیں اپنے پورشن میں بھی ایک پمپل والے کیوٹ سے چہرے کی متلاشی تھیں۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے آنے کا سن کر وہ اپنے پورشن میں شفٹ ہو کر اپنے روم میں  نظر بند ہو چکی ہے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا رب 

کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو

مومنہ ستے چہرے اور پتھرائی ہوئی نگاہیں لیے جو کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز تھیں بیڈ پر گھٹنے فولڈ کیے۔ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے بیٹھی تھی۔ 

اتنی بڑی حقیقت ماں نے چھپائی تھی۔ کیوں آخر کیوں؟ پھر اس کیوں کا جواب دماغ خود ہی دیتا چلا گیا۔ 

ماں بھی تو مجبور ہے۔ بھائیوں کے ٹکڑوں پر پلنے والی اس کا ماں اور وہ خود ان کا احسان کیسے چکا سکتے تھے۔ شاید ایسے۔ 

ماں مجبور تھی باپ اور بھائیوں کے آگے۔ کیسے احسان فراموشی کرتی۔ تو بیٹی ہی قربان کر دی۔ 

وہ جانتی تھی۔ 

اچھی طرح جانتی تھی۔ 

اس کے احتجاج کا،  چیخنے چلانے کا رتی بھر بھی فرق نہیں  پڑنے والا تھا کسی کو۔ ماں کو احسان فراموش کیسے بنا سکتی تھی۔ کیسے ان کی قربانی ضائع جانے دیتی۔

 یقینا امی نے ان کے احسان کا بدلہ ایسے چکایا۔ اس جنگلی وحشی کے سامنے مجھے قربانی کا بکرا بنا کر۔

 جینے کی تمنا ہی اندر کہیں مرنے لگی تھی۔ اپنا آپ بہت ہلکا اور اپنی ہستی انتہائی بے وقعت لگنے لگی تھی۔ اپنی جگہ سے ایک ٹرانس کی کیفیت میں  اٹھی تھی۔ 

آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی تھی۔ بچپن سے سجنے سنورنے کا کتنا شوق تھا مگر اس آدمی کی نحوست ایسی پڑی تھی زندگی پر کہ سجنا سنورنا بھول ہی گئی تھی اور سادگی کو ہی اپنی شخصیت کا آئینہ دار بنا لیا تھا۔

لیکن اب اپنا ہی چہرہ مسخ شدہ لگا تھا۔ تو کراہیت کا احساس ہوا تھا۔ یہ چہرہ یہ شخصیت جس نے مسخ ڈالی تھا۔ اب کیا مزید ساری زندگی اسی کے ہاتھوں کہ کٹھ پتلی بننا تھا۔ ایسے ہی گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنی تھی۔ اس کے دل سے جیسے ہر خواہش مر چکی تھی۔ ہر ارمان مٹ چکا تھا۔ جینے کی تمنا پوری طرح ختم ہو چکی تھی۔ 

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

نا ہی فرق پڑتا ہے

کسی کے دور جانے سے

تعلق ٹوٹ جانے سے

کسی کے مان جانے سے

کسی کے روٹھ جانے سے

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

کسی کو آزمانے سے

کسی کے آزمانے سے

کسی کو یاد رکھنے سے

کسی کو بھول جانے سے...

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

کسی کو چھوڑ دینے سے

کسی کے چھوڑ جانے سے

نا شمع کو جلانے سے

نا شمع کو بجھانے سے

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

اکیلے مسکرانے سے

کبھی آنسو بہانے سے

نا اس سارے زمانے سے

حقیقت سے فسانے سے

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

کسی کی نا رسائی سے

کسی کی پارسائی سے

کسی کی بیوفائی سے

کسی دکھ انتہائی سے

مجھے اب ڈر نہیں لگتا

نا تو اس پار رہنے سے

نا تو اس پار رہنے سے

نا اپنی زندگانی سے

نا اک دن موت آنے سے

مجھے اب ڈر نہیں لگتا 

واقعی نا اسے اب دنیا کی کسی بھی چیز فرق پڑتا تھا نا ہی ڈر لگتا تھا۔ 

جب انسان کے دل و دماغ سے جینے کی تمنا ختم ہو جائے تو جسم و روح دونوں نڈھال ہو جاتے ہیں ۔ اور یہی ملک مومنہ سراج کے ساتھ ہوا تھا یا ہو رہا تھا۔ تبھی وہ بے تحاشا نڈھال ہوتے ہوئے 

کٹی پتنگ کیطرح ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر دبیز کارپٹ پر گرتی چلی گئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب رات کو ڈنر کے لئے ڈائننگ ہال میں موجود تھے۔ سوائے عرفہ جو کہ طبیعت کی خرابی کا بول کر اپنے روم میں  تھی اور مومی کے۔ 

کسی کی بھی جرات نہیں ہوئی تھی حالانکہ سلمیٰ بیگم کا بھی حوصلہ نہیں پڑا تھا کہ وہ مومی کو چھیڑتی۔ سو اسے ڈنر کے لئے بلانے نہیں  گئیں تھیں۔ 

اور اس معاملے میں تو ملک تابش سراج بھی اپنی من مانی نہیں کرسکتا تھا کہ بقول تابش کے ہزاروں بار عرفہ اور مومی کو باور کرایا گیا تھا کہ وہ جب تک اپنے اپنے رومز میں ہیں تب تک عافیت میں ہیں۔ 

مگر دو جانیں تھیں جو تقریباً سولی پر لٹکی ہوئیں تھیں۔ اب اپنے ہی بوئے کانٹوں سے ہاتھ اور وجود زخمی ہو رہا تھا تو بلبلا رہے تھے۔ اور یہی شغل جب خود فرما رہے تھے تب جانے کیوں پتھر کے بن چکے تھے۔ 

سلمیٰ بیگم نے خاموشی سے اپنا اور مومی کا کھانا ٹرے میں  لگایا اور اس کے کمرے کی جانب جانے لگیں۔ ملک تابش سراج جو اب پوری طرح تاشو بن جانا چاہتا تھا۔

 مومی کا تاشو

چور نگاہوں سے سلمیٰ بیگم کے تعاقب میں نظریں اس کمرے تک اٹھیں۔ 

مگر ٹرے چھناکے سے زمین بوس ہونے کی اور سلمیٰ بیگم کی دلخراش چیخ سن کر سب بے تحاشا چونکے تھے۔ 

اور وہ جس کی چھٹی حس پہلے ہی کسی حادثے کے ہونے کی چیخ چیخ کر گواہی دے رہی تھی ہر لحاظ بالائے طاق رکھتا اس کمرے کی جانب بھاگا تھا۔ 

وہ اندر آیا تو سلمیٰ بیگم اس کا ڈھلکا سا سر اپنی گود میں  رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔ 

مومی،، میری بچی،،  آنکھیں کھولو، اپنی مجبور ماں کی غم کی داستان سن لو،  پھر ناراض ہو کر جدھر مرضی چلے جانا،،  سلمیٰ بیگم کی آہیں تھیں کہ کوڑے تھے جو تاشو کی روح پر برسے تھے۔ 

مونا،،،،،،،،،،،،،، 

آٹھ سال بعد بے حد بے چین ہو کر اسے ایسے پکارا تھا۔ مگر وہ اب ان کی سننے کے موڈ میں  ہر گز نہیں  تھی تبھی جسم ٹھنڈا پڑتا جا رہا تھا۔ اور ملک تابش سراج کو یوں لگا کہ اس کے جسم سے بھی جان نکل جائے گی۔ سب گھر والے بے حد گھبرا چکے تھے۔ تابش نے اسے بازوؤں میں  بھرا۔ اور باہر کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ان کا ، اور تشویشناک حد تک ان کی باڈی بلکل بھی رسپونڈ نہیں  کر رہی ہے،  شاید ان کے دل و دماغ میں جینے کی کوئی امنگ کوئی خواہش نہیں  ہے تبھی ایسا ہے،  کہ کوئی بھی کسی بھی قسم کی میڈیسن ان پر اثر نہیں کر رہی ہے،  اور ایسا بہت کم کیسز میں  ہوتا ہے جب پیشنٹ اپنی لائف سے اس قدر بیزار اور مایوس ہو چکا ہو کہ اپنی زندگی سے زیادہ انھیں اپنی موت کو خواہش ہو،  اور ائم سوری ٹو سے آپ کے پیشنٹ کے ساتھ یہی پرابلم ہے،  اب یا تو ان کی پرابلم حل کریں یا انھیں مرنے کے لئے چھوڑ دیں،،  

ڈاکٹر سبین نے ان سب پر جیسے بجلی گرائی تھی۔ سلمیٰ بیگم نے ایک زخمی سی نگاہ اپنے سامنے کھڑے اپنی بیٹی کے مجرم کی جانب دیکھا جس نے ان کی بیٹی کے دل و دماغ سے جینے کی امنگ ہی نوچ کر پھینک دی تھی۔ 

سلمیٰ بیگم ماہی بے آب کی طرح تڑپی تھیں۔ زندگی کے ہر قدم پر اپنے ناتواں کندھوں پر موجود احسانات کا بوجھ اٹھائے اپنی لاڈلی اکلوتی بیٹی کو خون کے آنسو روتے دیکھا تھا۔ ۔مگر اب بس ہو چکی تھی۔ 

ان کی بھی اور مومی کی بھی۔اب وہ اپنی بچی کو لے کر ایک پل کا بھی سمجھوتہ نہیں کرنے والی تھیں۔ کبھی بھی نہیں۔ ڈاکٹر کو ہاتھ سے اشارہ کیا تھا اور ایک نگاہ دا جی کی جانب دیکھ کر سب کو دیکھا اور ڈاکٹر کے ساتھ آئی سی یو کے اندر گئیں تھیں۔ جہاں وہ اس ظالم و بے حس دنیا سے بیگانہ کہیں اور کی ہی تیاریوں میں تھی۔ تبھی چہرے پر آٹھ سال پہلے والی آسودگی چھائی تھی۔ 

سلمیٰ بیگم قریب آ کر اس پر جھکی تھیں۔ اس کے ہاتھ پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تھا۔ 

مومی میری جان،،  سلمیٰ نے پکارا تو اس کی سانسیں بے ترتیب سی ہوئیں۔ نیم غنودگی میں اس نے اپنی زرا سی آنکھیں کھول کر ماں کو شاید آخری بار دیکھنا چاہا۔ 

مومی،،  میری جان ، دیکھو تمھاری امی تمھیں کھو نہیں  سکتی،  اب تمھاری امی بہت بہادر بن جائے گی، کسی سے نہیں ڈرے گی، تم وہی کرنا جو تمھارا دل کرے، جو تمھارا دل چاہے،  کوئی تمھیں کچھ بھی نہیں کہہ پائے گا،،  اور سنو سب سے اہم بات جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ،  وکیل سے بھی تو ملنا ہے،  میں  تمھارے ٹھیک ہونے تک خلع کے پیپر بنوا کر رکھوں گی، اور اس سے سائن کروا لوں گی،  پھر بس تمھیں سائن کرنے ہوں گے اٹھ کر،،  ٹھیک ہے ناں،،  

سلمیٰ بیگم نے ہاتھوں میں  اس کا چہرہ تھام کر پر عزم اور پریقین لہجے میں کہا تھا۔ ان باتوں سے مومی کی نگاہوں میں زندگی کی رمق اب صاف دکھائی دے رہی تھی۔ 

جبکہ پورے خاندان کے ساتھ آئی سی کے دروازے پر کھڑے ملک تابش سراج کے سر پر ایک مرتبہ پھر آسمان گرا تھا یا پیروں تلے سے زمین کھینچ لی گئی تھی اسے کچھ پتا نا چلا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ اندھی طوفان بنا سراج مینشن آیا تھا۔ سرخ لہو چھلکاتی آنکھوں سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی لہو ٹپکے گا۔ عرفہ جو کہ جب مومی کو لے کر گئے تب سو رہی تھی بعد میں  اٹھی تو گھر میں  کسی کو موجود نہیں  پایا ملازمہ سے پوچھا تو مومی کا پتہ چلا اور اب وہ کب سے کسی کے انتظار میں بے چین سی لاؤنج کے ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔ تابش کو دیکھ کر اس کی جانب لپکی۔ 

بھیا،،  کیسی ہے مومی وہ ٹھیک تو ہے ناں،،  عرفہ نے تابش کا بازو پکڑ کر پوچھا تھا۔

 اور تابش کی بس ہوئی تھی۔ 

گڑیا،،،،،،،،،  وہ کنپٹیاں سہلاتا صوفے پر ڈھے گیا تھا عرفہ تو گھبرا ہی گئی۔ 

بھائی کیا ہوا؟  مومی ٹھیک تو ہے ناں؟  آپ بتاتے کیوں نہیں کچھ،،  

گڑیا،،  میں  نے بہت ظلم کیے ناں تم دونوں پر، تم دونوں کا جینا حرام کر دیا،  زندگی تم دونوں پر اس قدر تنگ کر دی کہ اب وہ زندہ رہنا ہی نہیں  چاہتی،  مجھ سے رشتہ جوڑنے سے بہتر اسے موت کو گلے لگانا لگ رہا ہے،،  گڑیا میں  کیا کروں،  میں  کیسے اپنے کیے ہر عمل کا مداوا کروں،  

وہ ماتھے پر ہاتھ رکھے رو پڑا تھا۔ عرفہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی۔ 

ادھر آؤ گڑیا، پہلے تم مجھے معاف کر دو پلیز،،  تابش نے پاگل ہوتے عرفہ کے سامنے ہاتھ جوڑے جو اس نے تڑپ کر تھام لیے۔ 

یہ کہا کر رہے ہیں آپ تاشو،، بھیا،،  وہ روہانسی ہوئی۔ 

اچھا آج بتاؤ،  اپنے دل کی بات بتاؤ، بس ایک مرتبہ مجھے معاف کر دو،  اب وہی ہوگا جو تم لوگ چاہو گی، تم مجھے اپنے دل کی بات بتاؤ، اپنی مرضی بتاؤ تم سیام کے ساتھ رہنا چاہتی ہو کہ نہیں،،  

تابش نے بھیگی نگاہوں سے عرفہ کی جانب دیکھا جبکہ اس کے دونوں ہاتھ عرفہ نے بے تحاشا روتے تھام رکھے تھے۔ اس نے نگاہیں جھکا کر آہستگی سے نفی میں  سر ہلایا تھا۔ 

ملک تابش سراج کو سمجھنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا تھا۔ 

ٹھیک ہے عرفہ، اب چاہے کچھ بھی ہو جائے وہی ہوگا جو تم دونوں چاہو گی،،  مگر عرفہ میں اسے اب کھو نہیں سکتا، منانا چاہتا ہوں،  وہ مان جائے گی ناں،  وہ مجھے معاف کر دے گی ناں،  میں اب اس کے بغیر ایک پل بھی نہیں جینا چاہتا، وہ مان جائے گی،  عرفہ میں نے اپنے ان ہاتھوں سے اپنی زندگی ایک بددعا بنا دی ہے،  پلیز میرے لئے  دعا کرو عرفہ،  نہیں  تو اب کی بار تمھارا بھائی ٹوٹ کے مر جائے گا،، 

ملک تابش سراج نے اپنی کنپٹیاں سہلائیں تھیں۔ وہ جھٹکے سے اٹھ کر اپنے روم میں  چلا گیا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اگلے دن ڈاکٹرز نے کافی تسلی بخش جواب دیا تھا۔ گزشتہ رات مومی کی حالت کافی تشویشناک رہی۔ مگر اب وہ سنبھل رہی تھی مگر بے ہوش تھی۔ پوری طرح تسلی تب ہونی تھی جب وہ مکمل ہوش میں  آتی۔ اب موجود تھے۔ 

وہ ہاسپٹل کی سرد سی دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ چار سال بعد اسے دیکھ رہا تھا جو سلمیٰ بیگم کے پاس بیٹھی مسلسل انھیں کچھ کھلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ سیام نے نگاہیں اس کے معصوم چہرے سے ہٹانا ضروری نہیں سمجھی تھیں۔ اور ستم یہ کہ اس کی اتنی محویت کے باوجود اس نے ایک بار بھی اس کی جانب دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا۔ 

تابش جانے کیوں مگر ہاسپٹل سے رات سے غائب تھا۔ باقی سب موجود تھے اور وہ عمران سراج کے ساتھ ابھی ابھی ہاسپٹل آئی تھی۔ اور اتنے عرصے بعد وہ اپنی تمام تر حسنِ سادگی سمیت اس کے سامنے سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔ 

مگر اپنے محبوب کی یہ بےتوجہی اسے بری طرح چبھ رہی تھی۔ تکلیف دے رہی تھی۔ 

اے کاش کہ وہ اس کی دسترس میں آئے تو وہ اپنے سابقہ ہر برے رویہ کی معافی مانگ کر اسے یہ یقین دلا پائے کہ ملک سیام سراج نے اس سے کتنی محبت کی ہے۔ 

وہ کینٹین تک جاتی دکھائی تھی۔ سیام سب سے نگاہیں بچا کر اس کے پیچھے گیا تھا۔ لابی سے گزرتے اپنے پیچھے اتنے قریب کسی کی آہٹ محسوس کر کے وہ بری طرح ڈری تھی۔ اور جھٹکے سے پیچھے مڑی۔ وہ ٹھٹھک کر رکا تھا۔ 

کیا ہوا،،؟  پینٹ کی پاکٹوں میں  ہاتھ ڈال کر سکون سے پوچھا۔ 

وہ بغیر جواب دئیے مڑ گئی تھی۔ سیام کے دل کو کچھ ہوا۔ 

کیسی ہو،،؟  پھر سوال کیا ۔ مگر وہ اب بھی اس سے مخاطب نہیں ہوئی تھی۔ سچ کہتے ہیں ایک چپ سو کو ہراتی ہے۔ اور اب اس کی یہ چپ سیام کو بری طرح کھلی تھی۔ تبھی وہ جز بز ہو کر فل اکتا کر بولا تھا۔ 

عرفہ پلیز،  مجھ سے بات کرو،،  وہ تیز قدم اٹھاتی اس سے تنگ آ کر واپسی کے لئے ہی مڑ گئی اور تقریباً وہاں سے بھاگ ہی گئی تھی۔ 

سیام خالی خالی نگاہوں سے حیرت سے کھڑا وہیں جما رہا جہاں وہ اسے چھوڑ کر گئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ مومنہ کی طبیعت کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔ اور اب وہ ہوش میں  تھی اور صرف سلمیٰ بیگم سے تھوڑی سی بات چیت کی تھی۔ دا جی اور سب بڑے ضد کر کے اس کے پاس رکے ہوئے تھے۔ مگر سلمیٰ بیگم نے پہلے عرفہ کو تابش کے پاس اور پھر شازیہ کو زبردستی سیام کے ساتھ گھر روانہ کر دیا تھا۔ کہ ان کی خود کی طبیعت کچھ سیٹ نہیں تھی۔ 

عرفہ کافی بنا کر تابش کے روم کی جانب آ رہی تھی جب اسے ادھر آتے دیکھا اور وہ کھڑکی کی اوٹ میں  ہو گئی تھی۔ 

شازیہ بیگم کو ان کے کمرے تک پہنچا کر وہ دا جی کے حکم پر ان کا پیغام تابش تک پہنچانے اس کی تلاش میں جھجھکتے ہوئے اس پورشن تک آیا تھا۔ اور اب روم سے باہر کھڑے ہو کر ہلکی سی دستک دی تھی۔

یس کم ان،،  اندر سے بوجھل سی آواز آئی۔ سیام اندر داخل ہوا۔ تو وہ بلیک شلوار قمیض میں صوفے پر سر ٹکائے سوگوار سا بیٹھا تھا۔ سیام کچھ پل تو کچھ بول بھی نہیں  سکا۔ 

کچھ کام تھا،،  تابش نے اپنی وحشت زدہ سی سرخ آنکھیں کھول کر اس کی جانب دیکھا تھا۔

دا جی آپ کو ہاسپٹل آنے کا بول رہے تھے،  آپ نے فون بھی نہیں  اٹھایا تو مجھ سے بول دیا کہنے کو،،  

کیسی ہے وہ،،  اس کی لہجے میں  صدیوں کی شکست اور تھکن تھی۔ 

کافی بہتر رات تک ڈسچارج مل جائے گا،  اسی لئے دا جی آپ کو بلا رہے تھے،،  سیام نے کہا اور بول کر جانے لگا۔ 

سنو سیام،  عرفہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو بہتر یہی ہے کہ تم اسے ڈائورس دے دو،،  ملک صاحب نے سیام کے سر پر بھی بم پھوڑا۔ وہ حیرت و صدمے سے تابش کو دیکھے گیا۔ 

"اس طرح  تو مومی بھی آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تو کیا آپ اسے دے رہے ہیں ڈائیورس ، اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو میں بھی دے دوں گا،  مگر آپ کے دینے کے بعد،  

سیام نے اطمینان سے کہا تھا۔ تابش نے اسے بغور دیکھا۔ 

میں مونا سے محبت کرتا ہوں اسی لئے ایسا کچھ نہیں  کرنے والا،، وہ دانت پیس کر بولا تھا۔ 

تو آپ سے کس کمبخت نے بول دیا کہ میں عرفہ سے محبت نہیں کرتا،،  میں بھی عرفہ سے بہت محبت کرتا ہوں اور ایسا کچھ نہیں  کرنے والا،،،  اس نے اب بھی سکون سے تابش کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے کہا تھا۔ 

عرفہ ایسا نہیں چاہتی،،  تابش نے آخری بار آزمایا۔ 

مومی بھی ایسا نہیں  چاہتی،،  سیام نے جتایا۔ 

میں  اسے منا لوں گا،  تابش کا لہجہ پرعزم تھا۔ 

میں  بھی اپنی بیوی کو منا لوں گا،،  سیام بھی کونسا کم تھا۔ 

ایک آخری بار کوشش کرنے کا چانس میں  تمھیں دیتا ہوں سیام،  جیسے میں  پھپھو سے مانگنے والا ہوں، آخری موقع ،  تو تمھیں بھی دیا، اس کے بعد بھی اگر عرفہ کا فیصلہ تمھارے خلاف ہوا تو میں زرا لحاظ نہیں کروں گا اب کی بار،، تابش کا لہجہ بےلچک اور سرد سا تھا۔ 

میری بہن نے آپ کی زندگی برباد کی، اس گلٹ میں،  میں اپنوں سے اپنی بیوی سے بہت روڈلی بیہیو کرتا رہا،  بہت دور ہوتا چلا گیا اب ضروری نہیں کہ وہ بدلا مجھ سے لیں آپ، میری زندگی برباد کر کے، میں عرفہ کو خود سے کبھی بھی دور نہیں  ہونے دوں گا،، ائم سوری نا ہی آپ کی بات مانوں گا،،  

وہ سنجیدگی سے کہتا وہاں سے نکلا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس سن سی ہوئی کھڑی تھی۔ جزبات سے بوجھل اس کی یہ باتیں اسی کے بھائی کے سامنے کیا گیا اتنی دیدہ دلیری سے یہ اظہارِ محبت سن کر بھی اس کا دل بلکل خاموش تھا۔ ہر جزبے سے عاری۔ 

اس کے دل کی دنیا تو وہ جو اجڑ چکی تھی اور اب وہ اس پر اپنے ارمانوں کی سیج سجانا چاہتا تھا کتنا پاگل تھا ناں۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

ملک ارشمعان نے اپنے پر آسائش کمرے کی ہر چیز تہس نہس کر رکھی تھی۔ قیمتی پرفیوم کمرے سے باہر فرش پر گر کر چکنا شور ہو چکے تھے۔ اور یہ تماشا گھر کے سبھی ملازم کافی عرصے کے بعد دیکھ رہے تھے۔ ملک شجاعت اس تماشے کا علم ہونے پر اپنے آفس سے بھاگے آئے تھے۔ یقینا کوئی من پسند چیز دسترس سے دور ہو گئی تھی لاڈلے بیٹے کی تبھی وہ یوں مچل رہا تھا۔ 

ملک شجاعت تیزی سے اس کے روم کے اندر داخل ہوئے تھے۔ 

ارے کیا ہوا ارشن،،  کیا تماشا لگا رکھا ہے،، ملک شجاعت نے بیٹے کا وحشی حلیہ اور خون رنگی آنکھیں ملاحظہ کیں اور ایک سرد آہ بھری۔ 

پاپا آپ نے مومنہ کی ہر بات معلوم کروائی تو یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے اس کے کزن سے،،  وہ دھاڑا اور دیوار سے ایل ہی ڈی اتار کر دھماکے سے زمین پر پٹخی۔ 

ملک شجاعت نے اسے دیکھا اسی وجہ سے تو یہ بات چھپائی تھی اس سے اس کے پاگل پن سے ڈر کے۔ 

تمھیں کیسے پتہ چلا،، ملک شجاعت نے صوفے پر براجمان ہو کر ٹانگ پر ٹانگ رکھی۔ 

وہ بیمار تھی،، میں ہاسپٹل گیا تھا اسے دیکھنے،،  تو اینٹرس پہ سسٹر نے اسے مسز تابش کے نیم سے پکارا اور ڈسکرپشن میں اس کا یہی نیم لکھا ہوا ہے،  

تو ملے مومنہ سے،، ملک شجاعت نے اس کا دھیان بٹانا چاہا۔ 

کہاں،،  وہ اس کے ننھیال والے چپکو لوگ،،  ایک سیکنڈ کو بھی جو اسے اکیلا چھوڑتے ہوں،  موقع نہیں ملا مجھے، اس نے برا سا منہ بنایا۔ مگر آپ  ،آپ نے یہ بات مجھ سے کیوں چھپائی، اب کیا ہوگا، اس نے اپنے بال مٹھیوں میں  جکڑے۔ 

ارے جانے بھی دو یار، صرف نکاح ہوا ہے،  رخصتی نہیں،  نکاح ٹوٹ بھی سکتا ہے،  خلع بھی ہو جاتی ہے،  اس میں  کیا بڑی بات ہے،  بس نوید احسن ایک مرتبہ اسے اس سراج مینشن سے نکال لائے پھر اگلے مراحل تو میں بڑی آسانی سے طے کر لوں گا،  اپنے باپ کو جانتے نہیں  ہو کیا، 

ملک شجاعت نے بات ہوا میں اڑائی۔ 

اچھی طرح سن لیں ڈیڈ مجھے بس اسی لڑکی سے شادی کرنی ہے،  مجھے وہ چاہیے، چاہے اس کے لئے اپنی ساری دولت لٹا دیں، مگر مجھے وہ چاہیے،

 ارشمعان کسی ضدی بچے کی طرح بول کر پیر پٹختا وہاں سے نکلا تھا۔ 

ملک شجاعت کو اب جلد از جلد کچھ کرنا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تابش براؤن ٹوپیس پہنے ہاسپٹل داخل ہوا تھا۔ اس قدر پروقار ،پرکشش وجیہہ شخص کو ہر کوئی ایک مرتبہ ضرور پیچھے مڑ کر دیکھ رہا تھا۔ 

لابی سے گزرتے سامنے سے آنے والی ہستی کو دیکھ کر بری طرح چونکا تھا۔ 

سیرت جس نے آج ہی ہاسپٹل میں اپنی ڈیوٹی جوائن کی تھی۔ سسٹر کے ساتھ چلتی سامنے سے آنے والے شخص کو دیکھ کر بری طرح ٹھٹھک کر اپنی جگہ رکی تھی۔ یوں پہلے دن ہی سامنا ہو جائے گا کس نے سوچا تھا۔ 

وہ جان کر انجان بنتا خوشبو کو جھونکا بنا پہلو سے شانِ بے نیازی سے گزر چکا تھا۔ 

اب سیرت کو یہ پریشانی تھی کہ ان کے گھر میں  سے کون ایڈمٹ تھا یہاں۔ 

سسٹر ان کو جانتی ہو جو ابھی گزرے یہاں سے،،  سیرت کے سوال پر سسٹر چونکی تھی۔ 

یہ ملک تابش سراج تھے اور ان کی وائف ایڈمٹ ہیں ادھر،، سسٹر نے بتایا تو اب کی بار چونکنے کی اور دھچکا لگنے کی باری سیرت کی تھی۔ کتنی عجیب سی کیفیت ہوئی تھی اس کی وائف کا سن کر۔ 

کونسے وارڈ میں ہیں ان کی وائف،،  وہ ایک ٹرانس کے عالم میں  پوچھے گئی۔

بڑی کڑی سزا دی تھی ملک تابش سراج نے اسے اس کی بے وفائی کی۔ سارے گھر والوں کے موبائل نمبرز چینج کر لیے تھے حتی کے لینڈ لائن نمبرز بھی چینج کروا لیے گئے تھے۔ تبھی تو وہ ان آٹھ سال میں  شازیہ بیگم تک سے کوئی رابطہ نہیں کر سکی تھی۔ 

ابھی انھی کے روم میں  تو جا رہے تھے ہم لوگ،، ان کو چیک کر کے ڈسچارج دینا ہے آپ نے،،  سسٹر کی بات پر وہ بری طرح چونکی تھی۔ ابھی وہ آگے بڑھتی تبھی سامنے سے شازیہ بیگم کا ہاتھ تھامے عرفہ آتی دکھائی دی تھی۔ 

کتنی تڑپ تھی اس کی نگاہ میں۔ 

شازیہ بیگم اور عرفہ بھی اسے وہاں دیکھ چکی تھیں ۔ اور ششدر رہ گئی تھیں۔ 

شازیہ بیگم نے بھی دیکھا ان دیکھا کر کے آگے بڑھنا چاہا جب اس نے لپک کر ان کا بازو دبوچا تھا۔ 

امی،،  پلیزززززز،،،،،  دبی دبی سی سرگوشی میں التجا تھی۔ مگر شازیہ بیگم نے اتنے سالوں بعد بھی اس ایک نظر اٹھا کر نہیں  دیکھا تھا حالانکہ کلیجہ منہ کو آ رہا تھا مگر اس کا ہاتھ بری طرح جھٹکتی وہ عرفہ کا ہاتھ تھامے آگے بڑھی تھیں۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب روم میں  موجود تھے اور مومی نے اٹھ کر بیٹھی سلمیٰ بیگم سے ہلکی آواز میں  باتیں کر رہی تھی۔ جب تابش روم میں  داخل ہوا تو مومی کے ہاتھ کی گرفت سلمیٰ بیگم کے ہاتھ پر سخت ہوئی تھی۔ مگر سلمیٰ بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے مضبوط رہنے اور مضبوط بننے کا اشارہ کر دیا تھا تو وہ پر سکون سا ہوئی تھی۔ 

اندر داخل ہو کر تابش نے سلام کیا تھا۔ اس کے چہرے سے نگاہ ہٹ نہیں  پا رہی تھی۔ جو نگاہیں جھکائے بیٹھی تھی۔ براؤن میگی نوڈلز بری طرح چاند چہرے کمر اور بازوؤں پر پھیلے ہوئے تھے۔ 

وہ اب اس کا حال احوال پوچھ رہے تھے جب سسٹر کے ساتھ ڈاکٹر اندر داخل ہوئی۔ اور سیرت بی بی کو ڈاکٹر کے روپ میں دیکھ سب سناٹے میں آ گئے تھے۔ 

سیرت نے ملک تابش سراج کی وائف کو دیکھا تو حیرت سے دنگ ہوئی تھی۔ مومی وہ کل کی بچی،  وہ تو بہت چھوٹی تھی اس سے۔ 

ہاں اب مگر اپنی تمام تر نزاکت،  حسن اور رعنائیوں سمیت اس کے سامنے تھی۔سیرت نے ایک نگاہ غلط اس شاندار مضبوط و بلند کردار کے مالک شخص کو دیکھا جو وہ تھا کہ مومی پہ سے نگاہ ہٹانا ضروری نہیں  سمجھ رہا تھا۔ 

سسٹر کے ہاتھوں میں  ڈسچارج پیپر تھے۔ وہ لے کر سیرت نے چیک کیے ۔ عادت سے مجبور تھی تبھی نروس بریک ڈاؤن اور زہنی دباؤ کا پڑھ کر ایک تلخ سی مسکراہٹ نے لبون کو چھوا تھا۔ 

کسی نے بھی اسے منہ لگانا ضروری نہیں  سمجھا تھا اور سب اپنی باتوں میں ایسے مصروف ہو گئے جیسے کوئی غیر معمولی بات ہوئی ہی نا ہوئی ہو۔ اور سامنے والے کی انسلٹ،  ہتک و ذلت کے لئے اتنا ہی کافی ہونا چاہئے تھا۔ 

مومی بھی ہونق سی بنی سیرت کو سامنے دیکھ منہ کھولے بیٹھی تھی۔ 

کیسی ہیں آپ،  کیسا فیل کر رہی ہیں،  سیرت نے پروفیشنل سے لہجے میں  مومی سے پوچھا۔ 

کافی بہتر،،  اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ 

کسی چیز کا سٹریس بہت لیا آپ نے،،  کیا میں  پوچھ سکتی ہوں،،،  

سسٹر،  اپنی ڈاکٹر سے کہیں اپنے کام سے کام رکھے اور جو کرنے آئی ہیں وہ کریں، سیام دانت پیس کر بولا تھا۔ وہ جو اپنی عادت سے مجبور خفیف سا طنز کرنے والی تھی سیام نے بیچ میں  ہی ٹوک کر بولتی بند کی تھی اس کی۔ 

سیرت سائن کر چکی تھی۔مومی سلمیٰ بیگم کا ہاتھ تھام کر سکارف اچھی طرح  لپیٹ کر ان سب کے ساتھ وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی۔وہ حسرت سے انھیں دیکھے گئی۔ 

اب اگر اس نے اپنے پیر پر کلہاڑی نا ماری ہوتی تو مومی کی جگہ وہ ہوتی اور اس کے بھی یونہی چونچلے اٹھائے جا رہے ہوتے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ اب گھر آئے تھے۔ مومی اپنے روم میں  ہی گئی تھی۔ سلمیٰ بیگم اس کے پاس تھیں۔انھیں کسی نے نہیں  چھیڑا تھا ابھی۔ 

قریبا گھنٹے بعد تابش اپنے کمرے میں  تھا۔ جب عرفہ بلانے آئی تھی۔ 

تاشو بھائی،  پھپھو بلا رہی ہیں،  دا جی کے روم میں اور وہاں سب بڑے موجود ہیں،،  عرفہ کی بات پر اس کے دل نے پسلیوں سے سر پٹخا تھا۔ 

آخر وہ وقت آن پہنچا تھا۔ تو آخر سامنا تو کرنا ہی تھا ناں۔ 

وہ کمرے میں  داخل ہوا تو سب غیر معمولی سنجیدگی اور خاموشی سے بیٹھے تھے۔ صدیقہ بیگم تو رو بھی رہی تھیں۔ 

سلمیٰ بیگم ان سے حتمی بات کر چکی تھیں اور جو مومی کی حالت تھی کسی میں  اتنی ہمت نہیں  تھی کہ ان کو اففف تک بھی بول سکیں حالانکہ دا جی میں  بھی نہیں۔  کہ سالوں سال سے سلمیٰ بیگم نے صبر کیا تھا۔ مگر اب صبر کا باندھ ٹوٹ چکا تھا۔ 

جی پھپھو، آپ نے بلایا تھا،،  اس کا لہجہ دھیما اور آنکھیں جھکی ہوئیں تھیں۔ 

یہ خلع کے پیپر ہیں تابش،  میں  نے فون کر کے وکیل سے بنوائے،  سائن کر دو ان پر،،  

سلمیٰ بیگم نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ تابش کو یوں لگا جیسے رگوں سے جان کھینچی جا رہی ہوں ۔۔کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ 

وہ صوفے پر بیٹھی تھیں تابش گھٹنوں کے بل جھکا تھا اور ان کی گود میں  ہاتھ رکھے تھے۔ 

ائم سوری پھپھو،  مجھے معاف کر دیں،  پلیززززز،، التجائیہ لہجا تھا۔ سلمیٰ  کو آگ لگی۔ 

تبھی تابش کا گریبان پکڑا تھا۔ 

تمھیں اندازہ ہے تابش،  ان گزرتے سالوں میں  تم نے کیا کیا،  کیا کر چکے ہو تم،  تم نے میری بچی کو اتنی زہنی اذیتیں دیں، کہ اب وہ زندہ ہی نہیں  رہنا چاہتی تھی،  موت کے منہ سے لوٹی ہے،  اور میں  اپنی اکلوتی اولاد کو ہر گز کھونا نہیں  چاہتی تابش خدارا اسے آزادی دے کر اس کی زندگی بخش دو،  طلاق دو اسے ابھی کہ ابھی،،  

سلمیٰ بیگم نے آج اس کا کوئی لحاظ نہیں  کیا تھا۔ مگر پھر پتھر سے چشمہ پھوٹتے دیکھا یعنی بھتیجے کی آنکھوں سے آنسو نکلتے دیکھے تھے تو زبان تالو سے چپک گئی۔ اسے بھی تو اپنی اولاد ہی سمجھا تھا اب تک۔ 

تابش نے اپنے گریبان سے ہاتھ ہٹا کر ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں  تھامے تھے۔ "بس ایک آخری موقع پھپھو،  اچھا سنیں ناں، میں  ایک آخری موقع مانگ رہا ہوں آپ لوگوں سے، 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عرفہ ڈھیلا ڈھالا ٹراؤزر اور ٹی شرٹ پہن کر اب آئینے کے سامنے کھڑی ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی۔ جب آئینے میں اچانک اپنی دائیں گال پر ایک چھوٹا سا پمپل لشکارے مارتا دکھائی دیا تو اس کا صدمے سے برا حال ہو گیا۔ 

افففففففف، سر پر ہاتھ مارا۔ کیا کچھ نہیں کرتی تھی ان منحوس پمپلز کے خاتمے کے لئے۔ ہزاروں ٹونے ٹوٹکے، ادویات،  کڑوے کسیلے معجون،  ہوم ریمیڈیز بھی ٹرائی کر کر کے مگر یہ منہوس کہیں نا کہیں سے نکل ہی آتے تھے۔ 

اب کیا کروں،  اس نے پیر پٹخے۔ 

ہمممممم ایلوویرا،  اگر اب کچھ دیر ایلوویرا کی مساج اس منہوس پر کی، تو صبح تک ٹھیک ہو جائے گا،، پاؤں میں چپل پہنتی خود سے ہی باتیں کیے گئی۔ 

مگر اس حلیے میں باہر کیسے نکلوں، 

پھر شال اٹھا کر اپنے گرد پھیلائی۔ اور چپکے سے باہر نکل آئی۔ 

لان میں پہنچ کر ادھر ادھر دیکھا اور ایلوویرا کے گملے تک ڈرتے ہوئے آئی۔ کیونکہ ادھر قدرے ملگجہ سا اندھیرا تھا۔ ابھی اس کا پیس توڑنے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ پیچھے سے گلا کھنکھارے جانے کی آواز پر وہ اچھل کر پیچھے مڑی۔ سامنے ہی وہ پرشوق نگاہیں عرفہ پر جمائے ہاتھ اپنے پیچھے باندھے دلچسپی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جو گال پر بہانے سے ہاتھ رکھ کر وہ پمپل خود سے اور اس سے چھپا چکی تھی۔ سیام اس کی اس معصوم حرکت پر دل کھول کر مسکرایا۔ 

عرفہ کے ماتھے پر بل آئے۔ 

کیا کر رہی ہو ادھر،،،  سیام نے نرمی سے پوچھا۔ 

آپ سے مطلب،، اس کا لہجہ کافی سرد تھا۔ سیام نے ٹھنڈی آہ بھری۔ 

میرے سارے مطلب اب تمھی سے نکلتے ہیں مسز ملک عرفہ سیام،،  سیام نے کہتے بہت کچھ جتایا تھا۔ 

وہ بغیر ایلوویرا لیے واپسی کو پر تولنے لگی۔ جب سیام اس کی راہ میں حائل ہوا تھا۔ اور بڑے بھر پور طریقے سے شعر پڑھ کر اسے چھیڑتے اس کے پمپل پر چوٹ کی کہ وہ دیکھ چکا ہے اسے۔ 

کاش تیرے منہ پر پمپل کے داغ ہوتے،،، 

چاند تو تم ہو ہی ستارے بھی ساتھ ہوتے،،،

وہ لب دانتوں میں دبا کر مسکرایا تھا اور حسبِ معمول وہ بری طرح چڑھ گئی تھی تبھی اس کے پہلو سے نکل کر جانے لگی۔ مگر اتنی ہی تیزی سے سیام نے اس کی کلائی تھامی تھی۔ 

یہ کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں مجھے،،،  وہ بری طرح مچلی۔ اس کے مچلنے سے شال سرک کر ان دونوں کی قدم بوسی کر چکی تھی۔ عرفہ بوکھلائی تھی۔ 

مگر وہ ایک جھٹکے سے کھینچ کر اسے سینے سے لگا چکا تھا۔ کمر کے گرد ہاتھ مضبوطی سے حمائل ہوئے۔ وہ تڑپتی رہی مگر اس آہنی گرفت سے نکلنا اس کے بس کی بات نہیں  تھی۔ رات کے گیارہ بجے،  لان میں رات کی رانی کی مہک چہار سو پھیلی تھی۔ ملگجے اندھیرے میں بانہوں میں ایک نرم و نازک وجود،  سالہا سال کے تمام سوئے جزبات انگڑائیاں لے کر بیدار ہوئے تھے۔ دل یوں تھا جیسے کانوں میں  دھڑک رہا ہو۔ سیام کی نگاہ اس پر سے ہٹ نہیں  رہی تھی۔ بلکہ اس نے اپنا ہاتھ اس کے جوڑے میں پھنسا کر ایک جھٹکے سے کالے سیاہ ناگن کی طرح بل کھاتے بال بھی کمر پر کھول دئیے تھے۔ جھک کر کندھے پر محبت کی پہلی مہر ثبت کی تو عرفہ کی آنکھوں کے آگے چاند تارے ناچے۔ 

میں  آخری مرتبہ بول رہی ہوں،  چھوڑیں مجھے،،  وہ پھر غرائی۔ سیام گہرا مسکرایا۔ 

اگر چھوڑیں مجھے آخری مرتبہ بول رہی ہو تو آگے کیا بولو گی پکڑیں مجھے،،؟  دلچسپی سے کہتے اب اس کے ماتھے پر لب رکھے تھے۔ عرفہ بری طرح مچلتے پتھر کی ہو گئی تھی جیسے اور اب حیرت و صدمے سے اسے دیکھے گئی۔ 

سیام نے موقع کا فائدہ اٹھایا تھا شاید۔ تبھی ایک ہاتھ اس کے بالوں میں پھنسا کر اس کے حیرت سے ادھ کھلے گداز لب اپنے ہونٹوں کی شدت بھری گرفت میں لیے تھے۔ 

عرفہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور دھکیلنے کی کوشش کی تھی۔ مگر اس کا اس پر الٹا اثر ہی ہوا تھا ۔ کہ اس کے عمل میں شدت ہی آئی تھی۔ اتنی شدت کے عرفہ کو لگا وہ اس کی جان لینے کے در پہ ہے۔ 

عرفہ نے ایک جھٹکے سے اپنا آپ چھڑایا تھا۔ شال بھی اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔ نم آنکھیں صاف کرتی اپنے کمرے میں بند ہوئی تھی۔ اور وہ جیسے اسے چھو کر پتھر کا بنا گئی تھی۔ 

تبھی وہ کافی دیر شال اٹھا کر ادھر ہی کھڑا رہا۔ بلکہ اپنے آپ کو کوسا تھا کہ کیوں اسے خود سے دور کیا۔ کیوں اپنی جان اور اس کی جان ہجر کی سولی پر چڑھائے رکھی۔ کیوں اسے خود سے بدظن کیا تھا۔ 

وہ شال لیے کچھ سوچ کر اندر آیا تھا۔ 

❤️❤️❤️💗❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سلمیٰ بیگم اپنا سامان پیک کر رہی تھیں۔ اور مومی ان کے پاس بیٹھی انھیں بغور دیکھ رہی تھی۔ بلکہ ان کے ساتھ مل کر ان کا سامان بھی پیک کروا رہی تھی۔ 

امی اتنی اچانک یہ سب،،  وہ بیزار ہونا نہیں چاہتی تھی مگر منہ بنا کر بولی۔ سلمیٰ بیگم مسکرائیں۔ 

اتنی جلدی کہاں مومی،  اتنی عرصے سے تو کوششوں میں مصروف تھے بار بار درخواستیں دیں اب اگر حاضری منظور ہو ہی گئی ہے تو ہنسی خوشی ہمیں رخصت کرو،  میری بچی،،،  

سلمیٰ بیگم نے اس کے کرلی بال کان کے پیچھے اڑسے۔ جو ہر وقت منہ چومنے کو بے تاب رہتے تھے۔ 

امی،  ایک بات پوچھوں؟  مومی پرسوچ سی بولی۔

اونہہہہ،،،  پوچھو،،  سلمیٰ بیگم مصروف سی بولیں۔ 

وہ پیپرز کا کیا بنا ،، وہ خلع کے پیپرز کا،،  مومی نے جھجھکتے پوچھا تو سلمیٰ بیگم نے اس کے جھکے سر کو بغور دیکھا۔ 

وہ پیپر یہ الماری میں  پڑے ہیں، تم ہر طرح سے آزاد ہو،  اپنی مرضی سے جہاں چاہے جب چاہے آ جا سکتی ہو،  جو مرضی کر سکتی ہو،  کسی بھی قسم کا کوئی دباؤ نہیں  تم پہ،  نا کوئی تمھیں کچھ کہے گا،  وعدہ ہے یہ میرا باقی رہی ان پیپرز کی بات تو میں  کوئی ٹینشن لے کا اللہ تعالیٰ کے گھر نہیں جا سکتی،  صرف یہ پچیس دن انتظار کرنا ہے تمھیں بس ہمارے عمرے سے واپسی تک کا انتظار ، اگر چھبیسویں دن تمھارے سائن اس پیپر پر موجود ہوئے تو اس سے اگلے دن تاشو بھی اس پر سائن کر دے گا اوکے،،  تم میری بات سمجھ رہی ہو ناں مومی،،  

جی میں  سمجھ رہی ہوں امی،  ٹھیک ہے جیسا آپ چاہیں،، اسے پتا تھا اب اس کی ماں ہی کافی ہے اس کے لئے اب اسے کسی سے ڈرنے،  کسی سے دبنے یا کسی کے بھی رعب میں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر تشویش تو اس بات کی تھی کہ اتنے دن وہ کیسے اکیلے اس کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے گزارے گی۔ مگر خیر،  اسے اب کیا پرواہ ہو سکتی تھی وہ تو اپنی مرضی کی مالک تھی اب۔ 

مومی کے سوال پر سلمیٰ بیگم کو ہفتے پہلے کی رات کا وہ منظر یاد آیا جب ہفتے بھر پہلے تابش نے ان سے ایک موقع مانگا تھا۔ کئی مہینوں سے سب بڑے اکھٹے عمرے پر جانے کی درخواستیں دے رہے تھے جو اچانک منظور ہو گئی تھیں۔ پہلے تو کبھی کوئی مسئلہ ہو جاتا کبھی کوئی ۔

 اور اب دا جی،  سلمیٰ بیگم،  عمران،  صدیقہ، فیضان اور شازیہ بیگم سب عمرے پر جا رہے تھے۔ تابش نے مومی کو منانے کے لئے بس ان کے عمرے سے واپسی کے دن تک کا وقت مانگا تھا جو کہ انھوں نے فراغ دلی اور خندہ پیشانی کا مظاہرہ کرتے اسے دے دیا تھا۔ تابش نے یہی کہا تھا کہ اگر وہ آئے اور مومی نے اس دن ان پیپرز پر سائن کر دئیے تو اس کے اگلے دن وہ بھی کر دے گا۔ سلمیٰ بیگم نے اس کی بات سے اتفاق کرتے حامی بھر لی تھی۔ اور اب مومی کو بھی سمجھا دیا تھا۔ اور وہ اب سمجھ بھی گئی تھی۔ اب اسے اس رشتے کے ہونے نا ہونے سے کوئی فرق نہیں  پڑنے والا تھا نا ان دو بولوں سے کوئی سروکار تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سب تیار تھے۔ اور آج تو مومی اور عرفہ بھی تیار تھیں۔ سب بڑوں کو ائیر پورٹ چھوڑ کر آنا تھا۔ 

عرفہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو بغور دیکھ رہی تھی۔ لائٹ گرین اور ییلو، امتزاج کی فراک میں  بالوں کا اونچا سا جوڑا بنائے سکارف اور حجاب سے خود کو اچھی طرح کور کیے وہ بے تحاشا خوبصورت لگ رہی تھی۔ مگر ایک ہفتے سے خود کو کمرے میں  بند کر رکھا تھا رو رو کر خود ہی ہلکان ہو رہی تھی۔ منفی سوچوں نے جان توڑ دی تھی۔ وہ جو چار سال پہلے اس قدر نفرت کا پرچار کر کے گیا تھا۔ اب لوٹ کر اتنی اچانک اتنی محبت کہاں سے جاگ پڑی تھی۔ تو ضرور بس اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اب بیوی کی یاد آئی تبھی اسے یوں اچانک کوئی اظہار کیے بغیر اپنی محبت کا احساس دلائے بغیر چھوا اس نے۔ 

وہ تو بری طرح اسے ذلت و آہانت کے گڑھے میں  اتارتے دھتکار کر گیا تھا۔ ٹھکرا کر گیا تھا۔ 

میرے ماتھے پہ سیاہ رنگ سے لکھا ہے منحوس

میں بن ٹھن کے بھی ٹھکرائی ہوئی لگتی ہوں

تو اب یہ سب کیا تھا وہی جو اسے لگ رہا تھا۔ وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تو سامنے آتا وہ اسے دیکھ کر ٹھٹھک کر رکا تھا۔ وہ نظر بچا کر گزر جانا چاہتی تھی یا چھپ جانا تبھی اپنے کمرے کی جانب واپس پلٹی مگر وہ ایک مرتبہ پھر اس کی راہ میں حائل ہوا تھا۔ اور اس کی کلائی تھامی۔ 

کدھر جا رہی ہو،،؟  مخاطب کرنے کو بےتکا سوال پوچھا۔ وہ بھی جلی بیٹھی تھی۔ تبھی پھنکار کر بولی تھی۔ 

"یہ میک اپ ریموو کرنے کے آپ کو یہ نا لگے کہ میں آپ کو متاثر کرنے کے چکروں میں اتنا خوار ہوئی ہوں یا یہ محنت کی ہے،، 

اس کے سرد لہجے میں چبھن سی تھی ۔ سیام کو اپنے ہی الفاظ پر افسوس ہوا۔ 

وہ باتیں اب تک دل پر لگا کر بیٹھی ہو،،  نرمی سے پوچھا تھا۔ 

جی،  کیونکہ وہ باتیں نہیں پتھر تھے جو آپ نے میری عزتِ نفس اور نسوانیت پر برسائے تھے، آئی ہیٹ یو، میں  آپ کو کبھی معاف نہیں  کروں گی، کوئی تعلق نہیں میرا آپ سے، سمجھے آپ،  نا چاہتے ہوئے بھی لہجہ بھیگ چکا تھا۔ وہ اس پتھر سے سر پھوڑتا نہیں  چاہتی تھی۔ مگر پھوڑ رہی تھی۔ 

کیوں نہیں ہے تعلق عرفہ، اور میرا تو ہر تعلق ہر واسطہ صرف اور صرف تم سے ہے، تم مجھے معاف بھی کرو گی،  اور مجھے اپناؤ گی بھی،  وہ بھی بہت جلد،،  

لہجے معنی خیز تھا۔ وہ جانے کیا سوچ کر بیٹھا تھا۔ پر فی الحال کلائی نرمی سے چھوڑ دی تھی۔ 

وہ وہاں سے جلدی سے لاؤنج میں آئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ سب ائر پورٹ پر موجود تھے۔

 وہ کیمل کلر فراک میں بلیک سکارف سے حجاب کیے بہت ہی خوبصورت اور دلکش لگ رہی تھی۔ کافی دیر سے بار بار ماتھا پسینے سے عرق آلود ہو رہا تھا۔ وہ جانتی تھی بلیک سن گلاسز کے پیچھے سے وہ بار بار اسے دیکھ رہا ہے۔ مگر پرواہ کسے تھی۔ اس کے لئے بھی عجیب سی بے چینی تھی۔

وہ نہیں جانتی آس پاس ہی ملک ارشمعان کھڑا اسے بڑے پیار سے نہارنے میں مصروف ہے۔ 

اپنا خیال رکھنا ہاں،،  کسی بھی قسم کا کوئی سٹریس لینے کی ضرورت نہیں،  میں رابطے میں  رہوں گی اپنی بچی کے ،اپنا بہت خیال رکھنا، 

سلمیٰ بیگم نے مومی کا ماتھا چوما۔ 

مومی باقی سب سے ملنے لگی جب تابش سلمیٰ بیگم کے پاس آیا تھا۔ 

آپ ٹینشن فری ہو جائیں پھپھو، میں مونا کا بہت خیال رکھوں گا، اس پر آنچ بھی نہیں آنے دوں گا وعدہ ہے آپ سے،  آپ بس بے فکر ہو کے جائیں،، 

سلمیٰ بیگم کے گلے لگا وہ ان سے عہد و پیماں باندھ رہا تھا۔ 

تمھارے بھروسے پر ہی تو چھوڑ کر جا رہی ہوں تابش، یاد رکھنا مجھے شکایت کا موقع نہیں ملے چاہیے،،  انھوں نے کہا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

ادھر شازیہ،  فیضان، صدیقہ اور عمران عرفہ کو گھیرے کھڑے تھے۔ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے اب انھیں اہم فیصلے لینے تھے اور اہم قدم اٹھانے تھے۔ 

شازیہ نے عرفہ کے دونوں ہاتھ تھام رکھے تھے۔

(جبکہ وہ دور کھڑا کن اکھیوں سے اپنی کارستانی ملاحظہ فرما رہا تھا) 

ہمارے بعد سیام بہت اکیلا ہو جائے گا عرفہ،  تابش کے پاس تو مومی ہوگی،  کیا تم ہمارے پورشن میں شفٹ ہو جاؤ گی،  سیام کا خیال رکھو گی،، میں بیماری کی ماری پیچھے سے بیٹے کی فکر ہی کھائے جائے گی،  تم ہو گی اس کے پاس تو میں بے فکر ہو جاؤں گی،، بولو تم ہوگی نا ادھر شفٹ ، وعدہ کرو مجھ سے ،،  

شازیہ بیگم نے بڑی آس امید سے پوچھا تھا جبکہ سامنے والی کی زبان تالو سے چپک چکی تھی۔ بیمار ماں جیسی محبت دینے والی چچی کو انکار کرنا موت کے برابر لگ رہا تھا۔ تبھی دھیمے سے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ 

شازیہ نے فرطِ جذبات میں اسے سینے میں بھینچ لیا۔ سب نے اسے ماتھے پر بوسا دیا۔ 

ایک دور کھڑا بندہ اس کے اثبات میں سر ہلانے پر خوشی سے نہال ہوتا گہرا مسکرایا تھا۔ 

اناؤنسمنٹ ہوئی تو وہ سب اندر چلے گئے تھے۔ واپسی پر دونوں گاڑیوں میں بلکل خاموشی چھائی رہی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہاسپٹل کے سرد سے روم میں  ہارٹ سرجری کے بعد نوید احسن کی آنکھ کھلی تو پتہ چلا۔ 

زندگی میں کیا کھویا کیا پایا۔ سود و زیاں کا احساس روح کو کچوکے لگا رہا تھا۔ 

بلکہ پایا کیا تھا۔ بس دنیاوی دولت و عشرت

جبکہ چین، سکون،  آرام،  اولاد، باوفا بیوی کی محبت،  سب کچھ کھو دیا تھا سب کچھ، 

اور آج جب اس چیز کا احساس ہوا کہ وہ دنیا میں  کس قدر تنہا ہے تو اپنے ادھورے اور خالی پن پر پھوٹ پھوٹ کر رویا تھا۔ 

بڑی خوشی خوشی اپنی غرض کو پانے کے لئے سراج مینش چلا تھا. مگر راستے میں ہی ہارٹ اٹیک نے سینے میں سانس الجھا دی تھی۔ دل کے دو وال بند ہو چکے تھے۔ جو سرجری سے کھولے گئے تھے۔ اب پچھتاوؤں کا احساس نے بے چین کر رکھا تھا کہ کب ٹھیک ہو اور کب بیوی کے پیروں میں  گر کر معافی مانگ لے۔ اور اپنی اولاد کو دیکھے اور اپنے سینے سے لگا لے۔ مگر ابھی اس میں بھی وقت تھا کہ ڈاکٹرز نے کچھ دنوں تک کا مکمل بیڈ ریسٹ بتایا تھا۔ 

اور اب ملک شجاعت اس کے سرہانے بیٹھا کڑوے کڑوے منہ بنا رہا تھا۔ 

کیا یار نوید احسن،  یہ کیا تک تھی بیمار ہونے کی اب مزید وقت لگ جائے گا مومنہ بیٹی کو سراج مینشن سے لانے کے لئے،،  وہ جھنجھلایا بیٹھا تھا. نوید احسن نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ مگر اندر آتی ڈاکٹر سیرت سراج مینشن کے نام پر ضرور چونکی تھی۔ 

نوید احسن تھوڑی دیر بیٹھ کر جا چکا تھا۔ اور اب سیرت نوید احسن کی فائل چیک کر رہی تھی۔ اور ساتھ ساتھ نوید احسن سے تعارف کا مرحلہ بھی پار کر چکی تھی۔ 

آپ کو پتہ ہے انکل میں ملک فیضان سراج کی بیٹی ہوں،،  اس نے بتایا تو نوید احسن خوش ہو گئے۔

کیا واقعی،،  کیسی ہے میری مومنہ، کس پر گئی ہے،، 

وہ تو بلکل آپ پر گئ ہے،  مگر آپ جانتے ہیں وہ پچھلے دنوں اسی ہاسپٹل داخل تھی، نروس بریک ڈاؤن ہوا تھا اس کو، اس کا نکاح اس سے نو سال بڑے تایا عمران کے بیٹے،  تابش سے کیا ہوا ہے ، بہت ہی زیادہ سٹریس،  اور زہنی دباؤ کا شکار تھی،  جس سے صاف ظاہر تھا وہ سراج مینشن میں بلکل بھی خوش نہیں تھی،  آپ جلد از جلد اسے وہاں سے لے جائیے گا انکل، کہیں کچھ ہو ہی نا جائے اسے وہاں،، 

سیرت کی بات پر نوید احسن چونکے اور بے چین سے ہوئے تھے۔ سیرت انھیں مومنہ کی کنڈیشن تفصیل سے بتاتی رہی۔ 

اس کی کنڈیشن کا سن کر نوید احسن بھی سوچنے پر مجبور ہو چکے تھے کہ وہ سراج مینشن میں خوش نہیں  تو وہ اسے وہاں سے نکالنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے۔ 

ملک شجاعت اور ان کا بیٹا ارشمعان پلکوں پر بٹھا کر رکھیں گے میری بچی کو،،  

بند آنکھوں کے پیچھے سہانے سپنے بننے لگے تھے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

شام کے سائے گہرے ہو گئے تھے۔ اور وہ سب اپنے اپنے رومز میں موجود تھے۔ آخر تابش ہی اپنے روم سے باہر نکلا تھا۔ اور ملازمہ کو ڈنر بنانے کا بولا۔ 

عرفہ اپنے روم میں بےچینی سے ادھر سے ادھر ٹہلتی بےدردی سے اپنی ہی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ وعدہ بھی کر چکی تھی اور اب اپنی جان بھی حلق میں اٹکی ہوئی تھی۔ 

اونہہہہہہ،،، بھاڑ میں جائیں،  باہر سے منگوا کر کھا لیں گے کھانا،  میں کیوں مرنے والی ہو رہی ٹینشن لے لے کے،  وہ پیر پٹختی اپنی الماری کی جانب گئی تھی۔ مگر الماری کھول کر غش ہی پڑا تھا کہ اس کی الماری سے اس کی ہر چیز غائب تھی۔ (یا پیچھے سے ملازمہ کو بول کر غائب کروائی گئی تھی) وہ بری طرح جھنجھلائی تھی۔ مگر چچی سے کیا وعدہ وفا کرنے کا ارادہ اب بھی شاید نہیں تھا۔ تبھی مومی کے روم میں  چلی گئی تھی۔ 

ادھر مومی کونسا پھولوں کی سیج پر بیٹھی تھی وہ بھی اتنی ہی بے چین تھی۔ انھوں نے ایک دوسرے کو کمپنی دی تو کچھ دل بہل گیا۔ 

چند گھنٹوں بعد ہی ملازمہ ڈنر کے لئے بلانے آئی تھی۔ 

وہ دونوں ڈنر کے لیے ٹیبل پر بیٹھیں۔ حیرت انگیز آج ٹیبل پر سب مومی کی پسند کی ڈیشز تھیں۔ وہ جو صبح سے بریک فاسٹ کر کے اپنے کمرے میں  بند تھی۔ اب لزیز کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبو سے بھوک جاگ اٹھی تھی۔ مومی نے جلدی سے بریانی پلیٹ میں ڈالی تھی۔ 

ابھی کھانا شروع ہی کیا تھا تبھی سیام کچن میں  چلا آیا تھا۔ عرفہ نے پہلو بدلا۔ 

چلو یار عرفہ،  میں  کب سے ویٹ کر رہا ہوں،  کہ تم آؤ اور مجھے کھانا بنا کہ دو قسم سے بہت زیادہ بھوک لگی ہے،، 

وہ بہت بے تکلف انداز میں دوستانہ طریقے سے بولا کہ ایک مرتبہ تو عرفہ بھی دنگ رہ گئی تھی اس کے شوشوں پر۔ 

آپ ادھر ہی بیٹھ کر کھا لیں،  عرفہ نے اس کے مسئلے کا حل پیش کیا۔ 

رائٹ کھانا یہاں کھا بھی لیا تو صبح میں نے تاشو کا آفس جوائن کرنا ہے،  اس کی تیاری میں  مدد چاہیے شرٹ بھی پریس کروانی ہے، آ جاؤ یار،  اس نے آئیبرو اچکائی جیسے اس وعدہ خلاف کو اس کا وعدہ یاد دلانا چاہتا ہو۔ 

آپ اپنی شرٹ مجھے دے دیں میں پریس کر کے دے دوں گی،،  عرفہ اس جن سے اپنا دامن بچانا چاہتی تھی۔ 

عرفہ اپنا اور سیام کا کھانا نکالو،  اور جاؤ اس کے ساتھ، شازیہ چچی ابھی کچھ دیر پہلے ہی وائس میسج پر پوچھ رہی تھیں کہ عرفہ گئی ادھر کہ نہیں ، اگر فون آیا تو کیا بولو گی،  تم پرامس کر چکی ہو ان سے،  تاشو نے نرمی سے اسے سمجھایا۔ 

ناچار اسے اٹھنا ہی پڑا۔ اپنے اور اس جن کے لئے کھانا نکال کر وہ مرے مرے سے قدموں سے چلتی اس کے ساتھ دوسرے پورشن آئی۔ 

عرفہ نکلی تو مومی اپنی پلیٹ اٹھا کر ٹیبل سے اٹھنے لگی تھی جب ایک آواز پر قدم ٹھٹھک کر رکے۔ 

مونا،  پلیززززز،،،  کوئی بھی نہیں،  شروع سے سب کے ساتھ بیٹھ کر کھانے کی عادت ہے،  اب کوئی نہیں  ہے تو بھوک ہی مر جائے گی،  ادھر ہی بیٹھ جاؤ پلیز،،  

اس کے حکمیہ کی بجائے التجائیہ سے لہجے نے مومی کو حیران کیا تھا۔ وہ جانا چاہتی تھی مگر ادھر ہی بیٹھ گئی کہ اس شخص کے ہونے نا ہونے سے اب اسے کوئی فرق نہیں  پڑتا تھا۔ مگر تاشو اب پرسکون سا رغبت سے کھانے میں مصروف تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

بھلا ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے 

نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی

سیام نے ٹرے لا کر کاؤنٹر پر رکھی تھی۔ عرفہ نے کھانا دوبارہ گرم کیا۔ وہ صبح والے حلیے میں ہی تھی۔ اور سیام کے سیدھے دل میں اتر رہی تھی۔

سیام اسے مسلسل بے شرموں کی طرح اپنی نگاہوں کے حصار میں  رکھے ہوئے تھا۔ 

اور وہ مسلسل جھجکتے جھنجھلا رہی تھی۔ وہ کھانا اس کے سامنے رکھ کر کچن سے بھاگنے کے چکروں میں تھی۔ مگر اب سیام کے دام میں پھنس چکی تھی تبھی اس کی کلائی تیزی سے سیام کے ہاتھ کی گرفت میں آئی تھی۔ 

کدھر،،،؟  

میں نے کھا لیا تھا کھانا،،،  عرفہ نے جان چھڑانا چاہی۔ 

جانتا ہوں کتنا کھایا ہے، بیٹھ جاؤ یار پلیز، تھوڑا سا میرے ساتھ کھا لو، نہیں تو میں بھی نہیں کھاؤں گا، اس نے ایسی مسکین سی شکل بنا کر کہا تھا۔ عرفہ بیٹھ ہی گئی۔ سیام نے ایک ہی پلیٹ میں بریانی ڈال کر اپنے اور اس کے سامنے رکھی تھی۔ وہ اسے گھورے گئی۔ 

کیا،؟  مجھے نہیں کھانا، کھانا کھانا ہے،،  وہ سنجیدگی سے بولا پر نگاہوں میں شرارت بھری بھرپور چمک سی تھی۔ 

ان چونچلوں کا مطلب،، وہ منہ بنا کر بولی۔ مگر سیام کے اگلے جواب نے اس کے ہاتھوں کے طوطے اڑائے تھے۔ 

تمھیں آج رات کے لئے تیار کرنا ،، سکون سے کہا گیا تھا۔ 

کک،، کیا مطلب،،  عرفہ کا منہ کی جانب جاتا ہاتھ رک گیا تھا۔ 

مطلب بھی سمجھا دوں گا اتنی جلدی کس بات کی ہے یار،،  وہ پلیٹ پر جھک کر بلکہ اس کی جانب زرا سا جھک کر مصروف سا بولا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مومنہ روم میں آئی تو ٹینشن و پریشانی سے اسے ٹمپریچر سا محسوس ہو رہا تھا۔ اور اس ٹمپریچر کے ساتھ ہی ایک نئی فکر لاحق ہو گئی تھی وہ یہ کہ اگر ٹمپریچر تیز ہو گیا تو وہ بخار کی شدت میں بہت برے طریقے سے ڈر جایا کرتی تھی۔ بخار میں ہمیشہ سلمیٰ بیگم اس کے پاس سوتی تھیں تاکہ وہ اگر ڈر جائے تو سلمیٰ بیگم اسے سنبھال سکیں۔ 

ڈھیلا سا کرتا ٹراؤزر پہن کر وہ پانی سے ایک پینا ڈول لے کر لیٹ گئی تھی۔ بخار کی شدت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ وہ جلد ہی گہری نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ 

ادھر تابش بھی بے چین سا تھا اس کی لاکھ کوشش کے باوجود مونا اس سے سہی طرح بات نہیں  کر رہی تھی اور اسے یہ بھی کہاں گوارا تھا۔ تبھی حسبِ معمول اس کے روم میں  چلا آیا تھا۔ وصل کی گھڑیوں کا سوچتے آج تک اپنے تمام تر جزبوں پر لگامیں کسنا اپنے جزبات کو قابو میں  رکھنا میان سے نکلی تلوار پر چلنے کے مترادف تھا۔ 

اب بھی وہ ڈھیلے سے لباس میں میگی نوڈلز تکیے پر بکھیرے دونوں ہاتھ پیٹ پر رکھے آڑھی ترچھی سو رہی تھی۔ مگر معصوم چہرہ خلاف معمول کافی سرخ تھا اور وہ نیند میں  بے چین سی بھی تھی۔ تبھی تابش نے آگے بڑھ کر اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ جو رکھتے ہی جل اٹھا۔ وہ تیز بخار میں  پھنک رہی تھی۔ 

اففففففففف،،،،،  پہلے دن ہی اتنا تیز بخار،  تابش کو اس کی فکر لاحق ہوئی۔ پتا نہیں میڈیسن بھی لی کے نہیں؟ اٹھاؤں نہیں اٹھاؤں؟  

تبھی کچن میں گیا۔ ٹھنڈا پانی باؤل میں  ڈال کر لایا اور اپنے روم سے رومال لایا۔ 

ابھی لا کر چیزیں بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر ہی رکھی تھیں کہ مونا کی دلدوز سی چیخیں سنائی دیں۔ وہ بے تحاشا گھبرایا تھا۔ جلدی سے اس کی جانب پلٹا جو سر بیڈ پر پٹختی با آواز بلند رونے اور چیخنے میں مصروف تھی۔ 

تابش ایک گھٹنا فولڈ کر کے  بیڈ پر رکھ کر اس کے اوپر جھکا تھا۔ اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا

مونا،،،،،  مونا،،، اٹھو پلیز،، 

ادھر وہ شدید بخار میں پھوٹ پھوٹ پر کر روتی امی امی پکار رہی تھی۔ 

آخر تابش نے بیڈ پر بیٹھ کر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر کے اسے سینے میں بھینچا تھا۔ 

مونا ریلیکس،،  شاباش،،، کوئی نہیں ہے ادھر،  کوئی بھی نہیں،،  نا ہی میں کسی کو تمھارے قریب آنے دوں گا،، ریلکیکس ہوجاؤ میری جان ،،

وہ ایک ہاتھ سے اس کے بال سہلاتا،  دوسرے سے اس کی پیٹھ رب کرتا رہا۔ مونا نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی ۔ مگر غنودگی میں وہ کچھ بھی سوچ سمجھ نہیں پا رہی تھی۔ 

کافی دیر وہ اسی پوزیشن میں اسے سینے سے لگائے بیٹھا رہا تھا۔ کس قدر سکون تھا اس کی دلفریب قربت میں کہ وہ چاہتا تھا آج کی رات کبھی گزرے ہی نہیں ۔ 

تاشو  اسے لٹا کر کافی دیر اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتا رہا۔ 

کافی فرق پڑا تھا ۔ کچھ دیر بعد ہی ٹمپریچر کافی کم ہوا تھا تو تابش نے سکون کا سانس لیا۔ 

اب اس کا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں  تھا مبادا کہیں پھر وہ ڈر جاتی۔ اس کے پہلو میں لیٹا چھت کو گھورتا رہا۔ دل تو ہمک ہمک کر چاہتا تھا ہاتھ بڑھا کر اسے تھام لے اور ساری دوریاں ختم کر دے۔ 

مگر،،، 

تمام بوجھل ہوتے جزبات کو سر جھٹک کر ایک سائیڈ پر رکھا ۔ اس کا سر اٹھا کر اپنے کشادہ سینے پر رکھا اور آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عرفہ اپنے روم میں آئی تھی۔ صد شکر کے اس کا سامان اس کے اپنے روم میں پڑا تھا جو اس دوسرے پورشن میں اس کے لئے چچی امی نے مخصوص کر رکھا تھا۔ مگر وہ اپنی دھن میں مگن سوچوں میں گم یہ تک محسوس بھی نہیں کر پائی تھی کہ کمرے میں غیر معمولی بدلاؤ سا ہے۔ 

آئینے کے سامنے کھڑی وہ اس منہوس پمپل پر آئٹمنٹ لگا رہی تھی جو پھر کہیں نا کہیں سے جلوہ گر ہو ہی جاتا تھا ۔ جب کلک کی آواز پر روم کا لاک کھلتا چلا گیا اور عرفہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ مگر سیام مسکراتا اپنی چیزوں سمیت اس کمرے میں داخل ہوا تو عرفہ کے پیروں تلے سے زمین ضرور سرکی تھی۔ 

یہ،، کک،، کیا، آپ اس روم میں کیا کر رہے ہیں اپنے روم میں جائیے، یہ میرا روم ہے،،  وہ بری طرح بوکھلائی تھی۔ 

"اب ہر بار ضروری تو نہیں کہ بیوی ہی رخصت ہو کر شوہر کے پاس آئے، اب تم تو رخصتی دے نہیں رہی تو میں یعنی شوہر بقلم خود، خود ہی رخصت ہو کر بیوی کے پاس چلا آیا ہے کیونکہ میری شروع دن سے خواہش تھی کہ میں ایک بہت بڑا زن مرید بنوں،،  

وہ سنجیدگی سے کہتا اپنا سامان بیڈ پر رکھ گیا تھا۔ چہرے پر مزاق کا شائبہ تک نہیں تھا ہاں مگر اس کی شریر آنکھیں بہت کچھ بولتی تھیں۔

آپ کا دماغ خراب ہو گیا ہے،  میرے اس پورشن میں رہنے کی بات اور وعدہ ہوا تھا چچی امی سے،، آپ کے ساتھ ایک ہی روم میں رہنے کا نہیں، جائیے آپ یہاں سے برائے مہربانی،، 

وہ چمک کر بولی تھی۔ 

تم یہ کیوں بھول جاتی ہو مسز، کہ سارا پورشن تمھارے شوہر کا ہے،  تو میں کہیں بھی کسی بھی کونے میں اپنی مرضی سے آ جا سکتا ہوں، اور یہ روم،، اگر تھوڑا سا غور کرو مسز تو اسپشل میری پسند سے دوبارہ رینوایٹ کروایا گیا ہے کیا سمجھیں،،  

عرفہ کی ہوائیاں اڑی تھیں۔  جبکہ وہ اطمینان سے ڈور لاک کرتا اب قدم اس کی جانب بڑھا رہا تھا جو ہونق بنی اب اپنے قدم پیچھے کی جانب لے رہی تھی۔ 

س،، سیام،، آپ مجھے ڈرا رہے ہیں،، وہ آخر روہانسی ہو کر دیوار سے لگی۔

ارمان وصل کا مری نظروں سے تاڑ کے

پہلے ہی سے وہ بیٹھ گئے منہ بگاڑ کے 

اور تم مجھے کب سے بہکا رہی ہو ڈارلنگ،، وہ مسکرایا۔ اور اپنے ہاتھ کی پشت سے اس کی گداز گال سہلائی تھی۔ 

اور فاصلے سمیٹتے اب وہ اس کے چہرے کا ایک ایک نقش کو چوم کر اپنی محبت کا خراج پیش کر رہا تھا۔ جب برداشت کی حد پار ہوئی تو عرفہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اس خود سے دور دھکیلا۔ 

دور رہیں مجھ سے سیام،،  آئی ہیٹ یو،، ویسے تو آپ مجھے اس قابل نہیں سمجھتے تھے کہ آپ کے اس پورشن میں  قدم بھی رکھوں، اور آج جب اپنا مطلب پورا کرنا ہے تو بیوی بیوی پکارتے آ گئے ادھر،  اور مجھے زبردستی اس پورشن میں بھی لے آئے،  سمجھ کیا رکھا ہے آپ نے مجھے، کھلونہ ہوں یا کوئی استعمال کی چیز، جسے جب جی چاہا نکال باہر کیا اور جب دل چاہا اپنے پاس بلا لیا،،  

سالوں کا غبار تھا۔ وہ پھٹ ہی تو پڑی تھی۔ جبکہ سیام شاکڈ سا اسے ملاحظہ فرما رہا تھا جو اس سے اس قدر بدگمان تھی۔۔ 

تو اس کا مزاج ٹھکانہ لگانا بھی تو بہت ضروری تھا ناں۔ 

تبھی وہ جارحانہ تیور لیے آگے بڑھا تھا کہ عرفہ بھی ڈر کر اپنی جگہ سے اچھلی تھی۔ وہ ایک جھٹکے سے اسے اپنی بازوؤں میں بھر چکا تھا عرفہ کا تو صدمے سے برا حال ہوا تھا۔ 

یہ کک کیا،،  چھوڑیں مجھے،،،  وہ چلائی اور ہاتھ پیر چلائے۔ 

مگر وہ اسے بیڈ پر پٹخ چکا تھا۔ تیزی سے چلتے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قابو کر کے بیڈ سے لگائے اور مکمل طور پر اس پر جھکا اس پر حاوی ہوا۔ 

یہ کیا کر رہے ہیں آپ، چھوڑیں مجھے سیام آپ پاگل ہو گئے ہیں،،  وہ مزاحمت کر کر کے ہانپ چکی تھی تبھی پھنکاری ۔ 

نہیں پاگل نہیں ہوا دراصل میں تمھیں بتا رہا ہوں کہ مطلب کیسے پورا کیا جاتا ہے،، وہ اطمینان سے بولا تھا۔ عرفہ نے نم آنکھیں لیے اس سے چہرے موڑا تھا مگر سیام نے سختی سے اس کا جبڑا دبوچ کر اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں ڈالیں تھیں۔ 

یہ ویسے تم لڑکیوں کو ایسے کیوں لگتا ہے کہ ہم صرف اپنا مطلب پورا کرنے کو ہی تمھارے قریب آتے ہیں، مطلب کے علاوہ اور بھی تو مسئلے ہو سکتے ہیں، جیسے کہ کوئی محبت کرے مرے گا تو ہی قریب آئے گا ناں،،  طلب پوری کرنے کو تو بازار سے کئی مل جاتی ہیں،  پیسہ پھینکنے کی دیر ہے،، 

سیام کی باتوں اور لہجے کی گہرائی تھی کہ عرفہ کو اپنے اتنے بیہودہ خیالات اور اتنے سخت اور برے الفاظ پر اب بے حد شرمندگی ہی ہوئی تھی۔ 

تبھی نم آنکھوں سے آنسو پھسل کر شیٹ میں جزب ہوئے تھے۔ 

یہ بات اپنے چھوٹے سے دماغ میں اچھی طرح بٹھا لو مسز عرفہ سیام کہ مطلب پورا کرنے بھی ایک شوہر اپنی محبوب بیوی کے پاس ہی آتا ہے،  جس سے وہ بے تحاشا محبت کرتا ہے،  نہیں تو دنیا کا کوئی مرد باوفا نا ہو اور ہر مرد نے کئی عورتوں سے تعلقات قائم کر رکھے ہوں،، 

سیام کہتا اس سے پرے ہٹا تھا۔ اور بیڈ پر ایک سائیڈ ہو کر لیٹا تھا۔ وہ بےجان سی اسی جگہ پڑی رونے کا شغل فرما رہی تھی۔ تبھی سیام نے کھینچ کر اسے اپنے سینے پر گرایا تھا۔ 

س،، سیام،،  وہ کچھ کہنا چاہتی تھی شاید

سو جاؤ عرفہ،، کچھ نہیں  کہوں گا،،  نرمی سے کہتے اس کی پیٹھ سہلائی تھی۔ کافی دیر تک اس کے آنسو سیام کے شرٹ اور سینے پر گرے تھے۔ مگر اس قدر محبت سے اسے سمیٹنے اور سہلانے پر وہ جلد ہی گہری نیند میں چلی گئی تھی۔ 

سیام نے اسے اس کے تکیے پر سیدھا کیا۔ 

سب بڑوں سے بول کر وہ رخصتی لے چکا۔ اور یہ زبردستی کی ہی رخصتی تھی یقینا تبھی وہ یہ سب قبول نہیں کر پا رہی تھی۔ مگر سامنے بھی ملک سیام سراج تھا جو تہیہ کر چکا تھا اسے محبت کی راہوں میں اپنا ہمقدم بنانے کا۔ جزبوں سے چور دل بے چین تھا مگر جیسے تیسے آنکھوں پر بازو رکھ کر سو ہی گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اگلے دن تابش کی آنکھ کھلی تھی۔ صبح خیزی کا یہ منظر زندگی کا خوشگوار ترین منظر تھا۔ کیوں کہ وہ اس سے لپٹی ایک ہاتھ اس کے پہلو میں رکھے دوسرا اس کے سینے سے لپیٹے گہری نیند میں تھی۔ 

رات بھر وہ بخار کے زیرِ اثر عجیب سہمی ہوئی سی تابش سے لپٹی اس کے لئے سراپاِ امتحان بنی رہی تھی۔ وہ ڈھنگ سے ساری رات سو بھی نہیں  پایا۔ تابش نے مونا کے ماتھے پر ایک نرم گرم سا لمس چھوڑا۔ جس سے معلوم ہوا کہ بخار کا اثر کافی حد زائل ہو چکا ہے۔ تبھی وہ مطمئن ہو کر اپنے روم میں آفس کے لئے تیار ہونے گیا تھا۔ 

آج ویک اینڈ تھا۔ اور آج اس نے جان بوجھ کر کسی خاص مقصد کے تحت لنچ پر اپنے بہترین دوست ارحم کو اس کی مسز کیساتھ انوائٹ کیا تھا۔ 

ادھر مونا کی بھی آج جلد آنکھ کھل گئی تھی۔ بھاری ہوتے سر کے ساتھ پہلے تو غائب دماغی سے لیٹج چھت کو گھورتی رہی مگر جیسے جیسے رات کے مناظر یاد آتے چلے گئے وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی تھی۔ اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپا لیا جیسے ایسے کرنے سے گزشتہ رات کی اس کی کارگزاریاں بدل ہی جائیں گی۔ 

اففففف، کمینی، بیغیرت،  الو کی پٹھی مومی یہ کیا کیا۔۔ ابھی وہ اپنے کیے گئے ہر کرتوت پر کفِ افسوس مل ہی رہی تھی جب وہ دھڑلے سے آفس کے لئے بلکل تیار پھر اس کے روم میں چلا آیا۔ 

مومی نے گڑبڑا کر دوپٹہ اٹھاکر سر پر جمایا تھا۔ اور آج اپنی وجہ سے اس گبر سے نگاہیں بھی چرائی تھیں۔ 

وہ نیوی بلو تھری پیس میں اپنی تمام تر وجاہت سمیت اس کے سامنے کھڑا تھا۔ 

مونا اگر طبیعت ٹھیک ہے تو ملازمہ کے ساتھ مل کر لنچ پر ایک دو اچھی سی ڈشز بنا لینا،  میں نے اپنے فرینڈ اور اس کی مسز کو انوائٹ کر رکھا ہے،، اوکے،،  وہ کہتا ایک گہری نگاہ اس پر ڈالتا 

اس کے پیچھے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑا باکس کن اکھیوں سے دیکھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔ 

(کتنی خواہش تھی کہ رخصتی کے بعد اسے گفٹ دے گا جس کا روز اول سے اسے بہت شوق رہا ہے) 

وہ تلملائی۔  اونہہہہہہ اپنے دوست کی دعوت ہے تو میں  کیا کروں،  اب وہ دن گئے جب یہ حاکم تھے اور میں محکوم،  لنچ بناتی ہے میری جوتی دیکھتی ہوں کیا کریں گے؟  

وہ لاپروائی سے پھر بیڈ پر ڈھے گئی۔ مگر جلد ہی نگاہ بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر پڑی تو تیزی سے پھر سے اٹھنا پڑا۔ 

یہ کیا ہے اور کس نے رکھا ادھر،،  تجسس ہوا۔ تبھی ہاتھ بڑھا کر وہ گفٹ پیک ہوا باکس اٹھا لیا۔  کیا ہے یہ، الٹ پلٹ کر دیکھا۔ 

کیا تاشو نے،،، بے یقینی سی تھی۔ مگر اس کے علاوہ اور تھا کون جو یہ چیز یہاں رکھتا۔ گفٹ پیک کھول کر دیکھا تو ایم بے حد قیمتی موبائل تھا۔ 

وہ سر خوشی سے اچھل ہی تو پڑی اور بیڈ پر بچوں کی طرح کودنے لگی۔ 

ییےےےےےےےےےےےے،،،،اففففففف اس کا موبائل،  اس کا اپنا موبائل،  

تو کیا ہوا اگر اس سڑے انڈے ، جلے بھنے گبر نے دیا تو،  ہے تو اس کا موبائل نا۔ 

جلدی سے کھول کر دیکھا۔ 

سب سے پہلے امی کو کال کروں،  سم ایکٹیویٹ تھی۔ نمبر سیو کر کے دئیے گئے تھے۔ سب سے پہلے اس نے سلمیٰ بیگم کو ہی کال ملائی تھی۔ 

ان سے خوشی سے دمکتا چہرہ لیے وہ دنیا بھول گئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

دوپہر کا وقت تھا۔ سارا گھر کا کام کاج ملازمہ کے ساتھ مل کر کروا کے،  اسے آج کھانا بنانے سے منع کر کے اطمینان سے آ کر اپنے روم آئی۔ 

الماری میں رکھی ایک ڈائری سے عنایہ(اپنی بیسٹ فرینڈ) کا نمبر لیا جو اس نے پچھلے کچھ دنوں سے ہی اس سے لیا تھا۔ 

اور اب وہ خوشی سے بےحال ہوتی بیڈ پر اوندھی آڑھی ترچھی لیٹی اس سے گپیں لگانے میں مصروف تھی۔ عنایہ کو اپنے گھر آنے کا بھی بولا تھا۔ 

جب باہر سے مخصوص ہارن کی آواز آئی۔ اور ایک اور گاڑی کی آواز آئی۔ یقینا وہ اور اس کے گیسٹ آ گئے تھے۔ اور اب ملک تابش سراج کی زبردست قسم کی انسلٹ ہونے والی تھی۔ اسے عجیب کمینی سی خوشی ہوئی۔ مگر حسبِ عادت اس سڑے گبر کے لاوے کی طرح ابال کھاتے غصے کا سوچ کر بیک بون میں سرسراہٹ سی ہوئی۔ 

مگر خود کو بظاہر مضبوط کیا کہ اب اسے ڈرنے ورنے کی کوئی ضروری نہیں۔ فون بند کر کے باہر سے آتی آوازیں سننے لگی۔ جہاں سے پرجوش باتوں ہنسی اور قہقہوں کی آوازیں آئیں۔ 

تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر روم سے باہر جھانکا۔ وہ اگر اس وقت کوئی سفید کوا بھی دیکھ لیتی تو اسے اتنی حیرت نا ہوتی جتنی کہ آج اس گبر کی اولاد کو باہر لاؤنج میں بیٹھے قہقہے لگاتے دیکھ ہو رہی تھی۔ وہ جو ارحم کی اسے مونا کے حوالے سے چھیڑنے پر ہنس رہا تھا ایک پنک آنچل دکھائی دیا تو سکون سا آیا۔ فورا اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی جانب آیا اور وہ اتنی اچانک اسے اپنی جانب آتا دیکھ بری طرح بوکھلا گئی تھی۔ 

آؤ ،، مونا باہر آؤ،، عائشہ بھابھی سے ملو،،  

آج اس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنے کا دن تھا۔ مگر شاید اس بندے نے ابھی کچن میں  جھانک کر نہیں  دیکھا تھا جو اتنی خوش خلقی کے اعلیٰ مظاہرے ہورہے تھے۔ وہ اس کی کلائی تھام کر لاؤنج میں  لایا جہاں ایک خوش شکل سی لڑکی اپنی گود میں ایک کیوٹ سا بےبی کو لیے بیٹھی تھی۔ وہ بلا تکلف اٹھ کر اس کے گلے لگی تھی۔

آج تک آپ نے جتنے اپنی بیوی کے بے اختیار حسن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے ہیں تابش بھائی، آج مجھے پتا چلا وہ سب ٹھیک ہی تھے،  میں خواہ مخواہ ہی آپ کو تنگ کرتی رہی،  وہ ہنس کر بولی مگر ادھر کاٹو تو بدن میں  لہو نہیں  والا حساب تھا۔ 

یہ کارنامے اس بندے نے کب اور کہاں کیے جو اسے نظر بھر کر دیکھتا تک نہیں  تھا۔ 

تابش کی گردن میں  سریا آیا تھا۔ کالر جٹھک کر سر کو ہلکا سا خم دے کر تعریف وصول کی تھی۔ وہ آج اس کی ساری کاروائیاں دیکھ رہی تھی مگر ہضم کرنا مشکل تھا۔ 

عائشہ ایک بہت ہی زیادہ خوش اخلاق، خوش طبع اور ملنسار لڑکی تھی۔ اور بہت جلد ہی مومی اور وہ آپس میں  گھل مل گئے تھے۔ ارحم بھی اسے بےحد احترام سے بھابھی بول رہا تھا۔ 

اب کیا یار کتنا انتظار کرواؤ گے، بھابھی کے بنائے کھانوں کے ٹیسٹ کا بتا بتا کر اب اور کتنا ویٹ کرنا پڑے گا کھانے کا مجھے تو سوچ سوچ کر ہی سخت بھوک لگی ہے،،  ارحم نے کہا۔ 

تابش مسکرایا۔ 

مگر ادھر آج اس کا دل کر رہا تھا زمین پھٹے اور وہ اس میں  سما جائے۔ اتنے اچھے،  اور خوش مزاج لوگوں سے یہ سلوک، سلمیٰ بیگم نے اس کی ایسی تربیت تو نہیں  کی تھی کہ وہ یوں گھر آئے مہمانوں کی بےعزتی کرتی۔ 

مونا جاؤ کھانا لگاؤ،،  تابش نے مسکراتے کہا تو اس نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤

مونا اٹھنے کی بجائے بس بیٹھی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ تبھی تابش نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا تھا۔ آہستگی سے چلتا اس کے قریب آیا۔ مومنہ کی جان حلق میں اٹکی۔ 

قریب آ کر اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کیا تھا اور ارحم سے مخاطب ہوا "کتنی بری بات ہے ارحم، میری اتنی کیوٹ سی بیگم کو پریشان کر رہے ہو،  جب رستے میں سے میں نے کھانا پیک کروا لیا تھا تو جان بوجھ کر کیوں تنگ کر رہے ہو،  بتایا تو تھا رات اس کی کتنی طبیعت خراب تھی،  اور یہ تو سچ ہے کہ مونا کہ ہاتھ میں بہت ہی زیادہ ٹیسٹ ہے،  مگر اس کے ہاتھ کا پھر کبھی سہی،  چلو مونا کھانا لگاتے ہیں،،  

مونا دم بخود سی اسے حیرت سے پھٹی آنکھوں سے دیکھے گئی۔ 

آخر وہی کچن کی جانب آگے بڑھا اور اسے تھام کر کچن میں لے گیا۔

 ڈائننگ ہال کے ٹیبل پر پیکڈ فوڈ پڑا تھا۔ اس نے تازہ بنا کھانا ان ریپ کیا۔ 

مومنہ کو خود پر وقتاً فوقتاً اٹھتی ایک بہت گہری نگاہ پریشان کر رہی تھی۔ تبھی اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔ وہ اس کی مدد کم کر رہا تھا اسے اپنی ان عجیب سی بدلی بدلی نگاہوں سے پریشان زیادہ کر رہا تھا۔اس کے تو جیسے رنگ ڈھنگ تمام انداز بدل چکے تھے۔ سادہ سے حلیے میں وہ کاٹن کا سادہ سا میرون سوٹ پہنے میرون دوپٹہ لیے اس کے دل کے بہت قریب تھی۔ 

تبھی بےدھیانی میں مومی نے اوون سے بے حد گرم پلیٹ اٹھا لی تھی۔ 

ایہہہہہہہہہہہہ،،  ہلکی سے چیخ منہ سے نکلی۔ مگر اس نے پلیٹ نہیں چھوڑی تھی۔ وہ کیبن پر رکھ کر ہی بری طرح ہاتھ جھٹکا تھا۔تابش تڑپ کر اس کی جانب بڑھا تھا۔ 

یہ،، کیا مونا،،

How could you do this to yourself?

بھاڑ میں جاتی پلیٹ، تم اسے تو چھوڑ دو،،، تابش نے اس کا ہاتھ تھام کر ٹھنڈے پانی کے نیچے کیا۔ بے اختیار ہی تابش کا بازو اس کی کمر کے گرد لپٹا تھا۔ ہاتھ کے درد سے زیادہ تو مومی کو اس عجیب سے پرحدت جسم پگھلاتے تپش بھرے لمس نے بہت عجیب سی احساس سے دوچار کیا تھا۔ 

بے تحاشا جھنجھلا کر اس کی گرفت سے اپنا آپ چھڑایا تھا۔ 

مم ،میں ٹھیک ہوں، آ،،،آپ مجھ سے دور ہٹیں،، کہا تو تڑخ کر تھا مگر ناچاہتے ہوئے بھی اس شخص کے سامنے اس کی زبان لڑکھڑائی تھی۔ 

ادھر جانے کیوں اس کی گھنی مونچھوں کے نیچے عنابی لبوں کو گہری مگر مہربان سی مسکان نے چھوا تھا۔ یعنی اس کے لمس میں وہ اپنے لئے غیر معمولی محبت کی گرمی محسوس کر رہی تھی اور اس سے جھنجھلا بھی رہی تھی۔ 

ائم سوری، بٹ اب وہ تو بلکل بھی نہیں  ہٹ سکتا،،  

مومی کے شاید کان بجے تھے یا اس نے واقعی اس کی بڑبڑاہٹ میں  یہی بات سنی تھی۔ مگر اب تابش نے اسے بس چئیر پر بٹھا دیا تھا اور خود کھانا لگایا۔ 

ارحم اور عائشہ کو بھی بلا کر لایا تھا۔ وہ اس کے پہلو میں بیٹھا کھانا کھاتے قہقہے لگا لگا کر یوں تینوں سے باتیں کر رہا تھا جیسے ہمیشہ سے ایسا ہی تو ہے۔۔ 

ہاں مومی کو یاد آیا برسوں پہلے وہ ایسا ہی تو تھا۔ ہنس مکھ اور خوش گفتار۔ 

پھر سیرت آپی۔ 

ان کا ایک دم غائب ہوجانا۔  سلمیٰ بیگم کا اس سے سائن لینا وہ ایک خاص دن اور تابش کا ایک مونسٹر بن جانا۔ پھر سائے کی طرح اس کی حفاظت کرنا یا اس کا خود ہی سایہ بن جانا۔ 

کڑیوں سے کڑیاں ملتی چلیں گئیں۔ 

اور اسے سب یاد آتا چلا گیا۔ 

اس دن کی تو وہ اتنی ٹینس تھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی تھی۔ آج تک زہن میں  اٹھنے والے ہر سوال کا جواب آج خود ہی ملتا چلا گیا اس کی ہنسی دیکھ کر۔ ماسوائے ان کے کہ 

وہ کیوں اس کو لے کر اتنا پاگل ہو گیا تھا؟  کہ چاہتا تھا مومنہ سانس بھی اس کی دسترس میں لے۔ 

کیوں اتنا جنون تھا اسے کہ وہ چار دیواری میں بلکل محفوظ رہے۔ 

یا یہ چاہتا تھا کہ چاہے نفرت ہی سہی مومنہ ہر وقت ہر پل اس کے بارے میں  سوچے۔ 

اور واقعی اس نے ساری زندگی کیا ہی کیا تھا سوائے ملک تابش سراج کو سوچنے اور اس سے نفرت کرنے میں۔ 

کیوں وہ اتنا پاگل اور جنونی ہوا تھا اس کو لے کر یا پوزیسو؟  

تو کیا یہ مجھ سے محبت،،، ؟ 

مومی کو محسوس نا ہوا وہ بلکل غیر ارادی طور پر گہری سوچ میں کھوئی سی اپنے دائیں جانب اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ 

جب عائشہ نے اس کے چہرے کے سامنے چٹکی بجائی۔ 

کیا میڈم،،  اپنے ہینڈسم ترین ہبی کو بعد میں  نہار لینا ابھی فی الحال ڈھنگ سے کھانا کھا لو،،وہ بول کر قہقہہ لگا کر ہنسی تھی۔ تاشو چونکا تھا اور اسے پرشوق نگاہوں سے دیکھا جو اب بلکل اپنی پلیٹ پر جھک چکی تھی۔ 

تبھی مومی کی دوست عنایہ اندر آتی دکھائی دی تو مومی بے حد خوش ہوگئی۔اسی نے تو عنایہ کو فون کر کے بلایا تھا اپنی بوریت دور کرنے کے لئے ۔

تابش نے اس بھی کھانے کی پیشکش کی تھی اور تابش بھائی کی اس کایہ پلٹ پر عنایہ کو مرگی کا دورہ پڑتے پڑتے رہ گیا تھا وہ اسے بلکل چھوٹی بہن (سالی)کی طرح  ٹریٹ کرتے کھانا سرو کر رہا تھا۔ 

خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے بعد ارحم نے اجازت طلب کی۔ مومی نے عائشہ سے ملتے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا تھا کہ وہ زندگی سے بھرپور ہنس مکھ لڑکی اسے سچ میں بہت اچھی لگی تھی۔ تابش مہمانوں کو باہر تک چھوڑنے گیا تو وہ عنایہ کو لے کر روم میں آ گئی۔ جو بہت ہی زیادہ خوش دکھائی دے رہی تھی۔ 

روم میں آتے ہی مومی نے اس کے دانت چمکانے کی وجہ پوچھی تھی۔ 

مومنہ میں  کیا بتاؤں میں  کس قدر خوش ہوں، وہ مجھ سے کتنی محبت کرتا ہے،  جان چھڑکتا ہے مجھ پر،  اس کے لفظون میں  جادو ہے جادو،، وہ کھوئی کھوئی سی بولی تو مومی چونک گئی۔ 

کون عنایہ کس کی بات کر رہی ہو کہیں اس سوشل میڈیا والے سلمان کی تو بات نہیں کر رہی عنایہ بتاؤ مجھے،، مومی نے اس کے کندھے جھنجھوڑے تھے۔ اور مومی کے کڑے تیوروں پر وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر صاف مکر گئی تھی۔

کچھ عرصے  پہلے ہی کالج میں  اس نے مومی کو بتایا تھا کہ اس کی سوشل میڈیا پر ایسے ہی چھیڑ خانی کرتے ہنسی مزاق میں کسی سلمان نامی لڑکے سے دوستی ہوئی ہے اور بات فون نمبرز لینے دینے تک جا پہنچی۔ مومی نے اسے ہر طرح  سے سمجھایا تھا۔ مگر اب بات کہاں تک جا پہنچی تھی یہ تو مومی بھی نہیں جانتی تھی۔

عنایہ اپنے سول انجینئر بابا کی اکلوتی اولاد تھی اور اسے ہر طرح کی آزادی حاصل تھی۔ جہاں مرضی آئے جائے جو مرضی کرے۔ چار سال پہلے سے ہی میٹرک میں ہی اس نے آئی فون رکھنا شروع کر دیا تھا۔ 

نا،، نہیں مومی ،،اس سے نہیں  میں  تو اپنے فیانسی کی بات کر رہی ہوں، اور یہ بتاؤ یہ تابش بھائی  کی کایا کس طرح پلٹ گئی،،  عنایہ اس کی توجہ تابش کی جانب پھیر کر صاف بچ نکلی تھی۔ 

یہ تو مجھے بھی نہیں  معلوم،، وہ غائب دماغی سے بولی۔ مگر یو نو واٹ میرا نکاح ملک تابش سراج سے کافی سال پہلے ہو گیا تھا،،  مومی نے اس پر انکشاف کیا۔ 

واٹ سچ میں،،  عنایہ کو غشی پڑنے والے ہو گئی مومی اسے سب بتاتی چلی گئی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

عرفہ کچن میں  گھسی ہوئی تھی اور بلکل بے اختیار ہی اس سڑے بینگن کے پسند کا کھانا بنا رہی تھی۔ 

صبح جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ روم میں  اکیلی تھی۔ سیام آفس کے لئے جا چکا تھا وہ بری طرح جھنجھلائی تھی۔ اب وہ بغیر ناشتہ کیے،  بغیر وہ شرٹ آئرن کروائے (جس کا شوشا رات چھوڑ کر وہ اسے لایا تھا) جا چکا تھا۔ تو بھی عرفہ کو اچھا نہیں  لگ رہا تھا اس کا یوں چلے جانا۔ 

تبھی اب وہ مکمل توجہ سے کھانا بنا رہی تھی جب اپنے پیچھے آہٹ کا احساس ہوا۔ 

السلام عليكم،، سیام سلام کرتے ادھر ہی چلا آیا۔ 

وعلیکم السلام، آپ نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟  ناشتہ کیے بغیر  کیوں گئے آفس،؟  عرفہ نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔ 

تاکہ تمھیں یہ نا لگے کہ میں  کسی بھی قسم کا صرف مطلب پورا کرنا چاہتا ہوں تم سے،  یا کوئی مطلب پورا کرنے کو لایا ہوں ادھر،،  سیام نے اسے بغور دیکھتے کہا لہجہ سادہ تھا نا کوئی طنز نا شکوہ مگر عرفہ کو ضرور یہ بات چبھی تھی۔ 

اب بس بھی کریں آپ تو اس بات کو لے کر ہی بیٹھ گئے اور اسی لفظ کی رٹ لگا دی ہے اب میرا کہنے کا یہ مطلب بھی نہیں  تھا،،  

عرفہ کو تپ چڑھی تھی تبھی بول پڑی۔ رخ موڑ کر ہانڈی میں چمچ پٹخ کر مارا تھا۔ پاگل تھی جو کب سے لگی ہوئی تھی اور وہ آتے ساتھ ہی پھر کڑوی باتیں لے کر بیٹھ گیا تھا۔ 

مگر وہ دھیمے قدموں سے چلتا قریب چلا آیا۔ سلیب پر عرفہ کے دونوں جانب ہاتھ رکھے اس کے کندھے پر اپنی چن رکھی تھی۔

تو کیا مطلب تھا تمھاری اس بے مطلب کی بات کا،،  وہ اسی لفظ کی گردان کر کر کے صاف اسے چڑا رہا تھا۔ 

سیام میں  گرم چمچ لگا کر آپ کا ہاتھ جلا دوں گی،  پیچھے ہٹیں،،  حسبِ عادت وہ بری طرح چڑ گئی تھی۔ سیام قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اب تک اسے تپانے کا ہی تو مزا آتا رہا تھا اسے۔ 

اتنا مت بھڑکو،  پتا ہے نا زرا سا جلتی ہو تو یہ بڑا پمپل نکل آتا ہے تمھارے منہ پر،، 

خبردار سیام اب پمپل کا بول کر مجھے چڑایا میں سچ میں  گرم چمچہ لگا دوں گی،،  وہ تڑخ کر اس کی جانب مڑی تھی۔ 

"اس سیام کی کیا تعریف کروں سیام کے دل میں  تو

اب تمھاری کیا تعریف کروں تیرا پمپل والا منہ،، 

سیام شوشا چھوڑ کر کمرے میں  بھاگا تھا۔ وہ گرم چمچے سے اس کا پہلو سینکنے کی نیت سے دانت پیستی اس کے پیچھے لپکی تھی۔ وہ قہقہے لگاتا اپنے کمرے میں  بند ہوا تھا۔ عرفہ نے جھٹکے سے دروازہ کھولا تھا۔ 

وہ واش روم میں  بند ہو کر ڈور لاک کر چکا تھا ۔ مگر قہقہوں کی آوازیں ہنوز آتی رہیں۔آخر اسے واپس کچن میں  ہی آنا پڑا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج ایک ہفتہ ہو چلا تھا۔ مومی کو دنیا کا ہر وہ کام کرتے جس سے ملک تابش سراج کو چڑ تھی۔ مگر اب وہ جانے کس مٹی کا بن گیا تھا جس پر کسی چیز کا اثر ہی نہیں  ہوتا تھا۔ بڑی نرمی سے اسے سمجھا دیتا کہ مونا اس میں  تمھارا ہی نقصان ہے۔

وہ اب بری طرح بیزار ہو چکی تھی۔ جھنجھلا رہی تھی۔ اب ملک تابش سراج کو پریشان کرنے میں  مزا نہیں آ رہا تھا الٹا وہ خود الجھتی چلی جا رہی تھی۔ 

رات کے آٹھ بجے تھے کچھ دیر پہلے ہی عنایہ کے گھر سے فون آیا تھا۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ عنایہ کہیں اس کے پاس تو نہیں۔ 

مومنہ بے چینی سے اپنے روم میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہی تھی۔ اسے پریشانی یہ لاحق تھی کہ عنایہ جا کہاں سکتی ہے۔ تبھی دوبارہ اس کے پاپا کا فون تھا اور اگلی نیوز، پر اس کے سر پر آسمان گرا تھا۔ وہ یہ کہ عنایہ کا بہت برا ایکسڈینٹ ہوا تھا۔ 

اسے ہاسپٹل جانا تھا کسی بھی صورت۔ 

ڈرائیور کے ساتھ خود ہی چلی جاتی ہوں یا کیب کرواؤں۔ 

وہ چادر اور اپنا پرس موبائل لے کر باہر نکلی۔ قدم باہر کی جانب بڑھائے۔ ابھی وہ لاؤنج میں  پہنچی تھی جب سامنے سے وہ آفس سے آج لیٹ آتا دکھائی دیا۔ اور مونا کو کہیں جاتے دیکھ چونک گیا تھا۔ 

وہ خاموشی سے گزر جانا چاہتی تھی۔ مگر تاشو نے پکار لیا۔ 

خیریت کدھر،،؟  

عنایہ کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے،  مجھے ہاسپٹل جانا ہے،،  ادھر ہی جا رہی ہوں،،  اس نے بے تاثر لہجے میں کہا۔ جانے کیوں مگر شرافت سے بتا دیا کہ وہ کدھر جا رہی ہے۔ 

چلو،  میں  لے کر چلتا ہوں،،  اس نے سنجیدگی سے کہا تو مومی خاموش ہو گئی۔ وہ انہی قدموں پھر واپس مڑا۔ باہر آ کر تابش نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔ وہ جلدی سے فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ۔ وہ گاڑی لے کر نکلے۔  تمام راستے وہ اس کا بے چینی سے پہلو بدلنا اور انگلیاں چٹخانا نوٹ کرتا رہا تھا۔ 

ہاسپٹل پہنچے تو ایمرجنسی کے باہر عنایہ کا فادر اور مدر پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے۔ ایکسڈینٹ تو معمولی سا تھا مگر جانے کیا قیامت آئی تھی کہ وہ یوں رو رو کر بے حال تھے۔ 

ڈاکٹر باہر آئی تھیں۔ "وہ اپنی دوست مومنہ سے ملنا چاہتی ہے بول رہی ہے اسے ہی سب بتائے گی،،  ڈاکٹر بول کر جا چکی تھی۔ عنایہ کی مدر نے مومنہ کو دیکھا۔ 

بیٹا جاؤ پوچھو اسے سے کہ ہوا کیا جو وہ یوں برباد ہو کر مرنے کو تیار ہو گئی، جانتی ہو اس نے خود کشی کرنے کی کوشش کی،  ہمیں کچھ نہیں  بتا رہی ہے،  جاؤ پوچھو کیا ہوا اس کے ساتھ،،  

یہ بول کر وہ پھر رومال میں  منہ دے کر رونے لگی۔ 

مومی اندر آئی تو وہ آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ آہٹ پر آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو اٹھ کر بیٹھ گئی۔ مومنہ بھاگ کر اس کے پاس آئی۔ عنایہ اس کے سینے سے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ 

"مومی میں نے خود کو خود ہی برباد کر لیا، دیکھو میری بےجا آزادی کا نتیجہ، ساری ساری رات جاگنے کا نتیجہ، کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا تھا کہ میں آخر ساری ساری رات جاگ کر کر کیا رہی ہوں،،،  وہ روئے گئی۔ اور اپنے دل کی ہر بات بتاتی چلی گئی۔ اپنی بربادی کی داستان شروع سے سناتی چلی گئی۔ 

اس نے تصویر مانگی میں نے دے دی،، اس نے نمبر مانگا میں نے دے دیا، اس نے ویڈیو کال کا کہا میں نے کر لی، اس نے دوپٹہ ہٹانے کا کہا میں نے ہٹا دیا،، اس نے کچھ دیکھنے کی خواہش کی میں نے پوری کر دی،، اس نے ملنے کا کہا میں ماں باپ کو دھوکا دے کر سلمان سے ملنے پہنچ گئیں،، اس نے میری تعریف کرتے ہوئے مجھے سرسبز باغ دکھائے میں نے دیکھ لیے،، پھر جوس کارنر پر جوس پیتے وقت سلمان نے ہاتھ لگایا، اشارے کئے، مگر کوئی بات نہیں یہ موڈرن ازم کا زمانہ ہے، جدید دور ہے، پھر سلمان نے ہوٹل میں کمرہ لینے کی بات کی، میں  نے منع کر دیا،،  اس نے میری وہی تصاویر اور وڈیو کال کی بنائی گئی وڈیو ریکارڈنگ سوشل میڈیا پر لگانے کی دھمکی دی،، بلکہ ایک سیم گروپ میں آدھے فیس پر ایموجی لگا کر لگا بھی دی،،  میں بہت مجبور تھی،، وہ سب دیکھ کر ڈر گئی اور ملنے کی حامی بھر لی،،  تو اس نے وہ سب ڈلیٹ کر دی،، 

یہ بول کر وہ سانس لینے کو رکی تھی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ مومنہ غیریقینی سے اسے دیکھے گئی۔ 

میں اس سے ملنے چلی گئی،، اس نے مجھے انڈرسٹینڈنگ کے نام پر بہلایا،، بس بچہ پیدا نہ ہو اس پر دھیان دیا،، پھر ایک دن جھگڑا ہوا اور سب ختم کیونکہ حرام رشتوں کا انجام کچھ ایسا ہی ہوتا ہے،،  مگر اب وہ مجھے دوبارہ ہوٹل میں ملنے کے لئے  فورس کر رہا ہے،،  اور وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر مومنہ،  اور وہی دھمکی کہ اگر میں نے اس کی بات نہیں مانی تو وہ ہر جگہ ہر سائٹ پہ پکس اور ویڈیو اپلوڈ کر دے گا،،  مومی میں  کیا کروں،، اپنی بربادی کی خود زمہ دار ہوں،  میرے پیرینٹس سے اچھے تو وہ تابش بھائی ہیں جنھیں نے تمھیں اتنا سنبھال سنبھال کر اپنی حفاظت میں رکھا،، تمھیں زمانے کے سرد وگرم سے بچایا اور ان خرافات میں پڑنے ہی نہیں دیا،، 

لیکن تم جانتی ہو میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا،،  کہ میرے ماں باپ نے مجھے پرائیویسی دینے کے چکر میں میری جانب سے بلکل اپنی آنکھیں بند کر لیں، ،،اگر وہ بھی تابش بھائی کی طرح ہر وقت مجھ پر میرے ہر عمل پر نگاہ رکھتے تو میں آج یوں برباد نا ہوتی، میں نے بھی ان کے اعتبار کا بہت غلط فائدہ اٹھایا اور آخر ماں باپ کو دھوکہ دینے کے گناہ کی پاداش میں خود کو برباد کر لیا،،  

آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہے تھے۔ مومنہ اسے بےچارگی سے دیکھے گئی۔ 

اور جانتی ہو مومی المیہ تو یہ ہے کہ یہاں سراسر مرد غلط نہیں ہے، وہ بھیڑیا نہیں ہے، وہ مجرم نہیں ہے، کیونکہ میں نے تو تصویر نہیں دی تھی وہ زبردستی میرے موبائل میں گھس کر تصویر لے گیا تھا،، میں نے تو اپنا نمبر نہیں دیا وہ لڑکا خود میرے موبائل سے نمبر لے گیا تھا،، میں نے تو ویڈیو کال نہیں کی وہ لڑکا خود میرے گھر پہنچ گیا تھا میری ویڈیو لینے کے لئے،، جوس کارنر پر بھی وہ مجھے زبردستی لے گیا تھا گن پوائنٹ پر،، ہوٹل کے کمرے تک بھی وہ مجھے زبردستی میرے گھر سے لے گیا تھا،، تو مجرم کون ہے وہ کہ میں بھی،،  بچی تو نہیں تھی میں چار سال کی؟ بی ایس سی گریجویٹ ہوں جو مجھے سمجھ نہیں آئی،، 

یہ سوشل میڈیا پر آئے دن زیادتی کے بڑھتے ہوئے کیسز ہمیں کچھ نہیں بتاتے؟کیا مجھے نہیں پتا تھا کہ ایک ہوٹل کے کمرے میں عزت و توقیر اور نسوانیت کو گِدھوں کی طرح نوچا جاتا ہے، برہنہ ہو کر شرم کے چیتھڑے اڑائے جاتے ہیں،، سب پتا تھا مجھے، سب پتا ہے ہم سب کو،،، ہوٹل کے کمرے میں محبت کے افسانے نہیں لکھے جاتے، وہاں دینی تعلیمات نہیں سیکھی جاتی، وہاں کوئی عبادات کی درس گاہیں نہیں ہیں،، پھر شکوہ کے لڑکے نے ریپ کر دیا،، لڑکی اس لڑکے کے پاس گئی ہی کیوں؟ کیا لگتا ہے وہ آپ کا جو وہ آپ کی عزت کا خیال رکھے جو خود آپ کو اسی مقصد کیلئے لے کر جا رہا ہے،،، 

پلیز عنایہ ،،، خاموش ہو جاؤ،،  نہیں  تو میرا دل پھٹ جائے گا،،  یہ کیا بولے جا رہی ہو تم،، پلیز خاموش ہو جاؤ،،  رونا بند کرو عنایہ،،  پلیز،،  

مومی نے بھی روتے اس کے آنسو صاف کرنے کی کوشش کی۔ 

سنو مومنہ جا کر بول دو میرے والدین کو میں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوں تبھی خود سے جینے کا حق چھین رہی ہوں یہ سوشل میڈیا پر یہ ماڈرن مجرے، آزاد خیالی، انڈرسٹینڈنگ، فیشن، میرا جسم میری مرضی اس سب نے مل کر مجھے برباد کر دیا ،، کاش میں  تمھاری طرح اپنی حدود میں رہتی تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچتا،، اگر میں  خود ہی یہ سب نہیں کرتی تو ،، اس میں  خود ہی شامل نہیں ہوتی تو یہ سب نا ہوتا،، میرے والدین پولیس بلا رہے ہیں مگر میں اسے sexual harassment نہیں کہہ سکتی،،  اسے understanding کہہ سکتی ہوں،اسے time pass بول سکتی ہوں،، جو اج تک کرتی آئی اسے modernism بول سکتی ہوں،، یا کہ fashion 

مگر مگر یہ rape نہیں ہے،،، 

وہ بول کر خود اذیتی کی انتہا پر پہنچی تڑپ تڑپ کر رو دی۔ مومی نے اسے خود میں سمیٹا۔ اس کی زہنی حالت بھی ابتر ہو چکی تھی۔ وہ جو مومی کو بتا چکی تھی وہ تقریبا سب نے ہی سنا تھا۔پولیس نے بھی۔ عنایہ کے والدین گزرے وقت اور اپنی لاپروائی پر کف افسوس مل رہے تھے۔ مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ 

عنایہ کو انجیکشن دیا گیا۔ وہ دواؤں کے زیر اثر گہری نیند میں سو گئی۔ پولیس بیان لے کر جا چکی تھی۔ 

مومی بھی تابش کے ہمراہ واپسی کے لئے نکلی۔واپس آتے وہ بہت ہی زیادہ گہری سوچ میں تھی۔ اندر تک سناٹا سا چھایا تھا۔ وہ کتنے اطمینان سے کتنے سکون سے بیٹھی تھی۔ آج کے واقع نے اس کے دل ودماغ پر ایک گہرا اثر چھوڑا تھا۔ 

پاس سیٹ پر بیٹھا شخص اس کا بہت بڑا محافظ تھا۔ اسے بھلا کس چیز کی پرواہ ہو سکتی تھی۔ 

تابش نے نوٹ کیا۔ ایک سفید کلر کی کرولا بڑی دیر سے ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ تابش کی بے چینی وہ نوٹ کر چکی تھی۔ 

کیا ہوا،،  مومی نے پوچھ ہی لیا۔ 

ایک گاڑی ہمارا پیچھا کر رہی ہے،،  تابش نے سنجیدگی سے کہا۔ 

اب،، کک،، کیا ہوگا تاشو،،،  اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑیں۔

جب تک میں ہوں، میں زندہ ہوں، تم پر آنچ بھی نہیں آ سکتی،، اسی لئے ریلیکس ہو کر بیٹھی رہو مونا،، اس نے اطمینان سے کہا۔ 

اور بڑے ماہرانہ انداز میں ان کا تعاقب کرنے والے کو ڈاج دے کر سراج مینشن سہی سلامت پہنچا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

جی امی میں بلکل ٹھیک ہوں، آپ کیسی ہیں،، مومی فون پر چہک رہی تھی۔ آج دو ہفتے ہو چلے تھے انھیں گئے اور وہ سب کو بہت مس کر رہی تھی۔ تبھی ویڈیو کال ملائی تھی۔ اور سب سے بات کی تھی۔ 

کال بند ہوئی تو بڑی دیر تک کسلمندی سے بیڈ پر ہی لیٹی رہی۔ عجیب بوریت اور سستی سی سوار تھی۔ ڈنر بھی بنا چکی تھی۔ ٹی وی اور موبائل گیم نے بھی بور کر دیا۔ رات ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔ 

عنایہ دو دن ہاسپٹل رہ کر گھر آ چکی تھی۔ مومی سے بات ہوتی رہتی تھی عنایہ کی۔ عنایہ پر بیتے واقعات نے مومنہ کے دل و دماغ پر گہرا اثر کیا تھا۔ اب اسے تاشو سے کم از کم یہ شکایت نہیں  تھی کہ اس نے اسے موبائل نہیں رکھنے دیا تھا۔ 

باہر سے گھن گرج کے ساتھ بادلوں کی آواز آ رہی تھی۔ اور ایسا موسم ہمیشہ سے اس کی کمزوری رہا تھا۔ تبھی سر خوشی میں اٹھ کر کمرے کی کھڑی کھولی تو ایک نرم ٹھنڈا ٹھار ہوا کا جھونکا چہرے سے ٹکرایا۔ 

وہ اکسائٹڈ سی کمرے سے باہر نکلی تھی۔ رخ بے اختیار ہی چھت کی جانب تھا۔ ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی۔ وہ دونوں ہاتھ سے دوپٹہ کے سرے ہاتھ میں پکڑے گول گول گھومنے لگی۔ ہوا کے دوش پر دوپٹہ اڑ رہا تھا۔ 

یہ دوپٹہ کب تھا یہ تو اس کے پنکھ تھے۔ جیسے وہ ہوا کے دوش پر فضاؤں میں آزادی سے اڑ رہی ہو۔ 

وہ قید کب تھی؟  وہ تو سراج مینشن کی چار دیواری کی حدود میں پہلے دن سے آزاد تھی۔ 

بابا کی ہر پری،  اور ماں کی ہر لاڈلی گھر کی چار دیواری میں آزاد ہی تو ہے۔ اگر یہ قواعد وضوابط توڑتے چار دیواری کی دہلیز اپنے محافظوں کے بغیر خود کی حفاظت کیے بغیر پار کرتی ہے تو محض زمانے کے گِدھوں کا شکار ہی بن جاتی ہے۔ 

مومی کو اب سراج مینشن سے باہر جانے کی کوئی تمنا نہیں تھی۔ ہاں مگر اس کا اس شخص سے کوئی بھی رعایت برتنے کا قطعی کوئی موڈ نہیں تھا۔ 

نیچے سے گیٹ کھل کر مخصوص گاڑی کے پورچ میں  کھڑے ہونے کی آواز آئی تو وہ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسکی۔ 

کتنی چڑ تھی اس گبر کو اس کے بارش میں  بھیگنے سے۔ وہ دو ہفتے سے اسے پریشان کر رہی تھی۔ ہر وہ کام کر کہ جو اسے ناپسند ہو مگر اس  کے ماتھے پر بل بھی نہیں  آیا تھا۔ مگر آج تو مومنہ بیگم نے بارش میں  بھیگ کے ہر حد پار کر دی تھی۔ تبھی گھبرا کر اوپر بنے کمروں میں  سے ایک کمرے میں جا گھسی۔ 

وہ جو نیچے اسے اس کے روم اور سارے میں  دیکھ چکا تھا۔ اب موسم کا احوال سمجھ کر اوپر کی جانب قدم بڑھائے تھے۔ وہ جانتا تھا وہ بھیگ رہی ہوگی۔ تابش نے ایک سرد سی سانس کھینچی اور اوپر چلا آیا۔ سیڑھیوں کے سرے پہ کھڑے ہو کر اس نے پینٹ کی پاکٹوں میں  ہاتھ ڈالے اور ایک گہری نظر چاروں اور دوڑائی۔ وہ بھیگ رہا تھا اور آج اسے یہ بھیگنا اچھا لگ رہا تھا۔ ایک کمرے کے ایک ڈور کے پیچھے سے ہوا کے دوش پر ایک سیاہ آنچل پل بھر کو ابھر کر غائب ہوا تو وہ گہرا مسکرایا۔ اور قدم آگے بڑھائے۔ 

ادھر لمحہ بہ لمحہ قریب آتی بھاری قدموں کی چاپ سے مومی کی سانسیں تھمی۔ 

چھپی کیوں ہو مونا،، باہر آؤ بارش میں بھیگتے ہیں،، بولتے اس نے کلائی سے تھام کر اسے باہر نکالا تھا۔ 

(شکر ہے اس گبر کی اس آفر پر مومی پر غشی طاری نہیں ہوئی) وہ حیرت زدہ سی اس کے ساتھ کھنچی چلی آئی۔ اسے لا کر چھت کے بیچو بیچ کھڑا کیا تھا۔ سامنے کھڑے ہو کر اس سر تا پا غور سے دیکھا۔ 

آج اتفاقاً دونوں نے سیاہ رنگ ہی پہن رکھا تھا۔ بارش میں  بھیگتے وہ ایک دوسرے کے سامنے بت بنے کھڑے تھے۔ وہ مبہوت سا اس کا ہوش ربا سراپا دیکھتا رہا۔ آخر نرمی سے اس کے برف کی طرح سرد پڑتے دونوں ہاتھ تھامے تھے۔ 

جانتا ہوں میں نے بہت، بہت غلط کیا تمھارے ساتھ، میرے پاگل پن نے تمھاری زندگی چھین لی تم سے،  تمہارا بچپن،  تمھاری ہنسی، تمھارے خواب، سب کچھ چھین لیا تم سے،، تب احساس ہوا کہ تم مجھ سے کتنی بدگمان اور تنگ ہو جس دن تم بیمار ہوئی،،  مگر تب تک دیر ہو چکی تھی،،  بہت دیر،، یہ سچ ہے کہ میں نے شروع دن سے تمھیں اپنی ملکیت سمجھا، مگر یہ ملکیت کا احساس کب اتنی شدید محبت میں  بدل گیا،  پتہ ہی نہیں  چلا، اسی لئے مونا،  اب میں اپنے کیے ہر عمل کا مدوا کرنا چاہتا ہوں،  تمھیں اتنی محبت دینا چاہتا ہوں،  کہ تم پچھلی ہر بات بھول جاؤ، مونا کیا تم مجھے ایک چانس دو گی،  مجھے معاف کرو گی،، 

گہری رات کے پرفسوں ماحول میں محبت اور جزبوں نے بارش کے ساتھ مل کر عجیب ہی تال چھیڑ رکھی تھی۔ محبت محرم ہو تو عاشق کے عشق کا نشہ اس کے سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اور وہی اس وقت تابش کے ساتھ ہو رہا تھا۔ جو مدہوش سا ہوا بہک چلا تھا۔ تبھی اس کے ہاتھوں کی گرفت میں شدت آئی تھی۔ مونا کو لگا اس کے ہاتھ جل جائیں گے۔ 

بوجھل سا لہجہ تھا۔ مومی نے خفگی سے ہاتھ چھڑاتے زور زور سے نفی میں  سر ہلایا تھا. ہاں مگر اس کی آنکھوں میں  دیکھنے کی غلطی ہر گز نہیں کی تھی۔ اس کی پلکیں شرم و حیا کے بار سے گالوں پر ہی گری رہی تھیں۔ وہ بس اس جن کی جادو بھری قید سے نکل جانا چاہتی تھی۔ 

نو میں کبھی معاف نہیں کروں گی آپ کو،،  تابش، اب آپ کی یہ معافی میں  کدھر لے کر رکھوں،، کیا آپ کی یہ معافی میرا بچپن لوٹا سکتی ہے،  میرے خواب،  میرا ادھورا پن،  آئی ہیٹ یو تابش آئی ہیٹ یو،،  

وہ چلائی مگر ابھی بول ہی رہی تھی کہ شریر ہوا نے بدتمیز سی گستاخی کرتے مومی کا  ریشمی دوپٹہ اڑا کر دور اچھال دیا تھا۔ وہ جو مسلسل اپنے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی یکدم بوکھلا گئی اور مزاحمت میں شدت سی آئی۔ کرلی گیلے  کھلے براؤن بال سفید گردن اور پیچھے کمر پر چپکے ہوئے تھے۔ 

ادھر ایک جواں دل پر بجلیاں سی گری تھیں۔ 

پلیز سے یس مائی لو، مائی لائف، ہاں میں تمھارا بچپن نہیں لوٹا سکتا گئے مگر فیوچر ضرور بنایا جا سکتا ہے، میں وہ پل واپس نہیں لا سکتا بٹ آئی پرامس تمھارا ہر خواب پورا کروں گا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کروایا ہے میں نے تمھارا، اور میں تمھیں ایک ڈاکٹر بنتے دیکھنا چاہتا ہوں مونا، یقین کرو مائی میگی اب تمھارے بغیر ایک پل بھی نہیں گزارنا چاہتا میں، مر جاؤں گا آئی سوئیر مر جاؤں گا اگر تم مجھ سے دور گئیں تو،

جزبوں سے چور بھاری گھمبیر سا لب و لہجہ تھا جو مومی کے لئے ناقابلِ فراموش اور ناقابل برداشت ثابت ہو رہا تھا۔ تبھی وہ اس کی گرفت میں  پھڑ پھڑا رہی تھی. مگر تابش نے جھٹکے سے اس کا رخ موڑ کر اس کی کمر اپنے سینے سے لگائی تھی۔ اپنے پیٹ پر رینگتا اس کا ہاتھ محسوس کر مونا نے سختی سے اپنی آنکھیں بند کیں تھیں۔ 

 جانتی ہو میں کیوں چڑتا تھا تمھارے بارش میں  بھیگنے سے، تاکہ اس بھیگے ہوش ربا محرم سراپے کو دیکھ کر بہک نا جاؤں، خود پر بٹھائے پہرے توڑ کر تمھیں اپنا نا بنا لوں،  اور جان لو کہ آج تم نے وہی ظلم ڈھا دیا ہے مجھ پر،، 

آنکھیں بند کیے تابش کے ہونٹوں نے ایک جزب کے عالم میں کندھے سے کان تک کا ایک پرتپش سا سفر کیا تو مونا کو لگا اس کے جسم سے اس کی جان نکل جائے گی۔۔ 

تاشو،،  لیو می،،،  وہ بےبسی کے احساس سے چور اب گھبرا کر بولی تھی۔ اس پاگل شدت بھرے لمس سے اس کی جان پر بن آئی تھی۔ 

ہمممممم،،،،،، تاشو،، ساؤنڈ سیٹیسفیٹک،، ادھر میری طرف دیکھ کر ایک مرتبہ پھر بولو ان لبوں سے،،  وہ پھر ایک جھٹکے سے اس کا رخ اپنی جانب موڑ کر اس کا لرزتا کانپتا وجود اپنے سینے سے لگائے اس کے گداز بھیگے لبوں پر خماری کے عالم میں انگوٹھا پھیرتا بولا تھا۔ اس کی نگاہوں کے فوکس نے مومی کی جان لبوں پر لائی تھی۔ 

تاشو،، لیو،،

 لرزتے کانپتے گلاب کے پنکھڑیوں سے لبوں کی بات پوری نہیں  ہو ہائی تھی۔ اس کے کرلی بالوں کو ہاتھ میں پھنسا کر وہ اب خود کو سیراب کر رہا تھا۔ محرم کی محبت تھی یہ جو سر چڑھ کر بولی تھی۔ تبھی اس کے چھونے میں،  اس کے لمس میں اس قدر شدت تھی کہ مونا کو لگا آج اس کے لب سلامت نہیں رہیں گے۔ 

مومی نے بری طرح مزاحمت کی تھی۔ مگر آنکھیں اس کی بھی بری طرح بند تھیں۔ کالر پہ لگنے والے جھٹکے نے تابش کے ہوش بحال کیے تھے شاید تبھی وہ اب آہستگی سے پیچھے ہٹا تھا۔ مونا نے اسے خود سے دور دھکیلا تھا۔ اور بے تحاشا روتے دوپٹہ اٹھا کر نیچے بھاگی تھی۔ 

وہ جو انھی پرفسوں لمحوں کے حصار میں اب تک قید تھا یونہی بارش میں کھڑا بھیگ کر اپنے جذبات کی لگامیں کسنے کی کوشش میں ہلکان ہوتا رہا۔ نہیں  تو آج وہ بہت کچھ ایسا کر جاتا جو ابھی وہ بلکل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کو وہ آمنے سامنے بیٹھے ڈنر کر رہے تھے۔ آج جتنا موسم خراب تھا شاید سیام کا موڈ بھی اتنا ہی خراب تھا۔ وہ جسے اب اس کی چھیڑ چھاڑ اور ہنسی مزاق کی عادت ہو چلی تھی آج اس کی یہ غیر معمولی خاموشی بری طرح کھلی تھی۔ 

سادی سی ہاف وائٹ ٹی شرٹ بلو ٹراؤزر میں وہ سنجیدہ سا تھا۔ 

کیا ہوا خیریت آپ پریشان لگ رہے ہیں،، آخر عرفہ نے پوچھ ہی لیا۔ 

نہیں،، ایسی کوئی بات نہیں، تمھیں غلط فہمی ہوئی ہے، مختصر جواب دے کر وہ پھر اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔ دونوں کھانا کھا چکے تو وہ روم میں چلا گیا۔ عرفہ نے کچن سیمٹا۔ 

عرفہ روم میں آئی تو وہ روم میں کہیں نہیں تھا۔ اسے حیرت ہوئی۔ وہ ڈریسنگ سے اپنا ڈریس نکال کر واش روم گئی۔ فریش ہو کر باہر آئی۔ اب بھی روم خالی تھا۔ وہ اب اس کے رویے سے بری طرح الجھی تھی۔ تبھی روم سے باہر نکلی۔ 

اس پورشن کا سیام والے پہلے روم کا دروازہ کھلا دیکھ اسے حیرت ہوئی۔ تبھی بے اختیار وہ اس روم تک گئی اور اپنی اس بے اختیاری میں اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ بال سلجھاتے وقت دوپٹہ صوفے پر ہی رکھ آئی ہے۔۔ بغیر دستک کے اندر داخل ہو گئی۔ 

وہ جو شرٹ لیس کھڑا تھا اسے دیکھ دنگ رہ گیا جو اب بےبی پنک شرٹ اور ٹراؤزر میں بھیگا بھیگا ہوش ربا سراپا لیے اس کے ضبط کا امتحان لینے ادھر بھی چلی آئی ہے۔ 

سیام نے رخ موڑا۔ عرفہ نے بھی اسے شرٹ لیس دیکھ کر شرم وحیا سے سرخ پڑتے نگاہیں جھکائیں۔

کیا ہوا،  آپ نے کام کرنا ہے کوئی،  جو ادھر آ گئے،،  عرفہ نے ٹوٹے پھوٹے جملوں میں  پوچھ ہی لیا۔ اس نے ایک سرد سی آہ بھری۔ وہ تو اس چھوٹی سی آفت کے دل پر بجلیاں گراتے حسن سے اور اپنے منہ زور بے لگام جزبوں سے تنگ آ کر آج ادھر چلا آیا تھا۔ موسم بھی تو کافی بے ایمان سا ہو رہا تھا۔ خود سے ڈرتا تھا کہ کہیں کوئی محبت سے چور ہو کر گستاخی نا کر بیٹھے۔ 

آج میں ادھر ہی سوؤں گا، عرفہ جاؤ تم آرام کرو،، سو جاؤ جا کر،،  نرمی سے کہا تھا۔ عرفہ نے ناسمجھی سے نگاہیں اٹھا کر اس کی چوڑی پیٹھ کو گھورا۔ بے چینی سے انگلیاں چٹخائی۔ اب اس سڑے بینگن کو کیا ہو گیا تھا۔ وہ چپ چاپ اپنے روم میں  چلی آئی۔ 

کتنا ڈرتی تھی ایسے خراب موسم سے۔ اور آج ہی اسے جانے کون سا کیڑا کاٹ گیا تھا۔ دو ہفتے ہو چلے تھے سیام کو اسے اپنے سینے پر سر رکھ کر سلاتے۔ اسے پل پل محبت کا احساس دلاتے۔ اپنے پچھلے تمام الفاظ کی معافی مانگتے ۔ کہ اب تو عرفہ کے بھی دل میں وہ گھر کرنے لگا تھا۔ اب کب اس ظالم کے بغیر دل لگتا تھا۔ وہ جب تک آفس سے نا آتا گھر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ اب اپنی عادت ڈال کر وہ پھر سے بے رخی پر اتر آیا تھا اور یہ بات عرفہ کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔

تبھی تکیہ اور کمفرٹر زمین پر پھینک کر مارا تھا اور رونے کا شغل فرمانے لگی تھی۔ 

وہ جو اپنا لیپ ٹاپ لینے روم میں آیا تھا سامنے کا منظر دیکھ حیرت سے دنگ ہوا تھا۔ وہ بیڈ سے ہر چیز نیچے زمین بوس کرتی اب گھٹنوں کے گرد بازو فولڈ کیے ، منہ گھٹنوں میں  دئیے رونے کا شغل فرما رہی تھی۔ سیام لیپ ٹاپ تو بھول ہی گیا تھا۔ جب بے اختیار گھبرا کر اس کی جانب آیا۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

کیا بات عرفہ،  رو کیوں رہی ہو، ہوا کیا ہے یار ،ابھی تک تو بلکل ٹھیک تھیں،، بتاؤ مجھے،،  سیام نے نرمی سے پوچھا تھا مگر وہ اس کا ہاتھ جھٹک چکی تھی۔ 

آپ کو کیا، میں جیوں یا مروں یا روؤں، جائیے آپ کام کیجئے اپنا، اپنی عادت ڈال کر چھوڑ دیں مجھے اکیلا، پھر چاہے میں ڈر ڈر کے مر جاؤں،، وہ جھنجھلا کر بھڑاس نکالتی اب بیڈ پر لیٹ کر رخ موڑ چکی تھی۔ اور آنکھیں پر بازو رکھ لیا۔ وہ بڑی جلدی معاملے کے تہہ تک پہنچتا روح تک سرشار ہوتا گہرا مسکرایا تھا۔ 

تکیے اور کمفرٹر اٹھا کر بیڈ پر رکھا۔ لائٹ آف کی۔ اور ڈور لاک کرنے گیا۔ 

ڈور لاک ہونے کی آواز پر وہ پھر بری طرح تلملائی تھی یہ سوچ کر کہ وہ جا چکا ہے اور جاتے ہوئے ڈور لاک کر گیا ہے۔ ایک آنسو ٹوٹ کر شیٹ میں جزب ہوا۔ مگر اگلا ہی پل عرفہ کے لیے بہت بھاری تھا جب اسے اپنے اوپر بہت زیادہ وزن محسوس ہوا۔ وہ بوکھلا کر اٹھنا چاہتی تھی۔ مگر اب تو وہ بری طرح اس پر حاوی ہو چکا تھا۔ شرٹ لیس اس کی خوشبو نے عرفہ کی جان ہوا کی تھی۔ عرفہ نے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اسے دور ہٹانے کی کوشش کی۔ مگر وہ اس کی کلائیاں تھام کر بیڈ سے لگا چکا تھا۔ 

سیام،، دور ہٹیں، مجھے سانس نہیں آ رہا،، وہ دبی دبی آواز میں اتنا ہی بول پائی۔ 

جانتی ہو مسز، میں دوسرے روم میں کیوں گیا تھا تاکہ آج تمھیں خود سے بچا سکوں، مگر تم نے میرے لئے یہ آنسو بہا کر میرے جنون کو خود ہی ہوا دے دی ہے،  اور اب ساری رات میں تمھاری سانسیں ہی بند کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں،،  

اندھیرے میں صرف اس کی بھاری آواز ہونٹوں کے بہت قریب گونجی تھی۔ اس کے بعد سیام کے ہونٹوں نے کہاں کہاں تک کا سفر طے کیا۔ عرفہ کو محسوس کر کے ہی دل جیسے پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو بیتاب تھا۔ 

اس کی گستاخیاں اور بےباکیاں ناقابلِ برداشت حد تک بڑھتی گئیں تو عرفہ پھر سے رو پڑی تھی۔ 

سیام پلیز،،  نہیں ،، اگ،، اگر کچھ ہو گیا تو،،، وہ بھیگے ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بس اتنا ہی بول پائی۔ 

کیا ہوگا؟ سیام اس کے کان کے قریب بولا تھا۔ کان کی لو کو دانتوں سے کاٹا تو جیسے عرفہ کی جان نکل گئی۔ 

وہ، بب،، بےبی،،، وہ اتنا ہی بول پائی۔ اور اتنا اہم مسئلہ بتایا جیسے سیام کو تو پتا ہی نا ہو۔ اس کی اس معصومیت پر وہ بے اختیار مسکرایا تھا۔ 

ہاں تو امی اور تائی جان تمھیں میرے سپرد اسی لئے تو کر کہ گئیں کہ ان کے گرینڈ چائلڈ نے اوپر اودھم مچا رکھا تھا کہ ہمارے مما بابا کے ہوش ٹھکانے لاؤ، ہمیں بھی جلدی دنیا پر آنا ہے، اسی لئے تو وہ تمھیں میرے پاس چھوڑ کر گئیں کہ امی اور تائی امی کو پیارا سا پوتا پوتی چاہیے، اسی لئے خاموش رہو مسز، اور مجھے میرا کام تسلی بخش کرنے دو،  سیام نے قہقہ لگاتے مزے سے بولتے شوشا چھوڑا جیسے اس کا دھیان بٹا کر اس کی فطری گھبراہٹ کم کرنا چاہتا ہو۔

نن،، نہیں،،  سیام،،  یہ بہانہ بھی کارگر ثابت نا ہوتے دیکھ عرفہ کی جان لبوں پر آئی تھی۔ مطلب آج جائے فرار ناممکن تھا۔ اب سب سے پہلے سیام نے اس کی بولتی ہی بند کی تھی۔ لمحہ بہ لمحہ گزرتی رات میں اس نے عرفہ کو خود میں سمیٹ لیا تھا۔ روٹھی محبت کو منا لیا تھا۔ اب اسے اور کچھ نہیں  چاہیے تھا۔ نا کسی چیز کی تمنا باقی تھی اب۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مومنہ روم میں آ کر بے تحاشا روتی ہر چیز تہس نہس کر رہی تھی۔ 

ہاؤ ڈئیر ہی،،، ہمت کیسے ہوئی ان کی مجھے یوں چھونے کی،، مومی ماہی بے آب کی طرح تڑپی تھی۔ لبوں پر ہلکی سی جلن سے وہ لمس ابھی تک اسے اپنے اوپر محسوس ہو رہا تھا۔ 

ہاؤ ڈئیر ہی،،،  واش روم گئی شاور کھول کر اس کے نیچے کھڑی ہوئی تھی۔ اپنے ہاتھوں،  گردن اور ہونٹوں کو رگڑ رگڑ کر اس لمس کا اثر زائل کرنا چاہتی تھی۔ 

کیوں کیا میرے ساتھ ایسا،،  وہ بال مٹھیوں جکڑتی فرش پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی۔ 

یہ سب کیا ہو گیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ تو اس سے خلع لینے والی ہے۔ علیحدگی اختیار کرنے والی ہے۔ اس سے کہیں دور جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تو وہ کیوں اتنا قریب چلا آیا تھا۔ اس کے ان چھوئے وجود کو اپنے لمس سے کیوں روشناس کروا دیا تھا۔ ہر کنواری لڑکی کی طرح مومی کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کو چھونے والا پہلا مرد اس کا محرم ہی زندگی میں آنے والا آخری مرد ہو۔ 

تو اس نے کیوں کیا تھا ایسا۔ وہ رو رو کر ہلکان ہو چکی تھی۔ بمشکل ہی ڈریس چینج کیا۔ اور بیڈ پر کمفرٹر میں دبک کر ہوش و خرد سے بیگانہ ہوئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مومی کی آنکھ کھلی تو صبح کے دس بج چکے تھے۔ خالی الزہنی میں یونہی لیٹی چھت کو گھورتی رہی۔ مگر جب رات کی تمام کار گزاریاں یاد آئیں تو وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھی۔ 

تبھی دروازہ ناک کر کے وہ پھر دھڑلے سے بیڈ ٹی لے کر اندر داخل ہوا تھا۔ 

یہ رات ملک تابش سراج ، اس کے جزبات اور دل کے لئے بھی ایک عذاب بن کر نازل ہوئی تھی تبھی آج وہ بے حد ڈسٹربڈ آفس نہیں جا پایا تھا۔

وہ ایک جھٹکے سے کمفرٹر سے نکل کر اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوئی تھی۔ 

آ،، آپ کی رات ہمت کیسے ہوئی مجھے چھونے کی،  مم،، مجھے کس کرنے کی،، وہ بھوکی شیرنی بنی چلائی۔ 

تابش نے اطمینان سے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی۔ "اب پڑوسی کی بیوی کو تو جا کر کس کرنے سے رہا تو ظاہر ہے اپنی بیوی کو ہی کروں گا ناں،،  وہ خود کو کمپوز کر چکا تھا تبھی سکون سے بولا تھا۔ مگر اس کے جواب نے مومی کو آگ لگائی تھی۔ 

ہماری علیحدگی ہونے والی ہے،، وہ دانت پیس کر بولی تھی۔ تابش نے زخمی نگاہوں سے اسے دیکھا۔ 

اگر یہ بات ہے تو تم یہ کہہ سکتی ہو مونا کہ میں بیوہ ہونے والی ہوں،، وہ خود اذیتی میں جبڑے بھینچ کر بولا تھا۔ 

یہ خلع ہو کر رہے گی،،  وہ تڑخ کر بولی اب صاف اسے اذیت دے رہی تھی جو سالوں سے یہ شغل خود فرماتا آیا تھا۔ 

میرا نہیں خیال،، تابش نے بھی سکون سے کہا تھا۔ 

میں ،امی کو بتاؤں گی،،  مومی کا پھر لہجہ بھیگ چکا تھا۔ 

یہی کہ میں نے تمھیں کس کی،، تاشو نے اسے چھیڑا۔ 

آئی ہیٹ یو تاشو،، 

تاشو، مت بولو یار ، تب بولنا جب میرے پاس پرمنینٹلی آ جاؤ گی، رات بولنے کا انجام بھگت چکی ہو،،  وہ صاف اسے زچ کر رہا تھا۔ 

اس گبر کی اولاد کو اگنور کرتی وہ واش روم گھس گئی۔ 

پیچھے وہ گہرا مسکرایا۔ 

مگر نہیں جانتا تھا یہ مسکراہٹ آج مونا اس سے چھین لے گی۔ آنسو اور تڑپ اس کا مقدر بن جائیں گے۔ وہ رات اس کے جس قدر قریب آیا وہ  اس ضد بازی میں خود سے اسے اتنی ہی دور دھکیل دے گی۔ 

کیونکہ باہر پورچ میں نوید احسن کی گاڑی آ کر رکی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح عرفہ کی آنکھ کھلی تو وہ اب تک اس کہ بانہوں میں مقید تھی۔ عرفہ کی پشت سیام کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ 

سیام،، سیام اٹھیں،،  آج آفس نہیں جانا کیا آپ نے،، عرفہ نے اس کے بازوؤں کا حصار توڑنے کی جدوجہد کی۔ 

کیا یار عرفہ سونے دو سکون سے،، وہ دوبارہ سے بازو لاک کرتا آنکھیں موند گیا تھا۔ عرفہ جھنجھلائی۔ 

اچھا مجھے تو اٹھنے دیں جا کر ناشتہ بناؤں،، 

نو،، ایسے زیادہ مزے کی نیند آتی ہے، اور اب چپ چاپ لیٹی رہی،،  شوہر کے آرام کا خیال ہی نہیں، چہرے پر پمپل نکل آئیں گے اگر شوہر کی نافرمانی کی تو،، سیام نے اس کی پچھلی گردن پر اپنی گال رب کی۔ 

صاف اسے زچ کرنے والی باتیں تھیں۔ 

اور آپ جانتے ہیں بیوی کو پریشان کرنے سے آپ جل کر اور سڑے بینگن بن جائیں گے،،  عرفہ نے بھی آج حساب بے باک کرنے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔ 

گڈ سڑا بینگن اور سڑی بینگنی کی جوڑی کمال کی ہے مگر بینگنی کے منہ پر پمپل نا نکلیں تو،،  اثر کسے تھا بس اسے تپانا جانتا تھا اور وہ تپ بھی گئی۔ 

صبح کے نو بج گئے سیام،،  وہ دانت پیس کر بولی اور سیام کا تمام نشہ ہرن ہوا تھا۔ نرمی سے بازو پیچھے کر کے جھٹکے سے اٹھا۔ 

کیسی بیوی ہو دن چڑھے شوہر کو پلو میں چھپائے بیٹھی ہو،  آخر کام وام پہ بھی بھیجنا ہے کہ نہیں،،، گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے سیام نے شوشا چھوڑا تو اب کی بار عرفہ کے مکے نے اس کا پہلو سینکا تھا۔ 

آؤچ،،، وہ قہقہے لگاتا پہلو میں ہاتھ پھیرتا اٹھ بیٹھا تھا۔ عرفہ اسے گھورے گئی۔ جانے کس مٹی کا بنا تھا اور اسے زچ کر کے اسے کیا ملتا تھا۔ وہ اب انگڑائیاں لیتا واش روم گھس گیا تھا۔ 

عرفہ نے سر پکڑا۔ یہ نمونہ اسی کا مقدر تھا کیا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

نوید احسن ٹانگ پر ٹانگ جمائے ڈرائینگ روم کے صوفے پر شان سے بیٹھا تھا۔ آنکھوں میں عجیب سی بے چینی تھی۔ اور تابش ان کے بلکل سامنے بیٹھا۔ ہاتھ کی مٹھی بنا کر چن پر ٹکائے انھیں بغور دیکھ (کم گھور زیادہ) رہا تھا۔ 

کیا میں پوچھ سکتا ہوں،، اتنے سالوں بعد آپ کس مقصد سے سراج مینشن تشریف لائے ہیں،،  اور کیوں؟  تابش نے سرسراتے لہجے میں  پوچھا تھا۔ 

مجھے سلمیٰ سے ملنا ہے اپنی بیٹی مومنہ نوید احسن سے ملنا ہے ابھی،، نوید احسن کا لہجہ اب التجائیہ سا تھا۔ 

پہلی بات وہ مومنہ نوید احسن نہیں ہے،، مومنہ ملک تابش سراج ہے،، ( تابش نے دانت پیستے "نہیں" پر زور دیا تھا) دوسرا پھپھو عمرے پر گئی ہیں اور مجھے یقین ہے یہاں ہوتی بھی تو آپ کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتیں، تیسرا مونا کو ملازمہ کے ہاتھ میسج بھیج دیا ہے، اگر اس کی مرضی ہوئی تو ملے گی آپ سے،،  نہیں  تو آپ کو یہاں سے تشریف لے جانا پڑے گا،،  

تابش نے کوئی لگی لپٹی رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی تبھی زرا سیدھے سبھاؤ ہر بات بول دی تھی۔ 

خدا کے لئے مجھے میری بچی سے ملنے دو میں سلمیٰ سے بھی معافی مانگ لوں گا،  مگر خدارا مجھے میری بچی سے ایک مرتبہ ملنے دو تابش سراج،،  

ان دو ہفتوں میں اپنی اولاد کا سن کر ایسی پدرانہ شفقت جاگی تھی کہ وہ اپنی گڑیا سے ملنے کو پل پل تڑپے تھے۔ تبھی اب بے چینی حد سے سوا تھی۔ 

ادھر ملازمہ نے مومی سے آ کر کہا تھا کہ اس کے بابا نوید احسن اس سے ملنے آئے ہیں۔ وہ ہونق سی بنی اس کی شکل دیکھے گئی۔ 

کون ملنے آیا ہے مجھ سے،  زرا ایک مرتبہ پھر بتانا،، ؟

آپ کے بابا نوید احسن، مونا بی بی،،  ملازمہ نے ایک مرتبہ اور بتایا۔ غیر یقینی سی تھی۔ کونسی بات چھپی تھی اس سے،  وہ تو سب جانتی تھی۔ اپنی ماں کا راتوں کو اٹھ اٹھ کر رونا،  ماہی بے آب کی طرح تڑپنا،  نیند میں بڑبراتے رہنا،  سب جانتی تھی۔ تو وہ آدمی اب کیا لینے آیا تھا ان کی زندگی میں،، اسے شدید نفرت سی محسوس ہوئی تھی۔ 

جاؤ بول دو انھیں کہ میں نوید احسن نامی کسی شخص  کو نہیں جانتی اور اجنبیوں سے میں ملنا پسند نہیں  کرتی،،  مومی نے کہہ کر اپنا موبائل اٹھایا تھا اور سلمیٰ بیگم کا نمبر ڈائل کیا۔ 

ملازمہ باہر آئی تھی۔ اور من وعن وہی بات بتائی تھی جو مومی نے بولی تھی۔ یہ بات سن کر تابش روح تک سرشار ہوا تھا۔ جبکہ نوید احسن نے بری طرح پہلو بدلہ۔ پھر اس کی لاکھ منت سماجت کے باوجود مومی باہر نہیں آئی تھی۔ اسے خالی ہاتھ خالی دامن واپس لوٹنا پڑا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

چار سالہ نیہا رو رو کر پاگل ہو رہی تھی۔ آج وہی ہوا تھا جس کا سیرت فیضان سراج کو شروع دن سے ڈر تھا۔ اس کا جس اسکول میں  ایڈمیشن کروایا تھا۔ وہاں پیرنٹس میٹنگ تھی۔ اور نیہا  ہزاروں مرتبہ کا سوال پوچھ پوچھ کر آج بری طرح رو دی تھی کہ میرے پاپا کدھر ہیں اور وہ ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے۔ 

یہ تو صد شکر کہ اسے اتنی عقل تھی کہ وہاں کے ہاسپٹل میں  کہہ سن کر اس نے ہاسپٹل کے ریکارڈز میں اپنے شوہر کا نام فرہاد کاظمی ہی لکھوایا تھا۔ اور انھیں پیپرز کے زریعے نیہا کے برتھ سرٹیفکیٹ پر بھی والد کے نام والے باکس میں فرہاد کاظمی کا ہی نام آیا تھا۔ مگر وہ اب اسے کہاں سے لاتی۔ نیہا کی آج معصوم سوالات اسے خون کے آنسو رلا رہے تھے۔ 

سیرت نے بے چارگی سے اسے دیکھا تھا۔

نیہا کیا ہو گیا ہے میری جان،،  پلیز پیشنس رکھو، ہم بابا کہ پاس جلد ہی جائیں گے،، اوکے ایسا کرتے ہیں نیہا کے نانو کی طرف چلتے ہیں،، ٹھیک ہے ناں،،  

سیرت نے اسے مختلف باتوں سے بہلایا۔ مگر اب یہ تو وہ طے کر چکی تھی کہ سراج مینشن ضرور جائے گی۔  

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

سراج مینشن کے لاؤنج میں خوشیاں اور برکتیں سمٹ آئیں تھیں۔ ایک ہنگامہ سا برپا تھا۔ ہنسی اور قہقہوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ داجی،  عمران،  صدیقہ،  فیضان ، شازیہ اور سلمیٰ بخیرو عافیت عمرے جیسا فریضہ ادا کر آئے تھے ۔ مگر آنکھوں میں اب بھی حسرتیں ہی حسرتیں تھیں کہ ایک مسلمان کا اس پاک جگہ،  روح پرور مناظر سے دل بھر ہی نہیں سکتا تبھی اب انشاءاللہ حج کا ادا کرنے کی پکی نیت بنا لی تھی۔ 

وہ جوش وخروش سے انھیں وہاں کی ایک ایک بات بتا رہے تھے۔ تابش سنجیدگی سے بیٹھا تھا۔ 

سیام کارنامہ سرانجام دے کر چہک رہا تھا جبکہ عرفہ چھوئی موئی سی بنی شازیہ بیگم کے پہلو میں بیٹھی تھی۔ 

مومی سلمیٰ بیگم سے چپک کر بیٹھی گزرے دنوں کا احوال بتا اور سن رہی تھی۔ 

تابش گہری سوچ میں  تھا۔ جو ہو چکا تھا اور جو ہونے والا تھا کون جانتا تھا وقت کس کے حق میں کون سا فیصلہ سنائے گا۔ 

کافی دنوں سے نوید احسن کی ٹینشن لگی تھی۔ وہ ان دنوں مسلسل گھر آتا رہا تھا۔ مونا نے ہر مرتبہ ملنے سے انکار کیا۔ مگر وہ بار بار آتے رہے۔ اور اب کچھ دن پہلے ایسی بات ہوئی تھی کہ تابش اندر تک ہل کر رہ گیا تھا۔ 

لاؤنج کے بیرونی دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ سب متوجہ ہوئے تھے۔ نوید احسن اندر آتے دکھائی دیئے  تو سلمیٰ بیگم کا چہرہ لٹھے کی طرح سفید پڑ چکا تھا۔ 

نوید احسن کی نگاہ سامنے اٹھی تو پلٹنا بھول گئی تھی۔ ہاف وائٹ شلوار قمیض میں سلیقے سے شال اوڑھے وقت تو اسے جیسے چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ بیالیس سالہ وہ اور بھی زیادہ صوبر، حسین، پاکیزہ اور خوبصورت لگ رہی تھی۔ 

سلمیٰ نے نفرت سے انھیں دیکھا ۔ آج برسوں کے بعد ان کی جوانی برباد، ان کی زندگی ضائع کر کے ان کا ہرجائی مجرم ان کے سامنے آیا تھا ،کس نیت سے،  کس مقصد سے، یا ابھی کچھ برباد کرنا باقی تھا یا کچھ رہ گیا تھا ان سے چھیننے کو۔ 

سلمیٰ نے نفرت سے منہ پھیرا مگر اگلا لمحہ سب کو حیرت انگیز حد تک متحیر کر دینے والا تھا جب نوید احسن نے آ کر ان کے پیروں کو ہاتھ لگایا تھا۔ سلمیٰ بیگم بوکھلا کر اپنی جگہ سے اٹھ کر پیچھے ہٹی تھیں۔ تب نوید احسن نے ان کے سامنے ہاتھ جوڑے رکھے تھے۔ 

خدا کے لئے سلمیٰ مجھے معاف کر دو،  جانتا ہوں تمھاری پوری زندگی برباد کر کے معافی کا لفظ کس قدر چھوٹا ہے،  میں برا،  میں گناہگار،  مگر تم تو اچھی ہو تم تو الله تعالیٰ کی نیک بندی ہو ناں تو اسی خدا کی رضا کے لئے مجھے معاف کر دو،، کیونکہ اسے معاف کرنا اور معاف کر دینے والے پسند ہیں سلمیٰ بیگم،، 

نوید احسن پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا۔اپنی بچی سے ملنے کو تڑپ رہے تھے۔ اس کے زرا سے دنوں کی بے رخی سینے کو کاٹنے کو دوڑتی تھی تو اللہ تعالیٰ اور اس کی ایک نیک بندی کو تو سالہاسال سے ناراض کر کے بیٹھے تھے یہ سوچ سوچتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے ان کے تبھی یوں تڑپتے ہر بار اپنی بچی سے ملنے آتے تھے سجدے میں  گر گر کر بھی بڑی معافی مانگی تھی اور اب سلمیٰ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے۔ 

سامنے ہی سلمیٰ بیگم اور مومنہ بھی بہت ہی زیادہ شدت سے رو دی تھی۔ بلکہ سب کی ہی آنکھیں اشکبار تھیں۔ 

میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے آپ کو دل سے معاف کیا نوید احسن، مگر  یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ میں اب سراج مینشن سے کہیں بھی جاؤں گی،  سلمی بیگم نے اذیت کی انتہاؤں کو چھوتے یہ لفظ ادا کیے تھے۔ اور انھیں یہ اچھی طرح باور بھی کروا دیا تھا۔ کہ اب ان کی زندگی میں یہ گنجائش نہیں کہ وہ ان کے ساتھ چل پڑتیں۔ ہر گز نہیں یہ الگ بات کہ آج بھی وہ انھیں کے نام پر بیٹھی تھیں انھیں کی بیوی تھیں۔ 

وہ مومنہ کے سامنے آئے تھے۔ ہاتھ جوڑے ہی۔ 

بابا،،،  مومی تڑپ کر ان کے سینے سے لگی تھی۔ پھر باپ بیٹی نے جو آنسو بہائے تھے الاامان الحفیظ۔ اپنے ساتھ سب کو ہی رلایا تھا۔ 

مومی تڑپ تڑپ کر رو رہی تھی مگر کاش سب کے سامنے بول پاتی کہ بابا کہاں تھے آپ،  کہاں تھے اس وقت جب مجھے آپ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی،  جب زندگی مجھ پر تنگ کر دی گئی ، جب میں سانس بھی گھٹ گھٹ کر لیتی رہی،  جب مجھ سے میرا بچپن،  میرے خواب میری ہر خواہش چھین لی گئی۔ 

سامنے ہی تابش کھڑا تھا جانے کیوں یہ منظر دیکھ اندر تک سکون اترا تھا۔ اپنا وہ عمل یاد آیا۔ ہاں اب وقت کے ہاتھ نے اس کے ہاتھ میں  مونا کو پانے کی آس و امید تھما دی تھی۔ 

مونا اپنے بابا کے ساتھ اپنے روم میں گئی تھی۔ وہ جانا چاہتے تھے مگر مونا نے انھیں جانے نہیں  دیا اور ڈھیر ساری باتیں کرنے کے لئے اپنے روم میں  لے آئی۔ 

ادھر باہر ابھی سب کے چہرے پرسکون ہوئے ہی تھے کہ سراج مینشن کے دروازے پر آئی سیرت کو ایک بچی کی انگلی تھامے کھڑا دیکھ سب کے چہروں پر پھر وحشت چھائی تھی۔ 

اے لڑکی تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی اس دہلیز پر قدم رکھنے کی،، میں تمھاری بوٹی بوٹی کر کے چیل کووں کو کھلا دوں گا،، دا جی غضبناک انداز میں اپنی جگہ سے اٹھے تھے۔ 

رک جائیے دا جی اسے میں نے یہاں بلایا ہے،،  تابش نے دا جی کو کہتے سکون سے کہا۔ سب نے حیرت سے پھٹی آنکھیں لیے اس کی جانب دیکھا تھا۔ 

میں نے بھی الله تعالیٰ کی رضا کے لئے اسے معاف کر دیا،، آپ لوگ بھی کر دیں،  زمانے کی ستائی ہوئی ہے،  اب اچھی طرح اپنوں کی اور اپنی چار دیواری کی قدر آ چکی ہے اسے،، اپنی زندگی تو برباد کر لی مگر اب اپنی بچی کو معاشرے کے بھیڑیوں کے بیچ دوسری سیرت بنتے نہیں دیکھنا چاہتی،،  معاف کر دیجئے اسے،،  

تابش نے سنجیدگی سے کہا تھا۔ سیرت جو دہلیز پر کھڑی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی دا جی قدموں میں آ کر گری تھی۔ 

آج  سراج مینشن میں یوم حساب تھا تبھی شاید سب کا ضبط آزمایا جا رہا تھا۔ صدیقہ بیگم دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھیں۔ کیونکہ وہ سب کے پیروں میں  گر گر کر معافی مانگ رہی تھی۔ عجیب رقت بھرا سماں تھا۔ سب رو رہے تھے آخر کار اس کی حالت دیکھ سب کو رحم آ ہی گیا تھا۔ 

تابش نیہا کو گود میں اٹھائے باہر چلا آیا تھا۔ وہ نہیں  چاہتا تھا اتنی معصوم سی بچی اپنی ماں کی یہ حالت دیکھے اسے شرمندہ اور دوسروں کے قدموں میں گرتا دیکھے اور اس کے ننھے سے دماغ میں  کوئی سوال پیدا ہو۔ وہ کرلی بالوں والی کیوٹ اور باتونی سی بچی تھی جو بہت جلد تاشو سے فرینک ہو گئی تھی۔ 

تابش کو یاد آیا سیرت کا کچھ دن پہلے اس کے آفس آنا ۔ اس کے سامنے گڑگڑانا اور اپنی ساری کہانی سنا دینا۔ اب کی بار سیرت نے اس سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔ نا کوئی جھوٹ بولا تھا سب کچھ بتا دیا تھا۔ 

سیرت کی اس قابل رحم حالت پر اسے ترس آیا تھا۔ اور پھر دابش نے اپنے دل کی گہرائیوں سے الله تعالیٰ کی رضا کے لئے،  اور الله تعالیٰ کی رضا کے بعد مونا کی رضا کے لئے اسے معاف کر دیا تھا۔ یہ سوچ کر کہ شاید اس کے اسے معاف کر دینے سے مونا بھی اسے معاف کر کے اس کی ہو جائے۔  

اے کاش کہ ایسا ہو جائے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤❤️

مرض جب بھی پوچھا گیا 

ہنس  کے  بولے  محبت  ہے

آج دو دن ہو چکے تھے۔ سیرت سراج مینشن شفٹ ہو گئی تھی۔ زندگی نارمل روٹین کی جانب واپس آ رہی تھی۔ مومی سے اس کا سامنا بہت کم ہی ہوا تھا۔ 

نوید احسن آتے رہے تھے ان سے ملنے۔ مگر مومی اور سلمیٰ ان کے ساتھ ان کے گھر نہیں گئی تھیں۔ مگر کب تک ،

مونا اپنے کمرے میں کھڑی کے پاس کھڑی تھی۔ دو دن ہو گئے تھے بڑوں کو واپس لوٹے۔ مگر وہ پیپر اس نے نکال کر بھی نہیں دیکھے تھے سب سے عجیب اور حیرت کی بات تو یہ تھی کہ وہ ان پیپرز کے بارے میں پوری طرح بھول ہی گئی تھی۔ اور نا کسی بڑے نے اس سے زکر کیا تھا۔ 

اب جب کے وہ کھڑکی میں کھڑی تھی تو سامنے کے منظر نے اس کے دل میں ایک عجیب سی سوئی سی چبھو ڈالی تھی۔ اسے خود اپنی کیفیت پر شدید حیرت اور غصہ آ رہا تھا۔ 

تابش آفس سے تھکا ہارا گھر آیا تھا جب لان میں  ہی اسے نیہا کھیلتی دکھائی دے گئی۔ وہ اسی کے پاس چلا آیا۔ سیرت تابش کی گاڑی کی آواز سن کر پہلے سے بنائی گئی گرما گرم کافی کا مگ لے کر جھٹ سے باہر آئی تھی۔ سامنے کا منظر دیکھ اسے اندر تک سکون ملا۔ 

بدخصلت اور خود غرض انسان بھلا کب بدلتا ہے اب بھی اس کی سوچ اتنی ہی پست اور خود غرض ہی تھی۔ وہ یہ کہ اب اس شاندار سے شخص کو پانے اور اس کے ساتھ ایک نارمل اور آئیڈیل زندگی گزارنے کے بیچ میں  صرف ایک مومنہ نامی کانٹا ہی تھا جو نکل کر بیچ میں  سے ہٹ جاتا تو اسے ایک آئیڈیل شوہر اور نیہا کو ایک پرفیکٹ پروٹیکٹر باپ مل جائے گا۔ 

وہ مسکراتی تابش تک آئی۔ 

یہ لو تاشو،،  گرما گرم کافی،  تمھیں میرے ہاتھ کی بہت پسند تھی ناں،،  

معاف کرنا سیرت مگر میرا نام تابش سراج ہے تو بہتر ہے تم مجھے وہی بولا کرو،  اور اب مجھے کافی نہیں  چائے پسند ہے،، 

تابش نے سنجیدگی سے کہا مگر اس نے اثر نہیں  لیا تھا دیکھ چکی تھی کھڑکی پر وہ کھڑی دیکھ رہی ہے تبھی زرا نیہا کے بہانے دو قدم اور قریب آئی تھی تابش کے۔ اور مسکرا کر کھڑکی میں  کھڑی ہوئی مونا کو  ہاتھ ہلا کر وش کیا۔ مگر مسکراہٹ تو ایسی تھی جیسے سیرت مونا سے کہنا چاہتی ہو۔ 

دیکھا کتنا مکمل منظر ہے۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

مومی نے غصے سے پھٹتے دماغ کے ساتھ ڈریسنگ کی ہر چیز تہس نہس کر کے زمین بوس کی تھی۔  

لگتا تھا اس فراڈ شخص نے اس رات اپنے ہر لمس کی حدت کے ساتھ اپنی محبت اپنا عشق اس کی رگوں میں اتار دیا تھا۔ تبھی اب وہ جل رہی تھی اگر وہ جل رہی تھی تو کیا یہ محبت تھی۔ 

شاید، 

اب جب کہ ہمیشہ سے وہ یہ چاہتی تھی کہ سراج مینشن کے پنجرے سے آزاد ہو جائے تو وہ اتنے دنوں سے کیوں پڑی تھی اس قید خانے میں۔ صیاد کے اس دام سے نکل کیوں نہیں  گئی تھی اب جبکہ پنجرے کا دروازہ بھی کھول دیا گیا تھا۔ 

اس نے اپنے بال ہاتھوں میں  جکڑے۔ اگر وہ تکلیف میں  تھی تو وہ کیوں اب اتنے سکون میں  تھا۔ 

(پاگل اتنا نہیں  سمجھ پائی تھی کہ وہ محبت کا مارا پگلا تو اس بات پر ہی سرشار ہوا پھر رہا تھا کہ مونا نے وہ پیپر بڑوں کے آنے پر سائن نہیں  کیے تھے بلکہ ان کا زکر تک نہیں  کیا تھا۔)

باہر سے نوید احسن کی آواز آ رہی تھی۔ اسے اب اس کاغذ کے رشتے کے تماشے اس کھیل کا آخری داؤ آزمانا تھا۔ تبھی غصے میں اپنے دو تین ڈریس بیگ میں  ٹھونسے تھے۔ چہرے پر پانی کے چھینٹے مار کر بیگ اٹھا کر باہر لاؤنج میں آئی تھی جہاں سب خوش گپیوں میں مصروف تھے۔وہ باہر نکلی تو سب نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا۔ 

امی میں بابا کے ساتھ جا رہی ہوں کچھ دن ان کے پاس رکوں گی،، مومی نے اطمینان سے کہا تھا۔ نوید احسن اور سیرت کھل اٹھے تھے اس کے اس فیصلے پر۔ جبکہ اس نے سب کے سروں پر بم پھوڑا۔ اور ایک بندے کے تو دل پر قیامت ہی گرائی جو جیتا تھا تو اسے ہی دیکھ کر۔ 

مومی بھی قسم کھا کر کمرے سے باہر نکلی تھی کہ آج اگر اس بندے نے اسے اپنی ضد کے رہتے روکا تو وہ آج ہی وہ پیپر سائن کر کے سلمیٰ بیگم کے حوالے کر کے جائے گی۔ 

مگر وہ تو پتھر بنا دھواں دھواں چہرہ لیے چپکے سے وہاں سے اپنے روم میں  جا چکا تھا۔ 

مومی کو یہ بھی کہاں گوارا ہوا تھا۔ دل میں  سوئیاں سی چبھیں۔ 

اونہہہ،، اب بچپن کی ساتھی جو مل گئی ہے اب کونسی مونا، اور کہاں کی مونا،،  دل نے بین کیے۔ دہائیاں دیں۔ مگر وہ ڈھیٹ بنی ایک شخص کو کانٹوں پر گھسیٹ کر سب سے مل کر نوید احسن کے ساتھ ان کے احسن ولا چلی آئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج مومی کو اپنے بابا کے اس شاندار محل میں آئے دوسرا دن تھا۔ دل ودماغ پر عجیب بےکلی سی سوار تھی۔ زرا برابر بھی دل نہیں لگ رہا تھا اور یہ اس کے لئے حیرت و صدمے کی بات تھی۔

 وہ شاور لے کر ٹاول سے بال رگڑتی واش روم سے باہر نکلی تھی۔ سراج مینشن کے لاؤنج جتنا تو اس کا یہ شاندار روم ہی تھا۔ پنک و فیروزی امتزاج کے رنگوں سے سجا جہاں دنیا کی ہر آسائش موجود تھی۔ مگر وہ پھر بھی اس سراج مینشن کو یاد کر رہی جہاں سے ہمیشہ دور جانا چاہتی تھی۔ 

وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی ویران نگاہوں میں غور سے دیکھ رہے تھی۔ آخر یہ دل چاہتا کیا تھا جس نے سراج مینشن سراج مینشن کی رٹ لگا رکھی تھی۔ 

اپنی ماں کو اپنے کہے الفاظ کانوں میں گونج رہے تھے۔ 

" امی میری شادی اس سراج مینشن سے ہزاروں کلو میٹر دور کرنا،  بلکہ ایسا کرنا بیرونِ ملک کر دینا تاکہ اگلی زندگی میں دوبارہ کبھی مجھے اس منحوس سراج مینشن اور اس منحوس شخص کی شکل نا دیکھنی پڑے،  کبھی بھی نہیں،  اور ہاں پتا ہے بعد میں  آپ کو ہی مجھے ملنے آنا پڑا کرے گا کیونکہ میں تو اس زلالت مینشن میں ایک قدم بھی نہیں  رکھوں گی،

ہاں تو،، وہ تو میں تب بولتی تھی ناں جب تاشو کا بی ہیو مجھ سے اتنا برا تھا اب تو وہ مجھ سے،، 

وہ آئینے میں خود کو دیکھ بے تحاشا چونکی تھی۔ 

ایک منٹ، ایک منٹ مومی آر یو ان یور سینسز،؟ تم اس گبر کی اولاد کو مس کر رہی ہو، اس کا نام بار بار لے رہی ہو، واٹس رونگ ود یو،،؟ وہ بری طرح جھنجھلائی تھی۔ اور جب سے آئی تھی تب سے اس کا لاشعور میں ایک شخص کی ہی تو پرچھائیں بن بن کر ابھر رہی تھی۔ وہ اپنی اس کیفیت سے خود ہی چھپتی پھر رہی تھی۔ 

اس کا دل ویران تھا بہت اداس،  ادھورا سا، 

نوید احسن ہلکی دستک دے کر اس کے روم میں  داخل ہوئے تھے۔ 

کیسی ہی میری پرنسز،،  

بلکل ٹھیک،  خوش باش بابا،، وہ مصنوعی مسکرائی۔ 

تو چلو پھر تم سے کوئی گیسٹ ملنے آئے ہیں،،  نوید احسن نے کہا تو اس نے اچنبھے سے بابا کو دیکھا۔ 

کون بابا،،؟  اسے حیرت ہوئی۔ 

ہے کوئی بہت خاص،  ٹو دی پوائنٹ بات کرتا ہوں،  کوئی بہت خاص ہے جو میری پرنسز کا طلب گار ہے،  میں  جانتا ہوں تم تابش سراج کو پسند نہیں کرتیں،  بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس سے نفرت کرتی ہو،  ہونی بھی چاہیے،  بہت تنگ نظر ہے وہ،  اور میری پرنسز کو ڈیزرو نہیں کرتا، تو میں نے تمھارے لئے کسی خاص شخص کو پسند کیا،  مگر یاد رکھنا حتمی فیصلہ میری گڑیا کا ہی ہوگا،،  نوید احسن نے نرمی سے کہا تو وہ شاکڈ سی انھیں دیکھے گئی۔ اور بری طرح کنفیوز ہو کر انگلیاں چٹخانے لگی۔ 

کیا ہوا ڈر گئی اس تابش سراج سے، کوئی ضرورت نہیں میرے ہوتے ہوئے کسی سے ڈرنے کی،  وہ بیک ورڈ جاہل آدمی کچھ نہیں کر پائے گا،، اور

پلیز پاپا،،،  مومنہ نے پہلو بدلتے برا مناتے ان کی بات بیچ میں  ہی کاٹی تھی۔ " وہ کوئی ایسے ویسے نہیں تھے بس اپنی گھر کی عزت کو لے کر کچھ زیادہ پوزیسو تھے، ان سیرت آپی کی وجہ سے،  ایسا کچھ نہیں جیسا آپ ان کے بارے میں  بول رہے ہیں،، 

نوید احسن نے اپنی بیٹی کو بغور دیکھا۔ اس نے برا منایا تھا۔ اور منہ پھلا لیا۔ 

اوکے چلو مل تو لو بس،،  باقی فیصلہ تو میری پرنسز ہی کرے گی اور یو نو واٹ میں نے آج اپنی پرنسز کے لئے ویلکم پارٹی کا ارینج کیا ہے تاکہ بزنس کی دنیا کے لوگوں کو پتا چلے کہ میری بیٹی میرے پاس ہے،  تمام ارینج مکمل ہے،  بس تم۔ملک شجاعت جو کہ میرے بزنس پارٹنر ہیں ان کے بیٹے سے مل لو،، اس کے بعد تیار ہو جانا پارٹی کے لئے اوکے اب چلو،، 

نوید احسن بات کرتے کرتے اسے ڈرائنگ روم کی جانب لے جانے لگے۔ پہلے کب وہ اتنا بولتے تھے مگر اب تو مومی آ گئی تھی تو وہ بھی باتونی ہو گئے تھے۔ 

(ان کی دانست میں مومی اس رشتے سے بلکل خوش نہیں  تھی۔ سیرت کی برین واشنگ نے یہ بات ان کے دل ودماغ میں  بٹھا دی تھی کہ مومی اس رشتے اور تابش سراج سے نفرت کرتی ہے اور یہ محض زبردستی کا رشتہ ہے، اب انھیں اپنی کوئی غرض نہیں تھی بس مومی کی خوشی سے مطلب تھا اب چاہے وہ تابش سراج کے ساتھ ہو یا ملک ارشمعان کے ساتھ۔ )

وہ مومنہ کا بازو تھامے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے تو ملک شجاعت اور ملک ارشمعان مومی کے اعزاز میں  اٹھ کر کھڑے ہوئے تھے۔ 

السلام علیکم،،  مومنہ نے سلام کیا۔ 

وعلیکم السلام ،ماشاءاللہ،،  ماشاءاللہ،، بہت پیاری بیٹی ہے بلکل اپنے نام کی طرح مومنہ،،، ملک شجاعت بہت خوش ہوئے تھے۔ اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔ 

ہائے،،، ارشمعان نے ہاتھ آگے کیا۔۔ مومی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھیں۔ اس کے زہن میں  اسے شخص کو دیکھ جھماکا سا ہوا تھا مومی کو یوں محسوس ہوا جیسے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا تھا۔ 

ہائے،،  مومی نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے پیچھے باندھ کر خوشدلی سے جواب دیا تھا۔ 

اٹس اوکے،،  ارشمعان کو اس کی یہ ادا بھی بھائی تھی۔ وہ سر تاپا اسے بغور دیکھے جا رہا تھا اور مومی کو یہ بات انتہائی ناگوار گزر رہی تھی۔ 

وہ باتوں میں مصروف ہو گئے۔ 

مومی پرنسز،،  ارشن بیٹے کو کمپنی دو،، نوید احسن نے کہا تھا۔ مومی نے پہلو بدلا۔ 

آئیے لان میں  چلتے ہیں،، ارشمعان نے کہا تو مومی کو اٹھنا ہی پڑا۔ 

وہ دونوں لان میں چلے آئے۔ 

مومنہ میں آپ جناب کے تکلف میں نہیں پڑنا چاہتا،  اسی لئے تمھیں تم کہوں گا،  تو تم مجھے نہیں  جانتیں،  مگر میں تمھیں  بہت اچھی طرح جانتا ہوں،  کچھ عرصے پہلے کالج کے باہر دیکھا تھا۔ تب سے بہت پسند کرتا ہوں تمھیں،  بلکہ محبت کرتا یوں تم سے، میں نے کافی بار بات کرنے کی کوشش کی تم سے مگر تم نے اگنور کر دیا،  مگر اب میں شادی کرنا چاہتا ہوں تم سے، مومنہ کیا تم شادی کرو گی مجھ سے،،  

ارشمعان کچھ زیادہ ہی سٹریٹ فارورڈ تھا تبھی بغیر لگی لپٹی اپنے دل کی ہر بات بتا دی تھی۔ وہ دم بخود سی کھڑی اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔ زبان تالو سے چپک چکی تھی۔ 

(اس ایک رات میں جانے کیا فسوں تھا کہ مومی کی جان اب تک اسی جادو کے اثر میں جکڑی ہوئی تھی تبھی آنکھوں کے سامنے وہی مناظر لہرا گئے۔) 

مومی تم نے جواب نہیں دیا،،  ارشمعان نے اس کے کندھے کو زرا سا چھو کر اسے گہری سوچ کے بھنور سے نکالا تھا۔ مومی کو اپنے کندھے سے کراہیت محسوس ہوئی۔ 

سوچ کر جواب دوں گی، چلتی ہوں، پارٹی کے لئے ریڈی ہونا ہے مجھے،، وہ بول کر رکی نہیں تھی۔ 

ارے مومی،، رکو تو پلیز،،  ارشمعان جھنجھلایا۔ مگر وہ اندر غائب ہوئی تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تابش اپنے کمرے میں راکنگ چئیر پر بیٹھا جھول رہا تھا۔ براؤن شلوار قمیض میں ملگجے سے حلیے میں وہ بکھرا سا لگ رہا تھا۔ خمار آلود آنکھوں میں تیرتے سرخ ڈورے رت جگوں کے گواہ تھے۔ وہ دشمن جاں جیسے جاتے ہوئے جیسے جسم سے جاں کھینچ کر ساتھ ہی لے گئی تھی۔ 

تبھی دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا تھا۔ تابش کے ماتھے پر بل آئے۔ کس کی جرات تھی جو اس کے روم میں بغیر ناک کیے اندر چلا آیا تھا۔ 

مگر جب اپنی آنکھوں پر دو ننھے منے ہاتھ محسوس ہوئے تو ایک زخمی سی مسکان نے لبوں کو چھوا۔ 

مائی لٹل میگی گرل،، تابش نے کہا تو نیہا نے برا سا کیوٹ سا منہ بنایا۔ 

تاشو ، مجھے میگی نوڈلز مت بولا کریں ناں،،  

اور تم مجھے تاشو مت بولا کرو،  یہ صرف سنئیر میگی نوڈل گرل بول سکتی ہے مجھے،،  وہ اس کے چھوٹے چھوٹے ہاتھ تھامتا اس کی چھوٹی سی ناک کھینچ کر بولا۔ 

آئی گیس، وہ مونا خالہ ہے،، نیہا نے کہا تو تابش نے ایک جزب کے عالم میں اثبات میں سر ہلایا کہ جیسے اس نام سے بھڑکتے سلگتے دل پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑے تھے۔ 

یس وہ تمھاری مونا خالہ ہے اور میری جان ہے،،  وہ منہ بڑبڑایا۔ 

نیہا،،، نیہا،،، 

تبھی سیرت بھی بغیر ناک کیے اندر داخل ہوئی تھی۔ تابش کے ماتھے پر پھر بل پڑے۔ 

سیرت ایسے کسی کے روم میں بغیر ناک کے نہیں داخل ہونا چاہیے،،  تابش نے کوئی لحاظ رکھا بھی نہیں تھا سیرت جی بھر کر شرمندہ ہوئی۔ 

سوری تاش،، آئی مین تابش، میں تو بس اسے لینے آئی تھی،،  یہ،،  

سیرت کی بات بیچ میں ہی رہ گئی تھی جب سلمیٰ بیگم اندر آئیں اور سیرت کو اس کمرے میں دیکھ کر ان کے ماتھے پر بل آئے۔ 

تابش ایک ضروری بات کرنی تھی تم سے،،  سلمیٰ بیگم نے مبہم سا کہا تھا سیرت خاموشی سے نیہا کو اٹھا کر باہر چلی گئی۔ 

جی پھپھو حکم کریں،، تابش پوری طرح ان کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

حکم کیا کروں،،  تم سے پوچھنے آئی تھی کہ تمھارا اپنی بیوی کو کتنی ڈھیل دینے کا پروگرام ہے،،  سلمیٰ بیگم نے خفگی سے پوچھا تھا۔ 

کیا مطلب پھپھو،،  تابش نے ناسمجھی سے کہا۔ 

مطلب یہ کہ اس کا باپ اس کے لئے رشتے دیکھتا پھر رہا ہے تم سے بہتر کوئی شخص، سلمیٰ بیگم نے تابش کے سر پر  پھوڑا۔ 

"لیکن یہ بات میں جانتی ہوں کہ اس کے لئے تم سے بہتر کوئی ہو ہی نہیں سکتا، تو ہوش کے ناخن لو ملک تابش سراج اسے یوں ڈھیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں،  اسے اس رشتے کا احساس دلاؤ،  اپنی محبت جتاؤ اور اپنی امانت کی زمانے کی سرد وگرم سے حفاظت کر کے اپنے پاس لے آؤ،، 

یہ،، کک، کیا بول رہی ہیں آپ پھپھو،،، آج اسے کھو دینے کے ڈر سے ملک تابش سراج کی زندگی میں پہلی مرتبہ زبان لڑکھڑائی تھی۔ 

اس کے جواب میں سلمیٰ بیگم اسے سب بتاتی چلی گئیں  جو مومی نے آج انھیں  فون پر بتایا تھا اور یہ بھی کہ وہاں مومی کے لئے ویلکم پارٹی ہونے والی ہے جسے اس شخص نے ارینج کیا ہے جس کو نوید احسن نے مومنہ کے لئے پسند کیا ہے۔

 ملک تابش سراج کو اپنی روح فضاؤں میں تحلیل ہو کر فنا ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ سلمیٰ بیگم جا چکی تھیں۔ وہ ڈریسنگ کی جانب بڑھا تھا۔ ڈریس لے کر واش روم گیا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تمام پارٹی کا ارینج احسن ولا کے طویل وعریض لاؤنج میں کیا گیا تھا۔ بزنس اور شوبز کی دنیا کے بڑے بڑے نام اور شخصیات پارٹی میں موجود تھیں۔ لاؤڈ میوزک سسٹم کی آواز سے کانوں پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ 

بس اب مومنہ کا انتظار تھا۔ جسے تیار کرنے کے لئے  شہر کی مشہور بیوٹیشن کو بلایا گیا تھا۔ 

مومی کا ڈریس بھی ارشمعان لایا تو جو کافی عجیب تھا۔ مگر یہ بات مومنہ کو معلوم نہیں تھی ابھی۔ 

اندر بیڈ پر ڈریس پڑا تھا۔ پارلر والی نے اسے وہ ڈریا پہننے کو کہا۔ مومی کھوئی کھوئی ای ڈریس اٹھا کر واش روم گئی تھی۔ ڈریس پہن کر باہر آئی۔ پارلر والی نے نوید احسن کے حکم کے مطابق جلدی جلدی اسے تیار کر دیا۔ اور خود چلی گئی۔ 

آئینے کے سامنے وہ اس سلیولیس وائٹ میکسی میں ہلکے میک اپ، دوپٹے کے بغیر ، ہیروں کے ٹاپس پہنے خود کو بغور آئینے میں دیکھ رہی تھی۔ کرلی براؤن کھلے بال پوری کمر پر آبشار کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ چھوٹا سا نفیس سا سلور کراؤن سر پر بالوں میں سے جھانک کر اسے کسی ریاست کی شہزادی بنا رہی تھی۔ 

اتنے میں  نوید احسن ہلکی سی ناک کے بعد روم میں داخل ہوئے تھے۔

تیار ہو پرنسز،،، مسکرا کر پوچھا۔ 

جی،  چلیں،  ان کا بازو تھام کر باہر آئی۔ سیڑھیوں سے اترتے سپورٹ لائٹ ان دونوں پر پڑی۔ محفل میں  موجود ہر ایک نگاہ اس کے وجود پر اٹھی تھی اور پلٹنا بھول گئی تھی۔ 

نیچے اتر کر لاونج کے بیچ و بیچ آ کر نوید احسن اسے سب سے ملانے لگے۔ ارشمعان مسکراتا ان کے پاس آیا تھا۔ 

ناؤ اٹس مائی ٹرن ینگ مین،،  نوید احسن کو کہتے اس نے مومی کا گداز ہاتھ تھاما اور اپنے دوستوں کی جانب چل پڑا۔ 

مومی کو اپنے ہاتھ سے کراہیت سی محسوس ہوئی۔ تبھی چلتے چلتے اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ اس گرفت سے چھڑا لیا۔ 

وہ اس کے دوستوں کے پاس پہنچی۔ ارشمعان جانے کیا کیا بول رہا تھا۔ اسے بس اس کے ہونٹ ہلتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ تو کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوئی تھی۔ ارشمعان کے دوست بھی اسے بڑی گہرائی سے غلیظ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ 

(کیا یہ ایسی غلیظ آزادی چاہیے تھی مجھے اتنے سالوں سے،  کہ میں شمعِ محفل بن جاؤں میں محض میں ایک دیکھنے والا شو پیس بن کر رہ جاؤں، بس بےپردہ مرکزِ نگاہ رہوں،  اور ہر گندی نگاہ مجھ پر اٹھے)  مومی کو اپنے آپ سے پارٹی میں خود پر اٹھتی ہر نگاہ سے گھن محسوس ہوئی۔ ارشمعان بھی بہانے سے اس کے گداز بازو کو چھو رہا تھا۔ اس کا چہرہ برداشت کی شدت سے لٹھے کی طرح سفید پڑا تبھی وہ الٹے پیر اپنے روم کی جانب گئی تھی۔ 

اے مومی کدھر،، ارشمعان اس کے پیچھے لپکا۔ 

واش روم جانا ہے مجھے،  فریش ہونا ہے،  تمھیں  کوئی اعتراض ہے،،  وہ پھنکار کر بولی۔ ارشمعان گڑبڑایا۔ 

وہ سیدھا اپنے کمرے میں آ کر لاک لگا کر واش روم میں بند ہوئی تھی۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر نم نگاہوں سے سلیولیس بازو نوچ کر نیچے کرنے چاہے جیسے اس کے کھینچنے پر وہ فل بازو ہو ہی جائیں گے۔ کچھ غیر معمولی محسوس ہوا تو آئینے سے اپنے پیچھے نگاہ اٹھی۔ 

وہ دیوار سے ٹیک لگائے نم شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ جیسے کہنا چاہتا ہو کہ کیا دنیا کی گندی نگاہوں سے اس لئے سینت سینت کر اپنے صرف اپنے لئے رکھا تھا کہ آج وہ یوں غیروں کے لئے انٹرٹینمنٹ کا سامان بن جاتی۔ 

مَر مَر کے تاں ملے سی،  ایڈے وی کی گلے سی

سولی تے لٹکیاں دا اعتبار وی نا آیا

اسی زندگی گوا لئی تینوں پیار وی نا آیا

او پیار او وفاواں، او تڑپ تے او جزبے

میرے حصے دی محبت کدے توں وار آیا

اسی زندگی گوا لئی،  تینوں پیار وی نا آیا

مونا پیچھے مڑ کر آئینے سے لگی تھی۔ تاشو آہستگی سے چلتا اس کے قریب آیا (مونا نے قریب آنے دیا) تاشو نے ہاتھ پیچھے باندھ رکھے تھے۔ جب سامنے کیے تو ہاتھوں میں  وائٹ کلر کا اپر اور سکارف تھا۔ تاشو اس کے بے حد قریب تھا۔ تبھی اس کے کندھوں پر اپر پھیلا کر اوڑھا دیا۔ وہ نگاہیں جھکائے خاموشی سے کھڑی رہی۔ کوئی ردِعمل نہیں تھا۔ جیسے پتھر کی ہو گئی ہو۔ اس وقت تاشو کی نگاہوں میں دیکھنا زندگی کا مشکل ترین امر تھا۔ وہ اسے اپر پہنا چکا تھا (اور مونا نے اسے پہنانے دیا) اب اس کے سلیولیس بازو اور خوشنما بندن چھپ چکا تھا۔ 

اب تاشو نے ہاتھ پیچھے لے جا کر اس کے بال ہاتھوں میں بھرے دے۔ بالوں کا جوڑا بناتا وہ مسلسل اسے دیکھے جا رہا تھا۔ اس کی گرم سانسوں کی تپش مونا کا پورا چہرا جھلسا رہی تھی۔ عجیب بات تھی نا تاشو کے چھونے سے کوئی بے چینی ہو رہی تھی نا دیکھنے سے گھن محسوس ہو رہی بلکہ ایک تحفظ و پاکیزگی کا عجیب سا احساس تھا۔  

جوڑا بنا چکا تو اب سکارف سر پر دیا۔

اور پاکٹ میں سے حجاب پنز نکال کر پاس بنے سٹینڈ پر رکھی۔ 

وہ اس کا حجاب بنا رہا تھا۔ آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر تاشو کے ہاتھ پر گرا تھا۔ کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں تھی وہ اسے سمجھ رہا تھا۔ 

انٹرنیٹ سے بڑی مشکل سے سیکھا ہے یہ،،  تاشو نے آہستگی سے بتایا۔ وہ اس کی نگاہوں میں  جھانکنے لگی۔ 

حجاب پنز لگاتے وہ اس کے بےحد قریب چلا آیا تھا۔ مونا نے گھبرا کر آنکھیں بند کر لیں۔ 

وہ سمجھی شاید تاشو ،،،،،،،،،،۔

تاشو اس کے یوں گھبرا کر آنکھیں بند کرنے پر مسکرایا تھا۔ 

I think, You want me to kiss you,, 

 بھاری بوجھل آواز میں  یہ بات سن کر مونا کی اب پوری کی پوری آنکھیں تحیر سے کھل کر پھیل چکی تھیں۔ 

اگر واقعی تم ایسا چاہتی ہو تو سوچ لینا،  میرے اتنے سالوں کے جنون اور شدت کو برداشت کر سکو گی تو موسٹ ویلکم، 

اس کی بات پر مونا نے اس کی شرٹ کا کالر دبوچا تھا۔ تاشو نے اس کی پچھلی گردن کو ہاتھوں کی گرفت میں لے کر اپنے ہونٹ اس کے لبوں پر رکھے تھے۔ 

اسکی ریڈ لپ اسٹک تیزی سے پھیل رہی تھی۔ پہنایا گیا اپر اور حجاب بھی بکھرتا گیا۔ مگر آج مومی نے اسے دور ہٹانے کی بلکل کوشش نہیں کی تھی۔ تو کیا وہ چاہتی تھی کہ تاشو اسے چھوئے۔ اس کے جتنا مرضی قریب چلا آئے۔ اس کی سانسوں کی خوشبو کو اپنی سانسوں میں  بسائے۔

سب سے بڑھ کر کیا یہ خود سپردگی کا عالم تھا۔ تابش پاگل ہو چکا تھا شاید تبھی اس کے گداز ہونٹوں کو آزادی دے کر اب گردن کی گہرائیوں میں اترنے لگا تھا۔ مومی نے آنکھیں بند کر رکھیں تھیں اور اس ستمگر کی شرٹ کندھوں سے مٹھیوں میں  جکڑ رکھی تھی۔ 

کمرے کے دروازے پر دستک سے دونوں ہوش میں آئے تھے۔ تابش کچھ کہے بغیر اس سے مسرور سا الگ ہوا تھا۔ آج وہ اس سے جتنے سوالوں کا جواب طلب کرنے آیا تھا وہ خود بخود ہی اسے مل چکے تھے۔

مونا اس سے شدت سے نگاہیں چراتے جانے لگی تھی جب اس کی کلائی تابش کی سلگتی گرفت میں آئی تھی۔ 

تاشو پلیزززززززز،،،  اس کے لہجہ میں عاجزی تھی۔ مگر اس کا تابش سراج پر الٹا اثر ہی ہوا تھا۔ جھٹکے سے اسے اپنی جانب کھینچا تھا۔ وہ کٹی ڈال کی طرح اس کے کشادہ سینے سے آ ٹکرائی تھی۔ تابش نے اس کے نچلا لب پر دانتوں سے کٹ لگایا تھا۔ اب کی بار مومی نے اس کے پاگل پن سے عاجز آ کر اسے خود سے دور دھکیلا تھا۔ واش  روم سے نکل کر دروازے تک آئی۔ 

ہوز،، دد،، دئیر،،،  سانس ابھی تک اتھل پتھل تھی۔ 

پرنسز کیا ہوا پارٹی چھوڑ کر کیوں چلی آئی بیٹا،، نوید احسن نے آواز دی تو اس کی جان پھر بے جان ہوئی۔ 

فریش ہونے آئی تھی بابا آتی ہوں،،  اب وہ کیا کہتی آئی  تو فریش ہونے تھی مگر اس بندے نے اس کے چودہ طبق روشن کر دئیے تھے۔ بھاگ کر آئینے کے سامنے گئی۔ اپر اور حجاب درست کیا۔ ٹشو سے رگڑ کر لپ اسٹک صاف کی۔ میک اپ دوبارہ درست کر کے لائٹ سا پنک گلوز لگایا اور کمرے سے بھاگ  کر باہر نکل گئی۔ 

وہ مسکراتا واش روم سے باہر نکلا تھا جانتا تھا اس کی موجودگی میں نکلتا تو وہ آج جتنا خود سے اور تابش کی بے باکیوں سے گھبرا چکی تھی ملک تابش سراج کے سامنے جیسے جان ہی دے دیتی۔ وہ پھیل کر بیڈ پر لیٹ کر اس کی خوشبو اپنے آس پاس محسوس کرنے لگا۔

آج اس کا سراج مینشن لوٹنے کو کوئی خاص پروگرام نہیں تھا۔ اس کے چودہ طبق تو روشن کر ہی چکا تھا اب دن میں چاند تارے دکھانے کا بھی پکا ارادہ رکھتا تھا۔ تبھی وہاں موجود تھا۔ 

چند گھنٹوں بعد وہ پارٹی اٹینڈ کر کے روم میں  داخل ہوئی تو دروازے کے پیچھے کھڑے تابش نے اطمینان سے کلوروفارم سے بھرا رومال اس کے منہ پر رکھا تھا۔ وہ مچلی۔ مگر جلد ہی ہوش و خرد سے بیگانہ اس کی بانہوں میں آ گری۔

 تابش گہرا مسکرایا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤

وہ اپنا سامان اطمینان سے پیک کر رہی تھی اور وہ کمرے میں ادھر ادھر چکر لگاتا بری طرح جھنجھلا رہا تھا۔ ظالم سماج نے رخصتی واپس لے لی تھی۔ تاشو مومی کو لینے گیا تھا۔ اب تین بعد شہر کے بڑے ہال میں ایک بہت بڑا ریسپشن تھا جس کے بعد ان کی دلہنیں باقاعدہ طور پر ان کے کمروں میں پہنچائی جانی تھی۔ تبھی سیام کڑوے سے منہ بناتا دانت کچکچا رہا تھا۔ یہ دا جی کا حکم تھا۔ 

اور سڑے بینگن کو سر تاپا جلا کر چھیڑ دیا گیا تھا۔ اب تو اپنے کمرے میں ایک سیکنڈ بھی وہ موجود نا ہوتی تو دل بیٹھنے لگتا تھا کجا کہ اسے پورشن سے ہی نکال دیا جائے۔۔ وہ عرفہ کا چوری چوری مسکرانا دیکھ رہا تھا۔ 

اس سڑے بینگن کا فق چہرہ دیکھ عرفہ دانتوں تلے لب دبا کر اپنی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوئی۔ تبھی وہ جارحانہ تیور لیے اس کی جانب لپکا۔ 

عرفہ بھاگ کر ڈریسنگ میں بند ہونا چاہتی تھی۔ مگر اس کی یہ کوشش سیام نے بری طرح ناکام بنائی تھی۔ وہ اب کھل کر قہقہے لگا کر ہنسی۔ سیام نے سختی سے اسے کمر سے جکڑ کر خود میں بھینچا۔ 

اس گستاخی کا مطلب،، آئبرو اچکائی۔ 

آپ کی یہ سڑے بینگن جیسی شکل دیکھ کر ہنسی آ رہی ہے،، ہاہاہا،، ہاہاہا،،، وہ ہنسے گئی۔ سیام کو بھی ہنسی آئی مگر پی گیا۔ 

اور مجھے یہ تمھارا تازہ تازہ لشکارے مارتا پمپل بڑا اچھا لگ رہا ہے،، سیام نے اس کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ 

کیا،، کدھر سیام،، او نو، عین ریسپشن کے موقع پر پمپل،، ناٹ اگین،، عرفہ کا دل کیا اس پمپل کا سر پھوڑ دے۔ تبھی رونے والی ہو گئی۔ اور اسے دور ہٹا کر آئینے کی جانب دیکھا تاکہ اپنا تازہ تازہ پمپل دیکھ کر اس پر ماتم کر سکے۔ 

تمھارے دیکھنے سے وہ کیا ڈر کے مارے غائب ہو جائے گا،،  سیام نے اطمینان سے کہا اور اسے بانہوں میں بھرے رکھا۔ 

سیام ہٹیں پیچھے مجھے دیکھنے دیں کدھر ہے،، وہ جھنجھلائی۔ موڈ بری طرح خراب ہوا تھا۔ پمپل والی دلہن اففففففف۔ 

اب سیام مزے لے رہا تھا اس کی جھنجھلاہٹ کے۔ 

تبھی جھوٹ بول کر دانتوں تلے لب دبا رکھا تھا۔ 

ادھر ہے یہ دیکھو،،  سیام نے اس کے ناک کے پاس اشارہ کیا۔ 

کدھر،، عرفہ کو غش پڑا۔ اپنا چہرہ ٹٹولہ۔ 

ادھر،  سیام نے اس کی ناک کے قریب اپنے لب رکھے۔ 

سیام میں اس پمپل کے ساتھ دلہن نہیں بنوں گی،، اس نے منہ بسورا۔ 

گڈ،، بڑا اچھا فیصلہ ہے، تم دا جی سے جا کر بولو کہ دلہن نہیں بننا تمھیں،  بس ایسے ہی میرے پاس رہنا ہے،  کہیں نہیں جانا،،  وہ مطلب کی بات پر آیا۔ 

عرفہ نے اس بات پر اسے مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ سیام کا قہقہہ چھوٹ گیا۔ 

بہت برے ہیں آپ سیام، میرا سارا موڈ خراب کر دیا،، عرفہ نے بری طرح مچلتے اس کے سینے پر مکے برسائے۔ سیام ہنسے گیا۔ وہ اس کی گرفت سے نکلتی اپنا سامان اٹھا کر روم سے نکلنا چاہتی تھی۔ جب سیام نے تیزی سے آ کر ڈور لاک کیا تھا۔ عرفہ نے آئیبرو اچکائی جیسے پوچھنا چاہتی ہو اب کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ۔ 

اب اگر جا ہی رہی ہو تو،، اپنے شوہر پر اتنا ظلم ڈھانے کے جرم کی پاداش میں میں تم سے خراج وصول کرنے والا ہوں،، سیام نے اطمینان سے کہا۔ 

کک کیا مطلب،،  عرفہ کا کانفیڈینس اڑنچھو ہوا۔ 

مطلب سمجھانے کا وقت نہیں میرے پاس،،  سیام نے عجلت میں اس بازوؤں میں بھرا۔ اس کے ارادے سمجھ کر عرفہ نے اپنا ماتھا پیٹا۔ 

سیام،،، چھوڑیں مجھے،،  وہ چلائی اور دانت کچکچائے جیسے دانتوں کے تلے سیام کی گردن کاٹے گی۔ 

مگر جب اس نے اسے بیڈ پر لٹا کر اپنی منمانیاں شروع کیں تو عرفہ کو خود کو اس کے سپرد کرنا ہی پڑا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ پارٹی میں حجاب اور اپر کے ساتھ آئی تھی تو نوید احسن نے مسکرا کر اسے دیکھا اور اس کی جانب آئے۔ 

پہلے تو میری پرنسز صرف اچھی لگ رہی تھی مگر اب تو گورجس اور بہت بیوٹیفل لگ رہی ہے،، نوید احسن نے اس کی تعریف کی تو وہ مسکرائی۔ پہلے جو اسے پارٹی میں آکورڈ سا فیل ہو رہا تھا اب وہ بڑے کانفیڈینس سے اپنے بابا کا بازو تھامے سب سے مل رہی تھی۔ 

ارشمعان پھر قریب آیا تھا مومی کو حلق کڑوا ہوا۔ 

ہیے گورجس،، ایسے بھی بہت بیوٹیفل لگ رہی ہو،،

ارشمعان نے کہا وہ بغور اسے دیکھ رہا تھا۔

تھینکس،،  وہ اتنا ہی بول پائی۔ 

مگر ابھی تو تم نے ریڈ لپ اسٹک لگا رکھی تھی،، ارشمعان کی اس بات پر مومی کے ماتھے پر بل آئے تھے۔ 

ابھی اتنا پرسنل سوال پوچھنے کا کوئی حق نہیں دیا میں نے آپ کو ارشمعان،، مومی نے سنجیدگی سے کہا۔ 

یعنی تم مجھے میری لمٹس بتا رہی ہو،، ارشمعان پوچھ بیٹھا۔ 

جی بلکل،،  مومی نے بھی بےلچک انداز میں کہا تھا۔ 

پھر ساری پارٹی میں ارشمعان کا موڈ آف ہی رہا تھا مگر یہاں پرواہ کسے تھی۔

پارٹی کے اختتام پر سب مہمان رخصت ہو چکے تھے ۔ ملک شجاعت اور ارشمعان بھی ابھی نکلے تھے۔ نوید احسن، مومی کے قریب بیٹھے تھے جو اطمینان سے صوفے پر بیٹھی کسی گہری سوچ میں تھی۔ 

کس سوچ میں گم ہو میری پرنسز،، 

اب وہ کیا بتاتی کہ ایک شخص نے پاگل کر چھوڑنا اسے۔ "کچھ نہیں پاپا،،  وہ تھکن سے چور لہجے میں بولی۔ 

کیسا لگا تمھیں ارشمعان،  میں  جانتا ہوں فیصلہ کرنا مشکل ہے، مگر اتنا بھی نہیں، وہ ملک تابش سراج کافی عجیب بندہ ہے،  چھوٹی اور تنگ زہینیت کا مالک، ساری زندگی گھٹ گھٹ کر گزارو گی،،  ارشمعان کافی براڈ مائنڈڈ بندہ ہے،  کھل کر جینے والا اور،،  

پاپا پلیز،، وہ جیسے بھی ہیں، میرے شوہر ہیں،، اور اگر وہ اپنی چیزوں کو لے کر،  خود سے جڑے لوگ کو لے کر بلکہ خاص طور پر مجھے لے کر پوزیسو ہیں تو پھر مجھے تنگ اور چھوٹی زہینیت کے بھی قبول ہیں، کہ وہ نہیں چاہتے مجھ پر زرا سی بھی کسی غیر کی نظر پڑے،  اور اگر کوئی مجھے بھرے بازار میں ننگے سر لے جانا پسند کرے تو میں لعنت بھیجتی ہوں ایسے براڈ مائنڈڈ پر،  سوری پاپا یہ میری ذاتی رائے ہے، آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں،  پہلے میں چڑتی تھی اس بات پر مگر آج مجھے ریلائز ہوا کہ وہ چاہتے تھے کہ اپنی امانت کو دنیا سے چھپا کر رکھیں،  مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ میری حفاظت کرتے ہیں،  مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ مجھے زمانے کے سرد و گرم سے بچاتے ہیں،  مجھے اچھا لگتا ہے جب وہ میری اتنی کئیر کرتے ہیں، رہی بات ان کے سابقہ رویے کی تو ان کی بھی ان کے پاس ٹھوس وجوہات تھیں جن میں سے سب سے بڑی اور قابلِ ذکر وجہ تو یہ تھی کہ ایک ایسی لڑکی جس کے بابا بھی اس کے پاس نہیں  تھے کہیں  وہ معاشرے کی کسی برائی کا شکار نا ہو جائے اس کے قدم ڈگمگا نا جائیں،، کچھ وقت لگا مگر سمجھ آ ہی گئی، 

نوید احسن نے اسے بغور دیکھا۔ کیسے وہ جان بوجھ کر کی گئی ملک تابش سراج کی برائی پر چٹخی تھی (یوں تو وہ اپنے دل کی بات لبوں پر لانے والی نہیں  تھی تو ایسے ہی سہی) اور اپنے دل کہ ہر بات بتاتی چلی گئی۔ 

وہ بول کر اپنی انگلیاں چٹخاتی خاموش ہوئی تھی۔ وہ جو اپنا موبائل کچن میں چارجنگ پر لگا بھول گیا تھا واپس لینے آیا تھا مومی کا ایک ایک لفظ نے اس کے دل کو نیزے کی انی کی طرح چیرا تھا۔ 

ارے ارشمعان کیا ہوا بیٹا،،  نوید احسن نے کہا تو مومی نے چونک کر سر اٹھایا۔ اور اس کا دھواں دھواں چہرہ دیکھا۔ 

کچھ نہیں انکل اپنا فون لینے آیا تھا،، 

پاپا میں اپنے روم میں جا رہی ہوں بہت تھک گئی،،  صبح آپ مجھے سراج مینشن چھوڑ آنا،، وہ کہتے اوپر کی جانب گئی تھی۔ 

ارشمعان موبائل لے کر تن فن کرتا وہاں سے نکلا تھا۔ مومی اپنے روم میں  آئی تو اسے نہیں  معلوم تھا کہ وہ ابھی تک اس کا منتظر ہوگا اور اس کے سر پر یہ افتاد آن پڑے گی۔ وہ جو پہلے ہی جس ارادے جس نیت سے آیا تھا۔ پاکٹ میں سے بلکل چھوٹی سی شیشی نکال کر رومال پر کلوروفام گرایا۔ پھر جب وہ روم میں داخل ہوئی تو اس کی کوئی مزاحمت کام نہیں آئی تھی مومی بےہوش ہو کر اس کے بازوؤں میں گری تھی۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تابش نے اسے بیڈ کے قریب لے جا کر نرمی سے بیڈ پر لٹایا۔ وہ اسے کہیں لے جانا چاہتا تھا۔ مگر پھر کچھ سوچا۔ نہیں رات کے اندھیرے میں تو بزدل اور کم ہمت لوگ لے کر جاتے ہیں وہ تو اسے اس کے پاپا اور اس منحوس آدمی کے سامنے سے لے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ 

کل جب وہ پارٹی میں آیا تھا تو صرف نوید احسن نے اسے دیکھا تھا۔ مگر وہ اس شخص کا بہانے بہانے سے اسے چھونا اچھے سے دیکھ چکا تھا۔ تبھی دل جان پر جیسے کسی نے پیٹرول ڈال کر آگ دکھا دی تھی۔ وہ نوید احسن کے سامنے بڑے دھڑلے سے مومی کے روم میں چلا آیا تھا۔ 

جیسے وہ جی جان سے جلا تھا اس بندے کو یہ باور کروانا از حد ضروری تھا کہ وہ کس کی ملکیت ہے کس کی عزت ہے۔ جسے وہ آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی بھول کر بیٹھا تھا۔ 

تابش نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ اس کے جسم پر اس شخص کا لایا لباس دیکھ کر تابش کو پھر آگ لگی۔ کچھ سوچ کر مسکرایا۔ کمرے کی لائٹ آف کی۔ پہلے اس کا اپر اور حجاب نرمی سے ریموو کیا۔ پھر روم میں میکسی کی زپ کھلنے کی آواز گونجی تھی۔

 کچھ ہی دیر بعد اس نے اٹھ کر لائٹ جلائی تو مومی کے جسم پر تاشو کی شرٹ تھی۔ اور وہ وائٹ میکسی فرش پر پڑی تھی۔ جس کی شاید یہی اوقات تھی۔ بلکہ تاشو کا تو اس کو آگ لگانے کو دل کر رہا تھا۔ مگر وہ اس مومی گڑیا کی جانب متوجہ ہوا۔ بیڈ پر نیم دراز ہو کر اس کی کمر میں  ہاتھ ڈال کر اسے اپنے سینے پر گرایا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔ 

منہ زور جزبات تھے جو بے لگام ہوئے جا رہے تھے مگر اس نے خود پر کڑے پہرے بٹھائے رکھے۔ آنکھیں موندی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

صبح کے نو بجے وہ اندھی طوفان بنا احسن ولا داخل ہوا تھا۔ رات اس نے بہت ہنگامہ مچایا تھا۔ ملک شجاعت اسے سنبھالنے کی ناکام سی کوشش کرتے رہے مگر اس نے جیسے زمین آسمان ایک کر دیئے تھے۔ اسے ہر حال میں اپنی پسند اپنی محبت چاہیے تھی۔ جس پر وہ کسی قسم کا کوئی کمپرومائز نہیں کرنے والا تھا۔ ارشمعان کو یہ کسی طور گوارا نہیں تھا کہ مومی جو اس کی پسند تھی اس پر کسی اور کو ترجیح دے۔ 

تبھی وہ آج صبح ہی اس سے بات کرنے چلا آیا تھا۔ سامنے ہی نوید احسن اسے اتنی صبح آتے دیکھ حیران ہوئے تھے۔ مگر جلد ہی بات کی تہہ تک پہنچ گئے تھے آخر کو جہاندیدہ آدمی تھے۔ 

کیا ہوا ارشن، خیرہت اتنی صبح اور یہاں؟ 

جی انکل، خیریت ہی ہے مگر مجھے مومی سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے،؟  وہ لگی لپٹی رکھے تو اس کو ارشمعان کون کہے۔ 

ابھی،،  نوید احسن نے آئیبرو اچکائی۔ 

جی بلکل،، ابھی،  ارشمعان نے ہٹ دھرمی سے کہا۔ مگر نوید احسن اس کی ضد کا انجام جانتے تھے ویسے بھی یہ حقیقت جتنی جلدی اس پر آشکار ہوتی اتنا ہی بہتر تھا کہ آخر مومی کیا چاہتی ہے۔ کہ اب نوید احسن کو مومنہ کی خوشی سے بڑھ کر دنیا کی کوئی چیز نہیں  تھی۔ 

(وہ جانتے تھے داماد جی کی آمد بھی اور مومی کے روم میں اس کی موجودگی بھی۔ کیونکہ ابھی ابھی وہ داماد جی کے اٹھانے پر ہی اٹھے تھے جس نے آ کر بڑی دیدہ دلیری سے انھیں کہا تھا کہ وہ اپنی بیوی کو سوتے ہوئے ہی لے جا رہا ہے کیونکہ اسے کوئی سرپرائز دینا چاہتا ہے۔ نوید احسن اس کی اتنی دلیری پر دنگ اثبات میں ہی سر ہلا پائے تھے) 

شیور، کر سکتے ہو بات،، نوید احسن بول کر ڈائینگ حال میں  چلے گئے تھے اب آگے کی گارنٹی تو وہ بھی نہیں دینے والے تھے ناں۔ ارشمعان مومی کے روم تک گیا۔ 

وہ جو اندر اسے چادر اوڑھا چکا تھا۔  کلوروفارم کی کچھ زیادہ ہی ڈوز دے ڈالی تھی تبھی وہ ہوش میں ہی نہیں آ کر دے رہی تھی۔ تابش نے اس کا چہرہ تھپتھپایا مگر وہ نہیں اٹھی تو تابش نے ایک سرد سی آہ بھری۔ 

پھر سسر جی کو جانے کی اطلاع دے کر آیا۔ کیونکہ جو اپنی میگی جان کے لئے سرپرائز تیار کر رکھے تھے اگر دا جی کا یا کسی بڑے کا فون آ جاتا کہ تیاریاں کرنی ہے جلد گھر پہنچو تو وہ بیچ میں ہی سب دھرے کے دھرے رہ جاتے۔ اسی لئے اسے بانہوں میں  بھرا تھا۔ 

کہ تبھی دروازے پر ہونے والی دستک سے وہ چونکا تھا۔ 

مومنہ،،،  مومی،،  پلیز اوپن دا ڈور مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے یار،،  

ارشمعان کی آواز سن کر تابش کے لبوں کو گہری مسکان نے چھوا تھا۔ اس کے کلیجے کو ٹھنڈ جو پڑنے والی تھی۔ تبھی اسے کسی گڑیا کی طرح بازوؤں میں اٹھایا۔ ایک ہاتھ اور بازو سے اسے سنبھالا اور دوسرے سے پاکٹ سے لائٹر نکال کر زمین پر پڑی اس میکسی کو آگ دکھائی۔ 

آگے پڑھ کر پورا دروازہ کھول دیا۔ 

سامنے کا منظر ارشمعان نے صدمے سے پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھا تھا۔ وہ شرٹ لیس اسے بازوؤں میں بھرے کھڑا تھا۔ بلکہ اس کی شرٹ مومی کے جسم کی زینت بنی ہوئی تھی۔ اور وہ ایسے اس کے بازوؤں میں تھی۔ وہ اس کے روم میں  کیا کر رہا تھا۔ میکسی کو آگ لگائی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ملک تابش سراج کہنا چاہتا تھا کہ اس کے جسم پر موجود کپڑوں پر بھی کسی اور کا سایہ برداشت نا کروں یہ تو پھر اس کی میگی گرل تھی۔ 

جی کوئی کام تھا آپ کو میری بیوی سے،، تابش کا سرسراتا لہجہ ارشمعان کے کانوں اور آنکھوں سے لہو نکل رہا تھا جیسے۔ 

پلیز جو بھی بولنا ہے جلدی بولیں،  میں نے سسر جی کو بول دیا ہے اپنی بیوی کے ساتھ کچھ اسپیشل پرسنل پلان کر رکھا ہے تو ہم لیٹ ہو رہے ہیں،،  وہ عجلت بھرے انداز میں  لاپروائی سے بولا۔ 

جب ارشمعان خاموشی سے ایک سائیڈ ہو گیا تو اطمینان سے کندھے اچکاتا اسے لئے باہر نکل آیا۔ لا کر نرمی سے اسے فرنٹ سیٹ پر بٹھایا اور زن سے گاڑی نکال لے گیا۔ 

پیچھے ارشمعان نے عجیب سی نظروں سے فضا میں  اٹھتے دھوئیں کو دیکھا تھا۔ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Orh Li Mohabbat Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Orh Li Mohabbat written by Wahiba Fatima  Orh Li Mohabbat by Wahiba Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages