Yaar E Man Maseeha Novel By Faryal Khan complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 28 November 2024

Yaar E Man Maseeha Novel By Faryal Khan complete Romantic Novel

Yaar E Man Maseeha Novel By Faryal Khan complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading..

Yaar E Man Maseeha Novel By Faryal Khan complete Romantic Novel 

Novel Name: Yaar E Man Maseeha

Writer Name: Faryal Khan 

Category: Complete Novel

رات کے قریب دو بج رہے تھے۔ سارا عالم نیند میں ڈوبا ہوا تھا جس کے باعث ہر سو ایک گہرا سکوت طاری تھا۔

یہ ایک زنانہ جیل کا بوسیده سا کمرہ تھا جہاں ایک لائن سے چادر اور چٹائی بچھائے چند قیدی عورتیں سو رہی تھیں اور ان کے خطرناک خراٹے اس پورے کمرے میں گونج رہے تھے۔

ان سب کے برعکس ایک جوان لڑکی دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ جس نے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں کے گرد باندھ کر ماتھا بھی گھٹنوں پر رکھا ہوا تھا۔ اس کا سرمئی رنگ کا شلوار قمیض کافی پرانا اور ملگجا سا ہو رہا تھا مگر یہاں اپنے حلیے اور لباس کی بھلا کسے پرواہ ہوتی ہے؟

کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد اس نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے سر اٹھایا۔ اس کے دلکش نقوش والے چہرے پر کوئی بہت ہی دلسوز داستاں رقم تھی جس نے اس کے چہرے کی رعنائی کو ماند کرکے اسے پیکرِ افسوس بنا دیا تھا۔

وہ اپنی جگہ پر سے اٹھ کر آہستہ سے باتھ روم گئی اور جب واپس آئی تو اس کا چہرہ اور ہاتھ گیلے ہو رہے تھے۔

اس نے اپنے گہرے سرمئی دوپٹے کو نماز کیلئے چہرے کے گرد باندھا اور ایک پرانی سی جائے نماز قبلہ رو بچھا کر اس پر کھڑے ہونے کے بعد تہجد کی نیت باندھ لی۔

ایک چادر، ایک جائے نماز، اور تین پرانے جوڑے، بس یہ ہی اس کا کل سامان تھا۔

نماز شروع کرتے ہی ہمیشہ کی طرح پھر اس کا دل بھر آیا اور آنکھوں سے آنسو نکل کر ٹپ ٹپ بہنے لگے۔ جب کہ سسکیاں روکنے کے باعث اس کے گلابی لب لرزنے لگے تھے۔

اسی بلکتی ہوئی کیفیت میں اس نے نماز ادا کی اور جب آخر میں دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے تو آنسوؤں میں مزید شدت آگئی۔

بجائے کوئی دعا مانگنے کے وہ دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے بےآواز رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔روتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔


کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا


************************************


یہ منظر آسٹریلیا کے سب سے بہترین ہسپتال کے ایک آعلیٰ کمرے کا تھا جہاں بستر پر ایک جوان مرد دوا کے زیر اثر نیند میں تھا۔

گھڑی نے رات کے ڈھائی بجا دیے تھے۔ ہر طرف ایک پرسکون سناٹا ہو رہا تھا۔

تب ہی آرام دہ بستر پر موجود اس شخص کے چہرے کے پرسکون تاثر اچانک بےچینی میں بدلے جیسے اسے تکلیف ہونے لگی ہو!

جیسے ہی دوا کا اثر زائل ہونا شروع ہوا وہ پھر بےچین ہوگیا۔ اور تیز تیز سانسیں لینے لگا۔

”نہیں!“ اس کے ذہن میں اچانک ایک لڑکی کی دلخراش آواز گونجی۔

اس نے یکدم گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور اٹھ بیٹھا۔ جسے کوئی بچہ نیند میں ڈر کر اٹھ جاتا ہے۔ اس کا پورا جسم پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔ اور سانسیں بہت تیزی سے چل رہی تھیں۔

اس نے دائیں ہاتھ کی مدد سے بائیں ہاتھ پر لگی ڈرپ کھینچ کر پھینکی اور بیڈ سے اتر گیا۔

وہ آواز مسلسل اس کے ذہن میں ہتھوڑی کی طرح برس رہی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھ کانوں پر مضبوطی سے رکھے اور پورے کمرے کے چکر کاٹنے لگا۔

”نہیں نہیں، چپ ہوجاؤ، چپ ہوجاؤ، میں مر جاؤں گا۔“ وہ کانوں پر ہاتھ رکھے کمرے کے چکر کاٹتے ہوئے پاگلوں کی طرح چلانے لگا۔

اس کی آواز سن کر ڈاکٹر صاحب چند وارڈ بوائز سمیت روم میں داخل ہوئے۔ اور اسے بہت مشکل سے قابو کرکے واپس بیڈ پر لٹایا۔ دو وارڈ بوائز نے اس کے ہاتھ پکڑے اور دو نے پیر پکڑے۔ ڈاکٹر اسے پھر بے ہوشی کا انجیکشن لگانے لگے۔

وہ ہنوز پاگلوں کی طرح چیخ چلا کر جل بن مچھلی جیسا تڑپ رہا تھا۔

لیکن انجیکشن لگنے کے چند منٹ بعد ہی وہ آہستہ آہستہ ڈھیلا پڑتے ہوئے بے سدھ ہوگیا کہ اب یہ بےہوشی ہی اسے پرسکون رکھتی تھی ورنہ ہوش تو وہ کچھ یاد دلاتا رہتا تھا جو ایک پل چین نہیں لینے دیتا۔


ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا یہ آج کس بات پہ رونا آیا


***********************************


سفید چمکتی ہوئی کار ایک بڑے سے عالیشان بنگلے میں داخل ہوئی اور کار پورچ میں آکر رک گئی جہاں پہلے سے ہی چند نوکر ادب سے کھڑے تھے۔

ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھول کر عجلت میں ڈرائیور باہر نکلا، جلدی سے پچھلی نشست کا دروازہ کھولا اور ادب سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا۔

دروازہ کھلتے ہی قیمتی سینڈلز میں قید دو نازک پاؤں باہر آئے۔ پھر ایک ہاتھ دروازے کے اوپر آیا جس پر قیمتی انگوٹھی اور بریسلیٹ موجود تھے۔

اور پھر آنکھوں پر سن گلاسسز اور چہرے پر غرور لئے اینا کار سے باہر آئی اس نے کافی مہنگی شیفون کی بیلو ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ جب کہ اس کے پرکشش چہرے کو میک نے مزید چار چاند لگا دیے تھے۔

”ویلکم ٹو یور نیو ہوم میڈیم۔“ (آپ کو آپ کے نئے گھر میں خوش آمدید محترمہ) ایک ملازم نے آگے آتے ہوئے عاجزی سے کہا۔

اینا نے کوئی جواب نہیں دیا اور ان سب کو نظر انداز کرتی ہوئی ایک اداِ بےنیازی سے آگے بڑھ گئی۔

سب ملازم بھی جلدی سے اس کی پیروی میں آئے۔

وہ گھر میں داخل ہوئی اور ہال کے وسط میں کھڑی ہوکر گھر کا جائزہ لینے لگی۔ یہ عالیشان گھر چیخ چیخ کر اپنی مالیات بیان کر رہا تھا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بڑا سا سنگ مرمر کا ہال تھا اور سامنے ترتیب سے کمرے بنے ہوئے تھے۔ پھر بڑی سی سنگ مرمر کی گول سیڑھی اوپر بنے کمروں کی جانب جا رہی تھیں۔

وہ ستائشی نظروں سے ابھی ان سب کا جائزہ لے رہی تھی کہ بہت زور سے کوئی چیز اس کی کمر پر آکے لگی۔

”اٹھ جا کمبخت! یونیورسٹی نہیں جائے گی کیا؟“ فرخندہ کی چنگھاڑتی ہوئی آواز اینا کے کانوں میں پڑی اور وہ اپنے بستر پر اٹھ بیٹھی۔

اس کا شاندار خواب یکدم ٹوٹ گیا تھا اور وہ تلخ حقیقت میں واپس آگئی تھی۔

”اماں! یہ تکیہ تم نے مارا ہے؟“ اینا نے پاس پڑا تکیہ دیکھ کر برہمی سے پوچھا۔

”جی، یہ گستاخی میں نے ہی کی ہے آپ کی شان میں، چلا چلا کر تھک گئی تھی، اسی لئے اس کی مدد لی، اب اٹھ، بستر چھوڑ، خواب دیکھنے کے سوا تو کوئی کام ہی نہیں ہے مہارانی کو۔“ بیڈ کی دوسری جانب کھڑی فرخندہ نے اسے لتاڑا۔

”کیا ہے اماں! اتنی جلدی اٹھا دیا، تھوڑی دیر رک نہیں سکتی تھی، اتنا اچھا خواب دیکھ رہی تھی میں، میں نے ابھی اپنے بنگلے کا اوپر والا پورشن بھی نہیں دیکھا تھا۔“ اینا نے منہ بناتے ہوئے کہا اور جمائی لینے لگی۔

”رک تجھے تو میں دیکھاتی ہوں صحیح سے اوپر نیچے والے سارے پورشن۔“ فرخندہ نے کہتے ہوئے اپنی چپل اتاری۔

اور ان کا ارادہ بھانپتے ہوئے وہ جلدی سے باتھروم میں بھاگ گئی۔


*****************************************


چمکتی ہوئی صبح مشرقی پہاڑوں کی اوٹ سے کل آئی تھی جس نے پورے جہاں کو منور کردیا تھا۔

اپنے عالیشان نفیس بیڈ روم میں اس وقت ایک شخص غالباً کہیں جانے کی تیاری کر رہا تھا۔

باتھ سوٹ پہنے وہ ابھی ابھی باتھ روم سے نہا کر نکلا تھا۔ سفید تولیے سے بال اچھی طرح خشک کرنے کے بعد اب وہ کپڑے پہنے لگا تھا۔

اس نے خاکی رنگ کی ڈریس پینٹ پہنی اور پھر اپنے کسرتی جسم پر بلیک شرٹ پہننے لگا۔

یہ کوئی عام پینٹ شرٹ نہیں تھی بلکہ سندھ پولیس کا مخصوص یونیفارم تھا اور شرٹ کی بائیں جانب سینے پر Ehrar Malik کا نیم بیج لگا ہوا تھا۔

شرٹ کے بٹن بند کرتے ہوئے اِحرار ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آیا اور بغور خود کا جائزہ لینے لگا۔

خود کو پہلی بار شیشے میں باوردی دیکھنے پر وہ پل بھر کیلئے مبہوت ہوگیا تھا۔

وہ ایک اٹھائیس سالہ خوبرو جوان تھا جس کی بھرپور مردانہ وجاہت کو اس وردی نے مزید وجیہہ بنا دیا تھا جس میں اس کی کسرتی جسامت کافی نمایاں تھی۔ جب کہ کھڑے نین نقش والے اس کے وجیہہ چہرے پر بھی آج ایک انوکھی سی خوشی تھی جو اسے مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔

زندگی کا سب سے حسین لمحہ ہوتا ہے وہ جب ہمارا کوئی خواب سچ ہوکر ہمارے سامنے ہو۔ اور یہ اس کی زندگی کا وہ ہی حسین لمحہ تھا۔

اس نے ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا فوٹو فریم اٹھایا اور محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے لگا جس میں ایک درمیانی عمر کی پرشفیق عورت ایک کمسن لڑکے کو سینے سے لگائے کھڑی تھیں۔

”کاش آپ آج مجھے ایسے دیکھ پاتیں امی، اور میں آپ کی آنکھوں میں خوشی دیکھ پاتا۔“ اس نے تصویر دیکھتے ہوئے دھیرے سے خودکلامی کی۔

”ڈیڈ اور بھیا کے پاس تو میرے لئے وقت ہی نہیں ہوتا، ایک آپ ہی میری دکھ سکھ کی ساتھی تھیں مگر آپ بھی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں، لیکن آپ یہاں نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ یہ آپ کی دعاؤں کا ہی تو نتیجہ ہے کہ میں آج یہاں ہوں، آپ کا خواب تھا نا کہ میں ایک دن یہ وردی پہن کر مظلوموں کو انصاف دلواؤں؟ دیکھیں آپ کا آدھا خواب تو پورا ہوگیا، اب بس دعا کیجئے گا کہ میں اپنا فرض ایمانداری سے نبھا کر آپ کے خواب کو مکمل تعبیر دے سکوں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔

اس کی آنکھوں کے گوشے نم ہونے لگے تھے جنہیں اس نے دھیرے سے صاف کرلیا۔

اس نے فریم واپس جگہ پر رکھ کر بال بنائے، خود پہ پرفیوم چھڑکا اور دائیں کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے وہ کمرے سے باہر آگیا۔

کتھئی جوتوں میں قید پیروں سے سنگِ مرمر کی کشادہ سیڑھیاں اترتے ہوئے وہ اس بنگلے کے وسیع ہال میں پہنچا جہاں حسب معمول سناٹا ہی ہو رہا تھا۔ اور یہ سناٹا اس بنگلے کے ہر گوشے میں پنجے گاڑے بیٹھا تھا۔

”السلام علیکم! ناشتہ لگاؤں چھوٹے صاحب؟“ بشیر (ملازم) نے ہال میں آتے ہوئے ادب سے پوچھا۔

”وعلیکم السلام! نہیں مجھے دیر ہو رہی ہے، ڈیڈ اور بھیا آفس چلے گئے؟“ اس نے منع کرتے ہوئے پوچھا۔

”جی، وہ دونوں تو آٹھ بجے ہی چلے گئے تھے۔“

”ٹھیک ہے، میں بھی چلتا ہوں، اللہ حافظ!“

”جی، اللہ حافظ چھوٹے صاحب!“ بشیر نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔ جس کے بعد وہ باہر کی جانب بڑھ گیا۔

گھر میں ایسا کوئی نہیں تھا جو اِحرار کو گھر سے نکلتے ہوئے

”اللہ حافظ“ کہہ کر اس کی سلامتی کی دعا کرے۔ کیونکہ ماں کو دنیا سے رخصت ہوئے عرصہ ہوگیا تھا جب کہ باپ اور بھائی کے پاس اس کیلئے وقت نہیں ہوتا تھا اسی لئے وہ ملازموں سے ہی کہہ، سن لیتا تھا۔


**********************************


سورج کے نکلتے ہی سب لوگ بھی گھر سے اپنے اپنے کاموں پر جانے کیلئے نکلنا شروع ہوگئے تھے۔ بچوں کے اسکول، بڑوں کے آفس، اور اسٹوڈنٹس کے کالج اور یونیورسیٹی آنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔

ایک سیدھی سڑک پر خاصا سکون تھا۔ لوگ آرام سے سڑک کنارے چل رہے تھے۔

تب ہی اچانک یک کے بعد دیگر کئی بائیکس بہت تیزی کے ساتھ اس سڑک پر سے گزریں اور یہاں کے سکون کو ایک ناگوار ہنگامے میں بدل دیا۔

بائیک کے سائلینسر کی تیز آواز سڑک کنارے چلتے کئی لوگوں پر سخت گراں گزری جس سے ان کے چہروں کے زاویے بگڑے۔ مگر ان بائیک سواروں کو کسی کی پرواہ نہیں تھی۔

ان بائیکس میں ایک بلیک Honda 150cc سب سے آگے تھی جس کی رفتار بھی کافی تیز تھی۔ اور اس پر ہیلمٹ پہنے سوار شخص نے گویا سب کو پیچھے چھوڑنے کی قسم کھا رکھی تھی۔

وہ بائیک یونیوسٹی کے عین سامنے آکر رکی اور اسی کے پیچھے باقی بائیکس بھی پہنچ چکی تھیں۔

سب سے پہلے آئے بائیک سوار نے بائیک پر بیٹھے ہوئے ہی اپنا چہرہ ہیلمٹ سے آزاد کیا جو بلاشبہ بہت وجیہہ تھا۔

”کہا تھا نا، مجھے کوئی نہیں ہارا سکتا!“ وہ بائیک اسٹینڈ پر لگاتے ہوئے مغرور انداز میں کہتا بائیک سے اترا۔

”ہاں ہاں، تو جیتا ہم ہارے، اب بتاؤ ہمیں کیا کرنا ہے؟“ انس نے بھی بائیک سے اترتے ہوئے ہار مانی۔

”تم لوگ بھی کیا یاد کرو گے، معاف کیا تم لوگوں کو، جاؤ عیش کرو۔“ اس نے شان بےنیازی کا مظاہرہ کیا۔

”ہائے بےبی! آگئے تم؟“ مہوش ایک ادا سے کہتے ہوئے جیتنے والے لڑکے کے قریب آئی۔

”نہیں، ابھی آئے گا، راستے میں ہے، اور اس کا نام بےبی نہیں بابِک ہے۔“ انس نے حسب معمول الٹا جواب دیا۔

”میں نے تم سے بات نہیں کی، چلو بےبی کلاس شروع ہونے والی ہے، پھر کلاس کے بعد باہر لنچ کرنے چلتے ہیں۔“ وہ انس کو نظر انداز کرتے ہوئے بابِک سے مخاطب ہوئی۔

”ہاں چلو سویٹ ہارٹ!“ بابِک نے مہوش کی کمر کے گرد بازو حمائل کیا اور اندر کی جانب بڑھ گیا۔ جب کہ باقی لڑکے بھی آگے بڑھ چکے تھے۔

”اینا! چلو کلاس نہیں لینی کیا؟“ سندس پکارتی ہوئی قریب آئی۔

”ہاں! ہاں لینی ہے۔“ اینا یکدم چونک کر پلٹی جو بڑی محویت سے ایک کونے میں کھڑی بابِک کو دیکھ رہی تھی۔ اور یہ بات سندس کیلئے بالکل بھی نئی نہیں تھی۔

”تم کیوں خواہ مخواہ اس امیر زادے کیلئے ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی ہو؟ وہ تمہاری پہنچ سے بہت دور کی شے ہے۔“ سندس نے پھر اسے سمجھانے کی ایک بیکار سی کوشش کی۔

”جانتی ہوں یار! تب ہی تو بس دیکھ کر دل بہلا لیتی ہوں، جیسے چکور چاند کو دیکھتا ہے۔“ وہ بےبسی سے کہتی سندس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔

”لیکن چکور چاند کو دیکھ کر صرف تڑپتا ہی ہے، اسے کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتا، تو بہتر ہے کہ تم چکور کو اپنا آئیڈیل بنانے کے بجائے اس کی بےوقوفی سے سبق سیکھو اور چھوڑ دو ان لاحاصل خواہشوں کے پیچھے بھاگنا، اور ویسے بھی یہ بابِک اس چھمک چھلو مہوش کے ساتھ ریلیشن میں ہے۔“ اس نے ترکی بہ ترکی نئی راہ دکھاتے ہوئے علم میں اضافہ کیا۔

”یار میں کون سا اس کے عشق میں پاگل ہوکر اس کے قدموں میں بچھ رہی ہوں؟ وہ تو بس ایسے ہی باقی لڑکوں کی نسبت وہ تھوڑا اچھا لگتا ہے، امیر ہونے کے باوجود بابِک باقی لڑکوں کے جتنا گھمنڈی یا چھچھورا نہیں ہے جو ہر لڑکی پر لائن مارتے نظر آرہے ہوتے ہیں، یا کسی نا کسی کو bully کر رہے ہوتے ہیں، وہ کافی ویل مینرڈ اور فرینڈلی نیچر کا لگتا ہے۔“ جینز کرتی پہنے اینا اپنے کندھے پر لٹکے بیگ کی بیلٹ تھامے چل رہی ہے تھی۔

”عشق میں پاگل نہیں ہو تب اتنی تعریف کر ڈالی اگر ہوتی تو دو چار کتابیں تو لکھ ہی دیتی اس کے قصیدوں کی۔“ کتابیں سینے سے لگا کر چلتی سندس نے طنز کیا۔ جس کا اس نے کوئی اثر نہیں لیا۔

”یار بات بابِک کی نہیں، میں بابِک کو نہیں اس کے لائف اسٹائل کو دیکھ کر رشک کرتی ہوں کہ زندگی تو ان امیر لوگوں کی ہوتی ہے، جو چاہتے ہیں حاصل کرلیتے ہیں، تم بھی چلو بابک جتنی امیر نہ سہی مگر تمہاری فیملی اچھی خاصی ویل سیٹلڈ ہے، لیکن ایک میرے جیسے لوگ ہوتے ہیں، جن کے مرحوم باپ کی پینشن میں ضرورت ہی مشکل سے پوری ہوتی ہے، خواہش کا تو سوچ بھی نہیں سکتے، اماں سے کوئی فرمائش کردو تو لعن طعن کرتے ہوئے کفایت شعاری کا درس دینا شروع کر دیتی ہیں، اپنے چھوٹے موٹے خرچے بھی میں کال سینٹر والی جاب سے پورے کرتی ہوں، وہ تو اگر جی توڑ محنت کرنے کی وجہ سے مجھے اسکالر شپ نہ ملتی تو شاید میں اتنی مہنگی یونیورسٹی میں قدم بھی نہ رکھ پاتی۔“ وہ پھر اپنے ہمیشہ والے دکھڑے رونے لگی۔

”تو جیسے جی توڑ محنت کرکے اسکالر شپ حاصل کرکے یہاں تک آگئی، ویسے ہی محنت کرکے اس قابل بھی بنو کہ تم خود اپنی ہر خواہش پوری کر سکو۔“ سندس نے پھر ایک مثبت پہلو کی جانب دھیان دلایا۔

”یہ اتنا آسان نہیں ہے۔“ اس کے انداز میں تھکن تھی۔

”آسان نہیں ہے تب ہی تو ہر دوسرا شخص کامیاب نہیں ہے، کامیاب صرف وہ ہوتا ہے جو مشکلوں سے نہیں گھبراتا۔“ سندس نے فلسفیانہ جواب دیا تو اینا اسے دیکھ کر رہ گئی۔


**********************************


سب قیدی عورتیں اور لڑکیاں پلیٹ لے کر ایک لائن میں کھڑی باری باری آگے بڑھ رہی تھیں جہاں سب کو ناشتہ تقسیم کیا جا رہا تھا۔

”ایک انڈا اور دے دے یار!“ ایک عورت نے ناشتہ دینے والی سے منت کی۔

”پتا ہے نا سب کو ایک ہی ملتا ہے، چل اب آگے بڑھ، پیچھے اور بھی لوگ ہیں۔“ حسب توقع اس نے بری طرح جھڑک دیا۔

وہ عورت منہ بناتی ہوئی اپنی پلیٹ لے کر ایک ٹیبل پر آ بیٹھی جہاں پہلے سے ہی ”وہ“ اپنے ناشتے کی پلیٹ لیے چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔

عورت کے بیٹھنے پر اس نے اپنی پلیٹ سے ابلا ہوا انڈا اٹھا کر اس کی پلیٹ میں رکھ دیا جس کے باعث وہ خوشگوار حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

”تو بہت اچھی ہے یار!“ عورت نے بےساختہ اسے خود میں بھینچ لیا۔

”اونہہ! یہ چپکا چپکی نہ کیا کر حوری!“ لڑکی نے کوفت سے کہہ کر خود کو آزاد کیا۔

”ابے تو ہے ہی اتنی اچھی کہ تجھ پر پیار آجاتا ہے۔“ حوری اس سے الگ ہوکر ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی۔ وہ بھی بےدلی سے ڈبل روٹی کا کنارہ کترنے لگی۔

”میرے کو پکا یقین ہے کہ تو باقی سب کی طرح مجرم نہیں ہے، تیرے کو ضرور پھنسایا گیا ہے، کیونکہ تو یہاں کی باقی عورتوں کی جیسی خبیث نہیں ہے، مجھے ایک مہینہ ہوا ہے یہاں آئے مگر تو سب سے الگ لگی۔“ حوری نے نوالہ منہ میں بھر کر رائے دی۔

وہ بےساختہ اسے دیکھے گئی۔ گندے میلے حلیے والی اسے اس وقت بہت اچھی لگی تھی۔

”صرف تیرے ماننے سے کیا ہوگا؟ دو سال ہوگئے مجھے یہ رٹ لگائے ہوئے پر ماننا تو دور کسی نے سنا تک نہیں، بس ایک ہی جواب ملتا ہے کہ فی الحال سیٹ پر کوئی افسر نہیں ہے جو کیس دیکھ سکے۔“ وہ دکھ بھری بےبسی سے کہتے ہوئے دوبارہ ڈبل روٹی کا کنارہ نوچنے لگی۔

اس کی بات پر حوری کو جیسے کچھ یاد آیا۔ اس نے پل بھر کو آس پاس دیکھا اور پھر رازدانہ انداز میں اس کے قریب ہوئی۔

”مجھے پتا چلا ہے کہ سیٹ پر کوئی نیا افسر آیا ہے، ہوسکتا ہے اب تیرا کیس دوبارہ کھل جائے!“ اس نے سرگوشی میں اطلاع دی۔ وہ بھی حیرت سے اس کی جانب متوجہ ہوگئی۔

”تجھے کیسے پتا؟“ وہ خاصی متعجب تھی۔

”تو واقعی سیدھی سادی ہے، اگر ہمارے جیسی کوئی ہوتی نا تو ان دو سالوں میں پکا کوئی کنیکشن بنا چکی ہوتی۔“ حوری نے اس کی عقل پر ماتم کیا جو ناسمجھی کا پیکر بنی ہوئی تھی۔

”یہ جو پولیس والیاں ہیں نا ان سے لین دین چلتا رہتا ہے اپن لوگوں کا، ان میں سے ایک نے ہی بتایا کہ آج سیٹ پر نیا افسر آیا ہے، اپنے لئے تو یہ کوئی خاص بات نہیں ہے، پر ہوسکتا ہے تیرا کچھ بھلا ہوجائے!“ وہ بات مکمل کرکے پوری طرح ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی۔

جب کہ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کیا سچ میں دو سال کے طویل انتظار کے اس کیلئے کوئی مسیحا آگیا تھا؟


*****************************************


”سارے عملے سے تو آپ کا تعارف ہوگیا اِحرار صاحب، امید ہے اب آپ کو کوئی دقت نہیں ہوگی اور آپ بخوبی اپنا فرض نبھا کر اس وردی کی لاج رکھیں گے!“ ادھیڑ عمر سینئر آفیسر مرتضیٰ شیخ گرم جوش انداز میں اس سے مخاطب تھے۔

”بالکل سر، بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں کسی احسان کا بدلا چکانے کا موقع ملتا ہے، اور اس عہدے کے ذریعے مجھے اس احسان کو چکانے کا موقع ملا ہے جو اس آزاد وطن نے ہم پر کیا ہے، میری پوری کوشش ہوگی کہ اگر کوئی بے قصور بنا کسی جرم کے سلاخوں کے پیچھے قید ہے تو اسے انصاف دلواکر جلد از جلد رہا کروا سکوں، اور رہی بات اس وردی کی لاج رکھنے کی، تو اس وردی اور اپنے ملک کی خاطر تو جان بھی حاضر ہے۔“ احرار نے پرجوشی سے کہتے ہوئے سینے پر ہاتھ رکھا۔ اس کے ہر انداز سے ایک پرمسرت عزم چھلک رہا تھا۔

”گڈ! تو اب آپ اپنی کرسی اور اپنا کام سنبھالیں، پھر ملاقات ہوگی آپ سے۔“ انہوں نے اس کی کرسی کی جانب اشارہ کیا۔

”نہیں سر! میں کرسی پر بیٹھنے کیلئے اس عہدے پر نہیں آیا ہوں، میرا کام لوگوں کے مسلے حل کرنا ہے، اور میں یہاں بیٹھ کر وقت برباد کرنے کے بجائے اپنا کام کرنا پسند کروں گا۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں جواب دے کر مرتضیٰ صاحب کو خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔


**********************************


ایک پیریڈ اوور ہوچکا تھا۔ سندس اور اینا اس وقت کینٹین کاؤنٹر پر کھڑی کھانے پینے کی چیزیں لے رہی تھیں۔

”پیسے دو سندس!“ اینا نے شرارتاً کہا۔

”ہیں! میں کیوں دوں، اتنی ساری چیزیں تم نے لی ہیں۔“ وہ حیران ہوئی۔

”تو کیا ہوا یار، دوست کیلئے اتنا نہیں کرسکتی؟“ وہ شوخی سے اسے چھیڑتے ہوئے اپنے پرس سے پیسے نکالنے لگی۔

”اگر آپ کہیں تو میں دے دوں آپ کے لئے پیسے؟“ اچانک دونوں کے عقب سے مردانہ آواز ابھری۔

دونوں نے پلٹ کر دیکھا تو پیچھے انس کھڑا تھا۔

”ہم نے تم سے بات نہیں کی۔“ اینا نے اسے نظر انداز کیا۔

”تو کرو نا، کیوں نہیں کرتی؟“ انس نے کمینگی دکھائی۔

”دیکھو انس! حد میں رہو اپنی، ورنہ میں پرنسپل سے شکایات کردوں گی۔“ اینا نے انگلی اٹھا کر غصے سے تنبیہہ کی۔

”کردو، پرنسپل سر دوست ہیں میرے پاپا کے، کوئی ایکشن نہیں لیں گے وہ میرے خلاف!“ اس نے دونوں بازو سینے پر باندھتے ہوئے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کیا۔

”چھوڑو اینا کیوں اس کے منہ لگ رہی ہو، چلو یہاں سے۔“ سندس نے بات ختم کرنی چاہی۔

”ارے ابھی منہ لگی ہی کہاں ہے؟ میں تو چاہتا ہوں کہ یہ میرے منہ۔۔۔۔۔۔۔“

”چٹاخ!“ یکدم اینا نے اسے ایک زوردار تھپڑ مارا جس کے باعث انس کی خباثت بھری بات بیچ میں ہی رہ گئی۔

آس پاس کے سب لوگ بھی ان کی جانب متوجہ ہوگئے تھے۔ جب کہ انس گال پر ہاتھ رکھے غضبناک نظروں سے اینا کو گھورنے لگا۔

”اوقات میں رہو اپنی، میں تمہاری برادری کی لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو تمہاری یہ گھٹیا حرکتیں فن سمجھ کر انجوئے کرتی ہیں، آئی سمجھ!“ اس نے انگلی اٹھا کر غصے سے کہا۔

اور بنا اس کا جواب سنے تیزی سے کینٹین سے باہر نکل گئی۔ سندس بھی اس کے پیچھے گئی۔

انس نے آس پاس دیکھا تو سب لوگ تضحیک آمیز طنزیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ توہین کا شدید احساس اس کے پورے وجود میں آگ لگا گیا تھا۔

اس نے پاس پڑی کرسی کو غصے سے ٹھوکر ماری اور تیز تیز قدم اٹھاتا وہ بھی کینٹین سے باہر چلا گیا۔


**********************************


”آرہی ہوں آرہی ہوں صبر کرلے۔“ فرخندہ نے دروازے کی جانب آتے ہوئے کہا جو مسلسل بری طرح بج رہا تھا۔

”کیا ہے اماں! کب سے دروازہ بجا رہی ہوں میں۔“ دروازہ کھلتے ہی اینا غصے سے بولی۔

”ہاں تو دروازہ بجا کر ذرا صبر کرلیا کر، میں چل کر آتی ہوں اڑ کر نہیں۔“ انہوں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔

وہ منہ بناتی ہوئی اندر آگئی اور سیدھا اپنے کمرے میں جاکر زور سے دروازہ بند کرلیا۔ فرخندہ سمجھ گئی تھیں کہ یہ پھر کسی سے لڑ کر آئی ہے اسی لئے انہوں نے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا اور واپس کچن میں چلی گئیں۔

اینا نے اپنا بیگ بیڈ پر پھینکا اور خود بھی گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے ابھی تک انس پر غصہ آرہا تھا۔

”سمجھتا کیا ہے خود کو، لوفر، آوارہ، گھٹیا!“ اس نے غصے سے خود کلامی کی۔

”اب کمرے مائیوں مت بیٹھ جانا، کچن میں آکر مدد کر میری۔“ فرخندہ نے کچن سے ہی آواز لگائی۔

”اماں میں تھکی ہوئی ہوں، میں نہیں آرہی۔“ اس نے چڑ کر جوابی آواز لگائی۔

”کیوں! تو کون سا ہل چلا کر آرہی ہے کھیتوں میں جو تھک گئی ہے؟ اب جلدی منہ ہاتھ دھو کر آ ادھر۔“ وہ بھی اس کی ماں تھیں۔

کوئی چارہ نہ ہوتے ہوئے وہ پیر پٹخ کر منہ بناتی ہوئی باتھروم میں چلی گئی۔


**********************************


”بس کردے بیٹھ جا، تیرے ایسے ٹہلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔صوفے پر نیم دراز ہوکر چپس کھاتے بابِک نے کوئی تیسری بار انس کو کہا۔ جو جلے پیر کی بلی کی مانند مسلسل کمرے میں یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔

”یار اس کی ہمت کیسے ہوئی سب کے سامنے مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی؟ اس دو ٹکے کی لڑکی کی یہ جرت کہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا!“ انس کا غصہ کم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔

”ہاں تو تم نے رانگ نمبر ملا دیا ہوگا، وہ لڑکی اس ٹائپ کی نہیں ہوگی!“ بابِک نے کندھے اچکاتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔

”ابے سب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں، بس دنیا دکھاوے کی اکڑ ہوتی ہے یہ سب، اور اس کی اکڑ بھی نکالنی پڑے گی۔“ انس کے اندر لگی غصے کی آگ لاوا بنتی جا رہی تھی۔


**********************************

”بس کردے بیٹھ جا، تیرے ایسے ٹہلنے سے کچھ نہیں ہوگا۔صوفے پر نیم دراز ہوکر چپس کھاتے بابِک نے کوئی تیسری بار انس کو کہا۔ جو جلے پیر کی بلی کی مانند مسلسل کمرے میں یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا۔

”یار اس کی ہمت کیسے ہوئی سب کے سامنے مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی؟ اس دو ٹکے کی لڑکی کی یہ جرت کہ مجھ پر ہاتھ اٹھایا!“ انس کا غصہ کم ہونے میں ہی نہیں آرہا تھا۔

”ہاں تو تم نے رانگ نمبر ملا دیا ہوگا، وہ لڑکی اس ٹائپ کی نہیں ہوگی!“ بابِک نے کندھے اچکاتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔

”ابے سب ایک جیسی ہی ہوتی ہیں، بس دنیا دکھاوے کی اکڑ ہوتی ہے یہ سب، اور اس کی اکڑ بھی نکالنی پڑے گی۔“ انس کے اندر لگی غصے کی آگ لاوا بنتی جا رہی تھی۔


اب آگے : 👇


**********************************


ڈیوٹی جوائن کرتے ہی اِحرار نے سب معاملات ترتیب دے دیے تھے جن میں سرِفہرست تھا ایسے قیدیوں سے ملنا جن کے کیس کو ری اوپن کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا اور وہ اسی سلسلے میں بات چیت کرنے زنانہ جیل آیا تھا۔ کیونکہ جو پہلا کیس اس نے منتخب کیا تھا وہ ایک لڑکی کا تھا۔

باوردی احرار کے حکم پر سپاہی نے کمرے کا دروازہ کھولا تو سناٹے میں لوہے کا دروازہ کھلنے کی مخصوص آواز گونجی۔ مگر کمرے کے وسط میں موجود ٹیبل کے گرد کرسی پر بیٹھی لڑکی نے نظر اٹھا کر دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔

احرار قریب آکر ٹیبل کی دوسری جانب رکھی کرسی کھینچ کر اس کے مقابل بیٹھ گیا۔ خالی کمرے میں لکڑی کی کرسی کھینچنے کی آواز کافی واضح سنائی دی۔

وہ گہرے سرمئی سوٹ میں، لمبے بالوں کی ڈھیلی چوٹی باندھے، سینے پر دوپٹہ اوڑھے، ہنوز سپاٹ تاثرات کے ساتھ نظریں جھکائے بیٹھی تھی جیسے اس کے سوا یہاں کوئی تھا ہی نہیں۔

جب کہ احرار کی کھوجتی ہوئی نظریں بھی مسلسل اس کے دلکش مگر بےرونق چہرے پر ہی تھیں۔

”مس نورالعین شاہد! رائٹ؟“ وہ سوالیہ انداز میں گویا ہوا۔

اس نے سر کو ہلکی سی جنبش دی مگر نظریں اب بھی نیچی تھیں۔

”میں آئی۔او اِحرار ملک ہوں، آپ کا کیس مجھے ہی دیا گیا ہے، اسی سلسلے میں آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔“ اس نے اپنی آمد کا مقصد بتایا۔ جواباً وہ کچھ نہ بولی۔

”کس جرم میں قید ہیں آپ یہاں؟“ اس نے پوچھ گچھ شروع کی۔

”آپ نے میرے کیس کی فائل نہیں پڑھی کیا؟ جو یہ سوال پوچھ رہے ہیں؟“ اس نے نظر اٹھا کر مضبوطی سے سوال کیا۔ اس کی گہری سیاہ آنکھوں میں عجیب سا طلسم محسوس ہوا۔

احرار کو اس سے ایسی حاضر جوابی کی توقع نہیں تھی اسی لئے وہ حیران ہوگیا۔

”جی پڑھی ہے، جس میں سارے ثبوتوں اور گواہوں کی تفصیلات کے ساتھ یہ بھی صاف صاف درج ہے کہ آپ کا جرم ثابت ہوا تھا اور یہ سزا اسی جرم کی بنیاد پر آپ کو دی گئی ہے، تو پھر دوبارہ یہ کیس ری اوپن کرکے اپنا اور قانون کا وقت کیوں برباد کرنا چاہتی ہیں آپ؟“ اس نے پل بھر میں اپنی حیرت کو پرے دھکیل کر سنجیدگی سے پوچھا۔

”کیونکہ آپ کے اس اندھے قانون نے میری زندگی کے دو سال برباد کر دیے جس کی آنکھوں پر دولت اور طاقت کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔“ وہ زور سے ٹیبل پر ہاتھ مارتے ہوئے بلند آواز سے بولی۔

”قانون کی آپ سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے، آپ پر لگائے گئے الزامات کے باقاعدہ ثبوت اور گواہ موجود تھے۔“ اِحرار کی سنجیدگی ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔

”قانون کی نہیں تھی مگر جن لوگوں نے یہ الزام لگا کر گواہی دی اور ثبوت پیش کیے ان کی مجھ سے دشمنی تھی اسی لئے مجھے پھنسایا گیا ہے۔“ اس کے مضبوط انداز میں بےانتہا تلخی تھی۔

”آپ کے پاس کوئی ثبوت یا گواہ ہے اپنی بےگناہی ثابت کرنے کیلئے؟“ اس نے دونوں ہاتھ ملا کر ٹیبل پر رکھے۔

”اگر ثبوت ہوتا تو دو سال سے یہاں نہیں تڑپ رہی ہوتی۔“ اس نے بےبسی بھرے کرب سے نظریں چاروں اور گھماتے ہوئے اس بند کمرے کو دیکھا۔ وہ بھی تو کب سے ایسے ہی ایک بند کمرے میں جی رہی تھی۔

”اب تو آپ کی سزا کی مدت بھی پوری ہوگئی ہے، جلد آپ رِہا ہونے والی ہیں، تو کیا اب بھی آپ چاہتی ہیں کہ اس کیس پر دوبارہ نظر ثانی کی جائے؟“ اس نے سادہ انداز میں سوال کیا۔

”سزا کی مدت پوری ہونے پر میں قصوروار نہیں ہوجاؤں گی، یہ مدت میں نے بنا کسی جرم کے کاٹی ہے، اور مجھے انصاف چاہئے۔“ اس کے انداز میں کرب میں ڈوبا غصہ تھا۔ جس کے باعث وہ اسے دیکھتا چلا گیا۔


**********************************


بابِک ابھی ابھی یونیورسٹی سے واپس گھر لوٹا تھا اور اب یونیورسٹی بیگ کندھے پر لٹکائے، بائیک کی چابی انگلی میں گھماتے ہوئے وہ سیٹی پر کوئی دھن گنگناتا اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا۔

چوڑی راہداری سے گزرتے ہوئے اسے اپنے والدین کے کمرے سے کچھ غیر معمولی آواز سنائی دی۔ یہ آواز اس کے باپ کی تھی جو غالباً کسی بات پر چلا رہے تھے۔

ان کا یوں اونچی آواز میں بات کرنا کوئی معمول کا حصہ نہیں تھا اسی لئے وہ تشویش زدہ سا ان کے کمرے کی جانب بڑھا جس کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔

اس نے احتیاط سے اندر جھانکا تو منظر کچھ یوں تھا کہ جبار صاحب کسی بات پر آگ بگلولہ ہو رہے تھے اور کلثوم ان کے سامنے سر جھکائے کھڑیں دبی دبی آواز میں رو رہی تھیں۔

یہ سب اس کیلئے بہت ہی غیر متوقع تھا جس کے باعث وہ ششدر رہ گیا۔

”مام! ڈیڈ!“ وہ مزید حیرت پر قابو نہ رکھتے ہوئے دروازہ دھکیل کر اندر چلا آیا۔

اس کی آواز پر وہ دونوں بھی چونک کر اس کی جانب متوجہ ہوئے جب کہ کلثوم نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے۔

”تم کب آئے بیٹا؟“ کلثوم نے سب کچھ نارمل دکھانے کی ایک ناکام کوشش کی۔

”سب ٹھیک تو ہے نا؟ آپ اتنا چلا کیوں رہے تھے ڈیڈ؟“ وہ ان کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سوال بیچ میں لایا۔

اسے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے جبار صاحب نے ایک جتاتی ہوئی نظر اپنی بیگم پر ڈالی۔

”کم از کم میرے بیٹے کو تو سچ بتا دو۔“ ان کا انداز تلخ اور حاکمانہ تھا جس سے کلثوم نظریں چرا گئیں جب کہ بابک کی حیرت بڑھت ہی چلی جا رہی تھی۔

”کون سا سچ؟“ اس نے بھی جاننا چاہا۔

”اپنی ماں سے پوچھو۔“ وہ کہہ کر غصے کے عالم میں کمرے سے نکل گئے۔

اب بس یہ دونوں جوں کے توں اپنی جگہ کھڑے تھے۔

بابک کندھے پر لٹکا بیگ صوفے پر پھینکتا ہوا فوری طور پر اپنی ماں کی جانب آیا اور انہیں بازؤں سے پکڑ کر بیڈ پر بٹھانے کے بعد خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

”کیا ہوا ہے مام کچھ تو بتائیں؟ ڈیڈ کیوں اتنے غصے میں ہیں؟ اور وہ کون سے سچ کی بات کر رہے تھے؟“ بابک نے ان کے آنسو صاف کرتے ہوئے الجھن بھری فکرمندی سے پوچھا تو وہ نم آنکھوں سے اسے یوں دیکھنے لگیں گویا سچ بتانے کیلئے الفاظ ترتیب دینے لگی ہوں!


*****************************************


نورالعین کا کیس اِحرار کی نظر میں بالکل شیشے کی طرح صاف تھا اور وہ جلد از جلد اسے نمٹا کر کلوز کرنا چاہتا تھا کیونکہ کیس میں مزید کسی پیش رفت کی گنجائش تھی ہی نہیں اسی لئے وہ اب تک کی رپورٹ لے کر اپنے سینئر مرتضیٰ صاحب کے سامنے حاضر تھا۔

”سر کیس بالکل كرسٹل کلین ہے، اس لڑکی نورالعین پر جو الزام لگا تھا وہ سچ تھا، اس کی چھان بین میں نے آج خود ذکر کردہ مقامات پر جا کر کی ہے، وہ ہی سیم معلومات ملی ہے جو گزشتہ آئی او نے اپنی رپورٹ میں دی تھی، اس کی رپورٹ میں ایسا کچھ غلط نہیں تھا جسے ری انویسٹیگیٹ کیا جائے۔“ احرار نے تفصیلات بتائیں۔

”تو پھر اس لڑکی نے بار بار کیس ری اوپن کرنے کی درخواستیں کیوں دیں؟“ اپنی سنگل کرسی پر بیٹھے مرتضیٰ صاحب نے سوال اٹھایا۔

”حرجانے کیلئے سر! یہ قانون ہے نا کہ اگر کسی کو بےبنیاد سزا ہوئی ہو تو کورٹ اسے حرجانہ ادا کرنے کا حکم دیتا ہے! تو یہ لڑکی بھی میرے خیال سے یہ ہی چاہ رہی ہے کہ کسی طرح اس کی سزا بےبنیاد ثابت ہوجائے اور اسے اچھا خاصا حرجانہ مل سکے!“ وہ سنجیدگی سے نتیجے پر پہنچا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئے۔

”اپنی طرف سے ساری فارمیلیٹیز پوری کرکے میں نے کیس کلوز کردیا ہے سر! اس پر مزید وقت برباد کرنے سے بہتر ہے کہ میں دوسرے کیس دیکھ لوں۔“ اس نے ٹیبل پر رکھی فائل ان کی جانب کھسکائی۔

”ایک بات تو ماننی پڑے گی، آپ کے کام کرنے کی رفتار بہت تیز ہے۔“ وہ اس سے کافی متاثر ہوئے تھے۔

”سیانے کہتے ہیں سر، کل کرے سو آج، آج کرے سو ابھی!“ اس نے بھی مسکراتے ہوئے فلسفیانہ جواب دیا۔


*****************************************


سورج غروب ہوئے تھوڑی دیر ہوئی تھی۔ کال سینٹر سے چھٹی کے بعد اب اینا بس اسٹاپ کی جانب آکر اپنی بس کا انتظار کرنے لگی۔ بس اسٹاپ کال سینٹر سے کافی دور تھا اور روڈ پر زیادہ چہل پہل بھی نہیں تھی۔

ابھی اسے وہاں کھڑے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ انس نے بائیک لاکر عین اس کے سامنے روکی۔ وہ گھبرا کر چند قدم پیچھے ہوگئی۔

وہ بائیک کو اسٹینڈ پر لگا کر اس سے اترا اور اس کی جانب آیا۔

”کیا ہوا؟ ڈر لگ رہا ہے؟ اس دن کینٹین میں تو بہت بڑے بول بول رہی تھی!“ وہ طنزیہ انداز میں کہتا اس کی جانب آیا۔

”خبردار جو اگر تم نے کوئی الٹی سیدھی حرکت کی تو! میں شور مچا دوں گی۔“ اس نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی لاغر سی کوشش کی۔

”مچاؤ شور، اس سناٹے میں کون آئے گا تمہاری مدد کیلئے؟“ وہ ڈرنے کے بجائے اس کے مزید قریب آنے لگا۔ جب کہ وہ الٹے قدم پیچھے ہٹتی جا رہی تھی۔

اچانک انس نے اسے دونوں بازؤں سے پکڑ لیا۔

اس سے قبل کہ وہ کوئی مزاحمت کرتی انس کو کسی نے زوردار مکا مارا اور وہ منہ کے بل اپنی بائیک پر آکر گرا۔

اینا نے رخ موڑ کر دیکھا تو پتا چلا وہ بابِک تھا۔

”تیری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی؟“ انس غصے سے کہتا ہوا بابِک کی جانب آیا۔

”جیسے تیری ہمت ہوئی ایک لڑکی کو تنگ کرنے کی۔“ بابِک نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔

”یہ میرا معاملہ ہے، تو بیچ میں مت پڑ!“

”پڑوں گا میں بیچ میں، اگر کوئی یوں اس طرح ایک لڑکی سے بدتمیزی کرے گا، اسے تنگ کرے گا تو پڑوں گا میں بیچ میں۔“ اس کا انداز اٹل تھا۔

”اچھا! یہ بات تم کہہ رہے ہو! جو ہر مہینے ایک نئی گرل فرینڈ لے کر گھوم رہا ہوتا ہے۔“ انس نے طنز کیا۔

”ہاں میں گرل فرینڈز لے کر گھومتا ہوں، مگر اس میں ان لڑکیوں کی بھی اپنی مرضی شامل ہوتی ہے، لیکن تم یہاں زبردستی کر رہے ہو، میں نے تمہیں پہلے بھی سمجھایا تھا اور اب بھی سمجھا رہا ہوں کہ ہوش میں آؤ اور یہ بلاوجہ کا غصہ چھوڑ دو۔“ بابِک نے بنا گڑبڑائے وضاحت کی۔

جبکہ اینا ہکابکا سی کھڑی دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔

”تو میرے معاملات میں ٹانگ اڑا کر ٹھیک نہیں کر رہا ہے بابک!“ انس نے انگلی اٹھا کر وارن کیا۔ اور ساتھ ہی ایک قہر آلود نظر اس کے عقب میں کھڑی اینا پر ڈالی۔

بابک بھی اس کی نظروں کے تعاقب میں پلٹا تو اینا کے چہرے پر گھبراہٹ کے سائے واضح نظر آئے۔

”تم یہاں سے جاؤ اینا!“ بابک سنجیدگی سے گویا ہوا۔

اس کی بات پر اینا کے چہرے پر پریشانی کے ساتھ ساتھ حیرانی بھی امڈ آئی۔ جیسے کچھ غیرمتوقع ہوا ہو!

وہ مزید ایک لمحہ بھی برباد کیے بنا اپنے کندھے پر لٹکا پرس سنبھالتی تیز تیز قدم اٹھا کر ان دونوں سے دور ہوتی گئی۔ اور خوش قسمتی سے اسی وقت اس کی مطلوبہ بس بھی وہاں آگئی جس پہ وہ فوری طور پر سوار ہوگئی۔

اس کے جاتے ہی انس بھی تنفر سے بابک کو دھکا دیتے ہوئے اپنی بائیک سٹارٹ کرکے وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ بابک بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔


*****************************************


رات کے کھانے کے بعد کسی کو فالتو یہاں وہاں گھومنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اسی لئے سب قیدی عورتیں اپنا اپنا بستر لگا کر سونے کیلئے لیٹ گئی تھیں۔

مگر ان سب کے برعکس نورالعین ایک کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے دونوں گھٹنے موڑے ان پر سر رکھے بیٹھی تھی۔

”تو پھر ایسے بیٹھی ہے!“ حوری بھی اس کے برابر آ بیٹھی۔

”اچھا! خوشی میں نیند نہیں آرہی ہوگی، کل تو رِہا جو ہونے والی ہے۔“ اس نے خود ہی شرارتاً اندازہ لگایا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے نورالعین نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تو حوری کو اس کی بہتی آنکھیں اور سرخ چہرہ دیکھ کر پتا چلا کہ وہ رو رہی تھی۔

”ہائے! تو رو کیوں رہی ہے؟“ وہ بھی متفکر ہوئی۔

”میری عرضی پھر رد کرکے کیس بند کردیا گیا ہے۔“ اس نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا جسے سن کر درحقیقت حوری کو بھی بےحد دکھ ہوا۔


کہیں بستی کی بستی بوند پانی کو ترستی ہے

کہیں بارش برستی ہے تو طغیانی نہیں جاتی


زمانہ اس قدر قائل ہوا ہے فیض جھوٹوں کا

ہم سچ کہتے ہیں ہماری کوئی بات مانی نہیں جاتی


فیض احمد فیض


*****************************************


سورج ڈھلنے کے بعد لگتا تھا جیسے شہرِ قائد کی رونقیں مزید بڑھ گئی ہیں۔ جیسے ابھی روڈ پر بھاگتی دوڑتی گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس سے رات کے وقت ایک افراتفری کا سما ہو رہا تھا جسے روڈ کنارے بنے ایک چائے کے ہوٹل پر بیٹھا اِحرار بےدھیانی سے دیکھنے میں مصروف تھا۔

وہ اسٹیشن سے سیدھا گھر جانے کے بجائے راستے میں یہاں رک گیا تھا اور اب ایک ٹیبل کے گرد کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے بیٹھا غیر مرئی نقطے کے تکتے ہوئے گہری سوچ میں گم تھا۔

”صاحب چائے!“ کمسن لڑکے نے کہتے ہوئے چائے کا کپ میز پر رکھا تو آواز پر احرار چونکا۔

”اور کچھ چاہیے صاحب؟“ اس نے عاجزی سے پوچھا۔

”نہیں شکریہ!“ احرار نے نرمی سے جواب دیا تو وہ فرمابرداری سے سر ہلا کر چلا گیا۔

کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہنے کے بعد وہ کرسی پر سیدھا ہوا اور میز پر رکھا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔

”کیا حال ہے جانی!“ تب ہی کسی نے بہت زور سے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا جس کے باعث ناصرف احرار سٹپٹایا بلکہ تھوڑی سی چائے بھی چھلک کر اس کے ہاتھ پر گر گئی۔

”سدا جاہل ہی رہنا تم یاور!“ احرار نے اسے لتاڑتے ہوئے کپ ٹیبل پر رکھ کر اپنا ہاتھ صاف کیا۔

”ارے آتے ہی تعریف سننے کو مل گئی، شکریہ!“ حسب معمول خوش شکل اور مزاج کا حامل یاور بنا کوئی اثر لیے اس کے سامنے والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

”اور تم مجھے جاہل بول رہے ہو جب کہ خود بھی تم سدا کنجوس ہی رہنا، یہ تھکا ہوا چائے کا ہوٹل بھی بھلا کوئی جگہ ہے جاب کی ٹریٹ دینے کی!“ یاور نے مزید کہتے ہوئے نظریں چاروں طرف گھمائیں۔

”میں نے تجھے یہاں ٹریٹ دینے نہیں بلايا ہے۔“ احرار نے اس کی خوش فہمی دور کی۔

”تو پھر؟“

”تجھ سے ایک کیس ڈسکس کرنا ہے۔“ وہ اصل بات کی جانب آنے لگا۔

”پہلے چائے منگوا میرے لئے۔“ یاور نے اداِ بےنیازی سے فرمائش کی تو احرار نے اسے گھور کر اس لڑکے کو اشارے سے اپنے پاس بلايا جو وہاں ویٹر کی ذمہ داری انجام دے رہا تھا۔

”ایک چائے اور لے آؤ!“ احرار نے آرڈر دیا۔

”اور ساتھ پراٹھا بھی!“ یاور نے جھٹ سے مزید کہا۔

احرار نے ایک خفگی بھری نظر اس پر ڈالی گویا کہہ رہا ہو کہ میں نے تجھے ضروری بات کیلئے بلايا ہے اور تجھے کھانے پینے کی پڑی ہوئی ہے۔

”ایک چائے اور پراٹھا لا کر منہ پر مارو اس کے۔“ احرار نے زچ ہوکر آرڈر دیا تو وہ لڑکا متعجب سا سر ہلا کر وہاں سے چلا گیا۔

”ہاں اب بتاؤ کیا بات ہے؟ کیوں تمہیں میرے قیمتی مشورے کی ضرورت پڑی!“ یاور نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر ٹانگ پر ٹانگ رکھ لی۔

”کیونکہ میرے پاس اور کوئی ایسا نہیں ہے جس سے اپنے معاملات ڈسکس کر سکوں، ڈیڈ اور بھیا کے پاس وقت نہیں ہوتا اور کسی سینئر یا جونیئر سے ابھی میری اتنی جان پہچان نہیں ہے، اسی لئے لے دے کر بس تو ہی بچتا ہے۔“ احرار نے وضاحت کرکے چائے کا گھونٹ لیا۔

”یہ تعریف تھی کہ طنز؟“ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔

”وہ امپارٹنٹ نہیں ہے۔“

”تو کیا امپارٹنٹ ہے؟“

”وہ بات جس کیلئے میں نے تجھے یہاں بلايا ہے۔“

”کیسی بات؟“

”ڈیوٹی جوائن کرتے ہی مجھے کچھ ایسے کیسسز ملے جو سیٹ پر کوئی افسر نہ ہونے کی وجہ سے پینڈنگ تھے، میں نے سب کو شارٹ لسٹ کرکے نمٹانا شروع کیا، ان ہی میں ایک کیس نورالعین نامی لڑکی کا بھی تھا، میں نے اس کا کیس پڑھا، اس پر دوبارہ معلومات حاصل کرنے کیلئے کیس سے جڑی جگہوں پر بھی گیا اور سب جگہ سے وہ ہی معلومات ملی جو پہلے ہی رپورٹ میں درج تھی، ان سب کا صاف مطلب تھا کہ کیس کو دوبارہ نئے سرے سے ری انویسٹیگیٹ کرنا ٹائم ضائع کرنے والی بات ہے اسی لئے میں نے انویسٹیگیشن کی گنجائش نہ ہونے کی رپورٹ کے ساتھ کیس کلوز کردیا۔“ وہ سنجیدگی سے سب بتاتا گیا۔ جسے یاور بھی بغور سنتا گیا۔

”ہمم تو پھر؟“ اس نے مزید جاننا چاہا۔

”تو یہ کہ کیا میں نے کیس کلوز کرکے ٹھیک کیا؟“ احرار کے سوالیہ انداز پر وہ حیران ہوا۔

”یہ بات تو مجھ سے کیوں پوچھ رہا ہے؟“

”رائے لینے کیلئے۔“

”تیرے پاس اس کے علاوہ اور کیس تھے؟“

”ہاں!“

”ان کا کیا رزلٹ آیا؟“

”تین تو سراسر بےبنیاد تھے جب کہ دو میں گزشتہ آئی او کی کوتاہی صاف نظر آرہی تھی جن کی میں دوبارہ رپورٹ تیار کر رہا ہوں۔“

”تو جب ان کیسسز میں تو نے مجھ سے مشورہ نہیں مانگا تو اس کیس کو لے کر یہ بےتکا سوال کیوں؟“ وہ سخت تعجب کا شکار تھا۔

”کیونکہ یار اتنے کیسسز کے باوجود پتا نہیں کیوں یہ ایک کیس میرے ذہن میں کچھ عجیب طرح اٹک گیا ہے؟ کل بھی پوری رات میں اسی کے بارے میں سوچتا رہا، اور جو چیز مجھے سب سے زیادہ الجھا رہی ہے وہ ہے وہ لڑکی نورالعین، تفتیشی رپورٹ کہتی ہے کہ وہ مجرم ہے مگر نورالعین کا انداز کہیں سے بھی مجرموں والا نہیں ہے، بلکہ اس میں بہت واضح انصاف کی تڑپ ہے۔“ احرار نے پہلو بدلتے ہوئے اپنی الجھن بیان کی۔

”تو پھر دلا دو اسے انصاف!“

”کیسے دلا دوں؟ سارے ثبوت اور گواہ تو اس کے خلاف ہیں۔“ اس نے فکرمندی سے مسلہ بتایا۔

یاور بھی سوچ میں پڑ گیا۔ تب ہی وہ لڑکا ایک ٹرے میں اس کا مطلوبہ آرڈر لے کر قریب آیا اور ٹرے ٹیبل پر رکھ کر چلا گیا۔

”یار ہوسکتا ہے نئی نئی ڈیوٹی جوائن کرنے کی وجہ سے ابھی تو تھوڑا کنفیوژ ہو رہا ہو! تو نے کیس چیک کرکے کلوز کردیا نا؟ بس اب دوسرے کیسسز پر دھیان دے، یا یہ بھی ممکن ہے کہ تو اس کے عورت ہونے کی وجہ سے ایسا فیل کر رہا ہو کہ اس کے ساتھ غلط ہوگیا ہے! لیکن ایک بات بتاؤں میرے بھائی، آج کل مرد و عورت دونوں کم نہیں ہیں، اور آنے والے دنوں میں تو یہ بات مجھ سے بہتر سمجھ جائے گا۔“ یاور نے اپنے چائے پراٹھے کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے سہولت سے کہا۔ جب کہ احرار سنجیدگی سے سوچ میں گم رہا۔


**********************************


کہنے کو اس وقت اینا اپنے بیڈ پر لیٹی چھت کو تک رہی تھی۔ لیکن درحقیقت اس کی سوچ کے دھاگے تھوڑی دیر پہلے رونما ہونے والے واقعے میں ایسے الجھے تھے کہ وہ وہیں اٹک کر رہ گئی تھی۔

”پڑوں گا میں بیچ میں، اگر کوئی یوں اس طرح ایک لڑکی سے بدتمیزی کرے گا اسے تنگ کرے گا تو پڑوں گا میں بیچ میں۔“ اس کے ذہن میں بابِک کی آواز گونجی۔

”تم یہاں سے جاؤ اینا!“ بابک سنجیدگی سے گویا ہوا تھا۔

اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ بابک نے ناصرف اس کی حمایت میں ایسا کیا تھا بلکہ وہ اس کا نام بھی جانتا تھا۔

وہ تو سمجھتی تھی کہ امیر دوستوں کے ہجوم میں شاید ہی اس کی کبھی اینا جیسی عام سی مڈل کلاس لڑکی پر نظر پڑی ہوگی! مگر وہ اپنے ارد گرد سے اتنا بھی بےخبر نہیں تھا جتنا وہ اسے سمجھتی آرہی تھی۔ اور یہ احساس اندر ہی اندر اسے ایک انوکھی خوشی سے روشناس کروا گیا تھا۔


لبوں پر اس کے آیا ہے جب سے

نام اپنا بہت پیارا ہوگیا ہمیں


فریال خان۔۔۔!


**********************************

دنیا اپنے مدار پر گھومنے میں مصروف تھی۔ اور سورج کی روشنی پڑتے ہی معاملاتِ زندگی حرکت میں آگئے تھے۔

نورالعین نے جیسے ہی قدم جیل کے گیٹ سے باہر نکالا تو چمکتی ہوئی سورج کی کرنوں نے اس کا استقبال کیا۔

آج اس کی سزا کی مدت پوری چکی تھی۔

آج پورے دو سال بعد وہ کھلی فضا میں سانس لے رہی تھی۔

باہر آتے ہی جہاں اسے اپنی آزادی کی خوشی ہوئی تھی۔ وہیں اس بات کا دکھ بھی ہوا تھا کہ باہر اس کی ماں موجود نہیں تھی۔ اسے لگا تھا کہ شاید وہ باہر کھڑی اس کا انتظار کر رہی ہوں گی۔ پر یہ اس کی خام خیالی ہی ثابت ہوئی۔

جیل سے نکلتے ہوئے حوری نے اسے کرائے کیلئے کچھ پیسے دے دیے تھے اسی لئے وہ پہلی فرصت میں اپنے گھر جانے والی بس میں سوار ہوگئی تھی۔

گہرے سرمئی سوٹ کے ساتھ اپنے گرد اچھی طرح کالی چادر اوڑھے وہ بس کی سیٹ سے سر ٹکائے بیٹھی تھی۔

اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ رِہا ہوجانے پر خوش ہو یا انصاف کی عرضی رد ہوجانے کا افسوس کرے؟

کیس کے علاوہ اس کی سوچ اپنی ماں کے گرد پرواز کرنے لگی جو پچھلے دو سالوں میں نہ تو ایک بار اس سے ملنے آئی تھی اور نہ کسی سے کوئی پیغام بھجوایا تھا۔

وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں اس سے بےحد ناراض ہے۔ پتا نہیں دو سال بعد اسے واپس دیکھ کر وہ اسے گھر کے اندر آنے بھی دیں گی یا نہیں؟

مگر اس نے بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ ان کے قدموں میں گر جائے گی۔ جو اس کی غلطی کا ازالہ تو نہ ہوگا لیکن شاید اس سے ماں کا دل پگھل جائے!

وہ ان ہی سب سوچوں میں گم تھی جب اس کی منزل آگئی اور وہ بس سے اتر کر سڑک کنارے چلنے لگی۔

دو سالوں میں یہ علاقہ پہلے سے کافی بدل گیا تھا۔ کچھ نئے گھر بن گئے تھے اور شاید کافی نئے لوگ بھی یہاں آباد ہوچکے تھے۔

وہ درمیانی رفتار سے چلتی، آس پاس کا جائزہ لیتی اپنی مطلوبہ گلی میں داخل ہوئی اور ایک چھوٹے سے گھر کے آگے آکر رکنے کے بعد آنکھوں میں کئی جذبات لئے بغور گھر کو دیکھنے لگی۔

اس نے دروازہ بجانے کیلئے جیسے ہی ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ ٹھٹک کر رک گئی۔ دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔

”تم نورالعین ہو نا؟“ ایک بھاری جسامت والی عورت نے جانجتی ہوئی نظروں سے پوچھا۔ جو اپنے گھر کی کھڑکی سے سر باہر نکال کر کھڑی تھی۔

اس نے اثبات میں سرہلایا۔

”سزا پوری ہوگئی تمہاری؟“ عورت نے تیکھے انداز میں دوسرا سوال کیا۔ وہ بےساختہ شرمندگی کے مارے نظریں چرا گئی۔

”امی کہاں گئیں ہیں جمیلہ آنٹی؟“ نورالعین نے بات بدل کر جاننا چاہا۔

”آئے ہائے! تمہیں نہیں پتا؟“ عورت کو حیرانی ہوئی۔

”کیا نہیں پتا؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”ارے اس دن جب پولیس تمہیں گرفتار کرکے لے گئی تھی، تو تمہارے جاتے ہی تمہاری ماں بےہوش ہوکر گر پڑی تھی، محلے کے لوگ اسے ہسپتال لے کر گئے تو پتا چلا اسے دل کا دورہ پڑا تھا، اور وہیں اس کی موت ہوگئی تھی۔“ عورت نے تفصیل بتائی۔

الفاظ تھے یا تیر جو نورالعین کو اپنے آپ میں پیوست ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ حیرت اور صدمے کے مارے اس کی زبان ہی گنگ ہوگئی۔

”بیچاری نے ساری زندگی صرف عزت ہی تو کمائی تھی، وہ بھی تمہارے کارناموں کے نذر ہوگئی، تو بس صدمہ برداشت نہیں ہوا اس سے، اور چل بسی۔“ عورت نے چبھتے ہوئے انداز میں مزید زہر اگلا۔

نورالعین کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کے پیروں تلے زمین کھینچ لی ہے۔ اور آسمان بھی پورا کا پورا اس کے سر پر آگرا ہے۔ اسے اپنی ٹانگوں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔

”خیر! تمہارے گھر کی چابی میرے پاس ہے، رکو دیتی ہوں۔“ وہ اس پر احسانِ عظیم کرتے کھڑکی سے ہٹ کر اندر کہیں چلی گئی۔

نورالعین کو لگا اس کے سننے، بولنے، دیکھنے، اور چلنے کی ساری طاقت ختم ہوگئی ہے۔ اچانک ایک خاموش قیامت آئی تھی اور اسے ختم کرکے چلی گئی تھی۔

”بیچاری نے ساری زندگی صرف عزت ہی تو کمائی تھی، وہ بھی تمہارے کارناموں کے نذر ہوگئی، تو بس صدمہ برداشت نہیں ہوا اس سے، اور چل بسی۔“

جمیلہ کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی اور ذہن میں اس ماں کے چہرہ ابھر آیا جس کا آخری دیدار بھی اسے نصیب نہیں ہوا تھا۔

وہ ایک ہارے ہوئے جواری کی مانند ہوش و حواس سے بیگانی ہوکر یوں ہی چل پڑی۔۔۔۔۔۔کہاں۔۔۔۔۔یہ خود اسے بھی نہیں معلوم تھا۔


*****************************************


”اٹس آوور بابِک!“ تن فن کرتی مہوش اچانک بابک کے سر پر آ کھڑی ہوئی جو یونیورسٹی کی سیڑھیوں پر بیٹھا کین سے کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے موبائل میں مصروف تھا۔

”کیا آوور؟“ بابک نے سیدھے ہوکر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

”ہمارا ریلیشن شپ!“

”اچانک تمہیں یہ دورہ پڑنے کی وجہ جان سکتا ہوں؟“ اس نے اطمینان سے پوچھ کر کولڈ ڈرنک کا گھونٹ لیا۔

”کل میرا برتھ ڈے تھا، نہ تم نے مجھے وش کیا، نہ کوئی گفٹ دیا، دس از ناٹ فیئر!“ اس نے تنک کر وجہ بتائی۔

بابک کو یاد آیا کہ کل اپنے والدین کی زبانی ہونے والے انکشاف پر وہ ایسا الجھا تھا کہ پھر اسے کچھ اور یاد ہی نہیں رہا تھا۔

”اوہ! آئی ایم سوری! ایکچلی ایک فیملی میٹر کی وجہ سے کل میں تھوڑا ڈسٹرب تھا۔“ اس نے سادگی سے وضاحت کی۔

”آئی ڈونٹ کیئر آباؤٹ یور فیملی میٹرز، تمہیں میرا برتھ ڈے نہیں بھولنا چاہئے تھا، پتا ہے کتنی انسلٹ ہوئی میری اپنی فرینڈز کے سامنے!“ اسے بس اپنی پڑی ہوئی تھی۔

”برتھ ڈے مائی فٹ! میرے لئے میری فیملی سے زیادہ امپارٹنٹ کچھ بھی نہیں ہے، آئی سمجھ!“ وہ بھی اچانک بلند آواز سے کہتا اس کے مقابل کھڑا ہوگیا جس کے باعث آس پاس کے چند اسٹوڈنٹس بھی متوجہ ہوگئے۔ فیملی پر بات آتے ہی وہ سب کا لحاظ بھول جاتا تھا۔

”ہاؤ ڈئیر یو ٹاک ٹو می لائک دس؟“ (تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی؟) وہ بھی اس پر برہم ہوئی۔

”جیسے تمہاری ہمت ہوئی میری فیملی کو ایک بیکار شے سمجھ کر ٹریٹ کرنے کی، دوبارہ اگر تم نے ایسا بی ہیو کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔“ بابک نے باقاعدہ انگلی اٹھا کر وارن کیا۔

”اب ہمارا ریلیشن بچا ہی کہاں ہے جو دوبارہ کوئی بات ہوگی، اٹس آوور، میں جا رہی ہوں۔“ وہ ٹرخ کر کہتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔

”تھینک یو سو مچ فار لیونگ می!“ (مجھے چھوڑنے کا شکریہ) بابک نے بھی بےنیازی سے پیچھے سے آواز لگائی اور کین میں بچی کولڈ ڈرنک پیتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔

باقی سب بھی یہ تماشا ختم ہونے پر واپس اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوگئے مگر ان کی جانب متوجہ اینا ہنوز اپنی توجہ بابک پر سے نہیں ہٹا پائی۔


*****************************************


درمیانی رفتار سے کار ڈرائیو کرتے ہوئے احرار پولیس اسٹیشن جا رہا تھا۔ صبح کے وقت روڈ پر معمول کا ٹریفک رواں دواں تھا۔

تب ہی یکدم فضا میں ٹائر چرچرانے کی آواز آئی اور اس کے آگے چلتی گاڑیاں رکیں تو اسے بھی بریک لگانا پڑا۔

اچانک روڈ پر ایک افراتفری مچ گئی تھی جیسے کوئی ایکسڈینٹ ہوا ہو!

وہ بھی تشویش زدہ سا گاڑی سے اتر کر لوگوں کا ہجوم چیرتا ہوا آگے آیا تو سڑک پر ایک لڑکی پڑی ملی جو غالباً تصادم کے باعث بےہوش ہوگئی تھی۔

”سر میرا یقین کیجئے میری کوئی غلطی نہیں ہے یہ لڑکی اچانک ہی میری گاڑی کے سامنے آگئی تھی۔“ ایک گھبرایا ہوا شخص باوردی احرار کو صفائیاں دینے لگا۔

مگر احرار تو لڑکی کو دیکھ کر ہی اپنی جگہ پر دنگ رہ گیا تھا کیونکہ وہ اور کوئی نہیں بلکہ۔۔۔۔۔۔۔نورالعین تھی۔


*****************************************


مہوش سے ہوئی تلخ کلامی کے بعد بابک کینٹین میں آ بیٹھا تھا۔

اینا بھی وہیں چلی آئی تھی کیونکہ وہ کب سے موقع ڈھونڈ رہی تھی کہ بابک اسے اکیلا ملے اور وہ اس بات کرسکے۔

”ہائے بابک!“ اینا نے مسکراتے ہوئے اسے مخاطب کیا۔ موبائل میں مصروف بابک نے سراٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

”ہائے! بیٹھو۔“ اس نے اخلاقاً پیشکش کی۔

”میں تمہیں تھینکس کہنے آئی تھی۔“ وہ اس کے مقابل والی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

”تھینکس! پر کس لئے؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”کل کیلئے، کل تم نے میری مدد کی، میرے لئے انس سے لڑے۔“ اس نے وضاحت کی۔

”اوہ! نہیں کوئی بات نہیں، تمہاری جگہ کوئی بھی لڑکی ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا، کیونکہ غلطی انس کی تھی، اور وہ تھوڑا ایروگینٹ نیچر کا ہے اسی لئے اکثر میری اس سے کسی نا کسی بات پر لڑائی ہوجاتی ہے، اٹس نارمل۔“ اس نے سہولت سے جواب دیا۔

”مجھے پتا چلا تھا کہ تمہارے اور انس کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہوگئی تھی، اور وہ اسے ہی لے کر غصہ ہے، میں نے اسے سمجھایا بھی تھا، لیکن اس نے شاید میری بات ان سنی کردی، خیر میں پھر کوشش کروں گا اسے سمجھانے کی، وہ بس غصے کا تھوڑا تیز ہے لیکن دل کا برا نہیں ہے۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔

”سو نائس آف یو!“ وہ بھی مسکرا دی۔

اینا نے کہہ دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔بابک نے سن لیا تھا۔۔۔۔۔بات ختم ہوگئی تھی۔۔۔۔۔مگر وہ مزید بات کرنا چاہتی تھی۔ جب کہ بابک دوبارہ موبائل میں مصروف ہوگیا تھا۔

”ویسے ابھی میں نے تمہاری اور مہوش کی باتیں سنیں، کافی برا ہوا وہ سب!“ اس نے نئی بات چھیڑ دی۔

”صرف تم نے ہی نہیں پوری یونی نے سنیں، اور جب خود غرض لوگ ہماری زندگی سے نکل جاتے ہیں نا تو وہ فی الحال برا لگتا ہے لیکن درحقیقت ہمارے لئے اچھا ہوجاتا ہے۔“ اس نے سر اٹھا کر ٹھہرے ہوئے انداز میں جواب دیا۔

ایک تو وہ پہلے ہی اس کی شخصیت کی گرویده تھی اوپر سے اس کی فلسفیانہ باتیں۔۔۔۔۔ہائے!

”بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم۔“ اس نے بھرپور تائید کی۔

”ویسے تم دونوں پراجیکٹ پارٹنر تھے نا! تو اب تم اپنے پراجیکٹ کا کیا کرو گے؟“ اینا نے پھر ایک سوال اٹھایا تو بابک نے اس کی جانب دیکھا۔

”میرا مطلب اگر تمہیں کوئی ہیلپ چاہیے ہو تو مجھ سے کہہ سکتے ہو، میں ضرور تمہاری مدد کروں گی۔“ اس نے وضاحتی انداز میں پیشکش کی۔

”ہاں میں جانتا ہوں کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ کی سب سے برائٹ اسٹوڈنٹ ہو تم جس نے آتے ہی ہماری ٹاپر سندس کو بھی پیچھے چھوڑ دیا، اگر مجھے ضرورت پڑی تو میں ضرور کہوں گا، تھینکس!“ اس نے سادگی سے مسکرا کر بات ختم کردی۔

جس کے بعد اینا نے بھی اب وہاں سے چلتا بننے میں ہی عافیت جانی کہ کہیں وہ اس کی نظر میں مشکوک ہی نہ ہوجائے!


**********************************


ہسپتال کے بیڈ پر لیٹی نورالعین نے آہستہ آہستہ اپنی لرزتی پلکیں اٹھائیں تو اسے سفید چھت پر گھومتا پنکھا نظر آیا اور ساتھ ہی جسم میں درد کا احساس ہوا۔

”جس لڑکی کے کیس کا میں نے تجھ سے ذکر کیا تھا نا اس نے شاید خودکشی کی کوشش کی ہے۔“ موبائل کان سے لگائے باوردی احرار ہسپتال کے کاریڈور میں ٹہل رہا تھا۔

”پر کیوں؟“ اپنی آفس چیئر پر موجود یاور حیران ہوا۔

”کیونکہ میں نے تجھ سے ذکر کردیا تھا نا اس کے کیس کا۔“ اس نے طنزیہ انداز میں الٹی بات کی۔

”تو یار اتنی سی بات پر اس نے خودکشی کرلی!“ وہ حیران ہوا۔

”ایڈیٹ ابھی میری بات نہیں ہوئی ہے اس سے، وہ بےہوش ہے، ہوش میں آئے گی تو پتا چلے گا کیا وجہ تھی۔“ احرار نے اس کی عقل پر ماتم کرتے ہوئے وضاحت کی۔

”تو مجھے ابھی فون کرکے ٹینشن میں کیوں ڈالا؟ پہلے پوری بات جانتا پھر بتاتا۔“ جواباً وہ بھی اس پر برہم ہوا۔

”ایکسکیوزمی سر!“ نرس کے پکارنے پر احرار پلٹا۔

”آپ کی پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے، آپ ان سے مل سکتے ہیں۔“ نرس نے پیشہ وارانہ انداز میں اطلاع دی۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”میں تجھ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔“ وہ عجلت میں لائن ڈسکنیکٹ کرتا ہوا روم کی جانب بڑھا۔

احرار روم میں داخل ہوا تو بیڈ پر سرہانے سے ٹیک لگائے بیٹھی نورالعین اسے کوئی غیرمرئی نقطہ تکتی ہوئی ملی۔

”اب کیسی ہیں آپ؟“ وہ مہذب انداز میں پوچھتا ہوا بیڈ کی جانب آیا۔

”میری جان آپ نے بچائی ہے؟“ نورالعین نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سپاٹ انداز میں الٹا سوال کیا۔

”جی، آپ کا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا، وہ تو شکر ہے کوئی زیادہ سیریس چوٹ نہیں آئی۔“ اس نے وضاحتی جواب دیا۔

”ایکسیڈینٹ نہیں ہوا تھا، خودکشی کر رہی تھی میں۔“ اس کی بات پر وہ حیران ہوا کہ اس کا اندازہ ٹھیک تھا۔

”خودکشی! لیکن کیوں؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔

”کیونکہ جینے کی کوئی وجہ نہیں ہے میرے پاس، میری انصاف کی عرضی تو آپ رد کر ہی چکے تھے اور اب آپ نے سکون سے مرنے بھی نہ دیا۔“ اس کے تلخ انداز میں غصہ تھا۔

وہ پل بھر کو شرمندہ ہوکر لاجواب ہوگیا۔

”صرف ایک اپیل رجیکٹ ہونے پر آپ مرنے چلی گئیں؟ آپ کی سزا کی مدت تو پوری ہوگئی ہے نا! اب آپ رِہا ہیں تو پھر یہ مایوسی کیوں؟“ اس نے صاف لفظوں میں پوچھ لیا۔

”کیونکہ میں ایک نہ کردہ جرم کی سزا کاٹ کر رِہا ہوئی ہوں مجھے باعزت بری نہیں کیا گیا ہے، دنیا کی نظر میں اب بھی میں مجرم ہوں، لوگوں کی طنزیہ نظریں مجھے پل پل مار رہی ہیں، اور تو اور میری وجہ سے میری ماں بھی اس دنیا سے چلی گئی جس کا میں آخری دیدار تک نہ کر پائی، ایسی قسمت لے کر بھلا میں کیوں روز روز مرنے کیلئے جیوں؟“ دکھ سے کہتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ وہ بےساختہ ڈرپ لگے ہاتھ سے منہ چھپائے رونے لگی۔

احرار کو اس پر بےحد ترس آیا۔ اس نے بےبسی سے لب بھینچ کر چھوڑے۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ اسے یوں کیس کلوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر اس نے دل کی سنی نہیں اور اب اندر ہی اندر دل اسے خوب سنا رہا تھا۔

وہ اسٹول کھینچ کر اس کے بیڈ کے پاس بیٹھا۔

”میری امی کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔“ وہ آہستہ سے گویا ہوا۔

اس کی بات پر نورالعین نے رونا دھونا بھول کر یکدم سر اٹھایا۔

”آج؟“ اس کا حیرت انگیز انداز سوالیہ تھا۔

”نہیں، ایک سال پہلے۔“ اس نے تصحیح کی۔

”آپ میرے غم کا مذاق اڑا رہے ہیں!“ اس کے انداز میں خفگی در آئی۔

”نہیں، میں تو بس یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ ہر انسان کو ہی ایک دن دنیا سے جانا ہوتا ہے، جانے والوں کے ساتھ مرا نہیں کرتے۔“ اس نے رسان سے کہا۔

”اور جب دنیا والے جینے نہ دیں تو؟“

”تو وہ ہی موقع ہوتا ہے جی کر دکھانے کا، دنیا کو یہ بتانے کا کہ ہمیں اس کی رائے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ وہ ٹھہرے ہوئے انداز میں کہتا اسے مبہوت کر گیا۔

وہ جو کچھ دیر قبل تک رو رہی تھی اب رونا دھونا بھول کر نم آنکھوں سے یک ٹک اسے دیکھے گئی جو سائیڈ ٹیبل پر سے پانی کی بوتل اٹھا چکا تھا۔

”پانی پی لیجئے۔“ اس نے بوتل بڑھائی۔

غیرمتوقع طور پر نورالعین نے چپ چاپ بوتل تھام کر چند گھونٹ حلق میں اتار لئے۔

”میرے خیال سے مجھے آپ کا کیس اتنی جلدی کلوز نہیں کرنا چاہئے تھا، مگر میں نے نظر آنے والے فیکٹس اینڈ فگر دیکھ کر ایسا کیا تھا کیونکہ آپ تو ٹھیک طرح کچھ بتا ہی نہیں رہی تھیں۔“ احرار نے بنا کسی لگی لپٹی کے اپنی اور اس کی مشترکہ غلطی کی جانب دھیان دلایا۔

وہ کچھ نہ بولی کہ احرار بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ جب وہ کیس کے متعلق جیل میں اس سے بات کرنے آیا تھا تو نورالعین نے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا جس کے باعث اسے کیس کلوز کرنا ہی مناسب لگا۔

”آئی ایم سوری! غلطی میری تھی کہ میں نے اپنے حالات کا غصہ آپ پر نکال دیا اور آپ کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔“ اس نے بھی شرمندگی سے اعتراف کیا۔

”لیکن میرا یقین کریں میں سچ کہہ رہی ہوں میں نے کچھ نہیں کیا، مجھے پھنسایا گیا ہے، آپ کو مجھ سے جو بھی پوچھنا ہے یا کہنا ہے آپ کرسکتے ہیں، بس بدلے میں مجھے انصاف دلا دیں اور میرے اوپر سے یہ مجرم کا دھبہ ہٹا دیں، آپ کو آپ کی مرحوم ماں کا واسطہ!“ اس نے گلوگیر انداز میں منت کرتے ہوئے باقاعدہ دونوں ہاتھ جوڑ لئے۔

”پلیز ایسے نہ کریں، میرا تو کام ہی انصاف دلانا ہے، اور میں یہ ضرور کروں گا۔“ احرار نے بھی جلدی سے اسے ٹوکا۔

”فی الحال آپ آرام کریں، کیس کے بارے میں ہم بعد میں بات کریں گے، اور اب میں آپ کا کیس پرسنلی ہینڈل کروں گا، اگر آپ بےگناہ ہیں اور یہ مدت آپ نے بےبنیاد کاٹی ہے تو آپ کو اس کا حرجانہ ضرور ملے گا، ڈونٹ وری!“ اس نے مضبوط انداز میں یقین دہانی کرائی۔

”میں کیسے مان لوں کہ آپ اپنی بات سے پھریں گے نہیں؟“ وہ اب بھی مطمئن نہیں ہوئی تھی۔

”میں نے اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ کسی مظلوم کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دوں گا، اگر آپ میری اس دلیل پر یقین کر سکتی ہیں تو ٹھیک، ورنہ اپنا وعدہ تو مجھے ہر حال میں پورا کرنا ہی ہے۔“ اس کے سادے سے انداز میں انوکھا سا عزم تھا جس کے آگے وہ لاجواب ہوگئی۔


*****************************************


یونیورسٹی کی چھٹی ہوچکی تھی اور حسب معمول اینا بس اسٹاپ پر کھڑی اپنی بس کا انتظار کرتے ہوئے اپنی عالیشان گاڑیوں میں وہاں سے گزرتے اسٹوڈنٹس کو بھی حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ تب ہی ریڈ کلر کی سپورٹس کار اس کے عین سامنے آکر رکی۔

”ہائے! بس کا ویٹ کر رہی ہو؟“ بابک نے شیشہ نیچے کرکے پوچھا۔ آج وہ بائیک کے بجائے کار میں آیا تھا۔ اس نے اثبات میں سرہلایا۔

”آؤ میں تمہیں ڈراپ کردیتا ہوں۔“ اس نے پیشکش کی۔

”نہیں نہیں، میں چلی جاؤں گی، تمہیں بلاوجہ زحمت ہوگی۔“ اس نے اخلاقاً منع کیا۔

”تم نے کہا تھا نا کہ مجھے کبھی بھی ضرورت پڑی تو تم میری ہیلپ کرو گی؟“ بابک نے اچانک یاد دلایا۔

”ہاں کہا تھا۔“ وہ تھوڑی الجھی۔

”تو مہوش کو جیلیس کرنے میں تھوڑی ہیلپ نہیں کرسکتی۔“ بابک کی بات پر اس نے بےساختہ یونیورسٹی کے گیٹ کی جانب دیکھا جہاں مہوش اپنی کار کے پاس کھڑی انہیں ہی دیکھ رہی تھی۔

”لیکن اگر تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں ہے تو اٹس اوکے۔“ اگلے ہی پل وہ مزید بولا۔

”ارے نہیں نہیں، یہ بات نہیں ہے۔“ اس نے جلدی سے نفی کی۔

”تو پھر کیسی بات ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔

اب وہ اسے کیا بتاتی کہ درحقیقت وہ اس کو اپنے مڈل کلاس محلے میں لے جانے سے كترا رہی تھی۔

”اوکے، چلو۔“ اگلے ہی پل وہ فیصلے پر پہنچتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جس کا لاک بابک نے پہلے ہی کھول دیا تھا۔

کار میں اے۔سی کی ٹھنڈک کے ساتھ ساتھ ایک دھیمی سے مگر دلفریب خوشبو بھی مہکی ہوئی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ آنکھیں بند کرکے دیر تک اس خوشبو اور ٹھنڈک کو اپنے اندر اتارتی رہے۔

”ایڈریس بتاؤ اپنا۔“ بابک کی آواز پر وہ چونک کر ہوش میں آئی۔

اینا نے جھجھکتے ہوئے ایڈریس بتایا۔ جس کے بعد کار اپنی منزل کی جانب بڑھ گئی۔ جب کہ ونڈ اسکرین سے دونوں ہی مہوش کے جلے بھنے تاثر دیکھ کر محظوظ ہوئے۔


**********************************


نورالعین کو کیونکہ معمولی چوٹ آئی تھی اسی لئے ڈرپ ختم ہونے کے بعد ہی اسے ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا۔

احرار فارمیلیٹیز پوری کرکے جا چکا تھا اور اب نورالعین بھی اپنے گرد سیاہ چادر اوڑھے آہستہ آہستہ چلتی ہسپتال سے باہر آگئی تھی۔

اس کا ارادہ بس اسٹاپ کی جانب جانے کا تھا مگر اس سے قبل ہی ایک سفید کرولا کار اس کے عین سامنے آکر رکی جس پر کالے شیشے چڑھے ہوئے تھے اور اس شیشے پر نورالعین کا کملایا ہوا چہرہ نظر آرہا تھا۔

تب ہی وہ شیشہ نیچے ہوا اور احرار کا وجیہہ چہرہ سامنے آیا۔ وہ گیا نہیں تھا بلکہ اسی کا منتظر تھا۔

”گاڑی میں بیٹھیں، آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔“

”پولیس والوں نے مجرموں کیلئے پک اینڈ ڈراپ سروس بھی شروع کردی ہے؟“ وہ خود کو طنز کرنے سے باز نہیں رکھ پائی۔

”نہیں، یہ سروس صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو بنا کسی جرم کے سزا کاٹ چکے ہوں!“ اس بھی کمال مہارت سے جواب دیتے ہوئے اسے لاجواب کر دیا۔

”آپ کے کیس کے حوالے سے کچھ بات بھی کرنی ہے، راستے میں بات کرلیں گے، بیٹھ جائیں۔“ اس نے مزید کہتے ہوئے فرنٹ سیٹ کا لاک کھولا تو وہ گھوم کر آکے خاموش سے سیٹ پر بیٹھ گئی۔

”میرا گھر۔۔۔۔۔۔“

”میں ایڈریس جانتا ہوں، آپ کی کیس فائل میں پڑھا تھا اور میں وہاں آپ کے بارے میں معلومات لینے بھی گیا تھا۔“ وہ پتہ بتانے ہی لگی تھی کہ احرار بول پڑا۔

”اور یقیناً وہاں سے آپ کو میرے بارے میں منفی معلومات ہی ملی ہوگی کیونکہ ان لوگوں کو تو ہمیشہ میرے اطوار کھٹکتے ہی تھے۔“ وہ تلخی سے نتیجے پر پہنچی تو احرار نے دھیرے سے سر ہلا دیا۔

وہ تاسف سے لب بھینچ کر سامنے دیکھنے لگی جب کہ احرار نے بھی مزید کوئی بات کرنے کے بجائے گاڑی آگے بڑھا دی۔


*****************************************


”بس یہاں روک دو!“ اینا کے کہنے پر بابک نے کار روک دی۔

”تم یہاں رہتی ہو! یہاں تو صرف پیڑ ہی پیڑ ہیں، گھر تو کوئی نظر نہیں آرہا۔“ اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے تعجب کا اظہار کیا۔

”نہیں، میرا گھر یہاں سے ذرا آگے ہے، میں چلی جاؤں گی، یہاں تک آنے کیلئے بہت شکریہ!“ اس نے بیگ کندھے پر لیتے ہوئے وضاحت کی۔

”ارے تو جب یہاں تک آہی گیا ہوں، تو آگے تک بھی چھوڑ دیتا ہوں!“

”نہیں میں چلی جاؤ گی، تھینکس۔“

”اچھا! میں سمجھ گیا تم مجھے اپنا گھر نہیں دیکھانا چاہتی!“ وہ نتیجے پر پہنچا۔

”ارے نہیں نہیں، ایسا نہیں ہے۔“ اس نے فوری نفی کی۔

”تو پھر کیسا ہے؟“ وہ دونوں ہاتھوں سے اسٹیئرنگ تھامے اسے دیکھ رہا تھا۔

”دراصل جس طبقے سے میرا تعلق ہے، وہاں کے لوگ یوں ایک لڑکا لڑکی کی دوستی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے، ابھی اگر تم میرے ساتھ میرے گھر تک چلو گے تو لوگ تمہیں دیکھ کر طرح طرح کی باتیں بنائیں گے، بس اسی لئے۔“ اس نے اپنے ناخنوں پر لگی نیل پالش کھرچتے ہوئے آہستہ سے وجہ بتائی۔

”اوہ! چلو جیسا تمہیں ٹھیک لگے!“ اس نے سادگی سے بات مان لی۔

”بائے!“ وہ کہتی ہوئی کار سے اتر گئی جس کے بعد بابک نے کار آگے بڑھادی۔

وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اس اڑتی ہوئی دھول کو دیکھتی رہی جو کار کے گزرنے کی وجہ سے ہوا میں تحلیل ہو رہی تھی۔ اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اس نے اپنے گھر کی جانب قدم بڑھا دیے۔


**********************************


مطلوبہ پتے پر پہنچ کر احرار نے کار کی رفتار دھیمی کرتے ہوئے ایک جگہ روک دی۔

”لفٹ دینے کیلئے شکریہ!“ نورالعین کہہ کر اس کا جواب سنے بنا کار سے اتر گئی۔ احرار بھی ڈرائیونگ سیٹ سے باہر نکلا اور اس کی جانب آیا۔

”آپ کہاں آرہے ہیں؟“ وہ متعجب ہوئی۔

”آپ کو گھر تک چھوڑنے آرہا ہوں۔“ سادہ سا جواب ملا۔

”میں خود چلی جاؤں گی، یہیں سامنے گلی میں ہی میرا گھر ہے۔“ اس کا انداز ٹالنے والا تھا۔

”آپ جیل سے بھی گھر جانے کیلئے ہی نکلی تھیں مگر ہسپتال پہنچ گئی تھیں، اسی لئے اس بار میں اپنی آنکھوں کے سامنے آپ کو گھر تک چھوڑ کر آؤں گا۔“ وہ ٹلنے والا نہیں تھا۔

”آپ کے علاوہ یہاں اور لوگوں کے پاس بھی آنکھیں ہیں جنہوں نے اگر آپ کو میرے ساتھ دیکھ لیا تو کئی زبانے کھلوا دیں گی۔“ اس نے تلخی سے کہتے ہوئے اسے باز رکھنا چاہا۔

”آپ کے پاس بھی تو ماشاءاللہ ایک عدد زبان ہے جسے استعمال میں لا کر آپ فضول چلنے والی زبانیں بند کرسکتی ہیں۔“ وہ بھی اسی کے انداز میں بات کرتا گیا۔

”آپ سمجھ نہیں رہے ہیں، لوگ خواہ مخواہ باتیں بنائیں گے۔“ بلآخر اس نے بےبسی سے اپنی بات واضح کی۔

”یہ لوگ آپ کے سگے ہیں کیا؟“

”نہیں!“

”دکھ سکھ میں آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیا؟“

”نہیں!“

”تو پھر ان کی فضول سوچ اور باتوں کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہیں آپ؟“ احرار کا سوال اسے لاجواب کر گیا۔

واقعی وہ ٹھیک تو کہہ رہا تھا کہ جو لوگ ہمارے دکھ سکھ میں ہمارا سہارا نہیں بن سکتے انہیں ہماری کسی بھی بات پر کوئی بھی سوال اٹھانے کا حق نہیں ہے۔

”اب چلیں!“ اس نے سوالیہ انداز میں گلی کی جانب اشارہ کیا تو وہ چپ چاپ چل پڑی۔ وہ بھی اس کے پیچھے آیا۔

بھری دوپہر ہونے کے باعث علاقے میں سناٹا ہو رہا تھا کیونکہ مرد حضرات اس وقت اپنے اپنے کام پر ہوتے تھے اور عورتیں یا تو گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی تھیں یا ان سے فارغ ہوکر بچوں کے ساتھ آرام کر رہی ہوتی تھیں۔ رونق میلے تو شام کو لگتے تھے جب مرد حضرات کام سے واپس لوٹ آتے تھے اور بچے کھیلنے کودنے باہر نکلتے تھے۔

اس کے گھر پر ہنوز تالا لگا ہوا تھا جس کی چابی پڑوس میں تھی۔

نورالعین نے پڑوس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھل گیا اور وہ جمیلہ باہر آئیں۔

”آنٹی گھر کی چابی آپ کے پاس ہے نا! وہ دے دیں پلیز!“ وہ سیدھا اصل مدعے پر آئی۔

”دے دوں گی مگر تم اچانک صبح کہاں غائب ہوگئی تھی؟ اور یہ پولیس والا تمہارے ساتھ کیا کر رہا ہے؟“ حسب توقع مشکوک انداز میں وہ تفتیش شروع ہوگئی تھی جس سے نورالعین کترا رہی تھی۔

”میں انہیں گھر ڈراپ کرنے آیا ہوں اور ساتھ ہی مجھے آرڈر ملا ہے کہ اگر کوئی انہیں تنگ کرے یا ان سے بلاوجہ سوال پوچھے تو اسے فوری گرفتار کرکے اپنے ساتھ لے جاؤں کیونکہ کسی کے معاملات میں دخل اندازی کرنا اخلاقی جرم ہے۔“ احرار نے لوہا گرم دیکھ کر فوری وہ چوٹ ماری جس کی ان جیسے لوگوں کو اشد ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ شرافت کی زبان جو نہیں سمجھتے۔

احرار کی بات سن کر وہ گھبرا گئیں جب کہ نورالعین چپ چاپ کھڑی رہی۔

”میں لاتی ہوں چابی۔“ وہ فوراً لائن پر آکے چابی لینے اندر چلی گئیں۔

تھوڑی دیر بعد وہ واپس آئی اور چابی نورالعین کو پکڑا دی۔

اس نے شکریہ کہہ کر چابی تھامی اور دروازے پر لگا تالا کھولنے لگی۔

جمیلہ ہنوز دروازے پر کھڑی ان ہی لوگوں کو دیکھ رہی تھی۔ تب ہی احرار نے تھوڑی سخت نظروں سے اسے دیکھا، جیسا کہہ رہا ہو کہ اب آپ جائیں، اور اس کا اشارہ سمجھ کر وہ فوری دروازہ بند کرکے اندر چلی گئی۔

نورالعین نے تالا تو کھول لیا تھا مگر کنڈی جام ہونے کی وجہ سے وہ اسے کھول نہیں پا رہی تھی۔

”لائیے میں کھول دیتا ہوں۔“ احرار نے آگے آتے ہوئے پیشکش کی تو وہ کنارے پر ہوگئی جس کے بعد اس نے تھوڑا زور لگا کر کنڈی کھول دی اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا۔

نورالعین نے اداس دل کے ساتھ اس گھر میں قدم رکھا۔

وہ حسرت بھری نظروں سے اس گھر کو دیکھنے لگی جو دو سال بند رہنے کے باعث بہت گندا اور ویران ہوگیا تھا۔ جب کہ اس گھر سے جڑی ساری یادیں بھی بہت تیزی سے ذہن کے پردے پر لہرائیں۔

”اگر آپ کہیں تو صاف صفائی کیلئے کوئی میڈ وغیرہ بھجوا دوں؟“ دروازے پر کھڑے احرار نے پیشکش کی۔

وہ یکدم خیالوں سے چونک کر اس کی جانب پلٹی۔

”نہیں بہت شکریہ، میں مینج کرلوں گی۔“ اس نے حسب توقع انکار کیا۔

”ٹھیک ہے میں چلتا ہوں، اگر کیس کے حوالے سے بات چیت کی ضرورت پڑی تو آؤں گا۔“ اس نے بھی بات سمیٹی تو نورالعین نے اثبات میں سر ہلایا۔

پھر احرار وہاں سے چلا گیا جب کہ وہ بھی دروازہ بند کرکے اندر کی جانب بڑھ گئی۔

کچھ دیر پرانی یادوں میں گم رہنے کے بعد اس نے صاف صفائی کیلئے کمر کس لی کیونکہ گھر بےحد گندا ہو رہا تھا جسے فی الحال تو رہنے کے قابل کرنا ہی تھا۔

لیکن گھر کی صفائی کے دوران ایک لمحے کیلئے بھی اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں رکے۔ اس گھر کے کونے کونے سے اسے اپنی ماں کی خوشبو آرہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ابھی اس کی ماں کچن سے آکر بولیں گی کہ

”بس کر بیٹا! تھک گئی ہوگی، آکر کھانا کھالے۔“

لیکن اب ایسا ممکن نہیں تھا۔ اب یہ آواز، یہ الفاظ وہ کبھی نہیں سن سکتی تھی۔

صفائی وغیرہ کرکے اس نے الماری کھولی تا کہ نہا کر کپڑے بدل سکے۔ مگر الماری میں موجود کپڑے اب پہننے لائق نہیں بچے تھے۔ کیونکہ ان دو سالوں میں اس لکڑی کی الماری کو دیمک نے تقریباً چاٹ ہی لیا تھا۔ اورچوہوں نے اسے اپنا ٹھکانہ اور اس میں موجود کپڑوں کو اپنی خوراک بنالیا تھا۔

اس نے بےدلی سے الماری کا تقریباً ختم شدہ دروازہ بند کیا اور پلنگ پر آکر گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی۔

تب ہی اسے خیال آیا کہ اس کی ماں اس کے جہیز کے طور پر اس کے لئے کچھ کپڑے ایک لوہے کے صندوق میں جمع کیا کرتی تھیں۔

صندوق کا خیال آتے ہی وہ جلدی سے اپنی ماں کے کمرے کی جانب بڑھی۔

مٹی سے اٹے صندوق کو جھاڑ کر تھوڑا صاف کیا۔ اور پاس ہی کیل پر ٹنگی زنگ آلود چابی اتار کر اس کا تالا کھولا۔

صندوق کا ڈھکن کھولتے ہی کافور کی مہک نے اس کے نتھنوں سے ٹکرا کر اسے خوش آمدید کہا۔

صندوق کے اندر چھوٹے بڑے بیگز اور شاپر رکھے ہوئے تھے۔

وہ ایک ایک کرکے سب چیزوں کو دیکھنے لگی۔ سارے ہی زرق برق کپڑے تھے۔ جو وہ فی الحال تو بالکل بھی نہیں پہن سکتی تھی۔

ایسے ہی چیزیں الٹ پلٹ کرتے ہوئے اس کے ہاتھ ایک شاپر آیا۔ جس میں زیادہ زرق برق کپڑے نہیں تھے۔ ان ہی کپڑوں میں سے اسے ایک گلابی رنگ کا سادہ سا سوٹ ملا۔

اسے یاد آیا کہ یہ سوٹ اس کی امی لائی تھیں اس کیلئے۔

مگر اس نے اسے پہننے کے بجائے اس صندوق میں ڈال دیا تھا۔ وہ سوٹ سینے سے لگائے ماضی میں کھو گئی۔

”نورالعین! یہ دیکھ میں یہ تیرے لئے لائی ہوں۔“ انہوں نے اس کے برابر میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے بتایا۔

"ہیں! میرے لئے؟ مگر آپ تو سامنے والی بلقیس خالہ کے ساتھ ان کی خریداری کرنے گئی تھیں نا!“ اس نے سبزی کاٹتے ہاتھ کو روک کر پوچھا۔

"ہاں اسی کے ساتھ گھومتے ہوئے مجھے یہ سوٹ نظر آگیا تو تیرے لئے لے لیا، دیکھ اچھا ہے نا؟“ انہوں نے بتاتے ہوئے سوٹ دکھا کر پوچھا۔

”یہ کیا؟ پنک کلر، امی آپ کو پتا ہے کہ میرے سانولے رنگ پر یہ کلر اچھے نہیں لگتے ہیں۔“ اس نے منہ بنایا۔

”سانولا نہیں، اسے گندمی رنگ کہتے ہیں، اور کس نے کہا اچھا نہیں لگتا، یہ سب بس لوگوں کی سوچ ہے کہ فلاں پر فلاں رنگ اچھا نہیں لگتا، انسان کو خود مثبت سوچنا چاہئے، جب تک تو خود کے بارے میں اچھا سوچ کر مطمئن نہیں ہوگی تب تک کسی کو مطمئن نہیں کر سکے گی، اور مجھے تو، تو بہت پیاری لگتی ہے اس رنگ میں، بالکل ایسی جیسے سونے کی انگوٹھی میں انمول گلابی ہیرا!“ انہوں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے اپنی جانب سے ایک عجیب سی مثال دی۔

”یہ زیادہ ہوگئی ہے اماں!“ اس نے شرارت سے کہا۔

سوچوں کے بھنور سے باہر آتے ہوئے اس نے اپنی نم آنکھیں صاف کیں اور وہ ہی سوٹ لے کر صندوق بند کرکے نہانے چلی گئی۔


ہزاروں عیب تھے مجھ میں مگر

میری ماں مجھے انمول کہتی تھی


انتخاب


**********************************


اینا گھر تو آگئی تھی پر اس کے حواسوں پر ابھی تک وہ کار کی مہک اور ٹھنڈک بسی ہوئی تھی۔ اور وہ کب سے بیڈ پر لیٹی آنکھیں بند کیے اسے محسوس کیے جا رہی تھی۔ اس نے ابھی تک کپڑے بھی نہیں بدلے تھے۔

تب ہی اس کے اوپر کوئی چیز آکر گری۔ اس نے ہڑبڑا کر آنکھیں کھولی تو دیکھا کہ اسے تکیہ کھینچ کر مارا گیا تھا۔ اور سامنے ہی فرخندہ کمر پر ہاتھ رکھے کھڑی اسے گھور رہی تھیں۔

”کیا ہے اماں! کیوں ہر وقت تکیے اور چپلوں سے مارتی رہتی ہو؟“ وہ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے چڑگئی۔

”اور تو کیوں ہر وقت خوابوں خیالوں کی دنیا میں کھوئی رہتی ہے؟“ انہوں نے ترکی بہ ترکی طنز کیا۔

”خواب دیکھنا کوئی جرم تو نہیں ہے اماں!“

”آج کل کے دور میں ہے، اور اکثر لوگ تو اپنے خوابوں کی تعبیر کیلئے مجرم بھی بن جاتے ہیں۔“ وہ تاسف آمیز لہجے میں بےساختہ کہہ گئیں۔

”کیسی باتیں کرتی ہو اماں! میں تمہیں میں مجرم لگتی ہوں؟“ وہ حیرانی ہوئی۔

”نہیں، پاگل لگتی ہے، اب جلدی سے کپڑے بدل کر کچن میں جا اور روٹیاں بنا، سالن میں نے بنالیا ہے۔“ انہوں نے موضوع بدلا اور بنا اس کا جواب سنے کمرے سے باہر نکل گئیں۔

”کیا ہے بھئی، کبھی تو چاول بھی بنا لیا کریں تا کہ مجھے یہ گرمی میں روٹیاں نہ بنانی پڑیں!“ اس نے منہ بسور کر شکوہ کیا۔

”ناکی نوکی بعد میں رونا پہلے کچن میں آجا۔“ انہوں نے باہر سے آواز لگائی۔

”اب تو مجھے پکا یقین ہوگیا ہے اماں کہ وہ جو میں نے خواب دیکھا تھا کہ میری ایک جڑواں بہن ہے اور تم مجھ سے زیادہ اسے پیار کر رہی ہو وہ صرف خواب نہیں سچ ہے، وہ تمہارے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر کوئی کانڈ کر گئی ہوگی اسی لئے اس کا غصہ مجھ پر نکالتی رہتی ہو! یا پھر میں تمہاری سگی اولاد نہیں ہوں تب ہی مجھ پر اتنا ظلم کرتی ہو تم!“ اس کے شکوے کم ہونے میں نہیں آرہے تھے۔

”تو چپل کھائے بنا نہیں مانے گی نا!“ انہوں نے وہیں سے دھمکی دی تو وہ منہ بنا کر پیر پٹختی ہوئی باتھروم میں چلی گئی۔


********************************

آنکھوں پر سن گلاسسز لگائے، باوردی احرار گاڑی سے اتر کر اسٹیشن کی جانب بڑھا۔ ایک کانسٹیبل نے اسے ادب سے سیلوٹ کیا جس کا اس نے سر کی جنبش سے جواب دیا۔

”صاحب! اللہ کے نام پر کچھ دے دو صاحب!“ اچانک ایک میلا کچیلا سا بھیکاری اس کے راستے میں آگیا۔

”اے! نکل ادھر سے۔“ کانسٹبل اسے ڈپٹتے ہوئے قریب آیا۔

”صاحب اللہ کے نام پر کچھ دے دو اللہ تمہیں اور دے گا۔“ وہ بھی مانگنے سے باز نہ آیا۔

”سیدھا اسی سے جا کر کیوں نہیں مانگتے جس کے نام پر دن بھر در در بھٹک کر مانگتے ہو!“ احرار نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے جیب سے ایک سو کا نوٹ نکال کر اس کی ہتھیلی پر رکھا اور دوبارہ آگے بڑھ گیا۔

جب کہ بھیکاری اس کی بات پر شرمندہ ہوگیا جسے اب کانسٹبل یہاں سے چلتا کرنے لگا۔

اسٹیشن میں داخل ہوکر احرار سیدھا اپنے روم میں آیا اور سنگل کرسی پر بیٹھنے کے بعد ٹیبل کی درازوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔

تھوڑی دیر میں اس کی تلاش مکمل ہوئی اور مطلوبہ چیز اسے مل گئی جو کہ سرخ رنگ میں نورالعین کی کیس فائل تھی۔

وہ فائل کھول کر دوبارہ اسے بغور پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کہاں سے شروعات کرے؟ کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا!

تب ہی خاکی ڈریس پینٹ کی جیب میں رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا۔ موبائل نکال کر چیک کرنے پر پتا چلا یاور کی کال تھی۔ اس نے یس پر کلک کرکے موبائل کان سے لگایا۔

”زندہ ہے یا مر گئی؟“ چھوٹتے ہی سوال آیا۔

”کون؟“

”وہ ہی مجرمہ جس نے صبح خودکشی کی کوشش کی تھی۔“

”اللہ کا شکر ہے بچ گئی، گاڑی والے نے بر وقت بریک لگا لیا تھا اسی لئے کوئی سنجیدہ چوٹ نہیں آئی، تھوڑی دیر بعد ہی اسے ہاسپٹل سے ڈسچارج کردیا گیا تھا، ابھی اسے گھر ڈراپ کرکے اسٹیشن آیا ہوں۔“ اس نے تفصیلی جواب دیا۔

”اوہ ہو! پک اینڈ ڈراپ سروس بھی دینی شروع کردی تم پولیس والوں نے مجرموں کو!“ اس نے معنی خیز انداز میں نورالعین والی بات دہرائی۔

”وہ کوئی عادی مجرم نہیں ہے یار! ایک نازک سی تنہا لڑکی ہے جسے کچھ لوگوں نے ذاتی دشمنی نکالنے کیلئے جان بوجھ کر پھنسایا ہے، اسے اس وقت کسی کے سہارے کی ضرورت ہے۔“ وہ بےساختہ اس کا دفاع کر گیا۔

”اور یہ بات تمہیں کیسے پتا چلی؟“

”اس نے خود بتائی آج ہاسپٹل سے گھر جاتے ہوئے، اس سے پہلے نہ اس نے مجھ سے ٹھیک طرح بات کی تھی اور نہ میں نے خاص پوچھا تھا، صرف کیس فائل میں جو ڈیٹیلز درج تھیں ان کے بی ہاف پر میں نے چھان بین کی، کیس کا مدعی اور مین گواہ تو منظر سے ہی غائب ہے، کسی کو نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے؟ باقی جس جگہ یہ سب ہوا تھا وہاں کہ لوگوں کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ نورالعین سے ایسی توقع کی جاسکتی ہے، میں نورالعین کے محلے میں بھی پتا کرنے گیا تھا اور وہاں کہ لوگوں کی بھی اس کے بارے میں اچھی رائے نہیں تھی، ان سب کے بعد مجھے یہ ہی لگا کہ شاید اب وہ حرجانے کیلئے دوبارہ کیس اوپن کرنا چاہتی ہے، لیکن اگر واقعی ایسا ہوتا تو میرے کیس کلوز کرنے پر وہ جان دینے کی کوشش نہ کرتی، کوئی مسلسل اتنی تڑپ کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا، کوئی تو ایسا پائنٹ ہوگا جو یا تو غلطی سے رہ گیا ہے یا جان بوجھ کر چھوڑا گیا ہے، اور وہ ہی سچ تک لے کر جائے گا۔“ اس نے نہایت سنجیدگی سے پورے معاملے پر تجزیہ کیا۔

”ہمم! تو اب تم کیا کرو گے؟“ یاور نے بھی سیریس ہوکر جاننا چاہا۔

”میں نے سوچ لیا ہے کہ اب میں پرسنلی نورالعین کا کیس ہینڈل کروں گا، کیونکہ آفیشلی تو میں کیس کلوز کرکے سینئر کو انفارم کرچکا ہوں، اب دوبارہ اسے ری اوپن کرنا سوال کھڑے کرسکتا ہے، ہاں جب ذاتی طور پر انویسٹیگیٹ کرنے کے بعد میرے پاس کوئی پختہ ثبوت ہوگا تو اس کی بی ہاف پر میں یہ کیس آفیشلی ری اوپن کردوں گا۔“ اس نے اپنا ارادہ بتایا۔

”اوہ! پرسنل!“ یاور پھر شرارتی انداز میں پٹری سے اتر گیا۔

”تیری ٹھرکی سوچ کا کچھ نہیں ہوسکتا۔“ احرار نفی میں سر ہلاتے ہوئے بڑبڑایا۔


*****************************************


تھوڑی دیر قبل ہی سورج آسمان سے رخصت ہوا تھا۔ گرمی اب نرمی میں تبدیل ہوچکی تھی اور وقفے وقفے سے گزرتے ہوا کے جھونکوں نے موسم بہت پرسکون بنایا ہوا تھا۔ مسجد سے بلند ہوتی اذانِ مغرب کی صداؤں نے ماحول میں ایک پرکیف احساس طاری کردیا تھا۔

نورالعین مغرب کی نماز پڑھ کر اب صحن کی جانب کھلنے والے دروازے کی چوکھٹ پر خالی پیٹ اور سوچوں سے بھرا ذہن لئے بیٹھی تھی کہ اب ماضی کے پچھتاوے اور مستقبل کے خدشے ہی اس کی مصروفیات تھے۔

تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔

وہ یکدم خیالوں سے چونک کر ہوش میں آئی۔ اٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی اور دروازہ کھولا۔ دوسری جانب ایک دبلی پتلی سی عمر رسیده خاتون کھڑی تھیں جن کے ہاتھ میں کپڑے سے ڈھکی ٹرے بھی تھی۔

”بلقیس خالہ آپ!“ وہ کافی حیران ہوئی۔

”ہاں، اتنے عرصے بعد گھر کا تالا کھلا دیکھا تو سمجھ گئی کہ تم واپس آگئی ہو! پھر تمہارے برابر والی جمیلہ نے بھی تمہارے آنے کا بتایا اسی لئے تم سے ملنے چلی آئی۔“ انہوں نے خوشدلی جواب دیا۔

”آئیں، اندر آئیں آپ!“ وہ انہیں راستہ دیتے ہوئے کنارے پر ہوئی تو وہ اندر آگئیں۔

”یہ میں تمہارے لئے کھانا لائی تھی۔“ انہوں نے ٹرے اس کی جانب بڑھائی۔

”اس کی کیا ضرورت تھی خالہ؟“ وہ شرمندہ ہوئی۔

”ارے بالکل ضرورت تھی، تم اتنے عرصے بعد آئی ہو، گھر کب سے بند پڑا تھا ایسے میں کیا کھانے پکانے کا موجود ہوگا؟ ایسے میں پڑوسی ہی تو ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔“ ان کے اپنائیت بھرے انداز پر اس کا دل بھر آیا۔

اس نے واقعی صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا کیونکہ جیل سے نکلتے ہوئے حوری نے جو اسے سو روپے کا اکلوتا نوٹ تھمایا تھا وہ بس کے کرائے میں پورا ہوگیا تھا اور ہسپتال میں بھی اس نے صرف جوس پیا تھا جو احرار نے اس کیلئے منگوا دیا تھا۔

”کاش یہاں کے سارے پڑوسی آپ کی طرح ہوتے!“ اس نے حسرت سے کہا۔

”چلو میں تو ہوں نا۔۔۔۔لو۔۔۔اب یہ لے لو۔“ انہوں نے دوبارہ ٹرے بڑھائی جو اس نے تھام لی۔

”کل برتن خالی کرکے مجھے دے جانا اور صبح دینا جب تمہارے خالو گھر پر نہیں ہوتے کیونکہ ان کا غصہ جانتی ہو نا تم! اگر انہیں پتا چل گیا کہ میں ایک جیل پلٹ پڑوسی سے مل رہی ہوں تو میرا حشر برا کردیں گے وہ، سمجھ گئی نا بیٹا!“ وہ اپنی سادگی سے روانی سے کہہ گئیں۔ انہوں نے دانستہ ایسا نہیں کیا تھا لیکن پھر بھی لفظ ”جیل پلٹ“ گھونسے کی مانند اس کے دل پر لگا۔

”جی سمجھ گئی خالہ!“ وہ دھیرے سے بولی۔

”جیتی رہو، اب میں چلتی ہوں تمہارے خالو آنے والے ہوں گے، ہاں!“ وہ اس کا گال تھپتھپا کر باہر کی جانب بڑھ گئیں۔

ان کے جانے کے بعد ایک ہاتھ سے ٹرے پکڑے نورالعین نے دروازہ بند کیا اور پھر وہ بھی کچن میں چلی گئی۔

اس نے ٹرے سلپ پر رکھی مگر اس پر ڈھکا کپڑا نہیں ہٹا پائی کیونکہ رب کی رحمت پر اسے رونا آگیا تھا۔

وہ صبح سے بھوکی تھی یہ بات صرف وہ جانتی تھی اور اس کا رب۔۔۔۔۔

اور اسی رب نے وہاں سے اس کیلئے رزق بھیجا تھا جہاں اس کا گمان بھی نہیں تھا۔

اسے اپنے اعمال پر جتنی شرم آرہی تھی رب کی رحیم ذات پر اتنا ہی پیار آرہا تھا کہ وہ اپنے بندوں سے بےخبر نہیں ہوتا۔ بس بندے ہی اس کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں۔

”جس طرح رزق دیا ہے ویسے ہی انصاف بھی دلا دے یارب!“ اس نے دل کی گہرائیوں سے دعا کی۔

آنسو صاف کرکے اس نے ٹرے پر سے کپڑا ہٹایا تو ایک پیالے میں بینگن آلو کی سبزی ملی اور ساتھ ہی ٹرے میں تو تہہ ہوئی روٹیاں رکھی ہوئی تھیں۔

”اماں پھر سے بینگن! مجھے یہ نہیں پسند!“

اس کے ذہن میں اس کی اپنی ہی بےزار آواز گونجی جو اسے مزید شرمندہ کر گئی۔ جو چیز ایک وقت پر اسے ناپسند تھی اس وقت وہ اس کیلئے من و سلویٰ سے کم نہیں تھی۔

اس نے ہاتھ سے ٹرے کو چوم کر دل ہی دل میں اپنی سابقہ ناشکریوں پر رب سے معافی مانگی۔

وہ کپڑا وہیں سلپ پر چھوڑ کر، ٹرے لئے چھوٹے سے لاؤنج میں آئی اور وہاں رکھے لکڑی کے صوفے پر بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔

کھانا کھا کر وہ برتن دھونے لگی تھی کہ تب ہی دروازہ بجا۔

وہ برتن سلپ پر الٹے رکھ کر دوپٹے سے گیلے ہاتھ پونچھتی دروازہ کھولنے آئی۔

دوسری جانب باوردی احرار کھڑا تھا جسے دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔

”السلام علیکم!“ وہ سلام کرتے ہوئے بےساختہ اسے سرتاپا دیکھ گیا۔

نورالعین نے وہ ہی سادہ سی ہلکی گلابی فراک پہنی ہوئی تھی جو اس کے گندمی رنگ پر کافی جچتی ہوئی معلوم ہوئی۔ سینے پر ہمرنگ دوپٹہ اوڑھ کر پشت پر لمبے بالوں کی نہایت ڈھیلی چوٹی باندھی ہوئی تھی۔ گو کہ اب بھی اس کا چہرہ سنجیدہ تھا مگر وہ پہلے کی نسبت قدرے بہتر لگ رہی تھی۔

”وعلیکم السلام! آپ یہاں! سب خیریت تو ہے نا؟“ اس نے تعجب سے پوچھا تو اس کی آواز پر وہ چونکا۔

”جی، سب خیر ہے، بس کیس کے سلسلے میں کچھ بات کرنی تھی۔“ احرار نے سنبھل کر وجہ بتائی۔

”کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“ اس نے اجازت چاہی۔

کوئی چارہ نہ ہوتے ہوئے وہ سر ہلا کر کنارے پر ہوئی تو احرار اندر آگیا جسے وہ اپنی پیروی میں لاؤنج میں لے آئی۔

”بیٹھیں!“ نورالعین نے ایک سنگل لکڑی کے صوفے کی جانب اشارہ کیا تو وہ اپنے ہاتھ میں موجود سرخ فائل لکڑی کی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بیٹھ گیا۔

”معذرت آج میں زیادہ صاف صفائی نہیں کرسکی۔“ وہ خود بھی ڈبل صوفے پر بیٹھتے ہوئے گھر کی ابتر حالت پر شرمندہ ہوئی۔

”ارے کوئی بات نہیں، میں سمجھ سکتا ہوں۔“ وہ سہولت سے بولا۔

تھوڑی دیر دونوں کے بیچ پرتکلف خاموشی حائل رہی جسے احرار نے توڑا۔

”آپ کا کوئی جاننے والا یا رشتے دار نہیں ہے جو آپ کے پاس آ سکے یا آپ ان کے پاس رہ سکیں؟“ اس نے سرسری انداز میں پوچھا۔

”نہیں، ایسا کوئی نہیں ہے، اور جو ہیں ان کے اپنے سو مسائل ہیں تو خواہ مخواہ کوئی میری صورت ایک نیا مسلہ اپنے سر کیوں لے گا؟“ اس نے پھیکےپن سے جواب دیا جس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی۔

تب ہی احرار اپنی خاکی رنگ پینٹ کی جیب سے کچھ نکالنے لگا۔ وہ گھبرا کر چوکنا ہوگئی۔ اور چند لمحوں میں ہی دل ہی دل میں پتا نہیں کیا کیا سوچنے لگی۔

”کہیں یہ گن تو نہیں نکال رہا؟ اور نکال رہا ہے تو کیوں نکال رہا ہے؟ کہیں یہ مجھے اکیلا پا کر گن پائنٹ پر میرے ساتھ۔۔۔۔۔۔“

”یہ کچھ پیسے آپ کے لئے۔“ اس نے جیب سے ایک خاکی رنگ لفافہ نکال کر لکڑی کی میز پر رکھا۔

لفافہ دیکھ کر نورالعین کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔ اور اس کے ذہن میں آتے الٹے سیدھے خیالات کو لگام لگی۔

”پر یہ کیوں؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

”محکمے کی طرف سے ہیں، یہ لاء ہے کہ رِہا ہونے والی خاتون قیدی کو محکمہ کچھ رقم دیتا ہے۔“ احرار نے جھوٹی وضاحت کی۔

”لیکن میں نے تو ایسے کسی لاء کے بارے میں کبھی نہیں سنا۔“ وہ ناسمجھی سے آنکھیں سکیڑ کر متعجب ہوئی۔

”یہ قانون ابھی حال ہی میں پاس ہوا ہے، زیادہ لوگوں کو اس کے بارے میں پتا بھی نہیں ہے، صرف قانون سے جڑے لوگ جیسے پولیس اور وکیل وغیرہ ہی یہ جانتے ہیں، اور ایک طرح سے اچھا بھی ہے کہ پیسوں کی ضرورت بھلا کسے نہیں ہوتی، تو رکھ لیجئے، کام ہی آئیں گے۔“ اس نے جھوٹے جواب کے ساتھ اسے قائل کرنا چاہا تو وہ بھی پر سوچ انداز میں خاموش ہوگئی۔

احرار نے جان بوجھ کر ایک ایسا لاء بتایا جو سرے سے قانون کی کتابوں میں کہیں موجود ہی نہ تھا لیکن اسے پیسے دینے کیلئے کوئی تو بہانہ چاہیے تھا کہ اس کی عزتِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور وہ اس کی مدد بھی کردے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ نورالعین کو اس وقت مالی سہارے کی اشد ضرورت ہے۔

”اچھا مجھے آپ سے ایک اور ضروری بات بھی کرنی ہے۔“ احرار کو اچانک یاد آیا۔ وہ بھی اس کی جانب متوجہ تھی۔

”یہ آپ کی کیس فائل ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا ایک بار اسے غور سے پڑھیں اور مجھے بتائیں کہ کیا کوئی ایسی اہم بات ہے جو کیس سے جڑی ہو لیکن اس فائل میں درج نہیں ہے؟“ اس نے کہتے ہوئے فائل نورالعین کی جانب کھسکائی۔

اس نے فائل اٹھا کر کھولی اور بغور اسے پڑھنے لگی۔

جب کہ اس دوران وہ چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔

وہ زیادہ حسین و جمیل نہیں تھی مگر ایک پرکشش لڑکی ضرور تھی۔ جس کے سپاٹ چہرے پر شاید کبھی کھلکھلاتی ہنسی رقص کرکے اسے مزید دلکش بناتی ہوگی!

اداس رہنے والی اس کی سیاہ آنکھیں چھوٹی بڑی خوشیوں پر مسرت سے چمک اٹھتی ہوں گی۔

مگر شاید وقت نے اس کی کایا ایسے پلٹی تھی کہ وہ سرے سے ہی بدل گئی تھی۔

”اس میں جو لکھا ہے وہ مکمل سچ نہیں ہے۔“ وہ فائل پڑھ کر حیران کن انداز میں گویا ہوئی تو احرار بھی چونک کر ہوش میں آیا۔

”اس کیس سے جڑے ایک بہت ہی اہم شخص کا یہاں ذکر ہی نہیں ہے۔“ وہ اسی حیرانی سے مزید بولی۔

”کون ہے وہ؟ اور اس کا اس کس سے کیا تعلق ہے؟“ احرار نے بھی سنجیدگی سے جاننا چاہا۔


*****************************************


”اینا! سوگئی کیا؟“ فرخندہ پکارتی ہوئی اس کے کمرے میں آئیں۔

"نہیں اماں جاگ رہی ہوں، بولو؟“ اس نے کہتے ہوئے چادر سے منہ باہر نکالا کیونکہ اندر دبک کر وہ موبائل میں مصروف تھی اور ایسا وہ اپنی ماں کی نظر سے چھپنے کیلئے نہیں کر رہی تھی بلکہ یہ اس کی عادت تھی۔

”تجھ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ کہتے ہوئے اس کے سنگل پلنگ پر بیٹھ گئیں۔

”ہاں بولو!“ اس نے موبائل بند کرکے ایک کنارے رکھا اور ان کی گود میں سر رکھ لیٹ گئی۔

”بال کیسے روکھے ہو رہے ہیں تیرے، کتنے دنوں سے تیل نہیں لگایا ہے سر پر؟ رک میں ابھی لگاتی ہوں۔“ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

”ارے اماں ابھی نہیں، کل یونی جانا ہے، ہفتے کی رات کو لگا دینا اگلے دن چھٹی ہوتی ہے!“ اس نے فوری طور پر انہیں ٹوکا۔

”تو کیا تیل لگے بالوں کے ساتھ تیری یونی والے اندر نہیں آنے دیتے؟“ انہوں نے طنز کیا۔

”نہیں بھئی! عجیب سا ہی لگتا ہے انسان تیل لگے بالوں میں، اور تم یہ سب چھوڑو، وہ ضروری بات بتاؤ جس کیلئے یہاں آئی ہو۔“ اس نے موضوع ہی بدل دیا۔

”ہاں، میں کہہ رہی تھی کہ تیرے لئے ایک رشتہ آیا ہے، اور میں سوچ رہی ہوں کہ ہاں کردوں!“ وہ بھی اصل مدعے پر آئیں۔

”کیا!“ وہ حیرت سے کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی۔

”ہاں تو! اس میں اتنا حیران ہونے والی کون سی بات ہے؟ اچھا رشتہ ہے، یہ ہے نا پچھلی گلی والی خالدہ، اس کے کوئی جاننے والے ہیں، لڑکے کی اپنی موبائلوں کی دکان ہے۔“ وہ تفصیل بتانے لگیں۔

”کیا ہوگیا ہے اماں! میں نہیں کروں گی کسی دکاندار سے شادی!“ اس نے تنک کر انکار کیا۔

”اچھا! تو پھر اس شہزادے کا پتہ بتا دے جو عنقریب تیرا رشتہ لے کر آنے والا ہے، تا کہ میں اس محل کے حساب سے تیرا جہیز تیار کرسکوں۔“ انہوں نے بھی جواباً طنز کیا۔

”ہر وقت بس طنز کے تیر برساتی رہتی ہو، مائیں تو اپنی بیٹیوں کیلئے کتنی اچھی اچھی دعائیں کرتی ہیں، اور تمہیں مجھے کوسنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔“ اس نے منہ بناتے ہوئے شکوہ کیا۔

”وہ اولادیں بھی فرمابردار ہوتی ہیں، اور تو نے اپنی حرکتیں دیکھی ہیں، سوائے میری جان جلانے کے اور میری ہر بات رد کرنے کے علاوہ اور کوئی کام آتا ہے تجھے؟“ انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی اسے لتاڑا تو وہ کچھ نہ بولی بس منہ بسور کر انہیں دیکھتی رہی۔

”ماں ہوں میں تیری، برا نہیں چاہوں گی، اچھا رشتہ ہے، ہاں کردے، اور میری زندگی میں اپنی گھر کی ہوجا، ایک ہی تو خواہش ہے میری کہ تجھے تیرے گھر میں ہنستا بستا، آباد دیکھ سکوں، اور تیرے بچوں کو اپنی گودوں میں کھلاؤں۔“ اب کی بار رسان سے کہتے ہوئے ان کے انداز میں محبت تھی۔

”اماں میں نے کہا نا مجھے نہیں کرنی کسی دکاندار سے شادی، اب دوبارہ نہ کہنا۔“ اس نے واپس لیٹتے ہوئے بیزاری سے کہا۔

”رک تو بیٹا! میں کل ہی خالدہ کو ہاں کرتی ہوں اس رشتے کیلئے، شادی تو تیرا باپ بھی کرے گا۔“ انہوں نے بیڈ پر سے اٹھتے ہوئے گویا فیصلہ سنایا۔

”ہاں ان کی کروادو بھلے ہی انہیں قبر سے نکال کر، پر مجھے نہیں کرنی۔“ اس نے ڈھیٹ پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلدی سے منہ تک چادر اوڑھ لی۔

”کیسے زبان چلا رہی ہے کمبخت، تیرا علاج کرتی ہوں میں۔“ فرخندہ نے بیڈ پر پڑا تکیہ اسے کھینچ کر مارا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ جس کے بعد وہ بڑبڑاتی ہوئی باہر چلی گئیں۔


**********************************


رات کے قریب گیارہ بج چکے تھے۔

بابک سارا دن آوارہ گردی کرنے کے بعد اب گھر آیا تھا۔ اور دبے پاؤں اپنے کمرے کی جانب جارہا تھا۔

”بابک!“ عقب سے کلثوم کی آواز آئی تو وہ رک کر پلٹا۔

”کہاں تھے بیٹا پورا دن تم؟“ وہ فکرمندی سے پوچھتی اس کی جانب آئیں۔

”دوستوں کے ساتھ تھا مام، لیکن آپ ابھی تک جاگ کیوں رہی ہیں؟“ وہ بھی ان کی طرف آیا۔

”تمہارے لئے ہی جاگ رہی تھی، جب تک تم گھر نہیں آجاتے فکر لگی رہتی ہے۔“ ان کے انداز میں خالص ممتا بھری فکر تھی۔

”میں چھوٹا بچہ نہیں ہوں مام، میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں، میرے لئے اتنا ہلکان مت ہوا کریں۔“ اس نے محبت بھرے لاڈ سے کہتے ہوئے ان کے گال کھینچے۔

”چھوٹے بچے نہیں ہو اسی لئے فکر رہتی ہے کہ جوانی کے جوش میں کچھ الٹا سیدھا نہ کر بیٹھو! رات دیر تک دوستوں کے ساتھ گھومنا، لڑکیوں سے دوستی رکھنا، زندگی کو سیریس نہ لینا، یہ سب ٹھیک نہیں ہے میرے بچے!“ انہوں نے پھر اسے پیار سے سمجھانا چاہا جو نرم نظروں سے انہیں ہی دیکھ رہا تھا۔

”کیوں ٹھیک نہیں ہے؟“ تب ہی وہاں ایک بھاری مردانہ آواز ابھری جس کے تعاقب میں دونوں نے گردن موڑی۔

جبار صاحب بھی ان کے نزدیک آچکے تھے۔

”ڈیڈ مام تو بس مجھے کھانے کا۔۔۔۔۔۔“

بابک نے جھوٹی وضاحت کرکے ماں کو بچانے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ جبار صاحب نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروا دیا اور کلثوم کی جانب متوجہ ہوئے۔

”دنیا بھر کے لڑکے دوستوں کے ساتھ گھومتے ہیں، کو-ایجوکیشن میں سب سے دوستی رکھتے ہیں تو میرا بیٹا یہ سب کیوں نہیں کرسکتا؟“ ان کا انداز مقابلہ کرتا ہوا تھا۔

”ضروری نہیں ہے کہ سب کھائی میں کود رہے ہوں تو ہم بھی کودیں، انسان کو اپنے عقل و شعور سے بھی فیصلے لینے چاہیے۔“ کلثوم نے دبے دبے لفظوں میں احتجاج کیا۔

”ساری زندگی پڑی ہے عقل و شعور استعمال کرنے کیلئے، لیکن ابھی میرے بیٹے کے موج مستی کے دن ہیں، کھل کر جینے دو اسے، کوئی ضرورت نہیں ہے روک ٹوک کرنے کی، ایک ہی تو بیٹا ہے میرا، جسے اپنا ہر شوق پورا کرنے کی کھلی اجازت ہے۔“ انہوں نے روایتی تکبر کے ساتھ بابک کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے مزید شہ دی اور ایک نظر اپنی بیگم پر ڈالتے ہوئے وہاں سے چلے گئے جنہیں دونوں نے چپ چاپ دیکھا۔

ان کے جاتے ہی رنجیده تاثر کے ساتھ کلثوم بھی وہاں سے چلی گئیں جن کے پیچھے بابک بھی لپکا۔

وہ لیونگ روم میں آکر صوفے پر بیٹھ گئی تھیں اور چہرہ ہاتھ میں چھپائے بےآواز رونے لگی تھیں۔

”مام!“ وہ بھی ان کے برابر میں بیٹھا۔

”چھوڑیں نا آپ کیوں ڈیڈ کی باتوں کو سیریس لیتی ہیں، اتنے سالوں سے ان کے ساتھ رہ رہی ہیں اب تو آپ کو عادت ہوجانی چاہیے ان کے غصے کی۔“ اس نے ان کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے دلجوئی کرنا چاہی۔

”اسی بات کا تو افسوس ہے کہ اتنے سال ہوگئے ہیں ہماری شادی کو مگر تمہارے باپ نے آج تک مجھے دل سے قبول نہیں کیا، میں بس ان پر ایک بوجھ ہوں جو ان کے بڑوں نے زبردستی ان کے سر ڈال دیا تھا۔“ انہوں نے سر اٹھا کر روتے ہوئے کہا۔

”ایسا کچھ نہیں ہے، ڈیڈ آپ سے محبت کرتے ہیں بس جتاتے نہیں ہیں۔“ بابک نے نرمی سے ان کے آنسو صاف کیے۔

”مجھے نہیں پتا وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں یا نہیں؟ اور نہ ہی مجھے ان کی محبت چاہیے، مجھے بس تم سے ایک وعدہ چاہیے۔“ ان کے رونے میں کمی آگئی تھی اور وہ بےحد سنجیدہ تھیں۔

”وعدہ کرو کہ میرے مرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔“

”مجھے پتا ہے آپ کو مجھ سے کیا وعدہ چاہیے!“ وہ کہنے لگی تھیں کہ بابک ٹھہرے ہوئے انداز میں بول پڑا۔

”میرا آپ سے وعدہ ہے کہ جو وعدہ میں نے آپ سے کیا ہے اسے آخری سانس تک نبھاؤں گا۔“ اس نے دونوں ہاتھوں سے ان کا چہرہ تھام کر عزم سے وعدہ کیا تو ان کا غمزدہ دل ڈھیروں اطمینان سے بھر گیا۔


*****************************************


نئے دن کا سورج نکال آیا تھا اور حسب معمول یونیورسٹی میں افراتفری کا ماحول تھا۔

کندھے پر بیگ لئے، ہاتھوں میں کھلی کتاب پڑھتے ہوئے اینا ڈپارٹمنٹ کی جانب جا رہی تھی تب ہی کسی سے ٹکرا گئی۔

ٹکرانے والا انس تھا جو سرد نظروں سے اسے گھور رہا تھا جس پر وہ دنگ رہ گئی۔ جب کہ ذرا فاصلے پر کھڑا بابک بھی ان دونوں کو دیکھ چکا تھا جو اپنے دوست سے باتوں میں مصروف تھا۔

”یہ ٹیکنیک بہت پرانی ہوگئی ہے۔“ انس ٹھہرے ہوئے انداز میں گویا ہوا۔

”کون سی ٹیکنیک؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”یہ ہی کہ پہلے جان بوجھ کر ٹکرانا، پھر سوری کہنا، پھر بات چیت بڑھانا، اسی ٹیکنیک سے تم جیسی مڈل کلاس لڑکیاں ہم جیسے امیر لڑکوں کو پھانستی ہیں نا!“ اس کا انداز چبھتا ہوا تھا۔

”زبان سنبھال کر انس!“ اس نے فوری انگلی اٹھا کر ٹوکا۔

”او سوری! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ ایک بہت ہی نیک پروین اور پاکباز لڑکی ہیں جو لڑکوں کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھتی بھی نہیں۔“ اس کا طنز گہرا ہوا۔

”میں۔۔۔۔۔“

”کیا ہو رہا ہے یہاں؟“ اینا غصے سے کچھ کہنے لگی تھی کہ تب ہی بابک ان کے بیچ آگیا کیونکہ وہ دور سے ہی ان کے تاثرات بھانپ گیا۔

”صحیح ٹائم پر آئے ہو تم! بہت حمایت کر رہے تھے نا اس کی، اب دیکھو تمہاری یہ نیک پروین مجھ سے جان بوجھ کر ٹکرائی ہے۔“ انس طنزیہ انداز میں بابک سے مخاطب ہوا۔

”بہت ہوگیا انس! زبان کو لگام دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔“ اینا غصے سے دهاڑی۔

”ریلکس! ریلکس!“ بابک نے دونوں کے درمیان کھڑے ہوکر مداخلت کی۔

”ہم سب ایک ہی ڈیپارٹمنٹ کے ہیں یار تو ہمیں دوستوں کی طرح رہنا چاہئے، چھوٹے موٹے جھگڑے سب کے ہوتے ہیں لیکن انہیں اتنا سیریس نہیں لینا چاہئے۔“ اس نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔

”یہ کوئی چھوٹا موٹا جھگڑا نہیں ہے، اس نے میرے کردار پر انگلی اٹھائی ہے۔“ اینا کا غصہ کم نہیں ہوا تھا۔

”ہاں تو کچھ غلط نہیں کہا میں نے، جو سچ ہے وہ ہی کہہ رہا ہوں، کیا تم مڈل کلاس لڑکیاں امیر لڑکوں کے خواب نہیں دیکھتی؟ چند میٹھی باتوں اور مہنگے گفٹس کے بدلے اپنا آپ نہیں لٹاتی؟“ انس اب بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔

”اسٹاپ اِٹ انس! سمجھایا بھی ہے تمہیں کہ یہ بچپانہ چھوڑ دو مگر تم سمجھتے ہی نہیں ہو۔“ بابک اس پر بگڑا۔

”اور اینا پلیز تم بھی تھوڑا دل بڑا کرو اور سب درگزر کردو۔“ وہ متوازن انداز میں اس سے بھی بولا۔

جواباً دونوں کچھ نہ بولے۔

”بس بہت ہوا یہ لڑائی جھگڑا، اب ساری باتیں بھلا کر دونوں ہاتھ ملاؤ اور دوستی کرو۔“ بابک نے ان کی صلح کروانی چاہی۔

”اس سے دوستی کرتی ہے میری جوتی، اگر تمہارا لحاظ نہ ہوتا بابک تو میں اسے ایک اور تھپڑ مار چکی ہوتی۔“ اینا نے تڑخ کر کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔ جسے دونوں دیکھتے رہے۔

”اس کی اکڑ تو میں نکال کر رہوں گا، اور یہ تو بھی دیکھے گا۔“ انس نے خطرناک سنجیدہ انداز میں بابک کو باور کرایا اور خود بھی وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ بابک بس اسے دیکھ کر رہ گیا۔


*************************************

یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد اینا آہستہ آہستہ چلتے ہوئے بس اسٹاپ پر آکر کھڑی ہوئی تھی۔ اور اپنی بس کا انتظار کر رہی تھی۔ تب ہی اچانک ایک فقیرنی گھبرائی ہوئی آئی۔

”باجی باجی! خدا کیلئے میری مدد کرو۔“

”کیا ہوگیا؟“ اسے بھی تشویش ہوئی۔

”باجی یہ میرا بچہ ہے، اسے دو دن سے بہت تیز بخار ہے، اس کو ڈاکٹر کو دِکھا دو باجی!“ عورت نے اپنے گود میں پکڑے پانچ چھے ماہ کے بچے کی جانب دیکھا جو پوری طرح کمبل میں لپٹا ہوا تھا۔

”تو آپ کو پیسے چاہئے؟ رکیں میں دیتی ہوں۔“ وہ کہہ کر اپنے پرس کی زپ کھولنے لگی۔

”نہیں باجی، صرف پیسے نہیں چاہئے، مدد بھی چاہئے، مجھ فقیرنی کو چوکیدار ہسپتال میں جانے نہیں دیتا، بہت سارے لوگوں سے مدد مانگی پر کوئی مجھ فقیرنی کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے، آپ چل لو میرے ساتھ، بہت دعائیں دوں گی آپ کو۔“ اس نے روتے ہوئے منت کی تو اینا کو اس پر ترس آگیا۔

”اچھا ٹھیک ہے، رکو میں کوئی رکشہ ٹیکسی روکتی ہوں۔“ وہ کہہ کر کسی سواری کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگی۔

”کہاں جانا ہے باجی؟“ تب ہی ایک رکشے والے قریب رکا۔

”بھائی یہاں جو قریب میں ہسپتال ہے وہاں لے چلیں۔“

”ٹھیک ہے، بیٹھیں۔“

دونوں جلدی سے رکشے میں سوار ہوگئیں۔ اور رکشہ آگے بڑھ گیا۔ عورت ہنوز رو رہی تھی۔

”آپ فکر نہ کریں آپ کا بچہ ٹھیک ہوجائے گا۔“ اس نے تسلی دی۔ جب کہ رکشہ منزل کی جانب گامزن تھا۔

”ارے بھائی آپ نے غلط موڑ لیا ہے، ہسپتال تو اس طرف ہے۔“ اینا نے رکشے والے کو غلط موڑ مڑتے دیکھ کر ٹوکا۔

”نہیں، ہمیں یہاں ہی جانا ہے۔“ تب ہی عورت بولی۔

”کیا مطلب؟“ اینا نے ناسمجھی سے اس کی جانب دیکھا۔

یکدم عورت نے اپنے دوپٹے کے نیچے سے ہاتھ نکالا جس میں کیلیورفارم سے تر رومال تھا۔ اور ایک لمحہ بھی ضائع کیے بغیر اینا کے منہ پر رکھ دیا۔

تھوڑی مزاحمت کے بعد وہ بےہوش ہوکر ایک جانب جھول گئی۔


*************************************


اینا نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں تو خود کو ایک پلر سے بندھا ہوا پایا۔

اس نے پوری طرح ہوش میں آکر آس پاس کا جائزہ لیا تو پتا چلا وہ ایک زیرِ تعمیر عمارت میں موجود تھی۔ اور اس عمارت کے ہی ایک پلر سے اسے باندھ کر کھڑا کیا ہوا تھا۔ اس نے گھبرا کر خود کو چھڑانے کی کوشش پر ناکام رہی۔

”کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ پلیز ہیلپ!“ وہ گھبرا کر چلائی۔

”جی جی، میں ہوں نا!“ اچانک اس کے عقب سے ایک مردانہ آواز آئی۔

پلر کی وجہ سے وہ پلٹ کر دیکھ نہیں پائی۔ مگر وہ جو کوئی بھی تھا خود ہی اس کے سامنے آگیا۔

”انس تم!“ وہ حیران ہوئی۔

”جی میں!“ اس نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر خم کیا۔

”میں نے ہی اس عورت اور رکشے والے کو بھیجا تھا تمہیں یہاں لانے کیلئے۔“ اس نے اپنی چال بازی کا اعتراف کیا۔

”کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں؟“ اب حیرانی کی جگہ غصے نے لے لی۔

”تمہیں کیا لگتا ہے؟“ اس نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ الٹا سوال کیا۔

”دیکھو مجھے جانے دو، ورنہ میں شور مچا دوں گی۔“ اس نے کمزور سی دھمکی دی۔

”اوہ نہیں نہیں، شور نہیں مچانا، میں تو ڈر گیا، یہ دیکھو میرے پیر کانپ رہے ہیں۔“ انس نے مصنوعی ڈر کا اظہار کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔

”کوئی ہے؟ بچاؤ پلیز!“ وہ اسے نظر انداز کرکے پوری قوت سے چلائی۔ جبکہ انس آرام سے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا رہا۔

”بچاؤ! کوئی ہے پلیز!“ وہ پھر چلائی۔

”نہیں آیا کوئی؟ رکو میں بھی تمہاری مدد کرتا ہوں، کوئی ہے؟ کوئی ہے؟ پلیز آکر ان محترمہ کی مدد کردیں۔“ انس نے سینے پر سے ہاتھ کھول کر ہونٹوں کے اعتراف رکھتے ہوئے بلند آواز سے پکارا۔

”اوہ! کوئی نہیں آیا، سو سیڈ!“ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے مصنوعی افسردگی کا اظہار کیا۔

”دیکھو پلیز۔۔۔۔۔پلیز مجھے جانے دو، میں اپنی ہر بدتمیزی کیلئے معافی مانگتی ہوں تم سے، میں اب کبھی بھی تم سے کوئی بدتمیزی نہیں کروں گی، پلیز مجھے جانے دو۔“ کوئی راستہ نہ ہونے پر بلآخر اسے منت کرنی پڑی۔

”سوری ڈارلنگ! پر اب بہت دیر ہوچکی ہے، اب تم کچھ بھی کرلو، کچھ بھی کہہ لو، کروں گا میں وہ ہی جو مجھے کرنا ہے۔“ وہ ڈھیٹ پن سے کہتا آہستہ آہستہ اس کے قریب آنے لگا۔

”نہیں نہیں، انس نہیں پلیز!“ اس نے دہائی دی۔

انس نے اس کی ایک نہیں سنی۔ اور ایک جھٹکے سے اس کا دوپٹہ کھینچ کر دور پھینک دیا۔ وہ اب باقاعدہ روتے ہوئے دہائیاں دے رہی تھی۔

اس سے قبل کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوتا کسی نے اس کو کالر سے پکڑ کر پیچھے کھینچا اور زوردار تھپڑ مارا۔

اس اچانک حملے پر انس سمیت اینا بھی حیران ہوگئی۔

”تو اتنا گر جائے گا، میں نے سوچا نہیں تھا۔“ بابک نے غصے میں اس کا گریبان پکڑا۔

”تو یہاں کیا کر رہا ہے؟“ انس نے بھی برہمی سے اپنا گریبان چھڑایا۔

”آج جو بھی یونی میں ہوا اس کے بعد مجھے شک تھا کہ تو پھر کوئی الٹی حرکت کرے گا، اور یونی کے بعد میں نے تجھے اینا کے پیچھے جاتے ہوئے دیکھ لیا تھا، مجھے کچھ گڑبڑ لگی اسی لئے میں تیرا پیچھا کرتے کرتے یہاں آگیا، اور اچھا ہی ہوا کہ میں آگیا۔“ بابک نے تلخی سے جواب دیا۔

”دیکھ بابِک! تو میرے معاملات میں دخل اندازی مت کر، اس لڑکی کی وجہ سے تو خواہ مخواہ ہماری دوستی خراب کر رہا ہے۔“

”میں دوستی خراب کر رہا ہوں؟ اور تو بڑا اچھا کام کر رہا ہے!“ اس نے بھی الٹا طنز کیا۔

”میں کچھ بھی کروں، تو بیچ میں مت پڑ، اور یہاں سے چلا جا، ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔“ انس نے انگلی اٹھا کر تنبیہہ کی۔

”ورنہ کیا کر لے گا تو؟ کر جو کرنا ہے، میں بھی دیکھتا ہوں۔“ بابک اٹل انداز میں کہہ کر اینا کی جانب آیا اور اس کی رسی کھولنے لگا۔

تب ہی انس نے اپنا ہاتھ اپنے عقب میں لے جاتے ہوئے پیچھے سے پینٹ میں اٹکی گن نکال کر بابک پر تان لی۔

اس سے قبل کہ وہ فائر کرتا، اینا نے اسے دیکھ لیا۔

”بابک ہٹو!“ اینا نے جلدی سے اسے دھکا دیا۔

اس کے ہاتھ کھل گئے تھے اور بابک ایک جانب گرنے کی وجہ سے بر وقت گولی کی زد میں آنے سے بچ گیا۔

انس نے دوبارہ فائر کیا۔ اب بھی وہ پھرتی سے ہٹ کر بچا اور کھڑا ہوگیا۔

اینا نے بھاگ کر جاکے اپنا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھا۔

”دیکھ انس! پاگل پن مت کر، مجھے گولی لگ جائے گی۔“ اس نے سمجھانے کی کوشش کی۔

”میں نے تجھے پہلے ہی کہا تھا کہ میرے معاملات میں دخل اندازی مت کر، پر تو نے میری بات سنی نہیں، اب اس کے ساتھ تو بھی مرے گا۔“ انس نے ہنوز گن تانے ہوئے جنونی انداز میں کہا۔

اور اب کی بار اینا کی جانب فائر کیا۔

بابک نے بروقت انس کے ہاتھ کا رخ اوپر کی جانب کردیا اور گولی چھت پر لگی۔

بابک انس سے گن لینے کی کوشش کرنے لگا۔ جس کے نتیجے میں دونوں کی بیچ ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔ جبکہ اینا حیران و پریشان سی کھڑی سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟

”اینا! جلدی بھاگو یہاں سے۔“ بابک نے ہنوز لڑتے ہوئے اسے حکم دیا۔

”پر میں ایسے کیسے۔۔۔۔۔“

”میں نے کہا نا بھاگو یہاں سے۔“ بابک نے اس کی بات کاٹی۔

”میں کہتا ہوں گن چھوڑ بابِک!“ انس ہنوز ہاتھا پائی میں مصروف تھا۔

"جاؤ اینا!“ وہ پھر چلایا۔

اب کی بار وہ ایک لمحہ بھی برباد کیے بغیر باہر کی جانب بھاگی۔

جیسے ہی وہ باہر پہنچی اسے فائر کی آواز آئی۔ چند لمحوں کیلئے وہ رک گئی۔ اور تشویش زدہ سی سوچنے لگی کہ کہیں بابک کو تو گولی نہیں لگ گئی؟

مگر وہ دوبارہ واپس جانے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔ اسی لئے اس نے سب کچھ نظر انداز کرکے دوبارہ بھاگنا شروع کردیا۔ یہ جگہ بہت سنسان اور آبادی سے ہٹ کر تھی۔

کافی دیر بھاگنے کے بعد آخر کار وہ مین روڈ تک آگئی۔ جہاں اکا دکا گاڑیاں چل رہی تھیں۔ مسلسل بھاگنے کی وجہ سے اس کا سانس بری طرح پھول گیا تھا۔ اسی لئے وہ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھے جھک کر ہانپنے لگی۔

چند لمحے گزرنے کے بعد اسے ایک رکشہ اپنی جانب آتا ہوا نظر آیا۔ اس نے اسے روکا اور اس پر سوار ہوگئی۔


*************************************


وہ چودہ سالہ لڑکا ابھی ابھی باہر سے باسکیٹ بال کھیل کر گھر واپس آیا تھا۔ اور اب بال کھیلتے ہوئے ہی اپنے کمرے کی جانب جا رہا تھا۔ کہ یکدم بال کا توازن بگڑا اور بال اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر ایک جانب اچھلی۔ اور ”چھن“ کی آواز کے ساتھ ہال میں رکھا ایک قیمتی گلدان زمین بوس ہوگیا۔

یہ دیکھ کر وہ بری طرح گھبرا گیا۔

گلدان ٹوٹنے کی آواز سن کر کچن میں موجود اس کی والدہ اور کمرے سے اس کا بڑا بھائی، دونوں اس کی جانب آئے۔

”کیا ہوا؟ کس چیز کے ٹوٹنے کی آواز تھی؟“ والدہ نے پوچھا۔ تب ہی دونوں کی نظر زمین پر بکھرے گلدان کے ٹکڑوں پر پڑی۔

”امی۔۔۔۔بھیا، قسم سے میں نے جان بوجھ کر نہیں توڑا، غلطی سے ٹوٹ گیا۔“ اس نے گھبرا کر وضاحت کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابھی رو دے گا۔

”کیا ٹوٹا ہے؟“ تب ہی اس کے والد بھی وہاں آئے اور ان کی نظر بھی ٹوٹے ہوئے گلدان پر ٹھہری۔

”یہ کیا! اتنا قیمتی گلدان توڑ دیا!“ حسب توقع انہیں طیش آگیا۔

”ضرور یہ تمہاری حرکت ہے!“ وہ اس کی جانب بڑھے۔

”نہیں پاپا، یہ مجھ سے ٹوٹا ہے۔“ اس کے سولہ سالہ بھائی نے جلدی سے ڈھال کی مانند اس کے سامنے آتے ہوئے جھوٹ بولا۔

”جھوٹ مت بولو، مجھے پتا ہے تم اس نالائق کو بچانے کیلئے یہ غلطی اپنے سر لے رہے ہو!“ انہوں نے اصل بات بھانپ لی۔

”نہیں پاپا، یہ سچ میں مجھ سے ٹوٹا ہے، سوری!“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔

انہوں نے ایک غضبناک نظر اس کے عقب میں چھپے سہمے سے لڑکے پر ڈالی۔ اور غصے میں وہاں سے چلے گئے۔

”آپ ہمیشہ میری غلطی کو چھپا کر مجھے سزا سے بچالیتے ہیں بھیا، تھینک یو!“ ان کے جانے کے بعد وہ اپنے بھائی کے گلے لگ گیا۔

”چل پاگل، بھائیوں میں نو سوری، نو تھینک یو۔" اس نے بھی محبت سے اپنے جھوٹے بھائی کے گرد دونوں بازو لپیٹ لئے۔

”ٹک ٹک ٹک!“ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اور اِحرار اپنے بچپن کے خیالوں سے چونک کر یکدم آنکھیں کھولتے ہوئے حال میں واپس آیا۔

”کم اِن!“ اس نے کرسی پر سیدھے ہوتے ہوئے اجازت دی۔ تو ایک سپاہی انداز آیا۔

”سر آپ نے جو ڈیٹیلز مانگی تھیں وہ میں لے آیا ہوں۔“ اس نے ٹیبل کے نزدیک رک کر ادب سے بتایا۔


*************************************


”دھڑ دھڑ دھڑ!“ دروازے پر زور زور سے دستک ہو رہی تھی۔

”ارے آرہی ہوں، آرہی ہوں، صبر کرو!“ فرخندہ نے دروازے کی جانب آتے ہوئے آواز دی اور آکر جلدی سے دروازہ کھولا۔

”اینا تو! ایسے پاگلوں کی طرح بجاتے ہیں دروازہ؟ اور یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے؟ گھر سے تو ٹھیک نکلی تھی!“ انہیں دروازہ کھولتے ہی تشویش ہوئی۔

”اماں اگلی کے کونے پر کھڑے رکشے والے کو پیسے بھیجوا دو جلدی۔“ اس نے گھبرائے ہوئے انداز میں کہا اور عجلت میں اندر بھاگ گئی۔

جبکہ وہ حیران پریشان سب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ انہوں نے اپنے دوپٹے میں بندھے پیسے ایک بچے کے ہاتھوں رکشے والے کو بھجوائے اور جلدی سے اس کے کمرے میں آئیں۔

وہ بیڈ پر دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، سر گھٹنوں پر رکھے ڈری سہمی سی بیٹھی تھی۔

”اینا! کیا ہوا میری بچی؟“ انہوں نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے فکرمندی سے پوچھا۔

اس نے سر اٹھا کر ان کی جانب دیکھا اور ان کے سینے سے لگ کر رونے لگی۔ کسی انہونی کے خدشے تحت ان کا دل سوکھے پتے کی مانند کانپنے لگا۔

”اینا کیا ہوا ہے؟ کچھ تو بول، مجھے فکر ہو رہی ہے۔“ انہوں نے اسکا سرسہلاتے ہوئے جاننا چاہا۔

”اماں راستے میں دو لوگوں نے مجھ سے میرا بیگ چھین لیا۔“ اس نے جھوٹ بولا۔

”آئے ہائے! تجھے تو کچھ نہیں کیا نا!“ وہ بری طرح دہل گئیں۔

”نہیں اماں، پر میرا بیگ لے گئے، اس میں میرا فون اور کچھ پیسے تھے، اسی لئے ڈر گئی تھی میں۔“ اس نے سینے سے لگے ہی جھوٹ کہا کیونکہ واقعی اس کا پرس وہیں کہیں رہ گیا تھا جس کی کوئی نا کوئی وضاحت تو دینی ہی تھی۔

”یااللہ! تیرا شکر ہے لاکھ لاکھ، کہ میری بچی کی عزت پر کوئی داغ نہیں آیا، میں تو ڈر ہی گئی تھی۔“ انہوں نے بےاختیار شکر ادا کیا۔

”اماں میں پولیس کے پاس جاؤں کیا؟“ اس نے الگ ہوتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں بیٹا، چند پیسوں اور ایک معمولی موبائل کیلئے یہ پولیس کے چکر میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے، جان کا صدقہ سمجھ کر جانے دے۔“ انہوں نے منع کیا تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”چل اب رونا دھونا بند کر، اور منہ ہاتھ دھو کر شکرانے کے نفل ادا کر جلدی سے، کہ کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔“ انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے۔

”میں تب تک تیرے لئے میں کھانا لاتی ہوں۔“ وہ کہہ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔

اینا نے انہیں اصل بات اسی لئے نہیں بتائی تھی کہ وہ بلاوجہ پریشان ہوجاتیں۔ وہ اٹھ کر لکڑی کی پرانی سی سنگھار میز کی جانب آئی۔ شیشے میں اپنا عکس دیکھتے ہوئے پھر سارا منظر اس کے ذہن میں تازہ ہوگیا جس سے اسے ایک جھرجھری سی آگئی۔ اور وہ جلدی سے باتھروم میں چلی گئی۔


*************************************


”السلام علیکم چھوٹے صاحب!“ بشیر نے اسے گھر میں داخل ہوتا دیکھ ادب سے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام، بھیا گھر آئے؟“ باوردی احرار نے رک کر پوچھا جو ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد اب تھکا ہارا گھر لوٹا تھا۔

”آپ کو نہیں پتا چھوٹے صاحب؟“ وہ متعجب ہوا۔

”کیا نہیں پتا؟“ اس نے آنکھیں سکیڑیں۔

”بڑے صاحب اور صاحب تو آج دوپہر کو کسی کام کے سلسلے میں آسٹریلیاء گئے ہیں، کہہ رہے تھے شاید ہفتے، دو ہفتے تک واپسی ہو!“ اس نے سادگی سے بتایا تو وہ دنگ رہ گیا۔

اسے دکھ ہوا تھا کہ اس کے باپ اور بھائی نے اسے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ باپ سے تو وہ ہمیشہ ہی دور رہا۔ پر اب اس کا عزیز جان بھائی بھی اس سے دور ہونے لگا تھا۔

ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے کتنے دن گزرجاتے تھے تینوں کو ملے ہوئے۔

”آپ کیلئے کھانا لگاؤں چھوٹے صاحب؟“ اسے سوچ میں گم دیکھ کر بشیر نے پوچھا۔

”نہیں!“ وہ بےدلی سے انکار کرکے اپنے کمرے کی جانب چلا گیا جب کہ بشیر بھی افسردگی سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔


**********************************


معمول کی طرح پھر ایک نیا سویرا نمودار ہوچکا تھا اور اپنے ساتھ روز والی رونقیں لایا تھا۔

اینا آج دو دن بعد یونیورسٹی آئی تھی۔ اس واقعے کے بعد وہ بہت ڈر گئی تھی۔ اسی لئے اس نے کال سنٹر اور یونیورسٹی سے چھٹی لے لی تھی۔

وہ بیگ کی بیلٹ تھامے چپ چاپ کنارے پر چلتی اپنے ڈپارٹمنٹ کی جانب جا رہی تھی۔ اسے یہ سوچ سوچ کر خوف آرہا تھا کہ کہیں پھر انس اس سے نہ ٹکرا جائے!

”اینا!“ پکارا پر وہ چونک کر پلٹی۔ وہ کندھے پر بیگ لئے بابک تھا۔

”کیسی ہو؟ اور دو دن سے کہاں غائب تھی؟“ اس نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔

”ٹھیک ہوں، بس اس واقعے کے بعد تھوڑی ڈر گئی تھی، تمہیں یہ کیا ہوا؟“ اس نے بتاتے ہوئے بابک کے ماتھے پر بائیں طرف لگے سنی پلاسٹ کی جانب اشارہ کیا۔

”وہ اس دن انس سے ہاتھا پائی کے دوران ہی چھوٹ آگئی تھی، مگر اب بہتر ہے۔“ اس نے سرسری انداز میں بتایا تو وہ شرمندہ ہوئی۔

”اس دن میرے جانے کے بعد کیا ہوا تھا؟ میں نے فائر کی آواز سنی تھی، تمہاری فکر ہو رہی تھی مگر رابطے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں تھا۔“ اینا نے جاننا چاہا۔

”کھینچا تانی میں ہی ہوائی فائر ہوگیا تھا لیکن پھر لکیلی میں نے اس سے گن چھین کر دور پھینک دی تھی، بہت سمجھایا اسے مگر اس وقت غصے سے پاگل ہوکر وہاں سے چلا گیا، پھر بعد میں اس کے گھر بھی گیا میں، اس کی مدر تو ہیں نہیں بس فادر اور ایک چھوٹا بھائی ہے، تو اس کے فادر سے بات کی میں نے کہ اسے سمجھائیں، انہوں نے بھی اسے تھوڑا ڈانٹا ڈپٹا اور سزا کے طور پر دو ہفتے کیلئے اپنے ساتھ بزنس ٹور پر آسٹریلیاء لے گئے ہیں کہ بہت ہوگئی آزادی، اب اسے کاروبار پر توجہ دینی چاہئے، اور مجھے یقین ہے کہ جب کچھ عرصہ وہ یہاں سے دور رے گا تو اس کا دماغ ضرور ٹھنڈا ہوجائے گا!“ بابک نے تفصیلی جواب دیا جسے وہ بغور سنتی رہی۔

”اچھا ہے اگر ایسا ہوجائے! کیونکہ اب اگر اس نے کچھ کیا تو میں سیدھا پولیس میں کمپلین کردوں گی۔“ وہ خود کو مضبوط کرتے ہوئے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے چکی تھی۔

”کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا اس سے۔“ بابک کی بات پر وہ متعجب ہوئی۔

”ہماری پولیس کی ایمانداری جانتی ہو نا تم؟ ایسے میں ایک اکیلی لڑکی کے ساتھ پولیس والے کیسا برتاؤ کریں گے میرا نہیں خیال کہ تمہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے!“ اس نے دبے دبے لفظوں میں وجہ بتائی جس کا مفہوم وہ بھی سمجھ گئی۔

”دوسری بات یہ کہ ایسا کرنا چنگاری کو ہوا دینے کے مترادف ہوگا، ابھی تو ہوسکتا ہے کہ انس ٹھنڈا پڑ جائے، لیکن اگر بات پولیس تک جاکر مزید پھیل گئی، تو پھر پتا نہیں وہ تمہیں کس کس طرح سے نقصان پہنچائے؟ کیونکہ انس کا بھائی پولیس میں ہے، تو اس کی سورس بھی اسٹرانگ ہے، اس لئے بطور مخلص دوست میرا تمہیں یہ ہی مشورہ ہے کہ ان سب معاملوں سے دور رہو، لیکن اگر تم پھر بھی کوئی اسٹیپ لینا چاہتی ہو، تو ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔“ اس نے سنجیدگی سے ساری صورت حال اس پر واضح کی تو وہ سوچ میں پڑ گئی کہ واقعی اس کی بات میں وزن تھا۔

”ویسے انس نے جو کچھ بھی کیا اس کے حرجانے کے طور پر اس کے فادر تمہیں رقم دینے کو بھی تیار ہیں اور تم سے بات کرکے معذرت کرنا چاہئے ہیں، اگر تم کہو تو میں ابھی فون کروں انہیں؟“ اس نے مزید کہتے ہوئے پوچھا۔

”نہیں، مجھے کسی سے کوئی بات نہیں کرنی اور نہ ہی کوئی رقم چاہیے، میرے لئے بس یہ ہی کافی ہوگا کہ اب وہ مجھے مزید پریشان نہ کرے!“ اس نے معاملہ ختم کرنا چاہا۔

”نہیں کرے گا، ڈونٹ وری، اور اگر کیا تو میں ہوں نا تمہارے ساتھ!“ اس نے اطمینان سے یقین دہانی کرائی تو اسے دیکھتے ہوئے اینا کو لگا جیسے فضا میں اچانک جلترنگ بج اٹھی ہے اور ایک انوکھا سا اطمینان اسے اپنے دل میں محسوس ہوا۔

”اس دن تم نے جو مجھ پر احسان کیا ہے، اس کا بدلا شاید میں ساری زندگی نہیں چکا پاؤں گی، اور شکریہ جیسا لفظ بھی مجھے بہت چھوٹا لگ رہا ہے، لیکن پھر بھی، تمہارا بہت بہت شکریہ!“ وہ انگلیوں سے کھیلتے ہوئے نظریں جھکا کر بولی۔

”ارے نہیں نہیں، تمہاری جگہ اگر کوئی بھی لڑکی ہوتی تو میں ایسا ہی کرتا، کیونکہ انس نے جو تمہارے ساتھ کیا وہ بالکل غلط ہے، اور غلط کے خلاف تو آواز اٹھانی چاہئے۔“ اس نے سہولت سے شرمندگی کم کرنا چاہی۔

”تھینکس! تم بہت اچھے ہو!“ وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرائی۔

”ویل! یہ جملہ میں کئی لڑکیوں سے بہت بار سن چکا ہوں، مگر۔۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔

”مگر کیا؟“ وہ بھی متجسس ہوئی۔

”کچھ نہیں، چلو میری کلاس کا ٹائم ہو رہا ہے، واپسی پر ملاقات ہوگی، سی یو!“ وہ مسکراتے ہوئے ٹال کر وہاں سے چلا گیا جب کہ وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔


*****************************************


اِحرار بہت فاسٹ ڈرائیو کرتے ہوئے ڈیوٹی پر جا رہا تھا۔

وہ آج کل ایسے ہی سنجیدگی سے سوچ میں گم رہتا تھا۔

نورالعین کا کیس جتنا سیدھا نظر آرہا تھا اتنا تھا نہیں۔ آہستہ آہستہ کھلنے والی پرتوں نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔

اور سونے پر سہاگہ اس کے باپ اور بھائی سے بھی اس کی دوریاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ باپ نے تو ہمیشہ اس پر اس کے بڑے بھائی کو فوقیت دی تھی مگر اب بھائی بھی اس سے کھنچنے لگا تھا اور یہ ہی چیز اس کے دل میں چبھ رہی تھی۔

وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ ڈیش بورڈ پر رکھا موبائل بجا۔

اس نے کار کی رفتار دھیمی کرتے ہوئے موبائل اٹھا کر دیکھا تو اسکرین پر موجود نام دیکھ کر بےاختیار ہی اس کا پیر بریک پر پڑا، اور کار رک گئی۔ نورالعین کی کال تھی۔

”السلام علیکم، جی کہیں؟“ اس نے کال ریسیو کرکے موبائل کان سے لگایا۔

”وعلیکم السلام! آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کر رہی؟“ اس نے آہستگی سے پوچھا

”نہیں نہیں، آپ کہیں۔“

”کیا آپ فارغ اوقات میں تھوڑی دیر کیلئے میرے گھر آسکتے ہیں؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔ وہ تھوڑا حیران ہوا۔

”جی کیوں نہیں، میں ابھی اسٹیشن جا رہا تھا، راستے میں آپ کی طرف آتا ہوں۔“ فرمائش غیر متوقع تھی اسی لئے اس نے خود کو نارمل رکھتے ہوئے جواب دیا۔

”بہت شکریہ، اللہ حافظ!“

”جی، اللہ حافظ!“ اس نے بھی کہہ کر ائن ڈسکنیکٹ کی اور گاڑی نورالعین کے گھر کی جانب موڑ لی۔


*********************************


کلاس کے بعد اب اینا یونیورسٹی گراؤنڈ کے ایک پرسکون گوشے میں گھانس پر آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ بیگ ایک کنارے رکھا ہوا تھا جب کہ خود وہ اپنے سامنے کھلے رجسٹر پر پین سے کچھ لکھ رہی تھی۔

”کولڈ ڈرنک؟“ کسی نے اس کی جانب کین بڑھاتے ہوئے پیشکش کی۔

اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو وہ بابک تھا جو اس کے نزدیک بیٹھ چکا تھا۔

کین تھامنے کے بجائے اینا نے آس پاس دیکھا جیسے کسی کو ڈھونڈ رہی ہو!

”کسے دیکھ رہی ہو؟“ اس نے ناسمجھی سے پوچھا۔

”مہوش کو، یہ یقیناً اسے جیلیس کرنے کیلئے ہے نا!“ اس کا انداز سوالیہ تھا۔

”ارے نہیں، اس کا چیپٹر تو کب کا کلوز ہوگیا۔“ اس نے ہنستے ہوئے غلط فہمی دور کی۔

”اچھا! مطلب نیو گرل فرینڈ بنا لی؟“ سرسری انداز درحقیقت کچھ کریدتا ہوا تھا۔

”نہیں، کوشش جاری ہے۔“ اس نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”کوشش! تمہیں بھلا کوشش کی کیا ضرورت؟ تمہارے پیچھے تو ویسے ہی لڑکیاں مرتی ہیں۔“ وہ بےساختہ کہہ گئی۔

”ہاں مگر مجھے کسی مری ہوئی لڑکی کی لاش نہیں چاہیے، مجھے تو تم جیسی زندہ دل لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔“ اس کا ٹھہرا ہوا انداز معنی خیز تھا۔

”فلرٹ کر رہے ہو میرے ساتھ؟“ اینا نے آنکھیں سکیڑیں۔

”نہیں، کیونکہ تمہارے جیسی لڑکی فلرٹ کیلئے نہیں، عشق کیلئے بنی ہے، اور عشق میری صحت کیلئے اچھا نہیں ہے۔“ وہ براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اتنی گھمبیرتا سے بولا کہ پل بھر کو اینا بھی مبہوت ہوگئی۔

”میں ضرور امپریس ہوجاتی اگر میں نے یہ مووی نہ دیکھی ہوتی اور مجھے پتا نہ ہوتا کہ یہ رنبیر کپور کا ڈائلوگ ہے۔“ وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اطمینان سے بولی۔

حلانکہ اس کے انداز پر اینا کا دل زور سے دھڑکا تھا لیکن اندر ہی اندر وہ بابک سے کتنی متاثر تھی یہ اس پر اتنی جلدی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

”اوہ! مائی بیڈ لک!“ اس نے بھی مصنوعی افسوس کا اظہار کیا۔

”چلو اسی دکھ میں کولڈ ڈرنک ہوجائے!“ بابک نے دوبارہ کین اس کی جانب بڑھایا جسے اس بار اس نے مسکراتے ہوئے تھام لیا۔


*********************************


”سب خیریت ہے؟“ باوردی اِحرار نے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

”جی، آپ دو دن سے آئے کیوں نہیں؟“ اس کے مقابل بیٹھی نورالعین کی بات پر وہ دنگ رہ گیا اور اسے یوں دیکھنے لگا گویا کہہ رہا ہو کہ آپ میرا انتظار کر رہی تھیں؟

”میرا مطلب آپ نے کوئی رابطہ نہیں کیا تھا تو مجھے لگا دوسرے کاموں میں مصروف ہوکر کہیں آپ میرا کیس بھول تو نہیں گئے!“ نورالعین نے جلدی سے اپنی بات کی وضاحت کی کہ کہیں وہ کچھ غلط نہ سمجھ بیٹھے۔

”آپ کا کیس میں چاہ کر بھی کبھی نہیں بھول سکتا۔“ وہ بےساختہ کہہ گیا۔ اس کی بات پر وہ چونکی۔

”میرا مطلب اسی پر مصروف تھا۔“ اگلے ہی پل اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

دونوں کے درمیانی اب ایک پرتکلف گہری خاموشی حائل ہوگئی تھی۔

”اصل میں کیس کے علاوہ بھی مجھے آپ کی ایک مدد چاہیے۔“ نورالعین نے انگلیوں سے کھیلتے ہوئے خاموشی کو توڑا۔

”جی کہیے!“

”مجھے جاب کی ضرورت ہے، میں نے ایک دو جگہ درخواست دی تھی، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا، یہاں دور دور تک یہ بات پھیل چکی ہے کہ میں دو سال تک جیل میں تھی، اسی لئے یہاں ٹیچنگ کا بھی کوئی چانس نہیں ہے، تو کیا آپ میرے لئے کسی چھوٹی موٹی جاب کا بندوبست کرسکتے ہیں؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے اصل بات بتائی۔ تو وہ بھی سوچ میں پڑ گیا۔

”آپ مجھے ایک دن کا وقت دیں، میں کچھ کرتا ہوں۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔

”ٹھیک ہے، یہ میری سی وی ہے۔“ نورالعین ٹیبل پر رکھا لفافہ اس کی جانب کھسکایا جسے اس نے اٹھا لیا۔

”شکریہ! اور معذرت بھی کہ آپ کو میری وجہ سے دقت ہوگی!“ وہ شرمندہ تھی۔

”ارے نہیں، جو کام میں کرسکتا ہوں اور مجھے کرنا چاہئے اس میں دقت کیسی؟“ اس نے سہولت سے کہا۔ وہ کچھ نہ بولی۔

”اچھا اب میں چلتا ہوں، جلد آپ کو آپ کے کیس اور جاب کے بارے میں بتاؤں گا۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

نورالعین بھی اس کے ساتھ دروازے تک آئی اور اس کے جانے کے بعد دروازہ بند کرلیا۔

احرار نے گاڑی اسٹارٹ کرکے آگے بڑھائی اور ساتھ ہی موبائل پر کسی کا نمبر ملا کر اسے کان سے لگا لیا۔

”ہیلو یاور! تجھ سے ایک کام ہے۔“

”ہاں بولو!“

”یار تیرے آفس میں کوئی ویکنسی خالی ہے؟ مجھے جاب کی ضرورت ہے۔“

”ہیں! ابھی کچھ دن پہلے ہی تو تم نے ڈیوٹی جوائن کی تھی، نکال دیا اتنی جلدی نوکری سے؟“ وہ حیرانی سے آفس چیئر پر سیدھا ہوا۔

”اپنے لئے نہیں یار، نورالعین کیلئے چاہئے۔“

”اوہ ہو! تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے۔“ اس کا انداز معنی خیز ہوا۔

”چھچھورپن مت کر، اور جو پوچھا ہے اس کا بتا۔“ اس نے سنجیدگی سے ٹوکا۔

”اب تو نے کہا ہے تو خالی نہیں بھی ہوگی تو تیرے لئے خالی کروادوں گا یار!“ اس نے گویا اس کی سات نسلوں پر احسان کیا۔

”تو کبھی سیریس مت ہونا۔“ احرار نے نفی میں سر ہلایا۔

زندگی کی کتاب میں وقت کے کچھ پننے پلٹے اور وقت چند دن مزید آگے چلا گیا۔

جہاں قابلِ ذکر بس یہ تھا کہ نورالعین نے یاور کے آفس میں کام شروع کردیا تھا۔

اِحرار ہنوز نورالعین کے کیس میں بری طرح الجھا ہوا تھا جو کسی طور سلجھ کر نہیں دے رہا تھا۔

انس ابھی تک آسٹریلیاء سے نہیں لوٹا تھا۔ جب کہ بابِک اور اینا کے درمیان خاصی بےتکلفی ہوگئی تھی جو دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

”بہت افسوس ہو رہا ہے مجھے کہ اتنے عرصے ایک ہی یونی میں ہونے کے باوجود ہماری دوستی اتنی لیٹ ہوئی جب میرا یہاں آخری سال ہے۔“ ڈرائیو کرتے بابِک نے تاسف سے کہا۔

”ہمم! میں بھی اگلے دو سال اس یونی میں تمہارے جیسے اچھے دوست کو مس کروں گی۔“ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اینا بھی اسی طرح بولی۔ یونیورسٹی کے بعد بابک اسے گھر ڈراپ کرنے جا رہا تھا۔

”ویسے کیا یونی کے بعد بھی میں تم سے مل سکتا ہوں؟“ اس نے جاننا چاہا۔

”ہاں ہاں ضرور، یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔“ اسے بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔

”چلو پھر وہ بات پوچھتا ہوں جو پوچھنے والی ہے۔“ وہ گاڑی روک کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔ یہ لوگ اینا کے گھر پہنچ چکے تھے۔

”کیا میں اپنے گھر والوں کو تمہارے گھر لاسکتا ہوں؟“ اس نے صرف اجازت نہیں چاہی تھی بلکہ انداز میں بہت کچھ پوشیدہ تھا جسے وہ بھی سمجھ گئی۔

”کیوں؟“

”تا کہ وہ تمہاری امی سے تمہیں میرے لئے مانگ سکیں۔“ اگلی بات نے اس کی دھڑکن میں ہلچل مچائی۔

”مجھ سے شادی کرو گی؟“ اس نے ساری پہیلیاں چھوڑ کر براہ راست پوچھا تو اینا کو لگا اب اس کا دل دھڑکنا بھول جائے گا۔

وہ اپنی جگہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی جس کی نرم سوالیہ نظریں اسی پر تھیں۔

”میں نے اتنا بھی کوئی مشکل سوال نہیں پوچھا۔“ اس کی شاکڈ حالت دیکھ کر وہ مسکرایا۔

”اس سوال پر جواب نہیں بلکہ سوال بنتا ہے کہ کیوں؟“ تھوڑے حواس قابو کرتے ہوئے وہ ہوش میں آئی۔

”کیا مطلب کیوں؟“

”مطلب یہ کہ ہم دونوں کے اسٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق ہے تو ایسے میں تم نے مجھے کیوں چنا؟ اور کیا تمہارے گھر والے میرے جیسی غریب لڑکی کو بہو بنانے کیلئے راضی ہوں گے؟“ اس کا دل تو چیخ چیخ کر ہاں کہہ رہا تھا مگر دماغ نے ہاں کرنے سے قبل کچھ سوال اٹھائے تھے جنہیں وہ زبان پر لے آئی۔

”کیوں نہیں مانیں گے؟ جب میں راضی ہوں تو کسی کو بھلا کیا اعتراض ہوگا؟ اور رہی بات اسٹیٹس کی تو میں اسے نہیں مانتا، میں نے کبھی اس کی بنیاد پر رشتے نہیں بنائے، اگر بات اسٹیٹس کی ہوتی تو میں اب تک ان اتنی لڑکیوں میں سے کسی کو چن چکا ہوتا جو نا صرف میرے اسٹیٹس کی ہیں بلکہ ہر وقت میرے پاس آنے کی کوشش کرتی ہیں، تم سب سے الگ ہو، تم سادہ ہو، سچی ہو، یاد ہے جب تم نے مجھے کہا تھا کہ تم بہت اچھے ہو اور جواباً میں کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا! وہ یہ ہی بات تھی کہ یہ جملا میں نے اپنے لئے کئی لڑکیوں سے سنا ہے مگر تمہاری زبانی یہ کچھ انوکھا ہی محسوس ہوا تھا، جیسے تم نے واقعی دل سے کہا ہو! تمہیں میرے گھر گاڑی کے علاوہ میں بھی نظر آتا ہوں، اور میں اپنے لئے ایسی ہی لڑکی چاہتا تھا جو مجھے تمہاری صورت مل گئی ہے، کیا میں تمہاری چاہت کے معیار پر اتنا اترا ہوں کہ تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرسکوں؟“ اس نے اچھی خاصی وضاحت کرتے ہوئے آخر میں پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا تو وہ بےساختہ نظریں چرا گئی کہ کہیں وہ آنکھوں سے اس کے دل کا حال نہ جان جائے!

”تمہارے بارے میں شروع سے ہی میرے جذبات کچھ الگ تھے تب ہی تو میں نے تم سے بوائے فرینڈ والا ریلیشن رکھنے کے بجائے صرف دوستی رکھی اور اب جب تمہیں بہتر انداز میں جان گیا ہوں تو اپنے دل کی بات تمہیں بتا دی، اور اب میں تمہارے دل کی بات جاننا چاہتا ہوں۔“ اسے خاموش پا کر وہ مزید بولا۔ وہ ہنوز نظریں جھکائے اپنی انگلیوں سے کھیل رہی تھی جیسے کشمکش کا شکار ہو!

”اینا!“ اس نے نرمی سے پکارا جیسے جواب کیلئے اکسا رہا ہو۔

”میں سوچ کر کل بتاؤں گی۔“ نظریں ملائے بنا اس نے بات مکمل کی اور فوراً گاڑی سے اتر گئی۔

”تو مطلب میں ہاں سمجھوں؟“ بابک نے کھڑکی سے سر باہر نکال کر خوشگوار حیرت سے پوچھا۔

”کہا نا کل بتاؤں گی۔“ اینا نے چلتے ہوئے ہی مسکرا کر پل بھر کو اس کی جانب گردن موڑی اور پھر تیزی سے اپنی گلی میں بھاگ گئی۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے واپس سیٹ پر آگیا۔


*********************************


”کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟“ نرم نسوانی آواز میں پوچھے گئے سوال پر نورالعین نے چونک کر گردن موڑی جو اپنی ڈیکس پر بیٹھی کسی فائل پر کام کر رہی تھی۔

”نہیں نہیں کوئی پریشانی نہیں ہے، آپ نے پہلے دن سے ہی اتنا اچھا گائیڈ کیا تھا کہ کوئی الجھن نہیں رہی۔“ نورالعین نے مسکراتے ہوئے اپنے نزدیک کھڑی اس فیشن ایبل سی لڑکی کو جواب دیا جو مزاج کی کافی اچھی تھی۔

”پہلے دن ہی میں نے تمہیں یہ بھی کہا تھا کہ مجھے یاور کی مینیجر سمجھ کر زیادہ پُرتکلف ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تم مجھے دوستوں کی طرح ہانیہ کہہ سکتی ہو، میں یہاں سب سے بہت فرینڈلی رہتی ہوں۔“ اس نے پھر یاد دلایا۔

”ابھی نئی نئی ہوں نا! کوشش کروں گی کہ آہستہ آہستہ یہاں کے ماحول میں ایڈجسٹ ہوجاؤں!“ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔

نورالعین نے اس وقت سرخ رنگ کا سادہ سا کاٹن کا سوٹ پہن کر اورینج دوپٹہ کندھے پر لٹکایا ہوا تھا۔ بال سلیقے سے بندھے ہوئے تھے اور گلے میں آفس کارڈ جھول رہا تھا۔

”ضرور! اور کوئی بھی بات ہو تو بلاجھجھک مجھ سے کہہ دینا کیونکہ تمہاری ذمہ داری احرار نے یاور پر چھوڑی ہے، اور اس نے مجھ پر، جس میں اگر ذرا بھی کوتاہی ہوئی تو اُدھر احرار یاور کی کلاس لے گا اور اِدھر یاور میرا جینا دوبھر کردے گا، سب کو لگتا ہوگا کہ میں یاور کی کزن ہوں اسی لئے میرے عیش ہوں گے لیکن اصل میں اس کیلئے سب سے ایزی ٹارگیٹ میں ہی ہوتی ہوں، اکثر تو وہ گھر میں ہونے والی نوک جھونک کا بدلہ بھی یہاں آفس کے کاموں میں نکالتا ہے۔“ اپنی باتونی طبیعت سے مجبور ہوکر ہانیہ نان اسٹاپ بولتی بولتی گئی۔

”ڈونٹ وری! میری وجہ سے آپ لوگوں کو کوئی دقت نہیں ہوگی۔“ اس نے اطمینان سے یقین دہانی کرائی۔


*********************************


فرخندہ جائے نماز پر بیٹھیں مغرب کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد اب دعا مانگ رہی تھیں کہ تب ہی کوئی برتن گرنے کی آواز آئی۔

انہوں نے جلدی سے دعا مکمل کی اور کچن کی طرف آئیں جہاں سے وہ آواز آئی تھی۔

کچن میں داخل ہوکر دیکھا تو دوپٹے سے عاری اینا، سارے بالوں کا جوڑھا باندھے، توے پر روٹیاں بناتی ہوئی نظر آئی۔

”یہ کیا کر رہی ہے تو؟“ انہوں نے حیرت سے پوچھا۔

”رات کے کھانے کیلئے روٹیاں بنا رہی ہوں اماں!“ اس نے تیار شدہ روٹی چمٹے سے پکڑ کر ہاٹ پاٹ میں رکھتے ہوئے جواب دیا۔

”یہ آج بنا میرے چیخے چلائے تجھے کچن میں آنے کا خیال کیسے آگیا؟ اور میں دیکھ رہی ہوں کہ جب سے تو یونیورسٹی سے آئی ہے عجیب عجیب حرکتیں کر رہی ہے، یہ چکر کیا ہے؟“ انہوں نے آنکھیں سکیڑ کر سوال اٹھایا۔

”چکر یہ ہے کہ آج میں بہت خوش ہوں اماں، بہت زیادہ!“ اس نے ان کی جانب آکر ان کے دونوں گال کھینچے۔

”ایسا بھی کیا ہوگیا ہے؟“ انہوں نے اس کے ہاتھ ہٹاتے ہوئے جاننا چاہا۔

”کچھ دنوں تک پتا چل جائے گا تمہیں بھی، اور تم بھی میرے خوش ہونے کی وجہ جان کر بہت خوش ہوگی اماں!“ اینا نے کس کر انہیں لاڈ سے اپنی بانہوں میں بھینچ لیا۔ اس کی دلی مراد تو بر آئی تھی بس واجبی سا نخرہ دکھا کر اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ کل وہ بابک کو ہاں کہہ دے گی۔

”آئے ہائے روٹی جل رہی ہے کمبخت!“ انہوں نے اس کی حرکات سے زچ ہوکر دھیان دلایا۔


*********************************


”بشیر!“ احرار اسے پکارتا ہوا ہال میں آیا۔

”جی چھوٹے صاحب؟“ وہ فوری جن کی مانند حاضر ہوگیا۔

”میرے لیپ ٹاپ کا چارجر نہیں مل رہا ہے، کیا تم نے صفائی کرتے ہوئے کہیں رکھا ہے؟“ اس نے بتا کر جاننا چاہا تو وہ بھی دماغ پر زور دینے لگا۔

”ہاں یاد آیا، کچھ دن پہلے صاحب کا چارجر خراب ہوگیا تھا تو انہوں نے ارجنٹ آپ کا چارجر لیا تھا، ان ہی کہ کمرے میں ہوگا، میں ابھی لا دیتا ہوں۔“ اسے یاد آگیا۔

”نہیں میں خود لے لوں گا بھیا کے کمرے سے۔“ اسے منع کرتے ہوئے احرار خود اپنے بھائی کے کمرے کی جانب گیا۔

وہ اس عالیشان بیڈ روم میں داخل ہوا جہاں باقی گھر جیسا ہی سناٹا ہو رہا تھا۔ وہ بغور وہاں کی ہر چیز کو دیکھنے لگا۔

اس کا بھائی تو ابھی تک آسٹریلیاء سے لوٹا نہیں تھا اسی لئے اس کی چیزوں میں بسی اس کی خوشبو سے ہی احرار نے دل بہلانے کی ناکام کوشش کی۔

وہ سائیڈ ٹیبل کی جانب آیا جس پر ایک فوٹو فریم میں ان دونوں بھائیوں کی بچپن کی تصویر رکھی ہوئی تھی۔

اس نے وہ فریم اٹھا کر محبت پاش نظروں سے چند لمحے اسے دیکھا اور پھر اسے واپس رکھ کر اپنی مطلوبہ چیز ڈھونڈنے لگا۔

اس نے سائیڈ ٹیبل کی درازیں چیک کیں تو ایک دراز میں اسے چارجر مل گیا۔ جسے لے کر وہ دراز بند کرنے ہی لگا تھا کہ کسی چیز پر نظر پڑتے ہی رک گیا۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر وہ چیز اٹھائی جو ایک گولی کا پتہ تھا۔ جو آدھے سے زیادہ خالی تھا بس اس میں چند ایک گولیاں ہی باقی رہ گئی تھیں۔

اسے حیرت ہوئی کہ اس کے ہر طرح سے فٹ بھائی کے کمرے میں بھلا دوائی کا کیا کام؟ اور یہ کس مرض کی دوا تھی؟


*****************************************


رات آہستہ آہستہ گہری ہونے لگی تھی۔ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں محو خواب تھے اسی لئے ماحول میں ایک سکوت طاری تھا۔

نورالعین بھی اپنے بستر پر موجود نیند میں تھی۔

تب ہی کچھ ٹوٹنے کی آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔

وہ ناسمجھی سے سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ دوبارہ سے کوئی کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی۔

اس نے فٹافٹ اٹھ کر لائٹ جلائی۔ گھڑی کی جانب دیکھا تو علم ہوا رات کے ساڑھے تین بج رہے تھے۔

اس نے بیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر اوڑھا اور ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر آئی۔

دوبارہ کچن سے کوئی کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی۔

وہ جلدی سے کچن میں پہنچی۔ وہاں کی لائٹ جلائی تو دیکھا کچن کی کھڑکی ٹوٹی ہوئی تھی۔ جو کہ غالباً باہر سے پتھر مار کر توڑی گئی تھی اور کانچ کچن میں بکھرے ہوئے تھے۔

”اٹھ گئی ہو کیا چھمیا؟ اگر اٹھ گئی ہو تو اپنا دیدار تو کرواؤ ذرا!“ کھڑکی کے اس پار سے کوئی مردانہ آواز نہایت ہی چھچھورے لہجے میں سنائی دی۔

ابھی وہ سب سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ ایک اور پتھر اس ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے اندر آیا۔ اور اس پر ایک کاغذ بھی لپٹا ہوا تھا۔

اس نے آگے بڑھ کر وہ پتھر اٹھایا اور اس پر سے کاغذ کھول کر پڑھنے لگی۔

اس کاغذ پر اتنی نازیبا باتیں درج تھیں کہ اس سے پوری تحریر پڑھی بھی نہیں گئی۔ اس نے وہ کاغذ غصے سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔

”ارے کہاں ہو؟ اب آ بھی جاؤ اور کتنا انتظار کرواؤ گی؟ بیس ہزار کم ہیں کیا؟“ دوسری جانب سے پھر آواز آئی۔

اور اس بار ساتھ کچھ خباثت میں غرق قہقے بھی سنائی دیے۔ یعنی وہ ایک سے زائد تھے۔

اس نے کھڑکی سے ہلکا سا جھانک کر دیکھا اور جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔

باہر ان کے محلے کے ایک رشوت خور اور بدمزاج انسپکٹر کا بگڑا ہوا عیاش بیٹا نبیل اپنے دو عیاش دوستوں کے ساتھ موجود تھا۔ اور اسے نہایت ہی گھٹیا و نازیبا پیشکش کر رہا تھا۔

اس وقت وہ کہیں نہیں جا سکتی تھی، کیونکہ باہر وہ لوگ موجود تھے۔ اور اگر وہ باہر نکل بھی جاتی تو کوئی اس کی مدد کو تیار نہ ہوتا۔ سب کی نظروں میں وہ ایک جیل پلٹ، بدچلن اور آوارہ لڑکی تھی۔ اگر وہ کسی سے مدد بھی مانگتی تو لوگ بجائے اس کی مدد کرنے کے الٹا اس پر الزام لگا دیتے کہ ان لڑکوں کو بھی اسی نے بلایا ہوگا۔ اور اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان لڑکوں نے اسے نشانہ بنایا تھا۔

اسے اس وقت اپنی بےبسی پر رونا آرہا تھا۔ وہ کسی کو مدد کیلئے پکار بھی نہیں سکتی تھی۔

”یار لگتا ہے ایسے نہیں مانے گی، کوئی راستہ ڈھونڈو اس کے گھر میں گھسنے کا۔“ نبیل اپنے ساتھیوں سے مخاطب تھا۔

اس کی بات سن کر وہ کانپ گئی۔

اس نے کھڑکی کی جانب دیکھا۔ وہ اتنی بڑی نہیں تھی کہ کوئی اس سے اندر آجائے، لیکن صحن کی دیوار۔۔۔۔۔!

اسے کوئی بھی باآسانی پھلانگ کر گھر میں کود سکتا تھا۔

اس خیال کے آتے ہی وہ برق رفتاری سے لاؤنچ میں آئی۔ اور صحن کی جانب کھلنے والے دروازے کو اندر سے بند کردیا۔ ساتھ ہی مزید تسلی کیلئے لاؤنج میں رکھی چھوٹی سی میز بھی کھینچ کر دروازے سے لگا دی۔

خود جلدی سے بیڈروم میں آکر اس کا دروازہ بھی اچھی طرح بند کرلیا۔ اور دروازے سے ہی ٹیک لگا کر دونوں ہاتھ گھٹنوں کے گرد لپیٹ کر ڈر سہمی وہیں بیٹھ گئی۔

اس کا دل بےبسی کے شدید احساس کے مارے پھٹنے لگا تھا جس کے باعث اس کی چھلک پڑیں کہ کچھ گدھ اسے اکیلا جان کر نوچنے آگئے تھے اور وہ مدد کیلئے کسی کو پکار بھی نہیں سکتی تھی۔

تب ہی اسے محسوس ہوا جیسے وہ لوگ صحن میں کودیں ہیں اور اس کا شک صحیح تھا۔ کچھ ہی دیر میں لاؤنج کا دروازہ بجنے لگا۔

”دروازہ کھولو، نہیں تو ہم توڑ دیں گے۔“ باہر سے دھمکی ملی۔

وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔

دروازہ ہنوز بج رہا تھا جو کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا تھا۔

”کیا کروں؟“ اس نے روتے ہوئے خودکلامی کی۔

تب ہی اس کے ذہن میں جھماکا ہوا۔

وہ بھاگ کر بیڈ کی جانب آئی۔ تکیے کے نیچے سے موبائل نکالا، اور کانپتے ہاتھوں سے جلدی جلدی کوئی نمبر ڈائل کرکے موبائل کان سے لگایا۔ بیل جا رہی تھی۔

”ہیلو!“ دوسری جانب سے نیند میں ڈوبی مردانہ آواز ابھری۔

”ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔۔احرار! میں ہوں نورالعین۔“

”نورالعین! آپ اس وقت؟ سب خریت تو ہے نا؟“ اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے تشویش سے پوچھا۔ اس کی نیند بھک سے اڑ گئی تھی۔

”نہیں کچھ خیریت نہیں ہے، آپ۔۔۔۔۔آپ جلدی سے یہاں آجائیں۔“ رونے کے باعث اس کی آواز لرز رہی تھی۔

”ہاں میں ابھی آیا، پر ہوا کیا ہے؟“ اس نے فکرمندی سے پوچھا۔

”وہ۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔میرے گھر کے باہر کچھ۔۔۔۔“ وہ روتے ہوئے بتا ہی رہی تھی کہ ڈھار کی آواز کے ساتھ لاؤنج کا دروازہ ٹوٹ گیا۔ اور ڈر کے مارے اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر زمین بوس ہوتے ہوئے آف ہوگیا۔

وہ لوگ لاؤنج میں تو داخل ہوگئے تھے اور اب بیڈروم کے دروازے کو پیٹ رہے تھے۔ اور وہ دروازہ اتنا خستہ حال تھا کہ تھوڑی دیر بعد ٹوٹنے والا تھا۔

نورالعین کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے؟

دوسری جانب سے کچھ دیر بری طرح دروازہ بجانے کے بعد بلآخر انہوں نے زور لگا کر دروازے کی کنڈی توڑی اور کمرے میں داخل ہوگئے۔

نورالعین کمرے میں کہیں نظر نہیں آئی جس کے باعث کچھ دیر کیلئے یہ لوگ چونکے

”کہاں ہو سویٹ ہارٹ؟“ نبیل نے خباثت سے پوچھا۔ کیونکہ اسے پتا تھا کہ وہ یہیں کہیں چھپی ہوئی ہے۔

ایک لڑکے نے باتھروم میں چیک کیا اور ایک نے پردے کے پیچھے جبکہ نبیل خود کمرے میں یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوئے ٹہلنے لگا جس کے قدم بیڈ کے نیچے چھپی نورالعین کو صاف نظر آرہے تھے جو دونوں ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے دم سادھے بیٹھی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اگر اس نے سانس بھی لی تو وہ لوگ اسے پکڑلیں گے۔

اچانک کمرے میں خاموشی چھاگئی۔ اسے کچھ تشویش ہوئی۔ لیکن وہ باہر نہیں آئی۔

کمرے میں اب صرف گھڑی کی حرکت کرتی ہوئی سوئیوں کی ٹک ٹک ہی سنائی دے رہی تھی۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ جو طوفان سے قبل والی خاموشی لگ رہی تھی۔

”آئی تا۔۔۔۔۔پکڑ لیا۔“ اچانک نبیل نے بیڈ کی چادر ہٹا کر بیڈ کے نیچے جھانکا۔ اس اچانک حملے پر ڈر کے مارے اس کی چیخ نکل گئی۔

”چلو بہت ہوئی یہ لُکا چھپی، اب باہر آؤ۔“ اس نے حکم دیا۔

”پلیز مجھے چھوڑ دو۔“ اس نے روتے ہوئے التجا کی۔

”چھوڑ دیں گے، چھوڑ دیں گے، پہلے پکڑنے تو دو۔“ وہ اسے بالوں سے پکڑ کر بہت بےدردی سے باہر کی جانب کھینچنے لگا۔

وہ روتے ہوئے خود کو چھڑانے کی کمزور سی کوشش کرتی رہی۔ جبکہ نبیل نے اسے باہر نکال لیا۔

”جب پتا تھا کہ ہم سے نہیں بچ سکو گی، تو پھر بیکار میں اپنا اور ہمارا وقت برباد کیوں کیا؟“ نبیل نے ہنوز اس کے بال جکڑے ہوئے تھے۔

”میں کہتی ہوں چھوڑو مجھے، ورنہ میں شور مچا کر پورا محلہ اکھٹا کرلوں گی۔“ اس نے ایک لاغر سی دھمکی دی۔

”اچھا! کرلینا، پھر ہم بھی کہہ دیں گے کہ تم نے ہی ہمیں یہاں بلایا تھا، اور پھر آگے تم خود سمجھدار ہو کہ لوگ ہمارا یقین کریں گے؟ یا تم جیسے جیل پلٹ، آوارہ لڑکی کا؟“ اس نے طنزیہ لہجے میں آنے والے حالات کی پیشن گوئی کی جو کہ غلط بھی نہ تھی۔

”میری مانو تو ہمارے ساتھ تعاون کرلو، بات یہیں کی یہیں رہ جائے گی، اور چار پیسے بھی دے دیں گے ہم تمہیں اس کے بدلے۔“ اس نے خباثت میں ڈوبی پیشکش کی۔

”چٹاخ!“ اگلے ہی پل نورالعین نے پوری قوت سے ایک زوردار تھپڑ اسے رسید کرچکی تھی۔

”تیری ہمت کیسے ہوئی ذلیل انسان میرے بارے میں ایسا سوچنے کی؟“ وہ رونا دھونا بھول کر غصے سے پھنکاری۔

اور ساتھ ہی ساتھ نبیل کے غصے کو بھی ہوا دے گئی۔

اس نے بھی پوری قوت سے ایک زناٹے دار تھپڑ نورالعین کو مارا۔ جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ بری طرح لڑکھڑا کر گری۔ جس کی وجہ سے اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا۔

نبیل نے پھر اسے بالوں سے پکڑ کر بےدردی سے اٹھایا۔ اور بیڈ پر پٹخا۔

”ہاتھ پکڑو اس گالی کے۔“ اس نے اپنے دونوں دوستوں کو حکم دیا۔

دونوں نے حکم بجا لاتے ہوئے فوراً اس کے ہاتھ پکڑ لیے۔ جبکہ نبیل نے ایک جھٹکے سے اس کے سینے پر موجود دوپٹہ جدا کر کے زمین پر پھینک دیا۔

وہ ہنوز روتے ہوئے دہائیاں دے رہی تھی جو رائیگاں تھی۔ اس کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ یا تو کوئی مسیحا اس کی مدد کو پہنچے یا اسی پل اسے موت آجائے۔

وہ جیسے ہی اس پر جھکا اس نے بلکتے ہوئے کس کر آنکھیں بند کرلیں جو بری طرح ان دونوں لڑکوں کی گرفت میں جکڑی ہوئی تھی۔

نبیل اس کے چہرے پر جھکا ہی تھا کہ یکدم کسی نے اسے گریبان سے پکڑ کر واپس پیچھے کھینچا اور ایک زوردار مکا مارا۔

اس اچانک حملے پر سب ہی سٹپٹا گئے۔

جبکہ احرار کو دیکھ کر نورالعین کی جان میں جان آئی جس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور چہرے پر چٹانوں کی سی سختی تھی۔ اپنے گھر سے نورالعین کے گھر تک کا فاصلہ کس برق رفتاری سے اس نے طے کیا تھا؟ یہ وہ ہی جانتا تھا۔

احرار اور نبیل کے بیچ اب باقاعدہ طور پر ہاتھا پائی شروع ہوگئی تھی۔

نبیل کا دفاع کرنے کیلئے اس کے باقی دو ساتھی بھی نورالعین کو چھوڑ کر احرار پر جھپٹ پڑے۔ نورالعین جلدی سے بیڈ پر سے اٹھ گئی۔

وہ تین تھے اور احرار ایک! اسی لئے ان کا پلڑا بھاری تھا۔ لیکن پھر بھی احرار غصے سے اتنا پاگل ہو رہا تھا کہ آج ان کی جان لے کر چھوڑے گا۔

چند لمحوں میں ہی کمرے کا حشر نشر بگڑ گیا۔ جبکہ نورالعین ایک کونے میں دیوار سے لگ کر ڈر سہمی کھڑی تھی۔

تب ہی اسے خیال آیا کہ اسے بھی احرار کی مدد کرنی چاہئے، مگر کیسے؟

اس خیال کے آتے ہی وہ کمرے میں نظریں دوڑانے لگی کہ شاید کوئی ایسی چیز مل جائے جسے بطور ہتھیار استعمال کیا جاسکے پر ایسا کچھ نہیں ملا۔

یکدم کسی خیال کی آمد پر وہ جلدی سے کچن میں آئی اور بےدھیانی میں اس نے کچن میں بکھرے کھڑکی کانچ پر پیر رکھ دیا جو سیدھا اس کے پیر میں پیوست ہوا۔ درد ایک شدید لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔

اس نے اپنا درد نظر انداز کرتے ہوئے پسی ہوئی لال مرچ کا ڈبہ اٹھایا اور وہ لے کر جلدی سے کمرے کی جانب آئی۔

وہاں ہنوز ہاتھا پائی جاری تھی۔ اور احرار کافی زخمی بھی ہوگیا تھا لیکن وہ انہیں بخشنے والا نہیں تھا۔

نورالعین نے فٹافٹ ڈبہ کھولا۔

”احرار! آنکھیں بند کریں۔“ اس نے چیخ کر کہا۔

اس کے کہنے پر بنا ایک لمحہ بھی برباد کیے احرار نے آنکھیں بند کرلیں۔ جبکہ باقی تینوں ہاتھا پائی روک کر ناسمجھی سے یہ سوچنے لگے کہ اس نے ایسا کیوں کہا؟

تب ہی اس نے مرچیں تینوں کی جانب اچھال دیں۔ جو سیدھی تینوں کی آنکھوں میں گئیں، اور وہ اپنی آنکھیں پکڑے چلانے لگے۔

احرار آنکھیں کھولتے ہوئے جلدی سے اس کی جانب آیا۔ اور زمین پر پڑا اس کا دوپٹہ اٹھا کر اس کے سینے پر پھیلایا جو وہ خود بھی احرار کی فکر میں فراموش کر گئی تھی۔

”آپ ٹھیک ہیں نا؟“ احرار نے فکرمندی سے تائید چاہی۔ حلانکہ خود اس کے ناک اور ہونٹ سے بھی خون رس رہا تھا۔

نورالعین نے روئے ہوئے چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔

باہر سے پولیس موبائل کا سائرن سنائی دیا۔ جسے سن کر تینوں جلتی آنکھوں سمیت بھاگنے کی کوشش کرنے لگے۔ مگر احرار نے تینوں کی کوشش ناکام بنا دی۔

تب ہی کچھ سپاہی اندر داخل ہوئے اور اس کے حکم پر انہیں ہتھکڑی پہنانے لگے۔

”تو اچھا نہیں کر رہا ہے، میرا باپ انسپکٹر ہے، دیکھ لوں گا میں تجھے۔“ نبیل نے ہنوز بند، جلتی آنکھوں سمیت غصے میں دھمکی دی۔

جس کا احرار نے ایک زور دار تھپڑ سے جواب دیا۔

سپاہی تینوں کو باہر لے گئے اور گاڑی میں بٹھانے لگے۔ احرار بھی ان کے ساتھ ہی باہر آگیا۔

نورالعین کے گھر میں ہوتا شور، اور پولیس موبائل کا سائرن سن کر کافی لوگ گھروں سے باہر آگئے تھے۔ اور آپس میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔

”بہن میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ یہ لڑکی ٹھیک نہیں ہے، دیکھو دوسری بار پولیس آئی ہے اس کے گھر، اور تین لڑکے بھی رات کے اس پہر پتا نہیں کیا کر رہے تھے اس کے گھر؟ توبہ توبہ!“ احرار کے عقب والے گھر میں کھڑی ایک عورت نے دروازے پر کھڑی اپنی پڑوسن سے کہا۔ جسے سن کر اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

”اور نہیں تو کیا، ان ہی حرکتوں کی وجہ سے تو اس کی ماں کو بھی صدمہ ہوا تھا، اور اچھا ہی ہوا وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی، ورنہ اپنی آوارہ بیٹی کی کرتوت۔۔۔۔۔۔۔“

”بس خاموش!“ احرار ان کی بات کاٹ کر غصے سے دھاڑا تو سب چونک کر اسے دیکھنے لگے۔

”خبردار! اگر اب کسی نے نورالعین کے خلاف ایک اور لفظ اپنے منہ سے نکالا تو زبان کھینچ لوں گا میں اس کی۔“ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔

”وہ کوئی بدچلن آوارہ لڑکی نہیں، وہ باکردار اور بےقصور ہے، سمجھے تم لوگ!“ اس نے غصے سے انگلی اٹھا کر سب کو باور کرایا۔ جسے سب نے ایسے سنا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو!

پولیس موبائل جاچکی تھی اور باقی سب نے بھی تماشا ختم ہونے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو جانے میں ہی عافیت جانی۔

وہ کچھ دیر ایسے ہی اکیلا وہاں کھڑا رہا پھر واپس اندر داخل ہوا اور بیڈ روم کی جانب آیا۔

نورالعین بیڈ پر دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، سر گھٹنوں میں دیے شاید رو رہی تھی۔ جب کہ کمرے کی حالت بےحد ابتر ہوچکی تھی۔

احرار کی نظر اس کے پاؤں پر پڑی تو اسے حیرت ہوئی۔ کیونکہ کانچ چبھنے کی وجہ سے اس کے دائیں پیر سے خون نکل رہا تھا جو پھولوں والی ہلکی نیلی چادر پر بھی لگ گیا تھا۔

وہ آہستہ سے چل کر اس کی جانب آیا۔

”آپ پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہے، شکر ہے کہ میں وقت پر آگیا تھا۔“ اس نے تسلی دینا چاہی۔

”آج تو قسمت سے آپ وقت پر آگئے، پر ضروری تو نہیں ہے کہ ہمیشہ ہی ایسا ہو؟“ اس نے کاٹ دار انداز میں سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔ رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں اور ناک سرخ ہو رہی تھیں۔ جبکہ نچلے ہونٹ سے بھی ہلکا ہلکا خون نکل رہا تھا۔

اسے ایسے دیکھ کر احرار کو بھی دکھ ہوا۔

”دوبارہ ایسی نوبت نہیں آئے گی، میں ان لوگوں کا وہ حشر کروں گا جسے دیکھ کر کوئی آپ کو تنگ کرنا تو دور نظر اٹھا کر دیکھنے سے بھی ڈرے گا۔“ اس کے انداز میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔

”یہ آپ کا کام نہیں ہے، آپ پلیز وہ کریں جو آپ کا کام ہے، مجھے جلد از جلد انصاف دلائیں، ایک عورت کیلئے اس ظالم معاشرے میں اکیلے رہنا بہت مشکل ہوتا ہے، ہر کوئی اسے بکاؤ مال سمجھتا ہے، اور میں تو پھر ایک بدنام، جیل پلٹ لڑکی ہوں، آج بھی بنا کسی غلطی کے حق پر ہوتے ہوئے بھی، اپنی مدد کیلئے چاہ کر بھی میں کسی کو نہیں پکار پائی، پتا ہے کیوں؟“ وہ کہتے ہوئے رکی۔

”کیونکہ لوگ مجھے ہی شک کی نگاہ سے دیکھتے، کہ رات کے اس پہر تین غیر مرد میرے گھر میں کیا کر رہے تھے؟ اور یہ ہی سب جانتے بوجھتے، اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ لوگ میرے گھر میں گھسے تھے، کیونکہ انہیں پتا تھا کہ کوئی میرا یقین نہیں کرے گا۔“ اس نے تلخی سے حقیقت بتائی۔

”میں آپ کے کیس پر کام کر رہا ہوں۔“ اس نے دھیرے سے جیسے اطلاع دی۔

”آپ کب سے بس یہ ہی بول رہے ہیں، پریکٹیکلی اب تک ایسا کچھ نہیں کیا ہے آپ نے جس سے مجھے لگے کہ آپ میرے کیس پر کام کر رہے ہیں، ایک دن یہ لوگ ایسے ہی مجھے نوچ کھائیں گے اور آپ کیس پر بس کام ہی کرتے رہ جائیں گے۔“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی بلند آواز سے بولتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

اس بات کو فراموش کرتے ہوئے کہ اس کے پیر میں کانچ چبھا ہے جس پر دباؤ پڑتے ہی درد کی ایک شدید لہر اٹھی اور وہ لڑکھڑا گئی۔

احرار اس کے سارے غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے جلدی سے اسے تھامنے کو آگے بڑھا مگر نورالعین نے اسے ہاتھ اٹھا کر روک دیا۔

”بار بار سہارا دے کر میری عادتیں خراب مت کریں۔“ اس کی سرد مہری بھانپ کر وہ اپنی جگہ پر رک گیا۔

”اگر کچھ کرنا ہی ہے تو میرے اوپر سے یہ مجرم کا ٹھپہ ہٹا دیں، اور اگر نہیں ہٹا سکتے تو بھی بتا دیں تا کہ میں آسرا چھوڑ دوں۔“ نورالعین آج ناچاہتے ہوئے بھی آپے سے باہر ہو رہی تھی۔

جواباً اس نے کوئی صفائی نہیں دی، نہ اپنی برتری کا فائدہ اٹھا کر اسے چیخ چلا کر خاموش کروایا۔ بس خاموشی سے نظریں جھکائے کھڑا رہا۔

ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجرم ہے اور نورالعین جج!

یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ وہ ہی احرار ہے جس نے کچھ دیر قبل انتہائی غصے کے عالم میں تین لڑکوں کو پیٹا تھا اور اب ایک نازک سی لڑکی کے آگے چپ چاپ کھڑا تھا۔

نورالعین بھی سارا غصہ نکال لینے کے بعد اب بغور اسے دیکھے گئی۔

اس نے جینز کے ساتھ ٹی شرٹ پہن رکھی تھی۔ اس کے بھی ماتھے، ناک اور ہونٹ سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔ جبکہ دائیں گال پر نیل بھی پڑا گیا تھا۔ اور یقیناً اسے جسم پر بھی کافی چوٹیں آئی تھیں۔

”اب آپ جا سکتے ہیں، اور دوبارہ تب ہی آئیے گا جب کیس میں کوئی واضح پیش رفت ہو!“ نورالعین نے نظریں چراتے ہوئے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔

وہ بنا کچھ کہے چپ چاپ وہاں سے چلا گیا۔ جب کہ وہ خود تھکن زدہ انداز میں پلنگ پر بیٹھ گئی جس کے پیر پلنگ سے نیچے لٹک رہے تھے۔

اصولاً اس وقت اسے احرار کا شکر گزار ہونا چاہئے تھا کہ اس نے بر وقت پہنچ کر اس کی عزت بچائی تھی۔ مگر شدید ذہنی دباؤ میں ہونے کے باعث اس نے سارا غبار احرار پر ہی نکال دیا۔

اسے اندازہ تھا کہ جس ٹون میں اس نے احرار سے بات کی وہ ٹھیک نہیں تھی، جواباً وہ بھی اس پر چلا سکتا تھا، اس کے کیس سے ہاتھ اٹھا سکتا تھا، مگر اس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ لیکن وہ خود بھی اس وقت اپنے بس میں نہیں تھی۔

وہ سر جھکائے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ تب ہی اسے محسوس ہوا کوئی آیا ہے۔

اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے سر اٹھایا تو احرار کو اپنی طرف آتا پایا جس کے ہاتھ میں فرسٹ ایڈ باکس تھا۔

”میں نے کہا تھا نا کہ آپ یہاں سے جائیں۔“ وہ حیران ہوئی۔

”چلا جاؤں گا، پہلے آپ کی بینڈج کردوں۔“ وہ نزدیک رکا۔ اس کی حیرت مزید بڑھ گئی۔

”میں خود کرلوں گی۔“ انداز بات ختم کرنے والا تھا۔

”کیجئے۔“ اس نے باکس بیڈ پر رکھا۔

”آپ جائیں، میں کرلوں گی۔“ وہ بمشکل کوئی سخت الفاظ کہنے سے ضبط کر رہی تھی۔

”پہلے آپ کرلیں، پھر میں چلا جاؤں گا۔“ وہ بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔

”آپ ہوتے کون ہیں مجھ پر حکم چلانے والے؟“ نورالعین کو اس کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔

”میں کون ہوں؟ اگر یہ بتا دیا تو شاید آپ یقین نہ کریں!“ وہ بےساختہ کہہ گیا۔ اس کے انداز میں کوئی راز پوشیدہ تھا۔

”کیا مطلب؟“ وہ الجھی۔

”یہ مطلبی باتیں فی الحال اہم نہیں ہیں، اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں یہاں سے چلا جاؤں تو مجھے اپنی بینڈج کرکے یقین دلا دیں کہ ہاں آپ کرسکتی ہیں، میں چلا جاؤں گا اور آپ کو مزید مجھے برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔“ وہ بات بدلتے ہوئے دوبارہ اپنی فرمائش بیچ میں لے آیا۔

نورالعین نے کچھ دیر متعجب نظروں سے اس سمجھ سے باہر شخص کو دیکھا پھر اپنا زخمی پیر بیڈ پر رکھ کر فرسٹ ایڈ باکس کی جانب متوجہ ہوئی کہ یہ ہی ایک طریقہ تھا اسے چلتا کرنے کا۔

اس نے باکس کھولا اور اس میں سے چیزیں ٹٹول کر دیکھنے لگی کہ پہلے کیا استعمال کیا جائے؟

”میرے خیال سے آپ کو پہلے پیر میں چبھا کانچ کا ٹکڑا نکالنا چاہیے!“ دونوں بازو سینے پر باندھے کھڑے احرار نے مشورہ دیا جو بغور اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

نورالعین نے ایک نظر اٹھا کر اسے دیکھا جیسے کہہ رہی ہو کہ مجھے پتا ہے۔

پھر پیر میں چبھا ننھا سا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔

لیکن پیر چھوتے ہی درد کی تیز لہر اٹھی۔

اس نے كراه کر ہاتھ ہاتھ پیچھے کھینچتے ہوئے آنکھیں میچھ لیں گویا درد برداشت کرنے کی قوت اکھٹا کرنے لگی ہو۔

تب ہی اسے اپنے نازک پیر پر مضبوط ہاتھ کا لمس محسوس ہوا۔

اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا احرار پلنگ پر بیٹھ کر اس کے پیر کا معائنہ کر رہا تھا۔

”میں کر۔۔۔۔“

”ششہہہہ!“ وہ پھر ٹوکنے لگی تھی کہ احرار نے یکدم شہادت کی انگلی اپنے لبوں پر رکھتے ہوئے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔

نہ جانے اس کے انداز میں ایسا کیا طلسم تھا کہ پھر وہ مزید کوئی حجت نہ کرتے ہوئے اپنی جگہ ساکت ہوگئی۔

”تھوڑا سا درد ہوگا، مگر مستقل درد سے نجات مل جائے گی۔“ اس نے باکس سے ٹیوزر اٹھاتے ہوئے اسے ذہنی طور پر تیار کیا۔ خلاف توقع وہ کوئی بھی ضد بحث کرنے کے بجائے چپ چاپ اسے دیکھے گئی جو اس ملگجے حلیے میں بھی وجیہہ معلوم ہوتا تھا یا پھر اسے لگ رہا تھا!

اس نے نورالعین کے تلوے پر انگوٹھے سے تھوڑا دباؤ ڈالا تا کہ وہ ننھا سا کانچ مزید باہر آئے۔

درد کے مارے نورالعین نے کس کر پلنگ کی چادر دبوچ لی۔

احرار نے ٹیوزر کی مدد سے کانچ کھینچ کر باہر نکالا تو درد کے ساتھ ہی اسے تھوڑے سکون کا بھی احساس ہوا۔

لیکن اگلے ہی پل جب اس نے زخم سے جراثیم صاف کرنے کیلئے ڈیٹول والی روئی پیر پر لگائی تو جلن کے مارے وہ پھر كراه اٹھی۔

”بس بس ہوگیا۔“ احرار نے اسے تسلی دیتے ہوئے جلدی سے زخم صاف کیا اور پھر وہاں تھوڑی سی صاف روئی رکھ کر پیر پر سفید بینڈج باندھنے لگا۔

تھوڑی حالت بہتر ہونے پر نورالعین پھر اسے دیکھنے لگی جس کے اپنے ہونٹ اور ناک سے نکلا خون چہرے پر خشک ہوگیا تھا مگر وہ خود کو سرے سے فراموش کیے اس وقت پوری طرح اس کی فکر میں گم تھا جس سے نہ اس کا کوئی رشتہ تھا اور نہ ہی وہ اس کی ذمہ داری تھی، لیکن وہ پھر بھی ہمیشہ اس کیلئے حاضر رہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔نہ جانے کیوں؟

”لیجئے، ہوگی آپ کی بینڈج!“ احرار نے سر اٹھا کر اسے اطلاع دی تو وہ جو یک ٹک اسے دیکھ رہی ہے تھی فوراً نظریں چرا گئی۔ احرار نے بھی یہ محسوس کیا۔

”اب میں چلتا ہوں، آپ مین گیٹ اندر سے بند کرلیں۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اور جانے کیلئے قدم بڑھائے۔

”سنیں!“ نورالعین کی پکار پر وہ رک کر سوالیہ انداز میں پلٹا۔

”دروازہ تو اندر سے بند تھا تو پھر آپ اندر کیسے آئے؟“ اس نے یکدم خیال آنے پر پوچھا۔

”جس راستے سے وہ لوگ آئے اسی راستے سے آیا، بس نیت کا فرق تھا، انہوں نے آپ پر حملہ کرنے کیلئے آپ کے گھر کی دیوار پھلانگی تھی اور میں نے آپ کو بچانے کیلئے۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور اسے مبہوت چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔

ایسا لگا قدرت نے اسے بچانے کیلئے کوئی مسیحا بھیجا تھا جو پلک جھپکتے ہی آیا اور چلا گیا۔ وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئی۔


ہاں وہ ہی وقت کا مسیحا تھا

جس کا دشمن زمانہ سارا تھا


اس کے دکھ کی تم کو خبر نہ تھی

وہ جو ہر لمحہ مسکراتا تھا


مبشر سہیل ضیاء


**********

نئے دن کا سورج نکل تو آیا تھا لیکن پانی سے بھرے کچھ شریر سرمئی بادلوں نے اس کی کرنیں زمین تک پہنچنے نہیں دیں۔ وہ ناصرف اس کے سامنے آگئے بلکہ زور و شور سے زمین پر برسنے لگے۔

”اینا! جلدی چھت پر بھاگ، کپڑے اتار کر لا!“ بادلوں کی گرج کے ساتھ بارش کی آواز سنتے ہی فرخنده حواس باختہ سی اینا کے کمرے میں آئیں جو شیشے کے سامنے کھڑی بڑی دلجمی سے یونیورسٹی جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی مگر بن موسم کی برسات نے اس کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا۔

”اب کیا فائدہ اماں! اب تک تو کپڑے گیلے ہوچکے ہوں گے۔“ وہ منہ پھلا کر بیڈ پر بیٹھ گئی کہ آج اسے بابک کو اپنا جواب بتانا تھا مگر یہ موسم آڑے آگیا تھا۔

”جب بادل چھائے تھے تب ہی جا کر تجھے اٹھانے چاہیے تھے نا کپڑے!“ انہوں نے اس کے سر پر چپت لگائی۔

”اماں ابھی ویسے ہی میرا موڈ خراب ہے، تم مزید لعن طعن نہ کرو۔“ اس نے تنک کر جھنجھلاہٹ ان پر نکالی۔

”تیرے مزاج ملتے ہی کب ہیں۔“ وہ اسے ایک مزید چپت رسید کرکے بڑبڑاتی ہوئیں کمرے سے باہر نکل گئیں۔

اینا کچھ دیر یوں ہی منہ بسورے بیٹھی رہی۔ پھر پیر نیچے لٹکائے ہی بیڈ پر لیٹ گئی۔

اس نے ہلکے نیلے رنگ میں لینن کی فراک پاجامے کے ساتھ پہنی ہوئی تھی جس کا گہرا نیلا دوپٹہ بیڈ پر پڑا تھا۔

بائیں کلائی میں سلور کی چوڑیاں پہنے، کانوں میں سلور کے چھوٹے چھوٹے جھمکے آویزاں کرکے وہ اپنے کمر تک آتے سیاہ بال بنانے لگی تھی جب بادل اس کے ارمانوں پر برس گئے۔ اسی لئے وہ بال یوں ہی کھلے چھوڑ کر بےزاری سے بیڈ پر لیٹ گئی۔

نہ جانے کتنی دیر وہ ایسے ہی لیٹی رہتی اگر بیڈ پر رکھا اس کا موبائل گنگنا کر اس کی توجہ نہ کھینچتا۔

اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔اسکرین پر بابک کا نام نظر آیا۔

”ہیلو!“ اس نے بجھے دل سے کال ریسیو کی۔

”تم یونیورسٹی نہیں آئی اینا؟“ اس نے پہلی فرصت میں یہ ہی سوال کیا۔

”اتنی تیز بارش میں بھلا یونیورسٹی کیسے آسکتی ہوں!“ انداز ویسا ہی اداس تھا۔

”اچھا اس روڈ تک تو آسکتی ہو نا جہاں میں تمہیں ڈراپ کرتا ہوں!“ بابک کی اگلی بات پر اس کی آنکھیں پھیلیں اور وہ یکدم کرنٹ کھا کر اٹھ بیٹھی۔

”کیا مطلب۔۔۔تم میرے گھر کے پاس ہو؟“ وہ حیران ہوئی۔

”ہاں، تمہارا جواب جاننے آیا ہوں۔“ اس کی تصدیق سے اینا کو لگا یکدم فضا میں ہر طرف جھنکار سی بج اٹھی ہے۔

اس نے موبائل بیڈ پر پھینکا اور اپنا دوپٹہ کندھے پر لیتے ہوئے اسٹور روم کی جانب بھاگی۔

”کیا کر رہی ہے اسٹور میں؟“ کچھ گرنے کی آواز سن کر فرخنده نے کچن سے پوچھا۔

”چھتری نکال رہی تھی اماں، میری ایک دوست اسٹاپ پر کھڑی ہے، بس بھاگ کر اسے نوٹس دے کر آتی ہوں۔“ مطلوبہ چیز مل جانے پر وہ بلند آواز سے جواب دیتی باہر کی جانب بھاگ گئی۔

”اینا! بارش بہت تیز ہے، رک جا!“ انہوں نے وہیں سے با آواز بلند اسے روکنا چاہا مگر وہ ان کی سنتی ہی کب تھی؟

کالی چھتری سر پر لیے اینا تقریباً بھاگتی ہوئی اس روڈ پر آئی تھی جہاں بابک اسے ڈراپ کرتا تھا۔ یوں تو یہ روڈ ہمیشہ ہی سنسان رہتا تھا اور ابھی صبح سویرے کی بارش نے مزید کسی کو یہاں بھٹکنے سے روک لیا۔

وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں پہنچی تو دیکھا بابک اپنی ریڈ سپورٹس کار سے ٹیک لگائے کھڑا اسی کا منتظر تھا جو سرتاپا بری طرح بھیگ چکا تھا۔

”تم اتنی تیز بارش میں یہاں کیوں آگئے پاگل!“ وہ اس کے پاس رک کر بےیقینی سے بولی۔

”کیونکہ تم نے کہا تھا کہ تم آج اپنا جواب بتاؤ گی، آج بارش ہوگئی، ہم ملے نہیں، سوچا کہیں کل تم اپنا جواب نہ بدل دو اسی لئے آگیا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا جس کے وجیہہ چہرے پر مسلسل بارش کی بوندیں پھسل رہی تھیں۔

اینا کو اپنی قسمت پر یقین نہیں آیا کہ یہ شاندار شخص اس موسم میں محض اس کی ایک ہاں سننے آیا تھا!

”تو بتاؤ، مجھ سے شادی کرو گی؟“ بابک نے اپنی جیکٹ کی جیب سے ایک ڈائمنڈ رِنگ نکال کر اس کے سامنے کرتے ہوئے آس بھری گھبیرتا سے پوچھا۔

اینا کو لگا اس کا دل ابھی پسلی توڑ کر باہر آئے گا اور اس کے قدموں میں گر پڑے گا۔

خوشی کی انتہا کے مارے اس نے چھتری چھوڑ کر دونوں ہاتھ منہ پر رکھ لئے۔ اب وہ بھی اس کے ساتھ سرتاپا بھیگ رہی تھی۔

کل تک اسے خدشہ تھا کہ شاید بابک نے اس سے مذاق کیا ہے مگر یہ مذاق نہیں تھا۔۔۔یہ خواب بھی نہیں تھا۔۔۔یہ اس کے خواب کی خوبصورت تعبیر تھی۔

”اینا۔۔۔کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟“ اس نے دوبارہ پوچھا۔

”ہاں۔۔۔۔ہاں۔۔ہاں!“ اس نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اپنا بایاں ہاتھ آگے کیا۔ جس کی تیسری انگلی میں بابک نے وہ انگوٹھی پہنا دی۔

”تھینکس!“ بابک نے مشکور انداز میں اسے دیکھا۔

کوئی جواب دینے کے بجائے وہ خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے اس کے گلے لگ گئی۔ اس نے بھی مسکراتے ہوئے جواباً اس کے گرد بازو لپیٹ لیے۔ جب کہ سرمئی بادل بھی ایک داستانِ محبت مکمل ہونے کی خوشی میں اور زور و شور سے برس کر انہیں بھیگوتے گئے۔


*****************************************


رات جو کچھ بھی ہوا اس کے بعد نیند کا آنا تو ممکن نہیں تھا اسی لئے رات بھر میں نورالعین نے آہستہ آہستہ تقریباً پورا گھر سمیٹ لیا تھا۔ البتہ کچن کی کھڑکی اور دروازوں کی کنڈی ابھی تک ٹوٹی پڑی تھیں۔

اس نے سوچا تھا کہ آفس سے واپسی پر کارپینٹر کو لا کر سب ٹھیک کروا لے گی۔ مگر آفس کی تیاری کے دوران ہی اتنی تیز بارش شروع ہوگئی کہ آفس جانا ناممکن نظر آنے لگا۔

اس نے میرون رنگ کا سادہ سا سوٹ پہن کر سارے بالوں کو سلیقے سے گدی پر کیچر میں قید کیا ہوا تھا۔

ہمرنگ دوپٹہ کندھے پر لئے، سیاہ چادر اور چھتری پاس رکھے، وہ بیڈ پر بیٹھی سوچ رہی تھی کہ بارش تھوڑی ہلکی ہو تو وہ آفس جانے کیلئے گھر سے نکلے مگر بن موسم کی یہ برسات تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

تب ہی بیرونی دروازے پر دستک ہوئی۔

وہ حیران ہوئی کہ اس موسم میں صبح سویرے بھلا کون آگیا؟

اس نے بیڈ پر رکھی سیاہ چھتری کھول کر سر پر کی اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے دروازہ کھولنے آئی۔ زخم کی وجہ سے وہ تھوڑا لنگڑا کر چل رہی تھی۔

بارش سے بھیگا کھلا صحن عبور کرکے اس نے دروازہ کھولا تو دوسری جانب احرار کھڑا ملا۔

اس نے بلیک جینز کے ساتھ براؤن ٹی شرٹ پہن کر اس کے اوپر سیاہ لیدر کی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ کل کی چوٹ کے باعث ماتھے پر بائیں طرف سنی پلاسٹ لگا ہوا تھا جب کہ بارش سے بچنے کیلئے اس نے بھی سر پر سرخ چھتری لے رکھی تھی۔

”السلام علیکم!“ اس نے حسب معمول مہذب انداز میں سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آپ یہاں؟“ نورالعین نے حیرت کو الفاظ دیے۔

”جی آپ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جانے کیلئے آیا ہوں۔“ اس نے آمد کا مقصد بیان کیا۔

”کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ اتنی بڑی چوٹ نہیں ہے، بس ذرا سا کانچ ہی چبھا ہے جو کچھ دنوں تک خود ہی ٹھیک ہوجائے گا، میں بالکل ٹھیک ہوں اور مجھے آفس کیلئے دیر ہو رہی ہے۔“ حسب توقع اس نے روکھائی سے ٹالنا چاہا۔

”کچھ دنوں تک آپ کو آفس جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں یاور سے بات کرلوں گا، آپ کا ڈاکٹر کے پاس جانا اسی لئے ضروری ہے کہ ان کی دوا سے زخم جلدی بھر جائے گا اور آپ ٹھیک سے چل کر کورٹ آسکیں گی کیونکہ ممکن ہے کچھ روز تک آپ کو آپ کے کیس کی وجہ سے کورٹ آنا پڑے، اور۔۔۔۔“ وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے رکا۔

”اور کیا؟“ اس نے جاننا چاہا۔

”اور ہمیں صرف ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا بلکہ آپ مجھے اس شخص کے گھر لے کر چلیں گی جس کا ذکر کیس فائل میں نہیں تھا، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے بات مکمل کی۔

”میں آلریڈی آپ کو اس کا ایڈریس بتا چکی ہوں۔“ اس نے گویا یاد دلایا۔

”جی، اور میں وہاں گیا بھی تھا لیکن وہاں کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس نام کا کوئی شخص یہاں نہیں رہتا جو آپ نے بتایا۔“

”نہیں، اس کا ایڈریس وہ ہی ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے۔“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔

”ٹھیک ہے تو میرے ساتھ چل کر ایک بار ایڈریس کنفرم کردیں، آگے میں ان لوگوں سے خود پوچھ گچھ کرلوں گا۔“ اس نے جیسے حل بتایا۔ وہ پل بھر کو سوچ میں پڑ گئی۔

”میں انتظار کر رہا ہوں، آپ چادر اوڑھ کر آجائیں۔“ اسے خاموش پا کر وہ خود ہی مزید بولا اور وہاں سے چلا گیا۔

وہ کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر کوئی چارہ نہ ہوتے ہوئے بلآخر چادر اوڑھ کر باہر آگئی۔

وہ جیسے ہی باہر آئی تو اس نے دیکھا احرار اپنی کرولا بالکل اس کے گھر کے پاس لے آیا تھا تا کہ زخمی پیر کے ساتھ اسے کم سے کم چلنا پڑے۔

دروازے کو تالا لگا کر وہ چھتری لئے گاڑی کی جانب آئی اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی جس کے بعد گاڑی آگے بڑھ گئی۔


*****************************************


”یااللہ! یہ تو چھتری لے جانے کے باوجود اتنی کیسے بھیگ گئی!“ اینا کے گھر میں داخل ہوتے ہی لاؤنج کے دروازے پر کھڑی فرخنده دنگ رہ گئیں۔ جب کہ بارش اب کم ہوکر بوندا باندی میں بدل گئی تھی۔

مزید حیرت کا جھٹکا انہیں تب لگا جب اینا کے پیچھے اسی کی طرح بھیگا ہوا ایک خوبرو لڑکا بھی اندر صحن میں داخل ہوا۔

”یہ لڑکا کون ہے؟“ وہ کھٹکیں۔

”اماں یہ بابک ہے، میرا یونیورسٹی کا دوست!“ خوشی سے پھولے نہیں سماتی اینا نے تعارف کرایا۔

”السلام علیکم آنٹی!“ بابک نے بھی فوری مہذب انداز میں سلام کیا۔

”اینا! میں نے تجھے منع کیا تھا نا لڑکوں سے دوستی رکھنے سے۔“ ان کی آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑیں اور وہ جلدی سے ان دونوں کی جانب آئیں۔

ان کی بات پر دونوں سٹپٹا گئے۔

”کیا ہوگیا ہے اماں! گھر آئے مہمان سے ایسے بات کرتے ہیں۔“ اس نے بھی فوراً ماں کو ٹوکا کہ کہیں بابک برا نہ مان جائے!

”تجھ سے تو میں بعد میں نمٹتی ہوں، پہلے تم بتاؤ بابٙک کہ تمہیں تمہارے گھر والوں نے نہیں سکھایا لڑکیوں سے دوستی کرکے ان کے گھر نہیں جاتے!“ وہ اینا کو نظر انداز کرتے ہوئے اس پر چڑھ دوڑیں۔

”آنٹی میرا نام بابٙک نہیں بابِک ہے، دوسری والی ب کے نیچے زبر نہیں زیر آتی ہے۔“ اسے اس وقت اپنے نام کی زیادہ فکر ہو رہی تھی جس کی انہوں نے غصے میں ٹانگ توڑ دی تھی۔

”مجھے تمہارے نام کی الف ب جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، تم ابھی کے ابھی چلتے بنو یہاں سے۔“ انہوں نے اسے باہر کی راہ دکھائی۔

”اماں کیا ہوگیا ہے، یہ بیچارہ تم سے ملنے آیا ہے اور تم ہو کہ راشن پانی لے کر اس پر چڑھ گئی ہو!“ اینا نے جھلا کر مداخلت کی۔

”کیوں ملنے آیا ہے یہ مجھ سے؟ میں کوئی وینٹیلیٹر پر آخری سانسیں لیتی مریضہ ہوں جو یہ مجھ سے ملنے آیا ہے!“

”اللہ آپ کو لمبی عمر دے آنٹی، کیسی باتیں کر رہی ہیں!“ بابک نے بھی فوری ٹوکا۔

”اگر چاہتے ہو کہ تمہاری بچی کچی عمر سلامت رہے لڑکے تو نکلو ابھی یہاں سے اور دوبارہ مجھے اینا کے آس پاس نظر بھی نہ آنا۔“ ان کا پارہ ہنوز سوا نیزے پر تھا۔

”اماں!“ اینا نے دانت پیس کر پکارا۔

”رہنے دو اینا، فی الحال آنٹی غصے میں ہیں۔“ بابک نے اس کے کان میں سرگوشی کی تو وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

”کیا کھسر پھسر کر رہے ہو میری بیٹی کے کان میں!“ اب ممکن تھا کہ وہ اسے کچا چبا جائیں گی۔

”کچھ نہیں آنٹی، میں تو بس اسے اللہ حافظ کہہ رہا تھا، اچھا اینا اب میں چلتا ہوں۔“ بابک نے جلدی سے کہہ کر اینا کو آنکھوں سے اشارہ دیا کہ وہ گاڑی میں اس کا انتظار کرے گا جسے وہ بھی سمجھ گئی۔

پھر وہ فوراً وہاں سے کھسک گیا جب کہ اینا بھی ہانپتی ہوئی فرخنده کو لے کر اندر لاؤنج میں آئی اور انہیں صوفے پر بٹھا کر خود کچن میں چلی گئی۔

”اسی وجہ سے میں تیرے آگے پڑھنے کے خلاف تھی کہ گرلز کالج میں تو صرف لڑکیاں ہوتی ہیں مگر یہ یونیورسٹی میں سب لڑکے لڑکیاں مل کر پڑھائی کے نام پر بس گلچھرے اڑاتے پھرتے ہیں۔“ وہ غصے سے پھولتی سانسوں کے درمیان بولے جا رہی تھیں۔

”جب پتا ہے کہ یونیورسٹی میں لڑکا لڑکی ساتھ ہوتے ہیں تو اتنا ہائپر ہونے کی کیا ضرورت تھی!“ اینا نے واپس آکر پانی سے بھرا اسٹیل کا گلاس ان کی جانب بڑھایا۔

”یونیورسٹی میں ہوتے ہیں نا! ان سے دوستی کرکے، انہیں گھر اٹھا کر لانے کی کیا ضرورت ہے!“ انہوں نے ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے اس کے ہاتھ سے گلاس جھپٹا اور پانی پینے لگیں۔

”چاہے یونی ہو یا کال سینٹر، اب ایک جگہ رہتے ہوئے میں سب سے لاتعلق تو نہیں رہ سکتی نا اماں! اور میں کون سا روز روز کسی کو گھر لے آتی ہوں!“ وہ صفائی دیتے ہوئے ان کے برابر میں بیٹھنے لگی۔

”خبردار! یہ گیلے کپڑے لے کر صوفے پر مت بیٹھنا، یہ بدل کر آ پہلے۔“ اس کے ارادے بھانپتے ہوئے انہوں نے فوری ٹوکا۔

”ایک تو تمہاری یہ صفائی پسند طبیعت!“ وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔

فرخنده نے گلاس میں بچا پانی ختم کرکے اسے سامنے موجود لکڑی کی ٹیبل پر رکھا اور اپنا تنفس اعتدال پر لانے لگیں جو غصہ ہونے کے باعث بگڑ گیا تھا۔

تھوڑی ہی دیر بعد اینا دوبارہ کمرے سے باہر آئی جس نے اب سی گرین کلر کا فراک پاجامہ پہن کر کتھئی اسکارف گلے میں لیا ہوا تھا اور کندھے پر بیگ لٹکائے وہ کہیں جانے کیلئے تیار تھی۔

”اب کہاں جا رہی ہے تو؟“ وہ پھر کھٹکیں۔

”یونیورسٹی جا رہی ہوں اماں، بارش رک گئی ہے۔“

”کوئی ضرورت نہیں ہے کہیں جانے کی، سکون سے بیٹھ جا گھر میں۔“ انہوں نے حکم جاری کیا۔

”چلو آج نہیں جاتی، مگر کل تو جانا پڑے گا، کل سامنا ہوجائے گا اس سے جس کی وجہ سے تم مجھے روک رہی ہو!“ اس نے گڑبڑائے بنا کہا۔

”مطلب تو نہیں مانے گی!“ وہ اسے گھورنے لگیں۔

”ماننے والی لاجک بھی تو ہونی چاہئے نا اماں!“ وہ کہتے ہوئے ان کے برابر میں بیٹھ گئی۔

”یونیورسٹی یا آفس میں تمہارے اور میرے جیسے سب عام انسان ہی ہوتے ہیں اماں، جن سے اگر تھوڑی بہت دوستی کر بھی لی تو اس میں کیا برائی ہے!“ وہ انہیں سمجھانے لگی۔

”برائی کی سب سے بری بات یہ ہی ہے کہ وہ بتا کر نہیں آتی، اسی لئے ہم پر احتیاط لازم ہوتی ہے۔“ وہ بھی بےحد سنجیدہ تھیں۔

”فی الحال مجھے دیر ہو رہی ہے اماں، واپس آکر تم سے بحث کروں گی، اللہ حافظ!“ وہ کوفت سے بات سمیٹتے ہوئے اٹھی اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔ جسے وہ دیکھ کر رہ گئیں۔

”یااللہ! میری عقل سے پیدل بیٹی کی حفاظت کرنا۔“ وہ اپنا سر پکڑتے ہوئے بڑبڑائیں۔

اینا باہر آئی تو حسب توقع بابک روڈ کنارے کھڑی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر منتظر سا بیٹھا ملا۔ وہ بھی آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔

”آئی ایم رئیلی سوری بابک اما۔۔۔۔۔“

”اٹس اوکے! تمہیں گلٹی ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ معذرت کرنے لگی تھی کہ بابک بول پڑا۔

”نہیں، اماں کو تم سے ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہئے تھا، اور پھر تھوڑی غلطی میری بھی ہے کہ انہیں پہلے سے کچھ بھی بتائے بنا میں اچانک تمہیں ان سے ملانے لے گئی تو یہ تو ہونا تھا!“ اس نے شرمندہ ہوکر نظریں جھکائیں اور اپنی نیل پالیش کھرچنے لگی۔

”غلطی کسی کی نہیں ہے، ایکچلی ساری مائیں اپنی اولاد کو لے کر ایسے ہی پازیسیسو ہوتی ہیں، ابھی تو تم میری مام سے نہیں ملی ہو، وہ بھی پازیسیسونیس میں تمہاری اپنی کی کاپی ہیں۔“ اس نے سہولت سے اس کا ملال کم کرنا چاہا۔

”چلو، تم کہتے ہو تو ان سے بھی مل کر دیکھ لوں گی کسی دن!“ وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے مسکرائی۔

”اور وہ دن آج ہی کا ہو تو!“ یکدم بابک کو کوئی خیال آیا۔

”کیا مطلب؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”مطلب ان گیلے کپڑوں میں تو میں سارا دن گھوم نہیں سکتا، مجھے چینج کرنا ہوگا، تو میں تمہیں اپنے گھر لے چلتا ہوں، وہاں میں چینج بھی کرلوں گا اور تم مام سے بھی مل لینا، پھر تب تک یونی ٹائم تو نکل چکا ہوگا تو ہم کہیں آؤٹنگ پر چلے چلیں گے، موسم اچھا ہے، اور پھر روٹین کی ٹائمنگ پر میں تمہیں واپس یہاں چھوڑ دوں گا!“ اس نے لمحوں میں پلان ترتیب دیا تو وہ بھی سوچ میں پڑ گئی۔

”آئیڈیا برا نہیں ہے۔“ اینا کی آنکھیں بھی چمک اٹھیں۔


*****************************************


”میں نے چیک اپ کرلیا ہے، گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے، فوری طور پر کانچ نکال کر آپ نے بہت عقل مندی کا کام کیا کیونکہ اگر وہ اندر رہ جاتا تو خطرہ تھا، اب بس معمولی سا زخم ہے جو ان دوائیوں سے جلد ہی بھر جائے گا۔“ سنگل کرسی پر بیٹھی لیڈی ڈاکٹر نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا۔ جب کہ ان کے مقابل والی کرسی پر بیٹھے احرار اور نورالعین کو بھی مزید تسلی ہوئی۔

”ٹھیک، تو ہمیں دوبارہ چیک اپ کیلئے آنے کی ضرورت ہے؟“ احرار نے جاننا چاہا۔

”نہیں، کوئی خاص ضرورت نہیں ہے، آپ بس چند دن یہ دوا اپنی وائف کو کھلائیں زخم بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔“ ڈاکٹر نے کہتے ہوئے نسخہ احرار کی جانب بڑھایا۔

”ڈاکٹر یہ میرے۔۔۔۔۔“

”ٹھیک ہے، بہت شکریہ!“ نورالعین تصحیح کرنے ہی لگی تھی کہ احرار نے مداخلت کرکے نسخہ تھام لیا۔

ڈاکٹر نے بھی دونوں پر کوئی خاص توجہ نہیں دی کیونکہ وہ اگلا پیشنٹ کو روم میں بلانے کیلئے کال دینے لگی تھی۔

دونوں روم سے باہر آکر کاریڈور میں چلنے لگے۔

”آپ نے ڈاکٹر کو بتایا کیوں نہیں کہ آپ میرے ہسبینڈ نہیں ہیں؟“ نورالعین نے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پوچھا۔

”ڈاکٹر نے یہ سوال کب پوچھا؟“ وہ انجان بنا۔

”ڈائریکٹ نہیں پوچھا تھا مگر انہیں غلط فہمی ہوگئی تھی جو آپ کو دور کرنی چاہئے تھی۔“ انداز سادہ تھا۔

”ایسا کرنے سے کیا ہوتا ہے؟“

”کچھ نہیں!“

”ایسا نہ کرنے سے کیا ہوا؟“

”کچھ نہیں!“

”جب دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑا تو پھر وضاحت کی کیا ضرورت!“ احرار نے سادگی سے سوال اٹھایا تو وہ لاجواب ہوکر سامنے دیکھنے لگی۔

”ہاسپٹل کی کینٹین سے کچھ کھا لیں! میں ناشتہ کرکے نہیں آیا، بھوک لگ رہی ہے۔“ احرار نے یکدم رک کر کہا۔

”مجھے بھوک نہیں ہے، آپ کھا لیں میں گاڑی میں آپ کا ویٹ کرلیتی ہوں۔“ حسب توقع انکار آیا۔

”نہیں پھر رہنے دیں، مجھے اکیلے کھانا پسند نہیں ہے۔“ وہ کہہ کر دوبارہ آگے بڑھ گیا مگر وہ وہیں کھڑی اس کی پشت دیکھنے لگی۔

”اچھا چلیں!“ نورالعین کی بات پر احرار کے قدم تھمے اور لبوں پر شریر سے فاتحانہ مسکراہٹ امڈ آئی۔

اس عرصے میں وہ یہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ اس سے اپنی بات کیسے منوانی ہے؟


*****************************************


بابک کی ریڈ سپورٹس کار نے ہارن دیا تو چوکیدار نے فٹافٹ آکر بڑا سا لوہے کا دروازہ کھولا۔ اور کار اندر داخل ہوگئی۔

جس طرح کے علاقے میں اینا پلی بڑھی تھی اس کے آگے یہ گھر کم اور محل زیادہ تھا۔

یہ گھر بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ اکثر خوابوں میں دیکھا کرتی تھی۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ شاندار!

وہ ستائشی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لینے میں مصروف تھی تب ہی کار پورچ میں آکر رکی۔

بابک سیٹ بیلٹ کھول کر باہر نکلا اور اینا کی جانب آکر اس کی سائیڈ کا گیٹ کھولا۔

وہ بھی باہر آگئی، اور بابک کی پیروی میں گھر کے اندر داخل ہوئی۔

اندر سے تو یہ گھر اور بھی زیادہ عالیشان تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دو آنکھوں سے یہاں کی کس کس قیمتی چیز کو دیکھے؟ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ حقیقت میں بھی ایسے گھر ہوتے ہیں؟ اور یہاں لوگ عیش سے رہتے ہیں!

”اہم اہم! میڈم صرف گھر کو ہی دیکھتی رہیں گی، یا گھر والوں سے بھی ملنا پسند کریں گی؟“ بابک نے اسے مبہوت سا دیکھ کر گلا کھنکھارتے ہوئے متوجہ کیا تو وہ یکدم سٹپٹا گئی۔

”ہاں۔۔۔ہاں ضرور!“ اس نے نارمل ہوتے ہوئے جلدی سے کہا۔

بابک اسے لے کر ایک وسیع و عریض راہداری کی جانب بڑھا جہاں اس کے والدین کا کمرہ تھا۔

مگر وہاں پہنچنے سے قبل ہی وہ دونوں اسے اپنی طرف آتے ہوئے مل گئے۔ ان کی تیاری سے لگ رہا تھا وہ لوگ کہیں جا رہے تھے۔ جو اسے ابتر حلیے میں ایک اجنبی لڑکی کے ساتھ دیکھ کر چونکے۔

”بابک! یہ کیا حالت ہو رہی ہے تمہاری؟“ جبار صاحب بیگم کے ہمراہ اس کے نزدیک رکے۔

”وہ ڈیڈ اچانک بارش ہوگئی تھی نا تو اسی میں بھیگ گیا۔“

”اور یہ لڑکی کون ہے؟“ اب وہ اینا کی جانب متوجہ ہوئے۔ ان کی بارعب آواز اور سپاٹ نظروں سے وہ بےساختہ سہم گئی۔

”ڈیڈ یہ میری دوست ہے این۔۔۔۔۔“

”دوستیاں کرنے سے منع نہیں ہے، مگر انہیں گھر تک نہ لایا کرو، آئی سمجھ!“ وہ بابک کی بات کاٹ کر بول پڑے۔

”اور تم بھی سن لو لڑکی، مجھے میرا اکلوتا بیٹا بہت عزیز ہے۔“ ساتھ ہی نہ جانے کیوں وہ اینا کو بھی باور کروا گئے۔

”جی انکل!“ وہ سر جھکائے بس اتنا ہی کہہ پائی۔

پھر مزید کوئی بات کیے بنا وہ وہاں سے چلے گئے جہاں بس اب یہ تینوں ہی رہ گئے تھے۔

”آپ لوگ کہیں جا رہے ہیں مام؟“ وہ ماں کی جانب متوجہ ہوا۔

”ہاں، تمہارے ڈیڈ کے ایک دوست کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، ان ہی کی عیادت کیلئے جا رہے ہیں۔“ انہوں نے سادگی سے جواب دیا اور اینا کو دیکھنے لگی جو کافی نروس ہو رہی تھی۔

”اچھا مام اس سے ملیں، یہ اینا ہے، میری یونیورسٹی کی دوست!“ اس نے ان سے تعارف کرایا۔

”السلام علیکم آنٹی!“ اس نے دھیرے سے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام، جیتی رہو۔“ انہوں نے بھی نرمی سے جواب دیا۔

”اور اینا یہ ہیں میری پیاری مام! جو ڈیڈ کی طرح بالکل غصے والی نہیں ہیں اور ان ہی کے دم سے یہ گھر واقعی گھر ہے۔“ بابک نے اپنی ماں کے گرد لاڈ سے بازو حائل کیا تو اینا مسکرا دی۔

”یہ انٹروڈکشن بعد میں ہوتا رہے گا پہلے تم جلدی سے جا کر یہ گیلے کپڑے چینج کرو، خدانخواستہ بیمار پڑ گئے تو تمہارے ڈیڈ، تمہاری فکر میں پورا گھر سر پر اٹھا لیں گے۔“ انہوں نے پیار سے دھیان دلایا۔

”جی چینج کرنے ہی آیا تھا تو سوچا اسے بھی آپ لوگوں سے ملوا دوں، لیکن ابھی آپ لوگ جا رہے ہیں، خیر! پھر کبھی لے آؤں گا، جب ڈیڈ گھر پر نہیں ہوں گے۔“ اس نے آخری جملا شریر سی رازداری سے کہا تو وہ مسکرادیں۔

”اچھا میں چینج کرکے آیا۔“ وہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ اب اس وسیع راہدار کے وسط میں بس یہ دونوں ہی کھڑی تھیں۔

”تم دونوں کلاس میٹس ہو؟“ انہوں نے سادگی سے پوچھا۔

”نہیں، ہمارا سال الگ ہے، میں سیکنڈ ایئر میں ہوں اور بابک لاسٹ ایئر میں۔“ اس نے وضاحت کی۔

”اتنے فرق کے باوجود اتنی دوستی!“ وہ مسکراتے ہوئے حیران ہوئیں۔

”بابک ہے ہی اتنا اچھا، وہ سب کے ساتھ ہی گھل مل جاتا ہے، باقی لڑکوں کے جیسا مغرور نہیں ہے۔“ وہ بھی مسکرائی۔

”یہ بات تو ہے میرے بیٹے میں۔“ ان کے انداز میں بھی محبت چھلکی۔

”بیٹا ایک بات کہوں؟“

”جی!“

”لڑکیوں کی عزت بہت نازک ہوتی ہے، اور اس کی حفاظت بھی انہیں خود ہی کرنی ہوتی ہے، اسی لئے خیال رکھا کرو اور یوں اجنبیوں کے گھر مت جایا کرو۔“ ان کی بات پر وہ کھٹکی۔

”بابک میرے لئے اجنبی نہیں ہے، وہ میرا دوست ہے، اور آپ اپنے بیٹے کیلئے ایسا بول رہی ہیں کہ میں اس پر یقین نہ کروں!“ وہ کافی حیران ہوئی۔

”نہیں، میں نے یہ نہیں کہا کہ میرا بیٹا برا ہے اس پر یقین نہ کرو، مگر برائی بھی اسی دنیا کا حصہ ہے، جو کب کہاں سے آجائے پتا نہیں؟ اسی لئے ہمیں اپنی طرف سے احتیاط کرنی چاہئے، بابک میرا بیٹا ہے پر تمہارے لئے تو نامحرم ہے نا! اور نامحرم غیر ہی ہوتے ہیں بچے!“ انہوں نے فرخنده والی بات دہرائی تو وہ حیران رہ گئی۔

”سمجھدار لڑکیاں اپنی حدود کا خیال رکھتی ہیں، نہ وہ کسی غیر کیلئے خود اس سے باہر نکلتی ہیں اور نہ کسی غیر کو اس میں آنے دیتی ہیں، سمجھ گئی نا بیٹا!“ انہوں نے نرمی سے تائید چاہی۔ اس نے بےساختہ اثبات میں سر ہلا دیا۔

”شاباش! اپنا خیال رکھنا، میں چلتی ہوں، دیر ہو رہی ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے اس کا گال تھپک کر آگے بڑھ گئیں۔ جب وہ کہ گم صم سی وہیں کھڑی ان کی باتوں کو سوچتی گئی۔

تھوڑی دیر بعد بابک چینج کرکے واپس آیا تو اینا اسے وہیں راہداری میں کھڑی ملی جو کھوئے ہوئے انداز میں وہاں کی دیواروں پر آویزاں قیمتی پینٹنگز دیکھ رہی تھیں۔

”مام چلی گئیں!“ بابک کی آواز پر وہ چونک کر پلٹی۔

”ہاں، انہیں دیر ہو رہی تھی۔“ وہ پوری طرح اس کی جانب گھوم گئی۔

”ڈیڈ کے بی ہیو کیلئے رئیلی سوری اینا!“ وہ تھوڑا شرمندہ ہوا۔

”ارے کوئی بات نہیں، ایک طرح سے حساب برابر ہوگیا۔“ اس نے ہنستے ہوئے ٹالا۔

”مام سے کیا بات ہوئی؟“ اس نے یوں ہی پوچھ لیا۔

”کچھ خاص نہیں، وہ ہی باتیں کر رہی تھیں وہ بھی جو میری اماں کرتی ہیں۔۔۔۔تم نے ٹھیک کہا تھا۔۔۔۔۔سب مائیں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔“ اس نے مسکراتے ہوئے سادگی سے جواب دیا۔

”گڈ! تو چلو اب ہم بھی کہیں باہر چلتے ہیں!“ بابک اصل مدعے کی جانب آیا جس کے بعد پھر یہ دونوں بھی گھر سے نکل گئے۔


*****************************************


ہسپتال کی کینٹین میں زیادہ رش نہیں تھا اور جو چند لوگ موجود تھے وہ بھی کچھ نا کچھ کھانے پینے میں مصروف تھے۔

احرار اور نورالعین ایک ایسی ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے جو بڑی سی کھڑکی کے عین سامنے تھی اور کھڑکی سے ہسپتال کا سرسبز لان نظر آتا آنکھوں کو بہت بھلا لگ رہا تھا جس کی ہری گھانس بارش کے باعث مزید نکھر گئی تھی۔ گو کہ اب بارش رک گئی تھی مگر موسم خاصا خوشگوار ہوگیا تھا اور وقفے وقفے سے پر کیف ہوا کے جھونکے بھی انہیں چھونے آرہے تھے۔

دونوں کے سامنے چائے سے بھرے کپ رکھے ہوئے تھے اور درمیان میں موجود پلیٹ میں کچھ ٹی ٹائم کیکس اور بسکٹ تھے کیونکہ یہاں فی الحال بس یہ ہی دستیاب تھا۔

”آئی ایم سوری!“ نورالعین اچانک نظریں جھکا کر بولی۔ احرار نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔

”سوری؟ لیکن کس لئے؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”کل رات آپ میری ایک آواز پر چلے آئے، ان لوگوں سے لڑے اور میں نے الٹا آپ کو ہی اتنی سخت سنا دی!“ وہ کپ کی سطح پر انگلی پھیرتے ہوئے شرمندہ دکھائی دی۔ جس کی جھکی پلکیں احرار کو کافی دلکش لگیں۔

”اٹس اوکے! آپ نے جو بھی کیا وہ ایک نارمل ری ایکٹ تھا، اس کیلئے گلٹی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اس نے کیک کھاتے ہوئے سہولت سے شرمندگی رفع کرنی چاہی۔

”بات اتنی نہیں ہے، صرف کل ہی نہیں، آپ جب سے ملے ہیں تب سے ہی کسی نا کسی صورت میری بہت مدد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے میں آپ کی احسان مند ہونے کے ساتھ ساتھ اکثر حیران بھی ہوجاتی ہوں کہ بھلا آپ میری اتنی مدد کیوں کر رہے ہیں؟“ وہ کب سے ذہن میں کلبلاتی بات زبان پر لے آئی۔

”کیونکہ میں آپ کے کیس کا آئی او ہوں!“ اس نے جیسے یاد دلایا۔ اور کیک کھانے لگا۔

”یہ ہی تو، اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ ایک آئی او کی ذمہ داری صرف کیس ہوتا ہے، نہ کہ مدعی کے ساتھ رہ کر اس کے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنا، اسے جاب دلوانا، ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا اور آدھی رات کو ایک پکار پر چلے آنے کے بعد اپنی جان پر کھیل جانا، یہ سب آپ کی ذمہ داریاں نہیں ہیں تو پھر آپ یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟“ اس نے مزید اضافے کے ساتھ، الجھ کر پھر وہ ہی سوال اٹھایا۔

وہ چند لمحے اسے دیکھے گیا جو جواب کی منتظر تھی۔

”مجھے آپ کا کیس دیا گیا، کیونکہ آپ نے اسے ری اوپن کرنے کی اپیل کی تھی، میں آپ کو ہاسپٹل لے کر گیا اور وہاں سے گھر چھوڑا، کیونکہ آپ خود مرنے کیلئے گاڑی کے آگے آئی تھیں، میں نے آپ کو جاب دلوائی، کیونکہ آپ نے خود مجھے اپنی سی وی دی تھی، میں کل رات آپ کے گھر آیا، کیونکہ آپ نے خود مجھے پکارا تھا، میں ابھی آپ کو ہاسپٹل لے کر آیا، کیونکہ کچھ دنوں تک آپ کو کورٹ میں حاضر ہونا ہے تو آپ کا فٹ ہونا ضروری ہے کہ مدعی ہی نہیں ہوگا تو میں کیا کروں گا؟ اب تک میں آپ کی پکار پر ہی آپ کی مدد کو آیا ہوں، جس میں حیران ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔“ اس نے دونوں بازو ٹیبل پر رکھتے ہوئے کمال مہارت سے بات کا رخ ہی موڑ دیا۔

”میں نے پکارا اور آپ چلے آئے، کیوں؟ آپ منع بھی تو کرسکتے تھے کہ یہ میری ڈیوٹی کا حصہ نہیں ہے۔“ نورالعین سنجیدہ تھی۔

”ڈیوٹی کے علاوہ انسانیت نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، آپ نے پکارا اور میں انسانیت کے ناتے چلا آیا، اب یہاں میرا سوال کرنا بنتا ہے کہ مشکل میں آپ نے مدد کیلئے مجھے ہی کیوں پکارا؟“ اس نے براہ راست آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پراطمینان دلچسپی سے پوچھا۔

”کیونکہ مجھے یقین تھا کہ آپ میری پکار پر آجائیں گے۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے جو سچ تھا وہ بتا دیا۔

اتنی غیرمتوقع صاف گوئی پر بےساختہ احرار کا دل زور سے دھڑکا۔ عین اسی پل ایک ہوا کا جھونکا اسے چھو کر گزرا اور لگا کہ فضا میں ہر طرف جھنکار بج اٹھی ہے۔

”لیکن مجھے بعد میں خیال آیا کہ مجھے کل رات آپ کو اس طرح نہیں بلانا چاہیے تھا، آپ کے اس طرح آنے اور زخمی ہونے سے یقیناً آپ کی وائف پریشان ہوئی ہوں گی!“ نورالعین کی اگلی بات نے یکدم فضا میں بجتی جھنکار کو ساکت کردیا۔

”آپ کو میں شادی شدہ لگتا ہوں؟“ احرار بھونچکا رہ گیا۔

”ظاہر ہے، ہر آدمی کے ہی بیوی بچے ہوتے ہیں۔“ اس نے گول مول جواب دیا۔

”ہاں لیکن ہر آدمی بیوی بچے ساتھ لے کر پیدا نہیں ہوتا، وہ دنیا میں آنے کے بعد یہ رشتے بناتا ہے۔“ اس نے ہلکی سی خفگی کے ساتھ جتایا۔

”میرے خیال سے آپ کو دنیا میں آئے ہوئے کافی وقت ہوگیا ہے، تو اب تک آپ نے یہ رشتے بنا لئے ہوں گے!“ نورالعین نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے چائے کا کپ اٹھا لیا۔

”اور اگر نہیں بنائے ہوں تو؟“ اس نے الٹا سوال کیا۔

”تو وہ آپ کا اور آپ کے گھر والوں کا پرسنل میٹر ہے۔“ وہ کندھے اچکا کر چائے پینے لگی۔

”گھر والے!“ وہ پھیکےپن سے ہنسا جس کے باعث نورالعین بھی اسے دیکھنے لگی۔

”آپ کی فیملی میں کون کون ہے؟“ وہ یوں ہی پوچھ بیٹھی۔

”ایک سال پہلے امی کا انتقال ہوگیا، جن کے بعد بس کہنے کو بڑے بھیا اور ڈیڈ ہیں مگر ان کے پاس میرے لئے ٹائم نہیں ہوتا، ڈیڈ ہمیشہ بزنس میں مصروف رہتے ہیں، اور بھیا بھی اپنی یونیورسٹی اور ڈیڈ کے ساتھ بزنس میں الجھے رہتے ہیں۔“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی ان کے ذکر پر تھوڑا اداس ہوگیا۔

”آپ کے بھیا ابھی تک یونیورسٹی جاتے ہیں!“ وہ تھوڑی متعجب ہوئی۔

”ہاں دراصل پاسٹ میں ان کے ساتھ تھوڑا ہیلتھ ایشو ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی متاثر ہوگئی، تو کافی ٹائم میں ریکور ہونے کے بعد انہوں نے ری جوائن کیا، لاسٹ ایئر ہی ہے ان کا، وہ بھی آن این آف چلتا ہے، بس نام کی پڑھائی ہے ورنہ ڈیڈ نے انہیں اپنے ساتھ بزنس میں بہت الجھا لیا ہے، ابھی بھی دونوں بزنس کے سلسلے میں آسٹریلیاء گئے ہوئے ہیں۔“ اس نے مختصر وضاحت کی۔

”تو آپ اپنے بھیا اور ڈیڈ کے ساتھ بزنس سنبھالنے کے بجائے پولیس میں کیوں آگئے؟“ اس نے ایک اور سوال اٹھایا۔ آج اسے احرار میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی ہو رہی تھی۔

اس کے سوال پر احرار نے ایسے لب بھینچ کر چھوڑے جیسے اسے تکلیف ہوئی ہو!

”میری امی کی خواہش تھی کہ میں ایک ایماندار انوسٹیگیشن آفیسر بنوں، اور پھر۔۔۔۔“ وہ کہتے ہوئے رکا۔

”اور کیا؟“

”اور پھر ڈیڈ بھی مجھے خاص پسند نہیں کرتے، انہیں لگتا ہے کہ میں بھیا جتنا انٹیلیجنٹ نہیں ہوں، دماغ کے بجائے دل سے کام لیتا ہوں اور ایسے لوگ کامیاب نہیں ہوتے، دنیا میں کامیاب ہونے کیلئے درد مندی کی نہیں عقل مندی کی ضرورت ہوتی ہے، اور پھر شاید پہلی اولاد ہونے کی وجہ سے انہیں بھیا سے کچھ زیادہ ہی محبت ہے جب کہ میں اپنی ماں کا لاڈلہ تھا جو اب مجھے چھوڑ کر جا چکی ہیں، اسی لئے خود کو ان کے خواب کی تعبیر میں مصروف کرلیا۔“ اس کا دل دکھ سے بھر گیا تھا اور یہ دکھ اس کے ہر انداز سے صاف چھلک رہا تھا۔

اس کے بارے میں اتنی تفصیل صرف یاور جانتا تھا اور اب نورالعین کے آگے اس نے اپنا دردِ دل کھولا تھا ورنہ وہ خود کو ایک مضبوط آفیسر کے خول میں ہی بند رکھنا پسند کرتا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں اس سے یہ سب کہہ گیا؟

”آپ کے ڈیڈ غلط ہیں، دنیا خودغرض عقل مندوں سے تو بھری پڑی ہے مگر آپ جیسے درد مند اب یہاں بہت نایاب ہیں جو ایک پکار پر مدد کیلئے چلے آتے ہیں، اور ایک دن آئے گا جب انہیں اپنے عقل مند بیٹے کے ساتھ ساتھ درد مند بیٹے پر بھی فخر ہوگا!“ نورالعین سے اپنے مسیحا کی یہ اداسی دیکھی نہیں گئی تو وہ اس کی دلجوئی کرنے لگی۔

احرار کے بوجھل دل پر اس کی تسلی ٹھنڈی پھوار کی مانند گری اور اسے ایک پرسکون احساس سے روبرو کروا گئی۔

اس کی ماں کے بعد نورالعین وہ واحد ہستی تھی جس نے اسے مثبت امید دے کر اس کی ٹوٹتی ہوئی ہمت باندھی تھی۔ ورنہ یہ کام بس اس کی ماں کیا کرتی تھیں جن کے جانے کے بعد وہ امید کے ان جگنوؤں کیلئے ترس گیا تھا۔

”دیکھیں باتوں میں خیال ہی نہیں رہا کہ چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔“ نورالعین نے ماحول کے تناؤ کم کرنے کیلئے موضوع بدل دیا۔


اس شخص سے فقط اتنا سا تعلق ہے

وہ اداس ہو تو دنیا اچھی نہیں لگتی


انتخاب


*****************************************


اینا فرنٹ سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ جہاں بارش کے بعد بھیگی سڑک پر متوازن رفتار سے گاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ آنے اور جانے والے روڈ کے بیچ بنے ڈیوائڈر پر لگے گیلے پیڑ بھی ٹھنڈی ہوا سے جھوم رہے تھے اور دوپہر کے وقت شام کا سا سماں ہو رہا تھا۔

”یہ لو!“ تب ہی بابک واپس آکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا جس کے ہاتھ میں دو آئس کریم کپس تھے۔

”تھینکس!“ اینا نے اپنا کپ تھام لیا۔

”ایسے موسم میں آئس کریم کھانے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔“ وہ کہہ کر آئس کریم کھانے لگا۔

”تم اپنے گھر والوں سے کب بات کرو گے؟“ وہ بھی آئس کریم میں چمچ چلانے لگی۔

”آئس کریم کھانے کی؟“

”ہماری شادی کی یار!“

”اوہ! ہاں جلد ہی کروں گا، آج تمہیں ان سے ملوا دیا، اب کل پرسوں مام کو سب بتاؤں گا، پھر وہ ڈیڈ سے بات کریں گی، تم بھی تب تک اپنی امی کو ذہنی طور پر تیار کرلینا تا کہ جب مام ڈیڈ تمہارے گھر آئے تو کوئی پرابلم نہ ہو!“ اس نے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دیا۔

”تمہارے گھر والے مان جائیں گے میرے لئے؟ اسپیشلی تمہارے ڈیڈ؟ کیونکہ وہ تو اپنے اکلوتے بیٹے کیلئے یقیناً کسی اونچے گھرانے سے بہو لانے کا ارادہ کیے ہوئے ہوں گے!“ وہ تھوڑی متفکر ہوئی۔

”انہیں منانا میرا کام ہے، تم یہ سب سوچ کر پریشان نہ ہو، اگر کچھ سوچنا ہی ہے تو یہ سوچو کہ ہمارا ویڈنگ ڈریس کس کلر کا ہوگا؟ ہم ہنی مون پر کہاں جائیں گے؟ ہمارے بچوں کا نام کیا ہوگا؟ اور فکریں ساری مجھ پر چھوڑ دو، میں سب سنبھال لوں گا۔“ اس نے اطمینان سے اسے تسلی کرائی۔

”پکا تم سب سنبھال لو گے؟“

”پکا وعدہ میری جان!“ بابک نے اس کا نازک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھ میں لیتے ہوئے یقین دہانی کرائی تو اس کے رگ و پے میں ایک سکون سا اتر گیا۔


*****************************************


”بس! یہاں رک جائیں!“ نورالعین کے کہنے پر احرار نے بریک دبایا تو گاڑی آہستہ سے رک گئی۔

”یہ ہی ہے اس کا گھر!“ اس نے سنجیدہ انداز میں ایک گھر کی جانب اشارہ کیا جس کے تعاقب میں احرار بھی دیکھنے لگا اور وہ اس بار زیادہ حیران اسی لئے نہیں ہوا کہ وہ پہلے بھی یہاں آچکا تھا۔ اس بار بس اسے تصدیق کیلئے لایا تھا۔

”پکا یہ ہی گھر ہے؟ میرا مطلب یہ بات دو سال پرانی ہے تو ہوسکتا ہے آپ کو ایڈریس میں کوئی مغالطہ ہوا ہو؟“ احرار نے ممکنہ خیال ظاہر کیا۔

”دو کیا، دو سو سال بھی گزر جاتے تو میں کبھی یہ گھر اور اس کے مکین کو نہیں بھولتی، مجھے کوئی مغالطہ نہیں ہوا۔“ اس نے سنجیدہ و سپاٹ انداز میں ہنوز اس گھر کو دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ اس کا انداز گواہ تھا کہ وہ پورے ہوش و حواس میں سچ کہہ رہی ہے۔

احرار نے بھی چند لمحے یوں ہی اس گھر کو دیکھا۔ پھر واپس جانے کیلئے ریورس گیئر ڈالنے لگا۔

”آپ اندر جائیں اور پتا کریں کہ وہ کہاں ہے؟“ اسے گاڑی ریورس کرتا دیکھ وہ حیران ہوئی۔

”ابھی نہیں، ابھی میں بس ایڈریس کنفرم کرنے آیا تھا، اس کے بارے میں پتا کرنے کیلئے میں اکیلا آؤں گا۔“ اس نے اسٹیئرنگ گھماتے ہوئے جواب دیا۔

”آپ کی حرکتیں اور باتیں کبھی کبھی بالکل سمجھ نہیں آتیں۔“ وہ ناچاہتے ہوئے بھی کہہ گئی۔

”تھینکس!“ اس نے گاڑی فرسٹ گیئر میں ڈالتے ہوئے یک لفظی جواب دیا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔


*****************************************


”اماں! میں آگئی!“ اینا کہتے ہوئے دھپ سے صوفے پر فرخنده کے برابر میں بیٹھی جو رات کے کھانے کیلئے سبزی کاٹ رہی تھیں۔

”چل ہٹ یہاں سے۔“ انہوں نے خفگی سے اسے پرے کیا۔

”ابھی تک ناراض ہو مجھ سے!“ اس نے لاڈ سے ان کے کندھے پر سر رکھا۔

”تجھے کیا فرق پڑتا ہے میری ناراضگی سے! کرتی تو اپنی ہی ہے تو!“ انہوں نے سبزی کاٹتے ہوئے طنز کیا۔

”ٹھیک ہے میں اپنی کرتی ہوں مگر تمہاری ناراضگی سے بھی مجھے فرق پڑتا ہے، اور یہ ناراضگی دور کرنے کا سامان لے کر آئی ہوں میں۔“ اس نے معنی خیزی سے تجسس پھیلایا جس پر انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔

”یہ دیکھو، میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں؟ مُنا انکل کی دکان کی چاٹ!“ اس نے ایک شاپر ان کے سامنے لہرایا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ انہیں بہت پسند ہے مگر فی الحال ناراضگی بھی تو دکھانی تھی۔

”ابھی نکال کر لاتی ہوں پھر دونوں مل کر کھاتے ہیں۔“ وہ ان کا گال کھینچ کر کچن میں چلی گئی جب کہ وہ ہنوز سبزی کاٹتی رہیں۔


*****************************************


احرار نے نورالعین کے گھر کے باہر گاڑی رکی تو وہ حیران سی اتر کر باہر آئی۔ احرار بھی ڈرائیونگ سیٹ سے اتر چکا تھا۔

نورالعین کے گھر پر گرل لگانے کا کام چل رہا تھا۔ یعنی پورے کھلے صحن کو گرل لگا کر محفوظ کیا جا رہا تھا۔

”یہ سب کیا ہو رہا ہے؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔

”گرل لگا کر آپ کا گھر سیف کیا جا رہا ہے، انہیں میں نے ہی بھیجا تھا۔“ احرار نے اطمینان سے جواب دیا۔

”مگر یہ سب کیوں کروا رہے ہیں آپ؟ اور اب کی بار میں نے کچھ نہیں کہا تھا آپ خود یہ سب کر رہے ہیں۔“ نورالعین نے سوال اٹھاتے ہوئے دھیان بھی دلایا۔

”جی آپ نے نہیں کہا، میں خود کر رہا ہوں تا کہ آپ کا گھر محفوظ رہے اور آپ دوبارہ مجھے آدھی رات کو فون کرکے نہ بلائیں۔“ اس نے بڑی مہارت سے احسان کو طنز میں بدل دیا۔

”آپ مجھے صاف کہہ دیتے میں آپ کو نہیں بلاتی، خواہ مخواہ یہ خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی!“ وہ خفا ہوئی۔

”ادھار سمجھ لیں، جب کورٹ آپ کو حرجانہ ادا کرے گا اس میں سے واپس کر دیجئے گا یہ سارا خرچہ، میں آپ کو بل دے دوں گا۔“ اس انسان کے پاس ہر مسلے کا حل تیار رہتا تھا۔

وہ ایک ضبط کرتی نظر اس پر ڈال کر اندر چلی گئی۔

اندر آکے اس نے چادر اتار کر بیڈ پر پھینکی اور ڈریسنگ ٹیبل کی دراز میں خواہ مخواہ کوئی غیر مطلوب چیز ڈھونڈنے لگی۔

احرار بھی تھوڑی دیر بعد اس کے پیچھے کمرے میں آیا اور اسے متوجہ کرنے کیلئے کمرے کے کھلے دروازے پر دستک دی۔ وہ اس کی جانب پلٹی۔

”یہ آپ کی دوا ہے، کھا لیجئے گا، اور فی الحال مزدور کھڑکی دروازوں کی مرمت کرنے آئے ہیں تو آپ یہیں کمرے میں رہیے گا، وہ چلے جائیں گے تو میں آپ کو بتا دوں گا۔“ اس نے سنجیدگی سے بتاتے ہوئے دوا کا شاپر ایک ٹیبل پر رکھا اور اس کی بات سنے بنا کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔

اور وہ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بس اس سمجھ سے بالا تر شخص کو دیکھ کر رہ گئی۔

جب تک نورالعین کے گھر کا کام مکمل نہیں ہوا احرار وہیں رہا اور جب مزدور کام مکمل کرکے گئے تو احرار بھی اسے اطلاع کرکے وہاں سے چلا گیا اور اب وہ یاور کے آفس میں موجود تھا۔

یاور اپنی سنگل کرسی پر بیٹھا بغور اپنے سامنے موجود احرار کو دیکھ رہا تھا جو کرسی پر جھولتے ہوئے کانچ کی میز پر پڑا پیپر ویٹ گھما رہا تھا۔ اور صبح سے اب تک کی ساری روداد اسے سنا چکا تھا۔

”جب تم اتنا سب کر ہی چکے ہو تو ایک کام اور کیوں نہیں کرلیتے؟“ یاور سنجیدہ تھا۔

”کیسا کام؟“

”اس سے شادی کرکے دو چار بچے بھی پیدا کرلو، اچھا ہے اسے تھوڑا بچوں کا بھی سہارا ہوجائے گا، ورنہ ابھی تو گھر میں بیچاری اکیلی ہوتی ہے، بچوں سے گھر میں رونق لگ جائے گی۔“ اس کے سنجیدہ انداز میں واضح طنز تھا۔

”اگر میں نے اس سے مذاق میں بھی شادی کی بات کی نا تو میری ہی گن سے مجھے شوٹ کردے گی وہ!“ اس نے پہلے ہی پیشن گوئی کی۔

”اور اگر سیریسلی بات کرو تو؟“ اس نے کھوجتی ہوئی نظروں سے ٹٹولا۔

”تو اسے لگے گا کہ میں اس پر ترس کھا کر ایسا کر رہا ہوں۔“ اس نے پیپیر ویٹ کو دیکھتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔

”ہاں تو ٹھیک ہی لگے گا، تم خدا ترسی میں اس کی اتنی مدد نہیں کر رہے کیا؟“ اس نے جیسے تائید چاہی۔

”نہیں، اس کا کیس دیکھنا میری ڈیوٹی ہے۔“ اس نے گول مول جواب دیا۔ یاور نے پل بھر کو اسے گھورا۔

”بالکل، یہ سب تمہاری ڈیوٹی ہی تو ہے، ہر وقت سائے کی طرح اس کے آس پاس رہنا، آدھی رات کو ایک پکار پر گھر پہنچ جانا اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرنا، اس کی مرہم پٹی کرنا، پھر اب اسے ہاسپٹل لے کر جانا، اس کی چھٹی کی درخواست میرے پاس لے کر آنا، اور تو اور اس کے کھلے گھر میں گرل لگوا کر اسے سیف کرنا، یہ سب تمہاری ڈیوٹی ہی تو ہے، اور دنیا کے سارے آئی او ایسا ہی تو کرتے ہیں۔“ اس نے طنزیہ انداز میں سب کچھ گنوایا جسے اس نے بھی چپ چاپ سنا۔ کہتا بھی تو کیا کہتا؟ نہ اقرار کرسکتا تھا نہ انکار!

”دیکھ احرار! جو تو کر رہا ہے نہ تو یہ تیری ڈیوٹی ہے اور نہ محض انسانی ہمدردی، اسی لئے تو مجھے ان کے نام کی ٹوپیاں نہ پہنا، جب تو، میں اور تیرا وہ بےوفا بھائی جو ابا کے ساتھ بزی ہوکر ہمیں بھول گیا ہے، ہم تینوں چڈی بنیان میں تین پہیوں کی سائیکل چلاتے تھے، تب سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ہم صرف پڑوسی نہیں جگری دوست تھے تب ہی تو گھر بدلنے کے بعد آج تک رابطہ نہیں توڑا، اور تو اپنے اس دوست سے جھوٹ بول رہا ہے!“ یاور نے اسے ایموشنل بلیک میلنگ کی۔ جو کہ جھوٹ بھی نہ تھی۔

”کسی سے محبت ہوجانا کوئی عجیب بات نہیں ہے، اگر محبت کرنے ہی لگا ہے تو بتا دے اسے اور شادی کرلے، اچھا ہے اسے بھی سہارا مل جائے گا۔“ اسے خاموش پا کر یاور نے مخلصی سے مشورہ دیا۔

”وہ نہیں قبول کرے گی یہ سہارا، ناصرف انکار کرے گی بلکہ مجھے اپنے کیس سے بھی ہٹا دے گی!“ بلآخر وہ بھی بول پڑا۔

”کیوں انکار کرے گی؟ آخر تجھ میں کمی ہی کیا ہے؟“

”وجہ کمی نہیں زیادتی ہے، وہ زیادتی جو ماضی میں اس کے ساتھ ہوئی ہے اور۔۔۔۔اور کہیں نا کہیں میں بھی اس سے جڑا ہوں۔“ بات کے اختتام تک اس کے انداز میں کرب گھل گیا۔

”کیا؟ تو کیسے جڑا ہے؟ تو، تو کیس سے پہلے تک اسے جانتا ہی نہیں تھا!“ وہ متعجب ہوا۔

”فی الحال نہیں بتا سکتا، صحیح وقت آنے پر تجھے بھی پتا چل جائے گا اور اسے بھی، بس تب تک تو اپنی چونچ اس کے سامنے مت کھولنا، ایک بار اس کا کیس سالو ہوجائے پھر میں اس سے خود بات کروں گا، آئی سمجھ!“ احرار نے بات ختم کرتے ہوئے آخر میں انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کی تو وہ اسے گھور کر رہ گیا۔

”ہائے احرار! آج تم یہاں کیسے؟“ تب ہی ہانیہ خوشگوار حیرت سے کہتی روم میں داخل ہوئی۔

”ہائے! نورالعین کی لیو اپلیکیشن دینے آیا تھا۔“ وہ بات بناتے ہوئے نارمل ہوکر کرسی پر سے اٹھا۔

”لیو؟ خیریت؟ اور آج وہ آئی بھی نہیں!“

”ہاں دراصل گھر میں کام کرتے ہوئے اس کے پیر میں تھوڑی چوٹ لگ گئی تھی، فی الحال چلنے میں تھوڑا مسلہ ہو رہا ہے تو میں نے کہا کچھ دن آرام کرلو۔“ اس نے جھوٹی سچی وضاحت کی۔

”جتنی فکر تمہیں نورالعین کی ہوتی ہے کاش ہمارے حکمرانوں کو بھی پاکستان کی اتنی ہی فکر ہوجائے!“ لیپ ٹاپ پر مصروف یاور طنز مارنے سے باز نہ آیا جس پر دونوں نے خاص توجہ نہ دی۔

”اوہ! یہ تو برا ہوا، چلو میں اسے فون کرکے طبیعت پوچھ لوں گی، ویسے تم بھی اپنے بھائی کی طرح بہت بےوفا ہوگئے، وہ اپنے بزنس میں الجھ کر ہم دوستوں کو بھول گیا اور تم ڈیوٹی جوائن کرتے ہی عید کا چاند ہوگئے، چلو بیٹھو میں سب کیلئے چائے منگواتی ہوں، خوب ساری باتیں کریں گے!“ وہ حسب عادت بنا رکے بولتی چلی گئی۔

”تھینکس ہانی! لیکن ابھی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے، پھر کبھی گیٹ ٹو گیدر کا پلان بنائیں گے نا، جب تک بھیا بھی آسٹریلیاء سے آچکے ہوں گے!“ اس نے سہولت سے ٹالا۔

”چلو ٹھیک ہے۔“ وہ بنا کسی حجت کے مسکرا دی۔

”اچھا اب میں چلتا ہوں، اللہ حافظ!“

”اللہ حافظ، سی یو!“

پھر احرار روم سے باہر نکل گیا جب کہ ہانیہ بھی واپس جانے لگی۔

”میرے لئے چائے بھجوا دو ہانی!“ یاور نے فرمائش کی۔

”خود کال کرلو پیون کو۔“ حسب معمول وہ ٹکا سا جواب دے کر چلی گئی۔ جسے وہ گھور کر رہ گیا۔


*****************************************


جب تک احرار نے یاور کے آفس سے نکل کر گھر تک جاتا آدھا راستہ طے کیا تو وہیں مغرب کی اذان ہوگئی۔

اس نے نزدیکی مسجد کے پاس گاڑی روکی اور وضو کرکے باجماعت نماز کیلئے کھڑا ہوگیا۔

وہ بچپن سے ہی نماز کا پابند تھا۔ اور یہ پابندی اس کی ماں نے ان دونوں بھائیوں کو سکھائی تھی۔ جسے اس کا بڑا بھائی تو اکثر گول کر جاتا تھا مگر اس نے اب تک یہ پابندی نہیں چھوڑی تھی۔ کیونکہ اسے خود بھی اللہ کے حضور سر جھکا کر، اپنی مشکلات اسے بتا کر، اس ذات سے مدد مانگنے پر سکون ملتا تھا۔

نماز مکمل کرکے اس نے دعا کیلئے ہاتھ اٹھائے اور اپنی ساری الجھنیں رازداری کے ساتھ اللہ کو سنانے لگا۔ کیونکہ اس کی امی کہتی تھیں کہ بےشک اللہ دلوں کے حال جانتا ہے مگر اسے پھر بھی بندوں کی زبانی ان کی فریاد سننا پسند ہے۔ اس سے مانگا کرو، وہ نہ مانگنے پر بھی نواز دیتا ہے اور مانگ لو تو بےحساب دیتا ہے۔

وہ پوری طرح دعا میں مشغول تھا کہ اچانک مسجد کی پرسکون فضا میں ایک غیر معمولی سی افراتفری مچ گئی۔

اس نے دعا مختصر کرتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک جگہ ہجوم اکھٹا ہوچکا تھا اور لوگ زور و شور سے باتیں کر رہے تھے۔

وہ بھی اٹھ کر تشویش زدہ سا ان لوگوں کی جانب آگیا۔

وہاں ایک شخص دوسرے پر خوب برہم ہو رہا تھا اور دوسرا گڑگڑاتے ہوئے اسے اپنی صفائیاں دے رہا تھا۔

”کیا ہوا بھائی؟“ احرار نے ایک آدمی سے پوچھا۔

”یہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اس آدمی نے ان کی جیب کاٹنے کی کوشش کی ہے مگر انہوں نے بر وقت اسے پکڑ لیا۔“ اس نے سارا ماجرا بتایا۔

”میں سچ کہہ رہا ہوں صاحب، میں غریب ضرور ہوں مگر اتنا بےایمان نہیں ہوں کہ اللہ کے گھر چوری کروں، اگر میری بات پر یقین نہیں ہے تو یہ مسجد کے کیمرے چیک کرلیں، میں پچھلے ایک سال سے یہاں نماز پڑھ رہا ہوں کبھی ایسا کچھ نہیں کیا۔“ اس آدمی نے اپنی صفائی میں ایک مضبوط دلیل دیتے ہوئے کیمرہ کی جانب اشارہ کیا تو احرار بھی پرسوچ انداز میں سی سی ٹی وی کیمرہ کی جانب دیکھنے لگا۔


*****************************************


”اماں تیل لگا دو سر پہ!“ اینا تیل کی بوتل لے کر ان کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی جو لاؤنج کے صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔

”تجھے تو چڑ ہوتی ہے تیل لگانے سے!“ انہوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔

”تیل لگا کر یونی جانے سے چڑ ہوتی ہے، کل اتوار ہے نا! کل نہیں جانا تو ابھی لگا دو۔“ اس نے کہتے ہوئے پونی میں قید اپنے بال کھول دیے۔

”وہ تو آج بھی نہیں گئی تھی تو!“ وہ تیل ہاتھ میں نکال کر اس کے سر پر لگانے لگیں۔

”کیا ہوگیا، گئی تو تھی!“ اس نے ڈھیٹ پن سے جھوٹ کہا۔

”جھوٹ مت بول، تیری سہیلی سندس گھر آئی تھی آج تجھ سے کوئی نوٹس لینے جب تو مجھے یونیورسٹی کا بول کر اس کے لڑکے کے ساتھ گلچھرے اڑاتی پھر رہی تھی!“ انہوں نے ایک زور دار چپت اس کے سر پر رسید کی۔ یعنی یہ وجہ تھی شام سے ان کی خفگی کی کہ انہیں سب پتا تھا۔

”گلچھرے نہیں اڑا رہی تھی، اپنی امی سے ملانے لے کر گیا تھا وہ مجھے۔“ اس نے بھی گڑبڑائے بنا اصل بات بتائی۔

”کیوں؟“

”کیونکہ وہ مجھ سے شادی کرنے والا ہے۔“ اس کی بات پر ان کا تیل لگاتا ہاتھ ساکت ہوگیا۔

”کیا!“

”ہاں اماں، اس نے خود پرپوز کیا ہے مجھے اور وعدہ کیا ہے کہ جلد اپنے گھر والوں کو راضی کرکے یہاں لائے گا، یہ دیکھو یہ انگوٹھی بھی دی ہے اس نے۔“ اینا نے ان کی جانب گھوم کر اپنی انگلی میں چمکتی انگوٹھی انہیں دکھائی جو اپنی مالیت خود بتا رہی تھی۔

”آج میں اسے بھی تم سے اسی لئے ملانے لائی تھی اور وہ بھی مجھے اسی لئے اپنے گھر لے کر گیا تھا مگر یہاں تم نے اور وہاں اس کے کھڑوس ابا نے ہماری بات ہی نہیں سنی!“ اس نے مزید بتاتے ہوئے منہ بنایا۔

”یااللہ!“ کچھ دیر سکتے میں رہنے کے بعد انہوں نے بےساختہ اپنا سر پیٹ لیا۔

”تیرے اندر عقل نام کی کوئی چیز ہے یا نہیں!“ انہوں نے دانت پیستے ہوئے اس کے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

”اب کیا ہوگیا اماں، تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ تمہاری بیٹی کیلئے کتنے بڑے گھر سے رشتہ آیا ہے۔“ اس نے اپنا سر سہلایا۔

”آیا نہیں ہے، اس نے جوانی کے جوش میں کہہ دیا اور تو نے مان لیا! اس کے امیر ماں باپ کبھی تجھے اپنی بہو نہیں بنائیں گے۔“ انہوں نے اس کی آنکھوں سے خوش فہمی کی پٹی کھول کر حقیقت دکھانی چاہی۔

”بابک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں منا لے گا، تم فکر مت کرو اماں، تم بس تیاری پکڑو میری شادی کی۔“ اس نے پھر وہ پٹی اپنی آنکھوں پر کس کر باندھ لی۔

”تم کہتی تھی نا کہ کون سا شہزادہ آئے گا میرے لئے؟ دیکھو آگیا میرا شہزادہ!“ اس نے خوابناک انداز میں کہا۔

”میں کچھ نہیں کہتی ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیرا جو جی چاہے کرتی رہے، بس بہت ہوگئی تیری پڑھائی، اب سے نہ تو یونیورسٹی جائے گی، اور نہ اس لڑکے سے ملے گی۔“ انہوں نے حتمیٰ فیصلہ سنایا۔

”اماں!“ اس نے صدمے سے ماں کو دیکھا۔

”ایک لفظ نہیں، اتار ابھی یہ انگوٹھی اور دے مجھے، یہ میں اس کے منہ پر ماروں گی۔“ وہ سخت برہم تھیں۔

”بس کردو اماں!“ بلآخر وہ بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر چلاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

”مجال ہے جو کبھی تم نے میری کسی بات سے اتفاق کیا ہو یا خوش ہوئی ہو! ہر وقت بس لعن طعن اور روک ٹوک ہی کی ہے تم نے مجھ پر کہ یہ نہ پہن، وہ مت کھا، وہاں نہ جا، اس سے نہ مل، یہ نہ کر، وہ نہ کر، جب ابا تھے تو وہ پھر بھی میری مان لیتے تھے مگر ان کے جانے کے بعد تم تو بالکل جلاد بن گئی ہو میرے لئے، وہ تو شکر ہے تم سے لڑ جھگڑ کر میں نے کال سینٹر میں نوکری کی اور اسکالرشپ پر یونیورسٹی میں آگئی، ورنہ تم تو مجھے دانے دانے کو ترسا کر مار دیتی اماں، خود تو گھٹ گھٹ کر جیتی ہو اور چاہتی ہو کہ میں بھی تمہاری طرح یہ سڑی ہوئی زندگی جی کر خواہشوں کو ترستے ہوئے مر جاؤں، کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے تم میری سگی ماں ہو ہی نہیں۔“ وہ بنا رکے جو منہ میں آیا غصے سے بولتی چلی گئی جس کے باعث ناصرف اس کا تنفس بگڑ گیا بلکہ صوفے پر بیٹھی فرخنده بھی اپنی جگہ پر ساکت ہوکر سر اٹھائے اسے دیکھے گئیں۔

اپنی بھڑاس نکال کر وہ تیزی سے کمرے میں چلی گئی جب کہ فرخندہ گم صم سی وہیں بیٹھی ماضی کے ایک لمحے میں گم ہوگئیں۔

”سنیں! دیکھیں نا اس نے ابھی تک بولنا شروع نہیں کیا۔“ فرخنده ننھی اینا کو گود میں لئے بیٹھی اپنے شوہر سے بولیں تھیں۔

”ارے تم بھی کمال کرتی ہو، ابھی یہ کچھ ہی مہینوں کی تو ہے، جب بڑی ہوگی تو آہستہ آہستہ بولنا بھی سیکھ لے گی اور اتنا بولے گی کہ تم اس کی سن سن کر پریشان ہوجاؤ گی، ہیں نا میری گڑیا!“ انہوں نے بیگم کو جواب دیتے ہوئے آخر میں ننھی اینا کو پچکارا تھا۔

اور آج وہ ہی اینا انہیں ایسی سخت سنا کر گئی تھی کہ وہ پریشان نہیں حیران ہوگئی تھیں۔ لفظوں کے نشتر سیدھا دل پر لگے تھے۔


*****************************************


احرار اس وقت اپنے بیڈ روم میں موجود تھا۔

خود وہ صوفے پر بیٹھا تھا اور سامنے موجود کانچ کی میز پر رکھے لیپ ٹاپ پر تیزی سے اس کی انگلیاں حرکت کر رہی تھیں۔

کمرے کی بڑی لائٹس آف تھیں بس نائٹ بلب جل رہا تھا اور لیپ ٹاپ اسکرین کی روشنی اس کے چہرے پر کافی واضح پڑ رہی تھی جو اس وقت بےحد سنجیدہ تھا۔

لیپ ٹاپ کے پاس کافی ساری سی ڈیز پڑی ہوئی تھیں۔ وہ یک کے بعد دیگر سی ڈی لیپ ٹاپ پر لگا کر کچھ کر رہا تھا۔

کافی دیر مسلسل یہ ہی عمل دہرانے کے بعد بلآخر اسے لیپ ٹاپ اسکرین پر کچھ ایسا نظر آیا جس نے اس کے ہوش اڑا دیے۔


*****************************************


کمرے میں آنے کے بعد اینا بستر میں منہ چھپا کر لیٹ گئی تھی۔ اس کے دل میں دبے پچھلے تمام عرصے کے شکوے آج پوری شدت سے امڈ آئے تھے جنہیں روکنے کے بجائے آج اس نے اگل دیا تھا اور اب بھی ناراض سی لیٹی تھی کیونکہ اسے لگ رہا تھا کہ اس کی ماں کبھی اس کی خوشی میں خوش نہیں ہوتی بلکہ اسے بھی خوش ہونے سے روکتی ہے۔

فرخنده کمرے میں آکر آہستہ سے اس کے پاس بیٹھ گئیں۔ وہ ان کی آہٹ محسوس کرکے بھی سیدھی نہیں ہوئی۔

”ناراض ہے مجھ سے؟“ انہوں نے نرمی سے کہتے ہوئے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا جن پر تیل لگانا ادھورا رہ گیا تھا۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

”تو نے ٹھیک کہا کہ تیرے ابا کے جانے کے بعد سے میں جلاد بن گئی، کیونکہ مرد کے بنا عورت کو ایسا ہی سخت رہنا پڑتا ہے، ورنہ دنیا اس کی نرمی کو نچوڑ کر رکھ دیتی ہے۔“ انہوں نے صاف گوئی سے اعتراف کہا۔

”تو دنیا کے ساتھ سختی کرو نا، مجھے ہر وقت کیوں لعن طعن کرتی رہتی ہو؟“ اینا بھی یکدم کہتے ہوئے ان کی جانب پلٹی۔

اس کا پورا چہرہ سرخ ہوکر آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔ اور زبان اب بھی شکوہ کناں تھی۔

انہوں نے بےساختہ اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ماں تھیں۔۔۔۔زیادہ دیر اولاد کو بلکتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔۔۔۔پھر چاہے اولاد نافرمان ہی کیوں نہ ہو!

”تجھے ہر وقت لعن طعن اسی لئے کرتی تھی تا کہ تجھ پر میرا رعب رہے اور تو کوئی بھی الٹا کام کرنے سے ڈرے، کیونکہ صرف ماں کی ممتا لٹاتی رہتی اور باپ کا رعب نہ دیتی تو، تو پھسل جاتی، مگر مجھ سے غلطی ہوگئی، میں رعب ڈالتے ڈالتے بھول ہی گئی کہ ایک بار تیری سہیلی بن کر بھی دیکھ لوں، اور تو نے بھی مجھے یاد نہیں دلایا۔“ انہوں نے اسے خود سے لگائے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔

”تجھے کہیں آنے جانے سے یا لوگوں سے ملنے سے اسی لئے روکتی تھی کہ دنیا بہت فریبی ہے، یہاں لوگوں کے دل میں کچھ ہوتا ہے اور زبان پر کچھ، کہیں تو کسی کی باتوں میں آکر اپنا کوئی نقصان نہ کر بیٹھے بس اسی لئے تجھ پر اتنی روک ٹوک کرتی تھی۔“ انہوں نے اصل وجہ بتائی۔

”اماں ساری زندگی مانی تو ہے تمہاری روک ٹوک، نہ محلے میں کسی سے زیادہ ملتی ہوں، نہ آفس میں، یونی میں بھی بس لے دے کر ایک سندس سے تھوڑی بہت دوستی ہے وہ بھی تمہارے کہنے پر زیادہ نہیں بڑھائی، کبھی اس کے گھر نہیں گئی، مگر بابک کی بات الگ ہے، وہ دنیا کے باقی برے لوگوں جیسا نہیں ہے، وہ بہت اچھا ہے اور مجھ سے محبت کرتا ہے، مجھے عزت سے اپنے گھر لے کر جانا چاہتا ہے تو اس میں کیا برائی ہے! مجھے کسی نا کسی سے تو شادی کرنی ہے نا! تو بابک سے کیوں نہیں کرسکتی؟“ اس نے بھی لچکدار سنجیدگی سے اپنا موقف سامنے رکھا۔

”مجھے اس لڑکے پر اعتراض نہیں ہے، اعتراض اس کے ماں باپ کو ہوگا ہماری حیثیت پر، اس سے پہلے وہ میری بیٹی کو ٹھکراتے میں نے ان کے لڑکے کو ٹھکرا دیا۔“ انہوں نے اپنے انکار کی وجہ بتائی۔

”بابک نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں منا لے گا اور وہ اپنے قول کا پکا ہے، بس تم مان جاؤ اماں، اپنی زندگی کی سب سے بڑی خوشی میں تمہاری ناراضگی کے ساتھ نہیں جینا چاہتی۔“ اس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے عاجزی سے منت کی۔ وہ بھی سیدھی ہوگئیں۔

عین موقعے پر فرخنده کی سمجھ میں آیا تھا کہ اس وقت ان کی سختی یا ناراضگی اینا کو مزید سرکش بنا سکتی ہے جس کے باعث وہ اپنا نقصان بھی کرسکتی تھی اسی لئے انہوں نے اپنا رویہ لچکدار کرلیا کہ کیا پتا وہ اس پیار سے سنبھل جائے جو پچھلے لمبے عرصے سے انہوں نے اسے نہیں دیا تھا۔

”اچھا ٹھیک ہے، اس سے بول کہ جلد از جلد اپنے ماں باپ کو لے کر آئے۔“ بلآخر انہوں نے ہتھیار ڈالے۔

”مطلب تم اس رشتے سے راضی ہو اماں!“ اس نے تائید چاہی۔

”ہاں، لیکن رشتے سے، اس سے پہلے تو اس کے ساتھ کہیں نہیں جائے گی، اور مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپائے گی، آئی سمجھ!“ انہوں نے رضا مندی کے ساتھ تنبیہہ بھی کی۔

”نہیں جاؤں گی اماں، پرامس!“ وہ کہتے ہوئے ان کے سینے سے لگ گئی۔

”اور سوری تم سے بہت بدتمیزی کی میں نے، وہ سب بالکل بکواس تھا اماں جو میں نے تم سے کہا، ابا کے بعد تم نے اکیلے سب بہت اچھے سے سنبھالا، تم بہت اچھی ہو، تب ہی تو بڑی ہوکر الٹا تم ہی مجھے منانے آئی۔“ اس نے شرمندہ ہوکر معافی مانگی۔

”کیونکہ میں ماں ہوں، اور ماں اولاد سے مقابلے بازی نہیں محبت کرتی ہے، چاہے اولاد تیرے جیسی نافرمان ہی کیوں نا ہو!“ انہوں نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائیں۔

”اور ماں کے پاس اتنا بڑا دل کہاں سے آتا ہے جس میں اتنی محبت ہوتی ہے؟“

”قدرت اولاد کے ساتھ یہ محبت بھی ماں کے دل میں ڈال دیتی ہے، جب تو ماں بنے گی تب تجھے پتا چلے گا ماں کی فکر کیا ہوتی ہے۔“ انہوں نے گہری سانس لیتے ہوئے اس کا سر تھپکا۔


*****************************************


اگلے سے اگلے دن جب اینا یونیورسٹی پہنچی تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی کہ اسے بابک کو اپنی ماں کی رضا مندی کے بارے میں بتانا تھا۔

اور جب بابک کو یہ پتا چلا تو حسب توقع وہ بھی بہت خوش ہوا۔

”یہ تو سچ میں گریٹ نیوز ہے، اچھا ایک گڈ نیوز میرے پاس بھی ہے تمہارے لئے۔“ بابک نے تجسس پھیلایا۔

”کیا؟ جلدی بتاؤ!“ اینا نے جاننا چاہا۔ دونوں اس وقت کینٹین میں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔

”میں نے بھی مام سے تمہارے بارے میں بات کرلی ہے اور وہ بھی راضی ہیں۔“ اس نے خوشی سے چہکتے ہوئے بتایا۔

”سچ میں!“ اسے یقین نہ آیا۔

”ہاں، اور وہ تم سے ایک تفصیلی ملاقات کرنا چاہتی ہیں کہ اس دن ٹھیک طرح بات نہیں ہو پائی تھی، یونی کے بعد گھر چلتے ہیں۔“ اس نے اسی طرح مزید بتایا تو یکدم اینا کی مسکراہٹ مدھم پڑ گئی۔

”کیا ہوا؟“ وہ بھی متعجب ہوا۔

”یار میں تمہارے ساتھ گھر نہیں جا سکتی، میں نے اماں سے وعدہ کیا ہے کہ شادی تک میں تمہارے ساتھ نہیں گھوموں گی۔“ اس نے بجھے دل سے اطلاع دی۔

”ہاں تو گھومنے پھرنے تھوڑی جا رہے ہیں! صرف مام سے مل کر ان سے تھوڑی بات چیت ہی تو کرنی ہے، اور یہ ملاقات ہماری شادی کیلئے ضروری ہے، کیونکہ مام تم سے مطمئن ہوں گی تب ہی تو ڈیڈ کو راضی کریں گی۔“ اس نے بھی سنجیدگی سے صورت حال واضح کی تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔

”دیکھو ایسا کرتے ہیں کہ ہم لاسٹ پیریڈ بنک کرکے گھر چلتے ہیں، پھر وہاں سے میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دوں گا، تم ٹائم پر گھر پہنچو گی تو آنٹی کو کچھ پتا بھی نہیں چلے گا اور ہمارا کام بھی ہوجائے گا۔“ اسے کشمکش کا شکار دیکھ کر بابک نے بیچ کی راہ نکالی۔

”ہاں یہ ٹھیک ہے۔“ اینا کو بھی یہ تجویز مناسب لگی۔


*****************************************


حسب منصوبہ بابک اور اینا نے اپنا اپنا لاسٹ پیریڈ بنک کیا اور دونوں بابک کے گھر جانے کیلئے نکل پڑے۔

”پرسوں اماں سے بہت بدتمیزی کر گئی تھی میں غصے میں، اور بعد میں مجھے منانے بھی وہ ہی آئی تھیں، میں نے ان سے سوری بول دیا تھا لیکن مجھے ابھی تک گلٹ ہو رہا ہے کہ مجھے ان سے اتنی بدتمیزی نہیں کرنی چاہئے تھی۔“ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اینا نے اپنی نیل پالیش کھرچتے ہوئے خود کو ملامت کی۔

”پتا ہے مجھے تمہاری پرابلم سمجھ آگئی، تمہارا اپنے غصے پر کنٹرول نہیں ہے، اس وقت جو تمہارے جی میں آتا ہے تم کر جاتی ہو، پھر چاہے وہ انس کو تھپڑ مارنا ہو یا اپنی امی سے بدتمیزی کرنا۔“ ڈرائیو کرتے بابک نے جیسے اس کا مرض پکڑا۔

”تو یہ بری چیز ہے؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”ہاں، کیونکہ غصے میں تو ہم کچھ بھی کرکے اپنا غصہ نکال دیتے ہیں لیکن اکثر اس کے آفٹر ایفیکٹس بہت خطرناک ہوتے ہیں جیسے انس والا معاملہ! اگر تم اس دن تھوڑا سا ضبط کرکے اسے نظر انداز کر دیتی اور طریقے سے شکایات پرنسپل تک پہنچاتی تو شاید بات اتنی نہ بگڑتی! جیسا وہ تمہیں سمجھ رہا تھا تم ویسی نہیں ہو یہ ثابت کرنے کیلئے تمہیں اسے ہاتھ سے تھپڑ مارنے کی ضرورت نہیں تھی، تم اپنے عمل سے بھی یہ تھپڑ اس کے منہ پر مار سکتی تھی، صرف چیخنا، چلانا اور لڑائی جھگڑا ہی خود کو سچا ثابت کرنے کا واحد راستہ نہیں ہوتا، سچے اور مضبوط لوگ راستے میں بھونکے والے ہر کتے کو رک کر پتھر نہیں مارتے بلکہ وہ اسے نظر انداز کرکے ثابت قدمی سے چلتے جاتے ہیں، مگر افسوس کہ تمہارے غصے نے تمہیں اتنا سب سوچنے کی مہلت نہیں دی۔“ وہ سنجیدگی سے اس کی شخصیت کے ان پہلوؤں پر تبصرہ کرتا گیا جن سے وہ خود بھی انجان تھی۔

”انسان غصے میں اکثر ایسے کام کر جاتا ہے جس کے بعد اسے گلٹ ہوتا ہے، اسی لئے تو کہتے ہیں کہ کامیاب انسان وہ ہے جس کے قابو میں اپنا غصہ ہے۔“ اس نے ایک اور فلسفہ دیا۔ جس نے اینا کو مزید سوچوں کے دهاگوں میں الجھا دیا۔

”غصے کے بعد جب گلٹ فیل ہو تو بنا دیر کیے سوری بول دینا چاہئے کیونکہ مام کہتی ہیں کہ غلطی ہر انسان کرتا ہے مگر اس پر شرمندہ ہوکر معافی مانگنے کا حوصلہ ہر کسی میں نہیں ہوتا، بہت ہمت چاہیے ہوتی ہے اپنی انا چھوڑ کر غلطی تسلیم کرنے کیلئے، اور تمہیں اپنی غلطی کا احساس ہوجانا ایک اچھا سائن ہے، بس اب کوشش کرنا کہ آنٹی سے مزید بدتمیزی نہ کرو۔“ بابک واپس اسی موضوع پر آگیا جس سے یہ بات شروع ہوئی تھی۔ اس نے بھی دھیرے سے سر ہلا دیا۔

پھر یوں ہی ہلکی پھلکی باتوں کے دوران وہ لوگ بابک کے گھر پہنچ گئے۔ آج دروازے پر چوکیدار موجود نہیں تھا اسی لئے بابک کو خود گاڑی سے اتر کر مین گیٹ کھولنا پڑا۔

پھر دوبارہ گاڑی میں سوار ہوکر وہ کار پورچ تک آیا اور دونوں گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھے۔

اینا حسب سابق پھر اس عالیشان گھر کی شان و شوکت دیکھ کر مبہوت ہوگئی تھی۔

وہ دل ہی دل میں اس گھر کے حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندیاں کرتی بابک کی پیروی میں چلتی گئی۔

بلآخر وہ اسے لے کر ماربل کی خوبصورت سیڑھیاں چڑھتا اوپری منزل کے ایک کمرے میں داخل ہوا۔

کمرہ کافی کشادہ تھا۔ اور بہت ہی قیمتی سازو سامان سے آراستہ کیا گیا تھا کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جائے۔

”واؤ! بہت خوبصورت كمره ہے۔“ وہ بےساختہ بولی۔

وہ ستائشی نظروں سے پورے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی کہ پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔

وہ چونک کر پلٹی تو دیکھا بابک نے گیٹ اندر سے لاک کیا ہے۔

”دروازہ کیوں بند کردیا بابک؟“ اور تمہاری مام کہاں ہے؟“ اس نے گھبرا کر پوچھا۔

”وه ڈیڈ کے ساتھ ایک فنکشن اٹینڈ کرنے دبئی گئی ہوئی ہیں، گھر کے تمام ملازمین کو بھی میں نے چھٹی دے دی ہے، اور دروازہ اسی لئے بند کیا ہے تا کہ تم بھاگ نہ سکو۔“ اس نے قریب آتے ہوئے تفصیلی جواب دیا۔

”تم مذاق کر رہے ہو نا؟“ اس نے گھبراتے ہوئے ایک آس سے پوچھا۔

”نہیں سویٹ ہارٹ، میں بالکل سیریس ہوں، چلو تم ڈرو نہیں، میں تمہیں شروع سے سب بتاتا ہوں۔“ وہ اس کے مقابل رکا جو چہرے پر دہشت کے سائے لئے اسے دیکھ رہی تھی۔

”تمہیں شاید یاد ہی ہوگا کہ آج سے کچھ عرصہ پہلے تم نے بھری کینٹین میں سب کے سامنے انس کو تھپڑ مارا تھا، اسی دن سے وہ بہت بےچین تھا، اور تم سے بدلہ لینے کا طریقہ سوچ رہا تھا، میں نے اسے سمجھایا کہ ہوسکتا ہے تم ایسی لڑکی نہ ہو، اور واقعی تمہیں انس کی بدتمیزی کا برا لگا ہو، پر انس کا کہنا تھا کہ ساری لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، بس شروع شروع میں تھوڑے نخرے کرتی ہیں، اور انس نے مجھ سے شرط تک لگا لی کہ تم بھی باقی لڑکیوں کی طرح ہو، اور آرام سے مجھ سے سیٹ ہو جاؤ گی۔“ وہ اس کے گرد آہستہ آہستہ چکر کاٹتے ہوئے اصل حقیقت بتانے لگا جسے وہ ڈوبتے دل کے ساتھ سنتی گئی۔

”ہم دونوں نے مل کر تمہیں ٹریپ کرنے کا پلان بنایا، اور اس میں کامیاب بھی ہوئے، انس کا تم سے بدتمیزی کرنا، میرا تمہیں بچانا، یہ سب اسی پلان کا حصہ تھا، اس دن تمہیں وہاں اس انڈر کنسٹرکشن بلڈنگ میں ہم دونوں مل کر لے کے گئے تھے، اور تمہارے ہوش میں آنے پر وہ سارا ڈرامہ کیا، تم سے دوستی کی، تمہیں پرپوز کیا، یہاں تک کہ تمہارا یقین جیتنے کیلئے تمہیں گھر لا کر مام سے بھی ملوا دیا، اور اب آخر کار انس کی بات درست نکلی اور میں شرط ہار گیا کہ واقعی سب لڑکیاں ایک جیسی لالچی ہوتی ہیں، بس چند میٹھی محبت بھری باتیں، تھوڑا سا دولت کا لالچ، اور لڑکی آپ کے قدموں میں۔“ بابک نے ساری تفصیل بتا کر اس کے مقابل رکتے ہوئے آخر میں اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔

اینا جو کب سے دم سادھے اس کی باتیں سن رہی تھی۔ اب اس کی آنکھوں سے آنسو نکل کر رخساروں پر بہنے لگے۔

اس نے اپنے دل کی سب سے اونچی مسند پر جو بابک کی قدر و عزت کا بت سجایا تھا۔ وہ یکدم زمین بوس ہوکر پاش پاش ہوگیا تھا۔ اور اب اس کی ٹوٹی ہوئی کرچیاں اس کو خود میں چبھتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

”تم نے وعدہ کیا تھا مجھے اپنی عزت بنانے کا، تب میں نے تم پر یقین کیا، میں صرف چند باتوں اور تحائف کی وجہ سے تمہارے پیچھے نہیں آئی، تو پھر میں کیسے لالچی لڑکیوں کے جیسی ہوگئی؟“ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے غم و غصے سے اس کا گریبان پکڑا جو اس کے کردار پر کیچڑ اچھال رہا تھا۔

”میں نے تمہیں اپنی عزت بنانے کا وعدہ کیا اور تم نے یقین کرلیا، یہ ہی تو تمہاری غلطی تھی کہ تمہیں محض وعدے پر تب تک یقین نہیں کرنا چاہئے تھا جب تک میں اسے پوری دنیا کے سامنے وفا نہ کر لیتا، ورنہ لفظی وعدہ توڑنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ تب ہی تو سمجھدار اور باکردار لڑکیاں صرف وعدوں پر اعتبار کرکے اپنا آپ کسی کو نہیں سونپتی جانِ من!“ بابک نے یکدم اس کا رخ موڑ کر اس کی پشت اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اسے دبوچ لیا۔

”مگر افسوس کہ نہ تو تم سمجھدار ہو اور نہ ہی باکردار، تمہیں بس خواب دیکھنا اور غصہ کرنا آتا ہے، اب اتنے عرصے جو تمہارے پیچھے میں نے محنت کی ہے، خواری اٹھائی ہے، اور انس سے جو شرط ہارا ہوں اس کی اجرت وصول کرنے کا وقت آگیا ہے۔“ بات کے اختتام تک اس کی گرفت مزید سخت ہوگئی۔

”نہیں۔۔۔۔نہیں بابک پلیز، میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟ پلیز رک جاؤ۔“ اس نے روتے ہوئے منت کی۔

بابک نے اس کی منت ان سنی کرکے اس یکدم بیڈ پر پٹخا اور خود بھی اس پر جھکا۔

”بابک نہیں۔۔۔پلیز۔۔۔۔میری ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا مت دو پلیز!“ اس نے روتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اس کے کندھوں پر زور ڈال کر اسے پیچھے دھکیلنا چاہا۔

”تمہاری وہ اکڑ نکالنے کیلئے یہ سزا بہت ضروری ہے جو تم زبان سے دکھاتی پھرتی ہو کہ تم ایک باکردار لڑکی ہو، اگر اتنی ہی باکردار ہوتی تو یہ راگ الاپنے کے بجائے دماغ استعمال کرتی اور تب تک میرا یقین نہیں کرتی جب تک میں تمہیں سب کے سامنے نکاح میں قبول نہ کر لیتا، مگر تمہیں میری دولت کی چکاچوند میں کچھ نظر ہی نہیں آیا تو اب بھگتو اپنی لالچ کا نتیجہ!“ بابک نے اس کی دونوں کلائیاں بیڈ پر رکھ کر دبوچتے ہوئے سفاکی سے پھر اس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔

اپنی بات مکمل کرکے بابک نے ایک ہاتھ سے اینا کا اسکارف اتارنا چاہا۔

اسی پل کو غنیمت جان کر اینا نے اپنے آزاد ہاتھ کی انگلی سیدھا اس کی آنکھ میں مار دی۔ اور یہ وار کارآمد ثابت ہوا۔

وہ اپنی آنکھ پکڑ کر بلبلاتے ہوئے یکدم پیچھے ہٹا۔

بس یہ ہی موقع تھا۔

وہ برق رفتاری سے دروازہ کھول کر باہر بھاگی اور جلدی جلدی سیڑھیاں اترنے لگی۔

لیکن وہ بھی اتنی آسانی سے اسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے آیا۔ اور آخری سیڑھی پر پہنچ کر اس نے اینا کو گدی کے بالوں سے دبوچ لیا۔

”اتنی آسانی سے تم یہاں سے بھاگ نہیں پاؤ گی۔“ اس نے غصے سے دانت پیس کر آگاہ کیا اور دوبارہ اس کو بالوں سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے اوپر لے جانے کی کوشش کرنے لگا۔

وہ ہنوز پرزور مزاحمت کر رہی تھی۔ اور بال ٹوٹنے سے اسے بہت تکلیف بھی ہو رہی تھی۔ لیکن بابک کے سر پر تو شاید جنون سوار تھا۔

اب کی بار آدھی سیڑھیوں پر پہنچ کر اینا نے ذرا آگے ہوکر اپنے دانت اس کے ہاتھ میں گاڑ دیئے۔ جس سے وہ یکدم تلملا اٹھا۔ اور بال اس کی قید سے آزاد ہوگئے۔

وہ پھر برق رفتاری سے نیچے بھاگی۔

بابک بھی اپنا زخمی ہاتھ دوسرے ہاتھ سے تھامے جلدی سے اس کے پیچھے آیا۔

وہ ہال کے وسط میں پہنچ گئی تھی۔ جب بابک نے پھر اسے پیچھے سے آکر پکڑ لیا۔ اور اس بار ایک زوردار تھپڑ بھی مارا، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ لڑکھڑا کر گری اور وہاں رکھی ایک چھوٹی سی میز سے ٹکرا کر اس کا سر بھی زخمی ہوگیا۔

اسی میز کے اوپر ایک بہت وزنی گلدان بھی رکھا ہوا تھا۔

لمحے کے ہزارویں حصے میں اس کے دماغ نے کام کیا اور اس سے قبل کہ بابک قریب آکر پھر اسے پکڑتا۔ اس نے وہ گلدان اٹھا کر پوری قوت سے اپنے قریب آتے بابک کے سر پر دے مارا۔

یہ ضرب اتنی زوردار تھی کہ نا صرف گلدان ٹوٹ گیا۔ بلکہ اس کے سر سے بھی گاڑھے خون کا سیلاب ابل پڑا۔ اور کچھ ہی لمحوں میں اس کا پورا چہرہ اپنے ہی خون میں نہا کر سرخ ہونے لگا۔

وہ لڑکھڑا کر زمین بوس ہوا۔ اور اس کے گرتے ہی چند لمحوں میں اس کے اطراف کا سارا سفید فرش خون سے سرخ ہوگیا۔

اینا ہکابکا کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ بابک کو ایسے دیکھ کر اس کے بھی حواس گم ہونے لگے تھے۔ اور یہ صاف ظاہر تھا کہ وہ مر چکا ہے کیونکہ وار بہت خطرناک تھا۔ جبکہ وہ اسے جان سے نہیں مارنا چاہتی تھی وہ تو بس اپنا دفاع کر رہی تھی۔

وہ کچھ لمحے ایسے ہی دم سادھے ناسمجھی کے عالم میں کھڑی رہی اور پھر جلدی سے باہر بھاگ نکلی کیونکہ اس وقت اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہونے لگی تھی اور یاد تھا تو بس اتنا کہ کسی طرح اس سونے کے پنجرے سے نکل کر بھاگنا ہے جہاں وہ اپنی بےوقوفی کی وجہ سے خود پھنسی تھی۔


شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر

میں نے جس ہاتھ کو چوما وہ ہی خنجر نکلا


انتخاب


*********************************

”دھڑ دھڑ دھڑ!“ دوسری جانب کسی نے بری طرح دروازہ پیٹا۔

”آئے ہائے! کون آگیا؟ رکو آرہی ہوں۔“ فرخندہ نے جلدی سے دروازے کی جانب آتے ہوئے کہا اور دروازہ کھولا۔

”اینا! تو؟ اور یہ کیا حلیہ بنایا ہوا ہے تو نے؟“ انہوں نے حیرانی سے دہل کر کئی سوال کر ڈالے۔

وہ بنا کچھ بولے ان کے گلے لگ کر رونے لگی۔ کسی انہونی کے احساس سے وہ بھی کانپ گئیں۔

انہوں نے جلدی سے اسے الگ کرتے ہوئے دروازہ بند کیا اور اسے لے کر کمرے میں آگئیں۔

”کیا ہوا ہے اینا؟ جلدی بتا میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔“ انہوں نے اسے بیڈ پر بٹھا کر خود اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔

اور پھر اس نے بغیر کسی لگی لپٹی کے روتے ہوئے ساری روداد ان کے گوشِ گزر کردی۔

”یااللہ!“ ساری بات سن کر وہ بس اتنا ہی کہہ پائیں۔ وہ اتنی حیران تھیں کہ اس پر چیخ چلا کر غصہ بھی نہ کرسکیں۔

”تم ٹھیک کہتی تھی اماں، لڑکیوں کی عزت بہت نازک ہوتی ہے، ہمیں صرف وعدوں پر اعتبار نہیں کرنا چاہئے، اچھا نظر آنے والا ہر انسان اچھا نہیں ہوتا۔۔۔۔وہ بھی نہیں تھا۔۔۔وہ بہت برا نکلا اماں۔۔۔۔بہت برا۔“ وہ روتے ہوئے خود کو ملامت کرتی ان کے سینے سے لگ گئی جو خود بھی شاکڈ میں تھیں۔

”اماں اگر۔۔۔۔۔اگر اس کے قتل کے جرم میں مجھے گرفتار کرلیا گیا تو؟“ اس نے یکدم سر اٹھا کر خدشہ ظاہر کیا۔

وہ جو ابھی ساری صورت حال سے ہی نہیں سنبھلی تھیں اس نئے سوال پر مزید کشمکش کا شکار ہوگئیں۔

ہزار سوال تھے کہ اس وقت وہ لوگ کیسے خود کو بچائیں؟ کس کے پاس جائیں؟ کس سے مدد مانگیں؟ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟

”اماں کچھ تو بولو!“ انہیں خاموش پا کر وہ مزید پریشان ہوئی۔

”بس اس بار بچا لو اماں، وعدہ کرتی ہوں ساری زندگی تمہارے سامنے اف تک نہیں کروں گی۔“ اس نے منت آمیز انداز میں ان کا ہاتھ پکڑا کہ وہ ہی اس کی آخری امید تھیں۔

”جلدی سے سامان باندھ، ہم حیدر آباد چلتے ہیں تیری فریدہ خالہ کے گھر!“ لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ فیصلے پر پہنچیں جسے سن کر اینا بھی دنگ رہ گئی۔


*********************************


جتنی جلدی ممکن تھا دونوں ماں بیٹی نے اپنا مختصر سامان سمیٹنا شروع کردیا تھا اور اس ساری کاروائی میں دوپہر سے عصر ہونے کو آئی تھی۔

”اماں!“ اینا نے اچانک بلند آواز سے پکارا جو اپنے کمرے میں الماری سے سامان سمیٹ رہی تھی۔

”کیا ہوا؟“ وہ اس کے کمرے میں آئیں۔

”یہ بیگ کس کا ہے، میری الماری میں کپڑوں کے نیچے چھپا ہوا تھا۔“ اس نے ہاتھ میں پکڑے درمیانے سائز کے سیاہ بیگ کی جانب اشارہ کیا۔

”تیری الماری میں تھا تو تیرا ہی ہوگا!“

”نہیں یہ میرا نہیں ہے۔“ اس نے نفی کی۔

”کھول کر دیکھ کیا ہے اس میں؟“ انہیں بھی تشویش ہوئی۔

”ٹک ٹک ٹک!“ تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔

”لگتا ہے بلقیس کا بیٹا رکشہ لے آیا۔“ فرخنده خیال ظاہر کرتے ہوئے باہر کی جانب بڑھیں۔

لیکن دروازہ کھولنے پر وہ دنگ رہ گئیں کیونکہ سامنے پولیس کھڑی تھی۔

”اینا کا گھر یہ ہی ہے؟“ انسپیکٹر نے تائید چاہی۔

”نہیں۔۔۔آ۔۔۔آپ کیوں پوچھ رہے ہیں؟“ ان کا حواس باختہ انداز ہی ان لوگوں کیلئے تصدیق کا کام کر گیا۔

”ہمیں آپ کے گھر کی تلاشی لینی ہے، راستے سے ہٹیں۔“ ایک لیڈی کانسٹیبل آگے آئی اور انہیں دھکیل کر اندر داخل ہوگئی جس کے پیچھے باقی سب بھی اندر آئے۔

وہ لوگ کمرے میں پہنچے تو سامنے ہی اینا ایک ہاتھ میں کھلا بیگ لئے کھڑی تھی، اس کے دوسرے ہاتھ میں اسی بیگ سے برآمد ہونے والی ایک سفید پڑیا تھی اور اسی طرح کی پڑیا سے یہ پورا بیگ بھرا ہوا تھا۔

”تم اینا ہو؟“ لیڈی کانسٹیبل پوچھتی ہوئی آگے آئی اور اس کے ہاتھ سے بیگ جھپٹا۔

اینا جو ابھی تک اپنے گھر میں یہ مشکوک بیگ دیکھ کر پریشان تھی اب پولیس کی اچانک آمد نے تو اس کا خون ہی خشک کردیا تھا۔ جب کہ فرخنده کی حالت بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔

”سر اطلاع درست تھی، یہ ڈرگز ہی ہیں۔“ لیڈی کانسٹیبل نے بیگ چیک کرکے انسپیکٹر کو بتایا جسے سن کر دونوں ماں بیٹی ششدر رہ گئیں۔

”محترمہ نورالعین شاہد عرف اینا صاحبہ، آپ کو ڈرگز سپلائی کے جرم میں گرفتار کیا جاتا ہے۔“ آفیسر نے طنزیہ انداز میں بم گرایا۔

”کیا! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میری بیٹی نے ایسا کچھ نہیں کیا ہے۔“ فرخندہ نے جلدی سے نفی کی۔

”میڈم ہمیں اطلاع ملی تھی کہ یہ یونیورسٹی میں ڈرگز سپلائی کرتی ہیں، اسی لئے ہم نے یہ کاروائی کی، اور ہمارا شک صحیح نکلا!“

”نہیں نہیں، یہ سب جھوٹ ہے، مجھے جان بوجھ کر پھنسایا جا رہا ہے۔“ اس نے چلاتے ہوئے تردید کی۔

”ہم کچھ نہیں جانتے میڈیم، آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا، گرفتار کرو انہیں۔“ انسپیکٹر نے کہتے ہوئے لیڈی کانسٹیبل کو اشارہ کیا۔

اس نے آگے بڑھ کر مزاحمت کے باوجود نورالعین کو ہتھکڑی پہنا دی۔ اور اسے زبردستی کھینچتے ہوئے باہر کی جانب لے جانے لگی۔

شور شرابہ سن کر محلے والے بھی اپنے گھروں سے باہر آگئے تھے اور تعجب خیز نظروں سے سارا تماشا دیکھتے ہوئے آپس میں چہ میگوئیاں کرنے لگے۔

نورالعین اور فرخندہ چیختی چلاتی رہیں پر کسی نے ان کی نہیں سنی اور وہ لوگ اسے لے گئے۔

دہائیاں دیتی فرخندہ نے اچانک دونوں ہاتھوں سے اپنا سینہ تھاما اور ہانپتے ہوئے زمین پر گر گئیں۔

محلے والے جلدی سے انہیں ہسپتال لے کر بھاگے لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔


*********************************


نورالعین کو گرفتار کرکے لاک اپ میں رکھا گیا تھا۔ اس دوران وہ چیخ چلا کر، رو دھو کر تھک چکی تھی۔ پر کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔

آج اس کے کیس کی پہلی سماعت تھی۔ اور جس قدر اس کا کیس کمزور تھا یہ سماعت آخری بھی ثابت ہوسکتی تھی۔

لیڈی کانسٹیبل اسے لے کر کورٹ میں حاضر ہوئیں۔ اور لے جا کر کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ بنا کسی جرم کے وہ مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔ اور پھر جج کے آتے ہی کاروائی شروع ہوگئی۔

سب سے پہلے ایک ادھیڑ عمر وکیل اپنی جگہ سے اٹھا اور سامنے آیا۔

”یور اونر! یہ ہیں محترمہ نورالعین شاہد عرف اینا، جو کہ بظاہر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک کال سینٹر میں جاب بھی کرتی ہیں، ان کے بارے میں کچھ روز قبل پولیس کو اطلاع ملی کہ یہ یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کو ڈرگز سپلائی کرتی ہیں، اطلاع ملنے پر جب ان کے گھر کاروائی کی گئی تو شک درست ثابت ہوا۔“ وکیل صاحب نے سچی جھوٹی تفصیل بتائی۔

”نہیں! یہ سب جھوٹ ہے، مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔“ وہ نفی میں چلائی۔

”اچھا! کوئی ثبوت یا گواہ ہے آپ کے پاس اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے؟“ وکیل صاحب نے طنزیہ انداز میں پوچھا تو وہ لاجواب ہوگئی۔

”یور اونر! ان کے پاس بھلے ہی کوئی ثبوت یا گواہ نہ ہو، لیکن میرے پاس ان کے خلاف گواہ موجود ہے، جسے میں ویٹنس باکس میں بلانے کی اجازت چاہوں گا۔“ وکیل صاحب نے اجازت مانگی۔

”اجازت ہے۔“ جج نے اجازت دی۔

اور تب ہی ویٹنس باکس میں آنے والے انسان کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی جو اور کوئی نہیں بلکہ سندس تھی۔

”یور اونر! یہ مس سندس رفیق ہیں، اور اسی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہیں جہاں ملزمہ نورالعین زیر تعلیم تھیں، مس سندس آپ عدالت کو بتائیں کہ آپ ان کے بارے میں کیا جانتی ہیں؟“ وکیل صاحب کی آواز پر نورالعین ہوش میں واپس آئی۔

”جی میں اور اینا ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، ہماری کوئی بہت زیادہ گہری دوستی نہیں ہے، بس ایک جگہ ہونے کی وجہ سے تھوڑی بات چیت تھی، اینا ہمیشہ سے ہی ایک دولت پسند لالچی طبیعت کی لڑکی رہی ہے، اسے بس پیسوں کی چاہ ہوتی تھی جن سے وہ اپنے سارے شوق پورے کرسکے اور پیسے کمانے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتی تھی۔“ سندس نے بولنا شروع کیا تو نورالعین کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔

”ایک دن میں ڈیپارٹمنٹ کی جانب جا رہی تھی، تب ہی میں نے دیکھا کہ اینا یونیورسٹی گراؤنڈ کے کونے میں کھڑی کسی لڑکے سے بہت رازداری سے کوئی بات کر رہی ہے، مجھے تشویش ہوئی، میں نے اس کے قریب جاکر پیڑ کی آڑ میں چھپ کر دیکھا تو پتا چلا کہ وہ اس لڑکے کو ڈرگز بیچ رہی تھی، میں بہت حیران ہوئی، میں نے اینا سے بات کی تو اس نے مجھے دھمکی دے ڈالی کہ اگر میں نے کسی کو کچھ بھی بتایا تو وہ مجھے بھی اسمگلنگ کے کیس میں پھنسا دے گی، میں شریف گھر کی لڑکی تھی اسی لئے ڈر کر چپ ہوگئی لیکن اب جب بات کھلی تو میں قانون کے ساتھ تعاون کرکے گواہی دینے آگئی۔“ اس نے انداز میں جہاں بھر کی مظلومیت سما کر سراسر جھوٹ بولا۔

نورالعین کو حیرت کے اتنے جھٹکے لگ چکے تھے کہ اب اس میں انکار کرنے کی بھی ہمت نہیں رہی تھی۔

”بہت شکریہ مس سندس، اب آپ جاسکتی ہیں۔“ وکیل صاحب نے کہا تو وہ سر ہلاکر چلی گئی۔

اور پھر وکیل صاحب نے انس کو وٹنس باکس میں بلایا۔ وہ تو تھا ہی اس کا دشمن! اس نے بھی خوب مرچ مصالحہ لگا کر ایک جھوٹی کہانی مکمل سچائی سے سنائی۔ جسے عدالت نے سچ مان لیا۔

”مس نورالعین! کیا آپ کے پاس اپنی صفائی میں کہنے کیلئے کچھ ہے؟“ جج نے آخری بار پوچھا۔

اس نے شکستہ انداز سے نفی میں سرہلایا۔ اسے اس طرح دیکھ کر انس کے چہرے پر ایک کمینی سی مسکراہٹ در آئی جیسے اسے کتنا سکون ملا ہو!

”تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ محترمہ نورالعین شاہد عرف اینا واقعی مجرمہ ہیں، اسی لئے تعلیمی ادارے میں ڈرگز سپلائی کے جرم میں عدالت انہیں دو سال کی قید سناتی ہے، سماعت برخاست ہوئی۔“ جج نے فیصلہ سنا دیا۔

اور کوئی جرم نہ ہوتے ہوئے بھی وہ مجرم ثابت ہوگئی۔ جبکہ وہ ظالم انسان چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ سجائے باہر جانے کیلئے کھڑا ہوگیا۔


*********************************


نورالعین کو زنانہ جیل میں شفٹ کردیا گیا تھا اور اب دو سال تک اسے یہیں رہنا تھا۔

وہ دیوار سے ٹیک لگائے دونوں بازو گھٹنوں کے گرد لپیٹے، سر گھٹنوں پر رکھ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ تب ہی ایک لیڈی کانسٹیبل نے آکر دروازہ کھولا۔

”او! تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔“ اس نے سخت لہجے میں بتایا۔

”مجھ سے؟ پر کون؟“ اس نے سر اٹھا کر حیرانی سے پوچھا۔

”مجھ سے انٹرویو کرنے کی ضرورت نہیں ہے، خود چل کر دیکھ لو، اٹھو اب!“ اس کے انداز سے بیزاریت جھلک رہی تھی۔

وہ کھڑی ہوکر اس کی پیروی میں چل پڑی جو اسے ایک خالی کمرے میں لے آئی۔

”یاد رہے، صرف آدھا گھنٹہ ہے۔“ اس نے تاکید کی اور باہر سے دروازہ بند کردیا۔

وہ آگے آئی تو اس نے دیکھا ایک طرف سلاخوں کی کھڑکی تھی۔ جس کی دوسری جانب دو لوگ موجود تھے۔

وہ کھڑکی کے قریب آئی تو اس کے پار موجود لوگوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ وہ سندس اور انس تھے۔

”کیسا گزر رہا ہے نئے گھر میں پہلا دن؟“ انس نے مصنوعی اپنائیت سے پوچھا۔

”فی الحال تو صدمے میں ہی گزر رہا ہوگا!“ سندس نے اندازہ لگایا۔

”کیا ہوگیا؟ تم تو سن ہی ہوگئی ہو۔“ انس نے اس کے سامنے چٹکی بجائی۔

”سب کچھ تو تباہ برباد کرچکے ہو تم لوگ، اب یہاں کیا کرنے آئے ہو؟“ وہ تلخی سے گویا ہوئی۔

”بھئی دوست ہیں ہم سب، اب کیا دوست کی خیریت بھی پوچھنے نہیں آسکتے!“ انس نے مصنوعی فکر دکھائی۔

”سندس! تم تو واقعی میری دوست تھی، تم نے ایسا کیوں کیا؟“ نورالعین نے دکھ سے اسے دیکھا۔

”یار صرف ایک بیگ تمہارے گھر میں رکھنے کے اور ایک جھوٹا بیان دینے کے دس لاکھ آفر کیے تھے انس نے مجھے، تو میں نے سودا منظور کرلیا، اور جس دن تم بابک کے ساتھ گھوم رہی تھی اس دن نوٹس لینے کے بہانے تمہارے گھر آکر، تمہاری امی سے نظر بچا کر وہ بیگ تمہاری الماری میں رکھ دیا۔“ اس نے لاپرواہی سے کندھے اچکاتے ہوئے اعتراف کیا۔

”اور ایک بات کہ میں تمہاری دوست کبھی نہیں تھی، بلکہ اول روز سے تم مجھے زہر لگی تھی کیونکہ تم نے میری جگہ چھینی تھی، میں اپنے ڈپارٹمنٹ کی ٹاپر تھی، میرا کوئی مقابلہ نہیں تھا مگر تم میرے مقابلے آگئی! تمہاری اوقات تھی میرا مقابلہ کرنی کی! غریب محلے میں رہنے والی لالچی لڑکی!“ سندس کے لہجے میں بےپناہ حقارت تھی جو نورالعین کو اپنے دل میں پیوست ہوتی محسوس ہوئی۔

”تم سے جو تھوڑی بہت دوستی تھی وہ اسی لئے کی تھی تا کہ کسی طرح تمہارا کوئی ویک پائنٹ ڈھونڈ کر تمہیں راستے سے ہٹا سکوں اور لکیلی مجھے وہ مل بھی گیا، وہ تھا بابک اور اس کی دولت!“ وہ اسی طرح مزید بتانے لگی۔

”لیکن اس سے پہلے کہ میں کوئی پلان بناتی تم نے انس کو تھپڑ مار کر خود ہی اپنے لئے گڑھا کھود لیا، ہے نا انس؟“ اس نے بتاتے ہوئے آخر میں تائید چاہی۔

”اور نہیں تو کیا! تمہیں کیا لگتا ہے اس دن کینٹین میں تم سے فلرٹ کرنے آیا تھا میں؟ نہیں، میں تو آلریڈی سندس کے ساتھ سیکرٹ ریلیشن میں تھا اور ایک چھوٹے سے جھگڑے کی وجہ سے کیونکہ یہ مجھ سے ناراض ہوگئی تھی اسی لئے میں اس کے سامنے تم سے فلرٹ کرکے صرف اسے تنگ کرنا چاہ رہا تھا، مگر تم نے خود کو کوئی توپ سمجھتے ہوئے خواہ مخواہ مجھے تھپڑ جڑ دیا اور یہ ہی تمہاری سب سے بڑی غلطی تھی، پہلے صرف سندس تمہیں راستے سے ہٹانا چاہتی تھی لیکن پھر میں نے بھی عہد کرلیا کہ تمہاری اکڑ نکال کر رہوں گا اور اس کیلئے بابک سے شرط لگائی، سندس مجھے اور بابک کو بتا چکی تھی کہ تم اس سے بہت امپیرس ہو اسی لئے ہمیں یقین تھا کہ تم جلد اس کے جھانسے میں آجاؤ گی اور تم آگئی۔“ آگے کی روداد انس نے سنانا شروع کی۔

”میرا پلان تھا کہ بابک کے ذریعے تمہیں دھوکہ دلوا کر پہلے اس تھپڑ کا بدلہ لوں گا جو تم نے مجھے یہ کہہ کر مارا تھا کہ تم باقی لڑکیوں جیسی نہیں ہو، اور ساتھ ہی تم پر ڈرگز سپلائی کا الزام لگا کر تمہیں یونی سے نکلوا دوں گا جس سے سندس کا راستہ صاف ہوجائے گا، سب کچھ پلان کے مطابق ہوا، بس ایک چیز پلان کے برعکس ہوگئی۔۔۔۔بابک کی موت۔۔۔۔وہ بھی تمہارے ہاتھوں!“ انس نے سب بتاتے ہوئے آخر میں سرگوشی کے سے انداز میں کہا۔

”اس کے مرڈر کی تحقیقات چل رہی ہیں مگر ہمارے علاوہ کوئی نہیں جانتا کہ اسے تم نے مارا ہے کیونکہ اس وقت وہاں کوئی موجود نہیں تھا لیکن ہم جانتے تھے کہ بابک تمہیں گھر لے کر آیا ہے اور ثبوت کے طور پر میرے پاس بابک کا وہ وائس نوٹ بھی ہے جو اس دن اس نے مجھے سینڈ کیا تھا کہ وہ تمہیں گھر لے جا رہا ہے، اس کے ڈیڈ قاتل کو سزا دلانے کیلئے پاگل ہو رہے ہیں، اب ذرا سوچو کہ اگر میں نے انہیں سچ بتا دیا تو تمہارا کیا حشر ہوگا؟“ انس کے پراسرار انداز پر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسراہٹ دوڑ گئی۔

”لیکن میں ابھی کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا، بلکہ دو سال بعد جب تم یہ سزا کاٹ کر باہر نکلو گی، تب یہ سچ بابک کے ڈیڈ کو بتاؤں گا اور پھر وہ جو تمہارا حشر کریں گے، جو سزا دیں گے، اصل اذیت تو وہ ہوگی، یہ تو صرف ٹریلر ہے۔“ اس کے ارادے بہت خطرناک لگ رہے تھے۔ جب کہ سندس بھی چہرے پر ایک بےنیاز مسکان سجائے کھڑی تھی۔

”تمہارا ذرا سا غصہ اور تھوڑا سا لالچ تمہیں کہاں لے آیا ہے اور کہاں کہاں لے کر جائے گا، یہ تم نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا، لیکن اب دو سال تک آرام سے یہاں بیٹھ کر سوچو۔“ انس نے اسی سفاکی سے بات مکمل کی اور پھر دونوں وہاں سے چلے گئے۔

جب کہ وہ اپنی جگہ پر ایسی ساکت ہوئی تھی جیسے جانے والے اس کی روح بھی اپنے ساتھ ہی لے گئے ہوں اور اس کے پاس بس خالی کھوکھلا جسم بچا ہو جس میں پچھتاوے اور ملال گھر کرنے کی تیاری میں تھے۔


دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والے

وہ ہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا


تم تو تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز

دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا


احمد فراز


وہ دونوں ہاتھوں سے سلاخے تھامے کھڑی جیسے پتھر کی ہوگئی تھی۔

تب ہی اس کی بائیں آنکھ سے پہلے ایک آنسو پھسلا اور پھر تواتر سے یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔

اس کے ذہن میں اپنی ماں کی نصیحتیں گونجنے لگیں اور اپنی وہ بدتمیزیاں یاد آئیں جو وہ آزادی کے نام پر ان سے کیا کرتی تھی۔ اسے لگتا تھا اس کی ماں اسے سمجھتی نہیں ہے، پرانے خیال کی، چھوٹی سوچ کی ہے تب ہی اسے اتنا روکتی ٹوکتی ہے مگر آج اس کی سمجھ میں آیا کہ وہ پابندیاں قید نہیں حفاظتی حصار تھیں۔ وہ اسے قید کرکے نہیں فریبی دنیا سے بچا کر رکھنا چاہتی تھیں، مگر افسوس۔۔۔۔۔۔۔

جب تک سمجھ آئی تھی بہت دیر ہوچکی تھی۔

”اماں!“ وہ حلق کے بل اتنے کرب سے چلائی کے جیل کے در و دیوار بھی کانپ گئے۔


*****************************************


نورالعین یکدم بستر پر اٹھ بیٹھی اور حواس باختہ سی تیز تیز سانسیں لینے لگیں۔

ماضی کے ناگ اب خواب میں بھی اسے ڈسنے لگے تھے۔

آج پھر خواب میں اس نے اپنی وہ ہی حالت دیکھی جو جیل میں سندس اور انس کی زبانی ہوئے انکشافات سن کر اس پر طاری ہوئی تھی۔ اور آج تک وہ اس حالت سے باہر نہیں نکلی تھی۔ ہاں بس اب رونا دھونا، چیخنا چلانا چھوڑ کر اس نے لبوں پر ایک چپ سجا کر خود کو سنجیدگی کے خول میں قید کرلیا تھا۔

مسجد سے اذانِ فجر کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔

اس نے خود پر سے چادر ہٹائی اور وضو کرنے چلی گئی۔

بیسن پر وضو کرتے ہوئے اس کی نظر اپنے کورے ناخنوں پر پڑی تو اسے پھر اپنی ماں کی بات یاد آگئی۔

”اینا! پھر نیل پالیش لگا کر بیٹھ گئی، منع کیا ہے نا کہ مت لگایا کر، اس سے وضو نہیں ہوتا ہے۔“ فرخنده نے اس کے سر پر چپت لگاتے ہوئے ڈپٹا تھا جو صوفے پر بیٹھی نیل پالیش لگا رہی تھی۔

”وضو کرنے سے پہلے ہٹا دوں گا اماں!“ اس نے اپنے کاروائی جاری رکھی۔

”بس رہنے دے، پہلے تجھے نیل پالیش ہٹانے میں آلس آئے گا اور پھر تو ایسے ہی نماز گول کر جائے گی، مجال ہے جو کبھی میرے بنا چیخے چلائے خود پابندی سے تو نے نماز پڑھی ہو!“ وہ اس سے سخت نالاں تھیں جس پر اینا نے کوئی توجہ نہیں دی۔

اور آج وہ ہی اینا تھی جو بنا کسی کے بولے فرض تو کیا تہجد تک کی نماز پڑھنے لگی تھی۔۔۔۔۔بلکہ نہیں۔۔۔۔وہ اینا نہیں تھی۔۔۔۔۔وہ نورالعین تھی۔۔۔۔۔۔اینا تو اسی دن اپنی اس ماں کے ساتھ مر گئی تھی جس کی نافرمانی کرکے اس نے ایک غیر مرد پر یقین کیا تھا۔ اور اس شخص نے اس کے یقین کے مینار کو ایسی زور دار ٹھوکر ماری تھی کہ وہ پورے قد سے اینا کے اوپر گرا تھا اور اینا اسی مینار کے نیچے دب کر مر گئی تھی۔

اس نے وضو مکمل کیا۔۔۔کمرے میں آکر دوپٹہ باندھا۔۔۔قبلہ رو جائے نماز بچھائی۔۔۔۔اور نیت باندھ کر نماز شروع کردی۔

آج بہت دنوں بعد پھر اسے نماز پڑھتے ہوئے رونا آگیا تھا۔

اس نے یوں ہی دبی دبی سسکیوں کے ساتھ نماز مکمل کی اور دعا کیلئے ہاتھ اٹھاتے ہی بلک بلک کر رو پڑی۔

اسے شرم آرہی تھی کہ جب اس کے پاس سب تھا، وہ اپنی دنیا میں مگن تھی تب اسے کبھی رب کے آگے سر جھکانے کا خیال ہی نہیں آیا۔

اور اب جب سب کچھ تہس نہس ہوگیا تھا تو وہ اسی رب کے آگے جھولی پھیلائے بیٹھی تھی۔

کاش اچھے وقتوں میں بھی اس نے شکر کے سجدے کیے ہوتے تو آج اسے اپنا آپ اس مطلبی شخص سا نہ لگتا جسے صرف ضرورت پڑنے پر ہماری یاد آتی ہے۔

مگر وہ رب تھا۔۔۔۔وہ انسان نہیں تھا جو مدد کیلئے آنے والوں کو ان کا رویہ یاد دلا کر دھتکار دے۔۔۔۔

اسے محسوس ہوا کہ اس کا رشتہ اپنی ماں اور رب کے ساتھ ایک جیسا تھا۔ یعنی اس نے اچھے وقتوں میں دونوں کی ہی نافرمانی کی تھی اور مصیبت میں سب سے پہلے یاد آنے والے بھی یہ ہی تھے۔

اس کی ماں نے کبھی تکلیف میں اسے دھتکارا نہیں تھا بلکہ وہ تو اس کی سب نافرمانیاں بھلا کر فوری اسے سینے سے لگا لیتی تھی۔

آج وہ تکلیف میں تھی۔۔۔اسے سینے سے لگانے کیلئے اس کی ماں نہیں تھی۔۔۔۔مگر ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا رب تو اب بھی اس کے ساتھ تھا۔۔۔۔وہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہا تھا۔۔۔۔بس وہ ہی اسے محسوس نہیں کر پائی تھی۔۔۔اور اسے یہ ہی ملال تھا کہ کیوں کبھی اینا نے رب سے وہ تعلق بنانے کی کوشش نہیں کی جو اب نورالعین کا رب کے ساتھ بننے لگا تھا؟

جواب تھا کہ اینا زندگی کی رنگینیوں میں گم تھی اور نورالعین نے زندگی کی تلخیاں جھیل کر سیکھ لیا تھا کہ رب کے سوا کوئی مددگار نہیں جو دل سے پکارنے والوں کی سنتا ہے اور ان کی مدد کو وہاں سے وسیلہ بھیجتا ہے جہاں گمان بھی نہیں جاسکتا۔


اک عاجزی کا سجدہ، برسوں کی معافی

رو رو کے شب کو مل جائے تم کو تلافی


کیا ہوا جو زمانہ خلاف ہے تیرے؟

رب کی ذات ہے تیرے لئے بس کافی


انتخاب


*****************************************


چند دنوں میں ہی نورالعین کا پیر ٹھیک ہوگیا تھا اسی لئے اب اس نے دوبارہ آفس جانا شروع کردیا تھا۔

نورالعین نے سادہ سا گہرا سرمئی سوٹ پہن کر، دوپٹہ کندھے پر لیا ہوا تھا۔ سارے بال گدی پر کیچر میں قید تھے۔ اور گلے میں آفس کارڈ جھول رہا تھا۔

وہ ایک سرخ رنگ کی فائل ہاتھ میں لئے متوازن انداز سے چلتی ہانیہ کے روم کی جانب آئی اور دروازے پر دستک دی۔

”کم اِن!“ اجازت ملنے پر وہ کانچ کا دروازہ دھکیلتی اندر داخل ہوئی۔

”گڈ مارننگ!“ نورالعین نے قریب آتے ہوئے خوشدلی سے وش کیا۔

”گڈ مارننگ! بیٹھو۔“ اپنی سنگل کرسی پر بیٹھی ہانیہ بھی مسکرائی جو لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔

”سب خیر ہے؟ آج تم نے راؤنڈ نہیں لگایا! جب سے آئی ہو روم میں ہی ہو!“ نورالعین کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ کچھ ہی عرصے میں دونوں میں خاصی اچھی بات چیت ہوگئی تھی۔

”ہاں بس تھوڑی طبیعت ڈاؤن ہے۔“ اس نے سادہ سا جواب دیا۔ آج وہ معمول کے جیسی چہک نہیں رہی تھی۔

”اوہ! تو چھٹی کر لیتی، تھوڑا بریک بھی ضروری ہوتا ہے۔“

”سوچوں کو تو پھر بھی بریک نہیں لگتی نا!“ وہ بےساختہ کہہ گئی۔ جو نورالعین کو تھوڑا غیر معمولی لگا۔

”خیر! تم بتاؤ، کوئی کام تھا؟“ یکدم ہانیہ نے خود ہی موضوع بدل دیا۔

”ہاں، یہ فائل تم نے دی تھی نا کروس چیک کیلئے، میں نے دیکھ کر میسٹیکس کریکٹ کردی ہیں۔“ اس نے کہتے ہوئے ہاتھ میں موجود سرخ فائل کانچ کی میز پر رکھی۔

”تھینک یو سو مچ یار فار دس فیور!“ وہ مشکور ہوئی۔

”کوئی بات نہیں، کبھی کبھی تو موقع ملتا ہے اپنے محسنوں کے کام آنے کا۔“ وہ سہولت سے مسکرائی۔

”اچھا اب میں چلتی ہوں۔“ وہ جانے کیلئے اٹھی۔

”نورالعین بات سنو!“ ہانیہ نے اچانک پکارا۔

”کہو!“

”بیٹھو دو منٹ!“ یہ حکم نہیں گزارش تھی۔ وہ واپس بیٹھ گئی۔

”تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے؟“ ہانیہ نے اچانک ہی ایک غیر متوقع سوال کرکے انجانے میں اس کے سارے مندمل ہوتے زخم نئے سرے سے ادھیڑ دیے۔

”جب کسی سے محبت ہوتی ہے تو کیسا لگتا ہے؟ کیسے پتا چلتا ہے کہ جو ہمیں ہوئی ہے وہ واقعی محبت ہے یا محض ٹیمپیریری اٹریکشن (وقتی کشش) ہے؟“ اس نے اسی طرح معصومیت سے مزید سوال کیے جیسے کوئی چھوٹا بچہ کسی بڑے دانشور سے سوال کرتا ہے۔

اس کی بات پر ناچاہتے ہوئے بھی تھوڑی دیر کیلئے نورالعین کے ذہن میں اس کا پورا ماضی اور حال گڈمڈ ہوکر گھوم گیا۔

اور پھر خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر اس نے بولنے کیلئے ہمت اکھٹا کی۔

”میں نے کبھی کسی سے محبت کی یا نہیں؟ یہ اہم نہیں ہے، اہم یہ جاننا ہے کہ محبت ہوتی کیا ہے؟“ وہ سنجیدگی سے گویا ہوئی۔

”پہلے مجھے بھی نہیں پتا تھا کہ محبت اور اٹریکشن میں کیا فرق ہے؟ پھر میں نے ایک جگہ ایک بہت ہی گہری بات پڑھی۔“ وہ پل بھر کو رکی۔

”میں نے پڑھا تھا کہ فرض کریں آپ کو کسی شاخ پر لگا کوئی پھول اچھا لگا، آپ اس کے پاس گئے، اسے پیار سے چھوا، سونگھا، اور اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیا، آپ اپنے اس عمل کی جسٹیفیکیشن دیں کہ آپ نے پھول کیوں توڑا؟“ اس نے ہانیہ کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

”کیونکہ وہ پھول ہمیں اچھا لگا، ہم چاہتے تھے کہ وہ ہمارے پاس رہے اسی لئے۔“ اس نے فوری جواب دیا۔

”آپ نے پھول توڑتے ہوئے بس یہ سوچا کہ آپ اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے، لیکن کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ پھول شاخ سے الگ ہونا چاہتا بھی ہے یا نہیں؟“ نورالعین کے اگلے سوال پر وہ لاجواب ہوگئی۔

”اگلے کی چاہت کا خیال کرنا ہی محبت ہے۔“ اس نے یوں ٹھہرا ہوا جواب دیا جیسے کوئی دریا سکون سے بہتا جائے۔

”جب ہم شاخ سے پھول توڑ کر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں تو یہ صرف پسند ہوتی ہے، جو جلد ختم ہوجاتی ہے، لیکن جب ہم اس خیال سے پھول کو شاخ سے جدا نہیں کرتے کہ وہ مر جائے گا اور اسی شاخ پر اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں تو وہ محبت ہوتی ہے، بالکل ایسے ہی جب ہمیں کوئی اچھا لگتا ہے، لیکن وہ ہمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا اور ہم زبردستی اسے اپنے ساتھ باندھنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ہم پسند کے تحت کرتے ہیں کہ اس کے پاس ہونے سے ہمیں خوشی ملتی ہے تو وہ ہمارے پاس ہی ہونا چاہئے بھلے ہی وہ خوش ہو یا نہیں! لیکن جب ہمیں محبت ہوتی ہے تو ہم اپنی چاہت سائیڈ پر رکھ کر اپنے محبوب کی چاہت کو ترجیح دیتے ہیں کہ وہ کیا چاہتا ہے؟ اگر وہ بھی ہمارا ساتھ چاہتا ہے تو پھر ہم سے زیادہ خوش قسمت کوئی نہیں، لیکن اگر وہ ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو ہم اس کی خوشی کیلئے اسے خود سے آزاد کر دیتے ہیں، تم بھی اپنا تجزیہ کرکے دیکھو، اگر وہ تم سے دور رہنے میں خوش ہے اور تمہیں اس کی خوشی عزیز ہے تو پھر اسے خوش رہنے دو۔“ اس نے کافی تفصیلی جواب دے کر آخر میں سلجھا ہوا سرا اسے تھما دیا جو بغور اس کی باتیں سن رہی تھی۔

”مجھے یہ ہی تو نہیں پتا کہ وہ کیا چاہتا ہے؟“ اس نے الجھ کر سر جھٹکا۔

”وہ۔۔۔یاور سر؟“ نورالعین نے تائید چاہی۔

اس نے نظر جھکا کر دھیرے سے ہاں میں سر ہلا دیا۔

”کچھ دنوں سے گھر میں اس کی شادی کی بات چل رہی ہے، اس نے فیصلہ تائی۔۔۔۔مطلب اپنی امی پر چھوڑا ہوا ہے کہ وہ جسے پسند کریں گی وہ اس سے شادی کرلے گا، مگر اس کی شادی کی بات سنتے ہی پتا نہیں کیوں میرا دل بوجھل سا ہوگیا ہے۔“ اس نے میز پر انگلی پھیرتے ہوئے اب اصل بات بتائی۔

”کیا یاور سر نے کبھی تم سے ایسی کوئی بات کی؟“ اس نے مزید ٹٹولا۔

”نہیں، ہمارے بیچ کبھی ایسا کوئی تعلق نہیں رہا، پھر بھی پتا نہیں کیوں مجھے برا لگ رہا ہے۔“ وہ سخت شش و پنج کا شکار تھی۔

نورالعین نے بغور اسے دیکھا جو کافی مضطرب نظر آرہی تھی۔

”ہوسکتا ہے یہ سالوں کی اٹیچمنٹ کی وجہ سے ہو رہا ہو!“ نورالعین نے خیال ظاہر کیا۔

وہ کچھ نہ بولی کہ وجہ تو وہ بھی نہیں جانتی تھی جس کے باعث کچھ دیر کیلئے وہاں خاموشی چھا گئی۔

”دیکھو ہانیہ! محبت ہو، پسند ہو یا آج کل کی زبان میں کہوں تو کرش ہی کیوں نہ ہو، ان میں سے کسی کو بھی خود پر کبھی حاوی مت ہونے دینا، یاد رکھنا کہ تم ایک عورت ہو جو حیا و وقار کا پیکر ہوتی، جس کے جذبات بہت نازک اور انمول ہوتے ہیں، اگر کسی کو پسند کرنے بھی لگی ہو تو کبھی اس پر یہ ظاہر کرکے، اس کے قدموں میں بچھ کر خود کو نچھاور نہ کرنا کہ اگر وہ مخلص نہ ہوا تو وہ تمہیں کوئی موقع سمجھ کر تمہارا فائدہ اٹھا کر چلا جائے اور تم عزت و محبت دونوں لٹا کر خالی ہاتھ رہ جاؤ! اپنی محبت کے انمول خزانے اپنے محرم کیلئے بچا کر رکھو اور سارے معاملات اللہ پر چھوڑ دو۔“ نورالعین نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے اپنائیت سے مشورہ دیا۔

”اللہ پر معاملات کیسے چھوڑے جاتے ہیں؟“ انداز نادان بچے جیسا تھا۔

”اس پر یقین رکھ کر کہ وہ ہمارے لئے جو کرے گا، اچھا کرے گا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”رات میں جب سب سوجاتے ہیں اور آس پاس ہمیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا، تب کسی پرسکون گوشے میں تہجد کی نماز پڑھنا، اور جب دعا مانگنے لگو تو پورے دل سے کہنا کہ۔۔۔۔۔۔۔“

”کہ اللہ پاک پلیز میری اس سے شادی کروا دیں!“ نورالعین کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ وہ کسی اُتاؤلے بچے کی مانند بیچ میں بول پڑی۔

”نہیں، کہنا کہ اللہ پاک میں اپنے سارے معاملات تیرے حوالے کرتی ہوں، میں اپنا اچھا برا نہیں جانتی، میں ناسمجھ ہوں، مگر تو، تو سب جاننے والا ہے، میری مدد فرما اور میرے لئے وہ کر جو میرے حق میں اچھا ہے، بس!“ نورالعین نے نفی کے ساتھ جواب دیا۔

”لیکن اس سے کیا ہوگا؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”دو باتیں ہوں گی، اگر وہ تمہارے حق میں اچھا ہوگا تو خود تمہیں مل جائے گا، اور اگر نہیں ہوگا تو اس کی طلب ختم کردی جائے گی جس سے تمہیں سکون آجائے گا، کیونکہ لاحاصل کی طلب ختم ہوجانا بھی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔“ اس نے بہت ہی گہرے انداز میں وہ راز سمجھائے جو اس نے خود بھی ٹھوکر لگنے کے بعد پائے تھے۔

اس کی بات پر وہ سوچ میں پڑ گئی۔

”اچھا ایک بات بتاؤ، اگر میں تم سے کہوں کہ ایک بچہ اپنی ماں کی انگلی پکڑے ان کی پیروی میں چل رہا ہے، اور دوسری طرف ایک دوسرا بچہ اپنی مرضی کی سمت میں چلا جا رہا ہے تو تمہارے خیال میں کون سا بچہ زیادہ سیفلی اپنی منزل کو پہنچے گا؟“ اسے الجھن کا شکار دیکھ کر نورالعین نے دوسرا طریقہ اختیار کیا۔

”ظاہر ہے وہ جو ماں کی انگلی پکڑ کر چل رہا ہے کہ ماں اس سے زیادہ جانتی ہے اور اپنے بچے کا نقصان نہیں ہونے دے گی۔“ اس نے ممکنہ جواب دیا۔

”انسان اور رحمان کا تعلق بھی تو ایسا ہی ہے، انسان نادان ہے، وہ اپنا اچھا برا وقت سے پہلے نہیں سمجھ پاتا مگر اللہ سب جانتا ہے، تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم اس سے ضد لگانے کے بجائے خود کو اس کے حوالے کرکے اس کی رحمت کی انگلی تھام لیں!“ اس نے ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے سوال اٹھایا تو وہ پھر لاجواب ہوگئی کہ اب بات اس کی سمجھ میں آنے لگی تھی۔

”ایک بار میرے کہنے پر سچے دل سے اللہ کے حضور ہاتھ پھیلاؤ اور رو رو کر بس اتنا کہو کہ میں اپنے سارے معاملات تجھ پر چھوڑتی ہوں میرے اللہ! میرے حق میں سب اچھا کرنا، یقین کرو معجزاتی طور پر تمہارے دل میں ایک عجیب سا سکون اتر آئے گا، راستے خودبخود تمہیں تمہاری منزل کی جانب لے جائیں گے، بس شرط یہ ہے کہ پورے یقین سے ایسا کرنا۔“ نورالعین نے آخری بار اپنی بات دہرائی کیونکہ ہانیہ کے پرسوچ تاثر بتا رہے تھے کہ وہ کافی حد تک اسے ایک سمت دکھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔


پوچھا مشکل میں رہتا ہوں۔۔۔۔کہا آسان کر ڈالو

کہ جس کی چاہ زیادہ ہو۔۔۔۔وہ ہی قربان کر ڈالو


انتخاب


*************************************

احرار کا آج لیٹ ڈیوٹی پر جانے کا ارادہ تھا کہ اس کی طبیعت تھوڑی بوجھل ہو رہی تھی۔ اسی لئے وہ فجر کے نماز پڑھ کر آکے سو گیا تھا اور اب بیدار ہوکر فریش ہونے کے بعد وہ کمرے کی گیلری میں آیا تو داخلی حصے پر اپنے ڈیڈ کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔

جب وہ ملک سے باہر جاتے تھے تو گاڑی اندر پارک کردی جاتی تھی اور ابھی گاڑی یہاں ہونے کے مطلب تھا کہ ڈرائیور اسی گاڑی میں جا کر انہیں ایئر پورٹ سے لے کر آیا ہے۔ اس کے بھیا اور ڈیڈ آسٹریلیاء سے آچکے تھے۔

وہ اپنے کمرے سے نکل کر سیدھا اپنے بھیا کے کمرے میں آیا جہاں کوئی موجود نہیں تھا۔

صوفے کے نزدیک ہینڈ کیری رکھا ہوا تھا۔ بیڈ پر اس کا بلیک کوٹ اور گھڑی ایسے پڑی تھی جیسے اس نے عجلت میں اتار کر پھینکا ہو۔ اور ساتھ ہی ایک صاف ستھری براؤن ٹی شرٹ رکھی تھی۔

باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ غالباً وہ آتے ہی شاور لینے چلا گیا تھا۔

احرار کچھ دیر ایسے ہی کھڑا رہا پھر کچھ سوچ کر وہ بھی وہاں سے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ دوبارہ وہاں آیا۔ اب اس کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ تھا۔

اس نے لیپ ٹاپ میز پر رکھ کر آن کیا اور خود بھی صوفے پر بیٹھ کر، اس میں کچھ کرنے لگا۔

تب ہی باتھ روم کا دروازہ کھلا اور وہ سفید تولیے سے اپنے بال رگڑتا ہوا باہر آیا جس نے صرف بلیک جینز پہنی ہوئی تھی اور شرٹ سے عاری کسرتی جسم پر گیلا پن موجود تھا۔

”ارے! تم یہاں!“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔

”ظاہر ہے، آپ کے پاس تو میرے لئے وقت ہی نہیں ہوتا اسی لئے میں خود چلا آیا اس سے پہلے کہ آپ پھر مجھ سے ملے بنا کہیں غائب ہوجائیں!“ احرار کہتے ہوئے صوفے پر سے اٹھا۔ وہ اس اس کا نروٹھا طنز سمجھتے ہوئے دھیرے سے ہنسا۔

”تمہیں کیا بتاؤں یار کہ میرے ساتھ کتنے مسلے چل رہے ہیں؟“ اس نے تھکن زدہ انداز میں کہتے ہوئے تولیہ بیڈ پر پھینکا اور ٹی شرٹ پہننے لگا۔

”لیکن خیر! میں نے ڈگری کمپلیٹ کرکے یونیورسٹی کو خیر باد تو کہہ ہی دیا تھا، ڈیڈ سے کہہ کر آفس سے بھی کچھ دنوں کی چھٹی لے لی ہے، اب سے بس سارا وقت میرے بھائی کا۔“ وہ ٹی شرٹ کی فل آستینیں کہنیوں تک چڑھاتا اس کی جانب آیا۔ اور دونوں ہاتھوں سے اس کے کندھے تھامے۔

”لیکن اب میرے پاس وقت کم ہے۔“ احرار کی بات وہ ٹھیک طرح سمجھ نہیں پایا۔

”تو تم بھی کچھ دنوں کیلئے اپنی ڈیوٹی سے آف لے لو، ہم دونوں کہیں کیمپینگ کرنے چلتے ہیں، بلکہ یاور کو بھی ساتھ لے لیں گے، وہ بھی آج کل مجھ سے محبوبہ کی طرح روٹھ کر بیٹھا ہے کہ اب میں اسے وقت نہیں دیتا۔“ وہ بات کے اختتام پر مسکرایا۔

”آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے بھیا!“ اس کی بات نظر انداز کرکے احرار سنجیدگی سے بولا۔

”ہاں کہو!“

”یہ دوا کا ریپر مجھے آپ کے کمرے سے ملا، میں نے اس کے بارے میں معلوم کیا تو پتا چلا یہ دوا شدید ذہنی دباؤ کے مریض استعمال کرتے ہیں۔“ احرار نے اپنی جینز کی جیب سے ریپر نکال کر اسے دکھایا تو وہ حیران ہوا، جیسے نہیں چاہتا ہو کہ احرار کو اس کا پتا چلے۔

”یار پولیس کی ڈیوٹی جوائن کرکے تم نے تو گھر میں ہی تفتیش شروع کردی۔“ اس نے ہنستے ہوئے احرار کے ساتھ سے ریپر لیا۔ جیسے بات گھمانا چاہ رہا ہو۔

”مجھے بھی نہیں معلوم تھا کہ ڈیوٹی جوائن کرتے ہی مجھے اپنے گھر میں تفتیش کرنی پڑے گی۔“ وہ بےساختہ کہہ گیا۔ وہ احرار کے انداز پر کھٹکا۔

”بتائیں بھیا آپ کیوں یہ دوا کھا رہے ہیں؟ کس ذہنی دباؤ کا شکار ہیں آپ؟“ اس نے آہستہ سے اپنے بھائی کے ہاتھ کندھوں پر سے ہٹاتے ہوئے پھر جواب مانگا۔ آج احرار کا رویہ اسے بہت عجیب لگ رہا تھا۔

”میں خود بھی اس کی وجہ نہیں جانتا۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔

”کہیں یہ تو وہ وجہ نہیں؟“ احرار نے ٹیبل پر رکھا لیپ ٹاپ اس کی جانب گھمایا تو اسکرین دیکھ کر وہ بھی اپنی جگہ ششدر رہ گیا۔


*****************************************


کافی دیر پہلے طلوع ہوا سورج اب اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا۔

مگر اپنے بھیا کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کرنے کے بعد سے احرار کو لگ رہا تھا جیسے اس کی زندگی میں ہر طرف رات ہوگئی جس کی تاریکی میں کہیں کوئی امید نہیں تھی۔

وہ سپاٹ تاثرات کے ساتھ یونیفارم پہن کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے تقریباً تیار کھڑا تھا۔

اس کے وجیہہ چہرے پر آج سے پہلے کبھی اتنی سرد مہری نظر نہیں آئی تھی جو وہ خود بھی اپنے عکس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھے جا رہا تھا۔

”چھوٹے صاحب! باہر پولیس آئی ہے۔“ اچانک بشیر نے دروازے پر آکے اطلاع دی۔

”ہاں میں نے بلايا ہے، انہیں بھیا کے کمرے میں لے آؤ۔“ اس نے اسی تاثر کے ساتھ جواب دیا تو وہ متعجب سا حکم کی تعمیل کرنے چلا گیا۔

احرار خود بھی اپنے کمرے سے باہر آیا اور سیدھا اپنے بھیا کے کمرے میں پہنچا۔

وہ دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کیے صوفے پر ذرا سا سر جھکائے بیٹھا کسی غیر مرئی نقطے کو تک رہا تھا۔ احرار کی آمد پر اس کی جانب گردن موڑی اور کھڑا ہوگیا۔

تھوڑی دیر قبل دونوں بھائیوں کے مابین جو بات چیت ہوئی تھی۔۔۔۔بلکہ نہیں۔۔۔۔انکشافات کی جو آندھی چلی تھی۔۔۔۔اس کے اثرات اب تک دونوں کے سپاٹ چہروں پر رقم تھے۔

احرار کے پیچھے، بشیر کی پیروی میں باقی اہلکار بھی کمرے کے داخلی حصے پر آچکے تھے۔

احرار نے ایک اہلکار سے ہتھکڑی لی اور اپنے بھیا کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ وہ بھی چپ چاپ اسے دیکھ رہا تھا۔

دونوں کے لب خاموش تھے بس آنکھیں کلام کر رہی تھیں اور ذہن میں سوچوں کا ایک طوفان برپا تھا۔

”آپ ہمیشہ مجھے ڈیڈ کی ڈانٹ سے بچا لیتے ہو بھیا، تھینک یو!“ احرار کے ذہن میں اس کی اپنی معصوم آواز گونجی۔

اور تب ہی اس نے حلق میں کوئی نادیدہ شے نگلتے ہوئے بولنے کیلئے لب کھولے۔

”نورالعین شاہد پر ریپ اٹیک کرکے ان کے حق میں موجود ثبوت چھپانے کے جرم میں آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے، یو آر انڈر آریسٹ مسٹر بابک ملک!“ یہ چند لفظ بولنے کیلئے اسے کتنی ہمت اکٹھا کرنی پڑی تھی یہ بس وہ ہی جانتا تھا۔

بابک نے ایک لفظ بولے بنا اپنے دونوں ہاتھ آگے کر دیے جن پر وہ ہتھکڑی پہنانے لگا۔ احرار نے بہت مشکل سے اپنے ہاتھوں کی کپکپاہٹ قابو کی تھی۔

”یہ کیا ہو رہا ہے یہاں؟“ اچانک جبار صاحب غصے سے دھاڑتے ہوئے وہاں آئے۔ احرار بابک کو ہتھکڑی پہنا چکا تھا۔

”تمہارا دماغ ٹھکانے پر ہے احرار؟ یہ کیا کر رہے ہو تم؟“ وہ اس پر بری طرح بگڑے۔

بشیر نے عقل مندی دکھائی اور باقی پولیس والوں کو وہاں سے لے گیا۔ اب وہاں بس یہ تینوں موجود تھے۔

”وہ ہی کر رہا ہوں جو ایک مجرم کے ساتھ کرنا چاہئے، میرے پاس ثبوت ہیں اور انہوں نے خود اعترافِ جرم کیا ہے، آپ پلیز بیچ میں نہ آئیں۔“ وہ جو باپ کے سامنے ایک لفظ تک کہنے سے ڈرتا تھا اس وقت ڈیوٹی نبھاتے ہوئے بےتاثر اور بےخوف کہہ گیا۔

”دیکھ لیا بابک تم نے! دِکھا دی اس نے اپنی اوقات، اور ثابت کردیا کہ سوتیلا کبھی سگا نہیں ہوسکتا۔“ جبار صاحب حقارت سے بولے۔

احرار نے شاکی نظروں سے پہلے انہیں اور پھر بابک کو دیکھا۔

”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈیڈ؟“

”کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔۔۔۔ڈیڈ پلیز، چپ ہوجائیں۔“ بابک نے مداخلت کرکے انہیں خاموش کروانا چاہا جیسے کوئی راز کھلنے سے بچا رہا ہو!

”ڈیڈ آپ نے غصے میں ایسا کہا نا؟“ احرار نے کسی سہمے ہوئے بچے کی مانند تائید چاہی کہ شاید اب یہ بات جھوٹ نکل آئے!

”نہیں ہوں میں تمہارا ڈیڈ، میرا بیٹا صرف بابک ہے، تم کلثوم کے پہلے شوہر کی اولاد ہو جسے عدالت نے پھانسی کی سزا دی تھی اور تمہاری رگوں میں بھی اسی مجرم کا خون دوڑتا ہے۔“ الفاظ تھے یا زہر میں ڈوبہ تیر جو سیدھا احرار کے دل میں پیوست ہوا۔

احرار کو لگا یکدم ساتوں آسمان ٹوٹ کے اس پر گرے ہیں، زور و شور سے بجلی کڑکنے لگی ہے اور سمندر میں طوفان آگیا ہے۔

”بھیا یہ سب۔۔۔۔۔“ احرار نے شاکی نظروں سے بابک کی جانب دیکھا اور بس اتنا کہتے ہی اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھ سے آنسو نکل پڑا۔

”یہ مگر مچھ کے آنسو بعد میں بہانہ پہلے میرے بیٹے کو چھوڑو۔“ جبار صاحب نے یکدم احرار کا بازو پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔

احرار کے دل پہ لگے تیر میں مزید درد ہوا اور تیزی سے خون بہنے لگا جو اس کی آنکھوں سے آنسو کی صورت باہر آرہا تھا۔

”ڈیڈ پلیز! اسٹاپ اِٹ!“ بابک یکدم ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے احرار کو پیچھے کھینچ کر خود اس کی ڈھال بن کر باپ کے سامنے آگیا۔ جیسے بچپن میں آجاتا تھا۔

”احرار نے کچھ غلط نہیں کیا، وہ بس ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی کر رہا ہے، میں نے خود اپنا جرم قبول کرکے اسے گرفتار کرنے کی اجازت دی ہے۔“ اس نے اپنے بھائی کا دفاع کیا۔

”دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا؟ اتنے عرصے تمہیں ان سب سے بچا کر رکھا اور تم نے خود سب اُگل دیا، کیوں؟“ اب وہ اس کی بےوقوفی پر برہم ہوئے۔

”کیونکہ میں تھک گیا تھا اپنے گناہوں کا بوجھ سر پر لے کر گھومتے ہوئے، اب مجھے سکون چاہیے ڈیڈ جس کیلئے میں کب سے تڑپ رہا ہوں، جو دنیا کی کوئی دوائی، کوئی ڈاکٹر مجھے نہیں دے سکا وہ سکون آج میں نے اعترافِ جرم میں محسوس کیا۔“ اس کے ضدی انداز میں صدیوں کی تھکن تھی۔

وہ اسے گھور کر رہ گئے اور ساتھ ہی ایک قہر آلود نظر اس کے عقب میں کھڑے احرار پر ڈالی جس کی آنکھیں اور ناک سرخ ہو رہی تھیں جب کہ چہرے پر بےتحاشا دکھ تھا۔

”احرار کو اپنی ڈیوٹی کرنے دیں ڈیڈ، کیا پتا یہ وقتی سزا کاٹ کر مجھے ہمیشہ کی اذیت سے رہائی مل جائے!“ اب کے اس کے انداز میں گزارش تھی۔

”اسے تو میں دیکھ لوں گا۔“ وہ غضب ناک ہوکر کہتے ہوئے کمرے سے چلے گئے۔

بابک احرار کی جانب پلٹا جس کی پوری دنیا ہی یکدم پلٹ گئی تھی۔

”یہ سب کیا ہے بھیا۔۔۔کیا۔۔۔کیا آپ میرے سگے بھائی نہیں ہیں؟“ احرار نے ٹوٹے ہوئے انداز میں سوال کیا۔

”دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو ہاں، ہم دونوں سگے بھائی نہیں ہیں، لیکن اگر میری نظر دیکھو تو ہم سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر تھے۔۔۔۔ہیں۔۔۔۔اور رہیں گے۔“ بابک نے ہتھکڑی لگے ہاتھوں سے احرار کا چہرہ تھاما۔

صدمہ اتنا شدید تھا کہ وہ کچھ نہ کہہ پایا اور بےساختہ اس کر گلے لگ گیا۔ بابک نے بھی ہتھکیڑی سمیت ہاتھ اس کی گردن میں ڈال کر اس کا سر سہلایا۔

یہ پہلا ایسا منظر تھا جہاں ایک باوردی پولیس آفیسر ایک ہتھکڑی لگے مجرم کے گلے لگا رو رہا تھا۔

”یہ وقت ایموشنل ہونے کا نہیں ہے احرار، تم اس وقت ایک آن ڈیوٹی آفیسر ہو اور اس وقت تمہارے لئے سب سے اہم تمہاری ڈیوٹی ہے، فی الحال یہ نبھاؤ، باقی ساری باتیں میں تمہیں فرصت سے سمجھا دوں گا۔“ بابک نے اس سے الگ ہوکر، اس کے آنسو صاف کیے۔

احرار نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ صاف کیا اور یونیفارم کی شرٹ پر اٹکے سیاہ سن گلاسسز پہن لئے تا کہ اس کی نم آنکھیں دنیا کو اس کی ٹوٹی ہوئی حالت کی خبر نہ کردیں!

پھر دل مضبوط کرکے وہ بابک کے ساتھ باہر آیا جہاں باقی اہلکار اس کا انتظار کر رہے تھے اور اس کے آتے ہی بابک کو پولیس موبائل میں سوار کرکے وہاں سے لے گئے جسے آس پاس کے بنگلوز میں رہائش پذیر لوگوں نے تعجب سے بالکل ویسے دیکھا جیسے دو سال قبل کوئی جرم نہ ہوتے ہوئے نورالعین کو اس کے محلے والوں نے گرفتار ہوکر جاتا دیکھا تھا اور اس پر چہ میگوئیاں کی تھیں۔

کسی نے ٹھیک ہی کہا کہ جب وقت اپنی پر آکر پلٹتا ہے تو ساری بساط الٹی پڑ جاتی ہے اور ماہر سے ماہر کھلاڑی بھی مکافات کی مات کھا جاتا ہے۔


بخت کے تخت سے یک لخت اتارا ہوا شخص

تو نے دیکھا ہے کبھی جیت کر ہارا ہوا شخص


انتخاب


*****************************************


بابک کو فی الحال لاک اپ میں رکھا گیا تھا۔ کل اس کے کیس کی سماعت تھی تب تک اسے یہیں رہنا تھا اور سماعت کے بعد اسے جیل بھیجا جانا تھا۔

بابک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کا ایک پیر بالکل سیدھا زمین پر تھا اور دوسرا پیر موڑ کر، اس کے گھٹنے پر بازو رکھا ہوا تھا۔

وہ آنکھیں بند کیے بہت اطمینان سے بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ذہن میں آج صبح سویرے کا وہ منظر چل رہا تھا جب احرار کے پوچھنے پر اس نے اپنا دل کھول کر، اس کے آگے رکھ دیا تھا اور اعترافِ جرم کر لیا تھا۔


*****************************************


فلیش بیک


”بتائیں بھیا آپ کیوں یہ دوا کھا رہے ہیں؟ کس ذہنی دباؤ کا شکار ہیں آپ؟“ احرار نے آہستہ سے بابک کے ہاتھ کندھوں پر سے ہٹاتے ہوئے پھر جواب مانگا۔ آج احرار کا رویہ اسے بہت عجیب لگ رہا تھا۔

”میں خود بھی اس کی وجہ نہیں جانتا۔“ اس نے نظریں چراتے ہوئے دھیرے سے جواب دیا۔

”کہیں یہ تو وہ وجہ نہیں؟“ احرار نے ٹیبل پر رکھا لیپ ٹاپ اس کی جانب گھمایا تو اسکرین دیکھ کر وہ بھی اپنی جگہ ششدر رہ گیا۔

اسکرین پر ان کے گھر کے ہال میں لگے سی سی ٹی وی کی فوٹیج چل رہی تھی جس میں بابک نورالعین پر زور زبردستی کی کوشش کرتے ہوئے بہت واضح نظر آرہا تھا اور تب ہی اس نے اپنے دفاع میں بابک پر گلدان سے حملہ کردیا جس کے بعد بابک ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگیا اور نورالعین وہاں سے فرار ہوگئی۔

”آپ یہ ہی سوچ رہے ہوں گے کہ مجھے یہ سب کیسے پتا چلا؟“ بابک کا حیرت زدہ تاثر دیکھ کر احرار خود ہی گویا ہوا۔

بابک نے بھی شاکی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

”ڈیوٹی جوائن کرتے ہی مجھے نورالعین کا کیس ملا، جس کی کیس فائل میں لکھا تھا کہ نورالعین شاہد عرف اینا کو اپنی یونیورسٹی میں ڈرگز سپلائی کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا، ثبوت کے طور پر پولیس کو اس کے گھر سے ڈرگز سے بھرا بیگ ملا تھا اور اس کے دو یونیورسٹی فیلوز، انس علوی اور سندس رفیق نے بھی کورٹ میں گواہی دی تھی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے نورالعین کو اسٹوڈنٹس کو ڈرگز بیچتے دیکھا ہے۔

جس طرح کا ماحول آج کل ہمارے تعلیمی ارادوں کا چل رہا ہے وہاں یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی، پھر بھی میں خود اس کی یونیورسٹی گیا، وہاں ٹیچرز وغیرہ سے پوچھ گچھ کی تو اکثریت کا کہنا تھا کہ اینا پڑھائی میں تو بہت اچھی تھی مگر تھوڑی غصے اور زبان کی تیز، الگ تھلگ رہنے والی لڑکی تھی، اکثر اس کا کسی نا کسی سے جھگڑا ہوجاتا تھا اور ایک اسٹوڈنٹ کو تو اس نے بھری کینٹین میں تھپڑ بھی مار دیا تھا جس کے بعد سب اسے ایروگینٹ کہنے لگے تھے۔

اس کے محلے میں پوچھ گچھ کی تو وہاں کے لوگوں کا بھی یہ ہی کہنا تھا کہ اس کے شوق بہت شاہانہ تھے، اس کی ماں ہر وقت اس کیلئے فکرمند رہتی تھیں، اکثر کوئی لڑکا اسے مہنگی گاڑی میں گھر بھی چھوڑنے آتا تھا، میں خود بھی جب اس سے ملا تو وہ مجھے بہت روڈ لگی۔

اتنی باتوں کے بعد مجھے لگا کہ شاید اب بھی وہ ہرجانے کی لالچ میں کیس ری اوپن کروانا چاہتی ہے اسی لئے میں نے اس کا کیس کلوز کیا اور دوسرے کیس دیکھنے لگا۔

تب ہی جیل سے رِہا ہونے پر اس نے خودکشی کی کوشش کی اور بچ گئی، میں ہی اسے ہاسپٹل لے کر گیا تھا جہاں اب کی بار اس کے انداز میں سختی نہیں بلکہ التجا تھی، وہ بہت ٹوٹی ہوئی لگ رہی تھی، میں نے اسے حوصلہ دیا کہ میں پرسنلی اس کا کیس دیکھوں گا۔

پھر اسے گھر ڈراپ کرتے ہوئے اس نے مجھے تفصیل بتائی کہ انس علوی نے ایک تھپڑ کا بدلہ لینے کیلئے اس کے ساتھ یہ سب کیا اور وہ بیگ بھی سندس رفیق نے اس کے گھر میں رکھا تھا، فی الحال ان سب پر یقین کرنا مشکل تھا مگر میں نے پھر بھی اپنے طور پر تفتیش کی۔

سب سے پہلے میں انس علوی کے گھر گیا، مگر وہاں پتا چلا کہ ایک ایکسیڈینٹ میں انس کے فادر اور چھوٹے بھائی کی ڈیتھ ہوگئی تھی جس کے بعد انس اور اس کی وائف بھی یہ گھر بیچ کر یہاں سے چلے گئے۔

پھر میں سندس رفیق کے گھر گیا تو پتا چلا دو سال پہلے وہ اپنے یونیورسٹی فیلو انس کے ساتھ کورٹ میرج کرکے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی تب سے وہ ان لوگوں کیلئے مر گئی اسی لئے وہ بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

میں پھر زیرو پر آگیا کہ کیسے نورالعین کے کیس میں کوئی سرا ڈھونڈوں؟

تو بلآخر میں یہ ساری معلومات اور کیس فائل لے کر نورالعین کے گھر پہنچا اور اسے پوری فائل پڑھوائی کہ شاید کوئی اہم بات درج ہونا رہ گئی ہو! اور وہ ہی ہوا۔

نورالعین نے بتایا کہ جب اس نے اپنا بیان دیا تھا تو ساری حقیقت بتائی تھی اور ساتھ بابک ملک کا بھی ذکر کیا تھا کہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ملا ہوا تھا اور اس نے نورالعین کا ریپ کرنے کی بھی کوشش کی تھی، اپنے بچاؤ پر اس پہ حملہ کرکے وہ فی الحال وہاں سے فرار ہوگئی تھی لیکن اس نے اس وقت کے آئی او سے کہا تھا کہ وہ بابک کا بھی پتا کریں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں؟ کیونکہ وہ بھی پورے پلان کا حصہ تھا۔ نورالعین جانتی تھی کہ اس نے خود بابک کا ذکر کیا ہے اور اگر وہ زندہ نہ ہوا تو اس کے قتل کا الزام اس پر آسکتا ہے، لیکن اگر وہ زندہ ہوتا اور قبول کر لیتا کہ یہ سب ان لوگوں کا پلان تھا تو وہ بچ سکتی تھی، اس نے یہ ایک فیصد رسک لیا تھا جو کہ کسی کام نہ آیا اور نہ ہی یہ سب آئی او نے کیس فائل میں لکھا جس کے بعد اسے دو سال کی سزا ہوگئی۔

جب اس کی زبانی میں نے آپ کا نام سنا تو ہل گیا، پھر سوچا یہ کوئی اتفاق بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی آپ کا ہم نام ہو!

میں نے اسے مزید کریدا تو اس نے بتایا کہ وہ بابک سے بہت متاثر تھی جس چیز کا سندس اور انس نے فائدہ اٹھا کر بابک کے ذریعے اسے جھوٹی محبت کے جال میں ٹریپ کیا، بابک نے اس سے شادی کا وعدہ کیا، اپنے مام ڈیڈ سے بھی ملوایا اور پھر ریپ کی کوشش کی۔

نام، ایڈریس، والدین کا نام سب سیم ہونے کے بعد میرے پاس انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں بچی۔ اس وقت میں نے اس پر کچھ ظاہر نہیں کیا کہ میں آپ کا بھائی ہوں اور یہ سوچ کر چپ چاپ گھر آگیا کہ پہلے آپ سے اس بارے میں بات کروں گا، مگر یہاں پتا چلا کہ آپ اور ڈیڈ اچانک ہی آسٹریلیاء چلے گئے ہیں۔

میں آپ کے واپس آنے کا انتظار کرنے لگا۔ مجھے یاد آیا کہ جب میں ہاسٹل سے گھر رکنے آتا تھا تو امی اکثر آپ کیلئے بہت پریشان رہتی تھیں کہ وہ آپ کے دوستوں کی صحبت سے خوش نہیں تھیں مگر ڈیڈ کی وجہ سے آپ کو زیادہ ٹوک نہیں پاتی تھیں۔

پھر ایک آخری تصدیق کیلئے میں نے نورالعین سے کہا کہ وہ مجھے بابک کے گھر لے کر چلے اور وہ مجھے میرے ہی گھر لے آئی۔ میری ایک اور امید ٹوٹ گئی۔

میں اسی الجھن میں تھا کہ کیا کروں اور کیا نہیں؟ تب ہی مسجد کا سی سی ٹی وی دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ ہمارے گھر کے اندر بھی تو ملازمین پر نظر رکھنے کیلئے کیمرے لگے ہوئے ہیں جن کی ساری ریکارڈنگ کا ریکارڈ ہمارے پاس رہتا ہے، میں نے گھر آکر دو سال پہلے والی سب ریکارڈنگز کی سی ڈیز نکالیں اور چیک کرنے لگا کہ کیا واقعی جیسا نورالعین نے بتایا ویسا کچھ اس کے ساتھ ہمارے گھر میں ہوا تھا؟ اور جب مجھے یہ فوٹیج ملی تو میری آخری امید بھی ٹوٹ گئی، مجھے یقین نہ آیا کہ میرے بھیا نے ایسا کیا؟ وہ بھیا جنہیں میں اپنا رول ماڈل مانتا تھا اور ان کے جیسا بننا چاہتا تھا، آپ نے ایسا کیوں کیا بھیا؟ امی کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئی تھی؟“ ساری تفصیل اس کے گوشِ گزر کرکے آخر میں احرار نے دکھ سے اس سے پوچھا جو چپ چاپ نظریں جھکائے کھڑا تھا۔

”کمی مام کی تربیت میں نہیں میری اپنی شخصیت میں ہے، تب ہی تو ان کے سائے میں پل کر بھی میں شیطانی صفت اپنا بیٹھا اور تم ان سے دور ہاسٹل میں رہتے ہوئے بھی ان کی باتوں پر عمل کرکے فرشتوں جیسے معصوم ہو!“ اس نے نظر اٹھاتے ہوئے برملا اعتراف کیا اور دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے صوفے پر آ بیٹھا جیسے کتنا لمبا سفر کرکے آیا ہو اور اب تھک گیا ہو۔

احرار بھی آکر آہستہ سے اس کے برابر میں بیٹھ گیا جس کے چہرے پر بہت واضح رنجیدگی تھی۔ جب کہ ان کے درمیان بہت بھاری خاموشی حائل تھی۔

”مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ زندگی بس عیش کرنے اور جیتنے کا نام ہے، یہاں کھل کر اپنی مستی میں جینا چاہیے اور اگر کوئی ہم سے ٹکر لے تو اسے ایسا سبق سکھانا چاہیے کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے۔“ بابک نے خاموشی کو توڑ کر بولنا شروع کیا کہ اب اس کی باری تھی۔

”میری موج مستیاں یوں ہی چل رہی تھیں تب ہی ایک نیا ایڈوینچر کرنے کیلئے میں نے انس سے شرط لگا لی کہ اینا جلد متاثر ہونے والوں میں سے نہیں ہے اور اس نے تجھے صحیح تھپڑ مارا ہے، کیونکہ اتنا تو میں بھی جانتا تھا کہ وہ یونیورسٹی کی ٹاپر ہے اور سب سے الگ تھلگ رہتی ہے، میں بھی اپنی میک اپ کی دکان چپکو گرل فرینڈز سے بور ہوچکا تھا اسی لئے اینا مجھے اپنے لئے بھی ایک تازہ ہوا کا جھونکا لگی کہ اگر وہ مجھ سے امپریس نہ ہوئی تو میں انس سے شرط جیت جاؤں گا اور اگر امپریس ہوگئی تو کچھ دن اس کے ساتھ انجوئے کرلوں گا!

میری توقع کے برعکس وہ بہت جلدی مجھ سے متاثر ہوگئی اور میں شرط ہار گیا۔ تب ہی سندس جو کہ انس کی سیکرٹ گرل فرینڈ تھی اس نے بتایا کہ اینا بہت پہلے سے مجھ سے متاثر ہے اسی لئے اس کے اس ویک پائنٹ کا فائدہ اٹھانا ہے۔

کیونکہ میں انس سے شرط ہارا تھا اسی لئے رول کے مطابق مجھے اس کی بات ماننی پڑی۔ اور اس کی بات یہ تھی کہ مجھے اینا کا ریپ کرنا ہے۔

میری گرل فرینڈز رہ چکی تھیں مگر میں کبھی کسی کے ساتھ اس حد تک فیزیکل نہیں ہوا تھا ایسے میں ریپ ناممکن تھا، میں جانتا تھا کہ یہ بات گھر پہنچی تو ڈیڈ صرف تھوڑا غصہ ہوکر مجھے کسی بھی کیس سے بچالیں گے مگر مام ہرٹ ہوجائیں گی، میں کتنا بھی گھٹیا، کمینہ، آوارہ، عیاش سہی لیکن میں کسی لڑکی کا ریپ نہیں کرسکتا تھا۔

میری اور انس کی کافی ضد بحث کے بعد فائنلی یہ طے پایا کہ میں کچھ دن مزید اینا کے ساتھ محبت کا ناٹک کروں گا اور پھر ایک فیک ریپ اٹیمپٹ کے ساتھ اس ڈرامے کا ڈراپ سین کردوں گا جس سے وہ ڈر جائے گی۔ اور کیونکہ میں نے اینا سے جھوٹ کہہ رکھا تھا کہ انس کا چھوٹا بھائی پولیس میں ہے اسی لئے ہم اور بےفکر تھے کہ وہ اس ڈر سے پولیس کے پاس بھی نہیں جائے گی۔

میں نے مام ڈیڈ سے اس کی ملاقات اسی لئے بس ایک دوست کی حیثیت سے کروائی تھی تا کہ بعد میں کوئی پرابلم نہ ہو اور اینا کو مجھ پر یقین بھی آجائے۔

پلان کے مطابق جس دن مجھے اینا کو اپنے گھر لانا تھا انس نے اس سے ایک روز پہلے ہی ریپ اٹیمپٹ کی جلدی مچا دی اور وجہ پوچھنے پر بتایا کہ اس نے اینا کے گھر میں سندس کے ذریعے ڈرگز رکھوائے ہیں اور پولیس کو اطلاع کر چکا ہے، کل تک پولیس اسے گرفتار کرلے گی اور وہ اس کی گرفتاری سے پہلے اینا کو اپنی عزت کیلئے روتا گڑگڑاتا دیکھنا چاہتا ہے، میں نے اسے ٹوکا کے یہ زیادہ ہوگیا ہے بس ریپ اٹیمپٹ تک ٹھیک ہے مگر وہ نہ مانا، مجھے بھی اینا سے کوئی خاص لینا دینا نہیں تھا اسی لئے سب کو ان کے حال پر چھوڑ کر، بےحس بن کر میں اپنے کام پر لگ گیا تا کہ میری طرف سے چیپٹر کلوز ہو آگے بھلے انس کا جو جی چاہے کرتا رہے۔

ان دنوں مام ڈیڈ ایک فنکشن اٹینڈ کرنے دبئی گئے ہوئے تھے، سارے ملازمین کو چھٹی دے کر میں اینا کو گھر لایا اور سب بتا کر اس کا جھوٹا ریپ کرنے کی کوشش کی۔ میرا ارادہ تھا کہ اینا کو تھوڑا تنگ کرنے کے بعد بھاگنے کا موقع دے دوں گا، یہ سب سی سی ٹی وی میں ریکارڈ ہوجائے گا جو انس کو دے کر اپنی جان چھڑاؤں گا جس میں وہ اینا کو روتا بلکتا دیکھ کر خوش ہوجائے گا۔

مگر اچانک ہی اینا نے میرے سر پر بہت وزنی گلدان مار دیا جس کے بعد مجھے اپنا کچھ ہوش نہیں رہا۔ اور جب میری آنکھ کھلی تو مجھے پتا چلا میں چھے مہینے تک کومہ میں تھا۔ کیونکہ ایک تو چوٹ بہت خطرناک تھی دوسرا میرا بہت خون بہہ گیا تھا۔ تمہیں شاید یاد ہی ہوگا کہ تمہیں بتایا گیا تھا میرا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا اسی لئے میں کومہ میں گیا! اس کی حقیقت یہ ہی تھی۔

انس مجھ سے ملا تو اس نے بتایا کہ اس روز وہ میرے گھر آیا تھا کہ اپنی آنکھوں سے اینا کی وہ حالت دیکھ سکے لیکن جب وہ گھر پہنچا تو میں وہاں زخمی پڑا تھا۔ وہ جلدی سے مجھے ہاسپٹل لے کر گیا اور ڈیڈ کو اطلاع کی۔

وہ بھی پہلی فرصت میں واپس آگئے۔ فوٹیج کے ذریعے انہیں پتا چل گیا تھا کہ یہ سب کیوں ہوا اور کس نے کیا؟ انہوں نے اینا پر کیس کرنا چاہا مگر انس نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ اس سے میں بھی ریپ کے جرم میں پھنس سکتا ہوں اور اینا ویسے بھی جیل میں ہے، انس نے اینا کے کیس کے آئی او طاہر کیانی کو خرید لیا تھا جس نے ساری رپورٹ اینا کے خلاف تیار کی اور یوں وہ جیل چلی گئی جس سے ڈیڈ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا مگر مام، وہ مجھ سے بہت ناراض ہوگئیں، انہیں مکمل اصل بات تو نہیں پتا تھی لیکن انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یقیناً ڈیڈ میری کوئی غلطی چھپا رہے ہیں!

میں کومہ سے تو باہر آگیا تھا مگر میں نارمل نہیں ہو پا رہا تھا، مجھے نیند نہیں آتی تھی، میں ہر وقت بےچین اور غصے میں رہتا تھا۔ اور بیماری کی وجہ سے جب مام کی ڈیتھ ہوئی اس کے بعد تو میری حالت اور بری ہوگئی، مجھے لگتا تھا کہ وہ مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئیں، اینا بھی ہر وقت میرے کانوں میں چلاتی ہے، ان سب سے تنگ آکر میں نے دو بار خودکشی کی بھی کوشش کی مگر مجھے بچا لیا گیا۔

میرے اس پاگل پن کے بارے میں کہیں سب کو پتا نہ چل جائے اسی لئے ڈیڈ مجھے کام کا بہانہ بنا کر علاج کیلئے آسٹریلیاء لے گئے، مگر پھر بھی کوئی فرق نہ پڑا، اور بہت جتن کے بعد بس اتنا ہوا کہ میں دوائیوں کے سہارے رہنے لگا، مجھے سونے کیلئے دوا کھانی پڑتی ہے، پرسکون رہنے کیلئے دوا کھانی پڑتی ہے مگر سب وقتی ہوتا ہے، لیکن اب لگ رہا ہے کہ میرا علاج صرف اعترافِ جرم ہے، مجھے مام اور اینا کا دل دکھانے کی آہ لگی ہے جس کا علاج کوئی دوا نہیں کرسکتی، اسی لئے تم مجھے گرفتار کرکے اینا کے پاس لے چلو، میں اس سے معافی مانگ کر عدالت میں سب بتا دوں گا۔“ کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند بابک نے بنا کسی لگی لپٹی کے ساری سچائی اسے بتا دی جسے سن کر وہ اپنی جگہ منجمند ہوگیا تھا۔


*****************************************


حال


بابک دیوار سے ٹیک لگائے، آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ اس کا ایک پیر بالکل سیدھا زمین پر تھا اور دوسرا پیر موڑ کر، اس کے گھٹنے پر بازو رکھا ہوا تھا۔

تب ہی لوہے کی سلاخوں والا دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے بھی آنکھیں کھولتے ہوئے گردن موڑی تو باوردی احرار لاک اپ میں داخل ہوتا نظر آیا۔

احرار اندر آکر بابک کے برابر میں ہی دیوار سے ٹیک لگا کر بالکل ویسے بیٹھ گیا جیسے وہ بیٹھا تھا۔

”میری نقل کر رہا ہے!“ بابک نے اسے یوں بیٹھتا دیکھ مسکرا کر مصنوعی طنز کیا۔

”ساری زندگی آپ جیسا ہی بننا چاہا تھا کہ شاید اس طرح ڈیڈ کا دل جیت سکوں لیکن۔۔۔۔۔“ اس نے دکھ سے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔

”لیکن تم مجھ سے بھی کئی ہزار گنا زیادہ بہتر ثابت ہوئے۔“ بابک نے فخریہ انداز میں بات مکمل کی۔

”کیا آپ شروع سے جانتے تھے بھیا کہ میں آپ کا سگا بھائی نہیں ہوں؟“ احرار نے بجھے دل سے جاننا چاہا۔

”نہیں، مجھے بھی دو سال پہلے ہی اتفاق سے پتا چلا، اس دن میں یونی سے گھر آکر اپنے کمرے میں جا رہا تھا جب مام ڈیڈ کی ضد بحث سنائی دی، میں تشویش کے مارے سیدھا ان کے کمرے میں چلا گیا جہاں ڈیڈ مام سے یہ کہہ کر چلے گئے کہ مجھے سچ بتا دیں، اور تب انہوں نے بتایا کہ وہ میری سگی ماں نہیں ہیں اور نہ تم میرے سگے بھائی ہو۔

میری سگی ماں کا نام آمنہ تھا، ان کی اور ڈیڈ کی لو میرج تھی، جب ان کی شادی ہوئی تب میری دادی بھی حیات تھیں، ڈیڈ ان سے بہت محبت کرتے تھے، شادی کے ایک سال بعد جب میں پیدا ہوا تو مانو ان کی محبت مزید گہری ہوگئی۔

جب میں دو سال کا تھا تب کسی بیماری کی وجہ سے ان کی ڈیتھ ہوگئی۔ ڈیڈ اپنی محبوب بیوی کی جدائی کے غم میں سب سے کٹ کر جیسے پتھر کے ہوگئے۔ مجھے بھی اس دوران دادی نے سنبھالا مگر وہ بھی کافی بیمار رہتی تھیں اسی لئے انہوں نے زبردستی ڈیڈ کی شادی اپنی ایک دور پرے کی جاننے والی کلثوم یعنی مام سے کروا دی کیونکہ ان کے شوہر کو کسی جرم میں پھانسی ہوگئی تھی جس کے بعد وہ اپنا دو ماہ کا بچہ یعنی تمہیں گود میں لئے بیوگی کی زندگی کاٹ رہی تھیں۔ اس شادی کی صورت انہیں اور ان کے بچے کو نام اور چھت مل گئی اور مجھے ماں!

مام نے تو گھر میں آتے ہی مجھے اپنی اولاد مان لیا تھا مگر ڈیڈ کیلئے بس وہ میری کیئر ٹیکر تھیں جس کا معاوضہ ڈیڈ ان کا اور ان کے بیٹے کا خرچہ اٹھا کر ادا کر رہے تھے۔

ان کی شادی کے چند ماہ بعد ہی دادی کا بھی انتقال ہوگیا جس کے بعد ڈیڈ مزید سخت ہوگئے۔

انہوں نے کبھی تمھیں دل سے قبول نہیں کیا مگر میرے لئے تو تم میرے چھوٹے بھائی تھے اور مام نے بھی ہمیشہ مجھے سکھایا کہ تمہارا خیال رکھنا ہے۔

ڈیڈ کا رویہ انہوں نے تو قبول کرلیا تھا مگر جب ڈیڈ مجھے پیار کرتے تھے اور تمہیں جھڑک دیتے تھے تو تمہارے ساتھ ساتھ وہ بھی دکھی ہوجاتی تھیں، اسی لئے انہوں نے تمہیں اسکول کے بعد ہاسٹل بھیج دیا کہ یہاں رہو گے تو بار بار ان کے رویے سے دکھی ہوگے۔

اس روز بھی وہ ڈیڈ سے اسی بات پر بحث کر رہی تھیں کہ وہ کیوں تم سے پیار سے پیش نہیں آتے جب میں وہاں آگیا تھا۔

ڈیڈ کا مزاج تو وہ کبھی سمجھ نہیں پائیں مگر انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا کہ ان کے جیتے جی اور جانے کے بعد بھی میں ہمیشہ تم سے ایسی ہی محبت کروں گا اور تمہارا خیال رکھ کر تمہیں ڈیڈ کے غصے سے بچاؤں گا، تمہیں کبھی مام کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا، اور میں نے آخری سانس تک یہ وعدہ نبھانے کا وعدہ کیا تھا جو میں آخری سانس تک نبھاؤں گا، تم بہت خوش قسمت ہو کہ مام جیسی عظیم عورت کی کوکھ سے پیدا ہوئے اور ان ہی کے نقشِ قدم پر چلے اور میں بہت بدبخت ہوں جو ان کے پاس رہ کر بھی ان جیسا نہ بن سکا بلکہ الٹا انہیں ہرٹ کر دیا۔“ ساری بات کسی کہانی کی مانند بتاتے ہوئے بابک نے آخر میں خود کو ملامت کی۔

احرار ساری بات چپ چاپ سنتا رہا۔ اسے آج اپنی ماں کی الجھی ہوئی باتوں کے سارے مفہوم سمجھ آگئے تھے۔

”امی نے مجھے سے بھی وعدہ لیا تھا کہ ہر حال میں آپ کا خیال رکھوں اور کبھی اگر آپ غلط راہ پر چل پڑیں تو وہاں سے آپ کو واپس کھینچ کر لاؤں، مجھے اب سمجھ میں آیا کہ امی کیوں ہمیشہ مجھ سے ایسے وعدے لیتی تھیں!“ احرار کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے بولا۔

”اور تم وعدہ نبھا کر مجھے واپس لے آئے۔“ بابک نے مسکراتے ہوئے محبت سے اپنے بھائی کو دیکھا۔

”آپ مجھ سے ناراض نہیں ہیں کہ آپ کا بھائی ہوتے ہوئے میں نے نورالعین کا ساتھ دیا اور جو ثبوت میں مٹا کر آپ کو بچا سکتا تھا وہ آپ کے خلاف استعمال کر لئے؟“ احرار نے بھی براہ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے جاننا چاہا۔ تو وہ دھیرے سے ہنسا۔

”صرف گرفتار ہونے سے بچا پاتے، وہ تو ڈیڈ نے بھی اب تک بچایا ہوا تھا، مگر بےسکونی کا جو عذاب پچھلے دو سالوں سے مجھ پر مسلط ہے میں اس سے نجات چاہتا تھا اور جب صبح تم نے مجھ سے وہ سب پوچھا تو مجھے لگا اب اعتراف ہی میری نجات کا آخری حل ہے۔“ بابک نے دیوار سے سر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ جیسے بہت دنوں بعد سکون سا ملا ہو!

”اعتراف تو کرلیا، اب بس مجھے اینا سے مل کر اس سے معافی مانگنی ہے۔“ وہ اسی طرح مزید بولا۔ جب کہ احرار چپ چاپ اس کا چہرہ دیکھے گیا۔

”تم تو ملے ہو اینا سے، کیسی ہے وہ؟ وہیں پرانے گھر میں رہ رہی ہے؟ ابھی تک ویسے ہی پٹر پٹر بولتی ہے؟ ویسے ہی سج سنور کر رہتی ہے یا بدل گئی ہے؟“ بابک نے یکدم آنکھیں کھولتے ہوئے بےتابی سے کئی سوال کر ڈالے۔

احرار نے بےساختہ نظریں چرا لیں۔

”جی ملا ہوں، وہیں رہ رہی ہے مگر بہت بدل گئی ہے، جیسا آپ نے بتایا ایسا تو کچھ نہیں ہے، بہت خاموش اور سنجیدہ رہتی ہے۔“ اس نے دھیرے سے بتایا۔

”مجھے اس سے ملنا ہے احرار!“ اس نے اُتاؤلے بچے کی مانند فرمائش کی۔

”کل آپ کی پیشی ہے، کل کورٹ لے آؤں گا میں اسے، وہاں مل لیجئے گا۔“ اس نے مختصر جواب دیا۔

”اسے پتا ہے کہ تم نے مجھے گرفتار کرلیا ہے؟“ اس نے نیا سوال کیا۔ احرار نے نفی میں سر ہلایا۔

”اچھا کیا وہ میرے بارے میں تم سے بات کر۔۔۔۔۔“

”آپ کیلئے کچھ کھانے کو بھجواؤں بھیا؟“ بابک اینا کے بارے میں مزید بات کرنا چاہ رہا تھا تب یکدم احرار نے بات کاٹ کر موضوع ہی بدل دیا۔ اسے بابک کا نورالعین کے بارے میں بات کرنا نہ جانے کیوں اچھا نہیں لگ رہا تھا۔

احرار کا رویہ غیر محسوس انداز میں اس بچے جیسا ہوگیا تھا جو کسی دوسرے بچے کی آمد پہ اپنے فیورٹ کھلونے کو لے غیر محفوظ ہوجاتا ہے اور اسے فوری کہیں چھپانے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں آنے والا بچہ اس کا کھلونا چھین کر نہ لے جائے!


وحشت زدہ کیا ایک خیال کی روانی نے

کہ وجود کسی تیسرے کا بھی ہے کہانی میں


انتخاب


*****************************************


سورج اپنا فرض پورا کرکے اب غروب ہوچکا تھا۔ احرار ایک مصروف دن گزار کر ابھی گھر میں داخل ہوا تھا جس کے کونے کونے سے اسے وحشت ٹپکتی محسوس ہوئی۔ اور وحشت ہوتی بھی کیوں نہیں؟ ایک وقت پر یہاں کسی کی روتی ہوئی سسکیاں گونجی تھیں، اس گھر کو ایک بےقصور کی آہ لگی تھی۔

وہ اپنے کمرے میں جانے کے بجائے جبار صاحب کے کمرے کی جانب آیا۔ کمرے کا دروازہ آدھ کھلا تھا۔ جس کے دوسری جانب سے جبار صاحب کی جھنجھلائی ہوئی آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

”میں کچھ نہیں جانتا، کسی قانون کو نہیں مانتا، مجھے کسی بھی قیمت پر میرا بیٹا حوالات سے باہر چاہئے بس!“ وہ کسی کو حکم دے رہے تھے۔

احرار نے ذرا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو وہ فون پر کسی سے بات کرتے ہوئے بے چینی سے یہاں وہاں ٹہلتے نظر آئے۔

”اب تم آگے سے مجھے وہی گھسا پِٹا جواب مت دینا کہ بابک نے خود اعترافِ جرم کیا ہے اسی لئے اب کچھ نہیں ہوسکتا، صبح سے یہ ہی بات سن رہا ہوں میں سب کے منہ سے، تم بس میرے بیٹے کو باہر نکالنے کا کوئی طریقہ ڈھونڈو، بدلے میں تمہیں میں منہ مانگی قیمت دوں گا۔“ انہوں نے بے چینی سے کہتے ہوئے پیشکش کی۔

پھر فون بند کرکے وہ گرنے کے سے انداز میں صوفے پر بیٹھ گئے اور سر بھی دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔

باوردی احرار دروازہ دھکیلتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔

”ڈیڈ!“ اس نے آہستگی سے پکارا۔

انہوں نے سر اٹھا کر، اس کی جانب دیکھا۔ اور اسے دیکھتے ہی ان کی پریشان آنکھوں میں یکدم قہر اتر آیا۔

”کیا کرنے آئے ہو تم یہاں؟“ وہ غصے کے عالم میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

”ڈیڈ! مجھے پتا ہے کہ جو ہوا اچھا نہیں ہوا، لیکن آپ میر۔۔۔۔“

”شٹ اپ! مجھے تمہاری کوئی بکواس نہیں سننی ہے، یہاں تک کہ تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی، دفع ہو جاؤ یہاں سے، اور خبردار جو اگر آئندہ تم نے مجھے ڈیڈ کہا، نہیں ہو تم میرے بیٹے، میرا بیٹا صرف بابک ہے اور صرف اس کے کہنے پر میں اب تک چپ تھا مگر اب نہیں رہوں گا، آئی سمجھ! اب جاؤ یہاں سے۔“ انہوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے طیش میں حکم دیا۔

”لیکن صرف ایک بار۔۔۔۔“

”میں نے کہا دفع ہو جاؤ یہاں سے، ورنہ میرے دماغ کی رگ پھٹ جائے گی!“ انہوں نے پھر اس کی بات پوری ہونے سے قبل غصے میں رخ پھیرا۔

وہ چند لمحے دکھ بھری بےبس نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر بنا مزید کوئی بات کیے کمرے سے باہر نکل گیا۔

جبار صاحب نے پاس پڑی میز پر غصے میں زور سے لات ماری جس کے نتیجے میں اس پر رکھا گلدان زمین بوس ہوکر کئی ٹکڑوں میں بکھر گیا۔


************************************


احرار دلبرداشہ سا اپنے کمرے میں آیا اور گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔

محض ایک دن میں اس کی پوری دنیا سرے سے پلٹ گئی تھی۔

پہلے بھائی نے اعترافِ جرم کرکے اس کا مان توڑا، پھر دل پر پتھر رکھ کر اسی عزیز جان بھائی کو گرفتار کرنا پڑا، اور آخری انکشاف نے تو اسے توڑ کر ہی رکھ دیا کہ جن کے ساتھ وہ ہمیشہ سے رہتا آیا تھا وہ اس کے اپنے نہیں تھے۔ دنیا میں آنے سے قبل اس کے باپ کی موت ہوگئی تھی، ماں سے بھی زیادہ عرصہ دور رہا اور اب ان کے جانے کے بعد وہ بھری دنیا میں سرے سے اکیلا ہوگیا تھا۔ اس دنیا میں اس کا کوئی سگا رشتہ نہیں تھا۔

”احرار! مام کی ایک امانت میرے پاس ہے۔“ اسے اچانک بابک کی بات یاد آئی جو اس نے جیل میں کہی تھی۔

وہ یکدم اٹھا اور سیدھا بابک کے کمرے میں آکر اس کی الماری کی جانب بڑھا۔

”میری الماری کی لیفٹ سائیڈ پر سب سے نیچے ایک کبرڈ ہے، وہاں ایک سفید لفافہ ہوگا جس پر احرار لکھا ہے، وہ لفافہ مام نے مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر تمہارے ڈیوٹی جوائن کرنے سے پہلے انہیں کچھ ہوجائے اور تمہیں سچ پتا چل جائے! تو تمہارے ڈیوٹی جوائن کرنے پر یہ میں تمہیں دے دوں، مگر جس وقت تم نے جوائننگ کی تب میں اپنی ذہنی حالت کی وجہ سے تم سے مل نہیں پایا اور پھر یہ سب ہوگیا، تم گھر جا کر وہ لفافہ نکال کر چیک کرلینا۔“

بابک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس نے مطلوبہ لفافہ نکالا جس کے پیچھے نیلی اِنک سے اردو میں لکھا تھا ”میرے احرار کیلئے“ یہ پڑھ کر اس کا دل زور سے دھڑکا۔ یہ لکھائی اس کی ماں کی تھی جسے اس نے بےساختہ چوم لیا جیسے ان کی خوشبو محسوس کرنا چاہتا ہو۔

پھر تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے لفافہ چاک کیا اور اندر سے کچھ چیزیں بر آمد کیں۔

بابک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس نے مطلوبہ لفافہ نکالا۔

جس کے پیچھے نیلے قلم سے اردو میں لکھا تھا ”میرے احرار کیلئے“ یہ لکھائی اس کی ماں کی تھی جسے اس نے بےساختہ چوم لیا جیسے ان کی خوشبو محسوس کرنا چاہتا ہو۔

پھر تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے لفافہ چاک کیا اور اندر سے کچھ چیزیں بر آمد کیں۔

ایک تہہ شدہ کاغذ تھا جس کے ساتھ ایک تصویر اور چند مزید ڈاکومینٹس تھے۔

اس نے سب سے پہلے تصویر دیکھی۔

یہ کلثوم کی جوانی کی تصویر تھی جس میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھیں اور ان کے کندھے کے گرد بازو حائل کیے ایک جوان مرد بھی کھڑا تھا۔ دونوں کے مسکراتے چہرے بہت ہی خوش اور کھلے کھلے لگ رہے تھے۔

پھر اس نے تہہ شدہ کاغذ کھولا، وہ دو صفحے ایک ساتھ تہہ تھے۔ یعنی خط بہت طویل تھا۔

وہ نیلی اِنک سے لکھی گئی تحریر پڑھنے لگا۔

”میرے پیارے بیٹے احرار! کبھی سوچا نہیں تھا کہ تم سے ایسے مخاطب ہونا پڑے گا، مگر حالات بھی بھلا کب ہماری سوچ کے مطابق چلتے ہیں؟

جس وقت میں یہ خط لکھ رہی ہوں اس وقت تم ہاسٹل میں ہو، بابک اور جبار ایک ضروری کام سے آسٹریلیاء گئے ہوئے ہیں، جب تمہیں یہ خط ملے گا اور تم اسے پڑھو گے تو پتا نہیں کون کہاں ہو؟ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ یہ خط پڑھتے وقت تم اپنی ڈیوٹی جوائن کرچکے ہوگے اور۔۔۔۔۔۔اور تمہیں یہ بھی پتا چل گیا ہوگا کہ جبار تمہارے سگے باپ نہیں ہیں، کیونکہ یہ خط میں بابک کے ذریعے تم تک بھیجوں گی اور اسے یہ ہی کہوں گی کہ جب وہ تمہیں یہ راز بتا دے گا، تم ڈیوٹی جوائن کرچکے ہو گے تب یہ تمہیں دے۔

تم ہمیشہ مجھ سے پوچھتے تھے نا کہ ڈیڈ بھیا کے جتنا پیار تمہیں کیوں نہیں کرتے؟ تو اس کا جواب ہے کیونکہ بابک ان کی محبوب بیوی کی آخری نشانی ہے اور تم بس ایک زبردستی کی ذمہ داری۔ جانتی ہوں کہ یہ بات تلخ ہے مگر یہ ہی حقیقت ہے میرے بچے۔

جب میں جبار سے شادی کرکے اس گھر میں آئی تھی تو خود سے عہد کیا تھا کہ کبھی تم میں اور بابک میں فرق نہیں کروں گی اور ساتھ یہ امید بھی تھی کہ جبار بھی تمہیں باپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔ مگر جیسے جیسے وقت تھوڑا آگے بڑھا اور تم دونوں تھوڑے بڑے ہوئے تو میری یہ امید ٹوٹ گئی، مگر خود سے کیا عہد میں نے کبھی نہیں توڑا۔

تمہارے ساتھ یہ امتیازی سلوک ہوتا دیکھ میں نے ان سے بات کی کہ وہ اس طرح کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے صاف جواب دے دیا کہ ان سے جھوٹی محبت نہیں ہوتی، جو ان کے دل میں ہوتا ہے وہ ہی زبان پر رکھتے ہیں، اور جب تم تھوڑے سمجھدار ہوگے تو وہ تمہیں بتا دیں گے کہ وہ تمہارے سگے باپ نہیں ہیں جس کے بعد مرضی تمہاری ہوگی کہ تم ان کے ساتھ رہنا چاہو گے یا نہیں؟ اگر رہو گے تو وہ جیسے ابھی تمہاری ذمہ داری اٹھا رہے ہیں ویسے ہی تب بھی اٹھائیں گے لیکن ان سے کسی والہانہ پن کی توقع نہ کی جائے۔ ابھی بھی اگر میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں تو ایسے ہی رہنا ہوگا ورنہ طلاق لے کر جا سکتی ہوں۔

میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا کروں؟

پہلے سوچا طلاق لے کر الگ ہوجاتی ہوں، پھر خیال آیا کہ جاؤں گی کہاں؟ والدین تھے نہیں، شوہر کے جانے کے بعد بڑی مشکل سے تمہیں لے کر اپنی چاچی کے گھر رہ رہی تھی مگر اب وہ بھی مجھے جگہ نہیں دیں گی، تعلیم بھی میرے پاس کوئی اتنی زیادہ نہیں ہے، نہ کوئی ہنر ہے، اکیلی ہوتی تو رسک لے لیتی لیکن تمہیں لے کر کہاں در در بھٹکوں گی؟

پھر بابک کا خیال آیا، وہ بھی اس عرصے میں مجھ سے بہت مانوس ہوگیا اور مجھے ماں کا درجہ دیتا تھا کہ سچ تو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔

بہت سوچ بچار کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ جب یہاں سے جا کر بھی زمانے کی ٹھوکر ہی کھانی ہے تو کیوں نہ یہ کڑوا گھونٹ پی لیا جائے!

جبار نے تمہیں بیٹے کو طور پر اپنانے سے انکار کیا تھا مگر تمہارے سارے خرچے اور ذمہ داریاں وہ اٹھانے کو تیار تھے، یہاں تمہیں باپ کی شفقت نہ بھی ملتی تو ایک اچھا مستقبل یقینی تھا، لیکن یہاں سے جانے کے بعد میں اکیلی تمہیں شاید کچھ بھی نہ دے پاتی، اسی لئے سمجھوتہ کرلیا۔

تم سوچ رہے ہو گے کہ کتنی بزدل تھی تمہاری ماں، تم ٹھیک سوچ رہے ہو، ہاں میں بزدل تھی کہ بہادری سے ہمت باندھنے والا کبھی کوئی ملا ہی نہیں، پہلے کم عمری میں والدین گزر گئے، چاچی نے مجھے پالا نہیں برداشت کیا تھا، اور جب قسمت سے ایک اچھا شوہر ملا تو ان کی زندگی نے انہیں میرے ساتھ رہنے کی مہلت نہ دی اور شادی کے محض چھے مہینے بعد وہ مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے ہی چلے گئے۔

اس خط کے ساتھ جو چند ڈاکومینٹس ہیں وہ تمہارے ابو کے کیس کے ہیں، اور جو تصویر ہے وہ میری اور تمہارے ابو کی ہے، ان کا نام ابرار سکندر تھا، وہ بہت اچھے انسان تھے، یوں سمجھو کہ تم صورت اور سیرت دونوں میں ان کی طرح ہو، وجیہہ اور نرم دل، ہماری زندگی اچھی گزر رہی تھی، ہمیں تمہارے آنے کی اطلاع مل چکی تھی، وہ تمہارے لئے بہت بےتاب تھے، مگر تب ہی ایک بےرحم نے انہیں ایک جھوٹے قتل کے کیس میں پھنسا دیا، انہوں نے وہ قتل نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ قتل ہوتے دیکھا تھا، لیکن اس قاتل نے خود کو بچانے کیلئے ابرار پر ناصرف الزام لگایا بلکہ جھوٹے ثبوتوں کے ساتھ اسے سچ بھی ثابت کردیا، وہ لاکھ چیخے چلائے لیکن شاید قانون صرف اندھا ہی نہیں بہرا بھی ہوگیا تھا، جس نے ان کی ایک نہ سنی اور انہیں پھانسی ہوگئی، میں تمھیں اپنی کوکھ میں لیے ایک بار پھر بےسہارا ہوگئی۔

اسی لئے اس بزدل عورت نے ایک سنگدل مرد کی پناہ اس کی ساری شرطوں سمیت چپ چاپ قبول کرلی۔

تمہیں جبار کا رویہ زیادہ محسوس نہ ہو اسی لئے دل پر پتھر رکھ کر خود سے دور ہاسٹل بھیج دیا کہ تم پڑھ لکھ کر اپنا مستقبل بناؤ۔

تم پر تو میں اپنی چلا لیتی تھی لیکن بابک کے معاملے میں زیادہ نہیں بول پاتی تھی۔ بابک دل کا بہت اچھا ہے مگر اس کے دوستوں کی سنگت ٹھیک نہیں ہے، میں نے کئی بار بابک کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے مگر جبار کی شہ میری ساری نصیحت اور کوششوں پر پانی پھیر دیتی اور درست سمت پر آتا بابک پھر بھٹک جاتا ہے۔

ان دونوں باپ بیٹوں کے بیچ کیا باتیں چلتی رہیں مجھے علم نہیں، لیکن اتنا اندازہ ضرور ہے کہ وہ بابک کی غلطیوں پر اسے سمجھانے کے بجائے اس پر پردہ ڈالتے آرہے ہیں اور آگے بھی ڈالیں گے۔

تب ہی میں تمہیں ہمیشہ کہتی ہوں اور اب پھر کہہ رہی ہوں کہ کبھی بھی اپنے بھیا کو غلطی پر دیکھو تو بھائی ہونے کے ناطے سزا سے بچانے کیلئے اس کی غلطی پر پردہ مت ڈالنا، بلکہ اسے سزا دلوا کر سیدھی راہ پر لانا، وہ آجائے گا، بس کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر لانے والا ہونا چاہئے، اور اپنے بھائی کیلئے تم وہ مسیحا ہاتھ بننا بیٹا۔

یہ ساری باتیں میں تم سے روبرو کرنا چاہتی تھی، خود بابک کو ان غلط راستوں سے روکنا چاہتی تھی لیکن میری صحت دن بہ دن بہت تیزی گر رہی ہے جس نے مجھے ڈرا دیا ہے کہ کہیں میرے دل کی بات دل میں نہ رہ جائے اسی لئے اسے کاغذ پر اتار کر تم تک پہنچایا ہے۔

تمہیں پولیس آفیسر بنانے کی میری خواہش کے پیچھے بھی یہ ہی وجہ تھی کہ میں چاہتی تھی جو ناانصافی تمہارے ابو کے ساتھ ہوئی وہ تم کسی اور کے ساتھ نہ ہونے دو اور ساتھ ہی ساتھ اس لائق بن سکو کہ اپنے بھائی کو بھی سنبھال پاؤ۔

ہوسکے تو اپنی بزدل ماں کو معاف کر دینا بیٹا جو تمہیں باپ کی شفقت نہیں دلوا پائی، لیکن مجھے اتنا یقین ہے کہ میرے جانے کے بعد بھی اگر کوئی تم سے مجھ جیسی محبت کرے گا تو وہ بابک ہے، زندگی کے ہر موڑ پر تم دونوں بھائی ایک دوسرے کا ساتھ دینا، ایک دوسرے کا سہارا بننا، برائی کا جواب بھی اچھائی سے دینا بیٹا اس سے تمہاری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی، اور سب سے ضروری بات تو رہ ہی گئی۔۔۔۔۔میرے بیٹے کو اس کا عہدہ بہت بہت مبارک ہو، اللہ تمہیں خوب ترقی دے، دل لگا کر ایماندری سے اپنا فرض نبھانا میرے بچے، اللہ حافظ!“

خط کا آخری لفظ پڑھتے ہی اس نے آنکھیں بند کیں تو آنکھوں میں جمع آنسو گالوں سے پھسل کر خط پر گرے۔ جیسے ان لفظوں کو عقیدت سے بوسہ دینے آگئے ہوں!

اس نے دوبارہ ہاتھ میں موجود تصویر کو دیکھا تو اس مرد کے چہرے میں اسے اپنی جھلک نظر آئی۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یقیناً وہ بھی اپنے باپ کا لاڈلا ہوتا! جب کہ کلثوم بھی ان کی سنگت میں بہت خوش نظر آرہی تھیں مگر ان کی خوشیوں کی عمر بہت مختصر ثابت ہوئی۔

اس نے ان کی تصویر سینے سے لگائی اور قسمت کی ستم ظریفی پر بےآواز رو پڑا جو محبتوں کے معاملے میں اس پر بہت تنگ تھی اور مزید تنگ ہوتی چلی جا رہی تھی۔


اب میرے لئے ہر روز دعا کون کرے گا؟

یہ فرض ادا ماں کے سوا کون کرے گا؟


چپکے سے مجھے چھوڑ کر چل دی یہ نہ سوچا

اب مجھ پہ جان و دل فدا کون کرے گا؟


میری جان، میرا لعل کہا کرتی تھی مجھے

اب قائم تیری ممتا کی فضا کون کرے گا؟


کرنے کو مجھے کہتی تھی ماں صبر ہمیشہ

اب صبر کی تلقین سدا کون کرے گا؟


ہر لمحہ رلاتی ہے تیری یاد مجھے ماں

اب میرے آنسو صاف کون کرے گا؟


انتخاب


دوسری جانب نورالعین بھی اپنی ماں کی یاد میں ان کی چیزیں اور تصاویر پلنگ پر پھیلائے بیٹھی حسرت بھری نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی۔

اس کی آنکھیں نم تھیں اور دل شدت سے اپنی ماں کی آغوش میں چھپنے کو چاہ رہا تھا۔ سماعت ان کی ڈانٹ سننے کو ترس رہی تھی، سر پہ وہ ان کی زور دار چپت کا لمس کھانا چاہتی تھی مگر ان میں سے کچھ بھی اب ممکن نہیں تھا۔

اپنی شدید لاحاصل خواہش پر بلکتے ہوئے وہ ان کی تصویر سینے سے لگائے رو پڑی۔


تیرے جانے کے بعد میں سمجھی ہوں ماں

تیری نصیحتوں کی حقیقت کیا ہے؟

تلخیِ حیات کیا ہے؟

خوابوں کا ٹوٹنا کیا ہے؟

مشکل ہے زندگی کتنی

دوستوں کی بےرخی کیا ہے؟

محبتوں میں کمی کیا ہے؟

تیرے دم سے کل کائنات تھی میری

جو تو نہیں تو دنیا میں رکھا کیا ہے

تیرے جانے کے بعد میں سمجھی ہوں ماں

تیرے جانے کے بعد میں سمجھی ہوں ماں


انتخاب


*****************************************

ایک نیا سویرا پھر نکل آیا تھا۔

نورالعین حسب معمول آفس جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔

اس نے گہرا نیلا سادہ سا سوٹ پہنا تھا اور کندھے پر سفید دوپٹہ لئے اب وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے سیاہ بالوں کو گدی پر کیچر لگا کر چہرے پر پھسلنے سے روک رہی تھی۔

تب ہی دروازے پر دستک ہوئی۔

وہ متعجب سی باہر آئی اور دروازہ کھولنے پر تعجب حیرانی میں بدل گیا۔

”السلام علیکم!“ باوردی احرار نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آپ اچانک؟“ اس نے حیرت کو الفاظ دیے۔

”جی آپ کو لینے آیا ہوں، ہمیں کورٹ چلنا ہے، آج آپ کے مجرموں کی پیشی ہے۔“ اس نے بنا کسی تہمید سادگی سے جواب دیا تو ہکابکا سی کھڑی نورالعین کو اپنی سماعت پر یقین نہ آیا۔


*****************************************


کورٹ میں معمول کی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اپنے کیس کو لے کر فکرمند یہاں سے وہاں گھن چکر بنا ہوا تھا۔ سفید پینٹ اور کالے کوٹ پہنے کافی سارے وکلاء بھی جابجا نظر آرہے تھے۔

احرار نورالعین کو لے کر کورٹ پہنچ چکا تھا۔ پورے راستے نورالعین نے اس سے کئی سوالات کیے کہ کون گرفتار ہوا ہے؟ بابک زندہ ہے یا نہیں؟ اور وہ مجرم تک کیسے پہنچا؟

مگر اس نے صرف ایک جواب سے سارے سوالوں کا قتل کردیا کہ کورٹ جا کر سب پتا چل جائے گا۔

اپنے گرد سیاہ چادر اوڑھے نورالعین اس کی پیروی میں چلتی ایک چھوٹے سے کمرے میں داخل ہوئی جہاں کاغذات سے بھری کچھ الماریاں تھیں اور چند ایک لکڑی کی بینچز رکھی ہوئی تھیں۔

ان ہی میں سے ایک بینچ پر کوئی آدمی بیٹھا تھا۔ جس کے دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی اور اس نے دونوں ہاتھ آپس میں پیوست کرکے ان پر اپنا ماتھا ٹکایا ہوا تھا۔ نورالعین کوشش کے باوجود بھی پہچان نہ پائی کہ وہ کون ہے؟

”اینا آگئی ہے۔“ احرار نے اسے اطلاع دی۔

آواز پر اس نے چونک کر سر اٹھایا اور خود بھی اپنی جگہ پر سے کھڑا ہوگیا۔ جب کہ نورالعین اسے دیکھتے ہی ششدر رہ گئی۔

”بابک!“ اس کے لب بےیقینی سے پھڑپھڑائے۔

”اینا!“ اس کے لبوں سے بھی سرگوشی نکلی۔


تھی شام زہر رنگ میں ڈوبی ہوئی کھڑی

پھر اک ذرا سی دیر میں منظر بدل گیا

مدت کے بعد آج اسے دیکھ کر منیر

اک بار دل تو دھڑکا مگر پھر سنبھل گیا


منیر نیازی


بابک چند قدم اٹھا کر حیرت زدہ سی کھڑی نورالعین کے مقابل آ کھڑا ہوا جو خود سے دراز قد بابک کو بےیقینی سے دیکھے جا رہی تھی۔ جب کہ احرار چپ چاپ دروازے کے پاس کھڑا تھا۔

بابک کے کلین شیو چہرے پر اب شیو آ چکی تھی۔ چمکتی ہوئی سیاہ آنکھیں اداس تھیں جیسے برسوں کی جاگی ہوئی ہوں اور زندگی سے بھرپور ہنسی بھی کہیں کھو گئی تھی۔

”تم زندہ ہو!“ کافی دیر بعد وہ بس اتنا ہی بولی۔

”ہاں، لیکن مُردوں سے بھی بدتر حالت میں۔“ وہ کرب کے عالم میں زخمی انداز سے مسکرایا۔

”مُردوں سے بھی بدتر زندگی تو میں نے جی ہے پچھلے دو سال تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے، اور میں یہ نہیں کہوں گی کہ وہ ایک ناکردہ غلطی کی سزا تھی۔۔۔۔غلطی تو میں نے کی تھی۔۔۔۔۔تم پر اعتبار کرکے۔۔۔۔۔مگر تم اتنی بھیانک سزا دو گے یہ نہیں سوچا تھا۔“ اس کے سخت لہجے میں ٹوٹے ہوئے مان کی چبھن تھی جسے محسوس کرکے وہ مزید شرمندہ ہوا۔

”تمہیں لگتا ہے کہ یہ دو سال بس تم نے ہی اذیت میں گزارے، مگر تم نہیں جانتی کہ تمہیں اس حال کو پہنچانے والے بھی اس پورے عرصے ایک پل کو سکون سے نہیں رہے، پھر چاہے پورا پلان جاننے کے باوجود چپ رہنے والا میں ہوں، یا پلان بنانے والے انس اور سندس!“

بابک نے اسی شرمندگی کے ساتھ بولنا شروع کیا اور پھر اول تا آخر وہ ساری روداد اسے سنا دی جو احرار کو سنا کر، اس کے سامنے اعترافِ جرم کیا تھا۔

جسے وہ دم سادھے سنتی گئی۔

”جب میں زیر علاج تھا تب ہی سندس اور انس نے گھر والوں کے خلاف جا کر شادی کرلی تھی، جس کے کچھ وقت بعد انس کے فادر اور بھائی کی ڈیتھ ہوگئی جس کے بعد انس بزنس نہیں سنبھال پایا اور سب تباہ ہوگیا، اس پر کروڑوں کا قرض آگیا، جو گھر اور فیکٹریز بیچ کر بھی ادا نہ ہوا تو قرض داروں سے چھپنے کیلئے اور پیسے نہ ہونے کی وجہ سے دونوں اپنی پہچان بدل کر ایک پسمنده علاقے میں رہنے لگے.

شروعات میں میرا ان سے رابطہ تھا مگر پھر ڈیڈ نے میری بگڑتی ذہنی حالت دیکھ کر میرے سب دوستوں سے میرا رابطہ ختم کردیا اسی لئے میں بھی ان لوگوں کی کوئی مدد نہیں کرپایا، یہ تب تک کی بات ہے جب تک میں ان سے رابطے میں تھا اب کا مجھے علم نہیں، اب تو شاید ان کی حالت مزید بری ہوگئی ہوگی، جیسے میری ہوگئی ہے۔

وہ دونوں نہیں جانتے کہ میں نے سرینڈر کرکے ان کا نام بھی پولیس کو بتا دیا ہے اور پولیس انہیں کسی بھی وقت گرفتار کرسکتی ہے، کیونکہ میں جان گیا ہوں کہ ہمیں تمہاری آہ لگی ہے، اسی لئے میں تم سے یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے معاف کردو یا کیس واپس لے لو، بس دیکھ لو کہ ہم بھی دردناک عذاب میں ہیں۔۔۔دردناک ذہنی عذاب!“ ساری صورت حال اسے سنا کر وہ نظریں جھکائے خاموش ہوگیا تھا۔

اور وہ تو پہلے ہی چپ چاپ اسے دیکھے جا رہی تھی جو شکستگی کی جیتی جاگتی تصویر بنا کھڑا تھا۔

”چاہو تو تھپڑ مار لو، گریبان پکڑ لو، چیخو چلاؤ مگر کچھ تو کہو اینا، تمہاری خاموشی بہت بھاری لگ رہی ہے۔“ بابک نے اسے مسلسل خاموش پا کر سہمے ہوئے انداز میں التجا کی۔


”کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ“

”ہائے اس ذود پشیماں کا پشیماں ہونا“


نورالعین نے چبھتے ہوئے شاعرانہ انداز میں لفظوں سے ہی طنز کا ایسا زور دار تھپڑ مارا کہ وہ مزید ندامت کے گڑھے میں دھنستا چلا گیا۔

تب ہی ایک سپاہی نے آکر دھیرے سے احرار کو کوئی پیغام دیا تو وہ اثبات میں سر ہلا کر ان لوگوں کی جانب متوجہ ہوا۔

”ہمارے کیس کی باری آگئی ہے۔“ احرار کی آواز پر دونوں ماضی کی گلیوں سے نکل کر واپس حال میں آئے۔


*****************************************


سب لوگ کورٹ روم میں جمع تھے۔ نورالعین لائن سے لگی بینچز میں سب سے آگے والی بینچ پر بیٹھی تھی۔ بابک کٹہرے میں شرمندہ سا موجود تھا۔ اور احرار بھی دیگر اہلکار کے ساتھ ایک کنارے پر کھڑا تھا۔

کاروائی شروع ہوگئی تھی۔ کیس کیونکہ یک طرفہ تھا اسی لئے بابک کی جانب سے کوئی وکیل نہیں تھا اور جو وکیل احرار نے نورالعین کی طرف سے ہائر کیا تھا وہ جج صاحب کو کیس کی تفصیلات بتا رہا تھا۔ جب کہ بابک بھی جج کے سامنے دوبارہ اعترافِ جرم کرکے انہیں ساری حقیقت سے آگاہ کرچکا تھا۔

تب ہی ایک سپاہی نے آکر احرار کے کان میں کچھ بتایا۔ جسے سنتے ہی وہ فوری وکیل کی پاس آیا، اسے یہ اطلاع دی اور پھر وکیل صاحب جج سے مخاطب ہوئے۔

”یور آنر اس کیس کے دو مرکزی ملزم بھی ابھی ابھی گرفتار کرلئے گئے ہیں، انہیں کورٹ میں پیش کرنے کی اجازت چاہتے ہیں۔“ وکیل نے مہذب انداز میں اجازت چاہی۔

”اجازت ہے۔“

جج کے کہتے ہی بےساختہ سب کی گردنیں دروازے کی جانب گھوم گئیں جہاں چند پولیس اہلکاروں کے درمیان سندس اور انس داخل ہوئے جنہیں دیکھ کر نورالعین ہکابکا رہ گئی۔

کمزور سی سندس بہت ڈھلک گئی تھی۔ جس نے بہت ہی پرانا سا گھسا ہوا سوٹ پہنا تھا۔ اور ایک وقت پر اسٹیپ کٹنگ کے ساتھ کھلے رہنے والے صحت مند بالوں کی چوٹی بندھی ہوئی تھی جو بےحد روکھے ہو رہے تھے۔

انس جو یونیورسٹی ٹائم پر اچھا خاصا فٹ ہوا کرتا تھا اب سفید شلوار قمیض پہنے، بیساکھی کے سہارے کھڑا کسی شدید بیماری کے باعث کمزور لگ رہا تھا جس کا دایاں پیر نہ ہونے کی وجہ سے شلوار کا فولڈ پائنچہ ہوا میں جھول رہا تھا۔

ان دونوں کی کایا سرے سے پلٹ گئی تھی۔ ایک وقت پر جو دنیا کی نظر میں بہترین ہوا کرتے تھے اب بدترین دور سے گزر رہے تھے۔ جس کی وجہ ان کے اپنے کوتک تھے۔

دونوں کو لاکر بابک کے کٹہرے کے نزدیک کھڑا کردیا گیا تھا۔ اور جس طرح حیران نظروں سے دونوں نے گرفتار ہوئے بابک کو دیکھا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ یہ سب کچھ ان کیلئے غیرمتوقع تھا۔ جب کہ بابک بھی انس کی معذوری دیکھ کر دنگ رہ گیا تھا۔

”جج صاحب اب جب مجرم بھی حاضر ہیں تو میں وہ ثبوت عدالت میں پیش کرنا چاہوں گا جو ایک وائس نوٹ ہے اور اس کے بارے میں ملزم بابک ملک نے خود اس کیس کے آئی او کو بتایا جس کے بعد انہوں نے کچھ ایکسپرٹس کی مدد سے یہ پرانے وائس نوٹ ریکور کرکے انہیں ایک آڈیو ریکارڈنگ کی شکل دی ہے۔“ وکیل دوبارہ کیس کی جانب متوجہ ہوا۔

اور جج کی اجازت ملنے پر وہاں ایک آڈیو ریکارڈنگ پلے کی گئی۔

”بابک بات سن! تو اینا کو پرسوں نہیں کل ہی اپنے گھر لے کر جا اور اسے فیک ریپ اٹیمپٹ کرکے ڈرا۔“

”کل کیوں؟ ہمارا پلان تو پرسوں کا تھا نا انس؟“

”ہاں تھا لیکن سندس ڈرگز کا بیگ اینا کے گھر رکھ آئی ہے جو اینا کے ہاتھ لگنے سے پہلے پولیس کو ملنا ضروری ہے، اسی لئے میں نے آج پولیس کو اطلاع کردی ہے وہ کل اس کے گھر پہنچ جائے گی، بس تو کل اس پر فیک ریپ اٹیمپٹ کرکے اس محبت کے ڈرامے کا ڈراپ سین کر آگے میں دیکھ لوں گا۔“

”یہ ڈرگز اور پولیس بیچ میں کہاں سے آگئی انس؟ ہمارا پلان بس اینا کو ڈرانا تھا جو فیک ریپ اٹیمپٹ سے ہوجائے گا، اب تو خواہ مخواہ بات کیوں بڑھا رہا ہے؟ ڈرگز کے کیس میں وہ بہت برا پھنس سکتی ہے، اور شاید ہم بھی، یہ ٹھیک نہیں ہے۔“

”یہ تیرا مسلہ نہیں ہے، میں اس کیس کے آئی او کو خرید لوں گا، ہم نہیں پھنسیں گے، اور اینا کو بھی بس دو، چار مہینے کی سزا ہوگی جس سے وہ یونی سی ریسٹیکیٹ ہوجائے گی اور اچھے سے اس کی اکڑ بھی نکل جائے گی، اب بس تو کل اسے لے کر گھر آ، اس کے بعد تیرا کام ختم!“

”مرضی ہے تیری، لیکن میں پھر بھی کہوں گا کہ ایک بار سوچ لے کیونکہ اگر کل کو کچھ الٹا سیدھا ہوا تو میں ہرگز تیری کوئی مدد نہیں کروں گا۔“

بابک کی بات کے ساتھ ہی آڈیو کلپ یہاں ختم ہوگیا۔ جسے سب بغور سن رہے تھے۔

احرار یہ سب پہلے ہی سن چکا تھا۔ جب کہ سب کچھ معلوم ہوتے ہوئے بھی یہ سننے کے بعد نورالعین کا دل پھر غم و غصے سے بھر گیا۔

”کیس بالکل صاف ہے یور آنر! انس علوی اور سندس رفیق نے ذاتی حسد و دشمنی کا بدلہ نکالنے کیلئے نورالعین شاہد کو ایک جھوٹے کیس میں پھنسایا جس کے بارے میں سب جانتے ہوئے بابک ملک خاموش رہے، اسی لئے میری عدالت سے گزارش ہے کہ نورالعین شاہد پر لگے سارے الزامات ہٹا کر انہیں بری کیا جائے، دو سال ناحق سزا کاٹنے کا ہرجانہ دیا جائے اور ساتھ ہی ان ملزمان کو سزا سنائی جائے، دیٹس آل یور آنر!“ وکیل نے کلوزنگ اسٹیٹمنٹ کے ساتھ ہی سر خم کیا۔

”آپ تینوں ملزمان کو اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے؟“ جج نے آخری بار ان سے پوچھا۔

ان کے پاس اب کہنے کو کچھ نہیں تھا جس کے باعث تینوں نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا۔

جج صاحب اپنے سامنے کھلی فائل پر کچھ لکھنے لگے۔

”تمام ثبوتوں اور گواہوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ملزم انس علوی اور سندس رفیق نے ہی جان بوجھ کر نورالعین شاہد کو جھوٹے کیس میں پھنسایا ہے جس کے بارے میں بابک ملک کو بھی علم تھا، لیکن کیونکہ انہوں نے خود سرینڈر کرکے عدالت کو ثبوت فراہم کیے ہیں اسی لئے پہلے یہ ثبوت چھپانے کے جرم میں عدالت انہیں دو سال کی قید سناتی ہے، جب کہ اس کیس کے مرکزی ملزم انس علوی اور سندس رفیق کو پانچ سالہ قید کی سزا سناتی ہے، ساتھ ہی نورالعین شاہد عرف اینا پر لگے تمام الزامات خارج کرکے انہیں اس کیس سے باعزت بری کرتے ہوئے یہ حکم دیتی ہے کہ دو سال کی بےبنیاد سزا کاٹنے کے بدلے انہیں پانچ لاکھ روپے بطور ہرجانہ ادا کیے جائیں، عدالت برخاست ہوئی!“

جج نے فیصلہ سنا دیا تھا جسے سن کر ان تینوں کی جھکی ہوئی گردنیں مزید جھک گئیں جب کہ لفظ ”باعزت بری“ پر بےساختہ تشکر کے مارے نورالعین کی آنکھیں بھر آئیں جس نے دونوں ہاتھ لبوں پر رکھ لئے تھے۔

احرار نے ایک بےبس دکھی نظر بابک پر ڈالی جو خاموش تھا، شرمندہ تھا، مگر بےچین نہیں تھا۔ اس کی طبیعت میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ آگیا تھا۔

سب لوگ اٹھ کر روم سے باہر جانے لگے۔

نورالعین بھی باہر کاریڈور میں آگئی تھی اور ایک کنارے پر کھڑی ابھی تک آب دیدہ تھی۔

”اب کیوں رو رہی ہیں؟ اب تو برا وقت ختم!“ احرار کی آواز پر وہ یکدم پلٹی جو قریب آچکا تھا۔

”ضروری نہیں ہے کہ آنکھ سے نکلنے والا ہر آنسو تکلیف کی شدت سے ہی نکلے، کچھ آنسو تشکر کی شدت سے بھی نکل آتے ہیں۔“ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے جواب دیا۔ آج اس کے انداز میں ایک انوکھا سا سکون تھا۔

”اللہ کرے آپ کی آنکھیں ہمیشہ تشکر کے آنسوؤں سے ہی نم رہیں۔“ اس نے بےساختہ دل سے دعا دی۔

تب ہی پولیس اہلکاروں کے درمیان وہ تینوں ہتھکڑی پہنے باہر آئے جنہیں یہ دونوں بھی دیکھ چکے تھے۔

”مجھے ان سے بات کرنی ہے۔“ نورالعین ان لوگوں کو دیکھتے ہوئے احرار سے بولی۔

اس کا حکم بجا لاتے ہوئے احرار سر ہلا کر آگے بڑھا اور اس طرف آتے اہلکاروں کو تھوڑی دیر رکنے کا کہا۔ نورالعین بھی تب تک ان لوگوں کے پاس آکر ان کے مقابل کھڑی ہوگئی تھی۔

اس کا ظاہری حلیہ اور چہرے کا اطمینان ان تینوں سے کئی گنا زیادہ بہتر تھا۔ آسان لفظوں میں کہا جائے تو وہ اس وقت بہت بہتر حالت میں تھی اور وہ لوگ بہت بدتر!

”میری غلطی اتنی بڑی تو نہیں تھی جتنا بڑا تم لوگوں نے انتقام لیا۔“ نورالعین تلخ انداز میں تینوں سے مخاطب ہوئی۔

”تمہاری غلطی بڑی نہیں تھی ہمارا ظرف چھوٹا تھا اسی لئے ایک ذرا سی بات کو بنیاد بنالیا، اور آج اسی کی سزا بھگت رہے ہیں۔“ انس نے شکستہ انداز میں شاید سب کی ترجمانی کی۔

وہ ہی انس جس سے اس قدر شرمندگی اور شکستگی کی کبھی امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس کی وہ اکڑ، وہ غرور سب مٹی میں مل گیا تھا جو ایک وقت پر اس کی شخصیت کا خاصا ہوا کرتا تھا۔

”تمہیں ایک تھپڑ مارا تھا تو تم اس حد تک چلے گئے، اب گرفتار ہوئے ہو تو شاید رِہا ہونے کے بعد میرا قتل ہی کردو گے!“ اس نے کاٹ دار طنزیہ لہجے میں اندازہ لگایا۔

”قتل تو ہم ہونا چاہتے ہیں، کاش عدالت ہمیں سیدھا پھانسی کی سزا سنا کر اس زندگی سے نجات دے دیتی جو کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔“ اب سندس گویا ہوئی تھی جس کا لہجہ بھی کرب سے چور تھا۔

”پلیز اینا ہم نے جو کچھ بھی تمہارے ساتھ کیا ہوسکے تو اس کیلئے ہمیں معاف کردینا، پلیز، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ قدرت ہمیں اتنی سخت سزا دے گی۔“ سندس اس کے آگے دونوں ہاتھ جوڑے رو پڑی۔

وہ ہی سندس جس نے کبھی اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر حقارت سے اس کی دھجیاں اڑائی تھیں۔

”تمہیں لگ رہا ہوگا کہ ہم سزا سے بچنے کیلئے ناٹک کر رہے ہیں، یا ہمیں اب سزا ملی ہے، لیکن درحقیقت ہم پچھلے دو سالوں سے کس قدر ذہنی، جسمانی اور مالی عذاب سے گزر رہے ہیں تمہیں اندازہ نہیں، اب تو تم نے ہمارا عذاب ہلکا کردیا۔“ انس نے بھی اسی ٹوٹے ہوئے انداز میں مزید بات جوڑی۔

ان لوگوں کی حالت اتنی بدتر ہو رہی تھی کہ لاکھ دشمنی کے باوجود نورالعین کو پل بھر کیلئے ان پر ترس آیا۔

”ہم جانتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ معافی کے قابل نہیں ہے، بس ہوسکے تو اب ہمیں مزید بددعا نہ دینا، تمہارا احسان ہوگا۔“ بابک نے بھی کہتے ہوئے باقاعدہ ہاتھ جوڑ لئے۔

اسے تباہ کرنے والے آج مکافات کا تھپڑ کھا کر اس کے سامنے سراپا ندامت بنے ہوئے تھے۔ جب کہ اس پر لگے سارے داغ دھل گئے تھے۔


مجھ کو خود اپنی تباہی پہ بڑا رشک آیا

دشمن میرے حال پہ اس درجہ پشیماں نکلے


”سر! اب ہمیں چلنا ہوگا۔“ ایک سپاہی نے دھیرے سے احرار کو کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا جو اپنے بھائی کو اس حالت میں دیکھ کر اندر ہی اندر خون کے آنسو رو رہا تھا۔

پھر وہ لوگ وہاں سے چلے گئے جب کہ یہ دونوں وہیں کھڑے انہیں جاتا ہوا دیکھتے رہے۔

نورالعین کی اولین ترجیح تھی کہ بس کسی طرح اس پر لگا یہ مجرم کا ٹھپہ ہٹ جائے تب ہی تو اس نے بابک پر ریپ اٹیمپٹ کا کیس نہیں کیا تھا، وہ بس اپنی نجات کیلئے بےچین تھی، پھر چاہے ان لوگوں کو سزا ہو یا نہیں!

مگر واہ رے قدرت۔۔۔۔اس پر لگا الزام بھی ہٹا دیا اور اس کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو بھی ان کے انجام تک لے آئی۔

آج اسے اپنی ماں کی ایک اور بات درست لگی کہ خدا کی لاٹھی بےآواز ہوتی ہے۔ وہ جس پر پڑتی ہے بس وہ ہی جانتا ہے۔ جیسے نورالعین اتنا عرصہ سمجھتی رہی کہ اسے تباہ کرنے والے عیش سے جی رہے ہوں گے مگر اسے پتا نہیں تھا کہ ان کی حالت تو اس سے بھی زیادہ بدتر تھی۔

”چلیں آپ کو آپ کے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں۔“ احرار کی آواز پر وہ چونک کر ہوش میں آئی۔

”نہیں میں چلی جاؤں گی، بہت شکریہ!“ اس نے نرمی سے انکار کیا۔

”مجھے بھی ابھی اپنے گھر جانا ہے، میں راستے میں آپ کو ڈراپ کردوں گا۔“ اس نے حسب معمول اصرار کیا۔

پھر مزید کوئی بات کرنے کے بجائے وہ دھیرے سے اثبات میں سر ہلا کر چل پڑی اور احرار بھی اس کے ساتھ آیا۔


*****************************************


”ساری فارمیلیٹیز پوری ہونے کے بعد کچھ دنوں تک آپ کو ہرجانے کی رقم مل جائے گی، آپ مجھے اپنی اکاؤنٹ ڈیٹیلز میسج کردیجئے گا میں پیسے وہیں ٹرانسفر کروا دوں گا۔“ احرار نے گاڑی آہستہ کرتے ہوئے روک دی۔ وہ لوگ گھر پہنچ گئے تھے۔

”ٹھیک ہے میں کردوں گی، اور آپ کا بہت بہت شکریہ اس پورے عرصے میں میری اتنی مدد کرنے کیلئے۔“ وہ دل سے مشکور تھی۔

”مدد کرنے والی ذات صرف اللہ کی، ہم انسان تو بس ایک دوسرے کا وسیلہ ہوتے ہیں۔“ اس نے رسان سے جواب دیا۔

”وسیلہ نہیں آپ مسیحا ہیں میرے اور مجھ جیسے کئی لوگوں کیلئے۔“ نورالعین نے اسے دیکھتے ہوئے تصحیح کی۔

”اتنے اونچے درجے نہ دیں مجھے جو قربانیاں بھی بڑی مانگتے ہیں۔“ وہ پھیکےپن سے ہنسا۔

”یہ درجہ میں نے نہیں دیا، بلکہ شاید قدرت نے آپ کو مسیحائی کیلئے ہی چنا ہے، تب ہی تو عقل مندوں کے بیچ آپ کو درد مند بنایا ہے۔“ نورالعین نے مسکراتے ہوئے اُسے اس کی بات یاد دلائی۔

جب سے احرار نورالعین سے ملا تھا تب سے آج پہلی بار احرار نے اسے بےساختہ دل سے مسکراتے ہوئے دیکھا تھا وہ بھی اسی لئے کہ شاید آج وہ سارے الزامات سے بری ہوجانے پر بہت پرسکون تھی۔ تب ہی اس کی مسکراہٹ لوٹ آئی تھی جو اسے مزید دلکش بنا رہی تھی۔


ہم نے سینے سے لگایا دل نہ اپنا بن سکا

مسکرا کر تم نے دیکھا دل تمہارا ہوگیا


جگر مراد آبادی


”خیر! اب میں چلتی ہوں، تھینکس فار دا لفٹ، اللہ حافظ!“ اگلے ہی پل وہ خود بات سمیٹتی ہوئی گاڑی سے اتر گئی۔

احرار نے واپس جانے کے ارادے سے ریورس گیئر لگانے کیلئے پل بھر کو نیچے دیکھا تو گیئر باکس کے پاس اسے کوئی چیز چمکتی محسوس ہوئی۔

اس نے جھک کر وہ چیز اٹھائی جو ایک سلور رنگ کا نازک سا بریسلیٹ تھا۔ کچھ دیر قبل تک یہ نورالعین کی کلائی میں تھا اور ابھی غالباً لاک لوز ہونے کی وجہ سے کھل کر گر گیا تھا جس کے بارے میں اسے خود بھی پتا نہ چلا۔

احرار نے سرعت سے باہر دیکھا تا کہ نورالعین کو پکار کر روک سکے مگر وہ گلی میں داخل ہوکر نظر سے اوجھل ہوگئی تھی۔

یہ اسے بعد میں واپس کرنے کا سوچتے ہوئے احرار نے وہ بریسلیٹ اپنے یونیفارم کی جیب میں رکھا اور گاڑی ریورس کرکے وہاں سے نکل گیا۔


*****************************************


نورالعین کو گھر ڈراپ کرنے بعد اسٹیشن جانے کے بجائے احرار اپنے گھر آیا کیونکہ جبار صاحب کا کورٹ نہ آنا باعثِ تشویش تھا۔ احرار کو لگا تھا کہ یقیناً وہ کسی وکیل کے ہمراہ کورٹ پہنچیں گے اور وہاں اچھا خاصا تماشا کریں گے مگر یہ خاموشی اسے کچھ پراسرار لگی۔

وہ گھر میں داخل ہوا تو وہاں ہمیشہ کی طرح سناٹا ملا۔

”چھوٹے صاحب!“ وہ جبار صاحب کے کمرے کی جانب جا رہا تھا تب ہی نسوانی پکار پر رک کر پلٹا۔

وہ ان کی خانساماں نوری تھی۔

”اچھا ہوا آپ آگئے، وہ بڑے صاحب کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے؟ بشیر انہیں ہسپتال لے کر گیا ہے۔“ اس نے عجلت میں یوں بتایا جیسے کب سے اس کی منتظر ہو!

”کیا ہوا ڈیڈ کو؟“ وہ بھی متفکر ہوا۔

”پتا نہیں جی، صبح جب وہ بہت دیر تک کمرے سے باہر نہیں آئے تو بشیر ان سے ناشتے کا پوچھنے کمرے میں گیا، وہاں اس نے دیکھا وہ عجیب سی حالت میں بستر پر سن پڑے ہیں، آپ کو اتنا فون کیا مگر آپ کا فون بند تھا اسی لئے بشیر ڈرائیور کے ساتھ انہیں ہسپتال لے گیا۔“ اس نے جلدی جلدی ساری روداد سنائی۔

احرار نے خاکی ڈریس پینٹ کی جیب سے موبائل نکال کر دیکھا جو چارج نہ کرنے کے باعث آف ہوگیا تھا۔

”کون سے ہاسپٹل لے کر گیا ہے وہ انہیں؟“ اس نے بےتابی سے پوچھا۔


*****************************************


احرار جلد از جلد ہسپتال پہنچا جہاں ڈاکٹر نے اسے ایک خطرناک خبر سنا کر ہلا دیا۔

”مسٹر جبار کو فالج کا بہت خطرناک اٹیک آیا ہے۔“ سنگل کرسی پر بیٹھے ڈاکٹر کے الفاظ بم کی مانند اس کی سماعت پر گرے۔

”وہ ٹھیک تو ہوجائیں گے نا؟“ ان کے مقابل بیٹھے احرار نے فکر مندی سے جاننا چاہا۔

”دیکھیں۔۔۔۔میں آپ کو کوئی جھوٹی تسلی نہیں دے سکتا، آپ کے سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ اب ان کی بقیہ عمر شاید یوں ہی پیرالائز گزرے گی۔“ ادھیڑ عمر ڈاکٹر نے بنا کسی لگی لپٹی کے آہستہ سے جواب دیا۔

جس کے بعد مزید کوئی سوال کرنے کی اس میں ہمت نہ رہی۔


*****************************************


جیل آنے کے بعد انس دیوار سے ٹیک لگائے شکستہ سا بیٹھا تھا جس کی بیساکھی پاس ہی دیوار کے سہارے رکھی ہوئی تھی۔

تب ہی دروازہ کھلنے پر وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔

ایک سپاہی کے ہمراہ بابک اس سے ملنے آیا تھا کیونکہ دونوں کے سیل مختلف تھے۔

اسے دیکھتے ہی انس نے کھڑا ہونا چاہا۔

”بیٹھو رہو۔“ بابک اسے کہتا ہوا اس کے نزدیک ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تو اس نے بھی اٹھنے کی کوشش ترک کردی۔ جب کہ سپاہی وہیں دروازے کے پاس موجود رہا۔

”سوری، تمہیں بنا بتائے گرفتار کروا دیا۔“ بابک گویا ہوا۔

”بتا کر بھی کرواتے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔“ وہ استہزائیہ انداز میں گویا خود پر ہی ہنسا۔

”جب ڈیڈ نے میرا سب سے رابطہ ختم کردیا تھا تو طبیعت سنبھلنے کے بعد مجھے لگا کہ شاید اب تم لوگ سیٹ ہوگئے ہوگے اسی لئے میں نے تم لوگوں سے دوبارہ رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، مگر مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم لوگوں کے حالات اتنے برے چل رہے ہوں گے!“ بابک نے خود ہی وضاحت کی۔ ایک طرف وہ اعترافِ جرم کرکے مطمئن تھا تو دوسری جانب برے ہی سہی مگر اپنے دوست کی اتنی ابتر حالت دیکھ کر، اس پر ترس آرہا تھا۔

”اگر اندازہ ہوتا کہ حالات ایسے ہوجائیں گے تو ہم بھی وہ سب نہ کرتے جس کی یہ سزا مل رہی ہے۔“ وہ بھی مکافات کا قائل ہوگیا تھا۔

”پاپا کی ڈیتھ کے بعد مانو سب کچھ بکھر گیا، پہلے ہمیں پتا چلا کہ سندس بانجھ ہے، وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی، اس دکھ میں وہ ہلکان ہوگئی، ہم اس سے نہیں سنبھلے تھے کہ بزنس لاس کی وجہ سے گھر بیچنا پڑا، سوچا تھا ہم دونوں جاب کرکے جلد خود کو دوبارہ سیٹل کرلیں گے مگر تب ہی ایک ایکسیڈنٹ میں، میں نے اپنی ایک ٹانگ کھو دی، ایک تو ویسے ہی پیسوں کی تنگی تھی، اوپر سے ایک بعد ایک مصیبتیں، اچھی خاصی ڈگری ہونے کے باوجود سندس کو کہیں بھی اتنی معقول جاب نہیں مل رہی تھی جو ہمارے حالات بہتر کردے، تو مجبوراً اسے ایک فیکٹری میں معمولی سی جاب کرنی پڑی جس سے کم از کم ہم فاقوں سے بچ گئے، زندگی یوں ہی سسک سسک کر گزر رہی تھی کہ اچانک پولیس آگئی اور اب ہم تمہارے سامنے ہیں۔“ انس نے ٹوٹے ہوئے اداس انداز میں اپنی آپ بیتی مختصر لفظوں میں بتائی۔

جسے سن کر بابک کو بھی افسوس ہوا کہ ان دونوں کا حال تو اس سے بھی برا تھا۔

”کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کیا ہمارے ساتھ اتنا سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ ہم نے اینا کو ستایا تھا؟ پھر جواب آتا ہے کہ نہیں، یہ جو ہمیں مل رہی ہے یہ صرف اینا کو ستانے کی سزا نہیں ہے، یہ اس غرور کی سزا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے سوا کوئی اور انسان لگتا ہی نہیں تھا۔“ انس خود ہی اپنا احتساب کرنے لگا۔

”سندس کو اپنی جس تعلیمی قابلیت پر غرور تھا اس کے بل پر اسے ایک معقول جاب تک نہ مل سکی، مجھے اپنے باپ کی جس دولت کا گھمنڈ تھا ان کے جاتے ہی وہ میرے اپنے ہاتھوں برباد ہوگئی، مجھے لگتا ہے کہ اگر ہم نے اینا کو نہ بھی ستایا ہوتا تب بھی ہمارا انجام یہ ہی ہونا تھا، بہت پہلے کبھی ایک بات سنی تھی کہ غرور کسی بھی چیز کا اچھا نہیں ہوتا، مجھے لگا وہ بات کسی اور کیلئے کہی گئی ہے میرا اس سے کوئی سروکار نہیں، اور یہ ہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔“ وہ خود اپنی کوتاہیاں قبول کرتا گیا جو دیر سے ہی سہی مگر اب بہت اچھی طرح اس کی سمجھ میں آگئی تھیں۔


مت کر خاک کے پتلے پر غرورِ بےنیازی

خودہی میں جھانک کر دیکھ تجھ میں رکھا کیا ہے


علامہ اقبال


*****************************************


کل احرار سارا وقت ہسپتال میں جبار صاحب کے پاس ہی رہا تھا جو آئی سی یو میں تھے اور نہ جانے کب تک وہاں رہنے والے تھے؟

وہ رات کو دیر سے گھر لوٹا اور اب دوبارہ ڈیوٹی پر جانے کیلئے تیار ہو رہا تھا۔

اس نے یونیفارم کے كف بند کیے تو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا اس کا موبائل گنگنا اٹھا۔ یاور کی کال تھی۔ اس نے یس پر کلک کرکے موبائل کا اسپیکر آن کردیا۔

”کہاں ہو؟ انکل کی طبیعت کیسی ہے اب؟“ اس نے متوازن انداز میں پوچھا کیونکہ کل وہ بھی ساری بات جاننے کے بعد ہسپتال آگیا تھا اور کافی دیر اس کے ساتھ رہا تھا۔

”آئی سی یو میں ہی ہیں اب تک، میں لیٹ نائٹ گھر آگیا تھا اب ڈیوٹی پر جانے کیلئے تیار ہو رہا ہوں۔“ احرار نے بال بناتے ہوئے جواب دیا۔

”کچھ دنوں کی چھٹی لے لے یار ڈیوٹی سے، پہلے ہی تو بابک اور انکل کی وجہ سے اتنا مینٹلی ڈسٹرب ہے اوپر سے کام کا پریشر تجھے اور الجھا دے گا۔“ اس نے فکر مندی سے مشورہ دیا۔

”چھٹی لے کر بھی کیا کروں یار؟ اس گھر میں میرے اور سناٹے کے سوا اب کوئی نہیں ہے اور یہ سناٹے کاٹنے کو دوڑتے ہیں، تب ہی تو میں ہر وقت گھر سے باہر رہنے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں۔“ اس نے ہیئر برش ٹیبل پر رکھتے ہوئے اداس سا جواب دیا۔

”تو اس گھر میں وہ رونق لے آ جس کی وجہ سے یہ گھر، گھر بنے اور تیرا بھی گھر میں دل لگے۔“ اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔

احرار سمجھ گیا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے؟ مگر کوئی جواب دینے کے بجائے چپ چاپ گھڑی پہننے لگا۔

”اب تو کیس بھی سالو ہوگیا ہے، اسے باعزت بری کردیا گیا ہے، اب تو اس سے شادی کی بات کرلے۔“ اسے خاموش پا کر یاور مزید بولا۔

”لیکن وہ ابھی تک یہ نہیں جانتی ہے کہ میں اس کے مجرم کا بھائی ہوں۔“ احرار نے سنجیدگی سے بات جوڑی۔

”بھائی ہو لیکن منہ بولے، سگے نہیں، اور ہوتے بھی تو مجرم بابک تھا تو نہیں، تو نے تو ہر حال میں اس کا ساتھ دیا ہے یہاں تک کہ بابک کو سزا کروا دی، ان سب کے بعد انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔“ اس نے اعتراضات کا جواب تراشا۔

”اور اگر آج تو نے اس سے بات نہیں کی تو قسم سے کل میں اسے سب بتا دوں گا پھر شکوہ مت کرنا۔“ یاور نے ساتھ ہی دھمکی بھی دے ڈالی۔

”ٹھیک ہے، ابھی میں بھیا سے ملنے جا رہا ہوں، وہاں سے نورالعین کی طرف جاؤں گا تو اس سے بات کرتا ہوں، میں نے سوچا ہوا تھا کہ آج اس سے بات کرنی ہے، آج اسے سب بتا دوں گا، آگے جو وہ چاہے گی وہ ہی ہوگا۔“ اس نے بھی خود پر پرفیوم چھڑکتے ہوئے اپنا ارادہ بتایا جو کل ہی کرلیا تھا۔

”اب صرف سوچتے مت رہ جانا، عمل بھی کرلینا۔“

”ہاں کرلوں گا میرے باپ۔۔۔۔اور ایک بات سن۔۔۔۔۔میں بھیا کو ڈیڈ کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا، وہ پریشان ہوجائیں گے، تو بھی اس بات کا خیال رکھنا۔“ اس نے پرفیوم کی بوتل واپس رکھتے ہوئے تاکید کی۔

”ٹھیک ہے میں نہیں کہوں گا، لیکن پلیز تو نورالعین سے اپنے دل کی بات ضرور کہہ دینا۔“ اس کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔

تب ہی موبائل اسکرین پر دوسرا نمبر بلنک ہوا۔

”یاور فون رکھ، نورالعین کی کال آرہی ہے۔“ احرار نے کہتے ہوئے موبائل ہاتھ میں اٹھایا۔

”یہ ہی صحیح موقع ہے فون اٹھاتے ہی آئی لو یو بول دے۔“ وہ باز نہ آیا۔

”اُلو کے پٹھے لائن کاٹ جلدی۔“ اس نے دانت پیس کر کوفت سے کہا تو یاور نے فوری لائن ڈسکنیکٹ کردی جس کے بعد احرار نے اس کی کال ریسیو کی۔

”السلام علیکم!“

”وعلیکم السلام، آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کر رہی؟“

”نہیں نہیں، آپ بولیں۔“ نورالعین کی آواز سنتے ہی اس کی دھڑکن لے بدل لیتی تھی۔

”آپ سے تھوڑا کام تھا، کیا آپ کچھ دیر کیلئے گھر آسکتے ہیں؟“ اس نے جھجھکتے ہوئے مدعہ بیان کیا۔

”جی ضرور، میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔“ وہ بھلا اسے انکار کرسکتا تھا؟ اس کے سارے راستے اور راستوں کی منزل وہ ہی تو تھی جس کی جانب ہر وقت دل ہمکتا رہتا تھا۔

”ٹھیک ہے، بہت شکریہ!“

اس نے کہہ کر لائن ڈسکنیکٹ کردی۔

احرار نے بھی موبائل اپنی خاکی ڈریس پینٹ کی جیب میں رکھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔

اب کر دیجئے اظہارِ محبت چاہے جو انجام ہو

زندگی میں، زندگی جیسا کوئی تو کام ہو

انتخاب

”پہلے دن ہی تم گھر کا ناشتہ لے آئے میرے لئے، اگر عادت خراب ہوگئی تو دو سال تک یہاں کیسے گزارا کروں گا؟“ بابک نے نوالہ منہ میں لے کر مصنوعی فکر ظاہر کی۔

”مت کیجئے گا یہاں کا ناشتہ، میں روز آپ کیلئے گھر سے ناشتہ لے آیا کروں گا۔“ احرار نے بھی نوالہ منہ میں رکھ کر جواب دیا کیونکہ وہ بابک کے ساتھ ناشتہ کرنے کرنے کیلئے گھر سے کچھ کھا کر نہیں آیا تھا۔

دنیا والوں کی نظر میں ایک پولیس والا اور مجرم ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر رہے تھے۔ لیکن درحقیقت یہ دو ایسے بھائی تھے جن کے رشتے کو کسی خون کے سہارے کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا احساس کا رشتہ ہی اتنا مضبوط تھا جسے کوئی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکا۔

دونوں ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹیبل کے ساتھ ہی ایک بڑی سی کھڑکی تھی جہاں سے صبح کی دھوپ نے اندر آکر آدھی ٹیبل پر قبضہ جمایا ہوا تھا۔

”روز، مطلب پورے دو سال، سال میں تین سو پینسٹھ دن ہوتے ہیں، تو دو سال میں ہوئے سات سو تیس دن، تم سات سو تیس دن تک مجھے ناشتہ لا کر دو گے؟“ اس نے پورا حساب کتاب کرتے ہوئے مصنوعی حیرت کا اظہار کیا۔

”میں آپ کیلئے جان بھی دے سکتا ہوں بھیا، تو پھر ناشتہ لا کر دینا کون سی بڑی بات ہے۔“ وہ مسکراتے ہوئے اطمینان سے بولا۔

بابک محبت پاش نظروں سے اپنے باوردی بھائی کو دیکھتا گیا جو ڈیوٹی اور رشتے بنا کسی کوتاہی کے پورے عدل کے ساتھ برابر نبھا رہا تھا۔

”میں جانتا ہوں کہ جو تم کہہ رہے ہو وہ کر بھی سکتے ہو، اسی لئے نہ مجھے تمہاری جان چاہیے اور نہ روز روز گھر کا ناشتہ، بس ہفتے میں کبھی کبھی آکر تھوڑا وقت میرے ساتھ گزار لیا کرو، میرے لئے یہ ہی بہت ہوگا، ایسے روز روز آکر تم مجھے اتنا پروٹوکول دو گے تو باقی قیدی جیلیس ہوجائیں گے۔“ اس نے محبت سے کہتے ہوئے آخر میں شرارتاً دائیں آنکھ دبائی۔

”مجھے دنیا کی پرواہ نہیں، میرے لئے میرا بھائی اہم ہے، آپ کو کچھ بھی چاہیے ہو، یہاں کوئی بھی مسلہ ہو آپ فوری مجھے بتائیں گے بھیا، یہاں کے کانسٹیبلز کو میں نے ہدایت دے دی ہے، وہ ہر وقت آپ کیلئے حاضر رہیں گے۔“ اس نے سنجیدگی سے اپنی بات پر زور دیا تو بابک کو بےساختہ اس پر پیار آیا۔

”جو حکم سرکار!“ وہ فرمابرداری سے مسکرایا۔

”ویسے ایک مدد تو مجھے تمہاری چاہیے احرار۔“ اسے جیسے اچانک یاد آیا۔

”جی بولیں بھیا!“ وہ ناشتے کرتے ہوئے سن رہا تھا۔

”میں نے اینا سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“

بابک کی بات پر نوالہ منہ کو لے جاتا احرار کا ہاتھ ہوا میں ہی ساکت ہوگیا اور ایسی ہی کیفیت اس کے دل کی ہوئی جو پل بھر کو یوں ڈوب کر ابھرا جیسے اب دھڑک نہیں پائے گا۔

”میں جانتا ہوں کہ پہلے تو وہ راضی ہی نہیں ہوگی کیونکہ اس کا غصہ ابھی بھی موجود ہے، لیکن میں اس کے پیروں پر گر کر، ہاتھ جوڑ کر کچھ بھی کرکے اسے منالوں گا اور وہ مان جائے گی کیونکہ میں نے بھلے ہی جھوٹ کہا تھا مگر وہ تو سچ میں محبت کرتی تھی مجھ سے، اور مجھے یقین ہے کہ وہ محبت آج بھی اس کے دل میں موجود ہے بس غصے کے نیچے دبی ہوئی ہے جسے میں باہر نکال لاؤں گا، ماضی میں اس کے جن خوابوں کو میں نے توڑا تھا اب میں پھر سے انہیں جوڑ کر تعبیر دوں گا اور یہ ہی میری غلطی کا ازالہ ہوگا۔“ اس کی دلی کیفیت سے انجان بابک اپنی دھن میں مزید کہتا گیا۔

اس کا ایک ایک لفظ احرار نے کس قدر مشکل سے برداشت کیا تھا یہ وہ ہی جانتا تھا۔ بابک کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یقیناً وہ اس بات پر اس کا منہ نوچ ڈالتا جس منہ سے اس کا کا ذکر کیا۔ وہ زبان کھینچ لیتا جس سے اس کا نام لیا، مگر قسمت کی ستم ظریفی یہ ہی تھی کہ اس کا عزیز جان بھائی انجانے میں اس کا رقیب بن بیٹھا تھا۔ جس بھائی کیلئے وہ جان دینے کو تیار تھا اس نے سچ میں اس کی جان ہی مانگ لی تھی۔

”احرار! کہاں کھو گئے؟ میں تم سے بات کر رہا ہوں!“ بابک نے اسے پتھرایا ہوا دیکھ کر اس کے آگے ہاتھ ہلایا جو اس کی کسی بات کا جواب دینے کے بجائے بس اسے دیکھا جا رہا تھا۔

”کچھ نہیں، نورالعین کے بارے میں سوچ رہا تھا۔“ اس نے ہوش میں آتے ہوئے خود کو سنبھالا۔

”کیا سوچ رہے تھے؟“

”یہ ہی کہ وہ تو آپ سے بہت زیادہ ناراض ہے، بہت غصہ ہے آپ پر تو پھر کیسے۔۔۔۔“ وہ بس اتنا ہی بول پایا۔

”ہاں میں نے کہا نا کہ میں جانتا ہوں وہ غصہ ہے اور اسے منانے میں تھوڑی محنت لگے گی، پر یہ ناممکن نہیں ہے، لیکن ان سب سے پہلے مجھے تمہاری مدد چاہیے احرار!“ وہ دوبارہ اس بات پر آیا جہاں سے یہ بات شروع ہوئی تھی۔

”جی؟“

”میری سزا دو سال بعد پوری ہوگی، تب ہی میں رِہا ہوکر کچھ کرسکوں گا لیکن جب تک میں باہر نہیں آجاتا تب تک تم اینا کا خیال رکھنا۔“ یہ تھی اصل بات۔

”جانتا ہوں کہ تمہارے بزی شیڈول کی وجہ سے تمہارے لئے وقت نکالنا مشکل ہوگا لیکن فی الحال تم ہی وہ واحد شخص ہو جس پر اینا کے حوالے سے میں بھروسہ کرسکتا ہوں، اس نے پہلے ہی میری وجہ سے بہت مشکلیں جھیلی ہیں اور اب اکیلی رہ رہی ہے، میں اسے ہر پریشانی سے بچانا چاہتا ہوں، تم اس کے آس پاس رہنا، اسے جو چاہیے ہو لا کر دینا، جو مسلہ ہو فوراً حل کرنا، اس کا بہت خیال رکھنا، یہ کرسکو گے نا تم؟“ بابک نے بہت سنجیدگی سے یہ ذمہ داری اسے سونپتے ہوئے آخر میں آس سے اس کی جانب دیکھا۔

اسی وقت احرار کے دل میں ایک تہہ خانے کا دروازہ کھلا، اس نے اپنی نئی نویلی معصوم محبت کا ہاتھ پکڑ کر اسے تہہ خانے میں دھکیلا اور زور سے دروازہ بند کردیا۔

”جی بھیا، میں آپ کی امانت کا خیال رکھوں گا، آپ بےفکر رہیں۔“ اس نے اطمینان سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

”مجھے تم سے یہ ہی امید تھی میرے بھائی۔“ بابک بھی پرسکون ہوگیا۔

جب کہ احرار کے دل کے تہہ خانے میں قید معصوم محبت دل کی دیواروں سے سر پیٹتے ہوئے بلک بلک کر رو پڑی۔


میرے محبوب کا طالب میرا رفیق بھی نکلا

ہائے! قسمت نے مجھ پر یہ کیسا ستم کیا


محبت میرے پیروں پر گری، اور روتی رہی

پھر میں نے اسے روند کر اپنا قصہ ختم کیا


ترمیم : فریال خان


*****************************************


روڈ پر ساری گاڑیاں اپنی مخصوص رفتار سے دوڑ رہی تھیں۔ کہ سب کو جلد از جلد اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی تھی۔

مگر ان سب کے برعکس ایک سفید کرولا روڈ کے کنارے کھڑی تھی جس کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا احرار کسی گہری سوچ میں گم تھا۔

اس نے سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر کہنی کھڑکی پر رکھی ہوئی تھی۔ اور اسی ہاتھ کے انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے وہ دونوں آنکھوں کے درمیان ناک کا اوپری حصہ دھیرے دھیرے دبا رہا تھا جیسے ذہن میں چلتی سوچوں کی آندھی روکنے کیلئے کوئی پریشر پائنٹ پریس کر رہا ہو! مگر اس سے بھی کوئی فرق نہ پڑا۔

”تو نورالعین سے اپنے دل کی بات ضرور کہہ دینا۔“

”آج میں اسے سب بتا دوں گا، آگے جو وہ چاہے گی وہ ہی ہوگا۔“

”میں نے اینا سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“

”تم ہی وہ واحد شخص ہو جس پر اینا کے حوالے سے میں بھروسہ کرسکتا ہوں، اس کا بہت خیال رکھنا، یہ کرسکو گے نا تم؟“

اس کے ذہن میں یاور کی، بابک کی، اور اپنی خود کی باتیں گردش کر رہی تھیں۔

نظروں کے سامنے نورالعین کی دلکش مسکراہٹ رقصاں تھی۔

دل کی دیواروں پر مسلسل وہ محبت سر پیٹتی محسوس ہو رہی تھی جو تھوڑی دیر قبل اس نے ضبط کے تہہ خانے میں قید کی تھی۔

یوں ہی بوجھل انداز سے اس نے ہاتھ ہٹایا اور آنکھیں کھول کر کھڑکی کے پار دیکھنے لگا۔ جہاں دنیا اپنے ہنگاموں میں مگن تھی۔ کسی کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔

تب ہی اس کی نظر نزدیک بنے روڈ ڈیوائڈر پر ٹھہر گئی۔

وہاں پر غالباً ایک سوکھی روٹی کا ٹکڑا پڑا تھا جسے کھانے کیلئے بیک وقت دو کوے آگئے تھے اور دونوں ہی وہ ایک ٹکڑا ایک دوسرے سے چھیننے کی کوشش میں تھے۔

ان کو یوں لڑتا دیکھ احرار کو ہابیل اور قابیل کی وہ کہانی یاد آئی جو بچپن میں کلثوم اسے سناتی تھیں جس میں قابیل نے حسد میں اپنے بھائی ہابیل کا قتل کردیا تھا اور پھر ایک کوے کو دیکھ کر اسے دفنایا تھا۔

وہ ہمیشہ تاکید کرتی تھیں کہ کبھی بھی قابیل جیسے بھائی نہ بننا جو پانے کیلئے اندھا ہوگیا تھا۔ بلکہ ہابیل کی طرح رہنا جس کا دل صاف تھا، جس نے اللہ کی راہ میں قربان کرنے کیلئے اپنا سب سے بہترین جانور پیش کیا تھا، تب ہی اللہ نے اس کی قربانی قبول کی تھی۔

احرار نے ایک گہری سانس فضا میں خارج کی جیسے کسی نتیجے پر پہنچ گیا ہو!

اور پھر چابی گھما کر گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے آگے بڑھا دی کہ نورالعین اس کی منتظر تھی۔

جیسے ہی وہ گاڑی لے کر وہاں سے نکلا تو ایک آدمی نے وہاں چند مزید روٹی کے ٹکڑے ڈال دیے جسے دیکھتے ہی دونوں کوے ساری لڑائی بھول کر ان کی جانب لپکے اور ایک ایک ٹکڑا اپنی چونچ میں پھنسا کر وہاں سے اڑ گئے۔


پوچھا مشکل میں رہتا ہوں، کہا آسان کر ڈالو

کہ جس کی چاہ ہو، وہ ہی قربان کر ڈالو


انتخاب


*****************************************


”سب خیریت ہے؟“ احرار نے لکڑی کے سنگل صوفے پر بیٹھتے ہوئے کار کی چابی ٹیبل پر رکھی۔

”جی شکر الحمداللہ اب تو سب خریت ہی خیریت ہے، بس گھر کے حوالے سے کچھ بات کرنی تھی۔“ اس کے مقابل والے سنگل صوفے پر بیٹھتی نورالعین نے جواب دیا۔ جو کیمل کلر کے سادے سے سوٹ میں آج کافی نکھری نکھری لگ رہی تھی۔

”کس کے گھر کے حوالے سے؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”میرے گھر کے، دراصل میں یہ شہر چھوڑ کر حیدرآباد جا رہی ہوں، اسی لئے چاہ رہی تھی کہ آپ یہ گھر سیل کرنے میں میری تھوڑی مدد کردیں۔“ اس نے اصل مدعہ بیان کیا جو کافی غیر متوقع تھا۔

”شہر چھوڑ کر کیوں جا رہی ہیں آپ ؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ نورالعین نے اسے اس وجہ سے بلايا ہوگا!

”بس ایسے ہی، اب اس شہر میں میرا بچا ہی کون ہے؟ حیدرآباد میں میری ایک رشتے کی خالہ رہتی ہیں، ان کی کوئی اولاد نہیں ہے اور کچھ عرصہ پہلے شوہر کا بھی انتقال ہوگیا ہے، تو میں ان ہی کے ساتھ رہ لوں گی۔“ اس نے ناخن کھرچتے ہوئے وضاحت کے ساتھ اپنا ارادہ بتایا۔ جیسے یہ ارادہ نہیں بلکہ تنہائی سے بچنے کا آخری راستہ ہو۔

”تو انہیں یہاں بلا لیجئے، شہر چھوڑ کر جانے کی کیا ضرورت ہے؟“ وہ اس کے دور جانے کا سن کر کافی متفکر ہوگیا تھا کہ ابھی تو وہ ہر چھوٹی بڑی بات کیلئے فوری اس کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ اتنی دور بھلا اِس کی طرح اُس کا خیال کون رکھے گا؟

”وہ معذور ہیں، وہیں گھر میں انہوں نے ایک چھوٹا سا مدرسہ کھولا ہوا ہے، ایسے میں انہیں یہاں بلا کر میں انہیں ڈسٹرب نہیں کرنا چاہ رہی، اسی لئے خود ہی ان کے پاس جا رہی ہوں۔“ اس نے کمزور سی وجہ بتائی جو احرار کو زیادہ مطمئن نہ کرسکی۔

”میرا نہیں خیال کہ یہ کوئی عقل مندی کا فیصلہ ہے، ابھی تو چلیں وہ ہیں، لیکن خدانخواستہ کل کو انہیں کچھ ہوگیا تو آپ اکیلی اس انجان شہر میں کیا کریں گی؟“ اس نے دوسرا نقطہ اٹھایا۔ وہ بس کسی بھی طرح اس کا ارادہ بدلنا چاہ رہا تھا۔

”میں تو پوری دنیا میں ہی اکیلی ہوں، شہر سے کیا فرق پڑتا ہے؟“ وہ نظریں جھکاتے ہوئے پھیکےپن سے ہنسی۔

”نہیں، آپ اکیلی نہیں ہیں، کوئی ہے جو اب بھی آپ کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہنا چاہتا ہے، اگر آپ اجازت دیں تو۔“ احرار نے سنجیدگی سے کہا تھا مگر اس کی آنکھوں میں اجازت طلب کرتی آس تھی۔

احرار کی بات پر اس نے تعجب سے پلکیں اٹھائیں۔

”کون؟“ وہ متعجب ہوئی۔

”بابک ملک!“

یہ دو لفظی جواب دیتے ہوئے اسے پھر اپنے دل کی دیوار پر دستک محسوس ہوئی جیسے کوئی دیوانہ وار ان پر اپنا سر پیٹ رہا ہو!

احرار جانتا تھا کہ وہ کیا ہے؟ مگر اس نے یہ دستک ان سنی کر، اپنے بھائی کی ترجمانی کر ڈالی۔

”وہ بیچ میں کہاں سے آگیا؟“ نورالعین کا تعجب خیز تاثر یوں تھا جیسے اس بات کی توقع نہ ہو!

”وہ بیچ میں نہیں آئے، بلکہ آپ کو انصاف کے کنارے تک لانے والے وہ ہی ہیں۔“ اس نے ترکی بہ ترکی کہا۔

”کیا مطلب؟“ وہ کچھ سمجھی نہیں۔

”مطلب ان ہی کہ اعتراف کی وجہ سے میں آپ کے مجرموں تک پہنچ پایا، عدالت میں ثبوت پیش کیے، اور آپ باعزت بری ہوئیں۔“ احرار نے یاد دلایا۔

”ہاں تو جب اس نے غلطی کی تھی تو اعتراف کرنا بھی بنتا تھا۔“ اس نے جواز تراش کر جیسے بات بےمعنی کرنی چاہی۔

”ہر مجرم اعترافِ جرم نہیں کرتا، ہر مجرم شرمندہ نہیں ہوتا، انہوں نے نا صرف اعترافِ جرم کیا بلکہ اس کا ازالہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔“ اس کا انداز بھی دوبدو تھا۔

”کیسا ازالہ؟“

”وہ رِہا ہونے کے بعد آپ سے شادی کرنا چاہتے ہیں۔“ اس نے بابک کی خواہش اس تک پہنچا دی جسے سن کر وہ دنگ رہ گئی۔

جب کہ احرار کی اپنی خواہش حسرت بن کر قربانی کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔

”اس نے دو سال پہلے بھی یہ ہی کہا تھا۔“ ناچاہتے ہوئے اس کے انداز میں کرب عود آیا۔

”ہاں اور اب وہ اسی قول کو سچا کرنا چاہتے ہیں جس کیلئے بس انہیں ایک موقع چاہیے۔“ اس نے اپنے بھائی کی وکالت کی۔

”موقع چاہیے، کس لئے؟ مجھے دوبارہ دھوکہ دینے کیلئے؟ دوبارہ میرے کردار کی دھجیاں اڑانے کیلئے؟“ وہ غم و غصے میں کہتی چلی گئی۔ اچانک اس کے مندمل ہوتے زخم اُدھیڑ دیے گئے تھے۔

”نہیں، وہ ساری غلطیاں سدھارنے کیلئے جو وہ ماضی میں کر بیٹھے ہیں۔“ اس کا جواب ٹھہرا ہوا تھا۔

”آپ نہیں جانتے اس شخص کو، اس جیسا دوغلہ انسان میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔“ اسے وہ سارا درد ناک ماضی پھر یاد آگیا تھا۔ اور خاص طور پر اس کی جھوٹی محبت جس پر وہ اعتبار کر بیٹھی تھی۔

”جانتا ہوں، بہت اچھے سے جانتا ہوں، کیونکہ وہ شخص میرا بڑا بھائی ہے۔“ بلآخر اس نے انکشاف کردیا۔

نورالعین کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں اور اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔

جب کہ احرار مزید کچھ بولنے کے بجائے اس کی جانب سے کسی سوال کا منتظر تھا۔ کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ یہ بات اس کیلئے کسی شاک سے کم نہیں ہوگی جسے برداشت کرنا کا احرار نے اسے پورا موقع فراہم کیا۔

”بابک آپ کا بھائی ہے؟“ کافی دیر بعد اس نے بےیقینی سے دہرایا۔

احرار نے اثبات میں سر ہلایا۔

”لیکن اس نے مجھ سے کبھی کسی بھائی کا ذکر نہیں کیا، اور اس کے ڈیڈ نے بھی کہا تھا کہ انہیں بابک اکلوتا ہونے کی وجہ سے بہت عزیز ہے تو پھر آپ کیسے۔۔۔۔“ وہ شدید شاک کے عالم میں آگے کچھ نہ کہہ پائی۔

احرار نے ایک گہری سانس لی اور پھر اول تا آخر ساری کہانی اس کے گوشِ گزر کردی جیسے اس کے والدین کی دوسری شادی، جبار صاحب کا رویہ، نورالعین کا کیس اسے ملنا، اور بابک کا خود اعترافِ جرم کرنا۔

وہ دھیرے دھیرے کہتا گیا اور وہ دم سادھے اسے سنتی چلی گئی جس کے وہم و گمان میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا کہ جس شخص کو وہ اپنا مسیحا سمجھ رہی تھی درحقیقت اسی کا اس کے مجرم سے اتنا گہرا رشتہ نکل آئے گا؟

”آپ اکثر مجھ سے پوچھتی تھیں نا کہ میں آپ کی اتنی مدد کیوں کرتا ہوں؟ تو اس کی وجہ یہ ہی تھی کہ میں آپ کے زیادہ سے زیادہ کام آکر غیر محسوس انداز میں اپنے بھیا کی غلطیوں کا تھوڑا سا ازالہ کرنا چاہتا تھا مگر اب وہ خود مکمل ازالے کیلئے تیار ہیں جس کا پہلا قدم انہوں نے اعترافِ جرم کی صورت اٹھا لیا ہے۔“ وضاحت کے ساتھ اس نے اپنی بات کا اختام کرکے نظریں جھکالیں۔

جب کہ نورالعین کچھ دیر کیلئے سارا غم و غصہ بھول بھال کر اپنی جگہ پر ساکت ہوگئی اور بےیقین نظروں سے اسے دیکھتی گئی۔

”مطلب آپ نے بھی اتنا عرصہ اپنا سچ چھپا کر مجھے دھوکے میں رکھا!“ وہ گویا ہوئی تو اس کے بجھے ہوئے انداز میں دکھ تھا۔

”نہیں! میں نے آپ کو کسی دھوکے میں نہیں رکھا۔“ احرار نے یکدم سر اٹھا کر جلدی سے نفی کی۔

”میں نے بس صحیح وقت آنے تک آپ کو حقیقت نہیں بتائی تھی کیونکہ اگر میں پہلے ہی سب بتا دیتا تو شاید آپ مجھے بھی ان لوگوں سے ملا ہوا سمجھتی اور مجھ پر یقین نہیں کر پاتیں۔“ اس نے مزید وضاحت کی۔

”اسی لئے آپ نے بھی اپنے بھائی کی طرح اپنا سچ چھپا کر میرا یقین جیتا۔“ وہ ترکی بہ ترکی تلخی سے بولی۔

”یقین جیتا ضرور ہے مگر توڑا نہیں ہے، یہ تو مانتی ہیں نا آپ؟“ اس نے بےحد سنجیدہ اور ٹھہرے ہوئے انداز میں سوال کیا۔

وہ پل بھر کو لاجواب ہوگئی۔ کیا کہتی؟ کہ اس کے احسانات کی تو وہ خود بھی دل سے قائل تھی۔

”آپ ثبوت مٹا کر اپنے بھائی کو سزا سے بچا سکتے تھے، تو پھر کیوں نہیں بچایا؟“ کوئی جواب نہ بننے پر وہ چبھتے ہوئے انداز میں دوسرا سوال بیچ میں لے آئی۔

”یہاں تو بچا لیتا مگر حساب والے دن کیسے بچاتا؟ اور اس دن اپنی امی کو کیا جواب دیتا جنہوں نے ہمیشہ سکھایا تھا کہ کبھی کسی کے ساتھ ناانصافی مت کرنا۔“ اس نے رسان سے جواب دیتے ہوئے پھر اس کی زبان منجمند کردی جو عجیب کشمکش میں الجھنے لگی تھی۔

”آپ کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے، بھیا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، ایک وقت پر آپ دونوں ہی ایک دوسرے کی پسند رہ چکے ہیں، تو ماضی کو بھلا کر پھر سے ان کے ساتھ نئی زندگی شروع کر لیجئے، مجھے یقین ہے آپ ان کے ساتھ بہت خوش رہیں گی، کیونکہ آپ دونوں کے دل میں آج بھی ایک دوسرے کیلئے محبت موجود ہے، ہے نا؟“ متوازن انداز میں کہتے ہوئے آخر میں اِحرار نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر تائید چاہی جیسے آنکھوں سے دل کا حال جاننا چاہ رہا ہو۔

”میں اسے دوبارہ موقع نہیں دے سکتی۔“ اس نے یکدم نظریں چرالیں کہ کہیں وہ سچ میں دل کا حال نہ جان جائے!

نورالعین صاف ہاں یا نہیں میں جواب نہ دیتے ہوئے بھی اس پر بہت کچھ واضح کر گئی تھی۔

”کیوں؟ کیا غلطی کے بعد معافی اور موقعے پر صرف آپ کا حق ہے؟“ احرار نے بہت رسان سے سوال کیا تھا۔

اس نے یکدم حیرت زدہ نظروں سے اسے دیکھا جس کے انداز میں کوئی طنز یا تضحیک نہیں تھی بس سادگی تھی۔ اور یہ سادگی بھرا سوال اسے ہلا گیا تھا۔

”خیر! آپ پر کوئی زبردستی نہیں ہے، اب میں چلتا ہوں، کل تک آپ کے گھر کی ویلیو پتا کرکے آپ کو بتاتا ہوں۔“ وہ ٹیبل پر سے گاڑی کی چابی لیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

”اللہ حافظ!“ وہ بنا مزید کوئی بات کیے وہاں سے چلا گیا۔

اور وہ۔۔۔۔۔۔

وہ یوں ہی گم صم سی صوفے پر بیٹھی رہی، نہ اس نے کوئی جواب دیا، نہ اسے چھوڑنے دروازے تک آئی، بس اس کی باتوں پر سوچتی گئی۔

اور یہ ہی تو احرار چاہتا تھا کہ وہ سوچے، تب ہی اس پر ساری صورت حال واضح کرکے، اسے سوچنے کا وقت دے کر بنا کوئی ضد بحث کیے وہاں سے چلا گیا تھا۔


*****************************************


”تو پاگل واگل تو نہیں ہے، جسے بیوی بنانا تھا اسے بھابھی بننے کی پیشکش کر آیا اُلو کے پٹھے!“ ساری بات سن کر یاور تقریباً چیخ پڑا تھا۔ جس کا احرار نے کوئی جواب نہیں دیا۔

احرار ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھر سے فریش ہوکر، چینج کرکے یاور کے گھر آگیا تھا۔

دونوں اس وقت اس کے کمرے کی کشادہ بالکونی میں موجود تھے۔ احرار ریلینگ تھامے کھڑا نیچے لان میں دیکھ رہا تھا جہاں رات ہونے کے باعث لائٹس آن تھیں۔ جب کہ یاور لکڑی کے جھولے پر بیٹھا تھا مگر اس کی بات سن کر اپنی جگہ سے اٹھ کر پاس آگیا۔

”تجھ سے بات کر رہا ہوں میں بےوقوف انسان!“ یاور نے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔

”میں نے ایسی بھی کوئی بےوقوفی نہیں کی جو تو اتنا ہائپر ہو رہا ہے۔“ اس کا انداز ہنوز سپاٹ ہی تھا۔

”اپنی ہی محبت کو اپنے ہی ہاتھوں کسی اور کی جھولی میں ڈالنا کون سی عقل مندی ہے ذرا بتانا!“ یاور کو اس پر بےحد غصہ آرہا تھا۔

”ایسا کرنے کیلئے عقل مند نہیں درد مند ہونا پڑتا ہے، اور میں درد مند ہوں تب ہی نہیں چاہتا کہ رقابت کا یہ درد میرے بھیا کے حصے میں آئے جو پہلے ہی اذیت میں ہیں، ایک مکمل خوشیوں بھری زندگی پر ان کا بھی حق ہے۔“ اس کے انداز میں بیک وقت اپنی محبت سے دستبردار ہونے کا دکھ اور اپنے بھائی کی محبت تھی۔

”اور تیرا کیا؟ کیا ایک مکمل خوشیوں بھری زندگی پر تیرا حق نہیں ہے؟“ یاور کا غصہ بھی اب فکر میں بدل گیا۔

”میری خوشی ان دونوں کو خوش دیکھنے میں ہے، اور میں جانتا ہوں کہ وہ دونوں ایک ساتھ خوش رہیں گے۔“ وہ ترکی بہ ترکی کہتے ہوئے اسے لاجواب کر گیا۔

یاور جانتا تھا کہ وہ ایک نرم دل کا وسیع القلب انسان ہے، مگر وہ قربانی میں اس حد چلا جائے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔

”جب بابک نے تجھ سے یہ بات کی تھی تو نے اسی وقت اس کو سب کچھ کیوں نہیں بتایا؟“ یاور ایک نیا پہلو بیچ میں لایا۔

”کیا بتاتا؟ یہ کہ بھیا آپ نے ایک وقت پر جس سے محبت کے وعدے کیے تھے اور اب سچ مچ جس کے ساتھ ان وعدوں کو وفا کرنا چاہتے ہیں میں بھی اس سے محبت کرنے لگا ہوں اور آج جا کر اظہار کرنے والا ہوں، آپ اس سے شادی کا ارادہ ترک کردیں کیونکہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں؟ یہ کہتا میں انہیں؟“ وہ بےساختہ برہمی سے بنا رکے بولتا گیا۔ جسے یاور نے چپ چاپ دیکھا۔

”اور میں تو شکر ادا کر رہا ہوں کہ نورالعین کو کچھ بھی کہنے سے پہلے مجھے بھیا کا ارادہ پتا چل گیا، ورنہ میں تو ساری زندگی شرمندگی کے مارے ان دونوں سے نظریں ہی نہیں ملا پاتا۔“ وہ اسی طرح مزید بولا جیسے کوئی بہت بڑی انہونی ہونے سے بچ گئی۔

”کیا نورالعین بھی بابک کو چاہتی ہے؟“ یاور نے ایک گہری سانس لیتے ہوئے جاننا چاہا۔

”بھیا کیلئے اس کی چاہت کو ہی ٹریپ بنا کر اسے پھنسایا گیا تھا، اور وہ چاہت آج بھی اس کے دل میں موجود ہے یا نہیں یہ ہی جاننے کیلئے میں نے بھیا کا ارادہ اسے بتایا تا کہ اس کے رد عمل سے کوئی فیصلہ لے سکوں، اس نے صاف انکار کے بجائے گول مول جواب دیے، اس کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ فی الحال اس کی چاہت پر غم و غصہ حاوی ہے جو شاید بھیا کے رہا ہونے تک اتر جائے گا۔“ احرار نے آج ہونے والی بات کے نتیجے میں سامنے آئی صورت حال بتائی۔

وہ دوبارہ لان میں دیکھنے لگا تھا جب کہ یاور بےبس نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جو بظاہر تو اطمینان سے کھڑا تھا لیکن اس کے اندر اس وقت نہ جانے کتنے طوفان برپا تھے جنہیں وہ ساری زندگی دنیا سے چھپا کر رکھنے والا تھا۔

”کاش تو نے بابک کے بیچ میں آنے سے پہلے ہی بول دیا ہوتا تو شاید آج حالات کچھ اور ہوتے!“ یاور بھی تاسف سے کہہ کر ریلینگ تھامتے ہوئے لان میں دیکھنے لگا۔

”ہاں، کچھ اور ہوتے، کہ پھر میں نورالعین سے بھی نظریں نہ ملا پاتا جس کی پہلی محبت میرا بھائی ہے، اور بیچ میں بھیا نہیں آئے، میں آیا ہوں، یہ کہانی تو شروع سے بابک اور اینا کی تھی، بس ان کی کچھ غلطیوں کی وجہ سے جو حالات بگڑے انہیں ٹھیک کرنے کیلئے قدرت نے مجھے بیچ میں مسیحا بنا کر بھیجا، جو ان کے ٹوٹے تعلق کے بیچ ایک پُل کا کام کرسکے، انہیں دوبارہ ملا سکے، مگر میں کچھ دیر کیلئے اپنے فرائض بھول کر مسیحا سے محب بن بیٹھا، میں بھول گیا تھا کہ مجھے محبت نہیں کرنی تھی مجھے تو ان کی ڈوبتی محبت کو بچانے والا مسیحا بننا تھا، لیکن شکر ہے کہ وقت رہتے ہی مجھے اپنا مقام یاد آگیا۔“ کہتے ہوئے آخری میں اس کی آواز لرزی تھی جسے اس نے خاموش ہوکر چھپا لیا۔

”جو تو کر رہا ہے نا، یہ آگے جا کر بہت تکلیف دے گا۔“ یاور نے ایک آخری کوشش کی۔

”مجھے قربان ہونے کی تکلیف منظور ہے، مگر اس احساس کے ساتھ میں ایک پل نہیں جی پاؤں گا کہ بھیا نے میرے لئے اپنی چاہت قربان کی، اور جب میں ان دونوں کو ایک ساتھ خوش دیکھوں گا تو ساری تکلیف بھول جاؤں گا۔“ اس نے جیسے مرض کا علاج بتایا۔

”امی ہمیشہ کہتی تھیں کہ کبھی قابیل جیسا بھائی نہ بننا جسے بس اپنی پڑی رہتی تھی، جسے بس چھیننا اور حسد کرنا آتا تھا، جو خواہش کے پیچھے رشتوں کو بھول گیا، ہمیشہ ہابیل جیسے بھائی رہنا جس کا دل صاف تھا، جو قربانی دینے سے ہچکتا نہیں تھا، کیونکہ یہ قدرت کا قانون ہے کہ چھیننے والے سے زیادہ دینے والا پرسکون و کامیاب رہتا ہے، اور ماں کبھی غلط نہیں ہوتی۔“ اس کے کرب میں ڈوبے انداز میں ایک نادیدہ اطمینان تھا جس کے آگے یاور لاجواب ہوکر رہ گیا۔


واسطوں پر حدود رکھنی تھی

رابطوں کو بھی کم بڑھانا تھا


اُن سے دل لگا کر یاد آیا

اُن سے دل نہیں لگانا تھا


انتخاب


*****************************************


نورالعین نے زمین پر بیٹھ کر الماری کے نیچے جھانکا اور ساتھ ہی موبائل کی ٹارچ سے نیچے کے اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔

اس کی کوشش کامیاب رہی اور اس نے ہینگر کی مدد سے وہ ننھی سی چمکتی ہوئی چیز کھینچ کر باہر نکالی اور سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔

وہ ایک انگوٹھی تھی جو بری طرح گرد و غبار سے اٹی ہوئی تھی۔ نورالعین نے دوپٹے سے اسے اچھی طرح صاف کیا اور بغور دیکھنے لگی۔

یہ وہ ہی ڈائمنڈ کی رِنگ تھی جو دو سال قبل بابک نے اسے پرپوز کرتے ہوئے پہنائی تھی۔ لیکن جب اسے بابک کی اصلیت معلوم ہوئی تھی تو گھر آکر اس نے غصے میں وہ انگوٹھی اپنی انگلی سے اتار کر دور پھینکی تھی جو سیدھا الماری کے نیچے چلی گئی تھی اور دو سال سے وہیں پڑی تھی کیونکہ نورالعین گرفتار ہوگئی تھی۔ اور واپس آنے کے بعد اسے اس کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ مگر آج احرار کی باتیں اسے پھر ماضی میں لے گئی تھیں۔

”اینا! مجھ سے شادی کرو گی؟“ بارش میں بری طرح بھیگتے بابک نے اس سے پوچھا تھا۔

”ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔ہاں!“ اپنی دلی مراد بر آنے پر وہ انگوٹھی پہنتے ہی بےساختہ اس کے گلے لگ گئی تھی۔

”انس ٹھیک کہتا تھا کہ سب لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں، بس چند تحفے، محبت بھری میٹھی باتیں اور لڑکی آپ کے قدموں میں۔“ بابک نے کتنی سفاکی سے اپنا اصل روپ دکھایا تھا جسے دیکھ کر وہ دہل گئی تھی۔ اس کا سارا مان چکنا چور ہوگیا تھا۔

”وہ رِہا ہونے کے بعد آپ سے شادی کرنا چاہتے ہیں، وہ مکمل ازالے کیلئے تیار ہیں جس کا پہلا قدم انہوں نے اعترافِ جرم کی صورت اٹھا لیا ہے، بس انہیں ایک موقع چاہیے۔“ اسے احرار کی باتیں یاد آئیں۔

”میں اسے دوبارہ موقع نہیں دے سکتی۔“ اسے اپنا جواب یاد آیا۔

”کیوں؟ کیا غلطی کے بعد معافی اور موقعے پر صرف آپ کا حق ہے؟“ اور احرار کا وہ سادہ سا سوال بھی جس نے اسے لاجواب کردیا تھا۔

”بتاؤ نورالعین، کیا غلطی کے بعد معافی اور موقعے پر صرف تمہارا حق ہے؟“ اچانک وہاں ایک نسوانی آواز ابھری۔

اس نے چونک کر سر اٹھایا تو سامنے پلنگ پر اسے اینا بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ وہ ہی اینا جو نک سک سے تیار ہوکر یونیورسٹی جایا کرتی تھی۔

”ایک غلطی تم نے میرے روپ میں کی تھی کہ اپنی عقل سے کام لینے کے بجائے خواہش کے پیچھے اندھی ہوگئی تھی اور ایک غیر مرد کے وعدے کا اعتبار کرکے، اللہ کے آگے گناہگار ہوئی، مگر اب ٹھوکر لگنے پر تمہارا روپ بدل گیا، تمہیں تمہاری غلطی کا احساس ہوگیا تو رب کے آگے معافی مانگ لی، ہوسکتا ہے رب تمہیں معاف کردے مگر کیا معافی پر صرف تمہارا حق ہے؟ اگر کوئی اور بھی تمہاری طرح اپنی غلطی سے سیکھ کر اسے سدھارنا چاہے، خود کو بدلنا چاہے تو کیا اسے ایک موقع نہیں دینا چاہئے؟“ اینا نے پے در پے کئی سوال اٹھائے۔

”اس نے میری محبت کا مذاق اڑایا تھا، مجھے دھوکہ دیا تھا۔“ نورالعین کرب سے بولی۔

”دھوکہ تو تم نے بھی دیا تھا اپنی ماں کو جب ان کے منع کرنے کے باوجود بابک کے ساتھ چلی گئی تھی، نامحرم کیلے جو حدود اللہ نے مقرر کی ہیں انہیں پھلانگ کر، اس پر اپنے جذبات لٹائے تھے، لیکن ان سب کے بعد جب تمہیں اپنے غلطی پر ہونے کا احساس ہوا تو تم نے راہ بدلی تھی نا؟ پلٹ آئی تھی نا؟ اللہ سے معافی مانگی تھی نا؟ اور تمہیں معاف کرکے تم پر سے الزام بھی ہٹا دیے گئے، جب دوسرے بھی اپنی غلطی سدھار کر سیدھی راہ پر آنا چاہتے ہیں تو ان کیلئے اتنی سختی کیوں؟“ اینا کے سوالوں کا نورالعین کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

”تم چاہتی ہو کہ رب صرف تمہارے معاملے میں العفو، الرؤف یعنی معاف اور نرمی کرنے والا ہو اور باقی سب کے معاملے میں وہ المنتقم یعنی انتقام لینے والا رہے، قہر نازل کرنے والا رہے، خود تم رب سے معافی کی آس لگائے بیٹھی ہو لیکن خود کسی کو معاف نہیں کرنا چاہتی، یہ کیسا انصاف ہے؟ سب سے بڑی ناانصافی تو تم خود کر رہی ہو نورالعین!“ اس کے ضمیر کی آواز نے یکدم اسے پکڑ کر جھنجھوڑ دیا تھا جس کے باعث وہ لاجواب ہوگئی۔

”تمہارا صرف ظاہر بدلہ ہے نورالعین، اندر سے تم اب بھی وہ ہی اینا ہو جو گزری باتیں دل میں دبا کر رکھتی ہے، انہیں سوچتی ہے، ان پر کڑھتی ہے، کیونکہ اگر واقعی تم بدلی ہوتی تو گزری باتیں بھلا دیتی، جو امید تم اللہ سے اپنے لئے لگائے ہوئے ہو ویسا ہی رویہ اس کے بندوں کے ساتھ بھی رکھتی، کیونکہ اللہ کے بندوں میں اس کی صفات چھلکتی ہے، اور اس کی سب سے بڑی صفت معاف کرنا، موقع دینا ہی تو ہے، اگر رب سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود ندامت پر معاف کرسکتا ہے، موقع دے سکتا ہے، تو ہم معمولی انسان کون ہوتے ہیں بدلہ لینے والے؟“

اس کی باتیں سنتے ہوئے نورالعین نے نظریں جھکالی تھیں اور ان پر سوچتی چلی گئی۔ یہ آواز بند ہونے پر اس نے نظریں اٹھائیں تو اب اینا وہاں نہیں تھی۔ وہ تو وہاں آئی ہی نہیں تھی۔ یہ آواز تو اس کے من سے آرہی تھی جو اسے سوچنے کا موقع دیتے ہوئے اب خاموش ہوگئی تھی۔

اس نے تھک کر سر جھکایا تو نگاہ اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی پر پڑی۔

”آپ کا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے، بھیا کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، ایک وقت پر آپ دونوں ہی ایک دوسرے کی پسند رہ چکے ہیں، تو ماضی کو بھلا کر پھر سے ان کے ساتھ نئی زندگی شروع کر لیجئے، مجھے یقین ہے آپ ان کے ساتھ بہت خوش رہیں گی۔“

اس کے ذہن میں آخری بار گونجنے والی آواز احرار کی تھی۔


بےایمانی بھی تیرے عشق نے سکھائی تھی

تو پہلی چیز تھی جو ماں سے چھپائی تھی


انتخاب


*****************************************


تقریباً جیل کے سارے قیدی ہی سو چکے تھے۔

مگر بابک دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ جس نے ایک پیر موڑ کر، اس پر ڈائری ٹکائی ہوئی تھی اور روشن دان سے آتی پیلے بلب کی روشنی میں اس پر کچھ لکھنے میں مصروف تھا۔

”لوگ کہتے ہیں کہ جو وقت گزرنے کے بعد ہو وہ پچھتاوا ہوتا ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ پچھتاوا بھی ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا، کیونکہ پچھتاوا درحقیقت ہمارے ضمیر کی آواز ہوتی ہے جو ہمارے غلط اعمال پر ہمیں ملامت کرتا ہے، اور پچھتاوے کا مطلب ہوتا ہے کہ ابھی ہمارا ضمیر زندہ ہے تب ہی تو وہ صحیح غلط پر رد عمل دیتا ہے، صحیح عمل پر ہمیں سکون پہنچاتا ہے اور برے عمل پر بےچین رکھتا ہے، یہ میرا ضمیر ہی تھا جس نے مجھ سے اعترافِ جرم کروا کر سکون لیا، لیکن یہ سکون ابھی مکمل نہیں ہوا ہے، اور تب تک نہیں ہوگا جب تک میں اینا کو وہ عزت پورے حق کے ساتھ واپس نہیں لوٹا دیتا جو میں نے اس سے چھیننے کی کوشش کی تھی، اور اس بار میں اپنا عہد کسی قیمت پر نہیں توڑوں گا اینا، چاہے تم میرا یقین کرو یا نہیں، چاہے تم مجھے موقع دو یا نہیں۔“

وہ سیاہ قلم سے کاغذ پر یوں لکھتا گیا جیسے وہ سچ مچ سامنے بیٹھی ہے اور وہ اس سے مخاطب ہے۔ مگر وہ اس کے سامنے نہیں تھی۔

نورالعین بیڈ پر اوندھی لیٹی ہوئی تھی۔ اس کے کھلے سیاہ بال پشت پر بکھرے ہوئے تھے۔ نظریں ہنوز اپنے ہاتھ میں موجود اس انگوٹھی پر تھیں اور ذہن میں اِحرار کی آواز اور بابک کا شرمندہ چہرہ مسلسل گردش کر رہا تھا۔

احرار اپنے بیڈ پر آگے کو جھک کر بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ میں نورالعین کا وہ ہی نازک سا بریسلیٹ تھا جو اس نے یہ سوچ کر اپنے پاس رکھ لیا تھا کہ اظہارِ محبت کے وقت اسے لوٹا دے گا مگر جب محبت کو اظہار کی منزل ہی نہیں ملی تو اس کو اپنی ادھوری محبت کی نشانی کے طور پر ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔


پیار میں۔۔۔!

اک دل کی جیت ہے

اک دل کی ہار ہے

ہر دل ہے مہرہ

پیار میں۔۔۔!

اک دل مغرور ہے

اک غم سے چور ہے

ہر دل ہے مہرہ

پیار میں۔۔۔!

کسی کیلئے رب کی رضا

کسی کیلئے گہری سزا

دونوں چہرے اس کے جدا

کہتے ہیں پیار وہ ہے

کانٹوں کا ہار جو ہے

یا پھر کسی کی خاطر

رم جھم پھوار وہ ہے

چنگاریوں کے جیسا

دل کا ملال ہے تو

تقدیر میں کسی کی

جشنِ بہار وہ ہے

ایک سا کب اس کا روپ ہے

اک پل یہ دھوپ ہے

ایک پل ہے کُہرا

پیار میں۔۔۔!

کسی کیلئے اجلی صبح

کسی کیلئے کڑوی زباں

دونوں چہرے اس کے جدا

مرض کبھی، کبھی ہے دوا

کبھی ہے آگن تو کبھی ہے دھواں

دونوں چہرے اس کے جدا

اک دل کا حوصلہ ہے

خوشیوں کا سلسلہ ہے

تو کوئی دل بیچارہ

روکھا ہے، دل جلا ہے

تحفے میں یہ کسی کو

دونوں جہاں دے دے

بدلے میں کیوں کسی کو

افسوس ہی ملا ہے

پنکھ ہیں کیوں ایک دل کیلئے

اور دو جے کیلئے

ہر لمحہ پہرہ پیار میں

کسی کیلئے مہکی ہوا

کسی کیلئے صرف جفا

دونوں چہرے اس کے جدا

مرض کبھی، کبھی ہے دوا

کبھی ہے آگن تو کبھی ہے دھواں

دونوں چہرے اس کے جدا

پیار میں۔۔۔!

اک دل کی جیت ہے

اک دل کی ہار ہے

ہر دل ہے مہرہ

پیار میں۔۔۔!


امیتابھ بھٹچاریا

ایک نیا سویرا پھر نکل آیا تھا۔ اجالا ہوتے ہی پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر رزق کی تلاش میں آسمان پر اڑنے لگے تھے۔

احرار اس وقت قبرستان میں موجود، کلثوم کی قبر کے پاس بیٹھا تھا۔ جہاں آس پاس کافی پیڑ پودے ہونے کے باعث ماحول خاصا ترو تازہ اور پرسکون سا ہو رہا تھا۔

”میں نے ٹھیک کیا نا امی؟“ ہمیشہ کی طرح انہیں دل کا حال سناتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اور مزید افسوس یہ تھا کہ ان آنکھوں کو صاف کرنے والے ہاتھ مٹی تلے دفن تھے۔

تب ہی کوئی احرار کے عقب میں آکر کھڑا ہوا مگر دھیان نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی آمد محسوس نہ کر پایا۔

”اِحرار!“ مانوس سی پکار پر اس نے چونک کر گردن موڑی۔


صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن

ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تیری آواز کے ساتھ


سر پر سیاہ اسکارف باندھ کر، اپنے گرد اچھی طرح کتھئی چادر اوڑھے وہ نورالعین تھی جو اسے متعجب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

”آپ یہاں؟“ وہ بھی حیران ہوتا ہوا اپنی جگہ پر سے اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے اپنی نم آنکھیں صاف کیں۔

”جی، امی کی قبر پر آئی تھی تو آپ نظر آگئے۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔

”مگر آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، یہ مناسب نہیں ہے۔“ اس نے دبے دبے لفظوں میں ٹوکا۔

”جی جانتی ہوں کہ عورت کا قبرستان جانا مناسب نہیں ہے مگر اس صورت میں جب وہ قبر پر جا کر روئے، پیٹے، یا عقیدت میں اسے سجدہ گاہ بنالے، ہوش و حواس قابو میں رکھ کر، تھوڑی دیر کیلئے عورت آسکتی ہے، اتنی گنجائش ہے۔“

(ترمذی، السنن، کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراهية زيارة القبور للنساء، 3: 372، الرقم: 1056)

”اور میری تو مجبوری بھی تھی کہ کافی عرصے سے کوئی آیا نہیں تھا تو گورکن کو لگا وہ قبر لاوارث ہے، اسی لئے اس کی ٹھیک طرح دیکھ بھال نہیں ہوئی۔“ اس نے رسان نے تفصیلی جواب دیا۔

”آپ مجھے ان کی قبر کا بتا دیں، میں امی کی قبر پر آتا ہوں تو وہاں بھی دیکھ بھال کرلیا کروں گا۔“ اس نے فوراً مخلصانہ پیشکش کی۔

”کوئی تو جگہ ایسی چھوڑ دیں جہاں مجھ پر آپ کے احسان کا بوجھ نہ ہو!“ وہ پھیکےپن سے مسکرائی۔

”احسان کیسا؟ یہ تو نیکی کا کام ہے، ویسے کیا نام ہے آپ کی امی کا؟“ اس نے کہتے ہوئے جاننا چاہا۔

”فرخنده بی بی زوجہ شاہد حسین، تاریخِ وفات، جس دن میں گرفتار ہوئی تھی، لیکن اب ان کی قبر ختم کرکے وہاں کسی اور کی تدفین کردی گئی ہے کیونکہ ان کی قبر کافی عرصے سے لاوارث تھی۔“ اس نے دکھ بھرے دل کے ساتھ آہستہ سے بتایا ۔ وہ فوری طور پر کچھ نہ کہہ پایا کہ اسے بھی افسوس ہوا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہی تھی کہ جسم ختم ہونے کے بعد پرانی قبروں کو نئے مردے کیلئے پھر سے تیار کر دیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلنا تھا۔

”یہ آپ کی امی کی قبر ہے۔“ نورالعین نے موضوع بدلتے ہوئے سنگِ مرمر کی قبر کی جانب دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”میں مل چکی ہوں ان سے، بہت پیاری خاتون تھیں آپ کی والدہ، بالکل آپ کی طرح!“ وہ قبر کو دیکھتے ہوئے ہی محبت سے بولی۔ جس کے بیچ میں بنے کچے حصے پر کافی ساری سرخ گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں جو ابھی ابھی احرار نے ڈالی تھیں۔

”آپ ان سے کب ملیں؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔

”بابک ایک بار ان سے ملانے لے گیا تھا، مگر افسوس میں نے ان کی باتیں سمجھ کر ماننے کے بجائے ان سنی کردیں۔“ اس نے تاسف سے گہری سانس لی۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”کاش بابک پر بھی ان کی تربیت کا اثر ہوتا!“ وہ اسی طرح مزید بولی۔

”یہ شاید ان کی تربیت ہی تھی جو غلطی کے بعد انہیں ازالے کیلئے اُکسا رہی ہے۔“ احرار نے لوہا گرم دیکھ کر پھر چوٹ ماری۔

نورالعین نے بےساختہ نگاہیں اس کی جانب کیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ سنجیدگی سے یوں بولی جیسے اس کی بات پر کچھ یاد آیا ہو۔

”ضرور! یہاں قریب ہی پارک ہے، وہاں چلیں؟“ احرار کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

وہ آگے بڑھا تو نورالعین بھی اس سے ذرا فاصلے پر چل پڑی۔

دونوں قبرستان سے نکل کر پاس بنے ایک پارک میں آگئے جہاں صبح ہونے کے باعث زیادہ رونق نہیں تھی بس چند ایک لوگ ہی کافی فاصلے پر ورزش کر رہے تھے۔

ایک لکڑی کی بینچ پر احرار نے نورالعین کو بیٹھنے کی پیشکش کی اور اس کے بیٹھنے کے بعد خود بھی خاصے فاصلے پر بیٹھ گیا۔

”کل میں نے کافی دیر آپ کی بات پر سوچا۔“ نورالعین سامنے لگے پیڑ کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

”تو پھر؟ کیا فیصلہ کیا آپ نے؟“ احرار کو جاننے کی بےتابی ہوئی مگر اس نے انداز نارمل رکھا۔

”میں ان تینوں کو معاف کرکے کیس واپس لینا چاہتی ہوں، کیا ایسا ممکن ہے؟“ اس نے کہتے ہوئے آخر میں احرار کی جانب گردن موڑی جو پہلے ہی اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی بات سن کر کافی حیران ہوا تھا۔

”جی بالکل ممکن ہے، بس تھوڑی فارمیلیٹیز پوری کرنی پڑیں گی، تو تھوڑا ٹائم اور لگ سکتا ہے، مگر یہ ہوجائے گا۔“ اس نے حیرت قابو کرتے ہوئے جواب دیا۔

”ٹھیک ہے، آپ کیس پراسیس میں ڈال دیں، اور میرے لائق جو بھی کام ہو مجھے بتا دیجئے گا تا کہ وہ کرکے میں حیدرآباد چلی جاؤں۔“ وہ دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔

”کیا مطلب؟ اب آپ کیوں جا رہی ہیں؟“ وہ جو کیس واپسی کا سن کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا تھا اب پھر پریشان ہوگیا۔

”وجہ آپ کو کل بتا چکی ہوں میں، ہاں بس یہ ہے کہ اب گھر بیچ نہیں رہی، وہ میری امی کی آخری نشانی ہے، تو اسے اچھی طرح بند کرجاؤں گی اور جب ان کی زیادہ یاد آئے گی تو وہاں آجایا کروں گی۔“ اس نے اطمینان سے بتایا۔

”اور شادی؟“ اس نے دانستہ ادھورا سوال کیا۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے نورالعین نے پل بھر کو اس کی جانب دیکھا۔ پھر دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

”آپ کی بات ٹھیک تھی کہ معافی اور موقعے پر صرف میرا حق نہیں ہے، اسی لئے میں ان تینوں کو معاف کرکے پھر سے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے رہی ہوں، ویسے ہی جیسے میں نے اماں اور اللہ سے موقع مانگا تھا اور مجھے ملا بھی، لیکن میں ایک ایسے انسان کے ہاتھ میں دوبارہ اپنی زندگی نہیں دے سکتی جس کی وجہ سے میری زندگی تہس نہس ہوئی تھی۔“ اس نے متوازن انداز میں بولنا شروع کیا۔

”لیکن بھا۔۔۔۔۔“

”پلیز۔۔۔کل میں نے آپ کی سنی تھی نا۔۔۔آج آپ میری سن لیں۔“ احرار نے کچھ کہنا چاہا تھا کہ نورالعین نے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے ٹوک دیا۔

”بولیں!“ احرار نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

”میں جانتی ہوں کہ اب آپ کہیں گے بابک بدل گیا ہے، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، وغیرہ وغیرہ، اور میں یہ بھی نہیں کہہ رہی کہ سب غلط ہے، میں مانتی ہوں کہ وہ شرمندہ ہے، لیکن اس کی یہ شرمندگی بھی اب اس کا وہ مقام واپس نہیں لاسکتی جو وہ میری نظروں میں کھو چکا ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے بولنا شروع کیا۔

”میں لاکھ کوشش کرلوں لیکن پھر بھی اسے اپنی زندگی میں شامل ہونے کا دوسرا موقع نہیں دے سکتی، اس گھر میں دلہن بن کر نہیں آسکتی جہاں کبھی میری عزت خطرے میں تھی، اس شخص کو پل پل اپنی نظروں کے سامنے نہیں برداشت کرسکتی جس نے میرے کردار کی دھجیاں اڑائی تھیں، آپ ایک مرد، ایک بھائی کی حیثیت سے سوچ رہے ہیں، اور اپ اپنی جگہ ٹھیک بھی ہیں کہ آپ پوری مخلصی سے اپنے بھائی کا بھلا چاہتے ہیں، لیکن آپ اس عورت کا درد کبھی نہیں سمجھ سکتے جس نے محبت کے جھانسے میں آکر اپنا مان کھویا ہو!“ وہ بنا کسی لگی لپٹی کے دکھ سے کہتی گئی۔ اس کے لہجے کے کرب نے احرار کے ہونٹ سل دیے تھے۔

”معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگلے کو سینے سے لگا کر دوست بنا لیا جائے، اس کا مطلب بس یہ ہوتا ہے کہ جو ظلم ہم پر ہوا ہم وہ اس پر نہیں کریں گے، میں بھی ان لوگوں کو جیل کی سزا سے آزاد کرکے یہاں سے دور جا رہی ہوں کہ اگر وہ چہرے بار بار میری نظروں کے سامنے آئیں گے تو شاید میں کبھی اپنے ماضی کو بھلا کر آگے نہیں بڑھ پاؤں گی، کچھ عرصے بعد ہوسکتا ہے میں واپس لوٹ آؤں، لیکن فی الحال میرا یہاں سے دور جانا میرے اپنے ذہن و دل کیلئے بہت زیادہ ضروری ہوگیا ہے، اور مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھیں گے۔“ اس نے بات مکمل کرکے آس بھری نظروں سے احرار کی جانب دیکھا جو پہلے ہی ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔

”تو مطلب آپ پختہ فیصلہ کر چکی ہیں؟“ اس نے ایسے پوچھا جیسے اب جواب بدل جائے گا۔

”فی الحال فیصلہ کیا ہے، پختہ ہے یا نہیں، یہ وقت کے ساتھ ہی پتا چلے گا۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے گول مول جواب دیا۔ جو احرار کو کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا۔

”چلیں میں نے آپ کی ساری باتیں مان لیں، آپ بھیا سے شادی نہ کریں، لیکن کسی اور سے تو۔۔۔۔۔۔“

”میں ابھی کچھ عرصے تک شادی اور محبت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی، پلیز!“ احرار کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ دوٹوک انداز میں بول پڑی۔ اور انداز اتنا اٹل تھا کہ وہ مزید کچھ نہیں کہہ پایا۔

”جیسی آپ کی مرضی۔“ اس نے بحث نہیں کی۔

”مگر جہاں میں نے آپ کی بات مانی وہیں آپ کو بھی میری ایک بات ماننی ہوگی۔“ اگلے ہی پل وہ مزید بولا۔

”کیسی بات؟“ وہ متعجب ہوئی۔

”میں خود آپ کو آپ کی خالہ کے گھر چھوڑ کر آؤں گا۔“ اس نے غیرمتوقع بات رکھی۔

”اور اگر میں منع کردوں تو کیا کریں گے؟“ نورالعین نے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔

”افسوس کروں گا کہ جس کا میں نے اتنا ساتھ دیا اس نے میری ایک بات نہیں مانی۔“ اس نے پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے ایموشنل بلیک میلنگ کی جو سیدھا نورالعین کے دل پر جا کر لگی۔ کیونکہ زبردستی وہ کرنا نہیں چاہتا تھا اور گزارش وہ مانتی نہیں۔

”ٹھیک ہے، میں بتا دوں گی جب جانا ہوگا۔“ وہ سامنے دیکھتے ہوئے رضا مند ہوگئی۔

دونوں کے بیچ کچھ دیر کیلئے خاموشی حائل ہوگئی جس کے درمیان بس چہچہاتے ہوئے پرندوں کی آواز سنائی دیتی رہی۔

”آپ کل تک اپنا ریزیگنیشن لیٹر مجھے دے دیجئے گا تا کہ میں یاور تک پہنچا کر اسے بھی آپ کے جانے کا بتا دوں۔“ احرار نے خاموشی کو توڑا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”ویسے یاور سر کے گھر میں ان کی شادی کی بات چل رہی تھی نا!“ یاور کے ذکر پر نورالعین کو اچانک ہانیہ یاد آگئی۔

”ہاں، ابھی بھی چل رہی ہے۔“

”تو کوئی لڑکی پسند کرلی؟“ اس نے کریدا۔

”نہیں، ابھی تک کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جو فیملی میں باآسانی ایڈجسٹ ہوسکے۔“ سادہ سا جواب ملا۔

”تو یاور سر ہانیہ سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ وہ تو ان کی فیملی سے ہی ہیں!“ اس نے بظاہر سرسری انداز میں بات چھیڑی۔

”یاور اور ہانیہ کی شادی؟ امپاسیبل!“ اس نے حیران ہوتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

”کیوں پاسیبل نہیں ہے؟ آخر دونوں کزن ہیں، بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ان دونوں کیلئے ایک دوسرے سے بہتر بھلا کون ہوگا؟“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔

وہ سیدھا ہانیہ کے دل کی بات بتا کر، اس کا وقار خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لئے ان ڈائریکٹ بات کر رہی تھی۔

”صرف وہ دونوں ہی نہیں میں اور بھیا بھی ان کے ساتھ ہی بچپن سے کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ دونوں ہر وقت کیسے چوہے بلی کی طرح لڑتے رہتے ہیں، ان کا ساتھ گزارا ناممکن ہے۔“ احرار نے اپنے تئیں صورت حال کا جائزہ لیا۔

”بچپن کی بات اور ہوتی ہے، مگر جب رشتے بدلتے ہیں تو رویے اور جذبات بھی بدل جاتے ہیں، آپ ایک بار یاور سر سے بات تو کرکے دیکھیں، ہوسکتا ہے جس کی انہیں تلاش ہے وہ ہانیہ ہی ہو!“ وہ کسی بھی طرح احرار کے ذہن میں یاور کیلئے ہانیہ کو بسانا چاہ رہی تھی۔

”ایسا پاسیبل نہیں ہے، لیکن آپ کہتی ہیں تو بات کرلوں گا!“ اس نے مزید بحث کرنے کے بجائے کندھے اچکائے جس سے نورالعین کو کچھ امید ملی۔

”اچھا اب میں چلتی ہوں، آپ کیس کے حوالے سے مجھے اپ ڈیٹ کر دیجئے گا۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اب احرار کیا بولے گا وہ بھی اچھی طرح جانتی تھی۔

”ٹھیک ہے، چلیں میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔“ احرار وہ ہی کہتا ہوا جگہ سے اٹھا جو وہ پہلے سے جانتی تھی۔


عجب خلوص، عجب عاجزی سے کرتا ہے

وہ مسیحائی بھی بڑی سادگی سے کرتا ہے


*****************************************


نہایت احتیاط کے ساتھ جبار صاحب کو ان کے بیڈ پر لٹا دیا گیا تھا جس کے آس پاس چند مشینز اور ایک ڈرپ اسٹینڈ رکھا ہوا تھا۔ اسٹینڈ پر لٹکی ڈرپ کا سرا جبار صاحب کے ہاتھ کی پشت میں پیوست تھا۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں، وہ سن بھی سکتے تھے، مگر کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے، جسم جیسے بےجان سا ہوگیا تھا۔

پاس بیٹھے احرار نے ان کے سر کے نیچے تکیہ درست کیا اور انہیں پیٹ تک کمبل اوڑھا دیا۔

”مجھے پتا تھا کہ آپ ہاسپٹل میں بور ہوگئے ہوں گے، اسی لئے میں آپ کو گھر لے آیا ڈیڈ، ٹھیک کیا نا؟“ وہ نرمی سے ان سے باتیں کرنے لگا۔

”اور آپ کو پتا ہے ڈاکٹرز کہہ رہے تھے آپ کی ول پاور بہت اسٹرونگ ہے، آپ بہت جلدی ریکور کرسکتے ہیں۔“ اس نے نہایت پرجوشی سے جھوٹ کہا کہ وہ ان کے ذہن میں ان کی بیماری کی سنگین نوعیت بٹھا کر انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”میں نے بھیا کو فی الحال آپ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ پریشان ہوجائیں گے، میں نے اس سے یہ کہا ہے کہ آپ ان کے کنفیشن کی وجہ سے ان سے تھوڑا ناراض ہیں اسی لئے ملنے نہیں آئے، سوری میں نے ان سے جھوٹ کہا۔“ وہ دھیرے سے بولا۔

”لیکن ایک گڈ نیوز بھی ہے، نورالعین نے کیس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے بھیا جلد ہی رِہا ہوکر ہمارے ساتھ ہوں گے۔“ اس کی پرجوشی پھر لوٹ آئی۔

”میں جانتا ہوں آپ بھیا سے بہت پیار کرتے ہیں اور انہیں مشکل میں دیکھ کر پریشان ہوں گے، مگر آپ بےفکر رہیں میں بھیا کا بھی پورا خیال رکھ رہا ہوں، اور جلد وہ آپ کے پاس ہوں گے۔“ اس نے جیسے وعدہ کیا۔

”بس جب تک بھیا واپس نہیں آتے تب تک میں آپ کی تھوڑی سی خدمت کرلوں اگر آپ برا نہ مانیں تو!“ اس نے ایک معصوم بچے کی مانند آس سے پوچھا۔

جس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اور ان کی اس خاموشی کو ہی غنیمت جان کر وہ کچھ دیر ان کا قرب حاصل کرنا چاہتا تھا۔


*****************************************


”کیا تم اینا کو مجھ سے ملوانے لا سکتے ہو؟ میں ایک بار خود اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“ ساری بات سن کر بابک بےچین ہوگیا۔

”لاسکتا ہوں، لیکن نہیں لاؤں گا۔“ احرار نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”کیوں؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔

”کیونکہ یہاں نورالعین حق پر ہے۔“ اس کے سادہ سے جواب نے بابک کو مزید الجھا دیا۔

دوپہر عروج پر تھی۔ تب ہی بابک اور باوردی احرار جیل کے گراؤنڈ میں ایک پیڑ کے سائے تلے بنے چبوترے پر بیٹھے تھے۔

”آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ آپ سے غلطی ہوئی، آپ اس پر شرمندہ ہیں اور اسے سدھارنا چاہتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ اتنی جلدی اس کیلئے آپ پر دوبارہ بھروسہ کرنا آسان نہیں ہوگا، اس کی حالت ابھی بالکل ایسی ہی جیسے ایک شخص کا کار میں بہت خطرناک ایکسیڈینٹ ہوجاتا ہے اور اس حادثے کی ہولناکی سے نکلنے کیلئے، اسی کار میں دوبارہ سفر کرنے کیلئے، زخم بھرنے کیلئے اسے تھوڑا وقت درکار ہوتا، نورالعین ابھی اسی اسٹیج پر ہے، ابھی اس زخمی روح کے ساتھ ہم اسے دوبارہ زبردستی سفر پر نہیں کھینچ سکتے، اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہے بھیا۔“ اس نے رسان سے وضاحت کی۔

پہلے احرار نے بابک کا وکیل بن کر، اس کا موقف نورالعین تک پہنچایا تھا اور اب نورالعین کا ترجمان بن کر، اس کے پاس آیا تھا۔ وہ واقعی بابک اور اینا کے بیچ ایک پُل بن گیا تھا، جسے اپنے دونوں کنارے ہی بہت عزیز تھے۔

”میں اسے ان سب پریشانیوں سے نجات دے کر آرام ہی تو دینا چاہتا ہوں۔“ اس نے بےبسی سے اپنا موقف بتایا۔

”میں جانتا ہوں، مجھے آپ کی نیت پر شک نہیں ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ فی الحال ہمیں نورالعین کے نظریے سے سوچنا ہوگا، ابھی بھی اس نے کیس واپس لینے کا اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے نا! جو آپ کیلئے ایک بہت بڑی فیور ہے، تو ایک چھوٹی سی فیور اسے بھی دیجئے، کبھی کبھی ایک ہی وقت میں دونوں فریق اپنی جگہ بالکل درست ہوتے ہیں، ایسے میں ہمیں ایک تیسری راہ نکالنی پڑتی ہے، اور وہ تیسری راہ ہے کہ فی الحال اپنی ایفرٹ سائیڈ پر رکھ کر سب وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے۔“ اس نے اپنے دونوں عزیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحمل سے درمیانی راہ نکالی۔

”اگر وہ واپس نہیں آئی تو؟ اگر وہ پھر سے کھو گئی تو؟ اگر وہ یہاں سے دور جا کر کسی مصیبت میں پھنس گئی تو؟ تم نہیں جانتے وہ بہت جذباتی لڑکی ہے اگر اپنے ساتھ کچھ۔۔۔۔۔۔“

”ریلیکس بھیا ریلیکس!“ بابک ایک سہمے ہوئے بچے کی مانند فکرمندی سے بولے جا رہا تھا جب احرار نے ٹوکا۔

”وہ یہاں سے جا رہی ہے مگر میں اسے یوں ہی نہیں جانے دے رہا، میں اسے خود وہاں چھوڑ کر آؤں گا، وہاں اس کے پل پل کی خبر لینے کا انتظام کرکے آؤں گا، اور بالکل ویسے ہی اس کے ساتھ رہوں گا جیسے یہاں رہتا ہوں، میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کا خیال رکھوں گا اور اپنی جان جانے تک میں یہ وعدہ نبھاؤں گا۔“ اس نے بابک کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے ایک عزم سے یقین دلایا۔ اور وہ بھی جانتا تھا کہ احرار جان دے دے گا مگر اپنی بات سے نہیں پھرے گا۔


*****************************************


احرار صبح سے یاور کو فون کر رہا تھا مگر یاور نے اس کی کال ریسیو نہیں کی۔ اسی لئے ڈیوٹی کے بعد فریش ہوکر، جبار صاحب کے ساتھ تھوڑا وقت گزار کر احرار اس کے گھر چلا آیا تھا۔

”تجھے صبح سے فون کر رہا ہوں میں، ریسیو کیوں نہیں کر رہا؟“ احرار نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلا ہی سوال یہ کیا۔

اسے کوئی جواب دینے کے بجائے بیڈ پر نیم دراز یاور ہنوز ایل ای ڈی پر چلتی نیوز دیکھتا رہا جیسے احرار آیا ہی نہ ہو!

”میں تجھ سے بات کر رہا ہوں۔“ احرار ایل ای ڈی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

یاور نے ابھی بھی کوئی جواب نہیں دیا اور بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ احرار بھی متعجب سا اس کے پیچھے لپکا۔

”یاور!“ احرار اسے پکارتا ہوا اس کے پیچھے سیڑھیاں اترا۔

”ارے احرار تم یہاں!“ تب ہی ہانیہ اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی۔ جو ابھی ابھی اپنی امی کے ساتھ باہر سے لوٹی تھی۔

”السلام علیکم آنٹی!“ احرار نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آج یہاں کی یاد کیسے آگئی؟“ فوزیہ نے جواب دیتے سوال کیا۔

”اپنی روٹھی محبوبہ کو منانے آیا ہوں آنٹی۔“ احرار نے بےبسی سے یاور کی جانب اشارہ کیا جو اسے ان سنا کرکے گھر کے اندر سے لان میں جانے والے راستے پر چلا گیا تھا۔

”تم اور تم لوگوں کے ڈرامے۔“ ہانیہ نے نفی میں سرہلایا۔

پھر وہ دونوں کمرے میں چلی گئیں جب کہ احرار یاور کے پیچھے لان میں آیا جو وہاں بنی دو اسٹیپ کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔

”میں کب سے تجھے آواز دے رہا ہوں اور تو ہے کہ سن ہی نہیں رہا، یہ کس بات کا نخرہ ہے؟“ احرار نے بھی اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے اسے چپت لگائی۔

”تو میری بات سنتا ہے جو میں تیری سنوں؟“ انداز ہنوز نروٹھا تھا۔

”میں نے کب تیری بات نہیں سنی؟“

”جب میں بولتا تھا کہ نورالعین سے اپنے دل کی بات بول دے، تو نے وہ نہیں سنی، الٹا جا کر اپنے بھیا کا محبت نامہ اسے سنا آیا، جب تیری نظر میں میری بات کی اہمیت ہی نہیں ہے تو میں بھی کیوں سنوں تیری بات؟“ وہ اس سے سخت خفا تھا۔

”ہم اس بارے میں بات کرچکے ہیں نا! تو پھر بھی ابھی تک اس بات کو لے کر بیٹھا ہے۔“ احرار نے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔

”نہیں لے کر بیٹھا، اور نہ ہی میں اب تجھے کچھ کہوں گا، تیرا جو دل چاہے تو کر، نورالعین سے شادی کر، اسے بھابھی بنا یا میری بلا سا بہن بلا لے، مگر یہاں سے دفع ہو، جب تجھے خود ہی اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہے، کوئی محبت کرنے والا نہیں چاہیے تو میں کیوں اپنی جان جلاؤں۔“ یاور نے خفگی سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

وہ اس سے شدید خفا تھا جس پر احرار کو غصے کے بجائے پیار آیا۔

”کس نے کہا کہ مجھے کوئی محبت کرنے والا نہیں چاہیے؟ بالکل چاہیے، اور وہ میرے پاس ہے بھی، بس ابھی تھوڑا روٹھ کر بیٹھا ہے۔“ احرار نے لاڈ سے کہتے ہوئے دونوں بازو کس کر اس کے گرد لپیٹ لیے۔

”چل بے! ناٹک نہ کر!“ اس نے پھر ہاتھ ہٹایا۔

”اور صرف میری محبت سے کیا ہوتا ہے؟ اگر تجھے بھی محبت ہوتی تو میری بات مانتا۔“ انداز ویسا ہی تھا۔

”محبت ہے تب ہی تو جانے دیا، ضد ہوتی تو بانہوں میں ہوتی۔“ وہ بازو ہٹاتے ہوئے گھمبیرتا سے بولا۔

”یہ ڈائلوگز صرف فلموں میں اچھے لگتے ہیں۔“ یاور نے تنک کر کہتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ وہ جانتا ہے یہ ایک فلم کا ڈائلوگ ہے۔

”نہیں، ایسا حقیقت میں بھی ہوتا ہے، اگر محبت بھی حقیقی ہو تو!“ وہ جھٹ سے بولا۔

”اور حقیقی محبت کیا ہوتی ہے؟“ یاور نے لئے دیے انداز میں اس کی جانب گردن موڑی۔

اسے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے احرار اپنے اطراف میں نظریں دوڑانے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ اور پھر اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئی۔

”وہ دیکھ، وہ جو سامنے گلاب کا پھول لگا ہے، وہ کس نے لگایا ہے؟“ احرار نے نزدیکی کیاری میں لگے پھولوں کی جانب اشارہ کیا۔

”امی نے لگائے ہیں۔“

”کیوں لگائے ہیں؟“

”کیونکہ انہیں پسند ہیں۔“

”پسند ہیں تو یہاں سے توڑ کر اپنے پاس کمرے میں کیوں نہیں رکھ لیتی؟“ وہ انجان بنا۔

”پاگل ہے کیا؟ پھول توڑنے کے بعد مرجھا جاتا ہے، ایک بار ایسے ہی ایک پھول اچھا لگ رہا تھا تو میں نے توڑ کر اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ لیا، پھر جو امی نے کہرام مچایا تھا، اللہ کی پناہ، اس کے بعد سے تو میں ان کے پودوں کے پاس بھٹکتا بھی نہیں ہوں۔“ وہ پل بھر کو خفگی بھول کر اپنی دھن میں بتاتا گیا۔

”بس یہ ہی محبت ہے۔“ وہ مسکرایا۔

”کیا؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”تجھے پھول اچھا لگا، تو نے بنا کچھ سوچے سمجھے اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیا، مگر آنٹی کو ان سے محبت ہے، ان کا احساس ہے تب ہی وہ ان کا نظر سے دور رہنا تو برداشت کرلیتی ہیں مگر انہیں اس خیال سے ڈال سے جدا نہیں کرتیں کہ وہ مر جائیں گے، یہ خیال، یہ احساس ہی محبت ہے جو ہماری خوشی، ہماری چاہت سے بھی پہلے ہوتا ہے۔“ اس نے رسان نے محبت کا وہ فلسفہ سمجھایا جو اس نے بھی بہت پہلے کہیں پڑھا تھا اور اس کے دل پر اثر کیا تھا۔

”چل ٹھیک ہے، تیری بات مان لی کہ تجھے نورالعین سے محبت ہے اسی لئے تو اسے زبردستی خود سے نہیں منسوب کر رہا، مگر تیرا اسے بابک کے حوالے کرنا کیا ایسا نہیں ہے جیسے اپنے پسندیدہ پھول کو ڈال سے توڑ کر کسی اور کی جھولی میں ڈال دینا، تب تیری محبت کہاں گئی؟“ یاور نے اتفاق کرتے ہوئے آخر میں پھر ایک سوال اٹھایا۔

”میں اسے بھیا کی جھولی میں نہیں ڈال رہا بلکہ انہیں اس کی باغبانی سونپ رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا خیال رکھ سکتے ہیں، اگر میں صرف بھائی کی محبت میں اندھا ہوتا تو نورالعین کے انکار کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے بھیا کے حوالے کر دیتا، اسی لئے میں نے اس پر بھیا کے معاملے میں بھی زبردستی نہیں کی بلکہ یہاں اس کا ساتھ دے کر بھیا کو سمجھایا ہے کہ اسے تھوڑا وقت دینا چاہئے، مجھے ان دونوں سے محبت ہے جو میں پورے انصاف کے ساتھ نبھا رہا ہوں۔“ احرار نے سنجیدگی سے اپنا موقف بتایا۔

”اس نے بابک سے شادی سے انکار کردیا؟“ یاور حیران ہوا تو احرار نے اثبات میں سر ہلا کر اسے ساری تفصیل بتا دی۔

”تو پاگل تو اسی وقت اس سے پوچھ لیتا نا کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟“ یاور تعجب کے مارے پوری طرح اس کی جانب گھوم گیا۔

”کوشش کی تھی پوچھنے کی مگر اس نے یہ کہہ کر جڑ سے بات ختم کردی کہ میں ابھی کچھ عرصے تک شادی اور محبت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی، تو اس کی ذہنی الجھن کے پیش نظر میں نے اس سے زیادہ بحث نہیں کی۔“ اس نے نورالعین کا جواب بتایا۔

”ابھی نورالعین کو مائنڈ ریلیکس کرنے کیلئے وقت چاہیے، جب تک وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی تب تک بابک رِہا ہوکر اس کے پاس پہنچ جائے گا، وہ اس سے معافی مانگے گا، پرانی محبت جوش مارے گی اور وہ بابک کے حق میں فیصلہ دے دے گی، وہ دونوں اپنی دنیا میں آباد ہوجائیں گے اور تو رہ جائے گا خالی ہاتھ!“ یاور نے برہمی سے مستقبل کی پیشن گوئی کر ڈالی۔

”مانا اچھائی اچھی ہوتی ہے، مگر انسان کو اتنا اچھا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دیتے دیتے اپنا سب کچھ ہی لُٹا بیٹھے اور آخر میں خود کیلئے اس کے پاس کچھ نہ بچے۔“ وہ زچ ہوکر کہہ بیٹھا۔

”جو دینے والے ہوتے ہیں نا وہ اپنے لئے کچھ بچاتے بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کا صلہ اللہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اور صحیح وقت آنے پر انہیں ایسے عطا کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں ترکی بہ ترکی نہایت مطمئن جواب دیا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

”باقی رہی اچھا ہونے کی بات تو تم لوگوں نے ابھی تک میرا اچھا روپ ہی دیکھا ہے، اسی لئے تمہیں لگتا ہے کہ مجھے اچھائی کے سوا کچھ نہیں آتا، لیکن میں کیا ہوں یہ تو ذرا ایک بار ان مجرموں سے پوچھ جنہیں میں نے سلاخوں کے پیچھے پہنچایا ہے؟ اور اب اگلی باری میرے ابو کے قاتل کی ہے، میں نے ان کا کیس ری اوپن کر دیا ہے، بس یوں سمجھ کہ اس قاتل کی الٹی گنتی شروع!“ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے احرار زہر خندہ لہجے میں بولا۔ احرار کا یہ انداز واقعی یاور کیلئے نیا تھا۔

”اس قاتل کو سزا دلوانے سے کیا تیری نورالعین سے شادی ہوجائے گی؟“ یاور گھوم پھر کر وہیں آگیا۔

”یہ تیری سوئی شادی سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟ کیا شادی کے سوا انسان کو اور کام نہیں ہوتے!“ اب احرار زچ ہوا۔

”احرار۔۔۔یاور!“ اچانک ہانیہ پکارتی ہوئی آئی تو دونوں بات ادھوری چھوڑ کر متوجہ ہوئے۔

”چلو ڈائینگ روم میں آجاؤ، کھانا لگ رہا ہے۔“ اس نے حکم جاری کیا۔

”میں کھانا نہیں کھاؤں گا، بس یاور سے ملنے آیا تھا۔“ احرار کھڑا ہوا۔ یاور بھی اٹھ گیا۔

”ہاں ہاں، بس یاور ہی سگا ہے تمہارا، ہم سب تو کچھ لگتے ہی نہیں ہیں۔“ اس نے طنز کیا۔

”ایسا نہیں ہے، دراصل ڈیڈ کو زیادہ دیر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، اسی لئے جلدی واپس جانا چاہ رہا تھا۔“ اس نے صفائی دی۔

”ہاں تو چلے جانا، ہم کون سا تمہیں یہاں پکڑ کر قید کر رہے ہیں، اور اتنی دیر سے بھی انکل کے ساتھ ملازمین تو ہوں گے نا! تو تھوڑی دیر اور وہ ان کا خیال رکھ لیں گے، چلو اب جلدی آؤ دونوں۔“ وہ اس کی بات نظر انداز کرکے حکم صادر کرتی جا چکی تھی۔

”تو بھی کیا بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے۔“ یاور اسے کہتا ہوا آگے بڑھا تو وہ بھی اس کے ساتھ چل دیا۔

سب لوگ ڈائینگ روم میں جمع ہوگئے تھے۔

سنگل کرسی پر ناصر صاحب براجمان تھے جو ہانیہ کے والد اور یاور کے چاچو تھے۔ ایک طرف یاور اور اس کی امی ثمینہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یاور کی چچی فوزیہ بھی اپنی کرسی پر بیٹھی سب کو کھانا سرو کر رہی تھیں اور احرار نے بھی ایک کرسی سنبھال لی تھی۔

”تم کھانا نہیں کھا رہی؟“ ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھ کر ہانیہ کو پلٹتا دیکھ احرار نے پوچھا۔

”نہیں، مما کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی نا تو وہیں برگر کھا لیا تھا اسی لئے بھوک نہیں ہے۔“ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا اور وہاں سے چلی گئی۔

”تمہارے ڈیڈ کی طبیعت کیسی ہے بیٹا اب؟“ ناصر صاحب کھانا کھاتے ہوئے مخاطب ہوئے۔

”ویسی ہی ہے انکل جیسی آپ نے ہاسپٹل میں دیکھی تھی، دیکھ سن سکتے ہیں مگر باڈی موومنٹ زیرو ہے۔“ اس نے بھی تاسف سے جواب دیتے ہوئے کھانا کھایا۔

”اللہ شفا دے گا، تم پریشان نہ ہونا بیٹا، اور کوئی بھی بات ہو تو ہمیں ضرور بتانا۔“ یاور کی والدہ ثمینہ نے شفقت آمیزی کہا تو وہ مسکرا دیا۔

”اور تمہارا وہ بھائی کیسا ہے جو جیل میں ہے؟“ فوزیہ کا انداز تفتیش کرتا ہوا تھا۔ وہ ثمینہ کے برعکس تھوڑی تیز طبیعت کی تھیں۔

”جی وہ بھی ٹھیک ہیں۔“ وہ بس اتنا ہی بولا۔

تب ہی یاور کا موبائل بجا جس پر موصول ہوتی کال سننے کیلئے وہ کمرے سے باہر جانے لگا۔

”بیٹا کھانے کے بعد بات کرلینا۔“ ناصر صاحب نے ٹوکا۔

”بہت ارجنٹ کال ہے، بس دو منٹ میں آیا چاچو۔“ وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ باقی سب بھی کھانا کھانے لگے۔

”یاور کیلئے کوئی لڑکی پسند کی آنٹی آپ نے؟“ احرار نے خیال آنے پر پوچھ لیا۔

”نہیں بیٹا، ابھی تو ڈھونڈ رہے ہیں، اتنا آسان کہاں ہوتا ہے اپنا ہم خیال ملنا؟ میں چاہتی ہوں کہ آنے والی ایسی ہو جو دل سے رشتے نبھائے، کیونکہ دیکھو ہانیہ کی شادی کے بعد ناصر اور فوزیہ بھی ملیشیاء چلے جائیں گے اپنی بڑی بیٹی اور داماد کے پاس، یہاں پیچھے بس میں اور یاور رہ جائیں گے، اسی لئے میں چاہ رہی ہوں کہ آنے والی کوئی ایسی ہو جس سے مجھ بیوہ کو بھی تھوڑا سہارا ہوجائے!“ ثمینہ نے خاصا تفصیلی جواب دے ڈالا کہ یہ ان کا پسندیدہ موضوع جو تھا۔

”تو ہانیہ کیلئے رشتہ مل گیا کیا؟“ وہ انجان بنا۔

”نہیں، ابھی ڈھونڈ رہے ہیں۔“ وہ جواب دے کر کھانا کھانے لگیں۔

”ویسے کتنا اچھا ہوتا نا اگر یاور اور ہانیہ کی آپس میں شادی ہوجاتی؟ گھر کی بات گھر میں ہی رہتی اور کوئی فکر بھی نہ ہوتی۔“ احرار نے کھانا کھاتے ہوئے پھلجڑی چھوڑ دی۔ اس کی بات پر تینوں چونکے۔

”یاور اور ہانیہ کی شادی؟ وہ تو ہر وقت ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں!“ فوزیہ نے سب کی ترجمانی کی۔

”ایسے چھوٹے موٹے جھگڑے تو سب کزنز میں ہوتے ہیں، لیکن جب رشتہ بدلتا ہے تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔“ اس نے نورالعین کی بات دہرا کہہ کر گلاس لبوں سے لگایا۔

”خیر! بس ایسی ہی ایک بات ذہن میں آئی تو کہہ دی، اب میں چلتا ہوں۔“ وہ گلاس واپس رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

”ارے یہ کیا؟ اتنا سا کھایا تم نے!“ ثمینہ حیران ہوئیں۔

”آنٹی یہ بھی آپ لوگوں کی محبت میں کھا لیا ورنہ بھوک نہیں تھی، اب چلتا ہوں، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔“ وہ قریب آکر ان کے آگے جھکا تو انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی جس کے بعد وہ سب کو اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے چلا گیا لیکن ان لوگوں کو نئی راہ دکھا گیا تھا۔


*****************************************


چند روز میں ہی کیس کی ایپلیکیشن سبمٹ ہوگئی تھی۔ نورالعین کو ہرجانے کی رقم مل گئی تھی۔ اس کا ضروری سامان پیک ہونے کے بعد احرار گاڑی میں رکھ چکا تھا اور اب خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اس کا منتظر تھا۔

نورالعین نے گھر اچھی طرح لاک کرنے کے بعد ایک بھرپور الوداعی نظر اس پر ڈالی۔

”زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے اکثر کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں، عزیزوں سے دور ہونا پڑتا ہے، دل مضبوط کرنا پڑتا ہے۔“ اس کے ذہن میں ماں کی کبھی کہی ایک بات گونجی۔


دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو

خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا

جس میں کچھ قبریں ہوں، کچھ یادیں ہوں

کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا


اس نے گھر کو اللہ حافظ کہا اور پھر پلٹ کر گلی سے باہر کھڑی گاڑی کی جانب آگئی۔

بلیک جینز پر کتھئی شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے احرار کافی فریش لگ رہا تھا جو فرنٹ ڈور کھلنے پر متوجہ ہوا۔

گہرے جامنی سوٹ پر اچھی طرح کتھئی شال اوڑھے نورالعین فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور کندھے پر لٹکا پرس اتار کر گود میں رکھ لیا۔

”چلیں؟“ احرار نے اجازت چاہی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر گاڑی کے پہیے حرکت میں آکر انہیں یہاں سے دور لے گئے۔

صبح کے قریب سات بج رہے تھے۔

موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔ آسمان پر پرندے اٹھکلیاں کھا رہے تھے اور زمین پر یونیفارم پہن کر اسکول جاتے چھوٹے بڑے بچوں نے رونق لگائی ہوئی تھی۔ غرض ہر کوئی اپنے حصے کی آج کی ریس میں دوڑنے کیلئے گھر سے نکل پڑا تھا۔

کچھ ہی دیر میں یہ لوگ شہر کے ہنگامے کو الوداع کہہ کر ہائی وے پر آگئے تھے جہاں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

کشادہ ہائی وے پر ان کی سفید کرولا تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی جس کی کھڑکی سے باہر دیکھتی نورالعین اپنی چند ایک لٹوں کو سنبھالتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھی اور احرار کی توجہ ڈرائیونگ پر تھی۔

خاموشی کا بھاری پن کم کرنے کیلئے احرار نے ٹیپ آن کرکے ایف ایم لگا لیا جہاں کوئی مارننگ شو آرہا تھا اور شو کا آر جے حسب روایت لہک لہک کر بولنے میں مصروف تھا۔

”آل رائٹ جناب! ہمارے فرسٹ کالر کی رائے ہم نے سنی آپ بھی ہمیں کال کرکے شو کا حصہ بن سکتے ہیں، جب تک نیکسٹ کال آتی ہے تب تک ہم چلتے ہیں ایک زبردست سے ٹریک کی طرف جو ہے عاطف اسلم کی آواز میں، سو ہیئر وی گو۔“ آر جے نے نان اسٹاپ بولتے ہوئے گیت چلا دیا۔


”کیسے بتائیں کہ تجھ کو“

”چاہیں یارا بتا نہ پائیں“

”باتیں دلوں کی دیکھو جو“

”باقی آنکھیں تمہیں سمجھائیں“

”تو جانے نہ، تو جانے نہ“


اگلے ہی پل گاڑی میں گیت کے وہ بول گونجے جن کی آمد بروقت تھی یا بےوقت اس کا فوری اندازہ نہ ہوا۔


”مل کے بھی ہم نہ ملے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”میلوں کے ہیں فاصلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”انجانے ہیں سلسلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”سپنے ہیں پلکوں تلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”کیسے بتائیں کہ تجھ کو“

”چاہیں یارا بتا نہ پائیں“

”باتیں دلوں کی دیکھو جو“

”باقی آنکھیں تمہیں سمجھائیں“

”تو جانے نہ، تو جانے نہ“


عاطف اسلم کی آواز گاڑی میں سنائی دی تو احرار نے یکدم سٹپٹا کر ایسے ٹیپ بند کیا جیسے شاعر اس کا کوئی راز کھولنے لگا ہو!

اچانک ٹیپ بند ہونے پر کھڑکی سے باہر دیکھتی نورالعین نے بھی بےساختہ اس کی جانب گردن موڑی جو مکمل توجہ ڈرائیونگ پر مبذول کرچکا تھا۔ پھر وہ بھی چپ چاپ دوبارہ باہر دیکھنے لگی۔

کچھ دیر سفر یوں ہی جاری رہا اور پھر احرار نے ہائی پر بنے ایک ریسٹورانٹ کے پاس گاڑی روکی جہاں اور بھی فیملیز سفر کی تھکن اتارنے اور بھوک مٹانے رکی تھیں۔

”تھوڑا ریسٹ کرکے کچھ کھا لیتے ہیں۔“ احرار نے انجن بند کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔

”مجھے بھوک نہیں ہے، آپ کھا لیجئے۔“ اس نے سادگی سے انکار کیا۔

”چھوڑیں پھر میں بھی نہیں کھا رہا، چلتے ہیں۔“ اس نے کہہ کر دوبارہ چابی گھمائی۔

”اچھا چلیں چائے پی لیتے ہیں۔“ بلآخر وہ رضا مند ہوگئی۔ یعنی احرار کی نِنجا ٹیکنیک کام کر گئی تھی۔

دونوں گاڑی سے اتر کر ریسٹورانٹ میں آئے جو چاروں طرف سے کھلا ہوا اور بےحد ہوادار تھا۔

ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھنے کے بعد احرار نے چائے اور سینڈوچ کا آرڈر دیا جو کہ کچھ ہی دیر میں ان کی ٹیبل پر حاضر ہوگیا۔

درحقیقت بھوک تو نورالعین کو بھی لگ رہی تھی مگر اخلاق کا تقاضا نبھاتے ہوئے اس نے انکار کیا تھا۔ اور اب جب تھوڑا کھانا اور مزیدار سی چائے زبان سے لگ کر پیٹ میں پہنچی تو اسے کافی سکون ملا۔

یہاں سے فارغ ہوکر دونوں نے پھر سفر جاری کیا جو کافی دیر تک چلنے کے بعد بلآخر ان کی منزل پر اختتام پذیر ہوا۔

یہ ایک مڈل کلاس علاقہ تھا جس کی چوڑی گلیاں تھوڑی کچی پکی تھیں۔

نورالعین کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے احرار نے گاڑی ایک پرانے سے گھر کے پاس روکی جس کے بعد دونوں گاڑی سے باہر آگئے۔

احرار ڈگی سے اس کا سامان نکال لایا اور نورالعین نے لوہے کے سرخ دروازے پر لٹکتا کُنڈا ہٹاتے ہوئے دروازہ کھولا۔

”آجائیں اندر!“ وہ اسے کہتی اندر داخل ہوئی تو وہ بھی ہچکچاتا ہوا اس کے پیچھے آگیا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا سا پکا صحن تھا جس کے بائیں طرف کا کافی حصہ کچا تھا اور وہاں ایک بڑا سا پیڑ بھی لگا تھا جب کہ صحن عبور کرنے کے بعد سامنے کمرے بنے ہوئے تھے۔

”کون ہے؟“ کنڈا کھلنے کی آواز پر اندر سے وہیل چیئر دھکیلتی ایک عمر رسیده خاتون باہر آئیں جو فریدہ تھیں۔

”السلام علیکم خالہ!“

”ارے وعلیکم السلام! میری بچی آگئی، کب سے تیرا ہی انتظار کر رہی تھی۔“ انہوں نے خوشدلی سے بانہیں پھیلائیں تو وہ فوری آکر ان کے گلے لگ گئی۔

احرار اس بیچ نورالعین کا ہینڈ کیری پاس رکھے اور سفری بیگ کندھے پر لٹکائے خاموشی سے کھڑا رہا۔

”کتنے سالوں بعد تو نے شکل دکھائی ہے اور تیری ماں کا تو آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔“ وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے تاسف سے بولیں۔ تب ہی ان کی نظر احرار پر پڑی۔

”یہ وہ ہی افسر ہے جس کا تو نے بتایا تھا؟“ انہوں نے نورالعین سے تائید چاہی جو پہلے ہی فون پر انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کرچکی تھی۔

”جی خالہ! یہ ہی ہیں احرار! جنہوں نے میری بہت مدد کی۔“ اس کے لہجے میں بےپناہ تشکر تھا۔

”السلام علیکم!“ احرار نے بھی سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آؤ اندر آکر بیٹھو بیٹا اب تو دھوپ بھی تیز ہو رہی ہے، اینا جا جلدی سے شربت بنا لے۔“ وہ بیک وقت دونوں سے بولیں۔

”نہیں آنٹی بہت شکریہ، مگر مجھے جلدی واپس جانا ہے، بس ایک گلاس پانی پلا دیجئے۔“ اس نے مہذب جواب کے ساتھ گزارش کی۔

”میں ابھی لاتی ہوں۔“ نورالعین کہہ کر اندر چلی گئی تو احرار ان کے پاس آیا۔

”آنٹی اس پر میرا فون نمبر اور پتہ لکھا ہے، کبھی کوئی بھی بات ہو تو آپ نورالعین کو بتائے بنا فوری مجھ سے رابطہ کرلیجئے گا، میں آجاؤں گا۔“ اس نے پنجوں کے بل ان کے پاس بیٹھتے ہوئے ایک کارڈ رازداری سے ان کی جانب بڑھایا۔

انہوں نے بغور احرار کو دیکھتے ہوئے کارڈ تھاما تو وہ واپس کھڑا ہوگیا۔

تب ہی نورالعین بھی اسٹیل کے گلاس میں اس کیلئے پانی لے آئی۔

”اب میں چلتا ہوں، اللہ حافظ!“ احرار نے پانی پی کر گلاس واپس کرتے ہوئے اجازت چاہی۔

”آپ سے کچھ بات کرنی ہے، آپ باہر چلیں میں سامان اندر رکھ کر آتی ہوں۔“ نورالعین کے کہنے پر وہ سر ہلا کر باہر کی جانب بڑھا جب کہ وہ اپنے بیگ اندر لے جانے لگی۔

احرار جیسے ہی گیٹ سے باہر نکلا تو دوسری جانب سے آنے والی سے ٹکرا گیا۔

”ہائے اماں مر گئی میں!“ اتنے زور دار تصادم پر لڑکی نے دہائی دی اور پھر خوبرو احرار کو دیکھ کر ہکابکا رہ گئی۔

”آئی ایم سو سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا۔“ اس نے جلدی سے معذرت کی۔

”دیکھا تو میں نے بھی نہیں تھا، آج سے پہلے آپ کے جیسا حسین مرد!“ وہ اسے سرتاپا ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

”جی؟“ وہ اس نیلی آنکھوں والی لڑکی پر خاصا متعجب ہوا جو بہت ہی فرینک طبیعت کی لگ رہی تھی۔

”نیلی تم؟“ تب ہی نورالعین وہاں آگئی۔

”ہائے اللہ! اینا تو آئی ہے۔“ وہ بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی۔

”اور یہ تیرا شوہر ہے کیا؟“ نیلی کو اچانک فکر ہوئی۔

”نہیں یہ میرے جاننے والے ہیں مجھے یہاں ڈراپ کرنے آئے ہیں۔“ اس نے تصحیح کی تو نیلی کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔

”اچھا! میرا ان سے تعارف تو کروا، چل میں خود ہی بتا دیتی ہوں، میرا نام نیلوفر ہے سب مجھے۔۔۔۔“

”نیلی! انہیں تھوڑی جلدی ہے، ابھی تو اندر جا میں تجھ سے وہیں آکر ملتی ہوں۔“ نورالعین نے اسے چلتا کرنا چاہا۔

”چل ٹھیک ہے، مگر آتے رہیے گا آپ، ہاں!“ وہ احرار کو کہتی اندر چلی گئی جو اس کی فرینکس پر بھونچکا رہ گیا تھا۔

”ان سب کیلئے معذرت، اور یہاں تک آنے کیلئے بہت شکریہ!“ نورالعین اس سے مخاطب ہوئی۔

”آپ کو کتنی بار بتانا پڑے گا کہ بار بار شکریہ مت کہا کریں۔“ اس نے نرمی سے ٹوکا۔

”اب نہیں کہوں گی، بس یہ رکھ لیجئے۔“ نورالعین نے ایک خاکی رنگ کا لفافہ اس کی جانب بڑھایا۔

”یہ کیا ہے؟“ اس نے ناسمجھی سے لفافہ تھاما۔

”یہ وہ پیسے ہیں جو آپ نے مجھے رِہا ہونے کے بعد یہ جھوٹ بول کر دیے تھے کہ یہ لاء ہے، میں جانتی تھی کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے لیکن ضرورت تھی تو یہ سوچ کر رکھ لئے کہ وقت آنے پر واپس کردوں گی۔“ اس کی وضاحت پر وہ حیران رہ گیا کہ وہ شروع سے اصل بات جانتی تھی۔

”آپ نے تو ادھار لوٹا کر سرے سے ہی پرایا کردیا۔“ وہ پھیکےپن سے ہنسا۔

”ہم اپنے تھے ہی کب؟ بس ضرورت کے تحت ایک مسیحا اور مظلوم کا رشتہ تھا ہمارے بیچ جو آپ نے پورے خلوص سے نبھایا اور میں ہمیشہ اسے یاد رکھوں گی۔“ اس نے ترکی بہ ترکی رسان سے کہتے ہوئے اسے لاجواب کر دیا۔

”اور ساتھ ہی یہ بھی بابک کو لوٹا دیجئے گا کہ میں اس کی کوئی نشانی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔“ نورالعین نے تلخی سے ڈائمنڈ کی رنگ بھی اسے تھمائی جو اس نے چپ چاپ تھام لی کہ فی الحال بحث بیکار تھی۔

”اب آپ جا سکتے ہیں، تھوڑا برا لگ رہا ہے مجھے کہ آپ کو میری وجہ سے اتنی دور آنا پڑا اور اب خالی واپس بھی جائیں گے۔“ وہ نظریں جھکاتے ہوئے شرمندہ ہوئی۔

”تو آپ بھی میرے ساتھ واپس چلیں۔“ وہ بےساختہ کہہ گیا۔ نورالعین نے یکدم پلکیں اٹھائیں۔

”مذاق کر رہا تھا۔“ اس نے مسکرا کر بات بدل دی۔

”اچھا اب چلتا ہوں، کوئی بھی بات ہو تو آپ مجھے فوری کال کردیجئے گا، میں آجاؤں گا۔“ اس نے الٹے قدم پیچھے اٹھائے۔

”اللہ حافظ!“ وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکرائی۔

پھر وہ کار میں سوار ہوکر وہاں سے چل دیا۔ مگر جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی اور ایسا ہی کچھ احرار نے بیک ویو مرمر کی مدد سے کیا تھا۔


اگرچہ وقت مرہم ہے

مگر کچھ وقت تو لگتا ہے

کسی کو بھول جانے میں

دوبارہ دل بسانے میں

ابھی کچھ وقت لگنا ہے

ابھی وہ درد باقی ہے

میں کیسے نئی الفت میں

اپنی ذات کو پھر گم کرلوں

کہ میرے جسم و جاں میں

ابھی وہ فرد باقی ہے

ابھی اس شخص کی مجھ پر

نگاہِ سرد باقی ہے

ابھی تو عشق کے راستوں کی

مجھ پر گرد باقی ہے

ابھی وہ درد باقی ہے

اگرچہ وقت مرہم ہے

مگر کچھ وقت تو لگتا ہے


انتخاب


*************************************

ایک نیا سویرا پھر نکل آیا تھا۔ اجالا ہوتے ہی پرندے اپنے گھونسلوں سے نکل کر رزق کی تلاش میں آسمان پر اڑنے لگے تھے۔

احرار اس وقت قبرستان میں موجود، کلثوم کی قبر کے پاس بیٹھا تھا۔ جہاں آس پاس کافی پیڑ پودے ہونے کے باعث ماحول خاصا ترو تازہ اور پرسکون سا ہو رہا تھا۔

”میں نے ٹھیک کیا نا امی؟“ ہمیشہ کی طرح انہیں دل کا حال سناتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ اور مزید افسوس یہ تھا کہ ان آنکھوں کو صاف کرنے والے ہاتھ مٹی تلے دفن تھے۔

تب ہی کوئی احرار کے عقب میں آکر کھڑا ہوا مگر دھیان نہ ہونے کی وجہ سے وہ کوئی آمد محسوس نہ کر پایا۔

”اِحرار!“ مانوس سی پکار پر اس نے چونک کر گردن موڑی۔


صبر پر دل کو تو آمادہ کیا ہے لیکن

ہوش اڑ جاتے ہیں اب بھی تیری آواز کے ساتھ


سر پر سیاہ اسکارف باندھ کر، اپنے گرد اچھی طرح کتھئی چادر اوڑھے وہ نورالعین تھی جو اسے متعجب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

”آپ یہاں؟“ وہ بھی حیران ہوتا ہوا اپنی جگہ پر سے اٹھ کھڑا ہوا اور جلدی سے اپنی نم آنکھیں صاف کیں۔

”جی، امی کی قبر پر آئی تھی تو آپ نظر آگئے۔“ اس نے سادگی سے جواب دیا۔

”مگر آپ کو یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، یہ مناسب نہیں ہے۔“ اس نے دبے دبے لفظوں میں ٹوکا۔

”جی جانتی ہوں کہ عورت کا قبرستان جانا مناسب نہیں ہے مگر اس صورت میں جب وہ قبر پر جا کر روئے، پیٹے، یا عقیدت میں اسے سجدہ گاہ بنالے، ہوش و حواس قابو میں رکھ کر، تھوڑی دیر کیلئے عورت آسکتی ہے، اتنی گنجائش ہے۔“

(ترمذی، السنن، کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراهية زيارة القبور للنساء، 3: 372، الرقم: 1056)

”اور میری تو مجبوری بھی تھی کہ کافی عرصے سے کوئی آیا نہیں تھا تو گورکن کو لگا وہ قبر لاوارث ہے، اسی لئے اس کی ٹھیک طرح دیکھ بھال نہیں ہوئی۔“ اس نے رسان نے تفصیلی جواب دیا۔

”آپ مجھے ان کی قبر کا بتا دیں، میں امی کی قبر پر آتا ہوں تو وہاں بھی دیکھ بھال کرلیا کروں گا۔“ اس نے فوراً مخلصانہ پیشکش کی۔

”کوئی تو جگہ ایسی چھوڑ دیں جہاں مجھ پر آپ کے احسان کا بوجھ نہ ہو!“ وہ پھیکےپن سے مسکرائی۔

”احسان کیسا؟ یہ تو نیکی کا کام ہے، ویسے کیا نام ہے آپ کی امی کا؟“ اس نے کہتے ہوئے جاننا چاہا۔

”فرخنده بی بی زوجہ شاہد حسین، تاریخِ وفات، جس دن میں گرفتار ہوئی تھی، لیکن اب ان کی قبر ختم کرکے وہاں کسی اور کی تدفین کردی گئی ہے کیونکہ ان کی قبر کافی عرصے سے لاوارث تھی۔“ اس نے دکھ بھرے دل کے ساتھ آہستہ سے بتایا ۔ وہ فوری طور پر کچھ نہ کہہ پایا کہ اسے بھی افسوس ہوا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہی تھی کہ جسم ختم ہونے کے بعد پرانی قبروں کو نئے مردے کیلئے پھر سے تیار کر دیا جاتا تھا اور یہ سلسلہ یوں ہی چلنا تھا۔

”یہ آپ کی امی کی قبر ہے۔“ نورالعین نے موضوع بدلتے ہوئے سنگِ مرمر کی قبر کی جانب دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”میں مل چکی ہوں ان سے، بہت پیاری خاتون تھیں آپ کی والدہ، بالکل آپ کی طرح!“ وہ قبر کو دیکھتے ہوئے ہی محبت سے بولی۔ جس کے بیچ میں بنے کچے حصے پر کافی ساری سرخ گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں جو ابھی ابھی احرار نے ڈالی تھیں۔

”آپ ان سے کب ملیں؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔

”بابک ایک بار ان سے ملانے لے گیا تھا، مگر افسوس میں نے ان کی باتیں سمجھ کر ماننے کے بجائے ان سنی کردیں۔“ اس نے تاسف سے گہری سانس لی۔ وہ کچھ نہ بولا۔

”کاش بابک پر بھی ان کی تربیت کا اثر ہوتا!“ وہ اسی طرح مزید بولی۔

”یہ شاید ان کی تربیت ہی تھی جو غلطی کے بعد انہیں ازالے کیلئے اُکسا رہی ہے۔“ احرار نے لوہا گرم دیکھ کر پھر چوٹ ماری۔

نورالعین نے بےساختہ نگاہیں اس کی جانب کیں جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ سنجیدگی سے یوں بولی جیسے اس کی بات پر کچھ یاد آیا ہو۔

”ضرور! یہاں قریب ہی پارک ہے، وہاں چلیں؟“ احرار کی بات پر اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

وہ آگے بڑھا تو نورالعین بھی اس سے ذرا فاصلے پر چل پڑی۔

دونوں قبرستان سے نکل کر پاس بنے ایک پارک میں آگئے جہاں صبح ہونے کے باعث زیادہ رونق نہیں تھی بس چند ایک لوگ ہی کافی فاصلے پر ورزش کر رہے تھے۔

ایک لکڑی کی بینچ پر احرار نے نورالعین کو بیٹھنے کی پیشکش کی اور اس کے بیٹھنے کے بعد خود بھی خاصے فاصلے پر بیٹھ گیا۔

”کل میں نے کافی دیر آپ کی بات پر سوچا۔“ نورالعین سامنے لگے پیڑ کو دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

”تو پھر؟ کیا فیصلہ کیا آپ نے؟“ احرار کو جاننے کی بےتابی ہوئی مگر اس نے انداز نارمل رکھا۔

”میں ان تینوں کو معاف کرکے کیس واپس لینا چاہتی ہوں، کیا ایسا ممکن ہے؟“ اس نے کہتے ہوئے آخر میں احرار کی جانب گردن موڑی جو پہلے ہی اسے دیکھ رہا تھا اور اس کی بات سن کر کافی حیران ہوا تھا۔

”جی بالکل ممکن ہے، بس تھوڑی فارمیلیٹیز پوری کرنی پڑیں گی، تو تھوڑا ٹائم اور لگ سکتا ہے، مگر یہ ہوجائے گا۔“ اس نے حیرت قابو کرتے ہوئے جواب دیا۔

”ٹھیک ہے، آپ کیس پراسیس میں ڈال دیں، اور میرے لائق جو بھی کام ہو مجھے بتا دیجئے گا تا کہ وہ کرکے میں حیدرآباد چلی جاؤں۔“ وہ دوبارہ سامنے دیکھنے لگی۔

”کیا مطلب؟ اب آپ کیوں جا رہی ہیں؟“ وہ جو کیس واپسی کا سن کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا تھا اب پھر پریشان ہوگیا۔

”وجہ آپ کو کل بتا چکی ہوں میں، ہاں بس یہ ہے کہ اب گھر بیچ نہیں رہی، وہ میری امی کی آخری نشانی ہے، تو اسے اچھی طرح بند کرجاؤں گی اور جب ان کی زیادہ یاد آئے گی تو وہاں آجایا کروں گی۔“ اس نے اطمینان سے بتایا۔

”اور شادی؟“ اس نے دانستہ ادھورا سوال کیا۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے نورالعین نے پل بھر کو اس کی جانب دیکھا۔ پھر دوبارہ سامنے دیکھتے ہوئے گویا ہوئی۔

”آپ کی بات ٹھیک تھی کہ معافی اور موقعے پر صرف میرا حق نہیں ہے، اسی لئے میں ان تینوں کو معاف کرکے پھر سے ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے رہی ہوں، ویسے ہی جیسے میں نے اماں اور اللہ سے موقع مانگا تھا اور مجھے ملا بھی، لیکن میں ایک ایسے انسان کے ہاتھ میں دوبارہ اپنی زندگی نہیں دے سکتی جس کی وجہ سے میری زندگی تہس نہس ہوئی تھی۔“ اس نے متوازن انداز میں بولنا شروع کیا۔

”لیکن بھا۔۔۔۔۔“

”پلیز۔۔۔کل میں نے آپ کی سنی تھی نا۔۔۔آج آپ میری سن لیں۔“ احرار نے کچھ کہنا چاہا تھا کہ نورالعین نے ہاتھ اٹھا کر نرمی سے ٹوک دیا۔

”بولیں!“ احرار نے سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

”میں جانتی ہوں کہ اب آپ کہیں گے بابک بدل گیا ہے، اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے، وغیرہ وغیرہ، اور میں یہ بھی نہیں کہہ رہی کہ سب غلط ہے، میں مانتی ہوں کہ وہ شرمندہ ہے، لیکن اس کی یہ شرمندگی بھی اب اس کا وہ مقام واپس نہیں لاسکتی جو وہ میری نظروں میں کھو چکا ہے۔“ اس نے سنجیدگی سے بولنا شروع کیا۔

”میں لاکھ کوشش کرلوں لیکن پھر بھی اسے اپنی زندگی میں شامل ہونے کا دوسرا موقع نہیں دے سکتی، اس گھر میں دلہن بن کر نہیں آسکتی جہاں کبھی میری عزت خطرے میں تھی، اس شخص کو پل پل اپنی نظروں کے سامنے نہیں برداشت کرسکتی جس نے میرے کردار کی دھجیاں اڑائی تھیں، آپ ایک مرد، ایک بھائی کی حیثیت سے سوچ رہے ہیں، اور اپ اپنی جگہ ٹھیک بھی ہیں کہ آپ پوری مخلصی سے اپنے بھائی کا بھلا چاہتے ہیں، لیکن آپ اس عورت کا درد کبھی نہیں سمجھ سکتے جس نے محبت کے جھانسے میں آکر اپنا مان کھویا ہو!“ وہ بنا کسی لگی لپٹی کے دکھ سے کہتی گئی۔ اس کے لہجے کے کرب نے احرار کے ہونٹ سل دیے تھے۔

”معاف کرنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اگلے کو سینے سے لگا کر دوست بنا لیا جائے، اس کا مطلب بس یہ ہوتا ہے کہ جو ظلم ہم پر ہوا ہم وہ اس پر نہیں کریں گے، میں بھی ان لوگوں کو جیل کی سزا سے آزاد کرکے یہاں سے دور جا رہی ہوں کہ اگر وہ چہرے بار بار میری نظروں کے سامنے آئیں گے تو شاید میں کبھی اپنے ماضی کو بھلا کر آگے نہیں بڑھ پاؤں گی، کچھ عرصے بعد ہوسکتا ہے میں واپس لوٹ آؤں، لیکن فی الحال میرا یہاں سے دور جانا میرے اپنے ذہن و دل کیلئے بہت زیادہ ضروری ہوگیا ہے، اور مجھے امید ہے کہ آپ میری بات سمجھیں گے۔“ اس نے بات مکمل کرکے آس بھری نظروں سے احرار کی جانب دیکھا جو پہلے ہی ہمہ تن گوش اسے سن رہا تھا۔

”تو مطلب آپ پختہ فیصلہ کر چکی ہیں؟“ اس نے ایسے پوچھا جیسے اب جواب بدل جائے گا۔

”فی الحال فیصلہ کیا ہے، پختہ ہے یا نہیں، یہ وقت کے ساتھ ہی پتا چلے گا۔“ اس نے نظریں جھکاتے ہوئے گول مول جواب دیا۔ جو احرار کو کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا۔

”چلیں میں نے آپ کی ساری باتیں مان لیں، آپ بھیا سے شادی نہ کریں، لیکن کسی اور سے تو۔۔۔۔۔۔“

”میں ابھی کچھ عرصے تک شادی اور محبت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی، پلیز!“ احرار کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی وہ دوٹوک انداز میں بول پڑی۔ اور انداز اتنا اٹل تھا کہ وہ مزید کچھ نہیں کہہ پایا۔

”جیسی آپ کی مرضی۔“ اس نے بحث نہیں کی۔

”مگر جہاں میں نے آپ کی بات مانی وہیں آپ کو بھی میری ایک بات ماننی ہوگی۔“ اگلے ہی پل وہ مزید بولا۔

”کیسی بات؟“ وہ متعجب ہوئی۔

”میں خود آپ کو آپ کی خالہ کے گھر چھوڑ کر آؤں گا۔“ اس نے غیرمتوقع بات رکھی۔

”اور اگر میں منع کردوں تو کیا کریں گے؟“ نورالعین نے سنجیدگی سے جاننا چاہا۔

”افسوس کروں گا کہ جس کا میں نے اتنا ساتھ دیا اس نے میری ایک بات نہیں مانی۔“ اس نے پھیکےپن سے مسکراتے ہوئے ایموشنل بلیک میلنگ کی جو سیدھا نورالعین کے دل پر جا کر لگی۔ کیونکہ زبردستی وہ کرنا نہیں چاہتا تھا اور گزارش وہ مانتی نہیں۔

”ٹھیک ہے، میں بتا دوں گی جب جانا ہوگا۔“ وہ سامنے دیکھتے ہوئے رضا مند ہوگئی۔

دونوں کے بیچ کچھ دیر کیلئے خاموشی حائل ہوگئی جس کے درمیان بس چہچہاتے ہوئے پرندوں کی آواز سنائی دیتی رہی۔

”آپ کل تک اپنا ریزیگنیشن لیٹر مجھے دے دیجئے گا تا کہ میں یاور تک پہنچا کر اسے بھی آپ کے جانے کا بتا دوں۔“ احرار نے خاموشی کو توڑا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”ویسے یاور سر کے گھر میں ان کی شادی کی بات چل رہی تھی نا!“ یاور کے ذکر پر نورالعین کو اچانک ہانیہ یاد آگئی۔

”ہاں، ابھی بھی چل رہی ہے۔“

”تو کوئی لڑکی پسند کرلی؟“ اس نے کریدا۔

”نہیں، ابھی تک کوئی ایسی لڑکی نہیں ملی جو فیملی میں باآسانی ایڈجسٹ ہوسکے۔“ سادہ سا جواب ملا۔

”تو یاور سر ہانیہ سے شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ وہ تو ان کی فیملی سے ہی ہیں!“ اس نے بظاہر سرسری انداز میں بات چھیڑی۔

”یاور اور ہانیہ کی شادی؟ امپاسیبل!“ اس نے حیران ہوتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔

”کیوں پاسیبل نہیں ہے؟ آخر دونوں کزن ہیں، بچپن سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں، ان دونوں کیلئے ایک دوسرے سے بہتر بھلا کون ہوگا؟“ اس نے اپنی بات پر زور دیا۔

وہ سیدھا ہانیہ کے دل کی بات بتا کر، اس کا وقار خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اسی لئے ان ڈائریکٹ بات کر رہی تھی۔

”صرف وہ دونوں ہی نہیں میں اور بھیا بھی ان کے ساتھ ہی بچپن سے کھیلتے کودتے بڑے ہوئے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ دونوں ہر وقت کیسے چوہے بلی کی طرح لڑتے رہتے ہیں، ان کا ساتھ گزارا ناممکن ہے۔“ احرار نے اپنے تئیں صورت حال کا جائزہ لیا۔

”بچپن کی بات اور ہوتی ہے، مگر جب رشتے بدلتے ہیں تو رویے اور جذبات بھی بدل جاتے ہیں، آپ ایک بار یاور سر سے بات تو کرکے دیکھیں، ہوسکتا ہے جس کی انہیں تلاش ہے وہ ہانیہ ہی ہو!“ وہ کسی بھی طرح احرار کے ذہن میں یاور کیلئے ہانیہ کو بسانا چاہ رہی تھی۔

”ایسا پاسیبل نہیں ہے، لیکن آپ کہتی ہیں تو بات کرلوں گا!“ اس نے مزید بحث کرنے کے بجائے کندھے اچکائے جس سے نورالعین کو کچھ امید ملی۔

”اچھا اب میں چلتی ہوں، آپ کیس کے حوالے سے مجھے اپ ڈیٹ کر دیجئے گا۔“ وہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور اب احرار کیا بولے گا وہ بھی اچھی طرح جانتی تھی۔

”ٹھیک ہے، چلیں میں آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں۔“ احرار وہ ہی کہتا ہوا جگہ سے اٹھا جو وہ پہلے سے جانتی تھی۔


عجب خلوص، عجب عاجزی سے کرتا ہے

وہ مسیحائی بھی بڑی سادگی سے کرتا ہے


*****************************************


نہایت احتیاط کے ساتھ جبار صاحب کو ان کے بیڈ پر لٹا دیا گیا تھا جس کے آس پاس چند مشینز اور ایک ڈرپ اسٹینڈ رکھا ہوا تھا۔ اسٹینڈ پر لٹکی ڈرپ کا سرا جبار صاحب کے ہاتھ کی پشت میں پیوست تھا۔ ان کی آنکھیں کھلی تھیں، وہ سن بھی سکتے تھے، مگر کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے، جسم جیسے بےجان سا ہوگیا تھا۔

پاس بیٹھے احرار نے ان کے سر کے نیچے تکیہ درست کیا اور انہیں پیٹ تک کمبل اوڑھا دیا۔

”مجھے پتا تھا کہ آپ ہاسپٹل میں بور ہوگئے ہوں گے، اسی لئے میں آپ کو گھر لے آیا ڈیڈ، ٹھیک کیا نا؟“ وہ نرمی سے ان سے باتیں کرنے لگا۔

”اور آپ کو پتا ہے ڈاکٹرز کہہ رہے تھے آپ کی ول پاور بہت اسٹرونگ ہے، آپ بہت جلدی ریکور کرسکتے ہیں۔“ اس نے نہایت پرجوشی سے جھوٹ کہا کہ وہ ان کے ذہن میں ان کی بیماری کی سنگین نوعیت بٹھا کر انہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔

”میں نے بھیا کو فی الحال آپ کے بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ وہ پریشان ہوجائیں گے، میں نے اس سے یہ کہا ہے کہ آپ ان کے کنفیشن کی وجہ سے ان سے تھوڑا ناراض ہیں اسی لئے ملنے نہیں آئے، سوری میں نے ان سے جھوٹ کہا۔“ وہ دھیرے سے بولا۔

”لیکن ایک گڈ نیوز بھی ہے، نورالعین نے کیس واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے، جس کی وجہ سے بھیا جلد ہی رِہا ہوکر ہمارے ساتھ ہوں گے۔“ اس کی پرجوشی پھر لوٹ آئی۔

”میں جانتا ہوں آپ بھیا سے بہت پیار کرتے ہیں اور انہیں مشکل میں دیکھ کر پریشان ہوں گے، مگر آپ بےفکر رہیں میں بھیا کا بھی پورا خیال رکھ رہا ہوں، اور جلد وہ آپ کے پاس ہوں گے۔“ اس نے جیسے وعدہ کیا۔

”بس جب تک بھیا واپس نہیں آتے تب تک میں آپ کی تھوڑی سی خدمت کرلوں اگر آپ برا نہ مانیں تو!“ اس نے ایک معصوم بچے کی مانند آس سے پوچھا۔

جس کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اور ان کی اس خاموشی کو ہی غنیمت جان کر وہ کچھ دیر ان کا قرب حاصل کرنا چاہتا تھا۔


*****************************************


”کیا تم اینا کو مجھ سے ملوانے لا سکتے ہو؟ میں ایک بار خود اس سے بات کرنا چاہتا ہوں۔“ ساری بات سن کر بابک بےچین ہوگیا۔

”لاسکتا ہوں، لیکن نہیں لاؤں گا۔“ احرار نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”کیوں؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔

”کیونکہ یہاں نورالعین حق پر ہے۔“ اس کے سادہ سے جواب نے بابک کو مزید الجھا دیا۔

دوپہر عروج پر تھی۔ تب ہی بابک اور باوردی احرار جیل کے گراؤنڈ میں ایک پیڑ کے سائے تلے بنے چبوترے پر بیٹھے تھے۔

”آپ اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ آپ سے غلطی ہوئی، آپ اس پر شرمندہ ہیں اور اسے سدھارنا چاہتے ہیں، اور وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے کہ اتنی جلدی اس کیلئے آپ پر دوبارہ بھروسہ کرنا آسان نہیں ہوگا، اس کی حالت ابھی بالکل ایسی ہی جیسے ایک شخص کا کار میں بہت خطرناک ایکسیڈینٹ ہوجاتا ہے اور اس حادثے کی ہولناکی سے نکلنے کیلئے، اسی کار میں دوبارہ سفر کرنے کیلئے، زخم بھرنے کیلئے اسے تھوڑا وقت درکار ہوتا، نورالعین ابھی اسی اسٹیج پر ہے، ابھی اس زخمی روح کے ساتھ ہم اسے دوبارہ زبردستی سفر پر نہیں کھینچ سکتے، اسے تھوڑے آرام کی ضرورت ہے بھیا۔“ اس نے رسان سے وضاحت کی۔

پہلے احرار نے بابک کا وکیل بن کر، اس کا موقف نورالعین تک پہنچایا تھا اور اب نورالعین کا ترجمان بن کر، اس کے پاس آیا تھا۔ وہ واقعی بابک اور اینا کے بیچ ایک پُل بن گیا تھا، جسے اپنے دونوں کنارے ہی بہت عزیز تھے۔

”میں اسے ان سب پریشانیوں سے نجات دے کر آرام ہی تو دینا چاہتا ہوں۔“ اس نے بےبسی سے اپنا موقف بتایا۔

”میں جانتا ہوں، مجھے آپ کی نیت پر شک نہیں ہے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ فی الحال ہمیں نورالعین کے نظریے سے سوچنا ہوگا، ابھی بھی اس نے کیس واپس لینے کا اتنا بڑا فیصلہ کیا ہے نا! جو آپ کیلئے ایک بہت بڑی فیور ہے، تو ایک چھوٹی سی فیور اسے بھی دیجئے، کبھی کبھی ایک ہی وقت میں دونوں فریق اپنی جگہ بالکل درست ہوتے ہیں، ایسے میں ہمیں ایک تیسری راہ نکالنی پڑتی ہے، اور وہ تیسری راہ ہے کہ فی الحال اپنی ایفرٹ سائیڈ پر رکھ کر سب وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا جائے۔“ اس نے اپنے دونوں عزیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحمل سے درمیانی راہ نکالی۔

”اگر وہ واپس نہیں آئی تو؟ اگر وہ پھر سے کھو گئی تو؟ اگر وہ یہاں سے دور جا کر کسی مصیبت میں پھنس گئی تو؟ تم نہیں جانتے وہ بہت جذباتی لڑکی ہے اگر اپنے ساتھ کچھ۔۔۔۔۔۔“

”ریلیکس بھیا ریلیکس!“ بابک ایک سہمے ہوئے بچے کی مانند فکرمندی سے بولے جا رہا تھا جب احرار نے ٹوکا۔

”وہ یہاں سے جا رہی ہے مگر میں اسے یوں ہی نہیں جانے دے رہا، میں اسے خود وہاں چھوڑ کر آؤں گا، وہاں اس کے پل پل کی خبر لینے کا انتظام کرکے آؤں گا، اور بالکل ویسے ہی اس کے ساتھ رہوں گا جیسے یہاں رہتا ہوں، میں نے آپ سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کا خیال رکھوں گا اور اپنی جان جانے تک میں یہ وعدہ نبھاؤں گا۔“ اس نے بابک کے کندھے پر دباؤ ڈالتے ہوئے ایک عزم سے یقین دلایا۔ اور وہ بھی جانتا تھا کہ احرار جان دے دے گا مگر اپنی بات سے نہیں پھرے گا۔


*****************************************


احرار صبح سے یاور کو فون کر رہا تھا مگر یاور نے اس کی کال ریسیو نہیں کی۔ اسی لئے ڈیوٹی کے بعد فریش ہوکر، جبار صاحب کے ساتھ تھوڑا وقت گزار کر احرار اس کے گھر چلا آیا تھا۔

”تجھے صبح سے فون کر رہا ہوں میں، ریسیو کیوں نہیں کر رہا؟“ احرار نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلا ہی سوال یہ کیا۔

اسے کوئی جواب دینے کے بجائے بیڈ پر نیم دراز یاور ہنوز ایل ای ڈی پر چلتی نیوز دیکھتا رہا جیسے احرار آیا ہی نہ ہو!

”میں تجھ سے بات کر رہا ہوں۔“ احرار ایل ای ڈی کے سامنے کھڑا ہوگیا۔

یاور نے ابھی بھی کوئی جواب نہیں دیا اور بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ احرار بھی متعجب سا اس کے پیچھے لپکا۔

”یاور!“ احرار اسے پکارتا ہوا اس کے پیچھے سیڑھیاں اترا۔

”ارے احرار تم یہاں!“ تب ہی ہانیہ اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی۔ جو ابھی ابھی اپنی امی کے ساتھ باہر سے لوٹی تھی۔

”السلام علیکم آنٹی!“ احرار نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آج یہاں کی یاد کیسے آگئی؟“ فوزیہ نے جواب دیتے سوال کیا۔

”اپنی روٹھی محبوبہ کو منانے آیا ہوں آنٹی۔“ احرار نے بےبسی سے یاور کی جانب اشارہ کیا جو اسے ان سنا کرکے گھر کے اندر سے لان میں جانے والے راستے پر چلا گیا تھا۔

”تم اور تم لوگوں کے ڈرامے۔“ ہانیہ نے نفی میں سرہلایا۔

پھر وہ دونوں کمرے میں چلی گئیں جب کہ احرار یاور کے پیچھے لان میں آیا جو وہاں بنی دو اسٹیپ کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا۔

”میں کب سے تجھے آواز دے رہا ہوں اور تو ہے کہ سن ہی نہیں رہا، یہ کس بات کا نخرہ ہے؟“ احرار نے بھی اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے اسے چپت لگائی۔

”تو میری بات سنتا ہے جو میں تیری سنوں؟“ انداز ہنوز نروٹھا تھا۔

”میں نے کب تیری بات نہیں سنی؟“

”جب میں بولتا تھا کہ نورالعین سے اپنے دل کی بات بول دے، تو نے وہ نہیں سنی، الٹا جا کر اپنے بھیا کا محبت نامہ اسے سنا آیا، جب تیری نظر میں میری بات کی اہمیت ہی نہیں ہے تو میں بھی کیوں سنوں تیری بات؟“ وہ اس سے سخت خفا تھا۔

”ہم اس بارے میں بات کرچکے ہیں نا! تو پھر بھی ابھی تک اس بات کو لے کر بیٹھا ہے۔“ احرار نے اس کے گرد بازو حمائل کیا۔

”نہیں لے کر بیٹھا، اور نہ ہی میں اب تجھے کچھ کہوں گا، تیرا جو دل چاہے تو کر، نورالعین سے شادی کر، اسے بھابھی بنا یا میری بلا سا بہن بلا لے، مگر یہاں سے دفع ہو، جب تجھے خود ہی اپنی زندگی کی پرواہ نہیں ہے، کوئی محبت کرنے والا نہیں چاہیے تو میں کیوں اپنی جان جلاؤں۔“ یاور نے خفگی سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

وہ اس سے شدید خفا تھا جس پر احرار کو غصے کے بجائے پیار آیا۔

”کس نے کہا کہ مجھے کوئی محبت کرنے والا نہیں چاہیے؟ بالکل چاہیے، اور وہ میرے پاس ہے بھی، بس ابھی تھوڑا روٹھ کر بیٹھا ہے۔“ احرار نے لاڈ سے کہتے ہوئے دونوں بازو کس کر اس کے گرد لپیٹ لیے۔

”چل بے! ناٹک نہ کر!“ اس نے پھر ہاتھ ہٹایا۔

”اور صرف میری محبت سے کیا ہوتا ہے؟ اگر تجھے بھی محبت ہوتی تو میری بات مانتا۔“ انداز ویسا ہی تھا۔

”محبت ہے تب ہی تو جانے دیا، ضد ہوتی تو بانہوں میں ہوتی۔“ وہ بازو ہٹاتے ہوئے گھمبیرتا سے بولا۔

”یہ ڈائلوگز صرف فلموں میں اچھے لگتے ہیں۔“ یاور نے تنک کر کہتے ہوئے اسے اطلاع دی کہ وہ جانتا ہے یہ ایک فلم کا ڈائلوگ ہے۔

”نہیں، ایسا حقیقت میں بھی ہوتا ہے، اگر محبت بھی حقیقی ہو تو!“ وہ جھٹ سے بولا۔

”اور حقیقی محبت کیا ہوتی ہے؟“ یاور نے لئے دیے انداز میں اس کی جانب گردن موڑی۔

اسے فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے احرار اپنے اطراف میں نظریں دوڑانے لگا جیسے کچھ ڈھونڈ رہا ہو۔ اور پھر اسے اپنی مطلوبہ چیز مل گئی۔

”وہ دیکھ، وہ جو سامنے گلاب کا پھول لگا ہے، وہ کس نے لگایا ہے؟“ احرار نے نزدیکی کیاری میں لگے پھولوں کی جانب اشارہ کیا۔

”امی نے لگائے ہیں۔“

”کیوں لگائے ہیں؟“

”کیونکہ انہیں پسند ہیں۔“

”پسند ہیں تو یہاں سے توڑ کر اپنے پاس کمرے میں کیوں نہیں رکھ لیتی؟“ وہ انجان بنا۔

”پاگل ہے کیا؟ پھول توڑنے کے بعد مرجھا جاتا ہے، ایک بار ایسے ہی ایک پھول اچھا لگ رہا تھا تو میں نے توڑ کر اپنی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھ لیا، پھر جو امی نے کہرام مچایا تھا، اللہ کی پناہ، اس کے بعد سے تو میں ان کے پودوں کے پاس بھٹکتا بھی نہیں ہوں۔“ وہ پل بھر کو خفگی بھول کر اپنی دھن میں بتاتا گیا۔

”بس یہ ہی محبت ہے۔“ وہ مسکرایا۔

”کیا؟“ وہ سمجھا نہیں۔

”تجھے پھول اچھا لگا، تو نے بنا کچھ سوچے سمجھے اسے توڑ کر اپنے پاس رکھ لیا، مگر آنٹی کو ان سے محبت ہے، ان کا احساس ہے تب ہی وہ ان کا نظر سے دور رہنا تو برداشت کرلیتی ہیں مگر انہیں اس خیال سے ڈال سے جدا نہیں کرتیں کہ وہ مر جائیں گے، یہ خیال، یہ احساس ہی محبت ہے جو ہماری خوشی، ہماری چاہت سے بھی پہلے ہوتا ہے۔“ اس نے رسان نے محبت کا وہ فلسفہ سمجھایا جو اس نے بھی بہت پہلے کہیں پڑھا تھا اور اس کے دل پر اثر کیا تھا۔

”چل ٹھیک ہے، تیری بات مان لی کہ تجھے نورالعین سے محبت ہے اسی لئے تو اسے زبردستی خود سے نہیں منسوب کر رہا، مگر تیرا اسے بابک کے حوالے کرنا کیا ایسا نہیں ہے جیسے اپنے پسندیدہ پھول کو ڈال سے توڑ کر کسی اور کی جھولی میں ڈال دینا، تب تیری محبت کہاں گئی؟“ یاور نے اتفاق کرتے ہوئے آخر میں پھر ایک سوال اٹھایا۔

”میں اسے بھیا کی جھولی میں نہیں ڈال رہا بلکہ انہیں اس کی باغبانی سونپ رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہے کہ وہ اس کا خیال رکھ سکتے ہیں، اگر میں صرف بھائی کی محبت میں اندھا ہوتا تو نورالعین کے انکار کو کسی خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسے بھیا کے حوالے کر دیتا، اسی لئے میں نے اس پر بھیا کے معاملے میں بھی زبردستی نہیں کی بلکہ یہاں اس کا ساتھ دے کر بھیا کو سمجھایا ہے کہ اسے تھوڑا وقت دینا چاہئے، مجھے ان دونوں سے محبت ہے جو میں پورے انصاف کے ساتھ نبھا رہا ہوں۔“ احرار نے سنجیدگی سے اپنا موقف بتایا۔

”اس نے بابک سے شادی سے انکار کردیا؟“ یاور حیران ہوا تو احرار نے اثبات میں سر ہلا کر اسے ساری تفصیل بتا دی۔

”تو پاگل تو اسی وقت اس سے پوچھ لیتا نا کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟“ یاور تعجب کے مارے پوری طرح اس کی جانب گھوم گیا۔

”کوشش کی تھی پوچھنے کی مگر اس نے یہ کہہ کر جڑ سے بات ختم کردی کہ میں ابھی کچھ عرصے تک شادی اور محبت کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی، تو اس کی ذہنی الجھن کے پیش نظر میں نے اس سے زیادہ بحث نہیں کی۔“ اس نے نورالعین کا جواب بتایا۔

”ابھی نورالعین کو مائنڈ ریلیکس کرنے کیلئے وقت چاہیے، جب تک وہ ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گی تب تک بابک رِہا ہوکر اس کے پاس پہنچ جائے گا، وہ اس سے معافی مانگے گا، پرانی محبت جوش مارے گی اور وہ بابک کے حق میں فیصلہ دے دے گی، وہ دونوں اپنی دنیا میں آباد ہوجائیں گے اور تو رہ جائے گا خالی ہاتھ!“ یاور نے برہمی سے مستقبل کی پیشن گوئی کر ڈالی۔

”مانا اچھائی اچھی ہوتی ہے، مگر انسان کو اتنا اچھا بھی نہیں ہونا چاہئے کہ وہ دیتے دیتے اپنا سب کچھ ہی لُٹا بیٹھے اور آخر میں خود کیلئے اس کے پاس کچھ نہ بچے۔“ وہ زچ ہوکر کہہ بیٹھا۔

”جو دینے والے ہوتے ہیں نا وہ اپنے لئے کچھ بچاتے بھی نہیں ہیں کیونکہ ان کا صلہ اللہ اپنے پاس محفوظ رکھتا ہے اور صحیح وقت آنے پر انہیں ایسے عطا کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔“ اس نے ٹھہرے ہوئے انداز میں ترکی بہ ترکی نہایت مطمئن جواب دیا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔

”باقی رہی اچھا ہونے کی بات تو تم لوگوں نے ابھی تک میرا اچھا روپ ہی دیکھا ہے، اسی لئے تمہیں لگتا ہے کہ مجھے اچھائی کے سوا کچھ نہیں آتا، لیکن میں کیا ہوں یہ تو ذرا ایک بار ان مجرموں سے پوچھ جنہیں میں نے سلاخوں کے پیچھے پہنچایا ہے؟ اور اب اگلی باری میرے ابو کے قاتل کی ہے، میں نے ان کا کیس ری اوپن کر دیا ہے، بس یوں سمجھ کہ اس قاتل کی الٹی گنتی شروع!“ کسی غیر مرئی نقطے کو دیکھتے ہوئے احرار زہر خندہ لہجے میں بولا۔ احرار کا یہ انداز واقعی یاور کیلئے نیا تھا۔

”اس قاتل کو سزا دلوانے سے کیا تیری نورالعین سے شادی ہوجائے گی؟“ یاور گھوم پھر کر وہیں آگیا۔

”یہ تیری سوئی شادی سے آگے کیوں نہیں بڑھ رہی؟ کیا شادی کے سوا انسان کو اور کام نہیں ہوتے!“ اب احرار زچ ہوا۔

”احرار۔۔۔یاور!“ اچانک ہانیہ پکارتی ہوئی آئی تو دونوں بات ادھوری چھوڑ کر متوجہ ہوئے۔

”چلو ڈائینگ روم میں آجاؤ، کھانا لگ رہا ہے۔“ اس نے حکم جاری کیا۔

”میں کھانا نہیں کھاؤں گا، بس یاور سے ملنے آیا تھا۔“ احرار کھڑا ہوا۔ یاور بھی اٹھ گیا۔

”ہاں ہاں، بس یاور ہی سگا ہے تمہارا، ہم سب تو کچھ لگتے ہی نہیں ہیں۔“ اس نے طنز کیا۔

”ایسا نہیں ہے، دراصل ڈیڈ کو زیادہ دیر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا، اسی لئے جلدی واپس جانا چاہ رہا تھا۔“ اس نے صفائی دی۔

”ہاں تو چلے جانا، ہم کون سا تمہیں یہاں پکڑ کر قید کر رہے ہیں، اور اتنی دیر سے بھی انکل کے ساتھ ملازمین تو ہوں گے نا! تو تھوڑی دیر اور وہ ان کا خیال رکھ لیں گے، چلو اب جلدی آؤ دونوں۔“ وہ اس کی بات نظر انداز کرکے حکم صادر کرتی جا چکی تھی۔

”تو بھی کیا بھینس کے آگے بین بجا رہا ہے۔“ یاور اسے کہتا ہوا آگے بڑھا تو وہ بھی اس کے ساتھ چل دیا۔

سب لوگ ڈائینگ روم میں جمع ہوگئے تھے۔

سنگل کرسی پر ناصر صاحب براجمان تھے جو ہانیہ کے والد اور یاور کے چاچو تھے۔ ایک طرف یاور اور اس کی امی ثمینہ بیٹھے ہوئے تھے۔ یاور کی چچی فوزیہ بھی اپنی کرسی پر بیٹھی سب کو کھانا سرو کر رہی تھیں اور احرار نے بھی ایک کرسی سنبھال لی تھی۔

”تم کھانا نہیں کھا رہی؟“ ہاٹ پاٹ ٹیبل پر رکھ کر ہانیہ کو پلٹتا دیکھ احرار نے پوچھا۔

”نہیں، مما کے ساتھ مارکیٹ گئی تھی نا تو وہیں برگر کھا لیا تھا اسی لئے بھوک نہیں ہے۔“ اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا اور وہاں سے چلی گئی۔

”تمہارے ڈیڈ کی طبیعت کیسی ہے بیٹا اب؟“ ناصر صاحب کھانا کھاتے ہوئے مخاطب ہوئے۔

”ویسی ہی ہے انکل جیسی آپ نے ہاسپٹل میں دیکھی تھی، دیکھ سن سکتے ہیں مگر باڈی موومنٹ زیرو ہے۔“ اس نے بھی تاسف سے جواب دیتے ہوئے کھانا کھایا۔

”اللہ شفا دے گا، تم پریشان نہ ہونا بیٹا، اور کوئی بھی بات ہو تو ہمیں ضرور بتانا۔“ یاور کی والدہ ثمینہ نے شفقت آمیزی کہا تو وہ مسکرا دیا۔

”اور تمہارا وہ بھائی کیسا ہے جو جیل میں ہے؟“ فوزیہ کا انداز تفتیش کرتا ہوا تھا۔ وہ ثمینہ کے برعکس تھوڑی تیز طبیعت کی تھیں۔

”جی وہ بھی ٹھیک ہیں۔“ وہ بس اتنا ہی بولا۔

تب ہی یاور کا موبائل بجا جس پر موصول ہوتی کال سننے کیلئے وہ کمرے سے باہر جانے لگا۔

”بیٹا کھانے کے بعد بات کرلینا۔“ ناصر صاحب نے ٹوکا۔

”بہت ارجنٹ کال ہے، بس دو منٹ میں آیا چاچو۔“ وہ کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ باقی سب بھی کھانا کھانے لگے۔

”یاور کیلئے کوئی لڑکی پسند کی آنٹی آپ نے؟“ احرار نے خیال آنے پر پوچھ لیا۔

”نہیں بیٹا، ابھی تو ڈھونڈ رہے ہیں، اتنا آسان کہاں ہوتا ہے اپنا ہم خیال ملنا؟ میں چاہتی ہوں کہ آنے والی ایسی ہو جو دل سے رشتے نبھائے، کیونکہ دیکھو ہانیہ کی شادی کے بعد ناصر اور فوزیہ بھی ملیشیاء چلے جائیں گے اپنی بڑی بیٹی اور داماد کے پاس، یہاں پیچھے بس میں اور یاور رہ جائیں گے، اسی لئے میں چاہ رہی ہوں کہ آنے والی کوئی ایسی ہو جس سے مجھ بیوہ کو بھی تھوڑا سہارا ہوجائے!“ ثمینہ نے خاصا تفصیلی جواب دے ڈالا کہ یہ ان کا پسندیدہ موضوع جو تھا۔

”تو ہانیہ کیلئے رشتہ مل گیا کیا؟“ وہ انجان بنا۔

”نہیں، ابھی ڈھونڈ رہے ہیں۔“ وہ جواب دے کر کھانا کھانے لگیں۔

”ویسے کتنا اچھا ہوتا نا اگر یاور اور ہانیہ کی آپس میں شادی ہوجاتی؟ گھر کی بات گھر میں ہی رہتی اور کوئی فکر بھی نہ ہوتی۔“ احرار نے کھانا کھاتے ہوئے پھلجڑی چھوڑ دی۔ اس کی بات پر تینوں چونکے۔

”یاور اور ہانیہ کی شادی؟ وہ تو ہر وقت ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں!“ فوزیہ نے سب کی ترجمانی کی۔

”ایسے چھوٹے موٹے جھگڑے تو سب کزنز میں ہوتے ہیں، لیکن جب رشتہ بدلتا ہے تو رویے بھی بدل جاتے ہیں۔“ اس نے نورالعین کی بات دہرا کہہ کر گلاس لبوں سے لگایا۔

”خیر! بس ایسی ہی ایک بات ذہن میں آئی تو کہہ دی، اب میں چلتا ہوں۔“ وہ گلاس واپس رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

”ارے یہ کیا؟ اتنا سا کھایا تم نے!“ ثمینہ حیران ہوئیں۔

”آنٹی یہ بھی آپ لوگوں کی محبت میں کھا لیا ورنہ بھوک نہیں تھی، اب چلتا ہوں، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔“ وہ قریب آکر ان کے آگے جھکا تو انہوں نے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی جس کے بعد وہ سب کو اللہ حافظ کہہ کر وہاں سے چلا گیا لیکن ان لوگوں کو نئی راہ دکھا گیا تھا۔


*****************************************

چند روز میں ہی کیس کی ایپلیکیشن سبمٹ ہوگئی تھی۔ نورالعین کو ہرجانے کی رقم مل گئی تھی۔ اس کا ضروری سامان پیک ہونے کے بعد احرار گاڑی میں رکھ چکا تھا اور اب خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اس کا منتظر تھا۔

نورالعین نے گھر اچھی طرح لاک کرنے کے بعد ایک بھرپور الوداعی نظر اس پر ڈالی۔

”زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے اکثر کڑوے گھونٹ پینے پڑتے ہیں، عزیزوں سے دور ہونا پڑتا ہے، دل مضبوط کرنا پڑتا ہے۔“ اس کے ذہن میں ماں کی کبھی کہی ایک بات گونجی۔


دیکھ لینا بڑی تسکین ملے گی تم کو

خود سے اک روز کبھی اپنی شکایت کرنا

جس میں کچھ قبریں ہوں، کچھ یادیں ہوں

کتنا دشوار ہے اس شہر سے ہجرت کرنا


اس نے گھر کو اللہ حافظ کہا اور پھر پلٹ کر گلی سے باہر کھڑی گاڑی کی جانب آگئی۔

بلیک جینز پر کتھئی شرٹ کے ساتھ بلیک جیکٹ پہنے احرار کافی فریش لگ رہا تھا جو فرنٹ ڈور کھلنے پر متوجہ ہوا۔

گہرے جامنی سوٹ پر اچھی طرح کتھئی شال اوڑھے نورالعین فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور کندھے پر لٹکا پرس اتار کر گود میں رکھ لیا۔

”چلیں؟“ احرار نے اجازت چاہی۔

اس نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر گاڑی کے پہیے حرکت میں آکر انہیں یہاں سے دور لے گئے۔

صبح کے قریب سات بج رہے تھے۔

موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔ آسمان پر پرندے اٹھکلیاں کھا رہے تھے اور زمین پر یونیفارم پہن کر اسکول جاتے چھوٹے بڑے بچوں نے رونق لگائی ہوئی تھی۔ غرض ہر کوئی اپنے حصے کی آج کی ریس میں دوڑنے کیلئے گھر سے نکل پڑا تھا۔

کچھ ہی دیر میں یہ لوگ شہر کے ہنگامے کو الوداع کہہ کر ہائی وے پر آگئے تھے جہاں گاڑیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔

کشادہ ہائی وے پر ان کی سفید کرولا تیز رفتاری سے دوڑ رہی تھی جس کی کھڑکی سے باہر دیکھتی نورالعین اپنی چند ایک لٹوں کو سنبھالتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھی اور احرار کی توجہ ڈرائیونگ پر تھی۔

خاموشی کا بھاری پن کم کرنے کیلئے احرار نے ٹیپ آن کرکے ایف ایم لگا لیا جہاں کوئی مارننگ شو آرہا تھا اور شو کا آر جے حسب روایت لہک لہک کر بولنے میں مصروف تھا۔

”آل رائٹ جناب! ہمارے فرسٹ کالر کی رائے ہم نے سنی آپ بھی ہمیں کال کرکے شو کا حصہ بن سکتے ہیں، جب تک نیکسٹ کال آتی ہے تب تک ہم چلتے ہیں ایک زبردست سے ٹریک کی طرف جو ہے عاطف اسلم کی آواز میں، سو ہیئر وی گو۔“ آر جے نے نان اسٹاپ بولتے ہوئے گیت چلا دیا۔


”کیسے بتائیں کہ تجھ کو“

”چاہیں یارا بتا نہ پائیں“

”باتیں دلوں کی دیکھو جو“

”باقی آنکھیں تمہیں سمجھائیں“

”تو جانے نہ، تو جانے نہ“


اگلے ہی پل گاڑی میں گیت کے وہ بول گونجے جن کی آمد بروقت تھی یا بےوقت اس کا فوری اندازہ نہ ہوا۔


”مل کے بھی ہم نہ ملے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”میلوں کے ہیں فاصلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”انجانے ہیں سلسلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”سپنے ہیں پلکوں تلے“

”تم سے نہ جانے کیوں“

”کیسے بتائیں کہ تجھ کو“

”چاہیں یارا بتا نہ پائیں“

”باتیں دلوں کی دیکھو جو“

”باقی آنکھیں تمہیں سمجھائیں“

”تو جانے نہ، تو جانے نہ“


عاطف اسلم کی آواز گاڑی میں سنائی دی تو احرار نے یکدم سٹپٹا کر ایسے ٹیپ بند کیا جیسے شاعر اس کا کوئی راز کھولنے لگا ہو!

اچانک ٹیپ بند ہونے پر کھڑکی سے باہر دیکھتی نورالعین نے بھی بےساختہ اس کی جانب گردن موڑی جو مکمل توجہ ڈرائیونگ پر مبذول کرچکا تھا۔ پھر وہ بھی چپ چاپ دوبارہ باہر دیکھنے لگی۔

کچھ دیر سفر یوں ہی جاری رہا اور پھر احرار نے ہائی پر بنے ایک ریسٹورانٹ کے پاس گاڑی روکی جہاں اور بھی فیملیز سفر کی تھکن اتارنے اور بھوک مٹانے رکی تھیں۔

”تھوڑا ریسٹ کرکے کچھ کھا لیتے ہیں۔“ احرار نے انجن بند کرتے ہوئے خیال ظاہر کیا۔

”مجھے بھوک نہیں ہے، آپ کھا لیجئے۔“ اس نے سادگی سے انکار کیا۔

”چھوڑیں پھر میں بھی نہیں کھا رہا، چلتے ہیں۔“ اس نے کہہ کر دوبارہ چابی گھمائی۔

”اچھا چلیں چائے پی لیتے ہیں۔“ بلآخر وہ رضا مند ہوگئی۔ یعنی احرار کی نِنجا ٹیکنیک کام کر گئی تھی۔

دونوں گاڑی سے اتر کر ریسٹورانٹ میں آئے جو چاروں طرف سے کھلا ہوا اور بےحد ہوادار تھا۔

ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھنے کے بعد احرار نے چائے اور سینڈوچ کا آرڈر دیا جو کہ کچھ ہی دیر میں ان کی ٹیبل پر حاضر ہوگیا۔

درحقیقت بھوک تو نورالعین کو بھی لگ رہی تھی مگر اخلاق کا تقاضا نبھاتے ہوئے اس نے انکار کیا تھا۔ اور اب جب تھوڑا کھانا اور مزیدار سی چائے زبان سے لگ کر پیٹ میں پہنچی تو اسے کافی سکون ملا۔

یہاں سے فارغ ہوکر دونوں نے پھر سفر جاری کیا جو کافی دیر تک چلنے کے بعد بلآخر ان کی منزل پر اختتام پذیر ہوا۔

یہ ایک مڈل کلاس علاقہ تھا جس کی چوڑی گلیاں تھوڑی کچی پکی تھیں۔

نورالعین کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے احرار نے گاڑی ایک پرانے سے گھر کے پاس روکی جس کے بعد دونوں گاڑی سے باہر آگئے۔

احرار ڈگی سے اس کا سامان نکال لایا اور نورالعین نے لوہے کے سرخ دروازے پر لٹکتا کُنڈا ہٹاتے ہوئے دروازہ کھولا۔

”آجائیں اندر!“ وہ اسے کہتی اندر داخل ہوئی تو وہ بھی ہچکچاتا ہوا اس کے پیچھے آگیا۔

گھر میں داخل ہوتے ہی ایک بہت بڑا سا پکا صحن تھا جس کے بائیں طرف کا کافی حصہ کچا تھا اور وہاں ایک بڑا سا پیڑ بھی لگا تھا جب کہ صحن عبور کرنے کے بعد سامنے کمرے بنے ہوئے تھے۔

”کون ہے؟“ کنڈا کھلنے کی آواز پر اندر سے وہیل چیئر دھکیلتی ایک عمر رسیده خاتون باہر آئیں جو فریدہ تھیں۔

”السلام علیکم خالہ!“

”ارے وعلیکم السلام! میری بچی آگئی، کب سے تیرا ہی انتظار کر رہی تھی۔“ انہوں نے خوشدلی سے بانہیں پھیلائیں تو وہ فوری آکر ان کے گلے لگ گئی۔

احرار اس بیچ نورالعین کا ہینڈ کیری پاس رکھے اور سفری بیگ کندھے پر لٹکائے خاموشی سے کھڑا رہا۔

”کتنے سالوں بعد تو نے شکل دکھائی ہے اور تیری ماں کا تو آخری دیدار بھی نصیب نہ ہوا۔“ وہ اس سے الگ ہوتے ہوئے تاسف سے بولیں۔ تب ہی ان کی نظر احرار پر پڑی۔

”یہ وہ ہی افسر ہے جس کا تو نے بتایا تھا؟“ انہوں نے نورالعین سے تائید چاہی جو پہلے ہی فون پر انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کرچکی تھی۔

”جی خالہ! یہ ہی ہیں احرار! جنہوں نے میری بہت مدد کی۔“ اس کے لہجے میں بےپناہ تشکر تھا۔

”السلام علیکم!“ احرار نے بھی سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! آؤ اندر آکر بیٹھو بیٹا اب تو دھوپ بھی تیز ہو رہی ہے، اینا جا جلدی سے شربت بنا لے۔“ وہ بیک وقت دونوں سے بولیں۔

”نہیں آنٹی بہت شکریہ، مگر مجھے جلدی واپس جانا ہے، بس ایک گلاس پانی پلا دیجئے۔“ اس نے مہذب جواب کے ساتھ گزارش کی۔

”میں ابھی لاتی ہوں۔“ نورالعین کہہ کر اندر چلی گئی تو احرار ان کے پاس آیا۔

”آنٹی اس پر میرا فون نمبر اور پتہ لکھا ہے، کبھی کوئی بھی بات ہو تو آپ نورالعین کو بتائے بنا فوری مجھ سے رابطہ کرلیجئے گا، میں آجاؤں گا۔“ اس نے پنجوں کے بل ان کے پاس بیٹھتے ہوئے ایک کارڈ رازداری سے ان کی جانب بڑھایا۔

انہوں نے بغور احرار کو دیکھتے ہوئے کارڈ تھاما تو وہ واپس کھڑا ہوگیا۔

تب ہی نورالعین بھی اسٹیل کے گلاس میں اس کیلئے پانی لے آئی۔

”اب میں چلتا ہوں، اللہ حافظ!“ احرار نے پانی پی کر گلاس واپس کرتے ہوئے اجازت چاہی۔

”آپ سے کچھ بات کرنی ہے، آپ باہر چلیں میں سامان اندر رکھ کر آتی ہوں۔“ نورالعین کے کہنے پر وہ سر ہلا کر باہر کی جانب بڑھا جب کہ وہ اپنے بیگ اندر لے جانے لگی۔

احرار جیسے ہی گیٹ سے باہر نکلا تو دوسری جانب سے آنے والی سے ٹکرا گیا۔

”ہائے اماں مر گئی میں!“ اتنے زور دار تصادم پر لڑکی نے دہائی دی اور پھر خوبرو احرار کو دیکھ کر ہکابکا رہ گئی۔

”آئی ایم سو سوری میں نے آپ کو دیکھا نہیں تھا۔“ اس نے جلدی سے معذرت کی۔

”دیکھا تو میں نے بھی نہیں تھا، آج سے پہلے آپ کے جیسا حسین مرد!“ وہ اسے سرتاپا ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔

”جی؟“ وہ اس نیلی آنکھوں والی لڑکی پر خاصا متعجب ہوا جو بہت ہی فرینک طبیعت کی لگ رہی تھی۔

”نیلی تم؟“ تب ہی نورالعین وہاں آگئی۔

”ہائے اللہ! اینا تو آئی ہے۔“ وہ بھی خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوئی۔

”اور یہ تیرا شوہر ہے کیا؟“ نیلی کو اچانک فکر ہوئی۔

”نہیں یہ میرے جاننے والے ہیں مجھے یہاں ڈراپ کرنے آئے ہیں۔“ اس نے تصحیح کی تو نیلی کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔

”اچھا! میرا ان سے تعارف تو کروا، چل میں خود ہی بتا دیتی ہوں، میرا نام نیلوفر ہے سب مجھے۔۔۔۔“

”نیلی! انہیں تھوڑی جلدی ہے، ابھی تو اندر جا میں تجھ سے وہیں آکر ملتی ہوں۔“ نورالعین نے اسے چلتا کرنا چاہا۔

”چل ٹھیک ہے، مگر آتے رہیے گا آپ، ہاں!“ وہ احرار کو کہتی اندر چلی گئی جو اس کی فرینکس پر بھونچکا رہ گیا تھا۔

”ان سب کیلئے معذرت، اور یہاں تک آنے کیلئے بہت شکریہ!“ نورالعین اس سے مخاطب ہوئی۔

”آپ کو کتنی بار بتانا پڑے گا کہ بار بار شکریہ مت کہا کریں۔“ اس نے نرمی سے ٹوکا۔

”اب نہیں کہوں گی، بس یہ رکھ لیجئے۔“ نورالعین نے ایک خاکی رنگ کا لفافہ اس کی جانب بڑھایا۔

”یہ کیا ہے؟“ اس نے ناسمجھی سے لفافہ تھاما۔

”یہ وہ پیسے ہیں جو آپ نے مجھے رِہا ہونے کے بعد یہ جھوٹ بول کر دیے تھے کہ یہ لاء ہے، میں جانتی تھی کہ ایسا کوئی قانون نہیں ہے لیکن ضرورت تھی تو یہ سوچ کر رکھ لئے کہ وقت آنے پر واپس کردوں گی۔“ اس کی وضاحت پر وہ حیران رہ گیا کہ وہ شروع سے اصل بات جانتی تھی۔

”آپ نے تو ادھار لوٹا کر سرے سے ہی پرایا کردیا۔“ وہ پھیکےپن سے ہنسا۔

”ہم اپنے تھے ہی کب؟ بس ضرورت کے تحت ایک مسیحا اور مظلوم کا رشتہ تھا ہمارے بیچ جو آپ نے پورے خلوص سے نبھایا اور میں ہمیشہ اسے یاد رکھوں گی۔“ اس نے ترکی بہ ترکی رسان سے کہتے ہوئے اسے لاجواب کر دیا۔

”اور ساتھ ہی یہ بھی بابک کو لوٹا دیجئے گا کہ میں اس کی کوئی نشانی اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتی۔“ نورالعین نے تلخی سے ڈائمنڈ کی رنگ بھی اسے تھمائی جو اس نے چپ چاپ تھام لی کہ فی الحال بحث بیکار تھی۔

”اب آپ جا سکتے ہیں، تھوڑا برا لگ رہا ہے مجھے کہ آپ کو میری وجہ سے اتنی دور آنا پڑا اور اب خالی واپس بھی جائیں گے۔“ وہ نظریں جھکاتے ہوئے شرمندہ ہوئی۔

”تو آپ بھی میرے ساتھ واپس چلیں۔“ وہ بےساختہ کہہ گیا۔ نورالعین نے یکدم پلکیں اٹھائیں۔

”مذاق کر رہا تھا۔“ اس نے مسکرا کر بات بدل دی۔

”اچھا اب چلتا ہوں، کوئی بھی بات ہو تو آپ مجھے فوری کال کردیجئے گا، میں آجاؤں گا۔“ اس نے الٹے قدم پیچھے اٹھائے۔

”اللہ حافظ!“ وہ اثبات میں سر ہلا کر مسکرائی۔

پھر وہ کار میں سوار ہوکر وہاں سے چل دیا۔ مگر جب تک گاڑی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئی وہ وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہی اور ایسا ہی کچھ احرار نے بیک ویو مرمر کی مدد سے کیا تھا۔


اگرچہ وقت مرہم ہے

مگر کچھ وقت تو لگتا ہے

کسی کو بھول جانے میں

دوبارہ دل بسانے میں

ابھی کچھ وقت لگنا ہے

ابھی وہ درد باقی ہے

میں کیسے نئی الفت میں

اپنی ذات کو پھر گم کرلوں

کہ میرے جسم و جاں میں

ابھی وہ فرد باقی ہے

ابھی اس شخص کی مجھ پر

نگاہِ سرد باقی ہے

ابھی تو عشق کے راستوں کی

مجھ پر گرد باقی ہے

ابھی وہ درد باقی ہے

اگرچہ وقت مرہم ہے

مگر کچھ وقت تو لگتا ہے

انتخاب

دو ماہ بعد


کتنی راتیں بیت گئیں

کتنے دن بیت گئے

بس نہیں بیتا تو

یادوں کا وہ پل

بس نہیں بیتا تو

وہ گزرا ہوا کل

بس نہیں بیتی تو

یہ آنکھوں کی نمی

بس نہیں بیتی تو

ایک تیری کمی


آسمان پر چھائی تاریکی کو اب نکلتا ہوا سورج آہستہ آہستہ مات دے رہا تھا اور آسمان پر سیاہ کی جگہ اب نارنجی رنگ بکھرنے لگا تھا۔

چرند پرند بھی چہچہاتے ہوئے اپنے گھونسلوں سے رزق کی تلاش میں نکلنا شروع ہوگئے تھے اور ان کی آوازوں نے اس پرسکون وقت کو مزید دلفریب بنایا ہوا تھا۔

احرار قبروں کے درمیان احتیاط سے چلتا کلثوم کی قبر پر آیا۔

قبر پر سے سوکھے ہوئے پھول ہٹائے اور اپنے ہاتھ میں پکڑے شاپر سے تازے پھول نکال کر قبر پر پھیلا دیے۔ ساتھ ہی ہاتھ سے قبر کے کتبے پر لگی مٹی بھی صاف کردی جس سے کتبے پر لکھا ”کلثوم جبار“ مزید واضح ہوگیا۔ وہ قبر پر پھول ڈال کر فاتحہ پڑھنے لگا۔

”سوری امی، پچھلے کچھ دنوں سے میں آ نہیں سکا تھا، اور کیوں نہیں آ سکا تھا جب یہ وجہ آپ کو بتاؤں گا، تو آپ بہت خوش ہوں گی۔“ وہ حسب معمول قبر کے پاس بیٹھ کر ان سے باتیں کرنے لگا۔

”جس شخص نے ابو کو جھوٹے کیس میں پھنسا تھا میں اسے سزا دلوانے کی جدوجہد میں تھا، اور ابو کا کیس دوبارہ اوپن کردیا تھا، میری نیت صاف تھی اور آپ کی دعائیں ساتھ تھی اسی لئے میں کامیاب رہا، اور اصلی مجرم کو سزا دلوا دی، آج بھلے ہی ابو اس دنیا میں نہیں ہیں، پر رب کی عدالت کے ساتھ ساتھ انہیں دنیا کی عدالت سے بھی انصاف مل گیا اور وہ یہاں بھی ہر الزام سے بری ہوگئے ہیں۔“ اس نے خوشی سے ایسے بتایا جیسے وہ سامنے بیٹھی اس کی باتیں سن رہی ہیں۔

”آج میں نے آپ کا ایک اور خواب پورا کردیا امی۔“ اس نے محبت سے قبر پر ہاتھ پھیرا۔

”اور ایک گڈ نیوز ہے کہ کیس واپسی کی درخواست منظور ہوگئی ہے، انس اور سندس کے ساتھ بھیا بھی آج رِہا ہو رہے ہیں، جس کے بعد میں، بھیا اور ڈیڈ سب ساتھ رہیں گے، میں تو آنے والے دنوں کے بارے میں سوچ کر اتنا خوش ہوں کہ بتا ہی نہیں سکتا۔“ اس نے بچوں کی مانند خوش ہوتے ہوئے بتایا۔


*********************************


سورج اب پوری طرح چڑھ چکا تھا جس کے بعد معاملات زندگی حرکت میں آگئے تھے۔

احرار ابھی ابھی قبرستان سے واپس لوٹا تھا اور سیدھا جبار صاحب کے کمرے میں آیا جہاں وہ بیڈ پر آنکھیں بند کیے لیٹے تھے۔ جبکہ بشیر ان کے پیروں کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔

”السلام علیکم چھوٹے صاحب!“ بشیر نے کھڑے ہوتے ہوئے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام! جاؤ ڈیڈ کا ناشتہ لے آؤ۔“ اس کے کہنے پر وہ اثبات میں سر ہلا کر باہر نکل گیا۔

وہ جبار صاحب کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے نزدیک جھکا۔

”ڈیڈ!“ اس نے دھیرے سے پکارا۔ انہوں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔

”میں آگیا، چلیں اٹھیں، ناشتہ کرلیں۔“ احرار نے کہتے ہوئے ان کے سر کے نیچے ہاتھ رکھا اور انہیں اپنے سینے سے لگا کر، اپنے سہارے بٹھا لیا۔

تب تک بشیر ایک ٹرے پر ان کے مخصوص پتلے دلیے کا پیالہ رکھ کر دے گیا جسے احرار بہت احتیاط سے تھوڑا تھوڑا ان کے منہ میں ڈالنے لگا۔

ان دو ماہ میں ان کی حالت میں بس اتنا فرق آیا تھا کہ وہ آنکھیں کھول بند کرلیتے تھے، ”ہوں، ہاں“ میں جواب دے دیا کرتے تھے اور لیکوڈ چیزیں نگل لیتے تھے۔

اور اتنا بھی احرار کی انتھک خدمات کی وجہ سے ممکن ہو پایا تھا کہ وہ بالکل ایک نومولود بچے کی طرح ان کا خیال رکھتا تھا۔ ان کے کپڑے بدلتا تھا، ہاتھ منہ صاف کرتا تھا، اپنے ہاتھ سے کھلاتا پلاتا تھا اور ہر وقت ان سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہتا تھا کہ انہیں تنہائی مزید بیمار نہ کردے!

جس کا بلآخر نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بھی اس سے مانوس ہوگئے تھے۔

ہاں۔۔۔۔وہ ہی جبار صاحب اسی احرار کے عادی ہوگئے تھے جس کی کبھی وہ نظر بھر کر شکل تک نہیں دیکھتے تھے، دو پیار کے بول نہیں بولتے تھے، جسے اپنے اوپر ایک بوجھ سمجھتے تھے قدرت نے انہیں اسی کا محتاج بنا کر ان کا غرور توڑا تھا۔

اور احرار۔۔۔۔۔

وہ ماتھے پر ایک شکن، مزاج میں ہلکی سی بھی بےزاری لائے بنا دن رات ان کی خدمت میں مصروف رہتا تھا کہ بھلے ہی انہوں نے کبھی اسے اپنا بیٹا نہیں مانا تھا مگر اس نے ہمیشہ انہیں باپ کا درجہ اور عزت دی تھی۔

اپنے سینے سے لگا کر آہستہ آہستہ انہیں دلیہ کھلاتے ہوئے احرار کو سینے پر کچھ گیلاپن محسوس ہوا۔ وہ جانتا تھا یہ کیا ہے؟ اور اب حیران بھی نہیں ہوتا تھا۔

اس نے پیالہ ٹرے پر رکھا اور اپنا چہرہ ان کے قریب لایا۔

”ڈیڈ! آپ پھر رو رہے ہیں۔“ اس نے ایک ہاتھ سے انہیں اپنے سینے سے لگائے دوسرے سے ان کے آنسو صاف کیے۔

”مت رویا کریں، رونے سے مسلے حل نہیں ہوتے، دیکھیے گا ان شاءاللہ ایک دن آپ بالکل پہلے جیسے فٹ ہوجائیں گے۔“ احرار نے ان کا سر سہلاتے ہوئے دلجوئی کی۔

”اور پتا ہے آج تو بھیا بھی گھر آنے والے ہیں، ابھی تھوڑی دیر تک میں انہیں لینے جا رہا ہوں، کل ہی بتایا ہے میں نے انہیں آپ کی بیماری کا، بہت ڈانٹا انہوں نے مجھے کہ میں نے ان سے یہ چھپایا، لیکن اب جب وہ آپ سے ملیں گے تو ان کا غصہ بھی اتر جائے گا اور آپ بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔“ وہ انہیں کسی قیمتی اثاثے کی مانند سینے سے لگائے اپنی دھن میں بولتا گیا۔

”م۔۔۔۔م۔۔۔۔مجھ۔۔۔۔“ انہوں نے کچھ بولنے کی کوشش کی۔

”جی ڈیڈ، بولیں، کوشش کریں۔“ احرار خوشگوار حیرت سے چوکنا ہوکر کان مزید قریب لے آیا۔

”م۔۔۔مجھ۔۔۔ے۔۔۔م۔۔۔معا۔۔۔ف۔۔۔کر۔۔۔نا۔۔۔۔ب۔۔۔بیٹا۔“ نہایت دشواری کے ساتھ انہوں نے ٹوٹا پھوٹا جملہ ادا کیا۔

احرار نے انہیں سرہانے سے ٹیک لگا کر بٹھایا اور خود ان کے روبرو بہت نزدیک بیٹھ گیا۔

”میں آپ سے ناراض نہیں ہوں ڈیڈ، بالکل بھی نہیں، آپ معافی مت مانگیں، بس دوبارہ ایسے ہی بیٹا کہیے نا جیسے بھیا کو بولتے ہیں۔“ احرار نے دونوں ہاتھوں سے ان کا چہرہ تھام کر بےتاب بچے کی مانند فرمائش کی۔

”م۔۔۔میر۔۔۔ا۔۔۔۔ب۔۔۔بیٹا۔“ لفظ ٹوٹے ہوئے تھے مگر ان کی تاثیر محسوس کرکے احرار کا دل بھر آیا اور وہ بےساختہ ان کے سینے سے لگ گیا۔

”کب سے میرے کان ترس رہے تھے ڈیڈ آپ کے لبوں سے یہ سننے کیلئے۔“ اس کی آواز لرز رہی تھی اور آنکھیں چھلک پڑی تھیں۔

جبار صاحب نے ہمت کرکے اپنا ایک ہاتھ اس کے سر پر رکھا تو اسے لگا وہ جو کب سے باپ کی شفقت کو ترستے ہوئے تپتے صحرا میں بھٹک رہا تھا اسے یکدم ٹھنڈی چھاؤں مل گئی ہے جس کے سائے تلے اس کی جھلسی ہوئی روح کو سکون آگیا تھا۔۔۔۔بےپناہ سکون۔۔۔کیونکہ اب اس کیلئے دعا باپ کے لبوں سے نہیں بلکہ۔۔۔۔دل سے نکلتی تھی۔۔۔دل کی گہرائیوں سے!


اب اور کیا ترا بیمار باپ دے گا تجھے؟

بس اک دعا کہ خدا تجھ کو کامیاب کرے


وہ ٹانک دے ترے آنچل میں چاند اور تارے

تو اپنے واسطے جس کو بھی انتخاب کرے


کیفی اعظمی


*****************************************


فریدہ اپنی وہیل چیئر پر صحن میں بیٹھیں صبح کی دھوپ سینکتے ہوئے چاول بین رہی تھیں جب کہ نورالعین صحن میں لگے پودوں کو پانی دیتے ہوئے ان کی کانٹھ چھانٹ میں مصروف تھی۔

”السلام علیکم خالہ!“ نیلی دروازے کا کنڈا ہٹا کر کہتی اندر آئی۔

”وعلیکم السلام! صبح صبح اِدھر کہاں؟“ انہوں نے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔

”ہم لوگ دو دن کیلئے پھوپھو کی طرف جا رہے ہیں۔“ وہ کہتی ہوئی ان کے پاس آئی۔

”تو تیری پھوپھو کے گھر کا راستہ اِدھر سے نكلتا ہے؟“ انہوں نے چاول بینتے ہوئے طنز کیا۔

”ارے نہیں خالہ! وہ تو میں اینا سے یہ پوچھنے آئی تھی کہ وہ آفسر صاحب کا آج یا کل آنے کا ارادہ تو نہیں ہے؟“ وہ کہتی ہوئی برآمدے کے چبوترے پر بیٹھ گئی۔ اور ہاتھ بڑھا کر ٹرے سے کچے چاول اٹھالئے۔

”تو کیوں پوچھنے آئی تھی؟ اور کیا کرے گی جان کر؟“ نورالعین نے یکدم اس کی جانب دیکھا۔

”اگر وہ آرہے ہوں گے تو میں نہیں جاؤں گی پھوپھو کے گھر، میرے کو ان سے ملنا ہے، بڑے دن ہوگئے وہ آئے نہیں، پہلے تو ہر ہفتے چکر لگاتے تھے۔“ اس نے اپنی چوٹی سے کھیلتے ہوئے جواب دیا۔

”تو کیا کرے ان سے مل کر؟“ وہ پوری طرح اس کی جانب گھوم گئی۔

”انہیں دیکھوں گی، ان سے باتیں کروں گی، اچھے لگتے ہیں وہ مجھے!“ اس نے تھوڑے شرمیلے انداز میں جواب دیا جو نورالعین کو ذرا نہ بھایا۔

”ان کی شادی چل رہی ہے، وہ اسی میں مصروف ہیں۔“ نورالعین کہتے ہوئے دوبارہ پودوں کی جانب گھوم گئی۔

”ہیں کیا؟ ان کی شادی ہو رہی ہے؟ کس سے؟“ نیلی پر تو بجلی ہی گر پڑی۔

”ان کے خاندان اور اسٹیٹس کی ایک پڑھی لکھی، باشعور، تمیزدار، سلجھی ہوئی لڑکی ہے، جو ان کے ساتھ بہت جچے گی۔“ نورالعین نے اطمینان سے جھوٹ کہتے ہوئے پودوں کے سوکھے پتے توڑے۔

فریدہ نے ایک نظر نورالعین کی پشت کو دیکھا اور پھر چپ چاپ چاولوں کی جانب متوجہ ہوگئیں۔ جب کہ نیلی کا منہ لٹک گیا تھا اور فرفر چلتی زبان منجمند ہوگئی تھی۔

”ہوسکتا ہے شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کو بھی یہاں لے کر آئیں! جب وہ آئیں گے تو مجھے بلا لوں گی۔“ نورالعین نے بےنیازی سے کہتے ہوئے اس پر احسانِ عظیم کیا۔

”کوئی ضرورت نہیں ہے مجھے بلانے کی!“ وہ تڑخ کر کہتی ہوئی اٹھی اور تیزی کے ساتھ وہاں سے چلی گئی۔ جس پر نورالعین نے کوئی توجہ نہیں دی۔

”تو نے اس سے جھوٹ کیوں کہا؟“ اب تک خاموش بیٹھی فریدہ نے جاننا چاہا۔

”کیونکہ وہ ایک لاحاصل سراب کے پیچھے بھاگنے لگی تھی، اسی لئے اس کی طلب ہی ختم کردی۔“ اس نے فلسفیانہ جواب دیا۔

”کیا لاحاصل تھا؟“

”وہ ہی جس کے خواب وہ دیکھنے لگے تھی، ان دونوں کا کوئی جوڑ نہیں تھا، نیلی کو اس کے جیسا ہی کوئی تیز طرار سنبھال سکتا ہے، جب کہ احرار۔۔۔۔“ وہ پل بھر کو رکی۔

”احرار تو جیسے عرش سے اترا شہزادہ ہے، جس کا دل فرشتوں جیسا سچا اور صاف ہے، مزاج اتنا نرم اور دھیمہ ہے جیسے غصہ کیا ہوتا ہے اسے معلوم ہی نہیں، وہ اپنے لئے بھی ایک پاکیزہ حور جیسی لڑکی کا مستحق ہے جو اسی کی طرح نرم طبع، خوش مزاج، باشعور اور اسے سمجھنے والی ہو!“ وہ پھول کی پنکھڑی سہلاتے، کھوئے ہوئے انداز میں کہتی گئی۔

”چلو ابھی نہ سہی تو کبھی نا کبھی اسے کوئی حور مل جائے گی مگر تم نے اپنے بارے میں کچھ سوچا ہے یا میں ہی تمہارے لئے کوئی شہزادہ ڈھونڈوں؟“ انہوں نے بات اس کی جانب گھمادی۔

”میں کسی شہزادے کی مستحق نہیں ہوں خالہ، میرے حصے تو میرے جیسا کوئی ماضی کا گنہگار ہی آنا چاہئے۔“ اس کا خوابناک انداز تلخ ہوگیا۔

فریدہ کیلئے یہ جوابات نئے نہیں تھی اسی لئے ایک گہری سانس لے کر انہوں نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔


*****************************************


بابک نے جیسے ہی قدم جیل کے گیٹ سے باہر نکالا تو سورج کی تیز کرنوں نے اس کا استقبال کیا۔ آج دو ماہ بعد وہ کھلی فضا میں سانس لے رہا تھا۔

اس نے گرے جینز کے ساتھ بلیک شرٹ پہنی ہوئی تھی جو کل ہی احرار اسے دے کر گیا تھا۔ بڑھی ہوئی شیو کو بھی سلیقے سے تراش خراش کر سیٹ کرلیا تھا۔

کہنے کو وہ جیل سے باہر آیا تھا مگر اندر سے اس کا قلب اتنا پرسکون تھا جیسے کیسی دوا خانے سے اپنی کسی شدید مرض کا علاج کروا کر، شفایاب ہوکر لوٹا ہو!

اور وہ شفایاب ہوا تھا۔۔۔اپنے ضمیر کی ملامت کی بیماری سے۔ تب ہی اس کے مزاج میں ایک ٹھہراؤ جب کہ چہرے پر اطمینان آگیا تھا۔

”ویلکم بیک بھیا!“ احرار مسکرا کر کہتا اس کی گلے لگ گیا اور اسے کس کر خود میں بھینچا جو اسی کا منتظر تھا۔ یہ ہی گرم جوشی بابک نے بھی دکھائی۔

”گھر چلیں؟ کوئی بہت بےتابی سے آپ کا انتظار کر رہا ہے۔“ وہ اس سے الگ ہوا۔ احرار نے آج ڈیوٹی سے آف لیا تھا اسی لئے وہ اس وقت ڈارک بیلو جینز کے ساتھ لائٹ بیلو شرٹ پہنے ہوئے تھا۔

”ہاں بالکل چلو، میں خود بھی گھر جانے کیلئے بہت بےتاب ہوں۔“ حسب توقع جواب آیا۔

دونوں ذرا فاصلے پر کھڑی احرار کی سفید کرولا کی جانب آئے۔ احرار نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی، بابک فرنٹ سیٹ پر بیٹھا اور سفر شروع ہوگیا۔

محض دو مہینے ہی بابک دنیا کے ہنگاموں سے دور ایک جگہ قید رہا تھا لیکن ابھی باہر کی افراتفری دیکھتے ہوئے اسے لگا گویا وہ سالوں سے دنیا سے کٹا ہوا تھا!

”سندس اور انس کا کیا ہوا احرار؟“ بابک کو اچانک خیال آیا۔

”وہ دونوں تو صبح ہی چلے گئے تھے، بس آپ کا تھوڑا پیپرورک باقی تھا۔“ اس نے ڈرائیو کرتے ہوئے جواب دیا۔

”تم ملے تھے ان سے؟“

”جی، اور کچھ پیسے بھی دے دیے تھے، باقی آپ چاہیں تو بعد میں ان سے جا کر مل لیجئے گا۔“ اس نے اضافی جواب دیا۔

بابک درحقیقت ان کی مالی حالت کا ہی سوچ کر تھوڑا متفکر تھا مگر احرار نے اس کے بنا بولے ان کی مشکل آسان کردی تھی جس کے باعث بابک کو اپنے بھائی پر ٹوٹ کر پیار آیا جو دوست اور دشمن سب کیلئے یکساں دردمند دل رکھتا تھا۔

”اب ایسے بھی کیا دیکھ رہے ہیں؟ زیادہ خوبصورت لگ رہا ہوں؟“ احرار نے ہنوز سڑک پر دیکھتے ہوئے اسے چھیڑا۔

”سوچ رہا ہوں کہ کوئی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے جس کی اچھائی کی نہ تو ڈھونڈنے سے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ تعریف کو الفاظ!“ اس نے رشک آمیز انداز میں صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

”یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے، میں تو بس یہ سوچ کر چلتا ہوں کہ جیسے اللہ پاک روز میرے نہ جانے کتنے گناہوں کو نظر انداز کرکے مجھ سے خفا نہیں ہوتا، میرا رزق نہیں بند کرتا، میرے سر سے چھت، تن سے کپڑے نہیں چھینتا، بلکہ ہر دن ایک نئی مہلت دیتا ہے، ویسے ہی مجھے بھی اس کے بندوں کے گناہ و ثواب کا حساب کتاب کرنے کے بجائے بس ان کے ساتھ اپنی طرف سے اچھا رہنا ہے، آگے وہ بندا جانے اور اللہ!“ احرار نے سادگی سے اپنا فلسفہ بتایا جس کے ساتھ ہی بابک کے دل میں اس کی محبت اور بڑھ گئی۔

اسی طرح ہلکی پھلکی باتوں کے دوران بلآخر دونوں گھر پہنچ گئے۔

گاڑی مین گیٹ سے اندر داخل ہونے کے بعد کارپورچ میں آکر رک گئی جس سے دونوں باہر آگئے۔

آج اتنے دنوں بعد اپنے گھر لوٹ کر جو کیفیت بابک کی تھی اسے بیان کرنے کیلئے اس کے پاس الفاظ نہیں تھے۔

وہ لوگ جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے ہال میں انہیں جبار صاحب وہیل چیئر پر موجود نظر آئے۔ اور ان کے عقب میں بشیر اور نوری کھڑے تھے۔ غالباً وہ لوگ ان ہی کے منتظر تھے۔

بابک نے جبار صاحب کو ہمیشہ ایک بارعب شخصیت کے طور پر دیکھا تھا۔ مگر اس وقت سادہ سا سفید کرتا پاجامہ پہنے، کندھوں پر کتھئی شال اوڑھے، وہیل چیئر کی پشت سے ٹیک لگا کر بیٹھے جبار صاحب بہت کمزور اور بوڑھے لگ رہے تھے جنہیں دیکھ کر بابک کا دل کٹ گیا۔

وہ ان کے پاس آیا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر ان کے گلے لگ گیا۔ وہ فوری طور پر اسے خود میں بھینچ نہ پائے لیکن بمشکل ایک ہاتھ آہستہ آہستہ اس کی پیٹھ پر رکھ لیا۔

”آئی ایم سوری ڈیڈ فار ایوری تھنگ!“ (ہر چیز کیلئے معذرت ڈیڈ) وہ ان کے سینے سے ہٹ کر گود میں سر رکھے بیٹھ گیا جس کی آنکھیں بھی نم ہوگئی تھیں۔

جبار صاحب کی کیفیت بھی کچھ جدا نہیں تھی۔ وہ اپنی تربیت میں کوتاہی برتنے کیلئے بابک سے معافی مانگنا چاہتے تھے مگر ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ البتہ آنسو ان کے گال پر بھی پھسلنے لگے تھے۔

انہوں نے نظروں کا زاویہ بدل کر نزدیک کھڑے احرار کو دیکھا جو محبت پاش نظروں سے ان دونوں کو ہی دیکھ رہا تھا۔

جبار صاحب کا ایک ہاتھ بابک کے سر پر تھا۔ انہوں نے اپنا دوسرا بازو آہستہ آہستہ وا کرکے احرار کو اپنی جانب بلايا۔

ان کا اشارہ سمجھتے ہوئے وہ بھی وقت ضائع کیے بنا ان کے پاس آیا اور پنجوں کے بل بیٹھ کر گود میں سر رکھ لیا۔

دونوں بھائی اپنے باپ کی گود میں سر رکھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے، جب کہ جبار صاحب نے دونوں کے سر پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ بشیر اور نوری نے بھی پہلی بار اس فیملی کو یوں محبت سے ایک ساتھ دیکھا تھا۔ سب کو لگا کہ اب کڑا وقت ختم ہوا۔

”میں نے آپ سے کہا تھا نا ڈیڈ کہ بھیا جلدی واپس آجائیں گے! دیکھیں بھیا آگئے، اب ہم سب ساتھ رہیں گے۔“ احرار نے پرمسرت انداز میں کہا۔

”ہاں، احرار نے بہت خدمتیں کرلیں آپ کی، اب میری باری ہے، ہے نا ڈیڈ؟“ بابک نے بھی کہتے ہوئے سر اٹھا کر انہیں دیکھا۔ احرار بھی سیدھا ہوگیا تھا۔

جبار صاحب کا سر تو پہلے ہی کرسی کی پشت سے ٹکا ہوا تھا۔ لیکن اب آنکھیں کسی غیر مرئی نقطے پر جم کر ساکت ہوگئی تھیں۔

”ڈیڈ! اِدھر دیکھیں!“ بابک نے ان کا گھٹنا ہلا کر پکارا مگر انہوں نے نظروں کا زاویہ بدلنا تو دور پلک بھی نہیں جھپکی۔

”ڈیڈ!“ احرار نے بھی گھبرا کر ان کا گال تھپتھپایا۔

”بڑے صاحب!“ بشیر نے بھی پریشان ہوکر پکارا۔

بابک نے جلدی سے ان کی نبض ٹٹولی جو نہیں چل رہی تھی اور ہاتھ بھی بےجان ہوگیا تھا۔ پھر انگلی ناک کے قریب لے جا کر سانسیں چیک کیں تو اس کا دل ڈوب گیا۔

”کیا ہوا بھیا؟“ احرار کا دل بھی بیٹھا جا رہا تھا۔

”اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ!“ بابک نے دکھ سے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے جبار صاحب کی کھلی آنکھیں بند کی اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو پھوٹ پڑے۔

”نہیں بھیا! ڈیڈ ایسے نہیں جا سکتے، انہوں نے صبح مجھ سے بات کی تھی، مجھے بیٹا کہا تھا، ڈیڈ اٹھیں نا!“ احرار نے بےیقینی کے عالم میں ان کا گھٹنا پکڑ کر جھنجھوڑا۔

”احرار سنبھالو خود کو!“ بابک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سہارا دینا چاہا مگر اس کی اپنی آواز ہی رندھ گئی۔

احرار ان کے گھٹنے پر سر رکھے بلک بلک کر رو پڑا۔ وہ ایک بار پھر یتیم ہوگیا تھا۔

بابک نے بھی ان کا بےجان ہاتھ اپنے لرزتے لبوں سے لگایا اور اس پر سر ٹکا کر سسک پڑا۔


آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں


علامہ اقبال


*********************************


سورج اب عروج سے نیچے آگیا تھا۔

کچھ دیر قبل ہی عصر کی نماز کے بعد جبار صاحب کی نمازِ جنازہ ادا کرکے انہیں سپردِ خاک کردیا گیا تھا۔

ان لوگوں کا کوئی ایسا خاص رشتے دار نہیں تھا جو کسی خوشی غمی میں شریک ہونے آتا۔ اسی لئے بنا وقت ضائع کیے تدفین کردی گئی تھی جس میں بس کچھ اہلِ علاقہ اور کاروباری حوالے سے جاننے والے جنازے میں شریک ہوئے تھے اور تدفین کے بعد سب ان دونوں بھائیوں سے تعزیت کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

ان کا گھر اب پہلے سے بھی زیادہ سونا سونا اور ویران ہوگیا تھا۔ اور سورج کے رخصت ہونے کے بعد تو یہاں اور وحشت ہونے لگی تھی۔

”حوصلہ کرو بابک، ہم سب کو ہی ایک دن دنیا سے جانا ہے، اور انکل کیلئے وہ دن آج ہی تھا۔“ یاور نے بابک کی پیٹھ سہلاتے ہوئے تسلی دی۔

دونوں اس وقت لان کے چوکھٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں بابک یاور کے گلے لگ کر آنسو بہا رہا تھا اور وہ اس کی دلجوئی کرنے میں مصروف تھا۔

”پتا ہے آج صبح جب میں رِہا ہوکر گھر واپس آرہا تھا، تو میں نے دل میں ہزاروں پلانز بنا لئے تھے کہ اب کوئی پریشانی نہیں آئے گی، اب سب ٹھیک ہے، اب میں ڈیڈ اور احرار مل کر ہنسی خوشی رہیں گے، یہ کریں گے، وہ کریں گے، پر قدرت کے منصوبے ایک پل میں انسان کے ارادوں کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیتے ہیں۔“ وہ اپنی نم آنکھیں صاف کرتا اس سے الگ ہوا۔

”ٹھیک کہہ رہے ہو، پر قدرت کے منصوبے انسانوں کے منصوبوں سے کئی گُنا زیادہ بہتر ہوتے ہیں، اور تم تو خوش نصیب ہو کہ تمہیں تمہارے والد کو کندھا دینا نصیب ہوا، ورنہ جب میرے ابو کا انتقال ہوا تھا، تب تو میں کام کی وجہ سے ملک میں نہیں تھا اور موسم کی خرابی کی وجہ سے واپسی کی فلائٹ تک نہ ملی، تم شکر کرو کہ تم آخری وقت میں نا صرف ان کے ساتھ تھے، بلکہ وہ بہت اطمینان سے دنیا سے رخصت ہوئے۔“ یاور نے مثبت پہلو اجاگر کیے۔

وہ کچھ نہ بولا بس نظریں جھکائے سرخ ہوتی کھڑی ناک سے نزلہ واپس اوپر کھینچتا رہا جو رونے کے باعث نیچے بہنے لگا تھا۔

”چل اب اچھے بچوں کی طرح اسٹرونگ بن کیونکہ ابھی احرار کو بھی تجھے ہی سنبھالنا ہے، جانتا ہے نا وہ رشتوں کے معاملے میں کتنا حساس ہے!“ یاور کے دھیان دلانے پر اس نے اثبات میں سرہلایا۔


*****************************************


کچھ دیر مزید وہاں رکنے کے بعد یاور اور اس کی فیملی وہاں سے چلی گئی جس کے بعد تو گھر کے سناٹے مزید جان کو آنے لگے۔

”بشیر! احرار ابھی تک قبرستان سے نہیں آیا کیا؟“ بابک پوچھتا ہوا ہال میں رکا۔

”جی آگئے ہیں مگر جب سے آئے ہیں اپنے کمرے میں بند ہیں۔“ بشیر کے جواب پر اس نے سر ہلایا اور اوپر احرار کے کمرے کی طرف چلا آیا۔

”احرار دروازہ کھولو!“ اس نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے پکارا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔

اس نے دوبارہ دستک دینے کیلئے ہاتھ بڑھایا تب ہی دروازے کا ہینڈل گھوما اور دروازہ کھل گیا۔

سامنے احرار سرخ آنکھوں اور ناک سمیت اداس سا ایسے کھڑا تھا جیسے اس کا سب کچھ لٹ گیا ہو! اسے یوں دیکھ کر بابک کا دل کٹ گیا۔

بابک اسے لے کر اندر کمرے میں آیا اور بیڈ پر بٹھا کر خود بھی اس کے برابر میں بیٹھ گیا۔

”میں سمجھ سکتا ہوں تمہاری حالت، پر اس طرح خود کو ایک جگہ بند کرلینے سے دکھ کم ہو جائے گا کیا؟“ بابک نرمی سے گویا ہوا۔ وہ نظریں جھکائے خاموش بیٹھا رہا۔

”حوصلہ کرو، تم تو اتنے بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے، اتنے سارے کارنامے انجام دیے ہیں آئی او احرار ملک نے، اور آج وہ ہی بہادر آئی او کیا ایسے روتے ہوئے اچھا لگے گا؟“ اس نے احرار کے گرد بازو حمائل کیا۔

”بھیا میں آئی او بعد میں ہوں، پہلے میں ایک انسان ہوں، جس کے سینے میں دل ہے، دل میں جذبات ہیں، آپ تو یاور کے کندھے پر سر رکھ کر بوجھ ہلکا کر آئیں ہیں، اور اب جب میری باری آئی ہے تو آپ مجھے حوصلہ کرنے کا کہہ رہے ہیں۔“ اس نے نظر اٹھا کر بچے کی مانند شکوہ کیا۔ بابک کو بیک وقت اس پر پیار اور ترس آیا۔

”اچھا بھئی! چل تو بھی میرے کندھے پر سر رکھ کر بوجھ ہلکا کرلے۔“ بابک نے محبت سے کہتے ہوئے اسے خود سے لگایا۔

احرار ایک لمحہ بھی برباد کیے بغیر اس کے گلے لگا اور آنسوؤں پر لگایا وقتی لگام پھر سے چھوڑ کر انہیں بہنے دیا۔

”میرے ساتھ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے بھیا، جو مجھے عزیز ہوتا ہے، میں جس سے پیار کرتا ہوں وہ یوں ہی مجھے چھوڑ کر مجھ سے دور چلا جاتا ہے، میں سب سے زیادہ پیار امی سے کرتا تھا، پہلے امی مجھے چھوڑ کر چلی گئیں، پھر ڈیڈ سے قریب ہونے کی کوشش کی تو انہوں نے مجھے خود سے دور رکھا، جب آپ سے قریب ہونے کی باری آئی تو خود اپنے ہی ہاتھوں سے آپ کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا، پھر نو۔۔۔۔۔۔“ وہ روتے ہوئے بولے جا رہا تھا کہ یکدم کوئی نام لیتے لیتے رک گیا اور اگلے ہی پل بات بدل دی۔

”اب ڈیڈ سے قریب ہوا ہی تھا کہ وہ بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے، میں جس سے بھی پیار کرتا ہوں وہ مجھے چھوڑ کر چلا جاتا ہے، مجھے محبت راس ہی نہیں ہے، میں محبت کے معاملے میں بہت بدقسمت ہوں۔“ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا۔

جسے بابک نے روکے ٹوکے بنا اپنے گلے سے لگائے جی بھر کر دل کا بوجھ ہلکا کرنے دیا کہ اس وقت اسے نصیحت کی نہیں بس ایک سہارے کی ضرورت تھی۔


*****************************************


جانے والے چلے جاتے ہیں، جن کے پیچھے ہم روتے ہیں، سسکتے ہیں، تڑپتے ہیں، لیکن سنبھل کر پھر سے جینے لگتے ہیں، کیونکہ یہ ہی قدرت کا قانون ہے جو صبر کی وجہ سے چل رہا ہے کہ آہستہ آہستہ ہی سہی لیکن ہمیں صبر آجاتا ہے، ہم بےدلی سے اپنے معاملات پر واپس لوٹتے ہیں اور پھر زندگی کے جھمیلوں میں الجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔

بابک اور احرار بھی آگے بڑھ رہے تھے۔۔۔۔۔

جبار صاحب کے انتقال کے چند ہفتوں بعد ہی احرار نے دوبارہ ڈیوٹی جوائن کرلی تھی جب کہ بابک نے ان کا بزنس اب مکمل طور پر سنبھال لیا تھا جس میں وہ پہلے بھی اسے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔

سورج غروب ہوچکا تھا۔ احرار کا ڈیوٹی ٹائم ختم ہوگیا تھا جس کے بعد وہ گھر لوٹا تو خلافِ معمول بابک کو ہال کے صوفے پر بیٹھا پایا جو موبائل میں مصروف تھا اور حلیے سے کہیں جانے کیلئے تیار لگ رہا تھا۔

”بھیا! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟“ وہ پوچھتا ہوا اس کی جانب آیا تو بابک بھی متوجہ ہوا۔

”تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔“ اس نے موبائل اسکرین آف کی۔

”خیریت؟“

”ہاں آج میرا تمہارے ساتھ باہر ڈنر کرنے کا موڈ ہے، جلدی سے چینج کرکے آجاؤ، پھر چلتے ہیں۔“ اس نے اصل بات بتائی۔

احرار کو خاص بھوک نہیں تھی مگر اپنے بھائی کا دل رکھنے کیلئے وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا۔

بابک بھی دوبارہ موبائل میں مصروف ہوگیا جس نے اپنے بھائی کا دل بہلانے کیلئے ہی ڈنر پلان کیا تھا۔

آسان لفظوں میں کہا جائے تو یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کی خوشی کیلئے خوش رہتے تھے۔


*****************************************


شاندار ریسٹورینٹ کی خوشگوار رونق عروج پر تھی۔

لوگ مختلف ٹیبلز پر کھانا کھانے کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھے جن کی باتوں کی بھنبھناہٹ اور کانچ کی پلیٹوں سے ٹکراتے چمچوں کی آواز فضا میں سنائی دے رہی تھی جب کہ مزید سونے پر سہاگہ کھانے کی لذیز خوشبوؤں نے کر رکھا تھا۔

احرار اور بابک ایک فور سیٹر ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ بابک کے طرف کی ایک کرسی خالی تھی اور احرار کی طرف کی بھی۔ اور دونوں ہی کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے باتیں بھی کر رہے تھے۔

”اور سندس کی جاب کے بندوبست کے ساتھ ہی میں نے انس کے آپریشن کیلئے بھی اپائنٹمنٹ لے لیا ہے جس کے بعد اس کی مصنوعی ٹانگ لگ جائے گی تو وہ بھی نارمل ہوسکے گا۔“ بابک نے بتاتے ہوئے چمچ سے نوالہ منہ میں لیا۔

”یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“ احرار کو درحقیقت جان کر اچھا لگا۔

بابک کے پیچھے بائیں طرف والی ٹیبل پر ایک فیملی موجود تھی اور اسی ٹیبل کے گرد بیٹھی ایک چھوٹی سی بچی پر احرار کی نظر پڑی تو وہ مسکرایا۔ جواباً بچی بھی ہنس دی۔

بابک نے اس کے مسکرانے پر گردن موڑ کر دیکھا۔

”تم جانتے ہو اس بچی کو؟“ وہ دوبارہ اسے دیکھنے لگا۔

”نہیں، بس ایسے ہی پیاری لگ رہی ہے۔“ اس نے کھانا کھاتے ہوئے جواب دیا۔

”بچے ہوتے ہی پیارے ہیں، ہمارے گھر بھی ہوتے تو کتنا اچھا لگتا۔“ بابک نے اتفاق کرتے ہوئے حسرت سے کہا۔

”بچے خودبخود آسمان سے نہیں ٹپکتے بھیا، اس کیلئے شادی کرنی پڑتی ہے۔“ احرار نے یاد دلایا اور کھانا کھانے لگا۔

جب کہ اس کی بات پر بابک نوالہ چباتے ہوئے کسی سوچ میں پڑ گیا۔

”تمہارا اینا سے کوئی رابطہ ہے؟ کیسی ہے وہ؟“ بابک کی بات پر احرار کا نوالہ چباتا منہ پل بھر کو ساکت ہوا۔

”جی ہے، اپنی خالہ کے ساتھ حیدرآباد میں ہی ہے، ہرجانے کی رقم اس نے وہاں ایک جرنل اسٹور میں انویسٹ کر رکھی ہے جو اسے اچھا خاصا پرافٹ دیتی ہے، میں بھی اکثر وہاں جاتا رہتا تھا مگر پچھلے کچھ عرصے سے ابو کے کیس کی وجہ سے وہاں جانا نہیں ہوا بس فون پر رابطہ ہے۔“ اگلے ہی پل وہ نارمل ہوگیا تھا۔

”اسے پتا ہے میں رِہا ہوگیا ہوں؟“

”جی، آپ کی رہائی اور ڈیڈ کا انتقال، سب پتا ہے، میں نے بتایا تھا۔“

”تو پھر اس نے کیا کہا؟“ اس نے مزید کریدا۔

”کچھ خاص نہیں۔“ سادہ جواب ملا۔

تھوڑی دیر کیلئے دونوں کے مابین خاموشی حائل ہوگئی جس کے بیچ بس پلیٹ سے ٹکراتے چمچوں کی آواز ہی سنائی دیتی رہی۔

”تم مجھے اس کا ایڈریس دینا، میں خود جاؤں گا اس کے پاس، اب مزید مجھ سے گھر کی ویرانی برداشت نہیں ہوتی، اس گھر کی رونق واپس لانی ہے۔“ بابک اگلے ہی پل نتیجے پر پہنچا۔

احرار نے محض اثبات میں سر ہلا دیا لیکن درحقیقت اس کے ضبط کا عملی اور کڑا امتحان اب شروع ہوا تھا۔


ابھی مجھے دشتِ رواں کی ویرانی سے گزرنا ہے

ایک مسافت ختم ہوئی، ایک سفر ابھی اور کرنا ہے


انتخاب

*****************************************

گھر واپس پہنچ کر بابک اپنے کمرے میں آگیا تھا اور اب سائیڈ ٹیبل کی دراز میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا۔ تھوڑی سی کوشش سے ہی اسے مطلوبہ چیز مل گئی جو کہ ایک انگوٹھی تھی۔

یہ وہ ہی ڈائمنڈ رنگ تھی جو دو ماہ قبل نورالعین نے احرار کے ہاتھوں اسے واپس بھجوائی تھی مگر اس نے اب تک سنبھال کر رکھی تھی۔

”میں آرہا ہوں اینا!“ بابِک اپنے ہاتھ میں موجود انگوٹھی کو دیکھتے ہوئے بےحد سنجیدگی سے بڑبڑایا اور انگوٹھی کو اپنی مٹھی میں بھینچ لیا۔


”الف زبر آ، الف زیر ای، الف پیش او، آ، ای، او!“

شام کے وقت حسب معمول سب بچے فریدہ خالہ کے پاس سپارہ پڑھنے آئے ہوئے تھے اور صحن میں بچھی چٹائی پر بیٹھے بلند آواز سے اپنا سبق یاد کر رہے تھے۔

خالہ عصر کی نماز پڑھنے گئی تھیں اسی لئے اب نورالعین ان کی نگرانی کر رہی تھی جو ابھی ابھی نہا کر آئی تھی۔

اس نے گہرے نیلے رنگ کا سادہ سا سوٹ پہن کر ہم رنگ دوپٹہ کندھے پر لٹکایا ہوا تھا اور ٹہلتے ہوئے ہلکے گلابی تولیے سے اپنے بال سکھانے میں مصروف تھی۔

”اونہہ! سب اپنا اپنا سبق پڑھو، باتیں نہیں!“ دو بچوں کو کھسر پھسر کرتا دیکھ نورالعین نے ٹوکا۔

تب ہی لوہے کے دروازے پر ایسے دستک ہوئی جیسے کسی نے چابی سے دروازہ بجایا ہو!

”کُنڈا ہٹا کر آجاؤ بھئی اندر!“ نورالعین نے بلند آواز جواب دیا اور ساتھ ہی وہ گیلا گلابی تولیہ صحن کنارے بندھی رسی پر سکھانے لگی۔

دروازے پر سے کُنڈا ہٹنے کی آواز آئی، دروازہ کھلا اور آنے والا سفید جوتوں میں مقید پیر لئے اندر داخل ہوا۔ جس کی جانب سپارہ پڑھتے بچے بھی متوجہ ہوگئے تھے۔

”اینا!“ گھمبیر مردانہ آواز اس سے ذرا فاصلے پر ابھری جسے پہچانتے ہوئے تولیہ سکھاتا اس کا ہاتھ ساکت ہوا اور وہ چونک کر پلٹی۔

گرے جینز پر اسکن کلر کی فل آستین والی ٹی شرٹ پہنے وہ بابک تھا۔ جو نرم نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”کیسی ہو؟“ اس نے مسکرا کر استفسار کیا۔

تب تک فریدہ بھی نماز سے فارغ ہوکر وہیل چیئر دھکیلتی صحن میں آگئی تھیں اور اس اجنبی کو دیکھ کر متعجب ہوئی تھیں۔

”کیوں آئے ہو تم یہاں؟“ وہ ناگواری بھرے غصے سے گویا ہوئی۔

”تمہیں اپنے ساتھ لے جانے آیا ہوں۔“ اس کا انداز اب بھی نرم تھا۔

”مجھے نہیں جانا تمہارے ساتھ، اب جاؤ یہاں سے۔“ وہ تڑخ کر کہتی اندر کی جانب چلی گئی جب کہ وہ اسے دیکھتا رہا۔

”بچوں، چلو چھٹی کرو ابھی، باقی سبق کل گھر سے یاد کرکے آنا۔“ فریدہ نے عقل مندی دکھاتے ہوئے بچوں کو فوراً یہاں سے چلتا کیا جو سبق بھول بھال کر انہیں دیکھے جا رہے تھے۔

چھٹی ملتے ہی بچے فوراً وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے جس کے بعد اب صحن میں یہ دونوں رہ گئے تھے۔

”تم بابک ہو؟“ انہوں نے تائید چاہی کہ نورالعین کے رد عمل سے انہیں اندازہ ہوگیا تھا۔

”جی، آپ جانتی ہیں مجھے!“ اسے خوشگوار حیرت ہوئی۔

”ہاں اینا نے بتایا ہے تمہارے بارے میں۔۔۔۔سب کچھ بتایا ہے۔“ ان کا آخری سنجیدہ جملا بہت کچھ جتاتا ہوا تھا۔

ان کا مفہوم سمجھتے ہوئے اس نے شرمندہ ہوکر نظریں جھکالیں۔

”یہاں کیوں آئے ہو؟“ انہوں نے سنجیدگی سے پوچھا۔

”اینا کو لینے آیا ہوں آنٹی، میں اسے یہاں سے باعزت طریقے سے رخصت کرکے اپنے گھر لے جانا چاہتا ہوں، مجھے اینا سے بات کرنی ہے پلیز!“ اس نے بےتابی سے آمد کا مقصد بیان کرکے آخر میں گزارش کی۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ سر اٹھائے اس شخص کو دیکھتی گئیں جو بیک وقت وجاہت و ندامت کا پیکر بنا کھڑا تھا۔

”اندر جا کے الٹے ہاتھ پر اس کا كمره ہے۔“ انہوں نے سمت بتائی۔ یعنی اسے اندر جانے کی اجازت مل گئی تھی۔

”بہت شکریہ!“ وہ کہتا ہوا جلدی سے اندر کی جانب بڑھا۔ جب کہ وہ اسے دیکھتی رہیں۔

بابک نے مطلوبہ کمرے کے باہر پہنچ کر لکڑی کے دو پٹ والے دروازے پر دستک دی۔

”اینا پلیز دروازہ کھولو، مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“

”مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔“ دروازے کے ساتھ پشت ٹکا کر بیٹھی نورالعین نے کاٹ دار جواب دیا۔

”کیس واپس لے کر تمہیں رِہا کروانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ میں سب سرے سے بھول کر تمہارے ساتھ اس گھر میں آکر رہوں جہاں تم نے میرے مان کی دھجیاں اڑائی تھیں، اب اس سے پہلے کہ میں اپنے ساتھ کچھ کر بیٹھوں! چلے جاؤ یہاں سے، مجھے تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنی۔“ اسی طرح مزید بولتے ہوئے غم و غصے کے باعث اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

”تمہیں میری بات بھی سنی ہوگی، گھر بھی آنا ہوگا اور میری شکل بھی برداشت کرنی ہوگی، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو۔۔۔“

”تو کیا ہاں؟“ وہ بول رہا تھا کہ نورالعین نے اس کی بات کاٹی۔

لیکن اگلے ہی پل بابک نے اپنی بات پوری کی کیونکہ وہ قسم کھا کر آیا تھا کہ اسے راضی کیے بنا واپس نہیں لوٹے گا اور اس نے ایسا ہی کیا۔

اس کی بات پر نورالعین نے دروازہ کھول دیا تھا۔

موقع غنیمت جان کر، اس نے بھی فوری اپنی عرضی سامنے رکھ دی۔

وہ جو سوچ کر بیٹھی تھی کہ کبھی بابک کی شکل بھی نہیں دیکھے گی اب اسی بابک کی باتیں اسے سوچنے پر مجبور کر گئی تھیں۔

”پلیز اینا! مجھے ایک موقع اور دے دو!“ آخر میں بابک نے اس کے آگے دونوں ہاتھ جوڑ لئے۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔


*****************************************


سورج غروب ہوئے تھوڑی دیر ہوچکی تھی۔

احرار ابھی ابھی ڈیوٹی سے لوٹا تھا جہاں حسب معمول گھر کے سناٹوں نے اسے خوش آمدید کہا۔

انہیں نظر انداز کرکے وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا اور فریش ہونے چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ شاور لے کر باتھ روم سے باہر نکلا۔ اب اس نے جینز، ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

ابھی وہ تولیے سے بال خشک کرتا ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے آیا ہی تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور بابک کمرے میں داخل ہوا۔

”احرار۔۔۔۔احرار!“ وہ خوشگوار انداز میں کہتا آکر اس سے لپٹ گیا۔

”سب خیریت ہے بھیا؟“ وہ بھی متعجب ہوا۔

”خریت نہیں بہت زیادہ خریت ہے۔“ وہ اسی طرح کہتا ہوا الگ ہوا۔

”میں ابھی ابھی حیدر آباد سے واپس آیا ہوں، اینا سے مل کر اسے شادی کیلئے راضی کرنے گیا تھا۔۔۔اینڈ یو نو واٹ۔۔۔۔وہ مان گئی ہے!“ بابک نے اسے بازؤں سے تھام کر خوشی کے عالم میں بتایا۔

”سچ میں؟“ وہ خاصا حیران ہوا۔

”تیری قسم میرے بھائی بالکل سچ!“ بابک خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ احرار کا دل ڈوب کر ابھرا۔

”یہ تو سچ میں گڈ نیوز ہے۔“ وہ زبردستی مسکرایا۔

”اور اس سے بھی زیادہ اچھی خبر یہ ہے کہ وہ اگلے ہفتے اپنی خالہ کے ساتھ کراچی آرہی ہے، کچھ دن یاور کے گھر رکے گی اور وہاں سے رخصت ہوکر ہمارے گھر آئے گی، بس یوں سمجھ کہ پندرہ دن بعد وہ دلہن بن کر اس گھر میں ہوگی۔“ اس نے اسی طرح آگے کے معاملات کا بتایا۔

”پندرہ دن! اتنی جلدی شادی کی تیاریاں کیسے کریں گے؟“ وہ خاصا متفکر ہوا۔

”ارے کیا تیاری کرنی ہے؟ بس قاضی صاحب کے سامنے قبول ہی تو کرنا ہے، مہندی مائیوں کچھ کرنی نہیں ہے، سادگی سے نکاح و رخصتی، اور اگلے دن چند بزنس پارٹنرز اور اور فرینڈز کیلئے ایک سمپل سا ریسیپشن بس! وہ خود بھی زیادہ دھوم دھام نہیں چاہتی اور ڈیڈ کی ریسینٹ ڈیتھ کے بعد یہ سب اچھا بھی نہیں لگے گا، پندرہ دن بہت ہیں ان سب کیلئے۔“ اس نے اچھی خاصی وضاحت کے ساتھ فٹافٹ مسلہ حل کرلیا۔ وہ صحیح معنوں میں ہوا کے گھوڑے پر سوار تھا۔

”آپ کو کچھ زیادہ ہی جلدی نہیں ہے بھیا!“ احرار نے مسکراتے ہوئے کہا۔

”ہاں مجھے سچ میں بہت جلدی ہے، اب مجھ سے اس گھر کے سناٹے برداشت نہیں ہوتے۔“ اس کی گرم جوشی اب تھوڑی نیچے آئی۔

”ڈونٹ وری! ان شاءاللہ سب کرلیں گے ان کچھ دنوں میں۔“ احرار نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حوصلہ افزائی کی۔

”مجھے تم سے یہ ہی امید تھی۔“ بابک کہتا ہوا اس کے گلے لگ گیا۔

احرار نے بھی دونوں ہاتھ اس کے گرد لپیٹ لئے۔ اسے اپنی محبت سے دستبردار ہونے کا دکھ بھی تھا اور اپنے بھائی کی چاہت کو تکمیل ملنے کی خوشی بھی۔۔۔۔

اور بلآخر اپنا دکھ دل کے ایک کونے میں دبا کر، اس نے اپنے بھائی کی خوشی میں خوش ہونے کا فیصلہ کرلیا۔


دل کے لٹ جانے کا اظہار ضروری تو نہیں

یہ تماشہ سرِ بازار ضروری تو نہیں


مجھے عشق تھا تیری روح سے اور اب بھی ہے

جسم سے ہو کوئی سروکار یہ ضروری تو نہیں


میں تجھ کو ٹوٹ کر چاہوں تو یہ میری محبت

تو بھی ہو میرا طلبگار یہ ضروری تو نہیں


دل کے لٹ جانے کا اظہار ضروری تو نہیں

یہ تماشہ سرِ بازار ضروری تو نہیں


انتخاب


*****************************************


بابک نے جیسا کہا تھا ویسا کر دکھایا۔ ناصرف شادی کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں بلکہ اگلے ہفتے ڈرائیور کو بھیج کر نورالعین اور فریدہ خالہ کو بھی کراچی بلا لیا تھا جو سیدھا یاور کے گھر پہنچی تھیں اور ان لوگوں نے ان کا بھرپور گرم جوشی سے استقبال کیا تھا کہ کلوز فیملی فرینڈ ہونے کی حیثیت سے ان کا اتنا تعاون تو بنتا تھا۔

”آئی ایم سو ہیپی فار یو!“ (میں تمہارے لئے بہت خوش ہوں) نورالعین کو کس کر گلے لگائے ہانیہ کی خوشی قابلِ دید تھی۔

”مجھے بھی تمہاری اور یاور سر کی شادی کا سن کر بہت خوشی ہوئی، آخر کار تمہاری دلی مراد پوری ہوگئی۔“ نورالعین نے بھی خوشدلی سے جواب دیا۔

”ہاں یار، مجھے تو خود یقین نہیں آیا تھا۔“ وہ کہتی ہوئی اس سے الگ ہوئی۔

”ادھر آؤ، تمہیں بتاتی ہوں کیا ہوا تھا؟“ وہ اسے لے کر بیڈ کی جانب آئی اور اسے بٹھا کر خود بھی سامنے بیٹھ گئی۔

جب کہ نورالعین کے بیگز بھی نزدیک ہی رکھے ہوئے تھے کہ رخصتی تک وہ اسی گیسٹ روم میں رکنے والی تھی۔

”جب تم حیدرآباد گئی تھی نا اسی دوران اچانک پتا نہیں کیسے گھر والوں کو خیال آگیا کہ کیوں نا میری اور یاور کی شادی کردی جائے؟ انہوں نے ہم سے بات کی، مجھے تو کوئی اعتراض نہیں تھا پر یاور تھوڑا کنفیوژ تھا۔

پھر ایک دن مجھے اکیلے میں چھت پر بلا کر، اس نے پوچھا کہ کیا میں اس سے شادی کیلئے تیار ہوں؟ میں نے اس وقت تو ایسے ہی سمپل سا کہا کہ ہاں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن تم یقین نہیں کرو گی نورالعین! اس وقت میرا دل اتنی بری طرح دھڑک رہا تھا کہ بس ابھی باہر آجائے گا۔

خیر پھر میری مرضی جان کر، اس نے کہا کہ دیکھو میں نے کبھی تمہیں تو کیا کسی لڑکی کو بھی پسند کی نظر سے نہیں دیکھا ہے اور نہ ہی لائف پارٹنر کے حوالے سے کوئی خاص ڈیمانڈ ہے، اگر مجھے کوئی اعتراض نہیں اور گھر والے بھی راضی ہیں تو اسے بھی رشتہ منظور ہے، بس پھر جھٹ پٹ ہماری شادی کی ڈیڈ فکس ہوگئی اینڈ دا بیسٹ پارٹ از کہ تمہاری شادی بھی بس ایک دن کے فرق سے ہمارے ساتھ ہے، جس دن ہمارا ولیمہ ہے اس دن تمہاری رخصتی ہے، سچی میں تو اتنی خوش ہوں نا کہ بتا نہیں سکتی۔“ وہ خوشی کے عالم میں بنا رکے بولتی ہی چلی گئی۔

”ارے لڑکی بس، سانس تو لے لو۔“ نورالعین نے ہنستے ہوئے ٹوکا۔

”یار تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی کہ جب من چاہی خوشیاں ملتی ہیں تو کیا حالت ہوتی ہے؟“ وہ اسی طرح اپنی دھن میں بولی تو نورالعین نے بےساختہ نظریں جھکالیں۔

”ابھی تو میں نے یاور پر کچھ ظاہر نہیں کیا کہ میں اسے پسند کرتی ہوں کیونکہ تم نے کہا تھا نا کہ نامحرم جب تک محرم نہ بن جائے اسے اپنے جذبات نہیں بتاتے، لیکن شادی کے بعد تو میں اسے سب بتا سکتی ہوں نا کہ میں اسے پسند کرتی ہوں اور شادی سے بہت خوش ہوں؟“ اس نے کسی چلبلے سے معصوم بچے کی مانند جاننا چاہا تو نورالعین کو اس کی سادگی پر ہنسی آگئی۔

”ہاں ہاں، شادی کے بعد اسے جو چاہو کہنا، جو چاہو کرنا، تمہاری ساری محبت پر بس یاور سر کا ہی حق ہوگا۔“ نورالعین نے اسے اطمینان دلایا۔

”ارے اب تو اسے یاور سر نہ کہو، اب کون سا تم آفس میں جاب کر رہی ہو!“ ہانیہ نے اسے ٹوکا۔

”ایسے ہی بولنے کی عادت ہے نا یار، آہستہ آہستہ جائے گی۔“ اس نے ہنس کر کندھے اچکائے۔

”خیر تم فریش ہوجاؤ، میں تمہارے لئے کچھ کھانے کا لاتی ہوں، پھر بہت ساری باتیں کریں گے۔“ وہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ نورالعین نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔

”اچھا سنو! آنٹی کچھ پرہیزی تو نہیں کھاتیں؟ اگر کھاتی ہیں تو بتا دو میں بنوا دوں گی۔“ ہانیہ نے دروازے پر رک کر اچانک پوچھا۔

”نہیں نہیں، اللہ کا شکر ہے انہیں کوئی ایسی بیماری نہیں ہے، بس جو بھی نارمل کھانا ہوتا ہے وہ بھجوا دو ان کے کمرے میں۔“ اس کے جواب پر وہ سر ہلا کر چلی گئی جب کہ نورالعین بھی فریش ہونے اٹھ گئی جو ہانیہ کو خوش دیکھ کر بہت خوش تھی اور جان بوجھ کر اسے نہیں بتایا کہ اس نے احرار کے ذریعے یہ بات گھر والوں تک پہنچائی تھی کہ یہ کوئی احسان نہیں تھا جو وہ جتاتی۔

یہ تو ایک موقع تھا جو قدرت نے اسے ہانیہ کی چاہت تک لے جانے کا ذریعہ بنا کر دیا تھا کیونکہ ہم انسان قدرت کے ذرائع ہی تو ہوتے ہیں ایک دوسرے کیلئے۔


*****************************************


”کیا! ٹرانسفر؟ کیوں؟ کیا آپ کو ہمارا اسٹیشن پسند نہیں آیا؟“ اپنی سنگل کرسی پر موجود خاصے متعجب ہوئے مرتضیٰ صاحب نے آخر میں شرارتاً طنز مارا۔

”ارے نہیں سر! ایسی بات نہیں ہے، آپ سب تو بہت کاپریٹیو ہیں۔“ ان کے مقابل بیٹھے احرار نے مبہم مسکراہٹ کے ساتھ تصحیح کی۔

”تو پھر اچانک اپنے ٹرانسفر کی ایپلیکیشن لے کر کیوں حاضر ہوگئے؟“ انہوں نے باوزن سوال کیا جس کا حقیقی جواب وہ کسی کو نہیں دینا چاہتا تھا۔

”بس ایسے ہی سر! کافی عرصہ اس شہر میں رہ چکا ہوں اب کسی نئی جگہ پر جا کر نئے لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں، ٹرانسفر کے ذریعے ڈیوٹی بھی ہوتی رہے گی اور تھوڑا چینج بھی آجائے گا!“ اس نے گول مول جواب دیا جیسے وہ خود بھی یہاں سے دور جانے کی اصل وجہ نہ جانتا ہو!

ادھیڑ عمر مرتضیٰ صاحب فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے چپ چاپ گہری نظروں سے اسے دیکھتے رہے جیسے چہرے پر کچھ کھوجنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

مگر وہ بھی چہرے پر اطمینان سجائے کمال مہارت سے اپنی اندرونی حالت چھپائے بیٹھا تھا۔

”ٹھیک ہے، میں سینئرز سے بات کرتا ہوں۔“ بلآخر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

”تھینک یو سر!“ وہ ان کا مشکور ہوتے ہوئے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا اور وہ اسے دیکھتے رہے۔

اس نے دل پر جبر کا پتھر رکھ لیا تھا مگر نظروں کے سامنے بار بار انہیں ساتھ دیکھ کر کہیں یہ پتھر سرک نہ جائے! اسی ڈر کے پیش نظر وہ یہاں سے دور جا رہا تھا۔


پرندوں کا شجر کو چھوڑ کر جانا ضروری ہے

کہ طائر کو خزاں کا خوف بھی کھانا ضروری ہے


کہانی میں سناتا روز اک اس کو رہائی کی

قفس میں قید دل کو خواب دکھلانا ضروری ہے


جو ہوتا عطر میں تو بس ہی جاتا جسم میں تیرے

میں تھا تلسی مرا آنگن کو مہکانا ضروری ہے


ہزاروں حسرتیں، خواہشیں ہیں قید جب دل میں

مجھے پا کر ترا ان کو بھی تو پانا ضروری ہے


کِیا بوتل میں دل کو قید پھر پھینکا سمندر میں

مرے سینے سے دل کا دور ہو جانا ضروری ہے


انتخاب


*****************************************


حسب معمول احرار ڈنر کیلئے ڈائینگ روم میں آکر اپنی مخصوص سائیڈ والی کرسی پر بیٹھ گیا تھا اور نوری کھانا لگا کر جا چکی تھی۔

اس نے بابک کی پلیٹ اس کی جگہ پر رکھی، پہلے اس کی پلیٹ میں سالن نکالا اور پھر اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوا۔

”کیا حال ہے میرے بھائی، آج کا دن کیسا گزرا؟“ بابک روم میں آنے کے بعد دوستانہ انداز میں اس کا سر سہلاتا اپنی سنگل کرسی پر بیٹھ گیا۔

”وہ ہی مجرم و ملزم کے بیچ گھن چکر بن کر ثبوت جمع کرنے میں گزرا جیسے روز گزرتا ہے۔“ اس نے ہاٹ پاٹ سے روٹی نکال کر بابک کی جانب بڑھائی جسے اس نے تھام لیا۔

”آپ بتائیں آپ کی تیاری کہاں تک پہنچی؟“ اب اس نے اپنے لئے روٹی اٹھائی۔

”بس یوں سمجھو کہ منزل تک پہنچنے ہی والی ہے جس میں مجھے تمہاری مدد بھی چاہیے۔“ اس نے روٹی توڑ کر نوالہ بنایا۔

”کیسی مدد؟“ اس نے پوچھ کر نوالہ منہ میں لیا۔

”کل تم ڈیوٹی سے آف لو اور میرے ساتھ چلو، مجھے اپنا اور اینا کا وڈنگ ڈریس لینا ہے۔“

”تو مجھے ساتھ لے جانے کی کیا تُک ہے؟ نورالعین کو لے کر جائیے۔“ اس نے نوالہ چباتے ہوئے مشورہ دیا۔

”اس سے کہا تھا مگر وہ کہہ رہی ہے کہ میں خود ہی کچھ سمپل سا خرید لوں، اب میں کیا اکیلا خوار ہوتا پھروں گا؟“

”تو اسی لئے آپ مجھے بھی ساتھ خوار کروانا چاہتے ہیں!“ احرار نے ٹکڑا لگایا۔

”بالکل، اب تم کل بِنا کوئی بہانہ بنائے شرافت سے میرے ساتھ شاپنگ پر چل رہے ہو، کیونکہ مجھے پتا ہے کہ تم نے بھی ابھی تک اپنے لئے کچھ نہیں خریدا ہوگا!“ بابک نے سیدھا فیصلہ سنایا۔

”ٹھیک ہے سرکار، اب جب آپ نے فرمان جاری کر ہی دیا ہے تو بھلا میں انکار کرسکتا ہوں!“ اس نے مسکرا کر رضا مند ہوتے ہوئے پانی کا گلاس لبوں سے لگایا۔

”ارے فرمان جاری کرنے سے یاد آیا، شادی کے کارڈ پرنٹ ہوگئے ہیں، رکو دکھاتا ہوں۔“ بابک نے یکدم یاد آنے پر اپنی بلیک سلیولیس جیکٹ کی جیب سے کارڈ نکال کر احرار کی جانب بڑھایا جسے اس نے چپ چاپ تھام لیا۔

”ویسے تو مہمان برائے نام ہی ہیں، مگر انہیں لفظی دعوت دینا اچھا نہیں لگ رہا تھا اسی لئے کارڈ پرنٹ کروا لئے، کیسا ہے؟“ بابک اپنی دھن میں کہتا دوبارہ کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا جب کہ احرار نے کارڈ دیکھا۔

وہ بلیک کلر کا بالکل سادہ کارڈ تھا جس کے اوپر والے بائیں کنارے پر اور نیچے والے دائیں کنارے پر گولڈن ڈیزائن بنا ہوا تھا اور درمیان میں سفید رنگ سے بہت خوبصورتی کے ساتھ لکھا تھا

Babik Malik Weds Noorulain Shahid

جو اس سادے سے کارڈ کو بہت خوبصورت بنا رہا تھا۔

بالکل جیسے سانپ خوبصورت ہوتا ہے مگر ڈس لیتا ہے۔ ویسے ہی اس کارڈ کی خوبصورتی بھی اسے ڈس رہی تھی۔ خاص طور پر اس نام کے ساتھ لکھا وہ نام!

”احرار!“ بابک نے اسے اپنی جگہ گم صم پا کر پکارا۔

”جی بھیا!“ وہ یکدم متوجہ ہوا۔

”کہاں کھو گئے؟ کارڈ اچھا نہیں لگا؟“

”نہیں نہیں۔۔۔کارڈ اچھا ہے۔۔۔بہت اچھا ہے۔“ اس نے جلدی سے جواب دے کر خود کو ہشاش بشاش دکھانے کی کوشش کی۔

”آپ کی چوائس کبھی خراب ہو ہی نہیں سکتی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو اس کی اندرونی کیفیت سے انجان بابک بھی مسکرا دیا۔


مل سکیں گے جب ہم دونوں

اب نہ ایسا کہیں کوئی مقام آئے گا


ایک درد سا ہاں مگر اٹھے گا دل میں

کسی اور کے ساتھ جب تیرا نام آئے گا


فریال خان


*****************************************


نیا دن نکل آیا تھا اور اپنے کہے کے مطابق بابک بھی احرار کو لے کر شاپنگ کیلئے نکل پڑا تھا۔ اور دونوں اب مال میں گھوم رہے تھے۔

”کیا! ٹرانسفر! پر کیوں؟“ بابک اس کی بات سن کر حیران ہوا۔

”بس ایسے ہی، سینئرز کو لگتا ہے کہ وہاں میری زیادہ ضرورت ہے، اسی لئے میں نے انکار نہیں کیا۔“ اس کے ساتھ چلتے احرار نے جھوٹ کہا کیونکہ درحقیقت تو وہ خود اپنا ٹرانسفر کروا رہا تھا مگر بابک کو بتایا کہ محکمہ اسے بھیج رہا ہے۔

”کیوں انکار نہیں کیا؟ فوراً انکار کرو بلکہ میں خود تمہارے سینئرز سے بات کرکے یہ ٹرانسفر رکواتا ہوں۔“ وہ کہتے ہوئے اگلے ہی پل نتیجے پر پہنچ گیا۔

”ارے نہیں بھیا، کچھ دنوں کی بات ہے، اگر میرا دل نہیں لگا تو میں واپس آجاؤں گا۔“ احرار نے اسے باز رکھنا چاہا۔

”اگر دل نہیں لگا۔۔۔۔مطلب تم میرے بنا رہنے کا ارادہ لئے بیٹھے ہو اور یہاں جو تمہارے بنا میرا دل نہیں لگے گا اس کا کیا؟“ بابک نے ایک جگہ رک کر نروٹھے پن سے شکوہ کیا۔

”آپ کیلئے نورالعین ہے تو، آپ اس کے ساتھ زندگی گزاریں۔“ وہ بھی اس کے ساتھ رک گیا۔

”اس کی اپنی جگہ ہے، وہ میرا بھائی تھوڑی ہے، وہ تو تم ہو اور تمہاری جگہ کوئی نہیں لے سکتا۔“ اس کے لہجے میں فکر بھری محبت تھی۔

”میری جگہ کوئی لے گا بھی نہیں، میں ہمیشہ اپنی جگہ پر تھا، ہوں، اور رہوں گا، یہ رہی میری جگہ!“ احرار نے ایک ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کی شہادت کی انگلی بابک کے دل پر رکھی۔

”تم مجھے گھما رہے ہو!“ بابک نے آنکھیں سکیڑیں۔

”نہیں، ابھی تو بہت گھومنا باقی ہے کیونکہ ابھی شاپنگ باقی ہے، اب چلیں جلدی!“ احرار نے کہہ کر اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچا تو وہ بھی چل پڑا۔

دونوں کانچ کا دروازہ دھکیل کر ایک شاپ میں داخل ہوئے جہاں غالباً ہر طرح کا برائیڈل ویئر تھا۔

دونوں ڈمی پر لگے مختلف لباس دیکھنے لگے جو کہ سب ہی ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔

”ہاؤ کین آئی ہیلپ یو سر!“ (میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں سر) شاپکیپر ادب سے ان کے پاس آیا۔

”میرے کندھے میں کل سے بہت درد ہے، تھوڑا دبا دو گے؟“ بابک نے یکدم ایک غیرمتوقع بات کی تو لڑکے سمیت احرار بھی بھونچکا رہ گیا۔

”مذاق کر رہا ہوں یار، برائیڈل ویئر شاپ ہے تو برائیڈل ڈریس کیلئے ہی آئے ہوں گے نا ہم دوست!“ بابک نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا تو لڑکے کی بھی سانس بحال ہوئی۔

”جی تو سر آپ اپنی پسند بتائیں، کیسا ڈریس چاہیے آپ کو؟ ماڈرن، ٹریڈشنل، ڈیزائنر، لیٹسٹ فیشن، کلاسی؟“ لڑکے نے فرمابرداری سے اقسام گنوائیں جسے دونوں تعجب سے سنتے گئے۔

”ایک برائیڈل ڈریس میں اتنی ساری کیٹیگریز ہوتی ہیں!“ بابک نے حیرت سے آنکھیں پھیلائیں۔

”سر لگتا ہے آپ فرسٹ ٹائم لیڈیز شاپنگ کر رہے ہیں۔“ لڑکا بھی ان کے ساتھ کاپ کمفرٹیبل ہوگیا تھا۔

”ہاں یار، اپنے پینٹ شرٹ کے سوا کبھی کچھ خریدا ہی نہیں تھا، لیکن آج اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ مرد ذات کتنی سادہ ہوتی ہے، بس سمپل سادہ سا پینٹ شرٹ خریدا، لو ہوگئی شاپنگ!“ بابک بھی اس سے خاصا فرینک ہوگیا تھا۔

”دوست ہمیں کچھ سمپل بٹ بیوٹیفل چاہیے!“ احرار خود ہی اصل مدعے پر آیا۔

”شیور سر، میرے ساتھ آئیے۔“ وہ انہیں لے کر تھوڑا مزید آگے آیا جہاں ڈمی پر کافی خوبصورت لباس لگے ہوئے تھے۔

”یہ دیکھیں سر! یہ ڈیزائن بالکل نیو آیا ہے۔“ لڑکے نے ایک گہرے گلابی لہنگے کی جانب اشارہ کیا جو بہت کامدار تھا۔

”یہ ڈریس کیسا ہے احرار؟“

”اچھا ہے۔“ اس نے گرین سگنل دیا۔

”لیکن یہ بہت ہیوی ہوجائے گا، اینا نے کچھ سمپل سا کہا تھا۔“ بابک نے خود ہی اسے رد کیا۔

”سر یہ دیکھیں، یہ پیور ہینڈ ورک ہے اور اس کی کافی ڈیمانڈ بھی ہے۔“ اس نے ایک اور جوڑا دکھایا جو خالص سرخ رنگ کا تھا اور اس پر گولڈن تار کا کام تھا۔

”یہ کیسا رہے گا؟“

”یہ بھی اچھا ہے۔“ سابقہ جواب ملا۔

”تم یہاں میری مدد کرنے آئے ہو یا صرف ہاں میں ہاں ملانے!“ بابک نے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھورا۔

”اور کیسے مدد کروں؟“ اس نے تعجب سے کندھے اچکائے۔

”تم بھی کوئی ڈریس پسند کرو، میں بھی دیکھ رہا ہوں، دونوں صلاح مشورہ کرکے کچھ فائنل کرتے ہیں۔“ اس نے دھیان دلایا تو احرار بھی آس پاس نظریں دوڑانے لگا جب کہ وہ لڑکا پوری دلجمی کے ساتھ بابک کو ہر ڈریس کی خوبیاں گنوانے میں مصروف تھا۔

یوں ہی بھٹکتے ہوئے احرار کی نظر تھوڑی پیچھے رکھی ایک ڈمی پر ٹھہری۔

وہ میرون رنگ کی گھیردار فراک تھی جو بالکل پلین تھی۔ بس اس کی فل آستینوں پر کندھے سے کلائی تک گولڈ کا باریک کام بھرا ہوا تھا اور نیچے بھی ایسا ہی کام تھا جو زمین سے لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ نیٹ کا دوپٹہ تھا جو سفید ڈمی لڑکی کو گھونگھٹ کی مانند اوڑھایا گیا تھا اور دوپٹے کے کناروں پر بھی وہ ہی آستین والا کام تھا۔

احرار کو پہلی ہی نظر میں یہ لباس اتنا پسند آیا کہ اگر نورالعین اس کی دلہن بن رہی ہوتی تو یقیناً وہ اس کیلئے یہ ہی لیتا۔

لیکن دلہن تو وہ اب بھی بن رہی تھی۔ کیا ہوا جو اس کی نہیں تھی۔ مگر اُس کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا۔ اُس دن سب سے الگ نظر آنا اس کا حق تھا۔ اور اس کا حق دینے سے تو وہ کبھی پیچھے نہیں ہٹا تھا۔

”بھیا!“ احرار نے پکارا تو شاپکیپر کے ساتھ دماغ کھپاتا بابک اس کے پاس چلا آیا۔

”دیکھیں یہ ڈریس کتنا پیارا ہے، سادہ بھی ہے اور خوبصورت بھی!“ اس نے ستائشی انداز میں کہا۔

”ہاں سچ میں پیارا تو ہے۔“ بابک نے بھی بھرپور اتفاق کیا۔

”دوست! اسے پیک کروا دو۔“ اور اگلے ہی پل لڑکے کو حکم بھی دے ڈالا جیسے لمحے کی بھی دیری کی تو یہ کوئی اور لے جائے گا اور لڑکا بھی فوری حکم کی تعمیل کو آگے بڑھ گیا۔


*****************************************


نہ نہ کرتے ہوئے بھی اچھا خاصا کام نکل ہی آیا جسے نمٹاتے ہوئے کب شادی کا روز آ پہنچا پتا ہی نہیں چلا۔

مگر آج صرف یاور اور ہانیہ کی شادی تھی۔ بابک اور نورالعین کا نکاح کل ان کے ولیمے کے ساتھ تھا۔

نورالعین بھی کیونکہ کل دلہن بننے والی تھی اسی لئے فریدہ خالہ نے اسے سب کے ساتھ میرج ہال جانے سے منع کردیا تھا۔

وہ بس ہانیہ کے ساتھ پارلر آئی تھی اور اس کے ہال جانے کے بعد اسے بھی واپس گھر جانا تھا۔

”ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔“ نورالعین نے عقب میں کھڑے ہوکر شیشے میں نظر آتے اس کے سجے ہوئے عکس کو سراہا۔

وہ گہرے گلابی لہنگے میں جیولری اور میک اپ کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی۔

جب کہ نورالعین سادہ سا ڈارک پیچ سوٹ پہنے عام سے حلیے میں تھی کہ اسے تو گھر واپس جانا تھا۔ البتہ اس کے ہاتھوں اور پیروں میں بھری بھری مہندی لگی تھی جو ہانیہ کے ساتھ ہی لگائی گئی تھی۔

”دیکھنا تم بھی کل بہت پیاری لگنے والی ہو!“ ہانیہ نے پہلے ہی پیشن گوئی کی۔

”کتنا اچھا ہوتا نا اگر آنٹی تمہیں بھی فنکشن اٹینڈ کرنے دیتیں!“ اگلے ہی پل وہ اداس ہوگئی۔

”خالہ بھی اپنی جگہ ٹھیک ہیں کہ برائیڈ ٹو بی کو تھوڑا تو پردہ کرنا چاہئے۔“ وہ سادگی سے بولی۔

”ہاں تا کہ دولہے کی بےتابی مزید بڑھ سکے!“ ہانیہ نے شرارت سے چھیڑا تو وہ بےساختہ جھینپ گئی۔

”دلہنیں اتنا نہیں بولتیں!“ نورالعین نے بات گھماتے ہوئے اس کے بازو پر ہلکی سی چپت لگائی۔

”ایکسیکیوزمی! مس ہانیہ ناصر؟“ تب ہی ایک لڑکی سوالیہ انداز میں پوچھتی ان کی طرف آئی۔

”جی یہ ہی ہیں۔“ نورالعین نے جواب دیا۔

”انہیں پِک اپ کرنے آگئے ہیں، پلیز آجائیے۔“ لڑکی کے کہنے پر وہ نورالعین کے ہمراہ لہنگا سنبھالتی ہوئی باہر آئی جہاں ایک ہی گاڑی دیکھ کر انہیں حیرت ہوئی۔

”دوسری گاڑی کہاں ہے شہلا باجی؟“ ہانیہ نے بوڑھے ڈرائیور کے ساتھ آئی اپنی کزن سے پوچھا۔

”سب گاڑیاں بزی ہیں ہانی، پھوپھو نے کہا کہ بہت لیٹ ہو رہا ہے اسی لئے تمہیں تو لے کر آؤں۔“ اس کی تیار کھڑی کزن نے فکرمندی سے جواب دیا۔

”لیکن باجی نورالعین کو بھی تو گھر ڈراپ کرنا ہے۔“

”ہاں تو تھوڑی دیر تک کوئی ڈرائیور فری ہوگا تو پھوپھو بھجوا دیں گی، ابھی تم تو چلو۔“

”نہیں باجی، نورالعین ہماری ذمہ داری، ہم اسے ایسے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔“ وہ انکاری ہوئی۔

”ہانیہ تھوڑی دیر تک ڈرائیور آجائے گا تم جاؤ!“ نورالعین نے بھی سمجھانا چاہا۔

”یار پتا نہیں کتنی دیر لگے؟ تم کیا تب تک یہاں انتظار کرو گی؟ ایسا کرتے ہیں ہم پہلے تمہیں گھر ڈراپ کرتے ہیں پھر ہال جاتے ہیں۔“ وہ کہتے ہوئے اگلے ہی پل نتیجے پر پہنچی۔

”پاگل ہوگئی ہو ہانی! گھر کہاں ہے اور ہال کہاں؟ اوپر سے شہر کا ٹریفک جام، ہمارے جانے آنے میں ہی دو گھنٹے لگ جائیں گے۔“ شہلا نے اس کی عقل پر حیرت کی۔

”ہانیہ تم جاؤ، میں کوئی کیب بک کرلوں گی یا بابک کو بلا لوں گی، میری فکر مت کرو۔“ نورالعین نے اسے تسلی دینی چاہی۔

”ہاں یہ ٹھیک ہے، تم بابِک کو بلا لو۔“ وہ بھی رضا مند ہوئی۔

”میں بلا لوں گی، تم جاؤ۔“

”نہیں، پہلے تم میرے سامنے فون کرو۔“ اس نے اٹل انداز میں کہا تو دونوں بےبسی سے اس ضدی دلہن کو دیکھ کر رہ گئیں۔


*****************************************


احرار ہال پہنچنے کیلئے گھر سے نکل کر اپنی گاڑی کی جانب آیا ہی تھا کہ ڈارک براؤن کُرتے کی جیب میں موجود اس کا موبائل بج اٹھا۔ اس نے فٹافٹ کال ریسیو کی۔

”جی بھیا میں گھر آگیا ہوں، ریڈی بھی ہوگیا ہوں بس تھوڑی دیر تک ہال پہنچ رہا ہوں۔“ احرار نے فون اٹھاتے ہی کہا کیونکہ بابک پہلے بھی اسے دو بار فون کر چکا تھا۔

”نہیں احرار ہال نہیں آؤ۔“

”کیوں خیریت؟“

”یار اینا ہانیہ کے ساتھ پارلر گئی تھی مگر ڈرائیور فری نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہیں رک گئی ہے، میں ہال میں ہوں اور یہاں سے پارلر تک پہنچنے میں بہت دیر لگ جائے گی کیونکہ راستہ لمبا ہونے کے ساتھ ٹریفک بھی جام ملے گا، ہمارے گھر سے پارلر زیادہ دور نہیں ہے، تم اینا کو پارلر سے یاور کے گھر ڈراپ کرکے پھر آجاؤ، میں تمہیں پارلر کی لوکیشن سینڈ کر رہا ہوں۔“ بابک نے عجلت میں پورا مدعہ اسے سمجھایا۔

”ٹھیک ہے بھیا، میں ابھی جاتا ہوں۔“ حسب توقع اس نے فرمابرداری سے کہہ کر لائن کاٹی اور گاڑی میں سوار ہوکر وہاں سے روانہ ہوگیا۔

 

Search Facebook

تصوير کی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔

Writer Faryal Khan

20 February 2023  · 

#SurpriseEpisode ❤💥


#یارِ_من_مسیحا

#قسط_نمبر_16

#ازقلم_فریال_خان


پچھلی قسط کی جھلک 👇


”یار اینا ہانیہ کے ساتھ پارلر گئی تھی مگر ڈرائیور فری نہ ہونے کی وجہ سے وہ وہیں رک گئی ہے، میں ہال میں ہوں اور یہاں سے پارلر تک پہنچنے میں بہت دیر لگ جائے گی کیونکہ راستہ لمبا ہونے کے ساتھ ٹریفک بھی جام ملے گا، ہمارے گھر سے پارلر زیادہ دور نہیں ہے، تم اینا کو پارلر سے یاور کے گھر ڈراپ کرکے پھر آجاؤ، میں تمہیں پارلر کی لوکیشن سینڈ کر رہا ہوں۔“ بابک نے عجلت میں پورا مدعہ اسے سمجھایا۔

”ٹھیک ہے بھیا، میں ابھی جاتا ہوں۔“ حسب توقع اس نے فرمابرداری سے کہہ کر لائن کاٹی اور گاڑی میں سوار ہوکر وہاں سے روانہ ہوگیا۔


اب آگے 👇


*****************************************


”مس نورالعین؟“ لڑکی سوالیہ انداز میں پوچھتی ہوئی آئی۔

”جی میں ہی ہوں!“ ویٹنگ ایریا کے صوفے پر بیٹھی نورالعین نے جواب دیا۔

”آپ کو مسٹر احرار پک اپ کرنے آگئے ہیں۔“ اس نے اطلاع دی تو نورالعین سر ہلا کر کھڑی ہوگئی۔

پاس رکھی کتھئی شال اپنے گرد اوڑھی اور باہر آگئی۔

احرار ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا پارلر کے داخلی حصے پر ہی دیکھ رہا تھا جہاں سے وہ آتی نظر آئی۔

اس نے ڈارک پیچ کلر کا بالکل سادہ سوٹ پہن کر، سر سمیت اپنے گرد کتھئی شال اوڑھی ہوئی تھی اور سیدھا ہاتھ سینے پر رکھ کر شال کو سنبھالا ہوا تھا جس پر اس کی گہرے رنگ کی مہندی نظر آرہی تھی۔

اس عام سے حلیے میں بھی وہ اسے اتنی پیاری لگی کہ اس نے جلدی سے نظریں پھر لیں۔

وہ آکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔

”السلام علیکم!“ احرار نے پہل کی۔

”وعلیکم السلام! کافی دنوں بعد آپ نظر آئے۔“ نورالعین نے گیٹ بند کرتے ہوئے جواب دے کر اضافی بات کہی۔

کیونکہ جب سے وہ کراچی واپس آئی تھی احرار اس سے ایک بار بھی نہیں ملا تھا۔

”جی پہلے کام تھا تو ملنا رہتا تھا، کام ختم تو رابطہ بھی ختم!“ اس نے سادگی سے کہتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کرکے فرسٹ گیئر میں ڈالی اور آگے بڑھا دی۔

”اور ویسے بھی آپ نے کہا تھا کہ ہم اپنے نہیں ہیں، بس ایک مظلوم اور مسیحا کا سا تعلق تھا ہمارا جو کیس کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔“ وہ مزید کہتے ہوئے گاڑی مین روڈ پر لے آیا اور اسپیڈ بڑھا کر تھرڈ گیئر ڈالا۔

”تو آپ میری اس بات کو دل پر لے گئے؟“ اس کا انداز بےساختہ تھا۔

”نہیں دماغ پر!“ اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو وہ کچھ نہیں بولی۔

”اور ویسے بھی کل آپ ہمیشہ کیلئے ہمارے گھر آنے والی ہیں تو اب روز ہی ملنا جلنا رہے گا۔“ ماحول کا تناؤ کم کرنے کیلئے وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بھی اخلاقاً مسکرادی۔

”تھینکس نورالعین!“ احرار اچانک بولا۔

”کس لئے؟“ وہ سمجھی نہیں۔

”بھیا کو ایک موقع دینے کیلئے، ہمارے گھر میں رونق لانے کیلئے۔“ اس نے وجہ واضح کی تو وہ دھیرے سے مسکرائی۔

”آپ نے ہی تو کہا تھا کہ معافی اور موقعے پر بس میرا حق نہیں ہے، تو مان لی آپ کی بات، اور بات جب بےلوث محبت کی ہو تو بڑے سے بڑا انسان بھی اپنے ارادوں میں کمزور پڑ کر ہار مان جاتا ہے، میں نے بھی مان لی۔“ وہ اپنی مہندی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے، نظریں جھکائے فلسفیانہ انداز میں کہتی گئی۔

”ایسی ہار جیت سے زیادہ پیاری ہوتی ہے۔“ احرار نے کہا تو وہ بھی مسکرادی۔

پھر پورا سفر مکمل خاموشی سے طے ہوا۔ نورالعین کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی اور احرار کی توجہ بظاہرہ ڈرائیونگ پر تھی مگر نظریں بار بار اس کے مہندی والے ہاتھ دیکھنا چاہ رہی تھیں جنہیں اس نے بہت مشکل سے قابو میں رکھا۔

مگر سانسوں میں اترتی ابٹن کی خوشبو کو وہ روک نہ پایا جو نورالعین کے پاس سے آرہی تھی کیونکہ کل ہانیہ کے ساتھ اسے بھی خوب ابٹن لگا دی گئی تھی جس کی خوشبو اس کے وجود میں رچ بس گئی تھی۔

تھوڑی ہی دیر بعد وہ لوگ یاور کے گھر پہنچ چکے تھے۔

”بہت شکریہ اس فیور کیلئے۔“ اس نے کہتے ہوئے گیٹ کا لاک کھولا۔

”میرے خیال سے اب آپ کو لکھ کر دے دینا چاہئے کہ بار بار شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔“ احرار نے نرم سا طنز کیا تو وہ بھی مسکراتے ہوئے گاڑی سے اتر گئی۔

پھر وہ وہاں سے چلا گیا اور وہ بھی گاڑی نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد اندر بڑھ گئی۔


*****************************************


بابک نے احرار کو کال کرنے کیلئے اپنے ڈارک بیلو کُرتے کی جیب سے موبائل نکالا ہی تھا کہ سامنے سے وہ آتا ہوا نظر آیا۔

”کہاں رہ گیا تھا یار تو!“ اس کے قریب آنے پر بابک نے پوچھا۔

”گھر کوئی پچھلی گلی میں تھوڑی ہے بھیا جو فٹافٹ آجاتا، اوپر سے ٹریفک جام!“ احرار نے دیری کی وجہ واضح کی۔

”اینا کو گھر ڈراپ کر دیا، کوئی دقت تو نہیں ہوئی؟“

”جی ڈراپ کر دیا ہے۔“

”کیسی لگ رہی تھی وہ؟ کافی دنوں سے ان لوگوں نے مجھے اس سے ملنے ہی نہیں دیا۔“ بابک نے دلچسپی سے پوچھا۔

احرار کے دل میں پل بھر کو ایک ناگواری کی سی لہر اٹھی جیسے اس کا نورالعین کی بابت اس بےتاب انداز میں پوچھنا اچھا نہ لگا ہو!

”ویسی ہی تھی جیسی ہمیشہ ہوتی ہے۔“ اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے سادہ سا جواب دیا۔

”اور ویسے بھی کل آپ کو اسے دیکھنے کے سارے حقوق مل جائیں گے، پھر شوق سے جی بھر کر دیکھتی رہیے گا۔“ وہ اسی روکھے انداز میں مزید کہہ گیا۔

”ہاں، بس یہ ہی سوچ کر صبر کیا ہوا ہے۔“ بابک مسکرایا۔

”یاور کا نکاح ہوگیا؟“ احرار نے بات بدلی۔

”ہاں بس ہونے جا رہا ہے، اسی لئے تو تمہیں فون کر رہا تھا، چلو اسٹیج پر اس کے پاس چلتے ہیں۔“ بابک کو بھی اچانک یاد آیا تو پھر دونوں یاور کے پاس آگئے۔

تھوڑی ہی دیر بعد یاور اور ہانیہ کا نکاح ہوگیا تھا۔ سب نے ہی ایک دوسرے کے گلے لگ کر پرمسرت انداز میں مبارک باد دی۔ بابک اور احرار نے بھی کریم کلر کی شیروانی پہنے یاور کو کس کر گلے لگا لیا۔

نکاح کے بعد جب دونوں ساتھ اسٹیج پر بیٹھے تو تصاویر کی عکس بندی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔

پھر سب نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا اور بلآخر رخصتی کا مرحلہ آگیا مگر کوئی زیادہ اداس نہیں تھا کہ دلہن کو واپس اسی گھر لوٹنا تھا۔ البتہ ایک فطری افسردگی تھی جو گھر پہنچنے تک جلد ہی زائل ہوگئی۔


*****************************************


یاور کمرے میں آیا تو دلہن بنی ہانیہ پھولوں سے سجے بیڈ پر اس کی منتظر ملی۔

وہ متوازن انداز میں چلتا بیڈ پر اس کے پاس آکر بیٹھ گیا جس کی دھڑکنیں بری طرح منتشر ہو رہی تھیں اور نظریں اٹھانے کی بھی ہمت نہیں ہوئی تھی۔

”ایک بات کہنی ہے ہانیہ!“ وہ گلا کھنکھار کر گویا ہوا۔

”ہمم!“ بس اتنی آواز آئی۔

”سوری تمہیں یہ پہلے بتایا نہیں لیکن میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں، اس کا نام حُسن آراء ہے۔“ یاور کی بنا کسی لگی لپٹی کے کہی گئی یہ بات کسی بم کی مانند اس کے سر پر گری اور اس نے حیرت سے پلکیں اٹھائیں۔

”اس شادی کیلئے میں بس اسی لئے راضی ہوگیا کہ گھر والے بہت خوش تھے اور میں ان کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔“ وہ مزید بولا۔

”لیکن۔۔۔لیکن تم نے تو کہا تھا کہ تم نے کبھی۔۔۔کبھی اس نظر سے کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔۔تو یہ کیسے؟“ شاکڈ کے عالم میں وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ کیا بولے۔

”ہاں کیونکہ میں تمہارا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا لیکن اب خیال آیا کہ تم سے کچھ چھپانا بھی نہیں چاہیے، یہ شادی میں نے گھر والوں کی خوشی کیلئے کرلی اور اپنی خوشی کیلئے حُسن آراء سے دوسری شادی کرلوں گا، تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے نا!“ اس نے وضاحت کرتے ہوئے آخر میں سوال کیا جو ہکابکا سی اسے دیکھنے جا رہی تھی۔

”بتاؤ ہانیہ!“ اس نے دوبارہ پوچھا۔

”ابھی بتاتی۔۔۔ابھی بتاتی ہوں میں پاپا کو۔“ اگلے ہی پل وہ جیسے ہوش میں آتے ہوئے بیڈ سے اتری اور دروازے کی جانب بڑھی۔

”کہاں جا رہی ہو؟“ یاور نے فوری آکر اس کا بازو پکڑا۔

”پاپا کو بتانے کے ان کا فرمابردار بھتیجا دوسری شادی کی اجازت مانگ رہا ہے۔“ وہ برہم ہوگئی تھی۔

”یار ابھی مت بتاؤ۔“

”کیوں نہیں بتاؤں؟ اور تم مجھے پہلے یہ سب نہیں بتا سکتے تھے؟ میں خواہ مخواہ پاگلوں کی طرح تم سے شادی کی دعائیں کرتی رہی اور تم میسنے بنے رہے کہ میں تو کسی کو پسند ہی نہیں کرتا، مجھے تم سے محبت کرنی ہی نہیں چاہیے تھی، تم اس لائق ہی نہیں ہو، چھوڑو میرا ہاتھ!“ وہ غصے سے پاگل ہوتے ہوئے جو منہ میں آرہا تھا بولے جا رہی تھی۔ اور ساتھ ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نکل پڑے تھے۔

”ایک منٹ؟ محبت؟ تم نے مجھ سے محبت کب کی؟ تم تو ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی تھی۔“ اس کی بات پر یاور کھٹکا۔

”ہاں تو یہ کہاں لکھا ہے کہ جس سے لڑتے ہوں اس سے محبت نہیں کرسکتے؟ تم مجھے اچھے لگتے تھے مگر کبھی بتایا نہیں ورنہ تم خواہ مخواہ پھیل جاتے۔“ اس نے نروٹھےپن سے جواب دیا۔

”تو ابھی کیوں بتا دیا؟“ اب یاور کو بھی اس میں دلچسپی ہونے لگی۔

”کہاں بتایا؟ سوچا تھا کہ شادی کے بعد بہت اچھے سے تمہیں اپنی سب فیلینگز بتاؤں گی مگر اب میں کچھ نہیں بتانے والی۔“ اس کی کم عقلی پر اس وقت تالیاں ہونی چاہئے تھیں۔

”اب جا کر مرو اسی چڑیل کی بانہوں میں!“ وہ اسی طرح کہتی دوبارہ پلٹ کر دروازے کی جانب بڑھی۔

یاور نے اس کا چوڑیوں سے بھرا مہندی والا ہاتھ پکڑ کر اسے یکدم واپس اپنی طرف کھینچا تو وہ اس کے سینے سے آ لگی۔

”کیسے مروں؟ چڑیل بار بار اپنی بانہیں چھڑا کر دور بھاگ رہی ہے۔“ یاور نے اس کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے معنی خیزی سے کہا۔

”اب زیادہ نوٹنکی مت کرو، میں سب کو بتا دوں گی اور تمہاری شامت آجائے گی اس ڈر سے تم نے لائن بدل لی مگر اب میں تمہاری باتوں میں نہیں آنے والی۔“ ہانیہ نے اس کے سینے پر دباؤ ڈال کر اسے پرے دھکیلنا چاہا مگر کامیاب نہیں ہوئی۔

”خدا کی قسم میں تو بس تمہیں تنگ کرنے کیلئے مذاق کر رہا تھا کیونکہ شعر و شاعری مجھے آتی نہیں اور تم سے کوئی تو بات کرنی تھی، اسی لئے یہ کہہ دیا۔“ اس نے سادگی سے اصل بات بتائی۔ جسے سن کر ہانیہ نے بھی اپنی مزاحمت روک دی۔

”مگر جو کچھ تم نے کہا کیا واقعی وہ سچ ہے؟“ اس نے جاننا چاہا۔

”کیا کہا میں نے؟“ وہ انجان بن گئی۔

”یہ ہی کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور مجھ سے شادی کی دعائیں مانگتی تھی!“ اس نے یاد دلایا۔

”نہیں، جیسے تم نے مذاق کیا ویسے ہی میں بھی جھوٹ بول رہی تھی۔“ اس نے بےنیازی دکھائی۔

”اچھا! تو یہ آنسو بھی جھوٹ موٹ میں نکل آئے!“ یاور نے انگوٹھے سے اس کے گال پر بہتا آنسو صاف کیا۔ پہلی بار اس کا لمس محسوس کرتے ہی وہ مسرور ہوگئی۔

”دیکھو یاور! ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، اگر تم سچ میں کسی اور کو پسند کرتے ہو تو بتا دو، ہم یہ رشتہ ابھی ختم کردیں گے، میں تمہیں کوئی بلیم نہیں دوں گی اور تم جس سے چاہو شادی کرلینا۔“ اب وہ بھی سنجیدہ ہوگئی۔

”ابھی تو کہہ رہی تھی کہ مجھ سے شادی کی دعائیں مانگی تھیں اور اب اتنی آسانی سے مجھے کسی اور کا ہونے دو گی؟“ اس نے دلچسپی سے دونوں ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھے۔

”ہاں میں نے دعائیں مانگی تھیں مگر یہ نہیں کہ تم سے شادی ہوجائے، میں بس یہ مانگتی تھی کہ جو میرے حق میں اچھا ہے وہ ہوجائے اور ہماری شادی ہوگئی۔“ اس نے نظریں جھکا کر بولنا شروع کیا۔

”اور رہی بات تمہیں کسی اور کا ہونے دینے کی تو ہاں یہ تھوڑا تکلیف دہ ہوگا لیکن اگر تمہاری خوشی اس میں ہے تو یہ ہی سہی کہ محبت میں محبوب کی خوشی ہی سب کچھ ہوتی ہے، پھول کو ڈال سے توڑ کر مار دینا محبت نہیں ہے۔“ اس نے اسی طرح مزید کہا۔

اس کی یہ ٹھہری ہوئی باتیں اور جھکی ہوئی مصنوعی لمبی گھنی پلکیں اسے یاور کی نظر میں کتنا دلکش بنا رہی تھیں اسے اندازہ ہی نہیں تھا۔

”اب بتاؤ تمہارا کیا ارادہ ہے؟“ اس نے پلکیں اٹھا کر یاور کو دیکھا۔

”ہیں جو ارادے بتا دوں تم کو شرما ہی جاؤ گی تم!“ اس نے شریر معنی خیزی سے ایک گیت کا جملا کہا تو وہ واقعی اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے جھینپ کر نظریں جھکا گئی۔

”جانتی ہو میری ہمیشہ سے ایک سیدھی سمپل فلاسفی تھی کہ جو میری بیوی ہوگی اس سے ہی محبت کرلوں گا، عشق عاشقی کے چکروں میں پڑنے کا مجھے کبھی شوق ہی نہیں ہوا۔“ اب وہ اپنے خیالات بتانے لگا۔ جسے سن کر ہانیہ کو تسلی ہوئی کہ شکر وہ سب مذاق تھا۔

”لیکن میرے تو فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ مجھ سے سب سے زیادہ لڑنے والی میرے لئے ایسی فیلنگز رکھتی ہے، تو چلو آج سے کزن والے لڑائی جھگڑے کو وائنڈ اپ کرکے ہسبینڈ وائف والی دوستی کرتے ہیں۔“ یاور نے مصحافے کیلئے ہاتھ بڑھایا۔

”ہائے، میں ہوں یاور، تمہارا ہسبینڈ!“ اس نے باقاعدہ تعارف دیا تو وہ ہنس دی۔

”ہائے، میں مسز ہانیہ یاور ہوں، تمہاری وائف!“ ہانیہ کو بھلا کیا اعتراض ہوسکتا تھا؟ اس نے بھی فوراً اپنا مہندی والا ہاتھ پوری گرم جوشی سے ملايا۔

”آپ کی ہابی کیا ہے؟“

”اپنے ہسبینڈ سے محبت کرنا۔“

”گریٹ! میں بھی اپنی وائف سے محبت کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے آتی نہیں ہے، آپ سکھا دیں گی؟“ دونوں ہاتھ ابھی تک گرفت میں تھا۔

”شیور! کل سے سکھاتی ہوں۔“

اس کے شریر سے جواب پر یاور نے ہاتھ ملا کر چھوڑنے کے بجائے اچانک اسے قریب کھینچ لیا۔

”نیک کام میں دیری نہیں کرنی چاہئے۔“ اس نے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے ساتھ ہی رخسار پر بوسہ دیا۔

ہانیہ نے بھی پرکیفی میں مدہوش ہوتے ہوئے دونوں ہاتھ اس کے گرد لپیٹے تو جواباً یاور نے بھی اسے کس کر خود میں بھینچ لیا۔

اپنی حد میں پنپتی خاموش محبت کا بلآخر ایک پاکیزہ انجام ہوا تھا۔ اور یہ انجام ایک خوبصورت سفر کا آغاز تھا جہاں بہت سی نئی خوشیاں اور جذبات ان کے منتظر تھے۔


ہاتھ میں ہاتھ ان کا یوں آیا

جیسے لگ گئی ہو زندگی ہاتھ


میرے سپنوں کو مہکتا رکھنا

تھاما ہے تیرا ہاتھ بڑے مان کے ساتھ


انتخاب


*****************************************


ایک نیا دن نکل آیا تھا۔

احرار نے چند دنوں کیلئے ڈیوٹی سے اور بابک نے آفس سے آف لیا تھا تا کہ شادی پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی جا سکے۔

ناشتے کے بعد بابک احرار کے کمرے میں آیا تو احرار کا ہینڈ کیری اسے بیڈ پر کھلا ہوا ملا اور خود وہ الماری سے کپڑے نکال کر بیگ میں رکھ رہا تھا۔

”یہ کہاں جانے کی تیاری ہو رہی ہے؟“ بابک متعجب سا اس کی جانب آیا۔

”بتایا تھا نا بھیا میرا ٹرانسفر ہوگیا ہے ملتان، وہیں جانے کی تیاری ہے۔“ وہ الماری سے کپڑے لے کر بیڈ کی جانب بڑھا۔

”تو آج جا رہے ہو! یار آج میری شادی ہے۔“ بابک غصہ ہونے کے بجائے اداس ہوگیا۔

”نہیں ابھی نہیں جا رہا، کل آپ کے والیمے کے بعد رات کی ٹرین سے جاؤں گا، ابھی بس سامان پیک کرکے رکھ رہا ہوں تا کہ کل بس بیگ لے کر نکلنا ہو۔“ اس نے کپڑے بیگ میں رکھتے ہوئے وضاحت کی۔

”یعنی اینا رخصت ہوکر آئے گی اور تم رخصت ہوکر جاؤ گے۔“ اس نے خفا خفا نظروں سے احرار کو دیکھا۔

”مجبوری ہے۔“ وہ اس کی جانب دیکھ کر مسکرایا۔

”کیسی مجبوری؟“ بابک نے آنکھیں سکیڑیں۔

”یہ ہی کہ سینئرز کا آرڈر ٹال نہیں سکتا۔“ وہ دوبارہ بیگ کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے بات بدل گیا۔

”اگر تم اجازت دو تو دو منٹ میں تمہارا ٹرانسفر رکوا سکتا ہوں۔“ بابک نے چٹکی بجائی۔

”فی الحال اس کی ضرورت نہیں، آپ بتائیں کوئی کام تھا؟“ احرار نے بات بدل کر اس کی آمد کا مقصد پوچھا۔

”ہاں میں یہ کہنے آیا تھا کہ تھوڑی دیر تک ڈیکوریشن والا آرہا ہے تو میں اپنی نگرانی میں اس سے كمره ڈیکوریٹ کرواؤں گا، تم جا کر ذرا ایک بار کیٹرنگ کا جائزہ لے آؤ اور انہیں دوبارہ سب ریمائنڈ کروا دینا کہ کوئی کمی نہیں رہنی چاہئے۔“ وہ بھی اصل مدعے پر آیا۔

”ڈونٹ وری! میں ابھی چلا جاتا ہوں۔“ حسب توقع وہ فوراً رضا مند ہوگیا۔

بابک نے مسکرا کر اس کا کندھے تھپکا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ جب کہ احرار بھی بیگ کی زپ بند کرنے لگا۔

ابھی تک احرار کی اپلیکیشن پراسیس میں تھی مگر وہ جلد از جلد یہاں سے جا کر دوسرے شہر بسنا چاہتا تھا تا کہ بار بار دل کے زخموں پر نظروں سے نمک نہ گرے اور وہ خود پر سے ضبط کھو کر اپنے بھائی کو کوئی نقصان نہ پہنچا بیٹھے۔


*****************************************


افراتفری بھرا دن غروب ہوا اور پُررونق رات چلی آئی تھی۔

آج نورالعین کا نکاح اور ہانیہ کا ولیمہ تھا۔

دونوں تقریبات ایک ہی ہال میں تھیں اور جہاں یہ تقریب منقعد کی گئی تھی وہ ہال شان و شوکت میں اپنی مثال آپ تھا کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے۔

یہ ہال بابک نے بُک کیا تھا اور نہ نہ کرتے ہوئے بھی اس نے شادی کو اچھا خاصا شاندار بنا لیا تھا۔

پیازی کلر کی میکسی پہنے ہانیہ نفیس سے میک اپ اور جیولری کے ساتھ بہت پیاری لگ رہی تھی اور ڈارک گرے تھری پیس سوٹ میں یاور بھی کافی جاذب نظر لگ رہا تھا۔

دونوں اسٹیج پر کھڑے فوٹوگرافر کی ہدایات پر تصاویر بنوانے میں مصروف تھے جب کہ ابھی زیادہ مہمان بھی نہیں آئے تھے بس میزبان ہی موجود تھے۔

”ایک بات تو میں تم سے پوچھنا ہی بھول گیا تھا ہانیہ!“ یاور کیمرے میں دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔

”کون سی بات؟“ ہانیہ کی بھی نظریں کیمرے پر تھیں مگر دھیان یاور کی جانب تھا۔

”کیا تم اب بھی بطور میری مینیجر آفس جوائن کرو گی؟“

”اگر تم کہو تو کرلوں گی مگر اس بار میری سیلری ڈبل ہوگی کیونکہ اب میں تمہاری پرسنل اور پروفیشل دونوں لائفس مینیج کروں گی۔“ اس نے کیمرے میں مسکراتے ہوئے اپنی شرائط بتائیں۔

”نہیں پھر رہنے دو، اس سے بہتر میں سنگل سیلری پر اُسے ہی رکھ لوں گا۔“

”اُسے کسے؟“

”حُسن آراء کو!“ اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے چھیڑا۔

اور اگلے ہی پل ہانیہ اپنی کہنی اس کی پسلی میں مار چکی تھی جس کے باعث وہ ہنستے ہوئے بلبلا گیا۔

جب کہ کیمرہ مین دولہا دلہن کو ایسی حرکات کرتا دیکھ اپنی جگہ بھونچکا رہ گیا تھا۔

”پاگل عورت اب شوہر ہوں میں تمہارا، اب تم مار کٹائی سے باز آجاؤ۔“ یاور نے اپنی پسلی سہلاتے ہوئے ٹوکا۔

”ہاں تو شوہر پر کو بھی چاہیے کہ وہ مار کھانے والے کام نہ کرے۔“ وہ بھی ذرا نہیں گڑبڑائی۔

”اسی لئے دعاؤں میں مانگا تھا مجھے تا کہ تشدت کرو!“ اس نے شریر سا طنز کیا۔

”تمہیں یہ بات بتانی ہی نہیں چاہیے تھی۔“ اس نے بےنیازی دکھاتے ہوئے اپنی جھینپ مٹائی کہ کل سے اب تک یاور کئی مرتبہ اسے اس بات پر چھیڑ چکا تھا۔

”یاور!“ تب ہی ثمینہ پکارتی ہوئی اسٹیج کے قریب آئیں۔

”جی امی؟“ وہ متوجہ ہوا۔

”بیٹا ذرا بابک کو فون کرکے پوچھ لو کہ وہ لوگ کب تک پہنچیں گے؟ ابھی تھوڑی دیر میں مہمان آنا شروع ہوجائیں گے، ان سے کہنا ذرا جلدی گھر سے نکل جائیں۔“ انہوں نے فکرمندی سے ہدایات جاری کیں۔

”میں ابھی فون کرتا ہوں امی!“

”اور ہانیہ بیٹا ذرا تم بھی ایک نظر میک اپ روم میں نورالعین کو دیکھ آؤ کہ اسے کچھ چاہیے تو نہیں؟ وہ تمہارے ساتھ آرام دہ رہتی ہے۔“

”جی تائی میں جاتی ہوں۔“

ثمینہ کہہ کر وہاں سے چلی گئیں۔ ہانیہ بھی میکسی سنبھالتی میک اپ روم کی جانب بڑھ گئی جب کہ یاور پینٹ کی جیب سے موبائل نکالتا اسٹیج سے نیچے آیا جہاں کیمرہ مین ابھی تک حیران سا کھڑا تھا۔

”کچھ نہیں دوست، بس کزن میرج کے نقصانات ہیں۔“ یاور خود ہی اس کا کندھا تھپکتے ہوئے آگے بڑھتا اس کا تعجب مزید بڑھا گیا۔


*****************************************


ڈرائیور بابک کی گاڑی لے کر، اس وقت اس میں پیٹرول فل کروانے پمپ پر آیا تھا۔

جیسے ہی وہ پیٹرول فل کروا کر مین روڈ پر آیا تو سامنے چلتی ایک گاڑی نے اچانک بریک مارا جس کے باعث ڈرائیور نے بھی فوری بریک دبایا لیکن بر وقت گاڑی رکنے کے بجائے اگلی گاڑی سے لگ گئی جس پر خود ڈرائیور بھی ہکابکا رہ گیا کہ یہ کیا ہوا؟

تصادم پر اگلی گاڑی کا ڈرائیور برہمی کے عالم میں گاڑی سے نکل کر ڈرائیور کے پاس آیا جو خود بھی گاڑی سے اتر چکا تھا۔

”اندھا ہے کیا؟ دیکھ کر نہیں چلا سکتا؟“ حسب توقع وہ برسنے لگا تھا۔

”بھائی میری بات سنیں، میں نے بریک دبایا تھا لیکن شاید گاڑی کا بریک آئل ختم ہو رہا ہے اسی لئے بریک صحیح کام نہیں کر رہا، میں معذرت چاہتا ہوں۔“ اس نے جلدی سے وضاحت کی۔

”ہاں تو گاڑی ٹھیک کرواؤ نا، ابھی میری گاڑی پر ڈینٹ پڑ جاتا تو کون بھرتا اس کے پیسے؟“ اس کے غصے میں فرق نہ آیا۔

آس پاس کئی لوگ جمع ہوگئے تھے جنہوں نے معاملہ فہمی سے ان کا مسلہ حل کیا اور بلآخر ڈرائیور گاڑی لے کر دوبارہ گھر کی جانب چل پڑا کیونکہ بابک کی کالز آنا شروع ہوگئی تھیں۔


*****************************************


سفید رنگ کا کُرتا پاجامہ پہنے احرار ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا تیار ہو رہا تھا۔ اس کا جانے کا دل نہیں تھا مگر انکار کا بھی کوئی ٹھوس جواز اس کے پاس نہیں تھا تو دل مار کر تیار ہونے لگا۔

”یار احرار! حد ہوتی ہے، میں تیار ہو بھی گیا ہوں اور تم ابھی تک ایسے ہی کھڑے ہو۔“ بابک عجلت میں کہتا کمرے میں آیا تو

اس کی آواز پر وہ چونک کر خیالوں سے باہر آیا۔ اور اس کی جانب مڑا۔

بابک سیاہ شیروانی میں تیار تھا جس میں اس کا دراز قد مزید نمایاں ہوگیا تھا۔ شیو کو سلیقے سے تراشے وہ بلاشبہ بہت وجیہہ لگ رہا تھا۔

”جی بھیا بس دس منٹ دیں، میں تیار ہی ہوں۔“ اس نے کہہ کر کرتے کے اوپری بٹن بند کیے۔

”دس منٹ تو کیا پانچ منٹ بھی اور نہیں دے سکتا۔“ اس نے آگے بڑھ کر بیڈ پر سے احرار کا سفید شیروانی کوٹ اٹھایا۔

”وہ لوگ وہاں انتظار کر رہے ہیں، میں نے کہا تھا کہ ہم مغرب کے فوراً بعد آجائیں گے، جلدی ہاتھ اِدھر لاؤ!“ اس نے کوٹ اسے پہنانے کیلئے آگے کیا تو احرار نے اس کی آستین میں ہاتھ ڈال کر کوٹ پہنا۔

”ہم دونوں ساتھ ہی گھر لوٹ کر تیار ہونے کھڑے ہوئے تھے، میں تیار ہو بھی گیا اور تم پتا نہیں کیا کر رہے تھے؟“ وہ جلدی جلدی کوٹ کے بٹن لگانے لگا۔

”بھیا آپ رہنے دیں، میں خود کرلوں گا۔“ اس نے ہچکچاتے ہوئے ٹوکا۔

”ہاں دیکھا میں تم کتنی اسپیڈ سے تیار ہو رہے تھے، اور اسپیڈ بھی کچھوے کی۔“ اس نے ٹیبل پر سے گھڑی اٹھا کر اس کی کلائی میں پہنائی۔

بابک جلدی جلدی باتیں کرتے ہوئے احرار کو ایسے تیار کر رہا تھا جیسے کوئی باپ اپنے چھوٹے سے بیٹے کو تیار کرتا ہے۔ جبکہ وہ خاموشی سے کھڑا محبت پاش نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھتا گیا جو ہمیشہ اسے باپ جیسا معزز رہا تھا۔

”دیکھا! دو منٹ میں تیار کردیا میں نے تمہیں۔“ بابک نے آخر میں اس کے اوپر پرفیوم چھڑکا اور بوتل بند کرکے واپس رکھ دی۔

”چلو اب جلدی سے شوز پہن کر باہر آؤ، وہ تو خود پہن لو گے نا! یا وہ بھی میں پہناؤں؟“

”نہیں پہن لوں گا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلا کر باہر کی جانب بڑھا۔

”بھیا!“ احرار نے اچانک پکارا تو وہ رک کر پلٹا۔

احرار کچھ کہنے کے بجائے آگے بڑھ کر اس کے گلے لگ گیا۔

”آئی لو یو!“ احرار نے اس کے گرد دونوں بازو لپیٹ لئے۔

”آئی لو یو ٹو، پر بیٹا میں رخصت ہوکر نہیں جا رہا جو تم اتنے ایموشنل ہو رہے ہو، بلکہ ہمیں دلہن کو رخصت کرکے یہاں لانا ہے۔“ بابک نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

”جانتا ہوں، بس امی اور ڈیڈ کی یاد آرہی ہے، اور آپ میں مجھے ان دونوں کا عکس نظر آتا ہے۔“ اس نے یوں ہی اپنی نم ہوتی آنکھیں صاف کیں۔

”مام ڈیڈ تو مجھے بھی یاد آرہے ہیں، پر وہ یہاں موجود نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ ان کی دعائیں تو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں نا!“ بابک نے الگ ہوکر دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”دیکھو! پھر مجھے باتوں میں لگا دیا، چلو اب جلدی سے باہر آؤ، اور ہم دونوں میری گاڑی میں ایک ساتھ چلیں گے کیونکہ تمہاری گاڑی نورالعین کو پارلر سے پک کرتی ہال چلی گئی ہے، باقی جو ہمارے چند مہمان ہیں وہ ڈائریکٹ ہال پہنچ رہے ہیں، ٹھیک ہے، اب جلدی آؤ۔“ بابک نے اچانک موضوع بدل کر ہدایت دی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر جوتے پہننے لگا۔ جبکہ بابک اسی عجلت میں باہر نکل گیا۔

گرفتہ دل ہیں آج بہت تیرے دیوانے

خدا کرے تجھ سمیت یہ کوئی نہ پہچانے

انتخاب

 

Search Facebook

تصوير کی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔

Writer Faryal Khan

23 February 2023  · 

#یارِ_من_مسیحا

#قسط_نمبر_17 (آخری قسط)

#ازقلم_فریال_خان


پچھلی قسط کی جھلک 👇


”آئی لو یو!“ احرار نے اس کے گرد دونوں بازو لپیٹ لئے۔

”آئی لو یو ٹو، پر بیٹا میں رخصت ہوکر نہیں جا رہا جو تم اتنے ایموشنل ہو رہے ہو، بلکہ ہمیں دلہن کو رخصت کرکے یہاں لانا ہے۔“ بابک نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی۔

”جانتا ہوں، بس امی اور ڈیڈ کی یاد آرہی ہے، اور آپ میں مجھے ان دونوں کا عکس نظر آتا ہے۔“ اس نے یوں ہی اپنی نم ہوتی آنکھیں صاف کیں۔

”مام ڈیڈ تو مجھے بھی یاد آرہے ہیں، پر وہ یہاں موجود نہیں ہیں تو کیا ہوا؟ ان کی دعائیں تو ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں نا!“ بابک نے الگ ہوکر دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھاما تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

”دیکھو! پھر مجھے باتوں میں لگا دیا، چلو اب جلدی سے باہر آؤ۔“ بابک نے اچانک موضوع بدل کر ہدایت دی تو وہ اثبات میں سر ہلا کر جوتے پہننے لگا۔ جبکہ بابک اسی عجلت میں باہر نکل گیا۔


گرفتہ دل ہیں آج بہت تیرے دیوانے

خدا کرے تجھ سمیت یہ کوئی نہ پہچانے


اب آگے 👇


*****************************************


تھوڑی دیر بعد یہ لوگ ہال پہنچ گئے تھے جہاں یاور کی فیملی نے بطور لڑکی والے ان کا پُرتپاک استقبال کیا تھا اور کچھ دیر بعد مولوی صاحب کے آنے پر نکاح کی سنت ادا کی جانی تھی۔

فی الحال بابک، یاور اور ثمینہ کے ساتھ کھڑا کچھ بات چیت میں مصروف تھا جب کہ احرار یہاں وہاں نظر دوڑاتے ہوئے سارے انتظامات کا جائزہ لے رہا تھا کہ سب ٹھیک ہے؟ کہیں کچھ کمی تو نہیں رہ گئی۔

”انکل!“ تب ہی ایک چھوٹے بچے نے احرار کو پکارا۔

”جی بیٹا؟“

”آپ کو دلہن بلا رہی ہیں۔“ بچے نے ایک کونے پر اشارہ کیا تو احرار نے اس کے تعاقب میں دیکھا۔

ہانیہ میک اپ روم کی طرف جاتے راستے کے شروعاتی حصے میں کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی اور نظریں ملنے پر اسے پاس بلايا۔

وہ متعجب سا اس کی جانب چلا آیا۔

”کیا ہوا؟ سب خیر ہے؟“

”پتا نہیں، نورالعین تم سے کچھ بات کرنا چاہتی ہے۔“ ہانیہ کا انداز کافی سنجیدہ اور متفکر تھا۔

”کیا بات کرنی ہے؟“ اسے بھی تشویش ہوئی۔

”مجھے نہیں بتا رہی، بس کہہ رہی ہے تمہیں بلا دوں۔“ اس نے لاعلمی ظاہر کی تو اس کی فکر مزید بڑھ گئی۔

”وہ سامنے میک اپ روم ہے، جاؤ مل لو اس سے۔“ ہانیہ نے ایک سمت اشارہ کیا جہاں سناٹا ہو رہا تھا۔

وہ ذہن میں کئی سارے سوالات لے کر تشویش زدہ سا اس طرف بڑھا۔

میک اپ روم کے باہر رک کر دروازے پر دستک دی اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوا۔

اندر آتے ہی اس کی نظر ڈریسنگ ٹیبل کے پاس کھڑی نورالعین پر ٹھہری اور پھر پلٹنا بھول گئی۔

اس نے وہ ہی میرون فراک پہنی ہوئی تھی جو پوری سادی تھی بس کلائیوں تک آتی آستین پر گولڈن کام تھا اور گھردار دامن پر جو اس کی چھے انچ کی ہیل کے باوجود زمین کو چھو رہا تھا۔

گلے میں چپکا ہوا ہار پہن کر، کانوں میں جھمکے آویزاں کیے اس نے بیچ کی مانگ نکال کر بندیا لگائی ہوئی تھی اور لمبے سیاہ بال آبشار کی مانند اس کی پشت پر کھلے ہوئے تھے جن کے اوپر نیٹ کا میرون دوپٹہ سلیقے سے اس کے سر پر اوڑھایا ہوا تھا۔

مہارت سے کیے گئے میک اپ نے اس کے ایک ایک نقش کو نکھار دیا تھا جب کے ہونٹوں پر لگی سرخ لپ اسٹک اسے مزید جاذب نظر بنا رہی تھی۔

وہ آسمان سے اتری کوئی حسین و جمیل اپسرا نہیں تھی۔ مگر اس وقت اس کا یہ روپ کسی کے بھی ہوش اڑا سکتا تھا۔


بہاروں کی جان پر بن آئی ہے

آج دیکھا ہے انہیں سرخ لباس میں


”احرار!“ اس کے سرخ لب ہلے تو وہ بھی جیسے ہوش میں آیا۔

”جی۔۔۔۔جی آپ نے بلايا!“ اس نے جلدی سے اپنی گستاخ نظریں جھکالیں۔

”مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔“ وہ چند قدم اٹھا کر اس کی جانب آئی۔

”جی سن رہا ہوں، بولیں۔“ اس کی نظریں ہنوز نیچے تھیں۔

”مجھے بابک سے شادی نہیں کرنی۔“ اس کی بات نے احرار کو حیرت سے نظریں اٹھانے پر مجبور کردیا۔

”کیا! لیکن کیوں؟“ اس نے حیرانی کو الفاظ دیے۔

فوری طور پر کوئی جواب دینے کے بجائے وہ اپنے مہندی والے ہاتھوں کی انگلیاں مڑوڑتے ہوئے سفید سنگ مرمر کے فرش کو یوں دیکھنے لگی جیسے شدید اضطرب میں ہو!

”کیا بات ہے نورالعین؟ کوئی مسلہ ہے؟“ اس نے نرمی سے جاننا چاہا۔

لیکن پھر نورالعین نے جو کچھ بھی کہا اسے سن کر احرار جہاں وہ حیران ہوا وہیں اسے بالکل اچھا نہیں لگا کہ وہ تو ہمیشہ اسے خوش و پرسکون دیکھنا چاہتا تھا۔ اور اب وہ اس پریشان حالی میں تھی۔

”احرار!“ تب ہی یاور دروازے پر آیا جس کی جانب دونوں متوجہ ہوئے۔

”مولوی صاحب آگئے ہیں، اسٹیج پر آجاؤ بابک بلا رہا ہے۔“ اس نے اطلاع دی۔

احرار نے ایک نظر نورالعین کی جانب دیکھا جو مدد طلب بےبس نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی اور پھر بنا کچھ بولے وہاں سے چلا گیا جس کے پیچھے یاور بھی گیا۔

بابک اسٹیج پر کھڑا شاید اسی کا منتظر تھا جب کہ مولوی صاحب صوفے پر بیٹھ کر چند لوگوں کے ہمراہ نکاح نامہ پُر کر رہے تھے۔

”مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے بھیا۔“ احرار اسٹیج پر چڑھ کر، اس کے پاس رکا۔

”نکاح کے بعد کرلینا ساری ضروری باتیں۔“ ان دونوں کی باتیں کوئی اور نہیں سن پا رہا تھا۔

”یہ نکاح نہیں ہوگا۔“ اس نے اٹل انداز میں فیصلہ سنایا۔

”کیوں نہیں ہوگا؟“ وہ بھی کھٹکا۔

”کیونکہ نورالعین راضی نہیں ہے اور اس پر کوئی زبردستی نہیں کی جاسکتی۔“ اس نے وجہ بتائی۔

”کل تک تو وہ راضی تھی!“ بابک نے جیسے یاد دلایا۔

”کل تھی، آج نہیں ہے اسی لئے یہ نکاح نہیں ہوگا۔“ اس کے سنجیدہ انداز میں چٹانوں کی سی سختی تھی۔

بابک نے چند لمحے سخت نظروں سے اسے گھورا اور پھر بنا اس سے کوئی بات کیے اسٹیج سے اتر کر ایک طرف چلا گیا۔

احرار جانتا تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے؟ اسی لئے وہ بھی فوری اس کے پیچھے آیا۔

بابک سیدھا میک اپ روم میں پہنچا جہاں دلہن بنی نورالعین اضطرب کے عالم میں ٹہل رہی تھی مگر اسے دیکھ کر رک گئی۔

”تم اچانک شادی سے انکار کیوں کر رہی ہو؟“ بابک نے اس کے مقابل رک کر پوچھا جو سر اٹھائے گھبرائی ہوئی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

”بتاؤ اینا!“ وہ تھوڑا زور سے بولا کہ اسی وقت احرار نورالعین کے ڈھال بن کر اس کے بیچ میں آگیا اور وہ اس کے عقب میں چھپ گئی۔

”آپ اِس سے ایسے بات نہیں کر سکتے بھیا۔“ احرار نے مداخلت کی۔

”تم بیچ میں مت پڑو احرار، یہ میرا اور اینا کا معاملہ ہے۔“ بابک نے طیش کی عالم میں کہا۔

”نہیں، نورالعین سے جڑی ہر بات میرا بھی معاملہ ہے، اور اگر وہ کسی بات پر راضی نہیں ہے تو میں کسی کو بھی اس پر زبردستی نہیں کرنے دوں گا، آپ کو بھی نہیں۔“ آج احرار کا روپ ہی الگ تھا۔

سیاہ شیروانی پہنے بابک کی آنکھوں میں غصے کے ساتھ حیرت بھی تھی۔ جس کے مقابل کھڑے سفید شیروانی میں احرار کے ارادے بھی چٹانوں سے لگ رہے تھے جو میرون جوڑے میں سجی نورالعین کو اپنے پیچھے چھپائے اس کی ڈھال بنا کھڑا تھا۔

”کل تک تو تم بھی اس شادی سے بہت خوش تھے!“ بابک کا انداز چبھتا ہوا تھا۔

”ہاں کیونکہ نورالعین خوش تھی، لیکن اب اس نے اپنا فیصلہ بدل لیا ہے جس پر کوئی اسے کچھ نہیں کہے گا۔“ اس نے گڑبڑائے بنا وجہ بتائی۔

”تم اس لڑکی کیلئے میرے خلاف کھڑے ہوگئے ہو! اپنے بھائی کے خلاف!“ بابک نے حیرت سے انگلی اپنے سینے پر رکھی۔

”کیونکہ بات حق کی ہے، غلط ہمیشہ غلط ہی ہوتا ہے بھیا پھر چاہے وہ بھائی ہی کیوں نا ہو!“ اس نے احساس دلانا چاہا۔

جب کہ نورالعین گھبرائی ہوئی نظروں سے ان دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔

”غلط اب تک کیا ہی کہاں ہے میں نے؟ میں تو کوشش کر رہا تھا کہ پیار محبت سے سب طے پا جائے لیکن اب لگتا ہے کہ اسی پرانے روپ میں واپس آنا پڑے گا، شرافت کی زبان دنیا کو سمجھ نہیں آتی۔“ اس کا خطرناک انداز کوئی اچھا سگنل نہیں دے رہا تھا۔

بابک نے احرار کے کنارے سے جا کر نورالعین کا ہاتھ پکڑنا چاہا جس کی اس نے مزاحمت کی۔

”بھیا نہیں!“ احرار نے ٹوکتے ہوئے ایک مکا بابک کے منہ پر رسید کردیا جس سے وہ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا۔

اس عمل پر جہاں نورالعین حیران ہوئی وہیں احرار خود بھی ہکابکا رہ گیا کہ یہ اس نے کیا کردیا؟

بابک نے منہ پر سے ہاتھ ہٹا کر سر سیدھا کیا تو اس کے ہونٹ سے خون رستا نظر آیا۔ اس کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا تھ

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Yaar E Man Maseeha Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Yaar E Man Maseeha written by Faryal Khan . Yaar E Man Maseeha by Faryal Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages