Bin Mangay Anchahe Se Hum Novel By Urooj Naqvi Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Bin Mangay Anchahe Se Hum Novel By Urooj Naqvi Complete Romantic Novel |
Novel Name: Bin Mangay Anchahe Se Hum
Writer Name: Urooj Naqvi
Category: Complete Novel
ج خلافِ معمول وہ ہسپتال سے جلدی گھر لوٹا تھا۔ پھر بھی روز کے مقابل آج تھکن زیادہ تھی۔ وجہ صبح ۱۰ بجے سے شام 6 بجے تک جاری رہنے والی اوپن ہارٹ سرجری تھی۔
گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد دل ہی دل میں ماں کے ہاتھ کی بنی سٹرانگ چائے کا کپ پی کر تھکن اُتارنے کا ارادہ لیے وہ گھر میں داخل ہوا تو معمول سے ہٹ کر یہ پورشن سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا، جسے نظر انداز کرتے اسکا رخ اب سیڑھیوں سے اوپر اپنے پورشن کی جانب تھا.
اوپر پہنچ کر گھر کو اندھیرے میں غرق پایا تو سوچ کی لکیریں کشادہ پیشانی پر نمایاں ہوئی تھیں۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں خیال آیا تھا کہ چھوٹے پاپا چھوٹی ممّی اور مما تو صبح ہی گاؤں فوتگی میں گئے ہیں۔ پھر بھی ان تینوں کو تو گھر ہی ہونا چاہیے تھا۔ یقیناً مٹرگشتیاں کرنے نکلے ہونگے۔ سر جھٹک کر مبھم سی مسکراہٹ لیے آگے بڑھا ہی تھا کہ سسکیوں کی آواز نے بڑھتے قدموں میں بیڑیاں ڈالیں۔ یہ ادراک ہوتے ہی کہ یہ آواز اُسکی بہن کی ہے دل مانو کسی نے مٹھی میں جکڑلیا تھا۔ آواز کے تعاقب میں وہ لاؤنج تک آیا اور اندھیرے گھپ میں اندازے سے دیوار پر ہاتھ مار کر لائٹس آن کی تو وہ سامنے ہی کاوچ پر گھٹنوں میں منہ دیے ہچکیوں سسکیوں سے رو رہی تھی۔
"زری میری جان کیا ہوا ہے؟"
چند قدموں کا فاصلہ تہہ کرتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ تھام کر کہا تھا۔۔۔
وہ جو پچھلے ایک گھنٹے سے سینے میں ابھرتی تکلیف کے باعث زار و قطار روتے ہوئے دِل کا غم آنکھوں کے ذریعے خارج کر رہی تھی باپ جیسی شفقت دینے والے بھائی کو سامنے پایا تو بلک کر گلے سے لگی تھی۔۔۔۔
"مجھے وہ چاہیے بھائی۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ چاہیے مجھے!! اُسے میرا بنا دیں بھائی!! وہ چھین لیگی اُسے ہمیشہ کے لیے مجھ سے۔۔۔۔ بھائی آپکو خدا کا واسطہ ہے اُسے میرا بنا دیں، میں نہیں دیکھ سکتی اُسے کسی اور کے ساتھ میرا دل پھٹ جائے گا!! بھائی خدارا کچھ کریں۔۔۔"
بھائی کے سینے سے لگی وہ اپنا غم بیان کر رہی تھی۔ اس بھائی سے جو زبان پر لانے سے پہلے ہر چیز اس کے قدموں میں لا رکھتا تھا۔ آج بھی وہ کچھ مانگ رہی تھی مگر اس میں فرق تھا۔۔۔۔۔زمین آسمان کا فرق۔ آج فرمائش کسی چیز کی نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسان کی ہوئی تھی۔
"کون چاہیے میری جان کو؟؟ کس کی بات کر رہی ہو زری؟؟"
اور جو نام اُسکی زبان سے ادا ہوا تھا سامنے موجود شخص کو سانپ سونگھا گیا تھا۔
وہ کیا سوچنے لگی تھی؟؟ دل میں اطمینان بھی اُترا تھا کہ جس شخص کی چاہ اُسنے کی ہے وہ اُسکے شایانِ شان ہی ہے۔ اور دوسری جانب دھڑکا بھی لگا تھا کہیں وہ کسی اور میں دلچسپی رکھتا ہوا تو؟؟
ایک طرف بہن تھی تو دوسری جانب موجود شخص بھی جان سے زیادہ عزیز تھا۔ اب جو کرنا تھا سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔
♡---------------------------------------------♡
شہد رنگ گھنگریالے بالوں کا ڈھیلا سے جوڑا باندھے لیمن کلر کی گھٹنوں سے ذرا اونچی پرنٹڈ انگھرکا شرٹ کے اوپر سفید لیب کوٹ کے ساتھ بلیو جینز پہنے جھیل جیسی گہری نیلی آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے پیروں میں نیلے کینوس پہنے عجلت سے سیڑھیاں اُترتی وہ کوریڈور میں پہنچی تو چند قدموں کے فاصلے پر مطلوبہ شخص کو پایا۔
"پاپا۔۔۔۔ پاپا سنیں نا۔"
جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے مرتضیٰ رند بلوچ کو جا لیا تھا۔
"يس ڈاکٹر ارمش بلوچ ۔فرمائیے؟"
لائٹ پرپل شرٹ کے ساتھ بلیک پینٹ پہنے گلے میں اسٹیتھوسکاپ ڈالے وہ اس عمر میں بھی کافی حد تک جاذب نظر لگ رہے تھے۔
"مجھے بات کرنی ہے آپ سے۔۔۔"
جواب فوری آیا تھا۔
"معذرت کے ساتھ۔ میں ابھی بزی ہوں۔"
سنجیدہ لہجہ مقابل کو غصہ دلا گیا تھا۔
"اتنے بھی کوئی بزی نہیں ہیں۔ او پی ڈی ۱۵ منٹ بعد بھی شروع کی جا سکتی ہے۔"
قدم رکے تھے ساتھ ہی ساتھ گال بھی پھولے تھے جو اس بات کی نشانی تھے کہ اب بھی بات نہ سنی تو بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔ ( ہاں جی بھاری قیمت مطلب عجیب و غریب فرمائشیں پوری کرنی پڑیں گی۔ جسکا ایک ہلکا سا نمونہ شہر کے مشہور کارڈیالوجسٹ کو ٹھیلے پر کھڑے ہو کر اپنی بیٹی کے ساتھ چاٹ کھانا تھا۔)
آواز میں ناراضگی کے عنصر کا اندازہ ہوتے ہی مصطفیٰ بلوچ کے قدم بھی تھمے تھے۔
"اوکے ٹھیک ہے۔ پر پہلے یہ بتائیے کہ بات کس نے کرنی ہے؟ میری لڈو نے کہ ڈاکٹر ارمش نے؟"
دونوں ہاتھ پینٹ کی پوکٹس میں ڈالے لہجے میں نرمی گھولے سوال کیا تھا۔
"آپکی بیٹی ڈاکٹر ارمشِ بلوچ نے۔"
انداز ابھی بھی خفا خفا تھا۔
"میری لڈو کا حکم سر انکھوں پر۔"
ایک ہاتھ سینے پر رکھے سر جھکائے لبوں پر مبھم سی مسکراہٹ لیے وہ ارمش کو بھی مسکرانے پر مجبور کر چکے تھے۔
"ہاں جی اب بتاؤ جلدی سے کیا کہنا ہے؟"
چند لمحوں بعد وہ اس وقت ڈاکٹر مرتضیٰ بلوچ کے روم میں موجود تھے۔
"پاپا مجھے ضمان بھائی جان کے انڈر کام نہیں کرنا۔ آپ ایسا کریں کہ میری ڈیوٹی عالی کے ساتھ لگا دیں پلیز۔۔۔۔"
تمام تر بیچارگی چہرے پر سمائے منہ بسور کر فرمائش کی تھی جسے سنتے ہی مقابل کے چہرے پر سنجیدگی اُبھری تھی۔
"وجہ؟"
یک لفظی سوال آیا تھا۔
"پاپا وہ میرے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔۔۔ بغیر غلطی کے بھی ڈانٹتے ہیں۔۔۔۔اور آپ جانتے ہیں کہ میں اپنے پروفیشن کے معاملے میں بہت سنجیدہ ہوں۔ اگر وہ حق با جانب ہوتے تو میں ہر گز آپ سے نہ کہتی۔ آپ جانتے ہی ہیں انکو مجھ سے کوئی ذاتی بیر ہے جو وہ گھر پہ تو ظاہر نہیں کر پاتے اسی لیے ساری کثر وہ ہسپتال میں ہی نکال لیتے ہیں۔"
لمبی تقریر کے بعد جب خاموش ہوئی تو چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری تھا۔
"ضمان اگر ڈانٹتا ہے تو یقیناً آپکی بھلائی کے لیئے ہی ڈانٹتا ہوگا میرا بچہ اور رہی بات ذاتی بیر کی تو کتنی بار اور سمجھانا پڑے گا کہ ایسا کُچھ نہیں ہے۔ اس کے متعلق منفی سوچ کب ختم ہونی ہے آپکی؟ ٹریننگ آپ ضمان کے انڈر ہی کریں گی، عالی کے ساتھ گھر میں جو دنگل بنا رہتا ہے وہی کافی ہے۔ ہسپتال کو ہسپتال ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔۔۔ ناؤ یو مے لیو۔ میرے پیشنٹس انتظار کر رہے ہیں۔"
دو ٹوک سنجیدہ لہجے میں باور کروا دیا تھا کہ ضمان کو ہی برداشت کرنا ہے۔ آخر میں باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے انٹرکام تھام کر پیشنٹ بھجنے کا کہتے ہوئے وہ ارمش کو ایک اور گھوری سے نواز چکے تھے،جسکا مطلب تھا کہ یہ والی دال نہیں گلنی جسے سمجھتے ہوئے وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔"
♡---------------------------------------------♡
"چلی گئیں ڈاکٹر ثمرین۔۔۔ اب آپ بولنے کی زحمت کر سکتی ہیں۔ کیوں بارہ بجائے ہوئے ہیں منہ پر؟"
الیکٹرک کیٹل سے کافی دو مخصوص کپس میں نکالنے کے بعد ارمش کے سامنے رکھتے ہوۓ مخاطب ہوا تھا۔
وہ جو کب سے انتظار میں تھی کہ باقی کے ڈاکٹرز یہاں سے جائیں تا کہ وہ عالی سے بات کر سکے اپنی سوچوں میں اس قدر غرق ہوئی کہ ریسٹ روم کے خالی ہونے کا بھی اندازہ نہ ہوا۔ عالی کی آواز پر چونکی تھی ارد گرد نگاہ دوڑائی تو واقعی سب جا چکے تھے۔
"میں نے پاپا سے بات کی تھی"
منہ کے زاویے بگڑے تھے، کافی کا کپ اٹھاتی وہ عالی سے مخاطب ہوئی جسنے ارمش کی بات سنتے ہوئے با مشکل چہرے پر ابھرنے والی مسکراہٹ دبائی تھی۔
"اووو۔۔۔۔۔ پھر ؟ کیا کہا پاپا نے؟"
جواب یوں دیا تھا جیسے خود کو کوئی اندازہ ہی نہ ہو۔
"کیا کہنا تھا۔۔ صاف منع کرنے کے بعد تمیزدار الفاظ میں دفع ہوجاؤ کہہ دیا۔۔۔ اُنہیں لگتا ہے کہ ہم دونوں ساتھ مل کر ہسپتال کو کبڈی کا میدان بنا دیں گے۔ ہم دونوں ساتھ کچھ سیکھ ہی نہیں سکتے اور تو اور یہ بھی لگتا ہے کہ ہٹلر کے جانشین مجھے میری غلطیوں پر ہی ڈانٹتے ہیں۔"
صدمہ عظیم تھا منہ بسور بسور کر اپنے دکھڑے عالی کے گوش گذار کر رہی تھی جو با مشکل اپنے چہرے کے تاثرات سنجیدہ رکھنے کی کوشش میں بے حال ہو رہا تھا۔ اگر اس موقع پر غلطی سے مسکرا بھی دیتا تو سامنے موجود لڑکی اسکو گنجا کرنے میں وقت نہ لگاتی۔
"چچوچو۔۔۔ یہ تو غلط کیا پاپا نے۔ خیر اب کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔۔۔"
انداز ہمدردی لیئے تھا پر یہ تو عالی کے بعد اللہ ہی جانتا تھا کہ ارمش کی حالت دیکھتے ہوئے اپنے قہقہہ کا گلہ اُسنے کس مصیبت سے گھونٹا تھا۔
"میری تو قسمت ہی خراب ہے!! خیر وہ سب چھوڑو ابھی تمہاری شفٹ شروع ہونے میں ۱۵ منٹ ہیں جلدی سے اٹھو اور مجھے گھر ڈراپ کر کے آؤ پاپا کی او پی ڈی ہے وہ لیٹ ہوجائیں گے اور میرا کوئی موڈ نہیں ہے ضمان بھائی جان کے ساتھ جانے کا پورے راستے سانس روک کر بیٹھنا پڑتا ہے کہ کہیں ہٹلر کے جانشین کو میری آواز سے بھی مسئلہ ن۔۔۔۔۔- "
"بھا۔۔بھائی جان کافی پئیں گے؟"
وہ جو ہاتھ چلا چلا کہ ضمان کے فضائل بیان کر رہی تھی عالی کی آواز نے قینچی کی طرح چلتی زبان کو بریک لگائی تھی۔ سانس رکنا کیا ہوتا ہے اسکا ادراک اصل معنی میں اب ہوا تھا۔
♡-----------------------------------------------------♡
پارکنگ لاٹ میں تیزی سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھتے قدم کسی سوچ کے تحت رکے تھے۔ جیب میں رکھا موبائل نکال کر نمبر ڈائل کرتے ہوئے فون کان سے لگایا تھا۔
"چھوٹے پاپا ارمش واپس چلی گئی ہے؟"
کال ریسیو ہوتے ہی سوال کیا تھا۔
دوسری جانب سے جواب سن کر الوداعی کلمات ادا کرنے کے بعد رخ واپس ہسپتال کی جانب کیا۔
ہفتے کے اُن دنوں جب مصطفیٰ رند بلوچ کی او پی ڈی ہوا کرتی تھی تو ارمش کی واپسی کی ذمےداری ضمان کی تھی۔
" پتہ ہوتا ہے محترمہ کو کہ میرے ساتھ واپس جانا ہے پر مجال ہے جو خود آجائے۔"
ابھی وہ یہ سوچتا ہوا ریسٹ روم کا دروازہ کھول ہی رہا تھا کہ ارمش کی آواز نے قدم روکے تھے۔ وہ کسی کو بتا رہی تھی کہ پاپا نے کہا ہے کہ اُسے ہٹلر کے جانشین اسی غلطیوں پر ہی ڈانٹتے ہیں۔ یقیناً عالی کے سامنے ہی دکھڑے رو رہی ہوگی۔ ایک خیال آ کر گزرا تھا۔
"وہ چھین لے گی اُسے مجھ سے۔۔۔۔۔"
آنسوئوں سے لبریز دو بھوری آنکھیں ذہن کے پردے پر لہرائی تھیں۔
اپنی سوچ جھٹک کر وہ اندر گیا تو اپنے متعلق مزید گل فشانیاں سننے کو ملی تھیں۔یہ وہی لڑکی تھی جسکے ہونٹوں پر اس کے سامنے گلو لگ جایا کرتا تھا۔
عالی کی آواز پر سامنے والی کی زبان کو بریک لگنے کے ساتھ چہرے کا رنگ بھی فق ہوا تھا۔
"اللّہ جی پلیز بچا لیں۔"
ارمش کے دل نے شدت سے دعا کی تھی۔
اللّٰہ کا نام لے کر پیچھے مڑی تو ضمان سنجیدہ تاثرات لیے اسے ہی گھور رہا تھا۔ رہی سہی ہمت سامنے والے کا چہرہ دیکھ کر جواب دے چکی تھی۔ کھڑے رہنے کی خاطر عالی کا ہاتھ تھام کر سہارا لیا تھا جسے مقابل نے شدت سے محسوس کیا تھا۔
"تین منٹ میں گیٹ پر نظر آؤ۔۔۔۔ نا میں انتظار کرو گا اور نا ہی عالی ڈراپ کرے گا۔"
اپنی بات کہہ کر وہ جا چکا تھا۔
جب کہ ارمش جلدی جلدی ہاتھ چلاتے ہوئے ٹیبل پر بکھری اپنی دو تین چیزیں سمٹنے لگی۔
"ریلیکس مش۔۔ کُچھ نہیں کہیں گے۔ اگر کہنا ہوتا تو ابھی ہی کہہ چکے ہوتے۔"
عالی نے ہمت بڑھائی تھی جسے مکمل نظرانداز کرتی وہ بھاگنے کے سے انداز میں باہر نکلی تھی۔ کوئی بعید نہیں تھی کہ وہ واقعی اسے چھوڑ جاتا اور پھر اسے پاپا کے فری ہونے کے انتظار میں 2 گھنٹے مزید ہسپتال میں رکنا پڑتا۔
♡-----------------------------------------------------♡
آلتو جلالتو کا ورد کرتی تقریباً بھاگتی ہوئی وہ ہسپتال کے مین گیٹ سے باہر نکلی تھی، سد شکر کے گاڑی پہنچنے سے پہلے وہ خود آگئی تھی۔
بلیک سیوک سامنے رکی تو گہری سانس کھینچ کر اندر بیٹھی۔ لیکچر سننے کے لئے مکمل طور پر خود کو تیار وہ پہلے ہی کر چکی تھی پر مسئلہ یہ تھا کہ آج وہ کُچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔
"زیادہ خوش مت ہو ارمش طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے یہ"
دل ہی دل میں خود سے مخاطب عادت کے مطابق انگلیاں چٹخانے والی ہی تھی کہ ایک دم آپس میں جڑے ہاتھوں کو الگ کیا تھا۔
"افّف۔۔۔ بال بال بچی۔ کیا ہوگیا ہے ارمش کیوں کہہ رہی ہو کہ آ بیل مجھے مار نہ مارتا ہو تب بھی مار"
ضمان کو سخت چڑ تھی فنگر کریکنگ سے اکثر ہی ارمش اپنی اس عادت کی بنا پر اُسکی گھوریوں کا شکار رہا کرتی تھی۔
"جب تم جانتی ہو کہ میرے ساتھ ہی واپس جانا ہے تو کیوں ہر بار عالی کے سر لگتی ہو؟!
وہ جتنا کر دیتا ہے تمہارے لیے کیا اتنا کافی نہیں؟
اُسکی اپنی بھی کوئی زندگی ہے، اُسکے سر پے سوار رہنا بند کردو۔
تمہاری زمیداری اسکا فرض نہیں ہے اگر کسی رشتے کی مروت میں وہ خیال رکھتا بھی ہے تو احسان مند بنو نا کہ مزید بوجھ۔ ۔۔۔۔۔"
ہر بار کی طرح آج پھر ضمان کے الفاظ کے نشتر سامنے موجود موم کی گڑیا کے دل میں گڑھے تھے۔
ہر بار اپنے الفاظ سے وہ یہ ثابت کرنا نہیں بھولتا تھا کہ وہ بوجھ ہے اُن لوگوں پر جنکی کفالت میں بے۔ نیلے نین کٹورے آنسوؤں سے لبریز ہوئے ساتھ ہی گاڑی بھی پورچ میں رکی تھی۔
"میں عالی کی زمیداری ہوں، بلکل اُسی طرح جس طرح زرلش بجّو آپکی زمیداری ہیں۔ بھائی ہے وہ میرا جس طرح آپ بجّو کے ہیں۔۔۔۔ آئندہ کبھی آپ نے مجھے یہ سب کہا تو میں پاپا کو بتا دونگی۔"
دھیمے لہجے میں ٹھہر ٹھہر کر کہتے نہ جانے کہاں سے وہ اتنی ہمت لے آئی تھی۔
بے ضرر کیڑے چیونٹی کو بھی بیجا دبایا جائے تو بار بڑھنے پر اپنے بچاؤ کے لیے کاٹھ اٹھتی ہے پھر وہ تو انسان تھی۔۔۔ جیتی جاگتی انسان، آخر کب تک اور کیوں دبتی۔
اپنی بات کہنے کے بعد وہ مڑی تھی دروازہ کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ضمان نے کوہنی تھام کر اپنی جانب رخ پھیرا۔ وہ جو اس جھٹکے کے لئے تیار نہیں تھی سوکھی ڈالی کی مانند ضمان کے چٹانی سینے سے ٹکرائی تھی بال جو پہلے ہی ڈھیلے ہو چکے تھے اب مکمل طور پر کھل کر کمر پے بکھر گئے تھے۔
"نہیں ہے تمہاری جگہ زرلش جیسی!! اپنے آپ کو اس جتنی اہمیت دینا بند کرو، اپنی اوقات مت بھولو ارمش مگسی بلوچ!! آئندہ میرے سامنے زبان چلائی تو گدی سے کھینچ لوں گا۔۔۔۔۔سمجھیں؟!؟!"
لہورنگ آنکھیں ارمش کے چہرے پر گاڑھے زہر خند لہجے سے گھایل کرتا وہ گاڑی سے اتر چُکا تھا۔
وہ جو 16 سال میں پہلی مرتبہ اپنی صفائی میں بولی تھی ضمان کے غصے کو ایک بار پھر سر جھکائے جھیل چکی تھی۔
ضمان کے گاڑی سے نکلنے کے بعد بیدردی سے آنکھیں رگڑتی اپنے بکھرے وجود کو اکھٹا کرتی خود بھی اس کے پیچھے چل پڑی۔
♡-----------------------------------------------♡
ضمان اور ارمش دونوں آگے پیچھے ہی پورچ سے باہر نکلے تھے۔ اپنے کمرے کی کھڑکی پر کھڑی زرلش نے یہ منظر دیکھا تو ذہن میں جھماکا ہوا تھا۔
ایسا اُسنے پہلے کیوں نہیں سوچا؟! اپنے خیال کا اظہار بھائی سے کرنے کا عزم لیئے قدم باہر لاؤنج کی جانب بڑھائے جہاں سے اب ضمان اور رافیعہ بیگم کی بات چیت کی آوازیں آ رہیں تھیں۔
"اسلام و علیکم۔۔۔۔۔"
نیوی بلیو ٹراؤزر پر وائٹ ٹی-شرٹ کے ساتھ سادہ سی دو پٹی چپل پہنے کندھوں کو چھوتے ریشمی سیدھے بال کھلے چھوڑے ہوئے تھے۔
سلام کرنے کے بعد بھائی کے ہمراہ ڈبل سیٹر صوفے پر جا بیٹھی ۔
"وعلیکم اسلام۔۔۔۔۔ کیا حال ہیں میرے بےبی کے؟"
سر پر ہاتھ رکھ کر حال احوال پوچھا تھا۔
کل شام کی نسبت آج زرلش کا موڈ کافی حد تک بہتر تھا۔ ضمان یہ بات محسوس کرنے کے بعد مطمئن ہوگیا تھا۔ کُچھ لمحے قبل ارمش کے ساتھ ہوئی تلخ کلامی کا شبہ تک لہجے سے مخفی تھا۔
"ٹھیک ہوں۔۔ کافی چلے گی؟"
ضمان کے ہسپتال سے واپسی پر روز ہی دونوں ساتھ چائے یا کافی پیا کرتے تھے۔
"کبھی ماں سے بھی پوچھ لیا کریں محترمہ۔۔۔۔"
ماں کی جانب سے میٹھا سا طنز آیا ۔
"ماں بھی تو بیٹی کے بغیر اپنی بہنا کے ساتھ اکیلے اکیلے شام کی چائے پیتی ہیں۔ مما بھی تو یاد نہیں کرتیں کہ ایک عدد بیٹی اوپر موجود ہے اس سے بھی پوچھ لوں۔"
ماں کے ہی لب و لہجے میں کہتی وہ سب کو مسکرانے پر مجبور کرچکی تھی۔ اگر یوں کہا جائے کہ اُسی کے دم سے اس گھر کے باسیوں کے لب مسکراتے تھے تو کچھ غلط بھی نہ ہوگا۔
خاص طور پر ضمان کی جان زرلش نامی چڑیا میں ہی بستی تھی۔ چھوٹی عمر میں باپ کی وفات کے بعد زرلش کے لئے ہر قدم پر تناور سایہ دار درخت ثابت ہوا تھا۔ مصطفٰی رند بھی بیٹی کو شاید اس قدر محبت نہ دے پاتے جتنی ضمان نے دی تھی۔
شفیق باپ ، ہمراز بھائی اور سچا دوست ایک ہی شخص میں زرلش کو تینوں رشتے میسر تھے۔
"اچھا بابا۔۔۔۔ یہ طنز گیم بعد میں کنٹینیو کرنا۔ ابھی جاؤ اور کڑک سی چائے کے ساتھ کُچھ کھانے کے لئے بھی لے کر آؤ۔ میں کمرے میں ہوں۔"
وہ جو مسکراتے ہوئے ماں بہن کی باتیں سن رہا تھا صوفے کی پشت سے کوٹ اٹھاتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
"ابھی لائی بس پانچ منٹ۔"
انگلیوں سے پانچ کا اشاره کرتی وہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ جب کہ رافیعہ بیگم نے دِل ہی دل میں اپنے دونوں جگر گوشوں کی خوشیوں کی دعا مانگی تھی جن کی موجودگی چاہنے والے شریکِ حیات کی جدائی کے بعد جینے کی وجہ بنی تھی۔
♡----------------------------------------------♡
وہ جب گھر میں داخل ہوئی تو لاؤنج میں خاموشی کا ڈیرہ تھا۔ یقیناً مبشرہ بیگم اس وقت اپنے کمرے میں تھیں۔ 1 لمحے کو خیال آیا کہ اُن سے ملنے کے بعد ہی کمرے میں جائے پھر یہ سوچ کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی کہ روئی روئی آنکھیں دیکھ کر یقیناً سوال و جواب کا طویل سلسلہ شروع ہوجائے گا اور پھر اُنہیں مطمئن کرنا ایک الگ محاذ ہوگا۔سینے پر بازو باندھے وہ یک ٹک سامنے موجود فریم کو گھور رہی تھی۔
ڈیڑھ سال کی تھی جب ماں نے ٹی بی سے جاری جنگ میں گھٹنے ٹیک دئیے ۔ ممتا کا لمس تو صحیح سے یاد بھی نہ تھا۔ہاں اک شفیق باپ كا سایہ تھا جنہوں نے زوجہ کی وفات کے بعد لوگوں کے لاکھ اسرار پر بھی سوتیلی ماں جیسے رشتے سے بچائے ماں بن کر اپنے پروں تلے نو سال تک ہر سرد و گرم سے ارمش کو بچائے رکھا تھا۔ نو سال میں شاید ہی کبھی کوئی ایسا وقت آیا ہوگا جب اسنے اپنی ماں کو یاد کیا ہو باپ نے کبھی محسوس ہی ہونے نہ دیا تھا کہ وہ مسکین ہے اور پھر ایک دن ایسا آیا تھا جسنے اسکی ہنستی کھیلتی زندگی اُجاڑ دی۔ آفس سے واپسی پر جب ٹریفک حادثہ کا شکار ہوتے وہ بھی اسے اس بے رحم دنیا کی ٹھوکروں پر چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے۔ وقت بدلہ تھا با مُشکِل چالیس دن ہی گذرے تھے کہ چاہنے والی چاچی پر وہ نو برس کی معصوم کلی بوجھ بن گئی۔
چچی کا بدلتا ہوا رویہ دیکھتے ہوئے دادی نے فیصلہ کیا کہ اپنی بھانجی یعنی کہ ارمش کی چھوٹی خالہ جنکو بیٹی کا بڑا ارمان تھا اور اب بھی ارمش کی ذمےداری اٹھانے کے لیے کئی مرتبہ ان سے التجا کر چکی تھیں کو ہی اسے سونپ دیا جائے۔
اور پھر ایک دن مبشرہ بیگم اور مصطفیٰ صاحب کے ہمراہ اسے یہاں بھیج دیا گیا۔ اِس کی آمد پر سب خوش تھے ضمان اور عالی کی صورت اسے بڑے بھائی مل گئے تھے اب وہ یہاں عرشمان (چچا زاد بھائی) کو بھی یاد نہیں کرتی تھی۔ ان سب رشتوں کے ساتھ ایک اور رشتہ بھی اسے ملا تھا جو وہاں حویلی میں بھی اس کے پاس نہ تھا یہاں ارمش کو ایک بہن ملی تھی جو خود بھی کمسن ہی تھی۔ ارمش سے چار سال ہی بڑی تھی پر خیال اس طرح رکھتی تھی مانو ارمش کی ماں ہو۔ وہ اکثر عالی سے جھگڑ پڑتی جو مذاق مذاق میں بھی اگر کبھی ارمش کو تنگ کر دیتا تو۔ پھر آہستہ آہستہ ضمان اور زرلش کا رویہ تبدیل ہوتا چلا گیا۔ ضمان تو ہر وقت ہی اس سے چڑنے لگا تھا جب کہ زرلش کا جب دِل چاہتا ساتھ لگاتی جب دل چاہتا دھتکار دیتی۔
شروعات میں تو ارمش گھنٹوں اُن کے رویے پر آنسو بہایا کرتی پھر جیسے جیسے بڑی ہوتی گئی اُسنے اپنے دِل کو یہ کہہ کر تسلّی دے دی کہ یقیناً دونوں بہن بھائی کے ساتھ نفسیاتی مسائل ہیں۔
وقت کا کام ہے گزرنا سے سو گزرتا گیا آج یہاں آئے اسے سولہ سال بیت چکے تھے۔ اس گھر میں اسکی جگہ وہی تھی جو ضمان زرلش یا عالی کی تھی۔ مما پاپا کے تو ہاتھوں کا چھالا تھی وہ اور ایک تھا عالی جو اس تمام عرصے میں سائے کی طرح اسکے ساتھ رہا کبھی باڈی گارڈ کبھی ڈرائیور کبھی کک اور وقت پڑنے پر اکثر بہن کا کردار بھی نبھا دیتا تھا۔ ارمش مطمئن تھی اپنی زندگی سے اگر اس سے ماں باپ چھین لیے گئے تھے تو کیا ہوا اُنکے بدلے خدا نے اسے ان سب سے نوازا تھا۔ وہ نہ شکری نہیں تھی۔ ہاں پر ضمان کا رویہ اکثر اسکے اعصاب چٹخا دیتا تھا الفاظ کے جو نشتر وہ اس پر چلاتا تھا وہ اس نازک وجود کو چھلنی کر دینے کے لئے کافی تھے۔ نہ جانے کون سے بیر پالے ہوئے تھے اسنے ارمش سے۔
دروازے پر ہونے والی دستک نے اسے حقیقی دنیا کا راستہ دکھایا تھا۔
"آجائیں۔" انکھوں میں جمع ہونے والے آنسو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتی وہ آنے والے کی جانب متوجہ ہو گئی ۔
♡-----------------------------------------------♡
"ہاں جی محترمہ۔۔۔۔۔کیسا رہا آپکا دن؟"
بلیک سینڈو میں سے کسرتی بازو جھانک رہے تھے۔ کُچھ سنہری کُچھ بھوری داڑھی مونچھوں پے اب بھی پانی کی بوندیں موجود تھیں۔ ٹاول کی مدد سے بال رگڑتا ہوا ڈریسنگ کی جانب مڑا اور ساتھ ہی میگزین پر نظریں جمائے بیٹھی زرلش سے گویا ہوا۔
"بورنگ۔۔۔۔۔۔ کل پروجیکٹ فائنالائز کردیا تھا۔ آج کا پورا دن گھر میں سڑتے ہوئے گزرا ہے۔"
زرلش انٹیریئر ڈیزائننگ کمپنی چلا رہی تھی جہاں اس کے ساتھ چار اور لوگ اس کے انڈر کام کیا کرتے تھے۔ شہر کے بڑے بڑے ہوٹیلز, بنگلوز اور کئی بڑی عمارات کو سجانے کا اعزاز اسے حاصل تھا۔
" بھائی مجھے بات کرنی تھی آپ سے"۔
ضمان جو کہ کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے صوفے پر بیٹھا تھا زرلش کی بات پر متوجہ ہوا۔
"دیکھیں بھائی میری بات ذرا تسلی سے سنیئے گا۔ کُچھ بھی کہنے سے پہلے میری بات مکمل سنیئے گا۔"
وہ جو ضمان کی ارمش سے حد درجہ بیزاری سے آگاہ تھی جو کہ اسی کی ہی بنائی گئی تھی۔ اب اپنی بات کرتے ہوئے خوفزدہ بھی تھی۔
"کہو۔۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔"
ضمان متوجہ ہوا۔
"بھائی میں نے کل رات عالی کے متعلق جو کچھ بھی کہا وہ سب کسی جذباتی لمحے کی زد میں آکر ہرگز بھی نہیں کہا تھا۔
میں جو کچھ احساسات رکھتی ہوں کل رات میں نے انہی کا اظہار کیا تھا آپ سے۔"
شاید فطری جھجھک تھی جو زرلش جیسی پر اعتماد لڑکی نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔
"صرف عالی ہی نہیں بھائی جان بلکہ ارمش کے بارے میں بھی میں نے سچ کہا تھا وہ جب تک عالی کی زندگی میں رہے گی عالی کو اس کے علاوہ کوئی نظر ہی نہیں آسکتا۔
بچپن سے لے کر آج تک اُسنے عالی کو اپنے آپ میں ہی اُلجھا کر رکھا۔ آپکو یاد ہے نا بھائی کس طرح ہر بار عالی مجھے چھوڑ کر اسکا ہاتھ تھام لیتا تھا؟!
اب بھی۔۔۔۔۔۔ اب بھی ایسا ہی ہوگا بھائی، اب بھی ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔۔ اگر ارمش اُسکی زندگی میں رہی تو وہ اُسے ہی چن لیگا جو میں کبھی برداشت نہیں کر پاؤنگی۔
پلیز بھائی!! اُسے عالی کی زندگی سے دور کردیں!!
آپ۔۔۔ آ۔۔ آپ اس سے شادی کر لیں!! آپ ارمش سے نکاح کر لیں!!"
وہ جو بےبسی سے اسے گڑگڑاتا دیکھ رہا تھا جسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان انکھوں میں موجود نمی کا باعث بننے والوں کو جلا کر راکھ کر دے۔اسکی آخری بات پر ششدر رہ گیا تھا۔
♡----------------------------------------------
نو واٹ زرلش؟
یو نیڈ آ بریک!!
میں تمہاری ٹکٹس بک کرواتا ہوں۔ دبئی جاؤ گھوم پھر کر آوگی تو بہتر محسوس کرو گی۔"
وہ جو زرلش کی اپنے اور ارمش کے نکاح والی تجویز پر حیرت میں ڈوبا تھا غصے کی شدید لہر اسکے تن بدن میں دوڑ گئی تھی۔ پر دل کے ہاتھوں مجبور بہن کے لئے کوئی بھی سخت لفظ استعمال نہ کر پایا ۔
ایک واحد حل یہی سوجھا کہ کُچھ وقت کے لئے اُسے اس ماحول سے دور کردیا جائے۔
"نہیں بھائی جان مجھے کہیں نہیں جانا میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔ معافی چاہتی ہوں، آئندہ کوئی ایسی بات نہیں کرونگی۔"
چند لمحوں کی خاموشی کے بعد ہاتھ کی پشت سے نرمی سے گال پر موجود آنسو صاف کرتی وہ مایوس لہجے میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
جو آس اسنے اپنے بھائی سے لگائی تھی وہ ٹوٹ گئی تھی۔ اپنی خودغرضی کا احساس ہوتے ہی دل بری طرح ٹوٹا تھا۔
"زری چندہ!! میری بات سمجھو۔۔۔۔۔۔"
وہ سمجھانا چاہتا تھا پر زرلش رکی نہیں۔
♡-----------------------------------------------♡
"آگیا میرا بچا؟
مما کو کیوں نہیں بتایا؟؟
مش؟
روئی ہو تم؟
کیا ہوا میرا بچا؟
ضمان نے ڈانٹا ہے؟
آنے دو اس چھ فٹ دو انچ کے گدھے کو ذرا نیچے۔۔۔ لیتی ہوں کلاس ابھی اسکی۔"
وہ جو ملازمہ سے ارمش کی آمد کا سن کر اسکے کمرے میں آئیں تھیں ایک لمحہ لگا تھا اُنہیں ارمش کی انکھوں کی نمی محسوس کرنے میں اور پھر حسب معمول سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہوا تھا۔
سب ہی جانتے تھے کہ وہ اکثر ہی ضمان کے غصے کی زد میں آجاتی ہے تبھی ضمان پر اِس وقت اُنہیں شدید غصّہ آیا تھا۔
"کوئی نہیں ڈانٹا بھائی جان نے۔۔۔۔۔۔ تھک گئی تھی بس۔۔۔۔ اور اوپر سے پیروں میں بھی درد ہو رہا تھا اور آپکو تو پتا ہی ہے کہ آپکی بیٹی پیٹ بھر کر روتو ہے۔"
ماں کے ہاتھ تھامے جھوٹی تسلّی دیتے ہوئے وہ نم آنکھوں کے ساتھ ہی مسکرا دی تھی۔
"تو بتاؤ كس نے کہا ہے کہ مورنینگ ایوننگ شفٹس ساتھ لگاؤ؟؟
بلکل خیال نہیں رکھتی ہو اپنی صحت کا مش۔۔۔۔ چلو باہر ابھی ہیلتھی سی منچنگ کرواتی ہوں۔"
بیٹی کے نازک خد و خال پر چوٹ کرتی اپنے پیچھے آنے کا کہتی باہر کی جانب چل دیں تھیں۔
جب کہ انکا دھیان ہٹ جانے پر ایک گہری سانس خارج کر کے وہ بھی پیچھے چل دی۔
♡----------------------------------------------♡
"تم لوگ کہیں جا رہے ہو؟"
اتوار کا دن تھا وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتے سے انصاف کر رہے تھے جب عالی اور ارمش کی تیاری دیکھتے زرلش نے فرینچ ٹوسٹ کا لقمہ لیتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں آؤٹنگ کا پلان ہے کافی عرصہ ہوگیا وقت ہی نہیں مل رہا تھا گھومنے پھرنے کا۔"
سبز ، نیلے اور سفید ہوریزونٹل لائننگ کی سویٹ شرٹ کے ہمراہ گہری نیلی جینز پہنے عالی نے جواب دیا تھا۔
"گریٹ!! میں بھی فری ہوں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں پھر ساتھ چلتے ہیں۔"
پرجوش لہجے میں کہتی ہاتھ نیپکن سے صاف کرکے اٹھنے ہی لگی تھی کہ عالی کی آواز پر چہرے پہ چھائے خوشی کے رنگ ماند پڑگئے۔
"چپ کر کے ناشتہ کرو ہپو گیمنگ کلب جا رہے ہیں۔۔۔۔ تم جیسی گرلی گرلز کا وہاں کوئی کام نہیں ہوتا۔"
انداز چڑانے والا تھا۔
"عالی کبھی بعد میں چلیں گے گیمنگ کلب ابھی کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں بجّو بھی انجواۓ کرلیں۔"
زرلش کے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھ کر ارمش نے بات سنبھالنی چاہی۔
"تم چپ کرو مینڈکی۔۔۔ شرط ہارنے کے ڈر سے زری کا سہارا مت لو سمجھیں!؟"
آنکھیں چندھیا کر کہتا وہ ناشتے سے فارغ ہو کر کمرے کی جانب چل دیا تھا۔
"بجّو ایسا کریں آپ تیار ہو کر آجائیں میں ابھی بات کرتی ہوں عالی کے بچے سے۔ اگر وہ نہیں مانا تو پھر ہم دونوں اُسے چھوڑ کر ونٹر لینڈ چلیں گے۔"
چہرے پر نرم مسکراہٹ سجائے زرلش سے گویا ہوئی تھی وہ ایسی ہی تھی ہر ایک کا خیال کرنے والی۔
"بڑی کرم نوازی آپکی۔۔۔ مجھے کہیں نہیں جانا۔"
تلخ مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہتی وہ اٹھ کر جا چکی تھی۔
جبکہ ارمش کھسیانے تاثرات کے ساتھ پلیٹ میں موجود آملیٹ کو جی مار کر ختم کرنے کی کوشش میں محو ہوگئی۔
♡-----------------------------------------------♡
"چلو بھی کنجوس انسان!!
یہ تو چیلنج کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ جب ہارو گے تو جیب بھی ڈھیلی کرنی پڑے گی۔"
دوپہر ایک بجے سے شام پانچ بجے تک کا وقت دونوں نے گیمنگ کلب میں گزارا تھا۔
کاؤنٹر سٹرائیک ٹورنامنٹ میں ارمش کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد نہ صرف ٹورنامنٹ کا بل عالی نے بھرا تھا بلکہ شرط کے مطابق پی ایس فائیو بھی اُسی کے پیسوں سے خریدا گیا تھا۔ جسکے بعد جو صبح ہنستا مسکراتا گھر سے باہر نکلا تھا اس وقت چہرے پر جہان بھر کی مسکنیت سجائے مصنوئی اُداسی لیئے ڈرائیو کر رہا تھا۔ جبکہ ارمش کی آواز پر بے ساختہ چہرے پر آنے والی مسکراہٹ کو چھپایا تھا۔
"اچھا ٹھیک ہے ٹورنامنٹ میری طرف سے ہوگیا، پر کم از کم پی ایس فائیو کے آدھے پیسے تو دو ناں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُچھ تو رحم کرو!!
مہینے کے آخر میں غریب بچے کو لوٹ رہی ہو۔"
گاڑی گھر میں داخل کرتے ہوئے وہی رٹ دہرائی تھی۔
"خدا کو مانو عالی۔ نیورو سرجن ہونے کے باوجود نہ صرف اپنے آپکو غریب کہہ رہے ہو بلکہ ایک حقیقتاً غریب انٹرنی سے پیسے بھی مانگ رہے ہو؟؟!!"
آنکھیں سکیڑے گھورتے ہوئے شرم دلانی چاہی۔
"غریبببب اِنٹرن۔۔۔۔ ابھی رکو ذرا بھائی جان کو بتاتا ہوں وہ تمہاری اچھے سے خبر لیں گے۔ مہینے میں پچاس ہزار سیلری کمانے کے باوجود بدنام کر رہی ہو ہمارے ہسپتال کو۔۔۔۔"
غریب پر خاصہ زور دیتے ہوئے اسے ضمان کی دھمکی دی تھی۔
"بہت اچھا گزرا ہے میرا دن۔۔۔۔ کیوں ہٹلر کے جانشین کا ذکر کر کہ نحوست پھیلا رہے ہو؟"
گاڑی پورچ میں رکی تو ارمش اتر کر پیچھے والی سیٹس سے پلے اسٹیشن کا بھاری بھرکم ڈبا اٹھا کر اندر کی طرف بڑھتے ہوئے عالی کی بات پر منہ بگاڑ کر گویا ہوئی۔
"ابھی رکو بتاتا ہوں۔۔۔۔۔ کن القاب سے نوازتی ہو تم انہیں انکی پیٹ پیچھے۔۔۔۔
بھائ جاااان !!
ارّے اُو بھائی جان۔"
پلے اسٹیشن کا ڈبہ اُسکے ہاتھوں سے لیتے جسے اٹھانے کی سعی کرتے وہ بمشکل ہی چل پا رہی تھی۔ عالی نے ایک اور دھمکی کے ساتھ ہنستے ہوئے ضمان کو آواز دیتے اندر کی طرف ڈور لگائی۔
"عالی کے بچے چپ کرو ورنہ میں بتا رہی ہوں اگر تمہاری آواز سن کر وہ نمودار ہوئے تو میں نے تمہارا منہ توڑ دینا ہے۔"
روہانسی آواز میں چیختی وہ بھی عالی کے پیچھے دوڑی تھی۔
دو لوگ اِس منظر کو دیکھ کر بری طرح جل اٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمان اور زرلش دونوں ہی اس وقت اپنے کمروں کی بالکنیز میں کھڑے تھے جب گھر میں داخل ہونے والی گاڑی نے انکی توجہ اپنی جانب کھینچی تھی۔
پہلی منزل سے نیچے کا منظر صاف نظر آ رہا تھا پر آواز کُچھ خاص نہ سنائی دی تھی محض عالی اور ارمش کی اٹکھلیاں ہی نظر آئیں تھیں۔
حاصل نا کر پانے کے خوف کے سائے زرلش کے دِل و دماغ پر لہرائے تھے۔نم آنکھوں کے ساتھ آنکھیں جب واپس اوپر کیں تو سامنے ضمان اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ فوراً سے پہلے اسنے نظریں چرائی تھیں اور الٹے پاؤں واپس ہوگئی تھی۔ جبکہ ضمان کی پیشانی پر سلوٹوں کا جال نمایاں ہوگیا تھا۔
♡-------------------------------------------
"آجائیں۔۔۔۔۔۔۔"
کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگوں نے اپنے اپنے کمروں کا رخ کیا تو مصطفیٰ صاحب بھی سٹڈی کی جانب چل دئیے۔
بمشکل چند ساعتیں ہی گزری تھیں کہ دروازے پر ہونے والی دستک نے توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تو بک سے نظریں اٹھا کر اندر آنے کی اجازت دی۔
توقع کے بر عکس آنے والا ضمان تھا۔
"آؤ برخوردار اس وقت یہاں؟ خیریت تو ہے؟"
لہجے میں کُچھ کُچھ حیرت سمائے دریافت کیا۔
"کیوں چھوٹے پاپا؟ کیا میں آپ کے پاس بغیر خیریت کے نہیں آ سکتا؟"
جواب لاڈ سے مسکرا کر دیا تھا۔
"بیشک آسکتے ہو۔۔۔۔ آؤ بیٹھو کیسی چل رہی ہے پریکٹس؟ تمہارے پیشنٹ کی سرجری ہونی تھی ناں؟ ہوگئی؟"
ضمان کو سامنے موجود صوفے پر بیٹھتے دیکھ ہلکے پھلکے انداز میں سوال کیا تھا۔
"نہیں چھوٹے پاپا اگلے ہفتے کی ڈیٹ دی ہے۔۔۔۔
مجھے کچھ ضروری بات کرنی تھی آپ سے۔"
سوال کا جواب دینے کے بعد ایک لمحے کی خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا تھا۔
"مجھے لگا ہی تھا۔۔۔ کہو کیا کہنا ہے؟"
ضمان کی بات پر نرم سی مسکراہٹ مصطفیٰ کے لبوں پر چھائی تھی جبکہ ضمان کے تاثرات مکمل طور پر سنجیدہ تھے۔
"چھوٹے پاپا قاسم سوری صاحب یاد ہیں؟ نارا گیس فیلڈ والے؟ انکا بیٹا ایم فل کرنے کے بعد ابھی لندن سے واپس آیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ لوگ اس کے لیئے لڑکی ڈھونڈ رہے تھے تو باسط کی مما نے اُنہیں ارمش کا بتایا۔ اب وہ ارمش کو دیکھنے آنا چاہ رہے ہیں، اگر آپکی اجازت ہو تو ڈنر کے لئے انوائٹ کر لوں؟"
ٹھہر ٹھہر کر ہر لفظ احتیاط کے ساتھ ادا کرتے ہوئے وه اپنی بات کے اختتام پر اب مصطفیٰ صاحب کے جواب کا منتظر تھا۔
"وہ آنا چاہتے ہیں تو سر آنکھوں پر۔۔۔۔۔۔ضرور آئیں۔۔۔۔۔۔ پر ارمش ابھی چھوٹی ہے میں نے اس حوالے سے فلحال کُچھ نہیں سوچا۔۔۔۔۔ مسز اکبر کو بھی سوچنا چاہیے تھا . ابھی زرلش گھر میں موجود ہے اور تم ہو سب سے بڑے، اور اُنہوں نے ارمش کا ذکر کر دیا؟! جو کہ سب سے چھوٹی ہے۔۔۔۔
سب سے پہلے تو تمہاری دلہن لائیں گے پھر باقیوں کے بارے میں سوچا جائیگا۔"
سنجیدگی سے اپنی بات کرنے کے بعد پُر شوخ لہجے میں وہ گھما پھرا کر بات ضمان تک لے آئے تھے۔
"چھوٹے پاپا لڑکا اچھا ہے میں نے معلومات نکلوائی تھیں۔ کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے اُسکی تعریف نہ کی ہو۔ خوش اخلاق خوش شکل ہونے کے ساتھ ویل سیٹلڈ بھی ہے میرے خیال سے ایک بار۔۔۔۔"
"ارمش کا نصیب ہوا تو اُسے اس سے بہتر ساتھی ملے گا۔ رہی بات ویل سیٹلڈ ہونے کی تو تمہیں اندازہ ہونا چاہیے کہ ارمش کو کسی کے پیسے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اُسکا باپ اس کے لیے اتنا چھوڑ کر گیا ہے کہ وہ میری دی ہوئی پاکٹ منی تک استعمال نہیں کرتی۔۔۔ رات کافی ہوگئی ہے۔ جاؤ تم بھی سوجاؤ"
ضمان کی بات کو بیچ میں ہی روکتے ہوئے وہ دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوۓ اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
خاصی محنت کے بعد اسنے ایک بہترین رشتہ ارمش کے لئے ڈھونڈا تھا اپنی محنت پر پانی پھرتا دیکھ مایوسی لیئے وہ بھی اپنے کمرے کی جانب چل دیا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"ارمش۔۔۔۔ آپکی دادی اماں کی کال آئی تھی۔ کیوں کالز ریسیو نہیں کرتی ہو انکی؟
جانتی بھی ہو کہ اُنہیں بس موقع چاہئے ہوتا ہے مجھے دھمکانے کا اور اُنہیں وہ مواقع آپ اکثر فراہم کرتی رہتی ہو۔۔۔۔ کہہ رہیں تھیں کہ کون سی پٹیاں پڑھائی ہیں مصطفیٰ میاں آپ نے میری پوتی کو کہ حویلی آنا تو دور مجھ سے بات کرنا تک گوارہ نہیں کرتی؟؟
ساتھ ہی ساتھ ایک عدد دھمکی فری میں ملی ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو وہ تمہیں لے جائیں گی یہاں سے۔"
ناشتے کی ٹیبل پر سب موجود اپنی اپنی پلیٹوں کی جانب متوجہ تھے جب مصطفیٰ رند ارمش سے مخاطب ہوئے، انداز خاصہ روٹھا روٹھا تھا۔
"پاپا میری کوئی غلطی نہیں ہے وہ کال ہی ایسے وقت میں کرتی ہیں جب میں ہسپتال میں ہوں اور جب میں گھر آ کر خود کرتی ہوں کال تو ریسیو نہیں کرتیں۔"
کانٹا چھری تھامے ہاتھ رکے، جواب دیتے ہوئے لہجے کی پریشانی صاف عیاں تھی۔
"تو گھر آنے کا انتظار کیوں کرتی ہو؟ فری ٹائمنگ ہسپتال میں بھی ملتی ہے، پہلی فرصت میں جواب دیا کرو۔"
مصطفیٰ صاحب سے قبل عالی نے جواب دیا تھا۔
"فری ٹائم سب کو ملتا ہے میرے علاوہ۔ دو منٹ سکون کے نصیب نہیں ہوتے ہیں مجھے ہسپتال میں ابھی ریسٹ روم میں آتی ہی ہوں کہ کوئی نا کوئی آکر پیغام پہنچا دیتا ہے کہ ڈاکٹر ضم۔۔۔۔۔"
اپنی دھن میں کہتے کہتے جب ضمان کی پُر تپش نظریں اپنے وجود پر محسوس ہوئیں تو لمحے کی سنگینی کا احساس ہوا۔
"خیر۔۔۔۔۔ میں نے کہہ دیا ہے اُنہیں کہ آج ہی تم گاؤں جا رہی ہو۔ اگر اماں کال ریسیو نہیں کرتیں تو گھر کے کسی اور فرد کے نمبر پر کال کر لیا کرو۔
انکا بڑھاپا ہے، انکی تمہارے متعلق حساسیت بیجا نہیں ہے، اکلوتی پوتی ہو تم انکی آخر۔"
گاؤں جانے کے نام پر ابھی ارمش نے لب وا کیے ہی تھے کہ مصطفیٰ صاحب نے مزید سمجھاتے ہوئے بات ختم کردی۔
"ہم بھی چلتے ہیں ناں!! کافی وقت ہوگیا ہے حویلی کا چکر نہیں لگا۔ نانو سے بھی ملاقات نہیں ہوئی۔"
اپنے تئیں عالی نے پتے کی بات کی تھی۔
"کبھی تو اسکا پیچھا چھوڑ دیا کرو عالی۔۔۔۔۔ اُسے ہمیشہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ اسے اپنی عادت بنالوگے تو آگے چل کر پچھتانا پڑے گا۔۔۔۔۔۔امممم۔۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کہ ارمش کل کو دوسرے گھر کی ہوجائے گی پھر اس طرح تو نہیں رہ سکتے ناں۔۔۔۔۔۔"
زرلش نے تلخی سے کہتے جب خود کو توجہ کا مرکز محسوس کیا تو آخر میں شیریں سخن ہوتے لبوں پر نرم مسکراہٹ سجالی۔
"تم تو بس جل جل کہ کالی ہوجاؤ ہپو۔۔۔۔۔۔نہیں جانا تو مت جاؤ ہمارا پلان کیوں خراب کر رہی ہو؟!"۔۔۔۔۔۔۔۔
"اچھا بس۔۔۔۔۔۔ خاموشی کے ساتھ ناشتہ کرو کوئی نہیں جا رہا ارمش کے سوا۔۔۔۔۔
اور عالی آئندہ زرلش کو اُسکے نام سے مخاطب کرو گے تم۔ یہ بات اچھے سے ذہن نشین کرلو"
عالی کی باتوں پر زرلش کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ مبشرہ بیگم نے قطعی لہجے میں عالی کو جھاڑ پلاتے ہوئے ناشتے کی جانب متوجہ کیا تھا۔
یہ بس عالی تھا جو ضمان کی موجودگی میں زرلش کو مذاق مذاق میں بے عزت کر دیتا تھا اور ضمان اُسے کُچھ نہ کہتا۔
زرلش کو اگر اسنے بیٹی کی طرح پالا تھا تو عالی بھی اسکا بازو اسکا چھوٹا بھائی تھا۔ جبکہ عالی بھی اس بات کا بھرپور فائدہ بچپن سے اٹھاتا آ رہا تھا۔
جب جب زرلش ارمش کو تنگ کرتی تو اُسکی دُرگت بنانا عالی نے ہمیشہ اپنا فرض جانا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"کیا خالی پلیٹ میں چمچہ چلائے جا رہی ہے اری لڑکی؟
سوکھی ککڑی ہو کر آئی ہے!!
سچ بتا ارمش۔۔۔۔۔ یہ مبشرہ اور مصطفیٰ میری دھی کو ڈھنگ سے کھانا نہیں دیتے ناں؟
روحا بچے۔۔۔۔۔۔ ڈالو ذرا اسکی پلیٹ میں کچھ دیکھو ذرا خالی سالن لڑہک رہا ہے۔
میں نے خاص طور سے اپنی بچی کے لیے نرگسی کوفتے بنوائے تھے۔۔۔۔۔ ارے ایک اور ڈالو بچے"
آف وائٹ کلر کے نفیس چکن کڑھائی کا سوٹ پہنے آنکھوں پر کالے رنگ کا چشمہ ٹکائے جان نچھاور کرنے والے انداز میں وہ ارمش سے گویا تھیں۔
جنکی باتوں پر کھانے کے لئے بیٹھے تمام افراد کے چہروں پر مسکان بکھری ہوئی تھی۔
مصطفیٰ صاحب کو ارمش سونپ تو دی تھی پر ان سولہ سالوں میں اپنی بے لوث محبت کے باوجود بھی وہ اماں کو مطمئن نہیں کر پائے تھے۔
اُنہیں ہمیشہ ہی یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ارمش کے ساتھ کوئی زیادتی نہ کی جاتی ہو۔۔۔ کہیں اُسے کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ ہو۔
تین ماہ بعد آج اپنی پوتی کے آنے کی خوشی میں وہ پورا دن ملازماؤں کے سر پر کھڑی رہیں تھیں۔روحا بیگم نے لاکھ مرتبہ سمجھایا تھا کہ
"اماں جان آپ جو حکم کریں گی سب ویسا ہی ہوگا۔۔۔ آپ تھوڑا آرام کر لیں۔۔۔"
پر اُنہوں نے کسی کی ایک نہ سنی تھی۔ اپنی خوراک کے خلاف جاتے ہوئے دادی اماں کا دل رکھنے کے لئے اسنے چاولوں کے بعد آدھی روٹی اور اسکے حساب سے تھوڑا سا سالن ابھی نکالا ہی تھا کہ امّاں نے پلیٹ دیکھی تو اسے ٹوکتی روحا بیگم سے مخاطب ہوئیں۔
"دادی اماں یہ تو کھالوں پہلے پھر اور لے لوں گی۔"
اماں کے حکم پر روحا بیگم کا باؤل کی جانب بڑھتا ہاتھ دیکھ کر وہ منمنائی تھی یہ آواز بمشکل ہی روحا بیگم تک پہنچی تھی۔
"امّاں آپ نے بیسن کے لڈو بنوائے ہیں نہ دیسی گھی میں؟
بچی کے پیٹ میں کُچھ تو جگہ رہنے ديں وہ بھی تو کھانے ہیں نا۔۔۔"
روحا بیگم نے ہوشیاری سے جان چھڑانی چاہی تھی اور انکی بات کا اثر بھی ہوا تھا جو امّاں ہنکارا بھر کر خاموش ہوگئیں ۔
"دادی اماں تمہیں زری کے مقابلے کا بنا کر چھوڑیں گی بس ایک ہفتہ ره کر تو دیکھو۔"
وہ جو کھانے کی جانب راغب ہوئی تھی اپنے پہلو سے عرشمان کی آواز سن کر دل سے مسکرائی۔
"مشو بیٹے گھر پر سب خیریت؟ مصطفیٰ بھائی کیسے ہیں؟ باقی سب کو بھی کہتی ناں آنے کے لئے۔۔۔۔۔ کافی عرصہ ہوا چکر نہیں لگایا کسی نے؟"
میٹھے سے لطف اندوز ہوتے ہاشم مگسی اپنے بھائی کی آخری نشانی سے مخاطب ہوئے۔
"عالی تو آج بھی کہہ رہا تھا چاچا جی۔۔۔۔ مما نے ہی ڈانٹ کر خاموش کروادیا۔ وہ چاہ رہیں تھیں کہ میں دادی امّاں کے ساتھ کُچھ وقت اکیلے گزارلوں۔"
اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں جواباً گویا ہوئی۔
"لو بتاؤ ذرا!!
بہت دن لگ گئے ہیں مبشرہ بی بی کو ذرا سی باتیں کیا سنا دیں بچے کو آنے ہی نہیں دیا؟! آنے دو ذرا کھینچتی ہوں کان۔"
انکی تیوری میں بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔
"نہیں دادی امّاں ایسا کچھ نہیں ہے وہ تو میں تین مہینے بعد آئی ہوں نا اس لیئے روکا تھا بسسس۔۔۔"
مبشرہ بیگم کے متعلق پیار بھرے الفاظ سنتے ہی وہ گڑبڑائی تھی۔
"ہاں ہاں خوب جانتی ہوں میں سب۔"
پاس پڑی چھڑی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کھڑا ہو کر کہتیں وہ کمرے کی جانب چل پڑی تھیں۔
جنہیں اٹھتا دیکھ ہاشم صاحب بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک ہاتھ ماں کے گرد لپیٹے سہارا دیتے ہوئے کمرے کی جانب چل دئیے تھے۔
♡-------------------------------------------♡
"یمّمم۔۔۔۔ پورے گھر میں جب لذیذ خوشبو پھیلی تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ یقیناً ماسٹر شیف زرلش رند نے آج کچن کو اپنی آمد کا شرف بخشا ہے۔ کیا بنا رہی ہو؟"
سلیپ پر بیٹھتے ہوئے کٹنگ بورڈ پر رکھی سبزیوں سے کھیرا اُچک کر زرلش سے پوچھا تھا۔
جس کے چہرے پر عالی کی آمد کے ساتھ آنے والی مسکراہٹ نے قوس و قزح کے رنگ بکھیر دیے تھے۔
"کچھ خاص نہیں بس چکن چلی ، فرائڈ رائس اور منچورین۔"
بمشکل آنے والے کے چہرے سے نظر ہٹاتی گویا ہوئی۔
لہجے کو بےنیاز بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہوئے عالی کی پسندیدہ ڈشز کے نام گنوائے تھے۔
" عالی صدقےےے۔۔۔۔ کیوں ہو تم اتنی اچھی؟! میرے لئے بنا رہی ہو ناں!؟"
وہی ازلی مسکان جسکی زرلش تب سے دیوانی تھی جب دیوانگی کا مطلب بھی معلوم نہیں تھا عنابی لبوں پر سجائے بھنویں اُچکاتے پوچھا تھا۔
"جی نہیں خوش فہمیاں نہ پالو زیادہ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ تم گھر پر ہو۔ میں فری بور ہو رہی تھی بس اس لیئے سوچا کہ کوکنگ کرلوں۔"
چمکتی آنکھوں کے ساتھ لب دبائے مسکراہٹ روکنے کی کوشش کرتے ہوئے وہ ایسی بات کر رہی تھی۔ جسکے جھوٹ ہونے کا گمان کیا یقین تھا عالی کو۔
"کیا یاد کرو گی زرلشِ رند۔۔۔ لنچ تمہاری طرف سے اور پھر آئس کریم دی گریٹ عالی کی طرف سے!! تیار رہنا کھانے کے بعد چلیں گے۔"
کٹنگ بورڈ سے کھیرا پلیٹ میں رکھنے کے بعد زرلش کی رکھی گئی شملہ مرچ کاٹنے کے ساتھ فراغ دلی کا مظاہرہ کیا تھا۔
"کیوں بھئی؟ جناب کو ہسپتال نہیں جانا؟"
دل میں اڑتی تیتلیوں کو نظر انداز کرتے سوال کیا۔
"جانا ہے۔۔ نائٹ ڈیوٹی پر۔ ہم شام تک آجائیں گے واپس۔"
کٹی ہوئی شملہ مرچ بورڈ پر ہی چھوڑ کر سنک میں ہاتھ دھوتے ہوئے مصروف سے انداز میں جواب دینے کے بعد باہر کی جانب رخ کر لیا تھا۔
"کاش تم کبھی واپس آؤ ہی نہیں ارمش۔۔۔۔۔ دیکھو تم نہیں ہو تو وہ میرے پاس ہے، میرے ساتھ ،میرے قریب۔ یا خدا پلیز کوئی ایسی تدبیر کر دے کہ وہ ہمیشہ کے لیئے عالی سے دور ہوجائے۔۔۔"
سوچوں کا تسلسل ہانڈی لگنے کی خوشبو سے ٹوٹا تھا۔
اپنی تمام تر سوچیں پس پشت ڈال کر وہ دوبارہ اُسی رغبت کے ساتھ کھانا بنانے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
♡-----------------------------------------
"کدھر کی سواری ہے محترمہ؟"
نیوی بلیو پرنٹڈ کرتے کے ساتھ لائٹ بلیو ڈینم جینز پہنے پیر دو پٹی چپل میں قید کیے گلے میں موجود دوپٹے سے اُلجھتی وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب نیچے اترتے عرشمان نے سوال کیا۔
"بھا ایک بات بتائیں مجھے۔۔۔۔ جب میں کراچی ہوتی ہوں تو دادی امّاں ناراض ہوتی ہیں کہ میں حویلی نہیں آتی، جب یہاں ہوتی ہوں تو نہ جانے کون سی کچہری لگائے رکھتی ہیں اپنے کمرے میں۔
صبح سے تیسرا چکر ہے میرا۔ جب جاتی ہوں ایک نیا چہرا دکھتا ہے۔"
دونوں ہاتھ كمر پر رکھے خاصے بگڑے تاثرات کے ساتھ شکوہ کیا تھا۔
سب جانتے تھے کہ وہ گھر والوں کے علاوہ کسی کے ساتھ بیٹھ نہیں پاتی پھر بھی دادی امّاں کا اپنے کمرے میں رش لگائے رکھنا گراں گزرا تھا۔
"خبردار جو تم نے بی-بی-سی رپورٹرز کو کچھ کہا تو!!
اُن بیچاریوں کا کیا قصور ہے؟
ہیڈ کوارٹر تک گاؤں کی ساری خبریں پہنچانا انکی ذمےداری ہے۔۔۔۔"
مصنوئی روعب جھاڑتے ہوئے عرشمان گویا ہوا، لہجے میں موجود شرارت کا عنصر واضح تھا۔ جسے سن کر ارمش نے آنکھیں گھمائیں تھیں۔
"چھوڑو یہ سب۔۔۔۔۔ تم یہ بتاؤ کھیتوں پہ چلو گی؟"
فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے پیش کش دی جسے ایک پل ضائع کیے بغیر ارمش نے قبول کیا تھا۔
"ہم باغوں میں بھی جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔"
عرشمان کی سنگت میں حویلی سے نکلتے ہوئے فرمائش کی تھی۔
وہ جو ملازمہ سے دادی امّاں کو انکے کھیتوں پر جانے سے آگاہ کرنے کا کہہ رہا تھا ارمش کی بات پر اُسکی جانب متوجہ ہوا۔
"جی نہیں یا تو کھیت جاؤ گی يا پھر باغ۔"
صاف انکار کیا تھا۔
"چلیں چلیں فلحال کھیت ہی چلیں آگے باغوں تک میں خود لے جاؤں گی۔"
کچے راستے پر چلتے ارد گرد کھیلتے بچوں اور کنویں سے پانی بھرتی بچوں کی ماؤں کو دیکھتے ہوئے عرشمان کی بات کو ہوا میں اڑایا تھا۔
"ویسے بھا ایک بات تو بتائیے۔ اپنی حویلی میں تو ہر قسم کی آسائش موجود ہے گاؤں کے لوگوں کا کوئی خیال ہی نہیں ہے۔"
ڈوبتے سورج کی سنہری روشنی کو چندھیائی نظروں سے دیکھتے کھیتوں میں قدم رکھتے سوال کیا تھا جہاں اب چند لوگ ہی موجود تھے جو کہ اپنے کام سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی راہ لے رہے تھے۔"
"یہ گاؤں ہے جناب یہاں پر پانی کی سپلائی دنوں دنوں غائب ہو جاتی ہے۔
حویلی کا تو ٹینک کافی بڑا ہے ورنہ ہم بھی کنویں سے ہی پانی بھرنے آئیں۔"
ارمش کی حساس طبیعت سے وہ واقف تھا اِس لئے فوری بھانپ لیا کہ یقیناً عورتوں کا کپڑے کی مدد سے کمر پر چھوٹے چھوٹے بچے باندھے پانی کے گڑھے اٹھانا اُسے گراں گزرا تھا تبھی کنویں کا ذکر کرنا نا بھولا تھا۔
ہرے بھرے کھیتوں کے بیچ سے جاتی ٹھنڈے شفاف پانی کی پلیا کے کنارے بیٹھ کر پانی کے چھینٹے منہ پر مارتی ارمش پر کسی سلطنت کی شہزادی ہونے کا گمان ہو رہا تھا۔
عرشمان کی بات پر ارمش کے چہرے پر تبسم بکھرا تھا۔
"اب اُٹھ بھی جاؤ بہنا۔۔۔ باغ نہیں جانا؟"
ڈھلتے سورج کی جانب اشارہ کرتے چوڑی ہتھیلی آگے پھیلائی جسے تھام کر اٹھنے کے بعد آنکھیں بند کرتے ہوئے گہرا سانس لے کر تازہ ہوا محسوس کی تھی۔
کراچی کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں گھر والوں کے بعد اُسے گاؤں کی سادہ زندگی اکثر یاد آتی تھی۔
"چلیں چلتے ہیں۔"
قدم آگے بڑھاتے ہوئے ہاتھ کے اشارے سے عرشمان کو آگے کی جانب متوجہ کرتے اب رخ باغوں کی جانب تھا۔
♡---------------------------------------------♡
" مگر چاچا جی اس سب کی ضرورت ہی کیا ہے؟! ہمیشہ سے سب آپ اور بھا سنبھالتے آئے ہیں۔۔۔۔ یہ سب آپکی محنت ہے۔
ابّی کے بعد بزنس اور زمینیں سب نے آپ کی محنت کے نتیجے فروغ پایا ہے۔ اب اس طرح یہ سب میرے نام کر کے آپ مجھے شرمندہ کر رہے ہیں۔۔۔۔۔"
یہ منظر امّاں جی کے کمرے کا تھا جہاں اس وقت گھر کے تمام افراد موجود تھے۔
جب ہاشم صاحب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اپنی زندگی میں ارمش کو اُسکا حق ادا کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔ تمام کاغذات کی فائل امّاں جی کے سپرد کی جنہوں نے ہر ایک صفحہ بذاتِ خود ملاحظہ کرنے کے بعد ارمش کے آگے سائن کرنے کی غرض سے رکھی تھی جس پر ایک نظر ڈال کر اُسنے اپنے دل کی بات کہتے ہوئے فائل بند کردی۔
"ضروری ہے بیٹا جی۔۔۔۔۔۔ مانا کہ عابد کے بعد سب کچھ ہم نے سنبھالا ہے مگر یہ سب ترقی صرف انسانی محنت کے تحت نہیں ہوئی ہے، سرمایہ کاری کا بہت بڑا ہاتھ شامل ہے۔ جس کیلئے ہر سال عابد کے حصے کے منافع سے برابر رقم خرچ ہوئی ہے۔ زمینوں اور دفتر کے ہر خرچ کا زمہ تمہارے اور عرشمان کے حصے میں برابر تقسیم ہوتا آیا ہے۔۔۔۔۔۔ بوڑھے چاچا کی بات مان لو بیٹا۔۔۔۔
زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، آخرت میں مجھ سے سوال ہوگا کہ اپنی یتیم بھتیجی کے حق کا کیا کیا؟ تو میں کیا جواب دونگا؟ کیا تم چاہتی ہو کہ میں اس عارضی زندگی کی دولت کی خاطر اس دائمی جہان میں اپنے خالق اور اپنے بھائی کے آگے رسوا ہوجاؤں؟"
سرمئی شلوار قمیص، آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے وہ با ریش شخص اپنی ماں کا غرور تھے۔
جنہوں نے آج کے نفسہ نفسی کے دور میں بھی کبھی اپنے فرائض سے نظریں نا چرائی تھیں۔ آج کے دور میں جہاں با اثر افراد زندوں کا حق کھا جاتے تھے، ہاشم صاحب نے نہ صرف اپنے مرحوم بھائی کی آخری نشانی کو اُسکا حق دیا تھا بلکہ اسکی مالی زمیداری بھی ہمیشہ اپنے کندھوں پر رکھی تھی۔
مصطفٰی رند کے بے حد اصرار کے باوجود اب تک کی پڑھائی پر ہونے والا تمام تر اخراجات خود اُٹھائے تھے۔ سالانہ ہونے والے منافع کی رقم ارمش کے منع کرنے کہ باوجود اُسکے اکاؤنٹ میں ڈلواتے رہتے۔ دیانت داری اس قدر تھی کہ بھائی کے بعد سے موجودہ وقت تک کے خرچ کی رسیدیں ارمش کے سامنے موجود فائل میں تھیں۔
ابھی وہ ہاشم صاحب کے الفاظ میں ہی کھوئی ہوئی تھی جب دادی اماں نے ہاتھ پر دباؤ ڈالتے عرشمان کی جانب متوجہ کیا جو پین تھامے پیپرز کی جانب اشارہ کرتے بتا رہا تھا کہ کہاں دستخط کرنے ہیں۔
ارمش کی بھیگی آنکھوں میں کیا نا تھا تشکر، احترام، محبت۔۔۔۔۔
آج اُسے یہاں آئے چھ روز بیت گئے تھے کل صبح اُسے عرشمان کے ہمراہ واپس جانا تھا۔
پیپرز پر دستخط کرتے وہ خدا سے ان شفیق لوگوں کی صحت و سلامتی کے لیئے دل سے دعا گو تھی۔
♡------------------------------------------♡
"اوہ بلآخر محترمہ کی تشریف کا ٹوکرا آ ہی گیا۔۔۔۔۔"
دوپہر بارہ بجے کا وقت تھا سب لوگ لاؤنج میں صوفوں پر براجمان عرشمان کے ہمراہ محوِ گفتگو تھے جب عالی کی آواز نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی جو یقیناً ارمش کے ہفتے بعد آنے پر چوٹ کر رہا تھا۔
"یقین جانو مشو۔۔۔۔۔۔ تمہارے بغیر گھر اتنا سونا لگ رہا تھا کہ کیا بتاؤں، گھر میں تو دل ہی نہیں لگتا تھا۔۔۔۔۔ تم نہیں تھیں ناں تو مجبوراً مجھے اس ہپّو کے ساتھ ہینگ آؤٹ کرنا پڑتا تھا۔ رج کے پکایا ہے مجھے اس انسان نما گینڈی نے۔"
عرشمان سے ملنے کے بعد ارمش کے پاس ناموجود جگہ میں گھس کر بیٹھتے ہوئے چہرے پر بیچارگی لائے زرلش کی جانب اشارہ کرتے گویا ہوا۔
جو اس وقت فون کلر کے اوور سائزڈ ٹو پیس پر سفید شرٹ اور سفید ہی ہائی ہیلز پہنے حد درجہ پر وقار نظر آرہی تھی اس وقت یقیناً آفس جانے کے لئے نک سک سی تیار بیٹھی تھی۔
"عالی!!!!
تمہیں بات کرنے کی تمیز کب آئے گی؟؟
کتنی بار کہا ہے کہ ذرلش کو ان اوٹ پٹانگ ناموں سے مت پکارا کرو؟!"
عالی کے طرزِ تخاطب پر زرلش کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھتے ہوئے ہمیشہ کی طرح مبشرہ بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
"کیا ہوگیا ہے مما۔۔۔۔۔ مذاق کر رہا تھا۔"
ضمان سمیت سب کی گھورتی نظریں خود پر محسوس کرتے عرشمان کی موجودگی میں کہے گئے الفاظ پر شرمندہ ہوتے کہا۔
"مذاق کی بھی ایک حد۔۔۔۔۔۔"
"اوکے عرشمان میں تو چلی آفس، پہلے ہی کافی دیر ہو چکی ہے۔ پھر ملاقات ہوگی۔"
زرلش جلد ہی اپنا اعتماد بحال کرتے مبشرہ کی بات بیچ میں کاٹ کر صوفے کے قریب رکھا لیدر بیگ اٹھاتے مسکرا کر عرشمان سے الوداعی کلمات کہتی قدم مرکزی دروازے کی جانب بڑھا چکی تھی۔
"میں بھی نکلتا ہوں۔۔۔۔ مما میں اور چھوٹے پاپا ذرا لیٹ ہوجائیں گے، سرجری ہے آج ایک۔۔۔"
دونوں ماؤں سے سر پر ہاتھ رکھوا کر عرشمان سے مصافحہ کرنے کے بعد عالی پر ایک شکوہ کنا نظر ڈالتے عالی کو مزید شرمندہ کرتا ضمان بھی زرلش کے پیچھے نکل پڑا۔
"پھپو۔۔۔۔۔ آپ لوگ بھی چکر لگائیں ناں حویلی۔۔۔۔۔۔۔
دادی امّاں یاد کر رہیں تھیں آپ لوگوں کو۔"
خاموشی کو توڑتے ہوئے عرشمان دونوں بہنوں سے مخاطب ہوا اور پھر اس طرح باتوں کا سلسلہ دوبارہ سے اپنی ڈگر پر چل پڑا تھا۔
♡----------------------------------------♡
《ماضی》
"مما چھوٹی مما اور چھوٹے پاپا کدھر گئے ہیں؟"
تیرہ سالہ گول مٹول زرلش صوفے پر بیگ رکھ کر پیروں کو جوتوں سے آزاد کرواتے ہوئے اپنی ماں سے مخاطب تھی جو ابھی ابھی عالی اور ضمان کو ضمان کے کمرے میں جوس دے کر آئی تھیں۔
"گاؤں گئے ہیں، اور زری کو معلوم ہے کیوں گئے ہیں؟ ارمش کو لانے کے لئے!!!
میری زری کو بہن چاہیے تھی ناں؟ اس لیئے مما نے چھوٹے پاپا سے کہا کہ وہ ارمش کو یہاں لے آئیں تاکہ ہماری زری کو بھی بہن مل جائے۔"
جوس کا گلاس ہاتھ میں تھماتے ہوئے کندھوں پر پڑی چوٹیوں کے بل کھولتے یہ خبر رفیعہ بیگم نے زرلش کو دی تھی۔ جسے سنکر مانو زرلش تو ساتویں آسمان پر اُڑنے لگی۔
"واؤ مما!!! ارمش اب ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی؟ میں اسکو اپنے سارے کھلونے دونگی، ہم دونوں مل کر ڈول کی شادی بھی کرینگے۔ میں ناں اُسے نیل پینٹ بھی لگاؤنگی۔"
پر جوش لہجے میں اپنی خواہشات کا اظہار کرتے وہ چھوٹی سی بچی اپنی چھوٹی بہن کے گھر آنے پر بےحد خوش تھی۔
پھر جب ارمش گھر آئی تو ہر ایک نے خوش دلی سے اُسکا استقبال کیا۔
وقت گزرتا رہا، وہ جو سوچتی تھی کہ ارمش کے آنے کے بعد جو ہمیشہ سے لڑکوں کے ساتھ مجبوراً لڑکوں والے کھیل کھیلتی تھی اب سارے لڑکیوں والے کھیل ارمش کے ساتھ کھیلے گی، اُسنے مختصر عرصے میں ہی یہ بات محسوس کرلی تھی کہ ارمش اس کے ساتھ صرف لحاظ میں کھیلتی ہے۔ در اصل اُسکا رجحان اُنہیں گیمز میں ہے جو لڑکے کھیلتے ہیں۔
زرلش کو افسوس ہوا تھا پر ارمش کی خوشی کی خاطر اُسنے ایک بار پھر ڈولز، ڈول ہاؤس، کچن سیٹ جیسی چیزیں اٹھا کر رکھ دیں۔۔۔۔۔۔
"میں اور عالی ایک ٹیم میں ہوں گے، اور بھائی جان اور ارمش دوسری میں۔"
شام کا وقت تھا وہ چاروں گھر میں موجود لان میں نیٹ لگائے بیڈمنٹن کھیلنے کے لئے موجود تھے جب زرلش کی آواز نے سب كو، خصوصاً عالی کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
ارمش کے آنے سے پہلے ہمیشہ وہ دونوں ایک ٹیم میں ہوتے تھے جبکہ دوسری جانب ضمان بڑے ہونے کی وجہ سے اکیلا ہوتا تھا، آج ارمش کی موجودگی میں زرلش کو اُسکی اور ضمان کی ٹیم بنانا ہی معقول لگا تھا کیوں کہ عالی تو زرلش کا تھا، صرف اور صرف زرلش کا پارٹنر۔۔۔۔۔
"جی نہیں میں تمہیں اپنی ٹیم میں نہیں لے رہا اب تو میرے پاس اپنی پارٹنر ہے، تم اپنے بھائی کی پارٹنر بنو۔"
ارمش کا ہاتھ تھام کر وہ زرلش کی اداسی نظرانداز کیے نیٹ کی دوسری جانب چل دیا تھا۔
"آجاؤ زری، دیکھنا کیسے ہراتے ہیں ہم ان دونوں کو۔۔۔۔"
ضمان کی آواز پر وہ چونکی تھی اور دل ہی دل میں ارمش کو ہرانے کا عزم لیتی ضمان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی تھی کیونکہ ارمش نے اُسکا پارٹنر چھین لیا تھا۔
یہ بدگمانی کی سیڑھی پر پہلا قدم تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگ یہ گیم ہار گئے تھے، اس لیئے نہیں کہ وہ زیادہ اچھے پلیئرز تھے بلکہ اس لیئے کہ ارمش کو خوش ہوتا دیکھ زرلش کا بھائی، جان بوجھ کر ہار گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ارمش کی خاطر اُسکے بھائی جان نے اسی کو ہروا دیا تھا۔
یہ تھی ارمش کے ہاتھوں زرلش کی پہلی شکست۔ پھر اس کے بعد قدم قدم پر ارمش بازی لے جاتی تھی۔۔۔۔
♡----------------------------------------♡
اسکول کی سالانہ تقریب اسی مہینے تھی جس میں عالی اور زرلش کی کلاس کے تمام شاگردوں کو کپل ڈانس کرنا تھا۔ جبکہ پارٹنرز سب کے اپنی فیملی ممبرز تھے، کوئی اپنی مما کے ساتھ ڈانس کرنے والا تھا تو کسی نے اپنے پاپا کا نام لسٹ میں لکھوایا تھا۔
کافی تعداد میں سٹوڈنٹس اپنے بہن بھائی کے ہمراہ ڈانس کرنا چاہتے تھے۔
"زرلش بیٹا آپ کے پارٹنر کا نام کیا ہے؟"
ٹیچر نے سوال کیا تھا۔
"عالی مصطفٰی۔ میڈم!!"
یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات تھی بھلا؟! وہ دونوں ہی ایک دوسرے کے پارٹنرز بننے تھے، وہ ہمیشہ سے تھے۔
"نہیں زری میں مش کو لاؤں گا، اپنے دوستوں سے بھی ملواؤنگا تو ڈانس بھی اسی کے ساتھ كرونگا۔
تم ایسا کرو پاپا یا بھائی جان کو بنا لو پارٹنر، بلکہ بھائی جان ٹھیک ہیں۔
میم میری پارٹنر ارمش مگسی ہوگی اور زری کے ضمان رند۔۔۔۔"
بھری کلاس میں عالی نے اسکا ساتھ رد کیا تھا۔ ارمش کی خاطر۔
وقت کا کام ہے گزرنا سو گزرتا گیا۔ ارمش زیادہ لوگوں میں گھبراہٹ کا شکار ہونے کے باعث ایجوکیشنل انسٹیٹیوٹس کے علاوہ شاذ و نادر گھر سے نکلتی تھی۔ اُسکے آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا تھا چھوٹے پاپا کی بھی اب ارمش ہی لاڈلی تھی، عالی ہمیشہ اس کے ارد گرد منڈلاتا تھا۔
بچپن میں ایک بار غلطی سے دھکا لگنے کی وجہ سے ارمش گری تھی اور اُسکے ہاتھ پر کھرونچ آگئی تھی جسکے نتیجے میں عالی نے جان بوجھ کر زرلش کو گرایا تھا۔
بدگمانیوں کے بادل اب سیاہ گھٹا میں تبدیل ہو چُکے تھے۔ اب زرلش عالی کی دوری کے بدلے ارمش سے لینے لگی تھی اسکو رُلا کر سکون حاصل کرنا زرلش کی عادت بن چُکا تھا۔ اور اس کام میں زرلش نے بہت پہلے ہی ضمان کے آگے آنسو بہا کر اُسے بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا تھا۔
اب حالات کچھ یوں تھے کہ زرلش ارمش کو ستاتی تھی اور اس کے بدلے عالی لے کر زرلش کو مذید سلگا دیتا تھا۔
آج عالی کی اٹھارویں سالگرہ تھی۔ يوں تو ارمش سوسائٹی کی کسی تقریب میں شامل نہ ہوتی تھی پر اسکے باوجود ایک گمشدہ تعارف اُسکا ہر فیملی سے تھا۔ آج کیونکہ تقریب گھر کی ہی تھی اور یہ خوشی عالی کی تھی تو وہ بھی فنکشن میں شامل تھی۔
سفید مانند بےبی پنک پھولے ہوئے سکرٹ کے ساتھ بلیو پرنٹڈ شرٹ پہنے شہد رنگ گھنگریالے بالوں کو کمر پر کھلا چھوڑا تھا۔ عالی کے کوٹ پر کونے سے گرفت سخت کیے عالی کے پہلو میں کھڑی اس لڑکی پر گڑیا کا گمان ہوتا تھا۔ جو بس کسی بھی بہانے سے یہاں سے بھاگنے کے چکر میں تھی پر عالی کی گھوریوں کا اثر تھا جو وہ اُسکے ساتھ کھڑی جبراً اُسکے دوستوں سے مل رہی تھی۔
"دیکھو تو ذرا مبشرہ کتنے حسین لگ رہے ہیں دونوں ایک ساتھ!! میری مانو تو ارمش کو عالی کے نام ہی کردو دونوں ایک دوجے کے ہمراہ مکمل ہوجائیں گے۔"
کوئی خاتون مبشرہ بیگم سے مخاطب تھیں جب پرپل گاؤن پر ہلکا سا پنک میکپ کیے سلکی کندھوں تک آتے بالوں کو بلو ڈرائی کیے ہاتھ میں بڑا سا نفیس پیکنگ میں پیک باکس اٹھاکر گزرتی زرلش کے قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کیا۔
"ارمش کو عالی کے نام کردو۔۔ ارمش کو عالی کے نام کردو۔۔"
بس ایک ہی بات کانوں میں گونج رہی تھی۔ تو کیا وہ عالی کو ہمیشہ کے لئے زرلش سے چھین لے گی؟ دماغ سائیں سائیں کر رہا تھا، وہ نہیں جانتی تھی کہ مبشرہ نے کیا جواب دیا اُسے بس یہ یاد رہا تھا کہ عالی ہمیشہ کے لئے ارمش کا ہوجائے گا۔
پر ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔
عالی تو زرلش کا تھا۔
"کاش ارمش انکی زندگی میں آئی ہی نا ہوتی کاش اس وقت جب اُسکے باپ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا وہ بھی گاڑی میں موجود ہوتی اور اُنہیں کہ ساتھ مر جاتی۔۔۔۔۔۔ "
ایسی بہت ساری سوچوں کے ساتھ عالی کے لبوں سے نکلا ارمش کی حمایت اور زرلش کو ٹھکرائے جانے والا ہر جملہ اسکے دماغ میں کسی بھیانک آواز کی طرح گونج رہا تھا۔
"میری پارٹنر ارمش بنے گی۔۔۔۔
رج کے پکایا ہے مجھے اس انسان نما گینڈی نے۔۔۔۔
گیمنگ کلب جا رہے ہیں تم جیسی گرلی گرل کا وہاں کوئی کام نہیں۔۔۔۔
ارمش گاؤں جا رہی ہے ، ہم بھی چلتے ہیں ناں۔۔۔۔۔۔
اوہ بلآخر محترمہ کی تشریف کا ٹوکرا آ ہی گیا۔۔۔۔۔۔"
پھر اچانک سب خاموش ہوگئے تھے کچھ ہوش سنبھلا تو نظر سامنے سے آتے فل سپیڈ ٹرک پر پڑی۔
روڈ ون وے تھا اور زندگی بچانا فرض، بس ایک لمحہ دور تھی وہ موت سے جب کسی کا چہرہ نظروں میں گھوما۔ مما، بھائی جان۔ اسٹرنگ پر جمے ہاتھوں نے جنبش کی اور گاڑی سڑک کے کنارے پیڑی نما دکان سے جا ٹکرائی۔۔۔
"ہائے۔۔۔ میری دکان۔
میری آمدنی کا واحد ذریعہ تباہ کردیا۔۔۔"
آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری الفاظ اُسنے سنے تھے وہ شاید اسی دکان کے مالک کی آہیں تھیں۔ اور پھر سکوت چھا گیا مکمل خاموشی۔۔۔۔۔
♡------------------------------------------♡
"او شٹ!! تم تو زندہ ہو ابھی تک۔۔۔۔۔"
دکھتے جسم اور چکراتے سر کے ساتھ بمشكل آنکھیں ابھی کھولی ہی تھیں جب نظر سفید دیواروں سے ہوتی ہوئی نرس سے بات کرتے عالی پر پڑی۔
اس وقت کم از کم زرلش یہ چہرہ دیکھنے کی خواہش نہیں رکھتی تھی تبھی لمحے کی تاخیر کیے بغیر دوبارہ آنکھیں بند کی ہی تھیں کہ عالی کی خفا خفا سی آواز سنائی دی۔
"اپنا منہ بند رکھو عالی تمہاری بکواس سننے میں با خدا میں رتّی برابر دلچسپی نہیں رکھتی!!"
عالی کی گوہر افشانیاں مزید طیش دلا گئیں تھیں تبھی کسی بھی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر گویا ہوئی۔
"جان نکال دی تھی یار تم نے۔۔۔۔۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ ڈرائیور ساتھ رکھا کرو پر نہیں! اپنی من مانیاں کرنی ہوتی ہیں، گاڑی اور اُس دکان کا حشر دیکھ کر میرا دل دہل گیا تھا۔ نا جانے کس نیکی کے صلے میں خدا نے ہم پر رحم کیا جو تمہیں زیادہ نقصان نہیں ہوا۔۔۔۔۔"
زرلش کی بات کو سرے سے نظر انداز کرتے ہوئے بیڈ کے قریب رکھے سٹول پر بیٹھتے گویا ہوا لہجے میں ڈھیروں فکر لیے زرلش کا دل دھڑکا گیا تھا پر وہ خاموش رہی۔
"آئی ایم سوری زری۔۔۔۔"
کمرے میں چھائے سکوت میں عالی کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا تھا۔
"آج جب میرے فون پر کال آئی کہ تمہیں آئی سی یو میں شفٹ کیا جا چکا ہے تو یقین جانو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے پیروں تلے زمین کھینچ لی گئی ہو۔ میں ڈر گیا تھا مجھے لگا میں۔۔۔۔۔۔
اینی وے میں شرمندہ ہوں، مجھے عرشمان کے سامنے مذاق نہیں کرنا چاہیے تھا۔"
پرسوز لہجے میں کھو دینے کا ڈر، بس کسی بھی پل برس جانے والے آنسوؤں کو شدت سے ضبط کرنے کے باعث سرخی مائل چہرہ۔ شدید تکلیف میں بھی زرلش کو سرشار کر گیا تھا۔
"پلیز عالی۔۔۔۔ تم مجھے تنگ کرتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہو۔ سب چھوڑو یہ بتاؤ بھائی جان کدھر ہیں؟"
عالی کی آنکھوں میں موجود نمی تڑپا ہی تو گئی تھی۔ تبھی بات کا رخ موڑتے ضمان کے متعلق دریافت کیا ۔
"اُنہیں کو کال کی تھی لوگوں نے پر وہ آپریشن تھیٹر میں تھے، اس لیے نمبر آف تھا تو مجھے مطلع کیا تھا۔ میں نے مش کو بتا دیا ہے جیسے ہی بھائی جان فارغ ہونگے وہ بتا دیگی۔ تم بتاؤ، درد تو نہیں ہو رہا کہیں؟ میں نے نرس کو بھیجا بھی تھا ڈاکٹر کو اطلاع دینے کے لئے پتہ نہیں کیوں ابھی تک نہیں آیا۔"
ضمان کی عدم موجودگی سے آگاہ کرنے کے ساتھ سرسری سا چیک کرتے ہوئے ڈاکٹر کو بلانے چل دیا تھا۔
جبکہ پیچھے وہ دیوانی اس لمحے کا شکر ادا کر رہی تھی جب اُسکا ایکسیڈنٹ ہوا، اس بہانے ہی صحیح اُسے پرانا والا عالی دیکھنے کو ملا تھا جسے زرلش کی فکر تھی جسے زرلش کا درد تڑپا دیتا تھا۔
♡------------------------------------------♡
"بھائی جان!!"
ضمان کے ہمراہ آپریشن تھیٹر سے باہر نکلتی ارمش نے چھ گھنٹے کے محنت کش آپریشن کی کامیابی کے بعد چہرے پر مطمئن تاثرات اور تھکن سے چور اعصاب کے ساتھ اپنے کیبن کی جانب گامزن ضمان کو مخاطب کیا۔
"وہ۔۔۔۔۔ عالی کا فون آیا تھا جب میں آپریشن تھیٹر آ رہی تھی۔ زرلش بجّو کا ایکسڈنٹ۔۔۔۔"
ضمان کے سوالیہ انداز میں بھنویں اچکانے پر ارمش نے ایک سانس میں بات بتانے کی کوشش کی تھی پر بیچ ہی میں ضمان کی غراہٹ ارمش کی آواز دبا چکی تھی۔
"کیسے؟
کس ہسپتال میں ہے؟
اور تم مجھے اب بتا رہی ہو؟ چھ گھنٹے سے میری بہن اذیت میں ہوگی اور تم نے مجھے بتانے کی زحمت بھی نہیں کی؟ اب بتاؤ بھی گونگے کا گڑ کھا لیا ہے کیا!؟"
ایک طرف زرلش کی پریشانی دوسری طرف ارمش کی مسلسل خاموشی طیش ہی تو دلا گئی تھی غصے میں غراہٹ نا جانے کب دھاڑ میں بدلی تھی احساس وارڈ بوائے کے ساتھ نرسز کی نظریں خود پر محسوس کرنے کے بعد ہوا تھا۔
ہاتھوں کی انگلیاں جو ارمش کو اپنے بازوؤں میں دھنستی محسوس ہو رہیں تھیں کی خود بخود گرفت ہلکی ہوئی تھی۔
"عالی نے منع کیا تھا کہ وہ بجّو کے پاس ہے اس لیے آپکو سرجری سے پہلے اطلاع نا دوں آپ پریشان ہوجائیں گے۔ سٹی ہسپتال میں ہیں وہ، اور عالی کا میسج آیا ہوا تھا بجّو اب بالکل ٹھیک ہیں تھوڑی دیر میں ڈسچارج ہوجائیں گی۔"
پلکیں جھپک کر تکلیف کی شدت سے آنکھوں میں آئے آنسو اندر اتارتے ہوئے دونوں ہاتھوں سے بازو تھامے نظریں جھکائے دھیمی آواز میں جواب دینے کے بعد لمحہ ضائع کیے بغیر کوریڈور سے نکلتی چلی گئی۔
پیچھے ضمان اپنے ردعمل پر شرمندہ ہونے کے باوجود ارمش سے معافی مانگنے پر وقت برباد نا کرتے ہوئے سٹی ہسپتال کی طرف روانہ ہوگیا ۔
♡-----------------------------------------♡
رسیپشن سے زرلش کے کمرے کا معلوم کرتے شہر کا نامور نیورو سرجن ضمان رند لوگوں کی نظروں کی پرواہ کئے بغیر اپنی بہن جسے باپ بن کر پالا تھا کے لئے تقریباً بھاگنے کے سے انداز میں اوپری حصے کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔
ملک کے بڑے فلاحی ہسپتال سے منسلک ہونے کی وجہ سے وہ ملک بھر کے ڈاکٹرز میں مشہور تھا، ہر نئے انسان دوست ڈاکٹر کا خواب تھا ان کے ساتھ ان لوگوں کے زیرِ نگرانی انسانیت کی مدد کرنا۔ لوگوں کی حسرت بھری نگاہوں سے بےنیاز سیاہ پینٹ آسمانی شرٹ مڑی آستینوں کے ساتھ وہ اپنے مطلوبہ کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں پٹیوں میں جکڑے سر کے ساتھ سامنے ہی وہ آنکھیں موندے بیڈ پر سفید چادر اوڑھے لیٹی تھی۔ ہاتھ پے لگی خون کی ڈرپ چہرے پر چھائی پزمُردگی، زرلش کی حالت دیکھ ضمان کی جان حلق میں آئی تھی۔
"وہ ٹھیک ہے اب بھائی جان ڈرپ ختم ہو جائے پھر ڈسچارج ہوجائے گی۔ پریشان مت ہوں۔"
وہ جو ڈاکٹرز سے تفصیلی معلومات لے رہا تھا ضمان کو اندر داخل ہونے کے بعد دروازے پڑ کھڑے یک ٹک بیڈ کی جانب تکتا دیکھ تسلی دیتے گویا ہوا تھا۔
"کیسے؟ کیسے ہوا؟ اور تم نے سیدھا مجھے کیوں نہیں بتایا؟"
انداز شکوہ کناں تھا۔
"کیونکہ مجھے لگا کہ جبکہ میں یہاں موجود ہوں ہی تو آپکے اُس مریض کو اس وقت آپکی زیادہ ضرورت تھی۔۔۔۔
اور آپکی پیشہ ورانہ طبیعت سے بھی واقف ہوں میں، جانتا تھا کہ آپکو بتانے کے بعد بھی آپ نہیں آئیں گے۔ البتہ پریشان ہوجائیں گے اور پھر سرجری پر صحیح طرح توجہ بھی نہیں دے پائیں گے۔ بس اسی لئے منع کیا تھا مش کو اور یہ بھی کہا تھا کہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی دیر نہ کرے بتانے میں۔۔۔۔"
عالی کے سنجیدہ لہجے پر دو جھیل جیسی پانی بھری نیلی آنکھیں ذہن کے پردے پر لہرائی تھیں۔
"عالی نے منع کیا تھا۔۔۔"
بھرائی آواز کانوں میں گونجی تھی۔
"میں ڈسچارج پیپرز سائن کرکے آتا ہوں۔ زرلش کو ابھی کچھ وقت میں ہوش آجائے گا درد کی وجہ سے سکون آور دوائیں دی تھیں۔"
عالی کی آواز پر سرد سانس ہوا کے سپرد کرتے ہاں میں سر ہلاتے حامی بھری تھی۔
"ڈاکٹر ضمان اگر آپ ساتھ چلتے تو بہتر رہتا مجھے کچھ بات بھی کرنی تھی۔"
جس ڈاکٹر نے زرلش کا علاج کیا تھا عالی کی بات سنتے ہوئے ضمان سے مخاطب ہوئے تھے ۔
"کیا بات ہے ڈاکٹر سب خیریت تو ہے؟"
"ابھی تک تو آپ کہہ رہے تھے کہ وہ ٹھیک ہے اب آپکو بھائی جان سے کیا بات کرنی ہے؟"
پہلا سوال ضمان کی جانب سے نہایت ہی فکرمند لہجے میں کیا گیا تھا جبکہ دوسری بات کہتے عالی کی پیشانی پر بل نمایاں تھے۔
"ریلیکس ڈاکٹرز سب ٹھیک ہے۔ بس مجھے کچھ بات کرنی ہے جو میرے حساب سے مس زرلش کے بھائی سے کرنا ہی مناسب ہے۔"
پیشہ وارانہ انداز میں کہتے ضمان کے دل سے جہاں خوف ختم کیا تھا وہیں عالی کے ماتھے پر سوچوں کا جال بچھاتے ڈاکٹر ضمان کے ہمراہ باہر کی جانب چل دیئے تھے۔ جبکہ پیچھے عالی یہ سوچتا رہ گیا تھا کہ آخر ایسی کیا بات ہے جو اسے نہیں بتائی جا سکتی تھی۔
♡----------------------------------------
"جی کہیے ڈاکٹر-------سب خیریت؟"
اگرچہ ڈاکٹر شک و شبہ سے پہلے ہی آزاد کر چکے تھے پر پھر بھی بھائی ہونے کی حیثیت سے ضمان پوری طرح مطمئن نا تھا۔
"جی ڈاکٹر ضمان سب خیریت ہی ہے، در اصل ٹریٹمنٹ کے دوران مجھے محسوس ہوا کہ پیشنٹ ذہنی دباؤ کا شکار ہے۔۔۔۔ علاج کے دوران وہ کُچھ بے ربط سے جملے ادا کر رہیں تھیں جن میں بارہا ڈاکٹر عالی کا ذکر تھا۔ اسی وجہ سے یہ بات میں نے اُن سے کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
علاج کے دوران میرا زیادہ دھیان تو اُنکی باتوں پر نہیں جا پایا تھا پر جہاں تک سمجھ آیا وہ کسی لڑکی کا ذکر کر رہیں تھیں، جو اُن سے سب چھین لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ خیر میرا یہ سب بتانے کا مقصد صرف یہ تھا کہ آپ جتنی جلدی ہو سکے اُن سے بات کریں اور اُنکی پریشانی حل کرنے کی کوشش کریں۔
اُنکی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ وہ یقیناً بے دھیانی سے گاڑی چلا رہی ہونگی، یہ ذہنی دباؤ مختلف طریقوں سے اُن کے لیۓ خطرناک ہو سکتا ہے۔
ویسے تو میرا کام یہ سب باتیں کرنا نہیں ہے پر چونکہ مریض آپکی عزیز ہیں تو میں نے سوچا کہ بہتر ہے آپ کو بتا دیا جائے۔"
ڈاکٹر کا انداز خاصہ بے لوث تھا کسی کی ذاتیات سے ویسے بھی انکا کیا ہی لینا دینا۔
"شکریہ ڈاکٹر میں آپکا بہت احسان مند ہوں کہ آپ نے یہ بات مجھ سے شیئر کی۔ انشاءاللہ جلد از جلد میں اس معاملے کو حل کرونگا۔ آپکو کبھی بھی کسی قسم کی کوئی ضرورت محسوس ہو تو پلیز مجھے ضرور یاد کیجیے گا۔
اب میں چلتا ہوں۔"
ڈاکٹر کی بتائی گئی بے ربط باتیں بھی ضمان کے لئے کھلی کتاب تھیں۔۔۔۔۔
وہ ہمیشہ سے جنونی تھی پر اس معاملے میں اتنی آگے نکل چکی ہوگی ضمان کو اس بات کا ہر گز اندازہ نہیں تھا۔
ڈاکٹر سے مصاحفہ کرتے وقت ایک فیصلہ وہ کر چکا تھا جب آج تک ہر شے زری کے قدموں میں رکھی تھی تو آج بھی وہ پیچھے نہیں ہٹنے والا۔ عالی نا دے سکے تو نا صحیح پر اس رکاوٹ کو ضرور دور کر سکتا تھا جو زری کے گلے میں ہڈی کی طرح پھنسی ہوئی تھی۔
♡--------------------------------------------♡
"مما۔۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں یہ بس چھوٹی موٹی چوٹیں ہیں۔ مجھے درد بھی نہیں ہو رہا۔"
ایک گھنٹے میں سو مرتبہ دوہرایا گیا جملہ رفیعہ بیگم کو دوپٹے کے کونے سے آنسو صاف کرتا دیکھ ایک بار پھر دوہراتے زرلش نے منہ بسورا تھا۔
ماں کے آنسو جسم میں اٹھتی تکلیف کو دوبالا جو کر رہے تھے۔
"تم جب ماں بنو گی ناں تب احساس ہوگا دونوں کو میری ذرّہ فکر نہیں ہے ایسے ہی حالات رہے تو کسی دن خاموشی سے میرا بھی دل بند ہوجائے گا، پھر کرتے رہنا تم لوگ اپنی من مانیاں۔۔۔۔"
ہچکیوں سسکیوں کے درمیان بات مکمل کرتے ایک بار پھر آنسو کے جھالر ٹوٹ کر گرنے شروع ہوگئے تھے۔
"آپی کیسی باتیں کر رہی ہیں!! خدا آپ کا سایہ بچوں پر اور ہم پر ہمیشہ سلامت رکھے۔ کیوں ہول دلا رہی ہیں؟
ایک طرف زری کی حالت دوسری جانب آپ کی باتیں. رحم کھائیں ہم پر۔۔۔۔"
بہن کی باتوں پر دل تھام کر مبشرہ بیگم گویا ہوئی تھیں لہجے میں نمی صاف جھلک رہی تھی۔
"اور ویسے بھی جو بھی کیا ہے ان محترمہ نے کیا ہے آپ مجھے کیوں گھسیٹ رہی ہیں بیچ میں؟!"
وہ جو بیڈ کے سامنے رکھے صوفے پر براجمان تھا بیڈ پر لیٹی زرلش کے سرہانے بیٹھی رفیعہ بیگم سے آنکھیں چھوٹی کیے شکایتی انداز میں گویا ہوا۔
"تو تم کونسا میری بات مانتے ہو کب سے کہہ رہی ہوں،شادی کرلو! شادی کرلو! تمہارے کان پر جوں تک رینگی ہے اب تک؟ دو اولادیں دی ہیں خدا نے اور ماشاء اللہ سے دونوں ہی پیٹ بھر کر نافرمان ہیں۔"
رفیعہ بیگم کی باتوں نے ماحول کا تناؤ کم کرتے سب کے چہروں پر مسکان بکھیری تھی جب کہ ارمش کے ہمراہ ہاتھوں میں بیڈ ٹیبل تھامے کمرے میں داخل ہوتے عالی کا قہقہہ ضمان جیسے ڈھیٹ کو بھی خجل کر گیا تھا۔
****
جب سے ہسپتال سے واپس آئے تھے عالی کے ساتھ ساتھ باقی سب بھی زرلش کے پاس ہی بیٹھے تھے۔
کچھ دیر باز پرس کرنے کے بعد جب مرتضیٰ رند اپنے پورشن کی جانب روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے عالی بھی اُٹھ کر چل دیا، ایک گھنٹہ ہونے کو آیا تھا زرلش کو گھر آئے جب عالی نے ارمش کی کمی محسوس کی، تو یقیناً باقی سب بھی اُسکی غیر حاضری کو بیرخی سمجھ سکتے تھے۔
نیچے آتے ہی ارمش ہال میں دائیں جانب سے بائیں طرف چکر لگاتی نظر آئی۔ عالی کے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ضمان اوپر تھا اس وجہ سے اکیلے آنے میں ڈر لگ رہا تھا۔ ارمش کی باتوں نے اسکا خون تو بہت جلایا جسکی وجہ سے اچھی خاصی جھاڑ پلانے کے بعد اپنی رہنمائی میں عالی اسے اوپر لے جانے لگا کہ راستے میں فرزانہ زرلش کے لئے بنایا گیا پرہیزی کھانا اوپر لے جاتی نظر آئی، جسکی مدد کرتے ہوئے بیڈ ٹیبل خود اٹھا کر کھانے کی ٹرے ارمش کو پکڑائی تھی۔ ارمش کے آگے چلتے کمرے میں داخل ہوا تو بڑی مما کی گوہر افشانیاں سنتے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے چھت پھاڑ قہقہہ لگایا تھا۔
"اور سنائیں بھائی جان کب کر رہے ہیں خواتین کے ارمان پورے؟ لے آئیں یار ایک عدد بھابی؟کچھ سٹار پلس لائیو انجواۓ کرنے کو مل جائے گا۔۔۔ ہماری کوکیلا بین گوپی واؤ کے بغیر اپنے آنگن کو سونا محسوس کرتی ہیں کیوں صحیح کہا ناں کوکیلہ بین؟؟؟؟"
زرلش کے دراز کیے گئے پیروں کے اوپر ٹیبل سیٹ کرنے کے بعد بیڈ کی پائینتی مبشرہ کی گود میں سر رکھتے آڑھا ترچھا اپنی جگہ بناکر لیٹنے کے ساتھ نہایت ہمدردانہ لہجے میں شوخیاں گھولے ضمان کی ٹانگ کھینچی، آخر میں رفیعہ بیگم کا کھلا منہ دیکھ کر ایک آنکھ دبائی تھی جنہوں نے خفت مٹانے کے لئے عالی کے اپنے سے قریب پیر کا انگھوٹا مروڑا تو ایک بار پھر کمرے کی فضا کو قہقہوں کی گونج نے آباد کردیا۔
ضمان جو تمام تر یساسیت سمیت سوچ رہا تھا کہ شاید وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں رہی جتنا وہ سمجھتا رہا ہے اس بات سے انجان تھا کہ جب سوچ بدلتی ہے تو نظریں بھی خود با خود بدل جاتی ہیں۔
ارمش کو ٹیبل پر کھانا لگاتے ہوئے زرلش کا حال احوال معلوم کرنے کے بعد بیڈ پر جگہ نا ملنے پر مایوس ہو کر صوفے کے کونے پر ٹکتے دیکھ رہا تھا کہ عالی کی بات پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
"ہممم۔۔۔ اب تو سوچ رہا ہوں کر ہی دوں ارمان پورے مما کے۔۔۔۔۔"
دلکش مسکراہٹ لبوں پر سجائے الفاظ ادا کرنے سے پہلے ہی سوچ چکا تھا کہ اب چلتا بننا چاہیے، تبھی پیچھے سب کی پکاروں کو نظر انداز کیے اپنے کمرے میں گھس گیا تھا۔
جبکہ پیچھے تمام خواتین ذرا سی رضامندی پر ہی پرجوش "لڑکی ڈھونڈو" مہم شروع کر چکی تھیں جبکہ اس مہم کے سربراہ کا گمان عالی پہ تھا جو خالص رشتے والی باجی کا کردار ادا کرتے ہوئے مختلف لڑکیوں کے نام گنوا کر سب کو مزید پرجوش کر چکا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"ضمان یہ دیکھو۔۔۔ یہ فیز-فور کے علوی صاحب ہیں ناں؟ اُنکی بیٹی ابھی لندن سے انجنیئرنگ پڑھ کر واپس آئی ہے۔ ہم سب کو تو بہت پسند ہے ایک بار تم بھی دیکھ لو پھر اسی ہفتے ہم لوگ رشتے کے لئے چلے جائیں گے،اور خبردار جو تم نے چوں چراں کی تو۔ اگر اس سے کوئی مسئلہ ہے تو پھر آج تمہیں اپنی پسند بتائے بنا میں نے یہاں سے ہلنے بھی نہیں دینا۔"
زری کے ساتھ پیش آئے حادثے کو ہفتہ ڈیڑھ گزر چکا تھا اور اس عرصے میں یہ کوئی دسویں تصویر تھی جو ضمان کو دکھانے کے لیے آج پھر رفیعہ بیگم بضد تھیں۔ اس سے پہلے ضمان پھر کوئی بہانہ تراشتا اسکے لب وا ہونے سے پہلے ہی رفیعہ بیگم بری طرح ڈپٹتے اپنی بات پر اڑ گئیں تھیں۔ آج گلو خلاسی نا ممکن محسوس ہو رہی تھی۔
ضمان اپنی زبان کے پھسل جانے پر جی جان سے کوفت زدہ تھا۔ نا سب کے سامنے وہ نیم رضامندی ظاہر کرتا نا ہی سب مل کر اسے گھیرے میں لیتے۔
اپنے بھائی جان کی حالت دیکھتے زرلش کی مسکراہٹ چھپائے نہیں چھپ رہی تھی۔
"اب دیکھ بھی چکو۔۔۔۔۔۔
اچھا چلو ٹھیک ہے اگر شرم آ رہی ہے تو زری تمہیں واٹس ایپ کر دیتی ہے۔"
وہ ہاتھ جس كا رخ فون سمیت ضمان کی جانب تھا زرلش کی جانب کرتے ضمان کی جھجھک کو شرم کا نام دے کر آسان تجویز پیش کی تھی۔
"لاحول ولاقوۃ۔۔ مما میں کونسا اٹھارہ برس کی معصوم کلی ہوں جو تصویر دیکھنے سے شرماؤں گا؟؟"
سر پر دوپٹہ اوڑھے ہونٹ چبا کر شرمائی سی صورت کچھ عجیب سا نقشا گھوما تھا ضمان کے دماغ میں جسے سوچ کر جھرجھری لیتے منہ بنا کر اپنی عادت کے بر خلاف ضمان گویا ہوا تو بے ساختہ زرلش کی ہنسی چھوٹ گئی،جسے ضمان کی شکوہ کناں نظریں دیکھ با مشکل قابو کرنے کو کوشش میں اسکا چہرہ لال بھبوکا ہوگیا۔
"مجھے نہیں دیکھنی سترنگی لڑکیاں اگر آپ لوگوں کو اتنا ہی شوق چڑھ رہا ہے میری شادی کا تو۔۔۔۔۔۔۔"
اب جب کہ وہ اپنے آپ کو بھی اس حوالے سے تیار کر چکا تھا اور گھر والوں سے بھی بخشش مشکل ملتی نظر آئی تو ایک حتمی فیصلہ لیتے ضمان نے بات کرنے کی کوشش کی پر کہتے کہتے دماغ نے ایک مرتبہ پھر اپنی ہانک لگائی تھی۔
"ضمان سب کیا سوچیں گے؟ ایک بچی پر نظر رکھے بیٹھے ہو تم؟ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔"
ضمان اسی سوچ میں ڈوبا تھا کہ ماں کی آواز ہوش کی دنیا میں واپس لائی۔
"تو کیا؟؟؟؟"
وہ جو پوری توجہ سے اسکی بات سن رہیں تھیں بات بیچ میں چھوٹ جانے پر بد مزہ ہوتی آخری لفظ کا سہارا لے کر سوال کیا۔
حامی میں گردن ہلاتے ذرلش نے بھی منہ بنایا تھا گویا کہہ رہی ہو کہ کیوں بلاوجہ سسپینس پھیلا رہے ہیں۔
"مما اگر آپ چاہتی ہیں کہ میں شادی کر لوں تو اِدھر اُدھر لڑکیاں تلاشنے سے بہتر ہے کہ۔۔۔۔۔۔ آااپ۔۔۔۔۔ مما چھوٹے پاپا سے ارمش کے لئے بات کریں۔۔۔"
مناسب الفاظ کا چناؤ، ٹھیرا لہجہ، جھکی نظریں وہ اپنی خواہش کا اظہار یوں کر رہا تھا جیسے کوئی مجرم دروغا کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کر رہا ہو۔
"ارمش؟؟ اپنی مش؟"
حیرت، خوشی ،جوش کیا نہیں تھا اس وقت رفیعہ بیگم کے لہجے میں۔ جب کہ زرلش کی آنکھیں مشکوریت کے احساس سے چھلکنے کو بیتاب تھیں۔ یہ شخص جو اس کا بھائی تھا اپنے وجود میں باپ کی شفقت بھرے بیٹھا تھا۔
"پر ضمان وہ۔۔۔ وہ کافی چھوٹی نہیں ہے؟ نا جانے بھائی صاحب مانیں گے بھی یا۔۔۔۔"
اپنے سوال پر ضمان کی خاموشی کو اقرار جانتے اپنے دل میں اجاگر ہوتا خدشہ ظاہر کر بیٹھی تھیں۔
"میرے بھائی جان لاکھوں میں ایک ہیں کوئی وجہ ہی نہیں بنتی انکار کی مما۔"
رفیعہ بیگم کی بات بیچ میں کاٹ کر زرلش نے انکا خدشہ رد کیا تھا۔ جس کے لہجے کا جوش و مان دیکھ رفیعہ بیگم کے ساتھ ضمان کے چہرے پر بھی مسکراہٹ بکھری تھی پر جلد ہی سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے ماں کی آنکھوں میں دیکھتے ایک مرتبہ پھر اپنی بات دوہرائی تھی۔
"آپ بات کر کے دیکھیں میرے حساب سے عمر کا فرق اتنا بھی نہیں ہے کہ جسے بنیاد بنا کر مجھے مسترد کیا جائے۔"
لہجے میں عجیب سا اعتماد تھا اپنی شخصیت کے سحر سے شاید وہ خود بھی واقف تھا۔
الفاظ میں موجود غرور یہ بتا رہا تھا کہ جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ ٹھکرائے جانے کے لئے بنا ہی نہیں۔۔۔۔
♡-------------------------------------------♡
"بھائی صاحب میں کچھ بات کرنا چاہ رہی تھی آپ سے۔۔۔۔۔۔۔"
رات کے کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو سب لاؤنج میں بیٹھ کر گپ شپ میں محو ہوگئے ماسوائے ضمان اور ارمش کے، ارمش جو رات کو چائے نہیں پیتی تھی دن بھر ہسپتال کی مصروفیت کے باعث سب سے معذرت کرتی اپنے کمرے میں آرام کرنے کی نیت سے جا چکی تھی جبکہ ضمان جو جانتا تھا کہ آج رفیعہ بیگم رشتے کی بات کرنے والی ہیں، بڑے بات کھل کہ کر سکیں اس لیے فرزانہ کو چائے کمرے میں لانے کا کہتے خود بھی منظر سے غائب ہوگیا تھا۔
"جی بھابی حکم کیجئے۔"
مرتضیٰ صاحب کے لہجے میں احترام ہی احترام تھا، اور کیوں نہ ہوتا رفیعہ بیگم اُن کے عزیز از جان مرحوم بھائی کی عزت تھیں۔
اچانک ماحول سنگین ہوا تھا سب کی توجہ رفیعہ بیگم کی جانب تھی جب کہ زرلش یک ٹک عالی کو تک رہی تھی گویا ماں جو بات کرنے لگی تھیں اُس پر عالی کا ردِ عمل جانچنا اس دنیا کا اہم ترین کام ہو۔
"بھائی صاحب ضمان اب جبکہ مکمل طور پر نا صرف ایک کامیاب ڈاکٹر بن گیا ہے بلکہ ہم سب کا خواب پورا کرتے آپ کے ہمراہ اپنی تمام تر ذمہ داریاں بھی خوش اسلوبی سے ادا کر رہا ہے۔۔۔۔۔ ایک ماں ہونے کے ناطے میرے ارمان بھی اُسکی جوانی کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔۔۔۔"
چہرے کی مسکراہٹ کُچھ سمٹی تھی گہرا سانس لیتے ایک مرتبہ پھر گویا ہوئیں
"ایک عرصہ ہوا ہے اس گھر میں خوشیوں کی شہنائی گونجے۔ میں چاہ رہی تھی کہ اب اُسکی شادی کر دی جائے۔۔۔۔"
ایک حسرت تھی لہجے میں جسے محسوس کرتے سب کے دل اُداس ہوئے تھے۔
مرتضیٰ رند کی زندگی میں ہر خوشی بھرپور انداز میں منائی جاتی تھی۔ کبھی بزنس میں کامیابی کبھی بچوں کی کامیابی تو کبھی سالگرہ۔ سال میں نا جانے کتنی پارٹیز دی جاتی تھیں، ابھی ایک پارٹی کی دھوم ماند پڑتی نہ تھی کہ اگلی خوشی اور پھر اُسکی پارٹی۔۔۔۔۔۔ پر مرتضیٰ کی اس دارِ فانی سے رخصتی در اصل رند خاندان کی خوشیاں بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
"میں سمجھ سکتا ہوں بھابی۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ بے فکر ہوجائیں میں کرتا ہوں بات ضمان، سے آپ لڑکی ڈھونڈیں۔"
رفیعہ کی تمہید سے مصطفٰی صاحب یہی اخذ کر پائے تھے کہ شاید ضمان کی رضامندی لینے کے لئے انہوں نے مصطفٰی صاحب سے رجوع کیا ہے۔
"وہ بھائی صاحب۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے ضمان کو منا لیا وہ راضی ہے شادی کے لئے اور لڑکی بھی میری نظر میں ہے۔۔۔۔۔"
جہاں ضمان کی مکمل رضامندی پر سب کے چہرے مسرت کے احساس سے جھلملائے تھے وہیں لڑکی کے ذکر پر تجسس کی لہر سب میں دوڑ گئی تھی۔
"تو پھر دیر کس بات کی ہے آپی؟ آپ لڑکی بتائیں ہم کل ہی چلتے ہیں رشتہ ڈالنے۔"
مبشرہ رند کی چہکتی آواز لاؤنج میں گونجی تھی ۔
"ہاں میں اسی سلسلے میں یہاں آئی ہوں۔ بھائی صاحب،ضمان آپکی اولاد ہے آپکا خون آپ کے سامنے پلا بڑا ہے اُسکی رگ رگ سے آپ لوگ بخوبی واقف ہیں۔ وہ ایک مکمل مرد ہے، جس طرح آج تک اپنے آپ سے منسلک افراد کو اپنی ذات سے ہر طرح خوش رکھا ہے وہ یقیناً اپنی ہمسفر کو بھی ہر غم سے دور خوشیوں کے سائے میں رکھے گا۔۔۔۔۔ بھائی جان کسی اور لڑکی کو دیکھنا مجھے معیوب لگا جبکہ اپنے گھر میں ہی بچی موجود ہے۔
میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ضمان کے لئے ارمش کا ہاتھ مانگنے آئی ہوں۔ آپ کے در پر سوالی بنی ہوں، مجھے امید ہے آپ مجھے خالی ہاتھ نہیں لوٹائیں گے۔"
ضمان کے گن گنوا کر لجاجت سے تمام تر امید لہجے میں سموئے وہ مصطفیٰ رند سے سوالی تھیں۔
ماحول میں گویا خوشی کے پھول کھل گئے ہوں۔ ایک بے ساختہ مسکراہٹ نے تمام افراد کے چہروں پر ڈیرہ ڈالا تھا یوں جیسے کہ اب کبھی ان لبوں سے دور نا ہوگی۔
ضمان اور ارمش کے رشتے کے متعلق سن کر جو طمانت سے بھرپور مسکان عالی کے چہرے پر بکھری تھی زرلش کا سیروں خون بڑھا گئی تھی۔ دل سے گویا منيوں بوجھ اترا تھا، ارمش کی شادی پر وہ خوش تھا۔۔۔۔ اور زرلش کو کیا چاہیے تھا۔۔۔۔
"ضمان مجھے عالی کی طرح ہی عزیز ہے۔۔۔۔ مجھے اس رشتے سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔ پر یہ زندگی مش کی ہے جو اُسکا فیصلہ ہوگا وہی میرا فیصلہ ہوگا۔ اور پھر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے میں امّاں جی سے بھی مشورہ کرنا چاہوں گا۔"
کچھ سوچتے ہوئے مرتضیٰ رند گویا ہوئے۔
"تو اس میں کون سی دیر لگنی ہے جاؤ زری مش کو بلا کر لے آؤ اور پھر امّاں جی۔۔۔۔"
مصطفٰی صاحب کی رضامندی پر رفیعہ بیگم خوشی سے جھوم اٹھی تھیں۔ ہتھیلی پر سرسوں جماتی زری کو اشارہ کرتے بات آگے بڑھانی چاہی تھی جب مرتضیٰ رند بیچ میں ہی بات کاٹتے گویا ہوئے۔
"بیٹھ جاؤ زری۔۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ سب کی موجودگی میں وہ کسی بھی قسم کے دباؤ میں آ کر کوئی فیصلہ کرے۔ میں اکیلے میں بات کرلوں گا دونوں بچے یہیں ہیں پھر جلدی کس بات کی؟ کافی دیر ہوگئی ہے میرے خیال سے آگے بات آرام سے کرتے ہیں۔ فلحال آپ سب اپنے کمروں میں جائیں آرام کریں کل بات ہوتی ہے۔"
زری کو بٹھا کر حتمی لہجے میں کہتے گویا محفل برخاست کی تھی جسے سن کر سب مطمئن سے اپنی اپنی آرام گاہ کی جانب چل دئیے۔
♡------------------------------------------♡
"ارمش بیٹا ناشتہ کرنے کے بعد کمرے میں آجانا مجھے ضروری بات کرنی ہے۔"
مصطفٰی رند جو ابھی ناشتے سے فارغ ہوئے تھے جب ارمش کو ڈائننگ ہال میں داخل ہوتے دیکھا تو رات رفیعہ بیگم سے کی گفتگو یاد آگئی۔ اسی حوالے سے بات کرنے کا سوچتے ارمش کو کمرے میں آنے کا کہہ کر کرسی سے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
"خیریت؟ میں ابھی چلتی ہوں پاپا۔"
وہ جو بالوں سے اُلجھتی انکو جوڑے میں قید کرنے کی کوشش میں دوہری ہو رہی تھی مرتضیٰ صاحب کی بات پہ چونکی تھی۔
"آرام سے ناشتہ کر کے آجاؤ۔۔۔۔"
ارمش کی فرمانبرداری پر شفقت بھرا لمس پیشانی پر چھوڑ کر آگے بڑھ گئے، جبکہ پاپا کا عام سا لہجہ محسوس کرتے ارمش کندھے اُچکاتی آگے بڑھی ہی تھی جب ضمان کو خود کو گھورتا پایا۔
"اب کیوں گھور رہے ہیں۔ کیا کردیا ارمش بی بی تم نے۔۔۔ اوہ۔۔ صحیح صحیح۔۔۔۔"
"اسلام و علیکم!"
ضمان کی نظروں سے خائف ہوتے جو سوچ رہی تھی کہ اب صبح صبح کیا کر دیا میں نے۔۔ ذہن میں جھماکا ہوا تو سلام جهاڑتی خاموشی سے اپنی نشست سنبھال کر ناشتے میں مگن ہوگئی۔ کیونکہ اس کے نزدیک فلحال سلام نا کرنا ہی کچھ معیوب بات تھی۔
وہ جسکی نظریں مرتضیٰ صاحب کی بات سن کر بیساختہ ہی ارمش کے وجود سے الجھی تھیں ارمش کے چہرے کے زاویے اور پھر کچھ یاد آنے پر سلام کرتے دیکھ مسکراہٹ چھپا کر پلیٹ کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"پھٹّو کہیں کی۔۔۔۔۔۔"
دل ہی دل میں ڈرپوک لقب سے نوازتے وہ اپنے روئیے سرا سر فراموش کر چکا تھا۔
***
دونوں فیملیز کے پورشن اگر چہ الگ تھے پر کھانا سب ایک ساتھ مصطفٰی صاحب کے پورشن میں ہی کھاتے تھے۔
دوپہر میں ہسپتال کی مختلف شفٹس کے باعث جتنے بھی افراد گھر میں ہوتے تھے سب ساتھ مل کر کھاتے یونہی رات کا کھانا بھی ساتھ تناول کیا جاتا تھا جب کہ صبح کا ناشتہ جو جس وقت اُٹھتا اس وقت اپنی مرضی کے مطابق کمرے یا ہال میں کرلیتا۔
♡-------------------------------------------♡
اپنی بات مکمل کرنے کے بعد مصطفٰی رند نے ارمش کی جانب دیکھا، جسکی پر اسرار خاموشی سے کچھ بھی اخذ کرنا مشکل تھا۔
ابھی کچھ لمحے قبل ہی وہ دستک دے کر مبشرہ اور مصطفٰی کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوئی تھی جب مصطفٰی صاحب اسے لیئے صوفے کی جانب چل دئیے اور پھر ٹھہر ٹھہر کر رفیعہ بیگم کا تقاضہ بیان کرنے کے بعد اب اُسکے جواب کے منتظر تھے۔
"بیٹا۔۔۔۔۔ ضمان اچھا لڑکا ہے اور پھر تم ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے اسی چھت تلے رہو گی، یہ بات ہمارے لیے مزید تسلی بخش ہے۔ پر آخری فیصلہ وہی ہوگا جو تم چاہو گی۔"
ارمش کی جانب سے مسلسل خاموشی دیکھ ڈھکے چھپے الفاظ میں اپنی رضامندی ظاہر کرنے کے بعد اسکو فیصلے کا اختیار دیتے گویا ہوئے۔
"نہیں پاپا۔۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔ بھائی جان نہیں!!
آا۔آپ۔۔ آپ کا ہر حکم سر آنکھوں پر آپ جو چاہیں میری زندگی کا فیصلہ کریں پر یہ نہیں۔۔۔۔
پلیز پاپا میں۔۔۔۔۔ بھائی جان نہیں خدارا پاپا!!"
وہ جو سکتے کی سی کیفیت میں مبتلا تھی مصطفٰی صاحب کی رضامندی ہتھوڑے کی طرح عصاب پر برسی تھی۔ آنسو نیلی جھیل جیسی آنکھوں سے سیلاب کی صورت بہنا شروع ہوئے تو ہوش میں آ کر صوفے سے نیچے مرتضیٰ صاحب کے قدموں میں بیٹھے ہچکیوں سسکیوں سے ہاتھ جوڑے منتی انداز میں گڑگڑاتی مرتضیٰ رند کے اوسان خطا کر گئی تھی۔
"نہیں ارمش بیٹے۔۔۔۔ میری جان روتے نہیں ہیں۔۔۔۔ جو تم چاہو گی وہی ہوگا میں ابھی منع کردوں گا، کوئی میری بیٹی پر اپنا فیصلہ نہیں تھوپ سکتا۔۔۔۔ بس خاموش، رونا نہیں ہے اب۔ پاپا ہیں ناں سب سنبھال لیں گے، میرے بچے کو پریشان نہیں ہونا۔۔۔۔۔۔"
وہ جو امید کر ہی رہے تھے کہ ضمان سے ڈر کے باعث وہ انکار کرے گی اور پھر انکے سمجھانے پر مان جائے گی اسکے اس قدر شدید ردِ عمل پر سخت ہراساں ہوئے ارمش کو بازو سے تھام کر گلے لگائے دلاسہ دینے لگے۔
جبکہ باپ کی آغوش میں تسلی بخش الفاظ سنتے ارمش بھی کُچھ پر سکون ہوئی تھی۔
"ضمان سے شادی۔۔۔"
سوچ کر ہی جھرجھری لیتے مستقبل سے بےخبر وہ اس خیال کو بھی اپنے دل سے کھرونچ کر نکال دینا چاہتی تھی۔
♡------------------------------------------♡
"ڈاکٹر ارمش، آپکو ڈاکٹر ضمان اپنے کیبن میں بلا رہے ہیں۔"
پانچ منٹ ہی گزرے تھے ابھی اُسے ضمان کے ہمراہ وارڈ ملاحظہ کرنے کے بعد ڈاکٹرز کے کامن روم آئے کہ وارڈ بوائے نے آ کر ضمان کا پیغام گوش گزار کیا۔
"جی جاتی ہوں۔"
انٹرنیز کی معنیٰ خیز نظروں سے لاپرواہ وارڈ بوائے کو جواب دیتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی۔
صبح مصطفٰی صاحب کی یقین دہانی کروانے پر وہ کافی سے زیادہ مطمئن ہوئی تھی۔ پر دوپہر کے کھانے کے وقت ڈائننگ ٹیبل پر غیر معمولی خاموشی نے اسے بری طرح ٹھٹھٹکنے پر مجبور کیا تھا، یقیناً اسکا فیصلہ رفیعہ بیگم تک پہنچا دیا گیا تھا تبھی سب ایک دوسرے سے نظریں چرائے اپنی پلیٹوں پر جھکے خاموشی سے کھانا تناول کر رہے تھے۔ چند ایک لقموں کے بعد جونہی رفیعہ بیگم کے پیچھے زرلش بھی اُٹھ کھڑی ہوئی تو ارمش کی بےبس نظریں خود با خود مصطفٰی رند کی جانب اٹھیں جنہوں نے نظروں ہی نظروں میں اسے مطمئن ہونے کا اشارہ کیا، وہ بھی سب کچھ فراموش کیے ایوننگ شفٹ لگانے مصطفیٰ صاحب کے ہمراہ ہسپتال چلی آئی۔
اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ضمان کا رویہ معمولی ہی تھا جسکی وجہ سے ارمش کو بھی خاصی ڈھارس ہوئی اور وہ بھی معمول کے حساب سے اپنے کام سر انجام دینے لگی۔
"آپ نے بلایا تھا بھائی جان؟"
دروازہ کھٹکٹانے کے بعد جھانکتے استفسار کیا تھا۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔ جا کر اندر بیٹھو میں آتا ہوں۔"
وہ جو کسی پیشنٹ کی فائل میں سر دئیے بیٹھا تھا ارمش کی آمد پر سر ہلا کر کیبن سے محلق سیٹنگ روم کی جانب اشارہ کرتے گویا ہوا۔
ارمش حکم کے مطابق سیٹنگ روم کی جانب چل دی۔
مکمل سفید رنگ و روغن میں رنگے سفید اندرونی سجاوٹی اشیاء کے کیبن کے مقابل یہ کمرہ فان اور براؤن رنگوں کے امتزاج سے سجا تھا۔
براؤن لیدر صوفوں کی جانب چلتے ابھی ایک پر بیٹھی ہی تھی کہ دروازہ کھولے ضمان بھی چلتا اس کے سامنے صوفے پر آ بیٹھا۔
"چھوٹے پاپا نے تم سے ہمارے رشتے کی بات کی تھی اور تم نے انکار کر دیا۔۔۔۔۔وجہ جان سکتا ہوں؟"
گہری سانس ہوا کے سپرد کرتے خود کو پر سکون کرنے کی اپنی سی کوشش کی تھی۔
"پاپا نے مجھ سے میری مرضی دریافت کی اور میں نے اُنہیں اپنے خیالات سے آگاہ کر دیا۔ آپکو تو خوش ہونا چاہیے بھائی جان۔۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ آپ نے بھی بڑی مما کے دباؤ میں آ کر ہی خاموشی اختیار کی ہوگی۔۔"
ضمان کے سوال نے اسے اُلجھن کا شکار کیا تھا وہ کیوں وجہ جاننا چاہتا تھا؟ اُسے تو خوش ہونا چائیے تھا کہ ارمش کی بدولت مصیبت سر سے ٹلی۔
"اور اگر میں کہوں کہ سب میری مرضی سے یا پھر میرے ہی کہنے پر ہوا ہے تو؟"
بیوقوف لڑکی سمجھ رہی ہے کہ کوئی مجھ پر دباؤ ڈال کر میری زندگی کا فیصلہ میری ہی مرضی کے بغیر کر سکتا ہے۔
ارمش کی بات پر مطمئن ہوتے کہ اسکی خواہش مد نظر رکھتے اُسنے انکار کیا ہے دل ہی دل میں اسکی بیوقوفی پر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
"میرا جواب تب بھی وہی ہوگا جو اب ہے۔ میں کم از کم آپکو اپنی زندگی کا مختیار ہر گز نہیں بنا سکتی۔"
چند لمحے تو ضمان کے کہے گئے الفاظ پر وہ یقین ہی نہ کر پائی تھی۔
وہ ایسا کیسے کہہ سکتا تھا؟ کیا سمجھ لیا تھا اُسنے ارمش کی ذات کو؟ بچپن سے لے کر آج تک کی گئی تمام زیادتیاں فراموش کیے وہ یہ امید رکھے بیٹھا تھا کہ ارمش اسکے رشتے کو تہےدل سے قبول کر لے۔
اپنی دانست میں ضمان کی نظروں سے خوفزدہ ہوئے بغیر پسیجتے ہاتھوں کو مٹھی میں قید کیے ضمان کی ذات کی نفی کرتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
ابھی ایک قدم بھی آگے نہ لیا تھا کہ نازک کلائی ہڈی توڑ گرفت میں محسوس ہوئی۔ اس سے پہلے کہ ارمش کوئی ردِ عمل دیتی ایک جھٹکے سے ضمان اسے اپنے سامنے موجود صوفے پر پٹختے خوں خار انداز میں اس نازک سے وجود پر جھکا تھا۔
"اوقات کیا ہے تمہاری؟
ہاں؟
تم؟؟؟ مجھے؟؟ ضمان رند کو مسترد کرو گی؟!؟!"
آنکھوں میں شعلوں کی تپش لیئے وہ ارمش کو بھسم کر دینے کے در پے تھا۔
"آ۔۔آپ بلاوجہ ایک معمولی سی بات کو انا کا مسئلہ بنا رہے ہیں۔۔۔۔"
لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنی کیفیت ضمان سے چھپا نہ پائی تھی۔ بھیگی پلکیں لرزتا وجود ڈر خوف چیخ چیخ کر واضح کر رہا تھا۔
"خاموش!! بلکل خاموش!!
میری ذات کی نفی تمہارے نزدیک معمولی بات ہے؟!"
وہ جو بمشکل ہی ہمت جمع کیے اپنے حق کی خاطر آواز اٹھا رہی تھی ضمان کی دھاڑ پر کبوتر کی طرح آنکھیں میچے آنے والے خطرے سے روپوش ہونے کی ناکام کی کوشش کرنے لگی۔
"خیر ۔۔۔۔۔۔۔ جو ہونا تھا ہو چکا۔ اب تم یہاں سے جاؤ گی اور چھوٹے پاپا کو کہو گی کہ اچانک سوال پر کچھ سمجھ نہ آیا تھا جس وجہ سے تم نے انکار کر دیا پر اب تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔"
ارمش کی حالت کے پیشِ نظر فاصلہ قائم کرتے دونوں ہاتھ چہرے پر پھیر کر صلحجو انداز میں گویا ہوا ۔
"میں ایسا کُچھ نہیں کرونگی۔۔۔۔۔۔
سمجھے آپ؟!
میں ہر گز بھی آپ سے شادی نہیں کروں گی۔"
ضمان کی دھاڑ سے مقابلہ کرتی آواز میں اپنا فیصلہ سنا کر اس جگہ سے نکلتی چلی گئی۔
"پچھتاؤ گی ارمش مگسی۔۔۔۔ زندگی جہنم سے بھی بدتر نا بنا دی تو میں بھی ضمان رند بلوچ نہیں"
اپنے پیچھے ضمان کی دھمکی اور پھر شیشہ ٹوٹنے کی چھنکار با آسانی اسکے کانوں تک آئی تھی۔
خوف و ہراس کے زیرِ اثر ضمان کی کیبن سے تو کیا وہ ہسپتال سے ہی نکلتی چلی گئی۔
♡------------------------------------------♡
"کس بات کی ٹینشن ہے ارمش بی بی کو؟؟؟"
ٹی وی لاؤنج میں صوفے پر نیم دراز پیروں کو سامنے رکھے سٹول پر ٹکائے وہ جو بظاھر شو دیکھ رہی تھی عالی کی آواز پر سیدھی ہو کر بیٹھی۔
"نہیں تو۔۔۔ مجھے تو کوئی ٹینشن نہیں۔"
بذریعہ ریموٹ ٹی وی کی آواز کُچھ ہلکی کرتے ہوۓ کندھے اچکا کر گویا ہوئی،qq لہجے کو معمولی رکھنے کی ممکن کوشش کی تھی۔
"آہاں۔۔۔۔ تبھی دونوں انگلیوں کا قیمہ بنایا جا رہا تھا۔"
سنجیدہ سے لب و لہجے میں میٹھا سا طنز کیا تھا۔
وہ جب بھی کسی گہری سوچ میں ہوتی یا اُداس ہوتی تو شہادت اور اُسکے برابر والی اُنگلی پوری کی پوری اپنے منہ میں لئے ٹرانس کی کیفیت میں دنیا جہان سے غافل ہوجاتی تھی۔
وقت گزرنے اور جوانی کی سرحدوں میں قدم رکھنے کے ساتھ یہ عادت ختم ہونے کے بجائے مذید پختہ ہوتی چلی گئی۔
ابھی بھی وہ اسی انداز میں اپنی مخروطی اُنگلیوں پر ظلم کرنے کا شغل فرما رہی تھی جب عالی کی آواز نے سوچوں میں خلل پیدا کیا۔
"کاکے مت بنو۔۔۔۔۔جیسے تمہیں کُچھ معلوم ہی نہیں ہے۔۔۔۔"
اپنی جھینپ مٹانے کے لیئے نظریں گھمائی تھیں۔
"ویسے جہاں تک مجھے معلووووم ہے۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے فلحال جو پاپا نا سنبھال سکیں۔ اس لحاظ سے تمہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مشو رانی!!"
ارمش کی باتوں پر محض اُسے پُر سکون کرنے کی غرض سے ہلکے پھلکے انداز میں بات کرتے معلوم کو لمبا کھینچا تھا۔ اپنے الفاظ کے اختتام پر ارمش کے گلابی پھولے گالوں کو کھینچ کر لال کرنا بھی لازم سمجھا تھا۔
"عالی یار وہ۔۔۔۔۔"
کُچھ سوچتے ہوئے ہسپتال میں ہونے والا واقعہ وہ عالی کے گوش گزار کرنے ہی والی تھی جب دروازے سے داخل ہوتے زرلش اور ضمان پر نظر پڑی تو زبان کو بھی ساتھ بریک لگی۔ ضمان کی نظروں سے چھپتے ارمش عالی کی اوٹ میں ہو لی۔۔۔
گھر کے ماحول کے پیشِ نظر ضمان نے رفیعہ اور زرلش کو سمجھایا تھا کہ کسی ایک فرد کی وجہ سے آپس میں بدگمانیاں پیدا مت کریں۔
ساتھ ہی زرلش کو بھی اکیلے میں پر سکون کیا تھا کہ یہ معاملہ وہ اپنے طریقے سے نپٹا لے گا۔ اسی وجہ سے ہر جمعہ کی رات کی طرح کھانے سے پہلے ہی نیچے سب کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنے آچکا تھا۔
ارمش کو دیکھ کر غصّہ نئے سرے سے عود آیا تھا جو بڑے رازدارانہ انداز میں عالی کو کچھ بتانے لگی تھی پر ضمان کو دیکھ کہ خاموش ہوگئی۔
ضمان اپنی بیوقوفی پر جی جان سے کڑا تھا جو ارمش سے بات کرتے وقت یہ حقیقت سرے سے فراموش کر بیٹھا تھا کہ وہ کوئی بھی بات عالی سے کرنے میں گریز محسوس نہیں کرتی۔
عالی اور زرلش کی نوک جھوک پر وہ اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آیا جہاں کوئی نیٹفلکس سیریز زیرِ بحث تھی۔
سر جھٹک کر یہ معاملہ بعد میں حل کرنے کا سوچ وہ بھی گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے نظریں جو غیر ارادی طور پر ارمش پر گڑھی تھیں ہٹاتے ہوئے زرلش اور عالی کی باتوں کی جانب متوجہ ہوگیا۔
ضمان کی موجودگی ارمش کو عجیب وحشت میں مبتلا کر رہی تھی پر یہاں سے اٹھ کر وہ اپنی بےچینی سب پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی یوں بھی کوئی بھروسہ نہیں تھا کہ اُسکی جھجھک کو اکڑ بنا کر سب کے سامنے پیش کر دیا جاتا۔ سو صبر کا گھونٹ بھر کے عالی کے ساتھ لگی گم سم ہی صحیح پر لاؤنج میں ہی بیٹھی رہی۔ گاہے بگاہے ضمان کی اٹھتی نظریں بھی اسکی نظر سے پوشیدہ نا رہی تھیں۔
♡------------------------------------------♡
"افف اللّٰہ۔۔۔ فرزانہ!!! تمہیں مجھ سے کون سے خصوصی بیر ہیں۔۔۔۔۔"
خوشحال ماحول میں کھانا کھانے کے بعد جونہی چائے کا دور بھی روز کی طرح چلا تو ارمش کو یوں محسوس ہوا جیسے دل سے بھاری بوجھ ہٹا ہو۔ ساتھ خیریت سے جب سب اپنے اپنے کمروں کی جانب چلے تو ارمش بھی اپنے کمرے میں آگئی۔
اپنی عادت کے مطابق نہا کر گیلے بال تولیے کی مدد سے پھریرے کرتے کمر پر کھلے چھوڑے اور پھر بیڈ پر بیٹھ کر باڈی لوشن لگانے لگی۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر پیاس کا احساس ہوا تو سائڈ ٹیبل سے جگ اٹھایا جو سوکھے کنویں کا منظر پیش کر رہا تھا۔ فرزانہ کو دہائیاں دیتی جگ لے کر کچن کی جانب چل پڑی۔
ضمان جو کھانے کے بعد دوستوں کے ساتھ وقت گزاری کے لیئے گھر سے نکلا تھا۔ واپسی پر سیڑھیوں کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ کھڑ پڑ کی آوازیں کان میں پڑیں۔
تجسس کے ہاتھوں قدم آوازوں کی سمت بڑھائے ہی تھے کہ اندازہ ہوا کہ آوازیں کچن سے آ رہی ہیں۔ ابھی کچن کی دہلیز پر قدم رکھا تھا کہ ارمش کی موجودگی پر کچھ حیران ہوا۔ حیرانی کا دورانیہ زیادہ لمبا نا تھا، شیطانی مسکراہٹ فوری ہی حیرت کی جگہ حاصل کر چکی تھی۔
دبے پاؤں چلتا ارمش کی پشت پر جا کھڑا ہوا۔ وہ جو فریج میں گھسی چاکلیٹ کا چھپایا گیا جار کھوج رہی تھی کامیابی حاصل ہوئی تو ہنسی خوشی جگ اٹھا کر کمرے میں جانے کے لئے مڑی ہی تھی کہ سر دیوار سے جا ٹکرایا۔۔۔۔۔
کم از کم ارمش کو ایک لمحے کے لیئے یہی گمان ہوا تھا۔
نظریں اٹھائیں تو سامنے موجود چہرہ دیکھ کر حلق تک کڑوا ہوا۔ رات کے اس پہر ضمان سے بھڑنا سرا سر بیوقوفی تھی نہ موقع تھا نہ ارمش میں ہمت اس لئے وہ خاموشی سے ایک طرف ہو کر نکلنے لگی اس سے پہلے کے وہ قدم بڑھاتی ضمان دونوں ہاتھ فریج پر رکھ کر اسے قید کر چکا تھا۔
"کیا بیہودگی ہے؟؟ آپ میں ذرّہ برابر شرم غیرت باقی بھی ہے کہ نہیں؟؟؟"
رات کی تاریکی اور ضمان کی نزدیکی خوف کی زد میں ارمش کا وجود لرز اٹھا تھا پھر بھی ہمت جمع کرتے غرائی تھی۔
"مجھے پسند آیا۔۔۔۔۔
خیر کُچھ کہا تھا میں نے۔۔۔۔ یاداشت کمزور ہے جو 2 دن گزر جانے کہ بعد بھی چھوٹے پاپا سے بات نہیں کی؟"
ضمان واقعی متاثر ہوا تھا اس نڈر انداز سے، اس نے تو وہی ڈرپوک خوفزدہ ارمش دیکھی تھی۔ تبھی سراہے بنا نا رہ سکا۔
"کہا تو میں نے بھی تھا بہت کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔ لگتا ہے آپکی بھی یاداشت کمزور ہے تبھی دوبارہ وہی بکواس کرنے میرے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں
ہٹیں میرے سامنے سے!!"
برداشت کی حدیں پار ہو رہی تھیں اب۔ نا دبنے کا عزم وہ پہلے ہی کر چکی تھی تبھی تڑخ کر بولنے کے ساتھ دونوں ہاتھوں کی مدد سے دھکا دیا تھا۔
"بکواس بند کرو اپنی!!
میں کوئی تمہارے عشق میں دیوانہ پروانہ نہیں ہوں جو تم اس لہجے میں مجھ سے بات کرو اور میں برداشت کرلوں۔
خواہش کی ہے تمہاری، ضد مت بناؤ خود کو میری۔۔۔۔۔ "
وہ جو پچھلی بار کی ملاقات کے بعد ہر گھڑی اپنے آپ کو یہی سمجھا رہا تھا کہ بات آرام سے کرنی ہے، ارمش کے طرزِ تخاطب پر شعلہ جوالا بنا تھا۔
جو ہاتھ سینے پر رکھ کر دور ہٹانے کی کوشش کی گئی تھی اب وہی کلائیاں ضمان کی گرفت میں فریج کے ساتھ چپک چکی تھیں۔
"م۔۔۔م۔۔میں پاپا کو س۔۔۔سب بتا دونگی۔"
ارمش کی ساری ہمت جھاگ کی طرح بیٹھی تھی آنسو جو کب سے روکے ہوئے تھے سارے بند توڑ کر بہہ نکلے۔
"ہاں۔۔۔ ضرور بتاؤ۔ تم اور کر بھی کیا سکتی ہو ارمش مگسی۔ لیکن کیا بتاؤ گی؟ کہ جس ضمان نے شریفانہ انداز اپناتے تمہارا رشتہ بھیجا تھا اب وہی ضمان تمہیں ہراساں کر رہا ہے؟ سب یقین کر لیں گے؟ ہاں یقیناََ کریں گے۔۔۔ پھر کیا میں قبول کر لونگا کہ تمہارے الزام سچے ہیں؟ میں نے اس گھر کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی خاطر تم جیسی کلاس-لیس لڑکی کو قبول کیا جسے نا اوڑھنے کی تمیز ہے نا چار لوگوں میں بیٹھنے کی۔ پتہ ہے کیوں؟ کیونکہ یہ سب میرا خون ہیں مجھے ان سب کی خوشیوں کا احساس ہے۔ تمہیں کیوں ہوگا؟ یہ لوگ کونسا تمہارے اپنے ہیں۔۔ جن لوگوں نے تمہیں سہارا دیا تمہیں انکو آپس میں منتشر ہی کرنا چاہئے تمہیں آخر نمک حرامی کی مثال بھی تو قائم کرنی ہوگی ناں!!"
وہ اپنی کہہ کر جا چکا تھا ارمش کو روتا بلکتا چھوڑ کر۔
"یہ۔۔۔ یہ سب میرے اپنے ہیں۔
میں خودغرض نہیں ہوں۔۔
مجھے بھی سب کی خوشی عزیز ہے ارمش مگسی نمک حرام نہیں ہے۔۔۔"
کئی سوچیں دماغ پر حاوی ہوئی تھیں فریج سے ٹیک لگائے مصطفٰی رند کی لاڈلی زمین پر بیٹھی سسک رہی تھی پر اس رات کی تاریکی میں کوئی نہ تھا جو اسکا سہارا بنتا سب کی موجودگی میں بھی وہ اسے اکیلا کر گیا تھا۔
♡-----------------------------------------♡ہے
《ماضی》
"اببی۔۔۔ آپ تو کہتے ہیں کہ اللّٰہ جی ہم سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جو مما ہوتی ہیں وہ تو اپنے بچوں کو اُداس نہیں کرتی ناں؟۔۔۔۔۔۔ پھر اللہ جی نے میری مما کو اپنے پاس کیوں بلا لیا؟ اُنہیں تو پتا ہوگا کہ جب مجھے مما یاد آئینگی تو میں اُداس ہوجاؤں گی اور پھر خوب سارا روؤنگی بھی۔۔۔۔۔ تو کیا وہ مجھ سے پیار نہیں کرتے؟"
صبح سے ہی اُسکا دل اُداس تھا، طبیعت بجهی بجھی سی ہو رہی تھی کیونکہ آج اسکول میں ماؤں کا عالمی دن منایا گیا تھا۔
چچی جان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئینگی پر طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے وہ بھی نا آئیں۔
سب سے چھپ کر وہ خوب سارا روئی تھی، رات کو عابد مگسی جب ارمش کو سلانے کمرے میں آئے تو جو سوال صبح سے ذہن میں گردش کر رہا تھا وہ اُن سے کر بیٹھی۔
"پتا ہے ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوق سے محبت کرتا ہے پر کُچھ بندے اُسکے پسندیدہ ہوتے ہیں۔
وہ پاک ذات تو ہر انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہے۔پر کُچھ لوگ ہوتے ہیں جو اللہ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، اُسکے حکم پر عمل کرتے ہیں جیسے میری شہزادی، نماز پڑھتی ہے، روزے بھی رکھتی ہے، جھوٹ نہیں بولتی، کسی کا برا نہیں سوچتی۔۔۔۔ ارمش یہ سب کیوں کرتی ہے؟ کیونکہ ارمش نہیں چاہتی کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوں کیونکہ ارمش اپنے خالق سے بہت سارا پیار کرتی ہے۔ جو انسان ایسا کرتے ہیں وہ مومن کہلاتے ہیں اور اللہ مومنین کا ایمان مزید پختہ کرنے کی خاطر انکا امتحان لیتا ہے اُنہیں آزمائش میں ڈال کر چیک کرتا ہے کہ واقعی انکا ایمان مضبوط ہے یا سب اعمال دنیا دکھاوے کے لئے کیے گئے ہیں پھر جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، بغیر شکوہ کیے ہر مشکل کا سامنا کرتے ہیں تو وہ اپنے امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ سے مزید نزدیک ہوجاتے ہیں۔
کیا میری پرنسز اللّٰہ سے قریب نہیں ہونا چاہتی؟؟؟"
وہ جانتے تھے کہ آج صبح اسکول میں اپنے ہم جماعت شاگردوں کی ماؤں کو دیکھ کر وہ اپنے لیئے افسردہ تھی تبھی اپنے رب سے شکوہ کناں تھی۔
ارمش کی شخصیت عابد مگسی کی تربیت کا منہ بولتا ثبوت تھی اُنہیں افسوس ہوا تھا یہ سوچ کر کہ اُنکی تربیت میں صبر کا پہلو تشنہ کیونکر رہ گیا۔ پر اللّٰہ نے اُنہیں مہلت دی تھی شاید اسی لیے کہ ارمش کو صبر کی تلقین بھی کر دیں۔ یہ شب عابد مگسی کی ارمش کے ہمراہ آخری شب تھی۔ اگلے دن جب عابد مگسی کی لاش حویلی میں آئی تو ایک کہرام برپا ہوا تھا نو سالہ ارمش بلک بلک کر سسک سسک کر روئی تھی پر اپنے رب سے شکوہ کناں نا ہوئی۔
پھر اُسکے بعد زندگی کے ہر موڑ پر صبر کا سہارا لیا تھا اور اپنا ہر معاملہ اس ذاتِ اقدس کے سپرد کرتی چلی گئی اُسے پتا تھا کہ انصاف ضرور ہوگا۔۔۔۔۔
《حال》
فجر کی آذان کی آواز جب کانوں میں پڑی تو ٹھنڈی آه بھر کر نماز کی غرض سے اُٹھ کھڑی ہوئی، آج اس کی پوری رات فریج سے ٹیک لگائے روتے ہوئے اپنے بابا اور انکے اسباق کو یاد کرتے گزری تھی۔
♡------------------------------------------♡
"مش؟۔۔۔ مشو جانی؟"
فجر کی نماز کے بعد بھی نہ جانے کتنی دیر وہ بستر پر لیٹی چھت کو گھورتی رہی۔ اُسے نہیں یاد تھا کہ کس وقت نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی تھی۔ وہ اس وقت پکّی نیند میں تھی جب بالوں میں ممتا سے بھرپور لمس محسوس ہوا تو نیند میں ہی خوبصورت مسکراہٹ شنگرفی لبوں پر بکھری۔ مبشرہ بیگم کی پیار بھری پکار پر آنکھیں نیم وا کیے دیکھا تو وہ برابر میں بیڈ پر ٹکی بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھیں۔
"کیا ہوگیا میری بیٹی کو؟ ابھی تک نہیں اٹھیں۔۔۔۔۔ آج ہاسپٹل نہیں جانا کیا؟"
ارمش صبح سویرے اٹھنے کی عادی تھی گھڑی کی سوئیوں نے گیارہ بجائے تو متفکر سی ارمش کے کمرے میں چلی آئیں۔
ارمش کو مسکراتے دیکھ خود بھی مسکرا کر لاڈ سے استفسار کرنے لگیں۔
"رات کو دیر سے سوئی تھی۔ اس لیے آنکھ نہیں کھلی شاید۔۔۔۔۔۔۔
مما پاپا کو کہیں ناں میں رات میں عالی کے ساتھ ڈیوٹی دے دونگی۔ میرا اس وقت ہسپتال جانے کا بلکل دل نہیں چاہ رہا۔"
رات کے برے اختتام کے بعد دن کا آغاز ماں کا پُرنور چہرہ دیکھ کر ہوا تھا۔ وہ نیا دن کسی بھی تلخ سوچ کے ساتھ شروع نہیں کرنا چاہتی تھی۔
ایسی بات نہیں تھی کہ وہ ضمان کے ڈر سے شفٹ بدلنا چاہتی تھی۔ ضمان کا تو ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ وہ رات ہی کر چکی تھی۔ بس فلحال وہ کُچھ وقت ضمان کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ اس وقت میں اپنے اندر ہمت جمع کرنے کا سوچا تھا۔ مرتضیٰ صاحب سے اگر وہ خود بات کرتی تو اسے يا تو وہی پرانی باتیں سننے کو ملتی یا پھر وہ اسے یہ سمجھانے بیٹھ جاتے کہ جو بات ہوئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے، تو ارمش بھی سب کچھ بھلا کر عام رویہ اختیار کرلے۔ اسی وجہ سے ارمش نے اپنا مدعا مبشرہ کے آگے رکھا تھا وہ جانتی تھی کہ مبشرہ اسکی کوئی فرمائش نہیں ٹالتی تھیں۔
ماں باپ اولاد کو ہر قسم کے ناز و نعم کے ساتھ پالتے ہیں انکی ہر چھوٹی سے چھوٹی خواہش بر وقت پوری کرنا اپنے آپ پر فرض سمجھتے ہیں پر وہی والدین جب اولاد، بچپن میں یا پھر جوانی میں کسی سے گریز برتتی ہے تو اس قدر غافل نہ جانے کیوں ہوجاتے ہیں۔۔۔ کیوں اولاد کی نظروں میں پوشیدہ خوف انکی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔۔۔۔ مرتضیٰ رند بھی ایسے ہی والد ثابت ہوئے تھے جو اولاد پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں پر برے وقت میں اپنی غفلت کی بنا پر اخلاقی حمایت نہیں دے پاتے۔
"ہاں ٹھیک ہے میں کرتی ہوں بات۔۔۔ تم شاباش فریش ہو اور باہر آؤ تمہارا پسندیدہ فرینچ ٹوسٹ بنانے لگی ہوں۔۔۔۔ جلدی سے آجاؤ۔"
ارمش خواہش کرے اور مبشرہ پوری نا کریں یہ ناممکنات میں سے تھا۔ اپنی حامی پر ارمش کو سستی سے واپس بستر میں گھستے دیکھ بلینکٹ دور ہٹایا تھا ساتھ ہی ساتھ فرینچ ٹوسٹ کا لالچ دے کر بستر لمحوں میں خالی دیکھ مسکراتی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
♡-----------------------------------------♡
"بڑی مما نے تمہیں اوپر کیوں بلایا تھا؟ رات کے گیارہ بجے کے قریب عالی کی ضد پر وہ اس وقت ساحل سمندر پر بیٹھے آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔"
وہ جو رغبت سے آئس کریم کھا رہی تھی عالی کی بات پر اُسکی جانب متوجہ ہوئی۔
"بات کرنی تھی اُنہیں کُچھ۔۔۔"
چمچے میں آئس کریم بھرتے عام سے لہجے میں جواب دیا۔۔
"کیا؟"
وہ جس کی توجہ کا مرکز اس وقت ارمش تھی جواب سننے کے بعد ایک مرتبہ پھر سوالی ہوا تھا۔
عالی کے سوال پر ارمش نے دونوں بھنویں اچکائیں، جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیوں جاننا ہے۔
"کہہ رہیں تھیں کہ سب گھر والوں کی خوشیاں میرے ایک فیصلے سے وابستہ ہیں۔۔۔۔ اپنے فیصلے پر نظرثانی کروں۔۔۔۔"
عالی کو مکمل طور پر متوجہ دیکھ کر بے دلی سے رفیعہ بیگم سے ہوئی گفتگو عالی کو سنانے لگی۔
"دیکھا جائے تو ٹھیک کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔"
نظریں جو ارمش پر ٹکی تھیں اپنی بات کہنے سے پہلے سمندر کی شور مچاتی لہروں پر ٹکا کر گویا ہوا۔
"تمہارے کہنے کا مقصد ہے کہ میں نے غلط فیصلہ کیا ہے؟"
زِندگی کے ہر موڑ پر جو عالی اسکے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوتا تھا آج اسکے فیصلے کی مخالفت کر رہا تھا، ارمش کے لہجے میں بیساختہ ہی بے یقینی آ سمائی تھی۔۔
"بات صحیح غلط کی نہیں ہے ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے بھائی جان ایک پرفیکٹ آدمی ہیں۔ تمہارے حوالے سے مجھے ان میں ایسی کوئی کمی نظر نہیں آ رہی ہے جسکی بنا پر اُنہیں مسترد کیا جائے۔ وہ تمہیں خوش رکھیں گے سب سے بڑی بات کہ تا حیات تم ہماری نظروں کے سامنے رہو گی۔ اگر تم ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے خوفزدہ ہو تو یار وہ تمہیں بچہ سمجھ کر ڈانٹ دیتے تھے۔ پلیز ارمش سمجھنے کی کوشش کرو۔"
ارمش کے دونوں ہاتھ تھامے وہ کچھ متفکر تھا جیسے ایک بھائی کو ڈر ہو کہ اپنی بیوقوفی میں بہن اپنا نقصان کرنے والی ہو۔
"ہاں۔۔۔ تم کہہ سکتے ہو، کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک بے وجہ بیر کا شکار تم نہیں رہے ناں، اُن کے طنز و تکرار کا نشانہ تم کبھی نہیں بنے، تم تو اُن کے لاڈلے بھائی ہو۔۔۔۔ انکا خون۔۔۔۔۔ تم نے انکا وہ روپ نہیں دیکھا جو ارمش مگسی نے دیکھا ہے۔"
لاکھ چاہنے کے باوجود وہ اپنے آنسوؤں پر اختیار نہیں رکھ پائی تھی ۔ ایک آنسو چپکے سے باڑ توڑ کر نکل آیا تھا۔
"مشو یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ارمش کے آنسوؤں پر تڑپ کر کچھ کہنے کی کوشش کی تھی جسے بیچ میں ہی ارمش نے منقطع کردیا ۔
"مجھے گھر جانا ہے۔"
قریبی پڑے کوڑے دان میں بچی ہوئی آئس کریم پھینک کر بغیر عالی کی ایک بھی پکار کا اثر لیئے وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر جا بیٹھی تھی۔۔۔۔۔
ساتھ ہی کرتے کی جیب سے ایئر پوڈز نکال کر کانوں میں لگا لیئے۔۔۔۔۔ یہ اعلانِ ناراضگی تھا کہ اب کوئی بات نہیں سننی۔
اس کی بچکانی حرکت پر اس سنجیدہ ماحول میں بھی عالی کے لبوں پر مسکراہٹ رینگ گئی، جسے سرت سے چھپانے میں ہی عافیت جان کر وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔
♡------------------------------------------♡
دو دن خاموشی سے گزرے تو ارمش نے بھی سکون کا سانس لیا۔
دو دن پہلے ضمان کا جگری دوست اپنی فیملی کے ہمراہ نیو یارک سے اپنی شادی کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا تبھی سے ضمان اپنی ڈیوٹی کے بعد اُسکی رہائشگاہ پر تمام تر انتظامات دیکھ رہا تھا اس وجہ سے ہسپتال کے علاوہ ارمش کی اس سے کوئی ملاقات نہیں ہوتی تھی اور ہسپتال میں ضمان کا رویہ پیشہ وارانہ ہی رہتا تھا۔
آج رات مرتضیٰ صاحب کے دوست کی بیٹی کا نکاح تھا جس میں گھر کے تمام افراد ہی شرکت کرنے والے تھے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ارمش نے گھر پر رہنے کو فوقیت دی تھی۔ کُچھ لمحے قبل ہی مبشرہ بیگم چند ضروری ہدایات دے کر سب کے ہمراہ جا چکی تھیں۔
اس وقت ارمش کے علاوہ گھر میں فرزانہ موجود تھی۔ کھانا کھانے کے بعد فرزانہ کو کافی لاؤنج میں لانے کا کہہ کر وہ اس وقت ٹی-وی پر سرچنگ کر رہی تھی جب فرزانہ کپ ٹرے پر رکھے لاؤنج میں داخل ہوئی۔
"ارمش بی بی اگر آپ کو کوئی کام نہ ہو تو میں کوارٹر چلی جاؤں؟"
کپ ٹیبل پر رکھ کر وہ ملتجی انداز میں گویا ہوئی۔
"ہاں چلی جاؤ مجھے کوئی کام نہیں ہے۔"
رسان سے جواب دے کر وہ پھر ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئی جس پے کوئی ڈھنگ کا شو ہی نہیں مل کر دے رہا تھا تنگ آ کر ٹی وی بند کرتے رخ سیڑھیوں کی جانب کرلیا، ارادہ کھلے آسمان تلے گھر کی پچھلی جانب موجود پارک کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کا تھا۔
ضمان جو سب کے جانے سے چند لمحے قبل ہی گھر لوٹا تھا اس وقت کچن میں کھڑا چائے بنا رہا تھا جب ہاتھ میں مگ تھامے نائٹ سوٹ میں ملبوس ارمش کو اپنے پورشن کی سیڑھیاں پار کرنے کے
دو دن خاموشی سے گزرے تو ارمش نے بھی سکون کا سانس لیا۔
دو دن پہلے ضمان کا جگری دوست اپنی فیملی کے ہمراہ نیو یارک سے اپنی شادی کے سلسلے میں پاکستان آیا تھا تبھی سے ضمان اپنی ڈیوٹی کے بعد اُسکی رہائشگاہ پر تمام تر انتظامات دیکھ رہا تھا اس وجہ سے ہسپتال کے علاوہ ارمش کی اس سے کوئی ملاقات نہیں ہوتی تھی اور ہسپتال میں ضمان کا رویہ پیشہ وارانہ ہی رہتا تھا۔
آج رات مرتضیٰ صاحب کے دوست کی بیٹی کا نکاح تھا جس میں گھر کے تمام افراد ہی شرکت کرنے والے تھے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ارمش نے گھر پر رہنے کو فوقیت دی تھی۔ کُچھ لمحے قبل ہی مبشرہ بیگم چند ضروری ہدایات دے کر سب کے ہمراہ جا چکی تھیں۔
اس وقت ارمش کے علاوہ گھر میں فرزانہ موجود تھی۔ کھانا کھانے کے بعد فرزانہ کو کافی لاؤنج میں لانے کا کہہ کر وہ اس وقت ٹی-وی پر سرچنگ کر رہی تھی جب فرزانہ کپ ٹرے پر رکھے لاؤنج میں داخل ہوئی۔
"ارمش بی بی اگر آپ کو کوئی کام نہ ہو تو میں کوارٹر چلی جاؤں؟"
کپ ٹیبل پر رکھ کر وہ ملتجی انداز میں گویا ہوئی۔
"ہاں چلی جاؤ مجھے کوئی کام نہیں ہے۔"
رسان سے جواب دے کر وہ پھر ٹی وی کی جانب متوجہ ہوگئی جس پے کوئی ڈھنگ کا شو ہی نہیں مل کر دے رہا تھا تنگ آ کر ٹی وی بند کرتے رخ سیڑھیوں کی جانب کرلیا، ارادہ کھلے آسمان تلے گھر کی پچھلی جانب موجود پارک کی رونقوں سے لطف اندوز ہونے کا تھا۔
ضمان جو سب کے جانے سے چند لمحے قبل ہی گھر لوٹا تھا اس وقت کچن میں کھڑا چائے بنا رہا تھا جب ہاتھ میں مگ تھامے نائٹ سوٹ میں ملبوس ارمش کو اپنے پورشن کی سیڑھیاں پار کرنے کے بعد اوپر جاتے دیکھا۔ ترکی بہ ترکی چلتی ارمش کی زبان کے چند مناظر ذہن کے پردے پر لہرائے تو نا دیدہ مسکراہٹ نے لبوں کو چھوا تھا۔
چائے میں اُبال آیا تو کپ میں انڈیل کر خود بھی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
ارمش جو دیوار کے ساتھ کھڑی پارک کی چہل پہل پر نظریں ٹکائے سوچوں کے بھنور میں پھنسی تھی۔ کان کے قریب ہاؤ کی آواز پر خائف ہوتے ہلکی سی چیخ مار کر مڑنے کی کوشش میں ضمان کے سینے سے جا ٹکرائی۔۔۔۔۔
وہ جو کچھ جھک کر ارمش کے کان تک پہنچنے کے بعد اس کے دونوں اطراف میں ہاتھ پھیلائے دیوار پکڑے کھڑا تھا ارمش کے مڑنے پر اُسکی تیز تر چلتی سانسوں کی تپش چہرے پر محسوس کی تو نا محسوس انداز میں فاصلہ اختیار کر گیا۔
جو بھی ہو ارمش کی عزت ضمان کے لئے اتنی ہی معنی رکھتی تھی جتنی کہ گھر کی باقی خواتین کی۔
"ہٹیں۔۔۔۔۔ پلیز۔۔۔۔۔ ہٹیں بھائی جان۔"
گھر میں کوئی موجود نہیں تھا اس شخص پر تو سب کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا تو اس وقت جب وہ دونوں اکیلے تھے تو کس بات کا لحاظ کر لیتا۔ یہ سوچ ارمش کو خوفزدہ کرنے کے لیئے کافی تھی۔
120 کی رفتار پر دھڑکتے دل کے ساتھ جی کڑا کر بغیر نظریں ملائے وہ ضمان سے التجاء کر رہی تھی۔
♡------------------------------------------
"اور اگر نا ہٹا تو؟!
ویسے بھی ارمش بےبی کو تو اب کسی سے ڈر نہیں لگتا ناں؟ نا ہی شرافت کی زبان سمجھ آتی ہے تو کیوں نہ دوسرا طریقہ آزمایہ جائے؟"
ڈھٹائی کی نئی مثال قائم کرتے ضمان بہت ہلکے پھلکے لہجے میں ارمش کے سر پر بم پھوڑتے اپنے سینے کے سامنے جھکے سر پر نظریں ٹکائے گویا ہوا۔
"مت گریں اتنا کہ مجھے افسوس ہونے لگے اس وقت پر جب میں نے دل سے آپکا احترام کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ارمش کوئی بچی نہیں تھی جو دوسرے طریقے کا مطلب نہ سمجھ سکتی، ضمان کے لہجے نے اسے اندر تک جھنجوڑ دیا تھا وہ جانتی تھی کہ وہ جتنی بھی زور آزمائی کرلے ضمان کا حصار نہیں توڑ سکتی اپنی بےبسی پر پھوٹ پھوٹ کر رونا آیا تھا۔ آنسووں پہ نا صحیح، آواز پر تو اختیار تھا۔۔۔۔
وہ بے آواز آنسو بہاتی لڑکی ضمان کے دل کی دُنیا میں ہلچل مچا گئی تھی۔ گول نیلی آنکھوں سے تواتر سے بہتے آنسو آبشار کا سا منظر پیش کر رہے تھے ضمان کوئی نفس پرست انسان نہیں تھا پر ماحول پر چھائے طلسم نے اسے بے خود کردیا تھا۔
اس سے پہلے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سر زد ہوجاتا کہ جسکے بعد وہ اپنے آپ سے نظر نہ ملا پاتا سر پہ ہونے والے وار سے آنکھوں کے آگے چاند تارے سورج ایک ساتھ گھوم گئے تھے۔ کُچھ لمحوں کے لئے آنکھوں کے آگے اندھیرا چھایا تو سر پکڑ کر حواس بحال کرنے کے لئے کوشاں ہوا۔
یہی وقت تھا جب ارمش دونوں ہاتھوں سے دھکا دے کر لڑکھڑاتے ضمان کو پیچھے چھوڑ سر پٹ نیچے کی جانب دوڑی تھی۔
ضمان کے جھکاؤ نے ارمش کے اوسان خطا کیے تھے اور اس وقت اُسے اپنی آبرو خطرے میں محسوس ہوئی تھی با حیا مضبوط کردار کی مالک لڑکیوں کے لئے عزت ہی کل اثاثہ ہوتی ہے جسے محفوظ رکھنے کے لیئے وہ کوئی بھی قدم اٹھاتے کسی قسم کا عار محسوس نہیں کرتیں۔
ارمش نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ بائیں ہاتھ پر سٹینڈ میں رکھے پانی کے گڑهوں کے ساتھ رکھا سٹیل کا گلاس اپنی پوری قوت کے ساتھ بغیر انجام کی پرواہ کیے ضمان کے سر پر دے مارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ضمان کے ڈگمگاتے قدموں کو موقع غنیمت جان کر دھکا دے کر نیچے کی طرف بھاگی تھی۔
ابھی وہ ششدر کھڑا اپنے ساتھ ہوئے واقعے پر یقین کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ہاں واقعی ارمش ہی اس پر حملہ آور ہوئی ہے، اچانک کُچھ ٹوٹنے کی آواز کے ساتھ ارمش کی درد بھری چیخ پر اپنی چوٹ بھلائے اُلٹے پاؤں سیڑھیوں کی جانب مڑا پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ہولناک منظر نے ضمان رند کا استقبال کیا تھا۔
سیڑھیوں کے قریب رکھا شیشے کا گلدان ٹکڑوں میں بٹا زمین پر بکھرا تھا جبکہ ارمش ایک ہاتھ سے گرل کا سہارا لیئے خون سے آلودہ پیر موڑ کر زمین سے اٹھائے تلوے میں پیوست شیشے کا ٹکڑا نکال کر پھینکنے لگی تھی، جب ضمان کو سیڑھیاں اترتے دیکھ زخمی پیر کے ساتھ ایک مرتبہ پھر نیچے کی جانب بھاگی۔
"ارمش رکو!! بیوقوف لڑکی۔۔۔۔۔۔ میں کہہ رہا ہوں رک جاؤ!!"
اب گھر کا منظر کُچھ یوں تھا کہ ارمش جہاں قدم رکھتی وہاں خون کی چھاپ چھوٹ جاتی۔
ارمش کے پیر سے بھل بھل بہتا خون اور اس پر اپنا وزن دے کر بھاگتی ارمش نے ضمان کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ ضمان کا ارادہ محض ڈرا کر اپنی بات منوانے کا تھا، ارمش کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس طرح ارمش کے پیچھے دوڑتا وہ ابھی اُسکے پیچھے کمرے میں گھستا کہ سرت سے ارمش دروازہ اسکے منہ پر بند کر چکی تھی۔
"ارمش دروازہ کھولو!!!! خون بہہ رہا ہے یار۔۔۔۔۔۔ مجھے دیکھنے دو پلیز۔۔۔۔۔"
دروازہ ڈھڑدھڑاتے ضمان منتوں پر اتر آیا تھا۔
"کیا ہوا ہے بھائی جان؟ یہ پورے گھر میں خون کس کا ہے؟ اور ارمش کہاں ہے؟"
عالی جو جلد ہی فنکشن سے بیزار ہوکر واپس لوٹ آیا تھا۔ سٹنگ ہال کا حولناک منظر دیکھ کر خون کے دھبوں اور ضمان کی آواز کا پیچھا کرتے ارمش کے کمرے تک آکر ضمان سے گویا ہوا۔
"عالی یار ارمش- ۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے ضمان کُچھ بتاتا دروازہ کھولنے کی آواز پر دونوں ارمش کی جانب متوجہ ہوئے جو لمحے سے قبل ہی عالی کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔
"ارمش؟؟؟ کیا ہوا ہے بچے!؟ یہ۔۔۔۔۔۔ یہ چوٹ؟۔۔۔۔۔اتنا خون!"
ارمش کی بکھری حالت اور پیر سے جاری خون عالی کے اوسان خطا کر گیا تھا۔
"بعد میں پوچھ لینا اندر لے کر جاؤ میں فرسٹ ایڈ باکس لے کر آتا ہوں۔"
دروازہ کھل جانے پر ضمان کافی حد تک خود کو سنبھال چکا تھا۔
خون دیکھنے کے باوجود عالی کے سوال جواب سے چڑ کر گویا ہوا اور خود لاؤنج کی جانب چل دیا۔
***
کُچھ ہی لمحوں میں ضمان ارمش کے کمرے میں موجود تھا۔
وہ جو عالی کے پانی پلانے پر کچھ سنبھلی تھی ضمان کو دیکھ دوبارہ عالی کے پیچھے چھپنے لگی۔ ارمش کی حرکت پر ضمان خود کو لعن طعن کرتے عالی کو فرسٹ ایڈ باکس تھما کر خود سٹڈی ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی اٹھا کر بیڈ کے قریب لے آیا۔
"اس پہ ٹانکے لگانے پڑیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔"
عالی جو ٹیوزر کی مدد سے چھوٹی چھوٹی چبھی ہوئی کرچیاں نکال کر روئی پر دوائی لگائے زخم صاف کر رہا تھا انگھوٹے سے کُچھ نیچے موجود زخم کا معائنہ کرتے ضمان کو دیکھ کر گویا ہوا۔
"ہٹو میں دیکھتا ہوں۔۔۔۔"
تلوے میں ٹانکے لگنا مطلب کئی دن تک ٹھیک سے نا چل پانا۔ تبھی ضمان نے خود دیکھنا چاہا تھا۔ ضمان کی بات سن کر ارمش نے دونوں ہاتھوں سے عالی کا بازو تھام لیا۔
"یہیں ہوں میں۔ ریلیکس۔"
نرمی سے ہاتھ ہٹا کر وہ ضمان کے لئے جگہ خالی کرتے اُٹھ کھڑا ہوا تو ضمان نے بھی فوراً سے پہلے جگہ سنبھال کر ارمش کا شفاف پیر تھام لیا۔ زخم کا معائنہ کرنے کے ساتھ ہی باکس سے سرنج اور مخصوص دوا نکال کر انجیکشن تیار کرنے کے بعد ہاتھ پکڑ کر لگانے لگا۔
ارمش کے وجود کی کپکپاہٹ ضمان کو جی بھر کے شرمندہ کر رہی تھی۔ کُچھ ہی لمحوں میں اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ باتھرُوم کی جانب چل دیا۔
عالی کی موجودگی نے خوف کُچھ کم کیا تو زخم سے اُٹھتی درد کی شدید لہر سے ایک بار پھر سسکتے وہ دل ہی دل میں نہ جانے کتنی گالیاں ضمان کو دے چکی تھی جسکی وجہ سے وہ اس وقت بستر سے اٹھنے کے قابل بھی نہیں رہی تھی۔
"میں فرزانہ کو بلا کر لاتا ہوں۔ مما نے لاؤنج کی حالات دیکھ لی تو تمہاری فکر میں تم سے زیادہ بیمار پڑ جائیں گی۔"
پین کلر کے ساتھ پانی پکڑاتے عالی ارمش کے خراب موڈ کا اثر زائل کرنے کی خاطر مزاحیہ انداز میں گویا ہوا پر کوشش بیکار رہی، جب ضمان کو باتھرُوم سے نکلتے دیکھ ارمش ایک بار پھر عالی کا بازو مضبوطی سے تھام کر التجائیا نظروں سے آنکھوں میں آنسو لیے گردن نفی میں ہلانے لگی۔
"تم بیٹھو اس کے پاس میں بلا لاتا ہوں فرزانہ کو اور فلحال سُلا مت دینا میں دودھ کے ساتھ کیپسول بھجوا رہا ہوں وہ کھلا دینا پہلے۔"
ارمش کا خوف بیجا نہ تھا، اس بات سے ضمان بخوبی واقف تھا اور اس حالت میں اُسے مزید خوفزدہ کرنے کا کوئی ارادہ نہ تھا تبھی رسان سے عالی کو بیٹھنے کا کہہ کر خود کمرے سے نکل گیا۔
♡------------------------------------------♡
"ایک بات بتاؤ محترمہ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو لیٹرز کی تعداد میں خون بہایا ہے تم نے چوٹ کہاں سے لگائی تھی؟"
شادی سے واپسی پر ارمش کے زخمی ہونے کی خبر جونہی مبشرہ بیگم کو ملی لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ اور باقی سب بھی ارمش کے کمرے میں دوڑے چلے آئے۔
تقریباً آدھے گھنٹے سے وقفے وقفے سے کبھی مرتضیٰ رند کبھی رفیعہ بیگم تو کبھی مبشرہ بیگم کی ڈانٹ پھٹکار کا نشانہ بنی ارمش نے جب مدد طلب نظروں سے عالی کو دیکھا تو موضوع بدلنے کی خاطر چوٹ کا احوال پوچھنے لگا۔
"پتہ نہیں کیسے لگی ہوگی۔ میں تو کمرے میں تھا اپنے۔۔۔۔۔ جب شیشہ ٹوٹنے کے ساتھ ارمش کی چیخ سنائی دی، جیسے ہی باہر آیا تو زمین پر خون تھا اور یہ بھاگتی ہوئی سیڑھیاں اتر رہی تھی میں پیچھے بھی آیا، روکنے کی کوشش کی پر شاید کسی چیز سے ڈری ہوئی تھی تبھی میرے منہ پر دروازہ بند کردیا۔ وہ تو شکر ہے عالی وقت پر آگیا ورنہ پتا نہیں کتنا وقت لگتا مجھے دروازہ کھولنے میں۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ جو فرزانہ کو بلا کر اپنے پورشن میں جا چکا تھا نیچے سے آوازیں سن کر کُچھ لمحوں میں خود بھی نیچے آگیا تھا جس خدشے کے تحت آیا تھا عالی نے وہی سوال کیا تو ارمش کے بولنے سے پہلے ہی سوچی سمجھی کہانی سب کو سنا دی۔
"چھت پر اکیلے جانے کی تُک کیا بنتی ہے؟؟ یقیناََ بلیاں آگئی ہونگی لڑتے ہوئے اور پھر ارمش مگسی نے بلوچوں کی بہادری کے قصوں پر خاک پھینک کر سرپٹ دوڑ لگا دی ہوگی، اسی کا نتیجہ ہے نا یہ؟؟"
وہ جو ابھی بھی ضمان کی من گھڑک داستان پر حیران نظروں سے اسے گھور رہی تھی سب کی نظریں عالی پر محسوس کرتے جب ضمان نے ایک آنکھ دبا کر للکارتی مسکراہٹ ارمش کی جانب اچھالی تو وہ بل کھا کر رہ گئی، اگر اس وقت سب موجود نا ہوتے تو یقیناََ وہ ابھی تک ضمان کا سر بھی پھاڑ چکی ہوتی۔ جو ڈھیٹوں کی طرح عنابی لبوں پر مسکراہٹ سجائے مسلسل ارمش کو دیکھے جا رہا تھا۔ دل کے کسی کونے میں ارمش کو شدت سے افسوس ہوا تھا کہ اور کُچھ نا صحیح وہ احترام کے رشتے کا ہی پاس کرلیتا۔
"خیر۔۔۔ ارمش آئندہ اکیلے اوپر نہیں جاؤ گی اب تم۔۔۔۔۔۔ مبشرہ آپ اسی کے پاس سوجائیں فلحال کُچھ عرصہ پیر پر زور نہیں دینا ہے تو رات میں آپکی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
آپ سب بھی چلیں اب اپنے کمروں میں رات کافی ہوگئی ہے۔"
ارمش کی خاموشی پر عالی کے اندازے کو حقیقت مان کر مبشرہ بیگم کو ارمش کے پاس رہنے کی ہدایت کرنے کے بعد سب کو آرام کرنے کا کہتے مصطفٰی خود بھی اپنے کمرے کی جانب چل دئیے۔
♡-------------------------------------------♡
"آپ نے بلایا تھا چھوٹی مما؟"
مبشرہ بیگم جو صوفوں پر ارمش کے کپڑے پھیلائے ہر ہفتے کی طرح الماری سیٹ کرنے کے ساتھ ارمش کو سلیقہ سیکھنے کے لیکچرز بھی دے رہیں تھیں، جسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے میں اب ارمش مہارت حاصل کر چکی تھی۔
اسی وجہ سے ایل ای ڈی پر اپنے من پسند کورین بینڈ "بی-ٹی-ایس" کے گانے لگائے پوری طرح مگن تھی۔
جب ضمان کمرے میں داخل ہوا تو دونوں اُسکی جانب متوجہ ہوئیں۔
وہ جو آڑی ترچھی بیڈ پر لیٹی تھی ضمان کو دیکھ یک دم سیدھی ہوئی۔
"بد تہذیب۔۔۔۔۔۔۔"
دروازہ کھٹکٹائے بنا منہ اٹھا کر اندر چلے آنے پر دل ہی دل میں خطاب دیا تھا اور پھر ماں کی موجودگی کی تسلی کرتے ضمان کو مُکمل نظر انداز کئے دوبارہ ٹی وی کی جانب راغب ہوگئی جہاں سات نہایت ہی جاذب نظر آنے والے لڑکے مہارت سے ڈانس کر رہے تھے۔
"ہاں بچے۔۔۔۔۔۔
یہ ارمش کی صبح کی پٹی ہوئی وی ہے، عالی بدلنا بھول گیا اور تمہارے چھوٹے پاپا بھی دوائی لے کر لیٹ گئے ہیں۔
تم بدل دو گے پٹی؟"
آخری کرتا ہینگ کر کے الماری میں لٹکانے کے ساتھ وہ درخواست کے سے انداز میں ضمان سے گویا ہوئیں جو ارمش کے اشتیاق سے ہونٹوں کو o کی صورت گول کیے آنکھوں میں عجیب سی چمک کے ساتھ ٹی وی کی جانب متوجہ دیکھ حسد بھری نگاہوں سے سکرین کو گھور رہا تھا، اپنی حرکت پر خود ہی حیران ہوتے مبشرہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔
"جی چھوٹی مما ضرور۔۔۔۔۔۔۔ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔ حکم کیا کریں آپ بس۔۔۔۔۔۔۔۔"
نرم لہجے میں کہتے وہ سائڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ باکس نکالنے لگا جو ارمش کی چوٹ کی وجہ سے اب اسی کمرے میں موجود ہوتا تھا۔
سیاہ شورٹ کے ساتھ آسمانی ٹی شرٹ پہنے عام سے نقوش کے ساتھ گھنی داڑھی موچھیں اور ماتھے پر بکھرے بال وہ کوئی حسن کا دیوتا نا تھا پر وجاہت کا شاہکار ضرور تھا۔ سحر انگیز شخصیت کا مالک وہ جہاں موجود ہوتا، ماحول پر چھا جاتا تھا۔
اپنی بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود اُسنے ارمش کی آنکھوں میں اپنے لیئے ڈر کے ساتھ احترام بھی دیکھا تھا جو گزشتہ ایام میں رفتہ رفتہ نیلی آنکھوں سے سرکتا جا رہا تھا ڈر ختم ہونا تو ضمان کے لئے بھی خوشکن تبدیلی تھی پر احترام کی کمی اسے شدت سے چبھتی تھی۔
"چلو ٹھیک ہے تم اتنے یہ پٹّی تبدیل کرو تب تک میں ذرا ہلدی دودھ لے آؤں اس کے لیے۔"
ضمان کی چائے کی فرمائش اور ارمش کے لئے دودھ لینے وہ دروازے کی جانب بڑھیں تو ارمش جو مُکمل طور پر ٹی وی دیکھنے میں مدہوش تھی ایک دم سٹپٹائی۔
"کہاں۔۔۔۔۔۔ کہاں جا رہیں ہیں آپ؟"
ہراساں نظروں سے ضمان کا مسکراتا چہرا دیکھ وہ مبشرہ بیگم سے گویا تھی۔
"حواس کی دنیا میں رہا کرو ارمش، میں ذرا دودھ لینے جا رہی ہوں تمہارے لیئے۔ تم اتنے ضمان سے پٹّی بدلوا لو۔"
ارمش کی مدہوشی پر چوٹ کرتیں وہ آگے بڑھنے لگی تھیں کہ ارمش کی پکار پر پھر اُسکی جانب متوجہ ہوئیں۔
"مما میں کر لوں گی خود۔۔۔۔۔
بھائی جان کو کیوں زحمت دے رہی ہیں۔"
زبردستی مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ بس کسی طرح ضمان کو کمرے سے نکالنے کے لیےکوشاں تھی۔
"کوئی زحمت نہیں ہوئی مجھے۔
آپ جائیں چھوٹی مما، میں کر دیتا ہوں۔"
سرد آواز میں ٹوک کر مبشرہ بیگم کو باہر بھیجنے کے ساتھ ارمش کے قریب ہی فرسٹ ایڈ باکس رکھ کر خود بھی بیٹھ گیا۔
"سیدھی طرح بیٹھی رہو۔"
ضمان کے بیٹھتے ہی ارمش پھرتی سے بیڈ سے نیچے اتر کر باہر بھاگنے لگی تھی کہ اس سے دگنی تیزی سے ضمان سلک کے گرے ٹراؤزر میں مقید پیر پر سخت گرفت کرتے اپنی جانب کھینچ کر آنکھیں دکھاتا گویا ہوا، ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے پرانی پٹّی کھولنے لگا۔
"ویسے اعتبار دیکھ رہی ہو ناں؟ رات کے اس پہر، اکیلے، تمہارے پاس، بند کمرے میں، خود چھوڑ کر گئیں ہیں چھوٹی مما۔"
نرم و ملائم پیر گود میں رکھے کاٹن پر پایوڈین لگاتے وہ سادہ لہجے میں معنی خیز جملہ کہہ گیا تھا۔
"معصوم ہیں۔۔۔۔۔ جانتے ہی نہیں کہ کون کس لائق ہے۔"
یہ جملہ وہ محض دل میں ہی کہہ پائی تھی۔ پیر زخمی تھا اور ماں اس شخص کے رحم و کرم پر چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
:"کاش آپ زندہ ہوتے اببی تو مجھے اس غیر محفوظ چھت تلے خوف زدہ دل کے ساتھ صبح و شام نا گزارنے پڑتے۔"
دل ہی دل میں وہ باپ سے مخاطب تھی جب پیر پر ہونے والی جلن پر کراہ اٹھی۔
"بس ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔"
زخم صاف کرنے کے بعد پٹّی اٹھاتے وہ اُسکی جانب متوجہ ہوا جو جلن کے احساس کے باوجود سسکی ضبط کر گئی تھی۔
"وہ جو نیا، شیرنی والا فیچر انسٹال کیا تھا ڈیلیٹ ہوگیا کیا؟"
ارمش کی خاموشی پر چوٹ کی گئی تھی۔
"چلو اچھی بات ہے مجھے ویسے بھی زیادہ بولنے والی لڑکیاں نہیں پسند اور آخر میں تم نے آنا تو میرے پاس ہی ہے۔اچھی بات ہے میری پسند میں ڈھل کر ہی آنا"
دوسری جانب ہنوز خاموشی پر محض اکسانے کے لئے غلط بیانی کی۔ در اصل وہ نیا روپ دل کی تاریں چھیڑ چکا تھا اور اب پھر سے اسی خول میں دیکھنا اسے ذرّہ پسند نہ آیا تھا۔
"ویسے آج چھوٹی مما کی موجودگی میں جب با آسانی مجھے تم تک رسائی حاصل ہے تو کل جب وہ اپنے کمرے میں شفٹ ہوجائیں گی تب کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے؟
دن دہاڑے یا پھر آدھی رات کے گہرے سناٹوں میں تم تک پہنچنا کوئی مشکل امر تو نہیں میرے لیے۔"
ارمش کی مکمل خاموشی پر زچ ہوتا وہ اپنی ترنگ میں گویا تھا جب اچانک نظر اٹھی تو پلٹنے سے انکاری ہوگئی۔
سرخ انگارہ آنکھیں، بھینچے لب اور کپکپاہٹ پر قابو پانے کی کوشش میں ہلکان وہ سہمی سی ہرنی خائف سی اپنے پیر کو چھوتے ہاتھوں پر نظریں گاڑے تھی۔ ایک بار پھر شرمندگی نے ضمان کو آڑے ہاتھوں لیا تھا کہ صرف بولنے پر اکسانے کی خاطر نا جانے کیسے وہ یہ بکواس کر گیا تھا۔
"ریلیکس۔۔۔۔ جا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔"
اب پچتاوے کا کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئی کھیت کے مزداق پر پٹّی پر ٹیپ لگاتے وہ جو لمحہ قبل بخوشی سامنے موجود حساس لڑکی کو ڈرا رہا تھا اب ان نینکٹوروں میں خوف بھی خود کو برداشت نہ ہوا تھا۔
اپنی کیفیت سے بیزار وہ ارمش کے کمرے سے نکلتا چلا گیا کہ مزید وہاں رہنا سوہان روح محسوس ہوا تھا۔
♡------------------------------------------ ♡
"ہم نے خدا کی شان دیکھی،
سابقہ لنگڑی کے سہارے موجودہ لنگڑی چلتے دیکھی۔۔۔۔۔۔۔"
زرلش جو ارمش کو سہارا دیے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی عالی کے شاعرانہ انداز میں کہے گئے بے تکے شعر پر کھول اٹھی جو پچھلے مہینے ہوئے اس کے ایکسڈنٹ میں پیر پر لگی چوٹ اور اس وقت ارمش کے زخمی پیر کو ہمہ وقت نشانہ بناتا اس پل تو اسے ہر گز بھی پیارا نا لگا تھا۔
"ہم نے بھی خدا کا معجزہ دیکھا،
بندر کی شکل میں چھوکرا دیکھا۔"
ارمش کو صوفے پر بٹھا کر ٹیبل سے فرایز کی پلیٹ بناتے زرلش نے بھی دو بدو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا تو ہال میں بیٹھی مبشرہ اور رفیعہ اپنے قہقہے کا گلا نہ گھونٹ پائیں، ضمان اور مرتضیٰ صاحب کے چہروں پر بھی مُسکراہٹ بیساختہ تھی۔ جبکہ عالی یہ سوچتے ہوئے کہ جب سے ذری مش کو لینے گئی تھی وہ تب سے اپنے شعر کا قافیہ ردیف جوڑ رہا تھا تو زری نے کیسے ایک ہی پل میں منہ توڑ جواب دیا بس منہ بنا کر رہ گیا۔
"اسلام و علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔"
ابھی ہلکی پھلکی گفتگو کا آغاز ہوا ہی تھا کہ حال میں عرشمان کی آواز گونجی۔
بلیو بلیزر سفید ٹی شرٹ اور ڈینم جینز پر سلیقے سے بال سیٹ کیے ہاتھ میں گھڑی اور پیروں کو اتھلیٹک شوز میں قید کیے چہرے پر ازلی مُسکراہٹ کے ساتھ سب کی جانب بڑھا تھا۔
"خیریت؟ آج عید کے چاند نے ہمارے غریب خانے کا رخ کیسے کر لیا؟"
بڑوں سے پیار لے کر ارمش اور زری کے سر پر ہاتھ رکھتے جب ضمان کے بعد وہ عالی کے بغلگیر ہوا تو خوشگوار لہجے میں میٹھا سا طنز کرنے سے عالی باز نا آیا۔
کراچی کے پوش علاقے میں جدید طرز پر بنا دو منزلہ بنگلو اپنی مثال آپ تھا، پر گاؤں میں موجود قدیمی مگسی حویلی کے مقابل شایانِ شان ہر گز نہ تھا۔
ہمیشہ سے ہی عرشمان کو دیکھ کر عالی کا بنگلو غریب خانے میں بدل جاتا تھا۔
"وہ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بلایا تھا۔ میں بتانا بھول گئی۔ دادی امّاں یاد آ رہی تھیں تو اس لیئے بلا لیا۔"
عالی کے سوال پر جب عرشمان نے اچھنبے سے ارمش کی جانب دیکھا تو سب کی نظریں اُسکی پیروی میں ارمش کی جانب اٹھیں جنہیں دیکھتے وہ بھی صبح کا سوچا ہوا بہانہ گڑھنے لگی۔
وہ سب کو یہ نہیں بتا سکتی تھی کہ جس چھت تلے اپنی زِندگی کا طویل عرصہ بے خوف و خطر وہ گزار چکی ہے اب اسی چھت تلے مزید وقت گزارنا مشکِل ترین امر ہے۔
کل رات ضمان کی کہی گئی باتوں کا اسے گہرا اثر پہنچا تھا۔ صحیح ہی تو کہہ رہا تھا وہ اگر ارمش پر سب کو اعتبار تھا تو ضمان پر بھی آنکھ بند کر کے یقین کرتے تھے سب۔۔۔۔۔ خدا نا کرے کوئی اونچ نیچ ہوجاتی تو اسکی عزت پر تو عمر بھر کا داغ لگ جانا تھا جسکا ازالہ کسی صورت نا تھا، چاہے بعد میں ضمان کو کڑی سے کڑی سزا بھی مل جاتی اسکے دامن پہ لگا داغ تب بھی نہ مٹ پاتا۔
احتیاط علاج سے بہتر ہے یہی سوچتے ارمش نے صبح صبح عرشمان کو کال کر کے بلا لیا تھا۔
واپسی کا ارادہ کُچھ عرصے میں ضمان پر سوار بھوت اتر جانے کے بعد کا تھا۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے پر چوٹ لگی ہوئی ہے ارمش سہارے کے بغیر تم چل نہیں پا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ابھی پچھلے مہینے تو گئیں تھیں، اگر جانا ہی تھا تو کُچھ وقت رک جاتیں پیر تو ٹھیک ہوجاتا کم از کم۔ یا پھر گھر میں ذکر کرتیں تو مصطفٰی یا پھر عالی چھوڑنے چلے جاتے، بلا وجہ عرشمان کو زحمت دی۔"
مبشرہ بیگم کی پر فکر آواز لاؤنج میں گونجی تھی۔
عیدوں کے علاوہ دادی اماں کے بےحد اسرار پر ہی وہ حویلی کا رخ کرتی تھی، وجہ مبشرہ اور مرتضیٰ کی یاد ستانا تھی۔ پچھلے مہینے کے چکر کے بعد دوبارہ حویلی جانا سب کے لئے ہی تشویش ناک تھا ماسوائے ضمان کے، جسے یہ سوچ کر تاؤ آ رہا تھا کہ اپنی بیوقوفی میں وہ ارمش کو اس قدر خائف کر چکا ہے کہ اُسنے راہِ فرار چن لی، گھر میں رہتی تو کسی نہ کسی طریقے سے بہلا پھسلا کر یا ڈرا دھمکا کر منا ہی لیتا پر اب تو کوئی راستہ ہی نا چھوڑا تھا اُسنے۔
"مما حویلی میں تو ویسے بھی ہر وقت رکھی ساتھ ہوتی ہے۔ اور مان بھائی کو بلانے کے لیے سوری۔"
چوٹ کا خیال تو اسے خود بھی آیا تھا پر حویلی کی ملازمہ کا سوچتے یہ فکر بھی دور ہوگئی تھی اور یہ بات بھی وہ جانتی تھی کہ اگر گھر میں جانے کی بات چھیڑی تو اس حالت میں اُسے کوئی بھی گھر سے قدم نہیں نکالنے دینے والا تھا تبھی اسنے براہِ راست عرشمان سے رابطہ کیا، یہ سوچتے ہوئے کہ اگر وہ گھر آگیا لینے تو تکلف میں ہی صحیح اجازت مل جائے گی پر پھر بھی مبشرہ بیگم کے اعتراض پر انجان بنتے معافی مانگ لی تھی۔
"ارے کوئی مسئلہ نہیں ہے پھپو میں فری تھا ویسے بھی۔۔۔۔۔۔"
ارمش کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات (جو کہ عالی کی صحبت میں رہتے اداکاری سیکھ جانے کے مرہون منت تھے) دیکھتے عرشمان نے بات ٹالی تھی۔
****
ایک گھنٹے بعد ہی دونوں واپسی کے لیے تیار ہو چُکے تھے اس ایک گھنٹے میں عالی نے مسلسل ارمش کو باتیں سنائی تھیں، وہ تو دھمکیوں پر اُتر آیا تھا کہ وہ جو اسکی وجہ سے اپنے دوستوں کے ساتھ ۸۰ فیصد پلینز مسترد کر دیتا تھا اب ہر جگہ اسے اکیلے چھوڑ کر جایا کرے گا۔ ایسی معصومانہ دھمکیوں پر ارمش محض مسکرا کر رہ گئی تھی۔
"جاؤں پاپا؟"
مرکزی دروازے پر کھڑے سب سے مل کر اب وہ گم سم سے کھڑے مصطفٰی رند سے مخاطب تھی۔
"پوری تیاری کے ساتھ گھر سے نکلتے وقت خیال آیا ہے پاپا کا؟"
انداز میں شکایت صاف جھلک رہی تھی۔۔
"آپ ابھی بھی منع کریں گے تو نہیں جاؤنگی پکّا۔۔۔۔۔"
ضمان کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کہ وہ منع کردیں۔
"نہیں۔۔۔۔۔۔۔ چلی جاؤ،
بس جلدی آجانا۔
کُچھ دونوں سے طبیعت گری گری محسوس ہو رہی تھی پھر یوں اچانک ارمش کے جانے پر وہ واقعی اُداس ہوئے تھے پر دل پر جبر کرتے ارمش کی خواہش کا احساس کرنے کے ساتھ دل مسوس کر پر لبوں پر مسکراہٹ سجائے اجازت دے دی تھی۔ پھر باری باری دونوں مرتضیٰ رند سے مل کر روش پر کھڑی گاڑی میں سوار ہوگئے۔
#بن_مانگے_ان_چاہے_سے_ہم
#از_قلم :#عروج_نقوی
قسط نمبر:11
رات نو بجے کے قریب وہ لوگ مگسی حویلی پہنچے تھے۔ جہاں ارمش کی غیر متوقع آمد پر سب حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی بہت ہوئے۔
ارمش کی چال میں فرق دادی امّاں کی زیرک نگاہوں نے لمحے کے ہزارویں حصے میں ہی محسوس کر لیا تھا اور پھر اس لاپرواہی پر اچھی خاصی ڈانٹ پڑی تھی وہ تو اسی وقت کال کر کہ مبشرہ اور مرتضیٰ سے بھی بازپرس کرنے کے درپے تھیں، جو دادی امّاں کے حساب سے ارمش کی جانب سے غفلت برتتے تھے۔
بڑی مشکل سے ارمش نے اُنہیں مطمئن کیا تھا پھر فریش ہونے کے بعد کھانے کا دور چلا اور اب اس وقت سب دادی امّاں کی آرامگاہ میں موجود عرشمان کے بچپن کے قصے سن کر ہنس رہے تھے جو خفت کے ساتھ دادی امّاں کو گھور رہا تھا وہ ارمش کے سامنے اسکے چٹّے بٹّے جو کھول رہیں تھیں۔
"بچوں سے تو الامان ایسی چڑ تھی صاحب زادے کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمیوں کے بچے تو حویلی آتے نہیں تھے پر شہر سے جب کبھی عالی، زری، ضمان آجاتے تو خود تو کمرے میں بند ہو ہی جاتا تھا ساتھ ارمش کو بھی بند کر لیتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔"
پاندان سے پان لگاتے وہ ایک بار پھر گویا ہوئیں۔
《ماضی》
"مشو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باہر وہ شہر والے بچے آئے ہیں وہ تمہارے کھلونے توڑدیں گے، تم مت جانا ان کے پاس۔۔۔۔۔۔۔"
سات سالہ عرشمان اپنے سے چار سال چھوٹی ارمش کو ساتھ لئے کمرہ بند کیے بیٹھا بچوں سے دور رہنے کی ہدایت کر رہا تھا۔
"پر وہ بھی تو بہن بھائی ہیں نا بھا۔۔۔۔۔۔۔ دادی امّاں کہتی ہیں اُن کے ساتھ کھیلنا چاہیے۔
عالی توڑتا ہے ناں کھلونے تو ضمان بھائی جان پھر اُسے ڈانٹ دیتے ہیں۔ بجّو دھکا دیتی ہیں تو بھی وہ بچا لیتے ہیں پھر بجّو کو بھی ڈانٹ پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔۔"
اپنے تئیں پتے کی بات کرتے زری کو ڈانٹ پڑنے کی بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
《حال》
ماضی کی یاد ارمش کے ذہن کے پردوں پر لہرائی تھی۔ وہ وقت حسین تھا جب اس کے ابّی کا سایہ اس کے سر پر سلامت تھا، سب اس سے محبت کرتے تھے کیونکہ اس وقت ارمش کسی پر بوجھ جو نہیں تھی۔
"ارمش!!
ارے ارمش!! کہاں کھو گئی ہو؟
آؤ چلو کمرے میں چھوڑ دیتا ہوں، رکھی(ملازمہ) کچن سمیٹ رہی ہے تھوڑی دیر تک آجائے گی۔"
اپنی سوچوں کے بھنور میں پھنسے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب محفل برخاست ہوئی اور ہاشم صاحب بمعہ اہلیہ اپنے کمرے میں بھی چلے گئے۔
ماضی کی یادوں سے عرشمان کی آواز نے کھینچ نکالا تھا جو اسے کمرے میں چھوڑنے کی پیشکش کر رہا تھا۔
"جی چلیں۔۔۔۔۔۔۔ واقعی تھکن ہوگئی ہے اور نیند بھی آرہی ہے۔"
عرشمان کی جانب متوجہ ہوتے وہ کوشش کرتے بغیر سہارے کے کھڑی ہوتے ہی لڑکھڑائی تھی، اس سے قبل کہ کرسی پکڑ کر سہارا لیتی عرشمان نامحسوس طریقے سے ارمش کا بازو تھام چکا تھا۔
دادی امّاں کی نگاہوں نے بڑی دلچسپی سے یہ منظر دیکھا تھا، جب عرشمان کے سہارے چلتی ارمش ان کے قریب آئی اور حسبِ معمول شب بخیر کہتے دونوں نے سر جھکا کر پیار بٹورا اور پھر دونوں ہمقدم ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ کرتے اوپری منزل کی جانب چل دئیے۔
دادی امّاں کی نظروں نے دور تک دونوں کا پیچھا کیا تھا، یہاں تک کہ وہ نظریں سے اوجھل ہوگئے اور اتنا وقت کافی تھا انکے دماغ میں کھچڑی پکنے کے لیئے۔
آخر کو اس طریقے سے انکی ارمش اُنکے جوانسال بیٹے کی آخری نشانی تھی، بغیر کسی کے طنز و تکرار کا نشانہ بنے ہمیشہ کے لیئے ان کے پاس ره سکتی تھی۔
♡---------------------------------------♡
"گھر ذرا ٹائم سے آجانا۔۔۔۔۔۔۔
میرا مطلب ہے شام کی چائے تک آجانا۔"
سفید پر نیلی دھاریوں والے ڈھیلے پلازو کے ساتھ سفید ہی ڈریس شرٹ پر کندھے تک آتے بالوں کو پونی میں جکڑے آفس جانے کے لئے نک سک سی تیار زری جلدی جلدی ناشتہ کر رہی تھی جب رفیعہ بیگم نے اُسے مخاطب کیا۔
"خیریت؟ کہیں جانا ہے کیا؟"
گھونٹ گھونٹ نارنجی کا تازہ جوس پیتے وہ کُچھ اُلجھن سے سوالی ہوئی تھی۔
"نہیں کہیں نہیں جانا۔ بس کُچھ مہمان آ رہے ہیں۔
سوری صاحب ہیں ناں فیز-فائیو والے؟ اُنکی فیملی آ رہی ہے تمہیں دیکھنے کے لیئے، اور خبردار جو تم نے کوئی اعتراض اٹھایا۔ اب پڑھائی بھی ہوچکی ہے اور جو بزنس کا بھوت چڑھا تھا وہ بھی پورا ہوچکا ہے۔
اب میں چاہتی ہوں کہ بس اپنے فرض سے سبکدوش ہوجاؤں۔"
رفیعہ بیگم جو رسان سے بیٹی کو سمجھا رہی تھیں زری کی پیشانی پر نمایاں ہوتے بل دیکھ سختی سے گویا ہوئیں۔
"مما ایک بات بتائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لڑکی ہوں یا گھر میں پڑا کوئی اینٹک پیس جسکی نمائش کرنی ہے آپ کو؟!
میں کسی کے آگے ٹرے لیکر حاضر نہیں ہونگی، بہتر ہے کہ آپ ابھی اُن سے معذرت کرلیں کیوں کہ شام تو دور کی بات ہے اگر وہ لوگ گھر میں موجود ہوئے تو میں رات کو بھی گھر نہیں آؤنگی کیونکہ مجھے فلحال شادی کرنی ہی نہیں ہے۔"
لہجے میں چٹانوں سی سختی لیئے اپنی بات کہہ کر پیچھے رفیعہ بیگم کی پکار سرے سے نظر انداز کرتی وہ باہر کی جانب چل دی۔
"کیا ہوا ہے اسے؟ غصے میں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ضمان جو ہسپتال کے لئے تیار نیچے آرہا تھا زرلش کے جارحانہ انداز پر کھٹکا تھا۔ نیچے آیا تو رفیعہ بیگم کا بھی منہ لٹکا ہوا دیکھ کر گویا ہوا۔
"تم نے زری کو بہت بگاڑ دیا ہے ضمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھوں میں ہی نہیں آتی ہے یہ لڑکی، کبھی جو ماں کی بات پر کان دھر لے۔
مسز سوری کی کال آئی تھی، اپنے بیٹے کے رشتے کے سلسلے میں آنے کے لئے پوچھ رہیں تھیں۔ میں نے انکو بلالیا ہے ضمان اور اب یہ۔۔۔۔۔۔۔ اسکے تو مزاج ہی نہیں مل رہے۔ صاف منع کر کے گئی ہے کہ جب تک وہ لوگ گھر میں ہونگے تب تک نہیں آئے گی۔
ایک وہ بچی ہے ارمش،
مبشرہ اگر دن کو رات کہہ دے تو وہ اس پر بھی حامی بھر لیتی ہے۔"
رفیعہ بیگم تو بھری بیٹھی تھیں، ضمان کے پوچھتے ہی اسی پر برس پڑیں جبکہ آخر میں ارمش کی فرمانبرداری کے گن گانا بھی نہیں بھولیں۔
"مما اگر وہ منع کر رہی ہے تو کوئی وجہ ہوگی ناں۔۔۔۔۔۔۔۔کیا معلوم کے وہ کسی اور میں دلچسپی رکھتی ہو۔
اور زری کا موازنہ ارمش سے کرنا بند کردیں۔ آپ اُسکے ساتھ بچپن سے یہی کرتی آ رہیں ہیں ارمش کی فرسٹ پوزیشن آئی ہے تمہاری تھرڈ کیوں؟
ارمش نے سپیچ کمپیٹیشن جیتا ہے تم نے کیوں حصہ نہیں لیا؟
ارمش ڈاکٹر بن رہی ہے تم کیوں نہیں؟
ہر کسی کی اپنی الگ شخصیت ہوتی ہے۔ جو زرلش کرتی ہے وہ آپکی ارمش نہیں کر سکتی۔
اور رہی بات فرمانبرداری کی تو وہ بھی دیکھ چکے ہیں سب۔ کس طرح سب کی خواہش کو فراموش کیے اُسنے رشتے سے منع کیا تھا۔۔۔۔
خیر، میں لے آؤنگا شام میں زری کو اور پھر بعد میں آپ منع کر دیجئے گا مسز سوری کو۔"
رفیعہ بیگم کا ہر شکوہ ضمان کی سر آنکھوں پر تھا پر ہمیشہ کی طرح زری کا ارمش سے کیا گیا موازنہ اسے ذرا نا بھایا تبھی کھری کھری سناتے ہوئے آخر میں طنز کرنا نہیں بھولا تھا۔
اپنی بات کہہ کر بغیر ناشتہ کیے وہ بھی ہسپتال کے لئے نکل گیا۔ جبکہ رفیعہ بیگم تو اپنے بچوں کے تیور ہی دیکھتی رہ گئیں، کہ جس ماں نے بولنا سکھایا آج انکی اولاد اسی ماں کے سامنے اپنی زبان کے جواہر دکھا رہی ہے۔
♡------------------------------------------♡
"ہاں بھئی دھی رانی!! کب ختم ہو رہی ہے یہ تیری ڈاکٹری کی پڑھائی؟"
ملازمہ دادی امّاں کے پیروں کی مالش کر رہی تھی جبکہ ارمش بھی اُنہیں کے قریب بیٹھی اُنکی دوائیاں ملاحظہ کر رہی تھی۔ جب دادی امّاں نے رات سے دماغ میں گردش کرتا سوال ارمش کے آگے پیش کیا۔
"ڈاکٹر تو بن گئی ہوں دادی امّاں اب ہاؤس جاب کر رہی ہوں۔ تقریباً آٹھ ماہ مزید کرنی ہوگی۔ پھر اس کے بعد دماغ کی ڈاکٹر بننے کے لئے اور ساڑھے پانچ سال لگنے ہیں۔۔۔۔۔"
مصروف سے انداز میں جواب دیتے وہ اب انکی رپورٹس میں سر دے چکی تھی۔۔۔
"ائے بنتی رہنا دماغ کی ڈاکٹر بھی۔۔۔۔۔۔ پوری زندگی پڑی ہے ابھی تو۔
یہ ہوز جاب شوز جاب نپٹاؤ ذرا جلدی پھر میں نے پہلی فرصت میں اپنی بچی کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں۔
دیکھ مشو۔۔ ہوں میں پرانے زمانے کی، پر پرانے خیالات نہیں رکھتی۔ تُجھے کوئی پسند ہے تو چپکے سے دادی امّاں کے کان میں بتا دے اور اگر نہیں ہے تو بھی بتادے کیونکہ میری نظر میں تو اپنی شہزادی کے لئے ایک حسین شہزادہ ہے۔"
آنکھوں میں ڈھیروں ارمان سجائے لہجے میں محبت کی چاشنی گھولے وہ بہت مان سے گویا ہوئی تھیں۔
"کیا ہوگیا ہے دادی امّاں آپکو؟؟؟ مجھے نہیں کرنی شادی وادی۔۔۔۔۔۔۔۔
اور جب مجھے کوئی پسند آئے گا ناں؟ تو ارمش مگسی کان میں نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی پسند بتائے گی اور ویسے بھی شہزادے کے بجائے شہزادی ڈھونڈیں، بھا کی عُمر ہو چلی ہے۔"
دادی کی باتیں سنتے سایہ سا ارمش کے چہرے پر آکے گزرا تھا۔ پر جلد ہی اپنے احساسات پہ قابو پاگئی تھی اور پھر شرارتی انداز میں کہتی وہ دادی امّاں کے چہرے پر بھی مُسکراہٹ بکھیر گئی۔
"خیر چھوڑیں سب۔۔۔۔ میں جب کراچی جاؤں گی نہ تب آپ بھی ساتھ چلیے گا۔ مکمل معائنہ کرواؤنگی آپ کا۔
چچی جی بتا رہیں تھیں کہ شوگر کا مسئلہ چل رہا ہے آپ کا؟ احتیاط بھی تو نہیں کرتی ہیں نا بالکل آپ۔"
جلد ہی بات کا رخ موڑتے اب بیٹیوں کی طرح وہ انکی فکر میں ہلکان ہو رہی تھی جبکہ دوسری جانب ساری ہدایات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالتے وہ رکھی کو باورچی خانے سے پنجیری لانے کا حکم دیتی ارمش کی گھوریوں سے بے فکر ٹی-وی پر ساس بہو اور اُنکی سازشوں پر مبنی ڈرامہ دیکھتے زور و شور سے تبصرے کر رہیں تھیں۔ جسے دیکھ ارمش نے یوں نفی میں سر ہلایا مانو کہنا چاہ رہی ہو کہ آپ کا کُچھ نہیں ہو سکتا دادی امّاں۔۔۔
♡------------------------------------------♡
"بہت محنت كش ہے ہماری رینو۔۔۔۔۔۔۔
یہ سارے اُسنے خود کاڑھے ہیں بيبی جی۔ مجھے کہہ رہی تھی کہ چھوٹی بیبی کو جو پسند آئے اُنہیں دے کر آجانا۔ بڑی ہنرمند ہے جی، بس نصیب کی ماری ہے بیچاری۔"
سندھی کڑھائی کے خوبصورت جوڑے بیڈ پر پھیلائے، رکھی اپنی چھوٹی بہن کی کم عمری میں بیوگی اور پھر سسرال والوں کے مظالم کی داستان سنانے کے بعد اب خوشی خوشی رینو کے سلیقے کے گیت گا رہی تھی جسے پوری توجہ کے ساتھ سنتی ارمش جہاں رینو کے ساتھ ہوئی زیادتیوں پر افسردہ ہوئی تھی وہیں خوبصورت کڑھائی سے سجے کپڑوں کو دیکھ اُسکی کاریگری سے بھی بےحد متاثر نظر آ رہی تھی۔
"ہاں میں ضرور لوں گی یہ سب، بہت خوبصورت ہیں رکھی۔ تمہاری بہن واقعی حد درجہ صلاحیت کی حامل ہے۔"
سامنے رکھے چار پانچ سوٹوں کو رکھی کے ساتھ تہہ کروانے کے بعد سائڈ ڈرار سے ہزار ہزار کے کئی نوٹ نکالتے رکھی کی طرف بڑھائے تھے۔
"کیا کرتی ہیں بیبی جی!! اب کمیوں کے ایسے دن آگئے کہ آپ سے سوغات کی اجرت لیں؟؟
نا نا گنہگار نہ کریں۔"
جھٹ سے ہاتھ دوپٹے میں چھپاتی وہ یوں گھبرائی تھی جیسے واقعی کوئی گناہ سرزد کردیا ہو۔
"چپ کر کے رکھو یہ رکھی۔۔۔۔۔۔۔ بہت معذرت کے ساتھ پر جب امّاں کمیوں میں صداقت اور خیرات بانٹتی ہیں وہ تو سب رکھ لیتے ہیں۔ پھر اپنی محنت کی اُجرت لینے میں کس بات کی جھجھک ہے؟
یہ پیسے تمہاری بہن کا حق ہیں رکھی، اپنا حق تو غاصبوں کے حلق سے نکال لینا چاہئے اور تم یہاں کھڑے ہو کر ہنسی خوشی مجھے اپنے حق سے نواز رہی ہو۔ یہ رکھو اور انہیں سمیٹ کر میری الماری میں پہنچاؤ۔
اب خاموش کر جاؤ رکھی جو کہا ہے وہ کرو۔"
حق کی خاطر ڈٹ جانے کا درس دے کر زبردستی پیسے ہاتھ میں تھما کر رکھی کو مزید بولنے کی کوشش کرتے دیکھ ذرا روعب سے گویا ہوئی تو رکھی بھی منہ بند کر کے اپنے کام میں لگ گئی۔
"چھوٹی بیبی۔۔۔ آپکو نیچے بیبی امّاں نے یاد کیا ہے۔"
ابھی وہ فون اٹھا کر مبشرہ بیگم کو کال ملانے ہی لگی تھی جب ملازمہ نے دادی امّاں کا پیغام آ کر سنایا تو ہاں میں سر ہلاتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔
"تم کام کرو جو کہا ہے، میں چلی جاؤنگی کافی بہتر ہے اب میرا پیر۔"
ارمش کو کھڑا ہوتے دیکھ جونہی رکھی سہارے کے لئے آگے بڑھی تو ہاتھ کے اشارے سے وہیں ٹھہرنے کا کہتی ایڑی پر دباؤ دیتی وہ خود ہی نیچے کی جانب چل پڑی۔
♡-------------------------------------------♡
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ دادی امّاں کے کمرے میں پہنچی تو ضمان کی وہاں موجودگی دیکھ لمحے سے قبل خوفزدہ ہوئی تھی ابھی دو دن ہی تو گزارے تھے عالم سکون میں کہ پھر وہ آن ٹپکا تھا۔ خوف کی زد میں اُسنے دبے پاؤں ابھی اُلٹے قدم اٹھائے ہی تھے کہ دادی امّاں کی آواز پر بےبسی کے احساس سے آنکھیں میچ گئ۔...
"کیوں بھئی دهی رانی تو نے تو ہفتہ ڈیڑھ نہیں رکنا تھا؟
پھر کیوں اچانک ضمان کو بلا لیا؟"
دادی کے لہجے میں اداسی کے ساتھ شکوہ بھی تھا، جبکہ ارمش تو یہ سن کر ہی حیران رہ گئی تھی کہ اُسنے ضمان کو بلایا ہے۔
"ارے نانی امّاں۔۔۔۔۔ آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ارمش ایک دن بھی بمشکل چھوٹی مما کے بغیر گزار پاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آج کل تو ویسے بھی وہ اس کے ساتھ سو رہی تھیں۔ رات کو یاد آرہی ہونگی ناں! تبھی فوری اسنے مجھے کال کردی اور پھر محترمہ لاڈلی بھی سب کی ہیں، ہم تو بس حکم کے غلام ہیں۔"
عنابی لبوں پر مسکراہٹ سجائے نرم نظروں کے حصار میں ارمش کو لیے وہ اس وقت ارمش کو زہر سے بھی بُرا لگ رہا تھا۔
"اب اتنی افسردہ تو مت ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا آپ نہیں چاہتیں تو کوئی بات نہیں میں نہیں جاتی بھائی جان کے ساتھ۔
چند دن اور گزار لونگی یہیں آپ کے پاس۔"
تمام تر ہمت جمع کرتے، لبوں پر مصنوئی مسکان سجائے قدم قدم چلتی وہ دادی امّاں کے قریب بیڈ پر بیٹھ کر اُنکے گلے میں باہیں ڈالے لاڈ سے گویا ہوئی تھی۔
لمحہ لگا تھا ضمان کے چہرے سے مُسکراہٹ غائب ہونے میں۔ چند لمحوں پہلے چھائی شادابی کا شبہ تک نہ رہا تھا اب محض متغیّر تاثرات کے ساتھ وہ ارمش کو گھور رہا تھا جو اسکی موجودگی سرے سے نظر انداز کیے دادی اماں سے چپکی بیٹھی تھی۔
"چل چل!!
جھلّی سمجھا ہے مجھے؟
یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے میں نے سب جانتی ہوں تیری فنکاریاں۔
اتنی دور میرے نواسے کو بلا کر اب نا جا کر اُسکا اتنا وقت برباد کرنا ہے تجھے؟
چلی جا۔۔۔۔۔۔۔۔ پر جلدی دوبارہ چکر لگانا۔"
ارمش کا دل ہولے ہولے لرزنے لگا تھا، وہ عالی تو نہیں تھی جو اپنی باتوں کے جال میں کسی کو پھنسا پاتی۔
اپنی ننھی سی کوشش کو رائیگاں ہوتے دیکھ وہ جی جان سے بدمزہ ہوئی تھی۔
4 گھنٹوں کا سفر ضمان کی صحبت میں طے کرنے کا تصّور ہی عذاب تھا، یوں بھی وہ بغیر کسی وجہ کے تو لینے نہیں آیا ہوگا۔۔۔۔۔۔۔ ایک پل کو تو دل میں آیا تھا کہ صاف انکار کردے کہ نہیں جانا پھر وہی مسئلہ تھا کہ وجہ کیا بتاتی۔
"ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاؤ بیگ لے آو پھر نکلنا ہے میری نائٹ شفٹ ہے آج۔"
دادی کی باتوں پر ضمان کا اعتماد پھر بحال ہوا تھا۔ جتاتی نظروں سے ارمش کو دیکھ کر گویا ہوا جیسے نظروں کے ذریعے یہ باور کروانا چاہ رہا ہو کہ دیکھ لو تم میرے آگے بالکل بے بس ہو۔۔۔۔۔۔
"کیوں بھئی!! گدھے پر سوار کیوں آتے ہو؟ اب آ ہی گئے ہو تو میں نہیں جانے دونگی۔ کل صبح کی سواری رکھو بس اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
حتمی انداز میں فیصلہ سناتی وہ ارمش کو سکون کا سانس بخش گئی تھیں۔
"اگلی بار انشاءاللہ نانی امّاں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بار واقعی بہت مشکِل ہے۔
ارمش جائو، سامان سمیٹو اپنا۔۔۔۔۔۔
اُٹھ بھی چکو اب!!
امّاں سے معذرت کرتے وہ بہت حق سے ارمش کو پیکنگ کرنے کا حُکم دے رہا تھا، وہ پریشان سی التجائیہ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
بد دلی سے وہ بیڈ پر سے اٹھی اور بے خیالی میں سارا وزن چوٹ پر دے گئی، یکے بعد دیگرے آنسو بند توڑ کر بہنے لگے تھے، پیر سے زیادہ ذہنی تکلیف کا شکار وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تو اچانک ہی سب کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ لمحے میں ضمان ارمش کے قدموں میں آیا تھا، پر فکر تاثرات چہرے سے عیاں تھے۔
"بیٹھو تم یہیں۔۔۔۔۔۔۔ نانی اماّں کسی سے کہہ کر سامان پیک کروادیں آپ۔"
زخم سے ایک آدھ بوند ہی خون رسا تھا، اچھے طریقے سے معائنہ کرنے کے بعد ارمش کے ہاتھ جھٹکنے کے باوجود زبردستی سہارا دے کر بٹھاتے امّاں سے مخاطب ہوا۔
یوں چند گھنٹوں میں وہ دوبارہ اسی انسان کے رحم و کرم پر تھی جس کے شر سے بچتی وہ راہِ فرار پر گامزن ہوئی تھی۔
شام کی چائے کے بعد وه اس بار سب سے ملتے وقت اشکبار تھی پر کوئی یہ اداسی، یہ ڈر محسوس ہی نہ کر پایا۔
"کاش آپ ہوتے اببی۔۔۔۔۔۔"
گاڑی نے جب حویلی کا مرکزی دروازہ عبور کیا تو ایک مرتبہ پھر دل میں کلن ہوئی۔ آنسوؤں کو اندر اُتارتی ضمان کی جانب پشت کیے دروازے سے لگی وہ آنے والے کڑے وقت کے لئے اپنے اعصاب مضبوط کرنے کے لئے کوشاں تھی۔
♡-------------------------------------------♡
"مرتضیٰ میں نے مانا کہ کلیجی بکرے کی تھی پر پیٹ تو اپنا تھا ناں؟؟
چلو ناشتے میں کلیجی کھا بھی لی تھی تو دوپہر میں پائے کھانے کی کیا تک بنتی تھی بھلا؟؟
اب دیکھیں ہو رہی ہے نا تیزابیت۔۔۔۔۔
اچھا چلیں ہسپتال چلتے ہیں۔"
شام 4 بجے کا وقت تھا مرتضیٰ رند کُچھ بےچینی سے کمرے میں چکر کاٹتے وقتاً فوقتاً سینا سہلا رہے تھے جب مبشرہ بیگم نے اس بےچینی کو روزمرہ ہونے والی تیزابیت جان کر ہسپتال چلنے کی تجویز دی۔
"ارے کُچھ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوں میں، تم جاؤ ذرا وہ سونف پودینے کا پانی بنا لاؤ۔ ایک گلاس پیوں گا اور پھر دیکھنا کیسے فٹافٹ ٹھیک ہوجاتا ہوں۔"
بمشکل لہجے میں بشاشیت لاتے وہ مبشرہ بیگم سے گویا ہوئے تھے جو انکی بات سے متفق ہوتے پل بھر میں کچن کی جانب چل دیں۔
"چھوٹی مما۔۔۔۔۔ رات کا کھانا میں بناؤنگی کک کو منع کر دیے گا۔۔۔۔۔
آپ کیا بنا رہی ہیں؟"
زرلش جو اپنی دھن میں کہتی کچن میں آئی تھی مبشرہ بیگم کو پھرتی سے ہاتھ چلاتے دیکھ اشتیاق سے پوچھنے لگی۔
"تمہارے چھوٹے پاپا کی طبعیت کُچھ متلی کر رہی ہے، اُنہیں کے لئے سونف پودینے کا پانی بنا رہی ہوں۔"
"اوہووو۔۔۔۔ مش گھر پہ نا ہو تو چھوٹے پاپا کُچھ زیادہ ہی لا پرواہ ہوجاتے ہیں۔ دوپہر کے کھانے میں پائے بننے ہی تھے تو آپ نے بھی کیوں کھانے دی ناشتے میں کلیجی؟
اچھا آپ یہ بنا کر لے آئیں اتنے ذرا میں دیکھ لیتی ہوں انہیں۔"
متفکر لہجے میں کہتے زرلش نے قدم مرتضیٰ صاحب کے کمرے کی جانب بڑھائے تھے۔
***
"کیا کر لیا ہے چھوٹے پاپا؟؟
چھوٹے پاپا؟؟
یہ۔۔۔۔۔۔۔ ک۔کیا ہو رہا ہے آپکو؟؟
چھوٹے پاپا پلیز!!! مما!!! چھوٹی مما!!!!"
وہ جو یہ سوچتی آرہی تھی کہ انکی بد پرہیزی پر خوب لڑے گی، مصطفٰی رند کو صوفے پر پسینے میں شرابور بائیں ہاتھ کو پکڑے دیکھ بری طرح گھبراتے ہوئے چلائی تھی۔
چند ساعتوں میں مبشرہ اور رفیعہ بیگم زری کی آواز کے تعاقب میں گھبرائی ہوئی دوڑی چلی آئیں۔ کمرے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا۔
وہ شخص جو ان سب کا سہارا تھا اس وقت شدتِ درد سے تڑپ رہا تھا۔
"ہسس۔۔۔۔۔ ہسپتال۔۔۔۔۔"
درد سے بے حال ہوتے وہ بمشکل بولے تھے۔ ایک طرف مسطفیٰ صاحب کی حالت دوسری جانب رفیعہ اور مبشرہ کی گریہ و زاری زرلش کے حواس سلب کیے دے رہی تھی۔ جب مصطفٰی صاحب نے خود ہی ہسپتال جانے کے لئے کہا۔
آناً فاناً ہی ڈرائیور اور گارڈ کی مدد سے مرتضیٰ صاحب کو گاڑی میں ڈالے وہ لوگ ہسپتال کی جانب روانہ ہوگئے تھے۔ لمحے دو لمحے بعد ڈرائیور کو رفتار بڑھانے کا کہنے کے ساتھ وہ پیچھے مبشرہ بیگم کے سہارے درد سہتے مصطفٰی صاحب پر نظر بھی ڈال رہی تھی ساتھ ہی مُسلسل ضمان سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی جسکا نمبر مُسلسل اوف جا رہا تھا، آنسو ساون کی برسات کی طرح زور و شور سے برس رہے تھے۔ گاڑی میں بیٹھے تمام نفوس کے دل میں بس ایک ہی دعا تھی کہ خدا اس مہربان شخص کا سایہ ہمیشہ ان کے سروں پر قائم رکھے، انکی خود کی عمر بھی اس شخص کو دے دے جسکے بغیر زندگی کا تصور بھی بے معنیٰ تھا۔
♡-----------------------------------------♡
"کیسی ہو؟"
تقریباً پندرہ منٹ کی مسلسل خاموشی کو ضمان کی آواز نے توڑا، پر جواب ندارد۔
"تمہیں پتا ہے مش۔۔۔۔۔۔۔ میں ہر بار سوچتا ہوں کہ اس بار پیار سے سمجھاؤنگا پر تمہاری حرکتیں دیکھ کر نا چاہتے ہوئے بھی مجھے غصّہ آجاتا ہے۔"
وہ جو ہمیشہ مرکزِ توجہ رہا تھا اپنے آپ کا اس طرح نظر انداز کیے جانا اُسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔
"مجھے نظرانداز کرنا بند کرو ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں لگ رہا ہے کہ اس طرح تم مجھ سے فرار حاصل کر پاؤ گی تو تمہاری سوچ غلط ہے۔
میں اب۔۔۔۔۔۔ہر گز بھی تم سے دستبردار نہیں ہونگا!"
جھٹکے سے گاڑی سنسان سڑک کے کونے میں لگاتے اب وہ پوری طرح ارمش کی طرف متوجہ اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کر رہا تھا۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ مت سنو ،مت دیکھو۔
پر اب جو بھی ہوگا اس کے بعد مجھے الزام نا دینا۔"
ارمش کو مسلسل شیشے کی جانب رخ کیے خاموش بیٹھے دیکھ گہرا سانس لے کر ضمان نے پرسکون ہونے کی کوشش کی تھی جو ارمش کی ڈھٹائی دیکھ بری طرح ناکام ہوئی تھی۔ تو کچھ سوچ کر غصے میں گاڑی سٹارٹ کرتے گویا ہوا۔
****
"یہ-۔۔۔یہ کہاں جا رہیں ہیں آپ؟ کراچی تو وہ سڑک جاتی ہے۔"
1 گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد ہائی وے پر جانے کے بجائے روڈ پار پکّی سڑک پر جب گاڑی رواں ہوئی تو نا چاہتے ہوئے بھی وہ ضمان سے مخاطب ہوئی تھی جسے سن کر کُچھ عجیب سی مسکراہٹ نے سختی سے بھینچے لبوں کا احاطہ کیا تھا۔
"اور نا دو جواب ارمش بےبی۔۔۔۔۔"
دل ہی دل میں وہ ارمش سے مخاطب تھا کیونکہ کُچھ لمحوں قبل جس ارمش کے مزاج ہی نہیں مل رہے تھے اب وہ پر فکر سی کبھی باہر تیزی سے دوڑتے مناظر کو دیکھتی تو کبھی ضمان کو، جو اب خاموشی سے اپنے کام میں مصروف تھا۔
"آپ سے پوچھ رہی ہوں میں بھائی جان!! کہاں جا رہیں یہ آپ؟؟ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔ دیکھیں پلیز کراچی چلیں۔"
پوری توجہ کے ساتھ سڑک پر نظریں ٹکائے ضمان کی جانب سے کوئی جواب نہ پایا تو ایک بار پھر مخاطب ہوئی پر اس بار آواز اونچی ہونے کے ساتھ کُچھ خوفزدہ بھی محسوس ہوئی تھی۔
"چپ کر کے بیٹھو۔۔۔۔۔ ابھی پتا لگ جانا ہے کہ کہاں جا رہے ہیں۔"
وہ جو چند ساعتوں پہلے ارمش کے عمل کا بدلہ لینے کے طور پر خاموش تھا ارمش کی بےچینی محسوس کرتے "اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے" سوچ کر گویا ہوا۔۔۔
تقریباً بیس منٹ کا فاصلہ طے کرنے کے بعد گاڑی گنجان علاقے میں موجود ایک خوبصورت سے فارم ہاؤس کے پارکنگ لاٹ میں آکر رکی تھی۔
ان بیس منٹوں میں ارمش مُسلسل اس سے واپس چلنے کی درخواست کرتی رہی تھی جسے سہولت سے نظر انداز کرتے وہ ڈرائیونگ میں مگن رہا۔۔۔۔
ارمش سراسمیگی سے اس سنسان فارم ہاؤس کو دیکھ رہی تھی جس کے راستے میں دور دور تک کوئی زی روح موجود نا تھا اور نہ ہی اس کے اندر کسی انسان کی موجودگی کے آثار نظر آرہے تھے، ماسوائے ایک گارڈ کے جو گاڑی کے لئے دروازہ کھولنے کے بعد ضمان کے اشارے پر دروازہ بند کر کے خود باہر جا چکا تھا۔
گاڑی کا دروازہ کھلا تو خوف سے نفی میں سر ہلاتی ارمش پیچھے کو ہوئی تھی جسے مُکمل طور پر نظر انداز کرتے ضمان ہاتھ بڑھا کر اسے گاڑی سے نکال چکا تھا۔
پھر ارمش کی تمام تر مزمت کو بالائےطاق رکھ کر اپنی چوڑی ہتھیلی کی گرفت میں نازک ہاتھ تھامے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔۔۔
"ابھی دو ہفتے پہلے یہ بن کر مکمل ہوا ہے۔ میں نے سوچا تھا سب کو ایک ساتھ لے کر آؤنگا۔۔۔۔۔۔۔ فیملی پکنک بھی ہوجائے گی اور سب دیکھ بھی لیں گے پر پھر آج تم نے غصّہ دلا دیا تو سوچا سب سے پہلے تمہیں ہی دکھا دوں۔ آخر کو تمہارا پورا حق ہے۔...
تمہیں یہاں دیکھ کر دل چاہ رہا ہے کہ منہ دکھائی میں یہی گفٹ کردوں۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟"
ارمش کا ہاتھ تھامے اپنے ساتھ تقریباً گھسیٹنے کے سے انداز میں وہ فارم ہاؤس کا کونا کونا دکھاتے بہت ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کر رہا تھا گویا وہ واقعی اپنی منگیتر کو ساتھ لایا ہو۔۔۔
"ویسے کیا خیال ہے ارمش بےبی؟؟
موقع بھی ہے۔۔۔۔ محل بھی۔۔۔۔۔۔ بس ایک مولوی اور تین گواہوں کی کمی ہے کیا کہتی ہو؟ یہ کمی بھی پوری کر لی جائے؟ پھر رات یہیں گزار کر صبح واپس چلیں گے۔۔۔۔ ویسے بھی کراچی میں کسی کو نہیں پتہ کہ میں تمہیں لینے آیا ہوں اور حویلی بس ایک فون کرنا ہوگا یہ بتانے کے لیے کہ ہم پہنچ گئے پھر کوئی زحمت نہیں کرے گا، کس قسم کی تصدیق کرنے کی آخر کو تم میرے ساتھ ہو۔"
وہ جانتا تھا کہ وہ ارمش کو بد گمانيوں کے سمندر میں دھکا دے رہا ہے، سب جانتے بوجھتے بھی ضمان نے وہ رگ دبائی تھی جسکی تکلیف شدید ہوتی ہے، جس کے ذریعے اکثر کم ظرف مرد، عورت کو مجبور کر دیتے ہیں۔
ارمش کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا، وہ تو ویسے بھی زمانے کی چالاکیوں سے دور رہی تھی پر اس وقت جو دل پر کاری ضرب دے رہا تھا وہ زمانے میں سے تو نا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تو اُن چند لوگوں میں سے تھا جن پر آنکھ بند کر کے اسنے بھروسہ کیا تھا اور کیا ہوا؟ اس بھروسے کے صلے میں اسے واقعی اندھا ثابت کردیا گیا تھا وہ کچھ بھی توقع رکھ سکتی تھی ضمان سے پر یہ نہیں۔۔۔
"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ پلیز نہیں۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیۓ مجھے جانے دیں، آپکو بجّو کا واسطہ ہے پلیز مت کریں میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔۔۔۔"
ضمان کے کھینچے گئے منظر سے خائف وہ ہاتھ جوڑ کر پھوٹ پھوٹ کے رو پڑی۔
دل بیٹھا جا رہا تھا یہ سوچ کر کہ وہ اس وقت لوگوں سے دور سنسان علاقے میں اس شیطان صفت انسان کے ساتھ اکیلی موجود ہے۔
"ششششش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روتے نہیں ہیں۔
میں خود بھی ایسا کُچھ نہیں چاہتا مش۔۔۔۔۔۔
میں پوری دنیا کے آگے سب کی موجودگی میں تمہیں اپنانا چاہتا ہوں، امید کرتا ہوں کہ ہم جب یہاں سے جائیں گے تب تم خود چھوٹے پاپا کو اس رشتے کے لئے رضامندی دے دو گی کیونکہ تم جانتی ہو کہ یہ آخری موقع نہیں ملا ہے مجھے، میں جب چاہوں تب دوبارہ تمہیں یہاں یا اسی طرح کی کسی اور جگہ لے جا سکتا ہوں پر میں ایسا کُچھ نہیں کروں گا۔
صرف تب جب تم آج خود چھوٹے پاپا کے سامنے حامی بھر لو گی۔"
ارمش کے بندھے ہوئے ہاتھوں کو اپنی نرم گرفت میں لئے وہ اپنے اختیارات سے باور کروا رہا تھا، اپنی شرط پر واپسی کا راستہ کھولنے کی دھمکی دے رہا تھا۔ پر بعد کی فکر کسے تھی؟ وہ بس اس وقت یہاں سے جانا چاہتی تھی تبھی سر جھکائے حامی بھر لی تھی۔
"گڈ۔۔۔۔۔۔۔ چلو شاباش آنسو صاف کرو روتے نہیں ہیں۔ آؤ چلتے ہیں۔"
توقع کے مطابق یہ بازی کامیاب گئی تھی تبھی مسکرا کر ارمش کے آنسو صاف کرتے ایک مرتبہ پھر ہاتھ تھامے وہ باہر نکل گیا تھا۔
♡-------------------------------------------♡
"مما۔۔۔۔۔۔۔کیا ہوا ہے پاپا کو؟"
عالی جو زرلش کے فون پر بھاگا چلا آیا تھا کوریڈور میں بینچ پر مبشرہ بیگم کو بیٹھے روتا دیکھ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اُن تک پہنچا۔
"اچھا آپ روئیں مت۔ کُچھ نہیں ہوگا اُنہیں انشاءاللہ آپ دعا کریں ناں۔"
مبشرہ بیگم تفصیل سے آگاہ کرتے اپنے جوانسال بیٹے کے گلے لگ کر ایک مرتبہ پھر ضبط کھو بیٹھیں تو عالی نے اپنے توانا بازوؤں کا سہارا دیتے ہمت بندھائی تھی۔
"زری کدھر ہے مما؟"
وہ جو خود پریشان سا آئی-سی-یو کے دروازے کی جانب گیا تھا زری کا خیال آتے ہی دوبارہ مباشرہ بیگم کی جانب متوجہ ہوا۔
"پیپر ورک کرنے گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ ای سی جی ہو رہی ہے چھوٹے پاپا کی۔"
بلیو جینز پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے رف سے حولیے میں سرخ آنکھیں مسلسل رونے کی چغلی کھا رہیں تھیں۔
عالی کو وہ بکھری حالت میں خاصی اپنی لگی تھی جو اسکے باپ کی تکلیف پر خود بھی تڑپ اٹھی۔
"وہ ٹھیک ہوجائیں گے زری پریشان مت ہو۔"
آگے بڑھ کر ہاتھ کے حصار میں لیتے وہ جو خود بے حد پریشان تھا اس وقت اپنوں کے لئے مضبوط شجر ثابت ہوا تھا۔
"ڈاکٹر واصف۔۔۔ پاپا کی طبعیت کیسی ہے اب؟"
آئی-سی-یو کا دروازہ کھلنے کی آواز پر سب اسی جانب متوجہ ہوئے تھے، جبکہ عالی نے بڑھ کر سینیئر ڈاکٹر سے مرتضیٰ صاحب کا حال احوال لیا تھا۔
"اٹیک مائنر تھا۔۔۔۔۔۔۔ اب کوئی خطرہ نہیں ہے پر دل کا مرض لگ چکا ہے تو اب احتیاط کی ضرورت رہے گی۔ روم میں شفٹ کر رہے ہیں بس کچھ دیر میں آپ لوگ مل لیجیے گا۔
ڈاکٹر عالی رند آپ میرے ساتھ چلیں کُچھ تفصیلی بات چیت ہوجائے گی۔"
پیشہ ورانہ انداز میں سرسری سے طبیعت سے مطالع کرنے کے بعد وہ عالی کی جانب متوجہ ہو کر گویا ہوئے تھے جسے سن کر عالی اُنکی تقلید میں چل دیا جبکہ مبشرہ اور زری بے صبری سے وقت گزرنے کے انتظار میں محو ہو چکی تھیں۔
♡-------------------------------------------♡
"مما۔۔۔۔۔۔۔۔مما؟!؟!"
چار صدیوں پر محیط چار گھنٹوں کا سفر آگ کے شعلوں پر طے کرنے کے بعد گاڑی جونہی پورچ میں رکی ارمش ایک بھی لمحہ برباد کیے بغیر گاڑی سے نکل کر بھگانے کے سے انداز میں چلتی مبشرہ بیگم اور مرتضیٰ صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے وقت یہ سوچ چکی تھی کہ بہت برداشت کر لیا بہت پردہ رکھ لیا، جب ضمان ہی گھٹیا پن پر اترا ہوا ہے تو ارمش کس بات کا پاس رکھے۔
"فرزانہ۔۔۔ مما کدھر ہیں؟"
کمرے میں داخل ہوئی تو خالی کمرے کو منہ چڑاتا دیکھ باہر آئی تھی ارادہ اوپر جا کر سب کے سامنے ضمان کے کارنامے بیان کرنے کا تھا۔
ابھی لاؤنج سے گزرتے وہ سیڑھیوں کی جانب جا ہی رہی تھی جب دروازے سے فرزانہ کو داخل ہوتے دیکھا تو تصدیق کرنے کی خاطر پوچھ بیٹھی۔
"اوہ ارمش بی بی، آپ آگئیں؟ بیگم صاحبہ تو ہسپتال گئیں ہیں جی۔۔۔۔"
ارمش کو گھر میں دیکھ کر کچھ حیرانی سے گویا ہوئی تھی۔
"آگئی ہوں تبھی تو سامنے کھڑی ہوں ناں۔۔۔۔۔۔۔ اور مما کیوں گئیں ہیں ہسپتال؟"
وہ جو پہلے ہی چڑچڑی ہو رہی تھی فرزانہ کے بے تکے سوال پر تپ گئی تھی۔
"ارمش میرا بچہ۔۔۔ آؤ ساتھ چلو ہمارے، ہسپتال جانا ہے۔"
رفیعہ بیگم جو کب سے بے چین تھیں کہ کسی طرح بہن کو حوصلہ دینے بھائی جیسے دیور کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچ جائیں ضمان کو گھر میں دیکھتے ہی ایک سانس میں صورتحال سے آگاہ کرتے ہسپتال چلنے کے لئے کھڑی ہوگئی تھیں۔ نیچے ارمش کو فرزانہ سے باز پرس کرتے کھڑا دیکھ گویا ہوئیں۔
"کیوں جانا ہے بڑی مما؟؟؟
جلدی بتائیں مجھے!! مما ٹھیک ہیں ناں؟؟؟ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔"
پہلے فرزانہ کا مبشرہ بیگم کا ہسپتال میں ہونے کی اطلاع دینا پھر رفیعہ بیگم کا ہسپتال چلنے کا کہنا۔۔۔۔
ارمش کا دل بری طرح وسوسوں کا شکار ہوا تھا۔
مختصراً مصطفٰی صاحب کی طبیعت بگڑنا اور پھر ہسپتال جانے سے لے کر زری کا کال پر خیریت بتانے تک سب کچھ بتاتے وہ ارمش کو لیے باہر کی جانب چل پڑی تھیں جہاں ضمان پہلے ہی گاڑی سٹارٹ کیے دونوں کا منتظر تھا
♡------------------------------------------♡
"ضمان اور عالی کی جانب سے بیفکر ہوں میں، ایک لحاظ سے زرلش کی طرف سے بھی پریشانی نہیں ہے۔
اسے میں نے ہمیشہ عالی کے حوالے سے سوچا ہے آگے اُسکی رضامندی پر میں جلد ہی دونوں کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا سوچ رہا ہوں کیونکہ عالی کو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا میں جانتا ہوں۔ بس ارمش کی فکر گھول رہی ہے مجھے مبشرہ میں جانتا ہوں کہ وہ ایک کامیاب زندگی بسر رہی ہے. پر پھر بھی میں تو وہی روایتی باپ ہوں ناں، اپنی زندگی میں اُسکا گھر بسا دیکھنے کا خواہشمند ہوں۔ اس مرض کے بعد تو مجھے اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں رہا۔
رشتوں کی کمی نہیں ہے میری شہزادی کے لئے پر میرا دل کسی اور پر مطمئن ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ مجھے ضمان سے زیادہ اس معاملے میں کوئی قابلِ اعتبار نہیں لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔"
ارمش جو معمول کے حساب سے آج بھی رات کے کھانے سے قبل مرتضیٰ صاحب کا دورانِ خون کا سد باب کرنے کی غرض سے اس طرف آئی تھی دروازے کے قریب پہنچی تو نیم وا دروازے سے مرتضیٰ صاحب کی باتیں سن کر ٹھٹھکتے ہوئے رکی تھی۔
ایک ہفتہ پہلے حویلی سے واپسی پر اسے مرتضیٰ صاحب کی طبیعت کا علم ہوا تو اپنی تمام تر پریشانیاں فراموش کیے وہ ایک نئی فکر میں جکڑ گئی تھی۔
وہ شخص جو موت سے مہلت لے کر واپس زندگی کی جانب لوٹا تھا وہ ارمش کی زندگی میں عابد مگسی جتنی اہمیت رکھتا تھا یا شاید ان سے بھی زیادہ۔ ایک مرتبہ وہ یہ دکھ سہ گئی تھی کیونکہ عابد کے بعد اس بے رحم زمانے کی سرد ہواؤں کی زد میں معلق بے ضرر وجود کو مصطفٰی رند کے وجود نے باپ کی شفقت دے کر مستحکم سہارا فراہم کیا تھا۔ پر اب وہ اس قسم کا کوئی نقصان نہیں سہ سکتی تھی اس شخص کو کھو دینے کا تصّور ہی جان لیوا تھا۔
پھر اسی ہفتے ضمان نے اس سے بات کرتے وقت یہ بتایا تھا کہ وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے وہ اس بات پر راضی تھا کہ اُسکا طریقہ غلط تھا۔ ہاں پر ایک بات وہ صاف لفظوں میں اسے ازبر کروا چکا تھا کہ طریقہ غلط ہونے کے باوجود بھی اُسکی نیت ہر گز بری نہیں تھی اور نا ہی وہ اپنے فیصلے پر پشیمان ہے۔
ایک ہفتے میں معتدد بار ضمان نے اسے یہ بات بھی باور کروائی تھی کہ وہ شادی اسی سے کرے گا اور یہ بھی کہ جلد از جلد وہ اپنی طرف سے رضامندی کا اظہار کر دے۔
زندگی کے ہر موڑ پر اس کے باپ نے اسکی ہر چھوٹی بڑی خواہش کو پورا کرنا اپنے آپ پر لازم و ملزوم جانا تھا۔ وہ شخص جو اسکی ہر ضرورت، ہر خواہش زبان پر آنے سے پہلے پورا کردیا کرتا تھا کیا ارمش اس شخص کی خواہش کا پاس نہیں رکھے گی؟
دل میں عجیب سی کلن ہوئی تھی۔ ضمان نے اعتراف کیا تھا اپنی غلطی کا پر پھر بھی وہ معذرت خواہ نہیں تھا، ضمان کا ساتھ زندگی بھر کے لئے قبول کرنا ارمش کے لئے آزمائش سے کم نہ تھا پر وہ یہ قربانی دینے کے لئے تیار تھی، کُچھ مصطفٰی صاحب کی خواہش کا احترام تھا تو کُچھ ضمان کا خوف بھی دل میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا۔
دماغی الجھنوں کو پس پشت ڈال کر حتمی فیصلہ کرتے دروازہ پر دستک دی تھی، اجازت ملنے پر لمبی سانس ہوا کے سپرد کرکے لبوں پر مسکراہٹ سجا کر، یا یہ کہا جائے کہ اپنے ہونٹوں کو زبردستی کھینچتی ہوئی وہ کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی۔
"کیسی طبیعت ہے پاپا؟"
سگمومونومیٹر مخصوص جگہ سے اٹھا کر مصطفٰی صاحب کے قریب بیٹھتے لبوں پہ مسکان سجائے مخصوص انداز میں دریافت کرنے کے ساتھ وہ اپنا کام بھی کر رہی تھی۔
"پاپا کو کیا ہونا ہے؟
پاپا ایک دم ہٹے کٹے ہیں وہ تو بس پاپا کا بےبی چلا گیا تھا ناں۔ اور پھر پاپا کے بےبی کی مما نے پاپا کا خیال ٹھیک سے نہیں رکھا تو بس تھوڑا بہت، بلکل تھوڑا سا بیمار ہوگئے تھے پاپا۔ اور پھر بیماری سے ڈشوم ڈشوم کر کہ آگئے واپس اپنے بےبی کے پاس۔"
ہلکے پھلکے انداز میں کُچھ مبشرہ کو چڑاتے وہ ارمش کو ایسے بہلا رہے تھے جیسے وہ واقعی میں چھوٹی سی بچی ہو ۔۔
"خدا کو مانیں مصطفٰی صاحب میں نے خیال نہیں رکھا یا اپنے میری نہیں سنی؟"
خوب سمجھتی تھیں وہ مصطفٰی صاحب کے ہر انداز کو پھر بھی اپنے آپ پر لاپرواہی کا بہتان برداشت نا ہوا تو کمر پر ہاتھ جمائے تیوری چڑھا کر لڑاکا خواتین کی طرح گویا ہوئیں۔ جبکہ ارمش اپنے کام سے نپٹنے کے بعد مبشرہ بیگم کا انداز ملاحظہ کرتے مسکراتے ہوئے آگے بڑھی تھی اور ہاتھ تھام کر اُنہیں بھی مصطفٰی صاحب کے قریب بٹھا کر خود بھی دونوں کے سامنے بیٹھ گئی۔
"وہ۔۔۔ مجھے۔۔ مجھے بات کرنی تھی آپ دونوں سے۔"
کوشش کی تھی آنکھوں میں دیکھ کر بات کرنے کی پر نا چاہتے ہوئے بھی لہجہ لڑکھڑا گیا تھا۔
"ہاں کہو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔سن رہے ہیں ہم۔"
مبشرہ بیگم نے باریک بینی سے ہر انداز محسوس کیا تھا۔
"بڑی مما نے وہ جو بات کی تھی ناں آپ لوگوں سے؟ آپ لوگ انکو ہاں کہہ دیں۔"
آنکھیں ہاتھوں پر گاڑھے وہ اتنی آہستہ گویا ہوئی تھی کہ بمشکل ہی وہ دونوں سن پائے۔
"ارمش کوئی زبردستی نہیں ہے بیٹا۔"
مبشرہ بیگم جو خوشی کے مارے ارمش کو گلے لگانے کی خاطر آگے بڑھنے لگی تھیں مصطفٰی صاحب کی بات پر بری طرح حیران ہوئیں تھیں جنہوں نے انکو نظروں نظروں میں تسلّی دی تھی۔
"نہیں پاپا میں اپنی مرضی سے کہہ رہیں ہوں۔"
ایک لمحے کو دل میں آیا تھا کہ ضمان کی ہر حرکت کی شکایت لگا دے پر دل پر جبر کرتے حامی بھری تو مبشرہ بیگم نے آگے بڑھ کر سینے سے لگایا تھا۔
"خوش رہو میرا بچہ۔ ضمان تمہیں یقیناََ ہمیشہ خوش رکھے گا۔۔۔"
مبشرہ کے لہجے کا مان دیکھ کر ارمش کو ضمان پر رشک آیا تھا۔
دروازے پر دستک دے کر فرزانہ نے ڈائننگ ٹیبل پر ان لوگوں کے انتظار کی خبر دی تو تینوں باہر کی جانب چل دئیے جبکہ قدم بڑھانے سے پہلے مرتضیٰ صاحب ارمش کے ماتھے پر شفقت بھرا لمس چھوڑ کر اسے اپنے حصار میں لیتے آگے بڑھ گئے۔
♡-----------------------------------------♡
"ہاں بھئی بہو۔۔۔ جوان ہوگیا ہے چھورا۔۔۔ کوئی لڑکی نظر میں رکھی ہے کہ نہیں؟
اور تم شہزادے کوئی پسند ہے تو بتاؤ پھر ہم بھی دیکھ آئیں ذرا لڑکی کو ورنہ پھر خود ہی نظریں دوڑائیں۔"
رات گئے قہوے کی چسکیاں بھرتے لاؤنج میں بیٹھی روحا بیگم کے ساتھ عرشمان سے بھی دادی نے استفسار کیا تھا۔
"نہیں دادی اماں۔۔۔ میری طرف سے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"
قریباً چھ ماہ سے روحا بیگم عرشمان کے لئے لڑکی تلاش کر رہی تھیں پر اپنے بیٹے کے شایانِ شان جو اُنہیں لگی وہ پہلے سے منگنی شدہ تھی۔ چھ ماہ سے یہ ذکر سن کر وہ اپنے آپ کو اس حوالے سے تیار کر چکا تھا تبھی امّاں کے سوال کرنے پر صاف گوئی سے جواب دینے لگا۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے اور تم بتاؤ بہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ماں ہو تمہارا پہلا حق ہے کوئی پسند ہے تو، ورنہ میری نظر میں تو ایک بہترین لڑکی ہے۔"
اب رُخ اپنی بہو کی جانب تھا جو بہت غور سے دادی پوتے کی گفتگو ملاحظہ کر رہیں تھیں۔
"آپ کو بتایا تو تھا شیریں (روحا کی بہن) کی نند کی بیٹی پسند آئی تھی پر وہ تو پہلے سے کسی کے نام ہے اور حق کی کیا بات کردی امّاں۔ مجھ سے زیادہ آپ کا حق ہے جہیز میں تھوڑی لائی تھی۔ ہاشم کی طرح یہ مان بھی آپکا ہی ہے آپ بتائیں کس کے بارے میں بات کر رہیں ہیں؟؟؟"
فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے روحا نے فیصلے کا اختیار امّاں کو دیتے متجسس انداز میں سوال کیا تھا۔
"ارے اپنے گھر میں لڑکی موجود ہے تو کہیں باہر نظریں دوڑانے کی کیا ضرورت بھلا؟ مجھے تو اپنی ارمش سے بہتر کوئی نہ لگے ہے۔
کیوں ہاشم تمہارا کیا کہنا ہے؟"
ارمش کا نام لیتے ہر چہرے کے اتار چڑھاؤ سے مطمئن ہو کر بڑے اشتیاق سے بیٹے سے سوال کیا تھا۔
"بہترین!!! امّاں۔۔۔۔۔ گھر کی بچی ہے اسی بہانے واپس گھر بھی آجائے گی مجھے کیا اعتراض ہونا ہے۔
تم بتاؤ عرشمان کیا کہنا ہے تمہارا؟"
ہاشم صاحب تو پھولے نہ سمائے تھے۔ خوشی کا اظہار کرتے وہ اب عرشمان سے اُسکی رائے جاننا چاہ رہے تھے جس کی زندگی کا سوال تھا آخری فیصلہ بھی اسی کا ہونا تھا۔
"بابا جیسی آپ لوگوں کی مرضی۔۔۔۔۔۔"
ارمش کا "بھا" کی گردان کرتا سراپا ذہن میں لہرایا تو یہ تجویز کُچھ عجیب سی لگی تھی پر وہ نہ صحیح کوئی اور، آنی تو تھی ہی تو وہ ہی کیوں نہیں؟
وہ عقل و فہم رکھنے والا لڑکا تھا جو شادی سے پہلے "ہر کزن بھائی بہن ہوتے" پر یقین رکھتا تھا تبھی فیصلہ بڑوں پر چھوڑ دیا تھا۔
"چلو بہتر۔۔۔۔۔۔۔۔ بہو اگر تمہاری رضامندی بھی ہو تو میں کل صبح ہی مصطفٰی سے بات کرلوں گی۔۔۔۔۔۔"
عرشمان کی حامی پر پُر مسرت لہجے میں وہ ایک مرتبہ پھر بہو کے فیصلے کو اہمیت دیتے اُنکی اہمیت جتا گئیں تھیں اور بھلا روحا بیگم کو کیا اعتراض ہونا تھا اُنکے حامی بھرنے پر اگلی صبح رشتہ ڈالنے کا فیصلہ کرتے خوشگوار ماحول میں محفل برخاست ہوگئی۔
♡-------------------------------------------♡
"ضمان یہیں رکو ذرا بات کرنی ہے مجھے"
حسبِ معمول کھانے کے بعد سب ساتھ بیٹھے ایک ساتھ وقت گزار رہے تھے جب ضمان کو اٹھتے دیکھ مصطفٰی رند نے واپس بیٹھنے کو کہا۔
"۔۔۔۔۔۔۔۔بھابھی جیسا کہ کچھ روز قبل آپ نے ارمش اور ضمان کے سلسلے میں بات کی تھی تو میں راضی ہوں اس رشتے کے لئے اور میں نے ارمش کو بھی سمجھایا ہے اُسے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے، اب آگے آپ خواتین دیکھ لیں زبانی کلامی ہی بات پکّی کرنی ہے یا اگر چاہیں تو تقریب منعقد کر لیتے ہیں۔"
مصطفٰی صاحب کی بات پر لاؤنج میں سناٹا چھایا تھا ما سوائے مبشرہ بیگم سب ہی حیرانی و فرط مسرت سے گنگ رہ گئے تھے۔
"ماشاءاللہ بھائی صاحب!! آپ نے تو دل خوش کردیا بھئی۔۔۔۔۔ بہت شکریہ، بہت بہت شکریہ!!!
اٹھو زری جاؤ کُچھ میٹھا لاؤ منہ میٹھا کرواؤ سب کا۔"
سب سے پہلے ہوش رفیعہ بیگم کو آیا تھا جو آنکھوں میں خوشی کے آنسوؤں کی نمی لیئے زری سے گویا ہوئیں تو مبشرہ بیگم نے آگے بڑھ بہن کو گلے سے لگا لیا۔
"آخر کار تم مان ہی گئیں ارمش مگسی۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا وعدہ ہے تم سے، اپنے فیصلے پر تم ہر دن رب کی شکر گزار رہو گی تمہاری خوشیوں کی زمیداری آج سے ضمان رند کی۔۔۔۔۔۔۔"
وہ خوش تھا۔ اس راستے پر وہ اپنی بہن کی خوشیوں کی خاطر آیا تھا پر آج آگے کا سفر وہ ارمش کی سنگت میں گزارنے کا خود بھی خواہشمند تھا۔
"چپ گھنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بھی چھپایا؟؟
تم تو گئیں میرے ہاتھوں سے ارمش کی بچی۔۔۔۔۔۔ہائے کتنا مزہ آئے گا!!!"
ہونٹوں پر لابینی مُسکراہٹ سجائے عالی تو اپنے ہی غم و خوشی میں مگن تھا جب زری نے گلاب جامن سے بھری پلیٹ آگے بڑھائی تو دونوں ہاتھوں میں مٹھائی اٹھا کر ایک اپنے منہ میں ڈالی جبکہ دوسری پوری کی پوری زری کے منہ میں ٹھوسی تھی۔ جس پر وہ بس ارے ارے کرتی رہ گئی تھی۔
اسی طرح زبردستی ضمان کے منہ میں ایک ساتھ دو گلاب جامن ڈال کر کھانے پر مجبور کیا تھا۔
"پھر ٹھیک ہے میں کل ہی حویلی امّاں کو فون کرکے اُن کی رضامندی لیتا ہوں پھر خیر سے اسی اتوار کو منگنی کی رسم ادا کر دیں گے۔"
لاؤنج کی فضا عالی اور زرلش کے ساتھ رفیعہ اور مبشرہ کے قہقہوں سے معطر تھی جب ایک بار پھر مصطفٰی صاحب نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا
"چھوٹے پاپا اگر آپ کو اعتراض نا ہو تو میں چاہوں گا کہ منگنی کی جگہ نکاح کا فریضہ انجام دے دیا جائے۔
ارمش کی پڑھائی کی آپ فکر مت کیجیے گا، ابھی صرف نکاح ہوجائے پھر اُسکی ہاؤس جاب کے بعد رخصتی کر لیں گے۔ میں صرف خواہش ظاہر کر رہا ہوں فیصلہ آپکا ہوگا۔۔۔۔۔"
مؤدبانہ انداز میں نظریں جھکائے وہ اپنی خواہش ظاہر کررہا تھا، وہ جانتا تھا کہ کافی حد تک بد گمان کر چکا ہے وہ ارمش کو، منگنی کے بعد وہ ضمان سے منسوب تو ہوجاتی پر شرعی و قانونی حقوق اُسے تب بھی حاصل نہ ہوتے اور مزید دوری ضمان کی نظر میں محض بد گمانیاں بڑھانے والی تھی تبھی نکاح کی تجویز دیتے وہ سرگوشیوں میں کی گئی عالی کی ہوٹنگ کو نظر انداز کر چکا تھا۔
"میرے خیال سے ضمان ٹھیک کہہ رہا ہے دونوں ایک ہی چھت تلے رہتے ہیں تو منگنی سے بہتر نکاح رہے گا۔"
مبشرہ بیگم نے بھی تائید کی تھی۔۔
"ٹھیک ہے، کل امّاں سے بات ہوجائے پھر اس معاملے میں بھی فیصلہ کرتے ہیں۔"
نیم رضامندی دیتے وہ اب رفیعہ بیگم اور مبشرہ بیگم سے گفتگو میں مشغول ہوگئے تھے جبکہ زری اور عالی جملہ بازی کرتے ضمان کو گھیرے بیٹھے تھے۔
♡-------------------------------------
ماضی》
"ابّی آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ تھک گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے بھا کے ساتھ انکا پروجیکٹ کیوں بنوایا؟ وہ خود بھی تو بنا سکتے تھے ناں؟"
پستئی ٹی-شرٹ اور بلیک ٹراؤزر میں عابد مگسی کے سرہانے بیٹھی ارمش اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے انکا سر دبا رہی تھی جب اُنہیں آنکھیں بند کئے لیٹا دیکھ اُنکی تھکن کا اندازہ لگاتے معصومانہ لہجے میں سوال کیا۔
"ہاں تھک تو گیا تھا اور وہ خود بھی بنا سکتا تھا۔ پر میری تھوڑی سی مدد کر دینے سے اُسکا بہت سارا بوجھ ہلکا ہوگیا، اور پھر وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے چلا گیا۔۔۔۔۔
کبھی کبھار خود سے منسلک رشتوں کی خوشی کی خاطر اپنے آپ کو تھکا دینے میں بھی سکون پوشیدہ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔۔
اچھے انسان کی پہچان ہے کہ وہ اپنوں کی خوشی کی خاطر قربانی دے کر اُنکی خوشی میں خوش رہتا ہے۔"
سات سالہ ارمش ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے اببی کی باتیں پوری توجہ سے سن رہی تھی جو ہمیشہ کی طرح آج پھر معمولی سی بات میں بھی زِندگی بھر کے لیۓ سبق دے رہے تھے۔
《حال》
"ابّی دیکھیں آپکی ارمش نے بھی سب کی خوشی کی خاطر اس انسان کا ساتھ قبول کرلیا جس نے میری زندگی جہنم بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔۔۔۔۔
اس انسان کو اپنی عزت کا محافظ بنانے لگی ہوں جس کی موجودگی ہر پل وحشت کا سامان بنی ہے۔
آپ کہتے تھے اپنے سے منسوب لوگوں کی خوشی میں اپنی ذات کا سکون پوشیدہ ہوتے ہے تو پھر مجھے کیوں صبر نہیں آرہا اببی؟
کیوں میرے وجود میں وحشتوں کا ڈیرا ہے؟
زیرو بلب کی روشنی میں نیم اندھیرے کمرے میں زمین پر بیڈ سے ٹیک لگائے وہ جو دونوں پیروں کو ہاتھوں میں قید کیے ماضی کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی باپ کی یاد میں سائڈ ٹیبل پر رکھی عابد مگسی کی تصویر اٹھا کر سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔
نا جانے کتنے لمحے یوں ہی آہ و زاری میں گزرے تھے جب آہستہ آہستہ نیند کی دیوی اس پر مہربان ہوئی اور وہ اسی حال میں بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں جا سوئی۔
♡-------------------------------------------♡
مرتضیٰ رند کے کمرے سے محفل برخاست ہوئی تو زری اور رفیعہ بیگم اپنے کمروں کی جانب چل دیں جبکہ ضمان مطالعے کی خاطر لائبریری کی طرف بڑھا تھا۔
گھنٹہ ڈیڑھ کتابوں کے ساتھ وقت گزار کر جب واپسی کے لیے قدم بڑھائے تو خود بہ خود ہی قدم ارمش کے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
"بہت دیر ہوگئی ہے ضمان صبح کر لینا بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
دیوار گیر گھڑیال کی پونا ایک بجاتی سوئیوں پر نظر پڑی تو خود کو ڈپٹ کر آگے بڑھتے قدم روکے تھے جب کمرے کے ہلکے سے کھلے دروازے سے آنے والی روشنی پر نگاہ پڑی۔
"جاگ رہی ہے، اور مجھے بھی تو بس معذرت کے ساتھ شکریہ ہی ادا کرنا ہے۔"
اپنی سوچ کے زیرِ اثر ہلکی دستک کے ساتھ اندر داخل ہوا تو ارمش کو گھٹنوں پر سر ٹکائے زمین پر بیٹھا دیکھ ٹھٹھک کر آگے بڑھا ، توقع کے عین مطابق وہ وہیں سوئی ہوئی تھی۔ نیم روشن کمرے میں بھی گلابی گالوں پر آنسوؤں کے نشان واضح تھے۔
سونے کے باعث بھورے گھنگریالے بالوں کی آوارہ لٹیں مرجھائے ہوئے چہرے کو چوم رہی تھیں۔
"ارمش۔۔۔۔۔۔۔ بےبی ویک اپ۔۔۔۔۔۔"
دل کی آواز پر لبیک کہتے نرمی سے چہرے پر جھولتی آوارہ لٹوں کو کان کے پیچھے اڑستے سرگوشی نما لہجے میں اٹھانے کی کوشش کی تھی۔۔۔۔
وہ جو چند لمحے قبل ہی نیند کی وادی میں کھوئی تھی، انجان لمس اور شناسا سے لہجے کی پکار پر ہڑبڑا کر اٹھی ہی تھی کہ اسی کوشش میں سر سائڈ ٹیبل پر لگنے لگا جب ضمان نے سر کے پیچھے ہاتھ رکھ کر ٹکرانے سے بچایا۔
"آرام سے۔۔۔۔۔۔۔۔ لگ جاتی ابھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ واقعی متفکر تھا۔
"دور ہٹیں مجھ سے۔۔۔۔۔۔
کیوں؟؟
کیوں آئیں ہیں یہاں؟؟؟
اور کیا چاہتے ہیں؟
کر تو دیا ہے وہ جو آپ چاہتے تھے۔ خُدا کے لئے مجھے بخش دیں۔۔۔۔۔۔
پلیز!! پلیز چلیں جائیں!!!
جائیں ناں یہاں سے!!!!!"
جھٹکے سے دھکّا دے کر نازک سی حد بندی کے بطور چند قدموں کا فاصلہ بناتے غصّہ، خوف اور نفرت جیسے مختلف جذبات کے زیرِ اثر وہ ہاتھ جوڑے منت سماجت کرتی ضمان کو شرمندگی سے زمین میں گڑ جانے کا متمنی کر گئی تھی۔
"ریلیکس ارمش۔۔۔۔۔۔۔
میں صرف یہ کہنا چاه رہا تھا کہ اوپر لیٹ جاؤ میں کسی غلط ارادے سے نہیں آیا ہوں یار۔
تم عزت ہو میری، اس گھر کی بیٹی اور ہونے والی بہو ہو۔ پلیز اس قدر بد گمان مت ہو مجھ سے!!"
زمین پر پڑی عابد مگسی کی تصویر کو بےبسی سے دیکھنے کے بعد وہ اس قدر بے اعتباری پر بے چین ہو اٹھا تھا۔
"عزت؟؟؟میں ؟؟
اچھا مذاق کر لیتے ہیں آپ۔۔۔۔
آج آپکی مرضی پر سر تسلیم خم کر لیا تو عزت بن گئی آپ کی؟
کبھی سنسان علاقوں میں لے جا کر، تو کبھی اسی گھر میں ہراساں کرتے وقت نہیں تھی میں اس گھر کی عزت؟
آپ جیسے مردوں کے لیئے بس اپنی ماں، بہن، بیٹی ہی قبل احترام ہوتی ہے۔ دوسروں کی بیٹیوں کی عزت کی بات آپ جیسوں کی زبان پر نہیں جچتی مسٹر ضمان رند!!
جائیں یہاں سے ابھی اور اسی وقت چلے جائیں ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!"
بہتی آنکھوں کے ساتھ خشک قہقہہ لگا کر وہ ضمان کو آئینہ دکھا گئی تھی جس میں دکھنے والا عکس ضمان کے کندھوں پر منیوں بوجھ ڈال گیا۔
جتنا آسان اُسنے سمجھا تھا، یہ صورتحال اتنی سادہ ہر گز نہیں رہی تھی.
بد گمانی کی گہری گھٹا نئے بننے والے رشتے پر گھن گرج کے ساتھ برسنے کا ارادہ رکھتی تھی جسکی زد میں کچی ڈوری میں بندھے رشتے کو آنے سے ضمان کو بچانا تھا۔
ارمش کی بار ہا باہر چلے جانے کی درخواست پر اُسے خاموش ہو کر سوجانے کی ہدایت کرتے وہ گہری سوچ میں ڈوبا باہر چل پڑا۔
♡--------------------------------------------♡
"وعلیکم السلام!!جیتے رہو، جیتے رہو۔
بڑی لمبی عمر ہے مصطفٰی صاحب، آپکو ہی فون کرنے کا سوچ رہی تھی۔
یہ موئی رکھی اللّٰہ جانے کہاں جا کر بیٹھ گئی وہ ملا کر دیتی ہے ناں فون اسی لیے نہیں کر پائی تھی۔"
صبح ناشتے کے بعد جو رکھی غائب ہوئی تو ایک گھنٹہ ہونے کو آیا ابھی تک نہ لوٹی تھی وہ تو نہ آئی تھی پر جس ضرورت کے تحت اسے یاد کیا جا رہا تھا وہ خود ہی پوری ہوگئی جب شہر سے مصطفٰی رند کی کال آئی۔
"خیریت امّاں؟ آپ نے کیسے ہم نا چیز کو یاد کر لیا؟"
رشتے کے بھتیجے ہونے کے باوجود حویلی میں انہیں ہمیشہ داماد والا پروٹوکال ہی ملا تھا تبھی میٹھا سا طنز کرتے گویا ہوئے۔
"اےےے میاں!!! زیادہ نا بنو، تم سناؤ پہلے خیریت سے کی ہے کال؟"
مصطفٰی صاحب کے طنز پر انہیں لتاڑنے کے بعد کال کرنے کی وجہ دریافت کرنے لگیں۔
"جی امّاں خیریت سے کی ہے،
وہ۔۔۔۔۔ در اصل مشورہ کرنا تھا آپ سے ارمش کے حوالے سے۔"
کُچھ توقف سے وہ پھر گویا ہوئے۔
"ہاں کہو میں سن رہی ہوں۔"
جواب تحمل سے دیا گیا تھا۔۔
"امّاں بھابھی نے ضمان کے لیۓ ارمش کی بات کی تھی۔ تو میں نے اُنہیں کہہ دیا ہے کہ مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ضمان میرے لئے عالی جیسا ہی ہے اس سے زیادہ قابلِ اعتبار کون ہو سکتا ہے پر آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا۔
آپ بتائیں کیا جواب دوں؟؟"
ارمش کے انکار و اقرار والے قصے کو گول کرکے متوازن الفاظ جوڑ کر مختصراً مدعا بیان کیا تھا۔
"ضمان؟؟
۔۔۔۔۔بہترین!!!
بڑا تابعدار بچہ ہے، مجھے کیا اعتراض ہونا ہے پر برخوردار آخری فیصلہ ہمارا یا تمہارا نہیں ان بچوں کا ہونا چاہیے جنہوں نے پوری زندگی ساتھ گزارنی ہے۔ پہلے اُن کی رضامندی تو پوچھ لو۔۔۔۔۔۔۔۔"
بھلے ہی عرشمان انکا پوتا تھا پر ضمان بھی اُنکی بہن کے آنگن کا پہلا پھول، انکا پہلا نواسہ تھا۔ اور ضمان بھی انہیں عرشمان کی مانند ہی عزیز تھا تبھی عرشمان کی بات کرنے سے پہلے یہ معاملہ نپٹانا ضروری سمجھا۔
"جی امّاں ضمان کی مرضی سے ہی بھابھی نے بات کی تھی پھر ہم نے ارمش سے بات کی تو اُسکا کہنا ہے کہ جو بڑوں کا فیصلہ ہوگا وہی اُسے قبول ہے۔"
من چاہا جواب ملا تو مصطفٰی صاحب بھی کھل اٹھے تھے۔
"ماشاءاللہ! ماشاءاللہ! مطلب بچوں کی رضامندی سے ہورہا ہے رشتہ۔"
عرشمان کا قصہ وہ سرے سے گول کر گئیں تھیں۔ وہ پرانے زمانے کی نئی سوچ رکھنے والی خاتون تھیں جن کے لیے بچّوں کی خوشی سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ گو کہ عرشمان نے بھی حامی بھری تھی پر محض گھر والوں کی خواہش پر جبکہ ایک عمر گزار دینے والی امّاں مصطفٰی صاحب کے نہ بتانے کے باجود بھی سمجھ گئیں تھیں کہ بچوں کی خواہش ہی بڑوں کی خواہش بنی ہے بس ارمش کے حوالے سے کچھ مغالطہ کھا گئیں تھیں۔
"جی امّاں بڑوں کو خوشی میں خوش ہیں بچے۔۔۔۔"
ایک بار پھر بات بنانے کی کوشش کی تھی۔
"چلو بہت بہتر۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر نیک کام میں دیری کیسی ہے؟
بِسمِ اللّٰہ کرو۔۔۔۔۔۔۔۔"
مصطفٰی صاحب کی مبالغہ آرائی پر متبسم لہجے میں اپنی جانب سے ہری جھنڈی دکھا کر بات آگے بڑھانے کا کہا تھا، پھر یونہی چند ایک باتوں کے بعد آنے والے جمعہ پر نکاح کا نیک عمل بجا لانے کا حتمی فیصلہ کرتے فون کٹ گیا۔ جبکہ امّاں اپنی پوتی کی آنے والی زِندگی کے لئے خدا سے خوشیاں اور آسانیاں طلب کرتے باہر کی جانب روحا بیگم کو خوشخبری سنانے چل دیں۔
♡------------------------------------------♡
"ارمش تم نے ابھی تک نہیں بنائی ہے لسٹ؟
اچھا ایسا کرو جو یاد ہیں اُنکے نام بتا دو عالی کو، وہ ہاتھ و ہاتھ لکھ دے گا۔
جو رہ جائیں گے وہ کل تک بتا دینا۔"
اتوار کی صبح تھی سب گھر والے اپنے اپنے دوست احباب کے ناموں سے بھری فہرستیں لیئے عالی کے پاس موجود تھے، جو کے یکے بعد دیگرے دعوت ناموں پر نام درج کرنے میں مصروف تھا۔ جب رفیعہ بیگم نے ارمش کو مخاطب کیا جو زمین پر رکھے کوشن پر بیٹھی عدم دلچسپی سے سب کا جوش و خروش ملاحظہ کر رہی تھی۔
ضمان کی لاکھ کوششوں کے باوجود ارمش نے اُسے ایسا ایک موقع بھی فراہم نہ کیا تھا کہ وہ اس سے بات کر سکے۔
رات گئے وہ سب کے ساتھ بیٹھی رہتی تھی، ہسپتال کی شفٹ بھی بدلوا کر دوپہر کی کرلی تھی۔ اب صورتحال یہ تھی کہ رات کو جب تک ضمان ہسپتال نا چلا جائے وہ لاؤنج سے ہلتی نہیں تھی اور صبح جب تک ضمان سو نا جائے خود اُٹھتی نہیں تھی۔ اور دوپہر کو جب ضمان مُکمل فارغ ہوتا تھا تب وہ خود ہسپتال چلی جاتی تھی۔
"مجھے کسی کو نہیں بلانا بڑی مما۔"
یہ بھی حقیقت تھی کہ عالی اور اس کے انتہائی قریبی دوستوں کے علاوہ ارمش کا کوئی اپنا دوست نا تھا اور اگر ہوتا تب بھی وہ اس زبردستی کے رشتے کا پرچار نہ کرتی۔
"میں نے پارلر کی بکنگ کروا لی ہے۔۔۔۔۔۔ بھائی جان آپ کل ارمش کے ساتھ آجائیے گا بوتیک پر، پھر برائیڈل ڈریسز بھی فائنل کر لیں گے۔"
زری جو اپنے دوستوں کے دعوت ناموں پر سرسری سی نظر ڈال رہی تھی کُچھ یاد آنے پر باری باری ارمش اور ضمان سے گویا ہوئی۔
"بجّو آپ خود دیکھ لیجیئے گا، مجھے ویسے بھی سمجھ نہیں آتا۔"
بیزاريت کُچھ اس طرح چھائی ہوئی تھی کہ دُنیا دکھاوے یا پھر گھر والوں کا دل رکھنے تک کا خیال نہ رہا تھا۔
زری اگر صرف اسے ہی شاپنگ کا کہتی تو شاید وہ چلی بھی جاتی پر یہ پیشکش اسکے ساتھ ضمان کے لئے بھی تھی، جسکی فلحال شکل تک دیکھنا ارمش کو گوارہ نہیں تھا۔
اپنے روکھے لہجے پر سب کی حیرت میں ڈوبی نگاہیں سرے سے نظر انداز کرتی وہ اب اس ماحول سے گھبرا کر کمرے کی جانب چل دی، جب راستے میں ہی عالی نے ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھایا تھا۔
"سنو۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری ذاتی شادی ہی ہو رہی ہے یا پھر محلے والوں کی ہے؟
کسی چیز میں حصہ نہیں لے کر دے رہی ہو، اتنی سن کیوں ہو تم؟ جیسے گن پوائنٹ پر کروا رہے ہوں تمہارا نکاح؟"
وہ جو خود حد سے زیادہ خوش اور پر جوش تھا اپنی بہن کے نا ملتے مزاج دیکھ کر بری طرح بدمزہ ہوا تھا۔
"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ بس مجھے تجربہ نہیں ہے تو اسی لئے۔۔۔۔۔"
وہ یوں بوکھلائی تھی جیسے چور چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہو۔
"زری تم نے بتایا نہیں یار تم روز دلہنوں کے کپڑے خریدتی ہو؟!"
حیران نظروں سے زری کو دیکھتے عالی سوالی ہوا، انداز اتنا سنجیدہ تھا کہ ایک لمحے کے لیے زرلش بھی گڑبڑا گئی تھی۔ پھر جونہی بات میں چھپا چٹکلہ سمجھ آیا تو لاؤنج کی فضا میں قہقہے گونج اُٹھے۔ جبکہ ارمش نے خجالت مٹانے کے لئے دو تین مکّوں کی سلامی سے شرٹ سے جھانکتے ورزشی بازو کو نوازا تھا۔
"خیر۔۔۔۔۔۔۔ ارمش کل تم شاپنگ کے لئے جارہی ہو اور یہ میں پوچھ نہیں رہی بتا رہی ہوں۔
عالی اور زری کارڈز بانٹنا بھی شروع کردو،
اور آپ نے ہال دیکھا کوئی؟کان پہ آگیا ہے فنکشن۔۔۔۔۔ مصطفٰی کیا کرتے ہیں!"
مبشرہ بیگم نے گفتگو میں اپنا حصہ ڈالتے ارمش کو گھوری سے بھی نوازا تھا جو ان دو دنوں میں بارہا انکا صبر آزما چکی تھی۔ ساتھ ہی اب وہمصطفٰی صاحب کو اُن کے غیر زمیدارانہ رویے پر احترام کے دائرے میں رہتے کھری کھری سنا رہی تھیں جبکہ مصطفٰی صاحب کو کھسیا کر کان کھجاتے دیکھ سب ہی کے چہروں پر دبی دبی مسکان تھی۔ جبکہ عالی جو اکثر باپ کے نشانے پر رہتا تھا کھل کر مسکراتے ماں کے ہاتھوں اُنکی لگنے والی کلاس کا بھرپور لطف اٹھاتے مصطفٰی صاحب کو چڑا کر حساب برابر کرنے میں محو ہو چکا تھا۔
♡------------------------------------------♡
"جی آجائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ جو ہسپتال سے آتے وقت فرزانہ کو کافی کا کہہ کر آئی تھی فریش ہونے کے بعد اب تیار ہو رہی تھی جب دروازے پر دستک ہوئی تو فرزانہ کے خیال سے بے دھڑک اندر آنے کی اجازت دے دی۔
"تیار ہوگئیں؟ چلو چلتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زری کی کال آئی تھی بلا رہی ہے۔"
پیچ کرتے کے ساتھ سفید پاجامے میں ملبوس وہ ہاتھوں پر موائسچرائزر لگا رہی تھی، جب ایک بھرپور نگاہ ارمش کے سراپے پر ڈال کر وہ جو اسے ساتھ لے جانے کی غرض سے آیا تھا گویا ہوا۔
"میں عالی کے ساتھ جاؤں گی۔"
ضمان کو دیکھتے ہی ارمش کو یوں محسوس ہوا جیسے کڑوا بادام کھا لیا ہو۔ اپنی کیفیت چھپانے کی بھی اسنے زحمت نہیں کی تھی، تبھی آنکھیں گھما کر سٹرالر اٹھانے کی غرض سے رخ موڑ گئی۔
"میرے ساتھ کی عادت ڈال لو بےبی۔۔۔۔۔۔۔
جب زندگی کا طویل سفر میرے ہمراہ ہی طے کرنا ہے تو ان چھوٹی موٹی مسافات کے لئے سہارے ڈھونڈنا بھی بند کر دو۔
عالی کو جس کے ساتھ جانا تھا اور جانا چاہیے تھا، وہ اس کے ساتھ جا چُکا ہے۔"
زری کے علاوہ آج تک کسی میں ہمت نہیں ہوئی تھی ضمان کو نخرے دکھانے کی اور ضمان کے مطابق ارمش ان چند روز میں اپنے حصے کے کافی سے زیادہ نخرے دکھا چکی تھی۔ تبھی وہ ایک مرتبہ پھر اپنی جوبن میں آتے ٹھیک ارمش کی پشت پر کھڑا ہوا تھا۔
کسی کی موجودگی محسوس کرتے جونہی ارمش مڑی تو ضمان کو اس قدر نزدیک دیکھ کر ایک بار پھر گھبرا گئی تھی، جب ضمان اسکے ارد گرد ہاتھ رکھتے تمام راہیں بند کرنے کے بعد آنچ دیتی نظروں سے دیکھتے باور کروانے کے انداز میں گویا ہوا۔
"ریلیکس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ہولے ہولے لرزتے وجود کے ساتھ سہمی ہرنی کی مانند وہ ضمان کو دیکھ رہی تھی جب خوف سے بوجھل پلکوں پر پھونک مارتے وہ اس بار قدرے نرم لہجے میں گویا ہوا۔
پھر ارمش کی مزمت کو نظر انداز کرتے مضبوط ہاتھ کی گرفت میں نازک کلائی تھامے وہ باہر کی جانب چل دیا تھا۔
♡-------------------------------------------♡
"بھئی تمہیں مبارک ہو یہ آتماؤں والی تھیم!!
میں تو نہیں پہن رہا یہ پھیکا رنگ اپنی بہن کی خوشی میں۔"
وہ جو اپنے لیۓ سفید رنگ کی نفیس ساڑھی پسند کرنے کے بعد دونوں ماؤں کے لئے بھی ہلکے سفید رنگ کے جوڑے پسند کر چکی تھی، اب عالی اور مرتضیٰ صاحب کے لیے بھی سفید رنگ کے ہی جوڑے ڈھونڈ رہی تھی جب عالی کے منہ بنا کر ٹکا سا جواب دینے پر اُسکی جانب متوجہ ہوئی۔
"ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن تم ایسا کرو ایک بھڑکیلے لال رنگ کا کُرتا پجاما بھی دکھا دو۔۔۔۔۔۔۔۔ہماری چھمیا نے شوخ رنگ پہن کر اپنی خوشی جتانی ہے۔"
نہایت سنجیدگی سے عالی کو جواب دینے کہ بعد وہ ڈیزائنز جو اسکا قریبی دوست تھا سے شرارتی لہجے میں گویا ہوئی۔
"کس کو جتانی ہے بھئی خوشی؟"
اس سے پہلے کہ وہ کوئی کرارا جواب دے کر حساب برابر کرتا ضمان کی آواز پر اُسکی جانب متوجہ ہوا جو ارمش کا ہاتھ تھامے انہیں کی جانب آ رہا تھا۔
"کس کو جتانی ہے یہ تو بعد کی بات ہے بھائی جان، ہاں کسی سے چھپائے نہیں چھپ رہی، یہ چیز قابلِ غور ضرور ہے۔"
بائیں آنکھ دبا کر ذرا جھک کے ضمان کے ہاتھ میں موجود ارمش کے ہاتھ پر چوٹ کرتے رازدرانہ انداز میں گویا ہوا۔ آواز اتنی ضرور تھی کہ یہ گوہر افشانیاں با آسانی سب کی گوش گزار ہوسکیں۔
"سدھر جا لڑکے!! ویسے ہی ہاتھ نہیں آتی ہے تمہاری بہن۔"
وہ جسکا ہاتھ پہلے ہی زبردستی ناخنوں کی کھرونچیں برداشت کرنے کے بعد تھاما تھا، عالی کی جملہ کشی پر ایک مرتبہ پھر بھرپور مزمت کے بعد ہاتھ چھڑوا کر زری کی جانب بڑھتے دیکھ، ضمان کا ہاتھ نے عالی کی گردن پر آیا تھا جو ضمان کی آہوں سے لطف اندوز ہوتے خود بھی لڑکیوں کو جانب چل دیا
♡------------------------------------------♡
"عالی میں ساتھ چلوں گی تمہارے۔۔۔۔۔۔۔۔"
شاپنگ سے فارغ ہونے کے بعد سب نے مل کر قریبی فوڈ کورٹ میں ڈنر کیا تھا۔ کھانے کے بعد جونہی سب باہر کی جانب روانہ ہوئے تو ارمش عالی کے ہم قدم ہوتے گویا ہوئی۔
"سوری بچے میں بائک پر ہوں اور میرے ساتھ زری بھی ہے۔"
دونوں ہاتھ اٹھا کر لال جھنڈی دکھاتے وہ خود اپنی بائک کی طرف بڑھ گیا جبکہ زری بھی ساتھ ہی روانہ ہوئی تھی۔
دیکھتے ہی دیکھتے دھول اڑاتی بائک ارمش کے آگے سے گزر چکی تھی۔
"چلیں؟"
ارمش جو آنکھوں سے اوجھل ہوجانے والی بائک کے رستے کو بغور دیکھ رہی تھی ضمان کی آواز پر اُسکی جانب متوجہ ہوئی اور بغیر کچھ کہے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی، جبکہ ضمان تو اسی میں خوش تھا کہ اس بار کسی قسم کی چک چک نا ہوئی تھی۔
"مجھے گھر جانا ہے۔۔۔۔۔۔"
پورا راستہ خاموشی کی نذر ہو چکا تھا جب گاڑی گھر جانے والا موڑ کاٹنے کے بجائے سیدھے ہاتھ والے روڈ پر روانہ ہوئی تو ارمش کی آواز نے خاموشی میں ارتعاش پیدا کیا۔
"اُترو۔۔۔۔۔۔۔"
5 منٹ سے بھی کم وقت میں گاڑی ساحل کنارے رکی تھی۔ ان 5 منٹوں میں ارمش نے محض دو بار ہی گھر چلنے کے لئے کہا تھا پھر یہ سوچ کر خاموش ہوگئی کہ جب اسکی بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے تو بلاوجہ اپنی توانائی کیوں ضائع کرے۔ اس وقت بھی ضمان کے ایک بار کہنے پر ہی گاڑی سے اتر چکی تھی۔
"ارمش جو ہو چکا میں اُسے بدل نہیں سکتا پر میں مانتا ہوں کہ میری غلطی تھی۔ میں نے جو کیا سب غلط تھا میں واقعی شرمندہ ہوں یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں چاہتا کہ ہمارے نئے رشتے کی بنیاد بدگمانیوں پر رکھی جائے، یہ وقت بہت حسین ہے ارمش پلیز اسے ناراضگیوں کی نذر مت کرو۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ اب جبکہ تم اس رشتے کے لئے راضی ہو تو دل سے بھی قبول کر لو، زندگی آسان ہوجائے گی۔"
سینے پر ہاتھ باندھے لہروں پر نظریں ٹکائے کھڑی ارمش سے ضمان درخواست کرنے کے سے انداز میں گویا ہوا تھا۔
"میری زندگی کو ہر موڑ پر سخت سے سخت بنانے والا شخص چاہتا ہے کہ میں اُسکی زِندگی آسان کردوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں ہو ہر بار وہی، جو آپ چاہتے ہیں؟
سمجھ کیا رکھا ہے آپ نے مجھے؟
پلاسٹک کی گڑیا ہوں؟
میں کُچھ محسوس نہیں کرتی؟
میرے احساسات نہیں ہیں؟
اور کیا کہہ رہے تھے آپ؟
میں اس رشتے کے لئے راضی ہوئی ہوں؟
میرے پاس دوسرا راستہ چھوڑا تھا آپ نے؟
بچپن سے آپکا بے جا بیر خاموشی سے برداشت کرتی آئی ہوں ہر جھڑک پر خاموش رہی، ڈرتی تھی پر اس سے زیادہ عزت کرتی تھی۔
میری عزت کو موہرا بنانے کے بعد میری نظروں سے گر چُکے ہیں آپ۔
آپ جیسی پست شخصیت کا مالک انسان کسی لڑکی کا خواب نہیں ہوسکتا تو پھر میں کیسے کرلوں قبول؟؟
میری لا وارثی کا خوب فائدہ اٹھایا ہے آپ نے، ڈریں اس وقت سے جب میری آہ آپکو لگے گی!!"
نکاح سے چند روز قبل وہ اگر طالبِ معافی تھا بھی تو اپنی غرض سے اپنی زندگی حسین بنانے کی تمنا پوری کرنے کی خاطر۔
آج برداشت کی حدیں پار ہوئیں تھیں ارد گرد کے ماحول کی طرح جو وحشتیں ارمش کے قلب میں چھپی بیٹھیں تھیں لاوا بن کر ضمان پر اُبل آئیں۔
ہاتھ کی پشت سے مُسلسل اُمڈ آنے والے آنسوؤں کو بےدردی سے رگڑتی وہ محشر سے قبل ہی ضمان کا اعمال نامہ کھولے ایک ایک گناہ گنوا رہی تھی۔جبکہ ضمان تو اسکی حالت دیکھ صحیح معنوں میں گھبرایا تھا۔
"ہاتھ مت لگائیں!!
مت چھوئیں مجھے!!
گھن آتی ہے مجھے آپ کے لمس سے!! یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آگ کی بھٹّی میں جھونک دیا گیا ہو۔
دور ہوجائیں بالکل!!"
وہ جو روتے روتے گھٹنوں کے بل وہیں ریت پر ڈھہ گئی تھی ضمان کے اٹھانے کی کوشش پر بری طرح جھٹپٹا کر پرے ہوئی تھی۔
دوسری جانب وہ جو اپنے کیے پر شرمندہ بس کسی طرح اسے سمیٹ لینا چاہتا تھا خود میں سمو لینا چاہتا تھا ارمش کے الفاظ کی کاری ضرب برداشت نہ کر پایا۔ وہ لڑکی جو بس چند روز میں سر تا پیر اسکی ہونے جا رہی تھی اسے ضمان کے لمس سے گھن محسوس ہوتی تھی؟
احساسِ ہتک سے چہرہ سُرخ ہو چکا تھا۔ بڑھتے ہاتھ لمحے میں کھینچے، قدم خود بہ خود پیچھے کی جانب اُٹھے تھے۔ اُلٹے پیر چلتا وہ گاڑی سے ٹیک لگا کر کھڑے ارمش کو دل کا غبار نکالتا دیکھ دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہا تھا۔
چند لمحے اُسی طرح بیٹھے بے دریغ آنسوں اس ریت کی نظر کرنے کے بعد کہ جو نا جانے کتنی ایسی داستانیں اپنی تہوں میں چھپائے ہر آنے والے کے غم کی خاموش شریک تھی،
ارمش اٹھی اور چلتی ہوئی گاڑی میں جا بیٹھی۔ جبکہ ارمش کو اُٹھتا دیکھ ضمان اپنی نشست پہلے ہی سنبھال چکا تھا۔
گاڑی کو گھر کے راستے پر ڈالتے وہ اپنی سوچ کے تانے بانوں میں بری طرح اُلجھ چکا تھا۔ وہ جتنا معاملات سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا بات اُتنی ہی بگڑ رہی تھی۔ آنے والے وقت کی بہتری کے لیئے اب بس اُسے ایک ہی حل نظر آیا تھا، اپنے رب سے آسانیوں کی دعا کرنا۔۔۔۔۔۔
ایک بات تو طے ہو چکی تھی کہ اب تو اگر کلام بھی ہوا تو نکاح کے بعد پورے حق کے ساتھ ہوگا ۔
♡----------------------------------------♡
"اوئے باری برسی کھٹن گیا سی
کھٹ کے لیاندی لالی۔۔۔۔۔۔۔
او بھنگڑا دا سجدا جے ناچے دولہے دی ماسی،
او بھنگڑا دا سجدا جے ناچے دولہے دی ماسی۔۔۔۔۔۔۔۔"
ڈھول کی تھاپ پر اونچی اونچی تالیاں بجاتے دادی کے ساتھ رکھی اور گاؤں سے آئی چند خواتین زور و شور سے گانا گانے میں مصروف تھیں جبکہ عالی اور زری خوشی سے سرشار بھنگڑا ڈالے ہوئے تھے جب دادی کا اشارہ مبشرہ بیگم کی جانب پا کر خواتین نے توپوں کا رخ اُنکی جانب کیا تو اُنکی نا نا کو نظرانداز کیے عالی نے زبردستی ماں کو بھی ساتھ گھسیٹ لیا۔
"او باری برسی کھٹن گیا سی
کھٹ کے لیاندا کچھا۔۔۔۔۔۔
او بھنگڑا دا سجدا جے ناچے دولہے دا چچا،
او بھنگڑا دا سجدا جے ناچے دولہے دا چچا۔"
"مصطفٰی صاحب جو ضمان کے ساتھ ہی گھر پہنچے تھے طوفانِ شغل پر کھٹک کر اندر داخل ہوئے تو دادی کے ساتھ بیٹھی ارمش نے زور و شور سے عورتوں کا ساتھ دے کر باپ کو پھنسایا تھا جبکہ گانے کے بول ادا ہونے سے پہلے ہی زری آگے بڑھ کر مصطفٰی صاحب کو میدان میں لا چکی تھی۔ ہر چہرہ مشکِ مسکان سے معطر تھا۔
ضمان نے محسوس کیا تھا کہ اُس رات کے بعد سے ارمش کافی حد تک پر سکون تھی حالانکہ شادی کی تیاریوں میں ابھی بھی کُچھ خاص دلچسپی نہیں لے رہی تھی لیکن چند روز قبل جو ہر بات پر کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی اب وہ رویہ بھی نا رہا تھا۔
آج صبح ہی گاؤں سے عرشمان کے ہمراہ دادی گاؤں کی چند ایک خواتین کو بھی رونق لگانے کی غرض سے ساتھ لے آئی تھیں۔ اس وقت لاؤنج میں موجود خواتین اپنے آنے کے مقصد کو پورا کرتیں، ڈھول پیٹ کر خالص دیسی ٹپوں سے رونق جمائے بیٹھی تھیں۔
ضمان کی نظریں بیساختہ ہی دشمنِ جان کی جانب اٹھی تھیں، اسکی موجودگی میں بھی آج اس گلابی چہرے سے مسکان کا نا ہٹنا کم از کم ضمان کو تو دادی کی موجودگی کی دین ہی لگا تھا۔ دادی امّاں کا اشارہ پاتے وہ بھی اُنہیں کے پاس جا بیٹھا تھا جسے دیکھ نا محسوس طریقے سے ارمش کُچھ پیچھے کھسکی تھی، پر وہ جسکا پور پور سماعت و بصارت کا کام کر رہا تھا یہ گریز بخوبی محسوس کر چکا تھا۔
"اوئے باری برسی کھٹن گیا سی کھٹ کے لیاندا چنّی۔۔۔۔۔
باری برسی کھٹن گیا سی کھٹ کے لیاندا چنّی،
او محفل دا سجدی جے ناچے دولہے دی امّی۔"
جب سب میدان میں اُتر چُکے تو رفیعہ بیگم کو بھی نہ بخشا گیا مبشرہ بیگم کے ہاتھ تھامنے پر وہ بخوشی بھنگڑے میں شامل ہوئی تھیں۔ آخر کو اُنکے اکلوتے بیٹے کا نکاح تھا وہ بھی من پسند بھانجی سے، وہ کیونکر پیچھے رہتیں۔
بہت سالوں بعد خوشیوں نے رند ہاؤس کا راستہ لیا تھا جسے کھلی باہوں کے ساتھ گھر کے مکینوں نے خوش آمدید کہا۔
جو ہونا تھا وہ تو ہو کر رہنا تھا پھر اُداسی کو جگہ دینے کا کوئی فائدہ؟ ضمان کو کھلے دل سے قبول کرنا یا معاف کرنا ارمش کے بس میں تھا۔ یہ بات اُسنے وقت پر چھوڑ کر اپنوں کی خوشی میں سکون تلاشنا شروع کردیا تھا اور یقیناََ عابد مگسی نے بجا فرمایا تھا اپنوں کے خوشی سے کھلتے چہرے جلتے قلب پر آب رحمت کی پھوار بن کر پڑے تو دل کے موسم پر بھی بہار اتر آئی۔
♡------------------------------------------♡
آج جمعرات کی رات گھر کے ہال کمرے میں ہی مایوں مہندی کی چھوٹی سی تقریب منعقد کی گئی تھی۔ ارمش نے بارہا دادی اماں سے اصرار کیا تھا کہ یہ سب رسومات رخصتی کے وقت کی جائیں پر اُنہوں نے یہ کہہ کر ڈپٹ دیا تھا کہ وہ اُنکے آنگن کی اکلوتی بلبل ہے اور نکاح ہی اہم ہوتا ہے رخصتی تو محض فارمیلٹی ہے اور اُنہیں اس موقع پر کوئی بدشگنی نہیں چاہیے۔ ارمش نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ یہ سب فرسودہ رسومات ہیں پر وہ بھی دادی تھیں اپنے فیصلے سے ٹس سے مس نہ ہوئیں۔
ہال کمرے میں مدھم سروؤں میں میوزک چل رہا تھا جبکہ کمرے کی ایک دیوار موتیے اور گیندے کے پھولوں کے امتزاج سے خوبصورتی سے سجی ہوئی تھی، جس کے عین نیچے صوفہ سیٹ رکھا تھا جس پر پیلے رنگ کی سادہ قمیض کے ساتھ ہم رنگ چوڑیدار پاجامہ اور دوپٹہ اوڑھے ضمان کے پہلو میں میک-اپ سے پاک چہرا لیے بیٹھی ارمش سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی۔ جبکہ ضمان بھی نیلی جینز پر ہلکی پیلی ڈریس شرٹ کی آستینیں موڑ کر پہنے وجاہت کا شاہکار ہی لگ رہا تھا۔ سات سہاگنوں کے باری باری رسم کر لینے کے بعد اب زری کے ساتھ کام کرنے والی دوستیں جو گاؤں والوں کے علاوہ تقریب میں مدعو کی جانے والی کُل مہمان تھیں، اپنے طریقے سے رسم کرنے کی متمنی ہوئیں۔
چند ساعتوں بعد ہی ارمش کا پورا چہرہ لال نہیں پیلا ہو چکا تھا۔ سات سہاگنوں نے جو اُبٹن ہتھیلی پر رکھے پان پر لگایا تھا اس وقت پورا کا پورا ارمش کے چہرے پر لتھڑا ہوا تھا۔ ارمش کی ارے ارے اور لڑکیوں کی کھی کھی کھی نے ماحول کو زعفران کر رکھا تھا۔
"عالی مش کو روم میں چھوڑ آؤ وہ پریشان ہو رہی ہے۔"
کھانے کا دور چلا تو سب بڑے ڈائننگ روم کی جانب چل دئیے جب کہ نوجوان نسل کے لئے وہیں ہال کمرے میں کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔
زرلش جو مہمان نوازی کے تقاضے پورے کرتی ہر ایک کو اپنی زیرِ نگرانی کھانا پیش کروا رہی تھی عالی کو اپنے آفس کی ایک لڑکی سے چہک چہک کر باتیں کرتا دیکھ بھنّا اٹھی، جوش کے بجائے ہوش سے كام لیتے سب سے پہلے عالی کو منظر سے غائب کرنے کا سوچتی گویا ہوئی۔
"اففف زرلش تمہارا کزنننننن۔۔۔۔ اُدھم ہے یار!! کتنا حسین بولتا ہے اور اوپر سے نقش۔۔۔۔ لگتا ہے بڑی فرصت سے بنایا ہے اسے خدا نے!!"
جس راستے سے ابھی عالی گزر کر آنکھوں سے اوجھل ہوا تھا بڑے انہماک سے اسی راستے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھتے وہ اپنی دھن میں بغیر زری کے کڑے تیوروں سے دیکھنے کی پرواہ کیے اپنی رائے کا اظہار کر رہی تھی۔
"ہاں۔۔۔۔۔۔۔ واقعی وہ بہترین ہے! اچھی ہے تمہاری پسند۔ پر تمہارے لئے بہتر ہے کہ اپنی نظروں کے گھوڑوں کی لگامیں کھینچ لو۔
میرا ہے وہ۔۔۔۔۔۔ زرلش رند کا۔۔۔۔۔۔۔۔"
انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتی وہ سامنے کھڑی کاوش کو حیران کر گئی تھی۔
زری کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جن آنکھوں سے ندیدوں کی طرح وہ عالی کو دیکھ رہی تھی وہ آنکھیں نکال کر مسل دے۔ پر ایک تو وہ مہمان اوپر سے زری کی اچھی دوست بھی تھی تبھی الفاظ کے سہارے تنبیہ کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
"اوووہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دھوکے باز لڑکی بتایا بھی نہیں!! کب ہوئی منگنی؟"
جس حق سے زری نے عالی کو اپنا بتایا تھا اس لہجے سے کاوش یہی اخذ کر پائی تھی۔ تبھی نروٹھے انداز میں سوال کیا۔
"منگنی؟ وہ تو نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈارلنگ شادی کروں گی میں، براہِ راست۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر کھانا ٹھیک سے کھانا۔"
منگنی کے نام پر زرلش کُچھ حیران ہوئی تھی پھر اپنے حق جتانے کے انداز کا خیال کرتے فوری سنبھل کر گویا ہوئی۔ جبکہ آخر میں کاوش کو کھانے کی جانب متوجہ کرتی ضمان کی جانب چل دی جو ارمش کے اٹھ جانے کے بعد اب خود بھی اوپر جانے کے لئے پر تول رہا تھا۔
♡-------------------------------------
_____________________
"ارمش مگسی ولد عابد مگسی آپ کا نکاح ضمان رند ولد مرتضیٰ رند سے با عوض 5 لاکھ سکا رائج الوقت کیا جا رہا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟ "
سفید ریشمی پردے کی چلمن کے پیچھے گھر کی خواتین کے ہمراہ ہلکے سفید اور سنہری رنگ کے امتزاج سے سجی نازک مگر حسین ٹخنوں کو چھوتی انارکلی فراک چوڑی دار پاجامے میں ملبوس سر پر ہم رنگ بھاری بھرکم دوپٹہ ٹکائے نفاست سے کئے گئے میک اپ ، متوازن گہنوں کے ساتھ ہاتھوں میں گلاب سے سینچے گجروں اور سادگی سے لگائی گئی مہندی سے سجی ہتھیلیاں۔۔۔۔۔۔۔
ارمش نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔۔۔ جب پردے پار سے مولوی صاحب کی آواز گونجی۔
ایک جواب۔۔۔۔ محض ایک جواب۔۔۔۔۔ زندگی بدل دینے والا تھا۔ کیا وہ صرف اور صرف اپنے باپ کی خواہش پوری کرنے کی خاطر نکاح کرکے اس مقدس رشتے کی عمارت کی بنیاد دوغلے پن کی نیوں پر رکھنے والی تھی؟؟؟
وہ تو رشتوں میں مخلصی کی قائل ہے۔۔۔۔۔
تو کیا وہ اتنی آسانی سے معاف کردے گی؟؟؟؟؟
بھول جائے گی جو کچھ ضمان نے اُسکے ساتھ کیا؟؟؟؟
ہاں وہ معاف کردے گی۔۔۔۔
کیونکہ اببی نے کہا تھا کہ معاف کر دینا اللّٰہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں سے ایک ہے۔ پر وہ بھولے گی نہیں اور فلحال تو بھروسا بھی نہیں کرنے والی تھی کیونکہ وہ رحم دل ہے پر بیوقوف نہیں۔۔
"قبول ہے!!!!۔۔۔۔"
ایک بار ، پھر دوبارہ اور ایک مرتبہ پھر مبشرہ بیگم کے ہاتھ کو مضبوطی سے تھامے نیلی آنکھوں میں باپ کی یاد کے آنسو لیۓ وہ اپنے تمام حقوق ضمان رند کے نام محفوظ کر چکی تھی۔
کیا زندگی حسین گزرنے والی تھی؟؟
ہر گز بھی نہیں۔۔۔ بغیر کسی توقع کے اس نے اپنا آپ اس ضدی شخص کے حوالے کر دیا تھا۔۔ وہ جانتی تھی یہ فیصلہ ہر موڑ پر خراج مانگے گا ، پر وہ بھی تیار تھی اپنا صبر آزمانے کے لئے۔۔۔۔۔۔۔
اپنی سوچوں میں غرق شرعی طریقہ کار کے ساتھ نکاح نامے پر دستک کرنے کے بعد قانونی طور پر بھی وہ ضمان رند کو قبول کر چکی تھی۔
***
"ضمان رند ولد مرتضیٰ رند ، ارمش مگسی ولد عابد مگسی کو با عوض 5 لاکھ سکا رائج الوقت آپ کے نکاح میں دیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے؟؟؟"
°ماضی°
"آنو۔۔۔ یہ گڑیا کتنی پیاری ہے۔ اسے مجھے دے دیں نا۔۔۔ میں اور زری اس کے ساتھ کھیلیں گے۔"
7 سالہ ضمان عابد مگسی کے کمرے میں بیڈ پر چڑھا ایک ننھی پری کو نہارنے میں مصروف تھا۔۔۔ کبھی چھوٹی سی بند مٹھی کو چومتا تو کبھی گالوں پر ہاتھ پھیر کر گویا یہ یقین کرنا چاہتا کہ وہ بھی انسان ہی ہے۔۔۔۔
اس سارے عمل کے اختتام پر وہ ایک فیصلے پر پہنچا تھا، کہ یہ بےبی ایک ڈول ہے اور ضمان کو یہ ڈول اپنے پاس رکھنی ہے۔
"تمہیں چاہیے ہے؟
ٹھیک ہے یہ تمہاری ہوئی۔۔۔ پر میرا شیر پہلے آنو سے وعدہ کرے گا کہ جیسے وہ زری کا خیال کرتا ہے بلکل ویسے وہ اس ڈول کا بھی خیال رکھے گا اور بہت سارا پیار بھی کرے گا ہمیشہ۔۔۔۔"
دن بہ دن گرتی طبیعت کے زیرِ اثر وہ اپنی زندگی سے خاصی مایوس نظر آ رہیں تھیں۔۔۔۔
کبھی رفیعہ تو کبھی مبشرہ سے بارہا وہ ہمیشہ ارمش کا خیال رکھنے کی التجاء کر رہیں تھیں بس اسی مایوسی کے زیرِ اثر وہ اپنے سات سالہ بھانجے سے عہد و پیمان کرنے لگیں۔
وقت کا پئیاں گھوما تھا ، پھر ارمش واقعی اس کے پاس اس کے گھر آگئی۔۔۔
کیا ضمان نے آنو سے کیا گیا وعدہ وفا کیا ؟؟؟؟
اس ایک سوال کے جواب میں ذہن کے پردے پر کئی مناظر لہرائے تھے، جہاں ارمش کی آنکھوں میں ضمان کے عطا کردہ آنسوں پوری آب و تاب سے جھل مل کر رہے تھے۔۔۔
پوری زندگی وہ اور زرلش اپنی منشاء کے تحت اس گڑیا سے بس کھیلتے آئے تھے۔۔۔ رُلا کر دھمکا کر اپنی تسکین حاصل کرتے رہے تھے ۔
ذاتِ واحد اسے ایک مرتبہ پھر موقع دے رہی تھی اپنی غلطیوں ، کوتاہیں کا ازالہ کرنے کا۔۔۔
°حال°
"ضمان جواب دو بیٹا"
ضمان کی خاموشی پر مسجد کے حال میں ہو کا عالم برپا ہوا تھا..۔۔۔ سب کی پریشان سماعتیں ضمان کے ہاں کی منتظر تھیں جب مولوی صاحب نے دوبارہ نکاح کے بول دوہرائے تو مصطفٰی صاحب مزید خاموش نا رہ پائے۔ تبھی شانا ہلا کر مولوی صاحب کی جانب متوجہ کیا تو جیسے وہ بھی نیند سے بیدار ہوا تھا۔۔۔
"قبول ہے!!!!۔۔۔۔۔
قبول ہے!!!!۔۔۔۔
قبول ہے!!!!۔۔۔۔۔"
ایک وعدہ آج ضمان نے اپنے آپ سے کیا تھا کہ وہ اپنے ہر عمل کا ازالہ کرے گا۔۔۔
ارمش کے دامن کو خوشیوں سے بھر دیگا۔ اپنی زات کا مان دے کر ہر دکھ اپنی زات پر جھیل جائے گا ، کسی غم کا سایہ بھی وہ ارمش تک نہیں پہنچنے دے گا۔
اپنے فیصلے سے مطمئین ہو کر پوری ایمانداری سے وہ بھی ارمش کو قبول کر چکا تھا جو نا جانے کب زری کی خواہش سے ضمان کی خوشی بھی بن چکی تھی۔۔۔۔
اب دیکھنا یہ تھا کہ وہ یہ وعدہ نبھا پائے گا یا پھر اس وعدے کا نصیب بھی بیوفائی ہی تھا۔
ایجاب و قبول کے مراحل طے پائے تو مبارک سلامت کی آوازوں نے فضاء میں رس گھول دیے۔۔
تمام گھر والے یکے بعد دیگرے دولہا دلہن کے ساتھ ایک دوسرے کو بھی مبارکی دینے میں مشغول تھے جب مصطفٰی صاحب مولوی صاحب کو رخصت کرتے ارمش کی جانب آئے ، جو پہلے ہی دادی سے لگی عابد مگسی کی یاد میں آنسوں بہا رہی تھی۔
مصطفٰی صاحب کے گلے لگانے پر باپ کا شفقت بھرا لمس محسوس کرکے ایک مرتبہ پھر سسک اٹھی ۔ پر جلد ہی مصطفیٰ رند کی طبیعت کے خیال سے خود پر ضبط کے کڑے پہرے بٹھا کر دور ہوگئی تھی۔ نکاح کا نیک فریضہ سرانجام ہوا تو جلد ہی سب حال کی جانب روانہ ہوئے جہاں دعوت کی نیت سے دوست احباب کا جمع غفیر مدعو تھا۔۔
________________________
مصطفٰی صاحب کی گاڑی جونہی پنڈال کے مرکزی دروازے پر پہنچی عالی اور عرشمان نے بہن کے استقبال میں شرلیوں کی بوچھاڑ آسمان کی جانب چھوڑتے مہمانوں کو دلہن کی آمد کا پیغام پہنچایا تھا۔۔
آبادی سے دُور اس علاقے میں سردیوں کی آمد کے باعث جلد ہی سورج ڈھل چکا تھا، تبھی شام کی دعوت میں بھی آتش بازی کے بھرپور رنگ بکھرے تھے۔۔۔
ڈھول ڈھمکوں اور آتش بازی سے فارغ ہوتے ہی وہ دونوں سب بڑوں کو اندر بھیج چُکے تھے ، زری کی بھرپور مزمت پر کان دھرے بغیر دونوں نے یہ فتویٰ جاری کیا تھا کہ دولہا دلہن ولیمے میں ساتھ انٹری کر لیں گے آج کے دن وہ ہی اپنی بہن کا ہاتھ تھام کر سٹیج تک پہنچائیں گے۔۔
اندھے کو کیا چاہیے؟؟ دو آنکھیں... کے مژداق پر جب ارمش نے بھی دونوں کی بات کی تائید کی تو دل پر پتھر رکھ کر وہ جو سفید ساڑھی میں کندھوں تک آتے بالوں کو کھلا چھوڑ کر کانوں میں ہمرنگ اویزے لٹکائے بجلیاں گرا رہی تھی ، عالی کے بتیسی دکھانے پر گھورتے اندر کی جانب چل دی جہاں پہلے پہنچ جانے کے باعث ضمان موجود تھا۔۔
زرلش کے سٹیج پر پہنچنے کے ساتھ ہی پنڈال میں اندھیرا چھایا تھا۔۔۔
پھر ایک مخصوص روشنی ضمان سے ہوتی ہوئی داخلی دروازے پر پڑی جہاں عالی اور عرشمان تقریباً ایک جیسے سفید کُرتا شلوار میں ملبوس کہنیوں تک آستینیں چڑھائے، کلائی پر بیش قیمت گھڑی باندھے ، پیر لوفرز میں قید کیے، ارمش کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اونچی قد و قامت کے ساتھ خندہ پیشانی لیئے پر وقار چال چلتے سٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔
ہلکی آواز میں بجتی موسیقی اور اس پر ارمش کا بن بادل بجلیاں گراتا روپ جسکا دیدار ریشمی پردے کے باعث وہ مسجد میں نا کر پایا تھا۔۔۔ ضمان کو بے خود کئے دے رہا تھا۔۔۔
چاہ کر بھی وہ اپنی نگاہیں اس پری پیکر سے ہٹا نا پا رہا تھا جو ابھی ایک گھنٹے قبل ہی مکمل اس کی ہو چکی تھی۔ یہ احساس ہی مسحور کن تھا کہ وہ سر تا پیر اس کی ہے، اس کے لیے سجی ہے۔
ارمش کے قدم سٹیج کے قریب پہنچے تو ضمان اپنی شریکِ حیات کا ہاتھ تھامنے کی غرض سے آگے بڑھ گیا۔
"نیگ نکالیں پہلے۔۔۔۔"
ضمان کے بڑھے ہوئے ہاتھ کے اوپر ارمش کا ہاتھ آنے کے بجائے عرشمان اور عالی ہاتھ آگے پھیلائے ،موتی جڑے دانتوں کی نمائش کرتے سوالی ہوئے ۔
"جاؤ زنانیوں دوپٹہ اوڑھ کر آؤ پہلے تب دوں گا اور جاتے جاتے میری بیوی بھی مجھے دے کر جاؤ ۔۔۔"
آج تک شادیوں میں جو کام دولہے کی سالیوں کو سر انجام دیتے دیکھا تھا اپنی باری میں ہٹے کٹے سالوں کو کرتے دیکھ ، ضمان نے عادت کے بر خلاف شوخ لہجے میں گویا ہوتے یہ کھٹّی میٹھی تکرار دیکھنے والے لوگوں کو ہنسنے پر مجبور کیا تھا۔۔۔
آخر میں عرشمان اور عالی کی چوڑی ہتھیلیوں میں قید ارمش کے مرمری ہاتھوں کی جانب اشارہ کرتے اپنا حق جتانا بھی نا بھولا۔
نظریں اب بھی ارمش کے وجود میں اُلجھی ہوئیں تھیں، جو پہلے ہی لوگوں کی مرکزِ توجہ بننے پر ہراساں تھی ضمان کے لفظ 'بیوی' استعمال کرنے پر جھکی ہوئی پلکیں مزید جھکا گئ۔۔
"او بھائی!!!۔۔۔ ہم سے ڈیل کر لیں پہلے، آپ کے ہی پہلو میں بیٹھے گی نہارتے رہیے گا پھر۔...."
اینٹ کا جواب پتھر سے آیا تھا۔۔۔۔۔ وہ بھی عرشمان کی جانب سے جس نے خود کو خاتون قرار دینے والے بہنوئی کی آنکھوں کی بے خودی پر چوٹ کرتے اپنا بدلہ فوری لیا تو جہاں ضمان کی نظریں گڑبڑاہٹ کا شکار ہوتے پھری تھیں ، وہیں ارد گرد جمع لوگوں کے قہقہوں نے اُسکے چہرے پر بھی مُسکراہٹ بکھیر دی۔
"ٹھیک ہے بیٹا کرلو تم لوگ عیش میری بھی باری آئے گی۔۔ "
فراغ دلی کا مظاہرہ کرتے والٹ سے کریڈٹ کارڈ نکال کر دیا تھا۔
"آمین۔۔۔ اللّٰہ کرے گا بہت جلدی آئے گی۔۔"
عالی نے اپنے ہاتھ میں تھاما ارمش کا ہاتھ ضمان کی ہتھیلی پر رکھتے ڈرامائی انداز میں اپنے لیئے دعائیہ کلمات جاری کیے تو ایک بار پھر قہقہوں کی آواز نے محفل زعفران کی تھی۔۔۔
جبکہ ارمش کا ہاتھ ضمان کی گرفت میں آتے ہی ہال میں تالیوں اور ہوٹنگ کی آوازوں کے میل جول نے سما سا بنا دیا تھا۔
ارمش کی فراک کے ہم رنگ کُرتا شلوار جس کے کالر پر نفیس کڑاھی ہوئی تھی ، چوڑی کلائی پر بینسن کی کالی گھڑی باندھے، ساتھ کندھے پر موسم کی مناسبت سے تیز عنابی رنگ کی شال ڈال رکھی تھی۔
ایک دوسرے کے پہلو میں کھڑے فوٹوگرافر کی ہدایت پر عمل کرتے دونوں چاند سورج کی جوڑی کو مات دے رہے۔۔۔
ہر دیکھنے والی نظر میں اس حسین جوڑے کے لئے ستائش کا عنصر واضح تھا۔۔ جہاں بہت سے دلوں نے اس جوڑے کی دائمی خوشی کی دعا کی تھی وہیں کُچھ لوگ ہونٹوں پر مسکراہٹ اور دل میں حسد لیئے محفل میں موجود تھے۔
دیکھنا یہ تھا کہ خیرخواہان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں یا حاسدوں کی نظر بد کا شکار آنے والا کل ہوتا ہے۔۔۔
__________________________
"چلیں؟؟"
كاہی رنگ کی ٹی شرٹ کے ساتھ گرے ٹراؤزر میں ملبوس پیشانی پر بکھرے بالوں کے ساتھ وہ تر و تازہ سا حال کمرے میں داخل ہوا تھا جہاں عالی ، زرلش اور عرشمان پہلے سے موجود اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ صبح سے رات نو بجے تک مُسلسل مصروف رہنے کے باعث جو تھکن کچھ دیر قبل چہرے سے ٹپک رہی تھی اُسکے اثرات زائل کیے وہ سب کے ساتھ موجود تھا۔
"جی چلیں۔۔۔ ہم تیار ہیں اور ارمش نے منع کر دیا ہے چلنے کے لئے۔"
جواب زرلش کی جانب سے آیا تھا۔۔۔ رات ساڑھے گیارہ بجے کے قریب وہ لوگ اس وقت آئس کریم پارلر جانے کے لئے تازہ دم تھے۔ چونکہ یہ پلان تشکیل ہی اس لیۓ دیا گیا تھا کہ گاؤں والے آج رات یہیں بسر کرنے والے تھے تو جلدی سو جانے کی عادت اور پھر دن بھر کی مصروفیت کے باوجود عرشمان بھی گرم پانی سے نہا کر سب کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔۔
"کیوں؟؟؟"
ضمان لہجے کو آخری حد تک متوازن رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے عالی سے مخاطب تھا، جسنے ارمش کو لانے کی زمیداری اپنے سر لی تھی۔
"میں جب گیا تھا تب وہی برائیڈل شرٹ میں ملبوس تھی، باتھ لینے جا رہی تھی۔ میں نے چلنے کے لئے کہا تو ٹکا سا جواب دے دیا کہ میں نہیں جا رہی۔۔۔۔
اور یہیں بس نہیں کی تھی میں نے اسرار کیا تو دھکّے مار کر مجھے باہر نکال دیا۔۔۔۔۔ ویسے بھائی جان بڑی بے مروت ہے آپکی بیوی۔ "
ارمش کے ٫دفع ہوجاؤ، کہنے کا درد کسی طور کم نا ہو پا رہا تھا۔۔ تبھی ڈرامائی انداز میں اُسکے الفاظ ادا کرنے کے بعد ضمان کو بیوی کی بد اخلاقی کا طعنہ دینا بھی نہ بھولا۔
"ہمم۔۔۔۔ میری بیوی اور تمہاری؟؟؟
کرائے کی بہن؟"
عالی کی داستانِ زلیخاں سے محظوظ ہوتے اثبات میں سر ہلا کر مسکراتے سوال کیا ۔ جس پر جہاں عالی کا منہ بنا تھا، وہیں عرشمان اور زری لفظ کرائے کی بہن پر بے ساختہ ہی ہنس دیے تھے۔۔
"خیر میں لے کر آتا ہوں۔۔۔"
اپنی بات کہہ کر پیچھے کی جانے والی ہوٹنگ پر کان دھرے بغیر وہ آگے بڑھ گیا تھا۔
"مجھے دھکّے دے کر وہ کمرہ لوک کر چکی ہے۔"
بڑھتے قدموں کے ساتھ عالی کی اطلاع جونہی کانوں میں پڑی تو کمرے کے بجائے ماسٹر کی اٹھانے کے غرض سے رخ ٹی وی لاؤنج کی طرف کر لیا تھا۔
_________________________
ایک عصاب شکن دن اپنے اختتام پر پہنچا تھا۔۔۔۔ صبح اس گھر سے نکلتے وقت جو ارمش مگسی تھی واپسی تک مسز ارمش ضمان رند بن چکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ ضمان کی یہ ضد کتنے شب و روز پر مشتمل ہے۔۔ آنے والے کل کا سوچ سوچ کر روح فنا ہو رہی تھی۔۔۔
جو شخص کبھی سیدھے منہ بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا، اسی کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کی سوچ بھی جان لیوا تھی۔
سارے دن بھاری بھرکم لباس و زیورات اور پھر بقول ارمش نو من میک اپ کی تہہ کے ساتھ مڈ بھیڑ کرنے کے بعد ابھی وہ صحیح معنوں میں ان سب کیلوں سے آزاد بھی نہیں ہو پائی تھی، جب عالی نے باہر چلنے کا شوشہ چھوڑا۔۔۔
ارمش نے پیار سے منع کیا تھا۔۔۔۔۔
پھر عالی کے ضدی پن پر کمرے سے باہر نکالنے کے بعد احتیاطی تدابیر کے طور پر دروازہ لوک کر کے نہانے چلی گئی۔۔
نیم گرم پانی سے نہا دھو کر تر و تازہ سی باتھ گاؤن میں باہر آئی تو معمول کے حساب سے زیب تن کی جانے والی نائیٹی کے بجائے گھٹنوں تک آتے کالے شورٹ اور کالی ہی شرٹ اٹھا کر ڈریسنگ روم میں گھس گئ۔
موسم کی خنکی کو فراموش کیے دن بھر بھاری لباس کا بوجھ اٹھانے کے بعد ہلکا پھلکا محسوس کرنے کی خاطر منتخب کردہ لباس پہن کر اب وہ ڈریسنگ کے آگے کھڑی بال سلجھا رہی تھی، جب دروازہ کھلنے کی آواز پر ہڑبڑا کر مڑی۔۔۔۔۔
عالی کی ہدایت پر ضمان ماسٹر کی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ارمش کے اس روپ پر دل و جان سے حیران ہوتے واپسی کے لیے مڑنے ہی لگا تھا کہ صبح ہوئے نکاح کے بعد حاصل کردہ حق یاد آیا تو ہونٹوں کو 0 کی شکل میں موڑ کر لوفرانا انداز میں اوپر سے نیچے تک دیکھتے سیٹی ماری تھی۔ آنکھوں میں شرارت کا عنصر باہر آنے کے لئے اُمڈ رہا تھا۔
ارمش جو شاک کی کیفیت میں یہ سوچ رہی تھی کہ بند دروازے سے وہ اندر کیسے داخل ہوا؟؟؟؟
ضمان کی نظروں اور حرکت پر بوکھلا کر صوفے کے پیچھے جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"آپ۔۔.. اب کیوں آئیں ہیں آپ؟؟"
اپنی حالت اور اس پر تضاد ضمان کی موجودگی وہ ایک بار پھر سہمی ہرنی کی طرح نازک حدبندیوں کا سہارا لیتی ضمان سے سوالی ہوئی تھی۔ جسکی پُر شوخ نظریں ابھی بھی ارمش کے وجود طواف کر رہیں تھیں۔
"اب کیا فائدہ؟؟؟؟ اب تو میں دیکھ چکا ہوں۔.... ویسے آپس کی بات ہے تم روز اپنے روم میں ایسے ہی بجلیاں گراتی ہو؟ "
ارمش کے سوال کو سرے سے نظر انداز کیے وہ اپنی ہی ہانک رہا تھا انداز اب بھی خاصہ نرم ، دوستانہ سا تھا۔
"کیوں آئیں ہیں؟؟؟ جائیں یہاں سے۔۔۔ ہو تو گیا جو چاہتے تھے۔۔ اب کیا چاہیے ہے؟ جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔ "
ضمان کا نرم لب و لہجہ نا
ایک عصاب شکن دن اپنے اختتام پر پہنچا تھا۔۔۔۔ صبح اس گھر سے نکلتے وقت جو ارمش مگسی تھی واپسی تک مسز ارمش ضمان رند بن چکی تھی۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ ضمان کی یہ ضد کتنے شب و روز پر مشتمل ہے۔۔ آنے والے کل کا سوچ سوچ کر روح فنا ہو رہی تھی۔۔۔
جو شخص کبھی سیدھے منہ بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا، اسی کے ساتھ پوری زندگی گزارنے کی سوچ بھی جان لیوا تھی۔
سارے دن بھاری بھرکم لباس و زیورات اور پھر بقول ارمش نو من میک اپ کی تہہ کے ساتھ مڈ بھیڑ کرنے کے بعد ابھی وہ صحیح معنوں میں ان سب کیلوں سے آزاد بھی نہیں ہو پائی تھی، جب عالی نے باہر چلنے کا شوشہ چھوڑا۔۔۔
ارمش نے پیار سے منع کیا تھا۔۔۔۔۔
پھر عالی کے ضدی پن پر کمرے سے باہر نکالنے کے بعد احتیاطی تدابیر کے طور پر دروازہ لوک کر کے نہانے چلی گئی۔۔
نیم گرم پانی سے نہا دھو کر تر و تازہ سی باتھ گاؤن میں باہر آئی تو معمول کے حساب سے زیب تن کی جانے والی نائیٹی کے بجائے گھٹنوں تک آتے کالے شورٹ اور کالی ہی شرٹ اٹھا کر ڈریسنگ روم میں گھس گئ۔
موسم کی خنکی کو فراموش کیے دن بھر بھاری لباس کا بوجھ اٹھانے کے بعد ہلکا پھلکا محسوس کرنے کی خاطر منتخب کردہ لباس پہن کر اب وہ ڈریسنگ کے آگے کھڑی بال سلجھا رہی تھی، جب دروازہ کھلنے کی آواز پر ہڑبڑا کر مڑی۔۔۔۔۔
عالی کی ہدایت پر ضمان ماسٹر کی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو ارمش کے اس روپ پر دل و جان سے حیران ہوتے واپسی کے لیے مڑنے ہی لگا تھا کہ صبح ہوئے نکاح کے بعد حاصل کردہ حق یاد آیا تو ہونٹوں کو 0 کی شکل میں موڑ کر لوفرانا انداز میں اوپر سے نیچے تک دیکھتے سیٹی ماری تھی۔ آنکھوں میں شرارت کا عنصر باہر آنے کے لئے اُمڈ رہا تھا۔
ارمش جو شاک کی کیفیت میں یہ سوچ رہی تھی کہ بند دروازے سے وہ اندر کیسے داخل ہوا؟؟؟؟
ضمان کی نظروں اور حرکت پر بوکھلا کر صوفے کے پیچھے جا کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
"آپ۔۔.. اب کیوں آئیں ہیں آپ؟؟"
اپنی حالت اور اس پر تضاد ضمان کی موجودگی وہ ایک بار پھر سہمی ہرنی کی طرح نازک حدبندیوں کا سہارا لیتی ضمان سے سوالی ہوئی تھی۔ جسکی پُر شوخ نظریں ابھی بھی ارمش کے وجود طواف کر رہیں تھیں۔
"اب کیا فائدہ؟؟؟؟ اب تو میں دیکھ چکا ہوں۔.... ویسے آپس کی بات ہے تم روز اپنے روم میں ایسے ہی بجلیاں گراتی ہو؟ "
ارمش کے سوال کو سرے سے نظر انداز کیے وہ اپنی ہی ہانک رہا تھا انداز اب بھی خاصہ نرم ، دوستانہ سا تھا۔
"کیوں آئیں ہیں؟؟؟ جائیں یہاں سے۔۔۔ ہو تو گیا جو چاہتے تھے۔۔ اب کیا چاہیے ہے؟ جائیں یہاں سے۔۔۔۔۔ "
ضمان کا نرم لب و لہجہ نا جانے کیوں پر ارمش کو تمسخر اڑاتا محسوس ہوا تھا ، تبھی اپنی بات اس بار ذرا اونچی آواز میں دوہرائی تھی۔۔
"ڈنکے کی چوٹ پر آیا ہوں سب کے سامنے بغیر کسی کی اجازت کے۔۔پتا ہے کیوں ؟؟؟؟؟
کیونکہ اب حق رکھتا ہوں میں۔...... تم پر ، تمہارے وجود پر، یہاں تک کے تمہاری سانسوں پر بھی۔..
اور صرف آج نہیں آیا ہوں جب دل چاہے گا تب تب آؤں گا بیوی ہو میری تم آئی سمجھ؟"
اچھا خاصہ موڈ غارت ہونے میں لمحہ لگا تھا۔ وہ جو اپنے انداز میں اپنائیت لانے کی ممکنہ کوشش میں تھا ، ارمش کے انداز پر مارے اشتعال لمحے کی تاخیر کیے بغیر اُسے جا لیا تھا۔۔
حسن کی کمی ضمان رند کو نہیں تھی ، وہ تو حسیناؤں کے حلقے میں مغرور شہزادے کے لقب سے جانا جاتا تھا۔...
یہ حلال رشتے کا اعجاز تھا جو ارمش کی خوبصورتی نے ضمان کو متوجہ کیا تھا ، پر وہ اُن لوگوں میں سے ہر گز نہ تھا جو نفس کی غلامی میں کچھ بھی برداشت کر جائیں۔ ارمش کے انداز نے ضمان کو پرانے خول میں سمٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔
"خیر حلیہ درست کرو اور باہر آو 10 منٹ کے اندر اندر۔۔ آرہی ہے سمجھ؟؟"
جھٹکے سے کھینچنے پر جو بال چہرے پر آئے تھے نرمی سے کان کے پیچھے اُڑاستے ، حاکمانہ لب و لہجے میں گویا ہوا تھا۔
اور ہمیشہ کی طرح ضمان کی نرمی پر جرت کا تھوڑا بہت ملاحظہ کرنے کے بعد تھوڑی سی سختی پر ہی ارمش نے جو بمشکل اپنے بل کسے تھے اپنے آپ ڈھیلے ہو چُکے تھے۔
ضمان کے سوال پر جھکی گردن کو اثبات میں ہلا کر بات سمجھ آنے کا اشارہ دیتی وہ ضمان کو مسکرانے پر مجبور کر گئ تھی۔۔۔
"پھٹو۔۔۔!!!"
باہر کی جانب قدم لیتے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ زیرِ لب بچپن میں دیا ہوا لقب دوہرا کر آگے بڑھ گیا......
__________________________
"ارمش ہفتہ گزرا ہے نکاح ہوئے اور دیکھو ذرا اپنے آپ کو۔۔۔۔
کہیں سے لگ رہا ہے نئی نویلی دلہن ہو؟"
صبح ناشتے کے وقت ارمش جب سفید کرتے پاجامے کے ساتھ پرنٹڈ اسٹولر گلے میں ڈالے ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی تو رفیعہ بیگم جو ایک ہفتے سے اُسے ہلکے رنگوں میں دیکھ رہیں تھیں آج سفید رنگ میں دیکھ کر خاموش نہ رہ سکیں۔
"بڑی مما رنگ تو سب اللہ کے بنائے گئے ہیں ان بیچاروں سے کیسی دشمنی؟"
شوخ رنگ تو کبھی اُسے پسند ہی نہیں تھے۔ حویلی جاتے جاتے امّاں نے اسے اس متعلق بہت سی ہدایات دیں تھیں کہ کیسے شوہر کے دل میں اترا جاتا ہے، کیسے سسرالیوں کو خوش رکھنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔
اُنکے جانے کے ساتھ ہی اُنکی باتوں کو بھی تہہ لگا کر دماغ کے کسی کونے میں وہ سلا چکی تھی۔ رفیعہ بیگم کی باتوں پر بڑی اماں کی طرح گیان بانٹنا شروع ہوگئی۔
"تو جس اللّٰہ نے یہ ہلکے رنگ بنائے ہیں بی بی، شوخ بھی اسی نے بنائے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو یہ نا صحیح بندہ کم از کم ہاتھوں میں ہی کچھ ڈال لیتا ہے۔
یہ لو یہ پہنو اور آج کے بعد مجھے سونی کلائیاں نا دکھیں!"
ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ جاری تھا جب اچانک کُچھ سوچتے رفیعہ بیگم نے ہاتھوں میں پہنے کڑے اتار کر ارمش کی جانب بڑھائے۔
"کیا ہوگیا ہے بڑی مما!!
آپکے ہیں یہ۔۔۔۔۔۔۔
انہیں رکھیں میں ابھی ناشتے کے بعد پہن لوں گی کُچھ۔"
رفیعہ بیگم کو اپنے کڑے اتارتے دیکھ ارمش رسانیت سے انکار کرتے ناشتے کی جانب متوجہ ہوگئی، وجہ ضمان کی آمد تھی جسے دیکھ ارمش جلد از جلد خود منظر سے غائب ہوجانا چاہتی تھی۔
ایک ہفتے میں ضمان کئی بار اس سے مخاطب ہوا تھا۔ کبھی نرمی سے کبھی حکمیہ انداز میں پر ارمش نے سیدھے منہ بات کرنا تو دور، اسے جواب تک دینا بھی ضروری نہیں سمجھا تھا۔
وہ اتنی جلدی نارمل کیسے برتاؤ کر سکتا تھا؟ یہ ایک سوچ ارمش کا سیروں خون جلا چکی تھی۔ پر خیر وہ اتنی جلدی کُچھ فراموش نہیں کرنے والی تھی۔ سات دن ضمان کو مسلسل نظر انداز کرنا ارمش کے نزدیک پوری زِندگی کا سب کے بڑا کارنامہ تھا جس پر وہ بہت زیادہ خوش اور مطمئن تھی۔
"ہاں میرے تھے۔۔۔۔۔۔۔ پر اب تمہارے ہوئے۔
پتا ہے مش؟ جب میری شادی ہوئی تھی ناں تب مجھے بڑا ارمان تھا کہ کوئی خاندانی کنگن ہوں جو میری ساس مجھے دے کر کہیں کہ اُنکی ساس نے اُنہیں دئیے تھے وہ اپنی بہو تک پہنچائیں۔
میرا ارمان تو پُورا نہیں ہوا، انکے خاندان میں سب کا اپنا اپنا ذاتی زیور تھا تب میں نے سوچا تھا کہ کوئی بات نہیں، مجھے نہیں ملے تو کیا ہوا میں اپنی بہو کو دوں گی اور پھر اس سے کہو گی کہ وہ بھی اپنی بہو کو دے دے۔"
ارمش کو مزمت کے لئے لب وا کرتے دیکھ وہ مزید گویا ہوئیں تھیں، اُنکے ارمانوں کی کہانی ارمش اور ضمان سے لے کر فرزانہ تک سب بڑے اشتیاق سے لبوں پر مسکان لیے سن رہے تھے۔
جب کڑوں کو ارمش کی کلائی کی زینت بناتے رفیعہ بیگم نے اُسے اپنی بہو تک پہنچانے کی تلقین کی تو بیساختہ ہی سب کی ہنسی چھوٹی تھی جبکہ ضمان کی موجودگی میں ایسی بات سنتے مارے خفت ارمش کے کان لو تک سُرخ ہوئے تو خاموشی کے ساتھ کڑے پہن کر ناشتہ بیچ میں ہی چھوڑ کر اُٹھ جانے میں عافیت جانی۔
"لو بھلا بتاؤ اس میں شرمانے والی کون سی بات تھی؟"
اپنے پیچھے رفیعہ بیگم کی غیر سنجیدہ آواز اور پھر قہقہہ صاف سنائی دیا تھا۔
♡------------------------------------------♡
عالییی!!!!!
میں تمہارا خون پی جاؤں گی!!!!
دفع ہوجاؤ اسے لے کر یہاں سے۔۔۔۔۔ بھئیِی۔۔۔۔۔۔۔۔ مما۔۔۔۔۔۔۔ اس جنگلی كو کس نے گھر میں رکھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔ مما۔۔۔۔۔۔۔۔ بچاؤ مجھے کوئی!!!!!
"ہسپتال سے واپسی پر مصطفٰی صاحب دروازے پر ہی ارمش کو چھوڑ کر رفیعہ اور مبشرہ بیگم کے ہمراہ کسی عزیز کی عیادت کی خاطر جا چکے تھے۔
اپنی رو میں چلتی ارمش نے ابھی لان پار کر کے گھر میں قدم رکھا ہی تھا کہ اپنے عین پیچھے 'میاؤں' کی آواز پر خائف ہوتے کانی نظروں سے پیچھے کی جانب دیکھا جہاں عالی دنبہ نما بلی ہاتھوں میں تھامے اپنے پورے دانتوں کی نمائش کرتے ارمش کو ہی دیکھ رہا تھا پھر کیا ہونا تھا؟؟؟
ارمش آگے آگے اور ہاتھوں میں بلی تھامے ایک بار ہاتھ لگا کر دیکھنے کی ضد کرتا عالی پیچھے پیچھے۔
کُچھ ہی لمحوں میں سرمئی رشین بلی کو بھی شاید اس کھیل میں مزا آنے لگا تھا تبھی عالی کی گرفت سے نکل کر اب وہ بذاتِ خود ارمش کی رفتار کا مقابلہ کرتی اُس کے پیچھے پورے گھر کا چکر کاٹ رہی تھی.
"کیا ہوگیا ہے ارمش؟ اتنی بچی بھی نہیں رہی ہو تم!
ہر وقت توجہ کی طالب رہنا بند کردو۔۔۔۔۔۔۔
ایک چھوٹی سی بلی ہی تو ہے! کوئی شیر تو نہیں لے آیا ناں عالی؟؟
اور عالی تم بھی حد کرتے ہو، ہر وقت آگے پیچھے گھوم کے بلکل بچہ بنا دیا ہے تم نے۔ عادتیں بگاڑ کر رکھ دی ہیں بلکل۔ دو پل چین کے نصیب نہیں ہوتے ہیں اس گھر میں!"
زری جو ارمش کی چیخ و پکار پر ہڑبڑا کر نیچے کی جانب بھاگی تھی لاؤنج کا منظر دیکھنے کے ساتھ عالی کے قہقہوں اور ارمش کے عالی کی آڑ میں پنہا لینے پر کلس کر گویا ہوتے بلی کو گود میں اٹھا کر پچکارنے لگی۔
"میں کسی بھی طرح کا سلوک رکھوں ارمش کے ساتھ تمہیں کیا مسئلہ ہے؟؟
ارمش کی عادتوں کی فکر تم نا کرو اپنے آپ پر توجہ دو زیادہ بہتر رہے گا۔
اور ویسے بھی گھر ہے کوئی جیل نہیں اور نہ ہی تم دروغہ یا مہارانی ہو جس کے آرام میں خلل نہ پڑنے کے ڈر سے ہم ہنس بول نہ سکیں!!"
زری کی باتوں پر ارمش کے چہرے کا مرجھانا، نا ہسپتال سے واپس آ کر دہلیز پہ کھڑے ضمان کی نظروں سے پوشیدہ رہا تھا نہ ہی عالی سے۔
اس سے پہلے ضمان کُچھ کہتا ہمیشہ کی طرح عالی نے زری کی بولتی بند کردی تھی۔
پہلی بار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں شاید پہلی ہی بار۔۔۔۔۔۔۔
ضمان کو عالی اس معاملے میں حق بجانب محسوس ہوا تھا۔ زرلش کے غصے کی وجہ ضمان کو بری طرح کھلی تھی۔ آج زرلش کی نظروں کی بے اعتباری نے ضمان کی غیرت پر کاری ضرب لگائی تھی۔
عالی کی باتیں سُن کر زری کے اوپر جانے سے پہلے ہی ارمش کی نظر ضمان پر پڑ چکی تھی جسے دیکھتے ہی اُسنے اپنے کمرے کی راہ لے لی۔
زری کے اوپر جانے کے بعد عالی بھی بلّی اٹھا کر ضمان کے پہلو سے ہوتا جا چکا تھا۔
چند لمحے اُسی حالت میں کھڑے رہنے کے بعد کُچھ سوچ کر ضمان بھی اوپر کی جانب روانہ ہو گیا۔
♡------------------------------------------♡
"ایک کپ چائے لے کر کمرے میں آؤ۔۔۔۔۔۔۔"
ضمان جونہی اپنے پورشن میں داخل ہوا تو نظر پیر جلی کی بلّی بنے ایک جانب سے دوسری طرف چکر لگاتی زرلش پر پڑی۔ زری نے سلام کیا تو جواب دے کر عام سے لہجے میں معمول کے حساب سے چائے کا کہتے خود کمرے میں چلا گیا۔
کُچھ ہی دیر میں چائے کے دو کپ اور کباب کی پلیٹ ٹرے میں رکھ کر زری ضمان کے کمرے میں حاضر تھی۔
زری کو عالی کی باتوں پر غُصّہ تو خوب تھا، ضمان کا چہرہ دیکھتے ہی اپنی روداد نئے سرے سے یاد آئی تھی اس سے پہلے کہ وہ کُچھ کہتی ضمان نے خود ہی بات کا آغاز کر دیا۔
"میں نے دیکھا ابھی جو نیچے ہوا تھا۔
زری میری بات ذرا دھیان سے کسی بھی منفی سوچ کو دماغ میں جگہ دئیے بغیر سنو۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی تک ارمش کے بارے میں جو بھی تم نے سوچا وہ سب اپنے دماغ سے نکال دو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اب بیوی ہے میری اُس کے کردار سے وابستہ کسی بھی قسم کی سوچ میری غیرت کا معاملہ ہے۔
اور ویسے بھی تمہارے سارے خدشے غلط ثابت ہو تو چُکے ہیں۔ ارمش میرے نکاح میں ہے اور ہمارے نکاح میں عالی نے اسی طرح بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا جس طرح کوئی بھی بھائی اپنی بہن کی خوشیوں میں شریک ہو کر لیتا ہے۔
میں بڑا بھائی ہوں تمہارا پاپا کے بعد میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ تمھیں کبھی اُنکی کمی محسوس نا ہو اور میں یہ سب تمہیں ہر گز بھی جتا نہیں رہا ہوں میں بس یہ چاہتا ہوں کہ جس طرح سے تم میری عزت کرتی ہو، مجھ سے محبت کرتی ہو، وہی احترام وہی پیار تم ارمش کو بھی دو۔۔۔۔۔۔
اور ہاں ایک آخری بات۔ اب یہ مت سوچنے بیٹھ جانا کہ اُسنے تمہارا بھائی چھین لیا ہے تم سے، تم نے بھی دیکھا ہی ہوگا وہ میڈم مجھ سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں کرتی ہے۔ میرے لیۓ تم دونوں ہی عزیز ہو دونوں کا اپنا اپنا مقام ہے نہ وہ تمہاری جگہ لے سکتی ہے نہ تم اُسکی۔
بس میں گھر کا ماحول پُر سکون دیکھنا چاہتا ہوں ساتھ ہی تمہیں بھی فضول سوچوں میں غرق اپنے آج کو ضائع کرتا نہیں دیکھ سکتا۔ مجھے امید ہے میری باتیں تمھیں سمجھ آ چکی ہوں گی۔"
زرلش کے نزدیک صوفے پر بیٹھ کر ایک ہاتھ اُسکے شانوں پر پھیلائے بہت نرم مگر سنجیدہ لب و لہجے میں وہ زری تک اپنی بات پہنچا رہا تھا۔
ارمش ضمان کی ذمےداری تھی، اُسکی عزت کروانا ضمان کا فرض تھا۔ وقت رہے زرلش کو سیدھی راہ پر لے آنے میں ہی بہتری تھی تبھی ضمان آج زرلش کو اُسکی غلطی کا احساس دلانے کے ساتھ ارمش کا مقام بھی واضح کر چکا تھا۔
"آئی ایم سوری بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ میں واقعی شرمندہ ہوں!!
انشاءاللہ آئندہ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"
ضمان کی باتوں نے واقعی اسے شرمندہ کیا تھا یہ سوچ کر کہ وہ اپنی بھابی کے بارے میں اتنی گھٹیا سوچ اپنے ذہن میں کیسے لا سکتی ہے، اسے اپنے آپ پر جی بھر کر طیش آیا تھا۔ دل ہی دل میں اپنے آپ کو ڈپٹ کر وہ یہ سوچ ہمیشہ کے لئے اپنے دل سے نکالنے کا عہد کرتے نظریں جھکائے گویا ہوئی کیونکہ ضمان کی باتیں سن کر سر اٹھانا محال تھا۔
"اِدھر دیکھو زری۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا میں نے کوئی بھی بات تمہیں شرمندہ کرنے کی غرض سے نہیں کی، میرا مقصد صرف تمہاری رہنمائی کرنا تھا اور میں جانتا ہوں میرا بچہ دل کا بُرا نہیں ہے۔ معافی شافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے آئی سمجھ؟
خیر چھوڑو یہ سب اور بتاؤ دن کیسا گزرا؟"
زری کا شرمندہ ہونا بھی برداشت نہیں تھا تبھی مدعا بدل کر ہلکی پھلکی باتوں کی جانب رخ کر دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ضمان ایک پرفیکٹ فیملی مین تھا۔ اپنے سے جڑے رشتوں کی قدر و قیمت سے آشنا ہر ایک کو بھرپور توجہ دینے والا بہترین بیٹا اور اعلیٰ بھائی۔ دیکھنا یہ تھا کہ کیا وہ کامل شریکِ حیات بھی بننے والا تھا یا پھر اس رشتے کے تقاضوں میں ناکامی ضمان کا مقدر بننے والی تھی۔
♡-----------------------------------------♡
"ارمش باہر آنا ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رفیعہ بیگم اور مبشرہ بیگم ایک طرف بیٹھی اپنی باتوں میں مگن تھیں۔
زرلش اور ارمش دانتوں میں انگلیاں دیے پوری توجہ سے چیس بورڈ کو دیکھ رہیں تھیں، جبکہ مصطفٰی رند اور عالی بھی ماتھے پر بل چڑھائے اپنی چال سوچنے میں غرق تھے جب ضمان کی آواز نے سارا طلسم برباد کیا۔
جہاں ایک لمحے کے لئے ضمان پر نظر ڈالنے کے بعد زری، عالی اور مصطفٰی صاحب پھر سے اپنے کام میں مشغول ہوگئے تھے وہیں ضمان کے باہر کی طرف چل دینے پر ارمش بھی سنی ان سنی کرتے دوبارہ شطرنج کی طرف متوجہ ہوگئی۔
"ارمش باہر آنا ذرا۔۔۔۔۔۔ ہنہہہہ۔۔۔۔۔۔۔ ارمش تو جیسے بیٹھی ہی صاحب کے حُکم بجا لانے کے لئے ہے۔"
دل ہی دل میں ضمان کے الفاظ دوہرا کر سب کو اپنے مشاغل میں مصروف دیکھ موقع غنیمت جان کر ضمان کے بلاوے کو سرے سے نظر انداز کیا تھا۔ ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا انکا نکاح ہوئے اب تو ضمان کو نظر انداز کرنے میں وہ مہارت حاصل کر چکی تھی، ایسا ارمش کا خیال تھا اس بات سے انجان کہ وہ خود اسے ڈھیل دے رہا ہے اس رشتے کو سمجھنے کے لیے اور دل سے قبول کرنے کے لئے۔
"ارمش! ضمان نے بلایا ہے ناں؟ جاؤ دیکھو کیا کہہ رہا ہے۔"
ضمان کا بلانا ارمش کا منہ بنانا اور پھر دھٹائی کا مظاہرہ کرنا مبشرہ بیگم کی زیرک نگاہوں سے کُچھ نا چھپا تھا۔
ارمش کے انداز پر انہیں غُصّہ تو بہت آیا تھا جسے بعد کے لئے اٹھا کر رکھتے اُنہوں نے ارمش کو مخاطب کیا۔
"جی مما؟
ہمممم۔۔۔۔۔ جا تو رہی ہوں۔
اٹھنے لگی تھی بس۔"
وہ جو مزے سے مصطفٰی صاحب کے چال چلنے پر عالی کا کھلا ہوا منہ دیکھ رہی تھی مبشرہ بیگم کی آواز پر متوجہ ہوئی جو کڑے چتونوں سے اسے ہی گھور رہی تھیں۔ اس سے پہلے عزت افزائی کا سیشن شروع ہوتا خاموشی سے اُٹھ جانے میں عافیت جان کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ دل ہی دل میں کُچھ متفکر بھی تھی کہ نکاح کے بعد سے اب تک سب کے سامنے یا پھر چلتے پھرتے نظر آنے پر ہی اس نے مخاطب کیا تھا۔ آج کا الگ بلانا قابلِ تشویش تھا۔
♡------------------------------------------♡
"گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ارمش باہر آئی تو روش پر گاڑی کھڑی دیکھ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے گاڑی میں بیٹھے ضمان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ ارمش کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ضمان جواباً گویا ہوا۔
"یہیں بتا دیں جو بھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں بیٹھنا۔"
نظریں لان میں لگی رات کے اندھیرے کے سوگ میں مرجھائی پھلواری پر ٹکائے ممکنہ حد تک عام سے لہجے میں گویا ہوئی۔
"میں زبردستی کرنا نہیں چاہتا، پر تمہیں بات ایک بار میں سمجھ بھی نہیں آتی۔
خاموشی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھو اگر میں نے خود بٹھایا تو یقیناً تمہیں پسند نہیں آئے گا۔"
سٹیئرنگ پر ہاتھ جمائے کرخت لہجہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ وہ واقعی بحث کے موڈ میں نہیں ہے۔
چند لمحے ضمان کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے پہلے تو وہ بھی اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی پر نا جانے آج ضمان کی نگاہوں میں ایسا کیا تھا کہ ارمش نا چاہتے ہوئے بھی خاموشی سے دوسری طرف آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
پندرہ منٹ کے راستے میں گاڑی مُسلسل سناٹوں کی زد میں رہی تھی، جہاں ضمان کی نظریں ونڈ سکرین پر ٹکی تھیں وہیں ارمش جو باہر سے چٹانوں جیسی مضبوطی دکھا رہی تھی اندر ہی اندر ضمان کے طیش سے سہمی اس سوچ میں غرق تھی کہ ایک مہینے کا بدلہ وہ کس طرح لینے والا ہے۔ اور پھر ضمان کے عمل کا ردِ عمل ارمش کو کس طرح ظاہر کرنا ہے۔
"ڈرنا نہیں ہے ارمش مگسی، بس ڈرنا نہیں ہے!"
دل میں سو طرح کے وسوسے لیئے عرق آلود پیشانی کے ساتھ وہ اپنے آپ کو خود ہی تسلی دے رہی تھی۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد گاڑی ساحل کنارے قدرے گنجان علاقے میں رکی تھی۔ رات کے اس پہر اکّا دکّا افراد کے علاوہ وہاں اس وقت چاند کی چاندنی اور لہروں کے شور کے سوا کچھ نہ تھا۔
"کیوں لائے ہیں یہاں؟"
ضمان کی قیادت میں چلتی ارمش لہروں سے دور بینچ پر ضمان کو بیٹھتا دیکھ خود بھی اُسکے پہلو میں ٹک گئی تھی۔ ایک بار پھر چند ساعتیں خاموشی کی نظر ہوئیں تو اپنے قریب بینچ پر رکھا ارمش کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ مخروطی اُنگلیوں کی جانب یوں متوجہ ہوا جیسے ارمش کا ہاتھ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو۔ کُچھ دیر ضمان کی نرم گرفت سے ہاتھ چھڑانے کے لئے زور آزمائی کرنے کے بعد کوشش رائیگاں جاتے دیکھ زِچ ہو کر سوالی ہوئی۔
"یونہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنے کے لیئے۔"
نظریں ابھی بھی ہاتھوں میں الجھے ہاتھ پر ہی ٹکی تھیں جبکہ اب توجہ کا مرکز نکاح والے دن بیچ کی اُنگلی میں پہنائی گئی نازک مگر قیمتی ہیروں جڑی انگوٹھی تھی۔
ہزار شکووں کے باوجود اُسنے ضمان کا دیا گیا تحفہ بے مول نا کیا تھا، اس سوچ کی آمد عنابی لبوں پر مطمئن سی مسکراہٹ بکھیر چکی تھی۔
"اب ایسے تو مت گھورو۔ آج نہیں تو کل ہمیں اس رشتے کی طرف قدم بڑھانے تو ہیں ہی ناں؟ تو شروعات آج سے ہی کیوں نہ کریں؟"
ضمان کے جواب پر وہ واقعی اُلجھن کا شکار ہوئی تھی کیوں گزارنا چاہتا تھا وہ ارمش کے ساتھ وقت؟؟؟ اپنی اُلجھن کا اعلان آنکھوں کے ذریعے برملا کیا تو ضمان نے بھی نرم لہجے میں اپنا مدعا کہہ سنایا۔
"آئی ایم سوری یار۔۔۔۔۔۔"
اپنی بات پر ارمش کے چہرے پر بکھرتے اذیت بھرے تاثرات کے ساتھ استہزائیہ مُسکراہٹ پر ضمان کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو بیساختہ ہی لبوں پہ معافی آئی تھی۔
"کس لیئے؟"
حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا ارمش مگسی کو۔ ضمان رند اور معافی؟ تصّور ہی محال تھا. پر یقین کرنا تھا، موقع ضائع نہیں ہونے دینا تھا تبھی بہت جلد احساسات پر قابو پا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گویا ہوئی ہاتھ ابھی بھی ضمان کی گرفت میں ہی تھا وقت کے ساتھ ساتھ جس میں سختی کا عنصر بڑھتا جا رہا تھا۔
"ہر زیادتی، ہر کوتاہی کے لئے۔ میں جانتا ہوں ارمش، میرا طریقہ غلط تھا۔ مجھے اپنے کئے کا احساس ہے۔ جو ہوچکا میں وہ بدل نہیں سکتا پر ایک موقع، صرف ایک موقع دے کر تو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے کیے کا مداوا کرنا چاہتا ہوں۔ میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔"
لہجے میں عجیب سی بے چینی تھی، آج تک اپنی من مانی کرنے والا ضمان ارمش کے آگے بے بس ہوگیا تھا۔
"میں کیوں معاف کروں؟"
دل کی بات زبان پر لاتے ضمان کا صبر آزمانے کی کوشش کی تھی۔
ضمان رند کا یہ روپ ہر گز بھی قابلِ اعتبار نہ تھا ارمش کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ابھی ضمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا ابھی وہ دوبارہ اپنی رو میں پلٹ جائے گا۔
"مت کرو معاف۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنی ناراضگی پر قائم رہو پر موقع تو دو اس رشتے کو۔ کچھ وقت تو دو میں وعدہ کرتا ہوں تم ایک قدم آگے بڑھاؤ گی میں چار قدم خود طے کرلوں گا۔"
رشتوں میں کھرا شخص کیسے اپنی نصف بہتر کے معاملے میں غافل ہو سکتا تھا؟ خود سے کیا وعدہ بھی تو نبھانا تھا۔ ارمش کے قدموں میں دُنیا جہان کی خوشیاں بھی تو ڈھیر کرنی تھی۔
"ٹھیک ہے، کل سے ہسپتال تم میرے ساتھ آیا اور جایا کروگی۔ پلیز ارمش؟؟؟ ایک ساتھ وقت گزاریں گے تبھی تو ایک دوسرے کو سمجھ پائیں گے ناں؟"
ارمش کی خاموشی پر شے ملی تو مزید گویا ہوا، ارمش کو لب وا کرتے دیکھ فوراً ہی ٹوک کر اپنی بات پر زور دیا۔
"میں نے معاف پھر بھی نہیں کیا ہے۔"
اپنی بات پر اڑی وہ یاد دھیانی کروانا ہر گز بھی نہ بھولی تھی۔ ضمان کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ ساتھ وقت گزاریں گے۔ آگے کے راستے ہموار وہ خود کر لے گا۔ اتنا تو اپنے آپ پر اُسے یقین تھا ہی۔
♡-------------------------------------------♡
دو دن سے ارمش ضمان کے ہی ہمراہ ہسپتال آتی جاتی تھی۔ دو دن پہلے صبح ناشتے کے بعد جونہی ارمش مصطفٰی صاحب کے ہمراہ جانے کے درپے ہوئی، ضمان نے فوراً ہی مصطفیٰ صاحب سے ارمش کو اپنے ساتھ لے جانے کی اجازت طلب کر لی تھی۔ اُنہیں کیا اعتراض ہونا تھا بھلا؟ اجازت ملتے ہی ضمان ارمش کو ساتھ لیۓ ہسپتال کی جانب چل دیا تھا۔ ارمش جو انتظار کر رہی تھی کہ بات نا ماننے پر پھر سے ضمان دانٹے گا پورا رستہ خیر و عافیت سے گزرا تو حیرانی آپ ہی سوا نیزے پر سوار ہوگئی۔ ان دو دنوں میں جو واحد تبدیلی آئی تھی وہ بس ساتھ آنا جانا ہی تھا۔ بات اب بھی صرف کام کی حد تک ہی ہوتی تھی اور جو چیز ہمیشہ سے ارمش کو کھلتی تھی وہ بھی جوں کی توں برقرار تھی، دورانِ مشق اب بھی وہ ضمان کی گھوریوں کا شکار رہتی تھی۔ جن امور پر آٹھ سال کی محنت کے بعد ضمان نے سبقت حاصل کی تھی وہ سب کام وہ ارمش سے پہلے سال میں ہی کاملیت سے سر انجام دینے کا خواہشمند تھا۔ آج تو ایک غلطی پر جونیئر ڈاکٹرز کے سامنے ڈانٹ بھی چکا تھا۔
ابھی پانچ منٹ پہلے دوسری شفٹ کے ڈاکٹرز نے جب اپنی نشستیں سنبھالیں تو ضمان بھی ارمش کو واپس چلنے کا کہتے خود گاڑی لینے چل دیا۔
پانچ منٹ سے بلاوجہ ہی وہ کامن روم میں بیٹھی اپنی دانست میں ڈانٹ کا بدلہ لیتے ضمان کو انتظار کروا رہی تھی۔ پانچ منٹ گزرنے کے بعد جب تسلی ہوئی کہ وہ اب تک تو زچ ہو چکا ہوگا تو بیگ اٹھا کر باہر کی جانب چل دی۔
"ارمش تم ناں عادی ہو چُکی ہو ڈانٹ کھانے کی اور بے عزت ہونے کی، کیوں بلاوجہ کے پنگے لے رہی ہو!! ہائے رے ارمش تم اور تمہارے معصومانہ انتقام!!"
اپنی حرکت پر خود کو کوستی جو چند ثانیے قبل دیر کر رہی تھی اب خود ہی تیز رفتاری سے کام لینےلگی۔
مرکزی دروازہ عبور کرتے باہر آئی تو دروازہ سے کُچھ ہٹ کر گاڑی میں بیٹھے ضمان کو اپنے انتظار میں محو پایا۔ لمحے کی تاخیر کیے بغیر وہ پیسنجر سیٹ سنبھال چکی تھی۔
چند لمحے خاموشی کی نذر ہوئے تو راستے میں ورد کی جانے والی آیت الکرسی کا اثر جانتے ارمش نے بھی سکون کا سانس لیا تھا۔
"کل رات تیار رہنا، میرے دوستوں نے پارٹی ارینج کی ہے تمہارے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں زری کو کہہ دونگا کہ تمہاری مدد کردے۔
اور تمھیں شاپنگ کی بھی یقیناََ ضرورت پڑے گی، میں چل دیتا پر مجھے کوئی خاص تجربہ نہیں ہے خواتین کی شاپنگ کا۔ تم چاہو تو خود چلی جانا زری کے ساتھ ورنہ وہ منیج کر لے گی۔"
ونڈسکرین پر نظریں ٹکائے وہ بہت عام سے لہجے میں ارمش سے مخاطب تھا۔
"میں نے اس گھر کے رشتوں کو مضبوط کرنے کی خاطر تم جیسی کلاس لیس لڑکی کو قبول کیا، جسے نا اوڑھنے کی تمیز ہے نہ پہننے کی!!"
ابھی چند روز قبل ہی تو وہ ارمش کو اُسکی اوقات یاد دلا رہا تھا۔ ان چند دنوں میں اُسکی شخصیت میں ایسا بھی کیا بدلاؤ آگیا کہ وہ اپنے دوستوں سے متعارف کروانا چاہ رہا ہے۔
"مجھے کہیں نہیں جانا آپ کے ساتھ۔۔۔۔۔۔"
ماضی کی سوچیں دماغ پر حاوی ہوئیں تو لہجے میں تلخی آپ ہی گھل گئی۔
"میں نے پوچھا نہیں ہے ارمش! تم کیوں میرا صبر آزماتی رہتی ہو؟ ایک ڈنر ہی کی تو بات ہے۔
ٹھیک ہے کہ آج تک تم کہیں نہیں جاتیں تھیں پر اب تم میریڈ ہو۔ لوگوں کا سامنا کرنا سیکھو۔ یہ رشتہ ہم دونوں کا ہے، مانا کہ میری خواہش ہے ، پر بدلنا ہم دونوں کو پڑے گا۔"
اپنی طرف سے ہر ممکنہ کوشش کے باوجود ارمش کے برتاؤ سے محض دس دن میں ہی ضمان اُکتاہٹ کا شکار ہوچکا تھا۔ تا حیات ساتھ نبھانے کا عہد کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ اپنے عہد پر قائم رہنا اتنا ہی مشکل۔
"میں نہیں بدلوں گی اپنے آپ کو! میں جیسی ہوں ویسی ہی رہوں گی۔ اگر آپ کو مجھ سے یا میرے رہن سہن سے یا میرے پہنے اوڑھنے سے مسئلہ ہے تو وہ آپکا مسئلہ ہے میرا نہیں۔
بچپن سے آپ کے سامنے ہی پلی بڑھی ہوں، اگر آپ کو میری شخصیت سے، میرے لباس سے اتنا ہی مسئلہ تھا تو کسی ایسی لڑکی سے شادی کرتے جو آپ کے شایانِ شان ہوتی!! آپ کے ساتھ قدم ملا کر چل سکتی۔ میں نے نہیں کہا تھا کہ مجھ جیسی "کلاس لیس لڑکی" سے شادی کر لیں!!"
ضمان کی بدلنے والی بات کو اپنی مرضی کا رخ دیتے وہ اپنے آپ کو ہی درد سے دو چار کر رہی تھی۔
ضمان تو ارمش کی گفتگو پر حقّہ بقّہ ہی رہ گیا تھا، اس کا مطلب وہ تو ہر گز نہیں تھا جو ارمش اخذ کر چکی تھی۔
"ارمش۔۔۔۔۔۔ بےبی۔۔۔۔۔۔ غلط سمجھ رہی ہو تم۔
میں تمہیں بدلنا نہیں چاہتا۔ تم جیسی ہو مجھے ویسی ہی عزیز ہو یار۔ میرا مطلب بس اتنا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔"
الفاظ نے بھی دھوکہ دے دیا تھا۔ گاڑی سڑک کنارے لگائے ارمش کو حصار میں لینے کی کوشش کی تھی جسے بری طرح جھٹک کر ضائع کرتے وہ نم آنکھوں کے ساتھ رخ موڑ گئی تھی۔
لاکھ کوششوں کے باوجود یہ رشتہ بہتری کی جانب گامزن ہونے کے بجائے مُسلسل بد گمانیوں کی کھائی کی نذر ہوئے جارہا تھا۔
اپنے حالات پر لب بھینچے گاڑی سٹارٹ کیے گھر کا رُخ کرتے وہ خدا سے صبر و استقامت کا طلبگار تھا۔ جس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو بدلنے کا حوصلہ پیدا کر سکے۔
♡-------------------------------------------♡
"ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضمان بتا رہا تھا کہ اُس کے دوستوں نے ڈنر پلان کیا ہے تمہارے لئے؟
کیا پہنو گی؟
اگر فری ہو تو میرے ساتھ شاپنگ پر چل دو۔ ابھی تک تو کوئی فارمل ڈنر تم اٹینڈ نہیں کرتی تھیں پر اب تو جانا ہوگا ناں۔۔۔"
مصطفٰی صاحب کے کمرے میں بیٹھی ارمش معمول کا چیک اپ کرنے کے ساتھ خوش گپیوں میں مشغول تھی جب کُچھ یاد آنے پر ہاتھ میں پکڑا رسالہ سائڈر پر رکھتی مبشرہ بیگم ارمش سے مخاطب ہوئیں۔
"مما مجھے نہیں جانا کہیں، جب وہ جانتے ہیں کہ میں نہیں جاتی دعوتوں میں، تو اُنہیں خود ہی منع کر دینا چاہیے تھا۔ جس نے دعوت قبول کی ہے وہی نمٹائے میں نہیں جاؤں گی کہیں۔"
دو گھنٹے پہلے ضمان سے کی گئی بحث اور پھر مبشرہ بیگم کا دوبارہ وہی ذکر چھیڑنا۔ ارمش زچ نا ہوتی تو کیا کرتی؟ آواز خود بخود بلند ہوگئی تھی۔
"یہ کس لہجے میں بات کر رہی ہو مش؟
جانا ہے یا نہیں، میں نے یہ تو نہیں پوچھا تم سے۔ یہ تم دونوں میاں بیوی کا معاملہ ہے۔
صرف شاپنگ کا کہا تھا دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر۔ میں تو ماں ہوں ناں؟ جانتی ہوں بہت بڑی ہوگئی ہو پر پھر بھی تمہاری ضرورتوں کی فکر میں ہلکان رہتی ہوں۔
نہیں جانا مت جاؤ پر یہ زبان کی تیزی بھی مت دکھاؤ۔"
اپنی دانست میں تو ارمش نے کُچھ غلط نہیں کہا تھا پر مبشرہ بیگم کی آواز میں نمی محسوس کرتے لمحے کے ہزارویں حصے میں اپنی لہجے کی تیزی پر شرمندہ ہوئی تھی۔
"مما۔۔۔۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔۔۔۔ غلطی ہو گئی۔ پلیز معاف کر دیں۔"
تڑپ کر گلے میں باہیں ڈالے مبشرہ بیگم کی اُداسی پر وہ خود بھی گریاں ہوگئی تھی۔ نیلی آنکھیں آپ ہی نمکین پانی کا چشمہ بن کر بہہ گئیں۔
"میرا کیا ہے۔ ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوں، رہ ہی نہیں سکتی ناراض پر کل کو دوسرے گھر جانا ہے شادی کے بعد، سگی خالہ بھی خالہ نہیں رہتی۔
میں بدگماں نہیں کرنا چاہتی تمہیں کسی رشتے سے پر جو سچ ہے وہ سچ ہے۔ آج مجھ سے بد کلامی کی ہے کل کو رخصتی کے بعد آپی سے اس لہجے میں بات کی تو بتاؤ میری کیا عزت رہ جائے گی؟ کہ میں نے بڑے چھوٹے کی تمیز نہیں سکھائی؟"
ارمش کے آنسوؤں نے پل میں موم کیا تھا پر غلطی کا احساس دلانا انکا فرض تھا۔
"سوری ناں! آئندہ نہیں ہوگا پکّا!"
کان پکڑے نظریں جھکائے وہ واقعی شرمندہ تھی۔
"یہ تو آئندہ ہی پتا چلے گا کہ کتنا اثر ہوا ہے۔
چلو جاؤ اب اپنے کمرے میں دیر ہوگئی ہے۔"
جواب مصطفٰی صاحب کی طرف سے آیا تھا۔ جسے سن کر منہ پُھلائے شب بخیر کہتی کمرے سے نکل گئی تھی۔
♡------------------------------------------♡
کھڑکی کے شیشے سے چھن کر آتی چاند کی روشنی نے کمرے کو فسوں خیز، نیم اُجالے سے معطر کیا ہوا تھا۔
سپیکر پر مدھم سروں میں ارمش کے پسندیدہ بینڈ بی-ٹی-ایس کے میجک شاپ گانے کے بول کمرے کی فضا میں گونج رہے تھے۔ بیڈ پر دراز ایک ہاتھ آنکھوں پر رکھے جبکہ ایک ہاتھ میں تکیہ پکڑے ارمش اپنی زندگی کی تلخیوں کو فراموش کرنے کی کوشش کرتے اچھے وقتوں کی یادیں تازہ کر رہی تھی۔
اُسے آج بھی اچھے سے یاد تھا کہ ضمان ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا، وہ تو ارمش کے ساتھ حد درجہ نرم اور شفیق رویہ اختیار کرتا تھا۔
عالی اور زری اکثر ارمش کو تنگ کرنے کی وجہ سے ضمان کی ڈانٹ پھٹکار کا نشانہ بنتے تھے۔
کیا جو نکاح سے چند روز قبل اُسنے رویہ اپنایا وہ ہمیشہ سے تھا؟ ایک اور سوال دماغ میں اُٹھا تھا۔
نہیں۔۔۔۔۔۔۔
ناپسندیدگی ایک طرف پر کبھی نیت میں کھوٹ نہیں تھی۔
عزت تو کرتا تھا۔
تو پھر ایسا کیا ہوا؟ کیا صرف میرا انکار ہی رویے کی تبدیلی کی بنیاد بنا؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوا ہے تو وہ شخص کتنا گھٹیا ہوگا جو اپنی انا کی خاطر اس حد تک گر گیا؟
نا چاہتے ہوئے بھی سوچ کے تانے بانے ضمان کے خیالات ہی بن رہے تھے، اپنی سوچوں کے گرداب میں پھنسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کب کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور کوئی اندر بھی آگیا۔
آنے والے نے کمرے کی لائٹس کھولنے پر اُجالے کے احساس سے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹایا تو خیالوں سے باہر حقیقت کی دنیا میں بھی اسی شخص کو پایا۔
پر آج ہمیشہ کی طرح خوف نے دل پر دستک نہ دی تھی۔ خالی الذہنی سے وہ ضمان کی حرکات و سکنات ملاحظہ کر رہی تھی جو ہاتھوں میں تین مختلف برانڈ کے بیگز صوفے پر رکھنے کے بعد اب ارمش کی جانب متوجہ تھا۔
"مجھے کچھ چیزیں خریدنی تھیں اس لیے گیا تھا مال۔۔۔۔۔۔ یہ تمہارے لیے پسند آیا تو لے آیا اور زری کی قسم یہ سب میں خود ہی لایا ہوں اس سے نہیں منگوایا کچھ بھی، اور نہ ہی اس لیۓ لایا ہوں کہ تم یہی پہن کر چلو میرے ساتھ۔
تمہیں جو پہننا ہو تمہاری مرضی ہے پہن لینا۔ ویسے میں نے کوشش کی تھی کہ جن کپڑوں میں تم آرامدہ محسوس کرو وہی لوں۔۔۔۔۔"
ارمش کو خاموشی سے بیگز کی جانب متوجہ دیکھ بیڈ کی دوسری طرف ایک پیر موڑ کر جبکہ دوسرا نیچے لٹکائے بیٹھ کر گویا ہوا۔
گاڑی میں اپنی باتوں کا ارمش کو غلط مطلب لیتا دیکھ وہ جب سے گھر آیا تھا مُسلسل گوگل پر رشتوں میں راستے ہموار کرنے کی ترکیبیں تلاش رہا تھا۔ جب بات چیت واحد حل ملا تو کُچھ سوچ کر شاپنگ کی غرض سے باہر نکل گیا۔
ابھی کچھ دیر قبل ہی واپسی ہوئی تھی اور اب اس وقت تھیوری کا پریکٹکل دینے وہ ارمش کی آرامگاہ میں موجود تھا۔
"میں جو چاہوں وہی پہن کر چل سکتی ہوں؟؟ سوچ لیں اپنے جدید تراش خراش سے سجے دوستوں میں کہیں میری وجہ سے شرمندہ نہ ہوجائیں۔۔۔۔"
ضمان کا لب و لہجہ اور اس پر تضاد چہرے پر نرم مسکراہٹ چاہ کر بھی ارمش سے ہضم نہ ہو پائی تھی۔ اور اب ویسے بھی ان باتوں کا کیا فائدہ تھا۔ وہ پہلے ہی ارمش کو اپنے خیالات سے آگاہی بخش چکا تھا تو اب کیونکر وہ اس فریب میں آتی؟
"میری بیوی سب سے مختلف اپنی پسند کے پہناوے میں لوگوں کی رائے کی فکر کیے بغیر اپنی سادگی میں بھی اُن سب مصنوئی کیل کانٹوں سے سجے لوگوں سے زیادہ پُر وقار لگتی ہے۔
جن لوگوں سے کل ملوانے لے جانا چاہتا ہوں انکے اور اُن جیسے بہت سے لوگوں کے سامنے بہت فخر سے تمہیں اپنی شریکِ حیات کے طور پر قبول میں پہلے ہی کر چکا ہوں۔ اب اگر ہو سکے تو کچھ رعایت تم بھی کردو، مانا کہ بہت کچھ غلط کیا ہے پر میں شرمندہ ہوں۔"
ہر انداز احساسِ ندامت کی عکاسی کر رہا تھا۔
"کیا واقعی ایک موقع دینا چاہیے؟"
ارمش نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
《ماضی》
"میرا بچہ ابی بتا تو رہے ہیں۔ کار پنکچر ہوگئی تھی اس لیئے لیٹ ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔
پلیز اب موڈ ٹھیک کر لو؟؟
پکّا والا وعدہ کل چلیں گے باہر ڈنر کے لئے۔ ابھی تو بہت رات ہوگئی ہے گھر میں ہی کھا لو کھانا پلیز!"
آج باپ بیٹی کا گاؤں سے کُچھ دور ہائی وے پر واقع ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کا ارادہ تھا جسے عابد مگسی کی گاڑی کے ٹائر نے پنکچر ہو کر بری طرح متاثر کیا۔
ساڑھے نو بجے عابد مگسی جب حویلی لوٹے تو برآمدے میں ہی ارمش کو منتظر پایا۔
اببی کی معذرت پر منہ پھلائے وہ اپنے کمرے میں آچکی تھی۔ پھر لاکھ اصرار کے باوجود نا وہ باپ سے کلام کر رہی تھی نا کھانا کھا رہی تھی۔
"پتا ہے ارمش اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر آپ اس کے بندوں کو معاف کرو گے تو وہ بھی آپ کی خطاؤں کو بخش دیتا ہے۔۔۔۔۔"
بہت عام سے لہجے میں کن آنکھوں سے ارمش کو دیکھتے وہ یہ بات کر تو محض ارمش کو منانے کی غرض سے رہے تھے پر ارمش نے بڑے دھیان سے نہ صرف بات سنی تھی بلکہ فوراََ سے پہلے عمل بھی کیا تھا۔۔۔۔۔
《حال》
"ٹھیک ہے چل دوں گی۔۔۔۔۔۔"
احسان کرنے کے سے انداز میں جوابدہ ہوئی۔
"پر آپ نے غلط کیا تھا اور ابھی میں آپکو جو یہ موقع دے رہی ہوں اُسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں کچھ بھی بھولی ہوں میری نرم دلی کو میری کمزوری مت سمجھیے گا۔"
لمحے کے فرق سے وہ ایک بار پھر گویا ہوئی تھی۔
ضمان کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ موقع دینے کے لئے تیار ہے۔
"مجھے چٹکی کاٹو۔۔۔۔۔۔۔"
ہاتھ آگے بڑھائے وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے آپ کو نوچنے کی فرمائش کر رہا تھا جسے دیکھ ارمش نے بس آنکھیں گھمانے پر ہی اکتفا کیا تھا۔
"چلو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ لڑائی تو ختم ہوگئی ناں؟ اب دوستی کر سکتے ہیں؟"
اپنی حرکت پر خود ہی مسکراتے وہ اب ہاتھ بڑھائے دوستی کا خواہشمند تھا۔
#بن_مانگے_ان_چاہے_سے_ہم
از_قلم :#عروج_نقوی
قسط نمبر:
"گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ارمش باہر آئی تو روش پر گاڑی کھڑی دیکھ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے گاڑی میں بیٹھے ضمان کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ ارمش کی نظروں کا مفہوم سمجھتے ضمان جواباً گویا ہوا۔
"یہیں بتا دیں جو بھی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے نہیں بیٹھنا۔"
نظریں لان میں لگی رات کے اندھیرے کے سوگ میں مرجھائی پھلواری پر ٹکائے ممکنہ حد تک عام سے لہجے میں گویا ہوئی۔
"میں زبردستی کرنا نہیں چاہتا، پر تمہیں بات ایک بار میں سمجھ بھی نہیں آتی۔
خاموشی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھو اگر میں نے خود بٹھایا تو یقیناً تمہیں پسند نہیں آئے گا۔"
سٹیئرنگ پر ہاتھ جمائے کرخت لہجہ اس بات کی چغلی کھا رہا تھا کہ وہ واقعی بحث کے موڈ میں نہیں ہے۔
چند لمحے ضمان کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے پہلے تو وہ بھی اپنے فیصلے پر ڈٹی رہی پر نا جانے آج ضمان کی نگاہوں میں ایسا کیا تھا کہ ارمش نا چاہتے ہوئے بھی خاموشی سے دوسری طرف آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
پندرہ منٹ کے راستے میں گاڑی مُسلسل سناٹوں کی زد میں رہی تھی، جہاں ضمان کی نظریں ونڈ سکرین پر ٹکی تھیں وہیں ارمش جو باہر سے چٹانوں جیسی مضبوطی دکھا رہی تھی اندر ہی اندر ضمان کے طیش سے سہمی اس سوچ میں غرق تھی کہ ایک مہینے کا بدلہ وہ کس طرح لینے والا ہے۔ اور پھر ضمان کے عمل کا ردِ عمل ارمش کو کس طرح ظاہر کرنا ہے۔
"ڈرنا نہیں ہے ارمش مگسی، بس ڈرنا نہیں ہے!"
دل میں سو طرح کے وسوسے لیئے عرق آلود پیشانی کے ساتھ وہ اپنے آپ کو خود ہی تسلی دے رہی تھی۔
ٹھیک پندرہ منٹ بعد گاڑی ساحل کنارے قدرے گنجان علاقے میں رکی تھی۔ رات کے اس پہر اکّا دکّا افراد کے علاوہ وہاں اس وقت چاند کی چاندنی اور لہروں کے شور کے سوا کچھ نہ تھا۔
"کیوں لائے ہیں یہاں؟"
ضمان کی قیادت میں چلتی ارمش لہروں سے دور بینچ پر ضمان کو بیٹھتا دیکھ خود بھی اُسکے پہلو میں ٹک گئی تھی۔ ایک بار پھر چند ساعتیں خاموشی کی نظر ہوئیں تو اپنے قریب بینچ پر رکھا ارمش کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر وہ مخروطی اُنگلیوں کی جانب یوں متوجہ ہوا جیسے ارمش کا ہاتھ دنیا کا آٹھواں عجوبہ ہو۔ کُچھ دیر ضمان کی نرم گرفت سے ہاتھ چھڑانے کے لئے زور آزمائی کرنے کے بعد کوشش رائیگاں جاتے دیکھ زِچ ہو کر سوالی ہوئی۔
"یونہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کُچھ وقت تمہارے ساتھ گزارنے کے لیئے۔"
نظریں ابھی بھی ہاتھوں میں الجھے ہاتھ پر ہی ٹکی تھیں جبکہ اب توجہ کا مرکز نکاح والے دن بیچ کی اُنگلی میں پہنائی گئی نازک مگر قیمتی ہیروں جڑی انگوٹھی تھی۔
ہزار شکووں کے باوجود اُسنے ضمان کا دیا گیا تحفہ بے مول نا کیا تھا، اس سوچ کی آمد عنابی لبوں پر مطمئن سی مسکراہٹ بکھیر چکی تھی۔
"اب ایسے تو مت گھورو۔ آج نہیں تو کل ہمیں اس رشتے کی طرف قدم بڑھانے تو ہیں ہی ناں؟ تو شروعات آج سے کیوں نہ کریں؟"
ضمان کے جواب پر وہ واقعی اُلجھن کا شکار ہوئی تھی کیوں گزارنا چاہتا تھا وہ ارمش کے ساتھ وقت؟؟؟ اپنی اُلجھن کا اعلان آنکھوں کے ذریعے برملا کیا تو ضمان نے بھی نرم لہجے میں اپنا مدعا کہہ سنایا۔
"آئی ایم سوری یار۔۔۔۔۔۔"
اپنی بات پر ارمش کے چہرے پر بکھرتے اذیت بھرے تاثرات کے ساتھ استہزائیہ مُسکراہٹ پر ضمان کو یوں محسوس ہوا جیسے کسی نے دل مٹھی میں جکڑ لیا ہو بیساختہ ہی لبوں پہ معافی آئی تھی۔
"کس لیئے؟"
حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا ارمش مگسی کو۔ ضمان رند اور معافی؟ تصّور ہی محال تھا. پر یقین کرنا تھا، موقع ضائع نہیں ہونے دینا تھا تبھی بہت جلد احساسات پر قابو پا کر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گویا ہوئی ہاتھ ابھی بھی ضمان کی گرفت میں ہی تھا وقت کے ساتھ ساتھ جس میں سختی کا عنصر بڑھتا جا رہا تھا۔
"ہر زیادتی، ہر کوتاہی کے لئے۔ میں جانتا ہوں ارمش، میرا طریقہ غلط تھا۔ مجھے اپنے کئے کا احساس ہے۔ جو ہوچکا میں وہ بدل نہیں سکتا پر ایک موقع، صرف ایک موقع دے کر تو دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنے کیے کا مداوا کرنا چاہتا ہوں۔ میں دل سے معذرت خواہ ہوں۔"
لہجے میں عجیب سی بے چینی تھی، آج تک اپنی من مانی کرنے والا ضمان ارمش کے آگے بے بس ہوگیا تھا۔
"میں کیوں معاف کروں؟"
دل کی بات زبان پر لاتے ضمان کا صبر آزمانے کی کوشش کی تھی۔
ضمان رند کا یہ روپ ہر گز بھی قابلِ اعتبار نہ تھا ارمش کو یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ابھی ضمان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے گا ابھی وہ دوبارہ اپنی رو میں پلٹ جائے گا۔
"مت کرو معاف۔۔۔۔۔۔۔۔ تم اپنی ناراضگی پر قائم رہو پر موقع تو دو اس
"جی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور اب جائیں یہاں سے۔"
آنکھیں چھوٹی کیے ٹکا سا جواب دے کر کمبل درست کرتے ضمان کو باہر کا راستہ دکھایا تھا۔
"کرلو نخرے مسز رند، مسٹر رند کا بھی ٹائم آئے گا۔"
ارمش کے نخروں سے محظوظ ہوتے دہائی دی تھی، جسے سرے سے نظر انداز کیے وہ کروٹ لے کر آنکھیں موند گئی۔
"گڈ
جاتے جاتے نا جانے کیا سوجی تھی کہ اُلٹے قدموں چلتے ارمش کی جانب آ پہنچا۔
وہ جو آنکھیں بند کیے دروازہ بند ہونے کی آواز کا انتظار کر رہی تھی کنپٹی پر نرم لمس اور پھر کان میں ہونے والی سرگوشی پر سختی سے لب بھینچ کر چیخ کو اندر دبایا تھا۔
دل 120 کی رفتار پر دوڑ رہا تھا جب کہ گرم سانسوں کی حدت وہ چہرے پر صاف محسوس کر سکتی تھی۔۔۔ سارا اعتماد جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تھا۔
آنکھیں میچے کمبل کو سخت گرفت میں لئے گلابی گالوں والی لڑکی اب اکثر ہی اپنی اداؤں سے ضمان کے دل کے تار چھیڑ دیتی۔
اس سے پہلے کہ بے خودی میں کوئی گستاخی سرزد ہوجاتی ضمان پیچھے ہٹتا لمحے کی تاخیر کیے بغیر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
♡-----------------------------------------♡
"مما یار.... آپ کے پاس سلور کھسے تھے میں نے آپ کو پہنے دیکھا تھا۔۔۔ کہاں گئے؟؟؟"
مبشرہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوتے وہ سیدھا ڈریسنگ روم میں گھسا تھا ، اچھے سے شو ریک کھنگالنے کے بعد بھی جب من چاہی چیز نہ ملی تو مبشرہ بیگم سے استفسار کرنے کی غرض سے مڑا ۔ کمرے میں جانے کی ضرورت ہی نا پڑی تھی سینے پر بازو باندھے دیوار سے ٹیک لگائے وہ پہلے ہی اسکی کھوج کو بغور دیکھ رہیں تھیں۔ اپنی جانب متوجہ دیکھ جھنجھلا کر گویا ہوا۔
"کیوں؟؟؟
تمہیں کیا کرنا ہے میرے کھسوں کا؟"
بھنویں اُچکا کر سوالی ہوئیں ، انداز خاصہ تفتیشی تھا۔۔۔
"وہ کیا ہے نہ۔۔۔
مردانہ جوتے پہن پہن کر میں بیزار ہوگیا ہوں۔ تو سوچا کیوں نہ آج کُچھ نیا ٹرائی کیا جائے۔۔۔"
آنکھیں پٹپٹا کر شریملی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے جواب دیا تھا۔
"خُدا کو مانیں مما۔۔۔ ایسے شکی نظروں سے تو نہ دیکھیں۔۔ مش کے لیے لینے آیا تھا!! وہ بھائی جان کے ساتھ ڈنر پر جا رہی ہے نہ تو میں تیار ہونے میں مدد کر رہا تھا۔۔"
اپنے جواب پر مبشره بیگم کے تاثرات دیکھ چڑ کر ہاتھ باندھتے گویا ہوا۔۔
عالی کی اطلاع پر خوشی خوشی مطلوبہ جوتے نکال کر دیے تھے۔۔۔ جنھیں تھام کر اب اُسکا رخ اوپر کی جانب تھا۔۔
°°°°
"یار زری۔۔۔۔ وہ جو تم آنکھوں پر لگاتی ہو۔۔۔
وہی جس سے پلکیں بڑی بڑی لگتی ہیں۔۔۔
مکّار ، مکّارہ... پتا نہیں کیا کہتے ہیں۔۔ وہ تو دے دو۔"
زرلش کے دروازے پر دستک دینے کے بعد اجازت ملتے ہی کمرے میں داخل ہوا تھا ، پھر بغیر لگی لپٹی رکھے براہِ راست مدعا بیان کیا۔
"مش کے پاس ہے وہ۔۔۔ پر عجیب سا ہے سوکھا سوکھا۔۔" زرلش کی نظروں میں حیرت دیکھ کر فوری ارمش کا ذکر چھیڑا تھا ، کہ کہیں وہ بھی یہ نہ سمجھ بیٹھے کے اپنے لیئے مانگ رہا ہے۔۔
"مسکارا۔۔۔ خیریت؟ کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟ "
ارمش عالی کا گھومنا پھرنا معمول کی بات تھی ، پر ارمش کا میک اپ کرنا ہر گز معمولی نہیں تھا۔ تبھی ڈریسنگ سے مسکرا اٹھاتے سرسری سے انداز میں سوال کر بیٹھی۔
"ہم نہیں۔۔ ارمش۔۔ بھائی جان کے ساتھ جا رہی ہے۔۔ آؤ چلو تم بھی چل دو نیچے اگر فری ہو۔"
سراری سوال کا تفصیلی جواب دے کر نیچے چلنے کی پیشکش کی تھی جسے قبول کرتے زری بھی عالی کی تقلید میں نیچے چل پڑی۔۔۔
_________________________
"پرفیکٹ۔۔۔۔۔۔۔"
گھنی پلکوں پر مسکارے کی تہہ لگا کر مذید بوجھل کرنے کے بعد ایک تنقیدی جائزہ لیتے مسکرا کر تبصرہ کرتے پیچھے ہٹی تھی۔۔
چوڑی دار پاجامہ کے ساتھ گھٹنوں سے نیچے آتی مرون فورک جسکی یوک پر نفیس سی کڑاہی جوڑے میں چار چاند لگا رہی تھی ، ایک کندھے پر ہمرنگ دوپٹہ جبکہ دوسرے پر شہد رنگ غنگریالے بال ڈالے ہوئے تھے ،کانوں میں کڑاہی کے ہمرنگ سلور ٹاپس ڈالے سلور ہی کھسوں میں پیر مقید تھے۔ ہلکے میک اپ نے حسن کو مزید نکھار دیا تھا۔۔۔۔
ضمان کی لائی گئی کوئی بھی چیز استمعال نا ہو اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا۔۔
"آج تو بجلیاں گریں گی بھائی جان کے دل پر۔۔۔ خیر مناؤ ارمش بیبی۔ کہیں اسی ہفتے رخصتی نا کروا لیں۔۔۔ "
شوخ آواز میں چھیڑتے عالی تیسری بہن کا فرض انجام دے رہا تھا۔
"دفع ہوجاؤ عالی یہاں سے۔۔۔ "
پہلے سے گلابی گالوں پر بلش ان اور پھر اس پر تضاد عالی کی باتیں کانوں تک سُرخ ہوتے صوفے پر پڑا کشن پھینک کر مارا تھا۔
"ہاں بھئی!!!!! اب تو بھائی کو باہر ہی نکالو گی میاں جی جو آنے والے ہیں....
ویسے بڑی بے مروت ہوتی جا رہی ہو اتنی محنت سے چڑیل کو پری بنایا ، اوپر سے محترمہ مجھے ہی کمرے سے نکال رہی ہیں۔۔۔ ہائے افسوس سد افسوس۔۔۔ "
عالی کی زبان پر کسی طور بریک نہ لگتے دیکھ ارمش نے اُسے کمرے میں ہی چھوڑ کر باہر نکل جانا بہتر سمجھا تھا۔ ابھی چند قدم ہی لیے تھے کہ باہر کی طرف پہلے سے کھلے دروازے سے فرزانہ آتی نظر آئی۔۔
"وہ ارمش بی بی ضمان صاحب آپ کو باہر بلا رہے ہیں۔" ضمان کا پیغام عجلت سے پہنچا کر جن قدموں آئی تھی اُنہیں قدموں واپس جا چکی تھی۔
جبکہ پیچھے زری کی معنی خیز سیٹیوں اور عالی کی ہوٹنگ سے دامن بچاتے ارمش بھی فرزانہ کی تقلید میں باہر روانہ ہوگئی۔۔
"ماشاءاللہ!!
چشمِ بدور۔۔۔ کہیں جا رہی ہے میری شہزادی۔۔؟؟؟"
مرتضیٰ صاحب جو ابھی داخلی دروازے سے اندر آئے تھے ، ارمش کا سجا سنورا روپ دیکھ کر توصیفی انداز میں تعریف کرتے سوالی ہوئے تو موبائل کی جانب متوجہ ضمان بھی اسی کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ نظریں اٹھیں تو واپسی کی راہ بھول گئیں تمام تر حواس پری پیکر کے دو آتشہ حسن نے جیسے سلب کر لیے ہوں۔۔
"امممم۔۔۔ جی۔۔
جی پاپا وہ بھائی جان کے ساتھ۔۔۔۔"۔۔ ضمان کی آنچ دیتی نظروں کی مرون منت زبان بری طرح لڑکھڑائ تھی، الفاظ پھسل جانے کے بعد احساس ہوا تو بری طرح زبان دانتوں میں دے کر آگے بولنے سے روکا تھا۔۔۔
دوسری جانب وہ جسے ارمش کے سحر نے بری طرح جکڑا تھا۔ ارمش کی گوہر افشانیاں سن کر پل میں سارا فسوں ریت کی دیوار کی مانند ڈیھ گیا۔ چند لمحوں قبل جس شادابی نے وجیہہ چہرے پر ڈیرہ جمایا ہوا تھا پل میں اُڑن چھو ہوئی تھی، جبکہ اس وقت چہرے کے تاثرات یوں تھے جیسے بریانی کے نیوالے میں الائچی آگئ ہو۔۔
"کزن میریج کے سائڈ ایفیکٹس۔۔۔۔"
زری اور عالی نے چھت پھاڑ قہقہوں پر بمشکل قابو پایا ہی تھا ، کہ مصطفٰی رند کی کان کھوجاتے سرگوشی پر ایک بار پھر لاؤنج میں قہقہوں کی جل تھل ہوگئ۔۔۔
"میں گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔۔۔"
ایک شکوہ کناں نظر چاروں پر ڈال کر بگڑے تاثرات کے ساتھ ضمان نے باہر جانے میں ہی عافیت جانی۔
"بری بات ارمش۔۔۔ گناہ ہوتا ہے۔"
ہنسی تو بہت آ رہی تھی پر سمجھانا بھی اُنہیں ہی تھا تبھی کُچھ سنجیدگی کا خول چڑھاتے تنقید کی تھی۔
"پاپا غلطی سے نکل گیا۔۔۔ "
زری عالی کی مُسلسل ہنسی اور پھر ضمان کا کڑے چتّونوں سے باہر جانے پر روہانسی سی گویا ہوئی۔۔
"اچھا ٹھیک ہے موڈ ٹھیک کرو۔ آئندہ خیال رکھنا ابھی جاؤ جلدی سے باہر انتظار کر رہا ہوگا۔ "
مصطفٰی صاحب کے لیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ وہ کسی تقریب میں جانے کے لئے تیار تھی ، تبھی ارمش کا اعتماد بحال کرتے بغیر بات کو تول دیے روانہ کر دیا۔ جبکہ ارمش کے باہر نکل جانے کا یقین کرنے کے بعد جی کھول کر مسکرائے تھے۔۔۔
________________________
رات ساڑھے بارہ کا وقت تھا۔۔۔ کراچی کی سڑکوں پر دوڑتی گاڑی میں موجود دو نفوس جاتے وقت کی طرح واپسی پر بھی خاموشی سے روڈ پر نظریں ٹکائے بیٹھے تھے۔
دعوت خوش اسلوبی سے سر انجام پائی گئی تھی ، توقع کے بر عکس ارمش بہت جلد سب سے گھل مل گئ تھی۔ اس بات پر وہ خود بھی متفق تھی کہ اس میں کمال ضمان کے دوستوں کا تھا ، جو کہ ضمان کے بر عکس کافی حد تک ملنسار ثابت ہوئے تھے۔۔
شروعات میں تو ارمش نے اُنکی خوش اخلاقی پر پانی پھیرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ جہاں سب اس سے بات چیت کرنے کے لئے کوشاں تھے وہیں ارمش گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی تھی پر وہ سب بھی صابر تھے جنہوں نے ہار نا مانی۔۔
پھر کچھ ضمان کا ہر پل اپنی موجودگی کا احساس دلانے اور کُچھ خواتین کی نرم طبیعت نے ارمش کو کافی حد تک آسودگی بخشی تھی۔۔ پُورا وقت ضمان ارمش کے ساتھ رہا تھا ضمان کا ہر چھوٹے سے چھوٹے عمل ارمش کو اُسکی اہمیت جتلا رہا تھا۔۔۔۔۔
ضمان کے دوستوں کی بیویوں نے بارہا ضمان کی حساسیت پر چوٹ کرتے چھیڑا تھا ،جسے مذاق میں اڑا کر ضمان مسلسل سائے کی طرح ارمش کے ساتھ رہا تھا۔۔۔
کھانے کے وقت جب اپنی پلیٹ سے پہلے ضمان نے ارمش کی پلیٹ میں کھانا پیش کیا تو کُچھ عجیب سے احساسات نے ارمش کو اپنے حصار میں قید کیا تھا۔
"سب کو دکھانے کے لئے اچھے بن رہے ہونگے۔۔۔ اب دیکھو۔۔۔ آگئے نا اپنی اصلیت پر۔۔۔ ہنہہہہہہ!! ہٹلر کے جانشین نہ ہویئں تو۔۔۔"
اپنے احساسات پر دو حروف بھیجتے وہ پھر اپنی ازلی رائے پر راضی ہو چکی تھی۔ اپنی سوچوں میں غرق رستے کا احساس ہی نہیں ہوا تھا۔ گاڑی ہمیشہ کی طرح ساحل کنارے رکی تو سوچوں کے گرداب نے حقیقت میں لا پٹخا ۔ جہاں لہروں سے دُور گاڑی روکے ضمان پوری طرح اب اسی کی جانب متوجہ تھا۔۔
گلے میں ایک گلٹی سی اُبھر کر معدوم ہوئی تھی۔۔۔ ارمش کو شک گزرا تھا کہ کہیں سوچ نے الفاظ کا جامع تو نہیں اوڑھ لیا تھا؟؟؟
"کیا کہہ رہیں تھیں؟؟؟ "
آنکھیں چھوٹی کیے ارمش کو گھورتے، وہ ہر گز بھی اس مزاج میں معلوم نہیں ہو رہا تھا جس میں ابھی تک نظر آیا تھا۔۔۔
"کک۔۔ کُچھ نہیں۔۔۔ کُچھ بھی تو نہیں"
(لعنت ہو ارمش تم پر۔۔۔۔ مانا کہ وہ ہٹلر کے جانشین ہی ہیں پر چور کو اس کے منہ پر چور کہو گے تو بُرا ہی منائے گا پھر کہتی ہو ڈانٹتے ہیں۔) ساری خود اعتمادی گئ تیل لینے چور کی داڑھی میں تنکا کے مترادف لہجے میں خود ہی لڑکڑاہٹ آ سمائی تھی۔
"کُچھ نہیں کہا؟؟؟؟
اچھا۔۔۔ تمہارے نزدیک تم نے جو چھوٹے پاپا سے کہا وہ کُچھ نہیں تھا؟"
برہمی تو کہیں نہیں تھی ہاں انداز میں شکوہ ضرور تھا۔۔
"اُوه۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔ وہ تو بھائی جا۔۔۔۔۔۔ "
(ارررے۔۔۔۔ دل میں ہی کہا تھا نہیں سنا کُچھ بھی۔۔۔۔) اپنی خوشی میں ہنستے مسکراتے وہ پھر سے ضمان کی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھ چکی تھی۔۔ اس سے پہلے اپنے الفاظ پورے کرتی اپنی جگہ چھوڑ کر ضمان ارمش کی جانب جھکتے لبوں پر ہاتھ رکھ کر آواز حلق میں ہی دبا چکا تھا۔۔۔۔
"کیا ہاں؟
کیا بھائی جان بھائی جان لگا رکھی ہے؟ ارمش گناہ ملتا ہے کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے..... "
غُصّہ تو شدید آیا تھا پر اتار نہیں سکتا تھا بےبسی سے کہتے کہتے ارمش کی پھٹی نگاہیں دیکھ ذہن میں جھماکا ہوا تو ہونٹوں سے ہاتھ سرکتے گردن تک آئے تھے۔
"ویسے مجھے پورے جملے سے اعتراض نہیں ہے۔۔ بھائی لفظ کو اگر تم عالی کے لیے محفوظ رکھ کر صرف جان کہو گی تو۔۔۔۔۔"
ضمان کی قربت میں ارمش دم سادھے آنکھیں پھاڑے ابھی بات سمجھنے کی کوشش میں ہی تھی کہ گاڑی کے بجتے شیشے نے دونوں کا دھیان اپنی جانب کھینچا۔۔ لمحے سے قبل دور ہوتے ضمان نے نظریں باہر کی جانب کی تو دو پولیس اہلکار شیشہ نیچے کرنے کا اشارہ دے رہے تھے۔۔
باہر نکلنے سے قبل گلوی سے نکاح نامہ نکالتے ضمان کی نگاہ ارمش پر پڑی جو بری طرح گھبرائی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ اس سے پہلے ضمان کُچھ کہتا شیشہ ایک بار پھر ذرا زور سے کھٹکھٹایا گیا تھا۔۔۔
"ہاں بھئی؟ کیا ہو رہا تھا شہزادے؟ دکھنے میں تو شریف لگتے ہو۔۔۔ پہنچاؤ ابھی تھانے؟ ساری ہیرو گیری نکل جائے گی۔۔۔"
لگ بھگ چالیس کی دہائی عبور کرتی عمر کا کرخت سے پولیس اہلکار نے آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
"بیوی ہے میری!!!..."
نکاح نامے کے ساتھ اپنا وزٹنگ کارڈ اور دوست کے ابّا جو کہ اینٹی کرپشن محکمے کے آفیسر تھے کا دستخط کردہ کارڈ آگے بڑھاتے وہ اس زاویے سے کھڑا تھا کہ ارمش کی پرچھائیں بھی واضح نہ ہو پائے۔
"تو ڈاکٹر صاحب نو بیاہتے جوڑے کو گھر میں کمرہ نہیں دیا گیا کیا؟ خیر چلتے بنوں یہاں سے۔"
مخصوص انداز میں طنز کرتے پولیس نے جانے کا اشارہ دے دیا تھا جبکہ ضمان پر تو گویا گڑھوں پانی آن گرا ہو شرمندہ شرمندہ سا وہ بھی ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔۔۔
چند لمحے تو گاڑی میں خاموشی رہی۔ دونوں چور نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے شرمندگی سے دوچار تھے کہ دونوں کی نظریں ٹکرائیں۔۔۔۔ لمحے کے اندر اندر چھت پھاڑ قہقہے گاڑی میں گونجے تھے اپنی عجیب و غریب صورتحال پر ہنسی ضبط کیے نا ضبط ہو رہی تھی۔۔۔
نا جانے کتنے عرصے بعد وہ دونوں یوں ایک ساتھ ہنس رہے تھے۔۔۔ ارمش کی ہنسی کی جھنکار کو مسکراتے لبوں سے نہراتے دل ہی دل میں وہ اُن اہلکاروں کا شکرگزار تھا جنکی بدولت یہ حسین لمحہ اُنکی زِندگی کا حصہ بنا جو ضمان کے لئے تو اپنی کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم ثابت ہوا تھا
________________________
"چھوٹے پاپا ڈاکٹر دُرّانی کی کال آئی تھی اُن کے کالج میں ویکینسی آئی ہوئی ہے نیورو ڈیپارٹمنٹ میں۔۔۔ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں اپلائی کر دوں. "
باہر لان میں کین کی کرسیوں پر بیٹھے شام کی چائے سے لطف اندوز ہوتے کُچھ یاد آنے پر ضمان مصطفٰی صاحب کی جانب متوجہ ہوتے گویا ہوا۔
"ہاں میرے پاس بھی آئی تھی میں نے کہا کہ نہیں بھائی اپنے بس کی بات تو نہیں ہے ہسپتال اور لیکچرز ساتھ سمبھالنا۔۔۔۔ نو جوان نسل سے رجوع کیا جائے تو کہنے لگے تمہارا نمبر دے دوں۔۔۔"
چائے کی چسکیاں لیتے مصطفٰی صاحب بھی جواباً گویا ہوئے۔۔۔
"پھر آپ کیا کہتے ہیں؟ "
ضمان کے نزدیک یہ پیشکش خاصی پُر کشش تھی جسکی بدولت نہ صرف اپنا اپنی ذہانت کا موزوں استمعال ہونا تھا بلکہ ایک نیا تجربہ بھی حاصل ہوتا اور ساتھ ہی ساتھ نئے ذہنوں کی ذہانت پرکھتے ہوئے وہ جانتا تھا اُسے خود بھی بہت کُچھ سیکھنے کو ملنا تھا۔۔۔
"اگر تم دونوں چیزیں ساتھ سنبھال سکتے ہو تو کیوں نہیں؟ ضرور کرو جوائن .مجھے یقین ہے بچوں کو تم سے سبجیکٹ کے علاوہ بھی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا.. ویسے بھی علم بانٹنا صدقہ جاریہ ہے جب تم تمہارے شاگرد انسانیت کی خدمت کریں گے تب تک تمہیں بھی ثواب ملتا رہے گا۔
نرم مسکراہٹ لبوں پہ سجائے بہت مان کے ساتھ وہ ضمان سے مخطاب تھے۔
"ہاں۔۔۔۔
اور اتنا بڑا کالج ہے پیکج بھی چھ ساتھ ڈیجٹس پر تو مشتمل ہوگا ہی۔۔۔ ثواب کا ثواب اور مال کا مال۔۔"
یہ آواز عالی کی تھی جو ابھی تک نہایت سنجیدگی سے ساری گفتگو ملاحظہ کر رہا تھا ذیادہ دیر خاموش نہ رہ پایا۔
"ہاں تم سے اسی سوچ کی اُمید رکھی جا سکتی تھی۔۔۔۔ سچ بتاؤ عالی تم نیورو سرجن بھی پیسوں کے لئے ہی بنے ہو نہ؟ خوب کمائی ہوگی؟"
عالی کی بات پر دونوں نے ہی مسکرا کر نفی میں گردن ہلائی تھی مانو کہہ رہے ہوں کہ تمہارا کُچھ نہیں ہو سکتا جب کہ ساتھ ہی ضمان نے ٹکڑا بھی لگایا تھا۔۔۔
"ہاں نہیں تو اور کیا؟؟؟؟ "
خالی کپ ٹیبل پر رکھ کر ایک آنکھ دبا کر وہ دونوں کو مسکرانے پر مجبور کر گیا تھا۔ کیونکہ وہ دونوں ہی جانتے تھے کہ عالی کا تعلق ایک ایسی این جی او سے ہے جو ملک بھر کے غریب ، مسکینوں کا مفت علاج کرواتے تھے جبکہ یہ راض وہ تھا جس سے ارمش تک واقف نا تھی۔ عالی اُن چند لوگوں کی فہرست میں شامل تھا جو نیکی کرکے کنویں میں ڈالنے پر یقین کرتے تھے ،جو ایک ہاتھ سے کسی کی مدد کرتے تو دوسرے ہاتھ کو بھی کان و کان خبر نہ ہونے دیتے۔۔۔
______________________
جاگ رہی ہو؟؟؟"
لیمپ اور فیری لائٹس کی مدھم روشنی میں آنکھوں پر نظر کا چشمہ ٹکائے ہیڈ بورڈ سے ٹیک لگا کر تکیے کی مدد سے نیم دراز ہاتھ میں کتاب لیے وہ مطالعے میں مصروف تھی جب دروازہ کھول کر ضمان نے داخل ہوتے ہوئے سوال کیا۔
"نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سو گئی۔"
برق رفتاری سے کتاب بند کر کے آنکھوں پر ہاتھ رکھے جواب دے کر وہ سوتی بنی تھی۔
"یار ایک کپ چائے پلا دو۔۔۔۔۔۔ زری سو گئی ہوگی ورنہ اُسے کہہ دیتا۔"
چائے تو محض بہانا تھی ارادہ دیدارِ یار ہی تھا۔
"آپ کو خود بھی آتی ہے بنانی۔"
لیٹے لیٹے ہی صحیح، لیکن یادہانی کروانا فرض سمجھا تھا۔
"شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔۔۔۔ مجازی خدا ہوں میں تمہارا لڑکی!
بجائے میرے کام خود کرنے کے، میرے کہنے پر بھی نہیں کر رہیں؟ رہی بات مجھے بنانا آنے کی تو اُسے چھوڑو اپنا بتاؤ تمہیں نہیں آتی تو الگ بات ہے۔"
ارمش کو نکمے پن کا احساس دلاتے، للکار کر گویا ہوا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ ارمش گھریلو کام کاج سے سو میل کے فاصلے پر رہتی ہے۔
"پہلی بات مسٹر مجازی خدا۔۔۔۔۔۔
مجھ سے نیک پروین بیویوں والی توقعات وابستہ نا ہی کریں تو بہتر ہوگا۔ دوسری بات، آتی۔۔۔۔ ہے مجھے چائے بنانا۔"
ضمان کی بات نے جوش ہی تو دلا دیا تھا اور ویسے بھی یہ سچ بات تھی کہ اسے چائے بنانی آتی تھی۔ وہ الگ بات تھی کہ کبھی بنائی نہیں تھی۔ پر پی تو تھی ناں۔۔۔
پُر اعتمادی سے جواب دیتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی، آخر کو ضمان کو اپنی مہارت بھی تو دکھانی تھی کہ ارمش کُچھ بھی کر سکتی ہے۔
ارمش کی تقلید میں چلتا وہ کچن تک پہنچا تھا جہاں داخل ہوتے ہی سگھڑ خواتین کی طرح ارمش کو ایک کپ چائے کی مناسبت سے چھوٹی پتیلی نکالتا دیکھ خود سلیپ کے ساتھ موجود سٹول پر بیٹھ کر ارمش کی حرکات و سکنات دل جمعی کے ساتھ ملاحظہ کرنے لگا۔
"کیا کیا ڈالتے ہیں؟؟؟؟
میٹھی ہوتی ہے تو چینی ڈالتے ہونگے۔۔۔"
ضمان سے تو غلط بیانی کی جا سکتی تھی پر خود کو تو سچ معلوم تھا بظاہر پُر اعتمادی کے ساتھ دیگچی نکالتے ہوئے وہ دل ہی دل میں اجزاء جوڑ رہی تھی۔
"لیکوئیڈ ہوتی ہے مطلب پانی بھی ڈالتے ہیں۔"
ایک اور اجزاء دماغ میں آیا تو کپ لے کر ہنسی خوشی فلٹر کی جانب بڑھ گئی۔
"نہیں۔۔۔۔۔۔ نہیں ارمش!!
پانی تھوڑی ڈلتا ہے!!
دودھ ڈالتے ہیں۔۔۔۔"
کُچھ یاد آنے پر بڑھتے قدم رکے تھے ساتھ ایسہی چہرے کے زاویے بھی تبدیل ہوئے جنہیں ضمان کی پُر شوخ نظروں نے اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
"یار مما ایک کپ چائے ہی بنانا سکھا دیتیں تو اس وقت عزت داؤ پر نا لگی ہوتی۔۔۔"
فریج سے دودھ کا ڈبہ نکال کر کپ میں انڈیلتے یہ سوچ بری طرح حاوی ہوئی تھی۔
"اب یہ کتنی ڈلتی ہوگی؟؟"
دیگچی میں دودھ ڈال کر چولہے کو آنچ دینے کے بعد اب باری چینی کی تھی۔
چینی کا ڈبہ اٹھاتے مقدار کا خیال آیا تو بیزاری نے آپ ہے چہرے کا رخ کر لیا۔
"یار ارمش اچھی خاصی کتاب پڑھ رہی تھیں۔۔۔۔۔ کہنے دیتی جو کہہ رہے تھے فالتو میں جذباتی ہوگئیں۔۔۔
ارے!! اسکا تو پوچھ سکتے ہیں۔ سب کی الگ الگ پسند ہوتی ہے، کوئی کم بھی لیتا ہے میٹھا۔"
دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔
"چینی کِتنی لیں گے؟"
لا پرواہی سے پوچھتے اپنی مصروفیت ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کی تھی۔
"آدھا چمچ۔۔۔"
ایک کپ چائے بنانے کے لئے ارمش کی جی توڑ جد و جہد دیکھ ضمان کو اپنا مستقبل صاف دکھائی دے رہا تھا، جہاں کھانے میں کیا بنانا ہے بتاتی ہوئی ارمش خود تو ہسپتال جا چکی تھی جبکہ پیچھے ضمان حکم یار بجا لانے کی خاطر کچن کا رخ کر چکا تھا۔
اپنی سوچ پر بمشکل ہنسی دباتے جواب دیا تھا۔
جو بھی ہو وہ کوشش کر رہی تھی، مذاق اڑا کر حوصلے پست نہیں کرنا چاہتا تھا۔
"دودھ ہوگیا۔۔۔چینی ہوگئی۔۔۔۔۔۔ اور کیا بچا؟؟؟؟
ارے ہاں!!!!!! پتّی۔۔۔۔۔۔
ظاہر ہے پتّی۔۔۔۔۔ اس کے بغیر کیسے چائے بن سکتی ہے؟؟؟"
دودھ کے بعد چینی ڈالتے ایک بار پھر وہ سوچ میں پڑی تھی پر جلد ہی دماغ نے جواب ڈھونڈ نکالا تو پتّی کا ڈبہ جا لیا۔
"اب تم کِتنی ڈلتی ہو باجی؟؟؟"
ڈبّے کو خوں خوار نظروں سے گھورتی وہ اس بات پر نالاں نظر آ رہی تھی کہ پتّی آخر کو جواب کیوں نہیں دے رہی؟؟؟
"ٹھیک ہے تھوڑی تھوڑی ڈال کر چیک کرتے ہیں جب ٹھیک والا رنگ آجائے گا تب ڈالنا بند کردوں گی۔
واہ ارمش تم تو ذہین ترین ہو۔"
اپنے فیصلے پر مطمئن ہوتے آدھی چمچی ڈال کر تھوڑی دیر پکائی اور پھر من پسند رنگ نا آنے پر تھوڑی اور ڈال کر پکانے لگی۔ تمام عرصے میں درمیانی آنچ پر دودھ مُسلسل پکتا رہا تھا۔ پر پرواہ کسے تھی؟ وہ تو اس میں ہی خوش تھی کہ وہ ضمان کے آگے سُرخرو ہوگئی۔
چائے میں آتا اُبال دیکھ کر جلدی سے چولہا بند کرنے کے بعد اب ایک نئے چیلنج نے روہانسا کیا تھا، اتنی گرم چائے نکالی کیسی جاۓ؟؟
وہ جو مختلف تاثرات سے اب تک محظوظ ہو رہا تھا اس معاملے میں خطرہ مول نا لیتے خود ہی آگے بڑھ گیا۔
ارمش جو اشتیاق سے کپ کی جانب متوجہ تھی، ضمان چائے نکالنے کے بعد دیگچی سنک میں رکھنے کے لیئے ہٹا تو جلدی سے ایک قدم آگے لیتے کپ میں جھانکا۔
مگر یہ کیا؟؟؟
اتنی محنت سے جو ایک کپ چائے بنائی تھی وہ تو ایک کپ تھی ہی نہیں!!
♡------------------------------------------♡
"یہ تو آدھا کپ ہے!!!"
صدمے سے ہونٹ بسورے وہ ضمان کی جانب متوجہ تھی۔
"کوئی بات نہیں۔۔۔"
نرم مسکراہٹ لبوں پر سجائے کپ تھامتے حوصلہ بڑھانے کی خاطر جواب دہ ہوا۔
"ہاں تو ہونی بھی نہیں چاہیے تھی، جتنی دی ہے اسی کو صبر شکر سے پی لیں۔ یہ بھی میرا احسان ہے کہ اتنا دلچسپ چیپٹر چھوڑ کر آپکو چائے بنا کر دی ہے۔"
صدمے کے باوجود بھی احسان جتانا نہیں بھولی۔
"کیا ؟؟؟"
اپنا کام سر انجام دینے کے بعد اب ارادہ واپسی کا تھا۔ ابھی جواب دے کر پلٹی ہی تھی کہ پیچھے سے ضمان نے کلائی تھامی تو ٹھٹک کر ابرو اچکا کر سوال کیا۔
"آؤ باتیں کریں۔"
ہاتھ تھامے ارمش کی "کیوں" اور "نہیں"جیسی کئی پکاروں کو نظر انداز کرتا وہ باہر لان میں آچکا تھا۔
اپنے ساتھ جھولے پر بٹھا کر اب ارمش کی گھوریوں سے محظوظ ہوتے شہد جیسی میٹھی ساتھ ہی کُچھ کڑوی سی چائے کے گھونٹ حلق سے اتار رہا تھا۔
"اتنے پیار سے مت دیکھو۔۔۔۔۔ دل بے ایمان ہوجائے گا۔"
ارمش کی گھوریوں سے خط اٹھاتے قدرے جھک کر سرگوشیانہ انداز اپناتے شوخی سے بولا تھا۔
"اب کریں بھی کیا بات کرنی ہے؟!"
وہ جو پہلے ہی نظروں کا زاویہ بدل کر مارے بندھے بیٹھی تھی ضمان کو خاموشی سے ٹکٹکی باندھے اپنی جانب دیکھتا دیکھ زچ ہو کر گویا ہوئی۔
"خودکش حملہ کس جگہ کرنا ہے؟
کُچھ سوچا تم نے مجاہدہ ارمش ضمان رند!؟"
سنجیدہ لب و لہجہ اپناتے وہ خاصے رازدارانہ انداز میں گویا تھا جبکہ آنکھیں شرارت کی وجہ سے چمک رہیں تھیں۔
"اچھا نہ یار۔۔۔۔۔۔۔ ایک کالج سے آفر ہوئی ہے۔ چھوٹے پاپا کہہ رہے ہیں کہ جوائن کر لو۔ تم بتاؤ کیا خیال ہے؟؟"
اپنی بات پر پہلے ارمش کی پھٹی آنکھیں اور پھر پیشانی پر بل ڈال کر ہاتھ چھڑانے کی کوشش دیکھ کر مسکرا کر ہتھیار ڈالتے گویا ہوا تھا۔
"میرا کیا لینا دینا؟؟
آپکی زِندگی ہے، آپکی مرضی جو کرنا ہے کریں۔"
انداز میں لا پرواہی سموئے ستاروں بھرے آسمان پر نظریں ٹکائے بولی۔
"تمہارا ہی تو لینا دینا ہے۔۔۔۔۔ رخصتی کے بعد دو دو جابز کروں گا تو تمہارے وقت میں کمی بیشی ہو سکتی ہے ناں۔۔۔۔۔۔ پھر بعد میں شکوہ کرو گی تو اس سے بہتر ہے ابھی بتا دو کروں نا کروں؟؟"
لہجے میں شوخی کی چاشنی گھولے بھرپور توجہ کے ساتھ وہ ارمش کے چہرے کے ہر اتار چڑھاؤ سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔
"بلّی کے خواب میں چھیچھڑے۔اینویئیں شوخے نہ ہوں۔"
ضمان کی باتوں پر نا چاہتے ہوئے بھی مُسکراہٹ نے لبوں پر دستک دی تھی جسے چھپانے کی کوشش میں آنکھیں گھماتے گویا ہوئی تو ضمان کی بیساختہ ہی ہنسی چھوٹی۔
کافی دیر یونہی زیر آسماں تاروں کے جھرمٹ میں بیٹھے ارمش سے چھیڑ چھاڑ کرتے وقت گزار تھا۔ جب ارمش کے چہرے پر نیند کا خمار واضح ہوتا دیکھ ضمان نے جان بخشی تو دونوں اُٹھ کر اپنے اپنے کمروں کی جانب چل دئیے
♡------------------------------------------♡
"جیسا کہ تمہیں معلوم ہی ہے کہ اگلے مہینے ارمش کی رخصتی ہے تو میں چاہ رہا تھا کہ زری کے فرض سے بھی جلد از جلد سبکدوش ہوجاؤں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تین گھرانے اس کے خواہشمند ہیں، بھابھی بتا رہیں تھیں سوری صاحب کے صاحب زادے کا بھی رجحان ہے زری کی طرف۔ مجھ کو تو خاصہ مناسب لگا ہے یہ رشتہ۔"
اتوار کی دوپہر تھی جب مصطفٰی صاحب نے عالی کو اپنے سٹڈی روم میں طلب کیا۔ چند ایک ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اب وہ بلانے کا اصل مقصد بیان کر رہے تھے جسے سنتے گہری مسکراہٹ نے عالی کے لبوں کو چھوا تھا۔۔
"ویسے آپس کی بات ہے پاپا۔۔۔۔۔
میں آپکا ہی بیٹا ہوں۔
اگر آپ چاہ رہے ہیں کہ میں خود کہوں تو کوئی بات نہیں کہہ دیتا ہوں۔
جب ارمش بھائی جان کو ملی ہے تو زری بھی میری ہونی چاہیئے ہے۔ عمر کے علاوہ میں کسی چیز میں بھائی جان سے کم تو نہیں ہوں۔"
وہ بھی مصطفٰی صاحب کا خون تھا تبھی باپ کی چالاکیاں خوب اچھے سے پہچان گیا۔
"بیٹیاں ہیں میری۔۔۔۔کوئی ٹرافی نہیں ہیں جو ایک کی اچھی کارکردگی پر ارمش دے دوں اور دوسرے کی اچھی کارکردگی پر زری۔۔۔۔۔
مجھے ضمان پر بھروسہ ہے، وہ اتنا سمجھدار ہے کہ ارمش کو زمانے کی سرد و گرم سے محفوظ رکھ سکے۔
پہلے تم سے مجھے یقین ديہانی چاہیے ہے کہ تم بھی زری کی قدر کرو گے، پھر بات آگے بڑھائی جائے گی۔"
کرخت و حتمی لہجے میں گفتگو کرتے وہ عالی کو اپنے باپ سے زیادہ زری کے باپ لگے تھے۔
"یار پاپا اب لفظوں کی ضرورت پڑے گی؟ ایسا کریں سٹیمپ پیپر لکھوا لیں کہ 'میں آپکی لاڈلی کو خوش رکھوں گا'۔"
منہ بسور کر کہتے لہجے اور تاثرات سے وہ اچھا خاصہ مایوس دکھائی دے رہا تھا۔
"ٹھیک ہے باقی نوٹنکی بعد کے لئے بچا کر رکھو۔۔۔ کرتا ہوں رات کو بات پھر تم لوگوں کی رسم بھی ارمش کی رخصتی کے ساتھ کر دی جائے گی۔"
بات ختم کرتے مصطفٰی صاحب گویا ہوئے تھے۔
"کیا ہوگیا ہے پاپا؟؟؟
ٹوٹل چار ہی ہیں ہم۔۔۔۔ اُنکے بھی آپس میں دو کپلز بنا دیے اور اب دو کو بھی ساتھ فارغ کرنا چاہ رہے ہیں؟
اتنی کنجوسی اچھی نہیں مسٹر رند، میں تو ہر تقریب الگ سے کروں گا اور فلحال مش کی رخصتی سے پہلے ہماری کوئی رسم نہیں ہوگی۔ کیوں کہ میں نہیں چاہتا کہ اپنے بہن بھائی کی شادی لوگوں کی باتوں کی وجہ سے ہم دونوں انجواۓ ہی نہ کر پائیں۔"
شروعات میں جو لہجہ شوخیوں بھرا تھا گفتگو کے اختتام پر از حد سنجیدہ ہوچکا تھا۔
"ٹھیک ہے رات بات ہوتی ہے آگے۔۔۔۔"
مصطفٰی صاحب کو بھی عالی کی تجویز معقول معلوم ہوئی تھی تبھی نیم رضامندی دیتے کتاب کی جانب متوجہ ہوگئے۔
مبشرہ بیگم کو پہلے ہی معلوم تھا باپ بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو کا۔ اسی لیے مزید اس موضوع پر گفتگو رات ہی میں ہونے والی تھی۔
♡-----------------------------------------♡
"بھابھی دوپہر کو میں نے مبشرہ کے ذریعے ایک پیغام پہنچایا تھا آپ تک، مجھے اُمید ہے آپ نے زری سے بات کر لی ہوگی۔"
عالی کی رضامندی ملنے کے بعد بغیر دیر کیئے مصطفٰی صاحب نے مبشرہ بیگم کو رفیعہ بیگم کی طرف بھیج دیا تھا ساتھ ہی یہ بات بھی کہی تھی کہ بغیر زرلش سے پوچھے کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔
کھانے کے بعد چائے کا دور چلا تو مناسب الفاظ کے چناؤ کے ساتھ مصطفٰی صاحب نے بھی اپنے طور بات آگے بڑھائی۔
"جی بھائی صاحب میں نے تو اسی وقت جواب دے دیا تھا پر مبشرہ نے کہا کہ پہلے زری سے پوچھا جائے۔
میں نے پوچھ لیا اس سے بھی۔۔۔۔۔۔ اُسے بھلا کیا اعتراض ہونا ہے بڑوں پر چھوڑ دیا ہے اس نے فیصلہ۔"
مبشرہ بیگم کے سوال پر رفیعہ بیگم تو پھولے نا سما رہی تھیں۔ فوراََ ہی جواب سن کر مبشرہ بیگم نے ہی سمجھایا کہ بچے جوان ہوگئے ہیں اب اُنکی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے ہے اور ویسے بھی زری کی زندگی کا سوال ہے اُسے پورا حق ہے فیصلہ کرنے کا۔
مبشرہ بیگم کی واپسی کے چند لمحے بعد ہی اُنہوں نے اپنے دونوں بچوں کو طلب کر لیا تھا۔ پھر کیا ہونا تھا ضمان تو ویسے ہی عالی پر آنکھ بند کر کے یقین کرتا تھا پھر زری کی خواہش نے انکار کی کوئی وجہ ہی نہ چھوڑی تھی۔
زری کی من کی مراد بر آئی تو خوشی کے آنسوؤں کی رم جھم نے چہرے پر شبنم کی تازگی بکھیر دی۔
ماں کے سوال پر "جیسی آپکی اور بھائی جان کی مرضی" کہتے وہ اپنے رب کی عطا پر مارے تشکر گنگ تھی۔ وہ الفاظ سمجھ نہیں آ رہے تھے کہ جن کے ذریعے اپنے پروردگار کی اس عنایت کا شکر ادا کر سکے۔
"لگتا ہے کسی کو شرم آ رہی ہے۔۔۔"
مصطفٰی صاحب کا یہ ذکر چھیڑنے کی دیر تھی کہ حیا کی لالی سے زری جیسی پر اعتماد لڑکی کے گال تپ کر گلنار ہوگئے۔ کُچھ بھی صحیح تھی تو وہ بھی مشرقی لڑکی ہی۔ ابھی دبے پاؤں اُٹھ کر نکلنے کی کوشش ہی کی تھی کہ عالی کے بلند و بالا تبصرے پر مارے خفت کے قدموں نے خود ہی رفتار پکڑ لی۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ سیڑھیاں پھلانگ چکی تھی۔
"سب تمہاری طرح بےشرم نہیں ہوتے ناں۔۔۔۔"
ضمان کے پہلو میں بیٹھی ارمش کی جانب سے جواب آیا۔۔۔ خوشی سے تمتماتے چہرے کے ساتھ ضمان کی نظروں سے بے پرواہ جو اب عالی کی ٹانگ کھینچنے کے موڈ میں تھی۔
جبکہ ان دونوں کو آپس میں اُلجھتے دیکھ بڑے پہلے ہی اپنے مدعے کی جانب متوجہ ہوچکے تھے۔
"تم تو چپ کرو لڑکی۔۔۔۔۔ خود مزے سے سائیاں جی کے پہلو میں بیٹھی ہو اور مجھے ایک آدھ منگنی کے بھی مزے نہیں لینے دے رہیں۔"
ضمان کے ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھنے پر چوٹ کرتے عالی نے حساب برابر کیا تھا۔
"اوہ شٹ اپ عالی!! بکواس بند بلکل!!
یہ مجھے کیوں بیچ میں لایا جا رہا ہے؟ اپنی بات اپنے تک رکھو اللّٰہ اللّٰہ کر کے تو پٹائی ہے بیوی۔"
عالی کی چھیڑ خانی پر لا شعوری طور پر ارمش کے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کو بازو تھام کر رد کرتے کڑے تیوروں سے گویا ہوا۔
"پہلی بات بھائی جان۔۔۔ ٹھیک ہے چھوٹے بھائی کی عزت نہیں کرتے۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ سالے کی بھی قدر نہیں ہے۔ پر بہنوئی کا تو خیال کر لیں یہ شٹ اپ شٹ اپ کیا ہوتا ہے ؟؟؟
رکیں ذرا۔۔۔
دوسری بات رحم کریں۔۔۔ گھر میں چھوٹے چھوٹے سنگل بچے رہتے ہیں یہ کھلے عام۔۔۔۔ اللّٰہ اللّٰہ توبہ توبہ۔۔۔"
بڑے افسوس سے پہلی بات کی تھی جس کے اختتام پر جونہی ضمان نے زبان کھولنی چاہی تو خاموش کروا کر اگلی بات ضمان کی گرفت میں موجود ارمش کے ہاتھ کو نشانہ بنا کر چہرے پر دنیا جہان کی معصومیت سجائے ہاتھ کانوں پر لگا کر کہی تو بیساختہ ہی ارمش کو اچھو لگی تھی۔
عالی کو ایک گھوری سے نواز کر ضمان نے جونہی نرمی سے گرفت ڈھیلی کی ارمش بھی پھرتی ہے اُٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔
♡-----------------------------------------♡
"مما۔۔۔۔ میں نے آپ کو کتنی مرتبہ کہا ہے کہ میری وارڈروب میں مت گھسا کریں۔۔۔۔ اب دیکھیں کب سے ڈھونڈ رہا ہوں بلو شرٹ۔۔۔۔ نہیں مل رہی مجھے۔
کوئی ترتیب ہی نہیں ہے پوری بکھری ہوئی ہے۔ ڈھونڈ کر دیں مجھے۔۔ "
دوپہر کا وقت تھا، ضمان اپنے دوست کے گھر شام کی چائے پر مدعو تھا جب من پسند شرٹ نا ملنے پر شعلہ جوالا بنا رفیعہ بیگم کی کھوج میں کچن میں داخل ہوا۔۔
"اے نواب صاحب!! میں نہیں گھسی تمھاری الماری میں۔ وہ تو فرزانہ کے ہاتھ رکھوائے تھے۔
بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے بھائی۔۔۔۔۔ ایک تو ہم احساس کریں اوپر سے ہم پر ہی چڑھائی کردو۔۔"
پتیلے میں گوشت ڈالتے ہوئے بھرم ہوئیں تھیں۔
"اور ویسے بھی۔۔۔ ابھی تو بریانی بنا رہیں ہیں نہ بڑی مما۔ آپ بعد میں کروا لیجئے گا وارڈروب سیٹ۔"
سلیپ پر بیٹھی زری کے بنائے گئے سلاد سے انصاف کرتے ہوئے ضمان کی باتیں سنتی ارمش کو اپنی بریانی کی فکر لاحق ہوئی تو بیساختہ ہی الفاظ ادا ہوئے تھے۔ ویسے بھی اب تو وہ ضمان سے ہر قسم کی بات بلا جھجک کہہ جایا کرتی تھی۔
ان چند ماہ میں دونوں کی زندگیوں میں زمین آسمان کا فرق آیا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تھے ایک دوسرے کی سننے کے بعد سمجھنے کی کوشش بھی ضرور کرتے تھے۔
"اچھا۔۔۔۔۔۔ !!!!
مما بنا رہیں ہیں نہ بریانی۔۔ پر جن کے فرمائشی پروگرام چل رہے ہیں وہ تو فارغ بیٹھے میری بہن کی محنت ڈائننگ ٹیبل تک پہنچنے سے پہلے غارت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے نا۔۔۔۔
چلو اُٹھو۔۔ چل کر وارڈروب سیٹ کرواؤ۔"
ایک تو پہلے ہی غُصّہ تھا، اوپر سے ارمش کی گوہر افشانیوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ تلووں پر لگی سر پر بجھی کی کیفیت میں سینے پر ہاتھ باندھے ارمش پر حکم صادر کیا تو پانی پیتی زری کو بیساختہ ہی اچھو لگی تھی۔۔۔
"مش؟؟ مش کرے گی وارڈروب سیٹ؟ جسکی اپنی وارڈروب کھولو تو دو تین کپڑے آشرواد لینے کے لئے پیروں میں آجاتے ہیں. وہ ایک تو وارڈروب سیٹ کرے وہ بھی آپکی بھائی جان۔۔۔؟؟؟ اچھا مذاق ہے۔۔"
ہنس ہنس کر جب آنکھوں میں آنسو آ دھمکے تو با مشکِل سانس لینے کے دوران پیٹ پکڑے گویا ہوئی۔
"ایسی بھی بات نہیں ہے اب بجّو۔۔ مما ہر ہفتے سیٹ کرتی ہیں۔۔"
ناک چڑھائے منہ بسورے کھیرا اٹھا کر نخوت سے جواب دیا۔ اپنے پھوئڑ پن کا یوں کھلے عام پرچار ہونا کُچھ خاص نا بھایا تھا۔۔
"سريسلی ارمش؟؟؟؟
اٹھو۔۔۔ چلو اُٹھو۔۔۔۔۔ پہلے تمہاری سیٹ کریں گے پھر میری۔۔ "
ہاتھ پکڑ کر سلیپ سے اتار کر تمام مذمتی کلمات در گذر کرتا اپنے ہمراہ لیے کچن سے نکل چکا تھا، جبکہ پیچھے ارمش کی لگنے والی شامت کا سوچتے رفیعہ بیگم اور زری مسکرا کر اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئیں کیونکہ آج ارمش کی فرمائش پر رفیعہ بیگم خود اپنی مشہور زمانہ بریانی بنا رہیں تھیں۔
_________________________
"اس میں خراب کیا ہے جسے ٹھیک کروں؟؟؟؟"
بمشکل ضمان کو اپنے کمرے میں جانے سے روکنے کے بعد اب وہ ضمان کی وارڈروب کھولے کھڑی تھی، جس میں ہر کپڑا سلیقے سے تہشدہ تھا اور جو ہینگ ہونے والے تھے وہ بھی استری ہوئے ہینگ دیکھ ارمش کی حیرانی کی حد نا رہی تو حیرت سے ضمان کی جانب متوجہ ہوئی۔۔
ضمان کی الماری اس وقت ویسی معلوم ہو رہی تھی جیسی ارمش کی تب ہوتی ہے جب مبشرہ بیگم ارمش کی الماری کی ترتیب دے کر ٹھیک کرتی ہیں۔
"تو تم کیا اُمید رکھ رہیں تھیں؟ ڈور کھولنے پر کپڑے سلامی کے طور پر پیروں میں آجائیں؟"
زری کی بات کا حوالہ دیتے چھیڑنے کے طور پر گویا ہوا۔۔۔
"آپ۔۔۔۔
میں نہیں کر رہی خود کریں سیٹ۔"
ضمان کی بات نے پتنگے ہی تو لگا دیے تھے۔ ارمش کے پھوئڑ پن کی جانب کوئی سرسری سا اشارہ بھی محترمہ کو بری طرح کھلتا تھا ، اور یہاں تو برملا اشتہارات درج کیے جا رہے تھے۔۔
اُنگلی اٹھا کر کُچھ کہنے کی کوشش کی تھی جسے بیچ میں ہی دفع کرتے پیر پٹختی باہر جانے لگی تو بیچ میں ہی ضمان نے روکتے رخ دوبارہ الماری کی جانب کر دیا۔
"اچھا بابا۔۔۔ نہیں کہہ رہا کُچھ۔
اِدھر دیکھو ایک ٹائپ کی چیزیں الگ کرو پہلے۔۔ جیسے ڈریس شرٹس الگ ،ٹی شرٹس الگ ۔ پینٹس ، شورٹس اور باقی چیزیں الگ۔ پھر اُن سب کو بھی رنگوں کی ترتیب سے رکھو۔ ساری کالی شرٹس ایک طرف، سفید دوسری اور باقی کے رنگوں کی بھی اسی طرح تسلسل سے رکھنا ہے۔ دیکھو کیسے سب آپس میں گڈ مڈ ہوئے ہیں۔"
ارمش کے پیچھے کھڑے وہ ایک ایک چیز اچھے سے سمجھانے کی کوشش میں تھا ۔ جبکہ ارمش تو بس حوانقوں کی طرح منہ کھولے اُسکی ترتیب سمجھ کر بھی نہ سمجھ آنے کی کیفیت سے دوچار تھی۔
"دماغ تو ٹھکانے پر ہے؟؟ کیا کہہ رہے ہیں؟ اور کیوں کرنی ہے ایسے سیٹنگ؟ آخر کار آپکو یہ سب پہننا ہی ہے ناں؟ یا پھر نمائش لگانی ہے؟
میں نہیں کر رہی ہوں ایسا کُچھ بھی۔۔۔۔ نہ ہی میرے پلّے پڑی ہے آپکی ایک بھی بات۔"
ضمان کی دو صفحات پر مشتمل تقریر کا جز ارمش نے یہی نکالا تھا کہ وہ ایک خبطی شخص ہے۔ عام انسان ایسے ہر گز نہیں ہو سکتے۔۔
"اچھا ٹھیک ہے مت کرو۔ میں خود کر رہا ہوں پر یہاں بیٹھ کر دیکھو کیسے کرتے ہیں اور شام کو اپنی بھی ایسی ہی سیٹ کرنا میں دیکھوں گا رات کو."
(اھھھھ۔۔۔۔ ضمان رند اب تمہیں بیوی کی تربیت بھی کرنی پڑے گی۔ اللّٰہ جی تھوڑا عمر کا فرق ہی کم کر دیتے۔ ابّا والی فیلنگز آ رہیں ہیں)
ارمش کو بیڈ پر بیٹھانے کے بعد ،دھیان الماری کی جانب راغب کروا کر وہ دل ہی دل میں اپنی کیفیت پر خود ہی ہنس رہا تھا۔۔
______________________
وقت کا کام ہے گزرنا سو وہ گزر ہی جاتا ہے۔ نکاح کے بعد سے رخصتی تک کا وقت بھی پر لگا کر اُڑا تھا ۔ شادی کے دن کان پر آ پہنچے تھے۔ اگلے ہفتے سے شادی کی تقریبات شروع ہونے والی تھیں۔ تیاریاں اپنے عروج پر تھیں ، اس بار جو چیز مختلف تھی وہ ارمش کی خوشی اور جوش تھا۔۔
چھ مہینوں میں چھ صدیوں کی تبدیلی آئی تھی۔ وہ ارمش جو گھر میں بھی عالی اور مبشرہ بیگم کے علاوہ کسی سے گھلتی ملتی نا تھی۔ اب رند شجر کو رونق بخشنے والی چڑیا بن گئی تھی جسکی چہچہاہٹ سے ہر ڈالی آباد تھی۔
ضمان سے ڈر؟؟؟؟
یہ سوچ اب محض ہنسی کا باعث بن کر رہ گئی تھی۔ ضمان کی نرمی نے ارمش کی شخصیت بدل کر رکھ دی تھی اعتماد ، ٹھہراؤ اب ارمش کی ذات کا خاصہ بن گئے تھے۔
ہنسنا ، مسکرانا ، چھیڑنا ، چڑانا ، لڑنا ، کبھی نخرے دکھانا تو کبھی روٹھ جانا اور پھر چھوٹی بڑی ضدوں کو پوری کروانا۔ ضمان نے اپنی ذات کا اعتماد بخشنا ارمش کو جذبات کا اظہار کرنا سکھا چکا تھا۔
عادتیں کچھ یوں بدلی تھیں کہ اب دن کی شروعات میں اگر ضمان کا چہرہ نظر نہ آئے تو وہ پریشان ہو کر ضمان کی تلاش میں اوپر پہنچ جایا کرتی تھی۔ رات گئے جھولے پر بیٹھے جب تک اونگنا نا شروع کردے تب باتوں کا طویل سلسلہ جاری رہتا۔۔
پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگ دونوں طرف برابر کی لگی تھی ، روح میں تو ارمش بھی ضمان کی بس چکی تھی۔ سانسیں تو ضمان کی بھی ارمش کی مسکراہٹ کے ساتھ گھٹتی بڑھتی تھیں۔ کُچھ عجیب سا تھا پر جو بھی تھا ضمان کو عزیز از جان تھا۔
وہ جانتا تھا یہ احساسات نکاح کے پاک رشتے کی دین ہیں اور وہ خوش تھا کہ اُسکی ذات کی تبدیلیوں نے اُسکی شریکِ حیات کو جینا سکھا دیا۔ اپنے لیئے بنائے گئے امتحان میں وہ خود کو سفل ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
زری ، عالی ، ضمان اور وہ خود۔۔ چاروں ہی زور و شور سے تیاریوں میں مصروف تھے۔ پورا ہفتہ تقریبات کی نذر ہونے جا رہا تھا ہر فنکشن کی مناسبت سے کپڑے ، زیورات اور جوتے سب خرید لیے گئے تھے بس برات اور مایوں کے اگلے دن ہونے والی عالی اور زرلش کی منگنی کی تیاریاں کُچھ ادھوری رہی ہوئیں تھیں۔۔
اسی سلسلے میں آج وہ ہسپتال سے جلدی واپس آئی تھی۔ اتفاق ایسا تھا کہ آج صبح کی شفٹ میں گھر میں سے مش کے علاوہ کسی کی ڈیوٹی نہیں تھی۔۔
نہا دھو کر تھکن اُتارنے کے بعد ضمان اور زری کے ساتھ باقی کی بچی ہوئی شاپنگ کرنے کی غرض سے وہ جلدی جلدی قدم اٹھاتی اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی جب مصطفٰی صاحب کے کمرے سے ضمان اور عالی کی اونچی آوازوں نے اپنی جانب متوجہ کیا۔ کمرے میں جانے کا ارادہ مؤخر کرتے مصطفٰی رند کے کمرے کی جانب قدم بڑھائے تھے جب دو قدم کے فاصلے پر ضمان کی اونچی آواز میں کہی جانے والی بات پر قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔۔۔
یہ۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہا تھا وہ؟؟؟ ضمان کے الفاظ پتھرائو کی مانِند برستے کانچ سے بنے خوابوں کے شیش محل کو ریزہ ریزہ کر گئے تھے جسکی کرچیاں بیدردی سے اس معصوم کے دل کو زخمی کر گئیں۔۔
اگر یہ سب کرنا تھا تو خواب کیوں دکھائے؟ کیا یہ نیا طریقہ تھا اذیت دینے کا؟ اگر ہاں۔۔۔ تو وہ کامیاب رہا یہ ضرب واقعی کاری تھی جس کے آثار زِندگی بھر روح پر مرتب رہنے والے تھے۔
سوچوں کے بھنور سے دروازہ کھلنے کی آواز نے حقیقت میں لا پٹکا تھا سامنے وہی دشمنِ جاں اپنی تمام تر سفاکیت کے باوجود پوری شان سے موجود تھا۔
اپنے سخت جاں ہونے پر آج وہ صابر لڑکی خدا سے نالاں تھی۔ کیوں تھی زندہ وہ؟ اور کیا رہ گیا تھا سہنے کو؟؟
___________________________
کافی دنوں سے جو سوچ دماغ میں ڈیرہ جمائے بیٹھی تھی ، کل شام ضمان اُسکا ذکر وہ مصطفٰی صاحب سے کر چکا تھا۔۔
اپنے اور ارمش کے وقت بھی ضمان نے منگنی کے آپشن کو مسترد کر دیا تھا۔ ضمان کے خیال میں رشتوں کو مضبوط ڈور میں بناندھنا ہی معقول تھا۔ جبکہ منگنی کی رسم کی اُسکی نظر میں کوئی اہمیت نہ تھی۔۔
ضمان کے نزدیک مانگنی کچی ڈوری کی طرح تھی ،جسے وقت گئے اگر نکاح کے مضبوط بندھن میں نا باندھا جائے جائے تو ہلکی سی رنجش کی ہوا سے پاش پاش ہو کر بکھر سکتی تھی۔۔
اپنے ارد گرد وہ کئی ایسے واقعات دیکھ چُکا تھا جن میں فون پر ہونے والی کسی بے بنیاد لڑائی کو مدعا بنا کر رشتہ ختم کردیا جاتا تھا۔ عالی اور زری کا معاملے میں تو حالات مذید پیچیدہ تھے۔ وہ دونوں ایک ساتھ ایک ہی چھت تلے رہنے والے تھے۔ ضمان نہیں چاہتا تھا کہ خدا نہ کرے اُنکے آپسی اختلافات ہوجائیں اور پھر اُن اختلافات کی زد میں پرانے رشتے یا پھر اُسکا اور ارمش کا رشتہ آجائے۔
اسی متعلق کل اُسنے مصطفٰی صاحب سے بات کی تھی کہ تقریبات تو ہونی ہی ہیں تو یہ فریضہ بھی ساتھ ہی انجام دے دیا جاۓ۔
اپنے خدشات کی بھنک بھی ضمان نے مصطفٰی صاحب کو نا پڑنے دی تھی۔۔ مختصراً صرف اتنی عرض کی تھی کہ اپنی زندگی کی نئی شروعات سے قبل وہ زری کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتا ہے۔
جس کے جواب میں انہوں نے ایک ہی بات کی تھی کہ دونوں کہیں بھاگے نہیں جا رہے ضمان ارمش کی شادی کے بعد انکا ہی نمبر ہے۔ پھر ضمان کے اصرار پر یہ کہہ کر بات ختم کی تھی کہ عالی سے بات کر کے فیصلہ کریں گے۔
مثبت نتائج کی اُمید رکھتے وہ یہ بات پہلے ہی زری اور رفیعہ رند سے کر چکا تھا۔ توقع کے عین مطابق دونوں کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اب بس عالی کی رضامندی چائیے تھی اور ضمان کو ۹۹ فیصد یقین تھا کہ وہ بھی مان جائے گا۔۔
ابھی چند لمحات قبل فرزانہ نے پیغام پہنچایا تھا کہ مصطفٰی رند نے ضمان کو سٹڈی میں یاد کیا ہے۔ سیڑھیاں اترتے وہ اس سوچ میں کہ آج رات ارمش کے شاہانہ جوڑے کے ساتھ زری کی بھی پوری تیار کرتے وہ کافی سے زیادہ تھکن کا شکار ہونے والا ہے۔۔
________________________
"تم دونوں آپس میں خود ہی بات کرلو۔ میں ذرا مبشرہ کو جیولرز کے پاس لے کر جا رہا ہوں۔ "
ضمان کو کمرے میں داخل ہوتا دیکھ مصطفٰی صاحب عالی سے مخاطب ہو کر کہتے باہر نکل گئے جہاں پہلے ہی مبشرہ بیگم اُنکی منتظر تھیں۔
"پھر ایسا کرتے ہیں کہ آج رات ارمش کا ڈریس فائنل کرنے جانا ہے تو تم دونوں کا بھی برائڈل ڈریس آرڈر کر دیں گے۔ "
ضمان جو سمجھ رہا تھا کہ مصطفٰی صاحب عالی سے بات کر چکے ہونگے اپنی دھن میں گویا ہوا۔
"میں پاپا کو پہلے ہی بتا چکا ہوں بھائی جان کہ مجھے شادی نہیں کرنی۔ جب مجھے کرنی ہی نہیں تو پھر یوں اچانک یہ بات کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟ "
پہلے بھی جب کبھی سرسری سا بھی زری اور عالی کی شادی کا ذکر چھڑتا تھا عالی ہمیشہ فوراََ ہی یہ بات سامنے رکھ دیتا تھا کہ وہ ارمش کی شادی کے بعد ہی شادی کرے گا۔۔
یوں اچانک سے ساتھ ہی شادی کا شوشہ سن کر وہ اچھے سے بدمزہ ہوا تھا پھر مصطفٰی صاحب کے اسرار پر مشتعل ہوا تو انہوں نے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ وہ خود ضمان سے بات کر لے کہ اُن سے ضمان نے زری کا بڑا بن کر بات کی ہے وہ منع نہیں کر سکتے۔
ضمان کے یوں بغیر کُچھ سنے اپنی کرنے پر غصے میں بجائے یہ کہنے کے کہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا یہ کہہ بیٹھا کہ شادی ہی نہیں کرنا چاہتا ۔ اپنی بات کہنے کے بعد بھی وہ لفظوں پر غور کرنے سے قاصر تھا۔
"کیا مطلب ہے تمہارا کہ شادی نہیں کرنا چاہتے؟ سمجھ کیا لیا ہے تم نے میری بہن کو؟ شادی نہیں کرنی تو پھر یہ منگنی کا ڈراما کیوں رچا؟ تمہیں میری بہن اتنی عرضاں لگتی ہے کہ تم اُسکے ساتھ دل بہلاتے رہو؟
شادی ہوگی!!!!
اور اسی ہفتے ہوگی۔۔۔۔۔ میں بھی دیکھتا ہوں کیسے انکار کرتے ہو تم۔"
عالی کی باتیں اور لہجہ سن کر مارے اشتعال بس دماغ کی شریانیں پھٹنے کی کسر رہ گئی تھی۔ ضمان بھی اپنی جگہ حق با جانب تھا کوئی بھی بھائی اپنی بہن کے منگیتر کے منہ سے ایسی بات سن کر خاموش نہیں رہ سکتا۔۔
"میرا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ میری زندگی ہے اور میں کوئی دودھ پیتا بچا نہیں ہوں کہ جہاں دل چاہے وہاں آپ لوگ مجھے موڑ دیں.
آپ اپنے اور ارمش کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں پر میری اور زری کی زندگی کا فیصلہ ہم خود کریں گے اور مجھے فلحال شادی نہیں کرنی جسے جو کرنا ہے کر لے۔"
اولاد یا پھر چھوٹے بہن بھائی، جب بڑے ہوجائیں تو بڑوں کو اپنے طور طریقے تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔ بچوں پر سختی اور رعب چلا کر باتیں منوانا بچپن کے ساتھ پیچھے چھوڑ دینا چائیے ہے ۔ عمر کے ساتھ ساتھ طریقکار میں تبدیلی لا کر بچوں کے متضاد جوان نسل کو باتیں پیار محبت سے کُچھ اپنی کہہ کر کُچھ اُنکی سن کر سمجھانا ہی عاقل شخص کی نشانی ہے۔
ضمان کی آخری بات سن کر عالی کے جوان خون میں اُبال اٹھا تو آواز بھی ساتھ بلند ہوگئ تھی۔ اپنی زندگی کا اتنا اہم فیصلہ کسی کے دباؤ میں لے کر وہ اپنی زندگی کے خوبصورت لمحات کو ضائع کرنے کے موڈ میں ہر گز نہیں تھا۔
"تمہیں شادی نہیں کرنی؟؟؟؟ تو ٹھیک ہے جب کرنی ہو تب بتا دینا. کیونکہ اب جب تک زری پوری عزت و احترام سے رخصت نہیں ہوگی تب تک میں بھی اپنی زِندگی آگے نہیں بڑھاؤں گا۔ "
غُصّہ اور شراب دونوں ہی جب سر چڑھ جائیں تو انسان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر دیتے ہیں۔ تبھی اسلام نے دونوں چیزوں کو حرام قرار دیا ہے۔ عالی کا مسلسل انکار ضمان کو اپنی اور اپنی بہن کی بے توہین محسوس ہوا تھا تبھی اشتعال کی پٹی آنکھوں پر باندھے محض ایک بھائی بن کر گویا ہوا جسے صرف اس بات کا خیال تھا کہ اگر عالی کی باتیں زری تک پہنچی تو وہ کیا محسوس کرے گی۔
"آپ مجھے دھمکا رہے ہیں؟؟؟
کہ اگر میں اپنی اور زری کی شادی کے لیے نا مانا تو آپ ارمش کو بھی رخصت نہیں کروائیں گے؟"
بات اپنی بہن پر آئی تو غصے میں بھی دماغ نے فوری کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بے یقینی سے ضمان کی طرف دیکھتے وہ سے تائید لینا چاہ رہا تھا کہ جو وہ سمجھ رہا ہے ضمان کا مطلب بھی وہی ہے؟
"تمہیں جو سمجھنا ہے سمجھو۔۔۔..
اور جواب جلدی دینا، دن کم ہیں اور مجھے کام زیادہ۔"
عالی کے سوال پر بھی بے حسی اپنائے کہتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"مش؟؟؟؟ ارمش میری بات سنو۔۔..
میرا مطلب۔۔۔ ارمش۔۔۔۔۔۔۔۔ "
دروازہ بند کرتے جونہی نظریں اٹھائیں تو سامنے ہی وہ موم کی گڑیا آنکھوں میں پیوست خواب ٹوٹنے کی کرچیوں سمیت شکوہ کناں نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔ ان نظروں سے عیاں ہوتی درد کی ٹیسیں ضمان کو اپنے سینے میں محسوس ہوئیں تھیں اپنے الفاظ کی سنگینی کا احساس ہوا تو آگے بڑھ کر بات سنبھالنے کی کوشش کی پر اس سے قبل کے ضمان کُچھ کہتا لبوں پر ہاتھ رکھ کر سسکیاں دباتے تیز رفتاری سے وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔
پیچھے بارہا ضمان نے روکنے کی کوشش کی ارمش کی رفتار سے مقابلہ کرتے وہ پیچھے بھی آیا تھا پر ارمش نے جھٹکے سے دروازہ بند کرتے تمام راہیں بند کردی تھیں۔
____________________________
"عالی تم فری ہو تو مجھے آفس چھوڑ دو گے؟ میری گاڑی سروس کے لئے گئ ہوئی ہے اور بھائی جان بھی گھر پر نہیں ہیں ورنہ ان کے ساتھ چلی جاتی۔ "
صبح کے تقریباً گیارہ بجے کے قریب زری دروازہ کھٹکٹا کر عالی کے کمرے میں داخل ہوتے گویا ہوئی تھی، جو دن میں بھی کمرے میں رات کا سما بنائے بیزار سا بیڈ پر تکیے میں منہ دئیے لیٹا تھا۔
"اس بیچاری کا کیا قصور عالی؟
کیا مجھے زری سے بات کرنی چاہئے ہے؟ "
زری کی آواز پر پہلے تو دل ہی نہیں مانا تھا جواب دینے کا پھر دماغ کے پے در پے سوالات پر اُٹھ کے زرلش کی جانب متوجہ ہوا، جو اب یہ پوچھ تھی کہ عالی جاگ رہا ہے یا دوبارہ سو گیا۔
"جاگ رہا ہوں۔۔۔۔
زری تم فری ہو؟ مجھے کچھ بات کرنی ہے۔"
آنکھیں ملتے حواسوں کو جگا کر زرلش کی جانب دیکھ سوالی ہوا۔
"جاگو پرنس عالی۔۔۔ میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ آفس ڈراپ کردو اور تم پوچھ رہے ہو کہ فری ہوں یا نہیں۔"
وہ جسے پہلے ہی دیر ہوگئ تھی عالی کے سوال پر ماتھا پیٹ کر عقل پر ماتم کناں ہوئی۔۔
"پر مجھے بات کرنی تھی زری۔۔ "
ماتھے پر بل ڈالے کہتا وہ زری کو خاصہ متفکر معلوم ہوا تھا۔
"خیریت ہے عالی؟ پریشان لگ رہے ہو؟"
وہ تو عالی کی تکلیف پر خود ٹڑپ جانے والی لڑکی تھی تو بھلا کیسے عالی کی پریشانی نا بھانپ پاتی؟
"یار تم سے جو پوچھ رہا ہوں اُسکا جواب دو نا سیدھا۔۔"
زرلش کی باز پرس پر زچ ہو کر گویا ہوا تھا ۔آواز بھی خود ہی بلند ہو چکی تھی ۔
"آفس جانا ہے ضروری کام ہے، پر صرف 15 سے 20 منٹ میں فارغ ہوجاؤں گی۔ "
عشق بلّی کی طرح ہوتا ہے۔۔۔ جیسے وہ چوزے کو پکڑنے کے لئے اُسکی ماں کے غافل ہونے کے انتظار میں رہتی ہے، اور مراد بر آنے پر فوراََ حملہ کر دیتی ہے۔
عشق بھی ایسا ہی ہے۔۔۔ چھپ کر تاک لگائے بیٹھا رہتا ہے کہ کب عقل گھاس چرنے جائے اور اور وہ جلدی سے پورے کے پورے انسان پر حملہ آور ہوجائے اور پھر بے بسی کی زنجیروں میں قید کرکے معشوق کے کندھوں پر عاشق کی عزت نفس کے جنازے کو چڑھا دے۔
زری کو بھی زِندگی نے اسی مقام پر لا چھوڑا تھا جہاں عالی کی بے اعتنائی قلب میں میخیں گاڑ دیا کرتی تھی، پر پھر بھی کم بخت دل اپنی عزت نفس کے لئے آواز اٹھانے کی اجازت نہ دیتا تھا۔
"ٹھیک ہے چلو۔۔"
سلوٹ زدہ شرٹ کو ہاتھوں سے ٹھیک کرتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا پیروں میں چپل اُڑاستے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے زری سے گویا ہوا۔۔
جلد ہی گاڑی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو چکی تھی۔۔۔
________________________
"کیوں پریشان ہو عالی؟ "
شہر کے مشہور کیفے میں بیٹھے ٹیبل پر دھرے عالی کے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر سوال کرتے وہ خود بھی از حد پریشان تھی۔ آفس میں پریزنٹیشن دیکھتے وقت بھی زری کا سارا دھیان عالی کی ہی جانب رہا تھا جو باہر گاڑی میں بیٹھے اسکا منتظر تھا۔ عالی کا اتنے وقت سنجیدہ رہنا یقیناََ تشویش ناک تھا۔
"بھائی جان نے تم سے کوئی بات کی ہے؟ "لہجہ اب بھی سپاٹ تھا۔
"کس بارے میں؟ "
بات تو کی تھی ضمان نے زری سے پر وہ بات ایسی تو نہ تھی کہ جس کو لے کر عالی اس قدر متفکر نظر آتا۔ تبھی انجان بنتے سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔
"ہماری شادی کے متعلق۔"
تمام تر حسیں مجتمع کئے زری کو کٹگھیرے میں کھڑا کیے یک بعد دیگر سوالات کی بوچھاڑ جاری رکھی تھی۔۔۔
"ہاں۔۔۔ "
یک لفظی جواب دیے وہ خاصی اُلجھن کی شکار تھی۔
"تو؟؟ کیا جواب دیا تم نے؟"
ماتھے پر بل ڈالے ایک اور سوال پیش کیا گیا۔
"عالی مجھ سے تمیز سے بات کرو۔۔۔۔ غلام نہیں ہوں میں۔ کب سے تمہاری بدتمیزی برداشت کر رہی ہوں۔۔"
وہ جو عالی کے مزاج کو کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی جب بات برداشت سے آگے بڑھی تو خاموش نہ رہ پائی۔
"آئی ایم سوری یار۔۔۔۔
تم نے کیا جواب دیا تھا اُنہیں؟" عالی جو کب سے شیر بنا بیٹھا تھا زری کے احساس دلانے پر پل میں ساری اکڑ جھاگ کی طرح بیٹھ گئی ، اپنے آپ سے اکتاہٹ کا شکار تھا وہ ایک طرف بہن تھی تو دوسری طرف بھی بچپن کی خواہش تھی۔
"مجھے کیا کہنا تھا؟ جیسی اُنکی مرضی وہ بڑے ہیں میرے۔"
عالی کی نرمی پر اپنے اشتعال کو قابو کرتے جواب دہ ہوئی۔
"کیوں زری؟ اُنکی مرضی کیوں؟ یہ ہماری زندگی ہے اسکا فیصلہ ہمیں کرنا چاہیے ہے۔"
لہجے میں بے چینی اب بھی موجود تھی پر بد تہذیبی کا اس مرتبہ شائبہ تک نہ تھا۔
"کیسی بات کر رہے ہو عالی؟ بھائی جان ہیں وہ۔۔اور ویسے بھی کوئی بھی تم پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کر رہا۔ تمہیں نہیں کرنی تو منع کر دو۔ پر اس طریقے سے بات مت کرو جیسے وہ تمہارے کُچھ نہیں لگتے۔"
بھائی کے متعلق سخت الفاظ برداشت نا ہوئے تو ماتھے پر بل ڈالے گویا ہوئی۔۔
"فیصلہ مسلط ہی کیا جا رہا ہے۔۔۔ تمہیں پتہ ہے کیا کہا ہے اُنہوں نے مجھے؟
کہہ رہے تھے کہ اگر میں شادی کے لیے نہیں مانا تو وہ ارمش کو بھی رُخصت نہیں کریں گے۔ اُنکی ہمت بھی کیسے ہوئی یہ بکواس کرنے کی؟
با خدا زری اگر پاپا کی طبیعت کا خیال نہ ہوتا تو اس وقت تک میں سب کو بتا چکا ہوتا بھائی جان کی دھمکیاں۔ اور پھر یقیناََ اُن جیسے بے قدرے کے ساتھ پاپا ہر گز بھی ارمش کو رُخصت نا کرتے۔ "
زری کو ضمان کی طرفداری کرتے دیکھ ٹیبل پر ہاتھ مار کر پھٹ پڑا تھا۔۔۔ اپنی حرکت پر لوگوں کو متوجہ دیکھ مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا۔
"اُن کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔۔۔۔۔"
زری واقعی ضمان سے اتنی چھوٹی سوچ کی توقع نہیں رکھ رہی تھی تبھی عالی کے الفاظ پر صدمے کے زیر اثر بس یہی کہہ پائی۔۔
"عالی دیکھو تم کسی کو کچھ مت کہنا۔۔۔ اس لیے نہیں کہ سب بھائی جان سے بد گمان ہوجائیں گے بلکہ اس لیئے کہ اُنکی باتوں سے سب کے جذبات مجروح ہوجائیں گے۔
مش کا سوچو وہ کیسا محسوس کرے گی شادی سے ایک ہفتے قبل بھائی جان کی باتیں سن کر اس پے کیا بیتے گی؟
اور تم فکر مت کرو میں کروں گی بات اُن سے تم نہیں چاہتے تو نہیں ہوگی ہماری شادی ابھی۔۔۔ تم فکر مت کرو پلیز۔ "
ایک لمحے کی خاموشی کو توڑ کر وہ خود دوبارا متفکر سی گویا ہوئی۔۔
"بات ہماری شادی کی نہیں ہے زری میں صرف اس لیئے منع کر رہا تھا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ ہم چاروں بہن اپنے بہن بھائیوں کی شادیاں کھل کر انجواۓ کر پائیں۔ آج نہیں تو کل ہماری شادی ہونی ہے پر بھائی جان نے مجھے بہت مایوس کیا ہے۔۔
مجھے ارمش کی جانب سے فکر لاحق ہے۔ زری آج شادی کے معاملے میں استمعال کیا ہے اُسے کل کسی اور چیز کے لئے کریں گے۔۔۔۔ وہ ٹوٹ جائے گی زری وہ بہت معصوم ہے وہ نہیں برداشت کر پائے گی۔۔"
زری کو اس وقت وہ تھکا ہوا انسان لگا تھا جسے اپنی بہن کے مستقبل کی فکر کھائے جا رہی تھی۔۔
"عالی تم جانتے ہو اُنہیں۔۔ وہ دل کے برے نہیں ہیں غصے میں کیا کہہ جاتے ہیں اُنہیں خود بھی احساس نہیں ہوتا پھر بعد میں پچتاتے ہیں۔۔
میں کروں گی بات اُن سے تم پلیز فکر مت کرو۔"
عالی کے ہاتھ تھامے وہ دلاسہ دیتے وہ خود بھی ضمان کی باتوں پر شرمندہ تھی ۔۔ بیرے کو کھانا لاتے دیکھ ہاتھ تھپک کر پیچھے ہوگئ۔۔
__________________________
"چھوٹی مما ارمش کہاں گئ ہے؟؟"
کل شام وہ ارمش کے پیچھے کمرے تک گیا تھا پر اس سے پہلے کہ ضمان کوئی بات کہہ پاتا وہ اپنے آپ کو کمرے میں بند کر چُکی تھی۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر بھی جب وہ نظر نہ آئی تو ضمان ایک مرتبہ پھر اپنے کیے کی صفائی پیش کرنے ارمش کے کمرے کی جانب چل پڑا۔۔
اپنے الفاظ کی سنگینی کا اُسے بہت اچھے سے اندازہ تھا اور اس بات کا گواہ ضمان کا خدا تھا کہ جو بات وہ کہہ چکا ہے ایسی کوئی بھی سوچ وہ اپنے دماغ میں بھی نہیں لا سکتا تھا۔
عالی کی اونچی آواز پر مارے اشتعال وہ لفظ کب، کیسے اور کیوں زبان سے ادا ہوگئے ضمان کو بھی نہیں معلوم تھا۔ رہ رہ کر خود پر غُصّہ آ رہا تھا۔۔کتنی مشکِل سے تو انکا رشتہ مضبوط ہوا تھا۔ کِتنی محنت کی تھی ضمان نے ارمش کا اعتبار جیتنے کی ، سب کچھ بگڑ گیا تھا۔ اپنے سخت الفاظ کے نشتر سے اپنی آنکھوں کے سامنے اُسنے ارمش کو گھائل ہوتے دیکھا اور کُچھ نا کر پایا کہ زخم دینے والا وہ خود تھا اور اب مرہم رکھنے کی اجازت ارمش دینے نہیں والی تھی ۔
"اپنے کمرے میں ہوگی ضمان۔۔۔"
رفیعہ بیگم کے ساتھ سنار کی طرف سے بھیجے گئے زیورات دیکھتی مبشرہ نے سرسری انداز میں جواب دیا تھا۔
"میں نے دیکھ لیا ہے۔ گھر میں نہیں ہے آپ کو بتا کر نہیں گئ ہے کیا؟"
متفکر لہجے میں گھر میں غیر موجودگی سے مطالع کرنے کے بعد دریافت کیا۔۔
"بتائے بغیر جاتی تو نہیں ہے وہ کہیں۔۔۔ عالی اور زری گئے ہیں، کہیں اُن کے ساتھ نا چلی گئی ہو. پریشان کیوں ہو رہے ہو فون کر کے پوچھ لو۔۔ "
وہ جو بچوں کے بیچ چھڑی سرد جنگ سے بے خبر اپنے کام میں مگن تھی ،ضمان کی پیشانی پر فکر کا جال بچھے دیکھ نرمی سے مشورہ دیا۔
"کس سے پوچھنا ہے ؟؟ اور کیا پوچھنا ہے؟؟؟ "
عالی کے ہمراہ لاؤنج میں داخل ہوئی زرلش نے بیچ میں سے بات اُچک کر سوال کیا تو ضمان کے ساتھ مبشرہ بیگم اور رفیعہ بیگم بھی دونوں کی جانب متوجہ ہوئیں تھیں ۔دونوں کو اکیلے اندر داخل ہوتے دیکھ ضمان کے مترادف اب دونوں خواتین بھی کُچھ پریشان نظر آ رہیں تھیں۔
"کیا ہوا ہے مما؟ آپ لوگ اتنے پریشان کیوں ہیں؟"
زری کے سمجھانے پر کہ ضمان نے محض غصے میں کہہ دیا ہوگا وہ جسکے اعصابی تناؤ میں کُچھ کمی آئی تھی سب کے چہروں پر پریشانی کے اثرات دیکھ مبشرہ بیگم سے سوالی ہوا۔۔
"مش گھر پر نہیں ہے عالی مجھے تو بتا کر نہیں گئ پتا نہیں کہاں گئ ہوگی۔"
ویسے تو وہ کبھی اکیلے کہیں جاتی ہی نا تھی پھر یوں اچانک چلے جانا اور وہ بھی بغیر بتائے۔ اس معاملے میں تو ضمان جیسا مضبوط مرد پریشاں دکھائی دے رہا تھا پھر مبشره بیگم کیوں نہ متفکر ہوتی۔
"یہیں ہوگی مما ۔۔ آپ نے دیکھا ہے صحیح سے؟ "
وہ اکیلے تو دور کی بات ساتھ بھی کم ہی نکلتی تھی تبھی رسان سے جواب دیتے عالی نے سوال بھی کر لیا تھا۔
"میں نے دیکھ لیا ہے. نہیں ہے تبھی تو کہہ رہے ہیں تم سے۔۔۔ "
پہلے مبشرہ بیگم اور اب عالی دونوں کی زبان سے ایک ہی گردان سن ضمان زچ ہو کر گویا ہوا۔
"فون بھی بند ہے۔۔۔۔"
ضمان کی بات سنتے ہی زری نے فون نکال کر ارمش کا نمبر ڈائل کیا تھا دوسری جانب سے ملنے والی اطلاع بجھی آواز میں سناتی وہ سب کو مزید پریشان کر گئ تھی۔۔
"چاچا۔۔۔ ارمش باہر گئ ہے؟"
زری کے الفاظ مکمل ہونے سے قبل ہی عالی نے باہر کی طرف دوڑ لگائی تھی لمبے ڈگ بھرتا ہوا داخلی دروازے پر پہنچا ، اب ادھیڑ عمر چوکیدار سے ارمش کے متعلق استفسار کر رہا تھا۔۔
"جی چھوٹے صاحب۔۔ علیم ( ڈرائیور) کے ساتھ گئیں ہیں ایک گھنٹے پہلے۔ "
مؤدب انداز سے جواب دے کر عالی کی جان میں جان بخشی تھی۔
"ہیلو؟؟؟ علیم؟ ارمش بیبی تمہارے ساتھ ہے؟"
چوکیدار کا جواب سن کر عالی سے قبل ضمان جو پیچھے پیچھے چلا آیا تھا نے لمحہ برباد کیے بغیر ڈرائیور کو کال ملائ تھی
"کہاں ہو اس وقت؟"
جواب مثبت ملا تو ایک اور سوال کر گیا۔
"قبرستان۔۔۔"
عالی کی بیتابی سے سوال کرتی نظروں کا یک لفظی جواب کھوئے لہجے میں دے کر وہ خاموش ہوگیا تھا۔
وہ ڈرتی تھی۔۔۔ شہرِ خموشاں کی وحشت زدہ فضاؤں سے۔۔ پھر کیوں وہ آج وہاں اکیلے چلی گئی؟؟؟
اس سوال کا جواب صرف ایک شخص کے پاس تھا۔۔۔
ضمان۔۔۔۔ وہ جانتا تھا۔ صرف وہی جانتا تھا
____________________________
"ابّی میں۔۔۔ میں تھک گئ ہوں۔ آپکی مش تھک گئی ہے ابّی۔۔۔۔ آپ کیوں چھوڑ کر چلے گئے مجھے ؟ دیکھیں میں اکیلی ہوگئ ہوں۔ میں لوگوں پر اتنی بوجھ بن گئی ہوں کہ میری خاطر نہ چاہنے کے باوجود عالی کو شادی کرنی پڑے گی۔۔
میری عزت نفس مجھے کچکولے لگاتی ہے ابّی۔ مجھے بہت پیار دیا پاپا نے، مما نے، عالی نے۔۔۔ پر یہ سب پیار احسان ہے مجھ پہ ،میرا حق نہیں ہے۔ میں جانتی ہوں اگر میں پاپا کو منع کروں گی شادی کے لیے تو وہ ہر گز بھی مجھے اس گھٹیا شخص کے حوالے نہیں کریں گے۔ پر میرا ضمیر مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں اپنی خاطر اپنے محسنوں کی زندگیوں میں زہر گھول دوں۔ پاپا بہت پیار کرتے ہیں ضمان سے ابّی وہ ضمان کی حقیقت برداشت نہیں کر پائیں گے۔
کاش آپ ہوتے۔۔۔ مجھے اپنے پروں میں چھپا لیتے۔ مجھے کسی کی فکر نہ ہوتی ۔میں پورے جہان کے سامنے ضمان کا گھناؤنا چہرا واضح کر دیتی۔ یا پھر کاش میں بھی آپ کے ساتھ ہی مر گئی ہوتی۔ بہت ظالم ہے یہ دنیا ابّی۔۔ یتیموں سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں یہ لوگ۔
وہ۔۔۔ وہ جانتے ہیں میں مجبور ہوں۔ اس چھت کے علاوہ کوئی پنہا گاہ نہیں ہے ۔میری تبھی کرتے ہیں نہ میرے ساتھ ایسا۔۔۔۔ جن کے باپ کا سایہ سر پر سلامت ہو اُن لڑکیوں کی جانب یہ دنیا آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتی ۔ کیوں کہ اُن کے محافظ اُن کے سروں پر موجود ہیں۔ اور مجھ جیسے یتیم ہمیشہ زمانے کی ٹھوکروں میں آجاتے ہیں۔ "
کل شام سے ہی دل ہمک ہمک کر عابد مگسی کی طلب کر رہا تھا. عابد مگسی کی تصویر سینے سے لگائے وہ نا جانے کتنے گلے شکوے کر چُکی تھی۔ جب دل میں لگی آگ کسی طور نا بجھی تو خاموشی سے بغیر کسی کو بتائے اپنے ابّی کی آخری آرامگاہ آ پہنچی۔۔
وہ ڈرتی تھی شہرِ خموشاں کی ویرانیوں سے ، گھبراتی تھی اس قلب چیر دینے والی خاموشی سے ،پر آج کا احوال کُچھ الگ تھا۔ آج دُنیا میں بپا ہنگامے سے چھپ کر باپ کے سینے پر سر رکھے یہ جگہ دُنیا کا پرسکون ترین گوشہ معلوم ہوا تھا۔ آج احساس ہوا کہ جس جگہ سے وہ خوف زدہ تھی آرام بس وہیں کے باشندوں کا نصیب تھا۔ وہ سکون جسکی تلاش ارمش کو تھی اُسکا ٹھکانہ یہی شہرِ خاموشاں ہے۔
"جانے والا واپس نہیں آتا بیٹا۔۔۔ مرنے والے کے ساتھ مرا نہیں جا سکتا یہی اوپر والے کا نظام ہے. اگر ایسا نہ ہوتا تو آج انسان زات اس دُنیا میں موجود ہی نا ہوتی. ہر شخص اپنے پیارے کے ساتھ دفن ہوجاتا۔
عمر کے شباب پر اس ویرانے میں اپنے آپ کو غرق کرنا نو خیز کلیوں کو نہیں بھاتا۔۔ جاؤ چلی جاؤ یہاں سے، باہر ایک دُنیا تمہارے انتظار میں ہے۔"
قبر کے تعویذ سے لپٹے آہ و زاری میں نا جانے کتنا وقت گزرا تھا۔ اس بات کا اندازہ ارمش کو تو نہ ہوا پر ایک گھنٹے سے اپنے جوان بیٹے کی قبر کے ساتھ بیٹھی بد نصیب ضعیف ماں سے جب اپنے سے دور قبر سے لپٹی روتی بلکتی ارمش کی آہیں برداشت نا ہوئیں تو نحیف جھکے کندھوں اور ساتھ چھوڑتے قدموں کے ساتھ اُٹھ کر عابد مگسی کی قبر پر جا پہنچی۔
"وہ کیا کریں جنکی پوری دنیا ہی اسی بیابان میں آ سوئی ہو؟ وہ کہاں جائیں کہ جنہیں دنیا جینے نہ دے رہی ہو؟"
کندھے پر محسوس ہوتے انجان لمس اور آواز پر سنبھل کر پیچھے مڑی تھی۔ اپنے سامنے پر وقار سی خاتون کو دیکھ جواب ده ہوئی۔
"اسی دُنیا میں واپس جائیں .جو لوگ جینے نہیں دے رہے اُنکی زندگی حرام کر دیں۔ جب جب ڈر کر پیچھے ہٹو گی تب تب اور ڈرائی جاؤ گی۔ اٹھو جاؤ اور جا کر بتا دو کہ کمزور نہیں ہو۔ یوں رو رو کر ہلکان ہوگی تو اپنے ساتھ اس ڈیڑھ گز کی زمین کے اندر آرام کرنے والے شخص کو بھی تکلیف پہنچاؤ گی۔"
نہ جانے کیا تاثیر عطا کی تھی خُدا نے اس زبان کو کہ جب بولنا شروع ہوئیں تو ایک عجیب قسم کا سکون اور حوصلہ ارمش کو اپنے باطن میں اترتا محسوس ہوا۔
"میں کمزور نہیں ہوں۔۔۔
میں کمزور نہیں ہوں۔۔۔۔۔ "
دل ہی دل میں اپنے آپ کو یقین دلاتی وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔
"شکریہ۔۔۔ "
جانے سے پہلے اس مہربان شخصیت کا شکر ادا کرنا نا بھولی تھی کہ جن جیسے لوگوں کے باعث یہ دنیا آج بھی قائم ہے
__________________________
"مت کہیے گا بھائی جان کہ آپ نے وہ سب ارمش سے بھی کہا ہے۔۔۔ "
ضمان کی زبان سے قبرستان لفظ سن کر ایک اُمید کے تحت عالی گویا ہوا تھا۔
"میں۔۔۔۔ میں نے ، میں نے کچھ نہیں کہا تھا اُسے عالی۔ جب۔۔ جب ہم بات کر رہے تھے۔ تب وہ باہر کھڑی تھی۔ خدا گواہ ہے عالی میرے منہ سے نکلا ہر لفظ بے معنی تھا میں سوچ بھی نہیں سکتا اس کے بغیر زندگی۔ میرے لیے یہ تصور بھی گناہ ہے۔۔"
عالی کی اُمید بھری نظروں نے ندامات کا بار مذید بڑھایا تو زبان لکنت کا شکار ہوگئی تھی۔ لڑکھڑاتے الفاظ کے ساتھ وہ عالی کے آگے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے در پے تھا۔
"میں آپ کو اس حرکت کے لئے کبھی معاف نہیں کروں گا بھائی جان۔ اب تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے سب کو ہی لا شعوری طور پر اندازہ تھا کہ میری اور زری کی شادی ہوگی ،آپ کو بھی معلوم ہوگا اور شاید آپ نے مش سے نکاح بھی صرف اور صرف اپنی بہن کے مستقبل کی حفاظت کے لیۓ کیا ہے۔۔۔۔۔
مستقبل بہت واضح نظر آ رہا ہے مجھے ۔میں دیکھ سکتا ہوں کہ ہم میاں بیوی کے نیجی مسائل کی سزا ہمیشہ ارمش بھگتنے والی ہے۔۔ پر ایسا نہیں ہوگا میں ایسا ہونے نہیں دوں گا۔
آپ کیا رخصتی نہیں کروائیں گے؟ میں خود اپنی بہن آپ جیسے مطلب پرست انسان کے ساتھ نہیں رخصت کروں گا۔ "
ضمان کی جانب اُنگلی اُٹھائے وہ ایک ایک لفظ سے مان کا ٹوٹ جانا باور کروا کر جا چکا تھا۔۔۔
پیچھے بچا تھا تو ضمان اور اس کا پچتاوا۔۔۔ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ کبھی پلٹ کر نہیں آتے۔ بولتے وقت الفاظ کا چناؤ کتنا ضروری ہے یہ بات کوئی ضمان سے پوچھتا جو اپنے غصے کی نظر اپنے دو عزیز لوگوں کو کر چکا تھا۔
ایک بھائی جو" جی بھائی جان " کہتے بڑا ہوا تھا ۔آج اپنی بہن کے حق کا وکیل بنے ضمان کے آگے آہنی دیوار بنا کھڑا تھا۔ دوسری جانب وہ جو نا جانے کب جینے کی وجہ بنی تھی ۔نا جانے کب رگوں میں دوڑتے خون کی طرح جینے کے لئے لازم ہوگئ تھی آج لمحہ لمحہ دور سرکتی محسوس ہو رہی تھی اور اپنے ساتھ ساتھ ضمان کی روح بھی آہستہ آہستہ کھینچے چلی جا رہی تھی
_______________________________
"مجھے لگتا ہے کہ جب قبر میں ، میں اپنے کئے کی سزا کے طور پر کوڑے کھا رہیں ہوں گی تم وہاں بھی پہنچ کر کہو گے۔ کیوں مش ؟ اکیلے اکیلے؟؟"
سُرخ انگرا ، سوجی آنکھیں مٹی اٹے کپڑے ویران چہرے پر زبردستی کی مسکراہٹ سجائے وہ عالی کو قابلِ ترس لگی تھی۔ بیساختہ ہی آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔
"ریلیکس عالی۔۔۔۔ میں بلکل ٹھیک ہوں۔"
کندھے پر نمی محسوس کرتے گہری سانس لے کر کمر تھپتھپاتی گویا ہوئی۔ اپنی نا شکری کا شدت سے احساس ہوا تھا اتنی محبتیں سمیٹنے کے باوجود وہ کیسے زندگی جیسی نعمت سے مایوس ہو سکتی تھی۔۔
"میں جانتا ہوں۔۔ خیر چلیں؟"
ارمش کے حال پر دل بری طرح گریاں تھا پر یہ معاشرہ مرد کو تو کھل کر رونے کی اجازت تک نہیں دیتا۔ ہاتھ کی پشت سے آنسوں رگڑ کر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکا تھا۔
ضمان سے ہوئی تلخ کلامی کے فوراً بعد ہی گاڑی لے کر وہ مخصوص قبرستان پہنچا تھا جہاں عابد مگسی ابدی نیند سوئے ہوئے تھے۔ ڈرائیور کو اپنی گاڑی میں واپس بھیجنے کے بعد متعدد مرتبہ اندر جانے کی کوشش کی تھی ، پر احساس ملامت قدم نہیں اٹھانے دے رہا تھا ۔یہ سوچ سوچ کر وحشت ہو رہی تھی کہ عالی کی موجودگی میں بھی ارمش کو دل کی بات کرنے عابد مگسی کی ضرروت محسوس ہوئی۔ کیوں نہیں تھا وہ اپنی بہن کے پاس اس وقت جب اُسے سہارے کی ضرورت تھی۔ اپنی سوچوں میں غرق بکھری حالات میں ارمش کو باہر آتے دیکھ ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے تھے ارمش کے کاندھے پر سر رکھے دو منہ زور آنسوں آپ ہی ٹوٹ کر گرے تو ارمش کے خیال سے خود کو سنبھال کر واپسی کی راہ لے لی۔
*******
"ہم گھر کیوں نہیں گئے؟؟؟ "
جاتی سردیوں کی نرم گرم سی دوپہر میں ابر آلود آسمان تلے ساحل کنارے گاڑی کے بونٹ پر بیٹھی ارمش منہ بسور کر گاڑی سے پشت ٹکائے عالی کو دیکھتی گویا ہوئی۔
"تم مجھ سے کچھ نہیں چھپا سکتی مش۔۔۔ اور فکر مت کرو عالی زندہ ہے. تمہارا بھائی تمہارے ساتھ ہے۔ ہماری غلطی تم نہیں بھگتو گی. ہماری خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر تم نے بھائی جان کو قبول کیا تھا نہ؟؟؟؟۔۔۔۔ اب میں ہی ختم کرواؤں گا یہ بوجھ نُما رشتا۔۔۔ تمہاری زِندگی برباد نہیں ہونے دوں گا میں مش۔ ہم یہاں سے جاتے ہی سب کو بتائیں گے اُنکی حقیقت۔ بھائی جان تمہیں ڈیسرو نہیں کرتے اُنکے ساتھ رُخصت کر کے تمہاری زِندگی مشکِل نہیں بننے دوں گا میں۔۔۔۔ "
جھٹکے سے مڑ کر ارمش کے ہاتھ تھامے دل میں چھڑی جنگ کو لفظی پیراہن پہنا کر لہجے میں ایک عزم لیئے گویا ہوا۔۔
"نہیں عالی۔۔۔۔ تم ایسا کچھ نہیں کرو گے۔۔۔ میں نے کسی کے دباؤ میں نہیں لیا تھا ، یہ فیصلہ میرا تھا۔ اور بہت سوچ سمجھ کر لیا تھا۔
مجھ سے وعدہ کرو تم ایسی کوئی بات پاپا کے سامنے نہیں کرو گے۔۔ وہ بیمار ہیں عالی کیسے برداشت کریں گے یہ سب؟ اور پھر اس سب میں بجّو کا کیا قصور؟ میرے اور ضمان کے رشتے کو کوئی آنچ آئی تو تمہیں کیا لگتا ہے؟ تمہارے رشتے پر اُسکا کوئی اثر نہیں ہوگا؟
اور ویسے بھی ارمش مگسی ہوں میں۔ نا کسے تمہارے بھائی جان کے نٹ بولٹ تو نام بدلوا دینا۔ پر تم اپنی جانب سے کوئی بات مت کرنا تمہیں یہ شادی کرنی بھی ہو نہ تب بھی تب تک جواب مت دینا جب تک وہ خود میرا ذکر سب کے سامنے نہ چھیڑیں۔۔ ہم کیوں برے بنیں؟ اُنہیں نہیں کرنا ہے تو خود منع کر دیں اور پھر میری بلا سے بھاڑ میں جائیں پر ہم نہیں کہیں گے کُچھ۔۔۔۔۔تم میری فکر مت کرو میں خود دو دو ہاتھ کر لوں گی۔"
قبرستان سے نکلتے وقت ایک سوال ارمش نے خود سے کیا تھا کہ اس رشتے کے لئے حامی بھرتے وقت وہ جانتی تھی کہ یہ فیصلہ ہر موڑ پر خراج مانگے گا تو پھر اب کس بات کا سوگ ؟ غلطی تو خود کی تھی امیدیں وابستہ کی ہی کیوں؟ پھر ایک فیصلہ کرتی وہ باہر نکلی تھی کہ اگر منع کرنا ہے تو ضمان خود کرے گا اور اگر قسمت میں اُسی کے ساتھ زِندگی بسر کرنا لکھی ہے تو اس واقعے سے سبق لے گی وہ آگے زِندگی میں کبھی ضمان رند سے کسی بھلے کی اُمید نہیں رکھے گی۔
"پر ارمش۔۔۔۔"
ارمش کی کسی بات سے وہ متفق نہ تھا تبھی احتجاجاً لب وا کیے ہی تھے کہ ارمش نے دوبارہ خاموش کروا دیا۔
"کوئی پر ور نہیں۔۔۔ بڑی ہوگئ ہوں میں کرلو گی ہینڈل بس تم اپنے منہ پر اس معاملے میں زپ لوک لگاؤ اور پھر دیکھو میرا کمال۔۔۔۔"
بجھے دل کا کوئی تاثر چہرے پر آنے نا دیا تھا ہشاش بشاش لہجے میں کہتی وہ صبر کی مثال قائم کر رہی تھی
_____________________________
" اب تم میرے ساتھ ایسا کرو گے؟"
دروازہ کھٹھٹا کر اجزات ملنے پر ضمان عالی کے کمرے میں داخل ہوا تھا، جو ایک نظر ضمان پر ڈال کر دوبارہ گود میں رکھے لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ ہوا تو بیساختہ ہی شکوہ ضمان کی زبان سے پھسل گیا۔۔
"آپ نے جو کیا ہے اس کے۔۔۔۔۔۔"
الفاظ زبان میں ہی رہ گئے تھے جب بات بیچ سے کاٹ کر ضمان ایک مرتبہ پھر شکوہ کناں ہوا۔
"میں نے کیا.... بلکل غلط کیا!!!! پر یہ بتاؤ عالی کہ آج تک تم نے کیا کوئی غلطی نہیں کی؟ میں نے تو کبھی تمہاری غلطیوں پر تم سے اس طرح منہ نہیں موڑا ، یا پھر میں انسان نہیں ہوں؟ مجھ سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی؟
خیر میں صرف اتنا کہنے آیا تھا کہ تمہیں نہیں کرنی شادی نا کرو ، پر ہمارے بیچ جو بھی بات ہوئی تھی اُسے یہیں دفن کردو۔ میری اور ارمش کی شادی اُسی طرح سے ہوگی جس طرح سے پلان ہے۔۔۔۔ "
ہاتھ اٹھا کر عالی کو بات بیچ میں روکنے کا اشارہ دیتے وہ خود گویا ہوا تھا۔
"ارمش بہت ہرٹ ہوئی ہے بھائی جان۔۔۔"
ضمان کی باتوں پر ماضی کے کئی واقعات ذہن کے پردے پر لہرائے تھے جہاں عالی کی ہر غلطی پر کبھی ڈانٹ کر تو کبھی پیار سے بہلا پھسلا کر ضمان عالی کو صحیح غلط کی تمیز کرنا سکھا رہا تھا۔ ضمان کے بھائی کا دل لمحے کے ہزارویں حصے میں پسیجا تھا پر ارمش کا بھائی چاہ کر بھی وہ توہین فراموش نہ کرسکا جو ضمان نے اُسکی بہن کی کی تھی۔۔۔
"جانتا ہوں۔۔۔ میں اتنا بڑا گدھا ہو سکتا ہوں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کے حسین لمحات برباد کروں گا کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ پر عالی میرے فرشتوں کو بھی اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ باہر کھڑی ہوگی۔۔
ویسے تو ابھی بھی میں نے کوئی لفظ سوچ سمجھ کر ادا نہیں کیا تھا پر اگر ذرا برابر بھی مجھے بھنک ہوتی کہ وہ باہر کھڑی ہے تو ہر گز بھی یہ بکواس نا کرتا۔ پر تم فکر مت کرو اپنا بویا خود کاٹوں گا مجھے ہر سزا منظور ہے میں ضرور منا لوں گا اُسے۔"
ایک جذب کے عالم میں کہتا اُسکے ہر لفظ سے احساسِ ندامت کی جھلک واضح تھی۔
"ایک اور بات بھائی جان۔۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے آئندہ زندگی میں کبھی ارمش زری کے معاملات میں نہیں پسے گی؟ میں یا ارمش کیسے بھروسا کر لیں کہ جیسا آپ نے اس مرتبہ کہا ہے ویسا آگے زندگی آپ کبھی کریں گے نہیں؟ '
مشکوک نگاہوں سے ضمان کو دیکھتے وہ استفسار کر رہا تھا۔۔۔۔
"اُلّو کا پٹھا ہوں میں جو اس بار بھی یہ بات کر دی۔ تمہارے خدشات انشاءاللہ پوری زندگی ہی غلط ثابت ہو گے۔
اب چپ کر جاؤ عالی نہیں تو ایک لگاؤں گا کان کے نیچے۔ میں ویسے ہی پریشان ہوں اوپر سے تم مدد تو کیا کرو گے الٹا پریشانی میں اضافہ ہی کر رہے ہو۔"
کڑے چتونوں سے جواب دیتے تن فن کرتا کمرے سے جا چکا تھا ۔جبکہ پیچھے عالی بس افسوس سے نفی میں گردن ہلا کر رہ گیا۔
______________________________
"عالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بجّو کی منہ دکھائی کے لیئے گفٹ لے لیا تھا تم نے؟؟؟"
فیملی شوٹ کی باری آئی تو یکے بعد دیگرے سب یادیں تصویروں کی صورت مہارت سے فوٹوگرافر ہاتھ میں موجود جدید کیمرے میں قید کرنے لگا۔ فوٹوگرافر کی فرمائش پر جب بہن بھائی کے جوڑے کیمرے کے سامنے آئے تو پوز کرنے کے دوران مکمل رازداری کے ساتھ ارمش عالی کے کان کے قریب ہو کر گویا ہوئی۔
ردِ عمل میں عالی کی پھٹی آنکھیں دیکھ اس پورے دن میں کی پہلی مسکراہٹ نے ارمش کے لبوں کو چھوا تھا۔
"مش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا قیمہ بنا دی گی یہ چڑیل۔
پوری زندگی طعنے مار مار کر ذلیل کرے گی!! اب کیا ہوگا؟؟ میں اپنے بچوں کو کیا منہ دکھاؤں گا جب اُن کے سامنے یہ میری بھول کو کنجوسی کا نام دے گی یہ؟؟؟ میں اپنے کاکے کاکیوں کے آگے شرمندہ نہیں ہونا چاہتا!!"
اپنی غلطی پر وہ واقعی پریشان تھا۔ وہ جانتا تھا ہر لڑکی کو منہ دکھائی کا ارمان ہوتا ہے پر ارمش کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ اداکاری نے طول پکڑ لیا تھا۔
"بس کرو نوٹنکی۔۔۔ سائڈ ڈرار میں رکھ دیا ہے بوکس۔۔۔۔ اُدھار ہے۔۔۔۔۔۔ خبردار جو میری محنت کی کمائی ہڑپ کرنے کی کوشش کی۔ ورنہ بتا دوں گی بجّو کو کہ نکمے نے کُچھ نہیں لیا تھا۔۔۔"
جوہری کے پاس اپنے زیورات پسند کرتے وقت ایک پلیٹینم بریسلٹ نے ارمش کی توجہ بری طرح کھینچی تھی۔ اپنی کلائی پر رکھ کر بریسلٹ کی خوبصورتی سراہتے بریسلٹ خرید لیا تھا ساتھ ہی زری کو اُسکی شادی کا تحفہ دینے کے لحاظ سے بھی اُسے جب وہی بریسلٹ پسند آیا تو ایک اور بنوانے کا آرڈر بھی دے دیا تھا۔
آج صبح پارلر جانے سے پہلے اچانک ہی یہ خیال دماغ میں آیا تھا کہ اس آناً فاناً میں کہاں ہی عالی کو منہ دکھائی کا گفٹ خریدنا یاد رہا ہوگا۔ وقت کم تھا اور عالی کی مصروفیات زیادہ۔ اسی سوچ کے زیرِ اثر وہی بریسلٹ اٹھا کر وہ عالی کے کمرے میں پہنچی تھی، کمرہ خالی دیکھ سائڈر کی ڈرار میں رکھ کر واپس پلٹ آئی۔ پورے دن موقع ہی نہیں ملا تھا بات کرنے کا، وہ تو بھلا ہو فوٹوگرافر کا جس نے عین وقت پر عالی کو ڈوبنے سے بچا لیا تھا۔
"ہائے مشو!!! تم اتنی پیاری کیوں ہو؟؟؟؟؟؟"
اپنی زندگی کے اس قدر حساس موڑ پر بھی اسے عالی کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال تھا۔
عالی کو ارمش پر جی بھر کر پیار آیا تھا جس کا اظہار پھولے گالوں کو کھینچ کر کیا تو ارمش نے بھی اپنے بچاؤ میں فوراً مصنوئی ناخنوں کی ٹھونگیں مار کر ہاتھ زخمی کر دیا۔
دولہا دلہن بنے بہن بھائیوں کی ازلی کھٹّی میٹھی تکرار جاری تھی جب دونوں کے چہروں پر بکھرتی ہنسی کا یادگار لمحہ چپکے سے کیمرے کی آنکھ میں قید ہو چکا تھا۔
زری کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ضمان کے کانوں میں جونہی من چاہی ہنسی کے سروں کی چاشنی گھلی تو بیساختہ ہی عالی ارمش کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ جہاں عالی کے کُچھ کہنے پر لوگوں کی نظروں سے لا پرواہ کھڑی ارمش عالی کو زبان چڑا رہی تھی۔
ضمان کے دل نے بیساختہ خواہش کی تھی کہ اس مسکراہٹ کا سبب بننے والے عالی کو جا کر زبردست قسم کی جھپپی ڈال دے۔ پر دور کھڑے رہ کر ہی نظریں سینکنے میں عافیت جانی تھی کہ دونوں بہن بھائی ہی ضمان سے نالاں تھے اور وہ اس وقت تو کم از کم ہر گز بھی اپنی موجودگی کے باعث ان چہروں سے مُسکراہٹ کا چھن جانا برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
♡---------------------------------------------♡
"کوایک۔۔۔۔۔۔ کوایک۔۔۔۔۔۔"
تیز سرمئی کُرتا شلوار پر ہلکے سرمئی رنگ کا پرنس کوٹ زیب تن کیے عرشمان نے مسٹرڈ ٹخنوں کو چھوتی انارکلی فراک میں ملبوس کاوش کے عین پیچھے کھڑے ہو کر خاصی بلند آواز میں عجیب سی آواز نکالی تھی۔
وہ جو اپنی دھن میں باقی کے کولیگز کے پیچھے سٹیج کی جناب بڑھ رہی تھی اپنے بے حد قریب عجیب سی آواز سن کر تھمی تھی۔ آواز کی سمت نظر اٹھائی تو اپنی تمام تر وجاہت سمیت آنکھوں میں شرارت لیے وہ اسی کی جانب متوجہ تھا۔
"وہ کیا ہے نہ، میری بطخ کھو گئی ہے اسے ہی ڈھونڈ رہا ہوں۔۔۔ آپ نے دیکھی ہے کہیں؟"
کاوش کی سوالیہ نظروں پر بڑی سنجیدگی سے معصومیت کا لبادہ اوڑھے جوابدہ ہوا۔
"آپ۔۔۔۔۔۔۔ آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟"
وہ جو چند لمحے تو بس حواس باختگی سے عرشمان کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی اپنے کپڑوں پر نظر پڑی تو مان کا اشارہ سمجھتی آگ بگولا ہوئی تھی۔ ناک پھلائے پیر پٹخ کر آگے بڑھ جانے کے بجائے دماغ ٹھکانے لگانے کو فوقیت دیتے دونوں ہاتھ کمر پر جمائے کڑے انداز میں سوالی ہوئی۔
"میں؟ انسان کا بچہ سمجھتا ہوں۔
اور آپ غُصّہ کیوں ہو رہی ہیں؟ میں نے تو تھوڑی سی مدد مانگی تھی نہیں کرنی تو نا کریں ایسے غُصّہ تو مت کریں کم از کم۔"
معصومیت کی نئی مثال قائم کرتے وہ نہایت رنجیدہ لہجے میں گویا تھا کہ ایک لمحے تو کاوش کو بھی ایسا لگا کہ جیسے واقعی اُسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے پر لفظ بطخ دماغ میں آتے ہی غُصّہ نئے سرے سے عود آیا تھا۔
"میرے سامنے ناں زیادہ معصوم بننے کی کوشش مت کریں۔
روٹی کو اٹی اور پانی کو مم نہیں کہتی میں جو میری سمجھ میں آپکی بات نہ آئے!!"
انداز خاصا برہم تھا۔
"میں نے تو سیدھا سا سوال کیا تھا اب اگر پانی نشیب میں مر رہا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟"
نا جانے کیوں پر عرشمان کو مزا آرہا تھا اس لڑکی کو تنگ کرنے میں۔ تبھی اپنی عادت کے بر خلاف جواب کے بدلے جواب دیتا وہ مُسلسل کاوش کے ساتھ چھیڑ خانی میں مصروف تھا۔
"بھاڑ میں جائیں آپ!!"
جب اور کوئی جواب نہ بنا تو عرشمان پر دو حروف بھیج کر عادت کے مطابق پیر پٹختی کاوش سٹیج کی جانب بڑھ گئی۔
"بونی بطخ۔۔۔۔۔۔"
زیرِ لب مسکراتے دل ہی دل کُچھ فیصلہ کرتا وہ روحا بیگم کی جانب بڑھ گیا تھا۔
پہلی ملاقات سے ہی یہ لڑکی عرشمان کے حواسوں پر سوار تھی پوری شادی ہی کاوش کا ہر عمل عرشمان کی نگاہوں کے حصار میں رہا تھا۔ وہ انسان کی پہچان رکھنے والوں میں سے تھا اور پھر ایک ہفتہ کافی ہوتا ہے کسی کو جاننے کے لیئے۔
ایک ہفتہ پرکھنے کے بعد عرشمان بھی جان گیا تھا کہ یہ لڑکی عرشمان کو اپنی زندگی میں چاہیے ہے۔
♡-------------------------------------------♡
"اور میں سوچ رہا تھا میری دلہن بھی روایتی دلہنوں کی طرح گھونگٹ ڈال کر میرا اِنتظار کر رہی ہوگی۔"
تقریب کے انتظامات کا بوجھ مکمل طور پر عرشمان اور مصطفٰی صاحب پر ڈال کر کمرے میں آجانا عالی کو ہر گز بھی معقول معلوم نہ ہوا تھا۔ عرشمان کے لاکھ اسرار کے باوجود وہ شادی میں مختلف اقسام کے چھوٹے موٹے کام سمٹوانے میں مصروف تھا جب دارلامان میں صدقے کے بکرے اور پیسے دے کر ضمان کے ہمراہ واپس آتے مصطفٰی صاحب نے سب کام چھوڑ کر کمرے میں جانے کا حکم کیا۔ چوں چراں کرنے کی کوشش عالی نے ضرور کی تھی پر سب بڑوں کی اجتماعی گھوری پر خاموشی کا راستہ اپنا کر کمرے کی جانب چل دیا۔
وہ جو اپنی دیری پر شرمندہ تھا سرہانے سے ٹیک لگائے ہاتھ میں فون تھامے فیسبوک استمعال کرتی اپنی نئی نویلی بیوی کو دیکھ کر اپنی سوچ بیان کرنے لگا۔
"اس بات کا ہی شکر مناؤ بیٹا کہ دروازہ لاک نہیں کیا۔۔۔۔۔
ورنہ جتنی دیر تم نے کی ہے میرا دماغ اس عرصے میں سوئیوں مرتبہ یہ مشورہ دے چکا تھا۔"
آنکھوں میں جگنوؤں کی سی چمک لیے وہ جو عالی کی منتظر تھی ایک گھنٹے تک عالی کی غیر موجودگی پر کلس کر طعنہ دینے لگی۔
"چلو جی۔۔۔۔۔ نئی زِندگی، نئے قسم کے طعنے۔ صحیح جا رہیں ہیں آپ زوجہ محترمہ۔
میرے کمرے سے مجھے ہی در بدر کرنے کی خواہشات بھی ظاہر کر دیں؟؟ ویسے یہ سب چھوڑو یہ بتاؤ مجھے جلدی بلا کر کرنا کیا تھا تمہیں؟؟؟"
زری کی گوہر فشانیاں سنتے ٹھنڈی آہ بھر کر شیروانی اتارتے گویا ہوا۔
ایک دم ہی شرارت سوجھی شیروانی صوفے پر اچھال کر بیڈ پر بیٹھتے معنی خیز لب و لہجے میں استفسار کیا تھا۔
"کیا مطلب ہے کیا کرنا تھا؟؟ منہ دکھائی لینی تھی اور کیا کرنا تھا؟؟"
عالی کا سوال بے تکا جان کر ماتھا پیٹ کر جواب دیا تھا۔
پل میں ساری شوخی اُڑن چھو ہوئی تھی وہ جو سوچ رہا تھا کہ اب زری شرمائے گی شنگرفی لب وا ہوئے تو جی جان سے زری کی جانب متوجہ ہوا تھا پر جونہی کان میں الفاظ پڑے تو ایک لمحے کے لیئے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا پر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا۔
"اس باسی شکل پہ کس بات کی منہ دکھائی؟ بچپن سے یہی خوفناک تھوبڑا دیکھتے بڑا ہوا ہوں۔ میں نے کچھ نہیں لیا۔"
بات تھی تو سچی مگر اس وقت محض زری کو تنگ کرنے کے لیۓ ہی کی گئی تھی توقع کے عین مطابق چہرے کے تاثرات پل میں بگڑتے نظر آگئے تھے۔
"کیوں ایک رات کی دلہن کو بیوہ کرنے پر تُلے ہوئے ہو؟ اور کُچھ نا صحیح اپنی جوانی پر ہی رحم کھاؤ۔"
عالی کی باتوں پر دانت کچکچاتے اب کے زرلش سیدھا دھمکیوں پر اُتر آئی تھی۔
"بھئی عالی مت کرو ناں ں ں۔۔۔۔
ہم دوبارہ سے شروع کرتے ہیں۔
میں گھونٹ ڈال کر بیٹھتی ہوں تم باہر جاؤ پھر اندر آنا۔ آ کر میری تعریف کرنا ایک آدھ شعر کہنا چاہو تو وہ بھی کہہ دینا اور پھر منہ دکھائی دینا۔
اوکے؟ چلو جاؤ باہر۔"
اپنے جواب پر عالی کا قہقہہ سن کر عاجز آتے وہ ہر لڑکی کی خوابی شبِ عروسی کا طریقہ بتاتی عالی کا ہاتھ پکڑ کر باہر کی راہ دکھانے لگی تھی اس سے پہلے کہ وہ پھر کوئی جوابی کاروائی کرتا لجاجت سے خاموش کروا کر عالی کو باہر بھیج کر گھونگٹ ڈال کر بیٹھ چُکی تھی۔
عین زری کے بتائے گئے طریقےکار کے مطابق دروازے پر دستک دے کر وہ اندر داخل ہوا تھا۔۔۔
گھونگٹ ڈالے بیڈ پر لہنگا پھیلائے بیٹھی زری کو دیکھ کر اُمڈ آنے والی ہنسی کا گلا گھونٹ کر سائڈر سے ارمش کے نوازش کیے گئے بریسلٹ کا ڈبہ اٹھا کر زری کے عین سامنے بیٹھ کر سلام کیا تھا جس کا جواب بھی ملا تو ایک بار پھر مسکراہٹ نے لبوں کو چھو لیا۔
"تم آج کتنی حسین لگ رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔میں شاید الفاظ میں بیان بھی نہ کر پاؤں۔۔ بلکہ آج ہی کیوں ہر روز تمہاری ہر ادا ہر روپ ہی الفاظ میں قید نہیں ہو سکتا۔"
نرمی سے ہاتھ تھام کر بریسلٹ زری کی کلائی کی زینت بناتے وہ محبت پاش لہجے میں زرلش کے کانوں میں امرت گھول رہا تھا۔۔۔
"بس ایک شعر کہنا چاہوں گا۔۔۔۔۔۔ اس سے اندازہ لگا لینا کہ تم کتنی دلکش و دل رُبا محسوس ہوئیں تھیں مجھے۔"
نرمی سے کلائی پر محبت کی پہلی مہر ثبت کرتے گھونگٹ سے نظر آتے دھندلے عکس پر نظریں ٹکائے گویا ہوا۔
"چار لفظوں کا حسن ہے تمہارا۔۔۔۔۔
فیشل، فاؤنڈیشن، کریم، مسکارا"
وہ جسکا پور پور سامع بنا ہوا تھا عالی کے الفاظ پر صدمے سے گھونگٹ اٹھا کر پھٹی آنکھوں سے عالی کو دیکھتی وہ یقین کرنا چاہ رہی تھی کہ جو سنا ہے وہی عالی نے کہا ہے۔
"کمینے انسان!!!!!! تم سے کسی اچھے کی اُمید رکھنا ہی فضول ہے۔"
عالی کی آنکھوں میں ناچتی شرارت نے جونہی گمان پر حقیقت کی مہر لگائی قریب پڑے کوشنز سے ایک کے بعد عالی کا نشانہ لیتے غصے سے پھولی ناک کے ساتھ مُسلسل وہ عالی پے چیخ رہی تھی جو شعر کہنے کے ساتھ ہی بچاؤ کے طور پر بیڈ سے دُور جا کھڑا ہوا تھا اور اب چھت پھاڑ قہقہوں کے درمیان بڑی مہارت سے سارے کشن کیچ کر رہا تھا۔
کمرے کا منظر کسی طور بھی نو بیہاتے جوڑے کی آرامگاہ کا معلوم نہیں ہو رہا تھا۔عالی کی ہنسی اور زری کی چیخوں نے عجیب جنگی سما بنایا ہوا تھا۔
♡-----------------------------------------♡
مصطفٰی صاحب کے ساتھ واپس پہنچتے پہنچتے ضمان کو رات کا ایک بج چکا تھا پھر سر میں اُٹھتی ٹیسوں کے سبب اوپر پہنچتے ہی ایک کپ کڑک چائے بنا کر پینے کے بعد جب رخ کمرے کی جانب کیا تو آدھا گھنٹہ اور بیت چکا تھا۔
وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ دیری وہ جان بوجھ کے کر رہا ہے۔
اپنے جرم کے بوجھ کے ساتھ اس وقت آج کی رات ارمش کے قریب جانے کا تصوّر بھی کھل رہا تھا۔ گہری سانس کھینچ کر آنے والے وقت کے لئے خود کو تیار کرتے ہوئے تمام تر ہمت جمع کرنے کے بعد دروازے پر ہلکی سی دستک دیتا اندر داخل ہوا تھا۔
کمرے میں چھائی فسوں خیز تاریکی، گلاب، چمبیلی اور خوشبودار موم بتیوں کی خوشبو نے اعصاب پر گہرا اثر چھوڑا تھا۔ آنکھیں اندھیرے سے روشناس ہوئیں تو ارمش کی کھوج میں نظریں اِدھر اُدھر دوڑائیں جو بیڈ پر بیٹھی نظر نہ آئی تھی۔ ایک نظر پورے کمرے میں ڈال لینے کے بعد جب پریشانی سے دوبارہ بیڈ کی طرف نگاہ کی تو گردن تک رضائی تانے خوابِ خرگوش کے مزے لوٹتی ارمش نے توجہ اپنی جانب کھینچی۔
نرم مسکراہٹ نے چپکے سے لبوں کو چھوا تھا۔ مناسب مگر محتاط قدم اٹھاتے جونہی خالی جگہ پر پہنچا تو احساس ہوا کہ محترمہ نے ترچھا لیٹ کر چھوٹے سے وجود سے پورا بیڈ حتیانے کی پوری کوشش کی ہوئی ہے۔
ہاتھوں میں پکڑا تکیہ دیکھ بیساختہ ہی ہنسی آئی تھی۔
"اوہ! تو اپنے ساتھ اس تکیے کی بھی رخصتی کروالی ہے۔۔۔۔
یہ وہی تکیہ جو نا جانے کتنے عرصے سے ارمش کے ساتھ تھا جس کے ساتھ ارمش کے عشق کی داستان مشہور و معروف تھی۔"
تکیے محبوب کو گلے سے لگا دیکھ زیرِ لب بڑبڑایا تھا۔ ایک بھرپور نظر کمفرٹر میں چھپے نازک وجود پر ڈال کر ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گیا تھا۔ منہ ہاتھ دھو کر سرمئی شورٹ پر کالا بنیان زیب تن کیے باہر لوٹا تو محترمہ کو ابھی بھی اسی پوزیشن میں سوتا پایا۔
"ارمش۔۔۔۔تھوڑی سائڈ ہو۔۔۔۔ مجھے بھی لیٹنا ہے۔"
پیر ہلا کر سرگوشی نما آواز میں التجائیہ ہوا تھا۔
دوسری جانب وہ جو پیٹ کے بل سوئے ہوئے اتنے دنوں کی تھکن کے زیرِ اثر میٹھی نیند کے مزے لے رہی تھی پیر کے ہلنے پر بیزار ہوتے ایک آنکھ کھول کر نیند میں خلل پیدا کرنے والے گنہگار کو دیکھا تھا۔ سامنے ضمان رند کو کھڑا پا کر اپنا خواب سمجھتی ناک منہ بنا کر دوبارہ اپنی پوزیشن میں سو چکی تھی۔
ارمش کا ردِ عمل دیکھتے گہری سانس کھینچ کر اُسی تھوڑی بہت بچی جگہ میں سمانے کی کوشش کرتے پیر سکیڑ کر بمشكل لیٹا تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ارمش کا پیر اپنے مڑے ہوئے پیر پر محسوس ہوا۔
"اتنی سی جگہ بھی میرے لیے چھوڑنا منظور نہیں ہے محترمہ کو۔"
ارمش کے پیر پر پیر رکھنے سے ایک فائدہ ملا تھا کہ وہ اپنے پیر بھی پھیلا سکتا تھا۔ پیر پھیلاتے آنکھوں پر ہاتھ رکھے چند لمحات کے توقف کے بعد قریبی پھیلا ہاتھ ضمان کے سینے پر آیا تھا اور پھر کچھ ہی لمحوں میں وہ پوری کی پوری ضمان کے پہلو میں دبکی خود تو بھرپور نیند کے مزے لوٹ رہی تھی جبکہ دوسری جانب ضمان ارمش کی قربت کے زیرِ اثر انگڑائی لیتے جذبات کو تھپکی دے کر سلانے کی کوشش میں سانس روکے چت لیٹا ارمش کے خود ہی دور ہٹ جانے کے اِنتظار کی سولی پر لٹکا ہوا تھا۔
"تم معصوم کی جان لے کر ہی رہو گی مسز رند۔۔۔"
جب چند لمحات گزرنے کے ساتھ ساتھ ارمش کا وجود مزید قریب ہوتے دیکھا تو ہاتھ کا حصار قائم کرتے دل ہی دل میں ارمش سے مخاطب ہوتے آنکھیں موند گیا۔
♡-----------------------------------------♡
"کہاں جا رہی ہو؟"
ارمش کے باتھرُوم سے نکلتے ہی وہ اندر گھس گیا تھا۔ پندرہ منٹ میں واپس آیا تو ارمش نے ہلکے میک-اپ کے ساتھ نازک زیورات پہنے گیلے بالوں کو کمر پر کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ ضمان جس وقت باہر نکلا تو سر پر دوپٹہ جما کر وہ باہر جانے کی تیاری میں تھی۔ تبھی ضمان نے سوال کیا۔
"میں تم سے بات کر رہا ہوں ارمش! کہاں جا رہی ہو؟"
اپنے سوال کو سرے سے نظر انداز ہوتا دیکھ ذرا رعب سے سوال دوہرایا۔
"باہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
جاگتے حواسوں کے ساتھ ضمان کے کمرے میں رہنا عجیب احساسات سے دو چار کر رہا تھا۔ وہ اس وقت بس کسی بھی طرح باہر جانا چاہتی تھی۔ ضمان کو اپنے سوال پر اڑا دیکھ یک لفظی جواب دیتے پھر باہر جانے کے لئے پر تولنے لگی۔
"پانچ منٹ بیٹھ جاؤ۔
میں تیار ہو جاؤں پھر ساتھ چلتے ہیں۔۔۔۔"
نہ جانے وہ اتنی بیوقوف تھی يا بن رہی تھی۔ ضمان کے سمجھ تو نہ آیا تھا پر پھر بھی شائستگی سے جواب دیتا ڈریسر سے ہیئر برش اٹھا چکا تھا۔
"یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔۔۔ مجھے راستے آتے ہیں۔
آپ کا انتظار کیوں کروں؟ میں جا رہی ہوں۔"
ضمان کی فرمائش پر زچ ہو کر بولتے ہوئے ابھی ایک آدھ قدم ہی بڑھایا تھا کہ پیٹ پر ہونے والے اچانک دباؤ کے زیرِ اثر سوکھی ڈالی کی طرح پیچھے کسی سخت پتھر سے جا ٹکرائی۔
وہ جو پیار سے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا ارمش کی منہ زوری دیکھ کر لمبے لمبے ڈگ بھرتے جا لیا۔ کمر میں ہاتھ ڈال کر پیچھے کھینچا اور شاید وہ بھی اس حملے کے لیے تیار نا تھی تبھی جھٹکے سے سینے سے آ لگی۔
"پھر کہتی ہو زبردستی کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔ چپ کر کے بیٹھی رہو یہیں پر اب اگر اُٹھیں تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا! آ رہا ہوں پانچ منٹ میں۔"
دونوں کندھوں سے تھام کر صوفے پر بٹھاتے ایک ایک لفظ پر زور دیتا آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گویا ہوا۔
"کسی خوش فہمی میں مت رہیں۔ ابھی بھی آپ سے بُرا کوئی نہیں ہے!!!
ایک تو چوری اوپر سے سینا زوری۔۔۔۔۔"
وہ جو ضمان سے ندامت کے زیرِ اثر اس قسم کے رویے کی توقع نہیں کر رہی تھی ضمان کو پیچھے ہٹتا دیکھ پہلی بات قدرے اونچی آواز میں کہی تھی۔ جب کہ دوسری بات بھی اتنی آہستہ نہ تھی کہ ضمان کے کانوں میں آواز نا پہنچے۔
♡-------------------------------------------♡
"کون؟؟"
دروازے پر دستک ہوئی تو وہ جو ڈریسر کی ڈرار سے چھوٹی سی ڈبیہ نکالے کرخت تاثرات لیۓ بیٹھی ارمش کی جانب بڑھ رہا تھا دروازے کی جانب متوجہ ہوا۔
"ضمان صاحب، رفیعہ بی بی نے بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔کہہ رہیں ہیں کہ اُٹھ جائیں۔"
دروازے پر کھڑی فرزانہ نے رفیعہ بیگم کا پیغام من و عن پہنچایا تھا۔
"اُٹھ گئے ہیں۔
اُن کو کہو آرہے ہیں پانچ منٹ میں۔"
فرزانہ کی آواز سنتے ہی ارمش نے قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے جنہیں بیچ راہ میں ہی کلائی تھام کر روکنے کے بعد ضمان فرزانہ کو جوابدہ ہوا ساتھ ہی دوبارا ارمش کا ہاتھ تھامے صوفے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
"ہاتھ چھوڑیں میرا! کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ؟"
دبے لہجے میں غراتی وہ ضمان کو مسکرانے پر مجبور کر گئی تھی۔
"جاگتے ہوئے ہاتھ بھی نہیں پکڑنے دے رہی ہو۔ اور سوتے ہوئے محترمہ ساری حد بندیاں فراموش کیے میرے صبر کا امتحان لے رہیں تھیں۔
خیر یہ تمہاری منہ دکھائی۔۔۔۔۔"
ارمش کی پیشانی کے بلوں کو شہادت کی انگلی سے چھوتے ہوئے شوخ لہجے میں جواب دیتا ارمش کو اپنی بے خبری پر تاؤ دلا گیا تھا۔
خفت سے جھکی پلکوں کو نرم گرم نظروں کے حصار میں لئے بیش قیمت ہیروں جڑی خوبصورت انگھوٹی ڈبے سے نکال کر ارمش کے آگے ہاتھ پھیلائے گویا ہوا۔
"مجھے نہیں چاہیئے۔"
ضمان کے خلوص پر پانی پھیرتے آگے بڑھے ہاتھ کی جانب نظر غلط ڈالے بغیر اُکھڑے انداز میں بولی تھی۔
"میں نے تم سے پوچھا نہیں ہے کہ تمہیں چائیے یا نہیں!"
جھولی میں رکھا ہاتھ تھام کر مخصوص اُنگلی میں انگھوٹی پہناتے ہوئے گویا ہوا۔ اس بار لہجے میں کسی قسم کی نرمی کا عنصر موجود نہ تھا وہی ازلی کرخت لہجہ جو ہمیشہ سے ہی ارمش کو ہراساں کرنے کا باعث بنا تھا۔
واپس کرنے کی ہمت تو نہ ہوئی تھی پر ہاتھ سے اتار کر واپس ڈبی کی نذر کرنے کی ضرور کوشش کی تھی۔
"کیا ہوگیا ہے ارمش؟ تم اتنی عقل سے پیدل ہمیشہ سے تو نہیں ہو۔ کوئی احساس ہے کہ سب پوچھیں گے منہ دکھائی کیا دی ہے میں نے؟ پھر کیا کہو گی سب کو؟ ایک بات ذرا کان اور دماغ دونوں کھول کر سن لو۔ہمارے درمیان جو بھی مسائل یا اختلافات ہیں یا پھر تمہارے جو بھی شکوے شکایات ہیں وہ اسی چار دیواری کے اندر محدود رہنے چاہئے ہیں۔ میں ہر گز برداشت نہیں کروں گا کہ چار لوگوں کے درمیان ہمارا رشتہ تنقید کا نشانہ بنے۔ ہمارے بیچ کے مسئلے مسائل آج نہیں تو کل ختم ہو ہی جائیں گے پر لوگ نہیں بھولیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ ہماری بات ہمارے درمیان رہے۔۔ آ رہی ہے سمجھ؟"
ارمش کے ہاتھ سے ایک بار پھر انگوٹھی لے کر پہنانے کے بعد ارمش کی ہٹ دھرمی پر زچ ہوتے گویا ہوا۔ بات کے اختتام پر لہجہ دو ٹوک تھا۔
"چلو اُٹھو شاباش۔۔۔۔۔ چلتے ہیں۔۔۔۔۔"
جھکی گردن دیکھ لہجہ ایک مرتبہ پھر چاشنی گھلا ہوگیا تھا۔
وہ جانتا تھا کہ جو کچھ ہو چکا ہے اس کے بعد ارمش کا ہر عمل حق بجانب ہے وہ یقیناً ضمان سے معافی تلافی کی توقع کر رہی ہوگی مگر اپنے نجی معاملات کسی پر آشکار ہونے نہیں دینا چاہتا تھا۔ ارمش کو سمجھانا ضروری تھا اور محترمہ پیار کی زبان آرام سے سمجھتی نہیں ہیں یہ ضمان کی ذاتی رائے تھی۔
ضمان کا پل میں تولہ پل میں ماشا رویہ دیکھ دل ہی دل میں "گرگٹ" کا لقب دیتی ضمان کی تقلید میں باہر کی جانب چل پڑی۔
♡------------------------------------------♡
ضمان کی تقلید میں چلتی وہ ڈائننگ روم تک پہنچی۔ سب کو مشترکہ سلام کرنے کے بعد سب بڑوں کے آگے سر جھکا کر پیار لے کر کُچھ جھجھک کر ضمان کی کھنیچی گئی کرسی پر بیٹھ گئی۔
"مبشرہ۔۔۔۔۔۔۔ عالی اور زری سے پوچھا آپ نے؟ سو رہے ہیں تو ہم شروع کر لیتے ہیں ناشتہ وہ دونوں آرام سے بعد میں کرلیں گے۔"
ارمش اور ضمان کے آجانے کے بعد مصطفٰی صاحب مبشرہ بیگم سے گویا ہوئے تھے اس سے پہلے کے وہ کوئی جواب دیتیں عالی کے با آواز بلند سلام پر سب داخلی دروازے کی جانب متوجہ ہوئے جہاں ہمیشہ سے کُچھ ذیادہ شادابی چہرے پر سجائے زرلش کا ہاتھ تھامے وہ اندر داخل ہو رہا تھا۔
ساتھ ہی شرمائی ہوئی گلاب کے پھول کی مانِند مہکتی، کھلی ہوئی تر و تازہ عالی کی سنگت میں چلتی زرلش نے تمام افراد کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی تھی۔ ہر انداز عالی کی سنگت میں گزرنے والے خوبصورت لمحات کی عکاسی کر رہا تھا وہ کُچھ نا بولی تھی پر روم روم سے پھوٹتی عالی کی مہک گزری رات کے تمام احوال بیان کر رہی تھی۔
زری کے چہرے پر موجود خوشی و مسرت نے ضمان کے دل کو طمانیت بخشی تھی۔ ضمان کا بھائی ضمان کی طرح کم ظرف نہ ثابت ہوا تھا۔ ضمان کی تمام تر سفاکیت کے باوجود عالی نے زری کو تہہ دل سے قبول کیا تھا اس بات کا منہ بولتا ثبوت عالی کی سرگوشیوں پر سُرخ انار ہوتی زری تھی۔ زری سے ہوتی ہوئی نظر بھٹک کر اپنی شریکِ حیات پر آئی تھی۔ جو سب کی اُٹھتی نظروں سے تذبذب کا شکار اُنگلیوں پر ظلم کرنے میں مصروف تھی۔ ضمان کے دل میں ٹیس سی اٹھی تھی کہ کاش وہ کچھ ضمان نے نا کیا ہوتا تو آج وہ بھی خوش ہوتی۔ نا کہ یوں خود ترسی کا شکار ہو رہی ہوتی۔
سب ناشتے کی طرف متوجہ ہوئے تو خود سے قبل ارمش کی پلیٹ میں ٹوسٹ ڈال کر خالی گلاس میں جوس نکالتے وہ اپنے کیے کو سدھارنے کی اپنی سی کوشش میں مصروف ہوگیا تھا۔
ناشتہ کے دوران بھی گاہے بگاہے نظر پہلو میں بیٹھی مضطرب سی ارمش پر ڈالتے وہ جتنا ابھی تک مطمئن تھا اتنا ہی متفکر ہو چکا تھا۔
اب سب کچھ صحیح کرنا تھا۔ جو کچھ ہو چکا تھا وہ سب جلد از جلد سدھارنا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"ضمان نے کیا دیا ارمش تمہیں؟؟؟ "
تمام خواتین دادی امّاں کے لئے مخصوص کیے گئے کمرے میں بیٹھیں تھیں جب روحا بیگم نے منہ دکھائی کی بات کی تو زری نے فوراً ہی کلائی آگے بڑھاتے عالی کا دیا گیا تحفہ سامنے کر دیا۔ ایک ایک کر کے چاروں خواتین نے ستائشی نظر سے نازک مگر قیمتی بریسلٹ کو دیکھا تھا ساتھ ہی عالی کی پسند کی تعریف کیے بنا بھی نا رہ پائیں تھیں۔
سب سے آخر میں جب روحا بیگم زری کی منہ دکھائی دیکھ کر فارغ ہوئیں تو ہلکے پھلکے انداز میں ساتھ ہی ارمش کی جانب متوجہ ہو کر سوالی ہوئیں۔
روحا بیگم کے سوال پر وہ جو مبشرہ بیگم سے محو گفتو تھی تھی ہڑبڑا کر اپنے ہاتھ کی جانب متوجہ ہوئی۔ مخصوص انگشت میں ضمان کی دی گئی انگھوٹی کو پوری شان سے جھل مل کرتا دیکھ گہرا سانس ہوا کے سپرد کیا تھا۔ دل ہی دل میں ضمان کی مشکور ہوئی جسنے اسکی بیوقوفی پر احتجاج کرتے زبردستی ہی اُنگلی میں انگوٹھی پہنا دی تھی۔۔
"واہ بھئی ماشاللہ۔۔۔ دونوں کا ہی ذوق بہترین ہے۔ بہت خوبصورت لگ رہی ہے ایسا لگ رہا ہے جیسے بنی ہی تمہارے ہاتھ کی زینت بننے کے لئے ہو۔"
وہ خود بھی زیورات کی حد درجہ شوقین تھیں، اسی سبب جوہری کی نگاہ رکھتی تھیں ۔ایک نظر دیکھ کر ہی دونوں تحفوں کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوا تو دونوں لڑکوں کی پسند سراہتے گویا ہوئیں۔
"اے زری۔۔۔ یہ کاوش کو کیسے جانتی ہو تم؟ زات پات؟ خاندان... کُچھ معلوم ہے تمہیں؟"
تحسین آفرین کا عمل کُچھ تھما تو دادی امّاں کو مان کی فرمائش یاد آگئ۔ اگرچہ اُنہیں بھی لڑکی ایک نظر میں ہی پسند آگئی تھی سونے پر سہاگہ عرشمان کی پسند جان کر مزید دل عزیز ہوگئ تھی پر پھر بھی زرلش سے باز پرس کرنا ضروری سمجھا۔
"امّاں دوست ہے میری۔ ہم لوگ ساتھ ہی کام کرتے ہیں۔ بہت اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے ابو شہر کے مشہور کالج کے استاد ہیں امی بھی سرکاری اسکول کی پرنسپل ہیں ۔آپ خیریت سے پوچھ رہیں ہیں؟"
گو کہ عرشمان کا جھکاؤ اچھے سے محسوس کیا تھا پھر بھی اپنی بات پر تصدیق کے طور پر سوال کرنا نہ بھولی۔
"ہاں ماشاللہ .....مجھے رکھ رکھاؤ سے ہی لگ رہا تھا مہذب ہاتھوں کی تربیت ہے۔ عرشمان کے حوالے سے پسند آئی تھی تو سوچا کُچھ معلومات لے لوں ویسے بھی کل کلاں کو جانا ہوا تو تمہارے ہی حوالے سے جائیں گے۔۔"
راض رکھنے آتے تھے جبکہ وہ جانتی تھی کہ عرشمان خود ہی بتا دیگا بس اسی لیے خود سے پول کھولنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔۔
"ہاں جی۔۔۔۔۔ ہمیں بھی معلوم ہے کس کو کتنی پسند آئی ہے۔"
ارمش کو عرشمان کی شادی کا سُن کر ہنسی خوشی پانچ سے چھ مرتبہ کی ملاقات کے بعد کاوش کے گن گنواتے دیکھ دل ہی دل میں ہنستی ارمش کی ہاں میں ہاں ملانے لگی۔۔
♡--------------------------------------------♡
دیکھا ہے تم نے؟ کہاں سے آ رہی ہو؟ اور میں نے کب بلایا تھا تمہیں۔۔۔۔۔یاد ہے؟"
ارمش کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ضمان نے مختلف سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
"روڈ پر آوارہ گردی کر کے آ رہیں ہوں۔۔۔۔"
ضمان کے سوال پر آنکھیں پھرا کر طنزیہ لہجے میں جواب دہ ہوئی۔
"۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے نیچے سے آ رہیں ہوں۔ ٹورنامنٹ چھل رہا تھا ہمارا اس لیے نہیں آئی تھی۔"
اپنے جواب پر ضمان کی گھوری محسوس کرتے اصل وجہ بیان کرنے کے ساتھ ہی ڈریسنگ روم میں گھس گئی۔
"کوئی وقت ہوتا کہیں بیٹھنے کا۔ مجھ سے نراضگی ہے ناں تو عالی اور زری نے کیا بگاڑا ہے تمہارا؟
ایک مہینہ گزرا ہے ابھی اُنکی شادی کو اپنے کباب کی دال تو گلنے دے نہیں رہی ہو اُن بیچاروں کے بیچ کیوں ہڈی بن رہی ہو؟"
نسبتاً ہلکا اور سادہ سوٹ زیب تن کیے دوپٹہ گلے میں ڈالے وہ بیڈ پر اپنی طرف آ کر بیٹھی تھی جب کوہنی کے بل نیم دراز ہوتے ضمان سنجیدہ لب و لہجہ اپناتے گویا ہوا۔
"میں کل حویلی جا رہی ہوں۔"
سوال گندم جواب چنا۔
احساس تھا ارمش ضمان کی بات کا، کئی مرتبہ کھیل بیچ میں چھوڑنے کی بات کی تھی پر عالی ہی نا مانا۔ اب وہی بات ضمان کے منہ سے سن کر نظر انداز کرتے کمبل درست کرتے اپنی بات کہی تھی۔
"یہ تم پوچھ رہی ہو یا بتا رہی ہو؟"
اچانک ارمش کے بات پلٹنے پر انداز پر چوٹ کی تھی۔
"بتا رہی ہوں۔"
دو ٹوک لہجے میں جواب دے کر لیمپ بجھا کر کروٹ بدل لی تھی۔
"ارمش۔۔۔۔۔۔۔ کب تک چلے گا ایسے؟ میں بارہا تمہیں بتا چکا ہوں کہ غصے میں کیا اول فول بک گیا تھا مجھے احساس نہیں ہوا پر اب شرمندہ ہوں معاف کردو یار! میں کہیں نہیں جانے دے رہا تمہیں۔ کم از کم تب تک نہیں جب تک ہمارے درمیان موجود اختلافات کم نہیں ہوجاتے۔"
ارمش کا جواب سنتے بازو تھام کر اپنے قریب کرنے کے بعد ایک ہاتھ چہرے پر دھرے دوسرے ہاتھ سے کمر کے گرد حصار قائم کرتا نرم مگر دو ٹوک لہجے میں گویا تھا۔
روز صبح ہی آنکھ کھلنے پر وہ اپنے آپ کو ضمان کے حصار میں پاتی تھی پر آج یوں پورے ہوش و حواس میں ضمان پہلی بار قریب آیا تھا۔ ارمش كسماسائی تھی پر ضمان کی گرفت میں کوئی جنبش نا آئی۔
"آپ کے لیئے محض الفاظ تھے پر میرے لیے آپکی زِندگی میں میری اوقات تھی۔ عالی کی کھوجتی نظریں بغیر جرم کے شرمندہ کر دیتی ہیں مجھے۔ میں چاہ کر بھی آپ پر بھروسہ نہیں کر پا رہی ہوں ضمان مجھے اس وقت سے خوف آتا ہے جب ایک بار پھر میرا بھروسہ جیت کر اپنے وجود کے گھنے درخت چھاؤں میں پناہ دیں گے اور جب میں آنکھ بند کر کے آپ پر بھروسہ کرنے لگوں گی تو پھر بے وقعتی کے تپتے صحراؤں میں دھکا دے دیں گے۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا!! میں دوبارہ وہی ایذا برداشت نہیں کر پاؤں گی۔۔۔۔۔۔"
ضمان کی گرفت مضبوط تر ہوتے دیکھ اُسی کے سینے پر سر رکھے اپنی بے بسی بیان کر رہی تھی۔
"بےبی پلیز۔۔۔۔۔۔ میری جان ایک آخری موقع ۔۔۔۔۔"
اپنے سینے پر نمی محسوس کرتے اپنے ہاتھوں میں ارمش کا چہرا تھامے بے مول ہوتے آنسوں لبوں سے چنے تھے ماتھے سے ماتھا ٹکائے وہ آخری موقع کے لیۓ سوالی تھا۔ ضمان کے لہجے میں شدّت محسوس کرتے ایک اُمید ایک آس کے تحت ایک آخری موقع دینے کے لئے وہ تیار ہوچکی تھی۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ یہ فیصلہ کس حد تک دُرست ثابت ہوتا ہے۔
♡--------------------------------------------♡
"چھوٹے پاپا کالج سائڈ والے کُچھ پروفیسرز کو چھ ماہ کی ٹریننگ کے لئے لندن بھیج رہے ہیں۔ ڈاکٹر دُرّانی مجھ سے بھی کافی اصرار کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جینسن کے ہسپتال میں اُن کے زیرِ نگرانی ٹریننگ ہوگی۔ میں منع کر چکا ہوں پر وہ بضد تھے کہ آپ سے مشورہ کروں پھر جواب دوں۔"
نک سک سا تیار کالج جانے کی غرض سے صبح کے وقت وہ عجلت سے ناشتہ کرنے میں مصروف تھا جب مصطفٰی صاحب کو بھی سربراہی کُرسی گھسیٹ کر بیٹھتے دیکھ پرنسپل سے ہوئی گفتگو یاد آئی تو ڈاکٹر دُرّانی کی خواہش پر عمل کرتے مصطفٰی صاحب کے سامنے ٹریننگ کا ذکر چھیڑ بیٹھا۔
"آپ کی جگہ میں ہوتا تو ایک لمحے کی تاخیر نہ کرتا۔
قسمت کی دیوی آپ کے در پر دستک دے رہی ہے اور آپ پاپا سے پوچھ رہے ہیں؟ کہ دروازہ کھولیں یا نہ؟"
نیورو سائنس کی دُنیا کی مانی جانی شخصیت ڈاکٹر جینسن کا نام سنتے ہی عالی کی رال ٹپکی تھی، ساتھ ہی ضمان کی عقل پر افسوس ہوا تھا جو گھر آئی نعمت ٹھکرا رہا تھا۔
"میں متفق ہوں عالی کی بات سے۔ کیا بیوقوفی ہے؟ جس موقع غنیمت کے لیۓ لوگ ترستے ہیں تم اس کو ضائع کرنے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟"
ضمان کی سوچ پر حیران ہو کر گویا ہوئے۔
"چھوٹے پاپا انتظامیہ کے فراہم کردہ ہاسپٹل میں رہنا ہوگا۔ ارمش کو چھوڑ کر کیسے جاؤں؟"
ڈاکٹر دُرّانی کی شاندار پیشکش کو نظر انداز کرنا وہ بھی نہیں چاہتا تھا تبھی اصل پریشانی بیان کرتے اب وہ اُنکی رائے کا منتظر تھا۔
"میں کوئی رُخصت ہو کر پرائے دیس تو نہیں آئی ہوں جو کوئی پریشانی ہو۔ اپنا ذاتی گھر ہے۔ میری وجہ سے اگر آپ انکار کر رہے ہیں تو مت کریں میں ویسے بھی پریکٹس شروع کرنے کا سوچ رہی ہوں، اسپیشلائزیشن کے لئے بھی اگلے سال اپلائی کروں گی۔"
اپنی خاطر ضمان کا انکار سن کر ارمش نے رکھاؤ سے مناسب الفاظ میں بات کہی تھی۔
"صحیح کہہ رہی ہے ارمش۔۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی چھ مہینوں کی ہی تو بات ہے۔ ابھی کر لو پھر آگے ایسا کوئی موقع ملے یا نہ ملے۔ خدا نے چاہا تو کل کلاں کو ذمےداریاں مزید بڑھیں گی ہی انشاءاللہ۔"
ارمش کی بات سے متفق ہوتے مصطفٰی صاحب نے بھی حامی بھر لینے کی تجویز دی تھی۔
"میں کرتا ہوں بات پھر۔۔۔۔"
نیپکن سے منہ صاف کرتے کالج جانے کی غرض سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا ساتھ ہی مبشرہ بیگم کی آنکھ کا اشارہ سمجھتی ارمش بھی ضمان کے پیچھے الوداعی کلمات کہنے چل پڑی۔
♡-------------------------------------------♡
"بھا آپ اتنے چپ گھنے نکلیں گے میں نے تو سوچا بھی نہیں تھا!!
جو امیدیں عالی سے تھیں آپ نے بڑے اچھے سے پوری کی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ امّاں کا بیبا بچا کب ہاتھوں سے نکلا کان و کان خبر بھی نہیں ہونے دی۔۔۔۔۔
میرا تو ارمان ہی رہ گیا شادیوں میں بھائی کے لئے لڑکی تلاش کرنے کا۔"
آج شام ہی خواتین کاوش کے گھر رشتہ ڈالنے کی غرض سے گئیں تھیں۔ چونکہ زری کے ہاتھ پہلے ہی پیغام پہنچایا جا چکا تھا اسی لیے آج کے آج ہی لڑکی والوں کی جانب سے بھی مثبت جواب بھی مل گیا۔ بقول دادی امّاں کے کہ اُنکی بیٹی ہیرا ہے تو ہمارا لڑکا بھی لاکھوں میں ایک ہے۔ چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے آج کے زمانے میں ایسے فرمانبردار لڑکے۔
شام دیر ہوجانے کے باعث مصطفٰی صاحب نے اُن لوگوں کو آج کی واپسی مؤخر کروا دی تھی۔ اس وقت سب بچے لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب زری نے چھیڑ چھاڑ شروع کی تو ارمش نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا۔
"ہاں تو؟؟ تم جیسی نکمی بہن ہو تو بندے کو خود ہی ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں۔
تمہارے آسرے پر تو پوری زندگی کنوارا ہی رہ جاتا۔ نا وہ مبارک شادی آتی جسکو آپ اپنی آمد کا شرف بخشتیں نا آپکو لڑکی پسند آتی نا میری شادی ہوتی۔ خود نے تو ہمیں بھنک دئیے بغیر ہمارا ہیرو لے کر اُڑ گئیں اور ہم سے اُمید ہے کہ ہم ساری تفصیلات سے آگاہ کرتے۔"
ارمش کے شکوے پر چائے کی چسکیاں بھرتے عرشمان چڑانے کی غرض سے گویا ہوا تو ان نادر خیالات کے اظہار پر ارمش کا منہ بنتا دیکھ سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
"بات سنیں۔۔۔۔۔۔
میں نہیں لے کر اُڑی کسی کا ہیرو۔ گھر والوں کی خواہش پر ہوا ہے جو ہوا ہے۔ میں کیوں کرنے لگی ہٹلر کے جانشین سے شادی؟"
اپنے اوپر لگنے والے سنگین الزام کی تاب نہ لاتے ہاتھ چلا چلا کر وہ عرشمان کو جواب دے رہی تھی جب اچانک عالی، زری اور مان کے بلند بانگ قہقہوں پر کھسیا کر دانتوں میں زبان دیتے ضمان کی جانب نظر اٹھائی جو منہ کھولے ارمش کا عطا کردہ لقب ہضم کرنے کے لئے کوشاں تھا۔
"مم- مجھے شاید مما بلا رہیں ہیں۔"
ناراضگی اپنی جگہ پر ضمان کے منہ پر دل کی بات کہہ دینا گھبراہٹ کا شکار کر گیا تھا۔ تبھی اُٹھ جانے کے لیۓ پر تولنے لگی۔
"کیا یار ارمش! بیویوں کی ناک مت کٹواؤ اب۔ کہہ ہی دیا ہے تو ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سینا ٹوک کر کہو یوں بزدلوں کی طرح بھاگ کر بلوچوں کی بہادری کو مشکوک تو مت کرو۔
مجھے دیکھو۔۔۔۔۔۔ یہ عالی ایک نمبر کا ٹھرکی ہے میں بھی تو منہ پر کہ رہیں ہوں ناں؟؟"
ارمش کو میدان چھوڑ کر بھاگتا دیکھ زری اکسانے کی خاطر مایوسی کا ظاہر کرتی گویا ہوئی۔ بات کے اختتام پر عالی کی جانب دیکھ کر ہمت کا مظاہرہ بھی کے دکھایا تھا۔ اپنے لیئے زری کے نیک خیالات سن کر عالی نے بھی زور و شور سے گردن ہلا کر داد تسلیم کی تھی۔
"میں ڈر کر تو نہیں جا رہی۔۔۔ ویسے بھی میں نے کُچھ غلط تھوڑی کہا ہے۔
ہر وقت منہ سوجا ہی رہتا ہے۔
میں۔۔۔ میں جا رہیں ہوں۔۔۔۔۔۔"
زری کی شیری پر دل کی بات کہہ تو دی تھی پر ضمان کو بے یقینی سے ایک ابرو اُچکاتے دیکھ سارا جوش جھاگ کی طرح بیٹھا تھا۔ واپسی کے لیے دوڑ لگاتے ہوئے پشت پر تینوں کا قہقہہ صاف سنائی دیا تھا۔ اپنی عقل پر ماتم کناں رفتار تیز کرتے لاؤنج کی جانب رُخ کر لیا۔
♡--------------------------------------------♡
"ہاں جی محترمہ؟ کیا فرما رہیں تھیں آپ؟ کون ہوں میں؟"
آخری کُرتا ارمش کے خانے میں لٹکاتے ہوئے وہ ارمش کی جانب آیا تھا جو ابھی پندرہ منٹ قبل ہی اوپر آئی تھی اور اس وقت ڈریسر کے آگے کھڑی ہاتھوں پر لوشن لگا رہی تھی جب پیچھے سے ضمان اپنی نرم گرفت میں لے کر کندھے پر تھوڈی ٹکائے سوالی ہوا تھا۔ اشارہ دو گھنٹے قبل دیے گئے لقب پر تھا۔
"آپ پاپا کے ساتھ گئے تھے ناں چیک اپ کے لیۓ؟ کیا بتایا ڈاکٹر نے؟"
ضمان کے قریب آنے پر نا محسوس انداز میں حصار توڑ کر بیڈ پر بیٹھتے ہوئے موضوع بدل کر گویا ہوئی۔
"کُچھ خاص نہیں۔۔۔۔۔۔
بس صبح سویرے گھاس پر ننگے پاؤں چلنے کا کہا ہے۔ دوائیاں تو چل ہی رہی ہے۔"
دل کی دھڑکن بڑھی ہوئی تھی یہ بات چھپائے مختصراً ڈاکٹر سے ہوئی گفتگو بیان کرنے لگا۔
اپنی ذات کی نفی بری طرح کھلی تھی پر اپنے احساسات ضبط کرتے عام لہجے میں جواب دیتا اپنی جانب آ کر لیٹ گیا۔
"اور ٹریننگ کا کیا بنا؟ بات کر لی آپ نے ڈاکٹر دُرّانی سے؟"
میاں بیوی کے مابین قائم رشتے کے حقوق و فرائض سے وہ بخوبی واقف تھی پر مجبور تھی اس خوف سے جو دل میں کنڈلی مارے بیٹھا تھا آج بھی ضمان کی قربت طمانیت کا سبب نہ بن پائی تھی ایک عجیب سی جھجک تھی جس کے زیرِ اثر ضمان کے ہاتھ جھٹکنے پر چہرا کے اتار چڑھاؤ محسوس کرتے ہوئے خود ہی بات کا آغاز کر دیا۔
"ناراض بیوی کو چھوڑ کر چھ ماہ کے لیے پردیس چلے جانے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا میں۔
ایک بار جورو راضی ہوجائے پھر کرتے رہیں گے مستقبل کی بہتری کے لیۓ کوشش۔"
یہ بات بھی سچ تھی کہ مصطفٰی صاحب کے کہنے کے باوجود ضمان نے ڈاکٹر دُرّانی کے سامنے حامی نہیں بھری تھی۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے وہ ارمش کو منا لینا چاہتا تھا گو کہ صبح ارمش نے فراغ دلی سے اجازت دی تھی پر پھر بھی وہ اکیلے میں بات کرنا چاہتا تھا۔
"میں ناراض نہیں ہوں ضمان۔۔۔ بس ایک کسک ہے دل میں جو شاید کبھی نہیں مٹ سکتی۔ پر میں کوشش کر رہی ہوں اس واقعے کو دل کے تاریک گوشے میں گاڑنے کی۔
قبر تیار ہے بس مٹی ڈالنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اور پلیز معافی مت مانگیے گا آپ۔ میں جانتی ہوں آپ شرمندہ ہیں پر آپکی شرمندگی میرے دل پر لگا زخم نہیں بھر سکتی۔"
اپنے الفاظ پر ضمان کے چہرے پر چھاتے شرمندگی کے آثار دیکھ ایک لہزے کے لئے وہ خاموش ہوئی تھی۔ ضمان کے لب وا ہوتے دیکھ ایک بار پھر گویا ہوتے وہ ضمان کو شرمندگی کے سمندر میں ڈوبنے کے لئے چھوڑ کر خاموش ہوگئی۔
"میں جانتا ہوں میری معافی تمھاری اذیت ختم تو کیا کم کرنے کی طاقت بھی نہیں رکھتی پر میرے الفاظ کم از کم یہ احساس تو دلائیں گے نا کہ میں اپنے کیے پر نادم ہوں۔ میں واقعی شرمندہ ہوں مش۔۔۔۔۔۔"
ارمش کی گفتگو سن کر بوجھل دل کے ساتھ آگے بڑھ کر سونے سے قبل ہی ارمش کو بانہوں میں بھرتے گویا ہوا احساس ندامت الفاظ سے چھلک رہا تھا۔
"الفاظ بے معنی ہیں ضمان۔ عمل انسان کی شخصیت بیان کرتے ہیں اور جو رُوپ میں آپ کا دیکھ چُکی ہوں اس کے بعد آپ پر یقین کرنا نا ممکن ہے۔ سایہ دار درخت سے تپتا صحرا بن جانے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے آپ کو؟"
ضمان کی ہر بات کا جواب موجود تھا پر رات کے اس پہر جبکہ وہ خود بھی اپنی زِندگی کے ساتھ جوا کھیلنے کے لئے تیار تھی تو جواب دینا ضروری نا سمجھا بس دل ہی دل میں سوچ کر رہ گئی تھی۔ خاموش رہنا بہتر سمجھتے ہوئے ضمان کے کشادہ سینے پر سر ٹکائے کُچھ ہی دیر میں نیند کی وادی میں جا سوئی۔
♡-------------------------------------------♡
"کیسی ہے میری بیٹی؟ سب خیریت؟"
شام کے وقت تمام خواتین گھر کے لان میں بیٹھے ہوئے ہلکی پھلکی گپ شپ کے ساتھ چائے سے لطف اندوز ہو رہیں تھیں جب اچانک ہی متلی ہونے کے باعث زری تقریباً بھاگتی ہوئی اندر گئی۔ چند لمحات میں ہی مسلسل قہ کرنے کے سبب وہ ہلکان ہو چکی تھی، زرد پڑتی رنگت دیکھ ارمش نے ڈرائیور کے ذریعے منگوائی گئی مخصوص ادویات دینا چاہیں ۔ جسے روکتے ہوئے دونوں ہی خواتین زری کو لیئے شہر کی جانی مانی گائناکالوجسٹ کے پاس جا پہنچیں۔
"سب ٹھیک تو ہے ناں ڈاکٹر صاحبہ؟"
معائنہ کرنے کے بعد جونہی مخصوص پردے کے پیچھے سے زری اور ڈاکٹر صاحبہ باہر آئیں تو رفیعہ بیگم بے قراری سے ڈاکٹر سے زری کی طبیعت پوچھتی مخاطب ہوئیں۔ چہرے پر چھائی خوشی دیدنی تھی۔
"جی سب خیریت ہے۔ باہر کی ایسی ویسی کوئی چیز کھا لی ہوگی بس اسی وجہ سے نظامِ ہاضمہ کُچھ متاثر ہوگیا ہے۔
میں دوائی لکھ دیتی ہوں وقت کی پابندی کے ساتھ دیجئے گا انشاءاللہ جلد ہی افاقہ ہوجائے گا۔"
پیشہ وارانہ انداز میں کہتے ہوئے ڈاکٹر پرچے پر دوائی درج کرنے لگی۔
ڈاکٹر کا جواب سن کر مبشرہ بیگم اور اپنی ماں کے چہرے پر معدوم پڑتی مُسکراہٹ دیکھ زری کے اندر کُچھ چھناکے سے ٹوٹا تھا۔ بگڑتی طبیعت کے باوجود رفیعہ بیگم کا خدشہ سن کر خوشی کی لہر تن بدن میں دوڑ گئی تھی۔ یہ احساس ہی خوشکن تھا کہ وہ اپنے محبوب کی نسل کی امین بننے جا رہی ہے۔ پل بھر میں خوشی کی جگہ ایک عجیب سے احساس نے لے لی تھی۔ کتنی اُمید سے لائیں تھیں وہ دونوں اسے یہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُداسی نے یکلخت ہی دل میں ڈیرہ ڈال لیا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"کیا ہوا؟"
ارمش جو لاؤنج میں بیٹھی ان لوگوں کا انتظار کر رہی تھی زری کو دیکھ کر سوالی ہوئی جو گھر میں داخل ہوتے ہی بغیر کسی سے مخاطب ہوئے افسردہ سی اپنے کمرے کی جانب بڑھ چکی تھی۔
"باہر کھا لیا ہوگا کُچھ اُلٹا سیدھا۔۔۔۔ ہضم نہ ہونے کی وجہ سے طبیعت خراب ہوگئی تھی۔"
پورے راستے دونوں خواتین زری کو سمجھاتی آئیں تھیں کہ ابھی وقت ہی کتنا ہوا ہے شادی ہوئے۔ اللہ نے چاہا تو جلد ہی گود ہری ہوجائے گی پر زرلش کی خاموشی نا ٹوٹنی تھی اور نہ ہی ٹوٹی۔
"جاؤ۔۔۔ جا کر سمجھاؤ تم۔ ہماری بات تو سمجھ نہیں آ رہی ہے۔"
ارمش کو پریشانی کے عالم میں کھڑا دیکھ کر مبشرہ بیگم صوفے پر بیٹھتی گویا ہوئیں تو ارمش نے بھی اثبات میں سر ہلاتے ہوئے عالی کے کمرے کی جانب قدم بڑھا لیے۔
♡-------------------------------------------♡
"بجّو کیوں رو رہیں ہیں اس طرح؟ بڑی مما پریشان ہورہی ہیں! پلیز دیکھیں خاموش ہوجائیں۔۔۔۔۔۔"
ارمش نے جونہی عالی کے کمرے میں قدم رکھا۔ پہلے سے آنسوؤں پر بند باندھنے کی کوشش میں ہلکان ہوتی زرلش آگے بڑھ کر ارمش کے گلے سے لگے زور و شور سے سسکنے لگی۔ چند لمحے تو ارمش غبار نکل جانے کی غرض سے کمر سہلاتی سہارا دیئے کھڑی رہی پر جب آنسوں کئی لمحات گذر جانے کے باوجود اسی طرح رواں رہے تو قریبی کاؤچ پر بٹھا کر روم فریج میں رکھی پانی کی بوتل سے گلاس میں پانی انڈیلنے کے بعد زبردستی منہ سے لگائے متفکر لہجے میں گویا ہوئی۔
"وہ کتنی خوش تھیں مش۔۔۔۔۔۔ ایک پل میں ساری خوشی ماند پڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔ اگر جیسا وہ سوچ رہیں تھیں ویسا ہوتا تو سب کتنا خوش ہوجاتے! عالی۔۔۔۔۔۔۔ اُسے بچے بہت پسند ہیں وہ کتنا خوش ہوجاتا ناں؟!"
ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتے ہوئے زری گویا ہوئی تھی۔ لہجے میں پنہاں حسرت دیکھ کر ارمش حیران تھی۔ وہ اس قدر حساس ثابت ہوگی ارمش نے ایسا کبھی نہ سوچا تھا۔
"بجّو اگر اُنکے خدشات غلط ثابت ہوئے ہیں تو اس میں آپ كا کیا قصور ہے؟ کُچھ غلطی مما اور بڑی مما کی بھی ہے۔ شادی کے بعد کیا لڑکیاں بیمار نہیں ہو سکتیں؟ اور آپ اس طرح رو رہیں ہیں جیسے خُدا نہ کرے سالوں بیت چُکے ہوں آپ کی شادی ہوۓ۔ اپنے آپ کو یوں ہلکان مت کریں۔ وہ جو ہم سب کا رب ہے نہ وہ بہتر جانتا ہے۔ جب آپکے نصیب میں یہ سکھ لکھا ہوگا تب مل جائے گا۔
خدا اپنے بندے کو اُسی شہ سے نوازتا ہے جو اس کے حق میں بہتر ہو۔ اس طرح رو رو کر خود کو ہلکان مت کریں جنکی مایوسی کے سبب آپ گریاں ہیں آپ کے آنسوں اُنکے دلوں پر ہتھوڑے بن کر برستے ہیں۔"
زری کے الفاظ پر چند لمحات تو وہ کُچھ بولنے کے قابل ہی نہیں رہی تھی۔ وجہ الفاظ کی کمی نہیں، زیادتی تھی۔ اتنا کُچھ تھا کہنے کو کہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ شروع کہاں سے کرے۔ پر جب بولنا شروع ہوئی تو الفاظ میں اس قدر اثر تھا کہ زری خاموش ہونے پر جیسے مجبور ہوگئی ہو۔
"چلیں اٹھیں منہ دھوئیں ذرا۔۔۔۔۔۔ میں فرزانہ کو کہتی ہوں آپ کے لیے دلیہ بنا دے گی۔ اور پلیز آئندہ اگر باہر کھائیں تو ذرا حفظانِ صحت کا خیال ضرور رکھ لیجئے گا۔ پہلے ہی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے زرد ہو گئیں تھیں اب دیکھیں کیسی لال ٹماٹر ہوگئیں ہیں رو رو کر۔"
زری کا موڈ بحال کرنے کی کوشش میں مسکراتے ہوئے ستواں ناک کھینچ کر کہتی وہ باہر کی جانب چل دی تھی۔ جبکہ پیچھے ارمش کی باتوں پر غور کرتی زری ہر بات میں وزن دیکھ کر بوجھل دل کو دلاسہ دیتی واشروم میں گھس گئی۔
♡---------------------------------------------♡
"خوبصورت۔۔۔۔۔
پر اسکی کیا ضرورت تھی ضمان؟ ابھی تک شادی کے بھی زیادہ تر کپڑے یونہی رکھے ہیں اُنہیں میں سے کچھ پہن لیتی میں۔"
آسمانی اور سنہرے رنگوں کے امتزاج سے سجی ٹخنوں کو چھوتی خوبصورت فراک کے ساتھ ہم رنگ دوپٹہ اور پاجامہ ستائشی نظروں سے دیکھ کر ضمان کی پسند کو سرہائے بغیر نہ رہ پائی۔ پر ساتھ ہی عام مشرقی بیویوں والا جملہ بھی ادا کیا تھا۔
"مجھے اچھا لگا تو میں لے آیا۔ تمہارے ساتھ کوئی زبردستی نہیں ہے تم جو چاہو وہ پہن لینا۔"
اِسی ہفتے کے اختتام پر عرشمان اور کاوش کی منگنی کی رسم ہونا قرار پائی تھی۔ ضمان اپنی کُچھ ذاتی استعمال کی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیۓ بازار گیا تھا جہاں ایک دکان کے ڈسپلے پر سجا جوڑا پسند آیا تو ارمش کے لئے لے آیا۔ پر اس وقت ارمش کی بات سن کر ماضی کا منظر ذہن کے پردے پر لہرایا تو فوراً اپنے الفاظ کی صفائی دیتے گویا ہوا۔
"میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نہیں پہنوں گی۔"
ارمش ضمان کے انداز پر مسکان دباتے آنکھیں گھما کر جواب دہ ہوئی اور ساتھ ہی بیڈ پر پھیلا جوڑا اُٹھا کر الماری کا رخ کیا۔
"ہاں کہا تو نہیں پر احتیاط علاج سے بہتر ہے۔ کب، کیا، کہاں دماغ گھوم جائے تمہارا کُچھ خبر تھوڑی ہے۔"
پچھلی بار کے واقعے کو نشانہ بنا کر طنز کا تیر چلایا تھا۔
"اچھا اچھا بس ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔
بجّو کی طبیعت خراب ہوگئی تھی صبح۔ جا کر پوچھ لیں۔"
ضمان کی زبان کو بریک لگاتے زری کا خیال آیا تو طبیعت سے آگاہ کرتے گویا ہوئی۔
"کیا ہوگیا اُسے؟ اور تم اب بتا رہی ہو مش؟"
زری کا سن کر پریشانی کے عالم میں بیڈ چھوڑ کر نالاں انداز میں سوال کیا تھا۔
"فوڈ پوائزننگ ہوگئی تھی پر اب بہتر ہیں۔"
باہر نکلتے وقت ضمان نے پشت پر ارمش کی تسلّی بخش آواز سنی تھی جسکا اثر لیے بغیر اُسی تیزی سے وہ سیڑھیاں پھلانگتا نیچے زرلش اور عالی کے کمرے کی جانب چل پڑا۔
♡-------------------------------------------♡
ضمان کے لائے گئے جوڑے کے ساتھ سنہری چاند بالیاں اور ہمرنگ چوڑیوں سے نازک کلائی سجائے ہاتھوں میں خوبصورتی سے سجی، چاندی کی طشتری کے اوپر رکھی مخملی دبّیا کی زینت بنی سونے کی یاقوت جڑی انگشتری لیۓ وہ کالی کمیض شلوار پر اونٹی رنگ کی مردانا شال کندھوں پر ڈالے وجاہت کا شاہکار معلوم ہوتے عرشمان کے پہلو میں بیٹھی رسم کرنے کے لئے تیار بیٹھی مُسلسل اپنے وجود پر کسی کی لو دیتی نظروں کی تپش محسوس کرتے خجل ہو رہی تھی۔
"نظریں تک تو برداشت نہیں ہیں۔۔۔۔۔ شدتیں کیسے جھیلو گی میری زِندگی؟؟؟
یہ جو آج تک بجلیاں گرائی ہیں ناں مجھ پر؟ ایک ایک کا حساب اچھے سے برابر کروں گا۔ بچ کر رہنا بےبی۔۔۔۔۔"
آج شام سے ہی ضمان کے تیور بدلے بدلے سے تھے۔ اس وقت بھی آسمانی کُرتا زیب تن کیے ارمش سے کُچھ دور سٹیج پر ہی کھڑے ضمان کی نظریں بھٹک بھٹک کر اپنی متاع حیات کے نازک سراپے میں الجھے الجھے جا رہی تھیں۔ اپنی بے لگام ہوتی نظروں کے ارتکاز پر ارمش کے وجود کی کپکپاہٹ سے محظوظ ہوتے دل ہی دل میں گویا ہوا۔
سیاہ موتیوں کے کام سے آراستہ بلاؤز کے ساتھ نیلے، پیلے اور سیاہ رنگوں سے سجا نفیس سکرٹ زیب تن کیے عرشمان کے پہلو میں سر اُٹھائے پر وقار سی کاوش نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔
چہرے پر موجود خود اعتمادی کُچھ عرشمان کی بخشی ہوئی بھی تھی جو کاوش کی توقع کے بر عکس سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے دونوں خاندانوں کے تمام افراد سٹیج کے ارد گرد جمع ہوگئے تھے۔ جب ارمش نے انگھوٹی عرشمان کے ہاتھ میں تھمائی تو کب سے مچلتی مُسکراہٹ مزید چھپے رہنے سے انکاری ہوتے ہوئے گلاب رنگ لبوں پر آ سجی۔
"اس والی میں پہناتے ہیں۔۔۔۔"
عرشمان کے ہاتھ میں مرمری ہاتھ دیئے غلط اُنگلی میں انگھوٹی پہناتے دیکھ سرگوشی نما آواز میں کاوش نے تصیح کی تھی۔
"نہیں جی اسی میں پہناتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔"
کاوش کی تصیح ایک جانب پر کل رات مختلف بولیووڈ فلموں سے منگنی کے مناظر دیکھ کر اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ بیچ والی اُنگلی میں ہی انگوٹھی پہنائی جاتی ہے۔ اپنے حساب سے وہ پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا تبھی اپنی بات پر زور دیتے ارمش سے تائید لینے کے لئے اُسکی جانب متوجہ ہوا۔
اور بھلا ارمش بی بی کیا جانیں ؟وہ کونسا کسی کی منگنی میں شریک ہوئیں تھیں؟ عرشمان کے دیکھنے پر کندھے اچکا کر ارمش نے لا علمی کا اظہار کیا تھا۔
"کاوش ٹھیک کہہ رہی ہے مان۔۔۔۔۔۔ رنگ فنگر میں پہناتے ہیں۔"
کاوش کی طرف کھڑی زری نے مُسکرا کر مسئلے کا حل پیش کیا تھا۔
"اچھا خاصہ عقلمند لڑکا تھا ہمارا کیا جادو چلایا ہے سالی صاحبہ؟ اوسان ہی خطا ہوگئے بیچارے کے۔"
عرشمان کو کھسیاتے دیکھ عالی نے خط اڑاتے مزید دُرگت بنانا فرض سمجھا تھا۔
اُنگلی کی تصدیق ہوئی تو تالیوں کے شور و غل میں عرشمان کے بعد کاوش نے بھی انگوٹھی پہناتے عرشمان کی نسبت دل سے قبول کی تھی۔ ہر ایک دل نے اس پیارے سے جوڑے کی دائمی خوشیوں کی دعائیں کی تھی۔
"مبارک ہو بونی بطخ۔۔۔۔۔۔"
سب کی نظروں سے بچتے دماغ میں گھومتے کیڑے کی صدا پر لبیک کہتا پہلو میں بیٹھی کاوش کے کان میں سرگوشی کر بیٹھا تھا۔ بدلے میں پشاوری چپل کے اوپر ہونے والے پینسل ہیل کے وار پر بلبلا اُٹھا۔
"پنگا نہیں لینا مسٹر منگیتر۔۔۔۔"
چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ سجائے اطمینان سے بھرپور آواز نے درد کے باوجود بھی چہرے پر مُسکراہٹ بکھیر دی تھی۔
♡-----------------------------------------
"تم نے کہا تھا کہ پانچ منٹ میں آرہی ہو۔۔"
ارمش کمرے میں داخل ہوئی تو توقع کے بر عکس ضمان کو بیدار پایا۔ وہ جو وقت گزاری کے لیئے ہاتھ میں فون تھامے عدم دلچسپی سے یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھ رہا تھا۔ ارمش کی آمد محسوس کرتے ساری سستی کہیں دور جا سوئی تھی۔ لمحے سے قبل بستر چھوڑ کر ارمش کے پیچھے جا کھڑا ہوا، ساتھ ہی شکوہ کرنا نا بھولا تھا کہ اوپر آنے سے پہلے وہ ارمش کو کہہ کر آیا تھا کہ 'جلدی آنا' پر ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ پانچ منٹ کا کہہ کر پونے گھنٹے بعد تشریف لائی تھی۔
_امّاں باتیں کر رہیں تھیں اس لیۓ دیر ہوگئی۔"
وہ جو صوفے پر بیٹھی ہیلز اُتار رہی تھی ضمان کو سر پر کھڑا دیکھ جلد از جلد کام نپٹا کر ڈریسر کی طرف جا کھڑی ہوئی۔ کئی ماہ بعد آج پھر ضمان سے ڈر لگ رہا تھا پر آج کا ڈر ہمیشہ والا نہیں تھا کُچھ الگ تھا ۔ ضمان کی آنچ دیتی نگاہوں کا پیغام ارمش سمجھ کر بھی نہ سمجھنا چاہ رہی تھی۔
"ہممم۔۔۔ جیسے مجھے نہیں پتہ امّاں کب سوتی ہیں۔۔"
چوری پکڑی گئی تھی ،جب بالیاں اتراتے ہاتھوں کو نرمی سے ہٹا کر بذاتِ خود بھرپور توجہ سے بالی کان سے الگ کرنے کے ساتھ ہی عنابی لبوں سے سُرخ ہوتی کان کی لو چوم کر ضمان مخاطب ہوا۔۔۔۔
"ضمان پلیز۔۔۔۔"
وہی عمل جب دوسرے کان سے بالی اتراتے ہوئے دوہرایا تو تیزی سے چلتی دھڑکن کے ساتھ اپنے تئیں بڑھتی گستاخیاں روکنے کی کوشش کی تھی۔
"خوف سے یوں نہ آنکھیں بند کرو۔۔۔
چومنے سے کوئی مرتا تو نہیں"
گلے سے باریک چین جدا کرنے سے قبل گھنگریالے بال اُنگلیوں کی مدد سے آگے کی جانب سرکاتے جونہی ضمان نے صراحی دار گردن پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے شیشے سے ظاہر ہوتے عکس میں اپنی باہوں کے حصار میں آنکھیں میچے کھڑی ارمش کے وجود میں واضح لرزش محسوس کی تو گردن کی پُشت پر ستواں ناک نرمی سے رگڑتے گویا ہوا ۔۔۔۔
"وہ۔۔۔ مم۔ میں۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ "
ضمان کی بڑھتی بےباکیوں پر بھاری ہوتی سانسوں کے ساتھ رخ موڑ کر مضبوط حصار سے نکلنے کی ایک آخری کوشش کی تھی۔۔
"ششش۔۔۔۔"
لرزتے شنگرفی لبوں پر اُنگلی رکھتے خاموش کروایا تھا۔ کمرے کے فسوں خیز ماحول میں ارمش کی ارتعاش پیدا کرتی آواز اس لمحے ضمان کو اپنی سب سے بڑی دشمن محسوس ہوئی تھی۔ جھکی پلکوں کے عارضوں پر محبت کی مہر ثبت کرتے ساتھ ہی توانا بازؤں میں کسی کانچ کی گڑیا کی طرح ارمش کا وجود بھرے بیڈ کی جانب چل دیا۔
"ضمان پلیز۔۔۔۔۔۔"
احتیاط سے ارمش کے وجود کو بیڈ پر ڈالتے ہاتھ بڑھا کر سوئچ پر مار کر کمرے کو منور کرتی تمام لائٹس بند کرنے کے بعد سائڈر پر رکھے لیمپ کی روشنی بھی ماند کرتے جب ارمش پر جھکا تو بے اختیار ہی سینے پر ہاتھ رکھتے فاصلہ قائم کرنے کی کوشش کرتے وہ گویا ہوئی تھی۔
"شّشس۔۔۔۔ریلیکس۔۔۔۔۔۔"
ضمان سمجھ سکتا اس وقت ارمش کن کیفیات سے دو چار ہوگی۔ سینے پر رکھے ہاتھوں کو نرمی سے لبوں سے چھو کر گردن پر جھکے گہری سانس کے ذریعے ارمش کی خوشبو اندر اُتار کر سیاہ تل پر لب رکھے تھے۔۔۔
"اجازت ہے؟؟؟؟"
چند لمحات اُسی حال میں گزار کر سر بلند کرنے پر سختی سے میچی گئ آنکھوں سے پھسلتی نظر سُرخ کپکپاتے ہونٹوں پر پڑی تو انگھوٹے کی مدد سے سہلاتے کان کے قریب سرگوشی کی تھی۔ چند ساعتیں ارمش کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے حیا کی لالی سے سرخ پڑتے چہرے پر نظریں ٹکائے گزاری تھیں کسی قسم کا جواب نا پا کر ارمش کی خاموشی کو رضامندی سمجھتے بہت نرمی کے ساتھ لبوں پر جھکتا چلا گیا۔۔۔۔
بوجھل رات دھیرے دھیرے سرکتی جا رہی تھی۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ضمان کی شدّتوں میں بھی اضافہ ہوۓ چلا جا رہا تھا۔ آج اپنے ہر عمل سے وہ ارمش پر اُسکی اہمیت، اپنی محبت آشکار کرتا معتبر کر گیا تھا۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ سمٹتی گھبراتی ارمش ضمان کے سینے میں چھپی ضمان کی شدتیں اپنے نازک وجود پر برداشت کر رہی تھی۔۔۔ کھڑکی سے جھانکتا چاند آج دونوں کے ملن پر شرمائے بادلوں کی اوٹ میں چھپا دونوں کی دائمی خوشیوں کے لئے دعا گو تھا
_____________________________
"اسلام و علیکم مما، پاپا۔۔۔۔ "
صبح آنکھ کھلتے ہی فریش ہو کر پہلی فرست میں نیچے بھاگی تھی۔ ڈائننگ روم میں پہنچی تو اندازہ ہوا کہ کُچھ زیادہ ہی جلدی آنکھ کھل گئ ہے۔ اوپر جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ضمان کے اٹھنے سے پہلے کمرے سے نکل جانے کے چکر میں ہی تو اتنی سویرے آنکھ کھلی تھی۔ تبھی نیچے ہی اپنے کمرے میں جانے کا ارادہ کرتی باہر آئی تو باہر سے آتے مصطفٰی اور مباشرہ بیگم کو دیکھ کر سلامتی بھیجی تھی۔۔
"وعلیکم سلام۔۔۔
اتنی جلدی کیوں اُٹھ گئیں؟"
اپنی بیٹی کی نیستی عادت سے واقف مبشرہ ارمش کا بھیگا بھیگا وجود آنکھوں میں بسائے مُسکرا کر سوالی ہوئیں۔۔۔۔
"امم۔۔۔ سویرے۔۔؟؟؟
ہاں۔۔ وہ رات کو جلدی سو گئ تھی، اس لیئے آنکھ کھل گئی۔۔"
مبشرہ بیگم کے سوال پر گلے میں گلٹی سی اُبھر کر معدوم ہوئی تھی بلا سبب ہی یوں محسوس ہوا جیسے چوری کرتے رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہو۔۔۔ ایک لمحے کے لیے تو جواب سمجھ ہی نہیں آیا تھا پر پھر ٹھہر ٹھہر کر پیشانی ملتے جوابدہ ہوئی۔۔
"ہاں تو ٹھیک ہے!!!!
اس میں اتنا پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟؟"
ارمش کا جواب سن کر پیشانی چومتے جونہی مصطفٰی صاحب آگے بڑھے مبشرہ بیگم کی جائزہ لیتی نظروں سے گھبرا کر زبردستی ارمش نے لب کھینچ کر چہرے پر مسکان سجائ تو ارمش کے اس عمل پر بمشکل قہقہہ کا گلا گھونٹ کر بظاھر سنجیدگی سے مگر در اصل شوخ لہجے میں زو معنی بات کی تھی اشارہ ہتھیلیاں مسلنے کی جانب بھی تھا۔
"بھئی مما کیا ہے.؟؟؟؟"
میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں۔ مجھے ناشتے کے لیے مت بلائیے گا۔ "
مبشرہ بیگم کے انداز پر زچ ہوتی ٹھنک کر کہتے پیر پٹختی اندر کی جانب تیز رفتاری سے چل دی تھی۔
"اور اگر ضمان نے بلایا تو؟؟؟"
اپنے پیچھے مبشرہ بیگم کی شرارتی آواز سنتے وہ جو پہلے ہی مارے شرم کے سُرخ انار ہو رہی تھی ایک ہاتھ میچی گئ آنکھوں پر رکھ کر سر پٹ کمرے کی جانب ڈور لگا دی۔
___________________________
"تم نہیں سدھرو گی مسز رند۔۔ "
سوتے ہوئے ضمان نے جونہی ارمش کو حصار میں لینے کے لیۓ ہاتھ بڑھایا تو خالی بیڈ محسوس کرتے پٹ سے آنکھیں کھولی تھیں۔ وہ جو اپنی صبح ارمش کے چہرے پر بکھری لالی دیکھ کر کرنے کا خواہش مند تھا خالی بیڈ منہ چڑاتا دیکھ کُچھ اپنے نیچے دبا تو کُچھ پہلو میں پڑے ارمش کے دوپٹے کو مٹھی میں بھر پر نتھنوں کے قریب لائے من پسند خوشبو اندر اترتے تصوّر میں ارمش سے گویا ہوا۔۔۔۔ گزری رات کے کئی مناظر نے ذہن کے پردے پر لہراتے ایک الوہی مسکراہٹ سے نوازا تھا۔۔۔
°°°°°°
"مش نہیں اٹھی ضمان؟"
وہ جو پہلے ہی دیر سے اٹھا تھا مذید دیر نہ کرتے جلد از جلد تیار ہو کر نیچے پہنچا تو یہاں بھی ارمش کی غیر موجودگی محسوس کرتے دل مسوس کر رہ گیا تھا۔۔۔
وہ ضمان کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔۔۔ ارمش کی بچکانہ حرکت کا خیال ہی چہرے پر مسکان بکھیر گیا تھا۔
"کب تک چھپو گی ارمش بے بی؟؟ "
دل ہی دل میں ارمش سے مخاطب اپنی کُرسی سنبھال کر بیٹھا تو رفیعہ بیگم ضمان کو اکیلے ناشتہ کرتے دیکھ سوالی ہوئیں تھیں۔
"سویرے آگئ تھی آپی، کمرے میں ہے اپنے۔
زری جاکر بلانا۔ کہو آ کر ناشتہ کرلے اور ضمان کو بھی سرو کرے آکر۔ "
شادی کے پہلے ہفتے ہی ہر دن ضمان کو ارمش کی پلیٹ میں کھانا اتراتے دیکھ مبشرہ بیگم کی جانب سے ارمش کی ایک لمبی کلاس لگی تھی۔ بس اُسی دن کے بعد سے کھانا پیش کرے نا کرے پر ضمان کے ساتھ بیٹھتی ضرور تھی۔ حالانکہ ارمش صاف منع کرکے گئ تھی پر اپنی بیٹی کے چہرے پر چھائی چمک مبشرہ بیگم باربار دیکھنے کی خواہش مند تھیں تبھی ڈائننگ روم میں عالی کے ہمرا داخل ہوتی زری کو دیکھ کر گویا ہوئیں۔
°°°°°°°°°°
"میں نے کہا تھا مجھے بھوک نہیں لگ رہی مت اٹھائیے گا مجھے۔۔"
مبشرہ بیگم کی ہدایت کے مطابق زری نے کمرے میں داخل ہوتے پیغام پہنچایا تھا۔ وہ جو کافی دیر سے سوتے بنے رہنے کے لئے کوشاں تھی زری کی آواز سن کر بیچارگی سے گویا ہوئی۔
"بھائی جان کو سرو کردو اُن کے جانے کے بعد سوجانا۔" ارمش کے انکار کو سستی سمجھتے زری نے اپنی جانب سے معقول مشورہ دیا تھا۔
"تو بھئی۔۔۔
وہ خود کھا لیں گے جو کھانا ہوگا میں کیوں آؤں؟"
اصل مسلہ ہی ضمان تھا زری کے مشورے پر منہ بنا کر جواب دہ ہوئی۔
"میں جا کر چھوٹی مما کو بلکل یہی الفاظ کہوں گی کہ مش کہہ رہی ہے بھائی جان خود کھا لیں۔۔"
ارمش کے ٹکا سے جواب پر پہلے تو حیرانی سے بیڈ پر تکیے سے چپکی ارمش کو دیکھا تھا پھر تکیے میں منہ دیتے دیکھ نیند کا خمار اڑانے کے لئے دھمکی دیتی باہر چل دی۔
"آ رہیں ہوں یار بجّو۔۔۔۔"
ابھی نہیں تو کچھ دیر میں سامنے تو جانا ہی تھا پھر بلا وجہ مبشرہ بیگم کے عتاب کا نشانہ بننے سے بہتر اُٹھ جانا سمجھتے پیچھے سے ہانک لگائی تھی جسے سن لاؤنج کی جانب بڑھتی زری کے لبوں پر خود بہ خود مسکراہٹ آ دھمکی۔۔۔
__________________________
صبح ناشتے کی ٹیبل پر پہنچ تو گئی تھی، مگر چاہنے کے باوجود بھی نظریں اٹھنے سے انکاری رہیں تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ یہ برتاؤ بلاوجہ ہی سب کی نظروں میں آجانے کا باعث بنے گا پر کیا کرتی کہ نظروں پر اختیار کھو بیٹھی تھی کہ پلکیں اٹھنے سے انکاری تھیں۔
ایک طرف جہاں ارمش اعصاب کی دھوکہ دہی پر مضطرب تھی، وہیں دوسری جانب ضمان مسز رند کی غیر ہوتی حالت سے بھرپور خط اٹھا رہا تھا۔
معمول کے مطابق جب ارمش خیرباد کرنے باہر آئی تو ارمش کی جھجک کم کرنے کے لئے نہایت ہلکے پھلکے لہجے میں رات باہر چلنے کے لئے تیار رہنا کا کہہ کر صبیح پیشانی پر عقیدت کی مہر ثبت کرکے باہر نکل گیا تھا۔۔
ضمان کی فرمائش کے عین مطابق رات آٹھ بجے گلابی کُرتا پجاما زیب تن کیے نک سک سی تیار بیٹھی تھی جب ضمان کے بلاوے پر رفیعہ بیگم سے رخصت لے کر نیچے آ پہنچی. آدھے گھنٹے کا راستہ ہلکی پھلکی گپ شپ کرتے گزرا تو پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرتا ارمش کا ہاتھ تھامے ضمان پوش علاقے کے ریسٹورانٹ میں داخل ہوگیا۔
"سیریسلی ضمان۔۔۔۔۔۔؟؟؟"
موم بتیوں اور فیری لائٹس کی مدد سے سجا پرسکون ہال دیکھ بیساختہ مسکراہٹ نے شنگرفی لبوں کو چھوا تھا۔ بے یقینی کی کیفیت میں مڑتے سِینے پر بازو باندھے ضمان کو دیکھ کر خوشی و مسرت کے ملے جلے احساسات کے ساتھ گویا ہوئی۔۔۔
"مجھے مکمل کرنے کے لئے شکریہ۔۔۔۔ "
حیران کھڑی ارمش کا بازو تھامے حال میں رکھی گئی واحد ٹیبل پر لایا تھا کُرسی گھسیٹ کر ارمش کو بیٹھانے کے بعد مخالف سمت رکھی کُرسی پر بیٹھ کر کوٹ کی جیب میں رکھے کیس سے وائٹ گولڈ بریسلٹ نکال کر بڑی توجہ سے ٹیبل پر دھرے ارمش کے ہاتھ کی زینت بناتا آنکھوں میں محبت کا سمندر سجائے گویا ہوا۔
"میں نہیں جانتا کب؟ شاید جب گلاس سر پر پڑا تھا تب عقل ٹھکانے آئی تھی۔۔۔۔ یا شاید جب پہلی مرتبہ تم نے مجھے جواب دیا تھا تب ہی دل بے ایمان ہوگیا تھا۔ نہ جانے کب مگر مجھے تم سے محبت ہوگئ ہے!!!!
اپنی آنے والی زِندگی کے ہر پل میں تمہاری سنگت روز مصلّے پر بیٹھ کر اپنے رب سے مانگنا میری عادت بن گئی ہے مش۔ تمہاری ناراضگی بیشک بجا ہوتی ہے پر مجھے بے چین کر دیتی ہے۔
میں غصے میں اندھا ہو جاتا ہوں ارمش۔ غصّے میں جو بھی بکواس کی یا جب کبھی تمہارا دل دکھایا اس کے لیے میں دل سے نادم ہوں معافی چاہتا ہوں میں چاہتا ہوں کہ اپنی آگے کی زندگی شروع کرنے سے قبل ماضی کی تمام تلخیاں دھو کر آگے قدم بڑھاؤں۔
اور ایک آخری بات۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گا اپنے غصے پر قابو پانے کی پر پھر بھی اگر مستقبل میں کوئی غلطی کر بیٹھوں تو پلیز جو دل چاہے سزا دینا پر پلیز خاموشی کی موت مت مارنا۔ ہر مسئلے کا حل بات کرکے نکالا جا سکتا ہے۔ خاموشی رشتوں میں دوریاں بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔ '
ہاتھوں میں ہاتھ تھامے نظروں میں نظریں گاڑے محبت کا اعتراف کرتے وہ ایک بار پھر اپنی کوتاہیوں کا مداوا کرنے کا خواہشمند تھا۔ لہجے کی پختگی الفاظ کی صداقت بیان کر رہی تھی۔
"ضمان میں ایک لمحے کے لیئے محبت پر سمجھوتہ کر لوں گی۔ پر میری عزت نفس پر پلیز آئندہ کبھی وار مت کیجئے گا سب برداشت کرلوں گی پر کبھی میرے کردار پر شک مت کیجئے گا۔
محبت کا نہیں پتا مجھے ہاں پر اپنی زِندگی میں بہت اونچا مقام دیا ہے میں نے آپ کو، عزت دل سے کرتی ہوں محبت بھی ہو ہی جائے۔ "
ضمان کی گرفت میں موجود اپنے ہاتھوں پر نظریں ٹکائے وہ اپنے خدشات سے آگاہ کر رہی تھی۔ ضمان سمجھ سکتا تھا جو کچھ ہو چکا ہے اس کے بعد ارمش کا غیر محفوظ محسوس کرنا حق بجانب تھا۔
بیرا کھانا لے کر آیا تو دونوں کھانے کی جانب متوجہ ہوگئے ، کھانے کے دوران ہلکی پھلکی باتیں کرتے کُچھ حسین پل ایک دوسرے کے ہمراہ گزار کر ایک حسین شام کی یادیں لیۓ دونوں واپسی کے لیئے چل پڑے تھے۔۔
خوشیاں بھی کُچھ لوگوں کو راس آتی ہیں ، یہ خوبصورت لمحات دائمی تھے یا پھر نیا طوفان ہنستی مسکراتی زندگیوں کو ایک مرتبہ پھر اپنی لپیٹ میں لینے والا تھا ۔دونوں ہی آنے والے وقت سے بے خبر اپنا آج جی رہے تھے۔
__________________________
"میرا ویزا آگیا ہے، جمعرات کی رات کی فلائٹ ہے۔ چھ ماہ کا معاہدہ طے ہوا ہے۔"
رات کے وقت سب ساتھ بیٹھے بات چیت میں مشغول تھے جب فون کی آواز پر ضمان متوجہ ہوا۔ کالج کی جانب سے موصول ہونے والا میل پڑھنے کے بعد بجھے دل سے سب کو اطلاع پہنچائی۔ ابھی چند روز ہی تو گزرے تھے اُن دونوں کے درمیان معملات ٹھیک ہوئے کہ یہ بلاوا آ پہنچا۔ چند روز قبل معاہدے پر کیے جانے والی دستک پر دل سے پچھتا رہا تھا۔
"چلو ساتھ خیریت سے جاؤ ساتھ خیریت سے واپس آؤ۔"
سب سے پہلے مبشرہ بیگم کی آواز لاؤنج میں گونجی تھی جو خود بھی ضمان کے اس وقت جانے پر مطمئن نہ تھیں۔ دو ہفتوں سے کی چمک و طمانیت اُنہیں اپنی بیٹی کے چہرے پر نظر آئی تھی وہ جانتی تھیں ضمان کی غیر موجودگی میں ایک بار پھر گم ہوجانے والی تھی۔ منفی خیالات کو جھٹک کر وہ دل سے ضمان کی خیر خیریت کے لیۓ دعا گو تھیں۔
"اچھی خاصی کامیاب زندگی بسر کر رہے ہو نا جانے کیا ضرورت پڑ گئی ہے اس ٹریننگ کی۔۔۔۔۔۔
میرا دل بلکل نہیں مان رہا ہے کہ تم جاؤ۔"
مصطفٰی صاحب کی خواہش جان کر جو کب سے خاموش تھیں آج جب جانے کی بات پر تصدیق کی مہر درج ہوئی تو دل کی بات زبان پر لے آئیں۔
"ارے بھابی یہی تو دن ہوتے ہیں کامیابی کے لیے تگ و دو کرنے کے اور ویسے بھی ہر روز تو نہیں ملتی ناں ایسی پیشکشیں۔۔۔۔۔۔
اور ارمش کی فکر نہ کریں آپ میری بچی سمجھدار ہے چھ ماہ کی تو بات ہے سب سنبھال لے گی۔"
وہ آج بھی اپنے نقطہ نظر پر قائم تھے تبھی مسکرا کر جواب دیتے آخر میں فخر سے ارمش کی جانب دیکھتے گویا ہوئے۔
¤ میرے حصے میں آئے گا سمجھوتا کوئی،
آج پھر کوئی کہہ رہا تھا سمجھدار ہوں میں¤
"جی بڑی مما آپ فکر کیوں کر رہیں ہیں صرف چھ مہینوں کی تو بات ہے پلک جھپکتے ہی گذر جائیں گے۔"
ایک عرصے دراز کے بعد تو سکھ کا سانس ملا تھا۔ یہ وقت یہ لمحات زندگی کے حسین ترین لمحات میں سے تھے ابھی تو وصل کی گھڑیاں نصیب ہوئیں تھیں اتنی جلدی فراغ کی راتیں بن بلائے مہمان بن کر چلی آئیں گی یہ کب سوچا تھا۔ پر جو بھی تھا ضمان کے بہتر مستقبل کی راہ میں وہ ہر گز استادہ نا ہونا چاہتی تھی تبھی کھلے دل کا مظاہرہ کرتے مسکرا کر گویا ہوئی۔
ارمش کی باتیں سن کر رفیعہ بیگم نے بھی دل کو تسلی دی تھی جبکہ ضمان تو اس ظالم محبوب کو دیکھے چلا گیا جو کِتنی آسانی سے کہہ گئ تھی کہ چھ ماہ کا کٹھن وقت پلک جھپکتے گزر جائے گا۔
ضمان کی نظروں کی تپش محسوس کرتے نگاہ اٹھائی تو ٹکٹکی باندھے خود کو تکتا پایا آنکھوں کا شکوہ محسوس کرتے اُداس دل کے ساتھ مسکراہٹ ضمان کی طرف اچھالی تھی جسے بے مول کرتے وہ سب کو شب بخیر کہتا اُٹھ کھڑا ہوا تو ساتھ ہی ارمش نے بھی کمرے کی راہ لے لی۔
♡------------------------------------------♡
"رات کو کُچھ دیر ہوجائے گی مش۔ کھانا کھا لینا انتظار مت کرنا۔۔۔۔۔۔"
بدھ کی صبح چھ ماہ کی چھٹیاں لینے سے قبل آج ضمان کا ہسپتال میں آخری دن تھا۔ ارمش تیاری میں ضمان کی مدد کر رہی تھی جب کوٹ پہنتے وقت کُچھ ياد آنے پر ضمان ارمش سے گویا ہوا۔
"کیوں؟! کیوں آئیں گے دیر سے!؟"
بس چند گھنٹے ہی تو بچے تھے ساتھ گزارنے کے لیۓ پھر چھ ماہ کا طویل عرصہ درمیان میں حائل ہونے والا تھا۔ آج کی رات ضمان کی دیر سے آنے کی بات کھلی تو برملا منہ بسور کر اظہار بھی کیا تھا۔
"یار۔۔۔۔۔۔۔۔ احمد نے سب دوستوں کو بلا لیا ہے گھر مجھے سی- آف کرنے کے لئے منع تو نہیں کر سکتا تھا ناں۔ جلدی آنے کی کوشش کروں گا۔ چلو اب جلدی سے مُسکرا کر دکھاؤ تاکہ میرا پورا دن بہت اچھا گزرے۔۔۔۔۔
نہیں؟ نہیں؟ نہیں ہنسو گی؟؟؟؟"
ارمش کے شکوے پر مڑ کر مجبوری بتائی ساتھ ہی ناک دبا کر مسکرانے کی فرمائش بھی کر ڈالی تھی جسے سُن کر جب ارمش کے مزاج مزید برہم ہوتے دیکھے تو اچانک ہی حملہ آور ہوا تھا۔ پیٹ پر رینگتے ہاتھ مُسلسل حرکت میں تھے جب پورے وجود میں گدگداہٹ محسوس کرتی ارمش کے قہقہے پورے کمرے میں گونج اٹھے۔
"ضمان نہیں۔۔۔۔ پلیز بس ناں!! ہنس تو لی!!"
کسی طور ضمان کو نہ رکتے دیکھ وہ جسکے پیٹ میں ہنس ہنس کر اب درد ہو چکا تھا منتوں ترلّوں پر اُتر آئی۔
"آئندہ پنگا نہیں لینا۔"
ارمش کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیۓ کُچھ جھک کر ماتھے سے ماتھا ٹکائے پیار بھری تنبیہہ کی تھی۔
"مجھے آپ یاد آئیں گے۔۔۔"
نا جانے کس احساس کے تحت ارمش کی آنکھیں نم ہوئیں تھیں۔ ضمان کا لمس پیشانی پر محسوس کرتے وہ اس قدر دھیمے لہجے میں گویا تھی کہ اپنی آواز خود ہی کے کانوں میں بھی بمشکل پہنچی تھی۔ پر یہ سرگوشی بھی اس کی سماعت میں ضرور پہنچی تھی جسکا رواں رواں ارمش کی سنگت میں اسکا سامع بن جایا کرتا تھا۔
"پھر؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نا جاؤں؟"
"نیلی آنکھوں پر سیاہ آنکھیں ٹکائے وہ بھی سوگوار سا محسوس ہوا تھا۔
"زیادہ فری مت ہوں۔۔۔۔ چلیں نیچے دیر ہورہی ہے۔"
پل بھر میں سارا فسوں ریت کی دیوار کی مانند ڈھہ گیا تھا جب ہاتھ چھڑاتے زبان چڑا کر ضمان کو تقریباً گھسیٹ کر باہر لے جاتے ارمش گویا ہوئی۔
اور ضمان کو شاید احساس ہوگیا تھا کہ پوری زندگی ارمش کے منہ سے دو بول محبت بھرے سننے کے لیے وہ ترسنے والا ہے تبھی نفی میں گردن ہلا کر مسکراتے ہوئے قدم اُسی سمت بڑھا دیے جہاں ارمش لے کر جانا چاہ رہی تھی۔
♡----------------------------------------♡
"ہوگیا!!!!.... دس منٹ ہیں ابھی۔ میں کپڑے تبدیل کر کے آتی ہوں پھر چھوٹے پاپا سے کال کروائیں گے۔۔"
سالگرہ کی مناسبت سے سجی ٹیبل پر ارمش کا پسندیدہ چاکلیٹ فج کیک رکھ کر ساری تیاری پر ایک تنقیدی نگاہ ڈالنے کے بعد زری عالی سے مخاطب ہوئی تھی عالی کے حامی بھرنے پر خود کمرے کی جانب چل پڑی۔۔۔۔
پانچ منٹ گزرے تھے، گھڑی کی سوئیاں بارہ اور گیارہ کے ہندسوں کے درمیان کھڑی تھیں جب کمرے کے دروازے پر ایک نظر ڈال کر مطمئین ہونے کے بعد ٹیوی لاؤنج کے صوفوں پر براجمان رفیعہ بیگم ، مبشرہ اور مصطفٰی صاحب کو شرارت سے آنکھ مار کر دبے پاؤں عالی نے اوپر کا رخ کر لیا۔
"Happy birthday to you ، Happy birthday to you ، Happy birthday dear misho happy birthday to you۔۔۔۔"
وہ جو کمرہ بند کیے گھڑی پر نظریں ٹکائے ضمان کی منتظر تھی، دروازہ کھلنے کی آواز پر خوشی سے پلٹی تو عالی کو زور و شور سے سالگرہ کی مبارک باد دیتے سنا۔۔
"عالی کے بچے نیچے اتارو۔۔۔۔"
ہر سال کی طرح اس سال بھی عالی سرِفہرست تھا ، ضمان کے نہ پہنچنے پر وہ افسردہ تھی پر اپنے بھائی کی موجودگی میں یہ سوچ دماغ سے نکالتے آگے بڑھی تو عالی نے بھی قدم بڑھاتے ہمیشہ والا طریقہ اپنایا تھا ۔ پیروں سے تھام کر زمین سے اونچا کرکے گول چکر لگائے تو زِندگی سے بھرپور ہنسی ہنستے کمر پر ہاتھ مار کر نیچے اترانے کی التجاء کرنے لگی
"آئی لو یو عالی کی جان۔ ہمیشہ ایسے ہی ہنسی مسکراتی رہو بھائی جان کی ناک میں دم کرکے رکھو۔۔۔
اب میں جا رہا ہوں ورنہ تمہارے ہٹلر کے جانشین کی جانشین اوپر آگئ تو میں پیروں پر نیچے نہیں جا پاؤں گا۔"
زمین پر اُتار کر سینے سے لگائے وہ دل سے ارمش کی خوشیوں کا خواہشمند تھا۔۔ نیک تمناؤں کے اظہار کے بعد ذری کا خیال آیا تو جلدی سے دور ہوتے گویا ہوا ارمش کے شکریہ کا جواب ایک بار پھر گلے سے لگا کر سر پر بوسا دے کر دینے کے بعد تیزی سے نیچے کی جانب چل دیا تھا۔۔۔
دو آنکھوں نے یہ منظر بڑی غضبناک تاثرات کے ساتھ دیکھا تھا۔ کُچھ تھا جو دل میں چھن کر ٹوٹا تھا۔ دھوکہ؟؟؟ پیٹ پیچھے وار؟؟؟ اس طرح کے کئی مختلف سوالات سر اُٹھائے چلے آئے تھے۔۔۔۔۔
♡----------------------------------------♡
"ضمان بھائی؟؟؟ آپ تو بلکل نہیں بدلے۔ کیا حال ہیں؟ عالی کیسا ہے؟ کدھر ہوتا ہے آج کل؟"
احمد کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا وہ باقی دوستوں کو تاش کی بازی کھیلتا دیکھ رہا تھا جب کمرے میں احمد کا ماموں زاد بھائی داخل ہوا۔
سارے دوستوں سے سلام دعا کرنے کے بعد ضمان کے پہلو میں آ بیٹھا وہ جو ایک عرصہ دراز کے بعد دیارِ غیر سے لوٹا تھا چند سیکنڈ لگے تھے ضمان کو پہچاننے میں۔ جیسے ہی ضمان کو پہچانا فوری ہی بھولی بھٹکی یادوں سے عالی کی شخصیت اُجاگر ہوتے سامنے آئی تو پر جوش لہجے میں سوالی ہوا۔
"الحمداللہ ہم ٹھیک۔ عالی یہیں ہوتا ہے نیورو سرجن ہے ہمارے ہی ہسپتال میں پریکٹس کر رہا ہے آج کل۔"
آگرچہ سامنے بیٹھے شخص کا ہیولا بھی ضمان کی یاداشت سے کوسوں دور تھا پر پھر بھی سامنے بیٹھے عالی کے ہم عمر معلوم ہوتے لڑکے کی خوش اخلاقی کا جواب ضمان نے بھی مسکرا کر ہی دیا تھا۔
"اور وہ ایک اس کی کزن ہوا کرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میرے خیال سے خالہ کی بیٹی۔۔۔۔۔۔ کیا نام تھا اسکا۔۔۔۔۔۔۔ ابرش؟ نہیں شاید ارمش وہ کہاں ہوتی ہے؟ ہوگئی شادی دونوں کی؟ بچپن میں ہی کپل گولز سیٹ کر رہے تھے وہ دونوں۔ کیا کیمسٹری تھی۔"
اپنی رو میں بولتا وہ ضمان کے چہرے پر چھانے والی سرخی سے بے نیاز تھا۔
"زبان سنبھال کر بات کرو مسٹر۔ یہ جس کے بارے میں تم تبصرے کر رہے ہو بیوی ہے میری۔ اگر ابھی تک میں خاموشی سے تمہاری بکواس برداشت کی ہے تو صرف اور صرف اس لیئے کہ میں اپنی بیوی کا تماشا نہیں لگانا چاہتا ورنہ ابھی تک وہ زبان میں گدّی سے کھینچ چکا ہوتا جسنے میری بیوی کے بارے میں مبالغہ آرائی کی ہو!!!"
وہ جو پہلے ہی ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھا تھا احمد کے کزن کی باتوں پر مٹھی بھینچے بمشکل غُصّہ قابو کیا تھا پر اپنے الفاظ سے ہی صحیح سبق سکھانا ضروری سمجھا۔
"ریلیکس یار!
میں نے بس وہی کہا ہے جو پوری کلاس اس وقت میں کہتی تھی۔ میرا منہ بند کروانے سے پہلے گھر میں غور و فکر کریں کیونکہ مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ عالی نے اُسکی شادی آپ سے ہونے دی کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ ہی اُن بیچاروں کے بیچ۔۔۔۔۔"
باہر کی ہوا جب انسان کے سر پر چڑھ جائے تو اپنی ثقافت سے اکثر لوگ کنارا کشی کر جاتے ہیں شاید جس ماحول میں وہ شخص پروان چڑھا تھا وہاں کے لحاظ سے یہ الفاظ عام ہوں پر ضمان کی رگوں میں دوڑتے خون میں اُبال لانے کے لیۓ کافی تھے۔ بات پوری بھی نا کر پایا تھا کہ منہ پر پڑنے والے مُکے نے درد شدّت کے باعث الفاظ چھین لیے۔
"آئندہ کسی کی بیوی، بہن یا بیٹی کے بارے میں بات کرنے سے پہلے یہ ضرب یاد رکھنا۔۔۔۔"
اپنی بات کہہ کر لمبے ڈگ بھرتا احمد کی پکار نظر انداز کیے وہ باہر کی جانب چل پڑا تھا ۔
"سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے ضمان رند!!!!"
اپنے پیچھے اُسی لڑکے کی مشتعل آواز ضمان کے کانوں سے ٹکرائی تھی بمشکل اعصاب پر قابو پاتے لمحے کی دیر کیے بغیر گاڑی زن سے بھگا لی تھی۔ گھر جانے سے قبل تمام منفی سوچیں وہ باہر جھٹک کر جانا چاہتا تھا۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔
لمحے کے ہزارویں حصے میں کمرے میں سناٹا چھایا تھا۔ وہ کمرہ جو ابھی چند ساعتوں قبل ارمش کی ہنسی کی جل تھل سے مہکا ہوا تھا اس وقت ماتم قدے کا منظر پیش کر رہا تھا۔۔۔
"میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اتنی گری ہوئی نکلو گی۔ اب سمجھ آیا کہ کیوں بھیجنا چاہتی تھیں مجھے لندن، تاکہ میری پیٹ پیچھے کھلے عام گل چھرے اُڑا سکو۔۔؟؟ ہمت کیسے ہوئی تمہاری؟ میرے گھر میں میرے کمرے کی چھت تلے میری ہی عزت اچھالنے کی؟
کیا مقام دیا تھا میں نے تمہیں؟ سر کا تاج بنایا تھا!!! تم اس قدر پست نکلو گی میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔"
ارمش کا چہرا ہاتھ میں جکڑے وہ کہہ رہا تھا۔ جبکہ بے یقینی کے عالم میں ارمش تو اپنی حالت پر رو بھی نہیں پائی تھی۔ آنسوں بہنے سے انکاری تھے۔ دل یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں تھا کہ یہ سب واقعی ہو رہا ہے۔
فق ہوتے زرد چہرے کے ساتھ وہ ضمان کے الفاظ برداشت کرنے کی سکت میں نا تھی۔۔ ایک بار پھر؟؟؟ کیا یہ وار وہ جھیل پائے گی؟؟ کیا وہ یہ سب سننے کے بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑی ہے ؟زمین پھٹی کیوں نہیں اب تک؟ وہ کیوں نہیں زندہ دفن ہوگئ یہ سب سننے سے پہلے؟ ضمان اور بھی بہت کچھ کہہ رہا تھا پر شاید خدا کو رحم آگیا تھا ارمش پر کہ ضمان کے ہلتے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ وہ سن ہی نہیں پا رہی تھی ۔
ضمان کی زبان اب بھی زہر اگل رہی تھی جب اچانک دروازے پر ہونے والی شدید دستک نے دونوں کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔۔۔۔
"یہ تو میں بھول ہی گئ تھی کہ اس بار ریس میں ارمش کے بھائی کے ساتھ میرے بھائی جان بھی شامل ہیں۔۔۔ دروازہ کھولیں بھئی۔۔۔۔"
دروازے کے پار زری کھڑی تھی جو نا جانے کس ریس کا ذکر کر رہی تھی۔
گو کہ وہ اس وقت کسی کا سامنا کرنے کی حالت میں نا تھا پر پھر بھی زری کی آواز سن کر ایک نفرت و حقارت بھری نگاہ ارمش پر ڈال کر جھٹکے سے چھوڑتا دروازے کی جانب بڑھ گیا ۔
وہ جو کھڑی ہی ضمان کی مضبوط گرفت میں ہونے کے باعث تھی، اچانک لگنے والے دھکے پر گرتی گرتی بچی۔ وہ دروازہ کھولنے جا رہا تھا۔ اس حالت میں وہ کسی کے سامنے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اگر ایسا ہو جاتا تو ضمان کے لگائے گئے غلیظ بے بنیاد بہتان کے بعد وہ شاید ساری زِندگی کسی کا سامنا نہ کر پاتی۔ اس سے قبل کہ ضمان دروازہ کھولتا منہ پر ہاتھ رکھے لرزتے وجود کو سنبھالے وہ ڈریسنگ روم کی جانب بھاگی تھی کہ اس لمحے وہی جگہ واحد پنہا گاہ نظر آئی تھی۔
"Happy birthday misho۔۔۔۔۔۔"
"بہت زہریلا ہے یار تمہارا بھائی.... مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اس بار مجھ سے پہلے وش نہیں کرے گا۔۔ پر وہ عالی ہی کیا جو مش کو سب سے پہلے وش نا کرے۔۔۔ ؟؟؟
اس بار تو خیر سے ریس میں بھائی جان بھی شامل تھے۔۔۔ خیر۔۔۔ اب رونے کا کیا فائدہ جب چڑیا چگ گئ کھیت؟؟؟ جلدی سے نیچے آجاؤ سب اِنتظار کر رہے ہیں۔"
کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ اپنی روداد شروع کر چکی تھی کہ ضمان سے ارمش کا پوچھنے پر وہ پہلے ہی اشارے سے ڈریسنگ روم میں موجودگی سے آگاہ کر چکا تھا۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ جس جوش کے ساتھ آئی تھی اُسی جوش سے نیچے جا چکی تھی جبکہ پیچھے ضمان کا وجود سناٹوں کی زد میں آ چکا تھا۔
' یہ۔۔۔۔ یہ کیا کر دیا؟ کیسے کر دیا؟ کیا اسکا کوئی ہرجانہ ہے؟ مبارک ہو ضمان رند کھو دیا تم نے ارمش کو اپنی نیچ ذہنیت کی نظر کسی کی زندگی بھر کی سینچی گئ عزت نفس کردی۔ اپنی ہی عزت کی دھجیاں اُڑا کر رکھ دیں۔ اپنی ہی خوشیاں خود کھا گئے تم۔"
فوری پچتانا کس چڑیا کا نام ہے اس بات کس ادراک ضمان کو اسی لمحے ہوا تھا۔ ختم؟ سب ختم؟ ایک سوال نے سانسیں کھینچ لیں تھیں۔ ہاتھوں میں سر تھامے ہارے ہوئے جواری کی مانند وہ وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا۔۔
__________________________________
احمد کے گھر سے نکل تو آیا تھا پر پچھلے ایک گھنٹے سے سڑکوں پر بے وجہ گاڑی دوڑاتے اشتعال پر قابو پانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہا تھا ۔رہ رہ کر اس بات پر افسوس ہو رہا تھا کہ اُس شخص کا منہ کیوں نہ توڑ دیا جس نے ارمش کے حوالے سے اس قدر بد زبانی کی تھی۔
میرا منہ بند کروانے سے پہلے گھر میں غور و فکر کریں کیونکہ مجھے تو ابھی بھی یقین نہیں آ رہا کہ عالی نے اُسکی شادی آپ سے ہونے دی ہے۔۔۔۔؛
"نہیں ضمان ایسا کچھ نہیں ہے .وہ دونوں بہن بھائی ہیں بلکل اُسی طرح جس طرح تم اور زری ہو۔۔۔۔۔" اُسی شخص کا مشورہ دماغ کے دریچوں سے ٹکرایا تھا پر لمحے سے قبل ہی ضمان نے یہ سوچ جھٹک کر اپنے آپ کو سچائی سے آگاہ کیا.
"وہ چھین لیگی اُسے ہمیشہ کے لیے مجھ سے۔۔۔۔ بھائی آپکو خدا کا واسطہ ہے اُسے میرا بنا دیں، میں نہیں دیکھ سکتی اُسے کسی اور کے ساتھ۔"
دور کہیں دماغ نے ماضی کا ایک اور واقعہ یاد دلایا تھا۔۔۔
"کیا واقعی؟؟؟ نہیں ضمان تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ وہ تمہاری مش ہے۔۔ "
منفی سوچ کو پرے کرتا گاڑی گھر کے راستے پر رواں کرتے وہ اس وقت کسی بھی طرح گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ ارمش کو سینے سے لگا کر محسوس کرنا چاہتا تھا کہ وہ صرف ضمان کی ہی ہے۔۔ دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد گاڑی پورچ میں کھڑی کرتے تقریباً بھاگنے کے انداز میں سیڑھیاں چڑھتے غیر معمولی سی حل چل نیچے کے پورشن میں محسوس کی تھی پر اس وقت ذہن پر صرف ارمش سوار تھی۔
سیڑھیاں چڑھتا اوپر پہنچا ، ابھی چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کمرے کے کھلے دروازے سے نظر آنے والے منظر نے جسم سے روح قبض کرلی۔ وہ عالی کی باہوں میں ہنستی مسکراتی عالی کے اظہارِ محبت پر شُکریہ ادا کر رہی تھی اگر یہ سب کسی غلط نیت سے نہیں ہو رہا تھا تو پھر کیوں وہ دونوں اکیلے تھے ؟؟ لوگوں سے چھپ کر تنہائی میں کیا جانے ولا عمل ہی تو گناہ ہوتا ہے!! تو کیا دھوکہ ہوا تھا؟ اعتبار کی دھجیاں اڑائی گئیں تھیں؟؟؟ پھر دیکھتے ہی دیکھتے عالی باہر نکلا تھا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا نیچے کی جانب چل دیا..کس بات کی جلدی تھی اُسے؟ گھر والوں کا انکی غیر موجودگی محسوس کرنے کی؟؟؟ عالی جا چکا تھا پر وہ یہیں تھی۔ زری ٹھیک تھی؟ وہ لڑکا بھی ٹھیک تھا۔۔۔ بیوقوف ضمان بنا تھا۔ سوال کرنا تو بنتا تھا اس بیوفائی کی وجہ جاننا تو حق تھا ضمان کا۔۔۔۔۔
______________________________________
دروازے سے ٹیک لگائے منہ پر ہاتھ رکھے وہ اپنی سسکیاں دبانے کی کوشش کر رہی تھی ۔گوکہ سب خاک ہو چکا تھا پر اپنی نسوانیت کا بھرم قائم رکھنا چاہتی تھی ۔وہ ہار گئ تھی جوئے کی اس بازی میں جہاں داؤ پر اُسنے اپنی زِندگی لگائی تھی۔ آنسوں تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
"جلدی سے نیچے آجاؤ سب اِنتظار کر رہے ہیں۔۔۔۔ "
ویسے تو اور بھی بہت کچھ کہا تھا زرلش نے۔ شاید اس بد قسمت کو زِندگی کے ایک اور اذیت بھرے سال کے گزر جانے کی مبارک باد دے رہی تھی یا پھر ایک نئے امتحان ایک نئے پُر افسوس سال کے افتتاح پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ پر ارمش کی سماعت سے بس آخری بات ٹکرائی تھی جہاں وہ نیچے آنے کے لیے دعوت دے رہی تھی۔ ارمش کا دم تو ویسے ہی گھٹ رہا تھا اس ہوا میں سانس لیتے کہ جہاں ابھی چند لمحات قبل اس کے پاک دامن پر کیچڑ اچھالی گئ تھی ایک فیصلہ کرتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
چلے جانے کا فیصلہ!!!
واپس کبھی پیچھے مڑ کر نا دیکھنے کا فیصلہ!!!
اٹھنے کی کوشش میں قدم ڈگمگائے تھے، اعصاب ساتھ نہیں دے رہے تھے اور اس پر تضاد سامنے شیشے میں نظر آتا عکس کہ جہاں دودھیا گال پر ضمان کی سفاکیت کے نشان بڑی شان سے جگ مگا رہے تھے۔
کیا ہوا جو وہ یتیم تھی؟ پھر بھی بڑے نازوں میں پلی تھی۔۔۔ کبھی پنکھڑی سے بھی نہیں مارا گیا تھا کبھی اونچی آواز میں بھی کسی نے مخاطب نہ کیا تھا اپنی اس قدر بے قدری پر دل خون کے آنسو رو رہا تھا تو آنکھوں سے اشکوں کی روانی بھی دل کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔
چند قدم بڑھا کر باتھرُوم میں گھس کر ٹھنڈے پانی کے کئی چھینٹے منہ پر مارے تھے پر کسی طور افاقہ نا ہوتے دیکھ آنسوں پیتی باہر ڈریسر کی جانب چلی آئی تھی بیوٹی باکس سے مطلوبہ شے نکال کر چہرے پر پڑے ضمان کی بربریت کے نشانات کو چھپا کر باہر کمرے کی جانب چل دی، کہ اس کے علاوہ کوئی رستہ نہ تھا راہِ فرار کا۔
لال انگارا ہوتی آنکھوں کو جھپک جھپک کر آنسوں روکنے کی کوشش کی تھی کہ ویسے ہی جس حال میں وہ نیچے جانے والی تھی کوئی خبر نہ تھی کہ اس حال پر ماں باپ کے کلیجے پھٹ جاتے۔ مزید سہنے کی سکت تو نہ تھی پر یوں اچانک ہر ظلم بیان کر کے وہ مصطفٰی صاحب کی بگڑتی طبیعت کا زمیدار بھی نا بننا چاہتی تھی۔
ڈوبتے دل کے ساتھ قدم باہر رکھا تھا ۔یہ وہ کمرہ تھا جو زندگی کے چھ ماہ ارمش کی ملکیت میں رہا تھا ۔اچھی یادوں کا ذخیرہ مختصر تھا اور جو تھا ارمش وہ بھی یہیں دفن کر کے جانا چاہتی تھی ۔اب زندگی میں کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہنے دینا چاہتی تھی جو دوبارہ اسی جہنم میں لانے کا سبب بنے۔۔۔
قدم باہر رکھتے ہی نظر اس بے مہر ظالم پر پڑی تھی ،جو ارمش کی نازک جان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے کے بعد خود يوں شکسکتہ نظر آرہا تھا جیسے طوفان کو زد میں ارمش نہیں خود آیا ہو۔
ایک نفرت بھری نگاہ ضمان کی پشت پر ڈال کر ارمش کبھی واپس نہ آنے کے لئے قدم نیچے کی طرف بڑھا چکی تھی۔
خالی نظروں سے ضمان کئی لمحات اس راستے کو تکتا رہا تھا کہ جہاں پر ابھی وہ قدم رکھ کر آگے بڑھی تھی اور ضمان پیچھے رہ گیا تھا شاید۔۔۔۔ شاید اس جیسے انسان کی یہی جگہ ہونی چاہیے ہے۔
ارمش کے نیچے پہنچتے ہی گھر کے تمام افراد کے یک زبان ہو کر سالگرہ کی مبارکی دینے کی آواز ضمان کے کانوں سے بھی ٹکرائی تھی۔ اور پھر کچھ توقف سے مصطفٰی صاحب کی پکار سنائی دی تھی جو اسے ہی نیچے بلا رہے تھے۔
اب جواب دینا تھا؟ مصطفٰی صاحب کو اُنکی لاڈلی کو اس حال میں پہنچا دینے کا یا عالی کو اُسکی بہن کی ایسی حالت بنا دینے کا۔۔۔۔۔
_______________________________
"Happy birthday to you happy birthday to you happy birthday dear armish Happy birthday to you....."
سیڑھیاں اُترنے کے دوران وہ اپنے آپ پر کافی حد تک قابو پا چُکی تھی. ایک فریبی مسکان بھی لبوں پر سجا لی تھی، ساتھ ہی لاؤنج میں داخل ہونے سے قبل دیوار گیر آئینے میں عکس دیکھ کر اُنگلیوں کی مدد سے بکھرے بال درست کرتے حلیے سے مطمئن ہو کر اندر داخل ہوئی تو سب کے یک زبان ہو کر سالگرہ کی مبارک دینے پر یہ محبت ،شفقت محسوس کرتے آنکھوں میں اُترتی نمی کو اندر دکھیلتے آگے بڑھ کر مصطفیٰ صاحب کے پھیلے ہوئے بازؤں میں جا سمائی تھی۔ مصطفٰی صاحب سے پیار لینے کے بعد رخ مبشرہ بیگم کی جانب کیا تھا مگر ماں کی زیرک نگاہوں سے اپنا غم نہ چھپا پائی۔
"رو رہی ہو ارمش؟؟ کیا ہوا ہے میری جان؟"
سوجھی آنکھیں دیکھ کر متفکر لہجے میں بازو تھامے گویا ہوئیں۔
"آنکھیں دکھنی آرہی ہیں مما۔۔۔ ابھی رات سے."
نظریں چراتے بہانا گڑھا تھا۔
"ابھی تو ٹھیک تھیں اوپر۔ "
غیر معمولی سرخی دیکھ کر عالی نے بھی تفتیشی لہجہ اپنایا تھا۔
"کرائم سینز سیریلز کم دیکھا کرو عالی۔۔۔۔ تب بھی ایسی ہی تھیں تم اپنی ہبڑ دبڑ محسوس نہیں کر پائے تھے۔ سوال ہوگئے ہوں تو کیک کاٹ لوں؟؟؟"
عالی سے نظریں ملائے نا مل پا رہیں تھیں ۔یہ وہ لوگ تھے جن کے سامنے کبھی ارمش کو جھوٹ کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی تھی اور آج ضمان رند نے اسے اس موڑ پر لا کھڑا کیا تھا کہ سچ گوئی سے کام لے کر وہ اپنا اور اپنے بھائی کا رشتا خراب نہیں کرنا چاہتی تھی تو دوسری طرف ضمان کے بہتان کشی کا اثر ایسا تھا کہ عالی سے بات کرنا بھی دل میں وسوسے پیدا کر رہا تھا۔ کیا جو سوچ ضمان کی تھی اور لوگ بھی اُسی نظر سے دیکھتے ہوں گے اس پاک معتبر رشتے کو؟
یہ سوچ ہی نظریں چرانے پر مجبور کئے دے رہی تھی تبھی نظریں جھکائے موضوع تبدیل کرتے کیک کی جانب بڑھ گئی۔ اچانک ہی ماحول میں سنگین حد تک خاموشی چھا گئ تھی۔ سب کی کھوجتی نظریں ارمش پر ٹکی ہوئیں تھیں جب مصطفٰی صاحب کی آواز نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا۔
ضمان۔۔۔۔ ضمان۔۔۔۔۔
بلند آواز میں سنجیدہ تاثرات کے ساتھ وہ ضمان کو پکار رہے تھے۔
اب بھرم پاش پاش ہونے جا رہا تھا؟ کیسے سامنا کرے گی وہ عالی کا ؟ بے قصور ہونے کے باوجود فق ہوتے زرد چہرے کے ساتھ وہ اور باقی سب بھی مصطفٰی صاحب کو دیکھ رہے تھے جنکی یک بعد دیگر ضمان کے نام کی پکار پورے گھر میں گونج رہی تھی.....
_________________________________
پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضمان کے ڈاکومنٹس میں کُچھ مسئلہ ہوگیا ہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔ اُسی کو حل رہے تھے وہ۔ میں نے ہی منع کیا تھا نیچے آنے کے لیۓ۔
ہم کیک کاٹتے ہیں ناں! چلیں آئیں!"
مصطفٰی صاحب کی پکار پر بھی جب وہ نیچے نا آیا تو وقت کے ساتھ بدلتے چٹانی تاثرات دیکھ کر ارمش نے بات بنائی تھی۔
ایک طرف تو وہ ضمان کی حقیقت سب کے سامنے لانے کی خواہشمند تھی تو دوسری جانب مصطفٰی صاحب کی صحت کے خدشات بھی گھولے جا رہے تھے۔ بہت جلد وہ نتیجے پر پہنچی تھی کہ کل رات تک تو ویسے بھی ضمان نے چلا جانا ہے جہاں ابھی تک سب پردے میں رکھا تھا ایک دن اور صحیح۔
چھ ماہ کا طویل عرصہ کافی تھا لہذا لہذا وہ ہر بات بتانے کا ارادہ رکھتی تھی پر دل کے مریض باپ پر ایک ساتھ سارے راض آشکار کرنے کے بعد کسی قسم کا پچتوا نہیں چاہتی جو زِندگی بھر ساتھ نا چھوڑے۔
"حیرت ہے مجھے عین وقت پر مسائل سامنے آئے ہیں۔۔۔۔۔۔"
دُنیا دیکھی تھی مصطفٰی صاحب نے بھی بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے گھبرائی ارمش کی چال اور لہجے میں واضح لڑکھڑاہٹ کیسے نا محسوس کرتے؟ پر ارمش چھپانا چاہتی تھی تو انہوں نے بھی نہ کریدا۔ وہ جانتے تھے کہ اُنکے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ ارمش کے حالات سے بے خبر، وہ خواہش مند تھے کہ اپنے مسائل خود حل کرنے کی صلاحیت اُنکے بچوں کی شخصیت کا اُجاگر پہلو ہو۔
متفکر پیشانی بجھے دل کے ساتھ کیک کاٹا گیا تھا پھر ایک ایک کر کے سب اپنی آرام گاہوں کی جانب چل دئیے۔
"نیند نہیں آرہی؟ جاؤ سو جاؤ۔۔۔۔"
بڑوں کو اپنے اپنے کمروں کا رخ کرتے دیکھ عالی ارمش سے گویا ہوا تھا جو صوفے پر ٹکی غیر مرئی نقطے کو تک رہی تھی شاید کسی سوچ میں غرق تھی۔
"ہمم؟؟؟ ہاں۔۔۔۔۔جا رہی ہوں۔۔۔۔۔ تم جاؤ میں چلی جاؤں گی۔۔۔"
وہ جو اپنی سوچوں کے بھنور میں پھنسی ہوئی تھی عالی کی آواز سنتے ایک نظر خالی لاؤنج پر ڈال کر پریشانی سے گویا ہوئی۔
"ٹھیک ہے میں جا رہا ہوں تم بھی چلی جانا۔"
عالی ایک مرتبہ پھر ہدایت کرتا جا چکا تھا۔
ایک جائزہ لیتی نگاہ چاروں طرف ڈال کر سب کا اپنے کمرے میں چلے جانے کا یقین کرتے ارمش نے بھی رخ نیچے موجود اپنے شادی سے پہلے والے کمرے کی جانب کر لیا تھا۔
آنے والے حالات کی سوچ میں ہلکان ہوتے دل ہی دل میں خدا سے صبر کی طالب تھی کہ آنے والے وقت میں اپنی ذات کے لیۓ اقدام اٹھانے میں شاید صبر و استقامت کی ضرورت حد سے سوا ہونے والی تھی۔
♡-------------------------------------------♡
رات پونے چار کا وقت تھا۔ وہ اب بھی اُسی جگہ بیٹھا تھا جہاں وہ اُسے چھوڑ کر گئی تھی۔ ان لمحات میں ضمان نے مُسلسل اپنے آپ کو احتساب کی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کر رکھا تھا۔ ایسی عدالت جس میں وہ خود مجرم بھی تھا، ارمش کے حق میں وکیل بھی تھا اور قاضی بھی خود تھا۔ پوری رات کی سنوائی کے بعد ابھی چند ساعتوں قبل فیصلہ ہوا تھا جس پر عمل پیرا ہونا مشکِل تھا مگر ضمان نے اپنے لیئے وہی سزا چنی تھی۔
چہرے پر ہاتھ پھیر کر قریبی موجود ٹیبل کا سہارا لیتے وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ کئی گھنٹے ایک ہی مقام پر ایک ہی طرح بیٹھے رہنے کے باعث قدم لڑکھڑائے تھے پر ضمان کا ارادہ ملتوی نا کر پائے جو اب آہستہ آہستہ سیڑھیاں اُتر رہا تھا۔
سیڑھیاں اُترنے کے بعد ایک طائرانہ نظر ادھر اُدھر ڈال کر قدم بائیں ہاتھ پر موجود راہداری کے آخری سرے پر بنے کمرے کی جانب بڑھا دیے احتیاط کے ساتھ کمرے کا دروازہ وا کرتے اندر داخل ہوا تو نظر کمبل میں چھپے وجود پر پڑی جو آنکھیں موندیں ساری دنیا سے بے نیاز نیند کی وادیوں کی سیر پر تھی۔
ارمش کو سوتا دیکھ سکون کی سانس ہوا کے سپرد کی تھی کہ ویسے بھی وہ اس وقت جاگتی ارمش کا سامنا کرنے کی سکت میں نا تھا۔ سینت سینت کر قدم اٹھاتے جونہی سرہانے پہنچا تو میٹھی نیند کی وجہ بھی نظر آگئی۔
نشا آور دوا پوری شان سے سائڈر پر موجود تھی۔ ایک زخمی مسکراہٹ نے لبوں کو چھوا تھا۔ کہاں سے کہاں لے آیا تھا وہ اسے چھبیس سال کی عمر میں کہ اب اسے سونے کی خاطر نیند کی گولیوں کی ضرورت پڑ گئی تھی۔
"میں تمہارے لائق کبھی تھا ہی نہیں۔۔۔ تم بہت معتبر ہو ارمش۔۔۔ برائی مجھ میں ہے میری سوچ میں ہے۔
دیکھو کیسے اپنے کیے کی سزا اسی دنیا میں بھگت رہا ہوں کہ آج خود سے بھی نظر ملانے کے قابل نہیں رہا اور یہ تو شروعات ہے۔ میں جانتا ہوں کسی معصوم پر زندگی حرام کرنے کے بعد میرا خدا مجھے یونہی آزاد نہیں چھوڑے گا۔ ابھی تو رسّی کھنچنا شروع ہوئی ہے۔ تمہاری مجبوری کا کتنا فائدہ اٹھایا ہے ناں؟؟ آج سوچتا ہوں تو روح کانپ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
میری خدا سے اب ہر پل یہی دعا ہوگی کہ وہ مجھے بیٹی کی نعمت سے کبھی نہ نوازے۔ جو کچھ میں تمہارے ساتھ کر چکا ہوں اگر میرے کیے کی سزا میری بچی کو ملی تو میں کیا کروں گا؟؟
میں شرمندہ ہوں اور آج میں اپنے آپ کو اس قابل بھی نہیں سمجھتا کہ تمہارے آگے کھڑے ہو کر تو کیا پیروں میں گر کر بھی معافی مانگ سکوں۔
اس لیئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چلا جاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔
ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے۔۔۔۔۔۔
تمہاری دنیا سے دور ایسی جگہ کہ جہاں سے میرے وجود کا سایہ بھی تم پر، تمہاری زندگی پر نا پڑے۔ اپنوں سے تم سے جدائی میری سزا ہے۔ اس وقت تو مجھ میں ہمت نہیں ہے پر کُچھ عرصے میں مجتمع کرلوں گا پھر اگر تمہاری خوشی مجھ سے اس پل پل اذیت دیتے قید نما رشتے سے نجات حاصل کرنے میں ہوئی تو بھی تمہارے ہر فیصلے پر سر تسلیم خم ہوگا۔
مجھے معاف مت کرنا! کبھی بھی مت کرنا! "
آنسوں تواتر سے بہتے چہرا بھگو گئے تھے۔ آج ایک بار پھر وہ اپنی شرمدنگی کا نوحہ پڑ رہا تھا کیونکہ آج ایک مرتبہ پھر وہ خود سے کیئے گئے وعدے کو وفا کرنے میں بری طرح ناکام ہوا تھا۔ دھیرے سے پیشانی پر بوسا دیتا وہ اُٹھ کھڑا ہوا تھا کمرے سے باہر نکلنے سے پہلے اپنی دانست میں ایک آخری بار دیدارِ یار کرتے وہ جا چکا تھا کبھی نہ آنے کے لئے۔
♡--------------------------------------------♡
"تمہاری فلائٹ تو رات کی ہے نہ؟ پھر اس وقت؟؟؟؟"
نیوی بلیو جینز پر آسمانی ٹرٹل نیک پہنے ہاتھ میں فل سائز لگیج بیگ تھامے وہ صبح 8 بجے کے قریب نیچے آیا تھا۔ سرخی مائل آنکھیں رت جگے کی چغلی کھا رہیں تھیں۔ مکمل تیاری دیکھ رفیعہ بیگم سوالیہ گویا ہوئیں۔۔
"جی مما۔۔۔ کل رات ہی کالج انتظامیہ نے آگاہ کیا ہے کہ پری پون ہوگئ ہے صبح گیارہ بجے کی ہے اب۔"
نظریں جھکائے بھاری آواز کے ساتھ جواب دیا تھا۔
"لو بھلا بتاؤ یہ کیا بات ہوئی؟؟؟ ایسے آخری لمحے بتا رہے ہیں۔۔۔۔ اچھا آؤ بیٹھ کر ناشتہ کرلو اور یہ ارمش کہاں ہے؟؟؟ تم جا رہے ہو اور وہ ابھی تک نہیں اُٹھی؟؟؟ جہاں باقی سب رات ارمش کا بدلا انداز دیکھنے کے بعد اس وقت خاموش زبان کے ساتھ ضمان کو کھوجتی نظروں سے دیکھ رہے تھے، وہیں رفیعہ بیگم کی ممتا ارمش پر برہم نظر آرہی تھی۔۔
"کیسی باتیں کر رہی ہیں مما؟ رات کو سر میں درد تھا اس کے میں مل کر آیا ہوں اٹھنے سے بھی میں نے ہی منع کیا تھا ۔ اور ناشتہ نہیں کروں گا بس نکل رہا ہوں دیر ہو رہی ہے۔" خود خطا پر ہونے کے باوجود ماں کا ارمش سے گلا کرنا ضمان کو شرمندگی سے دو چار کر گیا تھا تبھی کُل وقت میں پہلی بار آنکھیں اٹھا کر روٹھے لہجے میں گویا ہوا۔ ساتھ ہی آگے بڑھ کر سب سے الوداعی ملنے لگا۔
"دھیان رکھنا مش کا۔۔۔ "
زری کو پیار کرنے کے بعد جب عالی کے بغلگیر ہوتے سرگوشی میں عالی سے مخاطب ہوا تھا۔
پوری رات ہی خود کا احتساب کرنے میں بسر ہوئی تھی۔۔۔ ہر پل وہ خود سے سوالی رہا تھا کہ کیوں؟ اور کیسے آئی یہ گھٹیا سوچ دماغ میں؟ کن کے بارے میں غلاظت بکی تھی؟ ارمش کے بارے میں؟؟؟ عالی کے بارے میں ؟ وہ دونوں تو اس کے سامنے پلے بڑے تھے کیسے اُن کے درمیان موجود مقدس رشتے پر کیچڑ اچھالنے کی ہمت ہوئی؟ خوف خُدا کیوں نہ آیا؟
پوری رات گریا و زاری کے بعد بھی وہ ارمش کا سامنا کرنے کی ہمت مجتمع نا کر پایا تو فرار کا راستہ اپنانا ہی واحد حل نظر آیا تھا۔ اس بار بھی وہ خود غرض ہو رہا تھا صرف اپنی ندامت اپنی شرمندگی کی پرواہ تھی۔۔۔۔ ارمش کے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے سچائی سے منہ چھپائے بھاگ رہا تھا۔ عالی کے گلے لگا تو بیساختہ ادا ہونے والے الفاظ پر دل نے ایک بار پھر رات سر زد ہوئے گناہ پر ڈوب مرنے کا مشورہ دیا تھا کہ دیکھو ضمان رند مجھے معلوم ہے کہ انکا رشتا پاک ہے۔ تبھی تو تم اس لمحے عالی کو اُسکی حفاظت کی زمیداری دے رہے ہو۔۔۔۔
"بے فکر ہو کر جائیں بھائی جان ہم ہیں نا۔۔۔۔"
جب کئی لمحات بعد بھی عالی کو خاموشی سے ضمان کو تکتے پایا تو زری نے ہی مُسکرا کر آگے بڑھتے جواب دیا تھا۔
"آنکھیں دکھ رہیں ہیں؟"
زری کا جواب سن کر عالی کی نظروں سے بچتے ضمان نے رخ مبشرہ بیگم کی جانب کیا تھا۔۔ مبشرہ بیگم سے پیار لے کر ابھی مصطفٰی صاحب کی جانب مڑا ہی تھا کہ اچانک سوال پر گڑبڑا کر ہاں میں گردن ہلا گیا۔۔
"کیسا اتفاق ہے نہ ؟؟؟کل ارمش کی بھی دکھ رہیں تھیں۔۔۔" بظاہر تو مصطفٰی صاحب نے بات عام سے لہجے میں ہی کی تھی پر شاید چور کی داڑھی میں تنکا کے مژداق پر ضمان کو گہرا طنز محسوس ہوا ۔ آنکھیں تو پہلے ہی وہ کسی سے نہیں ملا پا رہا تھا مصطفٰی صاحب کے تبصرے پر نظریں مزید شرم سے زمین میں گڑ گئیں تھیں۔۔۔۔
"وہ راضی نہیں تھی ضمان.. ہم نے اسے یقین دلایا تھا کہ تم اس کے لئے بہترین ہو۔۔۔۔ مجھے امید ہے کہ تم مجھے اپنی بیٹی کے آگے شرمندہ نہیں کرو گے۔۔۔"
ضمان کے گلے میں باہیں ڈالے سرگوشیانہ لہجے میں وہ اپنے خدشات کا اظہار کر رہے تھے۔۔۔۔
"ضمان ہار گیا چھوٹے پاپا۔ ضمان نے آپکی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا وہ کر چکا ہوں کہ اب تو آپکی بیٹی کا سامنا کرنے کی بھی ہمت نہیں ہے معافی مانگنے کے لیئے الفاظ بھی نہیں ہیں۔۔۔ کیونکہ میں جانتا ہوں مجھ جیسا شخص معافی کا حقدار نہیں ہوتا ۔۔۔"
ضمان کے دل نے ندامت کے ساتھ قبولِ جرم کیا تھا مگر دماغ نے زبان پر الفاظ نا آنے دیے۔۔۔۔
سب سے الوداع لے کر وہ جا چکا تھا۔۔۔ کسی کو رسوا کر کے ،کسی کے زندگی بھر کی کمائی گئ عزت کو داغدار کیے۔۔۔ بغیر تلافی کیے اپنے آپ سے نظریں چرائے وہ جا چکا تھا۔۔۔۔۔
♡--------------------------------------------♡
"اُٹھ گیا میرا بچہ؟؟؟"
صبح نو بجے آنکھ کھلی تھی۔۔۔ اور تب ہی سے چت لیٹی وہ چھت کو گھورے جا رہی تھی ، ہمت ہی نہیں جڑ رہی تھی اُٹھ کر باہر جانے کی۔ کیا جواب دے گی؟ کیوں تھی وہ نیچے اس کمرے میں ؟ ارمش کی مشکِل مبشرہ بیگم نے خود آکر حل کردی تھی۔
"جی مما۔۔۔"
بمشکل لبوں پر مسکان سجائے جواب دیتے نظریں چرا گئ تھی۔
"تم نہیں بتانا چاہتی تو کوئی بات نہیں ، میں یا کوئی اور کوئی سوال نہیں کرے گا۔۔۔مگر ایک بات یاد رکھنی ہے ارمش۔ شوہر کی اطاعت ایک طرف لیکن کسی کی بھی کوئی بھی غلط ، نا حق بات برداشت نہیں کرنی ہے۔ اپنے حق کے لیئے آواز اٹھانے سے کبھی مت جھجھکنا۔ جہاں تم حق پر ہوگی وہاں ہم سب کو اپنے ساتھ پاؤ گی۔۔۔۔
چلو اُٹھو باہر آؤ ناشتہ کرو۔۔۔۔ "
آج صبح ضمان کے چلے جانے کے بعد مصطفٰی صاحب نے رفیعہ بیگم اور مبشرہ بیگم دونوں کو بٹھا کر ارمش اور ضمان کے بارے میں بات کی تھی۔ کل رات ارمش کے رویے کے بعد ضمان کا یوں اچانک صبح سویرے ہی چلا جانا قابلِ تشویش تھا۔ پر وہ دونوں بھی ارمش ضمان کے معاملات سے اتنی ہی لا علم تھیں جتنے کے خود مصطفٰی رند۔
رفیعہ بیگم کے جانے کے بعد مصطفٰی صاحب نے مبشرہ بیگم کو ارمش کی طرف جا کر بات کرنے کی تاکید کی تھی کُچھ لمحات بعد جب وہ اوپر پہنچی تو صحیح معنوں میں حالات کی سنگینی کا احساس ہوا۔۔۔
اُلٹے پیر واپس پلٹ کر نیچے کمرے میں آئیں جہاں ارمش کو کمبل تانے محوخواب پایا۔ نیند کے خیال سے خود تو واپس آگئیں تھیں پر ساتھ ہی ان دیکھی بے چینی بن بلائے مہمان کی طرح ساتھ آئی تھی۔۔
اپنے کمرے میں واپس داخل ہوئیں تو سامنے ہی مصطفٰی صاحب کو ہسپتال جانے کی تیاری میں محو پایا۔ چند ساعت لگیں تھیں مصطفٰی صاحب کو مبشرہ بیگم کا اضطراب جانچنے میں۔ پوچھنے پر جو دیکھا من و عن سنایا تو مصطفٰی صاحب نے ہی کریدنے سے منع کیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی تاکید کی تھی کہ اپنے ساتھ ، اپنی موجودگی کا احساس بھی ضرور دلایا جائے۔ متفکر ذہن کے ساتھ وہ خود تو ہسپتال چلے گئے تھے پر اس وقت ارمش کے کمرے میں بیٹھی مبشرہ انکی ہدایت پر عمل کرتے ارمش کو پر سکون کرنے کی کوشش کر رہیں تھیں۔
♡--------------------------------------------♡
"کیا ہے یہ؟؟؟؟؟"
ہاتھوں میں چند کاغذات تھامے بیڈ کے کنارے پر بیٹھا وہ پیشانی پر بل ڈالے لکھت پڑھ رہا تھا جب واشروم کا دروازہ کھلنے کی آواز پر اس جانب متوجہ ہوا جہاں سے ہاتھوں پر مساج کرتی زری اندر داخل ہو رہی۔ زرلش کے آگے کاغذات لہرا کر سوالی ہوا۔
"رپورٹس ہیں۔۔ "
ایک لمحے کے لیئے تو اس اچانک سوال پر وہ گھبرا گئ تھی۔ پر اگلے ہی لمحے اعتماد بحال کرتے جواب دے کر آگے بڑھ گئی۔۔
"میں نے منع کیا تھا نہ زری کہ فلحال اس سب کی ضرورت نہیں ہے؟"
پہلو سے گزرتی زرلش کا بازو تھامے نہایت سنجیدہ لہجے میں پچھلے واقعے کا حوالہ دیتے سوال کیا تھا۔
"اور میں نے بھی تمہیں بتا دیا تھا عالی کہ میں جاؤں گی۔ تمہارے لیے ضروری نہیں ہوگا پر میرے لیے ہے۔۔۔ اگر میں اپنی فیملی سٹارٹ کرنا چاہتی ہوں تو اس میں برائ کیا ہے؟"
پچھلی مرتبہ کی طرح اس بار بھی عالی کے منہ سے وہی گردان سنتے وہ بری طرح زچ ہوئی تھی۔ تبھی جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر کڑے چتونوں کے ساتھ گویا ہوئی۔
"فیملی سٹارٹ کرنے کے لئے تمہیں ان گائناالوجسٹ کے چکر لگانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جب مجھے کوئی جلدی نہیں ہے تو تمہیں کس بات کی فکر ہے؟؟؟؟ جب ہمارے حق میں بہتر ہوگا تب اللہ عطا کر دے گا...
تم اس طرح برتاؤ کر رہی ہو جیسے خدا نہ کرے سالوں بیت چُکے ہوں ہماری شادی کو اور ہم پھر بھی اولاد کی نعمت سے محروم ہوں۔۔۔۔۔ یہ آخری بار تھا زری!!! اب تم وہاں نہیں جاؤ گی ...رپورٹس اچھال کر پھینکتا حتمی لہجے میں جواب دے کر وہ واپس اپنی جگہ پر جا چکا تھا۔
جبکہ پیچھے نم آنکھوں کے ساتھ شکوہ کناں نظروں سے عالی کو دیکھ کر وہ زمین پر بکھرے کاغذوں کو اکھٹا کرتے دل ہی دل میں اس بار عالی کی بات نہ ماننے کا فیصلہ کر چُکی تھی۔۔
♡--------------------------------------------♡
پاپا کہہ رہے تھے کہ ہسپتال جوائن کرو۔"
لمحے گھنٹوں میں، گھنٹے دنوں میں اور دن ہفتوں میں تبدیل ہو چُکے تھے۔ ضمان کو گئے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ نا کردہ گناہ کی سزا ارمش کو سنا کر وہ خود تو جا چُکا تھا پیچھے ہر پل کی اذیت ارمش کے لیئے چھوڑ گیا تھا۔
دوپہر کا وقت تھا دونوں ماں بیٹی ارمش کے کمرے میں تھیں جب بیڈ پر بیٹھی مبشرہ اپنے زانو پر سر رکھے خاموشی سے لیٹی ارمش سے گویا ہوئیں۔
"پر کیوں مما؟ میرا دل نہیں چاہ رہا ہے فلحال۔۔۔۔۔۔"
ایک مہینہ ہونے کو آیا تھا وہ اپنے آپ کو مانو اس چار دیواری میں قید کر چکی تھی۔ دن رات کی سوچوں سے کبھی نجات حاصل کرنا بھی چاہتی تب بھی باہر جا کر سب سے ساتھ بیٹھنے کی ہمت نہیں جوڑ پا رہی تھی۔ اب تک تو سب کو ہی اندازہ ہو گیا تھا ضمان ارمش کے آپسی حالات کی پیچیدگی کا۔ گھر والوں کی سوال کرتی نظروں سے پیچھا چھڑوانے کا واحد حل سب سے کٹ کر رہنا ہی لگا تھا اور آج کل ارمش زور و شور سے اسی پر عمل کر رہی تھی۔
اب بھی مبشرہ بیگم خود چل کر آئیں تھیں اسی لیے بات چیت سے بچنے کے لیئے ٹی-وی پر پاکستانی ڈرامہ لگا کر گود میں سر رکھے بیٹھ گئی تھی جب اچانک اُنہوں نے مصطفٰی صاحب کا پیغام پہنچایا تو متفکر سی بیٹھ کر گویا ہوئی۔
"ارمش تمہارا رویہ ہمیں پریشان کر رہا ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جسکا حل بات کر کے نہ نکالا جا سکے۔ کُچھ بتاؤ گی نہیں تو ہم ضمان سے بات کیسے کریں گے؟
پاپا پریشان ہیں بچہ!! تمہاری خاموشی انہیں اندر ہی اندر کھا رہی ہے بس اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ تم باہر نکلو دوبارہ سے زندگی کی طرف آؤ۔"
ایک ماں کے لہجے کی تڑپ محسوس کرتے ارمش خود بھی آب دیدہ ہوگئی تھی پر زبان پر پڑا قفل اب بھی نہ ٹوٹا۔
"عالی کہہ رہا تھا کہ تم اس سے ناراض ہو۔ جہاں اسے دیکھتی ہو اُٹھ کر چلی جاتی ہو۔ اُسے کوئی اندازہ نہیں ہے کہ اُسنے ایسا کیا کر دیا ہے کہ تم بات کرنے کے لئیے تیار نہیں ہو۔ کہہ رہا تھا اُسکی جانب سے معافی مانگ لوں۔
وہ افسردہ ہے تمہارے رویے پر۔ آج کل کھانا بھی نہیں کھا رہا ہے گھر میں آتا بھی دیر سے ہے۔ اُسکی وجہ سے پھر زری الگ پریشان ہے۔
محبت نعمت ہے ارمش۔۔۔۔۔۔
یوں اپنے لیئے اُلفت کے پیکر میں ڈھلی ہوئی شخصیات کو پریشان کر کے کفرانِ نعمت مت کرو۔ میری جان مما کو بتاؤ ہوا کیا ہے؟"
ارمش کی مسلسل خاموشی دیکھ رنجیدہ لہجے میں کہتے ہوئے آنکھوں میں آئی نمی صاف کی تھی۔
"مما۔۔۔۔ آپ رو کیوں رہیں ہیں؟ اچھا ٹھیک ہے پکّا وعدہ، اب نہیں کروں گی تنگ۔
اور اس عالی سے بھی پوچھتی ہوں زیادہ چربی چڑھ گئی ہے۔ فالتو میں نخرے دکھا رہا ہے آپ لوگوں کو۔
پر میں فالحال ہسپتال جوائن نہیں کر رہی۔ مجھے ابھی بہت سارا آرام کرنا ہے۔"
چار ہفتوں سے اپنا وجود کمرے کی نذر کر رکھا تھا ان ایام میں بے شمار مرتبہ عالی نے ارمش سے بات کرنی چاہی تھی پر ایک خوف کے زیرِ اثر وہ ہمیشہ نظر انداز کر دیتی تھی عالی کمرے میں آتا تو نا محسوس طریقے سے باہر چلی جاتی باہر بیٹھتا تو اُٹھ کر اندر آجاتی۔ جو الزام ضمان لگا چکا تھا اس کے بعد ارمش خوفزدہ تھی کہیں کوئی اور یہی الفاظ عالی یا کسی اور کے سامنے ادا نا کردے۔ اس وقت مبشرہ بیگم کے آنسوؤں کے آگے ساری حدبندیاں بھربھری دیوار ثابت ہوئیں تھیں۔ دل ہمک ہمک کر اپنوں کے حق میں دلائل پیش کر رہا تھا کہ کسی کی نیچ سوچ کی سزا وہ ان لوگوں کو کیوں دے جو اس سے محبت کرنے پر مجبور ہیں؟ کسی کے صبر کا ناجائز فائدہ کیوں اُٹھائے؟ جب ارمش کے دل میں کوئی چور ہے نہیں تو پھر کیونکر وہ ضمان کے کیے کی سزا خود کو اور خود سے جڑے رشتوں کو دے؟؟
جہنم میں جائے ضمان اور اُسکی گھٹیا سوچ!! اب جب راہیں جدا کرنے کا فیصلہ ہو چکا ہے تو پھر خود کو نظر بند کر کے کس بات کا سوگ منا رہی ہے وہ؟ پچتائے وہ جسنے گناہ کیا ہے۔
ایک نتیجے پر پہنچ کر وہ کافی حد تک اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی تھی دل پر پڑا بے وجہ کا بوجھ ہٹا تو لب بھی مُسکرا اُٹھے تھے اور ماں کو کیا چاہیے تھا؟ بیٹی کی مسکراہٹ جب دل کی مراد حاصل ہوئی تو خود بھی مسکرا اُٹھیں۔
♡--------------------------------------------♡
"ہیلو۔۔۔۔"
رات دس بجے کا وقت تھا جب ارمش روٹھے عالی کو منانے کی غرض سے باہر جھولے پر بیٹھے عالی کے سامنے کھڑے ہوتے گویا ہوئی۔
"زیادہ پرنسز ڈائنا والے نخرے مت دکھانا مجھے۔"
کئی روز بعد آج رات کے کھانے پر نا صرف وہ سب کے ساتھ بیٹھی تھی بلکہ حاضر دماغ سے بیٹھی تھی سب کے ساتھ بات چیت میں حصّہ بھی لیا تھا گوکہ شادابی آج بھی پہلے جیسی نا تھی پر گزرے ایام کے مطابق پھر بھی فرق واضع تھا۔ جہاں ارمش کو گھلتے ملتے دیکھ سب خوش ہوئے تھے وہیں عالی نے بھی اتنے دنوں کا حساب چکتا کرنے کی ٹھان لی تھی تبھی نا صرف تمام عرصے میں سہولت سے ارمش کو نظر انداز کیا تھا بلکہ ارمش کے مخاطب کرنے پر ناراضگی کے اظہار کے طور پر باہر آگیا تھا اور اس وقت بھی اپنے فیصلے پر قائم ارمش کے ہیلو کو بے نیازی سے ان سنا کیا تو جواباً ارمش نے بھی دونوں ہاتھ کمر پر رکھے غصے کا مظاہرہ کیا تھا۔
"میں واقعی ناراض ہوں۔۔۔۔۔۔ "
جواب اب بھی روکھا پھیکا سا ہی آیا تھا۔
"اچھا تو پھر مما کے ہاتھ معافی کس چیز کی مانگی تھی؟؟؟"
عالی سے کُچھ فاصلے پر اُسی جھولے پر بیٹھتے شرارت سے گویا ہوئی تھی۔۔
"میں نے کبھی نہیں سوچا تھا ارمش کہ تمہیں کوئی بات پریشان کرے گی اور تم مجھ سے بھی چھپاؤ گی۔ تمہیں کوئی اندازہ نہیں ہے اس ایک مہینے میں ہم سب کس قدر پریشان رہے ہیں۔ مجھے رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ کاش نا مانی ہوتی تمہاری بات کاش میں بھائی جان کی باتوں میں نا آیا ہوتا جب اُنہوں نے میرے آگے شرط رکھی تھی اور میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب رخصتی نہیں ہوگی تب اپنے فیصلے پر قائم رہتا۔
بگڑا ابھی بھی کُچھ نہیں ہے یار۔۔۔ تم مجھے ایک بار بتاؤ تو صحیح۔ زندہ ہوں میں ابھی تمہیں کسی کی نا حق بات برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے اگر اُنہیں پرانے رشتوں کا پاس نہیں ہے تو تم دیکھنا میں بھی کیسے سارے لحاظ فراموش کر کے حساب برابر کروں گا۔"
ارمش کے سوال پر پہلے تو کُچھ لمحے دونوں کے درمیان خاموشی چھائی رہی پھر کُچھ دیر بعد ارمش کی جانب رخ کرتے عالی متفکر لہجے میں گویا ہوا تھا۔
"میں کُچھ نہیں چھپا رہی۔۔۔ بس صحیح وقت کا انتظار ہے۔ عالی ایک وعدہ کرو۔ میرے اور ضمان کے آپسی مسائل کی گھٹا کی زد میں تم اپنے اور بجّو کے رشتے کو نہیں لاؤ گے۔ اور دوسری بات تم فالتو میں کسی قسم کے پچھتاوے مت پالو میں نے پہلے بھی جو فیصلہ کیا تھا سوچ سمجھ کر کیا تھا اور اب بھی جو بھی فیصلہ کروں گی سوچ سمجھ کر ہی کروں گی۔"
وہ جو اپنے آپ کو تیار کر کے لائی تھی ہر قسم کے سوالات کے لیئے عالی کی باتوں پر گہرا سانس کھینچ کر گویا ہوئی، سچ بھی یہی تھا اس بار وہ کسی قسم کی لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں تھی کیونکہ اس مرتبہ بات کردار پر آئی تھی۔
"اور ہاں ایک اور بات یہ آخری بار ہمارے درمیان اس قسم کی بات ہوئی ہے۔ آگے کبھی بھی ایسا کوئی قصہ نہیں چھیڑنا کیونکہ اب جو بھی بات ہوگی سب کے سامنے بیٹھ کر ہوگی۔"
حتمی لہجے میں بات ختم کرتے وہ جانے کے لیئے اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"ارے!! دھیان سے مش۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ قدم آگے بڑھاتی ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ واپس جھولے پر بیٹھی بازو تھام کر عالی گویا ہوا۔۔
"ٹھیک ہو؟"
ارمش کو ہاتھ کی انگلیوں سے آنکھیں مسلتے دیکھ پریشانی سے گویا ہوا تھا۔ جواباً ارمش نے مسکرا کر حامی میں گردن کو جنبش دی تو مطمئن ہو کر خود بھی ارمش کے ساتھ ہی اندر کی جانب بڑھ گیا۔
♡-------------------------------------------♡
"بھا۔۔۔۔۔مجھے پلاٹ چاہیے ہے گاؤں میں۔"
کئی دن بے معنی زندگی گزارتے ہوئے جب طبیعت بوجھل ہوتی معلوم ہوئی تو مصروفیت ڈھونڈنے کے لیے سوچ کے گھوڑے دوڑائے تو ذہن گاؤں والوں کی پریشانیوں میں جا اُلجھا کس طرح وہ لوگ بنیادی ضروریات سے بھی محروم تھے پہلا خیال تو پانی کا بندوبست کرنے کا آیا تھا پر پھر عرشمان کی بات یاد آئی کہ مسئلہ پانی کا نہیں بجلی کا ہے تو سوچا کہ سولر پلانٹ نسب کروا دے پر پھر اندر کے طبیب نے آگے بڑھ کر سوال اُٹھایا کے غریبوں کی صحت کو کیونکر نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ بیماری کی حالت میں گاؤں کے مریضوں کو پڑوسی گاؤں میں موجود گورمنٹ ڈسپنسری کا رُخ کرنا پڑتا ہے جو نوے فیصد ڈاکٹرز سے خالی ہی رہتا ہے کہ کوئی ڈاکٹر گاؤں میں ٹھہرنے کا روادار نہیں ہے ایک مہینہ ذیادہ سے ذیادہ کوئی ڈاکٹر ٹھہرتا ہے اور پھر مسلسل جد و جہد کے بعد دوبارہ کسی شہر میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔
اپنے مرے ہوئے باپ کے ایصال ثواب کی خاطر اور کُچھ نا صحیح اتنا تو کر سکتی ہے کہ اُنکی چھوڑی ہوئی دولت کا ایک حصّہ غریبوں کے لیے مختص کردے۔ اور پھر اس طرح لا محدود سوچوں سے بھی شاید چھٹکارا حاصل ہوجائے۔ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر عرشمان کو کال ملائ تھی کُچھ دیر سب کی خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد اصل مدعے پر آتے خواہش بیان کی تھی۔
"کیوں؟؟؟؟؟ خیّرت؟ گاؤں میں زمین لے کر کیا کرو گی؟"
حیرانی حد سے سوا تھی پہلے سے موجود زرعی زمینوں کے باوجود پلاٹ خریدنا عرشمان کو ہر گز ہضم نہ ہوا تھا۔
"جی خیریت ہے۔۔۔ مجھے ڈسپنسری بنانی ہے گاؤں میں۔"
مرکزی خیال بیان کرنے کے ساتھ ہی مختصر خلاصہ بھی بیان کرنا ضروری سمجھا تھا اپنی پوری منصوبہ بندی عرشمان کے گوش گزار کرتے اب وہ رائے کی منتظر تھی۔
"وہ سب تو ٹھیک ہے مش۔۔۔ تمہارے لیے مشکل نہیں ہوجائے گا ہر ہفتے گاؤں آنا؟"
ساری بات سن کر جو واحد مسئلہ عرشمان کو محسوس ہوا تھا اُسکا اظہار کرتے سوالی ہوا۔
"میں سنبھال لوں گی بھا۔۔۔ آپ بس مجھے پلاٹ کا بندوبست کر کے دیں اگر کوئی بیچنا نہیں چاہ رہا تو ہم کرائے پر بھی لے سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ پچاس سال کا معاہدہ کرنا ہوگا۔"
وہ جانتی تھی گاؤں کے لوگوں کا کل اثاثہ چند ایکڑ پر مشتمل زمین کا ٹکڑا ہی ہوتا ہے تبھی ایک نئی تجویز بھی سامنے رکھی تھی۔
"زمین خردينے کی ضرورت کیا ہے؟ اتنا بڑا ڈیرہ ہمارا فالتو ہی پڑا ہوا ہے اگر کبھی استمعال ہوتا بھی ہے تو بس آگے کا حصہ ہی ہوتا ہے۔ گاؤں چکر لگا لو تم اسی کو سیٹ کر لیں گے پھر۔"
ارمش کے خیال سے متاثر ہو کر عرشمان کو جگہ کے طور پر بہترین انتخاب ڈیرہ معلوم ہوا تھا جو حویلی سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ گاؤں کے بھی بیچ و بیچ واقع تھا۔
چند ایک دیگر معاملات پر بات کرنے کے بعد الوداعی کلمات کہہ کر فون رکھتے وقت وہ خوش تھی اپنے لوگوں کے کام آنے کی خوشی سے چہرا تمتما رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ضمان سے جوڑی تلخ یادوں کو بھی وہ کافی حد تک فراموش کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
♡--------------------------------------------♡
"زری۔۔۔ "
رات گئے وہ اپنے کمرے میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر ایکشن مووی لگائے زری کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔۔جب کُچھ یاد آنے پر اپنے کندھے پر سر ٹکائے بیٹھی زری کو مخاطب کیا۔
"ہممم؟؟؟"
جو مار دھاڑ سے اُکتا کر نیند کے جھوکے لے رہی تھی عالی کی آواز پر نیند سے بوجھل ہوتی آنکھوں کو بمشکل کھول کر سولیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔
" جس ڈاکٹر کے پاس تم جاتی ہو۔۔۔. مما سے پوچھ کر ارمش کے لئے اپوائنٹمنٹ لے لو اُس سے۔۔۔"
نظریں سکرین پر ٹکائے وہ خود تو عام سے لہجے میں گویا تھا پر زری کی ساری نیند بھگا چکا تھا۔
"م۔میں؟؟ ڈاکٹر۔۔۔ "
وہ تو تمام حفاظتی تدابیر اختیار کرکے کلینک تک جاتی تھی۔۔ عالی کے اس طرح بتانے پر کہ اسکو معلوم ہے گڑبڑا کر ہکلائی تھی۔
"ہاں۔۔۔۔ تم!!!... اور خبردار جو مجھ سے غلط بیانی کرنے کی کوشش کی۔ "
اتفاق سے ہی عالی کا گزر وہاں سے ہوا تھا جب زری کو میٹرنٹی ہوم سے نکلتے دیکھ بس سرد آہ خارج کرکے رہ گیا۔ یہ سوچتے ہوئے کہ اُسکی خوشی اسی میں ہے وہ خاموش رہا تھا ۔ جب تقریباً ایک ڈیڑھ ہفتے سے مُسلسل ارمش پر سستی کے غلبے کے ساتھ دو تین بار چکراتے دیکھا تو آج اچانک ہی دل میں جو خیال آیا اُسکی تصدیق کے لیے وہ زری سے گویا تھا۔۔
"تم ناراض ہو؟؟؟"
اپنی بات کرنے کے بعد دوبارہ سنجیدگی سے اسکرین کی جانب متوجہ ہوتے دیکھ زری کو پریشانی نے گھیرا تھا۔ جسکے زیرِ اثر معصومانہ شکل بناتے وہ عالی کے سامنے جگہ سنبھال چکی تھی۔
"نہیں۔۔۔!!!! میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ ماننا یا نہ ماننا تمہاری مرضی تھی۔ تم نہیں مانیں۔۔۔ ٹھیک ہے آئندہ نہیں روکوں گا کسی چیز سے۔۔۔ تمہاری زِندگی ہے تم اپنی مرضی کی مالک ہو۔"
گو کہ وہ کہہ رہا تھا کہ ناراض نہیں ہے پر لہجے میں چھپی خفگی ہر گز زری سے مغفی نا رہی تھی پر وہ کہہ بھی کیا سکتی تھی بس اسی لیے خاموش رہی ۔
"خیر۔۔۔ کل مما سے بات کر لینا۔۔۔"
اپنے جواب پر زری کا اترا ہوا منہ دیکھ کر لیپ ٹاپ بند کرتے دوبارا یاد کروایا تھا۔ ساتھ ہی لائٹ بند کرتے زری کو اپنے حصار میں لئے آنکھیں موند گیا۔ کُچھ بھی ہو وہ زری کو افسردہ نہیں دیکھ سکتا تھا۔
♡--------------------------------------------♡
"اتنی بڑی زمیداری سر لینے کی کیا تک بنتی ہے ارمش؟ بلاوجہ خود کو تھکاؤ گی۔ اور ایک تو مجھے مصطفٰی صاحب کی سمجھ نہیں آتی ہر زبان سے نکلی بات پوری کرنا فرض نہیں ہوتا۔ یہاں بیٹی نے کُچھ کہا وہاں جھٹ سے اجازت مل گئی۔"
آج صبح ارمش نے اپنے خیال کا اظہار سب کی موجودگی میں مصطفٰی صاحب سے کیا تھا جنکی جانب سے اس خیال کو خوب پزیرائی ملی تھی۔
مصطفٰی رند کے حساب سے ڈگری مکمل ہونے پر جو عہد ڈاکٹرز سے لیا جاتا ہے ارمش کا عمل اس عہد کی پاسداری کا بہترین طریقہ تھا وہ خوش تھے اُنکی دونوں اولادیں انسان دوست تھیں۔ مصطفٰی صاحب کی جانب سے اس قدر سرہائے جانے پر آج صبح سے ہی وہ بے تحاشہ خوش تھی تو دوسری جانب مبشرہ بیگم کا پارہ بری طرح ہائی تھا۔ ارمش کی دن بدن گرتی صحت دیکھ وہ پہلے ہی پریشان تھیں اوپر سے آج صبح چھوڑا گیا شوشہ مزید متفکر کر گیا تھا۔ دوپہر کے وقت کھانے سے قبل گھر کی تمام خواتین لاؤنج میں بیٹھی ہوئیں تھیں جب ایک بار پھر مبشرہ بیگم کو ارمش اور اس کے پاپا پر تاؤ آیا تو تیوری پر بل ڈالے گویا ہوئیں۔
"اگر سب اپنے آرام کے خیال سے اپنے محلوں میں دبک کر بیٹھ گئے تو پھر تو ہوگیا انسانیت کا بھلا مما۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں استطاعت رکھتی ہوں تو پھر کیوں نہ انسانی فلاح و بہبود میں حصہ لوں؟ آپ سوچیں، یہاں شہر میں ہمارے ایک گھر میں چار ڈاکٹرز موجود ہیں جبکہ وہاں پورا گاؤں اس بنیادی سہولت سے بھی محروم ہیں۔"
مبشرہ بیگم کی باتوں پر افسوس سے نفی میں سر ہلا کر وہ جواباً مخاطب ہوئی تھی۔
"چھوٹی مما شام چھ بجے کی اپوائنٹمنٹ لے لی ہے میں نے۔
مش۔۔۔۔ ساڑے پانچ تک تیار رہنا آدھا گھنٹہ تو راستے میں بھی لگ جائے گا۔"
اس سے پہلے مبشرہ بیگم کوئی جواب دیتیں موضوع بدلتے زری گویا ہوئی تھی۔
"کیسی اپوائنٹمنٹ؟"
وہ جو اس قصے سے سرے سے ہی بے خبر تھی زری کی بات کر اچھی خاصی حیرت میں مبتلا ہوئی تھی۔
"صحت پر غور کرو تو کُچھ معلوم ہو ناں! ہر روز چکرا چکرا کر تقریباً گرنے جیسی ہوجاتی ہو آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے الگ پڑے ہوئے ہیں اور سونے پر سہاگہ ہر وقت کی سستی۔
ایک بار مکمل معائنہ ہوجائے گا تو میرے دل کو بھی سکون آجائے گا۔"
وہ جو پہلے ہی چڑی بیٹھیں تھیں ارمش کے سوال پر طنزیہ لہجے میں بات شروع کی تھی پر اختتام تک خود بخود ہی لہجے میں فکر آ سمائی تھی۔
"پر مما میں ٹھیک تو ہوں۔۔۔۔۔۔ اچھی خاصی حٹّی کٹّی-"
اس سے پہلے کے ارمش اپنی بات مکمل کرتی رفیعہ بیگم کی آواز نے خاموش کروا دیا تھا۔
"چپ کرو لڑکی! ہمارے تجربے تمہاری عمر سے زیادہ ہیں یہ آج کل کے بچے تو سمجھتے ہیں مائیں بیوقوف ہیں ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔"
جب سے زری نے عالی سے ہوئی بات چیت کا ذکر کیا تھا رفیعہ بیگم کا تو بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی ارمش کو لے کر کسی ڈاکٹر کے پاس پہنچ جائیں۔ اس وقت مبشرہ بیگم سے ارمش کو بحث کرتا دیکھ جھڑک کر خاموش کروایا تھا اور الفاظ خالی نہ گئے تھے وہ خاموش ہو بھی گئی تھی۔
♡------------------------------------------♡
"یہ کس آزمائش میں مجھے ڈال دیا ہے تو نے میرے مالک؟
میں جب جب اپنے وجود کی کرچیاں اکھٹا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہوں وقت اور حالات مجھے دوبارا اُسی دوراہے پر لا کر پٹخ دیتے ہیں۔"
جاء نماز پر بیٹھی وہ اپنی صورتِ حال پر نا خوش تھی نا ہی غمگین بس حیران تھی کہ اب جب اُسنے ہمت باندھ لی تھی تو یہ سب کیوں ہوگیا؟؟
زری اور مبشرہ بیگم کے ہمراہ وہ ڈاکٹر کی کلینک پہنچی تھی جہاں مکمل معائنہ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے ارمش کے ساتھ مبشرہ بیگم اور زری کو بھی اچھا خاصا ڈانٹا تھا کہ اس حالت کے باوجود وہ لوگ ارمش کا دھیان نہیں رکھ رہے تھے جو حد سے زیادہ نا صرف کمزور تھی بلکہ خون کی بھی واضح کمی محسوس ہوئی تھی۔
گو کہ وہ بچی نہیں تھی سمجھ رہی تھی جو کچھ ڈاکٹر نے کہا تھا پھر بھی مبشرہ بیگم کے ڈاکٹر سے کس حالت کے بارے میں وہ بات کر رہیں ہیں پوچھنے پر ایک اُمید کے تحت تمام یاسیت جمع کرتے متوجہ ہوئی تھی۔ پر ڈاکٹر کا جواب بھی وہی تھا جو ارمش پہلے ہی اخذ کر چکی تھی۔
ڈاکٹر کا جواب سنتے ارمش پر تو سکتا طاری ہو گیا تھا۔ پیچھے ضمان سے متعلق سوالات کے جوابات پھر احتیاطی تدابیر کے ساتھ مہینے کے جانکاری اور ادویات وغیرہ سب خوشی سے سرشار زری اور مبشرہ بیگم نے خود ہی حاصل کر لیں تھیں۔ ارمش تو بس سن اعصاب کے ساتھ گم صم سی بیٹھی تھی۔
پھر نا جانے کب کلینک سے باہر آئے گاڑی میں بیٹھے اور پھر گھر بھی پہنچ گئے ارمش کو کُچھ معلوم نا تھا۔ ہاں کمرے میں داخل ہونے سے قبل مبشرہ بیگم کی آواز کانوں سے ٹکرائی تھی جو شاید رفیعہ بیگم کو بتا رہیں تھیں کہ ڈاکٹر کے مطابق ساتواں ہفتہ چل رہا ہے۔
کمرے میں پہنچ کر بھی وہ کئی لمحات بے حس و حرکت بیڈ پر بیٹھی رہی تھی جب مغرب کی اذان کی آواز فضاؤں میں گونجی تو خود بھی وضو کر کے جاء نماز پر آ کھڑی ہوئی اور اس وقت نماز پڑھنے کے بعد خالی ہاتھ اس لجپال کی بارگاہ میں پھلائے بیٹھی تھی جو کبھی دعا کے لئے اٹھنے والے ہاتھوں کو خالی نہیں لوٹاتا۔
"کیا ضمان اسے اپنا خون تسلیم کر لے گا؟"
یہ ایک سوال روح پر کچکولے لگا رہا تھا۔
"یا اللہ مجھے ہمت دے۔۔۔۔ اس نئی زندگی کو میری مجبوری نہیں، طاقت بنا۔ مجھے ہمت دے کہ میں اپنی ذات کے لیئے آواز اٹھا سکوں۔
اے اللہ اگر اسکا باپ اسکو اپنی اولاد قبول کرنے کے لئے راضی نہ ہو تو اسے اس دنیا میں آنے سے پہلے ہی ختم کر دینا۔ میرے مالک یہ ذلت یہ رسوائی میرے حصے میں مت لکھنا۔ میں تھک گئ ہوں اللہ۔۔۔۔ مجھے مزید کسی امتحان میں مت مبتلا کرنا۔"
دعا کے لیے اُٹھائے گئے ہاتھوں میں منہ چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کر اپنے پاک پروردگار کے سامنے رو رہی تھی التجا کر رہی تھی۔
اور اس رب العالمین کو تو اپنے وہ عاجز بندے پسند ہیں جو دُنیا کے بجائے اُسکے آگے روتے ہیں گڑگڑاتے ہیں۔ بے شک وہ ایسے لوگوں کی حاجت پر جلد اپنے کُن کی مہر درج کرتا ہے۔
♡-----------------------------------------♡
"ارے لڑکی اب تو ہوش کے ناخن پکڑ لو۔۔۔۔ ڈھنگ سے کھانا کھاؤ، کیا خالی پلیٹ میں چمچ ہلائے جا رہی ہو!! ابھی ہی وقت ہے کھا پی کر جان بنا لو۔۔۔۔۔۔"
ارمش کی پلیٹ میں چاول نکالتے ہوئے رفیعہ بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا تھا جو اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ رفیعہ بیگم کی آواز پر چونکی مگر بغیر کُچھ چوں چراں کیے دوبارہ پلیٹ کی جانب متوجہ ہوگئی۔
"میں کل گاؤں جا رہی ہوں وہاں ڈیرے میں کُچھ تبدیلیاں کروانی ہیں۔ پھر جو ضروری مشینری اور فرنیچر چاہئیے ہوگا وہ بھی منگوانا ہوگا۔
پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے گاڑی بھی خریدنی ہے پھر اس کے لئیے ڈرائیور کی بھی ضرورت ہوگی۔ ہر بار بھا کو بلانا اچھا نہیں لگتا۔"
جب سب تقریباً کھانا کھا چکے تھے تب ارمش کی آواز ڈائننگ ہال میں گونجی جو کل اپنے گاؤں جانے کی خبر دے رہی تھی۔
"ارمش اگلے سال سے کر لینا یہ کام شروع اس سال ذرا گھر میں ٹک کر بیٹھو۔ احتیاط علاج سے بہتر ہے کیا فائدہ ایسی خدمتِ خلق کا جس میں اپنا نقصان ہونے کا خطرہ ہو۔"
اس سے پہلے کہ کوئی اور جواب دیتا رفیعہ بیگم ایک بار پر تنک کر گویا ہوئی تھیں۔ جنہیں ارمش کی اس حالت میں گاؤں جانے کی سوچ ایک آنکھ نا بھائی تھی۔
"بڑی مما کُچھ نہیں ہوگا۔ اُسی گاؤں میں پلی بڑی ہوں میں۔ اپنا خیال رکھنا بھی آتا ہے۔ پورے سال فالتو گھر میں نہیں بیٹھ سکتی۔ آپ کو میری صحت کی فکر ہے ناں؟ گھر میں بیٹھے بیٹھے میں بلاوجہ اپنے آپکو بیمار تصوّر کر لوں گی۔ اس لیئے بہتر ہے جو میں کرنا چاہتی ہوں مجھے کرنے دیں۔"
اپنی بات کہہ کر وہ اُٹھ کے جا چکی تھی جب کے پیچھے سب ہی حیران پریشان ارمش کا یہ روپ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یہ ارمش تو نہیں تھی۔۔۔۔۔۔
ارمش تو بڑوں کی ہر بات خاموشی سے مان جانے والوں میں سے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس نے کبھی کوئی بات رد نا کی تھی آج اُسکا اس قدر شدید ردِ عمل جہاں سب لوگوں کو حیران کر گیا تھا وہیں مبشرہ بیگم کو اپنی بہن کے آگے شرمندہ بھی کر گیا تھا۔
"وُہ۔۔۔۔۔۔۔ کمزوری کی وجہ سے چڑچڑی ہو رہی ہے میں کروں گی آپی اس سے بات آپ در گزر کردیں پلیز۔"
غصے سے ارمش کی پشت گھور کر بڑی لجاجت سے بہن سے مخاطب ہوئیں تھیں۔
"لو بھلا بتاؤ یہ کوئی نرالا کام کر رہی ہے؟ ہم نے تو کبھی کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی۔"
مبشرہ بیگم بجا تھیں۔ واقعی سگی خالہ بھی شادی کے بعد ساس بن جایا کرتی ہیں اور یہ بات رفیعہ بیگم میں وہ شادی کے بعد اکثر ہی دیکھ چکی تھیں۔
♡------------------------------------------♡
"رہنے دو تم۔۔۔۔۔۔ اتنی ہی یاد آتی تو جاتے ہی کیوں؟"
کئی روز قبل ہی صاف الفاظ میں وہ ضمان کو گھر کے حالات سے آگاہ کر چکی تھیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا چکی تھیں کہ اگر اب تک اس سے کسی نے کوئی سوال نہیں کیا ہے تو صرف اور صرف اس وجہ سے کہ وہ پردیس میں موجود ہے ورنہ تو سب ہی بے صبری سے ضمان کی واپسی کے انتظار میں ہیں۔ گو کہ بار بار پوچھنے پر ضمان نے صرف اتنا بتایا تھا کہ اُس سے غلطی ہوگئی ہے پر پھر بھی رفیعہ بیگم کی ذاتی رائے یہ تھی کہ چونکہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں تو ارمش کو بلاوجہ بات کو بڑھاوا دے کر نیچے آجانے کے بجائے عقل سے کام لینا چاہئے تھا۔
آپس کے مسائل آپس میں ہی حل کر لینے چاہیے تھے۔ جب سے ارمش کا مستقل قیام نیچے ہوا تھا تب سے ہی رفیعہ بیگم کا بهی زیادہ تر وقت نیچے گزرتا تھا اس وقت بھی وہ نیچے ہی لاؤنج میں بیٹھیں زری کے لیپ ٹاپ پر ضمان سے ویڈیو کال پر بات کر رہیں تھیں جو جب سے گیا تھا خاصہ بجھا بجھا معلوم ہوا تھا۔
"خیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی تو میں نے خوشخبری دینے کے لئے کال کی ہے ورنہ میں ناراض تھی۔"
کل رات کئی مرتبہ رفیعہ بیگم نے ضمان کو کال کی تھی پر جواب ندارد۔ آج صبح ناشتے کے بعد پھر زری نے بتایا کہ اُسکی بات ہوئی تھی ضمان سے کہہ رہا تھا فارغ ہو کر رفیعہ بیگم کو کال کی تھی پر اُنہوں نے اٹھائی نہیں۔ صبح سے ارمش کے برتاؤ پر ایک تاؤ آ رہا تھا تو دوسرا جا رہا تھا جب اچانک خیال آیا کہ ضمان کو تو خوشخبری سنائی ہی نہیں تو فوری کال کردی، اتفاق سے ضمان نے اٹھا بھی فوری لی تھی۔
"کیسی خوشخبری؟"
جب دل اُداسی و ندامت کی خزاں کی زد میں ہو تو کب کوئی خبر قلب میں بہار اتار پاتی ہے۔ ضمان کو بھی کسی قسم کی خوشخبری میں کوئی دلچسپی نہ تھی پر پھر بھی ماں کے احساس میں سوال کر بیٹھا۔
"تم بابا بننے والے ہو!!!!!"
پورے جوش و خروش سے پُر مسرت لہجے میں رفیعہ بیگم نے ضمان کی گوش گزار جو بات کی تھی اس کے بعد تو ضمان کے چہرے پر قوس و قزح کے رنگ بکھر جانے چاہیے تھے۔
پر یہ کیا؟؟
وہ اب بھی کھویا کھویا سا نا جانے رفیعہ بیگم کی پشت پر کیا تلاش کر رہا تھا۔
"اچھا۔۔۔ میں بابا بننے والا ہوں۔۔۔"
وہ جو رفیعہ بیگم سے محو گفتگو تھا خدا کی عطا ہوئی کے پیچھے سے گزرتی ارمش کی ایک جھلک ہی صحیح پر وہ دکھائی دی تو بے اختیار ہی ضمان نے متلاشی نگاہوں سے بیقراری کے عالم میں ایک مرتبہ پھر دیکھنے کی کوشش کی تھی اپنی کوشش میں نا کام ہوتے بجھے دل سے دوبارہ ماں کی جانب متوجہ ہو کر اُن کے کہے الفاظ دوراہے تھے۔
"میں بابا بننے والا ہوں!؟
مما میں بابا بننے والا ہوں؟!!!؟"
الفاظ زبان پر آئے تو سنگینی کا احساس ہوا۔ خوشی کی لہر تن بدن میں دوڑ گئی تھی جب دوبارہ دہرانے اور بھی یقین نہیں ہوا کہ اس گنہگار وجود پر ایک مرتبہ پھر خدا مہربان ہو چکا ہے تو ماں سے تصدیق چاہی تھی۔ خوشی و مسرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ جب انہوں نے بھی حامی میں گردن ہلائی تو بیساختہ ہی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئی تھیں۔ ہاتھوں میں چہرا چھپائے وہ ہٹا کٹا مرد رب کی کرم نوازی پر سرشار خوشی کے آنسوں بہا رہا تھا۔
شاید یہ ایک آخری موقع خدا نے ایک بار پھر ضمان کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ بس نا چلتا تھا کہ اُڑ کر دشمنِ جاں کے پاس پہنچ جائے۔ پیروں میں گر کر گڑگڑا کر معافی مانگے یا کسی طرح ماضی میں پہنچ جائے اور اپنی کی ہوئی ہر زیادتی ہر گناہ سدھار دے۔۔۔۔۔۔
پر دونوں ہی باتیں ناممکنات میں سے تھیں کہ معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد وہ پابند تھا۔ رفیعہ بیگم اور بھی کچھ کہہ رہیں تھیں پر ضمان کو اپنی ہی سوچوں کے گرداب میں پھنسا دیکھ خود ہی کال کاٹ گئیں۔
♡-----------------------------------------♡
"تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے زری۔ میری نرمی کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ۔۔۔۔ "
زری کی بات سن کر وہ جو نیم دراز لیٹا ہوا فوٹ بال میچ دیکھ رہا تھا اشتعال پر قابو نہ پا سکا۔۔۔ غصے سے ہاتھ میں پکڑا ہو ریموٹ دیوار پر مار کر زری کو گھورتے ہوئے گویا ہوا تھا۔
پچھلی شام جب وہ معائنے کے لئے ڈاکٹر کے پاس پہنچی تو باتوں ہی باتوں میں جو بات ڈاکٹر نے کی تھی ،وہی بات کل سے زری کے دماغ میں اٹک کر ره گئی تھی ۔رات کے اس پہر جب اپنی سوچ کا اظہار کیا تو عالی کا متوقع ردِ عمل ہی سامنے آیا تھا۔
"اس میں غصّہ کرنے کی کیا بات ہے؟ میں بھی تو کروا رہیں ہوں علاج اگر میری سب رپورٹس صحیح آئیں ہیں تو ایک مرتبہ اگر تم بھی چیک اپ کروا لو گے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ "
وہ جو کچھ ایسے ہی ردِ عمل کی توقع کیئے بیٹھی تھی عالی کے چلانے پر بھی ذرا نا گھبرائی تھی بلکہ جواب فوراََ ہی دیا تھا۔
"میں نے تمہیں نہیں کہا تھا ان فالتو کے چکروں میں پھنسنے کے لیئے۔ نہ میں نے تمہیں اجازت دی تھی اور نہ ہی میں خود کہیں جاؤں گا!!
تمہارا مقصد کیا ہے یہ سب بکواس کرنے کا ؟ کہنا کیا چاہتی ہو؟ زری کے چہرے پر موجود قابل دید اطمینان نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔ تبھی اس بار آواز پچھلی سے زیادہ تیز تھی۔
"چلاؤ مت عالی!!! چلانا مجھے بھی آتا ہے۔ میری ایک عام سی بات کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے عقل سے کام لو۔ تمہاری سوچ اس قدر جاہلانہ ہوگی میں تصوّر بھی نہیں کر سکتی تھی۔ "
عالی کا تلخ لہجہ اور اونچی آواز نے اُسے بھی بھڑکا دیا تھا تبھی اس بار نرمی کے بجائے سختی سے کام لیتے ہوئے گویا ہوئی تھی پر ہائے رے یہ احساسِ محرومی غصے کے باوجود آنسوں باڑ توڑ کر بہہ نکلے تھے۔
زری کو واقعی یہ بات کوئی ایسا مسلئہِ عظیم نا محسوس ہوئی تھی کہ جس کے بدلے عالی اس قدر مشتعل ہوجاتا ۔
"بات انا کی نہیں ہے زری۔۔۔ تمہیں آخر کیوں سمجھ نہیں آ رہا کہ جب اللہ چاہے گا عطا کر دے گا۔۔۔ "
زری کے آنسوں اور کئی ماہ کی بیکلی نے عالی کو بھی پریشان کر دیا تھا تبھی بہتے آنسوں کی بوچھاڑ میں بھیگ کر سارا غُصّہ آپ ہی ٹھنڈا ہوگیا۔۔۔
"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔ پر یہ آخری بار ہے زری ،پھر اس کے بعد نا تم جاؤ گی نہ مجھے کہو گی۔ "
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کی مسلسل بحث بازی کے بعد عالی نے ہی ہتھیار ڈالے تھے ساتھ ہی اپنی شرط بھی سامنے رکھی تھی۔ اور وہ جانتی تھی جہاں اب منا لیا ہے آگے بھی وہی کامیاب ہوگی تبھی ہنسی خوشی رضامندی ظاہر کردی تھی۔۔۔
__________________________________
وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔۔۔ شب و روز دیکھتے ہی دیکھتے گزرتے جا رہے تھے۔ بس کچھ ایام رہ گئے تھے اس بے مہر کی واپسی میں۔ کئی روز سے وہ گھر والوں کی زبان پر یہ تذکرہ سن رہی تھی۔
سب کو لگ رہا تھا کہ وقت پلک جھپکتے ہی گزر گیا پر کوئی ارمش سے پوچھتا جس کے لیے ہر گزرنے والا دن صدّی کے برابر تھا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ڈر ،خوف ، وحشت میں اضافہ ہو رہا تھا۔۔
گو کہ وہ دُنیا دکھاوے کے لیے خوش تھی مگر قلب پر ہر لمحے لگتی قاری ضربوں نے روح زخمی کر رکھی تھی۔ ایک بوجھ تھا جو دل پر پڑا ہوا تھا۔ وہ ہر لمحے خود کو یہ بتاتی رہتی تھی کہ اُسے اور اُسکے بچے کو کسی کی ضرورت نہیں ہے ، پر ہر لمحے کی سوچ پر بس ایک سوال بازی لے جاتا تھا کہ اگر اُسنے اس نئ زندگی کو اپنا خون قبول نہ کیا تو کیسے سامنا کرے گی وہ اس بے رحم زمانے کا۔۔؟؟؟؟؟
چھ ماہ لگے تھے اپنے خواب کی مضبوط بنیاد قائم کرنے میں. آج جا کر ڈیرے کا ایک وسیع و عریض حصہ ہسپتال کا نمونہ پیش کر رہا تھا .بُنیادی مشینری کے ساتھ ہی وہ ضروریات کے مطابق چند ایک جدید مشینیں بھی منگوا چُکی تھی۔ پچھلے دو ہفتوں سے وہ حویلی میں قیام پذیر تھی۔
اگر یہ بات کہی جائے کہ یہ ہسپتال اکیلے ارمش کی محنت کے بس کی بات نہ تھی تو کُچھ غلط بھی نہیں تھا۔ واقعی ان چھ ماہ میں ارمش کے ساتھ عرشمان نے بھی دن رات ایک کر دئیے تھے۔ اس وقت بھی دونوں آخری مراحل طے کرنے کے بعد چار کمروں پر مشتمل اس ہسپتال کے صحن میں چار پائی پر بیٹھے آنکھوں میں جگنوں کی چمک لیے سامنے موجود مزدوروں کو دلان میں بینچیں رکھتے دیکھ رہے تھے۔۔
"بی بی جی چلیں؟؟؟ "
زندگی کی الجھنوں کو پسِ پشت ڈالے لبوں پر نرم مسکراہٹ سجائے تصوّرات کی دنیا میں آج ہی مستقبل کی سیر کر رہی تھی جہاں یہ ننھی سی کاوش اپنے عروج پر پہنچے ہوئے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ارمش کے لئے مخلص دعاؤں کا ذریعہ بنی ہوئی تھی ۔ارمش جو اپنے خیالوں کی دنیا میں حسین لمحات بسر کر رہی تھی قریب سے آنے والی آواز پر چونکی تھی۔
"ٹھیک ہے بھا... اب ملاقات ہوگی اگلے مہینے انشاءاللہ.... میں میڈیسنز کا بندوبست کر لوں گی. بس آپ کو یہاں گاؤں میں کوئی ایسا فرد ڈھونڈنا ہوگا جو یہ کام بخوبی سرانجام دے سکے۔۔۔۔۔ "
ڈرائیور کو گردن سے اشارہ کرتے وہ اُٹھ کھڑی ہوئی تھی چونکہ حویلی سے وہ پہلے ہی رخصت لے کر آ چکی تھی۔ اس لیئے اس وقت عرشمان سے الوداعی کلمات کہتے سامنے کھڑی اپنی گاڑی کی طرف چل دی۔ آج نا جانے کیوں سب بہت زیادہ یاد آ رہے تھے گوکہ زندگی کے ان چھ ماہ کا بھاری حصہ گاؤں میں گزرا تھا کہ یہ وہ واحد حل تھا جس کے ذریعے وہ لا محدود سوچوں کے بھنور سے نکلنے میں کامیاب رہتی تھی پر پھر بھی آج وہاں کی ہمیشہ سے زیادہ یاد ستا رہی تھی۔
_____________________________________
"تم بھابھی بن گئی ہو تو کیا ہر وقت میرے سر پر سوار رہو گی؟؟؟"
پچھلے دنوں ہی شہر کے مشہور ہوٹل کی رنوویشن کا پروجیکٹ مکمل ہونے کے بعد وہ کچھ روز سے گھر میں ہی تھی۔ آج بھی اُنہیں بے فکری کے ایام میں سے ایک یوم کی پرسکون شام اپنے پر پھیلائے رند ہاؤس کے آنگن میں ایک نيا طوفان لے کر اُتری تھی۔
زری جو اوپر رفیعہ بیگم اور مبشرہ بیگم کے ساتھ بیٹھے ہوئے ننھے مہمان کے لئے کی جانے والی تیاریاں مکمل جوش و خروش کا پیکر بنے دیکھ رہی تھی، فرازنہ کے بتانے پر کہ نیچے کاوش آئی ہے مسکراتی ہوئی نیچے پہنچی تھی جہاں ڈرائنگ روم میں صوفے پر کاوش کو بیٹھے دیکھ مُسکرا کر چھیڑ خانی شروع کی تھی۔۔۔
"تمہارے سر پر کیوں سوار ہونے لگی میں؟؟؟ جس کے حواسوں پر ہونا چاہئے ہے اُسکے تمام احساسات پر ڈیرہ پہلے ہی جما چکی ہوں میں۔"
ایک ادا سے کندھے پر پڑے بال کمر کی جانب جھٹکتے شانِ بے نیازی سے گویا ہوئی تھی۔۔۔
"خیر یہ سب چھوڑو۔۔۔۔ اپنا بتاؤ۔ کافی لمبی ڈھیل نہیں چھوڑی ہوئی تم نے عالی کی؟؟ خالو کو دیکھنے گئ تھی ہسپتال وہیں سے آ رہیں ہوں۔۔
اوہوہو۔۔۔ کیا دوستی نظر آ رہی تھی عالی کی اپنی فیمیل کولیگ سے۔۔۔"
اپنی بات پر زری کو مسکراتے دیکھ نیا سوشا چھوڑا تھا۔ انداز شرارتی تھا پر عالی سے متعلق بات ہو اور زری مذاق کے طور پر رفع دفع کردے ایسا نا ممکنات میں سے ہے۔۔
"کبوتر ہر صبح پرواز اڑتا ہے پر آخری ٹھکانہ وہی مسکن ہوتا ہے جہاں سے پرواز بھری ہو!!!
عالی کی مثال بھی اُسی کبوتر جیسی ہے جسکی آخری منزل زرلش عالی رند ہی ہے۔ وہ میرا ہے صرف اور صرف زرلش رند کا۔۔۔۔
کولیگ ڈاکٹرز تو دُور کی بات ہے۔۔۔۔۔ اس کے معاملے میں اُسکی بہن کے حوالے سے بھی میں نے اگر کبھی غیر محفوظ محسوس کیا تھا نہ تو اُسے بھی عالی سے دور کرنے میں وقت نہیں لگا تھا مجھے۔۔۔
صرف ایک بار پہنچی تھی میں بھائی جان کے پاس اور پھر میں نے جیسا چاہا ویسا ہو بھی گیا۔۔۔ عالی مصطفٰی رند ذرلش عالی کا جنون ہے جو اُسکی رگوں میں۔۔۔۔۔۔"
لہجے میں تکبر سمائے اپنے حواس میں تو وہ صرف اور صرف اپنی دوست کو بغیر کاوش کے تاثرات کی پرواہ کیے اپنے عشق کی داستان سے آگاہ کر رہی تھی جب بہت قریب سے کُچھ ٹوٹنے کی آواز نے زبان پر قفل لگایا۔۔۔
"ار۔۔۔ارم۔۔ش۔۔۔"
آواز کی تقلید میں جونہی کاوش اور زری مڑیں اپنے عین پیچھے زخمی نظروں میں ہزاروں شکوے لیئے کھڑی ارمش کو کھڑا پایا۔۔۔ اس سے پہلے کے زری آگے بڑھ کر اپنی صفائی میں کُچھ کہتی وہ نفی میں گردن ہلاتے اُلٹے قدموں واپسی کی راہ لے چُکی تھی۔ جبکہ زری میں تو اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ اپنے کیے کی معافی مانگ سکے اپنے الفاظ کی سنگینی پر معذرت بھی کر سکے۔۔۔
___________________________________
4 گھنٹے کی تھکا دینے والی مصحافت طے کرنے کے بعد وہ تقریباً شام چار بجے کے قریب گھر پہنچی تھی۔ گاڑی سے اتر کر اندر جاتے وقت وہ نا جانے کیوں پر آج ہمیشہ سے کُچھ زیادہ سب سے ملنے کے لئے بے قرار تھی۔۔
"وعلیکم السلام۔۔۔۔۔ کیسی ہو فرازنہ؟ کہاں ہیں سب؟" چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے وہ جونہی اندر داخل ہوئی تو سامنے ہی فرزانہ کو کچن کی جانب جاتے دیکھا جو ارمش کو دیکھتے ہی آگے بڑھ کر مسکرا کے ملی تو جواب دینے کے ساتھ لاؤنج میں سناٹا دیکھ سب کے متعلق سوال کر بیٹھی۔
"ارمش بیبی بڑے صاحب اور عالی بھائی تو ہسپتال ہیں ، بڑی بیگم صاحبہ اور چھوٹی بیگم صاحبہ اوپر اور زری بیبی کے پاس کاوش بیبی ملنے آئیں ہیں وہ دونوں ڈرائنگ روم میں ہیں اُنہیں کے لئے چائے پانی کا بندوبست کرنے جا رہی تھی آپ کُچھ لیں گی؟ "
سب افراد کی رپورٹ ارمش کے سامنے پیش کرنے کے بعد ایک بار پھر مؤدب انداز میں سوال کیا تھا۔
"ام۔۔۔ نہیں شکریہ۔ "
اوپر جانے سے قبل کاوش اور زری سے ملنے کے خیال سے قدم دائیں جانب بڑھا لیے تھے چہرے پر مسکراہٹ لیے وہ ڈرائنگ روم کی جانب بڑھی تھی پر یہ مسکراہٹ بس چند لمحات کے لیے ہی قائم رہی۔۔ دروازے پر پہنچ کر اس سے قبل وہ کُچھ کہتی زری کی آواز نے کانوں میں جیسے پگھلا ہوا سیسہ گھول دیا ہو ۔
'یہ کیا کہہ رہی تھی وہ؟؟؟؟ تو جو مغلظات ضمان نے ارمش کے کردار کے متعلق بکی تھیں دراصل اس کی زبان میں الفاظ زری کے تھے؟
وہ ہراساں کرنا ، وہ ذبردستی کی شادی ، وہ عالی کو دھمکانا اور پھر اور پھر وہ الزام؟؟؟؟ سب بہن کی محبت میں کیا گیا تھا؟ ارمش کی بربادی کا اصل سبب زرلش تھی؟ "
یہ سچ اس قدر اعصاب شکن تھا کہ قدموں پر کھڑا رہنا محال ہوگیا۔ سہارے کے لیئے قریبی موجود سٹینڈ تھامنے کی کوشش میں سٹینڈ پر رکھا اینٹیک پیس زمین بوس ہوا تو زری کی چلتی زبان پر بھی بریک لگا تھا۔۔ حواس باختہ سی وہ پیچھے مڑی تھی کُچھ کہنے کی کوشش بھی کی تھی پر ارمش کے وجود میں مزید کُچھ سننے کی سکت نہ رہی تو بے یقینی کے عالم میں ہی اُلٹے قدم واپس چل دی ۔
_________________________________
"زری۔۔۔۔۔۔ زری جاؤ۔۔۔۔۔۔جا کر معذرت کرو۔۔۔۔۔۔ اُٹھو۔۔۔۔۔۔"
صوفے کی سائڈ پر رکھا اپنا بیگ اٹھا کر کاوش، حواس باختہ بیٹھی زری کے قریب آئی تھی۔ جب پکار پر بھی زری کی جانب سے کوئی ردِ عمل ظاہر نہ ہوا تو جھنجھوڑ کر ہلاتے ارمش کے پیچھے جانے کی ہدایت کرتے وہ خود جا چکی تھی۔
"ارمش۔۔۔۔ ارمش پلیز میری بات تو سنو۔۔۔۔ ارمش!!"
کاوش کی ہدایت پر ہوش آیا تو بمشکل راہداری تک پہنچی ارمش کی طرف دوڑی تھی جو اپنے بھاری وجود کو سنبھالے بمشکل ہی کمرے تک پہنچی تھی ، زری کی آواز کو نظر انداز کرتے بہتے آنسوؤں کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔
"مت چھویں مجھے!!! مت ہاتھ لگائیں!!! کیا سنوں ہاں!؟ اور سکت نہیں رہی ہے مجھ میں بے وقوف بننے کی! آپ نے میری زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے. میں سوچتی تھی کہ اس شخص کی سوچ گھٹیا ہے۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ اُسکی زبان کے پیچھے آپ کے الفاظ ہوتے ہیں۔ آپ کی وجہ سے ان چھ ماہ میں ایک لمحہ میرا سکون سے نہیں گزرا۔ ہر پل مجھے یہ فکر ستاتی ہے کہ اسکا باپ اسے اپنی اولاد تسلیم کرے گا بھی یا نہیں!!
کیا بگاڑا تھا میں نے آپ کا؟! کیوں مجھ جیتی جاگتی انسان کی زندگی جہنم بنا دی آپ نے؟آپکو رحم نہیں آتا مجھ پے؟ دیکھیں مجھے اُجاڑ دیا آپ نے۔ بے گناہ ہونے کے باوجود اپنے دامن پر اپنے ہی شوہر کے ہاتھوں لگائی گئی کیچڑ لے کر گھوم رہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔
آپ لوگوں کو شرم نہیں آتی بہن بھائی کے پاک رشتے پر تہمت لگاتے ہوئے؟ آپ جیسے لوگوں کی وجہ سے لوگوں کے نزدیک محض خونی رشتے ہی مقدس ہیں۔ احساس کے رشتوں کی اہمیت آپ جیسی بیمار ذہنیت رکھنے والے لوگ کبھی سمجھ ہی نہیں سکتے۔
پر اب بہت ہوا۔۔۔۔۔۔
بہت کر لیا برداشت میں نے۔ اس دنیا میں مجبور کر دیا ہے ناں آپ نے مجھے اپنے بھائی کے نام نہاد رشتے کی نکیل ڈال کر؟ میں روزِ محشر پکڑوں گی آپ کا دامن۔ وہاں جو حاکم ہوگا ناں وہ انصاف کرے گا!!"
ارمش جو بہتی آنکھوں سمیت زری کی پکار نظر انداز کیے آگے بڑھتی جا رہی تھی ابھی کمرے کے دروازے کے نزدیک پہنچی ہی تھی کہ کندھے پر زرلش کے ہاتھ کا لمس پا کر مڑی اور پھر جو بولنا شروع ہوئی تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا چلا گیا۔ دل پر لگی چوٹ اس قدر گہری تھی کہ آج نہ زری کے آنسوں چپ کروا سکے اور نہ ہی خود کی بگڑتی طبیعت۔
مبشرہ بیگم اور رفیعہ بیگم جو کاوش سے ملنے کی غرض سے نیچے آئیں تھیں ارمش کے کمرے کی جانب سے شور سُن کر اس طرف آ پہنچی۔ ارمش کے الفاظ اور زری کی گریا و زاری سنتے دونوں ہی حیران کھڑیں تھیں۔
رفیعہ بیگم پریشان تھیں کہ ایسی کیا کمی چھوٹ گئی اُنکی تربیت میں کہ جس کوتاہی کی زد میں اُنکی ہی بھانجی آچکی تھی؟ ارمش کے الفاظ، ارمش کے آنسوں اُنہیں اپنے دل پر گرتے محسوس ہوئے تھے۔ خود اپنے آپ سے نفرت محسوس ہوئی تھی کہ جنکی اولاد کی زیادتیوں نے اُنکی یتیم بھانجی کو برباد کر دیا۔
جبکہ مبشرہ بیگم تو اب بھی ارمش کے الفاظ پر یقین کرنے کی کوشش کر رہیں تھیں۔ اُنکے بچوں پر ایسا گھٹیا الزام کسی اور نے نہیں بلکہ اُنہیں کے پسند کردہ داماد اور بہو نے لگائے تھے؟
ہاں داماد اور بہو ہی۔۔۔۔۔۔۔
کیونکہ بات جب اولاد پر آجائے تو کوئی بھانجا بھانجی عزیز نہیں رہتے۔ ارمش کے ساتھ یہ سب اسی چھت کے نیچے ہوتا رہا اور وہ اس قدر لاپرواہ ماں ثابت ہوئیں ؟؟ اپنی بچی پر ٹوٹنے والی مصیبتوں سے اس قدر بے خبر رہیں کہ اُسکی رضامندی کے پیچھے چھپا خوف ہی نا بھانپ پائیں؟ روزِ محشر کیا منہ دکھائیں گی وہ اپنی مرحوم بہن کو؟ اُنکی معصوم کلی کو زمانے کی ٹھوکروں میں آنے کے لیے چھوڑ دیا تھا؟
دروازہ بند ہونے کی آواز نے ہر بھیگی آنکھ کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اپنی بگڑتی حالت کے ساتھ کمرے میں بند کر چُکی تھی۔
♡------------------------------------------♡
"مما!!؟؟"
مبشرہ بیگم جب ایک نفرت بھری نگاہ اس کے وجود پر ڈال کر ارمش کے کمرے کی جانب بڑھ گئیں تو اپنی صفائی دینے کے لئے زری نے اپنے آگے سے گزرتی ماں کا ہاتھ تھامنا چاہا تھا جسے رفیعہ بیگم نے نا صرف جھٹکا تھا پر وہی ہاتھ جب زرلش کے چہرے پر چھاپ چھوڑ کر مڑا تو بے یقینی کے عالم میں زری کے منہ سے بیساختہ ہی ماں کی پکار نکلی تھی۔
"خاموش بلکل!! کاش یہ تھپڑ میں نے بہت پہلے ہی تمہاری بے جہ ضدوں پر مارا ہوتا تو آج مجھے یہ شرمندگی نا اٹھانی پڑتی۔ تم جیسی اولاد کے ہونے سے تو میں بے اولاد ہی اچھی تھی۔ بتاؤ زری کس منہ سے میں اپنی بہن کا سامنا کروں؟ ارے مبشرہ کو تو چھوڑو۔۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ کہ مر کر جب دوسری بہن کے سامنے جاؤں گی تو اسے کیا منہ دکھاؤں گی ؟جب وہ پوچھے گی کہ کیوں اپنی اولاد کی ایسی تربیت کی کہ تمھارے بچوں نے میری بچی پر زندگی تنگ کردی.... کیسی بہن ہو تم؟؟؟ ارمش کو تو چھوڑو تمہیں اپنے بھائی پر بھی رحم نہ آیا؟! اُسکی زندگی میں زہر گھولتے وقت تمہیں شرم نا آئی کہ یہ وہی بھائی ہے جس نے خود یتیم ہونے کی پرواہ کیے بغیر تمہیں کبھی باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔۔۔ دفع ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے اور جا کر دعا کرو کہ تمہارے کرتوتوں کی اصلیت عالی کے سامنے نہ آئے۔ ورنہ جو کچھ تمہاری وجہ سے اُسکی بہن کے ساتھ ہوا ہے نہ وہ ایک پل نہیں لگائے گا تم پر تین حرف بھیجنے میں!!"
دھیمی مگر کرخت آواز میں کہتے ہوئے وہ خود اپنے بچوں اور سب سے بڑھ کر اپنی بھانجی کے حالات پر گریاں تھیں۔ زری کو اس کے انجام سے آگاہ کرکے وہ خود مبشرہ کی جانب بڑھ گئیں جو مسلسل دروازے پر دستک دیتے ارمش سے دروازہ کھولنے کی التجاء کر رہیں تھیں۔
"یا اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہوگیا ہے!؟ یہ کیا کر دیا ہے میں نے؟ بھائی جان؟ بھائی جان کی زندگی میں بھی زہر گھول دیا؟ میں نے کیسے سوچ لیا کہ جو صور میں بچپن سے اُنکے کانوں میں پھونکتی آئی ہوں اس کے اثرات زائل ہوجائیں گے؟ مجھے کیوں نہ اندازہ ہوا کہ میرے الفاظ کے نشتر شادی کے رشتے میں بندھنے والے افراد کو زخمی ضرور کریں گے۔
اور عالی؟ کیا وہ چھوڑ دیگا مجھے؟؟
نہیں۔۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں ارمش کے پیروں میں گر جاؤں گی۔ وہ نہیں بتائے گی کُچھ عالی کو۔ وہ میری طرح سنگ دل نہیں ہے۔۔۔۔۔"
جہاں ایک غم بھائی کا گھر برباد ہونے کا تھا، بےگناہ ارمش کا خود کے کیے کی سزا کاٹنے کا تھا وہیں دوسری جانب رفیعہ بیگم کے الفاظ کی سنگینی کا سوچتے وہ آنے والے وقت سے خوفزدہ تھی۔ جب عالی کو سب معلوم ہوجائے گا اور وہ ایک لمحہ نہیں لگائے گا زری کو چھوڑنے میں۔
سوچوں کے بھنور سے دروازہ کھلنے کی آواز کھینچ لائی تھی پر جب ارمش کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تو مردہ قدم اٹھاتی زرلش اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔
♡------------------------------------------♡
"ارمش جانی پلیز دروازہ کھولو۔۔۔۔"
ارمش کے کمرے کے دروازے پر کھڑی وہ کئی مرتبہ دستک دے چُکی تھیں جب ارمش کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو بے بسی کے عالم میں آواز دی تھی۔
"مما چلی جائیں پلیز مجھے کچھ وقت اکیلے چھوڑ دیں۔"
پکارنا کارآمد ثابت ہوا تھا۔ درد میں ڈوبی آواز دروازے کے پیچھے سے سنائی دی تو مبشرہ بیگم مزید تڑپ اُٹھیں۔
"ماں کیسے چھوڑ دے اکیلا میری جان؟ مجھ سے بات کرو۔۔۔۔۔۔ مجھے بتاؤ کیا کیا ہے ان لوگوں نے میرے بچے کے ساتھ؟ اپنے آپ کو اکیلا مت سمجھو ارمش۔ مما زندہ ہیں ابھی۔۔۔۔"
دروازے پر سر رکھے اولاد کے غم میں وہ خود بھی نڈھال تھیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ ماں ماں ہوتی ہے سگی ہو یا منہ بولی۔
دروازہ کھلا تو فوراََ ہی دونوں، رفیعہ اور مبشرہ اندر داخل ہوئی تھیں۔ جہاں تھکے اعصاب کے ساتھ چہرے پر تکیلف کی شدّت کے آثار لیے ارمش سامنے ہی کھڑی تھی۔
"آپ مت روئیں مما۔۔۔ میں کمزور نہیں ہوں۔ جو ہونا تھا ہوگیا پر اب اس سے زیادہ کُچھ نہیں ہونے دوں گی میں اپنے ساتھ۔"
زرد چہرے کے ساتھ تکلیف برداشت کرتے مبشرہ بیگم کو گلے لگائے وہ اس حالت میں بھی دلاسہ دے رہی تھی۔
"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی ارمش۔ چلو بیٹا ہمت کرو ہسپتال چلتے ہیں۔۔۔۔۔"
رفیعہ بیگم کو ہی سب سے پہلے خیال آیا تو کمر سہلاتے گویا ہوئیں تھیں۔
دل کی تکلیف اس قدر شدید تھی کہ جسمانی ایذا کا احساس ہی نہیں ہو پا رہا تھا۔ رفیعہ بیگم نے اس جانب توجہ دلائی تو ممتا نے بھی فوری آہ بھری تھی۔ حامی میں سر ہلاتے بیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر مبشرہ بیگم اور رفیعہ بیگم کے سہارے ارمش اپنی زندگی کا نیا باب وا کرنے چل پڑی۔
♡-------------------------------------------♡
"ہیلو عالی؟ امم۔۔۔۔۔۔ ہاں خیریت ہے۔ ارمش کی طبیعت بگڑ گئی تھی تو ہسپتال لے کر آئیں ہیں ۔ ڈاکٹر کہہ رہیں ہیں کہ فوری آپریشن کرنا ہوگا۔ بچے کی دھڑکن معدوم پڑ رہی ہے۔ وہ آپریشن تھئیٹر میں ہے، تم آجاؤ یہاں۔ اور گھر سے ہوتے ہوئے آنا ارمش کی الماری میں ایک چھوٹا سا بیگ رکھا ہوگا وہ بھی لے آنا۔"
گھر سے نکلتے وقت زری کہیں نظر نا آئی تھی اور یہ بات بھی سچ تھی کہ اس وقت مبشرہ بیگم زری کو مخاطب کرنا بھی نہیں چاہتی تھیں۔
ہسپتال پہنچنے تک ارمش کی حالت خاصی بگڑ چکی تھی۔ معائنہ کرنے کے فوراً بعد ہی ارمش کی حالت سے آگاہ کر کے مبشرہ بیگم کی اجازت سے جب ارمش کو آپریشن تھئیٹر میں پہنچایا گیا تو مبشرہ بیگم کو ہی عالی اور مصطفٰی صاحب کو آگاہ کرنے کا خیال آیا تھا۔
مصطفٰی رند کے بعد اب وہ پریشان حالت میں اس وقت عالی سے محو گفتگو تھیں.
"میں آرہا ہوں۔ آپ فکر مت کریں۔۔۔۔ بس ابھی آیا۔۔۔ وہ جو ابھی راؤنڈ مکمل کرکے اپنے کیبن میں آیا تھا مبشرہ بیگم کا پیغام سنتے ہی باہر کی جانب دوڑ چُکا تھا۔
°°°°°°°°°
"تم نہیں گئیں مما لوگوں کے ساتھ؟"
تیز رفتاری سے گاڑی چلا کر وہ گھر پہنچا تھا۔ ارمش کے کمرے سے مطلوبہ بیگ اٹھا کر جونہی اپنے کمرے میں کُچھ کیش لینے کی غرض سے داخل ہوا تو سامنے ہی صوفے پر پیر اوپر کیے غیر مرئی نقطے پر نظریں جمائے بیٹھی زرلش کو دیکھ اچھنبے سے گویا ہوا۔
"تم اس وقت کیوں آئے ہو؟"
عالی کو دیکھ زری کی حالت یوں تھی جیسے چور چوری کرتے پکڑا گیا ہو۔ ایک ڈر جو اندر ہی اندر ہراساں کر رہا تھا عالی کو دیکھ چہرے پر بھی صاف نظر آنے لگا تو عالی کے سوال کو نظر انداز کیے اپنے خدشات دور کرنے کی غرض سے سوال کے بدلے سوال کیا تھا۔
"آپریشن ہو رہا ہے ارمش کا بیگ لینے آیا تھا۔ چلو تم بھی چلو ساتھ۔۔۔۔"
الماری کے لاکر سے کئی پیلے نوٹ نکال کر والٹ میں رکھتے ہوئے اجلت میں زری کو بھی ساتھ چلنے کا کہتے وہ آگے بڑھ گیا تھا۔
"تم چلے جاؤ۔۔۔ میں بعد میں آجاؤں گی۔"
ابھی تو اتنی بڑی غلطی سرزد ہوئی تھی، اب حوصلہ نہیں ہو رہا تھا کسی کا سامنا کرنے کا تبھی ہونٹ چباتے ہوئے نہایت دھیمے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"پاگل ہوگئی ہو زری؟ میں اس وقت بحث کے موڈ میں نہیں ہوں فوراً چلو!"
وہ پہلے ہی پریشان تھا زری کے انکار پر زچ ہو کر جوابدہ ہوا۔
"پاگل ہونے کی کیا بات ہے اس میں؟ سب ہیں وہاں پر میرا جانا اتنا ضروری بھی نہیں ہے۔"
آنکھیں ملانے کی ہمت نہ ہوئی تو زمین پر نظریں ٹکائے جواب دیا تھا۔
"تمہیں جلن ہو رہی ہے؟ تم ارمش سے جل رہی ہو؟"
ایک بہن اپنے بھائی کی اولاد کے لئے خوش نہ تھی اس ایک وجہ کے علاوہ کوئی اور وجہ سمجھ کے باہر تھی تبھی عالی جو تقریباً کمرے سے باہر نکل چکا تھا واپس پلٹا تھا۔ عین زری کے سامنے کھڑا اس وقت بے یقینی کے عالم میں سوالی تھا۔
"تم ایسا کیسے سوچ سکتے ہو عالی؟ میں؟ میں تمہیں اتنی پست شخصیت کی مالک لگتی ہوں کہ اپنے ہی بھائی کی اولاد سے جلوں گی؟"
وہ ایسا سوچ بھی کیسے سکتا تھا۔ ایک طرف جب حق میں بہتر ہوگا اللّٰہ نواز دے گا کہکر ہمت بڑھاتا ہے تو دوسری جانب اپنے ہی بھائی کی اولاد سے جلنے کا طعنہ دے رہا ہے؟؟؟ دل میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں تھیں تکلیف کی شدت سے آنکھیں آنسوں سے تر ہوگئیں تھیں۔
"عالی پلیز وعدہ کرو تم کبھی نہیں چھوڑو گے مجھے۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے لڑ لینا ڈانٹ دینا ناراض بھی ہوجانا پر پلیز کبھی خود سے دور مت کرنا۔۔۔۔۔"
تمام تر جلدی کے باوجود بھی وہ زری کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ پایا تھا۔ زری کے آنسوں نے اپنے الفاظ کی تُرشی کا احساس دلایا تو آگے بڑھ کر حصار میں لیتے کمر سہلا کر حوصلہ بڑھایا تھا۔ اور وہ جو کب سے مختلف خدشات کے زیرِ اثر ذہنی دباؤ کا شکار تھی عالی کا سہارا پاتے ہی پھوٹ کر رو دی تھی۔
"میں کیوں چھوڑوں گا تمہیں زری؟ کِتنی مرتبہ کہا ہے اپنے ذہن سے منفی سوچیں نکال کر پھینک دو۔ خاموش ہوجاؤ شاباش۔ آؤ چلتے ہیں۔ مما کو تمہاری ضرروت ہوگی۔"
وہ جو پہلے ہی پریشان تھا زری کی باتوں کو اپنی مرضی کا مطلب دے کر معاملہ رفع دفع کرتے ایک بار پھر ساتھ چلنے کی درخواست کی تھی۔
جو نم آنکھوں کے ساتھ حامی میں گردن ہلا کر زری نے بھی قبول کرلی تو بغیر دیر کیے دونوں نے ہسپتال کا رخ کر لیا۔
♡------------------------------------------♡
"مبارک ہو!!! بیٹا ہوا ہے۔۔۔۔"
لال بتی بجھی تھی۔ آپریشن تھیٹر سے باہر ڈاکٹر نکلیں تو مصطفٰی صاحب کے پیچھے مبشرہ بیگم اور رفیعہ بیگم بھی ڈاکٹر کی جانب بڑھیں تھیں، جنھیں دیکھ کر مسکراتے ہوئے ڈاکٹر نے مبارکباد دے کر بیٹے کی نوید سنائی تو سب کے چہروں پر ہی مسکرہٹ بکھر گئی۔
"میری بیٹی ڈاکٹر؟"
بچے کی جانب سے مثبت خبر سنتے ہی مصطفٰی صاحب کو اپنی بیٹی کا خیال آیا تو بے چینی سے سوال کیا تھا۔
"دیکھیں یہ پری مچیور ڈیلیوری تھی۔ بچا اور ماں دونوں ہی اس وقت بہت کمزور ہونے کے باعث زیرِ نگرانی ہیں۔ آپ بس اللہ سے دعا کریں۔۔۔۔۔"
پیشہ وارانہ انداز میں جواب دے کر وہ تو جا چکی تھیں جبکہ پیچھے تمام گھر والوں کے چہرے فکر کے تاثرات تحت مرجھا گئے تھے۔
°°°°°°
"زری۔۔۔۔ بھائی جان کو بتا دو۔"
بہن کی فکر میں ہلکان عالی نے مسجد کا رخ کیا تھا۔ جب باقی سب سے کُچھ دور کھڑی زری کی جانب سے گزرتے ضمان کا خیال آیا تو زرلش کو ہدایت کرتا آگے بڑھ گیا۔۔۔
°°°°°°
"وعلیکم السلام۔۔۔ کیسی ہو؟ باقی سب کیسے ہیں گھر پر؟"
وہ جو ابھی قریبی مال سے ڈھیروں ڈھیر شاپنگ کر کے لوٹا تھا، جس میں زیادہ تر سامان نو مولود بچے کے حساب سے تھا۔ سارے بیگز خالی کر کے پاکستان لے جانے والے مخصوص ٹرالی بیگ میں سامان حفاظت سے رکھ رہا تھا جب موبائل پر ہونے والی رنگ نے اپنی جانب متوجہ کیا جہاں زری کا نام جگمگاتے دیکھ مسکرا کر کال ریسیو کی تھی۔
جو وعدے پیمانے لے کر وہ یہاں آیا تھا ارمش کے بارے میں جب سے خبر ملی تھی سب بھربھری دیوار ثابت ہوئے تھے۔ ایک پل دیارِ غیر میں چین سے نہیں گزر پاتا تھا۔ جہاں دل اُڑ کر گھر پہنچ جانے کی صدائیں دیتا تھا، وہیں دماغ انجام سے آگاہ کرتا رہتا تھا۔ پر آجکل اُسنے اپنے دماغ کو تھپکی دے کر سلا رکھا تھا کہ اب بس کچھ روز ہی تو اور رہ گئے تھے۔
زری کے سلام کا جواب دے کر سب کی خیریت پوچھنے کے بعد اب وہ جواب کا منتظر تھا۔
"مبارک ہو بھائی جان۔۔۔ بابا بن گئے ہیں آپ۔ بیٹا ہوا ہے!!!"
یہ خبر دیتے وقت ارمش کی باتیں ذہن میں گردش کر رہی تھیں۔ زری کی تمام حسیں جیسے ضمان کا ردِ عمل جاننے پر مختص ہوگئیں تھیں۔
"بیٹا؟ پر ابھی تو وقت تھا زری۔۔۔۔
ارمش کیسی ہے؟ بتاؤ۔۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے؟ تم نے تو کہا تھا تم اُسکا دھیان رکھو گی۔ "
وہ جو ایک ایک دن انتظار کی سولی پر لٹک کر گزار رہا تھا۔ جہاں اولاد کی نوید پر خوشی سے سرشار ہوا تھا وہیں اس وقت میں ارمش کے ساتھ موجود نا ہونے پر افسردہ تھا۔
کتنا بدنصیب تھا یہ باپ جو اپنی اولاد کو سینے سے لگا کر اس دُنیا میں خوش آمدید بھی نہ کہہ پایا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ پری میچور ڈیلیوری پر ارمش کی خیریت نے بھی بے چین کر دیا تھا۔
"ڈاکٹرز کے زیرِ نگرانی ہیں دونوں۔۔۔۔ بھائی جان آپ دعا کریں دونوں جلد از جلد صحتیاب ہوجائیں۔
آپ کب واپس آئیں گے؟؟؟ پلیز بھائی جان جلدی آجائیں۔۔۔ ارمش کو آپکی بہت ضرورت ہے۔"
وہ جو بھائی کے پردیس ہونے کے سبب کوئی پریشانی نہیں دینا چاہتی تھی ضمان سے بات کرتے آنکھیں خود بخود چھلک اٹھیں تھیں۔ دوسری جانب اولاد کی خبر پر ضمان کی خوشی محسوس کرتے مطمئن بھی ہوئی تھی۔
"میں۔۔۔ میں آرہا ہوں اسی ہفتے۔ زری، ارمش کا دھیان رکھنا اور مجھے ہر لمحے کی خبر پہنچاتی رہنا بچا۔"
الوداعی کلمات کہتا وہ زخم دینے والے کو خیال رکھنے کی ہدایت کر کے فون رکھ چکا تھا۔
"یا خدا مجھے ہمت دے اپنے گناہوں کی سزا کاٹنے کی۔۔۔۔ میرے مالک میرا بچا معصوم ہے۔ میرے کیے کی سزا کا سایہ بھی اس کے وجود پر نا پڑنے دینا۔
ارمش کو صحت عطا کر خدایا۔ اسے زندگی دے کہ وہ مجھے میرے گناہوں کو سزا سنا کر باقی کی زِندگی پر سکون گزار سکے۔۔۔۔"
آنکھیں بند کیے آسمان کی جانب چہرے کا رخ کیے وہ ارمش اور اپنی اولاد کے لیے دعا گو تھا۔
♡------------------------------------------♡
"اسلام علیکم چھوٹو۔۔۔.. کیا حال ہیں اب؟ طبیعت ٹھیک ہے؟"
نيلی آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے وہ سادہ سی ٹیبل کے پیچھے رکھی ارامده کرسی پر آنکھیں موندے بیٹھی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر سیدھی ہوتے اندر آتی بیس سے پچیس سال تک کی لڑکی کے ساتھ سات سالہ بچے کو دیکھ مُسکرا کر گویا ہوئی۔
صبح سے اس چھوٹے سے ہسپتال میں ہونے کے باعث جو تھکاوٹ محسوس ہو رہی تھی سامنے سے آتے ماں بیٹے کے چہروں پر مسکان دیکھ کر اُڑن چھو ہوگئی تھی۔
"میں اب بہت اچھا ہوں چھوٹی بی بی۔
اب میں بھی راجو، شمن اور منّے کے ساتھ کھیلتا ہوں اور بھاگتے ہوئے تھکتا بھی نہیں۔"
کمرے میں گھستے ہی ماں کا ہاتھ چھوڑ کر وہ عجلت سے ڈاکٹر کے برابر رکھے سٹول نُما کُرسی پر بیٹھتے پُر جوش انداز میں سامنے بیٹھی ڈاکٹرنی صاحبہ سے مخاطب تھا جو اپنی تمام تر توجہ کے ساتھ بڑے لگاؤ سے اس بچے کی سامع بنی ہوئی تھی۔
"بس چھوٹی بیبی، آپکی مہربانی ہے۔ ورنہ ہم غریبوں میں کہاں اتنی سکت تھی؟ سمجھ ہی نہیں آتا کس طرح شکریہ ادا کروں آپ کا۔ ہمارے لیے تو آپ انسان کے رُوپ میں فرشتہ ثابت ہوئیں ہیں۔"
اپنے بیٹے کی صحتمند وجود کو نہراتے ہوئے وہ عورت سر پر اوڑھی چادر کے کونے سے آنکھوں میں اُترتی نمی صاف کرنے کے ساتھ ڈاکٹرنی صاحبہ سے عقیدت کا اظہار بھی کر رہی تھی۔
"اففف رکھی۔۔۔۔ تم کبھی نہیں سدھرو گی۔ جو کچھ ہوا ہے اللّٰہ کی رضا سے ہوا ہے اور یہ تو مجھ پر اس پاک پروردگار کا احسان ہے جو اُسنے مجھے اس قابل سمجھا کہ اس کے بندوں کے کام آ سکوں۔ شکریہ نہیں دعاؤں کی ضرورت ہے مجھے۔ بس میرے لیے دعا کیا کرو کہ جو سکون میرا رب مجھے بخش چکا ہے اب مرتے دم تک میرے ساتھ رہے۔"
بچے کا تفصیلی معائنہ کرتے چہرے پر مسکراہٹ سجائے جو اب ایک عرصے سے اس موہنی صورت کا خاصہ تھی وہ سامنے بیٹھی رکھی کو دیکھ کر گویا ہوئی تھی۔
پچھلے سترہ سالوں میں کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کے باوجود کسی ایک ہفتے بھی ارمش نے گاؤں میں قائم اس چھوٹے سے ہسپتال سے غفلت نا برتی تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آج گاؤں کا ہر شخص اپنے دل میں ارمش کے لیے عقیدت کی حد تک محبت رکھتا تھا۔ ان سترہ سالوں میں وہ جس نے محض اپنے بلبوتے پر اس ہسپتال کی بنیاد رکھی تھی اب تقریباً ہر بیماری کے سپیشلسٹ کو اس کارِ خیر میں شامل کر چکی تھی۔ ہفتے کے مختلف روز مُختلف نیک صفت انسان دوست طبیب اپنی زمیداری سمجھ کر پورا دن اس ہسپتال کے نام کرتے تھے۔
پچھلے مہینے ہی حویلی کی پرانی ملازمہ رکھی کے بیٹے کے دماغ کی سرجری شہر میں کامیابی سے سر انجام ہوئی تھی جس میں اس ننھے شہزادے کے دماغ سے ٹیومر نکال کر اس بچے کے ساتھ ماں باپ کو بھی جیسے نئی زندگی بخش دی تھی۔ یہ کہانی صرف ایک رکھی اور اس کے بیٹے کی نہیں تھی۔ گاؤں میں موجود تقریباً ہر گھر کے افراد ارمش کے احسانات کے بدلے دل سے اُسکی خوشیوں کے لئے دعا گو تھے اور جب اتنے لوگ آپ کے حق میں دعا کریں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ رب العالمین آپ کو وہ سکھ وہ چین عطا نا کرے کہ جس کے آپ حقدار ہیں؟
وہ بھی خوش تھی اور خوشی سے بڑھ کر مطمئن تھی، پُر سکون تھی۔
میز پر رکھے موبائل فون کی جلتی بجھتی روشنی نے ارمش کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
سکرین پر جگمگ کرتا نام دیکھ پہلے سے مسکراتے چہرے پر مزید رونق بکھر گئی تھی۔
رکھی کو چند ایک ضروری ہدایت دیتے بیگ کے ساتھ رکھی دیگر اشیاء سمیٹ کر وہ باہر کی جانب چل دی تھی کہ ویسے بھی ہسپتال کھولنے بند کرنے اور اُسکی حفاظت کی زمیداری عرشمان کے سر تھی۔
♡-----------------------------------------♡
"جی ممی کی جان؟ فرمائیے۔۔۔۔۔"
گاڑی کی جانب قدم بڑھاتے وقت انگلیاں تیزی سے موبائل پر چل رہیں تھیں۔ مطلوبہ نمبر ملنے پر کال ملاتے کان پر لگایا تھا۔ اگلی جانب سے من چاہی آواز سن کر مسکراتے ہوئے ارمش گویا ہوئی تھی۔
"ممی پلیز وانی کو بھی لے جانے دیں ناں! صرف دو دن کی تو بات ہے وہ اتنا اصرار کر رہی ہے۔ اب بس کچھ دیر رہ گئی ہے اور پھر وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گی۔"
نیلی اور سفید تھیم سے سجے درمیانے سائز کے کمرے میں سفید ٹی شرٹ کے ساتھ گرے شورٹ پہنے بین بیگ پر بیٹھا ہوا لگ بھگ سترہ سالہ لڑکا جسنے نیلی آنکھوں کے علاوہ تمام نقوش اپنے باپ کے چہرے سے چرائے تھے بڑے لاڈ سے اپنی ماں سے مخاطب تھا۔
"مسٹر ارمان ضمان رند۔۔۔۔ آپ اگر چاہ رہیں ہیں کہ آپکو ملی ہوئی اجازت بھی واپس لے لی جائے تو مجھے ذرا سیدھے الفاظ میں بتا دیجئے۔ میں کردوں گی ڈرائیور کو کال نہیں چھوڑیں گے وہ آپ کو رامش کے گھر۔"
گاڑی کا شیشہ نیچے کیے آنکھیں موند کر تازہ ہوا اندر اترتے وہ ابھی بھی اسی اطمینان سے گویا تھی ہاں یہ الگ بات تھی کہ اس بات نے سامنے والے کے اطمینان کا بیڑا غرق ضرور کر دیا تھا۔
"میں نے ایسا کب کہا؟؟؟"
صدمے میں ڈوبی آواز سن کر ارمش نے بمشکل ہی اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا تھا۔
"آپ کی ہی لاڈلی کے لیے کہ رہا تھا میں تو۔ میرا کیا ہے میں کہ دوں گا کہ آپ نہیں مان رہیں میں نے تو کی ہے بات آپ سے۔"
گھی جب سیدھی اُنگلی سے نہ نکلا تو اُنگلی ٹیڑھی کرتے ہوئے اب ارمان صاحب نے کھلی دھمکیوں کا سہارا لیا تھا کہ شاید یہ تیر نشانے پر لگ جائے کہ اس چھوٹی آفت کی ناراضگی سے تو تمام افراد ہی خوفزدہ تھے۔
"میں اپنی لاڈلی کی فکر خود کرلوں گی اور خبردار ارمان اگر وانیہ کو کُچھ بھی کہا۔ میں راستے میں ہوں آپ کے جانے سے پہلے آجاؤں گی اور اپنے طریقے سے ہینڈل کرلوں گی۔ میں بتا رہی ہوں بیٹے جی اگر مجھے وانی کا موڈ خراب ملا نا تو بھول جائیے گا آپ بھی کہیں جانا۔"
چھوٹی آفت کے تصوّر نے ہی چہرے پر شادابی بکھیر دی تھی پر اپنے ہی بیٹے کی دی ہوئی دھمکی نے محترمہ کی ناراضگی یاد دلائی تو بمشکل لہجے میں تھوڑی بہت سختی لا کر جواب دیا تھا۔
ایک مہینے سے ارمش کا سترہ سالہ بیٹا اپنے دوست کی سالگرہ کی پکنک پر جانے کی اجازت کے لیے ہر طرح کے حربے آزما رہا تھا۔ پر دوسری جانب تمام ماؤں کی طرح ارمش کے لیے بھی ابھی وہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ اکیلے جانے کی اجازت مل جائے۔ مُختلف سفارشات کا استعمال کرنے کے بعد دو دن پہلے ہی اجازت ملی تھی پر چھوٹی آفت سے یہ خبر جان بوجھ کر چھپائی گئی تھی کیونکہ اُن محترمہ کا بس نہیں چلتا تھا کہ اسکول میں بھی ارمان کی کلاس میں ہی جا کر بیٹھ جائیں۔ پھر یہاں تو بات باہر جانے کی تھی۔
پر ساری احتیاط دھری کی دھری رہ گئی تھی۔ آج صبح ابھی وہ ہسپتال پہنچی ہی تھی جب ارمان کی کال پر پتا چلا کہ پیکنگ کرتے ہوئے وہ رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔
گاڑی اپنے راستے پر گامزن تھی اور ہمیشہ کی طرح گاڑی کے پیوں کے ساتھ ارمش کی سوچوں کے گھوڑے بھی دوڑ رہے تھے کہ کس طرح اپنی ننھی پری کو منانا ہے۔
♡-------------------------------------------♡
(ماضی)
"ارمش۔۔۔۔۔؟ سوپ بنایا تھا تمہارے لیئے۔"
بیڈ پر لیٹے ہوئے ارمش کافی دیر سے چادر میں لپٹے ہوئے اپنے پہلو میں پڑے ننھے سے وجود کو مسکراتی نظروں سے دیکھ کر ممتا کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر ہر لمحے کے ساتھ طلب اور محبت محض بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ کُچھ ہی لمحات گزرے تھے جب چھوٹے سے روئی کے گولے جیسے وجود کے ننھے لبوں پر بھی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ جیسے اُسنے بھی ماں کی بے لوث محبت سے لطف اٹھایا ہو۔
ابھی ارمش اس ایک لمحے کے سحر سے نکلی بھی نہ تھی جب دروازے پر دستک کے بعد زری کی آواز نے ساری شادابی ملیامیٹ کردی۔
اس لمحے بڑی شدت سے ارمش کے دل میں خواہش جاگی تھی کہ اپنے بیٹے کو لے کر وہ کہیں بہت دور چلی جائے جہاں ضمان اور زرلش نامی افراد کا سایہ بھی ان کے وجود پر نا پڑے۔ زری کی آواز سن کر بھی وہ اُسی زاویے سے دروازے کی طرف پیٹ کر کے لیٹی رہی تھی۔
"جب تم حویلی سے گھر آئیں تھیں تو شاید سب سے زیادہ میں ہی خوش تھی۔ لڑکوں کے بیچ پلنے والی لڑکی کی اپنی بہن جو آرہی تھی اور پھر وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔
میں، جسے مرکزِ توجہ ہونے کی عادت تھی آہستہ آہستہ ایک ایک کر کے اپنی ساری محبتوں میں تمہاری شراکت داری سے چڑ کر تمہاری نا کردہ غلطیوں کے تم سے بدلے لینے لگ گئی اور یہیں بس نہیں کی میں نے۔۔۔۔۔۔ اپنے آنسوؤں کے دریا میں بھائی جان کو بہا کر اُنہیں بھی تمھارے خلاف کر دیا۔
ہر آئے دن میرا تم سے بیر مزید بڑھتا گیا۔ پھر وہ دن آیا۔۔۔۔"
ارمش کو خاموش لیٹا دیکھ وہ وہیں بیڈ کی پائنتی ٹک کر بہتے اشکوں کے ساتھ آج اقبالِ جرم کر رہی تھی۔ زری کی جانب پشت کیے لیٹی ارمش کی آنکھوں نے بھی دغا دے دی تھی۔ یہ سوچ ہی اذیت ناک تھی کہ جب نفرت کا مفہوم بھی نہ معلوم تھا وہ تب سے ہی اس جذبے کا شکار رہی تھی۔ گہری سانس لے کر مزید بولنے کی ہمت مجتمع کرکے زری پھر گویا ہوئی تھی۔
"عالی کی اٹھارویں سالگرہ۔۔۔ جب عالی سائے کی طرح تمہارے ساتھ ساتھ تھا، اپنے ہر دوست سے تمہارا تعارف کروا رہا تھا۔ میں بھی بہت خوش تھی اس دن کیونکہ چند روز ہی تو گزرے تھے مجھ پر اپنی معصوم محبت کا ادراک ہوئے۔
اپنے کمرے سے عالی کے من پسند گیم کو اپنی محبت سے ڈھانپے میں باہر نکلی ہی تھی جب کسی عورت کو چھوٹی مما سے کہتے سنا کہ تمہاری اور عالی کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی کو مات دے رہی ہے۔ وہ چھوٹی مما کو کہہ رہی تھیں کہ تمہیں عالی کے نام کر دینا چاہیے۔
میں۔۔۔۔۔۔ میں ڈر گئی تھی ارمش۔ مجھے لگا کہ شکل، صورت اور ذہانت کے بعد تم اس میدان میں بھی مجھے ہرا دوگی۔
میں پاگل تھی تمہارے پاک رشتے کو سمجھ ہی نہیں پائی۔ بس اس دن کے بعد ہر لمحہ اپنے اندر ایک ان دیکھی جنگ میں جٹی رہنے لگی۔ جو عالی کو پسند تھا وہ سب اپنانا شروع کردیا۔ پر کوئی سرا ہاتھ نہیں لگ رہا تھا وہ لمحہ بہ لمحہ مجھ سے دور ہوتا چلا جا رہا اور پھر۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے ہی بھائی جان کے سامنے یہ بات کہی تھی۔
سب غلطی میری ہے ارمش! پر میں تمہاری سزا برداشت نہیں کر پاؤنگی۔ میں مر جاؤں گی عالی کے بغیر! تمہیں خدا کا واسطہ ہے ہمیں معاف کردو! بھائی جان کا کوئی قصور نہیں ہے وہ تو بس اپنی ہی بہن کے ہاتھوں استعمال ہوئے ہیں! پلیز معاف کردو ہمیں!! میں تمہارے پیر پڑتی ہوں ارمش۔۔۔۔۔۔خدارا مجھے معاف کردو۔ میرے کیے کی سزا بھائی جان کو مت دینا پلیز!!"
ہچکیوں سسکیوں کے درمیان زرلش اپنی بات کے اختتام پر اپنے برابر دراز ارمش کے پیر تھام کر معافی کی طلبگار تھی پر ساتھ ہی ساتھ آج بھی اپنے عشق کے آگے مجبور اپنے کیے کی سزا کاٹنے سے خوفزدہ تھی اور یہی ڈر تو آج زری کی ہمت بنا تھا۔
پانچ دن سے سب افراد ہی ننھے مہمان کی خوشی میں غرق تھے اور زری خوف کے زیرِ اثر یہ خوشی بھی ڈھنگ سے نا منا سکتی تھی۔ ہر پل بس اسی بات کا ڈر لگا رہتا تھا کہ جب ارمش سب عالی کو بتا دے گی پھر کیا ہوگا؟ یہی خوف آج زری کی ہمت بنا تھا۔ ارمش کا سامنا کرنے کی ہمت۔۔۔۔۔۔ اسی خدشے سے ہراساں وہ لڑکی جو دُنیا کو اپنے قدموں میں رکھنے کی قائل تھی آج ارمش کے قدموں میں گری اپنے عشق کی بقا مانگ رہی تھی۔
¤بک گیا میرا سارا غرور،
تیری چاہت خریدنے میں¤
♡-----------------------------------------♡
"آپ نے لوگوں کی باتوں پر یقین کر لیا؟ میں اور عالی اُن لوگوں کے سامنے نہیں پلے بڑے تھے وہ نہیں جانتے تھے ہمارے رشتے کی پارسائی پر آپ کو تو معلوم تھی ناں؟
ایک لمحے کے لیے میں یہ بات مان لوں کہ میری زندگی کا جو تماشہ آپ نے لگایا ہے اس کی وجہ لوگوں کی جانب سے آپ کے دل میں ڈالا گیا ڈر تھا پر ضمان؟
شاید زندگی کے کسی مقام پر میں آپ کو معاف کر بھی دوں پر ضمان رند کو نہیں ہر گز نہیں!! وہ شخص شوہر تھا میرا۔۔۔۔۔۔ میرا لباس! میری پاک دامنی کا گواہ! پوری دنیا بھی میرے خلاف ہوجاتی ناں تو ضمان وہ واحد شخص ہونا چاہیے تھا جو میرے ساتھ کھڑا رہے۔ وہ شخص جانتا تھا میں بد کردار نہیں ہوں۔
آپ نے جو کیا سو کیا پر بے اعتباری کی جس دھوپ میں مجھے اُسنے لا کر پٹخا ہے ناں اب مرتے دم تک مجھے اس شجر کا سایہ قبول نہیں۔
رہی بات عالی کو بتانے کی تو بے فکر رہیں، کُچھ نہیں بتاؤں گی میں اسے۔ اس لیئے نہیں کہ مجھے آپ سے کوئی ہمدردی ہے بلکہ اس لیے کہ مجھے اپنے بھائی کا احساس ہے۔ جن توہمات کی بھٹّی میں میرا روم روم جل کر خاک ہوا ہے اُسکی تپش میں میں اپنے بھائی کو جھلستے نہیں دیکھ سکتی۔ ضمان کے جن الفاظ کے نشتر سے میں زخمی ہوئی ہوں وہی الفاظ آپ کی جانب سے سنکر عالی کے دل کے ہزاروں ٹکڑے ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی میں۔ جو کچھ آپ نے یا آپ کے بھائی نے میرے ساتھ کیا ہے اس سب کے بدلے کے لئے میں اپنے بھائی کی خوشیاں نہیں نگل سکتی۔
آپ سے بس ایک آخری گزارش ہے۔۔۔۔۔۔۔
کھیل لیا آپ لوگوں نے میری زندگی سے اور سہہ لیا میں نے۔عالی کے ساتھ یہ سب مت کیجیے گا۔ اپنوں کے ہاتھوں ملے گئے دکھ کی اذیت حد سے سوا ہے۔ مجھ پر تو نہیں کیا پر میرے بھائی پر رحم کردیجئے گا۔"
پائنتی پھیلائے ہوئے پیر سمیٹ کر زری کی جانب پشت کیے سپاٹ لہجے میں وہ اپنا فیصلہ سنا چُکی تھی جہاں ضمان کے لیے معافی یا رحم کی کسی قسم کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تھی۔
"ارمش، بھائی جان۔۔۔۔۔۔۔۔"
کُچھ بھی ہو وہ دل کی بری تو ہرگز نہ تھی اور پھر ہر رشتہ ایک جانب اور بہن بھائی ایک جانب اور بھائی بھی وہ جو باپ کی سی شفقت اپنے وجود میں رکھتا ہو۔ زری کیسے برداشت کر لیتی اپنے کیے کی سزا بھائی کو بھگتتا دیکھ۔ تبھی ضمان کی حمایت میں لب وا کیے تھے جنہیں ارمش کی آواز بند کروا گئی۔
"آپ جا سکتی ہیں۔"
ارمش حیران تھی ان لوگوں کی خودغرضی پر۔ خود جو چاہیں کر لیں پر دوسرے بندے سے ہر قسم کی رعایت کی توقع ہے۔
اس سے قبل کہ زری اپنی بات مکمل کر پاتی چھوٹے ضمان کے رونے کی آواز پر آغوش میں بھرتے ہوئے ارمش زری کو باہر کا راستہ دکھا چکی تھی۔
♡------------------------------------------♡
"مما۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکو دیکھ لیں آپ مجھے فرائز دکھا دکھا کر کھا رہا ہے۔ میں اس کا سر پھوڑ دوں گی۔"
شام کا وقت تھا گھر کے تمام افراد لان میں بیٹھے ہوئے چائے پانی سے لطف اندوز ہو رہے تھے جبکہ کین کی کرسیوں میں سے ایک پر گود میں آسمانی رنگ کی چادر میں چھپے پرسکون وجود کو لیے بیٹھی ارمش مبشرہ بیگم کی گھوریوں کے زیرِ اثر پھلوں پر گزارا کر رہی تھی جب سامنے بیٹھے عالی نے سنہرے دلکشی سے تلے ہوئے آلوؤں کو کیچپ کی لالی میں تر کرتے ہوئے للچائی نظروں سے دیکھتی ارمش کو تنگ کرنے کی غرض سے پیش کش کی۔ اپنی پیش كش کے بدلے میں ارمش کے چہرے سے بے چارگی ٹپکتے دیکھ ہمدردانہ نظروں سے دیکھتے کندھے اچکا کر ہاتھ میں پکڑا فرائی منہ میں ڈال کر لذت کا احساس دلانے کے لیے آنکھیں بند کر گیا تھا اور یہیں ارمش کی بھی بس ہوئی تھی تبھی چیخ کر رفیعہ بیگم سے باتیں کرتی ماں سے شکایت لگائی تھی۔
"سدھر جاؤ عالی! بڑے ہوگئے ہو اب یہ بچپنا چھوڑ دو۔
زرلش۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے اٹھاؤ فرائیز کی پلیٹ اور تمہیں کھانے ہیں تو جا کر اپنے کمرے میں کھاؤ میری بچی کو تنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ جو واقعی رفیعہ بیگم سے باتوں میں مگن تھیں ارمش کی آواز پر دونوں کی جانب متوجہ ہو کر عالی کو ڈانٹا تھا ساتھ ہی عالی کے پہلو میں بیٹھی زری کو بھی پلیٹ اٹھانے کی ہدایت کی تھی۔ تین چار دن سے اُنہوں نے زری کو سرے سے نظر انداز کر رکھا تھا زری کی موجودگی یا غیر موجودگی سے اُنہیں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا ان ایام میں معتدد مرتبہ زری نے مبشرہ کو مخاطب کیا تھا پر وہ ایسی ہوجاتی تھیں جیسے کُچھ سنا ہی نا ہو۔
کل رات گئے وہ ارمش کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھی تھیں جب ارمش نے ہی زری کے متعلق بات چھیڑی گوکہ مبشرہ بیگم کسی طور زرلش کو معاف کرنے کے حق میں نہ تھیں پر وہ ارمش ہی کیا جو اپنی باتوں اور دلائل سے مبشرہ بیگم کو راضی نہ کر پائے۔
مبشرہ بیگم کو خود کو مخاطب کرتا دیکھ سیاہ آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔ مبشرہ بیگم کی تلقین کو حکم کا درجہ دیتے وہ بھی فوری کھڑی ہوگئی تھی اس سے پہلے کہ آگے بڑھ کر پلیٹ اٹھاتی سامنے سے آتے شخص نے توجہ اپنی جانب مبذول کروالی تھی۔
"بھائی جان؟!"
مرکزی دروازے سے اندر آتے ضمان کو دیکھ بے ساختہ ہی خوشی اور مسرت کے ملے جلے تاثرات سے بھرپور آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔ زری کی نظروں کے تعاقب میں سب نے نظریں اُسی جانب مڑی تھیں جہاں سے ہاتھ میں کوٹ تھامے وہ ان سب کی جانب ہی آ رہا تھا۔ روشن چہرا خندہ پیشانی، وہ آج بھی ویسا ہی تھا مغرور ناک آج بھی چہرے پر اپنی پوری آب و تاب سے کھڑی تھی۔
"آپ نے بتایا کیوں نہیں کہ آپ آج آ رہے ہیں؟"
سب سے پہلے زرلش ہی آگے بڑھی تھی ضمان کے گلے لگ کر شکوہ کرتے ضمان کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر گئی تھی۔
"بس یونہی۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ جسکی آنکھیں گھر میں داخل ہوتے ہی نقاہت زدہ وجود پر گڑ گئیں تھیں۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے، زردی مائل رنگت، کمزور وجود ضمان کے ظلم نے کھلتے گلاب کو مسل دیا تھا۔ اپنی متاعِ حیات کو اس حال میں پہنچانے والا وہ خود ہے، یہ سوچتے ہی ایک ٹیس سی دل میں اٹھی تھی۔
وہ جو زری کی آواز پر ہی ساکت ہوگئی تھی اپنے وجود پر کسی کی نگاہوں کی تپش محسوس کرتے ایک ڈر کے زیرِ اثر گود میں پڑے وجود کو سینے سے لگا گئی تھی۔
ضمان جس کی نظریں ممتا کے نور سے روشن چہرے میں اُلجھ گئیں تھیں ارمش کے بدلتے تاثرات دیکھ نظریں جھکا گیا۔ ہاں نظریں جھکانے سے قبل اپنے وجود کے حصے اپنی اولاد کو ایک نظر دیکھنے کی کوشش بھی کی تھی پر ارمش اپنے سینے میں چھپا کر وہ کوشش بھی ناکارہ کردی۔
قدم قدم آگے بڑھتا اس سے پہلے کہ وہ وہ سب کے درمیان آتا کُرسی کا سہارا لے کر سب کی نظروں میں آئے بغیر ارمش نے قدم اندر بڑھا لیے تھے۔
زری کے بعد کافی دیر تک ضمان کے گلے لگے رفیعہ بیگم روتی رہی تھیں۔ وہ جو اپنے آپ سے عہد کیے تھیں کہ ارمش کے ساتھ ہوئی زیادتی پر وہ کبھی ضمان کو معاف نہیں کریں گی سب وعدے ممتا کے آگے جھاگ ثابت ہوئے تھے۔
رفیعہ بیگم کے بعد عالی، مصطفٰی رند اور مبشرہ بیگم سے بھی وہ بغلگیر ہوا تھا مگر سب کی سرد مہری سے ایک بات صاف ہوگئی تھی کہ جرم کی فہرست سب کے سامنے کھل چُکی ہے اور اب کٹہرے میں آنا لازم و ملزوم ہے۔ اپنے گنہاؤں کا اعتراف کرنے کی سوچ نے ضمان کو کھلے دل سے دو چلو پانی میں ڈوب جانے کا مشورہ دیا تھا۔
سب سے مل کر فریش ہونے کی غرض سے وہ اندر کی جانب بڑھ گیا تھا۔ اوپر جانے سے قبل دل نے شدید خواہش کی تھی کہ کاش سب کچھ خواب ہو۔ جب کمرے میں قدم رکھوں تو میری اولاد کے ساتھ آج بھی وہ میری منتظر ہو۔ مگر ایسا کب ہوا ہے؟ حقیت سے منہ موڑنے سے حقیقت کب تخیل ثابت ہوئی ہے؟ گناہوں کے بعد زندگی بھر کے ساتھی محض پچتاوے رہ جاتے ہیں اور ضمان کو بھی پچھتانا تھا۔۔۔۔۔۔ پوری زندگی۔۔۔۔۔
♡----------------------------------------------♡
وہ جب سے لوٹا تھا گھر کی فضا میں ایک واضح تناؤ محسوس کر رہا تھا گوکہ کسی نے زبان سے کوئی بات نا کی تھی پر ضمان محسوس کر سکتا تھا کہ یہ خاموشی طوفان سے پہلے کی ہے۔ کل رات اور پھر آج پورا دن بھی ارمش گھر میں نظر نہ آئی تھی اپنے بیٹے کو وہ تقریباً ہر گھنٹے بعد کسی نہ کسی سے اپنے پاس بلا لیتا تھا باپ کی محبت کی تپتی زمین پر اولاد کے لمس کی پھنوار پڑی تو اس حوالے سے دل کو کُچھ چین آیا تھا پر اب دل نے نئی فرمائش آگے رکھ دی تھی یا یوں کہلو کہ دل کی اوّل چاہت تو وہی تھی۔ تبھی بیٹے کے وجود میں رچی بسی بیٹے کی ماں کی خوشبو سے دل بہلانے کی کوشش کر رہا تھا پر اس وقت دل بھی کسی ضدی بچے کی طرح اپنی بات پر اڑ گیا تھا جسے اس وقت کسی بھی حال میں وہ چاہیے تھی۔
کمرے میں چکر کاٹتے ضمان کے صبر نے جب جواب دیا تو رات کے اس پہر جب سب لوگ اپنی آرامگاہوں میں سونے کی غرض سے جا چکے تھے ضمان نے قدم نیچے کی جانب بڑھا لیے ہر بڑھتے قدم کے ساتھ دل ڈوب رہا تھا پر ہمت بنائے رکھتے ضمان کمرے کے دروازے پر پہنچ چکا تھا گہری سانس ہوا کے سپرد کرنے کے بعد ہمیشہ کی طرح بغیر دستک دیئے وہ کمرے میں داخل ہوا تھا۔
دوسری جانب ارمش جو ابھی ننھے ارمان کو اُسکی غذا دے کر سلانے کی کوشش کر رہی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر اس جانب متوجہ ہوئی۔
اس پل وہ ہر گز بھی ضمان کی یہاں اس کمرے میں موجودگی کی توقع نہیں کر رہی تھی ایک لمحے کے لیے آنکھوں میں حیرانی آ سمائی تھی پر اگلے ہی لمحے آنکھیں کسی بھی قسم کے جذبات سے آری ہوگئیں تھیں۔ منہ موڑ کر ارمان کو بستر پر لٹاتے احتیاط سے بیڈ سے اتر کر قدم ضمان کی جانب بڑھا لیے جو دروازہ بند کیے وہیں ٹیک لگا کر کھڑے اس مکمل منظر کو نظروں میں قید کر رہا تھا ارمش کو اپنی جانب قدم بڑھاتا دیکھ حیرانی سے سیدھا ہوا تھا۔
"کیوں آئیں ہیں یہاں؟"
سپاٹ لہجے میں سوال کیا تھا۔
"تم سے ملنے، تمہیں دیکھنے، تمہیں واپس لے جانے کے لیئے۔۔۔۔۔"
ارمش کے تیر با حدف کا جواب بھی مختصر اور پر اثر دیا تھا پر یہ ضمان کی خوش فہمی تھی کیونکہ اب ارمش پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہونے والا تھا۔
"بہترین۔۔۔۔ دیکھ لیا؟ دکھ ہوا ہوگا ناں ابھی بھی زندہ دیکھ کر؟ سب سے بڑی بات خوش دیکھ کر؟ چلیں اب نکل جائیں میرے کمرے سے۔"
خشک قہقہہ لگا کر سینے پر ہاتھ باندھے دوبارہ لہجے کو کسی بھی قسم کے جذبات سے آری رکھ کر جواب دیا تھا۔
"ارمش پلیز۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معاف مت کرو پر اُسکا تو سوچو میری غلطیوں کی سزا اُسے مت دو اُسے ہم دونوں کی ضرورت ہے۔ مجھے تمہاری ہر سزا قبول ہے پر پلیز خود کو مجھ سے دور مت کرو۔۔۔۔۔"
ارمش کو بازؤں سے تھامے وہ ارمان کے صدقے سے ایک آخری موقع کے طلبگار تھا پر ساتھ ہی ساتھ ہر قسم کی سزا بھی قبول تھی۔
چٹاخ۔۔۔۔۔۔
کمرے کی فضاء میں اچانک ہی سناٹا چھایا تھا۔
"ہاتھ مت لگانا مجھے آئی سمجھ؟"
بازو ضمان کی گرفت سے آزاد کراتے اُنگلی اٹھائے تنبیہاً گویا تھی۔
"یہ تھپڑ اس تماچے کا بدلہ ہے جو آپ نے میرے چہرے پر مارا تھا۔ آپکا اصلی جرم آپکا اصلی گناہ وہ دماغی اذیت ہے جو آپ نے بچپن سے لے کر آج تک مجھے بے دریغ عطا کی ہے وہ الفاظ ہیں جن کے ذریعے آپ نے میرے بے گناہ ہونے باوجود میرے کردار کے دامن کو داغ دار کیا ہے۔ میں بھولوں گی نہیں ضمان رند! مرتے دم تک نہیں بھولوں گی!"
وہ جو اب تک لاپرواہی کا لبادہ اوڑھے تھی ضمان کی سخت گرفت نے ماضی کے زخم اُدھیڑے تو آنسوں بن بلائے مہمان کی طرح آ پہنچے۔
"آپ کو ذرّہ شرم نہیں آتی؟ کس منہ سے معافی مانگتے ہیں آپ؟ کس کس لیئے اور کِتنی بار معاف کروں؟ چلو میں بھول جاؤں ایک لمحے کے لیئے وہ سب زیادتیاں جو شادی سے پہلے آپ نے میرے ساتھ کی ہیں پر ایک عورت مجھے اجازت نہیں دیتی اس شخص کو معاف کرنے کی جسنے میرے کردار کی دھجیاں اُڑائیں ہوں!! ایک ماں مجھے اجازت نہیں دیتی اس باپ کو معاف کرنے کے لئے کہ جسکے ہوتے ہوئے بھی میرا بچہ یتیموں کی طرح دوسروں کی سر پرستی میں اس دنیا میں آیا ہو۔۔۔۔۔۔
سات ماہ ضمان رند!! سات ماہ!! میں نے اس فکر میں گزاریں ہیں کہ نا جانے میرے بچے کا باپ اُسے اپنی اولاد تسلیم کرے گا بھی یا نہیں؟ پر آپکو کیا پتہ کہ وہ اذیت کیا ہوتی ہے جب پاک دامن ہونے کے باوجود خود پر شک ہونے لگے۔
ارے! مجھے تو چھوڑیں عالی کو تو بھائی کہتے تھے نا آپ۔ آپ نے تو اُسے بھی نہیں بخشا۔ بہن بھائی کے رشتے کو سوالیہ نشان بنا کر چھوڑ دیا۔
کتنا عرصہ۔۔۔۔۔ نا جانے کتنا عرصہ میں اپنے بھائی سے بات کرنے سے بھی خوف زدہ رہی ہوں۔
مجھے بتائیں میں کیا کیا معاف کروں؟
کبھی بات بے بات الفاظ کے نشتر سے میری شخصیت تباہ کی تو کبھی ڈرا دھمکا کر عزت کو نشانہ بنا کر زبردستی شادی کے لیے حامی بھروائی۔ مجھ بیوقوف کو دیکھیں میں نے پھر بھی یقین کرلیا۔ آپکی دوغلی شخصیت کے جھانسے میں آگئی۔ جب محسوس ہوا کہ ہاں اب زِندگی آسان ہوجائے گی اب میں بھی خوش رہ پاؤں گی آپ نے تب پھر ایک نیا زخم عطا کردیا۔
عالی کو دھمکی دی تھا ناں کہ اگر وہ نا مانا تو چھوڑ دیں گے مجھے؟ کاش۔۔۔۔ کاش عالی نا مانا ہوتا تو آج۔۔۔۔۔ تو آج میں اس حالت میں نا ہوتی۔ پر جو آخری وار کیا ہے نا آپ نے میں بھولوں گی نہیں اُسے ایک عورت کُچھ بھی برداشت کر سکتی ہے پر کردار پر اٹھی اُنگلی نہیں۔
رہی بات میرے بیٹے کو آپکی ضرورت ہونے کی تو غلط ہیں آپ ضمان رند اخلاقی اور مالی دونوں ہی لحاظ سے خدا کا کرم ہے میں آپ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ اپنے بیٹے کی تربیت میں اکیلے کرکے دکھاؤں گی اور میری پوری کوشش رہے گی کہ خون ہونے کے باوجود بھی اس دُنیا کو دوسرا ضمان رند نا ملے۔ پھر کسی ارمش کی زندگی کی ڈور کسی ضمان رند کے ہاتھ نہ آئے۔
دور رہیں!! اگر چاہتے ہیں کہ آپکا یہ گھٹیا چہرہ سب سے چھپا رہے تو جتنا ہو سکتا ہے اتنا دُور رہیں۔ ورنہ میں بتا رہیں ہوں میں وہ پرانی ڈرپوک ارمش مگسی نہیں رہی میں ایک لمحے کے لیے بھی کسی کا خیال نہیں کروں گی چلی جاؤں گی اپنے بچے کو لے کر یہاں سے بہت دور جہاں آپ کا سایہ بھی ہم دونوں کو نہ چھو سکے۔
نکل جائیں یہاں سے۔۔۔ جائیں ناں یہاں سے!!!!!"
لرزتے وجود کے ساتھ ضمان سے مخاطب ارمش آج واقعی پرانی ارمش نا تھی یہ لڑکی کسی کی بیوی بیٹی بہن نہیں تھی جو کمزور پڑ جائے یہ لڑکی ماں تھی جسے اپنی اولاد کو برے لوگوں کے سائے سے بھی بچانا تھا۔
روتے سسکتے ہی ضمان کو باہر کا راستہ دکھایا تھا پر سکتے کی حالت میں کھڑے ضمان پر جب کوئی اثر نہ ہوا تو بازو تھام کر زبردستی باہر نکالتے ہوئے دروازہ بند کرکے وہیں پشت ٹکائے پیروں میں سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔ ہر گرتے آنسوں کے ساتھ وہ اپنے آپ کو یقین دلا رہی تھی کہ گریہ کی یہ آخری شب ہے آج کے بعد ارمش مگسی کسی کو حق نہیں دے گی کہ کوئی ارمش مگسی کو دکھ پہنچا سکے۔
♡------------------------------------------♡
"چھ ماہ سے سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہم میں سے کسی نے تم دونوں سے کسی قسم کا سوال نہیں کیا۔
کیونکہ میرا خیال تھا کہ یہ تم لوگوں کا ذاتی مسئلہ ہے تم دونوں آپس میں حل کرلو گے۔ پر اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ شاید بات حد سے تجاوز کرگئی ہے۔
ضمان۔۔۔۔۔۔جب تمہارا رشتہ بھابھی نے دیا تھا ارمش کے لیئے تو میری رضامندی کے لئے بہت سی وجوہات میں سے ایک یہی تھی کہ زندگی میں اگر کبھی کوئی مسئلہ درپیش آیا تو تم بردباری سے کام لوگے ارمش تو معصوم ہے اُسے زمانے کے سرد و گرم سے تم بچاؤ گے۔
مگر نہیں۔۔۔۔
جب سے تم لوٹے ہو ضمان، میں انتظار میں تھا کہ کب تم ارمش کی واپسی کی بات کرو گے پر شاید تم چاہتے ہی نہیں کہ راہیں استوار ہوں۔"
کل جب ارمش کے چھٹی نہانے کے بعد بھی دونوں جانب خاموشی چھائی رہی تو آج مصطفٰی صاحب نے گھر کے تمام افراد کو اکھٹا کر کے دو ٹوک بات کرنے کا فیصلہ کیا تھا اسی سلسلے میں اس وقت سب کی موجودگی میں وہ ضمان سے نالاں تھے۔
"میں شرمندہ ہوں چھوٹے پاپا۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی توقعات پر میں پورا نہیں اترا پر جیسا آپ سمجھ رہے ہیں ایسا کُچھ نہیں ہے میں ارمش کو وقت دے رہا تھا مجھے معاف کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے کے لیئے۔ ورنہ میں جب سے آیا ہوں تب سے ہی ارمش کی واپسی کا خواہشمند ہوں۔"
شام کے وقت جب زری مصطفٰی صاحب کا پیغام لے کر اوپر آئی تھی اس لمحے رفیعہ بیگم ایک مرتبہ پھر دونوں پر پھٹ پڑیں تھیں۔ اس وقت ضمان کو احساس ہوا تھا کہ جس بہن کی محبت میں وہ ارمش کی زندگی تباہ کر چُکا ہے وہ بہن بھی اس کے کیے کی سزا بھگتنے کے خطرے میں ہے۔
شاید کسی معصوم کی آه اسی طرح خاموشی سے عرش چھو کر زمین کے فرعونوں کی بربادی کا سبب بنتی ہے۔ رفیعہ بیگم ضمان سے بات کرنے کی روادار نہ تھیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ضمان اور زری کی وجہ سے وہ جو ہمیشہ سر اٹھا کر جیتی آئی ہیں آج بہن اور دیور سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی ہیں۔
عالی کے پہلو میں بیٹھی زری یا پھر دوسرے صوفے پر بیٹھے ضمان اور رفیعہ بیگم کسی بھی شخص میں آنکھ اٹھانے کی ہمت نہ تھی۔ جو اس ذلت کا سبب تھا وہ اس وقت نظریں جھکائے مصطفٰی صاحب کے سامنے بے ضرر صفائی پیش کر رہا تھا۔
"میں نہیں جانا چاہتی پاپا۔ بلکہ مجھے یہ رشتہ ہی قائم نہیں رکھنا۔ طلاق چاہیے ہے مجھے۔"
اس سے قبل کہ کوئی اور جواب دیتا مصطفٰی صاحب کے حصار میں بیٹھی ارمش پختہ لہجے میں گویا ہوئی تھی۔ انداز اٹل تھا جیسے پتھر پر لکیر۔
"پر ارمش-"
وہ جو میاں بیوی کے درمیان ہونے والی عام ان بن کا تصوّر کیے بیٹھے تھے اچانک ارمش کا فیصلہ سن کر حیران ہوئے تھے۔ یہی حال عالی کا تھا جو کبھی بے یقینی سے ضمان کو دیکھ رہا تھا تو کبھی کانوں سنے الفاظ کی تصدیق کے لیے ارمش کو۔
اس سے قبل کہ مصطفٰی صاحب اپنی بات کہتے مبشرہ بیگم کی آواز نے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
"ایک منٹ مصطفٰی، کوئی کسی قسم کی زبردستی نہیں کرے گا میری بچی کے ساتھ اُسکی زندگی کا ہر فیصلہ آج سے وہ خود لے گی۔"
ایک نظر ضمان کے جھکے سر پر ڈال کر وہ مصطفٰی صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گویا تھیں۔
"باپ ہوں میں۔۔۔۔ مانا کہ بچے بڑے ہوگئے ہیں پر اتنے بھی بڑے نہیں ہوئے فیصلے یوں جذبات میں آکر نہیں لیئے جا سکتے۔ صحیح غلط سمجھانے کا پورا حق رکھتا ہوں میں ایسے کیسے بات طلاق تک پہنچ سکتی ہے؟ کسی باپ کی خواہش نہیں ہوتی بیٹی کو گھر بٹھانے کی۔ بیٹیاں اپنے گھر میں خوشحال زِندگی بسر کرتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہیں۔ طلاق خدا کے نزدیک نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔ ارے بھئی کوئی وجہ بھی تو پتہ چلے اتنا بڑا فیصلہ کرنے کی۔
لڑائی جھگڑا کس گھر میں نہیں ہوتا؟ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بات طلاق تک پہنچ جائے۔"
ایک باپ کا دل تو ارمش کی بات سن کر تڑپ اٹھا تھا اس پر تضاد مبشرہ بیگم کا ارمش کی طرفداری ثابت ہوئی تھی۔
"میں بتا رہی ہوں مصطفٰی میری بچی پر کوئی کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالے گا اگر آپ کو کھل رہیں ہیں اُسکی دو وقت کی روٹیاں تو مجھے بتا دیں۔ میں حویلی بھیج دوں گی واپس پر اس کی مرضی کے بغیر وہ واپس ضمان کے پاس ہر گز نہیں جائے گی۔"
عورت کے جذبات میں شدت پسندی کا عنصر واضح رہا ہے۔ محبت کرے تو جان دینے کے لئے تیار نفرت کی بات ہو تو جان لینے سے بھی نہیں چوکتی۔ مبشرہ بیگم کے ساتھ بھی کچھ یوں ہی ہوا تھا۔ مصطفٰی صاحب کی لاعلمی کو سرے سے بھلائے وہ "بس بیٹی اپنے گھر میں رہتی ہے" والی بات کو پکڑ کر اس پے بگڑ گئیں تھیں۔
"مما پلیز۔۔۔۔۔۔ پاپا کچھ نہیں جانتے اس لیئے ایسے کہہ رہے ہیں۔ آپ اس طرح بات مت کریں پاپا سے۔"
مصطفٰی صاحب کی بیٹی کو باپ کی خلاف ورزی برداشت نا ہوئی تو کسی کے کچھ کہنے سے پہلے گویا ہوئی تھی۔
"پاپا آپکی ارمش بے صبری نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اس شخص سے پوچھ لیں یہ خود گواہ ہے میں نے بہت صبر کیا پاپا۔ پر اب بات صبر سے بڑھ چکی ہے آپ کہتے ہیں ناں کہ صبر کا دامن کبھی چھوڑو نا اور برداشت کا کبھی تھامو نا؟ میں وہی کر رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ میرا صبر جواب دے چکا ہے اب اس شخص کے ساتھ رہنے کے لیے مجھے برداشت کرنا پڑے گا۔
آپ چاہتے ہیں ناں کہ وجہ بتاؤں؟ میں تیار ہوں، میں آپکو وجوہات بتاؤں گی۔"
ارمش کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ ضمان اور زری کی گردنوں پر بار بڑھاتا جا رہا تھا۔
مصطفٰی صاحب کا ہاتھ تھامے آج ارمش کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی نا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی آج کہا گیا ہر لفظ سچ پر مبنی ہے۔
"میرے رشتے کو منع کرنے کے بعد اپنے مسترد کیے جانے کے بدلے کے طور پر انہوں نے مجھے ہراساں کرنا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔ کبھی اسی گھر کی چھت تلے تو کبھی ویرانوں میں لے جا کر یہ مجھے دھماکاتے رہے۔ جب آپکو بتانے کا میں نے فیصلہ کیا تو اچانک آپکی بگڑتی طبیعت دیکھ میں خاموش ہوگئی۔۔۔۔
آپکی خوشی کی خاطر میں نے اس شخص کو قبول کر لیا پر انہوں نے وہاں بھی بس نہیں کی۔۔۔۔ شادی کے وقت انہوں نے عالی کو دھمکی دی کہ اگر وہ اپنی اور بجّو کی شادی کے لیے راضی نہ ہوا تو یہ بھی مجھے رخصت نہیں کریں گے۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ میرے مسائل کی زد میں عالی اور انکی بہن کا رشتہ آجائے۔ عالی کے راضی نہ ہونے کے باوجود میں نے اسے راضی کیا۔ میں نے وہ بھی برداشت کر لیا پاپا۔
پر لندن جانے سے قبل جو ہوا ہے وہ آپکو بتاتے ہوئے مجھے شرم آ رہی ہے میری عزت نفس مجروح ہوجائے گی پاپا۔۔۔۔۔
پلیز پاپا مجھے طلاق چاہیے ہے میں نہیں رہ سکتی اس شخص کے ساتھ۔"
ارمش کی زبان سے ادا ہونے والا ہر لفظ ضمان کے علاوہ ہر فرد پر ہی بجلی بن کر گرا تھا۔ کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا سب بے یقینی کے عالم میں ضمان کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہے تھے جو ارمش کے ہر لفظ کی صداقت کی گواہی دے رہا تھا۔
♡------------------------------------------♡
"عالی!!!"
اپنی بات کہکر ابھی ارمشں خاموش ہوئی ہی تھی جب دھواں ہوتے چہرے کے ساتھ خون کے اُبال پر قابو نہ رکھتے عالی اپنی جگہ سے اُٹھ کر سامنے بیٹھے ضمان پر جھپٹا تھا۔ پہلا مکّا جب ضمان کے چہرے پر پڑا تو لاؤنج میں سناٹا چھایا تھا۔ سب جو پہلے بے یقینی کے عالم میں ضمان کو دیکھ رہے تھے اب عالی کی حرکت پر اُسکی جانب حیران نظروں سے متوجہ ہوئے ہی تھے کہ عالی کا اگلا ہاتھ اٹھا اور ضمان کے ہونٹوں کا سرا پھاڑ گیا۔ اس سے پہلے کے بات آگے بڑھتی ارمش ہوش میں آئی تھی، اپنی جگہ چھوڑ کر دونوں ہاتھوں سے بپھرے شیر کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی۔
"ہمت کیسے ہوئی آپکی؟! میری ناک کے نیچے آپ میری بہن کو ہراساں کرتے رہے!؟ شرم نہیں آپکو؟!!! اتنے بغیرت کیسے ہو سکتے ہیں کہ گھر کی عزت پر ہی ہاتھ ڈال دیں؟!
چھوڑو مجھے تم۔۔۔۔ تم سے میں بعد میں پوچھوں گا۔ میں تو بھائی سے پہلے دوست تھا ناں تمہارا؟ پھر کیوں چھپایا تم نے مجھ سے یہ سب؟"
ارمش کی گرفت میں حلق کے بل چیختے وہ چاہ کر بھی پُرسکون نہیں ہو پا رہا تھا۔ ارمش کا حصار توڑ کر بالوں کو مٹھی میں جکڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ ایک مرتبہ پھر لاؤنج میں خاموشی چھا گئی تھی کوئی کُچھ بھی کہنے کی سکت میں نا تھا۔
"کُچھ ماہ پہلے میری بہن کے حوالے سے آپ نے مجھے دھمکی دی تھی ناں؟ میں زری سے شادی کرلوں ورنہ ارمش کو رخصت نہیں کروائیں گے؟؟؟؟
اب بتائیں جب میری بہن کی زندگی آپ نے جہنم بنا دی ہے تو میں کیوں آپکی بہن کو خوشحال زندگی دوں!؟ جب ارمش آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں چاہتی تو میں کیوں رکھوں آپکی بہن کو اپنے گھر میں؟ اور بے فکر رہیں میں ضمان رند نہیں ہوں میں جو کہتا ہوں کر کے دکھاتا ہوں۔"
کُچھ سوچ کر مطمئن سا وہ ایک بار پھر کھڑا ہوا تھا۔ ضمان کی بے یقین نظروں میں دیکھتے تمسخر اڑاتے لہجے میں گویا تھا۔
''میں عالی مصطفٰی رند۔۔۔۔ اپنے پورے ہوش و حواس میں زرلش مرتضیٰ رند کو-"
ضمان کے بعد آنسوں سے تر سہمی ہرنی کی طرح خوفزدہ نظروں میں منت سمائے خود کو تکتی زری کو دیکھتے وہ ایک بار پھر گویا ہوا تھا جب اپنے آگے ارمش کے بندھے ہاتھ دیکھ کر الفاظ بیچ میں ہی دم توڑ گئے۔
"خدارا عالی۔۔۔۔۔۔ میں پہلے ہی بہت پریشان ہوں مجھے مزید احساسِ ندامت کا شکار مت کرنا۔ میں نے ہمیشہ تمہیں ایک ہی بات کہی ہے کہ میرے مسائل کی زد میں اپنی زندگی مت لانا۔ کسی کے کیے کی سزا کوئی اور کیوں بھگتے گا عالی؟"
وہ جو انہیں خدشات کے زیرِ اثر آج تک سب کچھ سہتی آئی تھی کہ میری ذات ان لوگوں کے رشتوں میں پھوٹ کا سامان نا بنے اپنے خدشات دُرست ہوتا دیکھ عالی کے آگے ملتجی ہوئی تھی۔
"تمہارا دماغ خراب ہے ارمش!! تم سے تو مجھے بات ہی نہیں کرنی۔۔۔۔۔ اور تم۔۔۔۔ شکل مت دکھانا اپنی مجھے!! میری واپسی سے پہلے اپنی موجودگی سے تمام آثار میرے کمرے سے مٹا کر چلی جانا ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔"
ارمش کے پیچھے کھڑی رفیعہ بیگم کی بھیگی آنکھیں دیکھ کر اپنا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے وہ اُنگلی اٹھا کر روتی ہوئی زری کو تنبیہ کرتا باہر کی جانب چل پڑا تھا۔
"میں طلاق ہر گز نہیں دوں گا۔۔۔۔۔ میری غلطیوں کی سزا اس معصوم کو کیوں ملے چھوٹے پاپا جس نے ابھی چند روز پہلے ہی اس دنیا میں آنکھیں کھولی ہیں؟ جو کچھ ہوا یا جو کچھ میں نے کیا اس میں ارمان کا کیا قصور ہے؟ پلیز ارمش مجھے چھوڑو پر اس پر یہ ظلم مت کرو ماں کی محبت اور باپ کی شفقت اولاد کے لیے دونوں ہی ضروری ہیں۔ میں تمہیں نا خلع لینے دونگا اور نہ ہی طلاق دوں گا۔"
عالی کو جاتا دیکھ سکتے کے عالم میں بیٹھے مصطفٰی صاحب کی جانب متوجہ ہوتے وہ گویا ہوا تھا۔ اپنی بات پر کسی بھی قسم کا ردِ عمل ندارد دیکھ وہ اُٹھ کر ارمش کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ارمش کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اپنے لیئے رحم کی بھیک مانگ کر وہ زری کی جانب چل پڑا ۔
"میں نہیں جاؤں گی بھائی جان۔۔۔۔ میں مرتے دم تک اپنا گھر نہیں چھوڑوں گی۔"
وہ جو اپنی زندگی کی بقا کے لیے اُٹھائے گئے ارمش کے قدم پر شاکر نگاہوں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ضمان کے ہاتھ تھامنے پر ہوش کی دنیا میں لوٹی تھی۔ ضمان کا رخ اوپر کی جانب دیکھ کر تڑپ اٹھی۔۔۔ عالی جو بھی کہہ لے وہ یہ گھر اور عالی کو چھوڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی تبھی ہاتھ چھڑا کر دو قدم پیچھے ہوئی تو ضمان بھی بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اوپر کی جانب بڑھ گیا۔
♡-----------------------------------------♡
(حال)
"جب ارمان وانی کو لے جانے کے لیئے تیار ہے تو تم کیوں نہیں جانے دے رہی ہو اُنہیں ساتھ؟"
گاؤں سے ابھی پندرہ منٹ پہلے وہ گھر پہنچی تھی جہاں سب سے پہلے ملاقات لاؤنج میں منہ پھلائے بیٹھی وانی سے ہی ہوئی تھی۔
"مما جی انکو کہیں کہ مجھ سے تو بات بھی مت کریں۔"
ارمش نے بات کرنے کی کوشش تو قریبی صوفے پر بیٹھی زرلش سے مخاطب ہو کر وانی نے ارمش کو پیغام پہنچانے کا کہا تھا جسکے جواب میں پھولے گالوں کو چٹا چٹ چوم کھینچ کر ارمش بھی نیچے کے پورشن میں موجود ارمان کے کمرے کی جانب چل دی۔ کیوں کہ وہ جانتی تھی وانی بےبی کو جتنا منانے کی کوشش کرو وانی سب کے لاڈ پیار کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اتنا ہی اٹھلاتی ہیں۔
نہا دھو کر فریش ہونے کے بعد وانی سے مغز ماری کرنے کا سوچ کر وہ ارمان کے کمرے میں داخل ہوئی تھی جو اس وقت اپنے سائنس پروجیکٹ کی آخری تراش خراش کر رہا تھا۔ ارمان سے مل کر وہ اپنے کمرے میں پہنچی اس وقت اپنے گیلے بالوں کے ساتھ اُلجھی ہوئی تھی جب بغیر دروازے پر دستک دیئے ضمان اندر داخل ہوتے گویا ہوا۔
"میں اپنے بچوں کے لیئے جو بہتر سمجھتی ہوں وہی کرتی ہوں۔۔۔ کیوں؟ کیسے؟ اور کب؟ جیسے سوالات کا حق میں نے کسی کو نہیں دیا۔"
گوکہ سترہ سال کا طویل عرصہ زخم مندمل کر چکا تھا پر آج بھی انکا رشتا اُسی موڑ پر کھڑا تھا۔
ضمان کے طلاق سے انکار کرنے پر ارمش کافی سوچ بچار کے بعد اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ اس معاملے میں وہ واقعی بجا ہے۔ والدین کی محرومی کے باعث ہی تو تھے اُسکی اپنی زندگی کے تمام مسائل۔ نا عابد مگسی کمسنی میں ارمش کا ساتھ چھوڑتے نہ وہ یہاں آتی نا زری کی محبتوں کی شراکتدار ثابت ہوتی اور نہ ہی ارمش دونوں بہن بھائیوں کے عتاب کا شکار ہوتی۔ باپ کا سایہ اولاد کے لیے ضروری ہے پر اسکا ہرگز مطلب یہ ثابت نہ ہوا تھا کہ وہ اپنی عزت نفس مجروح ہونے دیتی۔ بھلے صحیح اُسنے خلع نا لی تھی پر اُن کے درمیان میاں بیوی والا کوئی تعلق بھی قائم نہ رہا تھا ارمش اور ارمان نیچے کے پورشن میں ہی رہائش پذیر تھے۔ عرصہ دراز ارمش نے ضمان کی ایک پائی بھی اپنے بیٹے پر خرچ نہ ہونے دی تھی۔ گو کہ ارمش کے دل میں ضمان کے لیے کوئی گنجائش نہ تھی پر ضمان کا ارمش اور ارمان کی ہر چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھنے کی گواہ وہ خود بھی تھی۔ ہاں اپنے معاملے میں وہ زیادہ تر ضمان اور اُسکی کوششوں کو نظر انداز کرنے میں ماہر ہوگئی تھی پر ارمان کے حوالے سے اُسنے کبھی ضمان کی حق تلفی نہ کی تھی۔ جہاں بات ارمان کی آجائے وہاں دونوں کے درمیان تمام اختلافات دیوار سے لگ جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ارمان کی شخصیت کا ہر پہلو مکمل تھا وہ ہر گز بھی اُن بچوں کی طرح ذہنی طور پر منتشر نا تھا کہ جن کے والدین کے مابین رشتا پھوٹ کا شکار ہوتا ہے۔
عام جوڑے کی طرح پیار محبت سے نہ صحیح پر بات چیت دونوں کے درمیان تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ہی ہوا کرتی تھی جسکا ننانوے فیصد موضوع ارمان کی ذات ہی ہوا کرتی تھی۔
ارمان ارمش اور ضمان کے کمزور لاغر رشتے کی بیساخی ثابت ہوا تھا کہ جس کے طفیل میں یہ رشتہ آج بھی قائم تھا جہاں ضمان کے نزدیک یہ بات قابلِ اطمینان تھی کہ اسکے دل کے دھڑکنے کی دونوں وجوہات اس کے قریب ہی تھے اور اسی چھت تلے زندگی بسر کر رہے تھے جس گھر میں وہ رہتا تھا۔ اُسی ہوا میں سانس لیتے تھے جن کے سپرد ضمان اپنی سانسیں کرتا تھا۔
وہیں ارمش نے بھی اپنی زندگی جینے کے مقاصد چن لیے تھے۔ لوگوں کی مدد کرنے کے بعد جو سکون وہ اپنے قلب میں محسوس کرتی تھی وہ زندگی کی خوشی کے لیے کافی تھا۔ جبکہ ارمان اور وانی کی اپنی زندگی میں موجودگی تو وہ خدا کی عنایت تصوّر کرتی تھی۔ المختصر یہ کہ دونوں ہی اپنی ادھوری زندگی سے مطمئن تھے پر اکثر ارمش کی ارمان اور وانی کے معاملے میں احتیاط برتنا ضمان کو بری طرح کھلتا تھا اسی لیے آج وہ دو ٹوک بات کرنے کی غرض سے ارمش کے کمرے میں موجود تھا۔
"میرے کیے کی سزا بچوں کو کیوں دے رہی ہو ارمش؟ تمہارے ساتھ جو کیا ہے میں نے کیا ہے اس میں بچوں کا کیا قصور ہے؟"
ارمش کا وجود کاندھوں سے تھامے وہ آج بے بسی کی انتہا پر خود کو محسوس کر رہا تھا۔
"میں کسی کے کیے کی سزا اپنے بچوں کو دینے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتی۔ ہاں زِندگی نے جو سبق مجھے دیا ہے اس کا فائدہ میں ضرور اپنے بچوں کو دوں گی۔ ہماری نظر میں بچے ہیں بہن بھائی ہیں پر کیا پتا کون اُنکے معصوم رشتے کو کس نظر سے دیکھتا ہو؟ کیا پتا آج بھی کوئی ضمان اور زرلش جیسی گھٹیا سوچ کا مالک ہماری زندگی میں ہو۔۔۔۔"
ارمش نہیں چاہتی کہ جو زخم اُسکے آج تک نہیں بھرے اُنکی چبھن بھی وانی محسوس کرے اسی لیے احتیاط برتتی تھی۔ نا جانے کتنے عرصے بعد آج پھر اذیت بھری یادوں نے الفاظ کا جامعہ پہنا تھا۔ اور ہمیشہ کی طرح آج پھر شرمندگی کی اتھا گہرائیوں میں گرتا ضمان لاجواب ہو چکا تھا۔
"خیر۔۔۔۔ ارمان کی سالگرہ آ رہی ہے کُچھ پلان کیا ہے آپ نے؟ اور منگل کو اُسکے اسکول میں نمائش بھی ہے دعوت نامہ آیا ہوا ہے میں پہنچ جاؤں گی ہسپتال سے ڈائریکٹ آپ بھی آجائیے گا۔"
ضمان کو خاموشی سے خود کو تکتے پا کر ارمش نے ہی موضوع تبدیل کیا تھا کہ اب جب کُچھ باقی ہی نہیں رہا تو شکوہ شکایت کیسی؟
"ہمم۔۔۔۔۔۔ میں کرلوں گا تمہیں بھی پک۔"
ارمش کے بازوؤں پر گرفت ڈھیلی کرتے بجھے دل سے جواب دے کر وہ واپسی کے لیے لوٹا تھا جب کمرے میں داخل ہوتے وجود نے دونوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔
♡---------------------------------------♡
"آپ یہاں پر کھڑی ہیں اور وہاں وانی عالی مامو کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف تیسری جنگ عظیم پلان کر رہی ہے۔۔۔۔
بابا منگل کو اسکول آنا ہے آپ کو۔۔۔۔ مما آپکو بھی یاد ہے ناں؟"
کمرے میں داخل ہوتا ارمان مسکراتے ہوئے ساتھ کھڑے ہوئے والدین کو دیکھتا دونوں سے مخاطب ہوا تھا۔ مسکراہٹ نے لبوں کا احاطہ اس لیئے بھی کیا تھا کہ یہ نظارہ شاز و نادر ہی دیکھنے کو ملتا تھا۔ وہ دونوں کبھی کبھی ہی یوں اکیلے میں ایک دوسرے سے بات کرتے نظر آتے تھے۔
ایسا نہیں تھا کہ ارمان کو اندازہ نا تھا یا وہ جانتا نا تھا کہ اس کے ماں باپ کے درمیان رشتہ عام رشتوں کی طرح خوشگوار نہیں ہے پر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اختلافات کے باوجود اگر وہ ساتھ زندگی گزار رہے ہیں تو اس کے پیچھے وجہ صرف اور صرف اسکی اپنی ذات ہے۔ سترہ سال کی اندیکھی محنت کا پھل آج اسکو اتنا ضرور ملا تھا کہ اس کے والدین کبھی ایک دوسرے سے بد زبانی کرتے نظر نا آئے تھے۔
ایک عرصہ وہ لوگوں کے خوشحال گھرانوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا آیا تھا اُسے آج بھی یاد تھا کہ اس کے بچپن میں ارمش ضمان کو مخاطب بھی نہیں کرتی تھی۔ پھر ایک دن گاؤں سے واپسی پر نا قابلِ قبول خاموشی پر جب ارمش نے بڑے لاڈ سے وجہ پوچھی تو ایک معصوم بچہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے ماں سے سوالی ہوا تھا کہ کیونکر اُسکی فیملی باقی سب کی طرح نارمل نہیں ہے؟ کیوں اُسے ماں کے ساتھ وقت گزارنے کے لیۓ باپ کو چھوڑنا پڑتا ہے، یا پھر باپ کے ساتھ وقت گزارتے ہوئے ماں سے دوری اختیار کرنی پڑتی ہے؟ کیوں عرشمان ماما اور کاوش ممانی کی طرح وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتے؟ اس لمحے تو ارمش بھی خاموش ہوگئی تھی پر اگلے ہی دن ارمان، ارمش اور ضمان اکھٹے سیر و تفریح کی غرض سے باہر نکلے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن ان دیکھے انداز میں دوریاں سمٹتی جا رہیں تھیں اور ارمان پر اُمید تھا کہ ایک دن اسی طرح دیکھتے ہی دیکھتے سب رنجشیں مٹ جائیں گی۔
"ہاں جی۔۔۔۔۔۔ مما نے بتایا ہے ابھی کالج چلنے کا اور میں بھی مما کو یہی بتانے آیا تھا کہ موسم خاصہ ابر آلود ہے کبھی بھی جل تھل ہو سکتی ہے۔"
کون کہتا ہے کہ بیٹے ماں کو پیارے ہوتے ہیں؟ کوئی ضمان سے پوچھتا کہ اس کے وجود کا یہ حصہ اُسے کس قدر عزیز ہے۔ ماضی کی کوتاہیاں جب جب ضمان کو احساس دلاتی تھیں کہ تم کیوں زندہ ہو؟ ارمش کی زندگی برباد کرنے کے بعد بھی جینے پر اپنا حق کیوں سمجھتے ہو؟ تب تب ارمان کا وجود ذہن کے پردے پر لہراتا تھا کہ تم اس کے لیئے زندہ ہو۔ ضمان کے لیئے ارمان کا وجود اُمید کی وہ کرن تھا جس کے سہارے وہ آج بھی پر اُمید تھا کہ ایک روز آئے گا جب انکا بے جان ہوتا رشتا ایک بار پھر مسکرائے گا۔
"چلو گولہ باری شروع کرواتے ہیں۔"
وانی کے خیال سے مسکراتے ہوئے وہ ارمان کا ہاتھ تھامے باہر کی جانب چل دی تھی۔ جبکہ سرمئی مائل بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے ضمان بھی اپنی زندگی کے نقشِ قدم پر قدم رکھتا پیچھے پیچھے چل پڑا۔
♡-----------------------------------------♡
"مما جی اور پھپو جی کا جہاں دل چاہتا ہے چلی جاتی ہیں کوئی منع نہیں کرتا۔ یہ بھی نہیں کہتا کہ اتنی دور ہے گاؤں اکیلے مت جاؤ۔ یہاں میں ہوں جسے بھیا کے ساتھ جانے کی بھی اجازت نہیں ملتی۔
بس پپا۔۔۔۔۔۔۔
میں تو سوچ رہیں ہوں میں بھی ایک آدھی شادی کرلوں پھر مجھے بھی کوئی نہیں منع کرے گا۔"
ارمان کے ساتھ داخل ہوتی ارمش کو دیکھ کر بین ایک مرتبہ پھر شروع ہوگئے تھے۔
عالی جو اب تک اپنی لاڈلی کے ڈراموں میں برابر کا شریک تھا آخری جملے پر باقی سب کے ساتھ خود بھی کھلے منہ پھٹی آنکھوں کے ساتھ وانی کی بات پر یقین کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ یہ بات اُسکی سات سالہ آفت کے منہ سے ہی ادا ہوئی ہے۔
"اوئے میڈم۔۔۔۔ کوئی نہیں کر رہا میں تمہاری شادی۔ ابھی کیا کبھی بھی نہیں۔۔۔۔"
صبر کے دس سال بعد تو خدا نے راضی ہو کر یہ نعمت اُنکے آنگن میں اتاری تھی۔ تبھی ہر باپ کے متضاد عالی کا کوئی ارادہ نہیں تھا اپنے جگر گوشے کو کسی اور کے حوالے کرنے کا تبھی سب سے پہلے ہوش میں آتے گھڑکا تھا۔
"آپ ذرا رہنے دیں پپا میں آپکی بہن سے بات کروں گی اب۔ کیوں کرتی ہیں مجھ پر ظلم؟
ہائے اللہ!! معصوم بچی کو کہیں جانے ہی نہیں دیتی ہیں!!"
وہ عالی کی بیٹی تھی۔ شکل صورت کے ساتھ ساتھ حرکتیں بھی پوری عالی سے چرائی تھیں۔ اس وقت چھوٹے چھوٹے ہاتھ چلاتے ہوئے زری کی گھوریوں کو نظر انداز کیے مبشرہ بیگم کی لاڈو نمبر ٹو لاڈو نمبر ون سے دو دو ہاتھ کرنے کے پورے موڈ میں تھی۔
"بھیا۔۔۔۔۔ آپ نے بتایا نہیں وانی کو کہ کیمپنگ کرنے آپ جنگل میں جا رہیں ہیں؟ جہاں نا اے-سی ہوگا اور نہ ہی انٹرنیٹ۔۔۔۔۔ کھانا بھی خود پکانا پڑے گا اور تو اور سونا بھی مچھروں کے ساتھ پڑے گا۔
میرا تو پلان تھا کہ ارمان کو كیمپنگ پر بھیج کر ہم ایک دن ونڈرلینڈ جائیں گے اور دوسرے دن سپا۔۔۔۔۔۔۔ پر خیر اگر وانی کو جنگل ہی جانا ہے تو میں کیا کر سکتی ہوں۔ بھئی ارمان لے جاؤ اپنے ساتھ وانی کو بھی۔"
کچھ روز قبل ہی وہ لوگ ونڈرلینڈ گئے تھے اور اس کے بعد سے ہر روز ہی تقریباً وانی میڈم کبھی رفیعہ بیگم تو کبھی مبشرہ بیگم، کبهی مصطفٰی صاحب تو کبھی ضمان غرض گھر کے ہر فرد کے پیچھے پڑی تھی کہ اُسے دوبارہ ونڈرلینڈ لے کر جایا جائے۔ اور تقریباً ایک مہینے سے یوٹیوب پر باڈی مساج کے فوائد دیکھ کر وہ زری اور ارمش کے پیچھے پڑی ہوئی تھی کہ اسے بھی کروانا ہے گوکہ ہزارہا مرتبہ سمجھایا گیا تھا کہ بچوں کا اسپا میں کوئی کام نہیں پر وانیہ عالی رند اپنے آپ کو بچہ تصوّر کریں تو بات سمجھیں ناں۔ پر مقابل بھی ارمش تھی جو باپ بیٹی کی رگ رگ سے واقف تھی۔
"اور میں کیوں مانوں کہ آپ مجھے واقعی دونوں جگہ لے کر جائیں گی؟"
لالچی دل جنگل کے فضائل سن کر پہلے ہی ارمش کی پیشکش کی جانب مائل ہوگیا تھا پر ضمانت نامی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
"اچھا چلیں ٹھیک ہے مجھے آپکی زبان پر بھروسہ ہے اور میں اُمید کرتی ہوں کہ یہ جو ہر وقت مجھے گھورنے والی آنکھیں ہیں ان سے بھی آپ خود ہی نمٹ لیں گی۔"
ارمش کی خشمگیں نگاہیں محسوس کرتے دونوں ہاتھ اُٹھا کر احسان کرنے کے انداز میں یقین کیا تھا ساتھ ہی ساتھ ارمش کی جانب دیکھتے ہی زری کی گھوریوں سے نمٹنے کی زمیداری بھی دی تھی۔
"رکو ابھی بتاتی ہوں۔۔۔ صرف گھورنا نہیں آتا مجھے۔"
بیٹی کی گوہر افشانیوں پر بل کھاتے زری نے اپنی جگہ چھوڑی تھی۔ اس سے قبل ماں وانی تک پہنچتی صوفے کی پشت سے چھلانگ لگا کر وہ گولی کی رفتار سے غائب ہوئی تو سب کے مشترکہ قہقہوں نے لاؤنج کے ماحول کو زعفران کیا تھا۔
یہ سات سالہ بچی رند ہاؤس کی بلبل تھی جب یہ چہکتی تھی تو رند ہاؤس میں بہار اُتر آتی تھی۔
♡-----------------------------------------♡
دس سال۔۔۔۔ زِندگی کے دس سال انتظار کی سولی پر کٹے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ مایوس کیوں ہوتی ہو خدا کی ذات عطا کرنے والی ہے تو کُچھ کہتے تھے کہ ہر کام میں اللہ کی بہتری ہے اس کے نظام سے الجھنے والے خاک ہوجاتے ہیں۔ کوئی زری کی کیفیت سمجھنے کے لیئے تیار ہی نہ تھا جو شاید اولاد پر صبر کر لیتی پر اس شوہر کا کیا کرتی جو اٹھتے بیٹھتے ایک بات واضح طور پر زری کو باور کرواتا رہتا تھا کہ اگر وہ آج بھی اُسکی زندگی میں موجود ہے تو اس بات کے لیئے زری کو ارمش کا شکر گزار ہونا چاہیے ہے جس نے عالی سے لڑ جھگڑ کر اپنی بات منوائی تھی اور زری سے علحیدگی اختیار نہ کرنے دی۔
عالی اور اپنے کچی ڈوری میں بندھے رشتے کو مضبوط کرنے کی واحد کڑی زرلش کے نزدیک اولاد تھی کون کہتا ہے کہ اولاد عورت کے پیر کی بیڑی ہے؟ کوئی زری سے پوچھتا تو وہ بتاتی کہ اولاد تو میاں بیوی کے رشتے کی مضبوط کڑی ہے۔ جسکا ساتھ عورت کے لیئے تقویت کا سبب بنتی ہے۔
ایک جانب شوہر تھا جو دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود راضی نہ ہوا تھا تو دوسری جانب بے اولادی کا غم۔۔۔ اور پھر ایک دن آیا جب خدا کے گھر سے آنے والے بلاوے نے زندگی بدل دی۔
عالی کے پہلو میں کھڑے ہو کر سسک سسک کر زری نے عالی کی محبت اور اس کی نسل کی امین بننے کی سعادت خدا سے طلب کی تھی۔ اور بے شک جب دوائیں اثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں تب دعائیں ہی کام آتی ہیں۔ اُسکی بھی دعائیں قبول ہوئیں تھیں جب دس سال کے طویل انتظار کے بعد وانيہ عالی رند نے اس دنیا میں آکر ماں باپ کی ادھوری زندگی کو مکمل کر دیا۔ زری کے حق میں تو وہ معجزہ ثابت ہوئی تھی جسکی آمد نے زری کو پرانا عالی بھی لوٹا دیا تھا۔
ایک طویل دورانیے کی سزا آخر کار اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔ بے شک اللہ منصف ہے اس کے بندوں کا دل دُکھا کر اگر آپ تصور کرتے ہیں کہ آپکی پکڑ نہیں ہوگی تو آپکی سوچ غلط ہے۔ زری بھی جانتی تھی کہ یہ بے اولادی کا غم یہ عالی کے رویے کی چبھن یونہی اس کے حصے میں نا آئی تھی یہ اس معصوم کی آہ کا نتیجہ تھا جسکی زندگی کی بربادی میں زری نے اہم کردار نبھایا تھا۔
"کیا سوچا جا رہا ہے؟؟؟"
شام کے وقت وہ کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ڈھلتے سورج کے پرسکون منظر میں کھوئی ہوئی ماضی کی یادوں میں غرق تھی جب عالی نے پشت سے حصار میں لیتے اپنی ٹھوڈی زری کے کندھے پر ٹکاتے سوالی ہوا تھا جسکے جواب میں نفی میں گردن ہلاتی وہ عالی کے سینے پر سر ٹکا گئی تھی۔
♡----------------------------------------♡
انسان کی عادات تبدیل ہو سکتی ہیں پر جو نہیں بدلتی وہ فطرت ہے۔ آج زندگی کا ایک طویل عرصہ گزرنے کے بعد وہ اپنی شخصیت کے دو سیاہ ترین پہلو پہچان چُکا تھا۔ ان سترہ سالوں میں ہر روز خود ساختہ احتساب کی عدالت کے کٹہرے میں وہ خود سے سوالات کیا کرتا تھا اور اس احتساب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک دو چیزیں ضمان کو لے ڈوبی ہیں پہلی چیز غصّہ۔۔۔
بیشک اللہ کا ہر حکم اپنے اندر حکمت سموئے ہے۔ دین اسلام میں غصّہ حرام قرار دیا گیا ہے۔ شیطان کہتا ہے کہ جب میں کسی پر غُصّہ کا جال ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہوں تو جس طرح بچے گیند کو پھینکتے اور اُچھالتے ہیں، میں اس غُصیلے شخص کو شیاطین کی جماعت میں اسی طرح پھینکتا اور اُچھالتا ہوں۔
غصے میں بے قابو ہو کر انسان کوئی نا کوئی ایسا جملہ بک ہی جاتا ہے جس سے اُسکی دُنیا و آخرت دونوں تباہ ہوجاتی ہیں۔
ضمان کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا غصے کی حالت میں اپنی پاک باز شریکِ حیات پر تہمت کی کیچڑ اچھال کر وہ اپنی آخرت کے ساتھ دنیا بھی تباہ کر چکا تھا۔ آج ایک گھر میں ایک چھت تلے رہتے ہوئے بھی وہ ضمان کی پہنچ سے بہت دور تھی۔ اب تو شاید اُسے بھی ضمان کی شرمندگی اور محبت پر یقین آگیا تھا پر جس طرح دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اسی طرح ارمش بھی اب ضمان کو موقع دینے کے لیئے تیار نا تھی۔ ضمان کو بھی ارمش کی جانب سے اپنے لیئے مختص کی گئی ہر سزا دل و جان سے قبول تھی وہ اسی توقع میں زندہ تھا کہ شاید اسی سزا کا بار شرمندگی کی سلگتی میخوں سے آزاد کرادے۔
اور پھر غصے کے بعد بے اعتباری۔۔۔
کانوں کا کچا ہونا ضمان کو لے ڈوبا تھا۔ مانا کہ زری نے اُسکے کانوں میں ہمیشہ عالی اور ارمش کے مقدس رشتے کے متعلق زہر اگلا تھا پر وہ تو بڑا تھا ناں؟ بجائے زری کو سمجھانے کے وہ خود اُسکی باتوں میں آگیا۔ مرد تو چلتے پھرتے شخص کے کردار کو بھانپ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ارمش کی پاک بازی ضمان کی نظر میں ویسے بھی کب مشکوک رہی تھی؟ وہ چاہتا تو بہت پہلے ہی زری کو اس رستے پر چلنے سے روک سکتا تھا پر اُسنے ایسا نہیں کیا۔ ہر بار زری کا ساتھ دے کر اُسکی سوچ کو تقویت بخشی اور چلو زری تو زری تھی۔ آخری ضرب جسکی باتوں میں آکر اُسنے ارمش کے دل پر لگا کر اسکے وجود کو چکنا چور کیا تھا کون تھا وہ شخص؟ کیا لگتا تھا ضمان کا کہ اُسکی باتوں کی قیاس آرائی پر مشتمل ہونے کے یقین کے باوجود ایک لمحے کی زد میں سارا اعتبار آگیا؟؟؟
جو کچھ وہ کر چکا تھا اس کے بعد آج ضمان کے ہاتھوں میں صرف پچتاوا رہا تھا۔ ایک مثالی ہمسفر کو کھو دینے کا پچتاوا، اپنی عزت پر خود اُنگلی اٹھانے کا پچتاوا۔۔۔۔ اور اب شاید ساری زِندگی ہی اُسے اسی پچتاوے کے ساتھ گزارنی تھی۔
ارمان کو اُسکے دوست کے گھر پہنچا کر وہ دونوں ساتھ ہی واپس لوٹے تھے گاڑی سے اترتے وقت ضمان کے دل نے شدت سے خواہش کی تھی کہ کاش سب گمان ثابت ہوجائے وہ ابھی چلتے چلتے ضمان سے پوچھے کہ آپ کیوں نہیں آرہے اور جواب نہ ملنے پر خود ہاتھ تھام کر انکے مشترکہ کمرے کی جانب چل دے۔
پر ساری خواہشات پر قبولیت کی مہر تو نہیں لگتی۔ وہ پیچھے رہ گیا تھا ارمش آگے بڑھ چکی تھی ابھی بھی اور زندگی کے سفر میں بھی۔
♡-----------------------------------------♡
زندگی کا سفر یقیناََ اعصاب شکن ثابت ہوا تھا پر منزل اس قدر خوبصورت تھی کہ اب اُسے زِندگی سے کوئی شکوہ نہ رہا تھا۔ ضمان کے ساتھ گزرا وقت اُسنے ماضی کی ایک تلخ یاد ایک بوسیدہ باب تصوّر کر کے بند کردیا تھا۔ وہ آج میں جینا سیکھ چکی تھی انسانیت کی مدد کرکے جو سکون قلب میں اترتا تھا وہ ہر اُس زخم کو مندمل کر جاتا تھا جو ماضی میں اسکی روح کے چھلنی ہونے کا باعث بنے تھے۔
زری کو وہ بہت وقت پہلے ہی معاف کر چُکی تھی اور اب آہستہ آہستہ دل میں جو ضمان کے لیے نفرت تھی وہ بھی ختم ہوتی جا رہی تھی کیونکہ وہ سمجھ چکی تھی کہ اس نفرت کا فائدہ کوئی نہیں ہے صرف دل جلاوے اور خود ساختہ اذیت کا سبب ہے۔ ہاں نفرت نہیں تھی پر محبت بھی ہر گز نہ تھی غرض یہ کہ ضمان کے بارے میں سوچنا ہی ترک کر چکی تھی۔ کیوں کہ اب اُسنے خود سے محبت کرنا سیکھ لی تھی۔ اپنے اِرد گِرد کسی منفی سوچا کا گھیرا اب ارمش مگسی کو برداشت نہ تھا۔
خدا کی عطا کردہ ہر نعمت کا شکر ادا کرتے جب سوچوں کا رُخ ارمان کی جانب مڑتا تھا تو ارمش کے الفاظ دم توڑ جاتے تھے۔ جو قربانی ارمش نے ارمان کی خاطر دی تھی خُدا نے رائیگاں نا جانے دی تھی آج ارمش کا بیٹا ایک مثالی انسان تھا جسے لوگوں کی عزت کرنا آتی تھی جو بڑوں سے آنکھ اٹھا کر بات نہیں کرتا تھا تو دوسری جانب چھوٹوں پر اس قدر شفیق تھا جیسے خود بہت بزرگ ہو۔ تعلیم ہو یا کھیل کا میدان ہر مقابلے کا فاتح رہا تھا۔
اور سب سے بڑھ کر وہ فرمانبردار تھا جو کچی عمر کے اس حصے میں بھی کبھی لڑکھڑایا نا تھا۔
وہ خوش تھی اپنی زندگی سے۔ ہمسفر کے بغیر بھی اُسکا سفر خوبصورت گزر رہا تھا۔ ہاتھوں میں تھامے ارمان کی تصویر کے فریم پر لب رکھتے ہوئے پرسکون مسکراہٹ لبوں پر سجائے ارمش مگسی آنکھیں موند گئی تھی۔
♡-----------------------------------------♡
ختم شد۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Bin Mangay Anchahe Se Hum Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Bin Mangay Anchahe Se Hum written by Urooj Naqvi. Bin Mangay Anchahe Se Hum by Urooj Naqvi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment