Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Mein by Sara Urooj Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Mein by Sara Urooj Complete Romantic Novel |
Novel Name: Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Mein
Writer Name: Sara Urooj
Category: Complete Novel
دسمبر کی آمد۔۔
جسموں کو جما دینے والی سردی۔۔۔
اندھیری کوٹھری۔۔۔۔
جس میں بھینسوں کو رکھا جاتا تھا۔۔۔
لیکن آج ان بھینسوں ، مویشیوں کے ساتھ کوئی اور وجود بھی موجود تھا جو کہ دیوار پر بنتے سائے کی بنا پر کسی صنفِ نازک کا معلوم ہوتا تھا۔۔۔
"مجھے ونی نہ کریں ذیشان خدا کے لئے رحم کریں مجھ پر، ایسا ظلم نہ کریں۔۔میں ونی نہیں ہونا چاہتی۔۔"
"نہیں۔۔۔۔۔"
وہ لڑکی خواب سے بیدار ہوئی تھی جب اس نے خود کو اس ویران کمرے میں پایا تھا کڑک سردی کے باوجود چہرے پر چھایا پسینہ کس ڈراؤنے سپنے کا پتہ دیتا ہے۔۔
ہاں وہ ڈراؤنا ضرور تھا مگر سپنا نہیں۔۔۔
وہ حقیقت تھی ؛ اس کی زندگی کی تلخ حقیقت۔۔۔
اب اسے جینا تھا اس تلخی اور بے بسی کے ساتھ۔۔۔
«««««««««
سحر آنگن میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی جب کوئی پیچھے سے آیا اور اس کے سر پر لال چنری ڈال گیا۔
وہ جو کتاب میں کھوئی تھی اس آفت پر یکدم سے پلٹی۔۔۔
"ز۔۔زیشان۔۔۔؟؟؟"
سر پر ڈالی گئی چنری کو وہ اتارنے لگی جب زیشان نے ان حرکت کرتے ہاتھوں کو تھام لیا تھا۔۔۔
"مت اتارو اسے ۔۔
میں دیکھنا چاہتا ہوں تم جب میری دلہن بن کر یہ چنری اڑھو گی تب کیسے لگو گی؟؟"
ان کے ہاتھوں کو تھامے وہ پیار سے بولا تھا کہ سحر بے اختیار شرما گئی۔۔۔
"او۔۔۔غضب ہو گیا۔۔۔!!!
بھائی غضب ہو گیا۔۔"
گلی کے کونے پر رہتا نوید چیختے ہوئے گھر میں داخل ہوا تھا ۔۔۔ اس کی چیخ پر سب پریشان ہو گئے تھے ۔
"کیا ہوا نوید کیوں اتنا چیخ رہے ہو؟"
زیشان بھی پریشانی سے آگے بڑھا ۔۔
"آپ کے بھائی سے چوہدری کے بیٹے کا قتل ہو گیا۔۔۔۔
انہوں نے اسے قید میں رکھا ہے اور آپ سب کو بلا رہے ہیں۔۔۔
مجھے تو بڑا خوف آرہا ہے۔۔۔
چوہدری لوگ کافی غصے میں ہیں۔۔۔
باہر ساری پنچائیت بیٹھائی گئی ہے۔۔۔"
نوید گھبرائے ہوئے انداز میں بول رہا تھا۔۔۔
جبکہ زیشان کے ماں باپ کا اس ہولناک خبر کو سن کر دل ہی دہل گیا تھا ۔۔۔۔
زیشان ، اسکے ماں باپ بھاگتے ہوئے پنچایت میں پہنچے تھے۔۔
"چوہدری ص۔۔۔صاحب ص۔۔صاحب معاف ک۔۔کر دیں ہمارے ب۔۔بچے کو اس نے یہ سب جان بوجھ کر نہیں کیا ہوگا۔۔۔"
وہ دونوں ماں باپ اس چوہدری کے سامنے گڑگڑائے تھے جب کہ چوہدری جس کے سر پہ خون سوار تھا وہ چیخ پر خاموش کروا گیا تھا انہیں۔۔۔
"م۔۔معاف۔۔۔؟؟؟
معاف کر دوں تمہارے بیٹے کو جس نے میرے جگر کے ٹوٹے کو مارا ہے۔۔۔"
لال انگارا آنکھوں سے ان سے سوال کیا تھا۔۔۔
"خون کا بدلہ خون ہوتا ہے۔۔۔جو کہ ہم تمہارے لال کا بہائیں گے۔۔۔"
سر پہ سوار خون کے باعث انہوں نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔۔۔
لیکن ان تینوں نفوس کا سکون چھین لیا تھا ان کی اس بات نے۔۔۔
ا"ن۔۔نہیں ہم پیسے دینے کو تیار ہیں آپ چاہیں تو ہم سے ہماری زمینیں بھی لے لیں۔۔مگ۔۔مگر ہمارے بیٹے کو چھوڑ دیں۔۔۔"
اب کے وہ باپ بیٹے کی جان کے لئے ان کے قدموں میں گرا تھا ۔۔
جبکہ زیشان کونے میں کھڑا بہت غور سے انہیں دیکھ رہا تھا اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔۔۔
نجانے کیا سوچ رہا تھا وہ۔۔۔؟؟
"کیا میرے بیٹے کو اتنا بے مول سمجھا ہے تم لوگوں نے۔۔۔
کہ میں اس کی جان کی قیمت لگاؤں گا؟؟"
غصے سے برہم ہوتے چارپائی سے کھڑے ہو گئے تھے۔۔
ا"گر تم اپنے بچے کی جان کی بخشش چاہتے ہو تو ہمیں ونی چاہیے!!!!!"
"پ۔۔پر ہ۔۔ہم۔۔"
"ٹھیک ہے!!!"
اپنے باپ کی بات بیچ میں ہی کاٹ گیا تھا زیشان جب کٹہرے میں اس کی ہامی کی آواز گونجی تھی۔۔۔
"پ۔۔۔پر وہ منگیتر ہے تمہاری زیشان۔۔!!!"
"م۔۔مجھے فرق نہیں پڑتا لڑکیاں بہت مل جائیں گی۔۔۔
پر بھائی ای۔۔ایک ہی ہے۔۔۔"
وہ کہتے گھر کی جانب بھاگا تھا اور کچھ ہی دیر میں کالی چادر میں لپٹی سحر کو لئے اپنے ساتھ لایا تھا۔۔۔
اس بیچاری کو تھوڑی دیر سے پہلے وہ جو دلہن بننے کے خواب دیکھا رہا وہ سب خود ہی چکنا چور کر گیا۔۔۔۔
"مجھے ونی نہ کریں زیشان خدا کے لئے چاچی روکو نا انہیں ۔۔۔۔
چاچا میں تو آپ کی لاڈلی ہوں نہ پلیز میرے ساتھ ایسا ظلم نہ کریں۔مجھے جیتے جی نہ ماریں۔۔۔" سحر روتے گڑگڑاتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔جبکہ اس کا منگیتر خود غرض بنا اس کو کھینچتا ہوا کٹہرے میں لایا تھا۔۔۔وہ کسی اور کی امانت تھی جبکہ اسکے گھر والے اس کا سودا کرنے پر تلے تھے۔۔۔۔اس کا دل یہ سوچ کر کانپ رہا تھا کہ اس کا وجود ونی ہونے جا رہا ہے۔اور اس بات سے وہ اچھے سے واقف تھی کہ ونیوں کے ساتھ کس قسم کے سلوک کیے جاتے ہیں۔۔
"یہ لو چوہدری ۔۔ میں اپنی کزن کو ونی کر رہا ہوں۔۔اب میرے بھائی کو چھوڑ دیں۔۔" زیشان نے سحر کو چوہدری کے قدموں میں پھینکا تھا ۔۔
"ابھی کہاں!!!
پہلے اس لڑکی کا نکاح ہو گا پھر۔۔"
وہ چوہدری اکڑ کر اپنی چارپائی پر براجمان ہوا تھا۔۔۔
"اس کی بھی کیا ضرورت ہے۔ایسے ہی لے جاؤ ۔۔۔"
بے بسی کی انتہاہ پر پہنچتی وہ چیخ کر کہتی وہاں موجود سب لوگوں کو دنگ کر گئی تھی۔۔
احمر نے سر اٹھا کر شولا بار نظروں سے اس صنفِ نازک کو دیکھا تھا جو اپنے نازک وجود کو کالی شال سے ڈھانپے ہوئے تھی۔۔۔
لڑکی تو بڑی زباں دراز ہے۔۔۔خیر کوئی نہیں میرا پت میرا شیر ٹھیک کر دے گا۔۔۔
چوہدری شیطانی مسکراہٹ چہرے پر سجائے احمر کی پیٹھ کو تھپک کر بولا ۔۔
"چل بہت ڈراما ہو گیا مولوی نکاح شروع کرو۔۔۔
سحر اسلم آپ کا نکاح احمر چوہدری سے سکہ رائج الوقت دس ہزار روپے میں دیا جاتا ہے کیا قبول ہے؟؟؟"
مولوی کے الفاظ اس کو کسی گرم سیال کی مانند لگ رہے تھے۔۔۔
"ن۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔" ایک بار پھر وہاں خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔احمر کا دل کیا اس لڑکی کا حشر بگاڑ دے جو اپنے ساتھ اس کا تماشہ بنانے پر تلی تھی۔۔۔
چٹاخ۔۔۔۔ زیشان کے ہاتھ سے پڑنے والے تھپڑ نے اس کے حواس سلب کیے تھے۔۔۔۔
"اوئے کیا تماشہ ہے یہ۔۔۔ نکالو اس کے بھائی کو باہر اور قلم کر دو اس کا سر۔۔۔۔۔"
چوہدری نے اپنے بندوں کو حکم دیا تھا۔۔۔۔
"نہیں چوہدری یہ نکاح کرے گی۔آپ میرے بھائی کو کچھ نہ کرنا۔۔
سحر اگر اپنی عزت عزیز ہے تو نکاح کر لو ورنہ یہ تمہیں ایسے ہی لے جائیں گے۔۔۔۔"
زیشان نے اسے خبردار کیا تھا زخمی ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ آئی تھی۔۔۔
"عزت؟؟؟
تم عزت کی بات کرتے ہو؟
جو خود اپنی منگیتر کو غیر مردوں کے بیچ لایا ہے۔۔۔ونی کرنے۔۔۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی کچھ بھی کہے یا کچھ بھی کرے ۔۔۔کیونکہ میری عزت تب ہی خراب ہو چکی ۔۔
جب غیروں میں ، میں کسی جانور کی مانند پیش کی گئی۔۔۔"
تلخی سے کہتی وہ کونے پہ کھڑی ہوئی تھی جبھی احمر غصے میں آگے بڑتا اس کو بازوں سے کھینچتا گاڑی میں ڈالے لے جا چکا تھا۔۔وہ مسلسل مزاحمت کرتی رہی ، چیختی رہی لیکن اس کی فریاد سننے کو کوئی وہاں موجود نہ تھا۔
یہ پنجاب کا گاؤں بہاولپور تھا۔۔۔
جہاں آج بھی پرانے زمانے کی مردہ رسومات کا راج تھا۔۔۔
بھائی باپ کے کیے کی سزا بہن ، بیٹی کو بھگتنی ہوتی تھی۔۔۔
جہاں ان کا نکاح کسی بھی غیر سے کر کے ہمیشہ کے لئے ان سے لا تعلق ہو جایا جاتا تھا۔۔۔
ان کے اپنوں کو ان کی کوئی خبر نہ ہوتی کہ وہ بیچاری ظلم سہتے سہتے زندہ ہیں یا مر گئی۔۔۔
ایسے ہی سحر اسلم بھی چوہدری خاندان کو ونی کر دی گئی تھی۔۔جہاں اب اس کی آئندہ زندگی بھی دکھ ، کرب اور اذیت میں ہی گزرنی تھی۔۔۔
®®®®
"چ۔۔چھوڑو مجھے۔۔۔
ج۔۔جنگلی انسان۔۔۔"
احمر نے لا کر لاونچ میں پٹخا تھا اسے کہ گرنے کے باعث سر کونے پر رکھی ٹیبل سے ٹکرا گیا۔۔۔
ایک درد کی ٹیس اس کے سر میں اٹھی تھی۔۔۔
"ماں۔۔۔
ماں۔۔۔۔
حلیہ درست کرائیں اسکا۔۔۔نکاح کے کچھ دیر میں۔۔۔
یہ ونی ہو کر آئی ہے ہمارے ارتضیٰ کی جگہ۔۔۔"
حقارت سے اس کے وجود کو دیکھتا وہ باہر جانے لگا تھا کہ سحر کی بات نے اس کے قدم جکڑے تھے۔۔
"ت۔۔تف ہے آپ لوگوں کے چوہدری ہونے پر۔۔۔
ذات اتنی بڑی ا۔۔۔اور کام اتنے کی پست۔۔۔۔۔"
ہاتھ زمین پر ٹکائے اس نے ادھ کھلی آنکھوں سے احمر کے وجود کو دیکھتے طنزیہ کہا تھا اور اس کی یہی بات احمر چوہدری کو صحیح معنوں میں مرچیں لگا گئی تھی۔۔۔
چٹاخ۔۔۔
اس بیچاری کے پہلے سے سوجے چہرے پر ایک تھپڑ رسید کیا تھا۔۔۔۔۔
"کیا بکواس کی ہے؟.
دوبارا کہنا۔۔!!!!
تم ابھی تک چوہدریوں کو جانتی نہیں ہو کہ وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں؟
آئندہ ہم پر بہتان لگانے سے پہلے اپنی حیثیت کو مدِ نظر رکھ لینا ورنہ اچھے سے بتا دوں گا کہ چوہدری کیا کچھ کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔"
غصے سے غراتے وہ جا چکا تھا۔۔۔
اور کچھ ہی دیر میں مولوی کو لیے حاضر ہوا تھا۔۔۔۔
جس میں وہ بیچاری نکاح کے پاک رشتے میں بندھتے ہوئے مکمل طور پر ونی ہو چکی تھی۔۔
سحر کا دل چاہا چیخ چیخ کر روتے ہوئے اپنا دکھ بیان کرے۔۔۔
مگر کس سے؟؟؟
کوئی نہیں تھا اسکا اپنا۔۔۔
جو اس بیچاری دکھوں کی ماری کی سننتا۔۔۔۔
نکاح کے بعد اسے لا کر چھوڑ دیا گیا تھا۔۔۔
ان مویشیوں کے بیچ۔۔۔۔
@@@@@
"رجو!!
جا دیکھ وہ ونی کدھر ہے؟
بلا کر لا اسے۔۔۔"
نورِ بیگم نے رعب سے کہا تھا کہ رجو بھاگتے ہوئے پیچھے باڑے میں گئی تھی۔۔۔
"اے لڑکی اٹھو جلدی بیگم صاحبہ نے بلایا ہے تمہیں۔۔۔"
زمین پر سکڑ کر لیٹی سحر کو اٹھایا تھا اس نے۔۔
"م۔۔میں ن۔۔نہیں جاوں گ۔۔گی۔۔۔"
سر کو نفی میں ہلاتی وہ دور کھسکی تھی ۔۔۔
ملازمہ نے آنکھیں سکیڑے اس کو دیکھا تھا۔۔
"یہ ٫"نہ " کی آواز کہاں سے آئی ہے؟"
غرور سے چلتی نورِ بیگم وہاں آئی تھیں۔۔۔
"تم کتنی خوش قسمت ہو لڑکی جو نورِ خود تم سے ملنے آئی ہے۔۔۔"
ہونٹ سکڑے طنزیہ بولی تھی وہ۔۔۔
"چلو اب اٹھو فوراً ," کیونکہ جب یہاں کوئی ونی ہو کر آ جائے تو نکھرے وہ باہر کوڑے دان میں چھوڑ کر آتا ہے!!!
اسلئے اب سے تمہیں یہاں حویلی کے ہر وہ کام کرنے ہیں جو یہاں کے ملازمین کیا کرتے تھے۔۔۔۔
بلکہ یہاں کے مالکوں کے علاوہ نوکروں اور جانوروں کا خیال بھی تم خود رکھو گی۔۔۔۔"
"م۔۔میں نہیں کروں گی۔۔نوکر نہیں ہوں میں آپ سب کی۔۔۔"
سحر نے ڈرتے ہوئے ہی سہی لیکن صاف انکار کیا تھا۔۔۔
"تمہاری ہمت کو داد دینی پڑے گی جو میری ماں کے سامنے زبان چلا رہی ہو۔۔۔"
احمر جو باہر کے کام سے فارغ ہو کر سحر کے پاس آ رہا تھا اندر سے آتی اس کی آواز پر غصے سے بر ہم ہوا تھا۔۔۔
"یہ عزت ہے ہماری؟؟ ، ونی مین آئی لڑکیاں بے عزت کریں گی ہمیں۔۔"
نخوت سے کہتی وہ سائڈ پر ہوئی تھی۔۔۔
"ماں آپ کے ہاتھ بندھے تو نہیں ہیں۔۔۔زبان کھینچ لیں اس بد زبان کی۔۔۔
جس کو تمیز ہی نہیں کہ اپنے مالکوں سے کیسے بات کی جاتی ہے۔۔۔"
سحر کے بکھرے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیتے وہ چلایا تھا۔۔
"م۔۔۔میں بد زبان ن۔۔نہیں ہوں۔۔۔"
اپنے بالوں کو اس بے رحم کی گرفت سے نکالنا چاہا تھا۔۔
"یہ لیں ماں جیسا چاہیں سلوک کریں ، یہ سوچتے ہوئے کہ آپ کے بیٹے کے قاتل کے خاندان سے ہے۔۔۔۔
جب تک اس کی زبان ٹھیک نہ ہو جائے۔۔۔
تب اس کو دیکھا دیں اپنا جوش۔۔
کیونکہ ابھی مجھے کام ہے ،ورنہ یہ کام میں بغوبی سر انجام دے دیتا۔۔۔"
سفاکیت سے کہتا سحر کے وجود کو نور بیگم کے قدموں میں پھینکا تھا۔۔۔
پھر کیا !!!
اب اس باڑے میں اس کی دلخراش چیخیں گونج رہی تھیں۔۔۔
وہ بے سنگدل تو جا چکا تھا مگر ان بے رحموں کے حوالے کیے۔۔۔
ان کی وحشت کو برداشت کرتی وہ ادھ موئی سی پڑی تھی وہاں۔۔۔
"آئندہ اگر زبان درازی کی تو ، اس مار کو یاد رکھ لینا۔۔۔۔
کیونکہ آخر ہیں تو بھی چوہدرائین ہی۔۔۔۔۔۔"
اس کے زخمی جبڑوں کو دبوچا تھا۔۔۔
سحر کو کچھ ہوش نہ تھا۔۔۔
اس کے بے جان زخمی وجود کو نورِ پھینک کر جا چکی تھی جانوروں کے چارے پر۔۔۔
وہاں موجود جانوروں کو رحم آ رہا تھا اس بیچاری لڑکی کی حالت اسکی اذیت پر۔۔
لیکن!!!!
وہ انسان ہو کر ایک انسان پر ترس نہ کھا سکے تھے۔۔۔
ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا
®®®
"آپ کو زرہ شرم نہ آئی ؟ میری وجہ سے، میری وجہ سے آپ نے آپی کو ونی کر دیا ۔"
"بی۔۔بیٹا وہ تمہیں جان سے مار دیتے ، یہی آخری راستہ تھا ہمارے پاس،"
زیشان کی ماں بے بسی سے بولی تھیں۔
"تو مر جانے دیتے۔ ارے لعنت ہے ہمارے مرد ہونے پر ، جن کے باعث گھر کی عزت نیلام ہوئی ہے اور آپ بھیا ، وہ تو منگیتر تھی نہ آپ کی؟؟
پھر کیسے ہونے دیا آپ نے ان کو ونی۔۔۔
لوگ تو اپنی عزتیں بچانے کے لئے اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے اور ایک آپ ہیں ۔۔۔۔
سوچ کر حیرت ہو رہی ہے مجھے۔۔۔"
سر گرا گیا تھا وہ اپنا ہاتھوں میں۔۔۔
سوچ سوچ کر۔اس کا دماغ پٹھا جا رہا تھا کہ سحر کو ونی کر دیا صرف اس کی وجہ سے۔۔۔
®®®
کہا تھا کس نے کہ عہدِ وفا کرو اُس سے
جو یوں کِیا ہے تو پھر کیوں گلہ کرو اُس سے
"شہیر میں نوٹ کر رہا ہوں، تم پچھلے کہی مہینوں سے یہاں روزانہ چکر لگا رہے ہو، کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ وہ تمہیں یہاں مل جائے گی؟؟"
"انشاللہ۔۔!!!!
اگر آپ کی لگن اور چاہت سچی ہو تو ، خدا بھی اس کو آپ سے ملاو ہی دیتا ہے ،مگر شرط صرف صاف نیت ہونی چاہیے۔۔"
بہتی آبشار کے پانی کو غور سے دیکھتا ایک خواب سی کیفیت میں کہا تھا اس نے۔۔
کئی روز سے وہ اس معصوم پری کی تلاش میں یہاں آ رہا تھا لیکن اس دن کے بعد سے ، شہیر نے دوبارہ اسے نہ دیکھا تھا۔۔لیکن وہ مایوس نہ ہوا تھا۔۔وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اس پری کو ڈھونڈ کر رہے گا۔۔۔
نصیب پھر کوئی تقریبِ قرب ہو کہ نہ ہو
جو دل میں ہوں، وہی باتیں کہا کرو اُس سے
"شہیر یہ بھی ہوسکتا ہے وہ یہاں کی رہائشی نہ ہو، کوئی
ٹوریسٹ ہو۔۔۔۔!!!!"
شرجیل نے اپنی سوچ بیان کی تھی۔۔
"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔"
وہ شانِ بے نیازی سے کہتا اپنی شاندار پرسینلٹی سمیٹ گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔۔۔
©©©
"بابا !
اپنی اس چہیتی کو دیکھیں ہمیشہ میرے ساتھ ایسا کرتی ہے یہ۔۔۔"
پشمینہ روتے ہوئے منصور صاحب کے کمرے میں آئی تھی۔۔
"کیا ہوا ؟
میری پری رو کیوں رہی ہے؟"
انہوں نے اپنی عینک ٹیبل کے ایک جانب رکھی تھی اور روتی ہوئی پشمینہ کو پیار سے اپنے گلے لگایا ۔۔۔
"یہ مشل کالج میں میرا گیٹ اپ کر کے ٹیچرز اور اسٹوڈنٹ سے پرینک کرتی ہے اور ڈانٹ مجھے لگتی ہے۔۔۔
آ۔۔آج بھی اس نے میم کا لیپ ٹاپ چھپا دیا اور نام میرا۔ گیا۔۔۔"
وہ کالج یونیفورم میں ہی ملبوس بیٹھے روتی جا رہی تھی جبکہ سائڈ پر کھڑی مشل بمشکل اپنی ہنسی روکے کھڑی تھی۔۔۔
"ہاہاہاہا۔۔۔۔"
پشمینہ روتے ہوئے کتنی جوکر لگتی ہو۔۔۔
مشل قہقہہ لگاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی جبکہ منصور صاحب نے آنکھیں دیکھائی تھی اسے۔۔۔
"مشل کب انسان بنو گی؟
کتنا مرتبہ سمجھایا ہے بہن کا خیال رکھا کرو مگر ہمیشہ خیال رکھنے کے بجائے بیچاری کا حال بگاڑ آتی ہو۔۔۔"
"بابا۔۔۔
میں پانچ منٹ چھوٹی ہوں۔۔
ان کو میرا خیال رکھنا چاہیے مگر یہاں الٹا ہے۔
چھوٹا بڑے کا خیال رکھے۔۔۔۔"
وہ کندھے اچکائے سائڈ پر رکھا سیب بے تکلفی سے چبانے لگی تھی کہ وہ تاسف میں سر ہلاتے رہ گئے۔۔
جیسے کہہ رہے ہوں۔،" اس نکمی کا کوئی حال نہیں۔۔۔"
۔منصور صاحب اپنی دو جڑواں بیٹیوں کے ساتھ ۔۔
کشمیر میں رہتے تھے ان کی زوجہ کا انتقال منال اور پشمینہ کی پیدائش کے پانچ سال بعد ہی ہو گیا تھا۔۔
وہ اپنی بیگم سے بہت محبت کرتے تھے ان کی موت پر وہ ٹوٹ کر رہ گئے تھے لیکن پھر انہوں نے سنبھالا تھا خود کو اپنی دونوں بچیوں کے لئے۔۔۔
ان کی یہ بیٹیاں ان کے آنگن کی تتلیاں تھیں۔۔
بالکل اپنی ماں کی کاپی۔۔
صاف و شاف کتابی چہرا جس پر لمبی کھڑی ناک اور گلابی ہونٹ شرارت اور معصومیت سے بھری خوبصورت شہد رنگ آنکھیں۔۔۔
وہ بالکل ایک جیسی تھیں بس فرق تھا تو صرف ایک چیز کا
چہرے پر موجود ہلکا چاند کا نشان
۔۔۔
جو ان دونوں کی پہچان کو مختلف بناتا تھا وہ بھی کوئی غور کرے تو ۔۔۔۔
ورنہ سب ان کو دیکھ کر اکثر دھوکہ ہی کھاتے تھے۔۔۔
©®©
"آپ نے اچھا نہیں کیا ونی لا کر !!!"
سکینہ بیگم نے چوہدری وقاص سے کہا تھا جو ابھی ابھی زمینوں سے لوٹے تھے۔۔
ان کا دماغ شل ہو رہا تھا اس خبر کو سن۔۔۔
ایک جگہ بیٹے کی موت کی اذیت دوسری جانب انہی کے گاؤں کی لڑکی کو ونی کر لیا گیا تھا۔۔۔
وہ جانتی تھیں ، یہ حویلی والے ہر چیز کا بدلہ صرف اس معصوم سے لیں گے۔۔۔
دنیا جہاں کے ہوئے قتلوں کا بدلہ اس سے لیا جائے گا۔۔۔
"تم چپ رہو سکینہ!!!"
انہوں نے نخوت سے کہا تھا۔۔
"کیا ایک لڑکی سے بدلہ لیں گے میرے بیٹے کے قتل کا ؟"
آنکھیں جو پہلے ہی بیٹے کی موت پر رو رو کر سوجی ہوئی تھیں مزید آنسوں بہہ نکلے تھے۔۔۔
"تمہیں یہ حق کسی نے نہیں دیا سکینہ ، تم میری خاندانی بیوی ضرور ہو، مگر حیثیت تمہاری دو ٹکے کی بھی نہیں۔۔
اسلئے بہتر ہو گا اپنے فضول کے خیالات اپنے پاس رکھیں یہ مجھ پر نہ چھاڑیں۔۔۔"
انگلی اٹھا کر وارن کیا تھا اور ٹیبل پر رکھی شال اپنے گرد لپیٹتے باہر نکل گئے۔۔
جب کہ وہ پیچھے بیٹھے ان کی سوچ پر افسوس کرتی رہ گئی تھیں شادی کے ان پچس سالوں میں بھی ان نے آج تک سکینہ کو دل سے قبول نہ کیا تھا۔
چوہدری تیمور کے دو بیٹے تھے ۔۔۔
وقاص اور وقار۔۔۔۔
دونوں بھائیوں کی شادی خاندان میں ہی کر دی گئی وقاص کی شادی ان کی خالہ زاد بیٹی سکینہ سے جبکہ وقار کی میمونہ سے کر دی گئی۔۔۔
وقار اپنی شادی شادہ زندگی میں بے حد خوش تھا جبکہ اس کے بر عکس وقاص نہ خوش۔۔۔۔
کیونکہ وہ سکینہ کو شروع سے ہی نا پسند کرتے تھے اسلئے جیسے ہی ان کو اپنے باپ کی جگہ ملی تھی ، کچھ ہی عرصے میں سکینہ کے سر پر سوتن لا بیٹھائی۔۔۔
دکھ تو انہیں بہت ہوا تھا کیونکہ کون ایسی عورت ہوتی ہے جو شوہر کو بانٹنا چاہے گی؟
پر خیر۔۔۔
جیسا اللّٰہ کو منظور !!! وہ خاموش ہو چکی تھی ، اللہ کی رضا جان کر، کیونکہ کچھ کہنے کا حق اس کا نہ تھا۔۔۔۔
وقاص اپنی دوسری بیوی نورِ سے بہت پیار کرتا تھا اس کی ہر چیز کا خیال کرتا اور ان سب کے دوران اگر غلطی سے سکینہ سامنے بھی آ جاتی تو اس بیچاری کو بے عزت کر دیتا کہ وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتی۔۔۔
اس سب چیزوں سے نور سکینہ کو جتاتی بھی تھی لیکن وہ کچھ نہ بولتی مسکرا کر خاموش ہو جایا کرتی تھی کیونکہ بحث بات کو مزید بڑھا دیتے ہیں ۔۔۔
وقاص نے کبھی سکینہ کی کسی چیز کا خیال نہ رکھا تھا ہمیشہ اس کو بھانج ہونے کا طعنہ دیتا رہتا تھا۔۔۔
کیونکہ نور سے اس کو ایک بیٹا نصیب ہوا تھا جس کا نام انہوں نے احمر رکھا ۔۔۔
لیکن سکینہ سے ابھی تک کوئی اولاد نہ ہوئی ، مگر پھر بھی وہ صبر کر جاتی تھی ، کیونکہ اللہ نے عورت کے خون میں صبر ڈالا ہے ۔۔۔۔
دوسری جانب وقار جن کی شادی سکینہ کی بہن میمونہ سے ہوئی تھی ۔۔
میمونہ اپنی بہن کی حالت دیکھ کر گھٹ سی جاتی تھی وہ کئی بار وقار سے بھی اپنی بے بسی شئیر کرتی تھی لیکن وہ اسے خاموش کروا جاتا تھا یہ کہہ کر کہ" وہ ان دونوں میاں بیوی کا معملہ ہے"...
جب میمونہ کو خدا نے ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا تھا تو اس کو انہوں نے سکینہ کی گود میں رکھا تھا۔۔۔
جسے انہوں نے پیار کر کے ، شہروز کو نام دیا تھا۔۔۔
اپنے ماں باپ سے زیادہ شہروز کا ذیادہ وقت سکینہ کے ساتھ گزرتا تھا۔۔
وہ اسے دل و جان سے اپنا بیٹا مانتی تھیں۔
اسے کے ساتھ ہنسنا ، کھیلنا ، کھلانا ، پلانا ۔
اس کے ہر کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتی تھیں۔۔
شہروز کے ساتھ سکینہ کا پیار دیکھ شائد اللہ بھی خوش ہوا تھا اور سکینہ کو اسکے صبر کا پھل دیا تھا۔۔۔
یقیناً صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے اور واقعی اس کے صبر کا پھل خدا نے اسے ارتضیٰ کی صورت میں دیا تھا۔
ہری آنکھوں والا شہزادہ اپنے باپ کے بے حد قریب اور حویلی بھر کی جان تھا۔۔
اور وہی جان جوانی میں ہی اللّٰہ کو پیاری ہو گئی۔۔۔
شائد خدا نہیں چاہتا تھا کہ وہ، اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلے ۔۔۔
تبھی اس جان کو واپس اپنے پاس بلا لیا تھا۔۔
®®®
اسلام آباد کے شہر میں واقع خوبصورت بلڈنگ جو کہ باہر سے کانچ جبکہ اندر سے پوری طرح سے وائٹ ماربل پر بنی ہوئی تھی۔
بلڈنگ کے پارکنگ میں کھڑی قطار نما گاڑیاں وہاں کی حیثیت کا پتہ دیتی تھیں۔
بلڈنگ کے ٹاپ پر لگا ہارڈ بارڈ کسی چینل کی بلڈنگ کا پتہ دے رہے تھے۔۔
"مسٹر احمد ۔۔
ہماری پرانی ریپوٹر غائب ہیں۔۔
ان کا ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہے !!!
واٹس ربش ؟؟
اس ریپوٹر کو ڈیل کرنے کی ذمہ داری آپ کی تھی۔۔۔
پھر یہ سب کیسے ہوا ؟؟"
فاتح بھاری بوٹوں کی آواز کے ساتھ چلتا آ رہا تھا جبکہ اس کے پیچھے تیز رفتار سے اس کا سیکٹری بھی اس کی پیروی کر رہا تھا۔۔
"سر۔۔۔
اس ریپوٹر کا۔۔۔"
"اسٹاپ مسٹر احمد۔۔
مجھے کچھ نہیں پتہ بس !!
بس اس ویک میں ایک نیو ریپوٹر اسٹرانگ ڈگری کے ساتھ میرے آفس میں ہونی چاہیے۔۔"
کوٹ اتار کر راکنگ چئیر پر لٹکایا تھا اور خود بھی وہ اسی چئیر ہر بیٹھ گیا تھا۔۔
"جی سر میں کوشش کروں گا۔۔۔"
"احمد میں نے کوشش نہیں کہا!!
میں نے ہنڈریڈ پرسنڈ کا ہے۔۔۔"
اپنی بات کہے وہ لیپ ٹاپ میں مصروف ہو چکا تھا۔
©©©
چررر۔۔۔۔۔
وائٹ کرولا گاڑی ایک نائٹ کلب کے سامنے رکی تھی جس میں بیٹھا تھا احمر چوہدری اور اسکی گرل فرینڈ۔۔۔۔
"احمر سریسلی !
پھر سے؟؟؟
میں بور ہو چکی ہوں اس کلب کے چکر لگا لگا کر۔۔۔
تم ہمیشہ گھوما پھرا کر مجھے یہیں لے آتے ہو۔.."
وہ منہ بسورے وہیں گاڑی میں بیٹھی تھی۔۔۔
"ہاہاہاہا ڈارلنگ۔۔
ڈونٹ سیڈ۔۔
نیکسٹ ٹائم پکا کوئی اچھا ریسورٹ بک کروائیں گے۔۔
بٹ تمہاری برتھ ڈے پر ، بٹ ابھی چلو اندر۔۔"
اسکے ہاتھوں کو تھامے وہ اندر بڑھ چکا تھا جبکہ وہ منہ کے زوایے بناتی اسکی پیروری کر گئی۔۔۔
دل تو ہی بتا کہاں تھا چھپا؟
کیوں آج سنی میری دھڑکن پہلی بار۔۔۔
کلب میں چلتا تیز میوزک ، جگمگاتی وہ روشن ایکٹرک سائیٹس
ماحول کو بہت رومانوی بنا رہے تھے ۔
کہ "یہی وجہ تھی وہاں موجود لوگ آس پاس کی پرواہ کیے ایک دوسرے میں مگن تھے۔۔۔
عروہ کی باتوں کی بنا پرواہ کیے اسکو ڈانس فلور پر لے گیا تھا جہاں انہیں کی مانند جوڑے اپنی اداکاری دکھا رہے تھے۔۔
دنیا جھوٹی لگتی
سپنا سچا لگتا ہے
چھپ کے تیری بانہوں میں
سب کچھ اچھا لگتا ہے۔۔۔
"دیکھو کتنا مزا آتا ہے ڈانس کرنے میں۔۔
تم خواہ مخواہ میں گھبراتی ہو۔۔"
کونے پر رکھی ٹیںل پر بیٹھے تھے وہ۔۔۔
"احمر آج نہیں۔۔۔"
اسکو لگاتار ڈرنک کرتے دیکھ اس نے وارن کیا تھا۔۔
"او!! ۔۔ عروہ ڈارل۔۔جسٹ لیٹل بیٹ۔۔۔"
"افف احمر میں کیا کروں تمہارا؟؟؟"
ڈرنک کرتے کرتے اب وہ مکمل اپنے ہوش کھونے کے قریب تھا کہ ،عروہ زبردستی اس کو لے کر نکلی تھی۔
"آئندہ میرے باپ کی توبہ،جو تمہارے ساتھ کہیں گئی ،"
فلیٹ میں لا کر بیڈ پر پٹخا تھا اسے۔۔
خود اپنی کمر کو پکڑ کے دہائی دی تھی جو اس سانڈ نما شخص کو اٹھانے کے باعث دکھ رہی تھی۔۔۔
اس کی یہی حرکات سے قسمت اسکو اشارے دے رہی تھی کہ پلٹ جاؤ واپس۔۔۔۔
لیکن کہتے ہیں ناں ،کہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو دماغ سے پہلے ہی انجام معلوم کر لیتے ہیں اور نقصان سے بچ جاتے ہیں۔۔
لیکن افسوس یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں!!!!
ایسا ہی کچھ عروہ کی قسمت میں بھی ہونا تھا لیکن کیا؟
سحر کی آنکھ صبح درد کے احساس سے کھلی تھی۔۔
"آہہ۔۔"
اس نے جیسے ہی کروٹ بدلنی چاہی تھی جسم میں چیونٹیاں سی دوڑ گئی۔۔۔
روشن دان سے باہر کا منظر دیکھا جہاں صبح کی روشنی پھیلنے کے قریب تھی لیکن اس کی زندگی کی روشنی کہیں گم ہو گئی تھی ان اندھیروں میں۔۔۔
"لڑکی اٹھ گئی تم ؟ چلو باہر حویلی والوں کے لئے ناشتہ بنانا ہے تم نے۔۔"
رجو داخل ہوئی تھی اس باڑے میں اور جاگتی ہوئی سحر کو دیکھ کر بولی۔۔
"آ۔۔۔آپا م۔۔میری ہمت نہیں ہو رہی۔۔"
ٹوٹے ہوئے الفاظوں میں کہا تھا سحر نے لیکن اس معصوم کے ان الفاظوں سے بھی زرہ ترس نہ آیا تھا اس مالکن کی غلام کو۔۔۔
"او بہن ! نکھرے کہیں اور دکھانا جا کر ہم خود بیگم صاحبہ کی باتوں کے محتاج ہیں۔۔"
کہنے کے ساتھ باہر صحن میں لائی تھی اسے۔۔۔
"چلو اب منہ ہاتھ دھو لو یہاں سے پھر وہ سامنے باورچی خانہ ہے وہاں جا کر پورے حویلی والوں کے لئے ناشتہ اور دوپہر کا کھانا تیار کرو گی۔۔"
ٹھنڈا یخ پانی اس کے زخموں پر لگ کر اس ٹھرٹھرا دینی والی سردی میں مزید اذیت کا باعث بن رہا تھا۔۔
©©©©
"ارے واہہہہہہہہہہ۔۔
عروہ ناشتہ بنا رہی ہے؟؟
میں کہیں سپنہ تو نہیں دیکھ رہا؟"
کیچن میں کھڑی عروہ کو دیکھتے وہ شراتاً گویا ہوا۔۔
"جی نہیں ! جناب عالی یہ سپنہ نہیں حقیقت ہے۔۔"
چائے کو کپوں میں انڈیلا تھا اس نے اور اٹھا کر ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔
اور خود بھی ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی...
"احمر ، تم کہاں جا رہے ہو "؟؟
بنا ناشتہ کیے ۔۔" بنا اسکو جاتے دیکھ وہ حیرانی سے بولی تھی ....
ڈارلنگ گاؤں جانا ہے ، بابا کی کال آئی تھی۔۔۔۔
"اسکے گال پر پیار کیے بنا اسکی سنے وہ جا چکا تھا جب وہ بے دلی سے بیٹھے ناشتہ کرنے لگی۔۔
®®®
سحر تکلیف میں بھی کیچن میں موجود روٹیاں بنا رہی تھی۔۔
ابھی وہ ناشتہ بنا کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ بیگم صاحبہ کا پیغام آیا ، " دوپہر کا کھانا بھی بنا لے "...
کل پورے دن اور رات کی بھوکی تھی وہ ..
کچھ نہ کھایا تھا نہ پیا۔۔۔
کھالی پیٹ ان ظالموں نے اسے کام پر لگایا تھا خود تو ، اسی کے ہاتھوں کا بنا کھانا کھا کر سیر ہو گئے تھے ، لیکن اس زندہ جان کی بھوک کی پرواہ نہ تھی ۔۔
جسم اسکا درد سے ٹوٹ رہا تھا ، ہمت کم پڑ رہی تھی لیکن پھر بھی وہ وہاں کھڑی روٹیاں بنانے کی کوشش میں تھی۔
" کیا ہوا ، ونی ہمت کم پڑ رہی ہے "۔۔؟؟
فریج سے پانی نکالتے احمر نے ، چولہے کے سامنے کھڑی سحر کو دیکھ طنزیہ کہا ....
کتنی عجیب بات تھی ، شوہر ہو کر وہ اسے ونی کہہ کر پکار رہا تھا۔۔۔
سحر نے اسے جواب دینا گوارا نہ کیا تھا"
وہ اپنے کام میں مصروف رہی تھی ۔۔
"ویسے بہت غلط بات ہے۔۔۔۔
ابھی سے ہمت جواب دے گئی تمہاری ، ابھی تو بہت اذیت سہنی ہے تم نے ۔۔۔"
ٹائل کے ساتھ ٹیک لگائے بہت معویت سے دیکھ رہا تھا اس کے وجود کو .
جس کی آنکھیں سوجی ، چہرے اور جسم پر چوٹ کے نشان تھے ۔۔
بھوک اور پیاس کی شدت اس کے چہرے پر عیاں ہو رہی تھی لیکن وہ ضبط کیے کھڑی تھی۔۔۔
"کتنے خوبصورت ہاتھ ہیں تمہارے ، مگر افسوس انہیں سراہنے والا کوئی نہیں۔۔!!!!"
روٹی بیلتی سحر کے کے ہاتھ کو تھاما تھا ..
"چ۔۔۔چھوڑ۔۔۔چھوڑیں ۔۔م۔۔میرا ہاتھ۔۔۔۔"
اس کے مضبوط ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔
"کیوں چھوڑ دوں ؟؟"
سحر کے ہاتھ پر مزید دباؤ بڑھائے بولا ، کہ اسکی سسکی نکلی تھی۔۔
ربا تیری خدائی ! ہائے یاد ہے آئی
دل یہ دیتا دوہائی ہم سے دے تو رہائی
"م۔۔مجھے ر۔۔۔روٹی بنانی ہے۔۔۔"
ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی وہ اٹک اٹک کر بولی تھی ...
"اووووووووووو۔۔۔۔"
کچھ سوچتے اس کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں آنسوں بہنے کو بے تاب تھے ۔۔۔
کچھ سمجھنے کا موقع دیے بنا اسکا ہاتھ اس تیز جلتے توے پر رکھا تھا۔۔
پوری حویلی میں تقریباً سحر کی چیخیں گونج رہی تھیں۔۔
ملازمین بھاگ کر وہاں آئے ، کمرے میں بیٹھی سکینہ بیگم بھی کسی لڑکی کی چیخ پر وہاں آئی تھیں ۔۔۔
لیکن وہاں کا منظر دیکھ ان کا پیسچ گیا تھا
جہاں احمر سحر کا ہاتھ ابھی بھی چولہے پر رکھے سفاکیت دکھانے میں مصروف تھا
اسکی چیخیں ، آنسوں کسی کی چیز کی پرواہ نہ تھی۔۔۔
بلکہ الٹا اس کے چہرے پر مسکان تھی۔۔۔
اسکو درد میں دیکھ۔۔۔۔
پہلے ہی وہ درد سے دوہری ہو رہی تھی اس پر مزید اس سنگدل کا ہاتھ جلانا اسکے حواس سلب کر گیا تھا۔۔۔
"ا۔۔احمر چھوڑو اسے۔۔۔۔
پاگل ہو گئے ہو؟؟؟"
اسکے ہاتھوں سے سحر کا ہاتھ نکلوایا تھا جو کہ جلنے پر باعث لال سرخ ہو رہا چمڑی ڈھیلی ہونے کے قریب تھی۔۔
حال کیسے سناواں؟
روگ کیسے نبھاواں؟
ربا قسمت میں رونا کیوں لکھا؟؟
جان بخشی پر وہ پیچھے ہی ڈھے گئی تھی اپنے ہاتھ کو تھام کر۔۔۔
آنسوں تواتر اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے تکلیف کی شدت اتنی تھی کہ چہرا بھی لال اناری ہو رہا تھا۔۔۔
زندگی اس موڑ پر لا بیٹھائے گی اسے کبھی گمان نہ کیا تھا اس نے ۔۔
"بڑی ماں ، آپ اس ونی کی طرف داری کر رہی ہیں ..
جس کے بھائی نے قتل کیا ہے ٫ آپ کے بیٹے کا ؟؟"
سکینہ کا سحر کے لئے اسکو ڈانٹنا کافی ناگوار گزرا ..
"احمر کون سی دنیا میں جی رہے ہو بیٹا ؟؟
قتل اس بچی نے نہیں ،، اسکے بھائی نے کیا ہے ۔۔؟
پھر اس معصوم کو کیوں سزا دے رہے ہو؟"
احمر کی سفاکیت سن کو زرہ نہ بھائی تھی "م
تبھی اسے سمجھاتے اپنا لہجہ نارمل کیے بولی تھیں۔۔
آگے بڑھ اسکے ہاتھوں پر برنول لگانی چاہیے جو کہ احمر چھین گیا تھا۔۔۔
"بڑی ماں آپ کا کچھ نہیں کہہ سکتا مگر میں اس لڑکی کو خوشیاں تو نصیب نہیں ہونے دوں گا۔۔۔"
"احمر یہ کیا بدتمیزی ، برنول واپس کرو۔۔"
"نہیں بڑی ماں۔۔۔
سسکنے دیں اس کو۔۔۔
تڑپنے دیں۔۔
اس کو بھی تو پتہ چلے کہ اپنوں کو کھونا ان کو اذیت میں دیکھنا کیا ہوتا ہے؟؟"
احمر کی آنکھیں غصے کے باعث خون جھلکا رہی تھیں۔۔۔
اس کا بس چلتا تو لمحوں میں ہی سحر کی سانسیں چھین لیتا اسکے پورے خاندان والوں کی جان لے لیتا ۔۔۔۔
"بیٹا اس بچی کو تو بخش دو ، معاف کر دو بھائی کی ہی خاطر۔۔۔۔"
سکینہ بیگم نے سمجھانا چاہا تھا۔۔
"اگر معاف ہی کرنا ہوتا تو ونی کیوں لاتے؟؟"
ایک نظر حقارت سے اس کے کونے میں سسکتے وجود پر ڈالی تھی۔۔۔
اور باہر قدم بڑھا لیے۔۔۔
جب کہ دروازے کے پاس کھڑی نورِ بیگم نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کو دیکھا جیسا واقعی بہت بڑا کارنامہ کیا ہے اس نے۔۔۔
®®®
"وقار ! آپ کی شہیر سے باتی ہوئی؟"
میمونہ بیگم نے اپنے شوہر وقار سے پوچھا تھا
"نہیں ہوئی تھی ، " ۔۔۔۔۔
"اچھا !! کیا کہہ رہا تھا؟؟
کب واپس آئے گا؟؟؟"
انہوں نے بے تابی سے پوچھا۔۔۔
"مہینہ لگ جائے گا "...
کیونکہ اپنے دوست کے ساتھ شہر میں کوئی نیا کاروبار "
شروع کیا ہے اس نے۔۔۔"
"ہہمم خدا کامیابی دے اسے ..
کافی عرصہ ہو گیا اسے کو دیکھے"....
وہ اداسی سے بولی تھیں ....
"پریشان نہ ہو میمونہ ...
وہ جلد ہی واپس آ جائے گا "....؟
اپنے بازوں کے حلقے میں لیتا پیار سے سمجھایا تھا اپنی شریکِ حیات کو ۔۔۔
انہوں نے بھی سمجھنے کے انداز میں سر ہلایا تھا۔۔۔
چھ مہینے ہونے کو آئے تھے شہیر کو گئے ....
شہر میں حاصل تو وہ تعلیم کرنے گیا تھا..
مگر وہاں کی رونقیں دیکھ اسکا واپس آنے کا دل نہ کیا تھا۔۔۔۔
بلکہ وہیں اپنے دوست کے ساتھ ایک بزنس شروع کیا تھا .....
اب دیکھا یہ تھا !!!
کیا شہیر بھی ثابت ہو گا٫٫
احمر اور چوہدری وقاص کی مانند ۔۔۔۔
یا بدلوائے گی اس کی سوچ یہاں کا ماحول؟؟
®®®
"رجو۔۔۔
روٹیاں بناؤ تم "...
سکینہ بیگم نے رجو کو روٹیاں بنانے کا کہا تھا ، اور خود تھوڑا سا آٹا لیے اسکے ہاتھوں کے گرد لپیٹا تھا۔۔۔
کیونکہ برنول تو وہ لے جا چکا تھا ، اب صرف یہی ایک طریقہ تھا جس سے جلن کو روکا جا سکتا تھا۔۔۔
"پانی پیو گڑیا۔۔۔"
ہچکیوں کی صورت میں روتی سحر کے سر پر پیار کیا تھا ان نے ...
"ن۔۔نہیں۔۔"
اسی پوزیشن میں بیٹھے ، نفی میں سر ہلایا۔۔
اس کو تکلیف میں یوں روتا دیکھ آرام سے کھڑا کیا تھا اور اپنے کمرے میں لے گئی تھیں وہاں سے ایک سوٹ نکال کر دیا اور زبردستی کہہ کر بدلوایا۔
کیونکہ اس کے سابقہ سوٹ کی حالت کافی خستہ ہوچکی تھی ...
یہ لو چندہ کھانا کھاؤ ۔۔۔"
وہ جانتی تھی اس نے کھانا نہیں کھایا کیونکہ اسکی حالت بتا رہی تھی ۔۔
ان کی بات سن ، سحر کی آنکھوں میں آنسوں بہنے لگے تھے ..
آنسوں کو بنا صاف کیے بمشکل الٹے ہاتھ سے چمچ تھام کر چاولوں کا لقمہ لینا چاہا ، جسے بیچ میں ہی سکینہ نے تھام ، اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا۔۔
"الٹے ہاتھ سے کھانا کھانا بری بات ہوتی ہے بیٹا....
دراصل ! غلطی میری تھی ، یہ جانتے ہوئے کہ تمہارا ہاتھ زخمی ہے
تمہیں کھانے کا کہہ دیا ۔۔۔۔۔"
"ب۔۔۔بس آنٹی۔۔۔۔"
تین چار لقمے کھانے کے بعد اس نے کہا ، درد مزید بڑھتا جا رہا تھا ...
تکلیف اتنی تھی کہ دماغ بھی ٹیسیں مارنا شروع ہو چکا تھا ....
"یہ لو دوائی لو ، اس سے تکلیف میں کمی بھی آئے گی
اور نیند بھی۔۔"
مسکراتے ہوئے دوائی اس کی جانب بڑھائی تھی جسے خاموشی سے کھا لیا تھا اس نے۔۔۔
کیونکہ یہ بات وہ خود بھی جانتی تھی اس چیز کی اس کو اشد ضرورت ہے۔۔۔۔
"آ۔۔آنٹی آپ اتنا ترس کی۔۔کیوں کھا رہی ہیں مجھ پر ؟
کیا سب کی طرح آپ مجھ سے اپنے بیٹے کے قتل کا بدلہ نہیں لیں گی۔۔۔"
سکینہ بیگم کی اتنی چاہت اور رحمدلی پر اس نے حیرانی سے پوچھا تھا
پوری حویلی میں وہ واحد شخصیت تھی جس نے اس سے پیار سے بات کی .....
اسکی مجبوری کا فائدہ نہ اٹھایا ۔۔۔۔
یا ایک بار بھی ونی کہہ کر اس کی عزت کا پامال نہ کیا۔۔۔۔۔
سحر کی بات سن کر وہ تلخ سا ہنسی تھیں ..
"چندہ بیٹا کھونے کا دکھ تو مجھے ہے ...
پر اس چیز کا بدلہ میں کسی بے گناہ سے کیوں لوں۔۔۔
میں سوچتی ہوں خدا کی چیز تھی وہ ، اس نے دی اس نے لی اس کا نام مبارک ہو ..
ہم بشر کون ہوتے ہیں؟؟
اس خالق کے معملات میں بولنے والے ..
اگر سچ پوچھو تو کہنے کو میں نے اپنا خون ، اپنا اکلوتا بیٹا ، اپنے جگر کا ٹکڑا کھویا ہے۔۔۔
مگر سوچتی ہوں اچھا ہوا ، وہ خدا کے پاس واپس چلا گیا
کم از کم ! اپنے باپ اور بھائی کی مانند سفاک دل ہونے سے تو بچ گیا۔۔۔"
"کتنی اچھی سوچ ہے آپکی
کاش یہاں گاؤں کے ہر اراکین کی سوچ آپ کی مانند ہوتی ...
تو "ونی " ، "خون بہا " جیسی رسمیں موجود نہ ہوتیں۔۔۔
کسی معصوم کی زندگی برباد نہ ہوتی۔۔۔
کسی کے خوابوں کا آشیانہ جل کر راکھ نہ ہوتا ۔۔۔۔۔"
گلے میں بندھے آنسوں ، جس کے باعث اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی۔۔۔
وہ حسرت سے بولی تھی۔۔۔
"یہ سب ہمارے بس میں نہیں
اللہ ہی ہدایت دے سکتا ہے ان کو ....."
اس کو ساتھ لیے احمر کے کمرے آئی تھیں۔۔۔
"اس حویلی میں تم احمر سے نکاح کروا کر لائی گئی ہو۔۔"
بس انہوں نے بہو کی جگہ ونی کا لفظ لگا دیا۔۔۔۔
وہ افسوس سے بولی تھیں۔۔۔
"آج سے تم اس روم میں رہو گی۔۔
یہاں رہنا حق ہے تمہارا ...
کوشش کروں گی اس حویلی میں تمہیں تمہارا رتبہ دلوا کر رہوں۔۔۔۔
اب تم آرام کرو یہاں ۔۔۔۔۔"
سر کو پیار سے سہلاتے کہا تھا ان نے
کچھ دوائی کا اثر اور کچھ پیار کا وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گئی ۔۔۔
اسکو سوتا دیکھ سکینہ بیگم بھی لائیٹس اوف کیے جا چکی تھیں۔۔۔
®®®®
دامنِ کوہ ۔۔۔۔۔
اسلام آباد کی مشہور کی جگہ۔۔۔۔
ہلکی ہلکی برستی بوندا باندی میں وہاں موجود کالج کی لڑکیاں کافی انجوائے کر رہی تھی۔۔
کوئی اپنی سیلفیاں لینے میں مصروف تھا اور کوئی وہاں موجود مقامات کی ....
دراصل۔۔۔دامن کوہ (Daman-e-Koh) سلسلہ کوہ مارگلہ کے وسط میں واقع اسلام آباد کو دیکھنے کے لیے ایک نقطہ ہے۔
یہ سطح سمندر سے تقریبا 2400 فٹ اور اسلام آباد شہر سے تقریبا 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ دارالحکومت کے رہائشیوں کے ساتھ ساتھ زائرین کے لیے ایک مقبول تفریحی مقام ہے
چھٹی کے دن موسم سہانا ہوتو اسلام آباد کے علاوہ دیگر علاقوں کے شہری بھی موسم کی اٹھکیلیاں دیکھنے دامن کوہ چلے آتے ہیں۔ شہرکا سارا حسن یہاں آنے والوں کے قدموں میں سمٹ آتا ہے۔
ٹھنڈی نشیلی ہوا کے ساتھ رقص کرتے رنگ برنگے پھول یہاں آنے والے سیاحوں کا استقبال کررہے ہیں۔
جادو وہ جو سرچڑھ کربولے اور حسن وہ جس کی تعریف کیے بنا رہا نہ جائے۔
دلفریب موسم میں جہاں بچوں نے جہاں پانی کے بلبلے اڑائے وہیں منچلوں نے حسین نظاروں کو سیلفی میں قید کرلیا۔
بارش کے خوبصورت موسم میب برستی بوندا باندی نے تو پورے شہر کو دھو کر صاف شفاف کر دیا ہے لیکن دھلے دھلے موسم کا جو نظارہ دامن کوہ سے ہوتا ہے وہ کہیں اور سے ممکن نہیں۔۔۔۔۔
"پشمینہ کتنی خوبصورت جگہ ہے "..!!!
"ہمم 'خوبصورت تو ہے مگر کشمیر سے ذیادہ نہیں.....
اپنے کشمیر کی تو بات ہی الگ ہے".....
پشمینہ کی بات سے مشل نے بھی اتفاق کیا تھا۔۔۔
"..یار !! تم رکو میں بس میں اپنا لنچ بیگ بھول آئی ..
"لے کر آتی ہوں
یہیں رہنا۔۔۔"
کہتے وہ ادھر ادھر کی پرواہ کیے بنا اپنی دھن مین بھاگتے جا رہی تھی ۔۔۔
کہ : سامنے سے آتے فاتح سے ٹکرائی تھی ...
"آوچ۔۔۔!!۔"
ہاتھ میں موجود اسکا فون زمین بوس ہوا تھا.....
""مسٹر بلائیند
'دیکھ کر نہیں چل سکتے ،
جب نظر آ رہا ہے کہ ایک خوبصورت لڑکی آ رہی ہے ...
تو بندا سائڈ ہو جاتا ہے.....
مگر نہیں ہمارے معاشرے کے لڑکوں کو بس بہانا چاہیے ہے لڑکیوں سے ٹکرانے کا....
اوف میں بھی کتنی پاگل ہوں۔۔۔"کس شخص کو سنا رہی ہوں...
جس نے آنکھوں میں موٹے موٹے چشمے پہن رکھے ہیں....
"جب آپ لوگ فیشن کے لئے آنکھوں میں یہ اندھوں والے چشمے لگا کر گھومیں گے تو کچھ خاک دیکھائی دے گا"......
بنا فاتح کو بولنے کا موقع دیے وہ بولتی جا رہی تھی ۔۔
جبکہ فاتح حیرانی سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
جو ایک ہی سانس میں اپنی بات کہہ رہی تھی۔۔۔۔
"ہیلو مسٹر سن رہے ہو!!!"
اسکو یوں ہی مسلسل خود کو تکتا پا کر وہ جھنجھلا کر بولی ..
جبکہ مقابل کچھ سن ہی کہاں رہا تھا ،، وہ تو کھو سا گیا تھا ""...
"ان خوبصورت مناظر میں موجود اس پری پیکر کو دیکھ ......
"پشمینہ!!!!
کہاں رہ گئی ہو تمہاری بہن ڈھونڈ رہی ہے "....
اسکی دوست نے آواز دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
جبکہ وہ اسکو ابھی بھی یوں ہی اسی پوزیشن میں کھڑا مسکراتے دیکھ وہ تپی تھی...
"ڈفر۔۔۔"
جاتے جاتے اسے ڈفر کہنا نہ بھولی تھی...
"ہہم؛!! پشمینہ
نائس نیم...."
اسکا نام لبوں پر یوں بڑبڑائے وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔
رات گئے احمر تھکا ہارا سا جیسے کمرے داخل ہوا تھا،
معمول کے مطابق کمرا پورا اندھیرے میں نہایا ہوا تھا....
ہاتھ بڑھا کر سوئچ اون کیا تھا۔۔۔ کچھ ہی لمحوں میں اندھیروں میں ڈوبا کمرا بلب کی روشنیوں سے جگمگانے لگا تھا..
احمر نے اپنا کوٹ اتار کر صوفے پر پھینکنے کے سے انداز میں رکھا تھا...
اور باتھ روم جانے کے لئے پلٹا ہی تھا کہ اس کے بڑھتے قدم ساکت ہوئے تھے...
رگیں تن سی گئی تھیں ، ماتھوں پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا تھا..
جب اپنے بستر پر ، سکون سی لیٹی سحر پر گئی تھی.....
وہ لمحوں میں فاصلہ طے کرتا اس تک پہنچا تھا ...
اور جھنجھوڑ کر اٹھایا تھا اسے۔۔۔
سحر جو نیند کی دوائی کے زیرِ اثر پر سکون سی لیٹی تھی ،،، یوں جنھبجوڑ کر اٹھائے جانے پر اس نے مندی مندی آنکھیں کھولی تھیں...
لیکن اس کا سانس وہیں اٹک چکا تھا جب خون آشام آنکھوں سے احمر کو خود کی جانب گھورتے پایا تھا.....
"تمہاری ہمت کیسی ہوئی ، میرے روم میں آ کر میرے بستر پر لیٹنے کی".....
کھینچ کر بستر سے اتارا تھا اور اپنے سامنے لا کھڑا کیا تھا اسے...
"میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟؟؟
کس کی اجازت سے تم آئی ہو اس روم میں"...؟؟؟؟
اسکے بازوں کو دبوچے وہ غرانے کے سے انداذ میں بولا تھا جبکہ وہ آنکھیں بھینچے کھڑی تھی...
جسم اسکا درد سے رکھ رہا تھا ....
بے شک دوائی لی تھی مگر زخموں میں درد اب بھی باکی تھی....
"بولو !!! کیا پھر گونگی ہو"...؟؟؟
سحر کے جبڑوں کو غصے کی شدت سے دبوچا تھا"..
کہ اس کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا تھا۔۔۔۔
"آپ۔۔۔آپ کی ما۔۔ماما نے ک۔۔کہا کہ م۔۔میں ی۔۔یہاں رہوں گی"..
چہرا اس کی آہنی گرفت میں ہونے کے باوجود وہ بمشکل اٹک اٹک کر بولی تھی۔
"پر کس خوشی میں؟؟؟"
بھنونے اچکائے وہ بے زاری سے بولا...
"ک۔۔۔۔کیونکہ۔آ۔۔۔آپ کے نکاح میں ہوں میں".....
بہتے اشک سمیت اس نے رکتی دھڑکنوں کے ساتھ کہا تھا۔
نجانے وہ اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟؟؟
اتنا تو وہ جان چکی تھی ، کہ رحم لفظ احمر کی لغت میں موجود نہیں".....
"ہاہاہاہاہاہا!!!!
ماں نے ایسا کہا"...؟؟؟؟
اسکا چھت پھاڑ قہقہہ گونجا تھا..
سحر کی نظریں جھک گئی تھیں اسکی ہنسی پر....
"تم نے اپنا آپ دیکھا ہے ، شیشے میں؟؟
مطلب "ونی " آئی لڑکی میری بیوی کی حیثیت سے یہاں رہے گی؟؟
جوک اوف دا ڈے"
کیا نہ تھا اس کے لہجے میں...
حقارت , توہین ، بے عزتی۔۔۔۔
"تمہاری اوقات نہیں ، میری بیوی کہلانے کی..
جانتی ہو , اپنی حیثیت؟؟؟"
کہنے کے ساتھ اسکے جلے ہوئے ہاتھ کو ہاتھ سے کھینچے زور دیا تھا.
کہ بے ساختہ اس کے لبوں سے سسکی برآمد ہوئی تھی...
بنا اسکے درد ، آہوں کی پرواہ کیے کھینچتے ہوئے ، تہہ خانے میں لایا تھا.
جہاں کافی عرصے سے کوئی نہ گیا تھا
اس چیز کا پتہ وہاں لگے جالے دے رہے تھے۔۔
جہاں مکڑیوں نے وہاں اپنے جالے بنائے ہوئے تھے۔۔۔
"تمہاری اوقات یہاں رہنے کی ہے۔۔۔"
لا کر پٹخا تھا اسے اس سخت زمین پر کہ وہ اوندھے منہ زمین پر گری تھی....
"م۔۔میری غلطی کیا؟؟؟
میں نے تو نہیں کیا قتل....
کیوں میری زندگی کے پیچھے پڑ گئے ہیں"....؟؟
درد کی انتہاہ کو پہنچتی وہ اذیت سے چور روتے ہوئے بولی..
اسکی بات سن ' احمر کی آنکھوں میں غصہ جھلکا تھا...
کہ وہ لڑکی کس طرح ' اس سے زبان درازی کر رہی ہے...
لیکن وہ تو ٹھیک تھی اپنی جگہ۔۔۔
اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کی وجہ معلوم کر رہی تھی...
اسکے بکھرے بالوں کو کھینچے ، بنا سوچے سمجھے غصے سے دیوار سے لگایا تھا...
سر میں ایک ٹیس کی لہر دوڑی تھی..
اسکا سر چکرا سا گیا تھا".....
"آئندہ زبان نہ چلانا ، خاص کر میرے ساتھ"...
انگلی اٹھائے اسے وارن کیے وہ وہاں سے دروازا لاک کیے جا چکا تھا...
جبکہ وہ وہیں بیٹھی پوری رات سسکتی رہی تھی ،،
تکلیف اذیت درد نے سونے نہ دیا تھا اسے.....
لمحوں میں اجڑے گی میری دنیا
لمحے بیچارے کہاں جانتے تھے
ارمان بھی میرے دیتے ہیں یہ دہائی
اب تو میرے خدا عرض ہے سن لے
®®®®
تو مولا رنگ دے رنگ دے
یہ کھالی دامن بھر دے
چھپالے آنسوں جو میرے تو وہ بارش کر دے۔۔۔
"مت مارو , مجھے"....
پلیز ، رحم کرو".......
پورے کمرے میں اس لڑکی کی وحشت ناک چیخیں گونج رہی تھیں۔۔۔
وہ منتیں کر رہی تھی ان جلادوں سے ، رحم کی بھیک مانگ رہی تھی ، کہ نہ ماریں اسے....
گھپ اندھیرا ہونے کے باعث وہ لڑکی کا چہرا نہیں دیکھ پا رہا تھا..
البتہ اسکی آہیں ، سسکیاں ، شہیر کے کانوں میں گونج رہی تھیں،،
وہ بیچین سا ہوا تھا، ۔
آواز کی سمت جیسے ہی قدم بڑھائے تھے اس نے ،
کسی اندیھکے وجود نے تھام لیا تھا اسے....
وہ بڑھنا چاہتا تھا وہاں ، اس لڑکی کے پاس جانا چاہتا تھا...
مگر ، مجبور تھا.....
آہہہ۔۔۔۔۔
گھبراہٹ کے مارے ، نیند سے بیدار ہوا تھا...
ایک نظر سامنے وال کلاک پر ڈالی جو رات کے تین بجا رہی...
پھر کھڑکی سے باہر برستی بارش کو دیکھا ،،،
جو اپنا زور پکڑے ہوئے تھی...
پھر قدم بڑھاتے ہوئے کھڑکی کے سامنے آیا تھا جہاں سے ہوا کے تیز جھونکے کے ساتھ پانی کی کچھ بوندیں اس کے چہرے پر آئی تھیں...
ایک گہرا سانس بھرا تھا اس نے...
کون تھی وہ لڑکی..؟
جس کی آہیں ، چیخیں یہاں موجود شہیر کو بیچیں کر گئے تھے...
یہ سپنا اسکو عجیب کیفیت میں مبتلہ کر گیا ...
شہیر کو ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے اس کا کوئی اپنا بہت اذیت میں ہے..
کیا شہیر جان پائے گا کون ہے وہ لڑکی؟؟؟
®®®®®
"احمر تمہاری بیوی کہاں ہے"؟؟
سکینہ بیگم سحر کو دیکھنے کمرے میں آئیں تھی ٫ لیکن اسے وہاں نہ پا کر اسٹڈی میں بیٹھے احمر سے پوچھا تھا۔۔
"کون سی بیوی "؟؟
وہ انجان بنتے ہوئے بولا تھا۔۔۔
"احمر میں مزاق نہیں کر رہی ".۔۔
"میں بھی سیریس ہوں ، جہاں تک مجھے یاد ہے ، میری تو ابھی تک شادی نہیں ہوں"...
وہ ہنوز اہنے کام میں مصروف رہا تھا ....
"کہیں آپ ، اس ونی کی بات تو نہیں کر رہیں...
جو میرے بھائی اور آپ کے بیٹے کے قتل کے عوض لائی گئی ہے"..
ان کو خود کو گھورتا پا کر وہ نارمل انداز میں بولا تھا...
"بیٹا ، بیوی ہے وہ ، چاہے نکاح جن حالات میں ہوا ہو ،،۔۔
لیکن تم نے ، خدا کو حاضر ناظر جان کر اسکو اپنے نکاح میں لیا ہے ..
پھر کیوں ، ان پست سوچوں کی نظر کر رہے ہو ، اس رشتے کو...
کچھ تو پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دو"....
"بڑی ماں..
گستاخی معاف ؛ مگر میں ایک ونی کو اپنی بیوی قبول نہیں کروں گا"...
"ویسے تو ہم اس لائق نہیں ، " اسلئے اللہ نے بیٹی جیسی رحمت سے نہیں نوازا..
لیکن پھر بھی "...
"بیٹا : سوچو "اگر ہمارے خاندان سے کوئی لڑکی ونی کر دی جائے "..؟؟
"ماں ہم نے کسی کے باپ ، بھائی یا بیٹے کا قتل نہیں کیا ...
اور زبان کاٹ ڈالوں گا اسکی جس نے ہماری عزت کو ونی کہنے کا بولنا تو دور سوچا بھی "...
"بیٹا یہ قتل ہی ہے... جو تم سب کر رہے ہو
قتل ہے انسانیت کا قتل۔....
اور رہی بات زبان کاٹنے کی تو سب سے پہلے اپنی زبان کاٹو.
جو اپنی ہی بیوی کو ونی کہہ, کہہ کر پکار رہے ہو بار بار"
اپنی بات سے وہ احمر کو چپ لگا گئی تھیں..
"دیکھو بیٹا..
میں نے تمہیں ہمیشہ ارتضیٰ کی طرح پیار کیا ہے
بے شک ! تمہاری سگی ماں، نورے ہے ،،
مگر میں نے بھی ماں کی مانند ہی پیار کیا ہے تمہیں..
اگر تم مجھے اپنی زندگی میں ، ایک ماں کا درجہ دیتے ہو ...
تو اس بچی کو بیوی کی حیثیت سے قبول کر لو۔۔۔
وہی عزت دو ،، ..
جو ایک بیوی کو ملنی چاہیے"...
ایک آس سے کہے وہ جا چکی تھیں،،.
کہ احمر ان کی بات مان لے گا...
لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھیں اپنی ان باتوں سے وہ سحر کے لئے مشکلیں کھڑی کر گئی ہیں..
انہوں نے بے شک اس کی اصلاح کی تھی ..
لیکن دوسری جانب وہ اپنی ماں نورے سے بھی تربیت حاصل کرتا تھا...
جو کہ اس کو مزید بھڑکاتی تھیں۔
ان کے جانے کے بعد چہرے پر غصہ اور مکرو بھری مسکان آئی تھی.
"دیکھنا سحر ..
تمہاری زندگی کو جہنم نہ بنا دیا تو میرا نام احمر چوہدری نہیں۔۔"
®®®®
"کیا ہوا ۔۔شہیر تو اتنا اداس کیوں ہے"؟؟
فاتح نے گم سم سے شہیر کو دیکھتے کہا ، جس کے سامنے رکھی کافی ٹھنڈی یخ ہو چکی تھی..
لیکن , وہ خیالوں کی دنیا سے لوٹا نہ تھا...
"کچھ ،نہیں فاتح بس عجیب سے گھبراہٹ سی ہے ،، پتہ نہیں کیوں؟؟
دل میں ایک بے چینی سی ہے....
کل رات میں نے ایک سپنا دیکھا ....
جس میں ایک لڑکی رو رہی تھی ، چیخ رہی تھی کسی ویرانے میں...
اور اس لڑکی کی وہی چیخیں ...
مجھے بھی بے چین کیے ہوئے تھیں۔۔۔
رات سے وہی سپنا ، سر پر سوار ہے میرے"....
بہت بے چینی کی سی کیفیت میں بولا تھا جسے فاتح نے بھی محسوس کیا تھا...
"کم ان شہیر جسٹ ریلیکس!!
کام کا برڈن زیادہ ہونے کی وجہ سے تمہاری نیند پوری نہیں ہو لا رہی...
اسلئے تمہیں برے خواب آ رہے ہیں...
اور جیسا تم سوچ رہے ہو
ایسا کچھ بھی نہیں....
ان سپنوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا"...
اس کو پر سکون کرنے کے لئے کہا تھا فاتح نے....
"فاتح !!
یہ سپنا بہت عجیب نہیں...
جس میں اس لڑکی کے لئے کچھ الگ سا محسوس کر رہا ہوں...
مطلب مجھے اسکا درد خود کا درد معلوم ہو رہا ہے.
اس کے آنسوں ، بے شک خواب میں ہی صحیح لیکن شہیر چوہدری کو تکلیف دے رہے ہیں"....
"یہ سب تمہارے دماغ کی سوچ ہے اور کچھ نہیں...
ایک کہانی ہے ،جس کی بنیاد تم خود رکھ رہے ہو"....
"او کم آن فاتح ؛میں کوئی بچہ نہیں جو سپنوں میں کہانیاں بنا کر بیٹھ جاؤں گا"..
غصے سے وہ آفس سے ہی نکل گیا تھا.
جبکہ پیچھے بیٹھا فاتح اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔۔
®®®®™
سحر اس بنجر کمرے میں بیٹھی سسک رہی تھی
یا یہ کہنا ذیادہ بہتر ہو گا اپنی قسمت پر ماتم کناں تھی ،
کہاں وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے والی آج یہاں ان ظالموں کے بیچ کسی اور کے کیے کی سزا بھگت رہی تھی۔
اپنے اطراف میں اس نے ایک نظر دوڑائی تھی جہاں وہ رات سے بند تھی۔۔
"اے لڑکی چل تجھے صاحب نے بلایا ہے"۔۔۔
تبھی ایک عمر رسیدہ عورت چلاتے ہوئے اس کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔
"م۔۔۔میں ن۔۔نہیں جاونگی۔۔۔"
وہ پیچھے کی جانب کھسک کر دیوار سے جا لگی تھی کہ اس عورت نے بالوں سے کھینچ کر کھڑا کیا تھا اسکو۔۔۔کہ وہ درد کی انتہاہ پر سسک ہی تو اٹھی تھی۔۔
"ونی ہو کر آئی ہو بیا کر نہیں لائی گئی۔۔۔جو یوں نکھرے دکھا رہی ہو۔۔۔
صاحب کو پتہ لگ گیا نا تو ماریں گے بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہنے دیں گے۔۔۔
چل اب!!۔۔۔"
وہ کھینچتے ہوئے اسے وہاں سے لے جا چکی تھی جبکہ وہ روتے ہوئے مزاحمت کرنے کی کوشش میں تھی۔
"یہ لیں صاحب جی۔۔۔۔"
اس کے قدموں میں لا کر بے دردی سے پٹخا تھا اس معصوم کو لا کر۔۔۔
اس نے ترچھی آنکھوں سے اپنے پاؤں میں پڑی اس لڑکی کو دیکھا تھا اور اس عورت کو باہر جانے کا حکم جاری کیا تھا۔۔
"تم کون ہو میری"؟؟
چہرے پر بکھرے اس کو بالوں کو بہت آرام۔سے کانوں کے پیچھے اڑستے پوچھا..
جبکہ چہرے پر حرکت کرتے اس کے ہاتھوں کو محسوس کیے ،سحر کا وجود ہولے ہولے لرز رہا تھا..
جسے احمر باخوبی محسوس کر سکتا تھا.
"تم بیوی ہو میری
ایسا بڑی ماں کہتی ہیں"..
شہادت کی انگلی سے چہرے کو اوپر کی جانب اٹھایا تھا ، جب کہ سحر نے خاموش رہنے میں عافیت جانی تھی ۔۔۔
بولتی بھی کیا وہ
کچھ تھا ہی نہیں کہنے کو..
"یقیناً جانتی تو ہو گی اس حویلی میں تمہاری حیثیت کیا ہے؟
کل ،رات کے بعد تم پر مزید واضح ہو گیا ہو گا؟؟؟
کہ بیوی کے طور تم بالکل قبول نہیں مجھے"....
بے ترتیب سے کھلے اسکے بالوں کو اس شخص نے اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا کہ درد کی ایک ٹیس اسکو اپنے رگ و پے میں سرایت کرتی محسوس ہوئی آنکھیں پوری رات رونے کی گواہ تھیں۔۔لیکن پھر بھی وہ ظالم بنا ترس کھائے اسکو تکلیف پہنچانے میں مصروف تھا۔۔۔
"نکاح کے وقت تو بہت ذیادہ چل رہی تھی یہ زبان اب کہاں گئی"؟
چہرے کو اپنے سخت ہاتھوں سے دبوچے غرا کر کہا تھا اس نے۔۔۔جبکہ وہ صرف خاموشی سے آنسوں بہانے کا شغل فرما رہی تھی۔
۔
زبان چلانے کی غلطی وہ کر نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کی سزا وہ کل اچھے سے بھگت چکی تھی جس کا درد وہ ابھی بھی اپنے وجود میں محسوس کر رہی تھی۔۔۔
"ہاہاہاہا۔۔۔تم کچھ بھی نہیں کر سکتی کیونکہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے ، تم نے دنیا میں آکر ہی غلطی کی ہے کیونکہ تمہارے گھر والوں کو بھی تمہاری کوئی ضرورت نہیں۔۔"
قہقہہ لگاتے وہ اس کو جھٹکے سے چھوڑ گیا تھا کہ دوبارا وہ زمین بوس ہوئی تھی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنسناہٹ سی دوڑی تھی۔۔
"تم لڑکیوں کی اس گاؤں میں کوئی حیثیت نہیں تم لوگ پیدا ہی یہاں اپنے باپ بھائی کے گناہوں کی بھینٹ چڑنے کو ہوتی ہو۔۔۔
ہر ہر لمحہ تڑپو گی تم ، پچھتاو گی خود کے پیدا ہونے پر۔۔۔
دعا مانگو کی موت کی مگر یہاں کے مکین وہ نصیب نہیں ہونے دیں گے البتہ مرنے بھی نہیں دیں گے۔۔ہر لمحہ تم پر قیامت برپا کرے گا وہ درد بلکہ اس سے ذیادہ تم محسوس کرو گی جو کہ میرے بھائی نے محسوس کیا۔۔۔"
سپاٹ لہجے میں کہتا اس کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے باہر لایا تھا۔
احمر..
وہ لڑکی تمہارے کمرے میں کیا کر رہی تھی"...؟؟
نورے بیگم غصے سے برہم ہوتی بولی تھیں...
انہیں سحر کا احمر کے کمرے رہنا سخت نا گوار گزر رہا تھا...
"ماں...
آپ کا بیٹا ہوں... ' پھر بھی نہیں سمجھیں میری سائکی کو...
بڑی ماں کی خواہش ہے..
سحر میری بیوی کی حیثیت سے میرے پاس رہے"....
"تیری بڑی ماں کا تو دماغ ہی جل گیا ہے"....
وہ سکینہ کو سوچتے نخوت سے بولی تھیں...
"بڑی ماں کی یہ خواہش میں نے پوری تو کر لی ہے مگر دیکھنے کی حد تک...
کیونکہ بیوی کی حیثیت تو کبھی مر کر بھی نہ دوں..
اپنے بھائی کے قاتل خاندان کی لڑکی کو...
میں اپنے بھائی کا خون نہ بھلاؤں گا...
جو اذیت جو تکلیف دور رہ کر نہیں دے سکتا وہ ...
اسے اپنے سامنے پا کر دوں گا...
زندگی انجیرن کر دوں گا...
اسی دنیا میں دوزخ نصیب ہو گی اسے"..
اپنی موچھوں کو تاؤ دیتے ازلی غرور و تیش میں کہا تھا..
اس بات سے انجان وقت بدلتے لمحے لگتے ہیں...
جو جہنم وہ اسکو نصیب کرنا چا رہا ہے ، ہو سکتا ہے وہ پلٹا کھائے اور ... وہ خود ہی اس سازش کی زد میں آ جائے..
نورے بیگم نے اپنے بیٹے کی عقل کو داد دی تھی "
...
جیسے واقعی کوئی اس نے مہان سوچ بتائی ہو...
"جا شاباش میرا پت"....
انہوں نے تھپکی دی تھی اس کی کمر پر..
"چل اب اس لڑکی کو میرے پاس بھیج ..
بہت پیر درد کر رہے ہیں...
"تھوڑا دبا لوں اس سے".....
انہوں نے بے چاری شکل بنا کر احمر سے کہا تھا...
"جی میں ابھی بھیجتا ہوں"...
وہ سر اثبات میں ہلائے ..
جا چکا تھا....
©©©
"شہیر..
جلدی سے تیار ہو ..
ہمیں کشمیر جانا ہے"...
ایک ہاتھ سے بال بناتے جبکہ دوسرے سے فون کان پہ لگائے ...
مصروف سے انداذ میں شہیر سے کہا.
"کیا...؟؟؟
کشمیر...
مگر ابھی کچھ دن پہلے ہی تو وہاں سے آئے تھے"....
"ہاں ' پہلے گھومنے گئے تھے ، مگر اب کسی کام سے جا رہے ہیں"...
سامنے لگے فل سائز مرر میں اپنا جائزہ لیا تھا فاتح نے....
"کیسا کام...
میرا رشتہ دیکھنے جانا ہے...
بلکہ یوں کہہ لو ...لڑکی کے باپ کو منانے جانا ہے....
کچھ دیر میں پہنچ رہا ہوں...
جلدی تیار ہو جاؤ".
کہتے بنا اس کی سنے وہ..
فون کال کاٹ چکا تھا....
جبکہ شہیر اپنا سر تھامے بیٹھ گیا..
یہ فاتح شرجیل.. اس کی سمجھ سے باہر تھا..
کچھ ہی دیر میں فاتح اس کے گھر میں موجود تھا ..
پھر دونوں وہاں سے اپنی منزل کی جانب ہو لیے...
®®®™
کھلا لاؤنچ..
لاونچ کے وسط میں رکھا چکور کانچ کا ٹیبل....
اس کانچ کے ٹیبل کے گرد رکھے فوم کے صوفے...
جن پر بیٹھے تھے منصور صاحب اور ان کے سامنے بیٹھے تھے "فاتح اور شہیر...
"بیٹا...
"اس سب تکلف کی وجہ جان سکتا ہوں"...
ٹیبل پر رکھے مٹھائی کے ڈبے...
ڈرائے فوٹ وغیرہ کو دیکھے کہا تھا انہوں نے...
"کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے"...
"جی بالکل .
انکل آپ نے ٹھیک پہچانا ہے ...
"آج سے پہلے ہم انجان تھے ایک دوسرے کے لئے ، مگر اب نہیں ،...
کیونکہ یہاں جس مقصد سے میں آیا ہوں...
وہ ہمیں ایک رشتے داری میں باندھنے والا ہے"...
"کیا مطلب"..؟؟
منصور صاحب ؛ نا سمجھی سے بولے..
"میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنے کا خواہشمند ہوں..
اس کو اپنی زندگی میں بطورِ شریکِ حیات شامل کرنا چاہتا ہوں"..
فاتح کی بات پر منصور صاحب نے بہت باریک بینی سے اس کا جائزہ لیا تھا..
بلیک کوٹ پینٹ میں ، بال نفاست سے جیل سے سیٹ کیے گئے تھے،،
آنکھوں میں پہنے وہ مخصوص پروفیشنل گلاسس .
جو اسکی وجاہت کو مزید نکھارتے تھے،،۔۔
اسکا حلیہ کسی اچھے خاندان سے ہونے کا پتہ دیتا تھا....
"بیٹا اگر میں عرض کروں تو..
میری دو بیٹیاں ہیں..
آپ کس بیٹی کا رشتہ لینے آئے ہیں..
زرہ روشنی ڈالیے"....
وہ مہذب انداز میں بولے تھے...
دوسری بیٹی کا تو نہیں معلوم ، مگر میں پشمینہ کے لئے آیا ہوں...
اپنے کوٹ کو ٹھیک کیے ان سے مخاطب ہوا...
"منصور صاحب نے کچھ سوچ اثبات میں سر ہلایا تھا..
©©©
" پشمینہ...
تمہارا رشتہ آیا ہے"...!!!
پشمینہ کے ہاتھ سے کتاب چھین کر بیڈ پر رکھی تھی ۔۔۔
خوشی سے چہکتے ہوئے ، اسے کھڑا کیا تھا..
جبکہ وہ , شاکڈ سی مشل کو دیکھ رہی تھی..
"یہ کیا کہہ کر رہی ہو..؟؟
پاگل تو نہیں ہو گئی"...
وہ منہ بسورے بولی تھی اور کتاب کو واپس اٹھائے پڑھنے لگی تھی...
"نہیں پیاری بہن..
میں سچ کہہ رہی ہوں...
اگر یقین نہیں آتا تو خود دیکھ لو "...
اس کو اٹھاتے ہوئے کھڑی کے پاس لائی وہ ..
جہاں سے لانچ کا منظر صاف نظر آ رہا تھا...
"میں نے شادی ن۔۔نہیں کرنی"...
آنکھوں میں آنسوں بہنا شروع گئے تھے پشمینہ کے....
"پر ہم تو کروائیں گے تمہاری شادی...
سوچو کتنا مزہ آئے گا..
جب تم یہاں سے چلی جاو گی...
میں سکون سے سو کر اٹھوں گی..
اکیلے اس گھر اور کمرے میں راج کروں گی"......
پشمینہ کو روتے دیکھ وہ مزید چڑانے لگی تھی..
"جاو بدتمیز ! میں تم سے اب بات بھی نہیں کروں گی ...
پتہ نہیں کیسی جڑواں بہن ہو میری ، جسے زرا بھی خیال نہیں ہے میرا۔۔۔"
ہاتھ میں موجود کتاب ہی اٹھا کر مارنے لگی تھی اسے..
©©©
احمر کمرے میں آیا تھا ..
تو سحر اسکو کمرے کی صفائی کرتی دیکھائی دی...
"سنو لڑکی...
جاؤ ماں کے کمرے میں ان کے پاؤں دباؤ"....
بیڈ پر بیٹھتے وہ ٹھوس لہجے میں بولا تھا..
اپنی سوجن زدہ آنکھوں سے سحر نے اسکی جانب دیکھا تھا...
"ایسے کیا دیکھ رہی ہو..؟؟؟
سنا نہیں تم نے"...
"ج۔۔جی !!!"
وہ جھاڑو اور پونچا ایک طرف رکھتی نورے کے کمرے میں جا چکی تھی"....
جبکہ پھیلے ہوئے کمرے کو نخوت سے دیکھا تھا ، احمر نے اور خود بھی حویلی سے چلا گیا۔۔۔
©©©
"انکل کیا میں آپ کا جواب ہاں سمجھو"..؟؟؟
منصور صاحب کو خاموش دیکھ ,فاتح نے پوچھا تھا...
انکل کوئی جلدی نہیں ہے ، آپ آرام سے سوچ سکتے ہیں...
منصور صاحب کی بے چینی کو جانچتے ، شہیر نے کہا تھا ....
"بیٹا میں آپ کو کل تک جواب دیتا ہوں۔۔۔
بیٹی کا باپ ہوں ...
اتنا بڑا فیصلہ جذباتی ہو کر نہیں کر سکتا"...
"یہ نمبر ہے ، اپنا جواب آپ کل تک بتا دیجیے گا...
ہم انتظار کریں گے"...
فاتح نے اپنا کارڈ نکال ان کی جانب بڑھایا تھا جسے وہ تھام چکے تھے...
"انکل آپ سے مثبت جواب کا خواہشمند ہوں...
یقین رکھیے گا...
کبھی کوئی دکھ آپ کی بیٹی کا مقدر نہیں بننے دوں گا"....
یہ آخری بات تھی جو ان سے مصافحہ کرتے ہوئے فاتح نے کہی تھی...
©©©
"لڑکی ہاتھوں میں زور نہیں ہے کیا...؟؟؟؟
تھوڑا زور سے دباؤ"...
نورے بیگم ! نخوت سے بولی تھیں...
ان کی بات سن سحر نے ایک نظر اپنے زخم زدہ ہاتھ پر ڈالی تھی.
جس سے کوئی بھی کام کرنا ناممکن تھا ،
اسلئے پیچھلے ایک گھنٹے سے وہ ایک ہی ہاتھ کا استعمال کرتے ان کے پیر کی مالش کر رہی تھی..
اب تو وہ ہاتھ بھی دھکنے لگا تھا..
لیکن؛
انہیں رحم نہیں آ رہا تھا اس پر،،،
بس وہ کسی بھی طرح اس کو تکلیف دینا چاہتی تھیں...
وہ اپنی سوچوں میں محو ان کو دبا بھی رہی تھی ..
کہ بے خیالی میں ہاتھ لگنے سے پاس پڑی تیل کی کٹوری زمین بوس ہوئی ..
زیتون کا تیل پورا پھیل چکا تھا اس ٹائلوں کے بنے فرش پر...
"بے غیرت لڑکی۔۔۔۔۔
کلموہی یہ کیا کیا ہے"؟؟؟
وہ غصے میں بپھرتی اس کو تھپڑ رسید کر گئی تھیں....
"کام چور لڑکی ...
سارے فرش کا ستیاناس کر دیا ہے"....
حقارت سے اس کے وجود کو دیکھتی وہ مسلسل اس پر برس رہی تھیں۔۔۔
"چل جلدی یہ فرش صاف کر ...
اور چائے بنا کر لا میرے لئے....
سر میں درد بڑھا کر رکھ دیا ہے...
بدذات نہ ہو تو"....
اس کو مار مار کر ، تھک کر بیڈ پر بیٹھ گئی تھیں وہ ، لیکن منہ سے آگ برسانے سے باز نہ آئی تھیں....
وہ آنسوں کو پیتی ، فرش صاف کرنے لگی ...
پھر باورچی خانے میں ہو لی تھی چائے بنانے کے لئے ...
وہاں باورچی خانے میں آ کر اس کے صبر کا دامن ٹوٹا تھا...
کب سے روکے گئے آنسوں بہہ نکلے تھے..
جنہیں وہ بے دردی سے رگڑ گئی تھی...
زندگی یوں جینا پڑے گی ۔۔
بن کے آنسوں دل پہ گرے گی ۔۔۔
"سحر....سحر"..!!!!
"
سحر کو غصے سے پکارتے ہوئے احمر کچن میں داخل ہوا تھا۔۔۔
"کیا کہہ کر گیا تھا"...؟؟؟
اسکے ہاتھ میں موجود پتی کے ڈبے کو چھین غصے سے ٹائل پر پٹچا تھا...
اور اسکو کھینچنے کے سے انداز میں کمرے میں لایا تھا...
"کیا ہے یہ سب"...؟؟؟
پھیلے ہوئے کمرے کی جانب بھنونے اچکائے اشارہ کیا تھا...
"میں نے کہا بھی تھا ' پندرہ منٹ میں مجھے یہ کمرا صاف کمرا صاف چاہیے ہے..؟؟؟
اور تم نے ابھی تک کمرا صاف نہیں کیا...؟؟
پورا کمرا پھیلا ہوا ہے"....
گند سے سخت نفرت ہے مجھے"....
اس کو خاموش دیکھ وہ دبے دبے لہجے میں غرایا تھا..
"صرف دس منٹ ہیں تمہارے پاس ، پورا کمرا چمکتا ہوا ملے مجھے"...
سہارا دل کا بنا جو
وہ دل کو توڑے چلا ہے
غصے سے کہے وہ اپنے کپڑے لئے فریش ہونے چلا گیا جبکہ پیچھے اپنی ذلت بھری زندگی پر خون کے گھونٹ بھرتی کام کرنے لگی تھی...
درد کی ہے انتہاہ ہے لیکن
مجھے بھی خدا پہ یقین ہے
کہ دیر اندھیر نہیں ہے
احمر تولیے سے اپنے بالوں کو خشک کرتا باہر نکلا ،،
"اسکی نظر سحر پر گئی تھی جو کہ ابھی بھی ایک ہاتھ سے کام کر رہی تھی ۔۔
احمر نے سر جھٹکا تھا اسے دیکھ...اور موبائل کی بجتی گھنٹی کی جانب متوجہ ہوا جہاں عروہ کا نام جگمگا رہا تھا..
"ہیلو ! عروہ ڈارلنگ کیسی ہو"...؟؟
فون لئے وہ ٹیرس پر آ گیا تھا....
"میں ٹھیک ہوں ...تم بتاؤ..؟؟
گاؤں میں ہی مصروف ہو گئے ہو...!!!
شہر کب آو گے....؟؟؟؟"
دوسری جانب عروہ بے چینی سے بولی تھی...
"فکر نہ کرو عرو ..
ابھی حاضر ہی ہونے والا تھا..
کہ آپ محترمہ کی کال آ گئی"....
وہ اس کی بے چینی محسوس کیے ہنسا تھا....
"اوکے جلدی پہنچو ...."میں ویٹ پر رہی ہوں"...
"جی ڈارلنگ ۔۔۔۔ آپ تیار ہو کر بیٹھیں ہم ابھی پہنچتے ہیں"..
ہنستے ہوئے کہتا وہ فون رکھ چکا تھا..
فون کٹ ہونے کے ساتھ اسکی وہ مسکراہٹ بھی سمٹی تھی ..!!!
جب سحر پر نظریں گئی تھیں جو ماربل کے فرش پر پونچا لگا رہی تھی ،،، زخمی ہاتھ پر پانی لگنے کے باعث جلن مزید بڑھ گئی تھی ،،،
کام کے دوران خروچ لگنے کے باعث زخم میں سے ہلکا ہلکا خون رسنا شروع ہو گیا تھا....
جسے وہ نظر انداز کر رہی تھی ، بس خاموش آنسوں بنائے ضبط کی دیوی بنی ہوئی تھی....
"سحر...
تمہیں صفائی کرنے کا کہا تھا...
گند کرنے کا نہیں"...؟؟؟
خون کی ننی بوندوں کو فرش پر گرتا دیکھ وہ نخوت سے بولا تھا....
"جاؤ ، جا کر پہلے اپنا یہ گندا ہاتھ صاف کرو...
ورنہ ایسے ہی کرتی رہی تو میری چیزیں خراب ہو جائیں گی"....
سنگدلی سے کہتا وہ بے رحمی کے تمام درجوں کو پیچھے چھوڑ گیا تھا....
"ایسا کیا کھڑی کھڑی شکل دیکھ رہی ہو...
جاؤ یہاں سے ورنہ یہ ہاتھ ہی کاٹ ڈالوں گا".....
سفاکیت سے کہتا سامنے کھڑی لڑکی کو دکھوں میں مبتلا کر گیا تھا وہ جس کی زندگی میں شائد ہی کوئی خوشی باقی ہو....
سحر نے اس سفاک دل شخص کو دیکھا جو سینے میں شائد دل نہیں پتھر رکھتا تھا.....
اس کو کمرے کی صفائی دیکھ رہی تھی ....
"اسکا جلا ہوا ، زخموں سے بھرا خون جھلکتا ہاتھ نہیں...
جو کہ اسی بے رحم کی بدولت نصیب ہوا تھا اسے......
"ادھر کہاں جا رہی ہو"....
واشروم کی جانب بڑتی سحر کی چٹیا پکڑ کر گھومایا تھا...
جس کے باعث اس کے قدم ڈگمگائے تھے....
"نیچے جا کر اسٹور کا واشروم یوز کرو ....
"ورنہ میرے صاف ستھرے واش بیسن کا ہی ستیاناس مار دوں گی".....
باہر دروازے کی سمت دھکا دیا تھا اسے ۔۔۔
وہ اپنے قدم سنبھال چکی تھی ورنہ دھکیلے جانے پر اس کا ماتھا دروازے کے کونے سے ٹکرا سکتا تھا...
جاتے جاتے وہ اس نیچ انسان کو دیکھنا نہ بھولی تھی ..
جو ایک ایک کر کے بے رحمی کی تمام حدوں کو پار کر رہا تھا.....
©©©
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
ان خوبصورت وادیوں کے بیچ سے ان کی گاڑی گزر رہی تھی ...
جہاں آسمان میں موجود پرندے خوشی سے اس وادی ، سر سبز نہروں کے پاس چہچہارہے تھے...
اپنی زبان میں وہ اس قادر مالک کی تعریف کر رہے تھے....
جس نے ان خوبصورت مناظر کو ، اس خوبصورت کائنات کو تخلیق کیا ہے"..
"فاتح
گاڑی روک "..
ان آبشاروں کے پاس آکر گاڑی رکوائی تھی....
"کیا ہوا"...
فاتح نے جھٹکے سے بریک لگائی تھی...
شہیر بنا اس کی بات کا جواب دیے بھاگتے ہوئے جا رہا تھا....
جبکہ اس کو یوں بھاگتا دیکھا ، فاتح بھی اسکے پیچھے گیا تھا..
"حور"۔۔۔
شہیر ہانپتا ہوا اس لڑکی تک پہنچا تھا..!!!
جو اپنے گرد ڈوپٹہ پھیلائے اس بہتے پانی کو محسوس کر رہی تھی..
اپنے پیچھے کسی مرد کی آواز محسوس کیے وہ پلٹی تھی .....
اور نا سمجھی سے شہیر اور فاتح کو دیکھا تھا اس لڑکی نے...
جبکہ حور کی جگہ کسی اور لڑکی کو دیکھ ، اپنے قدم پیچھے کی جانب لینا شروع ہوا تھا ...
اور وہیں ، پانی میں بیٹھتا اپنا سر تھام گیا ..!!!
وہ آبشار کا بہتا صاف و شفاف پانی اس کے وجود کو پوری طرح بھیگو گیا تھا"....
حال ِ دل ہوا ایسا درد کی لہر جیسا
جس کا نہ علاج کوئی درد یہ زہر جیسا
"ح۔۔۔حور کب ملو گی تم ".....؟؟؟؟
اپنے سر کو تھامے نوچنے لگا تھا....
اس لڑکی کی ایک جھلک نے کس طرح اس شخص کو اپنا دیوانہ بنا لیا تھا،
وہ مضبوط توانہ شخص بکھر کر رہ گیا تھا.......
©©©
"اے لڑکی..
ادھر آؤ"......
راہداری میں سے گزرتی سحر نورے بیگم کی آواز پر پلٹی تھی....
"چائے کا کہا تھا نا تجھے...
پھر یوں کہاں مٹکتی پھر رہی ہے"....
"و۔۔۔وہ م۔۔۔میں......"
چٹاخ.....
"کلموہی ... ایک نمبر کی کام چور ہے ....
کوئی بھی کام ڈھنگ سے کرنا آتا ہے یا نہیں...
پیر دبانے کا کہا وہ ٹھیک سے دبانا نہیں آتا ...
بلکہ کمرے میں پورا تیل ہی انڈیل آئی کہ کہیں دوبارا نہ دبانا پڑے"....
"ن۔۔نہیں".....
"خاموش.....،اس کے جبڑوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا....
سحر کو ان کے ناخن اپنے چہرے پر دھنستے محسوس ہوئے..
آنکھوں میں مزید پانی جھلملانے لگا تھا.....
" چائے کا کہا تو نواب زادی کچن میں پتی کا ڈبہ ضائع کیے خود غائب ہو گئیں...
تمہارے باپ کا مال نہیں ہے یہاں ....
جس کو یوں ضائع کر رہی ہو....
میرے بیٹے کے کمرے میں رہنے کیا لگ گئیں خود کو مالکن سمجھنے لگی ہو"...؟؟؟
اسکے چہرے پر مزید گرفت مضبوط بنائی تھی کہ اس کی آنکھوں سے آنسوں لڑیوں کی صورت میں بہنے لگے تھے...
"یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہے تو اس کے کمرے میں رہ لے لیکن زندگی تیری تب بھی نوکروں سے بدترین ہی ہو گی"....
"م۔۔۔معاف۔۔۔ک۔۔کر دیں۔۔۔۔"
خود کر ضبط کیے وہ اٹکتے ہوئے بولی تھی....
"نا۔نا۔۔ ونی صاحبہ اگر ایسے ہی ہم معاف کرنے لگے تو ، لوگ تو ہمیں لوٹ ہی لیں گے.....
نورے کی نظروں میں پہلی غلطی آخری غلطی ہوتی ہے ،۔ کیونکہ نورے ایسی سزا دیتی ہے کہ بندا دوبارہ غلطی کرنے غلطی ہی نہیں کرتا".....
شاطر ہنسی ہنستے اسے پیچھے اسٹور میں لائی تھیں اور دھکیلا تھا اسکے وجود کو اس اسٹور روم میں جہاں اس حویلی کا پرانا اور رسیدہ سامان پڑا تھا.....
روشنی کے نام پر یہاں صرف ایک بہت پرانا دیا روشن تھا ..
جس کی روشنی بھی نا ہونے کے برابر تھی...
"اب خالی پیٹ یہاں سڑے گی تو تیری عقل ٹھکانے آئے گی".....
"ن۔۔۔نہیں۔۔۔۔م۔۔مجھے ی۔۔یہاں بند نہ کریں ، یہاں اندھیرا ہے پلیز م۔۔مجھے ڈر لگتا ہے اندھیرے سے"....
باہر جاتے نورے کے قدموں کو تھام لیا تھا....
"م۔۔میں اب کوئی غلطی نہیں کروں گی۔۔۔"
وہ روتی بلکتی ان سے اپیل کر رہی تھی کہ اندھیرے میں بند نہ کریں...
اس کمرے کے منظر کو ہی دیکھ اسے خوف محسوس ہورہا تھا....
جبکہ نورے بے رحمی سے اس کے وجود کو جھٹکتی جا چکی تھیں...
آہہہ۔۔۔!!!!
اس بند کمرے میں اس کی درد سے بھری چیخ گونجی تھی...
وہ گھٹنوں میں سر دیے آنسوں بہانے لگی تھی.؛!!
تیری دنیا میرے ربا کیوں مجھے ہی راس نہیں
دل ٹوٹا کوئی جوڑے رہی کوئی آس نہیں
زخم پہلے مٹے نہ آ کے اور دیتے ہیں
مانو جن کو سہارا وہی چھوڑ دیتے ہیں۔۔
©©©
"ہیپی برتھ ڈے عروہ ڈارلنگ".....
پورے ریسورٹ میں اس کی آواز گونجی تھی....
عروہ اور احمر نے جیسے ہی کینڈلز بوجھائی تھیں...
اوپر لگے غبارے میں سے بہت سی گلیٹر ان دونوں کے اوپر گری تھی....
عروہ نے چاکلیٹ کیک کا پیس احمر کو کھلایا تھا....
احمر نے بھی عروہ کو کیک کھلانے کے ساتھ ایک خوبصورت سی نفیس رنگ اس کے ہاتھوں کی زینت بنائی تھی...
عروہ کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا....
"ڈارلنگ ، ایسے کیا دیکھ رہی ہو...
ابھی تو ایک اور سرپرائز باقی ہے"...
کمر سے تھامے اسکو اپنے قریب کیے گال پر جھک پیار کیا تھا...
"کیسا سرپرائز"....؟؟؟
اپنے کھلے بالوں کو کان کے پیچھے اڑستے بولی تھی....
اسکی ایکسائٹمنٹ کو نوٹ کیے ، باہر لایا تھا جہاں ریڈ کلر کی ایک خوبصورت گاڑی کھڑی تھی....
"یہ تحفہ میری جان کو میری جان کی طرف سے"....
گاڑی کی چابی اسکے ہاتھوں میں تھمائی تھی احمر نے.....
جبکہ گاڑی کو دیکھ وہ معصوم بچوں کی مانند خوش ہوئی تھی...
.
"تھینک یو سو مچ ....احمر۔۔۔۔"
خوشی میں احمر کے گلے کا ہار بنی تھی وہ...
"آج ہم تمہاری اس گاڑی میں گھومنے جائیں گے ، ۔۔۔بتاؤ کہاں جانا چاہو گی"....؟؟؟
گاڑی کو اسٹارٹ کیے وہ عروہ کو محبت سے دیکھتے بولا تھا...
"آج میں تمہارا گاؤں گھومنا چاہوں گی...
اس حویلی کو دیکھنا چاہتی ہوں جہاں ہم اپنا آشیانہ بسائیں گے..
تمہاری فیملی ، تمہارے پیرنٹس سے ملنا چاہتی ہوں"....
وہ اپنے خیالوں میں مگن بولتی تو جا رہی تھی لیکن احمر کے تاثرات کا جائزہ نہ لے سکی ...
جس کے ماتھے پر شکن نمایاں ہونا شروع ہو گئی تھیں....
"ہم گاؤں نہیں جاہیں گے....
میرا مطلب ، کہ ابھی نہیں جائیں گے پھر کبھی میں تمہیں لے جاؤں گا..
"آج کا دن میں صرف تمہارے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں"....
اپنے غصے کو بمشکل قابو کیے اس کے بالوں کی لٹ کو اپنے ہاتھوں میں لپیٹا تھا....
"احمر"۔۔۔
"نو عروہ"...
"ڈونٹ ڈیبیٹ"..(بحث نہیں
"س۔۔سحر آپی "....
"حویلی کے کھلے باغیچے میں کھڑی وہ پودوں کو پائپ کے ذریعے پانی دے رہی تھی ساتھ ہی اپنی کسی گہری سوچ میں مگن تھی "...
"لیکن اپنے عقب سے آتی شناسا سی آواز پر وہ تڑپ کر مڑی تھی "..
"جہاں زیشان کا چھوٹا بھائی " ارمان " کھڑا اسکی جانب ہی دیکھ رہا تھا"...
"ایک تڑپ سی اسکی آواز میں موجود تھی".....
"ا۔۔ارمان"...
"میرے بھائی"...
"وہ تڑپ کر کہتی پائپ وہیں پھینکے دوڑ کر گلے لگی تھی اسکے"..
"مجھے معاف کر دیں آپی۔۔۔۔"!!!
"یہ سب میری وجہ سے"....
"اسکی حالت دیکھ وہ ندامت کے مارے کچھ بول بھی نہیں پا رہا تھا"...
"لی۔۔لیکن ،"اب میں آ گیا ہوں نا ان شاءاللہ آپ کو اس عذاب سے ضرور نکالوں گا"....
"وہ اٹل لہجے میں کہتا خاموش ہوا تھا ساتھ ہی "احمر " کو چیخ کر پکارنے لگا تھا"....
"ن۔۔نہیں".. ارمان انہیں مت پکارو ، ۔۔
"وہ۔۔وہ مار دیں گے تمہیں،"..
"م۔۔میں جس حال میں ہوں رہنے دو م۔۔مگر چلے جاؤ یہاں سے"...
"آ۔۔آپی م۔۔میں آپ کو اس حال میں نہیں رہنے دوں گا"...!!!!!
"وہ تڑپ ہی تو گیا تھا ،"کیسے وہ اپنی آپی کو اس حالات مین دیکھ سکتا تھا جس نے بچپن سے لے کر آج تک اسے ایک ماں کی طرح پیار کیا ،"....
"وہ کیسے خود غرض بن سکتا تھا٫...
"تمہیں اللہ کا واسطہ ہے"...
"وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے بولی تھی"....
"احمر جو کافی سے دور کھڑے ان دونوں بہن بھائی کے ڈرامے دیکھ کر رہا تھا"...
"غصے سے بھپرا آگے بڑھ ،کھینچ کر علیحدہ کیا تھا"...
"سحر جو اس آفات کے لئے تیار نہ تھی دور جا گری تھی "...
"جبکہ ارمان کے قدم ڈگمگائے تھے"...
"تیری ہمت کیسے ہوئی یہاں حویلی میں قدم رکھنے کی"...؟؟؟
"اسکے کالر دبوچے احمر غرا کر بولا تھا"...
"میں اپنی بہن کو لینے آیا ہوں"...
"ارمان "..اٹل لہجے میں بولا تھا"....
"ہاہاہاہا "...تم اپنی بہن کو لینے آئے ہو"...؟؟؟؟؟؟
"وہ بہن جو تمہاری جان بخشی کے عوض میرے نام ونی کی گئی ہے".....
"حقارت بھری نظر "سحر " کے وجود پر ڈالی تھی"....
"مجھ سے غلطی ہوئی میں مانتا ہوں ،" مگر میرے کیے کی سزا آپی کو مت دو،"...
"یہ پیسے پکڑو اور قصہ ختم ".....
"بیگ میں بھرے پیسے احمر کے قدموں میں پھینکے تھے٫"..
"ارمان کی اس حرکت پر شولا بار نظروں سے دیکھا تھا اسے"...
"پھر ایکدم ہی مسکراتا سائڈ پر ڈری سہمی کھڑی سحر کو چوٹیا سے تھام ارمان کے سامنے کھڑا کیا "....
"ہم چوہدریوں کا خون اتنا بے مول نہیں ،جس کی قیمت لگا دی جائے"....؟؟؟؟؟
"تو بہت پیار کرتا ہے نا ، اپنی اس بہن سے"...؟؟؟
"تو دیکھ ،" کیسے کیسے تڑپاؤں گا تیری اس بہن کو".....
"تیرا کفارا یہ ادا کرے گی"....
"غرا کر ایک ایک لفظ کہا گیا تھا"...
"چوہدری چھوڑ دے آ۔۔آپی کو"....
"آنکھیں بھینچے کھڑی سحر کو دیکھ ،"ارمان نے احمر سے کہا تھا"...
آہہہہ .."
"کیوں چھوڑ دوں ،" ۔۔۔؟؟؟؟
"کیوں چھوڑ دوں ،" ۔۔۔؟؟؟؟
"چھوڑنے کے لئے ونی کر لایا تھا میں"...؟؟؟؟
"کونے پر بنے پلر پر کھینچ کر سحر کا سر دے مارا تھا کہ وہ کرہا کر راہ گئی "...
"بول ،" چھوڑوں اسے"...؟؟؟
"ایک ، " دو".... لگاتار اس کا غصہ وہ سحر پر نکال رہا تھا"...
"ماتھے سے خون نکلنے لگا تھا ، "...
" دونوں بھائی بہن کی چیخیں گونج رہی تھیں حویلی سے"...
"ایک کی چیخیں بیچ میں معدوم ہو گئی تھیں"....
"وہ درد کو سہتی بے ہوش ہو گئی تھی"....
"تو چلا جا یہاں سے ،" ورنہ تیری بہن مر جائے گی آج "....
"احمر اس لمحہ کوئی پاگل معلوم ہو رہا تھا جس کے سر پر کوئی خون سوار ہو"...
"چ۔۔۔چوہدری "...چھوڑ دو آپی کو۔۔"م۔۔میں ج۔۔جارہا ہوں"...
"آنسوں کو صاف کیے وہ وہاں سے بھاگتے ہوئے گیا تھا"....
"اسکے جاتے ہی ،"احمر نے سحر کو جھٹکے سے چھوڑا تھا"...
"جس کا سر سے خون بہہ کر اس کے کپڑوں اور چہرے کو بھیگو رہا تھا"....
"دنیا کے رنگوں میں کھو کے جبھی پیچھے گناہ کے کوئی بھاگتا ہے،
ہر سو ویرانے اُس کے لئے ہو تو ڈور جب اے خدا کھینچتا ہے ،
"احمر".. خود گہری سانسیں بھرنے لگا تھا"...
"اس سب کے نتیجے میں اسکا سانس بھی بری طرح پھول چکا تھا"...
"رشید".....!!!
ملازم کو آواز دیے وہاں موجود جگہ صاف کرنے کا کہا تھا ،".۔۔
"اور خود سحر کو نا چاہتے ہوئے بھی بازوں میں بھرے کمرے میں لایا تھا "...
"اس وقت پوری حویلی میں ان دونوں اور ملازمین کے علاوہ کوئی نہیں تھا "....
" سارے گھر والے پاس ہی کسی گاؤں میں کسی کام کے تحت گئے تھے"....
"اور واپسی پر کوئی اس سے اس بارے میں سوال کرے "...
"ایسا وہ نہیں چاہتا تھا"....
"اسکو صوفے پر لٹائے ملازمہ کو بلا کر اسکے سر کی پٹی کروائی تھی"....
"اور خود کپڑے تھامے واشروم میں فریش ہونے چل دیا "....
تیرے محتاج سارے مجھے سمجھ یہ آئی
اب تو میرے خدا عرض ہے".....
©©©
"پشمینہ منصور آپ کا نکاح "شرجیل فاتح " کے ساتھ "پچاس لاکھ حق مہر کے عوض طے پایا جاتا ہے ،"۔۔۔
"کیا آپ کو قبول ہے,"....؟؟؟؟؟؟
"قبول ہے".....!!!!
"یہی لفظ تین بار دہرا کر وہ اپنے تمام تر حقوق کسی اجنبی کے نام کرچکی تھی جسے وہ جانتی تک نہ تھی"....
"ایک ڈر سا تھا ناجانے وہ شخص کیسا ہو گا"...؟؟؟
"جب یہ الفاظ " باہر بیٹھے فاتح سے پوچھے گئے"...
"تو اس کو یہ الفاظ کا زخیرہ کسی ٹھنڈی پھوار کی کی مانند اپنے کانوں میں پڑتے محسوس ہوئے ،"...
"مطلب قسمت کس قدر مہربان تھی کتنی ہی جلدی اس کی پہلی نظر کی محبت سے ملا رہی تھی اسے "...
"وہ بھی ایک پکے محرم کے رشتے میں"....
"اس نے اللّٰہ کا شکرا ادا کرتے "قبول ہے"...کہتے نکاح کے کاغذات پر دستخط کیے تھے"....
"پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا"....
"ہر طرف مبارک ہو کا شور گونجا تھا"....
"شہیر نے بھی اپنے جگری یار کو گلے لگائے مبارک باد تھی"...
©©©
"مینہ "
"لاؤ تمہارا میک اپ ٹھیک کر دوں"....
"ن۔۔نہیں میں ایسے ہی ٹھیک ہوں"....
"پشمینہ منمناتے ہوئے بولی"...
"کیا پاگل ہو گئی ہو"...
"بیٹھو ادھر خاموشی سے"..
"ڈریسنگ کے سامنے زبردستی بیٹھایا تھا اسے"...
"مشل"...تم نے انہیں دیکھا ہے کیا"..؟؟؟
"مطلب ، وہ کیسے دیکھتے ہیں"..؟؟؟
"مشل کے چہرے کو دیکھ وہ بہت معصومیت سے بولی کہ بے ساختہ مشل کا قہقہ گونجا تھا"....
ہاہاہاہا"....
"میری دلہن بہنا"...بس آدھا گھنٹا صبر کر لو پھر رخصتی ہونے والی ہے"...
"گھر جا کر آرام سے دیکھ لے لینا"....
"آنکھ ونک کیے وہ شرارتاً بولی تھی ، " کہ وہ شرما کر سر جھکا گئی"...
اوئے ہوئے"....
"ابھی تو رخصتی بھی نہیں ہوئی اور بھائی کے رنگ پہلے ہی جھلکنے لگے چہرے پر"...
ناٹ بیڈ"....
"اسکے جھکے سر کو دیکھ مزید تنگ کیا تھا"..
©©©
"مشل "...
"تمہاری بہن کی شادی ہے "...
"اسکے پاس ہونے کے بجائے تم یہاں بیٹھی کھانا کھا رہی ہو"...؟؟؟
"مشل کی دوست خضرا اس کو بریانی کھاتے دیکھ سر پیٹ گئی تھی"....
"جو لیڈیز کارنر پر مزے سے کھانا تناول فرما رہی تھی"..
"او ہو"..."ابھی مینا کا میک اپ کر کے آئی ہوں"...
"بھوک لگ رہی تھی تو سوچا کچھ کھا لوں"....
"کولڈرنک کا ٹھنڈا ٹھنڈا سپ خود میں انڈیلا تھا"...
"اف! "مشل انسان بن جاو "۔۔
"رخصتی کا وقت ہو گیا ہے اب لے آو مینا کو"...
"وہ اس کے ہاتھ سے پلیٹ سائڈ پر رکھ بولی تھی "...
"اچھا میری دادی ماں چلو"..
"مشل بھی اب تنگ آ کر کھڑی ہو چکی تھی اور کمرے کی جانب ہو لی "...
"تھوڑی ہی دیر میں وہ پشمینہ " ان دونوں کے ہمراہ وہاں لائی گئی "..
"مینو"..."تو جا رہی ہے"...
"اب میں تنگ کس کو کروں گی"...؟؟؟
"معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر بولی تھی"...
"کہ دونوں بہنے روتے روتے ہنس پڑی تھیں"...
تو بہت یاد آئے گی مینا"....
"مشل نے بھینچ کر اسے خود کے گلے لگایا تھا"...
"لیڈیز کارنر پر سب سے ملنے کے بعد منصور صاحب اس کو قرآن کے سائے تلے باہر لے کر گے تھے اور لے جا کر گاڑی میں بیٹھایا تھا"...
"جبکہ سائڈ پر کھڑی مشل کی آنکھوں میں اب آنسوں بہنا شروع ہو گئے تھے"...
"بے شک جو بھی تھا وہ اسے تنگ کرتی تھی"...
"تپاتی تھی "..
"لیکن پیار بھی حد سے زیادہ کرتی تھی"...
©©©
"نیم تاریک کمرے میں ہر طرف گلاب اور موتیے کے پھولوں کی مہک چھائی ہوئی تھی"۔۔۔
"پشمینہ دلہن کے لال عروسی جوڑے میں سجی اپنے شوہر کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ جو نجانے کہاں رہ گیا تھا۔۔۔شائد وہ بھول چکا تھا کہ کوئی بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا ہے"۔۔۔
"اس کی دھڑکنوں نے تیز رفتار پکڑی تھی جیسے ہی کوئی روم میں داخل ہوا تھا ۔۔بھاری بوٹوں کی آواز اس کو اپنے کانوں میں پڑتی سنائی دی'۔۔۔۔
"مقابل نے اپنا کوٹ اتار کر سائد پر رکھا اور اس دلہن بنی لڑکی کے سامنے بیٹھ گیا۔۔۔اور پشمینہ کا کانپتا ہوا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے ڈائمنڈ کی خوبصورت رنگ اس کے ہاتھوں کی زینت بنائی"۔۔
"تم میری پہلی نظر کی محبت، میری دیوانگی، میرا جنوں، میرا خمار ہو۔۔آنچ دیتے لہجے کے ساتھ کہتا اس کے ہاتھ کو اپنے لبوں سے لگایا تھا"۔۔۔
"جب کہ اس کو اپنی دھڑکنوں کا شور صاف سنائی دیے رہا تھا"۔۔۔۔
فاتح نے جیسے ہی اس کا گھونگھٹ اٹھایا تھا اس کے پیروں تلے زمین کھینچی تھی۔۔۔۔۔۔
۔۔۔پ۔۔۔پشم۔۔۔پشمینہ ک۔۔کہاں ہے؟؟؟؟
"پشمینہ کی جگہ کسی اور کو اپنی دلہن کے روپ میں دیکھے اس کا دم گھٹنے لگا تھا"۔۔۔
"وہ جو آنکھیں بند کیے تعریف کی منتظر تھی اس کے جانب سے عجیب سا ردِ عمل دیکھ حیرت میں آئی تھی"۔۔
ک۔۔کیا مطلب۔۔۔۔م۔۔میں ہی پشمینہ ہوں۔۔۔وہ آنکھوں میں حیرت سموئے مقابل کو جواب دیتے بولی جب کہ دل شدت سے کچھ غلط ہونے کا سندیشہ دے رہا تھا"۔۔۔
تم پشمینہ نہیں ہو سکتی۔۔۔اس کے دائیں گال پہ گہرا چاند کا نشان ہے۔۔۔۔وہ غصے میں کہتا بیڈ سے کھڑا ہو چکا تھا۔۔۔
جب کہ فاتح کی آخری بات پہ وہ جان چکی تھی کہ وہ کس کی بات کر رہا ہے۔۔۔۔۔
"وہ پشمینہ نہیں۔۔۔۔ میری ۔۔۔میری بہن مشل ہے"۔۔
وہ درد سے کہتی وہیں بیڈ پہ ڈھہ سی گئی تھی۔۔یہ بات اس کے لئے کتنی ازیت ناک تھی کہ اس کا شوہر اس کی جڑواں بہن سے محبت کرتا ہے۔۔۔آنسوں اس کی آنکھوں سے بہنے کو بے تاب تھے۔۔۔۔
"شادی کی پہلی رات ہی اس پر یہ اشکار کر دیا گیا کہ وہ غلط فہمی کی بنا اسکے رشتے میں لائی گئی"...
"دھوکہ دیا ہے سب نے مجھے "۔۔۔۔۔
دھوکہ۔۔۔!!!!!!!
"وہ چیختے ہوئے اپنا غصہ کمرے کی چیزوں پر اتار رہا تھا"۔۔۔۔
"کچھ ہی دیر میں وہ خوبصورت کمرا کسی اجڑے ہوئے کباڑ سے کم نہیں لگ رہا ہے۔"۔۔۔۔۔۔
""جہاں کچھ لمحے میں پہلے پھول بھی خوشی سے مہک رہے تھے "...
وہاں اب کسی کے آنسوں اور ریزہ ریزہ ہوئے جذبات تھے"..
"جب کہ پشمینہ بیٹھی اپنی اجڑی قسمت پہ ماتم کناں تھی"۔۔۔۔
اپنی ہی آواز کو بے شک کان میں رکھنا
لیکن شہر کی خاموشی بھی دھیان میں رکھنا
میرے جھوٹ کو کھولو بھی اور تولو بھی تم
لیکن اپنے سچ کو بھی میزان میں رکھنا
کل تاریخ یقیناً خود کو دہرائے گی
آج کے اک اک منظر کو پہچان میں رکھنا
©©©
"پیار کی راہوں پہ انجانے میں ہی میرے یہ ناداں قدم چل پڑے تھے
لمحوں میں اجڑے گی میری دنیا ،لمحے بچارے کہاں جانتے تھے"...
"وہ سنسان سڑک پر چلتا اس وقت اپنی اسی دلہے کی شیروانی میں موجود تھا"....
"قسمت نے بھی کیسا مزاق کیا تھا اسکے ساتھ "...
"پیار ایک بہن سے اور نکاح ایک بہن سے"...
"وہ سوچتا تلخ سا ہنسا تھا"...
"شائد اسکی قسمت ہی ایسی تھی ہر موڑ پر اس سے کھیل جاتی تھی"...
"اب تو اسے اپنی یہ زندگی بھی مزاق لگنے لگی تھی"....
"بزم میں یاروں کی شمشیر لہو میں تر ہے
رزم میں لیکن تلوار کو میان میں رکھنا
آج تو اے دل ترک تعلق پر تم خوش ہو
کل کے پچھتاوے کو بھی امکان میں رکھنا
اس دریا سے آگے ایک سمندر بھی ہے
اور وہ بے ساحل ہے یہ بھی دھیان میں رکھنا
اس موسم میں گل دانوں کی رسم کہاں ہے
لوگو اب پھولوں کو آتش دان میں رکھنا"
"فاتح چلتے چلتے ایک پارک میں آ رکا تھا "....
"وہاں کی خاموشی ، "
"وہ تنہائی "...
"وہ ویرانی"....
"سب اپنی زندگی کا حصہ معلوم ہو رہی تھی"....
"وہ پوری رات جو اسے اپنی بیوی کے پاس گزارنی چاہیے تھی "...
"اس ویران پارک میں جاگ کر گزاری تھی".....
"جبکہ دوسری جانب سجی سنوری "پشمینہ"....
"اپنے ساتھ ہوئے اتنے بڑے مزاق کو سوچ کر ہی شاک تھی"....
"کتنی خوبصورت لگ رہی ہو"...
"ایسا لگ رہا ہے اپسرا ہے کوئی"...
"دیکھا بھائی نے تو فلیٹ ہی ہو جانا ہے"....
"مشل کے الفاظوں کو سوچتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی"...
"کیا یہ سلوک ہوتا ہے پہلی رات دلہن کے ساتھ"...
یا"...
"شائد وہ کوئی انوکھی دلہن تھی جس کو پہلی ہی رات رونمائی کے تحفے میں "دھوکہ " اور "نفرت" ملے تھے".....
"وہ ان بکھرے پھولوں اور ٹوٹے کانچ پر سے چلتی ہوئی ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑی ہوئی"...
"اور خود پر ایک نظر ڈالی تھی وہ کافی حسین لگ رہی تھی " اس لال عروسہ جوڑے پر زیوارات پہنے کتنی دلنشین معلوم ہو رہی تھی"...
"کہ کوئی بھی دل ہار بیٹھتا اس پری وش پر"....
"سحر کی آنکھ درد کی ٹیس اپنے سر پر محسوس کیے کھلی تھی"....
"اپنے دکھتے سر پر ہاتھ رکھے مندی مندی آنکھیں کھولیں تو خود کو صوفے پر لیٹے پایا تھا "...
"اسے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا کہ اسکے ساتھ ہوا کیا ہے"...؟؟؟
" کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے دماغ پر زور نہیں دے نہیں پا رہی تھی"....
"لیکن جیسے ہی اسکی نظر بیڈ پر ٹانگ پہ ٹانگ دھر کے بیٹھے احمر پر گئی "...
"جو ایک ہاتھ سر کے پیچھے رکھے جبکہ دوسرے سے سیگریٹ پھونکتے اس کی ہی جانب دیکھ رہا تھا"....
"ادھر آؤ"...!!!
"سگار منہ میں دبائے شہادت کی انگلی اٹھائے اپنے پاس آنے کا حکم دیا تھا اسے"...
"جبکہ سحر اسے ہراساں نظروں سے دیکھ رہی تھی"....
"کیونکہ کل صبح کا واقع اسکی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا"...
"ارمان کا آنا"....
"اسکا ملنا "....
"پھر احمر کی لڑائی"...
"اور آخر میں ...
"اسکو بری طرح دیوار پر مارنا"........
"سب مناظر ایک ایک کر کے اسکے سامنے آنے تھے"..
"ادھر آؤ"....
"اب کے تھوڑا دھاڑ کر بولا تھا"...
"کہ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اپنے قدم سست روی سے اٹھانے لگی تھی"....
©©©
"وہ خوبصورت فل سائز شیشے کے سامنے کھڑی خود کے عکس کو دیکھ رہی تھی"....
"لال رنگ کی فراک پر گولڈن رنگ کی خوبصورت چنری اوڑھے وہ کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی"...
سائڈ ڈریسنگ پر رکھی گئی چوڑیاں اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں پہنی تھیں"...
پھر کاجل کو اٹھا کر اپنی آنکھوں کی زینت بنایا جس کے باعث وہ مخمور آنکھیں مزید دلکش لگنے لگی تھیں"....
"پھر اپنے ہونٹوں کو ہلکے گلابی رنگ کے گلوز سے رنگا تھا"...
"جس سے چہرے پر ایک نیا نکھار آیا تھا"....
"جانچتی نظر خود کے وجود پر ڈالی تھی "...
"بے شک وہ خوبصورت دیکھ رہی تھی لیکن اسکے چہرے پر کوئی خوشی اور آنکھوں میں کوئی چمک نہ تھی"...
"جو ایک روایتی دلہن کے چہرے پر ہوتی ہے "...
"بلکہ اسکے بر عکس اسکی آنکھیں پھیکی اور چہرا مرجھایا ہوا معلوم ہو رہا تھا"....
آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا
©©©
"دستک بنا آئے غم بھی عجیب ہے
جانتے نہیں ہیں ان کو پھر کیوں نصیب ہیں"....
"وہ اس انجان سڑک پر بے خود سا چلتا جا رہا تھا"...
"وہ نہیں جانتا تھا اس کے قدم اسے کہاں لے کر جا رہے ہیں "...
"کیونکہ وہ ایک بد نصیب شخص تھا"....
"جس کی قسمت نے اسکے ساتھ مزاق کیا تھا".....
"نیلے رنگ کی شرٹ پر کالی جینس زیب تن کیے بکھرے بالوں کے ساتھ وہ کافی غمگین معلوم ہو رہا تھا"....
"اسکی انجانے میں کی گئی غلطی کی سزا اسکی بہن کاٹ رہی تھی"...
"وہ آس پاس سے بے خبر چلتا جا رہا تھا "...
"اسکو پرواہ نہیں تھی اپنی جان کی"....
"وہ چلتی ٹریفک کے بیچ میں کھویا کھویا سا چل رہا تھا "....
"کہ سامنے سے آتے ٹرک کو بھی نہ دیکھ سکا"..
"جو کہ ہارن بجا بجا کر اسے الرٹ کر رہا تھا"....
"وہ شائد جان بوج کر اگنور کر رہا تھا بس چلتا چلا جا رہا تھا"....
"ٹرک اس کے بہت نزیک آ چکا تھا"...
"اس سے پہلے کے وہ ٹرک ارمان کو کچلتا کسی نے کھینچ کر اسے سائڈ پر کیا تھا اور کھینچ کر اس کے منہ پر تمانچہ رسید کیا".....
"ارمان کے ہاتھ میں موجود بیگ سائڈ پر جا گرا تھا"...
"شہیر جو شاپ سے کچھ سامان لے کر واپس گاڑی میں بیٹھ رہا تھا کہ اس کی نظر دور ایک لڑکے اور کب سے ہارن بجاتے ٹرک پر پڑی جو اس ٹرانس سی کیفیت میں چلتے لڑکے کو متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا"......
"لڑکے کو ہٹتے نہ دیکھ وہ جلدی سے بڑھا تھا وہاں"...
"اور اس کو کھینچ کر سائڈ پر کیا تھا"...
"لڑکے پاگل ہو گئے ہو کیا تم"....؟؟؟
"جو یوں بیچ سڑک میں کھڑے اپنی جان دینے پر تلے ہو"..؟؟؟
" اپنے ماں باپ کی زندگی کو عذاب بنانے کا زیادہ شوق ہے"....؟؟؟؟؟
"وہ تیش میں آئے غصے سے چیخ رہا تھا اس پر"....
"ب۔۔بھائی کیوں بچایا ہے مجھے آپ نے"...؟؟
"مر جانے دیتے "....
"ایسی زند۔۔زندگی نہیں چاہیے مجھے جس میں ، میں اپنی بہن کی زندگی کو برباد ہونے سے نہیں بچا سکوں".....
"وہ رو رہا تھا"......
"اسکی آواز بھاری ہو رہی تھی لہجے میں بہت کرب تھا" ۔۔
"دیکھو میں نہیں جانتا تمہاری بہن کے ساتھ کیا ہوا ہے "...
"مگر تمہاری باتوں سے یہ اندازا تو ہو گیا ہے کہ جو ہوا ہے وہ اچھا نہیں ہوا"....
"اور اسی سب سے مایوس ہو کر تم یہ قدم اٹھا رہے ہو جو کہ گناہ ہے"....
"اللہ پر صبر رکھو قہ ضرور تمہاری مدد کرے گا"....
"اب جلدی سے اپنے گھر کا پتہ دو"...
"تاکہ تمہیں تمہاری منزل پر چھوڑ دوں"....
"اسکے شانوں پر ہاتھ رکھے شہیر نے ارمان سے کہا تھا"....
"چھوڑ آیا ہوں اس گھر "...
"اس علاقے کو"...
"جہاں میری بہن کو جیتے جیتے جہنم میں پھینکا گیا ہے"...
"بنا کسی گناہ کے"....
"کہتے اسکی آواز رندھ سی گئی تھی"....
"شہیر نے بغور اسے دیکھا"...
"آج پہلی بار ایک بہن کے لئے کسی بھائی کو روتے دیکھا تھا اس نے"....
"شہیر نے خاموشی سے اسے شانوں سے تھاما اور گاڑی کی جانب لے گیا"..
©©©
"اٹھاؤ انہیں"....
"نیچے جلا کر پھینکی گئی سیگرٹوں کی جانب اشارہ کیے بولا تھا جو کہ تعداد میں کافی زیادہ تھیں"...
"بنا اسکی جانب دیکھے وہ جھک کر وہ سیگرٹوں کو اٹھانے لگی تھی جس میں جلی اور بجھی ہوئی دونوں ہی موجود تھیں"....
"وہ فرصت سے اسکو بیٹھے سیگریٹ کا کچرا اٹھاتے ہوئے دیکھ رہا تھا "...
"کہ کل اسکا ارمان کے پاس جانا"...
"اسکے گلے لگ کر رونا "...
"وہ سب یاد آیا تو آنکھوں میں سرخی سی گھلی تھیں"...
"تم کسی غیر مرد کے گلے لگی تھی"...؟؟؟
"وہ بھی احمر چوہدری کے نکاح میں ہوتے ہوئے"..؟؟؟
"اسکے جوڑے میں مقید بالوں کو اسطرح سے اپنی گرفت میں لیا تھا کہ ماتھے پر کی گئی پٹی بھی ڈھیلی پڑی تھی "....
"و۔۔۔وہ غ۔۔غیر ن۔۔نہیں م۔۔میرا ب۔۔بھائی ہے"....
"درد کو برداشت کیے وہ مقابل کی آنکھوں میں دیکھ بولی "....
"سگا تو نہیں ہے نا"...؟؟؟
"اسکی آنکھوں میں دیکھ طنزیہ بولا تھا"....
"جبکہ آنکھوں میں آگ کا جہاں آباد تھا"...
" ،"اگر اسے میرا بھائی نہیں مانتے".....تو اس کے حصے کا بدلہ مجھ سے کیوں لیا جا رہا ہے"...
"لہجہ نم جب کہ آنکھیں بند تھیں"....
©©©
"وہ اپنے خیالوں میں کھوئی کسی گہری سوچ میں محو تھی"....
"آج تک ان دونوں بہنوں کی ملاقات فاتح سے نہ ہوئی"....
"تو وہ کیسے جانتے تھے مشل کو "...
"یا اگر ان کی ملاقات ہوئی ہے تو کہاں پر"....؟؟؟
"کیونکہ آج تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں وہ اکیلی گئی ہوں"....
"ایسے ہی کئی سولات تھے جو پشمینہ کے ذہن پر سوار تھے"...
"اسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا جب فاتح اپنی کل رات والی ہی حالت میں روم میں داخل ہوا"....
"بکھرے بال ، لال آنکھیں چہرے پر چھائی کرخت سنجیدگی"......
"وہ اپنے لبوں پر قفل لگائے داخل ہوا تھا اور خاموشی سے ہاتھ میں موجود کوئی چیز پٹخنے کے سے انداز میں ٹیبل پر رکھی تھی اور اپنے کپڑے الماری سے نکالے واشروم میں چلا گیا"....
"اس نے ایک غلط نگاہ پشمینہ پر ڈالنا گوارا نہ کیا تھا"....
"اتنا تو شکوہ خود سے ہے مجھ کو
ملنے سے پہلے جانا نہ تجھ کو "
"تھوڑی دیر میں وہ فریش ہو کر باہر آیا تو پشمینہ کو اسی پوزیشن میں بیٹھے دیکھ اسکے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی تھیں"..
"تم گئی نہیں ابھی تک"....؟؟؟؟
"بالوں کو تولیے سے رگڑتا وہ بے زاری سے بولا "....
"ک۔۔کہاں"...؟؟؟
"وہ نا سمجھی سے گویا ہوئی تھی"....
"تمہاری بہن اور پاپا آئے ہیں نیچے"...
"فاتح کی بات سن اس نے خوشی سے باہر قدم بڑھائے لیکن اس کے وہ بڑھتے قدم تھم گئے تھے جب فاتح نے اس کی کلائی سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا تھا"....
"کدھر "...؟؟؟؟
"میں نے کہا ابھی جانے کو"....؟؟؟
"بھنونے اچکائے وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ بولا تھا"...
"جس کی پلکیں فاتح کی اتنی نزدیکی پر جھکی ہوئی تھیں جبکہ دل کی دھڑکنیں تیز رفتار سے دھڑک رہی تھیں".....
"آ۔۔آپ نے کہا کہ پاپا اور مشل آئے ہیں"...
"وہ جھکی ہوئی نظروں کے ساتھ بولی تھی"...
"ہاں میں نے بتایا ضرور ہے مگر جانے کا نہیں کہا"...
"کہتے اس کو آئینے کے سامنے کھڑا کیا اور ڈرسینگ پر رکھے گئے باکس میں میں ایک بھاری نفیس ہار نکال اس کی دودھیا سراہی دار گردن کی زینت بنایا"....
"اگر کوئی تم سے رونمائی کے تحفے کا پوچھے تو یہ سیٹ تم اسے دیکھاؤ گی".....
"بے شک دیکھاوے کے لئے صحیح لیکن تم بتاؤ گی"....
"ہار کا ہک باندھتے وہ آئینے میں سے نظر آنے والے اسکے خوبصورت سراپے پر نظر ڈالے بولا"....
"ہار پہنانے کے بعد اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا"...
"چہرے پر پھیلے ان ملائم گھنے آبشار جیسے بالوں کو کان کے پیچھے کیا اور ایک ایک کر کے وہ جھمکے اس کے کانوں کی زینت بنائے".....
"تمہارے چہرے پر جو یہ بارہ بجے ہیں"....
"ایسا روڈ فیس میں بالکل نہیں مانگتا ".....
"اسلئے تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ جب تم نیچے جا کر اپنی بہن اور باپ سے ملو تو اپنا موڈ ٹھیک رکھو".....
"کیونکہ تمہارے باپ کی نظروں میں میرا ایک ایمیج بنانا ہے جسے میں قائم رکھنا چاہتا ہوں"....
"ان سے ملو گی تم مسکراتے ہوئے"......
"ایسا شو کرو گی جیسے تم خوش ہو".......
"اسکے کان کے پاس جھکے وہ گھمبیر مگر سخت لہجے میں بولا تھا"....
"جبکہ اسکی بات سن پشمینہ نے شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا اسے"....
"چلو اب"....
"اسکے ہاتھوں کو تھام وہ باہر کی جانب بڑھا تھا"......
©©©
"سحر کے سر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں لیکن اس ستمگر کو کیا پرواہ".....
"اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا"...
"نہ ان انسوں سے نہ اس کے زخموں سے"...
"جب تم یہاں اس حویلی میں لائی گئی ہو تو تمہارے سارے رشتے ختم کر دیے گئے تھے"...
"پھر بھی تم اسکے ساتھ رابطے میں تھی میرے بھائی کے قاتل کے ساتھ"....
"جب کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ بات بدل گیا تھا لیکن اسکو تکلیف دینا نہ بھولا تھا"......
"م۔۔میں رابطے میں ن۔۔نہیں تھی".....!!
"...و۔۔وہ خود آیا تھا"....
"اووو"....؛!!
"سیریسلی"....
"ہونٹوں کو گول شکل میں موڑے کہا تھا اور ساتھ ہی ایک تمانچہ اسکے گال پر رسید کر گیا "...
"پاگل سمجھا ہے مجھے"........
"بے و قوف ہوں میں"...؟؟؟؟؟؟
"تم ہی نے بلایا تھا اسے"...
"ورنہ جہاں کسی کی لڑکی ونی کی گئی ہو ان کے گھر والے خود نہیں آتے جب تک انہیں بلایا نہ جائے".....
"اس کو دھکا دیا تھا پیچھے کی جانب "....
"اور خود پر سکون سا ہو کر بیڈ پر بیٹھا تھا"........
"وہ نا سمجھی کی کیفیت میں بیٹھی تھی اس ماربل کے فرش پر ".....
"سحر".....
"وہ اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ وہ گھبرا کر یکدم ہی پیچھے ہوئی تھی اسکی آنکھوں میں اسکا خوف صاف نمایاں ہو رہا تھا"......
"اس کمرے میں احمر چوہدری کا قہقہ گونجا تھا".......….
"اچھا ہے"....
"خوف اچھا ہے"....
"ان آنکھوں میں یہ خوف اچھا ہے"....
"ایسا ہی خوف ہر غلام اور باندی کی آنکھوں میں ہونا چاہیے اپنے مالک کا"....
"سیگریٹ کا دھواں اسکے چہرے پر چھوڑ کہا تھا اس نے"...
"جبکہ وہ کھانستے ہوئے تھوڑا پیچھے کھسکی تھی"...
"غداری کی سزا ملے گی تمہیں"...
"ہائے اللہ"... اب کون سی سزا"...؟؟؟
"اس کے دل سے با ساختہ یہ آواز آئی تھی".....
"لیکن ایک آواز دماغ سے بھی رونما ہوئی تھی"....
"کہ وہ تو آئی ہی یہاں سزائیں جھیلنے کے لئے ہے"....
"ان گناہوں کی سزا جو اس نے کبھی کیے ہی نہیں"......
"غداری کی سزا"...
"احمر کی آواز خیالوں سے باہر نکال لائی تھی اسے"....
"احمر چوہدری کے ساتھ غداری کی سزا"....
"پورے دو دن اس کمرے میں رہو گی "...
"بنا کھائے پیے"...
"یہاں پر رہتے ہوئے میرا ہر کام کرو گی"....
"اگر یہاں سے باہر نکلی تو تمہاری ٹانگیں توڑ دوں گا"......
"عجیب سی سزا سنائے وہ تو جا چکا تھا مگر اسے پیچھے سوچوں کے محور میں چھوڑ گیا تھا"....
"اے خدا تیرے سوا میرا یہاں محرم کوئی نہیں
گھاؤ ہیں کیا کیا میرے دل پر لگے مرہم کوئی نہیں" ..
©©©
"اسلام وعلیکم"...
"وہ دونوں نیچے آئے تھے جہاں منصور صاحب بیٹھے انہیں کا انتظار کر رہے تھے"...
"جبکہ مشل تو آنکھیں بڑی کیے وہاں کی ڈیکوریشن دیکھ رہی تھی"....
"وہ ریزورٹ چھوٹا سا تھا لیکن کافی خوبصورت اور دلکش تھا"...
"وعلیکم السلام"...
"ماشاءاللہ ماشاءاللہ"...
"جیتے رہو"....
"منصور صاحب فاتح سے بگل گیر ہوئے پشمینہ کے پر پہ پیار دیتے ہوئے بولے".....
"جب کہ اپنے جیجا کے روپ میں فاتح کو دیکھ مشل کی آنکھیں حیرت سے کھل گئی تھیں".....
"بیٹا آج آپ دونوں چلے جائیں گے اسلئے ہم ایک رسم کے طور یہ سب لائے ہیں کیونکہ جہیز تو آپ نے لینا گوارا نہ کیا "...
"لیکن ایک باپ کی خوشی کو سمجھتے ہوئے یہ سب رکھ لیں"...
"تو مجھے خوشی ہو گی".....
"انہوں نے ٹیبل پر رکھی گئی چیزوں کی جانب اشارہ کیا "... جن میں خشک میوہ جات ، موسمی پھل اور دوسری تیسری بہت سی چیزیں جیسے نئے کپڑے اور دوسری ضروریات کا سامان تھا "....
"بہت بہت شکریہ اس نوازش کا انکل"....
"وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا".....
"پشمینہ ناشتہ لگاؤ جا کر پھر جانا بھی ہے ہمیں"....
"ہاتھ میں موجود گھڑی پر ایک نظر ڈالے پشمینہ سے کہا تھا جو کہ اثبات میں سر ہلائے مشل کے ساتھ کیچن کی جانب روانہ ہوئی"....
"مینہ"....
"یار کتنی خوبصورت سجاوٹ کروائی ہے بھائی نے"....
"وہ پورے ریزورٹ کو پھولوں ، لائٹ اور موم بتیوں سے سجا دیکھ بولی تھی"...
"اس سجاوٹ کو دیکھ ایسا لگ رہا ہے جیسے بھائی بہت رومینٹک ہیں"...
"پشمینہ کے چہرے کو دیکھ وہ آنکھ ونک کیے بولی تھی"....
"ہاں ب۔۔بہت "...
"تمہاری سوچ سے بھی زیادہ"...
"لبوں پہ تلخ مسکان لہجے میں اذیت سموئے وہ کھوئے ہوئے "....
"جسے منہ سائڈ پر ہونے کے باعث مشل غور نہ کر سکی"...
"یار ویسے تم دونوں کا کپل کتنا اچھا لگتا ہے"....
"تم جا کر انہیں اور پاپا کو بلا لاؤ"....
"مشل کی بات اگنور کیے بولی تھی کہ وہ مصنوعی گھوری سے دیکھتے باہر گئی تھی"....
©©©
"احمر "...
"وہ ونی کہاں ہے بلا اسے زرہ میرے کپڑے استری کرنے ہیں "...
"مونچھوں کو تاؤ دیے وقاص چوہدری اپنے ازلی غرور کے ساتھ بولے تھے"....
"بابا سائیں وہ نہیں آئے گی"...
"ان ہی کے چارپائی پر انہیں کے ساتھ بیٹھے احمر چوہدری بولا تھا"...
"جب کہ احمر چوہدریوں کی بات سن چوہدری وقاص کے ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی تھیں"....
"احمر چوہدری تم اس ونی کی طرف داری کر رہے ہو"...؟؟؟؟
"اپنی بڑی ماں کا ہمدردی کا بھوت تمہارے دماغ پر بھی سوار ہو چکا ہے"...؟؟؟
"یا بھول گئے ہو اپنے بھائی کے خون کو "...؟؟؟؟
"ماتھے پر بلوں کے جال بچھائے وہ نہایت کرختگی سے بولے تھے".....
"بابا سائیں" ۔۔۔۔
"میں کچھ نہیں بھولا".....
"سب یاد ہے مجھے اور کوئی ہمدردی کا بھوت نہیں چڑا مجھ پر"....
"احمر چوہدری سب بھلا سکتا ہے مگر اپنے بھائی کا خون اور اپنی بے عزتی نہیں"....
"آنکھوں میں چھائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے باپ سے مخاطب ہوا تھا".....
" کہاں ہے وہ "...؟؟؟؟
"ہکے کا ایک گہرا کش لیے ہوا کے سپرد کرتے وہ احمر سے مخاطب ہوئے"....
"بس یوں سمجھ لیں اپنی اصل جگہ پر ہے".....
"چہرے پر شیطانی مسکراہٹ سجائے ان کی جانب دیکھا تھا اس نے"....
"احمر کی بات کا مطلب سمجھ چوہدری وقاص کے چہرے پر بھی شیطانیت سے بھرپور مسکراہٹ آئی تھی"....
"شاباش"........
"آج تو نے ثابت کر دیا ہے کہ تو ہمارا بیٹا ہے"......
"اس کے کاندھے کو تھپکا تھا انہوں نے"....
" وہاں میدان میں دونوں باپ بیٹے کا قہقہ گونجا تھا".....
"اس بات سے انجان کہ یہی قہقے بہت جلد اذیت اور آنسوں میں بدلنے والے ہیں کیونکہ جو قہقہ کسی دوسرے کو تکلیف دینے پر لگائے جاتے ہیں بعد میں وہی قہقے بدل جاتے ہیں چیخ و پکار میں"....
"مشل وہ ٹیشو دینا"....
"پشمینہ نے مشل سے کہا تھا جس کے سامنے ہی ٹیشو باکس رکھا تھا"...
"او ہو "...
"مینہ "...!
"کیوں تنگ کر رہی ہو اسکو "..؟
"جب میں ہوں تمہارے پاس"...
"کہتے فاتح نے پاکٹ میں موجود ٹیشو نکال کر پشمینہ کا چہرا صاف کیا تھا"....
"جبکہ پشمینہ حیرانی سے فاتح کی اس عنایت کو دیکھ رہی تھی اپنے سرخ چہرے کے ساتھ "...
"کیا دکھاوا کرتا تھا وہ شخص "...
"اسکے باپ کے سامنے".....
"وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی "...
"اب کھاؤ دھیان سے"....
"ٹیشو سائڈ پر رکھے اس کو مسکراتے ہوئے تنبیہ کی تھی "...
"م۔۔میں ب۔۔بس "....
"کہتے وہ کھڑی ہو گئی تھی اور باہر کی جانب چل دی".......
"منصور صاحب دل سے مسکرائے تھے فاتح کی فکر دیکھ "....
"ان کے دل کا بوجھ ہلکا ہوا تھا فاتح کا رویہ پشمینہ کے ساتھ دیکھ کر لیکن وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ سب دکھاوا تھا "....
"انہیں دھوکہ دینے کے لئے".....
©©©
"زمینوں سے لوٹ کر احمر جب کمرے میں داخل ہوا تو سحر کو اسی پوزیشن میں بیٹھے دیکھ ماتھے پر شکنیں نمایاں ہوئی تھی"....
" تم نے ابھی تک کپڑے نہیں دھوئے"...؟؟؟؟
"نخوت سے اسکے وجود کو تکتے ہوئے کہا تھا".....
"و۔۔وہ ....
"میری باتیں بکواس ہوتی ہیں جو تمہاری سمجھ میں نہیں آتی "...؟؟؟؟
"اسکے جبڑوں کو اپنی مضبوط گرفت میں دبوچے غرایا تھا"....
"کہ اسکی بات ہی منہ میں رہ گئی تھی".....
" احمر کی سخت انگلیاں اسکو اپنے جبڑوں میں دھنستی ہوئی محسوس ہوئی"....
"کتنے گھنٹے پہلے کہا تھا تم سے"...؟؟؟
"گرفت مزید سخت کرے وہ چیخا تھا"....
"د۔۔۔دو گ۔۔گھنٹے"...….
"آنسوں کو بہنے سے روکے وہ بھاری آواز سے بولی تھی"....
"تو پھر میرا حکم کیوں نہیں مانا "...؟؟
"کہیں میں نے تمہاری سزا کم تو نہیں رکھ دی"....
"جو تم اس انتظار میں ہو کہ میں تمہاری سزا بڑھاؤں تو پھر تم کام کرو"....
"آنکھیں چھوٹی کیے وہ دانت کچکچا کر بولا تھا"..
"کہ سحر نے بے بسی سے اسکی جانب دیکھا تھا پہلے ہی وہ جسم دکھنے کے باعث کام نہیں کر رہی تھی لیکن وہ سنگدل سزا بڑھانے کی بات کر رہا تھا"......
"تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹا ہے جس میں تم سارے کپڑے دھو گی"..
"کہتے بنا اسکی تکلیف کی پرواہ کیے جھٹکے سے واشروم کی جانب دھکیلا تھا اسے"....
©©©
"تمہارے گاؤں کا نام کیا ہے"..؟؟؟
" شہیر نے پوچھا تھا سامنے بیٹھے ارمان سے جو سر جھکائے بیٹھا تھا"...
"شائد اپنی بے بسی کی وجہ سے وہ نڈھال سا تھا"....
"بہ۔۔۔۔
"اسکو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا تھا کیونکہ شہیر کے فون کی چنگھاڑتی آواز نے تسلسل کو توڑا تھا"....
"ایکسکیوز می"....
"وہ معذرت کرتا وہاں سے کھڑا ہوتا باہر کی سمت آیا"...
"میمونہ بیگم کی کال دیکھ مسکرایا تھا پھر فون اٹینڈ کیے کان سے لگایا "...
"اسلام وعلیکم "۔۔
"ماما کیسی ہیں آپ".؟؟؟؟
"اپنے مخصوص انداز میں ان کی خیریت دریافت کر گیا تھا"..
"وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں بیٹا تم سناؤ کیسے ہو"...؟؟؟
"بس آپ کی دعائیں ہیں"...
"بیٹا گاؤں کب چکر لگاؤ گے"...
"مجھے تو ایسا لگتا ہے گاؤں کا رستہ ہی بھول بیٹھے ہو تم "....
"جو یہاں آنا گوارہ نہیں کرتے"....
"ہاہاہاہا ماما ایسی بات نہیں ہے".. ۔"دراصل یہاں کام اتنا ہوتا ہے کہ موقع نہیں ملتا ان شاءاللہ جلد آؤں گا"..
" خدا تمہیں کامیاب کرے جلد چکر لگانا "..
"مگر شہیر اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کر حویلی چکر ہی لگا لیا کرو".....
"جی ماں ضرور چکر لگاؤں گا"...
"سب کو میرا سلام کہیے گا"....
"اور چھوٹا ارتضیٰ کیسا ہے"...؟؟
"اسے میرا پیار دیجئے گا"...
"وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا"…..
"لیکن وہاں بیٹھی میمونہ بیگم کی مسکان سمٹی تھی شہیر کی بات سن"...
"چلیں ماں اب فون رکھتا ہوں"..
خدا حافظ"......
©©©
"یہ کیا ہے "....
"اتنا نمک"..؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
"ٹیبل پر موجود سالن کی پلیٹ کو اٹھا کر نیچے فرش پر پٹخا تھا"...
"سکینہ بیگم پہلے تو چوہدری وقاص کے بھڑکنے ہر گھبرا گئی تھیں لیکن نہایت افسوس بھری نگاہ سے دیکھا تھا ان کی جانب جب انہوں نے کھانے کی بے حرمتی کرتے ہوئے سالن زمین پر پھینکا تھا"....
"ڈھلتی عمر کو پہنچ گئی ہیں لیکن کھانا بنانے کی تمیز چھو کر نہیں گزری ".....
"ملامت بھری نظروں سے ان کی جانب دیکھا تھا"....
"جبکہ وہ شکوہ بھری نظروں سے چوہدری وقاص کو دیکھ رہی تھیں"...
"جنہوں نے پہلے زبردستی اسے کیچن میں بھیج کر کوفتے بنوائے دے "...
"اور جب وہ اتنی محنت سے ان کے ذائقے کے مطابق بنا کر لائی تھیں"...
"ساری محنت کو خاک کر دیا تھا وہ سارا کھانا فرش کی نظر کر کے"...
"وہ سکینہ کو تمیز سکھا رہے تھے کیا بڑتی عمر کے ساتھ انہیں بھی تمیز نہ آئی تھی کہ رزق کو فرش پر نہیں پھینکتے "....
"وہ بس سوچ کے رہ گئی تھیں "....
"وقاص سائیں "....
"آپ غصہ نہ کریں دیکھیں میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کے لئے کشمیری پلاؤ بنایا ہے"....
"باورچی کھانے میں سے نورے بیگم نمودار ہوئی تھیں ہاتھوں میں تھامے تھامے پلاؤ کے ساتھ"....
"واہ بیگم واہ یہ اچھا کیا تم نے"....
"ورنہ اس عورت نے مجھے بھوکا رکھنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی تھی"...
"اس عورت کے نصیب میں ہی نہیں کہ مجھے خوش رکھ سکے"...
"وہ نخوت سے سکینہ کو دیکھتے ہوئے بولے تھے"....
"جب کہ چوہدری وقاص کے الفاظ تیر بن کر سکینہ بیگم کے دل پر لگے تھے"....
"کون سا ایسا لمحہ نہیں تھا جس میں وہ ان کو خوش رکھنے کی کوشش نہیں کرتی تھی"....
"آج تک کون سا ایسا دن تھا جس میں سکینہ نے ان کی خلاف ورزی کری ہو"....
"ہاں البتہ وہ بات الگ تھی کہ وہ تو کبھی ان سے خوش ہی نہ تھے"...
"وہ تو ہمیشہ کوشش کرتی تھیں ان اختلافات کو مٹانے کی مگر چوہدری وقاص شائد ان اختلافات کو مٹانا ہی نہیں چاہتے تھے کیونکہ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی "نورے کے نام کی پٹی"....
"بیگم جلدی جلدی کھانا پروسیں ، اتنی شاندار خوشبو آ رہی ہے کہ بھوک مزید بڑھ گئی ہے اب اور صبر نہیں ہو رہا "...
"اپنے دونوں ہاتھوں کو وہ آپس میں رگڑتے ہوئے بولے تھے"....
" میرے سر کے سائیں "..
"یہاں نہیں کمرے میں".....
"کیونکہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں گندی نظریں لگانے کو"....
"ایک جتاتی نظر سکینہ بیگم کے وجود پر ڈالی تھی جن کی آنکھوں کے گوشے بھیگے ہوئے ہوئے تھے"...
"پھر وہ چوہدری وقاص صاحب کا ہاتھ تھامے لے جا چکی تھیں"......
"چوہدری وقاص نے سکینہ بیگم کی جانب دیکھنا گوارہ نہ کیا تھا".....
"سکینہ بیگم نے بھیگی آنکھوں سے ان دونوں کو جاتے دیکھا تھا جن کے قہقے انہیں یہاں تک سنائی دے رہے تھے"۔
"اپنے آنسوں کو پونچھتے وہ فرش کو صاف کرنے لگی تھیں جو ان کے نام نہاد شوہر اپنی انا اوع جلال کے باعث خراب کر چکے تھے"....
"اوپر کھڑی میمونہ بیگم نے نہایت افسوس سے اپنی بڑی بہن کی جانب دیکھا تھا جو اتنے سالوں سے کبھی اپنے حق کیلئے نہ لڑی تھیں
بلکہ خاموشی سے اپنے شوہر کی ہر اذیت کو سہہ جاتیں"..
اور شائد یہی وجہ تھی کہ ان یہی خاموشی نے نورے بیگم اور چوہدری وقاص کو شیر بنا دیا تھا جبھی ان کے ساتھ نا انصافی کر جاتے تھے"....
©©©
"سنو"..!!
"وہ جو کپڑے تھامے واشروم میں لے جارہی تھی دھونے کیلئے احمر کی پکار پر نا سمجھی سے دیکھا تھا "....
"پہلے یہ بیڈ کی چادر تبدیل کرو اور اسکو بھی لے جا کر دھو "....
"ہنوز فون میں مصروف بنا اسکی جانب دیکھے کہا تھا اس نے"...
"پہلے ی۔۔یہ آ ۔۔آپ کے کپڑے دھو لوں پھر یہ بھی دھو لوں گی"....
"ڈرتے ڈرے کہا تھا سحر نے کہ کہیں وہ کم عقل انسان پھر سے نہ شروع ہو جائے"...
"سحر کی بات سن فون سے نظریں ہٹائی تھیں اور بھنونے سکیڑے اسکی جانب دیکھا "....
"بحس کرنے کا نہیں کہا "...!
"جتنا کہا یے اتنا کرو"...
" گھورتے ہوئے کہا تھا احمر نے جیسے سحر کی بات اسے زیادہ پسند نہ آئی ہو"....
"وہ بھی کپڑے ایک جانب رکھے خاموشی سے نئی بیڈ شیٹ نکال کر لائی تھی اور بیڈ پر بچھی پرانی شیٹ کو اتار کر نئی شیٹ چڑھانے لگی"٫...
"اسکی تمام کاروائی احمر سامنے لگے شیشے میں سے بغور دیکھ رہا تھا"....
©©©
"کیا ہوا بیگم سائیں اتنی گم سم کیوں ہیں"...؟؟؟
"چوہدری وقار نے کھڑکی کے پاس اپنے خیالوں میں کھوئی کھوئی کھڑی میمونہ بیگم کو دیکھ کر کہا تھا"...
"جو نا جانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھیں"....
"میں سوچ رہی ہوں کہ جیٹھ سائیں نے ایسا کیوں کیا ہے"...
"کیا مطلب"..؟؟؟
"چوہدری وقاص نے نا سمجھی سے میمونہ بیگم کی جانب دیکھا "...
"مطلب کہ شہیر کو ارتضیٰ کی موت سے بے خبر کیوں رکھا ہے"..
"آخر ایک نا ایک تو اسے معلوم ہو ہی جائے گا پھر وہ ہم سے ناراض ہو گا کہ ہم نے بھی اسے نہیں بتایا".....
"سائیں آپ جانتے ہیں"...
"آج شہیر سے بات ہوئی "....
"ارتضیٰ کا پوچھا تھا اس نے"....
بند ہیں گلیوں میں گلیاں ہیں گھروں سے گھر جدا
ہے کوئی شہر میں شہرِ دگر سب سے الگ
"وہ تو جانتا بھی نہیں دور بیٹھے جس کا حال پوچھ رہا ہے وہ تو ہم میں رہا ہی نہیں"....
"انتہائی کرب آمیز لہجے میں بولی تھیں وہ".…..
"آللہ پر یقین رکھیں میمونہ بیگم سب بہتر ہو جائے گا"....
"بے شک وہ جو کرتا ہے اس میں اسکی مصلحت ہوتی ہے"....
"میمونہ بیگن نے اثبات نے سر ہلایا جیسے ان کی بات سے متفق ہوں"....
" سائیں آپ ہماری جان ہیں"...
"یوں اداس نہ ہوا کریں"....
"ہمارے دل کی دنیا ویران ہونے لگتی ہے آپ کو یوں اداس دیکھ "....
"چوہدری وقار اتنے پیار سے بولے تھے کہ وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی تھیں"....
©©©
"بھائی کتنا پیارا ریزورٹ ہے میرا تو جانے کا ہی دل نہیں چا رہا "...
"ستائشی نظریں پورے ریزورٹ میں گھومائی تھیں مشل نے "...
"تو آپ یہاں رہ لیں جب تک آپ یہاں رہنا چاہتی ہیں"....
"فاتح مشل کی بات سن کر مسکراتے ہوئے بولا تھا"....
"نہیں بیٹا رہنے دو یہ تو ہے ہی پاگل ".....
" منصور صاحب نے مشل کو آنکھیں دیکھاتے ہوئے کہا جو کہ فاتح کی بات پر کافی ذیادہ خوش ہو چکی تھی "....
"نہیں انکل کوئی مسئلہ نہیں ہے اگر یہ رہنا چاہتی ہیں تو رہ سکتی ہیں"...
"بھائی رہنے دیں پاپا کو تو میری خوشی راس ہی نہیں"...
"وہ منہ بنائے سائیڈ پر کھڑی ہو گئی تھی"....
"جبکہ منصور صاحب اچھا خاصا شرمندہ ہوئے تھے مشل کی حرکت پر ".....
©©©
"تمہارے پاس صرف آدھا گھنٹا رہ گیا ہے"....
"اور ابھی تک تم نے صرف یہی تین سوٹ دھوئے ہیں"...؟؟؟؟
"ایک ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالے ، تیوری چڑھائے ' کپڑے دھوتی سحر کو دیکھ بولا تھا"....
"احمر کی نظریں اور آواز اپنے عقب پر محسوس کیے اس کے کام کرتے ہاتھ ساکت ہوئے تھے".....
"واش۔۔واشنگ م۔۔مشین م۔موجود نہیں ورنہ میں آ۔۔آدھے گھنٹے میں ہی یہ سب دھو لیتی ، ہ۔۔ہاتھ سے دھونے میں ٹائم لگتا ہے"....
"اب کے سحر کی نظریں جھکی ہوئی نہیں تھیں وہ دیکھ رہی تھی مقابل کھڑے چوہدری احمر کی آنکھوں میں ، جس کی آنکھوں میں ہمیشہ سحر کے لئے نفرت اور حقارت موجود ہوتی تھی".....
"سحر کی بات سن احمر نے بھنونے اچکائے حقارت سے اسے دیکھا "...
"جیسے کہنا چا رہا ہو کہ تمہاری اوقات ہے واشنگ مشین میں کپڑے دھونے کی".....
"میں کچھ نہیں جانتا وقت پر کام مکمل کرو "..…
"جتنا دیر کرو گی زندگی اتنی ہی انجیرن ہو گی تمہاری"....
"سفاکیت سے کہے وہ تو جا چکا تھا جبکہ نہایت افسوس سے احمر کی پشت کو دیکھا تھا اس نے"....
"جو بے تکی بات کہے جا چکا تھا"...
"اسکی بات میں نہ کوئی وزن تھا اور نہ جواز"....
"سر جھٹکتے وہ واپس کام میں مشغول ہو گئی تھی".....
©©©
"ائم سوری بھائی"...
"گاڑی کی خاموشی میں مشل کی آواز گونجی تھی"....
"کس لئے"...؟؟؟
"گاڑی ڈرائیو کرتے فاتح نے کندھے اچکائے مشل کو فرنٹ مرر سے دیکھ کر کہا"....
"وہ اس دن دامنِ کوہ پر میری جب آپ سے ٹکر ہوئی تھی "...
"میں نے بنا سوچے سمجھے آپ سے بد تمیزی کر دی"...
"وہ نا مجھے معلوم نہیں تھا کی آپ میرے جیجا بھائی بننے والے ہیں اگر پتہ ہوتا تو کبھی میں ایسا نہیں کرتی"......
"بھائی ویسے آپ بہت اچھے ہیں".....
"کہ آپ نے مجھے ڈانٹا بھی نہیں".......
"میری اتنی بدتمیزی پر ورنہ کوئی اور ہوتا تو ایک دو لگا ہی دیتا"...
"پہلے وہ خوشی سے چہکی تھی مگر بھی سر جھکائے منہ پھلائے بولی کہ فاتح کے چہرے ہر مسکراہٹ ٹھہر گئی تھی".....
"اٹس اوکے پرنسس".....
وہ ہنستے ہوئے بولا تھا اور ساتھ ہی گاڑی کو بریک لگائی کیونکہ ان کا گھر آ چکا تھا"...
"منصور صاحب اور مشل گاڑی سے اتر چکے تھے انہیں خدا حافظ کہے"....
"جبکہ پشمینہ کا دماغ وہیں مشل کی بات پر اٹکا تھا"....
"کہ دامنِ کوہ پر ہوئی تھی ان کی ملاقات "......
"اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی ".....
"اس سے بات کرتے وقت تو فاتح کے لہجے میں کانٹے موجود ہوتے جبکہ مشل سے گفتگو کے دوران اسکے لبوں سے مسکان جدا نہ ہوئی تھی".......
"نیم اندھیرے میں ڈوبی وہ کوٹھری "....
"اس کوٹھری کے وسط میں موجود ٹوکری جس میں ایک سہمی چڑیا بیٹھی تھی "....
"وہ چڑیا اڑنا چاہتی تھی مگر ستم یہ تھا کہ اس کے پر کاٹ دیے گئے تھے"....
"اس چڑیا کے دائیں اور بائیں دو بھورے رنگ کے بلے موجود تھے"....
"جو ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے غراہ رہے تھے اور ان کے غرانے پر وہ چڑیا خوف سے سہم رہی تھی"....
"اسکی آنکھوں میں خوف سا نمایاں تھا".......
"ایک بلا جیسے ہی غراتے ہوئے چڑیا پر جھپٹنے لگا دوسرے بلے نے فوراً اس بلے کی گردن دبوچی تھی"...
"اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں آپس میں لڑنے لگ گئے تھے"......
"ان دونوں بلوں کے غرانے کی آواز وہاں کوٹھری کے ماحول کو نہایت ہیبت ناک بنا رہی تھی"...
"یا آللہ ".....
"پسینے میں شرابوز شہیر فوراً نیند سے بیدار ہوا تھا"....
"یہ اسکے ساتھ تیسری مرتبہ ہوا تھا جو وہ ایسا کوئی خواب دیکھ رہا تھا"...
"کیا ہیں یہ خواب "...؟؟؟
"کیوں ہیں"...؟؟
"اور بھلا کیا مقصد ہوا ان سب کا"..؟؟؟
"اور ہر دفع ایک ہی کوٹھری "...؟؟؟
"یہ تمام سوالات اس کے ذہن میں گھوم رہے تھے"...
"جن کے جواب کی تلاش تھی اسے"...
"وہ ٹھان چکا تھا کہ اب ان خوابوں کی تعبیر جان کر رہے گا".....
©©©
"کہتے ہیں ہر صبح سورج سب کے لئے نئی روشنی لیے نکلتا ہے"....
"جو ان کی تاریک راتوں کو اجالے سے بھر دیتا ہے"...
"لیکن نہیں"....
"یہاں کوئی وجود ایسا بھی تھا جس کی ہر صبح بھی تاریک تھی اور شام بھی"....
"شائد اسکا سورج ہی تاریک تھا جو اسکی زندگی اندھیروں سے بھر گئی تھی"...
"لڑکی اٹھ جاؤ بہت سو لی تم".....
"احمر چوہدری کی سرد ترین آواز تاریک کمرے میں گونجی تھی".....
"سحر جس کی آنکھ کچھ دیر پہلے لگی تھی "....
"کمرے کی گہری خاموشی میں احمر چوہدری کی سرد آواز سن وہ حواس بحال کرنے کی سحی کرتی نیند سے بیدار ہوئی اور نیند سے بوجھل آنکھوں کے ساتھ اسکی جانب دیکھا جو اسے اٹھنے کا اشارہ کر رہا تھا "....
"آنکھیں ہتھیلی سے مسلتی وہ کھڑی ہوئی تھی جیسے نیند کو پرے کرنا چا رہی ہو ، کیونکہ قسمت میں تو شائد سکون کی نیند لکھی ہی نہیں تھی "......
"جی "....
"وہ سر جھکائے کھڑی تھی اس کے سامنے "....
"اس کے حکم کے انتظار میں"...
"احمر صوفے پر ٹانگ پہ ٹانگ دھرے بیٹھا تھا"....
"سفید شلوار قمیض ، کاندھے پر کالے رنگ کی مردانہ شال ڈالے جبکہ پاؤں میں پہنی پشاوری چپل "...
"بلا شبہ وہ کافی وجیہہ تھا "....
"مگر "......
"صرف دیکھنے کی حد تک "....
"احمر نے کوئی جواب دیے بنا اسکے ہاتھ سے کھینچ بیٹھایا تھا اپنے پہلو میں "....
"احمر نے محسوس کیا وہ گرم ہو رہی تھی ، "آنکھیں اسکی لال تھیں اور جسم اسکا بخار سے تپ رہا تھا ".....
"لیکن وہ اگنور کر گیا تھا"....
"کیونکہ یہ سب اُس جابر انسان کی ہی تو کرم نوازی تھی"...
"جس نے اتنی سردی میں پہلے اس سے کپڑے دھلوائے "...
"اور پھر پوری رات ٹھنڈے فرش پر سلایا تھا"......
"کیونکہ بقول اسکے وہ شاہی بستر صرف ان لارڈ صاحب کے لئے تھا".....
"ویسے تو تمہاری اتنی حیثیت نہیں کہ میرے ساتھ بیٹھو "...
"پر خیر ہے"...
"اس کے وجود کو ان نظروں سے دیکھ کر مسکرایا تھا جیسے وہ کوئی حقیر ہو"....
"سر جھٹکا تھا اس نے"....
"کیسی گزری شب "...؟؟؟
"وہ شائد اسکا ضبط آزمانہ چاہا رہا تھا".....
"چہرے پر بکھرے ان ریشم بالوں کی زلفوں کو پرے کیا تھا".....
"احمر کے سوال پر سحر نے درد بھری نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا "...
"کیا وہ انجان تھا اسکی حالت سے یا انجان بن رہا تھا"....
"جبکہ وہ قہقہ لگا گیا تھا اس کی آنکھوں میں چھپے درد کو دیکھ"...
"یہی تو چاہتا تھا وہ"....
"اس کو تکلیف دینا".....
"ان آنکھوں میں آنسوں کا انبار دیکھنا".....
"یہی سب تو چوہدری احمر کو سکون دیتے تھے".....
"ناشتہ کرو گی"...؟؟؟؟"اسکے جھکے سر کو دیکھتے بولا جو گود میں رکھے اپنے ہاتھوں کو کھروچنے میں مصروف تھی"....
"اپنی وہ تاریک آنکھیں اٹھائی تھیں جن میں کبھی ستاروں کی مانند چمک ہوا کرتی تھی"..
"ایسے نہ دیکھو "...
"جانتا ہوں سزا میں ہو تم ، لیکن اب اتنا سفاک بھی نہیں "...
"ہنستے ہوئے بولا تھا جبکہ سحر اس بے رحم ستمگر کو دیکھتی رہ گئی تھی"....
"کیا وہ انسان نہیں تھا"...؟؟؟؟
"وہ ایسے ہنس رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو".....
"یہ لو کر لو ناشتہ"....
"ناشتہ کرو گی تبھی تو اس قابل ہو گی کہ ہر درد کو سہہ سکو"...
"سفاکیت سے کہتا ظلم کی تمام حدود کو پار کر گیا تھا"....
"ہاں وہ ان کے ظلم ہی تو سہنے آئی تھی"....
"ظلم "... ںے تکے ظلم"......
"سوچتے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی تھی"....
"اپنا بچا ہوا ناشتہ اسکی جانب کیا تھا "....
"کیا ہوا کھاؤ نا"....
"اسکو ہنوز ویسے ہی بیٹھے دیکھ اپنی بات دہرائی تھی".....
"ن۔۔نہیں م۔۔۔میں ج۔۔جوٹھا ن۔۔نہیں کھاتی".....
"سحر کی بات سن پہلے تو اسکے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا لیکن پھر خود کو نارمل کیا تھا اس نے"....
"ارے میاں بیوی میں کیسا پرہیز"....؟؟؟
"آنکھوں میں سختی جبکہ چہرے پر مسکان تھا ۔۔ شیطانی مسکان"...
"سحر نے آنکھوں میں شکوہ لئے اسے دیکھا جیسے احساس دلانا چاہ رہی ہو"...
"بیوی"...؟؟؟
"بیوی کی حیثیت دی یے کبھی وہ تو نوکرانیوں سے بھی برتر رکھتا تھا اسے"....
"چلو جلدی سے یہ چائے پیو"....
"اس کا منہ سختی سے تھامے چائے پلانے کے لئے کپ اس کے لبوں سے لگانا چاہا تھا"...
"ن۔۔نہیں احمر م۔۔مجھے جھوٹے سے الرجی ہے پل۔۔پلیز ن۔۔نہیں"....
"مسلسل نفی میں سر ہلاتی وہ پیچھے کو کھسکی تھی کہ کپ سے چائے جھلک کر دونوں پر گر پڑی تھی"......
"احمر کی آنکھوں کا رنگ یکدم بدلنا شروع ہوا تھا ، "....
"اس نے دھکا دیا اسے صوفے سے کہ وہ نیچے فرش پر جا گری تھی اوندھے منہ"...
"تم جیسی عورتیں ہمدردی کے قابل ہی نہیں ہوتی "....
"کہتے وہ بنا اسکی طبعیت کی پرواہ کیے کسی چیل کی مانند اس پر جھپٹا تھا".....
"ن۔۔نہیں ا۔۔۔ احمر ۔۔۔۔ ن۔۔نہیں"....
"خ ۔۔خدا کے لئے ۔نن۔۔نہیں".....
"اسکو اپنی جانب بڑھتا دیکھ وہ پیچھے کو کھسکتی جا رہی تھی "....
"کیونکہ اس وجود میں اتنی سکت نہ بچی تھی کہ یہ سب سہہ سکے"...
"اس کی مار سے بچنے کے لئے اس نے اٹھ کر باہر جانا چاہا تھا لیکن اس سے پہلے ہی وہ اس پر جھپٹ چکا تھا"....
"اور تب تک اس پر بے در پہ در وار کرتا رہا جب تک وہ ادھ موی نہ ہو گئی".....
"م۔۔۔ماں"...........
"یا اللہ "......
"تکلیف سے دوہری ہوتی وہ اپنی ماں اور اللہ کو پکار رہی تھی"...
"لیکن اس بے رحم کو زرہ ترس نہ آ رہا تھا"......
"اب تو اس کے زخموں سے خون بھی رسنے لگا تھا لیکن احمر کو کچھ خوفِ خدا نہ تھا"...
"کیونکہ وہ خود کو ہی خدا سمجھ بیٹھا تھا".....
"وہ تو بھلا ہو سکینہ بیگم کا جو وہاں سے گزر رہی تھیں لیکن اندر سے آتی سحر کی چیخ و پکار پر دوڑتے ہوئے کمرے میں آئی تھیں لیکن اندر کا منظر دیکھ ان کا سر چکرا گیا تھا".....
"یا اللہ "....
"دل پر ہاتھ رکھتیں وہ فوراً آگے آئی تھیں اور بمشکل ہی احمر کو قابو کیا جو شائد آج اسے جان سے مار دینے کا ارادہ رکھتا تھا"....
"احمر چھوڑو بچی کو رحم کرو اسکی حالت پر "......
"مت روکیں بڑی ماں"....
"یہ ذلیل لڑکی رحم کے قابل ہی نہیں ہے"...
"کہتے بری طرح ٹھوکر رسید کی تھی ".......
"دور رہو احمر ".....
"اسکو کھینچ کر سائڈ پر کیا تھا".....
"مجھے نیچا دیکھاو گی"..؟؟
"ایک تو کھانا دے رہا ہوں اوپر سے نخرے نہیں ختم ہوتے "........
"باہر جاتے جاتے وہ واپس پلٹا تھا اور نیم بہوش سحر کا منہ دبوچے غرایا تھا".....
"جھوٹے سے الرجی ہے نا تمہیں "...؟؟؟
"اب تم وہی کھانا کھاؤ گی جو میرا میرا بچا ہوا ہو گا "......
"جبکہ سکینہ بیگم کی بس ہوئی تھی ان کا ہاتھ فضا میں بلند یوا اور احمر کے منہ پر نشان چھوڑ گیا"......
"دفع ہو جاو یہاں سے احمر".....
"انہوں نے بھپرے ہوئے انداز میں کہا تھا "...
"جبکہ احمر بے یقینی سے ان کی جانب دیکھ رہا تھا جنہوں نے آج تک کبھی اس پر ہاتھ نہ اٹھایا تھا لیکن آج صرف اس ونی میں آئی لڑکی وجہ سے اس پر ہاتھ اٹھایا تھا ان نے "........
"قہر برساتی نظر سحر کے وجود پر ڈالتا وہ غصے سے نکل چکا تھا وہاں سے"....
"جبکہ سکینہ بیگم نے رحم بھری نظروں سے اسکے وجود کو دیکھا تھا".....
"شائد ہم عورتوں کو کبھی اپنا مقام نہیں ملے گا"....
"تلخی سے سوچتی وہ سر جھٹک چکی تھیں"...
"اسکی حالت دیکھ ان کا دل دکھ رہا تھا "....
"کتنی ہی بے رحمی سے مارا تھا احمر نے اسے"........
"انہوں نے آگے بڑھ اسے سہارا دیے اٹھانا چاہا تھا لیکن تکلیف کے باعث اسکے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھی ،،
"چہرے پر لگاتار آنسوں بہہ رہے تھے".....
"اسکی یہ ہی آہیں ، یہ سسکیاں ، یہ درد دور بیٹھا کوئی شخص محسوس کر رہا تھا "....
"کہتے ہیں جب آپ کسی سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرو اور ٹوٹ کر کسی شخص کو چاہو تو مقابل سے آپ کے تمام احساسات وابسطہ ہو جاتے ہیں اس کے ہر درد ، ہر زخم ،ہر خوشی اور ہنسی کو قریب نہ ہو کر بھی محسوس کر لیا جاتا ہے "....
"اور ایسا ہی کچھ حال اپنے آفس میں بیٹھے شہیر چوہدری کا ہو رہا تھا"....
"وہ گزشتہ رات کے خواب کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ یکدم اسے کسی انجانی گھبراہٹ نے آن گھیرا تھا ".....
"اسلام آباد کے اس سرد ترین موسم میں بھی اس کے چہرے پر پسینہ نمایاں تھا".....
"گلے میں پہنی لال رنگ کی ٹائی کو کھینچ کر ڈھیلا کیا تھا"
"تازہ ہوا کے لئے اس نے گلاس ونڈو کھولیں تھیں اور وہاں خاموشی سے آ کھڑا ہوا تھا".....
"یہ کیسے احساسات ہیں"..؟؟؟
"کیوں مجھے اتنی گھبراہٹ ہو رہی ہے"....؟؟؟
"یا خدایا بے شک تو ہر شئے پر قادر ہے میری مدد فرما"....
"نیلگو آسمان کی جانب سر اٹھائے وہ خدا سے مدد مانگ رہا تھا"....
"کیا بات ہے شہیر "...؟؟؟
"آج اتنے خاموش خاموش کیوں ہو "..؟؟
"کہ دوست کے آنے کی خبر نہ ہو سکی "...
"فاتح کی بات سن وہ حیرانی سے پیچھے مڑا تھا اور اسکی جانب دیکھا جو ہاتھ میں کافی کا کپ تھامے اب چئیر پر بیٹھنے لگا تھا"....
"نہیں ایسی بات نہیں "...
"تم سناؤ "...
"تم آفس میں"...؟؟؟
"کیا مطلب میں آفس نہیں آسکتا"...؟؟؟
"وہ بھنونے اچکائے بولا"...
"میں نے ایسا کب بولا "...
"میر مطلب یہ تھا کہ آج تو تمہاری شادی کا دوسرا دن ہے اور تم آفس ٹپک پڑے"....
"وہ ہنستے ہوئے بولا تھا"....
"اور ساتھ ہی فاتح کی کافی کے کپ سے ایک گہرا گھونٹ بھرا تھا"....
"ہاں تو شادی ہی کی ہے کوئی پہاڑ تھوڑی توڑیں ہیں جو چھٹیاں کروں گا"....
"شہیر کی بات سن وہ بھی ہنستے ہوئے بولا تھا"....
"فاتح صاحب محبت کو حاصل کر لینا پہاڑ توڑنے کے مترادف ہی ہوتا ہے".....
"ہم سے پوچھو جو آج تک اپنی اس گمنام محبت کو ڈھونڈ نہ پائے "....
"تم تو اتنے قسمت والے ہو جسے اس کی محبت اتنی آسانی سے ملی ہے اسلئے بہتر ہے تم اپنا زیادہ وقت بھابھی کے ساتھ گزارو"....
"وہ ٹرانس سی کیفیت میں بولا تھا کہ فاتح کے چہرے پر چھائے تاثرات جان نہ پایا تھا"...
"جو اسکی بات سن سپاٹ ہوئے تھے"....
"ہنہ"....
"فاتح نے صرف ہنکار بھرنے ہر اکتفا کیا تھا"....
©©©
"آفس سے آنے کے بعد وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا تھا"....
آتے ساتھ ہی وہ صوفے پر ڈھ سا گیا تھا"...
"کیا ہوا آپ کو "...؟؟
"خیریت"..؟؟؟
"تھکے ہوئے لگ رہے ہیں"..؟؟؟
"پشمینہ نے جھجھکتے ہوئے سوال کیا تھا"....
"لیکن آگے سے جواب نادارہ تھا"...
"چ۔۔چائے لاؤں آپ کے لئے"....
"اسکو یوں ہنوز خاموش دیکھ وہ دوبارا بولی تھی "...
"جب کہ کب سے اسکو اگنور کرتے فاتح نے بھی ایک نظر اٹھاکر سامنے کھڑی پشمینہ کو دیکھا تھا جس نے لان کا سادہ جامنی سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا ، بالوں کو ہائی پونی میں قید کیا گیا تھا"....
"ایک جھلک بس اس پر ڈال ، ہاتھ میں موجود کوٹ سائڈ پر رکھا تھا"...
"پانی پئیں گے آپ "..؟؟
"خود پر اسکی نظریں محسوس کیے وہ پھر جھجھکتے ہوئے سوال کر گئی تھی اور ساتھ ہی فاتح کے غصے مین اضافہ ".....
"یہ اچھا بننے کا ڈرامہ بند کیوں نہیں کر رہی"..؟؟؟
"جب ایک بندہ جواب نہیں دے رہا تو سمجھ جاؤ وہ بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہے"...
"لیکن تم تو گوند کی مانند پیچھے ہی پڑھ گئی ہو"...
"چائے لاوں"...
"پانی لاوں"....
"بھئی نہیں چاہیے کچھ بہت مہربانی آپکی محترمہ"....
"اگر کچھ کر سکتی ہو تو ایک مہربانی کر دو "....
"اپنا یہ بہروپیا چہرا لے کر کہیں غائب ہو جاؤ کیونکہ جب جب تمہارے اس چہرے کو دیکھتا ہوں"...
"تو خسارہ یاد آتا ہے اپنا"....
"اپنی بے وقوفی و غلطی یاد آتی ہے"......
"فاتح کی بات سن پشمینہ نے شکوہ کناں نظروں سے اس کی جانب دیکھا تھا"..
"جیسے کہنا چا رہی ہو"...
"اس سب میں میرا کیا قصور"..؟؟؟
"جبکہ فاتح اس کی نظروں میں موجود نمی و شکوہ دیکھ اسے سراسر اگنور کیے فریش ہونے جا چکا تھا ".....
"شائد اسے کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا".....
"پشمینہ بھی اپنے بوجھل قدم اٹھاتی ڈریسنگ پر آئی تھی اور خود کے چہرے کو شیشے میں دیکھا تھا"....
"اسکا چہرا بھی ہو بہو مشل جیسا تھا"....
"ہاں وہ دونوں ایک جیسی ہی تو دیکھتی تھیں"....
بس فرق تھا تو صرف اس چاند کے نشان کا ".....
" ان دونوں کو مختلف بناتا تھا".....
"وہ آنسو پیتی خاموشی سے بیڈ پر آ بیٹھی تھی"...
"اور چادر تانے لیٹ گئی "...
"احمر غصے سے حویلی سے نکلتا سیدھا اپنے شہر میں موجود فلیٹ میں آیا تھا"...
"اس کا دماغ شل ہو رہا تھا"..
"آنکھوں میں غصہ تھا"......
"جیسے سب کچھ جلا کر راکھ کرنا چاہتا ہو"....
"اسکی ہمت کیسے ہوئی مجھ سے بدتمیزی کرنے کی".....؟؟؟؟
"جان سے مار دوں گا اس (..بیچ..) کو".....
"ہاتھ میں پکڑا حرام مشروب کا گلاس کھینچ کر دیوار پر دے مارا تھا"....
"جو کہ چھناک کی آواز سے ٹوٹتا زمین پر بکھر گیا تھا".....
"عمارہ جو ابھی فلیٹ میں داخل ہوئی ہی تھی کہ کمرے میں سے کچھ ٹوٹنے کی آواز پر فوراً حواس باختہ سی داخل ہوئی تھی لیکن آگے کا منظر دیکھ اس کی آنکھیں پھیل گئی تھیں جہاں احمر غصے میں پورے کمرے کا حشر نشر کر رہا تھا"...
"میری "..."میری زات کو کمتر ظاہر کرنے کی کوشش کی "....
"پھولی سانسوں کے ساتھ اس نے شیشے میں خود کے عکس کو دیکھا تھا اور پوری قوت سے ہاتھ شیشے میں دے مارا "...
"جس کے باعث شیشہ تو ٹوٹا ہی تھا لیکن وہ کانچ اسکا ہاتھ بھی زخمی کر گیا تھا"....
"احمر"....
"اسکا یہ جنونی انداز دیکھ عمارہ چیختے ہوئے آگے بڑھی تھی اور اسکا خون سے بھرا ہاتھ تھاما"...
"اور اسے سنبھالتی ہوئی بیڈ تک لائی تھی سائیڈ ٹیبل سے فرسٹ ایڈ نکالا '"...
"ک۔۔کیا ہو گیا ہے تمہیں"..؟؟؟
"ک۔۔کی۔۔کیوں اسطرح کر رہے ہو"..؟؟؟
"کانپتے ہاتھوں سے احمر کے ہاتھ کی بینڈیج کر رہی تھی "...
"میں چھوڑوں گا نہیں اسے "...
"مار ڈالوں گا"..."مار ڈالوں گا"...
"کیا بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تم "..؟؟؟
"کس کو مار ڈالوں گو"..؟؟؟
"اسکی لال انگارا ہوتی آنکھوں میں دیکھ وہ سوال کر گئی تھی "..
"ک۔۔کسی کو ن۔۔نہیں"....
"ت۔۔تم جاؤ ابھی مجھے سونا ہے"....
"اسکے سوال پر احمر نے کچھ ہوش سنبھالا تھا اور لڑکھڑاتی زبان کے ساتھ اسے جانا کا کہا تھا اور خود وہیں بیڈ پر ڈھہ گیا"....
"جبکہ عمارہ نے تفکر بھری نظروں سے اسکو دیکھا تھا "...
"جس کی حالت اس وقت قابلِ رحم تھی"...
" وہ باہر جاتے جاتے پلٹی تھی اور جھک کر اس کے ماتھے پر پھیلے بالوں کو ہٹایا اور وہاں اپنے لب رکھے تھے"....
"آئے لو یو احمر"......
"سرگوشی نما آواز میں کہتی وہ لائیٹس اوف کیے جا چکی تھی"..
©©©
"م۔۔مت ما۔۔مارو"..
"م۔۔مت مارو مجھے"....
"ا۔۔۔امی بچاؤ"....
"آہہہہ۔"....
"چ۔۔چھوڑ دی۔۔۔دیں م۔۔مجھے".....
"سحر بیٹا کیا ہوا"..؟؟
"آنکھیں کھولو چندہ"....
"سکینہ بیگم جو تسبیح پڑھ رہی تھیں سحر کو یوں نیند میں چلاتے دیکھ فوراً بھاگ کر اس تک آئی تھیں"...
"جو نیند میں کب سے چلائے جا رہی تھی "....
"نیند میں بھی اسکی آواز میں ایک خوف ، تکلیف ، کرب اور درد تھا"..
"آ۔۔آنٹی م۔۔مجھے ب۔۔بچا لیں و۔۔وہ مار مار ریں گے مجھے"...
"وہ خوف سے لبریز آواز میں کہتی سکینہ بیگم کے گلے لگی تھی اس کی آنکھوں میں ایک دہشت تھی"...
"جسے دیکھ سکینہ بیگم کو دکھ ہوا تھا"...
"کوئی نہیں مارے گا تمہیں"..
"م۔۔میں نے کیا کیا ہے آنٹی"..؟؟
"ک۔ک۔کچھ۔۔کچھ بھی تو نہیں "...؟؟؟
"پ۔۔پھر کیوں وہ میرے ساتھ ایسا کرتے ہیں"...؟؟؟؟؟
"اس کا نیل زدہ چہرا آنسوں سے تر تھا"...
"ادھر دیکھو"....
"آرام سے اسکا چہرا اٹھایا تھا "...
"سحر نے ڈرتے ڈرتے اپنی نظریں اٹھائی تھیں"...
"جہاں سکینہ بیگم نماز کے طریقے سے ڈوپٹہ باندھے بیٹھی اسی کو دیکھ رہی تھیں"...
"سکینہ بیگم کی جب نظر سحر کے چہرے پر موجود نیل کے نشانوں پر گئی تھیں انہیں احمر پر شدید غصہ آیا تھا جسے وہ بمشکل ہی پی گئی تھیں"....
"ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے یہاں کوئی نہیں آئے گا"....
"آپ آرام سے لیٹ جاؤ "...
"میں جب تک نماز پڑھ لوں"...
"وہ کہتی اٹھ گئی تھیں لیکن سحر کا دماغ اپنی بات سے جامد کر گئیں"...
"صرف وہ ایک لفظ "...
"نماز".....
"اِس ایک لفظ نے اس کے تاریک ذہن کو روشن کیا تھا"....
"ہاں کتنا عرصہ ہو گیا تھا اسے"...
"نماز ادا کیے"...
"اسے یاد ہے آخری نماز اس نے ظہر کی ادا کی تھی"...
"وہ بھی یہاں لائے جانے سے پہلے"...
"یہ سوچتے آنکھوں کو اذیت سے بند کیا تھا"...
"یہاں آنے کے بعد اپنے زخموں اپنی تکلیف کو سوچنے کے علاوہ کوئی کام ہی نہ رہا تھا "...
"وہ بس یہاں کی ہو کر رہ گئی تھی کہ اپنے خدا کو ہی بھول بیٹھی "....
"ان حالات نے کتنا دور کر دیا تھا اسے خدا سے"...
"کہتے ہیں بشر وہ ہوتا ہے جو حالات کی سنگینی کا ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے"..
"کتنے ہی مشکل حالات کیوں نہ ہو وہ اپنے رب کو نہیں بھولتا"...
"لیکن اس نے کیا کیا"...
"وہ غافل ہو گئی تھی اپنے رب سے"....
"مگر اب نہیں"...
"وہ فیصلہ کر چکی تھی "..
"اب وہ غافل نہیں رہے گی بلکہ اپنے رب کے حضور حاضر ہو گی".....
"چاہے کچھ بھی ہو جائے اپنے اور خدا کے درمیان فاصلے نہیں آنے دے گی"....
"اور اپنی کہی بات سچ کر دیکھائی تھی اس نے"...
"کیونکہ تھوڑی دیر میں ہی وہ رب کے حضور سجدے میں تھی"....
"یا اللہ۔۔۔ می۔۔میں تیری گناہ گار بندی ہوں"...
"ان م۔۔مشکل حالات میں تجھے ہی بھول بیٹھی"....
"م۔۔م۔۔مجھے معاف کر دے"....
"دعا کے دوران آنسوں مسلسل اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے"....
"زخم درہ جسم کے ساتھ سجدے میں بیٹھنا اسکے لئے مشکل ثابت ہو رہا تھا لیکن پھر بھی وہ خود پر ضبط کیے بیٹھی تھی"....
"م۔۔میں نہیں جانتی یہ سب تو نے کیوں کیا ہے"...
"بس اتنا جانتی ہوں ہر کام میں تیری مصلحت ہوتی ہے"...
"اگر یہ آزمائش ہے تیری جانب سے تو اس آزمائش پر غالب آنے کی سکت دے"...
"ربا درد اٹھایا زر پہ
آنسوں لائے تیرے در پہ
"بخش کہ یہ آزمائش میرے ایمان کو کمزور نہ کرسکے"...
"بس ایک التماس ہے تجھ سے".....
"کہتے اس کی آواز رندھ سی گئی تھی"....
"م۔۔میرے لئے آسانی فرما "..
"مجھے صبر عطا کر اور کبھی خود سے دور نہ کرنا"......
"آ۔۔آج کافی عرصہ بعد تیرے در پر ان آنسوں کے ساتھ داخل ہوئی ہوں مجھے خالی ہاتھ نہ لوٹا بلکہ میری دعا کو قبول فرما اے خدا"...
"اپنی آخری دعا کے ساتھ وہ اٹھی تھی"....
"جبکہ اسکو نماز پڑھتے دیکھ سکینہ بیگم مسکرائی تھیں"..
"نمی ان کی آنکھوں میں بھی جھلکی تھی"...
"کچھ ہفتوں بعد"....
""وہ ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا خود پر برانڈڈ پرفیوم سے چھڑکاؤ کرتا ساتھ ساتھ اپنے بھورے بال بھی سیٹ کر رہا تھا"..
"وائٹ شرٹ "...
"ریڈ ٹائی"....
"بلیک ڈریس پینٹ"...
"بالوں کو سلیقے سے سیٹ کیے وہ کافی پرکشش شخص لگ رہا تھا"...
"اپنی تیاری مکمل کرتا ایک طائرانہ نظر خود کے وجود پر ڈالی تھی اس نے"..
"پاس رکھا کوٹ دائیں ہاتھ میں اٹھائے وہ شان سے چلتا نیچے آیا تھا "....
"جہاں پشمینہ پہلے سے ہی ناشتہ ٹیبل پر لگائے بیٹھی اس کا ہی انتظار کر رہی تھی لیکن جا کر بلانے کی ہمت نہ کی"...
"معمول کے مطابق کوٹ کرسی پر رکھنے کے بعد وہیں ہی بیٹھا تھا"...
"نیوز پیپر آیا ہے آج "..؟؟؟
" فاتح نے ناشتہ سرو کرتی پشمینہ کو ایک نظر دیکھے ہوئے بولا تھا"...
"جی "...
"یک لفظی جواب دیے وہ نیوز پیپر اسکے سامنے رکھ چکی تھی اور خود بھی وہیں بیٹھے ناشتہ کرنے لگی"....
©©©
میں وہ دنیا ہوں جہاں تیری کمی ہے سائیاں
میری آنکھوں میں جدائی کی نمی سائیاں
"سوچو کتنا مزہ آئے گا"...
"جب تم یہاں سے چلی جاو گی"...
"میں سکون سے سو کر اٹھوں گی"..
"اکیلے اس گھر اور کمرے میں راج کروں گی"......
"پشمینہ کو روتے دیکھ وہ مزید چڑانے لگی تھی"..
"جاو بدتمیز !" میں تم سے اب بات بھی نہیں کروں گی "...
پتہ نہیں کیسی جڑواں بہن ہو میری ، جسے زرا بھی خیال نہیں ہے میرا۔۔۔
"اپنا اور پشمینہ کا فوٹو البم دیکھتی مشل کی آنکھیں نم ہوئی تھیں وہ بے اختیار مسکرا دی تھی جب شادی سے پہلے پشمینہ کی کہی بات یاد آئی جس میں وہ شادی کے ذکر پر ہی روٹھ گئی تھی".....
"آج اس البم میں ایک اور تصویر کا اضافہ کیا تھا اس نے جس میں ان دونوں کے بہنوں کی شادی کے وقت کی تصاویر تھی"...
"اس تصویر میں وہ دونوں بہنیں ایک دوسرے کے گلے لگی ہوئی تھیں"...
"منصور صاحب سے کہہ کر اس نے خاص یہ تصویر بنوائی تھی"...
"آئے مس یو مینہ"...
"تصویر کو دیکھتے ہوئے مسکرا کر بولی تھی "..
"پھر ساتھ ٹیبل پر رکھا اپنا فون اٹھایا اور اس تصویر کا اسکرین شاٹ لیے مینہ کے نمبر بھیجا"....
"نیچے لوونگ ایموجیز کے ساتھ "...
"Miss you sweetheart"....
لکھا ہوا تھا".....
©©©
"کیا ہوا فاتح سر جھکائے کیوں بیٹھا ہے"..؟؟
"آفس روم میں داخل ہوتے ہی شہیر نے فاتح کو دیکھ کر کہا تھا"...
"جو پریشانی کے عالم میں سر جھکائے ہوئے تھا"....
"یار پروجیکٹ فائل نہیں مل رہی"...
"تو جانتا ہے نا کتنی ضروری تھی وہ فائل اس ڈیل کے لئے"...
"اگر وہ فائل نہ ملی تو کروڑوں کا نقصان ہو گا"....
"اپنے لبوں کو بھینچے وہ اضطرابی کیفیت میں بولا تھا جبکہ فاتح کی بات سن شہیر کو بھی پریشانی نے آن گھیرا تھا"...
"یہ کیا بول رہا ہے تو"..؟؟؟
"رک "....!!
"ٹھنڈے دماغ سے سوچ کہ وہ فائل تو نے کہاں رکھی تھی لاسٹ ٹائم"....؟؟
"یار مجھے خود یاد ہے میں نے خود یہاں ٹیبل پر رکھی تھی مگر پتہ نہیں کہاں چلی گئی ہے"...
"وہ سر تھامے بیٹھ چکا تھا"....
"تبھی عروہ دروازہ نوک کیے اندر داخل ہوئی تھی"..
"سر میٹنگ روم میں سب آپ کا ویٹ کر رہے ہیں"....
"اپنے پروفیشنل انداز میں آ کر کہا تھا اس نے"....
"مس عروہ آپ وہاں جا کر سب کو ڈیل کریں "....
"ہم کچھ دیر میں آتے ہیں"...
"فاتح کے کچھ بھی بولنے سے پہلے وہ عروہ سے کہہ گیا"...
"کہ کہیں غصے میں فاتح کچھ غلط ہی نہ بول دے"....
"جی سر"...
"اس کے حکم کی تائید کیے وہ اثبات میں سر ہلائے جا چکی تھی"....
©©©
"وہ اپنے سامنے کھڑی اس کانچ کی بلڈنگ کو دیکھ رہی تھی"...
"جو کہ کافی اعلیٰ طرز کی بنائی گئی تھی"...
"وہ گہرا سانس بھرتی اندر لفٹ میں داخل ہوئی تھی"..
"وہ آفس میں تو آ گئی تھی لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ فاتح کا روم کون سا ہے"...
"وہ اسی کشمکش میں گھری کھڑی تھی کہ اسکی نظر لیفٹ سائڈ بنے بورڈ پر گئی جہاں بڑے بڑے انگریزی حروف میں ریسیپشن لکھا ہوا تھا"....
"ایکسکیوز می"....
"کسی لڑکی کی مدھم آواز پر ریسیپشنسٹ متوجہ ہوئی تھی "...
"یس"...؟؟؟
"ہاؤ کین آئے ہیلپ یو"..؟؟؟
"وہ لڑکی اپنے پروفیشنل انداز میں بولی تھی "...
"و۔۔وہ "....
"پشمینہ کنفیوژ سی ہو رہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے"...
"لیکن پھر خود میں ہمت جمع کیے سامنے کھڑی لڑکی سے مخاطب ہوئی".…
"آپ کے سر ہیں آفس میں "...؟؟
"جی میم بٹ آپ کون ہیں"..؟؟؟
"اور کون سے سر سے سر ملنا چاہتی ہیں "..؟؟؟
"سر شہیر "..؟؟
یا
"سر فات ..."...
"سر فاتح"....
"اس لڑکی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ بول گئی تھی"...
"آپ کے پاس اپائنٹمنٹ ہے"..؟؟؟
"جی "..؟؟؟
"ا۔۔اپائنٹیمنٹ"...؟؟؟
"پہلے تو وہ حیران ہوئی تھی اس کی بات سن مگر پھر اپنے چہرے پر در آنے والے حیران دیدہ تاثرات کو فوراً چھپا گئی تھی وہ "....
"آ۔۔آپ بس ان سے کہہ دیں کہ ان کی وائف آئی ہیں"...؟؟
"وہ ہاتھوں میں تھامے شاپر پر گرفت مضبوط کیے بولی تھی جوکہ اس بات کی نشانی تھی کہ وہ کنفیوژ ہو رہی تھی"..
"جبکہ پشمینہ کے لبوں سے ادا ہونے والے الفاظ سن وہ ریسیپشنسٹ اور اسکے ساتھ کام کرتی وہ لڑکی دونوں نے ہی ساکت نظروں سے اسکی جانب دیکھا"....
"آپ وائف ہیں ان کی"..؟؟؟
"اب کے دوسری لڑکی جس کا نام رومانہ تھا اس نے تصدیق چاہی تھی"...
"پشمینہ نے صرف سر کو ہلانے پر اکتفا کیا"...
"وہ ان کے یوں دیکھنے پر الجھ سی گئی تھی"...
"سر آپ کی وائف آئی ہیں"...
"فاتح جو فائل کی وجہ سے پہلے ہی ڈیپریشٹ تھا "...
"انٹر کوم پر اپنی ورکر کی بات سن ماتھے پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا تھا"....
"بھیجیں انہیں "....
"کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ غصے کے ضبط کرنے کیلئے ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے ہوئے بولا تھا"....
"سبھی کہیں مرے غم خوار کے علاوہ بھی
کوئی تو بات کروں یار کے علاوہ بھی"
" وہ آفس کا گلاس ڈور کھولے اندر داخل ہوئی تھی جہاں سامنے ہی فاتح اپنی راکنگ چئیر پر پریشان زدہ سا سر پیچھے چئیر سے ٹکائے بیٹھا تھا"...
"کیوں آئی ہو یہاں"...؟؟؟
"نظریں سامنے کھڑی اپنی بیوی کے وجود پر ٹکائے اس نے سوال داغا تھا"...
"لہجہ دھیما مگر سنجیدہ تھا"...
"جب کہ آنکھوں میں سرخی نمایاں تھی"...
"جسے پشمینہ نے بھی محسوس کیا تھا"....
"آپ کی طبعیت ٹ۔۔ٹھیک ہے"...؟؟؟؟
"اس کی یوں لال سرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ وہ تفکر زدہ لہجے میں بولی تھی"...
"جتنا پوچھا گیا ہے صرف اتنا جواب دو"...
"فضول بولنے کی اجازت میں نے نہیں دی ہے تمہیں"....
"وہ لمحوں میں اپنی کرسی سے کھڑا ہوتا اس تک پہنچا تھا"...
"اور اپنی سرد آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑھے بولا"....؟
"جبکہ اسکے یوں اسطرح آندھی کی مانند پہنچے پر وہ لمحے بھر کے لئے ڈری تھی"....
"بولو کیوں آئی ہو یہاں"..؟؟؟
"و۔۔وہ ص۔۔صبح آپ ۔۔"...
"او پلیز یہ ہکلانا بند کرو پہلے ہی میرا دماغ خراب ہوا ہے"...
"جو بولنا ہے جلدی بولو اور جاؤ یہاں سے"...
"اسکے بازوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیتا وہ غراتے ہوئے بیزار سے لہجے میں بولا تھا"...
" ہاتھوں پر گرفت سخت ہونے سے اور مقابل کے رویے سے پشمینہ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے تھے"...
پیار جو ملا مجھکو جینے کا بہانہ تھا
کیا پتا تھا جاں لے لے دل میرا نشانہ تھا
"بولو اب گونگی کیوں ہو گئی ہو"...؟؟
"یا صرف شوق تھا یہاں آنے کا"....
"اس نے کرختگی سے بولتے اس کو جھنجھوڑا تھا کہ پشمینہ کے ہاتھ میں موجود وہ فائل زمین بوس ہوئی تھی"....
"پشمینہ کچھ نہ بولی تھی "...
"بلکہ اسکی گرفت سے اپنا ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا تھا اور دوڑتی ہوئی وہاں سے گئی تھی"....
"آنکھوں سے آنسوں رواں تھا"...
"آس پاس موجود ورکرز کو بھی نہ دیکھا تھا بلکہ ان جے بیچ میں سے ہی وہ بھاگتے ہوئے گئی جبکہ اسکو یوں جاتے دیکھ فاتح نے سر جھٹکا تھا"...
"اور بیزاری کی سی کیفیت سے اس شاپر کو اٹھائے کھولا "...
"لیکن یہ کیا"..؟؟؟
"اسکی آنکھیں یکدم ہی کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں جب اس شاپر میں اسکی میٹنگ فائل کو دیکھا جس کیلئے پچھلے ایک گھنٹے سے وہ خوار ہو رہا تھا"....
"وہ حیرانی سے کبھی اس فائل کو دیکھتا تو کبھی اس دروازے کو جہاں تھوڑی دیر پہلے وہ دشمنِ جاں روتی ہوئی نکلی تھی"...
"فائل کو وہیں چھوڑے وہ باہر آیا لیکن تب تک وہ گاڑی میں بیٹھے جا چکی تھی".....
"شٹ"....
"اپنے سر پر زور سے ہاتھ مارا تھا"....
"وہ میٹنگ بھی صحیح سے اٹینڈ نہ کر پایا تھا "...
"پشمینہ کا روتا درد بھرا چہرا بار بار اسکی آنکھوں کے سامنے لہرا رہا تھا".....
درد تھا نصیب میں درد کو نبھانا تھا
آگ کے سمندر میں ڈوب کے ہی جانا تھا
©©©
"واٹس ربش عروہ"...
"میں کب سے تمہارا ویٹ کر رہا ہوں اور تم اب آ رہی ہو"..؟؟
"عروہ کے فلیٹ میں داخل ہوتے ہی احمر نے اسکے سامنے سوالات کا انبار کھڑا کر دیا "...
"ٹائم دیکھا ہے تم نے"...؟؟
"دائیں ہاتھ کی کلائی میں بندھی گھڑی کی جانب اشارہ کیا تھا"...
"ریلیکس احمر"....
"تم اتنا ہائپو کیوں ہو رہے ہو"..؟؟؟
"میٹینگ تھی اس وجہ سے لیٹ ہو گئی "
"سمپل"....!!
"یہ تمہارے لئے سمپل ہے"..؟؟
"سیریسلی عروہ"..؟؟؟
"اسکے شانوں سے تھامے اپنے قریب کیے اسکی آنکھوں میں دیکھتے سوال کیا"...
"میں یہاں سات بجے سے تیار بیٹھا تمہارا ویٹ کر رہا تھا کہ ہمیں آج باہر جانا تھا"...
"بٹ نو ایشو"...
"تم اپنی جاب اور میٹینگ دیکھ لو"...
"اوکے"....
"جھٹکے سے اسے چھوڑتا وہ باہر جانے کو تھا کہ عروہ نے احمر ہاتھ تھامے روکا تھا اسے"...
"ڈونٹ بی اینگری احمر"...
"تم جانتے ہو"۔۔!!
"I can't bear your Angry Mood"....
(میں تمہارا یہ ناراضگی والا موڈ برداشت نہیں کر سکتی)...
"اسلئے مجھ سے ناراض مت ہوا کرو"...
"بس تم مجھے دس منٹ دو ابھی ریڈی ہو کر آتی ہوں"...
"وہ کہتی اندر روم میں گئی تھی اور بیس منٹ بعد ہی واپس لوٹی تھی"...
"چلیں احمر"...
"احمر جس نے ناراضگی ظاہر کرنے کے لئے نظریں صرف فون پر مرکوز کی ہوئی تھی عروہ کی پکار پر بس سر سری سا اسے دیکھا تھا"...
"لیکن وہ سرسری نظر کب ساکن نظروں میں بدلی اسے معلوم ہی نہ ہوا"...
"بیوٹیفل"...
"وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولا تھا"..
"جبکہ اسکے یوں مسرمرائیز ہونے پر عروہ مسکرا دی تھی"...
"وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی گرے جینس پر وائف سمپل کرُتی پہنے ڈوپٹہ مفلر اسٹائل میں گلے پہ لپیٹے ہلکے میک اپ کے ساتھ"..
"بے شک وہ خوبصورتی کا پیکر لگ رہی تھی"...
"عروہ کو دیکھ وہ بھلا چکا تھا ساری ناراضگی"...
"یاد تھا تو صرف اتنا کہ سامنے وہ لڑکی ہے جس کو وہ پسند کرتا ہے"...
"جس سے اس نے محبت کی ہے"...
"تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں وہاں سے نکل چکے تھے اپنی منزل کی جانب".....
©©©
اجاڑ گھر میں یہ خوشبو کہاں سے آئی ہے
کوئی تو ہے در و دیوار کے علاوہ بھی
"گاؤں کی سڑکوں کو عبور کرتی ایک سفید رنگ کی مہنگی ترین گاڑی حویلی کے سامنے آ رکی تھی"....
"اس گاڑی نے جیسے ہی ہارن بجایا چوکیدار نے فوراً وہ بڑا دروازہ کھولا تھا"....
"جیسے عبور کیے وہ گاڑی مین پارکنگ میں رکی تھی"....
"پھر اس گاڑی میں سے اس حویلی کا پہلوٹھا چشم و چراغ "چوہدری شہیر" اپنی شاندار پرسینلٹی کے ساتھ نکلا تھا"....
"نیلی شرٹ جو کہ ڈارک بلو جینس پر بہت جچ رہی تھی، اس پر نفاست سے جیل سے سیٹ کیے گئے بھورے رنگ ریشمی بال"...
"اپنی گرے آنکھوں کو ڈارک بلو شیڈ کے چوکور چشموں کے پیچھے چھپائے وہ اندر حویلی کی جانب بڑھا تھا"...
"لیکن اس کے حویلی میں بڑھتے قدم تھمے تھے"...
"جب باغیچے کے دوسری طرف موجود کسی شناسا وجود کے آنچل نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی"...
"وہ احساس ، وہ کشش آج کتنے عرصے بعد دوبارا اس کے وجود میں جاگا تھا"...
"وہ حویلی کے اندر جانے کے بجائے وہاں باغیچے میں گیا تھا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا"...
"کیونکہ وہ جو کوئی بھی تھا شائد جا چکا تھا "....
"شب و روز کا ملنا تھا کیا
مرجھا کے یوں کھلنا تھا کیا
"کیا ہوا صاحب جی"...
"اسکو باغیچے کی جانب دوڑتے دیکھ رشید بھاگتے ہوئے آیا تھا"...
"ر۔۔رشید یہاں کوئی لڑکی تھی "...؟؟
"لڑکی"..؟؟؟
"ہاں میں نے خود دیکھا تھا"...
"او صاحب جی"..
" وہ چھوڑیں نا کوئی نوکرانی ہو گی"...
"وہ ہنستے ہوئے بولا تھا اور وہاں سے چل دیا جبکہ شہیر نے بھی قدم اب حویلی کی جانب بڑھائے تھے لیکن جاتے جاتے پیچھے موڈ کر دیکھنا نہ بھولا تھا"....
©©©
"وہ چار سو ہریالی میں گھرا ہوا گاؤں"..
"اس گاؤں میں موجود کھلا میدان اور اس کھلے میدان کے سامنے بنی وہ کوٹھری "....
"جس کے ایک کمرے سے کسی خاتون کی کراہنے کی آواز آ رہی تھی"....
"س .. سحر"...
پ۔۔پ۔۔پا۔۔۔پان۔۔نی"....
"کمرے کے پلنگ پر بخار میں تپتی وہ عورت نیم بہوشی کی حالت میں سحر کو آواز لگا رہی تھیں"..
"اس سحر کو جس کو وہ زندہ جہنم میں جھونک چکے تھے"...
"وہی سحر جس کی معصومیت کو روندتے ہوئے ونی کر دیا گیا"...
"اب اپنی اس تکلیف میں وہ اسی کو آوازیں دے رہی تھیں"...
"کیونکہ ہمیشہ بیماری کی حالت میں وہی ان کا خیال رکھتی تھی"....
"پ۔۔پا۔۔۔پانی"....
"زیشان جو ابھی گھر میں داخل ہوا تھا اپنی ماں کے کراہنے کی آواز پر دوڑ کر اس کمرے میں گیا تھا"....
"م۔۔ماں"...
"ان کا چہرا تھپتھپایا تھا جو بخار کی ذیاتی سے سرخ ہو رہا تھا"....
ہائے! آلله اماں آپ کو تو اتنا تیز بخار ہو رہا ہے"....
سعدیہ بیگم پر ہلکی سی چادر دے کر ساتھ ہی کمرے کا پنکھا ہلکا کیا تھا "...
"ماں یہ لیں پانی اور دوائی کھائیں"....
ان کو سہارا دیے کھڑا کیا اور پانی کا گلاس ان کے لبوں سے لگایا تھا "....
"بی۔۔بیٹا ا۔۔ارمان"...؟؟
"ارمان کہاں ہے"...؟؟؟
"پ۔۔پانی پی کر انہوں نے غنودگی میں پوچھا تھا"....
"وہ جو ان کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کر رہا تھا ، اس کے ہاتھوں کی حرکت ساخت ہوئی تھی اپنی ماں کی بات سن کر "۔
"م۔۔میرا کل۔۔کلی۔۔کلیجہ ک۔۔کٹ رہا ہے"...
"ار۔۔ارمان کو ل۔۔لا دو"....
"س۔۔سحر کے س۔۔ساتھ س۔۔ساتھ وہ بھی چلا گیا ہم۔۔ہمیں چھوڑ کر"...
"ج۔۔۔جس۔۔۔جس ۔۔جس ک۔۔کیلئے ہم۔۔ن۔۔نے ا۔۔اس م۔۔معصوم بچی کو عذاب م۔۔میں ڈالا اب تو وہ بھی ہمارا نہ رہا"....
"کہتے ان کی آنکھوں سے گرم سیل رواں ہو رہا تھا"...
"ج۔۔جںکہ سحر کے نام پر زیشان کا چہرا سپاٹ ہوا تھا"....
"ماں آپ فکر نہ کریں میں ان شاءاللہ جلد ارمان کو ڈھونڈ کر لے آؤں گا"...
"ت۔۔تم س۔۔سچ کہہ رہے ہو نا بی۔۔بیٹا"...؟؟
"ایک آس ایک امید سے ان نے ہاتھ تھاما تھا زیشان کا"...
"وہ کوئی جواب نہ دے سکا تھا بس سر اثبات میں ہلانے پر اکتفا کیا "...
"آپ اب آرام کر لیں"...
"میں چلتا ہوں "...
"کہتے وہ وہاں سے جا چکا تھا "...
"اپنی ماں کی بات سن اس کے دل میں ہلچل سی مچی تھی"...
"سحر کا خیال آیا تھا "...
"اس کا معصوم چہرا اسکی آنکھوں کے سامنے گھوما تھا"....
"لیکن اپنے سر کو جھٹکے وہ آگے بڑھا "...
"اس بات سے بے پرواہ کہ ابھی تو ابتدا ہے"...
"یہ سوچیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی"...
"ہر لمحہ ہر گھڑی یہ زندگی اُس کو اِس بات کا احساس دلائے گی کہ کسی معصوم کو اس نے زندہ مرنے کے لئے چھوڑ دیا "....
"جس سے کبھی کسی وقت میں وہ محبت کو دعویدار تھا"...
اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
©©©
"احمر جب سے حویلی سے گیا تھا تب سے سحر کی زندگی میں کچھ سکون سا آیا تھا"...
"ورنہ احمر کی موجودگی میں سحر کیلئے سانس تک لینا دوبھر ہوتا تھا"...
"ہر وقت کسی فرعون کی مانند اسکے سر پر سوار رہتا تھا"...
"کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا جس میں وہ اس کی زات کو کمتر ظاہر نہ کر رہا ہوتا"...
"سحر کی بے عزتی کرنا اسکا دلی سکون تھا"...
"دوسری جانب"....
"نورے بیگم طبعیت کی کچھ نا سازی کی وجہ سے کمرے میں ہر وقت سوتی رہتی تھیں جبکہ چوہدری وقاص اور چوہدری وقار زمینوں کے کام میں تھوڑا مصروف تھے جس کے باعث ان کو حویلی آنے کا وقت بہت کم ملتا تھا"....
"میمونہ بیگم اور سکینہ بیگم دونوں حویلی کے لاونچ میں بیٹھی ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف تھیں"...
"آج ان دونوں بہنوں کو کافی عرصے بعد یہ موقع نصیب ہوا تھا جس میں وہ دونوں بیٹھی ایک دوسرے سے اپنا اپنا حالِ دل بانٹ رہی تھیں"...
"ماں"....
"میمونہ بیگم اور سکینہ بیگم دونوں ہی کی نظریں اس پکار پر دروازے کی جانب اٹھی تھی"...
"جہاں شہیر اپنی شان آن بان کے ساتھ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا تھا"...
"شہیر بیٹا"....
"وہ دونوں بیگمات ہی اپنی اپنی نشست سے کھڑی ہوئی تھیں"...
"وہ کے چہرے ہی خوشی سے کھل اٹھے تھے"....
"کیسا ہے ہمارا بچہ"...؟؟؟؟
"آگے بڑھ دونوں نے اسے اپنے اپنے گلے لگایا تھا"...
"سکینہ بیگم کی تو آنکھیں خوشی سے جھلک ہی پڑی تھیں"....
"بالکل ٹھیک ہوں میری پیاری ماؤں"...
"وہ ہنستے ہوئے بولا تھا اور وہیں صوفے پر ان دونوں کے ساتھ بیٹھ گیا"....
"آج کتنے عرصے بعد وہ دونوں اپنے اس خبر بیٹے کو دیکھ رہی تھیں"....
"بیٹا آنے سے پہلے بتا ہی دیا ہوتا"...
"کم از کم تمہارے لئے کچھ اچھا سا تیار ہی کروا لیتی "....
"ماں اگر میں یہاں آنے سے پہلے ہی آپ لوگوں کو بتا دیتا تو میرا سرپرائز ہی خراب ہو جاتا"...
"اور آپ لوگوں کے چہرے پر یہ خوشی دیکھنے کو نہ ملتی "....
"بالوں میں ہاتھ پھیرے وہ ادا سے بولا کہ وہ دونوں ہی بے اختیار مسکرا دیں"...
"چونکہ اب میں آ چکا ہوں اسلئے سکینہ ماں کے ہاتھوں کا بیسن کا حلوہ "...
"اور"...
"میمونہ ماں کے ہاتھوں کے آلو کے پراٹھے کھاؤں گا"....
"اسلئے اب آپ لوگ تیاری کریں میں تو چلا فریش ہونے"...
"وہی بچپن کا انداز اپنایا تھا شہیر نے"....
"جس طرح وہ ہمیشہ ان سے فرمائش کیا کرتا تھا"...
"میمونہ بیگم نے تاسف میں سر ہلایا تھا جبکہ سکینہ بیگم ہنس دی تھی"...
"ایسے ہی ہنستے مسکراتے وہ دونوں باتیں کرتیں باورچی خانے میں چل دیں"...
"جبکہ وہ فریش ہونے کی نیت سے اپنے کمرے میں آیا تھا "...
"اتوار کا دن تھا اسلام آباد کا پورا شہر سردی کے خوبصورت موسم کی ضد آیا ہوا تھا"...
"ایسے میں احمر کا فلیٹ بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا"...
"جہاں سے موتیے ، گلاب اور گیندے کے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی "...
"جب کہ احمر بھی سوٹ بوٹ میں مکمل تیار کھڑا تھا "...
" سامنے لگے شیشے میں اپنی تیاری پر آخری نظر ڈال کر اس نے قدموں کا رخ ساتھ والے روم کی جانب کیا تھا"...
"اس کے چہرے پر الگ طرح کی خوشی تھی"...
"ایک انجانا سا احساس تھا "...
"احمر کمرے میں داخل ہوا تو اس کی نظر لال عروسی جوڑے میں ملبوس عمارہ پر گئی "...
"جس کو تھوڑی دیر پہلے ہی ایک بیوٹیشن تیار کر کے گئی تھیں"...
"احمر مسکراتے ہوئے آگے بڑھا تھا اور مکمل تیار ہوئی عمارہ کے سامنے جا کھڑا ہوا "...
"لیکن یہ کیا"..!!
"اسکے چہرے پر وہ مسکان اچانک سمٹی تھی عمارہ کے چہرے کو گھونگھٹ میں ڈھکا دیکھ".....
"یہ کیا ہے عمارہ ڈارلنگ"..؟؟؟؟
"وہ اسکے چہرے کو گھونگھٹ میں دیکھ برا سا منہ بنا کر بولا تھا"...
"وہ تو اسکو تیار ہوتا دیکھنا چاہتا تھا لیکن عمارہ نے اسکی خواہشات پر پانی ڈالا تھا"....
"احمر یہ گھونگھٹ ہے جو ہر دلہن اپنے ہونے والے شوہر سے کرتی ہے"...
"گھونگھٹ میں سے ہی عمارہ نے احمر سے کہا"...
"وہ تو ٹھیک ہے مگر مجھ سے کیسا پردہ یار "...
"میں نے کتنی ہی بار یہ چہرا دیکھا ہے "...
"پھر گھونگھٹ کرنے کا کیا فائدہ"..؟؟؟؟؟
"کہتے اسکا لال سرخ گھونگھٹ اٹھانا چاہا جسے عمارہ نے اسکا ہاتھ تھام کر ناکام بنایا"...
"ن۔۔نہیں احمر"...
"ابھی نہیں "...
"یہ رسم نکاح کے بعد کی ہے".....
"اسکے ہاتھ کو آرام سے سائیڈ پر کیا تھا"..
"بے شک احمر"...
"تم نے مجھے دیکھا ہے مگر دلہن کے روپ میں آج ہی دیکھو گے"..
"اسلئے اب یہ چہرا نکاح کے بعد تمہارے سامنے آئے گا"....
"کہتے وہ اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی"...
"بہت ظالم ہو عمارہ ڈارلنگ "....
"احمر جھنجھلاتے ہوئے بولا تھا"...
"لیکن خیر"....
"کر لو اپنی منمانیاں اسکے میری باری ہو گی"....
"وہ معنی خیزی سے بولتا اسکو شرمانے پر مجبور کر گیا" ۔۔۔
"احمر نے ایک سرد کھینچی جیسے اپنے جذبات کو سلانے کی کوشش کر رہا ہو"...
"پھر اسکا ہاتھ تھامے باہر لے گیا تھا"...
"جہاں نکاح خواہ اور سب دوست ان ہی کا انتظار کر رہے تھے"...
©©©
"پشمینہ فاتح کے کپڑے پریس کر کے انہیں الماری میں ترتیب سے رکھ رہی تھی کہ وہ اپںی شاہانہ شان چال کے ساتھ چلتا کمرے میں آیا تھا"...
"ہاتھ میں تھاما وہ لیپ ٹاپ سائڈ پر رکھا "...
"ایک نظر بے نیازی سے کام کرتی پشمینہ پر ڈالی جو اسے نظر انداز کیے اپنا کام کرنے میں مصروف تھی"...
"اور بیڈ پر بیٹھے آرام سے اپنے پیروں کو ان جوتوں اور جرابوں سے آزاد کرنے لگا"...
"اور گاہے بگاہے اپنی ترچھی نظریں اس پر بھی ڈال دیتا جو کہ اسکی نظروں کو محسوس کیے غصے میں بھی کنفیوژ ہونے لگی". ...
"فاتح اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بخور دیکھ رہا تھا اور نا چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی و، غصے میں کنفیوژن کا شکار ہوتی پشمینہ کو نظروں کے حصار میں رکھتا فریش ہونے چلے گیا تھا" ....
"جبکہ جاتے جاتے اس نے جان بوجھ کر اس کے کندھا مس کیا تھا"...
"جس سے لمحے بھر کے لئے صحیح پشمینہ ساکت ہوئی تھی"....
"اس دن آفس میں ہوئے واقع کے بعد ان دونوں کے درمیان پہلے جو تھوڑی بہت بھی بات ہو جایا کرتی تھی تب سے وہ بھی نہ ہو رہی تھی "...
"پشمینہ نے اپنی آنکھیں اٹھائے ایک نظر واش روم کے بند دروازے کو دیکھا تھا "...
"اور واپس سر نفی میں ہلاتے واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی"...
تھوڑے بھرے ہیں ہم تھوڑے سے خالی ہیں
تم بھی ہو الجھے سے ہم بھی سوالی ہیں
"وہ واپس آیا تو پشمینہ ابھی تک اپنے سابقہ کام میں مشغول دیکھائی دی تھی"...
"پشمینہ کے پاس آئے اسکے ہاتھوں میں تھامی وہ شرٹ پکڑی تھی"...
"جسے وہ خاموشی سے چھوڑ چکی تھی اور باقی کی شرٹیں اٹھا کر الماری میں لگانے لگی"....
"آئی ایم سوری "....
"اسکا کام کرتا ہاتھ ساکت ہوا تھا جب اپنے کان کی لو پرفاتح کی گرم دہکتی سانسیں محسوس ہوئیں "...
"وہ فاتح کو نظر انداز کرتے الماری بند کیے سائڈ سے نکل کر جانے لگی تھی لیکن اسکی اس کوشش کو فاتح نے ناکام بنایا "...
"کیونکہ وہ اسے کھینچ کر الماری کے ساتھ ہی پن کر چکا تھا "...
"اور تھوڑا اس کے قریب جھکا"....
"میں نے کچھ کہا ہے مسسز پشمینہ"....
"وہ لہجہ نرم رکھتے ہوئے بولا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی چھائی ہوئی تھی"۔
"کیونکہ اسکو پشمینہ کا یوں اگنور کرنا سخت نا گوار گزرا تھا"...
"اور یہ چیز وہ پچھلے دو دن سے برداشت کر رہا تھا"....
"کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ"۔۔۔ ؟
"وہ لہجے میں بیزاری سموئے بولی "....
"تم ہو میرا مسئلہ"....
"اسکے چہرے کو اوپر اٹھائے وہ خمار آلود لہجے میں بولا تھا جبکہ پشمینہ اسکے لہجے کو دیکھ ششدر تھی"...
"کچھ دنوں پہلے وہ کس طرح اس سے بیہو کر رہا تھا"...
"اور اب ".....!!!
"اس کی سانسیں تھمی تھیں"....
"فاتح کے اس آنچ دیتے لہجے پر"....
"ائی ایم سوری پشمینہ مجھے اس دن اس طرح برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا"..
"میں شرمندہ ہوں"...
"اس کے چہرے پر جھولتی وہ آوارہ زلف کو کھینچا تھا جس پر ہلکا سا سسکی تھی وہ"....
"آپ کو معافی مانگنے یا شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے "...
"اس دن آپ نے جو کیا ٹھیک تھا"..
"کیونکہ میرا کوئی حق نہیں ہے آپ کے آفس میں آنے کا"...
"مجھے آپ کے آفس میں یوں نہیں آنا چاہیے تھا"....
"وہ سپاٹ لہجے میں بولی تھی لیکن آنکھوں میں نا چاہتے ہوئے بھی نمی جھلکی تھی"....
"مینہ"...
"ایسی بات مت کرو"...
"اس دن اگر تم نہ آتی تو مجھے کروڑوں کا نقصان ہو جاتا "....
"اور دیکھو تمہاری وجہ سے مجھے اتنی بڑی ڈیل ملی ہے"....
"یہ سب تمہاری وجہ سے ممکن ہوا ہے وائفی"....
"جذبات سے چور لہجے میں بولا تھا اور اپنے تشنگہ لب اسکے ماتھے پر ثبت کیے"....
"دل عبادت کر رہا ہے دھڑکنیں میری سن
تجھ کو میں کر لوں حاصل لگی ہے یہی دھن"
"کمرے میں چار سو خاموشی چھا چکی تھی"...
"صرف ان دونوں کی دھڑکنوں کی آواز گونج رہی تھی"...
"وہ دونوں ایک دوسرے کے اتنا قریب تھے کہ صاف ایک دوسرے کی دھڑکنوں کے شور کو سن سکتے تھے"...
©©©
زیشان ڈروس میں سے اپنی کوئی چیز تلاش کر رہا تھا کہ وہاں سائڈ پر رکھا ایک باکس زمیں بوس ہوا "....
"اور اس باکس میں موجود سحر کی چند تصویریں بکھر گئی تھیں اس فرش پر"....
"ان تصویروں کو یوں زمیں بوس ہوتے دیکھ فوراً اٹھایا تھا اس نے "....
"اور بغور ان تصویروں کو دیکھا تھا جس میں سحر کے چہرے پر مسکراہٹ رقصاں تھی"..
"لیکن پھر اسکا وہ روتا بلکتا چہرا ذہن میں آیا جس میں وہ روتے ہوئے اس سے منتیں کر رہی تھی لیکن وہ اپنے دل اور اسکی التجاؤں کی پرواہ کیے بنا اسے کسی اور کو سونپ چکا تھا"...
"یہ سب سوچتے دل پر گہری ضرب سی لگی تھی لیکن اب کوئی فائدہ نہیں تھا"....
میری آنکھوں میں جدائی کی کمی ہے سائیاں
میرے زخموں کی دوا تیرے سوا کوئی نہیں
©©©
"ماں"...
"مجھے یہاں آئے دو دن ہو گئے ہیں اور ارتضیٰ ابھی تک نظر نہیں آیا"...
"کیا وہ کہیں گیا ہوا ہے"..؟؟؟؟
"وہ سب کھانا کھا کر ابھی لان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ شہیر نے یاد آنے پر فوراً پوچھا "...
"کیونکہ وہ جب بھی حویلی آتا سب سے پہلے اس سے ارتضیٰ ہی ملتا تھا"...
"وہ بالکل اسکو چھوٹے بھائی کی طرح ٹریٹ کرتا تھا ان دونوں کی بانڈنگ بھی کمال کی تھی"..
"وہ اپنی زیادہ طر باتیں شہیر سے ہی شئیر کیا کرتا تھا"...
"اور اب اس کو یہاں نہ پا کر شہیر کو کسی انہونی کا احساس ہوا"...
"شہیر کی بات سن کر لان میں بیٹھے تمام نفوس کو سانپ سونگ گیا تھا"...
"کوئی کچھ نہ بول رہا تھا جبکہ ایک دوسروں کے چہرے ہی تک رہے تھے"...
"ارتضیٰ کو میں نے باہر کے ملک میں تعلیم مکمل کرنے بھیجا ہے"...
"سکینہ بیگم کو لب کھولتے دیکھ چوہدری وقاص نے کہا تھا اور ساتھ میں ایک سخت گھوری سے سکینہ کو نوازا جیسے کہہ رہے ہوں"..
کہ اپنا منہ بند رکھو"....
"چوہدری وقاص کی بات سن وہ خاموش ہو گئی تھیں"...
"چوہدری وقاص کی بات سن کر میمونہ بیگم کی آنکھوں میں غصہ جھلکا تھا"..
"انہوں نے کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ چوہدری وقار نے ان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھے انہوں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا تھا"..
"جسے وہ نا چاہتے ہوئے بھی مان گئی تھیں"....
©©©
"احمر وقاص آپ کا نکاح عمارہ الیاس کے نکاح میں بشمول حق مہر پچاس لاکھ طے پایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے"...؟؟؟؟
"مولوی صاحب کے الفاظ جیسے ہی احمر چوہدری کے کانوں میں گونجے تھے انجانے میں ہی صحیح لیکن سحر کا چہرا اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا تھا"....
"احمر کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے مولوی صاحب نے اپنے الفاظ دوبارا دہرائے"..
"احمر وقاص آپ کا نکاح عمارہ الیاس کے نکاح میں بشمول حق مہر پچاس لاکھ طے پایا جاتا ہے کیا آپ کو قبول ہے"...؟؟؟؟
"قبول ہے"....
"سنجیدگی سے کہتے اس نے نکاح نامے پر دستخط کیے تھے جبکہ ساتھ بیٹھی عمارہ کو ایک انجانی سی خوشی محسوس ہوئی "....
"احمر سے ایجاب و قبول کے بعد مولوی صاحب نے عمارہ سے سوال کیا"...
"جس پر اس نے تین بار "قبول ہے " کہتے ہوئے احمر کو شریعہ طور قبول کیا تھا"...
"کیونکہ روحانی اور دلی طور پر تو اسے وہ پہلے ہی قبول کر چکی تھی"....
©©©
بالکونی میں کھڑا وہ سیگریٹ کے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا"...
"اور ساتھ ساتھ اسکا ذہن کسی بہت گہری سوچ میں مصروف تھا"...
"وہ بہت کچھ سوچ رہا تھا "....
"لیکن اس بہت کچھ میں ، "...
" بہت کچھ عجیب تھا"....
"جسے وہ خود بھی نہیں جانتا تھا"...
"وہ نہیں جانتا تھا کہ اسکی حالت ایسی کیوں ہو رہی ہے"...
"اس نے آج کے دن کے لئے بہت زیادہ انتظار کیا تھا جس میں وہ عمارہ کو مکمل طور پر پا لینا چاہتا تھا"...
"اسے مکمل حاصل کرنا چاہتا تھا"...
"کیونکہ بقول اس کے وہ اسکی محبت تھی ، پسند تھی اسکی"....
"آج شائد قسمت اس پر مہربان ہوئی تھی "....
"تبھی آج وہ دن اس کی قسمت میں لکھا جا چکا تھا"...
"جس میں عمارہ اور وہ ایک دوسرے کے نکاح میں آ چکے تھے"....
"لیکن پھر بھی اسکا یہ چہرا سنجیدہ کیوں تھا"....
"آج دوپہر تک تو ٹھیک تھا".....
"اسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا جب فون کی چنگھاڑتی آواز آئی تھی"...
"ہیلو "..
"سیگریٹ کو پاؤں تلے کچلتے اس نے فون کان سے لگایا تھا"...
"احمر کہاں ہو تم"..؟؟؟؟
" تمہیں میں نے کچھ کام کہا تھا"...
"اور تم حویلی سے ہی غائب ہو"...
.
"چوہدری وقاص کی برہم آواز فون کے دوسری جانب سے آ رہی تھی"...
"فوراً پہنچو حویلی"....
"انہوں نے سیدھا حکم صادر کیا "....
"بابا سائیں ابھی تو تھوڑا مصروف ہوں، "...
"ابھی تو آ نہیں سکوں گا"...
"ایک نظر سامنے بند دروازے پر ڈالتے بولا تھا وہ"...
"البتہ کل آ جاوں گا"...
"اور ویسے بھی آپ کا کام یاد ہے مجھے"...
"ان شاءاللہ کل اسی کام کو نپٹاؤں گا"..
"چلیں اب میں فون رکھتا ہوں"....
"کہتے وہ فون رکھ چکا تھا اور ایک گہرا سانس کیے قدم اس کمرے کی جانب بڑھائے جہاں وہ اپسرا اس ہی کا انتظار کر رہی تھی"....
"منزل پہ پہنچے دیکھا منزل وہاں تھی نہیں
چوٹ لگی ہے ایسی جس کا نشاں بھی نہیں
"کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کا استقبال پھولوں اور خوشبودار موم بتیوں کی بھینی بھینی خوشبو نے کیا"....
"یہ سب تیاریاں اس نے خاص طور پر عمارہ اور اپنے لئے کروائی تھیں"...
"لیکن جن لمحات کے لئے یہ تیاری کروائی گئی تھی اس کے جذبات ٹھنڈے پڑنا شروع ہو گئے تھے اس وقت "...
"وہ خود پر ضبط کیے چلتا ہوا عمارہ کے بلکل سامنے آ بیٹھا ".....
"وہ کچھ لمحے یونہی بیٹھے اس کے وجود کو تکتا رہا پھر عمارہ کے چہرے پر ڈالے گئے گہرے گھونگھٹ کو آرام سے اتارا تھا"....
"جب کہ عمارہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا بے شک شہر میں رہنے والی اوپن مائنڈ گرل تھی".۔۔۔
"مگر تھی تو مشرقی ہی"...
"آج کے اس خاص دن کو لے کر اسکے احساسات اور جذبات وہی روایتی دلہنوں والے تھے جس میں ہر لڑکی اپنے محرم سے عزت اور محبت بھرے شبدوں کی طلبگار ہوتی ہے".......
"احمر نے جیسے ہی اسکا وہ گھونگھٹ اٹھایا تھا وہ ششدر رہ گیا تھا "....
"سحر"..
"اس کے لبوں سے بے ساختہ ادا ہوا تھا"...
"م۔میرا مط۔۔مطلب تمہارے اس حسن نے سحر طاری کر دیا ہے"....
"عمارہ عرف عروہ کی نظروں میں نا سمجھی دیکھ وہ بات کو سنبھالتے ہوئے بولا تھا"..
"جب کے اس کی بات سن عروہ شرما کر سر جھکا گئی تھی"...
"احمر نے عروہ کا ہاتھ محبت سے اپنے ہاتھوں میں لیا تھا"...
"وہ تمام تر سوچوں کو جھٹک چکا تھا"...
"کیونکہ آج اسکی محبت اسکے سامنے تھی جسے وہ حاصل کرنا تھا چاہتا تھا اور وہ کسی دوسرے کو اپنی سوچ پر ہاوی نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات سچ تھی عروہ کا گھونگھٹ اٹھاتے ہی اسکو سحر کے چہرے کی جھلک نظر آئی تھی کیونکہ اس کی سوچوں میں بھی نا چاہتے ہوئے بھی وہ بسی ہوئی تھی لیکن وہ جلد ہی سنبھال گیا تھا خود کو"....
"کتنی حسین لگ رہی ہو"....
"مخمور لہجے میں کہتا وہ عروہ کو اپنے بے حد قریب کر گیا تھا".....
اور ہلکا سا اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا تھا جس سے اسکا سر سیدھا احمر کی کے کسرتی سینے سے ٹکرایا"....
"اف احمر کیا کرتے ہو"....
"اپنی پوزیشن کو ٹھیک کرتے وہ آنکھیں دیکھاتے بولی تھی"....
"جانِ من پیار کر رہا ہوں".....
"کیونکہ آج کا دن میرے لئے بہت ایمپورٹنٹ ہے"
"اور کسی کی وجہ سے اس دن کو خراب نہیں کروں گا"....
"یہ آخری جملے اس نے دل میں کہے تھے"....
"وہ محبت پاش نظروں سے اس کے حسین چہرے کو دیکھتے ہوئے مدہوش ہو رہا تھا اس کی لو دیتی نظریں نے عروہ کو جھن من پلکوں کے جھالر کو جھکانے پر مجبور کر دیا تھا"....
سچ پوچھو تو موسم بہت اچھا تھا
نہ بہکنے کا مگر میرا ارادہ پکا تھا
"اس کی یوں پلکیں جھکانے کی ادا پر مسکرا کر شعر پڑھتا اسکو سانسوں کو خود میں جذب کر گیا اور آہستہ آہستہ اپنی محبت اس پر نچھاور کرنے لگا تھا جس پر اس کی ننی سی جان کانپ سی گئی تھی"...
"عروہ کو اپنے جذبات کے سمندر کی گہرائی میں لے ڈوبا تھا احمر ، اس کی محبت بھری گستاخی پر وہ سر اس کے سینے میں ہی چھپا گئی"...
"کیا احمر کی محبت عروہ کے لئے سچی ہے"..؟؟؟
"کیا دے گا دھوکہ احمر عروہ کے جذبات کو"..؟؟؟
"یا لے گی عروہ کی زندگی بھی کوئی نیا موڈ"..؟؟؟؟
©©©
"چوہدری وقاص کے بلانے پر وہ ڈرتے ہوئے ان کے کمرے میں داخل ہوئی تھی اس کا دل لرز رہا تھا کہ نجانے وہ کیا سلوک کریں گے اسکے ساتھ کیونکہ ان کی سنگدلی کا احساس تو اسے وہاں کٹھہری میں ہی ہو چکا تھا جب وہ اس کی ذات کے لئے نا قابلِ قبول الفاظ کا استعمال کر رہے تھے"....
"بیٹھو "....
"اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے چوہدری وقاص نے اسے اپنے قدموں میں بیٹھنے کا اشارہ کیا"..
"چوہدری وقاص اسطرح سے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھے تھے کہ ان کا دائیاں پاؤں بالکل سحر کے چہرے پر پڑ رہا تھا"..
"صاف کرو"...
"اپنے جوتوں کی جانب اشارہ کیے کہا تھا اور ساتھ ہی ایک گہرا کش سگار کا لگائے اس کا دھواں ہوا میں چھوڑا تھا"....
"ر۔۔۔ر۔۔رومال دے دیں"...
"نظریں نیچے کیے وہ اٹکتے ہوئے بولی تھی"....
"سحر کی بات سن ایک طنزیہ مسکراہٹ چوہدری کے چہرے پر آئی تھی"....
"اپنے اس ڈوپٹے سے صاف کرو"...
"پیچھے صوفے پر ٹیک لگائے ٹانگوں کو مزید آگے کیا تھا"....
"اور ہاتھوں کے اشارے سے اسکو جوتے صاف کرنے کا کہا"....
"چ۔۔چوہدری صاحب مع۔۔معذرت مگر یہ ڈوپٹہ پہن کر میں نماز ادا کرتی ہوں اسلئے اس سے آپ کے ان جوتوں کو صاف نہیں ۔۔۔ک۔۔کر سکتی"...
"وہ جھجھکتے ہوئے مگر اٹل لہجے میں بولی تھی کہ چوہدری وقاص نے بھنونے اچکائے اسکی جانب دیکھا جیسے تائید چا رہا ہو کہ تم نے مجھے انکار کیا".....
"لڑکی تم جانتی ہو تمہیں یہاں بلانے کا مقصد کیا ہے"..؟؟؟
"یقیناً نہیں جانتی ہو گی"...
"خود ہی سوال کیے اور سوال کا جواب دیے وہ طنزیہ مسکرا گئے تھے".....
"اس حویلی میں میرا بھتیجا آیا ہوا ہے"...
"اور میں نہیں چاہتا تم اپنا یہ حقیر وجود لیے اسکے سامنے آؤ اسلئے جب جب وہ حویلی میں ہو گا تب تب تم اس کمرے میں قید رہو گی اور جیسے ہی وہ باہر چلا جائے تم باہر نکل سکتی مگر یاد رکھنا جس دن تم اسکے سامنے آئی وہ دن تمہارا آخری دن ہو گا"...
"کرخت لہجے میں کہتے اسے باہر جانے کا حکم دیا"...
"سحر زمین سے اٹھتے ہوئے واپس وہیں منجمد ہوئی تھی "..
اس نے پلٹ کر اپنے ڈوپٹے کی جانب دیکھا تھا"....
"جس پر چوہدری وقاص کا پیر درا ہوا تھا اور وہ شیطانی مسکراہٹ سے اسکی جانب دیکھ رہے تھے جیسے بہت کچھ جتانا چا رہے ہوں"....
"سحر اپنا ڈوپٹہ چھڑائے آنسو پیتی وہاں سے نکلی تھی"...
"اور دوڑتے ہوئے کمرے میں داخل ہو کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی"....
"جس طرح ایک مرد کے لئے اس کی پگ اس کی شان و عزت ہوتی ہے "..
"پگ کو پیروں میں روندنے سے جس طرح مرد کی عزت و شان میں کمی آتی ہے بالکل ٹھیک اسی طرح ایک عورت کے لئے اس کا ڈوپٹہ اسکی عزت و شان ہوتا ہے جسے وہ اپنے سر کی زینت بناتی ہے وہی ڈوپٹہ اوڈ کر وہ نماز و دعا ادا کرتی ہے لیکن اگر کوئی اس ڈوپٹے کو پیروں تلے روندے تو یہ ایک عورت کے لئے بے عزتی ہوتی ہے"...
"
©©©
"پشمینہ کیچن میں کھڑی کام کرتے ساتھ ساتھ فاتح کے رویے کے بارے میں سوچ رہی تھی جو کہ اچانک ہی بدل چکا تھا "...
"مطلب کل تک وہ اس سے بات کرنا گوارا نہ کر رہا تھا یہاں تک کہ اس کا چہرا دیکھنا تک کا روادار نہیں تھا مگر اب"....
"اس کا میٹھا شیریں لہجا"...
"جذبات سے بوجھل انداز"....
"وہ سمجھنے سے قاصر تھی"....
"اگر یہ سب وہ صرف آفس میں ہوئے فائل والے معاملے کی وجہ سے کر رہا ہے تو وہ بالکل اس کو بخشنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی"....
©©©
"زندگی نام ہے درد ہے"...
"امتحان کا"...
"آزمائش کا"...
"جسے ہر انسان کو سہنا پڑتا ہے"....
"گزرنا پڑتا ہے"....
"بعض اوقات یہ آزمائش اللّٰہ کی طرف سے آتی ہے جس سے وہ اپنے بندے کو پرکھتا ہے"....
"آج سے کچھ سال پہلے کچھ آزمائش اللّٰہ کی قوم بنی اسرائیل پر بھی آئی تھی"...
"وہ تھے قید میں"...
"درد میں"...
"تکلیف میں"....
"ٹھیک ویسی ہی آزمائش اس وقت سحر پر آئی تھی "...
"وہ بھی اس وقت قید تھی فرعون چوہدری وقاص کی حویلی میں"...
"جہاں وہ نہ اپنی مرضی سے ہنس سکتی تھی نہ رو سکتی تھی"..
"اسکی زندگی میں سے صبح اور شام ختم ہو چکے تھے"...
"اسکی زندگی میں سے ہر رنگ ختم ہو چکے تھے"...
"وہ بن کر رہ گئی تھی صرف ایک اداس قیدی پنچھی"....
"جسے اس کے اپنوں نے قید کروایا تھا"...
"اس کی زات کو بے مول کیا گیا تھا "...
"وہ بھی اس نے "...
"جس سے اس کو امید نہ تھی"....
"جس نے قسم کھائی تھی کبھی تمام عمر ساتھ نبھانے کی"...
"جس نے وعدہ کیا تھا اسکی زندگی کو خوشیوں سے بھرنے کی"...
"لیکن کھایا تھا دھوکا اس نے اسی شخص سے جو کھبی اس کے دل کی سلطنت ہوا کرتا تھا مگر اب"....
"وہ دل ہی توڑ گیا تھا وہ ".........
"زیشان کیوں کیا آپ نے میرے ساتھ ایسا"..؟؟؟
"بچپن سے لے آج تک آپ نے تمام عمر ساتھ رہنے کا وعدہ کیا "....
"مگر ان سب کو توڑ دیا آپ کی اس بذدلی نے"...
"جو تکالیف اس حویلی میں ، میں برداشت کرتی ہوں اگر کبھی دیکھ لیں نا تو شائد ہی آپ مر جائیں اگر محسوس کریں تو".....
"اپنے دل میں سوچتے وہ طنزیہ ہنسی تھی"...
"اس وقت وہ کمرے میں بنائی گئی کانچ کی کھڑی کے پاس کھڑی بہت گہری سوچ میں محو تھی"...
"وہ خیالوں میں سہی لیکن زیشان سے شکوہ کناں تھی"....
"کمرے کی تمام بتیاں اس نے بجھائی ہوئی تھیں کیونکہ وہ سکون ڈھونڈنا چا رہی تھی اس اندھیرے میں جو شائد اس کا مقدر بن چکا تھا"....
©©©
"شہیر کچھ دیر پہلے ہی وقار اور وقاص چوہدری کے ساتھ گاؤں کی زمینوں کا چکر لگا کر آیا تھا اور اب ان کے ساتھ لان میں بیٹھا زمینوں اور کھیتوں کے متعلق گفتگو کر رہا تھا کہ بے ساختہ اس کی نظر احمر کے کمرے کی کھڑکی کی جانب پڑی تھی جہاں سے کسی صنفِ نازک کے وجود کا سایہ نظر آ رہا تھا "....
"وہ لڑکی کون ہے "..؟؟؟
"شہیر نے اوپر احمر کے کمرے کی جانب اشارہ کرتے تجسّس سے کہا تھا"...
"کہاں"..؟؟
"چوہدری وقاص نے کندھے اچکائے کہا جیسے کہنا چا رہے ہوں کہ کون سی لڑکی "...
"وہاں احمر کے روم "...
"شہیر کہتا خاموش ہوا تھا کیونکہ اب وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا"...
"کہاں ہے بیٹا ہے ہمیں تو نظر نہیں آئی"...
"میں نے خود ابھی دیکھا تھا احمر کے کمرے میں تھی رکیں مین دیکھ کر آتا ہوں"....
"وہ عجلت میں کہتا اوپر جانے ہی لگا تھا کہ چوہدری وقاص نے اس کا ہاتھ تھامے واپس بیٹھایا"...
"ارے بیٹا چھوڑو نا کوئی ملازمہ ہو گی کیوں خود کی جان کو ہلکان کر رہے ہو"....
"چوہدری وقاص کے کہنے پر وہ وہاں بیٹھ تو چکا تھا لیکن وہ جو کوئی بھی تھا اس کی کشش اسکو اپنی جانب کھینچ رہی تھی"...
"اس کے دل میں تجسس سا بڑھ رہا تھا وہ جاننا چاہتا تھا کہ کون ہے وہ جسے سب ملازمہ ملازمہ کہہ رہے ہیں مگر وہ اچھے سے جانتا تھا کہ کوئی بھی ملازمہ ہو اسے احمر کے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں ملتی "...
"یقیناً وجہ کوئی اور تھی جو سب اس سے کچھ چھپا رہے ہیں"....
"اس سب میں چوہدری وقار بس خاموش ہی بیٹھے رہے وہ اپنے بیٹے کی کیفیت کو جانچ رہے تھے"....
"ان تینوں نے گفتگو واپس شروع کر دی تھی لیکن شہیر کا دماغ وہیں اٹکا ہوا تھا"....
©©©
"وقار یہ بھائی صاحب کے ساتھ کیا مسئلہ ہے"...؟؟
"میمونہ بیگم نے ساتھ بیٹھے اپنے شوہر چوہدری وقار سے پوچھا"..
"میمونہ بیگم کی بات سن نا سمجھی سے ان کی جانب دیکھا"...
"یہ ارتضیٰ کی موت کی خبر بھی شہیر کو نہیں دے رہے اور نہ ہی سحر کے بارے میں کچھ بتا رہے ہیں "...
"وہ عجیب سی کیفیت میں بولی تھیں ان کی آنکھوں میں کئی سوالات تھے جو آج اپنے شوہر سے پوچھ لینا چاہتی تھیں لیکن شائد ان سوالوں کے جوابات ان کے پاس بھی نہ تھے"....
"بیگم افسوس کے ساتھ مجھے بھی معلوم نہیں ہے مگر اس بات کا تجسس اور بے چینی مجھے بھی ہے کہ آخر کیا وجہ ہو سکتی ہے جو بھائی یوں کر رہے ہیں"...
"چوہدری وقار لب بھینچے اور آنکھیں سکیڑ کر بولے تھے "....
"مگر جو بھی جیسا بھی بھائی صاحب کو یوں نہیں کرنا چاہیے"...
"سر جھٹکتے نہایت افسوس سے کہا تھا ان نے"....
©©©
"وہ لڑکی کدھر ہے کہاں چھپا کر رکھا ہے اسے"...؟؟؟
"نورے بیگم نے کیچن میں داخل ہو کر سکینہ بیگم سے کہا تھا جو کہ پھلوں کو کاٹ فروٹ چاٹ بنا رہی تھیں"...
"وہ وہیں ہے جہاں اسے ہونا چاہیے تم فکر نہ کرو"...
"سکینہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا تھا اور پھلوں کو ایک باؤل میں اکھٹا کرنے لگیں "..
"نہیں نا"...
"وہ وہاں نہیں کیونکہ اس کی اصل جگہ یہاں ہے "...
"میرے قدموں میں"...
"نورے بیگم اپنے ازلی غرور سے بولی تھیں کہ بے ساختہ سکینہ بیگم کا قہقہہ گونجا تھا وہاں کیچن میں"..
"جو جہاں ہوتا ہے دوسروں کو بھی وہیں دیکھنا چاہتا ہے"...
"نورے بیگم نے طنزیہ انداز میں کہا تھا اور اپنے اس ایک جملے سے وہ سامنے کھڑی نورے کو آگ ہی تو لگا گئی تھیں"...
"تم حد میں رہو اپنی اور بتاو کہاں چھپایا ہے اسے مجھے کام کروانا ہے"...
"نورے بیگم تڑخ کر بولی تھیں"....
"فکر نہ کرو کمرے میں ہے اپنے "...
"بہت ہی آرام دہ لہجے میں سکینہ بیگم نے کہا تھا "...
"ہنہہ ابھی دیکھتی ہوں مہارانی کو آرام کرنے کے لئے حویلی نہیں لائے "...
"کہتے وہ واپس پلٹنے لگی تھیں کہ سکینہ بیگن نے ان کا بازو تھاما"...
"کمرے میں لاک کیا ہے اسے کیونکہ جب تک شہیر حویلی میں ہے تب تک وہ باہر نہیں نکل سکتی"...
"یہ آپ کے چہیتے شوہر سائیں کا حکم ہے"...
"اسلئے بہتر ہے آرام کرو جا کر ابھی بیماری سے اٹھی ہو "..
"کیوں دوسروں کی زندگیوں کو بے سکون کرنے پر تلی ہو"..
"سکینہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا نورے کے بازو کو جھٹکتے ہوئے واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئیں جبکہ نورے بیگم غصے سے کھولتی ہوئی وہاں سے نکلی تھیں"...
جسم شعلہ ہے جبھی جامۂ سادہ پہنا
میرے سورج نے بھی بادل کا لبادہ پہنا
" رات کی گہری خاموشی میں جہاں تمام حویلی والے سکون کی نیند فرما رہے تھے وہیں شہیر لان میں کھڑا آسمان کی جانب دیکھے کسی مرئی نقطے پر غور کر رہا تھا جبکہ دائیں ہاتھ میں موجود کافی کے کپ سے سپ گاہے بگاہے لیتا اپنے کے ذہن سکون دینے کی کوشش کر رہا تھا"....
"جب سے وہ حویلی میں آیا تھا اس نے بہت کچھ بدلا پایا"...
"ماحول ، رشتے تقریباً سب ہی تو بدلتے ہوئے نظر آ رہے تھے ، سب کے رویے میں اسے کوئی راز دیکھائی دیتا تھا جو وہ اس سے چھپانا چا رہے تھے ، لیکن ایسی کیا بات ہو سکتی "..؟؟؟؟
"یہی سوچیں اسکے زہن کو اپنی ضد میں گھیرے ہوئے تھیں".....
"لیکن ہوا کے سپرد ایک گہرا سانس کیے خود کو پر سکون کیا "....
"ساتھ ہی نظر ہاتھ میں موجود خالی کپ پر گئی تو اسے رکھنے کی نیت سے کیچن کا رخ کیا لیکن وہاں جا کر وہ ٹھٹھکا تھا کیونکہ معمول سے ہٹ کر وہاں پر بلب جل رہا "....
"شہیر دھیمے قدم بڑھتا آگے بڑھے تھا جہاں اسے کوئی نسوانی وجود کھڑا دیکھائی دیا ، چہرا سامنے ہونے کے باعث وہ اسکا چہرا دیکھ نہ پا رہا تھا "....
"کون ہو "....؟؟؟؟؟
"وہ سرد گھمبیر لہجے میں بولا تھا کہ سامنے کھڑا وجود لرز سا گیا تھا اور اسکے ہاتھ میں موجود شئے نیچے زمین بوس ہوئی".....
"شہیر کا ہاتھ جیسے ہی مقابل کھڑی لڑکی کے کندھے سے ٹکرایا تھا ایک کرنٹ سا دوڑ گیا تھا دونوں کے وجود میں "....
"اس سے پہلے کے اس لڑکی کو پلٹ وہ اسکا چہرا دیکھ پاتا تب ہی اچانک لائٹ چلی گئی"...
"وہ آخری بلب بھی بند ہو گیا تھا "....
"اور اسی موقع کا فائدہ اٹھائے سحر نے اپنا وجود چھڑائے بھاگنے میں عافیت جانی".....
"ہئے روکو"....
"شہیر چلایا تھا اسکو پکارتے ہوئے کیونکہ وہ آج کسی بھی حال میں اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا جس کی کشش پہلے ہی دن سے اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی ،"...
"جس کو حویلی والے اس سے چھپانے کی کوشش کر رہے تھے"..
"لیکن کیوں"...؟؟؟
"اس سوال کا جواب اس کے پاس موجود نہ تھا".....
"شٹ"..
"پاس ٹائل پر اس نے غصے سے مکہ مارا تھا ".....
"یہ بجلی جو کبھی بند نہ ہوتی تھی وہ آج ہو گئی تھی وہ بھی ایک نازک موقعے پر ، جب ایک راز فاش ہونے والا تھا".....
"شہیر لائٹ والوں کو برا بھلا کہتا واپس اپنے کمرے میں چلا گیا"....
"جب کہ اس کے جاتے ہی فریج کے پیچھے چھپی سحر دل پر ہاتھ رکھے اپنی پھولتی سانسوں کو ہموار کیے باہر آئی تھی"....
"یا اللہ تیرا شکر اگر بڑے سائیں کو معلوم ہو جاتا تو وہ مار ہی دیتے "....
"یہی سوچ آتے ہی اس نے دل سے سد شکر ادا کیا "....
©©©©
"جانم اتنی صبح صبح کہاں کی تیاری ہے"..؟؟؟
"وہ بھی شادی کے پہلے دن"..؟؟
"عروہ کو یوں نک سک سا تیار دیکھ احمر جانچتی ہوئی نظروں سے دیکھ بولا تھا" ...
"آفس کی تیاری ہے میرے ماہان شوہر صاحب"...
"شیشے کی سامنے کھڑی وہ تیار ہوتے ہوئے بولی تھی "....
"نہیں کوئی ضرورت نہیں آفس جانے کی آج کا پورا دن تم میرے ساتھ گزارو گی"....
"احمر نے ہاتھ بڑھائے اسکو اپنی عور کھینچا تھا کہ وہ سیدھا اسکے سینے سے آن ٹکرائی کھلے بال اڑتے ہوئے اس کے چہرے پر پھیلے تھے"....
"کیا کر رہے ہو احمر"..؟؟
"میرا جانا ضروری ہے آفس ہے مزاق تھوڑی"....
"عروہ نے اسکو مصنوعی گھوری سے نوازتے ہوئے کہا تھا"....
"جاناں میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں"...
"پیار ہے مزاق تھوڑی "....
"اسلئے آج کے دن آفس بھول جاؤ"..
"گھمبیر لہجے میں بولتا وہ اپنا چہرا اس کی گرن میں چھپا گیا کہ وہ کسمسائی تھی"..
"اح۔۔"...
"شششش"....
"عروہ کے لبوں پر اپنی شہادت کی انگلی رکھے خاموش کروایا تھا اسے"...
"آج کچھ مت بولو پلیز"...
"آئے ونٹ ٹو فیل یو"......
"وہ دھیمے مگر بوجھل لہجے میں بولا تھا"....
"اور ساتھ ہی اسکو خود میں بھینچتے محسوس کیا تھا"...
"عروہ بھی آنکھیں بند کیے احمر کی محبت کو محسوس کر رہی تھی"...
"لیکن ان خاموش لمحات میں فون کی چنگھاڑتی آواز نے کسی دشمن کا سا کام کیا تھا"....
"احمر برا سا منہ بنائے پیچھے ہٹا تھا جبکہ عروہ نے اپنی ہنسی ضبط کی تھی"....
"ہیلو جی بابا سائیں"...
"ہیلو احمر کہاں ہو تم فوراً حویلی پہنچو"...
"دوسری جانب سے چوہدری وقاص کی کرخت آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی"...
"کیوں خیریت"..؟؟؟
"کسی تفتیش کے تحت بولا تھا وہ "...
"ہنہہ سب ٹھیک ہے بس تم پہنچو یہاں اور اپنی اس ونی لوگائی کو سنبھالو بہت اڑتی پھر رہی ہے ہوا میں ، شہیر بھی حویلی آیا ہوا ہے اسلئے کہہ رہا ہوں تم سے ، پہلی فرست میں سب چھوڑو اور یہاں حویلی میں پہنچو"....
"جبکہ چوہدری وقاص کی بات سن اسکے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا تھا جسے بغوبی عروہ نے بھی محسوس کیا"....
"ہمم بابا سائیں آپ فکر نہ کریں میں پہنچتا ہوں خدا حافظ"...
"عروہ کے سامنے وہ تفصیل میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا تب ہی مختصراً کہتا فون کھٹاک سے بند کر گیا" .....
"کیا ہوا احمر سب ٹھیک تو ہے نہ ...."؟؟؟
"احمر کے چہرے یوں تنے نقوش دیکھ عروہ فکر مندی سے بولی تھی"....
"ہاں ڈارلنگ تم پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہے "...
"بٹ ائی ایم سوری مجھے جلدی میں حویلی جانا ہے کیونکہ بابا سائیں نے بلایا ہے "....
"اسکے گالوں کو تھپکتا وہ آرام سے بولا تھا اور ساتھ ہی باہر جانے کے کئے قدم بڑھائے تھے لیکن عروہ کے ہاتھ میں قید اسکے ہاتھوں نے اسکے قدموں کو آگے بڑھنے سے روک دیا تھا "......
"آہاں "..!!!
"مجھے روک کر آپ یوں نہیں جا سکتے شوہر صاحب"....
"اس کے چہرے کو شہادت کی انگلی سے اوپر اٹھائے وہ آئبرو اچکائے بولی تھی کہ احمر مسکرا دیا تھا"...
"اور میں کیوں نہیں جا سکتا"...؟؟؟؟
"عروہ کے دونوں ہاتھوں کو اپنی گرفت میں لئے وہ آنکھیں ترچھی کیے بولا"....
"کیونکہ جب میں آفس نہیں جا سکتی تو یہ ضرور ہے کہ آپ بھی کہیں نہیں جائیں گے"....
"اسی کے انداز میں کہتی وہ نظریں گھما گئی تھی"...
"لیکن ڈارلنگ میں جا رہا ہوں روک سکتی ہو تو روک لو"۔
"اس کو ہلکا سا جھٹکا دیے وہ بولا تھا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے "...
"پھر میں بھی آفس جا رہی ہوں"....
"عروہ نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی لیکن احمر کی جانب سے ملنے والے جواب پر منہ بنا گئی تھی وہ"....
"اوکے".....
"ہنہہ سیلف فیش"...
"منہ ہی منہ میں بڑبڑائی تھی وہ"...
"اور پھر تیار ہونے لگی"..
©©©©
"ماں "...
"ہو سکتا ہے کچھ دن میں میرا دوست یہاں گاؤں وزٹ کے لئے آئے"...
"ناشتہ کرتے شہیر نے میمونہ بیگم اور سکینہ بیگم سے کہا تھا"....
"جسے سن میمونہ بیگم نے تو اثبات میں سر ہلایا تھا"....
"ہہمم "...
"سکینہ بیگم کچھ سوچنے کے سے انداز میں بولی تھیں"..
"شہیر بیٹا "....
"انہوں نے بہت ہی احساس سے شہیر کو پکارا تھا ، لہجے سے ایسا لگتا تھا جیسے کسی ماضی کی سوچ میں ہوں".....
"زندگی میں ایک چیز یاد رکھنا دوست دیکھ کر بنانا"...
"کیونکہ باعث دوست نظر تو اچھے آتے ہیں لیکن حقیقتاً وہ آستین کا سانپ ہوتے ہیں "....
"بلکہ سانپ بھی نہیں"....
"سکینہ بیگم تلخ سا ہنسی تھیں"....
"وہ بالکل اژدھا کی مانند ہوتے ہیں جو آپ کو بالکل نگل جاتے ہیں"....
"اس لئے اعتماد کرو ،لیکن اندھا اعتماد کسی پر نہ کرنا ".....
"وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایسا کیوں کہہ گئی ہیں ، شائد اس وقت ایسی بات کرنے کا کوئی تک بھی نہ بنتا تھا"...
"لیکن شائد وہ اپنے دل کے غبار کو نکالنا چاہتی تھیں تب ہی"....
"یہ تمام باتیں انہوں نے نورے بیگم کو اپنی نظروں کا مرکز بنائے کہا تھا جبکہ نورے بیگم آنکھیں گھما گئی تھیں"....
"ارے ماں آپ پریشان نہ ہوں ، میرا صرف ایک ہی دوست ہے اور وہ ہے فاتح ، کافی اچھا ہے آپ بے فکر ہو جائیں ان شاءاللہ اس سے مل کر آپ کو بہت اچھا لگے گا"....
"ان کی بات سنے وہ ہنستے ہوئے بولا تھا جبکہ دھیرج سے سکینہ بیگم بھی مسکرا دی تھیں"...
"لیکن ان کی اس ہنسی کے پیچھے چھپا وہ درد ، وہ مایوسی شہیر سمجھ نہ پایا تھا لیکن پاس بیٹھی ان کی بہن باخوبی محسوس کر سکتی تھی ، وہ انداز ، وہ لہجہ نورے بیگم محسوس کر سکتی تھیں ،
لیکن نورے بیگم نخوت بھری نظر ان دونوں پر ڈالے اٹھ کر جا چکی تھیں وہاں سے ".....
"سکینہ بیگم اٹھے کیچن میں آ گئی تھیں ،صرف ایک لفظ "دوست " نے انہیں کہیں ماضی میں لا پٹخا تھا لیکن وہ ان سوچوں میں سوار ہوئے اپنے حال کو خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں"....
"وہ اس بے اعتبار رشتے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھیں"....
تیرے بن نہیں سکون زندگی میں کہیں
بھیگوں زرہ ہے دل بنجر میرا ۔۔۔۔۔
©©©
"احمر واپسی پر سیدھا چوہدری وقاص کے پاس گیا تھا جو کہ اس وقت چارپائی پر بیٹھے منشی سے حساب کتاب لے رہے تھے"....
"ہاں احمر پتر ادھر آ ".....
"انہوں نے منشی کو جانے کا حکم دیتے ہوئے احمر کو اپنے پاس بیٹھایا تھا"....
"جی بابا سائیں"...!!
"دیکھ احمر تیرا چاچا زاد بھائی شہیر بھی آیا ہے ، تو جانتا ہے وہ تجھ سے بڑا بھی ہے اور اسکی سوچ بھی ہم لوگوں سے قدرے مختلف ہے "....
"اسلئے بہتر ہو گا اس ۔۔۔۔۔ ونی کا زکر اس کے سامنے نہ چھیڑا جائے"...
"اس لڑکی تو سنبھالے رکھنا جب تک شہیر یہاں حویلی میں ہے ..."
"بس کچھ بھی کرنا لیکن وہ لڑکی اسکی نظروں میں نہیں آنی چاہیے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں شہیر کو ویسے بھی بہت گرمی چڑھی ہے "...
"وہ لڑکی میرے منا کرنے کے باوجود اس کے سامنے آنے کی کوشش کرتی ہے آخر ہے جو (.......) خاندان سے"....
"چوہدری وقاص نخوت بھرے انداز سے بولے تھے".....
"ان کی بات سنیں احمر اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا غصے میں"...
"آپ بے فکر ہو جائیں بابا سائیں ، اس سحر کو تو میں سیدھا کر لوں گا لیکن شہیر کو آپ سنبھال لینا"....
"وہ دونوں باپ بیٹے بیٹھے اپنا ہی فیصلہ کر رہے تھے"..
"اس بات سے انجان کے سچ آخر کب تک چھپتا ہے"...
"جیسے سمندر کبھی کبھی ساکن ہو جاتا ہے لیکن پھر"......
"ایک نا ایک دن حقیقت کا سمندر جوش میں آجاتا ہے اور جھوٹ کی دیواروں کو ریزہ ریزہ کر دیتا ہے"......
©©©
"سنیے گا"...
"پشمینہ کی سُریلی آواز ڈائنگ حال میں بیٹھے فاتح کے کانوں سے ٹکرائی تھی جو کہ سامنے لگی مووی سمیت بھاپ اڑاتی کافی کے مزے لے رہا تھا"....
"ہم سناؤ"....
"نظریں ہنوز ایل_ای_ڈی پر مرکوز کیے وہ مسرور سا بولا تھا"..
"پشمینہ نے ایک نظر مووی اور پھر فاتح کی جانب دیکھا جو کہ اس سے آج پھر بیگانگی اختیار کیے ہوئے تھا"....
"کچھ بولو گی بھی یا یوں ہی کھڑے رہنے کا ارادہ ہے"....
"پشمینہ کو یونہی منجمد دیکھ وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولا تھا "...
"وہ ۔۔مجھے آپ کا موبائل چاہیے تھا"....
"صوفے کے دائیں جانب کھڑی ، ڈوپٹے کو ہاتھوں کو موڑتے تقریباً اسکی استری خراب کر گئی تھی ، چہرے پر چھائے کنفیوژن زدہ تاثرات کے ساتھ وہ سامنے موجود اپنے شوہر کے چہرے پر اتار چڑہاؤ سے اس کے موڈ کا اندازا لگا رہی تھی "...
"پشمینہ کے الجھن زدہ تاثرات اسکو کنفیوژ ظاہر کر رہے تھے ، جبکہ اسکی یہ کنفیوژن فاتح بھی محسوس کر چکا تھا"...
"کیوں... تمہارا فون کہاں ہے"..؟؟؟
"مووی کو پوز کرتا اب وہ پوری طرح اسکی جانب متوجہ ہوتے ہوئے بولا "...
"میرا موبائل کل صبح کام کرتے ہوئے ٹوٹ گیا تھا اور ابھی مجھے بابا اور مشل سے بات کرنی ہے"...
"کیا آپ میری بات کروا دیں گے"..؟؟
"وہ ایک ہی سانس میں اپنی بات بیان کر گئی تھی جبکہ پشمینہ کو یوں تیز روانی سے بولتا دیکھ فاتح آنکھیں آڑی کیے اسے دیکھ رہا تھا لبوں پہ ایک تبسم سا آن ٹھہرا تھا جسے دانتوں تلے وہ دبائے غائب کر گیا"....
"آں "..!!
"خیریت ویسے کیوں بات کرنی ہے"...؟؟؟
"دائیں آئیبرو اچکائے وہ تفتیش کن لہجے میں بولا تھا"....
"پشمینہ نے اپنی سنہری آنکھیں اٹھائے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو کہ لو بھلا یہ کیسا سوال ہوا"....
"یہ کیسا سوال ہے فاتح ،"..؟؟؟
"میرا دل چاہ رہا ہے ان سے بات کرنے کو ".....
"اپنی حیرت پر قابو پائے وہ سرسراتے لہجے میں بولی تھی "....
"فاتح جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اپنی بیگم کی بات سنے اسے ہاتھ سے کھینچ اپنے پہلو میں بیٹھایا تھا "....
"ہاں تو ہماری بیوی نے کبھی تو دو گھڑی مجھ سے تو بات نہیں کی "....
"اس کے نازک وجود کو اپنے حلقے میں لئے وہ سامنے لگی مووی دوبارا اسٹارٹ کر چکا تھا "....
"آپ نے کبھی ایسا موقع ہی نہیں دیا اور نہ ایسا کوئی تعلق رکھا کہ میں آپ سے بات کرنے کی خواہش ظاہر کرو"...
"آپ مجھے بتا دیں کہ آپ اپنا فون دے رہے ہیں یا نہیں".....
"وہ بنا لحاظ کیے اپنی بات بیان کر گئی اور وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی اس نے ایسا موقع ہی کہاں دیا تھا یا ان کے درمیاں اس طرح کے تعلقات ہی نہ تھے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس پر عیاں کرتی ،بلکہ اس نے تو پہلے ہی دن سے نا پسندگی کا ٹیگ اس پر لگایا ہوا تھا".....
"پشمینہ کی بات سن وہ لب بھینچ گیا تھا اس نے کچھ نہ کہا تھا بلکہ خاموشی سے سامنے رکھا فون اٹھا کر اس کے حوالے کر دیا جسے تھام وہ بھی اٹھ کر سائڈ پر آ گئی".....
خواہشیں یوں ہی برہنہ ہوں تو جل بجھتی ہیں
اپنی چاہت کو کبھی کوئی ارادہ پہنا
یار خوش ہیں کہ انہیں جامۂ احرام ملا
لوگ ہنستے ہیں کہ قامت سے زیادہ پہنا
"شام کا وقت تھا اس وقت حویلی کے تقریباً مرد کھیتوں میں گئے ہوئے تھے یہی وجہ تھی کہ سحر آرام سے اپنی پسندیدہ جگہ "حویلی کے باغیچے " میں بیٹھی کہیں کھوئی ہوئی تھی لیکن صد افسوس"...!
"اسکا یہ سکون ذیادہ پل ٹک نہ سکا تھا "...
"کیونکہ نورے بیگم کی نظر اس پر پڑ چکی تھی اور انہیں کہاں گوارا تھا کہ سحر کی زندگی میں سکون آئے".....
"تب ہی اسکے چند لمحے نصیب ہوئے سکون کو غارت کرنے کی نیت سے
وہ تن فن کرتی خاموش بیٹھی سحر کے سر پر آن کھڑی ہوئی تھیں".....
"اے مہارانی تم یہاں آرام کرنے کے لئے اس حویلی میں نہیں لائی گئی ہو جو یہاں سکون فر ما رہی ہو"...
"چل اٹھ اور جا کر باڑے کی صفائی کر اور جانوروں کو کھانا پانی دے"....
"کلموہی "...
"ہڈرام نہ ہو تو"....
"اپنی اعلیٰ زبان کے جوہر دکھائے وہ سحر کو برا بھلا کہتیں نفرت بھرے القابات سے نواز رہی تھیں"..
"نورے بیگم کے یوں سر پر آ کھڑے ہونے سے سحر گھبرا کر کھڑی ہوئی تھی ۔ آج کافی دنوں بعد اسکا سامنا نورے بیگم سے ہوا تھا یہی وجہ تھی کہ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوئی تھی کیونکہ اس پوری حویلی میں اگر وہ کسی سے خوف کھاتی تھی تو وہ تھی نورے بیگم اور ان ہی کے نقشِ قدم پر چلنے والا ان کا بیٹا چوہدری احمر"...
"ہاں اس کا گھبرانا ، خوف کھانا بجا تھا کیونکہ ابھی تک جتنے زخم و تکالیف جو اسکو نصیب ہوئے تھے وہ ان ہی کی بدولت تو ہوئے تھے"....
"ایسے کھڑی کیا ہے ...؟؟
سنائی نہیں دیا تجھے"....
"سحر کو سر جھکائے کھڑے دیکھ وہ نخوت سے بولی تھیں"....
"نورے بیگم کی جانب دیکھنے سے پرہیز کرتی سر جھکائے ہی اس نے اپنا رخ باڑے کی جانب کیا تھا "...
"جب کہ اس کو یوں جاتے دیکھ نورے بیگم کی آنکھیں کسی سوچ کے تحت چمکی تھیں اور ساتھ ہی ان کے لبوں پر ایک شیطانی مسکراہٹ آ ٹھہری تھی "....
©©©
یار پیماں شکن آئے اگر اب کے تو اسے
کوئی زنجیر وفا اے شب وعدہ پہنا
"آہہہہ".....
"اسٹڈی میں بیٹھا فاتح ہواس باختہ سا کمرے سے باہر بھاگتا ہوا سیٹنگ روم میں داخل ہوا"....
"جہاں اسکی نظر ماربل کے فرش پر گری پشمینہ پہ گئی تھی جو کہ اپنا پیر تھامے درد سے چلا رہی تھی"....
"وہ لمحوں میں اس تک پہنچا تھا"....
"کیا ہوا "...؟؟؟؟
"تم یہاں کیا کر رہی ہو"..؟؟؟
"م۔۔میں گر گئی "....
"میرے پاوں میں موچ آئی ہے".....
"اپنے پاؤں کو تھامے وہ ضبط سے بولی تھی ، آنکھوں میں درد کے آثار صاف نظر آرہے تھے"....
"فاتح پشمینہ کو ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا لیکن اس کی وہ کنفیوژن بھی دور ہو گئی تھی جیسے ہی اس کی نظر پشمینہ کے پیچھے رکھے اسٹول اور جھاڑو پر گئی"...
"او تو محترمہ اسپائیڈر مین بنی ، جالے اتارنے کی کوشش کر رہی تھیں"...
"وہ پاس رکھی اسٹول ، اور جھاڑو کو دیکھ پشمینہ کو مزاق بنا گیا تھا"....
"پلیز فاتح مزاق بند کریں ، مجھے درد ہو رہا ہے "...
"اب کے درد کے باعث اس کی آنکھوں میں آنسوں نمایاں ہونا شروع ہو گئے تھے"....
"فاتح مسکرا کر مخمور نگاہوں سے اس کے چہرے کا طواف کر رہا تھا اس کی نظر بار بار اسکے کپکپاتے لبوں پر بھٹک رہی تھی".....
"سنیں ".....
وہ بے بس ہوتی نم آنکھوں سے اسکو جھنجھوڑ گئی تھی"..
فاتح نے دو قدم آگے آکر اسے وجود کو اپنے قریب کیا تھا ".....
"وہ پزل ہوتی پلکیں جھکا گئی تھی ، ایک تکلیف اوپر سے ظالم کی دل دھڑکا دینے والی نظریں".....
"تمہارا یوں دیکھ کر پلکیں جھکا لینا لرزنا مجھے مسمرائز کرتا ہے ۔۔"
"وہ کہتے ہوئے مزید قریب آیا تھا پشمینہ ڈر کر پیچھے کو ہوئی "...
"فاتح نے اپنا ہاتھ آگے کیا تھا "....
نظریں جھکائے اس نے فاتح کا تھامتے اسکی چوڑی ہتھیلی پر اپنا نازک ہاتھ رکھا تھا اور اٹھنے کی کوشش کرنے لگی لیکن وہ واپس وہیں ڈھہ گئی"....
"ن۔۔نہیں اٹھا جا رہا "....
" لبوں کو بھینچتے ہوئے کہا تھا"....
"کچھ سوچ فاتح نے اثبات مین سر ہلایا اور اس کو کچھ بھی سمجھنے کا موقع دیے بغیر ایک ہلکے سے جھٹکے سے اسے کھینچا تو وہ کٹی ڈور کی طرح اسکی بانہوں میں سما گئی "....
"پشمینہ اپنی دونوں آنکھیں زور سے میچ گئی تھی اسکے چوڑے سینے سے لگی کپکپا رہی تھی جبکہ فاتح اسکی محسور کن خوشبو سے بہک رہا تھا"۔۔۔
فاتح کی سانسیں پشمینہ کی سانسوں کو اپنے چہرے سے ٹکراتی محسوس ہوئی تو اسکا دل اتنی تیزی سے دھڑکنا شروع ہوا کہ فاتح صاف دھڑکنوں کو سن سکتا تھا"...
"فاتح اسے کمرے میں لایا تو وہ فوراً اس سے دور ہونے لگی لیکن جتنی ہی رفتار سے وہ فاتح سے دور ہوئی تھی اسی رفتار سے واپس اس کے پاس آئی "....
"کیونکہ پشمینہ کے گلے میں موجود لاکٹ فاتح کی شرٹ کے بٹن میں اٹک چکا تھا ".....
"دونوں کی نظریں پہلے لاکٹ پھر ایک دوسرے کی آنکھوں سے ٹکرائی تھیں اور یہی وہ لمحہ تھا جب دونوں کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھیں"..
"لمحہ رک سا گیا تھا".....
"شائد قسمت کو منظور نہ تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے دور جائیں لیکن یہ تو صرف تقدیر ہی جانتی ہے کہ کون کب تک کس کے ساتھ ہے"...
"فاتح اسکے مزید قریب آیا اور بہت احتیاط کے ساتھ اس چین کو اپنی شرٹ سے علیحدہ کیا اور جھک کر اسکے پاؤں کا معائنہ کرنے لگا جہاں سوجن واضح تھی"....
"پاس رکھی ڈرو میں سے ٹیوب نکال اسکے پاؤں پر لگانے لگا تھا لیکن پشمینہ نے روک دیا تھا اسے"....
"ن۔۔نہیں رہنے دیں میں کر لوں گی "....
"پشمینہ اپنا پاؤں پیچھے کرتے بولی تھی لیکن اسکی کوشش کو فاتح نے ناکام بنائے اس کا پاؤں اپنی گود میں رکھا اور آرام آرام سے اس کے پیر پر لگانے لگا تھا جس کے اس کو سکون مل رہا تھا ".....
"وہ بیڈ سے ٹیک لگائے آنکھیں موند گئی تھی ".....
آشناں پھر ہوں گے کیا اجنبی ستارے
کیا ملیں گے منزل سے راستے ہمارے
©©©
"تقریباً آدھے گھنٹے کی محنت کے بعد جا کر اس نے یہ باڑے کو تھوڑا ٹھیک کیا تھا کیونکہ یہاں جب وہ آئی تو ہر طرف چارا پانی وغیرہ ہی گرا پڑا ہوا تھا جسے دیکھ اسکا دم گھٹنے لگا تھا"....
"لیکن حادثاتی طور پر اس کو اپنا اس حویلی میں وہ پہلا دن یاد آیا"...
"جہاں اس کی ذات کو بھی انہیں جانوروں کی مانند سمجھتے ہوئے اسی باڑے میں رکھا گیا اور بلاجواز تشدد کیا گیا ".....
"جسے یاد کیے اس کے لبوں پر تلخ مسکان نمودار ہوئی لیکن تمام سوچیں کو جھٹکے وہ آگے بڑھی تھی "...
"جہاں باڑے میں موجود کچھ جانور بیٹھے تھے جبکہ باقی چارا کھاتے ہوئے چگالی کر رہے تھے وہ خاموشی سے ان معصوم بے زبانوں کو دیکھ رہی تھی ۔سحر کو خود کی ذات بھی ان کی مشابہ ہی لگی تھی کیونکہ نہ ہی یہ جانور اپنے حق کے لئے بول سکتے ہیں اور نہ وہ "....
"ان جانوروں سے جس کا دل چاہے وہ اپنی مرضی سے ان سے کام لیتا ہے"...
"ہاں بالکل ایسا ہی تو حال تھا اسکا "....
"جہاں اس کی ذات سے بھی مشینوں کی مانند کام لیا جارہا تھا"....
"آخری جھاڑو لگانے کے بعد اس نے تمام کوڑا ایک جگہ جمع کیے پاس رکھے کوڑے دان میں ڈالا تھا اور ساتھ ہی جانوروں کو کھانا ڈالنے لگی "...
"کھانے ڈالنے کے بعد اس نے باہر جانے کے لئے قدم بڑھائے لیکن دروازے پر منجمد کھڑے اس شخص کو دیکھ سحر کے قدم تھمے تھے"...
"جو آنکھوں میں شیطانیت لئے ،لبوں پر عجیب مسکان سجائے اسی کو دیکھ رہا تھا"...
"س۔۔سائڈ پر ہوں مجھے ج۔۔جانا ہے"....
"سر جھکائے وہ کھڑی سامنے کھڑے لڑکے کو دیکھ بولی تھی"...
"ارے دل ربا اتنی کیا جلدی ہے جانے کی کچھ وقت ہمارے نام بھی کر دو آخر ہم بھی اسی حویلی کے پرانے رہنے والے ہیں"....
"کچھ لمحے ہمارے نا۔۔۔۔۔۔۔
"وہ شخص سحر کی کلائی کو گرفت میں لیتے بول رہا تھا لیکن سحر کے ہاتھ سے پڑنے والے تمانچہ نے اس کے باقی کے الفاظ کہیں گم کر دیے "...
"سالی (........).....
مجھے تھپڑ مارے گی ".....؟؟؟؟
"اس لڑکے نے اپنے سرخ ہوتے گال پر ہاتھ رکھے سحر کو زمین پر دھکا دیا تھا"....
"ابھی بتاتا ہوں تجھے".....
"کہتے اس نے سحر کے گالوں کو تھپڑوں سے سجا دیا تھا"....
"تم یہاں کی مالکن نہیں ہو ، جس نے مجھے مارا تو برداشت کر جاوں گا۔ ونی ہو تم ہمارے مالکوں کا بچایا ہوا کھانا ، جو بعد میں ہمارے کام آتا ہے ، ہماری بھوک مٹاتا ہے"....
"وہ آنکھوں میں ہوس ، چہرے پر شیطانیت لئے سامنے سحر سے مخاطب تھا جو کہ خود کو اس سے بچانے کی کوشش کر رہی تھی"....
"چ۔چھوڑو م۔۔مجھے"....
"ا۔۔احمر "....
"آ۔۔آنٹی "......
"وہ اپنی مدد کے لئے سب کو پکار رہی تھی ، جبکہ اس کو یوں چلاتے دیکھ وہ شخص قہقے لگا گیا تھا "۔۔۔
"یہاں کوئی نہیں آنے والا "..
"کیونکہ کسی کو یہاں کسی سے سروکار نہیں ، خاص کر ہم سے کہ ہم تم جیسوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں "...
"مزاق اڑانے کے انداز میں کہتا اسکی جانب بڑھا تھا"..
"اس سے پہلے کے وہ اپنی سوچ پر عمل کرتا کسی نے اسے گردن سے دبوچ سائڈ پر کیا تھا "....
"اور بنا دیکھے اندھا دھن مارنا شروع کر دیا تھا".....
"ص۔۔۔ص۔۔۔صاح۔۔صاحب جی "....
"وہ شخص سامنے کھڑے شہیر کو دیکھ گڑبڑا گیا تھا "....
"یہ کیا بے غیرتی کر رہے تھے اس دن کے لئے تم لوگوں کو یہاں کام دیتے ہیں ہمارے ہی خاندان کا نام بدنام کرو"...
" شہیر جو کسی کام سے چوہدری وقاص لوگوں سے پہلے ہی حویلی آ گیا تھا لیکن یہاں باڑے سے آتی نسوانی چیخوں کی آواز پر فوراً بھاگنے کے سے انداز میں یہاں آیا تھا لیکن آگے کا منظر دیکھ اس کے ماتھے پر شکنوں کا اضافہ ہوا تھا "...
"لیکن اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی تھی سامنے موجود اس صنفِ نازک کو دیکھ جو کہ خوف سے آنکھیں موندے اب بھی پہلی کی سی پوزیشن میں تھی "....
"اس ماہ وش کو دیکھ شہیر کو یقین نہ آیا تھا کیونکہ وہ جس حالت میں تھی وہ اس کے لئے ناقابلِ قبول تھی"....
"اگر وہ یہاں وقت پر نہ آتا تو ، اسی کے گھر میں اس معصوم پری کی عزت نیلام ہو جاتی "....
"یہی سوچتے اس کے لب بھینچ گئے تھے ، آنکھوں میں سرخی سی گھل گئی تھی ، شدید ضبط کے باعث کنپٹی کی نسیں ابھر گئی تھی"...
"شہیر نے نفی میں سر ہلاتے ہوتی قوت سے اس شخص پر وار کرنے شروع کر دیے تھے"....
"ہاؤ ڈئر یو ٹچ ہر (........)
"شہیر اس لمحے شدید غصے میں لگ رہا تھا ".....
"جیسے سب کچھ تہس نہس کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ،"...
"شور سن حویلی کے تمام اراکین وہاں جمع ہو چکے تھے"...
"سکینہ بیگم دوڑتی ہوئی وہاں آئی تھیں لیکن سب کو ہی سانپ سونگ گیا وہاں کا منظر دیکھ".....
"نورے بیگم کا چہرا لٹھے کی مانند سفید ہوا پڑا تھا جبکہ چوہدری وقاص تو اپنی جگہ ہی منجمد ہو گئے تھے سحر کو شہیر کے سامنے موجود پا کر ".....
"ش۔۔۔شہیر چھوڑو ب۔۔بیٹا "....
"میمونہ بیگم نے شہیر کو قابو کرنا چاہا تھا"...
"چھوڑیں ماں ، میں اس (.....) کو نہیں چھوڑوں گا اس کی ہمت کیسے ہوئی اس لڑکی کی اس عزت پر ہاتھ ڈالنے کی"....
"وہ کرخت لہجے میں کہتا پھر اسکی جانب لپکنے لگا تھا کہ وہ شخص چوہدری وقاص کے پاؤں میں گڑگڑایا تھا"...
"ن۔۔۔نہیں ص۔۔صاحب م۔۔میری کوئی غ۔۔غلطی نہیں اس۔۔۔اس لڑکی نے خ۔۔خود م۔۔مجھے "....
"وہ چوہدری وقاص کے پاؤں میں بیٹھا گڑگڑاتے ہوئے تمام الزامات سحر کے سر ڈال گیا یہ جانے بغیر اسکا یہ جھوٹ کسی معصوم کے لئے وبالِ جان بن سکتا ہے"...
"اس کی بات سن احمر نے کٹیلی نگاہوں سے سحر کی جانب دیکھا تھا جو کہ احمر کی غصیلی نظریں خود پر پا کر لرز سی گئی تھی "....
"ن۔۔نہیں ۔۔۔ا۔۔۔ا۔۔احمر وہ ۔۔ج۔۔
"وہ نفی میں سر ہلائے پیچھے کی جانب کھسکی تھی جبکہ احمر لمحوں میں فاصلہ طے کرتا اسکا ہاتھ تھام اندر حویلی کی جانب بڑھا تھا"....
"اب تم اسے کہاں لے جا رہے ہو"....؟؟؟؟؟
"سحر کا ہاتھ احمر کے ہاتھ میں دیکھ وہ تقریباً تپ کر بولا تھا".....
"وہیں جہاں ایک بیوی کو لے جایا جاتا ہے".. ۔
"تمسخر لہجے میں کہتا وہ تو جا چکا تھا جبکہ شہیر نے نا سمجھی کے عالم میں وہاں سب کی جانب دیکھا"....
"جیسے جاننا چا رہا ہو کہ یہ سب کیا ہے"........
"ہاں بیٹا ! احمر کا نکاح ہو گیا ہے اس کی پسند سے ".......
"اس کی استہفامیہ نظروں کو محسوس کیے وہ اپنا لہجہ مضبوط کئے مسکراتے ہوئے بولے جیسے معاملے کی نزدیکی کو سنبھالنا چا رہے ہوں"...
"چوہدری وقاص کی بات سن شہیر کو ایسا لگا جیسے پورے حویلی کی چھت اس کے سر پر آ گری ہو"....
"اسے یقین نہیں آ رہا تھا "...
"جس پری کو وہ در بدر ڈھونڈتا رہا وہ یہاں ہے ".....
"اور اسکی بھابھی کے روپ میں"....
"سوچتے اس کا دل پھٹنے کے قریب تھے"....
"وہاں موجود سب لوگ نظریں چرائے جا چکے تھے "....
"وہ شخص بھی اپنی جان بچائے بھاگ نکلا"...
"وہاں کوئی تنہاہ موجود تھا تو وہ خود تھا".....
یہ دل تنہاہ کیوں رہے کیوں ہم ٹکڑوں میں جئیں
کیوں روح میری یہ سہے"..؟؟؟
©©©
"زیشان یہ چوڑیاں کتنی پیاری ہیں"...؟؟
"لے لیں کیا"..؟؟
"پندرہ سالہ سحر نے گولا گنڈے کھاتے ہوئے زیشان سے کہا تھا جو کہ اپنے ہاتھوں میں موجود مکئی کے دانوں کو آرام آرام سے کھا رہا تھا"...
"وہ دونوں آج گاؤں میں لگا میلا گھومنے آئے تھے"....
"تقریباً میلے کی سیر کرنے کے بعد ان نے اپنی اپنی پسندیدہ چیزیں لیے کھانا شروع کیا , انہیں ابھی چلتے دس منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ سحر کی نظریں چوڑیوں کے اسٹال پر گئی تبھی خود پر قابو نہ پاتے ہوئے وہ زیشان سے بولی تھی جو کہ سحر کی چمکتی ہوئی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا "...
"بھائی یہ والی چوڑیاں دیکھائیں "....
"وہ زیشان سے پہلے ہی اسٹال پر پہنچ چکی تھی اور دکاندار سے مخاطب ہوئی"....
"سحر"...
"چھوڑو یار بعد میں لے لینا"...
"زیشان چوڑیوں کو ٹٹلوتی سحر کو دیکھ آرام سے بولا تھا جو لاپرواہ سی کھڑی اپنی مشق جاری رکھے ہوئے تھی "....
"اماں نے ڈانٹنا ہے ، بس کر دو ، ویسے ہی ہم اتنے پیسے خرچ کر چکے ہیں"....
"زیشان کچھ پریشان لہجے میں بولا تھا"...
"او ہو تم تائی جان کی فکر نہ کرو"..
"ان کو میں سنبھال لوں گی ، تھوڑی سی چوڑیاں ان کے لئے بھی لے جاوں گی تو خوش ہو جائیں گی"...
"اب یہ بتائیں کیسی لگ رہی ہیں"....؟؟؟
"وہ پرواہ سی اپنے دونوں ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں کھنکھناتی بولی"...
"سحر".....
"زیشان نے کچھ مصنوعی غصے سے پکارا تھا "...
"جب کے سحر نے جواباً مسکرا کر اسکو دیکھا جسے دیکھ وہ بھی ہنس دیا تھا ".....
تیری چوڑیوں کی وہ کھنک یادوں کے کمرے میں گونجے ہیں
سن کر اسے آتا ہے یاد ہاتھوں میں میرے زنجیریں ہیں
"الارم کی چنگھاڑتی آواز نے اسے ماضی کی یادوں سے سیدھا حال میں لا پٹخا تھا کہ وہ فوراً بیدار ہوا"....
"آج بھی وہ اسکی کھلکھلاہٹیں ، ان چوڑیوں کی کھنک اپنے پاس محسوس کر رہا تھا لیکن افسوس وہ اس کے پاس نہ تھیں"...
"وہ زیشان کی پہنچ سے بہت دور جا چکی تھی"...
"ہاں اس کے ہی ایک جذباتی فیصلے نے اُس کو زیشان سے کوسوں دور کر دیا تھا بلکہ مقابل لڑکی کے جذبات ، اسکی وہ ہنسی ، کھلکھلاہٹیں بھی چھین چکا تھا لیکن اب وہ صرف ماضی کو سوچتے پچھتانے کے علاوہ کچھ نہ کر سکتا تھا"....
©©©
"ا۔۔۔احمر چھوڑیں م۔۔میری کوئی غ۔۔۔غلطی ن۔۔نہیں"...
"چ۔۔چھوڑ۔۔۔چھوڑیں ۔۔۔مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ۔۔۔ج۔۔جھوٹ ۔۔بول رہا ۔۔۔تھا".....
"...م۔۔میں۔۔۔میں نے کچھ نہیں کیا"....
"کچھ نہیں کیا"......
"احمر اسے کھینچنے کے سے انداز میں کمرے لایا تھا جبکہ سحر اس کی سخت گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتی بولی تھی"....
" کیا بکواس کر رہی ہوں "...؟؟؟؟
"اگر تمہاری غلطی نہیں تو وہاں کیا کر رہی تھی بابا سائیں نے منع کیا تھا نا تمہیں یہاں سے نکلنے سے"....
"پھر کیا کر رہی تھی وہاں" ۔۔۔
"وہ دھاڑنے کے انداز میں بولا تھا "......
"و۔۔وہ ن۔۔نورے آنٹی ن۔۔۔"....
"شٹ اپ "....
"بند کرو اپنی بکواس "...
"اپنی اس بد زبان سے میری ماں کا نام مت لو".....
"غصیلے لہجے میں دھاڑتے احمر نے اسکے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا کہ درد سے وہ سسک اٹھی تھی"....
"آنسوں آنکھوں کی باڑیں توڑیں باہر آنے کو بے تاب تھے".....
"تم بد اخلاق لڑکی ".....
"میں اچھے سے جانتا ہوں تم جیسوں کو جن کا کوئی زرف کوئی دین نہیں ہوتا "....
"احمر کی بات سن اسکی نے بھیگی نگاہوں سے اسکی جانب دیکھا تھا جس میں درد ہی درد تھا".....
"بہت بے تاب ہو رہی ہو ، ہماری حویلی کا نام خراب کرنے جا رہی تھی"...
"آج تمہاری تمام چاہتیں ، وہ سب حسرتیں پوری کر دوں گا کہ کسی غیر کے پاس جانے کا سوچو گی نہیں"......
"ہاتھوں میں پہنی گھڑی اتار زمین پر پھینکی تھی جب کہ سحر کو بیڈ کی جانب دھکا دیا تھا ".....
"خ۔۔خدا کے لئے بخش دیں مجھے م۔۔میری کوئی غلطی نہیں ہے"..
"وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو اس کے سامنے جوڑتے ہوئے بولی "...
"ا۔۔۔احمر ۔۔۔چ۔۔چھوڑ دیں خدا کا واسطہ مت کریں یہ سب".....
"چٹاخ"......
"چٹاخ".....
"بکواس بند رکھو اپنی "......
"نہیں تو جان لے لوں گا".....
"اسکا منہ دبوچے وہ تقریباً غرانے کے انداز میں بولا ".....
وہ پھڑپھڑا رہی تھی اسکی سخت گرفت میں".....
"لیکن مقابل کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا "...
"نہ اسکے آنسوں سے "...
"نہ اسکی مزاحمت سے"....
"اور نہ بھی اسکی التجاؤں سے".....
"باہر پھیلتی رات کی سیاحی کے ساتھ وہ کمرا بھی سیاہی میں ڈوبتا چلا گیا جبکہ کسی معصوم کی دبی دبی سسکیاں وہاں گونج رہی تھیں"....
دستک بنا آئے غم بھی عجیب ہے
جانتے نہیں ہیں ان کو پھر بھی کیوں نصیب ہیں......
©©©
"بیگم صاحبہ آپ نے کہا تھا کہ وہاں کوئی نہیں آئے گا"...
"لیکن سب ہی حویلی والے جمع ہو گئے"....
"وہ شخص اپنے سوجے ہوئے منہ کے ساتھ نورے بیگم سے مخاطب ہوا تھا "۔۔۔۔
"ہاں تو مجھے کیا معلوم تھا یہ سب اتنی جلدی آ جائیں گے".....
"نورے بیگم نخوت سے سوچتے بولی "....
"آپ نے اچھا نہیں کیا ، اپنے ہی بھتیجے سے پٹوا کر , اتنا گندہ مارا ہے کہ صحیح سے بولا بھی نہیں جا رہا "...
"تو غلطی بھی تمہاری ہے ، باتیں کرنے سے بہتر کام کرتے اور بھاگ جاتے مگر نہیں تمہیں تو ہیرو بننے کا شوق تھا"...
"نورے بیگم نے سر جھٹکا تھا "....
"ہاں ، کام کرتا اور سیدھا اوپر پہنچ جاتا نا"....
"ابھی صرف ۔۔سو۔۔سوچا ہی تھا صاحب نے یہ حال کر دیا اگر عمل کر دیتا تو آج یہاں موجود نہ ہوتا"....
"بے غیرت اس کملوہی کی قسمت اچھی ہے جو ہر بار بچ جاتی ہے"...
"لیکن کب تک "..؟؟؟
"اگلی دفع نہیں چھوڑوں گی اسے "....
"چل اب تم بھی جاو یہاں سے کسی نے دیکھ لیا تو اچھا نہیں ہو گا". ..
"آس پاس نظریں دوڑائیں نورے بیگم کچھ سوچتے ہوئے بولیں"....
"بیگم صاحبہ"....
"کچھ پیسے اور دے دو "...
"علاج ہی کروا لوں گا اپنا "....
"ہماری وہاں تک بات ہوئی تھی مار کھانے کی نہیں"....
"وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے شیطانیت سے بولا تھا کہ نورے بیگم نے نفی میں سر ہلائے ہاتھ میں موجود کچھ مزید نوٹ اسکی جانب بڑھائے اور وہاں سے چل دیں ، جبکہ وہ شخص بھی نظریں بچاتا جا چکا تھا"....
میری غزلوں کا فقط درد ہی عنواں ہوگا
مجھ سے پوچھو نہ سبب اس کا ، تو احساں ہوگا
شہرِ دل میں جو کبھی عالمِ ویراں ہوگا
کوئی جگنو ، نہ ستارہ درِ امکاں ہوگا
"اندھیری رات "....
"سنسان علاقہ "...
اس سنسان علاقے میں موجود نہر کے کنارے وہ تنہاہ بیٹھا ہاتھ میں موجود پتھروں کو نہر میں پھینک رہا تھا "....
"شائد ایسا کر کے وہ اپنے اندر پیدا ہونے والے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا یا خود میں پیدا ہوئے غم کو چھپانے کی کوشش کر میں تھا"....
"کچھ گھنٹوں پہلے حویلی میں ہوئے اس ناقابل فراموش واقع کے بعد وہ غصے سے وہاں سے نکل کر کافی دیر یوں ہی گلیوں میں بے مقصد پھرتا رہا تھا"....
"اسکا ذہن یہ سب قبول کرنے سے انکاری تھا جس لڑکی سے وہ دیوانگی کی حد تک محبت کرتا رہا ، جسے اپنی شریکِ جاں بنانے کے خواب دیکھتا رہا وہ اس کے کزن کی بیوی ہے"....
"اس حویلی میں اسے بہو کے طور پر دیکھنا اسکی دلی خواہش تھی لیکن وہ بہو تو بن چکی تھی لیکن اسکی طرف سے نہیں "....
"اسکے بھائی کی طرف سے "......
"اس راحتِ جاں کو اس صورت میں دیکھنا ، اسے قبول کرنا اسکے لئے سوہان روح تھا"...
"اس کے چہرے پر موجود نشانات "...
"احمر کو دیکھتے ان جھیل سی آنکھوں میں خوف کا ابھرنا "...
"اسکی گھبراہٹ ... کپکپاہٹ "...
"چوہدری وقاص کی بات کی نفی کر رہے تھے"....
"سب سے بڑھ کر اگر وہ احمر کی بیوی ہے تو باڑے میں کیا کر رہی تھی اور یقیناً یہ وہی لڑکی ہے جس کو وہ اس سے چھپانا چا رہے تھے"....
"ایسے کئی ذہن کو منتشر کرنے والے سوالات شہیر کے دماغ کو الجھائے ہوئے تھے"....
"اس کھلی فضا میں اس نے گہرا سانس لیا تھا اور ساتھ ہی جیب سے موبائل نکالے کسی کو فون پر کچھ حکم صادر کیا تھا"...
"لہجے میں سنجیدگی ، غصہ بیک وقت نمایاں تھا"...
"آج کی وہ پوری رات اس نے وہیں نہر کے کنارے گزاری تھی"....
تقریباً صبح فجر کے وقت وہ حویلی واپس آیا تھا اور بنا کسی سے کچھ کہے تیار ہوتا واپس جا چکا تھا "...
"وہاں موجود صرف تین لوگوں کو اسکی خاموشی گھل رہی تھی"...
ناجانے اس کی یہ خاموشی کیا رنگ لانے والی یہ کوئی بھی نہ جانتا تھا"...
©©©
آج صبح سے ہی سحر کی طبیعت کافی نا ساز سی تھی لیکن اس کی پرواہ کسے تھی "..؟؟
"کسی کو نہیں "...
"گزشتہ شب اپنی درندگی و وحشت دکھانے کے بعد صبح سویرے اٹھا بیٹھایا تھا اسے اور اپنے لئے ناشتہ بنانے کا حکم صادر کیا "....
"ٹوٹے و تھکان زدہ وجود کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے وہ باورچی خانے میں گئی اور اس کے لئے ناشتہ بنانے لگی "...
"وہ لارڈ صاحب جو کبھی صبح سویرے نہ اٹھے تھے آج ناجانے کیسے اتنی صبح اٹھ بیٹھے اور اس سے ناشتے کی فرمائش کرنے لگے یا یہ کہنے ذیادہ بہتر ہو گا کہ اسکو مزید اذیت دینے کے لئے آزمانے لگے".....
"کیا ہوا ابھی تک ناشتہ کیوں نہیں بنایا"..؟؟؟
"باورچی خانے میں تقریباً وہ دھارتے ہوئے داخل ہوا تھا جبکہ اسکو کیچن میں آتا دیکھ سحر گھبراہٹ کا شکار ہوئی "...
"اسے اس شخص سے ایک نفرت سی ہوتی تھی جب بھی احمر اس کے آس پاس ہوتا وحشت و ویرانگی سی اس کے چہرے پر نمایاں ہوتی تھی"..
"جی و۔۔وہ بس سب بن گیا ہے ص۔۔صرف چائے میں ابال آنا رہتا ہے"....
"باورچی خانے کی چیزوں کو سمیٹے وہ سراسیمگی میں بولی"...
ہنہہ جلدی کرو ،پتہ نہیں چائے ہی بنا رہی ہو یا پائے گلانے کی کوشش کر رہی ہو"...
"ہنکار بھرتے وہ نخوت سے بولا اور ساتھ ہی ڈائنگ ٹیبل کی کرسی سیدھی کیے وہاں بیٹھ گیا"...
تقریباً تھوڑی دیر انتظار کے بعد سحر نے جلدی سے ناشتہ لگا کر دیا تھا احمر کو جبکہ کام کے دوران اسکی چبھتی نظریں اپنے وجود پر محسوس کر سکتی تھی "..
"لیکن وہ نظر انداز کرتی واپس باورچی خانے میں چلی گئی تھی "...
"اسے ابھی آئے تین منٹ بھی نہ ہوئے ہونگے کہ احمر کے دھاڑنے کی آواز آئی "...
"سحر .........!!!!!
"وہ دوڑتے ہوئے باہر آئی "...
"ج۔۔ج۔۔جی ".۔۔۔
"یہ۔۔۔یہ کیا بنایا ہے"....؟؟؟
"چائے ہے یا کوئی زہر"..؟؟؟؟
"وہ غصے سے کھولتے ہوئے بولا اور ساتھ ہی چائے سے بھرا گرم کپ ماربل کے فرش پر پٹخا تھا کہ وہ کرچیوں کی صورت میں بھکر گیا جبکہ چائے فرش پر بہتی چلی گئی "....
"م۔۔میں نے ٹھیک تو ب۔۔بنائی تھی"...
"وہ اس سے غصے سے بچتی ہمت جمع کیے اپنی صفائی دیتے ہوئے بولی "...
"تم اچھے سے جانتی ہو میں میٹھی چائے نہیں پیتا "...
"ذہر لگتی ہے مجھے "...
"پھر بھی تم جان بوجھ کر چینی ڈالی تھی نا اس میں"..
"اس کے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لئے وہ غرا کر بولا تھا"...
"ن۔۔نہیں م۔۔مجھے نہیں معلوم تھا آپ۔۔میرے ب۔۔بال تو چ۔۔چھوڑیں مجھے درد ہو۔۔ہو رہا ہے ا۔۔احمر"..
"اپنے بال اسکی گرفت سے نکلوانے کی کوشش کیے بولی تھی جبکہ آنسوں کو روکنے کے باعث گلے کی گلٹی ابھر کر معدوم ہوئی تھی"...
"خ۔۔خاموش "....
"ایک دم خاموش "....
"ورنہ جان لے لوں گا کہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاو گی"....
"اپنی نفرت و غصے سے بھری آنکھیں سحر کی تکلیف زدہ آنکھوں میں گاڑھی تھیں "...
درد تھا نصیب میں درد کو نبھانا تھا
آگ کے سمندر میں ڈوب کے ہی جانا تھا
"شور کی آواز سن میمونہ بیگم اور سکینہ بیگم دونوں ہی فوراً آئی تھیں لیکن آگے سحر کو احمر کی گرفت میں دیکھ دونوں کی ہونق بنی دیکھ رہی تھیں"....
"احمر چھوڑو بچی کو"...
"میمونہ بیگم ہوش میں آتے بولی تھیں "....
"جبکہ سکینہ بیگم سکتے میں تھیں ، احمر کے اندر انہیں چوہدری وقاص نظر آ رہا تھا وہ نفی میں سر ہلاتے آگے بڑی تھیں اور بنا لمحہ ضائع کیے اس کا دائیاں گال تھپڑ سے لال کر دیا تھا تھپڑ اتنی زور کا تھا کہ اس کے گال پر نشان چھوڑ گیا "....
"ی۔۔یہ تربیت ہے تمہاری ہے"....
"ایسی تربیت کی ہے تمہاری ماں نے"....
"تم لوگ عورت پر ظلم کر کے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو"..؟؟؟؟
"بہت ہی طاقتور ہو ، اگر اتنی ہی مردانگی دکھانی ہوتی ہے تو اپنے جیسوں سے جا کر مقابلہ کرو ، کسی صنفِ نازک سے مقابلہ کر کے تمہاری مردانگی نہیں ، بزدلی ثابت ہے".....
"سکینہ بیگم غصے سے برہم ہوتی بولی تھیں"....
"بڑی ماں یہ میرا اور اس لڑکی کا معاملہ ہے بہتر ہو گا آپ لوگ بیچ میں نہ بولیں اور ایک اور چیز آج تو میں نے برداشت کر لیا ہے کہ آپ میری ماں کی تربیت کے بارے میں بولی ہیں لیکن شائد اگلی بار برداشت نہ کر سکوں"...
"کیونکہ سگی ، سگی اور سوتیلی سوتیلی ہوتی ہے"....
"تمام لحاظ بلائے تاک رکھے وہ بدتمیزی سے کہتا حویلی سے ہی چل دیا جبکہ جاتے جاتے کاٹ دار نظروں سے سحر کو دیکھنا نہ بھولا "....
"میمونہ نے اپنی جان سے پیاری بہن کی جانب دیکھا تھا جو کہ ساکت نظروں سے دروازے کو ہی تک رہی تھیں جہاں سے ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ نکلا تھا ان کے جذبات ان کی ممتا کو کچلتا "...
"احمر تو بنا سوچے سمجھے وہ جملے کہے جا چکا تھا لیکن اس کی اس بات سے سکینہ بیگم کا دل پسیج سا گیا تھا ، میمونہ بیگم نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھے انہیں حوصلہ دینا چاہا تھا "...
©©©
"سکینہ بیگم و میمونہ بیگم دونوں ہی کی نظریں بے ساختہ سیڑھیوں کے وسط میں کھڑی نورے بیگم پہ گئی تھی جو کہ انہیں طنزیہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں "...
"کیا ہوا سوتن جی منہ بند ہو گیا "...
"اب کیوں نہیں بول رہی "....
"ہاہاہاہا یاد رکھنا وہ نورے کا بیٹا جو کہ نورے کے ہی نقشِ قدم پر چلے گا "....
"وہ تقریباً ان کا مزاق اڑا کر بولی تھی "....
"قسم سے دل خوش ہو گیا ہے تمہاری یوں اتری شکل دیکھ کر"...
"کیا کہتے ہیں وہ"...
"نورے تھوڑی پر ہاتھ رکھے سوچنے کا ناٹک کیے بولی "...
"ہاں "...
"دائیں ہاتھ سے چٹکی بجائی "....
"دل کو قرار آیا ...
پہلی پہلی بار آیا ۔۔۔
ہاہاہاہا ".....
"میمونہ بیگم نے زہرلی آنکھوں سے نورے کی ہنسی کو دیکھا تھا جو کہ ان کی بہن کو نیچا دیکھا رہی تھی ان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ اس نورے کا منہ نوچ لیں"....
"بھابھی سائیں ! میری بہن سے دور رہیں یہی آپ کے حق میں بہتر ہے ،
ورنہ اپنی بہن سے بدتمیزی کرنے والے کا میں نے حشر بگاڑنے میں لمحہ نہیں لگانا،
" رشتے کا لحاظ کر رہی ہوں ورنہ آپ تو اس قابل ہی نہیں ہیں کہ آپکو عزت دی جائے"....
"میمونہ بیگم کٹیلی نظر نورے کے وجود پر گاڑے بولی تھیں کہ ان کی بات سن نورے کی مسکراہٹ سمٹی تھی"....
"آنہاں "...!!
"دیورانی صاحبہ !...
زرا سنبھل کر ، کہیں یہ جوش مہنگا نہ پڑ جائے"...
"سکینہ ، سنبھالو اپنی بہن کو ورنہ تمہاری طرح اس کو بھی خسارہ نہ اٹھانا پڑے یا کہیں اس کی یہ خوشیاں ہی نہ چھین لوں میں"....
"آنکھیں ترچھی کیے وہ زہر خند مسکان سجائے بولی ".....
"نورے افسوس کے ساتھ"....
"تم نے آج تک چھیننا ہی جاننا ہے "...
"کبھی کسی کو دینا نہیں سیکھا ".....
"سکینہ بیگم آنکھیں گھمائے اپنے سامنے کھڑی نورے بیگم کو دیکھتے ہوئے بولی تھیں"....
"ہو نہ ہو یہ اپنا مشغلہ بن چکا پیاری سوتن صاحبہ "..
"کندھے پر اوڑھا اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کیے وہ اترا کر بولی تھی".....
"جب کوئی چیز چھین ہی لیتے ہیں تو اسے بنانا سوارنا بھی ہماری زمہ داری ہوتی ہے نا کہ دوسروں سے چھین اسکو لاوارث کی طرح چھوڑ دیا جائے "....
"اپنی بات سے نورے بیگم کو وہ بہت کچھ باور کروا گئی تھیں لیکن وہ نورے ہی کیا جس کے کان پر کوئی جوں تک رینگی ہو"....
"ویسے ایک راز کی بات ہے "....
"نورے کہتے سکینہ بیگم کے کان کے پاس جھکی تھی اور نا جانے کیا تھا ان سے کہ سکینہ بیگم کے قدم ڈگمگا سے گئے تھے"....
"انہوں نے تڑپ کر حیرانی سے ، نا امیدی سے نورے بیگم کی جانب دیکھا ".....
"مسکرا کر اپنی بات کہتی نورے بیگم جا چکی تھی پیچھے کھڑی سکینہ بیگم کو زندگی کا سب سے بڑا دھجکا دیے"....
"وہ وہیں پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں تھیں"....
©©©
"ویسے ایک راز کی بات ہے ، ' ارتضیٰ کو بھی میں نے ہی مروایا ہے اور "....
"نورے بیگم الفاظ کسی خنجر کی مانند سکینہ بیگم کے دل پر لگے تھے ،
سکینہ بیگم تڑپ ہی تو اٹھی تھیں ان کو یقین نہ آیا ہے کہ وہ اس قدر گر سکتی ہے "....
"وہ ماں تھیں ان کا کلیجہ حلق کو آیا تھا ایک بار پھر اپنے بیٹے کی جان بوجھ کر ہوئی موت کا سوچ , پھر دوسرا خیال سحر کا آیا جو بے گناہی کی سزا کاٹ رہی ہے"....
"سکینہ بیگم کے آنسوں آنکھوں سے پھسلتے ان کے چہرے کو بھگو گئے تھے "...
"میرا لال , میرا بیٹا"...
"م۔۔میں تمہیں اس ظالم دنیا سے بچا نہ سکی "....
"ارتضیٰ کی تصویر اپنے سینے سے لگائے وہ سسک رہی تھیں"....
"ان کی ممتا کا قتل کرعانے والا اور کوئی نہیں بلکہ نورے ہی تھی "....
کیا ہو گیا تم نے صبح صبح کیوں صفحہ ِ ماتم بچھایا ہوا ".. ؟؟؟
"چوہدری وقاص نیند میں سے جھنجھلا کر اٹھ بیٹھے تھے سکینہ بیگم کی سسکیوں پر "....
"م۔۔میرے ارتضیٰ کو ۔۔م۔۔مار ڈالا ا۔۔اس نے"...
"ا۔۔اس نے ق۔۔قتل کیا ہے"....
"رونے کے باعث الفاظ صحیح سے ادا نہیں ہو پا رہے تھے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی تھیں ، سکینہ بیگم جو کافی عرصے سے ارتضیٰ کی موت کو حادثاتی سمجھے بیٹھی تھیں یوں اس معصوم جان کا جان بوجھ کر قتل کروائے جانے پر وہ بھکر کر رہ گئی تھیں"...
سن کے فسانہ میرا اتنی ہے روئی وفا
دریا بھی تھوڑا لگے جتنی ہے روئی وفا
"کافی عرصے بعد خیال نہیں آ گیا کہ ہمارا بیٹا قتل ہو چکا ہے "..
"ورنہ تم تو اس ونی کی محسن بنی بیٹھی تھی"...
" طنزیہ کہتے ان نے کروٹ بدل لی تھی اور تکیہ اٹھائے اپنے چہرے پر رکھا "....
"ن۔۔نہیں ن۔۔نورے ہ۔۔ہے ق۔۔قاتل ".....
"کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں"....
"جبکہ چوہدری وقاص جھٹکے سے پلٹے تھے"....
"کیا بکواس کر رہی ہو ،..؟؟؟
"ہوش میں تو ہو"...
یا صبح سویرے دماغ سن پڑا ہے"....
"سکینہ بیگم کی بات سن وہ نخوت سے بولے تھے"....
"م۔۔میں سچ سچ کہہ رہی ہوں اس ۔۔اس نے خو۔۔۔خود بتایا ہے"....
"اپنی بات کی نفی ہوتے دیکھ وہ بے چین سی بولی تھی یا ان کے اندر کی ممتا بول رہی تھی جسے چوہدری وقاص نظر انداز کر گئے".....
"بکواس بند کرو سکینہ اپنی "....
"بتا دو میرا اگر یہاں سونا تمہیں پسند نہیں تو میں چلا جاتا ہوں یوں میرا دماغ مت خراب کرو "...
"اور کون سا ایسا قاتل ہے جو خود اپنا جرم قبول کرے".....
"ان کی عقل پر ماتم کیے وہ سنجیدگی سے بولے".....
م۔۔میں سچ...بول رہی ہوں میرا یقین کریں"...
"سکینہ میں ۔۔۔۔۔
"ان کو اپنا باقی کا جملا مکمل کریں کا موقع نہ ملا تھا کیونکہ باہر سے شور کی آواز سن وہ دونوں ہی وہاں متوجہ ہوئے اور فوراً سے پہلے ہی بھاگتے ہوئے باہر نکلے"...
©©©
شہیر کب سے اپنی گاڑی میں بیٹھا سیگریٹ سُلگائے ہوئے بار بار اپنی سوچوں کے پہلو کو بدل رہا تھا دل تھا کہ سب تہس نہس کرنے کو تیار بیٹھا تھا اسے نفرت ہو رہی ان حویلی والوں سے جب سے ان کی اصلیت اس کے سامنے آئی تھی من چاہا سب کچھ چھوڑ اس کو ساتھ لئے کہیں دور چلا جائے لیکن نا ممکن "....
آنکھیں بند کیے ہوش و خرد سے بیگانہ وہ گہری سوچوں میں تھا کہ یکدم گاڑی سے باہر نکلے وہ اندر حویلی کی جانب بڑھا"...
اندر بڑھتے سامنے ہی اس کی نظر گھری میں سے اس معصوم پر گئی جہاں وہ آس پاس سے لاپروا صفائی کر رہی تھی ، اسکی اجڑی حالت ، اداس چہرا ، آنکھوں میں ویرانگی و بے بسی اسے بہت کچھ باور کروا گئے"...
"وہ چھ فٹ کا قد رکھنے والا ایک تنوانا اور سمجھ دار مرد تھا "...
"زندگی کی حقیقت ، لوگوں کے چہروں سے انجان تو نہ تھا وہ"...
"سحر کو اس حالت میں دیکھ اس کی آنکھوں میں شرارے پھوٹنے لگے تھے "....
"اس کو اس حالت میں دیکھنے کا تو تصور نہ کیا تھا اس نے"....
"وہ اس پر سے نظریں اٹھائے اندر کی جانب بڑھا "....
"بابا سائیں"...
"تایا سائیں".......
"احمر کہاں ہیں سب "...؟؟؟
"وہ تقریباً غصے کی ذیاتی سے چیخ رہا تھا ، میمونہ بیگم نے بت ساختہ اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا انہیں جس چیز کا ڈر تھا وہ ہو چکا تھا ٫...
"مطلب طوفان یہاں کا رخ کر چکا تھا".....
چوہدری وقاص ، چوہدری وقار ، سکینہ بیگم ، نورے و میمونہ بیگم سمیت سب ملازمین بھی جمع ہو گئے تھے حویلی کے ہال میں"....
ان سب نے چونک کر اینٹرس کی طرف کھڑے شہیر کو دیکھا تھا
"وہ ابھی تک رات والے حلیے میں تھا سفید شرٹ جس کے اوپری دو بٹن کھلے ہوئے تھے بکھرے بال ، سوجی آنکھیں جن میں اس وقت غصہ ہی غصہ بھرا پڑا تھا"....
"جب سے حویلی میں آیا ہوں ہر شخص کے ہر انداز و بیان بدلے پائے"...
"کوئی عجیب سی تبدیلی محسوس کی تھی میں نے"....
"مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ لوگ کسی کو مجھ سے چھپانا چا رہے ہیں ، ایسا کوئی راز ہے جس سے آپ سب مجھے بے خبر رکھے ہوئے ہیں"....
"اخر اس دن جب اس راز سے پردہ فاش ہونے ہی والا تو تایا سائیں نے یہ کہہ کر مجھے خاموش کروا دیا کہ وہ احمر کی بیوی ہے".....
"وہ لب بھینچے غصے سے بولا تھا"....
"کہتے اس نے کانچ کے ٹیبل پر کچھ کاغذات پھینکے تھے".....
"جو کہ یقیناً احمر کا نکاح نامہ تھا "....
"جب اس کاغذات کو چوہدری وقاص نے اپنے ہاتتھ میں اٹھایا تھا تو ان کا چہرگ لٹھے کی مانند سفید ہوا تھا"....
"تایا سائیں "..؟؟؟
"کیوں کیا آپ نے ایسا "....؟؟؟
"آپ نے کہا احمر نے پسند سے نکاح کیا ہے ، کیا نکاح نامہ پڑھ کر آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نکاح مرضی و پسندگی کی وجہ سے ہوا ہے".....
"نہیں آپ نہیں کہہ سکتے کیونکہ ایک حویلی کا وارث کبھی اپنی بیوی کا حق مہر سو روپے نہیں رکھا ما سوائے اس کے کہ اگر لڑکی میں ونی میں نہ آئی ہو".....
"ایک سیکنڈ "....
"ونی تو تب لی جاتی ہے ، جب کسی کا قتل ہوا ہو"....
"لیکن آپ سب تو میرے سامنے ہیں "....
"پھر قتل کس کا ہوا ہے ، ارے کہیں میں مردوں کے درمیاں تو نہیں کھڑا"....؟؟؟؟
"وہ کچھ سوچنے کے سے انداز میں بولا ".....
"ہاں آپ لوگ واقعی مردہ ہی تو ہیں جن کے سینے میں دل ہی نہیں "...
"جو لوگوں کو تکلیف دینا جانتے ہیں سکون نہیں"....
"وہ کاٹ دار نظریں نورے بیگم اور پھر چوہدری وقاص پر جماتے ہوئے بولا تھا".....
"برخودار تمیز سے بات کرو کب سے تمہارا گستاخانہ لہجہ برداشت کر رہے ہیں ہم "...
"اب کے چوہدری وقاص کچھ سنبھل کر بولے تھے"....
"تایا سائیں کیا سنبھالوں خود کو "..؟؟؟؟
"اب تو پانی سے سر سے گزر چکا ہے".....
"میرے ہی بھائی کی موت ہوئی ہے اور مجھے اطلاع تک نہ دی آپ لوگوں نے ، کہ آخری دیدار تک ہی کر لوں "...
"بلکہ اس کی موت کو آج تک چھپاتے آئے ہیں آپ لوگ مجھ سے "....
"ماں ، بابا آپ لوگ بھی "....؟؟؟
"اس نے شکوہ کناں نگاہیں ان تینوں کی جانب اٹھائی تھیں"....
"وہ ضبط کے باعث لال سرخ ہو رہا تھا آنکھوں کے گوشے بھیگے تھے لیکن آنسوں نہ تھے ".....
"اس کے دل پر گہرا زخم لگا تھا "...
"چلیں ارتضیٰ کی موت ہوئی ، وہ آلله کی مرضی تھی کیونکہ ہر جان اسکی امانت ہے وہ جب دل چاہے لے لے"...
"لیکن آپ کون ہوتے ہیں کسی دوسرے کی زندگی کا فیصلہ کرنے والے"..؟؟؟؟
"شہیر مت بھولو تم سے ہمارا کیا رشتہ ہے"....؟؟؟؟
"اپنا لہجہ و انداز درست رکھو اور ارتضیٰ ہماری سگی اولاد تھی جس مے باعث اسکی موت ہوئی اسکا فیصلہ بھی ہم کریں گے کہ کیا کرنا ہے"....
"تمہیں اس لئے نہیں بتایا کہ تم ہمارے کام میں روکاوٹ ڈالو گے جو کہ اب بھی ڈال رہے ہو ".....
"چوہدری وقاص کے ماتھوں پر بلوں کا جال نمایاں ہوا "....
"افسوس تایا سائیں!
آپ ہی نے تو سب گاؤں والوں کے سامنے یہ اعلان کیا تھا کہ گاؤں میں ونی نہیں کی جائے گی لیکن جب خود کی باری آئی تو "...
"تو کیا کیا آپ نے"....؟؟؟
"آپ کی وہ زبان ، وہ قول ، وہ وعدے سب دھرے کے دھرے رہ گئے"...
"اول پر آیا وہی سو کالڈ بدلہ وہ بھی ونی کی صورت میں"....
"اس معصوم کو کیوں سزا دے رہے ہیں"..؟؟؟
"کیا غلطی ہے اس لڑکی کی جو آپ لوگ اسے ونی کر لائے ہیں"....
"ب۔۔بیٹ۔۔۔۔
"او پلیز ".....!!!!!
"نفرت ہو رہی ہے اپنے آپ سے کہ میں یہاں اس پست خاندان میں پیدا ہوا جو نام سے تو گرچہ بڑا ہے لیکن یہاں کے رہنے والوں کے کام پست لوگوں کی طرح ہے".....
"ونی "....
"ہنہہہ"....
"اس لفظ سے جتنی نفرت ہے اسی رسم پر میرے اپنے گھر والوں نے ہی عمل کیا ہے"....
"افسوس سے کہتا اپنے کمرے میں بند ہو گیا تھا ".....
©©©
کچھ گھنٹوں بعد۔۔۔۔۔
"احمر کافی دیر سے فلیٹ میں بیٹھا عروہ کا انتظار کر رہا تھا "...
"وہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے صوفے پر تقریباً لیٹا ہوا تھا اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیاں سگار جلائے اپنے ہونٹوں سے سلگا رہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ گاہے بھگائے نظر سامنے موجود گھڑی کی جانب دوڑاتا"...
"ایک , دو ، تین ، تین سے چار اور اب پانچ گھنٹے ہونے والے تھے اسے کو عروہ کا انتظار کیے ".....
"لیکن وہ ابھی تک واپس نہ آئی تھی "...
"وہ کئی مرتبہ اسکے نمبر پر کال بھی کر چکا تھا مگر نمبر اس کا سویچ اوف جا رہا تھا"....
"وہ چلتا ہوا کھڑکی کہ پاس آیا جو کہ فلیٹ کے باہر کی جانب کھلتی تھی"...
"ہاتھوں مین سیگریٹ ابھی بھی موجود تھی جس کے گہرے گہرے کش لگاتا خود کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا"....
"اور باہر پارکینگ میں کھڑی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا کہ ایک سفید رنگ کی گاڑی پر اس کی نظریں ٹک گئی تھیں آنکھوں کا رنگ یکدم بدلہ تھا ہاتھوں میں جلتی وہ پانچویں سیگریٹ جلتے جلتے اس کا ہاتھ جلانے کا باعث بن گئی"....
"جہاں عروہ کسی شخص کی گاڑی سے اتری تھی اور اسے مسکرا کر الوداع کرنے کے بعد وہ فلیٹ کی جانب بڑھی تھی جبکہ وہ گاڑی واپس جا چکی تھی ۔ احمر نے اس گاڑی کو اپنی خون آشام آنکھوں سے گھورا تھا".....
"عروہ جیسے ہی فلیٹ کا لاک کھولے اندر داخل ہوئی احمر نے کمر سے تھام اسے دیوار سے لگایا "...
"عروہ جس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ احمر فلیٹ میں ہو گا یکدم ہواس باختہ ہی ہوئی تھی اسے فلیٹ میں دیکھ"...
"اس کے ہاتھ میں موجود ، پرس ، فائل ،کوٹ سب زمین بوس ہوا "...
"ا۔۔احمر تم "..؟؟؟
"اپنے ہواس بحال کرتی وہ مسکرانے کی کوشش کیے بولی "....
"کیوں تمہیں اچھا نہیں لگا یا کسی اور کی موجودگی چا رہی تھی"....؟؟؟
"اسکی کمر پر گرفت مزید سخت کیے وہ غراتے ہوئے بولا "...
"نہیں تو کیسی باتیں کر رہے ہو"...؟؟؟
"تو پھر کسی غیر کی گاڑی میں رات گئے کیا کر رہی تھیں "...؟؟؟
"میں دوپہر سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں"...
"اس کے کان کے پاس جھک کو سرسراتے گھمبیر لہجے میں بولا کہ عروہ اس کی گرم صاف محسوس کر سکتی تھی"...
"و۔۔وہ وہ تو سر ہیں میرے ، دراصل میری گاڑی خراب ہو گئی تھی تو س۔سر نے ڈراپ کر دیا ، بہت اچھے ہیں وہ "....
"وہ احمر کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرتی اپنی صفائی پیش کر گئی تھی"....
"ہنہہ میں مر گیا تھا کیا ، یا اب میری ضرورت نہیں"...؟؟؟
"اس چہرے پر نظریں گاڑھے وہ دانت پیستے ہوئے بولا"...
"ایسے کیوں بول رہے ہو، مجھے کیا پتہ تم یہاں ہو ورنہ تمہیں ہی بلاتی "...
وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی اسے کیسے معلوم ہونا تھا کہ احمر یہاں موجود ہے "..
ویسے بھی مجھے آنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی سر بہت صاف دل اور اچھی عادت کے انسان ہیں اور۔۔۔
"احمر کی گرفت و گستاخی نے اسے مزید کچھ کہنے کے قابل نہ چھوڑا تھا , وہ مچلی تھی اسکی سخت ترین گرفت میں "......
"آئندہ کسی کی شان میں تبصرے نہ سنوں ان لبوں سے"......
"اپنی بات کہتا وہ بنا عروہ کی جانب دیکھے سیدھا فلیٹ سے نکل چکا تھا جب کہ اس کے جاتے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ سانسوں و دھڑکنوں کس ہموار کرنے لگی".....
میری باتوں میں جو اکثر ہی جھلک آتا ہے
بھوُلا بھٹکا سا کوئی روح کا ارماں ہوگا
ہم دنوں میں ہی بدل ڈالیں گے فرسودہ نظام
کرنا مشکل ہے بہت ، کہنا تو آساں ہوگا
©©©
"رات کے ساڑھے دس بجے کے قریب فاتح گھر میں داخل ہوا "...
"ہاتھ میں موجود بیگ صوفے پر رکھا جبکہ کندھے پر لٹکایا گیا وہ کوٹ ہاتھ میں ہی تھامے رکھا"....
"کیچن سے آتی کھٹ پٹ کی آوازیں ٫ اسکو اپنی جانب متوجہ کرنے کا باعث بنا اوپر جاتے جاتے وہ واپس پلٹا تھا اور دبے قدموں سے ہی کیچن میں داخل ہوا جہاں وہ انہماک سے اپنے کام میں مصروف تھی"....
کالے رنگ کے خوبصورت سادھا سوٹ میں چھپا اسکا نازک سا وجود فاتح عالم کی توجہ کا مرکز بنا"....
وہ سر تا پا غور سے اسے دیکھ رہا تھا "....
"پاؤں کیسا ہے اب "...؟؟؟
"فاتح کی گھمبیر آواز اپنے پہلو میں محسوس کیے وہ اچھلی تھی"...
"ارے سنبھل کر "...!!!
"اس کے یوں ڈرنے پر وہ ہنستے ہوئے بولا "....
"پاوں کیسا ہے"..؟؟؟؟
"اپنی بات کو دوبارا دوہرایا تھا اس نے"....
"جی بہتر ہے تب ہی تو یہاں موجود ہوں"....
"وہ نارمل انداز میں کہتی واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی"....
جوہری بند کئے جاتے ہیں بازار سخن
ہم کسے بیچنے الماس و گہر جائیں گے
نعمت زیست کا یہ قرض چکے گا کیسے
لاکھ گھبرا کے یہ کہتے رہیں مر جائیں گے
"کھانا کھائیں گے"..؟؟؟؟
"نہیں'....
"کیچن ریلینگ پر تمام سامان ایک جانب رکھے وہ فریج کی جانب گئی اور وہاں سے بوتل نکالے اس کا ٹھنڈا ٹھنڈا پانی گلاس میں انڈیل فاتح کی جانب کیا "....
"شکریہ "....
"گلاس تھامے وہ مسکرایا تھا جب پشمینہ کا ہاتھ اس کے ہاتھوں سے مس ہوا"....
"سوپ پئیے گیں۔۔؟؟
" اس نے تیار شدہ سوپ پاس رکھی بال میں ڈالا اور ساتھ فرینچ فرائز پلیٹ میں نکالے اور فاتح ساتھ ہی فاتح سے پوچھا"....
"وائے ناٹ ! میں فریش ہو رہا ہوں تم روم میں لے آؤ "...
وہ بھرپور مسکراہٹ پشمینہ کو پاس کیے بولا"....
"وہ کیچن کی چیزوں کو سمیٹتے سوپ کو اور باؤل میں نکالنے لگی اور کمرے کی جانب قدم بڑھائے "....
"وہ پانچ منٹ بعد جب کمرے میں سوپ لے کر آئی تب تک فاتح بھی چینج کر چکا تھا"....
"ہمم کافی اچھا ہے"....
وہ گرم گرم کارن سوپ کے گھونٹ گھونٹ پیتا اب پھر محویت سے اسے دیکھتے ہوئے بولا "...
"پشمینہ نے بس ہلکی سی مسکان پاس کی تھی اس کی جانب"...
"وہ اسکی پر شوق نظریں اپنے چہرے پر صاف محسوس کر سکتی تھی لیکن وہ جان کر انجان بن رہی تھی"...
"کھانے میں اور کیا کیا بنا لیتی ہو"..؟؟؟
"وہ شائد بات بڑھانے کے لئے کہہ رہا تھا کیونکہ پشمینہ سے بات کرنا اس کو لطف اندوز کر رہا تھا"...
"تقریباً سب کچھ "....
"آپ کیوں پوچھ رہے ہیں "..؟؟
"آپ کو کچھ کھانا ہے"..؟؟؟
"سوپ کے سپ کے ساتھ وہ فرائز کے مزے لیتے بولی تھی"....
"ارے نہیں میں تو بس ایسے ہی پوچھ رہا تھا"....
"ویسے ایک بات بتاؤ"...!!!
"تم سوپ کے ساتھ چپس کیوں کھا رہی ہو "...؟؟
"مطلب یہ کیسا کامبینیشن ہوا بھلا"....
"پشمینہ کو کارن سوپ کے ساتھ مزے لے کر چپس کھاتے دیکھ بولا تھا "...
"فاتح کی بات سن وہ ہنس دی تھی بے اختیار اور اس کی یہی ہنسی کسی کے دل کی دنیا ہلا گئی "..
"ہاہاہاہا"...
"یہ دیسی اسٹائل ہے".....
"چپس میرے بہت فیورٹ ہیں "....
"ایک دن یہی چپس جب میں نے سوپ کے ساتھ ٹرائی کیے تو بہت یمی لگے پھر تب ہی سے یہ اسٹائل بن گیا"....
"وہ مسکراتے ہوئے اپنی باتیں شئیر کر رہی تھی جب کہ فاتح محویت سے اس کے چہرے کے رنگوں ، اسکی خوشی کو دیکھ رہا تھا".....
"دل نے دعا کی کہ یہ وہ ہنستی مسکراتی رہے"....
"لیکن کیا ہر دعا قبول ہو جائے یہ ضروری تو نہیں ".......
شاید اپنا بھی کوئی بیت حدی خواں بن کر
ساتھ جائے گا مرے یار جدھر جائیں گے
دن پر لگائے اڑ رہے تھے ، کسی طوفان کی ضد میں آئی ریت کی مانند۔ ". احمر کو حویلی میں موجود ایک مہینے کا وقت بیت چکا تھا مصروفیات کے باعث اس کو واپس شہر عمارہ کے پاس جانے کا وقت بھی نا ملا بیچ میں شہر صرف ایک دفع گیا تھا وہ بھی صرف چند گھنٹوں کے لئے ۔ اسکے بعد روازنہ فون پر ہی عمارہ سے اس کا رابطہ قائم تھا ۔
کالی شلوار قمیض پر نفاست سے بالوں کو سیٹ کیے ،کاندھے پر دائیں جانب سفید کھدر کی چادر اوڑھے وہ ہال میں موجود صوفے پر براجمان تھا نظریں اس کی سیڑھیوں پر پوچا لگاتی سحر پر ہی مرکوز تھی ۔
آج وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا " دودھیا رنگت ، گہری آنکھیں جن میں اب چمک نہ رہی تھی لمبے گھنے بال جو کہ چوٹیاء کی صورت میں قید تھے وہ کاٹن کے سادہ سے سوٹ میں ملبوس تھی ۔ سحر کے ہاتھوں کی لرزش صاف بتا رہی تھی کہ وہ احمر کی نظروں کی تپش اپنے وجود پر محسوس کر پا رہی تھی لیکن پھر بھی خود کو پر سکون رکھنے کی چھوٹی سی کوشش کر رہی تھی ۔
چوہدری احمر کے لب نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ میں ڈھلے تھے ۔
احمر کے فون کی چنگھاڑتی آواز نے اس کے تسلسل کو توڑا ۔ ایک نظر سحر پر ڈالے وہ فون اٹھا چکا تھا۔
"ہیلو جان "۔
کال کی دوسری جانب موجود وہ عمارہ سے مخاطب ہوا ۔
احمر تم تو بالکل بھول ہی چکے ہو ۔
نہیں مطلب تمہیں میری فکر ہی نہیں کہ بندہ کچھ لمحے ہی نکال آ جاتا ہے شادی کے بعد تو تم مجھے بھول ہی گئے ہو ۔
احمر کے فون اٹھاتے ہی وہ نان اسٹاپ شروع ہو چکی تھی جبکہ احمر چوہدری کا قہقہ گونجا تھا ۔
جان ! جان ! تھوڑا سانس لے لو ۔
یہاں کام میں اتنا مصروف ہوں کہ مجھے سانس لینے تک کا وقت نہیں ملتا۔ ان شاءاللہ جیسے ہی کام سے فارغ ہوتا ہوں سیدھا اپنی جان کے پاس ہی آؤں گا اور ایک بہت بڑے سرپرائز کے ساتھ "..
"احمر کی آنکھیں چمکی تھیں اپنی آخری بات کے ساتھ "
اور۔۔۔۔ ک
وہ مزید کچھ کہتا کہ نسوانی چیخ پر اسکے جملے منہ میں ہی رہ گئے ۔
"سحر جو سیڑھیوں پر سے پوچا لگا رہی پاؤں پھسلنے پر اپنے توازن کو برقرار نہ رکھ سکی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سیڑھیوں سے گرتی چلی گئی "
پوری حویلی اس کی دلخراش چیخ سے گونج اٹھی تھی ۔
"فون پر بات کرتا احمر ساکت ہوا جبکہ کمرے میں تیار ہوتا شہیر سحر کی چیخ پر دوڑتا ہوا باہر آیا لیکن اسکو یوں زمین پر گرا دیکھ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں اس پر ستم سر سے نکلتا خون ، اس کا دل لرزا تھا وہ لمحوں میں سیڑھیاں عبور کرتا نیچے آیا اسکے پاس جس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رہے تھے ۔
شہیر کو سحر کے پاس دیکھ احمر کے ماتھے پر انگت بلوں کا جال بچھا تھا وہ فون کو وہیں صوفے پر غصے سے پٹختے اس تک آیا اور زمین بوس ہوئی سحر کے پاس سے ہٹایا تھا شہیر کو ۔
"دور ہٹو اس کے پاس سے "
وہ تقریباً غراتے ہوئے بولا جبکہ شہیر کے ماتھے پر ان گنت بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔
"احمر اس کی حالت دیکھو اسے " ۔۔۔۔
"تمہیں زیادہ احساس جتانے کی ضرورت نہیں میں خود دیکھ سکتا ہوں "
"سحر کی حالت کو نظر انداز کیے وہ اپنی انا و غرور سمیت بولا تھا جبکہ شہیر اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا احمر کی بات سن ، وہ اس وقت بے بس تھا کچھ کر نہیں سکتا تھا ورنہ دل تو چا رہا تھا کہ کوئی چیز اٹھا کر احمر کے سر میں دے مارے لیکن وہ خاموشی اختیار کر گیا ۔
میری آنکھوں میں جدائی کی کمی ہے سائیاں
میرے زخموں کی دوا تیرے سوا کوئی نہیں
©©©
ڈارک بلو کوٹ سوٹ میں ملبوس وہ شیشے کے سامنے کھڑا خود پر برانڈڈ پرفیوم جھڑک رہا تھا ۔ اس پرفیوم کی مہک سے کمرا پورا مہتبر ہو گیا تھا الماری کے پاس کھڑی پشمینہ نے کچھ لمحوں کے لئے آنکھیں بند کیے گہری سانسوں کے ذریعے اس خوشبو کو محسوس کیا جبکہ شیشے میں سے نظر آتے اس کے عکس کو دیکھ فاتح مسکرا اٹھا تھا۔
پشمینہ کی بند آنکھوں کو دیکھ اسے ایک شرارت سوجی تھی جس پر عمل کیے بہت ہی آرام سے وہ اس کے قریب گیا ۔
جبکہ پشمینہ وہ انوکھی سی خوشبو اپنے قریب محسوس کیے اپنی دونوں آنکھیں کھول گئی تھی ، وہیں سانس جس سے وہ پرفیوم کی مہک خود میں اتار رہی تھی اب اٹک سی گئی تھی فاتح کو قریب دیکھ ۔
"جانِ جاں" ۔
"کیا بات ہے آج تو ہماری پسندیدہ مہک کو یوں محسوس کیا جا رہا ہے جیسے کوئی اپنے محبوب کی خوشبو محسوس کرتا ہے ۔
بیگم ! خیر تو ہے نا ؟ کہیں ہم پر اپنا یہ دل تو نہیں ہار بیٹھیں "..؟؟
اپنے لب اسکے نرم گرم کان پر رکھے وہ گھمبیر سے لہجے میں بولا تھا .
پشمینہ فاتح کی تپش و لو دیتا لہجہ محسوس کیے گھبرائی تھی اور ساتھ ہی اس کی باتوں سے مزید سرخ پڑی تھی جب ہی پیچھے کی جانب کھسکتی فاصلہ بنانا چاہا۔ لیکن شائد اس کی یہ کاوش فاتح کو پسند نہ آئی تھی تب ہی وہ ان کے درمیان میں موجود باقی کا فاصلہ بھی مٹا گیا۔
"یوں فاصلے بڑھا کر ادائیں نہ دیکھاؤ کہیں تمہاری یہی ادا تم پر ہی بھاری نہ پڑ جائے "..
لو دیتے لب و لہجے کے ساتھ کہتا وہ محبت سے بھرپور گستاخی کیے باہر کی جانب بڑھا تھا جبکہ پشمینہ پیچھے ساکت رہ گئی تھی .
فاتح تو جا چکا تھا لیکن اس کی مہک و لمس وہ اب بھی اپنے گرد محسوس کر رہی تھی ۔
©©©
"فکر کی کوئی بات نہیں ہے بس سر پر چوٹ آئی ہے وہ میں نے اسٹیچز لگا کر کوور کر دی ہے باقی شکر کریں بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا یہ ایک معجزہ ہی ہے ورنہ جس طرح وہ گری ہیں یقین جانے بچے کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا ، بس آپ ان کا خیال رکھیے گا یہ ساری پریسکیپشن ہے اس پر عمل کیجئے گا "
ڈاکٹر اپنے پروفیشنل انداز میں بول اپنی فیس لیے چل دی تھیں لیکن ان کو معلوم نہ تھا کہ اپنی باتوں سے وہ حویلی والوں کے سر پر پوری کی پوری چھت گرا چکی ہیں نورے بیگم کا تو صدمے سے برا حال تھا جبکہ بے چین شہیر کو اور بے چینی میں مبتلہ کر دیا تھا ڈاکٹر نے ۔
"احمر یہ سب کیا تماشہ ہے "..؟؟
"وہ لڑکی تمہارے بچے کی ماں بننے والی ہے ، جانتے بھی ہو تم ایک ونی کی اولاد کے باپ ۔۔۔ ؟ اس کی حیثیت پتہ ہے تمہیں ۔۔؟؟
"تمہارے بھائی کے قاتل خاندان کا خون ہے وہ لڑکی اور تم اس خاندان کے بچے کے باپ بننے والے ہو "..؟؟؟
نورے بیگم کا غصے سے برا حال ہو رہا تھا جب سے انہیں معلوم ہوا کہ سحر ماں بننے والی ہے وہ احمر پر برس رہی تھیں ۔
"ماں پلیز دو منٹ کے لئے خاموش ہو جائیں میرا سر خود درد سے پھٹ رہا تھا "
وہ اپنا سر تھامتے ہوئے بولا اسکی حالت بھی نورے بیگم جیسی ہی تھی ۔
"میں کچھ نہیں جانتی احمر کل ہی شہر جاؤ اور اس منحوسیت کو ختم کراو "
نخوت سے کہتی وہ یہ تک بھلا چکی تھیں کہ یہ اولاد خدا کی جانب سے ایک تحفہ ہے کسی ننی جان کو قربان کرنے کی بات کر رہی تھیں وہ ۔
ان کی بات کا بنا کوئی جواب دیے وہ حویلی سے نکل کر سیدھا میدان میں آیا جہاں اس وقت ہاتھوں میں جلتا سگار اس کے دماغ میں چلتے اشتحال کا پتہ دے رہا تھا وہ نورے بیگم کی باتوں کو سوچ رہا ہے ۔
" کیا اسے واقعی اس بچے کو ختم کر دینا چاہیے "..؟؟
"وہ سحر کے ساتھ اس کی بھی تو اولاد تھی ".
"اس کا ذہن اس وقت کئی سوچیں مرتب کرنے میں مشغول تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے "
بل آخر اس کے سوال کا جواب مل چکا تھا اسے ، ہاتھوں میں جلائی اس تیسری سیگریٹ کو زمین پر پیروں سے کچلے ایک شاطر مسکان اس کے لبوں پر در آئی ۔
رات گئے جب وہ حویلی میں آیا تو سحر انجیکشن و دوائیوں کے زیرِ اثر نیند میں گم اسی کے بستر پر براجمان تھی ایک نظر اس کے وجود کو دیکھے وہ فریش ہونے کے بعد وہیں سائڈ پر کروٹ بدل کر لیٹ گیا کچھ ہی دیر میں نیند نے اسے بھی اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ۔
©©©©
"صاحب ، صاحب یہ گجرے لے لیں "
روڈ پر جلتی سگنل لائٹ کے باعث فاتح کی گاڑی جیسے ہی رکی تھی ایک چھوٹی عمر کا بچہ ہاتھوں میں گجرے تھامے اس کی گاڑی کے قریب آیا اور ساتھ ہی اس کو اکسایا کہ وہ یہ گجرے خرید لے ۔
پہلے پہل تو وہ انکار کرنے لگا تھا مگر ان گجروں کو دیکھ پشمینہ کا شرم سے جھکتا وہ معصوم چہرا اس کی نظروں کے سامنے گھومنے لگا جسے سوچتے اس کے ہونٹ بھی بھرپور مسکراہٹ میں ڈھلے تھے تب ہی بنا دیر کیے اس نے وہ گجرے خرید لیے ۔
"شکریہ صاحب "
وہ بچہ شکریہ ادا کیے چلا گیا ۔
بلکہ سگنل کھلنے کے باعث فاتح کی گاڑی نے بھی زور پکڑتے ہوئے گھر کی راہ لی ۔
وہ گھر میں داخل ہوا تو پشمینہ کو معمول سے ہٹ کر لان میں بیٹھے پایا ہاتھ میں اسکے موبائل تھا شائد وہ کسی سے فون پر بات کرنے میں مصروف تھی تب ہی اس کو فاتح کے آنے کا علم نہ ہوا تھا ۔
وہ ایک نظر فون میں مگن اپنی بیوی پر ڈال خاموشی سے اندر چل دیا ۔
©©©©
"آپ کب آئے "..؟؟
پشمینہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی تو فاتح کو بیڈ پر بیٹھے دیکھ حیران ہوتے ہوئے بولی ۔
"بیگم اگر آپ کو فون سے فرست ملے تو آپ کا دھیان مجھ پر جائے نا "
وہ طنزیہ انداز میں بولا کہ وہ شرمندہ سی ہو گئی ۔
"سوری وہ دراصل آج کافی دونوں بعد مشل کی کال آئی تھی تو" ۔۔۔
"اٹس اوکے جا کر کھانا لگاؤ میں آ رہا ہوں "۔
"وہ جو اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے خفقت سے بول رہی تھی لیکن فاتح اس کی بات درمیان میں کاٹ گیا اور تنے ہوئے اعصاب کے ساتھ کھانا لگانے کا حکم دیا۔
©©©
کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں ہی خاموشی سے اپنی اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے فاتح فون میں مصروف جبکہ پشمینہ خاموش نظریں اس پر ٹکائے اسے تکنے میں مصروف تھی ۔ لیکن پھر خاموشی سے اٹھ کر وہ بالکونی میں آ گئی جہاں پر چلتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا طبعیت کو خوشگوار بنانے کے لئے کافی تھی ڈھیلے جوڑے میں مقید اس کے بالوں میں سے کچھ شریر زلفیں نکل کر اس کے چہرے پر بکھری ہوئی تھیں گلے میں پہنا وہ لال رنگ کا ڈوپٹہ تیز ہوا کے باعث اڑ رہا تھا ۔
"کیا فاتح اب بھی مشل سے محبت کرتے ہیں "..؟؟
آسمان کی جانب دیکھتے ناجانے کیوں یہ سوال اس کے دل میں اٹھا ۔
"ہاں ! ظاہر ہے کچھ بھی ہو جائے مرد اپنی پہلی محبت بھلا ہی نہیں سکتا ، مشل ان کی پہلی محبت ہے اور میری وجہ سے ۔۔۔
سوچتے ایک ظالم آنسوں اس کی آنکھ سے پھسلا تھا ۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنی سوچوں کے محور کو مزید مزید گھماتے ہوئے کچھ اور اخذ کرتی اپنے گرد کسی کا مضبوط حصار پا کر وہ ساکن ہوئی ".
"ف۔۔فا۔۔فاتح ۔۔
"کیا ہوا وائفی نیا پاکستان بنانے کا ارادہ ہے "
ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکائے اس کی خوشبو خود میں اتارتے ہوئے بولا۔
"ن۔۔نہیں آ۔۔آپ پیچھے تو ہٹیں۔۔
"حصار کو توڑتے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی مگر مخالفت میں مقابل نے گرفت مزید سخت کی جس کے باعث وہ اسکے مزید قریب ہو گئی ۔
"یہ دیکھو یہ گجرے تمہارے لئے لایا ہوں "
"کتنے خوبصورت ہیں نا "...
گجرے نکال اسکے چہرے کے قریب کیے البتہ کھڑے اب بھی وہ سابقہ پوزیشن میں تھے ۔ بہت ہی آرام سے ایک موتیے و گلاب کا گجرا نکال آرام سے اس کی کلائی تھام پہنایا تھا "
"پشمینہ کی سانسیں منتشر سی ہو رہی اس دشمنِ جاں کی قربت پر "
وہ پگھلنا نہیں چاہتی تھی ، وہ خود کو اس سے دور رکھنا چاہتی تھی مگر فاتح کا برتاؤ اس کو خود سے بغاوت کرنے پر مجبور کر رہا تھا "..
کس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی
"چادر اوڑھو اور فوراً باہر آؤ میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں تمہارا "
چوہدری احمر اپنے ازلی غرور و جلال سمیت کہتا باہر جانے کو تھا کہ سحر کی آواز نے اسکے قدم جکڑے ۔
"کہاں ۔۔؟؟
اپنی بھنونے اچکائے پلٹا تھا وہ ، جیسے جتانا چا رہا ہو کہ تم سوال کرنے کی اہل نہیں ۔
"ویسے تمہاری اتنی حیثیت تو نہیں کہ تمہیں بتایا جائے مگر خیر پھر بھی بتا دیتا ہوں ، شہر جا رہے ہیں۔
وہ دراصل کیا ہے نا تم نے ایک مصیبت کھڑی کر دی ہے تو اس ہی کا خاتما کرنا ہے ۔چلو اب بنا وقت ضائع کیے نیچے پہنچو ورنہ تمہیں اوپر پہنچانے میں لمحہ نہیں لگاؤں گا ۔
"احمر کی بات سن سحر کو صحیح معنوں میں جھٹکا لگا وہ حیران تھی احمر کی بات سن اسے گویا اپنے کانوں پر شک ہوا کہ جیسے اس نے کچھ غلط سنا ہے مگر وہ بہری تو نہ تھی "
"یہ آپ ک۔۔کیا ک۔۔کہہ رہے ہیں "..؟؟
"میں ۔۔۔میں ک۔۔کہیں ن۔۔نہیں جاؤں گی" ۔۔؟؟
احمر نے قہر آلود نظریں اپنے سامنے کھڑی سحر پر گاڑھی تھیں جو سر اور ہاتھ پر بندھی پٹی ، کھلے بالوں سمیت ہلکے سفید رنگ کے سوٹ میں ملبوس اس کے سامنے کھڑی خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
لیکن وہ یہ جانتا تھا کہ یہ مضبوط نظر آنے والی لڑکی اس کے سامنے بے بس ہو جاتی تھی یا وہ اسے بے بس کر دیا کرتا تھا ۔
"یہ سوچتے ہی اس کے لب شاطرانہ مسکراہٹ میں ڈھلے "
لیکن کہنے کو تو وہ اب بھی مضبوط ہی تھی کیونکہ ان جابروں کے ظلم و ستم کا شکار جو تھی ۔
"تم مجھے انکار کر رہی ہو .."؟؟
سیریسلی ۔۔۔؟؟ چوہدری احمر کو جس کے سامنے تمہاری اوقات اس جوتی برابر بھی نہیں ۔ ہاؤ ڈئیر یو" ؟
اپنے دونوں بازو سینے پر باندھے وہ طنزیہ لہجے میں بولا اور ساتھ ہی اسکی حیثیت بتانا نہ بھولا ۔
"احمر ! خدا کا واسطہ ہے ایسا ظلم نہ کریں میری سزا اس ننی جان کو نہ دیں یہ۔۔۔ یہ آپ کا بھی تو خو۔۔خون ہے آ۔۔ آپ کی بھی تو اولاد ہے
پلیز ا۔۔۔ایسا نہ کریں آپ کی۔۔کیسے اپنی اولاد کا ق۔۔قتل کر سکتے ہیں "
وہ اپنا آپ بھلائے اسکے قدموں میں گری ، اسکے پیر پکڑے اس ننی جان کی زندگی کے لئے بھیک مانگ رہی تھی ۔
وہ ماں تھی کیسے اپنے بچے کا قتل ہوتے دیکھ سکتی تھی تب ہی تو ایک بچے کی زندگی اسی کے باپ سے مانگ رہی تھی ۔
کیسی عجیب بات تھی نا "ایک ماں ، اپنے ہی بچے کے باپ کے قدموں میں گری ہوئی تھی ، اور وہ باپ جس کا وہ خون تھا اسے زرہ بھی پرواہ نہ تھی ۔
"چوہدری احمر کو ساکت کر دیا تھا سحر کے جملوں نے ، ہاں واقعی وہ اس کی بھی تو اولاد تھی وہ ک۔۔کیسے خود اپنی اولاد کا قتل کر سکتا تھا ۔کچھ لمحوں کے لئے اسکا دل موم ہوا ۔ لیکن نہیں وہ احمر تھا ، چوہدری احمر ، چوہدری وقاص کا بیٹا جس نے صرف جبر کرنا ہی سیکھا تھا ۔وہ جو ساکن ہوا تھا بہت جلد ہی باہر نکلا اس حصار سے اور سحر کو کھینچ کر دور کیا اپنے پاس سے ۔
"شٹ اپ "
"بکواس بند رکھو اپنی "
"اچھے سے جانتا ہوں تم اس بچے کو مہرا بنا کر حویلی میں اپنا مقام بنانا چاہتی ہو لیکن میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا یہ صرف میرا نہیں بلکہ میرے بھائی کے قاتل خاندان کا بھی گندہ خون ہے میں اس وجود کو ہی مٹا دوں گا جس رگوں اس خاندان کا خون دوڑے ۔
"اسکے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لئے وہ غراتے بول رہا تھا جبکہ احمر کی سختی و بال کی کھنچے جانے پر وہ تکلیف سے چلا اٹھی۔
سر میں پہلے ہی چوٹ تھی اوپر سے اس ستمگر کی سخت ترین گرفت اسکو مزید اذیتوں کے کنویں میں لے ڈوبی ۔
"تو پھر مجھے بھی مار دیں نہ کیوں زندہ رکھا ہے مجھے ۔ میں بھی اسی خاندان سے ہوں میری رگوں میں بھی وہی خون ہے ، مار ڈالیں مجھے بھی ، ختم کر دیں قصہ "
بہتے آنسوں ، کانپتے لبوں سمیت وہ تکلیف و اذیت سہتے ہوئے بولی ۔
"ڈارلنگ ! اتنی بھی کیا جلدی ہے ، تمہیں یوں اتنی آسان موت تھوڑی دینی ہے تم تو گھٹ گھٹ کر مرو گی ، ایسی اذیتیں تمہارے نام کروں گا کہ اِس کا خوف تمہیں اُس جہاں میں بھی رہے گا "
کدورت بھری نگاہوں سے اسکے وجود کو تکتے وہ قہقہ لگائے بولا ۔
"اس کی بات سن سحر نے اپنی روئی روئی آنکھوں میں شکوہ و شکایت لئے اسکی جانب دیکھا لیکن مقابل کو خاص فرق نہیں پڑا بلکہ بنا اسکو سمجھنے کا موقع دیئے اسکو کھینچتے ہوئے باہر پورچ میں لے کر گیا ، وہ چلاتی رہی ، منتیں کرتی رہی تھی لیکن احمر جیسے اپنے کان ہی بند کر چکا تھا ، تمام حویلی والے خاموش تماشا ملحفضہ فرما رہے تھے کوئی بھی آگے نہ بڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اسے گاڑی میں زبردستی ڈالے وہ لے جا چکا تھا "..
کیسے موڑ پہ نجانے لائی ہے یہ زندگی
روٹھا روٹھا ہے نصیبا روٹھی روٹھی پر خوشی
©©©
سکینہ بیگم کام سے باہر گئی تھیں تب ہی انہیں حویلی میں ہوئی کاروائی کی خبر نہ تھی ۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی لوٹی تھیں وہ تب ہی ملازمہ نے انہیں احمر کا سحر کے ساتھ سلوک ، نورے بیگم کی گفتگو تمام بات ان کے گوشے گزار دی ۔اسلئے اب ان کا رخ نورے کے کمرے کی جانب تھا ۔
"نورے تمہاری زندگی میں سکون نہیں ہے نا ۔۔؟؟
"کیوں تم خود بھی سکون سے نہیں رہتی اور نا ہمیں رہنے دیتی ہو "..؟؟
سکینہ بیگم غصے سے برہم ہوتی نورے بیگم سے استفسار کر رہی تھیں۔
"میں نے کیا کیا ہے "..؟
"بالکل عام سے لہجے میں کہا تھا ان نے کہ سکینہ بیگم نے نہایت ہی افسوس سے ان کی جانب دیکھا ۔
"نورے آج سے کئی سال پہلے تم جو میرے ساتھ کر چکی ہو اسے تو میں فراموش کر چکی ہوں مگر اب تم کسی معصوم کے ساتھ یہ نا انصافی کرو گی تو یہ بات میں ہر گز برداشت نہیں کروں گی ۔
"بہن تم جا کر اپنا کام کرو ، یوں دوپہر گئے میری جان نہ کھاو ، جاو یہاں سے "
نہایت کدورت و بدتمیزی سے کہتیں وہ اپنے بیڈ پر براجمان ہوئی تھیں ۔
"نورے وقت ہے اب بھی سدھر جاؤ ، یہ نا ہو وقت نکل جائے اور تم روتی بلکتی رہ جاؤ۔کسی معصوم کی ہائے نہ لو ۔
یہ بات تم بھی جانتی ہو سحر بے گناہ ہے کیوں اس کی زندگی میں زہر گھول رہی ہو"۔
"یہ دیکھ لو میرے جڑے ہوئے ہاتھ بخش دو بچی کو"
کہتے وہ کمرے سے جا چکی تھیں جب کہ نورے نے نخوت سے دروازے کو دیکھا جہاں سے وہ گئی تھیں پھر سر جھٹکے واپس لیٹ گئیں۔
©©©
کچھ گھنٹوں کے سفر کے بعد گاڑی ہسپتال کے گیٹ کے سامنے رکی تھی احمر نے رونے کا شغل فرماتی سحر کا ہاتھ تھام زبردستی گاڑی سے باہر نکالا ۔
"ا۔۔۔احمر ن۔۔نہ کریں پ۔۔پلیز خدا کا خوف کر لیں "
ایک آخری امید کے تحت وہ گڑگڑائی تھی کہ شائد اس کے دل میں کوئی نرم گوشہء پیدا ہو جائے لیکن وہ غلط تھی ایسا نا ممکن تھا البتہ احمر کے ہاتھ کا کرارا سا تھپڑ اس کے نازک گال کی زینت بنا تھا ۔
ہسپتال کی پارکنگ میں موجود لوگ ،گارڈز سب ہی کی نظریں ان کی جانب مرکوز ہوئیں ، سحر کا سر اہانت و شرمندگی کی وجہ سے جھک سا گیا اس کا دل چاہا احمر کے ہاتھ میں موجود اپنا وہ ہاتھ نکال کہیں دور چلی جائے ۔جہاں کبھی اس ستمگر کا سایہ بھی اس تک نہ پہنچے ۔
"ڈاکٹر شاہین ہیں "..؟
ریسیپشنسٹ سے استفسار کیا تھا اپنے ازلی غرور و وجاہت سمیت
" سر ! ابھی میڈم کیبن میں نہیں ہیں وہ چھٹی پر گئی ہیں آپ کل رات میں آ جائیے گا "
وہ لڑکی ایک نظر احمر کے ساتھ سر جھکائے کھڑی سحر پر ڈالے بولی جس کے چہرے پر ایک اطمینان سا اترا تھا ۔
"ہنہہ"۔۔ وہ ہنکار بھرتے باہر کی جانب بڑھا۔
"ذیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ورنہ یہیں تمہاری چلتی سانسیں کھینچ لوں گا "
سحر کے چہرے پر چھایا وہ سکون اسکو غصہ دلا رہا تھا۔
"آ۔۔آپ آخر چاہتے کیا ہیں مجھ سے ، یہیں چلتی ٹریفک میں دھکا دے دیں اور کر دیں قصہ تمام اور۔۔۔۔"
اسکا ضبط بھی جواب دے گیا وہ چلا اٹھی تھی لیکن اس کے لبوں کو قفل لگا جیسے ہی احمر نے اسکو روڈ کے بیچ دھکیلا ..
اسکی آنکھیں بند جب کہ سانسیں منجمد ہوئیں ۔۔۔
"ہاہاہاہا "...
احمر کا طنزیہ مزاق اڑاتا قہقہ جیسے ہی اسے اپنے کان کے پردوں سے ٹکراتا محسوس ہوا لرزتے ہوئے اپنی آنکھوں کو کھولا تھا سحر نے ،
خود کو یوں ہوا میں محلق پایا ...
"کیا ہوا اب چلاؤ ، کہو نا کیا کہہ رہی تھیں "
سحر کا خوف سے زرد پڑتا چہرا دیکھ وہ نظریں ترچھی کیے پیچھے موجود ٹریفک کی جانب اشارہ کیے بولا ۔
"ڈارلنگ ! مجھے چیلنج نہ کیا کرو ، محبت تو تم میری ہو نہیں اسلئے تمہیں اذیت دیتے ہوئے مجھے زرہ برابر بھی افسوس نہیں ہو گا "
کھینچ کر اسے سیدھا کیا تھا جس سے وہ سیدھا اس کے سینے سے آن ٹکرائی ، اور بے اختیار ہی اس کے لب سحر کے گال سے ٹکرائے وہ خوف سے ہولے ہولے لرز رہی تھی اس پر مقابل کے مسکراتے لہجے میں چھپا وہ سرد پن سحر کو مزید وحشت میں مبتلا کر رہا تھا ۔
©©©
"فاتح آج آفس سے جلدی گھر آیا کیونکہ اسے میٹنگز کے سلسلے میں پاکستان سے باہر جانا تھا تب ہی پشمینہ سے کہہ کر اپنا و اس کا ضروری سامان پیک کروایا ۔ وہ پشمینہ کو کچھ دن اس کے میکے چھوڑنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس کا دل تو نہیں تھا اس کو یوں تنہاہ چھوڑنے کا مگر ڈاکومنٹ مکمل نہ ہونے کی صورت میں اسے مجبوراً پشمینہ کو اس کے والد کی طرف چھوڑنے کا فیصلہ کرنا پڑا ۔
"بیگ پیک کر لیا ہے ، آپ ایک دفع چیک کر لیں کچھ اور تو نہیں رکھنا "
وہ نہایت نرمی سے کہتی فاتح سے مخاطب ہوئی جو کہ اپنے شو کی لیس باندھ رہا تھا "
"نہیں ! اٹس اوکے اب تم بھی آ جاؤ میں باہر انتظار کر رہا ہوں "
کہتے اپنا فون ، گاڑی کی چابی اور بیگ اٹھائے باہر کی سمت چل دیا۔
تھوڑی ہی دیر میں ان کی گاڑی بنگلے سے نکل کر ہواؤں سے باتیں کرنے لگی ۔ فاتح نے سفر کو خوبصورت بنانے کے لئے ارمان ملک کا روح کو چھو لینے والا گانا لگا دیا تھا ۔
"ہوا ہے آج پہلی بار جو ایسے مسکرایا ہوں
تمہیں دیکھا تو جانا یہ کہ کیوں دنیا میں آیا ہوں "
"یہ جان لے کر کہ جاں میری تمہیں جینے میں آیا ہوں
میں تم سے عشق کرنے کی اجازت رب سے لایا ہوں "
فاتح نے پشمینہ کی جانب دیکھا جو کہ اپنے ہاتھوں سے کھیلنے میں مصروف تھی وہ مسکرا دیا تھا بے اختیار اور ہاتھ بڑھائے اسکے دودھیا کلائی کو اپنی نرم گرفت میں لیا ، کچھ لمحوں کے لئے ان چوڑیوں کی جھنکار گاڑی کے خوبصورت ماحول میں گونجی تھی ۔
"جان دل تو نہیں کر رہا تمہیں یوں چھوڑ کر جانے کا مگر مجبوری ہے ۔
اچھا یہ بتاؤ مس کرو گی مجھے "..؟؟
دل میں ناجانے کیا سوجھی کہ وہ بے اختیار پوچھ بیٹھا تھا ۔
"پتہ نہیں "
بس یک لفظی جواب دیا گیا ۔
پشمینہ کے یک لفظی جواب پر ایک نظر اس کی جانب دیکھ ، بے اختیار ہی اس کے ہاتھ پر ہلکی سی بائیٹ کر گیا جس پر وہ سسک اٹھی تھی ۔
"سسی"..
"یہ کیا حرکت ہے فاتح "...؟؟
اپنے ہاتھ پر بنے اس کے دانتوں کے نشان کو دیکھ وہ شکوہ کناں نظروں سے اسکی جانب دیکھتے بولی تھی اور ساتھ ہی اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے نکالنا چاہا ۔
"اب تو یاد رکھو گی "۔۔!!
اس کی نظروں میں دیکھ وہ مخمور سے لہجے میں گویا ہوا۔
"لوگ محبتوں کو یاد رکھتے ہیں ، احساس کو یاد رکھتے ، نفرت و درد میں دئیے گئے نشانات کو نہیں"۔
وہ نروٹھے پن سے بولتی فاتح کو بہت کیوٹ لگی ۔
"اس نے گاڑی سائڈ پر پارک کی اور جھٹکے سے اسکا رخ اپنی جانب کیا تھا اور بنا اسکو کچھ سمجھنے کا موقع دئیے اس کے لفظوں کو تالا لگا گیا تھا ۔ پشمینہ کی آنکھیں حیرت کی ذیاتی سے پوری کی پوری کھل چکی تھیں۔وہ گاڑی کے شیشے میں سے اپنا گھر دیکھ رہی تھی کیونکہ ان کی اسی نوک جھوک میں سفر طے پایا ۔ساتھ ہی اپنا آپ اس نے فاتح کی گرفت سے نکالنا چاہا تھا لیکن وہ اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی لاک لگا گیا۔
"آ۔۔۔آپ بالکل ب۔۔بے شرم ہیں "
اس سے آزاد ہوتے ہی وہ اپنی سانسوں و دھڑکنوں کو ہموار کئے بولی۔
"سوچا ویسے نہ صحیح ایسے تو یاد رکھو گی ہی تو ۔۔۔"
وہ آنکھ ونک کیے شرارت سے بولا تھا کہ وہ نظریں چرانے پر مجبور گئی۔جلدی سے اپنا بیگ تھام اندر کی جانب بڑی وہ اتنی اسپیڈ سے اندر گئی تھی کہ فاتح کو خدا حافظ کہنا بھی یاد نہ رہا جبکہ اسکی بجلی کی سی رفتار دیکھ وہ پیچھے قہقہ لگاتا رہ گیا ۔
©©©
"کچھ کھاؤ گی "..؟؟
گاڑی کو ریسٹورنٹ کے سامنے روکے احمر نے سحر سے استفسار کیا ۔
"ن۔۔نہیں !
کانپتی آواز میں انکار کیا تھا اس نے اپنا رخ باہر کی جانب کیا ۔
"جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو ذیادہ اوور اسمارٹ نہ بنو ، بتاؤ جلدی "
تنے ہوئے اعصاب کے ساتھ اس نے سحر کے بازوؤں پر گرفت بڑھائے اس کو متوجہ کیا ۔
"م۔۔مجھے بھوک نہیں "
نظریں جھکائے وہ منمنائی۔
"بھاڑ میں جاؤ ، تم اس قابل ہی نہیں کہ تمہارے ساتھ رحم سے پیش آیا جائے "
کدورت بھرے لہجے میں کہتا وہ اندر ریسٹورنٹ کی جانب بڑھا ،لیکن جاتے جاتے گاڑی کو لاک کرنا نہیں بھولا۔
"یا اللہ ! ایسی ذلت کی زندگی کیا صرف میری قسمت میں ہے یا میرے علاوہ کوئی اور بھی ہے جو زندگی کے ایسے کٹھن سفر پر ہے ۔
آسمان کی جانب دیکھے وہ خدا سے گویا ہوئی ساتھ ہی اپنی زندگی پر شکوہ کرنے میں مشغول تھی ۔
"پندرہ بیس منٹ کے وقفے کے بعد وہ واپس لوٹا تھا ، اسکے ہاتھ میں کچھ باکس تھے جن میں شائد کچھ کھانے پینے کا سامان تھا جسے اس نے گاڑی کی بیک سیٹس پر رکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی ، ساتھ ہی جیب سے سیگریٹ نکال کر جلائی جس کے گہرے گہرے کش لیتا شائد اپنی طلب مٹانے کی کوشش میں تھا۔
"رات کے پہر سحر کی آنکھ ایک انجانی سی تکلیف کے احساس سے کھلی تو اس نے خود کو تنہاہ کمرے میں پایا ۔آس پاس نظریں دوڑا کر احمر کو دیکھنا چاہا تو وہ کہیں بھی نہ ملا ہر گزرتے وقت کے ساتھ تکلیف کا احساس دگنا ہو رہا تھا ۔
احمر اسے شہر میں بنے ایک اپارٹمنٹ میں لایا تھا جو کہ تقریباً ہزار گز کے رقبے پر خوبصورت انداز میں بنایا گیا تھا اسکی ہر چیز حویلی کی طرح ہی اعلیٰ طرز جیسی ہی تھی ۔ اتنے بڑے گھر میں وہ کیسے اس ستمگر کو ڈھونڈتی یہ ناممکن تھا ۔
آہہہ۔۔درد کو ضبط کرتی بیڈ کے کنارے کو تھام وہ زمین پر ہی بیٹھتی چلی گئی۔
ا۔۔۔اح۔۔احمر۔۔۔!! نا چاہتے ہوئے بھی وہ اس دشمنِ جاں کا نام پکار بیٹھی تھی ۔
"دوسرے کمرے میں موجود احمر جو کہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا سگار کے گہرے گہرے کش لگا رہا تھا سحر کی درد بھری آواز سن شاطر سا مسکرا دیا ۔
اس کا انتظار ختم ہوا تھا ۔
پچھلے کچھ گھنٹوں سے وہ جس چیز کے انتظار میں یہاں بیٹھا خود کو سلگا رہا تھا اس کو راحت سی پہنچی ۔
"آہہ۔۔ سحر کی پکار جب دوبارا اسکے کانوں سے ٹکرائی تو وہ کھڑا ہوا تھا اور ہاتھ میں موجود سگار کو پاؤں تلے کچلتے ساتھ والے کمرے میں گیا جہاں وہ اپنا پیٹ تھامے نیچے زمین پر گری تکلیف سے تڑپ رہی تھی اس کی اطراف کی جگہ میں سارا خون بہہ رہا تھا ۔
"ا۔۔احمر ہ۔۔۔ہس۔۔۔ہسپتال م۔۔می۔۔میرا ب۔۔بچہ۔۔۔۔۔۔" ہاتھ بڑھائے اکھڑے سانس کے ساتھ مدد کے لئے التجا کی ۔اس وقت وہ قابلِ رحم حالت میں موجود تھی لیکن مقابل کو کوئی فکر ، کوئی پرواہ نہ تھی وہ سرد تاثرات کے ساتھ مسکراتا اس تک آیا تھا اور بنا اسکی بات پر کان دھرے اس کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں اٹھاتے ہسپتال کے لئے روانہ ہوا ۔
©©©
"شادی کے کافی عرصے بعد وہ اس گھر کی دہلیز پر آئی تھی ۔جہاں بچپن سے لے کر جوانی تک کی اسقدء کی تمام خوشگوار یادیں موجود تھیں۔اسکے باپ کی محبت و شفقت ، وہ اپنایت ، بہنوں کی محبت ، ان کی لڑائیاں ، روٹھنا ، منانا ، شرارتیں یہ سب سوچ وہ دھیمے سے مسکرا دی۔ ہاتھ میں موجود کہوا کا ایک گہرا سپ لیا تھا جس کو پیتے ہی اسکو اپنے جسم میں سکون سا دوڑتا محسوس ہوا ۔
ساتھ ہی وہ مشل اور اپنے بابا کے ریکشن کو سوچ کر دل ہی دل میں مسکرا رہی تھی جو کہ اسکو اتنے عرصے بعد دیکھنے کا نتیجہ تھے ۔
آج جب اس نے گھر میں قدم رکھا تو پشمینہ اپنے باپ و بہن کے چہرے دیکھتی رہ گئی جہاں صرف و صرف خوشی نمایاں تھی ۔انہیں گویا یقین نہ آ رہا تھا کہ پشمینہ ان کے سامنے ہے ۔منصور صاحب تو اشک بار ہوئے تھے اپنی بیٹی کو بانہوں کے گھیرے میں لئے ۔البتہ ان دونوں ہی نے بہت چاہت سے اس کا استقبال کیا ۔منصور صاحب نے تو کھانا بھی خود بنا کر انہیں کھلایا جسے ان دونوں نے مل کر انجوائے کیا تھا ۔
"چاند نکلا تھا بادلوں کی اوٹ سے جس کی چمک پشمینہ کے چہرے پر پڑتے ہوئے اسکے نین نقش کو مزید واضح کر رہی تھی ۔
اس چمکتے ہوئے پورے چاند پر پشمینہ کی نظریں جیسے ہی ٹکرائی تھیں بے ساختہ اس کے ذہن پر فاتح کی یادوں کا عکس نمایاں ہوا ۔
اس کا کچھ گھنٹوں پہلے کا وہ روپ ، اسکی گستاخیاں وہ محبت یاد کیے وہ سرخ پڑ گئی تھی "
"واقعی وہ دھوپ چھاؤں سا عالم رکھنے والے شخص ہیں کبھی بے انتہاہ محبت اور کبھی بالکل ہی انجان "
وہ بس سوچتی رہ گئی ، لیکن اچانک ہی اس کے فون کی اسکرین جگمگائی اور اسکی چنگھاڑتی رنگ ٹون پورے کمرے میں گونجی تھی جس نے سوچوں میں کھوئی پشمینہ کو بھی جگایا "
پشمینہ نے حیران نظروں سے فون کی جانب دیکھا جہاں فاتح کا نام اپنی شان کے ساتھ جگمگا رہا تھا۔اسے یقین نہ تھا کہ وہ فون کرے گا اس نے گھڑی کی جانب دیکھا جو صبح کے ساڑھے چار بجا رہی تھی پھر خود کو کمپوز کرتے کال اٹھائی۔
"السلام عليكم"۔۔۔۔
"وعلیکم سلام جاناں کیسی ہو "..؟؟
مقابل کی پرجوش آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔
"ٹھیک ہوں آ۔۔آپ کیسے ہیں۔۔؟؟ "
پشمینہ کی میٹھی آواز نے مقابل کو مسکرانے پر مجبور کر دیا ۔
کیا سو رہی تھیں ۔۔؟؟"
"نہیں "۔۔۔
"پھر کیا جاگ کر میری کال کا منتظر تھیں "..؟؟
ن۔۔نہیں تو "
وہ شرارتاً گویا ہوا مقابل کے لہجے میں چھپی شرارت نے پشمینہ کو گڑبڑانے پر مجبور کر دیا کیونکہ وہ ایسا ہی تھا نا چاہتے ہوئے بھی اسے فاتح کی کال کا انتظار تھا لیکن اسے جتانا نہیں چاہتی تھی تبھی انکار کر گئی .
"اسکا مطلب میرا کال کرنا تمہیں پسند نہیں آیا "
وہ مصنوعی اداس بھرے لہجے میں گویا ہوا ۔
"اب میں نے ایسا بھی نہیں کہا "
وہ فوراً صفائی دیتے ہوئے بولی ۔
"اسکا مطلب ، تمہیں انتظار تھا ۔رائٹ"...؟؟؟
اس نے تائید چاہی ...
ن۔۔نہیں م۔۔میرا مطلب ہ۔۔ہاں۔۔۔۔۔
پہلے پہل وہ انکار کرنے لگی لیکن جانتی تھی انکار سے کوئی فائدہ نہیں تب ہی اقرار کر گئی جبکہ اسکے شرم خوف جھجھک سے پر لہجے میں پنپتا اقرار فاتح کو اندر تک شرسار کر گیا وہ مسکرا اٹھا تھا پشمینہ کے عکس کو سوچتا ، اسکا شرم و حیاء سے جھکتا وہ چہرا اسکی نظروں سے گرد گھوم رہا تھا "
"م۔۔میں جاؤں اب "..؟؟؟
کافی دیر سے فاتح کو خاموش دیکھ وہ بولی تھی ۔
"نو"
سنجیدگی سے سرسراتے جواب نے اسے منجمد کر دیا۔
"ابھی میں اپنی جان سے طویل گفتگو کرنا چاہتا ہوں اسکے بعد ناجانے موقع ملے یا نا ملے۔
شرارت ،محبت ،جذبات سے چور لہجے میں وہ بولا تھا اور پھر ہوا بھی یہی ڈیڑھ گھنٹہ لگاتار وہ اس سے باتیں کرتا رہا ، باتیں بھی وہ جس نے پشمینہ کو تپنے پر مجبور کر دیا کبھی وہ شرم سے سرخ ہوتی یا صبر کے گھونٹ بھر کے رہ جاتی جبکہ اسکی جوابی کاروائی اور اسے تپے تپے چہرے کو سوچتے وہ محظوظ ہوتے قہقہ لگا جاتا ۔
فاتح زبان و بریک تب لگی تھی جب پشمینہ کی بوجھل سانسیں اسے فون سے آتی محسوس ہوئیں یقیناً نیند کی وادیاں اسے اپنی آغوش میں لے جا چکی تھیں گہرا سانس خارج کیے وہ بھی کال بند کر گیا ۔
نیند اسکی آنکھوں سے تو کوسوں دور تھی کیونکہ لندن میں اس وقت دن ہی کا وقت تھا تب ہی اٹھتے وہ باہر کی جانب بڑھا جہاں کا خوبصورت موسم اسے راحت بخش رہا تھا ۔
©©©
اس وقت وہ شہر کے مہنگے ترین ہسپتال کے ایک روم میں موجود پچھلے پندرہ منٹ سے لیڈی ڈاکٹر سے بحث کرنے میں مشغول تھا اور ساتھ ہی اپنی مٹھیاں بھینچے اپنا غصہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
وہ جس حالت میں سحر کو ہسپتال لایا وہاں کے عملہ نے یہ کہتے ہوئے کیس لینے سے صاف انکار کر دیا کہ "یہ ایک پولیس کیس ہے "
اور اسی بات کو سنبھالنے کے لئے کہ یہ بات میڈیا تک نہ جائے وہ ڈاکٹر کو راضی کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو کہ بہت مشکل ثابت ہوا باآخر اسے اپنا آپ ظاہر کرنا پڑھا۔
"میں آخری مرتبہ پوچھ رہا ہوں اور یاد رہے انکار مجھے پسند نہیں
فیصلہ آپ پر ہے کیا چاہتی ہیں آپ "..
وہی اپنا مغرور و جلال بھرا لہجہ اپنائے کہا تھا اور ساتھ ہی جیب سے نوٹوں سے بھری گڈی اور گن نکال ڈاکٹر کے ٹیبل پر رکھی جسے دیکھ سامنے کھڑی وہ ڈاکٹر اپنی جگہ پر منجمد سی ہوئی تھی ، ان کے چہرے کا رنگ زرد سا پڑ گیا تھا احمر کے پاس گن دیکھ کر "
"اب بتا دیں کہ آپ سیدھی طرح راضی ہو رہی ہیں یا پھر ”....
جان بوجھ کر اپنا جملا ادھورا چھوڑا تھا اس نے ۔۔
”م۔۔میں تیار ہوں "
کہتے وہ اندر اوپریشن تھیٹر کی جانب بڑھی تھی جبکہ اپنی فتح پر وہ قہقہ لگاتے ہوئے روم سے باہر نکلا۔
©©©
شہیر اس وقت کمرے میں سکینہ بیگم کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا جبکہ عادت کے مطابق وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلا رہی تھیں شہیر کی بچپن کی عادتوں میں سے ایک تھی جب بھی وہ کبھی پریشان ہوتا اسی طرح سکینہ بیگم کے پاس آتا تھا ۔
"میرے بیٹے کی پری مل گئی کیا "..؟؟
انہوں نے اسکا دھیان بھٹکانے کیلئے یہ سوال داغا تھا کیونکہ وہ جب سے آیا تھا خاموش لیٹا تھا ۔
"نہیں "
یک لفظی جواب دئے وہ واپس خاموش ہو گیا.
"ان شاءاللہ مل جائے گی "
انہوں نے محبت سے اسکا گال سہلایا ۔
"نہیں ماں اب وہ شائد مجھے کبھی نہ مل پائے "
وہ نا امیدی سے بول رہا تھا ، اسکے لہجے میں بے بسی ، نمی ، اداسی کتنے ہی جذبات شامل تھے۔
بالوں میں چلتا سکینہ بیگم کا ہاتھ پل بھر کے لئے رکا تھا اس کے لہجے کی سنجیدگی ، اداسی کو محسوس کئے۔
"چندہ ! جب دعا ماں کے دل سے نکلی ہو تو وہ عرش ہلا دیتی ہے اور یہ تیری ماں کی دعا ہے وہ لڑکی جہاں بھی ہے ، جیسی بھی ہے میرے بیٹے کی قسمت میں ہے ، وہ شہزادی ہے میرے اس شہزادے کی "
اٹل و مضبوط لہجے میں کہا تھا ان نے اور ساتھ ہی شہیر کے ماتھے پر بوسہ لیا۔اس کے دل سے آمین کی سدا نکلی تھی ۔
©©©
"سحر کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو ہسپتال کے بستر پر موجود پایا اٹھنے کی کوشش کی لیکن ڈرپ لگی ہونے کے باعث یہ ناممکن تھا تب ہی بے ساختہ طور پر نظریں صوفے پر بیٹھے احمر پر گئیں جو کہ سر ہاتھوں پر گرائے اس کی تمام حرکات ملحفضہ فرما رہا تھا "۔
اس کو دیکھ اس کے حواس صحیح معنوں میں بحال ہوئے تھے ذہن گھر پر ہوئی کاروائی کی جانب گھومنے لگا ایک ایک کر کے تمام تر مناظر کسی فلم کی مانند اس کے ذہن پر سوار ہونے لگے۔ خیال اپنے بچے کی جانب گیا تو احمر کی آنکھوں میں ڈرتے ڈرتے دیکھا جہاں صرف و صرف سنجیدگی نمایاں تھی جب کہ لبوں پر تبسم ۔۔۔
"فتحیاب تبسم ".....
"ا۔۔احم۔۔۔احمر "....؟؟
اس کی مغرور آنکھوں میں امید بھری نظروں سے دیکھتی وہ اپنے سوال کی متلاشی تھی کہ جو وہ سوچ رہی ہے وہ صرف ایک جھوٹ ہو ، ایسا کچھ نہ ہو لیکن احمر کے جملوں نے اسکی تمام تر خوش فہمیوں کو ملیامیٹ کیا۔ زمین پر لاپٹخا تھا اس شہزادی کو ۔
"پاس کھڑی نرس کو باہر جانے کا اشارہ کیا جو کہ احمر کی نظروں کی سرد مہری کو جانچتی فوراً سے غائب ہوئی تھی ".
"آئی ایم سوری ڈارلنگ ! وہ کیا ہے نا کہ میں کل تک کا انتظار نہیں کر سکتا تھا تو اسلئے مجھے یہ راستہ اپنانا پڑا ۔تمہاری آنکھوں میں بغاوت تو میں پہلے ہی دیکھ چکا تھا تو انتظار بیکار سا لگا مجھے ۔ویسے بھی چوہدری احمر جو ایک بار ٹھان لے اسے کر گزرتا ہے "
سحر کے وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں لئے اپنی شان کے ساتھ چلتا اس تک آیا اور ساتھ اس کی حالت کا جائزہ لیا، بکھرے بال ، آنکھوں کے نیچے پڑے کالے ہلکے ، زرد پیلی رنگت جن میں کبھی گلال ہوا کرتا تھا ، زرد ہونٹ ہاتھوں میں لگائی گئی ڈرپ اس کے وجود میں کمزوری صاف طور پر نمایاں تھی وہ واقعی اس وقت قابلِ رحم حالت میں موجود تھی مگر اسکو فکر نہ تھی احمر کے لئے وہ صرف ایک جیتی جاگتی مرتی تھی جس کے ساتھ جیسا سلوک کیا جائے اسے فرق نہیں پڑتا لیکن حقیقتاً ایسا بالکل نہ تھا "وہ انسان تھی ایک جیتی جاگتی انسان ، جو کہ اپنے بھائی کا کفارہ کاٹ کر رہی تھی ۔ وہ خوبصورت لڑکی اپنے بھائی کے خون کی بھینٹ چڑھائی گئی جس کے باعث آج وہ یہ جبر برداشت کر رہی تھی "۔
"م۔۔میرا ب۔۔بچہ "....
وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں کہتی بڑبڑا رہی تھی کہ اسکی حالت بگڑنا شروع ہوئی اب پورے کمرے میں اسکی آواز گونج رہی تھی ۔
"م۔۔م۔۔میرا بچہ مار دیا تم نے "
"ق۔۔۔قا۔۔۔۔ اس کے باقی کے لفظ مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اپنا بھاری ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ اسکے لفظوں کا گلا گھونٹ چکا تھا "
"خاموش بالکل خاموش ! یہ ہسپتال ہے میں یہاں تمہارا ڈرامہ بالکل برداشت نہیں کروں گا اسلئے اپنا یہ پاگل پن اپنے اندر رکھو "
وہ سنجیدگی سے کہتا دبا دبا غرایا تھا جب کہ وہ یک ٹک سی اسکی آنکھیں میں دیکھ رہی تھی ویرانگی ، تڑپ ، تکلیف کیا کچھ نہیں تھا ان آنکھوں میں لیکن مقابل کی آنکھوں پر شائد چربی چھائی تھی جو کہ ان آنکھوں کی وہ تڑپ نہ دیکھ سکا ۔
اس کے لبوں سے وہ ہاتھ ہٹا چکا تھا ، سحر پل بھر کے لئے خاموش رہی پھر ناجانے اسے کیا سوجی کہ کھینچ کر وہ ڈرپ خود سے علیحدہ کی، خود کی لکیریں بہتی ہوئی چادر پر گر رہی تھیں تکلیف سی نمایاں ہوئی تھی اسکے وجود میں لیکن اسے پرواہ نہ تھی کیونکہ یہ تکلیف اس ستمگر کے دئیے گئے زخموں سے کم تھی ۔
نیکسٹ کچھ دیر میں کرتی ہوں
سن کے فسانہ میرا اتنی ہے روئی وفا
دریا بھی تھوڑا لگے جتنی ہے روئی وفا
"احمر چوہدری آپ کو غرور ہے نا خود پر آج میں آپ کو ایک دعا دیتی ہوں کہ خدا آپ جیسے پتھر دل انسان کو کبھی اولاد نہ عطا فرمائے "
یہ دعا ہے میری اس رب سے ، اس پاک ذات سے جو انصاف کرنا جانتا ہے ، اور یہی میرا انصاف ہے کہ وہ آپ کو بے اولاد رکھے "
وہ آنکھوں میں وحشت و نفرت لئے اسے دیکھ رہی تھی ساتھ ہی اپنے بالوں کو ہاتھوں میں دبوچا گویا خود پر ضبط کرنا چاہا ہو جبکہ وہ اپنے لفظوں سے احمر پر گہرے وار کر گئی تھی احمر کا دل چاہا اس لڑکی کی چلتی زبان گدی سے کھینچ لے یا پھر اس کی ان چلتی سانسوں کو ابدلآباد کے لئے بند کر ڈالے وہ ایسا کر بھی گزرتا لیکن ان کی توجہ کمرے میں داخل ہوتے شہیر نے اپنی جانب مبذول کروائی ۔ جو غصے سے بھپراہ ہوا احمر کی جانب بڑھا ۔
©©©
شہیر زمینوں پر جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا تبھی اسکے پاس کال آئی مقابل نے ناجانے کیا کہا تھا کہ وہ سکتے کی سی کیفیت میں آ گیا اور بنا اپنی تیاری کا جائزہ لئے سب کو نظر انداز کرتا رش ڈرائیونگ کئے ہسپتال پہنچا تھا ۔
"تمہیں زرہ برابر شرم نہ آئی یہ گھناؤنا کام کرتے ہوئے دل نہ کانپا تمہارا "..؟؟؟
احمر چوہدری کے گریبان کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھامتے وہ غصے سے غرایا جبکہ احمر نے کھا جانے والی نظروں سے شہیر کو گھورا تھا ۔
"شہیر کالر چھوڑ دو میرا "
وہ سکون کے عالم میں گویا ہوا لیکن چہرے پر چھائی سرد مہری کسی کو بھی خوف میں مبتلا کر سکتی تھی لیکن سامنے بھی شہیر چوہدری تھا جس نے ڈرنا نہیں سیکھا تھا ۔
"احمر کیا ہو گیا ہے تمہیں ، تمہاری وہ تعلیم و تربیت سب رائیگاں جا رہی ہے ، کیا فائدہ اتنا تعلیم یافتہ ہونے کا جب تمہارے اندر انسانیت ہی مر گئی ہو ۔۔۔
"کون ہے وہ شخص جو اپنی ہی اولاد کو ختم کرتا ہے "...؟؟؟
اس معصوم کا نہ صحیح کم از کم اپنے خون کا ہی احساس کر لیا ہوتا مگر نہیں تم تو وہ سانپ ثابت ہوئے جو اپنی ہی اولاد کو نگل جاتا ہے "
شہیر کسی بھپرے ہوئے شیر کی مانند چلا رہا تھا اس کا دماغ ماؤف ہو چکا تھا جب فون پر اس کو یہ اطلاع دی گئی کہ "آپ کے بھائی نے اپنی بیوی کا ابارشن کروایا ہے "
"بہت زیادہ ہمدردی ہو رہی ہے اس سے "۔۔۔؟؟؟
احمر خاموش تھا کب سے لیکن جب بولا تو زہر ہی بولا۔۔۔
شہیر کا من چاہا اس کو زندہ زمین میں دفن کر ڈالے ۔
"مجھے ہمدردی اس سے نہیں ، ہمدردی تجھ سے ہو رہی ہے ۔
ہنہہ "...
احمر نے سر جھٹکا تھا ۔
"تمہیں اتنا افسوس کیوں ہو رہا ہے ، تمہاری اولاد کو ختم کروایا ہے یا پھر سچ میں یہ تمہاری ہی اولاد تھی "...؟؟؟
لبوں پر شیطانی مسکان سجائے وہ تمام لحاظ بلائے طاق رکھے سنجیدگی سے گویا ہوا تو اسکی بات سن سحر کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے جبکہ شہیر کی آنکھوں کے ڈورے لال انگارا ہونے لگی ، رگیں تن سی گئی تھیں لیکن وہ خود پر ضبط کر گیا ۔ ہسپتال میں تھے وہ لوگ تب ہی شہیر کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا وہاں تب ہی خود پر ضبط کے کئی پہرے بیٹھائے رکھے۔
افسوس ہے تم پر احمر ، تو جانتا ہے مجھے ترس آرہا ہے تمہارے پر کیونکہ جان بوجھ کر بہت بڑی غلطی کر گزرے ہو تم ، جس کا دکھ و پچھتاوا پوری زندگی تمہیں جینے نہیں دے گا ۔
"شٹ اپ ، کب سے تمہاری بکواس سن رہا ہوں اپنے یہ درس اپنے پاس رکھو مجھ پر مت جھاڑو کیونکہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑنے والا اسلئے بہتر ہو گا اپنے کام سے کام رکھو "
انگلی اٹھائے اسے وارن کرنے کے سے انداز میں بولا تھا اور وہاں سے چل دیا ۔
زندگی یوں جینا پڑے گی
بن کے آنسوں دل پہ گرے گی
شہیر نے اپنی نگاہیں اس دلربا کے وجود پر مرکوز کیں جو کہ سر گھٹنوں میں گرائے رونے میں مصروف تھی ۔ اس نے کبھی خیال میں بھی نہ سوچا تھا اپنی پری کو اس حال میں دیکھے گا اسکی اجڑی حالت کتنے ہی خنجر چلا گئی تھی شہیر کے دل پر ، اسکا دل چاہا وہ اس کے تمام آنسوں چن لے ، اس کے تمام درد خود میں سمو لے لیکن وہ چاہ کر بھی ایسا نہیں کر سکتا تھا تب ہی ایک سرد آہ خارج کیے باہر کی جانب ہو لیا۔
وہ روم سے نکلتا سیدھا ریسیپشن پر آیا اور سحر کے ڈیسچارج ہونے کے بارے میں معلومات لیں "ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ سےر کو رول کے مطابق دو دن مزید ہسپتال میں رہنا ہو گا دوسری چیز وہ بہت ذیادہ کمزوری کا شکار ہے تب ہی طاقت کی ڈریپ کی اسے اشد ضرورت ہے ۔ لیکن اس نے ڈاکٹر سے درخواست کی کہ وہ اسے چھٹی دے دیں بے شک رول توڑے جانے پر وہ اس سے پیسے لے لیں لیکن اس کو چھٹی دے دیں۔
کیونکہ وہ اسے احمر کے پاس تنہاہ چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا تب ہی بے چین سا ہو رہا تھا وہ ، وہاں کا عملہ عجیب پریشان ہوئی مطلب ایک بھائی زبردستی داخل کرواتا ہے اور دوسرا ڈیسچارج۔
وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئے بالآخر انہوں نے سخت ہدایت کے ساتھ سحر کو ڈیسچارج کر دیا ۔
©©©
وہ اس وقت شہر کے مہنگے ترین بار میں موجود حرام مشروب کے گہرے گہرے سیپ لے رہا تھا ساتھ ہی سگار جلائے اپنے اندر کی طلب و وحشت کو بجھانے کی کوشش میں تھا جو کہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید بڑھ رہی تھی۔
بار میں چلتا ہلکا ہلکا ڈسکو میوزک ، اور جگمگاتی بتیاں اس وقت چوہدری احمر کو سخت زہر معلوم ہو رہی تھیں اس کا دماغ شہیر کی کی گئی باتوں کو سوچ سوچ کر درد سے پھٹا جا رہا تھا رگیں ابھرنے لگی تھیں کہ غصے کی شدت میں آ کر اس نے ہاتھوں میں موجود گلاس اٹھا کر زمین پر پٹخا جو کہ بار میں چلتے میوزک میں کہیں دب سا گیا تھا ۔
How dare them , .......
وہ دونوں ۔۔۔ مجھے بددعا دیں گے چوہدری احمر کو ، ۔۔۔
جان لے لوں گا ان کی ۔۔
خود سے بڑبڑائے وہ لڑکھڑاتے قدموں سے باہر گاڑی کی جانب بڑھا تھا اور بمشکل ڈرائیو کرتے ہسپتال پہنچا جہاں اسکا غصہ مزید سوا نیزے پر پہنچا تھا جب یہ خبر اس پر اشکار ہوئی کہ شہیر پہلے ہی سحر کو ڈیسچارج کروا کر لے جا چکا ہے۔ وہ ہوش میں نہ تھا تب ہی تمام تر غصہ وہاں کے اسٹاف پر اتار آیا جبکہ سب لوگ ہی شاک تھے اس ہنگامے پر گارڈز نے بمشکل ہی اسکو باہر نکالا ۔
©©©
ان کی گاڑی اس وقت جنگلات کے بیچ کے راستے کو عبور کرتی اپنی منزل کی جانب رواں تھی ۔گاڑی میں بالکل خاموشی چھائی ہوئی تھی آواز تھی تو صرف دو نفوس کی سانسوں کی ۔
روکھے روکھے سے لمحے آوارہ پن کا صلہ
سوکھے سوکھے سے رشتے بھیگا بھیگا گیلا
شہیر نے نوٹ کیا وہ خاموش سی کسی گہری سوچ میں محو آسمان کی جانب دیکھ رہی تھی بہت غور کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ رو رہی ہے ہاں وہ خاموش آنسوں بہانے میں مصروف تھی جس کا اندازہ اسکی تیز چلتی سانسوں کی آواز سے ہوا شہیر نے بنا اسکی جانب دیکھے ہاتھ آگے بڑھاتے ٹشو تھمایا تھا. اس نے نا سمجھی کے عالم میں شہیر کی عور دیکھا جیسے تائید چاہ رہی ہو ۔
شہیر نے اشارہ کیا تھا اسکے بہتے آنسوں کی جانب جو کہ مسلسل بہہ رہے شائد ان پر اب اسکا اختیار بھی نہ رہا تھا کہ انہیں روک سکتی ۔
وہ تلخ سا ہنسی تھی شہیر کے اشارے پر ۔۔۔
"اس سے ظاہری آنسوں تو صاف ہو سکتے ہیں مگر ان آنسوں کا کیا ؟ جو میری روح میں بسے ہیں وہ تو کبھی نہیں مٹ سکتے "
اسکی آنکھوں میں دیکھ وہ ٹرانس سی کیفیت میں بولی ۔
"ان ظاہری آنسوں کو ختم کرو روح میں بسے خود با خود ختم ہو جائیں گے باقی جو ہو چکا اسے بھول جاؤ ، کیونکہ اب کچھ بدلہ تو نہیں جا سکتا "
وہ سحر کو سمجھا رہا تھا ، اس لڑکی کے آنسوں مقابل کے دل پر گر رہے تھے وہ اسے مضبوط کرنا چاہتا تھا ۔
"کسی بہت اپنے کو کھونے کی تکلیف و تڑپ کیا ہوتی ہے جسے آپ نے صرف تصویر ہی کیا ہو جس کے آنے کی آپ کو امید ہو لیکن وہ آپ کو نہ ملے یا ملنے سے پہلے ہی چھین لیا جائے "
اس تڑپ کا اندازہ آپ نہیں لگا سکتے ۔
اس درد کو محسوس نہیں کر سکتے جو میں کر رہی ہوں۔
سحر کی بات سن اس کے لبوں پر تلخ ہنسی آئی تھی ۔
ہنہہ۔۔ واقعی میں تو بالکل اس احساس سے نا آشناں ہوں میں یہ احساس کبھی محسوس نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ میں نے تو کبھی کسی اپنے کو کھویا ہی نہیں۔
سحر کے وجود سے نظریں چراتا وہ گاڑی سے باہر نکل آیا تھا کیونکہ بیچ راستے میں ہی گاڑی نے مزید چلنے سے انکار کر دیا۔
"ی۔۔یہ گ۔۔گاڑی ک۔۔کیوں بند ہو گئی "..؟؟
پ۔۔پلیز ا۔۔اس کو جلدی ٹھیک کریں م۔۔مجھے گھر جانا و۔۔ورنہ ا۔۔احمر مار ڈالیں گے و۔۔وہ واقعی پاگل ہیں پلیز ۔۔
"ایک تو میں۔۔آ۔۔۔آپ کے ساتھ آ گئی اگر دیر ہوئی تو وہ ز۔۔زندہ نہیں چھوڑیں گے "
گاڑی کو بیچ راستے میں بند ہوتا دیکھ وہ واقعی گھبرا چکی تھی یا احمر کی وحشت و خوف اس کے روگ و پے سما گئی تھی تب ہی وہ گھبراتے ہوئے بولی جبکہ اسکا خوف و ڈر دیکھ شہیر کو افسوس ہونے لگا اس معصوم کے لئے اس نے کیا سپنے سجائے تھے اور آج وہ کس حال میں تھی ۔
"سحر ریلیکس !!
کچھ نہیں ہوتا . میں ہوں تمہارے ساتھ کوئی کچھ نہیں کہے گا ریلیکس ہو جاؤ گاڑی خراب ہو گئی ہے ۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
ابھی ٹھیک ہوتی ہے تو گھر پہنچ جائیں گے ۔
"اسکو جھنجھوڑتے ہوئے ہوش میں لایا تھا وہ "...
سائڈ پر ہوئے وہ پھر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی جبکہ شہیر اپنا سر تھام گیا ۔
وہ حویلی پر کال ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر یہاں سگنل نہیں آ رہے تھے غصے میں آ کر اس نے گاڑی کے بونٹ پر شدت سے مکا مارا ۔
یہ بات تو واضح تھی کہ آج رات انہیں وہیں جنگل میں گزارنی تھی البتہ سورج نکلتے ہی ہوسکتا ہے کہ انہیں کوئی مکینک مل جائے یا پھر لفٹ۔۔
©©©
صبح ہوتے ہی وہ حویلی پہنچے تھے کسی سے لفٹ لے کر وہاں کے تمام اراکین کو سانپ سا سونگ گیا تھا ان دونوں کو ساتھ دیکھ۔
احمر جو کب سے ہاتھ میں جلتی سیگریٹ کی مانند سلگ رہا تھا لمحوں کے ہزارویں حصے میں سحر تک پہنچا اور بنا کسی کو سمجھنے کا موقع دیے تھپڑ مارنے کے ہاتھ اٹھایا ۔
لیکن اسکا ہاتھ وہیں ہوا میں محلق رہ گیا ، کیونکہ اس کا بڑھتا ہاتھ شہیر بیچ میں روک گیا تھا۔
"جب خدا نے زبان دی تو اس کا استعمال کرو نا ، یہ بار بار ہاتھوں کا استمعال کر کے کیا جتانا چاہ رہے ہو "..؟؟
اسکا ہاتھ جھٹکتے وہ لب بھینچے ہوئے بولا ۔
"تمہیں اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے ، میری بیوی ہے وہ میری مرضی میں جو چاہے کروں تمہیں کوئی سرو کار نہیں ہونا چاہیے"...
دل جلا دینے والی مسکان لبوں پر سجائے کہتا وہ پیچھے سر جھکائے کھڑی سحر کو بازوؤں سے دبوچے سب کے بیچ اوپر کی جانب کھینچتا ہوا لے کر گیا جبکہ وہ درد و تکلیف سے کراہ کر رہ گئی ۔۔
"شہیر حویلی سے نکل کر چوہدری وقاص و چوہدری وقار کے ساتھ سیدھا زمینوں پر چلا گیا تھا اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی لوٹا تو کیچن کی جانب آیا جہاں سحر اس کو معمول کے مطابق کام کرتی دیکھائی دی"
"آپ ابھی تک یہیں ہیں "..؟
وہ اپنی حیرت پر قابو پانے کی ناکام سی کوشش کیے بولا حالانکہ لہجے میں حیرانی پھر بھی ٹپک رہی تھی کیونکہ جب وہ جا رہا تھا تب بھی وہ کیچن میں ہی موجود کھانا بنانے میں جٹی ہوئی تھی اور اب تو مغرب ہونے ہو کو آئی تھی اسلئے وہ حیران ہوا تھا۔
شہیر کی بات سن بس ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی تھی سحر نے اس کے بعد وہ واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔
"آپ کو آرام کرنا چاہیے ، طبعیت دیکھی ہے آپ نے اپنی اور پھر بھی یہاں کام کر رہی ہیں ".؟؟
اسکو خاموش دیکھ وہ واپس سے بولا البتہ اب اسکے لہجے میں نرمی کی جگہ سنجیدگی نے لے لی تھی۔
"آپ کو کچھ چاہیے "..؟؟
شہیر کی بات کو سرے سے نظر انداز کیا گیا تھا۔
اپنی بات کو یوں دوبارا نظر انداز ہوتا دیکھ شہیر کا غصہ بھی سوا نیزے پر پہنچا تھا تب ہی غصے سے بھرے انداز میں اس نے رضوانہ کو آواز دی ۔اسکی دھاڑ اتنی تیز تھی کہ سحر بھی ایک پل کے لئے لرز گئی جبکہ رضوانہ دوڑتے ہوئے کیچن میں آئی تھی ۔
"جی جی صاحب "
تم لوگوں کو تنخواہ کس لئے دی جاتی ہے "...؟؟
حویلی میں گھومنے کے لئے ، یا پھر کام کرنے کےلئے ۔۔؟؟
"صاحب کام کرنے کے لئے "
"تو پھر سنبھالو یہ سب اور آپ کمرے میں جاؤ فوراً"
رضوانہ سے کہتا وہ آخر میں سحر سے گویا ہوا تھا اور بنا اسکی جانب دیکھے وہاں سے واک آوٹ کر گیا ۔
"ہنہہ ! ہٹو سائڈ پر مہارانی کہیں کی ، اب ان ونی میں آئی محترمہ کی خدمت کرو۔ نخوت سے بولتے ہوئے سحر کو قدرے بے رحمی سے دھکا دیا تھا ۔
©©©
"مینہ کوئی مووی دیکھیں "..؟
بیڈ پر لیٹی مشل نے سوچنے کے سے انداز کہا ۔
"ہم ناٹ آ بیِڈ آئیڈیا ! ویسے کون سی "..؟؟
لو بھئی , یہی تو تم سے پوچھنا ہے ۔
ہہمم " میں پنجاب نہیں جاؤں گی ، جب وے میٹ ، یا ہم ساتھ ساتھ ہیں یا ہم آپ کے ہیں کون اگر پھر بھی سمجھ نہیں آئی تو امیتابھ بچن کی مووی "ستے پہ ستا" دیکھ لیتے ہیں آخر میں کہتے پشمینہ جاندار قہقہ لگا گئی تھی کیونکہ مشل نے منہ ہی ایسا بنایا کہ نا چاہتے ہوئے بھی اسکی ہنسی برآمد ہو گئی۔
پشمینہ انگلیوں پر گن گن پر فلموں کے نام بتا رہی تھی جبکہ مشل فرست سے چہرے پہ دونوں ہاتھ ٹکائے فلموں کے نام سن سن کر منہ کے عجیب عجیب زاویے بنانے میں تھی ۔
"آئیڈیا " جوش سے کہتی وہ اچانک ہی کھڑی ہوئی ۔
پشمینہ نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا ۔
کیوں نا تمہاری شادی کی مووی دیکھ لی جائے"
اسکی بات سن پشمینہ نے بھی ہامی بھر لی بلآخر کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد انہوں نے شادی کی مووی دیکھنے کا فیصلہ کیا ۔
مووی شروع کرنے سے پہلے انہوں نے سب سے پہلے ماحول بنایا ، کھانے پینے کی چیزیں پاپ کورن ، چپس ، جوس ، سلینٹی یہ ساری چیزیں اکٹھی کیں ، پردے برابر کر کے کمرے میں نیم اندھیرا کرنے کے بعد پھر انہوں نے مووی اسٹارٹ کی ۔
"پشمینہ ویڈز فاتح "
یہ دونوں نام دل کی صورت میں اسکرین پر جگمگائے جس نے غیر ارادی طور پر پشمینہ کا دھیان فاتح کی جانب مبذول کروایا ۔
پھر پتہ نہیں اسے کیا سوجھی کہ اسٹیٹس پر پرائیویسی لگا کر اس نے اسٹیس لگا دیا "
"Watching Wedding Movie "
ساتھ ہی گلاسس والا ایموجی استعمال کیا ۔
پھر اپنا فون بند کر کے رکھ دیا اور پوری طرح سے مووی میں مگن ہو گئی ۔
©©©
"آپ کھانا نہیں کھائیں گی"..؟؟؟
سحر کو یوں کونے میں کھڑا دیکھ وہ تعجب کر بولا
"اسکی جگہ وہاں نہیں یہاں ہے زمین کی جانب اشارہ کیا تھا ۔
شہیر کی بات سن احمر دل جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ بولا تھا جیسے بہت کچھ باور کروانا چاہ رہا ہو ۔
"یہ تم کس طرح کا برتاؤ کرتے ہو اس معصوم سے"...
"شہیر تیش میں بولا تھا"...
"ارے کزن بھائی سا کیا ہوا یہ تو کچھ بھی نہیں "....
"سحر"....
"ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے کرسی پر بیٹھے ہوئے پکارا"...
ج۔۔جی "....
سر جھکائے بولی تھی ۔
"بیٹھو".....
"فرش کی جانب اشارہ کیا تھا جبکہ سب حویلی والوں کے سامنے اپنی اتنی تزلیل پر وہ آنسوں پیتی رہ گئی "
شہیر نے نوٹ کیا تھا اس کا وجود لرز رہا ہے۔اس کی سفید رنگت میں یکدم ہی سرخی گھلنے لگی تھی آنکھوں میں غصہ و تیش صاف ظاہر تھا"۔
قسم سے احمر مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ تم پڑھے لکھے ہو ۔ انسانیت نام کی چیز تم میں زرہ برابر بھی نہیں ہے ، چلو یار سائڈ پر رکھو انسانیت کو کم از کم مذہب کا تو پاس رکھ ہی سکتے ہو مگر نہیں تم تو اسے بھی فراموش کیے ہوئے ہو ۔ دو پل کے لئے رکا تھا وہ ایک گہرا سانس ہوا کہ سپرد کیا ۔
معاشرہ پتہ ہے کیا کہتا ہے "لعنت ہو تم جیسے مردوں پر ، تم جیسے مرد سخت ملعون ہوتے ہیں "
غصے سے بھپرے ہوئے انداز میں کہے وہ جا چکا تھا پیچھے بیٹھے تینوں نفوس نے قہقہ لگایا جبکہ سکینہ بیگم بھی انہیں افسوس بھری نگاہوں سے دیکھتی وہاں سے چل دیں۔
©©©©
مووی دیکھنے کے بعد وہ دونوں ہی لیٹ گئی تھی ، مشل تو نیند کی وادیوں میں پہلے ہی کھو گئی تھی جبکہ پشمینہ الجھی سی تکیے پر سر گرائے سوچوں میں گم سم تھی۔ وہ شائد ان لڑکیوں کی ضد میں آتی تھی جن کو رات نیند دیر سے آتا کرتی تھی تو وہ سوچوں کے محور میں کھوئی رہتیں۔
مووی میں جیسے ہی رخصتی کا سین آیا تھا وہ اسے اپنی شادی کی وہ رات یاد کروا گیا تھا جہاں پشمینہ کے ارمانوں کو اسکے شوہر نے کسی شیشے کی مانند توڑا تھا یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس سے نہیں بلکہ اسکی بہن سے محبت کرتا ہے ۔ اس ہی سین کے بعد اسکا دل اُچاٹ سا ہونے لگا اس نے بے دلی سے باقی کی مووی دیکھ گویا اپنی چھڑائی۔
پشمینہ نے ایک نظر اپنے ساتھ لیٹی مشل پر ڈالی جو کہ نیند کی وادیوں میں گم تھی ۔
"اگر وہ غلط فہمی جیسی بلا ان کے بیچ نہ آئی ہوتی تو آج اس جگہ پر اسکی بہن ہوتی۔ خود کو فاتح کے ساتھ دیکھ ہمیشہ اسے یہی لگتا کہ اس نے مشل کا حق لیا ہے تب ہی وہ خوش ، خوش بھی اداس ہو جایا کرتی ۔ پھر جب وہ خود کو نارمل کرنے لگتی تھی تو ہی خیال ناگ کی طرح اس کے سر پر سوار ہو جاتا کہ اس کا شوہر اسکی بہن سے محبت کرتا ہے اور یہاں اسکے تمام طر جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے۔
کیا ہوتا اگر وہ اس پر یہ ظاہر نہ کرتا کہ وہ اس سے محبت نہیں کرتا ۔
کم از کم اس کے دل میں کوئی خلش تو نہ رہتی۔
©©©
"احمر سحر پر نظر رکھ پتر "
نورے بیگم ہولے سے اسکے کان کے پاس جھک کر رازداری سے بولی تھیں۔
"کیا مطلب ماں کیا ہوا اب "؟؟
وہ نا سمجھی سے بولا تھا ۔
"لو بھلا ، تم اندھے ہو یا بننے کی کوشش کر رہے ہو ؟
تمہیں نظر نہیں آتا۔ پر مجھے آتا ہے جب سے یہ شہیر حویلی میں آیا ہے مجھے سب کچھ ہی الٹا ہوتا نظر آرہا ہے ۔
"م۔۔مطلب "..؟؟ لب کچلتا وہ نورے بیگم کی بات پر غور کرتے ہوئے بولا۔
مطلب یہ کہ مجھے شہیر کی نیت سحر پر ٹھیک نہیں لگتی ، سحر اسکے سامنے معصوم ہونے کا ڈرامہ بہت اچھے سے کرتی ہے ۔ دیکھا نہیں تھا کہ کیسے تم سے بچ بچ کر اسکے پیچھے چھپتی ہے جیسے شوہر تم نہیں وہ ہے۔ اور وہ شہیر صاحب کیسے طرف داری کرتے ہیں اس اپسرا کی ۔
"اسلئیے کہتی ہوں اس کو اپنے قابو میں کر ورنہ چڑیا اوڑھ جائے گی "
وہ زہریلے لہجے میں کہتی احمر کے بھرپور کان بھر رہی تھیں۔
©©©
"بیڈ کے کراؤن سے ٹیک لگائے وہ کب سے نورے بیگم کی باتوں کو سوچنے میں مصروف تھا اس کا ذہن اس لمحے اشتعال برپا کر رہا تھا
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے ؟
"لعنت و تم جیسے مردوں پر ، تم لوگ سخت ملعون ہو۔
"کیا قصور ہے اس معصوم کا"
"وہ شہیر کو اپنے جال میں پھنسا رہی ہے "
شہیر کے الفاظ ، نورے بیگم کے جملے سب اسکے کانوں میں گونج رہے تھے اسکی رگیں تقریباً پھٹنے کے لے قریب تھیں۔
اسکی نظر یکدم ہی پہلو میں لیٹی سحر سے ٹکرائیں جو کہ کچھ دیر پہلے ہی سوئی تھی احمر نے ماتھے پر بلوں کا جال سجائے اچانک ہی اسکو برے طریقے سے جھنجھوڑ اٹھا بیٹھایا۔
"کیا چاہتی ہو تم "..؟؟
سحر تو ناسمجھی کے عالم میں احمر کو دیکھ رہی تھی جو ناجانے نیند میں سے اٹھا کر اس سے کیسا سوال کر رہا تھا۔اسکو احمر کی دماغی حالت پر شبہ ہوا۔
"شہیر کو لبھانا چاہتی ہو "..؟؟
اسکو جبڑوں کو اپنی گرفت میں لئے وہ غراتے ہوئے بولا۔
سحر جس کی آنکھیں نیند کی وجہ سے ہلکی ہلکی بند تھیں احمر کے انداز و سوال کو ہی نا سمجھ پا رہی تھی ۔
"ک۔۔کیا کہہ رہے ہیں آپ "...؟؟
اسکی گرفت میں مچھلی کی مانند تڑپی تھی وہ ۔
"بہت ہمدرد بن رہا ہے وہ تمہارا اور تم بھی بہت مچل رہی ہو ، خبردار اگر کوئی غلط خیال تمہارے ذہن میں آیا ٹانگیں توڑ دوں گا تمہاری ".
اسکی بھیگی آنکھوں میں دیکھ وہ ذہر سے بھی زیادہ کڑوے الفاظ کہہ رہا تھا۔
"چ۔۔چھوڑیں م۔۔مجھے احمر میرے سر میں زخم ہے "
اس کی نظروں میں دیکھ رحم کی اپیل کی تھی اس نے جو کہ وہ یکسر ہی فراموش کر گیا ۔
"آئندہ تمہیں اسکے قریب نہ دیکھوں ، سرد ترین لہجے میں کہتا بنا اسکو کچھ سمجھنے کا موقع دئیے اسے بانہوں کے گھیرے میں لے گیا۔
نہیں ! محبت میں نہیں صرف اپنے سکون کے لئے۔
وہ بس آنسوں، خاموش آنسوں ہی بہا کر رہ گئی۔
پتھروں کی اس نگری میں
پتھر چہرے پتھر دل
پھرتا ہے مارا مارا
کیوں راہوں میں تو آوارہ
©©©
صبح جب اسکا موڈ تھوڑا بہتر ہوا تو اس نے موبائل آن کیا جہاں فاتح کی کتنی کالز و میسج آئے ہوئے تھے ۔ وہ اب شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید سوچوں کے دریا میں گم ہوتی فاتح کا نام سکرین پر جگمگایا۔جسے اسے ان طویل سانس خارج کیے اٹھایا جیسے خود کو اسکا سامنا کرنے کے لئے تیار کر رہی ہو۔
"کال کیوں نہیں اٹھا رہی تھیں ؟ اور یہ رات سے نمبر کیوں بند تھا؟ جانتی ہو میں کتنا پریشان ہو گیا تھا۔
ایک ہی سانس میں وہ کتنی ہی باتیں کہہ گیا اسکی پھولی سانسیں ، تھکے انداز و لہجے کی سنجیدگی نے پشمینہ کو شرمندگی میں مبتلا کیا۔
"سوری! بس وہ میرا دل نہیں چاہا "
وہ سرسری سا جواب ہی ادا کر سکی ۔
سوری ۔۔؟؟ تمہاری سوری و دل کی ایسی کی تیسی ۔
وہ دانت کچکچائے بولا۔
"بیگم جانی تمہارے دل و دماغ کو تو میں آکر ٹھیک کروں گا تب تک اپنی خیر منا لو "
کہتے وہ کال منقطع کر گیا ۔
جب کہ اس کی بات سن پشمینہ اپنے لب کچلتی رہ گئی۔اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی خفا ہو گیا تھا ۔
©©©
"کدھر "..؟؟
سحر کو باہر کی جانب بڑھتے دیکھ وہ بھنونے اچکاتے استفسار کرنے لگا۔
"باہر " یک لفظی جواب دئیے وہ باہر جانے کو تھی کہ احمر کے ہاتھوں میں اپنی کلائی محسوس کئے اپنی جگہ منجمد ہوئی ۔
"تم باہر نہیں جاؤ گی جب تک شہیر حویلی سے چلا نہیں جاتا "
وہ سر تاثرات چہرے پر سجائے وارننگ زدہ لہجے میں بولا۔
"خدا کا واسطہ ہے احمر کبھی تو سکون سے رہنے دیں ۔ کتنا برا ، برا کرتے ہیں آپ میرے ساتھ میں اف تک نہیں کرتی لیکن میرے کردار کو اگر آپ نشانا بنائیں گے یہ میں برداشت نہیں کروں گی۔
وہ غصے کے عالم میں چلا کر بولی تھی کہ احمر کے ہاتھ سے پڑنے والے زناٹے دار تھپڑ نے اسکی چلتی زبان کو قفل لگایا۔
"تمہاری یہ مجال کہ تم مجھ سے۔۔؟؟ مجھ سے احمر چوہدری سے زبان چلاؤ ،مت بھولو اپنی اوقات کو جو ونی ہو کر آئی ہو "..
وہ غصے سے برہم ہوتا شدید تیش کے عالم میں بولا
مقابل کی بات سن ایک تلخ مسکان اس کے زخمی چہرے پر در آئی ۔
"آپ کون ہوتے ہیں مجھے اوقات یاد دلانے والے ، میں اچھے سے اپنی اوقات سے واقف ہوں ، جو کہ آپ جیسے چھوٹے ذہنیت والوں سے بلند تر ہے"۔
اس کا ضبط ٹوٹا تھا آخر کب تک وہ برداشت کرتی تب ہی اٹل لہجے میں کہتی وہ چوہدری احمر کی غیرت اور غصے کو للکار چکی تھی۔
"تم مجھے میری اوقات بتاو گی"...؟؟؟
سحر کا ہاتھ موڑ اس نے پیچھے کمر سے لگایا تھا، تکلیف سے اس نے آنکھیں میچی تھیں ، لیکن زبان سے اف تک نہ کی تھی اس نے کتنی ہی تکالیف سہہ چکی تھی مگر اب بس ہو گئی تھی ۔
"تم میرے صبر کو آزما رہی ہو"..؟؟؟
کان کے پاس جھک سرگوشی نما آواز میں غرا کر کہا گیا ۔
"اور آپ میرے صبر کو آزما چکے ہیں"
سحر کی جانب سے بھی جواب دوبدو آیا تھا۔
"تمہاری ویلیو ، اس حویلی میں کسی نوکر سے کم نہیں "
ذہر خند لہجے میں کہتا اسکی گردن میں دانت گاڑ گیا تھا جس سے ایک سسکی اس کے لبوں سے برآمد ہوئی جو مقابل کے چہرے پر مسکراہٹ لے آئی تھی۔
"تو آپ کی حویلی کے مرد ایسے ہی اپنی نوکرانیوں کے پاس جاتے ہیں"..؟؟اس ستمگر کے دئیے گئے زخم پر لب بھینچے کہا تھا اس نے ، "
"شٹ اپ سیلی گرل ! تم بیوی ہو میری شرعی حق ہے میرے پاس"
سحر کے جواب نے اس کا دماغ گھما دیا تھا ، جو ان کی حویلی کے مردوں کی غیرت کا للکار رہی تھی "
ہنہہ ! کیا خوب کہتے ہو چوہدری احمر
"اس حویلی کی نوکرانیوں کے ساتھ بیویوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے یا پھر بیویوں کے ساتھ نوکرانیوں جیسا"۔۔۔
اسکی گرفت سے نکلنے کے لئے چڑیا کی مانند پھڑپھڑاتی لیکن وہ گرفت مزید سخت کر گیا تھا "
"تمام حویلی والوں اور پنچائیت کے سامنے مجھے آپ نے بیوی ہونے کا حق دیا ہے اور یہ حق میرے دین ،میرے خدا نے بھی مجھے سونپا ہے ،
اب میری پہچان آپ سے ہے ۔ چوہدری احمر سے "
کیا آپ کی غیرت یہ گوارا کرتی ہے کہ "ایک چوہدری کی بیوی ونی کہلائے"..؟؟
اپنی اکھڑتی سانوں کو ہموار کئے وہ آرام آرام بولی تھی ۔
"یہ سب تم کس کی زبان بول رہی ہو "..؟؟
"ہاں ! تمہارے اندر اتنی ہمت کہاں سے آ گئی کہ میرے سامنے تمہاری یہ زبان قینچی کی مانند چلنے لگی “۔۔؟؟
سحر کو گھما کر اسکا چہرا اپنے چہرے کے قریب کیا تھا ساتھ ہی اسکے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر کمر پر باندھے لاک لگایا ۔
"کسی کی نہیں ، اپنی ہی زبان بول رہی ہوں" ۔
اور ہمت کی بات نہ کریں آپ ، جب عورت اپنی پر آتی ہے نا تو نسلیں برباد کر دیتی ہے "
روانی میں وہ یہ سب بول تو گئی تھی لیکن اس کا دل اب بھی اندر سے خوف کھا رہا تھا نا جانے اس کا ردِعمل کیا ہو ۔
"ہاہاہا "
تم عورتیں "..؟؟ سیریسلی نسلیں برباد کر دیتی ہو "
چوہدری احمر کا قہقہہ گونجا تھا کمرے میں ، اپنا سر پیچھے کی جانب گرائے وہ قہقے لگا رہا تھا۔ طنزیہ قہقے جو کہ سحر کے کانوں میں ہتھوڑوں کی مانند بج رہے تھے .
"تم لوگوں کی کوئی اوقات ہی نہیں ، ہم مردوں کی کٹ پتلیاں ہوتی ہو تم پہلے باپ ، بھائی کی اور پھر شادی کے بعد شوہروں کی ۔ چاہے تو اپنا ہی حال دیکھ لو "
اپنی شہادت کی انگلی سے اسکے چہرے کے ایک ایک نقش کو ٹریس کرتے کہہ رہا تھا وہ ۔
"ا۔۔احمر"..
آخر کب تک ، کب تک میں برداشت کروں "...؟؟
میں تھک گئی ہوں اس سب سے پلیز یا تو آج مجھے موت دے دیں یا پھر رہائی ۔ میں مزید خود کو اس آگ میں نہیں جلانا چاہتی ۔
تھکے ہوئے انداز میں کہتی اپنا سر اسکے کاندھے پر ٹکا دیا تھا اس نے جبکہ سحر کی اس حرکت سے چوہدری احمر وہیں منجمد سا ہو گیا ۔
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا
"ا۔۔احمر..
آخر کب تک ، کب تک میں برداشت کروں ...؟؟
میں تھک گئی ہوں اس سب سے پلیز یا تو آج مجھے موت دے دیں یا پھر رہائی ۔ میں مزید خود کو اس آگ میں نہیں جلانا چاہتی ۔"
تھکے ہوئے انداز میں کہتی اپنا سر اسکے کاندھے پر ٹکا دیا تھا اس نے جبکہ سحر کی اس حرکت سے چوہدری احمر وہیں منجمد سا ہو گیا ۔
قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا
وہ اس ستمگر کے کاندھے پر جھکی رو رہی تھی پھر نا جانے اسے کیا سوجھی کے یکدم ہی دور ہوئی تھی اس سے اور پاس رکھا جگ اٹھا کر زمین پر پختہ جو ٹکڑوں کی صورت میں بھکرتا چلا گیا ، اس بکھرے کانچ کا ایک ٹکرا اٹھائے اپنے ہاتھوں پر رکھا جبکہ احمر خاموش تماشائی بنا اس کی ہر ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا ۔
"چ۔۔چوہدری احمر آج یا تو مجھے بخش دو یا پھر م۔۔میں اپنی جان دے دوں گی کیونکہ م۔۔مجھ میں اب بالکل سکت نہیں کہ ان اذیتوں کو سہہ سکوں۔مجھے گھٹن ہوتی ہے تمہاری وحشت ،جنونیت سے ، وحشت سی ہوتی ہے مجھے آپ کے ساتھ یہ حویلی مجھے پھندہ لگتی ہے۔
خدا کا واسطہ مجھے اس دربدری کی زندگی سے راحت بخش دو ۔"
وہ آنسوں بہاتی اپنی کلائی پر کانچ کا دباؤ بڑھاتے ہوئے بول رہی تھی لیکن لمحوں میں ہی وہ کانچ اسکے ہاتھوں سے دور جا گرا وہ بھی لڑکھڑاتی ہوئی وہ بھی بیڈ پر گری ۔
" جاہل عورت پاگل ہو گئی ہو تم" ۔۔ ؟؟
اس کے بالوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا چوہدری احمر نے۔
"نس کاٹنے جا رہی تھی ، تمہیں کچھ ہو جاتا تو "...؟؟؟
وہ بے اختیار یہ لفظ ادا کر بیٹھا تھا ، وہ خود شاکڈ ہو گیا اپنے اس ردعمل پر ۔
اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کو سنبھا لوں کیسے
خود کو دنیا کی نگاہوں سے چھپا لوں کیسے
"میں کچھ نہیں جانتی احمر چوہدری بس مجھے اب رہائی دے دیں یہ دیکھ لیں میرے جڑے ہاتھوں کو۔ آپ نے اذیت دینے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ میری نفرت میں اپنی ہی اولاد کا قتل کر ڈالا۔
میں جب جب آپ کو دیکھتی ہوں نفرت سی ہوتی ہے مجھے خود سے بھی اور آپ سے بھی۔ "
وہ ہچکی بھرتے بھیگی پلکیں اور لرزتے ہونٹوں سمیت چوہدری احمر کو دیکھتے بولی اور وہ بےساختہ ہی اس دشمن کے سینے سے لگے پھوٹ پھوٹ کے رونے جو کہ ان تمام تکلیفوں اور اذیتوں کا زمہ دار تھا۔
"آئے ہیٹ یو احمر چوہدری مجھے نفرت ہے آپ سے میں جل رہی ہوں نفرت کی آگ میں۔ بخش دیں مجھے ورنہ جل کر بھسم ہو جائیں گے آپ بھی اسی آگ میں۔
مج۔۔مجھے رہائی دے دیں اس سب سے "
اس کے گلابی لب صرف ایک ہی مالا جپنے میں مصروف تھے اور وہ دشمنِ جاں اپنے اس انداز سے احمر چوہدری کا دل دھڑکا رہی تھی ۔
وہ سحر کو خاموش کروانا چاہتا تھا اسے تسلی دینا چاہتا تھا مگر اسکی انا آڑے آئی تھی ماتھے پر بلوں کا جال سجا تھا۔ بہت ہی مشکل سے اپنی دلی کیفیت کو سنبھالتا کھڑا ہوا اور بنا اسکی جانب دیکھے باہر کی جانب بڑھا جبکہ وہ پیچھے بیٹھی صرف سسکتی رہی ۔ پورے کمرے میں صرف و صرف اسکی گھٹی گھٹی سسکیاں ہی گونج رہی تھیں۔
©©©
ہاتھ میں پزل گیم کو آرام ، آرام سے گھوماتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں محو تھا اسکی گہری نشیلی آنکھیں چھوٹی ہو چکی تھیں جو کہ اس بات کی نشانی تھی کہ وہ بہت ہی خاص پہلو کو سوچ رہا ہے۔
"کیسے ، کیسے بچاؤں تمہیں اس سب عذاب سے پری .؟؟
میں ایسا کیا کروں ، جس سے تم رہائی پا جاؤ "..؟
یہ تمام سوچیں اسکو اپنی زد میں لئے ہوئے تھیں۔
پریشانی کی شدت سے وہ ماتھا مسلنے لگا ، سوچنے کے باعث اس کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندیں نمایاں ہو رہی تھیں۔
کئی مہینوں پہلے کا سحر کا ہنستا مسکراتا چہرا اسکی نظروں کے سامنے گزرا تھا لیکن جیسے ہی اسکی موجودہ حالت شہیر کے ذہن میں آئی اسے نفرت سی ہونے لگی اس حویلی سے۔
©©©
فاتح اور پشمینہ کو گھر آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا لیکن ان کے درمیان زیادہ بات نہ ہو پاتی کیونکہ صبح سویرے اٹھ وہ واپس چلے جایا کرتا اور رات دیر سے واپس آتا ، کام کے دباؤ کے باعث پشمینہ کو وقت دے پانا نا ممکن سا لگ رہا تھا ورنہ اس نے سوچا تھا کہ اسے کہیں باہر آوٹنگ پر لے جائے تاکہ دونوں کے مائنڈ کچھ ریلیکس سے ہو جائیں۔ اپنی اسی سوچ کو عملی جامہ پہنانے کی نیت سے آج آفس کا کام جلدی نپٹا کر وہ گھر آیا تو وہ اپسرا اسے ہمیشہ کی طرح سوچوں میں گم ہی ملی۔
البتہ سامنے ٹی وی شو چل رہا تھا لیکن اس کا دھیان ٹی-وی کی جانب نہ تھا ۔ وہ خیالوں میں کھوئی اسے کوئی حسن کی مورتی ہی معلوم ہوئی جسے کسی مصور نے حقیقت کی شکل دے دی ہو ۔ وہ دونوں ہاتھ سینے پر باندھے بہت ہی معویت سے اسکا معائینہ کر رہا تھا پھر دھیمے قدموں سے چلتا اس تک آیا۔
"کیا بات ہے کن خیالوں میں کھوئی ہے یہ سنگِ مرمر کی مورت "..؟
فاتح نے بہت ہی آہستگی سے سرگوشی نما آواز میں کہا تھا کہ وہ صوفے سے اچھل کر کھڑی ہوئی ۔
"استغفار فاتح ! آپ نے مجھے ڈرا ہی دیا "۔
سینے پر ہاتھ رکھے وہ گہرے گہرے سانس لیتی اپنی بے بحال ہوتی دھڑکنوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنے لگی۔
"او تو میری مسسز ڈرتی بھی ہیں ۔۔"..؟؟
وہیں صوفے پر ڈھہتے ہوئے وہ نظریں ترچھی کیے بولا جس پر وہ صرف خاموش ہی رہی ۔
”تم اتنی خاموش، خاموش کیوں رہتی ہو "..؟؟
"کچھ نہیں ، بس ایسے ہی زیادہ بولنے کی عادت نہیں ۔"
بہت ہی سرسری سا اسکا جواب دیا گیا۔
"اووو ! آئے سی "۔ بھنونے اچکائے وہ "اوو کو کافی لمبا کھینچتے بولا۔
©©©
"اسرار جتنی بھی اچھی فصلیں ہیں ان میں سے آدھی حویلی کے گودام میں پہنچا دو باقی باہر کے ملک بھیجوانی ہے کافی اچھے دام مل رہے ہیں "
چوہدری وقاص چارپائی پر اکڑو بیٹھے تھے ان پروانہ ایک سائڈ کاندھے پر ڈالا گیا تھا جبکہ پاؤں میں مقید پشاوری چپل کو وہ مسلسل جھلا رہے تھے۔
اسرار چوہدری وقاص کا خاص ملازم تھا فصلوں کا تمام تر حساب کتاب وہی کیا کرتا سال میں کتنا نفع ہوا ، کیا کتنا نقصان ان سب کی خبر وہ ان تک پہنچاتا۔
"سردار مگر گاؤں والوں کا کیا ہو گا "..؟؟
اور اگر اس حیرا پھیری کی خبر چھوٹے صاحب جی کو ہوئی تو وہ ہمیں قتل ہی کر دیں گے۔
"اوئے تو فکر ہی نہ کر آج تک جب کسی کو خبر نہ ہو سکی تو اب خاک ہو گی"
اپنی بات کے آخر میں چوہدری وقاص کا جاندار قہقہ گونجا تھا۔
©©©
"مسٹر احمر کہاں مصروف تھے اتنے دن کہ اپنی من چاہی بیوی کو ہی بھول بیٹھے "۔
آنکھیں ترچھی جبکہ ، لبوں کو انوکھے انداز سے جنبش دئیے وہ ایک ادا سے بولی تھی کہ احمر کی نظریں اس کے پر رونق چہرے پر چھا سی گئی تھیں ۔وہ اس کی آنکھوں میں موجود آئی عجیب سے چمک کو نہ دیکھ سکا۔
"کہیں نہیں جان بس بتایا تھا نا کہ گاؤں میں کچھ کام ہے "
عمارہ کے نازک وجود کو کھینچ اپنی بانہوں میں بیٹھایا تھا ۔
"سچی ..؟؟
مجھ سے بھی ذیادہ ضروری تھا وہ کام .؟؟؟"
اب کے عمارہ کے لہجے میں صاف طنز تھا جسے احمر نے بھی نوٹ کر لیا تھا۔
"کیا مطلب جان "..
خود کو نارمل کیے وہ ہنسنے کی ناکام کوشش کیے بولا ، دماغ سحر کے رویے کی وجہ سے پہلے الجھا ہوا تھا اوپر سے عمارہ کی پہیلیاں اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔
"مطلب صاف ہے ، مسٹر احمر چوہدری جب گاؤں میں خوبصورت بیوی رکھی ہو تو کس کا دل چاہے گا شہر آنے کو "
وہ دانت کچکچائے ، آنکھوں میں امڈ انے والے آنسوں کو پرے دھکیلے بولی جب کہ یہاں اس کے جملوں نے احمر چوہدری کے چودہ طبق روشن کئے تھے۔
"عمارہ ۔۔۔؟؟؟"
وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں گویا ہوا ۔
"مت پکاریں مجھے ! کیا سمجھا تھا کہ مجھے کبھی پتہ نہیں چلے گا آپ کی شادی کا ؟؟"
نہ چاہتے ہوئے بھی آنسوں اسکی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے جب کہ اس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ احمر تڑپ اٹھا۔
"شادی کی ہے آپ نے ..؟؟
رائیٹ .؟؟
پھر تو آپ اس کے پاس بھی گئے ہونگے"..؟؟
احمر کے وجود کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا تھا عمارہ نے ،،
وہ اٹھ چکی تھی وہاں سے جب کہ احمر وہ خالی جگہ دیکھتا رہ گیا ۔
اس نے عمارہ کے ہاتھوں کو تھامنا چاہا تھا لیکن وہ جھٹکے سے چھڑا چکی تھی کراہیت کا احساس کیے۔
"مسٹر احمر چوہدری ہمیشہ یاد رکھیئے گا دوہری کشتی کے مسافر کبھی کامیاب نہیں ہوا کرتے اسلئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کیجئے گا کہ آپ کو کس کے ساتھ رہنا ہے۔۔
اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو اس لڑکی کو طلاق دے دیں ورنہ مجھے اپنے نام ، اپنے احساس ، اپنے جذبات سے بری کریں۔"
آنکھوں کو بند کئے وہ روانی سے بولی تھی جبکہ عمارہ کی بات سن احمر کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا اسے لگا اس نے کچھ غلط سنا ہے۔
"عمارہ یہ کیا بول رہی ہو ..
تمہارا اور اس لڑکی کا کوئی مقابلہ نہیں۔
وہ ونی میں لائی گئی ہے جبکہ تم تو اس دل کی ملکہ ہو ۔"
"سیریسلی احمر ونی ..؟؟
کون سے زمانے میں جی رہے ہو ؟؟
اور کیا کہا تم نے .. اس کا اور میرا مقابلہ نہیں ۔۔
واقعی"..؟؟؟
اس کی گردن پر موجود خروش کی جانب وہ اشارے کیے بولی جبکہ وہ غصے میں لب بھینچ گیا تھا۔
"عم۔۔۔"
" چلو جاؤ احمر میں تب تک تمہیں اپنا چہرا نہیں دیکھاؤں گی جب تک تم اس لڑکی کو طلاق نہیں دیے دیتے۔"
رخ موڑے ہی بیگانگی سے کہا تھا عمارہ نے جب کہ غصے سے مٹھیاں بھینچے جا چکا تھا لیکن جاتے جاتے ٹیبل کو ٹھوکر مارنا نہ بھولا۔
عمارہ نے شدید کرب و نفرت کے عالم میں اس کی پشت کو دیکھا تھا۔
©©©
ایک لینڈ کروزر گاڑی اپنی شان کے ساتھ شہیر کے مہنگے ترین ریسورنٹ کے سامنے رکی تھی۔ گاڑی کے رکتے ہی اندر بیٹھی لڑکی نے حیران کن نظروں سے ریسٹورنٹ کی جانب دیکھا جو کہ بہت ہی خوبصورت طرز پر بنایا گیا تھا۔
"چلیں " فاتح نے پشمینہ کا ہاتھ محبت سے اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے کہا اور اندر کی جانب بڑھائے وہ دونوں ہی مکمل لگ رہے تھے ۔آس پاس کے لوگ رشک بھری نظروں سے دونوں کی جوڑی کو دیکھ سراہا رہے تھے ۔پشمینہ سب کی نظروں کو محسوس کرتی کنفیوژ سی ہوئی تھی اس کی چال کی لڑکھڑاہٹ پر فاتح نے اسکو کمر سے تھام اپنے ساتھ لگایا جس وہ مزید سبکی محسوس کرنے لگی۔
"فا۔۔فاتح چھوڑیں سب دیکھ رہیں۔ "
وہ نظریں جھکائے بولی۔
"بیگم اگر میں نے چھوڑا نا تو تم گر جاؤ گی "
شرارت سے وہ اس کے کان کے پاس جھک کر بولا تھا اور کارنر پر موجود ایک ٹیبل پر لا بیٹھایا تھا اسے۔
"کیا ہوا خاموش کیوں ہو گئی بیگم"..؟؟
فاتح نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی کھانا آرڈر کیا تھا جس میں پشمینہ کی پسندیدہ ڈش "فرائڈ رائس " بھی تھے ۔
"فاتح ہم باہر ہیں ، کچھ خیال کر لیں "
آس پاس کے لوگوں کی نظریں خود پر محسوس کیے اس نے احتجاج کیا ۔
"چھوڑو جان ! تم ریلیکس ہو کر کھانا کھاؤ "
چمچ سے نوالہ بنا کر اس کے سامنے کئے تھا جسے لب کچلتے کھا گئی.
"فاتح ایک سوال پوچھوں "..؟؟؟
اس کے وجیہہ چہرے پر نظریں جمائے کہا تھا اس نے۔
"کہو جو کہنا ہے تمہیں اجازت لینے کی ضرورت نہیں"
اپنی وجاہت کے ساتھ مسکرایا تھا وہ۔
"کیا آپ سچ میں مجھ سے محبت کرتے ہیں.؟؟"
وہ اس کی گھائل کر دینے والی آنکھوں میں مسلسل دیکھ رہی تھی اس کو انتظار تھا اس کے جواب کا ۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کیا کہتا ہے۔
"کیوں کوئی شک "..؟؟
وہ آئیبرو اچکائے پوری طرح سے اسکی جانب متوجہ ہوا تھا۔
"ہمم شک ہی تو ہے "
دھیمی آواز میں منمنائی تھی۔
"پشمینہ پلیز ! میں آج کے دن کو خوبصورت بنانا چاہتا ہوں پلیز اس قسم کے سوالات نہ کرو اگر چاہتی ہو کہ میں تمہارے ساتھ وقت نہ بتاؤں تو مجھے ایسے ہی بتا دو ہم واپس چلے جاتے ہیں مگر پلیز میرا موڈ اوف مت کرو ورنہ انجانے میں ہی صحیح اس کا خمیازہ تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔"
سنجیدگی سے کہتا وہ آخر میں شوخ ہوا۔
جب کہ اس کی سرد مہری اور شوخ پن کو محسوس کیے وہ بھی خاموش ہو گئی۔
©©©
وہ خوبصورت گاؤں جو رات کی سیاہی میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس گاؤں میں موجود وہ حویلی جس کی چھت پر ہلکے بلب کی روشنی موجود تھی جو اس رقبے کو ذیادہ نہ صحیح تھوڑا بہت ہی روشن کر رہی تھی باقی کی روشنی آسمان میں موجود اس خالق ِ حقیقی کا شہکار وہ مہتاب ہی کا عکس تھا۔
رات کے اس پہر نورے بیگم کے حکم کے مطابق وہ چھت پر کھڑی کپڑے اتار رہی تھی کہ پاس بنے اسٹور سے کوئی وجود بہت ہی محتاط قدموں سے آیا اور سحر کو بنا کچھ سمجھنے کا موقع دیے دیوار سے پن کیا۔
آہہہ ک۔۔و"... اس اچانک ہوئی آفت پر وہ پوری جی جان سے گھبرا گئی تھی اس سے پہلے کے وہ چیختی مقابل نے اس کے لبوں پر اپنا مضبوط ہاتھ رکھا۔
"خاموش! چلانا مت ۔۔۔"
مقابل شیر کی آواز میں دھاڑا تھا۔ سحر کے قدم لرزے تھے ۔
"اتنا ڈرتی کیوں ہو۔ عورت ہو تم اپنا مقام کیوں نہیں سمجھتی۔"
"ک۔۔کون ہو تم ...؟؟
خدا کا واسطہ پیچھے ہو جاؤ اگر کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی۔"
مقابل کھڑے شخص کی بات کو نظر انداز کیا تھا۔
اس کے سامنے وہ ہاتھ جوڑے منتیں کر رہی تھی جب کہ مقابل کھڑا شخص جس کا چہرا ماسک اور بلیک کیپ سے کوور تھا وہ افسوس کرتا رہ گیا اس لڑکی کی حالت پر لیکن اچانک ہی اس شخص کی نظر نیچے کی جانب گئی تھی جہاں احمر چوہدری رنج و غصے کی زیادتی سے اوپر ہی دیکھ رہا تھا۔سحر کی نظروں نے جب اس نقاب پوش کے تعاقب میں دیکھا تو وہ جیسے سانس لینا بھول گئی۔
©©©
"کہاں گیا تمہارا وہ عاشق ".؟؟؟
احمر شیر کی مانند دھاڑتے ہوئے اوپر آیا جہاں سحر اب بھی سن سی کیفیت میں دیوار کے ساتھ ہی لگی کھڑی تھی اسکی سمجھ سے باہر تھا وہ شخص تو جا چکا تھا لیکن سحر کے لئے مصیبت کھڑی کر گیا۔سحر کی خاموشی احمر کے غصے کو مزید ہوا دینے کا باعث بنی وہ اسے بری طرح کھینچتے ہوئے نیچے لایا تھا۔ جب کہ سحر اب اپنی صفائی کے لئے کچھ کہہ بھی نہیں رہی تھی وہ خاموش تھی احمر چیختا جا رہا تھا تمام حویلی والے جمع ہو گئے تھے ملازمین ، نوکر ، گھر کے اراکین سب ہی تماشا دیکھ رہے تھے لیکن وہ ناجانے کیا کیا کہہ رہا تھا وہ اس کی ذات ، اسکے کردار کو مگر اس نے کان نہیں دھرے لیکن جیسے ہی ان کانوں سے اس ستمگر کے وہ جملے سنائی دی وہ اپنی جگہ ساکت ہوئی بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔
مطلب ؛ اتنی جلدی رہائی ۔۔۔
وہ تو اپنے آپ کو عمر بھر کی قیدی سمجھ بیٹھی تھی۔
"میں احمر وقاص اپنے پورے ہوش و حواس میں سحر اسلم کو طلاق دیتا ہو ۔"
"احمر "
چوہدری وقاص کی گرجدار آواز گونجی تھی لیکن شائد آج ان کی دھاڑ بھی اس پر اثر نہ کر پائی ۔
"طلاق دیتا ہوں "
"طلاق دیتا ہوں "
اس کے ان آخری جملوں کے ساتھ ہی وہاں ہال میں ایک سناٹا سا چھا گیا لیکن اچانک ہی سب چونک گئے جب اس ہو کے عالم زدہ ماحول میں سحر کا قہقہہ گونجا ۔
"م۔۔میں آزاد ہو گ۔۔گئی ، میں آزاد ہو گئی ۔ اب میں چلی جاؤں گی "
وہ ہنس رہی تھی پاگلوں کی مانند ساتھ چہرے پر آنسوں کا ریلا پھسلتا ہوا اس کے چہرے کو بھگو رہا تھا ۔
وہ باہر کی جانب دوڑ رہی تھی بال اسکے کمر پر بکھرے ہوئے تھے جبکہ ڈوپٹہ ہاتھوں میں موجود تھا وہ بے ترتیب سے حلیے میں ہی باہر کی جانب بھاگی لیکن بیچ راستے میں ہی نورے بیگم نے اسے اچک لیا۔
"کہاں جا رہی ہے..؟؟
تو احمر کے نکاح سے آزاد ہوئی ہے ، اس حویلی سے نہیں ۔
چل اندر واپس۔"
وہ کھینچتے ہوئے اسے اندر لا رہی تھیں جبکہ وہ مسلسل مزاحمت کرتی خود کو چھڑوانے کی تگ و دو کر رہی تھی۔زبان پر بس ایک ہی جملا تھا ۔
"میں آزاد ہو گئی مجھے جانے دو خدا کا واسطہ ہے "
وہ درد و تکلیف کے عالم میں بول رہی تھی لیکن انہیں کوئی پرواہ نہ تھی ۔
©©©
ایک کہاوت تھی " بیگانے کی شادی میں عبداللہ دیوانہ "۔
ویسے اگر دیکھا جائے تو یہ کہاوت آپ پر خوب ججتی ہے بھابھی سائیں ۔
میمونہ بیگم سینے پر دونوں ہاتھ باندھے سامنے کھڑی نورے بیگم سے مخاطب ہوئی ان کے لہجے میں طنز و غصہ صاحب پر واضح تھا۔
٫"کیا مطلب ہوا بھلا تمہاری اس بات کا "..؟؟
"آپ اس کہاوت کو بھرپور طریقے سے نبھا رہی ہیں ۔"
"کہنا کیا چاہتی ہو "..؟؟
اب کے وہ چلائی تھیں۔
"بھابھی سائیں میں یہ کہنا یہ چاہتی ہوں کہ بیٹا میری بہن کا کوچ کر گیا ہے مگر تکلیف کا اظہار آپ کر رہی ہیں جبکہ حقیقتاً آپ کے رویے اور چہرے سے یہ زرہ بھی نہیں لگ رہا ہے اس بات کا آپ کو غم یا افسوس ہے اسلئے اپنے فضول کے دکھاوے دیکھانا بند کریں اور اس بچی پر اپنا زور نہ چلائیں۔ اگر اس کا خاندان گنہگار ہے بھی تو وہ باجی اور بھائی سائیں کا ہے آپ محترمہ کا نہیں۔ اسلئے بہتر ہو گا آپ کی ذات کے لئے کہ دور رہیں۔"
نورے بیگم کو بنا کچھ کہنے کا موقع دیا میمونہ بیگم کہتی وہاں سے تن فن کرتی چل دیں۔جب کہ وہ پیچھے سورج کی مانند کھولتی رہ گئی۔
کچھ مہینوں بعد ۔۔
سحر کی عدت آج پوری ہوئی تھی کہنے کو آج اسکا فیصلہ ہونا تھا یا تو آج اسے رہائی مل جانی تھی یا پھر قید کی زنجیریں نئے سرے سے اس کے پیروں میں باندھی جانی تھیں وہ اسی فیصلے کے انتظار میں تھی اور خدا سے دعا گو تھی کہ اسے رہائی دے دی جائے لیکن اسکی دعاؤں سے زیادہ شدت کسی اور کی دعاؤں میں تھی ۔
وہ سجدہ ریزہ تھی خدا کے آگے کہ ملازمہ کمرے میں داخل ہوئیں اور جو خبر اسے سنائی تھی وہ اسکی آنکھوں میں آنسوں لانے کا باعث بنی۔
اسے لگا اب وہ کبھی یہاں سے آزاد نہیں ہو پائے گی اس کے سپنے ایک بار پھر سے ٹوٹنے والے تھے لیکن اب وہ خود کو قسمت کےحوالے کر چکی تھی ۔
©©©
اتنا تیرا انتظار کیا
دل کو خفا سو بار کیا
تجھ سے وفا میں نے کی اس قدر
وہ خالق کی کائنات کا خوبصورت شاہکار کھلا آسمان
اس آسمان میں موجود پانی سے بھرے بادل جو کہ برکھا کی صورت میں برس رہے تھے اسی بارش کے سہانے موسم کو محسوس کرتی وہ پری جو لان کے وسط میں کھڑی خود کو سیراب کر رہی تھی جب کہ کوئی اور وجود بھی تھا جو اس اپسرا کو دیکھے اپنی نظروں کو سیراب کر رہا تھا۔
فاتح مخمور تپش دیتی نظروں کے ساتھ اس حور نما لڑکی کو دیکھ رہا تھا اسکے لبوں پر ایک مسکراہٹ سی آن ٹھہری۔ اس کے وہم و گمان بھی نہ تھا کہ یہ لڑکی بہت جلد اسکے دل پر سلطنت کرے گی۔ وہ مگن سا اس کو بارش میں بھیگتا دیکھ رہا تھا۔جو آسمان کی جانب دونوں ہاتھ پھیلائے گھوم رہی تھی وہ سست روی سے چلتا پشمینہ تک آیا اور کون کے پاس جھک دھیمی سی سرگوشی کی۔
"You look exactly like the fairy who goes out to Prastan for a walk.Your's this look is enough to beat this lifeless heart my Jan e Jaan.."
(تم بالکل اس پری کی مانند دیکھ رہی ہو جو کہ سیر کے لئے پرستان کو نکلتی ہے اس برستے ہوئے ساون میں وہ پھول لگ رہی ہو جیسے گلاب پر شبنم ۔تمہارا یہ روپ اس بے جان دل کو دھڑکانے کے لئے کافی ہے مجھے خود میں سمو لو جانِ جاں)
پشمینہ جو آس پاس سے بے پرواہ بارش انجوائے کر رہی تھی فاتح کی یوں سرگوشی کرنے پر وہ اپنی جگہ اسٹیل ہوئی ۔حیرانی و ششدر و پن کے عالم میں مڑنا چاہا لیکن فاتح کی ٹھوس گرفت نے اس کی کوشش کو ناکام بنایا۔
یہ موسم کی بارش ، یہ بارش کا پانی
یہ پانی کی بوندیں تجھے ہی تو ڈھونڈیں۔
ٹرانس کی سی کیفیت میں ان بھیگے ریشم بالوں کو ہٹایا تھا فاتح نے اور اپنے دہکتے ہونٹوں کا لمس پشمینہ کی بے دان گردن پر چھوڑا وہ تڑپ کر مڑی نشیلی آنکھوں پر وہ شایہ فگن جھلملاتی پلکیں رقص کر رہی تھیں اور ان پر موجود بارش کا پانی شبنم کے قطرے معلوم ہو رہے تھے۔
وہ بنا پلکیں جھپکائے اس کو پری کا چہرا دیکھ رہا تھا یا یہ کہنا بہتر ہے کہ اس کے نقش اپنے دل کی دیواروں پر اتار رہا تھا جب وہ کنفیوژ سی پلکیں جھکائے کھڑی اس کی نظریں خود پر محسوس کیے بارش کے اس سرد موسم میں بھی وہ گھبراہٹ کے مارے گرم ہو چکی تھی پلکوں کا لرزنا اس کی گھبراہٹ و کنفیوژن کو ظاہر کر رہا تھا۔
"مینہ ! کیا ضرورت تھی اتنی رات میں یوں برستے ساون میں بھیگنے کی ، دیکھ لو تمہارا یہ روپ فاتح شرجیل کو بہکانے کا باعث بنا ہے"
فاتح خاموشی سے اس کے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکائے بولا اس کے لہجے میں خمار ہی خمار تھا آواز بوجھل سی ہوئی تھی جب کہ پشمینہ نے ہلکی سی نظریں اٹھائے اس کو بے بسی کے عالم میں دیکھا۔
بارش کے اس خوبصورت موسم میں وہ دونوں ہی بھیگ رہے تھے ساتھ ہی ایک دوسرے کی دھڑکنوں کے شور کو سنتے محسوس کر رہے تھے۔
"فات۔۔فاتح مجھے اندر جانا ہے "
اسکی خمار آلود نظروں سے بچنے کا ایک یہی طریقہ نظر آیا تب ہی روانگی سے بولی جب کہ فاتح کی نظریں اسکے حسین چہرے کا طواف کر نے میں محو تھیں اس کے دل کے ایک کونے میں دھڑکنوں نے شور برپا کیا ایک خواہش سی جاگی تھی جس پر لبیک کہتا وہ پشمینہ کے تھوڑا مزید قریب ہوا لیکن پشمینہ ان آنکھوں کا پیغام پہلے ہی پڑھ چکی تھی تب ہی فوراً وہ اپنا چہرا موڑ گئی۔
"اوکے !" اگلے ہی پل وہ فاتح کی بانہوں کے گھیرے میں موجود تھی وہ اسے لئے اندر کی جانب بڑھا تھا۔
©©©
روم میں آکر فریش ہونے کے بعد پشمینہ تو ہیٹر چلائے سو چکی تھی جب کہ فاتح اب بھی جاگتے ہوئے اس کے خوبصورت نقش کو اپنی آنکھوں کے ذریعے دل میں اتار رہا تھا۔اس کا دل چاہا رہا تھا کہ اس دلربا کو جگائے خود کی پناہوں میں سمو لے اسکے خوبصورت نقش کو روح تک محسوس کرے لیکن پھر اسکی نیند کی پرواہ کیے پیچھا ہٹا ۔
لیکن کب تک ! دل تھا کے باغی ہو رہا تھا ۔
وہ بہت ہی نرمی سے اسکے مرمری سے وجود کو اپنے قریب کر گیا تھا اسکی خوشبو و احساس کو اپنے اندر محسوس کرنے لگا۔
وہ ہلکا سا کسمسائی تھی جب فاتح کا لمس شدت اختیار کرنے لگا وہ جھٹ سے آنکھیں کھول گئی تھی۔
سنہری آنکھیں حیرت کی زیادتی سے ذیادہ بڑی ہو چکی تھی مقابل کو خود پر محسوس کیے اس کے لب سیل سے گئے جسم کا سارا خون اسکے چہرے پر آئے گلال بکھیر رہا تھا فاتح پر شوق نظروں سے اسکے روشن و سرخ چہرے کو ترچھی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"ف۔۔۔فاتح"....!!
اس کی گرم دہکتی سانیسں نیند میں اپنی گردن اور چہرے پر محسوس کیے وہ گھبراتے ہوئے بولی تھی ۔
"ہنہہ"....
اس نے ہنکار بھرنے پر اکتفا کیا۔۔
"ی۔۔۔یہ س۔۔سب ک۔۔کیا کر رہے ہیں "....؟؟؟؟
وہ اپنا سانس بحال کرتی بمشکل بولی تھی....
اس کے سوال پر اپنی بوجھل آنکھیں اٹھائے فاتح نے اسکی جانب دیکھا تھا جس کی آنکھوں میں گھبراہٹ صاف نظر آ رہی تھی...
"بچی نہیں ہو تم جسے بتایا جائے"۔
آئبرو اچکائے کہتے اس کے ریشم بالوں کو کیچر سے آزاد کیا جو کہ بکھر کر اس کے چہرے پر پھیل گئے تھے۔
اسکی پناہوں میں موجود وہ آنکھیں بھینچ گئی تھی.
"م۔۔مت کریں "....
بھاری آواز کے ساتھ کہتی وہ اپنی آنکھوں کو بند کر گئی تھی کیونکہ آنکھوں میں جمع شدہ نمکین پانی جلن کا باعث بن رہا تھا..
"کیوں".....؟؟؟؟
"ک۔کیونکہ میں ایسا ن۔۔نہیں چاہتی".....
کہتی وہ اپنا رخ بدل گئی تھی لیکن مقابل نے کھنچ اس کو واپس سابقہ پوزیشن میں کیا ..
"پشمینہ غلط فہمی کی بنا پر ہی صحیح لیکن اب خوش قسمتی سے تم میری بیوی ہو....
اپنی ضرورت کے لئے میں تمہارے پاس ہی آؤں گا.....
میں ہمارے رشتے کو ایک نام دینے جا رہا ہوں اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ...
لیکن تم ہو کہ تمہارے تیور ہی نہیں مل رہے "...
وہ تقریباً اکتائے ہوئے لہجے میں بولا تھا لیکن اس کا یہی لہجہ تیر کی مانند پشمینہ کے دل پر لگا تھا "...
"میاں بیوی کے بیچ فز۔فزیکل ری۔۔ریل۔۔ریلیشن سے سب کچھ ٹھیک ن۔۔نہیں ہو جاتا فاتح سب سے ذیادہ ضروری دل میں رشتے کی اہمیت ہو۔۔ہونا ہے اور آپ۔۔۔ آپ کے دل میں میری کو۔۔۔کوئی اہمیت ہی نہیں ہے"۔
وہ اپنی درد بھری آنکھیں اسکی آنکھوں میں گاڑے بولی تھی ۔
"کس نے کہا محبت نہیں ہے .؟؟؟
آئے لو یو جان ۔۔۔"
ان سنہری آنکھوں میں دیکھتے رسانیت سے کہا اور ساتھ ہی اپنے لبوں سے وہ آنسوں چن گیا۔
"فا۔۔۔فاتح پلیز نو!"
"مینہ ! شش۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتا ، بس اتنا جانتا ہوں کہ تم میری بیوی ہو ، اب اس رشتے تلے میں گھٹ گھٹ کر نہیں جینا چاہتا تھا سو خاموشی سے مجھے محسوس کرو ڈونٹ کرائے"۔
کہتے وہ اسے مکمل طور پر خاموش کروا گیا تھا ۔
©©©
"سحر اسلم آپ کا نکاح شہیر وقار کے ساتھ سکہ رائج الوقت دو لاکھ حق مہر طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے ؟"
مولوی کے الفاظ جیسے ہی سحر کے کانوں سے ٹکرائے اس کی ہیچکی سی بند گئی تھی وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں پاس کھڑی میمونہ بیگم کو دیکھنے لگی جنہوں نے نظریں چرائیں تھی اس سے۔
"ق۔۔ق۔ب۔۔۔قب۔۔قبول ہے "۔
دل کی مانند اس کے لفظ بھی ٹوٹ رہے تھے بہت ہی مشکلوں سے اس نے یہ دو بول ادا کیے اپنا سب کچھ مقابل کے نام کر دیا۔
سحر کو آج اپنا وجود کسی کچرے کے ڈھیر کی مانند لگ رہا تھا جسے ایک جگہ سے اٹھا کر کہیں دوسری جگہ پھینک دیا جاتا ہے بالکل ویسا ہی تو ہوا تھا اس کے ساتھ ایک بھائی کے بعد وہ دوسرے بھائی کے نکاح میں جا رہی تھی صرف اس نام نہاد بدلے و دقیانوسی رسم "خون بہا " کے نام۔
دوسری جانب یہی جملے شہیر کے کانوں میں یہ جملے راحت بخش گئے تھے وہ اپنی پری کو حاصل کر چکا تھا وہ دلی طور پر آج بے حد خوش تھا لیکن چہرے پر پھر بھی سنجیدگی تھی لیکن آنکھوں میں چمک اور یہی چمک اسکی ماں نے دیکھنے کے ساتھ محسوس بھی کی ۔
وہ ماں تھیں کیسے نہ جان پاتی اپنے بیٹے کے حالِ دل کو۔۔۔
©©©©
فاتح صبح آفس جانے کے لئے نیچے آیا تو پشمینہ معمول کے مطابق کچن میں ناشتہ تیار کر رہی تھی وہ اپنی مغرور چال چلتا وجاہت کے ساتھ آکر ڈائٹنگ ٹیبل پر براجمان ہوا۔ساتھ ہی ایک نظر اپنی چھوٹی سی بیوی پر جمائیں جو لبوں پر چپ کا قفل لگائے کام کر رہی تھی ۔
وہ جیسے ہی ٹیبل پر کافی رکھنے آئی تھی فاتح نے اس کی نرم کلائی کو اپنے ہاتھوں کی گرفت میں تھاما تھا اور آئیبرو اچکائے اس کی جانب دیکھا جیسے خاموشی کی وجہ جاننی چاہی ہو۔
"چھوڑیں میں کام کر رہی ہوں۔"
پشمینہ نے نظریں گھوماتے کہا جیسے فاتح کا دیکھنا اسے پسند نہ آیا ہو۔
"مسسز ویسے سویٹ ہو تم اس بات کا اندازہ مجھے تھا لیکن بہت ذیادہ سویٹ ہو اس بات کا اندازہ مجھے کچھ گھنٹوں پہلے ہوا۔"
وہ آنکھ ونک کیے بولا تھا جب کہ اسکی بات کی گہرائی کو سمجھتے وہ نظریں چرا گئی۔
"جاناں ! تم میری ہو تمہیں حاصل کیا اپنایا ہے اس بات کا فاتح شرجیل کو بالکل افسوس نہیں بلکہ مجھے غرور ہے خود پر اور پیار ہے تم سے۔"
"مسٹر فاتح شرجیل زور زبردستی کی بنیاد پر رشتے نہیں بنائے جاتے بلکہ بگاڑے جاتے ہیں کیونکہ جو زور زبردستی بنائے جائیں وہ رشتے نہیں رشتے نہیں سرسری تعلقات ہوتے ہیں"۔
فاتح پشمینہ کی بات سن کر بس مسکرا دیا تھا اس کے چہرے پر سکون تھا صرف سکون وہ لمحے میں جھکا تھا اسے ماتھے پر وہاں اپنے لب پوری عقیدت سے ضبط کیے تھے پھر محبت سے اسکا گال سہلاتا باہر کی جانب چل دیا۔
ورے بیگم انگاروں پر لوٹ رہی تھیں جب سے یہ خبر ان تک پہنچی کہ سحر کا نکاح کسی ملازم سے نہیں بلکہ شہیر سے ہو رہا ہے۔انہوں نے کتنی مرتبہ کوشش کی یہاں تک کہ چوہدری وقاص کو اکسایا بھی لیکن انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ ملازمین سارے شادی شدہ ہیں۔
"بیگم صاحبہ تم نے کہا تھا کہ اس چھوکری کا نکاح آپ مجھ سے کروائیں گی مگر اسے تو بڑے صاحب نے اپنے نکاح میں لے لیا۔"
وہ شخص جو حویلی کا ملازم تھا نورے بیگم سے مخاطب ہوا ۔
"میں کیا کروں کتنی ہی بار تو کوشش کی ہے پتا نہیں اس دن اس نے سائیں کو کیا بولا کہ اس دن کے بعد تیرے صاحب مانتے ہی نہیں انہیں لگتا ہے شہیر اس نکاح کے بعد چپ رہے گا اور شہر چلے جائے گا جب کہ یہ بات ان کے دماغ میں نہیں آ رہی کہ شہیر تو ویسے ہی اس کرم جلی کا دیوانہ بنا پھر رہا ہے"۔
وہ نخوت سے شہیر اور سحر کے بارے میں سوچتے ہوئے بولیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ شہیر سحر کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دے گا وہ تو شادی سے پہلے اتنا لڑتا تھا شادی کے بعد کیا کرے گا۔
©©©
پورا شہر کالی گھٹا کی ضد میں آیا ہوا تھا تیز ہواؤں کے ساتھ کھڑکی کے پردوں نے تیز ہلچل پیدا کی ہوئی تھی پورے کمرے میں گہرا اندھیرا تھا جب کہ احمر گیلری میں کھڑا انجانی سی سوچ میں مبتلا تھا دل کی کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی وہ سحر کو طلاق تو دے آیا تھا لیکن احمر کے اسی عمل باعث پچھلے دو ہفتوں سے اسکی نیند الجھ کر رہ گئی بے شک ظاہری طور پر وہ عمارہ کی قربت میں خوش تھا وہ اس سے محبت کا دعویدار بھی تھا لیکن سحر کو دی جانے والی طلاق کے بعد اس کے دل کی کیفیت انجانی سی ہو رہی تھی۔
"احمر ریلیکس ! تم کچھ زیادہ ہی سوچ رہے ہو وہ لڑکی ونی ہے اس کا تمہارا کوئی رشتہ نہیں ، کوئی جوڑ نہیں وہ بس ملازموں کی سی حیثیت رکھتی ہے ۔۔۔ لیکن جو بھی تھا مجھے طلاق نہیں دینی چاہیے تھی آخر کو چوہدری احمر کی عزت تھی وہ"۔۔
ضمیر نے لمحوں کے لئے جھنجھوڑا تھا لیکن جلد ہی دماغ غالب آیا۔
"تم نے جو کیا ٹھیک کیا اگر تم اسے طلاق نہ دیتے تو عمارہ کو کھو دیتے آخر کو وہ تمہاری محبت و کل کائنات ہے "
کمفرٹر میں لیٹی عمارہ کے وجود پر ایک نظر ڈالے کہا تھا مگر حقیقتاً
خود کو پر سکون کرنے کے لئے دلاسہ دیا لیکن ناکارہ ۔۔
وہ سرد آہ بھرتا بستر پر آیا تھا اور آنکھیں موندے لیٹنے کی کوشش کرنے لگا لیکن نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور رہی ۔۔
©©©
سحر چوہدری وقاص کے لئے چائے بنانے کچن میں آئی جہاں نورے بیگم پہلے سے ہی موجود تھیں اسے دیکھ ان کا بے تکہ غصہ پھر سے ابھرنے لگا تب ہی وہیں کھڑی کھڑی اپنی زبان کے جوہر دکھانے لگیں۔
"بہت خوش ہو رہی ہو گی نا تم گھر کے ایک بیٹے کے بعد دوسرے بیٹے کے نکاح میں چلی گئی اور بیٹا بھی وہ جو تمہارا عاشق ہے ۔۔
ویسے افسوس ہوا تمہارا وہ عاشق تمہیں اکیلے چھوڑ گیا شہر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تمہاری اوقات وہی ہے جو پہلے تھی ۔
اچھا یہ تو بتاؤ کیسا لگ رہا ایک ہی گھر کے دو مردوں سے نکاح کر کے "..؟؟
نورے بیگم ذہر خند لہجے میں بول رہی تھیں ان کے جملے سحر کے دماغ میں ہتھوڑوں کی مانند بج رہے تھے لیکن وہ خاموش رہی اس وقت ، وہ ان کے سوالات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کر رہی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی اگر وہ بولے گی تو نورے بیگم نے مزید بھڑک جانا ہے اسلئے اس قسم کا کوئی رسک وہ اپنے سر نہیں لانا چاہتی تھی۔
"جانتی ہو ، بے شک تمہارا نکاح" ۔۔
بیچ میں دو پل کے لئے رکی تھیں وہ۔
" میرا مطلب ہے دوسرا نکاح شہیر کے ساتھ ہی ہوا ہے لیکن حیثیت اب بھی تمہاری وہی دو کوڑے کی ہی ہے اگر آسان زبان میں کہوں تو اب بھی تم ونی ہو خون بہا میں آئی ہوئی لڑکی "۔
بہت ہی حقارت بھری نظروں سے سحر کے وجود کو دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔
"آپ مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہیں میں نے کیا بگاڑا آپ کا ، اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو آپ کی ذات کو تو کوئی تکلیف ہی نہیں پہنچی مجھ سے جس بات کا بدلہ آپ مجھ سے لیتی آرہی ہیں "۔
سحر نے نہایت افسوس سے کہا تھا لیکن سنجیدگی نا چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پر چھائی رہی۔
"ارے کرم جلی تیرے منہ میں تو زبان بھی ہے ضرورت سے ذیادہ نہیں چل رہی لگتا ہے کاٹنی پڑے گی ۔" اسکے جبڑوں کو اپنی گرفت میں لئے وہ بھنونے اچکائے بولیں۔
"آنٹی زیادہ نہیں کہوں گی بس اتنا کہنا چاہوں گی اتنا کریں جتنا بعد میں آپ برداشت کر سکیں"
نہایت سنجیدگی سے کہتی آرام سے اپنا چہرا ان کے ہاتھوں سے نکالتے ہوئے وہ چوہدری وقاص کے پاس چل دی۔
"کم ذات کہیں کی مجھے باتیں سنائے گی لگتا ہے کچھ زیادہ ہی پر نکل آئے ہیں اس حسینہ کے کاٹنے پڑیں گے"
سحر کے جانے کے بعد وہ پیچھے سورج کی مانند کھولتی رہ گئیں ۔
©©©
رات کو تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا شہیر کام سے فارغ ہو کر گھر میں داخل ہوا آج اس کے چہرے پر کرختگی کی جگہ مسکراہٹ نمایاں تھیں وہ لڑکا دل سے مسکرا رہا تھا مسکراتا بھی کیوں نا اس کی پری جو اسے مل چکی تھی لیکن اس کی مسکراہٹ سمٹی جب وہی معمول کی طرح سحر کو کیچن میں کام کرتے پایا ۔
"سحر اتنی رات کو آپ یہاں کیا کر رہی ہیں "..؟؟
دونوں ہاتھ سینے پر باندھے وہ استہفامیہ لہجے میں گویا ہوا اسکی آنکھوں میں سنجیدگی تھی سامنے کھڑی اس لڑکی سے وہ سوال کر رہا تھا جو کہ اس کا سوال سن نظریں جھکا گئی تھی ۔
"وہ ۔۔میں "...
سحر واقعی کنفیوژ ہو رہی تھی اسکی نظروں سے یا پھر اسکے چہرے پر موجود سنجیدگی سے اسلئے جملا مکمل کرنا دوبھر ہوا ۔
"فوراً چھوڑ دیں اسے آپ یہ سب نہیں کریں گی "
ایک نیا حکم صادر کیا گیا لارڈ صاحب کی جانب سے۔
"تو پھر کون کرے گا "۔؟
نورے بیگم جو یہ دیکھنے کے لئے آئی تھیں کہ اس نے ختم کیا کہ نہیں وہاں کھڑے شہیر کی بات سن طنزیہ لہجے میں بولیں جبکہ ان کی بات کو سن شہیر نے آنکھیں گھومائیں۔
"گھر میں ملازمین موجود ہیں بہتر ہو گا کہ ان سے کروائیں "
سنجیدہ لہجہ اپنایا گیا۔
"مگر یہ سب کام اس لڑکی کے زمہ ہیں"
اب کے وہ تھوڑے غصے تھوڑے احتجاجاً گویا ہوئیں۔
"اگر اتنا ہی شوق ہے تو یہ کام آپ خود سر انجام دے دیں ہاتھ تو ماشاءاللہ سے سلامت ہی ہیں آپ کے "
دو ٹوک انداز میں کہتے وہ نورے بیگم کا منہ بند کروا گیا ساتھ ہی سحر کا ہاتھ پورے استحقاق سے تھامے اپنے کمرے میں لایا جبکہ پیچھے کھڑی نورے بیگم سچ میں جھلستی رہ گئیں۔
کمرا کافی بڑا تھا اور کافی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا نیلے اور سفید رنگ کے امتیاز کی چیزیں موجود تھیں تقریباً ہر چیز ہی ان دو رنگوں پر مشتمل تھی جو اس بات کی گواہ تھی کی یہ رنگ شہیر چوہدری کے پسندیدہ رنگوں میں سے ایک ہے کمرا کافی بڑا اور کشادہ تھا کمرے کے وسط میں جہازی سائز بیڈ موجود تھا جس کے سائڈ پر دو ٹیبل رکھے گئے تھے بیڈ کے سامنے ہی صوفے جبکہ بائیں جانب ڈریسنگ ٹیبل تھا جس پر پرفیومز کی کافی ساری کلیکشن دکھائی دی ۔کمرے کے دائیں جانب ایک خوبصورت گیلری موجود تھی جس میں مخلتف پودے خوبصورتی کے لئے لگائے گئے تھے بے شک کمرے کی ہر چیز کافی نفاست سے رکھی گئی تھیں سحر نے سامنے موجود دیوار دیکھی وہ خالی تھی جبکہ احمر کے کمرے میں اس کی کافی ساری تصاویریں لگی تھیں۔
"کھانا کھایا آپ نے ؟"
اسے لئے صوفے پر بیٹھا تھا وہ جب کہ وہ تھوڑا جھجک رہی تھی شائد اس کے رویے یا پھر اسکی عنایت پر۔
"جی ۔۔"
نظریں جھکائے ہی جواب دیا ۔۔
"گڈ کیا کھایا؟"
وہ شائد اس کو ریلیکس کرنے کے لئے سوال کر رہا تھا ۔
"پ۔پلاؤ۔"
سابقہ ہی پوزیشن میں بس یک لفظی جواب شہیر کے کانوں سے ٹکرایا۔
"واٹ۔۔؟؟"
وہ حیرت کے عالم میں دبا سے چلایا۔
"آپ نے پلاؤ کھایا سیریسلی جہاں تک مجھے یاد ہے آج کے مینیو میں کوفتے بنائے گئے ہیں اور پلاؤ جو تھا وہ کل رات کے کھانے میں تھا"
ماتھے پر بلوں کا جال سجائے کہا تھا ۔
"سیریسلی سحر ، آپ اپنے لئے لڑنا کب سیکھیں گی یہ مطلب کی دنیا ہے یہاں کوئی کسی کا نہیں ہوتا اپنے لئے خود لڑنا پڑتا ہے ۔اپنے لئے اسٹینڈ لیں اپنے حق کے لئے لڑیں ورنہ لوگ جینا مشکل کر دیتے ہیں آپ تو ایک عورت ذات ہیں جو کہ مضبوط ترین ہوتی ہے خدا کے لئے اپنا مقام پہچانے خود کو سزا نہ دیں جب تک چپ رہیں گی نا تو یہ سب آپ کی خاموشی کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے۔التجا ہے آپ سے پہلے کی طرح ہنستی مسکراتی ہو جائیں۔"
روانی سے کہتے وہ آخر میں تھکے ہوئے لہجے میں گویا ہوا جب کہ اس کی بات سن کر پتہ نہیں کیوں سحر کا دل بھر آیا وہ رو پڑی تھی پھوٹ پھوٹ کر جب کہ سحر کو یوں روتے دیکھ شہیر کو واقعی دکھ ہوا تھا اس کا دل کٹ رہا تھا اپنی چاہت کو یوں روتے دیکھ وہ خاموشی سے اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکا گیا۔
،"میرا وعدہ ہے پری تمہاری آنکھوں کے سب آنسوں پونچھ دوں گا اس کے بعد تمہارے تمام درد خود میں سمیٹوں گا پھر کوئی درد ، کوئی دکھ ، کوئی پریشانی تمہارے قریب نہیں بھٹکے گی۔"
دل میں کہا تھا اس نے ساتھ ہی خاموشی سے لب اسکے بالوں پر رکھے لمس اتنا نرم تھا کہ وہ محسوس نہ کر پائی۔
©©©
اتوار کا دن تھا صبح کے گیارہ بج رہے تھے احمر چوہدری آج پورے ایک مہینے بعد گاؤں تشریف لایا تھا سب سے پہلے اس نے زمینوں کا چکر لگایا اس کے بعد وہ حویلی آیا جہاں ایک خبر اس کے حواس سلب کرنے کے لئے موجود تھی ۔
وہ حویلی میں داخل ہوا ملازمہ کو چائے بنانے کا حکم دیتا اوپر کمرے کی طرف چل دیا لیکن احمر کے اوپر کی جانب بڑتے قدم تھمے تھے جب سحر کو شہیر کے کمرے سے نکلتے دیکھا آنکھوں میں عجیب وحشت
سی اتری اس کو شہیر کے کمرے کی دہلیز پر دیکھ۔
سحر چند لمحوں کے لئے اسکو دیکھ کر اپنی جگہ منجمد ہوئی لیکن پھر نفرت سے اپنا منہ پھیرا تھا اس نے اور سائڈ سے نکل کر جانے لگی مگر احمر نے بیچ میں ہی حائل ہو کر سحر کا راستہ روکا ۔
"کیا بات ہے تم تو بدکرداری کے سارے راستے پار کرتی جا رہی ہو ۔ کہاں سے لیتی ہو اتنی ٹریننگ کہیں گاؤں میں پارٹ ٹائم یہی کام تو نہیں کرتی تھیں "
اندر کا زہر وہ لفظوں کی صورت میں سامنے کھڑی لڑکی پر انڈیل رہا تھا وہ جو خاموش تھی احمر کی یہ بات سن نفرت بھری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔
"ہاہاہا ! نفرت ہو رہی ہے مجھ سے .؟؟؟"
وہ قہقہہ لگا گیا
"ویسے بہت زیادہ ہی گری ہوئی ہو تم لڑکیاں بھری جوانی میں طلاق لینے پر روتی گرتی پڑتی ہیں کچھ تو غیرت سے مر ہی جاتی ہیں لیکن تم ہو کہ عیاشیاں کرتی پھر رہی ہو۔"
"احمر میرا نکاح آپ سے کوئی محبت میں نہیں ہوا جو مجھے طلاق کا افسوس ہو ، میں خوش ہوں آپ کی دی گئی طلاق پر دراصل وہ طلاق نامہ نہیں ایک طرح سے میرا آزادی نامہ تھا یا پھر یہ کہہ لیں پاگل خانے سے نکلنے کا ایگریمنٹ"۔
وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ لبوں پر سجائے بولی کچھ لمحوں کے لئے اس کے اندر پرانی سحر کی جھلک نمایاں ہوئی وہ اپنے لفظوں سے احمر چوہدری کو بہت کچھ باور کروا گئی تھی۔ احمر چوہدری شاک میں تھا اس کی بات سن لیکن اس ٹرانس سے نکلتے وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا
"بدزبان ! "
کہتے اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھایا م لیکن اس کا وہ بڑتا ہاتھ شہیر بیچ میں ہی تھام گیا ۔۔
"مسٹر چوہدری احمر اب یہ تمہاری بیوی نہیں رہی جس پر جب دل چاہے تم ہاتھ اٹھا لو اور کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا اپنی اِس غلط فہمی کو دور کر لو کیونکہ سحر اب شہیر چوہدری کی بیوی ہے اور یہ میں بالکل برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی اس پر ہاتھ اٹھائے اسلئے بہتر ہو گا تمہارے لئے کہ اپنے ان ہاتھوں کو قابو میں رکھو ورنہ کاٹ کر کتوں کے آگے ڈال دوں گا".
درشتگی سے کہتا وہ احمر کا ہاتھ برے طریقے سے جھٹک گیا تھا وہ جو ایک جھٹکے سے نہیں سنبھلا تھا اب سحر اور شہیر کی شادی کا سن دوسرا جھٹکا لگا تھا اسے ۔ وہ بے یقینی کے عالم میں آس پاس موجود سب گھر والوں کو دیکھ رہا تھا اور آخری نظر سحر پر جسے شہیر نے بازوں کے حلقے میں لیا ہوا تھا اس کی یہ حرکت تمام گھر والوں کو یہ باور کروا گئی تھی کہ وہ اسکی پناہوں میں محفوط ہے ۔
"تمام حویلی والے یہ بات کان کھول کر سن لیں سحر اب سے شہیر کی بیوی ہے اس لئے آپ سب نے انہیں وہی مقام دینا ہے جو کہ ایک چوہدری کی بیوی کو دیا جاتا ہے ۔"
حویلی میں موجود سب افراد کے سامنے اس نے سحر کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے یہ بوسہ عقیدت بھرا لمس تھا وہ اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی آنسوں اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے گزرے سال میں آج اسے پہلی بار عزت دی گئی تھی۔شہیر اس کو ساتھ لئے واپس کمرے میں چل دیا۔جب کہ سکینہ بیگم ، میمونہ بیگم کے چہرے پر مسکان در آئی لیکن نورے بیگم غصے سے کھولتی رہ گئیں وہ جل رہی تھیں اور آخر میں اس ہی آگ میں جل کر راکھ ہو جانا تھا ان نے جب کہ احمر کا حال بھی مختلف نہیں تھا وہ بھی غصے سے سیڑھیاں عبور کرتا اپنے کمرے میں آیا پورا کمرا اس نے تہس نہس کر دیا تھا وہ چیخ رہا تھا پاگلوں کی مانند ۔
اسے غصہ کس بات پر آ رہا تھا ؟
شہیر کا سحر کے کو عزت دینے پر ؟
شہیر اور سحر کے نکاح پر ؟
یا وجہ کچھ اور تھی ؟
باتوں کو تیری ہم بھلا نہ سکے
ہو کے جدا ہم نا جدا ہو سکے
صبح صادق کے وقت حویلی پر سورج کی کرنیں پڑ رہی تھیں جو کہ اس چمکتی ہوئی حویلی کو مزید چمکانے کا باعث بنیں۔ آج وہاں پرندے خوشی سے چہچاہتے ہوئے خدا کی حمد و ثناء کے گیت گا رہے تھے کیونکہ حویلی میں موجود اس پری کی آزمائش ختم ہونے کے قریب تھی۔
حویلی کے سارے فرد اس وقت ڈائٹنگ ٹیبل پر موجود ناشتہ تناول فرما رہے تھے کہ ان کی نظریں شہیر پر مرکوز ہوئیں جو کہ سحر کا ہاتھ بہت محبت و اپنائیت سے تھامے چلتا ہوا ٹیبل تک آیا اور اپنے پاس ہی رکھی کرسی پر اسے بیٹھایا تھا ۔یہ منظر دیکھ احمر کی آنکھوں میں مرچیں سی چبھیں تھیں جب کہ نورے بیگم کا نوالہ حلق میں اٹکا البتہ باقی نفوس نارمل تھے جیسے بہت ہی عام سی بات ہو۔
"شہیر تم اس کم ذات لڑکی کو ہمارے بیچ میں بیٹھا کر کھانا کھلاؤ گے؟"
نورے بیگم بپھر کے کھڑی ہوئی تھیں ان سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا جس لڑکی کو اب تک وہ نوکرانی کی سی حیثیت دیتی آئی تھیں وہ ان ہی کی میز پر ان ہی کے ساتھ بیٹھ کر شان سے کھانا کھائے ۔
"کیوں آپ کو کوئی تکلیف ہے "..؟؟
مسکراتے ہوئے وہ دو ٹوک لہجے میں بولا جبکہ توہین کے احساس سے نورے بیگم کا چہرا سرخ اناری ہو گیا ۔
"شہیر۔۔۔"
چوہدری وقار نے گلا کھنکھارتے ہوئے اسے نارمل رہنے کا کہا جب کہ ایک نظر انہیں دیکھنے کے بعد شہیر کی نظریں سکینہ بیگم اور میمونہ بیگم ٹکرائیں جو کہ اپنی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھیں۔
"سحر کیا کھائیں گی آپ"۔۔؟؟
اپنا لہجہ نارمل کیے وہ واپس سحر کی جانب متوجہ ہوا تھا جو کہ سب کے بیچ میں اس طرح سے بیٹھنے پر کنفیوژن کا شکار ہوتے ہوئے اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی شہیر نے اپنا ہاتھ بہت مان سے اسکے نرم ہاتھوں پر رکھے اسے نارمل رہنے کا اشارہ دیا یہ بات سب نے نوٹ کی تھی کہ شہیر کے اس عمل سے سحر تھوڑا ہی صحیح مگر نارمل ہوئی تھی۔
اس نے پراٹھا اور آملیٹ اسے نکال کر دیا تھا اور ساتھ ہی تمام حویلی والوں کو سحر کی اپنی زندگی میں موجود اہمیت کا احساس دلانے کے لئے خود سے نوالے بنائے کھلایا۔جب کہ وہ تھوڑا سا جھجھکی تھی لیکن شہیر کی اپنایت کے آگے اسے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔
نورے بیگم تو جل بھن کر واپس کمرے میں چل دیں جب کہ چوہدری احمر آدھا ادھورا ناشتہ چھوڑ حویلی سے ہی چل دیا جب کہ اس کس یوں جاتے دیکھ ایک تمسخر مسکراہٹ شہیر کے لبوں پر در آئی ۔
بھول گئی مجبوری نوں
دنیا دی ستوری نوں
ساتھ تیرا ہے بتھیرا
پورا کر ضروری نوں
©©©©
وہ دونوں اس وقت سوسائٹی پارک میں موجود تھے جہاں بارش کے موسم کی وجہ سے بہت ہی کم لوگ آئے ہوئے تھے پشمینہ کے موڈ کو فریش کرنے کے لئے وہ اسے زبردستی اپنے ساتھ باہر لایا تاکہ باہر کی تازہ ہوا کو وہ محسوس کرے اور اسکی طبیعت کچھ بہتر ہو۔
پچھلے پندرہ منٹ سے وہ بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے دونوں ہی خاموش نظروں سے آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے میں محو تھے لیکن پھر اس ماحول کی گہری خاموشی میں پشمینہ کی سرسراتی آواز گونجی ۔
"فاتح ایک سوال پوچھوں گی شائد یہ آخری بار ہو کیونکہ شائد یہ زندگی دوبارا موقع نہ دے۔"
وہ ٹھنڈے ٹھار لہجے میں بول رہی تھی لیکن نظریں اسکی اوپر آسمان کی جانب مرکوز تھیں یہ اس کی بچپن کی عادتوں میں سے ایک تھی وہ لڑکی جب بھی کوئی ایسا سوال کرنے لگتی جس کے جواب کا اس کو ڈر ہو تو نظریں وہ اوپر کی جانب جما لیا کرتی تھی۔
"کیا آپ مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں "..؟؟
پشمینہ کے سوال کو سن اس نے ایک سرد آہ بھری تھی یقیناً وہ لڑکی واقعی ڈھیٹ تھی یا اپنی بات کی پکی۔
"تمہیں کوئی شک ہے مسسز "..؟؟
اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ آئیبرو اچکائے بولا۔
وہ اقرار تو کرتا تھا لیکن وہ جب یہ سوال پوچھتی تو وہ بات بدل دیا کرتا اگر دیکھا جائے تو دونوں باتوں کے معنی ایک ہی تھے لیکن شائد وہ اسکے سوال کے طور پر اسکا جواب نہیں دینا چاہتا۔
"شک نہیں فاتح مجھے یقین ہے !"
وہی سابقہ لہجہ اپناتے ہوئے جواب دیا گیا۔
"مینہ شادی کے بعد محبت ہو ہی جاتی ہے اسلئے ایسا سوال مت کرو "۔
اب کے وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا لیکن پشمینہ کی اگلی بات نے اسکی مسکراہٹ لمحوں میں غائب کی .
"تو پھر آپ کو مجھ سے محبت کیوں نہیں ہوئی "..؟؟
اس نے دکھ سے اسکی آنکھوں میں دیکھا لہجہ اسکا کرب و رنج میں ڈوبا ہوا تھا جس نے فاتح کے دل کو چھلنی کر دیا۔
" کس نے کہا میں محبت نہیں کرتا آئی لو یو یار "
وہ تڑپ ہی تو گیا تھا جب کہ فاتح کا ردِعمل دیکھ وہ تلخ سی ہنسی ہنس دی۔
"اچھا چلیں مان لیا آپ کو مجھ سے محبت ہو گئی .
مگر کیسے ؛ مطلب اتنے کم وقت میں اپنی پہلی محبت کو بھلا دینا آسان تو نہیں یا پھر میں یہ سمجھوں کہ آپ کی پہلی محبت میں طاقت ہی نہیں تھی "۔
لہجے میں طنز ہی طنز بھرا تھا لیکن بات سو فیصد درست تھی فاتح واقعی خاموش ہو گیا تھا مینہ کی بات سن کر ۔
"کیا ہوا خاموش کیوں ہو گئے اب بولیں نا نہیں ہے نا جواب دیکھیں آپ کہنے اور ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے جیسے زمین و آسمان میں
مسٹر فاتح شرجیل میں نے آپ کی آنکھوں میں آج بھی اپنی بہن کے لئے وہی محبت دیکھی ہے جو پہلے دن تھی مگر بس فرق اب اتنا ہے کہ آپ ظاہر نہیں ہونے دیتے "۔
وہ نظروں کا زاویہ مخالف سمت دوڑاتے ہوئے بولی۔
"مینہ اگر تمہیں لگتا ہے کہ مشل سے اب بھی مجھے محبت ہے تو سو نہیں اسی فیصد تم درست ہو لیکن یہ بات یاد رکھنا اس محبت سے کئی زیادہ بڑھ کر مجھے تم سے لگاؤ اور چاہت ہے کیونکہ تم بیوی ہو میری ۔
اور سب سے بڑھ کر چہرے تو تم دونوں کے ایک ہی ہیں"۔
گھمبیر زرہ لہجے کے ساتھ آخر میں وہ آنکھ ونک کئیے شرارتاً گویا ہوا لیکن پشمینہ کے چہرے پر سپاٹ تاثرات ہنوز قائم رہے۔
" فاتح بات چہروں کی نہیں روح کی ہوتی ہے ، جذبات اور دل کی ہوتی
محبت میں تو روح سے دل تک کا رشتہ ہوتا ہے یہ چہروں و جسموں سے نہیں کی جاتی ۔
"ہمارے علاقے میں ایک مشہور کہاوت ہے کہ جب دل آیا گدھی پر تو حور کیا چیز ہے ۔
دراصل یہ کہاوت محبت کے نام پر ان لوگوں کے لئے ہے جنہیں اندھی محبت ہو جاتی یے اور اس کہاوت کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ محبت خوبصوررتی جاؤ جلال نہیں دیکھتی کیونکہ محبت کسی سے کسی بھی وقت ہو سکتی ہے جو جذبوں اور دل عکاسی کرتی ہے۔ اسلئے آپ میرے اور مشل کے چہرے ایک ہونے کی بات تو رہنے دیں کیونکہ یہ ایک طرح سے فضول جواز پیش کیا ہے آپ نے ۔ "
"کیا بکواس ہے مینہ میں تمہیں پیار سے سمجھا رہا ہوں لیکن تم سمجھ ہی نہیں رہی تمہارا اپنا کردار ہے مشل کا اپنا ہاں مانا میں نے مشل سے محبت کی ہے لیکن تمہیں بھی تو اپنے دل میں بسایا ہے تو کیوں نہیں سمجھ رہی تم میرے دل میرے جذباتوں کو ؟"
وہ گھمبیر لہجے میں بول رہا تھا لیکن اسکا لہجہ سرد و بے بس تھا۔
" مجھے مینہ نہ بلایا کریں۔۔" اس کی بات کو وہ سرے سے نظر انداز کر گئی تھی یا پھر نظریں چراتے ہوئے نظر انداز کرنے کی کوشش۔
پشمینہ کی بات سن نا سمجھی کے عالم میں کندھے اچکائے جیسے جاننا چاہ رہا ہو کیوں ؟؟؟
"اس نام سے مجھے صرف وہی بلاتے ہیں جو میرے دل کے قریب ہوں ۔"
بے تاثر لہجہ جس میں نا سنجیدگی تھی نا ہی کوئی دوسرا تاثر۔۔
"تو کیا میں تمہارے دل کے قریب نہیں ہوں"..؟
اب کے نرمی سے پوچھا تھا اس نے اور بہت ہی شدت سے اسکے جواب کا منتظر کہ وہ اس کے بارے میں کیا سوچتی ہے لیکن جیسے ہی اس کا جواب فاتح کے کانوں سے ٹکرایا اسکا اپنا دل ٹکڑوں میں بٹتا محسوس ہوا دل ٹوٹنا کسے کہتے ہیں یہ بات آج واضح ہوئی تھی فاتح شرجیل پر۔
"نہیں ۔۔ " یک لفظی جواب دئیے وہ اپنا حجاب ٹھیک کرتی باہر کھڑی گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی جب کہ فاتح بھی اپنے شکستہ قدم لئے باہر کی جانب چل دیا۔وہ جب بھی کچھ ٹھیک کرنا چاہتا تھا ہمیشہ الٹ ہو جایا کرتا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ زندگی کون سے کھیل کھیل رہی ہے اس کے ساتھ۔
"بس کر اے زندگی مجھ میں اب اتنی سکت نہیں کہ تیرے کھیل کو جان سکوں"
©©©
"سحر میں کام سے باہر جا رہا ہوں اگر آپ کو کوئی کام ہو تو ملازمہ سے کہہ دینا خود باہر مت جانا ورنہ دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں۔۔" اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے تاکید کی تھی اور اپنا والٹ اور گاڑی کی چابیاں اٹھائے باہر کی سمت چل دیا لیکن جانے سے پہلے اس کے ماتھے پر بوسہ دینا نہیں بھولا جب کہ وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی شہیر کی اس حرکت پر وہ اس کو جاتا دیکھتی رہی تھی۔
اسے گئے ابھی مشکل سے پندرہ منٹ ہوئے ہونگے کہ احمر تن فن کرتا کمرے میں داخل ہوا جسے دیکھ سحر اپنی جگہ سے گھبراتے ہوئے کھڑی ہوئی تھی لیکن پھر شہیر کا دیا گیا حوصلہ اور ہمت یاد آئی تو خود کو پر سکون کیا۔
"ایسا کون سا جادو کر دیا ہے شہیر پر کہ وہ تو تمہارا دیوانہ ہوا پھر رہا ہے ؟؟"
لہجے میں کرواہٹ جب کہ آنکھوں میں حسد صاف ظاہر تھا۔
"وہی جو آپ پر نا کر سکی "۔
مسکراتے ہوئے وہ بھی دوبدو بولی تھی لیکن اسکے لہجے میں صاف طنز ظاہر تھا جو کہ احمر چوہدری کی ذات کو سلگا گیا۔
"ذلیل لڑکی ۔۔۔" تیش و غصے کے عالم میں کہتے وہ اپنی عادت کے مطابق اس پر ہاتھ اٹھانے کو تھا لیکن اس کا وہ ہاتھ ایک بار پھر سے روک لیا گیا آج روکنے والا شہیر یا کوئی اور نہیں تھا بلکہ سحر خود تھی۔
"احمر لگتا ہے آپ شہیر کے کہے گئے الفاظ بھول گئے ہیں جو مجھ پر دوبارا ہاتھ اٹھانے کی زحمت کرنے لگے ہیں ۔ اگر بھول ہی گئے ہیں تو کوئی بات نہیں میں یاد کروا دیتی ہوں ، میں اب آپ کی ملکیت نہیں رہی جس پر جب دل چاہا ، جیسے دل چاہا جبر کریں اور میں اف تک نہیں کروں گی۔ اگر آپ ایسا کچھ سوچ رہے ہیں تو یہ آپ کی بہت بڑی خام خیالی ہے۔ یقین جانے اگر یہ ہاتھ میری جانب اٹھا تو توڑ کر رکھ دوں گی کیونکہ نا محرم کا لمس سخت ناگوار گزرتا ہے"
ایک ہی سانس میں وہ کتنا کچھ احمر کو بول گئی تھی کہ اسے خود بھی معلوم نہ تھا شائد غصے کا اثر تھا یا پھر اس دل میں موجود احمر کی نفرت کا کہ وہ بالکل لحاظ نہ کر سکی جب کہ احمر چوہدری خاموش سا سامنے کھڑی لڑکی کی ہمت دیکھ رہا تھا جو آج تک اس کے سامنے خاموش رہتے ہوئے اس کے حکم کی تابعداری کیا کرتی تھی آج اسکے ہاتھوں کو جھٹک اس کو دوبدو جواب دے رہی تھی۔
وہ تلملا ہی گیا تھا سحر کی باتیں سن اس کو تو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ سحر نے اس سے بدتمیزی کی ہے۔ وہ جواب دینا چاہتا تھا اسے کیونکہ خاموش رہ جاتا ایک لڑکی کی بات سن تو احمر کی نظروں میں یہ اس کی توہین تھی جب کچھ نا سوجھی تو جو سمجھ آیا کہہ گیا۔
"اگر تمہیں لگتا ہے کہ ہم ارتضیٰ کے قتل کو بھول گئے ہیں تو یہ تمہاری سب سے بڑی بھول ہے اس کا خمیازہ تو تم بھگتو گی چاہے میرے نکاح میں رہو یا نہیں
جسٹ ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔"
وہ اسکی آنکھوں میں اپنی خون آشام آنکھیں گاڑھے سرد ترین لہجے میں گویا ہوا اس کا لہجہ ایسا تھا جیسے جلا کر سب راکھ کر دے گا ۔
وہ سحر کو وارن کرنے کے بعد کمرے سے چل دیا جب کہ وہ نا چاہتے ہوئے شہیر اور احمر کی ذات کا موازنہ کرنے لگی۔بے شک وہ ایک خون تھے ،ایک چھت تلے رہتے تھے لیکن دونوں کی تربیت میں بہت فرق تھا ایک آگ تھا تو دوسرا پانی ۔
کتنے درد لے آئے ہیں ہم تو تیری چوکھٹ سے
اپنے غم چھپا لیں گے ہم جھوٹی مسکراہٹ سے
وہ دونوں اس وقت ہسپتال کے کوریڈور میں موجود حیرانی کے عالم میں کھڑے ان ریپورٹس کو دیکھ رہے تھے جو کچھ دیر پہلے ڈاکٹر نے انہیں اپنے کیبن میں بلائے تھمائی تھیں۔ دراصل پچھلے کچھ دنوں سے پشمینہ کی طبعیت ناساز سی تھی جس کے باعث فاتح زبردستی اسے اپنے ساتھ ہسپتال لایا جہاں ڈاکٹر نے اس کے امید سے ہونے کی خبر سنائی تھی پشمینہ کو تو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ماں جیسے عہدے پر فائز ہونے والی ہے وہ خالی خالی نظروں سے فاتح کی جانب دیکھ رہی تھی جب کہ وہ مسکراتا ہوا ریپورٹس کو ہی دیکھ رہا تھا وہ باپ بننے کی خوشی میں اتنا پاگل ہو گیا تھا کہ وہیں پشمینہ کو اپنی گود میں اٹھائے گول گول گھومنے لگا آس پاس کے لوگ سب ان کو دیکھ ہنس رہے تھے جب کہ پشمینہ کی آنکھیں تو حیرت سے پھیل گئی تھیں فاتح کے اس ریکشن پر ۔
"فاتح اتاریں مجھے م۔۔میں گر جاؤں گی"۔
پشمینہ نے گرنے کے ڈر سے اس کے کاندھے پر ہاتھ ٹکائے ہوئے کہا جب کہ آنکھیں میچی ہوئی تھیں۔
"اور تمہیں ایسا لگتا ہے کہ میں تمہیں گرنے دوں گا "۔۔؟؟
اب کے وہ اسے اپنے روبرو کھڑے کر گیا تھا پشمینہ نے اپنا سر گھومنے کے باعث تھامتے ہوئے اسے مصنوعی گھوری سے نوازا تھا۔جواب میں وہ صرف مسکرا دیا۔
تو ہے جو روبرو میرے بڑا محفوظ رہتا ہوں
تیرے ملنے کا شکرانہ خدا سے روز کرتا ہوں
©©©
فاتح نے اپنی خوشی کو بانٹتے ہوئے پورے آفس کے اسٹاف میں میٹھائی تقسیم کروائی تھی اور سب سے ڈھیروں مبارکباد کو بھی وصول کیا۔
"کیا بات ہے بڈی کس خوشی میں یہ میٹھائیاں بانٹیں جا رہی ہیں"۔ ؟
شہیر آفس کا دروازا دکھیل اپنی بھرپور وجاہت کے ساتھ داخل ہوا تھا بلیک پینٹ پر سکین کلر کی شرٹ پہنے آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیے بالوں کو جیل کی مدد سے نفاست سے بنائے وہ کسی کا بھی دل دھڑکا سکتا تھا اس کی شخصیت میں ایک وجاہت سی تھی بے شک وہ دونوں دوست کسی ہیرو سے کم نہیں تھے ۔
"یار جانی کیا بتاؤں بس بات ہی کچھ ایسی ہے "
وہ ایک آنکھ ونک کیے شرارتاً بولا ۔
"اچھا پھر ہمیں بھی بتائیں ایسی کیا بات ہے"۔؟
شہیر نے اسکے کندھے پر اپنا بائیاں ہاتھ ٹکائے سوچنے کے سے انداز میں کہا ۔
"میں یعنی کہ فاتح شرجیل پاپا بننے والا ہوں "۔
وہ مسکراتے ہوئے روانی سے بولا تھا جب کہ اس کی بات سن پہلے تو شہیر نے اسے غور سے دیکھا پھر قہقہہ لگاتے ہوئے اسے کمر پر دھموکا رسید کرتے ہوئے بغلگیر ہوا۔
"بہت بہت مبارک ہو جانی اپنے مسٹر کھڑوس بھی باپ بننے والے ہیں "
"یار مگر ایک مسئلہ ہے مجھے لگتا ہے تیری بھابھی اس سب سے شائد خوش نہیں کیونکہ جب سے یہ نیوز پتہ چلی ہے پہلے تو خوش ہوئی تھی مگر اسکے بعد وہ خاموش خاموش سی ہے پتہ نہیں کیا مسئلہ ہے اس کے ساتھ ایک تو ہر وقت خاموش خاموش رہتی ہے نا جانے کیا سوچتی رہتی ہے مجھے تو سمجھ نہیں آتی"۔
"افف میرے سائیکو دوست ایسا کچھ نہیں ہوتا اس حالت میں انسان چیڑچیڑا ہو ہی جاتا باقی تو یہ بتا کہیں تو نے بھابھی کے ساتھ جھگڑا تو نہیں کیا نا ۔"
اس کو سمجھاتے سمجھاتے یکدم آنکھیں ترچھی کیے مصنوعی غصے سے پوچھا۔
"نہیں یار ! جھگڑا تو کوئی نہیں ہے البتہ وہ ایک بات کو اپنے سر پر سوار کر چکی ہے اسے لگتا ہے میں اس کی بہن سے پیار کرتا تھا جب کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے۔"
وہ جھنجھلا اٹھا تھا ۔
"کہیں سچ میں تو اس کی بہن کے ساتھ ۔۔۔۔؟؟؟"
شہیر کہتے درمیان میں اپنی بات اُدھوری چھوڑ گیا جس پر یکدم ہی فاتح سٹپٹایا تھا ۔
"نہیں ایسا کچھ نہیں ہے جو بھی تھا وہ ماضی میں تھا ہاں میں پسند کرتا تھا اس کی بہن کو لیکن اتفاق سے میری شادی اس کے بجائے پشمینہ سے ہو گئی مگر اب میں قبول کر چکا ہوں اسے لیکن شائد وہ نہیں کر پا رہی۔"
وہ افسردگی سے منہ بسورے بولا۔
"دیکھو فاتح ہم زندگی میں کتنی ہی چیزوں کی خواہش کر لیتے ہیں لیکن ضروری نہیں ہے کہ وہ ساری ہی چیزیں ہماری تقدیر میں لکھی گئی ہوں۔ہم انسان ہیں ہمارے بس میں صرف خواہش کرنا ہے چاہنا ہے لیکن عطا کرنا اس پاک زات کے بس میں ہے وہ بہتر جانتا ہے کہ ہم کس چیز کے خواہ ہیں کیا چیز ہمارے لئے بہتر ہے ۔جس طرح دنیاوی والدین اپنی اولاد کو بچوں کی ضروریات اور حیثیت کے مطابق چیزیں دلاتے ہیں اسی طرح ہمارا خدا ہمیں ہماری حیثیت کے مطابق عطا کرتا ہے۔
ہو سکتا ہے مشل کا ساتھ تیرے لئے کارآمد ثابت نہ ہوتا اسلئے اللہ نے بھابھی کو تیری زندگی میں بھیجا ہے۔
اسلئے یار اب تو بھابھی کو پیار سے سمجھا دیکھنا وہ سمجھ جائیں گی ان کو اپنے پیار میں اتنا ڈھال دے کہ ان سب باتوں کی جانب ان کا دھیان نہ جائے وہ صرف تجھ میں کھو جائیں ۔"
شہیر نے بہت ہی گہرائی سے فاتح کو ہر ایک بات سمجھائی تھی جسے سنتے وہ سر اثبات میں ہلا گیا۔
©©©
کچھ مہینوں بعد۔۔
دن تیز رفتاری سے گزر رہے تھے پشمینہ کی پریگنینسی کو پورے چھ مہینے بیت گئے ان گزرے ماہ میں فاتح نے اس کا ہر طرح سے خیال رکھا تھا وہ جتنا ہوتا اس کو اپنے پن کا احساس دلاتا لیکن شاید پشمینہ نے قسم کھائی تھی کہ فاتح سے بدلہ لے کر رہنا ہے۔
وہ ابھی بھی آفس سے آیا تھا اور پورے گھر میں اسے ڈھونڈتا پھر رہا تھا اور وہ محترمہ اسے سوئمنگ پل کے پاس رکھے گئے جھولے پر بیٹھی نظر آئی۔
"کیا حال ہے میڈم ؟"
اس کے شانوں کو تھپک وہ محبت سے بولا کہ وہ رخ پھیر گئی۔
"میں نے آپ سے کہا ہے نا کہ مجھ سے بات نہ کریں آپ کو سمجھ نہیں آتی ۔"
اپنا رخ سامنے لگے پودوں کی جانب کیے دبے دبے غصے کے تحت بولی تھی وہ۔
"پشمینہ بالغ بنو یہ بچوں والی سوچ و ضد چھوڑ دو ۔
میں ایک پریکٹیکل انسان ہوں مانتا ہوں کہ غلطی ہو گئی ہے میں نے کی ہے مشل سے محبت لیکن اس محبت کو میں نے روگ تو نہیں بنا لیا نا بلکہ اصل روگ تو تم ہی نے بنایا ہوا ہے اسے۔
وہ میرا ماضی ہے اور تم آج ہو خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو منفی سوچنا ۔سب بھول جاؤ صرف مجھے سوچو ہمارے اس بچے کو سوچو۔"
"فاتح خاموش ہو جائیں مجھے آپ کی ان فصول باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں اور جہاں رہی بات سابقہ محبت کی اگر یہی انکشاف شادی کی پہلی ہی رات میں آپ پر کرتی تو کیا بیتی آپ پر ، آپ تو شائد طلاق کا تحفہ پکڑا کر رخصت کر دیتے مجھے۔
فاتح اگر میری جگہ پر آکر سوچیں نہ تو آپ بھی قبول نہیں کر پائیں گے اس چیز کو ، جانتے ہیں جب یہ سوچتی ہوں کہ آپ مشل سے پیار کرتے ہیں تو دل میں درد سا ہوتا ہے۔"
وہ بولتے بولتے رو پڑی تھی ۔
"پشمینہ ایک تو تم ڈبل مائنڈ ہو اور مجھے بھی کر دیا ہے اب تو میں خود کنفیوژ ہو گیا ہوں۔"
وہ اپنا سر تھام گیا تھا جب کہ وہ افسوس بھری نگاہیں اسکے وجود پر ڈالے وہاں سے چل دی۔
®®®®
وہ اس وقت شہر کے مشہور ہسپتال کے بستر پر لیٹی درد سے کراہ رہی تھی آنسوں دونوں وجود کی آنکھوں سے تواتر بہہ رہے تھے۔
"مینہ۔۔م۔۔میری غ۔۔غلطی تھی مجھے ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا پلیز ٹھیک ہو جاؤ مجھے چھوڑ کر مت جاؤ۔"
"م۔۔میں مرنا نہی۔۔۔م۔۔مرنا نہیں چ۔۔چاہتی۔۔
ل۔۔لیکن "....
"م۔۔مجھے مرنا ہ۔۔ہوگا"..."
وہ لڑکی ہسپتال کے بستر پر لیٹی خود پر ضبط کی گرھیں لگائے بمشکل بول رہی تھی۔آس پاس موجود اس کی فیملی کی آنکھیں اشکوں سے رواں تھیں ۔ جبکہ اس کے پہلو میں موجود اس لڑکی کا شوہر بھیگی آنکھوں سے اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے اسے یوں تڑپتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔.
"ن۔۔نہیں تمہیں ک۔۔کچھ نہیں ہو گا۔۔
تمہیں جینا ہے میرے لئے , پلیز ایسی باتیں مت کرو"....
اپنے شوہر کی بات سن وہ تلخ سا ہنس دی تھی ....
جو اسے دلاسے دے رہا تھا یا شائد خود کو امیدیں دلا رہا تھا....
اس کا بس چلتا تو وہ کچھ کر گزرتا ، جس کے باعث وہ لڑکی ٹھیک ہو پاتی ، لیکن افسوس !
یہ صرف ایک خواب ہی رہ گیا تھا '...
کیونکہ یہ سب اس کے بس میں نہ تھا...
روٹھ جائیں گے یہ خوش رنگ مناظر سارے
دل اگر اب کے محبت سے گریزاں ہو گا
خوں رلائیں گے مجھے پھر مرے آدابِ وفا
کچھ لکھوں گی تو یہ اشعار کا عنواں ہوگا
"سنیں "...
بہت ہی امید سے پکارا تھا اس لڑکی نے اپنے شوہر کو ...
"م۔۔میری ا۔۔ایک آخ۔۔آخری خواہش پوری کر دیں"...
کتنا مان ، کتنی امید بھری تھی اس کی ان بھیگی شربتی آنکھوں میں ، جو کے تکلیف میں ہونے کے باعث لال سرخ ہو رہی تھیں....
"ج۔۔جی "
اسکا شوہر اپنی بیوی کی پر امید آنکھوں میں دیکھتا بولا تھا...
وہ مسکرا رہا تھا لیکن اسکی یہ مسکان زیادہ لمحے اسکے چہرے کی زینت بننے کا شرف حاصل نہ کر سکی تھی...
کیونکہ جو الفاظ۔ ، جو جملے اسکی بیوی نے اس سے کہے تھے وہ اسکے قدم ڈگمگانے کا باعث بنے ...
کچھ ایسا ہی حال وہاں موجود اسکی فیملی کا تھا ..
لیکن اس لڑکی کو کسی سے کوئی سروکار نہ تھا ..
اسے مطلب تھا تو صر اپنے فیصلے سے...
کیونکہ وہ جانتی تھی دل پر پتھر رکھے ، بہت مشکل اس نے یہ فیصلہ کیا ہے جو کہ ابھی نہیں ،لیکن آگے جا کر سب کی زندگیوں کے لئے بہت کار آمد صاحب ہوگا..
کچھ ہی لمحوں کے بعد منظر بدل چکا تھا..
وہ آنکھیں جن میں امید تھی ، محبت تھی ، پیار تھا ساکت ہو چکی تھیں. اپنی آخری خواہش کے پورا ہوتے ہی وہ لڑکی اس ظالم دنیا سے کوچ کر گئی تھی .
دم توڑتے ہوئے اس کے چہرے پر تکلیف کے ساتھ ساتھ خوشی بھی تھی...
محبتوں کی خوشی ۔۔۔
اس کا شوہر رو تڑپ رہا تھا اس کے بے جان وجود کو دیکھے اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ معصوم پری کتنی جلدی اس دنیا سے رخصت ہو گئی...
جس کا ساتھ اسے ابھی ہی نصیب ہوا تھا قسمت نے جدا کر دیا تھا انہیں....
ہے کوئی ایسا بھی دل جس کو کوئی غم ہی نہیں
غمِ جاناں نہ ہوا تو غمِ دوراں ہو گا
خود سے میں ملنا تو چاہوں گی مگر اے عذراؔ
خود سے مل کر بھی بچھڑنا کہاں آساں ہوگا
©©©
"یا خدایا ! جب مجھ سے سب چھیننا ہی ہوتا ہے تو دیا ہی نہ کر ...
کیوں سب کو میرے دل کے قریب کر چھین لیتا ہے ..
بچپن میں ، میرے والدین کی شفقت کو مجھ سے چھین لیا گیا ..
"میں برداشت کر گیا ....
میری محبت ، کو تو نے میرا نہ ہونے دیا تب بھی صبر کر لیا ..
لیکن ، لیکن جب دل نے دھڑکنا شروع کیا اس دلربا کے لئے ، تو نے اسکو بھی مجھ سے جدا کر ، الگ ہی ستم ڈھا دیا "...
"فاتح شرجیل "..!
ایک مضبوط توانا شخص ٹوٹ کے بھکر رہا تھا ..
ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس مٹی تلے اس صنف جو اسکی بیوی تھی .
دفنایا تھا اسے ، ..
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ فاتح کا دل بھی پیسچ رہا تھا , وہ لڑکی جس کی معصومیت ، اس کی سادگی گھر کر گئی تھی اس کے دل میں ..
آج یوں جدا ہو گی ، ایسا کبھی خوابوں میں بھی نا سوچا تھا اس نے..
ابھی تو اپنے آشیانے کو سجانے کے ، سپنے سجائے تھے اس نے ،
مگر وہ سب ہی سپنے کسی نازک کانچ کی مانند چکنا چور ہو گئے..
دوپہر سے رات ہونے کو آئی تھی مگر وہ وہاں سے ایک انچ بھر بھی نہ ہلا تھا ، وہاں موجود آتے جاتے لوگوں کو وہ کوئی دیوانا ہی معلوم ہو رہا تھا.
مشہور بزنس ٹائکون ، جس کے نام سے دنیا واقف تھی ..
کم ہی وقت میں جس نے اپنا نام بنوایا تھا ، وہ یوں اپنی بیوی کے قبر کے پاس بیٹھا رو رہا تھا "...
اس کا ذہن ہر چیز کو بالکل فراموش کر چکا تھا..
یہاں تک کہ اس کو یہ بھی نہ یاد تھا کہ اپنی ایک دن کی بچی کو وہ یونہی چھوڑ آیا ہے , ساتھ ہی کوئی ایک ایسا وجود بھی ہے جو آج ہی اس کے رشتے میں جڑا ہے ....
وہ سب کچھ فراموش کیے غم کی سی کیفیت میں بیٹھا خود کی قسمت پر اشک بار تھا..
ہوش آیا تھا اسے جیسے ہی خود کے کندھے پر کسی کے ہاتھوں کے لمس کا گمان ہوا ، پیچھے موڑ کر دیکھنا چاہا تو وہ کوئی بزرگ شخص تھا ، شائد اس قبرستان کا چوکیدار تھا ...
"بیٹا دوپہر سے رات ہونے کو آئی میں دیکھ رہا ہوں کب سے یہیں بیٹھے ہو ، آپ کے ساتھ آنے والے لوگ حتیٰ کے ، وہ آس پاس کے لوگ جو اپنے عزیزوں کی یاد میں آئے تھے جا چکے ہیں مگر آپ اب تک یہیں ہو...؟؟"
فاتح بس خاموش نگاہوں سے اس شخص کی آنکھوں میں دیکھ رہا ، اس کے دل کی ویرانگی ، بے بسی ، تکلیف سب اسکی آنکھوں سے صاف نمایاں ہو رہی تھیں ...
"بیٹا دنیا میں جو جان آتی ہے اسے جانا بھی لازم ہے .
لکھا ہے...
خاک خاک سے جا ملے جس طرح آگے ملی ہوئی تھی ....
ہم سے مٹی سے بنائے گئے ہیں ، اس لئے ہمارا وجود مٹی میں ہی جا ملتا ہے ، آخر کار جو جس کی چیز ہوتی ہے وہ ایک نا ایک دن واپس لے ہی لیتی ہے ، اسی طرح ہماری یہ روح خدا کی امانت ہے ..
وہ ذاتِ الٰہی بھی اپنی یہ امانت مقررہ وقت پر واپس لے لیتا ہے ...
اسی لئے بس دعا کرو ، ورنہ بیٹی کی روح کو بہت تکلیف ہو گی ....
شاباش اب آپ بھی اب گھر جائیں ، کیونکہ رات دیر ایسے آپ سب کا یہاں رہنا ٹھیک نہیں "....
وہ شخص بہت ہی سمجھ داری سے فاتح کو سمجھا رہے تھے....
ایک بار پھر اسکے دل میں ٹیس سی اٹھی تھی آنکھوں کے گوشے بھیگنا شروع ہوئے تھے لیکن وہ خود پر قابو کیے ، اس قبر پر آخری نظر ڈالے وہاں سے چل دیا ۔اسکے نکلتے ہی وہاں تیز کی آندھی چلنے لگی تھی وہ اپنی گاڑی تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن پہنچ نہیں پا رہا تھا ایک روشنی سی پڑ رہی تھی اسکی آنکھوں پر اور کوئی نسوانی پری پیکر کی آواز تھی جو اسے پکار رہی تھی اور اس نور میں سے اسکا وجود دھیرے دھیرے نمایاں ہونا شروع ہوا وہ وجود جیسے ہی اسے قریب آیا فاتح وہ اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ وہ تو۔۔۔۔
ہم نے باندھا ہے تیرے عشق میں احرامِ جنوں
ہم بھی دیکھیں گے تماشہ تیری لیلائی کا
اسکے نکلتے ہی وہاں تیز سی آندھی چلنے لگی تھی وہ اپنی گاڑی تک پہنچنا چاہتا تھا لیکن پہنچ نہیں پا رہا تھا ایک روشنی سی پڑ رہی تھی اسکی آنکھوں پر اور کوئی نسوانی پری پیکر کی آواز تھی جو اسے پکار رہی تھی اور اس نور میں سے اسکا وجود دھیرے دھیرے نمایاں ہونا شروع ہوا وہ وجود جیسے ہی اسے قریب آیا فاتح کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا کیونکہ وہ تو پشمینہ ہی تھی جو پچھلے پانچ منٹ سے اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی جس میں وہ کامیاب بھی ٹھہری۔
فاتح نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھولے سامنے کھڑی پشمینہ کو دیکھا تو وہ تڑپ کر بیچین سا اٹھ بیٹھا اور بنا اس کو کچھ سمجھنے کا موقع دیے کھینچ کر اپنے سینے میں بھینچا تھا اس کے لمس میں اس قدر سختی تھی کہ پشمینہ کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہوا۔
"م۔۔مینہ ڈ۔۔ڈونٹ لیو م۔۔می ۔۔( مینہ ڈونٹ لیو می)
آ۔۔۔آئی کانٹ ل۔۔ل۔۔لیو وید آؤٹ یو۔۔(آئی کانٹ لیو وید آؤٹ یو)۔۔"
وہ ٹرانس کی سی کیفیت میں بس یہی جملے دوہرا رہا تھا جب کہ پشمینہ اسکی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اسے ہوا کیا ہے وہ تو نیند میں اسکا نام بڑبڑا رہا تھا تو وہ اسے جگانے آئی لیکن جاگتے ہی فاتح کے دیے جانے والے انوکھے ردِعمل پر وہ حقیقتاً شاکٹ ہی تو رہ گئی تھی۔
کب دیکھا تھا اس نے فاتح کا ایسا روپ ؟؟
پشمینہ کے لئے اس کا یہ انداز بالکل انوکھا تھا۔
"ف۔۔فاتح '
اس نے ٹوٹے لفظوں میں اسے پکارا تھا فاتح کے انداز نے اس کو کچھ کہنے کے قابل نہ چھوڑا اس کو چپ سی لگ گئی تھی۔
"آ۔۔آئے رئیلی لو یو مینہ۔فاتح تم سے پیار کرتا ہے پلیز مجھے کہیں چھوڑ کر مت جانا ورنہ فاتح مر جائے گا۔"
اس کی لرزتی ہوئی آواز پشمینہ کے کانوں سے جیسے ہی ٹکرائی تھی تو اس نے محسوس کیا وہ رو رہا ہے ہاں وہ رو رہا تھا ، فاتح شرجیل ایک جانا مانا بزنس مین اپنی بیوی کے گرد حصار بنائے ٹوٹا ہوا رو رہا تھا اس لہجے میں خوف پنپ رہا تھا پشمینہ نے اپنی جھکی نظریں اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔اسکا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھام کر وہ جنون اور دیوانگی بھرے لہجے میں گویا ہوا تھا فاتح کی لال سوجھی آنکھیں پشمینہ کی سنہری آنکھوں سے جیسے ہی ٹکرائی تھیں ایک بیٹ مس کی تھی اس نے۔
"فاتح کیا ہو گیا ہے آپ کو میں کہیں نہیں جا رہی ۔"
فاتح کے حصار کو توڑتے جھجلاتے ہوئے کہا تھا اس نے اسکی سمجھ سے بالاتر تھا فاتح کا ریکشن اس نے آج تک فاتح کو یوں اسطرح سے روتے نہ دیکھا تھا اور اب تو وہ صحیح معنوں میں خود بھی گھبرا چکی تھی۔
وہ سپنا فاتح کی آنکھوں سے سامنے پھر سے گھوم رہا تھا جسے سوچ اسے وحشت سی محسوس ہوئی اس کی آنکھیں لال انگارا ہو چکی تھیں جب کہ سفید رنگت لٹھے کی مانند سفید ضبط کے باعث وہ اپنے بال نوچ گیا۔
"فاتح ریلیکس ! یہ لیں پانی پئیں اور آرام سے بتائیں ہوا کیا ہے ؟
کیوں ایسا ریکیٹ کر رہے ہیں ؟"
اس کی حالت کے پیشِ نظر وہ نرم پڑی تھی جب کہ اس کے انداز بیان ، اس کے لہجے پر فاتح نے اپنی پر تپش آنکھوں سے اسکی جانب دیکھا تھا جسے وہ نظر انداز کر گئی تھی اور سائڈ ٹیبل پر رکھے گلاس میں پانی نکال اس کی جانب بڑھایا تھا جسے وہ خاموشی سے تھام اس کا گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتارنے لگا۔
ماحول میں اچانک ہی ہیبت ناک سی خاموشی چھا چکی تھی جہاں صرف گھڑی کی سوئیوں کی آواز ہی گونج رہی تھی فاتح کی نظریں سامنے موجود دیوار پر مرکوز کسی نقطہء پر غور کر رہی تھیں جب کہ پشمینہ فاتح کے چہرے کو دیکھ کر اس کے بولنے کی منتظر تھی بالآخر فاتح کے سرسراتے لفظوں نے ماحول کی خاموشی کو توڑا۔
"جانتی ہو آج جو میں نے سپنا دیکھا وہ کتنا انہونا تھا مطلب ناقابلِ قبول ، میری ذات اس چیز کو قبول کرنے سے انکاری ہے دل چاہ رہا ہے ان لمحات کو نوچ کر اپنے دل و دماغ سے نکال باہر پھینکوں۔"
وہ دانت کچکچائے تیش میں بولا غصے کے باعث اس کا سانس پھول رہا تھا۔
"بتا بھی دیں اب ایسا کیا دیکھ لیا ہے ۔۔"
پشمینہ منتظر نظروں سے اسکی جانب دیکھتی کندھے اچکائے بولی تھی وہ کب سے بات گھوما رہا تھا ۔
"م۔۔موت ، ت۔۔تم۔۔تمہاری موت دیکھی ہے۔۔"
یہ لفظ ادا کرتے ہوئے فاتح کا دل گھبرا رہا تھا اس کی زبان ساتھ نہیں دے پا رہی تھی تب ہی ٹوٹے جملوں میں اپنی بات مکمل کی تھی ساتھ ہی لب کچلتے وہ اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھ رہا تھا جو اپنی سنہری آنکھیں پھیلائے اس ہی جانب دیکھ رہی تھی کمرے میں سکوت سا چھا گیا تھا لیکن کچھ ہی لمحوں بعد وہاں پشمینہ کا ایک جاندار قہقہ گونجا وہ ہنس رہی تھی اور فاتح بغور اس کو کھکھلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا فاتح کو سمجھ نہ آئی کہ وہ کیوں ہنس رہی ہے۔
"آ۔۔آپ نے میری موت دیکھی ؟؟
سچی ؟؟"
اپنی ہنسی بمشکل ضبط کیے اس نے دوبارا پوچھا جیسے تائید چاہ رہی ہو۔
"اگر سچ میں ایسا ہے تو آپ بالکل بے فکر ہو جائیں کیونکہ میری عمر بڑھ گئی ہے۔"
آنکھیں پٹپٹائے وہ اس کی جانب دیکھے بے فکر لہجے میں بولی ۔
"یہ کیسی لاجک ہے بھلا؟"
فاتح نے تقریباً اسکی عقل پر ماتم کیا ۔
"یہ پرانے زمانے کی لاجک ہے "جب بھی کوئی شخص کسی کی موت خواب میں دیکھے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مقابل شخص کی زندگی بڑھ چکی ہے ۔ اسلئے اب آپ فضول سوچنا چھوڑ دیں۔ویسے بھی وہ سپنا ہے اسے سپنا رہنے دیں حقیقت کے طور پر نہ سوچیں۔
اگر آپ کا اب بھی دل گھبرائے تو خدا سے دعا کریں ویسے بھی ہو سکتا ہے اس سپنے میں آپ کے لئے کوئی پیغام چھپا ہو یا پھر سبق۔"
چہرے پر ایک ہاتھ ٹکائے وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی مگر جملے کے آخر میں وہ سنجیدگی اختیار کر گئی۔
فاتح اس کا روشن چہرا دیکھ رہا تھا جو کہ کسی گلاب کی مانند کھل رہا تھا وہ بے اختیار ہوتا اس کو اپنی طرف کھینچ گیا۔
"دو کشتی میں سوار شخص ہمیشہ ڈوب جایا کرتے ہیں اور میں دوہری کشتی کا مسافر بن رہا تھا مگر اب نہیں۔۔
تم ٹھیک کہتی ہو ہر کام میں اس پاک ذات کی مصلحت شامل ہوتی ہے اور اس سپنے کو دیکھنے کے بعد مجھے اپنی زندگی میں تمہاری اہمیت کا اندازہ ہو رہا ہے کہ تم ہیرا ہو میری زندگی کا تمہارے بنا فاتح کچھ بھی نہیں ہے۔
میں فاتح شرجیل اپنے پورے ہوش و حواس میں یہ اقرار کرتا ہوں مجھے پشمینہ سے شدت و جنون سے بھرپور محبت ہو گئی ہے۔ مینہ فاتح شرجیل پور پور ڈوب چکا ہے تمہاری محبت کی گہرائیوں میں وہ کل بھی تمہارا تھا اور آج بھی تمہارا ہے اور آئندہ بھی تمہارا ہی رہے گا۔
آئی لو یو مائی گرل۔"
پشمینہ کی پیشانی سے پیشانی ٹکائے وہ شدت و جذبات سے چور ہر ایک لفظ دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا اس کی پر حدت دہکتی سانسوں کی تپش پشمینہ کے چہرے کو جھلسانے کا باعث بنی تھی۔
دونوں کے دل کی دھڑکنیں منتشر سی ہو رہی تھیں آج وہ دونوں ہی ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے آج فاتح اپنی محبت کا اقرار کر رہا تھا جب کہ پشمینہ مگن سی اس کا ہر ایک لفظ خود کی روح میں اترتا محسوس کر رہی تھی۔
تیری نظروں کے صدقے یہ جاں وار دوں گا
تو جو کہہ دے تو اپنا جہاں وار دوں گا
©©©
"شہیر تم نے کہا تھا کہ نکاح کے بعد تم حویلی سے چلے جاؤ گے لیکن ابھی تک تم یہیں موجود ہو اور میرے بیٹے کے نام کی ونی کو سہارا دیتے نظر آتے ہو جب کہ اس ڈیل میں ایسا کچھ نہیں تھا۔"
چوہدری وقاص غصے سے بھرم ہو رہے تھے لیکن وہ خود پر ضبط کے پہرے بیٹھا گئے تھے۔
"اب وہ آپ کے بیٹے کے نام کی ونی نہیں شہیر چوہدری کی بیوی ہے اور میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ اپنی بیوی کو آپ جیسے درندوں کے بیچ تنہاہ چھوڑ جاؤں۔"
"اگر تم اس لڑکی کے لئے یہ سب کر رہے ہو تم ہم اسے زندہ نہیں چھوڑیں۔۔"
"اگر آپ نے ایسا کچھ کرنے کا سوچا بھی تو آپ خود کے لئے مشکلات کھڑی کریں گے کیونکہ آپ کی کمزوری میرے ہاتھ ہے تایا سائیں۔۔"
زہر خند مسکان سجائے وہ سرد ترین لہجے میں گویا ہوا جب کہ چوہدری وقاص سر جھٹک کر رہ گئے سامنے بیٹھا وہ لڑکا جو ان کے ہاتھوں پلا تھا آج انہی کے مقابل کھڑا تھا۔
"کچھ بھی ہو جائے لیکن ہم اسے اپنی بہو قبول نہیں کریں گے۔"
چوہدری وقاص نے نفرت سے پھنکارتے ہوئے کہا جب کہ شہیر بس شاطر سے مسکرا دیا۔
"یہ نیک کام کرنے کی آپ کو ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ بہو صرف تین لوگوں کی ہے "سکینہ ماں ، میمونہ ماں اور بابا سائیں "
ان کی آنکھوں میں دیکھ وہ شولا بار نظروں سے دیکھ رہا تھا شہیر کا لہجہ بھلا کا سنجیدہ تھا جس نے چوہدری وقاص کو چپ سی لگا دی تھی۔
"کیا بات بھئی کیا باتیں ہو رہی ہیں ؟"
چوہدری وقاص وہیں ڈیرے میں ہی داخل ہوئے تھے۔
"کچھ نہیں بس ہم تایا بھتیجا بات کر رہے تھے کافی ہونہار ہے تمہارا بیٹا۔"
چوہدری وقاص دانت پیستے بمشکل مسکراتے ہوئے شہیر کے کندھے کو تھپکتے ہوئے بولے تھے جب کہ چوہدری وقار مسکرا دیے تھے اپنے بیٹے کی تعریف سن کر ان کا سینہ فخر سے چوڑا ہوا تھا۔
شہیر اٹھ کر وہاں سے چل دیا اب صرف وہ دونوں بھائی ہی موجود تھے ڈیرے پر ۔چوہدری وقار کچھ کہہ رہے تھے لیکن چوہدری وقاص جا دھیان ان کی جانب نہ تھا وہ تو شہیر کے بارے میں سوچ رہے تھے کہ ناجانے وہ کیا قدم اٹھائے گا اور اگر ان کی حقیقت حویلی میں پتہ چل گئی تو ۔۔
یہ سوچتے ہی ایک جھرجھری سی لی تھی ان نے۔
اپنے کرتوت سامنے آنے پر ایک خوف سا ان کے دل پیپ رہا تھا لیکن وہی خوف انہیں گناہ کرتے نہ آیا تھا کہ بے شک اس لمحے اشرف المخلوقات ان سے بے خبر ہے لیکن ہر ذات کا انصاف کرنے والی ذات تو دیکھ ہی رہی ہے جو کہ سب سے افضل ہے جس سے کوئی بھی چھپ نہیں سکتا۔
©©©
سحر شیشے کے سامنے کھڑی خود کا معائنہ کر رہی تھی مہرون رنگ کے سوٹ میں وہ کوئی اپسرا معلوم ہو رہی تھی سفید رنگت پر وہ سوٹ واقعی جچ رہا تھا آج کافی عرصے بعد اس نے خود کو یوں آئینے میں دیکھ رہی تھی وہ کافی بدل چکی تھی وہ پہلے کے مقابلے میں کافی کمزور معلوم ہو رہی تھی لیکن عجب سا نور تھا جو اب بھی اسکے چہرے پر چھایا ہوا تھا۔
اپنے خیالوں میں وہ اتنی گہرائی میں کھوئی ہوئی تھی کہ اسے شہیر کے آنے کی بھی خبر نہ ہوئی ہوش تو تب آیا تھا اسے جب مقابل نے اسکے گرد اپنا حصار بنایا۔
"Looking gorgeous my Pari.."
اس کے خوبصورت وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں لئے وہ مسکراتے ہوئے بول رہا تھا سحر اس کی پر حدت سانسیں اپنے وجود کر محسوس کیے خود میں سمٹ سی رہی تھی۔
"س۔۔سنیے.." وہ کچھ کہنا چا رہی تھی لیکن شہیر کی نظروں نے اسے خاموش کروا دیا تھا اس کی نظریں خمار سمیٹے ہوئے تھیں۔
"My Innocent Princess "
اس کے جھکے سر کو دیکھ وہ گھمبیر سا بولا شہیر کا لہجہ خمار آلود سا ہو رہا تھا کاندھے پر بھکرے وہ شایہ فنگن زلفوں کے جال کو پرے دھکیل اپنے لب جیسے ہی رکھے تھے ۔۔۔۔
اس کے جھکے سر کو دیکھ وہ گھمبیر سا بولا شہیر کا لہجہ خمار آلود سا ہو رہا تھا کاندھے پر بھکرے وہ شایہ فنگن زلفوں کے جال کو پرے دھکیل اپنے لب جیسے ہی رکھے تھے وہاں موجود ضربوں کے نشانات کو دیکھ وہ رک سا گیا تھا اس نے جھٹ سے سحر کا رخ اپنی جانب کیا تو گلے پر بھی کافی چوٹوں کے نشانات نمایاں تھے ۔ وہ ہمیشہ سے ڈوپٹہ اپنے گرد اوڑھے رکھتی تھی یہی وجہ تھی کہ یہ نشانات آج تک اس سے چھپے ہوئے تھے لیکن اتفاق سے آج وہ حسنِ جاناں بغیر ڈوپٹے اس کے سامنے موجود تھی اسلئے ہی اس راز سے پردہ فاش ہوا تھا۔
سنتے ہیں اپنی دھڑکن تیرے تڑپنے میں
فرق نہیں اب میرے دل کے دھڑکنے میں
"کیا احمر نے تم پر ب۔۔بیل۔۔بلیٹ سے۔۔۔؟؟"
وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں اسکے کندھے کو دونوں جانب سے تھامے لب بھینچے پوچھ رہا تھا جب کے شہیر کی بات سن وہ سر جھکائے کھڑی تھی اسے معلوم نہ ہوا کہ کب آنسوں نکل کر اس کی آنکھوں سے بہنے لگے شائد ان اذیت بھرے لمحوں کو سوچتے اس کا دل بھر آیا تھا۔
روگ میرا بڑتا جائے کوئی تو سنبھالے نا
راحتیں ملیں اب ہم کو دل کے دہکنے میں
شہیر کی آنکھوں میں خون سا اترا تھا اس کا دل چاہا آگ لگا دے ان سب کو جس نے اس کی پری پر ہاتھ اٹھانے کی جرت کی۔ بہت مشکل سے اپنے اندر جمع ہوتے اشتعال کو قابو کرتا وہ اسے آرام سے تھام بیڈ تک لایا تھا۔ ان زخموں کے نشان کافی گہرے تھے جو کہ اتنے مہینوں میں بھی نہ بھرے تھے بلکہ آج بھی صاف واضح تھے وہ اس کی جلد پر۔۔
شہیر نے الماری سے فرسٹ ایڈ باکس سے کوئی مخصوص ٹیوب نکالے اس کے زخموں پر لگانی چاہی تھی لیکن بیچ میں ہی وہ اس کے ہاتھوں کو تھام روک گئی تھی۔
مانگوں میں اب کیا رب سے
پایا ہے تجھ کو جب سے
عشق تیرا ہم پہ طاری رقصمِ جہاں
"ن۔۔نہیں کریں۔"
بھیگے نین کٹوروں کو اٹھائے وہ اس کی جانب دیکھ اسے منا کر رہی تھی شائد شرم و حیا کا پردہ بیچ میں حاوی ہو رہا تھا۔ شہیر نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو تھام اپنے لبوں سے لگایا تھا۔
"اگر ان زخموں پر دوائی نہ لگائی تو یہ بگڑ جائیں گے اور کسی بڑی بیماری کی شکل اختیار کر لیں گے اور آپ کو کسی بیماری میں گھیرا میں بالکل نہیں دیکھ سکتا۔"
کہتے ہوئے آرام سے وہ اسکا رخ بدل گیا تھا جب کہ اس کی بات کو سن کر سمجھتے ہوئے وہ خاموشی اختیار کر گئی۔
زخم دیتا کوئی اور ہے اسکی دوا کوئی اور بنتا ہے یہاں بھی ایسا ہی تھا زخم دینے والا وہ ستمگر تھا لیکن اس کی دوا یہ مسیحا بن رہا تھا جو کہ ہمیشہ سے اس کی ڈھال بنتا آیا ہے۔
وہ ٹیوب جیسے ہی لگائی تھی اسکے زخموں پر سحر کے لبوں سے ایک سسکی سی برآمد ہوئی اپنی آنکھوں میں زور سے میچ گئی تھی وہ سچ ہی کہہ رہا تھا وہ اپنی زندگی کی تلخیوں میں ان زخموں کو فراموش کر گئی تھی کوئی مرہم ، کوئی دوا کا استعمال کیا ہی نہیں تھا اس نے یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اسکے زخموں کے لئے مرہم میسر ہی نہیں کی گئی تھی۔
"میں تمہارے زخموں کی دوا بننا چاہتا ہوں۔ تمہارا ہر درد ،ہر غم خود میں سمیٹتے ہوئے تمہیں ان سب سے رہائی دینا چاہتا ہوں۔یہاں تک کہ شہیر وقار چوہدریوں تمہاری وہ ڈھال بننا چاہتا ہے جو تمہاری ہر راہ کے ہر لمحے میں تمہاری حفاظت کرے۔"
شہیر گھمبیر خمار زدہ نما آواز میں کہہ رہا تھا اس کے سرگوشی کرتے لب سحر کے کان کی لو کو چھو رہے تھے دوائی لگانے کے بعد اس کو مرہم پٹی سے ڈھکا تھا تاکہ زخم جلدی ٹھیک ہو جائے۔
"شکریہ ۔۔"
اس ساری صورتحال میں وہ صرف بس ایک یہی جملا ادا کر پائی تھی شہیر نے بغور اس کے پر رونق چہرے کو دیکھا تھا جہاں پر معصومیت کا بسیرا تھا۔
"بیگم صاحبہ شکریہ سے کام نہیں چلنے والا ، "
اس کی ٹھوڑی کو شہادت کی انگلی سے اوپر اٹھائے وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا۔ سحر نے اپنی نشیلی آنکھیں اٹھائے اسکی گھائل کر دینی والی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں خمار صاف واضح تھا۔
شہیر کی آنکھوں کا خمار لہجے کی تپش کو محسوس کیے وہ اپنی نظروں کو جھکا گئی تھی جب کہ سحر کی اس ادا پر وہ مسکرا کر رہ گیا واقعی وہ معصومیت کا پیکر تھی۔
شہیر نے محبت و پیار سے اسکو خود کی ذات میں سمیٹ لیا تھا وہ دونوں ہی سکون میں تھے ایک اپنی محبت کو پا کر جب کہ دوسرا عزت و اپنائیت کو پا کر۔۔۔
کروں سجدہ ایک خدا کو
پڑھوں کلمہ یا میں دعا دوں
دونوں ہی ایک خدا اور محبت
©©©
رات کے پہر جہاں پوری حویلی میں سناٹا سا چھایا تھا وہیں دو نفوس حویلی کی چھت پر موجود باتوں میں مشغول تھے اور ساتھ ہی اپنی چاپلوسی کو سوچتے قہقہ لگا جاتے۔
"ویسے بیگم صاحبہ تم کتنی خوش قسمت تھی جو تمہیں اس لڑکی جیسے بہو ملی تھی مگر تم نے اپنی حسد کی آگ میں اسے گنوا دیا ہے۔"
شلوار قمیض میں موجود وہ پنجابی طرز کا لڑکا جو اکثر ہی نورے بیگم کے پاس آیا کرتا تھا نورے بیگم سے افسوس زدہ سے لہجے میں مخاطب ہوا حقیقتاً اسے آئینہ دکھانا چاہا تھا۔
"اوئے چپ کر ، مجھے کوئی افسوس نہیں۔ نورے خود بھی شہر کی ہے تو وہ بہو بھی شہر کی لائے گی بالکل اپنے جیسی۔"
سامنے کھڑے لڑکے کو جھڑکتے وہ غرور سے بولی تھیں جو کہ بہت جلد خاک ہونے کے قریب تھا جب کہ اس کی بات سن اس لڑکے نے بہت ہی عجیب نظروں سے نورے بیگم کو دیکھا تھا جیسا جتانا چا رہا ہو کہ تم میں ایسا کیا خاص ہے۔
"چل اب زیادہ باتیں نہ بنا خاموشی سے وہ کام کر جو یہاں کرنے آیا ہے۔"
منہ بنائے وہ دبی دبی میں آواز میں بولی تھیں جسے سن وہ لڑکا سر جھٹک کر ہنس دیا۔
"حوصلہ رکھیں بی بی جی ! پہلے مجھے ایک سوال کا جواب تو دیں جو ناجانے کتنے ہی مہینوں سے ناگ کی مانند میرے دماغ میں کنڈلی مارے بیٹھا ہے۔" اس کی بات سن نورے بیگم نے بھنونے اچکائے اسے دیکھا جیسا کہہ رہی ہوں پوچھو جو پوچھنا ہے۔
"آپ اس بیچاری لڑکی کی جان کی دشمن کیوں بنی ہوئی ہیں جب کہ حقیقتاً قتل تو آپ نے کروایا ہے ۔؟؟"
ان کو دیکھ وہ تجسس سے بھرپور لہجے میں گویا ہوا۔
"اسلئے تاکہ کسی کو مجھ پر شک نہ ہو کہ ارتضیٰ کو قتل کروانے والی کوئی اور نہیں بلکہ میں ہی ہوں "
فخر سے اپنا سر بلند کیا تھا ان نے جیسا بہت ہی کوئی اعلیٰ کام سر انجام دیا ہو ان نے۔
"ویسے تمہیں ضرورت کیا تھی اس معصوم بچے کو قتل کروانے کی جو تمہیں ماں جی ماں جی کہتے نہ تھکتا تھا ۔"
اس لڑکے کے لہجے میں بلا کا افسوس تھا۔
"نورے کو تو جانتا نہیں ہے وہ دماغ سے کھیلنا جانتی ہے۔ تو جانتا تو ہے ارتضیٰ سائیں وقاص کا چہیتا بیٹا تھا جو کہ مجھے کسی صورت گوارا نہیں سکینہ کو تو ویسے ہی بڑی مشکلوں سے برداشت کرتی ہوں لیکن اسکی اولاد کو برداشت کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ویسے بھی اگر مدعے کی بات پر آئیں تو وقاص سائیں کی جائیداد میں سے دو حصے ہو رہے تھے ایسے میں میرے احمر کے پاس صرف آدھا حصہ آتا اسلئے میں نے وجہ ہی ختم کر دی اب پوری جائیداد صرف ہماری ہو گی۔"
اپنی بات کے ختم ہوتے ہی آخر میں وہ شاطر سا مسکراتی قہقہہ لگا گئی تھیں اس بات سے بے خبر کے دیوار کے پار کوئی نفوس ایسا ہے جس کی آنکھوں میں خون سا اترا تھا ان کی باتیں سن کیونکہ نا صرف وہ ان کی تمام باتوں کو سن چکا تھا بلکہ اپنی آنکھوں سے انہیں دیکھ بھی لیا دونوں کے چہروں کو نفرت سے دیکھ وہ واپس چل دیا۔
"واہ بیگم مان گئے تمہیں ۔۔"
اس لڑکے نے ہاتھ اٹھائے تالی بجاتے ہوئے داد دی جیسے بہت ہی بڑا کارنامہ سنایا ہو۔ نورے نے اس کی تعریف کو مسکرا کر وصول کیا تھا۔
"چل اب زیادہ شوخا نا ہو مجھے میری چیز دے اور تو جا یہاں سے ورنہ کسی نے دیکھ لیا تو گڑبڑ ہو جانی ہے۔"
آس پاس کا جائزہ لیتے اپنے پلو کو چہرے پر پھیرتے ہوئے کہا جب کہ اس لڑکے نے اپنی قمیض کی جیب سے کوئی چھوٹی سی پیکٹ نکال کر نورے بیگم کو تھمائی تھی اور مسکراتا ہوا چل دیا۔ اس کے جانے کے بعد نورے بھی نیچے کی جانب چل دی۔
صبح کھڑکی میں سے آتی تیز روشنی سے اس کی آنکھ بیدار ہوئی بے اختیار اس کی نظر اپنے پہلو میں لیٹی اس متاع جاں پر گئی جو کہ اس کی دسترس میں موجود تھی وہ دھیما سا مسکرا دیا۔
کچھ دنوں پہلے دیکھے جانے والے سپنے سے وہ واقعی خوف زدہ سے ہو گیا تھا ۔ وہ دن تھا اور آج کا دن تھا فاتح نے پشمینہ کو ایک لمحے کے لئے بھی اس حالت میں تنہا نہ چھوڑا وہ سائے کی مانند اس کے ساتھ رہا کرتا تھا۔
وہ اپنی آنکھوں میں جذبات کا سمندر بکھیرے اس کے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا جس میں عجب سی رونق تھی جب سے وہ اس پاکیزہ رتبے پر فائز ہوئی تھی ایک الگ ہی نور اسکو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھا فاتح اس کو دیکھتا رہ گیا وہ چاہ کر بھی اس سے اپنی نظریں نہ ہٹا سکا۔ فاتح کی پر تپش نظروں کو نیند میں بھی محسوس کیے وہ ہلکا سا کسمسائی تھی اور کروٹ بدل گئی ایسے میں اسکا چہرا فاتح کے چہرے کے عین سامنے آ چکا تھا۔
اُس دشمنِ جاں کی اِس قدر نزدیکی پر مقابل کا دل تیز لہر میں دھڑکا تھا وہ چاہ کر اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکا اور پشمینہ کے چہرے کے ہر نقش و اپنے لبوں سے محسوس کرنے لگا۔ جب کہ نیند میں خلل پیدا ہونے کے باعث اس نے اپنی نیند سے بوجھل آنکھیں کھولیں لیکن اپنے اس قدر قریب فاتح کو پا کر وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھی تھی۔
اپنی دونوں آنکھیں حیرت کے عنصر میں کھولے وہ فاتح کے وجہیہ چہرے کو دیکھ رہی تھی جو کہ شوخ نظروں سے اس ہی کو دیکھنے میں محو تھا۔
"گڈ مارننگ جانِ جاں وید مائے کیوٹ لیٹل ایلیسا ۔۔۔"
وہ اسکے گلابی گالوں کو اپنے لبوں سے دھیرے سے چھوتا پشمینہ کے وجود کی جانب اشارہ کیے بولا جس پر وہ شرماتے ہوئے اسکے سینے میں ہی سر چھپا گئی تھی۔
"اٹھ جائیں محترمہ واک پر بھی جانا ہے۔"
اس کو یوں ہی سینے میں سر چھپائے آنکھیں موندے دیکھ وہ ہنستے ہوئے بولا ساتھ ہی یاد دہانی کروانا نہ بھولا۔
"بس کریں کم از کم آج کے دن تو چھٹی دے دیں اب تو مجھ سے چلا بھی نہیں جاتا۔"
اسکے بٹنوں سے کھیلتی وہ لاڈ سے بولی۔
"کوئی نہیں مسسز اس معاملے میں بالکل بھی رعایت نہیں ملنے والی اٹھو فوراً ورنہ مجبوراً مجھے سختی اختیار کرنی پڑے گی۔"
اسکے چہرے کو نرمی سے تھامتے ہوئے کہا لیکن لہجہ نا چاہتے ہوئے بھی سرد تھا پشمینہ نے روہانسی نظروں سے اس کی جانب دیکھا پھر منہ بناتے ہوئے آٹھ کر فریش ہونے کے لئے ہو لی جب کہ بیڈ کرون سے ٹیک لگاتا وہ پس مسرت سا مسکرا دیا۔
©©©
"کیا ہوا کس کی کال تھی ؟"
ٹیبل پر ناشتہ لگاتی عمارہ نے احمر سے سوال داغا تھا جو کہ کچھ دیر پہلے ہی موبائل پر آنے والی کال کی وجہ سے اٹھ کر بالکنی کی جانب گیا تھا۔
"کچھ نہیں بس بابا سائیں کی کال تھی حویلی میں بلا رہے ہیں۔"
کرسی کو پیچھے کی جانب کیے وہ اپنی نشست پر براجمان ہوا تھا جب کہ احمر کی بات سن عمارہ اپنی آنکھیں گھوما گئی تھی۔
"لگتا تمہارے بابا سائیں کا تمہارے بنا گزارا نہیں ہے جو آئے روز کال کرتے رہتے ہیں۔"
کندھے اچکائے وہ گہرا طنز کر گئی تھی جب کہ احمر نے عجیب نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔
"عمارہ یہ کیسے بات کر رہی ہو ؟"
اس کو گھورتے وہ تقریباً غرایا تھا جب کہ وہ اپنی بات بدل گئی۔
"میرا مطلب ہے کہ ہم بھی کیوں نا حویلی میں ہی شفٹ ہو جائیں اس طرح تمہارے بابا سائیں کی شکایت بھی دور ہو جائے گی۔"
"نہیں ابھی نہیں۔"
وہ بنا کسی تاثر کے کہتے کھانے میں مصروف ہو گیا جب کہ عمارہ منہ بنا کر رہ گئی۔
©©©
"ارے واہ آج کافی عرصے بعد مہارانی نے اپنا دیدار کروا ہی دیا ہے کیوں ملکہ عالیہ کہیں کوئی تکلیف تو نہ ہوئی نا آپ کے آرام میں جو یوں باہر آ گئی ہیں۔"
سحر کو اپنی دھن میں مگن سیڑھیاں اترتا دیکھ نورے بیگم طنز کے تیر چلاتے ہوئے بولی تھیں جب کہ وہ ایک لمحے کے لئے ٹھہری تھی اپنی جگہ پر لیکن پھر ان کو سرے سے نظر انداز کرتی سکینہ بیگم کے پاس چل دی جو کہ صوفے پر بیٹھی ہوئی اسے مسکراتا ہوا دیکھ رہی تھیں۔ نورے بیگم تو سحر کے اس ردعمل پر شاکٹ ہی راہ گئی تھیں ان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا کیسے وہ لڑکی بنا کچھ کہے ان کا منہ بند کروا گئی تھی صرف اپنی خاموشی سے۔
جس مفکر نے بھی کہا ہے بالکل ٹھیک کہا ہے " خاموشی لڑائی کا بہترین علاج ہے "۔
"ماشاءاللہ جیتی رہو۔"
سحر کو پیار کیے سکینہ بیگم اسے اپنے ساتھ ہی بیٹھا گئی تھیں جب کہ نورے بیگم کو دیکھنا نہ بھولیں جو کہ جلتی کڑتی انہیں کو دیکھ رہی تھیں سر جھٹکے وہ اندر اپنے کمرے میں چل دی جس پر سکینہ بیگم خفیف سا ہنس دی اور سحر سے باتوں میں مشغول ہو گئیں تھیں وہ بے حد خوش تھیں سحر و شہیر کو ایک ہوتا دیکھ آخر کو ان کے بیٹے کی پسند جو تھی وہ تب ہی اس کی بلائیں لیتی نہ تھکتی تھیں وہ۔
©©©
"یہ لو مینہ پانی پیو۔"
فاتح نے سائیڈ پر رکھی بینچ پر اسے بیٹھاتے ہوئے کہا تھا جو کہ اپنی پھولی ہوئی سانسوں کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
"ہٹیں میرے پاس سے بات مت کریں آپ مجھ سے۔"
اس کے ہاتھ کو جھٹکتے وہ روہانسی سی ہوتی بولی جب کہ فاتح اس دلِ جاناں کو یوں روٹھتے دیکھ لب دانتوں تلے دبا گیا۔
"آ۔۔آپ کو بولا بھی تھا کہ مجھ سے نہیں ہو پاتی اب واک ل۔۔لیکن پھر بھی آپ مجھ سے زبردستی کرتے ہوئے لے آتے ہیں د۔۔دیکھیں اب مجھے سانس لینے میں مشکل ہو رہی ہے۔"
اس کی آنکھوں میں پشمینہ نے خائف نظروں سے دیکھتے کہا تھا جب کہ فاتح مزید شوخ ہوا۔
"اگر ایسا ہے تو یہ مسئلہ میں منٹ سیکنڈوں میں حل کر سکتا ہوں۔"
پشمینہ کے کان کے پاس جھک وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا جب کہ فاتح کے اس ریکشن پر اُس نے شکوہ کناں نظروں سے اسکی جانب دیکھا جیسا کہنا چا رہی ہو کہ میری اس حالت میں بھی آپ کو مزاق سوج رہا ہے۔
سانسوں کی وہ ہلچل وہ مہکتا آنچل
بانہوں کے وہ گھیرے زلف کا وہ بادل
لیکن فاتح کا یہ شوخ پن جلد ہی پریشانی میں بدلا تھا جب پشمینہ کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے وہ اپنی ابتر ہوتی حالت کے ساتھ بیچنی میں فاتح کی شرٹ کو مٹھی میں تھامتے سر اسکے سینے پر ٹکا گئی تھی اور گہرے سانس لینے کی کوشش کرنے لگی۔
کوئی اور لمحہ ہوتا تو فاتح کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں ہونا تھا کیونکہ اسکی متاعِ جاں خود اسکے قریب آئی تھی۔
"مینہ۔۔"
اسکے سر کو سہلاتے وہ اسکو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگا حقیقت تو یہ تھی کہ اس کی ایسی حالت کو دیکھ وہ خود بھی پریشان ہو چکا تھا۔ وہ پہلی پہلی فرصت میں اسے روم میں لایا تھا اور بنا دیر کیے اس کی پلس چیک کی تھیں پھر میڈیسن باکس میں سے اسکی دوائیاں لا کر کھلائی اسکے بعد اسے سونے کی تاکید کرتا وہ وہیں اسکے سرہانے بیٹھتا اپنا کام کرنے لگا اور گاہے بگاہے نظر اس پر بھی ڈال دیتا جو کہ دوائیوں کے زیرِ اثر نیند کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔
آنکھوں کی ہیں یہ خواہشیں کہ چہرے سے تیرے نہ ہٹیں
نیندوں میں میری بستے رہیں خوابوں نے لی ہیں کروٹیں
©©©
چوہدری وقاص شیشے کے سامنے کھڑے تیار ہو رہے تھے کہ نورے بیگم غصے میں بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تھیں اور منہ بناتے ہوئے بیڈ پر بیٹھیں ایک نظر چوہدری وقاص پر ڈالنے کے بعد انہوں نے نظریں پھیر لی تھیں جب کہ وہ انہوں نے بھنویں سکیڑی تھیں نورے بیگم کی اس جرت پر۔
"کیا ہوا نورے بیگم اتنی شولہ جوالہ کیوں بنی ہوئی ہیں ؟"
کندھے پر کھدر کی چادر ڈالے وہ چلتے ہوئے بیڈ تک آئے اور انہی کے برابر میں بیٹھ گئے جب کہ ان کی نرمی پر نورے بیگم مصنوعی سا رونے لگیں۔
"نہیں تو اور کیا خوش ہوں کہا بھی تھا مت کروائیں اس کملوہی کی شادی شہیر سے سر پر چڑ جائے گی دیکھ لیں ہوا بھی یہی ہے محترمہ کے پر نکل آئے ہیں کہ ہمیں جواب دینا گوارا نہیں کرتی یوں بات کو اگنور کرتے ہوئے نکلتی ہے کم ظرف نہ ہو تو اوپر سے اس کا ساتھ آپ کی وہ بیگم سکینہ دیتی ہیں۔"
جھوٹ موٹ کے آنسوں صاف کرتی وہ دانت پیستے ہوئے بولی تھیں کب کہ ان کی بات سن چوہدری وقاص کے ماتھے پر بل نمودار ہوئے۔
"کم عقلی تو احمر نے دیکھائی ہے اس لڑکی کو طلاق دے کر اگر وہ طلاق نہ دیتا تو سرداری کے عہدے پر اسے فائز کر دیتے مگر نہیں سدا کا جذباتی ٹھہرا وہ شخص برداشت ہی نہ کر پایا۔"
چوہدری وقاص احمر کو سوچتے دانت پیستے ہوئے بولے تھے جب کہ ان کو بات بدلتے دیکھ نورے بیگم منہ بسور کر رہ گئیں۔
"چلیں اب میں چلتا ہوں اپنا خیال رکھیے گا اور اس لڑکی کا بھی کچھ حل نکالنے کا سوچتے ہیں۔"
اپنے جگہ سے اٹھتے وہ نورے کو الوداعی کلمات کہتے کمرے سے چل دیے۔
©©©
ڈھونڈتا تھا ایک پل میں دل سے یہ سو دفا
ہے سہانا راز اس بن روٹھی شامیں دن خفا
"ن۔۔نہیں زیشان مجھے ونی نہ کریں۔
میں ۔۔ میں تو آپ کی منگیتر ہوں نا آپ تو مجھ سے محبت کرتے ہیں نا۔۔
پلیز مجھے ونی نہ کریں۔۔
نہیں زیشان۔۔ پلیز نہیں۔۔۔"
وہ الجھن زدہ سا نیند سے بیدار ہوا چہرا اسکا پورا پسینے سے شرابوز تھا۔ہر رات جاگتے سوتے ماضی کے یہی الفاظ تھے جو اس کے زہن پر سوار رہتے وہ الجھ کر رہ گیا وہ پیچھا چھڑانا چاہتا تھا ان سب سے۔ تب ہی راہ فرار کے لئے اس نے اپنی مطلوبہ شئے نکالی کمرے میں جب گھٹن کا احساس مزید بڑ گیا تو وہ باہر کی جانب چل دیا۔
وہ آئے نا لے جائے نا
ہاں اسکی یادیں جو ہیں یہاں
حویلی کے سامنے بنے میدان میں بیٹھا وہ اجڑی حالت میں موجود تھا اسکے دائیں ہاتھ میں حرام مشروب کی بوتل تھی جسے وہ گھونٹ گھونٹ اپنے اندر اتار رہا تھا جیسے اپنے اندر کی وحشت و آوارگی کو ختم کرنا چا رہا ہو ۔
آخری دیدار پر وہ سحر کا شکوہ کناں نظروں سے دیکھنا اس کا عکس زیشان کی مدہوش ہوتی آنکھوں کے سامنے لہرایا دل پسیج سا گیا تھا۔
وہ جلد بازی میں جذباتی فیصلہ کر گیا تھا جس کا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہا تھا اسکی راتوں کی نیندیں تباہ و برباد ہو گئی تھیں۔
دوسروں کے دکھوں کا سبب بننے والے شخص کبھی اپنی زندگی میں خوش نہیں رہ سکتے کچھ ایسا ہی حال اب زیشان کا ہو رہا تھا۔
وہ تڑپ رہا تھا پچھتا رہا اپنے کئے گئے فیصلے پر مگر صد افسوس اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ بیتا کل کبھی لوٹ کر نہیں آ سکتا۔
وہ وہیں سوچتے سوچتے اس حویلی کو اپنی نظروں میں بسائے نیند کی آغوش میں چلے گیا۔
صبح سویرے اسکی آنکھ پرندوں کے چہچہانے کی آواز سے کھلی تھی لیکن وہ فوراً ہی اپنی دونوں آنکھوں پر ہاتھ دھر گیا جیسے ہی سورج کی تیز شعائیں اس کے چہرے سے ٹکرائیں۔آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ آرام سے اٹھا تھا خود کو یوں میدان میں دیکھ اس نے اپنے ذہن پر زور دیا جیسے یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو کہ وہ یہاں کیسے آیا لیکن اسکی یہ پریشانی بھی بہت جلد دور ہوئی تھی جب لاشعوری طور پر اسکی نظر سامنے اعلیٰ طرز پر بنی حویلی پر گئی رات کا ہر منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا کہ کیسے وہ بیچین سا آیا تھا یہاں پر سوچتے ہی ایک تلخ ہنسی اسکے چہرے پر در آئی۔
وہ مردہ قدموں سے اٹھ کر وہاں سے چل دیا تھا لیکن جاتے جاتے
زمین پر رکھی کانچ کی بوتل کو ٹھوکر مارنا نہ بھولا جو کہ زمین پر لاورثوں کی طرح گری پڑی تھی اس میں سے آدھے سے ذیادہ جام وہیں گر کر ضائع ہو چکا تھا پوری رات وہیں گزارنے کے باعث اسکے جسم اس کا انگ انگ درد سے ٹوٹ رہا تھا۔
اب سارے بندھن توڑ کہ
یادوں کو تنہاہ چھوڑ کہ
میں غم سے رشتہ جو کہ
جاؤں کہاں
©©©
آج حویلی کی رونقیں ہی جدا تھیں کچھ نفوسوں کے علاہ باقی سب کے چہروں پر ایک منفرد سی مسکراہٹ تھی ہوتی بھی کیوں نا شہیر چوہدری سرداری کے عہدے پر فائز ہونے جا رہا تھا۔
حویلی کے اراکین کے علاوہ ملازمین بھی بہت خوش تھے شہیر کو اس عہدے پر سوچ کیوں کہ احمر کی سنگ دلی کے باعث ہر کوئی اس سے خوف کھاتا تھا لیکن وہیں اسی گھر کا ایک فرد تھا شہیر جو طبعیت میں نرمی رکھتا تھا لیکن گناہ و غیر قانونی کام کرنے والوں کے لئے وہ ایک تپتے سورج کی مانند تھا جو ان کو اپنی لپیٹ میں لئے خاک کر دیا کرتا تھا۔
سفید شلوار قیمض میں کالے رنگ کی کھدر کی چادر کاندھے پر ڈالے دائیں ہاتھ کی گوری کلائی میں برانڈڈ کھڑی پہنے، پیروں میں پشاوری چپل اڑسے ، بالوں کو جیل کی مدد سے ترتیب دئیے وہ کافی وجیہہ لگ رہا تھا۔ آئینے میں سے خود کے عکس کو دیکھ سائیڈ پر رکھی مخصوص پرفیوم کی خوشبو خود کے وجود پر لگائی تھی جس سے پورا کمرا ہی ایک انوکھی خوشبو سے مہک گیا۔
خود پر ایک طائرانہ نظر ڈالے وہ سوچوں میں مگن سحر کی جانب متوجہ ہوا جو کہ اپنی ہی سوچوں میں جانے کیا خیالات بن رہی تھی۔
"کیا بات ہے بیوی نیا پاکستان بنانے کا سوچ رہی ہیں ؟"
سحر کے چہرے کے آگے چٹکی بجاتے اسے ہوش میں لانا چاہا تھا اس نے جو کہ خالی خالی نظروں سے اسکی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔
"ن۔۔نہیں تو ..؟؟"
و ایکدم بوکھلائے ہوئے لہجہ میں گویا ہوئی۔
اسکے انداز پر وہ مسکرا گیا تھا۔
"بیگم چلیں ٹائم ہو گیا ہے سب انتظار کر رہے ہونگے۔"
سحر کی شال اسکے گرد اوڑتے وہ اپنائیت بھرے لہجے میں بولا تھا جبکہ اس نے احتجاج کرنا چاہا۔
"م۔۔مجھے وہاں نہیں جانا۔"
وہ شہیر کی آنکھوں میں دیکھ منمناتے ہوئے بولی تھی لیکن جلد ہی اسکی نظروں کی تپش سے گھبرا کر اپنے نین کٹوروں کو جھکا گئی تھی۔جب کہ سحر کی گھبراہٹ کو محسوس کیے شہیر نے دونوں شانوں سے تھام سحر کا چہرا اپنے روبرو کیا تھا کہ شہیر گرم پر تپش سانسیں اسکے چہرے کو جھلسانے کا کام کرنے لگی تھیں۔
" سحر اب آپ شہیر چوہدری کی بیوی ہیں آپ کی آنکھوں میں یہ خوف کچھ خاص جچتا نہیں اسلئے سر بلند کر کے جینا سیکھیں۔
آئندہ سے آپ کی آنکھوں میں مجھے خوف دیکھائی نہ دے"۔
کہتے وہ آخر میں اپنے لب پورے مان سے اسکی پیشانی پر پیوست کر گیا تھا پھر وہ دونوں ہی ہاتھ تھام حویلی سے چل دیے تھے۔
©©©
گاؤں کے میدان میں ایک بڑی پنچائیت بیٹھائی گئی تھی جہاں پر شہیر کو سرداری کے عہدے سے نوازا جانا تھا ۔میدان کے وسط میں چاروں طرف چارپائیاں لگائی گئی تھیں جس پر سارے بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے جب کہ بیچ میں رکھی گئی چارپائی پر بیٹھے چوہدری وقاص و چوہدری وقار گاہے بگاہے اپنی گھڑی پر نظر ڈال لیتے۔پنچائیت میں بیٹھے تقریباً سب لوگ ہی پچھلے بیس منٹ سے شہیر چوہدری کے منتظر تھے۔
"یہ لڑکا کہاں رہ گیا ہے ؟"
چوہدری وقار سامنے کی جانب دیکھتے الجھ کر بولے تھے کہ تبھی ان کی نظر ایک بلیک لینڈ کروزر پر گئی جو کہ دو منٹ کے وقفے کے بعد ہی ان سے کچھ ہی دوری پر کھڑی ہو گئی تھی اور اس میں سے نکلنے والی ہستی کو دیکھ سب ہی تقریباً شاک میں چلے گئے۔
پنچائیت میں بیٹھے سب لوگ آپس میں چہمگوئیاں کرنے لگے تھے جب کہ چوہدری وقاص غصے سے کھولتے اپنی نشست سے ہی کھڑے ہو گئے۔
اپنی پوری وجاہت کے ساتھ وہ کندھے پر پہنی اس شال کو ایک ادا سے ٹھیک کرتے ہوئےگاڑی سے اترا تھا ساتھ ہی ہاتھ بڑھائے سحر کو بھی اترا تھا جو کہ کنفیوژ سی ہوتی اسکے ساتھ دبکی کھڑی تھی۔
اتنے سارے لوگوں کو دیکھ وہ پریشان سی ہو رہی تھی شہیر کے ہاتھ میں موجود اسکا ہاتھ لرز رہا تھا جس پر شہیر نے ایک نظر اسکو دیکھ اسکے ہاتھ پر گرفت کیے اپنے پن کا احساس دلایا اور سب کے بیچ میں سے چلتا ہوا گیا تھا۔
"یہ لڑکی یہاں کیا کر رہی ہے؟"
چوہدری وقاص غراتے ہوئے بولے تھے اور ساتھ ہی کاٹ دار نظروں سے سحر کے وجود کو دیکھا جو کہ اتنے لوگوں کی نظریں خود پہ پاکر گھبرا رہی تھی۔
"کیوں تایا سائیں کیا ہوا ؟
کیا میں نہیں لا سکتا ؟"
ان کی آنکھوں میں دیکھ بظاہر مسکراتے سرد ترین لہجے میں بولا کم غرایا زیادہ تھا۔
"نہیں بیٹا میں نے ایسا کب کہا میں تو بس یہ کہہ رہا ہوں کہ ایک حویلی کی عورت کا یہاں کوئی کام نہیں۔"
شہیر کو بگڑتا دیکھ وہ بات بدل گئے تھے۔
جب کہ ان کی بات سن وہ مسکراتے ہوئے اکڑو سا چارپائی پر ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھ گیا جب کہ چہمگیویاں کرتے ہجوم پر ایک کٹیلی نظر ڈالی تھی جس پر وہ سب ہی خاموشی سے ہو گئے تھے۔
"چلیں جلدی کریں جو بھی رسم ہے شروع کریں مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں۔"
بیزار سا کہتے اس مغرور شہزادہ نے اپنی گھڑی کی جانب دیکھا تھا۔
شہیر کے موڈ کو سوچتے چوہدری وقاص وہاں بیٹھی پیچائیت کی جانب متوجہ ہوئے۔
"جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ اب تک اس گاؤں کا سردار میں رہا ہوں لیکن بڑھتی عمر کے ساتھ یہ سرداری کا عہدہ میں اپنے بھتیجے شہیر چوہدری کو اس امید سے سونپتا ہوں کہ وہ گاؤں کے نظام کو بھرپور طریقے پر نبھائیں گے۔"
اپنی بات کے مکمل ہوتے ہی ان نے وہ پگ شہیر کو پہنانے کے لئے جیسے ہی اٹھائی تھی وہ بیچ میں ہی ان کا ہاتھ روک گیا تھا۔
پنچائیت میں لوگوں کا تالیاں بجاتا ہاتھ تھم سا گیا تھا اچانک ہی ماحول سکوت زدہ سا ہو گیا۔
"گستاخی معاف تایا سائیں ! مگر میں یہ پگ اپنی بیوی کے ہاتھوں پہننا چاہوں گا۔"
شہیر کی اس بات نے جہاں چوہدری وقاص کے چہرے کا رنگ زرد مائل کیا تھا وہیں سحر نے اپنی ویران آنکھیں اٹھائے اس دشمنِ جاں کو دیکھا تھا۔
"مگر شہیر بیٹا یہ ہمارے رواج میں نہیں ہے۔"
اپنے بھائی کا غصے سے زرد چہرا دیکھ چوہدری وقار نے شہیر کو سمجھانا چاہا تھا مگر وہ ان کی بات بھی ٹال گیا۔
"نہیں بابا سائیں اگر یہ رواج میں نہیں ہے تو آج سے اسے رواج میں شامل کر لیجیے ویسے بھی مرد و عورت دونوں کے حقوق و فرض ایک ہی ہیں اسلئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ رسم ایک مرد ادا کرے یا عورت ۔"
اٹل لہجے میں کہتا وہ اپنے پیچھے کھڑی سحر کا ہاتھ تھام آگے کر گیا تھا اور چوہدری وقاص کو آنکھوں کے اشارے سے پگ سحر کو تھمانے کا کہا جس پر وہ کلس کر رہ گئے اور خاموشی سے وہ پگ سحر کے ہاتھوں میں تھما دی۔
"پہناؤ۔۔"
چوہدری وقاص نے کاٹ دار نظروں سے سحر کے وجود کو دیکھ بھرم سے کہا تھا جسے سن وہ شہیر کے سر پر پگ پہنانے کو آگے بڑی تھی اسکے ہاتھوں میں لرزش صاف واضح تھی جب کہ چہرا پسینے سے تر ہو رہا تھا۔ پگ پہنا کر وہ پیچھے کو ہٹی تھی کہ وہ پوری پنچائیت ہی تالیوں کے شور سے گونج اٹھی وہ فخریہ مسکان چہرے پر سجائے اپنی نشست سے کھڑا ہوا تھا چوہدری وقار نے مسکراتے ہوئے اسے اپنے گلے لگایا اور مبارک باد دی جسے اس نے بھی مسکرا کر قبول کیا اور پھر وہاں موجود لوگوں کی جانب متوجہ ہوا۔
"اب جیسا کہ آپ سب جان چکے ہیں کہ میں یعنی کے چوہدری شہیر آپ سب کا ، اس گاؤں کا ایک نیا سردار۔۔۔"
کہہ کر وہ کچھ پل کے لئے رکا تھا اور سحر کی جانب دیکھا جو جب حسبِ معمول نظریں جھکائے کھڑی زمین کو گھورنے میں مصروف تھی شہیر نے سب کے سامنے اسے محبت سے تھام اپنے قریب کیا جس پر وہ بوکھلا کر رہ گئی اور حیران کن نظروں سے اسکی جانب دیکھنے لگی جو کہ اب اپنی نظریں واپس سامنے مرکوز کرتے ہوئے اپنا کلام جاری کیا۔
"اور یہ آپ سب کی سردارنی یعنی کہ میری بیوی سحر شہیر چوہدری ہیں۔ان کا ادب ، ان کی عزت و احترام آپ سب پر واجب ہے۔ان کو آپ اتنی ہی عزت دیں گے جتنی ایک سردارنی کو دی جاتی ہے۔
باقی جہاں تک رہی آپ لوگوں کے حقوقِ کی بات ان شاءاللہ اس میں آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔"
وہ استحقاق سے اسکے گرد حصار بنائے کھڑا تھا وہ ٹرانس سی کیفیت میں شہیر کو دیکھتے ہوئے اس کے ہر لفظ کو سنتے ہوئے اپنے دل میں اترتا محسوس کر رہی تھی۔
کیا یہ وہ جگہ نہ تھی جہاں اسکی ذات کو کم تر ظاہر کیے ، اس معصوم کا خون کے بدلے سودا کیا گیا تھا؟
کیا یہ وہ جگہ نہ تھی جہاں وہ ستمگر اسے کھنچتے ہوئے قید خانے میں لے کر گیا تھا صرف نام نہاد بدلے کی خاطر ؟؟
لیکن آج ! اسی گھر کا ایک فرد اسے ایک اعلیٰ مقام عطا کر گیا تھا کیا ظالموں کے بیچ میں مسیحا بھی پائے جاتے ہیں؟
ہاں یہ حقیقت ہے جہاں ایک بھائی نے ظلم ڈھانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی تھی وہیں دوسرا بھائی اس کو محبتیں و عزتیں دے نہیں تھک رہا تھا اتنی عزت و اپنائیت پر وہ اپنی آنکھوں میں بہنے والے ان اشکوں کو نہ روک سکی تھی۔
"اور ہاں ایک بات اور۔۔
جاتے جاتے وہ واپس پلٹا تھا۔۔
اس اتوار ہمارا ولیمہ ہے آپ سب نے ضرور شرکت کرنی ہے۔"
اپنی مخصوص پر رونق مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ اپنی پری کو لئے وہاں سے چل دیا جب کہ پیچھے کھڑے چوہدری وقاص کا چہرا حیرت کی زیاتی سے کھل چکا تھا انہیں ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ شہیر نے جو لفظ کہیں ہیں وہ حقیقی ہیں۔
اپنے امڈ آنے والے غصے کو ضبط کیے آنکھوں پر چشمہ سجائے وہ بھی انہی کے پیچھے چل دئیے تھے۔
©©©
کچھ گھنٹوں پہلے زیشان باہر سے آرہا تھا کہ گلی کے کونے پر بیٹھے کچھ لڑکوں کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی جو کہ آپس میں کسی ونی کے بارے میں باتیں کر رہے تھے اور یہی وہ لمحہ تھا جب اسکے کان کھڑے ہوئے اور وہ وہیں ان کے پاس کھڑے بغور ان کی باتیں سننے لگا۔
"چوہدری کی حویلی میں ونی کی جانے والی لڑکی پر صحیح قسم ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔اتنا عبرت ناک سلوک کرتے ہیں وہ لوگ کہ کئی بار تو ونی موت کے منہ میں جاتی جاتی بچی ہے۔
بیچاری کی بہت غیر حالت کر رکھی ہے ان نے۔"
وہ لڑکا انتہائی افسوس ظاہر کیے بولا تھا جب کہ زیشان کے لئے اب وہاں مزید کھڑے رہنا دوبھر ہو رہا تھا ایک گھٹن سی بڑھنے لگی دل میں گلٹ سا پیدا ہو رہا تھا تب ہی وہ وہاں سے گھر کی جانب ہو لیا۔
اور گڑگڑاتے ہوئے وہ خدا کے حضور سجدے میں جھکا تھا آنسوں اس کی آنکھوں کو بھگو رہے تھے بے شک وہ جوش میں آکر ایک انتہائی قدم اٹھا گیا تھا لیکن اب وہی قدم اسکے قدموں کو زنجیروں کی مانند جکڑ گیا تھا کہ جینا اس پر بھاری ہونے لگا۔
"یا آلله ! خود کو اس بوجھ تلے محسوس کیے میں نہیں جی پا رہا۔
میں نے ایک معصوم جان کو زندہ ہی جہنم کی جلتی آگ میں دہک دیا میں نے۔۔میں نے اپنی ہی محبت کا خود گلا گھوٹ کے مار دیا۔۔
جس محبت کی م۔۔میں عبادت کرتا تھا اسکی کو کفن پہنا ڈالا مجھے معاف کر دے خدایا۔
مجھے سکون دے ، مجھے سکون دے ۔۔
میں تو اس سے نظریں ملانے کے قابل ہی نہ رہا۔۔
کیوں اللہ کیوں میں ہی ؟؟؟
میں ہی کیوں ملا تجھے امتحان کے لئے ؟؟
جب میری۔۔۔ میری محبت ہی چھین لی ہے تو مجھے زندہ کیوں رکھا ہے موت دے دے مجھے بھی۔ نہیں جینا مجھے اس بے رنگ دنیا میں۔"
وہ توانا نظر آنے والا مرد رو رہا تھا خدا کے حضور بے شک اپنے سکون کے لئے صحیح اس نے خدا کو یاد تو کیا۔
وقت کے کتنے نشاں ہیں زرے زرے میں یہاں
دوستوں کے ساتھ کے پل کچھ حسین کچھ غم زدہ
سب ہوا اب تو فنا بس رہا باقی دھواں
اب دیکھنا یہ تھا کیا زیشان کو مل پائے گی معافی؟
حویلی پہنچنے کے بعد چوہدری وقاص بنا کسی کی جانب دیکھے غصے سے اپنے کمرے میں چل دیے جب کہ چوہدری وقار نے خائف نظروں سے شہیر کی جانب دیکھا۔
"شہیر بیٹا جو بھی تھا مگر آپ کو اس بچی کو وہاں نہیں لانا چاہیے تھا۔ "
چوہدری وقاص کی ناراضگی کا سوچ وہ شہیر سے خفا ہوئے تھے۔
"بابا سائیں میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں مگر مجھے اب بھی ایسا لگتا ہے کہ میں نے جو کیا ٹھیک ہی کیا ہے کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتا تو سحر کو ایک بیوی کا رتبہ سب کے سامنے کبھی نہ ملتا وہ آج گاؤں والوں کی نظروں میں ایک ونی ہی رہتی اور یہ بات مجھے گوارا نہیں تھی۔
آپ تو جانتے ہی ہیں سحر کی اس حویلی میں آمد کیسے ہوئی تھی؟
اس کو اسی پنچائیت میں سب کے سامنے ونی جیسے گرے ہوئے رتبے سے نوازا گیا تھا میں نے تو بس ایسا کر کے اس کے سر سے وہ ونی کا داغ ختم کیا ہے اور ایک بیوی اور سردارنی کا تاج پہنایا ہے۔
کیا اب بھی آپ کو ایسا لگتا ہے کہ میں نے غلط کیا ؟؟؟"
ان کی آنکھوں میں دیکھ وہ مخاطب ہوا تھا جب کہ اپنے بیٹے کے لہجے میں چھپی سنجیدگی کو دیکھ چوہدری وقار خاموش ہو گئے۔
کہیں نا کہیں وہ شہیر کی بات سے اتفاق کر گئے تھے۔
©©©
"بھائی آپ موڈ تو ٹھیک کر لیں صبح سے خاموش بیٹھے ہیں شہیر کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں آپ سے پلیز نظر انداز کر دیں اس بات کو ۔"
چوہدری وقار اپنے بھائی کی خاموشی کو دیکھ شرمندہ سے ہو رہے تھے۔
"تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے وقار ، اور میں تم سے ناراض بھی نہیں ہوں بس شہیر کا یوں بھری پنچائیت میں اس لڑکی کو لانا مجھے کافی ناگوار گزرا ہے تم تو یہ بات اچھے سے جانتے ہو کہ عورت کی عزت کے معاملے میں ، میں کتنا سخت طبعیت ہوں مجھے نہیں اچھا لگا کہ وہ لڑکی سب مردوں کے سامنے وہاں لائی گئی ہے۔ "
"بھائی ناراض تو نہ ہوں نا بچہ سمجھ کر معاف کر دیں۔"
ان کو مزید بھپرتے دیکھ انہوں نے بات کو ختم کرنا چاہا۔
"وقار جو بھی ہے شہیر نے ٹھیک نہیں کیا سحر کو بھری پنچائیت میں لے جا کر آخر کو وہ ایک عورت ہے ، اس کا وہاں کوئی کام نہ تھا۔"
سنجیدگی سے کہتے وہ پیچھے کرسی پر ٹیک لگا گئے تھے۔
جب کہ ان کی بات سن اندر ہال میں بڑھتے شہیر کی قدم تھمے وہ اندر جانے کے بجائے وہیں ان ہی کی جانب آکھڑا ہوا اور طنزیہ نظروں سے چوہدری وقاص کی جانب دیکھا جب کہ وہ اپنا رخ دوسری سمت پھیر گئے تھے۔
"واہ ! تایا سائیں واہ ! شہیر چوہدری قربان جائے آپ کی اس بے تکی لاجک پر ، مطلب حد ہے جب بھری پنچایت میں سب مردوں کے سامنے اس کو ونی کیا گیا تھا کیا تب آپ کو اسکا عورت ہونا نظر نہ آیا تھا جو اب آپ عورت کے حقوق و فرائض کا درس پڑھا رہے ہیں۔"
ان کی جانب کٹیلی نظروں سے دیکھ وہ طنزیہ انداز میں مخاطب ہوا۔
"شہیر تب اس لڑکی کا تعلق ہماری حویلی و خاندان سے نہیں تھا اسلئے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔"
دانت کچکچاتے وہ اپنے شرمندگی مٹاتے بولے تھے کہ شہیر نے افسوس کن نظروں سے ان کی جانب دیکھا۔
"عورت حویلی کی ہو یا کسی غریب کسان کی ، عورت عورت ہی ہوتی ہے تایا سائیں ، رشتے بدلنے سے اسکی جنس یا رتبہ نہیں بدل جایا کرتے اور جہاں تک مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کو مسئلہ سحر کے وہاں ہونے سے نہیں بلکہ اس بات سے ہے کہ میں نے وہ پگ آپ کے ہاتھوں کے بجائے اسکے ہاتھوں سے پہنی۔"
اپنی آنکھیں ترچھی کیے وہ انہیں گھور کر بولا شہیر کے لہجے میں بلا کا غصہ و سنجیدگی نمایاں تھی وہ پختہ و اٹل لہجے میں کہتا ان کو خاموش کروا گیا تھا جب کہ شہیر کی بات سن وہ سر جھٹکتے اٹھ کر اندر کی جانب چل دئیے۔
©©©
"ارے واہ اتنا بھن ٹھن کے کہاں جا رہے ہو ؟
کہاں کی سواری ہے بھئی تم دونوں کی ؟"
شہیر اور سحر کو ایک ساتھ باہر جی جانب جاتا دیکھ نورے بیگم اپنی عادت کے مطابق طنز کرنا نہ بھولی تھیں جب کہ ان کے یوں سوال کرنے ہر شہیر نے بیزاری سے ان کی جانب دیکھا۔
"ہم تیار کیوں ہوئے ہیں یہ بتانا میں آپ کو ضروری نہیں سمجھتا اور ہم کہاں جا رہے ہیں یہ جاننا آپ جیسی کے لئے ضروری نہیں۔"
لبوں پر طنزیہ مسکان سجائے وہ نورے بیگم کی آنکھوں میں دیکھ درشتگی سے بولا تھا جب کہ اپنی یوں براہِ راست بے عزتی کیے جانے پر نورے بیگم کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
"جب معلوم ہے کہ بے عزتی ہی ہونی ہے تو بہتر ہے نا کہ اپنا منہ بند ہی رکھا جائے۔"
نورے بیگم کے سناٹے کی ضد میں آئے وجود کو دیکھ میمونہ بیگم اپنی ہنسی ضبط کیے بولی تھیں اور وہاں سے لان کی جانب چل دی جب کہ نورے بیگم اپنی بے عزتی پر کھولتی صوفے پر آن بیٹھی شہیر و سحر سمیت میمونہ بیگم کو بھی دل میں کئی سلاواتوں سے نواز چکی تھیں۔
©©©
عمارہ کے بہت اسرار پر احمر اسے اپنے ساتھ حویلی لے آیا تھا وہ تھوڑی نروس و ایکسائیڈٹ ہو رہی تھی اس کے چہرے پر ایک الگ سی رونق چھائی ہوئی تھی۔ نورے بیگم و چوہدری وقاص سمیت حویلی کے تمام اراکین شاک تھے احمر کے ساتھی کسی ماڈرن لڑکی کو دیکھ ان کی حیرانی مزید شاکٹ میں بدلی تھی جب احمر نے عمارہ کا تعارف اپنی بیوی کی حیثیت سے کروایا۔
سب نے اس تکھے نین نقوش والی سفید رنگت عمارہ کو دیکھا جس کے بال گولڈن ڈائے کئے بال ہلکے کیچر میں قید کمر پر لہرا رہے تھے جینس کُرتے میں ملبوس وہ بنا ڈوپٹے کے ان کے سامنے کھڑی مسکراتی نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی۔
نورے بیگم تو منہ پر ہاتھ رکھے مسکراتی ہوئی آگے بڑی تھیں اور فوراً سے عمارہ کو اپنے گلے لگایا۔
"واہ احمر پتر مان گئی تجھے ، کتنی سوہنی بہو ڈھونڈی ہے میرے لئے بالکل ایسی لڑکی چاہیے تھی مجھے۔"
وہ ستائشی نظریں عمارہ کے وجود پر گاڑے احمر کے شانے تھپکتے بولی تھیں جب کہ چوہدری وقاص اس پر سرسری سی نظر ڈال اندر ہو لیے۔ عمارہ کی آنکھ میں موجود چمک جو ان کو دیکھ نمودار ہوئی اس نے بیچین کر ڈالا تھا چوہدری وقاص کو کہ وہ نظر انداز کرتے اندر ہو لیے جب کہ عمارہ کے لبوں پر ایک عجب سی مسکان نمودار ہوئی تھی۔
©©©
شہیر سحر کو اپنے ساتھ لئے فاتح کے گھر آیا تھا اس کا ارادہ سحر کو تین دن یہاں ٹھہرانا کا تھا وہ چاہتا تھا کہ فنکشن سے پہلے سحر یہاں کچھ وقت پشمینہ کے ساتھ گزار لے تا کہ وہ حویلی میں جو تیاریاں کروانی ہے وہ آرام سے کروا سکے۔
وہ دونوں اس وقت لان میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے
جب کہ اس کے بر عکس سحر خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھی اپنے ہاتھوں سے کھیلنے میں مصروف تھی۔
"پشمینہ بھابی۔۔
سحر کو اندر لے جائیں اور انہیں خوف پر قابو پاتے ہوئے تھوڑا بولنا سیکھا دیں۔"
شہیر نے سب کے بیچ پزل ہوتی سحر کو دیکھ کہا تھا جب کہ شہیر کی بات سن فاتح کا قہقہہ گونجا۔
"شہیر جانی یہ مینہ کیا سیکھائے گی ، یہ تو خود ڈرتی پھرتی ہے ۔۔"
قہقہ لگائے وہ مینہ نے وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں لیے بولا تھا کہ پشمینہ نے شکوہ کناں نظروں سے اسکی جانب دیکھا تھا۔
فاتح کو مصنوعی گھوری سے نوازتے وہ سحر کا ہاتھ تھام اندر کی جانب چل دی۔
جب کہ فاتح و شہیر دونوں ہی اپنی اپنی بیگمات کو جاتا دیکھتے رہے پھر واپس سے اپنی باتوں میں مشغول ہو گئے۔
©©©
احمر کو حویلی آئے دو دن بیت چکے تھے وہ حیران تھا شہیر و سحر دونوں کو حویلی میں نا پا کر اسے سمجھ نہ آئی کہ وہ لوگ گئے کہاں ہیں وہ تو انہیں کمتر ظاہر کروانے کے لئے عمارہ کو اپنے ساتھ یہاں حویلی لایا تھا لیکن اب انہیں وہاں موجود نہ دیکھ وہ الجھ کر رہ گیا تھا بلآخر تنگ آنے کے بعد وہ سیدھا نورے بیگم کے پاس آیا کہ شاید وہ ہی جانتی ہونگی ان کے بارے میں لیکن اس کی یہ خوش فہمی بھی بہت جلد دور ہو گئی جب وہ اسے دیکھ غصے و ناراضگی سے اپنا منہ موڑ گئی تھیں۔
"احمر چلے جاؤ یہاں سے۔"
نورے بیگم غصے کی زیاتی سے اپنا رخ پھیر گئی تھیں۔
"کیا ہو گیا ماں ؟"
ان کے یوں غصے سے چلائے جانے پر وہ بیزار سا ہوا تھا ایک تو ویسے ہی اس کا موڈ اوف تھا اوپر سے نورے بیگم کا یہ ردعمل اسکا دماغ گھومانے کا باعث بنا۔
"یہ تو مجھ سے پوچھ رہا ہے کیا ہوا ؟
یہ جو آج حویلی کے حالات ہیں نا تیری ہی بدولت ہیں ۔"
"میری وجہ سے۔۔؟؟"
وہ حیرت کی زیاتی سے چلاتے ہوئے بولا ۔
"نا تو سحر کو طلاق دیتا نہ ہی شہیر کا نکاح سحر کے ساتھ ہوتا۔
اس نکاح کی وجہ سے اسے کتنی ہلا شیری مل چکی ہے جو ہمیں ہی دو بدو جواب دینے پر تلی ہوئی مطلب وہ لڑکی جس کی اوقات ہمارے سامنے دو ٹکے جتنی بھی نہیں ہمارا مقابلہ کرنے چلی ہے۔"
غصے سے کھولتی وہ ساتھ احمر کو بھی باتیں سنا گئی تھیں کہ وہ ان کی باتوں پر اپنا ماتھا پیٹتا وہاں سے چل دیا۔
©©©
شہیر کسی سے فون پر بات کرتا گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک خوبصورت منظر پر اٹک کر رہ گئی وہ اسٹیل سا اپنی جینس کی جیب میں ہاتھ ڈالے ایک ہاتھ سے فون کان پر لگائے کھڑا اپنی محبوبہ کو تک رہا تھا جو نجانے کب سے اپنے بالوں کی زلفوں سے کشتی کرنے میں مصروف تھی اس کے چہرے سے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اب الجھن کا شکار ہونے لگی ہے شہیر سر جھٹکے مسکراتا ہوا روم میں آیا۔
"کیا ہوا بیگم صاحبہ آپ اتنی الجھی ہوئی کیوں ہیں"...؟؟
اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھے وہ لب دبائے بولا کہ سحر نے شکوہ کناں نظروں سے اس کی جانب دیکھا جیسے کہنا چا رہی ہو کہ سب دیکھتے ہوئے بھی پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہوا۔
"مجھے بھوک لگی ہے بھابھی نے کہا میں آکر کھلاتی ہوں مگر وہ اب تک نہیں آئی ہیں۔"
سر جھکائے وہ معصومیت سے بھرے لہجے میں گویا ہوئی اس کے گال ایسی سیٹویشن میں ہلکے گلابی رنگ میں ڈھل سے گئے تھے کہ شہیر کہ اختیار ہوتا انہیں پیار سے کھینچ گیا۔
"کیوں آپ خود نہیں کھا سکتیں آپ کے ہاتھوں پر مہندی لگی ہے؟"
ہاتھ چہرے پر ٹکائے وہ آنکھوں میں محبت و شرارت بیک وہ سمیٹے گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔
"مہندی ہی تو لگی ہے ورنہ میں خود ہی کھا لیتی ویسے بھی اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کہ دوسروں کے آسروں پر جینے والوں کو یہ دنیا جینے نہیں دیتی۔"
نارمل لہجے میں کہتے کہتے وہ سنجیدہ سی ہوئی تھی۔
"او کم آن وائفی سردارنی صاحبہ۔۔۔"
چہرے پر چھائی وہ گہری زلفوں کو شہیر چوہدری نے پرے دھکیلا تھا
"جب تک آپ کا شوہر آپ کے ساتھ ہے آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ویسے اتنا اداس نہیں ہوتے ،آپ کو بھوک لگی ہے نا لائیں میں کھلا دیتا ہوں فکر ہی کوئی نہیں۔۔"
اس کا رخ اپنی جانب کیے پلیٹ میں رکھا گیا فروٹ باری باری اپنے ہاتھوں سے کھلایا تھا شہیر نے اسے وہ جھجھک رہی تھی لیکن جلد ہی لیکن خود پر تھوڑا قابو پا گئی۔
شہیر سحر کو اپنے ساتھ دوپہر میں ہی لئے پارلر جا چکا تھا جب کہ فاتح اور مینہ گھر پر ہی موجود تمام کام دیکھ رہے تھے فاتح تقریبا سب کام نبٹانے کے بعد مینہ کو لینے جیسے ہی روم میں اینٹر ہوا اسکو بالکل سادہ سا تیار دیکھ ششدر رہ گیا تھا حیرت کی زیاتی سے منہ سے گھٹی گھٹی آواز برآمد ہوئی۔
"مینہ ۔۔۔"
وہ حیرت کی زیاتی سے چلایا تھا اس کو سادے کاٹن کے سوٹ میں دیکھ جس پر اس نے ہلکی بھورے رنگ کی چادر اوڑھے خود کو کوور کیا تھا۔
"کیا ہوا آپ تو ایسے چلا رہے ہیں جیسے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو ؟"
اپنے بال کو جوڑے میں قید کیے اس نے آنکھیں پٹپٹائے کہا
"بھوت نہیں ، جاناں ایلین بولو ایلین۔"
اپنے ماتھے کو سہلاتے وہ اس کے نک سک سے تیار وجود کو دیکھتے بولا جب کہ فاتح کی بات سن مینہ نے اچھی خاصی گھوری سے نوازا ۔
'آپ جانتے ہیں میری اس طرح کی کنڈیشن ہے کہ میں اتنے شوخ ریشمی کپڑے زیب تن نہیں کر سکتی گھٹن ہوتی ہے مجھے پھر بھی آپ ایسا کہہ رہے ہیں ویری بیڈ۔۔۔"
وہ منہ بسورے سائیڈ پر ہوئی تھی۔
"جاناں میں یہ کب کہہ رہا ہوں کہ آپ شوخ ڈریس پہنے، میں نے تو بس اتنا کہا ہے کہ کچھ اچھا سا پہن لیں لیکن تھوڑا کامدار جوڑا ہو۔"
اسکے گال کو محبت سے سہلائے وہ الماری کی جانب گیا وہاں سے پیچ کلر کا ایک ہلکا کامدار جوڑا نکال لایا اور پشمینہ کے ہاتھوں میں تھاما۔
"جاؤ یہ پہن لو ، میں ویٹ کر رہا ہوں ہمیں نکلنا بھی ہے شہیر ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔"
اس کو ڈریس تھمائے وہ خود صوفے پر بیٹھ فون یوز کرنے لگا جب کہ مینہ بھی کچھ ہی دیر اس لباس کو زیب تن کیے ڈریسنگ سے جیسے ہی باہر آئی تھی فاتح کے لبوں سے بے اختیار ماشاءاللہ نکلا۔
"بیوٹیفل ، پرفیکٹ اب لگ رہی ہو نا مسسز فاتح !"
آنکھ ونک کیے وہ شرارتاً بولا تھا کہ مینہ مسکرا کر سر جھکا گئی تھی۔
©©©
آج کا دن حویلی کے مکینوں کے لئے خوشیوں کی نوید لایا تھا میمونہ بیگم ، سکینہ بیگم اور چوہدری وقار سمیت تمام ملازمین تیاریوں میں جٹے ہوئے تھے البتہ نورے بیگم جلی بھنی سی اپنے کمرے میں ہی بند تھیں ان سے کہاں برداشت ہو پاتی تھی دوسروں کی خوشیاں۔
پورے گاؤں کو کسی دلہن کی مانند سجایا جا رہا تھا جب کہ اس سب میں چوہدری احمر بوکھلایا بوکھلایا پھر رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب تیاریاں ہو کس وجہ سے رہی ہیں۔
"بات سنو یہ اتنی تیاریاں کس وجہ ہو رہی ہیں ؟"
اسٹیج سجاتے شخص کو دیکھ وہ آنکھیں سکیڑے بولا تھا کہ مقابل نے بے یقنی سے اسکی جانب دیکھا تھا مطلب گھر کے فرد کو ہی معلوم نہ تھا کہ یہ سب تیاریاں کس وجہ سے کروائی جا رہی ہیں۔۔
"کیا ہوا بول بھی دو ، خاموش کیوں ہو گئے ؟"
سامنے کھڑے آدمی کو خود کو تکتے پا کر وہ نخوت سے بولا تھا۔
"معذرت صاحب ہمیں نہیں معلوم ، ہمیں تو بس یہ اسٹیج سجانے کا کام دیا گیا ہے جسے ہم کر رہےہیں۔"
نظریں جھکائے کہتا وہ واپس اپنے کام میں مشغول ہو گیا تھا جب کہ احمر نے بھنونے اچکائے ، دانت کچکچاتے اس شخص کو دیکھا۔
"جب معلوم نہیں تھا تو پہلے کہہ دیتے کب سے یوں گھوری جا رہے ہو۔"
نخوت سے سر ہلائے وہ اندر کی سمت چل دیا۔
©©©
"احمر بتائیں میں کیسی لگ رہی ہوں؟"
دھوتی سوٹ پر ملبوس بالوں میں پراندھا لگائے ہلکے میک اپ کے ساتھ عمارہ نے ایک ادا سے پوچھا تھا۔
احمر جو اپنی سوچوں میں محو عمارہ کے یوں اچانک بلانے پر چونک کر اس کی جانب دیکھا جو کہ نک سک سی تیار کھڑی اس سے اپنی تعریف کی منتظر تھی۔
"تم کہاں جا رہی ہو ؟ اور یہ سوٹ تمہارے پاس کہاں سے آیا ؟"
احمر کے سوال پر وہ حیرت و ششدر پن کے عالم میں اس کو تک رہی تھی جو عمارہ کی تعریف کرنے کے بجائے اس کو کندھے سے جھنجھوڑتے الٹا سوال گو تھا۔
"اح۔۔احمر کیا ہو گیا ہے آپ کو چھوڑیں مجھے اور یہ کیسے بات کر رہے ہیں آپ میں بھلا کہاں جاؤں گی اس انجان جگہ پر مجھے تو یہ سوٹ بڑی ماں نے دیا تھا کیونکہ ۔۔۔"
"عمارہ بی بی !
آپ کو بڑی بیگم صاحبہ نے بلایا ہے۔"
ملازمہ کی دی جانے والی آواز کے باعث عمارہ کو بات مکمل کرنے کا موقع نہ ملا تھا وہ احمر سے ایکسکیوز کرتی اپنے ہاتھ چھڑائے بنا اس کی جانب دیکھے نیچے چل دی جب کہ سدا کا سائیکو احمر چوہدری غصے کے عالم میں لب بھینچتا رہ گیا۔
©©©
آج وہ دن آ پہنچا تھا جس کا شہیر نے بہت بے صبری سے انتظار کیا تھا ان کے ولیمے کا دن جس میں وہ سب کے سامنے اپنے نکاح جیسے پاک رشتے کو سب کے سامنے واضح کرنا چاہتا تھا سحر کا رتبہ اس کا درجہ نورے بیگم و احمر کے سامنے بتانا چاہتا تھا۔
شہیر چوہدری کی گاڑی گاؤں کی جس شاہراہوں سے گزر رہی تھی اسے رنگ برنگے دیگر قسم کے پھولوں و بتیوں سے سجایا گیا تھا گاؤں کی ان خوبصورت انداز سجائی گئی شاہراہوں سے گزرتی ان کی گاڑی جیسے ہی حویلی کے سامنے رکی تھی سحر دنگ رہ گئی تھی اتنی خوبصورت سجاوٹ کو دیکھ اس نے بے یقینی کی سی کیفیت میں گھونگھٹ کے ہالے میں سے اپنے پہلو میں موجود چوہدری شہیر کو دیکھا تھا۔
وہ دونوں ہی اس وقت اپنی بھرپور وجاہت کے ساتھ کسی ریاست کے شہزادے و شہزادی کی مانند اس مہنگے بچھائے گئے قالین پر چلتے اسٹیج تک آئے تھے ان کو دیکھ کچھ ایسا گمان ہو رہا تھا جیسے وہ صرف ایک دوسرے کے لئے ہی بنے ہوں اور واقعی ایسا ہی تھا وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے ہی بنائے گئے تھے ایک دوسرے کی ڈھال تھا تو دوسرا پہلے کی محبت و دیوانگی۔
وہ دونوں اسٹیج پر پہنچے ہی تھے کہ فاتح بھی ہاتھ میں مائک لئے ان کے پیچھے ہو لیا۔
"جی تو لیڈیز اینڈ جینٹل مین ! اب ہمارے دولہے راجا ہماری بھابھی صاحبہ یعنی اپنی دلہن کا گھونگھٹ اٹھانے کی رسم پوری کریں گے۔"
فاتح کی سحر زدہ آواز سے ماحول میں چھائے شور میں یکدم سا سکوت چھایا تھا لیکن اس کی آخری بات کے ساتھ ہی ماحول میں پھر سے تالیوں کی آواز گونج اٹھی۔
وہ دونوں اسٹیج پر کھڑے سب کی نظروں کا مرکز بنے ہوئے تھے ۔ جاناں تیار ہو ؟
آس پاس موجود عوام پر نظریں جمائے وہ اپنے سامنے کھڑی سحر کے گھونگھٹ کے پیچھے چھپے چہرے کو دیکھ سرگوشی نما آواز میں بولا تھا جس پر سحر نے سختی سے خود کی میکسی کو پکڑا اس کی زبان تو گویا تالوں سے چپک کر رہ گئی تھی شہیر نے ہولے سے سحر کا گھونگھٹ اٹھایا لیکن اگلے ہی لمحے وہ ٹھٹھک کر رہ گیا تھا جب سامنے وہ دلربا کسی پری پیکر کی مانند سجی سنوری نظریں جھکائے کھڑی تھی شہیر چوہدری کی نظریں اس کے ہوش ربا سراپے پر ہی اٹک گئی تھی جہاں وہ اس کے دل کو گھائل کرنے کے تمام ہتھیار سے لیس اس کی دسترس میں موجود تھی اس کے سامنے سحر نے اپنی جھل مل کرتی پلکیں اٹھا کر سامنے کھڑے اپنے شہزادے کو دیکھا تھا ایک لمحے کے لئے ہی صحیح لیکن دونوں کی آنکھیں دو چار ہوئی تھیں گہری آنکھیں بھوری آنکھوں سے ٹکرائی تھیں۔
ایک کی آنکھوں میں گھبراہٹ و محبت کی ملی جلی کیفیت تھی جبکہ دوسرے کی آنکھوں میں اپنی پری کو دیکھ محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر سحر کے وجود میں لرزش صاف واضح تھی شہیر بے اختیار ہوتا جھک کر سب کے سامنے اپنے لب پوری عقیدت و حق کے ساتھ اس کی پیشانی پر پیوست کر گیا تھا وہیں وہ حسین منظر کیمرے کی آنکھ نے قید کر لیا۔
ساری عوام انہیں رشک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی جب کہ ان سب میں کوئی وجود ایسا تھا جو یہ تمام منظر جلتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا احمر چوہدری کے بس میں نہیں تھا کہ سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دے سحر و شہیر کو ایک ساتھ خوش دیکھ اس سے رہا نہیں جا رہا تھا کونے پر رکھی گئی کرسی بیٹھ گیا تھا وہ جب کہ اس کے پہلو میں موجود عمارہ تو خود شاکڈ تھی شہیر کو احمر کے بھائی کے روپ میں دیکھ اور سب سے زیادہ حیرت اسے تب ہوئی جب مسٹر فاتح کو بھی وہیں پایا تھا اس نے۔
"واؤ احمر مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میرے باس ہی میرے جیٹھ جی ہیں اور ان کی وائف واؤ کتنی کیوٹ ہیں نا ۔"
سامنے اسٹیج پر موجود سحر و شہیر کی جوڑی کی دل سے تعریف کی تھی اس نے کہ عمارہ کی بات سن احمر نے ترچھی نظروں سے سحر کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر شرمنگی مسکان کے ساتھ محبتوں کا گلال بچھا ہوا تھا۔
وہ دونوں کتنے خوش لگ رہے تھے ایک ساتھ احمر چوہدری کلس کر رہ گیا سحر کا ساتھ یوں شہیر کے ساتھ احمر کو زہر معلوم ہو رہا تھا وہ سر جھٹک کر رہ گیا۔
احمر اپنی سوچوں میں محو تھا کہ اچانک ہال کی لائٹس اوف ہوئی تھیں اور اسپاٹ لائیٹس جلائی گئی جو کہ ہال کے بیچ میں کھڑے چوہدری شہیر و سحر کو فوکس کیے ہوئے تھی بیک گراؤنڈ پر چلتا دل والے فلم کا گانا ماحول کو خواب ناک بنا رہا تھا۔
جنم جنم جنم ساتھ چلنا یونہی
قسم تمہے قسم آکے ملنا یہیں
ایک جان ہیں بھلے دو بدن ہو جدا
میری ہوکے ہمیشہ ہی رہنا
کبھی نا کہنا الوداع
سحر کے دونوں ہاتھوں کو شہیر نے اپنے کندھے پر رکھ اسکی کمر کو اپنے ہاتھوں سے تھام ہلکا ہلکا موو لیا تھا شہیر چوہدری کی نظریں اپنی سحر پر طاری تھیں جب کہ سحر کی نظریں نیچے زمین پر۔
میری صبح ہو تمہی
اور تمہی شام ہو
تم درد ہو تم ہی آرام ہو
میری دعاؤں سے آتی ہیں بس یہ سدا
میری ہوکے ہمیشہ ہی رہنا
کبھی نا کہنا الوداع
شہیر چوہدری نے سحر کو گول گھومایا تھا جس کے باعث اس کی میکسی کا گھیرا بھی گول گھومتے ہوئے ایک دلکش نظارہ پیش کرنے لگا تھا۔
تیری باہوں میں ہیں میرے دونوں جہاں
تو رہے جدھر میری جنت واہینجل رہی اگن ہیں جو یہ دو طرفہ
نا بجھے کبھی میری مانت یہی
تو میری آرزو، میں تیری عاشقی
تو میری شائری، میں تیری موسیکی
سحر کو گول گھوماتے ہوئے سحر کو اپنے دائیں بازو پر گرایا تھا جس پر وہ اپنی آنکھیں میچ کر رہ گئی تھی سحر کی اس ادا پر وہ دھیما سا مسکرا دیا۔
طلب طلب طلب بس تیری ہیں مجھے
نشوں میں تو نشہ بانکے گھلنا یوںہی
میری محبت کا کرنا تو حق یہ ادا
میری ہوکے ہمیشہ ہی رہنا
کبھی نا کہنا الوداع
گانے کے ان بولوں کے ساتھ ہی شہیر نے سحر کو اپنی بانہوں کے حصار میں سمو لیا تھا ان دونوں کی آنکھیں ایک دوسرے کی آنکھوں سے چار ہوئی تھی جب کہ دور بیٹھا احمر اپنی بڑتی سانسوں کے ساتھ یہ سب دیکھ رہا تھا جہاں کچھ لوگوں کے چہروں پر مسکان تھی وہیں چوہدری وقاص ، چوہدری احمر کے چہرے نخوت زدہ سے ہو رہے تھے۔
میری صبح ہو تمہی
اور تمہی شام ہو
تم درد ہو، تم ہی آرام ہو
میری دعاؤں سے آتی ہیں بس یہ سدا
میری ہوکے ہمیشہ ہی رہنا
کبھی نا کہنا الوداع
گانے کے ان آخری شبدوں کے ساتھ ہی شہیر نے سحر کا سر اپنے سینے پر ٹکا دیا وہ دونوں ایک دوسرے میں ہی گم تھے کہ ہال کی لائٹس جل چکی تھی پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا سب کے چہرے کھل رہے تھے سحر شرماتے ہوئے پیچھے ہوئے تھی شہیر سے۔
پشمینہ ، میمونہ بیگم و سکینہ بیگم ہنستی ہوئی آئی تھیں اور اسے تھامتے ہوئے اسٹیج پر لے کر گئی شہیر کے ساتھ ساتھ سحر کے چہرے پر شرمیلی سی مسکان نمایاں تھی۔
"کتنے پیارے لگ رہے ہیں دونوں ایک ساتھ ، ایسا لگ رہا ہے جیسے ایک دوسرے کے لئے بنیں ہوں ویسے احمر آپ کے بھائی کتنے رومینٹک ہیں۔"
شہیر کے لئے سحر کی محبت کو دیکھ وہ پر رونق آنکھوں سے بولی تھی۔
"چلے آئیں انہیں مبارک باد تو دے آئیں ورنہ کیا سوچیں گے ہمارے بارے میں۔"
جب کہ یہاں ہوئی تھی احمر چوہدری کی بس ، وہ اٹھتا وہ سر جھٹکتے باہر کی جانب چل دیا جب کہ اس کو یوں غصے سے باہر جاتا دیکھ عمارہ کندھے اچکا گئی۔
©©©©
پورا کمرا تاریخی میں ڈوبا ہوا تھا جگہ جگہ پر رکھی گئی موم بتیاں دھیمی دھیمی روشنی روشنی کا باعث بن رہی تھیں اور یہی روشنی اپنا کمال دکھاتے ہوئے اس جہازی سائز پھولوں سے سجے بیڈ پر بیٹھی اس پروی وش کے چہرے پر بھی پڑ رہی تھی وہ پری اس لمحے کمرے میں تن تنہا بیٹھی اپنے شہزادے کا انتظار فرما رہی تھی لیکن اس کا دل دھک دھک کرتے ہوئے سو کی سپیڈ میں چل رہا تھا آج جو یہ سب تیاریاں شہیر نے اسکے لئے کروائی تھیں سحر کے لئے وہ ناقابل بیان تھیں شہیر کے ساتھ آج کے دن بیتے لمحات کو محسوس کیے وہ مسکرا دی تھی لیکن پھر آنے والے پلوں کو سوچ اس کے چہرے پر گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی۔ نظریں جھکائے چہرے پر شرمنگی مسکان سجائے پھولوں و لڑیوں سے سجے بیڈ پر براجمان تھی سحر پہلے بھی کئی دن اس کے ساتھ گزار چکی تھی۔ مگر آج کے اس خوبصورت دن و انوکھے سے احساس نے اس کے دل میں بسیرا کر رکھا تھا وہ حسین شہزادہ اپنے خاندان والوں سے بہت مختلف تھا اس کے ہر ایک انداز میں بہت ہی دلچسپی نمایاں تھی۔
اس کو عزت دینا ، اس کا ہر چھوٹی و بڑی بات میں خیال رکھنا، اس کو ہر لمحے اپنے پن کا احساس دلانا یہاں تک کے پورے گاؤں والوں کے سامنے اس نے سحر کا اصل مقام بیان کروایا تھا۔
جہاں ایک بھائی نے اس کی عزت ، و خود اعتمادی کو رسوا کیا تھا وہیں دوسرے بھائی نے اس کی کھوئی ہوئی عزت و خود اعتمادی کو لوٹاتے ہوئے اصل درجا عنایت کیا اس کے چہرے پر ایک عجب مسکان سی تھی وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ جب دروازہ کھلنے کی آواز اس پری وش کو ہوش میں لائی تھی اس کا دل تیزی سی لہر میں دھڑکنے لگا تھا چہرہ گلاب کے پھولوں کی مانند سرخ سا ہو گیا جبکہ مقابل موجود وہ مغرور محبتوں کا امین حسین شہزادہ اپنی شاہانہ انداز میں چال چلتا بیڈ پر سمٹ کر بیٹھی اس پری وش تک آیا اور اس کے قریب بیٹھ گیا تھا وہ آنکھوں میں تپش دیتے جذباتوں کا سمندر بھرتا اس کے چہرے کو دیکھ رہا تھا شہیر چوہدری کے چہرے پر دلفریب مسکراہٹ نمایاں تھی جس سے اس کی خوشی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا آج وہ کتنا خوش تھا مطلب وہ محبت جس کو پانے کے لئے اس نے کیا کچھ نہ کیا آج وہ انوکھے انداز میں اس کی دسترس میں تھی آج وہ اس پر تمام اختیارات رکھتا تھا مقابل اس پری وش کی آنکھیں بھی شرم و حیاء کی بنا پر جھکی ہوئی تھیں چہرے پر چھایا وہ گلال شہیر چوہدری کو سرشار کرنے کے لئے کافی تھا سحر اپنی گود میں رکھے ہاتھوں کو مروڑ رہی تھی وہ کافی زیادہ کنفیوژن کا شکار تھی اس بات کا اندازہ شہیر جو اس کے ہاتھوں کو مروڑنے سے ہو گیا تھا شہیر اس کی کنفیوژ ہونے پر مسکراتا بہت ہی نرمی سے اسکا وہ لرزتا ہاتھ تھام گیا۔
"سردارنی صاحبہ"،
شہیر چوہدری کی زندگی میں شامل ہو کر اسکو مزید حسین بنانے کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔"
اس کے نرم ملائم ہاتھوں کو اپنے لبوں سے لگائے وہ مسکراتے ہوئے بول مقابل اپنی پری کی دھڑکنیں منتشر کر گیا۔
"ویسے آپس کی بات ہے بیگم صاحبہ ، آج آپ اپنی تیاری سے اپنے شوہر نامدار پر قہر ڈھا رہی ہیں۔"
اس کے کانوں کے پاس جھک وہ مسرور سی آواز میں گھمبیر لہجے میں بولا تھا کہ سحر اپنی جگہ سن سی ہو کر رہ گئی اس کو اپنی شور کرتی دھڑکنیں اپنے کانوں میں صاف سنائی دینے لگی تھیں شہیر چوہدری کی دلکش آواز نے ماحول میں ایک ساز سا چھیڑ کر رکھ دیا تھا۔
"جاناں منہ دیکھائی کی رسم تو ہم نیچے ہی سر انجام دے چکے تھے مگر اسکا تحفہ میں اب دے رہا ہوں امید ہے میری جان اسے قبول فرمائے گی۔"
کہتے الماری سے کاغذات کی کچھ فائل نکال کر لایا تھا وہ جو اس نے سحر کے ہاتھوں میں تھمائی لیکن اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے مزید پھیل چکی تھیں جب ان کاغذات پر اپنا نام تحریر پایا۔
"ش۔۔شہیر۔۔۔؟؟"
نا سمجھی کی سی کیفیت طاری ہوئی تھی اس پر جب کہ اپنا نام پہلی بار اس دلربا کے لبوں سے سن گویا وہ مسرور ہوا تھا۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں ؟
آپ کی منہ دیکھائی کے طور پر میں نے یہ جائیداد آپ کے نام کر دی ہے کیونکہ میرے اس قدم سے کسی کی ہمت نہیں ہو گی کہ آپ سے بدتمیزی کرے۔"
"شہیر یہ سب کیا۔۔؟؟"
وہ سر تھام گئی تھی اپنا ۔
"مجھے اس سب کی خواہش نہیں ، میں شکر گزار ہوں آپ کی کہ آپ نے یہ عزت بخشی لیکن مجھے ایسی منہ دیکھائی چاہیے اگر آپ مجھے عزت بخشتے ہوئے کوئی تخفہ دینا چاہتے ہیں تو ایک کام کریں۔
ہمارے گاؤں سے اس پست رسم کو ختم کر دیں کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ آئندہ کبھی کسی گھر میں سحر پیدا ہو جو کہ اپنے باپ ، بھائی کے خون کی بھینٹ چڑھائی جائے
"اگر ایسا ہو گیا تو اس کے ساتھ بھی جانوروں سے بتر سلوک کیا جائے گا ، اس کے لئے دن ، دن نہیں رات ، رات نہیں ہو گی اس کے لئے کوئی موسم نہیں ہو گا وہ ایک باندی بن کر رہ جائے گی "
پلیز اس بیہودہ رواج کو ختم کر دیں شہیر کیونکہ ہر بار ایسا ممکن نہیں کہ ہر گھر میں آپ جیسا بیٹا ہو جو مجھ جیسی سحر کا آئندہ مسیحا بن پائے "
کہتے وہ رو دی تھی کہ شہیر نے اس کے لبوں پر شہادت کی انگلی رکھ خاموش کروا دیا تھا۔
"سحر ، خود کو مضبوط کریں روتے نہیں ہیں ، آپ سے پہلے بھی کہا تھا کہ آپ سردارنی ہیں اب تو آپ اس حویلی کی مالکن میں بھی شمار ہوتی ہیں اسلئے اپنی شخصیت میں کچھ روب لائیں اور رہی بات یہ رسم ختم کرنے کی تو میرا آپ سے وعدہ ہے کہ " اس رسم کو ختم کرنے کی میں ہر ممکن کوشش کروں گا ”
اپنے آخری جملوں کے ساتھ درمیاں میں رکھا وہ آخری فاصلہ بھی مٹا گیا تھا اور کسی گھٹا کی مانند چھایا تھا اس پر شہیر کی بڑھتی شوخیاں سحر کو شرمانے پر مجبور کر رہی تھیں کہ وہ خود میں سمٹ کر رہ جاتی تھی وہ اپنے رویے سے اس پر اپنی محبت عیاں کر رہا تھا آج ان کی وہ محبت کامل ہوئی تھی ، جس کا انتظار شہیر نے پل پل تڑپ کر کیا تھا آج وہ اپنی محبت کو پاک محرم کے رشتے کے طور پر حاصل کر گیا تھا۔
گھبرا نہ غم سے اپنی خوشی کا تو پتہ ڈھونڈ لے
فنکشن اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا دعوت میں آئے مہمان اپنے اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے تھے حویلی میں موجود مکین اپنے اپنے کمروں میں سونے جا چکے تھے جب کہ چوہدری احمر اب تک یہیں لان میں تنہاہ بیٹھا ہاتھوں میں سگار جلائے اسکے گہر گہر کش بھرتا اپنے اندر پیدا ہونے والے اشتعال کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
آج کے دن کا گزرا ایک ایک پل احمر کی آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی مانند چل رہا تھا۔
حویلی کی وہ سجاوٹ ، سحر کا سولا سنگھار ، جس میں وہ کسی حور کی مانند دکھ رہی تھی ،شہیر و سحر کی آپسی محبت ،پھر ان کا ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے ڈانس کرنا یہ سب سوچتے احمر کی آنکھوں میں جلن سی ہونے لگی تھی۔ اس کے دل ہول سے اٹھ رہے تھے وہ ل تھا کیوں ؟
اس کا جواب اس کے پاس نہ تھا کہ وہ اس لڑکی کے لئے کیا محسوس کر رہا ہے لیکن یہ بھی سچ تھا جس لڑکی کو آج تک وہ ٹھکراتا آیا آج اسے اپنے ہی بھائی کی بانہوں میں دیکھ سیخ پاہ ہوا تھا۔
اس سے پہلے وہ مزید خیالوں میں کھوتا عقب سے کسی نصفِ نازک کے ہاتھ کا لمس اسے اپنے کندھے پر محسوس ہوا ساتھ ہی آتی عمارہ کی سرگوشی نما آواز اس کے کان کے پردوں سے ٹکرائی تھی۔
"احمر ...
میں کب سے تمہیں پورے گھر میں ڈھونڈ رہی ہوں اور تم ہو کہ یہاں بیٹھے ہو۔"
"تم کمرے میں جاؤ میں آتا ہوں، "
کندھے پر موجود عمارہ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں تھامے اپنے روبرو کیا تھا لیکن جیسے ہی نظریں اس کے وجود سے ٹکرائی تھی کئی ان گنت بل نمودار ہوئے تھے احمر چوہدری کے ماتھے پر۔
احمر چوہدری نے ہاتھ میں جلتی اس سگریٹ کا بھرپور کش لیا تھا اور ساتھ ہی ایک طائرانہ نظر عمارہ پر ٹکائی جو کہ سلک کی نائٹی زیب تن کیے بالوں کو کھلا چھوڑے خوبصورتی کا مجسمہ بنی کھڑی تھی۔
"یہ تم کس حلیے میں گھوم رہی ہو ؟ "
اس کے وجود پر سرسری نظریں گاڑے وہ غرانے کے سے انداز میں بولا تھا۔
"تم جانتے تو ہو میں ایسے ہی کپڑے پہنتی ہوں۔"
اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ نارمل لہجہ اپنائے بولی تھی کہ یکدم ہی اس کے لبوں سے سسکاری برآمد ہوئی جیسے ہی احمر چوہدری نے اس کے بازوؤں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا۔
"عمارہ ڈارلنگ بھولو مت کہ ، یہ حویلی ہے گاؤں کی حویلی جہاں خاندان بستا ہے میرے والدین ہیں ، ملازمین ہیں اسلئے آخری دفعہ پیار سے سمجھا رہا ہوں کہ اس قسم کے لباس صرف کمرے تک محدود رکھو۔"
"احمر میں تمہیں ڈھونڈنے ..
شٹ اپ ، میں نے کہا روم میں جاؤ ، ہاں اور آئندہ اس قسم کے لباس صرف کمرے تک ہی زیب تن کرنے کی اجازت ہے اس کے علاوہ مجھے تم اس حلیے میں دیکھائی نہ دو۔"
وارن کرنے کے سے انداز میں کہتا وہ اسکے بازوں کو جھٹک گیا تھا جب کہ عمارہ بنا احمر کی جانب دیکھ آنسوں کو روکتی کمرے میں چل دی۔
جب کہ سگریٹ کا وہ آخری کش لینے کے بعد اسے پاؤں تلے کچلتا اپنے کمرے میں آیا جہاں گھوپ اندھیرے نے اس کا استقبال پورے اہتمام کے ساتھ کیا تھا عمارہ بستر پر منہ پرے کیے لیٹی تھی۔
وہ سر کو نفی میں جنبش دیتا ، اپنی جگہ آئے لیٹ گیا تھا جب کہ عمارہ نے افسوس کن نگاہیں احمر چوہدری کے وجود پر جمائی تھیں جس سے اسے رتی برابر بھی فرق نہ پڑا ۔
©©©
حویلی میں بنائے گئے کمروں میں سے ایک کمرا ایسا بھی تھا جہاں کی روشنی اب بھی جل رہی تھی اور وہ تھا گیسٹ روم جہاں فاتح و پشمینہ کا قیام دو دن کے لئے یقینی بنایا گیا تھا۔
پشمینہ آنکھیں موندے لیٹی تھی کہ یکدم جھٹکا کھا کر بیدار ہوئی جیسے ہی فاتح کے ہاتھوں کا لمس اسے اپنے پیروں پر محسوس ہوا تھا۔
فاتح جو ابھی لباس تبدیل کرنے کے بعد بیڈ پر جیسے ہی لیٹنے لگا تھا کہ اس کی نظر پشمینہ کے سوجن زدہ پیروں پر گئی تھی ۔ بے شک وہ آنکھیں موندے لیٹی تھی لیکن درد کے زیرِ اثر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی تکلیف کے آثار پشمینہ کے چہرے پر صاف واضح ہو رہے تھے جنہیں فاتح محسوس کر گیا اسلئے وہ کچھ لمحوں کے لئے اپنی نیند کو خیر باد کہتا پشمینہ کے پیروں کی مساج کرنے کو آگے بڑھا تھا۔
"فاتح کیا کر رہے ہیں آپ ؟"
اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تھی اس نے کہ فاتح نے اسے واپس لٹا دیا تھا۔
"کچھ خاص نہیں بیگم ، بس تمہارے پیر دبا رہا ہوں۔"
پشمینہ کی سر کے پیچھے تکیہ سیٹ کر کے دیا تھا اسے تاکہ وہ ریلیکس ہو کر لیٹ سکے۔
"مگر مجھے بالکل درد نہیں ہے ، میں ٹھیک ہوں۔"
اس نے فاتح کے ہاتھوں کو اپنے پیروں سے ہٹانا چاہا تھا وہ جھجھک محسوس کر رہی تھی اس کی زات کو برا لگ رہا تھا کہ اس کا شوہر اس کے قدموں میں بیٹھا اس کے پیر دبا رہا ہے۔
"مینہ بیگم ، تمہیں کیا لگتا ہے میں اندھا ہوں جو تمہاری اس تکلیف کو دیکھ نہیں سکتا۔"
بام کو ایک جانب رکھ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ سوال گو تھا جب کہ فاتح کی بات سن کو نظریں چرا گئی تھی۔
"ن۔۔نہیں ایسی بات نہیں ہے بس میں یہ کہہ رہی تھی کہ آپ میری وجہ سے پریشان نہ ہوں۔"
"آہاں ! ایسا تو نہ کہو بیگم ایسا تو ممکن ہی نہیں ، کہ جس کے ایک عدد بیوی ہو اور وہ پریشان نہ ہو۔"
"ا۔۔اسلئے ہی تو کہہ رہی ہوں مت کریں تکلُف۔"
"ارے بیگم جانی ، اس میں تکلُف کیسا، بس ایک طرح اپنی بیگم کی غلطی کی سزا بگھت رہا ہوں نا تم وہ ہیل پہن کر اتنا گھومتی اور نہ تمہارے پیر سوجتے۔"
پشمینہ کی آنکھوں میں دیکھ وہ شرارتاً بولا تھا کہ مینہ نے اس کو مصنوعی گھوری سے نوازا تھا۔
"ہاں تو مسٹر فاتح میں نے آپ کو دعوت تو پیش نہیں کی نا آپ خود ہی یہ مہربانی کر رہے ہیں اور ویسے بھی جب سوٹ آپ کی پسند کا پہن سکتی ہوں تو ہیل میں اپنی من پسند کیوں نہیں پہن سکتی۔"
نروٹھے پن سے کہتی وہ اپنے پیر سائڈ پر کر گئی تھی۔
"آہاں ! میری کیوٹ کیٹی ناراض ہو گئی ہیں۔"
اس کے گالوں کو کھینچ وہ گھمبیر لہجے میں بولا۔
ہ"ٹیں آپ بات مت کریں مجھ سے۔"
فاتح نے جیسے ہی اس کا رخ اپنی جانب کرنا چاہا تھا وہ ناراضگی سے منہ پھیر گئی تھی۔
"بڑی بے مروت عورت ہو ایک تو خدمت کر رہا ہوں اوپر سے نخرے دکھا رہی ہو۔"
"نہیں تو میں نے کب دکھائے نکھرے ؟ "
اب کے وہ فاتح کی آنکھوں میں دیکھتے بولی تھی جب کہ چہرے پر مسکراہٹ واضح تھی مینہ کے لہجے میں چھپی شرارت ، و شوخیاں وہ محسوس کر گیا تھا اب کے اس کے چہرے پر درد کے آثار بھی نہیں تھے جسے دیکھ فاتح کو کچھ تسلی سی ہوئی تب ہی وہ اسے اپنے حصار میں لیتا لیٹ چکا تھا اور جلد ہی وہ دونوں نیند کی آغوش میں جا بسے۔
©©©
شہیر و سحر حویلی کی اعلیٰ طرز پر بنائی گئی شہنشاہی سیڑھیوں کو عبور کرتے نیچے اتر رہے تھے کالے رنگ کی شلوار قیمض میں ملبوس جس کی آستینوں کو کہنیوں تک فولڈ کیا تھا ،کندھے سفید کھدر کی اعلی شال ڈالے ، پیروں میں پشاوری چپل پہنے، سفید دودھیا رنگت پر ڈارک براؤن بیرڈ کو ہلکی شیو دئیے ، بالوں کو نفاست سے جیل کی مدد سے سیٹ کیے وہ کافی وجیہہ لگ رہا تھا کہ لڑکیاں اس کو دیکھتے اس پر فدا ہو جاتیں ، لیکن ایسا اب ممکن نہ تھا کیونکہ اب اس شہزادے پر فدا و قربان جانے کا اختیار صرف و صرف ایک ہی شہزادی کے پاس تھا اور تھی مسسز شہیر چوہدری ۔
جو اس کے ہم قدم ، اس کے سنگ سیڑھیوں کو عبور کرتی آرہی تھی ان دونوں کا ہاتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں تھا شہیر چوہدری نے اپنی بیوی کا ہاتھ بہت مضبوطی سے تھام رکھا تھا سب گھر والوں کی نظریں ان ہی پر ٹک کر رہ گئی تھیں وہ دونوں ہنستے مسکراتے ہوئے اتر رہے تھے شہیر نے کوئی بہت گہری بات کہی تھی سحر سے جس پر وہ مسکرا کر سر جھکا گئی تھی۔
احمر چوہدری کی نظریں تو جیسے کسی نے منجمد ہی کر دی تھیں عمارہ نے اس کے ہاتھ پر ہلکی سی چٹکی کاٹی تھی جس پر وہ ہوش کی دنیا میں لوٹا۔
"او مائے گوڈ کتنی خوبصورت جوڑی ہے۔"
عمارہ نے سرگوشی کرتے احمر چوہدری کے کان کے پاس جھک آرام سے کہا تھا لیکن وہ تو ہوش میں ہی نا تھا اس کی نظریں صرف و صرف سحر کے گرد گھوم رہی تھیں ، وہ کوئی جادوئی لمحات معلوم ہو رہے تھے احمر چوہدری کو جس نے انہیں اپنی زنجیروں میں جکڑ لیا ہو۔
وہ دونوں نیچے پہنچ چکے تھے شہیر نے خود کرسی سیٹ کی تھی سحر کے لئے اور اسے بالکل اپنے ساتھ بیٹھایا تھا یہاں تک کہ کھانا بھی اسے اپنے ہی ہاتھوں سے پروسہ تھا میز پر موجود تمام اراکین میمونہ بیگم ، سکینہ بیگم ،چوہدری وقار مسکرائے تھے ان کے دل سے بے اختیار کئی دعائیں نکلی تھیں اس خوبصورت جوڑے کے لئے جب کہ چوہدری وقاص صاحب سمیت نورے بیگم سپاٹ تاثرات چہرے پر سجائے بیٹھے تھے جب کہ سحر مسکرا کر رہ گئی تھی شہیر چوہدری کی اس بے پناہ محبت و نوازش پر ۔۔
کیا یہ حسین و مغرور خوبصورت آن بان رکھنے والا شہزادہ اسی لئے بنایا گیا تھا؟ ایسے کئی سوالات اس کے زہن میں منڈلا رہے تھے سحر کی نظریں شہیر پر جمی ہوئی تھیں وہ جو کبھی روتی تھی اپنی قسمت کو آج اپنی ہی قسمت پر رشک کرنے لگی تھی۔
©©©
فاتح و پشمینہ نے آج شام تک شہر کے لئے روانہ ہو جانا تھا اسلئے ان سب نے مل کر گاؤں کے باغات و کھیت گھومنے کا پلان بنایا تھا۔
تمام بڑے گھر پر ہی موجود تھے البتہ نوجوان بچے اپنی اپنی جوڑیوں سمیت گھومنے کے لئے جا چکے تھے۔
ابھی بھی وہ سارے صبح صبح کی ہلکی ہلکی دھوپ و چھاؤں ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کو انجوائے کرتے آم کے باغات میں گھوم رہے تھے گرمیوں کا خوش گوار موسم تھا جس میں فصل اچھی خاصی تیار ہوئی تھی۔
"واؤ ، احمر گاؤں اتنا خوبصورت ہے تم آج سے پہلے مجھے یہاں کیوں نا لائے یہاں ؟ "
احمر چوہدری کے ہمقدم چلتی عمارہ نے اسے جھنجھوڑتے نروٹھے پن سے کہا تھا وہ ناراضگی کا اظہار کر رہی تھی اس سے ، احمر چوہدری جس نے اپنی نظروں کا مرکز صرف سحر کو بنایا ہوا تھا عمارہ کے بلانے پر اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ عمارہ کے لہجے و آنکھوں میں ایک حسرت ہے وہ بجھی ہوئی آنکھوں سے اس سے شکوہ کر رہی تھی جسے وہ مسکرا کر نظر انداز کر گیا۔
"تم انجوائے کرو نا عمارہ ڈارلنگ ، ویسے بھی لے ہی تو آیا ہوں کہتے ہیں دیر آئے درست آئے "
عمارہ کے شانوں سے تھام اس کو اپنے روبرو اس طرح سے کیا تھا کہ وہ سامنے کھڑی سحر کی ہر حرکت پر نظر رکھ سکتا تھا۔
"ہاں بالکل ، ٹھیک کہہ رہے ہو تم ، واقعی دیر آئے درست آئے "
عمارہ کے لبوں پر بھی ایک عجب مسکان نے گھر کیا تھا۔
جو کہ احمر چوہدری کو صرف ایک طنز معلوم ہوا اس سے پہلے کہ وہ عمارہ سے کچھ سوال کرتا وہ بڑھ چکی تھی آگے ، شہیر لوگوں کے پاس۔
©©©
"عمدہ کتنے زبردست آم ہیں نا بالکل تازہ "..
پھلوں کو تازہ تازہ درخت سے توڑ کر کھانے کا جو مزہ ہے نا وہ یقین جانیں دکان سے خرید کر کھانے میں وہ مزہ نہیں۔
"آپ جانتے ہیں میں مشل جب چھوٹے ہم ، ہمارے گھر کے پاس موجود باغ سے پھل درخت سے توڑ کر ہی کھایا کرتے تھے ، آج بچپن کی یادیں تازہ ہو گئی ہیں۔"
پاس رکھی چارپائی پر بیٹھی پشمینہ تیسرے آم کے ساتھ انصاف کرتی بولی تھی کہ فاتح کا قہقہ گونجا جب اس کے لبوں کے پاس آم کا رس گرتا پایا۔
"بیگم جانی ، تھوڑا ہلکا ہاتھ رکھیں ، کیونکہ جس طرح سے آپ اس آم بچارے کے ساتھ انصاف کر رہی ہیں اور آپ نے جو اپنا حشر کیا ہوا نا یقین جانے آپ کو ہی کھا جانے کا من کر رہا ہے۔ "
پشمینہ کے کان کے پاس جھک وہ گھمبیر لہجے میں گویا ہوا جب کہ فاتح کی بات کو سن اس کا آم کھاتا ہاتھ ساکت ہوا تھا پشمینہ نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے اسے گھورا تھا جس کا اسے رتی برابر فرق نہ پڑا تھا اس کے برعکس وہ اپنے لب اسکے گلابی گالوں پر رکھ گیا جس سے پشمینہ کی آنکھیں مزید پھیل گئیں۔
"فاتح !
کم از کم جگہ تو دیکھ لیا کریں آپ کو تمیز نہیں ہے۔۔۔"
وہ دبا دبا غرائی تھی اور اپنے شوہر نامدار کی شرٹ پر ہاتھ رکھے پیچھے کرنا چاہا ، جس کا نتیجہ یہ نکلا فاتح تو پیچھے نہ ہٹا تھا البتہ اس کی سفید شرٹ پر آم کے داغ لگ چکے تھے۔
"اوپس۔۔۔"
مینہ نے اپنی زبان دانتوں تلے دبائی تھی۔
"م۔۔مینہ یہ کیا کر دیا ؟؟؟"
وہ نا سمجھی کی سی کیفیت میں اپنی شرٹ تو کبھی مینہ کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"ہ۔۔ہاں ۔۔ہاں توا۔۔اس اس میں آ۔۔آپ کی غلطی ہے ۔"
"واٹ ؟؟"
اب کے فاتح کی آنکھیں حیرت کی زیاتی سے کھلی تھیں۔
"ہ۔۔ہاں تو آ۔۔اپ کو ہوش ہونا چاہیے جب پتا میں آم کھا رہی ہوں تو کیوں قریب آرہے ہیں اب ملی نا سزا تو بھگتیں۔۔"
کہتی وہ واپس اپنے سابقہ کام میں مشغول ہو چکی تھی جب کہ فاتح نفی میں سر ہلائے وہیں اس کے قریب بیٹھ اپنی اس جھلی کو دیکھنے لگا جو کہ اس وقت کسی بچے کی مانند آم سے انصاف کر رہی تھی۔
©©©
"تو پھر سردارنی صاحبہ کیسا لگا ہمارا گاؤں ؟"
سحر کو اپنے بازوؤں کے حصار میں لئے وہ ہلکے ہلکے قدم بھر رہا تھا کہ تب ہی اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ دھیرے سے گویا ہوا۔
"یہ کیسا سوال ہے ؟
آپ شاید بھول رہے ہیں ، میں اسی گاؤں سے ہوں میرا بچپن ، جوانی سب یہیں گزری ہے، لیکن اگر آپ بات کرتے ہیں گاؤں کی خوبصورتی کی تو وہ بے مثال ہے مگر بات کی جائے سیرت و قانون کی تو وہ بہت بری ، انتہائی خستہ اور بے صوری ہے۔"
سحر کھوئے ہوئے لہجے میں بول رہی تھی اس کے لہجے میں چھپی تلخی کو شہیر چوہدری باخوبی محسوس کر گیا تھا۔
"مسسز شہیر چوہدری ، آپ کے شوہر نامدار ، آپ سے وعدہ کر چکے ہیں کہ ان شاءاللہ آئندہ وقتوں میں آپ سے گاؤں میں، اس کے قانون میں کئی تبدیلیاں پائیں گی لیکن ایک شرط پر۔"۔
مسرمرائز انداز میں کہتا وہ ایک دم خاموش ہوا تھا کہ سحر نے استہفامیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا جیسا کہنا چا رہی ہو کہ کون سی شرط ؟
"میری یہ شرط ہے کہ تم ہر قدم میرے ساتھ ہو گی اور میں تمہارے , کیونکہ یہ ایسا کام ہے جس میں ہم دونوں کی ضرورت ہے ، ہم دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ہم ان شاءاللہ مل کر اس گاؤں کو تبدیل کریں گے۔"
مسکراتے ہوئے سحر کے ہاتھوں پر ہلکا سا زور دیا تھا جیسے اس کو اپنا احساس دلا رہا ہو ، اس وعدہ حاصل کر رہا ہو جواباً وہ بھی مسکرا دی تھی ۔
یہی منظر احمر چوہدری کی جلتی آنکھوں نے دیکھا تھا ، اس کے دل میں حسد پیدا ہوا رہی تھی سحر و شہیر کے لئے وہ سحر کو شہیر کے اس قدر قریب دیکھ اپنی مٹھیاں بھینچ گیا تھا۔
شہیر کے نکاح میں جانے کے بعد ، سحر میں اس قدر بدلاؤ آئے گا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا , شادی کے بعد وہ مزید حسین لگے گی اس بات کا یقین کرنا احمر چوہدری کے لئے نا ممکن سا ہو رہا تھا یا پھر یہ کہا جائے کہ احمر نے ٹھیک سے سحر کو شہیر کے نکاح میں جانے کے بعد حسد کی آنکھوں و شہیر کی بیوی کے روپ میں دیکھا تھا ورنہ خوبصورت و حسین تو ویسے بھی بہت تھی یا یہ کہنا زیادہ بہتر رہے گا کہ بات انداز کی ہوتی ، لڑکی تو وہ ایک ہی تھی جو دونوں بھائیوں کے نکاح میں رہی لیکن دونوں کا انداز مختلف ،
ایک نے اس پر انتقام ، ظلم ، نفرت ، کدورت کے پہاڑ توڑے جب کہ دوسرے کا انداز اس سے قدرے مختلف تھا ، دوسرے بھائی نے اسے کسی نازک پھول کی مانند سنبھال سنبھال کر رکھا اس پر محبتوں کی بارش کی ، سب سے عزت دلاوائی اور اسی محبت و عزت کے باعث وہ نکھر کر رہ گئی تھی۔
یہی تھا ایک موازنہ دونوں کے انداز میں۔
کسی کام کے باعث ، شہیر دوسری سمت گیا تھا سحر تنہا درخت کے سائے کے نیچے کھڑی خود میں مسکرا رہی تھی کہ کسی نے اس کو کلائی سے تھام درخت کے تنے سے لگایا وہ زور و شور سے دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں میچ گئی تھی۔
"آج بھی میرے اس قدر قریب آنے پر تمہاری دھڑکنیں شور برپا کرتی ہیں "
سحر کے چہرے پر بکھرے اس محبتوں کے گلال و رونق کو دیکھ وہ دل جلا دینے والی مسکراہٹ چہرے پر سجائے اس کے کان کے پاس جھکے بولا تھا لیکن سحر کا تو مانو سانسں ہی اٹک کر رہ گیا تھا جب چوہدری احمر کا کُرتا لہجہ اپنے بے حد قریب محسوس کیا تھا جس میں حسد و جلن صاف واضح تھی۔
اپنی بند ہوئی آنکھوں کو فوراً سے کھولا تھا اس نے۔
"د۔۔دور ہ۔۔ہوں مجھ سے ، ورنہ منہ توڑ دوں گی آپ کا۔"
"ہاہاہا تم میرا منہ توڑو گی ، اتنی ہمت نہیں ہے تم میں ابھی تو پچھلی بے عزتی کا بدلہ بھی باقی ہے جاناں لیکن چلو خیر اسے معاف کیا تمہارے اس حسن کے صدقے ۔"
اپنی وہی اجلی مسکان وہ لبوں پر سجائے بولتے سحر کو کوئی زہر معلوم ہوا تھا۔
احمر چوہدری بہت شوقیہ نظریں اس کے وجود پر جمائے کھڑا تھا، اس کے دل نے کہا ہاں وہ پہلے اسکی تھی جسے اس نے اپنے جذباتی پن کی وجہ سے کھو دیا ، پہلے جب وہ اس کی دسترس میں تھی تب اس کے زہن پر صرف بدلے کی آگ سوار تھی لیکن اب ، اب جب وہ اس کی دسترس سے کہیں دور جا بسی ہے تو اس کے ذہن میں کوئی بدلہ کوئی انتقام جیسا لفظ گردش نہیں کر رہا ، بلکہ اب تو ایک نئی آگ میں جل رہا ہے وہ "حسد کی آگ " جو سابقہ آگ سے خاصی خطرناک ہے۔
"ویسے سابقہ ونی نما بیوی بہت خوش لگ رہی ہو شہیر کے ساتھ ؟؟"
آنکھ ونک کیے ، اس کی زلف کو شہادت کی انگلی میں لپیٹے بولا ساتھ ہی عادت سے مجبور اس کو دلی زخم دیتے ہوئے یہ احساس دلانا نہ بھولا کہ وہ ونی میں لائی گئی ہے۔
"الحمداللہ.. ، شہیر بہت اچھے ہیں ، بہت ذیادہ خوش رکھتے ہیں مجھے تب ہی میں رہتی ہوں ورنہ اوروں کی مانند میری جان کے دشمن تو نہیں ہیں نا جو آئے دن کسی جانور کی مانند برتر سلوک کرنے کو تیار بیٹھا ہو۔"
احمر چوہدری کو اس ہی انداز میں جواب دیتی اس کے ہاتھ کو جھٹکا تھا اس نے، وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی جب کہ ہونق بنا احمر ، لب بھینچ کر رہ گیا تھا۔
کھیتوں و باغات کی سیر کرنے کے بعد ان سب نے واپس حویلی کی راہ لی تھی البتہ چوہدری احمر عمارہ کی ضد کرنے پر اسے مزید گاؤں کی سیر کروانے کو نکل پڑا تھا۔
"کتنا وقت ہو گیا لیکن آج بھی کچھ نہیں بدلا ، سب ویسے کا ویسا ہی ہے؟"
آس پاس موجود ، مکانات اور زمینیں دیکھ وہ کھوئے ہوئے لہجے میں گویا ہوئی کہ احمر چوہدری نے چونک کر اس کی جانب دیکھا تھا۔
"کیا مطلب ، کیا تم پہلے بھی اس گاؤں میں آچکی ہو؟"
عمارہ کی آنکھوں میں دیکھ وہ اچھنبے سے بولا کہ وہ گڑبڑا کر رہ گئی ۔
"ن۔۔نہیں تو ، ایسا کب ممکن ، میں یہاں تنہاہ آ ہی نہیں سکتی تھی ، بس ایک دو بار اس گاؤں کی جھلکیاں نیوز میں دیکھی تھی جب کئی حادثات ہوا کرتے تھے۔"
ہوا کے باعث چہرے پر بکھرتے ان بالوں کو اس نے ایک جانب کیا تھا ساتھ ہی احمر چوہدری کی بات کا جواب ، چہرے پر اداس مسکان سجائے دیا۔
"اوو ویل ! ورنہ میں تو شاک ہی ہو کر رہ گیا تھا تمہاری اس بات سے۔"
"احمر ایک بات تو بتائیں... کیا آپ آج بھی مجھ اتنی ہی محبت کرتے ہیں "..؟
اسکی آنکھوں میں دیکھ وہ سرسراتے لہجے میں گویا ہوئی۔
"کوئی شک بھلا ؟؟"
چوہدری احمر کا سرسراتا جواب عمارہ کے کانوں سے ٹکرایا تھا وہ پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے اپنی جگہ پر اسٹیل کھڑا کسی نقطے پر غور فرما رہا تھا حتیٰ کے عمارہ کی آنکھوں میں دیکھنے کی غلطی نہیں کی گئی تھی۔
"شک تو نہیں ، یقین ہے ، نا جانے مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم میرے پاس ہو کر بھی میرے نہیں۔"
وہی عجب افسوس سے پر لہجہ ، جس میں کرب و رنج نمایاں تھا۔
"او کم ان ڈارلنگ ! چلو چھوڑو ان سب باتوں کو ، مجھے یہ بتاؤ تمہیں ان میں سے کون سی زمین چاہیے ؟؟"
عمارہ کو اپنے بازوؤں کے حلقے میں لیتے ، اسکی آنکھوں میں دیکھ احمر چوہدری مسکرا کر بولا گویا اس کا دھیان بٹانا چاہا تھا لیکن اس کی بات سن عمارہ کی آنکھوں میں یکدم ہی چمک رونما ہوئی تھی ۔
"سچی ؟؟"
اپنی جگہ اسٹیل ہو کر رہ گئی تھی وہ گویا احمر کی باتوں پر اسے یقین نہ آیا ہو ۔
"ہمم.. " عمارہ کی خوبصورت چہرے کو دیکھ وہ اثبات میں سر ہلائے مخالف سمت دیکھنے لگا تھا کہ عمارہ نے یکدم اسے گلے لگایا تھا خوشی کے باعث۔
"ی۔۔۔یہ ۔۔یہ والی ، " وہ دوڑتے ہوئے گئی تھی وسط میں بنی گئی زمین پر کسی دیوانے کی مانند جہاں ہر طرف میدانی مٹی بھری ہوئی تھی۔
احمر کونے میں کھڑا بہت ہی باریکی سے عمارہ کے رویے کا جائزہ لے رہا تھا جو کہ وہاں کی مٹی کو ہاتھوں میں بھرے ہوئے مسکرا رہی تھی احمر چوہدری کو سمجھ نہ آیا وہ ایسا کیوں کر رہی ہے۔
سب سے زیادہ احمر چوہدری تب حیران ہوا تھا جب وہی مٹی تھام عمارہ نے اپنے ماتھے پر لگائے رو دی۔وہ لمحوں کے ہزارویں حصے میں اس تک پہنچا اور فوراً ہی کھڑا کیا تھا۔۔۔
"عمارہ کیا ہو گیا تمہیں ، کیا سب ٹھیک ہے نا ؟؟"
اس کو وہیں زمین پر بیٹھے روتے دیکھ وہ واقعی پریشان ہو گیا تھا لیکن عمارہ نے احمر کو دیکھتے ہی اپنے آنسوں پہنچے۔
"ہ۔۔ہاں م۔۔میں ٹھیک بس ایسے ہی وہ کچھ یاد آگیا۔"
کہتے کپڑے صاف کیے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
روتے ہیں کیوں پوچھے کوئی
دے خوشی لوٹے کوئی
©©©
"چلو شہیر اب ہم چلتے ہیں !
بہت شکریہ ہمیں برداشت کرنے کے لئے۔"
فاتح ، شہیر کو زور سے گلے لگائے بولا تھا کہ اس کی آخری بات پر قہقہہ گونجا تھا شہیر کا۔
"بس کر دو زیادہ بونگیاں مارنے کی ضرورت نہیں۔"
فاتح کی کمر پر تھپکی دی تھی شہیر نے ساتھ ہی نفی میں سر ہلاتے منہ بنائے بولا۔
"سیریسلی ! بھائی آپ لوگوں کا گاؤں بہت ہی شاندار ہے ۔
دلکش ! مزہ آگیا کتنا خوبصورت گاؤں ہے اور سب سے بڑھ کر یہاں کے آم کچھ زیادہ ہی عمدہ ہیں۔
آپ سب نے کتنی اچھی خاطر داری کی ہے نا !!
بہت یاد آئیں گے آپ سب ۔"
پشمینہ کی بات سن ، جہاں فاتح مسکرایا وہیں شہیر و سحر کے لبوں پر مسکان آن ٹھہری تھی۔
"پر مجھے تو ایسا لگتا ہے شہر کی الجھنوں میں آپ ہمیں کہیں بھول ہی نا جائیں اسلئے میں چاہتی ہوں آپ ہمیشہ ہمیں یاد رکھیں"
اپنی بات کے اختتام پر ہی سحر نے ملازم کو اشارہ کیا تھا جسے سمجھ وہ آم کی دو پیٹیاں ، اٹھا لایا اور فاتح کی گاڑی میں رکھوانے لگا۔
"ارے یہ کیا ، "...؟؟
مینہ خوشی و حیرت کی ملی جلی سی کیفیت میں گویا ہوئی تھی ساتھ ہی تھوڑی شرمندگی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہوئے جسے فاتح محسوس کر گیا تھا۔
"تحفہ ہے ہماری جانب سے .
ہمارے گا5وں کا رواج ہے جب بھی کوئی ہمارے گاؤں میں آئے اسے خالی ہاتھ نہیں بھیجا جاتا اور میں امید کروں گی کہ آپ اس کو قبول فرمائیں گی۔"
پشمینہ کے ہاتھوں کو تھامے وہ مسکرا کر بولی ساتھ ہی گلے مل اس کو الوداع کیا۔
کچھ ہی دیر میں ، ان کی گاڑی حویلی کی دہلیز کو پار کرتی نکلتی چلی گئی تھی۔ ایک طرف سے فاتح لوگوں کی گاڑی نکلی تھی اور دوسری جانب سے احمر چوہدری کی گاڑی حویلی میں داخل ہوئی۔
گاڑی سے اترتے ہی عمارہ نے جیسے ہی شہیر و سحر کے پاس جانا چاہا تھا احمر اس کے ہاتھوں کو تھام اسکے قدم وہی روک گیا تھا۔
"کدھر ؟؟"
بھنھونے اچکائے وہ تشویش کن لہجہ میں گویا ہوا۔
"سحر لوگوں کے پاس !"
"کوئی ضرورت نہیں ہے سیدھا اوپر چلو۔"
عمارہ کو جھڑک ، اسکا ہاتھ تھام اس کو اوپر کھینچتے ہوئے لے کر گیا تھا۔
"احمر کیا ہو گیا ہے آپ کو ؟؟؟
کیوں سائیکو بنتے جا رہے ہیں ؟؟"
"شٹ اپ عمارہ ، دوبارہ بس تم مجھے ان کے آس پاس دیکھائی نہ دو۔"
بنا اس کا جواب سنے وہ واشروم میں چل دیا۔
©©©
اندھیری گفا
اس گفا میں موجود وہ تنہا کھڑی شہیر کا انتظار کر رہی تھی۔
"شہیر !
شہیر "....
اس کو صدائیں لگائے سحر نے اپنے قدم آگے کو بڑھانے چاہے تھے کہ اسی وقت ایک ہیولہ سا نمودار ہوا جو لمحہ با لمحہ طویل ہوتا اس کے سر پر آن پہنچا۔
"شہی۔۔شہیر یہ آ۔آپ ہیں"...؟؟؟
چہرے پر آنے والے پسینے کو اپنے ڈوپٹے کے پلو کی مدد سے صاف کیا لیکن اچانک ہی اس کے ہوش صلب ہوئے جیسے ہی کسی کا ہولناک قہقہہ اس کو گفا میں گونجتا محسوس ہوا۔
"ک۔۔کون ہے ؟؟؟
شہیر کہاں ہیں آپ ؟؟"
بھاگنے کی سعی کرتی وہ بھوکلائے ہوئے انداز میں بولی تھی کہ مقابل نے اس کے وجود کو اپنی آہنی گرفت میں جکڑا۔
"مر گیا تمہارا شہیر ، اور اب " تمہاری باری ".
کیا سوچا تھا تم لوگوں نے ہماری دولت ، ہماری جائیداد پر قبضہ کر لو گے اور ، اور ہمیں یوں رسوا کر دو گے تو یہ تم دونوں کی بہت بڑی بھول ہے کیونکہ۔۔ کیونکہ جب تک احمر چوہدری حیات ہے تم لوگوں کی یہ پلاننگ نا کارہ ہے ."
سحر کے جبڑوں کو اتنی سختی سے بھینجا تھا کہ وہ تڑپ کر رہ گئی۔
"ن۔۔نہیں تم ۔۔شہیر کو نہیں م۔۔مار سکتے
ب۔۔بھائی ہیں و۔۔وہ تمہارے ""
اپنے آپ کو سحر نے احمر کی سخت ترین گرفت سے نکالنا چاہا تھا۔
"آنہاں ! سحر ڈارلنگ یوں رشتے کا احساس نہ دلاؤ۔"
آنکھوں میں عجیب سی وحشت لیے وہ دھاڑنے کے سے انداز میں بولا تھا کہ سحر نے افسوس کن نظروں ، بہتی آنکھوں سے احمر کی آنکھوں میں دیکھا جہاں صرف و صرف وحشت و آوارگی نمایاں تھی۔
"سحر ڈارلنگ ! اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ تم اپنی اس خوبصورت آنکھوں و ہوش رپا سراپے سے مجھے گھائل کر سکتی ہو تو یہ تمہاری بہت بڑی بھول ہے۔"
لب اس کے کان پر پاس رکھ وہ گھمبیر ، خمار آلود لہجے میں گویا ہوا کہ سحر نفرت کی انتہا کو پہنچتی اپنا رخ بدل گئی کہ احمر نے قہقہ لگائے اپنے ہاتھوں کا دباؤ اس کی گردن پر مزید سخت کیا کہ سحر کی آنکھیں باہر کو ابلنے لگی تھیں۔
"ن۔۔نہیں اح۔۔۔احمر چھوڑ دیں م۔۔مجھے م۔۔مت ما۔۔ماریں۔۔
م۔۔میری س۔۔سانس۔۔میری سانس نہیں آ رہی۔"
اب کے سانس بند ہونے اور گلے پر بڑھتی شدید تکلیف کے باعث وہ اس کے سامنے گڑگڑاتے پر مجبور ہو چکی تھی کہ سحر کی بے بسی کو دیکھ وہ وحشی آنکھوں سے مسکرا رہا تھا۔
"سحر !!"
شہیر جو پاس کی لیپ ٹاپ پر مصروف کام کر رہا تھا کہ سحر کی بڑبڑاہٹ اور پھر اچانک ہی اس کی چلاتی آواز نے اسے الرٹ کیا تھا اپنے لیپ ٹاپ کو وہیں پھینک کر وہ فوراً سحر کے قریب آیا اور اس کو جھنجھوڑ کر نیند سے اٹھایا تھا اس نے ، جو کہ حواس باختہ سی آس پاس کے ماحول کو سمجھنے کی سعی کر رہی تھی۔
"و۔۔وہ وہ مجھے مار دے شہیر
م۔۔مجھے بچا لیں پلیز۔"
اپنے بالوں کو نوچتے وہ پاگلوں کی مانند چلا رہی تھی شہیر نے دیکھا تھا کہ اس کا معصوم و بھولا سا چہرا پسینے اور آنسوں سے تر ہے وہ گھبراہٹ میں بھوکلائی ہوئی تھی۔
"کون ؟؟ کس کی بات کر رہی ہیں آپ ؟؟"
سحر کے چہرے کو ہاتھوں کے پیالے میں بھر اسکی بھیگی آنکھوں میں دیکھ کہا تھا شہیر نے کہ لمحے بھر کے لئے وہ ساکت ہوئی تھی۔
"و۔۔وہ احمر " ۔۔
کہتے وہ اپنا سر گھٹنوں میں چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"سحر ، سحر ریلکس !"
اس کی کمر پر تھپکی دئیے اس کو پر سکون کرنا چاہا تھا جو کہ فلوقت ناممکن سا معلوم ہو رہا تھا۔
"کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ، کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ آپ کو تکلیف پہنچائے جان لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ جب تک شہیر چوہدری کا نام و سایہ آپ کے ساتھ ہے کوئی آپ کی جان لینے کی غلطی بھی نہیں کر سکتا
اور جہاں تک رہی بات اس احمر کی تو ، " اس کی باتوں اور رویے کو پوری طرح سے آپ نے اپنے سر پر سوار کر لیا ہے بھول جائیں ماضی کو اگنور کر دیں ،، بس یاد رکھیں تو اتنا کہ آپ سے بے پناہ محبت کرنے والا آپ کا شوہر آپ کے ساتھ ہے۔"
ٹرانس سی کیفیت میں کہتا اس کو پر سکون کرنے کے لئے ، اپنی محبت کا احساس دلانے کے لئے وہ اپنے لب اس کے گالوں پر رکھ گیا تھا لیکن سحر اپنا رخ بدل گئی۔
"جب ماضی اتنا تلخ و زخموں سے چور ہو تو نا چاہتے ہوئے بھی اس کے گھاؤ یاد آ جایا کرتے ہیں۔ ان ماہ و سال نے میری روح و جسم پر اس قدر گہرے زخم چھوڑیں ہیں کہ میں آج بھی انہیں اپنی زات میں محسوس کرتی ہوں"۔
بستر سے اٹھ اپنے پیر اس نے ٹائل پر بچھائے گئے اس مہنگے قالین پر رکھے پھر من من قدم بھرتی گیلری میں چل دی جہاں سے آتی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کی طبعیت کو خاصی اچھی معلوم ہو رہی تھی۔
"لیکن جب حال میں ، کوئی شخص آپ کو ایسا مل جائے جو آپ کے ماضی کے تمام زخموں کو خود میں سمیٹ ، حال کی نئی ، محبتوں سے لبریز خوشگوار یادوں سے مالا مال کر دے پھر "..؟؟؟
"کیا تب بھی آپ ماضی کی تلخ یادوں میں کھوتے ہوئے نئے لمحات و رشتے کو مایوس کریں گی " یا پھر " ماضی کو بھولائے ، حال کے رشتے کو معنی دیں گی ؟؟"
گلیری میں کھڑی سحر کو پیچھے سے اپنے نرم حصار میں لیے اسے خود میں سمیٹا تھا ساتھ ہی اپنی باتوں سے وہ اس کے دماغ کو گہری سوچ میں لے ڈوبا تھا۔
"سحر میں چاہتا ہوں آپ سب کچھ بھولا کر بس ہمارے رشتے پر نظر ثانی کریں میں نہیں چاہتا کسی اور کی وجہ سے ہمارے رشتے میں دراڑیں آئیں کیونکہ بہت مشکل و چاہ کے بعد آپ کو پایا ہے۔
جانتی ہیں ، آپ وہ لڑکی ہیں جس نے شہیر چوہدری کے دل میں بنا کسی لالچ و بے حیائی کے بغیر گھر کیا ہے۔
کہتے ہیں کسی دور میں خوبصورت وادیوں کے بیچ ایک بہت حسین پری رہتی تھی جس کی خوبصورتی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔
ایک دن وہ پری گھومنے کے لئے اس وادیوں میں اپنی سہیلیوں کے سنگ تشریف لاتی ہے کہ پاس میں موجود ایک لڑکا اس پری کو دیکھ اس کے حسن کا گرویدہ ہو جاتا ہے "اگر کہا جائے تو پہلی نظر کی محبت و عشق "۔۔
لیکن پھر " اچانک ہی وہ پری لا پتا ہو جاتی ہے ، وہ لڑکا اس کو ہر در ، ہر جگہ ، شہر شہر ڈھونڈتا ہے ، اس کی یادوں میں تڑپتا ہے لیکن وہ پری اس لڑکے کو نہیں ملتی ، اس لڑکے کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ پری کہیں بہت بڑی مشکل میں ہے اور پھر ہوتا بھی یہی ہے۔
کچھ مہینوں بعد اس لڑکے کو معلوم ہوتا ہے کہ ایک دیو ہے جو اس پری کو اپنی قید میں لے جا چکا ہے یہ سننا تھا کہ وہ لڑکا اشتعال میں آجاتا ہے اس کی کیفیت غم و غصے کی سی ہو کر رہ جاتی ہے۔
وہ دیو ، اس پری ہر بہت ستم ڈھاتا تھا ، وہ پری تکلیف کی انتہا کو پہنچ چکی تھی کہ اپنے مرنے کی دعائیں کرنے لگی وہ معصوم سی کلی ، اب مرجھانے لگی تھی۔ وہ لڑکا جب اپنی محبت کا ایسا حال دیکھتا تو اپنی قسمت پر پھوٹ پھوٹ کر رو دیتا لیکن پھر ایک دن ایسا آیا جو دونوں کی قسمت بدلنے کے لئے کافی تھا
اپنی کوشش و لگن کے باعث وہ لڑکا اپنی پری کو ، اس دیو کی جان لیوا قید سے رہائی دلوا دیتا ہے اور پری ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کی ہو کر رہ جاتی ہے۔
اور جانتی ہو سحر ؛ وہ پری کون ہے "..؟؟
اس کی دہکتی سانسیں سحر کے کان کی لو کو چھو رہی تھیں۔
"ک۔۔کو۔۔کون ؟"
کانپتی ، آواز کے ساتھ استفسار کرنا چاہا لہجے میں ایک جستجو بھی نمایاں تھی جس نے شہیر چوہدری کے احساسات کو مزید ، پر جوش کیا تھا۔
"سحر شہیر چوہدری نام ہے اس پری کا
جو کہ صرف و صرف شہیر چوہدری کی پری ہے اور آخر تک رہے گی۔
بے شک ! میری زندگی میں آنے سے پہلے آپ نے کئی تکلیفیں سہی لیکن اب ؛ اب نہیں اب آپ کی ذات صرف و صرف شہیر چوہدری کے گرد گھومتی ہے اور میرا وعدہ ہے کہ اپنی پری کو زندگی کے ہر اونچ نیچ سے بچا کر رکھونگا۔"
خمار آواز میں بوجھل پن سمیٹے وہ اپنی پری کو محبت کا احساس دلا رہا تھا جب وہ پری وش آنکھیں موندے شہیر کے لفظوں کو محسوس کر رہی تھی۔
میں عشق تہ کر لیا ہے مینوں وفا چاہیے
اکھیاں نوں تیری دید دی پناہ چاہیے
اثر دوائے چھڈ گئی دعا چاہیے
صبح سویرے لگ بھگ چھ یا سات بجے قریب ، شہیر نے زمینوں پر جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ زمینوں پر جا کر ، اس کے انتظامات و کاموں کو دیکھنے کے بعد اس نے شہر میں جا کر آفس کا چکر بھی لگانا تھا۔
ابھی وہ تیار ہو ہی رہا تھا کہ کسی ہولناک دھماکے کی آواز سن اسے دھجکا سا لگا تھا وہ چہرے پر عجیب و تفکر بھرے تاثرات سجائے باہر کی جانب سے دوڑا کہ باہر مچی افراتفری و کچن کے پاس سے اٹھتا دھواں اسے لمحے بھر کے لئے ساکت کر گیا لیکن وہیں وہ اپنے ہواس میں واپس لوٹا تھا جب سحر کے چیخنے و چلانے کی صدائیں کیچن میں سے آئیں۔
وہ دوڑتے ہوئے لمحوں کے ہزارویں حصے میں کچن تک پہنچا جہاں تقریباً آگ پھیلے اپنا راج دکھا چکی تھی اور پورے زور و شور سے دھواں اٹھتا تنفس میں مسائل پیدا کر رہا تھا لیکن اسے کچھ پروا نہیں تھی وہاں کھڑے اپنے والدین کی بنا پرواہ کیے وہ پاس رکھی موٹی چادر سے خود کو اچھی طرح کوور کیے ان کود چکا تھا جہاں اس کی متاع جاں گھٹنوں کے بل بیٹھ لمبے لمبے سانس لینے کی کوشش کرتی تقریباً نڈھال ہو چکی تھی پاس رکھا اس کا دوپٹہ پورے کچن کے ساتھ آگ کی لپیٹ میں تھا۔
"س۔۔۔س۔۔۔سحر م۔۔میری ج۔ج۔۔جان ! "
خود کو آگ سے بچائے احتیاط سے وہ اپنی متاعِ حیات تک پہنچا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھے چہرے پر تھپکی دئیے ہوش میں لانا چاہا لیکن شہیر کا سانس بھی وہیں رکنے لگا تھا جب اس کی نظر سحر کے دائیں ہاتھ پر گئی جو کہ خود کے دفاع کے درمیان جل چکا تھا شہیر کا سر بھاری ہونے لگا تھا وہ اسے مزید بے چینی سے اٹھانے کی سہی کرنے لگا لیکن شائد اس وقت یہ نا ممکن تھا وہ نازک صفت لڑکی جو کہ اس شہزادے کی جان تھی اس وقت آگ کی تپش کے باعث پسینے پسینے ہو رہی تھی چہرا اس کا پورا پسینے سے تر تھا چہرے پر موجود وہ ریشم جیسے بال ، اس لمحے پسینے میں بھیگتے چہرے پر چپکے ہوئے تھے۔
"ش۔۔ش۔۔شہ۔۔شہیر آ۔۔آپ '"
وہ اپسرا نیم غنودگی میں بس یہ کچھ ہی ٹوٹے پھوٹے لفظ اپنی زبان سے ادا کیے ہوش و خرد سے بیگانہ ہو گئی۔
"س۔۔سحر "...
شہیر پوری شدت سے چلایا تھا اپنی جان ، اپنی حیات کو خود میں زور سے بھینچے۔ وہ لڑکی اس کی زندگی تھی اور اپنی ہی زندگی کو یوں گھٹتا دیکھ اس کی اپنی جان لبوں پر آئی تھی۔
"چھوڑوں گا نہیں اسے میں جان لے لونگا کیونکہ یہ حادثہ نہیں مکمل سازش معلوم ہوتی ہے۔"
دانت کچکچاتے ، نفی میں سر ہلاتے وہ آس پاس کا جائزہ لیے بولا پھر نہایت ہی نرمی سے اس نے سحر کے نازک وجود کو اپنے ساتھ ہی شال میں لپیٹا اور باہر کی جانب جانے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ جیسے ہی وہ قدم بڑھاتا تھا آگ کے شولے اٹھنے لگتے بالآخر ہوا میں ایک سرد آہ خارج کیے خدا کا نام لیے اس نے باہر کی جانب تیز قدم بڑھائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ دونوں تو احتیاطاً باہر آگئے لیکن وہ شال آگ کی ضد میں آئے راکھ ہونے کو تیار تھی۔
تقریباً سب اراکین ، ان کے پاس فکر مندی سے پہنچے تھے اور خدا کا شکر ادا کیا تھا کہ وہ بنا کسی بڑے نقصان کے باہر آ چکے ہیں لیکن وہ سب یہ نہیں جانتے تھے نقصان چھوٹا ہو یا بڑا نقصان ، نقصان ہی ہوتا ہے۔ سب اس سے سحر کی حالت طلب کر رہے تھے لیکن شہیر ، وہ اس وقت کسی سے بات کرنے یا جواب دینے کی حالت میں نہ تھا اس نے بنا وقت ضائع کیے سحر کو گاڑی میں بیٹھائے ہسپتال کی راہ لی تھی کیوں کہ اس کی سانسیں بہت دھیمی رفتار میں چل رہی تھیں لیکن جاتے جاتے نورے بیگم پر ایک کٹیلی نظر ڈالنا نہ بھولا جب ان کے عجب الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرائے "ہائے ربا ، میری نئی شال کا ستیاناس کر کے رکھ دیا ، خدا کا غارت کرے تم لوگوں کو زرہ تمیز نہیں "
شہیر کا تو دل چاہا کہ رک کر انہیں تفصیلاً جواب دے مگر وہ نظر انداز کیے نفرت آمیز نگاہوں سے گھور کر جا چکا تھا کیونکہ اس وقت وہ ان پر وقت ضائع نہیں کر سکتا کیونکہ اس متاع حیات اس کی بانہوں میں قابلِ رحم حالت میں موجود تھی۔
"نورے تم میں ، زرہ برابر تہذیب نہیں ؟
چلو تہذیب کو تو چھوڑ دو کیا رشتوں یا انسانیت سے بھرپور احساس بھی نہیں ؟
تم دیکھ بھی رہی ہو ، اس وقت گھر کی حالت کیا ہے پھر بھی اپنی من گھڑت جلاد پن سے باہر نہ آئی۔ تھوڑی عقل ہو تو اس کا استعمال کر لو یہ گھر کسی اور کا نہیں تمہارا بھی ہے اور یہاں کے باورچی خانے میں نورے نامی بلا جیسی آگ لگی ہوئی ہے۔"
نورے بیگم پر ، باتوں باتوں میں طنز کے تیر چلاتے میمونہ بیگم نے اچھا خاصا ذلیل کیا تھا لیکن وہ نورے ہی کیا جس پر کسی بات کا اثر ہو جائے۔ وہ منہ منائے ، من ہی من میں بڑبڑاتی وہاں سے چل دی تھی کیونکہ اس وقت فائز بریگیڈ آچکے تھے آگ بجھانے کو۔
©©©
شہر کے مہنگے ترین ہسپتال میں اس وقت افراتفری مچی ہوئی تھی کیونکہ شہیر چوہدری کی بیوی کا وجود ایک سنگین کیس کے طور پر لایا گیا تھا ڈاکٹر ، نرس سمیت وہاں کا تمام عملہ گھنو چکر بنا ہوا تھا چوہدری وقار اس کے ساتھ وہیں ہسپتال میں موجود تھے جب کہ وہ سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا کافی بے بس معلوم ہو رہا تھا۔
کل وہ دونوں کتنے خوش و مکمل تھے لیکن آج ، آج ان دونوں کی خوشیوں کو نظر لگ گئی اس کی پری کو نظر لگ چکی تھی کہ وہ اندر قابلِ رحم حالت میں موجود تھی۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی ڈاکٹر آئے تھے جہاں ان کی پہلی خبر نے اسے سے پر سکون کیا تھا لیکن وہیں ان کی اگلی بات نے شہیر چوہدری سمیت چوہدری وقار کو بھی تشویش میں ڈال دیا۔
"دیکھیں ، یہ بہت اچھا ہوا کہ آپ انہیں وقت پر لے آئے ہیں جس کے باعث وہ موت کے منہ میں جانے سے بچ چکی ہیں لیکن دھواں زیادہ مقدار میں پھیپھڑوں تک جانے کے باعث ان کا نظامِ تنفس متاثر ہوا ہے اور ساتھ ہی ان کا ہاتھ بہت برے طریقے سے جل چکا ہے کسی دوائی یا ٹیوب سے اس کا ٹھیک ہونا نا ممکن ہے اسلئے اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس کے لئے سرجری درکار ہے ورنہ پوری زندگی ہی انہیں اس طرح رہنا ہو گا۔"
چہرے پہ پہنا گیا وہ سرجیکل ماسک ڈاکٹر نے ٹھیک کرتے اپنے پروفیشنل انداز میں کہا تھا کہ شہیر جنونیت سے اس میل ڈاکٹر کے دونوں ہاتھوں کو تھام گیا۔
٫
"آپ لوگوں نے جو کرنا ہے جیسے کرنا ہے جلدی کیجئیے مگر ، مگر میری بیوی کو ٹھیک کر دیں۔"
جنونی انداز میں کہتا وہ اس وقت اپنی بیوی سے بے انتہاہ محبت کرنے والا شخص معلوم ہو رہا تھا جس کے چہرے پر تفکر کے آثار نمایاں تھے واقعی یہ حقیقت بھی تھی کہ ، وہ اپنی سحر سے دیوانوں کی حد تک محبت کرتا ہے۔
©©©
وقار چوہدری ، بیٹھے شہیر کی حالت پر غور کر رہے تھے کہ ان کا بیٹا کیسے اس لڑکی کی پرواہ کر رہا ہے ایک طرح سے ان کے دل کو خوشی ہوئی تھی اپنے بیٹی کی فکر پر لیکن ان کو سوچوں کے محور سے باہر لا پٹخا تھا فون کی اس آنے والی کال نے ، ایک نظر ریسیپشن اسٹاف پر ڈالے وہ فون کال سننے سائڈ پر آ چکے تھے۔
"ہیلو ! وقار سائیں ۔
بیٹی کی طبعیت کیسی ہے ؟
ڈاکٹر نے کیا کہا ؟
سب خیریت تو ہے نا سائیں؟
کم از کم گھر پر آگاہ ہی کر دیتے۔"
دوسری جانب ، میمونہ بیگم بھی فکر مند لہجے میں گویا ہوئیں۔
"ارے ! بیگم تھوڑا صبر حوصلہ رکھیں ، فکر کی کوئی بات نہیں بس یوں سمجھیں بڑے نقصان سے بچ چکے ہیں باقی ڈاکٹر نے ہاتھ کی سرجری کا کہا ہے وہ بھی ہو جائے تو سحر بالکل صحت یاب ہو جائے گی ان شاءاللہ۔ بس آپ لوگ دعا کریں کہ سب بہتر ہو جائے۔"
آتے جاتے لوگوں کا سرسری سا جائزہ لئے وہ میمونہ بیگم سے حرف بہ حرف گویا ہوئے تھے۔
آمین " خدا سے بہتر کی امید ہے"
کہتے وہ کال منقطع کر گئی تھیں۔
©©©
پوری حویلی میں اس وقت ہو کا عالم تھا کیونکہ شہیر چوہدری اس وقت زندگی میں پہلی بار اپنے اصل غصے و جلال کے ساتھ کھڑا ہر سب سے تشویش کر رہا تھا کرتا بھی کیوں نا ، یہاں سوال اس کی زندگی کا نہیں بلکہ اس کی پری کی زندگی تھا۔
"کون ہے وہ جس نے کچن کا گیس کھلا چھوڑا تھا ؟"
ملازمین سمیت آج وہ گھر کے ہر ایک فرد کے تاثرات کا معائنہ بھی بہت باریکی سے کر رہا تھا۔
"کون تھا وہ ؟"
اب کی بار کو پورے اشتعال میں چلایا تھا کہ اس کی رگیں سفید نگت پر ابھرتی صاف واضح ہونے لگی تھیں۔
"و۔۔وہ مج۔۔مجھ سے غ۔غلطی ہ۔۔ہو گی ص۔۔"
رجو (ملازمہ ) نورے کی جانب دیکھ شہیر کے قدموں میں گڑگڑاتے بولی تھی کہ وہاں مجھ عمارہ کی آواز نے یکدم ہی سب کے سروں پر بم لا پھوڑا تھا۔
"نورے آنٹی ! آپ نے سحر کو چائے بنانے کا کہا تھا نا اور جہاں تک میں نے دیکھا تھا رجو سے پہلے آپ کچن سے نکلی تھیں۔"
"سر آپ جانتے ہیں ، جب میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے لئے چائے بنانے چلی جاتی ہوں تو جانتے ہیں انہوں نے اتنی زور سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے پاس بیٹھا لیا کہتی ہیں نہیں وہ تو سحر کے ہاتھوں کی ہی چائے پیئیں گی لو بھلا اب اس میں کون سا فرق ..
کیا میں ان کی بہو نہیں ، کیا ہوتا اگر یہ میرے ہاتھ کی چائے پی لیتیں۔
آنٹی آپ بتائیں ! کیا آپ سحر کو "صرف اپنی بہو مانتی ہیں مجھے نہیں مانتیں ؟
نورے بیگم کے ہاتھوں کو تھام عمارہ خفا خفا سے لہجے میں گویا ہوئی تھی کہ وہ کچھ کہہ بھی نہ پا رہی تھیں ان کے لفظ کہیں دب سے گئے تھے کیونکہ ان کی چہیتی بہو نے ان کا راز جو کھول ڈالا تھا سب پر ۔
جہاں سکینہ و میمونہ بیگم کی دبی دبی ہنسی گونجی تھی عمارہ کے اسٹائل وہیں نورے بیگم کا چہرا لٹھے کی مانند سفید ہوا تھا لیکن شہیر کی آنکھوں میں نفرت ، کدورت مزید ابھرنے لگی اس کی آنکھوں میں جو غصہ و جنوں ہلکورے کھا رہا تھا اس سے صاف واضح تھا کہ اب ان کی خیر نہیں۔
"اتنا تو میں جانتا ہوں کہ آپ کی زندگی میں نہ تو خوشیاں ہیں اور نہ ہی آپ دوسروں کو خوش رہنے دے سکتی ہیں کیونکہ آپ سے برداشت جو نہیں ہوتا مگر اب کان کھول کر سن لیں سب یہ گھر ، یہ جائیداد سب سحر کے نام ہے اللہ نے کرے لیکن اگر اس کی جان جاتی ہے تو یہ حویلی ، یہ جائیداد سب کچھ ٹرسٹ میں چلا جائے گا اور پھر ، جس چیز پر آپ سب غرور ہے ہے نا وہ خاک میں مل کر رہ جائے گا اسلئے بہتر ہو گا کہ اس کی جان کو کوئی خطرہ نہ ہو ۔
اور ہاں " آپ نے اس بات کا خاص خیال رکھنا ہے "
اپنی بات روانی سے کہتے وہ سب کے سروں پر بم پھوڑتا جا رہا تھا لیکن آخر میں نورے بیگم کی جانب اشارہ کیے وہ ان ہی کی زمہ داری سحر کی جان کی حفاظت کے طور پر لگاتے ہوئے انہیں وارن بھی کر گیا جب کہ وہ جلتی کڑتی رہ گئی تھیں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ آج تک جس کی جان کی دشمن بنتی آئی ہیں اس کی حفاظت کریں گی ایسا تو نا ممکن ہے وہ نخوت زدہ سا چہرا بنائے بنا کسی پر غور کیے اوپر کی جانب چل دیں جب کہ شہیر نے ملازمین کو بھی جانے کا اشارہ کیا تھا جو کہ جان بخشی پر شکر ادا کیے چل دیے۔
جاری ہے 💞
#Rape_Base_Rude_Possesive_Hero_Most_Romantic_CARING_loving_hero_innocent_mecure_heroin_REVENGE_BASE💞💫
اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی کہ سفیر نے سختی سے اس کے جبڑوں کو اپنی آہنی گرفت میں لیا تھا اور اپنی خون جھلکتی آنکھیں مہمل کی آنکھوں میں گاڑیں۔
"کیا سمجھتی ہو تم خود کو ؟
بہت کوئی توپ چیز ہو ؟
چلو مان لیا تم نے انہیں بتا بھی دیا تو کیا وہ تمہارا یقین کریں گے ؟
ہے کوئی ثبوت میرے خلاف؟
کیوں کہ جہاں تک مجھے یاد ہے ، اس دن میں گھر والوں کی نظر میں شہر سے باہر تھا اور تم تو اپنی دوست کی برتھ ڈے پارٹی کا کہہ کر گئی تھی۔
نفی میں سر ہلائے افسوس بھرے لہجے میں کہتا اپنا سر پیچھے کی جانب گرائے قہقہ لگانا لگا تھا کہ مہمل نے درد بھری نظروں سے اس بے وفا ہرجائی کو دیکھا جو کل تک تو اس سے محبت کا دعویدار تھا لیکن آج ، آج اُس کو اِس نے زمین پر لا پٹخا اِس کے تمام اس طرح خواب چکنا چور کر ڈالے کہ وہ انہیں دوبارہ سمیٹنے کے قابل بھی نہ رہے۔
بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں آپ ؟
لبوں پر شکوہ ، آنکھوں میں اداسی ، لہجے میں بے بسی لیے وہ گویا ہوئی تھی سامنے کھڑے اس پتھر دل شخص سے جسے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔
ہاہاہا ، سفیر خانزادہ غلطیوں کا شوقین ہے اور یقین جانو ، اس دفع کی غلطی بہت ہی دلچسپ تھی۔
قہقہ لگاتے وہ اس کے وجود کو بے باک نگاہوں سے گھورنے لگا تھا کہ مہمل نفرت و تلخی سے اپنا رخ پھیر گئی۔
خدا کرے آپ برباد ہو جائیں سفیر "
آپ کو محبت سے بڑھ کر عشق ہو "
کبھی خوش نہیں رہ پائیں گے آپ "
سفیر خانزادہ کی آنکھوں میں دیکھے وہ اٹل لہجے میں گویا ہوئی تھی کہ اس نے بے دردی سے ، مہمل کے وجود کو زمین پر پھینکا تھا کہ وہ کراہ کر رہ گئی۔
"سفیر خانزادہ دوسروں کو اپنی توجہ و شخصیت سے متاثر کرنا جانتا ہے نا کہ دوسروں کی شخصیت سے خود متاثر کرنا "
اسلئے اپنی یہ فضول باتیں اپنے پاس رکھو کیونکہ عشق و محبت جیسی چیزیں سفیر خانزادہ کی فطرت میں نہین سویٹ ہارٹ"
لبوں پر طنزیہ مسکان سجائے وہ مہمل سے تلخی و انا بیک وقت لہجے میں سمیٹے گویا ہوا تھا اور ساتھ ہی اس پر الوادعی نظریں ڈالے کمرے سے چل دیا۔ جب کہ پیچھے زمین پر بیٹھی وہ لڑکی اپنی قسمت پر افسوس کرتی ، محبت کی نا قدری پر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
شہیر کی غیر موجودگی میں احمر چوہدری ہسپتال میں داخل ہوا تھا جہاں وہ نازک صفت لیکن مضبوط کردار کی مالک لڑکی دوائیوں کے زیرِ اثر نیند کی وادیوں میں تھی۔
وہ خاموشی سے چلتا بیڈ تک آیا تھا اور خاموش نظروں سے اس کے وجود کو دیکھنے لگا اس خوبصورت ماہ جبین سے چہرے کو آکسیجن ماسک نے ڈھکا ہوا تھا وہ بس ٹکٹکی باندھے اس کے وجود کو اپنی نظروں کے حصار میں بیٹھا رہا تھا کہ بے ساختہ طور پر اس کی نظر سحر کے جلے ہوئے ہاتھ پر گئی تھی۔
"چ۔۔۔چھوڑ۔۔۔چھوڑیں ۔۔م۔۔میرا ہاتھ۔۔۔۔"
اس کے مضبوط ہاتھوں سے اپنا ہاتھ نکلوانے کی کوشش کر رہی تھی۔
"کیوں چھوڑ دوں ؟؟"
سحر کے ہاتھ پر مزید دباؤ بڑھائے بولا ، کہ اسکی سسکی نکلی تھی۔۔
"م۔۔مجھے ر۔۔۔روٹی بنانی ہے۔۔۔"
ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرتی وہ اٹک اٹک کر بولی تھی ...
"اووووووووووو۔۔۔۔"
کچھ سوچتے اس کے چہرے کو دیکھا تھا جہاں آنسوں بہنے کو بے تاب تھے کچھ سمجھنے کا موقع دیے بنا اسکا ہاتھ اس تیز جلتے توے پر رکھا تھا پوری حویلی میں تقریباً سحر کی چیخیں گونج رہی تھیں۔
کیا کچھ نہیں یاد کرایا تھا اس منظر نے ، "یہ وہی ہاتھ تھا جسے احمر چوہدری نے آج سے کچھ سال پہلے اپنے ہاتھوں میں لئے جلایا تھا تب اسے اس لڑکی کی تکلیف و آنسوں کی بالکل پرواہ نہیں ہو رہی تھی تو پھر آج کیوں ؟
آج کیوں وہ سحر کی ، اس تکلیف کو محسوس کر پا رہا تھا۔
کیا کچھ بدلا تھا ان گزرے ماہ و سال میں؟
احمر چوہدری یا پھر اس کے دلی جذبات ؟
اس کا فیصلہ ، خود احمر کو کرنا تھا جو کہ اس کے لئے خود نا ممکن سا تھا کیونکہ انا و خود غرضی نے اس کے پورے وجود سمیت اس کی روح کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔
"تم کتنی اچھی ہو نا اور ساتھ ہی نرم دل ! کاش اس بات کا اندازہ مجھے کچھ سال پہلے ہو جاتا تو تمہیں کبھی تکلیف نا دیتا۔ "
گہرا سانس بھرتے کرب و اذیت سے سوچا تھا چوہدری احمر نے ساتھ ہی ایک آنسوں بے مول ہو کر گرا تھا اس کی آنکھ سے۔
وہ بس لبوں کو بھینچے ، خود پر ضبط کیے اس کے چہرے کو تکتا جا رہا تھا کہ نرس کے اندر داخل ہونے پر وہ اس خواب ناک ماحول سے لوٹا تھا وہ رکنا چاہتا تھا وہاں لیکن نرس کی موجودگی کو محسوس کیے خاموشی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
آنکھ یہ نم ہے ٹوٹا بھرم ہے
تو ہی وجہ ہے یہ تیرا کرم ہے
©©©
"کہیں جا رہی ہو تم ؟ "
چوہدری احمر کمرے میں داخل ہوا تو عمارہ کو نک سک سا تیار ہوتے دیکھ کافی حیرانی کے عالم میں پوچھا۔
"ہاں جی ! ہسپتال جا رہی ہوں ، سحر کا پتہ کرنے۔"
ڈوپٹے کو خود پر سیٹ کرتی ساتھ ہی اپنا سراپا شیشے میں دیکھ وہ مصروف سے انداز میں بولی تھی کہ احمر کی اگلی بات پر اس کا ڈوپٹہ سیٹ کرتا ہاتھ تھما تھا۔
"اچھا ! مگر کس کے ساتھ ؟ کیونکہ میں تو بالکل تمہیں وہاں نہیں لے کر جاؤں گا ."
سنجیدگی سے کہتا وہ وہیں پاس رکھے صوفے پر براجمان ہو چکا تھا۔
"شہیر بھائی کے ساتھ ۔"
کندھے اچکاتے کہا تھا ساتھ ہی احمر کی آنکھوں میں دیکھ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔
"بیٹھ جاؤ ! آرام سے کہیں نہیں جانا تم نے۔"
غصیلی لہجے میں کہتا وہ اپنا سر صوفے کی بیک پر ٹکا گیا تھا۔
"احمر آپ کی بھابھی ہسپتال میں ہیں ہمیں جانا چاہیے۔
میں تو یہ کہوں گی کہ شہیر بھائی کے بجائے ، یہ آپ کا فرض ہے کہ مجھے لے کر جائیں۔"
"عمارہ ! خدا کا واسطہ سمجھ جایا کرو بحث نہ کرو مجھے نہیں جانا کہیں بھی اسلئے اب دوبارا بحث نہ کرنا۔"
وارن کرنے کے سے انداز میں کہتا وہ سگار جلائے اس کے گہرے گہرے کش لیتا خود کو پر سکون کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
"آپ سحر سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں ؟ بھابھی ہے وہ آپ کی۔"
"بھابھی نہیں ! سابقہ بیوی جسے تمہارے ہی کہنے پر طلاق دی تھی۔"
اب کے سگار کا ایک گہرا کش لگائے دھواں عمارہ کے چہرے پر چھوڑا تھا جب کہ وہ احمر چوہدری کی بات سن کر سناٹوں کی ضد میں آئی تھی۔
"م۔۔مطل۔۔مطلب ، و۔۔وہ ۔۔وہ ل۔۔لڑکی کوئی اور نہیں س۔۔سحر ہی تھی ؟"
بے یقینی ، ہی بے یقینی نمایاں تھی عمارہ کے چہرے پر ، جسے دیکھ احمر کے لبوں پر نا چاہتے ہوئے بھی مسکراہٹ طاری ہو چکی تھی کیونکہ وہ جو چاہتا تھا ہو چکا ، اس کی کوشش تھی کہ عمارہ سحر سے بدگمان ہو جائے لیکن یہ صرف اس کی سوچ تھی۔
"او ! تو یہی وجہ ہے کہ آپ سحر سے اتنی نفرت کرتے ہیں؟"
لہجے میں افسوس سمیٹے وہ سامنے کھڑے لاپرواہ احمر چوہدری سے مخاطب ہوئی تھی۔
"نہیں ! کس نے کہا میں اس سے نفرت کرتا ہوں؟"
"تو پھر ! عزت بھی تو نہیں کرتے نا آپ ۔"
جواب دوبدو آیا تھا کہ احمر نے چند ثانیے کے لئے عمارہ کی جانب دیکھا لیکن پھر واپس ہی وہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔
"میں عزت کروں ، یا بے عزت ، نفرت کروں یا محبت یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے ڈرائنگ تم اپنے کام سے کام رکھو۔"
چہرے پر دل جلا دینے والی مسکراہٹ ، سجائے احمر عمارہ کو تنبیہ کر رہا تھا لیکن وہ عمارہ ہی کہاں ، جو کسی کی سن لے۔
"اچھا تو پھر میں یہ سمجھوں کہ یہ جلن ہے جو آپ اپنے بھائی سے کرتے ہیں یا اپنی سابقہ بیوی سحر سے کہ " وہ آپ کے بھائی کے ساتھ کتنی خوش ہے "
"عمارہ جسٹ شٹ اپ ! "
وہ پوری شدت سے چلایا تھا لیکن پھر بھی عمارہ کو کوئی فرق نہ پڑا تھا وہ آج احمر کے صبر کا امتحان لینا چاہتی تھی۔
"ویسے یقین جانیں ، اس کی حالت دیکھ کہیں سے نہیں لگتا کہ وہ آپ کی بیوی رہ چکی ہے احمر ، انہیں دیکھ تو کچھ ایسا گمان ہوتا ہے کہ وہ دونوں بس ایک دوسرے کے لئے بنے ہوں "
روانی سے کہتی وہ احمر چوہدری کے من میں آگ لگا گئی تھی اس سے پہلے وہ مزید بھڑکتا ساتھ والے کمرے آتی ، نورے بیگم کی چیخ نے دونوں کو متوجہ کروایا۔
عمارہ کو وہیں چھوڑ وہ دوڑتا ہوا نورے بیگم کے کمرے کی جانب گیا تھا جہاں وہ زمین پر بیٹھی ، گھٹنوں میں چہرا چھپائے چیختے ہوئے کانپ رہی تھیں۔
"ماں ! کیا ہوا آپ کو ؟"
ان کے پاس پہنچ وہ فکر مندی سے گویا ہوا تھا کہ احمر کی آواز سن نورے بیگم نے کانپتے ہوئے الماری کی جانب اشارہ کیا۔
"و۔۔وہا۔۔وہاں ا۔۔ار۔۔ارتضی ، ارتضیٰ ہے۔
و۔۔ہ۔۔وہ وہ م۔۔مجھے مار دے گا۔"
ان کی بات سن احمر نے الماری کی جانب دیکھا ، جہاں پر کوئی بھی نا تھا۔
"ماں وہاں کوئی نہیں ہے۔ سب ٹھیک تو ہے۔
مجھے لگتا ہے آپ کا وہم ہے۔"
اپنے لہجے کو نارمل رکھے وہ نورے سے مخاطب ہوا تھا لیکن احمر کی بات سن ، نورے بیگم نے کھا جانے والی نظروں سے احمر کو گھورا تھا۔
"میں نے جب کہا ہے کہ وہ تھا وہاں تو تمہیں سمجھ نہیں آتی۔"
احمر کے کارلر کو جھنجھوڑ وہ غرانے کے سے انداز میں بولی تھیں کہ احمر گھبرا گیا ان کی حالت دیکھ کر خوف و دہشت کی وجہ سے ان کا پورا چہرا پسنے سے بھیگا ہوا تھا۔
"م۔۔ماں ! ماں ریلیکس
آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں چلیں ہم ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔"
نورے بیگم کی طبعیت کو نارمل کرنا چاہا تھا اس نے لیکن ، احمر چوہدری کی بات سن ، وہ نظریں چراتے چڑچڑی سی ہوئی تھیں۔
"ن۔۔نہیں مجھے کہیں نہیں جانا ، ت۔۔تم جاؤ یہاں سے اور خبردار کسی کو ۔۔ک۔۔کمرے میں مت آنے دینا۔"
زبردستی احمر کو کمرے سے باہر نکال وہ دروازے کو لاک کر چکی تھیں اور ساتھ ہی ڈرتے ڈرتے الماری کی جانب آئیں اور اندر رکھی اپنی مطلوبہ چیز کو بے تابیِ سے تلاشنا شروع کیا اور بالآخر کافی لمحے ڈھونڈنے کے بعد وہ اپنی مطلوبہ چیز تک پہنچ پائی تھیں۔
جسے پیتے ہی وہ سکون کی وادیوں میں کھو سی گئی تھیں۔
©©©
سمجھے نا کوئی دل کو دکھا کے
جھکنا ہے آخر آگے خدا کے
ہسپتال کے کمرے میں لیٹی وہ سامنے لگی اس تصور کو بغور دیکھ تو رہی تھی لیکن سوچوں کا محور اسے ماضی کی دنیا میں لے جا چکا تھا جب وہ احمر چوہدری کی سلطنت و اس کی ملکیت میں ہوا کرتی تھی۔ کیسے وہ اس سے جانوروں کی مانند بدسلوکی کیا کرتا تھا کہ ان آنسوں پر بھی اس کا بس نہ ہوا کرتا تھا۔
آج سے کچھ سال پہلے ، یہی ہسپتال ، یہی کمرا ، یہی بستر اور قسمت تو دیکھیں لڑکی بھی وہی تھی جس کو کچھ سال پہلے احمر چوہدری لایا تھا برباد کرنے کو لیکن آج ، وہ برباد کرنے کے لئے نہیں لائی گئی تھی۔ اسی گھر کا فرد جو اس کا شوہر تھا وہ اسے لایا تھا دوبارا آباد کرنے کے لئے ، ایک نئی زندگی بخشنے کے لئے۔
کیا وہ خوش قسمت تھی ؟
یہ ایک سوال تھا جو اس کے ذہن میں نمودار ہوا ۔
ہاں وہ لڑکی واقعی خوش قمست تھی جس کی زندگی میں شہیر چوہدری جیسا فرد لکھ دیا گیا تھا۔وہ لڑکی کئی آزمائشوں سے گزر کر اس مرحلے پر پہنچی تھی کہ ہر کوئی اس پر رشک کرتا تھا۔
کچھ گھنٹے بعد اس کی سرجری تھی۔
یہ سوچتے ہی ایک طویل سانس اس نے ہوا کے سپرد کیا تھا۔
کن پھڑ کے دسناں چاواں
جیندے جی میں مردی جاواں
کوئی وی سنے نا میری
سوچوں کے محور سے باہر آئی تھی جب کسی کے قدموں کی چاپ کمرے میں محسوس کیں آنکھیں کھولیں تو سامنے وہی شہزادہ موجود تھا جس نے اس کو بچانے کے لئے اپنی جان تک کی بھی پرواہ نہ کی۔اپنی پری کو بچانے کے لئے خود کی جان جوکھوں میں ڈال آگ میں کود گیا۔شہیر کی محبت کی انتہاہ کو سوچ کبھی کبھار سحر کو دل بھر آتا تھا اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ روئے۔ زندگی نے اتنے زخم دئیے تھے اسے کہ اب وہ ہنسا بھول چکی تھی۔جب جب وہ زندگی کی جانب لوٹنے لگتی تھی کوئی نا کوئی ایک ایسا حادثا ہو جاتا تھا جس سے وہ واپس اپنے خیالات میں چلی جایا کرتی تھی۔
اس کے سر پر نرمی سے ہاتھ پھیر اس کو ٹیک لگوا کر صحیح سے بیٹھایا تھا۔
"یہ دیکھو میں آپ کے لئے لئے اسپیشل سوپ بنا کر لایا ہوں۔
آپ کو بہت پسند ہے نا ، ویجی سوپ ؟"
اس کی آنکھوں میں دیکھ مسکرا کر کہا تھا ساتھ ہی سوپ کا چمچ اس کے لبوں کے قریب کیا جسے وہ خاموشی سے پی گئی تھی۔
"یہ سوپ آپ نے خود بنایا ہے ؟"
شہیر کی جانب دیکھ وہ حیران کن لہجے میں بولی تھی وہ مسکرا کر رہ گیا۔
"بالکل بیگم جانی ! ویسے کیسا لگا ؟"
بھنونے اچکائے وہ تعریف وصول کرنے کے انداز میں بولا تھا کہ سحر ہنس دی تھی۔
"بہت شاندار ! لیکن یہاں ہسپتال میں آپ نے کیسے ؟ "
"اف ہو ، گھر سے بنا کر لایا ہوں ، ٹینشن نہ لیں اب جلدی سے اسے ختم کرنا ہے اس کے بعد جانتی ہیں نا آپ کی ہاتھوں کی سرجری ہے۔"
"جی ! "
جواباً وہ صرف اتنا ہی کہہ پائی تھی۔ کیونکہ کچھ دیر پہلے جو اس کے لبوں پر مسکان تھی وہ کچھ یاد آنے پر سمٹ کر رہ گئی۔
جسے شہیر محسوس کر گیا تھا تب ہی اس کا دھیان بھٹکانے کے لئے مزید باتیں کرنے لگا۔
"ویسے سردارنی صاحبہ ، بہت ہی غلط بات ہے اکیلے اکیلے سوپ پی رہی ہیں یہ نہیں کہ بندہ بیچارے غریب شوہر سے ہی پوچھ لے۔"
وہ مصنوعی خفگی ظاہر کرتے بولا کہ سحر بے ساختہ مسکرا دی تھی شہیر کے چہرے پر اتار چڑھاؤ دیکھ۔
"ہاہاہا آپ کو ملنا بھی نہیں کیوں کہ سوپ ختم ہو چکا ہے "
وہ ہنستے ہوئے بولی تھی کہ شہیر بھی مسکرا دیا اور پورے مان کے ساتھ جھک اپنے لب سحر کے ماتھے پر پیوست کیے۔
"ان شاءاللہ اب میری جان جلد ہی بہتر ہو جائیں گی۔ "
شہیر کا مان ، اس کے ہونے کا احساس سحر کو نئے احساسات سا آشنا کروا رہا تھا۔
میں عشق تے کر لیا ہے مینوں وفا چاہیے
اکھیاں نوں تیری دید دی پناہ چاہیے۔
سرجری کے بعد کچھ ہفتوں کے لئے سحر کو ہسپتال میں انڈر اوبزویشن رکھا گیا تا کہ اس کا علاج بہترین طریقے سے کیا جا سکے اس دوران شہیر کسی سایہ کی مانند اس کے ساتھ رہا کرتا ، سحر کی ہر چیز کا خیال دل و جان سے رکھتا کہ پاس موجود ڈاکٹرز و نرس بھی مسکرا دیا کرتے تھے اس کی فکر پر کہ کس طرح وہ اپنی بیوی کا خیال رکھتا ہے۔
فاتح و پشمینہ سحر کی عیادت کے لئے آنا چاہتے تھے لیکن شہیر انہیں یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر گیا کہ پشمینہ کی طبعیت خود ٹھیک نہیں اسلئے بہتر ہے کہ ، وہ اسے گھر پر ہی رکھے ۔
کچھ ہی ہفتوں میں ، شہیر چوہدری ، سحر کو ہسپتال سے چھٹی کروائے گھر لے کر آچکا تھا سب سے پہلے نور بیگم اور سکینہ بیگم نے سحر کا صدقہ اتار غریبوں میں بانٹا تھا۔ عمارہ بھی محبت اور خوش اسلوبی کے ساتھ ملی تھی کہ سحر سب کی اپنائیت حاصل کر نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
سب نیچے ہال میں موجود تھے ، شہیر اپنی متاعِ حیات کو خود سے لگائے بیٹھا تھا کہ سب گھر والے اس کی حرکات پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے سکینہ بیگم نے تو پہلی فرصت میں دونوں کی نظر اتاری تھی۔
احمر چوہدری حویلی کی اوپری سیڑھیوں کے پاس کھڑا بس لب سیے سب کو دیکھ رہا تھا آج وہ سحر سے زیادہ شہیر کی حرکات و سکنات کو نوٹ کر رہا تھا کہ کیسے وہ اپنی بیوی کی ہر ایک چھوٹی سی چھوٹی چیز کا خیال رکھ رہا ہے کہ اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔
اور وہ "
اس نے کیا کیا تھا ؟
سحر کے غم ، اس کی تکالیف ، اسکے دکھوں کو سمیٹنے کے بجائے
اس کو دکھ دینے کی وجہ بنا۔
کبھی اس کی روح ، اس کے جذبات تو کبھی اس کا وجود۔
کیا شوہر ایسے ہوا کرتے ہیں ؟
یا شہیر جیسے ؟
وہ تو شوہر سے زیادہ انتقام ، کے رشتے کو نبھاتا آیا ہے۔
"شوہر تو وہ ہوتا ہے جو بیوی کو ہر بری نظر سے بچا کر رکھے کوئی مشکل و پریشانی اس تک آنے نہ دے ۔ شوہر تو وہ ہوتا ہے جو بیوی کو اپنے پن کا احساس دلائے ۔ یہ وہ رشتہ ہے جو خدائی قادر کی جانب سے بنایا گیا ہوتا ہے جب سب ساتھ چھوڑ جایا کرتے ہیں تب میاں بیوی ہی ایک دوسرے کا آخری سہارا ہوتے ہیں"۔
"میرے اندر انتقام کی آگ ہے ایک جنون ہے جس میں تمہیں جلا کر بھسم کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں "
ماضی میں کہے اپنے ہی الفاظ چوہدری احمر کے کانوں کے گرد گونجے تھے وہ جو اس کو انتقام کی آگ میں جلائے رکھ کرنا چاہتا تھا آج خود اسی آگ میں جل رہا تھا۔
©©©
ویران صحرا میں جہاں سورج اپنی تپش کا احساس دلائے ہوئے پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور وہیں وہ پورے ویرانے میں تن تنہا بے مقصد گھوم رہی تھی۔
سورج کی گرمی وقت سے ساتھ بڑھتی چلی جا رہی تھی کہ اس تپش زدہ جگہ پر خاتون کا مزید چلنا محال تھا پیروں میں چپل نہ ہونے کے باعث اس کے پاؤں وہاں کی تپش سے جلنے شروع ہو چکے تھے کہ وہ آس پاس پر کوئی سہارا ڈھونڈنے کی کوشش کرنے لگی لیکن ناکارہ !
چہرے سے معلوم پڑ رہا تھا کہ وہ کافی وقت سے سفر کر رہی ہیں بھوک سے زیادہ بڑھتی پیاس نے ان کا حال کسی بے بس لاچار کی مانند کر دیا تھا۔ پسینہ ٹپک ٹپک کر ، ان کے چہرے کو بھگوئے ہوئے تھا کہ اچانک اس ویرانے میں شور سا اٹھنے لگا کسی بچے کی کراہنے کی آوازیں آنے لگیں وہ خاتوں ہواس باختہ سی ہوئی تھیں۔
"ماں ! مت مارو مجھے ماں !
م۔۔مت مارو۔
میں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے۔
نہیں ! مجھے نہیں مرنا۔"
بے چینی کے سے عالم میں ، نظریں چاروں اطراف گھمائیں لیکن پھر بھی آوازوں کے سوا کسی کو نا پایا تھا کہ یکدم ہی وہ آوازیں قہقہوں میں تبدیل ہونا شروع ہوئیں تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ویرانا خون سے بھری وادی کی شکل اختیار کر گیا جو کہ ان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے گیا تھا خوف کے باعث وہ کانوں پر ہاتھ رکھے چیختے ہوئے وہیں بیٹھتی چلی گئی۔
"آہہہہ۔۔۔
آہہہ۔۔۔
خ۔۔خون ب۔۔بچاؤ !
پ۔۔پانی پ۔۔پانی "
نورے بیگم نیند سے چلاتے ہوئے اٹھ بیٹھی تھی کہ پہلو میں بیٹھے چوہدری وقاص نے حیران کن نگاہوں سے اپنی بیوی کی جانب دیکھا تھا جو کہ پسینے سے تر چہرے سمیت لبوں پر خون ، خون کی گردان لگائے چلانے میں مصروف تھی۔
میرا دل ہے پوچھتا کیوں ہے منزل لاپتہ
میں نا جانوں کیا مجھ سے ہوئی ہے خطا
"و۔۔وق۔۔وقاص ا۔۔ارتضی آ۔۔آگیا و۔۔وا۔۔واپس
و۔۔وہ و۔۔۔وہ۔۔واپس۔۔"
"نورے ! ہوش میں آؤ "
بھول جاؤ ، ارتضیٰ کو وہ اب کبھی واپس نہیں آ سکتا۔"
"ن۔۔نہیں س۔۔سائیں م۔۔میں نے خود دیک۔۔دیکھا و۔۔وہ "
نورے بیگم آنسوں بہائے چوہدری وقاص کو ٹوٹے لفظوں میں بتانے کی کوشش کرنے لگی تھیں کہ وہ انہیں بازووں کے گھیرے میں لئے خاموش کروا گئے۔
"میں جانتا ہوں ، نورے بیگم کہ ارتضیٰ کو آپ نے اپنے بیٹوں کی طرح ہی محبت دی ہے اس کی موت کا سب سے زیادہ غم و تکلیف آپ کی ہی زات کو ہوا ہے ورنہ جو اس کی سگی ماں ہے وہ تو اس سے سوتیلوں والا رویہ رکھے ہوئے ہے۔ اس کے نام کی ونی کو اپنی بیٹی بنائے بیٹھی ہے "
چوہدری وقاص نخوت سے سوچتے ہوئے بولے تھے۔ " لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب وہ ہم میں نہیں رہا۔اسلئے اب اس چیز کو قبول کر لیں اور خود کو تکلیف نہ دیں۔"
چوہدری وقاص یہ تمام جملے اپنی دوسری بیگم سے گھمبیرتاً ادا کر رہے تھے کہ ان کے لئے چائی لاتی سکینہ بیگم کی آنکھوں میں نمی واضح ہونا شروع ہوئی تھی اپنے شوہر کے دل توڑتے لفظوں کو سن۔
آنسوں کو پی وہ دروازا کھٹکھٹا کر خاموشی سے اندر آئی تھیں۔
"سائیں ! گستاخی معاف لیکن جوان بیٹے کو کھونے کی تڑپ و تکلیف کیا ہوتی ہے یہ ایک ماں سے بہتر کوئی بھی نہیں جان سکتا یہاں تک باپ بھی نہیں۔
بے شک باپ کی محبت ایک طرف لیکن ، ماں کی محبت ، اور پیار صرف وہی جانتی ہے کیونکہ نو مہینے اسے اپنی کوکھ میں رکھتی ہے وہ بچے کے ہر احساس ، جذبات ، تکلیف ماں کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔
حقیقت ہے چاہے تلخ ہی صحیح " میں نے تو بیٹے کے ساتھ ساتھ اپنا شوہر بھی کھویا ہے "
سادہ لفظوں میں بہت گہری بات کہتیں ایک شکوہ کناں نظر دونوں پر ڈال آنسوں کو روکتے وہ وہاں سے نکلتی چلی گئی تھیں۔
اپنے کمرے میں آ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔
زندگی نے بھی کیا کھیلا ان کے ساتھ؟
پہلے شوہر چھینا گیا پھر بیٹا ۔
جس نے بھی رلایا تھا اس کو رلاتی
ایسی قسمت کب تھی کہ دھوکہ نا کھاتی
جو بھی مجھ پر گزری کیسے میں بتاتی
©©©
گردش ہے کوئی کیا جان کہاں لے جائے
جانا تو ہو گا تقدیر جہاں لے جائے
میمونہ بیگم لان سے ہوتی سکینہ بیگم کے کمرے کے پاس سے گزر رہی تھیں کہ اندر سے آتی سسکیوں کی آواز نے انہیں مجبور کر دیا تھا رکنے پر ۔
کچھ سوچتے وہ دروازا دکھیل اندر داخل ہوئی تھیں جہاں ان کی جان سے پیاری بہن بیڈ پر بیٹھی ارتضیٰ کی تصویر کو سینے سے لگائے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔
"آ۔۔آپی ج۔۔جان "
تیز قدم بھرتی وہ ان تک آئی تھیں اور ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ پکارا تھا انہیں کہ وہ میمونہ بیگم کی آواز سن آنکھیں صاف کرتی پلٹی تھیں۔
"ی۔۔یاد آ رہی ہے ؟"
اپنی بہن کا چہرا محبت سے ہاتھوں کے پیالے میں بھرا تھا۔
"مومی
س۔۔سائیں ک۔۔کہتے ہیں ک۔۔کہ م۔۔م۔۔میں اپنے بیٹے سے پ۔۔پیار ن۔۔نہیں کرتی ۔ تم خود بتاؤ ایسا بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اپنے لختِ جگر ، اپنی جان کے ٹکڑے سے پیار نہ کروں۔
بھلا کوئی ماں ایسا کر سکتی ہے ؟
و۔۔وہ کہ۔۔کہتے ہیں کہ م۔۔میں س۔۔سحر سے ارتضیٰ کے خون کا بدلہ نہیں لیتی بھلا تم بتاؤ ایسا کیسے ممکن کہ بے گناہ کو سزا دی جائے۔
وقاص سائیں کو نظر کیوں نہیں آتا کہ وہ ع۔۔عورت دھوکہ اور فریب ہے و۔۔وہ ق۔۔قاتل ہے ہ۔۔ہمارے بچے کی۔
م۔۔میں بد نصیب ہوں مومی میری قسمت میں ہی سکون نہیں۔"
خون کے آنسوں روتے وہ اپنے دل کا حال بیان کر رہی تھیں ، ان کے لہجے میں تڑپ بے بسی نمایاں تھی کہ میمونہ بیگم کی آنکھیں بھی بھیگ چکی تھیں اپنی بہن کو یوں تکلیف میں دیکھ ۔
"آپی حوصلہ رکھیں۔
بے شک اللہ انصاف کرنے والا ہے۔"
ان کے آنسوں پونچھتے میمونہ بیگم ، لب کچلتی بولی تھیں۔
کھائی ہے ایسی حالات کی ٹھوکر میں نے
سینے سے جیسے وہ کھینچ کے جاں لے جائے
©©©
کالے رنگ کے بہترین سوٹ بوٹ میں ملبوس وہ ساحرانہ پرسنیلٹی رکھنے والا شخص ، آفس کے کانفرنس روم میں بیٹھے اپنے کلائنٹ کے ساتھ بہت ہی خاص موضوع پر میٹنگ کر رہا تھا کہ اچانک ہی روم میں فون کی رنگ بجی تھی جس نے فاتح کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص کو متوجہ کیا تھا۔
وہ ان سب سے ایکسیوز کرتا سائیڈ پر آیا تھا فون کال سننے کے لئے ، نجانے دوسری جانب سے کیا کہا گیا کہ وہ بنا کسی کی پرواہ کیے فوراً ہی دوڑتا ہوا باہر پارکنگ میں پہنچا تھا اور گاڑی میں بیٹھ تیز رفتاری سے ہسپتال میں پہنچا جہاں ڈاکٹر نے اسے زندگی سے بھرپور خوش خبری سے آگاہ کیا۔
کالے رنگ کے بہترین سوٹ بوٹ میں ملبوس وہ ساحرانہ پرسنیلٹی رکھنے والا شخص ، آفس کے کانفرنس روم میں بیٹھے اپنے کلائنٹ کے ساتھ بہت ہی خاص موضوع پر میٹنگ کر رہا تھا کہ اچانک ہی روم میں فون کی رنگ بجی تھی جس نے فاتح کے ساتھ ساتھ وہاں موجود ہر شخص کو متوجہ کیا تھا۔
وہ ان سب سے ایکسیوز کرتا سائیڈ پر فون کال سننے کیلئے آیا تھا ، نجانے دوسری جانب سے کیا کہا گیا کہ وہ بنا کسی کی پرواہ کیے فوراً ہی دوڑتا ہوا باہر پارکنگ میں پہنچا تھا اور گاڑی میں بیٹھ کر تیز رفتاری سے ہسپتال میں پہنچا جہاں ڈاکٹر نے اسے زندگی سے بھرپور خوش خبری سے آگاہ کیا۔
وہ روم میں داخل ہوا تھا جہاں پر وہ ماہ وش نیم غنودگی کی سی کیفیت میں آنکھیں موندے بستر پر لیٹی تھی۔پاس ہی کاٹ میں ایک بچہ موجود تھا جسے کپڑوں میں لپیٹا گیا تھا۔
فاتح دھیمے قدموں سے آگے بڑ رہا تھا اس وقت اسکی کیفیت ہی مختلف تھی آگے بڑھ اس نے بہت ہی آہستگی سے اس بچے کو اپنی گود میں اٹھایا دل ایک الگ ہی انداز میں دھڑکا تھا جب اپنے ہی وجود کے حصے کو گود میں تھامے کھڑا تھا۔
یہ احساس واقعی جدا تھا کہ وہ باپ بن چکا ہے۔
نہایت نرمی اور محبت سے فاتح نے اسے اپنے سینے سے لگایا ساتھ ہی ایک نظر اپنی متاعِ حیات پر ڈال رخ اس کی جانب کیا تھا۔
"مبارک ہو پیاری وائفی ! آپ ماں بن چکی ہیں۔"
گود میں موجود بچے کو پشمینہ کے پہلو میں لیٹائے ساتھ ہی عقیدت سے اس کا ماتھا چوم مبارک باد پیش کی تھی۔
پشمینہ نے مندی مندی آنکھیں کھول فاتح کی جانب دیکھا تھا۔
"ویسے ہماری بیٹی کی آنکھیں کتنی خوبصورت ہیں نا ، بالکل تمہاری طرح بس آنکھوں کا رنگ تھوڑا مختلف ہے۔"
"فاتح ، یہ بیٹی نہیں ، بیٹا ہے۔"
فاتح کی بات سن کر وہ ہلکا سا کھلکھلائی تھی جب کہ فاتح تو مارے حیرت کے کبھی پشمینہ کو دیکھتا تو کبھی اس کے پہلو میں موجود اپنے بچے کو ساتھ ہی اپنی شرمندگی چھپائے اس نے بات بنائی۔
"ہاہاہا ، کوئی بات نہیں ویسے ایک دن کا بیبی تو پہچانا بھی نہیں جاتا۔میں نے صرف اس کی آنکھوں کو دیکھ کہا جو کہ تمہاری طرح لگ رہی ہیں۔"
"مائے بوائے ! " آتے ساتھ ہی ڈیڈ کو چکما دے دیا اٹس ناٹ فئیر ،
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ فاتح کے بیٹے ہو۔"
اپنے بیٹے کے گالوں کو ہلکا سا دبایا کہ وہ کسمسا کر رہ گیا مینہ نے آنکھیں دیکھائی دی تھیں اسے جیسے خبردار کر رہی ہو۔
لیکن اسکی گھوری کو بھی بنا خاطر میں لائے وہ اسکے گالوں کو بھی کھینچ گیا تھا۔
کچھ دیر میں موبائل نکالے فاتح نے اپنی ایک فیملی فوٹو کلک کی اور مشل اور منصور صاحب کے نمبر پر بھیج ڈھیر ساری مبارکباد وصول کیں ساتھ ہی اپنے بیٹے کی علیحدہ سے تصویریں لے کر اس نے شہیر کے نمبر پر سینڈ کی تھیں جسے دیکھ اس نے بنا وقت ضائع کال کی تھی اور ساتھ ہی اپنے کارڈ وڈ ( ۔۔۔) میں ہنستے ہوئے دلی طور پر باپ بن جانے کی مبارک باد پیش کرتے ہوئے دلی طور پر دعاؤوں سے نوازا۔
©©©
آج فاتح کے بیٹے نعمان کا سوا مہینہ کافی بڑے پیمانے پر رکھا گیا تھا۔جس میں فاتح کے تمام قریبی دوست احباب ، رشتے دار سمیت اس کے آفس ایمپلائز بھی شامل تھے۔
سب نے ان دونوں کو بہت سی دعاؤں سے نوازا تھا ساتھ ہی نعمان کے لئے ڈھیروں تحائف بھی لائے تھے جسے کچھ دیر پہلے ہی مشل و پشمینہ نے سمیٹ کر رکھا تھا اب مشل نعمان کو گود میں اٹھائے اس کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھی جب کہ منصور صاحب ، فاتح اور پشمینہ تینوں بیٹھے باتوں میں مصروف تھے کیونکہ یہ منصور صاحب کا ہی حکم تھا کہ وہ ان دونوں سے کسی اہم ٹاپک پر بات کرنا چاہتے تھے۔
"فاتح بیٹا اب آپ ہمارے گھر کا حصہ ہیں ، ایک فرد ہیں۔
اسلئے ایک بات ہے جو میں آپ شئیر کرنا چاہتا ہوں۔"
سامنے بیٹھے فاتح پر ایک نظر ڈالے بولے تھے وہ ساتھ ہی جوس کا ایک گہرا سِپ لیا تھا۔
"جی بالکل انکل کہیے میں سن رہا ہوں "
"میرے دوست کے گھر سے ہماری مشل کے لئے رشتہ آیا ہے۔
لڑکے سے میں بس ایک ہی مرتبہ ملا ہوں وہ بھی تب جب آج سے دو سال پہلے وہ پاکستان آیا تھا ورنہ اپنے بزنس کے ساتھ وہ باہر کے ملک میں ہی بسا ہوا ہے۔اگر دیکھا جائے تو رشتہ برا نہیں ہے۔"
"اب تم دونوں بتا دو کہ کیا رائے تمہاری ؟
اگر تکلف نہ ہو تو کسی دن وقت نکال ہم سب ان کے گھر بھی ہو آئیں۔
کیا کہتے ہو ؟"
منصور صاحب اپنی بات کہے خاموش ہوئے تھے کہ پشمینہ نے چور نگاہوں سے فاتح کی جانب دیکھا جہاں پر کسی بھی قسم کے تاثرات نہ تھے وہ نارمل انداز کے ساتھ بیٹھا منصور صاحب سے مسکرا کر بات کر رہا تھا۔ فاتح کو نارمل پائے پشمینہ نے بھی گہری سانس بھری تھی ورنہ نا چاہتے ہوئے بھی منصور صاحب کی بات اسے بے چین کر گئی تھی۔
"انکل ایک طرح سے بیٹا کہتے ہیں اور دوسری طرف تکلف کی بات کر رہے ہیں۔
باقی مشل کی فکر نہ کریں وہ مینہ کی بہن ہے میرے لئے بالکل چھوٹی گڑیا کی طرح ہے اتنی آسانی سے کسی کے سپرد تھوڑی کریں اپنی گڑیا کو ہم۔"
ایک نظر نعمان سے کھیلتی مشل کو دیکھ کہا تھا جو کہ ناجانے کون کون سی باتیں اس سے کر رہی تھی اور وہ صاحب صرف ہاتھ پاؤں ہلا کر بات کا جواب دے رہے تھے۔
"لڑکے کے بارے میں انفارمیشن میں نکلوا لوں گا جب تک آپ بات کر لیں اگلے ہی ہفتے میں وہاں جا کر بات چیت کر آئیں گے۔"
"شکریہ بیٹا !
خوش و سلامت رہو جیتے رہو۔"
منصور نے جواباً انہیں ڈھیروں دعاؤں سے نوازا تھا جس پر سر خم کیے اس نے ادب کے دائرے میں وصول کیا۔
©©©
نعمان کو سلانے کے بعد ابھی وہ سائیڈ پر ہو کر بیٹھی ہی تھی کہ فاتح نے پشمینہ کا رخ اپنی جانب کیے اس کو متوجہ کروایا تھا۔
"کیا تمہیں مجھ پر یقین نہیں ہے ؟"
"یہ کیسا سوال کر رہے ہیں آپ ؟"
حیران کن لہجے میں کہتے اسنے اپنے کندھے اچکائے جیسے اس کے سوال کو سمجھ نہ سکی ہو۔"شام میں انکل کے سوال پر تمہاری آنکھوں میں جو ہلکا سا خوف ابھرا تھا نا۔وہ میری نظروں سے مخفی نہیں رہ سکا۔"
آنکھیں چھوٹی کیے وہ اسے آگاہ کر رہا تھا جیسے اس کی ہر ایک حرکات پر اس کی نظر ہو۔
"ن۔۔نہیں فاتح ایسی بات نہیں مجھے خود سے بڑھ کر آپ پر یقین ، اگر یقین نہ ہوتا تو آج میں آپ کے ساتھ یہاں نہ ہوتی وہ تو بس پاپا کی بات پر کچھ لمحوں کے لئے ۔۔۔۔"
"ہش۔۔۔ کچھ لمحوں کے لئے ہی صحیح ، تمہاری آنکھوں میں یہ خوف و بے اعتباری نہ دیکھوں کیونکہ کچھ بھی ہو لیکن اب اس دل میں صرف تم بستی ہو۔یہ دل پشمینہ کے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچنے کی گستاخی نہیں کر سکتا جانِ جاں۔"
اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ گھمبیراً کہتے وہ اپنے لہجے میں محبت کا جہاں سمیٹے بولا تھا کہ پشمینہ اس کے لہجے کا مخمور محسوس کیے نظریں چرا گئی تھی۔
جذبات میرے سبھی تو ہی جانے
جتنا بھی دیکھوں دل بھر نا پائے۔
©©©
"سائیں !
کیا آپ کا دل پتھر کا ہے جو آج تک میرے لئے نرم نہیں ہو سکا ؟"
بستر پر بیٹھی سکینہ بیگم سامنےکھڑے تیار ہوتے چوہدری وقاص سے مخاطب ہوئی تھیں ان کے لہجے میں اداسی بھری پڑی تھی جسے ان کے شوہر صاف محسوس کر سکتے تھے لیکن وہی نا کہ ابتدائی دنوں سے ہی وہ ان کے معاملے میں لاپرواہی برتے آئے تھے۔ نا یہ درد ان نے پہلے محسوس کیا تھا اور نا ہی آج کر رہے تھے۔
"یہ کیسی فضول باتیں لے کر بیٹھ گئی ہیں آپ ؟"
ماتھے پر تیوری چڑھائے وہ نخوت زدہ لہجے میں گویا ہوئے تھے ان کے انداز سے لگ رہا تھا کہ یہ بات انہیں نہایت ناگوار گزری ہے۔
"میں نے کوئی ایسی ویسی بات تو نہیں کی ہے سائیں۔
بس سرسری سا سوال پوچھا ہے۔"
"اگر یہ ہی سوال ہے تو سن لیں سکینہ بیگم , نہایت ناگوار گزرا ہے مجھے اسلئے آئندہ ایسے سوال کرنے سے اجتناب برتیے گا۔"
ٹھوس لہجے میں کہہ کر وہ باہر جانے ہی لگے تھے کہ سکینہ بیگم نے ان کا ہاتھ تھام روکنے کی کوشش کی تھی کچھ لمحوں کے لئے وہ منجمد سے ہوئے تھے سکینہ بیگم کی اس جرات پر کہ کیسے آج گزرے ان سالوں میں انہوں نے چوہدری وقاص کا ہاتھ اسطرح سے تھاما تھا۔
"میرا یہ سوال آپ کو اتنا ناگوار گزرا ہے سائیں زرا سوچیئے مجھ پر تو یہ لمحات ، یہ احساسات بیت چکے ہیں میری ذات پر ان کا کتنا گہرا اثر پڑا ہو گا۔"
ان کی آنکھوں میں دیکھ وہ ایک ایک لفظ ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھیں اپنے جملوں کے ساتھ ان کی آنکھ نم تھیں۔
چوہدری وقاص نظریں چرا کر رہ گئے جو وہ کئی سالوں سے کرتے آئے تھے۔
"سکینہ میرے پاس وقت نہیں جو کہنا ہے بعد میں کہہ لینا۔"
ان کی جانب سے صاف بیزاری ظاہر کی گئی تھی کہ وہ تلخ سا ہنس دیں۔
"واہ سائیں ! نورے کے لئے پورا پورا دن اور میرے لئے دو پل بھی نہیں؟"
انتہائی قرب و اذیت شامل تھی ان کے لہجے میں۔
"یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ بیگم ، کیا ہم نے آج تک آپ کے اور نورے بیگم کے حقوق و معملات میں کوئی کوتاہی برتی ہے ؟
جو آپ نے اس طرح سے کہنے کی گستاخی کی ہے ؟"
"نورے کا تو پتہ نہیں لیکن میرے معملات میں ہمیشہ ہی آپ کوتاہی برتے آئیں ہیں۔"
اب کے نا چاہتے ہوئے بھی ان کی آواز بھیگی تھی اور لہجہ تیز ہوا جسے سن چوہدری وقاص بھنونے اچکا کر رہ گئے۔
"سکینہ بیگم پہلی چیز اپنا لہجہ ٹھیک رکھو پھر بات کرو ، تیز لہجے سے سخت نفرت ہے مجھے یہ بات اچھے سے جانتی ہو تم۔
اور کون سی کوتاہی کی بات کر رہی ہیں آپ ؟ "
اب کے دانت کچکچا کر کہا گیا تھا۔
"میرے معملات میں پہلی کوتاہی تو یہی ہے کہ آپ میرا یقین نہیں کرتے ، دوسرا۔میری خاموشی کا ہمیشہ نا جائز فائدہ اٹھاتے آئے ہیں۔
نورے نے اور آپ نے مل کر مجھے دھوکہ دیا میں خاموش رہی۔
مجھے دھتکار آپ اس کے پاس گئے میں کچھ نا بولی۔
اس کی وجہ سے آپ میری تذلیل کرتے آئے میں تب بھی خاموش رہی۔
ل۔۔لیکن ! لیکن جہاں بات آتی ہے ایک ماں پر الزام کی ،
م۔میں تب بالکل خاموش نہیں رہونگی۔
جسے آپ ارتضیٰ کا ہمدرد ، سمجھتے آرہے ہیں کہ اس نے ماں سے بڑھ کر محبت دی ہے تو سن لیں وہ ماں نہیں ڈائین ہے میرے ارتضیٰ کی اصل قاتلہ جو کھا گئی میرے بیٹے کو۔۔۔"
روتے ہوئے وہ اپنی بات ہچکیوں کی صورت میں کہہ رہی تھیں۔
"سائیں شائد ہی یہ میری جانب سے آخری بات ہو اسلئے ذیادہ کچھ نہیں کہنا مجھے ، بس اِتنا ہی کہوں گی کہ جس دن آپ کو حقیقت معلوم ہو گئی نا تو بہت پچھتائیں گے آپ اس دن۔"
"کیسی حقیقت ہاں اور کیسا پچھتاوا ؟
افسوس ہے سکینہ بیگم ! ایک آپ اور دوسرا آپ کا وہ بھانجا دونوں نے مل کر قسم کھائی ہے میری زندگی کے سکون کو غارت کرنے کی۔"
"میرا بھانجا آپ کا بھی کچھ لگتا ہے شائد آپ بھول رہے ہیں۔"
سکینہ بیگم بھی دوبدو بولی تھیں کہ وہ سر جھٹک کر رہ گئے۔
"کچھ اور کہنا ہے یا صرف یہی فضول گوئی کرنی تھی ؟"
کلائی میں بندھی کھڑی پر ایک نظر ڈال وہ تیوری چڑھائے بولے تھے کہ نورے بیگم میں نفی میں سر ہلائے پیچھے ہٹ گئی تھیں۔
کیا کہنا سب مناسب تھا سمجھ لیتے نا آنکھوں سے
کہ دستک دے رہے آنسوں تیرے دل کے دریچوں سے
ابھی کچھ دیر پہلے ہی شہیر پنچایت سے ہو کر آیا تھا جہاں پر پھر ایک معصوم کلی کو ونی جیسی گھناؤنی رسم کی بھینٹ چڑھانے کا سوچا جا رہا تھا لیکن یہ خبر جیسے ہی سحر کے کانوں تک پہنچی تھی وہ تب سے تھوڑا گھبرائی ہوئی تھی۔ وہ شہیر کو مناتے ہوئے اس کی سفارش کر رہی تھی کہ بچی کو ونی ہونے سے بچا لیا جائے۔
"شہیر اس بچی کو ونی ہونے سے بچا لیں۔
و۔۔وہ تو اتنی معصوم سی ہے کیسے برداشت کر پائے گی اتنے ستم؟
ش۔۔شہیر آپ نے وعدہ کیا تھا نا مجھ سے کہ کبھی کسی کو ونی نہیں ہونے دیں گے بلکہ یہ رسم ہی ختم کر دیں گے تو پھر آج کیوں وہ لوگ ونی کا مطالبہ کر رہے تھے ؟"
شہیر کا سر ان تمام تر کاروائیوں کی وجہ سے پہلے ہی شدید درد کر رہا تھا لیکن پھر اپنی متاع حیات کا خوف و حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ اپنا درد بھول سحر کے درد کو سمیٹتے اسے حوصلہ دینے لگا۔
"پیاری بیوی ! بالکل پر سکون ہو جائیں ، مجھے اپنا دیا گیا وعدہ بہت اچھے سے یاد ہے میں اسی چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔
یہ بات آپ بھی جانتی ہیں کہ میں شروع سے ہی ان تمام چیزوں سے نفرت کرتا آیا ہوں مجھے یہ غیر اخلاقی رسمیں ، جو انسانیت سے گری ہوئی معلوم ہوتی ہیں خلاف ہوں ان سب کے۔ اسلئے اب آپ آرام کریں کیونکہ اس کا فیصلہ سب کے سامنے ہونا تھا کہ ، بچی ونی کی جاتی ہے یا پھر مقتول کا سر قلم اور یہ فیصلہ ہم دونوں مل کر پنچایت میں کریں گے اور مجھے امید ہے سب بہتر ہو گا۔
اب آپ آرام کریں۔"
محبت اور پیار بھرے لہجے میں اسے سمجھایا تھا کہ سحر کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں شہیر کی باتوں میں کھوتی چلی گئی۔
اس کے من کو شہیر کے الفاظ سن کر اسے راحت سی پہنچی تھی۔
کچھ ہی دیر میں نیند کی وادیوں نے اسے اپنے پنچوں میں جکڑ لیا اور وہ ہر چیز سے بے پرواہ سی ہوتی سو چکی تھی جب کہ شہیر اپنی آنکھوں میں محبت کا ایک انوکھا جہاں سمیٹے اس دلربا کو دیکھ رہا تھا جس کو اپنا بنانے کی کتنی ہی دعائیں وہ کیا کرتا تھا۔
°°°°°°
صبح تقریباً سات بجے کے قریب پشمینہ کی آنکھ کھلی تو معمول سے ہٹ کر کچھ تبدیل پایا آس پاس نظریں دوڑائیں تو نہ ہی فاتح کو پایا تھا اور نا ہی نعمان کو۔ واشروم کی جانب دیکھا جس کی لائٹس بند تھیں۔اب کے پریشانی لاحق ہوئی تھی اسے کہ وہ بے چینی کے سے عالم میں کھڑی ہوتی بنا پاؤں میں چپل پہنے باہر کی جانب چل دی تھی لیکن اچانک ہی اس کے قدم تھمے تھے جب سامنے والے کمرے سے فاتح کے گانا گنگنانے کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں۔
"ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے ببلو نہائے گا
ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے ببلو نہائے گا "
وہ حیرانی کے عالم میں کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی جہاں سامنے ہی فاتح گھر کے عام ٹروزار اور بنیان زیب تن کیے کاندھے پر تولیہ ٹنگائے کسی دیسی باپوں کی طرح نعمان کو چھوٹے سے ٹپ میں بیٹھائے گانا گنگناتے ہوئے نہلا رہا تھا۔ جب کہ نعمان ہاتھ پاؤں چلاتے اسے تنگ کرنے میں اپنا حصہ ڈال رہا تھا لیکن نعمان نے اچانک ہی تیز آواز میں رونا شروع کیا تھا جیسے ہی فاتح نے پانی سے بھرا مگ اس کے سر پر انڈیلا تھا پشمینہ لمحوں میں دوڑتی ہوئی وہاں پہنچی تھی کیونکہ اب فاتح سے اس کو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا۔
جو کہ اس کے چہرے پر موجود تاثرات سے نمایاں ہو رہا تھا۔
"افف ! فاتح ایسے کون نہلاتا ہے دو ماہ کے بچے کو ؟"
اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے وہ افسوس کرتے بولی ساتھ ہی فاتح کو وہاں سے اٹھنے کا اشارہ کیا تھا جو کہ اب بھی اپنے دونوں سے نعمان کو تھامے پنجوں کے بل بیٹھا تھا۔
"ارے مسسز ! اچھا ہوا تم آگئیں یہ دیکھو کب سے رو رہا ہے۔
لگتا اس کو میرا نہلانا پسند نہیں آ رہا۔"
فاتح منہ بنائے بولا ساتھ ہی نعمان کو پشمینہ کے ہاتھوں میں تھمایا جو کہ اب بھی رونے میں مصروف تھا۔
"جب اتنے ہی ظالمانہ طریقے سے نہلائیں گے بچے کو ، تو وہ روئے گا ہی نا۔"
عجلت میں کہتی وہ نعمان کو ٹپ میں واپس بیٹھا چکی تھی ساتھ ہی مگ میں پانی بھر دائیں جانب رکھا جس میں سے ہلکا ہلکا پانی ہاتھ میں لیتی نعمان پر ڈال رہی تھی۔
"یہ بات یاد رکھیے گا ، کہ کبھی بھی بچے پر فوراً سے مگ بھر پانی نہیں ڈالتے ورنہ وہ گھبرا جاتے اور اپنا سانس اوپر لے جاتے ہیں۔
اسلئے آرام آرام سے پانی لے کر انہیں نہلایا جاتا ہے۔"
نعمان کو نہلانے کے ساتھ ساتھ وہ فاتح سے باتیں کرتے ہوئے اسے گائیڈ کر رہی تھی جب کہ وہ سائیڈ پر کھڑا محویت سے اس کے ہر ایک عمل کو دیکھ رہا تھا اس کے چہرے پر ایک مسرور سی مسکان نے احاطہ کیا تھا۔
°°°°°°
اس وقت بھری پنچائیت میں ، شہیر چوہدری تمام جلال سمیت اس جگہ پر بیٹھا تھا جہاں کبھی چوہدری وقاص ہوا کرتے تھے۔
جب کہ چوہدری وقاص و چوہدری وقار سامنے لگائی گئی چارپائیوں پر براجمان تھے شہیر کے فیصلے کو سننے کے لئے کہ ناجانے وہ کیا فیصلہ کرتا ہے اس مسلئے کو لے کر کیوں کہ جہاں تک انہیں لگ رہا تھا وہ اس کیس کے خلاف ہی جائے گا اور ان قریب ان کا یہ شک یقین میں بدلنے والا تھا۔
شہیر چوہدری کے ساتھ آج اس کی بیوی بھی موجود تھی۔
آج کسی کی ہمت نہ ہوئی تھی کہ سحر کے وہاں موجود ہونے پر اعتراض ظاہر کر سکے۔
"سردار ، آپ بتائیں پھر کیا فیصلہ ہے آپ کا ؟"
وہاں موجود ایک بزرگ کی آواز گونجی تھی جو کہ شہیر سے سوال گو تھے موجودہ مسئلے پر۔
"فیصلہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کو ونی نہیں ہونے دیں گے بلکہ جس نے قتل کیا ہے اسے تمام ثبوتوں کے ساتھ پوری پوری سزا دلوائیں گے۔"
شہیر چوہدری کی اس بات سے پنچائیت میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی مقتول کے گھر والے سخت بھرم ہوئے تھے کہ یہ کیسا اصول ہے۔
"اے ! شہیر چوہدری یہ نا انصافی نہیں چلے گی، خود تو اپنے بھائی کے نام کی ونی لے لی تھی اور جب ہماری باری آئی ہے تو تم لوگوں کا انداز ہی بدل گیا۔ہمیں نہیں پتہ ہمیں ونی چاہیے۔۔"
مقتول کا بھائی تمام لحاظ بلائے طاق رکھے چیختے ہوئے شور مچائے بولا تھا کہ شہیر چوہدری نے نخوت ذدہ تاثرات سجائے اس کی جانب دیکھا۔
"یہ کوئی کھیل نہیں جس میں باریاں ، دیکھی جائیں۔
یہ حقیقی زندگی ہے ، اس لئے بہتر ہو گا کہ تم پنچائیت کے اس فیصلے کی پاسداری کرو باقی تمہیں ، تمہارے بھائی کے خون کا بدلہ اس کے مجرم کو سلاکھوں کے پیچھے دیکھ مل جائے گا۔"
"مگر ہماری یہ روایت برسوں سے چلتی آرہی ہے کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اسے بدل سکے۔"
مقتول کے والد نے بھی اپنا حصہ ڈالا تھا کہ شہیر نے ان کی آنکھوں میں اپنی گہری آنکھیں گاڑئیں " میں شہیر چوہدری ہوں کبھی ہمت نہیں ہاری جو کہتا ہوں وہ کر کے دکھاتا ہوں چونکہ اب میں کہہ چکا ہوں کہ یہ بچی کیا ، یہاں گاؤں کی کوئی لڑکی ونی نہیں ہو گی تو مطلب نہیں ہو گی بہتر ہے آپ سب یہ بات ذہن نشین کر لیں۔"
"چوہدری شہیر دیکھنا میں ونی لے کر دیکھاؤں گا ویسے بھی میں نے کوئی جائیداد نہیں مانگی صرف ایک بچی ہی ونی میں مانگی ہے اور اس میں کچھ غلط نہیں۔۔۔"
مقتول کا بھائی بھرم لہجے میں بولا تھا۔
"کیا عورت پیدا ہی قربانی دینے کو ہوئی ہے ؟
کیا اس کی ذات ، اس کا وجود اتنا ہی بے مول ہے کہ وہ اپنے باپ ، بھائیوں کے خون کی بھینٹ چڑھائی جائے؟
بتائیے ؟؟
کیا اللہ نے اسی لئے پیدا کیا ہے عورت ذات کو کہ وہ آپ کے گناہوں کا کفارہ ادا کرے ؟"
بھری پنچائیت کے سامنے وہ غم و غصے میں چلائی تھی۔
سحر کے دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب تر تھیں جب وہاں ونی ، چاہیے کا شور اٹھنے لگا تھا۔وہ غصے سے سیخ پا ہوتی تیش کے عالم میں چلائی تھی کہ اچانک ہی سکوت سا چھا گیا۔
ایک نظر شہیر نے بھی اپنی سحر کو دیکھا جو کہ اس وقت کوئی جھانسی کی رانی معلوم ہو رہی تھی۔
لیکن اگر اس چیز کا حقیقی پہلو دیکھا جائے تو وہ بالکل ٹھیک تھی اپنی جگہ وہ محسوس کر سکتی تھی ہر اس درد کو جو کہ ونی پر گزرتی ہے۔ بھلا وہ کیسے کسی معصوم بچی کو جو کہ مستقبل کا معمار ہے اسے ونی ہونے دے سکتی تھی۔
"سردارنی صاحبہ معذرت ، لیکن ہمیں ونی کرنی ہے ۔
کیونکہ ہم زبان دے چکے ہیں۔ یہ روایت ہے ہماری اس سے نا آج تک کوئی بچا ہے اور نہ آئندہ کوئی بچ سکے گا۔
وہاں موجود ایک شخص اکڑو بیٹھے بولے تھے کہ ان کی بات سن سحر کے لبوں پر طنزیہ مسکان در آئی۔
” مطلب جو کہ بے وقوفی برسوں سے چلی آرہی ہے اسے مزید قائم رکھنا چاہتے ہیں آپ بقول اپنی زبان کے ، کہ آپ وعدہ کر چکے ہیں تو بہتر ہے آپ اپنی زات کو ونی کر دیں”
اور یہاں سانپ سونگھا تھا سب کو سحر کے اس دو ٹوک جواب پر جب کہ وہ شخص اپنی بے عزتی پر لب بھینچ گیا۔
"بی بی صاحبہ ، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا جو می۔۔۔۔
گناہ ہی کر رہے ہیں آپ سب ، ایک بے گناہ کو اس جہنم میں ڈال "
ایسی رسموں کی پاسداری کر کیوں خود بھی گناہ گار ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی کرتے ہیں۔"
اس شخص کی بات بیچ میں کاٹتے وہ اپنی بات کہہ گئی تھی۔
اسے شدید غصہ آرہا تھا ان لوگوں پر جن کے دل پھتر کے تھے۔
ان میں بالکل احساس نام کی چیز نہ تھی۔
"بس آج جو فیصلہ ہونا تھا ہو گیا امید ہے کسی کو میری بات اور فیصلے سے کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔اب آپ بھی جا سکتے ہیں۔"
اپنے مخصوص لب و لہجے میں کہتا چوہدری شہیر ہاتھوں میں تھامے گلاسس چہرے پر پہنتے ہوئے بولا اور سحر کا ہاتھ تھام وہاں سے نکلتا چلا گیا۔
شہیر کے فیصلے کے مطابق آج پہلی بار گاؤں میں کوئی لڑکی ونی جیسی رسم کی بھینٹ چڑھنے سے بچائی گئی تھی۔آج پہلی بار سزا قاتل کو دی گئی تھی نا کہ قاتل کی بہن یا بیٹی کو۔
پورا گاؤں خوش تھا کہ اب ان کی بہن بیٹیاں محفوظ ہیں لیکن مقتول کے بھائی اور باپ کے سر پر قاتل کو سزا دلوانے کے باوجود بھی خون سوار تھا وہ ونی لینا چاہتے تھے لیکن شہیر کے فیصلے کی وجہ سے ان کی یہ ضد پوری نہ ہو پائی۔
"ایسے کیا دیکھ رہی ہیں ؟ "
"کچھ نہیں بس یہ دیکھ رہی ہوں کہ ہوں کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں جس کی زندگی میں اللہ نے آپ جیسے جیون ساتھی کا ساتھ رکھا ہے۔"
چہرے پر دونوں ہاتھ ٹکائے وہ لان میں موجود کرسی پر بیٹھی شہیر کے چہرے کو دیکھ لہجے میں اپنائیت بھرا احساس سمیٹے بولی تھی کہ اس کی بات سن کر جواب میں وہ بھی مسکرا دیا۔
"جب ساحلِ سمندر کوئی مچھلی غلطی سے پانی سے باہر نکل آتی ہے تو اس کا دم گھٹنے لگتا ہے وہ تڑپ رہی ہوتی ہے دل میں امنگ سی بیدار ہوتی ہے کہ کاش کوئی ایسا مسیحا آجائے جو اسے اس کی زندگی یعنی پانی تک پہنچا دے کچھ دیر انتظار کرتی رہتی ہے اسی امید کے ساتھ کہ شاید ہی کوئی آجائے گا لیکن رفتہ رفتہ اس کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دم توڑ جاتی ہے۔۔
جانتے ہیں پہلے مجھے اپنا آپ اس مچھلی کی مانند لگتا تھا کہ شاید میں بھی ، صرف امید لگائے مسیحا کے انتظار میں ایک دن اپنا دم توڑ جاؤں گی لیکن ۔۔۔۔۔"
"لیکن ایسا نہیں ہوا " شہیر نے سحر کی بات کو درمیان میں ہی کاٹ دیا کہ وہ اس کی جانب متوجہ ہوئی۔
"ساحلِ سمندر پر وہ مچھلیاں بھی ہوتی ہیں جو غلطی سے خشکی پر آجائیں لیکن تھوڑی ہمت کر کے وہ واپس زندگی کی راہ کو لوٹ جاتی ہیں کیونکہ ان کے دل میں مرنے کے خوف سے زیادہ خود کو زندہ رکھنے کی لگن ہوتی ہے اور یہی لگن انہیں واپس زندگی کی جانب لاتی ہے وہ امید کے ساتھ ساتھ دل میں شاید دعا بھی کرتی ہوں اس خالق کے سامنے "
"اور تمہارا آپ اس مچھلی کی مانند نہیں جس نے صرف امید لگائی تھی بلکہ تم تو وہ ہو جس نے امید کے ساتھ ساتھ خدا کی ڈور کو بھی تھامے رکھا اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پیر ہلائے بے شک جو بھی تھا کم ہی صحیح لیکن تم نے آواز اٹھائی ہمت دیکھائی۔
آج تک جتنی لڑکیاں ونی ہوئیں انہوں نے اپنی دفاع کے لئے نا کچھ کہا اور نہ ہی کبھی آواز اٹھائی اپنی قسمت سمجھ کر بس وہی انسانی بے حرمتی والی زندگی گزارتی رہیں لیکن تم نا نا صرف آواز اٹھائی بلکہ اس رسم کو ختم بھی کروایا ہے سحر۔"
اپنی نشست سے اٹھ کر وہ سحر کے ساتھ جا کر بیٹھا۔
"ہمم مگر ، میں ایسا کبھی نا کر پاتی اگر آپ کا ساتھ نا ہوتا یہ سب آپ کی وجہ سے ممکن ہوا ہے شہیر سائیں۔"
دھیمی آواز میں کہتی وہ اپنا سر اس کے کاندھے پر ٹکا گئی تھی کہ شہیر اس کے پہلی بار سائیں کہنے وہ دل سے مسکرایا۔ اس کے لبوں سے ادا کیا جانے والا نام " شہیر سائیں " اس کی خوشی دیدنی کر گیا تھا۔
"بیگم جانی ، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے اسلئے یہ کام ہم دونوں کی ہی بدولت ہوا ہے اس لئے صرف مجھے کریڈیٹ نہ دیں۔"
سحر کے ہاتھوں کو تھام ہلکا سا اپنے لبوں سے چھوا تھا کہ وہ لبوں پر شرمیلی مسکان سجائے اس کے سینے میں ہی چہرا چھپائے آنکھیں موند گئی تھی جب کہ اپنی پری کی اس ادا پر وہ مسکرا کر رہ گیا۔
°°°°
سحر اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھتی ہوئی شہیر کے خیالوں گم اس کی باتوں کو سوچتی مسکرا رہی تھی کہ احمر چوہدری سامنے والے صوفے پر آ بیٹھا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے احمر چوہدری کی آنکھوں میں مرچیں سی چبھنے لگی تھیں سحر کو شہیر کے حصار میں دیکھ کر وہ ان دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لئے محبتوں کا جہاں دیکھ سکتا تھا اور یہی چیز اس کے برداشت سے باہر تھی۔ بھلا یہ کسی انسان سے کہاں برداشت ہو پاتا ہے کہ کبھی جس چیز یا انسان پر اس کا اختیار ہو بعد میں وہ کسی اور کے پاس ہو کچھ ایسا ہی حال احمر چوہدری کا ہو رہا تھا۔
"کیا بات خود میں ہی مسکرا رہی ہو؟ "
"ویسے س۔۔سحر اج کل کافی خوش دکھائی دینے لگی ہو ؟"
"ہمم خوش تو ہوں لیکن مجھے خوش دیکھ آپ خوش دیکھائی نہیں دے رہے۔"
"نہیں ایسی بات نہیں ہے میں بھلا کیوں اداس ہوں گا؟"
شانے اچکائے وہ نارمل لہجے میں گویا ہوا کہ سحر نے ہنس کر طنزیہ مسکراہٹ سے اس کی جانب دیکھا۔
"لفظ اداس تو میں نے استعمال ہی نہیں کیا یہ تو آپ کی ہی تخلیق کردہ سوچ ہے۔"
"ہمم ! "وہ بس صرف ایک لفظ بول پایا تھا جواب میں۔
'مجھے تم سے کبھی بھی محبت نہیں تھی سحر اور نا میں یہ سوچ سکتا تھا کہ اپنے ہی بھائی کے قاتل کہ بہن سے محبت کروں گا لیکن میں غلط تھا کیوں کہ جب تم مجھ سے دور ہوئی تو یہ دل عجیب سا ہونے لگا اس کی کیفیت میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔
مجھے ہر چیز بے رنگ سی لگ رہی ہے سحر میں نہیں جانتا کیوں مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے تم سے محبت ہونے لگی تھی بس میری قسمت دیکھو اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب تم میری نا رہی۔
مجھے نہیں اچھا لگتا جب تم شہیر کے ساتھ ہوتی ہو تم دونوں کو ساتھ دیکھ کر وحشت سی ہونے لگتی ہے۔
مجھے تم سے محبت ہو گئی ہے سحر کاش تم میرے پاس واپس لوٹ کر آسکتی ،کاش اپنی زندگی کے ان تلخ سالوں کو نوچ کر اپنی زندگی سے نکال پاتا۔"
آج احمر چوہدری کے لہجے میں نا ہی انا شامل تھی نا ہی وہ وحشت جو اکثر اس کے لب و لہجے میں پائی جاتی۔آج وہ بالکل دھیمی آواز میں گویا ہوا جیسے زندگی سے ہارا ہوا شخص ہو۔
"مسٹر احمر آپ کو مجھ سے محبت نہیں ، عداوت ہے حسد ہے۔
آپ کی ذات سے برداشت نہیں ہو پارہا کہ میں ایک ونی ، سکون بھری زندگی کیسے جی رہی ہوں ارے آپ کے ذہن میں تو میری ذات آج بھی ونی اور صرف قاتل کی بہن ہے اور آپ جو بات کر رہے ہیں کہ کاش واپس آجاؤ ! تو مجھے زرہ یہ بتائیے گا کہ ایک بار گھڑے میں گر کر چوٹ کھایا انسان واپس اس گھڑے میں گرنا چاہے گا؟"
سر جھٹکتے وہ نفرت و غصہ بیک وقت لہجے میں سموئے گویا ہوئی۔
"پر سحر میں سچ میں تم سے مح۔۔۔"
"خبردار احمر جو دوبارا اپنی اس زبان سے میرے لئے یہ لفظ استعمال کیا ویسے شرم تو آپ کو آتی نہیں اپنی بیوی کے ہونے کے باوجود کسی اور کی بیوی سے فصول کا اظہارِ محبت کرتے ہوئے۔"
افسوس کن لہجے میں کہتی وہ وہاں سے اٹھ اندر کمرے میں چلی گئی ۔۔۔جب کہ پیچھے بیٹھا احمر چوہدری اس کو یونہی جاتے دیکھتا رہا۔
دشمنوں سے کیا شکوہ کیا گلا رقیبوں سے
یہ سانپ آستینوں میں ہم نے خود ہی پالے ہیں
نہ پوچھ پری زادوں سے یہ ہجر کیسے جھیلا ہے
یہ تن بدن تو چھلنی ہے اور روح پر بھی چھالے ہیں۔
°°°°
پہلے کے مقابلے میں ذیادہ تر اب نورے بیگم اپنے کمرے میں پائی جاتی تھیں جہاں وہ دن بھر سوتی رہتی حویلی میں ہونے والی تمام تر کاروائیوں سے فلحال وہ بے خبر تھیں۔
ابھی کچھ دیر پہلے چوہدری وقاص باہر سے واپس لوٹے تھے کہ ان کا استقبال کمرے میں پھیلتی سگریٹ کی عجیب سی خوشبو نے کیا۔
چند ثانیوں کے لئے وہ حیران ہوئے کہ ان کے کمرے میں بھلا کون سگریٹ پی سکتا ہے لیکن ان کے اس سوال کا جواب بھی انہیں چند سیکنڈوں میں ہی مل چکا تھا جب نظر نورے کے سرہانے رکھے گئے سگریٹ کے باکس ، ایش ٹرے پر گئی ساتھ ہی وہاں چھوٹے چھوٹے پیکٹس میں ڈرگز رکھے ہوئے تھے۔
چوہدری وقاص کا دماغ گھوم کر رہ گیا تھا وہ اشتعال کے عالم میں نورے کی جانب بڑھے اور انہیں جھنجھوڑ کر اٹھایا آج انہیں زندگی
میں پہلی بار ان پر غصّہ آیا تھا۔
"نورے ۔۔۔
یہ سب کیا تماشہ ہے ہاں ؟
اور کب سے چل رہا ہے یہ سب ؟"
کندھے پر پہنی وہ شال غصے سے اتار کر بیڈ پر پھینکی تھی جب کہ نورے بیگم آنکھوں کو کھولے انہیں دیکھتے ہوئے بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔
'سائیں جائیں نا تنگ کریں سونے دیں۔ کیا صبح صبح یوں چیخ رہے ہیں ؟ "
منہ بنائے نخوت زدہ سے لہجے میں کہتی وہ واپس لیٹنے کو تھیں کہ چوہدری وقاص نے ان کا ہاتھ تھام واپس بیٹھایا۔"نورے بیگم، یہ صبح نہیں شام کے سات بج رہے ہیں۔اگر آپ کا یہ نشہ اتر گیا ہو تو آس پاس غور فرما لیں۔
نورے آج تو ٹھیک لیکن آئندہ یہ سب میں تمہارے آس پاس بھی نہ دیکھوں اگر آج کے بعد تم نے ان سب چیزوں کا استعمال کیا نا تو مجھے تو اپنے لئے انتہائی برا پاؤ گی۔"
اپنی بات کے اختتام پر وہ تمام ڈرگز اٹھائے تھے انہوں نے۔
"میرا دماغ نا خراب کریں یہ سب دھونس سکینہ پر جمایا کریں مجھے پریشان نا کریں اور میرے معمالات سے دور رہیں سائیں۔
مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا آپ کے رویے سے ، بس مجھے میری یہ چیزوں دے دیں۔"
بیزاریت سے بھرپور تاثرات چہرے پر سجائے ان کو سائیڈ پر دھکیلے وہ ڈرگز واپس لینے کو تھیں کہ چوہدری وقاص کے ہاتھ سے پڑنے والے تھپڑ نے انہیں کچھ کہنے کے قابل نہ چھوڑا۔وہ حیرت کی زیادتی سے کبھی تیش میں کھڑے چوہدری وقاص کو دیکھ رہی تھیں۔
"یہ پہلی اور آخری بار تھا نورے آج کے بعد تم مجھے اس حالت میں دوبارہ دیکھائی نہ دو۔"
"ن۔۔نہیں م۔۔میں یہ نہیں چھوڑوں گی اگر یہ میں نے پینا چھوڑ دیا تو مجھے ارتضیٰ دیکھائی دے گا وہ ۔۔وہ پھر مجھے مار دے گا میں ، میں پاگل ہو جاوں گی سائیں۔"
اچانک ہی نورے بیگم کی حالت خراب ہونا شروع ہوئی تھی چیختے ہوئے وہ کسی نیم پاگل کی طرح دیکھائی دے رہی تھیں۔
"نورے بیگم ! کیا ہو کیا گیا ہے تمہیں ؟؟"
"وقاص سائیں جانتے ہیں ، میں بہت بری ہوں اپنی دوست کے ساتھ غداری کی میں نے اس سے حسد کرتی آئی میں یہاں تک کہ آج اس حسد کی آگ میں خود جل رہی ہوں میں تباہ ہو گئی میں پاگل ہو گئی ہوں سائیں۔ سکینہ کی بددعا نے تباہ کر دیا مجھے۔"
"نورے ہوش کریں کیا اول فول بولے چلی جارہی ہیں ؟؟؟"
"م۔۔میں سچ کہہ رہی ہوں " میں نے حسد و غصے میں آکر اپنی دوست کا گھر تباہ کر دیا سائیں میں نے سکینہ کے سات۔۔ساتھ غ۔۔غلط کیا م۔۔میں نے ن۔۔نا انصافی۔۔۔"
اتنا کہے وہ چوہدری وقاص کے ہاتھوں میں بہوش ہو گئی تھیں۔
°°°°
نورے بیگم کی طبعیت ناساز تھی جب کہ سکینہ بیگم اور میمونہ بیگم دونوں سحر کے ہمراہ کسی کام سے پاس والے گاؤں گئے تھے۔
اسلئے آج کھانا پروسنے کی تمام تر زمہ داری عمارہ کے سپرد تھی۔
"افف کیا زمانہ آگیا ہے کہ لوگ جائیداد ، دولت ،زمینوں کے پیچھے ایک دوسرے کا قتل کرتے پھر رہے ہیں مطلب حد ہے انسان ،انسان کا ہی دشمن بنا پھر رہا ہے۔ میری نظر میں تو ایسے لوگوں کو کھانے میں زہر دے کر مار دینا چاہیے۔
کیوں بابا سائیں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ؟"
چوہدری وقاص کی پلیٹ میں چاول نکالتے وہ ان کی آنکھوں میں دیکھ عجب چمک و مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئی تھی کہ چوہدری احمر سمیت ، چوہدری وقار کا کھانا کھاتا ہاتھ تھما جب کہ چوہدری وقاص کے ماتھے پر لاتعداد بل نمایاں ہوئے تھے عمارہ کی بات سن کر۔
"لڑکی کون ہو تم اور یہاں حویلی میں آنے کا تمہارا کیا مقصد ہے صاف صاف بتاؤ؟"
کھانا چھوڑ وہ اشتعال کے عالم میں کھڑے ہوئے تھے۔
"ارے بابا سائیں آپ کو نہیں معلوم میں تو آپ کی ، اس حویلی کی بہو ہوں احمر کی بیوی ، کیوں احمر آپ نے بتایا نہیں اپنے بابا سائیں کو یا یہ جان کر بے خبر بن رہے ہیں؟"
ہنستے ہوئے کہتی وہ کرسی سیدھی کیے بیٹھ چکی تھی۔
"عمارہ اس بات کا بھلا یہاں کھانے پر تو کوئی تُک نہیں تھا بہتر تھا تم فصول گوئی سے پرہیز کرتی۔"
چوہدری وقاص کا موڈ تیش میں دیکھ وہ عمارہ کو جھڑکتے ہوئے بولا جو کہ سکون سے کھانا تناول فرما رہی تھی۔
"میں نے کچھ غلط نہیں کہا حقیقت بیان کی ہے ، اگر سچ کڑوا ہو تو برا تو لگتا ہی ہے ۔"
شانے اچکائے اس نے کہا تھا جیسے اسے کسی بھی چیز سے کوئی سرو کار نہیں۔
"احمر بہتر ہو گا اگر تم اپنی بیوی کو یہاں حویلی میں رہنے کے کچھ طور طریقوں سے آگاہ کر دو ساتھ اگر ہو سکے تو تھوڑی تربیت بھی دے دینا۔"
اشتعال کے عالم میں کہتے وہ بنا کھانا کھائے اٹھ کر کمرے میں چل دئیے جب کہ ان کو یوں غصے میں دیکھ عمارہ لب دبائے مسکرائی تھی جیسے اس کے دل کو راحت سی پہنچی ہو۔
تیز رفتاری سے چلتی کالے رنگ کی وہ مہنگی گاڑی ایک مکان کے سامنے رکی تھی جہاں پر تقریباً آدھے سے زیادہ گاؤں کے لوگ موجود تھے اس گھر میں سے ماتم کی آوازیں آ رہی تھیں جیسے کوئی اس دنیا سے کوچ کر گیا ہو لیکن سب لوگ ہی ایک دم خاموشی سادھ گئے تھے جیسے ہی اس گاڑی میں سے سحر شہیر چوہدری کے ہمراہ اپنے مخصوص انداز و جلال کے ساتھ باہر آئی تھی۔
شہیر کو اطلاع ملی تھی کہ سحر کی تائی یعنی زیشان کی والدہ کا گزشتہ رات ہی انتقال ہو چکا ہے تب ہی وہ اسے یہاں ان کے جنازے پر لے لایا تھا۔
"س۔۔سحر !!
سحر اماں ہمیں چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر گئیں۔
وہ اب ہم میں نہیں رہیں تمہیں اور ارمان کو یاد کرتیں وہ ہمیشہ کے لئے چل بسیں وہ تم سے معافی مانگنا چاہتی تھیں لیکن انہیں یہ موقع نصیب نہ ہو سکا۔"
پہلے تو سحر کو وہاں موجود پاکر زیشان کو یقین نہ آیا اسے وہاں دیکھ حیرانی سی ہوئی تھی اسے لیکن پھر تمام سوچوں کو جھٹلائے وہ اس سے گویا ہوا جیسے اپنا غم بانٹ رہا ہو لیکن سحر بنا اس کی بات پر کان دھرے سائیڈ پر کھڑے زیشان کے والد کے پاس گئی جو کہ صحت سے کافی کمزور معلوم ہو رہے آنکھوں کے گرد پھیلے سیاح ہلکے چہرے پر چھائی جھریاں انہیں عمر سے کافی بڑا دیکھا رہی تھیں۔وہ لب کچلتی ان تک گئی تھی اور ان کے سینے سے لگ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اس پورے گھر میں وہی تو تھے جنہوں نے اس کے والدین کے گزر جانے کے بعد سحر کے پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا کہ اسے اپنی اولاد ہونے کا اعزاز بخشا مگر افسوس وہ مان آخر تک قائم نہ رہ سکا۔
"سحر م۔۔میری ب۔بچی کیسی ہے ؟
دیکھ تیری تائی دکھوں کی ماری اس دنیا میں ہم سب کو تنہا چھوڑ گئی ہو سکے تو اس سمیت ہم سب کو معاف کر دی۔۔دینا بیٹی۔"
زیشان کے والد سحر کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولے۔
احساسِ ندامت سے وہ لفظ بھی ٹھیک سے ادا نہیں کر پا رہے تھے ان کے دل پر ایک بوجھ سا تھا کہ وہ اس بچی کو جو کہ ان کے مرحوم بھائی کی امانت تھی اسے ونی جیسی رسم سے بچا نہ سکے لیکن آج اسے شہیر چوہدری کے ساتھ پوری شان کے ساتھ وہ خوش بھی تھے۔
"بڑے پاپا کیوں گناہ گار کر رہے ہیں مجھے آج بھی اس دل میں آپ کا وہی مقام ہے جو برسوں سے تھا۔ "
بے ساختہ سحر نے ان دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام سر سے لگاتے ہوئے کہا تھا ایک طرح سے یہ عزت دینے کا طریقہ تھا۔
ان سے ملنے کے بعد آنکھوں میں پہنے وہ سن گلاسز اتار وہ دھیمی رفتار سے چلتی اس چارپائی تک پہنچی تھی جہاں پر زیشان کی والدہ دنیا و جہاں کی فکریں بھلائیں ابدی نیند سو رہی تھیں۔بنا ایک لفظ ادا کیے وہ خاموشی سے نیچے اسی چارپائی کے پاس بیٹھ گئی تھی لب خاموش تھے جب کہ آنکھیں آنسوں سے تر۔۔۔
جو بھی تھا، جیسا بھی تھا وہ اس کی والدہ کی جگہ پر تھیں انہوں نے بچپن سے لے کر آج تک اسے پالا تھا وہ ان کا یہ احسان نہیں بھلا سکتی تھی۔
"إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ٗ"
دھیمی آواز میں لب کشائی کرتی وہ اٹھ کر باہر کی جانب چل دی جہاں شہیر چوہدری کھڑا اسی کا منتظر تھا پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ چل دیے تھے اس گھر سے۔ سحر نے ایک نظر پیچھے مڑ کر ایک نظر اس گھر کو دیکھا تھا جہاں پر اس کا پورا بچپن سے لے جوانی تک کا سفر گزرا تھا اور اب وہ اسے ہمیشہ کے لئے خیر باد کرتی اپنے شہزادے کے ہمراہ چل دی۔
©©©
یاد آتے ہیں بیتے زمانے
جب تم آئے تھے ہم کو منانے
گاڑی اپنی منزل کی جانب گامزن تھی سحر گاڑی کی کھڑکی پر سر ٹکائے سوچوں کے محور میں کھوئی باہر کی جانب دیکھ رہی تھی تیز ہوا اس کی زلفوں کو اڑانے کا باعث بن رہی تھی وہ نہیں جانتی کب اور کیوں کچھ ظالم آنسوں آنکھوں سے بے مول ہوتے اس کے چہرے کو بھگو گئے تھے جنہیں شہیر کی نظروں میں لائے بنا وہ صاف کر گئی تھی لیکن یہ صرف اس کی خام خیالی تھی کیوں کہ شہیر چوہدری اپنی پری پر باز کی سی نظر رکھتا تھا اس کے تمام احساسات ، جذبات صرف اسی پری پیکر کے ساتھ وابستہ تھے تو وہ بھلا کیسے لاپتہ رہ سکتا تھا اس سے۔
"مسسز خیریت تو ہے ان آنکھوں کو کیوں بھگو رہی ہیں رو رو کر ؟" دائیں آئیبرو اچکائے وہ آواز میں خمار سمیٹے استہفامیہ لہجے میں گویا ہوا کہ سحر نے رخ پلٹا تھا۔
"ن۔۔نہیں تو ! میں تو نہیں رو رہی آپ سے کس نے کہا ہے کہ میں رو رہی ہوں میں تو بالکل ٹھیک ہوں۔"
آنکھوں میں آنسوں لیے وہ زبردستی مسکراتی بولی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس کی وہ مسکان سمٹنا شروع ہوئی تھی جیسے ہی اس پر غنودگی کا راج ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتی فرنٹ سیٹ پر ڈھے سی گئی۔
شہیر نے گھبراتے ہوئے فوراً بریک لگائی تھی۔
"سحر"۔۔ اسکا گال تھپکتے ہوئے اسے آواز لگائی ساتھ ہی پاس رکھی پانی کی بوتل سے چند قطرے لے کر اس کے چہرے پر چھڑکا لیکن ناکارہ ! سحر کی ایسی حالت دیکھ شہیر کی جان مانو ہتھیلی پر آئی تھی اس نے بنا وقت ضائع کیے گاڑی کو ہسپتال کی جانب گھمایا جہاں پر ڈاکٹر کی جانب سے دی جانے والی خبر کو سننے کے بعد شہیر کے پیر تو زمین پر نا ٹک رہے تھے اور سحر وہ تو سن سی ہو کر رہ گئی تھی۔
"سحر آپ اب کیوں رو رہی ہیں کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی ؟"
اس کی آنکھوں میں پھر سے پانی جمع ہوتا دیکھ وہ کچھ پریشان کن لہجے میں گویا ہوا۔
"نہیں شہیر سائیں ایسی بات نہیں میں خوش ہوں بلکہ بہت خوش لیکن بس۔۔"
وہ گاڑی چلاتے ہوئے بغور اس کی بات سن رہا تھا لیکن پھر اس کے بس ۔۔ کہنے پر اچھنبے سے اسکی جانب دیکھا جیسا بات کے مکمل ہونے کے انتظار میں ہو۔
"شہیر میری زندگی کی کہانی آپ کے سامنے کسی کھلی کتاب کی مانند ہے آپ میری زندگی کے ہر پہلو ، ہر واقعات سے باخبر ہیں بس اس وقت بیتے وقت کی کچھ تلخ یادیں ہیں جو ذہن پر سوار ہیں۔"
"میری دلبر جانی " یوں ان آنکھوں کو تکلیف نہ دیں بس ہنستی رہا کریں میرا وعدہ ہے کہ میں ان آنکھوں میں کبھی آنسوں نہیں آنے دوں گا اور اس مقصد میں صرف آپ ہی میرا ساتھ دے سکتی ہیں۔"
لہجے کو گھمبیر بنائے وہ پر مسرت لہجے میں بولتے ہوئے اس کے آنسوں پونچھ گیا۔
"نہیں شہیر وعدہ نہ کیجیئے " کیونکہ اکثر وہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں آپ کی آنکھوں میں آنسوں برداشت نہیں ، اور یہاں تک کہ یہ وعدہ بھی کر بیٹھتے ہیں کہ ہم ان آنکھوں میں کبھی آنسوں نہیں آنے دیں گے لیکن افسوس ! وہی لوگ ان آنکھوں سے نکلنے والے آنسوں کی وجہ بن بیٹھتے ہیں کچھ ایسا ہی میری ذات پر بیتا ہے شہیر آپ جانتے ہیں بچپن سے لے کر جوانی تک صرف میں نے اس شخص کے خواب سجائے تھے اس کے وعدوں کے سہارے جیتی تھی لیکن سب ختم کر دیا تھا اس شخص نے اپنی ہی عزت کو بھری پنچایت میں ونی کے لئے پیش کر کے میں ٹوٹ چکی تھی بالکل بکھر گئی تھی میری ذات بالکل ریزہ ریزہ ہو کر رہ گئی اعتماد ، یقین ، بھروسہ سب ٹوٹ کر رہ گیا۔
اس شخص نے بھی کئی وعدے کیے تھے لیکن سب کھوکھلے نکلے ہمارے رشتے کی مانند۔۔"
سحر کی آواز درد و رنج سے پُر تھی اس کے لہجے کی بے بسی کو محسوس کیے شہیر کا دل پیسچ کر رہ گیا۔
"جانِ جان !اس شخص کے کئے گئے وعدے اور میرے کیے گئے وعدے میں بہت فرق ہے کیا تمہیں ایسا نہیں لگتا ؟
کیا آج تک تمہیں میں نے تکلیف پہنچائی ہے ؟ نہیں نا۔۔
تو بس ایسی سوچیں سوچنا چھوڑ دو ویسے بھی آج کا دن ہماری زندگی کے لئے کتنا انمول ہے اسے یوں رو کر بے مول نہ کریں بس خوش رہیں ورنہ ہمارا بیبی بھی ہر وقت ایسے روتا رہے گا پھر آپ نے ہی تنگ آجانا ہے۔ "
اسے پیار سے پچکارتے آخر میں شرارتی لہجہ اپنائے آنکھ ونک کی تھی کہ وہ بے ساختہ نم آنکھوں سمیت ہنس دی تھی شہیر کی جان میں جان آئی اپنی پری کو یوں ہنستا دیکھ کر
©©©
شہیر نے سحر کے امید سے ہونے کے باعث پورے گاؤں میں میٹھائی تقسیم کروائی تھی اور ساتھ ہی سب سے ڈھیروں مبارکباد کے ساتھ ساتھ دعائیں بھی وصول کیں۔
سب بے حد خوش تھے سوائے چوہدری احمر کے کیونکہ سحر کی امید سے ہونے کی خبر جیسے ہی چوہدری احمر کے کانوں میں پڑی تھی اس کے وجود میں حسد کا ایک شدید لاوا سا پھوٹا تھا ایک طرف اس کے دل میں حسد تھا تو دوسری طرف اس کے دل میں غم کے سائے ، طبعیت اس کی چڑچڑی سی رہنے لگی وہ اکثر عمارہ سے چڑ جاتا یا اس پر غصہ کرنے لگتا پھر مقابل کی جانب سے دئیے جانے والے دو ٹوک جواب پر دانت کچکچاتا رہ جاتا۔
عمارہ تم کافی بدل گئی ہو میں کافی عرصے سے یہ بات نوٹ کر رہا ہوں کہ تمہارا رویہ حویلی آنے کے بعد کافی بدل چکا ہے مطلب نا تم مجھے دھیان دیتی ہو اور نا ہی ہمارے رشتے کو بس اپنی ہی دنیا میں مگن رہنے لگی ہو۔
موبائل میں مصروف عمارہ ، چوہدری احمر کی بات سن اس کی جانب متوجہ ہوئی تھی۔
احمر میرا رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا پہلا تھا بس فرق صرف اتنا ہے کہ اب آپ کا دھیان کہیں اور رہنے لگا ہے اسلئے بہتر ہو گا کہ ہمارے رشتے کا الزام صرف مجھے نا دیں کیونکہ میاں بیوی
کے رشتے میں جب دوریاں بننے لگے نا تو سمجھ جائیں کہ ضرور ہی ان کے رشتے میں کوئی تیسرا موجود ہے اور وہ تیسرا کون ہے یہ بات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
کندھے اچکائے کہتی وہ فون پر نظریں جھکائے مصروف سے انداز میں بولی کہ احمر نے اس کا فون جھپٹ کر پکڑا اور اُس کی اِس حرکت پر عمارہ کے ماتھے پر بلا نمایاں ہوئے۔
عمارہ ہماری شادی کو کافی عرصہ بیت چکا ہے لیکن ابھی تک ہماری جانب سے ہمارے والدین کے کان کسی بھی قسم کی خوشخبری سننے سے محروم ہیں۔شہیر و سحر ان دونوں کی شادی ہمارے بعد ہوئی لیکن آج وہ دونوں مجھ سے پہلے ماں باپ کے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں۔
خدا کا خوف کر لیں احمر ، اب تو حسد کرنا بند کر دیں ان سے آخر کیا بگاڑا ہے ان دونوں نے آپ کا جو آپ کے اندر اتنی نفرت بھری پڑی ہے۔
اور جہاں تک رہی بات اولاد کی تو وہ ہمیشہ اللہ کی رضا اور مرد کے نصیب سے ہوتی ہے اسلئے یہ آپ کے لئے بہتر ہو گا کہ مجھ سے سوال کرنے سے پہلے خود کو دیکھ لیں اور جان لیں۔
اس کی آنکھوں میں دیکھ وہ روانی سے کہتی اپنا موبائل تھامے باہر کی جانب چل دی جب کہ وہ یک ٹک اسے جاتا دیکھتا رہا۔
©©©
وقت رفتہ رفتہ گزرتا رہا سحر شہیر و شہیر سحر کے سنگ بہت خوش رہنے لگے شہیر متاعِ حیات کو وعدے کے مطابق ہر غم سے دور رکھے ہوئے تھا ہر ممکن کوشش کیے اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتا۔
نومبر کے مہینے کی ابتدا تھی گرمیاں تقریباً خیر باد کہہ چکی تھی سردیوں کا ہلکا ہلکا احساس ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئے تھا سحر بھی آج صبح سویرے چہل قدمی کی نیت سے باہر لان میں آ چکی تھی تا کہ تازہ ہوا کا احساس اپنے وجود میں اتار سکے۔
سحر تم اب صرف میری محبت نہیں میری ضد ، میرا جنون ہو دیکھنا تمہیں تو میں شہیر سے حاصل کر کے ہی رہوں گا چاہے اس کے لئے مجھے اس کی جان ہی کیوں نا لینی پڑے۔
لا انگارہ آنکھوں میں جنون کی شدت سمیٹے وہ غرانے کے سے انداز میں بولا۔
شٹ اپ جسٹ شٹ اپ ! بند کرو اپنی بکواس اور دفا ہو جائیں یہاں سے ذلیل انسان میں تمہارا حشر بگاڑ کر رکھ دوں گی اگر تم نے شہیر کے خلاف ایک بھی لفظ ادا کرنے کی کوشش کی تو۔
ہاہاہا " تم " سیریسلی تم میرا حشر بگاڑو گی ؟
بھولو مت سحر آخر ہو تو تم ایک عورت ہی نا ، مرد سے پنگاہ لینے کی تمہاری حیثیت نہیں۔اسلئے پیار سے سمجھا رہا ہوں لوٹ آؤ میرے پاس ورنہ زبردستی حاصل کرنے میں ، مجھے کوئی جھجھک نہیں۔
مر بھی جاؤں گی تب بھی واپس تم جیسے نیچ و گرے ہوئے انسان کے پاس آنا گوارہ نہیں کروں گی کیونکہ مجھے موت گوراہ ہے تم جیسے کم ظرف شخص کا ساتھ گوارہ ۔۔۔۔
چٹاخ"۔۔ سحر کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی احمر چوہدری کا ہاتھ پوری شدت کے ساتھ اٹھتا سحر کے گال پر نشان چھوڑ گیا تھا۔
آئی۔۔آئی ایم سوری سحر میں ایسا نہیں چاہتا تھا پتہ نہیں کیسے۔۔
لب کچلتا ، گہرا سانس بھرے وہ اپنے ہاتھ کی جانب دیکھے احساسِ ندامت سے بولا تھا لیکن جواب میں سحر کے ہاتھ سے پڑنے والے تھپڑ نے بھی اس کی چلتی زبان کو بریک لگائی۔
تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی ؟
بھولو مت احمر اب میں سحر شہیر چوہدری ہوں منہ توڑنے میں لمحہ نہیں لگاؤں گی۔
ویسے افسوس ہے احمر چوہدری تم پر کہ تم کبھی نہیں بدل سکتے تمہاری فطرت میں ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں شامل ہے۔
وہ افسوس بھری نظروں سے اس کی جانب دیکھ نفرت و غصے میں پھنکاری تھی۔
سحر پلیز مجھے معاف کر دو م۔۔میں م۔۔م۔۔میں مر جاؤں گا تمہارے بن پلیز لوٹ آؤ نا میں وعدہ کرتا ہوں کبھی ہاتھ نہیں اٹھاوں گا اور عمارہ اسے بھی چھوڑ دوں گا بس تم واپس آجاؤ تمہیں شہیر کے ساتھ دیکھ مجھے اچھا نہیں لگتا مجھے کوفت ہوتی ہے اپنے وجود سے نفرت ہوتی ہے پلیز سحر رحم کھا لو میری حالت پر۔
احمر چوہدری میری بلا سے مر جاؤ تم لیکن میری جان چھوڑ دو ۔۔۔نخوت سے اس کے وجود کو دیکھتی وہ سائیڈ پر ہوتی جانے لگی تھی کہ احمر نے اس کا ہاتھ تھام پسٹل تھمائی۔
یہ لو کر لو اپنا شوق پورا لے لو میری جان ختم کر دو قصہ۔۔
اس کے ہاتھ میں پسٹل دیکھ سحر کے وجود میں کپکی سی دوڑی تھی وہ کبھی پسٹل کو دیکھتی تو کبھی احمر کو۔
اس کہانی کی شروعات مجھ سے ہوئی تھی نا آج اپنی جان لے اس کہانی کا اختتام کر دوں گا لیکن یاد رکھنا میری موت کی زمہ دار صرف تم ہو گی سحر۔۔
آنکھوں میں وحشت و جنون سموئے وہ کوئی پاگل معلوم ہو رہا تھا آنکھیں اس کی لال انگارہ ہو رہی تھیں جیسے سب کچھ جلا کر بھسم کرنا چاہتا ہو۔
ٹھاہ۔۔۔
اچانک ہی فضا میں گولی کی گونج کے ساتھ سحر کی ہولناک چیخ گونجی تھی ۔۔۔
نے ماتھے پر پسٹل رکھ احمر نے جیسے ہی گولی چلانی چاہی تھی کہ بایر جاتے شہیر چوہدری کی نظر اس پر پڑی وہ لمحوں کے ہزارویں حصے میں اس تک پہنچا تھا اور پسٹل والا ہاتھ اوپر کی جانب کیا۔
"احمر تم کہیں عقل سے پیدل تو نہیں ؟
دماغ ٹھکانے پر یا کہیں جل گیا یے ؟"
کانوں پر ہاتھ رکھ خوف سے لرزتی سحر کو اپنے مضبوط حصار میں لئے وہ احمر چوہدری پر غرایا تھا۔
"سحر کی حالت سے تم اچھی طرح واقف ہو لیکن پھر بھی اسے ٹارچر کرنے سے بعض نہیں آئے آخر ایک ہی مرتبہ میں بتا کر قصہ تمام کر دو کہ تمہیں کیا بیر ہے ہمارے ساتھ؟
اپنی اولاد تو کسی سانپ کی مانند نگل ہی چکے ہو اب کیا میری اولاد کو بھی ختم کرنے کا بد ارادہ بنا آئے ہو؟ "
شہیر چوہدری کی اس بات سے احمر چوہدری کے دل میں ایک ہوک سی اٹھی تھی شدتِ ضبط سے وہ آنکھیں میچ گیا ہاتھوں میں تھامی گئی وہ پسٹل نیچے زمین بوس ہو کر رہ گئی۔
"جاؤ نکل جاؤ یہاں سے احمر ورنہ اب تمہاری جان میں اپنے ہاتھوں سے لینے میں لمحہ نہیں لگاؤں گا اور بخدا تم میری عادت بہتر جانتے ہو میں ایسا کر بھی گزروں گا۔"
لہجے میں ٹھوس پن سموئے وہ غراتے ہوئے تیش کے عالم میں بولا تھا کہ احمر چوہدری تو لب بھینچے کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند وہاں سے چل دیا جب کہ شہیر سحر کو تھام اپنے ساتھ کمرے میں لے آیا۔
©©©
شہیر کافی ٹائم سے خاموش بیٹھا اپنے لیپ ٹاپ میں مصروف تھا پچھلے تین گھنٹوں سے نا اس نے سحر سے بات کرنے کوشش کی اور نا ہی اس کی جانب دیکھنا گوارا کیا تھا۔اب سحر کو اس کی یہ خاموشی بے چین کر رہی تھی کتنی دفع وہ اس سے بات کرنے کی کوشش کر چکی تھی مگر وہ مغرور شہزادہ آج زرہ کچھ غصے میں معلوم ہو رہا تھا۔
'شہیر " ایک آخری کوشش کرتی اسے پکارنے کی جرات کی اب کے لہجے میں نمی سی گھلنے لگی تھی لیکن شہیر کا ریکشن ایسا تھا جیسے اس نے سنا ہی نا ہو وہ کن اکھیوں سے اس کی جانب دیکھتا واپس کام میں مصروف ہو گیا۔
"ایم سوری سائیں ! مجھے معاف کر دیں ، میں احمر کے ہاتھ میں بندوق دیکھ کر کافی ڈر گئی تھی چاہتے ہوئے بھی خود کو مضبوط ظاہر نہ کر سکی۔آپ یقین جانیں میں اسے ڈانٹا بھی تھا اور مارا بھی جب اس نے مجھ پر ہا۔۔۔"
اپنی بات کہتی وہ اچانک سے خاموش ہوئی تھی جیسے ہی شہیر کی غصیلی نظریں اس کی آنکھوں سے ٹکرائی تھیں جس میں اس وقت صرف و صرف غصہ ، تکلیف و تیش تھا۔
"کیا مطلب اس نے تم پر ہاتھ اٹھایا اور یہ تم ابھی بتا رہی ہو ؟
میں اس احمر کے بچے کی جان لوں گا لگتا اس کو عزت راس نہیں۔"
آنکھوں اس کی حد درجہ سرخ ہو رہی تھیں جن میں صرف و صرف شرارے پھوٹ رہے تھے جیسے احمر چوہدری کو آج وہ صحیح معنوں میں مزہ چکھانا چاہتا ہو۔
"سحر آپ ڈرتی کیوں ہیں ؟ مضبوط بنیں خدا کے لئے اس بے معنی ڈر کو دل سے نکال باہر پھینکیں۔ جب تک آپ ایسے لوگوں سے ڈرتی رہیں گی نا تو یہ لوگ بھی تب تک آپ کے خوف کا مزا لیتے مزید ڈراتے رہیں گے اسلئے خدا کا واسطہ آپ کو ڈرنا چھوڑ دیں مقابلہ کرنا سیکھیں جواب دینا سیکھیں۔"
اس کو دونوں بازوؤں سے جھنجھوڑنے وہ غم و غصے کی سی کیفیت میں بولا تھا ۔آج شہیر کا غصہ آسمانوں کو چھو رہا تھا۔ سحر کو احمر سے ہراس ہوتا دیکھ اسے صحیح معنوں میں غصہ آیا دل تو چاہا تھا احمر کے ساتھ ساتھ سحر کو بھی ایک دو لگا دے لیکن وہ قابو کر گیا تھا خود کو۔
شہیر چوہدری کا غصہ کسی جھاگ کی مانند بیٹھتا چلا گیا جیسے ہی سحر کی آنکھوں سے آنسوں ٹپ ٹپ کرتے بہنا شروع ہوئے تھے وہ اسی کے سینے سے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
"جانم !" اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ نہایت نرمی سے گویا ہوا۔
"آ۔۔آپ بہت برے میں شہیر مجھے ڈانٹا آپ نے "
سوں سوں کر کے روتی وہ اس سے دور ہوئی تھی کہ شہیر واپس اسے اپنی طرف کھینچ گیا کہ وہ سیدھا اس کے سینے سے آن ٹکرائی۔
"ارے ارے میرا بچہ ناراض ہو گیا مجھ سے ؟"
دونوں ہاتھوں کے پیالے میں محبت سے اس کا چہرا بھر وہ پیار و شرارت کی ملی جلی کیفیت میں گویا ہوا۔
"بہت برے ہیں آپ جائیں میں نہیں بولتی آپ سے۔"
روئی روئی آنکھوں سمیت وہ اس کی جانب دیکھ نروٹھے پن سے گویا ہوتی بولی۔
"ارے جانِ شہیر یوں ادائیں دیکھائے کیوں اس دل کو گھائل کر رہی ہیں اگر کوئی گستاخی کر بیٹھا تو پھر شکوہ نہ کیجئے گا۔"
'شہیر "۔۔ شرم و ناراضگی کی ملی جلی کیفیت میں چیختی وہ اسے گھورتے ہوئے بولی تھی کہ اس کے ریکشن پر شہیر کا جان دار قہقہہ گونجا۔
"میری معصوم پری " دھیمی آواز میں کہتے وہ نرمی سے اپنے لب اس کے گال پر رکھ گیا تھا جب کہ سحر کی آنکھوں میں مصنوعی غصے سمیت شرم و حیا کے رنگ واضح تھے جس نے شہیر چوہدری کے دل کو مزید اپنا دیوانہ بنا ڈالا۔
آنکھیں مربع ، باتیں مربع
میں سو مرتبہ دیوانہ ہوا
©©©
پشمینہ گھر کے کاموں سے فارغ ہوتی روم میں ابھی ہی داخل ہوئی تھی کہ سامنے کا منظر پہلے تو اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلی لیکن پھر ایک جاندار قہقہہ گونجا تھا جو پشمینہ کا پورے کمرے میں گونجا وہ بمشکل اپنی ہنسی کو قابو کرتی آگے بڑھی جہاں بیڈ پر بیٹھا دو سالہ نعمان پشمینہ کا میک اپ تھامے اپنے باپ پر تجریہ کر رہا تھا وہ فاتح صاحب معصوم سا منہ بنائے خاموش بیٹھے تھے۔
"ہاہاہا ۔۔۔ فاتح سیریسلی یو آر لکنگ سو کیوٹ
دی بزنس ٹائیکون فاتح شرجیل اپنے بیٹے سے میک اپ کرواتے ہوئے۔۔۔"
اپنی ہنسی کو قابو کرتی وہ پاس رکھا موبائل تھام گئی تھی اور جھٹ سے کیمرہ آن کرتی فاتح کی کئی تصاویریں کھینچ ڈالیں ساتھ ہی ان دونوں باپ بیٹے کے اس خوبصورت و دلکش منظر کو وڈیو کی صورت میں قید کرنے لگی تھی کہ فاتح نے برق رفتاری سے پشمینہ کا ہاتھ تھامے اسے اپنی جانب کھنچتے بازو اس کی گردن کے پاس سے گزارے اپنے مضبوط حصار میں قید کر لیا۔
"اب ہنس کے دیکھاؤ زرہ۔۔۔"
کہتے ساتھ ہی فاتح نے اپنا چہرا اس کے چہرے کے قریب کیا تھا جس سے چہرے پر لگا ضرورت سے زیادہ پاؤڈر و ہونٹوں پر لگی لپ اسٹک پشمینہ کے چہرے پر ٹرانسفر ہونا شروع ہوئی تھی۔
"فاتح "۔۔۔۔ نا کریں میں ابھی منہ دھو کر آئی تھی۔"
وہ تقریباً چلانے کے سے انداز میں بولتی اپنے آپ کو اسکے مضبوط حصار سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی جو کہ اس وقت ناممکن سا معلوم ہو رہا تھا۔
"بیگم صاحبہ ، غلطی آپ کی بھی ہے تو سزا میں اکیلا کیوں بھگتوں اب آپ آئندہ خیال کیجئے گا ان نواب صاحب کے سامنے میک اپ کرنے سے۔۔"
۔پشمینہ کے کان کے قریب جھک وہ آہستگی سے سرگوشی نما آواز میں بولتے اس کی کان کی لو کو ہلکا سا دانتوں سے دبایا کہ وہ سسک اٹھی۔
فاتح چھوڑیں مجھے ورنہ میں نے اور نعمان نے چھوڑنا نہیں آپ کو ۔۔۔۔۔ وہ دانت کچکائے بولی تھی کہ اس کی بات سن فاتح نے لب دبائے۔
میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ میری جان مجھے کبھی نہ چھوڑے۔
وہ اس کی گردن میں منہ چھپائے خمار آلود آواز میں بولا
فاتح انسان بنیں۔۔۔ اس کے بازوؤں پر ہلکی سی چٹکی کاٹ پشمینہ دانت چبائے بولی۔
آہہہ۔۔ جنگلی بلی " فاتح نے برا سے منہ بنایا۔کافی دیر ان دونوں کی یوں ہی پیار و محبت بھری نوک جھوک جاری رہی جب کہ اپنے ماں باپ کی یہ نوک جھوک دیکھ نعمان انجوائے کر رہا تھا ساتھ ہی ہستے ہوئے تالیاں بجاتا جیسے اس سب کو دیکھ وہ بہت خوش ہو رہا ہے۔
©©©
مسٹر احمر چوہدری ہمیں بہت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنا پڑ رہی ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق اب آپ کبھی باپ نہیں بن سکتے ہیں۔
مقابل بیٹھی اس ڈاکٹر کی بات نے چوہدری احمر کے غرور اس کی انا سب کو نست و نابود کر کے رکھ دیا تھا اس کے ہوش سلب ہو کر رہ گئے تھے کیونکہ آج وہ اس مقام پر آن پہنچا جس کا اس نے کبھی گماں بھی نہ کیا تھا۔وہ تھکے قدموں سے چلتا اٹھ باہر کی جانب چل دیا آج اسے شدت سے وہ لمحات یاد آرہے جب پہلی بار اسے سحر کی جانب سے باپ بننے کی خبر ملی تھی تو اس نے کیا کیا تھا شکر کرنے کے بجائے انا و غرور میں آئے اس ذات کی ناشکری کرتے ہوئے اپنی ہی اولاد کو ختم کر ڈالا۔
سایہ بھی ساتھ جب چھوڑ جائے ایسی ہے تنہائی
رونا چاہوں تو رونا چاہوں آنسوں نا آئے
"احمر ! خدا کا واسطہ ہے ایسا ظلم نہ کریں میری سزا اس ننی جان کو نہ دیں یہ۔۔۔ یہ آپ کا بھی تو خو۔۔خون ہے آ۔۔ آپ کی بھی تو اولاد ہے پلیز ا۔۔۔ایسا نہ کریں آپ کی۔۔کیسے اپنی اولاد کا ق۔۔قتل کر سکتے ہیں "
ہسپتال سے نکلتے ہوئے بیتے زمانے کسی اسکرین کی مانند اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے تھے کہ اس لڑکی کا گڑگڑاتے ہوئے اپنی اولاد کی جان کے لئے بھیک مانگنا لیکن احمر چوہدری کا وہی بے رحمانہ انداز۔۔۔
م۔۔میرا ب۔۔بچہ وہ بے یقینی کی سی کیفیت میں کہتی بڑبڑا رہی تھی کہ اسکی حالت بگڑنا شروع ہوئی اب پورے کمرے میں اسکی آواز گونج رہی تھی ۔
"م۔۔م۔۔میرا بچہ مار دیا تم نے "
"ق۔۔۔قا۔۔۔۔ اس کے باقی کے لفظ مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ اپنا بھاری ہاتھ اسکے لبوں پر رکھ اسکے لفظوں کا گلا گھونٹ چکا تھا "
"خاموش بالکل خاموش ! یہ ہسپتال ہے میں یہاں تمہارا ڈرامہ بالکل برداشت نہیں کروں گا اسلئے اپنا یہ پاگل پن اپنے اندر رکھو "
وہ رش ڈرائونگ کرتا اپنے اندر جمع ہونے والے وبال کو کم کرنے کی کوشش کر رہا تھا آنکھوں سے آنسوں تواتر بہتے چلے جا رہے تھے آج اسے ماضی میں اپنی کی گئی غلطیوں کا احساس ہو رہا تھا دل گھٹ سا رہا تھا سب یاد کئے اپنی اولاد کو کھونے کا احساس ، وہ درد احمر چوہدری آج اپنے اندر محسوس کر رہا تھا اس کے کانوں میں اس معصوم کی چیخیں ، صدائیں گونج رہی تھیں۔
"احمر چوہدری آپ کو غرور ہے نا خود پر آج میں آپ کو ایک دعا دیتی ہوں کہ خدا آپ جیسے پتھر دل انسان کو کبھی اولاد نہ عطا فرمائے یہ دعا ہے میری اس رب سے ، اس پاک ذات سے جو انصاف کرنا جانتا ہے ، اور یہی میرا انصاف ہے کہ وہ آپ کو بے اولاد رکھے "
روتے روتے اس کی آنکھیں دھندلا سی گئی تھیں اوپر سے رش ڈرائیونگ اور مختلف سوچوں نے اس کے دماغ کو سن سا کر کے رکھ دیا کہ وہ سامنے سے آتی شہزور کو نا دیکھ سکا اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا میں زور دار دھماکہ ہوا احمر چوہدری کی گاڑی بہت برے طریقے سے جا ٹکرائی تھی اس شہزور سے۔۔
وہ خون سے لت پت بے یارو مددگار پڑا ہوا تھا ادھر ۔۔۔
آس پاس ٹریفک جمع ہوتی چلی گئی۔۔۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پِیٹوں جِگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
©©©
کچھ مہینوں بعد۔۔۔
انا سے چور وہ شخص جو ہر کسی کو اپنے بس میں کرنا جانتا تھا جس کی آواز میں کبھی رعب و دبدبا ہوا کرتا تھا جو مقابل سننے والوں کو کانپنے پر مجبور کر دیتا جس کا دوسرا نام ہی بے رحم تھا جس کو فرعون کا لقب دیا گیا لیکن آج وہ اس ویران کمرے میں تن تنہا بے یارو و مددگار بسترِ مرگ پر تھا جس نے کبھی دوسروں کا سہارا لینا گوارا نہ کیا آج وہ دوسروں کے سہارے جی رہا تھا۔کچھ مہینوں پہلے ہوئے ایکسیڈینٹ کے باعث احمر چوہدری اپنے پیروں پر کھڑے ہونے سے بھی محروم ہو چکا تھا اس کی ذات اب صرف و صرف ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی۔
کمرے میں موجود خاموشی ٹوٹی تھی جب کوئی اس ویران کمرے کا دروازا دھکیل اندر داخل ہوا تھا چوہدری احمر نے اپنی بند آنکھیں کھول اندر آنے والی ہستی کی جانب نظریں اٹھائے دیکھا تو اس کا دل مٹھی میں جکڑ کر رہ گیا وہ اپنی نظریں پھیر گیا تھا کیونکہ اب اس میں اتنی ہمت نہ رہی تھی کہ اس لڑکی سے اب نظریں ملا پائے۔
کیوں آئی ہو ؟ کیا میری بے بسی کا مزاق اڑانے کو آئی ہو؟
نظریں کا رخ سائیڈ پر موجود گیلری کی جانب کیے وہ سحر سے گویا ہوا جس کا چہرا ہر احساس سے عاری تھا۔
نہیں بے بسی کا مزاق میں کیوں اڑانے لگی بھلا ؟
میں تو بس اپنے مجرم کو دیکھنے آئی ہوں کہ وہ اپنی ہی غلطیوں کی سزا بھگتے ہوئے کیسا لگتا ہے ؟
جس نے صرف دوسروں کی روح و جسم کو ہی اذیت دینا جانا ہو وہ خود ان مراحل سے گزرتا ہوا کیسے لگتا ہے ؟
جب ضرب اپنی روح اور جسم پر لگتی ہے تو کیسی تکلیف ہوتی ہے؟
سحر پلیز بس کر دوں مجھ میں مزید سکت نہیں !
نا شرمندہ کرو مجھے اب میں ویسے ہی بہت تکلیف میں ہوں۔
سحر کی باتیں تیر کی مانند اس کے دل اور دماغ پر نشر ہو رہی تھی تب ہی تڑپتے ہوئے بولا۔
واہ احمر کہا کہنے ہیں آپ کے ؟ کتنا آسان ہوتا ہے نا کسی کی ذات سے کھیل اس کی روح کو چھلنی کر آخر میں آسانی سے معافی مانگ ہر بوجھ سے آزاد ہو جانا۔
سحر برائے کرم مجھے معاف کر دو ہر اس اذیت کے لئے جو میں نے تمہیں دی۔
اتنی جلدی احمر چوہدری ؟ جب زیاتی کرتے دوسرے کی تکلیف کا خیال نہ آیا تو آج اپنی سزا بھگتے ہوئے کیوں؟
میں اپنے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کے لئے تو شائد ہی آپ کو معاف کر دوں لیکن اپنی اولاد کے کئے جانے والے قتل کو ہر گز معاف نہ کروں گی میری ممتا آپ کو ہر گز معافی نہیں دیتی احمر چوہدری چہرے پر تلخ مسکان سجائے وہ احمر سے مخاطب ہوئی اور بنا اس کی جانب دیکھ باہر کی جانب چل دی جب کہ وہ آنکھیں موندے وہیں لیٹا رہ گیا آنسوں آنکھوں سے لھڑک اس کا تکیہ بھیگوتے چلے گئے۔
©©©
حویلی کے تمام مکین صبح کے وقت خاموشی سے ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک ہی مین اینٹرنس سے لیڈیز اور جینٹس پولیس اپنی پوری ٹیم کے ساتھ اندر آئی تمام نفوس اپنی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوتے چلے گئے۔
”ہم مسسز نورے وقاص کو قتل کے کیس میں گرفتار کرنے آئے ہیں”۔
یہ کیا بکواس ہے ؟ کونسا قتل ؟ پولیس آفیسر کی بات پر چوہدری وقاص غصے سے برہم ہوتے چلائے تھے۔
دیکھیں مسٹر وقاص بات زرہ تمیز کے دائرے میں کیجیے ہم ثبوتوں ، گواہوں اور مکمل اریسٹ وارنٹ کے ساتھ تشریف لائے ہیں۔ مسسز نورے نے آپ کے بیٹے ارتضیٰ وقاص کا قتل کروایا ہے جس کے ثبوت ہمارے پاس ان کی آواز میں ہی موجود ہیں اگر آپ چاہیں تو دیکھ سکتے ہیں۔
ی۔۔یہ کیا ک۔۔کہہ رہے ہیں آپ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟؟
لگتا یے آپ لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے قتل تو اس لڑکی کے بھائی نے کیا تھا اگر گرفتار کرنا ہے تو اسے کیجیے میری بیوی کا اس میں کوئی قصور نہیں۔
چوہدری وقاص بے یقینی کی سی کیفیت میں گویا ہوئے ان کے لئے یہ یقین کرنا نا ممکن تھا کہ قتل نورے نے کیا ہے۔
دیکھیں سر ، آپ ہمیں ہمارا کام کرنے دیں ہمیں کوئی شوق نہیں کہ بنا مطلب لوگوں کے گھروں سے جا کر انہیں پریشان کریں۔
ہمیں ایف آئی آر ریسیو ہوئی ہے تب ہی ہم آئے ہیں۔
کون ہے وہ جس نے ایف آئی آر درج کروائی ؟؟
میں "۔۔ کب سے خاموش تماشائی بنا شہیر چوہدری اپنی شرٹ کے کف فولڈ کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا جب کہ اب سب کی توجہ کا مرکز وہی وجیہہ شخص تھا۔
تایا سائیں افسوس شروع سے کہتا آیا تھا کہ اپنی اس پرانی دقیانوسی رسم سے ہٹ کر جوش میں آئے بغیر اگر عقلمندی و دانش مندی سے معاملہ سلجھایا ہوتا تو آج یہ سب نہ ہس رہا ہوتا۔
"ارمان " شہیر کی گرجدار آواز گونجی تھی وہاں باہر کھڑا ارمان فوراً سے حاضر ہوا تھا اس شخص کو تھامے جس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں باندھی گئی تھیں۔
چ۔۔چھوٹے ؟ سحر بے یقینی کی سی کیفیت میں دیکھے گئی تھی ارمان کو آج وہ کتنے سالوں بعد اسے دیکھ رہی تھی پہلے سے زیادہ وجہیہ اور خوش شکل دیکھائی دے رہا تھا۔
ی۔۔یہ شخص یہاں کیا کر رہا یے ؟
ارمان کو دیکھ وہ صحیح معنوں میں سیخ پاہ ہوتے اس کی جانب جھپٹنے کے سے انداز میں بڑھے تھے لیکن شہیر انہیں بیچ میں ہی قابو کر گیا۔۔
ٹھہریے تایا سائیں اتنی جلد بازی نہ دیکھائیں۔ارمان کو میں نے بلایا ہے آپ سمیت ہم سب جو اسے قاتل سمجھتے آئے ہیں وہ ہمارا غلط نظریہ ہے کیونکہ قاتل یہ نہیں آپ کی بیگم نورے اور یہ صاحب رضوان ہیں جنہوں نے مل کر پوری پلاننگ کے ساتھ اس طرح سے ارتضیٰ کا قتل کیا کہ کوئی حقیقت جان نہ پائے اور الزام اس بیچارے ڈال دیا کہ دیکھنے والے شخص کو لگے کہ یہی قاتل ہے اور خون ہوتا دیکھ تو ارمان بیچارہ یہی سمجھتا رہا کہ اصل قاتل وہ خود ہے لیکن کہتے نا کہ خدا انصاف کرنے والا ہے وہ اپنے بندے کے لئے آسانیاں فرما ہی دیتا ہے۔جانتے ہیں ہمیں بھی حقیقت کبھی معلوم نہ ہوتی اگر اس دن آپ کی بیگم اور رضوان کی باتیں نہ سنی ہوتیں۔
یہ لیجئے آپ بھی دیکھ لیں اپنی آنکھوں سے اور تسلی کر لیں۔
کہتے شہیر نے وہ وڈیو چوہدری وقاص کو دیکھائی تھی جسے دیکھتے ان کا زمین پر کھڑا رہنا محال سا ہو گیا غم و غصے کے باعث دماغ کی رگیں پھٹنے کے قریب تھیں۔
تانیہ ، وجیہا جائیں مسسز نورے کو تلاش کرنے کے بعد انہیں گرفتار کریں پولیس آفیسر نے اپنی ٹیم کی لیڈی کانسٹیبل کو حکم صادر کیا تھوڑی دیر میں ہی نورے بیگم کو ہتھکڑی لگائے لیڈی کانسٹیبل نیچے آتی دیکھائی دیں۔ وہ مسلسل چیختے ہوئے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھیں کبھی احمر کو آواز لگاتیں تو کبھی چوہدری وقاص کو ایک آخری امید بھری نظریں سکینہ بیگم سے ٹکرائیں لیکن وہ بھی اپنا رخ پھیر گئی تھیں۔نورے بیگم اور رضوان دونوں کو پولیس اپنے ساتھ لئے لے جا چکی تھی۔
جب یہ خبر چوہدری احمر تک پہنچی وہ تو مانے مزید احساسِ ندامت میں گھِرتا چلا گیا حقیقت سن اسے بھی یقین نہ آیا کہ اس کی ماں ہی ارتضیٰ کی قاتل ہے اس کو خود سے شدید نفرت سی ہونے لگی اپنی قسمت پر رونے کو جی چاہا تھا اس کا کہ واقعی وہ اب تک ایک بے گناہ کی زندگی انجیرن کرتا آیا ہے۔
آخر سچ کب تک چھپتا ہے ؟
ایک نا ایک دن سامنے آ ہی جاتا ہے۔
س۔۔سکینہ ! چوہدری وقاص آج کچھ نہ بولے تھے ان کے کندھے جھک سے گئے وہ سکینہ بیگم کے سامنے ہاتھ جوڑتے خاموشی سے اندر کی جانب چل دئیے تھے پورے دو دن تک وہ کمرے میں بند رہے آج ان کی محبت اور انا بھی ٹوٹ کر رہ گئی تھی۔
ارمان میرے بھائی " سحر نم آنکھوں سے مسکراتے اس کے پاس گئی محبت سے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیر اس کا ماتھا چوما جیسے وہ بچپن میں کیا کرتی تھی یہی اس کا انداز تھا پیار جتانے کا۔ آج وہ دلی طور پر خوش تھی خدا کے بعد شہیر کی مشکور تھی جس نے اس معاملے کو بہترین طریقے سے سلجھایا۔
©©©
"کچھ ہفتوں بعد"۔۔۔
آنٹی کیا کر رہی ہیں آپ ؟
عمارہ سکینہ بیگم کے پاس کیچن میں آئی تھی جہاں وہ چوہدری وقاص کے لئے چائی تیار کر کپ میں نکال رہی تھیں۔
کچھ نہیں بیٹی بس سائیں کے لئے چائے تیار کر رہی تھی تم پیو گی ؟
دیجگی ایک جانب رکھتیں وہ عمارہ سے گویا ہوئیں۔
نہیں آنٹی شکریہ میرا ابھی موڈ نہیں ہے۔
دیکھیں زرا میرے کام باتوں کے چکر میں کام کی بات تو بھول ہی گئی دراصل میمونہ آنٹی آپ کو لان میں بلا رہی تھیں کہہ رہی تھیں کچھ بات کرنی ہے اسلئے اب یہ چائے میں مجھے دیں میں بابا سائیں کو دے دوں گی آپ آنٹی کی بات سن لیں۔
وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ساتھ ہی کپ ان کے ہاتھوں سے تھام وہاں چل دی تھی چوہدری وقاص کے کمرے کی جانب۔
دروازے کو کھٹکھٹا کر وہ اندر آئی تھی جہاں چوہدری وقاص اخبار پڑھنے میں مصروف تھے عمارہ کو دیکھ انہوں نے برا سا منہ بنایا جیسے اس کا آنا انہیں زرہ نہ بھایا ہو۔
کیسے ہیں سسر جی ؟ یہ دیکھیں آپ کی بہو لزیز چائے لائی ہے آپ کے لئے ۔۔۔ لبوں پر مسکان سجائے وہ چائے کی جانب اشارہ کیے بولی جب کہ چوہدری وقاص نے زیادہ دھیان نہ دیا وہ اپنا اخبار پڑھنے میں مصروف رہے ساتھ ہی عمارہ کی دی گئی چائے کے گہرے گہرے سپ لگانے لگے۔
لڑکی اب تم جا سکتی ہو یہاں سے۔۔
عمارہ کو ہنوز وہیں کھڑے دیکھ وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوئے جب کہ وہ ان کی بات سرے سے اگنور کیے ہاتھ پر ہاتھ باندھ وہیں کھڑی ہو چکی تھی۔
”بابا سائیں ویسے کتنا دلکش منظر ہوتا ہے نا جب اپنے مجرم کو اپنی ہی نظروں کے سامنے تڑپتا ہوا دیکھا جائے "
چوہدری وقاص کو اپنی نظروں کے حصار میں لئے وہ ٹھوس لہجے میں گویا ہوئی جب کہ آنکھوں میں ایک چمک سی ابھری جب کہ چوہدری وقاص سے اچھنبے سے اس کی جانب دیکھا۔
لڑکی تمہاری بات کا کوئی مطلب ہے اس وقت ؟؟
غراتے ہوئے وہ کسی شیر کی مانند دھاڑے تھے۔
مطلب ہی مطلب ہے ”
بھنونے اچکاتے وہ لے لچک لہجہ اپنائے بولی کہ چوہدری وقاص غصے کے عالم میں اپنی نشست سے کھڑے ہوئے تھے لیکن لڑکھڑا کر واپس وہ وہیں صوفے پر ڈھہ گئے دل میں ٹیس سی اٹھی تھیں اچانک ہی زور دار کھانسی کے ساتھ ان کے منہ سے خون نکلنا شروع ہوا تھا۔
پ۔۔۔پا۔۔۔پانی " سائڈ ٹیبل پر رکھا وہ پانی کا گلاس جیسے ہی اٹھانا چاہا تھا برق رفتاری سے بڑھ عمارہ وہ گلاس ہنستے ہوئے نیچے فرش پر بہا گئی جب کہ چوہدری وقاص اپنا گلا پکڑے وہیں تڑپتے رہے۔
چوہدری کتنی خوشی ہوتی ہے نا جب اپنے مجرم ہو یوں اپنی آنکھوں کے سامنے تڑپتا دیکھتے ہیں۔
م۔۔میں م۔۔م۔۔میں نے کیا بگاڑا تھا ت۔۔ت۔۔۔تم۔۔تمہارا ؟
سب کچھ تم ہی نے تو بگاڑا تھا میرے پورے خاندان کے قاتل ہو تم چوہدری۔
ک۔۔کون ہو تم ؟
ملک گلشیر کی بیٹی "
"پریہا کی چھوٹی بہن عمارہ گلشیر "
عمارہ کی بات سن چوہدری کی آنکھوں کے سامنے کئی سالوں پہلے کا منظر گھومنے لگا تھا جب اس نے انسانیت سے گری ہوئی حرکت کیے کسی کی عزت سے کھیلا تھا۔
(فلیش بیک)۔۔۔۔
آج سے کچھ سال پہلے۔۔
شام کے پہر پریہا اپنی دوست کے گھر سے واپسی اپنے گھر جا رہی تھی کہ نہر کے قریب کچھ گاڑیاں بنا اسے سمجھنے کا موقع دئیے اندر ڈالے لے جا چکی تھیں اسے اپنی دفاع کرنے تک کا موقع نہ دیا گیا۔گھر والے پوری رات بیٹی کی گمشدگی پر سو نا سکے ماں تو بیچینی کے عالم میں دعائیں کرنے کے ساتھ صرف روتی رہی لیکن صبح لگ بھگ سات بجے کے قریب ان کے گھر میں صفحہ ماتم بچھا ہوا تھا جیسے ہی بیٹی کی ذیاتی سے بھرپور لاش کھیتوں میں سے برآمد کی گئی ماں کا کلیجہ تو پھٹنے کے قریب تھا جب کہ باپ وہ تو کچھ کہنے کی حالت میں نا تھا چھوٹی سی عمارہ جس کی عمر بارہ سال تھی وہ تو روتے ہوئے خاموشی سے سب منظر دیکھ رہی تھی اس کی جان سے پیاری آپی اس دنیا میں نا رہی تھیں وہ پریہا کو یاد کرتے ہوئے رویا کرتی۔
گھر والوں کو آس پڑوس کی چہمگوئی سے معلوم ہوا کہ چوہدری وقاص کے کچھ بندوں کو ان نے صبح سویرے کھیتوں سے نکلتے دیکھا تھا کچھ گواہوں کے ساتھ مل کر وہ چوہدری پر کیس کروانے چاہتے تھے لیکن صد افسوس امیری جیت گئی اور غریبی ہار گئی مقدمہ درج کروانے سے پہلے ہی اس کے والدین کا منہ بند کیے انہیں بھی ابدی نیند سلا دیا ۔ وہ زمین جس پر حق تھا صرف عمارہ کا وہ بھی چوہدری اپنے نام کروا گیا اور شیطانیت سے بھرپور قہقہ لگاتا اس گھر سے نکتا چلا گیا۔
(حال )
تم یقین نہ جانو گے چوہدری تمہیں اس حال میں دیکھ سکون سا مل رہا ہے دل کو ٹھنڈک سی ملی ہے اپنے دشمن ، ایک مجرم ایک زانی کو یوں سانوں کے لئے تڑپتا دیکھ تمہارا تو اس سے بھی برا حشر ہونا چاہیے تھے لیکن میں اب اتنی بھی ظالم نہیں۔
اپنی بات کے اختتام پر عمارہ نے رومال میں لپیٹی احمر کی بندوق نکالی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سیلینسر لگائے وہ بندوق کی گولیاں چوہدری وقاص کے دل میں اتار اس کی سانسیں چھین گئی تھی۔
گڈ بائے پاسٹ "
بے لچک لہجے میں کہے وہ بندوق چوہدری کے ہاتھوں میں تھام دروازے کو اندر سے لاک کیے کھڑکی سے کود باہر کی جانب چل دی۔
©©©
رات میں تقریباً بارہ بجے کے قریب احمر کی آنکھ کسی کی سسکیوں کی آواز پر کھلی تو اس کی نظر ہلکی آواز میں روتی عمارہ پر گئی جو کہ سوٹ کیس کے پاس بیٹھی کسی تصویر کو دیکھ اسے تھام رو رہی تھی آنسوں کے کچھ موتی اس کانچ کے فریم میں بنی تصویر پر گر پھیل جاتے۔
” آج میں نے آپ لوگوں کے مجرم کو انجام کو پہنچا دیا ہے مما بابا میں نے اپیا کا بدلہ بھی لے لیا ہے اس چوہدری کی سانسیں چھین لی ہیں میں نے آج وہ انجام کو پہنچ چکا ہے۔”
تصویر کو سینے سے لگائے وہ ہچکیوں کی صورت میں روتی بولی تھی پھر گھڑی کی جانب نظریں دوڑائے وہ آنسوں کو پونچھے اٹھ کھڑی ہوئی تصویر کو احتیاط سے سوٹ کیس میں رکھے اس نے قدم باہر کی جانب بڑھائے لیکن جاتے جاتے وہ واپس پلٹی تھی اس شخص کے پاس جو کہ اس کا شوہر تھا جس سے عمارہ کا ایک گہرا رشتہِ وابستہ تھا۔
احمر تمہاری خواہش تھی نا کہ میں تمہیں سائیں کہہ کر بلاؤں آج تمہاری اس خواہش کو آخری بار جاتے جاتے پورا کیے جارہی ہوں جانتے ہو تمہارے ساتھ میرا ایک الگ ہی تعلق وابستہ ہے اسلئے اپنے نام کو تمہارے نام سے جدا نہیں کر رہی شائد مجھے تم سے محبت ہو جاتی میں تمہیں کبھی چھوڑ کر نا جاتی احمر اگر تم اتنے بے رحم نا ہوتے تم نے عورت ذات کو آج تک کم ظرف ہی سمجھا تمہارا سلوک غریبوں کے ساتھ نہایت سفاک رہا۔ تمہاری ذات میں دوغلا پن شامل ہے تم خود نہیں جانتے کہ تم کیا چاہتے ہو۔آج تک تم صرف دوہری کشتی کے مسافر رہے ہو اور یاد رکھنا دو کشتیوں میں شامل شخص کبھی اپنی منزل نہیں پاتے بلکہ ڈوب جایا کرتے ہیں۔
احمر سائیں ہمیشہ خوش رہیں”
اپنی بات کے اختتام پر وہ آرام سے جھکتے اپنے لب اس کے ماتھے پر پیوست کر گئی اور سوٹ کیس تھام آرام سے اس کمرے ، اس حویلی کو ہمیشہ کے لئے خیر باد کہتی نکلتی چلی گئی۔
عمارہ کے کمرے سے جاتے ہی احمر چوہدری کی آنکھوں سے آنسوں تواتر بہنا شروع ہو گئے وہ شخص واقعی ہی دوہری کشتی کا مسافر رہا ہے تب ہی آج وہ تنہا رہ گیا۔۔۔
©©©
کچھ سالوں بعد ”۔۔۔
تم ایک بہت بری عورت ہو بلکہ نہیں تم تو عورت کہلانے کے قابل ہی نہیں تم ایک قاتلہ ہو قاتلہ ایک دھوکے باز جس نے اپنوں کو ہی دھوکہ دیا سامنے کھڑا نورے بیگم کا عکس ان سے ہمکلام ہوا تو وہ خاموشی سے اس کی ہر بات سنتی گئیں۔ آنکھوں میں ایک عجب سے بیچنی رونما ہوئی تو پاس رکھا گلاس اٹھا اس سیراب نما عکس پر دے مارا جو کہ غائب نہیں ہو رہا تھا۔
آہہہہ "۔۔۔ می۔۔میں بہت بری ہوں میں قاتل ہوں میں دھوکے باز ہوں میں نے اپنی دوست کے ساتھ غداری کی اس کے شوہر کا اس سے چھین لیا۔ اس کے بیٹے کو اس سے چھین لیا۔
میں ب۔۔۔بہت بری ہوں۔
اپنے بالوں کو نوچتی وہ نیم پاگل سی معلوم ہو رہی تھی آس پاس سیل میں موجود لوگ سب نورے بیگم جی حالت پر ہنستے تو کبھی افسوس کرتے وہ جب سے یہاں آئی تھی اسے اکثر ایسے دورے پڑا کرتے تھے۔
یہی ان کی زندگی کا مکافات عمل تھا یا شائد نہیں۔
کیونکہ جتنے ظلم و ستم وہ آج تک سحر پر کرتی آئیں ہیں۔
یا جو گناہ انہوں نے اپنے ماضی میں کیے اس کے مقابلے میں یہ سزا بھی کم تھی۔
©©©
یہ تھا بہاولپور کا گاؤں جو وہاں کے سردار شہیر چوہدری اور اس کی بیوی سحر چوہدری کی ان تھک محنت اور کاوشوں کے بعد اب مکمل طور پر بدل چکا تھا اگر کہا جائے تو اب وہاں ایک چھوٹا سا حسین شہر بستا تھا۔اسکول ، کالج ، ہسپتال سب کے انتظامات عمدہ تھے۔سب سے بڑھ کر وہاں تعلیم و تربیت کو عام کیا گیا۔ماں ، بہنوں ، بیٹیوں کی عزتیں اب وہاں محفوظ تھیں کوئی بھی سنگ چیتی , خون بہا ، ونی جیسی رسموں کا اب ذکر بھی نہیں کرتا کیونکہ یہ رسم سرے سے ہی ختم کروا دی گئی تھی اب سزا جانچ پرتال کے بعد اصل مجرم کو دی جاتی ہے۔
وہ دونوں ہی حویلی کی چھت پر کھڑے گاؤں پر طائرانہ نظریں دوڑائے اس کی رونقوں کو دیکھ رہے تھے ساتھ ہی دل میں دعا گو تھے کہ یہ رونقیں تا قیامت بحال رہیں۔
شہیر اور سحر کو اللہ تعالیٰ نے ایک ننی سی خوبصورت رحمت سے نوازا تھا جس کا نام انہوں نے حیام رکھا۔ننی سی گرے آنکھوں والی گولی چٹی سی حیام شہیر چوہدری کی جان تھی۔
چوہدری وقاص کی موت پر سکینہ بیگم تھوڑی غمزدہ سی ہوئی تھیں۔آج بھی سب کی نظروں میں چوہدری وقاص کی موت خودکشی کے باعث ہوئی تھی حقیقت کیا تھی یہ آج تک کوئی نا جان پایا۔ وہ اکثر و بیشتر خاموش رہا کرتی بے شک جو بھی تھا وہ ان کے سر کا سائیں تھا اکثر و بیشتر سکینہ بیگم احمر کے پاس چلی جایا کرتی تھیں جو کہ پہلے کے مقابلے میں کافی زیادہ کمزور معلوم ہونے لگا تھا چہرے کا وہ غرور اور خوبصورتی سب کچھ نیست و نابود ہو کر رہ گئی تھی۔
گناہ کرنے والے سب اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔
ان گزرے ماہ و سال میں زیشان کے والد کا بھی انتقال ہو چکا تھا وہ گاؤں ہمیشہ کے لئے چھوڑے جا شہر جا بسا۔
عمارہ کہاں گئی یہ بات بھی کوئی نہیں جانتا۔
گاؤں اور حویلی میں بس اب خوشیوں کی نوید تھی۔
سب ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے تھے۔
ختم شد۔ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Mein Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Meinwritten by Sara Urooj . Woh Rahat E Jaan Hai Iss Darbadari Mein by Sara Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment