Mohabbat Ka Sodagar Romantic Novel By Samina Kanwal Siyal - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 20 November 2024

Mohabbat Ka Sodagar Romantic Novel By Samina Kanwal Siyal

Mohabbat Ka Sodagar Romantic Novel By Samina Kanwal Siyal Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Ka Sodagar Romantic Novel By Samina Kanwal Siyal

\Novel Name: Mohabbat Ka Sodagar 

Writer Name: Samina Kanwal Siyal

Category: Complete Novel

مجھے کچھ ایسی بھی غزلیں پسند ہیں 

مگر میں ان کو سنا نہیں سکتی 

کچھ ایسی نظمیں پسند ہیں 

مگر وہ یاد نہیں رہی مجھے 

میرے خواب ادھورے ہیں کچھ

میں نے خواب تو بہت دیکھے تھے 

مگر منزل پہ پہنچ نہ سکی 

نیند ٹوٹ گئ خواب پورا ہونے سے ہی پہلے 

کبھی نہ مل سکے وہ خواب میں بھی 

تو پھر کیسے مل پائیں گے اصل زندگی میں 

تم مجھے اچھے لگے پہلی نظر میں تو کیا وہ دھوکہ تھا میری نظر کا 

دوسری میں قریب تھے میری سانسوں کے 

اور تیسری نظر میں 

تم نے مجھے کھو دیا بس 

اور اب مجھے تم جہاں نظر آؤ گے 

وہاں تمیں۔ میں کہاں  نظر آؤں گی

ہمدان درانی 

وہ ہاسپٹل کی چھت کو گھورتے ہوئے مسلسل 

ماضی میں کی گئی اس حقیقی محبت کے دھندلکوں میں کئ کھو سی گئ تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تم میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو 

تمھیں کتنی بر منع کیا ہے 

ایک بار سنائی نہیں دیتا 

کسی گونگے بہرے جزیرے سے آئی ہو کیا 

ہانی اس کے سامنے تھر تھر کانپنے لگی 

وہ مجھے تو آنٹی نے کہا تھا کہ آپ کے روم کی 

وہ اٹک اٹک کر بول رہی تھی 

جاؤ یہاں سے 

بولنا تو ٹھیک سے آتا نہیں 

چلی ہے میری ہمسفر بننے 

وہ جو باہر نکل آئی تھی 

اس کی بات پہ آنکھیں ڈبڈبائی تھیں اس کی 

مگر وہ نیچے رکی نہیں تھی 

سامنے بنے اپنے خوبصورت بنگلو میں چلی گئ تھی 

آرش فریش ہو کر نیچے آیا تھا

ماما آپ کی طبیعت کیسی ہے اب 

میں ٹھیک ہوں بیٹا 

اللہ بھلا کرے ہانی کا 

بیت ساتھ دیتی ہے وہ میرا 

ہر وقت میرا خیال رکھتی ہے

سب پٹانے کے چکر ہیں موم 

آپ سے آپ کا بیٹا چھیننے کے چکروں میں 

وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ان کا بی پی ہائی دیکھ کر خاموش ہو گیا 

اماں کھانا لگائیں جلدی سے 

مجھے پھر لائبریری جانا ہے

موم 

ثریا بیگم کے پوچھنے پہ اس نے انھیں  بتایا

آرش نوریز انٹرنشپ کی تیاریاں مکمل کر رہا تھا 

اسے چار سال کے لیے ابراڈ جانا تھا 

اس کا ایم بی اے حال ہی میں کمپلیٹ ہوا تھا 

اور اب اسے ابراڈ جانے کا خواب پورا ہوا تھا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

 آرش نوریز زہانت کے بہترین ریکارڈ بنا چکا تھا

وہ خوبصورت تر سمجھا جاتا تھا اور اس کی چوائس خوبصورت ترین پہ ہوتی تھی 

وہ پرفیکٹ مانا جاتا تھا ۔اسے اب پرفیکٹ ترین چیزیں پسند تھیں 

انسان ہو یا پھر چیز اس کے سامنے معنی نہ رکھتی تھی 

وہ لڑکیوں میں مقبول ترین ہونے کی وجہ سے 

لڑکیوں سے الرجک تھا 

اسے لڑکیوں کی عادتیں فطرت ادائیں 

سب ایک سی لگتی اسے کسی لڑکی میں فرق کرنا نہ آ سکا اور وہ پرفیکٹ کے چکر میں تنہا رہ گیا

مگر یہ سمجھ اسے آخر میں ہی کیوں آئی تھی

جسے سراہا جانے کا چسکا لگ چکا ہو 

وہ پھر کسی کو کیسے چاہا سکے گا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

نام بتاؤ گی اپنا اے خوبصورت حسینہ 

میں کیوں نام بتاؤں ایک گیٹ کیپر کو 

تمھیں اتنا ہینڈسم نوجوان گیٹ کیپر لگ رہا ہے

نہیں لگ تو کچھ اور بھی رہا ہے مگر میں دل آزاری نہیں کرتی ایسے لوگوں کی

وہ جو اسے لوفر کہنا چاہا رہی تھی

مگر گول کر گئ

خیر آپ راستہ چھوڑیں گے مجھے اندر جانا ہے

جی ضرور آئیے اندر 

اس نے سائیڈ سے نکلتے ہوئے اندر قدم بڑھائے

وہ سیدھی کچن میں گئ تھی کیا لائی ہو بیٹا 

آنٹی پھوپھو نے آپ کے لیے بریانی بھیجی ہے 

مجھے ہانی  سے ملنا تھا 

تو یہ بھی لے آئی 

یہ لڑکی اب تک سو رہی ہے کیا 

پتہ نہیں اپنے روم میں ہو گی ناشتہ کرنے کے بعد سے اپنے روم میں ہی ہے 

اچھا میں اسے خود ہی مل لیتی ہوں 

ٹھیک ہے بیٹا جاؤ تم میں زرا ڈنر کی تیاری کر لوں 

کک آج چھٹی پہ اور گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں 

اچھا تو وہ گیٹ کیپر آپ کا مہمان ہے 

ٹی وی لاوئنج میں ٹانگ پہ  ٹانگ چڑھائے بیٹھے اس مہمان کو ترچھی نگاہوں سے دیکھتی اس نے اس کے گیٹ کھولنے اور پھر اس کی پوچھ گچھ پہ چوٹ کی 

ہاہاہاہاہاہا بیٹا وہ ہمدان ہے میرا اکلوتا بھتیجا 

رات کو ہی مجھ سے ملنے آیا ہے 

وہ آتا رہتا ہے اکثر مگر تمھاری کبھی ملاقات نہیں ہوئی گی اچھا آنٹی سوری 

میں سمجھی آپ نے کوئی گیٹ پہ رکھا ہے

اچھا میں اوپر جا رہی ہوں 

وہ پھر رکی نہیں تھی اوپر بھاگ گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اپنی زات سے محبت کرنے والے 

کبھی کسی کے نہیں ہو سکتے ام حانی

وہ آئینے میں کھڑی خود کو سمجھا رہی تھی 

مگر میں اس دل کا کیا کروں اس نے اپنے دل پہ شہادت کی انگلی رکھی 

اس کی آنکھوں سے دو موٹے موتی نلکل کر پھسلے 

وہ عام تو نہیں تھی اس کی بس ہائیٹ چھوٹی تھی اس کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا اس نے بی۔اے کر کے چھوڑ دی 

مجھے پسند ہے اگر سٹائلش کپڑے جیولری تو اس میں کیا حرج ہے

ہر بات پہ تنقید کرنے والا یہ شخص میرے دل میں کیسے رہ سکتا ہے

آپ کی قیمت کتنی بھی اونچی کیوں نہ ہو 

آرش نوریز 

میری ,عزت نفس سے زیادہ قیمت نہیں ہو گی اس کی 

جاؤ آرش نوریز جی لو اپنی زندگی

میں آج کے بعد آپ کے راستے میں کبھی نہیں آؤں گی 

اس نے خود پہ پل  باندھتے ہوئے عہد کیا تھا 

مگر دل کرلا اٹھا تھا

کیا محبت ایسی بھی ہوتی ہے 

محبت ہو جانا تو کوئی بڑی بات نہیں 

مگر اس محبت کو بھیکاری نہیں بننے دینا چاہیے 

محبت مل جائے تو آسمان سے جا ملاتی ہے اور نہ ملے تو 

خون کے آنسو رلاتی ہے 

میں پانچ سال سے سیراب کے پیچھے بھاگتی رہی ہوں اور وہ شخص کسی اور کو اپنا بنا کر جا چکا ہے 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آرش بیٹھو میرے پاس یہاں اپنے تخت پہ جگہ بناتی سمیہ رمضان نے اپنے اس مغرور سے بیٹے کو کہا 

جی موم جلدی بتائیں تم ہر وقت جلدی میں ہوتے ہو بیٹا 

یہ دنیا ہے موم یہاں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اس کے ساتھ دوڑ لگاتا ہے 

وہ مسکرائی تھیں 

دنیا ہمارے دم سے ہے بیٹا اسے ہم جیسا بنائیں گے یہ ویسے ہی بنے گی 

وہ اکتایا تھا 

ماں نے اس کے بگڑتے زاویے پہ ایک نظر ڈالی 

سمعیہ نے اپنے بیٹے کو مزید نصحت کرنے سے گریز کیا 

اور اصل موضوع پہ آ گئیں

تم ابراڈ جارہے ہو 

اور میں اس سے پہلے تمھیں کسی رشتے میں باندھنا چاہیتی ہوں تم شادی کر لو 

کیا موم آپ سریس ہی۔ ہاں میں نے ایسی کوئی مذاق والی بات بھی نہیں کی جو تمہیں اچھو لگ گیا ہے 

اسے کھڑا ہوتا دیکھ کر سمہیہ بیگم نے اسے غصہ سے دیکھا 

بیھٹو آرش میرا تمھیں کوئی خیال نہیں آتا میں اکیلی ہوجاوں گی اچھا تو آپ اتنی جلدی میرے لیے رشتی کیسے ڈھونڈیں گی تین دن ہیں بس آپ کے پاس آپ کو جو کرنا ہے کر لیں مگر لڑکی میرے معیار کی ہونی چاہیے 

آخر کیا ہے تمھارا معیار میں تھک گئ ہوں تمھیں لڑکیاں دکھا دکھا کر اب اور نہیں اب تم میری پسند کو ترجیح دو گے آرش اور بس موم یہ زیادتی ہے میرے ساتھ 

کوئی تو ہو گا ناں میرے جوڑ کا میں نے اگر کسی کو ریجیکٹ کیا بھی ہے تو حق ہے میرا 

اب آپ جو کریں مگر آپ بس مجھے بعد میں فورس مت کیجئے گا

آپ کو جو کرنا ہےکرلیں 

چلتا ہوں میں اچھا خاصا لیٹ کروا دیا آپ نے بالوں کو پیچھے سیٹ کرتا وہ باہر جا چکا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

سمیہ رمضان اور مجتبیٰ رمضان کا ایک ہی بیٹا تھا آرش نوریز 

نو سال بعد اللہ نے انھیں اس نعمت سے نوازا تھا 

اس کی بلوری بھوری آنکھیں اندازہ کرنا مشکل تھا 

کہ ان آنکھوں کا رنگ ہے کون سا

بے جا لاڈ  پیار پھر خوبصورت ذہانت کسی چیز کی کمی نہیں تھی سوائے محبت کے جو اللہ نے اس کے دل میں نہیں رکھی تھی 

اور اس معاملے ٹھیک دونوں ہی رشتوں کے کنگلے تھے 

مگر سمیہ رمضان کی ایک منہ بولی بہن تھی 

جس کی ایک بیٹی وہ ایڈپٹ کر چکی تھیں مگر اس کے اچھے فیوچر کے لیے وہ دوبارہ اپنے ماں باپ کے پاس اپنی ایجوکیشن کمپلیٹ کر رہی تھی 

اور سامنے تو تھا ان کا بنگلہ فاصلہ ہی کتنا تھا 

اور اس کی ایک وجہ آرش نوریز کا اس کے ساتھ سرد رویہ بھی تھا 

اس کی پسندیدگی کا سب کو معلوم تھا سوائے آرش غیر کے 

اور اسے پتہ ہوتا بھی تو وہ اور بھی زیادہ اتراتا 

کیونکہ توجہ حاصل کرنے کا اسے جیسے بخار تھا 

ماں تو برداشت کر لیتی ہے مگر کوئی اور کیسے برداشت کرے گا یہ ناز برداریاں 

اور وہ تو ان لڑکیوں کا بگاڑا ہوا تھا 

جن کے نزدیک عزت ایک کھیل جیسی ہے 

آرش نوریز زہانت کے ساتھ ساتھ آنے کردار کا پکا تھا 

مگر وہ حسن کے ساتھ پرفیکشنسٹ کا بھی پجاری تھا 

اس کے نزدیک سب سے بڑی چیز دولت شہرت 

نام اور حسن تھا 

وہ دوستوں میں مقبول تھا اور لڑکیوں میں مقبول ترین تھا 

اور اس کی وجہ سے یہ تکبر اس کے سر چڑھ کر بولتا تھا 

مگر وہ سب کے دلوں پہ پیر رکھ کر گزر جاتا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

موسم بہت خراب لگ رہا ہے ھدی اور سر کا لیکچر ہی ختم نہیں ہو رہا لسن ماہین ملک جی سر وہ کھڑی ہوئی تھی آپ کو کچھ پوچھنا ہے نہیں سر آپ توجہ نہیں دے رہی تھیں 

سر ماہین کہنا چاہا رہی ہے کہ بارش ہونے والی ہے 

تو مس حدیبیہ سر ہمیں تھوڑا دور جانا ہوتا ہے اس لیے 

معزرت کے ساتھ ہمیں چھٹی چاہیے تھی

حدیبہ نے بات مکمل کی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی ماہین آگے نہیں بول پائے گی ٹھیک ہے کلاس بنک کرتے ہیں آج آپ سب سٹوڈنٹس کو انگلش لینگویج سنٹر سے چھٹی ہے 

انجوائے ٹو دی رین ود فرینڈز کمپنی 

وہ دونوں ابھی باہر ہی نکلی تھیں کہ تیز بارش شروع ہوگئی 

وہ تقریباً بھاگتی ہوئی مین روڈ پہ نکلیں تھیں 

مگر اس وقت کوئی رکشہ ٹیکسی نظر نہیں آ رہے تھے

حدیبیہ ابراہیم اپنی فائل کا چھٹا بنائے کھڑی تھی مگر ماہین ادھر ادھر نگاہیں دوڑا رہی تھی 

جب ایک گرے ویزل کی لائٹس ان پہ پڑتی محسوس ہوئی تھی 

حدی لا پرواہ سی کھڑی تھی دھچکا اسے تب لگا

جب ویزل سے کوئی باہر آیا تھا 

حدی پہ چھتری لہراتا وہ شخص اسے نہایت عجیب لگا 

اپ کیا پاگل ہیں وہ دوقدم دور ہٹی تھی 

نہیں میں پاگل تو نہیں ہوں مگر آج لگتا ہے ہوجاوں گا 

یہ دھلا دھلایا چہرہ کسی پھول سے کم نہیں لگ رہا 

اور پھول پہ پڑتے بارش کے یہ قطرے آپ بہت پیاری لگ رہی ہیں ایسے میں 

ماہی چلو یہاں سے مجھے واقعی یہ آدمی پاگل لگا رہا ہے 

بلکہ چھچھورا بھی 

ماہی مطلب آپ کا نام ماہی ہے تو 

آپ کا نام کیا ہے 

اوہ شٹ اپ چلو میں ہی رکھ دیتا ہوں پنک روزی 

میں آپ لوگوں کو ڈراپ کر دیتا ہوں 

نہیں شکریہ آپ کا  ماہی کا ہاتھ سختی سے پکڑتی دور جا کھڑی ہوئی 

جیسے پہلی نظر کے پیار پہ بھروسہ ہی نہیں تھا 

وہ پہلی نظر میں ہی اس کے ساتھ روڈ پہ بھیگ رہا تھا 

اسے علم ہی نہ ہو سکا کہ وہ کیا کر رہا ہے 

کتنا حسین ودل کش چہرہ ہے 

نظر نہیں ہٹا پارہا ہوں 

وہ خود کلامی کرتا آگے بڑھا

آپ گاڑی میں بیٹھ رہی ہیں یا زبردستی بٹھاوں  آپ ہوتے کون ہیں اس طرح فری ہونے والے ہمارے ساتھ 

آؤ ماہی اس سائیکو کے ساتھ مجھے مزید بارش میں بھیگنے کا شوق نہیں ہے 

آرش نوریز کو پہلی بار کسی ایسی سچویشن کا سامنا کرنا پڑا تھا 

وہ بوکھلا گیا تھا

وہ آگے بڑھنے لگا تھا مگر حدیبیہ غنی رکشہ میں بیٹھ کر جا چکی تھی 

آرش نے بھی کہاں ہار مانی تھی اس کے گھر تک چھوڑنے کا کام اس نے ضرور کیا تھا 

وہ واپسی اپنے گھر کی راہ لیتا بہت کچھ سوچنے لگا تھا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یااللہ آج تو جانوروں جیسا حال ہو چکا ہے ہمارا 

وہ جلدی میں گھر میں گھسی تھی 

میں آنے ہی لگا تھا تمھیں لینے حدی مگر سوری تھوڑا آفس میں کام زیادہ تھا اس لیے مجھے دیر ہو گئی

ہاں ضیغم ضیا تم اکثر لیٹ ہی رہتے ہو میرے معاملے میں 

وہ رکی نہیں تھی اوپر چلی گئی تھی 

ضیغم ضیا سر ہلاتا باہر نکل گیا تھا 

پتہ نہیں خود کو سمجھتی کیا ہے 

وہ کپڑے چینج کرکے فوراً کھانا کھاتی تھی 

آج تو وہ پوری بھیگ چکی تھی 

ماما کھانا دیں مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے 

ہاں میں نے لگا دی ہے ٹرے بیٹا مجھے معلوم ہے  تم سے بھوک نہیں برداشت ہوتی 

مجھ سے تو کچھ اور بھی اب برداشت نہیں ہوتا 

وہ سوچ کر رہ گئ 

مگر اظہار نہ کر سکی 

حدیبیہ اشرف غنی ماں باپ کی لاڈلی اکلوتی بیٹی 

تھی ان کے رشتے اپنوں سے ہی جوڑنے کا رواج تھا 

ضیغم ضیا اس کی پھوپھو کا اکلوتا وارث مگر 

طبیعت میں لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا 

حدی سے منگنی ہی اسی مقصد سے کی تھی کہ اس کی تمام جائیداد اسی کی تو تھی 

جبکہ حدیبیہ کو نہ اپنی پھوپھو پسند تھی اور نہ ان کی اولاد 

مگر اپنے باپ کے التجاء سے جوڑے ہاتھوں کو دیکھ کر چپ ہو گئ تھی 

دیکھو بیٹا میں نے تمام زندگی ان رشتوں کو جوڑنے میں لگا دی آج میں بوڑھا ہو گیا ہوں 

میں اب باغی ہو گیا تو مجھے خاندان والے اپنے سے الگ کر دیں گے اور میں یہ سب کچھ نہیں برداشت کر سکتا 

اسے کالج میں ایڈمیشن سے پہلے ہی منگنی کی انگوٹھی پہنا دی گئ تھی 

تب جا کر اسے اجازت ملی تھی 

یونیورسٹی میں اسے جانے کی اجازت کسی طور بھی نہ مل سکی اس نے چھوٹے چھوٹے کورسز میں ایڈمیشن لے کر اس بات کو بھی ادھر ادھر اڑا دیا 

وہ ایسی ہی لاپروا سی تھی مگر رشتے اور ان کے مان اسے رکھنے آتے تھے

کھانے کھاتی وہ مسلسل یہ سوچ رہی تھی کاش اس کا کوئی بھائی ہوتا 

ماہی وہ مجھ سے لڑتا مجھ سے ناراض ہوتا 

میں اسے مناتی اس کی پسند کے کھانے بناتی وہ مجھ سے فرمائیش کرتا 

میں اس سے شکایات کرتی وہ کئی بار ماہی کو ایسے قصے سناتی وہ اکیلی ہونے کی وجہ سے 

اپنے اندر کی تنہائی کو مٹا نہیں سکی تھی 

کوئی بہن ہوتی میرے دکھ اور سکھ کا کوئی تو ساتھی ہوتا

اسے آج پھر بھائی نہ ہونے کی کمی رولا رہی تھی اس نے جلد ہی کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا  

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آرش نوریز گاڑی ہواؤں میں اڑاتا گھر پہنچا تھا کیونکہ اس کو اب جلدی کرنا تھا جو بھی کرنا تھا 

اس کی فلائٹ کے  دو دن بچے تھے کینیڈا جانے کے 

اور اس سے پہلے وہ اس لڑکی کو اپنا بنانا چاہتا تھا 

پہلی نظر کی پسندیدگی پہ اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا

وہ عجلت میں گھر میں داخل ہوا

موم موم کہاں ہیں آپ سمیہ رمضان نماز پڑھنے میں بزی تھیں 

وہ وہی ان کے برابر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا 

سمیہ رمضان نے جونہی سلام پھیرا 

آرش کو بۓ چینی سے پہلو بدلتی 

جائے نماز سے اٹھتے ہوئے بولیں 

خیریت آج شام میں ہی ماں کی یاد نے ستایا ص 

کیا ہوا تمھاری طبیعت ٹھیک ہے ناں 

جی جی موم میں بلکل ٹھیک ہوں 

آپ کو بہو چاہیے تھی ناں آج وہ مل گئ ہیں مجھے 

آپ کے پاس دوڑااس لیے چلا آیا کہ کہیں اور ہی نہ پکا کر دیں میر ارشتہ 

ہاں بیٹا انہوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا 

کیا ہوا موم آپ اداس ہو گئ بیٹا میں ان ماؤں جیسی نہیں ہوں جو اپنی خواہشوں پہ اپنی اولاد کو قربان کر دیتی ہیں 

تم نے مجھے باہر جانے کی خواہش ظاہر کی میں نے اس لیے مان لی کہ میرے بیٹے کی خوشی ہے اس میں 

تمھیں قرآن کریم کا حافظ بنانا چاہتی تھی 

مگر تمھیں کچھ اور ہی پسند  تھا 

تم نے حفظ تو کر لیا میرے بچے مگر مجھے کتنی محنت کرنا پڑی وہ میں ہی جانتی ہو۔ اس کی بعد 

تمھیں تب بھی اس میں دلچسپی نہیں دیکھ کر میں نے اپنی خوشی کو قربان کر دیا 

اب تو تم بڑے ہو گئے ہو اور تمھاری خوشی کے آگے میری آج بھی نہیں چلے گی میں جانتی ہوں 

اور میں تمھیں مجبور بھی نہیں کر سکتی 

موم آپ کی خواہش میری سر آنکھوں پہ 

آپ ام ہانی کو میری شریکِ حیات بنانا چاہتی ہیں 

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی ہائیٹ مجھے نہیں پسند اوپر سے اس کی چوائس بکواس ہے 

اتنے لمبے کرتے پہنتی ہے خود نظر ہی نہیں آتی 

عجیب سی وحشت ہوتی ہے مجھے اس سے 

آپ کو پتہ نہیں کیا نظر آتا ہے میں ابھی اس کے سامنے کھڑا ہوں تو مجھے لگتا ہے کوئی بچی کے ساتھ کھڑا ہوں 

نہ تعلیم نہ حسن نہ رہنے کا ڈھنگ نہ چلنے کا پتہ 

بس بیٹا بس اس میں وہ سب کچھ ہے جو ایک آئیڈیل کے لیے ہونا چاہیے 

ہائیٹ تو آج کل چھوٹی عام ہو چکی ہے  

اور خوب صورت وہ ہے 

رہی تعلیم تو وہ اس نے کوئی بزنس نہیں چلانے نہ ہی اس نے کوئی نوکری کرنی ہے 

بس تمھیں کچھ نہیں دیکھائی دیتا اس لیے تم یہ سب سوچتے ہو 

مجھے بتاؤ اب تم کس لڑکی کی بات کر رہے تھے 

اور اندر آتی ہانی کے قدم اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے واپس مڑ گئے تھے 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

بیٹا ہم جانتے نہیں ہیں ان کو وہ کون ہیں کیا ہیں 

موم جان جائیں گے اگر آپ چلیں گی تو 

پر بیٹا مجھے تو مناسب نہیں لگ رہا ہوں بنا بتائے بنا جان پہچان کے وہاں جانا وہ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی تفتیش سے بولیں 

موم آپ چلیں تو سہی سب ہو جائے گا میں ہوں ناں آپ کے ساتھ 

آرش گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے بولا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

موم آپ بس سیدھی سادی سی بات کریں گی اتنا گھبرا کیوں رہی ہیں 

میں ہوں ناں آپ کے ساتھ حدیبیہ کے گیٹ پہ گاڑی روکتا ماں کو کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتا وہ جیسے خود کو بھی تسلی دے رہا تھا

اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ بیل بجائی 

حدی کے بابا باہر بیل بجی ہے زرا دیکھ لیں کون ہیں 

اشرف غنی نیوز سننے میں بزی تھے جب ان کی بیگم نے انھیں باہر بیل کا بتایا اس وقت کون آ گیا ہے

چلو خیر میں دیکھتا ہوں

شام کے دھندلکے چھا رہے تھے جب وہ ماں بیٹا ان کے دروازے پہ دستک دے رہے تھے

دروازے پہ ایک خوبصورت ڈیسینٹ 

سوٹڈ بوٹڈ آرش نوریز کو دیکھ کر اشرف غنی نے بھی دل میں سراہا تھا 

آپ کو کس سے ملنا ہے جی مجھے آپ سے ہی ملنا ہے یہ میری موم ہیں ہم آپ سے ایک درخواست کرنے آئیں ہیں 

اس کی ماں نے آگے بڑھ کر جواب دیا 

چلی۔ آئیں اندر وہ ان کو اندر بلا کر دروازہ بند کرتا ان کے آگے چلنے گا 

سامنے بڑا سا لان اس کے چاروں اطراف میں بہت خوب صورت پھول لگے تھے 

اور سب سے زیادہ جو اسے وہاں خوبصورت لگا وہ بے شمار آیک گول قطاروں میں کھڑے گلاب کے وہ پھول تھے جو نہا کر بارش میں اور بھی حسین لگ رہے تھے 

آؤ ناں بیٹا کہاں کھو گئے وہ بڑی محویت سے دیکھ رہا تھا جب اشرف غنی نے اسے آواز دی تھی 

وہ تھوڑا شرمندہ سا ہوتا آگے بڑھ گیا

جی انکل آپ کے گھر میں کون کون ہے ویسے 

میرا مطلب ہے کہ باہر لگے اتنی نفاست سے سجا باغیچہ جس نے بھی لگایا ہے وہ بھی اتنا ہی نفیس ہو گا 

آرش کے خیال میں وہ بھیگا ہوا چہرہ ایک بار پھر ابھرا 

چار گھنٹے ہی ہوئے تھے مگر وہ بار بار اس کے خیالوں میں وہ بھیگی ہوئی فائل کو ایک ہاتھ سے اپنے سر پہ رکھے دنیا جہاں سے بے نیاز اسے آپنا پر ہی تو لگی تھی مگر اسے لگی تھی 

وہ اس سے ہٹ کر تھی چھوٹی چھوٹی باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اہمیت دینے والی 

رشتوں کو نبھانے والی 

خوش اخلاق بلا کی تھی 

ہر وقت چہرے پہ ایک مسکان دیکھنے والے کو پاگل کر دیتی 

اس کا نرم لہجہ سننے والے کو مبہوت کر دیتا 

وہ ملازمین سے بھی ادب احترام سے بات کرتی 

مگر اس پرخلوص سی لڑکی میں کیا ہونے والا تھا وہ کوئی نہیں جانتا تھا 

آرش نوریز بھی نہیں ⁦

اور اس سب کا زمہ دار آرش نوریز ہی بننے جا رہا تھا 

❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تم یہاں ہو ہانی میڈم اور میں سمجھی شاید فوت ہوگئے ہو 

کیوں میرے فوت ہونے پہ تم اتنی ہی تیار شیار ہو گی 

اس نے اس کے نیو ڈیزائینر کے کپڑوں پہ چوٹ کی تھی 

ہاں اگر ایسے ہی ہوئی اور مجھے اطلاع ملی تو تمھارا کیا خیال ہے میں اس وقت چینج کروں گی 

نہیں نہیں ساتھ میں بیس اور لپسٹک بھی لگا لینا اور 

واٹر پروف لگانا کیا پتا تمھیں رونا پڑھ جائے آخر تمھاری اس محلے میں اکلوتی دوست ہوں میں 

تم تو بہٹ ہی دور کی سوچتی ہو مجھے اردوبازار جانا تھا اگر تم فری ہو تو چلو میرے ساتھ کیوں یہ آج پھر کس خوشی میں جانا ہے اردو بازار کچھ کوکنگ کی اور بھی بکس لینی ہیں 

تمیں پتہ ہے آرش کو گھر کے بنے کھانے پسند ہیں اور میں ان کے لیے کوکنگ سیکھ رہی ہوں 

اس کے د میں ایک ہوک اٹھی مگر دل میں ہی دبا گئ وہ 

کیوں کہ اس میں قصور آرش نوریز کی نظر کا تھا 

اسکی پیاری دوست حدیبیہ کا نہیں 

اس نے تو چار خاندانوں سے الجھ کر یہ رشتہ کیا تھا 

وہ تھی بھی تو اتنی پیاری وہ بھی حدی کے نقوش میں کھو سی جاتی تھی اور اسے دل سے دعا دیتی تھی

کہاں کھو گئے بہن تم اس نے اس کے سامنے چٹکی بجائی

کئی نہیں ڈییئر سوچ رہی ہوں کتنا خوش نصیب ہے تمھارا ہونے والا میاؤں تم نے پھر اسے میاؤں بولا تو میاں ہی ہو ا ہے ابھی سےپریکٹس  کروں گی تو ہی سیکھوں گی 

اچھا آگے بولو کیا سوچ رہی تھی

میں سوچ رہی تھی اس نے فوراً بات بدلی 

کہ تم جو یہ سکیں رہی ہو کوکنگ شوکنگ 

یہ بدمزہ سے کھانے ہم دونوں پھوپھو اور میں اس نے اپنی طرف اشارہ کیا ہم کھائیں 

ہم تمھیں جانور لگتے ہیں 

اور اپنے میاؤں میاؤں کو لذیذ کھانے کھلا کر ہمیں جلانا چاہتی ہو نہ بی بی نہ مجھ سے نہ ہوں گے برداشت یہ ظلم اب 

تم آج کچھ بنا کر تو نہیں لائی ہاں لائی ہوں ناں سندھی بریانی 

اور وہ تمھارا گیٹ کیپر کھا رہا ہے 

گیٹ کیپر اس نے اپنی موٹی موٹی آنکھیں پھیلاہیں 

نیچے کرو اپنی آ نکھیں میں پہلے ہی بہت ڈرتی ہوں ان کالی بلی جیسی آنکھوں سے 

اس نے آنا بدلہ پورا کیا 

وہ اتنا ہینڈسم بندہ چھ فٹ کا 

ایم فل 

اچھی پوسٹ پہ فائز ہمدان درانی 

میرا ماموں زاد بھائی تمھیں گیٹ کیپر گ رہا تھا 

کیا کہنے ہیں جناب کے اور وہ تو اتنا شرماتے ہیں کہ میرے بھی سنے نہیں نظر اٹھاتے تو تمھیں گیٹ پہ ریسیو کرنے پہنچ گئے 

شٹ اپ ہانی بولتے ہی چلے جا رہی ہو 

وہ بھلا مجھے کیوں گیٹ پہ ریسیو کرنے آئے گا وہ تو 

میں آ رہی تھی اور وہ باہر نکل رہے تھے شاید تو میں نے انھیں کہہ دیا گیٹ کیپر اصل میں وہ مجھے گیٹ پہ روک کر ایسے تفتیش کر رہے تھے جیسے اس علاقے میں واردات کروانے آئی ہوں 

میں نے بھی اپنا بدلہ پورا کرلیا ورنہ تم جانتی ہو میں کسی کو منہ نہی لگاتی ہاں جانتی ہوں ایک ہی تو بندہ ہے تیرا 

دھت پگلی اس نے اس کے سر پہ بہت گائی 

کیا باقی کے دس دس ہوتے ہیں 

اور وہ دونوں کھلاکھلاتی نیچے اتریں تھی 

اس کی ہنسی کے ترنگ ہمدان کے کانوں میں رس گھولنے لگے تھے 

اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی نظر اوپر  اٹھائی تھی 

حدی کا چہرہ ہسنے کی وجہ سے لال گلابی سا ہو گیا تھا 

ماما میں حدیبیہ کے ساتھ اردو بازار جا رہی ہوں 

ہانی باہر سے ہی آواز لگاتی باہر نکل گئی تھی

ہمدان نے دور تک نگاہ کر کر صافے پہ کچھ سوچتے ہوئے ٹیک لگاکر کچھ سوچنے لگا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ام ہانی تین بہن بھائی ہیں 

ام ہانی کی سب سے چھوٹی بہن کو سمیہ رمضان نے گود لیا تھا 

وہ جس کی وجہ سے ان کا آنا جانا بہت تھا سمیہ رمضان کے ہاں اور کب کھیلتے کودتے ام ہانی کو وہ مغرور سا لڑکا بھا گیا تھا اسے سمجھ ہی نہیں آئی تھی اس کی جڑیں کھوکھلی تھیں یا وہ مضبوط اتنی تھی کہ اس وار کو خوشی سے سہہ گئ 

سمعیہ رمضان کو بی۔پی کا مسلئہ بہت رہتا تھا 

ملازمین پہ وہ زرا کم ہی بھروسہ کرتی تھیں خاص کر ان کے ہاں باورچی خانہ صرف گھر کی عورت کو ہی سنبھالنا چاہیے اور یہ ان کی روایت تھی 

چاہے وہ کتنے بھی کیوں نہ ترقی کر لیں گھر کا کھانا عورتیں ہی گھر کی بناتی تھیں 

ہانی کو بھی ان سے بہت انسیت تھی

مگر جیسے ہی آرش نوریز بڑا ہو رہا تھا

اس کی ضدی طبیعت میں اور بھی چڑچڑا پن آ رہا تھا 

جس سے آپس میں اختلاف پیدا ہو رہے تھے 

سمہیہ بیگم نے ہانی کی سسٹر بشمہ کو پڑھائی کے بہانے ماں کے پاس بھیج دیا 

لیکن اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے انہوں نے سامنے ہی بنگلہ لے لیا اور وہ ہمیشہ کے لیے پاس آگئے 

مگر اس فاصلے نے آرش نوریز کو اور بھی دور کر دیا 

اور وہ سب کے احساسات کو مجروح کرتا رہیتا 

سمیہ رمضان سے کسی نے شکایت تو نہ کی مگر اس کے گھر آنا  جانا کم کر دیا 

اور اب آرش نوریز ابراڈ جارہا تھا تو ماں کی فکر اسے بھی تھی مگر اس کی سوچ کے مطابق موم ڈیڈ ہیں ناں ایک سمدوارے جا خیال رکھنے کے لیے 

جبکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ رمضان کریم کو بھی فرصت نہ تھی اور بیٹا انھیں پہ چلا گیا تھا 

باپ کو دو  کے  چار کرنے تھے تو اس کو چار کے ان گنت بنانے تھے 

سمیہ رمضان ساری زندگی تنہا رہی اور اب بڑھاپے میں بھی تنہا تھی 

پہلے تو تھا آسرا کہ بیٹا چکر لگتا رہتا تھا اب تو نہ جانے ملاقات بھی ہو یا نہ 

مگر یہ باتیں وہ سوچتی تھیں کرتی نہ تھیں 

جو بھی تھا بیٹے کی خوشی عزیز تھی انھیں

اور بیٹا ماں سے محبت ضرور کرتا تھا 

جیسا بھی تھا 

ہم آپ کے پاس   ایک درخواست لے کر آئیں ہیں بھائی صاحب یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے آرش نوریز 

گلستان جوہر اور انڈسٹریل ایریا میں 

اپنا بزنس ہے ہمارا اور یہ سب کچھ آپ کو بتانے کا مقصد ہے کہ اپ ہمارے بارے میں جان پہچان کر سکتے ہیں

آپ بہن کیا بات کر رہی ہیں میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا 

وہ انکل میں آپ کو بتاتا ہوں مجھے کہتے ہوئے اپنے منہ سے اچھا تو نہیں لگتا مگر ہم آپ کی بیٹی کے رشتے کے لیے آئے ہیں

کیا آپ لوگ اس وجہ سے آئیں ہیں انہوں نے سمیہ کی جا ب دیکھا جی بھائی صاحب میں آپ ے اسی بیٹے کےیے آپ کی بیٹی کا رشتہ لے ے آئی ہوں 

آپ لوگ اگر کسی سے پوچھ لیتے تو آپ کو اس زحمت کی ضرورت نہ پڑتی 

میری بیٹی کی منگنی ہو چکی ہے 

انہوں نے زرا توقف کے بعد بولا 

اس کے بعد کوئی گنجائش تو نہیں بنتی تھی کہ کوئی مزید بات کرتے سو وہ اپنے گھر کے لیے نکل رہے تھے جب سامنے سے ضیغم ضیا آ گیا تھا 

آرش نوریز نے مصافحہ کیا 

آپ تو ہمارے آفس میں ہوتے ہیں ہیں ناں 

جی آرش بھائی میں آپ کے آفس میں سپروائزر ہوں 

یہ میرا بھتیجا اور ہونے والا داماد بھی 

اچھا ہوا کہ آپ جانتے بھی ہیں ایک دوسرے کو 

آرش نے  اپنے سر کو کجھایاجیسے کہنا چاہتا ہو یہ کہاں اور آپ کی بیٹی کہاں 

خوشی ہوئی آپ سے مل کر آپ بیھٹھیں نہ بھائی  

نہیں ہم نکل رہے تھے 

اور وہ ماں کے ساتھ باہر نکل گیا 

اس کا کام اور بھی آسان ہو گیا تھا 

موم آپ گھر چلیں میں آتا ہوں مجھے آج بہت سارے کام ہیں 

مجھے جانے سے پہلے یہ نمٹانے ہیں 

کھانا تو کھا لیتا بیٹا صبح سے ہی یوں گھوم رہا ہے

ماما میں باہر ہی کھا لوں گا آپ میری فکر نہ کریں آپ اپنی دوا لے کر کھانا کھا کر سو جائیے گا میری وجہ سے آج آپ کو شرمندہ ہونا پڑا اس کے لیے معزرت خواہ ہوں

ہاں بیٹا مجھے بہت برا لگا خیر تم آؤ واپس تو مجھے اٹھا دینا آ کر مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں اور تم کچھ اور دن اپنی ٹکٹ پوسٹ پونڈ کروا دو 

اچھا میں سے آہوں آپ چلیں اندر 

وہ ان سے کہتا گاڑی واپس بھگا لے گیا 

بھوک بھی محسوس ہو رہی ہے 

اور یہ لڑکی مجھے ابھی ملی ہی نہیں اور میرا یہ حال ہے بعد میں تو میرا حشر ہونے والا ہے وہ گننگاتا 

گاڑی میں فل والیم میں میوزک لگاتا ایک بار پھر حدی کے خیالوں میں کھو گیا 

یہ ہے میرا بھتیجا اور داماد 

اس نے اشرف غنی کی اڑھے ٹیھڑھا منی بنا کر نکل کی اور پھر زبان تلے زبان دیتا خود کو ایک چپت رسید کرتا مسکرا دیا زیدی صاحب کیا حال ہیں آپ کے 

چھوٹے صاحب کیا حال ہیں آج مجھ غریب کی یاد کیسے آ گئ 

میں آفس آ رہا ہوں ڈیڈی آفس میں ہیں کیا 

ہاں جی صاحب ایک میٹنگ میں بزی ہیں 

اوکے آتا ہوں میں ادھر ہی 

اس نے کہتے ساتھ ہی فون ساتھ والی سیٹ پہاچھالدیا اور اپنا وہی فیورٹ مشغلہ سٹارٹ کر دیا 

وہی میوزک گنگناہٹ اور اپنی ازلی لاپرواہی 

اسے یہ فرق نہیں پڑنے والا تھا کہ حدی کیا چاہتی ہے اسے  پسند ہے بھی یہ سب یا نہیں اسے بس لگ رہا تھا وہ میرے لیے ہی بنی ہے اسے میں ہی چاہا سکتا ہوں 

اسے میں ہی سب دے سکتا ہوں 

اس کی خوشیاں میرے سے کڑی ہیں 

وہ اپنی زات سے محبت کرنے والا کمزور مرد 

جسے اپنے والدین کی خوشیوں کی بھی پرواہ نہیں تھی 

اس کی سوچ کے مطابق والدین اگر اولاد کی خوشی میں خوش نہیں ہوتے تو پیدا ہی کیوں کرتے ہیں 

اس سے اچھا تو کوئی جانور پال لیا کریں تاکہ اسے اپنی مرضی سے قربان کر سکیں 

اور  آرش نوریز کوئی بکر انہیں بن سکتا 

اسلام وعلیکم everyone

آؤ برخوردار آج کیسے آفس کا راستہ بھٹک گئے کچھ کام تھا اآپ سے 

اگر آپ تھوڑا اکیلے میں ٹائم دے سکیں تو پلیز 

کیوں نہیں ویسے بھی میں اب گھر ہی جا رہا تھا 

تبھی تو آیا ہوں کیوں کہ وہاں آپ کی بیوی مجھے بات ہی نہیں کرنے دیتی اور آپ دونوں مجھے اگنور کر دیتے ہیں

پتہ نہیں جب چھوٹا تھا تو کیسے برداشت کیا ہو گا مجھے 

وہ میری بیوی آپ کی ماں ہے بیٹا 

اور ہم دونوں کو تو اب تم برداشت نہیں کر پا رہے 

تبھی تو ہم سے دور جانے کے در پہ ہو 

اففففففففففف ڈیڈ پھر یہ emotional Blac malging

اپنی لائف اپنی مرضی سے گزارنے کا کیا مجھے کوئی حق نہیں ہے 

اس نے زراغصہ ہوتے ہوئے کہا 

کول ڈاؤن آرش تم نے ایک بھی ایک مزاق کیا اور میں نے بھی اس میں اتنا ہائپر ہونے والی کوئی بات نہیں 

آپ مزاق نہیں کر رہے تھے طعنہ مار رہے تھے

اچھا چھوڑو یہ بتاؤ کی بات کرنے آئے ہو 

جی یہ سہی ہے ہم اصل موضوع پہ بات کر لیتے ہیں

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

میرا ایک دوست ہے ضیغم ضیا اس کی آپ کو پرموشن کرنی ہے اور مجھے اس کے بدلے اس سے کچھ چاہیے 

مگر آپ مجھ سے یہ نہیں پوچھیں گے کہ کیا چاہیے مجھے اس سے 

کیونکہ یہ میرا او اس کا پرسنل مسلئہ ہے میں اس میں کسی کی انٹرفئرءنس نہیں چاہتا 

باپ کو برا تو لگا 

کہ وہ اپنے باپ کو کسی میں شامل کر رہا ہے مگر اس کو لاڈ بھی تو میں نے ہی دیے تھے وہ سوچ کر رہ گیا 

ٹھیک ہے میں کر دوں گا مگر بیٹا مجھے مت بتاؤ مگر ایسا بھی کوئی کام مت کرنا جس میں اخلاقیات سے گر جاو تم 

اور ہر مسلہ پیسے سے حل نہیں ہوتا 

بعض کو محبت و خلوص کی بھی مار دینی پڑتی ہے 

آپ بے فکر رہیں میں ایسا کچھ نہیں کروں گا 

آپ اسے ابھی آفس بلائیں اسے اور یہ خوشخبری سنا دیں میرے پاس وقت کم ہے

ہر بات کا طریقہ کار ہوتا ہے وہ صبح آفس آئے گا میں بات کر لوں گا تم اپنی بات کر سکتے ہو اسے 

اوکے ڈیڈ پھر میں چلتا ہوں 

چلو پھر ساتھ نکلتے ہیں نہیں میں ابھی گھر نہیں جا رہا آپ چلیں مجھے دوستوں کی طرف جانا ہے میں آتا ہوں پھر گھر پہ ہی 

بائے وہ کہتا 

باپ کی سنے بغیر ہی باہر نکل گیا 

زیدی صاحب سے لیا گیا نمبر ملاتا وہ گاڑی میں جا بیٹھا 

ضیغم ضیا آرش نوریز بات کر رہا ہوں 

مجھے میرے ساتھ ڈنر کر سکتے ہو کچھ کام بھی ہے مجھے پرسنل آپ سے 

جی شیور آجاؤ پھر اس نے ریسٹورنٹ کا ایڈریس بتانے کے بعد کال ڈراپ کر دی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

شکر ہے مس حدی آپ کی مطلوبہ ریسپیز بکس مل گئیں 

ورنہ آپ ناجانے کتنے سال مجھے خوار کرواتی 

اب گھورنا بند کرو چلو مجھے اچھا سا ڈنر کرواؤ مجھے کوئی شوق نہیں تمھارے ہاتھ کے بدمزہ کھانے کھانے کا 

اب ایسا تو نہ بولو مس ہانی اسی کے لہجے میں بات کی 

تم جو آئے روز میرے ہاتھ کے بنے بے شمار کھانے کھا چکی ہے 

وہ بھول گئ نافرمان لڑکی 

ہوٹل دیکھ کر ندیدی دوست کے ہاتھ کے کھانے بدمزا لگنے لگے چ چ چ چ بہیت افسوس ہوا احسان فراموش 

گھنٹوں چکن میں رہ کر چائینیز ٹھوسوائے تمھیں 

اٹالین کھلائے کسی بچے کی طرح تمیں 

اور تم مجھے یہ سب سنا رہی ہو ا

یہ جو تم مجھے آئے دن ایسپگٹی کی فرمائیش کرتی ہو ناں اب کر کے دیکھنا 

تمھارے ہاتھ میں ہی سب پکڑواوں گی اور بناؤں گی 

ہائے اللہ کتنی جلدی ماتھے پہ رکھ لیں آنکھیں اس لڑکی نے 

میں نے آج تک جیسا تم نے دیا ویسا کھا لیا آپنے میدے کا بھی خیال نہیں کیا 

اور تم مجھے اب یہ کہہ رہی ہو 

وہ ایک اچھے سے ریسٹورنٹ کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئیں تھیں 

اپنی اپنی پسند کا کھانا آرڈر کرنے کے بعد وہ پھر سے ایک دوسرے کے ساتھ نوک جھوک شروع کر چکی تھیں 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

پھوپھو یہ لڑکی کیا مہمان آئی ہوئی ہے یہاں سامنے والے بنگلے میں نہیں بیٹا وہ بہو ہے اس گھر کی 

کیا بہو ہے 

کیا وہ شادی شدہ ہے 

نہیں بیٹا اس کی منگنی ہوئی ہوئی ہے دو سال سے زیادہ ہونے والے ہیں 

آرش نوریز اس کا منگیتر کینیڈا پڑھنے کے لیے گیا ہے 

چکر لگاتا رہتا ہے 

پیسے کی ریل پیل ہے مگر ابھی شادی کا ارادہ ہے 

وہ آج کل میں آنے والا ہے پھر شادی ہو جائے گی 

ویسے تم کیوں پوچھ رہے ہو 

نہیں بس اچھی لڑکی ہے اللہ نصیب اچھے کرے آمین 

اس کی آنکھوں کے بجھتے رنگ ہمدان درانی کی پھوپھو سے

چپھے نہ رہے تھے 

اچھا پھوپھو میں زرا باہر جا رہا ہوں آتا ہوں پھر تھوڑی دیر ہو جائے گی 

آپ پر یشان نہیں ہونا 

تم جس کا بھی نصیب ہو حدیبیہ تم ہمیشہ خوش رہو میری دعا ہے 

میرے دل میں مگر تم ہمیشہ رہو گی 

وہ گاڑی سے اتر رہی تھیں ہمدان نکل رہا تھا اس نے حدی کو دیکھ کر ہای بھری اور دل سے دعا دی 

مگر اس کی آہ  میں ذیادہ اثر تھا شاید

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

وہ کھلاکھلاتی ہوئی اندر داخل ہوئی 

آرش نوریز کی سکائپ پہ کال آئی ہوئی تھی وہ سیدھی سمیہ رمضان کے کمرے میں چلی گئ 

اسلام وعلیکم

وہ ادب اور احترام سے آرش نوریز کو سلام کرتی ہوئی اور بھی خوبصورت لگ رہی تھی

کیسے مزاج ہیں ہیں جناب آپ کے سب ٹھیک ہے

بہت دیر لگا دی 

جی وہ کھانا کھانے میں دیر ہو گئ 

اچھا ابھی تم ریسٹ کرو میں تمھارے لیپ ٹاپ پہ بات کروں گا 

موم سے تو میں بات کر چکا ہوں 

وہ سمیہ رمضان کے سامنے بات نہیں کر پا رہی تھی 

مگر آرش نے اس کی آنکھوں میں شرم و حیا دیکھ کر اس کی مشکل آسان کر دی تھی جی ٹھیک ہے ویسے بھی میں ابھی گھر ہی جا رہی ہوں کیوں بیٹا آج یہی رک جاؤ ناں 

کافی دیر ہو گئ ہے 

رک تو جاتی موم مگر ماما کی کال آئی ہے وہ پاپا کی طبیعت نہیں ٹھیک میں صبح آؤں گی نہ دو آرہ چکر لگانے اور یہ 

آپ کے ہمسائے کب کام آئیں گے ان کو زرا روک لیں آپ ادھر ہی 

نہی۔ بیٹا یہ تو بہت ہی پیاری سعادت مند بیٹی ہے میری 

اور دیکھی۔ آنٹی لوگ کیسے پٹیاں پڑھا رہے ہیں آپ کو 

اچھا میں چلتی ہوں 

صبح ملاقات ہو گی خدا حافظ

کہتے ساتھ ہی وہ باہر نکل گئ 

اور صبح کی قسط میں ہونے جا رہا ہے کچھ ایسا 

جس سے دور ہو جائیں گے اس سے یہ خوبصورت رشتے 

کھو دے گی وہ آرش نوریز کو  ہمیشہ کے لیے

آپ ے رائے سے آگاہ فرمایۓ

ہانی جلدی سے آجاؤ گھر پہ 

مجھے بہت سی آج تیاریاں کرنی ہیں 

آج شام میں آرش نوریز آ رہے ہیں

اوہ ہو ابھی سے بٹے آداب و اخلاق واہ واہ 

کیا بات ہے

تم اب کال پہ ہی سب سنو گی یا او گی بھی سہی 

مجھے بہت سی ڈشز بنانی ہیں 

رکھ رہی ہوں کال بائے

افففف آج بہت کام ہیں مجھے اور ایک آرش کی آنے کی خوشی میں اس کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے 

اس نے چائینیز کے لیے تمام سبزیاں کاٹ پیٹ کر رکھ لیں تھیں 

بریانی کوفتے کباب کھیر کسٹرڈ ٹرائفل اس نے ایک بار پھرہر چیز پہ نظر دوڑائی اور کمرے میں بھاگی 

اس نے آرش نوریز کا پنک اور وائیٹ کمبینیشن کا گفٹ کیا ہوا ڈریس نکالا وہ اس کے  ہی گھر پہ موجود اس کے آنے کا ویٹ کر رہی تھی موم ڈیڈ ماما پاپا سب اسے لینے گئے ہوئے تھے 

وہ تیار ہو کر آئینے کے سامنے سے ہٹ گئ وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوب صورت لگ رہی تھی

اففففففففففف یار وہ سر پہ ہاتھ مارتی نیچے بھاگی تھیں 

چائینز کو دم دینا  ابھی باقی تھا 

اور آرش نوریز پہنچنے والا تھا 

ہانی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ بہانہ بنا کر اپنے  گھر جلدی چلی گئ تھی 

گیٹ پہ ہارن کی آوازیں سنائی دیں تو وہ جلدی سے برنل جلاتی دوپٹہ سنبھالتی کچن کے دروازے تک آئی تھی 

مگر اسے کجھ جلن محسوس ہوئی تھی مگر اسے واپس مڑنے کا موقع نہیں مل سکا تھا اس کی چیخوں نے پورا بنگلہ ہلا کر رکھ دیا تھا 

ہمدان جو ابھی گاڑی سے اتر رہا تھا 

وہ اندر بھاگا تھا 

حدیبہ وہ چیخ کر اس کی جانب غ تھا وہ آگ کی لپیٹ میں تھی 

زمین پہ لیٹ جاؤ حدی 

وہ زمین پہ لوٹ پوٹ ہونے لگی اس نے سامنے سے بیڈ شیٹ کھینچ کر اس کو لپیٹا 

اس کے ہاتھوں پاؤں پھول رہے تھے 

وہ اس کو اٹھاتا گاڑی کی طرف بھاگا تھا 

قریبی ہسپتال میں اس کو ایڈمنٹ کرواتا وہ ہانی اور پھوپھو کو کال ملانے لگا 

سلک کے کپڑے تیل کا کام کر گئے تھے 

مجھے نہیں۔ پتہ پھوپھو اسے آگ کسیے لگی میں گاڑی سے نکلا تھا مجھے کچھ جلنے کی بو آئی اور چیخنے کی بھی میں اندر بھاگا تو 

حدی کے بالوں کو کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی میں نے پانی ڈالا چادر اوڑھائی اور یہاں ہاسپیٹل لے آیا ہوں 

مجھے سمجھ ہی نہیں آئی کہ میں کیا کروں 

اچھا کیا تم نے بیٹا جو اسے لے گئے 

میں بھی آتی ہوں اس کی ساس کو بتا کر مگر میں ہانی کو بھیج دیا ہے وہ پہچننے والی ہو گی 

وہ ٹھیک تو ہے ناں بیٹا پھوپھو میں اسے دیکھ ہی نہیں پایا 

مگر اتنا اندازہ ہے وہ آدھی جل چکی ہے 

آپ بھی دعا کریں اس کی زندگی بچ جائے 

نشان تو کبھی نہ کبھی چلے ہی جائیں گے 

انسان تو بس ایک خواب ہی رہتا ہے پھر

اس کی آنکھوں سے دو آنسو نکل کر اس کی شرٹ میں جذب ہوئے تھے

ہمدان بھائی کیا ہوا ہے 

حدی کو 

اور پھر سے اسے وہی بتانے لگا 

یہ سارا سامان اٹھاؤ جاوید اور باری باری اندر لے آؤ 

آرش گاڑی سے اتر کر سامان اتروانے لگا تھا 

چھوٹے صاحب غصب ہو گیا 

سارے ملازمین رات کو کوارٹر چلے جاتے تھے بس گیٹ کیپر ہی ہوتا رات کو گھر پہ اس وقت وہ بھی کھانا کھانے اپنے کوارٹر گیا ہوا تھا اپنے بچوں کے ساتھ جب وہ واپس آیا تو گیٹ کھلا ہوا تھا وہ اندر گیا تھا مگر اندر کوئی بھی نہیں تھا مگر سارے گھر میں بو پھیلی تھی اس نے اچھے سے چیک کیا اور میں پھر واپس گیٹ پہ آگیا ہوں کیا بکواس کر رہے ہو 

گاڑیاں ایک ایک کر کے گیٹ پہ رکی آرش کو بھاگتے ہوئے دیکھ کر سب اندر بھاگے تھے 

کچھ کپڑے کے ٹکڑے ٹکڑے جلے ہوئے پڑھے تھے 

چائینز بھی جل کر راکھ ہو چکے تھے 

اس نے چولہا بند کیا 

موم حدی کہاں ہیں

بیٹا میں اسے یہی تو چھوڑ کر گئ تھی 

رضیہ بیگم بھاگتی ہوئی اندر آئی تھیں 

سمیہ بہن معاف کرنا میں بنا اجازت اندر آگئ ہوں 

حدی بٹیا جل گئ ہیں ہمدان اور ہانی اسے ہاسغ لے گئے ہیں وہ سٹی ہاسپیٹل میں ہے 

وہ سنتے ہی سب ہاسپیٹل ہی بھاگے تھے 

ہانی بیٹی کیا ہوا ہے 

آنٹی وہ حدی کی حالت ٹھیک نہیں ہے وہ سمیہ بیگم کے گلے لگ کر رونے لگی تھی وہ جیسے ہی ہاسپٹل پہنچے تھے سب ہانی سے سوال پہ سوال کیے جا رہے تھے کیسے ہوا سب تم کہاں تھی میں تو چلی گئ تھی اپنے گھر مجھے تو بعد میں پتہ چلا ہمدان بھائی اور ہم ہاسپٹل لے آئے تھے 

اس نے بعد میں آنے کی بات گول کر دی تھی یااللہ میری بچی کی حفاظت فرما اس کو لمبی زندگی عطا فرمائے

حدی کی ماما بھی پریشان ہو کر بیٹھ گئی تھیں 

مگر دعائیں مسلسل مانگ رہی تھیں 

ڈاکٹر باہر آئے تھے ایمرجنسی وارڈ میں مس حدیبیہ کے ساتھ کون ہیں 

میں ہوں میری بیٹی ہیں وہ ٹھیک تو ہے ناں 

اشرف غنی آگے بڑھے تھے ان کا فورا آپریشن ضروری ہے آپ ان پیپرز پہ سائین کر دیجیۓ جی جی ضرور انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے پیپرز پکڑ کر سائن کر دیے تھے 

آرش نوریز سر پکڑ کر بینچ پہ انجان بنا بیٹھا تھا 

می۔ ایک بار دیکھنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب اسے ابھی ان کا آپریشن شروع ہو چکا ہے آپ دعا کریں بعد میں آپ دیکھ سکتے ہیں

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

موم آپ سب چلیں میرے ساتھ ریسٹ کریں ہم آپ کو بتا دیں گے جو سچوئین ہو گی نہیں آرش میں ادھر ہی ہوں آپ جاؤ ریسٹ کرو سفر کے تھکے ہوئے ہو 

موم ڈیڈ آپ چلیں گے جی بیٹا میرا دم گھٹ رہا ہے 

بہت ہی حبس زدہ ماحول بنا ہوا ہے 

چلیں پھر آجائیں 

اچھا بہن میں لگاؤں گی چکر آپ تو جانتی ہیں میری طبیعت کو بی پی ایک دم شوٹ کر جاتا ہے 

یہاں لوگ کچھ خوشیاں منا رہے ہیں تو کچھ رو دھو رہے ہیں

آپ تسلی رکھیں حدی کو کچھ نہیں ہو گا میرا دل گواہی دے رہا ہے وہ ٹھیک ہو جائے گی

وہ تینوں گھر روانہ ہو گئے 

پانچ گھنٹے ہو گئے تھے آپریشن تھیٹر میں آپریشن جاری تھا 

اندر کیا ہو رہا تھا کیا نہیں کوئی نہیں جانتا تھا 

اشرف غنی کبھی دروازے کے سامنے جاتے اور ھر واپس آ کر بیٹھ جاتے تو کبھی ثریا خاتون 

ہانی ہمدان درانی کے نمبر پہ بار بار کال کر کے چیک کر رہی تھی جو ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے آپریشن تھیٹر میں موجود تھا 

آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا تھا تینوں نفوس کے جھکے سر اوپر اٹھے تھے 

ڈاکٹر صاحب کیسی ہے میری بچی میری بیٹی 

آپ کو مبارک ہو آپریشن کامیاب رہا ہے ۔

ان کے ایک ہاتھ کا اوپری حصہ اور اور فیس کا ایک حصہ اب سرجری کے قابل بھی نہیں رہا 

مگر آپ سب کی دعاؤں سے وہ ٹھیک ہیں خطرے سے باہر ہیں ڈاکٹر ہمدان ان کے ڈاکٹر ہیں آپ ان سے مل کر مزید انفارمیشن لے سکتے ڈاکٹر اپنے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ انھیں تسلی دیتا  آگے بڑھ گیا

ڈاکٹر ہمدان نے اپنے زیرنگرانی حدی کو روم میں شفٹ کروایا اور ڈرپس لگاتا اس کا ہاتھ کانپا تھا 

اس کے ہاتھ کا پھٹا ہوا وہ گوشت اندر تک نظر آ رہا تھا اس نے جھرجھری لی 

اس کے چہرے پہ وہ ہلکا سا جھکا میں ایک ڈاکٹر ہوں 

حدیبیہ اشرف بہت سے پیشنٹ کے آپریشن میرے دائیں ہاتھ کا کھیل رہا ہے 

مگر آج نو گھنٹے میں نے جس کرب میں گزارے ہیں تم اندازہ بھی نہیں لگا سکتی 

تمھارے چہرے کی یہ تکلیف ان زخموں سے کہیں زیادہ ہے 

تم ہوش میں ہوتی تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا 

ہمدان درانی کسی کی امانت میں خیانت کا روادار نہیں ہے 

تم اس طرح ایک رات میرے ساتھ میرے سامنے 

میرے روبرو میرے ہی رحم و کرم پہ میرے ساتھ میرے پاس خدا کرے کبھی نہ آؤ 

یہ کیسی دردناک رات تھی 

میں بلیڈ سے تو کہیں کینچی سے تمھارے مختلف جسم کے حصے سے گوشت الگ کرتے ہوئے میں نے آج پانچ گھنٹے لگائیں ہیں جانتی ہو میری چھ سالہ پریکٹس کا مشکل ترین یہ آپریشن کبھی نہیں بھولے گا 

خیر میں تمھیں بھول پاؤں نہ پاؤں مجھے نہیں پتہ مگر خدا کا شکر ہے تم زندہ ہو میرے سامنے ہو 

اس نے جھکا ہوا سر اٹھایا اور باہر نکل گیا 

اس سے زیادہ تمہں  نہیں دیکھ سکتا تھا ورنہ مجھ سے کوئی بد دیانتی ہو جاتی سوچتے ہوئے وہ اپنے آفس پہنچا تھا 

اس نے انٹرکام پہ چائے کا کہا  اور اپنے خیالات کو جھٹکنے کی کوشش کی تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یا اللہ تیرا شکر ہے 

ثریا خاتون ہانی بیٹی کو لے کر حدی کو ایک نظر دیکھ آؤ میں کال سن کر آتا ہوں آرش کی کال ہے جی اچھا آپ سنیں کال آؤ بیٹی ایک نظر دیکھوں اپنی بیٹی کو 

وہ آرش کا سن کر اتنی خوش تھی دو دن نہیں سوئی 

میں جانتی ہوں آنٹی اس نے مجھے بھی نہیں سونے دی اس کو بس ایک بار آرش نے کہا تھا تم کوکنگ سیکھ لو میری خاطر جس نے کبھی ایک گلاس آٹھ کر دودھ بھی نہ لیا ہو کچن سے وہ اس کی خاطر سارا سارا دن مطلوبہ سامان ڈھونڈنے میں لگا دیتی اور رات ساری رات بنانے میں لگا دیتی 

آج کتنے سکون سے سو رہی ہے اور پانچ گھنٹے ہو گئے ہیں آرش بیٹے نے ابھی کال کی ہے آیا پھر بھی نہیں یہاں 

مجھے رحم آ رہا ہے ابھی سے اپنی بیٹی کے نصیب پہ 

ثریا خاتون مسلسل حدی کے چہرے کو اپنی آنکھوں کے حصار میں لیے ہوئے بے خودی میں بولے جا رہی تھی 

آپ پریشان نہ ہوں آنٹی اللہ سب بہتر کرے گا انشاء اللہ

ہانی دوست ہو کر بھی اٹھ گھنٹے سے ہاسپٹل میں تھی 

آرش نوریز جیون بھر کا ساتھی ہونے کا دعویٰ کر کے بھی اپنے گھر آرام سے سو رہا تھا 

جی انکل حدی کا آپریشن کیسا رہا اسے ہوش آیا نہیں 

میں راستے میں ہی ہوں بس پہنچنے والا ہوں جی بیٹا آپریشن کامیاب رہا ہے 

مگر ابھی ہوش نہیں آیا 

اوکے میں آتا ہوں ہاسپٹل بائے کہتا وہ کال ڈسکنٹ کر گیا تھا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

انکل آنٹی اور ام ہانی آپ سب آپ اب پریشان نہ ہوں حدی بلکل ٹھیک ہے آپ تینوں آئیں میرے ساتھ آفس میں کام ہے مجھے آپ وگوں سے اور وہ چپ چاپ اس کے ساتھ چل پڑے 

صبح ہو چکی تھی اس نے حلوہ پوری کا ناشتہ منگوا کر زبردستی کھلایا تھا 

وہ چائے ختم کر رہے تھے جب آرش نوریز کے آنے کی خبر ملی 

ہائے ڈاکٹر ہمدان سوری میں تھوڑا لیٹ ہو گیا 

مگر اس کے چہرے پہ پریشانی کے آثار تک نہ تھے اور نہ ہی شرمندگی کے 

وہ بلکل ہشاش بشاش ہمدان سے مصافحہ کرتا سامنے صوفے پہ بیٹھا تھا جو کام آرش نوریز کے کرنے کے تھے وہ بخوبی ہمدان درانی نے نبھائے تھے 

ایک ٹیبلیٹ تک کے یے اس نے اس ناتواں بزرگ اشرف غنی کے کندھوں پہ نہیں ڈالی تھی 

ہمدان درانی نے حدی کا خیال ایسے رکھا تھا جیسے وہ اسی کی زمہ داری ہے 

یہی وجہ تھی کہ آشرف غنی اور ثریا خاتون کو کسی قسم کی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا 

ہانی آپ انکل اور آنٹی کو اب گھر لے جاؤ میں ہوں اب ادھر ہاسپٹل میں حدی کے ساتھ اسے جیسی ہی ہوش آئے گا میں آپ دونوں کو بتا دوں گا 

یہ پہلی ان پانچ گھنٹوں میں ہمدردی دکھائی تھی آرش نے

جی بلکل آرش ٹھیک کہہ رہا ہے آپ چلیں ہانی کے ساتھ  ریسٹ کریں آپ کو ہانی دوبارہ لے آئیں گی 

ہمدان بھائی آپ نہیں چلیں گے آپ بھی تو ساری رات نہیں سوئے ماما بھی ا کا پوچھیں گی 

میری ابھی ڈیوٹی ہے ہانی میں رات کو ہی آؤں گا تم جاؤ شاباش وہ پیار  سے اسے پچکارتا ہوا بولا 

اور تینوں باہر آ گئے تھے 

میں زرا مل لوں حدی سے 

نہیں آپ مل تو نہیں سکتے دیکھ ضرور سکتے ہیں کیوں انہیں ابھی ہوش آنے میں وقت لگے گا 

وہ ہنس دیا تھا اچھا ڈاکٹر صاحب ضرور 

اللہ خوش رکھے اسے تمھارے ساتھ آرش نوریز 

وہ منہ میں بڑبڑاتا فائل پہ جھک گیا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حدی تم میرا ایسے اس طرح ویلکم کرو گی تو میں کبھی آتا ہی نہیں مجھے تکلیف ہو رہی ہے تمھیں ایسے بے بس دیکھ کر ان مشینوں کے ذریعے 

وہ اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا 

پیلا زرد تکلیف دہ زخم سے چور وہ اس چہرے سے۔ ہر ہٹا گیا 

ساتھ پڑی ہوئی اٹینڈس چئیر اس کے سٹریچر کے قریب کرتا وہ اس کا دایاں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا ہوا اس کی تکلیف کو محسوس کرنا چاہتا تھا 

مگر اس کے ہاتھ پہ نظر پڑتے ہی جگہ جگہ سے پھٹا وہ گوشت اور اس سے اٹھتی سمیل سی ابکائی آئی تھی اسے 

وہ واش روم بھاگا تھا 

یہ مجھے کیا ہو رہا ہے 

مجھے اتنی کراہیت کیوں محسوس ہو رہی ہے 

وہ دوبارہ بیسن پہ جھکا اسے بار بار قے ہو رہی تھی 

اس نے ہاتھوں کو بار بار دیوار پہ لگے سنیٹائزر سے دھویا پھر سونگھا پھر ہاتھ دھوئے وہ دیوانہ وار یہ حرکت دہرا رہا تھا 

اسے گھن ا رہی تھی اپنے کپڑوں سے وہ ہاسپیٹل سے تیز تیز ڈگ بھرتا گاڑی میں جا بیٹھا 

جاوید سروس اسٹیشن سے آ کر گاڑی لے جاؤ اسے اچھے سے واش کروانا اپنی زیر نگرانی میری طبیعت نہیں ٹھیک میں گھر جا رہا ہوں اس نے کال ڈسکنٹ کر کے گھر کی راہ لی

سیدھا واش روم گھسا ان نے خود کو ایسے رگڑ رگڑ کر دھویا جیسے وہ کوئی اچھوت کو چھو کر آیا ہو 

وہ آدھا گھنٹہ اسی شغل میں لگا چکا تھا 

اس نے سائیڈ ٹیبل پہ پڑی دو الیب ٹیبلیٹ کھائیں اور سکون کی غرض سے سو گیا 

دس منٹ میں ہی وہ سوچکا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آرش نوریز کے موبائل پہ مسلسل کالز آرہی تھیں مگر وہ نیند کے خمار میں جانے سے پہلے سائیلینٹ لگا چکا تھا 

سمیہ بیگم وہ میرا فون بھی نہیں  اٹھا رہا اللہ خیر کرےمجھے گھر جانا ہو گا جاوید بتا رہا تھا وہ دو گھنٹے سے وہ اپنے روم میں ہے 

جاوید بھی دروازہ بجا چکا  ہے مگر اس نے کھولا نہیں ہے 

ہاسپٹل سے وہ بتائے بغیر حدی کو اکیلے چھوڑ کر وہ کہاں کوں چلا گیا ہے 

ٹھیک ہے آپ جائیں گھر میں ادھر حدی کے پاس ہی ہوں 

اس کے ماما پاپا کیا سوچیں گے 

میں رات کوبھی گھر چلی گئی اور ابھی آرش بھی یہاں نہیں ہے 

آپ مجھے کال کر کے بتا دیجیۓ گا 

ٹھیک ہے میں چلتا ہوں جاوید یہ کچھ چیزیں ہیں جب میں بولوں تو اپنی چھوٹی میڈم کو دے دینا 

لیکن صاحب یہ بیگ اور آپ اس طرح تیار ہو کر کہاں جا رہے ہو تمھیں۔ جتنا کہا ہے بس اتنا کرو 

اور ایک اور بات میرے یہاں نہ ہونے کی ابھی کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے 

میں خود ہی کال کر لوں گا 

وہ باہر کھڑی کیب کریم میں بیٹھ گیا 

جناح ائیرپورٹ چلو 

اور وہ اپنے آپ کو بچاتا ہوا کینیڈا روانہ ہو گیا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اللہ کا شکر ہے حدی کو ہوش آ گیا ہے اس کی ماما پاپا خوش ہوتے ہوئے اپنی بیٹی کے چہرے پہ جھکے تھے 

باری باری بوسہ دیتے وہ رو پڑے تھے 

آپ دونوں رو کیوں رہے ہیں میں اب ٹھیک ہوں اس نے اپنی تکلیف کو چھپاتے ہوئے اپنے بوڑھے ماں باپ کو تسلی دی 

جی جی بیٹا یہ تو خوشی کے آنسو ہیں 

وہ کافی دیر ادھر دھر نگاہ دوڑائی رہی تھی سب اس کے پاس آئے تھے باری باری مگر دو گھنٹے سے جسے وہ دیکھنا چاہا رہی تھی وہ موجود نہیں تھا 

اس نے ہانی کو اپنے پاس بلایا تھا 

ہانی آرش کہاں ہے کیا وہ ہاسپٹل آیا تھا 

ہاں حدی جانی وہ رات کو بھی ادھر ہی تھے اور ابھی گھر گئے ہیں سب نے زبردستی بھیجا ہے اسے وہ تو جا ہی نہیں رہے تھے سفر کے تھکے ہوئے بھی تھے 

اس لیے چلے گئے وہ انکل اور آنٹی نے ہی اسے زبردستی بھیجا ہے 

تمیں ڈاکٹر نے آرام کرنے کا بولا ہے تم آرام کرو میں باہر جاتی ہو یہاں۔ کسی کو بیٹھنے کی اجازت نہیں ہو 

مگر نہ جانے کیوں ہانی آج تمہاری آنکھیں تمہارا ساتھ نہیں دے رہی تھیں 

تم سب مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو 

مگر وہ زیادہ دیر سوچ نہ سکی تھی وہ دواؤں کے زیر اثر غنودگی میں چلی گئ مگر مسلسل آرش کو پکارتے ہوئے 

اس کے لب ابھی بھی ہل رہے تھے

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️

کیسا فیل کر رہی ہیں آپ مس حدی ابھی آپ کو کوئی تکلیف تو  نہیں ہو رہی ناں ڈاکٹر ہمدان درانی نے اپنے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ حدی کی خیریت معلوم کرتا اس کی ڈرپ میں انجکشن لگا رہا تھا 

دو دن میں مرجھا کر رہے گی تھی حدیبیہ اور اس کے ساتھ اگر رات دن تھا تو والدین کے بعد ڈاکٹر ہمدان درانی تھا 

جو صرف چند ہی منٹوں میں گھر سے فریش ہونے کے بعد مسلسل ڈیوٹی دے رہا تھا 

ہانی نے سب سے پہلے اس کی آنکھوں میں محبت پڑھ لی تھی 

جس نے دعویٰ نہیں کیا وہ محبت تھی 

یا دعویٰ کر کے جو فرار ہو گیا وہ محبت تھی 

ہانی مسلسل حدی کو دیکھتے ہوئے سوچ رہی تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ضیغم ضیا بیٹھو یہاں آرش نوریز نے اسے  سامنے چئیر پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا 

کی کیا کھاؤ گے مجھے تو بہت بھوک لگی ہے آج سے کام تھے مجھے اس لیے ناشتہ کے بعد کچھ نہیں کھا سکتا میں 

آپ جو منگوا لیں کھا لوں گا کوئی مسلئہ نہیں آرش بھائی 

بھائی نہیں ہوں ویسے میں تمھارا باس ہوں 

جی جی اس بات سے بھی انکار نہیں ہے 

چکن ہانڈی مصالحہ 

ریشمی کباب دو پلیٹ 

مٹن کڑاہی فل 

بہاری کباب تکہ 

چائینز رائس 

ود شاشلک 

کولڈ ڈرنکس 

اور ساتھ نان تندوری لے آؤ 

اور سب سے پہلے ریشیںن سلییڈ بھجوا دیں 

عثمانیہ کا آج ریشیںن سلییڈ بھی کھا کر دیکھیں بڑا مزے کا ہے 

ضیغم ضیا کو اس خوشامد کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اس کے ماتھے پہ اے سی کی ٹھنڈک میں بھی 

پسینے آ رہے تھے اس شخص نے آفس میں تو کبھی مجھ سے بات تک نہیں کی کبھی تو آج مجھے کھانا کھلانے تو نہیں لایا ہو گا کچھ نہ کچھ تو ہے اب کیا ہے اس کا تو اس کے منہ سے پتہ چل سکتا ہے 

ضیغم میں پرسوں کی فلائٹ سے کینیڈا روانہ ہو جاؤں گا

میرے پاس تمھارے لیے ایک اچھی آفر ہے 

میری اس آ فر کو تم ٹھکرا بھی سکتے ہو مگر کوئی آپشن نہیں ہے

تمھاری ترقی ہو سکتی ہے 

اگر تم چاہو تو وہ کسیے باس مجھے سمجھ نہیں ا رہی آپ کیا کہنا چاہتے رہے ہیں 

جی ایم بنا دیا گیا ہے تمھیں اس فیکٹری کا کیا واقعی وہ بغ خوش ہوا یہ جانے بغیر کہ اس کے بدلے اسے کچھ دینا بھی ہو گا 

مگر مجھے کیا کرنا ہوگا اس عنایت کی کچھ سمجھ نہیں آئی مجھے ابھی تک

تمھیں اپنی کزن حدیبیہ اشرف غنی سے رشتے سے انکار کرنا ہو گا 

اور یہ بات بھی سامنے نہیں آنی چاہیے کہ میں نے تمھیں کہا ہے یا پھر اس آفر کے بارے میں

ایک گھنٹہ ہے تمھارے پاس سوچنے کے لیے 

مجھے کال کر کے بتا دینا مگر خیال رہے انکار کی صورت میں جاب سے ہی نہیں پانچ سال کے لیے کسی کمپنی میں جاب بھی نہیں کر سکو گے 

آپ 

مجھے  ڈرا رہے ہیں آرش نوریز بھائی 

نہیں مجھے تمھاری کزن پسند آ گئ ہے میں یوں بھی اسے حاصل کر سکتا ہوں مگر اس طرح تم لوگوں کی عزت پامال نہیں کرنا چاہتا اس لیے سیدھا راستہ چنا ہے 

وہ کھانا کھاتے ہوئے مسلسل نگاہ نیچے کر کے بات کر رہا تھا جیسے اس کا ماننا نہ ماننا اس کے  لیے کوئی معنی نہیں رکھتا تھا کھانا کھاؤ تسلی سے ایک گھنٹے بعد کال کروں گا 

سوچ کر جواب دے دینا 

ویٹر بل لے آؤ وہ بل پے کرتا اسے الوادع کہے بنا ہی باہر نکل گیا

غرور تو دیکھو موصوف میں چلو مجھے بھی کون سا منہ لگاتی ہے حدی رانی اس کو ساری زندگی جھیلنے سے بہتر ہے اپنی زندگی سنوار لوں اس کی پراپرٹی بھی تو لاکھوں کی ہے اور اتنی تو میں دو سالوں میں کما لوں گا 

ھر مجھے کیا ضرورت ہے اس کے آگے پیچھے پھرنے کی 

چل ضیغم ضیا احمد اپنی قسمت کی چابی کو لگا دے 

وہ مسکراتا ہوا بلکہ گنگناتا ہوا بائیک سٹارٹ کرنے لگا

 ⁦❤️⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حدی کہاں ہے ممانی مجھے اس سے بات کرنی ہے 

وہ اپنے کمرے میں ہو گی 

ضیغم سب ٹھیک تو ہے ناں تم ابھی تو گئے تھے اس وقت تو تم نے حدی کا نہیں پوچھا 

جی مجھے ابھی کام ہے اس لیے واپس آنا پڑا ہے

میں اس کے روم میں ہی جا کر بات کر لیتا ہوں 

اچھا وہ اوپر ہی ہے 

حدی دروازہ کھولو مگر دروازہ تو کھلا ہوا ہے 

یہ کہاں ہے 

وہ ٹیرس پہ کھڑی ناجانے کون سی سوچوں میں گم تھی جب ضیغم اس کے برابر آ کر کھڑا ہوا تھا 

تم یہاں کیا کر رہے ہو 

تم ابھی تو گئے تھے نیچے سے ہو کر پھر واپس آ گئے 

تم نے ہی کہا تھا ناں ماہین کو حدی کہ ضیغم ضیا میرے لیے ہونے نہ ہونے کے برابر ہے تو کیا مجھے یہ یاد کروانے آئے ہو بکواس بند کرو اپنی حدی اور آج صرف مجھے سنو 

وہ دانت میچتے ہوئے اس کے کلائی کو مروڑ گیا 

مگر مقابل بھی تو حدی تھی اس نے اس کی گردن میں اپنے تیز نوکیلے ناخن گاڑھ دیے 

اس نے درد سے کراہ کر اس کی کلائی چھوڑ دی تھی مگر اس کے منہ سے پکڑ کر دوبارہ اسے اپنے سامنے کیا تھا 

جب آپ کسی کے ساتھ چلتے ہیں تو ساتھ چلنے کی بھی کچھی کوئی وجہ نہیں ہوتی اسی طرح اگر کسی کا ساتھ چھوڑنا ہو تو اس کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوتی 

ضیغم ضیا تو چھوڑنے آیا تھا بلاوجہ ہی خواہ مخواہ ہی 

مری بات غور سے سنو حدی میں نے اس دن ماہین اور تمھاری باتیں سن لی تھیں اسی دن تمھیں چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر ماموں کے کچھ احسانات تھے اس لیے اپنی بے عزتی پہ چپ کر گیا مگر آج 

اس لڑکے کو تمھارے گھر آ کر تمھارا رشتہ مانگنے کی 

جرآت نے مجھے سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے 

تمھاری شہہ کے بغیر تو نہیں آئے ہو گا ناں 

تبھی تو تم ماہین سے کہہ رہی تھی اسے کلام تو کیا شکل بھی دیکھنا مجھے اچھا نہیں لگتا 

میرا چھونا برداشت نہیں تھا 

کسی کے ساتھ تعلقات بنانے منظور تھے تمھیں 

کیا بکواس کر رہے ہو ضیغم میری بیٹی سے 

آپ پوچھ لیں اس سے آپ نے اپنی بے شرم لڑکی صرف اس لیے مجھ سے منسوب کی کیوں کہ یہ آپ سے سنبھالی نہیں گئی شٹ اپ ضیغم دفعان ہو جاؤ میرے گھر سے میری نظروں سے 

میرا تم سے اور اس گھر سے میری بیٹی سے کوئی واسطہ نہیں 

مجھے بھی نہیں رکھنا آپ سے کوئی بھی رشتہ یہ لیں اپنی دی ہوئی ایک ٹکے کی رنگ وہ ہکہ  بکہ کھڑی حدی کے سامنے رنگ پھینکتا تیزی سے نیچے اترا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

چپ کر جاؤ حدی بیٹی میرا ہی قصور تھا سارا میں ہی نہیں سمجھ سکا اس خبیث کو مجھے معاف کر دو بیٹا میرے دباؤ میں آ کر ناجانے تم کیا کیا سہتی رہی ہو 

مگر آج کے بعد تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا 

حدی اپنے پہ بے بنیاد لگے الزامات کو سہہ نہیں پا رہی تھی اس کی ماں بھی اس کے ساتھ بے آواز آنسو بہا رہی تھی 

اشرف غنی دونوں خواتین کو حوصلہ دیتے دیتے بے جان سے ہو رہے تھے

حدیبیہ اشرف غنی ہئیر 

آپ کون انگریز کی اولاد بات  کر رہے ہیں 

قہققہ اپنی جیت کا

 آرش نوریز تمھارا چاہنے والا  کون آرش نوریز میں نہیں جانتی آں ہاں کال مت کاٹیے گا یہ ہی تو بتانے کے لیے تمھیں  کال کی ہے    آپ اتنا فری ہو رہیں ہیں ۔ ہیں کون آخر  آپ 

اور کس سلسلے میں کال کی ہے اوففففففففففف و لڑکی تم تو بہت ہی زیادہ بولتی ہو سانس تو لو پھر بتاتا ہوں 

جلدی بولیں میں فری نہیں ہوں 

کیا کام کر رہی تھی تم آپ کو کیوں بتاوں جلدی سے کام کی بات کرو 

پھر وہی جلد بازی دوستی کرو گی مجھ سے سوری میں لڑکوں سے دوستی تو دور کی بات بات بھی نہیں کرتی حدی 

اچھا تو آپ کو پیار سے حدی کہتے ہیں 

مگر آپ نہیں کہہ سکتے صرف مجھے میرے اپنے کہتے ہیں 

تو اس میں کون سی دیر لگتی ہے میں تو ابھی آ رہا ہوں آپ کو اپنا بنانے بارات لاؤں یا رنگ ابھی 

کیا بکواس کر رہے ہیں آپ تمیز نہیں ہے کیا آپ کو لڑکیوں سے بات کرنے کی 

ارے ارے کال م م م ت کاٹنا اووہ شٹ اس نے کشن پہ مکا مارا کیوں کہ حدی نے کال ڈسکنٹ کرتے ہی آف بھی کر دیا 

چلو پھر میں دیکھتا ہوں تم کیسے مجھ سے دور بھاگتی ہو 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یہ سات بجے کون آ گیا ہے دروازے پہ اتنی صبح صبح بیل بجی بیل نے تلاوت قرآن پاک کرتی حدی کو حیرانی ہوئی تھی

وہ قرآن پاک کو چومتی ماتھے سے لگاتی جزدان میں رکھ کر نیچے آئی تھی جب سامنے ماما کے پیچھے ایک اجنبی شخصیت کے کچھ شناسا چہرے کو ہلکی مسکان سجائے کھڑے دیکھا 

آپ یہاں کیسے آگئے آپ تو وہی ہیں ناں جو اس نے چھاتا لے کر خلق خدا کی خدمت کر رہے تھے حدی نے اس دن بارش ہونے کی وجہ اس پہ چھتری تانے کھڑا وہ واقعہ کو یاد کرتے ہوئے اس پہ چوٹ کر گئ 

کیا حدی تم جانتی ہو ان کو یہ دو دن پہلے بھی اپنی والدہ کے ساتھ آ ئے تھے 

جی حدی صاحبہ اور مجھے ہی آرش نوریز کہتے ہیں 

اس نے بھی رات والا بدلہ لیا 

سامنے والے روڈ کے اس پار ہی میرا گھر ہے اور میں جاگنگ کرنے نکلا تھا 

لیکن مجھے انکل سے ایک کام تھا اس لیے ادھر چلا آیا کہاں ہیں انکل نظر نہیں آ رہے بیٹھو بیٹا وہ نماز پڑھنے جاتے ہیں پھر وہی کچھ وظائف کرتے رہتے ہیں ناشتہ کے وقت آتے ہیں وہ آنے ہی والے ہوں گے ٹائم ہو گیا ہے 

لو لگتا ہے وہ آگئے ہیں 

بیل ہوئی تھی 

تم بیٹھو بیٹا ماما تم چلو کچن میں حدی وہ بیٹی کو  مزید کچھ بولنے سے منع کرتی گیٹ کھولنے چلی گئی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حدی میں پراٹھے اتار رہی ہوں قیمے والے تم ٹرے لگاؤ 

کباب بھی نکال لو اور گاجر کا اچار بھی الگ الگ رکھ لو جیم اور مکھن سلائس بھی رکھ لو 

ناشتہ کا ٹائم ہے اچھا نہیں لگتا ہم اسے ناشتے کا  نہ پوچھیں 

ماما یہ ہے کون پہلے تو کبھی نہیں دیکھا نہ اپنے اور ابو کے کوئی رشتے داروں میں ایسے لوگوں پہ بلکل بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے 

اچھا خاصا لگتا ہے اس کی والدہ بھی بہت بھلی خاتون ہیں تم ہر کسی سے بدگمان مت ہوا کرو 

جلدی سے ڈائینگ پہ  سب  کچھ لگاؤ میں گرم گرم پراٹھے اتارتی ہوں 

وہ منہ بناتی باہر نکل گئی

حدی کو اس کی حرکتوں پہ غصہ ا رہا تھا جسے وہ برتن پٹخ پٹخ کر اتار رہی تھی

اشرف غنی آرش سے ادھر ادھر کے حالات پہ بات چیت کر رہے تھے اور د ہی دل میں دعا بھی کر رہے تھے کہ وہ آج بھی مجھ سے شادی کی بات کرے کیوں کہ اپنے رشتے داروں میں اب ہزاروں سوالات اٹھتے کہ بچپن کی منگنی کیسے توڑ دی کوئی تو وجہ ہو گی وہ اس بے عزتی سے ڈر رہے تھے 

جاؤ حدی اپنے پاپا کو بلا لاؤ ماں نے اسے بڑے پیار سے کہا وہ دوپٹہ سیٹ کرتی اندر گئ تھی 

اچھا بیٹا میں زرا اپنے کمرے سے ہو کر آتا ہوں ھر ساتھ ناشتہ کرتے ہیں آپ نے بھی یقیناً ابھی ناشتہ نہیں کیا ہو گا جی جی انکل شیور وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ میں ناشتہ اتنی صبح نہیں کرتا 

میں تو جاگنگ کرنے کے بعد سو جاتا ہوں دو گھنٹے اور پھر ناشتہ کرتا ہوں 

وہ اٹھ کر واش روم چلے گئے 

پاپا ماما بلا رہی ہیں ناش 

آدھی بات اس کے منہ ہی رہ گئ تھی وہ نیچے گردن جھکائے  اندر آئی تھی تاکہ آرش کو نہ دیکھ سکے مگر آرش کو اکیلا بیٹھے دیکھ کر اس نے زبان دانتوں تلے دبائی واپس مڑی 

سنو تو یار حدی اے لڑکے خبر دار مجھے یار وار کہا تو سخت نفرت ہے مجھے 

مجھ سے آرش نے جان بوجھ کر اپنی طرف اشارہ کیا 

مگر وہ اس سے پہلے ہی چکن میں جا چکی تھی وہ اس کے پیچھے ایسے نکلا تھا 

جسے برسوں کی شناسائی ہو سامنے سے حدی کی ماما آرہی تھی آؤ آؤ بیٹا ناشتہ تیار ہے او تم بھی کھاؤ بیٹھو 

وہ آرش کو سامنے کرسی کی طرف اشارہ کرتی ہوئی کچن میں دوبارہ چلی گئیں حدی چائے لے کر ڈائیٹنگ ٹیبل پہ آئی تھی مگر اسے سامنے بیٹھے دیکھ کر اس کا موڈ خراب ہوا تھا 

وہ چائے  ابھی رکھ ہی رہی تھی کہ آرش کے پیر آگے کرنے کی وجہ سے وہ دور ہٹی تھی مگر چائے جو اس کے ہاتھ میں رکھی ٹرے میں تھی وہ ٹرے سے پھسل کر سیدھی آرش کی گود میں گری تھی اور آرش کی چیخ پورے گھر میں گونجی تھی 

ہائے میں مر گیا اور لو مجھ سے پنگے وہ ماما کے پیچھے چھپی کھڑی اسے آنکھیں دکھا رہی تھی وہ شرمندہ کیا ہوتا 

دیکھیں آنٹی آپ کی بیٹی کو میرا یہاں آنا اچھا نہیں لگا تبھی مجھے جلا دیا وہ کچن میں کھڑا اپنی شرٹ پہ گیلا کپڑا بار بار لگا رہا تھا 

نہیں نہیں بیٹا حدی بہت معصوم بچی ہے میری یہ تو اپنے دشمنوں کو بھی دکھ نہیں دیتی 

آپ تو  اسے جانتے بھی نہیں ہو جی معصوم ہے بہت وہ منہ ہی بڑبڑاتا باہر ا کر ڈائینگ پہ آ بیٹھا کیا ہوا بیٹا جی وہ چائے گر گئ تھی مجھ سے تو میں جل گیا تھا زیادہ گرم تھی چائے سوری اب ٹھیک ہوں اسے جلن کا احساس تو ہو رہا تھا مگر بچت ہو گئ تھی 

چلو ناشتہ شروع کرتے ہیں جی جی ضرور 

آرش بیٹا آپ پراٹھا لو ناں تمھیں بہت اچھا لگے گا یہ ناشتہ 

اس نے ہاف سے زیادہ پراٹھا کھایا تھا وہ واقعہ ہی اسے بہت اچھا لگا تھا 

اس نے ناشتہ ختم کرتے ہی اپنے ہاتھوں کو نیپکن سے صاف کیا اور 

اشرف غنی کا ناشتہ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا 

آرش مجھے تم سے کم از کم اس بے رحمی کی امید نہ تھی 

سمیہ رمضان نے اسے کال کی تھی 

ایم سوری موم مگر میں اسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکا مجھ سے نہیں برداشت ہوا اس کا جلا ہوا فیس اس کے ہاتھ پہ وہ آ بلے موم  مجھے کراہیت محسوس ہوتی ہے 

اس کے سامنے یہ سب کچھ کرتا تو وہ کیسے برداشت کرتی موم 

اس سے اچھا ہوا کہ میں یںی آ گیا اور مجھے معلوم  ہے  آپ اور ڈیڈ یہ سب سنبھال لیں گے  

شٹ اپ آرش شٹ اپ وہ آج پہلی بار غصے سے چیخی تھیں آرش پہ آج انہیں حقیقتاً غصہ آیا تھا 

کون سی کمی چھوڑ دی میں نے ہاں مجھے جواب دو میں نے ہر دعا میں تیرے نیک سیرت ہونے کی دعا کی 

تمھیں سورت یاسین پڑھ پڑھ کر صراط مستقیم پر گامزن ہونے کی دعا دیتی رہی پھر کیسے تم بھٹک گئے ہو 

کیسے انسانیت ختم ہو گئ ہے تمھارے اندر 

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دیں موم آپ ریسٹ کریں جزباتی نہ ہوں میں آپ کو کال کروں گا بعد میں آپ ٹھنڈے دماغ سے سوچیں گی تو میں مجھے سمجھ جائیں گی مگر ابھی آپ بس ایک ہی رخ کو دیکھ رہی ہیں 

اس نے کال ڈسکیننٹ کر دی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تم نے مجھ سے کیوں چھپایا ہانی میں تین ماہ سے  اسے پکار رہی تھی  اسنے یک بار بھی جواب نہیں دیا میں سمجھ گئی تھی کچھ غلط ضرور ہے 

مگر مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی تم مجھ سے چھپاؤ گی  

دونوں اپنے اپنے دکھ رو رہی تھیں 

ہانی کے دل میں جو کسک محبت کی رہ گئ تھی وہ بھی ختم ہو گئ تھی 

ہائے گرلز سب ٹھیک ہے ناں یہ موتی خوشی کے ہیں یا کوئی اور غم ستا رہا ہے وہ دونوں مسکرائی تھیں دکھ سے 

ہمدان کی باتوں پہ وہ کیسے جان لیتا تھا اس کے اندر باہر کا موسم 

وہ جب بھی رونے لگتی ہمدان اجاتا تھا کیا اس شخص کو پتہ چل جاتا ہے میں۔ کب روتی ہوں کب اداس ہوتی ہوں وہ ہر وقت میرے آس پاس کیوں منڈلاتا ہے کیا یہ میرا وہم ہے 

یا پھر وہ ایک ڈاکٹر ہونے کے ناتے اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہے 

کہاں کھو گئی ہیں آپ اب تو آپ بلکل ٹھیک ہیں اور ڈسچارج ہونے والی ہیں جلد ادھر سے انشاللہ 

جی تو پھر آپ بھائی یہاں کیوں آئے ہیں اچھا ہانی یہ میری ڈیوٹی ہے میں ڈاکٹر ہوں تم بھول گئ ہو کیا اور وہ کھلکھلا کر ہنس دی تھیں 

ہمدان کی خواہش پوری ہو گئ تھی 

سمیہ بہن میری بیٹی میرے پہ بوجھ نہیں ہے وہ اب آپ کے گھر کبھی نہیں آئے گی میں اس کے استقبال کی تیاریاں خود ہی کر لوں گا تو کیا وہ اب میری بیٹی نہی۔ ہے 

یہ  آپ مجھ سے بہتر جانتی ہیں آپ اب ہمارے ہاں آرش کے ساتھ تشریف لائیے گا وہ اتنا خود غرض ہو گا 

مجھے معلوم ہوتا تو میں کبھی بھی آپ کو اپنی بیٹی نہ دیتا 

حدی کے گھر آنے کے بعد وہ صدقہ خیرات کر رہے تھے 

مگر سمیہ کو رمضان کریم نے بھیجا تھا کہ اس کے صحت یاب ہونے کی خوشی کی وجہ سے وہ اس کا استقبال کرے گئے مگر اشرف غنی کا جواب سن کر وہ وہ چپ سی ہو گئ تھیں 

بھائی صاحب مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئ ہے 

شاید میری ہی پرورش میں کوئی کمی رہے گئ ہے 

میرا بیٹا ایسا بھی ہو سکتا ہے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی یہ میرے بندھے ہوئے ہاتھ ہیں مجھے معاف کر دیں 

نہیں بہین آپ کا تو کوئی قصور نہیں ہے بس مجھے معاف کر دیں میں ہی کچھ زیادہ بول گیا 

وہ اٹھ کر جانے لگیں تھیں جب ایک سائیڈ کو چھپاتی حدی اندر آئی تھی جو کب سے ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی آنٹی یہ امانت لیتی جائیں اپنے بیٹے کی 

وہ اپنی شہادت کی انگلی سے ڈائمنڈ کی وائٹ نگ والی رنگ اتار کر بولی تھی 

نہیں حدی یہ تم اپنے پاس رکھو میں دوبارہ آؤں گی اداکارہ کے ساتھ آؤں گی 

اس نے مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی وہ یہاں سے اس لیے چلا  گیا ہے 

کیوں کہ اس سے تمھاری یہ حالت نہیں دیکھی گئ اس نے مجھ سے خود کہا ہے 

تم اس کی طرف سے بدگمان نہ ہو آنٹی میں تین منتھ ہاسپٹل رہی ہوں اور وہ تین منتھ میں ایک دفعہ بھی آنا تو دور کی بات ایک کال تک نہیں کر سکا 

آپ لیں جائیں یہ رنگ مجھے اب اس کی ضرورت نہیں رہی 

بچے جان چیزوں سے بیزار ہو گئ ہوں اب میں ان کا بوجھ اور نہیں اٹھا سکتی 

سمیہ رمضان سر جھکا کر باہر نکل گئی تھیں 

کیا اولاد کی وجہ سے اتنا زلیل بھی ہونا پڑتا ہے 

وہ گاڑی میں مسلسل روتے ہوئے آرش کو کال  بھی ملا رہی تھیں 

مگر وہ کال نہیں پک کر رہا تھا اس نے کا کرنا بند کر دیا اور سیٹ کی بیک سے سر ٹکا لیا 

ہمدان بھائی مجھے حدی کے گھر جانا ہے اس کی آج سالگرہ ہے 

کیا آپ مجھے وہاں ڈراپ کر دیں گے ابھی جانا ہے 

تم نے گڑیا مجھے پہلے بتایا ہی نہیں ورنہ میں بھی اس کے لیے کوئی گفٹ لے لیتا ہم راستے میں لے لیں گے مجھے بھی ابھی لینا ہے مجھے یاد نہیں تھا وہ تو آنٹی نے کال کر کے بتایا ہے اچھا چلو پھر فٹا فٹ مجھے کام سے جانا ہے ایک اچھا میں ابھی سکارف اور پرس لے کر آتی ہوں 

اسلام وعلیکم تم نے تو چکر ہی نہیں لگایا مجھ سے بھی سارے رشتے توڑ دیے ہیں کیا نہیں ہانی اب کہیں جانے کو دل ہی نہیں کرتا کہیں چلی بھی جاؤں تو لوگ اتنی ہمدردی دکھاتے ہیں ترس کھاتے ہیں مجھ پہ اور مجھے احساس دلاتے ہیں میرا چہرہ کیا جلا ہے جہاں لوگ ماشاءاللہ کہتے نہیں تھکتے تھے وہ اب استغفر اللہ کہتے نہیں تھکتے 

سال ہو ے والا ہے مگر ایسے لگتا ہے آج بھی ہرے ہیں زخم میرے ابھی کا ہی تو واقعہ ہو جیسے 

اونہوں اونہوں ہمدان پیچے پیچھے سے آتا ہوا کھنکارا تھا 

اندر بھی آنے دو گی یا یہی سے چلتا کرو گی ویسے تم نے کب سے میری پوسٹ سنبھال لی ہے کون سی پوسٹ  بھائی سیکریٹ ہے کون سا سیکریٹ ہے آنٹی بھی آگے ہوئی تھیں 

وہ آنٹی کچھ نہیں بس مزاق کر رہا تھا 

میں بتاتی ہوں ماما میں نے فرسٹ ڈے ہانی کے گھر پہ ہمدان کو گیت کیپر کیا تھا آج میں نے دروازہ کھولا تو 

اس لیے قہقہ لگایا تھا سب نے اس کے ساتھ مل کر 

سالگرہ مبارک ہو حدی آؤ بیٹا کیک کاٹتے ہیں مجھے تھوڑی جلدی ہے میں چلتا ہوں 

ارے نہیں بیٹا تم اب کیک کھا کر جانا 

ہمدان درانی کی نظر بار بار پرپل لونگ فراک میں ہلکے سے میک اپ میں نظر لگ جانے کی حد تک کیوٹ لگ رہی تھی 

جانے کو دل تو نہیں چاہا رہا بھائی بیٹھ جائیں ناں آنٹی اتنا اصرار کر رہی ہیں 

اچھا بھائی دو دو خوبصورت گرلز مجھے روک رہی ہیں تو رک جاتا ہوں 

ہمدان کو موقع نہیں مل رہا تھا حدی کی تعریف کرنے کا سو دونوں کی ہی کر دی تھی مبادا آنٹی برا مان جائیں 

تم بہت رونق گاتے ہو بیٹا آتے جاتے رہا کرو ناں 

ہانی کو بھی لے آیا کرو حدی تو اب کہیں باہر جاتی ہی نہیں اور اسے اکیلے چھوڑ کر جانا مجھے بھی مناسب نہیں لگتا 

ماما حدی جو کچن میں تھی ماں کو آواز دینے لگی تھیں  

آنٹی مجھے بہت ضروری سمینار میں جانا ہے میں کل ڈنر آپ کے ساتھ کروں گا پرامس اور ہانی تم ڈرائیور کے ساتھ گھر آجانا اور چاہو تو رک جانا میں کال کر دوں گا پھوپھو کو بائے گائز خدا حافظ 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تم نے مجھے بہت زلیل کروایا ہے آرش سال ہو گیا ہے تم نے یہاں سے جیسے ناتا ہی توڑ لیا ہے آپ کو پتہ تو ہے سب پھر بار بار ایک ہی رٹ کیوں آرش میری مجبوری ہے کہ میں تمھیں کال کرتی ہوں تم میرے اکلوتے بیٹے ہو ورنہ میں کب کا تمھیں تمھارے حال پہ چھوڑ چکی ہوتی اتنا ہی خود کو بڑا کرو کہ تمھیں زمین آسانی سے نظر آ سکے افففف موم آخر مسلہ کیا ہے تھک گیا ہوں میں یہ لیکچرز سن سن کر آپ۔ بتائیں کیا چاہتی ہیں آپ مجھ سے 

میں تمھاری شادی کرنا چاہتی ہوں میں آ رہا ہوں اگلے ہفتے اور آپ کے لیے ایک سرپرائز ہے میرے پاس اس بوڑھی ماں پہ ترس نہیں آتا موم آپ ماں ہیں تبھی تو آپ کے پاس آرہا ہوں ڈیڈ بھی بعضد ہیں واپسی پہ خیر اب آرہا ہوں آپ پریشان نہ ہوں ایک آپ ہی تو ہیں جن کی ہر بات سن لیتا ہوں ورنہ تو میں بات ہی سننا پسند نہیں کرتا دوسری بار کسی کی اچھا اچھا   اب مسکے زرا کم لگاؤ مجھے رکھتی ہوں فون اب خدا حافظ آرش نوریز خوش ہوتا ہوا  ٹینا کی طرف بڑھ گیا اسے پاکستان جانے کی خوش خبری سنانے 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حدی سپکینگ

 آرش ؟ایک لمحے کے لیے اسے لگا تھا کہ یہ لہجہ آرش نوریز کا ہوتا تھا جب وہ اسے کال کرتا تھا وہ ہمیشہ ایسے ہی مخاطب ہوتا تھا ڈھائی سال اس کے سنگ جینے کے خواب دیکھے تھے کیسے بھول جاتی میں ان خوبصورت ترین فریبوں ہمدان درانی بات کر رہا ہوں حدی اسے برا لگا تھا مگر وہ اگلے ہی پل خود کو سنبھال چکا تھا 

جسموں کو چاک کر کے انہیں سینا اسے اچھے سے آتا تھا

پھر اپنا کیسے زخم نہ سی سکتا 

کیا کر رہی تھی تم میں آج کل کچھ بھی نہیں کرتی آپ نے آج کیسے یاد کیا مجھے میں نے اپنا ہاسپٹل کا افتتاح کی ہے 

اپنوں کے ساتھ شیئر کرنا چاہتا ہوں کل پارٹی ہے میرے نیو گھر میں آپ کو بھی انوائیٹ کرنا تھا تو کال خود کی برا تو نہیں لگا ناں تمھیں تم آؤ گی ناں ہاں میں کوشش کروں گی آنے کی ویسے مجھے کہیں آنا جانا اب اچھا نہیں لگتا آپ جانتے ہیں دوست ہیں ناں ہم تینوں حدی پتہ نہیں ہمدان درانی اب مجھے رشتوں کی سمجھ ہی نہیں رہی ایک کزن ہو کر دولت کی خاطر رشتہ توڑ گیا 

ایک خوبصورتی میں داغ دیکھ کر چلا گیا اور دوستی مجھے کبھی لڑکوں سے کرنے کا تجربہ نہیں ہے 

اچھا کل کے بعد تم مجھے بتانا کہ میں کس قابل ہوں 

اوکے خدا حافظ اوکے بائے 

وہ کال ڈسکنٹ کر گیا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ویلکم ٹو مائی ہوم حدی شکریہ 

حدی اپنا سی گرین میکسی سھنبالتی اندر آ رہی تھی جب ساری نظریں اس کی جانب اٹھی تھیں چہرے کی ایک سائیڈ ڈھانپے وہ اپنی ماما اور پاپا کے ساتھ ایسے چل رہی تھی جیسے وہ ابھی کہیں گم ہو جائیں گے اور وہ اکیلی رہ جائے گی اس بھیڑ میں 

ہمدان درانی آگے بڑھا تھا ان کے ویلکم کے لیے 

حدی نے اپنے چہرے کو ہاتھ سے محسوس کیا 

میں کتنی آسانی سے ہر رنگ میں سجتی تھی میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے یوں آپنا چہرہ چھپانا پڑے گا آؤ ناں حدی کیا سوچنے لگ گئ ہو کم آن ہم سب تمھارے ساتھ ہیں 

اپنے آپ پہ بھروسہ رکھو ہم سب ساتھ ساتھ ہیں 

وہ آگے بڑھ گیا اشرف غنی کے جاننے والے نظر تو وہ مسسز کو لے کر ادھر جا چکے تھے 

حدی اکیلی بیٹھی  تھی واہ تم یہاں چھپ کر بیٹھی ہو اور میں تمھیں ڈھونڈ رہی ہوں 

ابھی میں گم نہیں ہوئی سمجھی ہانی کب سے یہاں بیٹھی ہوں محترمہ کہاں بزی تھیں بائی دا وے 

یار میں آنٹی اور انکل کے ساتھ تھوڑی گپ شپ لگا رہی تھی ماما بھی ادھر ہی ہیں او میں ملواتی ہوں تمھیں رہنے دو ہانی میں کیا کروں گی ان سے مل پاگل ہو تم بلکل او مرے ساتھ 

وہ اسے کھنچتے ہوئے لے کر جا رہی تھی جب اس کا دوپٹہ سرکا تھا اس کا چہرہ نمایاں ہوا تھا ایک میز کے گرد بیٹھے ہمدان کے رشتے دار جو کب سے ناپسندیدگی کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے 

وجہ ہمدان درانی تھا جو کب سے حدی کے ارد گرد منڈلا رہا تھا اور یہ بات تو وہاں بہت سی ماؤں کو 

اور بہت سی دوشیزاؤں کو پسند نہیں آئی تھی 

وہ جو سجا دھجا  کر لائی تھیں۔ آپنی بیٹیوں کو ان کو تھال میں سجا کر پیش کرنے 

مگر اس لڑکی کو دیکھ کر سب کو اپنی محنت کھائی میں جاتی نظر آئی تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

یہ کیا چاند میں تو داغ ہے 

تبھی تو چہرہ ڈھک کر بیٹھی ہوئی تھی میں تو سمجھی بہن بڑی  حیا شرم والی لڑکی ہے 

مگر ایک سائیڈ سے اتنی بدصورت ہو گی اللہ معاف کرے 

اچھا ہوا میں نے ابھی کوئی بات نہیں کی تھی 

ان دونوں کے قدم رکے تھے 

حدی نے ہاتھ چھڑوایا تھا مگر ہانی نے مضبوطی سے پکڑ لیا 

اس کی زرد پڑتی رنگت دیکھ کر ہمدان ان کی طرف آیا تھا کیا ہو رہا ہے یہاں 

کچھ نہیں بیٹا ہم تو بس افسوس کر رہے تھے 

واٹ ربش اس نے ٹیبل پہ ہاتھ مارا تھا 

یہ حادثہ کیا ہم سب میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا ہم سب فرشتے ہیں کیا 

آپ کے ساتھ ہو جائے آپ کے ساتھ 

آپ کی اس بیٹی کے ساتھ اور آنٹی آپ کے بیٹے کے ساتھ ہو جائے تو اللہ نہ کرے ہمدان تم اس لڑکی کی خاطر ہمیں باتیں سنا رہا ہے بد دعا ئیں دے رہے ہو آخر کیا لگتی ہے یہ تمھاری اتنی ہمدردی کیوں دکھا رہے ہو 

وہ جو سب کی طرف اشارے کر کے ان کو خوف خدا دلا رہا تھا 

معاف کرنا مگر افسوس ہوا مجھے آپ لوگوں کی گھٹیا سوچ پہ بس بیٹا بس تم ہمیں یہاں بے عزت کیے جا رہے ہو 

چلو سب ہمیں یہاں ایک پل نہیں رکنا اب کافی لوگ جمع ہو گئے تھے آسیہ خاتون ناصر درانی بھی وہاں آ گئے تھے پوچھیں اپنے لاڈلے سے 

پارٹی کا ماحول سنجیدہ دیکھ کر ہمدان وہاں سے ہٹ گیا تھا وہ سیدھا لان کے پیچھے بنے پول کی طرف گیا تھا 

جہاں وہ دونوں پاؤں پھیلا کر بیٹھی خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہی تھی حدی رونے میں بزی تھی تو ہانی اسے چپ کروانے میں ہمدان چپ چاپ وہاں بیٹھا تھا ہانی نے ہمدان کو دیکھتے ہی بولنا چاہا رہی تھی مگر ہمدان نے اسے چپ کروا کر وہاں سے جانے کا اشارہ کیا 

حدی اس نے اسے پکارا تھا آپ یہاں اس نے گھٹنوں سے سر اٹھایا تھا 

کیوں رو رہی ہو واقعی آپ کو نہیں پتہ کیا

اب آپ بھی ہمدری کریں گے چند جملے کہیں گے 

اور چلے جائیں گے 

کوئی میرے اندر کیوں نہیں جھانکتا میری تکلیف کیوں نہیں سمجھ آتی کیوں یہ سب مجھ پہ اب ترس کھاتے ہیں 

وہ سوچوں میں گم تھی 

جب ہمدان نے ایک خوبصورت رنگ اس کی طرف بڑھائی تھی 

مجھ سے شادی کرو گی حدی 

ترس کھا رہے ہو مجھ پہ 

نہیں چاہیے مجھے تم لوگوں گی کوئی بھی ہمدردی سمجھے تم  میں کیا کھلونا ہوں جو چاہے میرے ساتھ کھیل لے 

خالہ کے لیے اکیلا چھوڑ دو مجھے 

اس نے رنگ کو ہاتھ مار کر پانی میں پھینک دیا تھا 

اور خود بھاگتی ہوئی گیٹ سے باہر نکل گئی اس نے اپنے والدین کا بھی انتظار نہیں کیا 

اور کہاں کا غصہ کہاں نکال دیا 

ہمدان اسے پیچھے سے اشرف غنی نے آواز دی تھی 

آپ یہاں ہاں بیٹا میں حدی کو ڈھونڈتا ہوا یہاں نکل آیا تھا 

میں نے تمہاری اور حدی کی ساری گفتگو سنی ہے 

تم پارٹی سے فری ہو کر کل میرے گھر آنا میں اب چلتا ہوں 

آپ لوگوں نے کھانا کھایا ہاں بیٹا تمھارے والدین کے ساتھ مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے 

اللہ تمھیں خوش رکھے 

میں چلتا ہوں 

ٹیکسی کو روکتی وہ گھر کو روانہ ہو گئ تھی 

رات کے اس وقت اکیلا سفر وہ رونے میں مسلسل مصروف تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تمھارا کیا بگاڑا تھا میں نے آرش نوریز 

اچھا ہوا مجھے تمھاری اصلیت پہلے ہی سامنے آ گئی 

تمھارے لیے خوبصورتی ہی سب کچھ ہے میرا دل میرا من میری من کی سچائی میرے جزبے کیا سب کچھ بے کار تھا 

حدی کے چہرے سے محبت کی تم نے آرش نوریز تف ہے مجھے اپنی محبت پہ افسوس ہے مجھے اپنی بے وقوفی پہ 

محبت تو تھی ہی نہیں 

محبت کی م کا بھی نہیں پتہ تمھیں اور تم دعویدار تھے محبت کے 

میڈم آپ کا گھر آ گیا ہے وہ پورے راستے سوچتی آئی تھی 

اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب وہ گھر پہنچ چکی تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

موم یہ ٹینا ہے اور میں نے اس سے شادی کر لی ہے 

اچھا کیا تم نے نے بیٹا کسی کی زندگی برباد کر کے تم نے شادی کر لی موم پلیز کچھ تو لحاظ کریں سمجھ آتی ہے اردو ٹینا کو

 وہ کھانے سے فری ہونے کے بعد ڈرائینگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے جب سمیہ رمضان نے ٹینا کے سامنے ہی کلاس  لے ڈالی 

جب تمھیں ہماری کسی خوشی کی کوئی فکر ہی نہیں ہے تو کیوں آئے ہو یہاں شادی کر لی تھی تو یہاں آنے کی بھی کیا ضرورت تھی 

 آرش میں روم میں جا رہی ہوں ایکسکوزمی  ایوری ون

میں بھی اپنے روم چلتی ہوں کہنے کو یہ میرا بیٹا ہے رمضان کریم مگر میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئ ہے 

موم آپ بیٹھیں تو سہی چھوڑو آرش تم اور کتنا اس بوڑھی ماں کو ستاؤ گے 

جانے دو آرش اپنی موم کو تم ادھر میرے پاس آ کر بیٹھو 

موم وہ چکرا کر گرنے والی تھیں جب آرش نے ماں کو سنبھالا تھا  موم آنکھیں کھولیں کیا ہو گیا ہے آپ کو 

ڈیڈ دیکھیں ناں موم کو کیا ہو گیا ہے

گاڑی نکالو تم ہاسپٹل لے چلتے ہیں وہ بھی بوکھلا گئے تھے 

ٹینا نیچے او جلدی موم اچانک بے ہوش ہو گئ ہیں واٹ 

وہ نیچے آئی تھی مگر اس سے پہلے ہی آرش نوریز اور رمضان کریم نکل گئے تھے ربش اگر مجھے ساتھ نہیں لے کر جانا تھا تو کال ہی کیوں کی دو دن سے آئے ہوئے ہیں ایک سکینڈ بھی اس بڑھیا نے سکون نہیں جینے  دیا اور آرش تو جیسے ننھا سا بچا ہو اسے اسے سمجھا رہی ہیں 

چل خیر تم تو سو جاؤ اب کوئی فائدہ نہیں اسے کال کرنے کا 

وہ عجلت میں ہاسپیٹل پہنچے تھے ایک ایک رواں اس کا اپنی ماں کے لیے دعا گو تھا   نرسسز سمیہ رمضان کو سٹریچر پہ ڈال کر ایمرجنسی روم میں لے گئ تھیں 

ڈیڈ کیا ہو گیا ہے موم کو موم ٹھیک تو ہو جائیں گی ناں اللہ سے اچھی امید رکھو بیٹا پریشان نہ ہو دعا کرو اپنی ماں کے لیے 

وہ ایک چھوٹی سی مسجد میں کھڑا تھا کیا میری دعا قبول ہو جائے گی میں حافظ ہوں میرے سینے میں اللہ کا قرآن ہے 

میں نے اسے آج تک یاد رکھا ہوا ہے میرے اللہ کو میرا کوئی اور عمل نہیں۔ تو یہ تو پسند ہو گا ناں اور اسی کے صدقے مجھے میری موم واپس مل جائیں گی 

وہ نماز کے لیے کھڑا ہوا مگر پورا جسم کانپ رہا تھا میں اتنا گنہگار ہو گیا ہوں کہ اللہ مجھے اپنے سامنے کھڑے ہونے کی صورت میں بھی ٹھیک سے نہیں کھڑا ہونے دے رہا 

وہ سجدہ میں گرا تھا نہ جانے کتنے آنسو کتنی دیر تک اس نے بہائے تھے 

میں نے اپنی زات کے لیے اپنی ماں کو دکھ دیے ہیں مجھے معاف کر دے اللہ وہ پھر گڑاگڑایا کئی مرتبہ وہ سجدے میں جاتا پھر واپس اٹھتا پھر جاتا پھر اٹھتا 

دل کو سکون ملا تھا اس نے اپنے آنسو سے تر چہرے کو اٹھایا تھا سامنے مسجد کے امام صاحب کھڑے تھے 

اللہ کو ندامت کے انسو بہت پسند ہیں بیٹا ان انسووں کو اپنے چہرے پہ مل لو یہ قیامت کے دن تمھاری سفارش کریں گے 

شکریہ امام صاحب میں اب چلتا ہوں وہ ہاسپٹل بھاگا تھا 

ڈیڈ موم کیسی ہیں 

وہ ٹھیک ہیں خطرے سے باہر ہیں انھیں انجائنا کا اٹیک ہوا ہے 

آرش تم نے اپنی ماں کے ساتھ ساتھ مجھے بھی بہت مایوس کیا ہے ہماری۔ بھی کچھ خوشیاں وابستہ ہیں تم سے تمہاری خوشی ے لیے ہم شرمندہ ہوئے آشرف غنی سے  بھی وہ بہت اچھے لوگوں کو تم نے تکلیف دی بہت منتھ تو تمھاری ماں اسے بھول ہی نہیں پا رہی تھیں 

اور ہانی بھی خواہش تھی ان کی مگر اس پہ بھی تمھاری خوشی کو قربان کر دیا پہلے 

تمہاری شادی کو

لے کر وہ بہت ایکسائٹیٹڈ تھیں وہ اکیلی رہ رہ کر اکتا چکی ہیں بیٹا ہم دونوں کی فیملیز میں ہم دونوں اکلوتے تھے 

اور اب تم بھی اکلوتے ہو وہ تمھاری شادی جلدی کرنا چاہتی تھیں تاکہ تمھارے بچوں کو کھلا سکے 

اسے دکھ تو ہو گا ناں بیٹا تم نے اتنی بڑی خوشی چھین لی ان سے اکیلے شادی کر لی اور موم ڈیڈ کو اس خوشی میں شریک کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا 

آپ کی پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے 

جی شکریہ وہ کب سے باتیں کر رہے تھے جب ڈاکٹر نے انہیں 

سمیہ رمضان کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی تھی 

اللہ تیرا شکر ہے تو نے میری دعا سن لی وہ تشکر سے آگے بڑھا تھا

⁦❤️⁩⁦⁦❤️⁩

ایک ہفتے کے بعد سمیہ رمضان چلنے کے قابل ہوئیں تھیں 

اس ایک ہفتے میں آرش نوریز کو اور کسی کا ہوش نہیں تھا وہ ماں کے ساتھ چھوٹے سے بچے کی طرح چپکا ہوا تھا 

مگر ادھر ٹینا تلملا کر رہ گئ تھی 

بھئی بیگم اب تو معاف کر دو آرش کو اتنا تو خیال اس نے خود کا نہیں رکھا جتنا وہ تمھارا رکھ رہا ہے 

اچھا تو یہ بھی احسان ہے اس کا ماں کی فکر نہیں ہے اسے 

ڈیڈ آپ موم کو پھر کیوں چھیڑ رہے ہیں میری ایک ہی تو ماں ہیں اچھا بیٹا میری بھی ایک ہی بیوی ہے اور وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے 

میں اسے اب ایک شرط پہ معاف کروں گی میں اس کا ولیمہ دھوم دھام سے کروں گی 

اور ایک اور شرط ہے میری وہ کیا موم آپ جو بولیں گی مجھے قبول ہے تمھیں یہی اب میرے پاس رہنا ہو گا میں تمھیں اب پردیس نہیں جانے دوں گی 

وہ ہنسا تھا اوکے موم ڈن میں اب یہی آپ کے پاس رہوں گا 

وعدہ کرو وعدہ موم وہ ان کے گلے میں بانہیں ڈال کر جھولنے لگا 

ایسا سکون کبھی کئیں نہیں ملا موم جو آج آپ کی گود میں مل رہا ہے 

چل ہٹ مکھن نہیں لگاؤ 

آنٹی آنٹی ہانی نے کچن کے پاس کھڑے ہو کر آواز لگائی 

ہانی کی آواز ہے ناں جی موم اسے اندر ہی بلا لو جی ٹھیک ہے 

ہانی موم اندر ہیں آجاؤ 

اے لڑکی رکو ٹینا کچن سے نکل کر باہر آئی تھی تم کون ہو اور یہ کیا ہے ہاتھ میں 

ٹینا یہ میری میں نے تم سے نہیں پوچھا آرش اس لڑکی سے پوچھا ہے یہ کیا طریقہ ہے بات کرنے کا آپ میرے لیے پریشان نہ ہوں مس ٹینا ہانی کہہ کر رکی نہیں تھی کمرے میں چلی گئ 

اسلام وعلیکم انکل آنٹی آپ بھی آج کل گھر ہی نظر آ رہے ہیں آنٹی دیکھیں سب کو کتنی فکر ہے آپ کی ایک آپ ہیں کہ بستر ہی نہیں چھوڑ رہی ہاہاہاہاہاہا میں ٹھیک ہوں اب بلکل الحمدللہ تم آج پھر کیا لائی ہو میں آپ کے مٹن سوپ لائی ہوں وہ بھی چٹ پٹا اچھا شکریہ میری گڑیا کو میرا کتنا خیال ہے 

بس کر دو ٹینا وہ بچپن سے یہی پلی بڑھی ہے اور یہ ہانی ہے حدی نہیں وہ ہمارے گھر نہیں آتی سمجھی تم آجاؤ تم بھی اندر سب سے گھلواں ملو گی نہیں تو یہاں ایڈجسٹ کیسے کر پاؤ گی 

ایڈجسٹ کیا کہنا چاہتے رہے ہو ہم اسی ہفتے واپس انگلینڈ جا رہے ہیں 

اس ٹاپک پہ رات کو بات ہو گی ابھی میں باہر جا رہا ہوں 

تم بھی ا رہی ہو تو آ جاؤ کافی دن سے گھر میں بند ہو  

تھنک گود تمھیں میرا بھی خیال آیا 

تمھارا کچھ نہیں ہو سکتا جلدی آجاؤ وہ خود کو ہشاش بشاش کرتا باہر نکل گیا

مگر ایک جنگ چھڑنے والی ہے 

نیکسٹ ایپیسوڈ دلچسپ ہونے والی ہے 

ڈاکٹر صاحبہ میں یہ بچہ ابھی نہیں چاہتی آپ پلیز مجھے کچھ ٹیبلیٹس دے دیں کیا بات کر رہی ہیں آپ میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتی اور آپ اپنے بچے کو کیوں ختم کرنا چاہتی ہیں میری شادی کو ابھی چھ منتھ ہوئے ہیں مجھے ابھی اس جھنجٹ میں نہیں پڑھنا 

اے لڑکی تم ایک مسلم لڑکی ہو 

اور اللہ کو وہ عورت پسند ہے جو زیادہ بچے پیدا کرتی ہے 

اور تمھارا تو پہلا بچہ ہے 

اس کا احساس تو پہلے ماہ میں ہی شروع ہو جاتا ہے 

لیکن آج کل کی نسل کو ناجانے کیا ہو گیا ہے 

اول تو پانچ سال سے پہلے اولاد ہی نہیں چاہیے 

اور اگر مجبوراً کر ہی لیں تو ان کو فیڈ آپ نہیں کروائیں گی 

ہم بھی اسی سوسائٹی سے تعلق رکھتے ہیں 

میں نے ایسی بچیوں کے گھر اجڑتے دیکھیں ہیں جن کی اولاد نہیں ہوتی 

اور ایسی عورتوں کے گھر اجڑتے اجڑتے آباد دیکھیے ہیں  جن کی اولاد ہو گئ اچانک اللہ نے ان کے سسرال کا دل پھیر دیا 

اللہ کا شکر ادا کرو اور جاؤ توبہ استغفار کرو  ٹینا غصے سے پیر  پٹختی باہر نکل آئی تھی 

کیا ہوا جان آرش چلو یہاں سے آپ ایکسکوزمی مس اینڈ مسٹر آرش نوریز اٹھنے لگا تھا جب ڈاکٹر جوریہ محسن نے انہیں اشارے سے بٹھایا 

آپ کی مسز ہیں یہ جی یہ میری وائف ہیں تو آپ کو مبارک ہو آپ کی وائف ماں بننے والی ہیں 

اوہ رئیلی ٹینا نے غصے سے ڈاکٹر کو دیکھا 

آپ کا ماشاءاللہ بہت خوب صورت کپل ہے آپ کی اولاد بھی آپ کی طرح خوبصورت ہو گی انشاللہ 

آپ ان کا اب بہت زیادہ خیال رکھیے گا جوسسز کا یوز 

زیادہ کریں اور ملک کا بھی اگر آپ کو میڈیسن لینی ہے تو میں ریکمینڈ کر دیتی ہوں مگر اسے آفٹر فور منتھ سٹارٹ کرنا ہوگا 

میں اس ڈاکٹر سے جتنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہی ہوں یہ تو کچھ زیادہ ہی فری ہو رہی ہیں 

مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا 

نہیں ڈاکص صاحبہ جب ابھی لینی ہی نہیں ہیں تو بعد میں ہی لے لیں گے بہت شکریہ آپ کا میرا دل خراب سا ہو رہا ہے میڈیسن کی سمیل سے تم جلدی چلو آرش 

ہاں ہاں چلو ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحبہ خدا حافظ 

آپ کو ایک خوش خبری سنانی تھی آنٹی آپ دادی بننے والی ہیں 

ان کے فیملی ٹرمز ہونے کی وجہ سے اس نے سمیہ رمضان کو فون کر کے سنا دیا تھا اور ان سب باتوں کا مقصد ٹینا کو اس اقدام سے روکنا بھی تھا 

میں آج بہت خوش ہوں ٹینا ادھر اپنا ہاتھ دو 

مجھے جی بھر کر چومنے دو اسے 

مت چھڑوانا یہ ہاتھ آج مجھ سے 

آر یو کریزی آرش تم نے مجھ سے پوچھا ہے میں کیا چاہتی ہوں 

میری کیا خوشی ہے ہم مے کب پلان کیا یہ بے بی واٹ ربش ٹینا تمھیں ہو کیا گیا ہے 

اولاد کی خوشی کا کو نہیں ہوتی باپ سے زیادہ تو ماں کو ہوتی 

اوہ شٹ اپ آرش نوریز تم بھی ایک ٹیپیکل مرد نکلو گے میں نے سوچا بھی نہیں تھا 

مجھے دس سال تک اولاد نہیں چاہیے سمجھے تم ابھی میری اپنی لائف سیٹل نہیں ہے تو میں یہ کیسے گوارہ کر لوں کیا کہنا چاہتی ہو تم ہاں مجھے ابھی یہ اولاد چاہیے ہے 

تم مجھے کچھ بھی سمجھو 

اور سوچنا بھی مت کچھ بھی الٹا سیدھا 

میں اگر محبت  میں  تمھاری ہر ضد مان سکتا ہوں تو اپنی خواہش منوا بھی سکتا ہوں میں پاکستانی مرد ہوں اسے ٹیپیکل مرد نہیں کہیتے بلکلہ اس شریعت کے مطابق چلنا کہتے ہیں  تم نے مجھے اب تک سمجھ ہی لیا ہو گا 

میں جتنا بھی آزاد خیال کیوں نہ ہو جاؤں 

میں اسلام کے دائرے سے نکل کر کچھ نہیں کرتا 

تمھیں یاد ہو گی وہ کلب والی رات 

تم نے مجھے ڈرنک کروائی تھی 

مگر میں ڈرنک میں بھی ہوش میں تھا 

تمھیں اپنے قریب ترین پا کر بھی میں بہکا نہیں تھا تمھیں چھوا تک نہیں تھا 

اس سے دوسرے دن ہی تم سے نکاح کیا تھا 

اور پورے حقوق کے ساتھ تمھیں چھوا ہے 

اور یہ میرا بچہ ہے 

ایک پاکستانی کا بچہ ایک مسلم کو زیب نہیں دیتا کسی مسلمان کا خون کرے 

ایک قتل پوری انسانیت کا قتل ہے 

پھر ٹینا یہ تو اپنی اولاد ہے 

آرش نے ٹینا کی بات بھی پوری نہیں ہونے دی تھی 

جو وہ اس بچے کو ختم کرنے کی کر رہی تھی 

اب کچھ کر سکتا ہوں تو اپنے بچے کے لیے دنیا الٹ سکتا ہوں 

کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم پاکستانی عورتوں کو ہوں ڈرا کر دھمکا کر  چپ کروا سکتے ہو 

بلکہ یہی وجہ ہے تم لوگ اپنی عورتوں سے دس دس  بچے 

تو پیدا کرواتے ہو مگر انہیں کیسے پالنا ہے یہ کبھی نہیں سوچتے 

میں ٹینا ہوں آرش میری مرضی کے بغیر تم مجھے اب چھو بھی نہیں سکتے 

میں دیکھتی ہوں پھر تم میرا کیا  بگاڑتے  ہو 

پورا راستہ لڑتے جھگڑتے کٹ گیا تھا 

اور سنو تمھارا دماغ درست بھی کر دوں گا اگر تم نے اس بچے کو کوئی نقصان پہنچائے کا سوچا بھی تو سمجھی تم اس نے اس کے ہاتھ کو جھٹک دیا 

اور سنو اب میری بات یہاں جو بھی تماشا کیاہے میرے گھر والوں کے سامنے مت کرنا ورنہ میں سب بھول جاؤں گا 

تم مجھے نہیں سمجھاؤ گو ٹو ہیل 

گیٹ بیل دینے سے پہلے ہی کھل گیا تھا بہت مبارک ہو بیٹا موم ٹینا کے گلے لگتی ہوئی مبارک بعد دینے لگی 

اور پھولوں کے ہار پہناتے ہوئے بہت گلنار ہو رہی تھیں 

موم کیا بات ہے آپ لوگ کا بات کی مبارک باد دے رہے ہو 

ڈیڈ آپکی بتا دیں تم کیا سمجھے برخوردار تم نہیں بتاؤ گے تو کیا مجھے پتہ نہیں چلے گا 

لو تم چم چم کھاؤ 

ڈیڈ کا بات کی گدھے تم باپ جو بننے والے ہو 

لو یہاں بھی ایک نیا ڈرامہ شروع ہو چکا ہے 

اکسکیسوزمی ایوری ون 

ٹینا ہار اتارتی پھینکتی یہ جا وہ جا 

آرش کو فرسٹ ٹائم اپنی پسند پہ افسوس ہوا تھا

وہ والدین کے سامنے اتنا شرمندہ ہوا کہ دو بول بھی نہ بول سکا 

محبت کی سودا بازی کرنے والا اپنی ہی پسند پہ شرمندگی محسوس کر رہا تھا 

اپنی مرضی سے سب کو چلانے والا آج خود کو انتہا کا بے بس محسوس کر رہا تھا 

وہ شرما گئ ہو گی بیٹا اور اسے پتہ بھی تو نہیں ہے 

کسی بھی اونچ نیچ کا سمجھ جائے گی آہستہ آہستہ 

تم چلو کھانا لگواتی ہوں کھا لو اور اسے بھی کھلاؤ 

اس کا خیال رکھنا اب 

جی موم میں پوری کوشش کروں گا 

وہ ماں اور باپ کے گلے میں بانہیں حائل کرتا اندر بڑھ گیا 

ہانی سامنے ٹیرس پہ کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی 

اپنی آنکھوں سے دو آنسوؤں کو صاف کرتی وہ وہاں سے ہٹ گئ 

⁦❤️⁩⁦❤️

میں غیر محرم کی محبت میں گرفتار  کیسے ہو سکتی ہوں 

میرا اس کا رشتہ ہی کیا ہے 

میں نے دعویٰ نہیں کیا تھا مگر اس کی محبت میں گرفتار بھی کیوں رہوں ایسے شخص کو مجھے اپنی آنکھوں سے 

نوچ پھینکنا چاہیے 

اپنے دل سے مار کر دفنا دینا چاہیے 

اس کی یادوں کو آگ لگا دینی چاہیئے جو خوشی خوشی اس جلے ہوئے چہرے کے ساتھ جو  اپنا رہا ہے اسے اپنا لینا چاہیے 

میرے والدین کی آنکھوں مٹ اداسی ٹھہر چکی ہے 

مجھے اس امید کی جوت کو بجھنے نہیں دینا چاہئے 

آرش نوریز آگے بڑھ 

گیا ہے تو حدی تمھیں بھی آگے بڑھ جانا چاہیے 

محبت نہ سہی مجھے ہمدان سے مگر دل سے دعا تو نکلتی ہے 

ہر پل میرا ساتھ دیا ہے اس نے 

مجھے اندھیروں سے نکالنا والا ہے 

ڈیڑھ سال بعد اس نے مجھ سے اسی لیے اپنے دل کا حال بیان کیا ہے تاکہ میں اسے کوئی ہمدردی یا ترس نہ سمجھوں 

اس نے جب سے ہانی سے سنا تھا کہ آرش شادی کر کے آیا ہے اس کے دل سے آخری انتظار کی چنگاری بھی بجھ گئ تھی اس کو اس ٹینا کے ساتھ خوش دیکھ کر اس کے اندر سے محبت بھی مر گئے تھی وہ آئینے میں تیار ہوتی خود کو سمجھا رہی تھی 

اپنے باپ کے ڈھلکے  ہوئے کندھوں کو اسے مزید بوجھ ڈال کر جھکانے نہیں چاہیے 

وہ پہلے جیسی لاپرواہ حدیبیہ اشرف غنی بن  کر نیچے اتری تھی 

سامنے ہمدان اس کی ماں اور باپ بیٹھے تھے وہ اسے دیکھ کر کھڑا ہوا تھا حدی کا شرم سے سر جھک گیا تھا 

اسے سمجھ ہی نہیں آئی تھی کہ وہ بیٹھے کہاں 

آؤ حدی ادھر میرے پاس آکر بیھٹو 

چلیں بھئ اب رسم شروع کرتے ہیں 

ماما پاپا اور انکل میں پانچ منٹ حدی سے بات کر ا۔ ایرا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو 

ہاں بیٹا ضرور وہ باہر لان میں چلے گئے تھے 

یہ پیکنگ کس لیے کر رہی ہو تم کہاں جا رہی ہو 

میں واپس کینیڈا جا رہی ہوں 

ٹینا شاید تم نے سنا نہیں تھا کہ میں نے کیا کہا تھا 

میں بات دہراتا نہیں ہوں مگر تم کیوں کہ بیوی ہو میری اس لیے ایک بار دہرا دیتا ہوں 

میری ماں میرے ڈیڈ اکیلے ہو گئے ہیں یہاں میں اب یہی رہوں گا ہمیشہ اور جہاں میں رہوں گا وہاں میرے بیوی بچے بھی رہیں گے 

لیکن میں آپ سے کوئی ایگریمنٹ سائین نہیں کیا تھا اکہ آپ جہاں رہیں گے میں وہاں ہی رہوں  گی اور پاکستان تو بلکل نہیں میرا یہاں کوئی آنا نہیں رہتا میں اکیلی یہاں کیسے رہ سکتی ہوں اور تم اتنے خود غرض کیسے ہو سکتے ہو 

مجھے جانے دو میری آج فلائٹ ہے شام کی ہم بعد میں۔ ڈیسائیڈ کر لیں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے 

تم کہیں نہیں جا رہی ہو سمجھی اس نے ٹینا کی کلائی پکڑ کر دانت میچے تھے اس نے 

یہ ہونے  والا بچہ یہی پیدا ہو گا اس نے اس کے ٹمی کی طرف اشارہ کیا 

اور آج کے بعد مت کرنا یہ بے وقوفی مت اتنا آزماؤ اولاد جانور کی ہو یا انسان کی اولاد ہر کسی کو چاہیے ہوتی ہے 

تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے 

آرش نوریز میں یہاں بھی بہت کچھ کر سکتی ہوں مجھے کمزور مت سمجھو عورت ہوں تو کیا تم دبا لو گے تم میں پولیس کو کال کر دوں گی 

اور حبس بے جا کا کیس کر دوں گی 

عورت ہو تو عورت کے ہی کام کرو یہاں کنیڈا جیسا اندھا قانون نہیں ہے 

یہاں آسلام کا سکہ چلتا ہے یہاں بچے کو مارنے کی اجازت قانون بھی نہیں دیتا اور میاں بیوی کے درمیان خواہ مخواہ پولیس بھی نہیں آتی آرش اسے کندے سے پکڑتا بیڈ پہ بیٹھتا باہر نکل گیا 

مگر اس سے پہلے اس نے دراز سے کیز اٹھا کر باہر سے لاک کر کے نیچے چلا گیا 

میں یہ کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں 

میں سمجھتا تھا 

ٹینا بہت سمجھ دار 

میچور لڑکی ہے 

ہم آہنگ ہے میری 

قدم سے قدم ملا کر چلے گی مگر اس میں تو انسانیت ہی نہیں ہے

میں نے اپنے ماں باپ دونوں کو تنہا کر دیا 

اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگتا رہا یہ کبھی جان ہی نہ پایا کہ رشتوں سے سب کچھ ہوتا ہے سکون روپے پیسے نہیں دیتے 

شفقت کرنے والے ماں باپ ہوتے ہیں بہن تو کوئی تھی نہیں شاید اس لیے بھی میں کسی لڑکی کی عزت کو نہیں سمجھ سکا 

یا پھر حدی سے محبت کر کے اسے خواب دکھا کر اس کی آنکھوں سے نوچ لیے میں نے خواب وہ مجھے اب بد دعا دیتے ہیں 

مجھے حدی سے ہانی سے معافی مانگنی چاہیے 

ورنہ یہ احساس ندامت مجھے رفتہ رفتہ ڈستا رہے گا 

حدی کو یوں تن تنہا چھوڑ دینا مجھ میں کہاں کی انسانیت تھی 

آج بھی تم اپنی مرضی سے ٹینا کو نہیں روک سکتے مگر وہ کنیڈا جا کر اپنی مانی کرے گی 

آرش ٹیرس پہ کھڑا گھنٹہ بھر سے اوپر  مسلسل سوچنے میں مصروف تھا جب سامنے کھڑی ہانی پہ اس کی نظر پڑی تھی ہائے ہانی کیسی ہو میں ٹھیک ہوں اور وہ کمرے میں مڑ گئ تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تم مجھ سے شادی کے لیے تیار ہو یا پھر زبردستی راضی ہوئی ہو  کیا ہے بھئ ڈاکٹر ہو زمانہ شناس ہو گئے مگر آپ تو رتی بھر  بھی کچھ نہیں جانتے اچھا چلو شادی کے بعد بتانا میں کیا ہوں 

سنو وہ پلٹی تھی جب ہمدان نے اسے پکارا تھا 

آئی لو یو ٹو مچ حدی 

اور اس کا جواب سنے بغیر اندر بڑھ گیا 

مبارک بعد ک شور اٹھا تھا سب بہت خوش ہیں مگر حدی کے دل میں تو جیسے خزاں کے موسم ٹھہر گئے تھے

مگر کوئی بات نہیں میرے والدین خوش ہیں مجھے اس سے بڑھ کر اور کچھ نہیں چاہیے ہے 

 ایک ہفتے کے بعد ہم اپنی بیٹی کو لے جائیں گے جی جی آپ کی اب امانت ہے حدی 

اچھا اب اجازت دیں ہم چلتے ہیں بہت تیاریاں کرنی ہیں 

میں بہت خوش ہوں تمہارے لیے حدی ہانی میری کوئی بہن نہیں ہے تم نے سب کچھ کروانا ہے مرے ساتھ مل کر 

میں ہوں ناں تم فکر ہی مت کرو وہ شاپنگ سینٹر میں شاپنگ کر رہی تھیں جب ان دونوں کو کسی نے پکارا تھا 

حدی کے پیر وہی جم گئے تھے ہانی اس شخص کو کہہ دو آئیندہ میرا نام اپنے زبان پہ کبھی نہ لے میں نہیں جانتی اسے 

تم چلو حدی یہاں سے ہانی اسے کھینچتی ہوئی لے گئ 

اس نے خود کو بے بس پایا تھا 

آرش تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوئی تھی 

حدی غائب دماغی سے گھر پہنچی تھی 

ایک بار پھر بکھر گئ ہوں میں یا خدا مجھے ہمت دے مجھے حوصلہ دے میں اب کسی قسم کی تکلیف نہیں دینا چاہتی اپنے بوڑھے والدین کو میری وجہ سے اب انہیں اور کسی امتحان میں مت ڈالنا 

دعاوں سے تقدیر بدلنے والے مری بھی بدل دے 

یا اللہ اب سب صحیح ہو 

ہر بار میری شادی ٹوٹ جاتی ہے یا اللہ اب ایسا نہ کرنا کبھی 

نہیں وہ گڑ گڑا کر اللہ سے دعائیں مانگ رہی تھی 

نیا امتحان پھر سے شروع ہونے والا تھا 

اب پتہ نہیں اور کتنے امتحان باقی تھے اس کی لائف میں 

وہ سوچتے سوچتے روتے روتے سو گئ تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اس کے حلق میں جیسے کانٹے اگ آئے تھے 

اسے بے حد پیاس لگی تھی کہاں جا رہے ہو تم آرش اس وقت مجھے پانی چاہیے پانی نہیں ہے جگ خالی ہے روم فریج سے لے لو مگر باہر اس وقت 

میر آدم گھٹ رہا ہے میں آتا ہوں باہر سے ٹہل کر بھی تم آ رہی ہو تو آ جاؤ لان میں چلتے ہیں نہیں مجھے بہت نیند آ رہی ہے میں سونے لگی ہوں تم جاؤ 

وہ سر تک بلینکیٹ اوڑھ کر دوبارہ سو گئ 

فجر کی اذان ہو رہی تھی مگر آرش نوریز کی گبھراہٹ بڑھتی جا رہی تھی 

مجھے کیا ہو رہا ہے میں اس قدر بے بس کیوں ہو رہا ہوں 

میں حدی سے محبت نہیں کرتا تھا مجھے بس اس کے حسن سے مغرب تھی وہ اب نہیں رہا 

تو محبت بھی کیسی مجھے محبت ہوتی تو

مجھے اس سے کراہیت محسوس کیوں ہوتی میں دو سال اس کے بغیر نہ رہ لیتا نہیں مجھے نہیں ہے محبت مگر اس کے اندر کوئی چیخ کر کہہ رہا تھا تمھیں اس سے محبت ہے 

مجھے بس احساس ندامت ہے میں اس سے انکل آ نٹی سے معافی مانگ لوں گا سب ٹھیک ہو جائے گا 

وہ سیدھا ان کے گھر پہنچا تھا 

تم یہاں کیا کرنے آئے ہو اشرف غنی نے اسے دروازے پہ ہی دھر لیا تھا 

آپ لوگوں سے معافی مانگنے آیا ہوں 

ہم نے تمھیں معاف کیا مگر آئیندہ کبھی ہمارے سامنے مت آنا تمھاری وجہ سے وہ اس حال کو پہنچی 

جیسے ایک انڈہ تک نہیں ابالنا آتا تھا وہ تمھارے لیے تمھاری پسند کے کھانے بناتی رہیتی تھی 

اس دن بھی وہ تمھارے لیے ہی سب بنا رہی تھی ایک ایک چیز اپنے ہاتھ سے 

مگر تم نے اسے دیکھتے ہی منہ پھیر لیا بلکہ بھاگ نکلے 

جاؤ آرش جاؤ میری بیٹی کی سسکیاں آج تک بھول نہیں پائے ہم لوگ وہ سو رہی ہے 

اور ہاں ایک اور بات 

اس کی جمع کو بارات ہے خبردار جو تم آس پاس بھی بھٹکے 

اچھا تو آپ کی بیٹی مان گئ ہے 

وہ تو مجھ سے محبت کرتی تھی 

شٹ اپ آرش 

جاؤ تم اب یہاں سے 

میں حدی سے ملے بغیر نہیں جاؤں گا 

حدی حدی وہ جو ابھی تلاوت سے فری ہوئی تھی مانوس آواز 

سن کر باہر نکلی تھی سامنے آرش نوریز کو دیکھ کر اس کا تنفس بگڑا تھا 

تم یہاں کیا کرنے آئے ہو 

تم نکلو یہاں سے آرش ورنہ میں پولیس کو بلوا لوں گا 

انکل پلیز مجھے حدی سے بات کرنے دیں 

مجھے تم سے کچھ کہنا ہے مجھے تم سے اب کچھ نہیں سننا 

سمجھے تم اور چلے جاؤ آرش مزید مجھے اور میرے والدین کو پریشان مت کرو 

اس سے پہلے کہ میں اپنا ضبط کھو بیٹھوں چلے جاؤ یہاں سے 

میری بات سنو حدی وہ اس پہ چیخا تھا 

تم کس سے شادی کر رہی ہو 

تم صرف میری ہو اور کسی کا ہونے نہیں دوں گا میں تمھیں وہ اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا 

حدی کی شادی کا سن کر اس کا مزید برا حال ہو گیا تھا 

شٹ اپ آرش میں تمھاری زر خرید غلام نہیں ہوں 

میں کوئی تماشا نہیں ہوں کوئی گڑیا نہیں ہوں 

مجھے کمزور مت سمجھنا اب 

تھو ہے تم پہ تمھاری گھٹیا محبت پہ اس نے اس پہ تھوک دیا 

وہ دو سال کا غبار آج باہر ابلنے کو بے تاب تھا 

آخر کب تک وہ گھٹ گھٹ کر مرتی رہتی 

اپنی بکواس بند کرو اور ایک دن دیتا ہوں ایک دن کے بعد آرش نوریز تمھیں اپنا بنا کر نہ لے گیا تو 

تھوک دینا اس کے منہ پہ تمھارے منہ سے محبت کے گول جڑتے دیکھے ہیں یہ زہر دے کر تم نے مجھے ضد میں ڈال دیا ہے دیکھ لوں گا تمھارے اس بے غیرت کو بھی 

اشرف غنی نے پولیس کو کال کر دی تھی مگر اپنی پولیس کب موقع پہ پہنچی ہے جو آج پہنچ جاتی 

وہ وارن کرتا باہر نکل گیا تھا 

اشرف غنی ڈھے سے گئے تھے 

وہ حدی کو دھمکی لگا کر سیدھا ہمدان درانی کے ہاسپیٹل پہنچا تھا 

آپ یہاں سنا ہے آپ حدی سے شادی کر رہے ہیں 

جی سہی سنا ہے 

آپ جانتے ہیں وہ میری فیانسی تھی 

تھی ناں ہے تو نہیں اور آپ کہنا کیا چاہتے ہیں 

کہ ا یہ چاہتا ہوں کہ اسے چھوڑ دو 

ایک منٹ حدی کی کال آ رہی تھی اس نے کال کنیکٹیکٹ کر کے چھوڑ دی 

اچھا تو آپ میرے پاس آئے ہیں کہ میں حدی سے شادی نہ کروں کیوں وجہ جان سکتا ہوں محبت کرتا ہوں میں اس سے حدی نے دانت پیسے تھے جو وہ دوسری طرف کال لائن پہ آرش کی آواز سن کر خاموش ہو گئ تھی 

تم ہوش میں ہو آرش نوریز وہ آپ سے تم پہ آیا تھا 

بات ہی اس  نے اتنی گھٹیا کی تھی 

کوئی کیسے ایسے کرتا ہے کسی کے ساتھ انسان ہو تم یا جانور وہ لڑکی جب موت اور زندگی کے درمیان لٹک رہی تھی تم چھوڑ کر  بھاگ گئے تھے وہ وقت بھول گئے تم وہ نازک سی لڑکی جینا ہی نہیں چاہتی تھی اسے زندگی سے ہی کوفت ہونے لگی تھی 

وہ پل پل مر رہی تھی تب تمھیں اس کے ساتھ ہونا چاہیے تھا اسی ہفتے تمھاری شادی تھی سب تیاریاں مکمل تھیں 

یہ حادثہ تمھارے ساتھ بھی تو پیش آ سکتا تھا 

اگر ایسا ہوتا تم معذور بھی ہو جاتے تو وہ لڑکی تم سے شادی کرتی آرش کیا تم بھول گئے اور اب کس بنا پہ شادی کرنا چاہتے ہو اس سے کیا تم نے حدی سے پوچھا ہے 

تم اس فلسفے کو رہنے دو ہمدان میں تمھیں منہ مانگی قیمت دوں گا اسے چھوڑنے کیلئے شٹ اپ آرش ہر کوئی تیری طرح کمینہ نہیں ہوتا گریبان چھوڑو میرا آرش یہ میرا آفس ہے یہاں تماشا مت کرو 

میری بات سنو 

مجھے کچھ نہیں چاہیے جاؤ تم حدیبیہ کے پاس وہ اگر تمھارے ساتھ خوشی سے قبول کرتی ہے تو میں اس کی خوشی میں خوش ہوں 

اور سنو محبت تم نے نہیں کی اس نے کی تھی

تم محبت کرتے تو آج اس کی خوشی میں خوش ہو جاتے 

محبت تو خوشی دیتی ہے محبوب کو تم اسے کیا دے سکے 

تم بکواس بند کرو میں دیکھ لوں گا تم سب کو سمجھے تم 

وہ جیز اٹھاتا تیزی سے باہر نکلا تھا 

حدی نے کال ڈسکنٹ کر دی تھی 

اس کے دل میں ہمدان کے لیے عزت ضرور بڑھ گئی تھی

اور محبت کی پہلی منزل عزت ہی ہوتی ہے 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

آرش ریش ڈرائیونگ کرتا گھر پہنچا تھا 

مگر اس کے لیے ایک  بری خبر منتظر تھی 

ٹینا نے میڈیکل سے ٹیبلیٹ لے کر یوز کر لیں تھیں اس کی حالت بہت خراب تھی 

سمیہ رمضان نے اسے کال کر کے گھر جلدی آنے کو کہا تھا 

وہ ہاسپٹل لے کر بھاگا تھا ہمدان کا کلینک ہی اسے سب سے قریب ترین لگا تھا 

ہمدان کلینک سے نکل رہا تھا 

مگر وہ ڈاکٹر تھا اسے اپنا فرض ادا کرنا تھا 

ڈاکٹر حمنہ آپ دیکھیں ان پیشنٹ کو 

ڈاکٹر ہمدان ان کا ڈی این سی مسٹ ہو گا 

آپ تیاری کرو 

افسوس سے کہنا پڑھ رہا ہے آرش تمھارا بچہ مس کیری ہو گیا ہے 

لیکن ٹینا اب ٹھیک ہے مل لو جا کر تم 

وہ تیزی سے اندر بڑھا تھا 

مار دیا میرا بچہ ڈائین تم نے وہ اس پہ چلایا تھا سر پلیز یہ ہاسپٹل ہے شٹ اپ 

وہ آگے بڑھا اور اس کے ڈرپس لگی ہوئی کھینچ لیں وہ درد سے کراہ اٹھی تھی یہ کیا کر رہے ہیں آپ ڈاکٹر ہمدان ٹینا کے ہسبینڈ کو دیکھیں آپ آکر آرش نکلو تم باہر یہ ہو جاتا ہے اس میں ٹینا کا کیا قصور ہے وہ بھی تو ایک ماں ہے 

یہ ماں نہیں ڈائین ہے کھا گئ اپنے ہی بچے کو 

نرس ڈرپ لگاؤ جلدی پیشنٹ کی حالت سہی نہیں ہے وہ

تکلیف میں تھی مگر یہ تکلیف اس کی اپنی مول لی ہوئی تھی 

ہمدان سمجھا بجھا کر باہر لے گیا تھا 

مگر غصے سے اس کی رگیں اُبھری ہوئی تھیں غصہ حرام ہے آپ وضو کر لیں 

چھوڑو مجھے پلیز وہ گاڑی لے کر بے مقصد روڈ پہ گھوم رہا تھا 

اسے اتنا غصہ آ رہا تھا کہ وہ ٹینا کو شوٹ ہی کر دے 

اس کے غم کی رات بڑی تھی کٹ ہی نہیں رہی تھی 

وہ گھر آ گیا ہمدان کی کئ کالز آ چکی تھیں مگر اس نے ریسیو نہیں کی تھی

موم میں کمرے میں جا رہا ہوں پلیز مجھے کوئی بھی ڈسٹرب نہ کرے 

حدی خدا کے لیے کال اٹھاؤ 

وہ بار بار کال کر رہا تھا مگر حدی نے سیل ہی آف کر دیا یو ایڈیڈٹ  آرش نے غصے سے ایک دیوار میں دے مارا 

نہیں کرتا میں تم سے محبت وہ سکون آور چھ ٹیبلیٹ ایک ساتھ کھا گیا 

اسے ایک پل بھی سکون نہیں آ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے رفتہ رفتہ وہ ختم ہو رہا ہے 

اس نے اپنے بال مٹھی میں جکڑے تھے 

اس کی ایک سائیڈ میں شدید درد کی لہر سی اٹھی تھی 

اسکے سر کا درد بڑھ رہا تھا اس نے دبیز قالین سے دوبارا فون اٹھایا تھا 

ڈیڈ آپ گھر پہ ہیں ہوں وہ شاید نیند میں تھے 

 آرش سب خیریت ہے ناں کیا ہوا ہے 

ڈیڈ میرا سر گھوم رہا ہے اور اس سے آگے کچھ بولا ہی نہیں گیا تھا 

مگر سمیہ رمضان اور صفدر اوپر بھاگے تھے 

دروازہ کھل تھا 

آرش نیچے ہی دہرا ہوا پڑا تھا 

شاید اس کے گناہوں کے کفارے کا وقت آن پہنچا تھا 

کیا ہوا ہے اسے یہ ابھی تو گیا تھا یا سپٹل پھر ایسا کیا ہوا

پتہ نہیں آپنے روم میں گیا تھا اس کے کچھ دیر بعد ڈیڈ جو کال کر کے بلایا ہم اوپر گئے تو اس کا منہ ایسے ہی اڑھا ہو رہا تھا 

کیا ہوا ہے اسے وہ ٹھیک تو ہے 

ہاں وہ ٹھیک ہے آپ آنٹی ٹینشن نہ لیں آپ ریسٹ کریں پھوپھو آپ ان کا خیال رکھیے گا آپ انکل میرے ساتھ آفس آئیں مجھے کچھ میڈیسن لکھ کر دینی ہیں جو آپ کو باہر سے منگوائی ہوں گی 

مگر آپ دونوں کے لیے ایک بری خبر ہے آپ کو حوصلہ رکھنا ہو گا انکل آپ کو اور آنٹی کو بھی سنبھالنا ہو گا 

کیا ہوا ہے بیٹا جلدی بتاؤ میرا دل ہول 

رہا ہے اسی لیے آپ کو آفس لے آیا ہوں 

آرش کو فالج ہوا ہے اور لقوہ بھی 

اس کی رائٹ سائیڈ مفلوج ہو گئ ہے اور فیس بھی تھوڑا ٹیڑھا ہو گیا ہے 

یا اللہ خیر ان کے ماتھے پہ پسینے کی بوندیں ابھریں تھیں 

آپ کو حوصلہ رکھنا ہو گا کیونکہ آپ کو آنٹی اور آرش دونوں کو دیکھنا ہو گا 

ٹینا بھی اب بہتر ہے آپ کو اس کو سنبھالنا ہے 

ٹھیک ہے بیٹا تم کرو ان کا ٹریٹمنٹ میں اور کیا کر سکتا ہوں 

بے بس ہوں اللہ تعالیٰ کی زات کے آگے اللہ نے چاہا تو وہ دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا انشاللہ

انسان کیا چیز ہے ایک چیونٹی سے زیادہ کمزور ہے

سمجھتا شیر سے بھی زیادہ ہے خود کو چار پانچ گھنٹے پہلے وہ شیر بن کر میرے سامنے آیا تھا اور اب میرے سامنے کتنا بے بس پڑا ہے 

واہ اللہ تیرا مکافات عمل ہے 

یہ یا کوئی امتحان یا کوئی آزمائش ہماری ناقض عقل نہیں سمجھ سکتی اس بات کو یا اللہ اس شخص کو اس کے والدین کے لیے شفا عطاء فرمائے آمین یارب

وہ کافی دیر اس کے پاس موجود رہا اور پھر باہر نکل آیا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

ہانی جی ہمدان بھائی اس نے اسے کال کی تھی تیار ہو جاؤ حدی کے ساتھ شاپنگ پہ چلی جاؤ اور سنو ہانی حدی کو با اتنا کہہ دینا کہ ٹینا اور آرش کینیڈا چلے گئے ہیں وہ اس کی کنڈیشن کا سن کر پریشان ہو جائے گی 

اور میں مزید اسے اس بے حس شخص کے لیے پریشان نہیں دیکھ سکتا

جی ہمدان بھائی مگر آپ نہیں آ رہے 

میں رات میں کسی وقت چکر لگاؤں گا ہاسپٹل میں میرا ہونا ضروری ہے اپنا خیال رکھنا 

جی بھائی اللہ حافظ

میں کیوں اس شخص کے لیے اتنا گڑگڑا رہی ہوں یہ محبت بھی نہ انسان کو بہت بے بس کر دیتی ہے 

ہانی کی رات سجدوں میں گزری تھی اس کی سوئی ہوئی محبت نے انگڑائی لی تھی 

دو گھنٹے بعد وہ حدی کو زبردستی شاپنگ مال لے گئ تھی 

 انکل اور آنٹی بھی اسے آنے نہیں دے رہے تھے وجہ آرش کی رات کی دی ہوئی دھمکی تھی 

مگر وہ سچائی نہیں جانتے تھے اس لیے  ڈر رہے تھے کسی اور انہونی سے 

ہانی آرش واپس نہیں جانا چاہتا تھا تم ہی بتا رہی تھی پھر کیوں واپس چلا گیا بس اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا اس لیے رات کو ہی چلا گیا اس کے گلے میں کچھ اٹکا تھا اندر جیسے سوئیاں چبھنے لگی تھیں 

تمھیں کیا ہوا ہے تمھاری رنگت زرد کیوں ہو رہی ہے کچھ نہیں رات کو سوئی نہیں اس لیے عجیب سی کیفیت ہو رہی ہے چلو تم کیا لو گی 

شاپنگ تو میری مکمل ہے ساری بس میچنگ کی کچھ چیزیں لینی ہیں اور بارات کا ولیمہ کا جوڑا لے لیا وہ ابھی نہیں لیا ہمدان نے منع کیا ہے کہہ رہا تھا میں لوں گا اپنی پسند سے 

شادی پہ میری پسند کا پہنو گی اور شادی کے بعد کہاں تم میرے قابو آؤ گی وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولی تھی ہمدان کے نام پہ وہ ہلکا سا مسکرائی تھی اوہ اچھا 

یہ ہمدان بھائی اتنے رومنٹک ہیں میں تو جان ہی نہیں پائی میں تو سمجھ رہی تھی وہ بکس کے کیڑے ہیں بس 

اب چلو یہاں کھڑے کھڑے ہی سب باتیں کرو گی کیا چلو اندر چلتے ہیں 

ہانی کون سے مال میں ہو پاری مال 

اوکے بائے 

وہ ڈریکٹ اوپر آیا تھا 

ہیلو لیڈیز آپ یہاں آپ تو کہہ رہے تھے میں بزی ہوں 

تھا تو بزی مگر میری بھی پہلی اور آخری شادی ہے 

سوچا میں بھی کچھ لے لوں شادی کے بعد تو تمھاری ہی فرمائشیں پوری کروں گا پھر اپنے بچوں کی اس نے دوسرا لفظ اس کے کان میں کہا تھا 

اونہوں ہووووںں

آپ کی بہن بھی ادھر ہی ہیں اوہ بہنا میں نے تمھیں غلطی کر لی اپنا پارٹنر بنا کر 

مجھے بھی آپ کی جیب ہلکی کرنی ہے چلو زرا شاپنگ کر لیں 

وہ شاپنگ کر کے اسے گھر ڈراپ کر کے سیدھا ہاسپٹل پہنچا تھا 

وہ اپنے پیشہ سے بہت زیادہ مخلص تھا دشمن کا بھی برا نہیں سوچتا تھا 

اور آرش سے بڑا اس کا کون دشمن ہو سکتا تھا 

مگر رقیب اپنی جگہ تھا تو وہ میرا پیشنٹ بھی 

شادی سادگی سے  بخوبی انجام پا گئ تھی  

حدی دلہن بنی خوبصورت لہنگا بیڈ پہ پھیلائے ڈاکٹر ہمدان درانی کے انتظار میں خوبصورت پھولوں سے سجے محل نما کمرے میں دل میں ہزاروں  خواب لیے بیٹھی تھی 

بیٹھو یار ہمدان کہاں چل دیے اس کے کزننز اور فرینڈز اسے جان بوجھ کر گھیر کر بیٹھے تھے 

ظالموں میری شادی ہوئی ہے اتنی دیر سے تم لوگوں کی بھابھی میرا ویٹ کر رہی ہے 

اور تم سب پہ بھی آنے والا ہے یہ ٹائم دیکھنا کیسے گن گن کر بدلے لیتا ہوں ابھی تو ایک ہوں دیکھنا ہم دو ہوں گے 

اور پھر پوچھوں گا حال تم لوگوں کا 

اب سڑو تم یہاں مجھے جانے دو بائے 

اوئے رک تو یار کہاں جا رہا ہے دیکھ تو اس کو تو گر بتانے تھے یہ تو ابھی سے پاگل ہو رہا ہے 

ہاہاہاہاہاہا اس نے اپنے پیچھے ان کا قہقہہ سنا تھا 

کسی ہو جان ہمدان اس نے اس کی ٹھوڑی اور کی تھی 

اس کا شرم سے مزید سر جھک گیا 

بہت پیاری لگ رہی ہو 

کیااس چہرے کے ساتھ بھی میں پیاری لگ رہی ہوں اس نے اس کی ٹھوڑی چھوڑ کر 

اس کے دونوں ہاتھ تھامے تھے 

حدی مجھ سے پرامس کرو  آج کے بعد اس چہرے کغ بارے میں کچھ نہیں سوچو گی اور میں نے سرجری کروانے کے لیے بات کر لی ہے مجھے تم ہر صورت میں قبول ہو 

سرجری کی بات ابھی اس لیے کہہ رہا ہوں کہ تم یہ نہ سمجھو مجھے کوئی پرابلم تھی 

اور یہ تمھارا اور میرے پیار کا پہلا گفٹ ہے 

رنگ تو میں لے نہیں سکا کیوں کہ تم نے میری رنگ کی قدر نہیں کی  یہ پائل ہے پاؤں کرو اپنے آگے 

کیا وہ اچھلی تھی اسے بہت شرم محسوس ہو رہی تھی 

کرو ناں میں خود پہناؤں گا جی اس نے نا چاہتے ہوئے بھی دونوں پاؤں آگے پھیلائے تھے یہ میرا پیار ہے حدی 

اس نے کا ماتھا چوما تھا

ہمدان تواسی دن لٹو ہو گیا تھا جس دن تم نک سوٹ میں بریانی لے کر پھوپھو کے گھر آئی تھی 

میں نے پھوپھو سے بات کی مگر تمھاری شادی کی خبر می تو دل میں کچھ ٹوٹا ضرور تھا مگر نیت بد نہیں تھی 

شاید میرے جزبے سچے تھے جو چار دن بعد ہی سب سامنے آ گیا 

اور ابھی تم میرے پاس میرے ساتھ ہو یہ دیکھو دھڑکن میری 

تمھارا ہی نام لے رہی ہے اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے د پی رکھ تھا 

حدی نے بھی سب بھلا کر سر اس کے سینے پہ رکھ دیا تھا 

میری سوچ کے برعکس ہوا ہے یہ سب اس نے دل میں سوچا 

مگر سہی کہا آپ نے آپ کے جزبے سچے تھے 

میں بھی بس ضیغم سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے اس وقت کوئی بھی ہوتا تو مجھے منظور ہوتا 

آؤ حدی دو نفل نماز ادا کر لیں آج اللہ نے مجھے سرخروئی دی ہے اور تمھیں اتنا ہینڈسم ڈاکٹر آخر میں وہ شرارت کر گیا 

اچھا تو میں خوبصورت نہیں ہوں 

تم تو رانی ہو میرے دل کی میری شہزادی 

وہ ایک بار پھر اس پہ جھکا تھا 

دونوں نے چینج کر کے نوافل ادا کیے اور پھر 

اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا 

دونوں کے پیار میں رات بھیگ رہی تھی 

ایک نئی خوشیوں بھری زندگی ان کی منتظر تھی

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

تین ماہ بعد

تم کہاں جا رہی ہو ٹینا میں اپنے گھر جا رہی ہوں آرش نوریز اس نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر صاف صاف بولا 

کککک کی کی کی یو ں 

وہ ہکلا کر بول رہا تھا 

بولنے سے منہ ٹیڑھا ہوتا تھا اس کا 

کیوں جا رہی ہوں اس اپاہج شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی میں 

اور یہ منہ اسے دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے 

اس کے الفاظ تھے یا زہر میں بجھے تیر 

مجھے آج اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے 

تین منتھ سے جھیل رہی ہوں میں تمھیں 

رات رات بھر نہیں سو سکتی 

قید خانہ لگ رہا ہے یہ 

قید ہو کر رہ گئ ہوں میں یہاں 

اب اور نہیں رہ سکتی اور تم مر جاتے تو زیادہ بہتر تھا 

سب اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے 

تم خود کو ہلا جلا نہیں سکتے 

منہ ہلاتے ہو تو ایسا لگتا ہے جیسے بدصورت بندر کا منہ پھس گیا ہو 

با  با س س کر دو ٹی ن ا الفاظ ادا پہلے ہی نہیں کر سکتا تھا وہ رہتی سہتی کسر ٹینا نے کر دی تھی 

اس ک سانس اکھڑنے لگ تھا 

وہ ٹیک لگا کر بیٹھنا چاہا رہا تھا 

مگر اس سے ہلا تک نہیں جا رہا تھا اور جیسے وہ سہارا سمجھ رہا تھا وہ تو اتنا زہر بھر کر بیٹھی تھی 

م ی ں ط ل اق دی دی ت ا ہ و ں ت یں 

وہ الفاظ جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا 

میں تمھیں طلاق دیتا ہوں 

تم میری وجہ سے اپنی زندگی مت خراب کرو جاؤ میں نے آزاد کیا تمھیں 

اور وہ خوشی خوشی گھر سے نکل گئ تھی 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩

چھ ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد ہانی اسے باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئ تھی وہ اس کی فزیوتھراپی کرتی اس کو ایکسرسائز کرواتی وہ کامیاب ہو رہی تھی 

اس کے بولنے میں پھر سے روانی آ گئ تھی 

کم

کمرہ ہانی نے نیچے سیٹ کیا تھا اپنا 

شادی کو تین منتھ سے اوپر ہونے والے تھے 

آرش کا احساس جرم تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا 

اس کو چپ لگ گئ تھی جیسے 

وہ کچھ بھی نہیں کہتا تھا کوئی فرمائش نہیں کوئی ضد نہیں 

چھ ماہ سے اس نے آئینہ نہیں دیکھا تھا 

آرش میں آپ کو بلاتی رہیتی ہوں آپ مجھے دیکھتے کیوں نہیں ہیں 

وہ شرم سے نگاہ  جھکا لیتا 

ہانی وہ اسے لان میں لے آئی تھی شام کے سائے بہت بھلے لگ رہے تھے 

آرش آج آپ کو ہمت کرنا ہو گی آج خود واک کرو بنا سہارے کے 

ڈاکٹرز نے اب اسے چلنے کو کہا تھا اور وہ ٹھیک ہو رہی تھی 

بہت اچھے فزیوتھراپسٹ سے اس کا علاج چل رہا تھا مگر 

پیار اور توجہ سے بڑی کوئی ہمت نہیں ہوتی طاقت نہیں ہوتی 

وہ ابھی بھی سر جھکا گیا تھا 

اسے ہانی سے شرمندگی ہوتی تھی 

اس نے کبھی ایک پیار بھری نظر بھی اس پہ نہیں ڈالی تھی 

مگر یہ لڑکی اس اپاہج کے ساتھ شادی کی ضد کرے گی 

نہ صرف ضد کرے گی بلکہ شادی کر بھی لی

اور میں کیسے مان گیا میں بھی مان گیا موم کی خواہش کے آگے بھی اور میری پسند کہاں گئ 

اس نے مجھے تین ماہ ہی زلیل کر کے رکھ دیا میں ساری رات پانی کے لیے تڑپتا رہتا اور اس کے جوؤں تک نہیں رینگتی 

موم منہ دھلواتی تھی اسے گھن آتی تھی آرش سے 

جس کی وجہ سے اس کی یہ حالت ہوئی تھی 

اس نے ایک بول بھی ہمدردی کا نہیں بولا تھا 

حدی کے ساتھ ناجائز کیا میں نے یہ تب کیوں نہیں سوچا میں نے 

کہ یہ حادثہ میرے ساتھ بھی ہو سکتا تھا 

کیوں نہیں سوچا کتنی بڑی سزا ملی ہے مجھے اس کی آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہہ رہے تھے

آرش ہانی نے آواز لگائی تھی 

مگر اس نے سر نہیں اٹھایا تھا

وہ اس کے سامنے دو زانو بیٹھی تھی 

آرش ہانی اس نے اس کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیے تھے 

مجھے معاف کر دو 

تم بہت اچھی ہو ہانی میں تمھاری محبت کو جان نہ سکا معاف کر دو 

وہ اس کے ہاتھ ہونٹوں تک لے جاتے ہوئے بولا تھا 

میں نے تو آپ کو اسی دن معاف کر دیا تھا جس دن آپ نے مجھے قبول ہے قبول ہے کہا تھا 

ہانی اس کی آنکھوں سے آنسو اپنی پوروں سے چنے تھے 

کیا اتنی محبت کرتی ہو مجھ سے 

اس سے بھی زیادہ 

تم بہت خیال رکھا تم نے میرا میں اب تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا ص ہانی میں تو لنگڑا ہوں تمھارے ساتھ کہیں جا بھی نہیں سکوں گا 

اس نے شرارت کی تھی 

اب ایسی بھی بات نہیں ہے مجھے آپ ہر حال میں قبول ہیں 

بس یہ طریقہ غلط ہے ایسا کبھی نہیں چاہا تھا 

اچھا وہ کھڑی ہو گئ تھی 

آرش نوریز بھی اپنے سہارے پہ کھڑا ہوا تھا 

مگر ابھی وہ زیادہ زور نہیں دے پاتا تھا 

اپنی ٹانگ پہ نہیں میں کر لوں گا تم ادھر آؤ اس نے اسے اشارے سے اپنی طرف بلایا تھا 

آرش نے اس کی کمر کے گر بازو حائل کیے تھے یہ کیا کر رہے ہیں گھر میں ملازم ہیں کچھ تو لحاظ کرو اوہ سوری میں بھول گیا تھا 

چلو تھوڑی واک کرواؤ اور پھر آنٹی کی طرف چلتے ہیں 

اوکے ڈن ہو گیا اور مسکراتے ہوئے واک کروانے لگی تھی 

دیر سے ہی سہی ہانی آرش مل ہی گیا تھا 

اور آرش نوریز بھی محبت کرنے لگا تھا ہانی سے 

کیونکہ کہ جو ہانی نے کیا تھا وہ اس کی بے لوث محبت کے سوا کچھ نہ تھا 

حدی اور ہمدان ہنی مون کا ٹرپ ختم کر کے ام ہانی سے ملنے آئے تھے 

مگر ہانی کی شادی ہو گئ ہے بیٹا آرش سے 

پھوپھو آپ نے ہانی کو قربانی کا بکرا کیوں بنا دیا آپ جانتی تھیں آرش کی حالت ہمدان بھول گیا تھا 

کہ وہاں حدی بھی موجود ہے مگر پھر اسے فوراً 

احساس ہوا تھا 

اس نے حدی کو اس کی کنڈیشن بتا دی تھی 

ہانی نے ہی ضد کر کے اس سے شادی کی ہے 

میں ماں ہو کر اس کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی تھی 

تم جانتے ہو اس نے بہت سارے رشتے ٹھکرائے تھے وہ ہامی ہی نہیں بھرتی تھی اور میں اس کے ساتھ زبردستی کی قائل نہیں تھی وہ بچپن سے ہی آرش سے محبت کرتی آئی ہے 

میں بھی اس کی ضد کے آگے ہار گئ 

ایک بوجھ سرکا تھا حدیبہ اشرف غنی کے سر سے 

ارے حدی اور ہمدان بھائی آئے ہیں 

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تھا 

آرش نوریز وہیل چیئر پہ بیٹھا تھا اور اس کے پیچھے ہانی کھڑی چہک رہی تھی 

حدی کھڑی ہوئی تھی مگر اس سے پہلے آرش نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سامنے باندھ دیے تھے 

مجھے معاف کر دو تم دونوں حدی 

اور ہمدان تم بھی 

ہمدان آگے بڑھا تھا مگر حدی نہ بڑھ سکی 

اس کے دل سے ایک ہوک اٹھی تھی آخر تم چوٹ کھا کر ہی احساس کر پائے ناں آرش نوریز 

حدی ہانی آگے بڑھی تھی اسے گلے لگایا تھا 

معاف کر دو آرش کو اس نے اپنے حصے کی سزا کاٹ لی ہے

پلیز مجھے جب تک تم معاف نہیں کرو گی 

میرا احساس جرم مجھے سکون سے نہیں رہنے دے گا 

میں نے معاف کیا آپ کو اس کی آواز بھیگی تھی مگر وہ کمال مہارت سے چھپا گئ ہمدان کے ساتھ اب میں کوئی زیادتی نہیں کر سکتی 

چاروں مل کر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے 

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Ka Sodagar Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Ka Sodagar  written by Samina Kanwal Siyal. Mohabbat Ka Sodagar  by Samina Kanwal Siyal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages