Wehshat E Awargi By Ayna Baig Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 2 November 2024

Wehshat E Awargi By Ayna Baig Complete Romantic Novel

Wehshat E Awargi By Ayna Baig Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wehshat E Awargi By Ayna Baig Complete Romantic Novel 

Novel Name: Wehshat E Awargi 

Writer Name: Ayna Baig

Category: Complete Novel

"چھوڑیں مجھے کک۔کہاں لے کر جارہے ہیں!" وہ دروازہ کھولنے لگی۔ امان اندھا دھن گاڑی چلا رہا تھا۔

"ایسا مت کریں! کیوں لے کر جارہے ہیں اور کہاں؟" وہ رونے لگی۔

"بیوی بنانے لے جارہا ہوں اور تمھارے سسرال!" آگے کی سمت دیکھتے ہوئے اس نے مختصراً جواب دیا۔

"نن۔نہیں! مجھے چھوڑیں پلیزز!! خدارا یوں نہ کریں!! مجھے نہیں کرنا نکاح آپ سے!" وہ چینخی! مگر امان نے کان میں جوں نہ رینگی۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر ہارن بجایا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا تو اس نے گاڑی اندر لا کر پارک کی۔ عالی شان عمارت کو دیکھ کر شانزہ کا دل خوف سے پھٹنے لگا۔ امان اترا اور دوسری جانب کا دروازہ کھول کر اسے اتارا۔ شہنواز اور سلیم بھاگتے ہوئے آئے!

"قاضی اور گواہوں کا انتظام کرو!" وہ حکم دیتا اسے کھینچتا اپنے کمرے میں لے آیا۔ ایک ہاتھ گلے پر رکھ اس نے اسے خود سے قریب کیا۔

"آج کے دن تم میرے نام کردی جاؤ گی! اور اس کے بعد اگر زبان پر عدیل کا لفظ آیا تو امان شاہ ہر کھیل کا ماہر کھلاڑی ہے" دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے شانزہ کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ شانزہ کو اسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں۔ حلق سے ایک لفظ ادا نہ ہو پایا۔

"آج کے بعد تمھارے لب "امان" کا نام دہرائیں گے! وہاں جاؤ گی جہاں امان اجازت دے گا! اور امان صرف وہاں اجازت دے گا جب وہ خود تمھارے ساتھ ہوگا! میرے پیچھے اس گھر سے باہر قدم نکالا تو یہ ٹانگیں کاٹ ڈالوں گا! اور یہاں سے بھاگنے کا سوچنا مت کیونکہ جب میرے اندر غصہ جنم لیتا ہے تو میں وحشی درندے کا روپ لے لیتا ہوں" وہ کہہ کر پلٹا، مگر جاتے جاتے پلٹ کر اسے دیکھا۔

"میں کمرے کا دروازہ لاک نہیں کررہا کیونکہ میں جانتا ہوں اب تم میری قید سے قیامت تک نہیں نکل سکتی!" وہ کہہ کر چلاگیا۔

شانزہ گویا اپنے حواس کھونے لگی۔۔

اس ایک گھنٹے میں کیا کیا ہوچکا تھا اس کی زندگی میں۔۔۔۔

ایک ہی وقت میں زندگی کا دوسرا رخ دیکھنے کو مل گیا تھا۔

"نن۔نہیں مجھے جانا ہے! مم۔مجھے یہاں نہیں رہنا م" وہ رونے لگی۔ بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف آئی۔ گارڈز سیڑھیوں پر ہی کھڑے تھے۔ وہ سہم کر پھر اندر آگئی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے! زمین پر سر پکڑ کر بیٹھتی چلی گئی۔

*---------------------------*----------------------*

وہ سارا دن بزی ہی رہا۔ رہ رہ کر نظر منہاج کی ڈائری ہر پڑتی۔ مگر وہ آج وقت نکال لے گا اسے یقین تھا۔ شام ہونے کو تھی اور اسے شدت سے رات کا انتظار تھا۔ امان کو کال کی تھی مگر امان شاید مصروف تھا اس لیے زیادہ بات نہیں ہوپائی۔ وہ ڈائری جس میں ایک شخص کی موت تک لکھے گئے الفاظ موجود تھے۔ جن میں آنسو بھی تھے! خوشی بھی تھی! خون بھی تھا! اور سکون بھی تھا۔ وہ ان لفظوں کا مطلب نکال لے گا اسے یہ بھی یقین تھا۔ اس کا باپ اتنا ظالم نہیں تھا وہ یہ بھی جان لے گا! ماضی منہاج کو بھی کھا گیا تھا وہ یہ بھی جان لے گا! دردِ دل بڑھ جائے گا وہ یہ جانتا تھا! مگر وہ حقیقت جان کے رہے گا اس نے یہ ٹھان لیا تھا۔

*-----------------------*-----------------------*

وہ کمرے میں آیا اور اس کے آگے چار پانچ شاپنگ بیگز رکھے اور اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھا۔ وہ سہم گئی۔ اس نے ڈوپٹہ اپنے شانوں پر ٹھیک طرح اوڑھا اور برستی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"ان میں شادی کے جوڑوں کے ساتھ کچھ اور بھی سامان ہیں۔ چونکہ میں مرد ہوں تو میک اپ کا اتنا نہیں پتا تھا اس لئے تقریبآ سارا ہی اٹھا لایا۔ شادی کے دو جوڑے ہیں! ایک سفید ہے اور ایک لال! گھر میں عورتیں نہیں ہیں میری اس لئے مجھے علم نہیں ہے شادی کے موقع پر ذیادہ تر کونسا رنگ پہنا جاتا ہے!" وہ بس بولا ہی جارہا تھا اور شانزہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔

"مگر مجھے نکاح نہیں کرنا!" وہ چینخی۔

"یہ لال جوڑا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ایسا کرنا ابھی یہ پہن لینا" اس نے جوڑا نکال کر اپنے آگے رکھا۔

"میں پہنوں گی ہی نہیں یہ جوڑا" وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"بیوٹیشن آرہی ہے کچھ وقت میں! تمھیں تیار کر جائے گی! بہتر یہی ہے کہ تم شاور لے کر یہ جوڑا پہن لو! کیونکہ نکاح کی مجھے بے حد جلدی ہے! " وہ اس کی بات اگنور کئے اپنی دھن میں کہہ رہا تھا۔

اس کی آنکھیں لال ہوگئیں۔

"میرے ساتھ زبردستی کریں گے؟" وہ دھیمے مگر ٹوٹے لہجے میں بولی۔

"آج سے پہلے تمھاری سنی ہے کیا؟" گہری نگاہ اس پر ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"مم۔مجھے نہیں کرنی شادی! مم۔مجھے گھر چھوڑ آئیں! آپ کی وجہ سے ہوا ہے سب! میں اور عدیل بہت خوش تھے مگر درمیان میں آپ آئے امان!" وہ چینخی مگر وہ اس سب میں یہ بھول بیٹھی کہ جس نام کو لینے کے لئے اس نے منع کیا تھا وہ اس نے ایک بار پھر لیلیا تھا.

"گارڈز" وہ اتنی زور سے چینخا کے شانزہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔ دو گارڈز اندر آئے۔

"جی دادا!"

"تیز دھار والا چاقو لاؤ اس کی زبان کاٹنی ہے" شانزہ کی تڑپ سے چینخیں نکلیں۔۔ گارڈز نے جیب سے ہی نکال کر دیدیا۔ امان نے انہیں جانے کا اشارہ کیا اور اس کے قریب آیا۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے پیچھے ہوئی۔

"منہ کھولو" اس نے شانزہ کو جبڑے سے پکڑ کر خود کے قریب کیا۔

"کیوں" وہ درد سے کراہی۔

"اب نہیں نکلے گا عدیل کا نام تمھاری زبان سے! منہ کھولو" وہ چینخا۔

"امان! امان نہیں! معاف کردیں امان۔۔۔۔۔۔ خدارا! اب کبھی بھی نہیں ہوگا میرا آپ سے وعدہ ہے!" وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

"آواز بند اب!" اس نے چاقو نیچے کیا۔ شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تاکہ آواز نہ آئے۔

"مجھے ابھی بھی آواز آرہی ہے!" وہ سختی سے بولا۔

"میں نہیں رورہی نا" وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔

"ہاں ہنس رہی ہو تم تو" وہ طنزیہ بولا۔

"میں جارہا ہوں دس منٹ میں بیوٹیشن آجائے گی! شاور لے کر کپڑے چینج کرو! کچھ گھنٹوں میں نکاح ہے ہمارا" وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ شانزہ نے روتے روتے دیوار سے ٹیک لگالی۔

*------------------------*-----------------------*

"21 جون"

" ہائے ڈائری! میری آج تم سے پہلی ملاقات ہے۔ اوہ میں نے تمھیں نام نہیں بتایا ۔ میرا نام منہاج سمیع ہے کیونکہ میرا پاپا کا نام سمیع شاہ ہے۔ اس لئے میرا نام بھی منہاج سمیع شاہ ہے! لیکن مجھے سمیع نام اپنے آگے لگانا ذیادہ پسند نہیں اس لیے میں سب کو اپنا نام "منہاج شاہ" بتاتا ہوں! کیا تم میری دوست بنو گی؟ میں ماما سے کہتا ہوں مجھ سے بات کریں لیکن وہ کہتی ہیں ان کے پاس میرے لئے وقت نہیں! وہ مصروف رہتی ہیں! بابا اور ماما کی اکثر لڑائی رہتی ہے اس لئے بابا آفس سے دیر سے آتے ہیں جبھی میں ان سے مل نہیں پاتا! میں چاہتا ہوں کہ کوئی میری باتیں سنے اور سمجھے! لیکن لگتا ہے نہ بابا کو اور نہ ماما کو مجھ سے دلچسپی ہے۔ کل میں بہت رویا اور ماما سے کہا کہ کوئی تو میری باتیں سنے اور آج انہوں نے اتنی پیاری سی ڈائری میرے حوالے کی اور کہا کہ میں ڈائری لکھا کروں!!ارے میں نے تمھیں اپنے باری میں کچھ نہیں بتایا۔ میں 10 سال کا ہوں اور پانچویں کلاس کا میں پڑھتا ہوں۔ میرا پسندیدہ رنگ بلو ہے! ٹیچرز مجھے کہتی ہیں کہ میں بہت ذہین ہوں۔

بائے ڈائری ماما مجھے رات کے کھانے کے لئے بلا رہی ہیں۔ لگتا ہے آج بابا غصے میں ابھی تک گھر نہیں آئے۔ہم کل ملیں گے۔ تمھارا بہتریں دوست جو صرف تمھارا ہے منہاج "

زمان نے صفحہ پلٹا۔

"22 جون"

"ڈائری تم بہت موٹی ہو ہاہاہا"

زمان پڑھ کر بےاختیار مسکرایا۔

"23 جون"

"سوری ڈائری میں نے تمھیں موٹی کہا۔ لیکن تم مجھے موٹی اچھی لگتی ہو۔ میرے کچھ دوست بھی ڈائری لکھتے ہیں لیکن ان کے پاس میری جتنی موٹی ڈائری نہیں! وہ اپنی پوری زندگی اپنی پتلی سی ڈائری میں نہیں لکھ پائیں گے! انہیں کچھ عرصے بعد ہی دوسری ڈائری خریدنی پڑ جائے گی! مگر میں نہیں سمجھتا۔ میں اپنی پوری زندگی کی کہانی تمھارے صفحوں پر ہی لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ڈائری بدل کر نئی لیتے جائے گے جیسے کوئی دوست بدل رہے ہوں۔ مگر مجھے صرف تم پسند ہو! میں تمھاری جگہ اور کسی کو نہیں دوں گا! ویسے ایک بات تو بتاؤ! کیا میں واقعی بہت بولتا ہوں؟ میری ٹیچرز کہتی ہیں کہ میں بڑی بڑی باتیں کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ مجھے کیا ہوا ہے!؟ اور پھر پوچھتی ہیں کہ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں! ڈئیر ڈائری میں ابھی صرف دس سال کا ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ باتیں میں نے کہیں سے سیکھی ہیں۔ میری ماما کو بابا بلکل بھی نہیں پسند۔ وہ ان سے بدتمیزی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بابا ان کو طلاق ریں۔ ڈئیر ڈائری! یہ طلاق کیا ہوتی ہے؟ کیا اس کے بعد ماما بابا سے نہیں ملیں گی؟! مجھے ماما بہت پسند ہیں اور بابا بھی! مگر وہ سارا دن فون پر بھی بابا سے لڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ مجھے ڈر لگتا ہے مگر میں کبھی خاموش رہتا ہوں اور کبھی چھپ چھپ کر رو لیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا ماما ہمیں چھوڑ کر جائیں۔!کل میرے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ماما اور بابا دونوں میرے ساتھ چلیں۔ میرے سارے دوست ہمیشہ اپنے ماما پاپا کے ساتھ آتے ہیں! اور وہ تو ساتھ گھومنے بھی جاتے ہیں مگر میری ماما پاپا سے لڑتی ہیں جو مجھے پسند نہیں۔ آج بابا آئیں گے تو میں ان سے کہوں گا۔ ماما کو منانا مشکل ہے مگر امید ہے وہ مان جائیں گی۔ بائے بائے۔ (اور آگے دل کا بنایا ہوا تھا)"

تو کیا دادا اور دادی ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں تھے؟ زمان کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"23 جون رات کا وقت"

"مبارک ہو تم کو بابا اور ماما مان گئے! میں ماما کے سامنے اتنا رویا کہ ماما کو ماننا پڑا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں اپنے دوستوں کی طرح اپنے پیرنٹس کے ساتھ جاؤ گا۔ بابا نے کہا ہے وہ واپسی میں آئس کریم بھی کھلائے گے! بائے ڈائری! رات ہوگئی ہے اور اب مجھے لگتا ہے کہ خوشی کے مارے مجھے نیند نہیں آنے والی! میں تمھیں کل بتاؤں گا ابھی کے لئے خدا حافظ"

زمان نے تیزی سے صفحہ پلٹا! وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگلا دن اس کا کیسا گزرا۔

"26 جون" یہ تو 26 کی ہے! 24 کی کدھر ہے؟ وہ ڈھونڈنے لگا۔ شاید منہاج نے لکھی ہی نہیں تھی۔

"26 جون"

"کیسی ہو ڈائری؟ مگر میں ٹھیک نہیں ہوں۔ مجھے رونا آرہا ہے۔ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا! ہم اس دن گئے تھے میٹنگ میں مگر ماما اور بابا وہاں سب کے سامنے جھگڑنا شروع ہوگئے تھے۔ میری ٹیچرز اور دوست انہیں دیکھ کر حیران ہوئے تھے اور دوست دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں بہت رورہا ہوں ڈائری! آئم سوری میں میرے آنسو تمھارے صفحے گیلے کررہے ہیں۔ لیکن یہ سوکھ جائیں گے کوئی بات نہیں۔ میں کل اسکول گیا تھا اور میرے دوست مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں اب اپنے ماما اور پاپا کو کہیں لے کر نہیں جاؤنگا! وہ دونوں لڑتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ میں ان سے اتنا ناراض ہوگیا ہوں اب کہ میں نے کل رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا۔ لیکن میں چھوٹا ہوں نا؟ تو میرے جسم کے اعضاء بھی چوٹے ہیں۔ اب مجھے بھوک لگ رہی ہے مگر ماما کو میری فکر نہیں۔ اب دوپہر ہوگئی ہے سوچ رہا ہوں کہ ماما کی غیر موجودگی میں کھالوں تھاکہ انہیں خبر نہ ہو۔ مجھے امید ہے بابا مجھے کال کریں گے اور کہیں گے کہ کیا میں نے کھانا کھایا؟۔ میں ناراضگی سے کہوں گا نہیں پھر دیکھنا وہ آج میری وجہ سے جلدی آئیں گے اور میرے لئے چیزیں بھی لے آئی گے۔ میرے پاس بہت سارے بڑے موبائل ہیں۔ مگر مجھے ان میں اپنا دوست نہیں مل سکا جو مجھے تم میں مل گیا۔ کیا میں زیادہ بول رہا ہوں؟ لیکن تم بہت اچھی ہو! کم از کم یہ نہیں بولتی کہ منہاج بس کرو میرے سر میں درد ہورہا ہے! ہاں ماما ضرور کہتی ہیں۔ اور پتا ہے کیا اب میں رو نہیں رہا! اب میں بابا کی کال کا انتظار کررہا ہوں! لو میرے موبائل کی بیل بجی رہی ہے۔ میں آتا ہوں"

"بابا کا فون تھا وہ میرے لئے آج گھر آرہے ہیں! ماما ان کے گھر آنے کا سن کر کسی پارٹی میں چلی گئی ہیں اب گھر میں صرف میں اور ملازم ہیں۔یہ پہلی دفع نہیں ہے! خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ یونہی کرتی ہیں!۔ میں ہوم ورک کرنے جارہا ہوں اللہ حافظ"

زمان نے ایک ساتھ کرنے صفحات آگے کئے۔

"22 اگست"

"آج ماما پاپا پھر لڑے اور میں روتا رہا",

"23 اگست"

"میں روز کی لڑائیوں سے تھک گیا ہوں! میں اب اندھیرے میں چیختا ہوں! کیا میں پاگل ہوگیا ہوں؟"

"26 اگست"

"اگر میں نہیں ہوتا تو کیا پھر ماما پاپا کے ساتھ خوش ہوتیں؟"

"28 اگست"

"ماما چینختی ہیں! مجھ پر بھی اور پاپا پر بھی"

اس نے پھر بہت سے صفحات آگے کئے

"آج میں گیارہ سال کا ہوگیا ہوں اور پاپا چاہتے ہیں کہ ہم تینوں مل کر کہیں لنچ کریں۔ پاپا نے ماما سے کہا مگر ماما کہتی ہیں کہ وہ یہ سب کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں طلاق چاہئے۔ اور آج کا دن بھی برباد ہوگیا۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

زمان نے ایک صفحہ آگے کیا۔

"5 اکتوبر"

"میں تکلیف میں ہوں۔ طلاق کا مطلب جو جان گیا ہوں۔ پاپا خاموش ہیں کیونکہ ماما کی ضد بہت بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے پاپا میری ماما کو بہت چاہتے ہیں۔ میں بہت دکھی ہوں! ماما اس دن غصے میں تھیں! مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ میں نے ان کی گود میں سر رکھا تو انہوں نے میرا سر جھٹک دیا اور کہاں پتا نہیں کیوں میں مصیبت پیدا ہوگیا ہوں! میں رورہا ہوں ڈائری! میں اور زیادہ رونا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف روتا ہی رہتا ہوں۔ کیا میں پاگل ہوں ڈائری؟خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ "۔

زمان نے تھوک نگلا اور پھر سے بہت سے صفحے آگے کئے۔

"میری دکھ درد کی ساتھی بھی صرف تم ہو! اور تم بھی صرف میری ہو۔ کاش میری ایک چھوٹی سی بہن ہوتی۔ مجھے بہنیں بہت پسند ہیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ وہ مجھے اللہ میاں سے بہن کے کر دیں مگر انہوں نے جواب میں مجھے تپھڑ ماردیا۔خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اللہ میاں سے اپنے لئے بہت ساری بیٹیاں خریدوں گا"

زمان ایک وقت میں بہت آگے سے کتاب کھولی۔ اس سے یہ باتیں پڑھنا اب ناممکن ہورہا تھا۔ اس نے منہاج کی زندگی کے کچھ سال آگے کئے۔

"9 ستمبر"

"وہ چلی گئیں۔ میرے ساتھ سترہ سال گزار کر وہ مجھے اور پاپا دونوں کو چھوڑ گئیں۔ آج میں پاپا پر پہلی بار چینخا۔ میں اپنی اندر کی بھڑاس نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے پاپا سے کہا اگر آپ نے ان پر ہاتھ اٹھایا ہوتا تو وہ سہم اور جدائی کا نام دوبارہ نہیں لیتی۔ پاپا کی آنکھیں جیسے پتھرا گئی تھیں۔ شاید وہ میری بات سے متفق تھے۔ اگر میری بیوی مجھے چھوڑ جانے کا اشارہ بھی دے گی تو میں اسے اتنا ماروں گا کہ وہ آئندہ جانے کا نام نہیں لے گی۔ میں اپنے باپ کو دیکھ چکا ہوں اور میں نہیں چاہتا میں اپنی زندگی اپنے باپ کی طرح خاموش رہ کر گزاروں۔ میں تاریخ نہیں دہراؤں گا! میں مکمل پاگل ہوچکا ہوں۔ کالج میں بھی کسی سے بات نہیں کرتا۔ مجھ سے ٹیچر کہتی ہیں کہ میں اتنا پڑھائی میں کمزور کیوں ہوگیا ہوں؟ جس کو گھر کا ذہنی سکون میسر نہ ہو وہ بھلا انسان کیا کرسکتا ہے۔ a boy in pain۔"

"16 ستمبر"

"آج ہمیشہ کی طرح ٹیچر نے سب طالبِ علم سے ایک اچھی بات پوچھی۔ حسبِ معمول مجھے بھی کھڑا کیا گیا۔ میں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ جس کی زندگی میں پیسا ہو اس کو ہی سکوں اور عیش و عشرت میسر ہوں! ہماری زندگی میں پیسا نہیں بلکہ ذہنی سکون معنی رکھتا ہے! میرے یہ سب کہنے پر ٹیچر نے مجھے اکیلے میں بلا کر پوچھا کہ میری طبیعت ٹھیک ہے۔ وہ حیران تھیں کہ سترہ سال کا لڑکا اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگا۔ جبکہ وہی سترہ سال کا لڑکا دن اور رات دونوں میں اپنے کمرے میں بتیاں بجھا کر تنہا بیٹھنے کا عادی ہے۔ میں صرف مسکرادیا۔ میرا جواب نہ پاکر وہ چاہتی ہیں کہ میرے ماما پاپا کل اسکول آئیں مگر میں اپنی ماما کا نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ میرے پاپا سے طلاق لے کر کسی اور شخص کے پاس چلی گئیں اس لئے میں نے کہہ دیا کہ ماما ورلڈ ٹور پر گئی ہیں اور پاپا اکثر آفس میں بزی رہتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پاپا ویل چیئر پر آنے والے ہیں! انہیں ماما سے محبت ہے اور وہ ان کی جدائی برداشت نہیں کر پارہے۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

"21 دسمبر"

"آج میں پاپا کو وہیل چیئر میں بٹھا کر گھر کے گارڈن میں لے گیا۔ وہ آج کل ویسے ہی ماما کو بہت یاد کررہے ہیں۔ ذرا سی دھوپ لے کر تھوڑی دیر گارڈن کے چکر مار کر میں ان کو اندر لے آیا۔ وہ اندر آکر حسبِ معمول ماما کی فریم ہوئی تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے وہ تصویر نکلوا کر اسٹور میں رکھ دی۔ میں نہیں چاہتا پاپا انہیں یاد بھی کریں۔ میری اس حرکت پر انہوں نے کہا کہ تم نظروں سے تو ہٹا سکتے ہو مگر دل سے نہیں! ہاں وہ ٹھیک کہہ رہے تھے مگر میں انہیں اذیت میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا"

"19 جنوری"

"انیسویں سالگرہ اکیلے منائی کیونکہ اب پاپا بھی ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ پاپا یاد آتے ہیں بہت! پاپا کا بزنس 1 سال سے میں ہی دیکھ رہا ہوں۔ میری یونیورسٹی شروع ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے! میں جاتا ہوں مگر مجھے وہاں کے لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے "

"20 جنوری"

"وحشتِ دل اور وحشتِ آوارگی"

"21 فروری"

"میں تنہا ہوں"

"27 فروری"

"اور اب مجھے تنہائی پسند ہے"

"29 فروری"

" بابا کی ایک بڑی تصویر فریم کروا کر کمرے میں لگوا دی ہے۔ میں انہیں دیکھتے رہنا چاہتا ہوں!"

"2 مارچ"

"کبھی پڑھیں گے میری داستاں لوگ

ایک لڑکا تنہائی اور پاگل پن سے مرگیا"

"5 مارچ"

"میں پاگل ہورہا ہوں! یا شاید وحشی! مجھے نہیں خبر! پاپا بہت یاد آرہے ہیں۔ گھر میں گارڈز اور ملازم ہوتے ہیں مگر میرے لئے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں پاگل وحشی بن رہا ہوں۔ آج مجھے میری الماری سے بلیڈ ملا۔ میں نے اسے اپنی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر پھیرا۔ خون ہاتھ سے مسلسل بہہ رہا ہے اور مجھے درد سہنے میں بھی مزہ آرہا ہے! صحیح کہتے ہیں کہ درد کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے! خون کی چھینٹے تمھارے صفحے پر جذب ہورہی ہیں! ان خون کے دھبوں سے ہی مجھے پڑھنے والے سمجھ جائیں گے کہ یہ منہاج سمیع شاہ کی ڈائری ہے۔ اور کہیں کہ ایک اذیت پسند اور دیوانہ شخص جو اپنے ماضی اور حال کی وجہ سے مارا گیا"

"10 مارچ"

"آج بابا کی سابقہ بیگم مجھ سے ملنا چاہتی تھیں۔ مگر میں نے ملنے سے بھی انکار کردیا۔ جس نے مجھے میرا بچپن نہیں جینے دیا میں اس سے مل اپنی جوانی برباد نہیں کرنا چاہتا۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

*-----------------------------*----------------------*

"رات ہوگئی مگر ایک قاضی نہ لاسکے تم لوگ" وہ چینخا۔۔۔

"دادا آگیا ہے" شہنواز کہتا ہو باہر کی جانب بڑھا۔

بیوٹیشن شانزہ کو تیار کر چکی اور ساتھ تاکید بھی کی تھی رونے سے میک اپ خراب ہو جائے گا۔ وہ حسن کی مورتی لگ رہی تھی۔ آج محبت مر جائے گی وہ یہ جانتی تھی۔

بیوٹیشن تھوڑی دیر میں چلی گئی۔

"نیچے آجاؤ" وہ اندر آیا۔ شانزہ ضبط کرتی ہوئی پلٹی۔ وہ ٹھٹھکا۔ وہ بلاشبہ بے حد حسین تھی۔

"خوبصورت!" وہ مسکرایا اور اس کے بلکل قریب آیا۔ وہ سہم کر پیچھے ہوئے۔

"رونا نہیں ورنہ میک اپ خراب ہو جائے گا!" وہ مسکرا کر پلٹا۔ ۔"کلثوم شانزہ کو نیچے لے آؤ" وہ آواز دیتا نیچے چلا گیا۔

ایک آنسو نکلا اور چہرہ بگھو گیا۔

"ارے نہیں بیگم صاحبہ آپ کا میک اپ خراب ہو جائے گا" کلثوم ٹشو پیپر سے اس کا آنکھ صاف کرتی بولی۔

"اور جس کا دل خراب ہو جائے وہ کیا کرے؟" دھیمی سی آواز اور گیلے لہجے میں بولی۔ کلثوم کو اس کے لئے برا لگا۔

"میں آپ کے لئے چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتی لیکن ایک بات ضرور سمجھا سکتی ہوں کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئیں تو ہر وہ کام کیجئے جس کا وہ کہیں! کبھی ان کے خلاف نہیں جایئے گا ورنہ وہ تو اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑتے" وہ اس کے لہنگے کو سہی کرتے ہوئے بولی۔

"آجائے اب نیچے چلیں!" وہ ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانے لگی۔

"جو بھی ہو! میں یہاں سے بہت جلد بھاگ جاؤں گی! دیکھنا تم! " ضبط سے اس کی آنکھیں لال ہوئی۔

کلثوم نے اس کی باتوں کا نظر انداز کیا۔


تیز برستی بارش اور بجلی کی آواز پورے شہر میں سنائی دی تھی۔۔۔گھر کے گارڈن میں کھڑے اس کے گارڈز بھی اپنے کمرے میں مالک کی آواز پر کانپ کر رہ گئے۔۔۔

"مجھے معاف کردو!" وہ جو کوئی بھی تھا اذیت سے چینخ رہا تھا!

مگر مقابل کھڑی شخصیت اسے معاف کرنے پر راضی نہ تھی۔۔۔

"یہ سزا بہت کم ہے!" وہ کہہ کر شدت پسندی سے مسکرایا۔۔۔

جو مزہ اس شخص کو لوگوں کو اذیت دینے میں آتا تھا۔۔۔

وہ مزا اسے کہیں نہیں ملا۔۔۔

"میں آئندہ نہیں کروں گا ایسا۔۔۔۔" اس کے ہاتھ رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔۔۔۔ اذیت میں جکڑا وہ شخص گڑگڑا رہا تھا۔۔

وہ سنگھار میز سے ٹیک لگائے اسے اذیت میں گڑگڑاتا ہوا دیکھ رہا۔۔۔

"سوچو اگر میں نے یہ پنکھا کھول دیا تو؟؟" اس کی باتوں میں اذیت تھی۔۔۔

چونکہ اس شخص نے اسے رسی کے سہارے پنکھے سے الٹا لٹکایا ہوا تھا اسکی یہ بات پر وہ سہما۔۔

"نہیں ایسا مت کرو خدارا"

سنگھار میز سے ٹیک لگائے شخص نے ٹیبل پر موجود شیشے کے جگ کو زور سے زمین پر پھینکا۔۔۔

"میں نے تمھیں دو دفع وارن کیا تھا۔۔۔!" وہ چینخا۔۔۔

"ہاں مانتا ہوں! مجھ سے غلطی ہوگئی!"

کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈال کر وہ اس کے قریب آکر رکا۔۔۔

رسی سے جکڑے شخص کا گویا دل حلق میں آگیا تھا۔

اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا۔۔۔

مگر وہ ہاتھ خالی نہیں۔۔۔

چمکتے ہوئے خنجر کو دیکھ کر وہ مسکرایا جبکہ مقابل شخصیت ڈرگیا۔۔

"تم مجھے نہیں مارسکتے!" وہ بنا ڈرے بولا۔۔۔

"اب یہ مت کہنا تمھارے پیچھے کسی بڑے آدمی کا ہاتھ ہے!" اس نے ہنکارہ بھرا۔۔۔

"ہاں ہے ہاتھ! تمھارا ہاتھ ہے! "امان شاہ" کا" وہ کہہ کر استہزایہ ہنسا..

"اس کے علاؤہ بھی کئی وجوہات ہیں!" اس نے بنھویں اچکائیں!

"ہاں! انہیں وجوہات کے بنا پر امان شاہ مجھے قتل نہیں کرسکتا۔۔۔ کیوں میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں! وہ غصہ میں بہت کچھ کردیتا ہے! مگر پھر اسے پچھتاوا ہوتا ہے!"

امان شاہ بے ساختہ مسکرایا۔۔۔

"کاش تم سے قریبی رشتہ نہ ہوتا تو تم ماردئے جاتے امان شاہ یعنی میرے ہاتھوں!"

"کاش! اب مجھے چھوڑدو!! اور خنجر مجھ سے دور کرو!"

امان شاہ نے اسے بغور دیکھا اور پھر خنجر کو۔۔۔

خنجر سے ایک وار کیا جس سے وہ جکڑا شخص نیچے گرگیا۔۔۔

"رسی توڑنے کا یہی طریقہ ملا تھا تمھیں؟" وہ اٹھا اور اپنے بندھے ہاتھ کھولنے لگا۔۔۔

"کاٹی ہے رسی!" امان شاہ سنگھار میز کی طرف مڑا۔۔

جبکہ دوسرا شخص رسی اتار کر اس کی جانب بڑھا۔۔۔

"اذیت دینے میں مزہ آتا ہے نا تمھیں؟"

امان شاہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی۔۔۔وہ اس کی جانب مڑا۔۔۔

"بلکل! میں جن سے محبت کرتا ہوں! انہیں اذیت دینے کا قائل ہوں! " امان شاہ نے لائٹر جلایا اور آگ پر نظریں مرکوز کیں۔۔۔

"جبھی!" اس نے میز پر خنجر پڑے دیکھا تو جھٹکے سے اسے اٹھانے لگا کہ اچانک امان شاہ نے اسے اٹھالیا۔۔۔

"ہوشیاری نہیں!" اس کی گردن پر خنجر رکھ کر اس نے خوفناک چہرے سے اسے گھورا۔۔۔

وہ شخص کراہا۔۔

"اچھا۔۔۔م۔مجھے چھوڑو۔۔۔۔ پلیزززز۔۔۔"

امان شاہ نے جھٹکے سے اسے چھوڑا۔۔۔۔

"تین تک گنوں گا! یہاں رہے تو پنکھے پر الٹا لٹکادوں گا!" وہ خونخوار نظروں سے گھور کر بولا۔۔۔

"پھر سے؟" وہ شخص سہما۔۔

"پھر سے!" وہ کہہ کر ہنسا۔۔۔

وہ شخص الٹے قدموں پیچھے ہوا۔۔۔

"ایک" امان شاہ نے گنتی شروع کی۔۔۔

مڑ کر ٹیبل کی جانب آیا۔۔۔

اور جگ سے کانچ کے گلاس میں جوس نکالنے لگا۔۔

"دو!"

وہ شخص سہم کر بھاگنے لگا۔۔۔

امان شاہ نے گلاس لبوں سے لگایا۔۔۔

"تین!" گنتی گن کر امان شاہ نے پلٹ کر دیکھا۔۔

وہ جا چکا تھا۔۔۔

امان شاہ نے ایک قہقہہ لگایا جسے باہر کھڑے اس کے گارڈز نے بخوبی سنا تھا۔۔۔

*------------------*----------------*-------------------*

صبح کا اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا تھا۔

وہ صحن کو عبور کرکے کمرے میں آئی۔۔

بیڈ پر رمشا ہنوز سو رہی تھی۔۔

ایک گہرے سانس لے کر اس نے اسے آواز دی۔۔۔

"رمشا اٹھ کے ناشتا کرو۔۔۔" ڈھیمی۔آواز میں کہتی وہ اپنی الماری کی جانب بڑھی۔۔۔

ایک چھوٹا سا بیوٹی باکس تھا۔۔اس نے لپ اسٹک نکالی اور آئنہ کے سامنے کھڑی ہوکر کہ اسٹک لگانے لگی۔۔۔

وہ میک اپ کی شیدائی تھی۔۔لیکن اسے اس سب کی اجازت نہ تھی۔۔۔

"یہ تم کیا کررہی ہو؟؟؟ دلہن بننے کا کچھ زیادہ ہی شوق نہیں ہوگیا ہے تمھیں؟" رمشا نے اٹھتے ہی طنز کرنا شروع کردیے تھے۔۔۔خیر یہ تو روز کا معمول تھا۔۔

"اٹھ جاؤ اور ناشتہ کرلو۔۔۔!" وہ کہہ کر خاموشی سے برابر سے نکلنے لگی تھی کہ رمشا نے اسے روکا۔۔۔

"لپ اسٹک مٹاؤ!" تیز لہجے میں کہتے ہوئے رمشا نے سینے پر ہاتھ باندھے ۔۔

"میں مٹادوں گی بعد میں! " وہ کہہ کر آگے بڑھنے لگی کہ رمشا نے اس کے کلائی زور سے پکڑی۔۔۔۔

"چھوڑو میرا ہاتھ!" وہ کراہی۔۔۔

"شانزہ ناصر یہ مت بھولو کے اس گھر میں تم سے زیادہ میری چلتی ہے!!"

شانزے کی آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکلے جس سے اس کے چہرہ تر ہوگیا۔۔۔

"مجھے پتا ہے رمشا عرفان! میرا ہاتھ چھوڑو!" وہ تڑپ کر بولی۔۔

رمشا نے ناگواری سے اس کا ہاتھ جھٹکا اور ڈوپٹہ اٹھا کر باہر کی جانب چلی گئی۔۔

شانزہ روتی لب بھینچتی اسکی پشت کو تکنے لگی۔۔۔

انگلیوں کے پوروں سے آنکھیں صاف کرکے وہ اٹھ گئی تھی۔۔۔

اس کے بہانے کوئی نہیں سننے والا تھا۔۔۔

حتی کہ اس کا باپ بھی نہیں!..

*---------------------*--------------------*-------------------*

وہ "امان شاہ" تھا۔۔ اذیت پسند،شدت پسند۔۔۔! اپنے علاقے کا سب سے بڑا "دادا"۔۔۔ وہ جس پر نظر دوڑا تھا وہ شخص کانپ کر رہ جاتا۔۔۔ وہ سیدھا وار نہیں کرتا۔۔۔

وہ اپنے نام کا تھا "شاہ"۔۔۔ کتنے لوگوں کو موت کی جانب دکھیل چکا تھا کہ اب وہ یاد بھی کرنے بیٹھے تو گنتی بھول جائے۔۔۔

وہ اپنے علاقے میں ایک نام سے مشہور تھا "ٹائگر!"

وہ سورہا تھا اس کے باوجود اس کے کمرے اور لاؤنج کے باہر کھڑے گارڈز ابھی بھی سہمے تھے۔۔۔

ہاں ایک ایسی شخصیت گھر میں موجود تھی جس کو امان شاہ صرف گھوری دے سکتا تھا۔۔۔

اسکا بھائی! "زمان شاہ"۔۔۔

وہ اس کا جڑواں بھائی تھا۔۔

لیکن

مزاجوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔

ماضی کی تلخیاں جتنا امان شاہ کو سخت اور جابر بنا گئیں اتنا ہی نرم اور معصوم زمان شاہ کو بنا گئی تھیں!

محبت دونوں میں اتنی کہ کھانا بھی ایک ہی تھالی میں کھالیں!

مگر امان شاہ جس سے محبت کرتا تھا اسے بھی اذیت دینے کا قائل تھا۔۔

ماضی میں جو ہوا قریب تھا کہ زمان بھی پاگل ہوجاتا۔۔۔

یا ایسا ہی وحشی بن جاتا۔۔۔

مگر وہ بھائی کو دیکھ چکا تھا۔۔۔

وہ بھائی کو چھیڑتا رہتا۔۔

وہی کام کرتا جس سے امان شاہ انکار کرتا۔۔۔

اور پھر زمان شاہ کو پورا دن صرف سزا ملتی رہتی۔۔۔

مگر وہ تھا بھی اپنے بھائی کی طرح۔۔۔

ہر وہ کام پھر سے کرتا جس سے امان شاہ کے حکم خلاف ہورہی ہوتی۔۔

امان اسے اسکی غلطی پر گھورتا۔۔۔

زمان شاہ وہی حرکت دوبارہ کرتا۔۔۔

اس بار امان شاہ اسے وارن کرتا۔۔

اور تیسری دفع وہی غلطی دوڑانے پر اسے اذیت دیتا۔۔

کہ یہ تو روز کا ہی معمول تھا۔۔۔

وہ سوتے میں بے چین ہوا۔۔۔

"انہیں مت ماریں۔۔۔مت ماریں انہیں!" وہ نیند میں چینخنے لگا۔۔

"وہ مرجائیں گی!!!! آپ سمجھ کیوں نہیں رہے!" وہ نیند میں اپنے بال نوچنے لگا۔۔۔ اس کی آنکھ اچانک سے کھلی۔۔اسے ہر جگہ اندھیرہ محسوس ہوا۔۔۔

وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

"زمان!" وہ چینخا۔۔۔

اسے زمان کے بارے میں عجیب خوف محسوس ہوا۔۔۔

زمان نے اسکی چینخنے کی آواز سنی تو دوڑتا ہوا کمرے میں آیا۔۔۔

امان کی پوری طرح سے کھلی نہیں تھی۔۔۔

وہ نیند میں اپنے بال نوچ رہا تھا۔۔

زمان نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ قابو میں کیا۔۔۔

"امان ہوش میں آؤ!" زمان نے اس کا چہرا تپھتپھایا۔۔۔

"وہ ماردیں گے ہمیں!" امان پھر چینخا تھا۔۔۔

"کوئی نہیں ماررہا ہمیں! آنکھیں کھولو!!! جب تک میں ہوں وہ تمھیں ہاتھ نہیں لگا سکتا امان!" اسے بھائی کی یہ حالت نہیں دیکھے جارہی تھی۔۔۔

"وہ ہم دونوں کو ماردیں گے!" ایک آنسو جو امان شاہ کی آنکھ سے نکلا تھا۔۔۔زمان کا دل چیر گیا تھا۔۔

وہ جو دوسروں کو اذیت دیتا تھا۔۔۔آج اپنے بھائی کے سامنے آنسو نہ ٹہھر سکے تھے اسکے۔۔

"اب ہمیں کوئی چھو بھی نہیں سکتا!" زمان کے یہ کہتے امان شاہ نے آنکھ کھولی۔۔۔

ایک کرب تھا جو اس کے چہرے پر عیاں تھا۔۔۔

وہ خود پر ضبط کرکے تھک چکا تھا۔۔۔

"وہ ہمیں اذیت دیں گے! وہ ہم سے ہمارا سب کچھ چھین چکے! اگر انہوں نے ہمیں ماردیا تو؟" وہ دھیمی مگر خوفناک آواز میں بولا۔۔۔

زمان شاہ نے اسکے بالوں پر انگلیاں پھیریں۔۔۔

"اب ہمیں کوئی نہیں مار سکتا! حتیٰ کہ وہ بھی نہیں۔۔۔ تمھارا آگے کوئی نہیں ٹہھر سکتا امان! تم "امان شاہ" ہو! اور سب جانتے "امان شاہ" کون ہے۔" امان اسے کچھ دیر یہاں اپنے کمرے میں روکنا چاہتا تھا۔۔۔

زمان مسکرا کر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

"یہی رہو زمان میرے کمرے میں! مجھے خواب بہت تنگ کرتے ہیں!"

اگر امان شاہ سے پوچھا جائے کہ اسے ماضی ذیادہ تنگ کرتا ہے یا اس کے خواب؟

تو وہ یقیناً فیصلہ نہ کر پائے۔۔۔

زمان شاہ کا بس چلے تو وہ دنیا بھر کی خوشی اپنے بھائی کے آگے لاکر رکھے۔۔۔

زمان شاہ کا دل کسی نے مٹھی میں لیا۔۔۔

"میں یہی ہوں! تمھارے پاس! آخر تم سے دس منٹ بڑا ہوں! ہاں وہ بات الگ ہے تم مجھے ان گنت سزائیں دیتے ہو۔۔۔مگر ہو تو میرے چھوٹے بھائی! 10 منٹ چھوٹے! "وہ مسکرا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔

امان نے اپنا سر اسکی ٹانگوں پر رکھا اور آنکھیں موند لیں۔وہ جانتا تھا کہ ایک دفع زمان شاہ بولنا شروع کرے تو اس کا منہ بند کرنا آسان نہیں ہوتا۔۔۔

زمان اس کے گھنے, سلکی اور کالے پر انگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔

تھوڑی ہی دیر میں امان نیند کی وادیوں میں اتر چکا تھا۔۔۔

زمان نے اسکے تکیہ کے نیچے اپنا ہاتھ ڈال کر امان کی پستول نکالی تھی۔۔۔

"ہزار دفع کہا ہے تکیہ کے نیچے نہ رکھا کرو لیکن۔۔۔۔" اس نے امان کو دھیرے سے گھور کر بات ادھوری چھوڑی۔۔۔

اس نے وہ پستول اس کی دراز میں ڈال دی اور اس کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر بستر کی پشت سے ٹیک لگالی۔۔۔

آنکھیں موند نے کو دل کیا لیکن پہراداری پر تو کسی کو آنکھیں کھلی رکھنی ہی تھیں نا!

*---------------*-------------------*--------------------*

"میں نے تم سے کہا تھا میر ظہیر! مجھے وہ ہر حالت میں چاہئے!" وہ پوری قوت سے چینخا تھا۔۔۔

ظہیر کے قدم لڑکھڑائے۔۔۔

"دادا میں نے کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہ بھاگ نکلا!"

امان نے ہاتھ میں موجود کانچ کا گلاس زمین پر مارا۔۔۔۔

"اب میں کوشش کروں گا اور تم بھاگ نکلو!" امان شاہ نے جیب سے پستول نکالی۔۔۔۔

ظہیر کے پسینے چھوٹے۔۔۔

"مجھے معاف کردیں دادا۔۔۔میں کوشش کروں گا۔۔۔بس آخری۔۔۔۔" وہ امان شاہ کے قدموں میں گرا تھا۔۔۔

"میں وارننگ نہیں دیا کرتا ظہیر۔۔۔میرا پہلا حکم اور بات ہی میری پہلی اور آخری وارننگ ہوتی ہے!" امان نے پستول اس کے سر رکھی۔۔۔

"امان! اسے صرف آخری موقع دو! پلیز!" زمان تھوک نگل کر بولا۔۔۔

"تم جانتے ہو مجھے یہ باتیں پسند نہیں!" اس نے دانت پیسے۔۔۔

"صرف آخری امان! پلیز!"

امان نے اسے غصہ سے دیکھا تھا۔۔۔۔

ظہیر کھڑا ہوا۔۔۔۔

امان کے ایک زوردار تھپڑ سے وہ دور جا گرا تھا۔۔۔

امان شاہ زمان کے قریب آیا۔۔۔

"یہ آخری بار تھا زمان! آئندہ ایسا نہیں ہوگا تم سے!" وہ اسے وارن کرتا ہوا اوپر چلاگیا۔۔۔

زمان شاہ نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔

ابھی زمان شاہ کی وارننگ باقی تھیں!

امان اسے تین دفع وارننگ دیتا تھا۔۔۔

اور پھر اذیت دیتا تھا۔۔۔۔

"جاؤ باہر جاؤ تم لوگ!" وہ انہیں حکم دیتا تو اوپر چلاگیا۔۔۔

*-------------*--------------*----------------*-----------------*

"مجھے مت مارو خدارا" اس لڑکی نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے۔۔۔

مگر وہ دانت پر دانت جمائے ہاتھ میں بیلٹ لئے آگے بڑھ رہا تھا۔۔

"میں مرجاؤ گی!!! " وہ لڑکی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔

"تمھیں میں نے منع کیا تھا نا؟"

اس مرد نے وہ بیلٹ پوری قوت سے ماری۔۔۔

وہ درد کے مارے چینخی۔۔

اس نے اپنے ہونٹوں سے رستے خون کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بے دردی سے ہونٹ اپنے دانتوں کے نیچے کچل ڈالے تھے۔۔۔

اس نے گردن موڑ کر دیکھا۔۔۔

اسکے 6,7 سال کے بیٹے ڈرے سہمے انہیں دیکھ رہے تھے۔۔۔ اس نے تکلیف سے اسے دیکھا اور پھر اپنے شوہر کو جو ایک بار پھر بیلٹ لئے آگے آرہا تھا۔۔۔

"مت کرو ایسا!!! مجھ پر اور اپنے بچوں پر رحم کرو!!"

وہ اسے اس کے بچوں کے سامنے ماررہا تھا اس سے ذیادہ دکھ،تکلیف اور شرم کی بات اور کیا ہوگی۔۔۔

اب وہ سنگھار میز کی جانب بڑھا تھا۔۔۔۔

دراز کھول کر اس نے بلیڈ نکالا اور اس کے قریب شان سے چلتا ہوا آیا۔۔۔۔۔

اس عورت نے کرب سے آنکھیں میچیں۔۔۔

اس کا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کے پیچھے چھپ گیا۔۔۔

اور آگے والا بیٹا اپنے باپ کو بغور دیکھنے لگا۔۔۔

اس لڑکی نے بھاگنا چاہا تو اس نے اسے دیوار سے الٹا کھڑا کرکے اسے کس کر پکڑا۔۔۔

اسکے گدی سے بال اوپر کئے اور اسکے جلد پر بلیڈ پھیرا ۔۔۔۔

وہ کچھ لکھ رہا تھا۔۔۔

وہ  لڑکی اذیت سے چلائی۔۔۔ 

اس نے اپنے نام کا پہلا حرف بلیڈ سے لکھ دیا۔۔

خون بہہ رہا تھا۔۔۔

بلیڈ کو جیب میں رکھ کر اس نے اسکا ہاتھ موڑ کر اپنی جانب کیا۔۔۔۔

"یہ میری محبت کا نشان ہے! زندگی بھر نہیں ہٹے گا!!" وہ درد کے مارے چینخ رہی تھی۔۔۔

اس نے بیلٹ زمین پر پھیکی اور غصہ میں آستیں کے کف فولڈ کرتا باہر چلاگیا۔۔۔

وہ لڑکی جلدی سے اٹھی اور آئینے میں مڑ کر اپنے بال اٹھا کر دیکھنے لگی۔۔۔

ایک لفظ لکھ گیا تھا وہ

ایک حروف

وہ اپنے نام کا پہلا لفظ لکھ گیا تھا۔۔۔

اس نے زخم پر ہاتھ رکھ کر رونا شروع کردیا تھا۔۔۔

*------------*-----------*---------------*

"میں نے کھانا بنادیا ہے۔۔۔میں کالج جارہی ہوں!"وہ کچن سے نکلی اور لاؤنج میں آکر بیگ کو کندھے پر ڈالنے لگی۔۔۔

"دھیان سے جانا! بس آگئی کیا؟!" نفیسہ بیگم نے اس کا چہرہ چوما۔۔۔

"جی ماما!"اس نے مسکرا کر انہیں گلے لگایا۔۔۔

وہ جانے کو پلٹی کہ تن فن کرتی رمشا کمرے میں داخل ہوئی۔۔

"تم نے میری کپڑے استری کیوں نہیں کئے؟!؟" وہ چینخی تھی۔۔

"میں بھول گئی رمشا۔۔۔ ابھی مجھے جانا ہے میری وین آگئی ہے۔۔"

رمشا نے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔

"یہ کپڑے استری کئے بنا تم نہیں جاؤگی یہاں سے"

نفیسہ بیگم پریشان ہوئیں۔۔۔

"رمشا بیٹے مجھے دیدو۔۔اس کی بس کھڑی ہے نیچے!" وہ کپڑے لینے آگے بڑھیں۔۔

"تائی جان آپ نہیں! یہ کام اسے ہی کرنا ہوگا۔۔۔اور ابھی کرنا ہوگا۔۔"وہ دانت پیس کر بولی۔۔۔۔

شانزہ نے بے بسی سے اسے دیکھا۔۔۔۔"جاؤ شانزہ کپڑے استری کرو میں بس والے کو رکواتی ہوں!" وہ کپڑے اسکے ہاتھ میں دئے باہر کی جانب بھاگی تھیں۔۔

رمشا نے اسے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا۔۔۔

شانزہ نے بے اختیار نظریں پھیریں۔۔۔

اس نے کپڑے اٹھائے اور استری اسٹینڈ کی جانب بڑھی۔۔۔

*---------------------*-----------------*-----------------*

وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور اپنا پرس اپنی الماری میں چھپایا۔۔۔

آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے اپنے چہرے کو بغور دیکھتے تھے۔۔۔چہرے میں موجود زخم جو اس نے میک اپ سے چھپائے تھے...

"ماما" بچوں کو اس کی موجودگی کا علم ہوگیا تھا۔۔۔اب وہ چلا کر بھاگتے ہوئے کمرے میں آرہے تھے۔۔۔

اس نے آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھا۔۔۔

اگر بچوں نے میک اپ دیکھ لیا تو کہیں اس کے سامنے بتا نہ دیں۔۔۔

وہ بھاگتی ہوئی واشروم گئی اور پورا چہرہ صاف کرکے آئی۔۔۔

"ماما" وہ دونوں اس سے لپٹے تھے۔۔۔

اس نے مسکرا کر ان کے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔

"کہاں تھے میرے بچے"

"ماما یہ مجھے تنگ کررہا تھا۔۔" بیٹے نے دوسرے بیٹے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔

"نہیں ماما اس نے مجھے ڈانٹا تھا۔۔۔" وہ اپنے دوسرے بیٹے کو جانتی تھی۔۔۔

وہ ایکٹنگ کرنے میں ماہر تھا۔۔اسے ہلکا سا ڈانٹوں تو کسی دوسرے کو ایسا بتاتا کہ سامنے والا بھی ہنس جاتا۔۔۔

"آپ نے کچھ غلطی کی ہوگی نا!!" وہ مسکرائی۔۔۔

"نہیں!" وہ چپ ہو کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔

ماہ نور نے اسے گھورا۔۔۔

اس کی گھوری پر دل کھول کر ہنسا تھا۔۔۔

وہ بھی اس کے گال کھینچ کر ہنس دی۔۔

فون کی بپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔

وہ اسے فون سے عجیب خوف محسوس ہوا۔۔۔

اس کی بیل مستقل بج رہی تھی۔۔۔

اس کے بچے پیچھے کھیلنے میں مصروف تھے۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہی تھی۔۔۔

اتنی دیر میں کال کٹ گئی۔۔۔

اس کی جان میں جان آئی۔۔۔

وہ پھر بچوں کی جانب پلٹنے لگی کہ فون پھر بج اٹھا۔۔

اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیلیا تھا۔۔

وہ فون کی جانب پہنچی اور نام پڑھا۔۔

اس نے کرب سے آنکھیں میچیں۔۔۔

اس نے کال اٹھائی اور سسکیاں بھرتے ہوئے کان سے لگایا۔۔۔

"کسی ہو جانم!" وہ مسکرا کر خوشگوار لہجے میں بولا۔۔۔

ماہی کے حلق میں گویا کانٹاپھنسا تھا۔۔

اس نے تھوک نگلا۔۔

دن کے تین بج رہے تھے۔۔

"جواب دو ماہی!" وہ اطمینانی سے بولا۔۔۔

وہ اطمینان تھا یعنی کوئی بڑی مصیبت تھی۔۔۔

"میں ٹھیک ہوں!" ماہ نور نے ماتھے میں آئے پسینے کو صاف کیا۔۔۔ اس کے ہاتھ کپکپارپے تھے جس کے باعث کان سے فون پھسل رہا تھا۔۔۔

وہ مسکرایا۔۔۔

"اور میرا حال نہیں پوچھو گی؟" وہ شکوہ چند لہجے میں منہ بسور کر بولا۔۔۔

"آ۔آپ  ک۔کیسے ہیں؟"

"میں ٹھیک ہوں لیکن میرے موڈ کا کچھ نہیں پتا!"

ماہ نور سہمی

"کیا مطلب؟ ک۔کیا ہوا ہے؟"

"ماہی!" وہ بے انتہا پیار سے بولا۔۔

اب یقیناً کچھ برا ہونے والا تھا۔۔

"ج۔ج۔جی" وہ ہکلائی۔۔

"کیا ہوا لفظ ٹھیک سے ادا نہیں ہورہے؟؟؟" وہ انجان بنا۔۔۔

"نہیں ایسی بات تو نہیں۔۔۔۔!" اس سے واقعی اب لفظ ادا نہیں ہورہے تھے

"آپ ک۔کہاں ہیں؟" وہ ہاتھ میں موجود زخم کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔

وہ ہنسا۔۔

زور سے۔۔

فلک شگاف قہقہہ کہ ماہ نور کو فون کے باہر سے آواز سنائی دی۔۔۔

وہ سہمی۔۔۔

جیسے دل حلق میں آگیا ہو۔۔۔

"گیراج میں ہوں۔۔۔گھر کے۔۔۔کھڑکی سے جھانک کر دیکھو مجھے۔۔۔"ڈرائیور" کے ساتھ کھڑا ہوں۔۔۔ سوچا آفس سے آکر خبر تو لوں یہ ڈرائیور آج گیا کہاں تھا۔۔۔" وہ کہہ کر پھر ہنسا۔۔۔

خوف کے مارے اس کے چینخ نکلنے کو تھی مگر اس نے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔

اسے سامنے اپنی موت نظر آرہی تھی۔۔۔

وہ کھڑکی جانب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ آئی اور ہلکا سا پردہ ہٹا کر دیکھا۔۔

وہ نیچے اپنی بی ایم ڈبلیو کے بونٹ پر بایاں ہاتھ رکھ کر کھڑا تھا۔۔۔

فون کندھے کے سہارے کان میں لگایا ہوا تھا۔۔

بائیں ہاتھ خنجر تھا جسے وہ اچھال کر پھر ایک ہاتھ سے پکڑ رہا تھا۔۔۔

خنجر خون آلود تھا۔۔۔

زمین پر ڈرائیور کی لاش پڑی تھی۔۔۔

خون سے زمین رنگ چکی تھی۔۔۔

وہ خوف سے چینخی۔۔۔

اس کے شوہر نے جب اسے کھڑکی سے جھانکتے دیکھا تو ہاتھ ہلایا۔۔۔

"خ۔خ۔خون۔۔۔" وہ ہکلائی۔۔۔

"اسے ماردیا میں نے!" وہ مسکرایا۔۔

ماہ نور کے ہاتھ سے فون پھسلا۔۔۔

وہ چینخ کر رونے لگی۔۔۔

اس کا دل پھٹ جانے کو تھا۔۔۔

اسنے پردہ چھوڑا اور وہیں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔۔۔

"تمھیں پتا ہے میں نے اسے کیوں مارا؟؟" اس نے لہجہ یقیناً سخت تھا۔۔۔

وہ وہیں گیراج میں ہی تھا۔۔

وہ اس کا فون نہیں سننا چاہتی تھی۔۔۔

"اس لئے کیونکہ اس نے میرا حکم نہیں مانا۔۔۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ "میری" ماہ نور جہاں جانے کو کہے اسے نہ لے کر جائے جب "میری" اجازت نہ ہو! اور وہ تمھیں کبھی نہیں ملی ہے نا ملے گی۔۔! تم جانتی ہونا مجھے تمھارا اپنے بغیر باہر جانا پسند نہیں۔۔۔؟مگر اس نے میری بات نہیں سنی۔۔ میری ماہ نور اپنے شوہر کے حکم کے خلاف گئی اور میرا ڈرائیور بھی میرے خلاف۔۔۔ وہ تو مرگیا۔۔۔میں آپ کے پاس آرہا ہوں سوئٹ ہارٹ۔۔۔ آپ جانتی آپ کے شوہر کو نہیں پسند کے اس کی بیوی گھر سے باہر قدم رکھے اس کے بغیر۔۔۔ مرنے سے پہلے بتایا تھا ڈرائیور نے! کہ میری زوجہ اپنی دوست سے ملنے گئی تھیں! میں تم پر کسی اور مرد کی نگاہیں برداشت نہیں کرسکتا اور تم ڈائرکٹ اپنی دوست کے گھر۔۔۔" اس نے ہنس کر بات ادھوری چھوڑی۔۔۔

ماہ نور کو موت سامنے نظر آرہی تھی۔۔۔

"آپ ۔م۔مجھے ماردیں گے؟؟" وہ اٹک کر بولی ۔اس کے الفاظ حلق میں پھنس گئے جیسے۔۔۔

اس کے شوہر نے چونک کر موبائل دیکھا جس میں سے اسکی بیوی کی آواز آئی تھی اور پھر کان سے لگایا۔۔۔

"میں تمھیں کیوں موت کے حوالے کروں گا!! تم میری ہو ماہ نور! تم اور بچے! دونوں میرے ہو! صرف میرے!

میں تمھیں نہیں ماروں گا! میں صرف سزا دوں گا۔۔۔ میں تمھیں اذیت دونگا!!"

ماہ نور کے رونے میں روانگی آئی۔۔

"جانم! ایک گیم کھلیں؟" وہ مسکرایا۔۔

ماہ نور نے جھٹکے سے فون کان میں لگایا ۔۔۔۔"نہیں مجھے کوئی گیم نہیں کھیلنا۔۔۔ ن۔ن۔نہیں مینو!!۔۔۔ مجھے نہیں۔۔۔نہیں پلیزززز" وہ پھوٹ پھوٹ کر رودی۔۔۔

"نہ میری جان! گیم تو کھیلنا ہوگا۔۔۔ آخر اپنی امپارٹنٹ میٹنگ چھوڑ کر آیا ہوں! تھوڑا گیم بھی ہوجائے۔۔۔" وہ کھڑکی کی جانب دیکھتا ہوا بولا جس پر پردے ڈھکے تھے۔۔۔

"نہیں۔۔۔۔ مینو نہیں کھیلنا مجھے۔۔۔۔میرے مینو! مجھے نہیں کھیلنا خدارا۔۔۔" وہ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔۔۔

وہ ہنسا۔۔۔

"ہم کھیلیں گے ہائڈ اینڈ سیک۔۔۔ مزہ بہت آئے گا چھپن چھپائی کھیلنے میں۔۔۔" وہ جتنا ہنس کر گویا ہوا تھا اتنا کرب سے ماہ نور نے سنا تھا۔۔۔۔

"مجھ سے غلطی ہوگئی مینو! پلیززز معاف کردو۔۔" وہ روتے میں چلائی۔۔۔

"تو سدھار لیتے ہیں نا جانم!"

اسی دم وہ چینخی

"نہیں!!!! پلیز!!"

"سوئٹ ہارٹ جاؤ جا کر چھپ جاؤ۔۔۔ میں آیا۔۔۔" اس نے کہہ کر کال کاٹ دی تھی۔۔۔

ماہ نور نے ڈر کو موبائل دور پھینکا۔۔۔

وہ گیراج سے گھر  میں داخل ہوچکا تھا۔۔۔

اس نے اس کی آواز سنی تھی۔۔۔

وہ گنتی گن رہا تھا۔۔۔

"ایک"

قریب تھا کہ ماہ نور کا دل پھٹ جاتا۔۔۔

وہ تیزی سے اٹھی اور پردے میں سے جھانک کرک دیکھنے لگی۔۔

وہ لاؤنج میں قدم رکھ چکا تھا۔۔۔

وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔۔۔

وہ کہاں چپھے اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔۔

اس نے اپنے کھلے بال کھینچ کر پیچھے کئے۔۔۔

"دو" اس کی آواز آئی۔۔۔

بچے سامنے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔۔۔

"تین!"

اس کی آواز پر وہ اور ڈر گئی۔۔۔

اس نے الماری کھولی اور چپھنے کے لیے جگہ دیکھنے لگی۔۔

جگہ نہ ہونے کے باعث وہ اور ڈر گئی۔۔۔

"چار"

وہ دروازے کے سمت آئی اور سیڑھیوں سے نیچے جھانکنے لگی کیونکہ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ کہاں تک پہنچا۔۔

وہ گراؤنڈ فلور پر تھا۔۔۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔ اس نے دراز کھول کر خنجر اور پستول اندر رکھی اور چمڑے کی بیلٹ نکالی۔۔

ماہ نور کی سانس رکی۔۔

"پانچ"

وہ سر پٹ اندر دوڑی۔۔۔

کمرے میں گئی لیکن چپھنے کی وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ بچوں نے اسے دیکھا تھا۔۔۔اس کی یہ حالت ان کے سمجھ سے باہر تھی۔۔۔

وہ بچوں کے پاس آئی اور انہیں پیار کیا

"بابا کو مت بتانا میں کہاں ہوں! بابا پوچھیں گے تو کہنا آپ کو نہیں پتا ماما کا!"

اس کی آواز گونجی۔۔

"چھہ"

وہ پلٹی! اب اس کا رخ دوسرے کمرے کی جانب تھا جہاں وہ اپنا آفس کا کام کرتا تھا۔۔۔

"سات"

اس کے دونوں بیٹوں نے اسے اس کمرے کی جانب جاتے ہوئے دیکھا۔۔

ماہ نور اس کی کمپیوٹر ٹیبل کے پیچھے چھپ گئی۔۔۔

"آٹھ!" اب وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔۔

ماہ نور نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا کہ چینخ نہ نکلے۔۔۔۔

"نو!"

اذیت ناک اور درد ناک لمحہ تھا۔۔۔

اس نے آنکھیں میچیں۔۔۔

"دس!"

اس کے دس بولتے ہی ماہ نور کو لگا "اب سب ختم"

"ماہی۔۔۔ کہاں ہو۔!" وہ مسکراتا ہوا گنگنانے کے انداز میں بولا۔۔۔

ماہ نور کی آواز حلق میں پھنسی۔۔

وہ کمرے میں آیا۔ بچے انجان تھے۔۔ پورے کمرے میں نظر دوڑانے کے بعد وہ بچوں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا۔۔۔

بچے اسے سہم کر دیکھنے لگے۔۔۔

اس نے بچوں کے ماتھے چومے اور مسکرا کر انہیں دیکھا۔۔

"ماما کہاں ہیں؟"

اس کے ایک بیٹے نے دوسرے کا بازو کھینچا کہ کہیں وہ بتا نہ دے۔۔

جبکہ دوسرا بیٹا اپنے باپ کو بغور دیکھ رہا تھا۔۔۔

"وہ وہاں ہیں!" اس بچے نے سامنے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔۔

ماہ نور آواز بخوبی سن سکتی تھی۔۔۔

اس کی اس سے پہلے چینخ نکلتی ماہ نور نے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے۔۔۔

اچانک وہ مسکرایا۔۔۔

"تھینک کیو۔۔۔ جاؤ کھیلو۔۔۔" ان کا ماتھا چومتے وہ اٹھ کر کمرے سے نکلا ۔۔۔

پہلے بچے نے دوسرے بچے کو ڈانٹا۔۔۔

"ماما نے منع کیا تھا۔۔"

دوسرے بچے نے اسے دیکھا اور کھلونے کے پاس آبیٹھا۔۔۔

"بابا کیا ماما کو ماریں گے؟" وہ بچہ پھر سے اس کی جانب آیا۔۔۔

اس نے بھائی کی آواز جیسے سنی ہی نہ ہو۔۔۔

"آؤ گاڑی گاڑی کھیلتے ہیں!" اس نے بات پلٹ دی۔۔۔

"ہاں چلو!" وہ بچہ بھی بہل گیا۔۔

*----------------*---------------------*----------------*

پانی سے بھرا جگ اس نے زمان کے اوپر ڈالا تھا۔۔۔

وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔

"کیا تمھیں نہیں یاد کے تمھیں آفس جانا ہے میرے ساتھ؟" امان شاہ نے سیگریٹ جلائی۔۔

"مجھے کہیں نہیں جانا مجھے سونے دو!"

امان نے اسے گھورا۔۔

"اٹھو.. فوراً" وہ چینخا۔۔

"میں نہیں جاؤں گا۔۔۔" وہ پھر کروٹ بدل گیا۔۔۔

"میں وارن کررہا ہوں!" امان کہہ کر پر سکوں ہوا۔۔

زمان ٹھٹھکا

"اس کے بعد؟؟"

امان شاہ نے ایک کش لیا۔۔۔

تم جانتے ہو۔۔۔"

"مجھے اذیت دو گے؟" زمان بنا ڈرے بولا۔۔

امان شاہ نے اسے بغور دیکھا۔۔۔

"نہیں دینا چاہتا جبھی کہہ رہا ہوں چلو۔۔۔! فوراّ۔۔" وہی کہہ کر پلٹا۔۔۔

"میں بعد میں آجاؤنگا۔۔۔" زمان نے کہہ کر آنکھیں موندیں۔۔

امان شاہ نے اسے سخت لہجے میں دیکھا اور کمرے سے نکلا۔۔

زمان کا خون خشک ہوا۔۔۔

وہ سکوں سے تھا اور یہی بے سکونی تھی۔۔۔

"میں آرہا ہوں!" اس نے بلند آواز میں اس سے کہا۔۔۔

امان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔۔

"تھینک یو فارس سیونگ مائی ٹائم۔۔!" جان لیوی مسکرا ہٹ کے ساتھ وہ باہر کی جانب ہولیا۔۔۔۔

*-------------------*------------------*-------------------*

"چچی آپ نے ٹھیک نہیں کیا یہ۔۔۔" فاطمہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔۔۔

"تم جانتی ہو اس گھر میں میری نہیں چلتی۔۔" ونفیسک بیگم بستر کی چادر تہہ کرتی ہوئی بولیں۔۔

فاطمہ بیڈ پر بیٹھی۔۔

اوپر تک آواز آئی تھی رمشا کی۔۔۔ مما نے کہا کہ میں دیکھ آؤں! کیا تماشا کررہی تھیں یہ محترمہ؟" فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔۔

" بھابھی کیسی ہیں؟'

انہوں نے بات بدلی

"ٹھیک ہیں چچی وہ۔۔۔" اس نے اٹھ کر نفیسہ بیگم کے ہاتھ سے چادر لی اور خود تہہ کر کے الماری میں رکھنے لگیں

"آپ بیٹھ جائیں میں کردیتی ہوں"۔۔۔

وہ بستر پر بیٹھ گئیں۔۔

"تم کالج نہیں گئی؟" وہ تسبیح گھماتے ہوئے بولیں۔۔

"نہیں آج چھٹی کرلی۔۔۔ میں نے بتادیا تھا کل شانزہ کو۔۔۔"

نفیسہ مسکرائیں۔۔۔

"ہاں اس کے جانے کا دل بھی نہیں کررہا تھا۔۔۔ شاید اسی وجہ سے۔۔۔ دونوں ساتھ رہتے ہونا تو بور نہیں ہوتے ہوگے۔۔"

فاطمہ مسکرائی۔۔

"ہاں جی۔۔۔!"

گھر میں سکون تھا۔۔۔ رمشا جو سورہی تھی۔۔

*---------------------*-----------------*-----------------*

وہ اس کمرے میں داخل ہوا۔۔۔

"سوئٹ ہارٹ!" وہ جانتا تھا وہ ٹیبل کے پیچھے چپھی ہوئی ہے۔۔۔

مگر پھر بھی انجان رہا۔۔۔

"کہاں ہو۔۔۔سامنے آؤ!" وہ جان بوجھ کر دوسرے جگہ ڈھونڈنے لگا۔۔۔

ہاتھ میں موجود چمڑے کا پٹا اس نے صحیح سے پکڑا۔۔۔

"مجھے پتا ہے میں تمھیں ڈھونڈ لوں گا۔۔!" وہ آہستہ قدم اٹھاتا ٹیبل کے قریب آرہا تھا۔۔۔

ماہ نور کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔۔۔

"محبت کرنے والے ہمیشہ نظروں کے سامنے ہی ہوتے ہیں! ہاں کبھی کبھی آپ محبوب کی خلاف ورزی کرجاتے ہیں لیکن سدھارنا تو میں جانتا ہوں نا۔۔۔ میری محبت صرف میری ہی ہے۔۔۔ جو اس پر نظر بھی دوڑائے گا اس کی آنکھیں نوچ لوں گا میں۔۔۔ سامنے آؤ سوئٹ ہارٹ۔۔" وہ ماہ نور کی جانب بڑھا۔۔۔

ماہ نور کا دل چاہا کہ اسے موت آجائے۔۔

اس نے ماہ نور کو کھینچ کر اٹھایا۔۔۔

"ڈھونڈ لیا تمھیں! لگتا ہے ہائڈ اینڈ سیک بھول گئی ہو۔۔۔ یہ جگہ بھی چپھنے کی تھی بھلا۔۔۔" مسکراتے ہوئے اس نے اسے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔

ماہ نور کی جیسے سانس رکی۔۔وہ جان نہ پائی کہ اس کے شوہر کے ہاتھ کی گرفت چمڑے کے بیلٹ پر مضبوط ہوچکی تھی۔۔

اس نے اس کا چہرا دبوچا۔۔

وہ کراہی۔۔ اسنے اپنے آپ کو چھڑانا چاہا لیکن گرفت مضبوط تھی۔۔۔ اس کا لہجہ پل بھر میں بدلا۔۔۔

سختی کے ساتھ اس نے اسے دیوار سے لگایا۔۔۔

"مینو!" وہ درد سے چلائی۔۔

"ہر وہ کام کیوں کرتی ہو جس سے میں منع کرتا ہوں!" وہ دانت پیس کر بولا۔۔۔

ماہ نور نے دور ہٹنا چاہا۔ اس نے اسے دھکا دیا۔ وہ دیوار پر لگی۔۔ منہاج نے بیلٹ کو سختی سے پکڑ کر پوری قوت سے اسے مارا تھا۔

وہ درد سے حلق کے بل چلائی تھی۔۔

بچے ماں کی آواز پر ڈر کر اس کمرے آئے تھے۔۔۔

ڈرے سہمے وہ اپنی ماں اور باپ کو دیکھ رہے تھے۔۔

منہاج اسے اس وقت تک مارتا رہا جب تک وہ نیم بے ہوش نہیں ہوگئی۔۔

بچے رونے لگے تھے۔۔۔

وہ زمین پر بے سدھ تڑپ رہی تھی۔۔

جب مار مار کر تھک گیا تو بیلٹ غصے سے زمین پر۔پھینک کر باہر چلاگیا۔۔۔

وہ بچے بہت ذیادہ رونے لگے تھے۔۔

وہ جو نیم بے ہوشی کی حالت میں تھی بچوں کی آوازوں پر اٹھ کر بیٹھی۔۔

اس نے بچوں کو مسکرا کر دیکھا۔۔

درد تھا جو اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا تھا۔۔مگر کبھی کبھی آپ کو مسکرانا پڑتا ہے کیونکہ آپ مجبور ہوجاتے ہو۔۔ وہ اپنے بچوں کو ان کے باپ کی طرح نہیں بنانا چاہتی تھی۔۔۔

اس نے لبوں پر مسکراہٹ سجائی رکھی۔۔۔

وہ بچے روتے ہوئے ماں کی طرف آئے۔۔۔

اس کا پورا جسم درد کررہا تھا۔۔

اس نے ایک کو اپنے دائیں جانب اور دوسرے کو اپنے بائیں بٹھایا۔۔۔

"بابا نے مارا نا آپ کو؟ آپ کو درد ہوا ہوگا نا؟؟" وہ ہچکیوں سے رویا۔۔۔

ماہ نور کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے۔۔ کیا وقت تھا کہ بیٹے ماں کو مار کھاتا دیکھ رہا تھا۔۔

"میں بابا کو ماردوں گا!" دوسرے بیٹے نے جذباتیت میں کہا۔۔۔

وہ دونوں محض چھ سال کے تھے۔۔

وہ جانتی تھی ابھی چھوٹے ہیں اس لئے یہ باتیں کررہے ہیں!

"ماما کو بھی کچھ بولنا ہے!" وہ یہ کہہ کر ان دونوں کو دیکھنے لگی۔۔ ایک بیٹے نے اس کی آنکھوں سے آنسو صاف کئے۔۔

"کبھی بابا کی طرح مت بننا! کبھی بھی۔۔ لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔۔ اللہ گناہ دیتا ہے۔۔" اس نے ابھی بات مکمل نہیں کی تھی کہ ایک بیٹے نے بات کاٹی۔

"بابا نے گناہ کیا ہے؟ اللہ انہیں دوزخ میں ڈالے گا نا ماما! میں اللہ میاں سے دعا کروں گا۔۔ میں انہیں کیوں گا بابا کو دوزخ میں ڈال دے۔۔ اور انہوں نے آپ کو چھڑی سے یہاں کاٹا تھا نا آپ کو۔۔" اس نے اپنی ماں کو پیچھے سے بال اٹھا کر دیکھا۔۔ وہ چھڑی نہیں بلیڈ تھا۔۔ اب وہ اس چھوٹے سے بچے کو کیا بتاتی؟

"یہ M کیوں لکھا ہے ماما؟؟" دوسرے بیٹے نے ماں کا چہرہ اپنی جانب موڑا۔۔

"میرا نام M سے آتا ہے نا۔۔۔؟" اس نے بات ٹالنا چاہی۔۔

"بابا کا بھی M سے آتا ہے نا ماما۔۔" اس نے آنکھیں پٹپٹائیں۔۔

وہ جواب نہ دے پائی۔۔

"آؤ بھوک لگی ہوگی تم لوگوں کو کچھ کھلاؤں۔۔" درد پر قابو پاتے ہوئے وہ اٹھی۔۔

وہ درد جو اس کے جسم پر تھا۔

وہ درد جو اس کی روح کو چھلنی کرگیا تھا۔

*--------------------*-----------------*--------------------*

صبح کے دس بجے تھے۔ زمان فریش ہوکر نیچے آیا۔  آستین کے کف گولڈ لرتا وہ ڈائننگ ٹیبل کے بیٹھا۔ باورچی نے اس کا ناشتہ لگایا۔

"بھائی کہاں ہیں؟" ماتھے پر بل ڈال کر اس نے باورچی سے پوچھا۔۔۔

"دادا وہ تو سو رہے ہیں۔" وہ کہہ کر کچن میں واپس چلاگیا۔ اس نے گارڈ کو آواز دی۔

"ظہیر۔ بھائی کو جا کر اٹھا آؤ۔" چائے کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے اس نے حکم دیا۔۔

جتنے میں ظہیر آیا اتنے میں وہ ناشتہ ختم کرچکا تھا۔ اب وہ چائے کے گھونٹ لے رہا تھا۔

"جی دادا۔"

"بھائی کو اٹھا آؤ۔"

ظہیر کے چہرے پر خوف طاری ہوا۔ زمان نے اس کا چہرہ بغور۔دیکھا تھا۔

"تمھیں کس سے ڈر لگ رہا ہے اب؟" زمان نے اسے گھورا۔ ظہیر نے رونی صورت بنائی۔

"کیا ہوا کچھ بکو؟" زمان کی آواز بلند ہوئی۔

"زمان دادا۔ میں اپنی موت کو دعوت نہیں دینا چاہتا!" وہ لب بھینچ کر بولا۔

"تم میرے بھائی کو اتنا برا کہہ رہے ہو۔۔۔اب تو یہ بات بھائی کو بتانا پریگی" زمان نے دل پر ہاتھ رکھا۔۔

وہ بچپن سے ہی ڈرامہ تھا۔ ظہیر کی تو یہ حالت کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں!

"ن۔نہیں دادا میرا یہ مطلب نہیں تھا دادا۔۔۔ آ۔آپ غلط سمجھے ہیں۔ امان دادا کو کچھ نہیں بتائے گا۔۔۔ خدارا!"

زمان ہنسا۔

"بھائی کے نام پر تم لوگ کانپ کے رہ جاتے ہو میرے نام پر کچھ نہیں ہوتا کیا۔؟" وہ گھور کر بولا۔۔

"نہیں دادا ان سے خوف آتا ہے۔ وہ جسم پر گولیاں اتارنے کے لئے لمحے بھر کو بھی نہیں سوچتے۔" اس کے چہرے سے خوف ٹپک رہا تھا۔۔۔

زمان نے آخری گھونٹ بھر کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"شہنواز۔۔ بھائی کو اٹھا آؤ۔۔۔ اور یہ گن کہیں رکھ جانا ورنہ اسی گن سے تمھیں اڑادیں گے۔"

"دادا ابھی تو  10:30 ہوئے ہیں۔ دادا وہ 11 بجے اٹھتے ہیں۔" شہنواز کی حالت بھی خراب ہوئی۔

"وہ کچھ کہیں تو کہہ دینا کہ زمان نے اٹھوایا ہے" زمان نے غصہ ہوا۔

"دادا اس دن بھی اسلم نے اٹھادیا تھا۔ اب بے چارہ لنگرا کر چل رہا ہے۔" شہنواز نے میسنی صورت بنائی۔

زمان نے دونوں کو گھورا۔

"جاؤ ڈیوٹی پر" زمان نے حکم دیا۔

وہ خود ہی اب امان کے کمرے میں داخل ہوا۔

ائیر کنڈشنر کی ہوا خون جمانے کے لئے کافی تھی۔

زمان نے رموٹ اٹھایا اور ائیر کنڈشنر آہستہ کیا۔

"اتنا تیز اے سی کرکے سوتا ہے جیسے گھر اس کے باپ کا ہے!" وہ بڑبڑایا۔۔

"خیر گھر باپ کا ہی ہے۔۔ ایک تلخ حقیقت۔" وہ طنزیہ مسکرایا۔ کمرے میں انھیرا کئے اور منہ تکیہ کے نیچے رکھے ہوئے وہ گہری نیند میں تھا۔

"امان۔۔ اٹھو۔۔" وہ ایک آواز دیتے ہوئے اس کی الماری کی طرف آیا۔۔ اس نے پلٹ کر امان کو دیکھا جو ٹس سے مس نہ ہوا تھا۔ اس نے الماری کا پٹ دھیان سے کھولا۔ اس کے تمام کپڑے ترتیب سے ہینگ تھے۔ اس نے الماری کی دراز کھولی۔۔ اور بس وہی خوفناک لمحہ تھا۔۔ وہ خوف سے چینخا۔۔۔ امان اس کی آواز سے جھٹکے سے اٹھا۔

"کیا ہوا؟" اس نے بھنویں اچکا کر حیرت سے پوچھا۔ زمان کے چہرے پر درد عیاں تھا۔

"و۔وہ!" زمان نے الماری کی دراز کی طرف اشارہ کیا۔ امان نے اس کے دئے گئے اشارے کا پیچھا کیا۔ امان کے چہرے کا رنگ اڑا۔

"بند کرو الماری" وہ چینخا۔ زمان کو اس کی بات سمجھ نہ آئی۔۔

"یہ کیا ہے امان شاہ؟؟" وہ اس سے ذیادہ چینخا تھا۔ امان بیڈ سے اٹھا اور الماری کو لاک لگانے لگا۔ آئیندہ الماری میری اجازت کے بنا مت کھولنا۔" وہ سختی سے کہہ کر پلٹا۔

"چابی دو امان مجھے۔" وہ چینخا۔ امان نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"کمرے سے باہر جاؤ زمان" وہ تیز لہجے میں گویا ہوا۔

زمان تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور اس کے ہاتھ سے چابی لینی چاہی،لیکن امان نے اسے دکھا دے کر دیوار سے لگایا۔

"میرے کام میں دخل اندازی مت کرنا زمان۔ ورنہ میں بھول جاؤِ گا کہ تم کون ہو میرے!" وہ سختی سے وارن کرتا چابی جیب رکھ گیا۔ زمان نے لب بھینچے۔

"اب تم غلطی پر ہو!" زمان نے انگلی اٹھا کر کہا۔

امان نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔

"تمھیں سمجھ کیوں نہیں آرہی!" اس کا جواب نہ پاکر وہ پوری قوت سے چینخا۔

"مجھے سمجھانے کی کوشش مت کرو! اور مجھے پر آئیندہ مت چینخنا!" امان اسے گھورتا ہوا وہاں سے جانے لگا۔۔

"اسے اتنا سنبھال کر کیوں رکھا ہے؟؟" وہ دھاڑا۔۔

"تمھارے کام کا نہیں ہے۔۔! اس سے دور رہو۔۔۔ "

" ہاں مانا ماضی کی یادیں ہمیں چھلنی کر گئی مگر۔۔۔" زمان بات ادھوری چھوڑ گیا۔

درد سے کرب سے۔

"مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی" امان پر ایک ناراض نگاہ ڈال کر وہ م مڑا۔۔

جس خدشے سے ان کی ماں ڈرتی رہی اور اس سمندر میں ایک بیٹا پوری طرح غرق ہوچکا تھا۔۔

*-------------------*--------------------*-------------*

"میں نے لیلی ہے کلاس شانزہ" شانزہ جو فکرمندی سے اس کا ہی انتظار کررہی تھی اسے گھور کر رہ گئی۔

"گھر چلو جلدی۔ میرے تو ٹانگوں میں اتنا درد ہوگیا ہے۔" وہ تھکی تھکی سی بولی۔

"ہاں میرا چھوٹا سا بچہ۔ آجا۔" فاطمہ نے اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چلنے لگی۔

"میں بچی نہیں ہوں۔۔ اور اگر میں بچی ہوں نا تو تم بھی بچی ہو۔" شانزہ نے منہ بنایا۔

"ہاہا۔ چلو تمھیں چاٹ کھلاتی ہوں۔ امی سے پیسے کائی ہوں میں آج۔" اس نے خوشی بولا۔

"تائی جان سے بولوں گی تمھیں ذرا کم دیا کریں پیسے۔" شانزہ نے انہیں چھیڑا۔

"اتنے سے تو ملتے ہیں! یہ بھی بند کرادو تم میرے!" فاطمہ معصومیت سے بولی۔

"ہاہا بس کردو"

فاطمہ مسکرائی پھر بولی۔

"تمھیں کتنے ملتے ہیں روز کالج کے؟"

"سو روپے!" شانزہ سرسری نظر ڈال کر بولی۔

"اور رمشا کو یونی کے کتنے ملتے ہیں؟"

"تین سو"

فاطمہ نے حیرت سے دیکھا۔

"اتنے زیادہ کیوں؟"

"پتا نہیں۔ بابا دیتے ہیں!" شانزہ کے لب بول کر خاموش ہوئے۔

فاطمہ نے اپنے چہرے کے زاویہ بگاڑے۔

"مجھے سمجھ نہیں آتا ناصر چاچا کا! سگی بیٹی تم ہو مگر تم سے ذیادہ پیار بھائی کی بیٹی سے کرتے ہیں!"

" کیا کرسکتے ہیں اور..  چھوڑو مجھے چاٹ کھلاؤ!" اس نے بات بدل دی۔۔

"آجا۔۔" وہ اسے کھنچتی ہوئی ٹھیلے تک لے جانے لگی۔

٫------------------*------------------*-------------------*

"دادا عمران مرگیا۔" اسلم بھاگتا ہوا آیا تھا۔ امان نے سخت لہجے لئے بنوھیں اچکا کر پوچھا۔

"کیسے مرا؟" ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں اور ایک ہاتھ میں فون پکڑے وہ ماتھے پر بل ڈال کر وہ پوچھ رہا تھا۔

"ہاشم دادا نے اسے شوٹ کردیا ہے۔۔!" اسلم نے معلومات دی۔ امان شاہ کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھرے۔

"اس سے کیا دشمنی تھی ہاشم کی؟"

"دادا کوئی جھگڑا تھا۔۔ عمران نے فجر نامی لڑکی کو اغوا کروایا تھا۔۔!" وہ مؤدب کھڑا اسکی معلومات میں اضافہ کررہا تھا۔

"فجر؟" امان نا سمجھی میں بولا

"ہاشم کی بیوی.۔۔!"

"اوہ!" امان سمجھ آنے انداز میں بولا۔

"جی دادا!"

"اچھا ہوا مرگیا۔۔ ورنہ میں خود ہی موت کے گھاٹ اتار دیتا۔۔" وہ ہنکارا بھر کر بولا۔۔۔

زمان پیچھے بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ اسے ان باتوں سے دلچسپی نہیں تھی۔۔ وہ ویسے ہی خفا تھا۔۔ اسلئے اگنور کررہا تھا۔۔

"میں جاؤں دادا؟" اسلم نے اجازت مانگی۔۔

"میں نے کہا جانے کو؟" امان نے سختی سے کہا۔۔

وہ سہما۔۔۔ اور چپ کرکے کھڑا رہا۔۔۔

"زمان چلو۔۔۔ ایک شخص سے ملانا ہے تمھیں۔۔۔" وہ موبائل نظریں مرکوز کئے بولا تھا۔۔

زمان نے توجہ نہیں دی۔۔

امان نے اس کا جواب پا کر سر اٹھایا۔

"زمان؟"

زمان نے  پھر سے توجہ نہ دی۔۔

امان کو علم تھا کہ وہ اس سے خفا ہے۔۔

اسے کچھ لمحے تکنے کے بعد اس نے میز سے چابی اٹھائی اور گارڈز کو کہتا ہوا باہر نکلا۔۔

"اسے اٹھا گاڑی میں ڈالو۔۔۔"

زمان نے ششدر ہوتے اسے دیکھا۔۔

"مجھے کسی شخص سے نہیں ملنا۔۔" اس نے کہہ کر رخ موڑا۔۔

مگر امان شاہ نے اسے ذرا توجہ نہ دی بلکہ گارڈز ہر چلایا۔۔۔

"بہرے ہو تم لوگ؟ سمجھ نہیں آئی ایک بات میں؟" وہ دھاڑا۔۔۔

وہ سہمے اور زمان کی جانب بڑھے۔۔۔

وہ چینختا رہ گیا مگر امان شاہ کے کان میں جوں نہ رینگی۔۔۔

*----------------*------------------*--------------*

"تم دیکھنا علینہ حسن میں کرتی کیا ہوں شانزہ کے ساتھ" رمشا نے ہنس کر علینہ کو تالی ماری۔۔

علینہ نے بھی قہقہہ لگایا۔۔۔

وہ یونی کی کینٹین میں بیٹھے تھے۔

"تم ٹھیک نہیں کررہی ہو رمشا۔۔ دیکھو اس نے بگاڑا کیا ہے تمھارا ۔۔" لائبہ نے رمشا کو سمجھانے کی کوشش کی۔

"کچھ کہہ کر تو دکھائے وہ مجھے۔۔۔ تایا کو ایک سے چار لگا کر بتاؤں گی۔۔ وہ ویسے بھی میری ہی سنتے ہیں! اور بےچاری ان سے ڈانٹ ہی کھاتی رہتی ہے!" اس کا قہقہہ بلند ہوا۔

علینہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔۔۔

"تم جانتی نہیں ہو لائبہ شیراز وہ جتنی معصوم دکھتی ہے نا اتنی ہے نہیں! " وہ پھر ہنسی۔۔۔

لائبہ نے ناگواری سے منہ پھیرا۔۔۔

وہ اس سب میں صرف اپنی دوست کو سمجھا ہی سکتی تھی

"یہ لیں بابا میں نے آپ کے کپڑے استری کردئے" اس نے مسکرا کر ناصر صاحب کو دیکھا اور کپڑے پیش کئے۔

ناصر صاحب نے سرسری نظر اس پر ڈالی اور سنجیدگی سے بولے۔

"رکھ دو وہاں۔"

شانزہ کا دل مرجھا گیا۔ وہ لاؤنج میں موجود صوفے پر بیٹھ گئے اور ٹی وی کھول کر دیکھنے لگے۔۔۔

وہ انہیں دیکھتی رہ گئی۔۔۔۔

"تایا ابو۔۔" رمشا سو کر اٹھی تھی۔

"ہائے میرا بچہ اٹھ گیا؟ آجاؤ تایا ابو کے پاس۔۔۔" ناصر صاحب مسکرائے تھے اور اسے پاس بٹھایا تھا۔۔

شانزہ کے حلق میں آنسؤوں کا گولا پنھسا تھا۔۔

"شانزہ میرے لئے ناشتہ بنا لاؤ!" رمشا حکم دیتی ناصر صاحب کے کندھے پر سر رکھ گئی۔۔۔

"ہاں جاؤ شانزہ میری بیٹی کے لئے ناشتہ بناؤ!" ناصر صاحب نے پلٹ کر بھی اسے نہ دیکھا تھا۔۔۔۔

شانزہ پلٹ گئی۔۔۔

آنکھیں رورہی تھی۔۔۔

اور دل پھٹ رہا تھا۔۔۔

باپ اس کا تھا لیکن ایک لفظ محبت منہ سے نہ نکلا اب تک۔۔۔

وہ آنکھیں رگڑتی چولہا جلانے لگی۔۔۔

10,15 منٹ میں اس نے اس کے سامنے ناشتہ رکھا۔ اور کالج کے لئے تیار ہونے لگی۔۔۔

تقریباً آدھے گھنٹے میں فاطمہ غصہ میں نیچے اتری تھی۔

"تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟؟؟ " وہ دونوں ہاتھ کمرے پر ٹکائے بولی۔۔

"بس اسکارف پہن رہی ہوں!" اس نے اسکارف پر پن لگائی۔۔

"چلو جلدی آجاؤ!" فاطمہ نے ایک ہاتھ سے اسکا بیگ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسے کھینچتے ہوئے باہر کی جانب لے جانے لگی۔۔۔

اور وہ بس "دو منٹ دو منٹ" کرتی رہ گئی...

*-------------------*--------------------*--------------------*

ڈرائونگ سیٹ پر امان تھا۔۔جبکہ اس کے برابر زمان بھنا بیٹھا تھا۔ امان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پیچھے سے پانی کی بوتل اسکی طرف بڑھائی جبکہ ایک ہاتھ وہ ڈروائنگ کررہا تھا۔۔۔

زمان نے اسے دیکھا اور منہ بنایا۔۔

"رکھ دو اسے جہاں سے اٹھایا تھا۔۔ کہیں اس میں تم نے زہر نہ ملایا ہو!" اسنے نظریں پھیریں۔۔۔

"امان شاہ بے ہوشی اور نیند کی دوا ملا سکتا ہے مگر زہر نہیں ملا سکتا زمان شاہ کے لئے۔۔۔" امان سنجیدگی سے کہتا ہوا اس کی گود میں بوتل پھینکی۔۔

"رکھو مجھے نہیں چاہئے یہ پانی کی بوتل!" اس نے بوتل اٹھا کر اس کی جانب بڑھائی۔۔۔ امان نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔

"میں نے کہا پکڑو مجھے نہیں چاہئے بوتل!" وہ ہاتھ اس کی طرف یونہی بڑھایا ہوا تھا۔۔

امان نے اسے تیز نظروں سے گھورا۔ زمان کو کوئی فرق نہیں پڑا۔۔

"میں نے کہا پکڑو بوتل کو! مجھے نہیں چاہئے!" وہ پھر بولا۔۔

"ایکٹنگ ذرا کم کرو زمان۔۔۔ رکھ دو بونٹ پر۔۔۔ اٹینشن سیکر۔۔" وہ کہہ کر پھر آگے دیکھنے لگا۔

گاڑ اب پل پر چل رہی تھی۔

زمان نے اپنے چہرے کے زاویہ خوفناک حد تک بگاڑے اور زور سے بونٹ پر بوتل رکھی۔

امان شاہ نے جھٹکے سے گاڑی روکی۔ سیٹ بیلٹ اتاری اور گھوم کر اس کی طرف آیا۔۔ آرام سے دروازہ کھولا۔

زمان سمجھا منزل آگئی۔ وہ اتر گیا۔۔

"یہاں کون ملنے آنے والا تھا؟" زمان ماتھے پر بل ڈال کر چاروں طرف نظر دوڑانے لگا۔

امان واپس ڈرواوئنگ سیٹ پر آبیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔ زمان نے پلٹ کر دیکھا تو وہ گاڑی آگے بڑھا چکا تھا۔۔۔ یہ پہلی بار نہیں تھا۔ وہ جب بھی امان کو یونہی تنگ کرتا وہ اسے ایسے ہی گاڑی سے اتار دیا کرتا تھا۔۔ مگر اس باری میں فرق صرف اتنا تھا کہ زمان نے چلا چلا کر اسے روکنا نہیں چاہا تھا۔۔۔ وہ یہ جانتا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو تنہا کہیں چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔۔ وہ خاموش رہا۔۔ زمان شاہ جانتا تھا کہ امان خود ہی رکے گا۔۔ وہ پل کے کنارے آیا اور دیوار سے نیچے جھانکنے لگا۔۔

نیچے ندی تھی۔۔ زمان اچک کر دیوار پر بیٹھ گیا۔۔

امان نے بیک مرر سے اسے دیکھا! وہ چلا نہیں رہا تھا۔۔ اس بار زمان واقعی خاموش تھا۔ امان نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی۔ زمان نے ترچھی نگاہ سے اسکی گاڑی دیکھی اور دیوار پر کھڑا ہوگیا۔۔ اب صورتحال کچھ ایسی تھی کہ زمان کے قدم اگر ذرا سے بھی ڈگمگاتے تو ندی میں گر جاتا۔۔ اس کی اس حرکت پر امان کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ زمان اس کے بارے ٹھیک کہتا تھا کہ وہ غصے میں بہت کچھ کردیتا ہے اور اسکے پچھتاوں کے گھڑے میں گرجاتا ہے۔ اب زمان اسے دکھانے کے لئے جان بوجھ کر آگے پیچھے ہورہا تھا۔ امان نے اسے بیک مرر سے گھورا اور تیزی سے گاڑی ریورس کی اور اس کے برابر روکی۔۔

گاڑی سے وہ تیزی سے نکلا تھا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے کھینچا۔۔ زمان جانتا تھا۔ "چھوڑو میرا ہاتھ! مجھے نہیں جانا امان۔۔!" وہ واقعی ڈرامہ کوئن تھا۔۔ امان نے اسے پکڑ کر گھسیٹا۔ وہ ہاتھ چھڑاتا رہا۔۔ جب امان نے دیکھا وہ مسلسل مزاحمت کررہا ہے تو وہ اسے پھر دیوار تک لایا۔۔

"کودو" امان شاہ نے پانی پر ایک نظر ڈال کر اسے کہا۔

زمان گبھرایا۔

"میں نے کہا کودو پانی میں۔ بہت شوق چڑھ رہا ہے نا خودکشی کا؟ کودو پانی میں جلدی سے وقت کم کے میرے پاس! میٹنگ کے بعد لنچ کرنے بھی جانا ہے!" وہ ہاتھ میں پہنی واچ کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔

"ایسے تو میں مرجاؤنگا۔" زمان نے تھوک نگلا۔

"خودکشی جینے کے لئے کی جاتی ہے کیا؟" امان سپاٹ لہجے میں بولا۔۔

"مگر پھر تم میرے بنا کیسے رہو گے میرے بھائی۔۔۔؟"وہ کسی طرح اسے آمادہ کرنے میں لگا تھا۔۔

امان نے ایک آئبرو اچکائی۔۔

"جیسے جی رہا تھا۔۔ تم تو جیسے میرے لئے ناشتہ،کھانا،کپڑے دھونا سب کرتے تھے۔۔ کودو فوراً" وہ آخری جملہ سختی سے کہتا ہوا اسے آگے کی طرف ہلکا سا دھکا دے گیا۔۔

"کہتے ہیں جڑواں بھائی مرجائے تو دوسرا خود بہ خود مرجاتا ہے۔میں تمھیں جانتے ہوئے مارنا نہیں چاہتا" وہ میسنی شکل بناتا ہوا بولا۔۔۔

امان نے دانت پیسے۔ زمان اس کو جلانے کے لئے مسکرایا۔۔

امان شاہ نے نفی میں سر ہلایا اور اسے پکڑ کر ندی میں پھینکا۔ امان کی چینخ بلند ہوئی اور اسی وقت وہ زور کی آواز کے ساتھ وہ پانی میں گرا تھا۔ امان نے دونوں ہاتھ کوٹ میں ڈالے اور پل سے اسے دیکھنے لگا۔ امان نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ وہ اس کا شوق پورا ہوتے دیکھ رہا تھا۔ زمان چینخ کر ہاتھ پیر ماررہا تھا۔۔مگر کوئی فائدہ نہیں تھا۔ امان کا دل چاہا اسے شوٹ کردے۔ اس نے دانت پیس کر زمان کو دیکھا۔۔ زمان چینخ رہا تھا۔

"امان میں مرجاؤنگا۔" اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ وہ پانی میں ہاتھ ماررہا تھا قریب تھا کہ ڈوب جاتا۔ امان نے اسے ناگواری سے دیکھا۔

"ہاں میں اس کا ہی انتظار کررہا ہوں۔ حیرت ہے ایک ماہر تیراک پانی میں کود کر مرنے کی باتیں کررہا ہے۔ ہاں! وہ کرسکتا ہے کیونکہ وہ اسے ایسے سین کرییٹ کرنے میں مزہ آتا ہے" یہ جملہ اس نے چبا کر ادا کیا تھا۔ زمان ٹھٹھکا۔ وہ یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ وہ تیراکی جانتا ہے۔ وہ تیرتا ہوا کنارے تک آیا تھا۔

امان اسے دیکھتا ہوا ڈرائونگ سیٹ پر بیٹھا۔

وہ ٹھٹھرتا ہوا آیا اور گاڑی کا دروازہ کھولا۔ امان نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ زمان نے گاڑی میں بیٹھ کر بونٹ پر سے پانی کی بوتل اٹھائی اور اسے پینے کے لئے کھولی۔ امان نے ایک نظر اسے دیکھا۔

"اس میں زہر ہے۔ مت پیو" زمان ٹھٹھکا۔

"مگر تم نے کہا تھا کہ تم زہر کبھی نہیں ملا سکتے" زمان نے زبان چڑائی اور بوتل لبوں سے لگالی۔

"گارڈز" اس کی گاڑی کے پیچھے گارڈز ہاتھیار لئے بیٹھے تھے۔

"جی دادا!" ان میں سے ایک بولا۔ امان نے ایک بھرپور نگاہ زمان پر ڈالی جو اسے حیرت سے دیکھ رہا تھا۔

"کفن دفن کا سامان خرید لو۔ زمان میاں رختِ سفر باندھنے کو ہیں۔۔" امان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔۔

زمان نے زاویے بگاڑے۔

"اگر میں مرجاتا تو؟" زمان نے دل پر ہاتھ رکھا۔

"وہ تو تم اس زہر والے پانی سے ہی مرجاؤگے" امان بھی اب اسے چھیڑ رہا تھا۔ زمان نے اسے روکا نہیں۔ اس کے بھائی کا مزاج اچھا تھا اس کے لئے اس سے بڑی خوشی کیا ہوگی۔

"اور اگر میں واقعی مرجاؤ تو!" وہ اب سنجیدگی سے گویا ہوا۔

امان کا دل لرز اٹھا۔

قریب تھا کہ گاڑی کو بریک لگاتا۔ زمان نے اسکی یہ حالت دیکھی۔ لیکن اسے کول رکھنے کے لئے وہ ہنس دیا۔

"میں نا کہتا تھا کہ تم واقعی اٹینشن سیکر ہو!"امان غصے میں بولا۔

"تم سب چھوڑو یہ بتاؤ اس آدمی سے مجھے ایسے ملوانے جاؤ گے؟ میں گیلا ہورہا ہوں۔" زمان پریشانی سے بولا۔

"کچھ نہیں ہوتا۔"

"وہ بھی بولے گا چھوٹے بھائی نے کیا حالت کردی بڑے بھائی کی" زمان نے افسوس کیا۔

"کہہ دینا کہ گٹر کے صاف پانی میں گر گیا تھا" امان کہ یہی کہتے زمان نے دکھ سے اسے دیکھا۔

"گٹر کا پانی اور وہ بھی صاف؟؟ خیر وہ گٹر کا پانی نہیں تھا امان شاہ۔۔ ندی کا تھا۔" زمان نے بوتل سے پانی نکال کر چہرہ کھڑکی سے باہر کرکے چہرہ دھویا۔ اب اس نے جیب سے رومال نکالنا چاہا تو رومال گیلا ہوچکا تھا۔۔ اب وہ بھائی کے کوٹ میں سے رومال نکالنے کے چکر میں تھا۔

"سنو!"

"ہممم؟" امان سرسری انداز میں بولا۔

"رومال دینا۔"

"میں اپنا رومال نہیں دونگا"

"پوچھ کون رہا ہے۔" اس نے جھٹکے سے اس کی جیب سے رومال نکالا۔

امان دانت پیستا رہ گیا۔ وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا کیونکہ وہ ڈراوئینگ کررہا تھا۔

اچھی طرح منہ ہاتھ صاف کرکے اس نے اور پانی ڈالا چہرے پر۔۔

"گندگی صاف کرو۔ کچھ عجیب سا لگا ہے تمھارے چہرے پر!" امان نے بغور اسکا چہرہ دیکھا

"کہاں" زمان نے اسے چہرہ دکھایا۔

"اوہ سوری میں سمجھا گندگی ہے! یہ تو تمھارا منہ ہے!" وہ کہہ کر کچھ لمحہ خاموش رہا۔

زمان پہلے تو کچھ سمجھا نہیں اور جب سمجھا تو بے یقین سا ہوکر اسے دیکھنے لگا۔۔

"تم میری بے عزتی کررہے ہو!"

"بلکل" وہ مسکراہٹ دبا کر بولا۔

زمان نے نظریں پھیریں۔۔

"چلو اس بہانے یہ خاموش رہے گا اب!" امان شاہ نے دل میں سوچا۔

"کس سے ملوانا ہے ویسے تم نے؟" وہ پھر سے باتیں کرنا شروع ہوگیا تھا۔۔ امان کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔

"ہاشم سے"

"ہو از ہاشم"

"ڈیفینس کا ہے"

"جس نے عمران کو مارا؟"

"ہمم"

"سنا ہے اس کا کزن حدید بھی شامل تھا!"

"ہمم"

"دونوں جڑواں لگتے ہیں کیا ہماری طرح؟"

"ہمم!"

"لیکن وہ بھائی تو نہیں! کزنز ہیں!"

"ہممم!"

"سنا ہے عمران نے فجر نامی لڑکی کو اٹھایا تھا؟"

"ہمم!"

"سنا ہے وہ اب ہاشم کی بیوی ہے!؟"

"ہمم!"

"سنا ہے عمران نے فزا نامی لڑکی کو بھی مروایا تھا؟"

"ہممم!"

"سنا ہے وہ ہاشم اسکی دوست تھی؟"

"ہممم!" امان کے سر میں ٹیسیں اٹھنے لگیں۔

"سنا ہے۔۔۔" امان نے اسکی بات کاٹی

"چپ کرو! اب بکواس کی نا تو پستول کی ساری گولیاں تمھارے دماغ میں پیوست کردوں گا" وہ دھاڑا۔۔۔

زمان ساکت ہوا۔

"پھر لوگ بولیں گے سنا ہے امان شاہ نے اپنی بڑے بھائی کو ماردیا؟" وہ معصومیت سے بولا۔

"شٹ اپ! جسٹ شٹ اپ!" وہ چینخا۔۔۔

زمان نے خفا خفا سی نظر اس پر ڈال کر دوسری جانب پھریں۔ اب امان سکوں سے گاڑی چلانا چاہتا تھا۔۔

*--------------------*------------------------*------------------*

وہ ماضی کو سوچنا چاہتی تھی۔ کب کب کہاں کہاں اس سے غلطیاں ہوئیں۔ وہ سب سے ہٹ کر چلی تھی۔ وہ منہاج سے محبت کرتی تھی۔ وہ یونی ورسٹی میں ساتھ تھے۔ ایسی بات نہیں تھی کہ منہاج محبت نہیں کرتا تھا۔ اگر منہاج اور ماہ نور کی محبت کو تولا جائے تو یقیناً منہاج کا پلڑا بھاری ہوگا۔ مگر دونوں کی محبت کرنے کا انداز الگ تھا۔ وہ محبت نہیں اذیت پسند تھا،شدت پسند تھا۔ ماہ نور جانتی تھی وہ صرف اس کے لئے ایسا ہے۔ وہ خوش تھی کہ اسے کوئی محبت کرنے والا ملے گا۔ مگر اس کی زندگی جو آنے والی تھی وہ کسی بھیانک خواب سے کم نہ تھی۔ اس نے منہاج کے لئے اپنے گھر والوں کو چھوڑ دیا۔ وہ بھاگ گئی۔ گھر سے۔ اپنے گھر کے مکینوں کے دل سے بھاگ نکلی۔ اور انہیں یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کردیا کے ماہ نور ان کے لئے مرگئی۔ جس کے لئے گھر سے نکلی اس نے اپنی شدت پسندی سے اسے اندر سے ماردیا۔ روز کی مار کھا کھا کر وہ تھک چکی تھی۔ گھر مڑ چاہا تو یاد آیا کہ وہ تو مرچکی ہے۔ ساری زندگی وہ اس شخص کے ساتھ گزارے گی، یہ بات اسے اندر اور ماررہی تھی۔ جب گھر کا سربراہ ایسا ہوجائے تو پورا خاندان میں اس کی خصلتیں آجاتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اس کی طرح نہیں بنانا چاہتی تھی۔ مگر کسی کو تو باپ پر جانا ہی تھا۔ اس کا ایک بیٹا انداز بلکل اپنے باپ پر جارہا تھا۔ یہ بات اسے دن بہ دن سہما رہی تھی۔ جب منہا ج اسے ڈھونڈ رہا تھا تب اس کے بیٹے نے ہی بتایا تھا کہ اس کی ماں کہاں چھپی ہے۔ جب اس کا شوہر اسے مارتا تو وہ بڑی غور سے اسے دیکھتا تھا۔ وہ منہاج کی دراز کھول کر بلیڈ کو کھول کر دیکھتا۔۔۔ کئی اس نے اپنی ہاتھ پر رکھنے کی کوشش کی مگر ماہ نور آگئی۔ اس نے اسے ڈانٹا نہیں! کہ ڈانٹتی تو وہ ضد پکڑ لیتا۔ اسے سمجھاتی! پیار سے! مگر وہ اپنے باپ کا عکس ہوتا جارہا تھا۔۔ وہ اپنی ماں سے بے حد محبت کرتا تھا۔ لیکن اسے خون اور مار پیٹ کے بارے میں اب بات کرنا اچھا لگتا تھا۔ جب بھی منہاج اس پر ہاتھ اٹھاتا تو دونوں تڑپ جاتے۔ ان کا دل چاہتا وہ اپنے باپ کو غائب کردیں۔

"بابا ہمیں آپ کے ساتھ نہیں رہنا۔۔۔ مجھے جانا ہے!"

وہ روتے چینختے۔ اور پھر اس دن منہاج بے یقین ہوا اور چمڑے کی بیلٹ اٹھائی۔ اور اس کے بعد روز! جب جب وہ اس سے دور ہونے کا اظہار کرتے۔ منہاج نے بلیڈ اٹھایا اور دونوں کی گدی کی جانب M کا نشان ثبت کردیا۔

ماہ نور چینختی چلاتی۔

"وہ بچے ہیں منہاج!"

"وہ مجھ سے جدا ہونے کا ذکر کررہے ہیں" وہ شدت پسندی سے اسکا چہرہ دبوچتا۔ انہیں اپنا باپ اپنی ماں اور اپنا دشمن لگتا تھا۔ وہ چلا چلا کر روتے تھے اور اپنے باپ کو اپنی ماں کے پاس سے دور کرتے تھے۔ اور پھر وہ دن بھی آیا جب وہ یوں ہی تڑپ تڑپ کر مرگئی۔ اور اس دن ان دونوں کو اپنے باپ سے شدید نفرت محسوس ہوئی تھی۔ منہاج اس کی لاش کو تپھتپھاتا رہ گیا مگر وہ بےجان تھی۔ وہ دونوں بچے محض 14 سال کے تھے۔ وہ اپنے باپ جیسے بننا نہیں چاہتے تھے۔ اس دن منہاج اتنا رویا کہ رات گزرنے کا پتا ہی نہ چلا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔ وہ چینخ رہا تھا۔ اس نے پستول اٹھائی اور اپنی کنپٹی پر چلادی۔ بچوں نے منہ موڑا۔۔ وہ اس کی شکل دیکھنے روادار نہیں رکھتے تھے۔ اس کی میت دیکھنے کے لئے بھی اس کی جانب نہ آئے۔ دن گزرتے رہے لیکن امان نے نا چاہتے ہوئے بھی باپ کی عادتوں سے بہت کچھ چرالیا تھا اور زمان اپنی ماں پر چلاگیا تھا۔ ہنستا مسکراتا معصوم سا۔ ماضی کی تلخیاں اور مستقبل کی صورتحال دیکھ کر وقت سے پہلے امان سمجھدار ہوگیا۔ وہ زمان کو ایسے رکھتا جیسے وہ اس سے بڑا ہے۔ اب وہ اس شہر کا دادا تھا۔ ایک شدت اور ازیت پسند۔ سب کو وہ منہاج کا سایہ لگتا۔۔ مگر کوئی اس کے منہ پر یہ بات کہہ نہیں سکتا تھا۔ وہ اپنے باپ سے نفرت کرتا تھا۔ اس کے باپ کی وجہ سے اس کی ماں مری تھی یہ بات اسے دن رات ستاتی تھی۔ زمان جب امان کو اس حالت میں دیکھتا تو وہ اس کے لئے دعا ضرور کرتا تھا کیونکہ اُس کی زندگی میں آنے والی لڑکی کی اپنی ماں کی طرح حالت نہیں چاہتا تھا۔

*-------------------*----------------------*----------------------*

"زمان یہ ہاشم آفندی!" امان نے دونوں ہاتھ کوٹ کی جیب رکھے تھے۔

زمان نے خوش اسلوبی سے ہاتھ بڑھایا۔ ہاشم بےاختیار مسکرایا۔

"آپ وہی ہیں نا جس نے عمران کو مارا تھا؟" وہ پھر سے شروع ہوگیا تھا۔ امان نے بنھویں اچکائیں اور اسے ہاتھ کے اشارے سے روکا۔ زمان خاموش ہوا۔

"مجھے عمران کے موضوع پر بات نہیں کرنی ہے!" امان سخت لہجے میں بولا تھا۔ زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

"تمھارا کام کیسا جارہا ہے!؟" امان نے ٹہھر کر پوچھا۔

"دادا ٹھیک ہی جارہا ہے!" ہاشم نے جواب دیا۔

"میں چاہتا ہوں کہ تم ابھی جس آدمی کے پیچھے اس سے دور ہٹ جاؤ!" وہ اصل باپ کی طرف آیا۔

ہاشم کے ماتھے پر بل آئے۔

"مگر دادا وہ آدمی ٹھیک نہیں!"

"میں باتیں نہیں دہرانا چاہتا۔ میں اسکے پیچھے جاؤں گا! مجھے اپنے کام میں کسی کی شرکت پسند نہیں!" ہاشم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"اگر آپ اس کام میں انوالو ہونگے تو میری ضرورت نہیں! کام خود بخود ہی ہوجائے گا ! جیسا آپ کہیں!" ہاشم نے ہاتھ آگے بڑھایا جو امان نے تھاما تھا۔

"اور مجھ سے کیوں ملوانا تھا؟" زمان نے نے سنجیدگی اختیار کی تھی۔

"میں چاہتا ہوں کہ تم کام سنبھالو!"

زمان نے نفی میں سرہلایا۔

"میں یہ کام نہیں سنبھالوں گا! میں جس میں کمفرٹیبل ہوں میں وہی کروں گا امان! میں آفس جاتا ہوں وہاں دیکھتا ہوں! اتنا کافی ہے! میں ان چکروں میں نہیں پڑنا چاہتا اور امید ہے مجھے اس میں کوئی فورس نہیں کریگا!" زمان نے یہ بات سنجیدگی سے کہی تھی۔

امان گہری سانس لئے اسے دیکھ رہا تھا۔

"میں تمھیں اس پر فورس نہیں کروں گا! تمھیں جو کرنا ہے تم کرو! " امان بات آسانی سے مان گیا تھا اس سے بڑھ کر اور کیا خوشی کی بات ہوسکتی۔

"تھینک یو!" وہ دھیرے سے مسکرایا۔

"چلیں پھر مسٹر امان اینڈ زمان۔۔ ملاقات ہوتی ہے آپ سے!" ہاشم نے زمان سے ہاتھ ملایا اور بات ختم کرکے اپنی راہ ہولیا۔

"شانزہ تم نے آج تو ناشتہ ہی نہ بنایا میرے لئے! یعنی جب تک بندہ منہ سے نہ بولے تم نہیں بناؤ گی؟" رمشا پھر تن فن کرتی اس کے سر پر کھڑی تھی۔

"میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے رمشا۔ میں بہت تھکی ہوئی ہوں! پلیز!" اسی دم نفیسہ بیگم کمرے میں آئیں۔

"میں نے بنادیا ہے ناشتہ تمھارا!!" سنجیدگی سے کہتے ہوئے انہوں نے شانزہ کا ٹیمریچر چیک کیا۔

"ماما آپ نے بابا کو میری طبیعت کا بتایا کیا؟" اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر پوچھا۔۔

"نہیں ابھی بتایا نہیں!" جھوٹ بولتے ہوئے بھی انہوں نے ایک دفع تھوک نگلا تھا۔

"کیوں نہیں بتایا؟"

وہ بخار میں تپ رہی تھی۔ اب وہ اسے کیا بتائیں کہ اس کے بابا نے یہ کہہ کر فون رکھ دیا کہ دوا کھلادو ٹھیک ہو جائے گی۔ وہ اس بات سے یقیناً اداس ہو جائے گی۔ اسے دکھ پہنچے گا۔

"بابا گھر آئیں گے تو بتادونگی"

"آپ کو تو جھوٹ بھی بولنا نہیں آتا! خیر چھوڑیں انہیں پھر بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا! آپ کو یاد ہے نا اس دن رمشا کے صرف سر میں درد تھا! اور بابا نے شور سے گھر سر پر اٹھالیا تھا۔ وہ جانتے تھے میری طبیعت صبح سے بےحال ہے! مگر انہوں نے ایک بار نہیں پوچھا! بیٹی تو میں ہونا ماما؟ چاچا اور چچی کے ایکسیڈنٹ میں موت ہونے کے بعد جب سے رمشا ہمارے گھر میں آئی ہے بابا مجھے جیسے بھول گئے ہیں! اتنی جلدی میں بھلا کوئی بھول جاتا ہے۔کم از کم ایک باپ بیٹی کو نہیں بھول سکتا". اس کی آنکھیں بے اختیار نم ہوئیں۔

ایک کرب تھا جو ایک ماں کے چہرے پر عیاں تھا۔

"م۔میں تمھارے لئے دوا لاتی ہوں۔" وہ ڈوپٹے کے پلو سے آنکھیں صاف کرتیں کمرے سے باہر چلی گئیں۔

شانزہ یونہی بے سدھ لیٹی رہی۔

*----------------*-----------------*-----------------*

"امان ایک بات پوچھو" زمان نے ناشتے سے ہاتھ اٹھایا اور اسے مخاطب کیا۔

"نہیں اجازت دونگا تو بھی بولو گے! تو بولو!" امان نے لقمہ منہ میں ڈالا۔

"شادی کب کررہے ہو؟ بوڑھے ہورہے ہو تم!" سوال سنجیدگی سے کیا تھا مگر زبان چھیڑے بغیر کہاں رہتی ہے۔

"اگر میں بوڑھا ہورہا ہوں نا تو تم جوان نہیں ہورہے! بھول رہے ہو! تم ذیادہ بوڑھے ہو مجھ سے!دس منٹ بڑے ہو آخر!" اس نے بنھویں اچکائیں

"دس منٹ بڑا ہوں! دس سال نہیں!! ابھی تو تیس کا بھی نہیں ہوں! تیس کا ہونے بھی کافی سال ہیں! ویسے بات کی کیا تھی میں نے اور جواب دیا کیا تھا! شادی کے بارے پوچھ رہا ہوں!"

امان نے اسے بغور دیکھا۔

"پسند آئی گی کوئی تو کرلوں گا!"

"تمھیں پسند آ ہی نہ جائے کوئی بھائی!"

"تو تمھارے لئے شادی کرلوں اب میں؟"

"تو کرلو!"

"مجھے لگتا ہے زمان مجھے محبت نہیں ہوسکتی!" وہ سنجیدگی سے کچھ سوچتا ہوا بولا۔

زمان چونکا۔

"کنوارے مرو گے؟" اس نے ہنس کر پوچھا۔

"میرے نزدیک محبت محض ایک تماشہ ہے!"

"پھر تو زمان شاہ یہ تماشہ سرعام کرنا چاہے گا!" جذبات میں شرارت تھی۔

"جی بھر کر کرو! کیونکہ میں اس تماشہ سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں!" وہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"بس بھائی اپنے اس فیصلے پر قائم رہنا! میں کسی لڑکی کی زندگی اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتا!" وہ اسکی پشت تکتے ہوئے دھیرے سے بڑبڑایا تھا

*--------------*---------------------*------------------*

"ماما دوا کھلادیں شاید آرام آجائے" شانزہ تیسری دفع بلند آواز میں بولی تھی۔

"مجھے دوا نہیں مل رہی! لگتا ہے ختم ہوگئی" نفیسہ پریشانی میں بولی تھیں۔

"پیناڈول ماما؟"

"ہاں شانزہ"

"چچا سے منگوالیں!" وہ آنکھیں موندے بولی۔

"تمھارے تایا گھر پر نہیں!" انہوں نے پریشانی سے چہرے پر ہاتھ مارا

"اماں عدیل بھائی سے منگوالیں!"

"عدیل سو نہ رہا ہو!"

"اماں فاطمہ بولیں! وہ اٹھانے گی اپنے چہیتے بھائی کو! ان کو سونے کے علاؤہ آتا کیا ہے" وہ ہنسی۔

"تم ذیادہ مت بولو طبیعت خراب ہے! میں دیکھتی ہوں"

وہ اٹھ کر باہر آئیں اور صحن سے اوپر کی جانب آواز دینے لگیں۔

"صبور بھابی" دوسری یا تیسری آواز پر صبور تائی نے نیچے جھانکا۔

"ہاں نفیسہ!"

"بھابھی کیا عدیل ہے؟" انہوں نے پریشانی سے پوچھا۔

"نہیں۔ وہ تو گیا ہوا ہے! کیا ہوا کوئی کام ہے کیا؟ فاطمہ کو نیچے بھیجوں؟" تائی کے ماتھے پر بل آئے۔

"نہیں بس وہ شانزہ کی طبیعت خراب ہے! دوا نہیں ہے گھر میں تو سوچا کہ عدیل سے منگوالیں! اور شانزہ کے بابا بھی گھر پر نہیں!" وہ ہاتھوں کی انگلیاں پریشانی سے موڑ رہی تھیں۔

"اوہو کیا ہوا اسے؟ میں نیچے آؤں؟ ساتھ چلتے ہیں پھر!"

"نہیں بس بخار ہے! میں چلی جاتی ہوں بھابھی آپ کو پریشانی ہوگی! بس ذیادہ دور نہیں دکان! "

"اچھا میں فاطمہ کو نیچے بھیجتی ہوں۔ وہ پیچھے اس کا دھیان رکھ لے گی!"

"جی بہتر!"وہ شانزہ کے کمرے کی جانب بڑھیں

"شانزہ میں جارہی ہوں دکان! فاطمہ آرہی ہے نیچے! بس تھوڑی دیر میں تمھاری دوائی لے کر آتی ہوں میرا بچہ! پریشان مت ہونا!"

شانزہ نے بےاختیار انہیں دیکھا۔

"آپ اکیلے جائیں گی؟"

نفیسہ نے اسے پیار سے دیکھا۔

"میں آ رہی ہوں! بس تھوڑی سی دیر لگے گی!"

"میں چلوں ساتھ؟"

"نہیں! تم آرام کرو!" وہ چادر سر پر لیتیں اپنا پرس الماری سے لینے لگیں۔

"فاطمہ نیچے اتری اور کمرے میں آئی۔

"کیا ہوا ہے شانزہ تمھیں!" وہ فکر مندی سے اسکے پاس آکر بیٹھی

"بس ہلکا سا بخار ہے! ماما دوائی کا رہی ہیں!" یہ کہتے اس نے اسکی گود میں سر رکھ دیا۔

"چلو پھر میں تمھارے پاس ہی ہوں!" فاطمہ نے اسکے ماتھے کو چھوا جو تپ رہا تھا۔

"فاطمہ بچے میں آرہی ہوں! اسے کسی چیز کی ضرورت پڑے تو دے دینا!" وہ یہ کہہ کر باہر چلی گئیں۔

"بے فکر رہیں!" اس نے کہہ کر اس کے گال پر پیار سے ہاتھ رکھا تھا۔

شانزہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اتنا پیار نچھاور نہ کرو کہ بندہ ہی شرما جائے" وہ کہہ کر دھیرے سے ہنسی تھی۔

فاطمہ نے اسکو چٹکی نوچی۔

"اوئے ماما بھی پتا نہیں کس جنگلی کے پاس چھوڑ گئیں!" وہ ہاتھ سہلاتے ہوئے بولی۔

"ہاہاہا" فاطمہ ہنسی تھی۔

*---------------*-----------------*-------------------*

اس نے تیاری کو آخری ٹچ دیا اور پرفیوم چھڑکتا ہوا نیچے آیا۔

"میں تیار ہو کر آگیا مگر تم یہیں بیٹھے ہو!" وہ سنجیدگی سے کہتا ہوا میز سے چابی اٹھانے آگے بڑھا۔

زمان جو کچھ سوچنے میں محو تھا اس کے پکارنے پر چونکا۔

"ہوں ہاں! میں کچھ سوچ رہا تھا بس!" وہ سیدھا ہوکر بیٹھا۔

"چلنا نہیں ہے؟" اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔

"کہاں؟" امان کو اس کی ذہنی حالت پر شک ہوا۔

مگر وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔

"آفس!"

"ہاں میں آتا ہوں! تم جاؤ!" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"مجھے جلدی پہنچنا ہے تم آجانا! جاؤ تیار ہو اب جا کر! میں نکل رہا ہوں!" امان اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔

"ہاں میں بس جاتا ہوں! تم جاؤ!"

امان اثبات میں سر ہلاتا باہر نکلا۔

زمان آہستہ قدموں سے چلتا گیراج کی طرف جھانکنے لگا۔ وہ گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔۔ زمان نے اس کے کمرے کی طرف دیکھا اور پھر اس پر نظر ڈالی۔ امان نے اسے پلٹ کر دیکھا۔

"تم یہاں کیوں کھڑے ہو؟ جاؤ کمرے میں!" وہ اسے حکم دیتے گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔

"ہوں! ابھی جارہا ہوں!" وہ بولا اور جان بوجھ کر گارڈن میں پھیلی گھانس کو دیکھنے لگا۔ امان نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالی اور گاڑی ریورس کرکے باہر نکال لی۔

چوکیدار نے دروازہ بند کیا اور س یہی لمحہ تھا جس میں زمان دوڑتا ہوا اس کے کمرے میں گیا تھا۔ اس کی الماری کھولنے کی کوشش کرنے لگا مگر چابی نہیں تھی۔ اس نے الماری کے اوپر ہاتھ ڈال کر تلاش کیا۔ وہاں بھی نہیں تھی۔ وہ اس کی سنگھار میز پر کی درازیں تلاشنے لگا۔ اس نے اس کی نوٹ بک الٹا کر دیکھا تو اس کے اندر سے چابی گری۔ وہ گہری سانس بھرتا چابی اٹھا کر الماری کھولنے لگا۔ لاک کھول کر اس نے دراز کھولا۔ ابھی وہ ہاتھ بڑھا ہی رہا تھا کہ کھانسی کی آواز نے اسے پیچھے پلٹنے پر مجبور کیا۔ وہ ٹھٹھکا۔

"تو تمھیں لگتا ہے میں تمھیں نہیں جانتا! خاص طور پر تمھارے کرتوت۔" زمان نے تھوک نگلا۔

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے بغیر آواز کئے اس کے قریب آیا اور ہاتھ آگے بڑھایا۔

"چابی!"

زمان نے گہری سانس لے کر اس کے ہاتھ چابی دھری۔

امان نے آگے بڑھ کر الماری کو لاک لگایا اور چابی جیب میں رکھی۔

"اب تم ساتھ چلو گے!" وہ سختی سے بولا۔

"ہمم" یہ کہہ کر سست قدموں سے کمرے میں آیا۔۔

امان باہر لاؤنج میں اسکا انتظار کرنے لگا۔

وہ جانتا تھا کہ زمان ایسی حرکت کریگا تبھی اس نے گاڑی گھر کے باہر نکال کر سائڈ پر روک دی تھی۔

دس پندرہ منٹ کے وقفے سے زمان تیار ہوکر باہر آگیا۔

امان نے اسے ایک سخت نظروں سے نوازہ تھا جس پر زمان نے نظریں پھیریں تھیں۔

"چلو باہر!" سخت آواز میں کہتے ہوئے اس نے باہر کی قدم بڑھائے۔

*------------------*-------------------*----------------*

"فاطمہ ماما ابھی تک نہیں آئیں مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے" وہ پریشانی سے بولی۔

"شانزہ وہ ابھی آجائیں گی تم لیٹے رہو!" فاطمہ نے پریشانی ظاہر نہیں کی۔

"نہیں فاطمہ آؤ ماما کو دیکھ کر آتے ہیں! انہیں تو علم بھی نہیں کہ دکان ہے کہاں! آؤ چلو!" وہ جلدی سے اٹھ کر چادر پہنے لگی۔

"میں ماما کو بتا آؤں!" فاطمہ نے چپل میں پیر اڑسے۔

"اس میں وقت لگے گا! میں پہلے ہی پریشانی میں فاطمہ!" وہ رودینے کو تھی۔ فاطمہ نے ایک نظر اس پر ڈالی اور اثبات میں سر ہلایا۔

"آؤ چلو!" فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور صحن عبور کرکے گیٹ سے باہر نکلی۔

"اس طرف ہے ساری دکانیں تو!" فاطمہ نے ماتھے پر بل ڈالے کہا۔

"ہاں یہیں ہے میڈیکل اسٹور" وہ دونوں اس راستے پر چلنے لگیں۔

*------------------*--------------------*--------------*

دونوں ہی خاموش تھے۔ مگر وہ زمان ہی کیا جو ڈانٹ کھر کر نہ بولے۔

"مجھے بھوک لگی ہے!" اس نے اسے دیکھے بغیر کہا تھا۔

امان نے کو حیرت ہوئی مگر اس نے ظاہر نہیں ہونے دی۔ وہ خاموش رہا!

"میں نے کچھ کہا ہے!" اس کا جواب نہ پاکر اس نے بات دہرائی۔

"آفس میں کچھ منگوالے نا!" مختصر سا جواب۔

"آفس دور ہے مجھے ابھی کھانا ہے!"

امان نے بےاختیار گاڑی روکی۔

"تم چاہتے ہو میں اس وقت تمھارے لئے کسی ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روکوں؟ جبکہ تم ناشتہ کرکے ہی گھر سے آئے!"

زمان نے بنھویں اچکائیں

"انسان ہوں! بھوک لگ رہی ہے!کسی ریسٹورینٹ کی ضرورت نہیں بس کہیں کسی دکان کے سامنے اتاردو! کچھ چیزیں خرید لوں گا!"

امان نے دانت پیس کر اسے دیکھا۔

"ہاں لولی پاپ اور پانچ روپے کی ٹافیاں" وہ طنز کرنا نہیں بھولا تھا۔

"میں بڑا ہو چکا ہوں! اب نہیں کھاتا میں!" وہ اکڑ سے سن گلاسز آنکھوں پر لگاتا ہوا بولا۔

"قد سے ہی بڑے ہوئے ہو! دماغ وہیں ہے! اور یہ مت بھولو کے لولی پاپ اور ٹافیاں بیس سال کی عمر تک کھاتے رہے ہو! کچھ ہی سال ہوئے ہیں تمھیں چھوڑے ہوئے!" اس نے گاڑی پھر چلانا شروع کی۔

"تم مجبور کررہے ہو مجھے لولی پاپ لینے کے لئے!!!" زمان نے گلاسز کو ہلکا سا نیچے کرکے دیکھا۔

"کہاں روکنی ہے دکان!" اس کی بات کا جواب دیئا ضروری نہ سمجھا۔

"یہیں دیکھ لو آگے! جو دکان نظر آئے اسی سے خریدلوں گا!" امان نے گاڑی کی رفتار آہستہ کی۔

"جاؤ! لیلو! سامنے والی دکان!" امان نے گاڑی روکی۔

زمان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلا اور ہاتھ امان کے آگے پھیلائے۔ امان نے بنھویں اچکائیں جبکہ زمان نے کندھے۔

"کیا؟"

"پیسے دو؟؟ تمھاری اکڑ یہاں نہیں چلے گی کہ دکاندار فری میں دیدیگا!"

امان نے ناگواری سے والٹ نکالا۔

"تمھارا والٹ کہاں ہے؟" امان نے پیسے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے پوچھا۔

"جیب میں!" اس نے جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے پیسے لئے اور زور سے قہقہہ لگا کر چلاگیا اور اماں کو لگا وہ ایک بار پھر لوٹ لیا گیا ہے۔

امان اس کا انتظار کرنے لگا۔ زمان نے چیزیں خریدیں اور لولی پاپ کھول کر منہ میں ڈال دی۔ وہ اس لولی پاپ کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا۔ صرف ایک لالی پاپ کے خاطر۔ وہ مزے سے آرہا تھا کہ اسکی نظر روتی ہوئی لڑکی پر پڑی۔ جس پر دوسری لڑکی اسے چپ کروارہی تھی۔ اس کے قدم بےاختیار ان کی جانب اٹھے۔۔

"آپ رو کیوں رہی ہیں سسٹر؟" اس نے لالی پاپ منہ نکال کر بات کی۔ شانزہ سے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔

"وہ میری چچی یعنی اس کی ماما نہیں مل رہیں اسے!" وہ فاطمہ کی بات پر بےاختیار ہنسا۔

"اس کی ماما کھوگئیں؟ چلو تمھیں بھی دکان سے لالی پاپ دلاتا ہوں!" وہ ہنسا۔۔ اسی وقت امان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسکا کندھا دبایا۔ اسکی دبی دبی سی چینخ نکلی۔

"آؤچ!" اس نے کندھا سہلایا۔

"ان کی ماما کہاں تھیں!؟ جو مل نہیں رہیں؟" امان نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے پوچھا۔ فاطمہ جو غصے سے زمان کو گھور رہی تھی ان حیرت سے امان کو دیکھنے لگی۔

"آپ دونوں جڑواں ہیں؟" وہ آنکھیں پھاڑ کر دونوں کو دیکھ رہی تھی۔

"جی! غلطی سے!. آپ بتائیں پلیز!" امان نے روتی ہوئی شانزہ کی طرف دیکھا جو اسے ایک دم اچھی لگی۔

"میری طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میڈیکل اسٹور گئی تھیں! کافی دیر ہوگئی تو ہم ڈھونڈنے نکلے ہیں!" شانزہ نے روتے ہوئے بتایا۔

زمان نے دانتوں میں زبان دبائی۔

"آپ ایک دفعہ گھر جا کر دیکھ لیں کیا پتا کسی اور روٹ سے گھر چلی گئی ہوں!" امان نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ زمان اُس کے اس نرم لہجے ہر حیرت سے منہ کھولا۔ امان نے اس کے ہاتھ سے لالی پاپ کے کر اس کی کھلے منہ ڈال دی۔

"کیا آپ کا گھر قریب میں ہے؟" امان نے نرمی سے پوچھا۔

"جی بھائی!" شانزہ نے بولا اور امان کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔

"جاؤ زمان تمھیں بول رہی ہے! جا کر اسے گھر چھوڑ آؤ! میں پیچھے آرہا ہوں!" اس نے زمان کو ہلکا سا دھکا دیا۔

"اے لڑکی سنو! کوئی کسی کا بھائی نہیں ہے یہاں پر! ہر ہمدردی کرنے والے کو بھائی بنادیتے ہو تم لوگ!" زمان کے ماتھے پر بل آئے۔

"ماما" اس نے پھر رونا شروع کردیا تھا۔

"آپ ایسا کیوں کررہے کے مسٹر؟؟ آپ نے اسے رلادیا" فاطمہ نے غصے سے زمان کو دیکھا۔

"مجھے نہیں پتا تھا یہ اتنی جلدی رو جائے گی۔"

"اس گدھے کو چھوڑیں میں آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں!" امان نے اسے سر پر چپت ماری اور آگے بڑھا.

"سالا!" زمان بڑبڑایا "خود پاکیزگی کی مثالیں دیتا ہے!"

امان نے پلٹ کر اسے گھورا اور ان کے ساتھ آگے چل دیا۔

" کہاں ہے آپ کا گھر!؟" امان نے پوچھا۔

"بس یہ رہا۔ یہ کالا گیٹ!"

وہاں پہنچ کر اس نے دروازہ بجایا تھا جو نفیسہ نے کھولا تھا۔

"کہاں تھیں تم؟؟" وہ حیرت سے بولیں

"آپ آگئیں؟ میں آپ کو ڈھونڈنے نکلی تھی"

امان نے پورے گھر کو اچھی طرح دیکھا تھا۔ گھر پتا بھی وہ دیکھ چکا تھا۔ آنکھوں میں گلاسز لگاتے وہ مڑ گیا تھا۔

شانزہ نے شکریہ کرنے کے لئے پلٹ کر دیکھا مگر وہ نہیں تھا۔

"تم نے اُس لڑکی کو دیکھا تھا زمان!" امان نے راکنگ چئیر پر جھولتے ہوئے کہا۔ زمان جو کیبورڈ ہر تیزی سے انگلیاں چلا رہا تھا چونک اٹھا۔ ایک شکوہ کن نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس نے پھر سے لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کیں۔

"ہاں جس کی خاطر تم نے مجھے غلطی کہا!" ہ خفا خفا سے انداز میں بولا۔

"ہاں وہی؟" وہ گویا یہاں تھا ہی نہیں۔ زمان نے ایک گہری نظر اس پر ڈالی۔

"تو؟"

امان چونکا۔

"ہاں! وہ لڑکی! وہ۔."

"وہ کیا ؟؟؟؟" زمان بلند آواز میں بولا.

"نہیں وہ بس۔۔۔"

"پہلے یہ بتاؤ کون سی والی لڑکی؟ جس نے تمھیں بھائی بولا تھا؟؟" زمان نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔

"اس نے مجھے نہیں تمھیں بولا تھا" اس نے تیور چڑھائے۔

"ہاہا دو اپنے آپ کو تسلیاں!  کام کرو بھائی کام۔ اس طرف دماغ نہیں لگاؤ۔" وہ ہنس کر پھر سے لیپ ٹاپ دیکھنے لگا تھا۔

"مگر وہ!" اس نے بات ادھوری چھوڑی۔

زمان نے اسے دیکھا۔

"کیا؟"

وہ مسکرایا۔

"وہ اچھی لگی" وہ کھل کر مسکرایا۔

زمان نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔

"تم مسکرائے! دل سے؟ سیریسلی؟"

"ہاں میں انسان ہوں مسکرا نہیں سکتا کیا؟" امان نے بنھویں اچکائیں۔

"او! یہ نئے نئے انکشاف ہورہے ہیں مجھ پر۔ خیر تم کم ہی مسکراتے ہو جبھی کہا!" زمان کے کہنے پر امان نے اسے گھورا۔ اس دم امان اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں گھر جاہا ہوں" گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے اس نے ایک نیا انکشاف کر ڈالا

"تم کام چھوڑ کر گھر جارہے ہو!" زمان نے آنکھیں پھاڑیں۔

"ہاں! تم نے جانا ہے؟"

"ہاں!"

"جیسے تمھیں صحیح لگے۔ کام کرتے رہو" وہ کہہ کر پلٹا

"بھائی میں نے کہا ہے کہ مجھے جانا ہے!" وہ لیپ ٹاپ بند کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"ہاں کام چور! آجاؤ!"

"اور جو تم دکھارہے ہو؟" اس نے گھورا۔

"بس آج کام کرنے کا دل نہیں چاہ رہا شاید تھک گیا ہوں!"

"ہمیں ایک گھنٹہ ہی ہوا ہے آفس آئے ہوئے" اس نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"تو بیٹھو تم میں جارہا ہوں!" وہ دروازہ کھول کر بہر چلاگیا۔

زمان کاغزات وغیرہ سمیٹنے لگا۔

*----------------------*----------------------*--------------------*

"اب ٹھیک ہوں ماما میں! بخار میں کمی آگئی ہے!" وہ مسکرا کر بولی اور پانی کا گلاس لبوں پر لگالیا۔

"چلو شکر خدا کا!" انہیں اطمینان ہوا۔

"بابا آئے؟" وہ پھر سے باپ کی رٹ لگا رہی تھی۔

"آنے والے ہیں!"

"میں کپڑے چینج کررہی ہوں!" وہ اٹھی اور الماری میں کپڑے تلاش کرنے لگی۔

"ٹھیک ہی تو ہو!" انہوں نے اسے سر تا پیر دیکھا۔

"نہیں اماں! ابا آنے والے ہیں! ذرا تیار ہی ہوجاؤں! غلطی سے اگر نظر پڑ گئی مجھ پر تو شاید پیار ہی آجائے" وہ الماری میں منہ دئے پتا نہیں کونسا جوڑا نکالنے والی تھی۔

نفیسہ کے دل بوجھل ہوا۔ کمرے میں رکنا محال تھا۔ وہ باہر آگئیں۔ کچن کی طرف دوڑ لگائی ورنہ وہ آتے ہی چینخنے چلانے کا بہانہ ڈھونڈتے۔ بیٹی کی پیدائش پر جتنا وہ خوش تھے،رمشا کے بعد اب بیٹی ہی بھولے بیٹھے تھے۔

*------------------------*----------------------*------------------*

وہ اس وقت گارڈن میں بیٹھا موبائل پر مصروف تھا جس دم زمان اس کے سامنے والی چئیر پر آبیٹھا۔ امان نے موبائل پر سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو خود بھی اب موبائل پر مصروف تھا۔ وہ اٹھا اور اندر لاؤنج میں آبیٹھا۔ وہ تھوڑی دیر سکون سے بیٹھنا چاہتا تھا جو زمان کے ہوتے ہوئے اسے میسر نہ تھا۔ مگر ہائے رے اس کی قسمت! پانچ منٹ بھی گزرے کے زمان موبائل نگاہیں مرکوز کئے اس کے سامنے پھر صوفے پر آبیٹھا۔ کوئی تاثر دیئے بنا وہ موبائل پر ہی مصروف تھا۔ امان نے ایک گہری سانس لی۔ وہ اس کے ساتھ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ سوائے پنکھے پر الٹا لٹکانے کے! مگر یہ سزا بھی کسی غلطی پر ہی دیا کرتا۔ وہ اس موقع پر صرف ایک گہری سانس لے سکتا تھا۔

"کیا کررہے ہو تمھاری سانسوں کی آوازیں مجھے ڈسٹرب کررہی ہیں!" زمان نے گھور کر کہا۔

"اور مجھے تم! اگر ڈسٹرب ہورہے ہو تو وہاں سے اٹھ کر کیوں آئے!؟" امان نے دانت پیسے۔

"میری مرضی!" زمان نے بنھویں اچکائیں۔

امان نے نفی میں سر ہلایا جیسے وہ اس کا کچھ نہیں کرسکتا۔

"زمان!"

"ہنہہ"

"آخری بار کب نہائے تھے؟" پتا نہیں کیوں امان کا دل چاہا وہ زمان کو چھیڑے۔

"ہیں کیوں؟" زمان بوکھلایا اور اپنی شرٹ سونگھنے لگا۔ "نہیں اسمیل تو نہیں آرہی!"

"نہائے کب تھے؟"

"ارے کچھ وقت پہلے تو نہایا ہوں!"

"کب؟"

"کل ہی تو نہایا ہوں!" وہ مطمئن تھا اور امان نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔

"کل؟ اور تم اسے کچھ وقت پہلے کا نام دے رہے تھے؟"

"ہاں زیادہ نہانا صحت کے لئے اچھا نہیں ہوتا! کم نہائیں پانی بچائیں!"

امان نے اسے ناگواری سے دیکھا۔

زمان ہنوز موبائل پر مصروف تھا۔

"افف!"

"تمھیں کیا مسئلہ ہے؟"

"کمرے میں جاؤ اور مجھے ڈسٹرب مت کرو!" امان نے سختی سے کہا۔

"میں کیوں جاؤں کمرے میں؟ اور میں تمھیں ڈسٹرب نہیں کررہا تم مجھے کررہے ہو!"

"تمھاری موجودگی میری لئے ڈسٹربنس ہی ہے زمان شاہ!" وہ دانت پیس کر بولا۔

"ہاں ٹھیک ہے جارہا ہوں! مگر اب میں تمھیں وہ بات بھی نہیں بتاؤں گا جو میں نے معلوم کروائی ہے!" وہ اٹھا اور پیر پٹخا دھیرے دھیرے مڑنے لگا کہ اب امان اسے روکے گا۔

"نہیں سننا مجھے تمھاری بیکار معلومات"

"مت سنو اس لڑکی کا نام جس نے تمھیں بھائی سے مخاطب کیا تھا" وہ ہنسا اور مڑ کر جانے لگا۔

امان کے کان کھڑے ہوئے۔

"سنو!"

زمان مڑا۔

"مجھے نہیں سننا تمھاری بیکار بات!" وہ کہہ کر پھر سے پلٹنا لگا۔

"اگر اب نہیں بیٹھے نا! تو مجھ سے برا اور کوئی نہیں ہوگا!" وہ اطمینان سے زمان کو دیکھنے۔

"یعنی میری بلی مجھ کو میاؤں؟"

"محاورہ غلط فٹ کردیا آپ نے!" امان نے لبوں کے پیچھے مسکراہٹ چھپائی۔

"یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے؟"

امان نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہاں اب تھوڑا تھوڑا ٹھیک ہے!"

زمان صوفے پر دھنسا۔

"بولو!؟"

"پہلی بات یہ اپنی دماغ میں بٹھا لو کہ اس نے تمھیں بھائی بولا تھا مجھے نہیں! اور ویسے اس کا نام بتا رہے تھے تم شاید!" امان کے لہجے سے "ویسے مجھے پرواہ نہیں اگر تم بتادو تو بھی ٹھیک" والی کیفیت ٹپک رہی تھی۔

زمان تو پہلے ہنسا اور ضبط کرکے بولا۔

"نہیں میں کسی کا نام نہیں بتا رہا تھا! تم نے بولا ہے کہ بتاؤ!"زمان بھی دوسرے درجہ کا "کمینہ" تھا۔

"میری طرف سے کوئی زبردستی نہیں۔ اگر تم بتانا چاہو تو بتاسکتے ہو میں سن رہا ہوں!" وہ بظاہر موبائل پر مصروف رہا جیسے ظاہر کررہا ہو اسے واقعی کوئی فرق نہیں پڑتا۔

"نہیں نہیں! یہ کوئی خاص بات نہیں! زبردستی نہیں ہے! چھوڑو!"

امان نے اسے دانت پیس کر دیکھا۔

"ہاہاہا اب آیا نہ اونٹ پہاڑ کے نیچے! اس لڑکی کا نام شانزہ ہے! شانزہ ناصر"

"شانزہ"امان نے زیر لب نام دہرایا۔ ایک مسکراہٹ تھی جو اسکے لبوں پر بےساختہ ظاہر ہوئی تھی۔ جسے زمان نے کافی لمحوں تک دیکھا تھا۔

"ویسے زمان تم نے کیوں معلوم کروایا" امان نے حیرت سے پوچھا۔

"وہ دوسری والی لڑکی کے لئے معلوم کروایا تھا تو اس کا بھی پتا چل گیا! کاؤ بوائے ٹائپ لڑکی جو ہے!" زمان نے دانت دکھائے۔

"تو کیا ہے اس کا نام؟" امان ٹانگ ٹانگ پر جمائے پوچھنے لگا۔

"فاطمہ جاوید!"

"دوست ہیں؟"

"نہیں! کزنز!"

"بس یہی پتا چلا؟"

"ہاں فالحال یہی! باقی معلومات بھی نکلواؤں گا! اور مجھے کوئی عشق وشق نہیں ہوا اس "فاطمہ" نام کی لڑکی کے ساتھ! بس پہلی ملاقات اچھی رہی! میں دوسری ملاقات چاہتا ہوں!" وہ گارڈن کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے بولا

"ہمم! خیر میں کمرے میں جارہا ہوں! آفس سے گھر اور گھر سے آفس! ڈروائنگ آسان نہیں! میری کمر میں درد ہے تھوڑا آرام کرنا چاہتا ہوں!"

"چلو اچھا ٹھیک ہے!" زمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

"اور جب میں نے یہ کہہ دیا کہ "میں آرام کرنا چاہتا ہوں!" اس کا مطلب ہے نہ مجھے اپنے کمرے  سے کھٹ چاہیے نہ تمھارے کمرے سے پٹ!" امان نے بنھویں اچکائیں۔

"میرے کمرے کی تو چلو سمجھ آتا ہے! تمھارے کمرے میں اگر آواز آئی تو اس کا زمہ دار میں کیوں ہونے لگا؟"

"کیونکہ آپ اکثر میرے کمرے میں ہی پائے جاتے ہیں! قارون کا خزانہ جیسے میرے ہی کمرے میں ہے!" ایک تیز نگاہ اس پر ڈال کر وہ سیڑھیاں چڑھ گیا۔

*--------------------*----------------------*--------------------*

"بابا میری طبیعت بگڑی تھی لیکن اب میں ٹھیک ہوگئی ہوں! اور یہ دیکھیں یہ کپڑے میں نے آپ کے لئے پہنے ہیں!" وہ چہک کر ان کو بتارہی۔

"ہمم اچھا ٹھیک ہے! اچھی لگ رہی ہو! مگر رمشا کہاں ہے؟" وہ مسلسل ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ جیسے تلاش کررہے ہوں!

"یونی سے آئی تھی سر میں درد تھا تو اب تک سورہی ہے!" نفیسہ بول کر چپ ہوئیں۔ ناصر صاحب کی تیوریاں چڑھیں۔

"سر میں درد تھا؟؟؟ دوائی دی اسے؟" وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

"کہاں ہے بچی؟" وہ پریشانی سے بولے۔

"کمرے میں ہے اپنے!" نفیسہ کے یہ کہتے انہوں نے فوراً اس کے کمرے کی جانب دوڑ لگائی۔ ان کے جاتے نفیسہ نے ایک ترچھی نگاہ وہاں کھڑی شانزہ پر دوڑائی۔ آنکھیں میں ٹمٹماتے چمکتے آنسو تھے۔

"آپ کے بابا تھکے ہوئے ہے نا! جبھی توجہ نہیں دی" وہ صرف ایک تسلی ہی دے سکتی تھیں! ہاں وہ تسلی جو ہمیشہ دے آئی تھیں۔ شانزہ کا دل چاہا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔ یہ تکلیف تو زخم لگنے کے تکلیف سے بھی بھاری تھی۔ ایک اپنا جو سب سے بڑھ کر تھا اپنا! اپنے کا درد چھوڑ کر دوسروں کا درد کم کرنے چلا تھے۔ تکلیف،دکھ درد کو اکھٹا کرو تو یہ اذیت بنے گی ایک باپ جو ہر جگہ آپ کو تحفظ دیتا ہے! معاشرے کی تلخیوں سے بچاتا ہے! روز جس کی بانہوں میں بیٹھ کر بچپن سے اب تک وہ ایک ایک بات بتانا چاہتی تھی! وہ شاید اس کی طرف دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔وہ ہنستی تو آنسو چھلک پڑتے۔ وہ روتی تو روتے روتے گھگھی بندھ جاتی۔

پاس تو تُو بہت ہے۔

مگر دل دونوں کے دور دور!

*-----------------------*------------------------*-----------------*

سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑیں تو وہ اٹھ بیٹھی۔ آنکھیں مسلی تو پتا چلا کہ رات کو رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی ہیں۔ ٹھنڈا پانی منہ پر مارتے ہوئے وہ فریش ہوکر باہر نکلی۔

"تم تیار ہوکر باہر آجاؤ!" نفیسہ کمرے میں داخل ہوئی تو شانزہ واشروم سے باہر نکلی تھی۔

"جی ماما" وہ فرمانبردار بچی کی طرح تیار ہونے لگی۔ دل تھا کہ بے حد بوجھل۔

دس پندرہ منٹ بعد نفیسہ پھر کمرے میں داخل ہوئیں۔

"ہوگئی تیار تو آجاؤ! باہر بابا بیٹھے ہیں تمھارے! ناشتہ کرلو بابا کے ساتھ!"

"رمشا کہاں ہے؟" اس نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا۔

"وہ وہیں تمھارے بابا کے ساتھ ٹیبل پر ناشتہ کررہی ہے!"

"ماما! میں بغیر ناشتے کے جاؤں گے بھوک نہیں ہے مجھے!" وہ کہہ کر بستہ اٹھانے لگی۔

"مگر۔۔۔۔" اس نے نفیسہ کی بات کاٹی۔

"ماما مجھ سے جھوٹی شکایتیں برداشت نہیں ہوتیں! وہ جھوٹ بولتی ہے منہ پر! اور پھر بابا مجھے بہت ڈانتے ہیں! اور ویسے بھی بابا کے لئے میرا دل مرگیا ہے! اب دل نہیں ان کے لئے تیار ہونے کا، باتیں کرنے کا" وہ بستہ اٹھا کر باہر نکلی۔

"فاطمہ" اوپر کی جانب آوازیں دینے لگی۔

"ہاں؟ تم تیار ہوگئی! میں آئی نیچے!" فاطمی نے اس کی تیاری دیکھی تو سمجھ گئی۔ اور کچھ ہی منٹوں میں نیچے آگئی۔

"واہ بھئی اتنی جلدی آپ تیار ہوگئیں! مبارک ہو مجھے بھی اور آپ کو بھی" وہ اسے چیرتے ہوئے بولی۔ شانزہ محض مسکرا ہی سکی تھی۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ باہر نکلی۔

"پیدل جائیں گے! انکل نے کہا تھا وین نہیں آئے گی آج!" شانزہ نے یاد دلایا۔

"او ہاں!!!" فاطمہ نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔

"فائدا نہیں سر پیٹنے کا چلو!" اس نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگے دکھیلا۔

"کسی بڑے سے بول دیتے ہیں گھر میں! کوئی چھوڑ دے گا ہمیں!" فاطمہ نے مشورہ دیا۔

"جاوید تایا تو ہیں نہیں گھر میں! عدیل بھائی کے پاس بائک ہے اور بابا رمشا کو یونی چھوڑنے جائے گے اپنی گاڑی میں!" شانزہ نے اسے صورتحال سمجھائی۔

"تو گاڑی ہے! بائیک نہیں! تین چار لوگ آرام سے آجائیں گے!" فاطمہ نے بھنویں اچکائیں۔

"تو کیا تم رمشا کو نہیں جانتیں؟ یا میرے بابا کو؟ وہ کہتے ہیں انہیں آفس کے لئے لیٹ ہوتا ہے! اور تمھارا کالج تو قریب میں ہے! پیدل چلا جایا کرو! اگر میں چھوڑنے جاؤں گا تو میرا روٹ آؤٹ ہوجائے گا! رمشا کی یونیورسٹی دور ہے! اور آفس کے راستے میں پڑتی ہے! اس لئے اسے چھوڑ سکتا ہوں! ساری دنیا کو اپنی گاڑی میں بٹھا سکتے ہیں چاہے روٹ خود کا لاہور کا ہو اور دوسرے کا اسلام آباد کا! اور میری لئے صرف بہانوں کی لمبی سے نا ختم ہونے والی فہرست! " اس نے ایک سانس میں سب بتایا تھا۔

"چھوڑو! خود ہی چلیں گے! اور راستہ میں اگر گولا گنڈا۔والا ملا تو وہ بھی کھائیں گے!" فاطمہ نے اسکی توجہ اس موضوع سے ہٹانا چاہی۔

"صبح سویرے کونسا گولا گنڈا والا موجود ہوتا ہے؟" اس نے بجھے دل سے کہا۔

"چلو اب منہ مت پھلاؤ! واپسی میں لیں گے!"وہ اس کے گال کھینچتی آگے بڑھی۔

*---------------------------*-----------------------------*

صبح سے دوپہر کیسے ہوئی امان کو پتا بھی نہ چلا! لیکن زمان کو لگ پتا گیا تھا۔

"میں تھک گیا ہوں! مجھے گھر جانا ہے!" وہ کمر سیدھا کرکے بولا۔

"کام ختم کرلو! پھر ساتھ ہی چلتے ہیں!" امان کاغزات پر نظریں مرکوز کیا دھیمی آواز میں بولا۔۔۔

"کرلیا ہے میں نے! اونر بھلا کیا کام کرے گا! اور گھر چلتے ہیں! قسم سے ایک کپ کافی خود بناکر دونگا!" وہ اٹھ کر پھیلے کاغزات سمیٹنے لگا۔ امان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

*--------------------*--------------------*-------------------*

"سنو! جلدی آجاؤ! چھٹی ہوئے دس منٹ ہوگئے ہیں! ادھر آؤ!" فاطمہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور روڈ کے بیچ میں کھڑے گولا گنڈا والے کے پاس لے آئی۔ اس سے گولا گنڈا خرید کر وہ وہیں کھڑے ہوکر کھانے لگی۔ اتنے میں سامنے سے گاڑی اسپیڈ سے رکی۔ اگر ڈرائیور بریک نہ مارتا تو یقیناً دونوں کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا۔ اندر گاڑی میں موجود نفوس غصے میں باہر آیا تھا۔

"میڈم دیکھ کر چلا کریں!!"

فاطمہ کے تیور چڑھے۔

"او مسٹر جڑواں! میری بات سنیں ہم یہاں پہلے سے کھڑے تھے! گاڑی بھگاتے ہوئے آپ کے جڑواں بھائی آرہے تھے!" اس نے زمان کو گھورا۔ امان شانزہ کو دیکھنے میں مصروف تھا۔

"ہاں یہ تو آپ لوگوں کی تفریح کی جگہ ہے نا!؟ سڑک کے بیچ میں! ابھی اڑا دیتے ہم تم دونوں کو!" شانزہ زمان کی بات پر بے اختیار ہنسی۔ امان نے اس پر سے بہت مشکل سے نظریں ہٹائیں۔

"او مسٹر نھنے! کم از کم اپنے بھائی سے ہی سیکھ لو! تمیز سے خاموشی سے کھڑے ہیں! ہاں وہ بات الگ ہے میری کزن کو دیکھ رہے ہیں! مگر ایک دفع بھی انہوں نے ٹانگ نہیں اڑائی تمھاری طرح! اور لگتا زبان بھی تمھاری طرح لمبی نہیں ان کی!" فاطمہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔ اس بات پر جہاں امان گڑبڑایا وہاں شانزہ نے لب بھینچے۔ زمان نے مسکرا کر امان کو دیکھا اور پھر فاطمہ کو۔۔

وہ زور سے ہنسا۔ قریب تھا کہ ہنس ہنس کر زمین پر لوٹ پوٹ ہوجاتا۔

"ہاہاہا یہ بس بولتا ہی تو نہیں! یہ کہتا نہیں مگر کر بہت کچھ دیتا ہے! اگر زندگی میں اگلی ملاقات ہوئی تو پتا چل ہی جائے گا!" زمان کے یوں کہنے پر فاطمہ اور شانزہ نے حیرت سے امان کی جانب دیکھا جبکہ امان نے اس کے بازو پر چٹکی دی جس سے وہ بلبلا اٹھا۔

"نہیں ایسی بات نہیں ہے! میں بس ایسی ہی انہیں دیکھ رہا تھا اور یہ بس بولتا رہتا ہے! بچپن میں نرس کے ہاتھ گرگیا تھا بیچارہ۔ سائیڈ افیکسٹ تو ہونے ہی تھے۔ خیر اس کی باتوں پر مت جائیں! یہ دل کا اچھا ہے!" عجب عالم تھا کہ امان بات فاطمہ سے کررہا تھا اور دیکھ شانزہ کو رہا تھا۔ زمان کو اٹیک آگیا۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے امان کو دیکھا۔

"ڈرامہ" امان نے اسے دیکھ کر زیر لب بڑبڑایا

فاطمہ زور سے ہنسی۔ زمان نے ایک نظر فاطمہ پر ڈالی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ اسے چبا جائے گا۔ شانزہ بے اختیار مسکرائی۔

"اچھی رہی دوسری ملاقات بھی" شانزہ نے کہہ کر آگ بگولا ہوتے ان دونوں کو دیکھا۔ جس میں ایک اس کی کزن تھی جو  اب آگ بگولا ہو کر اب شانزہ کو گھور رہی تھی اور وہ ایک ڈرامہ سا لڑکا جو اب فاطمہ کر گھور رہا تھا۔ امان نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ شانزہ کو دیکھ رہی تھی جو فاطمہ کو دیکھ کر ہنس رہی تھی۔ دل میں گھنٹی بجی۔ یہ وہی لڑکی تھی جو دو دن سے اس کی حواسوں پر چھائی ہوئی تھی

"لگتا ہے شانزہ اب یہ محترمہ آپ کو کھا جائے گی!" وہ ہنس کر شانزہ سے بولا۔ شانزہ نے حیرت سے امان کو

"آپ کو کیسے پتا میرا نام؟" امان گڑبڑایا۔۔ زمان نے اسے بڑے پیار سے گھورا۔

"دو جواب اب!"

امان نے زمان کو دیکھا۔

"و۔وہ آپ نے بتایا تھا پہلی ملاقات پر! یاد نہیں؟" وہ زبردستی مسکرایا۔ آج نہ جانے کیوں؟ شاید زندگی میں پہلی دفع امان شاہ ایک لڑکی کے سامنے گھبرایا۔ وہ جو خود سے سب کو ڈراتا آیا ایک لمحے کو وہ خود بھی سہما تھا۔ زمان اس کی اس حرکت پر جی جان سے مسکرایا تھا

"میں نے کب بتایا تھا؟" وہ چونکی۔

"بھول گئیں؟ آپ نے کہا تھا میں شانزہ ہوں میری ماما کھوگئیں؟" اس بار بھائی کے دفاع میں زمان بولا

شانزہ نے اثبات میں سرہلایا۔

"ہاں وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن کیا میں نے واقعی ایسا ہی بولا تھا کہ میں شانزہ ہوں اور۔۔" اس نے خود بات ادھوری چھوڑی۔

"جی جی آپ بھول گئیں ہیں شاید!" زمان نے یہ جواب بھی خود دیا۔ امان نے زمان کو دیکھا۔ وہ اس کا دفاع کررہا تھا۔

"چلو چھوڑیں اس موضوع کو! ہم ویسے ہی اتنا لیٹ ہوگئے ہیں! شانزہ جلدی چلو ورنہ تمھارا منگیتر غصہ کرے گا کہ واپسی میں اکیلے کیوں آئے!" فاطمہ نے ماتھے پر بل ڈال کر شانزہ سے کہا۔ امان جو مسکراتے ہوئے شانزہ کو دیکھ کر رہا اس کے ماتھے پر بل پڑے!

"منگیتر؟" امان کو جھٹکا لگا۔وہ آس پاس کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بول اٹھا۔ زمان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ فاطمہ نے امان کو دیکھا۔

"جی اس کا منگیتر! جسے یہ جان بوجھ کر کبھی کبھی بھائی بھی بول دیتی ہے! مگر ان کے سامنے بولنے کی ہمت نہیں ہوتی ہاہا!" اور امان کا چہرہ سخت ہوا۔ قریب تھا کہ وہ کچھ کہتا کہ زمان بول اٹھا۔

"چلیں پھر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں!" وہ جانتا تھا کچھ لمحے تکنے سے کیا قیامت برپا ہوسکتی ہے! اس نے امان کو لے کر پلٹنا چاہا۔  اور یہ وہ وقت تھا جب امان کے دماغ میں سب گڈ مڈ ہورہا تھا۔۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے کیا بولے۔ قریب تھا کہ وہ شانزہ کی طرف قدم اٹھاتا زمان نے اس کا کندھا گاڑی کی طرف موڑ کر اس کے ساتھ گاڑی کی جانب آیا۔۔ اسے دوسری سیٹ پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔۔۔ وہ دونوں اس کے اس رویہ پر حیران تھیں۔ وہ چلتیں ہوئی سڑک کے کونے میں آکھڑی ہوئی۔ امان نے آنکھیں میچیں! کوئی تو چیز تھی جس کو اس نے بمشکل قابو کیا ہوا تھا۔ سانسیں تھیں کہ بےاختیار پھولی ہوئی تھی۔ گاڑی ان دونوں کے برابر سے ہوتے ہوئے نکلی تھی۔ زمان نے بےاختیار امان کو دیکھا تھا۔ وہ سخت لہجے لئے آگے دیکھ رہا تھا۔

"کیا ہوا؟" زمان کے پوچھنے پر امان نے کوئی جواب نہ دیا۔

"ایزی رہو! اور کیا ہوا تھا اچانک سے!؟ بھلا ایسا بھی کوئی کرتا ہے؟ اس کا منگیتر تھا! اچھا ہوا پہلے پتا چل گیا! شکر ہے تم سیریس نہیں ہوئے اس کے لئے!" زمان اس کی دل کی حالت سمجھتا تھا مگر کہیں نہ کہیں اسے ٹھنڈا بھی تو کرنا تھا۔

"میں جانتا ہوں مجھے کیا کرنا ہے!" امان کا سختی سے کہا ہوا یہ جملا زمان کی جان لے گیا۔ اس نے گاڑی کو بریک لگائے۔

"کیا چل رہا ہے امان شاہ تمھارے دماغ میں؟ ایسا ویسا کچھ نہیں کروگے تم امان! ایک بات یاد رکھنا! یہ کم از کم تم میری ہوتے ہوئے نہیں کرسکتے!" امان شاہ کو اس کے بھائی سے بڑھ کر اور کوئی نہیں جان سکتا تھا۔ اس نے ایک تیز نگاہ اس پر ڈالی تھی۔

"گاڑی چلاؤ زمان! فوراً! اور تم جانتے ہو میں باتیں نہیں دہرایا کرتا! موت کو دعوت مت دو! خدارا! مجھے خود پر کنٹرول نہیں ہے اس وقت! مجھے ڈر ہے میں تمھارے ساتھ کچھ ایسا نہ کردوں جس کا پچھتاوا مجھے عمر بھر رہے!" وہ مٹھی بھینچ کر گویا خود کو قابو کررہا تھا۔

زمان نے آنکھیں بڑی کرکے اس کو دیکھا۔

"تم اس کے علاؤہ کچھ اور کر بھی نہیں سکتے! سوائے دوسروں کو اذیت دینے کے! اپنے سکوں کے لئے دوسروں کا سکون برباد کرتے ہو اور چاہتے ہو عمر بھر بغیر کسی پچھتاوے کے گزارو؟" زمان نے گاڑی چلائی۔ " لیکن تم ایسا نہیں سوچنا! کبھی زندگی میں نہیں! میں کم از کم تاریخ نہیں دہراؤں گا اور نہ تمھیں دہرانے دوں گا! یہ اذیت صرف مجھ تک اور تمھارے لوگوں تک رہے امان شاہ!" وہ تلخ لہجے میں کہتا ہوا گاڑی تیزی سے چلا رہا تھا۔

"گاڑی روکو؛" وہ چینخا! زمان نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔ "میں گاڑی نہیں روکوں گا!" زمان نے دھیمی مگر ڈھیٹ بنتے ہوئے کہا۔

"نہیں روکو گے؟" اماں نے بنھویں اچکائیں۔

"نہیں!!'" وہ اٹل لہجے میں بولا۔

امان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور اب جو وہ کرنے والا تھا زمان نے بےاختیار گاڑی روکی!

"پاگل ہو تم؟؟؟؟؟" وہ چینخا!

امان گاڑی سے اترا اور دوسری جانب گھوم کر آیا۔ ایک ہاتھ سے گریبان پکڑ کر اسے گاڑی سے نکال باہر کیا اور اس کے قریب آیا۔

"مجھ پر آئیندہ مت چلانا!" گاڑی سنسان جگہ تھی۔

"میں تمھیں کچھ نہیں کرنے دوں گا امان!" وہ پھر چینخا!

"میرے کام کے بیچ میں جو آیا میں اسے ماردوں گا!" امان نے دھیمے مگر سخت لہجے میں بولا۔

"بھلے اس کے لئے مجھے مرنا ہی کیوں نہ پڑجائے! مجھے یقین نہیں تھا تم اس کے لئے اتنے سنجیدہ ہو! اگر پتا ہوتا تو میں خود اسے تمھاری نظروں کے سامنے سے گم کردیتا امان!" امان غضبناک ہوا۔ ایک تھپڑ تھا جو زمان کے چہرے پر پڑا تھا۔ زمان نے ساکت ہوتی نظروں سے اپنے بھائی کو دیکھا۔ امان نے کبھی اس پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔ ہاں وہ اسے اذیت دیتا تھا مگر بھائی کے لئے ایک محدود حد تک تھی۔ وہ اسے الٹا لٹکادیا کرتا مگر کبھی اس نے اسے مارا نہیں تھا۔ امان ابھی بھی اسے سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"تم نے ایک لڑکی کے لئے اپنے بھائی کو مارا؟" اس کی آنکھیں نہ چاہتے ہوئے بھی نم ہوئیں اور اس وقت امان شاہ کو احساس ہوا کہ وہ کچھ بہت غلط کر بیٹھا ہے! وہ ششدر ہوا! دھیرے دھیرے اپنے اس ہاتھ کو دیکھ رہا تھا جو ابھی زمان پر اٹھا تھا۔

"میں نے تم سے کہا تھا! کہا تھا میں غصے میں بہت کچھ کرجاتا ہوں! میں نے کہا تھا میرے معاملے میں کچھ مت کہنا!" امان نے لب بھینچے۔

"نہیں! میں اپنی نہیں اس کی بات کرنا چاہتا ہوں! اور کیا تمھارا کیا میرا معاملہ امان شاہ؟؟ میں کہوں گا! ہزار دفعہ! لاکھ دفع! تم ایسا کچھ نہیں کروگے امان!" زمان نے نفی میں سر ہلایا۔

"میں پھر کہتا ہوں! میرے کام میں کوئی دخل اندازہ کرے یہ مجھے پسند نہیں! چاہے وہ میرا بھائی ہی کیوں نہ ہو!" اس کا چہرہ غصے سے لال ہوا تھا۔

" تاریخ پھر نہیں دہرائی جائے گی!" وہ پوری قوت سے چینخا! "اب ایک اور ماہ نور اس ظلم کا شکار  نہیں ہوگی! وہ نہیں ماری جائے گی!" وہ دیوانہ وار چینخا۔

"ماہ نور وہاں مرے گی جہاں منہاج شاہ ہوگا زمان! وہاں نہیں جہاں امان شاہ ہوگا!" اس  اطمینان نے کہا۔

"تم منہاج شاہ سے کم ہو کیا؟" وہ کاٹ دار لہجے میں بولا۔۔

اور امان شاہ کو لگا اسے بھٹی میں جھونک دیا گیا ہے!

"میں منہاج شاہ جیسا نہیں ہوں!" وہ اتنی زور سے چینخا کہ آس پاس درخت پر موجود پرندے سہم کر اڑ گئے۔

" تم منہاج شاہ کا عکس تھے! عکس ہو! عکس رہو گے!" اس نے دانت پیسے۔ امان نے اس پر گھونسوں اور مکوں کی برسات کردی۔ زمان نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ بھی تھا کسی کی طرح! کوئی تو تھا جو اس کی طرح تھا! یا شاید یہ اس شخص کی طرح تھا۔ اس نے زمان کو مرنے نہیں دیا! چھوڑدیا! یہی اس کی محبت تھی۔ وہ موت کے در تک لے آتا ہے! مگر اس سے آگے نہیں لے جاتا! جب تک زمان لہو لہان نہیں ہوا امان نے اپنے ہاتھ نہیں روکے! جب اسے لگا کہ اب وہ مرجائے گا تب اس نے چھوڑدیا۔ ہر بار! ہر دفع! موت کے منہ تک لے جاتا اور موت کے منہ سے واپس بھی خود ہی لے آتا۔ یہی تھی اس کی محبت! اگر محبت یہی تھی تو نفرت کیا ہوگی؟ زمان نے خود کو بچانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی! وہ یونہی مار کھاتا رہا! اگر اس کے بدلے کسی لڑکی کی زندگی بچ سکتی ہے تو وہ یہ امان شاہ کے ہاتھوں روز مار کھانے کو بھی تیار تھا۔ اگر اس سب کے درمیان اس نے یہ تو سوچ لیا تھا کہ اب کوئی لڑکی ماہ نور بن کر اس گھر میں منہاج شاہ کے لئے نہیں آئے گی! جب امان شاہ تھک گیا تو وہ پیچھے ہٹا۔ زمان نے درد سے نڈھال ہوکر ایک طرف گردن رکھی۔ امان اپنے بالوں کو نوچ رہا تھا۔ زمان جانتا تھا اب امان کو پچھتاوا گھیرنے والا ہے! دس منٹ بعد جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوا تو اس نے بے اختیار زمان کو دیکھا۔ اس کے منہ سے خون نکل رہا تھا اور بے سدھ زمین پر گرا ایک جگہ نظر ٹکائے ہوا تھا۔ اس کے کپڑے خون سے لدے ہوئے تھے۔ امان کی سانسیں جیسے سینے میں اٹک کر رہ گئیں۔

"اب گھر سے گارڈز بلوا کر ڈاکٹر کو مجھے دیکھاؤ گے بھی یا ایسے ہی مرنے کے لئے چھوڑدوگے!؟" وہ کوئی تاثر دیئے بنا کسی زندہ لاش کی طرح بولا۔ امان نے اثبات میں سر ہلایا جسے زمان دیکھ نہ سکا

"ہیلو! شاہنواز اس پتے پر پہنچو! جلدی!! سب گاڑز کے ساتھ!" وہ گارڈز کو کہتا ہوا اس کی جانب آیا۔

"کیا وہ آرہے ہیں؟"

"ہاں وہ آرہے ہیں! تم فکر مت کرو!"

امان کی بات پر وہ طنزیہ مسکرایا۔

" مجھے کہاں لے کر جاؤ گے؟  کو گھر لے کر جاؤ گے یا قبرستان!" امان کا سانس رکا اس نے بے اختیار زمان کے لبوں پر ہاتھ رکھا۔

"ہششش م۔میں نے کال کردی ہے! وہ آرہے ہیں!" وہ ہکلایا۔

"میری کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہونا امان؟ میں کمزور صرف تمھارے لئے ہوں امان! میرے لئے میرے بھائی سے بڑھ کر کچھ نہیں! میں تمھاری عزت کرتا ہوں امان! جبکہ ہم دونوں میں کوئی عمر میں بڑا نہیں ہے لیکن میں تمھیں پھر بھی بھائی پکارتا ہوں۔ تم اگر مجھے گولی سے اڑا بھی دوگے نا لیکن میں تم سے وعدہ کرتا ہوں میرا یہ ہاتھ تمھارے اوپر کبھی نہیں اٹھے گا! اگر اٹھے تو میں قسم کھاتا ہوں میں اسے کاٹ دوں گا!" وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ مگر امان کی نگاہیں زمان ہر تھیں۔ وہ لب بھینچے اپنے جڑواں بھائی کو دیکھ رہا تھا۔

*-------------------*------------------*------------------*

"انہیں ہوا کیا تھا فاطمہ؟ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے غصہ آیا ہو!"شانزہ اس کے ساتھ تیز تیز قدم اٹھاتی گھر کی جانب بڑھ رہی تھی۔

"ہاں جبکہ میں نے بھی کوئی ایسی بات نہیں کی تھی! میں تو عدیل کا بھائی کا ذکر کررہی تھی! اس کا کیوں موڈ خراب ہوا! پتا نہیں کیا چکر ہے! شاید کوئی اور معملہ ہو جس سے ہم بے خبر ہوں!" فاطمہ نے کندھے اچکائے!

"ہاں! خیر چھوڑو جلدی چلو یار گرمی افف!" شانزہ نے ایک ہاتھ اپنے چہرے پر پھیر کر بیزاری سے بولی۔

*----------------------*------------------*-------------------*

"میں نے ان کی پٹی کردی ہے! گھبرانے کی کوئی بات نہیں!! ان کے زخم گہرے ہیں مگر جو ادوایات لکھی ہیں انہیں وقت پر دی جائیں تو ان کی صحت کے لئے بہتر ہے!" ڈاکٹر امان کے ساتھ زمان کے کمرے سے نکلا۔ امان نے ایک نظر بے سدھ زمان پر ڈالی جس کے سر پر پٹی اور جگہ جگہ مرہم لگے تھے اور دروازہ آہستہ سے بند کیا۔

ڈاکٹر کی بات پر دھیرے سے سر اثبات میں ہلایا۔ ہاتھوں کو کمر پر باندھ کر وہ ڈاکٹر کو دیکھ رہا تھا۔

"سر کا زخم بے حد گہرا ہے اور بدن زخموں سے چور ہے۔ میں ایک ڈاکٹر ہوں اور میں جانتا ہوں یہ ہلکی پھلکی مار کٹائی سے نہیں ہوسکتا! یہ سب کیسے ہوا مسٹر امان؟" ڈاکٹر نے بات ختم کرکے امان کی طرف دیکھا۔ امان نے ایک ڈاکٹر کو دیکھا۔

"کیا آپ کو نہیں لگتا آپ ہمارے معملہ میں بہت زیادہ دخل دے رہے ہیں؟ مجھے نہیں پسند کوئی ہمارے معملہ میں دخل دے! آئیندہ خیال رکھئے گا ورنہ نتیجے کے ذمہ دار آپ ہونگے ڈاکٹر!" سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس نے بنھویں اچکائیں۔ ڈاکٹر کے ماتھے پر بل آئے۔

"آپ کیا کہہ رہے ہیں آپ ج۔۔۔"

"گارڈز"  امان نے بات کاٹتے ہوئے گارڈز کو آواز دی۔ "انہیں دروازے تک زندہ چھوڑ آؤ!" ایک سپاٹ نظر ڈاکٹر پر ڈال کر وہ زمان کے کمرے کی جانب مڑگیا۔

"آجاؤ ڈاکٹر!" گارڈ نے ڈاکٹر کا بازو پکڑا اور باہر کی جانب لے کر جانے لگا۔ امان زمان کے کمرے میں چلاگیا تھا۔

"زندہ بچ گئے تم! شکر کرو ڈاکٹر!" سلیم نے آہستہ آواز میں کہا۔ ڈاکٹر سہما۔

"کیوں بھئی؟"

"یہاں سے زندہ کوئی بچ کر جاتا نہیں!!! مجھے تو اب زمان دادا کی ٹینشن ہے!" سلیم نے افسوس سے سر نفی میں ہلایا۔

"کیوں بھئی؟ پیشنٹ تو ان کا بھائی ہے نا؟"

"تو بیچارا زخمی بھی بھائی کے ہاتھوں ہوا ہے!"

"واٹ؟؟؟؟؟" ڈاکٹر نے حیرت سے پوچھا۔

"لے بھئی! تم کو یہ ہی نہ پتا ڈاکٹر! امان دادا نے مارا ہے انہیں! یہ بات کسی کو بتانا مت ورنہ قبر میں اتار دئے جاؤ گے!!" ڈاکٹر نے تھوک نگلا۔

"مجھے جلدی سے گیٹ کی جانب لے چلو!" وہ اب تیز تیز چلنے لگا۔

"گود میں تو لے کر جانے سے لگا ڈاکٹر! " سلیم نے منہ بنایا۔

*--------------------*---------------------*--------------------*

"شانزہ! کیوں گئی تھی کالج جب طبیعت ٹھیک نہیں تھی!" عدیل اب اسے خفا خفا سی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ شانزہ بے اختیار مسکرائی۔

"عدیل میں ٹھیک ہوں! آپ پریشان مت ہوں! ٹھیک تھی طبیعت جبھی تو گئی تھی" وہ اب آٹا گوند رہی تھی۔ اس کی زلفیں بار بار اس کے چہرے کو چھو رہی تھیں۔ عدیل کی نظریں بھٹک بھٹک کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں۔  ایک دم دل چاہا کہ ہاتھ آگے بڑھا کر اس کی زلفیں دھیرے سے پیچھے کرے۔ مگر قابو کیا دل پر کہ ابھی حق نہیں!

"اگر مجھے حق ہوتا تو میں ابھی تمھاری ان کالی زلفوں کو تمھارے چہرے سے پیچھے کردیتا شانزہ!" وہ اس کے سحر میں کھو بیٹھا تھا۔ اسے تک رہا تھا۔ شانزہ کے چہرے پر تبسم پھیلا۔ وہ جو آٹا گوندھنے میں مصروف تھی ہاتھ روک جھکی نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اور جب تک حق نہیں مل جاتا تب تک ان زلفوں کو میں پیچھے کردیتی ہوں!" وہ مسکرائی اور اپنے انگلیوں سے جن پر آٹا لگا تھا پیچھے کرنے لگی۔

"آٹا تمھارے بالوں پر لگ جائے گا شانزہ!" وہ ایک دم یوں پریشان ہوا۔ شانزہ نے اسے یوں حیرت سے دیکھا۔

"تو کیا ہوا! اس میں آپ ایسے کیوں پریشان ہوگئے؟" وہ دھیمی سی مسکرائی۔

"نہیں بس یونہی!" وہ ٹہھر کر مسکرایا تو وہ بھی مسکرادی۔

*----------------*-----------------*-----------------*

وہ دوسری طرف چہرہ موڑے دوائی کے زیرِ اثر بے سدھ سورہا تھا۔ وہ اس کے سرہانے آکر آرام سے بیٹھا۔ اس کے بیٹھنے سے بستر کے پائے ہلکے چرچرائے اور زمان نے دھیرے سے آنکھ کھولی۔ ایک نظر دیوار کو تکنے کے بعد امان کو دیکھی جو اسے دیکھ رہا تھا اور پھر سے نگاہیں دیوار پر مرکوز کردیں۔

"کیسی طبیعت ہے اب!" وہ نرم لہجے میں بولا۔

"عجب دستور ہے تمھاری محبت کا! لگا کر زخم خود ہی مرہم کرتے ہو!" وہ بڑبڑایا۔ اس کی آواز اتنی ہلکی نہ تھی کہ امان نہ سن پاتا۔

"پتا نہیں!" امان نے مٹھیوں میں اپنے بال پکڑے۔ "تم آرام کرو!" وہ کہہ کر اٹھا اور دروازہ آہستہ سے بند کرتے ہوئے وہ باہر بڑھا۔

*--------------------*---------------------*--------------------*

"شاہنواز! اس لڑکی کا پتا لگاؤ!" وہ ہاتھ میں پہنی رسٹ واچ پر ایک نگاہ ڈال کر بولا تھا۔

"کون سی لڑکی دادا!"

ایک تیز نگاہ امان نے اس پر ڈالی تھی۔

"یہ پوچھنے کی ضرورت کم از کم تمھیں نہیں! زمان نے تم سے معلومات نکلوائی تھی نا؟" اس نے بنھویں اچکائیں۔

"ج۔جی دادا۔" وہ گڑبڑایا۔

"اور تم نے میرے علم میں لائے بغیر کیا!"

"معاف کیجیے گا دادا مگر زمان دادا نے کہا تھا کہ آپ کو کچھ نہیں بتایا جائے! شاید وہ آپ کو خود بتانا چاہتے تھے!" اس کی حالت غیر ہوئی۔

"میں ابھی کوئی غیر ضروری گفتگو نہیں کرنا چاہتا! اس لئے جو کہا ہے وہ کرو! مجھے اس لڑکی تمام معلومات کل تک چاہئے! ورنہ کل وہ تمھاری موت کی بریانی کھارہی ہوگی! جاؤ اب!!!! فوراً" وہ کہہ کر پلٹا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھا۔ پتا نہیں وہ لڑکی کب سے اسکی حواسوں پر چڑھی تھی۔ وہ دروازہ بند کرتے سنگل صوفے پر بیٹھا۔ ایک ہاتھ اس نے پھیلا کر صوفے کے بیک پر رکھا۔ وہ کانچ کی جیسی نازک لڑکی اسے بھا گئی تھی۔ وہ بے اختیار مسکرایا۔

"اور اب سے وہ "میری" ہے!" آنکھوں ہلکی بند کرکے اس نے بنھویں آپس میں ملائی تھیں۔ "صرف میری!" وہ کہہ کر ہلکا سا ہنسا۔  یہ محبت وقت گزرنے کے ساتھ شدت پسندی میں بدل رہی تھی۔

"اور کتنا انتظار کرنا ہوگا تمھارا!" اس نے پاؤں پر پاؤں جمائے۔

"شانزہ ناصر سے شانزہ امان تک کا سفر بے حد خوبصورت ہونے والا ہے!" اپنی سوچوں میں غرق ہوئے وہ صرف مسکرایا جارہا تھا۔ وہ مسکراہٹ جو صرف کسی کی وجہ سے اس کے لبوں پر آتی تھی۔ اک اس کا اپنا بھائی! اور دوسری شانزہ! جو کچھ دنوں پہلے ہی اس کی چھوٹی سی فہرست میں شامل ہوئی تھی اور اب اس کی زندگی میں بھی شامل ہونے والی تھی۔ وہ اسی سوچوں میں مصروف تھا کہ اسے زمان کا خیال آیا۔ وہ چونک کر اٹھا اور اس کے کمرے کی جانب بڑھا۔ اب یہ کہانی کون سا رخ موڑنے والی تھی اس کا علم شانزہ ناصر کو نہ تھا۔

زمان کو ڈاکٹر نے آرام کا کہا تھا تو وہ بستر توڑ رہا تھا۔۔ اب اسے ذیادہ مزہ آرہا تھا کیونکہ اب امان اس کی ساری چھوٹی خواہشات پوری کررہا تھا۔

"مجھے بھوک لگ رہی ہے!" اب وہ ہر آدھے گھنٹے بعد یہی جملہ دہرا رہا تھا۔

"کیا کھانا ہے؟!" امان اس کی دوائیوں کی تھیلی بند کرتے ہوئے اس سے پوچھا۔ زمان نے ترچھی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"میں نے فرائز کھانے ہیں!" زمان نے یہ کہتے اپنا سر پر ہاتھ رکھ کر ہلکا سا دبایا! وہ اسے دکھانا چاہتا تھا کہ اس کا درد کم نہیں ہوا ہے ابھی۔امان نے اسے یوں کرتے دیکھا تو پریشان ہوا۔

"درد ہو رہا ہے؟"امان کے ماتھے پر بل پڑے۔ زمان پھر کراہا۔

"بہت درد ہورہا ہے مجھے! تمھارا ہاتھی جیسا بھاری ہاتھ! اففف میرا سر چکرا رہا ہے۔ کوئی پکڑو ورنہ بے ہوش ہو جاؤں گا! یا خدا اٹھا لے مجھے!" وہ فرائز اور لالی پاپ کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ وہ واقعی ڈرامہ تھا مگر امان نہ سمجھ پایا۔

"کیا ہوا! کچھ نہیں ہوگا میں تمھیں دوا دیتا ہوں! نیند کی دوا دے رہا ہوں کچھ دیر آرام کرلو!" امان نے پریشانی میں دوائیوں کی تھیلی کھولی۔ زمان گڑبڑایا۔

"ن۔نہیں مجھے لگ رہا ہے میں ٹھیک ہورہا ہوں! ہاں اب نہیں آرہے چکر! بس ٹھیک ہوگیا۔ ب۔بھوک لگ رہی ہے! فرائز لادو!" وہ اب سر پر نہیں بلکہ پیٹ پر ہاتھ رکھا ہوا تھا۔ امان نے بنھویں اچکائیں!

"تم ٹھیک ہو؟؟"

"ہاں! اب بھوکا ہی ماروگے! میرے لئے فرائز منگواؤ!" وہ بچوں کی طرح ضد کررہا تھا۔

"تم نے آدھے گھنٹے پہلے ہی دو عدد بن کباب کھائے ہیں!"

"زخموں میں کھانا جلدی ہضم ہوجاتا ہے امان! تمھیں اندازہ نہیں ہے کیونکہ مار کب کھائی تم نے؟" وہ خفا سی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگا۔

"لا رہا ہوں! اینوشنل بلیک میلر"وہ اسے گھورتا ہوا باہر چلاگیا۔ اس کے جانے کے بعد زمان تھکا تھکا سا بستر سے ٹیک لگائے کچھ سوچنے لگا۔ وہ اپنی بات کس طرح سے منوائے۔ کچھ تو کرنا تھا! پیار سے منوانی ہوگی بات! اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔

"امان شاہ! میں تمھیں کوئی غلط قدم نہیں اٹھانے دوں گا!" وہ زیر لب بڑابڑایا تھا۔  کیا کرے وہ؟ کس طرح روکے!؟ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا! ابھی وہ صرف ایک شخص کو کال کرنے والا تھا۔ اس نے موبائل اٹھایا اور  کال ملائی۔ دو تین بیل کے بعد اٹھالی گئی۔

"ہیلو شہنواز؟ کہاں ہو؟ میرے کمرے میں آؤ فوراً!! بھائی کو خبر نہ ہو" اس کی بات سنے بغیر ابھی صرف وہ اپنی بات کررہا تھا۔

"دادا میں نہیں آسکتا! پلیز! امان دادا کو خبر ہے کہ ساری معلومات میں نے نکلوائی تھی! انہوں نے مجھے اس لڑکی کی معلومات کرنے کے لئے صرف ایک دن کا وقت دیا ہے! میں نہیں آسکتا دادا! ورنہ میں ماردیا جاؤنگا!"وہ درد ناک آواز میں بولا۔ زمان ششدر رہ گیا۔نہیں وہ اپنے کام کے لئے شہنواز کو مروا نہیں سکتا!

"ٹھیک ہے! میں اپنے کام کے لئے تمھاری زندگی برباد نہیں کرسکتا! بھائی جو کہہ رہے ہیں وہی کرو!"

ایک دن میں امان اتنا کچھ کر گیا تھا۔ اس نے غصے سے موبائل دور پھینکا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا اور دروازہ کھول کر امان کو دیکھنے لگا۔ وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے دروازہ لاک کیا اور الماری کھول کر جلدی سے کپڑے نکالنے لگا۔ بلیک جینز کے ساتھ بلیک ٹی شرٹ نکال کر وہ باتھ روم میں چلاگیا۔۔۔  پانچ منٹ کے بعد آیا تو وہ کپڑے چینج کرچکا تھا!۔۔ رموٹ اٹھا کر اے سی چلایا اور اس کی اسپیڈ تیز کردی۔ وہ جلدی جلدی کام کررہا تھا۔  اس نے جوتے اٹھائے اور پہننے لگا۔۔ بار بار دروازے کو بھی دیکھ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اسے دروازے کے باہر قدم محسوس ہوئے وو جھٹکے سے بیڈ پر لیٹ گیا اور برابر پڑی چادر کو اچھی طرح اس طرح لپیٹا کہ اس کے چینج کئے ہوئے کپڑے نہ دیکھ سکے۔ ایک ہاتھ بستر پر رکھا اور دوسرا ہاتھ سر پر بندھی پٹی پر! امان اندر داخل ہوا اور اس کے سامنے فرائز کی پلیٹ رکھی۔

"کھالو! مجھے کام ہے! ہوسکتا شام تک گھر میں نہ آؤں! خیال رکھنا!" وہی کہہ کر پلٹنے لگا۔ زمان کو خدشہ پیدا ہوا۔

"کون سا کام؟؟" امان رکا۔

"تم آرام کرو!" اس کا جواب دیئے بغیر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلاگیا۔ زمان اس کے جانے کے پانچ تیزی سے بیڈ سے اٹھا۔ دھیرے دھیرے چلتا ہوا دروازے تک آیا۔ ہلکا سا دروازہ کھول کر  اس نے باہر جھانکا راستہ صاف تھا! مگر وہ مصیبت کو دعوت نہیں دینا چاہتا تھا! دراز سے گاڑی کی چابی نکالی اور کھڑکی کی جانب آیا۔ جب تک آنکھوں دیکھی نہ دیکھے! تب تک وہ کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا!امان گاڑی اسٹارٹ کررہا تھا۔ وہ اسے چھپ کر دیکھنے لگا۔ جس دم اس نے گاڑی باہر نکالی زمان تیزی سے نیچے کی جانب بڑھا۔

"دادا آپ کی طبیعت؟؟" گارڈ نے حیرت سے آ۔کھیں پھاڑیں۔

"بھائی کے آتے مجھے فون کرنا! میں آجاؤگا!" وہ اب گاڑی ریورس کررہا تھا۔

"مگر۔۔۔"

"مجھے کچھ نہیں سننا! بس جتنا کہا ہے اتنا کردینا!"اس نے گاڑی باہر نکال کر بھگادی۔ گارڈز نے دروازہ بند کیا۔

ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے اپنے برابر سے گزرتے زمان کو دیکھا تھا۔

"حیرت ہے زمان تم مجھے سمجھ ہی نہیں پائے! اور جیسے میں تمھیں جانتا نہیں!"امان نے گاڑی ریورس کرکے گھر کے باہر کونے پر ہی لگادی تھی۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ اب وہ زمان کا پیچھا کررہا تھا۔  وہ جانتا تھا یہ اس کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ مگر وہ اس رکاوٹ کو اپنے رستے سے تو ہٹا سکتا تھا مگر اپنی زندگی سے نہیں!

*------------------*-------------------*-----------------*

"سنیں مجھیں آپ سے بات کرنی ہے" زمان نے اسے روکا۔

"جی؟ آپ پھر آگئے؟ آپ کو چین نہیں! " فاطمہ اور شانزہ کالج سے گھر کی جانب آرہی تھیں۔ زمان نے اسے وہی روک لیا۔

"دیکھئے فاطمہ محترمہ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے!" وہ حکمت سے کام لیتے ہوئے بولا۔

"مگر مجھے آپ سے بات نہیں کرنی!" فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔ شانزہ تو صورتحال ہی سمجھ نہیں پارہی تھی۔ ایسا کون سا ضروری کام تھا جس کے لئے یہ بندہ گاڑی بھگاتا ہوا لایا تھا۔

"میری بات سنیں! مجھے آپ زبردستی پر مجبور نہ کریں! خدارا!" اب اس کا انکار اسے بھی برداشت نہیں ہوا۔ وہ امان شاہ نہیں تھا مگر بھائی تو اسی کا تھا! کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی عادت اس میں بھی تھی! اور بس وہ اسی بات سے ڈرتا تھا۔

"زبردستی ؟؟ کیا کہہ رہے ہیں مسٹر آپ؟" وہ آگ بگولا ہوئی۔

"میں تحمل سے بات کرنا چاہتا ہوں لیکن آپ نہیں چاہتی شاید!" وہ ایک نظر شانزہ پر ڈال کر بولا۔ امان اس کی حرکت کچھ دور گاڑی میں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔

"مجھے نہیں سننی آپ کی کوئی بات!! چلو شانزہ!" فاطمہ نے شانزہ کا ہاتھ پکڑا اور قدم تیز کئے۔ زمان نے آنکھیں بند کر کے ایک گہری سانس لی۔ اس کے صبر کا امتحان لینے کے لئے اس کے بھائی کے بعد یہ لڑکی کافی تھی۔ اس نے فاطمہ کا بازو سختی سے پکڑا اور کھینچتا ہوا اسے گاڑی تک لایا۔ وہ چینختی رہ گئی۔ گاڑی کا دروازہ کھول کر اسے اندر پھینکا اور ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔

"تم پریشان مت ہونا! یہ پندرہ منٹ میں تمھیں گھر میں ہی ملے گی!" زمان نے فاطمہ کی چینخوں کو خاطر میں لائے بغیر کھڑکی سے باہر کھڑی شانزہ سے کہا اور تیزی سے گاڑی آگے بھگائی۔ شانزہ پیچھے ششدر رہ گئی۔

امان جو سپاٹ تاثر سے یہ سب دیکھ رہا تھا اس نے زمان کا پیچھا کرنا چاہا مگر رک گیا۔ وہ شانزہ کو یوں تنہا سڑک پر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کچھ دور گاڑی آہستہ آہستہ چلا رہا تھا۔ شانزہ نے تیز چلنا شروع کردیا تھا۔ زمان کی اس حرکت سے وہ ڈر گئی تھی،لیکن پھر بھی یقین تھا کہ وہ اسے چھوڑ جائے گا! یقیناً اسے کوئی ضروری گفتگو ہی کرنی ہوگی،مگر پھر بھی دل میں انجانا سا خوف لئے وہ آگے بڑھ رہی تھی اس بات سے بے خبر کے کوئی کچھ دور آہستہ گاڑی چلاتا ہوا اسے تک رہا ہے جس کی آنکھوں میں شدت پسندی اور جنون ٹپک رہا تھا۔ جس کے لئے محبت ایک اذیت تھی! مگر وہ خود عشق کر بیٹھا! اسے پانے کا جنون شدت اختیار کررہا تھا۔ کیا وہ واقعی عشق تھا؟ یا وہ محض وقتی جذبات تھے؟ اسے خود اندازہ نہیں تھا! دل و دماغ میں صرف اسے پانے کا جنون تھا۔ بعد کا حال تو وہ بھی نہیں جانتا تھا۔ وہ حقیقت میں عشق کی ڈوروں میں بری طرح الجھ چکا تھا!  عشق سے اسکا روم روم مہک رہا تھا۔ ایک دم اسے دنیا کی ہر چیز ہر احساس ہر بات اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے گاڑی آگے بڑھا رہا تھا۔ وہ سہمی ہوئی تھی کیونکہ وہ یوں کبھی تنہا باہر نہیں گھومی، اس بات سے بے خبر کے ایک شخص تھا جو اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ مسلسل اسکے ارد گرد بھی دیکھ رہا تھا کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا۔ نگاہیں تھیں کہ شانزہ پر سے ہٹنا نہیں چاہتی تھیں۔ اتنے میں ایک لڑکا بائیک پر اس کی جانب رکا تھا۔ امان کے تیور چڑھے۔ وہ دانت پر دانت جمائے اسے دیکھنے لگا۔

"سنو اکیلی ہو کیا!" وہ کمینگی مسکراہٹ لئے اسے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔ شانزہ کا جیسے سانس رکا۔ وہ سہمی تھی۔ دل گویا پھٹ جانے کے قریب تھا۔ کہنے کے لئے کچھ منہ کھولا تو الفاظوں نے ساتھ نہ دیا۔

"میرے ساتھ چلو گی!؟؟ ایک رات کے۔۔۔۔" اس کے الفاظ منہ میں رہ گئے کیونکہ امان نے اسے زمین بوس کردیا تھا۔  اب وہ اسے بے دردی سے ماررہا تھا۔ غصے سے اس کی آنکھیں لال تھیں۔وہ اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھا۔۔ شانزہ سہمی کھڑی تھی۔ وہ شخص جیسے تیسے بھاگا تھا۔ مگر بدلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے بائیک کا نمبر یاد کرلیا۔ دماغ کی رگیں تن گئیں اور سانسیں غصے سے پھولنے لگیں۔ شانزہ ڈر گئی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ پلٹا ہے تو وہ ڈری سہمی رودینے کو تھی۔

"آپ ٹھیک ہیں؟" وہ لہجہ نرم کرتے ہوئے بولا مگر غصہ ابھی بھی اس کے لہجے میں تھا۔

"ج۔جی!"  وہ اور سہم گئی۔

"آپ اکیلی ہیں؟"

"ج۔جی آپ کا بھائی فاطمہ کو زبردستی لے گیا ہے! مجھے ڈر لگ رہا ہے!" اس کا لہجہ گیلا ہوا۔

"ڈرنے کی ضرورت نہیں! میں زمان کو دیکھتا ہوں! آپ ٹینشن نہ لیں! " وہ سخت لہجے میں بولا۔

"آئیں میں آپ کو گھر چھوڑدوں!" اس نے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ شانزہ نے ایک نظر اسکی کچھ دور کھڑی گاڑی کو دیکھا اور نفی میں سر ہلایا۔

"نہیں آپ ایسا نہ کریں! آپ کے پاس موبائل ہے؟ میں گھر میں کال کردوں گی! وہ آجائیں گے لینے!" وہ لب کاٹتے ہوئے بولی۔ امان نے ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی اور جیب سے موبائل نکال کر اس کی جانب بڑھایا۔ اس نے جھجھک کر موبائل اسکے ہاتھوں سے لیا اور کال ملانے لگی۔ نم ہوتی آنکھوں سے اس نے کان پر فون رکھا۔

"کس کو کال کر کررہی ہیں؟" جب اسے لگا کہ اس کا صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو وہ پوچھ بیٹھا.

"عدیل کو!" وہ سرسرے انداز میں کہتے ہوئے نگاہ ہٹا گئی۔ امان شاہ رگیں تن گئیں۔ اس کا یہ انداز بےساختہ تھا۔

"لائیں دیں فون!" اس نے ہاتھ بڑھایا۔ شانزہ ٹھٹھکی،ایک دم تو اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس نے فون بند کرکے اسے لوٹایا اور آگے جانے کے لئے مڑنے لگی۔ یہ سب ایک دم ہورہا تھا! امان نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف موڑا۔ اس کی ہلکی سی چینخ نکلی۔

"کسی اور کو فون کرنا ہے تو کرسکتی ہیں آپ! اپنے عدیل "بھائی" کے علاؤہ" اس نے "بھائی" کے لفظ پر زور دیا۔ وہ سمجھ نہیں پائی۔ اس کا بازو ابھی بھی امان نے سختی سے پکڑ رکھا تھا۔ اس نے امان کی آنکھوں میں دیکھا اور ہاتھ چھڑانے لگی۔ اس کی چند کوششوں کے بعد امان نے اس کا ہاتھ چھوڑدیا اور سینے پر ہاتھ باندھے اسے تکنے لگا۔

"ن۔نہیں میں چلی جاؤں گی" اسے اب امان سے بھی خوف محسوس ہونے لگا۔  وہ پلٹ کر جانے لگی۔

"گاڑی میں بیٹھو جاکر! آپ کو چھوڑ آؤ!" وہ بلند آواز میں بولا۔ شانزہ کا دل گویا کسی نے مٹھی میں لیا۔ وہ آواز نہیں جیسے آگ کا شعلہ تھی۔ ہڈیوں میں سنسی سے پھیل گئی۔ اتنی سکت نہ تھی کہ پلٹ کر اسے دیکھے۔

"آواز گویا آپ کے کانوں تک ابھی پہنچی نہیں شاید!" وہی پھتر لہجہ کانوں سے ٹکرایا!

بمشکل تھوک نگلا اور پلٹ کر شانزہ نے اسے دیکھا۔

"نہیں میں چلی جاؤنگی! امان بھائی گھر والوں نے دیکھ لیا تو وہ برا مانیں گے!" امان نے سن ہوتے دماغ سے آنکھیں میچیں۔

"میں آپ کا بھائی ہوں؟" وہ جارحانہ انداز میں بولا۔

"میں سب کو بھائی کہتی ہوں!" وہ سر جھکا کر بولی۔

"بھائی صرف تمھارا عدیل ہے! اور یہ بات تم جتنی جلدی مان لو تمھارے لئے بھی اچھا ہے اور عدیل کے لئے بھی!" وہ ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ بہت کچھ ضبط کیا ہوا ہے! وہ ناسمجھے والے انداز میں اسے دیکھنے لگی۔

"گاڑی میں بیٹھو! فوراً!" وہ حکم صادر کرتا ہوا گاڑی کی جانب مڑا۔مگر شانزہ کا دل و دماغ اس کی ایک بات پر اٹک گیا تھا۔

"آپ نے یہ کیا کہا ہے کہ عدیل میرا بھائی ہے اور مجھے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے!؟؟" وہ دھیمی آواز میں پوچھ رہی تھی کیونکہ اس سے ذیادہ آواز وہ اس بدمزاج بندے کے سامنے نہیں نکال سکتی تھی! جو اسے بڑا کھڑوس لگتا تھا! بلکہ ابھی نیا نیا لگنا شروع ہوا تھا۔اس کی اس بات پر امان نے گردن موڑ کر اسے دیکھا۔

وہ مسکرایا تھا۔ یعنی خطرے نے جنم لیا تھا۔

وہ ہنسا تھا۔ اب مصیبت جیسے گھر کے دہلیز پر کھڑی تھی مگر شانزہ بے خبر تھی! کیونکہ وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ امان شاہ خود ایک خطرہ تھا!

خطرہ؟ یعنی امان شاہ!

امان شاہ؟ یعنی مصیبت!

"بلکل! تمھارے نھنے ذہن میں شاید یہ بات کبھی نہ بیٹھے لیکن امان جو فیصلہ کرلے! پھر اس فیصلے سے ہٹنا گناہ سمجھتا ہے! باور کرلیں یہ بات! آئندہ کے لئے آسانی رہے گی آپ کو!"

شانزہ ششدر ہوئی۔

"وہ میرے منگیتر ہیں!"وہ کیا سمجھ رہا تھا اسے اب بھی نہیں سمجھ آیا! وہ فوراً بولی کہ اب بھی نہ بولی تو پھر کہیں دیر نہ ہوجائے! امان کو لگا اب وہ ضبط کھو بیٹھے گا۔ وہ تیزی سے پلٹ کر اس کے قریب آیا۔ سڑک سنسان تھی! اس نے اس کا منہ دبوچا۔ وہ درد کی شدت اور حواس ہوکر چینخ پڑی۔

"میں بات نہیں دہراؤں گا! میں یہ سب اتنی جلدی نہیں چاہتا تھا مگر لگتا ہے آپ نے مجبور کردیا ہے! میرے سامنے زبان مت چلانا شانزہ ناصر! تم پر ہر طرح کا حق صرف مجھے ہی حاصل ہوگا!" اسنے اسکے چہرے کو مزید سختی سے پکڑا۔ وہ رونے لگی! اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے! "مجھے چھوڑیں!" گھٹی گھٹی سی آواز میں احتجاج کرنے لگی۔

"ابھی تو پکڑ میں بھی نہیں آئی تم! میں برداشت نہیں کرسکتا کہ شانزہ ناصر امان شاہ کے علاؤہ کسی مرد کی جانب نگاہ اٹھا کر بھی دیکھے! منہ توڑ دونگا ان کا بھی جو امان شاہ کی شانزہ کی طرف دیکھے گا!"

آنسو تھے کہ بس بہے جارہے تھے۔ وہ سانس روکے تکلیف سے اس کی بات سن رہی تھی۔ وہ دانت پیس کر اپنے ایک ایک لفظ کو سختی چبا کر بول رہا تھا۔

"م۔مجھے سمجھ نہیں آرہی آپ ک۔کیا کہہ رہے ہیں!" وہ ہچکیوں کے درمیاں ٹوٹے پھوٹے الفاظوں سے بولی۔

"میں کہوں کچھ بھی لیکن تمھارے کانوں میں "محبت" کا لفظ گونجنا چاہئے شانزہ ناصر! امان شاہ کی محبت! امان شاہ کا جنون! امان شاہ کا عشق اور بس عشق! اور شانزہ ناصر کو اسکی تعبرداری کرنی ہے ورنہ وہ اپنی محبت کو بھی اذیت دینے کا قائل ہے!" اپنے ہاتھ کی گرفت اور مضبوط کرکے اس نے جھٹکے سے چھوڑا۔

"مجھے گھر جانا ہے!" وہ شدت سے رونے لگی اور اسے دور ہٹنے لگی۔ اسے اس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔

" مجھے تم عدیل سے بات کرتی نظر نہیں آؤ! گھر میں بھی نہیں! اور اگر تمھیں یہ لگتا ہے کہ مجھے اس بات کی خبر نہیں ہوگی تو ایک بات یاد رکھنا! میرے گارڈز میرے حکم کی تعبرداری  کرتے ہیں! معلوم تو لگ ہی جائے گا کہ تم کیا کررہی ہو سارا دن! کیونکہ اگر مجھے معلوم ہوگیا تو عدیل کی قبر پر پھول چڑھانے کی اجازت بھی نہیں دونگا!" شانزہ اٹکی سانسوں سے اسے دیکھ رہی تھی! اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ ہوکیا رہا ہے۔امان نے اس کا ہاتھ پکڑا تو کچھتی چلی گئی۔اس نے گاڑی کا دروازہ کھول کر بٹھایا اور دروازہ بند کردیا۔

"مجھے گھر جانا ہے! مجھے کہاں لے کر جارہے ہیں! پلیز پلیز آپ میری بات سن رہے ہیں نا!" وہ زور سے چینخی! امان دوسری جانب آکر بیٹھا۔ گاڑی اسٹارٹ کی اور روڈ پر لے آیا۔

"آپ ایسا کیوں کررہے ہیں! ایسا مت کریں!" وہ ہاتھ جوڑ کر بولی تھی۔ "م۔مجھے ڈر لگ رہا ہے! پلیز! آپ کہاں لے کر جارہے ہیں! میں مر جاؤں گی!" وہ زور سے چینخ رہی تھی مگر شاید برابر بیٹھے شخص کے کان میں جوں نہ رینگی تھی۔ دس منٹ سے بھی کم ڈرائیونگ کے بعد اس نے شانزہ کے گھر کے سامنے گاڑی روکی!

" جا سکتی ہیں اب! فکر نہ کریں ابھی صرف گھر ہی چھوڑا ہے! اگلی بار آپ اپنے ہونے والے سسرال جائیں گی!!" شانزہ کپکپاتی ٹانگوں سے زمین پر قدم رکھا اور دروازہ بند کیا۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھی۔

"ایک بات پھر کہہ رہا ہوں! آپ مجھے عدیل کے ساتھ باتیں کرتی نظر نہ آئیں شانزہ ناصر! ورنہ انجام کی زمہ دار آپ خود ہونگی!!" اس نے گردن موڑ کر اس کی سمت کی اور بات مکمل کر کے سامنے دیکھنے لگا۔

"م۔میں اسے نہیں چھوڑ سکتی! م۔مجھے آپ سے ڈر نہیں لگتا!!! آپ کو لگتا ہے آپ کی باتیں مجھے متاثر اور ڈرا رہی ہیں! مگر ایسا نہیں ہے! آپ آئندہ نہیں آئے گا! ورنہ میں عدیل کو بتادوں گی! اب میں عدیل کے ساتھ ہی آنا جانا کروں گی!" وہ اپنی تمام ہمت جمع کرتی ہوئی بولی اور بھاگتی ہوئی گھر کی جانب بڑھ گئی۔ امان کو لگا جیسے کسی نے اس پر گہرا وار کیا ہوا! اس نے غصے کی شدت سے آنکھیں میچیں! وہ یوں تب کرتا تھا جب وہ غصے میں ہوتا۔

"تمھیں جلد ہی ٹریلر دکھاؤ گا میں شانزہ!" وہ ہنسا! زور سے!! شانزہ نے اسکی بڑبڑاہٹ نہیں سنی تھی لیکن اس کی زور دار ہنسی کی آواز سے پلٹ کر ضرور دیکھا تھا۔ امان نے ایک گہری نگاہ ڈال کر گاڑی آگے بڑھالی۔

""یہ کیا بدتمیزی ہے!" وہ اسے یوں مطمئن دیکھ کر چینخی تھی۔ مگر وہ مطمئن بیغیرت تھا۔ اسے اس کے چینخنے پر بھی ذرہ برابر اثر نہ ہوا تھا۔

"مجھے بس دس منٹ چاہئے! کچھ ضروری بات ہے! وہ سن لو تو پھر خود چھوڑ آؤں گا گھر!" وہ سامنے کی سمت دیکھ رہا تھا۔ فاطمہ کے تن بدن پر آگ لگی۔

"مجھے نہیں سننی تمھاری کوئی فضول بکواس!" وہ پھر سے چینخی۔

"ہر کوئی میری بات کو بکواس کہتا ہے! کسی کو میری بکواس نہیں سننی ہوتی حتیٰ کے وہ بکواس بہت اہم ہوتی ہے میرے لئے!" وہ دل میں سوچ کر خود ہی اسٹیرنگ پر غصہ نکالنے لگا۔

"گاڑی موڑو اور مجھے گھر چھوڑو ابھی!" اس نے اسٹیرنگ کو ہاتھ بڑھا کر موڑنے کی کوشش کی۔

"تم پاگل ہو؟؟؟؟" وہ فاطمہ کی اس حرکت پر جھنجھلا اٹھا۔

"مجھے تمھاری کوئی بکواس نہیں سننی ہے مسٹر زمان! گاڑی موڑو اور گھر ڈراپ کرو مجھے! ورنہ میں چینخ چینخ کر دنیا والوں کو بتادوں گی کہ تم مجھے زبردستی لے کر آئے ہو!" وہ انگلی اٹھا کر اسے وارن کرتے ہوئے بولی۔ زمان نے گاڑی کر بریک لگائے

"شانزہ خطرے میں ہے فاطمہ جاوید! میری دس منٹ کی گفتگو شاید اس کو مصیبت سے بچالے!" وہ بالآخر بول پڑا۔ فاطمہ ٹھٹھکی۔ وہ یہ کیا بول رہا تھا؟ شانزہ؟ شانزہ کیوں خطرے میں ہے! کیا یہ پاگل ہے؟ یا یہ جھوٹ بول رہا ہے؟

"کیا بکواس کررہے ہو مسٹر! میں تمھاری کسی بات پر یقین نہیں رکھتی!" وہ بنھویں اچکاتی نہیں میں سر ہلاتی بولی۔ زمان کو لگا تھا کہ وہ اس کا یقیں کریگی اس کی اس بات سے پر  نکال اسٹیرنگ پر مارا۔

"تو تمھیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں!" اس نے دانت پیس کر اسے گھورا۔

"سو فیصد! گاڑی میرے  گھر کے سمت موڑو فوراً!" وہ بنھویں اچکاتی کہتی ریلکس انداز میں سامنے کی سمت دیکھنے لگی۔زمان نے گہری سانس لی اور گاڑی ریورس کی۔وہ اب اور بحث نہیں کرسکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اب وہ اس کی کوئی بات نہیں سننے والی۔ راستہ میں اس نے فاطمہ سے موبائل مانگا تھا!

"کیوں؟"فاطمہ نے جواباً اسے گھورا۔

"دکھاؤ بھئی!" زمان نے ایک ہاتھ سے اسکا موبائل پکڑا اور گاڑی کی رفتار آہستہ کرکے اس میں اپنا نمبر محفوظ کرنے لگا۔

"یہ لو! میں نے اس میں اپنا نمبر سیو کیا ہے! میں جانتا ہوں کہ مجھے تو نہیں لیکن تمھیں میری ضرورت جلد پڑنے والی ہے! اس لئے جب ضرورت پڑے کال کرلے نا! اور ہاں! "زمان" نام سے نمبر سیو کیا ہے! اگر آگے بھائی لگایا نا تو ایک اور ملاقات کرنی پڑے گی تم سے!" وہ اسے گھورتے ہوئے بولا۔ منزل آنے پر اتری اور دھڑ سے دروازہ بند کیا کہ زمان کے کان بج اٹھے۔

"تمھارے باپ کا دروازہ ہے؟" وہ چینخا۔ فاطمہ نے غضبناک انداز میں اسے دیکھا۔

"زبان تمیز سے چلاؤ! ہاں میرے باپ کا ہے! تمھیں ڈرائیور کے طور پر رکھا تھا! اور کچھ؟؟؟" اسے گھورتی وہ پلٹنے لگی۔ "جاہل" زیر لب زمان نے اسے بڑبڑاتے سنا لیکن نظرانداز کردیا۔ جاتے جاتے اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ فاطمہ نے بنھویں اچکائیں۔

"شانزہ خطرے میں ہے! وہ شخص اس کی تلاش میں ہے! میں تمھاری مدد کرنے آیا تھا مگر شاید تم نہیں بات کرنا چاہتی!" دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے حیران ہوتی لڑکی پر دیکھا۔

"کون شخص؟"

"میں نہیں بتا سکتا! وہ شخص میرے بے حد قریب ہے۔ اس کی خوشی مجھے عزیز ہے لیکن اس سب میں کم از کم میں کسی لڑکی کی زندگی تباہ ہوتے نہیں دیکھ سکتا ہوں! مجھے اتنا یقین ہے تم میری جانب لوٹو گی اور شاید تب دیر ہوجائے! پھر تم اس وقت کو کوسو گی کہ تم نے میری دس منٹ کی گفتگو نہیں سنی! بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے!میں تمھاری مدد بعد میں بھی کروں گا مگر تاخیر مت کرنا زیادہ! میں اس شخص سے بہت محبت کرتا ہوں! ایسا نہ ہو اس شخص کی محبت غالب آجائے اور میرا ارادہ بدل جائے! پھر تمھیں یقین ہوگا کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا! پھر ملیں گے! اگر تم چاہو گی تو! مگر زیادہ تاخیر مت کرنا ورنہ تمھارا ساتھ نہیں دے پاؤں گا! بس سمجھنا میں اس شخص کی محبت میں ہارگیا!" وہ رکا نہیں زن سے گاڑی بھگا گیا۔ وہ ہکا بکا اس جگہ دیکھ رہی تھی جہاں سے وہ گیا تھا۔ کیا اسے اعتبار کرنا چاہئے؟ وہ کیا کرے؟ کیا پتا وہ جھوٹ بول رہا ہو؟ مگر کوئی اتنے یقین سے جھوٹ نہیں بول سکتا !اوپر کھڑی رمشا نے سب دیکھا اور سنا تھا! حقیقت تو یہ تھی کہ وہ وہاں پچھلے پندرہ منٹ سے کھڑی تھی! نہ صرف زمان کو گفتگو کرتے دیکھی تھی! بلکہ دس منٹ پہلے شانزہ کو امان کی گاڑی سے اترتے بھی دیکھا تھا۔ وہ حیران ہوئی تھی! مگر جب اسے شانزہ کے ساتھ فاطمہ نظر نہ آئی تو اس نے وہی کھڑے رہنے کا فیصلہ کیا، اور اسے زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ پانچ سے دس منٹ کے درمیان اس نے فاطمہ کو بھی گاڑی سے اترتے دیکھا تھا۔ چونکہ فرسٹ فلور کی کھڑکی سے جھانک رہی تھی۔ اس لئے باتیں نہ سن پائی! پہلے تو وہ دونوں کی حرکت پر چونکی تھی! مگر پھر مسکرائی!

اب اس کا اگلا وار بھی ہمیشہ کی طرح "شانزہ" تھی۔ مگر یہ وار مضبوط تھا۔

"ہنہہ میں نہ کہتی تھی یہ کوئی اسی طرح کی لڑکی ہے! شرافت کا صرف لبادہ اوڑھ رکھا ہے!" اس نے برا تاثر دیا۔ اور پھر چالاکی سے مسکرائی۔

"اب اس کا پتّا صاف کرنے میں آسانی ہوگی!" وہ ہنس کر مڑ گئی.

*--------------------------*---------------------------*

چوکیدار نے دروازہ کھولا۔ اس نے گاڑی بڑھائی اور پارک کردی۔ دماغ کی نسیں درد کررہی تھیں۔ چابی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر ڈالتے ہوئے اس نے دھڑ سے دروازہ بند کیا۔ سلیم نے خوف سے شہنواز کو دیکھا۔ اب یقیناً کوئی نہ کوئی بے وجہ ہی سہی مگر مار کھانے والا تھا۔ شہنواز اور باقی گارڈز ہنوز بندوقیں پکڑے سر جھکائے کھڑے رہے۔ خوف اتنا کہ ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ایک نظر ان پر ڈال کر وہ تیوریاں چڑھاتے ہوئے لاؤنج کی جانب بڑھا۔ وہاں موجود گارڈز نے سکوں کی لمبی سانس لی۔ ابھی کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ ایک زوردار آواز سے انکی سانسیں پھر چھڑھ گئیں۔ شہنواز بھاگتا ہوا اندر آیا۔ امان نے غصے سے کانچ کی ٹیبل دکھیل کر پھینکی تھی۔ کانچ کے کچھ ٹکڑے اس کی ہاتھ میں چھبے تھے جس کی اسے ذرہ برابر فکر نہ تھی۔ وہ سب چیزیں پھینک رہا تھا۔ شہنواز بھاگتے ہوئے آیا اور اس کی بگڑتی حالت دیکھنے لگا۔ جب اسے لگا کہ حالت بہت بگڑ رہی ہے تو وہ اسے قابو میں کرنے لگا۔

"دادا آپ کو گہری چوٹ لگ جائے گی! آپ کے ہاتھ سے خون بھی نکل رہا ہے!" مگر وہ اس کے قابو میں نہیں آرہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس سے چھڑا کر چیزیں الٹ رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی زیادہ زبردستی کرنا شہنواز کے لئے اچھا نہیں لیکن پھر وہ امان کو قابو میں کرکے اسے یہ سب کرنے سے روک رہا تھا۔ اس گھر کا ایک ایک فرد "وفادار" تھا! مالک سے لے کر نوکر تک! وفاداری جیسے خون میں تھی۔

"چھوڑو مجھے" وہ دھاڑا۔ اس کی آواز بخوبی گھر کے ہر فرد نے سنی تھی لیکن شہنواز اسے یوں تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ وہ تنہائی میں اپنے اوپر بھی تشدد کرے گا یہ بات وہ جانتا تھا.

"میں تمھیں جان سے ماردوں گا چھوڑو مجھے!" وہ پوری قوت سے چلا رہا تھا۔

"دادا آپ کا ہاتھ شدید زخمی ہے! کلثوم!" اس نے کلثوم کو آواز لگائی۔ کلثوم کچن سے نکلی۔

"جی شہنواز لالا" مگر امان کے ہاتھ سے بہتے خون کو دیکھ کر منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔

"مرہم لاؤ! فوراً" وہ اسکے دونوں ہاتھ کو قابو کئے ہوا تھا۔

"دادا یہ کیا کرلیا آپ نے! میں ابھی لائی" وہ کچن میں بھاگی۔

"سلیم! میری مدد کرو!" جب اسے لگا امان کو قابو کرنا نا ممکن ہورہا ہے تو اس نے باہر سے ایک اور بندے کو بلایا۔

"ان کو پکڑو! یہ کچھ کرلیں گے اپنے ساتھ!" امان نے ایک ہاتھ سے پانی بھرا جگ زمین بوس کیا۔ سلیم نے اس کا وہ ہاتھ اپنے قابو میں کیا۔

"انہیں صوفے پر بٹھانا ہوگا!" وہ اسے اب آہستہ سے صوفے کے قریب لارہے تھے۔ امان کا چہرہ ضبط سے لال ہورہا تھا۔ آنکھیں خطرناک حد تک خون آلود ہوچکی تھیں۔ یہ پہلی بار نہیں تھا! وہ جب بھی غصہ ہوتا اس کے ساتھ یونہی ہوتا! مگر اس بار کچھ الگ تھا جو کم ہی نہیں ہورہا تھا۔

"میں نے کہا شہنواز مجھے چھوڑو! ورنہ یہی گولیاں تمھارے جسم میں پیوست کردوں گا!" وہ اتنی زور سے چینخا تھا کہ شہنواز اور سلیم کو لگا کہ ان کے کان سن ہوگئے۔ امان سے اب بولا نہیں جارہا تھا۔ وہ اٹک اٹک کر بول رہا تھا۔ اس کہ لبوں سے لفظ ادا نہیں ہورہے تھے۔ وہ دونوں اور پریشان ہوگئے۔  زمان ابھی نہیں آیا تھا۔ کلثوم بھاگتی ہوئی آئی۔

"یہ لیں!" فرسٹ ایڈ باکس کھول کر اس نے مرہم نکال کر شہنواز کو پکڑایا۔ شہنواز نے اسے دھیرے سے صوفے پر بٹھایا۔ سلیم نے دو تین بندوں کو بھی بلوا لیا۔ وہ دو بندوں کے بس کی بھی بات نہیں تھا۔ اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا اور شہنواز کے آگے کیا۔

"مجھے نہیں کرنا مرہم! چھوڑو مجھے! دور ہٹو مجھ سے!" وہ پاگل ہوگیا تھا ۔۔ اس کی آواز بیٹھ چکی تھی۔ سانسیں تھیں کہ بس پھولی جارہی تھیں۔ پورا لاؤنج وہ بکھیر چکا تھا۔

"مجھے نہیں کرنا مرہم! تم لوگوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی! مجھے کچھ زخم اپنے آپ کو اور دینے ہیں! خدارا چھوڑو!" وہ اب چینخ نہیں رہا تھا۔ شہنواز نے بےساختہ نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"دادا دونوں ہاتھوں کا زخم پہلے ہی بہت گہرا ہے!" شہنواز کے کہنے پر امان نے دکھ سے نفی میں سرہلایا۔

"یہ زخم اتنا گہرا نہیں ہے شہنواز! میرا ہاتھ چھوڑدو! مجھ سے دور ہٹ جاؤ سب کے سب! میں بتاتا ہوں وہ درد کتنا گہرا ہے! مجھے چھوڑو! میں خود پر کرکے بتاؤنگا! یہ کچھ بھی نہیں ہے!" شہنواز اب اسے دیکھ رہا تھا اس ے ہاتھ کی گرفت امان کے ہاتھو پر ڈھیلی ہوئی۔ کوہنی سے اس کا ہاتھ سلیم نے پکڑا ہوا تھا۔ شہنواز کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ بھی چھوڑدیا۔ کمر سے پکڑے دو تین بندے ہنوز ایسے ہی کھڑے تھے! مگر وہ بس اسی انتظار میں تھا۔ وہ جھٹکے سے اٹھا اور سامنے جا کھڑا ہوا۔  شہنواز نے پکڑنا چاہا مگر وہ ایک بندے کی بس کی بات نہیں تھی۔

"میرے قریب مت آنا! ورنہ سب کو شوٹ کردوں گا میں!" وہ دیوانہ وار چینخ کر لاؤنج کی دیوار پر لگی ایل ای ڈی کو زمین پر پٹخ گیا۔ گارڈز ششدر رہ گئے۔

"اگر میرے قریب آئے نا اب! م۔میں وارن کررہا ہوں! میں گ۔گولی سے ایک ایک کو اڑادوں گا! اور تم یہ سب جانتے ہو میں یہ کرسکتا ہوں اور کرتا آیا ہوں! نہیں۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ اس بات میں تم لوگوں کو نہیں اپنے آپ کو ماردونگا! ہاں! ہاں میرے ق۔قریب مت آنا! میں ماردونگا خود کو!" اس نے نیچے گری جانب کو مٹھی میں رکھ کر مٹھی کو پوری قوت سے بند کیا۔ اسے درد نہیں ہوا تھا۔ بس ہاتھ زرا کپکپائے تھے خون کی گرتی تیز بوندوں سے زمین لہو سے سراب ہونے لگی۔ شہنواز بے اختیار چینخا تھا۔

"دادا آپ کا خون بہت تیزی سے بہہ رہا ہے! ہم ہر رحم کریں! خدارا!" اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر امان نے وہ کانچ اپنی کلائی پر رکھ کر اسے دکھائی۔

"میں ماردونگا خود کو! باہر جاؤ سب!" شہنواز نے تھوک نگلا۔ سلیم نے لب بھینچے۔ پتا نہیں کیوں ہمیشہ جس سے ڈرتے آئے تھے اچانک اس پر ترس آیا تھا۔ اس کی حالت پر۔۔۔

"مجھے پتا ہے آپ کس لڑکی کی بات کررہے ہیں! میں جانتا ہوں! آپ جو کہیں گے ہم کردیں گے! آپ اسے چاہتے ہیں میں جانتا ہوں! آپ ایسا مت کریں! خود کو اذیت مت دیں! آپ جو کرتے آئے تھے بس وہی کریں! اپنی خوشی حاصل کریں مگر یوں نہ کریں! خدارا دادا!" امان نے پھولی ہوئی سانسوں سے اسکی بات سنی۔

"اس کا منگیتر! اس کا! ہاں اس کا منگیتر! اسے میں مروادوں گا! پھر وہ اسکا دل بھی اسکے وجود کی طرح میرا ہوجائے گا! اور میں ایسا ہی کروں گا! مجھے میری محبت کے لئے اگر جان بھی لینی ہوئی تو میں وہ بھی کروں گا! میں جان لیتا آیا ہوں اور اب بھی وہی کروں گا! میں ماردوں گا! وہ صرف میری ہے!! یہ بات میں اسے سمجھاؤں گا!" وہ چینخ چینخ کر بے حال ہورہا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر صوفہ الٹا تھا۔ اب وہ پردے کھینچ رہا تھا۔ کلثوم سہم کر کچن میں ہی چلی گئی تھی۔ شہنواز اور دوسرے گارڈز کی ٹانگیں کانپنے لگیں مگر وہ ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہوئے۔ اس نے لاؤنج کا حشر نشر کردیا مگر اس کا غصہ کم نہ ہوا تو اس نے زمین سے کانچ اٹھائی اور دونوں ہاتھوں کو مٹھی بنا کر گرفت مضبوط کی۔ درد سے ہاتھ کانپنے لگی مگر زبان سے ایک آہ بھی نکلی۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اب اسے چکر آرہے تھے! وہ آہستہ آہستہ اپنا ہوش کھورہا تھس۔ عشق بھی انسان کا ذہنی سکون چین لیتا ہے! جس کی خواہش ہوتی ہے اسے پانا اور کٹھن ہوجاتا ہے! شہنواز آگے بڑھا اور اسے قابو میں کیا۔ وہ ابھی بھی اسے خود سے دور کررہا تھا مگر خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اب وہ کمزور پڑرہا تھا۔

"کیوں آتے ہو میرے قریب!" وہ اب مدہوشی میں بمشکل لفظ ادا کررہا تھا۔ گارڈز ۔ے اسے صوفے پر لٹادیا۔

"ڈاکٹر کو کال کرو! " سلیم نے اسلم سے کہا۔

"جی لالا" اسلم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"جاؤ! جلدی! ہمیں فوراً ضرورت ہے!" شہنواز نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ اس کے دونوں بازو بری طرح زخمی تھی۔ کانچ کے نھنے ٹکڑے اس کے ہاتھوں پر پھنس چکے تھے۔ اب اسے کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد ہنگامی طور پر ڈاکٹر آیا۔ اسے کمرے میں لے جاکر بیڈ پر لٹا دیا تھا۔ ڈاکٹر نے اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلی سے کانچ نکال کر پورے بازوؤں پر پٹی باندھ دی تھی۔ اب وہ دوائیوں اور انجیکشن کے زیرِ اثر وہ سورہا تھا۔ شہنواز نے کمرے کا دروازہ آہستگی سے بند کیا اور باہر آگیا۔ ایک گہری سانس لے کر اس نے اسلم اور باقی گارڈز کو دیکھا تھا۔

"ہلکا سا بھی شور نہ ہو! دادا سورہے ہیں! جان اس لئے بخش دی انہوں نے کیونکہ وہ ہوش میں نہیں تھے! مگر اب کچھ ہوا تو ملاقات ہم سب کی قبرستان میں ہی ہوگی! میں ہاتھ دھونے جارہا ہوں! دادا کے ہاتھوں کا خون سے میرے ہاتھ بھی لال ہوگئے ہیں!" وہ کہتا وہاں سے چلاگیا۔ لاؤنج میں جو توڑ پھوڑ مچی تھی وہ اسے ذرا بھی نہیں چھو سکتے تھے! ڈر تھا کہ امان شاید اس بات پر بھی ماردے گا! شہنواز نے ہاتھ دھو کر بندوق کندھے پر لٹکائی اور امان کے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا ہوگیا کہ کوئی اس کو ڈسٹرب نہ کرے یا اگر امان نیند میں سے اٹھا تو اور اسے کچھ ضرورت ہوتو وہ یہاں موجود ہو کیونکہ زمان کا ابھی تک کچھ اتا پتا نہیں تھا۔

" کس چکر میں پڑگئے دادا آپ! یہ عشق محبت ہر انسان کی اچھی بھلی زندگی برباد کردیتا ہے! کام کے شخص تھے آپ مگر اب عشق کر بیٹھے! دیکھتے ہیں کہ یہ روگ کب پیچھا چھوڑتا ہے! کھا جائے گا یہ کمبخت عشق اچھے بھلے انسان کو!" وہ دانت پیستا خود سے کہہ رہا تھا

*-----------------------*----------------------*

زمان کا دماغ عجیب چڑچڑا ہورہا تھا۔ وہ سڑکوں پر بےمقصد گاڑیاں دوڑانے کے بعد رات کے ساڑھے گیارہ بجے وہ گھر میں داخل ہوا۔ کچھ گارڈز نائٹ ڈیوٹی پر تھے۔ شہنواز جاچکا تھا۔ لاؤنج میں جانے کا رستہ گارڈن سے ہوتا تھا۔ اکا دکا گارڈز کھڑے تھے۔ وہ خوفزدہ تھے۔ زمان نے حیرت سے انہیں دیکھا اور لاؤنج کی جانب بڑھ گیا۔ لاؤنج کی حالت نا قابلِ یقین تھی۔ ٹیبل ٹوٹی ہوئی تھی۔ پردے زمین پر پڑے تھے۔۔ ٹی وی توڑ دیا گیا تھا گویا ہوتے کمرے میں کانچ پڑی تھی۔ کونے کی سمت نگاہ پڑی تو کچھ کانچ کے ٹکروں ہر خون لگا تھا۔ وہ جھٹکے سے پلٹا اور قدرے بلند آواز میں حیرت سے ہوچھا۔

"ی۔یہ کیا ہے!؟" ساکت نظروں سے کہتا ہوا وہ ان کا جواب کا انتظار کرنے لگا۔

رشید نے تھوک نگلا۔

"زمان دادا وہ اما۔۔" اس نے جملہ ادھورا چھوڑا۔ زمان کے حواس جنجھنا اٹھے!

"وہ ک۔کہاں ہے؟ کیا ہوا ہے اسے؟یہ خ۔خون یہاں کیسا؟؟؟ میں کچھ پوچھ رہا ہوں!!! ک۔کہاں؟" وہ ہکلایا۔ لفظ جیسے حلق میں پھنس گئے تھے

"وہ اپنے کمرے میں ہیں دادا!" زمان کی پلکیں لرزیں۔

"کیا اس نے کمرہ لاک کیا ہوا ہے؟ وہ اندر تنہا ہے؟ تم لوگوں سے کہا تھا میں نے اسے تنہا مت چھوڑنا کبھی! اس کو کمرہ مت لاک کرنے دینا! وہ تنہا ہے اور یہی سب سے بڑا مسٓلہ ہے! وہ ہمیشہ کی طرح کچھ نہ کچھ کرلے گا اپنے ساتھ!" وہ چینخا!

"وہ کمرے میں ہیں مگر کمرہ لاک نہیں ہے! کیونکہ دوائی کے زیرِ اثر ابھی بھی وہ بے ہوش ہیں!"

"ک۔کیا ہوا ہے اسے!" اس نے تھوک نگلا اور پلٹ کر اوپر منزل کی طرف دیکھا جہاں امان کا کمرہ تھا۔

"وہ زخمی تھے اور۔۔۔" آگے لفظ زمان سن نہ سکا وہ تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بھاگا ۔اب وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ دل پھٹ جانے کے قریب تھا۔ اسے کیا ہوا تھا۔ قدم بھاری ہورہے تھے۔ سیڑھیوں میں جگہ جگہ خون کے قطرے تھے جو اب جم گئے تھے۔ اس کی آنکھیں نم ہوئیں۔ دل پر ہاتھ رکھے وہ اب تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ اس کا بھائی اذیت میں تھا۔ اس نے دروازہ کھولا۔ وہ اندر بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ اس سے قدم نہیں اٹھائے گئے۔ دونوں بازو پٹی میں جکڑے تھے۔ آنکھیں بند تھیں۔ وہ اپنے آپ کو گھسیٹتا اسکے قریب آیا۔ وہ نیم بے ہوش تھا۔ بے اختیار زمان کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ اسکے لب کانپنے لگے اور حالت غیر ہونے لگی۔ امان کا چہرا کچھ کچھ جگہ سے چھلا ہوا تھا۔ چھوٹے چھوٹے نشانات تھے۔ وہ اسکے برابر بیٹھ گیا اور ہچکیوں سے روتے روتے اپنا سر اسکے سینے پر رکھ دیا۔

"کیوں کرتے ہو ایسا! مجھ کو اذیت دیتے دیتے خود کو بھی دینے لگتے ہو! کیوں؟ میری ہی غلطی ہے میں تمھیں گھر میں اکیلا چھوڑ دیتا ہوں! مجھے تمھیں تنہا یوں نہیں چھوڑنا چاہئے!" وہ اذیت میں تھا کیونکہ اس کا بھائی اذیت میں تھا۔ وہ اس کا بھائی تھا۔ جڑواں بھائی۔۔!

"مجھے ڈر لگتا ہے زمان!" زمان کو اس کے ہر پرانے لفظ یاد آرہے تھے۔ وہ کرب سے آنکھیں میچ گیا۔

"زمان مجھے خواب بہت تنگ کرتے ہیں!"

"مجھے نیند نہیں آتی!"

"وہ ہمیں ماردیں گے"

"وہ ہم سے ہمارے سب کچھ چھین چکے ہیں زمان!" اس کے لہجے کا وہ کرب یاد کرتے اس کا لہجہ کرب ناک ہوا تھا۔ زمان کی آنکھ سے نکلتا ہر آنسو امان کا سینہ بگھ رہا تھا۔ وہ اب ہچکیاں لینے لگا۔ دس منٹ تک یونہی بےسدھ لیٹے وہ ہچکیاں لے رہا تھا۔

"تمھیں پتا ہے تمھارے آنسو میرا سینہ بگھو گئے زمان شاہ! اب میں ان زخموں کے ساتھ کیسے نہاؤں گا؟" امان نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔ زمان نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکے گلے لگا

"تم اٹھ گئے؟؟۔ مگر تمھاری آواز کیوں بیٹھی ہوئی ہے؟"

امان مسکرایا۔

"پتا نہیں! مگر تم روتے روتے میرے سینہ بھی بگھو گئے!" وہ ہنسا مگر درد کی وجہ سے بلبلا اٹھا۔

زمان نے اس کی شرٹ پر نظر ناری جو گیلی ہوچکی تھی۔

"میں چینج کروادوں گا!" وہ بچوں کی طرح ہاں میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔

"مگر میں نہانا چاہتا ہوں کیونکہ میں زمان شاہ نہیں ہوں!" وہ اسے پیار سے دیکھتے ہوئے بولا۔ زمان اس سب میں بھول گیا تھا کہ وہ جاننا چاہتا ہے کہ امان نے یہ سب کیوں کیا!

"مجھ سے اتنی پیار سے باتیں نہ کیا کرو! ہضم نہیں ہوتا امان! " وہ خفگی سے رخ موڑ گیا۔

"اگر تم میری بہن ہوتے تو میں تم سے ایسے ہی بات کرتا!" امان ہنسا۔

"مگر میں تمھارا بھائی ہوں! بہن نہیں ہوں! شکر ہے بہن نہیں ہوں ورنہ تم نے مجھ سے چائے بنوا بنوا کر ہی ماردینا تھا!" زمان نے شکر ادا کیا۔

"اگر تم میری بہن ہوتے نہ تو کسی میں اتنی جرأت نہ ہوتی کہ وہ تم آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے! امان شاہ بھی پھر اپنی بہن کے سامنے ہوں پگھل جاتا! مگر تم ہو لڑکے! اس لئے میں تم سے تمیز سے بات کرنا بھی گناہ سمجھتا ہوں!" وہ پھر سے ہنسا۔

"استغفر اللہ! ویسے سامنے والے کو گھما دیتے ہو تم! مجھے تم سے یہ بات نہیں کرنی! یہ بتاؤ امان شاہ کہ یہ سب کیا تھا؟" زمان نے بنھویں اچکائیں۔

"چھوڑدو! کچھ بھی نہیں تھا! بس غصہ تھا مجھے اور کچھ نہیں!"امان نے اسے بہلایا۔ مگر وہ جانتا تھا کہ اس کی وجہ شانزہ ہی تھی! وہ بظاہر چپ رہا۔

"میں نہیں تھا گھر میں تو تم اتنا کچھ کرگئے؟" وہ خفگی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔

"میں تمھاری موجودگی میں اس سے بھی زیادہ کرسکتا ہوں زمان!" اس کے لہجے سے مسکرہٹ غائب ہوئی۔

"او یعنی میرا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے؟" وہ شکوہ جنسی نظروں سے اسے دیکھا رہا تھا۔

"نہیں تم بہت اچھے ہو! بس دنیا پر ایک بھاری بوجھ ہو!"وہ کھلکھلایا۔ زمان نے ناراضگی سے منہ موڑا۔ امان ایک بار پھر بات کو گھما گیا تھا۔ مگر زمان شاہ بھولا نہیں تھا! وہ لفظوں کی ہیر پھیر سمجھ رہا تھا۔

" زخم گہرے ہیں؟"

"پتا نہیں!" گہری سانس لی گئی تھی۔

"درد ہوا تھا؟"

"نہیں مزہ آیا تھا! آئیندہ بھی کوشش کروں گا!" امان چڑ کر بولا۔

"تمھارا کیا بھروسہ!"

"بلکل! "

"آئیندہ نہیں کروگے تم ایسا امان!"

"میں وعدہ نہیں کروں گا!"

"یعنی کرو گے یہی سب دوبارا بھی؟" وہ حیرت اور تکلیف سے بولا۔

"ہاں شاید!"

"نہیں! واسطہ ہے تمھیں۔۔۔!" اس نے ہاتھ جوڑے۔

"مت دو واسطے!"وہ بات کاٹ کر بولا۔

" میں ایسا آئیندہ کروں گا زمان! اگر مجھے ضرورت پڑی تو میں ہر حد پار کر جاؤں گا!" وہی شدت پسندی۔

"مگر خود کو اذیت نہیں دوگے!" وہ دکھ سے کہہ رہا تھا۔

"خود کو بھی دوں گا اور جس کو دل چاہے گا اس کو بھی دوں گا!" وہ اٹل لہجے میں بولا۔ زمان ہکا بکا اس کی شکل کر دیکھتا رہ گیا۔

"آرام کرو؛" وہ سن ہوتے دماغ سے اسکو کہتا تپھک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ امان نے اسے گہرہ نگاہوں سے دیکھا۔

"ویسے تم آج کہاں گئے تھے!؟" امان جانتا تھا وہ یوں سب آسانی سے نہیں بتائے گا اس لئے وہ سرسری انداز میں پوچھنے لگا۔ زمان پلٹا۔

"ہمم؟ میں؟ وہ دوست سے ملنے گیا تھا! سوچا بہت ٹائم ہوگیا ہے مل آؤں!" وہ بھی بات کو گھما گیا۔ امان نے اسے سر تا پیر دیکھا۔

"تم ٹھیک نہیں تھے! ڈاکٹر نے آرام کا کہا تھا تمھیں۔ سر پر پٹی بندھی ہے! جاؤ چینج کرو پٹی!"

"تمھیں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں! میں بچہ نہیں ہوں امان! میں کرلوں گا! فالحال تمھیں آرام کی ضرورت ہے" وہ مسکرا بھی نہ پایا تھا۔

کچھ تو ایسا ہوا تھا جو امان نے اتنا بڑا قدم اٹھایا تھا۔ آج کا دن واقعی اچھا نہیں تھا۔ کیا کچھ ہوگیا آج! آج امان مسکرایا تھا! ہاں وہ مسکرایا تھا۔ زمان گہری سوچ میں پڑگیا۔ کیا کوئی مصیبت آنے والی ہے؟ یہ سوال ایسا تھا جس کا جواب وہ خود بھی نہیں دے پارہا تھا۔ امان مسکرائے یہ عام حالات کی علامت نہیں تھی۔ کچھ بہت بڑا ہونے والا تھا۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ امان جو اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا وہ بھی دھیمے سے مسکرادیا۔

زمان کی لب سکڑے۔ یہ بندہ اسے دیکھ کر مسکرا رہا تھا یعنی اب واقعی کچھ برا ہونے والا تھا۔ وہ اس پر آخری نظر مار کر دروازے کی جانب مڑا۔

"کیا چل رہا تمھارے دماغ میں امان!" وہ خود سے کہتا سوچنے لگا۔ امان نے ایک نظر اسکی پشت کو دیکھا اور کروٹ لیلی۔ زمان کا دماغ اب جلدی جلدی کام کررہا تھا۔

وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا لاؤنج میں آیا۔

"کلثوم کہاں ہے؟ کلثوم!" اس کو آواز دیتے ہوئے وہ اس نے جیب سے موبائل نکالا۔ کلثوم ڈوپٹہ سر پر سرکاتے لاؤنج میں آئی۔

"امان کو کھانا دیا تھا؟" اس نے جیب میں موبائل رکھ کر اس سے پوچھا۔

"نہیں! ان کے لئے پرہیزی کھانا بنایا ہے"

"ٹھیک! کھانا ٹرے میں نکالو! اور میری بات غور سے سنو! مجھے اس کے کمرے سے اس کا موبائل چاہئے! ابھی! میں جاؤں گا تو شاید وہ نہ دے! جیسے ہی اس کی توجہ بٹے! موبائل چھپا لینا!" وہ اسے سب سمجھا رہا تھا۔ کلثوم سے پوری بات بھی نہ سنی گئی۔

"نہیں زمان دادا ایسا مت کریں خدارا! وہ مجھے ماردیں گے اگر انہیں پتا چلا!" وہ سر تا پیر کانپ گئی۔

"تمھیں کرنا ہوگا! ہاں اگر موقع نہ لگے تو کوئی بات نہیں! ایسے ہی لوٹ آنا! لیکن وہ سب جو تم کو سمجھایا ہے وہ تم نے ہی کرنا ہے! اب جاؤ! جلدی! میں کوئی بات نہیں سننا چاہتا!" اس نے اپنا لہجہ سخت کیا۔ وہ تڑپ کر رہ گئی۔

تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں کھانے کی ٹرے لئے وہ کمرے کی جانب بڑھی۔ ہلکا سا دروازہ کٹھکٹھایا اور اجازت ملنے پر اندر بڑھی۔ وہ کروٹ لئے ہوا تھا۔

"کھانا لائی ہوں!" حلق سے گویا آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔۔

"ہمم رکھ جاؤ!" امان کی اس کی طرف پشت تھی۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی سائڈ ٹیبل پر رکھنے لگی۔ نظریں پورے کمرے کا طواف کرنے لگیں۔ کہیں موبائل نہیں تھا۔ سائڈ ٹیبل پر بھی دیکھا۔ وہاں بھی نہیں تھا۔ اب وہ آہستگی سے دراز کھولنے لگی کہ امان کھانسا۔ کلثوم اندر تک ہل گئی۔ دراز میں موبائل پڑا تھا۔ دھیرے سے موبائل نکال کر اس نے اپنے ڈوپٹہ کے پیچھے چھپایا۔

"دادا آپ کھانا کھالے گا! رات بہت ہوگئی ہے اب میں گھر جا رہی ہوں!" تھوک نگلتے ہوئے وہ اٹک اٹک کر کہتی جلدی سے پلٹنے لگی۔ امان نے محض "ہمم" کہا اور کلثوم کو لگا کہ وہ اپنے پلین میں کامیاب ہوگئی۔ وہ خوشی سے جلدی جلدی چلنے لگی۔ مگر اسی دم موبائل پر رنگ ہوئی! ڈر کے مارے اسکے ہاتھ سے فون اچھل کر زمین پر گرا۔ امان جھٹکے سے پلٹا۔ کلثوم نے امان کو دیکھا جو اب اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کا دل پھٹنے کے قریب تھا۔ اس کو خوف سے چکر آنے لگے۔ امان اسے خون خوار نظروں سے دیکھ بیڈ سے اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا اس کے قریب آیا۔ اس نے ڈر کے مارے پلٹنا چاہا۔

"زندگی چاہتی تو باہر جانے کی کوشش مت کرنا!" وہ غضبناک ہوا۔ کلثوم کا دل حلق میں آگیا۔

"امان دادا م۔میں ایسا نہیں ک۔کرنا چاہتی تھی۔ م۔میں نے منع کیا تھا ک۔کہ مجھے نہیں کرنا یہ کام! مگر وہ نہیں مانے دادا!" وہ ڈر کے مارے رونے لگی۔

امان نے کارپٹ سے فون اٹھایا۔

"کس نے کہا تھا کرنے کو؟" امان لہجے میں حیرت چپھائے بولا۔

"زمان دادا نے کہا تھا!" وہ پلو آنکھوں میں رکھ روتے ہوئے بولی۔

"اس سے جا کر۔کیا کہو گی اب؟" امان نے بنھویں اچکائیں۔

"آپ بتائیں دادا!" وہ سہمی۔ وہ مسکرایا۔

"تم اس سے جا کر کہو گی تمھیں میرا موبائل نہیں ملا اور اگر تم نے یہ نہیں کہا تو تمھاری لاش کو دفنانے کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا! جلا کر راکھ کردوں گا!" وہ کھا جانے والی نظروں سے گھورتا ہوا کہہ رہا تھا۔

"ن۔نہیں دادا میں یہی کہوں گی جو آپ کہہ رہے ہیں! م۔میں وعدہ کرتی ہوں!" وہ روتے ہوئے اب ہاتھ جوڑ رہی تھی۔

"جاؤ اب کمرے سے ورنہ تین دن بعد سوئم نہ ہورہا ہو تمھارا!" وہ حقارت سے کہتا بیڈ کی جانب پلٹا۔ کلثوم لکھتے قدموں سے باہر کی جانب بھاگی۔ امان نے پلٹ کر بند دروازے کو دیکھا اور موبائل آن کیا۔ سب سے اوپر چیٹ کھولی۔

"مجھے وہ صبح فارم ہاؤس میں بروقت ملنا چاہئے!!" اس نے خود کا لاسٹ میسج پڑھا جو مقابل بندے نے پڑھ لیا تھا اور جواب میں "ٹھیک ہے" لکھا تھا۔ ایک شاطر مسکراہٹ کے ساتھ اس نے بیڈ پر موبائل پھینکا۔

*------------------------*------------------------*

آج کا دن اس کے لئے واقعی برا تھا۔ پتا نہیں کیوں ایک انجانا سا خوف کہ وہ جو کچھ اس کے منہ پر کہہ کر گیا ہے کہیں وہ واقعی نہ کردے! بیڈ پر لیٹے وہ دوپہر والے واقعہ کو سوچنا نہیں چاہتی تھی مگر رہ رہ کر دماغ ان سوچوں سے بھرا ہوا تھا۔ اب اسے خوف آرہا تھا۔ وہ کیا کہہ رہا تھا؟ عشق؟ محبت؟ مجھ سے؟ مگر! مگر کیسے؟ ہماری ملاقات ہی کتنی ہوئیں؟ محض دو دفعہ! مگر پھر کیسے؟ اور کیوں؟ یہ جانتے ہوئے کہ میں منگنی شدہ ہوں؟ کیا وہ واقعی مجھ سے۔۔۔۔؟ میں کیا فضول سوچ رہی ہوں! میری زندگی میں کوئی بھی نہیں کے سوائے عدیل کے! اور نہ ہو گا! کبھی بھی نہیں! انشاء اللہ! وہ عدیل کو سوچ کر مسکرا دی۔ لبوں پر تبسم پھیلا مگر لب جلدی سکڑ گئے۔ اگر اس نے عدیل کو کچھ کردیا تو؟ وہ دھمکی دے رہا تھا! اگر اس نے سچ میں کچھ کردیا تو؟؟ وہ سہم کر اٹھ بیٹھی۔ دروازے کے باہر آہٹ ہوئی۔ اس نے وہ نظر اٹھا کر دیکھنے لگی۔ دل میں انجانا سا خوف تھا۔ اس نے تھوک نگلا۔ اچانک دروازہ کھلا! قریب تھا کہ اس کی چینخ نکلتی لیکن اس نے خود ہی منہ پر رکھا۔

"ہاہاہاہاہا" مقابل کھڑا شخص اب زور زور ہنس رہا تھا۔

"عدیل!!!!!!!" وہ رودینے کو تھی۔ "میں واقعی ڈر گئی تھی! آپ میری ایک دن یونہی جان لیلیں گے!!!" وہ بلند آواز میں بولی!

"اچھا اچھا بس بس! مرنے مرانے کی باتیں نہ کیا کرو! میرا دل بہت کمزور ہے! آؤ کہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں!"عدیل کو اس کی جان لینے والی بات بے اختیار خوف دلا گئی تھی۔ شانزہ نے گھڑی کی جانب دیکھا۔

"گھڑی بارہ بجا رہی ہے عدیل!" شانزہ نے آنکھیں پھاڑ کر اطلاع دی!

"ہاں تو؟ شادی کے بعد بھی یونہی کرو گی؟ آؤ چھت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں!" وہ مسرت بھرے لہجے میں بولا۔ وہ مسکرائی اور جلدی سے ڈوپٹہ اپنے ارد گرد پر پھیلائے وہ اس کے ساتھ ہولی۔ روڈ پر کھڑا کوئی بھی بندہ آسانی سے چھت سیڑھیاں دیکھ سکتا تھا۔ وہ دونوں کافی رات تک یونہی بیٹھے باتیں کرتے رہے! بادلوں کو کبھی تکتے! کبھی چاند کو دیکھتے! پھر ان پر یوں تبصرے کرتے جیسے ان کی زندگی میں ان باتوں کی بہت اہمیت ہوں!

"سنیں! آہستہ بات کریں! اگر رمشا نے دیکھ لیا تو ایک کی چار لگا کر بتائے گی صبح سب کو!" وہ آنکھیں دکھاتے ہوئی بولی۔

"مجھے سمجھ نہیں آتا تم اتنا ڈرتی کیوں ہو؟؟؟ تمھارے پیچھے وہ مجھ سے چپکتی ہے! بڑی مشکل سے جان چھڑاکے آتا ہوں میں! ایسے انداز میں باتیں کرے گی جیسے تم نہیں وہ میری منگیتر ہو!" وہ دانت کچکچاتے ہوئے بولا۔ شانزہ کا دل بیٹھا۔

"مگر آپ میرے منگیتر ہیں!" وہ دھیرے سے بولی۔

"جی! آپ کا ہی ہوں! اور کچھ عرصے بعد شوہر کے مرتبے پر فائز بھی صرف میں ہی ہوں گا! ابھی تو جتنی باتیں کرتی ہے کرتے رہنے دو! جب بعد میں تمھیں حق ملے گا تو کھری سنا دینا! بلکہ میں تو کہتا ہوں تم اب بھی بول دیا کرو کہ میرے منگیتر کو آئیندہ پکارا نا! تو پھر بتاؤ گی تمھیں!" شانزہ اس کی بات پر زور سے ہنسی!

"تو آپ خود کہہ دیا کریں نا!" عدیل کو یک دم اس پر پیار آیا۔

"تمھیں پتا ہے آج کہہ رہی تھی مجھے یونیورسٹی چھوڑ آئیں پلیز! میں نے کہا تم تو چاچا کے ساتھ جاتی ہونا! تو کہتی ہے کہ ہاں مگر آج تمھارے ساتھ ہے دل جانے کو! میں نے کہا اگر میرے دل کا پوچھو تو میں ابھی بھی شانزہ کو اپنے ساتھ بائیک پر بٹھانا چاہوں گا! اور پھر اس کا چہرہ دیکھنے والا ہوگیا! پاؤں پٹخ کر وہ اندر چلی گئی تھی!" دونوں نے ساتھ قہقہہ لگایا۔ سڑک کے کونے پر گاڑی سے ٹیک لگائے وہ دونوں کو مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس شخص نے فون نکالا اور کسی کو کال ملائی۔

"جی دادا وہ اس کے ساتھ ہی ہے!" اس نے کان سے فون لگا کر دھیمی آواز میں کہا تھا۔

مقابل شخص  جواب میں کچھ کہ رہا تھا۔

"جی بلکل!لیکن آپ وقت بتائیں!  کل صبح کا وقت آپکا پہلے سے ہی بک ہے!" وہ کہہ کر دوسری جانب کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔

"جیسا آپ کہیں!" اس نے فرمانبرداری سے کہا تو مقابل شخصیت نے کھٹ سے فون رکھ دیا۔ آج بھی ایک قیامت تھی! کل بھی ایک قیامت ہونے والی تھی! ابھی جو وہ یوں کھلکھلا کر دنیا سے بےخبر ہنس رہے تھے وہ کل ایک دوسرے کو مخاطب کرنے سے پہلے بھی سوچنے والے تھے!

*--------------------*------------------------*

"کیا ہوا؟"وہ اس کے قریب چلتا ہوا آیا۔ وہ اب تک سہمی ہوئی تھی۔ الفاظ ادا نہیں ہو پارہے تھے۔

"وہ میں گئی تھی کمرے میں مگر وہ موبائل ن۔نہیں تھا! میں نے کوشش کی ڈھونڈنے کی مگر وہ جاگے ہوئے تھے! اس لئے م۔مناسب نہیں سمجھا!" وہ اٹک اٹک کر کہتی سائیڈ سے نکل کر واپس کچن میں چلی گئی۔ زمان کنفیوز ہوا۔ اب وہ کچھ اور سوچ رہا تھا۔

"اففف!! مگر ہوا کیا تھا دوپہر میں کو امان اپنے ساتھ اتنا کچھ کر بیٹھا!!!" وہ اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے خود سے ہی سوال کررہا تھا کہ اچانک اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا، وہ ٹھٹھکا۔ یونہی اس کے لبوں سے مسکراہٹ ٹکرائی۔

"میں اتنا پریشان ہو کیوں رہا ہوں! اتنا بڑا اوپر کی جانب کیمرہ نظر نہیں آیا مجھے!" وہ ہنسا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اب وہ اسکرین کے سامنے بیٹھا دوپہر کی ریکارڈنگ دیکھ رہا تھا۔ اسکرین میں سب ظاہر ہورہا تھا کہ امان کب اور کس وقت آیا تھا اور جب اس نے کانچ اپنے ہاتھوں میں چبھوئی تھی۔ زمان کی آنکھیں لرزیں۔

"یہ سب کیا ہورہا ہے!"۔ یہ سب دیکھنے کے بعد اب اس کا دماغ بھی کام نہیں کررہا تھا۔ وہ دھیرے سے اٹھ کر باہر گارڈن میں آیا۔ دل بوجھل تھا۔

"کیا پتا وہ شانزہ کے پاس گیا ہو!؟" وہ خود سے کہہ رہا تھا۔

"نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا! مگر آج جب میں گیا تو وہ نہیں تھا! وہ تو کہیں اور گیا تھا! پھر کیا بات ہے جس کے لئے امان نے خود کو اتنا پاگل کردیا۔

"اففف! میرا دماغ پھٹ جائے گا! اب سب صبح ہی دیکھا جا سکتا ہے!" وہ لاؤنج سے ہوتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا تھا۔ رات کافی ہوگئی تھی اس لئے جاگ کر کچھ سوچنا بیکار تھا۔ امان کے کمرے کا ہلکا سا دروازہ کھول کر اس نے اندر جھانکا۔ وہ بے سدھ آرہا تھا۔ اس سے سکوں سے سوتے ہوئے اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے آہستہ سے دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں چلاگیا۔ دماغ جیسے کتنی سوچوں سے گھرا ہوا تھا۔

*-------------------*------------------*----------------*

صبح 8 بجے وہ فارم ہاؤس کے لئے نکل رہا تھا۔

"میں نکل رہا ہوں! مجھے اپنے پہنچنے سے پہلے وہ وہاں موجود چاہئے! " سختی سے کہتے ہوئے اس نے سامنے والے کو کچھ بولنے کا موقع نہیں دیا اور کھٹ سے فون رکھ دیا۔ اس نے بال بنائے اور کوٹ پہنا۔ اب وہ اپنی ڈریسنگ کو آخری ٹچ دے رہا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں پر بندھی پٹی اتار کر پھینکی۔ اس کے زخم ابھر آئے۔ دونوں ہتھیلیاں چھلی ہوئی تھیں۔ کچھ کچھ جگہوں سے ابھی بھی خون رس رہا تھا۔ مگر اسے درد سہنے میں بھی مزہ آتا تھا۔ پرفیوم خود پر چھڑکتے ہوئے اس نے موبائل پر میسج چیک کیا اور چابی اٹھاتا گیراج میں آگیا۔ وہ زمان کے اٹھنے سے پہلے یہ کام سر انجام دینا چاہتا تھا۔ چوکیدار کو دروازہ کھولنے کا اشارہ دے کر گاڑی میں بیٹھا۔ اس نے پستول بونٹ پر رکھی اور گاڑی ریورس کرکے سڑک پر لے آیا۔ چوکیدار نے دروازہ بند کیا اور امان نے گاڑی زن سے بھگادی

*--------------------*-----------------------*

"خدارا مجھے چھوڑدو! مجھے کہاں لارہے ہو!" وہ جو کوئی بھی تھا چینز رہا تھا!

"ایک تو تم لوگوں کا سمجھ نہیں تھا! موت کو خود دعوت دیتے ہو اور پھر واسطے بھی دیتے ہو!" اسلم چڑ کر بولا۔ مقابل شخص کی آنکھوں پر کال پڑی تھی جو وہ کھولنے کی ناکام کوششوں میں تھا۔ اسلم نے اسکے ہاتھ کرسی کے پیچھے سے اور مضبوطی سے باندھ دیئے۔ گاڑی کے ہارن نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

"دادا وہ اندر ہے!" اسلم نے اسے آگاہ کیا۔ ایک گہری نگاہ فارم ہاؤس پر ڈال کر وہ اندر بڑھا۔ وہ خستہ حال کمرہ تھا۔ دروازے چراچرائے  اور ایک حقارت بھری نظر اس پر ڈال کر اس نے اس کی آنکھوں پر بندھی پٹی کھینچے۔ آنکھوں پر روشنی پر سے آنکھیں چندھیا گئیں۔ دھیرے سے آنکھیں کھول کر اس نے مقابل دیکھا۔ امان ایک ٹانگ اٹھا کر کرسی پر رکھی اور دوسری کو تھوڑا فولڈ رکھ کے اس کی جانب ہلکا سا جھکا۔  وہ سہما۔

"پہچان تو لیا ہی ہوگا؟" ایک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ امان نے جیب سے بلیڈ نکالا۔

"تم؟؟؟؟ تم نے مجھے کیوں اغوا کروایا؟؟؟" وہ چینخا۔

"میرے سامنے چلانے کی کوشش مت کرنا!" امان نے اسکا منہ دبوچا۔ وہ درد کے مارے کراہا۔

"مجھے چھوڑدو خدارا!" وہ رونے لگا۔ امان نے اسے روتے دیکھا تو زور سے ہنسا۔

"تو نے خود اپنے لئے گڑھا کھودا ہے!" امان اتنی زور سے دھاڑا کہ رسی میں جکڑے شخص کو لگا کہ اس کے کان سن ہوگئے ہیں۔

"م۔میں نے ک۔کچھ نہیں کیا" وہ اپنی صفائی میں بولا۔

"اور جو میں نے دیکھا وہ کیا تھا؟" اس نے بھنویں اچکائیں۔

"وہ لڑکی آپ کی کون ہے!؟" اس نے خوف سے پوچھا۔

"بیوی ہے میری! اور امان شاہ کی عزت کو کوئی ہاتھ بھی کیا مخاطب کرے وہ یہ برداشت نہیں کرتا!" امان نے بلیڈ کھولا اور اس کی گردن کے قریب ہاتھ بڑھایا۔ وہ تڑپ کر دور ہوا۔ اسلم پیچھے ہی ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ امان نے اس کی گردن پر بلیڈ پھیرا کر کراس (×) کا نشان بنایا۔ درد کے مارے وہ تڑپ رہا تھا۔ خون اس کی گردن سے بہا جارہا تھا۔ امان کی پوری نگاہ اس کے بہتے خون پر تھی! وہ درد کے مارے چینخ رہا تھا۔

"میری بیوی سے رات گزارنے کی بات کریگا؟؟؟" امان نے چینخ کر کرسی کو لات ماری تو کرسی سمیت وہ شخص زمین پر گرگیا۔

"مجھے معاف کردو!!!!" اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھی۔ امان ٹھٹھکا پھر یک دم مسکرایا۔

"جاؤ معاف کیا" اور اس کے ساتھ اس نے پستول کی دو گولیاں اس کے سر پیوست کردیں! ٹھاہ کی آواز سے فارم ہاؤس گونج اٹھا۔خون کے چھینٹے امان کے کپڑوں پر پڑے۔ اسلم نے کراہیت سے لاش کو دیکھا۔

امان لمحہ بھر اسے دیکھنے کے بعد پلٹا اور پستول اسلم کو پکڑائی۔

"دادا اس لاش کا کیا کروں؟؟؟" وہ اب پوچھ رہا تھا

"دفنادو یا کہیں پھکوادو! مجھے اس سے کوئی غرض نہیں!" اس نے بنا مڑے جواب دیا اور فارم ہاؤس سے باہر نکل آیا۔ موبائل پر آتی کال نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

"عدیل جاوید! بلکل! وہی شخص! مجھے آج ساڑھے پانچ تک فارم ہاؤس میں چاہیے!" اس بار بھی بغیر جواب سنے بغیر اس نے فون کاٹ کے موبائل جیب میں رکھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ اب وہ گاڑی بھگا رہا تھا کیونکہ اسے زمان کے اٹھنے سے پہلے گھر پہنچنا تھا۔ پندرہ بیس منٹ کے راستہ طے کرکے وہ گھر پہنچا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا اور شہنواز نے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ۔ امان نے بونٹ سے بلیڈ اٹھایا اور باہر آگیا۔ اس کے کپڑوں پر خون دیکھ کر شہنواز کا دل کانپا۔ "یعنی کوئی اللہ کو پیارا ہوگیا!" وہ سوچ کر لرزا۔ امان تیزی سے اپنے  کمرے کی جانب بڑھا اور اندر سے دروازے کو لاک کیا۔ اگر سیڑھیوں پر اسے زمان پکڑ لیتا تو یقیناً سوالوں کی بوچھاڑ کردیتا۔ بلیڈ کو کورٹ کی جیب کے باہر سے ہی ہاتھ تھپتھپا کر اس کی موجودگی چیک کی۔ وہ  اب سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہوکر شیشے میں خود کو دیکھنے لگا۔ خون سے لپٹا ہوا کالا کورٹ اور اندر وائٹ فل سلیو شرٹ پر تو خون کے دھبہ واضح تھے۔ دونوں ہتھیلیاں سنگھار میز پر وہ رک کر جھکا اور آنکھیں اٹھا کر اپنا عکس دیکھنے لگا۔ اس کی گردن جھکنے پر اس کے بال اس کی آنکھوں پر پڑ رہے تھے۔ ماتھے پر بل ڈال کر وہ اپنی ہی حالت دیکھنے لگا۔ اس نے اپنے ہاتھ دیکھے جو خون سے رنگے ہوئے تھے۔ وہ الماری سے کپڑے نکال کر شاور لے کر آیا۔ وہ بال بنانے آئینہ کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔ اس نے لب بھینچ کر اپنی گردن سے کالر ہٹایا کیا۔ وہ نشان! وہ اب تک موجود تھا۔ اسکی سانسیں اٹکنے لگیں۔ وہ زخم جو دس، بارہ سال پہلے اسے دیا گیا تھا اس کا درد وہ روز محسوس کرتا تھا۔ اس نے کرب سے آنکھیں میچیں۔ اس نے تھوک نگل کر شیشہ میں اپنے آپ کو بےچارگی سے دیکھا۔ منہاج کا M اب تک اس کی گردن پر موجود تھا۔ اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں،ہونٹ لرزنے لگے۔ حلق میں الفاظ پھنس گئے۔ اس نے کوٹ کی جیب سے بلیڈ نکالا ۔ یہ وہی بلیڈ تھا۔ آنکھوں میں خوف اترا

"میری زندگی سے چلے کیوں نہیں جاتے!!!!!" وہ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے آئینہ کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ وہ چینخنے لگا۔" یہ نشان اپنی نفرت کا کیوں ثبت کرگئے"۔ وہ چینخا۔ ہونٹ کانپنے لگے۔

"ی۔یہ نشان! یہ کیوں نہیں چلے جاتا میری وجود سے!!!" وہ چینخ رہا تھا۔

"کیوں کی ہماری زندگی برباد! ہمیں برباد کردیا! ہمارا ذہنی سکون چھین لیا!" وہ چینخ چینخ کر رونے لگا۔ وہ آئینہ کو خوف سے دیکھنے لگا۔

"ت۔تم ہنس رہے ہو؟؟؟ تم مجھ پر ہنس رہے ہو؟ تم مجھے    نہیں مارسکتے! تم نہیں جانتے میں کیا سے کیا بن چکا ہوں۔ اس شہر کی پولیس مجھ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی تم کون ہو پھر!" آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ ہتھیلیوں سے خون رسنے لگا۔ وہ خون آلود نظروں سے آئینہ کو دیکھنے لگا۔۔

"تم نہ میرے ساتھ کچھ کر سکتے ہو نہ زمان کے ساتھ! تم زمان کو ہاتھ مت لگانا! میں تمھیں ماردوں گا! م۔میں زمان کو تم سے بہت دور کے جاؤں گا! اس کو مت چھونا! میں جانتا ہوں اسکی حفاظت کرنا! م۔میں وارن کررہا ہوں! وہ میرا بھائی ہے! وہ تمھارا کچھ نہیں لگتا منہاج شاہ!" شاہ ولا امان کی چینخوں سے گونج رہا تھا۔ " وہ میرا بھائی ہے! وہ اذیت نہیں سہہ سکتا منہاج! اسے کچھ مت کرنا خدارا!" وہ مکمل پاگل ہوچکا تھا۔ آئینہ صاف تھا لیکن دہشت اتنی تھی کہ اسے منہاج شاہ کا عکس آئینہ میں محسوس ہورہا تھا۔ اسے لگا جیسے آئینہ کہہ رہا ہو "تم نے بھی تو اسے اذیت دی تھی!" وہ چینخا "نہیں!  میں نے نہیں دی اسے اذیت! میں اس سے محبت کرتا ہوں! وہ میرا بھائی ہے! وہ بھی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے تم اسے مجھ سے متنفر نہیں کرواسکتے! اسے کچھ مت کرنا وہ نہیں سہہ پائے گا! وہ تمھاری اذیت نہیں سہہ پائے گا! تم نے جو درد دیئے وہ اب تک تازے ہیں! اب اور نہیں! میں تمھیں ماردوں گا!" وہ بال نوچتے ہوئے اٹھا اور ہاتھوں کر مکا بنا کر شیشہ ہر مارا! چھناکے کی آواز سے شیشہ ٹوٹ گیا۔

اسی دم دروازہ زور سے بجا۔ اس نے مڑ کر دروازے کی سمت دیکھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا اب دروازے کو پیٹ رہا تھا۔

"دروازہ کھولو امان! تم نے دروازہ کیوں لاک کیا ہے! کیا کیا تم نے! دروازہ کھولو!! خدارا!" وہ اب دروازہ توڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ امان بوجھل قدموں سے آگے بڑھا اور لاک کھولا۔ زمان نے تیزی سے دروازہ کھولا۔ امان کے ہاتھ زخمی تھے۔ زمان نے امان کو گلے لگایا۔  گلے لگانے کی دیر تھی کہ امان ہچکیوں سے رو دیا۔ زمان نے اسے بیڈ پر لٹایا اور خود اس کے سرہانے بیٹھا۔ اس کا سر اپنی گود میں رکھ اب

"زمان وہ ہمیں ماردیں گے!!! زمان یہ نشان کیوں نہیں چھوڑتا ہمارا پیچھا!" وہ چینخنے لگا۔

"کوئی نہیں مارے گا ہمیں!!! تم نے کمرہ لاک کیوں کیا؟؟ تنہائی محسوس ہورہی تھی تو مجھے جگا دیتے!" وہ انگلیوں کے پوروں سے اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔

"یہ دیکھو یہ نشان! میری گردن پر! اور تمھاری گردن پر بھی! یہ روز ماضی یاد کرواتا ہے زمان! ان اذیتوں کو دہرا دیتا ہے! ہمارا ماضی ہمیں اذیت دیتا ہے! ہم ایسے بکھرے ہیں کہ دس،بارہ سالوں بعد بھی اپنے آپ کو سمیٹ نہیں پائے زمان! وہ ہمیں جیتے جی مار گئے! وہ یادوں کی کرچیاں اب تک یونہی دامن میں پھیلائے گھوم رہے ہیں! یہ یادیں مٹ کیوں نہیں جاتیں؟ مجھے اذیت ہورہی ہے! میرے وجود سے اس نشان کو ختم کردو خدارا!!!!!" وہ بلکنے لگا۔

"زمان و۔وہ روز رات میں مجھ سے مخاطب ہوتا ہے! کبھی خواب میں کبھی آئینہ میں ظاہر ہوتا ہے! مجھے خواب سونے نہیں دیتے اور حقیقت مجھے روز مارتی ہے! کاش رات ہی نہ آئے کبھی! رات ہوتے ہی وہ مجھے اپنے اطراف میں ظاہر ہوتا ہے زمان! و۔وہ کہتا ہے وہ تمھیں ماردیگا! م۔میں رونے لگ جاتا ہوں! میں تمھیں نہیں کھوسکتا زمان! میں کہتا ہوں ایسا مت کرنا خدارا! میں اسے واسطے دیتا ہوں! میں اسے ماہ نور کا واسطہ دیتا ہوں! پھر وہ خاموش ہوجاتا ہے! پھر وہ کچھ نہیں کہتا زمان! وہ ایک طنزیہ مسکراہٹ دیتا ہے جو مجھے اندر تک چھلنی کردیتی ہے! زمان اس سے کہو مجھے تنگ نہ کرے!" زمان کا دل بھر گیا! امان کو تکلیف میں دیکھ کر اس کا دل خون کے آنسو رونے لگا۔ "ن۔نہیں! بلکہ تم مت جانا! وہ تمھیں اپنے ساتھ لے جائے گا! میری بات سنو! مت جانا کہیں! بس میرے ساتھ رہنا! میں اسے تمھیں لے جانے نہیں دونگا!میری بات مان لو زمان! میں تمھیں پنکھے سے الٹا بھی نہیں لٹکاؤں گا! بس تم اس کے ساتھ مت جانا! منہاج شاہ نام ہی دھوکے کا ہے!!" زمان سے اسکی ذہنی حالت سمجھی نہیں جارہی تھی۔ "امان مجھے اچھا لگتا ہے جب تم مجھے الٹا لٹکاتے ہو سچ میں!" زمان نے اسکی پیشانی کو چوم کر کہا۔

"م۔میں کیا کروں زمان! وہ دھمکیاں دیتا ہے کہ وہ تمھیں ماردے گا! وہ اذیت دے گا! مجھ سے برداشت نہیں ہوتا! میں تمھیں خود سے الگ کیسے کروں گا زمان!! کچھ بولو!" وہ دل کی بھڑاس نکال رہا تھا۔ وہ ایک بات بار بار دہرا رہا تھا۔

"تم بس میرے ساتھ رہو! بس میرے ساتھ! تمھیں اور مجھے صرف ایک دوسرے کی ہی ضرورت ہے!" زمان نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ وہ پرسکون ہوا۔

"آؤ میں تمھارا زخم صاف کردیتا ہوں!" وہ اس کا ہاتھ پکڑے اب دھیرے سے اس کا زخم پر مرہم لگا رہا تھا۔ دس پندرہ منٹ کے بعد امان نے سنبھلا۔

"کتنے بج رہے ہیں زمان؟"

"پانچ بجنے والے ہیں! تم آرام کرو!"وہ اسکی کمر تپھکتے ہوئے بولا۔ "میں تمھارا ساتھ ہوں!"

اتنا وقت گزر گیا پتا بھی نہیں چلا۔ وہ پتا نہیں کتنی دیر یوں رویا تھا۔

امان دور ہٹا۔

"ن۔نہیں مجھے کہیں جانا ہے! تم جاؤ سوجاؤ!! میں رات تک آجاؤں گا!" وہ تیزی سے اٹھا۔

"کہاں جارہے ہو؟؟؟" وہ حیرانی سے پوچھنے لگا۔

"مجھے کام ہے زمان! میرا پیچھا مت کرنا! اگر مجھے بیچ راستے میں پتا چلا کہ تم میرا پیچھا کررہے ہو تو میں گاڑی فٹ پاتھ پر دے ماروں گا!" وہ چابی اٹھاتا ایک نظر اس پر ڈالتا کمرہ عبور کرگیا۔ زمان ہکا بکا اس کی پشت تکتے رہ گیا۔ وہ اس کی باتیں مجھے سے قاصر تھا۔

انسان تب تک صرف نارمل رہ سکتا ہے جب تک اسے ذہنی سکون میسر ہو!۔ جب یادیں دل دہلا دینے والے ماضی کے ساتھ جڑی ہوں اور نہ کوئی سہارا میسر ہو نہ ذہنی سکون راس آئے تو وہ بربادی کے در پر پہنچ جاتا ہے۔ اور بربادی تک پہنچ جانے والا انسان ایسے سفر کا مسافر بن جاتا ہے جس کی کوئی منزل نہیں۔ وجود کے ساتھ ساتھ ذہن بھی سکون کا طلب گار ہوتا ہے۔ سیگریٹ کے دھوؤے سے پورا کمرہ میں دھند چھائی ہوئی تھی۔ سوچوں میں غرق وہ شخص زندگی کے ہر موڑ پر گرا تھا۔ موبائل کی بپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس نے میسج دیکھنے کے لئے موبائل آن کیا۔ شہنواز نے ویڈیو بھیجی تھی! اس نے ویڈیو چلائی۔

"مجھے مت مارو! میں نے کیا کیا ہے۔۔۔" وہ چینخ رہا تھا۔ شہنواز ویڈیو بنارہا تھا جبکہ باقی گارڈز اسے ماررہے تھے۔۔۔ لاتیں، تھپڑ گھوسوں کی برسات اس پر اب بھی جاری تھی۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی تاکہ وہ ان کا چہرہ نہ دیکھ سکے۔

"اس کا چہرہ اس طرف کرو!" ویڈیو میں شہنواز نے کہا تھا۔۔ اکبر نے اس کا چہرہ گھما کر کیمرے کی طرف کیا تاکہ ظاہر ہو کہ وہ کوئی اور نہیں بلکہ عدیل جاوید ہی ہے۔

ایک حقارت بھری نظر امان نے موبائل ڈالی تھی۔ اس ویڈیو کو دیکھنے پر کہیں بھی پتا نہیں لگ رہا تھا کہ امان شاہ کے آدمیوں نے اسے اغوا کروایا تھا۔ امان چاہتا تھا کہ عدیل جاوید کو وہ خود مارے۔ وہ گیا تھا فارم ہاؤس مگر طبیعت اتنی بوجھل لگی کہ انہیں سمجھا بجھا کر واپس گھر آگیا۔ شہنواز کو میسج کردیا کہ جب تک مارتے رہو گے تب تک ویڈیو بناتے رہنا۔ شہنواز نے میسج پڑھ لیا تھا کیونکہ اب وہ کچھ لکھ رہا تھا۔

"جی دادا!" امان نے میسج پڑھ کر موبائل رکھا اور بستر کے بیک سے ٹیک لگایا۔ رات ہوچکی تھی اور اب روز کی طرح وہ گہری سوچ میں جانے والا تھا۔ اس نے ترچھی نگاہوں سے ٹوٹے ہوئے شیشے کو دیکھا تھا۔ نگاہیں بے اختیار بوجھل ہوئی تھیں۔ زندگی میں سکوں نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی!

"اب وہ آئینہ ٹوٹ چکا تھا! اب اس میں منہاج شاہ ظاہر نہیں ہوگا!" وہ خود سے دل میں کہہ رہا تھا۔ رات کے سائے پھیل چکے تھے! اور جیسے جیسے دن رات میں تبدیل ہورہا تھا اس مضبوط شخص کو گھبراہٹ ہورہی تھی۔ امان کو اپنے اطراف سے خوف محسوس ہورہا تھا۔ دل میں طرح طرح کے وسوسے جنم لے رہے تھے اور دماغ سوچوں میں الجھا تھا۔ کیوں ہوتی ہے یہ رات! کاش کسی کی زندگی میں رات نہ آئے۔ دن ڈھل رہا ہے امان شاہ! وہ آئے گا! نہیں! میں نے شیشہ توڑ دیا یے۔ وہ اب وہاں ظاہر نہیں ہوگا!" وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا۔

"مگر وہ میرے اطراف میں ظاہر ہوگا! ہر جگہ! " اس نے تھوک نگلا۔ آنکھیں نیند سے بوجھل تھی مگر انہیں بند کرتے ہوئے بھی خوف محسوس ہورہا تھا۔ اسے خدشہ تھا۔۔۔۔۔! اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اپنی آنکھیں بھی جھپکے گا تو کہیں وہ پھر سے نظر نہ آجائے۔ تیز ہوا کے جھونکوں سے اس کے کمرے کی کھڑکیاں آوازوں کے ساتھ بند کھل ہونے لگیں۔ گھر کے گارڈن میں لگے لمبے درخت ہوا کے زیرِ اثر ہل رہے تھے۔ دل میں انجانا سا خوف برپا تھا۔ اس نے سیگریٹ مسل کر ایش ٹرے میں رکھ دی اور گہری سانس لے کر بستر سے ٹیک لگائے سامنے ٹیرس کی جانب دیکھنے لگا۔ دل بےاختیار زور زور سے دھڑکنے لگا۔ نگاہیں جیسے جم گئی ہوں!

"زمان!" وہ بلند آواز میں اسے پکارنے لگا۔ اس نے نگاہیں موڑنی چاہی لیکن نگاہوں ساتھ نہ دیا۔ پہلو بدلنا چاہا لیکن ٹانگیں گویا کانپنے لگیں۔

"ہاں؟" زمان نے اپنے کمرے سے ہی جواب دیا۔

"میرے کمرے میں آجاؤ!" وہ یونہی بے تاثر بولا

"ہاں میں آرہا ہوں!" زمان حالات کی سنگینی کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے لمحہ نہیں لگایا تھا سوچنے میں! وہ اپنا موبائل اٹھا کر اس کے کمرے میں آگیا۔ امان نے مڑ کر بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ اس کی موجودگی سے بےخبر تھا۔ زمان نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تھا۔ وہ ہنوز بے سدھ بیٹھا سامنے کالے آسمان کو دیکھ رہا تھا۔ رنگت سفید پڑ رہی تھی۔ اس کی یہ حالت رات ڈھلتے ہی ہوجاتی تھی۔ زمان نے آگے بڑھ کر پردے لگائے اور ٹیرس کا دروازہ بند کردیا۔ نظروں کا ارتکاز ٹوٹا تو وہ ہوش میں آیا۔ نگاہ زمان پر پڑی۔

"ت۔تم کب آئے؟ " وہ سٹپٹایا۔ زمان نے بنھویں اچکا کر حیرت سے اسے دیکھا۔

"ابھی تو بلایا تھا تم نے! تمھارے کہنے پر ہی تو آیا ہوں!"

امان نے بازو سے تکیہ اٹھا کر سر کے نیچے رکھا۔

"میں نے تمھیں کب بلایا؟" امان کے کہنے پر زمان نے حیرانی سے اسے دیکھا۔

"تم نے ابھی مجھے آواز دے کر کہا تھا کہ زمان میرے کمرے میں آجاؤ! تم یقیناً تنہائی محسوس کررہے تھے جبھی تم نے پکارا تھا!؟"

وہ بیڈ کے دوسرے سائڈ پر آبیٹھا تھا۔

Wattpad App - Read, Write, Connect

"نہیں مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے تمھیں نہیں بلایا!" امان سنجیدگی سے بولا۔

زمان اس کی بات پر ششدر رہ گیا۔ تو کیا اسے واقعی یاد نہیں کہ پانچ منٹ پہلے امان نے اسے خود بلایا تھا؟ اور اگر واقعی بھول گیا تھا تو یہ کوئی عام بات نہیں تھی!

"ہاں شاید تم نے نہیں بلایا تھا! لیکن میں آج یہیں سونا چاہتا ہوں!" وہ دھپ سے بیڈ پر لیٹا۔

"ہاں تم یہیں لیٹ جاؤ! میرے قریب! بازو میں!" امان کے لہجے میں خوف تھا جسے وہ چھپانے کی وہ ناکام کوشش کررہا تھا۔ بھائی کی یہ حالت زمان کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ وہ اٹھ کر اس کے برابر بستر پر اوندھے منہ لیٹ گیا اور اس کا تھام لیا۔

"کس کی یاد آرہی ہے جو میرا ہاتھ یوں پکڑ لیا تم نے!" وہ مسکرا کر اس کی سمت دیکھتا ہوا بولا۔

"مجھے نیند آرہی ہے امان! آج تھک گیا ہوں! کل بات کرینگے!" وہ زبردستی مسکرا کر کہتا ہوا اسکا ہاتھ پکڑ کر آنکھیں موند گیا۔

"اسے کیا ہوا؟ " امان کو کچھ عجیب محسوس ہوا۔

"مگر میری تو جیسے نیند ہی اڑ گئی ہے! آنکھیں نیند سے خالی ہیں!" وہ پھر سے ٹیرس کے بند دروازے کو تکنے لگا۔ چہرہ بے تاثر تھا۔۔ زمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیوں؟"

"پتا نہیں! بس تم میرے پاس رہو! مجھے ایسا لگتا ہے تمھیں خطرہ ہے! میرے قریب رہو! بس! اور میں ابھی کچھ نہیں چاہتا!" زمان نے اس کی گود میں سر رکھا۔

"میں ڈھیٹ ہوں اماں اور یہ لقب تم نے ہی مجھے دیا تھا! مجھے کچھ نہیں ہونا! مجھے اس وقت تک کوئی نہیں چھو سکتا جب تک تم میرے ساتھ ہو!"

"اور میں کب تک ہوں؟"

زمان جٹھکے سے اٹھ بیٹھا۔

"دماغ کچھ زیادہ نہیں چل رہا تھمارا آج؟ سوجاؤ تم! تمھیں آرام کی ضرورت ہے" اس نے امان کو لٹانا چاہا۔

"میں ٹیرس پر جارہا ہوں۔ چھوڑو مجھے!" وہ ہاتھ چھڑھاتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"کیوں؟ میں تمھیں کسی بھی قیمت پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتا امان! خدارا!!" زمان اٹھ کر اس کی طرف آیا۔

"تمھیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں!" وہ ایک نظر اس پر ڈالتا دراز سے سیگریٹ اور لائٹر نکالنے لگا۔

"پھر سیگریٹ پیو گے؟ ابھی بھی کمرہ دھوؤے سے بھرا ہوا ہے!" زمان لاچاری سے بولا۔

"طلب محسوس ہورہی ہے! یہاں نہیں پیو گا میں! ٹیرس میں جارہا ہوں! کچھ وقت تنہا گزارنا چاہتا ہوں! بس کچھ وقت! " وہ جیب میں رکھتا ٹیرس میں چلا گیا۔

زمان ہکا بکا رہ گیا۔

*-------------------*--------------------*

"عدیل نیچے ہے کیا نفیسہ؟؟" صبور سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی تھیں۔

"نہیں بھابھی!" نفیسہ ان کی طرف آئیں۔

"میں کب سے کال کررہی ہوں مگر اٹھا نہیں رہا! شام کو واپس آتا ہے آفس سے مگر اب تو رات کے بارہ بجنے والے ہیں!" وہ ماتھے پر بل ڈالے پریشانی سے بول رہی تھیں۔

"آپ اس کے دوستوں سے پوچھیں!" نفیسہ نے مشورہ دیا۔

"نہیں نفیسہ! میں نے سب کو کل کی ہے! وہ کسی دوست کے پاس نہیں ہے! جاوید الگ پریشانی میں ہیں! اسکے آفس کال کی مگر وہ کہہ رہے ہیں شام میں جا چکا تھا! مجھے گھبراہٹ ہورہی ہے!" وہ سینہ مسلتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی تھیں۔۔۔

"وہ آجائے گا! آپ فکر مت کریں بھابھی۔۔!" وہ ان کی کمر سہلانے لگیں۔

"شانزہ! شانزہ تائی کے لئے پانی لاؤ جلدی سے!"وہ شانزہ کو آواز دینے لگیں۔

"جی امی!"

شانزہ جلدی سے پانی کے کر آئی۔

"کیا ہوا تائی جان!؟ " شانزہ نے گھبرا کر پوچھا۔

"عدیل نہیں آیا ابھی تک شانزہ! دعا کرو وہ محفوظ ہو! مجھے ڈر لگ رہا ہے بہت!" وہ رونے لگی تھیں۔

"میں پھر کال کرتا ہوں اسے!" نیچے اترتے جاوید صاحب نے پریشانی سے کہا۔ انہوں نے کال ملائی مگر اس بار بھی ناکام ہوئے۔ گھر میں گہرا سکوت چھا گیا تھا۔ شانزہ کا دل ڈوبا جارہا تھا۔۔ فاطمہ وضو کرکے نماز پڑھنے لگی۔ ناصر صاحب بھی آکر حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔

اچانک فون پر بپ ہوئی۔ جاوید صاحب نے اسکرین آن کی۔ سامنے عدیل کا مسیج تھا۔ وہ بےاختیار خوش ہوئے۔ جلدی جلدی سے اسکرین لاک کھول کر واٹس ایپ کھولا۔ایک ویڈیو تھی جو عدیل کی طرف سے آئی تھی۔ انہوں نے اسے کھولی۔ ایک موٹا ڈنڈہ عدیل کے کمر پر مارا جارہا تھا۔ عدیل کی چینخیں نکل رہی تھیں۔ وہ تڑپ رہا تھا اور یہاں صبور اور شانزہ سمیت باقی افراد بھی تڑپ گئے۔

صبور چیخنے لگیں۔

"کیا ہوا ہے؟ یہ کیا ہے تایا ابا" رمشا بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ نظر موبائل پر پڑی تو وہ بھی چیخ اٹھی۔

"عدیل کو کیا ہوا ہے؟ یہ کیا ہے تایا ابا؟ کیا ہے یہ؟ ک۔کہاں ہیں وہ؟؟؟" اس نے ایک نظر شانزہ پر ڈالی جو پر ہاتھ رکھے سسکیوں سے رورہی تھی۔

"ناصر بھائی مجھے ڈر لگ رہا ہے کچھ کریں! جاوید آپ جائیں نا! کہیں بھی جائیں اسے ڈھونڈ کر لائیں! دیکھیں وہ کتنا تڑپ رہا ہے!" رمشا کی بات کو نظر انداز کرکے وہ چیخنے لگیں۔ جاوید صاحب سے بیٹے کو یوں تڑپتا دیکھا نہ گیا وہ موبائل بیڈ پر پھینک کر صدمے میں چلے گئے۔ ان کی سانسیں گویا اکھڑنے لگیں تھیں

لب کپکپارپے تھے۔

"آپ حوصلہ کریں! کسی کو غلط فہمی ہوئی ہوگی اس لئے انہوں نے غلط بندے کو اٹھا لیا ہوگا! بھلا عدیل نے کیا کیا ہے! آئیں ہم پولیس اسٹیشن چلتے ہیں! " وہ ان کی کمرے سہلانے لگے! رمشا کے آنکھیں رو رو کر سوج گئی تھیں۔ اسے ایک دم کچھ یاد آیا۔ وہ جھٹکے سے پلٹی اور شانزہ کی قریب آئی! دونوں بازو پکڑ کر اسے جنجھوڑ ڈالا۔ شانزہ ششدر ہوئی۔ رمشا آواز دبا کر بولنے لگی۔

"تم تو ہو ہی منہوس! کہا تھا نا میں نے! بتادو کہاں رکھا ہوا ہے اس کو! اپنے عاشق سے کہو اسے گھر پہنچائے!" شانزہ کو اس کی انگلیاں اپنی جلد میں گھستی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ فاطمہ منہ پر ہاتھ رکھے چینخے دبائے رورہی تھی۔

"ک۔کیا کررہی ہو! ک۔ک۔کون سا عاشق؟" وہ رونے لگی۔ باقی موجودہ افراد کا ان دونوں پر دھیان نہیں گیا کیونکہ وہ دھیمی آواز میں باتیں کررہے تھے۔

"وہی عاشق جس کے ساتھ اس دن گاڑی سے نکلی تھی!" وہ ایک ایک لفظ چباتے ہوئے بولی۔ دماغ میں ایک جھماکا ہوا اور اسے امان اور اسکی دھمکیاں یاد آئیں۔

"مجھے پتا ہے تم نے ہی اسے کہا ہے! جاؤ اب اپنے عاشق سے جا کر کہو کہ عدیل کو چھوڑ دے!!! عدیل سے سچی محبت تو میں نے کی ہے! مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنی گھٹیا نکلو گی کہ عدیل کو اپنے عاشق سے پٹواؤگی!" دانت پیس کر کہا۔

شانزہ کا دماغ سنسنایا۔ امان؟ اور اس کی دھمکیاں؟ یعنی۔۔۔۔یعنی انہوں نے۔۔ اسکا دماغ لمحوں میں کام کررہا تھا۔ اس نے رمشا کو دھکا دیا اور بھاگتی ہوئی اپنے کمرے میں گئی اور اپنا موبائل چیک کیا۔ اس کے موبائل پر ایک انجان نمبر سے دو مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ وہ ٹھٹھکی۔ اس نے خوف سے تھوک نگلا۔ اس نے اسی نمبر پر کال بیک کی۔ کانپتے ہاتھوں سے فون کانوں سے لگایا۔۔۔

ٹانگیں سن ہونے لگیں۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے بیڈ پر بیٹھ گئی۔

دو تین بیل پر فون اٹھالیا گیا تھا۔ لبوں پر گویا تالے پڑگئے۔ ہونٹ کانپنے لگے۔

"ہیلو!" مقابل شخص کی بھاری آواز اس کے کانوں سے ٹکڑائی۔ وہ چپ رہی۔ کچھ کہنا چاہا تو لفظوں نے ساتھ نہ دیا۔

"جی جانِ امان! آپ نے کال کی ہے! لگتا ہے خیریت نہیں ہے!" فون کے اس پار موجود وہ ہنسا تھا۔ شانزہ کا دل پھٹنے کے قریب ہوا۔ آواز نکالی تو منہ سے نکلا تو صرف ایک لفظ!

"عد۔دیل" اس کا نام سننے کی دیر تھی کہ امان کا چہرہ سخت ہوا۔ اس نے کانوں سے فون ہٹا کر اسکرین پر ڈالی اور کانوں پر لگایا۔

"منع کیا تھا نا! اس کا نام لینے کو اور اس سے باتیں بگھارنے کو!" وہ سپاٹ میں لہجے میں کہہ رہا تھا۔

"وہ کہاں ہے؟" اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں۔

"کون؟" وہ انجان بنا

"عدیل!" ہونٹوں نے جنبش کی۔

"بھائی تمھارا ہے یا میرا؟ مجھے کیا پتا! تمھیں معلوم ہوگا!" وہ واقعی اچھا کھلاڑی تھا۔ شانزہ کی آنکھیں بھیگنے لگی۔ آنسو گال سے ہوتے ہوئے زمین کو سراب کرنے لگے۔

"میں جانتی ہوں آپ نے اسے اغوا کروایا ہے! پلیز اسے چھوڑ دیں! خدارا!" وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ امان مسکرایا۔

" میں نے تو پہلے ہی وارن کیا تھا! لیکن شانزہ ناصر اسے شاید اسے مذاق سمجھ رہی تھیں! کوئی بات نہیں! ٹریلر تو دکھا ہی دیا! اب یہ بتاؤ فلم کب دیکھنی یے؟ ". وہ زیر لب مسکرایا۔

شانزہ کی ہڈیوں میں سنسنی سی پھیل گئی۔

"آپ کیا چاہتے ہیں؟" وہ دھیمی مگر بے تاثر انداز میں بولی۔

"تم جانتی تو ہو جانم میں کیا چاہتا ہوں! مگر لگتا میری خواہش کی تم نے قدر نہیں کی اور دیکھو میں نے کیا کردیا جواباً" وہ تلخی سے مسکرایا۔

"آپ جو کہیں گے میں وہ کروں گی! عدیل کو چھوڑ دیں پلیز!" وہ پھر سے رونے لگی۔

"ایک بات یاد رکھنا شانزہ! محرم تم صرف میری بنو گی! تمھارے وجود کی طرح تمھارا دل بھی صرف اور صرف میرا ہوگا" وہ ایک ایک لفظ چبا کر اسے اپنی بات باور کروا رہا تھا۔ شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی ہچکیوں کو قابو کرنا چاہا۔

"میں ملنا چاہتا ہوں تم سے! کل تمھارے کالج کے باہر! کالج تو جاؤگی نا؟ یا اپنے بھائی کی واپسی تک گھر ہی بیٹھی رہو گی! اور اگر تم مجھے کل نہیں ملی تو یاد رکھنا! عدیل شام کے وقت گھر تو پہنچا دیا جائے گا! مگر زندہ نہیں بلکہ مردہ!" سختی سے کہہ کر اس نے فون رکھا۔

"ن۔نہیں م۔میں آؤں گی! میں ض۔ضرور آؤنگی!" وہ تڑپ کر بولی یہ جانتے ہوئے بھی کہ سامنے والا بندہ کال کاٹ چکا ہے۔۔۔

ایک محبت کیا کیا کروادیتی ہے اس بات کا علم شانزہ کو ابھی ہوا تھا۔ درد سے آنکھیں میچ کر، سر گھٹنوں پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی!

*-------------------*------------------*------------------*

کال کاٹ کر اس نے موبائل جیب میں ڈالا۔ اس نے مسکرا کر چہرا اوپر کرکے بادل سے خالی آسمان کو دیکھا اور آنکھیں میچیں۔ ٹھنڈی ہوا چہرے کو چھوتے ہوئے نکل رہی تھی۔

"تم ہی میری خوشی ہو شانزہ! بس تم! اور تم!" وہ دھیمی آواز میں بولا۔

"جب تم میرے نکاح میں آجاوگی تو مجھے یوں لگے گا جیسے میں ایک تنہا،خوفناک اور خاموش رات سے نکل کر ابھرتے سورج اور صبح کی شفق میں آگیا! ضرورت ہے مجھے تو صرف تمھاری! ضد بھی تم! محبت بھی! عشق بھی تم! جنون بھی تم! بس تم ہی تم!" دل میں ایک خوشی سے پھیلی! اس نے گہری سانس لی! جیسے وہ اطراف کی خوشبو اپنے رگ رگ میں بسانا چاہتا ہو۔

"بس کچھ دن اور۔۔۔۔ پھر ہم دونوں یہاں ایک ساتھ کھڑے ہونگے!" وہ شدت پسندی سے مسکرایا۔ آخر رگوں میں خون بھی تو کس کا تھا۔۔۔۔"منہاج شاہ" کا۔۔۔۔۔

*---------------------*----------------------*

جیسے تیسے کر کے رات گزاری تھی۔ رمشا اور شانزہ کے علاؤہ کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ عدیل کو اغوا کرنے والا امان ہے اور شانزہ امان شاہ کو جانتی ہے۔ ناصر اور جاوید صاحب پولیس اسٹیشن ہو آئے تھے. جب پولیس کو ویڈیو دیکھائی تو انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے پولیس والے کا رنگ بدلا ہو! انہوں نے FIR بھی درج نہیں کی بلکہ بات گول مول کرنے لگے تھے۔ ناصر اور جاوید صاحب وہاں سے بھی ناکام لوٹے تھے۔ صبور تو رورو کر بے ہوش ہوچکی تھیں۔ فاطمہ بےسدھ پڑی تھی۔ شانزہ کے گال بھیگے ہوئے تھے اور وہ گہری سوچوں میں غرق تھی۔ رمشا دل ہی دل میں شانزہ کو گالیاں دے رہی تھی۔

کیا وہ اب بھی مار کھا رہا ہوگا؟ وہ میری وجہ سے؟؟؟ شانزہ ایک بار پھر رودی!

یہ کیا ہورہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ایک بندہ جس کے ساتھ صرف دو ملاقات ٹہھرہی تھیں کیا وہ واقعی اس سے محبت کرنے لگا تھا؟ یا وہ صرف اس کی ضد تھی؟؟؟؟ وہ یہ سب سمجھنے سے قاصر تھی۔

وہ اذیت میں ہوگا! شانزہ کو تکلیف ہوئی تھی۔ وہ اٹھی اور اپنے کمرے میں جا کر پھر سے امان کو کال ملائی۔

اس بار پہلی ہی بیل پر اٹھالیا گئی تھی۔

"اسے یوں اذیت نہ دیں امان! پلیز!!!! میں آؤں گی کل ملنے مگر اسے یوں نہ دیں اذیت!!!! خدارا!!!!" وہ رونے لگی! گڑگڑانے لگی۔

"صحیح ہے!اسے صبح گھر چھڑوا دیا جائے گا! مگر ایسا ہوا کہ تم کل کالج ہی نہ آئیں تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا شانزہ! جان تو گئی ہی ہوگی مجھے؟ ہے نا؟"

میں آؤں گی! ضرور آؤں گی! مگر کیا آپ کے آدمی ابھی" بھی اسے ماررہے ہیں؟" وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔

"بلکل! آخر کو شانزہ بی بی میرے کہے پر نہیں اتری تھیں اور رات کے بارہ بجے اس سے تنہائی میں باتیں بگھارنے میں مصروف تھیں! یہ تو ہونا تھا! بلکل ہونا تھا!" اس نے دانت پیسے۔

شانزہ کا رنگ فق ہوا! تو کیا وہ واقعی معلوم کروایا تھا؟

"نہیں۔۔۔ م۔مجھے معاف کردیں مگر یوں نہ کریں! پلیز امان! اسے مت ماریں! رکوادیں! وہ سہہ نہیں پائے گا امان!" وہ رونے لگی۔ امان کو لگا اس کا دل پگھل رہا ہے!

"نہیں میری جان! ایسا اب نہیں ہوگا! مگر تم فکر نہ کرو! وہ زندہ ہی گھر پہنچے گا!"

"نہیں!!!! نہیں ایسا مت کریں! آپ اپنے آدمیوں سے کہیں کہ وہ اور اذیت نہ دیں اسے! خدارا!!" اس کے رونے میں تیزی آئی۔ امان کو لگا وہ پگھل رہا ہے۔

" سوچتا ہوں اس بارے میں"

"نہیں!!!! پلیز!!!!"

امان نے ایک گہری سانس لی۔

"اچھا!"۔ آخر کو پگھل ہی گیا تھا وہ۔۔۔۔

شانزہ نے سکوں کا سانس لے کر کال رکھی تھی۔ اس نے موبائل بستر پر پھینک کر ہاتھوں سے اپنا سر تھاما۔ اب یہ رات بھی اب کاٹنی تھی۔

*--------------------------*----------------------*

صبح کے پانچ بج رہے تھے۔ کوئی دروازہ دھڑ دھڑ سے پیٹ رہا تھا۔ وہ جو کچھ بے سدھ اور کچھ ابھی بھی پریشانی کے عالم میں تھے ان آوازوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ جاوید صاحب بیرونی دروازے کی جانب بھاگے۔ باہر موجود جو کوئی بھی تھے اب خاموش ہوچکے تھے۔ جاوید صاحب نے حواس باختہ ہوکر دروازہ کھولا تھا! باہر عدیل کھڑا تھا۔ برابر سے ایک گاڑی دھول اڑاتے ہوئے نکلی تھی! قریب تھا کہ عدیل زمین پر گر جاتا مگر جاوید صاحب نے اسے تھاما! اس کی حالت دیکھنے والی! پورا جسم پٹیوں میں جکڑا تھا۔ شانزہ بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ عدیل کو اندر لے آئے تھے۔ صبور نے اسے گلے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رودیں۔ عدیل کی کیفیت اچھی نہیں تھی! وہ نڈھال ہورہا تھا جیسے ابھی زمین بوس ہو جائے گا۔ ناصر صاحب نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹادیا۔ شانزہ بھاگتے ہوئے پانی لائی اور رمشا اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔ ماں باپ سے ملنے کے فوراً بعد اس کے دل میں شانزہ کو دیکھنے کی خواہش جاگی مگر رمشا کو برابر بیٹھا دیکھتے ہوئے وہ کچھ نہ بولا۔

"پانی پی لیں عدیل!" وہ اس کے قریب آئی۔ عدیل اس کو دیکھ کر اٹھ بیٹھا تھا۔ ہاتھ آگے بڑھا کر گلاس لیا اور دھیرے دھیرے پانی پی کر گلاس آگے بڑھادیا۔

"کون لوگ تھے وہ؟" ناصر صاحب نے شروعات کی۔

"پتا نہیں چاچو! بس میری آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی! اور جب وہ مجھے چھوڑنے آئے تب بھی میری آنکھوں پر پٹی باندھی تھی! دروازہ وہ ہی پیٹ رہے تھے! اور جب انہیں لگا دروازہ کھولنے آپ لوگ آرہے ہیں تو میری آنکھوں سے پٹی اتار کر وہ رفو چکر ہوگئے! !" وہ درد کے مارے کراہتا ہوا بولا۔۔ شانزہ نے نگاہیں جھکائیں۔

"انہوں نے غلط اٹھالیا تھا شاید! اور جب انہیں پتا چلا تو اسے چھوڑ گئے!" ناصر صاحب اب جاوید صاحب سے مخاطب تھے۔ رمشا نے اسے غصہ سے گھورا تھا۔ شانزہ نے تھوک نگلا اور کمرے میں چلی گئی۔

"چلو اسے آرام کرنے دیتے ہیں! باہر آجائیں آپ سب!" ناصر سب کو باہر کے آئے تھے۔ اب وہ سب ڈرائنگ روم میں بیٹھے اسی موضوع پر گفتگو کررہے تھے۔ صبور شکرانہ پڑھنے چلی گئی تھیں اور فاطمہ کا خوشی سے برا حال تھا۔ وہ ہر تھوڑی دیر بعد اس کے کمرے میں۔ جھانک کر دیکھ رہی تھی۔ شانزہ اپںے کمرے میں آئی اور آئینہ کے سامنے کھڑی ہوگئی! کاش وہ پہلی ملاقات کبھی ہوئی نہ ہوتی! کاش ہم اس دن ماما کو ڈھونڈنے ہی نہ جاتے یا وہ وہاں سے نہیں گزرتا۔ وہ گھٹنوں میں سر دیئے ایک بار پھر رونے لگی ۔ جانے کتنا وقت بیت گیا! احساس تو تب ہوا جب سرہانے رکھا موبائل پر بپ ہوئی۔ اس نے فون اٹھایا تو سامنے انجان نمبر سے میسج موصول ہوا۔ وہ اس نمبر کو دس سال بعد بھی آسانی سے پہچان سکتی تھی۔ آپ کو محبت کرنے والے یاد نہیں رہتے! یاد تو وہ لوگ رہتے ہیں جن سے آپ شدید نفرت کرتے ہوں اور وہ ان میں سے ایک تھا!۔

"میں نے اپنا کام کردیا ہے اب تم کو اپنا وعدہ نبھانا ہے! بھولنا مت ورنہ امان شاہ سب کا لحاظ بھول جائے گا!" اس کا سانس اٹکا! اس نے موبائل رکھ کر چھت کی طرف دیکھا۔ آنکھ سے آنسو نکلا اور گریبان بگھو گیا۔ یہ کیسا امتحاں تھا۔ اس نے گھڑی کی جانب دیکھا۔ جیسے جیسے وقت بڑھ رہا تھا ویسے ہی اس کے اندر خوف، خدشہ جنم لے رہا تھا۔ اس کے حواس بے قابو ہورہے تھے۔

تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ گئی اور مرے مرے انداز میں یونیفارم جینج کرکے بال بنانے لگی۔

"تم کہاں جارہی ہو؟" کمرے میں آتی فاطمہ نے حیرت سے دیکھا۔

"کالج!" وہ بظاہر سرسرے انداز میں بولی۔

"مگر۔۔۔ ابھی عدیل آیا ہے اور تم؟"

"تو؟ وہ آگئے ہیں اب تو! اور تم شاید بھول رہی ہو کہ سیکنڈ ائیر کے بورڈ کے امتحان ہونے والے ہیں! میری پڑھائی کا حرج نہ ہو اس لئے میں چھٹی نہیں کرسکتی"

اس کی بات پر فاطمہ کا حیرت منہ کھلا۔ اس کا انداز اور اس کا ارادہ دونوں ہی مختلف تھا۔ اسے وہ بہت بدلی ہوئی محسوس ہوئی۔

شانزہ نے بیگ تھاما اور باہر نکلنے لگی۔

"کیسے جاؤ گی؟"

"ظاہر سی بات ہے بس آئے گی لینے گھر!" سپاٹ لہجے میں کہتی وہ وہ باہر چلی گئی۔ عدیل کو نیچے ہی کمرے میں لٹادیا گیا تھا کیونکہ اس کی حالت ایسی نہیں تھی کہ اسے سیڑھیاں چڑھا کر اوپر لے جایا جائے۔ وہ عدیل کے کمرے سے گزرنے لگی کہ آواز آئی۔

"شانزہ!"

"ہمم؟" بے تاثر لہجہ۔

"کہاں جارہی ہو؟" وہ حیران ہوا

"کالج کے کپڑوں میں ہوں اس کا مطلب کالج ہی جارہی ہوں نا!" اس کے یوں کہنے پر عدیل کو تھوڑا عجیب لگا۔

"مگر میں ابھی آیا اور میری طبیعت! پھر بھی؟" شانزہ کا دل ڈوبا۔

"عدیل! اب آپ گھر آ تو چکے ہیں؟ اور یہ زخم بھی ٹھیک ہو جائیں گے! آپ آرام کریں! میں اپنی پڑھائی کا حرج نہیں چاہتی!" عدیل کی آنکھوں میں بےیقینی ہی بےیقینی تھی

"مگر میں تمھارا منگیتر ہوں" اس کے ہونٹوں نے جنبش کی۔

"تو؟ منگیتر ہیں تو اپنا نقصان کروا لوں میں؟ اور تو کیا ہوا اگر آپ میرے منگیتر ہیں تو! میں اب بھی وہی کہوں گی جو میں نے پہلے کہا تھا!" سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے وہ اسے ساکت کرگئی۔

"میں جارہی ہوں! اور یہ زخم بھی ٹھیک ہی ہوجائیں گے!" وہ کہہ کر پلٹ گئی۔ عدیل کے دل چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔

*----------------------------------*

وہ آئینہ کے سامنے کھڑا اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہا تھا۔ بلاشبہ وہ ایک حسین مرد تھا۔ ہینڈسم اور وجہیہ۔ امان اور زمان دونوں بظاہر دیکھنے میں بھی ایک جیسے تھے۔ کشادہ چوڑے سینے! چھ فٹ سے نکلتا قد ، مضبوط بازو، کھڑے نقوش اور مغرور ناک۔ چلنے کا بھی ایک انداز ہو یا بنھویں اٹھانے کر کسی کو تکنے کا! دونوں ہی بھائی ایک دوسرے سے مختلف نہ تھا۔ کبھی کبھی تو گارڈز بھی پہچاننے میں دیر لگا دیتے! مگر زمان فطرتاً شوخ تھا اس لئے اسے پہچاننے میں گارڈز کو اتنا مشکل کا سامنا نہ ہوتا۔ اس کو پہچاننے میں زیادہ سے زیادہ کچھ سیکنڈز ہی لگتے تھے۔ دونوں کی ہی پروقار شخصیت تھی مگر امان اپنے سپاٹ تاثرات سے رعب دار اور سخت مزاج کا لگتا تھا اور زمان اپنے شوخیوں سے زندگی سے خوش بندہ لگتا تھا جس کے لئے اپنی زندگی بھی ایک کھیل تھی اور وہ اسے مزے سے کھیل رہا تھا۔ امان نے ایک نظر اپنی تیاری پر ڈالی اور پرفیوم چھڑکتا کمرے کو مہکا گیا۔ آئینہ میں خود کو دیکھ کر وہ مسکرایا ۔ دماغ میں خیال تھا تو صرف "شانزہ" کا!۔ ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ کالج کی چھٹی ایک بجے ہوتی ہے تو یعنی شانزہ بھی ایک بجے ہی ملے گی۔

"اپنی محبت کا سحر چلایا ہے تم نے شانزہ! اب تو ہونا ہی پریگا میرا!" وہ زیر لب مسکراتا گاڑی کی چابی اٹھاتا نکل گیا۔

*------------------------*

"کیا ہوا شانزہ؟ طبیعت خراب ہورہی ہے کیا؟؟؟" سبین نے اس کی جانب حیرت سے دیکھا۔

"نہیں بس یونہی! چھٹی میں کتنا وقت ہے سبین؟" ایک بار پھر خوف نے اسے آگھیرا تھا۔

"اب تو دس، پندرہ منٹ بچے ہیں!" سبین کہہ کر اپنا سامان سمیٹنے لگی "سر کا لیکچر تقریبآ ختم ہوگیا ہے شانزہ اپنا سامان سمیٹ لو"

شانزہ نے اپنا سامان سمیٹ کر بیگ رکھا۔ تھوڑی دیر بعد چھٹی ہوئی تو وہ کالج کے گیٹ کے باہر۔کھڑی ہو گئی۔ سب لڑکیاں گھر کو جارہی تھیں اور جو بس میں جاتی تھیں وہ دھیرے دھیرے بس میں بیٹھ رہی تھیں۔

"میرا بھائی پتا نہیں کب لینے آئے گا یار! تم کیوں کھڑی ہو شانزہ؟ تم تو بس میں جاتی ہو۔ جاؤ بیٹھ جاؤ نا بس میں!" سبین سرسری انداز میں بولی۔

"کسی کا انتظار کررہی ہوں!" اس نے کہہ کر نگاہیں پھر سڑکوں پر دوڑائی۔ کچھ دور کالی گاڑی سے امان شاہ نکلا تھا۔ شانزہ کا دل دھڑکا۔ امان نے اسے دیکھ لیا تھا! اب وہ گاڑی سے ٹیک لگائے شانزہ کے آنے کے انتظار میں تھا۔ سبین نے شانزہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔

"وہ لڑکا کتنا ہینڈسم ہے نا شانزہ؟ " سبین اشتیاق سے بولی۔

"ہاں! دوسروں کی خوشیوں کو ختم کردیتا یے بس" شانزہ نے سوچا۔ اس کے حلق میں گویا آنسؤوں کا گولا پنھس گیا ہو۔۔

'" کیا ہوا کچھ بولو!؟ میں جاکر بات کرتی ہوں اس سے!" شانزہ نے حیرانی سے اسے دیکھا ! ابھی وہ کچھ بولنے لگی تھی کہ سبین اس کی بات بغیر سنے امان کی سمت جانے لگی۔ قددرے دور کھڑے امان نے اپنی طرف بڑھتی اس لڑکی پر حیرت ہوئی مگر بظاہر اس نے ظاہر نہ کیا۔

"ہیلو!"

امان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا اور کچھ کہے بغیر نظریں پھر موبائل پر مرکوز کرلیں۔

"اتنی اکڑ کیوں ہے تم میں!؟" سبین نے بنھویں اچکا کر پوچھا۔ امان کی رگیں تن گئیں لیکن وہ خاموش رہا۔

"اتنی اکڑ؟ اففف! دیکھو! نہ تو میں تمھارے پیچھے مررہی ہوں کیونکہ تم جیسے ہزاروں مجھ سے بات کرنے کے لئے بھی تڑپتے ہیں!" سبین کی بات مکمل ہوتے ہیں امان نے جیب سے پستول نکال کر اس کے پیٹ پر رکھی تھی۔ سبین کی سانسیں رک گئیں۔ دور کھڑی شانزہ ساکت ہوئی۔

"اب جاؤ واپس اور اپنی دوست سے کہو مجھ سے ملے ورنہ میں وہی آاجاؤگا!" یہ کہہ کر اس نے پستول ہٹائی۔ سبین کے تو طوطے اڑ گئے تھے۔ وہ مرے مرے قدموں سے شانزہ کے پاس آئی۔

"وہ تمھیں بلا رہا ہے!"

"تم ٹھیک ہو؟" شانزہ نے فکرمندی سے کہا۔

"ہاں! اس کے پاس پستول؟" وہ کہہ کر اٹکی۔

"ہاں اور اس سے ہی وہ سب کو موت کی گھاٹ اتارتا ہے!" اس نے بیگ ٹھیک کیا اور آہستہ قدموں سے جانے لگی۔ سبین کا بھائی اسے لینے آگیا تھا تو وہ چلی گئی تھی۔ امان مسکرایا۔ وہ اسے بغور دیکھنے لگا

" تو کیسی ہو جانِ امان!؟" اس نے انگلیوں کے پوروں سے اس کے گالوں کو چھوا۔ شانزہ کو کرنٹ سا لگا۔

"ٹ۔ٹھیک ہوں!" اس نے نظریں جھکائیں۔ وہ جس طرف کھڑے تھے اس طرف کوئی بھی موجود نہ تھا۔

"جب تم میری ہوجاؤگی نا تو تمھیں پھر کسی اور کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی!" شانزہ کا دل کیا پھوٹ پھوٹ کر رودے۔

"م۔میں م۔مگر۔۔" وہ ہچکچائی۔ آنکھ سے آنسو نکلا اور چہرہ بگھو گیا۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔

"کیا مگر؟" لہجہ سخت

"مگر۔۔۔۔۔ میں پسند کرتی ہوں کسی کو!" وہ روتے ہوئے سر جھکا گئی ۔ امان نے اس کا بازو پکڑا اور خود سے قریب کیا۔

"عدیل کو؟ ٹھیک ہے ہم اس کو ماردیتے ہیں!" شانزہ چینخی۔

"نہیں نہیں!! پلیز امان! نہیں کرتی میں اسے پسند!" وہ روتے ہوئے بولی۔

"جلا دوں گا زندہ اسے!" وہ تلخی سے کہتا مسکرایا۔

"نن۔نہیں! ایسا کچھ نہیں ہے امان! میں آپ کی ہوں صرف آپ کی!!" اس کے ایسا کہنے پر امان شدت پسندی سے مسکرایا۔

"بلکل! آپ بنی ہی امان شاہ کے لئے ہیں! اور امان اپنی واحد محبت کو بہت جلد پانے والا ہے! آئیندہ منہ سے عدیل کا نام نکلا یا عدیل کے بارے میں کوئی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا!" وہ انگلی اٹھا کر اسے باور کروا گیا۔۔

"ایسا اب نہیں ہوگا!" اسے امان سے بےحد خوف محسوس ہورہا تھا۔

"کس کی ہو تم؟ " اس نے اسے خود سے قریب کیا۔ شانزہ نے خوف سے آنکھیں میچیں۔

"میں نے کہا شانزہ ناصر کس کی ہے!" اس نے دانت پیسے۔

"صرف امان کی" اس نے خوف سے میچی آنکھوں سے ہی جواب دیا اور امان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔

"بلکل!"

"مم۔میں جاؤں؟ میری بس چلی جائے گی ورنہ!" وہ روتے ہوئے بولی۔

"جا سکتی ہیں آپ! مگر اگلی بار جب بھی بلاؤں تم کو آنا ہے! ورنہ میں آجاؤگا! ٹھیک ہے ؟"

شانزہ نے خوف سے اثبات میں سر ہلایا اور بھاگتی ہوئی چلی گئی

"میں نے کہا تھا اتنا بھی مشکل نہیں ہوتا!" امان نے مسرت بھرے میں کہا۔

"-----------------------------*

"سب ٹھیک ہے تم کیوں پریشان ہورہی ہو؟" شانزہ نے اپنے تاثرات نارمل کرکے پوچھا۔

"پتا نہیں مگر مجھے تمھارا لہجہ اجنبی لگ رہا ہے! کیا تم مجھے بتاؤ گی کہ کیا ہوا ہے؟؟؟" فاطہ نماز پڑھ کر اس کے بیڈ پر آبیٹھی۔

"کچھ نہیں بس یونہی!" انداز سرسری تھا۔

فاطمہ نے اسے ترچھی نگاہوں سے دیکھا۔

"عدیل بھائی سے مل لیتی! وہ انتظار کررہے تھے تمھارا"۔ فاطمہ نے اپنے ہاتھ میں پہنی چوڑیوں کو اانگلیوں سے چھوا۔

"انتظار کیوں؟ اور ابھی میں تھکی ہوئی کالج سے آئی ہوں! تھوڑی دیر آرام کروں گی!"

فاطمہ نے آنکھیں پھاڑیں۔

"کیا مطلب کیوں انتظار کررہے تھے؟؟ تم بس مل آؤ! وہ کھانا بھی نہیں کھارہے کیا پتا تمھاری موجودگی میں کھالیں!"

"میں بہت تھکی ہوئی ہوں فاطمہ! اور مجھ میں بلکل ہمت نہیں کہ ان سے مل کر آؤں یا انہیں کھانا کھانے پر راضی کروں!! تو خدارا مجھے فورس نہ کرو! " لہجے میں سختی تھی۔ فاطمہ ششدر رہ گئی۔

"تمھیں اچانک سے ہوا کیا ہے؟ ایک دم بدل گئی ہو؟؟؟؟ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے میں شانزہ سے نہیں کسی اجنبی سے مخاطب ہوں!" فاطمہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ خفا خفا سی نظر سے دیکھ کر وہ مڑ کر چلی گئی۔ شانزہ نے ایک لمبی سانس لی اور بیڈ پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھی۔ لب بھینچ کر اس نے تھکے تھکے انداز سے اپنے ہاتھوں پر نظر دوڑائی۔

"کرو گے جس سے محبت تم!

زمانہ اسی سے الگ کردے گا"

دل ڈوب رہا ہے، امیدیں ماند پڑ رہی ہیں، محبت مررہی ہے، اور نفرت ابھررہی ہے! جب محسوس ہوجائے کہ سارے دروازے بند ہوگئے ہیں تب ہی ساری امیدیں ماند پڑنے لگتی ہیں! راستے ختم ہوگئے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ اتنا لاچار آپ کبھی نہ تھے جتنے اب ہوگئے۔ مجبوریاں انسان کو اندر سے ختم کردیتی ہیں۔

"شانزہ عدیل" اس نے زیر لب اپنا نام عدیل کے ساتھ جوڑا۔ چہرے پر ہلکا تبسم پھیلا۔ ایک احساس سے اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی مگر جلد ہی ماند پڑگئی۔

"شانزہ امان" وہ زیر لب بڑبڑائی مگر پھر جلد ہی نفی میں سر ہلانے لگی۔

"نہیں! صرف شانزہ عدیل" اس نے سختی سے بستر کی چادر کو پکڑا۔

"م۔مگر۔۔۔۔۔" یہ کہتے ساتھ اس نے سر گھٹنوں پر رکھ کر ہچکیوں سے رونا شروع کردیا!

زندگی میں سکوں نام کی کوئی چیز نہیں تھی! دکھ، درد پھر دکھ پھر درد! کیا کبھی بھی اسے محبت نہیں ملے گی؟ باپ سے اب امید ختم تھی مگر۔۔۔۔۔

*---------------------*-----------------*

مغرب کا وقت ہونے لگا تھا۔ وہ آگے بڑھا اور کپکپاتے ہاتھوں سے میز کی لاک شدہ دراز کھولنے لگا۔ اندر موجود چابیوں کا گھچا نکالا تھا۔ ہاتھ مستقل کانپ رہا تھا۔ سرخ بوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے چابیوں کو غور سے دیکھا۔ آنکھوں سے بےاختیار آنسو نکلے تھے۔ آنسوؤں میں تیزی اتنی کہ اسے اپنی آنکھیں میچنی پڑیں۔ دل میں درد کی تیز لہر دوڑی۔ اس نے دل پر ہاتھ رکھا۔ یادیں! اور بس یادیں! ایک ہاتھ سے آنکھیں رگڑتا وہ اوپری منزل چلا آیا۔ وہ پورشن خالی تھا۔ یہیں سے تو سب کہانی شروع ہوئی تھی۔ محبت کا زور بھی یہیں ٹوٹا تھا۔ جگہ جگہ جالے لٹکے تھے۔ دو لوگ ایک ہی کمرے میں ختم ہوئے تھے۔ وہ چاروں طرف دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ سامنے ایک کمرہ تھا جو لاک تھا۔ اس نے جابیوں ہر نظر ڈالی۔ تھوڑا آگے بڑھا تو ایک اور کمرہ آیا! اس نے کانپتے ہاتھوں سے چابی سے دروازہ کھولا۔ ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا۔ مٹی سے لپٹا وہ کمرہ بھی اس کے ماضی میں شامل تھا۔ اس نے اندر نظر دوڑائ۔ ایک بڑی سی آفس ٹیبل رکھی تھی جس پر صدیوں کی دھول جمی تھی۔ منہاج شاہ نے اس کمرے کو اپنا آفس روم بنایا ہوا تھا۔ اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ منہاج کی کچھ ڈائریاں رکھی تھیں۔ اس نے تمام ڈائریاں کھول کر دیکھیں۔ کچھ آفس کی ڈائریاں تھیں۔ ایک موٹی ڈائری کھولی جو شاید وہ اس کی اپنی تھی۔ اس نے میز کی درازیں کنگھالیں۔ ہاتھ مستقل کانپ رہے تھے، اور آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے. جو بھی تھا! مگر منہاج باپ تھا! وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا! "کیا کردیا بابا آپ نے! ہم سب کو جدا کردیا ایک دوسرے سے! خود سے بھی دور کردیا!" اس نے باپ کی ڈائری اٹھائی اور وہاں سے باہر نکل کر منہاج اور ماہ نور کا کمرہ کھولنے لگا۔ اس کا ضبط بکھرنے لگا۔ بستر کی چادر خراب تھی۔ آخر لمحات میں منہاج یہاں اکیلے رہتا تھا۔ دیوار پر خون کے دھبے تھے۔ اس کی موت کے وقت وہ دونوں محض چودہ سال کے تھے! اور آج پورے دس سال بعد بھی وہ خون کے دھبے وہیں تھے! خون! منہاج شاہ کا خون! جب اس نے پستول کی گولی اپنی کنپٹی پر ماری تھی۔ وہ خون کے چھینٹے آس پاس ہر جگہ تھے۔ دیواروں پر، کھڑکی کے سفید پردوں پر! کچھ تصویریں تھیں جو زمین بوس تھیں اب تک! اس کے مرنے کے بعد امان نے بغیر کوئی تبدیلی کروائے یہ کمرہ بند کروادیا تھا! ہمیشہ کے لئے۔ بس دھول مٹی نے کمرے کر آلیا تھا۔ وہ چلتے ہوئے کھڑکی کی جانب آیا۔ پردے کو ہلکا سا ہٹا کر باہر جھانکنے لگا۔ کھڑکی سے اسے گھر کا گیراج نظر آرہا تھا۔ دماغ میں جھماکا ہوا۔

"نن۔نہیں مینو! پلیز!" ماہ نور کھڑکی سے بلکل اسی طرح پردہ ہٹا کر نیچے دیکھ رہی تھی۔

"مینو! میں کہیں نہیں گئی!"

"میں چھپ رہی ہوں! "

"بابا کو مت بتانا ماما کہاں ہیں!"

"ماما آپ پردے کے پیچھے چھپ جائیں! امان اور میں جب بھی یہ گیم کھیلتے ہیں تو میں بھی یہیں چھپتا ہوں! سچی!" وہ بچہ تھا! سو یہی بول سکتا تھا۔

ماہ نور مسکرائی تھی! زمان کو ماہ نور کی وہ مسکراہٹ یاد آئی! اور آج اسے سمجھ آیا کہ وہ اس لئے نہیں مسکرائی تھی کیونکہ اسے زمان کی تجویز پسند آئی! بلکہ اس لئے مسکرائی تھی جیسے کہہ رہی ہو "یہ کھیل دل سے نہیں کھیلا جاتا! درد سے کھیلا جاتا ہے"

زمان کے آنسوؤں میں روانی آگئی۔

"ماما!" وہ ہمیشہ اسکول سے یونہی چہکتا ہوا آتا تھا۔

"زمان دادا آگئے" وہ ہنستی! زخم سے چور ہی کیوں نہ ہو مگر بچوں کے نھنے سے دلوں میں وہ باپ کے لئے نفرت نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔

"ماما آئم ناٹ دادا!!! آئم اونلی زمان! " وہ منہ بنا کر اسے دیکھتا تھا۔ ماہنور کا قہقہہ کمرے میں گونجتا۔

"اچھا میری پرنسز ادھر آؤ!" وہ اسے یونہی چھیڑتی اور زمان جواباً اسے گھورتا۔

"میں اب جارہا ہوں بابا کے پاس! " وہ مڑتا ہوا باپ کے آفس روم میں جانے کے لئے مڑنے لگا۔

"اچھا سوری نا! ادھر آؤ!" وہ ہنستے ہوئے کان پکڑ لیتی!

"ماما آپ سیریس نہیں ہیں! آپ مذاق میں معافی مانگ رہی ہیں! بابا اچھے ہیں آپ سے! میں اب ماما سے نہیں ملوں گا! بابا از انف فار می!" وہ زبان چڑاتا ہوا مڑجاتا۔۔۔ اسی دم جب امان کمرے میں آتا تو زمان دیکھ رہ اسے رک جاتا اور پھر پلٹ کر ماہ نور کو دیکھتا۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح اسے اب بھی چھیڑنے لگی تھی۔

"آجاؤ امان! ماما کے پرنس! ماما کے پاس آؤ" اور امان بھاگتے ہوئے اس کے گلے لگ جاتا!

"اچھا میں پرنسز اور یہ پرنس؟؟؟؟" وہ غصے میں رونے لگ جاتا!

"میں بابا کو بتاؤں گا!!" وہ روتے ہوئے باپ کے پاس چلے جاتا۔

"بابا!" وہ ڈرامہ باز تو ہمیشہ سے تھا اس لئے ایک کی چار نہیں بلکہ دس کی پندرہ کرکے بتاتا۔۔

"ماما مجھ سے پیار نہیں کرتیں! وہ امان سے کرتی۔ہیں! انہوں نے مجھے صبح ٹفن میں فرائز کم دیئے تھے اور امان کو زیادہ!" وہ روتے ہوئے اپنا چہرہ باپ کے سینے میں چھپا لیتا! 8 سال کا بچہ تھا مگر باتیں وہ پوری پوری کیا کرتا تھا۔

"ہائے! ماہی نے یہ کیا کیا! خیر آپ کو کیسے پتا چلا کہ آپ کو فرائز کم ملے اور امان کو زیادہ!؟؟" منہاج مسکرا کر اسے پیار کرتا تھا اور وہ باپ کو متوجہ پاکر اور زیادہ رونے لگتا۔

"میں نے گنے تھے ہم دونوں کے فرائز! میرا ایک کم تھا اور امان کا ایک زیادہ!" وہ روتے ہوئے دکھڑے سناتا اور ایسی ایکٹنگ کرتا کہ اسے اس بات سے صدمہ پہنچا ہے!

"یہ تو بہت غلط بات ہوگئی!"

"ہے نا بابا؟ اب میرے پیٹ میں بھی چکر آرہے ہیں! اب مجھے آپ کی گود میں سونا ہے! آپ کرتے رہیں لیپ ٹاپ پر کام میں آپ کی گود میں سوتا رہوں گا!"

منہاج قہقہہ لگاتا!

"تمھیں پیٹ میں چکر آرہے ہیں؟؟؟" بظاہر حیرانی سے بولتا۔

"ہاں بابا! گھٹنوں میں سردرد ہورہا ہے مجھے!!! مجھے اب سونا ہے! " وہ یونہی اس کے سینے پر لیٹ جاتا تھا اور آنکھیں بند کرلیتا۔

"میرا بچہ!" منہاج زمان کے ماتھے کو چومتا۔ زمان کو سترہ سال پرانا لمس محسوس ہوا! وہ دیوار سے لگ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ بے سدھ سا!

"بابا" اس کے ہونٹ کانپے۔ اس کی چینخیں نکلنے لگیں۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے منہ پر ہاتھ رکھا اور زور سے چینخنے لگا تاکہ آواز باہر نہ جاسکے۔ وہ شخص جو اپنے بچوں کی ایک ایک آواز پر "جی" بولا کرتا تھا آن اتنی سسکیوں کے بعد بھی قریب نہ آیا۔

"میں نے چیز کھانی ہے!" وہ ابھی آفس سے آیا تھا! ابھی گاڑی سے اترا نہ تھا کہ زمان غصہ سے بولا۔

"آپ غصہ میں ہیں؟" وہ حیرانی سے پوچھتا۔

"نہیں! بس مجھے چیز کھانی ہے!"

"ہاں ٹھیک ہے میری جان ابھی ماما سے مل لوں اور امان کہاں ہے؟ پھر چلتے ہیں تینوں!" وہ مسکراتا۔۔

"آپ میری بات نہیں مانیں گے؟ کوئی پیار نہیں کرتا مجھ سے!" وہ روتا ہوا مڑنے لگا۔

"ارے ارے! کیا ہوگیا میری جان کو!" وہ زمان کی طرف لپکا اور اس کے ماتھے اور گالوں پر بوسہ دیا۔

"کچھ نہیں ہوا بس آپ کی یہ چھوٹی چھوٹی داڑھی مونچھیں میرے چہرے پر خارش کررہے ہیں!" وہ گال کجھاتے ہوئے منہ بنا کر بولا۔۔۔

"ہاہاہاہا! آؤ چلیں اور امان کو بھی بلالو!" اسکے بالوں کو بکھیرتا وہ پھر سے گاڑی کی جانب بڑھنے لگا۔

ماضی کو سوچتے ہوئے دھیرے سے مسکرایا۔ آنکھیں رونے لگیں تھیں۔ درد دل میں بےاختیار بڑھنے لگا۔ اس نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا۔

"درد ہی کم ہوجاتا اگر کچھ پل اور ساتھ رہ لیتے"

اس نے باپ کی ڈائری اٹھا کر سینے سے لگالی۔

اسی ڈائری کے ہر ورق پر ان کے ہاتھوں کے لمس محفوظ ہونگے۔ وہ ڈائری ابھی نہیں پڑھنا چاہتا تھا۔ صرف پرانی یادوں کو سوچنا چاہتا تھا۔

سامنے بیڈ کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی تصویر تھی۔ وہ یوں گھسیٹتا ہوا آیا اور زمین پر بیٹھ کر بیڈ سے ٹیک لگالیا۔ تصویر کی ٹوٹی ہوئی کانچ بکھری پڑی تھی اس نے کانپتے ہاتھوں سے تصویر اٹھائی۔ اس پر خون لگا تھا۔ وہ ماہ نور کی تصویر تھی۔ لال ڈوپٹہ پہنی سائڈ سے جھانکتی ہوئی وہ تصویر منہاج نے اس کی زندگی میں ہی فریم کروائی تھی۔ وہ ہر جگہ صرف ماہ نور کو دیکھنا چاہتا تھا۔اس نے اپنے آفس کی ٹیبل پر اس کی تصویر لگائی تھی کہ نظریں بھٹکیں تو بھٹک اس کی تصویر پر جا اٹکیں۔ آفس جاتا تو دن میں دس کالز لازمی کرتا۔

"ماما آپ کس سے بات کررہی ہیں!"

"بیٹا آپ کے بابا سے بات کررہی ہوں" وہ کہتی اور پھر کان سے فون لگالیتی۔ وہ ایک، آدھ گھنٹے بعد پھر پوچھتا۔

"ماما اب کس سے بعد کررہی ہیں؟؟"

"ماما آپ کے بابا سے بعد کررہی ہیں!"

"ابھی تو کی تھی!" وہ حیرت سے پوچھتا ۔ دوسری طرف منہاج جب اس کی آواز سنتا تو ہنستا۔

"اچھا ٹھیک ہے اب نہیں کرونگی! بس لاسٹ دفع!" وہ اس سے کہہ کر پھر منہاج کو مخاطب کرتی۔

"بچے بلا رہے ہیں منہاج! بعد میں کرلیں گے بات!!"

"ٹھیک ہے!" وہ کال رکھنے لگتا کہ ماہ نور کے دل خدشہ پھیلتا۔

"آ۔آپ ناراض تو نہیں ہے نا؟" کیونکہ وہ جانتی تھی پھر اس کے بعد کیا ہوتا۔

"نہیں ہوں میں!" وہ مسکراتا اور ایک سکون کی لہر ماہ نور کے دل میں پھیلتی۔

"ماما چیز کھانی ہے!" امان ماں کے گلے لگتے ہوئے بولا تھا۔

"بابا آ کر لے جائیں گے! آپ کو پتا ہے نا بابا منع کرتے ہیں ماما کو باہر جانے سے!" وہ امان کا گال چوم کر بول رہی تھی۔۔

"ٹھیک ہے پھر میں اور زمان چلے جاتے ہیں!! آؤ زمان! " وہ ہاتھ پکڑ کر باہر جارہا تھا۔

"نہیں نہیں! میں آرہی ہوں! ایسے مت جاؤ! تم لوگوں کے نخرے بھی تو کتنے اٹھا کر رکھے تمھارے باپ نے! وہ چادر اوڑھ کر باہر آئی۔ گارڈز لائین سے کھڑے تھے۔ وہ گیٹ کی جانب آئی۔

"دروازہ کھول دیں!" وہ چوکیدار سے کہہ کر انتظار کرنے لگی۔

"آپ کہاں جارہی ہیں بیگم صاحبہ!" گارڈ نے پوچھا۔

"قریب دکان سے آرہی ہوں! "

"سوری آپ نہیں جا سکتیں!! آپ جانتی ہیں منہاج دادا کا حکم ہے کہ ہم آپ کو کبھی باہر ان کے بغیر اکیلے نہ جانے دیں!" وہ مؤدب کھڑا ہو کر کہتا۔

"مگر ہمیں چیز لینی ہے گارڈ بھائی" امان نے اسے معصومیت سے اسے دیکھا۔ ماہ نور کا دل چاہا رودے! منہاج شاہ, منہاج کی محبت , منہاج شاہ کی سختیاں!

"ہاں تو چھوٹے دادا آپ ہمیں بتادیں! ہم لے آئیں گے آپ کے لئے!"

"ٹھیک ہے ماما انہیں آپ پیسے دے دیں! " امان ماہ نور کو دیکھتا ہوا بولا۔ ماہنور نے پیسے دیئے۔ امان اور زمان اسے اشیاء بتا رہے تھے۔ ماہنور نے روئی روئی آنکھوں سے آسمان کو دیکھا اور کمرے میں چلی گئی۔ رات ہوتے ہی منہاج بھی آگیا۔ اس کی ہمیشہ کی طرح پہلی خواہش اپنے بچوں اور بیوی کا چہرہ دیکھنا اور انہیں چومنا! وہ بچوں کی جانب لپکتا اور انہیں پیار کرکے ماہ نور کے پاس کمرے میں آ گیا۔ ماتھے پر بوسہ دے کر اسے کمر سے پکڑ کر دھیرے سے اپنی جانب کیا۔ ماہنور نے اس کے سینے پر سر رکھ دیا۔

"کیسی ہو؟"

"ٹھیک ہوں!" وہ مسکراتے ہوئے بولی۔

"میں نے تمھیں بہت مس کیا" وہ اسکی آنکھوں کو چوم کر بہت پیار سے کہتا۔

"صرف نو گھنٹوں کی تو بات ہوتی ہے روز! اور دن میں بھی آپ فون کرتے ہی تو رہتے ہیں! "

"وقت کاٹنا بے حد مشکل ہوتا ہے تمھارے بنا!" وہ اسے خود سے بھینچتے ہوئے بولا۔

"آج کہیں گئی تھیں تم!؟؟؟" وہ کچھ دیر توقف سے بولا ۔ ماہ نور کی سانس تھم گئی

"ن۔نہیں" وہ بس اتنا کہہ پائی۔

"ہاں ماما دکان تک گئی تھیں" زمان معصومیت سے کہہ کر دیکھنے لگا۔ ماہ نور نے منہاج کی طرف دیکھا جس تاثرات خطرناک حد تک بگڑ رہے تھے۔ آنکھوں میں خون اترنے کی دیر تھی!!اور ماہ نور جانتی تھی کہ اس کے بعد منہاج اس کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔

"نہیں منہاج میں ن۔نہیں! زمان جھوٹ کیوں بول رہے ہیں آپ!" وہ غصہ سے اسے دیکھ کر بولی۔

"ہاہاہا میں تو مذاق کررہا تھا!" وہ کہہ کر ہنسنے لگا۔ وہ بے خبر تھا کہ اس کا جھوٹ بھی اس کی ماں کے لئے ایک قیامت ثابت ہوسکتا تھا۔

ماہ نور نے منہاج کی آنکھوں میں دیکھا۔

"دیکھا آپ نے؟ جھوٹ بھی کہنے لگا ہے اب یہ" وہ باقاعدہ رونے لگی تھی۔ کیونکہ وہی جانتی تھی کہ اگر منہاج زمان کی بات پر یقین کرلیتا تو صبح پھر اس کا جسم زخم سے بھرا ہوتا۔

"اچھا کوئی بات نہیں! وہ بچہ ہے!" منہاج نے اسکے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔

"نہیں! غلط بات ہے یہ! بچوں کو بچپن سے ہی تمیز سکھانی چاہئے!" وہ زمان کو مارنے کے لئے بھاگی مگر منہاج نے اسے پیچھے سے قابو کیا۔

"چھوڑیں مجھے! میں آج اسے بتاؤں گی کہ جھوٹ نہیں بولتے!" وہ اپنے آپ کو چھڑانے لگی۔ زمان ماہ نور کو گھورتا۔

"نہیں اسے چھوڑدو! کچھ نہیں ہوتا!" وہ اسے بمشکل قابو کر کے اپنے آپ میں قید کرلیتا۔

" بابا چکر آرہے ہیں مجھے!" زمان ایک بار پھر ڈرامہ کرنے لگا تھا۔

"میرے بچے کو چکر آرہے ہیں؟ ہاں بابا! میں گررہا ہوں! یہ دیکھیں میں بیڈ پر بھی اب لیٹ چکا ہوں!" وہ سر کو جان بوجھ کر پکڑ کر دبا رہا تھا کہ باپ اسے آکے بھی پیار کرے۔ وہ مسکرا کر اس کے قریب آتا اور پیار کرتا۔

"بابا" اسی دم امان بھی کمرے آیا اور منہاج کے گلے لگ گیا۔

"امان بابا کی گود میں آجاؤ!" منہاج نے پکڑ کر اسے گود میں بٹھایا۔ ماہ نور جو پیچھے کھڑی تھی مسکرادی۔

"مگر بابا مجھے بھی گود میں آنا ہے!" زمان جھٹکے سے اٹھا۔

"نہیں تم لیٹ جاؤ تمھیں چکر آرہے ہیں! " منہاج ایک نظر اسے دیکھ کر ماہ نور کو دیکھتا جو اب ہنس رہی تھی۔

"نہیں اب نہیں آرہے بابا!" وہ اس کی گود میں آبیٹھا۔ منہاج نے امان کی گردن کو چوما مگر ٹھٹھک گیا۔

"ماہ نور اسے بخار ہورہا ہے! کافی تیز ہے!"

اور ان کتنے سالوں بعد بھی زمان کو یاد ہے کہ جب بھی ان دونوں کو کوئی بیماری آلیتی تو ان کا باپ ان کا کیسے خیال رکھتا۔

"منہاج مگر یہاں گرمی ہے؟ پنکھا بھی نہیں کھولنے دے رہے آپ!" ماہ نور امان اور زمان کی بیڈ کی چادر ٹھیک کرتے ہوئے بولی

"بخار ہے اسے! پنکھا کھولنے سے اسے سردی لگے گی! اور میں اسے اس کمرے میں اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا نا! تم زمان کو ہمارے روم کے جاؤ اور اسے اپنے ساتھ سلادو! میں امان کو یہاں لے کر سورہا ہوں! "

ماہنور اپنے شوہر کو دیکھنے لگی۔

"چلیں اسے تو بخار ہے اسے پنکھے میں الٹا سردی لگے گی! مگر آپ بغیر پنکھے کے سوجائیں گے؟ یا چھوٹا سا پنکھا لگوادوں؟"

"نہیں! ہوا پھر امان پر بھی پرے گی تو وہ سردی سے کانپنے لگے لگا! " وہ پریشانی سے امان کو دیکھ رہا تھا۔ ماہ نور امان کو چوم کر زمان کو کمرے میں لے گئی۔

"بابا سردی لگ رہی ہے! " امان اس کے قریب آیا۔ منہاج نے اس اپنے ساتھ بے حد قریب کرلیا۔

"بابا ساتھ ہیں! رات کو اگر آنکھ کھلے اور کسی چیز کی ضرورت ہو۔تو بابا کو اٹھائے گا پہلے!" وہ اس کے ماتھا چومتے ہوئے بولاوہ اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔وہ اس کے ماتھا چومتے ہوئے بولا بس یہ لفظ "بابا ساتھ ہیں"۔ یہ بات ان دونوں کو اور تحفظ دیتی۔۔۔ نہ صرف اس رات بلکہ ہر وہ رات جب امان یا زمان کو بخار ہوتا وہ یونہی بغیر پنکھے دوسرے کمرے میں انکے ساتھ ہی سوتا۔ اس نے اپنے بچوں پر کبھی ظلم نہیں کیا! مگر جب ماہ نور اس کی ہی غلطی کی وجہ سے مرگئی تو اسے خدشہ پھیل گیا کہ یہ دونوں بھی مجھ سے دور ہو جائیں گے یا مجھے چھوڑ دیں گے! وہ ماہ نور کو اس وقت مارا کرتا جب وہ اسکی بات کے خلاف جاتی! اسے گوارا نہیں تھا کہ کوئی اور مرد اسکی بیوی کو غور سے دیکھے! ایسے وقت میں وہ انہیں پبلک میں شخص کو بھی پیٹتا اور گھر آکر ماہ نور پر بھی ظلم کرتا! حد سے زیادہ شدت بھی جان لیوا ہوتی ہے!

وہ سمجھتا تھا کہ مار پیٹ ہی ایک حل ہے! وہی نشان جو منہاج نے ماہ نور کی گردن پر بنایا تھا اور پھر ان دونوں کی گردن پر بھی بنادیا۔ وہ دونوں چودہ سال کے تھے! اور جس دن ماہ نور مری وہ جو ہر چیز کے باوجود باپ سے محبت کرتے تھے باپ سے نفرت کرنے لگے تھے! منہاج انہیں مارتا تو کبھی وہ روتے! کبھی وہ چینختے اور دور ہوجاتے!

منہاج نے ماہ نور کے بنا زندگی گزارنے کا کبھی سوچا ہی نہیں تھا! وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اس دن بہت غصہ میں تھا! ماہ نور پھر اس کی بات پاس نہیں رکھا تھا۔ اور تب جب اس نے اسے بیلٹ سے مارا اور پھر مارتا ہی گیا! پرانے زخم پھرے نہ تھے اور اس پر نئے زخم اضافہ! وہ وہیں دم توڑ گئی۔ اور پھر منہاج شاہ کو محسوس ہوا

"سب ختم" ہوگیا۔ ماہ نور کے جسم کو دفنا دیا گیا تھا اور یہاں منہاج کا دل دفنا دیا گیا تھا۔ وہ چینختا، روتا۔ جو شخص دن میں دس کالز اپنی بیوی کو کال کیا کرتا تھا اب وہ صرف اپنے بیڈ پر ٹیک لگائے ماہ نور کی تصویر کو سینے سے بھینچ کر زار زار روتا رہتا

"ہم سے ہماری ماں چھین لی منہاج شاہ!" اور ماہ نور کی موت کے ایک ہفتے بعد اس کے دونوں بیٹے اس کے اوپر چینخ رہے تھے۔

"ن۔نہیں میں نے نہیں مارا اسے! وہ مجھے چھوڑ گئی! میں کیسے رہوں گا! " وہ چینختا! اور پھر رونے لگ جاتا۔ کبھی کبھی اپنے آپ کو زخمی کردیتا۔ کمرے میں اب ماہنور کا نہیں بلکہ اس کا ہی خون ہوا کرتا تھا۔ اس نے ماہ نور کی موت کے بعد اس کا کوئی بھی سامان نہیں اٹھاوایا۔ ماہ نور کے کپڑے دس سال پہلے جہاں تھے وہ اب بھی وہاں تھے!۔"تم لوگ مجھے چھوڑ کر مت جانا کبھی!"

"ہم آپ کے نہیں ہیں! ہم صرف اپنی ماں کے ہیں جسے آپ نے ماردیا! وہ سسکتی رہی روتی رہی!!! کیا یہ تھی آپ کی محبت؟؟؟؟" زمان چینخا تھا۔

"تم لوگ مجھے چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤگے! تم دونوں بھی صرف میرے ہو!"

"ہم یہاں سے در بدر ہوجائیں منہاج شاہ!!!! زمان کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا! میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں! اس کے جسم پر آپ کے دیئے گئے نشانات نہیں دیکھ سکتا" امان پوری قوت سے چلایا تھا اور زمان کا ہاتھ پکڑ کر باہر جانے لگا۔ منہاج تیزی سے اٹھا اور دونوں کی جانب آیا۔ اور پھر وہی ہوا جو ماہ نور کے ساتھ ہوا تھا۔ گردن پر نشان منہاج نے اسی دن قائم کئے تھے! اب وہ انہیں بھی مارتا تھا ! کیونکہ اسے ڈر تھا کہ وہ بھی چھوڑ جائیں گے! دور چلے جائیں گے!۔ منہاج نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اس دن پہلی دفع اذیت ڈی۔ وہ انہیں خود سے قریب کرنا چاہتا تھا مگر انجانے میں خود سے دور کر بیٹھا۔

تم ہمیں اب جتنا بھی مار لو ! ہمیں تم سے نفرت ہے منہاج!" امان کے وہ لفظ منہاج کو تپتی دھوپ میں لا کھڑا کیئے تھے۔ اور تب منہاج کو سمجھ آیا کہ مار پیٹ سے کوئی آپ کا نہیں ہوجاتا! ماہ نور اسی کی تھی مگر پھر بھی وہ اسے مارتا رہا کہ اسے چھوڑ کر نہ جائے! وہ بچے اسی کے تھے! مگر وہ مارتا رہا کہ اسے چھوڑ کر نہ جائیں۔ وہ یہ بھول گیا یہ دنیا اسی کی تھی مگر اس مار پیٹ سے جو وہ سمجھتا تھا کہ وہ اس کے ہی رہیں گے بلکہ وہ اس سے دور ہوگئے!

اس نے پستول اپنی کنپٹی پر رکھی اور بغیر سوچے سمجھے چلادی!؛خون کے چھینٹے جو دس سال پہلے دیوار اور پردے پر آئے تھے وہ اب بھی موجود تھے! مگر رنگ تھوڑا بدل گیا تھا۔ زمان نے کرب سے آنکھیں میچیں۔ اسے یاد آیا کہ وہ اپنی باپ کی موت پر ساکت ضرور ہوا تھا مگر امان نے اسکا ہاتھ پکڑا تھا اور لے کر دوسرے کمرے آگیا تھا۔ امان سپاٹ لہجے میں بول رہا تھا۔

'تمھیں کیا ہوا! اچھا ہے اب اس گھر سے رونے کی آوازیں نہیں آئیں گی!" زمان بے سدھ سا امان کی گود میں لیٹ گیا تھا اور اسے کے بعد زمان نے جو ہنسی خوشی پیار بھرے پل ماہ نور کی زندگی میں منہاج کے ساتھ گزارے تھے وہی پل اس کے بعد اب وہ امان کے ساتھ گزاررہا تھا۔ امان منہاج کی کوئی عادت نہیں چرانا چاہتا تھا مگر اس کے باوجود ساتھ ساتھ وہ منہاج کا پیار کرنے کا انداز بھی چراگیا۔ وہ زمان سے اسی انداز میں لپٹا کر پیار کرتا مگر وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ وہ بڑے ہوگئے تھے امان ظاہر نہیں کرتا تھا مگر سب سے زیادہ پیار وہی زمان سے کرتا تھا۔ فرق دونوں میں اتنا تھا کہ امان اپنی محبت دکھاتا نہیں تھا اور زمان 24 سال کا ہو کر بھی امان سے یوں لپٹ کر اسے پیار کرتا جس پر کبھی کبھی امان کو چڑ بھی ہوجاتی! وہ اٹھا اور بستر کے اس سائڈ پر آیا جہاں ماہ نور لیٹا کرتی تھی۔ سائڈ ٹیبل پر موجود اس کا سامان پڑا تھا۔ لوشنز اور کاجل جو اب شاید ایکسپائر ہوچکے تھے۔ اس نے وارڈروب کھولا۔ ماہ نور کا ایک ایک جوڑا وہاں موجود تھا۔ اس نے دھیرے سے اس کے جوڑوں کو چھوا۔ ایک لال رنگ کا جوڑا جو وہ اکثر پہنتی تھی زمان نے اسے سوچنا چاہا۔ کہیں تو ملے گی ماں کی خوشبو۔ وارڈ رعب کی درازوں میں ماہ نور کا سارا زیور تھا۔ اس نے باپ کے سائڈ کا دروازہ کھولا۔

کوٹ پینٹ، پینٹ شرٹس، اور اس کے نکاح کا سوٹ موجود تھا۔ دراز کھولی تو منہاج کی بہت سے گھڑیاں موجود تھیں۔ اس نے وہ گھڑی اٹھا کر ہاتھ میں پہنی کی جو منہاج اکثر پہنا کرتا تھا۔

ان دس سالوں میں آج پہلی دفع اسے اپنے باپ کی شدت سے یاد آئی تھی۔ مان ماضی میں اتنا غرق تھا کہ اسے پتا ہی نہ چلی کہ اتنی رات ہوگئی! اور اب امان کے آنے کا وقت تھا۔ وہ اٹھا اور باپ ڈائری کو مضبوطی سے پکڑ کر جانے لگا۔ ایک بڑی سی تصویر دیوار پر لگی تھی۔ وہ منہاج اور ماہ نور کی شادی کی تصویر تھی۔ جس میں منہاج پھولے نہ سماتا اسے دیکھ کر رہا تھا اور ماہ نور شرم سے لال ہورہی تھی۔ اسے اپنا باپ اور اس کی محبت شدت سے یاد آئی۔ دل پھٹ رہا تھا۔

ہم تم کو جو یوں کھو بیٹھے!

تیری یاد ستاتی ہے ہر پل ہر دم!

وہ لمس وہ محبت ہم بھول گئے ہوں گے!

زندگی میں تم تو لازم و ملزوم تھے!

بھول جانے کا سوچ کیسے لیا تم نے!

ایک عمر تمھاری سائے میں ہم نے گزاری ہے!

محسوس ہوا جو منہاج شاہ نہیں بلکہ تصویر میں وہ ہی موجود ہے! امان اور زمان بنے بنائے منہاج شاہ تھے۔ وہی قد! وہی شکل و صورت! مغرور کھڑی ناک! کالے بال! اگر منہاج اور ماہ نور کو کھڑا کرکے اوروں سے پوچھا جائے کہ امان اور زمان ان دونوں میں سے کس کے بچے ہیں!تو لوگوں کے ہاتھ بے اختیار منہاج کی طرف اٹھتے! ماں سے زمان نے صرف معصومیت چرائی تھی۔ اسے باپ اپنے اور امان میں سے کوئی مختلف نہ لگا۔ وہ دونوں اپنے باپ کی جوانی تھے۔ اور یہ بھی ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ وہ شخص بچھر چکا تھا جس نے اپنے منہ کے نوالے بھی انہیں کھلائے تھے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ مسکرایا اور آنکھیں پونچتا باہر آگیا۔ کمرے کو اچھی طرح تالا لگا کر چابی بھی اپنی جگہ رکھ آیا۔ ہارن کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا اور وہ ڈائری اپنے کمرے کے بستر کی نیچے چھپا کر گیراج کی طرف بڑھا۔ وہ امان کو بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتا تھا کہ وہ اس وقت منہاج کے روم سے آرہا تھا۔ اسے اپنے باپ کا ماضی کنگھالنا تھا۔ بھلا یہ کوئی نارمل انسان کیسے کرسکتا تھا۔ وہ یہ ڈائری رات میں پڑھنے والا تھا۔

*----------------------------*----------------------*

"شانزہ آؤ رات کا کھانا کھالو!" وہ اپنے سیکنڈ ائیر کی کتابوں میں گھسی ہوئی تھی سر اٹھا کر ماں کو دیکھنے لگی۔

"کون کون ہے کھانے کی ٹیبل پر؟"

"سب ہی ہیں! عدیل کے سر کی پٹی چینج کردی ہے وہ بھی آگیا ہے ٹیبل پر!" شانزہ نے لب بھینچے۔

"میں رات میں کھالوں گی ماما! ابھی پڑھ رہی ہوں! آپ کو پتا ہے میرا آخری سال ہے کالج کا!" وہ پھر سے کتابوں میں عرق ہوگئی تھی

" لیکن پھر رات کو کھا لینا بھوکی نہ سونا!!" وہ اسے یاد کراتی چلی گئیں۔

"جی"

تھوڑی دیر بعد موبائل پر بپ ہوئی

اس نے بغیر دیکھے کال اٹھائی

"ہیلو!"

"ہیلو" ماقبل مسکرا کر بولا تھا۔ شانزہ کی ہڈیوں میں سنسنی سی دوڑی۔

"ج۔جی" وہ کانپی۔

"سہم کیوں گئی؟ فکر نہ کرو تم نے ابھی تک کچھ میرے خلاف کام نہیں کیا ہے! بس میں چاہ رہا تھا ایک اور ملاقات کا!"

شانزہ نے آنکھیں پھاڑیں۔

"مگر امان آج ہی تو۔۔۔"

"تو یہ کہ کل آجانا! ورنہ کہیں میں نہ آجاؤں" امان اس کی بات کاٹتا مسکرایا

"نہیں!" وہ ڈری۔ رمشا اس کے پیچھے کھڑی گفتگو سن رہی تھی۔

"تو پھر کل آؤ گی نا؟"

"ہ۔ہاں امان میں آؤں گی!"

"کلج کی واپسی پر"

"جی امان! ڈ۔ڈیڑھ بجے! مگر کچھ مت کیجئے گا آپ خدارا"

شانزہ رمشا کی موجودگی سے بےخبر تھی

رمشا مسکرائی اور خاموشی کمرے سے نکل کر ناصر صاحب کے پاس آگئی۔

"تایا ابا! میں کل یونی نہیں جارہی تو میں سوچ رہی ہوں کہ کل کالج کی واپسی پر ہم لینے چلیں شانزہ کو؟" وہ مسکرائی۔

"ہاں کہہ دو! ویسے بھی میں کل چھٹی ہی کررہا ہوں عدیل کی وجہ سے! "

"نہیں نہیں! ہم اسے کل سرپرائز دینگے!" وہ بناوٹی مسکراہٹ لبوں پر لائی۔

"ہاں چلو یہ بھی اچھا ہے! " انہوں نے اخبار پر نظریں مرکوز کیں۔

*-------------------------*----------------------*

"امان کھانا کھالو! نیچے چلو" امان اپنے کمرے کی ٹیرس پر کھڑا تھا۔ وہ جو کچھ سوچنے میں محو تھا چونکا۔

"ہاں چلو! سنو!؟؟؟ میں چاہتا ہوں تم لاہور والی برانچ کا وزٹ کر آؤ! وہاں کیسے حالات ہیں تمھیں اندازہ ہوجائے گا!" امان جانتا تھا کہ وہ جو چاہتا ہے زمان اسے نہیں کرنے دیگا۔

"وزٹ کرنے کا ارادہ تو تمھارا تھا نا؟" زمان چونکا۔

"ہاں مگر مصروفیت کے باعث وزٹ نہیں کرسکتا! میں چاہتا ہوں تم لاہور کل جاؤ! میں نہیں چاہتا انہیں تمھاری موجودگی کی بھنک پڑے۔ اچانک سے جاکر ہی پتا چلے گا کون کیسا کام کررہا ہے!" امان ہاتھ میں پہنی واچ کو دیکھتا ہوا بولا

"کل؟؟؟ اتنی جلدی؟ میری تو کوئی تیاری ہی نہیں اور نہ ٹکٹ لیا کک۔ک"

"ٹکٹ خرید لیا ہے تمھارا! کل صبح کی فلائٹ سے چلے جانا اور سامان تو پیک ہو ہی جائے دو ہفتوں کی تو بات ہے!" امان نے اسکی بات کاٹی۔

" اچھا چلو پھر جیسا تم کہو! مگر مجھے حیرانی ہورہی ہے کہ اتنی جلدی!" اس نے بات ادھوری چھوڑی۔

"صبح ہی سوچا تھا بس بتانا بھول گیا تھا! چھ بجے کی فلائٹ ہے کل تمھاری۔ آؤ چلو نیچے کھانا کھاتے ہیں ساتھ! پھر دو ہفتوں بعد ہی ساتھ کھانا کھا پائیں گے!" وہ اس کا ہاتھ تھام کے نیچے لے جانے لگا۔ یہ اس کی عادت میں شمار تھا۔ اس کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھنا۔ بچپن سے اب تک۔

*-----------------------------*-------------------------*

زمان ڈائری کے پڑھنے ارادہ ترک کرکے آج جلدی سوگیا کہ صبح کی فلائٹ یے۔ صبح پانچ بجے امان اس کے کمرے میں آیا۔

"زمان اٹھ جاؤ!! ایک گھنٹے میں تمھاری فلائٹ ہے!" وہ اسے آواز دیتا اس کا پیک ہوا سامان دیکھنے لگا۔ مگر وہ بے سدھ سورہا تھا۔

"زمان " اس نے پھر آواز دی۔ مگر وہ اس بار بھی نہ اٹھا۔ امان چلتا ہوا اس کے سرہانے بیٹھا اور بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔

"اٹھو یار ٹائم تو دیکھو زمان"

"اٹھ رہا ہوں" وہ کسمایا اور سر اس کی گود میں رکھدیا۔ امان گہری سانس لے کر رہ گیا۔ اس نے سائڈ ٹیبل پر نگاہ دوڑائی تو ایک ڈائری رکھی۔ وہ متحیر ہوا اور ڈائری ہاتھ میں لی۔

"تم کب سے ڈائری لکھنے لگے" وہ حیرانی زمان سے پوچھ رہا تھا ۔ ڈائری کے لفظ سے زمان چونکا۔ قریب۔ تھا کہ وہ ڈائری کھولتا زمان نے اٹھ کر جھپٹ کر پکڑی ۔

"کچھ دنوں سے لکھنے لگا ہوں! اس کو مت پڑھنا! ساتھ لے کر جاؤ گا" اس نے جھوٹ بولا۔ امان نے بنھویں اچکائیں۔

"اب ایسے کیا دیکھ رہے ہو میں لیٹ ہورہا ہوں ہٹو" زمان اسنے گھورتا زمین پر کھڑا ہوا

"میرے لئے ناشتہ تو بنوادو بھوکا جاؤں گا کیا ؟" وہ منہ بنا کر بولا۔

"چلو تیار ہوکر نیچے آجانا"وہ اثبات میں سر ہلاتا مڑگیا ۔ زمان نے سکون کا سانس لیا۔

اس نے تیار ہوکر اپنا سوٹ کیس کھولا۔ منہاج کی ڈائری اس میں رکھ کر بند کردیا۔ وہ اب یہ ڈائری لاہور میں ہی پڑھنے والا تھا۔ امان اسے ایئرپورٹ چھوڑ کر آیا تھا۔ ہاتھ ہلاتا زمان نے مڑ کر بھائی کو اللہ حافظ کہا تھا۔ امان کو دل پر دباؤ محسوس ہوا۔ زمان مڑ گیا۔ جاتے جاتے زمان کا دل کیا ایک بات بھائی کو مڑ کر دیکھے۔ دو ہفتوں کی دوری آسان نہیں تھی۔ مگر ہمت ہی نہ ہوئی۔ امان اپنی جگہ پر ساکت کھڑا اسے جاتا دیکھ رہا تھا مگر زمان کے قدم مچلنے لگے۔ وہ چینخ چینخ کر کہنے والا تھا کہ یا تو وہ اس کے ساتھ چلے یا پھر وہ بھی نہیں جانا چاہتا۔ مگر بھائی کا حکم بھی تو ماننا ہی تھا۔ وہ سر جھکائے جلدی جلدی چلنے لگا۔

*------------------------*---------------------*

آج بھی فاطمہ نہیں آئی تھی۔ عدیل کی حالت اب بھی ٹھیک نہیں تھی۔ وہ جاب پر بھی نہیں جارہا تھا۔ شانزہ کے رویہ سے وہ گھبرایا ہوا تھا۔ ایک انجانا سا ڈر تھا کہ اسے میرے علاؤہ کوئی اور تو پسند نہیں آگیا۔ وہ اسے جھڑک کر بات کررہی تھی۔ شانزہ کا دل کسی نے مسل دیا تھا جب عد نے اس سے یہ کہا تھا۔

"کیا تم کسی اور؟" عدیل نے خود ہی بات ادھوری چھوڑی تھی۔

"نہیں! اور پلیز میں کسی سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں!" وہ سختی سے کہہ گئی تھی۔ اس کا یہ جھڑکنا عدیل کے دل کو خون کے آنسو رلا گیا تھا۔ فاطمہ اس کے رویہ سے الگ پریشان تھی۔ بدلا بدلا سا رویہ اسے بہت تنگ کررہا تھا۔ ایسے میں رمشا کو چھوڑ ملی ہوئی تھی۔ وہ اپنی دوست لائبہ اور علینہ کو ہنس ہنس کر واقعہ سناتی۔ علینہ اس سب میں اس کا ساتھ دیتی بلکہ طرح طرح کی تجویزیں بھی اس کے گوش گزار کرتی رہتی مگر لائبہ کو رمشا پر افسوس ہوتا۔

"کتنا ٹائم ہے اور!!؟؟؟"

"کیا ہوگیا شانزہ؟؟؟؟ دو دنوں سے بس تم چھٹی کا انتظار کیوں کررہی ہوتی ہو؟ اور وہ شخص کون ہے شانزہ؟ " سبین نے آنکھیں پھاڑیں۔

"میں جلدی سے گھر جانا چاہتی ہوں سبین! وہ آج بھی ملاقات کے لئے آئے گا! میں تمھیں تفصیل نہیں بتاسکتی بس یہ بتاسکتی ہوں کہ مجھے اس شخص سے ملنے کی جلدی نہیں ہے بلکہ میں گھر جلدی جانا چاہتی ہوں! دیکھو یہ ملاقاتوں کا سلسلہ کب ختم ہوتا ہے! کب اس شخص سے میری جان چھٹتی ہے!" وہ نگاہیں ایک جگہ ساکت کرکے بول رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں چھٹی ہوئی اور مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے باہر آگئی۔ امان وہاں پہلے ہی موجود تھا۔ امان کے نام سنتے ہی اس کے چہرے پر دہشت طاری ہو جاتی تھی۔ وہ آہستہ قدموں سے اس کی جانب بڑھی۔ امان اس کو قریب آتا دیکھ کر گاڑی کو ریورس کرکے کالج کی گلی میں لگانے لگا۔ وہ گلی ویران تھی۔ وہ چلتی ہوئی اس قریب آئی۔

"اسلام علیکم" شانزہ نے سر جھکائے کہا۔

"وعلیکم اسلام! کیسی ہو؟" امان نے ایک انگلی اسکی ٹھوڑی پر رکھ رکھ کر اس کا سر اٹھایا۔

"جج۔جی ٹھیک ہوں! آپ کو کوئی بات کرنی تھی؟"

"بلکل!"

"جی میں سن رہی ہوں!"

"نکاح!" امان نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑی۔

"نکاح کیا؟" وہ نا سمجھنے والے انداز میں بولی۔

"کب کرنا ہے نکاح؟ کب ماؤں رشتہ تمھارے گھر!" زیر لب مسکراتے ہوئے اس نے اسکی آنکھوں میں جھانکا جہاں بلا کی حیرانی تھی۔

"کیا مطلب آپکا؟ مم۔میں نکاح نہیں کروں گی آپ سے!" وہ ماتھے پر بل ڈالے بولی۔

"تو میں کرلوں گا نکاح تم سے! " وہ بنھویں آچکا کر کہتا اسے اپنے قریب کر گیا۔

ناصر صاحب نے گاڑی گلی سے کچھ پیچھے روکی۔

"جاؤ رمشا کالج سے شانزہ کو بلا آؤ".

"نہیں تایا ابا آپ بھی چلیں" وہ گاڑی سے نکل کر ناصر صاحب کے دوسری طرف آئی۔ ناصر صاحب گاڑی سے نکلے اور کلج کی گیٹ کی جانب بڑھے۔

وہاں شانزہ کا پوچھا تو گارڈ نے بتایا وہ ایک شخص آیا تھا ملنے! وہ ان سے ابھی یہیں کھڑی بات کررہی تھی۔ ناصر صاحب حیران ہوئے۔

"کون شخص؟"

"ایک لڑکا تھا! بڑی گاڑی میں آیا تھا! میرا خیال ہے اس نے گلی ریورس کیا ہے آپ وہا دیکھ لیں" ناصر صاحب کچھ نہ سمجھتے ہوئے چلتے ہوئے گلی کے کونے تک آئے۔ رمشا کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"مگر امان!" اس نے بات ادھوری چھوڑی۔

"نکاح نہیں کرو گی تو گھر سے لے جاؤں گا!" وہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس سے بول رہا تھا۔

"مگر میں آپ سے نکاح کرنا نہیں کروں گی! ایک بات یاد رکھئے گا! شانزہ ناصر صرف عدیل جاوید کے لئے ہے۔۔۔۔" امان مسکرایا کیونکہ اب وہ تہیہ کرچکا تھا کہ وہ اسے کیا کرنا ہے! اسی دم اس کی نگاہ ناصر صاحب اور ان کے برابر کھڑی رمشا کی طرف اٹھی تھی۔ لال ہوتے چہرے سے وہ شانزہ۔گھور رہے تھے اور رمشا بھی آنکھوں میں فرضی حیرانی لائی۔

"یہ کون ہے شانزہ؟؟؟؟ یہ کس کے ساتھ کھڑی منہ کالا کررہی ہو جس نے تمھیں کمر سے پکڑا ہوا ہے!" شانزہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

"نہیں وہ۔۔۔ وہ مم۔میں!" اسے کچھ سمجھ نہ آیا۔ امان نے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ خاموش کھڑا تماشا دیکھتا رہا۔

"اوہ تو یہ وہی ہے جس سے تم راتوں راتوں باتیں کیا کرتی تھیں نا؟" شانزہ آنکھیں پھاڑیں رمشا کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

"امان کچھ بولیں ! ان سے کہیں ہمارے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے" شانزہ کی آنکھ سے آنسو ٹپکا۔

ناصر صاحب اس کو ششدر ہوئے دیکھ رہے تھے۔

چہرہ لال بھبھوکا ہورہا تھا۔

"ہاں تو؟ محبت کرتا ہوں تم سے! دیکھ لو بول دیا سچ!" وہ مسکرایا۔ ناصر صاحب کے کانوں دھواں نکلا وہ شانزہ کے قریب آئے اور کھینچتے ہوئے گاڑی میں بٹھایا اور اندھا دھن گاڑی آگے بڑھالی۔ امان وہیں رہا جہاں وہ کھڑا تھا۔

"بس دس منٹ اور" وہ گھڑی کی جانب دیکھتا ہوا بولا۔

*-----------------------*----------------------*

ایک تھپڑ شانزہ کے چہرے پر پڑا تھا جس سے وہ زمین پر گری تھی۔۔۔ نفیسہ بھاگتی ہوئی آئی تھیں۔

"کیا ہوا " انہوں نے شانزہ کو تھاما

"پوچھو اپنی بیٹی سے کس کے ساتھ گل چھڑے اڑا رہی تھی" وہ پوری قوت سے چینخے۔ عدیل بھی لنگڑاتا ہوا آیا تھا اور اب بے یقینی سے سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ جاوید صاحب اور صبور بھی نیچے آگئے تھے۔ فاطمہ جو نماز کرکے بیٹھی تھی بھاگتی ہوئی آئی تھی۔

"کون تھا وہ لڑکا" وہ اس کے قریب آئے اور اسے بالوں سے پکڑ کر جنجھوڑ ڈالا۔ شانزہ کی درد کے مارے چینخیں نکل گئیں۔

"ہوا کیا ہے اسے چھوڑیں! کیا کررہے ہیں آپ ناصر!" نفیسہ شانزہ کو ان سے الگ کرنے لگیں۔

"تائی آپ دور ہٹیں! وہ کچھ غلط نہیں کررہے ہیں! ہم جب اسے لینے پہنچے یہ کسی لڑکے کے ساتھ کھڑی تھی! اور وہ لڑکا اسے کمر سے پکڑ کر اپنے قریب کیا کھڑا تھا! " رمشا نے بتایا۔ وہاں کھڑے سب افراد ششدر رہ گئے۔ عدیل کی جان جیسے حلق میں اٹک گئی۔

"اور یہ وہی لڑکا تھا جس کے آدمیوں نے عدیل کو مارا تھا! یہ سب شانزہ کی سازش تھی! وہ عدیل سے منگنی پر کبھی خوش نہیں تھی بلکہ وہ اس سے جان چھڑانا چاہتی تھی! کبھی اس نے اپنے عاشق کے ساتھ یہ سب پلان کیا کہ وہ عدیل کو اتنا مارے کہ اس میں کوئی عیب آجائے اور اسے چھوڑنے میں آسانی ہو! ہاں مگر عیب تو نہ آیا بلکہ یہ الٹا پکڑی گئیں! " شانزہ اس کے سفید جھوٹ پر بلبلا اٹھی۔

"یہ جھوٹ کہہ رہی ہے" وہ پوری قوت سے چینخی!

عدیل ساکت ہوا۔

"اچھا میں جھوٹ کہہ رہی ہوں؟ تو یہ بتاؤ کہ عدیل سے دو دن سے اتنا روکھی روکھی کیوں ہو؟ اس لئے نا کہ تم اپنے ارادے میں جیت نہیں پائی! سب کی عزت مٹی میں ملادی!" رمشا پھر چینخی اور صدمہ سے سر پکڑ لیا۔

"مم۔مگر نہیں! تت۔تم جھوٹ بول رہی ہو! میں عدیل کے ساتھ کبھی بھی یوں نہیں ہونے دے سکتی! اس نے مجھے دھمکی دی تھی! اور اگر میں اس کی بات نہ مانتی تو وہ عدیل کو ماردیتا! مجھے اسکی ہر بات ماننی پڑی ورنہ ہم سب عدیل کو کھو دیتے!" وہ روتے ہوئے گڑگڑانے لگی۔

"جھوٹ بول رہی ہو تم" ایک اور تھپڑ شانزہ کے منہ پر پڑا تھا جس سے اس کا ہونٹ پھٹ گیا تھا۔ ناصر صاحب نے اس کو بال سے پکڑ کر اٹھایا۔ نفیسہ بیگم چینختی رہ گئیں۔

"کاش تم پیدا ہوتے ہی مرگئی ہوتی! یا بے اولاد ہی رہتے!" وہ الفاظ نہیں خنجر تھے جو ناصر صاحب نے اس کی کمر پر گھونپ آئے تھے۔ اس نے تڑپ کر اپنے باپ کو دیکھا تھا۔

"دفع ہو جاؤ یہاں سے" وہ آہستہ مگر پھتر آواز میں بولے تھے۔ شانزہ ساکت سی کمرے کی جانب بڑھنے لگی کہ انہوں نے اسے بازو سے کھینچا۔

"اندر نہیں شانزہ! باہر! گھر سے دفع ہو جاؤ! جو اپنے باپ کی عزت نہ رکھ سکے ان اولادوں کو مر ہی جانا چاہئے!" ایک ایک لفظ کانٹا تھا جو بار بار اس کے جسم میں چبھویا جارہا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرا گئیں۔۔ اس نے مڑ کر عدیل کو دیکھا۔

"عدیل! کیا تمھیں مجھ پر یقین نہیں ہے؟ کیا تمھیں لگتا ہے کہ شانزہ ایسی ہوسکتی ہے؟" عدیل کی نگاہیں اس پر اٹھیں۔ وہ ساکت سا اسے دیکھ رہا تھا۔ مگر پھر جلد ہی اس نے نگاہیں پھیر دیں۔ اب ساکت ہونے کی باری شانزہ کی تھی۔ وہ کچھ لمحے اسے ناقابل یقینی سے دیکھتی رہی اور پیر باہر کی جانب موڑ لئے۔ اب کچھ نہیں بچا تھا! کچھ بھی نہیں! جب محبت ہی ماننے سے مکر گئی تو اب بھی کچھ بچا تھا؟ نفیسہ بیگم چینختی چلاتی رہ گئیں مگر وہ نہیں رکی اور صحن عبور کرگئی۔

"اب مناؤ جشن نفیسہ کہ تم نے ایک بیٹی کو جنم دیا" کڑوے طنزیہ لہجے میں کہتے وہ کمرے کی جانب مڑ گئے۔

*-------------------*------------------*

وہ حواس باختہ دس منٹ سے روڈ پر کھڑی تھی۔ بال بکھرے ہوئے اور ہونٹ سے خون رس رہا تھا۔ ابھی وہ کچھ سوچتی ہی کہ ایک گاڑی آکر رکی۔ اس میں سے نکلنے والے شخص کو سات پردوں کے باہر بھی پہچان سکتی تھی۔ وہ اس کے قریب آیا اور بازو سے پکڑتے ہوئے تقریباً گھسیٹ کر گاڑی میں بٹھانے لگا۔ وہ چینختی چلاتی رہ گئی مگر اس کے کان میں جوں نہ رینگی۔

"چھوڑیں مجھے کک۔کہاں لے کر جارہے ہیں!" وہ دروازہ کھولنے لگی۔ امان اندھا دھن گاڑی چلا رہا تھا۔

"ایسا مت کریں! کیوں لے کر جارہے ہیں اور کہاں؟" وہ رونے لگی۔

"بیوی بنانے لے جارہا ہوں اور تمھارے سسرال!" آگے کی سمت دیکھتے ہوئے اس نے مختصراً جواب دیا۔

"نن۔نہیں! مجھے چھوڑیں پلیزز!! خدارا یوں نہ کریں!! مجھے نہیں کرنا نکاح آپ سے!" وہ چینخی! مگر امان نے کان میں جوں نہ رینگی۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر ہارن بجایا۔ چوکیدار نے دروازہ کھولا تو اس نے گاڑی اندر لا کر پارک کی۔ عالی شان عمارت کو دیکھ کر شانزہ کا دل خوف سے پھٹنے لگا۔ امان اترا اور دوسری جانب کا دروازہ کھول کر اسے اتارا۔ شہنواز اور سلیم بھاگتے ہوئے آئے!

"قاضی اور گواہوں کا انتظام کرو!" وہ حکم دیتا اسے کھینچتا اپنے کمرے میں لے آیا۔ ایک ہاتھ گلے پر رکھ اس نے اسے خود سے قریب کیا۔

"آج کے دن تم میرے نام کردی جاؤ گی! اور اس کے بعد اگر زبان پر عدیل کا لفظ آیا تو امان شاہ ہر کھیل کا ماہر کھلاڑی ہے" دانت پیس کر کہتے ہوئے اس نے شانزہ کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔ شانزہ کو اسکی سانسیں اپنے چہرے پر محسوس ہوئیں۔ حلق سے ایک لفظ ادا نہ ہو پایا۔

"آج کے بعد تمھارے لب "امان" کا نام دہرائیں گے! وہاں جاؤ گی جہاں امان اجازت دے گا! اور امان صرف وہاں اجازت دے گا جب وہ خود تمھارے ساتھ ہوگا! میرے پیچھے اس گھر سے باہر قدم نکالا تو یہ ٹانگیں کاٹ ڈالوں گا! اور یہاں سے بھاگنے کا سوچنا مت کیونکہ جب میرے اندر غصہ جنم لیتا ہے تو میں وحشی درندے کا روپ لے لیتا ہوں" وہ کہہ کر پلٹا، مگر جاتے جاتے پلٹ کر اسے دیکھا۔

"میں کمرے کا دروازہ لاک نہیں کررہا کیونکہ میں جانتا ہوں اب تم میری قید سے قیامت تک نہیں نکل سکتی!" وہ کہہ کر چلاگیا۔

شانزہ گویا اپنے حواس کھونے لگی۔۔

اس ایک گھنٹے میں کیا کیا ہوچکا تھا اس کی زندگی میں۔۔۔۔

ایک ہی وقت میں زندگی کا دوسرا رخ دیکھنے کو مل گیا تھا۔

"نن۔نہیں مجھے جانا ہے! مم۔مجھے یہاں نہیں رہنا م" وہ رونے لگی۔ بھاگتی ہوئی دروازے کی طرف آئی۔ گارڈز سیڑھیوں پر ہی کھڑے تھے۔ وہ سہم کر پھر اندر آگئی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے! زمین پر سر پکڑ کر بیٹھتی چلی گئی۔

*---------------------------*----------------------*

وہ سارا دن بزی ہی رہا۔ رہ رہ کر نظر منہاج کی ڈائری ہر پڑتی۔ مگر وہ آج وقت نکال لے گا اسے یقین تھا۔ شام ہونے کو تھی اور اسے شدت سے رات کا انتظار تھا۔ امان کو کال کی تھی مگر امان شاید مصروف تھا اس لیے زیادہ بات نہیں ہوپائی۔ وہ ڈائری جس میں ایک شخص کی موت تک لکھے گئے الفاظ موجود تھے۔ جن میں آنسو بھی تھے! خوشی بھی تھی! خون بھی تھا! اور سکون بھی تھا۔ وہ ان لفظوں کا مطلب نکال لے گا اسے یہ بھی یقین تھا۔ اس کا باپ اتنا ظالم نہیں تھا وہ یہ بھی جان لے گا! ماضی منہاج کو بھی کھا گیا تھا وہ یہ بھی جان لے گا! دردِ دل بڑھ جائے گا وہ یہ جانتا تھا! مگر وہ حقیقت جان کے رہے گا اس نے یہ ٹھان لیا تھا۔

*-----------------------*-----------------------*

وہ کمرے میں آیا اور اس کے آگے چار پانچ شاپنگ بیگز رکھے اور اس کے سامنے بیڈ پر بیٹھا۔ وہ سہم گئی۔ اس نے ڈوپٹہ اپنے شانوں پر ٹھیک طرح اوڑھا اور برستی نگاہوں سے اسے دیکھا۔

"ان میں شادی کے جوڑوں کے ساتھ کچھ اور بھی سامان ہیں۔ چونکہ میں مرد ہوں تو میک اپ کا اتنا نہیں پتا تھا اس لئے تقریبآ سارا ہی اٹھا لایا۔ شادی کے دو جوڑے ہیں! ایک سفید ہے اور ایک لال! گھر میں عورتیں نہیں ہیں میری اس لئے مجھے علم نہیں ہے شادی کے موقع پر ذیادہ تر کونسا رنگ پہنا جاتا ہے!" وہ بس بولا ہی جارہا تھا اور شانزہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔

"مگر مجھے نکاح نہیں کرنا!" وہ چینخی۔

"یہ لال جوڑا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے ایسا کرنا ابھی یہ پہن لینا" اس نے جوڑا نکال کر اپنے آگے رکھا۔

"میں پہنوں گی ہی نہیں یہ جوڑا" وہ نفی میں سر ہلاتی ہوئی بولی۔

"بیوٹیشن آرہی ہے کچھ وقت میں! تمھیں تیار کر جائے گی! بہتر یہی ہے کہ تم شاور لے کر یہ جوڑا پہن لو! کیونکہ نکاح کی مجھے بے حد جلدی ہے! " وہ اس کی بات اگنور کئے اپنی دھن میں کہہ رہا تھا۔

اس کی آنکھیں لال ہوگئیں۔

"میرے ساتھ زبردستی کریں گے؟" وہ دھیمے مگر ٹوٹے لہجے میں بولی۔

"آج سے پہلے تمھاری سنی ہے کیا؟" گہری نگاہ اس پر ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔

"مم۔مجھے نہیں کرنی شادی! مم۔مجھے گھر چھوڑ آئیں! آپ کی وجہ سے ہوا ہے سب! میں اور عدیل بہت خوش تھے مگر درمیان میں آپ آئے امان!" وہ چینخی مگر وہ اس سب میں یہ بھول بیٹھی کہ جس نام کو لینے کے لئے اس نے منع کیا تھا وہ اس نے ایک بار پھر لیلیا تھا.

"گارڈز" وہ اتنی زور سے چینخا کے شانزہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔ دو گارڈز اندر آئے۔

"جی دادا!"

"تیز دھار والا چاقو لاؤ اس کی زبان کاٹنی ہے" شانزہ کی تڑپ سے چینخیں نکلیں۔۔ گارڈز نے جیب سے ہی نکال کر دیدیا۔ امان نے انہیں جانے کا اشارہ کیا اور اس کے قریب آیا۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے پیچھے ہوئی۔

"منہ کھولو" اس نے شانزہ کو جبڑے سے پکڑ کر خود کے قریب کیا۔

"کیوں" وہ درد سے کراہی۔

"اب نہیں نکلے گا عدیل کا نام تمھاری زبان سے! منہ کھولو" وہ چینخا۔

"امان! امان نہیں! معاف کردیں امان۔۔۔۔۔۔ خدارا! اب کبھی بھی نہیں ہوگا میرا آپ سے وعدہ ہے!" وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

"آواز بند اب!" اس نے چاقو نیچے کیا۔ شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھا تاکہ آواز نہ آئے۔

"مجھے ابھی بھی آواز آرہی ہے!" وہ سختی سے بولا۔

"میں نہیں رورہی نا" وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔

"ہاں ہنس رہی ہو تم تو" وہ طنزیہ بولا۔

"میں جارہا ہوں دس منٹ میں بیوٹیشن آجائے گی! شاور لے کر کپڑے چینج کرو! کچھ گھنٹوں میں نکاح ہے ہمارا" وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ شانزہ نے روتے روتے دیوار سے ٹیک لگالی۔

*------------------------*-----------------------*

"21 جون"

" ہائے ڈائری! میری آج تم سے پہلی ملاقات ہے۔ اوہ میں نے تمھیں نام نہیں بتایا ۔ میرا نام منہاج سمیع ہے کیونکہ میرا پاپا کا نام سمیع شاہ ہے۔ اس لئے میرا نام بھی منہاج سمیع شاہ ہے! لیکن مجھے سمیع نام اپنے آگے لگانا ذیادہ پسند نہیں اس لیے میں سب کو اپنا نام "منہاج شاہ" بتاتا ہوں! کیا تم میری دوست بنو گی؟ میں ماما سے کہتا ہوں مجھ سے بات کریں لیکن وہ کہتی ہیں ان کے پاس میرے لئے وقت نہیں! وہ مصروف رہتی ہیں! بابا اور ماما کی اکثر لڑائی رہتی ہے اس لئے بابا آفس سے دیر سے آتے ہیں جبھی میں ان سے مل نہیں پاتا! میں چاہتا ہوں کہ کوئی میری باتیں سنے اور سمجھے! لیکن لگتا ہے نہ بابا کو اور نہ ماما کو مجھ سے دلچسپی ہے۔ کل میں بہت رویا اور ماما سے کہا کہ کوئی تو میری باتیں سنے اور آج انہوں نے اتنی پیاری سی ڈائری میرے حوالے کی اور کہا کہ میں ڈائری لکھا کروں!!ارے میں نے تمھیں اپنے باری میں کچھ نہیں بتایا۔ میں 10 سال کا ہوں اور پانچویں کلاس کا میں پڑھتا ہوں۔ میرا پسندیدہ رنگ بلو ہے! ٹیچرز مجھے کہتی ہیں کہ میں بہت ذہین ہوں۔

بائے ڈائری ماما مجھے رات کے کھانے کے لئے بلا رہی ہیں۔ لگتا ہے آج بابا غصے میں ابھی تک گھر نہیں آئے۔ہم کل ملیں گے۔ تمھارا بہتریں دوست جو صرف تمھارا ہے منہاج "

زمان نے صفحہ پلٹا۔

"22 جون"

"ڈائری تم بہت موٹی ہو ہاہاہا"

زمان پڑھ کر بےاختیار مسکرایا۔

"23 جون"

"سوری ڈائری میں نے تمھیں موٹی کہا۔ لیکن تم مجھے موٹی اچھی لگتی ہو۔ میرے کچھ دوست بھی ڈائری لکھتے ہیں لیکن ان کے پاس میری جتنی موٹی ڈائری نہیں! وہ اپنی پوری زندگی اپنی پتلی سی ڈائری میں نہیں لکھ پائیں گے! انہیں کچھ عرصے بعد ہی دوسری ڈائری خریدنی پڑ جائے گی! مگر میں نہیں سمجھتا۔ میں اپنی پوری زندگی کی کہانی تمھارے صفحوں پر ہی لکھنا چاہتا ہوں۔ وہ ڈائری بدل کر نئی لیتے جائے گے جیسے کوئی دوست بدل رہے ہوں۔ مگر مجھے صرف تم پسند ہو! میں تمھاری جگہ اور کسی کو نہیں دوں گا! ویسے ایک بات تو بتاؤ! کیا میں واقعی بہت بولتا ہوں؟ میری ٹیچرز کہتی ہیں کہ میں بڑی بڑی باتیں کرتا ہوں۔ وہ مجھ سے پوچھتی ہیں کہ مجھے کیا ہوا ہے!؟ اور پھر پوچھتی ہیں کہ یہ باتیں تم نے کہاں سے سیکھیں! ڈئیر ڈائری میں ابھی صرف دس سال کا ہوں اور مجھے نہیں لگتا کہ یہ باتیں میں نے کہیں سے سیکھی ہیں۔ میری ماما کو بابا بلکل بھی نہیں پسند۔ وہ ان سے بدتمیزی کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ بابا ان کو طلاق ریں۔ ڈئیر ڈائری! یہ طلاق کیا ہوتی ہے؟ کیا اس کے بعد ماما بابا سے نہیں ملیں گی؟! مجھے ماما بہت پسند ہیں اور بابا بھی! مگر وہ سارا دن فون پر بھی بابا سے لڑتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ مجھے ڈر لگتا ہے مگر میں کبھی خاموش رہتا ہوں اور کبھی چھپ چھپ کر رو لیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا ماما ہمیں چھوڑ کر جائیں۔!کل میرے اسکول میں پیرنٹس ٹیچر میٹنگ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ ماما اور بابا دونوں میرے ساتھ چلیں۔ میرے سارے دوست ہمیشہ اپنے ماما پاپا کے ساتھ آتے ہیں! اور وہ تو ساتھ گھومنے بھی جاتے ہیں مگر میری ماما پاپا سے لڑتی ہیں جو مجھے پسند نہیں۔ آج بابا آئیں گے تو میں ان سے کہوں گا۔ ماما کو منانا مشکل ہے مگر امید ہے وہ مان جائیں گی۔ بائے بائے۔ (اور آگے دل کا بنایا ہوا تھا)"

تو کیا دادا اور دادی ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں تھے؟ زمان کے دماغ میں جھماکا ہوا۔

"23 جون رات کا وقت"

"مبارک ہو تم کو بابا اور ماما مان گئے! میں ماما کے سامنے اتنا رویا کہ ماما کو ماننا پڑا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ میں اپنے دوستوں کی طرح اپنے پیرنٹس کے ساتھ جاؤ گا۔ بابا نے کہا ہے وہ واپسی میں آئس کریم بھی کھلائے گے! بائے ڈائری! رات ہوگئی ہے اور اب مجھے لگتا ہے کہ خوشی کے مارے مجھے نیند نہیں آنے والی! میں تمھیں کل بتاؤں گا ابھی کے لئے خدا حافظ"

زمان نے تیزی سے صفحہ پلٹا! وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگلا دن اس کا کیسا گزرا۔

"26 جون" یہ تو 26 کی ہے! 24 کی کدھر ہے؟ وہ ڈھونڈنے لگا۔ شاید منہاج نے لکھی ہی نہیں تھی۔

"26 جون"

"کیسی ہو ڈائری؟ مگر میں ٹھیک نہیں ہوں۔ مجھے رونا آرہا ہے۔ مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا! ہم اس دن گئے تھے میٹنگ میں مگر ماما اور بابا وہاں سب کے سامنے جھگڑنا شروع ہوگئے تھے۔ میری ٹیچرز اور دوست انہیں دیکھ کر حیران ہوئے تھے اور دوست دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں بہت رورہا ہوں ڈائری! آئم سوری میں میرے آنسو تمھارے صفحے گیلے کررہے ہیں۔ لیکن یہ سوکھ جائیں گے کوئی بات نہیں۔ میں کل اسکول گیا تھا اور میرے دوست مجھے دیکھ کر ہنس رہے تھے۔ میں اب اپنے ماما اور پاپا کو کہیں لے کر نہیں جاؤنگا! وہ دونوں لڑتے رہتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔ میں ان سے اتنا ناراض ہوگیا ہوں اب کہ میں نے کل رات کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج صبح کا ناشتہ بھی نہیں کیا۔ لیکن میں چھوٹا ہوں نا؟ تو میرے جسم کے اعضاء بھی چوٹے ہیں۔ اب مجھے بھوک لگ رہی ہے مگر ماما کو میری فکر نہیں۔ اب دوپہر ہوگئی ہے سوچ رہا ہوں کہ ماما کی غیر موجودگی میں کھالوں تھاکہ انہیں خبر نہ ہو۔ مجھے امید ہے بابا مجھے کال کریں گے اور کہیں گے کہ کیا میں نے کھانا کھایا؟۔ میں ناراضگی سے کہوں گا نہیں پھر دیکھنا وہ آج میری وجہ سے جلدی آئیں گے اور میرے لئے چیزیں بھی لے آئی گے۔ میرے پاس بہت سارے بڑے موبائل ہیں۔ مگر مجھے ان میں اپنا دوست نہیں مل سکا جو مجھے تم میں مل گیا۔ کیا میں زیادہ بول رہا ہوں؟ لیکن تم بہت اچھی ہو! کم از کم یہ نہیں بولتی کہ منہاج بس کرو میرے سر میں درد ہورہا ہے! ہاں ماما ضرور کہتی ہیں۔ اور پتا ہے کیا اب میں رو نہیں رہا! اب میں بابا کی کال کا انتظار کررہا ہوں! لو میرے موبائل کی بیل بجی رہی ہے۔ میں آتا ہوں"

"بابا کا فون تھا وہ میرے لئے آج گھر آرہے ہیں! ماما ان کے گھر آنے کا سن کر کسی پارٹی میں چلی گئی ہیں اب گھر میں صرف میں اور ملازم ہیں۔یہ پہلی دفع نہیں ہے! خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ یونہی کرتی ہیں!۔ میں ہوم ورک کرنے جارہا ہوں اللہ حافظ"

زمان نے ایک ساتھ کرنے صفحات آگے کئے۔

"22 اگست"

"آج ماما پاپا پھر لڑے اور میں روتا رہا",

"23 اگست"

"میں روز کی لڑائیوں سے تھک گیا ہوں! میں اب اندھیرے میں چیختا ہوں! کیا میں پاگل ہوگیا ہوں؟"

"26 اگست"

"اگر میں نہیں ہوتا تو کیا پھر ماما پاپا کے ساتھ خوش ہوتیں؟"

"28 اگست"

"ماما چینختی ہیں! مجھ پر بھی اور پاپا پر بھی"

اس نے پھر بہت سے صفحات آگے کئے

"آج میں گیارہ سال کا ہوگیا ہوں اور پاپا چاہتے ہیں کہ ہم تینوں مل کر کہیں لنچ کریں۔ پاپا نے ماما سے کہا مگر ماما کہتی ہیں کہ وہ یہ سب کرکے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں جبکہ انہیں طلاق چاہئے۔ اور آج کا دن بھی برباد ہوگیا۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

زمان نے ایک صفحہ آگے کیا۔

"5 اکتوبر"

"میں تکلیف میں ہوں۔ طلاق کا مطلب جو جان گیا ہوں۔ پاپا خاموش ہیں کیونکہ ماما کی ضد بہت بڑھ گئی ہے۔ لگتا ہے پاپا میری ماما کو بہت چاہتے ہیں۔ میں بہت دکھی ہوں! ماما اس دن غصے میں تھیں! مجھے اس بات کا علم نہیں تھا۔ میں نے ان کی گود میں سر رکھا تو انہوں نے میرا سر جھٹک دیا اور کہاں پتا نہیں کیوں میں مصیبت پیدا ہوگیا ہوں! میں رورہا ہوں ڈائری! میں اور زیادہ رونا چاہتا ہوں۔ میں تو صرف روتا ہی رہتا ہوں۔ کیا میں پاگل ہوں ڈائری؟خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ "۔

زمان نے تھوک نگلا اور پھر سے بہت سے صفحے آگے کئے۔

"میری دکھ درد کی ساتھی بھی صرف تم ہو! اور تم بھی صرف میری ہو۔ کاش میری ایک چھوٹی سی بہن ہوتی۔ مجھے بہنیں بہت پسند ہیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ وہ مجھے اللہ میاں سے بہن کے کر دیں مگر انہوں نے جواب میں مجھے تپھڑ ماردیا۔خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے! ایسا تو ہو ہی جاتا ہے۔ جب میں بڑا ہو جاؤں گا تو اللہ میاں سے اپنے لئے بہت ساری بیٹیاں خریدوں گا"

زمان ایک وقت میں بہت آگے سے کتاب کھولی۔ اس سے یہ باتیں پڑھنا اب ناممکن ہورہا تھا۔ اس نے منہاج کی زندگی کے کچھ سال آگے کئے۔

"9 ستمبر"

"وہ چلی گئیں۔ میرے ساتھ سترہ سال گزار کر وہ مجھے اور پاپا دونوں کو چھوڑ گئیں۔ آج میں پاپا پر پہلی بار چینخا۔ میں اپنی اندر کی بھڑاس نکالنا چاہتا تھا۔ میں نے پاپا سے کہا اگر آپ نے ان پر ہاتھ اٹھایا ہوتا تو وہ سہم اور جدائی کا نام دوبارہ نہیں لیتی۔ پاپا کی آنکھیں جیسے پتھرا گئی تھیں۔ شاید وہ میری بات سے متفق تھے۔ اگر میری بیوی مجھے چھوڑ جانے کا اشارہ بھی دے گی تو میں اسے اتنا ماروں گا کہ وہ آئندہ جانے کا نام نہیں لے گی۔ میں اپنے باپ کو دیکھ چکا ہوں اور میں نہیں چاہتا میں اپنی زندگی اپنے باپ کی طرح خاموش رہ کر گزاروں۔ میں تاریخ نہیں دہراؤں گا! میں مکمل پاگل ہوچکا ہوں۔ کالج میں بھی کسی سے بات نہیں کرتا۔ مجھ سے ٹیچر کہتی ہیں کہ میں اتنا پڑھائی میں کمزور کیوں ہوگیا ہوں؟ جس کو گھر کا ذہنی سکون میسر نہ ہو وہ بھلا انسان کیا کرسکتا ہے۔ a boy in pain۔"

"16 ستمبر"

"آج ہمیشہ کی طرح ٹیچر نے سب طالبِ علم سے ایک اچھی بات پوچھی۔ حسبِ معمول مجھے بھی کھڑا کیا گیا۔ میں نے کہا کہ ضروری نہیں کہ جس کی زندگی میں پیسا ہو اس کو ہی سکوں اور عیش و عشرت میسر ہوں! ہماری زندگی میں پیسا نہیں بلکہ ذہنی سکون معنی رکھتا ہے! میرے یہ سب کہنے پر ٹیچر نے مجھے اکیلے میں بلا کر پوچھا کہ میری طبیعت ٹھیک ہے۔ وہ حیران تھیں کہ سترہ سال کا لڑکا اس طرح کی باتیں کیوں کرنے لگا۔ جبکہ وہی سترہ سال کا لڑکا دن اور رات دونوں میں اپنے کمرے میں بتیاں بجھا کر تنہا بیٹھنے کا عادی ہے۔ میں صرف مسکرادیا۔ میرا جواب نہ پاکر وہ چاہتی ہیں کہ میرے ماما پاپا کل اسکول آئیں مگر میں اپنی ماما کا نہیں بتانا چاہتا تھا کہ وہ میرے پاپا سے طلاق لے کر کسی اور شخص کے پاس چلی گئیں اس لئے میں نے کہہ دیا کہ ماما ورلڈ ٹور پر گئی ہیں اور پاپا اکثر آفس میں بزی رہتے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کچھ دنوں بعد پاپا ویل چیئر پر آنے والے ہیں! انہیں ماما سے محبت ہے اور وہ ان کی جدائی برداشت نہیں کر پارہے۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

"21 دسمبر"

"آج میں پاپا کو وہیل چیئر میں بٹھا کر گھر کے گارڈن میں لے گیا۔ وہ آج کل ویسے ہی ماما کو بہت یاد کررہے ہیں۔ ذرا سی دھوپ لے کر تھوڑی دیر گارڈن کے چکر مار کر میں ان کو اندر لے آیا۔ وہ اندر آکر حسبِ معمول ماما کی فریم ہوئی تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ میں نے وہ تصویر نکلوا کر اسٹور میں رکھ دی۔ میں نہیں چاہتا پاپا انہیں یاد بھی کریں۔ میری اس حرکت پر انہوں نے کہا کہ تم نظروں سے تو ہٹا سکتے ہو مگر دل سے نہیں! ہاں وہ ٹھیک کہہ رہے تھے مگر میں انہیں اذیت میں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا"

"19 جنوری"

"انیسویں سالگرہ اکیلے منائی کیونکہ اب پاپا بھی ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ پاپا یاد آتے ہیں بہت! پاپا کا بزنس 1 سال سے میں ہی دیکھ رہا ہوں۔ میری یونیورسٹی شروع ہوئے ایک ہفتہ ہوگیا ہے! میں جاتا ہوں مگر مجھے وہاں کے لوگوں سے کوئی غرض نہیں۔۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے "

"20 جنوری"

"وحشتِ دل اور وحشتِ آوارگی"

"21 فروری"

"میں تنہا ہوں"

"27 فروری"

"اور اب مجھے تنہائی پسند ہے"

"29 فروری"

" بابا کی ایک بڑی تصویر فریم کروا کر کمرے میں لگوا دی ہے۔ میں انہیں دیکھتے رہنا چاہتا ہوں!"

"2 مارچ"

"کبھی پڑھیں گے میری داستاں لوگ

ایک لڑکا تنہائی اور پاگل پن سے مرگیا"

"5 مارچ"

"میں پاگل ہورہا ہوں! یا شاید وحشی! مجھے نہیں خبر! پاپا بہت یاد آرہے ہیں۔ گھر میں گارڈز اور ملازم ہوتے ہیں مگر میرے لئے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ میں پاگل وحشی بن رہا ہوں۔ آج مجھے میری الماری سے بلیڈ ملا۔ میں نے اسے اپنی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر پھیرا۔ خون ہاتھ سے مسلسل بہہ رہا ہے اور مجھے درد سہنے میں بھی مزہ آرہا ہے! صحیح کہتے ہیں کہ درد کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے! خون کی چھینٹے تمھارے صفحے پر جذب ہورہی ہیں! ان خون کے دھبوں سے ہی مجھے پڑھنے والے سمجھ جائیں گے کہ یہ منہاج سمیع شاہ کی ڈائری ہے۔ اور کہیں کہ ایک اذیت پسند اور دیوانہ شخص جو اپنے ماضی اور حال کی وجہ سے مارا گیا"

"10 مارچ"

"آج بابا کی سابقہ بیگم مجھ سے ملنا چاہتی تھیں۔ مگر میں نے ملنے سے بھی انکار کردیا۔ جس نے مجھے میرا بچپن نہیں جینے دیا میں اس سے مل اپنی جوانی برباد نہیں کرنا چاہتا۔خیر چھوڑو سب ٹھیک۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

*-----------------------------*----------------------*

"رات ہوگئی مگر ایک قاضی نہ لاسکے تم لوگ" وہ چینخا۔۔۔

"دادا آگیا ہے" شہنواز کہتا ہو باہر کی جانب بڑھا۔

بیوٹیشن شانزہ کو تیار کر چکی اور ساتھ تاکید بھی کی تھی رونے سے میک اپ خراب ہو جائے گا۔ وہ حسن کی مورتی لگ رہی تھی۔ آج محبت مر جائے گی وہ یہ جانتی تھی۔

بیوٹیشن تھوڑی دیر میں چلی گئی۔

"نیچے آجاؤ" وہ اندر آیا۔ شانزہ ضبط کرتی ہوئی پلٹی۔ وہ ٹھٹھکا۔ وہ بلاشبہ بے حد حسین تھی۔

"خوبصورت!" وہ مسکرایا اور اس کے بلکل قریب آیا۔ وہ سہم کر پیچھے ہوئے۔

"رونا نہیں ورنہ میک اپ خراب ہو جائے گا!" وہ مسکرا کر پلٹا۔ ۔"کلثوم شانزہ کو نیچے لے آؤ" وہ آواز دیتا نیچے چلا گیا۔

ایک آنسو نکلا اور چہرہ بگھو گیا۔

"ارے نہیں بیگم صاحبہ آپ کا میک اپ خراب ہو جائے گا" کلثوم ٹشو پیپر سے اس کا آنکھ صاف کرتی بولی۔

"اور جس کا دل خراب ہو جائے وہ کیا کرے؟" دھیمی سی آواز اور گیلے لہجے میں بولی۔ کلثوم کو اس کے لئے برا لگا۔

"میں آپ کے لئے چاہ کر بھی کچھ نہیں کرسکتی لیکن ایک بات ضرور سمجھا سکتی ہوں کہ اگر آپ چاہتی ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ بہت اچھے سے پیش آئیں تو ہر وہ کام کیجئے جس کا وہ کہیں! کبھی ان کے خلاف نہیں جایئے گا ورنہ وہ تو اپنے سگے بھائی کو بھی نہیں چھوڑتے" وہ اس کے لہنگے کو سہی کرتے ہوئے بولی۔

"آجائے اب نیچے چلیں!" وہ ہاتھ پکڑ کر اسے لے جانے لگی۔

"جو بھی ہو! میں یہاں سے بہت جلد بھاگ جاؤں گی! دیکھنا تم! " ضبط سے اس کی آنکھیں لال ہوئی۔

کلثوم نے اس کی باتوں کا نظر انداز کیا۔

وہ پوری رات صحیح سے سو نہیں پائی۔ کروٹ بدل کر آنکھیں کھولیں ۔ امان گہری نیند میں تھا۔ کچھ لمحوں تک تو اسے کچھ سمجھ نہ آیا اور جب سمجھی تو وہ سہم کر اٹھ بیٹھی۔ نکاح نامہ، عروسی لباس۔ ناقابلِ یقین لمحے۔ آنکھیں پھر گیلی ہوگئیں۔ اس نے کپڑوں پر نظر ماری تو یاد آیا اس نے کپڑے چینج کرلئے تھے۔ وہ بغیر آواز کئے بیڈ سے اٹھی اور آہستہ قدم اٹھائے کھڑکی سے جھانکا جہاں سے گیراج نظر آرہا تھا۔ اس نے اس ڈر سے پلٹ کر امان کو دیکھا کہ کہیں وہ جاگ تو نہیں گیا مگر وہ اس کو گہری نیند میں پاکر پھر سے نیچے جھانکنے لگی۔ چوکیدار گیٹ پر نہیں تھا اور گارڈز بھی اکا دکا نظر آرہے تھے۔ وہ یہاں سے بھاگ سکتی تھی یہ موقع اچھا تھا۔ وہ راستہ سمجھنے لگی۔ اس نے ڈوپٹہ اپنے گرد اچھے سے پھیلایا۔ وہ اب دیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سرعت سے پلٹی کہ کسی کے سینے سے ٹکرائی۔ خوف سے شانزہ کی چیخیں نکل گئیں۔ امان نے اسے زبردستی اپنے حصار میں لیا۔ اس کا دل گویا حلق میں آگیا ہو۔خمار آلود لہجے سے وہ بولنے لگا۔

"کہاں کی تیاریاں ہیں زوجہ" شانزہ کی تو زبان کو ہی تالا پڑگیا۔ اس نے آنکھیں جپھکیں۔ امان نے انگلیوں کے پوروں سے اس کی پلکیں چھوئی۔

"جانتی ہو میں تم سے محبت نہیں کرتا شانزہ! میں تم سے عشق کرتا ہوں۔ اب تم میری ہونا۔ اب میری ہی رہو گی!". وہ پلکیں میچیں اس کے سینے سے لگی تھی۔

"دل نہیں ہے آفس جانے کا مگر میٹنگ بہت ضروری ہے آج کی" اس نے شانزہ کے ماتھے پر بوسہ دیا۔

"کچھ ایسی حرکت نہیں کرنا جس سے مجھے غصہ آئے! خدارا" شانزہ پیچھے ہوئی۔

"امان مجھے گھر جانا ہے" وہ معصومیت سے اپنی آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی۔ "مگر صرف ماما سے ملنا ہے۔ کسی سے نہیں ملنا سوائے ماما کے" وہ سر جھکا کر آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔

"گھر کو بھول جاؤ تو بہتر ہے!" وہ پلٹا اور الماری سے کپڑے نکال کر فریش ہونے چلا گیا۔ آنسوؤں نے بےاختیار شانزہ کو آلیا۔ وہ رونے لگی۔ تو کیا اب ساری زندگی ماں کی شکل نہیں دیکھنے کو ملے گی؟۔ وہ چینج کرکے آیا تو شانزہ نے جلدی جلدی آنسو پونچھے اور خاموشی سے سر جھکائے بیٹھی رہی۔ امان نے ایک مسکرا کر اسے دیکھا اور تیار ہونے لگا۔

"میں آفس جارہا ہوں!" اس نے چابی اٹھائی اور اس کی جانب آیا۔ شانزہ دور ہٹنے لگی تو امان نے اسے زبردستی اپنے حصار میں لیا۔ شانزہ نے سر جھکا لیا۔

"امان اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے" وہ مسکرایا ۔ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے چوما اور پھر آنکھوں سے لگایا۔ شانزہ سرخ ہوئی۔

"کیا پتا آج آفس سے جلدی آجاؤں! مگر پھر دہرادوں کہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا کہ شادی کے پہلے دن میں کچھ کر بیٹھوں!" آخر میں وہ سخت ہوا۔

"اللہ حافظ" وہ کہہ کر پلٹ گیا۔ شانزہ کی جان میں جان آئی۔

"کرتے رہو مجھ سے محبت! مگر یہ دل کہیں تمام ہوچکا ہے! تم نے میرا سب کچھ چھین لیا۔ میں تمھیں سکون سے نہیں رہنے دوں گی" اور وہ اب جانتی تھی اسے کیا کرنا ہے۔ وہ جاچکا تھا۔ گارڈز تھے مگر اکا دکا۔ مگر وہ صحیح وقت کا انتظار کررہی تھی۔

-*-----------------------*-----------------------*

سورج کی کرنیں جب کمرے میں داخل ہوئی تو وہ آنکھیں کسمساتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ زمین پر ہی سو گیا تھا۔ وقت دیکھتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا اور ڈائری بھی اٹھالی۔ ڈائری کو دراز میں رکھ کر وہ سنگھار میز پر جھک کر خود کو دیکھنے لگا۔ اسی دم موبائل بجنے لگا۔

"ہیلو" اس نے چھوٹتے ہی بولا۔

"حیرت ہے! زمان شاہ آج بغیر الارم کے اٹھ گئے! وہ بھی اتنی جلدی" امان مسکرا کر بولا۔

"تمھیں کیسے پتا میں نے الارم نہیں لگایا تھا؟ کیا پتا لگایا ہوا ہو"   

"کیونکہ میں جانتا ہوں! اور تمھیں تو گہرائی تک جانتا ہوں!"

"ہاں اور چاہتا ہوں کہ تم کسی اور کو بھی مجھے جاننے کا موقع دو" وہ کھسیانا ہوا

"ہاں تمھاری ڈور شادی پر آکر ہی اٹکتی ہے!" امان نے فون کو گھورا۔

"ہاں صرف میری ہی تو اٹکتی ہے ہوسکتا ہے تم نے شادی کرلی ہو چھپ کر اور مجھے بتایا نہ ہو!" زمان ہنس کر امان کو چھیڑنے لگا۔ امان ٹھٹھکا اور کچھ نہ بولا۔ جواب نہ پاکر زمان نے موبائل کر دیکھا کہ کہیں کال تو نہیں کٹ گئی۔

"ارے میں مذاق کررہا ہوں مجھے پتا ہے امان شاہ ایسا نہیں کرسکتا! کم از کم تم نہیں!" وہ مسکرایا۔ اور یہ بات بھی امان کو خاموش کرگئی۔

"کیا ہوا؟ سانپ سونگھ گیا کیا؟" لہجے میں حیرت تھی۔

'نہیں بس یونہی! خیر تم بتاؤ کام ٹھیک چل رہا ہے

"ہاں فالحال تو! تمھیں پتا ہے میں نے اب تک کوئی گڑبڑ نہیں کی! میں نے سچ میں اب تک کوئی گڑبڑ نہیں کی" وہ اسے یقین دلاتا ہوا بولا جانتے ہوئے بھی کہ اسے اس کی ایسی باتوں پر یقین نہیں۔

'ہاں یہ تو اچھی بات ہے! اب تمھارے لئے رشتہ ڈھونڈنا آسان ہو جائے گا۔ جب ہم تمھارا رشتہ لے کر جائیں گے تو سب سے پہلے یہی بولیں گے کہ لڑکا کوئی گڑبڑ نہیں کرتا!"

"ہاہاہاہاہا"

"اب مجھے آفس پہنچنا ہے! تب تک کے لئے خدا حافظ" زمان نے گھڑی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا اور کال رکھ دی۔

*------------------------*-----------------------*

اتنا سب کچھ ہونے کے بعد فاطمہ نڈھال پڑی تھی۔ "تم ایسا کیسے کرسکتی ہو شانزہ! عدیل بہت محبت کرتا ہے تم سے اور تم نے۔۔۔۔۔۔" اس کے آنسو بےاختیار بہت جارہے تھے۔

"تم اس شخص کے ساتھ کیسے جاسکتی ہو جو صرف دو ،تین ملاقات میں اظہارِ محبت کر بیٹھا".

"میرے بھائی کی زندگی کیوں برباد کی تم نے" اب اسے غصہ چڑھنے لگا۔

"میں نے تو کہا تھا کہ یہ سیدھی ہے ہی نہیں! دیکھ لو سب کا منہ کالا کروالیا نا؟" رمشا نے سر جھٹکا۔ مگر فاطمہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ ناصر صاحب اب خاموش رہتے۔ اور نفیسہ سارا دن روتی رہتیں! کہیں نہ کہیں دل یہ سوچ رہا تھا کہ شانزہ کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں! ماں تھیں وہ! جانتی تھیں اپنی اولاد کو اچھی طرح! عدیل چپ تھا۔ اور اب وہ چپ ہی رہنا چاہتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ شانزہ کا نام بھی سننا پسند نہیں کررہا تھا۔ رمشا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ وہ اپنی چالوں میں ہمیشہ کی طرح کامیاب ہوگئی تھی۔ اب وہ عدیل کے ارد گرد گھومتی۔ عدیل کی وجاہت اور خوبصورتی کے پیچھے وہ ہمیشہ اس کے آگے پیچھے گھومتی تھی۔

"یہ لیں چائے!" وہ چہکتی ہوئی اس کی جانب آئے۔ وہ بیڈ سے ٹیک لگائے لیٹا ہوا گہری سوچ میں غرق تھا۔ اس کی آواز سے چونک اٹھا۔

" ہاں؟ نہیں مجھے چائے کی طلب نہیں! لے جاؤ"

رمشا نے منہ بنایا۔

"اس لڑکی کے لئے اداس بیٹھے ہیں جو آپ کے ساتھ عشق کا جھوٹا کھیل کھیل کر اپنے اصلی عاشق کے سنگ سدھار گئی! آپ نے مجھے ہمیشہ غلط سمجھا! میں اس کی رگ رگ سے واقف ہوں عدیل! میں نے اکثر اسے "امان" نامی لڑکے کے ساتھ دیکھا ہے! کبھی لمبی لمبی گھنٹون کالز اور کبھی ملنے جاتی تھی" عدیل نے آنکھیں پھاڑیں۔ رمشا نے نظریں اٹھا کر دیکھا۔ وہ اس کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ رمشا کو جیسے شہ ملی۔

"ہاں تو۔۔۔۔ ہزار دفع سمجھایا۔۔۔۔۔ مگر منہ پھیر لیا کرتی تھی! اور حیرت یہ کہ آپ کے سامنے بلکل ایسے جیسے اس کا کوئی تعلق ہی نہ امان سے" رمشا نے آنکھیں پٹپٹائیں۔

"مگر اسس۔۔۔۔اس نن۔نے کہا تھا وہ مجھ سے محبت کرتی ہے" وہ ساکت اسے دیکھ رہا تھا۔ لفظ ادا ہونے سے انکاری تھے۔ لب کپکپائے اور نکلا تو فقط۔

"مم۔میں مرجاؤ گا! میں نے اس سے محبت کی ہے" رہ روہانسا ہوا۔ آنکھ سے آنسو نکلا اور گریبان بگھوگیا۔

"آپ رورہے ہیں؟" وہ ٹھٹھکی۔

"ہاں! میں نے اس سے محبت کی تھی!" وہ پوری قوت سے چینخا اور تکیہ زور سے اٹھا کر زمین پر پھینکا۔ رمشا ڈر سی گئی۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

"مگر اس نے تمھیں دھوکا دیا!" رمشا نے آگ بھڑکائی۔ بھڑکے ہوئے کو اور بھڑکانا اس کے لئے مشکل نہ تھا۔

"مگر میں نے دل سے اسے چاہا۔ دن رات تمام کردیے اس پر۔ وہ یونہی نہیں۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔۔" وہ چینخا۔۔۔

"محبت اس نے نہیں کی تھی عدیل! وہ خیال رکھنے کا ڈھونگ رچاتی رہی! وہ محبت کا ڈھونگ رچاتی رہی! مگر خیال تمھارا میں نے رکھا ہے! تمھاری موجودگی میں بھی! اور تمھاری غیر موجودگی میں دعائیں کر کر کے۔۔۔۔" وہ کہتی چائے اس کے سرہانے رکھ کر پلٹ گئی۔ عدیل نے زور سے آنکھیں میچیں کے آنسو چھلک پڑے۔

یہ درد بھی کیا درد ہے۔

ہر ایک امید کا ختم ہے۔

ابھی تو اسے سوگ منانا تھا۔ جب محبوب اپنی محبت سے مکر جائے تو عاشق کو زہر کا پیالہ حلق میں اتارنا پڑتا ہے۔ باہر سورج سر پر چڑھ رہا تھا اور یہاں دل ڈوب رہا تھا۔ وہ اسے چھوڑ کر نہیں گئی ہے بلکہ اسے مار گئی ہے۔ اس کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو بھلا نہیں گئی ہے بلکہ ان وعدوں سے مکر گئی۔ محبت مری نہیں تھی، ماردی گئی تھی! محبت کا گلا وہ خود گھوٹ گئی تھی۔

*-------------------------*-----------------------*

گیارہ بجے تھے اور وہ ابھی بھی کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔ گارڈز آہستہ آہستہ اپنی ڈیوٹی پر آرہے تھے۔ اس کا دل خوف سے دھڑک رہا تھا۔ دل چاہ رہا چیخ چیخ کر روئے۔ وہ سنگھار میز کی جانب آئی اور دراز کھولی۔ کوئی تو چیز مل جائے گی جو اس کا فرار ہونے کا ذریعہ بن جائے۔ وہاں ایک ڈائری رکھی تھی۔ اس نے نکال کر کھولی۔ امان شاہ کا نام لکھا تھا۔ اس نے زور سے دراز میں ہی پٹخ دی۔ اسے امان کے نام سے بھی نفرت محسوس ہورہی تھی۔ اسے کچھ نہ ملا تو اس نے رونا شروع کردیا۔

"یا خدایا۔۔۔۔ مم۔میں کیا کروں" آنکھیں اب رات بھر رو رو کر سوج چکی تھی۔ گلابی ہونٹ لرز رہے تھے۔ گھر کی یاد اسے شدت سے آئی تھی۔ کاش وہ باہر ہی نہ آتی اپنے گھر سے! یا کہیں چلی جاتی۔ وہ اٹھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر باہر جھانکنے لگی۔ سامنے سیڑھیاں تھیں۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا۔ دائیں جانب دو کمرے اور تھے۔ پورشن خالی تھا۔ وہ دبے پاؤں چلتی دائیں جانب بڑھی۔ ایک کمرہ لاک تھا شاید وہ گیسٹ روم تھا اور دوسرے کمرے کے باہر تختی لگی تھی۔ اسے تجسس ہوا۔

"دیکھ لی تختی؟ اب آنکھیں دور کرو میرے کمرے سے! آخر کو زمان دی گریٹ کا کمرہ ہے" شانزہ پڑھ کر چونکی! تو یہ زمان کا کمرہ ہے! کیا فضول لکھا ہے۔ اس نے تھوڑے غور سے دیکھا تو "دی گریٹ" کو پینسل سے کاٹ کر "دی ڈرامے باز" لکھا تھا اور اسی جانب کونے میں "لفظ کو کاٹ کر صحیح لکھنے والا امان" لکھا تھا۔ اففف! اسی دم پیچھے آہٹ ہوئی۔ اسے محسوس ہوا کوئی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ اس نے ہڑبڑی میں زمان کا روم کھول کر اندر بڑھی اور دروازہ لاک کردیا۔ ملازمہ اوپر آئی اور امان کے کمرے میں بڑھی۔ دروازہ لاک ہونے کے باعث شانزہ کو کچھ نظر تو نہیں آرہا تھا مگر وہ آوازیں سن سکتی تھی۔

"شانزہ بی بی کمرے میں نہیں ہیں شہنواز لالا" وہ شور کرتی ہوئی امان کے کمرے سے باہر آئی۔

"کیا کہہ رہی ہو کلثوم؟ وہ اندر ہی ہونگی! دیکھو ایک بار" اسے گارڈ کی آواز آئی۔ شانزہ کا خوف سے دل پھٹنے لگا۔ 

"ہاں لالا! ہر جگہ دیکھ لیا ہے وہ نہیں ہیں!  لگتا ہے وہ بھاگ گئی ہیں! وہ مجھے کل یہیں بتا رہی تھیں کہ وہ بھاگ جائیں گی! مگر میں نے ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا تھا! لالا کچھ کریں! امان دادا ہم سب کو ماردیں گے کیونکہ وہ ہماری موجودگی میں ہی فرار ہوگئی ہیں"۔

"مگر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟" وہ حیران تھا۔

"لالا ابھی تو سلیم بھی نہیں آیا! آپ لوگ چند ہی تو ہیں! دھیان بھٹکا دیکھ کر وہ فرار ہوگئی ہیں" وہ حواس باختہ بولی۔

"اکبر گاڑی نکالو! جلدی! دادا کو خبر تک نہیں ہونی چاہئے!" وہ دوڑتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا۔ ان کی چینخنے چلانے کی آوازیں وہ بخوبی سن سکتی تھی۔

"ہم تین ہی گارڈز ہیں ابھی! گھر میں کس رکواؤ گے؟ اگر وہ واپس آگئیں تو وہ انہیں پکڑ لے گا!" اکبر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا۔

"وہ لڑکی واپس نہیں ہے گی! جو اس گھر سے فرار ہوئی ہے وہ خود سے پلٹ کر موت کو دعوت نہیں دے سکتی! کلثوم گھر میں ہے! وہ دیکھ لے گی سب!" شہنواز نے کہہ کر اسلم کو آواز بھی دی۔

"ہاں لالا"  وہ بھاگتا ہوا آیا۔

"دوسری گاڑی نکالو تم! اور دوسرے راستہ پر جاؤ! کسی طرح بھی اس کو ڈھونڈنا ہے! شام سے پہلے! آج دادا شام تک آجائیں گے! اور ہمیں اس سے پہلے اسے لڑکی کو تلاش کرنا ہے!"

شانزہ زمان  کے کمرے کی کھڑکی سے گیراج کا تمام منظر دیکھ رہی تھی اور اب وہ ان گارڈز کے نکلنے کا انتظار کررہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں دو گاڑیاں سڑک پر نکال لی گئیں۔ چوکیدار ابھی نہیں آیا تھا۔ یا اس نے چھٹی لی تھی۔ گھر میں صرف کلثوم تھی اور وہ اس کا کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی تھی۔ وہ وقت ضائع کئے بغیر نیچے اتری۔ کلثوم سامنے ہی لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی سر ہاتھوں پر گرائے صدمہ میں تھی۔ بغیر کسی چیز کی پرواہ کئے بغیر وہ باہر کی اور بھاگنے لگی۔ کلثوم نے سر اٹھایا اور حیرت سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"آپ؟ کہاں تھیں آپ؟ کہاں جارہی ہیں بیگم صاحبہ" اس کے "بیگم صاحبہ" کہنے پر وہ لمحے بھر کو ٹہری۔

"نہیں ہوں میں تمھاری بیگم صاحبہ! سمجھ آئی تمھیں؟ کہہ دینا امان سے شانزہ اس کی کبھی نہیں تھی!!"

"آپ کیا کہہ رہی ہیں یہ" کلثوم نے آنکھیں پھاڑیں۔

"میں اب انہیں کہیں نہیں ملوں گی!" وہ باہر اب دروازہ کی سمت جانے لگی۔

"وہ آپ کو دنیا کے کسی ملک یا شہر سے بھی ڈھونڈ نکالیں گے شانزہ بی بی" کلثوم اس کے پیچھے آنے لگی لیکن شانزہ نے پھرتی سے لاؤنج کا دروازہ بند کرکے اسے اندر ہی بند کردیا۔

"تمھاری بھول ہے! میرے پیچھے مت آؤ! تم مجھے قابو نہیں کر سکتی تم خود اتنی دھان پان سی ہو" وہ چینخی

"ارے کوئی پکڑے انہیں! کوئی روکے! لالا!!!!!" وہ لاؤنج کا دروازہ پیٹنے لگی مگر شانزہ بھاگنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

*------------------------*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

" ہیلو لالا! وہ ابھی ابھی گھر سے نکل گئی ہیں۔ وہ گھر پر ہی تھیں۔ مجھے لاؤنج میں بند کرکے وہ بھاگ گئی ہیں۔ لالا کچھ کریں لالا۔۔۔۔خدارا ورنہ دادا ہمیں جان سے ماردیں گے۔۔۔۔" اس نے اپنا سر پکڑتے ہوئے سارا حال سنایا تھا۔

"او خدایا" دماغ الجھا ہوا تھا اور وقت کم! اب کیا کرنا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا۔

*--------------------------*-------------------------*

آج بھی زمان کا مصروف گزررہا تھا. وہ انہیں کے آفس کی ایک برانچ تھی۔ یہاں پر منہاج بھی آیا کرتا تھا۔ وہ اپنے روم کے جانب بڑھا۔ ہر مشکل کام کرتے ہوئے اسے امان کی یاد آرہی تھی۔

" عادت بھی نہیں ہے مجھے اتنا کام کرنے کی! کاش تم ادھر ہوتے اور ہمیشہ کی طرح مجھے ایک گھوری دے کر میرے بگڑے ہوئے کام پر خود کام کرتے! ناشتہ بھی بنا کر دے دیتا امان میں تمھیں۔ مگر میرے ساتھ تو آجاتے۔ یار کیا عذاب ہے۔ چھوٹا تھا تو سوچتا تھا کہ اپنی الگ دنیا اکیلے بساؤں گا! اور اب چوبیس کا ہوگیا ہوں مگر امان کے بغیر یہ کاغزات بھی فائل میں لگانے نہیں آرہے۔۔۔ ہائے امان میرے دس منٹ چھوٹے بھائی!بڑا ہوں تم سے اور عزت ماشاءاللہ اتنی دیتے ہو جیسے مجھے مندر کی سیڑھیوں سے اٹھا کر لائے تھے۔ ہنہہ! کبھی امان کو تو پتا چلے کہ الٹا لٹکنے میں کتنا درد ہوتا ہے۔ سر بھاری ہوجاتا ہے اور نیند! او نیند تو مجھے ہر جگہ آجاتی ہے۔ مگر تکلیف ہوتی ہے یار! یاد آرہی ہے مجھے اس جلاد کی! او نہیں! پیارے بھائی کی! ہنہہ" مینیجر جو ابھی باس کے روم میں داخل ہوا اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہا تھا اور وہ برا سا منہ بنا کر فائل کے صفحے درست کرنے میں مصروف تھا

"سر کوئی ایشو ہے؟" زمان ٹھٹھکا۔

آئے ہائے اس نے یہ تو نہیں سنا کہ امان مجھے پنکھے سے لٹکاتا یے؟

"نہیں کچھ نہیں! بس یہ کاغزات فائل میں لگا رہا تھا۔ تم جاؤ" زمان نے ہونٹوں پر زبان پھیری اور سٹپٹا کر کہا۔ مینجر آنکھیں پھاڑیں اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی بات پر پلٹنے لگا۔

"سنو! کیا تم نے۔۔۔۔۔مطلب کچھ سنا تو نہیں نا؟ اندر آؤ" وہ سنجیدہ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے بولا۔

"نن۔نہیں سر بس! وہ۔۔۔۔۔" وہ اٹکا۔ زمان کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ عزت کہیں کہیں ہی تو ملتی تھی اسے! ہائے اللہ کہیں اپنے ہی آفس میں عزت سے محروم نہ ہوجاؤں۔۔ دل میں خدشہ تھا۔

"کیا سنا؟"

"وہ آپ نے کہا نا کہ آپ مندر کی سیڑھیوں سے اٹھائے گئے تھے! بب۔بس وہی سنا زمان سر میں نے! لیکن وعدہ کرتا ہوں میں کسی کو۔نہیں بتاؤں گا کہ آپ کو مندر کی سیڑھیوں سے اٹھایا گیا تھا! سچ میں"

"یا خدایا"اور زمان بے ہوش ہونے کے قریب ہوگیا تھا۔

*------------------------*---------------------------*

"اللہ جی جلد ہی لالا واپس آجائیں بی بی کو لے کر" کلثوم لاؤنج میں پریشانی اور خوف سے ٹیک رہی تھی۔ اگر شانزہ نہیں ملی اور امان کو پتا چل گیا تو ان سب کی لاش کو وہ کتوں کو کھانے کے لئے بھی نہیں چھوڑے گا وہ یہ جانتی تھی۔ باہر کوئی گارڈ نہیں تھا۔ چار بجنے کو آئے تھے مگر کسی کی کوئی خبر نہ تھی۔

*-------------------------*---------------------------*

وہ اندھا دھن بھاگ رہی تھی۔ سڑک پر ٹریفک تھا اور سڑک کے کناروں پر لوگوں کا رش لگا تھا۔ وہاں موجود لوگ پلٹ کر اس پاگل لڑکی کو دیکھ رہے تھے جو کسی کی آواز سنے بغیر بھاگی جارہی تھی۔ وہ یہ جانتی تھی کہ اس کا پیچھا ضرور کیا جائے گا اور وہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اس کی منزل طے نہیں تھی۔ بس مقصد تھا تو صرف امان سے دور جانا۔ وہ بھاگتے ہوئے گلی میں مڑی۔ وہ بھاگتے بھاگتے دور نکل آئی تھی۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ ٹانگیں اب ِحاگنے سے انکاری تھیں۔ قریب تھا کہ وہ تھوڑا اور چلتی تو لڑھک کر گر جاتی مگر وہ رک کر خالی سڑک پر ہی بیٹھ گئی۔ جگہ سنسان تھی۔ وہ ٹانگوں کو آرام دے کر ہھر دوڑے گی یہ سوچ کر وہ اپنی  ٹانگیں دبانے لگی۔  درد اتنا کہ اس کی آہیں نکل رہی تھیں۔ اسے محسوس ہوا کہ ایک کالی گاڑی اس کی سمت آرہی ہے۔ اس نے غور سے دیکھا۔ یہ گاڑی امان کے گیراج میں کھڑی تھی۔۔۔ وہ اٹھ کراہتے ہوئے بھاگنے لگی۔ گاڑی تیزی سے اس کے سامنے آکر رکی۔ اکبر اور شہنواز ایک ساتھ باہر نکلے۔

"آپ نے اچھا نہیں کیا شانزہ بی بی۔۔ آپ نہیں جانتی کہ امان دادا کو خبر ہوئی تو کیا ہوگا"

اکبر نے آنے والی مصیبت سے اسے باخبر کیا۔

"مجھے مت لے کر جاؤ۔۔۔ خدارا! میں ہاتھ جوڑتی ہوں!"شانزہ نے ہاتھ جوڑ کر آگے کئے۔

"اس کا کوئی فائدہ نہیں!! آپ گاڑی میں بیٹھئے!" شہنواز اس کے قریب آیا۔

"نن۔نہیں ایسا مت کریں" وہ روتے ہوئے دور ہونے لگی۔

"ہمارے پاس بلکل وقت نہیں"۔ اس نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے گاڑی میں ڈالا اور گھوم کر اپنی سیٹ ہر بیٹھ گیا۔ وہ چیختی چلاتی رہ گئی مگر وہ گویا بہرے بنے بیٹھے رہے۔ اس کے آنسوؤں سے اس کا چہرا بھیگ چکا تھا۔ وہ امان سے دور ہونے میں ناکام ہوگئی تھی۔

*----------------------------*-------------------------*

"کلثوم!!" اکبر نے لاؤنج کا دروازہ کھولا۔

"لالا ک۔کہاں ہیں وہ؟ مجھے لگا دادا آگئے" وہ صوفے پر بیٹھی تھی بھاگتی ہوئی آئی۔

"ہاں! آگئی ہیں وہ انہیں ان کے کمرے میں لے جاؤ" اکبر نے باہر کی طرف اشارہ کیا۔ کلثوم بھاگتی ہوئی باہر آئی۔

"بی بی صاحبہ" کلثوم نے اس کو تھام کر قابو کرنا چاہا مگر وہ بھپری ہوئی تھی۔ وہ چیخنے لگی۔ اکبر ڈیوڈی پر دوبارہ چلا گیا۔ چوکیدار آچکا تھا اور اب دروازے پر پہرا دے رہا تھا۔

"کیوں رکھا ہے مجھے یہاں۔۔۔۔مجھے نہیں رہنا یہاں خدارا" وہ رونے لگی۔ کلثوم نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اسی دم باہر گاڑی ہارن بجا۔ شانزہ کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ کلثوم کی آنکھیں دہشت سے پھیل گئیں۔

"یا خدایا۔۔۔ دادا آگئے! چلیں جلدی اپنے کمرے میں بی بی۔۔۔۔ چوکیدار گیٹ کھولنے والا ہے" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتے ہوئے اس کے کمرے میں لے آئی۔ شانزہ نے مزحمت بھی نہیں کی۔

"یہ لیں اپنا آنسو صاف کریں ورنہ انہیں شک ہوجائے گا" کلثوم نے جلدی سے تولیہ کرنے سے گیلا کرکے اس کو دیا مگر جب دیکھا وہ بلکل سن بیٹھی ہے تو خود ہی صاف کردیئے۔ کلثوم نے اس کے منہ پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور پلٹنے لگی تھی کہ شانزہ نے اس کا بازو سختی سے پکڑ لیا۔

"مم۔مجھے یہاں ان کے ساتھ تنہا مت چھوڑو۔۔۔ وہ مجھے ماردیں پلیز" وہ گڑگڑانے لگی۔

"بی بی کیا کررہی ہیں میں کیسے رک جاؤں؟؟ وہ آپ کے شوہر ہیں بی بی۔ اور وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے کیونکہ انہیں اس بارے میں کچھ خبر نہیں" کلثوم اسے بستر پر بٹھاتی مڑ گئی۔ امان اب سیڑھیاں چڑھ رہا تھا۔ وہ اس کی چاپو کو سن سکتی تھی۔ جیسے جیسے وہ آوازیں بلند ہورہی تھیں ویسے ویسے اس کا دل گبھرا رہا تھا۔ دروازہ کھول کر اندر آیا۔ وہ سامنے فق چہرہ لئے بیٹھی تھی امان مسکرایا۔ اسے دیکھ کر جو اسکے لبوں پر آگئی تھی مسکراہٹ۔ اسے لگا وہ اسے زندگی کی تمام خوشیاں نصیب ہوگئی تھیں۔ بائیں ہاتھ میں پکڑا کوٹ اس نے صوفے پر رکھا اور اس کی جانب آیا۔

"کیسی ہو؟" اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اسے چوم کر پھر آنکھوں پر لگایا۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ شانزہ کو کوفت ہوئی۔ شانزہ نے چھینپ کر نظریں جھکائیں۔ امان ہلکا سا ہنسا اور اسے خود کے قریب کیا۔ وہ اس کے سینے سے جا لگی۔

"تمھارے بغیر دل ہی نہیں لگ رہا تھا اور پھر زمان بھی نہیں تھا اس لئے بس میرا دل کیا کہ جلدی آجاؤں! مجھے یاد کیا تم نے؟" امان اس کی آنکھوں میں کھویا بے ساختہ کہہ رہا تھا۔ شانزہ کو حیرانی ہوئی۔ یہ ایسے بات کیوں کررہا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کیا وہ یہ بھول گیا تھا کہ اس نے اسے "اغوا" کیا ہے۔ اور زبردستی خود کے نام کردیا۔

"کہو کچھ"

"کک۔کیا کہوں"وہ روہانسی ہوئی۔ اس نے قہقہہ لگایا۔

"یہی کہ تم صرف میری ہو" یہ کہہ کر وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ شانزہ نے تھوک نگلا اور اس سے دور ہونا چاہا۔ مگر اس کی گرفت مضبوط تھی۔

"مجھ سے دور نہیں جاسکتی تم شانزہ امان۔۔۔ جہاں جاؤ گی لوٹ کر شوہر کے پاس ہی آنا ہوگا" اس کے تاثرات اب خطرناک ہورہے تھے۔ شانزہ کو اس سے خوف محسوس ہونے لگا۔ وہ اس سے دور ہٹنے لگی۔ سات بجنے والے تھے۔ اسے جب اتنی جدوجہد کرتے دیکھا تو یک دم اسے خود سے اتنا قریب کیا کہ وہ امان کی سانسیں ضود پر محسوس کرنے لگی۔ شانزہ کی گویا سانسیں اٹکنے لگیں۔ کچھ ہی لمحوں بعد امان نے اس چھوڑ دیا اور فریش ہونے کے لئے واشروم میں چلا گیا۔ شانزہ خوف سے بستر پر بیٹح گئی اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگی۔

*------------------------------*------------------------*

۲۳ اپریل

ڈئیر ڈائری!

میں آج بہت اداس ہوں۔ مجھے پاپا بہت یاد آرہے ہیں۔ ان سے بچھڑے تو بہت سال ہوگئے مگر یادیں اتنی کے کل کہ بات لگتی ہے۔ میری سوسائٹی میں موجود لوگ اور جو جو مجھے جانتے ہیں وہ مجھ سے ڈرتے ہیں۔ میرے غصے سے اور ان تمام باتوں سے جو مجھے اور خطرناک بناتی ہیں۔ مگر انہیں خبر نہیں کہ خود رعب رکھنے والا منہاج کا دل اور آنکھیں رات کو روتی ہیں۔ رات ڈیڑھ بجا ہے اور ماہ نور سورہی ہے۔ وہ میرے آنسو نہ دیکھ لے اس لئے میں ڈیئر ڈائری تمہیں رات میں ہی لکھتا ہوں۔ وہ بھی مجھے سخت دل انسان سمجھتی ہے کیونکہ اس نے مجھے یوں بکھرتے نہیں دیکھا نا۔ وہ بھی سمجھتی ہوگی کہ میں بہت ذیادہ اذیت پسند ہوں۔ مگر یہ نہیں سمجھتی کہ اذیت پسند ہوں تو کیسے؟ کیا ہوا تھا میری زندگی میں؟ وہ یہ نہیں سمجھتی! یہ بات وہ اس لئے بھی نہیں سمجھتی کیونکہ میں نے اسے جاننے کا موقع نہیں دیا۔ وہ جانتی ہے کہ میں ڈائری لکھتا ہوں۔ مگر میں تمھیں ایسی جگہ چھپاتا ہوں کہ شاید وہ میری غیر موجودگی میں بھی ڈھونڈے تو نہ ملے۔ وہ خود بھی ڈائری لکھتی ہے۔ اس نے ڈائری لکھنا شادی کے بعد میرے دیکھا دیکھی شروع کیا۔ وہ کہتی ہے اسے بھی اچھا لگتا ہے میری طرح ڈائری لکھنا۔ میں چاہتا ہوں کبھی فرصت میں ماہ نور کی ڈائری پڑھوں کیونکہ میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے۔ اب تو یقیناً نفرت ہی کرتی ہوگی کیونکہ میں اسے اتنی اذیتوں میں رکھا ہے۔ وہ محبت شاید مرگئی ہوگی میرے لئے اس کے دل میں۔ یقیناً وہ زبردستی ہی میرے ساتھ رہ رہی ہوگی۔ مگر میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔ میں محبت کرتا ہوں اور وہ میری بیوی ہے۔ صرف "میری"۔ میں اس کی ڈائری پڑھ کر اس کے میرے لئے احساسات جاننا چاہتا ہوں۔ وہ میرے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ کیا وہ مجھ سے اب بھی محبت کرتی ہے؟ کیا وہ میرے ساتھ "خوش" ہے؟ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے۔۔۔ ایسا تو ہو ہی جاتا ہے"

تو کیا ماما بھی ڈائری لکھتی تھیں؟ اس ور اگر لکھتی تھیں تو وہ مجھے کیوں نہ ملی؟ میں نے تلاش کی تھی مگر۔۔۔۔۔؟ اس کی تلاش بھی شروع کرنی ہے۔زمان نے صفحے پلٹے۔

۲۷  اپریل

"جب میں آفس سے گھر آیا تو ماہ نور کی طبیعت بجھی بجھی لگی۔ میں نے پوچھا مگر وہ بات ٹال گئی۔ مجھے لگتا ہے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لئے میں تمھیں وقت نہیں دے پاؤں گا ڈئیر ڈائری!"

۳ جون

"میں بہت خوش ہوں ڈیئر ڈائری! میں تمھیں کیسے بتاؤں! میں باپ بننے والا ہوں! مجھ سے تو قلم بھی پکڑا نہیں جارہا!!!!! میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔۔  ماہ نور بھی بہت خوش ہے! اور میرا یہ حال کہ بے وجہ ہنسا   ہی جارہا ہوں۔۔۔ تمھیں پتا ہے؟ وہ جڑواں بچے ہیں۔۔۔۔ یا اللہ!!!! میں کیسے شکر کروں تیرا۔۔۔۔ میں دونوں کے ملتے جلتے نام رکھوں گا! میں انہیں کبھی خود سے دور نہیں کروں گا جیسے ماما نے مجھے کیا۔ ہم آج لانگ ڈرائونگ پر گئے اور جب سے گھر آئے ہیں میں نے اسے بیڈ سے نیچے نہیں اترنے دیا۔ وہ بولتی رہ گئی کہ منہاج کچھ نہیں ہوتا ذرا سے چلنے میں۔۔ اور یہ کہ مجھے کام بھی کرنا ہے مگر میں سختی سے منع کیا اور اسکی گود میں لیٹ گیا۔ اپنی محبت کے سحر میں کھوگیا۔ جتنا سکوں مجھے اس کی گود میں ملا وہ میں کہیں نہ پاسکا۔ ماں کے لفظ کو تو گویا میں بھول ہی گیا۔۔۔۔ میں تمھیں وقت نہیں دے پاؤں گا ڈیئر ڈائری! میں اس کے ساتھ بیٹھ کر بہت باتیں کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔ اپنے بچوں کے لئے تیاریاں بھی تو کرنی ہے نا؟؟؟؟ اللہ حافظ"

زمان نے ایک بار پھر بہت آگے سے ڈائری کھولی۔

"۱۲ دسمبر"

"میں نے آج ماہ نور سے وعدہ لیا ہے کہ وہ میرے بچوں کو کبھی نہیں جھڑکے گی یا ڈانٹے گی۔ وہ مجھے حیرانی سے دیکھنے لگی اور پھر میرے بالوں پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ تمھیں پتا ہے نا وہ جب میرے بالوں پر ہاتھ پھیرنے ہے تو مجھے کتنا اچھا لگتا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ وہ میرے قریب رہے بس۔ اس نے کہا کہ میں اتنی فکر نہ کروں وہ ہمارے بچوں کو نہیں ڈانٹے گی۔ وہ انہیں وقت بھی دے گی جیسے میں دونگا۔ بس میں اس وقت کا انتظار کررہا ہوں جب وہ دونوں میری گود میں ہونگے اور میں انہیں دیکھتا دیکھتا صبح سے شام کردونگا۔ میں تمھیں بھی چھپا دونگا۔۔۔ میں نہیں چاہونگا کہ وہ بڑے ہوکر تمھارے صفحوں میں لپٹی میری داستان پڑھیں اور اپنے باپ کو ایک نفسیاتی مریض سمجھیں۔ میں نہیں چاہوں گا کہ وہ اپنے باپ کو ایک پاگل سمجھیں جسے جس کی ماں بھی دھتکار گئی تھی۔ نہیں ڈائری۔۔۔ بلکل نہیں! میں مرجاؤگا برداشت نہیں کر پاؤنگا" زمان کا دل بھاری ہوا۔ اس نے تھوک نگلا۔

"آپ ایسے نہیں ہیں بابا" اس کے دل نے کہا۔

*-------------------------*-----------------------*

وہ لیپ ٹاپ پر آفس کا کام کررہا تھا۔ شانزہ سورہی تھی۔ وہ یوں ہی سی سی ٹی وی کیمرہ کی پچھلی ریکارڈنگ دیکھنے تھا۔ اس نے بغیر کسی ارادے کے آج کی ریکارڈنگ لگا کر اپنے آفس جانے کے بعد کا منظر لگایا۔ یہ گیراج کی ریکارڈنگ تھی جس میں وہ شانزہ کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ وہ گھر سے بھاگ رہی تھی۔ تاثرات یک دم بدلے۔ وہ جو صوفے پر ریلکس بیٹھا تھا فوراً سیدھا ہوا۔ آنکھیں خون آلود ہوئیں۔ شہنواز نے شانزہ کو گاڑی سے باہر نکالا تھا اور اکبر اندر کی طرف بڑھا تھا۔ امان یہ سب سرخ ہوتی آنکھیں پھاڑے دیھ رہا تھا۔ اس نے ویڈیو بند کی اور لال ہوتی آنکھوں سے سوتی شانزہ کو دیکھا۔ ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے اس نے لیپ ٹاپ غصے سے چیختے ہوئے زمین پر پھینکا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ شانزہ جو روتے روتے سو گئی تھی آواز سے ہر بڑا کر اٹھ بیٹھی اور اب دھڑکتے دل اور فق چہرے سے امان کو اپنی طرف مٹھیاں بھینچے بڑھتے دیکھ رہی تھی۔

"16 دسمبر"

"ماہ نور نے بچوں کا روم سیٹ کیا ہے مگر میں انہیں اپنے ساتھ سلاؤں گا اور انہیں پل بھر کے لئے بھی جدا نہیں کروں گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کررہی ہو تو وہ مسکرائی اور کہا کہ وہ بچوں کا صرف روم بنا رہی ہے اور ڈیزائن کررہی ہے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ہم دونوں نے مل کر اپنے بچوں کا کمرہ سیٹ کیا" زمان کو بےاختیار منہاج پر پیار آیا۔ باپ کی جگہ کوئی شخص نہیں لے سکتا تھا حتی کہ ایک ماں بھی نہیں۔ ان کے آنے سے وہ اتنا خوش تھا کہ اپنے آپ کو بھول گیا تھا۔

"۱۸ دسمبر"

"میں سوچ رہا ہوں کمرے کا رنگ کونسا ہونا چاہئے؟ نیلا یا پنک؟ اگر وہ دونوں لڑکیاں ہوئیں تو پنک اچھا لگے گا اور اگر دونوں لڑکے ہوئے تو نیلا اچھا لگے گا۔ لیکن اگر ایک لڑکا اور ایک لڑکی ہوئی تو؟ میرا تو اب دماغ ہی کام نہیں کررہا! کنفیوژن ہورہی ہے مجھے! آج ہم نے بہت ساری شاپنگ کی کہ گاڑی میں جگہ کم پڑگئی۔ میں اسے ہر دکان پر لے کر گیا اور تقریبآ بچوں کے استعمال کی ہر چیز خریدی اور  ماہ نور مجھے دیکھ کر صرف ہنستی رہی۔ بھلا بتاؤ ایک باپ اپنی خوشی اور کس طرح ظاہر کرے؟"

دونوں کے لئے باپ کے احساسات جان کر وہ بےاختیار مسکرایا۔

۱ جنوری

" میں بےحد پریشان ہوں ڈیئر ڈائری۔ ماہ نور بہت رورہی ہے۔ اسے اپنا گھر یاد آرہا ہے۔ وہ اپنے مام ڈیڈ سے ملنا چاہتی ہے۔ مجھے ایسے میں کیا کہنا چاہئے؟ کیا میں اسے اجازت دیدوں؟ اس کی جو حالت ہے میں اسے دکھ اور تکلیف نہیں دینا چاہتا۔ میں نے اس سے کہہ دیا ہے میں اسے کل ملوانے لے جاؤں گا مگر پریشانی یہ ہے کہ اس سب کے بعد وہ اس سے ملیں گے؟ اسے گلے لگائیں گے؟؟؟ نہیں مگر میں اسے منع کرکے تکلیف نہیں دینا چاہتا"

"2 جنوری"

"انہوں نے اسے دھتکار دیا۔ رشتے دھتکار ہی تو دیتے ہیں۔ لگتا ہے دونوں کا ہی نصیب ایک جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماہ نور انہیں ایک دفع مار گئی تھی تو وہ مردوں کے پاس کیا لینے آئی ہے اب؟  وہ روتی جارہی ہے اور میرے پاس دینے کو دلاسہ تک نہیں۔ مجھے تکلیف ہورہی ہے"

"۲۷ جنوری"

"اس کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی ڈیئر ڈائری۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ اب میں کوریڈور میں بیٹھا تمھارے صفحوں پر کانپتے ہاتھوں سے قلم پکڑے لکھ رہا ہوں۔ اللہ کرے سب خیریت اور عافیت سے ہوجائے۔ آمین۔۔۔ میں تم سے آج نہ بات کر ہاؤں گا اور نہ وقت دے پاؤں گا۔۔۔ خدا حافظ۔۔"

"۱ فروری"

" انہیں اس دنیا آنکھ آج تیسرا دن ہے اور میری خوشی کا یہ عالم ہے کہ وہ ابھی بھی میری گود میں لیٹے ہیں اور میں تمھیں لکھ رہا ہوں۔ اللہ نے مجھے دو خوبصورت بیٹے دیئے ہیں۔ وہ دونوں خاموشی سے اپنی آنکھیں کھولے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں تمھیں سب بتانا چاہتا ہوں۔ بھلا تمھیں اپنی خوشی کا نہیں بتاؤں گا؟ تم وہ ہو جس نے مجھے سنبھالا۔ میں تنہا مرجاتا اگر تم میری داستانِ درد نہ سنتی۔ میرے آنسو اور خون کے چھینٹے بھی تمھارے صفحوں پر محفوظ ہیں۔ یہ بچے مجھے دیکھ رہے ہیں اور میں  مسکرارہا ہوں۔ میں نے بہت سوچا اور اب فیصلہ کیا ہے کہ ایک کا نام "امان" رکھوں گا۔ میں اسی سے ملتا جلتا دوسرا نام بھی کل سوچ ہی رہا تھا کہ ماہ نور نے "زمان" نام کی تجویز دی۔ ہاں یہ دونوں نام بے حد خوبصورت ہیں۔  ان کے نین و نقش بھی بلکل مجھ پر ہیں۔ ہاں مگر آنکھیں اپنی ماں سے چرالی ہیں جو کہ بےحد خوبصورت ہیں۔".

"۳ فروری"

"اللہ یہ دونوں ایک جیسے ہیں ڈیئر ڈائری۔ مانا کہ جڑواں ہیں مگر اتنے جڑواں؟؟؟ میں زمان کو پکارتے پکارتے امان کو اٹھالیتا ہوں تو کبھی امان کہتے کہتے زمان کو۔ اور پھر ماہ نور ہنستی رہتی ہے اور میں کنفیوز رہتا ہوں۔ آج میں نے دونوں کو اپنے سامنے لٹایا تاکہ ایسا کوئی فرق مل جائے کہ انہیں مخاطب کرنے میں پریشانی نہ ہو۔ مگر وہ دونوں ایک جیسے ہیں۔ میں اتنا خوش ہوں کہ پورا پورا دن انہیں پاس ہی رکھتا ہوں۔ ماہ نور کہتی ہے کہ مجھے اب دوبارہ سے آفس جانا چاہئے۔ سوچ رہا ہوں کل سے چلا جاؤں۔ مگر سچ میں یہ دونوں مجھے بے حد عزیز ہیں".

"۲۴ فروری"

"میں نے ماہ نور پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ کسی چیز سے وار کرتا ہوں تو آج بھی بیلٹ سے مارا۔ وہ چیختی رہ گئی اور میں مارتا رہا۔ اس وقت تک جب تک میرا غصہ نہیں اترا۔ اتنا مارا کہ نیل پڑگئے اور کہیں کہیں سے خون رسنے لگا۔ تمھیں پتا ہے کیوں؟ وہ اپنے ماں باپ سے ملنے جانا چاہتی تھی انہیں منانے جانا چاہتی تھی جنہوں نے اسے دھتکار دیا مگر میں نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ میں نہیں چاہتا کہ وہ ایک بار پھر تمہیں بےعزت کریں۔ میری بات پر زور سے چیخی اور کہا کہ اگر میں نے اسے جانے نہیں دیا تو وہ مجھے چھوڑ کر خود چلے جائے گی۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی۔ اور پھر مجھے نہیں معلوم میں اسے کتنی دیر تک مارتا رہا۔ مجھے اپنی حرکت پر کوئی ملال نہیں۔ اپنے باپ کی زندگی سے میں نے یہی سبق سیکھا کہ اگر عورت جدائی کا نام لے تو کچھ ایسا کرو کہ آئندہ وہ بھول کر بھی "چھوڑ جانے" کا لفظ ادا نہ کرے۔۔۔ اور بس میں نے یہی کیا اور آئندہ بھی یہی کروں گا۔ میں اسے دیکھنے جارہا ہوں۔ اس کے زخم صاف کرنے ہیں"۔

زمان نے لب بھینچے۔۔

کب اسے پتا نہ چلا کہ آنکھیں نم ہوگئیں۔

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے باپ نے اتنی لمبی زندگی گزار کیسے لی؟ سانس لینا دشوار ہورہا تھا تو وہ ڈائری اٹھا کر ٹیرس پر آگیا۔ وہ چوتھی منزل کے ٹیرس سے پورے شہر کو دیکھ سکتا تھا۔ آدھی سے زیادہ رات گزر چکی تھی۔ شہر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا، بس کچھ دور کچھ کچھ روشنیاں تھیں۔ تیز ہوا کا جھونکا آیا، اس نے اپنی آنکھیں دھیرے سے بند کیں اور ایک لمبی سانس ٹھنڈی فضا میں خارج کی۔ گویا وہ اپنے اندر مچلتا ہر اذیت ناک لمحہ باہر نکال رہا ہو۔ وہ دونوں ہاتھوں کی کہنیاں ٹیرس کی دیوار سے ٹکا کر پورے شہر پر نظر دوڑا رہا تھا۔

کیا یاد دلاؤں اب میں۔۔۔

کیا درد سناؤں اب میں؟

وہ وعدے جو بھول گئے۔۔۔

کبھی تم جو ملو گے۔۔۔

یاد پھر ہم بھی دلائیں گے۔

درد کس کو سنائیں گے؟

کبھی آؤ تو مل بیٹھیں گے۔

ایک داستانِ درد سنائیں گے۔

ایک سفر ہے نام زندگی۔

وہ ہم تم کو بتائیں گے۔

کس لمحے کس موڑ پر۔۔

ہم کیوں بکھرے ٹوٹ کر۔۔

یہ باتیں ہم بھی بتائیں گے۔

یہ داستان اب ہم سنائیں گے۔

کاش یہ زندگی گزارنا اتنا مشکل نہ ہوتا۔ نہیں زندگی گزارنا مشکل نہیں ہوتا بلکہ کچھ لوگ آپ کی زندگی کو مشکل بنادیتے ہیں۔ کسی نہ کسی کہانی میں کوئی کردار ایک ایسی غلطی کرتا ہے جس کی سزا دوسرے لوگوں کو بھی اپنی پڑتی ہے ۔ ایک کردار ان کی کہانی میں بھی تھا۔ ایک عورت کی ایک غلطی کی سزا پوری نسل بھگت رہی تھی۔ ایک عورت یا ایک مرد کی کی گئی غلطی نسلیں تباہ کرسکتی ہے، اس کے لئے سب کا اکٹھا ہونا ضروری نہیں۔

اس نے کہنیاں دیوار سے ہٹائی اور ڈائری کھول کر دیوار پر رکھی۔ ٹھنڈی ہوا اس کے چہرے کو چھوتی ہوئی اسے سکون سے رہی تھی۔

"۱ اگست"

"وہ دونوں کرالنگ کرنے لگے ہیں اور شرارتیں اتنی کہ میں اور ماہ نور ان دونوں کے پیچھے ہی بھاگتے رہتے ہی ۔ بس مجھے ڈر لگتا ہے کہیں یہ خود کو نقصان نہ پہنچائیں اس لئے اب دفتر سے جلدی آتا ہوں کہ ماہ نور کی مدد ہوجائے۔ دو منٹ ڈائری میں آتا ہوں (آخری الفاظ جلدی جلدی میں لکھے گئے تھے جس کی وجہ سے ہینڈ رائٹنگ گندی ہورہی تھی)

اللہ یہ زمان کا بچہ بہت شرارتیں کرتا ہے۔۔۔ ہاہاہا یہ میرا بچہ ہے۔۔۔ میں بچپن میں اس سے ذیادہ شرارتیں کرتا تھا مگر پھر کسی نے بچپن میں پچپن والی زندگی تھمادی کہ ۱۰ سال کی عمر سے بوڑھے شوق پیدا ہوگئے۔ مجھے جانا بھی اس لئے پڑا کیونکہ زمان کی الماری پر چڑھنے کی ناکام کوششیں۔ ایسے میں اسے دیکھنا پڑتا ہے کہ خود کو نقصان نہ پہنچالے۔ اس کے برعکس امان بہت پرسکون رہتا ہے اور ہنستا رہتا ہے۔ مجھے امان میں اپنا آپ دکھتا ہے۔۔۔ وہ سنجیدہ رہتا ہے۔ بہت کم روتا ہے۔ مگر میں نہیں چاہتا کہ میرے بچے مجھ جیسی زندگی گزاریں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ سب بچوں کی طرح یہ کہیں کہ وہ بھی اپنے باپ جیسا بننا چاہتے ہیں کیونکہ وہ کبھی بھی میرے بارے میں کچھ نہیں جان پائیں گے۔ یہ ڈائری ان سے بہت دور رہے گی۔ اتنی دور کہ بڑے ہوکر وہ تمھیں تلاشنا چاہیں گے تو ان کے ہاتھ کیا اس جگہ تک سوچ بھی نہیں جائے گی جہاں میں تمھیں چھپا کر رکھا کروں گا. میں نہیں چاہتا وہ مجھے پڑھیں۔ کیا پتا وہ مجھے غلط سمجھیں؟ کیا پتا وہ یہ ڈائری میں لکھے الفاظ پڑھ کر وہ محسوس نہ کر پائیں جن سے میں درحقیقت گزرا ہوں؟؟ میں چاہتا ہوں وہ مجھے ایک مضبوط اور ایک اچھا باپ سمجھیں۔۔۔۔ نہ کہ میری ماضی کی گھتیاں سلجھائیں۔۔۔ یہ سفرِ زندگی میرے جیسے انسان کے لئے طویل ہے۔۔۔۔ مگر ان کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ انشاءاللہ انہیں وہ سب برداشت نہیں کرنا پریگا جو میں نے کیا۔ میں چاہتا ہوں میرے ماضی میں الجھ کر اپنی جوانی نہ برباد کریں بلکہ زندگی کو مزے سے جئے۔ میں اپنے بچوں کے لئے بے انتہا فکر مند ہوں۔ باپ ہوں نا؟ جبھی!"

کاش وہ پل مجھے دو پل کے لئے لوٹادیئے جائیں تو وہ اپنے باپ کے کس کے گلے لگنا چاہے گا۔۔۔

زمان نے سوچتے ہوئے اتنے صفحے پلٹے گویا منہاج کی زندگی کے  پانچ چھ سال اور بیت گئے۔

"منع کیا تھا اسے مگر یہ میرا موبائل اسکول لے گیا۔ یا اللہ میں زمان کا کیا کروں۔ ماہ نور نے کہا کہ وہ ڈانٹے گی اسے مگر میں نے سختی سے اسے منع کردیا۔ وہ اسے ڈانٹے گی تو وہ روئے گا اور میں روتے نہیں دیکھ سکتا۔ یا خدایا میری ضروری کالز آنی تھیں۔ جب اس نے اپنی خواہش رکھی تو میں نے اسے سمجھایا کہ میری کالز آنے والی ہیں مگر وہ اب موبائل لے گیا حتی کہ میں نے اسے منع کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں آفس نہیں جاپایا۔  ڈیئر ڈائری زمان آدھ پون گھنٹے میں اسکول سے آئے گا اور جب میں اپنے فون کا پوچھوں گا تو کہے گا پاپا آپ نے ہی تو اجازت دی تھی۔ اب اس کو کون بتائے کہ اگر وہ ڈرامے باز یے تو منہاج اس کا باپ ہے۔ اسکی شرارتیں وہ نہیں سمجھے گا کیا؟  اور پھر جب میں کہوں گا کہ میں نے نہیں دی تھی اجازت تو رونا شروع کردے گا یہ کہہ کر کہ آپ نے دی تھی آپ بھول گئے۔ یا اللہ اب میرا ہی رونے کا جی چاہ رہا ہے ضروری میٹنگ تھی جو اس چھ سالہ بچے کی وجہ سے چھوٹ گئی"۔

ذمان یہ پڑھ کر زور سے ہنسا۔

ہاں اسے یاد ہے۔۔۔

اسے یاد ہے کہ جب اس کے باپ نے اسے پیار سے سمجھایا تھا کہ زمان پاپا کی کچھ کالز آنے والی ہیں۔ میں آپ کو رات آفس آنے کے بعد دیدوں گا۔۔ ٹھیک؟؟ پہلے تو وہ ناراضگی سے دیکھتا رہا پھر کچھ سوچ کر حامی بھر لی۔ منہاج حیران ضرور ہوا تھا کہ اس کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہ ٹپکا "مجھے کوئی پیار نہیں کرتا" والے تکیہ کلام کے ساتھ مگر پھر بوسہ دے کر اٹھ کھڑا ہوا اور موبائل سنگھار میز پر رکھ کر باہر چلا گیا۔ پھر یک دم نیچے کچن سے ماہ نور نے زمان کو آواز دی کہ نیچے آؤ اسکول بس آنے والی ہے تو وہ "آیا ماما۔۔۔" کہتا ہوا سنگھار سے موبائل دیکھنے لگا۔ اس نے موبائل کی اسکرین کھولی اور اسکی آواز بند کرکے بیگ میں رکھ دیا اور نیچے بھاگ گیا تھا۔ وہ وقت بھی کیا تھا جب وہ اپنے گھر کا چھوٹا چور ہوا کرتا تھا۔۔۔۔ اب بھی تھا مگر اس بار صرف بھائی کا۔۔۔ زمان ہنسنے لگا۔

زمان نے صفحے پلٹے۔

"امان بولتا کم ہے مگر ہنستا بہت ہے۔ اسکی آنکھیں سب کہتی ہیں۔ جوں ہی میں آفس سے آتا ہوں مجھے دیکھ کر حیرت و خوشی سے آنکھیں پھاڑتا ہے اور بھاگتے ہوئے میری گود میں چڑھ جاتا ہے۔ میں اسے پیار کرتا ہوں اور اگر اس وقت زمان دیکھ لے کہ میں امان کو گود میں اٹھا کر پیار کررہا ہوں پھر اس کے دل پر گہری چوٹ پڑتی ہے اور وہ صدمہ میں چلے جاتا ہے اور کہتا ہے "مجھ سے تو کوئی پیار ہی نہیں کرتا؟"۔۔ اسے منانا ناممکن ہوجاتا ہے پھر ہاتھ جوڑ کر ترلے کرنے پڑتے ہے کچھ سمجھانا پڑتا ہے پھر اپنے ننھے منھے آنسو جو  اندر سے پانی کے چھینٹے چہرے پر مار کر آنسو کی صورت دیتا ہے دکھانے لگتا ہے۔ لیکن اس پر پیار ہی اتنا آتا ہے کہ اس کی یوں شرارتوں پر میں زور زور سے ہنسنے لگتا ہوں۔ میں ماہ نور سے کہا ہے کہ اس پر کبھی سختی مت کرنا کیونکہ شاید اس کے اندر احساس محرومی پیدا ہوگئی ہے کہ ہم اس سے پیار نہیں کرتے۔ وہ کہتی ہے کہ منہاج یہ صرف سب کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اس سے ذیادہ اور کچھ نہیں۔ افف میرے دونوں میرے بیٹے! دونوں محبت کے دائرے میں برابر کھڑے ہیں۔ جو صرف میرے ہیں".

*------------------------*-------------------------*

"باہر کیسے نکلی گھر سے؟ یہ قدم باہر کیوں۔۔۔۔" اس کا بےاختیار اس پر ہاتھ اٹھا تھا جو اس کے چہرے پر پڑنے سے  پہلے ہی امان نے روک لیا تھا۔ امان نے لب بھینچے۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور ایک گہری سانس خارج کی۔

"باہر کیسے گئی؟؟" وہ دانت پیس کر لفظ ادا کررہا تھا۔ اس کے جبڑے کو مضبوطی سے پکڑ کر دیوار سے لگایا۔ تکلیف سے شانزہ کی چیخیں نکل گئیں۔

"مجھے چھوڑ کر جاؤ گی؟" وہ اتنی زور سے چیخا کہ شانزہ کو لگا کہ اس کے کان سن ہوگئے ہیں۔ وہی ایک خوف جو ان کے گھر کے ہر مرد کو اپنے اپنے وقتوں پر رہا تھا۔۔۔۔

"قدم باہر کی جانب کیسے اٹھے؟؟؟؟" وہ پوری قوت سے چیخا۔ شانزہ درد سے کراہی۔۔

"میں نے منع کیا تھا نا؟ ایسے سمجھ نہیں آئے گی تمہیں۔۔۔۔"

"نن۔نہیں ممم۔میں۔۔ امان میں معافی چاہتی ہوں" وہ تکلیف سے چیخی۔ وہ جھٹکے سے دور ہٹا۔ امان کو اپنا آپ بے قابو لگا۔ وہ اسے مارنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر جو غصہ اس کے اندر ابل رہا تھا، اس حالت میں وہ خود کو قابو نہیں کر پارہا تھا ۔ اس نے ہاتھوں کی انگلیاں اپنے بالوں میں پھنسائیں اور گہری سانسیں لینے لگا کہ شاید کہ ایسے وہ خود کو قابو کرلے۔ کچھ لمحے گزرنے کے بعد اس نے ہاتھ نیچے کئے اور ہاتھوں کی مٹھی بنا کر لب بھینچے اسے دیکھنے لگا۔ شانزہ کا بدن خوف سے کانپنے لگا۔ وہ کیا کرنے والا تھا؟ وہ اذیت دینا چاہتا تھا۔ وہ اسے عبرت دلانا چاہتا تھا تاکہ وہ یوں آئندہ نہ کرے۔ مگر دل ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ وہ  اپنا باپ نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ اسے مارے گا نہیں مگر اذیت ضرور دے گا اور اب وہ تہیہ کر چکا تھا۔  سانس خارج کرتا ہوا وہ اس کی جانب بڑھا اور اس کا بازو سختی سے پکڑا۔ خوف سے اس کی چیخ نکلی۔ لفظوں نے گویا ساتھ ہی چھوڑدیا تھا۔

"یہیں کھڑی رہو گی اب تم ساری رات". وہ اسے کھینچتا ہوا کھڑکی کے سامنے لایا جو بند تھی اور اسے وہاں دیوار کے ساتھ کھڑا کردیا۔

"جب تک میں سو کر نہیں اٹھوں گا صبح! تم یہیں کھڑی رہو گی! سمجھ آئی؟؟؟ اور اگر میں نے تمھیں سوتے دیکھا تو پھر اچھا نہیں ہوگا۔ اس کا جبڑا مضبوطی سے پکڑ اس نے بات ختم کی اور اسے جھٹکے سے چھوڑتا ہوا بیڈ تک آیا۔ شانزہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ بیڈ پر اوندھا اور تکیہ منہ پر رکھ کر لیٹ گیا۔ رحم نہیں گنجائش کسی صورت نہیں تھی۔ شانزہ اپنے آس پاس جگہ کو دیکھنے لگی۔ کیا وہ یونہی ساری رات کھڑی رہے گی؟ یہ سوچ کر آنسو اس کے چہرے کو بگھو گئے۔۔ بس سسکیاں تھیں جو اندھیرے کمرے میں گونج رہی تھیں۔

*------------------------*-----------------------*

۲ جون

"آج ہم نے ہائڈ اینڈ سیک کھیلا۔۔۔۔ ایک درد کا کھیل جس میں ماہ نور تڑپتی اور میرا دل بھی آنسو بہاتا۔ ایک جان بھی چلی گئی۔۔۔ میرے ڈرائیور کی۔۔۔  ماہ نور کو لگتا ہوگا کہ جب بھی میں اسے مار کر جاتا ہوں تو میرا دل ہلکا ہوجاتا ہے۔۔۔ نہیں ڈئیر ڈائری!! تم جانتی ہونا غصہ کے بعد مجھے پچھتاوا جلد ہی آلیتا ہے؟"

زمان کو یہ دن یاد تھا جب ماہ نور کو منہاج نے بےدردی سے مارا تھا۔ ہر اذیت ناک لمحے گویا دماغ میں پیوست تھے. زمان نے بہت سے صفحے پلٹ دئیے۔

اس نے منہاج کے چار پانچ سال آگے کئے۔

" لگتا ہے جیسے کل کی ہی بات تھی جب امان اور زمان پیدا ہوئے تھے اور ایک ہفتے پہلے ماشاءاللہ گیارہ سال کے ہوگئے۔ امان کی پرسنٹلی بہت پیاری ہے۔ بردباری اور سنجیدگی گویا ٹپکتی ہے۔ ہر کام میں مصلحت سے کام لیتا ہے۔۔۔۔ کسی کی بات کو سنتا ہے تو گویا پہلے وقت اسے دیتا ہے اور اسے غور سے سنتا ہے پھر اپنی بات رکھتا ہے اور اگر وہ کہیں غلط بھی ہوتا ہے تو غلطی بھی مان لیتا ہے۔۔۔۔ جبکہ زمان اگر غلط بھی ہو تو اس سے یہ بات منوانا مشکل نہیں نا ممکن ہے کہ وہ غلط ہے۔۔ میں دونوں کو خاموش کرانے کے لئے ان کی باتیں سنتا ہوں مگر اکثر زمان غلطی پر ہوتا ہے۔۔۔ میں اسے سمجھاتا ہوں تو اپنی غلطی ہی نہیں مانتا۔ افف یہ لڑکا کل کو شادی کر کے بھول جائے گا کہ میں نے کب شادی کی۔۔ میں اسے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ زمان مجھے تم سے محبت ہے۔۔۔۔ بلکل ایسے جیسے مجھے امان سے محبت ہے"

زمان کے آنسو ڈائری پر گر کر اس کے صفحوں پر جذب ہونے لگے۔ اس نے دوسرے ہاتھ سے آنسو صاف کیئے۔۔۔۔اس نے صفحہ پلٹا۔

"  زمان کی شادی میں اس سے کراؤں گا جو بلکل اس جیسی ہوگی۔۔۔ شرارتی، شوخ و چنچل۔۔۔۔ امان کی پرسنلٹی سب کو اس کی جانب متوجہ کرتی ہے۔۔۔۔ اور زمان کسی بھی محفل میں بیٹھتا ہے تو اپنی باتوں سے محفل کو چار چاند لگا دیتا ہے"۔

زمان مسکرایا

۱ اگست

"ماہ نور کو مارا اور بچے ڈرے سہمے دیکھتے رہے۔۔۔ وہ یہی سمجھتے ہونگے کہ ان کا باپ اس دنیا کا سب ذیادہ ظالم انسان ہے۔۔۔ بس یہ کہ جو اپنی نفسیات نہیں بدل سکا اس سے عادت بدلنے کا کہنا ناممکن ہے۔۔ میں اپنی عادت سے مجبور ہوں۔"

اس نے ۲ سال آگے بڑھائے۔۔

"۲۵ مارچ"

"اور آج زندگی میں پہلی بار میں چاہتا ہوں کہ میرے دونوں بچے بڑے ہوکر میری ڈائری پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔ میں کیوں چاہوں کہ وہ اپنے باپ کو نفسیاتی مریض نہ سمجھیں؟؟؟؟ نفسیاتی کو نفسیاتی نہیں سمجھیں گے کیا؟؟؟ میں چاہتا ہوں کہ وہ میری داستان پڑھیں اور سمجھیں کہ ان کا باپ وحشی کیوں بنا؟ پاگل کیوں ہوا؟ حادثات ہر موڑ پر۔۔ مگر کیوں؟ وہ یہ بات جان سکیں کہ ان کے باپ کو دن ہو رات کمرے کی لائٹ بند کرکے موم بتی جلا کر تنہا  بیٹھنے کا کیا شوق تھا؟ کیوں ضرورت پیش آئی؟ ایک دس سال کا بچہ کیوں وقت سے پہلے سمجھدار ہوا تھا؟ کیوں بچپن میں پچپن والے شوق پیدا ہوئے؟"

"۱۵ اپریل"

"مجھے نہیں پتا میری ڈائری ابھی کون پڑھ رہا ہے۔۔۔ کیا پتا زمان؟ یا امان؟ یا کوئی بھی نہیں؟ شاید پھینک دی جائے میرے بعد میں؟ مجھے نہیں پتا میں کب تک زندہ ہوں۔۔۔۔ نوے فیصد چانسس ہیں کہ امان ہوگا کیونکہ زمان کو کتابوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں۔۔۔ ( اور یہاں تنہا بیٹھا زمان کا دل چاہا کہ چیخ چیخ باپ کو بتائے کہ یہ ڈائری اسے بےحد پسند آچکی ہے) پھر بھی اگر زمان ہے تو میں یہ کہنا چاہوں گا کہ تمھارا باپ تمھیں بہت چاہتا ہے۔۔۔۔ اور اگر امان؟ تو تم میرے لئے بہت انمول ہو۔۔۔۔ میں نے محبت میں برابری کی ہے۔۔۔۔ تم دونوں میرے جگر کے ٹکڑے ہو۔۔۔۔ یہ ڈائری پڑھ کر میری زندگی سے کوئی سبق سیکھو نہ سیکھو بس اتنا سیکھ لینا کہ زندگی کا کوئی بھی موڑ ہو مگر عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔۔۔ تمھیں عجیب لگ رہا ہوگا  ڈئیر ڈائری؟ اور شاید امان اور زمان کو بھی لگ رہا ہوگا۔۔۔ ہاں مگر میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔۔۔ ایک عورت پر کبھی ہاتھ مت اٹھانا۔۔۔ وہ بہت مضبوط ہوتی ہے۔۔۔ وہ اس مرد کے لئے اپنا گھر بھی چھوڑتی ہے جسے وہ گہرائی تک بھی نہیں جانتی۔۔۔ اور جب آپ اس پر ہاتھ اٹھاتے ہیں تو بھی وہ مار سہتی ہے۔۔۔ مزحمت بھی نہیں کرسکتی۔۔۔   اور مرد اسے مار کر غصے سے چلا جاتا ہے۔۔۔ وہ پیچھے اپنا  ہی بکھرے وجود کو سمیٹتی ہے۔۔۔ وہ ہر بار ٹہھرتی ہے تو صرف آپ کے لئے۔۔۔ کیونکہ وہ محبت کر بیٹھتی ہے اپنے مجازی خدا سے۔۔۔ وہ اسے مارتا ہے تو بے موت مرتی ہے اور بس ایک اظہار پر پھر جی اٹھتی ہے۔۔۔۔

"محبت اظہار مانگتی ہے ڈئیر ڈائری"

اور میں اس سے یہ اظہار روز کرتا ہوں کیونکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔

عورت اپنا آپ تم پر تمام کرتی ہے۔۔۔ وہ تمھارے لئے خود کو تمھارے مطابق ڈھال لیتی ہے۔۔۔۔

وہ تمھارے شوق کو اپنا شوق بھی بنا لیتی ہے مگر کیا تم ایک اظہار نہیں کرسکتے؟

کبھی ایک عورت پر ہاتھ نہ اٹھانا کیونکہ اسے "نازک" کہتے ہیں مگر وہ اندر سے بہت مضبوط ہوتی ہے۔۔۔

مگر میں یہ عادت نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ جو شخص اپنے آپ کو بدل نہیں سکتا وہ اپنی بیوی کو مارنا بھی نہیں چھوڑ سکتا۔۔۔ میں نہیں بدل سکتا مگر چاہتا ہوں میرے بچے ایسے نہ ہوں۔۔  ماہ نور بہت مضبوط ہے کہ میری ہر مار کے بعد مجھ سے یوں مسکرا کر ملتی ہے گویا کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔  میری بیٹی ہوتی اور اگر میں اپنی بیٹی کا مستقبل دیکھ پاتا۔۔۔۔ اور یہ دیکھتا کہ اسے شوہر میرے جیسا ملے گا تو میں اس ڈر سے بیٹی ہی پیدا نہ کرتا کیونکہ میں اسے اذیت میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔۔ عورت ایک تماشہ نہیں ہے مگر افسوس میں نہیں بدل سکتا۔ کہنے اور عمل کرنے میں فرق ہوتا ہے۔۔۔ مگر وہ بات ہی کیوں بولوں جو میں عمل ہی نہیں کرسکتا۔ میری مثال ایک ایسے درخت کی ہے جو زمین میں بہت اندر تک اپنی جڑیں پھیلا چکا ہے۔ میری زندگی تو برباد ہے۔۔۔ میں نہ بدلنے والوں میں سے ہوں۔ اس لئے کیونکہ میرے اندر موجود خوف کوئی ختم نہیں کرسکتا۔  یہ خوف وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے کہ ماہ نور بھی مجھے چھوڑ دے گی جس طرح میری ماں نے میرے باپ کو چھوڑا۔۔ میں نہیں بدل سکتا مگر تم لوگوں کو اپنے جیسا بننے سے روک سکتا ہوں۔۔۔۔

مگر ایک بات ہے! تم دونوں کی ماں بہت مضبوط ہے۔۔۔ مگر ہر عورت ایسے مضبوط نہیں۔۔۔ وہ تمھاری سختیاں برداشت نہیں کرپائیں گی۔۔۔

اس سے اتنی محبت کرو کہ وہ جانے کا خیال ہی دماغ میں لائے۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرے نقشِ قدم پر چل کر کسی کی بیٹی کی زندگی تباہ کرو"

مگر میں مجبور ہوں۔۔۔"

*--------------------------*--------------------------*

وہ اوندھے منہ لیٹا سو نہیں رہا تھا۔۔ امان کو خود یقیں نہ آیا کہ اس نے خود پر قابو کیسے پالیا۔  سسکیاں اب بھی جاری تھیں اور اب بلند ہورہی تھیں۔

"اب آواز نہ آئے تمھاری" وہ بلند آواز میں بولا۔ شانزہ کی سانسیں اٹکیں۔

"سسکیوں کی آوازیں اب بھی آرہی ہیں"

"مم۔میں نہیں کک۔کرہی" وہ ہچکیوں کے درمیاں بولی۔

"ہاں میں لے رہا ہوں سسکیاں" وہ طنزیہ بولا۔۔۔

شانزہ نے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تاکہ آواز باہر نہ جائے۔

وہ پھر سے لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ وہ ویسی ہی کھڑی تھی جیسے وہ کھڑا کر گیا تھا۔ ٹانگیں دکھنے لگی تھیں مگر امان کا خوف اتنا کہ چاہ کر بھی اس نے اپنا قدم آگے نہ بڑھایا۔ اس طرح ہی کوئی ایک ڈھیر گھنٹہ گزرگیا۔۔۔ اب واقعی اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ دائیں پاؤں کا تلوا اس نے بائیں پاؤں پر رکھا تھا۔ ماتھے پر تھکن لکیریں تھیں۔

تھوڑی اور دیر گزری کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے یوں اٹھنے پر شانزہ ڈر سی گئی۔ اب وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے سامنے دیکھ رہا تھا۔ پھر ایک خواب۔۔۔ پھر ایک اور رات برباد۔۔۔۔یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اسے رات نیند ہی کب آیا کرتی تھی؟۔ اور کبھی دو منٹ کے لئے لگ بھی جاتی تو تھوڑی دیر بعد ہی پھولی سانسوں کے ساتھ اٹھ جایا کرتا تھا۔ اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔ شانزہ نے اسے  ہڑبڑا کر اسے اٹھتے دیکھا تھا مگر اندھیرا ہونے کے باوجود اس کے تاثرات نہ جان پائی۔ وہ اب انگلیاں بالوں میں پھنسائے آنکھیں پھاڑا اپنی ٹانگوں پر نظریں جمایا ہوا تھا۔اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ وہ اٹھ کر کمرے کی لائٹ جلاتا سنگھار کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ دونوں ہاتھ میز پر رکھتا جھک کر آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھنے لگا۔ اس آئینہ میں دائیں طرف ڈری سہمی سی شانزہ بھی کھڑی دکھائی دے رہی تھی۔  وہ ایک نظر اسے دیکھ کر پھر سے سامنے دیکھنے لگا اب یہ رات کب گزرے گی؟ گز تو جائے گی مگر کب؟ ہر رات کی طرح یہ رات بھی بھاری۔۔۔

شانزہ دور کھڑی اس کی حالت سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔ جبکہ امان بس آئینہ کو گھور رہا تھا۔

"یہ آئینہ ہی سب کچھ ہے"  دانت پیس کر کہا اور مکا آئینہ پر دے مارا۔ چھناکے کی آواز سے شیشہ ٹوٹ کر بکھر گیا۔ شانزہ کی خوف سے چیخ نکل گئی۔ امان کے ہاتھوں سے خون نکلنے لگا تھا۔اس نے پلٹ کر شانزہ کو دیکھا۔ وہ سہمی سی آنکھیں پھاڑیں اسے دیکھ رہی تھی۔

"جاؤ بیڈ پر بیٹھ جاؤ" امان نے اسے ایک نظر دیکھتے ہوئے کہا۔

وہ وہیں ساکت کھڑی رہی۔۔۔ امان نے آئبرو اچکائی۔

"کیا کہہ رہا ہوں میں؟ کانچ چبھ جائے گی شانزہ تمھیں! بیڈ پر بیٹھو" امان کے  ہاتھوں پر کانچ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے گھسے ہوئے تھے اور خون اب ہاتھوں سے ہوتا ہوا زمین پر ٹپک رہا تھا۔ شانزہ اس کے ہاتھوں سے بہتے خون کو دیکھ رہی تھی۔ یہ حرکت کوئی عام انسان نہیں کرسکتا تھا۔

"خخ۔خون" وہ ہکلائی۔ امان نے ہاتھوں کی جانب دیکھا جہاں تیزی سے خون بہہ رہا تھا۔

"تمھیں ڈر لگتا ہے خون سے؟" اس نے بےوجہ پوچھا۔ شانزہ اثبات میں سرہلایا۔

"اب جاؤ بیڈ پر بیٹھو!"

" آپ نے شیشہ کیوں توڑا؟" وہ ڈرتے ڈرتے پوچھنے لگی۔

"جو زندگی حرام کریں انہیں توڑ دینا چاہئے" وہ فرسٹ ایڈ باکس کھولتا ہوا بولا۔

شانزہ اس کے جواب پر ڈر گئی۔

"ضروری نہیں وہ انسان ہی ہوں! کوئی چیز بھی ہو سکتی ہے۔۔۔۔" وہ اپنے ہی دھن میں بول رہا تھا یہ جانے بغیر کہ شانزہ کی رنگت فق ہورہی تھی۔ امان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"تم نہیں سمجھو گی" وہ کہتا اپنی ہتھیلیوں اور انگلیوں میں پھنسی کانچ کے ٹکڑوں کو نکالنے لگا۔

"مم۔میں نہیں جاؤں گی! مم۔میں کہیں نہیں جاؤں گی مم۔مجھے سزا نہیں دے گا" وہ روتے ہوئے بولی۔۔

"ںےوجہ سزا نہیں دیتا شانزہ امان۔۔۔ تم کچھ نہیں کروگی تو مجھے بھی کچھ کرنے کی نوبت پیش نہیں آئے گی" وہ سخت لہجے میں اسے بہت کچھ باور کراگیا۔ سائڈ ٹیبل پر اس نے فرسٹ ایڈ باکس رکھا اور پھر اسے دیکھا۔

"مجھے کمزور مت سمجھنا کبھی شانزہ۔۔۔۔ میری مجبوری تھی جو میں نے تمھیں بیڈ پر بیٹھنے کی اجازت دیدی، ورنہ تم صبح تک یونہی کھڑی رہتی!" وہ کہہ کر پلٹا۔ اب اس کا رخ باہر ٹیرس کی جانب  تھا۔ اس نے کمرے کی لائٹ بند کی اور اسے سونے کی تنبیہہ کرتا ہوا ٹیرس پر آگیا۔ سیگریٹ سلگا کر لائٹر جیب میں رکھا اور سانس خارج کرتا ہوا نڈھال سا سامنے دیکھنے لگا۔ اب اسے یونہی ساری رات ٹیرس پر رہنا تھا۔ خاموش ماحول بھی اسے سکوں نہیں دے پارہا تھا۔ ایک شخص تھا جس کی طلب اسے بےحد محسوس ہورہی تھی۔ اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کال ملائی۔ تین سے چار بیل پر کال اٹھالی گئی تھی۔

"ہیلو؟ تم ٹھیک ہو؟؟" امان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی سامنے سے سوال آگیا تھا۔

"ہاں" اس نے مختصراً جواب دیا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی چھا گئی۔

"ابھی تک جاگے ہوئے ہو؟ چار بجنے والے ہیں" زمان کچھ توقف سے بولا۔ امان نے تھوک نگلا۔

ماتھے پر درد کی لکیریں عیاں ہوئیں۔

"مجھے رات نیند آتی کب ہے زمان؟" امان نے نگاہ پھیری۔ زمان کا رنگ فق ہوا۔

"مجھے سے باتیں کرو پھر۔۔۔۔ کوئی بات نہیں اگر نیند نہیں آتی تو۔۔۔۔ مجھے بھی نہیں نیند آرہی دیکھو جبھی جاگا ہوا ہوں" وہ جانتا تھا امان کو کیسے قابو کرنا ہے۔۔۔ وہ کوئی رسک نہیں لے سکتا تھا۔۔ اس حالت میں تو بلکل نہیں جبکہ وہ امان سے بہت دور تھا۔

"کیا تمہیں خواب تنگ کرتے ہیں؟ کیا تمہیں دن ڈھلتے ہی اپنا آپ بے قابو لگنے لگتا ہے یا تم وحشی بن جاتے ہو؟ کیا سورج غائب ہوتے ہی تمہیں  اپنے وجود میں پاگل اور وحشت پن اترتے دکھتی ہے؟ زمان بہت مشکل ہے میرا اتنے درد کے ساتھ زندگی گزارنا" قریب تھا کہ آنسو چھلک پڑتے مگر وہ بمشکل ضبط کرگیا۔

زمان نے لب بھینچے۔۔۔

"میں آرہا ہوں بہت جلد" زمان نے جوش سے کہا۔

"جلدی آجاؤ"

"تم فکر مت کرو"

"ٹھیک۔۔۔۔ تم کیوں جاگ رہے تھے؟ یا میں نے بیدار کردیا؟"

"نہیں میں کتاب پڑھ رہا تھا"

"کیسی ہے؟"

"مصنف نے اچھا لکھا ہے"

"موضوع؟"

"پانچ منٹ بڑے بھائی کی شادی میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے"

امان کا قہقہہ اس اندھیرے اور خاموش ماحول میں گونجا۔ امان کے لئے وہ دنیا میں اکلوتا  شخص تھا جو اسے روتے میں بھی ہنسا دیتا تھا۔

*-----------------------------*-------------------------*

وہ فجر کی نماز پڑھ کر جائے نماز پر ہی بیٹھی تھی۔ دو تین دنوں سے دماغ ایک ہی جگہ اٹکا تھا۔ اب تک  تو وہ نکاح بھی ہوچکا ہوگا امان کے ساتھ اسکا۔۔۔ بلکہ ہوسکتا ہے اسی دن ہوگیا ہو۔

امان کے ساتھ چلی گئی مگر کیوں؟

امان۔۔۔۔ زمان کا بھائی.... زمان؟ وہ چونکی۔۔۔

"شانزہ خطرے میں ہے! وہ شخص اس کی تلاش میں ہے!" اسے زمان کی باتیں یاد آنے لگیں۔۔۔

اسے کچھ نہ آیا۔ اسکی باتیں۔۔۔ وہ اسے پہلے سے وارننگ دے رہا تھا اور وہ محض اس کی باتوں کو جھوٹ قرار دیتی رہی۔

اب اس کا دماغ تیزی سے کام کررہا تھا۔ وہ ساری کڑیاں آپس میں ملانے لگی۔

یعنی وہ شخص امان ہی تھا جس کا زمان نے ذکر کیا تھا؟

"مجھے اتنا یقین ہے تم میری جانب لوٹو گی اور شاید تب دیر ہوجائے! پھر تم اس وقت کو کوسو گی کہ تم نے میری دس منٹ کی گفتگو نہیں سنی! بہت بڑا نقصان ہونے والا ہے"

کہیں میں نے تاخیر تو نہیں کردی........؟

شانزہ بےقصور تھی۔۔۔

اور رمشا؟ وہ جھوٹ بول رہی تھی۔۔۔۔

کوئی اور معملہ تھا جس کا علم رمشا کو بھی تھا ورنہ وہ کبھی چاچو کے ساتھ شانزہ کو کالج سے پک کرنے کا کہہ کر شانزہ سے ہمدردی نہ کرے۔۔۔

اور شانزہ کا رویہ بھی تو عدیل سے معمولی نہیں تھا۔

کیا وہ یہ سب امان کے خوف سے کررہی تھی۔۔۔

یا خدایا۔۔۔۔

ایک دفع میرے علم میں تو لاتی شانزہ۔۔۔۔

تم نے اتنا سب کچھ تم نے اکیلے ہی سہا؟

اور صلہ کیا ملا؟

چاچو نے اپنی بیٹی سے رخ موڑ لیا اور عدیل جو اس سے محبت کا دعویدار تھا اس نے بھی یقین نہیں کیا۔۔۔۔

مم۔میں نے بھی تو ن۔نہیں کیا... آنسو اس کا چہرہ بگھو گئے۔۔۔ اس نے نظریں اٹھا کر گھڑی دیکھی، پانچ بج رہے تھے۔۔۔۔

وہ فون کی جانب بڑھی۔۔۔

وہ سورج نکلنے کا انتظار نہیں کرسکتی تھی۔

*--------------------------*----------------------------*

وہ نماز پڑھ کر بیٹھا تھا۔۔۔ دعاؤں کا لمبا سلسلہ جاری تھا۔ امان اس کی دعاؤں میں ہمیشہ سے شامل تھا۔ وہ دعا مانگ کر ابھی بیٹھا ہی تھا کہ فون بجا۔ اس کا دل جائے نماز کو چھوڑنے کا نہیں تھا مگر ناچار اس کو اٹھنا پڑا۔۔۔ بیڈ سے موبائل اٹھایا اور نظر ماری۔ اجنبی نمبر سے کال آرہی تھی۔ اس نے اٹھا کر کان سے لگایا۔

"ہیلو؟"

جواباً ایک نسوانی آواز تھی جو زمان کے کان سے ٹکرائی تھی۔ وہ اس آواز کو ہجوم میں بھی پہچان سکتا تھا۔ اس کی کال تھی یعنی کوئی بہت بڑی مصیبت تھی۔

"زمان؟ جواب دو" وہ چیخی۔

"تت۔تم؟ خیریت؟؟؟؟" وہ چونکا۔ لمحہ لگا تھا اسکی رنگت فق ہونے میں ۔ فاطمہ کا فون بےوجہ نہیں آسکتا تھا۔ 

"کیا میں نے تاخیر کردی؟" وہ روتے ہوئے دبے دبے سے لہجے بولی۔ زمان کا دل بیٹھا۔

"ک۔کیا ہوا ہے؟ مجھے کچھ علم نہیں۔۔۔ ؟" وہ ساکت ہوا۔ فاطمہ نے پہلے حیرانی اور پھر حقارت سے فون کو دیکھا اور چلائی۔

"تمھیں علم نہیں؟ دونوں گھر میں ساتھ رہتے ہو اور یہ ہی نہیں معلوم تمہارے بھائی نے شانزہ سے نکاح کیا ہے؟؟؟ تم تو ساتھ دینے کی بات کررہے تھے نا زمان؟ مگر تم جھوٹ۔۔۔۔" اس نے روتے ہوئے بات ادھوری نہی چھوڑدی۔

زمان کے تو کان سائیں سائیں کرنے لگے تھے۔ وہ دم بخود کھڑا معاملہ سمجھنے کی کوشش کررہا تھا۔ امان نے نکاح؟؟؟ مگر ابھی رات ہی تو بات ہوئی تھی۔۔۔۔

"کک۔کب نکاح۔۔۔۔" اس کے منہ میں ہی الفاظ رہ گئے۔ اسے اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا۔ وہ خود پر قابو پانے کی کوشش کررہا تھا۔

"کیا تمہیں واقعی نہیں خبر؟" اسے حیرت ہوئی۔

"نہیں میں بے خبر ہوں۔۔ میں کراچی میں نہیں ہوں دو تین دن سے۔۔مجھے علم نہیں! خدا کا واسطہ ہے مجھے بتاؤ" وہ سامنے کی جانب نگاہیں ٹکا کر دم بخود بولا۔

"دو، تین دن قبل"

زمان نے بائیں ہاتھ کی انگلیاں غم و غصے سے بالوں میں پھنسائیں۔۔۔۔

امان ایسا کیسے کرسکتا تھا۔۔۔ اپنے بھائی کو بھی خبر لگنے نہیں دی۔۔ اسے رونا آنے لگا۔۔۔۔ اتنا بےبس زندگی میں کبھی نہیں ہوا جتنا آج امان نے کردیا تھا۔۔۔۔ اس نے میرے لاہور جاتے ہی اسی دن نکاح کرلیا۔۔۔۔ یعنی اس نے مجھے جان بوجھ کر بھجوایا تھا؟

"مجھے سمجھ نہیں آرہا میں کیا کروں۔۔۔ لیکن میں نے تم سے کہا تھا فاطمہ جاوید کہ میری بات کا یقین کرو! مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔۔ مجھے آج کراچی کا ٹکٹ کروانا ہے! کوشش ہے آج ہی آجاؤں۔۔۔ پھر ہی پتا چلے گا کہ تم کتنی تاخیر کر آئی ہو" اس نے کال کاٹی اور بے چارگی سے فون کو دیکھنے لگا۔ اس کا نمبر سم میں محفوظ کرکے اب وہ لب بھینچے خود کو آئینے میں دیکھ رہا تھا۔

"امان" اس نے پوری قوت سے چیخ کر موبائل دیوار پر دے مارا۔

ایک کے بعد ایک مشکل سر پر کھڑی تھی۔۔۔

کاش کہ یہ وقت تھم جائے اور دو گھڑی سکون اور خاموش فضا میں کھل کر سانس ہی لیلے۔۔۔

مگر وہ صرف ایسا سوچ سکتا تھا، حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔

*-------------------------*-----------------------*

وہ شاور لے کر کمرے میں آیا اور تولیہ بالوں پر رگڑنے لگا۔ کل رات زمان کے ساتھ گفتگو کے بعد اس کا موڈ ٹھیک کوچکا تھا۔ وہ آج خوش بھی تھا کیونکہ زمان آنے والا تھا۔ بےخبری میں تولیہ بیڈ پر پھینکا یہ بھول کر کہ گیلا تولیہ سوتی شانزہ کے منہ پر پڑا تھا۔ وہ وارڈروب کی جانب بڑھا کہ جھٹکے سے پلٹا اور تیزی سے شانزہ کی جانب بڑھا۔ تولیہ ہٹا کر دیکھا تو وہ خمار آلود آنکھوں سے حالات سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔

"نہیں نہیں سوجاؤ۔۔۔ کچھ نہیں ہوا" امان اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ شانزہ تو اس کی شکل دیکھتے ہی سہم گئی تھی۔ اٹھ کر بیٹھنے لگی تو اس نے منع کردیا اور تپھکنے لگا گویا بچے کو تھپک رہا ہو۔ وہ تو ویسے ہی نیند میں تھی کچھ لمحوں میں ہی سوگئی۔ وہ شانزہ امان تھی جو سوتے میں بھی کسی معصوم سے بچے کی طرح لگتی تھی۔ بہت پیاری۔ امان مسکرا کر اپنی زوجہ کو دیکھنے لگا۔ اس کے بالوں میں انگلیاں گھماتا وہ بھول رہا تھا کہ اب وہ آفس لیٹ ہورہا ہے۔۔۔ یونہی کتنی دیر تکنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ ایک شوہر کے ساتھ ایک باس بھی ہے۔ وہ چونک کر اٹھا اور وارڈروب سے کالر والی شرٹ اور کوٹ نکالنے لگا۔ چینج کرکے آیا اور ایک نظر سوتی شانزہ کو دیکھ کر سنگھار میز کے سامنے کھڑا ہوگیا۔۔ کنگھا اٹھاتا آئینہ کی طرف دیکھا تو یاد آیا آئینہ تو وہ توڑ چکا تھا۔۔ اب خود کو کہاں دیکھا جائے؟

"اہا زمان کا کمرہ" وہ شاطرانہ مسکراہٹ لئے بولتا اب اس کے دروازے پر کھڑا تھا۔ تختی کو اٹھایا جس میں اتنے بڑے بھاشن کے علاوہ "میری خواب گاہ میں امان کا آنا منع ہے" کو ایک نظر دیکھتا اسے پیچھے پھینک کر آگے بڑھ گیا۔ زمان نے اپنے کمرے کی دیوار پر بڑا آئینہ لگوایا تھا۔ وہاں اچھی طرح بال بنا کر خود کو تسلی دے کر وہ اس کے وارڈ روب کی طرف بڑھا۔

"میری الماری کو ایسے کنگھالتا ہے جیسے اس کے پیسے اڑاتا ہوں۔۔۔"

وارڈ روب کو دیکھ کر اسے دھچکا لگا، کپڑے ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔۔ کیسے؟؟؟؟؟ اوہ کلثوم نے اس کے جانے کے بعد تہہ کرکے رکھے ہونگے ورنہ اسے کون نہیں جانتا ہے؟

اس نے اس کے کپڑے نکال کر بیڈ ہر رکھے۔  سب کپڑوں میں اس کی ایک بلیک ٹی شرٹ تھی جسے وہ اکثر پہنا کرتا تھا اور محبت اتنی تھی کہ اس شرٹ کو تین دن تک دھلواتا نہیں تھا۔ دھلوانے کا کبھی سوچا ہی نہیں ۔۔۔ امان نے شرٹ ناک سے لگائی اور اس کے بعد اسے کچھ لمحے سنبھلنے میں لگے۔۔۔۔ اسے لگا اس کی ناک سڑ گئی ہو۔ ابکائی آئی اور وہ اب آنکھیں پھاڑ کر چھت کی طرف دیکھنے لگا تاکہ کچھ تو حالت سنبھلے ۔۔۔۔

"مجھے سمجھ نہیں آتا یہ شرٹ سنبھال کر کیوں رکھی ہے؟ ۶،۷ سال سے زائد ہوچکے ہونگے" وہ اسے انگلیوں سے پکڑتا نیچے لے آیا اور ڈسٹ بن میں پھینک دی۔۔۔

"ہزار دفع کہا ہے اگر یہ شرٹ ذیادہ پسند ہے تو اس جیسی دوسری لیلو! مگر کون سی محبت یے اس سے جو نہیں دھلوائی جاتی۔۔

"کلثوم"

"جی امان دادا" وہ بھاگتی ہوئی آئی۔

"تم کب آئی ہو؟"

"دادا ابھی کوئی پندرہ منٹ پہلے۔۔۔"

"اور گارڈز؟"

"لالا تو آگئے اور تھوڑی دیر تک آجائیں گے سارے بھی"

"ہمم اچھا ہے۔۔ خیر میں نے ڈسٹ بن میں زمان کی ایک شرٹ پھینکی ہ۔۔۔"

"کالی والی؟" کلثوم جلدی سے بات کاٹ کر بولی پھر خود ہی زبان دانتوں میں دبالی۔

امان آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھنے لگا۔

"یعنی اسے بھی پتا ہے اس شرٹ کے بارے میں" وہ دل دل میں ہنسا۔۔۔

"سوری دادا مجھے آپ کی بات نہیِ کاٹنی چاہئے تھی، خطا ہوگئی" وہ نظریں جھکا کر بولی

"خیر وہ شرٹ میں نے پھینک دی ہے۔ ہو سکتا ہے زمان آجکل میں آئے۔ وہ شرٹ ڈسٹ بن سے بھی غائب کروادینا ورنہ وہ وہاں سے بھی نکال لے گا"امان سیڑھیوں کی جانب مڑگیا۔ کلثوم دبا دبا سا ہنسی۔

وہ کمرے میں داخل ہوا اور وال کلاک دیکھتا ہوا سنگھار میز سے موبائل اٹھا کر جیب میں رکھا اور پلٹ کر چلتا ہوا سوتی شانزہ کے پاس آیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر چوما اور آنکھوں سے لگالیا۔ وہ کچھ دیر اور ٹہھرنا چاہتا تھا مگر وہ تاخیر پہلے ہی کرچکا تھا اس لئے اٹھ کر ضروری فائلز اور گاڑی کی چابی لئے گیراج میں چلا آیا۔

"دادا کے لئے گیٹ کھولو" شہنواز نے چوکیدار کو آواز لگائی۔

امان نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے شہنواز کو گھورا۔ وہ کل کا واقعہ بھولا نہیں تھا۔ شہنواز کا رنگ فق ہوا تھا مگر کچھ حرکت نہیں کی۔ امان نے گاڑی ریورس کرکے باہر نکال لی۔ شہنواز نے مڑ کر اوپری منزل کو دیکھا اور گہری سانس لیتا ڈیوٹی پر چلاگیا۔

*-------------------------*--------------------------*

رمشا فاطمہ کے کمرے آئی تو اسے جائے نماز میں ہی سوتا دیکھ کر اس کی جانب بڑھی۔

"فاطمہ بچے اٹھو۔۔۔ کہاں سو گئی تھی تم؟ چلو شاباش اٹھ جاؤ کالج جانا ہے تمہیں " رمشا نے اسے اٹھا کر بٹھایا۔ ۔ رمشا اسے اٹھانے آئی تھی؟ وہ چونک اٹھی۔ وہ کسماتی ہوئی اٹھی مگر اس کا چہرہ دیکھ کر لہجہ کڑوا ہوگیا۔

"تمہیں کیوں اتنی پرواہ ہورہی ہے؟" رمشا فاطمہ کے لہجے پر حیران ہوئی۔

"کیا مطلب؟ میں صرف تمہیں جگانے آئی تھی۔۔۔ تم لیٹ ہورہی ہو کالج سے۔۔۔" رمشا نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔

"اچھا" ایک گھوری دے کر فاطمہ صرف یہی کہہ سکی۔۔

"ہاں نا دیکھو اب شانزہ بھی ہمیں چھوڑ گئی اور عدیل کو بھی۔۔۔ بھلا ایسا کوئی کرتا ہے؟؟؟ بتاؤ ذرا یہ کہاں کی شرافت ہے" وہ بےچارگی سے نفی میں سر ہلا کر بول رہی تھی۔

"شریف تو تم بھی نہیں رمشا عرفان! ہم خاموش ہیں ہمیں رہنے دو۔۔۔ اور خدارا باہر جاؤ میں سونا چاہتی ہوں اور نہیں جانا مجھے کالج بھلے باہر جاکر ایک کی چار لگا کر بتادو!" وہ تڑخ کر بولی۔۔۔ رمشا دنگ رہ گئی۔ وہ اس موقع پر فاطمہ کو خود کے لئے ہمدردی پیدا کرنا چاہتی تھی لیکن اس کی باتوں سے اس کا یہ سب کرنا ناممکن لگ رہا تھا۔ فاطمہ اسے کھا جانے والی نظروں سے گھور رہی تھی۔ وہ دم بخود اٹھی اور کمرے سے چلی گئی۔ فاطمہ نے ناگواری سے منہ پھیرا اور بیڈ پر جاکر لیٹ گئی۔

*---------------------------*--------------------------*

اس کی آنکھ کھلی تو وہ کمرے میں نہیں تھا۔ گھڑی پر نظر ماری تو اب گیارہ بجنے کو تھے۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس گھر میں آئے اس کو تیسرا دن تھا۔ تھوڑی دیر بعد بیڈ سے اٹھی اور فریش ہو آئی۔ دل میں اب بھی خوف تھا۔ کم از کم وہ رات والا واقعہ نہیں بھولی تھی جب امان نے اس کا جبڑا سختی سے پکڑا تھا۔ اس کی سانسیں گویا اس دم اٹک گئی تھیں اور حالت ایسی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کیونکہ اس کے سامنے وہ شخص تھا جسے وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔اس کے لئے یہ وہ شخص تھا جو اسے جان سے مار بھی سکتا تھا کیونکہ وہ اس کا باپ نہیں تھا نہ اس کے باپ جیسا تھا جس کے لئے شانزہ کبھی نہیں ڈری۔۔۔ ہاں وہ اس سے اچھا برتاؤ نہیں رکھتے تھے نہ اس کے خیال کا خیال رکھتے تھے مگر باپ کا سایہ اور وجود ہی کافی ہوتا ہے کہ باپ کے ہوتے ہوئے کوئی اسے چھو بھی سکتا تھا۔ مگر جو نفرت پیدا ہوگئی تھی اس سب میں تو ایسا لگتا ہے جیسے انہوں نے خود اسے جہنم کے حوالے کردیا۔ اس کی آنکھیں گیلی ہوگئیں۔۔۔ بس ایک ماں کی یاد ستارہی تھی اور ایک دوست کی۔۔۔ عدیل کو گویا وہ یاد ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اس لئے بھی کہ وہ اسے یاد کرکے رونا نہیں چاہتی تھی، وہ اب کسی کی بیوی تھی اور اب وہ شوہر کے ہوتے ہوئے کسی اور مرد کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔۔ جو بھی تھا امان اب شوہر تھا۔۔۔ بھلے وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی مگر اس کے ساتھ ایک محرم رشتے میں بندھ کر نامحرم کو سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ ہر بار یہ بات خود کو باور کروانا ضروری تھی کہ عدیل نے اسے نہ روکا اور نہ اس کے باپ کو کہ وہ یوں نہ کریں؟ اس کی آنکھیں کب گیلی ہوئیں اسے خبر نہ ہوئی۔۔۔ یہ باتیں دہرانے کا فائدہ نہیں تھا۔۔۔۔ مگر وہ اپنی ماما سے ملنا چاہتی تھی۔۔ وہ اسے گھر نہیں جانے دے گا مگر وہ اسے ملوا تو سکتا ہے۔۔۔ اس نے ٹھان لیا کہ وہ یہ بات ضرور کہے گی۔۔۔ وہ اپنی بات اس کے سامنے رکھے گی کہ وہ اپنی ماں سے ملنا چاہتی ہے۔۔ اور اگر وہ منع کرتا ہے تو وہ رکے گی نہیں وہ ہر بار بولے گی اور بار بار بولے گی۔۔۔۔ اس نے آنسو پونچھے اور سنبھل کر کمرے سے باہر آگئی۔ امان اور زمان کا کمرہ فرسٹ فلور پر مقیم تھا۔ اس نے نظریں دوڑائیں مگر پورشن خالی تھا۔ امان آفس جاچکا تھا اسے علم تھا۔وہ  سیڑھیاں اتر کر نیچے آگئی۔ لاؤنج خالی تھا ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ کس سمت جائے کہ کلثوم بھاگتی ہوئی آئی اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔

"لالا جلدی آؤ ورنہ بیگم صاحبہ بھاگ نہ جائیں۔۔۔" اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر وہ شہنواز کو آوازیں دینے لگی۔ شانزہ آنکھیں پھاڑے حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی

"آج نہیں جا پائیں گی آپ! اس دن آپ نے مجھے لاؤنج میں بند کردیا اوپر سے مجھے پیاس بھی لگ رہی تھی آپ کی وجہ سے دو گھنٹے مجھے پیاسا رہنا پڑا اور امان دادا کے ہاتھوں جان جاتے جاتے بچی۔۔۔ آج نہیں جانے دوں گی آپ کو" کلثوم دونوں ہاتھوں سے اس کی کلائی پکڑی ہوئی تھی۔ جبکہ وہ بلکل سیدھا کھڑی اس کی دماغی حالت پر شک کرنے میں مصروف تھی۔

"کیا ہوا کلثوم وہ بس کھڑی ہیں کہیں جا تھوڑی رہی ہیں۔۔" شہنواز جو تھوڑی دیر پہلے ہی پیچھے آکر کھڑا ہوا تھا کلثوم کو جھڑکا۔ کلثوم نے آنکھیں پھاڑیں۔۔

"ہیں؟ آپ بھاگیں گی تو نہیں؟" شانزہ بے اختیار ہنسی۔۔

"نہیں میں بس یونہی نیچے آئی تھی۔۔۔"

کلثوم نے سکون کا سانس لیا۔

"اوہ شکر ہے! مجھے لگا آپ پھر سے جارہی ہیں" شہنواز اس کی بات اسے گھوری دے گیا۔

"زبان بند رکھا کرو کلثوم! بہت باتیں بھی کرنے لگی ہو آج کل!"

"اچھا لالا بس نظر کم رکھا کریں آپ مجھ پر" وہ ناراضگی سے منہ پھیر کر بولی۔۔

"آپ ڈانٹیں مت اسے" شانزہ نے کلثوم کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا اور شہنواز سے بولی۔ وہ بھول چکی تھی کہ وہ تھوڑی دیر پہلے رو کر آئی تھی۔

"نہیں یہ لالا ہے نا یہ بڑے بھائی ہونے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ نہ کرو وہ کرو۔۔۔ کھانا کیوں نہیں کھایا، موبائل کم استعمال کیا کرو اور تو اور۔۔۔"

"بس کردو کلثوم! تم غلطیاں بھی بہت کرتی ہو" شہنواز نے مسکراہٹ دبا کر مصنوعی غصے سے کہا۔ شانزہ کھل کر مسکرائی۔۔ اسے بے اختیار اپنے سے چھوٹی کلثوم پر پیار آیا۔

"ہاں ساری غلطیاں میں ہی تو کرتی ہوں۔۔۔" وہ خفا سی رخ موڑ گئی۔ شہنواز نے اسے گھورا۔۔

"اگر تم میری بہن نہیں ہوتی نا تو اس بندوق سے تمہیں بھون دیتا" وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

" اور اگر آپ میرے لالا نہیں ہوتے تو میں گرم چمٹے کو آپ کے ہاتھ پر لگا کر آپ کو سینک دیتی" جواب دوبدو آیا تھا۔ شانزہ اتنی زور سے ہنسی کہ کلثوم ٹہھر کر اسے دیکھنے لگی۔

"کیا آپ دونوں بہن بھائی ہیں؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ شانزہ کا موڈ ان کی باتوں سے یک دم فریش ہوگیا تھا۔

"ہاں جی" شہنواز نے ابھی جواب دیا ہی تھا کہ کلثوم نے جملے میں اضافہ کیا

"غلطی سے"کلثوم سینے پر ہاتھ باندھ کر کہتی وہ شہنواز کو دیکھنے سے پرہیز کررہی تھی۔۔۔

"اماں کہتی ہیں میں نے دعا کی تھی اللہ سے مجھے بہن چاہئے۔۔۔ متھ ماری گئی تھی میری۔۔۔۔ بڑا منحوس وقت تھا میری زندگی کا جب میں نے ایک بہن کی خواہش کی تھی۔بس خبر نہیں تھی کہ میری دعا جلد ہی پوری ہوجائے گی ورنہ کچھ اور مانگ لیتا۔۔۔ آخ تھو" وہ تھوک پھینکنے کی نقل کرتا ہوا اب اس کے جواب کا انتظار کررہا تھا۔ کلثوم اسے سنجیدگی سے دیکھنے لگی۔ شانزہ کو بھی اس کے جواب کا انتظار تھا۔ کلثوم کی بڑی بڑی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو نکلنے لگے۔۔۔ شانزہ نے مڑ کر شہنواز کو دیکھا۔۔۔

"آپ نے اسے رلادیا" وہ ماتھے پر بل ڈال کر بولی۔

"بیگم صاحبہ ڈرامے کررہی ہے یہ" شہنواز کا یہ کہنا تھا کہ کلثوم کی "سووو" شروع ہوچکی تھی جو اب بلند آوازوں میں بدل رہی تھی

"نہیں کلثوم رو مت! ایسے نہیں روتے!" وہ اسے خاموش کراونے لگی۔۔۔ شہنواز کچھ دیر کھڑا دیکھتا رہا پھر ایک گہری سانس خارج کرتا ہوا کلثوم کی طرف بڑھا۔

"خطا ہوگئی کلثوم تیرے لالا سے۔۔۔ چل معاف کردے ۔۔" وہ بہن کو سینے سے لگائے سر تھپکتا ہوا بولا۔

"اچھا بس رو تو مت! کلثوم تیری آواز کان پھاڑ رہی ہے میرے" شہنواز کے یہ کہتے شانزہ کو ہنسی آئی مگر اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبالی۔

" اب میں تجھے لالا نہیں کہوں گی لالا۔۔۔ تو میرا مذاق اڑاتا ہے۔۔ وہ اس کے سینے سے لگے روتے ہوئے بولی". شہنواز نے دبی دبی ہنسی ہنستے ہوئے شانزہ کو دیکھا جس کی خود کی ہنسی بے قابو ہورہی تھی۔۔۔

"اچھا ابھی معاف کردے۔۔۔ کتنا بیہودہ روتی ہے تو کلثوم! تجھے ہر بار کہا ہے مت رویا کر دوسرے کے کانوں کا خیال رکھا کر۔۔ اتنی سکت نہیں ہوتی کانوں کو کہ اتنی بیہودہ آواز برداشت کرسکیں" شہنواز کا یہ کہنا تھا کہ کلثوم نے منہ پھاڑ پھاڑ کر رونا شروع کردیا۔

"اللہ اللہ کلثوم دیکھو ابھی بیگم صاحبہ کو آئے دو تین دن ہوئے ہیں اور تو نے رونا شروع کردیا۔۔۔ اب بھلا بتا کیا سوچیں گی وہ تیرے بارے میں۔۔۔ چچچ" بس اب ایک ہی راستہ تھا جس سے وہ چپ ہوسکتی تھی۔۔ وہ جلدی آنسو پونچھ کر سیدھی ہوئی اور شانزہ کی طرف دیکھا۔

"نہیں بی بی جی میں نہیں روتی" وہ ہڑبڑا کر بولی۔۔ شہنواز ہنسا۔

"جی بی بی جی یہ بلکل بھی نہیں روتی۔۔۔ بس میں ہی تو روتا رہتا ہوں" وہ کلثوم پر طنز کے تیر چلاتا بظاہر ہنس کر بولا۔ کلثوم نے بھائی کو فکرمندی سے دیکھا۔

"نہیں بی بی جی بھائی بھی نہیں روتا" اسے بھائی کی ریپوٹیشن کی فکر پڑگئی۔

"تم میری تعریفیں نہیں کرو میں خود کی کرسکتا ہوں۔۔ تم جاکر بی بی صاحبہ کے لئے ناشتہ بناؤ۔۔۔" شانزہ مسکرادی۔۔۔

"ہائے ہاں بی بی میں تو بھول ہی گئی کیا کھاتی ہیں آپ ناشتے میں؟" وہ اب شانزہ کی جانب آئی۔۔ شہنواز اپنی بہن کو دیکھتے ہوئے باہر چلا گیا۔

"کلثوم میرے لئے بس انڈہ بوائل کردو اور چائے بنادو" شانزہ صوفے پر بیٹھ گئی۔

"جی بی بی جی" وہ جانے کے لئے مڑی کے شانزہ نے روکا۔

"اور سنو اپنے لئے بھی ناشتہ لے آنا مل کر کھائیں گے کیونکہ مجھے تمھاری باتیں سننا اچھا لگ رہا ہے" کلثوم نے مڑ کر اسے دیکھا جو اسے دیکھ کر مسکرارہی تھی۔۔۔ تبسم پھیلا اور "جی بی بی جی" کہہ کر کچن میں چلی گئی۔۔۔ شانزہ لاؤنج کی سیٹنگ دیکھنے لگی۔ خوبصورت رنگ کے بھاری پردے لٹک رہے تھے۔ بڑی ایل ای ڈی لگی اور تھوڑے فاصلے پر ڈائننگ ٹیبل تھی۔ اسے واقعی خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔ وہ گھر محل سے کم نہیں تھا۔ وسیع لاؤنج میں رکھے کالے صوفے اس کو اور ذیادہ حسین بنارہے تھے۔ وہ ان سب کو دیکھنے میں محو تھی کہ کلثوم آواز آئی۔

"آجائیں بی بی جی" اس نے ٹیبل پر کھانا رکھا۔

"واہ اتنی جلدی بنالیا۔۔۔ " کرسی آگے کرکے وہ بیٹھ گئی۔

"آؤ یہاں تم بھی بیٹھ جاؤ۔۔۔ " شانزہ نے اس کے لئے بھی کرسی آگے کی تو کلثوم کی چٹی گوری رنگت سرخ ہوگئی۔

"آپ کو پتا ہے شانزہ بی بی۔۔۔ آپ بہت ذیادہ اچھی ہیں".

"جزاک اللہ لڑکی۔۔۔" وہ مسکرا کر بولی۔۔ شانزہ دعا پڑھ کر کھانے کا لقمہ منہ میں ڈالا۔

"آپ خوش تو ہیں نا؟" یہ لفظ نہیں خنجر تھے جو اس کو زخمی کررہے تھے۔ شانزہ نے لب بھینچے۔۔ اسے لگا لقمہ گویا حلق میں اٹک گیا ہو۔۔۔ سارے زخم یاد آگئے۔۔ بلیک میلنگ، دھمکیاں، پھر اغوا کر لینا۔۔۔ ساری زندگی کے لئے اذیت مل گئی تھی۔ وہ کوئی جواب نہ دے سکی۔۔

"وہ بہت اچھے ہیں شانزہ بی بی۔۔۔" ابھی کلثوم اپنا جملا پورا نہیں کرپائی تھی کہ شانزہ نے بات کاٹی۔

"وہ شخص انسان نہیں درندہ ہے جو دوسروں کی زندگیوں سے کھیلتا ہے، اسے دوسرے کے جذبات فکر نہیں ہوتی وہ سب کو روند دیتا ہے۔۔۔ میں اس کے ساتھ خوش نہیں۔ اذیت میں ہوں خوف میں ہوں۔۔۔" وہ دانت پیس کر خود کو قابو کرنے لگی۔۔

کلثوم حیرت سے اسے دیکھنے لگی۔

"انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے بیگم صاحبہ" وہ دھیرے سے بولی۔

"اسے سمجھنے کی ضرورت ہے جو ایک پاگل انسان ہے؟ راتوں کو اٹھ کر آئینے توڑتا ہے اور ساری رات ٹیرس میں جاگ کر سیگریٹ پھونکتا ہے؟ نہ خود چین لیتا ہے اور میرا چین تو برباد ہی ہے تب تک جب تک یہ طلاق نہیں دیدیتا اور تب سے ہے جب میں نے پہلی بار اس شخص کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔" کلثوم فق نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔

"انہوں نے پھر سے آئینہ توڑ دیا؟؟؟ یا خدایا" وہ تیزی سے اٹھی اور باہر کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔

"آپ کو ابھی بہت کچھ جاننے کی اور سمجھنے کی ضرورت ہے بی بی" وہ پل بھر کو رکی تھی اور کہہ کر شہنواز کے پاس بھاگ گئی تھی۔

*----------------------------*-----------------------*

شام کے پانچ بجنے والے تھے۔ وہ کمرے میں بیٹھی تھی۔۔۔ جیسے جیسے وقت گزررہا تھا اس کا دل خوفزدہ ہورہا تھا کیونکہ امان آنے والا تھا۔ بس ایک اور موقع مل جائے فرار ہونے کا۔۔۔ بس ایک اور۔۔۔ وہ بہت دور نکل جائے گی اور کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔ اسے ایک بار پھر رونے آنے لگا۔۔ ماں کی یاد بار بار ستارہی تھی۔۔۔ وہ بستر پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔۔۔ جانے کتنی دیر بےآواز روتی رہی۔۔۔ دن ڈھل رہا تھا اور رات برپا ہورہی تھی۔۔۔ وہ آنے والا تھا اور وہ آئیندہ دنوں میں فرار ہونے کا راستہ سوچ رہی تھی۔۔ جب وہ گھر سے نکالی گئی تھی تو اس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔۔ بستہ گھر میں تھا۔۔۔ تھا تو بس اجڑا دل۔۔ یونیفارم پہن کر ہی اس گھر آئی تھی اور اب اُس یونیفارم کا کچھ اتا پتا بھی نہیں تھا۔ اس کا فون اس کی جیب میں تھا۔۔۔۔

"میرا فون" وہ جھٹکے سے اٹھ کر بیٹھی۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس کی جیب میں ہی اس کا فون رکھا تھا۔۔۔ پھر کہاں گیا؟؟؟ وہ اسے اسی کمرے میں لایا تھا اور یونیفارم بھی شانزہ نے یہیں چینج کرکے شادی کا جوڑا پہنا تھا۔۔ تو فون؟ ایسا ہو نہیں سکتا کہ امان کو نہ ملا ہو۔۔ وہ اٹھی اور کھڑکی کی طرف آئی تاکہ دیکھ سکے کہ ابھی امان آیا کہ نہیں۔ گیراج میں دو گارڈز  آپس میں کھڑے باتیں کررہے تھے ان کے علاوہ گیراج خالی تھا۔ اس نے دونوں بیڈ کی سائڈ ٹیبل چیک کی۔۔۔ وہاں بھی نہ ملا تو چاروں اور نظریں دوڑانے لگی۔۔۔

"اس کے علاوہ وہ کہاں چھپا سکتے ہیں" وہ پریشانی میں خود سے بولنے لگی۔ وہ وارڈروب کی جانب بڑھی اور امان کی طرف کا پٹ کھولا۔ اس کے کپڑے ترتیب سے سجے تھے۔۔۔ وہ ڈھونڈنے اتنی پاگل ہوچکی تھی کہ وہ اس کے کپڑے بگاڑ کر ایک سائڈ پر رکھ کر دیکھ رہی تھی۔ بائیں طرف کپڑوں کے نیچے سے اسے اپنا موبائل ملا۔۔۔ گویا امید مل گئی۔۔ موبائل پاور آف تھا۔  اس نے کھول کر پاسورڈ ڈالا۔۔ ابھی وہ کچھ اور کرتی کہ گاڑی کا ہارن بجا۔ افراتفری اور ہڑبڑاہٹ میں اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹتے چھوٹتے بچا۔۔ پھولی سانسوں سے اب وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے۔۔ موبائل کو جلدی اسی جگہ پر رکھا مگر کپڑے بےترتیبی سے رکھے تھے۔ وارڈ روب بند کا دروازہ دکھیل کر وہ بھاگ کر بیڈ پر لیٹ گئی اور آنکھیں بند کرلیں۔ مگر ہائے ری قسمت کوئی کام پورے سو فیصد ٹھیک نہیں ہوتا اور شانزہ سے صرف پچاس فیصد کام ٹھیک ہوا تھا۔ وہ وارڈ روب کی لائٹ بند کرنا بھول گئی تھی اور جلدی جلدی میں یہ بھول گئی تھی کہ دروازہ جو بند کر گئی تھی وہ بند نہیں ہوا تھا ہلکا سا کھلا رہ گیا تھا۔ بستر پر آنکھیں بند کئے وہ سوتی بن گئی تھی۔ وہ سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور شانزہ کی بند آنکھیں بھی خوف سے کپکپارہی تھیں۔

*---------------------------------------*

وہ اندر آیا تو بیڈ پر شانزہ کو سوتے دیکھ کر مسکرادیا۔۔۔ ایک تھکن تھی جو اس کو دیکھ کر اتری تھی۔ سوٹ صوفے پر رکھ کر وہ خود بھی صوفے پر ایک پاؤں کو دوسرے پاؤں پر جما کر بیٹھ گیا۔ ایک ہاتھ سے ٹائی ڈھیلی کی اور دونوں صوفے کے گرد پھیلا کر اسے تکنے لگا۔ صبح آفس جاتے وقت بھی وہ سو رہی تھی اور اب جب آیا تھا تب بھی سورہی تھی۔ اس کا دل چاہا کہ اسے اٹھا دے مگر دل کو تپھک دیا۔ ڈھیر سارا کام کرکے وہ گھر اس کے لئے ہی آیا تھا اور وہ سورہی تھی۔ آج تھکا دینے والا دن گزرا تھا۔ وہ آج تاخیر سے آتا مگر وہ اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔ کام میں دل بھی نہیں رہا تھا تو کام بھی چھوڑ آیا تھا۔ گہری سانس بھرتے اٹھا اور وارڈ روب کی جانب بڑھا۔۔ شانزہ نے ہلکی آنکھیں کھول کر دیکھا تو وہ وارڈ روب کی جلی بتی اور اپنا کھلا پٹ دیکھ کر ہکا بکا ہوا کھڑا تھا۔ وہ سہم گئی۔ ایک ٹی شرٹ تھی جو وارڈ روب کھولتے اس کے قدموں میں گری تھی۔۔ وارڈ روب کی یہ حالت دیکھ کر اس نے جھٹکے سے پلٹ کر اسے دیکھا۔ شانزہ نے جلدی سے آنکھیں بند کیں مگر وہ اسکی پلکوں حرکت دیکھ چکا۔۔ وہ جان گیا تھا کہ وہ سو نہیں رہی اور اٹھی ہوئی ہے۔۔ مگر امان شاہ تھا! ہمیشہ سے ایک خاموش کھلاڑی رہا تھا۔۔۔ شانزہ کا دل بے اختیار زور دھڑکنے لگا۔ وہ اس کی جانب پلٹا نہیں بلکہ ادھ کھلا دروازہ کھینچ کر پورا کھول دیا۔ وہ جتنے کپڑے شانزہ نے ہڑبڑی میں ٹھونسے تھے وہ باہر امان قدموں میں آگرے تھے۔ وہ اب بھی اطمینان سے کام کررہا تھا۔ کوئی تو چیز تھی جسے ڈھونڈنے کے لئے وہ یوں وارڈ روب کا حال بگاڑ گئی۔۔۔ ایک جان لیوا مسکراہٹ تھی جو اس کے چہرے پر عیاں ہوئی تھی۔۔ اس نے گردن موڑ کر سوتی شانزہ کو دیکھا۔ وہ اب بھی سوتی بنی تھی۔ اسے اس سب کی امید کم از کم شانزہ سے نہیں تھی۔۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ کچھ یاد آنے پر زور سے ہنسا۔ وہ یہ کیوں نہیں کرسکتی آخر بیوی بھی تو امان شاہ کی تھی۔۔خاموش ماحول میں اچانک اس کا قہقہ گونجا تو شانزہ ہڑبڑا گئی مگر جلد ہی اس نے خود پر قابو پالیا۔۔ امان نے اس کی ہڑبڑاہٹ صاف محسوس کی تھی مگر یوں ظاہر کیا جیسے کچھ محسوس ہی نہ کیا ہو۔ وارڈروب کی درازیں کھول کر دیکھیں تو ایسا کچھ نہ ملا جس کے لئے وہ یہ سب کچھ کرے۔ وہ ایک ایک کرکے اب اپنے تمام کپڑے کونے میں زمین پر پھینک رہا تھا۔ اس نے اپنی سفید ٹی شرٹ ہٹائی تو نیچے کوئی چمکتی چیز دکھی۔۔۔ اس نے سائڈ پر شرٹ پھینکی اور اسے آرام سے اٹھایا۔۔۔ وہ یک دم مسکرایا۔ وہ اپنے موبائل کو ڈھونڈ رہی تھی جسے امان نے پہلے دن ہی لے کر رکھ لیا تھا۔ وہ اس موبائل سے ایک ہی فائدہ اٹھا سکتی تھی۔ فون پر بات۔۔ کیونکہ فون کرکے اسے کوئی لینے نہیں آنے والا تھا۔ ان سب نے اسے دھتکاردیا تھا وہ یہ جان چکا تھا۔ وہ جبھی باہر سڑک پر اجڑی حالت میں کھڑی تھی۔ وہ اس موبائل سے صرف ان سے بات کرسکتی تھی جو اس پر یقین کرتے تھے۔۔۔ جیسے فاطمہ یا اسکی ماں۔ اس پھر سے پلٹ کر سوتی بنی شانزہ کو دیکھا اور ہھر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو۔۔۔ وہ اس وقت تک وہیں کھڑا رہا جب تک اس نے اس موبائل میں موجود تمام نمبر نہ اڑادیئے۔۔۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ نمبر اڑانے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔ کوئی اس کے نمبر پر خود سے بھی کال کرسکتا تھا۔۔۔ اس سوال کے لئے اس کے پاس جواب تھا۔۔۔ اس نے نمبر اڑائے اور چلتا ہوا اس کے پاس آیا۔۔۔ موبائل کی اسکرین آف کرکے اس کے برابر میں پھینکا۔

"کھول لو آنکھیں اور رکھ لو موبائل! جانتا ہوں کہ تم سو نہیں رہی۔۔۔" وہ کہہ کر جھکا اور اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا۔۔۔ شانزہ نے پھر بھی آنکھیں نہ کھولی۔۔۔ سانسیں بے ربط دوڑ رہی تھی۔۔ اور دل دھڑک گویا حلق میں آرہا تھا۔۔ حال ایسا کہ کاٹو تو گویا بدن میں لہو کا قطرہ نہیں۔ ایک نظر اس پر ڈال کر وہ وارڈروب سے کپڑے نکالتا باتھروم کی طرف بڑھ گیا۔ شانزہ نے پھولی سانسوں کے درمیاں آنکھیں کھولیں۔ وہ اس بار بھی پکڑی گئی تھی۔ وہ شخص کیوں اسے جیتنے نہیں دیتا۔۔ وہ جلدی اٹھ کر بیٹھی اور موبائل تلاشنے لگی۔۔ وہ اسے خود موبائل دے گیا تھا یہ ناقابلِ یقین بات تھی۔۔۔ وہ اس کے آنے سے پہلے موبائل کھول کر دیکھنے لگی۔ کال کی نیت سے کانٹیکٹ باکس میں گئی تو ایک نمبر نظر نہ آیا۔ اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر بار بار چیک کیا مگر وہ نو لسٹ شو کررہا تھا۔ باتھروم کا دروازہ کھلا اور وہ  تولیہ گردن پر لٹکائے  باہر آیا۔ شانزہ کی نظریں جھکی ہی رہیں۔۔۔ وہ اس کی موجودگی سے لاعلم تھی۔۔۔ موبائل میں اتنی مصروف تھی کہ مقابل کھڑے شخص کو اس کی تکتے ہوئے نہ دیکھ پائی۔ امان نے اسے کچھ لمحے دیکھ کر تولیہ گیلے بالوں پر رگڑا۔

"میں لگادیتا ہوں"

وہ اس کی آواز ہو چونک اٹھی اور اب سہم کر اسے دیکھنے لگی۔

"لگا دوں؟ " امان نے جواب نہ پاکر اسے پوچھا۔

"کک۔کیا؟" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی تھی۔

"کیا؟ ڈورا دی ایکسپلورا اور کیا" وہ آنکھوں میں حیرانی لائے اس کے "کیا" ہر یوں حیران ہوا تھا جیسے شانزہ کو پتا ہی نہ ہو۔۔۔ شانزہ کے تو زبان میں تالے پڑگئے۔

"کیا ہوا کارٹون نہیں دیکھتی؟ ہاں میں نہیں دیکھتا مگر زمان دیکھتا ہے۔۔۔ تو بتاؤ کون سا کارٹون ڈاؤن لوڈ کردوں موبائل میں؟ کیونکہ اب یہ کارٹون دیکھنے کے ہی قابل ہے زوجہ" وہ مسکراتا ہوا بولا۔۔۔ شانزہ کو اپنی توہین محسوس ہوئی۔۔۔ اسے ایسا لگا جیسے امان کا یہ لہجہ تمسخرانہ ہے۔۔۔۔

"نن۔نمبر؟"

"ہاں تو وہ میں نے ریموو کردیئے جبھی کہہ رہا ہوں۔۔ کل نئی سم آجائے گی تمھاری" وہ بال بناتا ہوا بولا۔۔

ظاہر ہے آئینہ تو وہ توڑ چکا تھا اس لئے اندازے سے بال بنا کر برش سائڈ ہر رکھ دیا۔۔۔۔ شانزہ کے الفاظ کہیں کھو گئے۔۔۔

آج وہ غصہ بھی نہ ہوا تھا۔۔اس کی ایک وجہ تھی۔۔۔ وہ یہ کہ زمان آرہا تھا۔ خیر لیکن وہ جانتا تھا کہ اس کو کتنا بڑا دھچکا لگنے والا ہے۔۔ مگر کیا کرے کبھی نہ کبھی تو لگنا ہی تھا۔۔

*-------------------------------------------------*

دروازہ چوکیدار نے خوش آمدید کہہ کر دروازہ کھولا تھا۔ ایک نظر اوپری منزل کی جانب دیکھتا وہ سنجیدگی سے آگے بڑھا۔ وہاں موجودہ گارڈز نے اسے دیکھا تھا مگر کچھ کہا نہیں۔ چہرے کے تاثرات بتا ریے تھے کہ اب بہت بڑا تماشہ ہونے کو ہے! سوٹ کیس وہیں پھینکتا وہ تیزی اندر کی جانب بڑھا۔

"امان" وہ لاؤنج میں کھڑا ہو کر بلند آواز میں بلانے لگا۔امان سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا۔

"تم آگئے" لہجے میں خوشی بکھیرے وہ اس کے گلے لگنے چاہا مگر زمان پیچھے ہوگیا اور سپاٹ چہرے سے اسے دیکھنے لگا۔ زمان کی اس حرکت پر امان کا ٹھٹھکا۔ وہ زمان سے گلے ملنا چاہتا مگر ۔۔۔

" کہاں ہے وہ؟" سخت لہجے میں ہوچھا گیا۔۔۔ اس سے کبھی کسی نے اتنی سختی سے بات بھی نہیں کی۔۔۔ کی تو زمان نے بھی نہیں کبھی مگر یوں۔۔۔

"کون؟"

"مسز امان" وہ دانت پیس کر بولا۔۔

"کمرے میں ہے اپنے" وہ نظریں پھیر کر بولا۔

"گھر بھجواؤ اس کو اس کے" وہ چیخا۔۔۔

"دماغ خراب ہوگیا ہے؟؟؟" وہ بھی جواباً چیخ پڑا۔۔۔

"ہاں میرا دماغ خراب ہوگیا ہے اور ابھی سے نہیں بہت پہلے سے ہے۔۔ اور اسی دماغ کی خرابی کی وجہ ہے جو تمھارے دھوکے میں آکر لاہور چلا گیا۔۔۔ یقین کیا تم نے اور تم نے مجھے ہی دھوکا دیا؟ مجھ سے جھوٹ بولا۔۔۔ یقین توڑ دیا ہے تم نے میرا۔۔۔ بغیر آواز کئے میں نے تمھاری یر بات مانی ہے، ہر حکم مانا ہے کیونکہ مجھے تم پر یقین تھا۔۔۔ "تم دنیا بھر کو دھوکے میں رکھ سکتے ہو پر مجھے نہیں" یہ جملا روز خود سے دہرایا کرتا تھا امان میں۔ میں تو زمان تھا۔۔۔ تمہارا بھائی۔ تم جانتے تھے کہ تم جتنا مجھے دھوکے میں رکھو گے میں بغیر آواز نکالے تمہارے دیئے گئے ہر دھوکے میں ہی رہوں گا۔۔۔ مگر وہ تمہاری محبت تھی نا؟ یہ کون سی محبت ہے جس میں تم نے زبردستی نکاح کرڈالا۔۔۔" وہ پوری قوت سے چیخ رہا تھا ۔کمرے میں بیٹھی شانزہ سب سن رہی تھی۔۔ وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیوں ہر ان کی نظروں سے چھپ کھڑی ہوگئی تھی۔

"کیوں کیا؟؟؟؟؟ اس کا منگیتر بھی تھا جو اسے شاید تم سے ذیادہ چاہتا تھا اور اب بھی چاہتا ہوگا۔ تم۔۔۔ تم یہ کیسے کرسکتے ہو؟؟ میں نے منع کیا تھا۔۔ مجھے یہی خدشہ لاحق تھا اس لئے نہیں جانا چاہتا تھا کہیں تم سے دور۔۔ مگر کیا کروں میں؟ میں ہی بےوقوف ہوں۔۔ میں احمق ہوں کہ تمہاری کسی بات کو ٹالنے کا دل نہیں کرتا۔۔ اور دیکھو میری ہی وجہ سے یہ سب ہوا۔۔۔میری ہی غیر موجودگی میں لائے تم اسے۔۔ مجھے جانا ہی نہیں چاہئے تھا۔۔ اسے آذاد کردو امان۔۔۔ میں سو فیصد جانتا ہوں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہوگی۔۔ شانزہ نیچے آؤ" وہ اب شانزہ کو آوازیں دینے لگا۔ امان فق ہوا کھڑا تھا۔۔۔

آج زندگی میں پہلی بار زمان اس پر چلایا تھا اور وہ یوں خاموش رہا تھا۔ یہ کونسا لمحہ تھا جس میں امان کے منہ سے لفظ ادا نہیں ہورہے تھے؟

شانزہ اپنا نام سنتے ہوئے ڈری سہمی نیچے آئی۔۔

"جج۔جی۔۔"

"رہنا چاہتی ہو یا نہیں؟" وہ سنجیدگی سے اس سے پوچھنے لگا۔ اس نے امان کو دیکھا جو ساکت سا زمان کو دیکھا رہا تھا۔۔ امان کو اپنی طرف متوجہ نہ پاکر اس نے جھٹ سے نفی میں سر ہلایا۔۔

"نہیں رہنا چاہتی وہ۔۔  چھوڑ دو اسے خدارا" وہ ہاتھ جوڑ کر چیخا۔ مگر وہ اب بھی یونہی ساکت کھڑا تھا۔۔

" منہاج شاہ کا نام بھی لینے سے منع کرتے ہو نا؟ میں نے منہاج کی ڈائری پڑھی ہے۔۔۔ مکمل نہیں ہوئی ابھی مگر جتنا بھی اب تک پڑھ چکا وہ دل میں بھی اتار چکا۔۔۔ اس شخص کو جان گیا ہوں. ارے میری چھوڑو تم نے اس لڑکی کی زندگی برباد کردی جو تمہاری محبت یے۔۔۔  میں۔ میں اس کی زندگی جان گیا مگر تم صرف اتنا جانتے ہو کہ وہ ایک اذیت پسند، شدت پسند اور برا آدمی تھا۔۔۔ میرے نظرہے کو ڈالو بھاڑ میں۔۔ میں تمہاری معلومات تک کی بات کرتا ہوں۔ تم یہی جانتے ہو نا کہ منہاج نے ہمارا ماضی برباد کردیا؟ منہاج نے ہمیں جیتے جی ماردیا ؟ منہاج نے ہماری ماں کو اذیت میں رکھا۔۔؟ تو اگر ایسا ہے تو ایک بات یاد رکھنا تم بھی اپنے اندر ایک منہاج ہو۔۔ اور جو منہاج نے کیا اپنی بیوی بچوں کے ساتھ وہی ماضی مجھے مستقبل میں تمہارا نظر آرہا ہے۔  ایک شخص جسے کوئی نہ سمجھ پایا۔۔۔۔۔۔ فرق اتنا ہے تم دونوں میں کہ اسے لوگ اندر تک جاننے کی خواہش رکھتے تھے۔ لوگ منہاج کو پڑھنا چاہتے تھے اور تمہیں دیکھنا بھی نہیں چاہتے! تمہارے مطابق جو منہاج شاہ ہے اس لحاظ سے تم منہاج شاہ کا عکس نہیں ہو۔۔ تم منہاج ہی ہو! اور آج میں اپنے باپ کو تو دیکھنا چاہتا ہوں مگر تمہیں نہیں امان۔۔۔ تم نے میرا بھروسہ میرا اعتماد سب توڑ دیا۔۔ مجھے دھوکا دیا۔۔ گویا مجھے کھو دیا"  وہ اس قدت دل برداشتہ تھا کہ آنکھیں بھی گیلی ہوچکی تھیں اور آواز بھاری۔۔۔ بس اپنی بھڑاس اور غصے پر قابو نہ پاسکا۔۔۔ وہ پلٹ گیا کبھی نہ واپس انے کے لئے۔ ابھی لاؤنج پار ہی کررہا تھا کہ دھپ کی آواز پر ساکت ہوا۔۔ دل میں خدشہ لیئے وہ مڑا تھا۔۔   بظاہر مضبوط مگر بکھرا ہوا شخص زمین بوس ہوگیا تھا۔ برابر کھڑی شانزہ کی چیخیں بلند ہوئی تھیں۔

🌹🌹🌹🌹🌹

تھا۔ شانزہ آنکھیں پھاڑے بس اس گرے شخص کو دیکھ رہی تھی جو اس کا شوہر تھا۔۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک شخص جو کسی کی نہیں سنتا وہ اپنے بھائی کی باتوں سے اس قدر دلبرداشتہ ہوگیا؟ زمان اسے بری طرح جنجھوڑ رہا تھا۔ اس کا دل پھٹنے کو تھا اور حالت ڈاؤن ہورہی تھی۔ سامنے بےہوش اس کا بھائی تھا اور بھائی بھی وہ جو اسے اپنی جان سے بڑھ کر تھا۔ 

"گاڑی نکالو" وہ چیخ رہا تھا۔ بہت کچھ افراتفری میں ہوا۔ شانزہ کے بےاختیار آنسو بہے۔ وہ فق ہوتی رنگت سے زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔ کلثوم دل پر ہاتھ رکھ کر کھڑی تھی۔ زمان نے دونوں ہاتھوں سے بھائی کو اٹھایا تھا اور بھاگتے ہوئے گاڑی کے پیچھے سیٹ پر بیٹھ کر اسے لٹایا۔ شہنواز ڈرائیونگ سیٹ پر آبیٹھا۔ 

"جلدی شہنواز" وہ ٹوٹے مگر بلند آواز میں بولا تھا۔ شہنواز نے بیک مرر سے اسکی آنکھوں میں چمکتے آنسوٰں کو دیکھا اور گاڑی نکالی تھی۔ 

ان کے جاتے ہی کلثوم شانزہ کی طرف بڑھی اور اسے تھام کر اٹھایا۔ شانزہ کی سانسیں بےربط چل رہی تھیں۔ وہ اپنے حواس میں نہیں تھی۔ وہ اس سے محبت نہیں کرتی تھی مگر وہ اس کا شوہر تھا۔ اس نے کبھی زندگی میں ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ زمان جب غصہ میں چیخ رہا تھا اس دوران شانزہ نے امان کے تاثرات جانچے تھے جو نارمل نہیں تھے۔ آنکھوں میں کیا نہیں تھا! "بے یقینی" ، "خوف"، "سفید کپڑے جیسی رنگت"۔ اس کے سامنے ایک شخص زمین پر ڈیرھ ہوا تھا۔۔۔

"بی بی کچھ نہیں ہوگا انہیں۔۔ اللہ ہے نا۔۔۔ بس وہی کرے گا اور دیکھیں زمان دادا اور لالا بھی تو گئے ہیں۔۔۔ بس سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔۔ انشاءاللہ" کلثوم نے اسے گلے لگایا اور تپھکنے لگی۔

مگر شانزہ کے دماغ میں بہت سے سوالات تھے جو ابھر رہے تھے۔ منہاج شاہ کون تھا؟ زمان ہر بات میں منہاج شاہ کا نام کیوں لے رہا تھا؟ کس دیس کا باسی تھا منہاج شاہ اور ایسا کیا تھا اس کی کہانی میں جس کا نام سن کر امان کی رنگت سفید ہوگئی تھی؟ وہ حواس باختہ ہوئ تھی۔ امان کے گرنے پر وہ چیخی تھی کیونکہ وہ یہ سب اس سے توقع نہیں کررہی تھی۔ اسے لگا تھا کہ وہ زمان کے ساتھ بھی اپنا مخصوص برتاؤ رکھے گا مگر وہ سہہ نہیں پایا۔ کلثوم اسکا ہاتھ تھاما اور کمرے میں چلی گئی۔

*---------------------------*------------------------*

وہ نڈھال سا ہسپتال کے کوریڈور میں بیٹھا تھا۔ آنکھیں ایک طرف جمائے، آنکھوں کی پتلیاں حرکت کئے بغیر بے سدھ سا۔ دل میں ہول اٹھ رہے تھے۔ ایک شخص جو چٹان کی مانند تھا آج بےحس و حرکت دوسروں کے بس پر تھا۔ وہ جانتا تھا تو صرف اتنا کہ

"اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ہوگا؟؟؟" اس آگے بھی سوچنے کی ہمت نہ تھی اندر روم میں موجود زمان کے لئے یہ وہ شخص تھا جس نے اپنے بھائی کو ایک ایک قدم خود آگے بڑھایا۔ زمان کو پڑھنے کا شوق کبھی نہیں تھا۔ امان نے خود بھی پڑھا اور اسے بھی زبردستی پڑھایا اور آج وہ جس مقام پر کھڑا تھا اللہ کے بعد امان نے ساتھ دیا تھا۔ وہ اس کا عکس تھا۔ اس کا وجود تھا۔ وہ رو نہیں رہا تھا مگر تڑپ رہا تھا۔ وہ امان کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ اگر زمان شاہ کو اجازت ہوتی تو وہ اپنے بھائی کے قدموں میں دنیا کی تمام خوشیاں لا رکھتا اور پھر بھی یہی کہتا "یہ بھی کم ہے" ۔ امان کا اندر روم میں معائنہ چل رہا تھا۔ کاش وہ آج آتا ہی نہ بلکہ ٹکٹ ہی نہ ملتی اسے! وہ کوریڈور میں چئیر پر بیٹھا تھا، کچھ دور ہی شہنواز دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر باہر آئے۔۔ وہ بجلی کی تیزی سے اٹھ کر ڈاکٹر کی سمت بڑھا تھا۔ 

"کیا ہوا ڈاکٹر" شہنواز نے ہوچھا کیونکہ زمان کے منہ سے الفاظ نکل نہیں رہے تھے۔

"کیا وہ ڈپریشن کے مریض ہیں؟" ڈاکٹر نے الٹا سوال کیا۔ 

"ہاں شاید۔۔۔" وہ بس اتنا ہی کہہ پایا۔

"کیا وہ ذیادہ سوچتے ہیں؟" 

"اسے فلیش بیک ہوتے ہیں اور پھر وہ انہیں دہرایا کرتا ہے" 

"دوائیاں جاتی ہیں؟"

"کبھی لی نہیں۔۔۔ خدارا آپ مجھے بتائیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔ امان کیسا ہے؟ " زمان سے مزید اب نہیں گیا۔

"کوئی ایسی بات ہوئی ہوگی جس سے ان کو صدمہ پہنچا ہے۔ وہ برداشت نہیں کرپائے اور بےہوش ہوگئے۔۔۔ اللہ نے خیر کیا ہے زمان صاحب۔۔ وہ ٹھیک ہیں اور اب دوائی کے زیرِ اثر سورہے ہیں۔۔ اللہ نے زندگی رکھی تھی ان کی۔۔ مگر آئیندہ احتیاط کرنی ہوگی۔۔۔ کوشش کیجیئے کہ یہ کسی بھی چیز کو اپنے اوپر ذیادہ حاوی نہ کریں". 

وہ ٹھیک تھا۔۔۔ زمان کا دل گویا ہلکا ہوا تھا وہ شہنواز کے گلے لگا اور اس کے کندھے ہر سر رکھ دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب آگے بڑھ گئے وہ کتنے ہی لمحہ اس کے گلے لگے رہا۔ 

"سب ٹھیک ہے دادا۔ اللہ نے کرم کیا ہے" شہنواز مسکرایا۔ 

اور وہی تو ہے جو موت کی دہلیز پر کھڑا کرکے بھی واپس لے آتا ہے۔

اس کے دل میں سکون کی لہر دوڑی تھی۔ قدم بے اختیار بڑھے۔۔۔ مگر امان کے روم کی جانب نہیں بلکہ پرئیر روم میں۔۔۔ وہ اللہ کا شکر کرنا چاہتا تھا جس نے امان کو زندگی بخشی۔ جس نے دلوں میں سکون اتارا۔ اس نے وضو کرکے شکرانہ پڑھا۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ایک لفظ منہ سے نہیں نکلا۔ بس آنسو تھے جو بےربط بہہ ہی چلے جارہے تھے۔ وہ خدا کا شکر کرنے کے لئے کون سے الفاظ لبوں سے ادا کرے؟ ہر لفظ کم تھا۔ 

"تیرا احسان یا خدایا۔۔۔ ہم بھول جاتے ہیں مگر تو یاد رکھتا ہے۔۔ سچ تو یہ ہے کہ سچی محبت ہم سے تو ہی کرتا ہے یا اللہ۔۔۔۔" وہ سجدے میں گرگیا اور اشک بہادیئے سجدوں میں۔۔۔ کتنے سالوں بعد وہ یوں رویا تھا۔ پہلی بار تب رویا تھا جب اس کا باپ نے خودکشی تھی۔ وہ دو دن اپنا درد چھپانے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔ دوسروں کے سامنے ظاہر کرتا کہ اس کوئی فرق نہیں پڑتا بلکل امان کی طرح کہ اس کا باپ مرگیا۔ مگر تیسرے دن وہ بچوں کی طرح بلک پڑا۔۔۔ 

سجدوں میں۔۔۔ اس کے سارے آنسو اس کے وارڈروب میں تہہ ہوئی رکھی جائے نماز میں جذب تھے۔ وہ جب بھی رویا سجدے میں رویا۔ اور وہ اب بھی سجدے میں ہی تھا۔ جب اسے محسوس ہوا کہ اس کا دل کافی ہلکا ہوگیا تو اٹھ بیٹھا۔ دل کا حال خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔

وہ اس ایک گھنٹے میں یا تو رو کر امان کی صحتیابی کی دعا مانگتا رہا یا اللہ کا شکر ادا کرتا رہا۔۔۔۔ 

"فبای الا ء ربکما تکذبان"

"اور اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جٹھلاؤ گے" 

آیت اس نے خود پر محسوس کی تھی اور اب وہ اس آیت کو پڑھ پڑھ کر زاروقطار رونے لگا تھا۔  اب سجدے سے اٹھنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ چاہتا تھا تو بس دعائیں مانگنا۔۔۔ شکر ادا کرنا۔۔۔ اور بس رونا۔۔۔ اور رونا۔۔۔

*------------------------*-------------------*

رات کے ڈھائی بج رہے تھے اور ان کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اپنے آپ کو مطمئن ظاہر کرنے والی شانزہ کے دل گبھرا رہا تھا۔ وہ کمرے میں آکر بیڈ پر آنکھیں بند کرکے لیٹ گئی تھی۔ وہ خود کو بھی یہ بات باور کروارہی تھی کہ اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ اس شخص نے اس کی زندگی برباد کردی اور اس لحاظ جو امان کے ساتھ ہوا وہ بھی کم ہے۔۔ دس منٹ بعد ہی بےچینی سے اس کی آنکھ کھلی تھی۔ سینہ مسلتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھی۔ تھوڑی دیر بعد اسے محسوس ہوا کہ اسے سانس کم آرہی ہے۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ وہ اٹھ کر ڈوپٹہ پھیلاتی نیچے کی جانب بڑھی۔۔ کچن کی لائٹ جلی ہوئی تھی کیونکہ کلثوم کچن میں تھی۔ کچن میں سے کھٹ پٹ کی آوازوں پر وہ چونکی۔

"کلثوم تم اس وقت کچن میں ہو؟ گھر نہیں گئی؟"

"نہیں بی بی جی! میں تو لالا کے ساتھ جاتی ہوں نا۔۔ مگر وہ تو زمان دادا کے ساتھ گئے ہیں اور ابھی تک نہیں لوٹے۔۔ خدا کرے سب خیر ہو" کلثوم گیلے ہاتھ کپڑوں سے پونچتی ہوئی بولی۔ شانزہ نے بےاختیار پریشانی سے لب بھینچے۔۔۔ خود کو بہت قابو کرنے کے باوجود آنسو بےاختیار گالوں پر بہہ گئے۔ کلثوم اسے یوں روتے دیکھ کر لب بھینچ گئی۔

"آپ روئے نہیں بی بی۔۔ خدا سب خیر کریگا بی بی جی۔۔۔" 

"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے کلثوم! میرے ساتھ آؤ" وہ آنسو صاف کرتے باہر گارڈن میں آگئی۔۔ ٹھنڈ ایسی تھی کہ خون جمادے۔۔۔ موسم دیکھتے ہوئے کلثوم کمرے سے دو شالیں اٹھالائی۔ وہ جب تک گارڈن تک پہنچی شانزہ گارڈن میں رکھی ٹیبل کے ساتھ چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ ایک شال اسے اوڑھا کر کلثوم دوسری شال میں خود کو ڈھک کر کپکپاتی چیئر پر بیٹھی۔

"ہائے بی بی جی رات کے اس وقت آپ کو کیا سوجی جو اتنی ٹھنڈ میں بیٹھنے کا دل کررہا ہے" کلثوم نے ہتھیلیوں کو آپس میں رگڑا۔ وہ چپ رہی۔۔۔

"آپ مجھ سے کیا جاننا چاہتی ہیں؟" 

"کلثوم کیا تم مجھے یہ بتاسکتی ہو کہ "منہاج شاہ" نامی شخص کون تھا؟ مجھے ان دونوں بھائیوں کی گفتگو کا ایک لفظ سمجھ نہیں آئے گا اگر مجھے یہ نہیں معلوم ہوگا کہ "منہاج شاہ" کون تھا۔ ان کی پوری گفتگو "منہاج" نامی شخص کے گرد گھوم رہی تھیں ۔۔۔لگتا ہے کوئی گہرا رشتہ ہے ان کے درمیاں" ٹھنڈی ہوا چلی اور اس کے چہرے کو چھونے لگی۔ کلثوم نے اپنی بڑی سی آنکھیں اٹھا کر شانزہ کو دیکھا۔ یہ سوال اور اس کا جواب! دونوں اذیت ناک اور مشکل تھے۔ کلثوم خاموش رہی۔ گارڈن میں کوئی لائٹ نہیں جلی ہوئی تھی۔ لاؤنج میں موجود جلتے بلب کی مدھم روشنی سے وہ اس کا چہرہ دیکھ رہی تھی۔

"تم نے مجھے بتایا نہیں کلثوم؟" وہ نرمی سے بنھویں اچکا کر بولی۔ کلثوم نے جھکی نگاہیں اٹھائیں۔

"آپ کیوں جاننا چاہتی ہیں شانزہ بی بی۔۔۔ جبکہ آپ تو اس گھر سے اور اس گھر کے مکینوں کو چھوڑ کر جانا چاہتی ہیں جس طرح سمیع صاحب کی بیگم چھوڑ گئیں". وہ کہہ کر نظریں پھیر گئی۔ شانزہ جھنجھلا اٹھی۔

"اب یہ سمیع صاحب کون ہیں؟؟؟؟" شانزہ نے پہلو بدلا۔ 

"امان اور زمان دادا کے خود کے دادا"

"اب ان سے بڑا بھی کوئی غنڈا ہے؟" شانزہ نے برا سا منہ بنایا۔

"نہیں بی بی جی امان اور زمان دادا غنڈے کب ہیں؟ بی بی ایسا تو نہ کہیں" کلثوم تڑپ اٹھی۔

"کسی لڑکی کو اغوا کرکے نکاح کرنا یہ غنڈا گردی نہیں؟؟؟" شانزہ آنسوؤں کو قابو کرتے ہوئے سخت لہجے میں دانت پیس کر بولی۔

"کیا انہوں نے آپ کو شادی کی پیشکش نہیں کی تھی شانزہ بی بی؟ کیا آپ کو علم نہیں تھا کہ اگر آپ نے ان کی بات نہ مانی تو وہ زبردستی کرنے کے قائل ہیں؟ حقیقت یہ ہے شانزہ بی بی کہ انہوں نے صحیح نہیں کیا تھا مگر آپ جانتی تھیں اس بارے میں۔۔۔ وہ آپ سے محبت نہیں کرتے شانزہ بی بی۔۔۔ آپ وہ واحد عورت ہیں ان کی ماں کے بعد جس سے وہ عشق کرتے ہیں۔ انہیں کسی سے محبت ہی نہ مل سکی۔۔۔ چودہ سال کے تھے وہ جب باپ بھی مرگیا اور ماں تو پہلے ہی مرچکی تھی۔۔ یہ باتیں مجھے میرے بابا اور شہنواز لالا نے بتائی۔۔ کیونکہ اس وقت لالا بھی چھوٹے تھے۔میرے بابا امان اور زمان صاحب کے دادا کے پاس اسی گھر میں نوکری کیا کرتے تھے۔ منہاج دادا کی شادی سے پانچ سال قبل لالا پیدا ہوئے۔۔ پھر جب لالا پانچ، چھ سال کے ہوئے تو بابا جانی لالا کو بھی اپنے ساتھ یہاں لے آتے۔۔لالا چھوٹے تھے اس لئے بابا کے ساتھ ہی یہاں آیا کرتے تھے۔۔۔ میں اس وقت تو پیدا نہیں ہوئی تھی، مگر یہ تمام باتیں مجھے بابا اور لالا نے مل کر بتائی ہیں۔ اب بابا تو نہیں ہیں مگر میرے لئے میرے لالا ہیں اور میری ماں۔۔۔" جملہ مکمل کرنا چاہا مگر الفاظوں نے ساتھ نہ دیا۔ سامنے کی جانب دیکھتے ہوئے وہ سب بتارہی تھی۔ آنکھوں میں آنسو کا جگنو چمکا تھا جسے سرعت سے ہٹادیا گیا تھا۔ وہ بےپایاں مسکرائی۔ جب غم بڑھنے لگے اور آپ کو محسوس ہو کہ آپ کمزور پڑرہے ہیں تو آپ کے چہرے پر عیاں ہونے والی مسکراہٹ آپ کا بھید رکھ لیتی ہے۔۔۔ شانزہ نے لب بھینچے۔

"اللہ ان کی مغفرت کرے۔۔ آمین" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔۔

"آمین۔۔۔۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے منہاج صاحب کے بارے میں۔۔ کبھی کبھی۔۔۔"

"میں گہرائی تک جاننا چاہتی ہوں منہاج صاحب کے بارے میں"۔

کلثوم نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو سنجیدگی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"یہ سب بتانے کے لئے الفاظ چاہئے بی بی جو فالحال کہیں گم ہوگئے ہیں". نظریں پھیر کر گھنے موٹے درخت کی جانب ٹکائیں۔

"کیا کیا تھا منہاج صاحب نے جو تمہارے زمان دادا امان کو ان سے تشبیہہ دے رہے تھے؟"

"اس گھر کے مکینوں کے دو رخ ہیں شانزہ بی بی! منہاج دادا کے ظلم کی داستان سنیں گی تو آپ کو منہاج دادا سے نفرت ہونے لگے گی۔۔۔ مگر جب ان پر ہوئے ظلم سنیں گی تو خون کے آنسو روئیں گی۔۔۔ امان دادا کا سخت رویّہ اور اذیت پسندی دیکھیں گی تو کانپ اٹھیں گی اور جب ان کی رحم دلی دیکھیں گی تو متحیر ہوجائیں گی۔۔۔ اور بلکل اسی طرح زمان دادا کو ہنستے دیکھیں گی تو دل چاہے گا خود بھی ہنسیں اور جب ان کی آنکھوں میں چھائی اداسی اور وحشت دیکھیں گی تو ہمدردی محسوس ہوگی۔۔۔۔ اس گھر میں گھاٹیوں کا اندھیرہ اور وحشت ہی قائم رہتی اگر زمان دادا کا پہلا رخ اس سب کو ختم نہ کرتا۔۔۔ کوئی سوچ نہیں سکتا کہ اس گھر میں اب زمان دادا کی وجہ سے قہقہہ گونجتے ہیں۔۔۔۔" بات ختم کرکے وہ سرعت سے نگاہیں نیچے جھکا گئی۔۔۔ 

شانزہ یہ جان گئی تھی کہ اسے اس گھر کے مکینوں کو پڑھنے کے لئے ایک الگ رخ کی ضرورت ہے۔۔۔

*------------------------*-------------------------*

وہ کرسی پر بیٹھا امان کا ہاتھ تھامے اس کے بیڈ ہر سر جھکا کر لیٹا ہوا تھا۔ امان کو ابھی ہوش نہیں آیا تھا۔  وقت کا ہوش نہیں تھا۔ تھوڑی دیر اور گزری تھی کہ زمان کے ہاتھ میں موجود امان کے ہاتھ نے حرکت کی۔ اس نے جھٹکے سے سر اٹھایا تو امان ادھ کھلی آنکھوں سے اسے تک رہا تھا۔۔ آنکھیں جو رو رو کر تھک چکی تھی ایک بار پھر رونے لگیں۔ اس نے امان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر لبوں سے لگایا۔ اس اثناء میں دونوں گال آنسوؤں سے بھیگ گئے۔ 

"تم ٹھیک ہو امان۔۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔۔" وہ بھیگے لہجے میں بولا۔ امان کچھ نہ بولا صرف تکتا رہا۔۔۔ نہ اس کی پتلیوں نے ذرا حرکت کی اور نہ اس نے پلکیں جپھکیں۔ وہ شخص جو دن رات بس حکم چلاتا تھا آج خاموش تھا۔ 

"کک۔کچھ بولو نا" اسے اور ذیادہ رونا آیا۔ 

"کیا بولوں؟ یہی کہ اللہ تو ہمارے ساتھ ہے مگر تم میرا ساتھ چھوڑنے کی بات کررہے تھے". امان کے یوں شکوہ کرنے پر زمان تڑپ اٹھا۔ 

"یوں نہ کہو امان۔۔ میں تمہارے ساتھ ہی ہوں۔۔ ہمیشہ سے ہمیشہ تک۔۔۔ جب تک ہوں تب تک تمہارے ساتھ ہی رہوں گا۔۔۔" 

"میرے ساتھ رہنا زمان! میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر, مجھے چھوڑ کر مت جانا۔۔۔ مم۔میں نہیں سہہ سکتا تمہاری جدائی۔۔۔ اور مجھے خدارا منہاج شاہ مت کہنا آئیندہ۔۔۔ " آنسو بہنے لگے تھے۔۔۔ ضبط کھو گیا کہیں۔۔۔۔ اور اشک قابو میں نہ آئے۔

"اس شخص نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا ہے زمان۔۔۔ ہم نے اپنی ماں کھو دی اس کی وجہ سے۔ وہ قاتل ہے ہماری ماں کا، ہماری خوشیوں کا زمان۔۔۔ میں ایک نفسیاتی مریض ہوچکا ہوں بلکل منہاج شاہ کی طرح۔۔۔ وہ بھی نفسیاتی مریض تھا۔۔۔ اس نے ہماری ماں ہم سے چھین لی کیونکہ اسے اس کی ماں چھوڑ گئی تھی". وہ دانت پیس کر بولا۔ باتوں کے درمیان مسلسل ہچکیاں آرہی تھیں۔۔ ایسا جیسے خود کو قابو کررہا ہو۔

زمان ساکت ہوا۔ اسے اپنے باپ کی ڈائری کے وہ الفاظ یاد آئے۔۔

"میں نہیں چاہونگا کہ وہ بڑے ہوکر تمھارے صفحوں میں لپٹی میری داستان پڑھیں اور اپنے باپ کو ایک نفسیاتی مریض سمجھیں۔ میں نہیں چاہوں گا کہ وہ اپنے باپ کو ایک پاگل سمجھیں جسے جس کی ماں بھی دھتکار گئی تھی۔" لب کپکپائے اور آنسوؤں میں تیزی آگئی۔۔ اس نے خود کو قابو کرنے کے لئے لب بھینچے ۔۔۔ وہ باپ کی ڈائری کا موضوع نہیں نکالنے والا تھا۔

"تم نے خود کو پاگل بنادیا ہے امان۔۔۔ ماضی کو اس قدر حاوی کر ڈالا کہ ہر جگہ تمہیں وہی شخص نظر آتا ہے۔۔جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ امان ۔۔ ہمیں گھر بھی جانا ہے۔۔۔" زمان نے اس کے ہاتھ پھر سے چومے۔

"تم مجھے شانزہ کو چھوڑنے کا تو نہیں کہو گے نا؟ ممم۔میں نہیں چھوڑنا چاہتا زمان۔۔۔ وہ میری خوشی ہے۔ اس شخص کی خوشی ہے جس کو کوئی خوشی ہی راس نہ آئی۔ تم اور شانزہ میری خوشی ہو۔۔ میری محبت ہو۔۔۔ میں تم دونوں کے بغیر اب ادھورا ہوں زمان۔۔۔ تتت۔تمہیں پتا ہے زمان۔۔۔ مم۔میں تمہارے جانے سے بےحد اداس ہوگیا تھا مگر جب سے وہ آئی ہے نا میری زندگی میں تمہیں معلوم ہے میں اب خوش رہنے لگا ہوں اور دیکھو اب تو تم بھی آگئے۔۔ مم۔میری خوشی دگنی ہوگئی۔۔۔ بس مجھے زندگی میں چھوڑنا مت اور نہ مجھے شانزہ کو چھوڑنے کا کہنا۔ میں دونوں ہی صورت میں مرجاؤں گا۔۔۔۔" وہ شخص ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔ امان کے منہ سے نکلنے والے ہر لفظ زمان کو اپنے دل میں اترتے محسوس ہورہے تھے۔ وہ شانزہ کے ساتھ ہوتی زیادتی نہیں دیکھ سکتا تھا اور اپنے بھائی کو مرتا۔ انصاف کا دم گھٹتا دکھائی دیا۔ اور بلآخر رات کے اس پہر جہاں ٹھنڈی ہواؤں کا بسیرا تھا وہ ہار گیا۔ اپنے اس بھائی کے سامنے جو  دنیا میں آنے سے پہلے سے اس کے ساتھ اپنی ماں کے بدن میں تھا اس کے لئے شکست کھاگیا۔ اس نے آنکھیں موند کر کھولیں اور کچھ توقف سے بولا۔

"کوئی دور نہیں جائے گا امان۔۔ تمہاری خوشیاں تمہاری ہی رہیں گی۔۔۔ زندگی میں بہت کم ہی لوگ خوش رہ پاتے ہیں اور تم ان کی فہرست میں داخل ہوجاؤ گے۔۔ اس قول کی ذمہ داری آج سے میرے ذمے۔ تم سے تمہاری کوئی خوشی دور نہیں جائے گی چاہے وہ میں ہوں میری بھابھی۔ اس بات کی ذمے داری بھی آج سے میں لیتا ہوں" اذیت اور تکلیف کے درمیاں کیسے مسکرایا جاتا ہے زمان نے آج سمجھا تھا۔ زمان جب بھی رویا بلک بلک کر رویا اور تب تک روتا جب تک دل ہلکا نہ کرلیتا۔۔ مگر آج وہ پہلی بار روتے میں مسکرایا صرف اپنے بھائی کی خوشی کے لئے۔۔۔ درد کو چیرتے ہوئے لبوں پر مسکراہٹ لایا تھا اور اب ہنستے ہوئے امان کو دیکھ رہا تھا۔ 

اس کے یوں "بھابھی" کہنے پر امان نے ناقابلِ یقین ہوکر اسے دیکھا۔۔۔ ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوا۔

"اب ایسے کیا حیرانی سے دیکھ رہے ہو؟ اسے بھابھی بولنے کے بجائے تمہیں اپنا بہنوئی بنالوں؟ پھر وہ تو بہن ہی رہے گی جیسے ابھی ہے مگر تم میرے بہنوئی بن جاؤ گے۔۔۔" کھکھلا کر جملہ مکمل کیا تھا۔ 

امان نے زوردار قہقہہ لگایا۔ 

"مگر میری ایک بات ماننی ہوگی" وہ اس کا ہاتھ اپنی طرف کھینچ کر بولا۔ 

"ہر بات منظور ہے" امان مسکرا کر بولا۔

"اسے اذیت نہیں دو گے۔۔۔نہ اس پر ہاتھ اٹھاؤ گے" زمان سنجیدگی سے لہجے میں ہلکی سختی لاکر بولا گویا وارن کررہا ہو کہ مانو بات ورنہ اپنی بات سے مکر جاؤں گا میں۔۔۔۔

"تمہیں پتا یے زمان۔۔۔ جب بھی میں اس کی وجہ سے غصے میں قابو سے باہر ہونے لگا تو میں نے خود کو سنبھالا۔۔۔ کیونکہ میں نہیں چاہتا تھا کہ میں منہاج جیسا بنوں۔۔۔ تمہیں پتا ہے مجھے خود پر بھی یقین نہیں آرہا تھا زمان کہ میں نے خود ہر کیسے قابو کیا جبکہ وہ تمہارے بھائی کو غصے کی آخری حدوں پر پہنچا چکی تھی"۔ زمان کو وہ اس چھوٹے بچے کی مانند لگا جو اپنی ہی کی گئی چھوٹی اچھی باتوں کو بڑے صفائی اور فخر سے بتارہا تھا۔

"بیوی شہہ ہی ایسی ہے۔ غصے کی آخری حدوں پر پہنچادیتی ہے اور آپ کو آپ کی اوقات بھی دکھا دیتی ہے۔۔۔" وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا جیسے خود اس نے چار شادیاں کر رکھی ہوں۔ 

"کہیں تو نے تو شادی نہیں کر رکھی" اب ماحول بہت چینج تھا۔ ادسیوں کی جگہ قہقہوں نے لے رکھی تھی۔

"ویسے ان باتوں کو چھوڑو! مجھے زندگی بھر دکھ رہے گا کہ تم نے اپنے بھائی کو شادی ہر نہیں بلایا۔۔۔ بھلا سادگی سے بھی کوئی شادی ہوتی ہے۔۔ میں ہوتا تو شاید ایک، دو کڑوڑ طرح طرح کی رسموں میں تجھ سے نکلوا ہی لیتا"۔ 

"ہاں اور پھر میں اپنی بیوی کے ساتھ جوگی میں رہتا۔۔۔ ایک ، دو کڑوڑ بولنے سے پہلے ایک دفعہ آئینے میں شکل تو دیکھ کر آتے"۔ 

زمان نے صدمے اسے دیکھا۔

"معاف کرنا امان اب تم اپنی بیوی کے جیٹھ کی بےعزتی کرنے کی کوشش کررہے ہو" اس کے واقع دل پر لگی تھی۔

"جی نہیں کوشش نہیں کررہا بلکہ بےعزتی ہی کررہا ہوں۔۔۔ اور دوسری بات کون جیٹھ؟ میری بیوی کا ایک ہی دیور ہے۔۔۔۔نام زمان شاہ!" 

اور یہ لگی زمان کے دل پر ٹھاہ کرکے۔۔۔

"میں تم سے بڑا ہوں امان یہ مت بھولو۔۔۔ پانچ منٹ بڑے کو بڑا کہتے ہیں چھوٹا نہیں۔۔۔ اور پانچ منٹ شوہر کے بڑے بھائی کو جیٹھ کہتے ہیں دیور نہیں" 

"جو بھی ہے یہ "دیور" والا موضوع بہت بکواس ہے۔۔ دوسری باتیں کرتے ہیں"۔ 

"ہاں ٹھیک کہہ رہے ہو جیٹھ والے موضوع پر پھر کبھی لڑیں گے"۔ زمان "دیور" کی اصلاح کرچکا تھا۔ 

"ہاں دیور ہی تو ہے۔۔ بعد میں چھیڑیں گے یہ موضوع" 

"ہاں چلو کوئی بات نہیں جیٹھ ہی تو ہے" 

اس کے یوں کہنے پر امان نے قہقہہ لگایا. زمان اس کو ہنستے دیکھ کر مسکرا دیا۔ 

"اچھا بس آرام سے لیٹ جاؤ۔۔۔ تھوڑی دیر کے لئے سوجاؤ تو بہتر ہے۔۔۔ میں ذرا اپنی جیب سے پیسے بھر کر آؤں تاکہ تمہاری فیس ادا ہوجائے۔۔۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اسے چادر اوڑھانے لگا۔ 

"جتانا ضروری تھا کہ اپنی جیب سے بھر رہے ہو؟" امان نے آئبرو اچکا کر اسے دیکھا تھا۔ 

"بہت ضروری ہوتا ہے تمہیں نہیں پتا۔۔۔ اور تم جیسے بھائی کو تو جتانا ہی چاہئے۔ کبھی زندگی میں اگر تم نے مجھے طعنہ دیا کہ میں نے تمہارے لئے آج تک کیا ہی کیا ہے تو میں بھی یاد دلاسکوں کہ اس موقع پر تمہارے لئے پیسے میں نے اپنی جیب سے بھرے تھے"۔ وہ آئبرو اچکا اچکا کر ایسے بات کررہا تھا جیسے کوئی سائنس سمجھا رہا ہو۔۔

امان مصنوعی انداز میں جیسے اس کی باتیں سمجھ رہا ہو اثبات میں سر ہلانے لگا۔ 

"اچھا اب ایسا کرو کہ ذرا والٹ دیکھنے دو مجھے" امان نے اس کی جیب سے والٹ نکالا اور کھول کر دیکھنے لگا۔ پھر ہزار کا نوٹ نکالا اور اس کے ہی آگے بڑھایا۔

"اب میرے لئے بسکٹ، چائے وغیرہ لے کر آؤ" 

زمان کا دل اس کے حلق میں آگیا گویا۔

"ہزار کے بسکٹس کھاؤ گے؟ پاگل ہو؟ سو کے لادوں گا بس! موٹے ووٹے ہوجاؤ گے فضول میں" اس کے ہاتھ سے پیسے چھینتا ہوا بولا. 

"بسکٹ سے موٹا کون ہوتا ہے بھلا؟" 

زمان کوئی نیا بہانہ ڈھونڈنے لگا۔

" بس ایک دفع کہہ دیا موٹے ہوتے ہیں تو ہوتے ہیں۔۔ اب بھلے بسکٹ تمہارے پاس خود آکر بھی بولیں کہ نہیں ہوتے موٹے تو مت ماننا"۔ زمان امان کے قریب اس کی چادر کا کونا پکڑ کر کھڑا تھا۔ 

امان نے اس کے پیٹ پر مکا مارا۔۔۔ 

"آؤچ۔۔۔ بیماری دماغ پر حاوی ہورہی ہے کیا؟؟؟" خونخوار نظروں سے اسے گھورتے ہوئے بولا۔ اس کے یوں گھورنے ہر امان نے اپنے مخصوص انداز سے دیکھا۔۔۔ سنجیدگی سے امان کو اپنی طرف دیکھتا پایا تو اپنے حواس بحال کرگیا۔

" جارہا ہوں میں تمہاری فیس بھرنے جو کہ میرے والٹ سے جارہی ہیں اور پیسے تقریبا ست۔۔۔۔" وہ جاتے جاتے بول رہا تھا کہ امان نے سرعت سے بات کاٹی

"بس کردو زمان اور کتنا جتاؤ گے؟ ذرا شرم و لحاظ ہی کرلو ورنہ میں اٹھ کر بتاتا کوں تمہیں"

امان کے اس انداز پر وہ کھلکھلاتا باہر کی طرف بڑھا۔

*-------------------------*-------------------------*

"زمان دادا اگر اب سب کچھ بہتر ہے تو میں جاؤں؟ کلثوم بھی انتظار کررہی ہوگی۔۔۔۔" زمان بل پے کر کے آیا تھا جب شنہواز نے اجازت مانگی۔۔

"اوہ ہاں۔۔۔ ٹھیک تم جاؤ اور گھر میں شانزہ کو بھی اطلاع دیدینا کہ سب ٹھیک ہے اور یہ کہ ہم فجر کے بعد امید ہیں کہ گھر آجائیں، امان کی طبیعت اب بہت بہتر ہے۔۔۔ ویسے بھی ساڑھے چار بجنے لگے ہیں"۔ 

"جی ٹھیک ہے۔۔۔۔" 

"اور ہاں۔۔۔۔ چوکیدار چلا گیا ہوگا تو شانزہ سے کہنا دروازہ لاک کرکے کمرے میں چلے جائے اپنے۔۔۔ اور کوشش کرے کہ کمرہ بھی لاک رکھے اندر سے۔۔۔ حالات ٹھیک نہیں آج کل۔۔۔ اور کل صبح تمہیں جلدی آنے کی ضرورت نہیں، آرام سے آنا۔۔۔" شہنواز سر ہلاتا ہوا باہر کی جانب بڑھ گیا اور زمان امان کی طرف۔

*----------------------------------------------------*

ساڑھے چار بج رہے تھے۔۔۔ آسمان گہرا نیلا ہورہا تھا۔ شانزہ کرسی پر سوگئی تھی جبکہ کلثوم کی بھی ابھی تھوڑی دیر پہلے آنکھ لگی تھی۔ وہ دونوں باتیں بگھارتے یہیں سوگئی تھیں۔ کوئ گھر کے باہر کھڑا تقریباً دس منٹ سے دروازہ بجا رہا تھا۔ کلثوم آنکھیں مسلتی اٹھی تھی۔۔۔ دروازہ کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔

"شانزہ بی بی اٹھ جائیں لگتا ہے وہ آگئے" شانزہ نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں اور اسے دیکھا۔

"کیا وہ آگئے" 

"ہاں شاید" پاؤں چپلوں میں اڑستی وہ دروازے کی سمت بھاگی۔۔ پیچھے شانزہ بھی آنے لگی۔ دروازہ کے تالا کھول کر اس نے دروازے سے کنڈی ہٹائی۔۔ باہر شہنواز کھڑا تھا۔ 

"لالا سب ٹھیک ہے نا؟ اور وہ کہاں ہیں؟" کلثوم کی دیکھا دیکھی شانزہ نے بھی شہنواز کو لالا کہا۔ شہنواز مدھم سا مسکرایا۔

"جی بی بی وہ ٹھیک ہیں۔۔۔ صبح تک آجائیں گے انشاءاللہ۔۔۔ زمان دادا کہہ رہے تھے کہ آپ اچھی طرح دروازے کو کنڈی لگالیں اور کمرے میں چلے جائیں۔۔۔ کوشش کیجیے گا کہ کمرہ بھی لاک رہے۔۔۔ میں کلثوم کو لے کر جارہا ہوں اگر آپ کہیں تو کلثوم کو آپ کے پاس چھوڑ جاؤں؟" 

"نہیں لالا آپ لے جائیں میں تالا لگادوں گی۔۔" وہ چاہتے ہوئے بھی کلثوم کو روک نہیں پائی۔ 

"شانزہ بی بی اپنا خیال رکھئے گا۔۔ میں صبح آپ سے ملوں گی اب" وہ اس کا ہاتھ تپھکتے ہوئے اپنی اندر اندر لینے بھاگی۔۔ 

"کیا امان صاحب ہوش میں ہیں؟" چہرے پر فکر مندی عیاں تھی۔

"جی بی بی اللہ کا کرم ہے۔ اللہ جو کرتا بہتر کرتا ہے۔۔ وہ آپ کو سات دلدل سے بھی نکال سکتا ہے چاہے وہ برائی کی ہی کیوں نہ ہو" شہنواز نے ڈومعنی لہجے بات کی۔۔ شانزہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔ اتنے میں کلثوم آگئی۔ شہنواز کلثوم کو دیکھتا گیٹ سے باہر نکل گیا۔ 

"اچھا بی بی اللہ حافظ۔۔ اپنا خیال رکھئے گا وہ بات الگ ہے مجھے آپ کے لئے پریشانی رہے گی" کلثوم نے فکر مندی سے کہا تو شانزہ نے مسکراتے اسے لگالیا۔

"تم بےفکر رہو۔۔ میں اکیلی نہیں ہوں اللہ ساتھ ہے میرے"۔ کلثوم بے اختیار مسکرائی اور اللہ حافظ کہہ کر باہر نکل گئی۔ آسمان سے سیاہی ہٹ رہی تھی۔۔ وہ گیٹ اچھی طرح لاک کرکے اندر آرہی تھی۔ کبھی یوں تنہا اکیلے رہی نہیں تھی۔ ایک ڈری سہمی سی لڑکی تھی جس کی ماں بھی اس کے پاس نہ ہو تو رو جایا کرتی تھی اور اب حال ایسا تھا کہ اتنے بڑے گھر میں تنہا وقت گزار رہی تھی۔ گھر کی تمام بتیاں جلا کر وہ اپنے کمرے میں آگئی۔۔ نماز فجر ادا کی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا۔ اللہ کا شکر ادا کیا اور پھر اپنی کٹھن مسافت کی جانب آئی۔ سجدے میں گر کر یوں روئی جیسے ایک شخص کو ملک و الموت نے زندگی کی آخری نماز پڑھنے کا کہا ہو پھر تم اللہ کی جانب پلٹا دیئے جاؤ گے۔۔۔ جو مانگ سکتے ہو مانگ لو۔ کوئی نہیں اس دنیا میں سوائے اللہ کے۔ اسی سے مانگو کیونکہ اسی جانب پلٹا دیئے جاؤ گے۔۔ وہ اس گھر میں تنہا ایک کمرے میں بیٹھی تھی۔ آنسو بےربط بہہ رہے تھے۔ اپنوں کی یاد اس کے درد کو اور چیرا لگارہی تھی۔ اشک بہہ جارہے تھے اور وہ بکھری جارہی تھی۔۔ وہ اب آواز کے ساتھ رونے لگی۔

"ماما" وہ چیخنے لگی۔ ہچکیوں کے درمیاں وہ بار بار ماں کا نام لے رہی تھی۔۔۔

"یا اللہ تیری بشر یوں تڑپ تڑپ کر مرجائے گی۔۔ مجھے کوئی راستہ دکھا۔ تو دلوں کا حال جاننے والا ہے مجھے میری ماں سے ملوادے" وہ تڑپ رہی تھی۔۔۔ جائے نماز اس کے آنسو ضبط کررہی تھی۔ 

"اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" اسے لگا اس کے کان میں کسی نے سرگوشی کی۔ ایک عجیب سنسنی سی لہر اس کے بدن میں دوڑی۔ وہ ساکت ہوئی۔۔ متحیر ہوئی

"ہاں صحیح کہا۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے" مدھم سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیلی اور وہ ماحول کا اپنا اسیر کرگئی۔

*-----------------------------------------*

فجر کی نماز ادا کرکے وہ ڈاکٹر سے لمبی گفتگو کر آیا تھا۔ 

"چلو تھوڑی دیر تمہیں ڈاکٹرز یہاں سے نکال رہے ہیں" ماحول کو لائٹ کرتے ہوئے وہ اس کے قریب کرسی پر بیٹھ گیا۔

"اچھا ہے۔۔۔ کتنے بج رہے ہیں؟ ابھی لے چلو گھر پلیز۔۔۔ شانزہ گھر میں اکیلی ہوگی میں اس کی جانب پریشان ہورہا ہوں۔ میں جارہا ہوں بس بہت ہوگیا"۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ چہرے پر فکرمندی عیاں تھی۔۔

"سات بج رہے ہیں۔ ہاں انشاءاللہ تھوڑ دیر تک نکلتے ہیں تم ٹینس نہ ہو۔۔ میں آتا ہوں ذرا تمام ڈیوز دیکھ کر"۔ وہ اٹھا اور اثبات میں سرہلاتا باہر نکل گیا۔ 

امان کا دل گبھرا رہا تھا۔ شانزہ گھر میں اکیلی تھی۔۔ کہیں وہ مجھ سے دور جانے کے چکر میں خود کچھ نہ کرلے۔ جانے کتنے گھنٹے گزر گئے اور اس کا چہرہ بھی نہ دیکھا۔ دل میں بےچینی جنم لے رہی تھی۔ 

تھوڑہ دیر بعد زمان کمرے میں آیا۔ 

"آجاؤ۔۔ بلکہ ٹہھرو مجھے خود کو تھامنے دو" وہ تیزی سے اس کے قریب آیا اور کمر سے پکڑا۔ 

"چھوڑو میں سنبھال سکتا ہوں۔۔۔" امان نے اس کا ہاتھ اپنی کمر سے دور کرنا چاہا مگر وہ مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ 

"دماغ خراب ہے کیا؟ گر جاؤ گے پھر دس دن یہاں رہ لینا" زمان نے اسے گھورا۔ 

"پاگل مت بنو۔۔۔ چھوڑو مجھے زمان۔۔۔ میں چل سکتا ہوں۔۔۔ میں نے کہا چھوڑو مجھے۔۔۔" وہ اپنے پرانے رویے میں واپس آرہا تھا۔ امان کے پیشانی پر پٹی بندھی تھی۔ گرنے کی وجہ سے سر پر چوٹ آگئی تھی۔

"ٹھیک ہے" زمان نے اسے چھوڑدیا۔ امان سنبھل نہ پایا اور گرنے لگا۔ زمان نے قریب آکر اسے تھاما۔

"پھر سے چھوڑ دوں؟ اب مجھے یہ کھیل کھیلتے مزہ آرہا ہے" وہ طنز و تفریح کے ملے جلے تاثرات سے بولا۔ چہرے پر دبی دبی مسکراہٹ تھی جو اس وقت امان کو بے حد زہر لگ رہی تھی۔

"بکواس کم کرو۔۔۔۔ اور اب مجھے مت چھوڑنا" وہ منہ پھیر کر غصہ سے بولا۔

"ہاہاہا کوئ اپنی اسٹیٹمنٹ چینج کرنا تم سے سیکھے۔۔۔ چلو ایک بار پھر ٹرائے کرتے ہیں" یہ کہتے ساتھ اس نے امان کو پھر چھوڑا اور جیسے ہی وہ گرنے لگا زمان نے اسے پھر سے پکڑلیا۔ 

"تمہیں میں چھوڑوں گا نہیں" امان دانت پیس کر بولا۔ 

"ہاں یہی میں بول رہا ہوں۔۔مجھے کبھی مت چھوڑنا" زمان کھلکھلاتا ہوا بولا۔ اب وہ اسے تھام کر کوریڈور سے گزر رہا تھا۔ 

"آؤ پھر چھوڑتے ہیں تمہیں۔۔۔ دیکھو مجھ میں ایک بات ہے۔۔ میں تمہیں چھوڑتا ہوں تو تھامتا بھی خود ہوں" وہ دانت دکھاتا اسے دیکھنے لگا اور ساتھ ہی اسے پھر چھوڑا۔۔ یکدم امان کی چیخ نکلی اور وہ گرنے لگا مگر پھر سے زمان نے اسے پکڑ لیا اور قہقہہ لگایا۔ 

"تم گھر چلو میں تمہیں بتاتا ہوں" وہ غصہ کی آخری حدوں پر تھا۔ 

"ہاں ہاں گھر چل کر مجھے ضرور بتانا کہ میری شادی میں سب ذیادہ پیسے تم ہی خرچ کرو گے" کہتے ساتھ اس نے پھر چھوڑا اور پھر سے تھام لیا۔ 

امان کو سر پر گہری چوٹ آئی تھی جس کی وجہ سے خود کو سنبھال نہیں پارہا تھا اور سہارے سے چل رہا تھا۔

"تمہاری ایسی کی تیس۔۔ایک دو پستول کی گولیاں تمہارے بےکار چلتے دماغ میں ٹھوکوں گا ذرا صبر کرو" امان کا بس چلتا تو وہ یہیں دفن کردیتا مگر وہ جانتا تھا کہ زمان اسکی حالت کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔۔ ہسپتال میں موجود لوگ انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ زمان نے پھر وہی حرکت کی تو آتی جاتی نرسز کا دل حلق میں آگیا۔ انہیں زمان کی دماغی حالت پر شک ہوا جو مریض کے ساتھ ایسا سلوک کررہا تھا۔ مگر زمان مطمئن بےغیرت تھا۔ وہ ہنسا سب کو دانت دکھاتا ہوا مستیاں کرنے میں مصروف تھا۔ 

"ارے امان کیوں میرے قدموں میں گرے جارہے ہو میں تمہیں معاف کیا یار۔۔۔ ہاں لیکن کبھی دوسری شادی کرو تو مجھے انوائٹ ضرور کرنا" اس بار زمان نے اسے چھوڑا تھا تو وہ بےقابو اس کے قدموں میں گرنے لگا تھا جس پر زمان نے اسے تھاما اور سنجیدگی سے کہا تھا۔ امان کا دل چاہا وہ اس کا سر پھاڑ دے۔۔۔

"اتنا برا وقت نہیں آیا کہ تمہارے قدموں میں گروں۔ گھر پہنچنے دو ایک دفع بتاتا ہوں تمہیں۔۔میرے سر میں گہری چوٹ ہے جس کے باعث مجھے کمزور ہورہی ہے" وہ خون آلود نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

"ارے ارے اتنی محبت سب بتانا اتنی جلدی کیا ہے" وہ قہقہ لگاتا اب وہ اسے ہسپتال سے باہر لے آیا تھا۔ 

"آؤ لے چلتا ہوں تمہیں تمہارے زوجہ کے پاس" وہ مسکراتا ہوا اسے چھیڑتے ہوئے گاڑی کی سمت لے جانے لگا۔ 

*----------------------------------------+

فاطمہ نے اپنی تیاری کو آخری شکل دی اور بیگ اٹھا کر نیچے آگئی۔۔ 

"امی میں جارہی ہوں کالج" کہہ کر وہ باہر نکلنے لگی کہ قدم روک لئے۔۔ اسے یاد آیا وہ کبھی بھی شانزہ کے بغیر نہیں گئی تھی۔ دل میں درد اٹھا۔ اگر وہ کبھی شانزہ کے ساتھ باہر نہیں گئی تو ایک عورت بھی تھی جو شانزہ کے بغیر اپنی صبح نہیں کرتی تھی۔ قدم پیچھے کئے اور دھیرے سے چلتی ہوئی نفیسہ کے کمرے میں آگئی۔ 

چاچو رمشا کو چھوڑنے یونیورسٹی گئے تھے۔ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ سجود میں تھیں۔ وہ لیٹ ہورہی تھی اور ان کی نماز ختم ہونے کا انتظار نہیں کرسکتی تھی۔۔ وہ ان کے قریب آئی اور جھک کر ان کے گال ہر بوسہ دیا اور پلٹ گئی۔۔ وہ اپنے آپ کو ایسا کرنے سے روک نہ پائی۔۔ سجود میں بیٹھی اس عورت کے بےاختیار گال بھیگ گئے تھے۔ محبت سے، کسی یاد سے۔۔۔ 

*--------------------------------*

"تیری بیوی نے آج دروازہ نہیں کھولنا۔۔۔ وہ ہمارے گھر سے ہمیں ہی بےدخل کر گئی ہے" وہ دس منٹ سے کھڑا دروازہ بجا رہا تھا۔۔ امان فکر مند ہوا۔ 

"کہیں اسے کچھ ہو نہ گیا ہو" 

"میں نے شہنواز سے کہا تھا کہ اسے کہنا کہ کمرے کو لاک کرکے بیٹھے۔۔ لگتا ہے بےحد سیریس لے گئی ہے۔۔ پردے بھی لگالئے ہیں اس نے کمرے کے۔۔۔ آواز نہیں جارہی ہوگی کمرے تک"

"تو اب کیا کرنا ہے؟؟" امان دیوار کے سہارہ لئے کھڑا ہوا۔

"دروازہ توڑ دوں؟" زمان کو مستیاں سوج رہی تھیں۔

"میں تمہیں توڑ دوں؟؟؟؟؟" امان نے اسے گھورا۔ 

"نہیں نہیں۔۔۔ ہم انتظار کر لیتے ہیں کہ کب تمہاری بیوی اٹھے گی پھر دروازہ کھولے گی" وہ مسکرا کر اپنے لہجے سے بہت کچھ کہہ گیا تھا۔ امان شانزہ کے ذکر ہر مسکرا کر رہ گیا 

"ہٹو میں کچھ کرتا ہوں" وہ سہارا لے کر دروازے تک آیا۔

"کونسا سحر ہے تمہارے ہاتھوں میں جس سے نہیں کھٹکھٹا سکا؟" زمان طنزیہ بولا۔ 

وہ یہاں تقریباً دس منٹ سے کھڑے تھے۔ امان دروازے کو لات مارنے کے لئے تھوڑی دور ہٹا۔۔۔ مگر چکر آنے کے باعث لڑکھڑا گیا۔ 

"بس ہوگیا؟ کردیا کام؟ کھل گیا دروازہ؟ اٹھ گئی تمہاری بیوی ؟ چلے گئے ہم اندر؟ اور دکھاؤ اپنی طاقت۔۔۔ صبر کرو میں گیٹ پھلانگتا ہوں۔۔۔" وہ اسے دیوار سے سہارا دے کر خود آستین چڑھانے لگا۔ 

"دھیان سے" امان صرف اتنا کہہ پایا۔ 

"بیوی نہیں ہوں میں جو بول رہے ہو دھیان سے۔۔۔ پرے ہٹو یار۔۔۔ اور کہاں گیا وہ تمہارا مخصوص برتاؤ۔۔۔ ویسے عام طور پر بڑا چلاتے ہو؟؟؟" 

"کام کرو اپنا اور اب بکواس کی تو دو لگاؤں گا" امان زوردار آواز میں چیخا۔ زمان کی سٹی گم ہوئی۔ 

"ک۔کررہا ہوں"ہکلا کر کہتا ہوا دروازہ پھلانگ گیا۔

امان شاطرانہ انداز میں مسکرایا۔ اندر سے اس نے دروازہ کھولا اور اسے پکڑ کر اندر لایا۔ امان کے لبوں سے مسکراہٹ سکڑی اور وہ ماتھے پر بل لا کر اندر آیا۔ 

"پکڑو ہاتھ میرا" زمان نے ہاتھ بڑھایا۔۔۔ امان نے اپنے آستین چڑھائے۔۔۔ اب جو ہونے والا تھا وہ زمان کے فرشتوں کو بھی علم نہ تھا۔ 

امان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اس کی کمر پر موڑدیا اور گدی سے پکڑتا ہوا اسی کے سہارے لاؤنج میں لانے لگا۔۔ زمان کو جھکی گردن دے رہی تھی۔۔۔ 

"چھوڑو مجھے" وہ چیخا۔

"اب بتاتا ہوں تجھے صبر کر" امان نے اپنی گرفت مضبوط کی۔ زمان بلبلا کر رہ گیا۔ 

"میں نے کیا کیا ہے" زمان معصومیت سے بولا۔

"میرا مذاق بنایا ہے ہسپتال میں۔۔۔ ابھی بناتا ہوں تیرا مذاق۔۔۔" اس کو گدی سے پکڑ کر اور نیچے کی جانب کیا۔

"نہیں امان مجھے پنکھے سے الٹا مت لٹکانا! تمہیں نہیں پتا خون آنکھوں پر اتر آتا ہے اور نیند بھی بہت آتی ہے... اوہر سے تم خنجر مارنے کی دھمکیاں دیتے ہو۔۔۔ ایسا نہ ہو کبھی مذاق میں مار وار دیا مجھے تو میں کنوارا مر جاؤں گا۔۔ پوری رات تمہاری وجہ سے جاگا ہوں اب سونا ہے مجھے۔۔۔۔ نہ کرو تمہاری بیوی بھی اندر ہے۔ کیا پڑیگا پہلا ایکسپریشن میرا؟ جیٹھ کو پٹتے دیکھے گی وہ؟ اب بھلا بتاؤ تمہیں شکر کرنا چاہئے کہ ہسپتال سے سیدھا تمہیں گھر لایا ہوں ورنہ جو تمہاری حالت تھی اگر میں تمہیں کچرے میں بھی پھینک دیتا تو کسی کو پتا بھی نہیں چلتا" وہ گویا احسان جتا رہا تھا۔ 

"تم نے امان شاہ کو ایسا گرا پڑا سمجھا ہے؟" 

"نہیں سمجھا تبھی سیدھا گھر لایا ہوں یار" معصومیت کی انتہا تھی جو زمان شاہ کے چہرے پر تھی۔ امان نے اسے لاؤنج میں آکر جھٹکا دے کر کھڑا کیا۔۔ 

"ہاں اب بولو؟" وہ غصے سے زمان کو دیکھ کر بولا۔

"ایک تو تم پر اتنے پیسے خرچ کئے میں نے اور تم اب۔۔۔ " یہ کہنا تھا کہ امان نے اس کے گریبان کا کالر پکڑا اور کھینچتے ہوئے اوپر لے کر جانے لگا۔ میز سے پستول اٹھا کر جیب میں رکھی۔ 

"تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے امان" وہ چیختا رہ گیا۔۔ 

"میری طبیعت بھاڑ میں گئی۔۔ جب تک تمہیں سزا نہیں دوں گا تب تک سکوں سے نہیں بیٹھوں گا" وہ اسے کھینچتا ہوا بےدھیانی میں اپنے کمرے میں لے جانے لگا مگر ہھر اسے یاد آیا کہ اب وہ شادی شدہ ہے اور اس کی زوجہ کمرے میں ہے تو رخ زمان کے کمرے کی طرف موڑدیا۔ 

"واہ جگہ بھی تبدیل ہوگئی سزا دینے کی" زمان کھسیانی ہنسی ہنسا اور جب اپنے کمرے کے دروازے پر نظر ماری تو چیخ اٹھا۔ 

"میرے دروازے سے تختی کس نے ہٹائی" اب اسے اس بات کا صدمہ لگا تھا۔ 

"نہ کرو امان مجھے ویسے ہی بہت صدمہ ہے یار" وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ 

"تم نے مجھے آپے سے باہر کیا ہے" وہ آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورتا ہوا بولا۔ 

"کیا بولا ہے میں نے؟ سوائے اس کے کہ میں نے تم پر پیسے خرچ کئے! میں نے تمہیں کچرے میں نہیں پِھینکا۔۔۔ اور بس میں نے ہسپتال میں تمہارے ساتھ مستیاں ہی تو کی تھیں۔۔۔ وہ بات الگ میرے پاؤں پر گررہے تھے بار بار۔۔۔" زمان نے کندھے اچکائے۔۔۔ اور وہ یہ جانتا تھا کہ کس حد امان کو غصہ دلا چکا تھا۔ 

"ہاں بس مستیاں ہی تو تھیں"

امان مسکرایا۔۔۔ کھل کر گہری سانس بھی لی اور اب مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ زمان کی مسکراہٹ سمٹی۔ اب جو محسوس ہورہا تھا وہ ٹھیک نہیں تھا۔۔۔ یعنی خطرہ!!! 

*-----------------------------------------*

چیخ و پکار سے ڈر کر اس کی آنکھ کھلی تھی۔۔۔ بےساختہ ہاتھ دل ہر گیا تھا۔ یاد آیا کہ گھر تو خالی ہے پھر یہ آوازیں؟ جھٹکے سے بستر سے اٹھی اور ڈوپٹہ اپنے ارد گرد پھیلا کر دروازے سے باہر آئی۔ شور زمان کے کمرے سے آرہا تھا۔ اسے خوف محسوس ہورہا تھا. دھیرے سے چلتی کمرے میں گئی تو منظر دیکھ کر اس نے دل پکڑ لیا۔

امان اپنے سر پر بندھی پٹی پر دو انگلیاں رکھے آرام دہ کرسی پر بیٹھا تھا۔ چہرے پر اطمینان تھا جبکہ پنکھے سے الٹا لٹکا زمان اب شانزہ کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا.۔

"اٹھ گئی لڑکی تم۔۔۔ مین گیٹ پھلانگ کر آنا پڑا ہے تمہارے وجہ سے مجھے۔۔۔اوپر سے پورے گھر کی بتیاں جلائی ہوئی ہے تم نے۔۔ بل بہت آئے گا تو کون بھرے گا؟" زمان نے خوش دلی سے شکوہ بھی کر ڈالا۔

شانزہ کی چیخیں تھیں جو اب عروج پر تھیں۔


امان نے چونک کر اسے دیکھا۔ وہ ڈری سہمی سی الٹا لٹکے زمان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔ 

کیا یہ شخص اتنا ظالم ہے کہ اس نے اپنے بھائی کو بھی تکلیف دینے سے گریز نہ کیا۔ وہ پیلی ہوئی رنگت سے اب امان کو دیکھ رہی تھی۔ امان اسے دیکھ کر مدھم سا مسکرایا۔ زمان نے شانزہ کو اڑی رنگت سے سہمتے ہوئے امان کو تکتے پایا تو باز نہ آیا۔

"بس دیکھ لو اپنے میاں کو۔۔۔ مجھے بھی نہیں چھوڑتے یہ" 

امان نے سرعت سے اسے دیکھا اور ایک گھوری دی تو زمان نے کندھے اچکائے۔۔۔ 

"اے چھوٹی لڑکی اپنے میاں کو بولو یہ رسی کاٹ دے" وہ چہرے پر مسکراہٹ سجا کر بولا۔ 

"چپ رہو زمان! تم اٹھ گئی؟ اور کیا س۔۔۔" 

"نہیں نہیں ابھی بھی سورہی ہے۔۔۔" زمان نے منہ کے زاویے بگاڑے۔ امان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔ 

"کیا تم تھوڑی دیر خاموش رہ سکتے ہو یا میں بتاؤں ابھی؟" امان اطمینان سے سے گہری سانس لیتا ہوا بولا۔ اور جب وہ اطمینان سے کوئی بات کہے تو سمجھ جاؤ کہ بس وہیں خطرہ ہے۔۔ 

"ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر تم میری رسی کھول جاؤ۔۔۔" وہ امان کے ضبط کا امتحان لے رہا تھا۔ امان اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور چلتا ہوا شانزہ کے قریب آیا۔  شانزہ کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ تھوک نگلتے ہوئے دروازہ سے لگ گئی۔

"آؤ کمرے میں چلو۔۔ میں اپنی طبیعت بہتر نہیں محسوس کررہا تھوڑی دیر آرام چاہتا ہوں" سر میں زخم موجود ہونے کے باعث درد ہورہا تھا۔ آنکہیں تکلیف سے بند ہورہی تھیں اور وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتا تھا۔ طبیعت کے باعث دھیرے قدموں سے خود کو سنبھالتے ہوئے شانزہ کا ہاتھ تھام کر باہر نکلنے لگا۔ شانزہ نے پلٹ کر زمان کو دیکھا۔۔۔ بظاہر مسکراتا ہوا وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ کچھ نہ بولتی اگر اس کی آنکھوں تکلیف کے آثار نہیں دیکھتی۔ صاف لگ رہا تھا کہ ہنسنے کا دکھاوا کررہا ہے۔

"اا۔امان" وہ آخر بول پڑی۔۔۔ امان نے رک گیا

"جی؟" 

"ان کو چھوڑدیں پلیز۔۔۔ انہیں کچھ ہوجائے گا" وہ سہم کر کہتی ہوئی روہانسے لہجے میں بولی۔۔۔ 

شانزہ کی زمان کی طرف پیٹھ تھی جبکہ امان زمان کو باآسانی دیکھا سکتا تھا۔ زمان نے بتیسی پھیلائی۔۔ 

"اسے کچھ نہیں ہوگا تم کمرے میں چلو" سنجیدگی سے کہتا ہوا وہ پلٹا۔ 

"مم۔مگر ان کی یوں طبیعت خراب ہوجائے گی ایسا نہ کریں۔۔۔۔ ایسا نہ ہو انہیں کچھ ہوجائے" وہ کبھی بھی امان کو مخاطب نہیں کرتی اگر زمان کو تکلیف میں نہیں دیکھتی۔ وہ کہہ کر لب بھینچ گئی۔ امان نے ایک نظر پیچھے زمان پر ڈالی جو اب اکڑ کر سینے پر ہاتھ باندھے الٹا ہوئے اسے دیکھ رہا تھا اور ایک نظر شانزہ کو۔ 

اب وہ اسے کیا بتاتا کہ اسے زمان کی زمان سے ذیادہ فکر ہے۔۔۔ مگر بظاہر مسکراتا ہوا اثبات میں سرہلاتا زمان کی جانب آیا اور خنجر دراز سے نکالنے لگا۔ خنجر کو دیکھ کر شانزہ کی رونگٹے کھڑے ہوئے۔۔۔ امان نے زمان کی رسی کاٹی تو وہ بیڈ پر گرا۔۔۔

"شکریہ چھوٹی لڑکی" زمان نے ادب سے کہا۔

"بہت ہوا تماشہ۔۔ امید ہے تم آئیندہ ایسی حرکت نہیں کروگے" وہ پلٹ گیا۔

"ہاں اور تم بھی کچھ نہیں کرو گے۔۔۔ کئے گئے وعدے سے مکرنا نہیں" زمان ذومعنی لہجے میں گویا ہوا۔ 

"میں اپنے وعدے سے مکروں گا نہیں۔۔۔ تم جانتے ہو میں وہ شخص نہیں۔ خود کو باور کروالو۔۔۔ خیر میں گہری نیند لینا چاہتا ہوں۔ تم بھی سو جاؤ" اس کے کمرے کی لائٹ آف اور دروازہ بند کرتا وہ شانزہ کا ہاتھ تھام کر باہر نکل گیا۔ شانزہ کھینچتی ہوئی اس کے ساتھ آنے لگی۔۔

"میرا ہاتھ" اسے تکلیف ہوئی۔۔ امان نے گرفت ڈھیلی کی اور کمرے میں لاکر اسے چھوڑا۔۔۔۔

کمرے میں کونے کی جانب جائے نماز بچھی تھی۔۔ کھڑکیوں پر پردے لٹکے تھے جس کے باعث کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ 

"ایک پل کو خیال آیا تھا گھر میں کوئی نہیں ہے اور تم اس بات کا فائدہ اٹھا کر پھر بھاگ جاؤ گی۔۔۔" بات کا آغاز ہوا۔ وہ سر کو سنبھالتے بیڈ پر لیٹ گیا اور تکیہ سر کے پیچھے رکھ کر ٹیک لگالی۔ شانزہ سنگھار میز کی جانب تھوگ نگلے نظریں جھکائے کھڑی تھی۔ امان ایک ہاتھ اپنے سر کے پیچھے کئے اس کے تاثرات جاننے کی کوشش کرنے لگا۔ 

"ہوسکتا ہے تم نے وہ موبائل بھی نکال لیا ہو مگر افسوس کے اس میں نمبرز نہیں۔۔۔ مگر کچھ اپنے ایسے ہوتے ہیں جن کا نمبر بھی زبانی یاد ہوتا ہے۔۔۔ کیا تم نے یہ سب کیا؟" سنجیدہ تاثرات بنائے وہ اب آرام سے لیٹا تھا۔ شانزہ بغیر کوئی جواب دیئے خاموشی سے فرش کو تک رہی تھی۔ 

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں؟" نہ چاہتے ہوئے بھی وہ بلند ہوا۔ سہم کر شانزہ نے نگاہیں اٹھائیں اور اس کی بائیں ہاتھ کی بھینچی مٹھی کو دیکھا۔ وہ خود پر ضبط کررہا تھا۔ کیا شخص تھا یہ جو اپنا معموملی سا غصہ بھی قابو نہیں کرپاتا تھا۔ شانزہ نے نفی میں سرہلایا۔ امان کے چہرے پر فخریہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔

"اچھا ہے کہ تم جان گئی کہ اس معملے میرے آگے تم بےبس ہو۔۔۔۔ تم یہاں سے کہیں نہیں جا سکتی یہ بات تم تاخیر سے سہی مگر جان گئی ہو۔۔۔ بھاگنے کی کوشش نہیں کرنا اب! زمان کی باتوں کو سنجیدہ مت لینا۔۔۔ میں کم از کم تمہیں چھوڑنے والا نہیں۔۔" وہ اسے بتا رہا تھا یا باور کروا رہا تھا وہ جان نہ پائی۔ امان کے لئے خوف اتنا کہ نظر ملانے کا بھی ظرف نہیں۔ وہ ٹکٹکی باندھے اب اسے تکنے لگا تھا۔ کافی دیر ہوگئی مگر امان کی آواز نہ سنائی دی۔  شانزہ لگا وہ سو گیا ہے۔ اس نے بےاختیار نظریں اٹھائیں تو وہ بے حد ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے تک رہا تھا۔ شانزی نے جھجھک کر نظریں جھکا لیں۔ 

"ادھر آؤ شانزہ امان" امان نے نرمی سے اس کا نام لیا۔  شانزہ کے ہاتھ ٹھنڈے پڑنے لگے۔ لب بھینچتی اس کی جانب بڑھی گویا اپنے وجود کو دکھیل کر اس کے سامنے لا کھڑا کیا۔ امان نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ تھاما اور برابر بٹھادیا۔ وہ ایک ہاتھ سر کے گرد رکھے اسے قریب سے دیکھنے لگا۔ 

"تمہیں پتا ہے شانزہ انسان سب سے ذیادہ مجبور کب ہوتا ہے؟" آنکھیں اس پر سے ہٹا کر سامنے مرکوز کیں۔ شانزہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا لیں۔ اس کا ہاتھ امان کے ہاتھ میں دبا تھا۔ 

"جب آپ کا اپنا آپ سے دور ہونا چاہے۔ مگر آپ جانتے ہو کہ اس کے بغیر آپ کی سانسیں نہیں چل سکیں گی اس لئے آپ کو اس کی ہر بات ہر شرط پر آنکھیں جھکانی پڑتی ہیں خواہ وہ شرط آپ کی آدھی خوشی کیوں نہ چھین لے۔ میں بس اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ دنیا کی کسی بازی میں تمہیں نہیں ہاروں گا۔۔۔ ایک بازی تو میں جیت چکا ہوں جس کی جیت میں تم میرے نام ہوچکی ہو۔۔ امید ہے آئیندہ ایسا کوئی کھیل نہ ہو مگر وقت ایک سا نہیں رہتا۔ ہوسکتا ہے آج وقت میرا ہے تو کل تمہارا ہو مگر میں شطرنج میں ماہر ہوں۔ ایک بے انتہا اچھا کھلاڑی ہوں۔ شروع سے ہی کھیل ایسا رکھتا ہوں کہ اختتام میرے نام کے ساتھ ہوتا ہے۔ اب تک تو جان ہی گئی ہوگی"۔ اس کا ہاتھ اپنے سینے ہر رکھ کر اسے دیکھ رہا تھا۔  "وہ تمہارا دیور اور میرا جڑواں بھائی! وہ بہت اچھا ہے شانزہ۔۔ وہ صرف ہنستا ہے اور ہنساتا ہے۔۔۔ کبھی کبھی میں اسے دیکھ کر یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ ایک شخص اتنا کیسے خوش رہ سکتا ہے۔۔۔ وہ کچھ بھی کر لے میری نظر میں میرا بچہ سا ہے۔ میں نے بھائی نہیں بلکہ باپ بن کر سنبھالا ہے۔۔ وہ بات الگ ہے جو اصل باپ تھا وہ  وحشی بن گیا مگر میں موضوع نہیں نکالنا چاہتا کیونکہ میرے لئے یہ ناپسندیدہ ٹاپک میں سے ایک ہے۔ اس کی باتوں کو سنجیدہ مت لینا۔۔۔ وہ تمہیں ہنسانے کے لئے درخت پر الٹا بھی لٹک سکتا یے۔۔۔ وہ بہت اچھا ہے۔۔۔ شاید اس سے ذیادہ اچھا۔۔ میرا بھائی ہے۔۔۔ بہت محبت ہے مجھے اس سے" 

امان نے اسکا ہاتھ چھوڑ کر اپنا بایاں بازوں پھیلایا اور اسے بازو پر لٹادیا۔ شانزہ کا دل ایک عجیب احساس سے پھٹنے لگا۔ وہ کترائی مگر امان کو کوئی فرق نہ پڑا۔ 

"زندگی ایک کھیل کا میدان ہے مگر اسے کھیلنے والے کھلاڑی زبردست ہونا چاہئے۔۔۔ ہاں ہوسکتا ہے کہ کچھ شرارتیں بھی کرے مگر وہ کبھی بھی ایسی حرکت نہیں کریگا جس سے تمہیں یا کسی کو نقصان پہنچے". وہ ٹاپک جلدی جلدی بدل رہا تھا۔ ایک موضوع سے دوسرا موضوع۔ 

"مگر میں چاہوں گا کہ اس بات کو ذہن نشین کرلو اور ساتھ ساتھ مان بھی لو کہ تم یہاں سے ایک قدم میرے بغیر اکیلے باہر نہیں نکالو گی۔۔۔" وہ غصہ میں نہیں تھا اور نہ سختی سے کہہ رہا تھا۔۔ یہ بھی ایک انداز تھا اسے ہر بات ذہن نشین کروانے کا!

"یہ بات حیران کن ہے کہ میں خود اپنے منہ سے کہوں مگر میں اپنا غصہ قابو نہیں کرپاتا۔ حقیقتاً میں ایک اذیت پسند ہوں۔ غصہ میں میری رگیں پھول جاتی ہیں اور میں خود کو بےقابو پاتا ہوں۔ اس بات کو بھی کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ میں غصہ میں بہت کچھ ایسا کرجاتا ہوں جو میں عام زندگی میں نہیں کرنا چاہتا اور بعد میں جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے تو مجھے پچھتانا بھی پڑجاتا ہے۔۔۔۔کوئی ایسی بات جو میرے خلاف جاتی ہے میں بات کرنے والے کو بھی نہیں چھوڑتا. دھیان رکھنا کہ کوئی ایسا کام نہ ہوجائے تم سے جو میرے مرضی کے خلاف ہو۔ تمہارا اپنے گھر والوں کے لئے رونا مجھے شرمندہ نہیں کرتا شانزہ! اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم رو گی اور انہیں یاد کروگی تو کیا میں مان جاؤں گا؟ اگر ایسا سوچتی ہو تو تم غلط ہو شانزہ۔  اپنے گھر والوں کو بھول جاؤ  کہ میرے ساتھ زندگی بسر کرنا تمہارا مقدر بن چکا ہے۔ مجھ سے الگ تمہیں صرف موت کریگی۔۔۔" شانزہ نظریں جھکائے لیٹی تھی۔۔ اس کے آنسو بہہ نکلے۔ تکلیف ہوئی گویا دل مسل دیا۔ اس کی ماں۔۔ وہ بے آواز رونے لگی۔ دس منٹ یونہی گزر گئے۔ امان دس منٹ سے خاموش تھا۔ اسے حیرت ہوئی اور اس نے سر اٹھا کر امان کو دیکھا۔ وہ سوچکا تھا۔ نیند کی وادی میں اتر کر اس کا چین برباد کرگیا۔ آنسو بے ربط بہنے لگے۔ ایک آس تھی۔۔۔ بس ایک آس!

"یہ وقت بھی گزر جائے گا" اسے دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی۔ اسے اپنے ساتھ سوئے شخص کے چہرے پر سکون کے تاثرات نظر آئے تھے۔ 

کسی کا چین برباد کرکے سکون سے سونا کوئی امان شاہ سے سیکھے۔۔۔ اب بس وہ تھک چکی تھی۔ کوئی پریشانی یا مشکل لمحے میں جب وہ بے بس ہوتی تو صرف رویا کرتی تھی اور پھر اس کی ماں ہی تھی جو اس کی ہر مشکل سلجھا دیا کرتی تھی۔ مگر جو اب ہوا تھا وہ پہلے کئی واقعات سے ذیادہ مشکل اور تکلیف دہ تھا۔۔ یہ بات شانزہ کے لئے ناقابلِ یقین تھی کہ اس نے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ۔۔۔ ہاں وہ کامیاب نہیں ہوئی۔۔ امان نے اسے جیتنے نہیں دیا مگر جو لڑکی چھوٹے حادثوں سے ڈر جایا کرتی تھی شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال گئی مگر کامیاب نہ ہوئی۔ 

*-----------------------------------------------------*

"ہیلو؟ کیا تم کراچی آگئے؟" 

"ہممم" نیند میں جواب دیا گیا۔

"تو؟" 

"تو کیا؟"

"مجھے تم سے ملنا ہے" وہ جنجھلائی۔ 

"تمہارے گھر میں باب بھائی نہیں ہیں لڑکی؟ ہو کون تم؟" وہ خمار آلود لہجے میں کہتے تکیہ سے ہوئے حیرت سے موبائل کی اسکرین پر نام پڑھنے لگا۔ "فاطمہ" نام دیکھ کر موبائل چھوٹ کر اس کے ہی منہ پر گرا۔ ہزار بجلیاں بھی ساتھ دل پر گریں۔ قریب تھا کہ وہ غصہ سے چیخ اٹھتی کہ زمان بولا۔ 

"ہاں ہاں ٹھیک ہے فاطمہ نیازی مل لیں گے" 

"ہو از فاطمہ نیازی؟ میں فاطمہ جاوید ہوں"۔ 

"زندگی میں تم ہی رہ گئی اکیلی فاطمہ؟ ہزار فاطمہ ہوتی ہیں اور تم سے اچھی فاطمہ ہوتی ہیں۔۔۔ خیر اتنی صبح صبح کیسے کال کرلی؟ نیند نہیں آتی تو کیا دوسرے کی خراب کروگی؟" وہ اول فول بکتے ہوئے اب بات کو جان بوجھتے لمبی کررہا تھا۔

"اللہ کی قسم اگر میرا مطلب نہیں ہوتا نا تو تمہیں فون نہ کرتی کبھی۔۔۔" وہ دانت پیس کر کہہ رہی تھی۔۔

"ہاں مطلب کے لیے ہی یاد کیا کرتی ہو تم لڑکیاں۔ اب جیسے پہلی بار شانزہ کی اماں کھوگئی تھیں تو ہم سے بات بھی تم اپنے مطلب کے لئے ہی کررہی تھیں"۔ 

"بکواس کم کرو۔۔۔۔ کب ملنا ہے یہ بتاؤ" فاطمہ تڑخ کر بولی۔

"صبح صبح نیند خراب کر ڈالی تم نے میری" وہ آنکھیں مسلتا ہوا بولا۔ 

" ہاں صبح ہی تو ہورہی ہے بس دوپہر کے ایک بج رہے ہیں" طنزیہ کٹیلا لہجہ۔ 

"اسے صبح کہتے ہیں ڈئیر۔۔" 

"ابھی ملو پلیز۔۔ میں اس موضوع ہر بات کرنا چاہتی ہوں" 

"تم کہاں ہو؟ کیا کہہ کے آؤ گی گھر والوں کو مجھ سے ملنے؟ کہہ دینا شانزہ کے جیٹھ سے مل کر آرہی ہوں جو بہت ہینڈسم سا ہے" وہ سوال کرکے مشورہ بھی دے گیا۔ 

"شٹ اپ مسٹر زمان۔۔۔ میں اس موضوع پر تم سے بات ملنے بعد ہی کروں گی۔۔۔" 

"تمہیں شک ہے کہ میں ہینڈسم ہوں؟ پھر ہمیں اس ہینڈسم والے موضوع پر ابھی بات کرنی چاہئے" فاطمہ کا دماغ سن ہوا۔

"مسٹر زمان میں گھٹیا موضوع کو چھیڑنے کی عادی نہیں۔۔۔ میں شانزہ کے بارے میں بات کررہی ہوں۔۔۔۔" 

"اچھا ہے تم تو ویسے ہی جلتی ہو مجھ سے" شرمندگی کے آثار بھی عیاں نہ ہوئے۔ 

"جلے ہوئے سے کیا جلوں۔۔۔ خیر میں ابھی کالج میں ہوں اس لئے میں چاہتی ہوں ابھی مل لوں۔۔۔ کسی قریبی ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر گفتگو ہوگی" 

وہ اس کا جلا ہوا کہہ گئی تھی گویا اسے ایک بار پھر صدمہ لگ چکا تھا۔ 

"ریسٹورینٹ کے پیسے نہیں ہے میرے پاس" وہ جل بھن کر بولا۔۔۔ لیٹے لیٹے ہی سائڈ ٹیبل سے اپنا والٹ نکال کر کھولنے لگا۔ پانچ پانچ ہزار کی لاتعداد نوٹ تھے۔

" کیا کہا؟" فاطمہ کو لگا اس کے سننے میں غلطی لگ گئی۔۔

"کوئی فرینچ نہیں بولی۔۔۔ بی ایم ڈبلیو اور سیوک والا بھی غریب ہوسکتا تھا۔۔۔ ضروری نہیں جس کے گھر چار گاڑیاں کھڑی ہوں وہ امیر ہو۔۔؟ ہوسکتا ہے وہ اپنے بھائی کے پیسوں پر بسر کررہا ہو"۔ 

"افو ہو" وہ جنھجلا ہی گئی تھی 

"مجھے کھانا کھلانے کے پیسے ہیں تمہارے پاس؟" وہ آئبرو اچکا کر فون کان میں لگائے بولا۔ فاطمہ کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔ اس شخص سے گفتگو کرنا بھی کتنا مشکل تھا۔ اس نے اپنا بیگ کنگھالا۔ 

"شکر ہیں پیسے موجود ہیں" وہ بڑبڑائ۔۔

"کیا بڑبڑا رہی ہو؟" وہ دوبدو بولا۔ 

"یہی کہ تمہارا منہ بند کرانے کے لئے پیسے ہیں میرے پاس!! خیر آدھے گھنٹے کا ٹائم ہے تمہارے پاس۔۔۔ میں اپنے کالج کے قریبی ریسٹورینٹ جارہی ہوں آجانا" وہ کال رکھنے لگی تھی کہ وہ جلدی سے بولا۔ 

"ہاں ہاں میں آجاؤں گا۔۔۔ کراچی میں دس ہزار ریسٹورینٹ ہے اور میری گاڑی تو رکے گے ہی اس ریسٹورینٹ میں جہاں فاطمہ جاوید بیٹھی ہونگی" وہ طنز کرنے لگا "بی بی کوئی نام بھی ہوتا ہے ریسٹورنٹ کا۔۔۔ اور تمہارے کالج کا" 

فاطمہ نے عجیب نظروں سے فون کو دیکھا۔۔۔ کیا عجیب و غریب شخص ہے یہ۔۔۔ طنز اور طعنوں میں عورتوں سے بھی بدتر۔

اس نے اپنے کالج کا نام بتایا۔

"دی ڈسازٹر ریسٹورینٹ۔۔۔ آجاؤ" کہہ کر کال کاٹ دی۔

"عجیب لڑکی ہے بھئی اپنی بات کہہ کر کال کاٹ دیتی ہے"۔ فون کو برابر میں رکھتے وہ پانچ منٹ کی نیند لینے کے لئے آنکھیں بند کرگیا۔

"اب اسے بھی پتا چلے جب لڑکے لڑکیوں کا انتظار کرتے ہیں تو کیسا لگتا ہے اور یہ بھی تو پتا چلے اپنے جیب سے پیسے جاتے ہوئے کتنا دکھ ہوتا ہے" وہ سوچ کر مسکرادیا۔ 

*-------------------------------------------------------*

"ماما ہوسکتا ہے میں لیٹ ہوجاؤں کیونکہ آج پریکٹیکل  ہے ۔۔ تین بج سکتے ہیں لیکن امید ہے جلدی آجاؤں گی کیونکہ مجھے جرنل بھی بنانا ہے" اسے جھوٹ بولتے خود اچھا نہیں لگ رہا تھا مگر وہ یہ موقع گنوانا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ اس نے صبور کو میسج کردیا اور موبائل جیب میں رکھ کر کالج سے نکل گئی۔

*--------------------------------------------------------*

"کون کہتا ہے جب تم پر ظلم ہو تو آواز نہ اٹھاؤ؟ بشر کچھ نہیں کرسکتا جب تک اس کا مالک نہ چاہے۔ آواز اٹھاؤ اور اپنے الفاظ سے آگ لگادو اگر تم حق منجانب ہو تو! 

اگر تمہیں دبایا جائے اور تم پر ظلم ہو تو کون کہتا ہے آواز نہ اٹھاؤ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تم خود کے لئے آواز نہ اٹھا کر خود پر ہی ظلم کرتے ہو۔۔۔۔ 

کل کو یہ نہ کہنا مجھ پر بہت ظلم ہوا اور ظلم سہنا  میری مجبوری تھی۔ دنیا میں لوگ کیا کہیں گے والی بات کو بھاڑ میں ڈال کر اپنے لئے لڑو ہاں اگر تم حق منجانب ہو تو!" سامنے بیٹھی عورت اس کی ہر بات کو غور سے سن رہی تھی گویا ذہن نشین کررہی تھی۔ 

"تو کیا مجھے۔۔" بات ادھوری چھوڑدی۔ 

"ہاں تمہیں خود کے لئے لڑنا ہے۔۔۔ کہہ دو آنکھوں میں آنسو لانے والوں سے کہ یہ آنسو کہیں تمہارا مقدر نہ بن جائے اور یہ کہ عورت کمزور نہیں ہوتی". ڈھلتا سورج اب اس عورت کی آنکھیں کھول رہا تھا۔ وقت کی رفتار تیز ہورہی تھی اور سورج ڈھل رہا تھا۔ سائے لمبے ہوتے ہوتے ختم ہورہے تھے۔ اس عورت کی آنکھوں میں امید کے جگنو چمکے وہ سامنے بیٹھی خوبصورت سی "بیگم صاحبہ" کو دیکھ کر مسکرا اٹھی۔۔ 

"ڈھلتے دن کا دیا بن جاؤ۔۔۔ باقی اللہ ہم سب کے ساتھ ہے" چاند اب واضح نظر أرہا تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اس کے چہرے کو چھوتی آگے بڑھ رہی تھی۔ وہ بھی یہاں ٹھہرنا نہیں چاہتی تھی۔ خواہش تھی تو آگے بڑھ جانے کی۔ چہرے پر تبسم پھیلا گویا محفل لوٹ لی گئی۔

*--------------------------------------------------------*

اس نے گاڑی پارک کی اور تقریبآ بھاگتا ہوا ریسٹورنٹ کے دروازے تک پہنچا۔ 

"ایکسکیوز می۔۔۔ مجھے جلدی ہے" وہ لوگوں کے ہجوم سے نکلتا اندر پہنچا۔۔ 

دور ایک ٹیبل پر وہ بیٹھی ہوئی نظر آئی جو اب اسے دیکھ رہی تھی۔۔

اسی دم گھنٹا بجا۔۔ 

اس نے وقت دیکھا۔ دو بج گئے تھے۔ ایک مسکراہٹ اچھالتا ہوا وہ اسکی جانب بڑھا۔ 

"ہیلو لیڈی ڈائن۔۔۔ او سسوری لیڈی ڈیانا۔ ارادتاً نہیں کہا سو سوری" شروعات اتنی بےعزتی سے ہوگئی تھی آگے پتا نہیں کیا ہوگا۔ زمان سوچ کر خود کو کوسنے لگا۔ 

"ٹائم دیکھا ہے؟؟؟" وہ بنھویں آچکا کر بولی۔

"صرف دو ہی تو بجے ہیں" وہ قدرے حیرانی کا مظاہرے کرتے ہوئے ڈھٹائی سے بولا۔ 

"ہاں مگر میں نے ڈیڑھ بجے کا وقت دیا تھا خیر آپ مجھے بتایئے۔ امید ہے آپ کو اپنے بھائی کی شادی کی خبر ہوچکی ہوگی۔۔۔ " وہ اسے سپاٹ لہجے میں بولی۔ وہ چپ رہا۔ بلکل ایسے جیسے سن کر کسی کی بات رد کردیتے ہیں۔ 

"جواب؟" اس نے بنھویں اچکا کر زمان کو دیکھا جو سینے ہر ہاتھ باندھے ٹیک لگائے اسے دیکھ ہی دیکھ رہا تھا۔ 

"کیوں دوں جواب؟" وہ بھی اکڑ سے بولا۔

"ہماری ملاقات کا مقصد یہی ہے" وہ غصہ قابو کرتے ہوئے بولی۔

"اچھا؟ آپ کی ملاقات کا مقصد ہے یہ نہ کہ میری! اور ویسے بھی جہاں تک میری ملاقات کا مقصد ہے وہ صرف کھانا ہے جو آپ نے کھلانے کا ٹھیکہ لیا ہے۔۔۔" فاطمہ کا حیرت منہ کھل گیا. کیا کوئی اتنا بھی غیر سنجیدہ ہوسکتا تھا۔ 

"ٹھیک ہے میں نے مان لیا لیکن میں پہلے گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔۔۔" وہ ہاں میں سرہلاتی بولی۔

"میری بات سنے لیڈی ڈائ۔۔۔۔ چھوڑیں پھر نامناسب الفاظ نکل جائے گے منہ سے۔۔۔ تو بات یہ ہے کہ کیا آپ میرے ساتھ ڈیٹ پر آئی ہیں؟" فاطمہ کے تیور چڑھے۔ 

"کیا بکواس یے؟" 

"ہاں یہی تو میں کہہ رہا ہوں فاطمہ نیازی کہ ہم ڈیٹ پر نہیں آئے ہیں مگر ہماری ٹیبل پر اسپیشل کپل والی کینڈلز موجود ہیں اور گلاب کے پھول بھی"۔ 

وہ آنکھوں سے ٹیبل پر موجود گلاس کے اندر گلاب کے پھول اور برابر میں رکھی کینڈلز کی طرف اشارہ کرکے بولا۔ 

"یہ اس ریسٹورینٹ کی تمام میزوں پر ہیں" اس نے ارد گرد دیکھا تو چونک اٹھی۔۔ اکثر میزیں سادہ تھیں۔۔ سوائے ایک دو کے۔۔۔

"آپ کپل میز پر بیٹھ گئی ہیں محترمہ"  اس نے فاطمہ کے قریب چہرہ کرکے سرگوشی کی اور مسکرا کر اس کے تاثرات جانچنے لگا۔ وہ سٹپٹائی۔ 

"مم۔مجھے نہیں معلموم تھا ورنہ۔۔۔ میزیں نہیں دکھیں مجھے وہ" وہ پتا نہیں کیا بول رہی تھی۔

"ہاں ہاں اس میز کو چھوڑ کر آپ اندھی ہیں آپ کو اس میز کے سوائے ہر جگہ اندھیرا دکھائی دیا تھا۔۔" وہ ہر کام اطمینان سے کرتا تھا۔۔ چاہے زچ کرنے کا ہی کیوں نہ ہو۔ 

"شٹ اپ" وہ جھینپی۔

"چلو میز چینج کرو۔۔۔ میں جلد از جلد یہ میز بدلنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے آپ کے پیسوں کا آرڑر بھی کروانا ہے۔۔۔ کھانا کیسے ایڈجسٹ ہوگا اس ٹیبل پر؟ پھول اور کینڈلز نے جگہ گھیری ہوئی ہے۔۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا۔۔۔ اب کھانے کا موقع تو میں نہیں چھوڑسکتا نا صرف اس میز کی وجہ سے۔۔۔ آؤ سامنے والی میز پر بیٹھیں" وہ سرعت سے اٹھا اور دوسری میز پر جانے لگا۔ ایک نظر پلٹ کر دیکھا تو وہ بھی اب اٹھ کر اس کے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔۔۔ بے دھیانی میں وہ پرس میز سے اٹھانا بھول گئی۔۔۔ وہ پھر سے میز کی طرف پرس اٹھانے جانے لگا۔ پرس اٹھا کر حیران اور الجھی فاطمہ کو پکڑایا۔

"پرس بھول گئی فاطمہ نیازی تم! اسے پکڑنے کبھی نہیں جاتا اگر میرے کھانے کا بل تم اسی پرس میں موجود پیسوں سے ادا نہ کررہی ہوتی۔۔۔" وہ اطمینان سے بولا۔ فاطمہ اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگی۔

"افو ہو" وہ جنجھلا ہی اٹھی تھی۔ "کرلیں آرڈر کیا کرنا ہے آپ نے" وہ کہہ کر منہ پھیر گئی۔ 

"ویٹر" زمان نے اسے دیکھتے ہوئے ویٹر کو آواز دی۔ 

"جی"۔ زمان نے مینیو دیکھا

"میرے لئے ایک چیز پاستہ، چکن برگر اور پالک پنیر لکھ لو" وہ بے دھڑک آرڈر لکھوارہا تھا۔ فاطمہ اسے حیرت اور غم سے دیکھ رہی تھی۔  اتنے تو اس کے پاس پیسے بھی نہیں تھے شاید۔۔ وہ پریشان ہوئی۔ 

"اور سوئیٹ ڈش میں کیک لکھ لیں۔۔۔۔ اور جی فاطمہ نواز آپ کچھ کھائیں گی؟" 

پہلے نیازی کافی نہیں تھا جو اب نواز بھی لگادیا۔ وہ دل دل میں کڑھتی رہ گئی۔ 

"فاطمہ جاوید نام ہے میرا۔۔۔ اور جی نہیں مجھے کچھ نہیں کھانا۔۔۔۔" وہ دانت پیس کر بظاہر مسکرا کر بولی۔۔۔

"ٹھیک ہے میڈم" وہ شائستگی سے مسکرایا اور ویٹر کو آرڈر دے کر بجھوادیا۔ 

"تو کیا ہم اب گفتگو کرسکتے ہیں؟" وہ بظاہر بہت نرمی سے بولی مگر لہجے میں طنز چھپا تھا۔

"جی نہیں۔۔۔ جب تک کھانا نہیں آئے گا تب تک گفتگو شروع نہیں کرسکتے۔۔۔ مجھے تمام آئڈیاز کھانے کے دوران آتے ہیں فاطمہ مصطفیٰ" فاطمہ جل بھن کر رہ گئی۔۔۔ مگر وہ اتنا تو سمجھ گئی تھی کہ زمان بھی ایک سائنس ہے جسے سمجھنا ناممکن سا ہے۔۔۔ وہ مطمئن بےغیرت کے ساتھ ساتھ مطمئن ڈھیٹ بھی تھا۔

ہیلو" وہ ایک ہاتھ سے پاستہ کا چمچ منہ میں ڈالتا ہوا دوسرے ہاتھ سے فون کان پر لگائے بےحد مصروف تھا۔ 

"کہاں ہو؟" دوسری طرف کسی نے سختی سے پوچھا۔

"شادی کرلی ہے اور بیوی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھا ہوں"۔ سامنے بیٹھی اس کی بات پر طیش میں آئی لڑکی کو دیکھ کر بولا۔ 

"کیا بکواس ہے یہ؟" امان غصہ سے بولا. 

"یار نہیں کی شادی! اب تمہارا جیسا بندہ بننے کے لئے بھی ظرف چاہئے ہوتا ہے بھائی! خیر میں کمال صاحب کی بیٹی کے ساتھ بیٹھا ہوں۔ بس ایک چھوٹی سی ملاقات ہے جلد ہی گھر پہنچوں گا! سب باتیں گھر آکر ہی بتاؤں گا اور ہاں خدا کا واسطہ ہے میری جاسوسی کے لیے گارڈز نہ بجھوادینا یار۔۔!" کہہ کر کچھ دیر بعد کال کاٹ دی۔ میز پر موبائل پر رکھا اور اس کی جانب دیکھا جو کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھی۔ 

"کون بیوی؟ اور کون کمال کی بیٹی؟ میں فاطمہ جاوید ہوں یہ بات دماغ میں بٹھالو" وہ دانت پیس کر میز پر ہاتھ مار کر بولی۔

"جہاں تک بیوی کی بات ہے تو میں آپ کو نہیں کہہ رہا تھا"

"آپ نے کہا آپ اپنی بیوی کے ساتھ ریسٹورینٹ میں بیٹھے ہیں" اس نے اسے یاد دلایا۔

"اس ریسٹورینٹ میں دس سے زائد لڑکیاں بیٹھی ہیں ہوسکتا ہے انہیں کہا ہو۔۔۔ آپ کیوں یہ بات اپنے آپ پر لے رہی ہیں؟" وہ بات اسی کے جانب گھما گیا۔۔۔ فاطمہ بےاختیار شرمندہ ہوئی۔۔۔ کیا ٹیڑھا بندہ تھا وہ۔۔۔!

"تو کیا اب میں کھانا کھالوں" وہ پاستہ میں پگھلتی چیز کو دیکھتے ہوئے بولا۔

"تو پہلے کونسا اجازت سے کھارہے تھے آپ؟" وہ بھی تڑخ کر بولی 

"میرے کھانے سے نظریں دور کرو فاطمہ اکرم۔۔۔ میں گندی نگاہیں اپنے کھانے پر محسوس نہیں سکتا"۔ وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔ وہ جو واقعی پاستہ کو دیکھ رہی تھی بےاختیار شرمندہ ہوئی۔ یہ شخص اسے ہر موقع ہر شرمندہ کروارہا تھا۔ فاطمہ کے منہ میں پانی آنے لگا تھا مگر اب آنکھوں میں پانی آنا باقی تھا۔ 

"میں نے پوچھا تھا تم سے کہ کیا تمہیں کھانے میں کچھ چاہئے؟ مگر آپ نے منع کردیا۔۔۔ " وہ پاستہ کی جانب جھک گیا"۔ فاطمہ نے تھک کر نظریں دوسری طرف کرلیں۔ اس بندے سے نبٹنا کم از کم اس کے بس کی بات نہیں تھی۔۔۔ وہ کبھی آپ سے مخاطب کرتا کبھی تم سے۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہی جب میں نے تم کو لاہور کال کی تھی اس وقت تم غصہ بھی تھے اور پریشان بھی! مگر اب ایسا کیا ہوا ہے جو آپ یہ شانزہ اور امان صاحب والا موضوع چھیڑنے سے ہی گریز کررہے ہیں"

زمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"یہ مت بھولئے فاطمہ جاوید کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ تاخیر سے نہ آئیے گا..." فاطمہ نے تھوک نگلا۔ وہ کچھ دیر تک بعل نہ پائی۔

"تو کیا میں واقعی۔۔۔۔؟" بات ادھوری چھوڑدی کہ مکمل کرنے کی ہمت نہ تھی۔ زمان نے کھانے پر سے ہاتھ اٹھالیئے اور اثبات میں سرہلایا۔ 

"بہت تاخیر سے۔۔۔۔ میں شانزہ کو وہاں سے نکال کر اپنی بھائی کی جان نہیں لے سکتا" وہ سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ فاطمہ کو رونا سا آنے لگا۔ 

"ہاں اگر شانزہ خود بھاگ جائے یا نکلنے کی کوشش کرے تو میں اسے وہاں سے نکلوا لوں گا مگر میں خود سے نہیں بھائی سے کہہ سکتا کہ وہ شانزہ کو چھوڑدے". فاطمہ کی ہمت بندھی۔ 

"تو اب کیا؟" 

"تو یہ کہ میں صرف کوشش کروں گا اور اگر کچھ وقت بعد شانزہ الگ نہ ہونا چاہتی ہو امان سے تو پھر مجھے بےحد خوشی ہوگی" 

فاطمہ جلدی سے نفی میں سرہلایا۔ 

"وہ میری بھائی کی منگیتر تھی زمان شاہ" فاطمہ طیش سے بولی۔۔

"مت بھولو وہ اب میرے بھائی کی بیوی ہے فاطمہ جاوید۔۔۔۔ کون سا منگیتر؟ وہ عدیل؟ اگر ایسا تھا تو وہ کیوں نہیں آیا شانزہ کے پیچھے؟ شانزہ کی مدد کرنے؟ اگر اتنی محبت تھی تو چھڑالیتا امان سے اس کو! لگتا ہے امان کے سامنے وہ بھی نہیں ٹہھرا۔۔۔۔" زمان طنزیہ بولا۔

"زبردستی نکاح ہوا ہے جس میں شانزہ کی مرضی نہیں تھی" وہ بلند آواز میں بولی۔ 

"تو کس نے منع کیا ہے آواز نہ اٹھانے کے لئے؟ اٹھائے آواز لگادے الفاظوں سے آگ... اور میں اس سب میں اس کا ساتھ دوں گا پھر۔۔۔ امان کو میں نہیں سمجھا سکتا۔ یہ کام شانزہ امان ہی کرسکتی ہے! وہ اسے جنجھوڑ کر بتا سکتی ہے کہ امان نے غلط کیا! لیکن ایک بات یاد رکھنا۔ امان معافی مانگنے والوں میں سے نہیں! ہاں مگر بیوی کے سامنے کوئی نہیں ٹہھر سکتا وہ وقت آنے پر مانگ سکتا یے معافی مگر صرف اس سے! اور ہاں یہ بات بھی ذہن نشین کرلو کہ وہ اسے چھوڑے گا نہیں کسی بھی حال میں۔۔۔ اور خدا کا واسطہ اپنے بھائی کا ذکر نہ لاؤ بیچ میں۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا کہ تم بار بار شانزہ کو عدیل کی منگیتر کہہ رہی ہو! بھابھی ہے وہ میری اور امان کی بیوی۔۔۔ ہاں میں اس کی مدد کروں گا تم فکر مت کرو" وہ ایک ہی بات میں معاملہ سلجھا گیا تھا۔ 

"یعنی تم اس شخص کے سامنے ہار گئے جس کا ذکر تم نے ہماری تیسری ملاقات پر کیا تھا"۔ وہ دکھ سے بولی۔۔

"جی اور وہ شخص میرا بھائی ہی تھا فاطمہ جاوید" تاثرات سنجیدہ تھے۔۔ کھانا ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ 

"میرے بھائی کی زندگی برباد کردی گئی ہے زمان شاہ۔۔۔ اس کا کیا قصور تھا؟؟؟؟" وہ دانت پیس کر میز پر ہاتھ مار کر بولی۔

"پہلی بات آہستہ مس فاطمہ!! یہ پبلک پلیس ہے۔۔۔ اگر اتنا بھائی بھائی کی رٹ لگائے رکھی ہے تو بھائی کو سمجھاتی اپنے!!! کہتیں کہ اس کے پیچھے جائے۔۔۔ ڈھونڈے شانزہ کو۔۔۔؟ عاشق اپنے محبوب کے لئے پورا شہر چھان مارتے ہیں مگر وہ تو گھر سے بھی نہیں نکلا! کیوں نہیں بولا کچھ جب امان کے بارے میں پتا چلا تھا؟؟؟؟ کیا یقین اٹھ گیا تھا شانزہ پر سے؟؟؟ اتنا کمزور تھا اعتبار شانزہ پر؟ محبت کی پہلی سیڑھی ہی اعتبار کی ہوتی ہے۔۔۔ اگر رشتے میں اعتبار نہ ہو تو وہ محبت نہیں بلکہ کھوکھلا رشتہ کہلاتا ہے۔۔۔ امان شانزہ سے محبت کرتا یے۔ میں حقیقت تسلیم کرکے یہ کہتا ہوں کہ امان نے جو کیا وہ غلط ہی تھا تو عدیل نے چپ رہ کر اچھا کیا؟؟؟ میں آج کی ملاقات یہیں پر ختم کرنا چاہتا ہوں فاطمہ جاوید لیکن آپ فکر نہ کریں شانزہ جو چاہے گی وہ کرسکتی ہے مگر خود سے۔۔۔ میں امان کے سامنے کچھ کہہ سکتا۔۔۔ مجھے اپنے بھائی سے بہت پیار ہے۔ ہم اس وقت سے ساتھ ہیں جب ہم دنیا میں بھی نہیں آئے تھے۔۔۔"۔ زمان اٹھ کھڑا ہوا۔ فاطمہ روہانسی ہوگئی۔ 

"آپ سے ملاقات ہوگی اور جلد ہوگی۔۔ میں آپ سے ایک اور ملاقات چاہوں گا مگر شانزہ سے بات کرکے۔۔۔" وہ پلٹنے لگا کہ کچھ یاد آنے پر مڑا۔ 

"تو کیا بل آپ پے کرینگی؟" 

"جی" وہ مختصراً بولی 

"شکریہ۔۔۔ کال کرکے آگاہ کروں گا کہ اگلی ملاقات کب اور کہاں ہونی چاہئے۔۔۔ اور ہاں رمشا نامی لڑکی بری نہیں ہے!! اور نہ تو وہ دل برے کرتی یے کسی کے لئے کسی کے۔۔۔۔ ہم اپنے گناہ اور برائیاں اس کے ذمہ کیوں ڈالیں؟ محبت کرنے والوں ہر اعتبار اتنا مضبوط ہونا چاہئے کہ آنکھوں دیکھی کے سوا کسی اور بات اور بھکاوے میں نہیں آئیں۔۔ آنکھوں دیکھی بھی وہ جو دکھایا نہ جارہا ہو۔ معاملے کی تفشیش کرنی چاہئے۔۔۔ بٹھا کر سب معاملے کلئیر کرنے چاہئے جو آپ کے چاچو اور بھائی نے کیا نہیں۔ رمشا اتنی بری نہیں ہے! برے آپ ہیں! اس نے کہا اور یقین کرلیا؟ تفشیش کئے بغیر؟؟ کتنے سالوں کا اعتبار شانزہ نے نہیں توڑا بلکہ آپ کے گھر والوں اور عدیل نے مل کر شانزہ کا توڑا ہے! اس کا یقین نہ کرکے۔۔۔۔! ایک تنہا صحرا میں بھٹکی لڑکی۔۔۔ اسے گھر سے اور دل سے نکال باہر کیا جو گھر والوں کے دل میں رہنا چاہتی تھی۔۔۔ " وہ مڑ گیا مگر فاطمہ کی آنکہیں بگھو گیا۔ وہ متحیر ہوئی تھی۔۔۔۔ وہ یہ سب کیسے جانتا تھا؟ رمشا، عدیل کا رویہ اور اس دن کا واقعہ جس دن شانزہ کو گھر سے نہیں بلکہ دل سے بھی بےدخل کردیا گیا تھا؟ ہاں وہ نہیں جانتی تھی کہ زمان شاہ بغیر کسی تحقیق کے کوئی بات نہیں کرتا تھا۔ فاطمہ اس کی پشت دیکھتی رہ گئی۔۔۔ وہ جب گلاس ڈور سے نکلنے لگا تھا تو ایک نظر مڑ کر فاطمہ کو ضرور دیکھا تھا۔ فاطمہ نے لب بھینچے۔۔۔ وہ اتنا بھی برا نہیں تھا۔ اس کے الفاظ فاطمہ کو چھلنی ضورو کر گئے کیونکہ سچ سننا بھی ظرف کا کام ہے۔۔۔ مگر وہ ہر جھوٹ سے پاک بات کرنے کا عادی تھا۔ وہ فاطمہ کو مکمل نہیں جانتا تھا مگر اتنا ضرور جان گیا کہ وہ اس کی بات کو سوچے گی ضرور!

*--------------------------------------------------------*

وہ نڈھال سی بستر پر لیٹی تھیں۔ بے سدھ۔۔۔ بیٹی کے بچھڑنے کا دکھ انہیں ہاگل کررہا تھا۔ 

"ناصر میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں۔۔۔ اچھے بیٹے اچھے شوہر بن سکتے تو اچھے باپ کیوں نہیں بن پائے؟ جب بیٹی سے پوری زندگی برا رویہ رکھنا تھا تو اسے پیدا کیوں کیا تھا؟ مار دیتے کم از کم یوں وہ رسوا نہ ہورہی ہوتی۔۔ آپ کا کلیجہ نہیں منہ کو آتا کیا؟؟؟" وہ روتے ہوئے خود سے کہہ رہی تھیں۔ کمرے میں تنہا دروازے کا تالا لگائے وہ روتی جارہی تھیں۔ وہ بیٹی جو ان کے جسم کا حصہ تھی اور اب وہ لاپتا تھی۔ ہمیشہ آواز کو دباتی آئی تھیں مگر اب بیٹی کا معاملہ تھا۔۔۔ وہ ایک ایک کے گریبان پکڑیں گی انہوں نے خود سے تہیہ کیا تھا۔ خود پر ہر الفاظ سہہ سکتی تھیں مگر بیٹی پر نہیں۔ 

*-------------------------------------------------------*

وہ گھر میں داخل ہو کر سیدھا لاؤنج کی جانب آیا۔ لاؤنج میں رکھے صوفے پر شانزہ بیٹھی گہری سوچ میں غرق تھی۔ زمان کی طرف اس کی پشت تھی۔ وہ اطمینان سے چلتا ہوا اس کی جانب آیا اور اس کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ 

"اتنا مت سوچو ہمارا بل ذیادہ آئے گا لڑکی" وہ شرارت سے بولا۔ وہ ہڑبڑا اٹھی۔ 

"آپ" وہ بس اتنا ہی کہہ پائی۔ 

"ہاں جی میں۔۔۔۔" وہ ادب سے سر جھکا کر بولا۔ شانزہ اسے پہلی بار قریب سے دیکھا تھا۔ وہ بنا بنایا امان تھا۔۔ دونوں کی صورتوں میں ذرہ برابر فرق نہ تھا۔ حتی کہ اکثر آواز بھی ملی جلی لگتی۔ 

"آپ ٹھیک ہیں" وہ صبح کے واقعہ کو مدنظر رکھ کر بولی 

"ہاں جی میں تو فٹ ہوں۔۔۔ ویسے میرا کیوں حال پوچھا جارہا ہے؟" وہ مسکراتا ہوا دور رکھےصوفے پر بیٹھ گیا اور شانزہ کو بیٹھنے کا اشارہ بھی دیدیا۔ 

دونوں کے درمیاں دو تین صوفوں کا فاصلہ تھا۔ 

"نہیں وہ آپ کک۔کو۔۔۔ وہ اوپر پپ۔پنکھا" اس سے الفاظ ادا نہیں ہوپائے۔۔ 

"اس میں کون سی بڑی بات ہے۔۔۔۔ یہ تو روز کی ہی بات ہے" وہ کندھا اچکا کر بولا جیسے یہ بات کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ شانزہ تو چونک ہی اٹھی۔ 

"روز ؟" لہجے میں حیرانگی تھی۔ 

"نہیں لیکن ہفتے میں دو روز لازمی" وہ مسکرا کر بولا 

"آپ کو تکلیف۔۔۔۔؟" 

"تو کیا ہوا۔۔۔ بس نیند آتی ہے باقی سب برداشت کے قابل یے" وہ کنتی حیران کن باتیں کرتا ہے۔۔ شانزہ سوچ کہ ہی رہ گئی۔ 

"آپ کو الٹا لٹک کر نیند بھی آجاتی ہے؟؟؟" یہ سب اس کے لئے نیا تھا۔

"نیند تو ہر جگہ آجاتی ہے۔۔۔ ایک دفعہ میں الٹا لٹکے لٹکے تھک گیا تھا تو نیند آگئی تھی۔ جب تک امان واپس آیا تاکہ رسی کھول تب تک میں نیند لے کر اٹھ بھی چکا تھا۔۔۔۔" 

اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹ رہی تھیں۔۔۔ 

"تم حیران مت ہو ذیادہ۔۔ یہ اس گھر میں نارمل ہے شانزہ۔۔" شانزہ نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔ 

"غریب بھی بہت ہوں میں۔۔بہت غریب آدمی ہوں میں تم نہیں جانتی" ایک وہی پرانا رونا۔ شانزہ کو اس پر رحم آیا۔ 

"مجھے پتا ہے تمہیں بھی یقین نہیں آئے گا، میں تمہیں اپنا والٹ دکھا دیتا ہوں ایک پیسہ بھی نہیں اس میں" اس نے سرعت سے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پھر نکالنا بھول گیا۔ 

"میرا والٹ" وہ چیخا۔۔۔ اس کے یوں چیخنے پر شانزہ ڈر گئی۔۔ 

"میرا والٹ کہاں گیا" اپنی تمام جیبیں کھنگالنے لگا۔

۔ 

"آپ نے کہا تھا اس میں پیسے نہیں تھے تو آپ ذیادہ پریشان نہ ہوں شکر ہے اس میں پیسے نہیں تھے" شانزہ نے اسے تسلی دی اور زمان کو اپنے دس دس اور پانچ ہزار کی نوٹیں یاد آنے لگیں۔ 

"ہاں پپ۔پیسے تو بلکل نہیں تھے مگر والٹ بہت عزیز تھا مجھے" وہ دل کو تھامتے صوفے پر صدمے کی حالت میں۔۔۔ 

"ہاں اب بتاؤ۔۔۔ اچھا ہوا تمہارا "خالی" والٹ چوری ہوگیا شکر کہ اس میں پیسے نہیں تھے" امان لاؤنج میں داخل ہوتا ہوا ایک ایک لفظ کو چبا کر ادا کرتا ہوا اندر آیا۔ 

"تمہاری بددعا میرے والٹ کو کھاگئی امان" وہ روہانسا ہوا۔ 

"خالی والٹ یا بھرے ہوئے" وہ اسے غور سے دیکھتا ہوا بولا۔ 

"ایک تو والٹ چوری ہوگیا شانزہ اوپر سے تمہارا شوہر مجھے زچ کررہا ہے" شانزہ جو امان کو دیکھتے ہی سہم سی گئی تھی اس کی بات پر لب بھینچ گئی۔

"میرا دل! ہائے میرا دل امان" وہ دل کو تھامتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"کیوں دل بھی چوری کرلیا کمال صاحب کی بیٹی نے؟" وہ طنزیہ بولا۔

"میرے ادھڑے ہوئے زخموں کو اور مت ادھیڑوں امان۔۔ میں اپنے والٹ کے لئے ویسے ہی دکھی ہوں" وہ دل تھامتا سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ 

"امان بھائی" وہ مڑا اور اس کے گلے لگ گیا۔ 

امان نے شانزہ کو دیکھا اور آنکھوں سے لپٹے زمان کی طرف اشارہ کیا جیسے کہہ رہا ہو کہ دیکھ رہی ہو زمان کو۔۔۔ شانزہ تو دونوں کو ہی عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ 

"کون سی والی چھوڑ گئی زمان؟" وہ اس کے بال سہلاتا ہوا بولا۔ 

"ہاں صرف چار لڑکیوں سے ہی محبت کرتا تھا۔۔۔ ایک ہی ساتھ چاروں چھوڑ گئی۔۔ یہ لڑکیاں لویل کیوں نہیں ہوتیں" وہ مصنوعی تاثرات بنائے روتا ہوا اپنی ناک اس کی شرٹ پر رگڑنے لگا۔۔ امان کا قہقہہ بےساختہ تھا۔ زمان کا ایک ہاتھ امان کے کندھے پر تھا اور دوسرا ہاتھ امان کی پینٹ کی جیب میں جو اس کا پرس ٹٹول رہا تھا۔ 

"بائی دا وے اتنا مکھن کیوں لگایا جارہا ہے؟" 

"کیونکہ مکھن کے ساتھ ساتھ والٹ بھی نکالا جارہا ہے" وہ کامیاب ہوگیا تھا۔ امان کی مسکراہٹ سمٹی۔۔۔

"میرا والٹ دو مجھے" وہ چیخا۔ 

"کیوں دوں؟؟؟ بس اب میرا ہوگیا ہے" وہ بھاگتا ہوا ایسی جگہ جا کر کھڑا جہاں سے بھاگنے میں آسانی ہو۔ 

"میرا والٹ لوٹاؤ مجھے" وہ دانت پیس کر غصہ کی آخری حدوں پر پہنچ گیا۔ زمان نے اثبات میں سرہلایا اور اس کا والٹ کھولنے لگا۔ 

"افو ہو اتنی نوٹیں۔۔۔۔۔ گرم نوٹیں" وہ ایک ایک کو سونگھ رہا تھا۔ 

"میں بتا رہا ہوں زمان والٹ میں پیسے رکھ دو اور مجھے پکڑادو ورنہ بہت برا ہوگا" امان وارن کرتا ہوا بولا۔ 

شانزہ دور کھڑی ہوگئی تھی اور اب تماشہ ہوتے دیکھ رہی تھی۔ 

"آہا چلو لوٹادیتے ہیں۔۔۔" ساری نوٹیں والٹ سے نکال کر جیب میں رکھ لیں او خالی والٹ اس کی جانب اچھ دیا۔ 

"لے لو۔۔۔ اور ہاں میں کسی کا احسان نہیں رکھتا! لوٹا دوں گا اگر کبھی زندگی میں اتنی نوٹیں آئیں ہاتھ میں" امان اب لب بھینچے اس دیکھ رہا تھا۔ "احسان" کا لفظ یہ جان کر بھی ادا کیا تھا کہ صبح کسی کے پیسوں کا حلق میں اتار کر احسان رکھ آیا 

"صبح کی سزا بھول گئے ہو لگتا ہے" وہ دانت پیس کر بولا۔ 

"نہیں نہیں بھولا نہیں میرے بھائی۔۔ اور ویسے بھی تم بھول رہے ہو اگر میری عنایت نہ ہوتی تو تم مجھے الٹا نہ لٹکا پاتے۔۔۔ اپنے پاؤں رسی میں نے خود باندھی تھی کیونکہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی" شانزہ کا منہ کھل گیا حیرت سے۔ 

وہ شانزہ کے پاس سے گزرنے لگا تو اسے حیران دیکھ کر رک گیا 

"تم کیوں حیران ہورہی ہو؟ اچھا ہے تمہارے شوہر کی مدد کردی ورنہ بہت وقت لگتا اسے مجھے قابو کرنے میں۔ میں نے صرف مدد کی تھی اور اس بہانے رسی بھی ڈھیلی باندھی تھی کہ اس کے جانے کے بعد اتار لوں گا" 

"آج میں نے نہیں باندھی تھی رسی ورنہ۔۔۔" آنکھیں چھوٹی کرکے کہا۔

"ہاں تو احسان نہیں کیا" اس نے دوبدو جواب دیا۔ 

"احسان ہی کیا زمان" آواز بلند تھی کہ زمان بھی چپ ہوگیا۔۔

"خیر ٹھیک ہی کہہ رہا ہو۔۔۔ اور یہ پیسے میں اپنے عیش و عشرت کے لئے نہیں بلکہ صرف والٹ لینے کے لئے لےرہا ہوں" وہ سر جھٹک کر بولا۔ 

"سونے کا والٹ لینا ہے کیا؟" امان طنزیہ بولا۔ 

"نہیں کینیڈا کا پاسپورٹ بنانا ہے۔۔ ہھر دیکھنا تمہیں چھوڑ جاؤں گا" وہ خفا خفا سا بولا۔ 

امان نے ارد گرد نظریں دوڑائیں اور صوفے سے چھوٹا ملائم تکیہ اٹھا کر اسے کھینچ کر دے مارا۔

"ابھی دفع ہو کینیڈا!" وہ جو اسے دیکھتے ہی بھاگ رہا تھا اچانک زمین پر گرگیا۔

" ہائے اتنی زور سے مارا تم نے۔۔۔ یا اللہ میری کمر۔۔ ہائے میں مرگیا۔۔۔۔" شانزہ اسے یوں گرتے دیکھ کر بھاگتے ہوئے اس کے جانب آئی۔

"آپ کو زور سے لگی کیا؟" مدھم آواز میں کہتی وہ اس کے گرنے پر واقعی ڈر گئی تھی جبکہ امان دور کھڑا اپنے آپ کو ضبط کررہا تھا۔ 

"ہائے لڑکی تمہارے شوہر اتنی زور سے تکیہ مارا میری کمر ٹوٹ گئی رےےے۔۔۔۔ ہائے مجھے موت کے فرشتے نظر آرہے ہیں۔۔۔۔ یا خدایا ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔۔۔۔" وہ کمر پکڑے زمین پر لیٹا دہائیاں دے رہی تھی۔

"انہیں تکلیف ہورہی ہے" وہ امان کی طرف مڑ کر پریشانی سے بولی۔ زمان نے ایک آنکھ تھوڑی سی کھول کر امان کو دیکھا جو اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا۔ 

"وہ نرم تکیہ ہے زمان۔ اٹھ کر کھڑے ہوجاؤ ورنہ میں نے وہ حشر کرنا ہے جو زندگی بھر نہیں بھول پاؤ گے۔۔۔ اٹنشن سیکر" وہ اتنی زور سے چیخا کہ زمان اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ شانزہ نے پلٹ کر امان کو دیکھا اور اس کے برابر رکھے ملائم چھوٹے تکیہ کو۔۔۔۔ وہ بھی بھول گئی تھی کہ وہ نرم سا تکیہ ہے۔

"تکیہ ہے مگر زور سے لگا ہے اور میں تکیہ لگنے کے بعد جھٹکے سے زمین پر گرا ہوں۔۔۔ ہاِں نہیں تو اور کیا" زمان اپنی صفائی میں بولا۔ 

"تم جان بوجھ کر گرے ہو میں نے خود دیکھا ہے۔۔۔ تکیہ لگنے سے پہلے ہی تم زمین پر گر گئے تھے" 

"بس بس۔۔۔ جارہا ہوں میں یہ گھر چھوڑ کر کینیڈا! کسی کو میری فکر نہیں ہنہہ" وہ منہ پھیر کر پلٹ گیا۔۔ امان کی غصے سے دماغ کی رگیں پھول گئی۔ وہ اس کی جانب بڑھا اور گردن سے پکڑتا باہر لے آیا۔

"ہائے اللہ وہ اب نہیں چھوڑیں گے زمان بھائی کو" شانزہ دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے کہتی ان کے پیچھے گئی۔

"اب میں نے کیا کردیا امان" وہ جھکی گردن کو چھڑاتا ہوا بول رہا تھا۔ 

"گھر چھوڑنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اب دیکھو میں کیا کرتا ہوں" گارڈن سے ہوتے ہوئے وہ حیران میں آنے لگا۔ 

"ہاں ہاں وہ ٹھیک ہے مگر پنکھا کمرے میں ہوتا ہے گیراج میں نہیں۔۔ اور رسی آج میں نہیں باندھوں گا۔۔۔ اب بھلا خود کو بھی الٹا میں ہی لگاؤں۔ ایک دفعہ کرلیا بار بار نہیں" وہ امان کو زچ کررہا تھا۔ 

امان نے باہر کا دروازہ کھول کر اسے باہر نکالا اور دروازہ بند کردیا۔ 

"اسلم کرسی لے آؤ اندر سے میرے لئے" امان نے آواز لگائی۔۔

"ہاں اور میری لئے بھی" زمان نے دروازے کے پار کھڑے ہوکر ہانک لگائی۔ 

"زہر لادو اس کے لئے" امان نے دانت پیسے۔ 

"ہاں اور امان کے لئے بھی۔۔" ایک اور ہانک لاگئی گئی۔۔ امان دروازے کو گھورتے رہ گیا۔۔۔۔ اسلم کا دل چاہا دل کھول کر ہنسے۔

"اسلم دو کرسیاں لے آؤ" امان نے آواز لگائی۔ باہر کھڑے دروازے سے چپکے زمان کی آنکھیں چمکیں۔

"اب میرے لئے بھی منگوا ہی رہے ہو تو دروازہ ہی کھول دو تاکہ ایک دوسرے کو دور سے دیکھ سکیں۔۔۔ پورے دو منٹ ہوگئے تمہاری شکل نہیں دیکھی" ساتھ مشورہ بھی دیا گیا۔

"اپنی بیوی کے لئے منگوائی ہے ایک کرسی" امان نے منہ دروازے کی جانب موڑ کر کہا۔ شانزہ لب چبائے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

"زن مرید" زمان بڑبڑا کر رہ گیا۔ آتے جاتے لوگ اسے دیکھ ریے تھے۔ وہ ان کے چہروں پر حیرانی نہیں بلکہ دکھ تھا کیونکہ وہ امان کو جانتے تھے۔ وہ بیزاری سے آس پاس دیکھتا ہوا گیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ 

اسلم اندر سے دو کرسیاں لے آیا اور آمنے سامنے رکھ گیا۔ امان نے شانزہ کا ہاتھ تھاما اور کرسی پر لا بٹھادیا جبکہ دوسری کرسی ہر خود بیٹھ گیا۔ موبائل پر بپ ہوئی تو وہ آن کرکے نوٹیفیکیشنس چیک کرنے لگا۔۔۔۔۔ 

"میرے دل کے تار بجے بار بار" تھوڑی دیر بعد زمان کے گنگنانے سے وہ دونوں چونکے۔۔ یہ شخص ایسے بھی تنگ کریگا اب!؟

"میرے دماغ کے تار بجے بار بار" زمان نے قسم کھائی ہوئی تھی پورا گانا برباد کرنے میں۔

"تھوڑی حیا رکھ لو زمان" امان نے منہ موڑ کر دروازے کی سمت دیکھ کر کہا۔ 

"تھوڑی کیوں؟ پوری رکھوں گا!! بلایا تھا اسے آئی ہی نہیں لگتا ہے ابا گھر پر ہیں اس کے ورنہ ریسٹورینٹ میں ملاقات ہی کرلیتا" وہ دانتوں سے ناخن اکھیڑنے لگا۔ امان نے بمشکل خود ضبط کیا۔

"گرمی ویسے بہت ہے باہر" زمان تھکے لہجے میں بولا۔ 

"اندر آنا ہے؟" امان نے نرمی سے پوچھا۔ زمان ٹھٹھک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"ہاں آنا تو ہے" بند دروازے کی سمت منہ کرکے جواب دیا گیا۔ 

"ٹھیک ہے آجاؤ مگر میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔۔۔"

"تو کیا ہیلی کاپٹر اندر لینڈ کراؤں؟؟" وہ دروازے کو گھور کر رہ گیا۔

"پھلانگ کر آجاؤ" 

"صبح بھی پھلانگنے کے چکر میں گرتے گرتے بچا ہوں میں" وہ بڑبڑا تا ہوا گیٹ پھلانگنے لگا۔ دروازے کی اوپری طرف کھڑا ہوا تو اسے امان موبائل میں جھکا نظر آیا اور سامنے بیٹھی شانزہ اسے ہی فکرمندی سے دیکھ رہی تھی۔۔ جب سے آیا تھا تب سے اس پر ظلم ہوتا ہی دیکھ رہی تھی اسی لئے دل میں اس کے لئے ہمدردی بھی پیدا ہوئی تھی۔ اس کی طرف مسکراہٹ اچھالتا ہوا زمین ہر کودا۔۔۔

"ہائے میں مرگیا۔۔۔ ہائے میں مرگیا میری کمر" اس کی دہائیوں پر امان بغی اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"ہسپتال جانے کی ضرورت ہے تو چل سکتے ہیں مجھے اچھا لگے واپسی پر مستیاں کرنے میں" امان کے یوں کہنے پر وہ پوری آنکھیں کھول کر بیٹھ گیا۔۔ 

"لگتا ہے ٹھیک ہورہا ہوں۔۔۔" زمان نے اٹھنے کے لئے امان کی جانب ہاتھ بڑھایا جسے امان نے تھام کر اسے اٹھایا۔ 

"ویسے لگی بڑی زور کی تھی امان" 

"زور سے تو لگنی ہی تھی۔۔۔ آخر تمہاری کمر نہیں کمرہ ہے" ایک ہاتھ سے اس کی کمر سہلاتے ہوئے ساتھ ساتھ وہ وار بھی کررہا تھا۔ 

"ٹھیک ٹھیک اب میں جارہا ہوں" وہ کمر سہلاتے ہوئے کمرے میں چلاگیا۔ شانزہ بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔ عصر کی آذان نے اسے متوجہ کیا اور وہ نماز ہڑھنے چلی گئی۔ 

*--------------------------------------------------------*

عصر کی آذان پر اس کی آنکھ کھلی تو وہ اٹھ بیٹھی۔ تھوڑی دیر اور لیٹی رہتی تو نیند پھر آلیتی۔ وہ تھک بھی بہت گئی تھی آج! زمان کی گفتگو کا ہر لفظ اسے دل پر لگ رہا تھا۔ اس نے سوفیصد ٹھیک بات کی تھی۔۔ ہضم اس لئے نہیں ہورہا تھا کیونکہ وہ سچ تھا۔ وضو کرکے کمرے کی وسط سے نکلتی ہوئی وہ ڈرائینگ روم میں آئی۔ جائے نماز بچھا کر نماز پڑھی۔۔ بے حد اطمینان اور سکون سے۔۔۔ ہر لفظ کو ایسے ادا کرتی جیسے وہ اپنے دل پر اتار رہی ہو۔ نماز پڑھ کر دعائیں مانگیں جس میں شانزہ ہمیشہ سے شامل تھی۔ اس کی خود کی بہن نہیں تھی مگر شانزہ میں ہی اسے اپنی بہن دکھا کرتی تھی۔ 

"فاطمہ نماز پڑھ کر چائے بنادو، میں بھی پکوڑے تل رہی ہوں" کچن سے صبور نے آواز لگائی تھی۔ تقریباً دس منٹ بعد فاطمہ کچن میں تھی۔ 

"عدیل بھائی کدھر ہیں؟" سرسری سا پوچھا۔ 

"جاب ہر ہے۔۔ ابھی آئے گا آفس سے تھوڑی ہی دیر میں، میں نے سوچا پکوڑے بنالوں اس کے لئے" فاطمہ نے رخ موڑ کر صبور کو دیکھا جو پکوڑے تل رہی تھی 

"ایک بات کہوں اماں؟" کیپینٹ سے پتی نکال کر کھولنے لگی۔ 

"ہاں بولو" 

"شانزہ یاد آتی ہے مجھے بہت" ہلکا ہلکا بھیگا لہجہ۔ 

صبور نے دکھ سے گہری سانس لی

"ہمم لیکن دیکھو وہ چھوڑ گئی ہمیں" وہ بےچارگی سے نفی میں سرہکاتا ہوئے بولیں۔ 

"وہ چھوڑ گئی یا ہم منہ موڑ گئے اس سے؟" دونوں سلیپ پر ہاتھ رکھ کر وہ تھوڑا سا اچھل کر بیٹھ گئی۔ 

"اگر کوئی لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ یوں تنہا اتنی قریب کھڑے دکھتی پائی جائے گی تو کیا مطلب ہوتا ہے اس کا فاطمہ؟ یہی نا کہ وہ ہم سے مخلص نہیں تھی "

"مگر اماں ایسا تو آپ کہتی ہیں نا؟ اللہ تو سب جانتا ہے" 

"بے شک۔۔۔ لیکن جب ایک لڑکی تن تنہا ایک لڑکے کے ساتھ پائی جاتی ہے تو معاشرے میں غلط ہی سمجھا جاتا ہے، اب دیکھو سوالات کیسے ہوتے ہیں۔ اگر ایسا کچھ نہیں تھا تو لڑکی کالج کے پیچھے گئی ہی کیوں؟ اس لڑکے ایسا کیوں کہا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے؟ رمشا نے جو کہا اس کی بات پر شانزہ کا چہرہ فق کیوں ہوا؟ اور جب ناصر بھائی نے اسے گھر سے نکالا تو وہ اسی مرد کی گاڑی میں کیوں گئی؟ تم صرف یہ بتاؤ وہ اپنا مستقبل سنوارنے کے لئے ہمیں اجاڑ گئی۔۔۔ عدیل صدمے میں ہے اب تک! محبت کتنی کرتا تھا اس سے؟ اور محلے میں ہم بدنام ہوتے ہوتے رہ گئے کہ شکر ہے دوپہر کا وقت تھا اور گرمی کے باعث سڑکوں پر رش نہیں تھا تو کسی نے نہیں دیکھا۔ نفیسہ کتنے غم میں ہے، پاگل ہورہی ہے وہ اس کی جدائی سے۔۔۔ عدیل کا محبت نام کے لفظ سے اعتبار اٹھ رہا ہے، وہ پاگل ہوتا جارہا ہے۔۔۔ کیا وہ یہی چاہتی تھی؟؟؟؟ اگر مجھے پہلے پتا ہوتا اس کی حرکتوں کا تو میں اس سے کبھی بھی عدیل کا رشتہ نہیں جورڑتی۔ اب دیکھو عدیل اب کچھ سنبھلا ہے! اور میں اب اسے دوبارا غم میں نہیں دیکھ سکتی۔۔۔" وہ نفی میں سرہلاتیں کراہی میں اور تیل ڈالنے لگیں۔ 

اسے زمان کی باتیں یاد آنے لگیں۔

"اماں مجھ سے کسی نے کہا تھا کہ محبت کی پہلی سیڑھی ہی اعتبار کی ہوتی ہے۔۔۔ اگر رشتے میں اعتبار نہ ہو تو وہ محبت نہیں بلکہ کھوکھلا رشتہ کہلاتا ہے۔۔۔ کیا شانزہ نے اپنی صفائی میں کچھ کہا تھا؟ نہیں نا؟ کیونکہ اسے اپنی صفائی میں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔۔ صرف حکم سنائے گئے۔۔۔ کیا محبت اتنی کمزور تھی عدیل بھائی کی جو ایک تیسری لڑکی کی باتوں میں آکر کتنے سالوں کا اعتبار کھودیا؟ اماں محبوب سے عشق ایسا ہو کہ اس کی باتوں کے علاوہ کسی بات پر یقین نہ آئے۔ کیا وہ شانزہ کی محبت بھول گئے؟ انہیں صرف یاد رہا تو صرف اپنا چاہنا۔۔۔ وہ سوگ منارہے ہیں کہ ان کا چاہنا برباد گیا! تو شانزہ کی محبت کیا دھواں بن کر ہوا میں اڑ گئی؟ یا کسی دریا میں بہہ گئی؟ اماں یہ محبت تو نہیں تھی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان صرف اپنے مفاد کا ہی سوچتا یے! اب دیکھے ذرا میں سمجھتی ہوں کہ میں شانزہ سے بہنوں والی محبت کرتی ہوں مگر جس وقت مجھے بہن بن کر ساتھ دینا چاہئے تھا۔۔۔۔ کیا میں نے دیا؟؟؟ نہیں اماں! مجھے اب خبر ہوئی ہے کہ میرا بھی مفاد ہی تھا۔۔ مجھے اس وقت اپنے بھائی کی پڑی تھی اس کا نہیں سوچا میں نے کہ وہ کس درد سے گزر رہی یے۔۔ نہیں دیکھا جاتا اماں مجھ سے چچی جان کی آنکھوں میں اداسی کا سمندر۔۔۔۔ چاچو کی تو آنکھ بھی نہ روئی۔۔ مگر میں اس بات کا وعدہ کرتی ہوں کہ کبھی اگر شانزہ لوٹتی ہے اپنا ہر رشتہ اس شخص سے ختم کرکے جو زبردستی جوڑا گیا تھا، میں اسے عدیل بھائی کا نہیں ہونے دوں گی۔۔۔ شانزہ کو اس شخص کی جس وقت ضرورت تھی اس وقت عدیل جاوید کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی تھی۔ رہنے دیں اماں۔۔۔ اب سب کچھ خود کھل کر سامنے آئے گا۔ اب میں ماضی نہیں دہراؤں گی۔۔۔ اور اللہ سب کے سامنے سچ عیاں کریگا"وہ سلیپ سے اتری اور دودھ لینے فرج کی جانب بڑھ گئی۔ صبور چمچ ہلاتے ہوئے سوچ پر پڑ گئی تھیں۔۔ وہ کچھ بولی نہ تھیں۔ مگر فاطمہ اتنا ضرور سمجھ گئی تھی کہ وہ اس بارے میں سوچیں گی ضرور!

*--------------------------------------------------------*

"کھانا لگادیا یے امان دادا" کلثوم نے انہیں خبر دی۔۔

"تم کب آئی؟" اسے حیرت ہوئی۔ 

"یہی کوئی ایک گھنٹے پہلے، شہنواز لالا کے ساتھ آئی ہوں۔۔۔ وہ اماں کی طبیعت تھوڑی بگڑی ہوئی تھی تو تاخیر ہوگئی۔۔ معاف کردے گا دادا" اس کے یوں کہنے پر شانزہ نے اسے مسکرا کر دیکھا۔ 

"کوئی بات نہیں کلثوم۔۔ جاؤ اور زمان کو بھی بلا لاؤ" وہ بیڈ سے اٹھا۔ 

"وہ سورہے ہیں دادا۔۔۔" 

"ابھی تک؟" ماتھے پر بل آئے۔ 

"پتا نہیں دادا مگر میں نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا کر کھولا تو وہ سورہے تھے" امان نے حیرت ظاہر کی اور اپنا لیپ ٹاپ بند کردیا۔ کلثوم بتا کر چلی گئی۔

وہ اس قریب آیا اور ہاتھ تھامنے کو ہاتھ بڑھایا۔ 

"م۔مجھے بھوک نہیں" وہ منمنائی۔۔۔ امان نے ایک آئبرو اچکا کر اسے دیکھا۔۔۔ اس نے دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا۔ 

"دوپہر سے کچھ نہیں کھایا تم نے" امان نے ایک ہاتھ سے اس کی زلفیں پیچھے کیں۔ 

"مجھے گھر جانا ہے۔۔۔" وہ ایک بار پھر منمنائی۔ امان کے تیور چڑھے۔۔ 

"گھر جانا ہے؟" وہ دانت پیس کر بولا۔ سختی سے اس کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کیا۔ 

"آپ مجھے گھر والوں سے ملوا تو سکتے ہیں نا؟" وہ تکلیف سے بولی۔ 

زمان جو کمرے کے پاس سے گزرہا تھا اس کی آواز پر چونکا۔ 

"میں مجبور ہوں شانزہ۔۔ محبت کرتا ہوں تم سے تو کچھ کر نہیں پاتا۔۔۔ میری مجبوری کا فائدہ نہ اٹھاؤ، میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ میں غصہ میں بہت کچھ کرجاتا ہوں اور بعد میں پچھتانا پڑتا ہے" خون آلود آنکھوں سے اس کی ڈری سہمی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے وہ اسے گھور رہا تھا۔۔ لہجہ بلا کا سخت۔۔ 

باہر کھڑا زمان جلدی سے آگے بڑھ زور سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ کچھ وقت اور ٹہھر کر شانزہ کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔

"امان آجاؤ کھانا کھانے۔۔۔ مجھے بھوک بھی لگی ہے" 

امان نے چونک کر بند دروازے کو دیکھا۔ شانزہ کی سانسیں اب بھی اٹکی ہوئی تھیں البتہ وہ بھی چونکی تھی۔ 

"نیچے چلو" اس نے آہستہ مگر الفاظ چبا کر بولتے ہوئے اس کا ہاتھ چھوڑا۔ بیڈ سے موبائل اٹھا کر جیب میں رکھا اور دروازے کی جانب بڑھ کر دروازہ کھولا۔

"میں تمہیں ہی اٹھانے آرہا تھا، کلثوم نے بتایا تم اب تک سورہے تھے" تیور اب بھی چڑھے ہوئے تھے۔ 

"ہاں بھوک لگ رہی تھی تو اٹھ گیا۔۔۔ اب چل لو بھائی " امان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر وہ آگے بڑھنے لگا۔ امان شانزہ کو پکارنے کے لئے مڑنے لگا تو زمان نے اسے آگے کی طرف موڑ دیا۔ 

"ایک دفعہ کہہ دیا ہے تو آجائے گی وہ۔۔۔ بار بار کہنا اچھا نہیں ہوتا امان۔۔۔ آجاؤ" کانوں میں سرگوشی کرتا ہوا وہ اس لے کر سیڑھیاں اترنے لگا۔ امان نے کوئی جواب نہیں دیا۔ زمان نے گردن موڑ کر 

شانزہ کو نرمی سے نیچے آنے کا اشارہ کیا اور امان کی طرف منہ موڑ لیا۔ 

"ایزی رہو۔۔۔ تمہیں ٹینشن لینے سے ڈاکٹرز نے منع کیا ہے یار۔ اپنا نہیں تو میرا ہی خیال رکھ لو" اس کی کمر سہلاتا ہوا وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ سپاٹ چہرہ لیا امان بھی کرسی کھینچتا اس پر دراز ہوا۔ زمان اپنا کھانا نکالنے لگا۔ تھوڑے ہی دیر بعد شانزہ دھیرے دھیرے قدم اٹھا کر نیچے آگئی۔ 

"آؤ شانزہ بہنا کھانا نکال لو پلیٹ میں" زمان نے مسکرا کر کہا

شانزہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ گھر کی یاد آنا فطری بات ہے۔ رونا سا آنے لگا اور اس کے گال بھیگ گئے۔ امان نے بغور اس کے چہرے کو دیکھا۔ 

"یہ لو ٹشو اور آؤ میں کھانا نکال دوں تمہیں" میز پر سے ٹشو اٹھا کر اسے دیکھ کر وہ ایک خالی صاف پلیٹ میں اسے کھانا نکالنے لگا۔ 

آنسو پونچھ کر وہ امان کے برابر ہی بیٹھ گئی۔ 

"کتنا نکالوں؟" زمان نے تھوڑے چاول ڈال کر پوچھا ۔۔

"ا۔اتنا ہی کافی ہے" وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔ 

شوربا ڈالتے ہوئے اس نے یہ بھی ثابت کردیا تھا کہ وہ ایک بہن کا اچھا بھائی بھی بن سکتا ہے۔ اب اس کھانے کی میز پر اس کی ذمہ داری بڑھ چکی۔۔ 

امان کا رویہ بھی دیکھنا تھا اور ساتھ ساتھ شانزہ کو چپ بھی کروانا تھا۔ 

"زمان میں کل سے آفس جوائن کررہا ہوں تیار رہنا تم بھی کل" کھانے کا لقمہ منہ ڈالتے ہوئے امان نے بات کا آغاز کیا 

"ہمم ڈیٹس گریٹ۔۔ اگر تمہیں لگتا ہے کہ تم اب ٹھیک ہوگئے ہو تو کرلو پھر جوائن" وہ اس کی بات کو سراہتا ہوا بولا۔ رات کے گیارہ بج گئے تھے۔۔ باقی وقت بھی باتوں میں گزر گیا۔ وہ آخری لقمہ منہ میں ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"شب بخیر" کہتا ساتھ ہاتھ دھونے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ آج وہ تمام رات جاگنے والا تھا۔ ٹیرس کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ٹھنڈی ہوا اس کے کمرے کے ماحول کو سرد کررہی تھیں۔ ایک دو کام سے فارغ ہوتا وہ تسلی سے اپنے وارڈروب کی جانب بڑھا۔ ایک کتاب نکالی اور پلٹ کر بیڈ پر آگیا۔۔۔ 

کمرے کی بتیاں بجھائیں اور ٹیرس کا دروازہ مکمل کھول کر تمام کھڑکیاں بھی کھول دیں۔ کمرے میں اندھیرہ ہوگیا تھا۔ تمام گارڈز اب تک جاچکے تھے۔ گھڑی کی طرف نگاہیں دوڑائیں تو بارہ بج رہے تھے۔ یہ ماحول اچھا تھا اس ڈائری کو پڑھنے کے لئے۔ سائڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ کو روشن کیا۔ اسے یقین تھا کہ آج وہ یہ ڈائری ختم کرلے گا۔ ڈائری کے صفحات کھولے اور پلٹنے لگا۔ آخر کار وہ وہاں پہنچ گیا جہاں سے اس نے چھوڑا تھا۔

"ایک شخص کی وجہ سے یوں نسلیں ہوئی برباد۔۔۔" 

"۶ مئی"

"عمر بڑھ رہی ہے اور بابا کی یاد دماغ پر حاوی ہورہی ہے"

اس نے صفحہ پلٹا۔ ۶ مئی کے بعد ۱۶ جون کی ڈائری تھی۔ لگتا تھا کہ وقفہ وقفہ سے لکھی گئی ہے۔ شاید روز روز ڈائری لکھنا چھوڑ دیا تھا۔

"۱۶ جون" 

"اپنی اور ماہ نور کی تصویر کے ساتھ بابا کی تصویر بھی لگادی"۔

"۴ فروری" 

"ہمیشہ کی طرح ماہی کو جسمانی تکلیف دے کر اپنی روح کو اذیت پہنچائی"۔ 

"۱۵ مارچ" 

"یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے".

"۲۱ مارچ"

"اب جینا ہے تو ان اذیتوں کے ساتھ"

"۱ اپریل" 

"کیا کوئی اپنی ماں سے بھی نفرت کرسکتا ہے؟ کیا کوئی ہے اس دنیا میں جو یہ کہے کہ وہ اپنی ماں سے نفرت کرتا ہے؟ میں ان سے نفرت کرتا ہوں مگر۔۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو سب ٹھیک ہے، ایسا تو ہو ہی جاتا ہے" اور آگے ایک مسکراتا ہوا فیس۔

"۱۳ جون"

"امان اور زمان! میری زندگی میری دنیا۔۔۔۔! اس ڈائری سے انہیں ایک اور سبق مل سکتا ہے! یہ کہ ان کے باپ بہت بے وقوف تھا جس نے اپنے باپ کی زندگی کو دیکھ کر اپنی زندگی برباد کر ڈالی۔ ہر عورت ایک سی نہیں ہوتی اور سب مرد ایک فطرت کے نہیں ہوتے۔ اپنی زندگی اپنے باپ کی وجہ سے برباد مت کرنا۔ خدارا۔۔۔۔۔! یہ غلطی مت دہرانا۔ مستقبل تم دونوں کے ہاتھ میں ہے ورنہ یہ نسل در نسل یونہی چلتا رہے گا۔ بڑھتی عمر میری سوچ تبدیل کررہی ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم دونوں میرے جگر کے ٹکڑے میرے ماضی کو کوجھنے میں اپنی زندگی برباد کرو اور نہ میری وجہ سے اپنا ذہنی سکون متاثر کرو۔ محبت کی دنیا کے بے تاج بادشاہ بن جاؤ" 

"۱۷ جولائی"

"آج پھر مارا اور اتنا مارا کہ نیل پڑ گئے۔ میرے آنسو بہہ رہے ہیں اور اتنے بہہ رہے ہیں گویا اپنی آنکھوں میں سمندر چھپا رکھا ہے۔۔۔ درد کے بنا دل ہو تو بھی کیا دل ہو؟ وہ باہر گئی مجھے بتائے بغیر۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ میرے بغیر وہ کہیں نہیں جائے گی! مجھے ڈر لگتا ہے وہ مجھے چِوڑ کر بھاگ جائے گی۔۔۔ اس لئے ہمیشہ سے ہی میں چاہتا ہوں کہ وہ میری بغیر گھر سے باہر قدم نہ نکالے"

"۱۶ ستمبر"

"میں منہاج سمیع شاہ۔۔۔ مجھے اپنے نام کے آگے "سمیع" لگانا بہت پسند ہے" 

زمان نے لب بھینچ کر صفحہ پلٹا۔ 

"۱۸ ستمبر" 

"میں ہی غلط تھا مگر کوئی یہ بھی تو جانے کہ غلط تھا مگر کیوں؟ ایک شرارتی اور زندگی جینے والا بچہ کب سنجیدہ ہوگیا؟ کب دل میں کھلونے کے شوق سے چاقو اور بلیڈ سے کھیلنے کا شوق پیدا ہوا؟ مجھے لگتا ہے کہ مجھے سمجھنا مشکل ہے! بس ایک ہی ہے جو مجھے سمجھ سکتا ہے اور وہ صرف "تم" ہو۔ مجھے ماہ نور تو سمجھے گی جب میں اسے ڈائری پڑھنے کا موقع دوں گا۔ اس کو دیکھ کر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ میری کہانی جاننا چاہتی ہے مگر پھر لگتا ہے کہ یہ میرا وہم ہے"۔ 

"۳۰ جنوری"

"میری زندگی کا دوسرا خوشی کا دن! پہلا خوشی کا دن جب ماہی میری ہوئی اور دوسرا خوشی کا دن جو آج ہے۔ میرے بچے آج میری آنکھوں کی چمک کی وجہ بنے تھے۔ وہ دونوں چودہ کے ہوگئے ہیں۔ ماشاءاللہ" اور یہ پڑھتے پڑھتے زمان کو احساس ہوا کہ وہ اپنی زندگی کے چودہ سال بھی پڑھ چکا ہے

"میرا دل، میری جان۔۔ یہ دنیا میں میرے نام سے جانے جائیں گے اس سے بڑی اور کیا خوشی ہو

گی؟ میری مسکراہٹ کی وجہ!ہوسکتا ہے مجھے مستقبل میں میرے بچے اچھی سوچ اور اچھے لقبوں سے نہ پکاریں مگر۔۔۔! بس یہ یاد کرنا ایک باپ تھا جو صرف تمہارا تھا۔ ایک باپ تھا جو تمہاری ایک مسکراہٹ پر جی اٹھتا تھا اور جب تم روتے تھے دل چھلنی ہوجاتا تھا۔ آنسو ہیں کہ بہے جارہے ہیں۔۔۔ مگر یہ نہیں معلوم کہ خوشی سے یا دکھ سے۔۔!" 

"۷ جون" 

"ماہی تم میری ہو" 

*--------------------------------------------------------*

وہ اس پر ایک آخری نظر غصہ کی ڈالتے ہوئے پیر پٹختا دوسرے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا لہجہ سخت اور آنکھیں جو غصہ سے خون آلود تھیں یدکدم بدل گئیں۔ آنکھیں نم ہو گئیں اور لہجہ کپکپایا۔ دائیں ہاتھ میں تھامی بیلٹ ہاتھ سے چھوٹ کر زمین ہر گر گئی۔ آنکھیں اشک بہانے لگی۔ دوسرے کمرے میں موجود زخموں سے چور اس عورت کو ہر بار یوں مارنے کے بعد وہ اس کمرے میں بیٹھ کر زاروقطار رویا کرتا۔ بائیں ہاتھ سے دروازہ بند کرکے وہ کپکپاتے ہونٹوں کے ساتھ دروازے سے ٹیک لگائے وہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں بالوں میں پھنسا کر وہ ہچکیوں سے رورہا تھا۔ آج بھی اسے بےدردی سے تکلیف کے حوالے کرکے وہ یہاں بیٹھا رورہا تھا۔ مگر وہ جانتا تھا اب وہ عورت وہ کام نہیں کریگی جس کی وجہ سے اسے تکلیف دی ہے۔ وہ بےوجہ نہیں مارتا تھا۔ مگر اس شخص کا ظلم اس عورت باغی بھی بنارہا تھا۔ دوسرے کمرے میں بیٹھی عورت کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ اسے جسمانی تکلیف دے کر بعد میں خود بھی روتا ہے۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو خوف سے دیکھا۔ یہ وہ ہاتھ تھے جو ہر بار اس پر اٹھے۔ ہاتھ کپکپانے لگے اور آنسوؤں میں تیزی آگئی۔۔۔۔ اور ہر بار کی طرح یہ رات بھی برباد۔۔۔۔! افسوس سے! دکھ سے! چھلنی ہوا دل اسے ساری رات سزا دینے والا تھا۔ 

*--------------------------------------------------------*

"۱۸ اگست"

"وہ مرگئی۔۔۔ مرگئی۔۔۔ میری ماہ نور۔۔ میں نے اس ماردیا۔۔ وہ میں نے نہیں مارا۔۔ میں بھلا اسے کیسے مار سکتا ہوں؟ میں نے اسے ماردیا ڈیئر ڈائری" زمان کے آنسو تیزی سے بہے۔ ڈائری میں آس پاس خون کے چھینٹے تھے جیسے منہاج نے اپنے ہاتھ کو زخمی کیا ہوا. اسے اپنی ماں کی موت کا دن آیا۔ جب وہ چیخ چیخ کر رویا تھا۔ اس کی دل عزیز ماں موت کو لگاگئی تھی!

" اتنے سالوں بعد ایک بار پھر اس نے گھر جانے کی ضد کی اور میں اپنا ہاتھ نہیں روک پایا۔ وہ میں نے اسے بیلٹ سے مارا اور پتا نہیں۔۔ مگر میں نے نہیں مارا اسے۔۔۔ وہ بیلٹ اسے بہت زور سے لگی اور۔۔۔ وہ میں نے نہیں مارا ڈائری۔۔۔۔ میرے بچے مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ مجھے میری ماہ نور چاہئے۔۔ مجھے میری محبت چاہئے۔۔۔ میں کیسے رہوں گا اس کے بغیر؟؟؟ نہیں مجھے وہ چاہئے۔۔ چھوڑ گئی مجھے۔ میں اسے بیلٹ سے مارتا رہا ہے اس لئے کہ وہ مجھے زندگی میں چھوڑ کر نہ چلی جائے مگر وہ مجھے دنیا میں اکیلا چھوڑ گئی۔ میں تڑپ رہا ہوں! یہ میں نے کیا کردیا۔ ۱۱ اگست کی رات جب میں نے اس کو بیلٹ سے مارا تھا اس کے بعد میں چلا گیا تھا۔ مگر میں نے نہیں مارا اسے جان سے۔ پھر جب میں واپس آیا تو وہ بےجان ہوئے وجود کے ساتھ زمین پر ہی پڑی تھی۔ منہاج کی ماہ نور مر گئی ڈئیر ڈائری۔ میری زندگی کا نور ختم ہوگیا۔ میری ماہ نور ختم ہوگئی۔ میں اب اپنے آپ کو بھی ماردوں گا۔ ختم کردوں گا۔ میرے بچے مجھ سے نفرت کرنے لگے ہیں اور مجھے دھمکیاں دیتے ہیں کہ وہ مجھے چھوڑ جائیں گے۔ امان۔۔ امان میں مجھے اپنا عکس لگتا ہے کہیں وہ میری طرح تو نہیں بن جائے گا؟ نہیں نہیں۔۔۔ ایسا نہ ہو کبھی۔ میں نے پہلی دفعہ ان دونوں پر ہاتھ اٹھایا۔۔۔۔ ہمیشہ ایسے ہی تو ہوا ہے! جب جب جس پر ہاتھ اٹھایا وہ میرا ہی رہا مگر ماہ نور چھوڑ گئی اور اب بچے۔۔۔ وہ کہتا ہے وہ مجھ سے زمان کو دور لے جائے گا اگر میں نے اب زمان کو ہاتھ بھی لگایا ڈئیر ڈائری! میرے بچے۔۔۔۔ مجھے ماہ نور چاہئے۔۔ وہ مجھے چھوڑ گئی۔ میں نہیں رہ سکتا اپنی ماہی کے بغیر اس لئے میں نے تہیہ کیا ہے کہ میں مرجاؤنگا۔ ۱۸ اگست یے آج اور آج کے دن منہاج شاہ کا وجود مٹ جائے گا۔۔۔ اور یادیں؟ یادیں اس کے بچوں پر منحصر ہیں کہ وہ یاد کریں یا پھر ۔۔۔ بس ان باتوں کے آگے کچھ سوچنے کی ہمت بھی نہیں۔ ماہ نور کے بنا آج آٹھواں دن ہے ڈئیر ڈائری۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ میں مرنے کے بعد اس سے ملوں گا! تم خود ہی بتاؤ میں ایسا کیوں کہوں؟ خودکشی حرام ہے! اور میں یہ حرام کام کرنے جارہا ہوں۔" زمان کا ضبط بکھر گیا۔ گویا وقت پلٹ آیا ہو اور وہ اپنے باپ کے مرنے کا منظر دیکھ رہا ہو۔۔۔ آہ کیا اذیت ناک وقت تھا۔

"میری زندگی تم پر تمام کردی میں نے ڈئیر ڈائری۔ میری داستان اگر کوئی پڑھنا چاہے تو وہ تمہیں پڑھ کر میرا ماضی جان سکتا یے مگر بدقسمتی یہ کہ کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا۔ آنسو بہہ رہے ہیں اور ہاتھ ہر بلیڈ مارنے کی وجہ خون بہہ رہا ہے۔۔ سوری ڈائری میرے ہاتھ سے بہتا خون تمہیں گندا کررہا ہے نا؟ مگر تم فکر نہ کرو یہ سب ختم نہیں ہوگا مگر میں ہوجاؤں گا۔ میں مٹ جاؤں گا اور تم میرے ہر الفظ کو اپنے صفحوں میں ہی چھپا کر رکھنا۔ میں نے ماہ نور کو ماردیا۔ اسلام نے عورت کو بہت بڑا مقام دیا ہے مگر ہیں کچھ معاشرے میں میرے جیسے مرد!!!! جو عورت کو مار پیٹ کر خود کو تسکین پہنچاتے ہیں۔۔۔! مگر۔۔۔ مگر میں کبھی اس پر ہاتھ اٹھا کر خوش تو نہیں ہوا؟۔ ہر ہر بار رویا ہوں اسے تکلیف دے کر۔ وہ جب جب تڑپی ساتھ میں بھی تڑپا۔ میں مررہا ہوں میرے بچوں۔۔۔ میری یادوں کو مٹادینا اگر تم چاہو تو۔۔۔ ڈیئر ڈائری اپنے صفحوں پر میرا نام اور ایک ایک لفظ محفوظ رکھنا۔ میں جانتا ہوں کہ خود کشی حرام یے مگر یہ حرام کام میں کرنے والا ہوِ۔ تمہاری ماں سے ملنا چاہتا ہوں میرے بچوں۔ کیا پتا میں جہنم میں جاؤں اور ماہی سے نہ مل پاؤں۔ میری نقشِ قدم پر مت چلنا۔ ورنہ اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اپنی نسلیں بھی تباہ کردو گے! کبھی اپنے جسم کو بھی ایذا مت دینا۔ یہ جسم اللہ کی امانت ہے جو ہمیں لوٹانا ہے۔ تمہارے باپ نے خود کے ساتھ ساتھ اپنی محبوب بیوی کو بھی اذیت دی۔ عورت پر ہاتھ اٹھاتے وقت یہ ضرور سوچ لینا کہ وہ کسی کی کانچ کی گڑیا ہے۔ کسی کے آنچل میں کھلنے والا پھول یے جسے بیاہ کر تم لے گئے۔ اسے پیار سے رکھو۔ بہت پیار سے۔ وہ مضبوط عورت جو تمہاری ماں تھی وہ ہار گئی میرے لئے خود کو تکلیف پہنچاتے پہنچاتے۔ وہ تھی تو میں تھا۔ میں ہی غلط تھا ڈئیر ڈائری! کیا اللہ مجھے معاف کریگا؟ میں نے اس پر ظلم کیا ہے جس کو اسلام نے بلند مقام دیا۔ وہ ایک اچھی ازدواجی زندگی کی خواہش رکھتی تھی ہر عورتوں کی طرح۔ اچھی ازدواجی زندگی جس میں شوہر محبت کرے اور شک نہ کرے۔

محبت کی پہلی سیڑھی ہی تو اعتبار کی ہوتی ہے مگر۔۔۔۔ یہ میں نے کیا کردیا۔ اپنے ماضی کی وجہ سے اپنا مستقبل برباد کردیا، کسی کی زندگی برباد کردی۔ اسے ماردیا میں نے۔ کیا ہر ماں کی طرح اس کے دل میں خواہش نہیں ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو بڑھتے دیکھے، جب وہ ڈگریاں لے کر پلٹیں تو اپنے ماں باپ کی سمت آئیں۔ ہر ماں کی طرح کیا اس کا خواب نہیں ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کے لاڈ اٹھائے ساری عمر؟ ان کی اچغی تربیت کرے؟ لیکن میں نے تو اسے ماردیا۔۔۔ میں نے اپنی محبوب بیوی کو ماردیا۔ میری ماں مجھ سے دور چلی گئی اور میں نے اپنے بچوں کی ماں کو ان سے دور کردیا۔۔ کیا فرق رہ گیا گھر برباد کرنے میں؟؟؟؟ میں نے اس کے خواب کچل دیئے ڈئیر ڈائری۔ میں نے اپنی محبت دیکھی صرف مگر وہ۔۔۔ مجھے اس سے بےحد محبت ہے۔ یہ وہ عورت تھی جو میری محبت میں ایک دفعہ کہنے پر اپنے گھر والوں چھوڑ آئی۔ یہ بات مجھے عمر کی اس دہلیز میں سمجھ آئی ہے کہ عورت اگر آپ کو چھوڑنے کا تیہی کرلے تو اسے جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر ماہی کی نیت ہوتی تو وہ مجھے کسی بھی طرح بلکہ ہر طرح سے چھوڑ سکتی تھی۔ وہ میرے ساتھ رہی! میرا ظلم سہتی رہی۔ میری ایک مسکراہٹ پر جی اٹھتی۔۔۔ اسے موت کے گلے میں نے لگایا ہے ڈئیر ڈائری۔ میں تڑپ رہا ہوں۔ میرا ماضی مجھے برباد کرگیا! مگر میں نے اپنی بیوی کا زندہ دل بھی ماردیا۔ میں قاتل ہوں۔ مجھے تم سے محبت ہے ماہی۔ تمہارے بغیر میرا گزارا نہیں ماہی۔ میں نے ایک عورت پر ظلم کیا۔۔ عورت بھی وہ جو میری محبت تھی۔ جو میری تھی صرف میری۔ وجود اور روح دونوں سے۔ میں غلط تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس داستان میں غلط میں تھا۔ میں نے اس کے خواب چکنا چور کردیئے۔۔ غلط میں تھا۔میرے بچے بھی مجھ سے منہ موڑ گئے تو اب میرا دنیا میں کوئی نہیں۔ میری ماں سے کہنا مجھے اس سے محبت تھی۔ مجھے اس کی ضرورت تھی مگر۔۔۔۔ خیر چھوڑو اب سب ٹھیک ہونے جارہا ہے۔۔ کیونکہ میں دنیا سے جارہا ہوں۔۔ پستول میرے ہاتھ میں ہے اور بس یہ چلنے والی ہے۔۔۔ منہاج شاہ اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اللہ حافظ ڈئیر! شکریہ اتنے سال میرے ساتھ رہنے کے لئے۔ 

~منہاج شاہ "۔ 

اور آخری میں ایک لائین درج تھا جو منہاج نے ہی لکھی تھی۔ 

"تم تھک گئی ہوگی اپنے صفحوں پر میرا 

قلم رگڑتے رگڑتے۔۔۔ تم بھی اب آرام کرو" 

صفحوں پر خون تھا۔ آخری میں بس ایک بڑا دل تھا جس میں ماہ نور، امان اور زمان کا نام درج تھا۔ 

زمان کو صدمہ کی حالت میں تھا۔ دل چھلنی، روح چھلنی، جسم چھلنی اور تکلیف بےجا! آنسو بے ربط، سانسیں بےربط۔ سسکیاں اور ہچکیاں۔ فجر کی آذان اس کے امدر غبار ختم کر?

ساری رات جاگ کر اس نے بلآخر وہ ڈائری مکمل پڑھ ہی لی تھی۔ نمازِ فجر کے بعد وہ سونے لیٹا تھا مگر نیند ہی نہ آئی۔ سب باتیں یاد آرہی تھی۔  انسان کا اپنی سوچوں پر بھی بس نہیں ہوتا۔ کافی دیر بعد بلآخر وہ نیند کی وادیوں میں اتر ہی گیا۔ قریب کوئی گیارہ بجے امان اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ بستر آڑھا ترچھے لیٹے ہوئے زمان کے قریب آکر اس کی چادر درست کرکے اس کے اوپر اوڑھا دی۔ کوٹ پینٹ میں ملبوس وہ آفس جانے کو تیار کھڑا تھا۔ نکھرا نکھرا سا۔ وہ واقعی ایک ہینڈسم مرد تھا۔ آہستگی سے قدم بڑھاتے وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ ہاتھوں کے پوروں سے سوتے زمان کا چہرہ چھو کر اب وہ اس کے بال سہلا رہا تھا۔ کسی کا لمس اپنے چہرے ہر محسوس کرتے ہوئے وہ چھوٹی چھوٹی آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ اس وقت زمان کے گھنے بال اس کے منہ پر چھائے ہوئے تھے۔ اسے امان کچھ پہچانا پہچانا سا لگا تو اس نے اپنا سر اس کی گود میں رکھ دیا۔ امان مسکرادیا۔

"اٹھ جاؤ زمان" وہ بہت پیار اور نرمی سے بولا۔

"نکاح خواں آگیا؟" سوئے سوئے لہجے میں پوچھا گیا۔ امان الجھا۔ 

"کیوں؟" 

"میرا نکاح؟" معصومیت کی انتہاء ۔

"کروادیں گے۔۔۔ وہ بھی کروادیں گے! بہت جلد!" 

"انشاءاللہ بول دو امان" سوتے ہوئے بھی شادی کی بےحد فکر کھائی جارہی تھی۔ 

"انشاءاللہ تو میں بول دوں مگر تمہیں کوئی لڑکی پسند ہی نہیں کرتی" امان مسکراہٹ دباتے ہوئے چھیڑا۔ زمان بےساختہ مسکرایا۔ زمان نے اپنے سر کے ساتھ اپنے ہاتھ بھی اس کی گود میں رکھے ہوئے تھے۔ 

"سنو!  مجھے کمر میں بہت درد ہے۔۔۔ تکلیف ختم ہی نہیں ہوئی" وہ آنکھیں میچیں بتا رہا تھا۔ نیند حاوی تھی جس کے باعث آنکھیں کھولنے کا بھی دل نہیں کررہا تھا۔ 

"کل کی وجہ سے؟" امان کو اپنی غلطی کا احساس تھا۔

"جی" 

"بہت زور سے لگ گئی لگی ہوگی! ڈاکٹر کے پاس چلو، اٹھو آؤ" اس نے اٹھنا چاہا مگر زمان نے اسے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ 

"اتنا بھی درد نہیں ہے۔۔۔ بس ٹھیک ہوں میں۔ لیٹا ہوا ہوں تو ذیادہ محسوس ہو رہا ہے"

"تو پھر اٹھو آفس چلو۔ تم نے ویسے ہی اب آنا چھوڑا ہوا ہے" 

"لاہور میں جھک مارنے گیا تھا؟" نیند میں بھی جواب ہوتے پورے تھے۔

"آفس کب سے جوائن کرو گے زمان؟" بالوں ہر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔

"لاہور کی تھکن نہیں اتری ابھی" 

" تو پھر کب تک آرام کرنے کا ارادہ ہے؟" 

"ایک، دو ، تین، چار، پانچ، چھ، سات، آٹھ، نو سال تک! اور اس وقت بھی دیکھوں گا کہ تھکن اتری کہ نہیں" اس کی بات ختم ہوتے ہی امان نے اسے جھڑکا۔

"اتنی غیر سنجیدگی اچھی نہیں ہوتی زمان۔۔ مجھے کل سے تم آفس جاتے دکھو" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔ 

"کل سے جوائن کروں گا پکا" اس نے انگڑائی لیتے ہوئے جواب دیا۔

"جارہا ہوں میں" اثبات میں سرہلاتا وہ مڑا ہی تھا کہ زمان نے اسے روک۔

"خیال رکھنا! تم ویسے ہی بیمار تھے"تاکید کرکے پھر آنکھیں موند لیں۔ امان کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی اور وہ "ہمم" کرتا مڑگیا 

کوٹ درست کرتا ایک آخری گہری نگاہ اس پر ڈال کر وہ پلٹ گیا۔ واچ دیکھتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ شانزہ گہری نیند میں تھی۔ چابی میز سے اٹھا کر وہ اس کے قریب آیا۔ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگایا اور  پیار سے تکنے لگا۔ ہاتھوں سے اس کی چہرے کو چھپاتی زلفوں کو پیچھے کرکے اس کی پیشانی چوم کر کھڑا ہوگیا۔ وہ لیٹ ہورہا تھا۔  سنگھار میز کو ایک نظر دیکھا جہاں شیشہ اب تک نہیں لگا تھا۔ گہری سانس بھرتا وہ نیچے کی طرف ہو لیا۔

*--------------------------------------------------------*

"چائے لادو فاطمہ" عدیل کی آواز پر وہ دوبارا کچن کی سمت مڑی۔ عدیل نے گھڑی کی نظریں دوڑائیں۔ گیارہ بجنے لگے تھے۔ دھوپ تیز ہورہی تھی۔

"تم آج نہیں گئی کالج؟" فاطمہ نے اس کے آگے چائے رکھی۔ 

"نہیں" مختصر جواب!

"کیوں؟" سرسری انداز۔ 

"اب صرف پریکٹیکل ہی لینے جاتی ہوں! شانزہ کے بغیر کالج جانے کا بھی مزہ نہیں آتا۔ پہلے وہ ہوتی تھی تو ہم سارے سارے وقت مزے اور ہنستے ہی رہتے تھے" سنجیدہ چہرہ۔ عدیل کا مزاج سرد ہوا۔ 

"اس لڑکی کا آئیندہ نام مت لینا" چائے کا گھونٹ بھر کر آواز کے ساتھ کپ کو میز پر پٹخا۔

"بہن کا نام لینا بھلا کیسے چھوڑا جاسکتا ہے" بریڈ پر مکھن لگاتے ہوئے تحمل سے بولی۔

"بہن والا ساتھ دیا ہے اس نے تمہارا؟" کڑوا طنز۔

"آپ نے منگیتر والا ساتھ دیا اس کا؟۔۔۔میرا تو ہر بار پورا پورا ساتھ دیا ہے!" بنھویں اچکا کر پوچھا تھا یا طنز کیا تھا۔۔ وہ سمجھ نہ پایا۔

"مطلب کیا ہے تمہارا" 

"مطلب جاننا اتنا مشکل نہیں آپ کے لئے" بریڈ کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔ 

"چپ رہو فاطمہ! بکواس نہیں کرنا اب!" وہ غرایا۔ 

"میں نے کوئی اضافی بات نہیں کی! آپ نے جو پوچھا اسی کا جواب دیا ہے" فاطمہ چائے کا گھونٹ بھرا۔

"تو کیا اس نے ٹھیک کیا میرا اعتبار توڑ کر؟"عدیل دانت پیسے۔

"آپ کو کیسے پتا اس نے آپ کا اعتبار توڑا ہے؟" 

عدیل کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا۔ 

"کیا یہ واقعہ ہمارے سامنے پیش نہیں آیا تھا؟ جس نے اپنی ماں اور باپ کی عزت کی فکر نہیں کی کیا وہ میری بعد میں کرتی؟؟ کہہ دیتی کہ مجھ سے کہ اسے کوئی اور پسند ہے؟ مجھ سے کیوں محبت کے ڈھونگ رچا رہی تھی" 

"اب آپ غلطی پر ہیں بھائی! پہلی بات میں سب کی نہیں صرف آپ کی بات کررہی تھی! دوسری بات اگر وہ محبت کا صرف ڈھونگ رچا رہی ہوتی تو آپ کی طرف پہلے امید سے اور پھر آپ کی آنکھوں میں بےیقینی دیکھ کر ششدر نہ ہوجاتی! چہرے کے تاثرات سب بتادیتے ہیں بھائی۔ نا انصافی اس کے ساتھ ہوئی ہے! ہر چیز آنکھوں کے سامنے عیاں ہے اگر آنکھیِ کھول کر دیکھیں! میرا ناشتہ خراب دیا" اپنا ناشتہ اٹھا کر نخوت سے کہتی کمرے طرف بڑھ گئی۔ کرسی پر بیٹھا عدیل نے غصہ سے لب بھینچے تھے۔

*--------------------------------------------------------*

قریب ایک بجے وہ اس کی آنکھ کھلی تھی۔ انگڑائی لیتا ہوا وہ اٹھ بیٹھا۔ تیز دھوپ اس کی کھلی کھڑکی سے اندر آرہی تھی۔ کچھ وقت یونہی بیٹھنے کے بعد وہ واشروم سے فریش ہو آیا۔ سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھا کر جیب میں رکھا۔ منہاج کی ڈائری بھی میز پر ہی پڑی تھی۔ ایک گہری نگاہ اس پر ڈال کر اسے تھام کر آرام سے وارڈروب میں محفوظ جگہ پر رکھ دیا۔ اسے شانزہ سے تفصیل سے بات کرنے کا یہ موقع اچھا لگا، اور امان بھی گھر پر نہیں تھا۔ وہ سیڑھیاں اترتا لاؤنج میں داخل ہوا۔ لاؤنج مکمل خالی تھا۔ ہوسکتا ہے شانزہ سورہی ہو یا اپنے کمرے میں ہو۔۔ وہ اس کے کمرے میں نہیں جاسکتا کیونکہ یہ نامناسب تھا۔ کچن میں سے پتیلا گرنے کی آواز نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ دھیرے سے چلتا ہوا کچن میں آگیا۔ وہ کچن میں تھی اور اب گرا ہوا پتیلا واش کررہی تھی۔ 

"ہیلو بہن" اس نے خوشدلی سے بات کا آغاز کیا۔ وہ اس کی یوں آمد پر ہڑبڑا اٹھی۔ 

"جی" شانزہ نے سنبھل کر جواب دیا۔ 

"کیا کررہی ہو؟" اس نے دونوں بنھویں آچکا کر پوچھا۔ 

"میں۔۔وہ۔۔ چائے بنا رہی تھی۔۔۔ وہ کلثوم ابھی نہیں آئی تو خود ہی آگئی" آواز ترتیب نہیں پارہے تھے۔ 

"ہمم۔۔۔" کہتا ساتھ وہ چولہے کے قریب آیا جہاں ابھی پتی ڈال دی گئی تھی۔ 

"تمہاری اکیلے کی ہے؟" چائے کا گھورتے ہوئے کنفرم کیا گیا۔ 

"جی زمان بھائی" حیرانی سے دونوں بھنویں اچکا کر جواب دیا۔

"تمہارے بہن بھائی بھی آرہے ہیں؟" 

"نہیں زمان بھائی! میرا کوئی بہن بھائی نہیں میں اکلوتی ہوں" لہجے میں بلا معصومیت.

"چائے تو تین چار لوگوں کی لگ رہی ہے لڑکی! آؤ خود دیکھلو" وہ کچھ قدم پیچھے ہٹا۔ شانزہ نے پتیلی میں جھانکا۔

"مجھ سے ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے! میں اندازاً ۲ کپ چڑھاتی ہوں مگر وہ تین چار کپ  چڑھ جاتی ہے" وہ روہانسی ہوئی۔ زمان نے نفی میں سرہلایا۔ 

"چچچ اس میں تمہاری غلطی نہیں ہے شانزہ! اس میں چائے کی ہی غلطی یے! اب بھلا بتاؤ جب تم چڑھاتی ہی دو کپ ہو وہ چار کپ کیوں ہوجاتی ہے!؟" 

"ہے نا؟ دیکھا میری غلطی نہیں ہے! ماما کبھی مانتی ہی نہیں تھیں" اس نے زمان کے مسکرائے چہرے کی جانب دیکھا جو اب سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا

"تو لڑکی تم اندازً پانی ڈالتی ہی کیوں ہو؟ کپ سے ناپ کر پتیلی میں ڈالا کرو" ماتھے پر بل ڈال کر وہ اسے ہدایات بھی دے رہا تھا ساتھ ساتھ۔ 

"یعنی میری غلطی ہوئی؟ میں تو صرف دو کپ۔۔۔" 

"نہیں میری غلطی ہے۔ پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ! دو کپ چڑھاتی ہی کیوں ہو چائے جب اکیلے پینی ہوتی ہے" سینے پر ہاتھ باندھ کر اب وہ پوچھ رہا تھا۔

"وہ زمان بھائی پانی ابل کر کم ہوجاتا ہے! تو دو کپ چڑھاتی ہوں تو ایک کپ پانی ختم ہوجاتا ہے اور ایک کپ مجھے مل جاتی ہے" دائیں ہاتھ کے ناخن بائیں ہاتھ سے اکھیڑے جارہے تھے۔ لہجے میں ہچکچاہٹ واضح تھی۔ 

"او اچھا اچھا تم چائے نہیں پائے بناتی ہو؟"

"نہیں تو۔۔۔ پپ۔پتا نہیں" وہ جنجھلا اٹھی۔ 

"خیر چھوڑو میں دودھ ڈالتا ہوں! اور ہاں ایک کپ میرے لئے بھی نکال لینا چائے" فریج سے دودھ نکال کر پتیلی میں ڈالنے لگا۔ جب تک وہ دم ہوتی رہی زمان نے دو چائے کے کب اور چائے چھانے والی بھی سلیپ پر رکھ دی۔

"لگتا ہے دم ہوگئی ہے، چھان لو! اور ہاں چائے لے کر گارڈن میں آجانا" اسے تاکید کرتا ہوا وہ گارڈن کی طرف چلاگیا۔ اس نے سلیقے سے چائے چھان کر ٹرے میں رکھی۔ شکر کا پیالا اور چائے کا چمچہ رکھے وہ گارڈن میں آگئی۔ سلیپ سے اپنا موبائل اٹھانا نہیں بھولی۔ امان اس کی سم بدل چکا تھا۔ ایک نئی سم نکلوائی تھی اور اب وہی سم اس کے موبائل میں تھی۔ امان کے علاوہ کسی کا بھی نمبر سیو نہیں تھا۔ اس کی طرف سے سختی سے تاکید تھی کہ موبائل ہر دم پاس ہونا چاہئے۔ کیونکہ وہ آفس ٹائم ہر بھی کال کیا کرتا تھا 

زمان نے ہاتھ بڑھا کر چائے کی پیالی تھامی۔ 

"آؤ بیٹھ جاؤ"  سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ کرسی آگے کرکے بیٹھ گئی۔ زمان نے چائے لبوں سے لگالی۔ کیا ڈائقہ تھا چائے کا۔

"واہ چائے کیا ذائقہ دار بنی ہے! بس اب اپنے بھائی سے ککنگ کلاسس لیلو" 

شانزہ نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ 

"جی؟؟؟ یہ چائے میں نے بنائی ہے زمان بھائی۔۔۔۔" 

"لیکن دودھ تو میں نے ڈالا یے بھابھی جان! چائے میں سب سے اہمیت دودھ رکھتا ہے! سوچو اگر میں دودھ صحیح سے نہ ڈالتا تو کیسے بدذائقہ بنتی چائے" 

"جی نہیں! چائے میں پتی بھی اہمیت رکھتی ہے" 

شانزہ کو وہ اچھا لگنے لگا تھا۔ خود اس کا اپنا بھائی نہیں تھا اس لئے اسے زمان کو "بھائی" کہنا بھا گیا تھا۔ گفتگو ایسے کررہا تھا جیسے پرانے دوست ہوں۔

"مگر میں نے اس سب میں ذیادہ کام کیا ہے" وہ فرضی کالر جھاڑتے ہوئے بولا۔

"کیسے؟" اس نے الجھی نگاہوں سے اسے دیکھ کر پوچھا۔ 

"میں نے دودھ ڈالا، پھر دو کپ بھی نکالے اور چائے چھانے والا بھی نکال کر سلیپ رکھا تاکہ تم چھان کر نکال سکو" 

"میں نے بھی بہت کام کئے ہیں! میں نے پتیلی نکالی، اس میں پانی بھرا، پھر چولہے پر چڑھایا، پھر ماچس بھی جلائی۔، پھر پتی بھی میں نے ہی ڈالی، چائے میں نے نکالی، اور شکر بھی میں نے ڈالا" شانزہ نے پوری کہانی سنائی۔ اور اس سب میں زمان اتنا تو جان گیا تھا کہ شانزہ واقعی اس کی بہن ہے۔ صرف رشتے سے نہیں بلکہ اس کی ایکٹنگ اتارنے میں بھی۔ وہ زبردستی مسکرایا۔ شاید بےعزتی سے۔

"ہاں شاید تم نے ذیادہ کام کیا ہے" وہ سر کجھاتا ہوا آضر مان ہی گیا۔ 

"تھینک یو" وہ مسکرا کر بولی۔

"تو کیسی گزررہی ہے زندگی؟" کچھ وقفے کے بعد وہ اس سوال کی جانب آیا جس کا جواب زمان اس کی آنکھوں میں امڈتے آنسو سے بھی پتا لگا سکتا تھا۔ وہ کچھ لمحوں میں ہی اپنی آنکھیں گیلی کر گئی۔ شانزہ کے تاثرات یکدم تبدیل ہوئے تھے۔ وہ جو تھوڑی دیر پہلے مسکرا رہی تھی اب اس کا چہرہ پیلا پڑرہا تھا۔ 

"رونے سے کیا گھر چلی جاؤ گی؟" چائے کو ٹرے میں رکھتا ہوا پوچھا۔ وہ چپ رہی۔ وہ دونوں شیڈ کے نیچے بیٹھے تھے۔ پیلے رنگ کا پرنٹد جوڑا زیب تن کیا ہوا تھا جس پر لان کا پیلا ہی ڈوپٹہ تھا۔ وہ واقعی حسن کا کرشمہ۔۔ سادی سی خوبصورت لڑکی۔ 

"روئے بغیر دل کو چین نہیں ملتا" آنکھیں رگڑتے ہوئے جواب دیا گیا۔ زمان نے اس کی بات کو دل پر محسوس کیا۔

"کیا تم فاطمہ سے بات کرنا چاہو گی؟ اگر میں تمہاری بات کروادوں؟" شانزہ اس کی پیشکش پر اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ 

"آپ۔۔ آپ میری۔۔میری اسے بات۔۔؟" حیرت اور خوشی سے الفاظ ادا بھی نہیں ہورہے تھے۔ زمان اس کی بچوں والے انداز پر کھل کر مسکرایا۔ 

"اس سے ذیادہ کچھ نہیں کرسکتا میں اپنی بہن کے لئے! بس اسی بات کا دکھ بھی ہے" مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔ شانزہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔ 

"آپ دکھی نہ ہوں زمان بھائی۔۔۔ آپ میری واقعی میں بات کروائیں گے نا فاطمہ سے؟" وہ کرسی پر پھر سے بیٹھ گئی۔

"ہاں کرواؤں گا یار! فون پر" وہ اسے یقین دلاتا ہوا بولا۔

"سچی!!! مجھے یقین نہیں آرہا ہے" وہ خوشی سے تالی بجاتی ہوئے بولی۔

"اس یقین نہ آنے کے چکر میں تم اپنی چائے ٹھنڈی کررہی ہو لڑکی" وہ شرارت سے بولا۔

"اوہ ہاں۔۔۔" وہ چائے کی جانب متوجہ ہوا۔

"شانزہ ایک بات بتاؤ! اگر تمہیں یہاں سے جانے کا موقع مل جائے تو گھر جاؤ گی؟" جان بوجھ کر یہ سوال کیا تھا۔ وہ اس کے خیالات جاننا چاہتا تھا۔ وہ خاموش رہی۔ جیسے اس کا جواب اسے خود نہیں معلوم۔

"نہیں۔۔ مم۔مگر مجھے ماما سے تو ملنا ہے نا" زمان کو لگا اس کو سننے میں غلطی ہوگئی ہے۔ 

"نہیں؟؟؟ تم گھر نہیں جاؤ گی؟تو کہاں جاؤ گی؟" لہجے میں حیرت واضح تھی۔۔

"میں کہیں اور چلی جاؤں گی! بہت دور! اتنی دور جاؤ گی کہ کسی کو خبر نہیں ہوگی! ایسی جگہ جہاں مجھے شک کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے۔۔۔ مجھ پر یقین کیا جائے اور میرے ہر سچ پر یقین کیا جائے۔ میں ماما کو بھی ساتھ لے کر جانا چاہوں گی زمان بھائی! اگر ماما آنا چاہیں" وہ سرجھکا کر بتا رہی تھی۔ زمان نے گہری سانس لی۔

"معلوم کروایا تھا میں نے کہ تمہارے نکاح والے دن گھر میں کیا ہوا تھا" ۔ وہ کہہ کر خاموش ہوا۔ 

"کوئی اپنوں پر اعتبار کرنا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ جبکہ وہ آپ کا خون ہو۔۔۔ وہ مجھے تو اسی وقت ہی بھول گئے تھے جب رمشا ہماری زندگیوں میں داخل ہوئی تھی یعنی جب تایا تائی کا وفات ہوئی تھی"۔ وہ اس معصوم لڑکی کو بہت پیار سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی باتیں دل موہ لینے والی تھیں۔ 

"اور عدیل؟" جان بوجھ عدیل کا ذکر نکالا۔

"جو بھی ہو زمان بھائی۔۔۔ حقیقت جتنی کڑوی ہو اس بات کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ میں اب امان کے نکاح میں ہوں! جو بھی ہو عدیل پہلے بھی میرے لئے نامحرم تھے۔ ہاں مگر ایک جذبات تھے اور اس بات کا یقین تھا کہ میری شادی انہیں سے ہوگی لیکن اب ظاہر ہے وہ بھی نہیں! جو بھی ہے نامحرم پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے۔۔۔ محبت ختم نہیں ہوتی تو باقی بھی نہیں رہتی۔ دل تو تب کرچیاں بکھیرتا ہے جب آپ کا اپنا آپ پر اعتبار نہ کرکے منہ موڑ لیتا ہے۔۔ مجھے اس کی بہت ذیادہ ضرورت تھی زمان بھائی! جب مجھے بابا مار رہے تھے۔۔۔ " وہ رورہی تھی۔ پہلے ہچکیوں سے پھر بلک بلک کر۔۔ زمان نے اسے روکا نہیں۔ دل کا غبار نکل جانا ہی اچھا ہوتا ہے۔

"بابا نے کہا کہ مجھ جیسی بیٹیوں کو مر ہی جانا چاہئے۔۔ انہوں نے کہا کاش تم پیدا ہوتے ہی مرگئی ہوتی۔۔ اعتبار بھی کوئی چیز ہوتی ہے زمان بھائی جو میرے بابا کو مجھ ہر کبھی نہیں تھا اور وہ عدیل! جب میں نے ان کو ہوش دلانا چاہا۔۔۔ کہ۔۔ کیا شانزہ ایسی ہوسکتی ہے عدیل؟۔۔۔ تمہاری شانزہ۔۔۔"ہچکیاں اسکی بات کو پورا نہیں ہونے دے رہی تھی۔ وہ اس لڑکی کو بکھرتے دیکھ رہا تھا۔ 

"تو پتا ہے زمان بھائی اس نے۔۔۔ اس نے صرف مجھے دیکھا اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا جیسے میں گندی سڑی لاش ہوں۔ اس وقت یقین آیا مجھے کہ محبت میں اعتبار نہ ہو تو وہ محبت نہیں ہوتی۔ اس وقت یہ وہ لمحہ تھا کہ مجھے خود پر ہی شک ہوگیا کہ کہیں میں ہی تو بدکردار نہیں؟ چار، چھ لوگ آپ پر ایک ساتھ الزام لگارہے رہے ہیں یقیناً آپ میں ہی کوئی نقص ہوگا۔ میں نکل گئی وہاں سے۔۔ کبھی نہ واپس آنے کے لئے۔۔ میں اپنی ماں سے ملوں گی مگر اس گھر میں نہیں۔ کہیں باہر ہی مگر میرے قدم اس گھر میں دوبارہ نہیں اٹھیں گے۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔" وہ نفی میں سرہلاتے ہوئے بولی۔

"کتنی بےوقوف ہو تم" وہ بےچارگی سے نفی میں سرہلاتا ہوا بولا۔ شانزہ نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیوں؟" 

"گھر چھوڑ گئی؟ حیرت ہے بھئی! ہاں چھوڑ دیتی گھر مگر اپنی بےگناہی ثابت کرکے۔۔۔ میں ہمیشہ سے یہ کہتا ہوں کہ عورت کمزور نہیں ہوتی۔ بس اسے اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہوتا! اور جس دن اسے اپنی طاقت کا اندازہ ہوجائے تو وہ دنیا کو آگ لگادے۔ منہ بند کیوں رکھا؟ جب اپنی عزت پر بات آجائے تو لبوں کو سی لینے سے مظلوم نہیں بن جاتے۔ اپنی پوری بات کرتی اور گھر سے نکل جاتی۔۔۔ آدھی ادھوری بات کون کرتا ہے؟ اپنے حصے کا کہو اور گھر سے نکل جاؤ۔۔ اگر انہیں تم پر اعتبار ہوگا تو وہ پلٹیں گے ضرور۔۔۔ "

"وہ میری بات سننے کو تیار نہ تھے۔۔ کیا کرتی میں؟" 

"عدیل بھی نہیں تھا؟ رائٹ؟" 

"جی" سرجھکا کر جواب دیا 

"بس ایک کام کرتی"

"کیا؟"

"اس کے قریب جاتی اور ایک زوردار تھپڑ جڑ دیتی۔ سارے جرم یاد آجاتے اسے اپنے۔۔ آسان حل"

"اس سے کیا ہوتا۔۔ میں اب بھی کون سا خوش ہوں" 

"تو تمہیں کس نے کہا زبان بند رکھنے کو شانزہ؟ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ" وہ خاموش ہوگئی۔ اسی دم موبائل پر کال آنے لگی۔ اس نے نام پڑھا تو بڑے بڑے لفظوں میں "امان" لکھا تھا۔ اس نے سر اٹھا کر زمان کو دیکھا۔

"کس کی کال ہے؟"

"امان کی" اس نے جواب دے کر کال ریسو کی اور کان سے لگالیا۔

"ہیلو شانزہ"

"جی" اس نے مختصراً جواب دیا۔ زمان کو آواز نہیں آرہی تھی۔ اس نے چائے کا گہرا گھونٹ بھر کر ٹرے میں کپ رکھ دیا۔ 

"کیسی ہو؟" اس کے یوں پوچھنے پر شانزہ حیران قدرے ہوئی تھی۔ اسے گئے صرف دو، تین گھنٹے ہی ہوئے تھے۔ 

"جی ٹھیک ہوں" 

"یاد آرہی یے تمہاری۔۔۔" وہ بچوں جیسے لہجے میں بولا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی شانزہ کی پلکیں جھک گئیں۔

"اچھا ایک بات تو بتائیں مسز امان" 

"جی"

"کیوں اتنی محبت ہے مجھے تم سے؟ کیوں پسند ہو اتنی ذیادہ مجھے؟" یہ آج اس بندے کو ہو کیا گیا تھا؟ وہ حیرت سے موبائل کو تکنے لگی۔ موبائل پھر کان سے لگالیا۔ وہ خاموش رہی۔ 

"میرا دل نہیں لگ رہا ہے آفس میں۔۔۔ شام کو باہر چلیں گے" صاف لگ رہا تھا کہ امان آج بہت موڈ میں تھا۔ 

"باہر؟" 

"جی باہر۔۔۔ لانگ ڈرائیو پر۔۔۔ اور ہاں رات کا ڈنر بھی۔۔ ٹھیک ہے؟ اور ہاں ایک اور بات! تم آج ہرے رنگ والا سوٹ پہنا۔۔ گہرا ہرے رنگ والا۔ وہ جو میکسی خرید کے لایا تھا نا میں تمہارے لئے؟ وہی! بہت خوبصورت لگو گی تم ہمیشہ کی طرح" وہ خاموشی سے بس اسے سن رہی تھی۔ ایک نظر سامنے زمان پر ڈالی جو اپنے ناخن چباتا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"کچھ بولو بھی شریک حیات" امان نے اسے چونکایا۔ 

"جی۔۔۔ وہ۔۔ میں۔۔۔ وہ۔۔ میں کہہ رہی تھی کہ کب؟" 

"شام میں! میں کچھ گھنٹوں میں آؤں گا۔ تم تیار ہوکر باہر آجانا۔۔ ٹھیک ہے؟" 

"جی" کہہ کر ایک دو، باتیں کرکے کال رکھ دی۔ 

اس نے لب بھینچے۔

"وہ کہہ رہے ہیں کہ شام میں لانگ ڈراوئیو پر چلیں گے۔۔ مگر مجھے نہیں جانا زمان بھائی۔۔" وہ روہانسی ہوگئی۔ 

"کیوں نہیں جانا بھئی! جاؤ شانزہ۔۔۔ کتنے دنوں سے گھر میں ہی بیٹھی ہو۔۔ کب آرہے ہیں بھائی؟"

"شام تک یہی کوئی پانچ بجے تک۔۔۔ مگر مجھے۔۔۔" 

"آؤ چلو پھر تم تیار ہونے جاؤ ویسے بھی تم لڑکیاں بہت وقت لگاتی ہو۔۔۔ اٹھو" اس کی بات کاٹ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"مگر زمان بھائی۔۔ میں نہیں جانا چاہتی۔۔۔" آنسو بہنے لگے۔۔

"میری بات سنو شانزہ! تم ضرور جاؤ امان کے ساتھ۔ وہ تم سے محبت کرتا ہے! ہاں اس نے جو کیا بہت غلط کیا! اسے ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ تم ہوکر آؤ رات تک پھر میں تمہاری فاطمہ سے کال پر بار بھی کرواؤں گا۔۔۔ شرط یہ ہے کہ تمہیں جانا ہوگا۔ ہاں اور ایک کام کرنا رات کو جب امان سوجائے تو گارڈن میں آجانا ہے مگر میرے لئے کافی بنا کر۔۔۔ کافی کو میری دوسری شرط پر رکھو۔۔ میں فاطمہ کو پہلے ہی اطلاع کردوں گا کہ سوئے نہیں۔۔۔ ٹھیک ہے؟؟" وہ اسے فاطمہ سے بات کروانے والا تھا۔ اس سے بڑھ کر اور کون سی ہوسکتی تھی۔ 

"ٹھیک ہے بھائی! میں جارہی ہوں۔۔۔" وہ چہکتی ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"ہاں جاؤ تیار ہونے جاؤ جلدی اب" اس کو مسکراتا دیکھ کر وہ بھی مسکرایا۔

وہ بھاگتی ہوئی جانے لگی۔ ابھی تھوڑا دور ہی گئی تھی کہ رک گئی اور پلٹ کر زمان کو دیکھا۔

"آپ بہت اچھے ہیں زمان بھائی" اس کے لبوں کے ساتھ اس کی آنکھیں بھی مسکرا رہی تھیں۔ وہ کہہ کر رکی نہیں بلکہ بھاگ گئی۔ زمان کچھ سوچ کر مسکرایا۔ 

*------------------------------------------------------*

"ہیلو نفیسہ چاچی۔۔۔ کیسی ہیں آپ؟" وہ ان کے گرد بانہیں ڈالتے ہوئے لاڈ سے بولی۔۔

"میں تو ٹھیک ہون میری جان" انہوں نے مسکرا کر اس کا گال چوما۔۔ 

"ہائے یہ نیا نیا مارکیٹ میں آیا ہے پیار کرنے کا انداز یا میں آج ذیادہ اچھی لگ رہی ہوں؟" وہ مسکرا کر بولی۔

"میں تمہیں ہمیشہ سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں میرا بچہ" 

وہ آٹا گوندھ کر روٹیاں بنا رہی تھیں۔

"ہاں مگر چومتی تو نہیں تھیں مجھے" وہ اب انہیں چھیڑنے لگی تھی۔

"ہاں اب تو چوم لیا نا" وہ ایک بار پھر اس کا گال چوم کر بولیں۔ 

"ایسا مت کریں مجھے آپ سے محبت ہوجائے گی" وہ شرما کر بولی تو وہ ہنس دیں۔  

"کھانا کھاؤ گی؟" 

"کھالیا چچی جان میں نے" 

"پتا نہیں شانزہ کس حال میں ہوگی" اداسی پورے چہرے پر پھیل گئی۔ فاطمہ بھی ان کی گفتگو سن کر چپ ہوگئی۔ 

"یاد آرہی یے نا آپ کو؟" 

" ہر لمحے، ہر گھڑی آتی ہے یاد اس کی" آنسو بہہنے لگے۔ 

"میرا وعدہ ہے چچی جان آپ سے۔۔ میں اسے آپ سے ضرور ملواؤں گی۔۔۔ میں اسے ڈھونڈ رہی ہوں اور مجھے وہ جلد مل جائے گی۔۔ ان شاء اللہ۔۔ آپ بس دعا کرتی رہیں" وہ انہیں تھپکنے لگی۔ 

"ہر وقت زبان صرف اس کا ورد کرتی ہے۔۔ اللہ اسے اپنے حفظ و امان میں رکھے" انہوں نے انگلیوں کے پوروں سے آنسو صاف کئے

"آمین" فاطمہ نے دل پر محسوس کرتے ہوئے کہا۔

*--------------------------------------------------------*

وہ لاؤنج میں اخبار پڑھ رہا تھا۔ گھڑی اب چار بجا رہی تھی۔ ایک نگاہ گھڑی پر ڈال کر کلثوم کو آواز دی۔

"جی زمان دادا"  وہ ہاتھ پونچتے ہوئے آئی۔

"تم نے بھوکا مارنے کا ارادہ کر رکھا ہے کیا لڑکی؟" وہ مصنوعی غصے سے بولا۔

"نہیں تو۔ آپ نے بتایا ہی نہیں کیا کھانا ہے آپ نے" 

"ہاں ہاں اب جاؤ لڑکی کھانا لے کر آؤ جلدی سے" 

"کیا بناؤں آپ کے لئے؟" 

"کچھ بھی بنادو میری ماں" وہ جنجھلا اٹھا۔ 

"انڈہ تل دوں آپ کے لئے؟" زمان نے ہاتھ اپنے منہ مارا۔

"لڑکی ناشتہ نہیں کرنا میں نے کھانا کھانا ہے۔۔ کچھ اور بنالو۔۔ اور اگر بہت مہربان ہورہی ہو تو بریانی بنالو" 

"نہیں نہیں میں سادے چاول کے ساتھ شوربہ بنادیتی ہوں" وہ کتراتے ہوئے بھاگ گئی۔ زمان اس کی اس حرکت پر مسکرایا۔ اس نے اپنی نگاہیں پھر سے اخبار پر مرکوز کرلیں۔ پندرہ منٹ بعد شانزہ نیچے اتری۔ گہرے ہرے رنگ کی میکسی پر ہرے رنگ کا ہی ڈوپٹہ تھا جسے اچھی طرح سر پر پھیلایا ہوا تھا۔

"زمان بھائی ہوگئی ہوں میں تیار! اب آپ اپنے وعدے پر پورا اتریئے گا" 

زمان نے اسے دیکھا۔ 

"تمہارے چہرے سے پتا چل گیا کہ میرا بھائی تمہیں دیکھ کر چیخ اٹھے گا" نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی پلکیں جھکیں۔ وہ زمان سے اس بات کی توقع نہیں کررہی تھی۔ 

"خوشی سے نہیں خوف سے لڑکی اتنا شرمانے کی ضرورت نہیں"۔ 

شانزہ نے حیرانی سے منہ کھولا۔ 

"کیوں؟" 

"یہ میک اپ کیا ہے تم نے؟" 

"مجھے میک اپ نہیں کرنا آتا" زمان نے اس کے جواب پر افسوس سے سرہلایا۔

"یوٹیوب پر کوئی ٹٹوریل ہی دیکھ لیتی۔۔۔ خیر جاؤ اور یہ لال کم کرو چہرے سے" 

"یہ بلش ہے" اس نے اپنے گال چھوتے ہوئے بتایا۔ 

"جو بھی ہے اسے کم کرو اور وہ کیا ہوتا جو تم لڑکیاں آنکھوں میں تھوپتی ہو؟" 

"آئی میک اپ؟" 

"نہیں لڑکی وہ کالی کالی ڈنڈیاں جو مارتے ہو آنکھوں میں؟"

"آئی لائینر؟"

"ہاں ہاں وہی وہی! سرمہ بھی لگالو آنکھوں میں تھوڑا سا اور جاؤ فرش کم کرو" وہ اسے تاکید کرتے ہوئے بولا۔

"زمان بھائی فرش نہیں بلش" وہ ماتھے ہر ہاتھ مار کر بولی

"ہاں ہاں وہی وہی۔۔۔ باقی ماشاء اللہ اچھی لگ رہی ہو" 

"افف اللہ اب میں نہیں جارہی کہیں" وہ دھپ سے سامنے والے صوفے پر بیٹھی۔

"جاؤ شانزہ فرش صاف کرو اپنے چہرے سے ورنہ جو ویٹر آرڈر لینے آئے گا وہ بھی خوفزدہ ہوجائے گا" شانزہ زور سے ہنسی۔ 

"پھر تو مجھے ایسے ہی جانا چاہئے"  زمان نے اسے گھورا۔ اسی وقت امان کی گاڑی کا ہارن بجا۔ سکون سے بیٹھی شانزہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ 

"جاؤ جاؤ اب ایسے ہی جاؤ" وہ طنز کرتا ہوا اخبار نگاہوں کے سامنے پھیلا کر بیٹھ گیا۔ 

"نہیں زمان بھائی۔۔۔ وہ۔۔میں جلدی سے ہوکر آئی" وہ کمرے کی جانب بھاگی۔۔ زمان اٹھ کر باہر آگیا۔ 

"سلیم امان سے کہو بی بی آرہی ہیں" 

سلیم اثبات میں سرہلاتا دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ 

زمان کو شرارت سوجی۔ وہ پلٹ کر سیڑھیوں کی طرف آیا اور اوپر کی سمت منہ کرکے آوازیں لگانے لگا۔

"ہاں ہاں امان! آجاؤ آجاؤ۔۔ لگتا ہے غصہ میں ہو بہت! تمہاری بیوی؟ ہاں وہ ابھی ابھی تیار ہونے گئی ہے" اس کی آواز شانزہ اپنے بیڈروم میں آسان سے سن سکتی تھی۔ وہ سہم کر جلدی جلدی میک اپ کر کے نیچے کی جانب بھاگی۔۔ 

"ایسا نہیں ہے! میں تیار ہوں " وہ تیز تیز آواز میں بولتی ہوئی سیڑھیوں کی جانب دیکھتی ہوئی تیزی سے اتررہی تھی۔ 

"ہاں جی بہن جی! جاؤ تمہارا شوہر باہر انتظار کررہا ہے۔۔۔ اور ہاں اب تم اچھی بھی لگ رہی ہو" وہ اسے چھیڑتے ہوئے بولا۔ 

"آپ نے میرے بارے میں جھوٹ کہا۔۔۔ وہ کہاں ہیں؟" وہ بنھویں سکیڑ کر بولی۔

"نہیں میں تمہاری بات تو نہیں کررہا تھا" وہ انجان بن گیا۔

"آپ نے کہا امان تمہاری بیوی ابھی تیار ہونے گئی ہے" وہ دونوں ہاتھ کمر پر باندھے پوچھ اس کی خبر لے رہی تھی۔

"اوہ تو تم بیوی ہو! لیکن میں امان کی دوسری بیوی کی بات کررہا تھا۔۔۔ چلو آپ کے منہ سے سنتے ہوئے اچھا لگا کہ آپ امان کی بیوی ہیں"

اسے بےجا شرم آئی۔ 

"میں جاؤں؟" وہ باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"اس کے اندر آنے کا انتظار کررہی ہو تو کرسکتی ہو" وہ بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ خطرے کی خبر بھی دے چکا تھا۔ 

"ڈرائیں تو مت" وہ سہم کر باہر کی طرف ہولی۔ 

وہ ہیچھے کھڑا ہنسنے دیا۔ 

*--------------------------------------------------------*

سر پر ڈوپٹا ٹکائے وہ دروازے سے باہر نکلی تھی۔ اسے اپنی جانب آتا دیکھ کر وہ گاڑی سے اتر کر دوسری جانب آیا۔ ہاتھ بڑھا کر اس کے لئے دروازہ کھولا۔ آوارہ لٹیں اس کے چہرے کے چکر لگارہی تھیں۔ سر جھکاتے ہوئے اس کے قریب آئی۔ امان کو وہ سیدھا اپنے دل میں اترتی محسوس ہورہی تھی۔ اپنی پلین میکسی اٹھائے گاڑی میں بیٹھی۔ امان کو دیکھنے سے گریز کررہی تھی۔ امان گھومتا ہوا ڈرائیونگ سیٹ ہر آبیٹھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کرے اس لئے سر جھکائے وہ اپنے ناخنوں کو تک رہی تھی اور امان اس کو۔ سر اسٹیرینگ پر ٹکائے اب وہ اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ گھنی پلکوں پر مسکارا لگا ہوا تھا، گہرا کاجل اس کی آنکھوں کو اور ذیادہ خوبصورت بنا رہا تھا۔ ترشے ہوئے ہونٹوں پر ہلکی لال لپ اسٹک! وہ واقعی امان کے ساتھ جچتی تھی۔ امان نے خود کو بیک مرر میں دیکھا اور تیزی سے بالوں پر ہاتھ پھیر کر بال سنوارنے لگا۔ اتنا اتاولا ہوکر بھاگا بھاگا آیا تھا صرف اس کے لئے۔ کالے رنگ کا کوٹ اور ہاتھ میں واچ پہنا ہوا تھا۔ ہاتھ بڑھا کر نرمی سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور جھک کر لبوں سے لگالیا۔ لمس پاکر شانزہ کو کرنٹ سا لگا۔ ہاتھ بےاختیار کانپ اٹھا۔ 

"بہت خوبصورت" دل کی بات لبوں پر آگئی۔ وہ شانزہ امان تھی۔۔۔ اسے خوبصورت ہونا ہی تھا۔ 

گاڑی اسٹارٹ کی اور بائیں ہاتھ سے اس کا ہاتھ تھام کر گئیر چینج کیا۔ اس کا ہاتھ مستقل اسی کے ہاتھ میں تھا۔ وہ سارا راستہ اس سے باتیں کرتا طرح۔۔۔ آفس میں گزرے دن کا حال سنایا اور وہ سارے رستے خاموش رہی۔ شانزہ نے ذرا سای نگاہیں موڑ کر اسے دیکھا۔ کالا کوٹ اور نکھرہ نکھرہ چہرہ اسے بےحد ہینڈسم بنارہا تھا۔  گھنے بال جو اس سے بات کرتے ہوئے اپنی جگہ سے ہل رہے تھے۔ ہلکی ہلکی مونچھیں اس کے چہرے کو اور خوبصورت بنارہی تھی۔ کھڑی ناک اس کے چہرے کی خوبصورتی تھی اور جب بھی وہ بنھویں اچکاتا تھا گویا قیامت لگتا تھا اور اس پر مسکراہٹ! 

"پہلے کچھ کھا لیتے ہیں! میں نے صبح سے ہی کچھ نہیں کھایا" اس نے مہنگے ریسٹورینٹ کے سامنے گاڑی روکتے ہوئے کہا۔ وہ تو کوئی بے جان مجسمہ بنی بیٹھی تھی۔۔ وہ گاڑی سے اترا تو وہ بھی ساتھ اتر گئی۔ 

"میں ہر پانچ منٹ بعد خود کو یہ کہنے سے روک نہیں پارہا کہ میری شانزہ بے حد خوبصورت لگ رہی ہے" مسکراہٹ بکھیرتے اسے شرارت سے دیکھنے لگا۔ اس کے یوں دیکھنے پر شانزہ بے اختیار جھینپی تھی۔ وہ اسے یوں تک رہا تھا جیسے کتنے سالوں سے اسے دیکھا نہ ہو۔ وہ اس کا شوہر تھا۔۔۔ وہ شانزہ ناصر نہیں تھی اب! شانزہ امان تھی۔ وہ اسے اچھا لگا تھا مگر وہ ظلم بھولی نہیں تھی اور نہ بھول سکتی تھی۔ وہ کہانیوں کے ان کرداروں جیسی بلکل نہیں تھی جو محبت کرکے خود پر ہوا ہر ظلم بھلادیتے ہیں! وہ اسے تڑپانے والی تھی! بہت جلد! شوہر تھا تو کیا ہوا! بیوی بن کر تڑپائے گی۔۔۔!

کیا آرڈر کروں تمہارے لئے؟" مسکراتا ہوا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا مگر وہ سوچوں میں غرق تھی۔ 

"مسز ادھر بھی دیکھ لیں! آپ کا ہی شوہر بیٹھا ہے سامنے" اس کے یوں شوخ ہونے پر وہ چونکی ۔

"جی۔۔ وہ۔میں۔۔۔نہیں بس وہ۔۔۔" الفاظ ترتیب سے ادا نہیں ہوئے۔ 

"ہاں ہاں زوجہ۔۔۔ اب جلدی سے آرڈر بتائیں کیا کروں آپ کے لئے۔۔ساڑھے سات ہونے والے ہیں!" 

"آپ کرلیں اپنے لئے آرڈر! مجھے بھوک نہیں" وہ اردگرد نظریں دوڑاتی ہوئی بولی۔ وہ ٹھٹھک گیا۔ بھلا ایسا بھی کوئی کہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئیں۔ 

"میں تمہارے لئے جلدی آیا تاکہ ساتھ ڈنر کریں" چہرے پر دکھ واضح تھا۔ 

"جی مجھے بھوک نہیں لیکن" گود میں رکھے ہاتھوں ہر نگاہیں مرکوز تھیں۔ اس کا دل نہیں تھا آنے کا! امان کے اندر چھناکے سے کچھ ٹوٹا۔ کیا وہ اس کا دل رکھنے کے لئے بھی نہیں کرسکتی تھی؟ اوہ ہاں وہ بھول گیا تھا۔ یہ رشتہ تو زبردستی باندھا گیا تھا۔ اتنے سالوں بعد وہ پھر سے ہرٹ ہوا تھا۔ چوٹ اس بار ذیادہ گہری تھی۔ رنج و دکھ کی کیفیت میں کچھ لمحے یونہی اسے تکتا رہا۔ جیسے یہ سب ایکسیپٹ کررہا ہو۔۔ یہاں اس کی نہیں چل سکتی تھی۔ اس موقع پر وہ زبردستی کرنے کا خود بھی قائل نہیں تھا۔ اب دل اچاٹ ہوگیا تھا۔ شانزہ اگر اب خود بھی کہتی تو بھی اس کا دل نہیں چاہتا۔ وہ صرف اس کے لئے آیا تھا۔ صرف اس کے لئے! امان نے لب بھینچے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ شانزہ نے آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ ۔

"چلو"قریب آکر اس کا ہاتھ نرمی سے اپنے ہاتھوں لیا اور باہر نکل گیا۔ وہ اس کے یوں اٹھ جانے پر حیران تھی اور اب سہم بھی گئی تھی۔ اس کے چھوڑے ہوئے قدموں پر قدم رکھ رہی تھی۔ امان کا دایاں ہاتھ شانزہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اور بایاں ہاتھ کوٹ کی جیب میں تھا۔ وہ دونوں پارکنگ ایریا میں داخل ہوچکے تھے۔ اکادکا لوگوں کے سوا یہ حصہ خالی تھا۔ تیز ہوا کی وجہ سے اس کا ڈوپٹہ سر سے کھسک گیا تھا اور زلفیں لہرا رہی تھیں۔ وہ دوسرے ہاتھ سے ڈوپٹہ سر پر ڈالنے کی کوششوں میں لگی تھی. دن ڈھل رہا تھا۔۔۔ آس پاس اندھیرہ پھیل چکا تھا۔ شانزہ کو محسوس ہوا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ وہاں موجود ایک شخص اپنی گاڑی سے ٹیک لگائے اسے سر تا پیر دیکھ رہا تھا۔ اس شخص کی اس حرکت سے امان لاعلم تھا۔ شانزہ نے سہم کر غیر ارادی طور پر امان کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ امان نے گاڑی کے قریب جاکر اس کا ہاتھ چھوڑا۔ اس کے لئے گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔ امان نے دروازہ لاک کیا اور دوسری طرف سے دروازہ کھول کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پورا راستہ سکوت کا عالم رہا۔ نہ وہ بولی اور نہ امان نے کچھ کہا۔ شانزہ کو لگا اس سے کچھ بہت غلط ہوگیا ہے۔ وہ سنجیدگی اور سپاٹ لہجے لئے ڈروائیو کررہا تھا۔ اسے امان سے اب خوف محسوس ہورہا تھا۔ اس کے تیور نارمل نہیں تھے۔ اس سب میں بھی وہ اس کی عزت کرنا نہیں بھولا تھا۔ وہ شوہر تھا۔اپنی عزت کی عزت کرنا جانتا تھا۔ گھر آنے پر اس نے ہارن دیا۔ چوکیدار نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ شاہ منزل میں گاڑی داخل کرکے گاڑی پارک کی۔ وہ گاڑی سے اتری نہیں۔ وہ جانتی تھی وہ ہی اس کے لئے دروازہ کھولے گا۔ امان گاڑی سے اتر کر اس کی طرف آیا۔ دروازہ کھول کر اس کے اترنے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے اپنا ڈوپٹہ سنبھالا اور سہارا لے کر اتری۔ امان نے دروازہ بند کرکے اس کا ہاتھ تھاما اور جلدی سے اسے لے کر اندر بڑھا۔ شانزہ کے دل میں خوف پیدا ہوا۔ کیا وہ کمرے لے جاکر اس پر غصہ کریگا؟ چیخے گا؟ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے کھنچتی ہوئی جارہی تھی۔ ٹیرس پر کھڑے زمان نے امان کے تاثرات بھی دیکھے تھے اور شانزہ کا چہرہ۔ یقیناً یہ دن دونوں کا اچھا نہیں گزرا تھا وہ بھاگتے ہوئے نیچے کی جانب بڑھا۔ کہیں امان شانزہ سے برا رویہ اختیار نہ کرے۔ وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں داخل ہوا۔ سامنے سے امان بھی شانزہ کو تھامے داخل ہوا تھا۔ وہ زمان کی موجودگی سے لاعلم تھا۔ شانزہ کا ہاتھ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی چھوڑدیا تھا اور خود تیزی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ زمان پر ایک نظر ڈال کر کر وہ اوپر چلاگیا۔ شانزہ اور زمان دونوں ہی حیران کھڑے تھے۔ وہ شانزہ کو کمرے میں لے کر نہیں گیا تھا ورنہ امان اسے اپنی موجوگی میں کمرے سے بھی باہر نہیں نکلنے دیتا تھا۔ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھتا تھا۔ رات کے وقت گارڈز اکادکا ہوا کرتے تھے ایسے میں شانزہ چاہے تو گھر سے جاسکتی تھی۔۔۔ یہی وجہ تھی جو وہ اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی رکھا کرتا تھا اور آج نہ تو وہ اسے غصہ سے کمرے میں لے کر گیا۔ شانزہ کو پانچ منٹ پہلے تک اپنی جان بچانا مشکل لگ رہا تھا اب وہ خود لاؤنج میں ششدر کھڑی تھی۔ زمان نے سیڑھیوں کی طرف امان کو چڑھتے دیکھا جو اب کمرے میں جاچکا تھا۔ شانزہ کی پلکیں کانپیں اور وہ نظریں جھکا گئی۔ زمان نے اس کے تاثرات بھی بخوبی دیکھے تھے 

"کچھ بہت برا ہوا ہے یقیناً" زمان نے اسے گھورا۔ وہ جھکی ہوئی نظریں اور جھکا گئی۔ 

"کیا ہوا ہے؟؟" وہ کسی قسم کی رعایت نہیں کرنے والا تھا. 

"زمان بھائی وہ۔۔۔"

"کافی بنا کر گارڈن میں آؤ تم" زمان نے اس کی بات کاٹ کر اپنا حکم جاری کیا اور ایک لمبی گھوری دے کر باہر نکل گیا۔ وہ لبوں کو چباتی کچن کی طرف بڑھ گئی۔ 

*-------------------------------------------------------*

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کیا لیکن شانزہ کے لئے لاک نہیں لگایا۔ پورا کمرہ اندھیرے میں ڈوبا تھا۔ دل کی تکلیف جان لے رہی تھی۔ رنج کی کیفیت سے کوٹ اتار کر پھینکا اور واچ نکال کر بیڈ پر اچھالی۔ ٹائی ڈھیلی کر وہ بیڈ پر گرنے کے انداز میں اوندھا لیٹ گیا۔ ہر چیز سے دل اوچاٹ ہورہا تھا۔ اس نے سختی سے آنکھیں موندلیں۔ تکیہ اٹھا کر اس کے نیچے سر رکھ لیا۔  کتنے ارمان لئے وہ سب کاموں کو پرے رکھ کر گھر آیا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا تو اپنی جیب تلاشنے لگا۔ اس نے لال ڈبی جیب سے نکالی۔ لیٹے لیٹے ہی ہاتھ بڑھا کر لیمپ چلایا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ لیمپ کی پیلی لائٹ کے سامنے اس نے ڈبی کھول کر اندر موجود چمکتی رنگ دیکھی۔ یہ انگوٹھی وہ اس کے لئے ہی لایا تھا۔ انگوٹھی میں چمکتا ہیرے کا نگ لگا تھا۔ مگر اب دل اتنا اوچاٹ ہوگیا تھا کہ اسے دیکھنے کا بھی دل نہیں کررہا تھا! اس لئے اس نے انگوٹھی واپس ڈبی میں رکھ دراز میں ڈال دی،لیمپ بند کیا اور کروٹ لیلیا۔ وہ آج کے دن کو پھر سے سوچنا چاہتا تھا۔

*--------------------------------------------------------*

"یہ لیں" احترام سے کافی گارڈن میں رکھی ٹیبل پر رکھی۔ چھوٹی ٹرے میں دو کافی کے کپ سجے تھے

"بیٹھو" سنجیدگی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سامنے رکھی کرسی پر ٹک گئی۔ 

بالوں میں ہلکا سا کیچر لگا تھا۔ زلفیں چہرے پر آرہی تھیں۔ اس نے بالوں کو رول کرکے جوڑا بنالیا۔ 

"اب بتائیں کیا ہوا تھا؟" اس نے کافی اٹھا کر لبوں سے لگاتے ہوئے پوچھا۔

"زمان بھائی وہ۔۔۔ ایسا ہے کہ شاید میری ہی غلطی تھی" وہ پل بھر میں نگاہیں جھکا گئی۔ 

"اچھا۔۔۔ تو بتاؤ ہوا کیا تھا" کافی ٹیبل پر رکھ کر سینے پر ہاتھ باندھے۔

"وہ انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کیا آرڈر کرنا چاہوں گی! مگر میں نے۔۔۔ میں نے کہا کہ مجھے بھوک نہیں لگی اور اگر وہ اپنے لئے آرڈر کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔۔۔" 

"پھر؟"

"انہوں نے کہا میں تمہارے لئے آیا تھا تاکہ ساتھ ڈنر کر سکیں۔ میری ہی غلطی تھی! ان کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ وہ دلبرداشتہ ہوگئے تھے"۔

"وہ تم سے محبت کرتا ہے شانزہ! اگر میں اپنی بات نہ کروں تو اس شخص کو کبھی محبت نصیب ہی نہیں ہوئی۔ ہم نے اپنی ماں سے محبت کی مگر وہ مرگئی۔ ہم نے اپنے باپ سے محبت کی تو باپ نے خودکشی کرلی۔۔۔ کیا یہ سب نارمل ہے؟ دو جانیں گنوا بیٹھے ہم! اسے محبت پر سے ہی یقین اٹھ چکا تھا۔ لیکن اسے جب سے تم سے محبت ہوئی گویا رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے! وہ ہنسنے لگا تھا! میں نے اسے بدلتے دیکھا ہے شانزہ!" وہ دکھ سے بولا۔ 

"آپ کے ماما بابا کیا؟؟؟" اس کی گفتگو سن کر ہی ششدر ہوگئی تھی اور وہ خاموش۔ 

"ہم چودہ سال کے تھے جب ہماری ماں دم توڑ گئی اور اس کے آٹھ دن بعد بابا نے ان کے غم میں آکر خودکشی کرلی۔ اس وقت سے ہم دونوں ہی تنہا ہیں شانزہ" شانزہ کا ہاتھ بےاختیار دل پر گیا۔۔

"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا یے زمان بھائی!" 

"کیا تم چاہتی ہو یہ داستان میں دہراؤں؟" وہ تکلیف سے آنکھیں میچتا ہوا بولا۔

"میں جاننا چاہتی ہوں" وہ اثبات میں سرہلاتی ہوئی بولی۔ زمان نے بےدلی سے سرجھٹکا۔ 

"مجھ سے ماضی نہیں دہرایا جاتا بار بار شانزہ! لیکن میں تمہیں سب بتاؤں گا! امان کو جاننے کے لئے تمہارہ یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے!" وہ اس کے سامنے یر بات رکھتا رہا۔ ہر اذیت اپنی زبان سے سنائی۔ جاننا اور سنانا الگ الگ کیفیت ہوتی ہیں۔ سنانے کے لئے ظرف بھی چاہئے ہوتا۔ آواز بھیگ جاتی ہے اور گال تر ہوجاتے ہیں۔ پھر دل میں ٹھیس بھی اٹھتی ہیں۔ اس نے سب اس کے گوش گزار کردیا۔ شانزہ کا دل ہول اٹھ رہا تھا۔ اس نے نظریں پھیر کر شاہ منزل کو دیکھا تھا۔ صبح کے وقت جتنی خوبصورت لگتی تھی رات کے وقت اتنی خوفناک لگ رہی تھی! شانزہ کے دل پر ایک بوجھ سا پڑا۔ اس نے واقعی آج اچھا نہیں کیا تھا امان کے ساتھ! 

"بابا چلے گئے مگر ان کے خون کے چھینٹے اپنے نشان چھوڑ گئے۔ ماما بھی چلی گئی! سب ہمیں چھوڑ گئے شانزہ! اب ہمارے پاس ہمیشہ کی طرح ہمارا خدا ہے!" ۔ 

"زمان بھائی" وہ ذرا رک بولی۔

"جی"

"اس ساری داستان میں آپ کے مطابق قصور کس کا تھا؟ اپنا خیال ظاہر کریں" شانزہ نے آنکھوں میں آئی نمی کو صاف کیا۔

"شاید دادی کا! مسز سمیع" وہ کچھ سوچ کر بولا۔ 

"نہیں زمان بھائی! آپ نے جو کچھ مجھے سنایا ہے اس کے مطابق سب کی غلطی برابر تھی! تالی ایک ہاتھ سے نہیں بچتی! ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ کے دادا کی کوئی غلطی نہ ہو! ایک عورت کو گھر میں بیٹھے بیٹھے کیسے اپنے خوش حال گھر ،شوہر اور بچوں کو چھوڑنے خیال آسکتا ہے؟ کچھ ہوا ہوگا! ایسا کچھ جسکا علم منہاج بابا کو بھی نہیں معلوم ہوگا۔ انہوں نے ڈائری دس سال کی عمر میں گھر کی پریشانیوں اور ذہنی اذیتوں شروع ہونے کے بعد لکھنا شروع کی تھی! ایسا نہیں ہے! وہ کسی وجہ کے تحت گئی ہونگیں! مگر اس سب کے بیچ وہ دس سال کا بچہ آگیا! وہ ذہنی اذیتوں اور تکلیفوں کا شکار ہوگیا! وہ خود بھی ذہنی بیمار ہوگیا! ماں باپ کی زندگی کا ایک غلط فیصلہ نسلیں بھی خراب کرسکتا یے! منہاج بابا پر اپنے ماں باپ کے فیصلے اتنے بھاری پڑگئے کہ وہ سہہ نہیں پائے! اور پتا ہے کیا زمان بھائی؟ انہوں نے سمیع صاحب سے طلاق لے کر اپنی الگ دنیا تعمیر کی! یہ وہ جملہ ہے جو مجھے آپ کی بتائی ہوئی کہانی سے پتا چلا۔ لیکن ہمیں اس میں ِبھی ایک طرفہ کہانی پتا ہے! بغیر کسی وجہ کہ عورت گھر نہیں چھوڑ سکتی! اس صورت میں تو بلکل بھی نہیں جب لو میرج ہوئی ہو! ہوسکتا تھا کوئی وجہ ہو جس سے ان کا دل دکھا ہو! جس کا علم منہاج بابا کو نہ ہو!" اس کی بات ہر زمان واقعی سوچ میں پڑ گیا۔ 

"ٹھیک کہہ رہی ہو!" وہ اعتراف کرتا ہوا بولا۔ 

"مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی زمان بھائی! مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا"وہ شرمندہ تھی۔ 

"شانزہ! امان کی حالت ٹھیک نہیں ہے! وہ پیار کی زبان سمجھتا ہے! تم جتنا شور مچالو یا اس پر چلّا کر اسے بتاؤ کہ اس نے جو کیا غلط کیا تو وہ کبھی نہیں مانے گا! لیکن یہی کام محبت سے اپنی طرف ڈھالنے کے بعد کہو گی تو وہ شاید مان لے! وہ راتوں کو اٹھ کر تکلیفوں کا شکار ہوتا ہے! اسے خواب بہت تنگ کرتے ہیں۔ اسے بےجان چیزوں میں بابا کا عکس دکھتا ہے اور وہ ڈر جاتا ہے! بابا ایسے تو نہیں تھے جیسے اسے نظر آتے ہیں! مثال کے طور پر اگر میں تمہیں اچھا سمجھوں گا تو تم میری سوچوں میں اچھی آؤ گی! اور تمہیں غلط سمجھوں گا تو میری خیالوں میں بھی غلط ہی آؤ گی! میں اسے بہت جلد ڈائری دینے والا ہوں! تاکہ وہ پڑھے!" 

"آپ چاہتے ہیں میں ان سے محبت بھرے لہجے میں بات کروں؟ ہمدردی کروں؟ محبت کروں؟ اور اپنے اوپر کیا ہوا ان کا ہر ظلم بھول جاؤں؟ اپنے اوپر کیا د۔۔۔۔۔۔" زمان نے جکدی سے اس کی بات کاٹی۔

"کس نے کہا بھول جاؤ؟ آواز اٹھاؤ! ضرور اٹھاؤ! مگر ابھی اٹھانے کا فائدہ نہیں! اسے پیار کی مار مارو شانزہ! اس کو تنگ کرو کہ تمہیں گھمانے لے کر جائے! اسے محسوس کرواؤ کے تم محبت کرنے لگی ہو! اسے ٹھیک تم ہی کرسکتی ہو! میں اس کا غصہ صرف قابو کرسکتا ہوِ مگر ٹھیک تم کرسکتی ہو! اور جب اسے یقین ہوجائے تو وہ تم سے ہر بات شیئر کرنے لگے لگا۔ اس سب کے درمیان مین اسے ڈائری پڑھنے کا بھی کہوں گا اور وہ ضرور پڑھے گا! وہ جلد ٹھیک ہوجائے گا! اس کے بعد اس کا گریبان پکڑلینا! الفاظوں سے آگ لگادینا۔ تب وہ واقعی بےبس ہوجائے گا اور کچھ نہیں کرپائے گا! وہ تمہارے آگے کمزور ہوجائے گا اور اگر جانا چاہو تو۔۔۔۔۔" آگے کے الفاظ زمان کے لیے ادا کرنا مشکل ہورہا تھا۔ 

"چلے جانا" بلآخر کہہ ہی دیا۔ 

شانزہ نے اس کی بات غور سے سنی تھی۔ 

"کیا یہ سب کام کرے گا؟" 

"ہاں! اس سے وہ ٹھیک بھی ہوجائے گا! مجھے اس کے لئے دکھ ہے لیکن میں ایک لڑکی پر ظلم ہوتا بھی نہیں دیکھ سکتا! وہ ٹھیک ہوجائے گا مگر تمہارے جانے کے بعد ٹوٹ بھی جائے گا! تم جانا چاہو تو جاسکتی ہو! یہ زندگی تمہاری ہے!" 

شانزہ کو امان کے لئے تھوڑا اچھا بھی لگا کہ وہ ٹھیک ہوجائیں گے!

"میں جارہی ہوں پھر! انہیں تنگ کرنے" وہ مسکرا کر کہتی ہوئی کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ 

"ابھی؟ اس وقت؟" وہ قدرے حیران ہوا۔ زمان نے وقت دیکھا رات کے تین بج ریے تھے۔

"جی زمان بھائی" زمان کے لبوں ہر مسکراہٹ رینگی اور انگرائی لیتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

*-------------------------------------------------------*

اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی لائیٹس جلائیں۔ وہ اوندھا منہ تکیہ منہ پر رکھے گہری نیند میں تھا۔ شانزہ نے ہلکا سا تکیہ اوپر کیا۔ سوتے ہوئے وہ کسی معصوم بچے کی مانند لگ رہا تھا۔ شانزہ کو اپنی غلطی کا پھر احساس ہوا۔ اس نے اپنے لب کچلے۔ 

ذرا ذرا ڈر بھی لگ رہا تھا لیکن اسے یقین تھا کہ وہ اسے کچھ نہیں کہہ سکتا! 

"امان" اس نے امان کے بازو سے ہلایا مگر وہ گہری نیند میں تھا۔ شانزہ نے ہمت نہیں چھوڑی اور اسے اٹھانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد امان نے کسمسا کر آنکھ کھولی۔ آنکھ کے کھلتے ہی اسے شانزہ کا چہرہ نظر آیا تو وہ چونک اٹھا۔ 

"تم؟" لہجے میں صاف بےیقینی تھی۔ 

"جی میں" وہ اس کے قریب بستر پر بیٹھ گئی۔ وہ اب تک شاک تھا۔ 

"مجھے جانا ہے گھومنے" امان کو لگا اسے سننے میں غلطی ہوگئی ہے۔ 

"کیا کہا؟" 

"مجھے جانا ہے گھومنے!" وہ ضدی لہجے میں بولی۔ امان متحیر ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"تت۔تم ٹھیک ہو؟" اس کا ماتھا چیک کیا جسے شانزہ نے جھٹک دیا۔ 

"مجھے جانا یے باہر! لانگ ڈرائیو پر! مجھے لے کر چلیں! سمندر دیکھنے چلتے ہیں اٹھیں" شانزہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔ 

"شانزہ وقت دیکھو بہت رات ہورہی ہے" وہ اب بھی بےیقین تھا۔ 

"مجھے نہیں پتا! آپ کو مجھے لے کر جانا ہی پڑے گا!" 

"میں تمہیں لے کر گیا تھا لیکن۔۔۔۔" اس نے رنج و دکھ کی کیفیت سے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔ 

"ہاں لیکن مجھے ابھی جانا ہے امان! اگر آپ لے کر نہیں گئے تو میں ناراض ہوجاؤں گی!"اس نے امان کا ہاتھ ہر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا۔ امان کو لگا وہ یہ سب خواب دیکھ رہا ہے۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا۔ یہ سب حقیقت میں ممکن نہیں تھا پھر کیسے؟ ایک رات اسے کیسے تبدیل کرگئی؟

"مجھے نہیں لے کر  جائیں گے؟"  آنکھوں میں چمکتے دو جگنو کے ساتھ کہتی وہ امان کا دل لوٹ گئی۔ 

"جاؤ دو شالیں نکالو وارڈروب سے اور گاڑی کی چابی لادو مجھے" وہ خوشی سے چیخ پڑی اور وہ اسے دیکھ کر مسکراتا رہا۔

*--------------------------------------------------------*

"یہاں بہت ٹھنڈ یے نا امان؟" وہ سردی سے ٹھٹھرتی ہوئی بول رہی تھی۔ 

"شال صحیح سے اوڑھو تاکہ ٹھنڈ نہ لگے" وہ اس کی شال اس کے گرد پھیلاتا ہوا بولا۔ 

"ٹھیک ہی تو لیکن یہاں تو بہت سردی ہے! لگتا ہے شال سے کام نہیں چلنے والا" وہ نفی میں سرہلاتی بولی۔ امان نے اسے یوں ٹھٹھرتے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور اپنی شال اتار کر اس کے گرد پھیلادی۔

"کیا کررہے ہیں امان یہ آپ کی شال کے! آپ کو ٹھنڈ لگ جائے گی!" وہ شال اتارنے لگی مگر امان نے سختی سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ 

"کیا کررہے ہیں یہ" وہ اس کی آنکھوں میں جاگتی اس کی کیفیت سمجھنے لگی۔

"تمہیں سردی لگ جائے گی شانزہ! میری فکر مت کرو!" 

"میرا ہاتھ چھوڑیں مجھے شال اتارنے دیں آپ بیمار ہوجائیں گے امان" وہ اپنے ہاتھ چھڑانے لگی جسے امان نے مضبوطی پکڑ رکھا تھا۔

"نہیں میں نہیں چھوڑوں گا! بس ایسی کھڑی رہو اور ویسے بھی مجھے ذیادہ سردی نہیں لگ رہی ہے" شانزہ کی آنکھیں دیکھ کر وہ اسے یقین دلارہا تھا۔ شانزہ اسے شاک ہوئی دیکھ رہی تھی۔ اس نے اثبات میں سرہلایا تو مسکرا کر امان نے اس کے ہاتھوں سے گرفت ڈھیلی کردی۔

"یہ کتنا خوبصورت ہے نا امان؟ وہ دیکھو  سورج ابھررہا ہے۔۔۔" وہ بلکل سامنے ابھرتے سورج کو دیکھ رہی تھی جو آہستہ آہستہ اپنی شکل دکھا رہا تھا۔ 

"ابھرہا ہے دل میں یہ خدشہ لے کر کہ اسے اب غروب بھی ہونا ہے" وہ گہری نظروں سے سامنے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا 

"ہر عروج کو زوال میسر ہے امان" 

"صحیح کہتی ہو! مگر مجھے لگ رہا ہے میں زوال سے عروج پر جارہا ہوں! میری بیوی مجھے لفٹ کروانے لگی ہے" امان نے شرارت کی۔ شانزہ کھل کر ہنسی۔ 

"تو اس بیوی کی قدر کریں" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اس کی کندھے سے سر ٹکا گئی۔ 

"وہ تو میں بہت کرتا ہوں" اس کی پیشانی کو چوم اس کی زلفیں پیچھے کیں۔ شانزہ سرخ ہوگئی۔ 

"میری زندگی ایک رات میں تبدیل ہوجائے گی مجھے اس کا علم نہیں تھا" وہ حیران تھا!اب تک!۔

شانزی نے اس دیکھا اور مسکرادی۔ 

"شانزہ کیسے؟" اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔ سورج کی طرف شانزہ کی پیٹھ ہوگئی۔ 

"مجھے نہیں معلوم! میں نے ٹھیک نہیں کیا نہ کل؟ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا" چہرے پر دکھ واضح تھا۔ 

"کوئی بات نہیں امان کی جان! کچھ نہیں ہوتا۔ تم امان کی بیوی ہو تم پر یہ شوہر سے معافی تلافی جچتی نہیں!" امان نے اسے خود کے قریب کرکے سینے سے لگالیا۔ شانزہ کی پلکیں بےاختیار جھک گئیں۔ وہ محبت کرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔ مگر محبت ہورہی تھی۔ محبت ہونے کا مطلب قطعی یہ نہیں تھا کہ ماضی بھلا گئی۔۔۔۔

"شانزہ آسمان پر پھیلتی شفق دیکھو" امانے نے آسمان کی جانب اشارہ کیا۔ 

"بے حد خوبصورت" وہ خود کو کہنے سے روک نہ پائی۔

"بلکل تمہاری طرح!" امان بھی خود یہ بات کہنے سے روک نہیں پایا تھا۔ شانزہ نے رخ موڑ کر امان کو دیکھا اور کھلکھلا دی۔ وہ الٹے قدموں سے اس سے ایک قدم پیچھے جا کھڑی ہوئی۔ 

"تم پیچھے کیوں کھڑی ہو؟" وہ مڑا۔

"ایسے ہی آپ کے پیچھے کھڑا ہونا اچھا لگا" امان کے لئے ایک خواب سا ہی تھا۔ اس نے اس کا ہاتھ تھاما اور اپنے سے ایک قدم آگے کھڑا کردیا۔ 

"تم میرے آگے کھڑے ہوا کرو! امان کی بیوی اس کے آگے  کھڑے ہوگی زندگی کے ہر میدان میں!" شانزہ نے مڑ کر شوہر کو دیکھا تھا۔ وہ محافظ تھا اس کا! کل وہ اس کے چھوڑے ہوئے قدموں پر قدم رکھ کر چل رہی تھی اور آج امان اپنی بیوی کے چھوڑے ہوئے قدموں کے پیچھے چل رہا تھا۔ یہ کیا تھی؟ ایک لفظ محبت! اپنی زندگی یہیں تمام کی!

"گھر  چلنا ہے یا یہاں اپنا گھر بنالیں؟" وہ آنکھ مارتا ہوا اب اسے چھیڑ رہا تھا۔ 

"میرے دل چاہ رہا ہے کہ یہیں رہ جاؤں! اس منظر میں کھو جاؤں" وہ جھومتے ہوئے بولی۔  امان نے جو لفظ غور سے سنا وہ "کھونا" تھا۔ رنگت فق ہوگئی اور تیزی سے اس کے قریب آیا۔ 

"آؤ شانزہ گھر چلتے ہیں" اس کی پیشانی چومتا ہوا بولا اور اس کا تھام کر مڑنے لگا۔ 

"ہم کل بھی آئیں گے؟ ٹھیک ہے؟" اس کا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے وہ دھیرے سے بولی۔

"کل؟" 

"ہاں اگر آپ نے میری بات مانی تو ہی جاؤں گی میں ورنہ میں یہیں کھڑی رہوں گی" وہ سینے پر ہاتھ باندھ کر بچوں کی طرح کھڑی ضد کرنے لگی۔

"تم جہاں جہاں بولو گی ہم وہاں وہاں جائیں گے  مسز شانزہ" اس نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔۔ ڈھیر ساری محبت اس کی آنکھوں میں صرف اس کے لئے تھی۔ اتنی محبت تھی تو یقیناً اعتبار بھی ہوگا۔ ایک دم اسے اس کا اعتبار کا آزمانے کا خیال آیا۔ وہ اس کے قریب آئی اور پیار سے دیکھنے لگی۔

"امان؟" 

"جی"

"آج شاپنگ کرنا چاتی ہوں میں" اس کے کندھے کو کے ہاتھوں سے جھاڑتے ہوئے بولی۔ 

"او ہو آج شاید ممکن نہیں! آج میٹنگ ہے میری" وہ منہ لٹکا کر بولا۔ 

"مگر مجھے آج جانا ہے نا! میں خود چلی جاؤ پلیزز" وہ معصومیت سے اجازت مانگنے لگی۔

"نہیں اکیلے نہیں" وہ تیزی سے نفی میں سر ہلانے لگا۔ 

"آپ کو لگتا ہے میں بھاگ جاؤں گی؟ آپ کو اب بھی لگتا ہے؟" 

امان نے نفی میں سرہلایا۔ 

"نہیں شانزہ! اب کیوں لگے گا مجھے یہ ڈر!؟" مسکراتے ہوئے اس کے رخسار چھوئے۔

"یا مجھ پر اعتبار نہیں ہے؟ محبت کی تو پہلی شرط ہی اعتبار ہوتی ہے نا؟" شانزہ کا دل یہ کہتے ہوئے سکڑا تھا یعنی وہ بھی اس پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔

"مجھے تم پر اعتبار ہے شانزہ۔۔۔ میں اس لئے نہیں جانے دینا چاہتا کیونکہ مجھے ڈر لگتا کہ تمہیں کچھ ہو نہ جائے! تمہیں نقصان نہ پہنچے" شانزہ نے اس کے چہرے پر خوف کی لکیریں دیکھی تھیں۔ وہ اس پر اعتبار کرتا تھا مگر اس کی طرف سے خوفزدہ بھی تھا  کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچادے! وہ اس کا شوہر تھا! یہ سب اسی پر ہی جچتا تھا۔ سورج آدھے سے ذیادہ ابھر گیا تھا۔ روشنی ہر سمت پھیل چکی تھی۔ 

"کچھ نہیں ہوگا مجھے امان! میں پہلے بھی جاتی تھی پلیزز! ڈرائیور کے ساتھ ہی جاؤں گی! مجھے جانے دیں۔۔۔" آنکھوں میں دو آنسو بھی آگئے تو وہ ہار مان گیا۔ 

"ٹھیک ہے! مگر جانے سے پہلے مجھے کال کر کے اطلاع دو گی کہ تم جارہی ہو اور جگہ کا نام بھی بتاؤ گی! ٹھیک ہے" اس کے دونوں گال اس نے بہت پیار سے کھینچے۔۔ وہ خوش ہوگئی بلکل بچوں کی طرح! 

"تھینک کیو سو مچ امان! آئیں گھر چلتے آپ کو آفس بھی جانا ہوگا" وہ اس کا ہاتھ تھامتی گاڑی کی جانب بڑھنے لگی اور اس کے پیچھے اسے پیار سے تکتا ہوا آنے لگا۔ زندگی اس کی یکدم بدل چکی تھی! اور اب اسے زندگی سے بھی محبت ہورہی تھی۔

*--------------------------------------------------------*

"میں جارہی ہوں یونیورسٹی!" نفیسہ کو سر تا پیر دیکھتے ہوئے اطلاع دے کر وہ ناصر صاحب کے ساتھ باہر نکل گئی۔ 

"ہاں رمشا جاؤ اوپر فاطمہ سے بھی پوچھ آؤ کہ اگر اسے جانا ہے کالج تو میں اسے بھی چھوڑدوں! بیچاری اکیلی کہاں جائے گی" ناصر صاحب رمشا کو تاکید کی۔ 

"یہ پیشکش اپنی بیٹی کو بھی دیدیتے جو کبھی رکشہ یا کالج بس چھوٹ جانے ہر بسوں کے دھکے کھاتی تھی۔ وہ بھی تو اکیلے جاتی تھی جب جب میں چھٹی کرتی تھی۔ میں بھی جاسکتی ہوں"۔ وہ جو بیگ تھامے سیڑھیاں اتررہی تھی ان کی بات ہر طنز کرنے لگیم

"کتنی بدتمیز ہوگئی ہو تم؟ بدلحاظ" وہ غصہ سے لال ہوئے۔ وہ خاموشی سے پاس سے گزر کر باہر نکل گئی۔ رمشا کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ کیونکہ ابھی اسے فاطمہ کو جال میں پھنسانا تھا۔ اسے عدیل کا ہونا تھا اس سب فاطمہ سے بڑھ کر اس کی مدد کوئی نہیں کرسکتا تھا۔

*--------------------------------------------------------*

وہ نیند لے کر ابھی اٹھی تھی۔ کمرے میں کوئی نہیں تھا! امان آفس جاچکا تھا۔ موبائل کھول کر وقت دیکھا تو دوپہر کے تین بج رہے تھے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ 

"مجھے شاپنگ پر جانا ہے" اسے جھٹکے یاد آیا اور وہ وارڈروب کی جانب بھاگی۔ 

"یا خدایا۔۔۔" وارڈ روب سے کپڑے نکالے اور ساتھ امان کی دی ہوئی چادر بھی۔ شکر تھا کہ کپڑے پریس تھے۔ وہ کپڑے ہاتھ میں تھامے باتھ روم بھاگی۔ 

پندرہ منٹ بعد شاور لے کر نکلی اور جلدی سے بالوں کو تولیہ میں لپیٹے۔ وارڈ روب کی دراز میں سے ٹاپس اور پتلی سی چین نکال کر گلے میں پہنی۔  ڈرائیر سے بال خشک کئے۔ وارڈ روب سے سینڈل نکال کر جلدی جلدی پہنی  اور جب سنگھار میز کے سامنے کھڑی ہوئی تو یاد آیا کہ سنگھار کے لئے آئینہ نہیں لگا ہوا۔ 

اندازے سے فیس پاؤڈر ہلکا سا لگایا اور لپ اسٹک لگاتی چادر کو اچھی طرح پھیلا کر باہر نکلی۔۔۔

اتنی جلدی میں تھی کہ موبائل اور پرس لینا بھول گئی۔ یاد آنے ہر ماتھے پر ہاتھ مار کر کمرے سے موبائل اور پرس لینا امان کو کال ملائی۔ پہلی ہی بیل پر امان نے کال اٹھالی۔

"ہیلو مسز" 

"ہیلو امان! میں جارہی ہوں شاپنگ پر ٹھیک ہے اور میں مال کا نام ایس ایم ایس کردیتی ہوں! ٹھیک ہے؟" 

"بیوی جلدی میں لگ رہی ہے" وہ دوسری جانب ہنس رہا تھا۔ 

"ہاں میں بہت دیر سے اٹھی ہوں! اب میں جارہی ہوں! زمان بھائی بھی آفس میں ہیں کیا؟" 

"جی ہاں اور ابھی میٹنگ چل رہی ہے تو سب کے ساتھ بیٹھا ہے" 

"میٹنگ چل رہی ہے؟ یا اللہ! سوری امان میں نے ڈسٹرب کردیا" اسے افسوس ہوا۔

"تمہاری وجہ سے امان شاہ ڈسٹرب کبھی نہیں ہوسکتا! دھیان سے جانا اور کوئی مسلہ ہو تو مجھے کال کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرنا! " 

"ٹھیک ہے ٹھیک ہے اللہ حافظ" وہ فون تھامے باہر کی طرف بھاگ رہی تھی۔ 

"اور ہاں سنو سنو! اپنی تصویر بھی بھیجنا کیسی لگ رہی!" شانزہ سرخ ہوئی۔

"استغفراللہ! ٹھیک یے ٹھیک ہے اللہ حافظ" اس نے کال کاٹ کر موبائل پرس میں رکھا۔

"شہنواز لالا ڈرائیور سے کہیں گاڑی نکال لے" اس نے چادر پہن کر سر تا پیر خود کو مکمل ڈھانپا ہوا تھا۔ 

"اچھا بی بی۔۔۔۔ اوئے سلیم گاڑی نکال بیگم صاحبہ کو جانا یے" شہنواز نے سلیم کو آواز لگائی تو وہ اثبات میں سرہلاتا چابی لیتے ہوئے آیا۔ 

"حیرت ہے آپ نے اس بار مجھے روکا نہیں شنہواز لالا" وہ ہنس کر بولی۔

"کیونکہ دادا بتا کر گئے تھے" وہ مسکرا کر بولا تو وہ بھی ہنس دی۔

"کچھ مسلہ ہو تو آپ گھر کے ٹیلیفون ہر کال کرلے گا" شہنواز نے اسے تاکید کی

"جی ضرور! اور ہاں شہنواز لالا وہ کمرے میں آئینہ تو لگوادیں بھائی ہونگے! اب تک نہیں لگا" وہ کہتی ساتھ گاڑی میں پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھی۔ شہنواز اس کے اس انداز پر زور سے ہنسا۔

"جو آپ کا حکم! اب آپ کے آنے سے پہلے ہی یہ آئینہ لگ جائے گا شانزہ بی بی" وہ ادب سے مسکرا کر بولا تو شانزہ کے چہرے ہر تبسم پھیلا۔ سلیم نے گاڑی اسٹارٹ کی۔ شہنواز نے قریب آکر درازہ مضبوطی سے بند کیا۔ 

"اللہ حافظ" وہ زور زور سے شہنواز کو ہاتھ ہلانے لگی۔ شہنواز کا قہقہ گونجا اور وہ بھی جواباً ہاتھ ہلانے لگا۔ 

"یا خدایا یہ معصوم سی بچی!" وہ دل دل میں خود سے بولا اور ہنس دیا۔

*-------------------------------------------------------*

۵ بجنے والے تھے۔ زمان وقت دیکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"امان میں ذرا باہر سے پیٹ کی آگ بجھا کر آرہا ہوں!" امان نے اسے گھورا۔ 

"تین گھنٹے پہلے ہی بجھائی تھی!" 

"تو وہ تو ناشتہ تھا نا اب کھانا کھاؤں گا!" وہ دانت دکھاتے ہوئے بولا۔

"۹ بجے ناشتہ پھر آفس آکر دو بجے ناشتہ پھر اب کھانا کھاؤ گے؟" بنھیوں اچکا کر پوچھا۔ 

"جی بلکل! یہ میٹنگ میرے بغیر بھی اچھی چل رہی ہے خیر میں چلتا ہوں! ایک آدھ گھنٹے تک آجاؤں گا" زبردستی اس کا  ہاتھ ملاتا وہ باہر نکل گیا۔ 

*--------------------------------------------------------* 

اس نے ایک ہی دکان سے ڈھیر ساری چیزیں خریدیں۔ آج پہلی بار اسے جو پسند آیا وہ اسے ہاتھ میں رکھی ٹوکری میں ڈالتی رہی۔ کچھ پرنٹڈ  جوڑے اور کاسمیٹیکس لئے۔ اسے لال رنگ کی لپ اسٹک کا ایک شیڈ بےحد پسند آیا۔ اس نے وہ اٹھا کر اپنی ٹوکری میں ڈال دیا۔ یہ دکان اتنی بڑی تھی کہ ضرورت کی سب چیزیں وہ یہاں سے لے سکتی تھی۔ اسے مردوں کے حصہ میں موجود ایک واچ بے حد پسند آئی۔ اس نے وہ امان کے لئے خرید لی۔ کچھ پرفیومز امان اور اپنے لئے اٹھائے اور کاؤنٹر پر آگئی۔ پیسے دینے کے لیے پرس کھولا تو یاد آیا کہ امان سے پیسے تو لئے ہی نہیں تھے۔ اس کی جان نکل گئی۔ ایکسکیوز کرتی وہ سائیڈ پر آئی اور امان کو کال ملائی۔۔

"امان پیسے تو دیئے ہی نہیں آپ نے! میں لینا بھول گئی پیسے" وہ روہانسی ہوگئی۔ 

"او مائی گاڈ اب کیا ہوگا چچچچ" امان نے افسوس کیا۔

"ایسا مت کہیں بہت بےعزتی ہوگی ورنہ! میں کیا کروں امان!" وہ رونا شروع ہوگئی۔

"شانزہ رومت, پرس کھولو اور کریڈٹ نکال لو میری جان! میں نے صبح آفس جانے سے پہلے ہی تمہارے ہینڈ بیگ میں ڈالدیا تھا اپنا کریڈٹ کارڈ" وہ شرارتی انداز میں کہتا ہنسا۔

"افو ہو! مجھے ڈرا دیا۔۔ میرا دل حلق میں آگیا۔۔۔" اس نے دل تھاما۔

"ارے ارے آرام سے شانزہ امان! کچھ ہو نہ جائے آپ کو" 

"اچھا جی سنیں میں جارہی کاؤنٹر میں کریڈٹ دینے۔۔۔ اللہ حافظ فون رکھ رہی ہوں" کہتے ساتھ فون رکھا اور کاؤنٹر میں پیسے جمع کروا کر باہر آگئی۔ جتنا سامان اس نے خرید لیا تھا اس کے بعد اور کی گنجائش نہیں تھی۔ ایک ہاتھ سے موبائل پر کچھ ٹائپ کرتے دوسرے ہاتھ میں سامان تھامے وہ مال کے واشروم والی سائیڈ سے نکل رہی تھی۔ یہاں رش نہیں تھا۔ ایک دو لوگ تھے جو جا چکے تھے۔ بس ایک لڑکا جو سامنے کھڑا تھا اس کی شانزہ کی طرف پیٹھ تھی۔ 

"ایکسکیوزمی۔۔ ٹیک آ سائیڈ پلیز!" شانزہ نے اس لڑکے کو کہا تو وہ پیچھے مڑا۔۔ اسے دیکھ کر شانزہ کی سانسیں تھم گئیں۔ رنگت تبدیل ہونے وقت بھی نہیں لگا۔ وہ سامنے کھڑا شخص اسے خونخوار نظروں سے دیکھ رہا تھا، حقارت بھری نظروں سے 

"او ہو شانزہ امان کھڑی ہیں یہاں! کیسی ہیں محترمہ آپ کسی کی زندگی اجاڑ کر؟ ہاتھ میں تھامے بیگز دیکھ کر لگ رہا ہے بہت ساری شاپنگ بھی کی ہے" اس کے تھیلوں سے بھرے ہاتھ کو کٹیلی نظروں سے دیکھا۔ 

"تمہاری ہمت کیسی ہوئی میرے ساتھ محبت کا ڈھونگ رچانے کی؟ کسی اور کے ساتھ گلچھڑے اڑاتی پھر رہی تھی اور اب اس سے شادی بھی کرلی واہ! یو نو واٹ مجھے اب سمجھ آئی۔۔۔ وہی میں بولوں کہ کوئی لڑکی اس طرح بیوفائی تو نہیں کر سکتی۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنی لالچی ہوگی کہ صرف پیسوں کے لئے کسی مرد کے ساتھ چکر چلاؤ گی" چٹاخ کی آواز شانزہ کے چہرے پر عدیل کا ہاتھ پڑنے سے آئی تھی۔ شانزہ ششدر ہوئی۔

"بدکردار شانزہ!" یہ لفظ اسے چھلنی کرگئے۔ اس کے آنسو بہنے لگے۔ وہ اس سے جان چھڑاکے بھاگی۔۔ بیگ ہاتھ سے چھوٹ گئے اور پرس وہیں پر گرگیا۔ رخسار ہر ہاتھ رکھے وہ اندھا دھن بھاگ رہی تھی۔  وہاں پر موجود لوگ حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔ وہ کسی سے بری طرح ٹکرائی تھی۔ وہ جو کوئی بھی ہڑبڑا کر پیچھے مڑا۔ شانزہ اس سے ٹکرا کر اس کے قدموں میں گری تھی۔ 

"تم؟ کیا ہوا یے؟؟؟ رو کیوں رہی ہو شانزہ اٹھو" زمان نے اسے پکڑ کر اٹھایا۔ 

"زمان بھائی" وہ چیخ چیخ کر رونے لگی۔ 

"کیا ہوا کچھ بتاؤ۔۔ رکو تم۔۔ تم اپنے چہرے پر کیوں ہاتھ رکھی ہوئی ہو؟" اس نے کہہ کر اس کا ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹایا۔  پانچ انگلیوں کے نقش اسکے چہرے پر چھپے ہوئے تھے۔

"کس نے مارا ہے بتاؤ" وہ غصے میں دانت پیس کر بولا۔

"ع۔عدیل" وہ ہکلائی۔ لفظ بےترتیب ہوئے۔ سانسیں ہچکیوں کی وجہ سے رکنے لگی تھیں۔ یکدم زمان کا چہرہ غضب ناک ہوا تھا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہ اسے لے کر آگے چلنے لگا جہاں سے شانزہ آئی تھی۔ عدیل اب بھی وہی کھڑا تھا۔ 

"ہاتھ کیسے لگایا شانزہ کو" اس کا گریبان پکڑتے ہوئے وہ چیخا تھا۔ 

"او تو امان صاحب آئیں ہیں" وہ استہزیہ انداز میں بولا۔ 

"میں زمان ہوں! اس کا جڑواں بھائی! شکر ادا کرنا چاہئے کہ امان نہیں ہے ورنہ تو زمین سے دس فٹ نیچے ہوتا!"

"او ہو تو اس کا ایک بھائی بھی ہے" لہجے میں طنز نظر آرہا تھا۔ 

"میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا" وہ دھاڑا  تھا اور پیچھے کھڑی شانزہ سسکتے ہوئے زمان کو روک رہی تھی 

"یہ لڑکی میری منگیتر تھی!" 

"یہ لڑکی میرے بھائی کی بیوی ہے" دانت پیس کر اس کا کالر کھینچا تھا۔ 

"یہ پہلے میری تھی!" عدیل نے دانے پیس کر کہا.

"یہ کبھی بھی تیری نہیں تھی۔میرے بھائی نے نکاح کیا کے اس سے! تیرا نکاح ہوا تھا شانزہ سے جو کہہ رہا ہے تیری تھی؟ وہ امان سے پہلے اپنے باپ کی  تھی! تو منگیتر تھا! اور منگیتر کوئی حق نہیں رکھتا جب تک نکاح نہ ہوجائے! اور تیرا نکاح ہوا نہیں! وہ پہلے اپنے باپ کی عزت تھی اور اب میرے بھائی کی عزت ہے! ہاتھ کیسے لگایا میری بہن کو" وہ غرایا۔ 

"ہاں مارا ہے میں نے وہ بھی اپنے دائیں ہاتھ سے" وہ زمان کا ظرف آزمارہا تھا۔ زمان کو تو گویا آگ لگ گئی۔ 

"لگتا یے تو مار بھول گیا ہے! ہمارے آدمیوں نے جس طرح کوٹا تھا نا تجھے سب بھول گیا ہے تو! میرا دل چاہ رہا ہے تجھے یہیں پر مار مار کر ختم لیکن نہیں میں نہیں ماروں گا" شانزہ منہ پر ہاتھ رکھ رونے لگی۔ 

" شانزہ مارے گی" اس نے کہا اور پیچھے ہٹ کر شانزہ کو آگے کیا۔

"مارو اسے" شانزہ ہکا بکا کھڑی زمان کو دیکھنے لگی جو عدیل کو مارنے کا کہہ رہا تھا۔

"زمان بھائی۔۔۔" وہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔ "گھر چلیں چھوڑدیں" 

"کیا چھوڑدیں!؟؟؟؟؟ اگر تم نے نہیں مارا شانزہ تو میں ماروں گا اسے! اور امان کو بھی اطلاع دیدوں گا۔ میری بہن پر ہاتھ اٹھانے والا بچ کر تو نہیں جائے گا!" اس کے تیور خطرناک حد بگڑے ہوئے تھے۔  وہ سہم گئی۔

"جس گال پر مارا تھا اسی گال پر مارو! ابھی"وہ عدیل کو پکڑے ہوا تھا۔

مگر عدیل جانتا تھا وہ ایسا نہیں کرسکتی۔ شانزہ نے ایک نظر ان کو دیکھا اور ایک نظر عدیل کو۔۔۔

اسے پانچ منٹ پہلے والا عدیل کا تپھڑ اپنے چہرے پر محسوس ہوا۔۔۔ اس کا الزام محسوس ہوا اس کی سانسیں غصے سے پھولنے لگی۔ اس کا ہاتھ اٹھا اور عدیل کے چہرے پر نشان چھوڑ گیا۔ ایک ٹھنڈ سی اترتی محسوس کی شانزہ نے اپنے دل میں۔۔۔ اب وہ واقعی امان شاہ کی بیوی بن گئی۔

عدیل بےیقینی سے اسے دیکھنے لگا۔ 

"تم نے مجھے تھپڑ مارا شانزہ؟" عدیل کی آنکھوں میں حیرانی۔ 

"ہاتھ کیسے اٹھا شانزہ امان پر!" وہ اتنی زور سے چیخی کہ مجمع جمع ہوگیا۔ زمان کو تو واقعی شانزہ پر یقین نہ آیا۔

"میں شانزہ ناصر نہیں ہوں! شانزہ امان ہوں اور سامنے والے بندے کو اس کی اوقات دکھانی آتی ہے مجھے! یہ لڑکی سوائے اپنے شوہر کے کسی کے سامنے نگاہیں نہیں جھکاتی۔ اور کیا کہا تھا عدیل جاوید تم نے؟ میں بدکردار ہوں تو کیا تم مرد ہو جو لڑکی پر ہاتھ اٹھا کر اپنی مردانگی دکھا رہے ہو! مجھ پر میرے شوہر نے آج تک ہاتھ نہیں اٹھایا اور تم سمجھتے ہو میں کسی اور کا ہاتھ خود ہر برداشت کروں گی سوائے اپنے باپ کے؟؟؟ میں کسی اور کا ہاتھ کیسے برداشت کرسکتی ہوں؟ اگر تم مرد ہوتے تو امان شاہ سے پنگا لیتے امان شاہ کی شریکِ حیات سے نہیں! عورت کبھی بھی کمزور نہیں ہوتی عدیل جاوید! عورت کا منہ بند کروانے کی کوشش مت کرنا۔۔۔ اور ہاں مجھے بدکردار کہا تم نے؟ منہ سے میرے لئے بدکردار نکلا کیسے؟" اس نے اپنا ہینڈ بیگ کھینچ کر اسے مارا۔ وہ بےیقین سا اب بھی اپنے چہرے پر ہاتھ رکھ کھڑا تھا۔

"میں کیوں دوں صفائیاں؟ میں مجرم نہیں ہوں! چلیں زمان بھائی! ہمہیں بہت کام بھی ہیں اور مجھے بھوک بھی لگی ہے! گھر میں کھانا تیار ہے! اور ہاں میرے دلعزیز شوہر کو بھی کال ملادیں کہ وہ بھی ساتھ کھانا کھائیں۔ چھوڑدیں اس کو ہم کتوں کے منہ نہیں لگتے" منہ پھیر کر اسے ایسے دیکھا جیسے گندی سڑی لاش بلکل ویسے جیسے ماضی میں عدیل نے شانزہ کو دیکھا تھا۔ زمان خوشگوار حیرت سے اسے چھوڑ کر دور ہٹا۔ یہ بلکل بے یقینی والی بات تھی۔ زمان نے نیچے ہڑے شاپنگ بیگز کو اٹھایا اور اس کے ساتھ چلنے لگا۔ زہر بھری نظر عدیل پر ڈال کر وہ مڑ گئی۔ 

"بائی دا وے زمان بھائی آپ کا یہاں کیسے آنا ہوا؟" وہ ایسے پوچھ رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔  

"میں تو کھانا کھایا آیا تھا۔۔ سوچا آفس سے قریب ہے یہاں سے کچھ چھوٹا موٹا کھالوں" 

"اوہ اچھا! اور سنیں امان کو کال نہ ملادے گا خدا کا واسطہ ہے" اس کی بات پر زمان زور سے ہنسا۔۔۔

"ہائے میری بہنا کیا کام کر دکھایا۔ پراؤڈ آف یو شانزہ باجی" وہ ہنسا تو وہ بھی کھلکھلادی۔ 

وہ دونوں پارکنگ ایریا میں آگئے۔ سلیم سامنے کھڑا تھا گاڑی کے پاس۔

"میں آفس جارہا ہوں! اور دعا کرنا میرے منہ سے کچھ نہ نکلے! اپنے منہ پر میرا بھی بس نہیں۔۔۔ اللہ حافظ" اسے گاڑی کے پاس چھوڑ کر وہ اپنی راہ ہولیا۔ 

اب تو شانزہ کو بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ سب اس نے کیا کیسے۔۔۔ ایک خواشگوار حیرت نے اسے گھیرے رکھا تھا اور وہ سارے راستے اس واقعے کو سوچنے والی تھی

گھر داخل ساتھ ہی اس نے سلام کیا تھا۔  

"وعلیکم سلام! آئینہ لگادیا ہے میں نے" شہنواز نے چھوٹتے ہی خبر دی تھی۔ وہ بے ساختہ ہنس دی۔ 

"جزاک اللہ لالا" اس کے یوں کہنے پر شہنواز کے لبوں پر مسکراہٹ رینگی۔ وہ مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ ہلاتے کمرے میں آگئی۔ شاپنگ بیگز پستر پر رکھ دیئے۔ مغرب کی آذانیں ہوچکی تھیں۔ وہ بستر پر گرنے کے انداز میں لیٹی اور آج کے دن کو سوچنے لگی۔ کہاں سے آئی اس میں اتنی ہمت؟ نہیں یہ سوال غلط ہے! بلکہ سوال تو یہ ہونا چاہئے کہ کہاں سے "ملی" اسے اتنی ہمت! اپنے بھائی سے! زمان سے! وہ ادھر اس کے پاس ہی موجود تھا۔ اس نے اتنی ہمت کرکے عدیل پر ہاتھ اٹھایا مگر ڈر نہیں لگا کیونکہ وہ جانتی تھی اس کا بھائی اسے کچھ ہونے نہیں دے گا۔ وقت ذیادہ نہیں گزارا لیکن ایک یقین سا تھا اس پر۔ اسے اچھا لگا اپنے بھائی کا عدیل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوجانا اور دھاڑ کے پوچھنا کہ "میری بہن کو ہاتھ کیسے لگایا؟" اسے یہ بھی اچھا لگا تھا کہ زمان اس لئے نہیں چیخا تھا کہ وہ اس کی بھائی کی بیوی تھی بلکہ اس لئے چیخا تھا کہ وہ اسے دل سے بہن سمجھتا تھا۔ اس نے یہ نہیں کہا کہ "میری بھابھی پر ہاتھ کیسے اٹھایا" اس نے کہا "میری بہن پر ہاتھ کیسے اٹھایا"۔ شانزہ نے اس وقت اسے محبت بھرے جذبات سے دیکھا تھا جو ایک بھائی کے لئے بہن کے دل میں ہوتے ہیں! وہ اس کا خون نہیں تھا مگر اس کے لئے لڑرہا تھا۔ وہ اسے کچھ ہفتوں پہلے تک جانتی تک نہیں تھی اور نہ وہ! مگر وہ لڑرہا تھا اور ایک سامنے کھڑا شخص تھا جو بچپن سے اس کے ساتھ تھا! اس نے ایک سیکنڈ نہیں لگایا تھا ہاتھ اس پر اٹھانے میں! اتنے سالوں کا اعتبار عدیل واقعی توڑ بھی چکا تھا اور کھو بھی چکا تھا۔ زمان چاہتا تو اس پر شک کرسکتا تھا کہ ایسا اتفاق کیسے ہوسکتا ہے کہ عدیل اور شانزہ ایک ساتھ، ایک وقت پر اور ایک مال کیسے مل گئے!؟ کبھی اپنے بھی بیگانے ہوجاتے ہیں اور کبھی غیر بھی اپنے ہوجاتے ہیں۔ اسے پہلی بار رونا آیا تھا۔ خوشی سے آنکھیں نم ہوگئی تھیں۔ وہ اس کے لئے اس دم چٹان بن کر کھڑا تھا۔ وہ اپنی قسمت پر ناز کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے نماز بھی پڑھنی تھی۔ وہ وضو کرکے نماز کے لئے کھڑی ہوگئی۔ 

*-------------------------------------------------------*

"ادھر آؤ فاطمہ! کیا بدتمیزی کی ہے تم نے ناصر بھائی سے؟ یہ تربیعت کی ہے میں نے تمہاری؟" فاطمہ نے قریب آکر چائے کی دو پیالیاں رکھیں۔ 

"ماما میں نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا" اس نے چائے میں چینی ڈالی اور صبور کی جانب بڑھائی۔ 

"ناصر صاحب نے بتایا کہ تم نے کیا کہا تھا اور کتنی بدتمیزی کی!"انہوں نے سختی سے کہہ کر اس کے ہاتھ سے چائے کا کپ تھاما۔ 

"صرف کہا تھا! خیر جو بھی تھا غلط کیا میں نے! میں معافی مانگ لوں گی ان سے میں وعدہ کرتی ہوں!" فاطمہ نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا. صبور نے اثبات میں سرہلایا۔ 

"کوئی بات نہیں فاطمہ! تم معافی مانگ لینا۔ وہ تمہیں معاف کردیں گے" رمشا نے کمرے داخل ہوتے ساتھ تمام گفتگو سن لی تھی۔ فاطمہ نے نخوت سے منہ پھیرا۔ 

"آؤ رمشا بیٹھو! چائے پیو گی؟" انہوں رمشا کو اپنے قریب بٹھایا۔ 

"نہیں میں بس اس چائے کے کپ میں سے ہی تھوڑی پی لیتی ہوں" اس نے ٹرے میں رکھا کپ اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ 

"یہ میری چائے ہے" فاطمہ نے کپ فوراً سے تھام لیا۔رمشا نے حیرانی سے اسے دیکھا۔

"اور میں کسی کا جھوٹا نہیں پیتی" فاطمہ نے کہہ کر نگاہیں پھیرلیں۔ صبور کو فاطمہ پر بےاختیار غصہ آیا۔ 

"رمشا تم میرے کپ سے پی لو" انہوں نے اس کی شرمندگی مٹانی چاہی۔ 

"نہیں تائی! میں ٹھیک ہوں اور ویسے بھی چائے پی کر ہی آئی ہوں" زبردستی مسکرا کر اس نے صبور کو دیکھا۔ فاطمہ نے کندھے اچکائے۔ 

"میں سوچ رہی ہوں کہ عدیل کے لئے کوئی لڑکی ڈھونڈنا شروع کروں" انہوں نے بات کا آغاز کیا۔ رمشا کی باچھیں کھل گئیں۔ 

"ہیں چچی؟" وہ کھل کر مسکرائی۔ 

"ہاں! لیکن پھر میں نے سوچا کہ جب لڑکی گھر میں موجود ہے تو باہر کیوں ڈھونڈا جائے" صبور نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر پیار کیا۔ رمشا کو لگا اس کی خواہش اور خواب پورے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے شرم سے نگاہیں جھکائیں۔ 

"کس نے کہا میں اس سے شادی کروں گا؟؟ میری زندگی میں کوئی بھی لڑکی آسکتی یے سوائے رمشا عرفان کے!" عدیل جو ابھی ابھی آیا تھا ان کی گفتگو سن چکا تھا۔ ہیلمٹ سے زور سے زمین پر پٹخ کر دانت پیس کر جواب دیا۔ صبور ششدر رہ گئیں اور رمشا ہونقوں کی طرح انہیں دیکھنے لگی۔

"عد۔دیل" اس نے کانپتے لبوں سے اس کا نام لیا۔

"کیا عدیل؟ میں نے تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ تم مجھے پسند نہیں ہو! اس لئے یہ فضول خواب دیکھنا بند کرو جاؤ یہاں سے! دفع ہوجاؤ! تمہیں کیا لگتا ہے تم سے شادی کروں گا؟ شانزہ نے جو کیا میرا ساتھ اس کے بعد تم سے شادی کروں گا؟ نہ اس سے پہلے کرتا اور نہ اس کے بعد! بےوقوف نہیں ہوں میں!" زہر بھری نگاہوں سے کہتے ہوئے ہوئے کمرے میں چلا گیا۔ پیچھے کھڑی رمشا صوفے ہر بیٹھتی چلی گئی۔ یہ تو اس کے کسی پلین میں نہیں تھا؟ وہ آج تک جو بھی پلین کرتی رہی ان میں کامیابی ہی اس کا مقدر بنی مگر یہ کیا تھا؟ اس کے حواس جھنجھنا کر رہ گئے۔

*-------------------------------------------------------*

گاڑی کا ہارن بجنے پر وہ خوشی سے چلاتی ہوئی کھڑکی کی طرف آئی جہاں سے گیراج نظر آتا تھا۔ امان اور زمان ساتھ گاڑی سے نکلے تھے دونوں کوٹ میں ملبوس بہت حد تک ایک جیسے لگ رہے تھے۔ اسے امان کو پہچاننے میں سیکنڈز لگے۔ اب اتنی دور سے اسے پہچاننے میں ویسے ہی مشکل ہورہی تھی۔ دونوں ہی بلیک پینٹ کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ زمان نے اسے کھڑکی سے جھاکتا ہوا دیکھا تو مسکرا کر ہاتھ ہلادیا۔ شانزہ نے بھی جواباً مسکرا کر ہاتھ ہلایا۔ زمان ہنستا ہوا اندر چلاگیا جب کہ امان نے گاڑی میں سے فائلز نکال کر گاڑی بند کی اور اوپر شانزہ کو دیکھنے لگا۔ وہ اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ وہ میٹنگ سے بہت تھک کر آیا تھا اور اب شانزہ کی مسکراہٹ سے اس کی ساری تھکن دور ہوگئی تھی۔ شانزہ نے اسے اوپر آنے کا اشارہ کیا۔ امان نے اثبات میں سرہلایا تو اس نے اشارے سے جلدی آنے کو کہا۔ امان نے حیرانی سے "کیوں کیا ہوا؟" کا اشارہ دیا تو شانزہ نے ایک تیز گھوری دے کر اسے جلدی اوپر آنے کو کہا۔ امان نے مسکراہٹ اچھالی اور فائل پکڑ کر اندر آنے لگا۔ چلتے چلتے اوپر پھر سے دیکھا جو پھر سے جلدی آنے کا اشارہ دے رہی تھی۔ امان کے چلنے میں تیزی آئی اور تقریباً بھاگتے ہوئے اوپر پہنچا۔ 

"اسلام علیکم! جی زوجہ؟" پھولی سانسوں سے فائلز سنگھار پر رکھتا ہوا وہ اس کے قریب آیا۔ 

"وعلیکم سلام! مجھےبآپ کو کچھ دکھانا ہے! میں آپ کے لئے کچھ لائی ہوں مال سے" وہ چہک کر بولی۔ 

"میرے لئے؟؟؟؟" وہ حیران ہوا۔ 

"جی" وہ ہاں میں سرہلاتی ہوئی بولی۔ 

"مجھے بہت خوشی ہوئی" اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔

"ہاتھ آگے کریں" شانزہ نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے کرکے اس میں کچھ چھپایا ہوا تھا۔ امان نے مسکرا کر ہاتھ آگے کیا۔ شانزہ نے اسکے ہاتھ میں ایک بہت خوبصورت پیک ہوئی واچ رکھی۔ 

"واؤ۔۔زبردست۔ یہ کتنی خوبصورت ہے!" وہ واچ کو دیکھنے لگا۔ وہ جتنی لگن سے اس واچ کو دیکھ رہا تھا وہ واچ اتنی بھی خوبصورت نہیں تھی جسے دیکھ کر وہ آبدیدہ ہوجائے۔

"آپ رو کیوں رہے ہیں" وہ اسں کی نم آنکھوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔ وہ خوش تھا اس لئے نہیں کہ واچ بہت خوبصورت تھی۔ بلکہ اس لئے کہ شانزہ نے اسے کچھ دیا تھا۔ یہ بھی محبت کی نشانی ہی تھی۔ وہ اس کے قریب آیا اور اس کا ہاتھ تھام کر پہلے لبوں سے لگایا اور پھر آنکھوں پر۔ کتنی ہی دیر وہ اس کے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگائے رکھا رہا۔ 

"امان آپ ٹھیک ہے نا؟" اس کے بالوں کو ہاتھ سے بگاڑ کر وہ مسکرا کر پوچھنے لگی۔

"جی" اس کے ہاتھ کو اپنی آنکھوں سے دور کرکے وہ اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ 

"میں خوش ہوں امان" نرمی سے دیکھتے ہوئے اسے یقین دلایا۔ 

"میں بہت ذیادہ" امان نے بھیگے لہجے اور نم آنکھوں کے ساتھ بولا۔ 

"مگر مجھ سے ذیادہ نہیں " وہ اس کے ہاتھ پر نرمی سے اپنا ہاتھ رکھ کر بولی۔

"پتا نہیں کیوں شانزہ مجھے یقین نہیں آرہا۔ مجھے خود کی قسمت ہر رشک محسوس ہورہا ہے" اس کا ہاتھ پھر سے چوم کر وہ عقیدت سے بتارہا تھا۔ 

"تو اب کرلیں" 

"وہی کرنے کی کوشش کررہا ہوں" وہ بھی مسکرادیا۔ 

"آپ چینج کرلیں، میں کھانا لگواتی ہوں" بہت محبت سے کہتے ہوئے اس نے بیڈ سے اس کے کپڑے اٹھا کر دیئے۔ 

"جی جیسے آپ کا حکم!" 

"اور ہاں یہ واچ بھی پہن کر آئے گا امان" وہ اپنی خواہش ظاہر کررہی تھی یا حکم دے رہی تھی؟ امان ہنس دیا۔ 

"جیسا آپ کا کہیں" کہتا ساتھ وہ مسکراتا ہوا فریش ہونے چلاگیا اور وہ نیچے۔

*--------------------------------------------------------*

اس نے کمرے کا حلیہ بگاڑ دیا تھا۔ تکیہ زمین پر غصے سے پھینکا تھا اور بیڈ شیڈ کھینچ ڈالی تھی۔ وہ چھوڑے گا تو نہیں! وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔۔ وہ جان سے ماردے امان کو! قتل کردے گا۔۔۔ اسے اپنی الماری میں رکھی پستول یاد آئی اور دل میں سکون کی لہر اتری۔ مسکراہٹ لبوں پر عیاں ہوئی تھی۔ انتقام کی مسکراہٹ!

*-------------------------------------------------------*

شانزہ کچن کے کام سے فارغ ہوکر اوپر آئی تو امان دونوں ہاتھ سنگھار میز پر ٹکائے تھوڑا سا جھک کر آئینے کو دیکھ رہا تھا۔ کمرے میں اندھیرہ تھا۔ وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی اور اس کے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھا۔ امان نے آئینے میں شانزہ کا عکس دیکھا۔ 

"شانزہ" ہونٹ کپکپائے۔ شانزہ اس کی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی۔  

"امان" اس نے اسکا نام پکارا۔ 

"شانزہ یہ آئینہ میں ت۔تتوڑ دوں؟" لہجے خوف سے زرد پڑرہا تھا۔ بظاہر اندھیرے میں اسے کچھ ذیادہ نظر نہیں آرہا تھا۔ 

"کیوں امان؟" وہ آئینہ میں ہی اسے  دیکھ رہی تھی۔ 

"یہ آئینہ۔۔۔یی۔یہ آئینہ شانزہ" وہ آئینے خوف کھاتا ہوا دور ہوا۔ شانزہ نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔ 

"کچھ نہیں ہوا امان! میں پاس ہوں۔ میں یہیں ہوں"۔ 

"تم میرے پاس ہونا؟" وہ بچوں کی طرح اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر بولا جیسے کبھی نہ چھوڑنا چاہتا ہو۔ 

"ہاں میں پاس ہوں! اور جب تک میں ہوں کچھ نہیں ہونے دونگی آپ کو" وہ اسے یقین دلارہی تھی۔ 

"یہ آئینہ۔۔ یی۔یہ آئینہ کس نے لگوایا؟" سہمی نگاہوں سے وہ آئینے کی طرف اشارہ کرکے بولا۔

"میں نے! میں نے لگوایا ہے" 

"تت۔تم نے؟ مگر۔۔۔ وہ۔۔وہ" خوف کے مارے لفظ بھی ادا ہونے سے انکاری تھے۔ 

"کچھ نہیں ہوتا۔ ہم اس صرف اپنا عکس دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں" 

"اور جسے کسی اور کا بھی عکس نظر آتا ہے وہ کیا کرے؟" وہ خوف سے زمین پر انگلیوں بالوں میں پھنسائے بیٹھتا چلا گیا۔ 

"کس کا عکس نظر آتا یے؟"  شانزہ بھی نیچے اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔

"منہاج۔۔ منہاج۔۔وہ۔۔وہ۔۔۔یہاں آئینے میں۔۔" لہجہ ایک دم کپکپارہا تھا اور الفاظ بھی نہیں نکل رہے تھے۔ 

"کچھ نہیں ہوا ہے۔۔۔ بس میں نے کہہ دیا ہے نا کہ جب تک امان شاہ کی بیوی اس کے موجود ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا" اس نے امان کے بالوں سے اس کی انگلیاں چھڑائیں۔

"مجھے اکیلے تو نہیں چھوڑو گی؟" امان نے اس کا ہاتھ تھاما۔ وہ بہت امید سے اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"نہیں بلکل نہیں!" اس سوال کا جواب دینا بھی مشکل تھا۔ امان نے اس کے ہاتھ اپنے لبوں سے لگا کر آنکھوں پر رکھے۔ 

"مجھے باہر جانا ہے۔۔۔ آئسکریم کھانی ہے" شانزہ نے فوراً سے موضوع تبدیل کیا۔ امان نے کچھ سنبھلا۔ 

"کہاں جانا ہے امان کی جان کو" لہجہ ویسا ہی بھیگا ہوا تھا مگر لہجے میں پیار بہت تھا۔ 

"ابھرتے سورج کو دیکھنے" چمکتی آنکھوں سے ضدی لہجے میں بولی۔

"اور مجھے بھی دل چاہ رہا ہے کچھ دیکھنے کا" وہ اب اپنے مکمل آنسو پونچھ چکا تھا۔ 

"کسے دیکھنے کا دل چاہ رہا ہے؟" وہ سرخ ہوئی۔

"شفق دیکھنے کا" شہادت کی انگلی کو اس کی ناک کو چھوتا ہوا بولا۔ 

"کون شفق" وہ تیور بگاڑتی کوئی بوئی پوچھنے لگی۔

"ہاہاہا جب سورج ابھرتا ہے تو شفق نمودار ہوتی ہے! وہ والی شفق" وہ بےاختیار ہنسا۔ اتنی زور سے ہنسا کہ آنسو بہہ نکلے۔ 

"بس اب نہیں رونا!" شانزہ نے اس کے آنسو اپنی انگلیوں کے پوروں سے صاف کئے۔ 

"میں مضبوط نہیں ہوں جتنا دکھتا ہوں" وہ دکھ کی کیفیت میں بولا۔ 

"آپ مضبوط ہیں!" وہ ڈٹ کر بولی۔

"نہیں ہوں" وہ بکھر کر بولا۔ 

"ہیں!" یقین دلایا۔

"نہیں ہوں!" وہ ہار گیا۔

"آپ شانزہ امان کے شوہر ہیں! آپ کو مضبوط ہی ہونا ہے" 

امان نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور دونوں ہی ہنسنے لگ گئے۔ وہ اس کی بات موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے اسی پر پلٹا گئی تھی! 

"آئیں اٹھیں نا! چلیں دیکھیں ان سب مصروفیات سے فارغ ہوتے ہوتے ۱ بجنے کو آگئے ہیں! کب تک پہنچیں گے ساحل پر؟! تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹا لگ جائے گا" اس کا ہاتھ پکڑ کر سہارا دے کر اسے اٹھانے لگی۔ 

"میری گاڑی کی چابی کون لائے گا؟" امان کی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔ 

"میں لاؤں؟" شانزہ نے پوچھا۔ 

"نہیں تم مت لاؤ میری دوسری بیوی لائے گی" وہ اسے چھیڑنے لگا۔ 

"دوسری بیوی؟؟؟" اس نے خفا خفا سے انداز سے اسے دیکھا۔ 

"ہاں وہی شفق" امان کے یوں کہنے پر وہ زور سے ہنس دی۔ 

*-------------------------------------------------------*

"کل اسی ریسٹورینٹ پر ملنا" زمان کے موبائل پر بپ ہوئی۔ فاطمہ کا میسج آیا تھا۔ چہرے ہر مسکراہٹ پھیلی۔

"ڈیٹ پر؟" اس نے میسج سینڈ کیا اور اب ریپلائی کا انتظار کرنے لگا۔ 

"شٹ اپ مسٹر زمان" میسج آیا۔

"اگر ڈیٹ پر نہیں جارہے ہیں تو تمہارے اس انداز کو کیا سمجھوں؟ بہت تمیز سے انوائٹ کیجیئے مجھے فاطمہ اختر دختر آف اختر!"

"مسٹر زمان شاہ! میں چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے یعنی "فاطمہ جاوید" سے ملاقات کریں! جگہ وہی ہے جہاں پہلے ملاقات ہوئی تھی اور وقت ڈیڑھ بجے کا ہے! امید ہے آپ دو بجے تک نہیں آئیں گے" زمان کو فاطمہ کا میسج ریسیو ہوا تھا اور اب ہنس رہا تھا۔ 

"جی یہ ہینڈسم لڑکا آپ کا انتظار کریگا!" 

"ہینڈسم؟" 

"کوئی شک؟" 

"شک ہی شک؟"

"تم تو ویسے ہی بہت جلتی ہو مجھ سے؟" 

"جلے ہوئے سے اور کیا جلوں؟" 

"پرانی باتیں مت دہراؤ!" 

"اچھا خیر ڈیڑھ بجے تک آجانا! ہوسکتا ہے میں پانچ دس منٹ تاخیر سے آؤں!"

"کیوں بھئی؟"

"دوست سے پڑھائی کے سلسلے میں ملاقات کرنی ہے" 

زمان حیران ہوا۔۔ اس کا دوست؟ 

"دوست لڑکا ہے؟" 

"ہاں" 

"کس سلسلے میں بات کرنی یے اس سے؟" 

"پڑھائی کے سلسلے میں" 

"کالج کا ہے؟" 

"ہاں چھٹی میں ہی ملاقات کروں گی اس سے، پھر ہی آؤ ریسٹورینٹ" 

زمان کو غصہ آیا۔ 

"نہیں مجھے جلدی ہے تم ڈیڑھ بجے ہی آنا!"

"کیوں؟ پانچ منٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا!" 

"میرے لئے پڑتا ہے۔۔ ویسے وہ دوست تمہارا اچھا دوست ہے؟" 

فاطمہ سمجھ گئی تھی وہ اتنے سوالات کیوں پوچھ رہا ہے۔ مگر اس غصہ نہیں آیا۔ بلکہ مسکراہٹ لبوں پر رینگنے لگی۔

"ہاں بہت ذیادہ اچھا!" فاطمہ نے میسج سینڈ گیا۔

"مجھ سے ذیادہ ہینڈسم ہے؟" زمان الجھا ہوا تھا

"ہاں خیر ہے تو۔۔۔"

"واقعی؟"

"جی" 

"میں تمہیں کیسے لگتا ہوں؟" 

"اچھے ہو۔۔"

"صرف اچھا ہوں؟" 

"بہت اچھے ہو مگر اْس سے ذیادہ نہیں" 

"وہ اتنا اچھا ہے؟" 

"بہت اچھا ہے" 

"میں تمہیں کتنا اچھا لگتا ہوں؟" زمان باؤلا ہوچکا تھا۔ 

"اچھے لگتے ہو"

"کتنا؟" 

"اتنے اچھے کہ میں تمہیں اپنا بھائی بنانے کو بھی تیار ہوں" فاطمہ ٹائپ کرتے ساتھ ہنسنے لگی۔

"لاحولا ولا قوۃ۔۔ لڑکی یہ بھائی والا مذاق پر تمہیں میں نے پہلے ہی منع کردیا تھا" زمان بدمزہ ہوا۔

"تم نے ہی پوچھا تھا کہ کتنا اچھا لگتا ہوں! مجھے اس جواب سے اچھا کوئی جواب نہیں ملا" 

"کسی کے جذبات خود ہی سمجھ لینے چاہئے" وہ بہت کچھ بول گیا تھا۔ 

فاطمہ متحیر ہوئی اور پھر اس کا میسج بار بار پڑھنے لگی۔

"کیسے جذبات؟" 

"جان لو خود ہی" 

فاطمہ کے چہرے پر تبسم پھیلا۔

"مجھے ایسی فضول باتیں سمجھ نہیں آتیں" وہ اگلوانے لگی۔

"وہ جذبات جو صرف تمہارے لئے ہیں" اس نے میسج سینڈ کرکے نیٹ آف کردیا۔ وہ اب جان جائے گی! وہ جان جائے گی کہ زمان شاہ کی محسوس کرتا ہے فاطمہ جاوید کے لئے! زمان نے آنکھیں بند کرنے کروٹ لیلی۔

*-------------------------------------------------------*

"آج ہم بہت جلدی آگئے ہیں۔۔ اندھیرا ہے یہاں ہرطرف!" شانزہ کو اندھیرے سے ڈر لگ رہا تھا۔ اس نے امان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ امان نے اس کو یوں مضبوطی سے ہاتھ تھامے دیکھا تو مسکرادیا۔ اسے اچھا لگا اس کا یوں ہاتھ پکڑنا۔ 

"جی آج ہم بہت جلدی آگئے ہیں اور ابھی سورج کو نکلنے میں بہت سا وقت ہے۔۔۔"

"اس کا مطلب ہے ہم تھک جائیں گے شفق کا انتظار کرتے کرتے؟" وہ دکھی ہوگئی۔ 

"نہیں لیکن کھڑے کھڑے ضرور تھک جائیں گے" 

"تو چلیں ریت پر بیٹھ جاتے ہیں" اس نے امان کا ہاتھ تھام کر نیچے بٹھادیا۔ 

"ٹھنڈی ٹھنڈی ریت" وہ کپکپکائی۔ 

"شال ٹھیک سے اوڑھو" اس نے شانزہ کی شال ٹھیک کی۔

"ٹھنڈ تو پھر بھی ہے" وہ دونوں سمندر سے بہت پیچھے تھے۔ 

امان نے اپنی شال اتارنی چاہی۔

"نہیں بس بہت ہوگیا۔۔۔ آج نہیں اتاریں گے آپ شال! مجھے ویسے بھی ٹھنڈ پسند ہے" 

"مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی شانزہ" وہ اسے پیار سے دیکھتا ہوا بولا۔

"کیوں نہیں لگ رہی؟ اتنی ٹھنڈ ہے" اس کا لہجہ ٹھنڈ کے باعث کانپا

"مجھے ٹھنڈ نہیں لگ رہی ہے سچ میں! یہ لو! اس لئے یہ شال تم ہی پہن لو! مجھے تو ٹھنڈ میں مزہ آتا!" اس نے شال اسے اوڑھا دی۔ شانزہ نے اسے گہری نگاہوں سے دیکھا تھا۔

"تھرموس تو نکالیں امان کہاں رکھ دیا تھا؟ اس میں چائے ہے!" شانزہ نے ادھر ادھر نظریں ماریں۔  امان نے اپنے پیچھے رکھا تھرموس اور دو پیپر گلاس آگے گیا۔ 

"میری جان میری چائے" اس نے تھرموس کو اوپر سے چوما۔

"چلو اپنی جان کو مجھے بھی نکال کر دیدو گلاس میں" امان نے گلاس آگے کیا تو شانزہ نے اس میں چائے نکال دی۔ 

"بہت ذائقہ دار چائے بنائی ہے" وہ گھونٹ بھرتے ہی بولا۔ اب وہ اسے کیا بتاتی کہ چائے بنانا زمان نے سکھائی ہے۔ 

"شکریہ جناب" چہرے پر تبسم پھیلا۔ 

شانزہ نے اس کے ہاتھوں پر غور کیا جو ٹھنڈ سے کپکپارہے تھے۔ اس نے دھیرے سے اسے چھوا۔ وہ برف کی طرح ٹھنڈا ہورہا تھا۔ شانزہ نے امان کی طرف دیکھا۔ کیا چیز تھا وہ۔ اس نے جھوٹ کہا کہ اسے ٹھنڈ پسند ہے اور اسے ٹھنڈ نہیں لگ رہی تاکہ شانزہ کو شال اوڑھا سکے۔ اس نے میرے لئے جھوٹ کہا۔

شانزہ نے اسکی شال خود پر سے اتار اسے اوڑھائی۔

"اب یہ اترنی نہیں چاہئے آپ کے وجود سے" ڈانٹنے کے انداز سے اسے تاکید کی تھی۔ امان کو اس پر بےاختیار  پیار آیا۔ اس نے شانزہ کا ہاتھ لبوں سے لگاکر آنکھوں سے لگایا۔ شانزہ نے شرم سے نگاہیں جھکائیں۔ امان ریت پر لیٹ گیا اور اپنا سر شانزہ کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ شانزہ آسمان کو دیکھنے لگی۔

"آسمان نیلا ہونا شروع ہورہا ہے امان" 

امان نے شانزہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔

"صحیح کہہ رہی ہو" اس نے شانزہ کی نظروں کا تعاقب کیا۔

"ہمیں ذیادہ انتظار نہیں کرنا پریگا" ہوا اس کی آوارہ لٹوں کو چھونے لگی اور یہ منظر شانزہ اور امان کو اپنا اسیر کرگیا۔ 

*-------------------------------------------------------*

"یا اللہ اسے اپنی امان میں رکھنا" یہ دعا کرتے ہوئے نفیسہ شاید نہیں جانتی تھیں کہ اللہ نے اسے اپنی امان میں ہی رکھا تھا۔ ایک شخص تھا۔ اللہ کا بندہ۔ اس کی مخلوق۔ امان۔۔ اللہ کی امان میں تھی ایک شخص امان کے پاس۔

*--------------------------------------------------------*

"امان امان اٹھیں یہ دیکھیں شفق! ہم سوگئے تھے۔ رنگ بکھیرتی یہ شفق! جس کے لئے ہم یہاں تک آئے! اللہ کی قدرت! " وہ روشنی آنکھوں میں پڑنے کی وجہ سے اٹھ بیٹھی تھی۔ جلدی جلدی امان کو بھی اٹھایا۔ امان شانزہ کا ہاتھ تھامے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"خوبصورت" بے اختیار دونوں کے لبوں سے الفاظ ادا ہوئے۔ سورج آہستہ آہستہ ابھرنے لگا اور وہ دونوں کھو گئے تھے اس منظر کو دیکھنے میں۔ اس منظر کو دیکھتے ہوئے وہ اتنا کھویا ہوا تھا کہ اسے اندازہ  بھی نہیں تھا کہ آج اس نے ایک قیامت سے گزرنا ہے۔

*-------------------------------------------------------*

وہ گہری نیند میں تھا جب فاطمہ کی کال آئی۔ 

"ہیلو" 

"ہیلو میں فاطمہ جاوید بات کررہی ہوں!"

"جی فاطمہ زبیر بولئے۔ سب چھوڑیئے یہ بتادیں اسی وقت کیوں کال کرتی ہیں جب میں سورہا ہوتا ہوں؟" 

"دراصل آپ سارا دن ہی سوتے رہتے ہیں! خیر میں کہہ رہی تھی کہ دوپہر کے ایک بج رہے ہیں تو ڈیڑھ بجے تک پہنچ جائیے گا مہربانی ہوگی" 

زمان کا منہ بنا۔ اسے اچانک رات والا اس کا "اچھا دوست" یاد آیا۔ 

"مل لی اپنے دوست سے؟!" طنزیہ لہجہ۔

"ہاں جی میرے نظروں کے سامنے ہی چلتے ہوئے آرہا ہے وہ میری طرف" وہ مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی۔  زمان اٹھ بیٹھا۔ 

"سنو پلیز!" 

"کہو؟" 

"تمہیں پسند ہے وہ؟" وہ چپ رہی۔۔

"ہم اس موضوع پر ڈیڑھ بجے کریں گے۔۔۔ تب تک کے لئے اللہ حافظ" اس نے کال کاٹ دی تھی۔ زمان نے تھوک نگلا۔ گہری سانس لیتا وہ بیڈ سے اٹھ بیٹھا۔

پندرہ منٹ میں تیار ہوکر وارڈروب  کی طرف آیا۔ آج ہفتہ تھا۔ آج امان آفس سے چھٹی کیا کرتا تھا۔ اس نے وارڈروب سے منہاج کی ڈائری نکالی۔ نرمی سے اس پر ہاتھ پھیرا اور چابی اور ڈائری تھامتا نیچے آیا۔ امان لاؤنج میں بیٹھا تھا۔ 

"امان" امان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکرادیا۔

"کہیں جارہے ہو؟" 

"ہاں" وہ بھی مسکرایا اور ڈائری پر اپنی گرفت مضبوط کی۔

"ہاں کسی کو اپنا مستقبل بنانے جارہا ہوں" پھیکی مسکراہٹ لبوں ہر عیاں ہوئی۔

"کون؟" وہ حیران ہوا۔

"ان سب کو چھوڑو امان! اگر قسمت میں ہوگی تو نام بھی پتا چل جائے گا تمہیں۔۔ مجھے تم سے بات کرنی ہے" تھوک نگلتے ہوئے وہ اصل بات کی جانب آیا۔ 

"ہاں کیا ہوا؟ اتنے پریشان کیوں ہو؟" امان فکرمند ہوکر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

لاؤنج مکمل خالی تھا۔ اس نے ہاتھ میں تھامی ڈائری آگے بڑھائی۔ امان نے الجھ کر وہ ڈائری تھامی۔ 

"کیا ہے یہ؟" اس نے ایک نظر زمان کو دیکھا جو اس کے تاثرات جانچنے کی کوشش کررہا تھا اور ایک نظر ڈائری پر ڈالی۔ ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا۔ اس میں لکھا بڑا بڑا "منہاج شاہ" اور ساتھ میں کچھ ٹوٹے پھوٹے الفاظ تھے جس سے ظاہر ہورہا تھا یہ منہاج کی ڈائری ہے۔ رنگت فق ہوئی اور اس نے وہ ڈائری خوف سے پھینک دی۔ 

"دد۔دور کرو اس کو مجھ سے" وہ چیخ کر پیچھے ہٹا۔ 

"یہ ڈائری ہے امان" اس نے نیچھے سے ڈائری اٹھائی جو گرگئی تھی۔ 

"یہ۔یہ۔۔ممم۔نن۔" 

"ہاں یہ بابا کی ڈائری ہے" 

"بابا؟" 

"ہاں امان! منہاج شاہ وہ دنیا کے لئے تھے! ہمارے لئے تو بابا تھے" وہ ڈائری کو چوم کر مسکرایا۔

"اسے مت چومو زمان! دور کرو اسے خود سے اود مجھ سے! خدارا۔۔۔" اس کی رنگت پیلی پڑچکی تھی۔ 

"تمہیں پڑھنی ہوگی یہ ڈائری" وہ امان کے قریب آیا۔ 

"مجھے نہیں پڑھنی اس شخص کی ڈائری" وہ چیخا۔

"کیوں؟" زمان ڈائری کو ہاتھ میں تھامے صورتحال کو قابو کر نے کی کوشش کررہا تھا۔ 

"نہیں۔۔مم۔منہاج شاہ کی کوئی چیز نہیں دیکھنی۔ میں پپ۔پاگل ہوجاؤں گا زمان! تت۔تمہیں پتا ہے میں ٹھیک ہورہا ہوں! میں بہت حد تک ٹھیک ہوچکا ہوں۔ تت۔تمہیں نہیں معلوم! میں اسے پڑھ کر پاگل ہوجاؤں گا! دور کرو!" 

"تمہارا علاج صرف اور صرف یہ ڈائری ہے" وہ سختی سے کہتا ہوا اس کے قریب آیا۔ 

"میں ویسے ہی ٹھیک ہورہا ہوں! کیا تم نے یہ ڈائری پڑھی ہے؟" سوال پوچھتے ہوئے اس کی آنکھیں حیرت کا مظاہرہ کررہی تھیں۔ 

"ہاں" وہ مضبوط لہجے میں بولا۔ 

"کک۔کیسے؟ کک۔کیوں؟ تم پاگل ہو؟" وہ چیخا! پوری وقت سے! کہ شاہ منزل کی درودیوار کانپ اٹھی۔ 

"تم بےسکون ہو!" زمان نے اس سر تا پیر دیکھ کر تبصرہ کیا

"میں ٹھیک ہوں! اچھا ہوں! زندگی اچھی گزررہی ہے میری" وہ دور ہٹتا گیا اور اتنا پیچھے ہوتا گیا کہ دیوار کمر سے لگ گئی۔ 

"تم جھوٹ بولتے ہو" 

"شانزہ کا رویہ میرے ساتھ اچِھا ہوگیا ہے۔وہ جان گئی ہے میں اسے کتنا چاہتا ہوں اور اس وجہ سے میں بہت ذیادہ  خوش ہوں اور سکون میں بھی ہوں" آنکھیں خون آلود ہونے لگیں۔ 

"اچھی بات ہے امان مگر تمہاری زندگی میں مکمل سکون ڈائری کو پڑھ کر ہی آئے گا! پکڑو اسے" وہ اس کے اور قریب آیا۔ امان نے پیچھے ہونا چاہا مگر دیوار سے لگ گیا۔ 

"زمان اسے مجھ سے دور کرو پلیز!" وہ گڑگڑا رہا تھا۔ 

"تمہارے دماغ میں الجھی ڈوریں سلجھ جائیں گی امان! تم پڑھنا ضرور! مجھے جانا ہے ضروری۔۔ لوٹوں گا میں! امید ہے تم تب تک پڑھ چکے ہو گے۔۔۔" صوفے کے برابر رکھی ٹیلیفون کی میز پر اس نے ڈائری رکھی اور اسے دیکھتا ہوا پلٹ گیا۔ امان اس کی پشت دیکھتا ہوا دیوار سے ٹیک لگائے نیچے بیٹھتا چلا گیا۔

*-------------------------------------------------------*

"آپ پھر سے لیٹ ہیں" وہ کرسی پر بیٹھ رہا تھا جب فاطمہ کی آواز کانوں تک پہنچی۔

"بندہ پورا دن فری نہیں ہوتا فاطمہ!" سنجیدگی سے کہتے ہوئے اس نے گھڑی میں ٹائم دیکھا۔ پونے دو ہونے لگے تھے۔

"مجھے معلومات چاہئے۔۔ شانزہ کیسی ہے زمان؟" 

زمان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"اپنے بھائی سے پوچھو" تیز نگاہیں اس پر ڈالیں۔

"کیا مطلب؟" وہ چونکی۔

"آپ کے بھائی نے میری بہن پر ہاتھ اٹھایا تھا۔ وہ مال میں تھی جب وہ اس دکھی! فاطمہ جاوید آپ کے بھائی نے میری بہن کو بدکردار کہا! میری بہن کو!" وہ اب تک غصے تھا اس بات پر۔ وہ ہائپر ہونے لگا۔

"عدیل بھائی؟" وہ ششدر تھی۔ 

"جی آپ کے ہونہار عدیل بھائی۔۔ کل شام کی بات یے یہ" زمان نے طنزیہ لہجہ میں جواب دے کر نظریں پھیریں۔

"او مائی گاڈ۔۔۔۔ شانزہ کیسی ہے؟" وہ بےیقین تھی کہ عدیل ایسا بھی کرسکتا یے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کل غصے میں بھی گھر آیا تھا۔ 

"وہ مست ہے! اپنے شوہر کے ساتھ ہے! اب دونوں مزے میں ہیں۔ کبھی کہیں گھومنے چلے جاتے ہیں کبھی کہیں! زندگی کو انجوائے کررہے ہیں" وہ سوچ کر مسکرایا۔ 

"شانزہ نے سمجھوتہ کرلیا؟" 

"جی! مگر دیکھو اب کیا ہوتا ہے" کندھے اچکائے۔ 

"اور عدیل بھائی والے معاملے میں؟" 

"اسے افسوس نہیں کیوں عدیل نے بھی بہت مار کھائی ہے"واقعے کو یاد کرکے زمان کا رگوں میں سکون کی لہر اتررہی تھی۔ 

"تم نے مارا؟" فاطمہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔

"شانزہ نے! یاد تو نہیں ذیادہ لیکن ایک تھپڑ اور ہینڈ بیگ کھینچ کر مارا تھا! اور اس پر صلواتیں بھی گن لو" 

"مجھے یقین نہیں آرہا" فاطمہ نے آنکھیں پھاڑیں۔ 

"کرلو اب یقین" اس نے مسکراتے ہوئے فاطمہ کو دیکھا۔ 

وہ یونیفارم ہر بلیک اسکارف بہت سلیقے سے پہنی ہوئی تھی۔ 

"سچی؟" 

"جی جی" 

"اچھا مجھے یہ بتائیں اس کا پلین کیا یے اب؟" دوسرا سوال۔

"پتا نہیں اب دیکھو کیا ہوتا ہے! پلین تو بہت کچھ کیا ہے مگر امید ہے سب ویسا ہی ہو" 

"اور امان بھائی؟" وہ امان صاحب سے امان بھائی پر آگئی تھی۔ 

"وہ بہت خوش ہے اور بہت خیال رکھ رہا ہے اس کا! اس کی سانسیں شانزہ کی بدولت چل رہی ہیں! تم فکر نہ کرو سب شانزہ کے فیصلوں کے مطابق ہی ہو گا! جیسا وہ چاہے گی"اس نے بات ختم ہی کی تھی کہ فاطمہ کا فون بج اٹھا۔

"ہیلو" اس نے کال ریسیو کی۔ دوسری طرف وہ کسی سے بات کررہی تھی۔ زمان اس کی گفتگو غور سے سننے لگا۔ 

"تابش میں نے تمہاری کتاب لوٹادی تھی تمہیں!" 

زمان نے کے کھڑے ہوئے۔ 

"نہیں جب ہماری ملاقات ہوئی تھوڑی دیر پہلے تو ہی لوٹادی تھی! تم ایک بار دیکھ لو!" 

اوہ تو یہ وہی لڑکا ہے۔ زمان نے زہر بھری نظروں سے اس کے کان میں لگے فون کو دیکھا۔

"ٹھیک ہے! پیر کو ملاقات ہوگی!" وہ مسکرارہی تھی۔ 

"ٹھیک ہے یار" وہ اب ہنس بھی رہی تھی۔ زمان نے جس لفظ پر غور کیا وہ تھا "یار"! یعنی اتنی گہری دوستی تھی۔

"اللہ حافظ" اس نے کال رکھ کر موبائل بیگ میں رکھا۔ 

"کون تھا؟" زمان نے تیور بگاڑے۔

"دوست" اس نے کافی کا کپ لبوں سے لگایا۔ 

"وہی کل رات والا؟" 

"ہاں" وہ دبی دبی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھنے لگی۔ 

"اچھا دوست ہے؟" 

"بہت اچھا۔۔" وہ بھی زچ کرنے میں کم نہیں تھی۔ 

"مجھ سے ذیادہ اچھا؟" زمان کی آنکھیں پھٹنے کے قریب آگئیں۔۔

"جی"وہ زمان کا صبر آزمارہی تھی۔

"اگر تمہیں کوئی پسند کرتا ہو تو کیا کرو گی؟" وہ کیا اگلوانا چاہ رہا تھا فاطمہ سب سمجھتی تھی۔ وہ کوئی چھوٹی بچی نہیں تھی۔ 

"میں اس سے مشورہ لوں گی" زمان بلآخر زچ ہوگیا۔ 

"دماغ خراب یے تمہارا؟" وہ ابھی میز ہر ہاتھ مار کر بولا ہی تھا کہ پیچھے سے ایک لڑکی اسے پکارا۔

"ہیلو پیارے لڑکے" اس نے مڑ کر دیکھا تو وہ کوئی لڑکی تھی جو اب قریب آکر میز پر ہاتھ رکھ کھڑی ہوگئی تھی۔ زمان نے کچھ کہنا چاہا مگر جب فاطمہ کو دیکھا تو پتا نہیں کیا سوجا کہ میز پر ہاتھ رکھے اس لڑکی کو دیکھنے لگا۔ 

"ہیلو" زمان مسکرا کر جواب دیا۔

"میں اْدھر والی میز پر بیٹھی تھی تو آپ کو دیکھا!" وہ اب گھلنے ملنے کی کوشش کررہی تھی۔ 

"پہلے تو آپ یہ بتائیں کہ آپ میز "پر" بیٹھی تھیں؟" 

"نہیں نہیں میں اس والی میز پر کرسی لگا کر زمین کے اوپر بیٹھی تھی" اس لڑکی نے اپنی جھجک مٹائی۔

"او اچھا اچھا آپ کا نام؟" وہ اب فاطمہ کو مکمل نظرانداز کررہا تھا۔ 

"زمان ہم یہاں گفتگو کرنے بیٹھے تھے؟" فاطمہ سے رہا نہ گیا تو اس نے ٹوک دیا۔

"اس لڑکی کو چھوڑو تم اپنا نام بتاؤ" زمان نے فاطمہ کو دیکھا بھی نہیں۔ 

"میرا نام سنبل ہے" وہ دھیما سا مسکرائی۔ فاطمہ جل کر رہ گئی۔ 

"اوہ نائس نیم! مجھے "ایس" سے شروع ہونے والے نام بےحد پسند ہیں! "ایف" سے شروع ہونے والوں ناموں کو میں منہ  بھی نہیں لگاتا" 

فاطمہ غصے کی شدت سے لال ہوگئی۔

"او مجھے اچھا لگا! کیا ہم کافی پی سکتے ہیں ساتھ؟" سنبل نے آفر پیش کی۔

"ہم آلریڈی کافی پی رہے ہیں سنبل میڈم! آپ جائیں یہاں سے ہمیں ڈسٹرب نہ کریں" فاطمہ نے دانت پیسے۔

"یہ لڑکی کون ہے آپ کی؟" سنبل نے آنکھوں سے فاطمہ کی جانب اشارہ کیا۔

"پتا نہیں کون ہے! ساتھ میں بیٹھ گئی" اس نے فاطمہ کی طرف دیکھا جو اب اسے سپاٹ چہرہ لیئے دیکھ رہی تھی۔ 

"او اچھا! میں آپ کا انتظار کروں گی!  آپ ان سے ملاقات کرلیں پھر میں آپ سے باہر ملوں گی" سنبل کے ایسے کہنے پر زمان نے کن انکھیوں سے فاطمہ کو دیکھا جو روہانسی ہورہی تھی۔ 

"آلرائٹ" مسکرا کر اسے اللہ حافظ کیا اور فاطمہ کی جانب مڑا۔ فاطمہ نے اپنا ہینڈ بیگ اٹھایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

"کہاں جارہی ہو فاطمہ" وہ حیران ہوا۔ کیا وہ اس تک سنجیدہ ہوگئی تھی۔ فاطمہ نے دائیں ہاتھ کی انگلیوں  سے آنسو صاف کیئے اور جانے لگی۔ 

"آئم سوری فاطمہ! آئم ریئلی ریئلی سوری!" وہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔ 

"مجھے جانا ہے ہٹو زمان" اس نے بھیگی آواز کے ساتھ کہا۔ 

"اب پتا چلا کیسا لگتا ہے؟" وہ اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ 

وہ خاموش رہی۔

"سو سوری اب بیٹھ جاؤ پلیز۔۔۔" فاطمہ نے اسے ایک نظر دیکھا اور پھر سے بیٹھ گئی۔

"شکر ہے بیٹھ گئی ورنہ بل مجھے دینا پڑتا" اس کے یوں کہنے ہر فاطمہ کی ہنسی چھوٹ گئی۔ 

*--------------------------------------------------------*

وہ اب بھی یوں ہی بیٹھا تھا ۔ چھوٹی گول میز پر رکھی اس ڈائری کو دیکھنے لگا۔

"تمہارا علاج صرف اور صرف یہ ڈائری ہے" زمان کے الفاظ امان کے دماغ کونجنے لگے۔کیا کرنا چاہئے اسے؟ وہ اس ڈائری کو پڑھنا نہیں چاہتھا تھا مگر اپنی بےسکونی بھی ختم کرنا چاہتا تھا۔ وہ اٹھ کر اس ڈائری کے قریب آیا۔ خون کے دھبوں سے لپٹی ڈائری کو چھونے میں اس کے ہاتھ کپکپارہے تھے۔ اس نے تھام کر اسے غور سے دیکھا۔ اس کی سانسیں پھولنے لگیں۔

"جب اذیت سہنی ہے تو اسے پڑھ کر سہہ لینی چاہئے" اس نے سوچا اور اسے اٹھاتا دوسری منزل کی جانب بڑھ گیا۔ 

"منہاج کا کمرہ" 

"ماہ نور کا کمرہ"

دروازہ چرچراتا ہوا کھلا۔ وہ اندر داخل ہوا۔ پردے کھڑکیوں پر لگے ہوئے تھے جس کے باعث کمرے میں ملگجا سا اندھیرہ تھا۔ کمرے کے کونے پر چیئر اور میز تھی۔ وہ ڈگمگاتے قدموں سے اس کے قریب آیا۔ میز پر قلم بکھرے پڑے تھے۔ دھول مٹی سے کمرہ اٹا ہوا تھا۔ میز پر بھی مٹی کی تہہ تھی۔ وہ کمرہ منہاج کی موت کے بعد سے بند تھا۔ کمرے میں خون کے نشانات تھے! 

یہ ڈائری پڑھنے کی دو وجوہات تھیں۔ 

ایک یہ کہ زمان نے اسے تاکید کی تھی 

دوسری یہ کہ شاید وہ اس سب سے ٹھیک ہوجائے۔ 

اس نے ڈائری کا پہلا صفحہ کھولا۔

جس میں اس نے پورا تعارف بیان ہوا کیا تھا۔ وہ پڑھنے لگا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ اس نے ہاتھ میں پہنی گھڑی کو ایک نظر دیکھا اور گھڑی روک دی۔ وقت تھم گیا! اب اس کی نگاہیں ڈائری پر مرکوز تھیں۔

*-------------------------------------------------------*

"اگر شانزہ خوش ہے اپنے شوہر کے ساتھ تو یہ اچھی بات ہے!" وہ اثبات میں سرہلاتی ہوئی بولی۔

"ہاں۔۔ لیکن ہمیں نہیں پتا اب کیا ہوتا ہے! میں تمہاری بات شانزہ سے جب کرواؤں گا تو کہوں گا اسے کہ تمہیں سب بتادے! میں باتیں بار بار نہیں دہرانا چاہتا! وہ تمہیں سب بتادے گی امان کے بارے میں،شاہ منزل کے بارے میں" کافی کا کپ لبوں سے لگاتے ہوئے کہا۔ 

اسی دم فاطمہ کا فون بجا۔ زمان نے ٹائم دیکھا۔ گھڑی تین بجا رہی تھی۔ یہ پہلی ایسی ملاقات تھی جس میں دونوں نے بہت دیر تک گفتگو کی تھی۔

"کس کی کال ہے فاطمہ؟" اس کے پیلی پڑتی رنگت دیکھ کر زمان فوراً بولا۔

"گھر سے آرہی ہے زمان! انہیں کہیں پتا نہ چل گیا ہو" اس نے تھوک نگلتے ہوئے اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ کال ریسیو کرکے فون کانوں سے لگایا ۔

"کہاں ہو تم فاطمہ؟ جاوید تمہیں آج لینے گئے تھے کالج! چوکیدار کہہ رہا تھا وہ جاچکی کافی گھنٹے ہوگئے ہیں! کہاں ہو؟ کس کے ساتھ ہو؟" وہ چیخ رہی تھیں۔ 

"گھر آرہی ہوں میں" وہ صرف اتنا ہی کہہ پائی۔ 

"گھر آؤ! تمہارا باپ غصہ میں ہے بہت!" صبور نے کہہ کر کال کاٹ دی۔ 

"کیا ہوا؟" 

"پتا چل گیا ہے سب کو۔۔۔ میں گھر جارہی ہوں" اس نے موبائل میز پر رکھا۔ 

"کیا کہو گی؟" زمان بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"سب بتادوں گی" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔

"کیا؟" 

"سب باتوں سے پردہ اٹھادوں گی! سب کا راز فاش کردوں گی" وہ کہہ کر رکی نہیں۔ تیزی سے چلتی ہوئی باہر نکل گئی اور وہ کھڑا رہ گیا۔ موبائل پر آتی کال نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ میز پر رکھا فاطمہ کا فون بج رہا تھا ۔ وہ موبائل بھول گئی تھی۔ اس نے جلدی سے بل پے کیا اور فاطمہ کا موبائل اٹھا کر بغیر نام پڑھے بغیر کال ریسیو کی۔

"ہیلو فاطمہ" مردانہ آواز سن کر زمان نے موبائل پر نام پڑھا جہاں بڑا بڑا تابش لکھا تھا۔  موڈ فوراً خراب ہوا۔ 

"ہیلو جی آپ کون؟" زمان نے لہجہ سخت رکھا۔ 

"میں فاطمہ کا دوست بات کررہا ہوں" جواباً آواز آئی۔ 

"فاطمہ نہیں ہے یہاں" 

"ویسے آپ کون؟" 

"میں اس کا منگیتر ہوں اور مجھے اچھا نہیں لگتا آپ کا بار بار اس کو فون کرنا! سو پلیز!" کہہ کر کال کاٹ دی اور باہر کی جانب بھاگا۔ اسے فاطمہ دور جاتی دکھی تو وہ اس کے پیچھے بھاگا. 

"فاطمہ تم اپنا موبائل فون بھول گئی تھی۔۔۔" اس نے فون اس کی جانب بڑھایا۔

"او تھینک یو زمان!" اس نے بڑھ کر فون تھاما۔

"ٹھیک ہے پھر ملاقات ہوتی ہے" زمان مسکرایا کیونکہ جو اسے کرنا تھا وہ کرچکا تھا۔ 

"اللہ حافظ" کہتی ساتھ وہ بڑھ گئی اور زمان مسکراتا اپنی گاڑی کی جانب آیا۔  اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا ہی تھا کہ وہ لڑکی سنبل آگئی۔

"ہیلو تو کیا ہم چلیں؟" وہ ہاتھ ہلاتی ہوئی اس کے قریب آئی۔ 

"کہاں؟" وہ انجان بن کر بولا۔

"کافی پینے؟" اس نے جیسے اسے یاد دلایا۔

"سوری سنبل میں اس ٹائپ کا نہیں ہوں" وہ اسے دیکھتا ہوا گاڑی میں بیٹھنے لگا۔ 

"مگر آپ نے کہا تھا اور آپ اس لڑکی کے ساتھ بھی تو بیٹھے تھے مسٹر" 

"وہ کوئی انجان نہیں تھی میرے لیے"

"تو کون تھی وہ؟" سنبل نے بنھویں اچکائیں۔ ٹائٹ جینز کی پینٹ پر ٹی شرٹ، ہونٹوں پر لال لپ اسٹک  اور اونچی پونی بنائے اس لڑکی کو زمان نے سر تا پیر دیکھا تھا۔

"میری محبت ہے وہ۔۔۔ فیانسی ہے!" کہتا ساتھ مسکراتا ہوا گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔ 

*------------------------------------------------------*

"وہ کہاں ہے صبور" وہ چیخ رہے تھے۔ 

"میں نے کال کی ہے جاوید وہ آرہی ہے" وہ سہم گئیں۔ 

"کہاں تھی وہ؟؟؟ کتنے گھنٹے ہوگئے وہ کس کے ساتھ ہے؟؟؟ اسے آج میں نہیں چھوڑوں گا!" جاوید صاحب مٹھیاں بھینچتے ہوئے بولے۔ 

"اماں آپ کو خیال رکھنا چاہئے! اس سے پوچھتے رہنا چاہئے کہ کہاں جاتی ہے کیا کرتی ہے" عدیل بھی خوب چلارہا تھا۔ 

"اس گھر کی لڑکیوں کو اپنے ماں باپ کا سر جھکانے کی عادت ہوگئی ہے" ناصر صاحب دبے دبے غصے میں بولے۔ نفیسہ کا دل چھلنی ہوا۔

اس وقت بیل ہوئی اور جاوید صاحب غصے میں باہر بڑھے۔ دروازہ کھولا تو باہر فاطمہ کھڑی تھی۔ بازو سے کھینچتے ہوئے وہ اسے اندر لائے تھے اور صحن میں لاکر اسے پٹخا۔ 

"کہاں تھی؟؟" جاوید صاحب غرائے۔ 

"زمان کے ساتھ تھی" وہ بنا ڈرے بولی۔ 

"کون زمان؟" وہ چیخے جبکہ عدیل کی آنکھیں پھٹیں۔ 

"عدیل بھائی سے پوچھیں" اس نے عدیل تاثرات بھرپور جانچے تھے۔  عدیل کا چہرہ ششدر تھا۔ اسے شانزہ کا تھپڑ اپنے چہرے پر کسی شعلے کی طرح محسوس ہوا۔ اس کے تیور بگڑ گئے۔

"اس بےغیرت شخص سے ملنے گئی تھی" وہ اس کے قریب آیا اور اس پر ہاتھ اٹھایا جسے فاطمہ نے تھام لیا۔ 

"یہ ہے مردانگی؟ شانزہ کو مارا تھا؟ اور جواب بھی مل گیا آپ تھا آپ کو اس کی طرف سے! جب جب سچائی کو چھپانے کی کوشش کرینگے تب تب ایسے تھپڑ جواب میں بھی ملیں گے۔ بتائیں ان کو آپ نے شانزہ کو تھپڑ مارا تھا صرف اس لئے کہ اس نے آپ سے بیوفائی کی تھی" بنھویں اچکا سخت لہجے میں کہتی اس کل کا واقعہ یاد دلاگئی تھی۔ 

"وہ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے! اور ہاں مل کر آرہی ہوں میں زمان شاہ سے! جو امان شاہ یعنی شانزہ کے شوہر کا بھائی ہے! اتنے عرصے میں مجھے یہ تو معلوم پڑگیا ہے کہ نہ زمان برا ہے اور نہ شانزہ کا شوہر! برے ہم ہیں! اعتبار بھی کوئی چیز ہوتی ناصر چاچو!" وہ بول پڑی۔ بس باتیں اب دل میں نہیں رکھی جارہی تھیں۔ 

*-------------------------------------------------------*

اس کی ہچکیاں رکنے میں نہیں آرہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ جو لفظ لبوں سے ادا ہوا وہ تھا۔

"بابا" کتنے سالوں یہ لفظ لبوں سے نکلتے ہوئے کچھ اپنائیت سی لگی تھی۔ اتنے سالوں بعد پہلی بار محسوس ہوا کہ کوئی باپ بھی تھا اسکا۔ میز پر ڈائری کا آخری صفحہ کھلا تھا۔ وہ پیچھے دیوار سے لگا۔ دیوار پر لگی تصویر اس کی کمر پر لگی تو وہ پیچھے دیکھنے کو مڑا۔ ماہ نور اور منہاج کی تصویر! اس نے وہ تصویر کیل سے نکالی۔ 

"بابا" وہ چیخا۔ 

"یا اللہ" وہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ سانسیں لینا دشوار ہوگیا۔ 

"زمان۔۔۔" وہ چیخنے لگا۔ 

"زمان دیکھو بابا" وہ بالوں میں انگلیاں پھنسائیں بال نوچنے لگا۔ 

"زمان بابا ایسے نہیں تھے! بابا" گود میں رکھی اس تصویر میں منہاج معصوم سا کھڑا کھلتے چہرے اور مسکراتے لبوں سے جیسے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ برابر کھڑی ماہ نور کے لبوں پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔ وہ دونوان ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے۔ اس نے باپ کو دیکھا اور اسے محسوس ہوا جیسے وہ تصویر میں وہ ہی کھڑا ہو۔ وہ دونوں اپنے باپ کی جوانی تھے۔ بنے بنائے منہاج شاہ تھے۔ کچھ لوگ میرے باپ کو کھاگئے۔ اسے وحشت سی ہونے لگی۔ 

"سب کھا گئے میرے باپ کو! سب کھاگئے!" اس نے آنکھیں درد سے میچیں۔ وہ رورہا تھا کیونکہ وہ سب جان گیا تھا۔ وہ سچائی جان گیا تھا۔

*------------------------------------------------------*

زمان نے گاڑی پارک ہی کی تھی کہ امان کی چیخوں نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ چابی جیب میں رکھتا اوپر کی جانب بھاگا۔ پہلی منزل پر شانزہ دل پر ہاتھ رکھے کھڑی اوپر دوسری منزل کی جانب دیکھ رہی تھی۔ 

"کہاں ہے وہ؟" وہ پھولتی سانسوں سے ذرا تھم کر بولا۔ 

"اوپر سے آواز آرہی ہے! زمان بھائی مجھے خوف آرہا یے" زمان نے اوپر کی جانب دوڑ لگائی۔ شانزہ بھی اس کے پیچھے بھاگی۔ دھڑ کی آواز سے دروازہ کھولا۔ وہ فریم ہوئی تصویر کو سینے سے لگایا رورہا تھا۔ چیخ رہا تھا۔ وہ تیزی سے اس کے قریب گیا اور گھٹنوں کے بَل بیٹھ کی اسکو جنجھوڑنے لگا۔ 

"امان امان! ہوش کرو! کچھ نہیں ہوا۔۔ میں ہوں میری جان" اس نے اسے گلے لگایا۔ 

"زمان۔۔۔۔ بابا! وہ ڈائری زمان۔۔۔ وہ بابا" وہ ہوش میں نہیں تھا۔

دور کھڑی شانزہ کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ اسے امان کو یوں اس کیفیت میں دیکھا نہیں جارہا تھا۔

"ہاں بابا۔۔۔ میں جانتا ہوں امان۔۔۔ دیکھو اب سب ٹھیک ہوجائے گا!" وہ اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔ 

"نہیں زمان! مگر ہم نے کتنے سال ان سے نفرت میں گزار دئیے۔ زمان اگر وہ ہم سے محبت کرتے تھے تو وہ یوں مجھے تنگ کرنے کیوں میرے خواب می۔۔۔" 

"ہم جس شخص کو جیسا سوچتے ہیں! وہ شخص ہمارے خیالوں میں اسی فطرت کے ساتھ آتا یے امان! سب ٹھیک ہے۔۔ ہششش" زمان اس کی گود سے فریم اٹھا کر پیچھے شانزہ کو پکڑایا اور امان کو کھڑا کیا۔ 

شانزہ نے اس فریم کو  دیکھا اور پھر ایک نظر ان دونوں کر دیکھا۔ وہ شخص جو تصویر میں تھا وہ بلکل ان کا ہمشکل تھا۔ برابر میں کھڑی خوبصورت لڑکی مسکرارہی تھی۔ یقیناً وہ ماہ نور ہوگی۔ وہ منہاج شاہ تھا۔ اس نے نظریں پورے کمرے میں دوڑائیں۔ عجیب سی وحشت تھی اس کمرے میں۔ 

"بس اب نہیں رونا۔۔۔ سب ٹھیک ہوگیا" اس کو گلے سے لگا کر اس کا سر اپنے کندھے پر رکھ کر تپھکنے لگا۔ 

"میں نے اتنے سال بابا سے نفرت۔۔۔" 

"جو انجانے میں ہوا اسے مت سوچو امان" زمان نے اس کی بات کاٹ کر پیار سے کہا۔ 

"یہ میں نے کیا کردیا" اس کے آنسو امان کا کندھا بگھا رہے تھے۔ 

"غلطیاں تھیں مگر اب سدھارلو۔۔۔" 

"میں نے شانزہ کے ساتھ زبردستی کی زمان" آخر کار اس نے مان لیا۔ وہ دبی دبی آواز میں بولتے ہوئے رونے لگا۔ زمان بےساختہ مسکرایا۔ بلآخر وہ مان گیا تھا کہ اس نے غلطی کی۔ 

"کوئی بات نہیں اس سے معافی مانگ لو" 

شانزہ کو اس کی آواز نہیں پہنچی تھی۔ تصویر بیڈ پر رکھ کر وہ اس کے قریب آئی۔ 

"آپ روئیں مت! سب ٹھیک ہوجائے گا اور دیکھیں اللہ نے کردیا۔ اگر بابا یہ ڈائری نہ لکھتے تو کیا آج ہمیں علم ہوتا۔۔۔ نہیں نا؟ میں آپ کے ساتھ ہوں۔۔ آپ روئیں مت پلیز" اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے وہ اسے یقین دلا رہی تھی۔ امان نے اسے بہت پیار سے دیکھا تھا۔ وہ اس کے ساتھ رہے گی۔ یہ جملہ وہ کب سے سننا چاہتا تھا۔ 

"مجھے چھوڑ کر تو نہیں جاؤ گی نا؟" نگاہِ حسرت سے اسے دیکھا۔ اسے یقین تھا وہ بولے گی "نہیں"!

"کبھی نہیں" وہ مسکرائی اور امان کو لگا جیسے شانزہ نے اس کا بھرم رکھ لیا۔ وہ اسے کمزور کررہی تھی۔ وہ کمزور پڑرہا تھا۔ 

"میں نے بہت غلط کیا ہے نا تمہارے ساتھ؟ مجھے نہیں کرنا چاہئے تھا یوں! مگر تم سے بہت محبت کرتا ہوں میں۔ مجھے زبردستی نہیں کرنی چاہئے تھی۔ تمہیں پتا ہے شانزہ میں نے یہ ڈائری پڑھی اور مجھے اس بہت سبق ملا!" شانزہ اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔ وہ اتنی آسانی سے کمزور پڑجائے گا اسے علم نہیں تھا۔

"ایک یہ بھی کہ جس کے ساتھ جتنی زبردستی کرو گے وہ آپ سے اتنا ہی دور ہوتا جائے گا! میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر! مجھے یقین ہے تم مجھے معاف کردو گی شانزہ! آئم سوری۔۔۔ مجھے معاف کردو گی نا؟" اس کے ہاتھوں کو امان نے اپنے ہاتھوں میں لیا اور بہت جذب کے ساتھ اسے دیکھنے لگا۔ 

ایک لفظ تھا جو شانزہ کو اپنے دماغ میں چھبتا ہوا۔محسوس ہورہا تھا۔ "معافی!" وہ اسے گہری عجیب نظروں سے دیکھنے لگی۔ اسے اپنا چیخنا یاد آیا۔۔۔جب وہ چیخ رہی تھی، گڑگڑا رہی تھی کہ اسے امان سے نکاح نہیں کرنا۔ اسے وہ بھی یاد آیا جب صرف امان کی وجہ سے اس کے باپ نے اسے تھپڑ مارا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس کی وجہ سے اس پر بہتان لگا تھا۔ اس کی زندگی برباد ہوگئی تھی! اور یہ وہی شخص تھا جس کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے اب تک نہیں مل پارہی تھی۔ یہ وہ شخص تھا جس سے نجات پانے کے لئے وہ روز دعائیں مانگا کرتی تھی،  تو کیا وہ یوں سب غم، اذیت،اپنوں سے جدائی اور خود پر لگے بہتان بھلا کر اس کا ساتھ ہمیشہ کے لئے تھام لے؟ نہیں۔۔۔ وہ واقعی کہانیوں کے ان کرداروں کی طرح نہیں تھی جو محبت ہوجانے پر سب بھول جاتے ہیں۔ اس نے بےدردی سے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں پر جھٹکے۔ 

'کبھی نہیں" سخت نفرت بھرے لہجے میں اس نے انکار کیا۔ امان کی سماعتوں سے اس کی آواز ٹکرائی تھی اور اس کے اعصاب ڈھیلے پڑے تھے۔ اس نے بےیقینی سے شانزہ کو دیکھا۔ زمان نے تھوک نگلا۔ اِسی وقت سے ڈررہا تھا اور یہ وقت اس پر قیامت بن کر ٹوٹ رہا تھا۔ اس نے بےاختیار نظریں پھیرلیں۔ وہ اپنے بھائی کو بکھرتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 

*--------------------------------------------------------*

"میں باپ ہوں اس کا! میرا اعتبار تھا اس پر مگر اس نے توڑدیا" وہ صدمے سے دوچار ہوئے۔ نفیسہ بیگم آنکھ پھاڑے معماملے کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں۔ 

"آپ نے اس رمشا کی بات پر اعتبار کیا؟ جو شانزہ کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی تاکہ وہ عدیل سے شادی کرسکے اس نے حقارت سے رمشا کو دیکھا جس کی رنگت اب پیلی پڑرہی تھی۔ ناصر صاحب نے رمشا کو حیرت اور نے یقینی سے دیکھا۔

"ایسا نہیں ہے" رمشا اپنی صفائی میں بولی۔

"خدا کی قسم کھاؤ اور کہو کہ میں جھوٹ کہہ رہی ہوں؟" فاطمہ نے اس کے تاثرات جانچے۔ 

"کہو اب خاموش کیوں ہو؟" وہ زور سے چیخی۔ 

"کہو کہ تم شانزہ کو راستے سے ہٹانا نہیں چاہ رہی تھی ؟ تم سب جانتی تھی۔۔۔! تم جانتی تھی کہ امان شانزہ کو بلیک میل کررہا تھا مگر تم نے نہیں بتایا! تم نے شانزہ کی کمزوری کو اپنی طاقت بنالیا۔ تم نے اسے گندا کردیا گھر والوں کی نظروں میں۔۔۔ شانزہ کا ساتھ دینے کے بجائے ہمیشہ کی طرح تم نے اسے کھائی میں پھینکا ہے مگر دیکھ لو آج تم خود کنویں میں گرگئی۔۔۔ کچھ یاد ہے چاچو؟ یاد کریں جس دن شانزہ کو امان کے ساتھ کالج کے باہر دیکھا تھا آپ نے، اس دن رمشا ساتھ تھی آپ کے؟ کیسے؟ یہ بات تو آپ جانتے ہیں نا اسے شانزہ میں کوئی دلچسپی نہیں؟ وہ کیوں گئی تھی اسپیشلی اسے لینے! کیونکہ وہ ایک ایک بات سے باخبر تھی"۔ عدیل ساکت ہوا۔ دیوار پکڑتا ہوا نیچے بیٹھتا چلا گی۔ ان باتوں کو ہضم کرنا کتنا مشکل تھا۔

"تم جھوٹ مت بولو فاطمہ" رمشا چیخی۔

"ایسا نہیں ہوسکتا" ناصر صاحب چلائے۔ "رمشا نہیں کرسکتی ایسے"

"چپ رہیں ناصر صاحب آپ! کبھی تو اپنی اولاد کی طرفداری کرلیا کریں!" وہ عورت جو اتنے سالوں سے خاموش تھی آج بولی پڑی۔ 

"اپنے بچی کے لئے بِھی نہ بولی میں! مجھ جیسی ماں بھی کیا ماں ہے! مگر اب نہیں۔۔ مجھے میری بچی چاہئے ناصر صاحب!" وہ پوری وقت سے چلا رہی تھیں۔ ناصر صاحب نے فق رنگت سے رمشا کو دیکھا۔

"کیا فاطمہ سچ کہہ رہی ہے رمشا؟" وہ دھیرے سے بولے۔وہ خاموش بیٹھی رہی۔۔ کچھ نہ بولی۔

"کیا فاطمہ سچ کہہ رہی ہے رمشا" بات دہرائی تھی مگر انداز کچھ اور تھا۔ وہ چیخے تھے۔ 

رمشا نے تھوک نگل کر سہمتے ہوئے اثبات میں سرہلایا۔ ناصر صاحب ساکت ہوئے۔ نفیسہ نڈھال ہو کر ایک طرف پڑگئیں۔ 

"میری شانزہ" کانپتے ہوئے لبوں سے دو لفظ ادا ہوئے تھے۔ 

*-------------------------------------------------------*

"میں معاف نہیں کروں گی! میں کیسے معاف کردوں؟ میں آپ سے شدید نفرت کرتی ہوں امان شاہ" وہ چیخی تھی اور امان ہونقوں کی طرح اس کو دیکھ رہا تھا۔

"آپ کو کیا لگا کہ ایک لڑکی کو اغواہ کرکے زبردستی نکاح کریں گے اس سے اور پھر وہ آپ سے محبت کرنے لگے گی؟؟؟ ایک رات میں بدل گئی ایک لڑکی کوئی ماجرا تو ہوگا! مجھے آپ سے محبت نہیں ہے" وہ اسے باور کروارہی تھی اور امان! امان بےیقین تھا۔ اسے اپنے کانوں ہر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ گھٹنوں کے بل گرگیا۔ 

"تم نے کہا تھا تم مجھ سے محبت۔۔۔۔" وہ ساکت نظروں سے صرف اتنا ہی کہہ پایا۔

دور کھڑے زمان کو تکلیف ہوئی۔

"صحیح کہا تھا کسی نے کہ امان شاہ پیار کی زبان سمجھتا ہے اور دیکھو ایسا ہی ہوا۔ میں نے مضبوط کھڑے امان کو کمزور کردیا۔ اسے اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلا کر!۔ عورت اپنے اوپر ہوا کوئی ظلم نہیں بھول سکتی۔۔۔۔ میں نے محبت نہیں کی امان! میں نے جو کی ہے وہ صرف نفرت ہے" یہ کہتے ہوئے شانزہ کے لب کپکپائے تھے۔ امان کے آنکھ سے آنسو نکل کر بہہ گیا۔ 

"اب آپ اتنے کمزور ہوچکے ہیں کہ اب آپ کچھ بھی نہیں کرسکتے! کچھ بھی نہیں! اپنی محبت میں آپ کو کمزور اور لاچار کردیا ہے۔ میں جیت گئی اور اب مجھے یہاں نہیں رہنا۔ مجھے جانا ہے اس گھر سے ابھی! مجھے طلاق چاہئے امان" وہ اتنی زور سے چیخی کہ امان کو اپنے کانوں کے پردے پھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔وہ ساکت ہوا۔

"زمان" ایک آواز لبوں سے نکلی تھی۔ 

زمان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"شانزہ کو گھر چھوڑ آؤ! یہ جو چاہے گی اب صرف وہی ہوگا" تاثرات سے عاری چہرے سے وہ شانزہ کو یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ شانزہ کی لال آنکھیں اور آنکھوں میں چمکتے آنسو اس کی جیت کی گواہی دے رہے تھے۔ زمان کے ساتھ بنائے ہوئے پلان میں کامیاب ہوگئی تھی مگر زمان اپنے بھائی کی ساتھ ہی ٹوٹ گیا تھا۔ 

ایک نظر اسے دیکھ کر وہ پلٹ گئی۔ 

وہ جیت گئی تھی۔

وہ ہار گیا تھا۔ 

وہ جارہی تھی۔ 

وہ تھم گیا تھا۔ 

زمان نے گاڑی کی چابی سنبھالی اور اس کے پیچھے مڑگیا۔ وہ اس کو مکمل توڑ گئی تھی۔ اس کا وجود چھلنی ہوچکا تھا۔ سب ختم ہوچکا تھا۔

*------------------------------------------------------*

"وہ خوش ہے چاچو اب! شکر منائیں وہ شخص اسے واقعی چاہتا ہے۔۔۔ وہ خوش ہے بہت! زمان سے اسی سلسلے میں ملاقات ہوتی رہی ہے۔ ذرا شک کی نگاہوں سے دور ہٹ کر دیکھے آپ کے گھر کی بیٹیاں پاکباز ہیں۔ اس نے بیوفائی نہیں دکھائی۔ جس دم اسے عدیل بھائی کی ضرورت تھی اس وقت عدیل بھائی نے ساتھ نہیں دیا۔ دیا تو چاچو آپ نے بھی نہیں تھا" عدیل نے اپنا سر پکڑ لیا۔ یہ اس سے کیا ہوگیا تھا۔ اس نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے برباد کی تھی۔

صبور اور جاوید بےیقین کھڑے تھے۔ 

"آئم سوری تایا ابو" وہ آنسو پیتی سرجھکا کر بولی۔

"میں نے تمہیں معاف کیا رمشا! میری غلطی ہے! بھائی بھابھی کے بعد تمہاری تربیت میرے ذمہ تھی۔۔۔ میں تمہاری اچھی تربیت نہیں کرپایا" وہ دکھ اور رنج سے بولے تھے۔ سارا غرور ملیا میٹ ہوگیا تھا۔

*-------------------------------------------------------*

"گھر آگیا ہے شانزہ" گاڑی اس کے گھر کے سامنے روکی تھی۔ وہ جو سپاٹ چہرہ لئے بیٹھی تھی بائیں جانب گردن موڑ کر اپنے گھر کو اوپر سے نیچے تک دیکھنے لگی۔ اس گھر میں نہ آنے کی قسم کھائی تھی۔مگر وقت وقت کی بات ہوتی ہے!

"جی!" اسے ہوش آیا تو وہ اترنے لگی۔ اتر کر دروازہ بند کرنے کے لئے دروازے کو تھاما۔

"مجھے آپ کی یاد آئے گی زمان بھائی" دل ڈوب ڈوب کر ابھررہا تھا۔ 

"اور امان؟" ایک امید سے اسے دیکھ رہا تھا۔ شانزہ نے کرب سے اسے دیکھا اور پلٹ گئی۔ وہ یہاں رک کر  اس سوال کا جواب نہیں دینا چاہتی تھی جو اسے آتا ہی نہیں تھا۔ وہ گہری دکھ کی سانس بھرتا ہوا گاڑی آگے بڑھا کر لے گیا۔

*----------------------------------------------------*

عدیل بالوں میں انگلیاں پھنسائے بیٹھا تھا۔ یہ اس سے کیا ہوگیا تھا۔ وہ بے گناہ تھی پھر اسے کس بات کی سزا ملی؟ وہ اس کی محبت تھی۔ وہ رودیا۔

اس نے اپنی زندگی خود اپنے ہاتھوں سے برباد کردی تھی۔

فاطمہ سب باتوں سے پردہ اٹھانے کے بعد خود بھی صحن کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ رمشا کا جھکا چہرہ اور جھک گیا تھا۔ یہ سب کرنے سے پہلے اس نے لمحہ بھر کو بھی نہیں سوچا تھا کہ اگر اس کا راز افشاں ہوگیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔؟ 

*-------------------------------------------------------*

اس نے بےجان ہوتے ہاتھوں سے دروازہ کھٹکھٹانا چاہا مگر وہ اسکے ہلکے دباؤ سے ہی کھل گیا۔ دروازہ لاک نہیں تھا۔ غم اتنا تھا کہ اس پر بھی دھیان نہیں دیا۔ اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے وہ صحن تک لائی تھی۔ وہ اپنا سب کچھ ختم کر آئی تھی۔ وہ اس شخص کو چھوڑ آئی تھی مگر اپنی دنیا اسی کے پاس رکھ آئی تھی۔ صحن میں سب اکھٹا تھے۔ حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ 

"شانزہ تم؟ میری بیٹی۔۔۔۔ مم۔مجھے معاف کردو" وہ تیزی سے اس کے قریب آئے۔۔۔ ہاتھ میں تھاما بیگ ہاتھ چھوٹ زمین پر گرگیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ 

"میں نے سب کو معاف کیا" لب کپکپانے لگے۔ اس نے کسی کو بھی نہیں حتٰی کہ اپنی ماں کو بھی نہیں گلے لگایا۔ وہ دھیرے سے چلتی سیدھا اپنے کمرے میں آگئی۔ دروازے کو اندر سے کنڈی لگا کر وہ سسکتے ہوئے بیڈ ہر آبیٹھی۔ وہ اپنی قیمتی شہہ چھوڑ آئی تھی! وہ شاہ منزل میں اپنا دل چھوڑ آئی تھی۔۔۔ بس ایک ہینڈ بیگ اٹھا لائی تھی اس کے سوا اور کچھ نہیں۔۔۔ اپنا سب کچھ وہاں چھوڑ آئی۔ جذبات بھی، دل بھی۔ وہ رونے لگی۔ سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھی۔ دونوں پاؤں اوپر کرکے گھٹنوں کے گرد ہاتھ پھیلائے وہ سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے نہیں معلوم باہر کے حالات! اور جاننے کی آرزو بھی نہیں تھی۔ دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ وہیں لیٹ گئی۔ وہ کسی سے بات کرنے ابھی قابل نہیں تھی۔ سسکیاں گونجتی رہی اور بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب کمرے میں سناٹا چھاگیا۔ وہ سوگئی۔ تھک کر۔۔۔ 

*--------------------------------------------------------*

وہ گاڑی تقریباً بھگاتا ہوا گھر تک لایا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی تمام گارڈز کو اکھٹا کیا تھا۔ 

"اسلحے چھپادو! خاص طور پر امان کے کمرے میں مجھے کچھ نظر نہیں آنا چاہئے! پستول کیا پھل کاٹنے والی چھری نہ ملے مجھے وہاں! ہر دم ہر وقت اس پر نظر رکھنی ہے۔۔۔! اب جاؤ جلدی سے" وہ سب جانتے کہ زمان ایسا کیوں کہہ رہا ہے۔ وہ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ 

وہ تھوڑی دیر کے وقفے سے کمرے میں آیا۔ امان زمین پر بیٹھا دیوار سے ٹیک لگایا ہوا تھا۔ بالوں میں انگلیاں پھنسائے زمین کو تکنے میں مصروف تھا۔ اس کی حالت زمان خود سمجھنے سے قاصر تھا۔ گارڈز اسکے کمرے کی تلاشی لے رہے تھے۔ وہ اسے دیکھتا ہوا اس کے برابر دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ 

"گارڈز کیا کررہے ہیں یہاں زمان" اس کی موجودگی محسوس کرکے وہ بہت دھیرے بہت آہستہ زمین پر نظریں ٹکائے پوچھ رہا تھا۔ 

"کچھ نہیں۔۔۔ تم ٹھیک ہو؟" اس کے بالوں پر انگلیاں پھیر کر وہ نرمی سے پوچھنے لگا۔ 

"کیا وہ مجھے چھوڑ گئی زمان۔۔۔؟" ساکت نظروں سے سامنے تکتے ہوئے دھڑکتے دل سے اس سے سوال کیا۔

"تمہیں بھوک لگی ہے؟ کچھ کھانے کو لاؤں؟" وہ اس کی بات کا جواب دینے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ 

"کیا وہ مجھے چھوڑ گئی زمان؟" سوال پھر پوچھا گیا۔ زمان ٹوٹ کر رہ گیا۔ 

"وہ تمہیں چھوڑ گئی ہے امان! چلی گئی ہے" اب وہ ہمت ہار گیا۔ 

"وہ مجھے چھوڑ گئی ہے زمان! میں نے اس کے ساتھ زبردستی نکاح کیا تھا۔ میں نے غلط کیا تھا۔ اس نے مجھے چھوڑ دیا۔ دو دن میں زندگی بدلی تھی اور دو دن میں پھر بدل گئی۔۔۔ کیسے رہوں گا میں؟" اس کی طرف دیکھ کر وہ بکھرے لہجے میں کہہ رہا تھا۔

"مجھے نہیں پتا امان! پلیز میری طرف یوں مت دیکھو مجھے اذیت ہورہی ہے" زمان نے کرب سے کہا۔

"میں نے اوپر کا کمرہ لاک کردیا ہے زمان! میں منہاج ہوں نا؟ منہاج کی ماہ نور اسے چھوڑ گئی۔ تم کہتے تھے کہ تم اور بابا میں کوئی فرق نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہے زمان! ہم الگ ہیں بلکل! وہ اچھے بھی تھے۔۔ اور مجھ میں اچھائی نہیں! جو میرے قریب آتا ہےجلد بچھڑ جاتا یے۔۔۔ میں اندر سے مررہا ہوں زمان! مجھے ایسا لگ رہا ہے میری روح نکل رہی ہے میرے جسم سے! میں تڑپ رہا ہوں اور ہمت دیکھو ذرا میری وجود ہل بھی نہیں رہا جبکہ دل مچل رہا ہے۔ آج صبح اس کے ساتھ میں نے آسمان پر پھیلتی شفق دیکھی۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس کے بعد وہ مجھے ماردے گی۔۔ اگر معلوم ہوتا تو میں اس کے ساتھ وہیں کہیں رہ جاتا اور لوٹتا ہی نہیں! وہاں کے منظر میں تحلیل ہوجاتا۔ مجھے کبھی کچھ ہوجائے تو اسے کال کرکے یہ مت کہنا کہ واپس لوٹ آؤ! میں اس پر اب کوئی زبردستی نہیں کرنا چاہتا۔ اگر وہ خود آئے تو کیا ہی بات ہوجائے! مگر اس سے مت کہنا۔۔ اس سے مت کہنا کہ امان چاہتا ہے تم واپس آجاؤ چاہے میں تڑپ ہی کیوں نہ رہا ہوں! میں مر کیوں نہ رہا ہوں مگر تم اس سے کچھ مت کہنا۔۔۔اس پر زبردستی نہیں کرنا۔ دعا کرو وہ خود لوٹ آئے۔۔۔ اس سے بات کرنا خود سے۔۔۔ اس کا حال چال پوچھنا! اگر وہ میرے بارے کوئی بات کرے تو مجھے ضرور بتانا۔۔۔ مجھے ضرور بتانا" آنکھوں سے آنسو بےدردی سے صاف کئے مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا! آنکھیں پھر بھر آئیں۔ 

"خیال رکھو اپنا۔۔۔اور آؤ میرے کمرے میں چلو۔۔۔" زمان آنکھیں صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"تم نے ساری نقصان پہنچانے والی چیزیں غائب کروادی ہیں ۔۔۔بےفکر رہو" امان نے چہرہ ہاتھوں سے ڈھانپا۔ 

"کمرے میں چلو میرے! میں تمہیں اکیلے کہیں نہیں چھوڑسکتا۔۔۔۔" اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے اٹھانا چاہا۔

"میں بچہ نہیں ہوں زمان! جاؤ یہاں سے فوراً" سختی سے کہتے ہوئے امان نے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ 

"ایسا مت کرو امان۔۔۔ پلیز اٹھو! تم بہت تنگ کرتے اٹھو اب" وہ پھر سے اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔ وہ سہارے لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بیڈ پر جاکر لیٹ گیا۔ 

"بہت ڈھیٹ ہوتم" زمان نے مٹھیاں بھینچیں۔ 

"باہر جاؤ! میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں" لرزتی آواز میں کہتے ہوئے اس نے کروٹ لی۔ زمان کا دل گویا کسی نے چیر دیا ہو۔ وہ باہر کی جانب بڑھ گیا مگر دروازہ بند نہیں کیا۔ امان نے مڑ کر دیکھا تو وہ جاچکا تھا۔ کروٹ لیتے ہی اس کی آنکھیں پھر سے بہنا شروع ہوگئیں۔ وہ دعا کریگا! وہ اللہ سے اسے پھر سے مانگے گا! مگر اب سچے دل سے! وہ اب اس کے ساتھ زبردستی نہیں کریگا۔۔۔ اس کے ہر فیصلے پر دل مار کر سرجھکائے گا۔۔ مگر وہ دعا کریگا کہ اللہ اس کا دل اس کی جانب موڑ دے۔ اس نے ٹھیک کہا تھا! وہ اسے واقعی کمزور کرگئی ہے۔ اتنا کمزور کہ اس کی ہر اکڑ ملیا میٹ ہوگئی ہے۔۔۔ وہ کچھ کہہ بھی نہ سکا۔ وہ اپنی بھی نہ چلاسکا۔ وہ اسے بے بس کرگئی صرف محبت کرکے! وہ جانتا تھا وہ بہت جلد پاگل ہونے والا ہے۔۔

*-------------------------------------------------------*

وہ گہری نیند میں تھی جب اس کی آنکھ کسی کے دروازہ کھٹکھٹانے کھلی۔ سوجی آنکھوں اور لال ہوتے چہرے کے ساتھ اس نے دروازہ کھولا۔ دل اب بھی نہیں تھا کھولنے کو مگر کبھی نہ کبھی تو کھلنا ہی تھا۔ وہ ان لوگوں سے ملنا نہیں چاہتی تھی جنہوں نے اس کی سیدھی سادھی سی چلتی زندگی میں خلل پیدا کیا۔ دروازہ کھولنے پر نفیسہ بیگم نم آنکھیں لئے اس کے گلے لگیں۔ اس میں اتنی بھی ہمت نہ کوئی کہ ان کے گرد بانہیں پھیلادے۔ دس منٹ بعد اب وہ اس کا ماضی پوچھنے لگیں۔ اسے بےاختیار امان کی یاد آئی۔ وہ آخری وقت میں کیسے رورہا تھا، بلک رہا تھا۔ 

"مجھ سے مت پوچھیں اماں ایسے سوالات! مجھے اچھا نہیں لگے گا ماضی دہرانا۔ سب سے کہہ دیں کہ شانزہ کا ماضی اس سے نہ پوچھیں! وہ اگلی زندگی شروع کرنا چاہتی ہے ماضی کو پسِ پشت رکھ کر" آنکھیں مرجھا گئیں۔ 

وہ جیت گئی تھی۔ سب اس کے پلین کے مطابق ہوا تھا۔ وہ امان کو ہرا آئی خود جیت کر! مگر ہار گئی تھی۔ کبھی دیکھا نہیں ہوگا تم نے جیت کے ہارا ہوا شخص! وہ خاموش ہوگئیں۔ ماں تھی تو جستجو رکھتی تھیں جاننے کی! کہ اتنے عرصے میں کیا ہوا اس کے ساتھ! شانزہ کچھ دیر کے وقفے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اسے عشاء کی نماز پڑھنی تھی۔ اسے اپنے اللہ کے آگے جھکنا تھا۔ جب انسانوں میں دل نہ لگے تو وہ خدا ہی واحد سہارا ہوتا جس کے سامنے آپ اپنے جذبات بیان کرسکتے ہیں۔ اس کے سامنے بکھریں گے تو بعد میں دکھ نہیں ہوگا کہ کس کو حال سنادیا کہیں وہ آپ کو ہی غلط نہ سمجھے۔ وہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے۔ وہ سنتا ہے پھر حکم کرتا ہے۔۔ وہ معاف کرنے والا بڑا مہربان ہے۔ وہ اللہ کے سامنے جھک گئی۔ پیچھے بیٹھی نفیسہ بیگم نے اسے اس وقت کرب دیکھا جب وہ نماز پڑھ کر اللہ کے سامنے رودی۔ پھوٹ پھوٹ کر! جیسے کوئی گناہگار کوئی بڑا گناہ کرکے سچی توبہ کرتا ہے۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں ۔ یہ ان کی بیٹی اور اللہ کا معاملہ تھا۔ وہ چوری چھپے نہیں سننا چاہتی تھیں۔ وہ کمرے وسط سے ہوتی ہوئے باہر چلی آئیں۔ سست قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوئیں۔ ناصر صاحب سجدے میں گرے ہوئے تھے۔ یقیناً روروہے تھے۔ 

"کس بات کی معافیاں مانگ رہے ہیں ناصر صاحب! بیٹی کی زندگی برباد کرنے میں آپ کا اپنا بھی ہاتھ ہے" ڈھیلے ہوتے وجود کے ساتھ وہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔ لہجہ بھیگا ہوا تھا۔ آہستہ اور دھیرے سے کہتی ہوئیں وہ زمین کو یک ٹک گھورنے لگیں۔ وہ ان کی آواز پاکر سجدے سے سر اٹھا کر انہیں تکنے لگے۔ 

"میرا "بھی"؟ میرا ہی ہاتھ ہے نفیسہ! اسے میری ضرورت تھی! اسے اپنے باپ کی ضرورت تھی۔ کتنا پکارا ہوگا مجھے اس نے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔!" وہ کہہ ہی نہ پائے اور آنکھوں سے آنسو روا ہوگئے۔ 

"کیا تم نے اس سے پوچھا نفیسہ؟" وہ جائے تہہ کرتے ان کے قریب آئے۔ 

"وہ نہیں بتانا چاہتی ناصر! اس سے کوئی نہ پوچھے اس کا ماضی" انہوں نے آنکھیں رگڑیں۔ 

"کیسے آئی ہے وہ گھر؟ اس بےغیرت شخص نے اسے آسانی سے چھوڑ دیا؟" حیرانی متوقع تھی ۔

"مجھے نہیں پتا۔۔۔ لیکن وہ شخص اس کا شوہر ہے۔۔ نکاح میں ہے شانزہ اس کے! میں کچن میں جارہی ہوں ناصر! اس کے کمرے میں ابھی کوئی نہ جائے۔ وہ خدا کو اپنے غم سنا رہی ہے" اٹھ کر ادھ کھلے دروازے کے پار چلی گئیں۔ پیچھے بیٹھے ناصر صاحب کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا تھا۔ 

*------------------------------------------------------*

شانزہ گھر آچکی تھی۔ رمشا جانتی تھی کہ اس کے زوال کا وقت آچکا ہے۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہی تب ہوا جب وہ پکڑی گئی۔ اس نے واقعی اس وقت سوچا تھا۔ اپنے انجام کا، اپنے زوال کا۔ سب کی نظروں میں گرچکی تھی وہ۔ رونے میں کمی نہیں آرہی تھی۔ سب سے الگ الگ جا کر اس نے معافی مانگی تھی۔ عدیل کے نہ ملنے کے دکھ سے وہ اور ٹوٹ گئی تھی۔ وہ شانزہ سے معافی مانگے گی اور اسے امید تھی کہ وہ اسے معاف کردے گی۔۔۔ اسے توبہ بھی کرنی تھی۔ اپنے رب سے! اپنے گناہوں کی۔۔۔۔

*-------------------------------------------------------*

فجر کے وقت وہ امان کے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اوندھا لیٹے ہوئے وہ شاید سورہا تھا۔ زمان اس کے قریب آکر برابر میں بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے سے بال ہٹائے کر اسے پیار اور نرمی سے دیکھا۔ اس کی پیشانی کو چوما تو محسوس ہوا جیسے کسی تپتی چیز کو چوم لیا ہوا۔ اسے تیز بخار ہورہا تھا۔ زمان نے پریشانی سے اسے دیکھا اور تیزی سے دوائی اور ساتھ پانی لے کر آیا۔ 

"امان اٹھو۔۔۔" اسے جنجھوڑ کر اٹھایا تو وہ سوجی ہوئی آنکھوں ہلکی سی کھول کر اسے دیکھنے لگا۔ 

"تم یہاں کیا کررہے ہو؟" خمار آلود لہجے میں وہ اسے حیرانی اور سختی سے پوچھ رہا تھا۔

"دوائی کھاؤ تمہیں بخار ہورہا ہے!" اسے ڈپٹ کر دوائی پیش کی اور ساتھ پانی کا گلاس بھی۔ 

"مجھے نہیں کھانی" اس نے پھر سے کروٹ لے لیا۔

"کھا کر سوجاؤ۔۔" اس نے اسے اٹھانا چاہا۔

"جاؤ یہاں سے زمان میرے سر میں بہت درد ہے" اس کو خود سے دور کرتے ہوئے وہ چیخا تھا۔ 

"چیخو مت! بس یہ کھا لو جارہا ہوں میں۔۔۔۔" وہ اسے قابو کرنے کے لئے چیخا۔ 

"میری بیوی بننے کی کوشش مت کرو" امان نے گھورتے اسے گھورا۔ 

"تمہاری بیوی بننے کا شوق نہیں ہے مجھے امان۔۔۔" وہ منہ بنا کر بولا۔ 

امان کی نظریں ساکت ہوئیں۔ آنکھیں بھیگنے میں لمحے نہیں لگے۔ 

"وہ تو بیوی ہے مگر اسے شوق نہیں! اس لئے اس نے طلاق کا مطالبہ کیا۔ ہے نا زمان؟" 

زمان نے لب بھینچے ۔

"دوائی کھاؤ امان" اس نے سختی سے کہا۔ 

امان اٹھ کر بیٹھا اور دوائی کھا کر پھر لیٹ گیا۔ 

"کھالی ہے دوائی میں نے اب چلے جاؤ" امان نے نظریں پھیریں۔ 

"بخار کیوں چڑھ گیا ہے تمہیں اتنا" وہ واقعی پریشان ہوگیا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ 

"امان پلیز خود کو سنبھالو ایسا نہیں چلے گا!" اس سے رہا نہیں گیا اس نے امان کو جنجھوڑ ڈالا۔ 

"کیا سنبھالوں؟ وہ سنبھالنے والی گئی ہے تمہارے بھائی کو چھوڑ کر!" وہ حواباً چیخ پڑا۔ 

"ٹھیک ہوجاؤ" اس کا لہجہ بھیگ گیا۔ 

"میں ٹھیک ہوں مگر۔۔۔۔۔ وہ مجھے چھوڑ گئی۔ دعا کرو زمان وہ لوٹ آئے۔۔ کروگے نا دعا؟" وہ اسے امید بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ 

"کروں گا میں۔۔۔" وہ اس کے گلے لگ گیا۔ 

"اگر میں اس سب سے پہلے مرگیا تو۔۔۔۔؟" اس سب میں امان کا لہجہ کانپا تھا۔ 

"اللہ نہ کرے۔۔۔" اس نے سختی سے اسے بھینچا۔ 

"مجھے کمزوری ہورہی ہے بہت" وہ سسک کر بولا۔ 

"اٹھو جاؤ نماز پڑھو! اسے مانگو دعاؤں میں! پہلے اپنی چلائی تھی اب اس بار اللہ پر چھوڑ دو۔۔۔ بات سمجھ رہے ہو نا؟" وہ اسے بچوں کی طرح سمجھا رہا تھا۔

"کیا اللہ مجھے معاف کردے گا زمان؟" 

"کیوں نہیں! اللہ معاف کرنے والا برا مہربان ہے۔۔۔ جاؤ اور سجدے میں دل سے رو دو! " امان کی آنکھوں امید کے جگنو چمکے۔ 

"تو پھر جاؤ انتظار کس بات کا! کامیابی تمہارے انتظار میں ہے" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ 

فجر کی ہوتی آذانیں کامیابی کی طرف بلا رہی تھیں۔ اور کتنے سالوں بعد وہ اپنے رب کے آگے سجدے میں جھکا۔ جائے نماز پر اپنے بھائی کے برابر کھڑے ہوکر نماز ادا کی تھی۔ جب جب سجدہ کیا، دل چاہا سجدہ اور لمبا کردے۔ دعاؤں کا سلسلہ کافی لمبا چلا تھا۔ معافی مانگی اپنے ہر کئے گئے گناہ گی۔ معافی کے وقت آنکھیں بھیگ گئی تھیں اور شانزہ کا موضوع آیا تو ہچکیاں بندھ گئیں۔ اسے لگا اگر وہ اور شانزہ کے متعلق خدا کو بتائے گا تو خود بکھر جائے گا۔ خدا کسی بات سے لاعلم تو نہیں! اس نے خود کو بکھرنے دیا۔ رب تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو بھی جوڑ دیتا ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کا بھی جوڑ دیا جائے گا۔۔ اس نے دعا کی کہ شانزہ کا دل اس کی جانب موڑ دے۔ اس نے سچے دل سے دعا کی۔ یہ سلسلہ بھی کیا سلسلہ تھا۔ زمان نے اسے بکھرتے دیکھا تھا مگر اسے دکھ نہیں ہوا۔ وہ بکھر سکتا تھا۔ وہ رب اور اس کا معاملہ تھا اور وہ خلل نہیں پیدا کرنا چاہتا تھا۔ زمان نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو پہلے ماں باپ کی مغفرت کی دعا مانگی۔ ماں باپ کی دعا مانگ کر اپنے لئے دعا کرنی چاہئے۔ ماں باپ کا دعا میں ذکر کئے بغیر دعا قبول نہیں ہوتی۔ باپ کے لئے اور اپنی ماں کے لیے گہرائی سے دعا مانگ کر وہ اپنی دعاؤں کا رخ امان کی جانب لایا تھا اور پھر اسے نہیں خبر کہ وہ کب تک اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ اس کے بہترین مستقبل کے لیے،اس کی خواہشات پوری ہونے کے لئے اور اس کی خوشی کے لیے۔ شانزہ کے لیے بہت سی دعائیں کیونکہ دعاؤں کی اسے بھی بہت ضرورت تھی اور آخر میں وہ اپنے لیے دعا مانگنے لگا۔ اسے کیا کیا چاہیے۔۔ اس کی خواہشات، اس کی خوشیاں۔ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو دوذخ کی آگ سے بچانے لیے دعا مانگی۔ یہ بھی دعا مانگی کہ یا اللہ اس راستے پر چلا جس راستے پر تیرے مومن بندے چلتے ہیں۔ جس راستے پر تیری رضا ہے۔ ہر وہ کام سے بچا جو تیرے نزدیک غلط ہے۔۔ مجھے بھی اور میرے اہلِ خانہ کو بھی!

*--------------------------------------------------------*

دو، تین دن یونہی گزر گئے! وہ کمرے سے باہر نکلتی تو صرف کھانے پینے کے لئے! اور پھر سے اندر چلی جاتی۔گھر میں موجود لوگوں کے دل تڑپتے! ناصر صاحب اپنی بیٹی کو حسرت سے دیکھتے۔ انہیں اب پتا چلا جب کوئی اپنا آپ سے اپنائیت نہ دکھائے تو کیسا لگتا ہے۔ اتنے سالوں بعد انہیں خبر ہوئی کہ کتنا عرصہ ہوگیا اور انہوں نے ایک بار بھی شانزہ کو گلے نہیں لگایا۔ وہ مرجھاتے پھول کی طرح ہوگئی تھی۔ ہر جذبات سے عاری ہوکر وہ ڈائینگ ٹیبل سے کمرے اور کمرے سے ڈائینگ ٹیبل تک کا ہی سفر کرتی۔ کھانے کے لئے ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھتی تو سب خاموش ہوجاتے اور محبت سے اسے دیکھتے۔ سب کو اس سے محبت بھی کب ہوئی جب اسے ضرورت ہی نہ رہی۔ عدیل حسرت سے دیکھتا  اور دیکھتا چلا جاتا۔ وہ سر جھکا کر کھانا کھاتی اور ختم کر کے کمرے کی طرف بڑھ جاتی۔ گھر آنے کے دوسرے دن کھانے کے بعد جب وہ کمرے میں جانے لگی تو ناصر صاحب سے رہا نہ گیا اور اس کی طرف لپکے اور گلے سے لگالیا۔ وہ رو بھی نہ سکی۔ ہاں مگر تھوڑا عجیب سا لگا تھا۔ اس سب کی عادت نہیں تھی اسے۔ وہ کافی رات کو اس کے کمرے میں بھی آئے تھے۔ خاموشیوں کا پہرا رہا۔ کمرے میں صرف سسکیاں گونج رہی تھی ان کی۔ وہ انہیں دیکھتی رہی تکتی رہی۔ یہ آنسو اس کے لئے تھے اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ جب وہ اتنا روچکے کہ شانزہ کا دل لرز گیا تو وہ بول اٹھی۔ 

"بابا روئیں مت! آپ کی بیٹی کو تکلیف ہورہی ہے! چھوڑیں جو ہوگیا! اب وہ دیکھیں جو ہوگا! مگر فیصلہ میں کروں گی بابا" انہوں نے بڑھ کر اس کے ہاتھ چومے تھے۔ 

"میری بیٹی جو کہے گی اب صرف وہ ہی ہوگا" اس نے انہیں دیکھا تھا اور یہ وقت اسے ماضی لے گیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ تمہیں پیدا ہوتے ہی مرجانا چاہئے تھا۔ وہ لفظ تیر تھے جو اس کے دماغ کو سن کرگئے تھے۔ اس نے دل میں اٹھتے درد کو دبانا چاہا۔

وہ گھر میں یونہی پھرا کرتی جیسے کوئی مہمان! 

دیکھا جائے تو ان دو تین دنوں میں اور بھی بہت کچھ ہوا تھا۔ جیسے عدیل کی معافی! 

کمرے میں بیٹھے بیٹھے جب اسے وحشت ہونے لگی تو اس نے چھت کا رخ کیا تھا۔ وہاں عدیل پہلے سے موجود تھا مگر اب انداز بدل گئے تھے! اب دیکھنے کی چاہ نہیں تھی۔ اسے دیکھتے ہی شانزہ نے رخ موڑ لیا تھا۔ وہ نیچے کی جانب بڑھنے لگی تھی کہ عدیل اس کی طرف جلدی سے آیا۔ 

وہ کچھ بولا نہیں تھا۔ بس خاموش نظروں سے اسے تکتے رہا۔ شانزہ نے یک ٹک اسے دیکھا اور سیڑھیوں کی جانب بڑھی۔ وہ پھر سے اس کے سامنے آگیا۔

"مجھے معاف کردو شانزہ!" وہ جانتا تھا کہ وہ قابلِ معافی نہیں۔ مگر وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ 

"میں نے سب کو معاف کردیا ہے" سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ ذرا ٹہھر کر بولی تھی۔

"تو کیا مجھے؟" وہ حیران تھا۔ 

"جی" مختصر جواب۔ وہ خوش ہوگیا جیسے اس کے گناہ مٹ گئے۔

"ایک بات پوچھوں شانزہ؟" لہجے میں جھجھک واضح تھی۔ اس نے جواب نہ دیا۔

"تم نے اب کیا سوچا ہے؟" وہ اسے امید سے دیکھنے لگا۔ اگر اس نے امان کو چھوڑنے کا فیصلہ لے لیا ہے تو وہ اس کی اب بھی ہوسکتی ہے۔ 

"پتا نہیں!" سوچوں میں غرق تھی۔ اسے واقعی علم نہ تھا کہ وہ آگے کیا کرنے والی ہے؟ 

"تو کیا تم امان سے طلاق لے رہی ہو؟" 

شانزہ نے اس سوال پر اسے جلدی سے دیکھا۔ کیا سوال تھا یہ جس پر آنکھیں لہو ہوگئیں۔ 

"وہ میرے شوہر ہیں" وہ جلدی سے بولی۔ 

"میں جانتا ہوں جو میں نے کیا وہ بےحد غلط تھا شانزہ! مجھے تمھارا ساتھ دینا چاہئے تھا مگر میں نہیں دے پایا! تم اس شخص سے طلاق لیلو! اگر تم نے نہیں لی تو تم خود پر ظلم کرو گی! وہ شخص اچھا نہیں ہے۔۔۔ وہ تمہاری زندگی برباد کردے گا" شانزہ اس کی باتوں کو سکون سے سن رہی تھی جب تک اس نے یہ نہیں کہا۔ 

"میں اب تک تمہارے انتظار میں بیٹھا ہوں" شانزہ نے جھٹکے سے اسے دیکھا۔ 

"میں کسی کی بیوی ہوں عدیل! آپ کو سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہئے" شانزہ نے ایک تیز نظر اس پر ڈال نگاہیں پھیریں تھی۔ لہجہ سخت ہوچکا تھا۔ 

"میں تم سے محبت کرتا ہوں شانزہ" وہ سسک کر بولا۔ 

"میرا شوہر بھی مجھ سے محبت کرتا ہے!" وہ اسے یاد دلارہی تھی کہ وہ اکیلی نہیں۔ وہ کسی کے نکاح میں ہے۔

"مگر میں تمہیں بچپن سے چاہتا ہوں" 

"مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے آپ کا بار بار یوں کہنا۔۔۔ میں کسی کی بیوی ہوں! جو بھی ہو وہ میرے شوہر ہیں عدیل! آپ یقین کرلیں اب" لہجہ اب  بھی سخت ہی تھا۔ 

"اتنا سب کچھ ہونے کے بعد تم اس کی طرف داری کیسے کرسکتی ہو شانزہ؟؟ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا! میں کچھ بہت برا کردوں گا" وہ نفی میں سرہلاتا پیچھے ہٹنے لگا۔ 

"میں چاہتی ہوں کہ آپ شادی کرلیں اپنی پسند سے! میں اپنا مستقبل خود سنبھالنا چاہتی ہوں"۔ چاند کی مدھم روشنی میں عدیل کو یہ جملے آگ کے گولے کی طرح لگ رہے تھے۔ 

"میری پسند تم ہو!" وہ بےساختہ بولا۔ 

"کوئی فرق نہیں پڑتا اب ان باتوں سے!" اس نے رخ موڑا۔ 

"میں بدلہ ضرور لوں گا امان سے! اس نے میری زندگی تباہ کردی! میں بدلہ تو لوں گا!" وہ یہ کیا کہہ رہا تھا۔ شانزہ نے اسے سر تا پیر دیکھا۔ وہ رکا نہیں تھا۔ لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ نیچے چلا گیا۔ وہ وہیں پر رہ گئی۔ چھت پر! رات رک گئی۔ آسمان کو تکتے ہوئے بہت کچھ یاد آیا تھا۔ وہ شفق، وہ ابھرتا سورج، اور۔۔۔۔۔۔۔ کسی کا ساتھ! 

*-------------------------------------------------------*

"وہ دو دن سے یونہی بیمار ہے شہنواز! کچھ بتاؤ تم لوگ بھی کیا کروں جس سے وہ بہتر ہوجائے؟" تھکی تھکی سی نظروں سے شہنواز کو دیکھ کر مشورہ مانگ رہا تھا۔ 

"وہ لوٹ آئیں گی دادا!آپ پریشان مت ہوں" 

"کیسے نہ ہوں؟ وہ میرا بھائی ہے شہنواز! وہ تڑپ رہا ہے اور مجھے بھی تڑپا رہا ہے!" 

"میں اس گھر میں بہت سالوں سے ہوں دادا اور میں جانتا ہوں کہ یہاں کہ مکین بظاہر سخت ہیں مگر دل ان کے بہت نرم ہے! محبت اْن کو کمزور کردیتی ہے۔۔۔" اس کے ایک ایک لفظ سچے تھے۔ 

اسی دم زمان کا فون بجا۔ اس نے نام پڑھا اور چونک کر کال اٹھائی۔ 

"ہیلو فاطمہ؟" 

"اسلام علیکم"۔

"وعلیکم سلام"

"زمان! سب کیسا ہے وہاں؟" فاطمہ نے ٹہھر  کر سوال کیا۔ زمان اٹھ کر باہر گارڈن میں آگیا۔ 

"کچھ ٹھیک نہیں ہے فاطمہ! میں بہت پریشان ہوں۔۔ میرا بھائی۔۔۔ وہ مرجائے گا۔ وہ مرجائے گا فاطمہ۔۔۔ میں مرجاؤں گا۔۔ " وہ تڑپ رہا تھا۔ فاطمہ کا دل سکڑا۔ اس نے زمان کا یہ والا روپ بھی ابھی دیکھا تھا۔ 

"ایزی ہوجاؤ زمان پہلے!"  فاطمہ نے اسے تسلی دی۔ 

"کیسے؟؟؟؟؟ نہیں ہوسکتا میں۔ میرا بھائی بد سے بدترین حالت کی طرف جارہا ہے فاطمہ!" 

فاطمہ کو لگا وہ جلد ہی آبدیدہ ہونے والی ہے۔ 

"خیر! تم یہ بتاؤ وہاں سب کیسا ہے؟ سب ٹھیک ہے وہاں؟ کیسی ہے وہ؟"

فاطمہ لمحے بھر کو خاموش ہوئی۔ 

"سب ٹھیک ہے بس وہ گم صم سی رہنے لگی ہے۔ نہ کسی سے گفتگو نہ کچھ۔ میں آج اس سے بات کروں زمان"۔ اس نے زمان کو تسلی دی۔ 

"کیا کہو گی اس سے؟ اسے فورس مت کرنا فاطمہ"

"میں اس کے جذبات جاننا چاہوں گی کہ وہ کونسا راستہ چننے کا سوچ رہی ہے" فاطمہ نے اسے یقین دلایا۔ 

"مجھے آگاہ ضرور کرنا" 

"ضرور! اور ہاں ایک اور بات کرنی تھی! یہ کہ تم نے تابش سے کیا کہا تھا کل؟" 

"کیا؟" زمان کھسیانا ہوا۔ 

"انجان نہ بنو" وہ مسکراہٹ دبا کر بولی۔ 

"بھول گیا میں" 

"یہی کہ میں تمہاری منگیتر ہوں؟" 

"ہاں میں نے جھوٹ بولا" اس نے بلآخر مان لیا۔ 

"کیوں؟" 

"کیونکہ مجھے نہیں پسند وہ!" اس نے کندھے اچکائے۔ 

"تو اس کا مطلب تو اس سے کہو گے کہ میں تمہاری منگیتر ہوں ؟" وہ اسے اتنی آسانی سے تو چھوڑنے والی تھی نہیں۔

"تو بن جاؤ پھر کہنے میں آسانی ہوگی اور جھوٹ میں بھی شامل نہیں ہوگا" وہ دل کی بات آسانی س کہہ ہی گیا۔ 

فاطمہ خاموش ہوئی۔ وہ اب کیا کہتی۔ 

"کیا ہوا فاطمہ؟ کیا تم۔۔۔۔" بات خود ہی ادھوری چھوڑدی۔ دل میں ایک خوف جنم لینے لگا۔ کہیں وہ انکار نہ کردے۔ 

"یہ اس طرح کرتے خود شادی کے لئے بات؟ کوئی جملہ سوچتے ہیں کہ کیا کہنا اور کیا نہیں! مجھے وہ طریقہ پسند ہے۔۔۔" مسکراہٹ قابو کرتے ہوئے شرم سے کہنے لگی۔ زمان موبائل کے اس پار بھی اسے شرماتا ہوا دیکھ سکتا تھا۔ خوشی اتنی ہوئی کہ کھلکھلانے لگا۔ 

"بہت جلد! تم دیکھنا! بلکل الگ انداز میں اپنی خواہش ظاہر کرنے والا ہوں۔۔۔ میرا انتظار کرنا فاطمہ" کہہ کر تھوڑی دیر بات کرکے فون رکھ دیا۔ 

تو ایک مشکل بلآخر آسان ہوگئی۔

وہ اس کی ہوجائے گی یہ احساس بھی اچھا تھا۔

اسے امان کا خیال آیا تو اوپر چلا آیا۔ وہ اب بھی یونہی بخار میں تپا ہوا تھا۔ اس کی دوا کا وقت ہوگیا تھا۔ سب سے مشکل کام ہی اسے دوا کھلانا تھا۔ 

"یہ لو دوا کھاؤ اٹھو۔۔۔" تھپک تھپک کر اسے اٹھایا تو کسمساتا اٹھ بیٹھا۔ 

"کیا وہ آئی زمان؟" پہلا سوال ہر بار کی طرح یہی تھا کہ وہ آئی تو ہوگی۔ 

"نہیں۔۔ تم دوا کھاؤ"  اس نے دوا پیش کی۔ 

"مجھے دیکھنے بھی نہیں آئی؟" وہ امان کی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کررہا تھا۔ 

"نہیں۔۔۔ آئے گی تو تمہیں اٹھادوں گا۔۔ اب کھاؤ دوائی" امان نے مرجھاتے چہرے سے دوائی کو دیکھا اور ہاتھ بڑھا کر دوائی اٹھائی۔ 

"تم خود سے کال کرو امان۔ کیا پتا وہ تمہاری کال کا انتظار کررہی ہو" 

زمان نے اسے سمجھانا چاہا۔

"میں اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرنا چاہتا زمان۔ وہ لوٹ کر آئے ہمدردی میں؟ میں نہیں چاہتا۔۔۔ وہ آئے خود سے محبت میں۔۔۔ اس کو کوئی خبر دے کہ اس کے قدموں کی آہٹ سننے کو امان شاہ کے کان ترس گئے ہیں" زمان نے لب بھینچے۔ 

زمان خاموش رہا۔ شاید وہ صحیح کہہ رہا تھا۔ 

"کیا ظہر کی نماز کا وقت ہوگیا یے؟ " وہ برابر میں رکھے سیل فون سے وقت دیکھنے لگا۔ 

"جی ہوگیا ہے۔۔۔ اٹھ جاؤ" اسے اچھا لگا کہ اس نے نماز کو اپنی زندگی کا اہم جزو بنادیا۔ انگلیوں کے پوروں سے وہ گن رہا تھا کہ شانزہ کے قدم اس گھر میں کب سے نہیں گونجے

*--------------------------------------------------------*

"تائی شانزہ کہاں ہے؟" اس کے چہرے سے صاف ظاہر ہورہا تھا وہ روئی ہے۔ نفیسہ اس کے قریب آئیں۔ 

"کیا ہوا رمشا" اس کا ماتھا چوم کر انہوں نے پیار سے پوچھا۔ 

"مجھے ندامت آگہرا ہے تائی۔میں نے اچھا نہیں کیا نا تائی؟ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔۔ میں نے کتنا غلط کردیا۔ مجھے معاف کردیں" اس کے آنسو تیزی سے بہنے لگے۔ 

"میں نے معاف کیا میری جان۔۔۔ رو مت!" وہ دکھ بھلانا چاہتی تھیں مگر بھلا نہیں پارہی تھیں۔ انہیں رمشا کو دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ ماں نہیں تھیں مگر ماں بن کر پالا تھا۔ 

وہ گلے لگ کر کتنی دیر روتی رہی۔ 

"کیا شانزہ مجھے معاف کردے گی؟" بھیگے لہجے میں وہ بہت جذب سے پوچھ رہی تھی۔ 

"اس سے معافی مانگ کر تو دیکھو۔۔ وہ کمرے میں ہے چلے جاؤ" اس کو تھپکتے ہوئے وہ مسکراتی کچن میں چلی گئیں۔ رمشا نے مڑ کر اس

کیا کررہی ہو شانزہ؟" اسے کپڑے تہہ کرتے دیکھ کر فاطمہ پوچھتے ہوئے بیڈ پر بیٹھی۔ 

"الماری صاف کررہی ہوں" سرسری انداز میں کہتے ہوئے اس نے ایک کے اوپر ایک تہہ ہوئے کپڑے ڈالے۔ 

" تم نے کیا سوچا ہے پھر؟" وہ اصل مدعے کی جانب آئی۔ 

"کس بارے میں؟" 

"چار پانچ دن ہوگئے ہیں۔ تم نے کیا فیصلہ لیا اپنی ازدواجی زندگی کے متعلق؟" 

شانزہ نے ایک گہری سانس خارج۔ 

"مجھے نہیں پتا کچھ بھی"وہ الجھی ہوئی تھی۔ 

"تم طلاق لیلو اس سے" فاطمہ نے مشورہ پیش کیا اور جواباً اس کے تاثرات جاننے لگی۔ شانزہ کا چہرہ یک دم فق ہوا تھا۔ آنکھوں سے بےاختیار آنسو خارج ہوئے۔

"تم رو مت! رو کیوں رہی ہو؟ میں نے صرف وہ کہا جو مجھے لگا۔۔۔ اگر میری خواہش پوچھو تو میں چاہوں گی کہ تم لوٹ جاؤ! تمہارا شوہر تمہارا منتظر ہے مگر تم وہی کرنا جو تمہارا دل چاہتا ہے" فاطمہ نے قریب آکر اسے پیار سے دیکھتے ہوئے اس کا ہاتھ چوما۔ لمحوں کے ہزاروے حصے میں اس کو امان کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگانا یاد آیا۔ اس نے تھوک نگلا۔ 

ہلکی سی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا اور رمشا اندر آئی۔ شانزہ بستر پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ 

"شانزہ" لب بھینچتی وہ اس کے قریب آئی۔ 

شانزہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"آئم سوری شانزہ! مجھے معاف کردو۔"

شانزہ نے اسے تھکے تھکے سے انداز میں دیکھا۔

" میں عدیل کو پانے کی چکر میں اتنی اندھی ہوگئی تھی کہ صحیح غلط کا فرق بھول گئی !" وہ گڑگڑانے لگی۔ 

"میں نے کہا تھا میں نے سب کو معاف کردیا یے پھر سب کیوں علیحدہ علیحدہ آکر پوچھ رہے ہیں؟" مدھم مگر تھکی تھکی آواز میں کہا۔

"تم جب تک اپنے منہ سے مجھے نہیں کہو گی میں یوں ہی روتی رہوں گی شانزہ! تم نے ہمیشہ میرا خیال رکھا اور میں نے یہ کیا کردیا تمہارے ساتھ" 

"میں نے تمہیں معاف کیا رمشا! سب کو معاف کیا۔۔۔"کہتے ساتھ اپنے چہرے کو ہاتھوں سے چھپا لیا۔ رمشا پھولی نہ سمائی۔ 

"تھینک یو سو مچ شانزہ! اور یہ کہ۔۔۔۔ میں جان چکی وہ ایک شخص میرا کبھی نہیں ہوسکتا مگر ۔۔۔۔ مگر تمہیں بہت چاہتا ہے اگر تم طلاق لے کر اس سے شادی کرلو گی تو تم دونوں ہی بہت۔۔۔۔" 

"فار گاڈ سیک رمشا! میں کسی بیوی ہوں یہ سب کیوں نہیں سمجھ رہے! ایک عرصہ گزارا ہے اس شخص کے ساتھ! مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے کہ تم لوگ میرے شاہر کے ہوتے ہوئے کسی نامحرم سے میرا جوڑ رہے ہو!" وہ اٹھ کھڑی۔

"میں طلاق نہیں لے رہی! میں جاؤں گی کیونکہ میں اس شخص سے جو میرا شوہر ہے محبت کرتی ہوں" وہ تنگ آکر اپنا فیصلہ سنا گئی۔ 

رمشا نے حیرت سے اسے دیکھا جبکہ فاطمہ نے خوشی سے۔ شانزہ نے ایک نظر دونوں کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ فاطمہ اس کے پیچھے بھاگی۔

*--------------------------------------------------------*

"نفیسہ؟ کیا سوچ رہی ہو" ناصر صاحب گم صم سی نفیسہ کے پاس آکر بیٹھے۔

"شانزہ کی وجہ سے پریشان ہوں ناصر!" وہ دکھ سے بتا رہی تھیں۔ 

"نفیسہ میں چاہتا ہوں وہ اب فیصلہ لیلے۔ اس شخص کے ساتھ رہنا چاہتی یے یا اس سے طلاق لینا چاہتی ہے" 

"اسے اور وقت درکار ہوگا! یہ فیصلہ سوچ سمجھ کر ہی لئے جاتے ہیں" انہوں نے ہاتھوں میں تھامی تسبیح گھمائی۔ 

"میرا بس چلے تو اس شخص کو قتل کردوں!" انہوں نے دانت پیسے۔ نفیسہ نے گردن موڑ کر انہیں دیکھا۔ 

"وہ شخص محض ایک کردار تھا۔ اصل میں تو آپ سب کا بھروسہ جانچنا تھا۔ اس شخص کے آنے سے کم از کم یہ تو پتا چل گیا تھا کہ کون اپنا ہے اور کون غیر!"وہ طنز کرنا نہ بھولی تھیں۔ وہ خاموش ہوگئے۔ 

"کیا پتا وہ واقعی اس کا خیال رکھ سکتا ہو؟ بیٹی کے معملے میں اس شخص کو خود سے گلے بھی لگانا پڑھ سکتا۔ وہ جو فیصلہ لے گی، ویسا ہی ہونے دینگے۔ اس نے شانزہ کو اس کی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ اگر رہنا چاہتی ہے اس کے ساتھ رہ سکتی ہے! اور یقیناً وہ اس کے انتظار میں ہوگا۔ شوہر ہے وہ اس کا۔ گھر میں آکر اپنی بیوی کو دیکھ سکتا ہے، بات کرسکتا ہے کیا ہم کچھ کرسکتے ہیں؟ نہیں! نہیں کرسکتے" 

وہ بھی ہاں میں سرہلانے لگے۔ شاید مانتے تھے ان کی باتوں کو۔ 

"اور اگر وہ اس شخص کے پاس نہیں چاہے اور طلاق اس کا فیصلہ ہوگا تو اس کے بعد گھر والے خوش فہمی میں نہ رہیں کہ میں اس کا رشتہ عدیل سے کروں گا!" وہ دو ٹوک بات کررہے تھے۔ 

"بلکل بھی نہیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں" انہوں نے بھی ان کی بات کی ہامی بھری۔ بدلتے وقت نے سب کے چہرے بےنقاب کئے تھے۔ 

*-------------------------------------------------------*

"میری بات کو سمجھو شانزہ! تم پر کوئی زبردستی نہیں! تمہارا دل کہتا ہے تو ہی پلٹو۔۔ کسی کی باتوں میں آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جو دل کہتا وہ ہی کرو" اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ فاطمہ نے یقین دلایا تھا کہ وہ اس کے ساتھ ہے۔ 

"میرا دل بہت کچھ کہتا ہے فاطمہ۔ ایک ہفتہ ہونے کو ہے اور ہم نے ساتھ مل کر ابھرتی شفق بھی نہ دیکھی۔ میں جانا چاہتی ہوں فاطمہ۔ میں چاہتی ہوں امان مجھے خود کال کریں۔ وہ کہیں کہ انہیں میری ضرورت ہے۔ وہ کہیں کہ شانزہ واپس آجاؤ۔ وہ کہیں تو! بس ایک کال کردیں۔ بس ایک کال" اس کی آنكھوں میں امید کی کرن تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ کال کریگا! اس سے پوچھے گا کیسی ہے امان کی جان؟ وہ اس کے پاس آئے گا اور چوم کر آنکھوں سے لگائے گا۔ مگر یہ امید بھی اب ماند پڑرہی تھی۔ ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اس کے موبائل میں "امان" کا نام نہیں چمکا تھا۔ 

"وہ کال کرینگے تمہیں" اس نے امید دلائی۔

شانزہ نے اثبات میں سرہلایا۔ 

"وہ کرینگے! مگر انہیں ایسا کرنے کا تم نہیں کہو گی۔ وہ خود کریں گے۔ محبت بہت گہری ہے ان کی۔ وہ کریں گے۔ اس امید پر قیامت تک بیٹھی رہوں گی" 

فاطمہ متحیر ہوئی۔ 

"تمہیں یقین ہے؟" 

"مجھے یقین ہے" وہ جذب سے بولی۔ "وہ صبح کی شفق جھوٹی نہیں ہوسکتی۔ وہ محبت سے دیکھ کر مسکرانا بھی جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ وہ کریں گے کال مجھے۔ پھر ہی میری قدم اس گھر میں اٹھیں گے" ہلکی ہلکی بارش شروع ہوچکی تھی۔ موسم کی پہلی بارش۔۔۔ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کھلے آسمان کو دیکھا اور آنکھیں میچ لیں۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں اس کے چہرے کو برف کرنے لگیں۔ اس نے شانزہ کا ہاتھ تھاما اور اندر لے کر بڑھ گئی۔ بارش میں تیزی آرہی تھی۔ٹھنڈ بڑھنے لگی۔ وہ اس کے پاس امان کی امانت تھی۔ شانزہ اس کے ساتھ کھنچتی چلی گئی۔

*------------------------------------------------------*

"تم اسے کال کرو زمان! اس سے اس کا حال پوچھو۔ اس سے پوچھو وہ کیسی ہے؟ کیا وہ ٹھیک ہے؟ کال کرو اسے" 

زمان نے موبائل سے نظریں اٹھائیں۔ اس کی بات نے اسے کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ 

"کیا سوچ رہے ہو؟ اسے کال کرو" امان کے ماتھے بل نمودار۔ 

"میں کیوں کروں؟ تمہاری ذمہ داری ہے! بیوی ہے تمہاری! پوچھو اس کا حال چال! اس سے پوچھو اسے پیسوں کی ضرورت تو نہیں آخر تمہاری ذمہ داری ہے وہ!" زمان نے بنھویں اچکائیں۔ 

امان سوچ میں پڑگیا۔ 

"اسے واقعی میں پیسوں کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ یہ خیال کیوں نہ آیا مجھے؟" 

"ظاہر تمہاری ذمہ داری ہے وہ! تمہیں اتنی دیر سے کیوں یاد آیا؟" 

امان نے لب بھینچے۔ 

"کیا مجھے کال کرنی چاہیے ؟" زمان نے اس کے تاثرات جانچنے چاہے۔ اس کے چہرے پر خوف واضح تھا. 

"اس سے اتنا ڈرتے ہو؟" 

امان نے نظریں پھیریں۔

"وہ مجھ سے طلاق کا مطالبہ نہ کردے زمان۔ میں اْس گھڑی سے ڈررہا ہوں" اس نے اپنا خوف ظاہر کیا۔ 

"وہ اپنا مطالبہ پہلے ہی پیش کرچکی ہے!" 

"مت کہو ایسا زمان! مجھے تکلیف ہوتی ہے" اس نے سر اپنے ہاتھوں میں دیدیا۔ 

زمان اٹھ کر اس کے قریب آیا۔

"تم اس کو کال تو کرو! اس سے پوچھو! اس سے بات کرو! کیا پتا وہ تمہارا انتظار کررہی ہو" زمان نے کہتے ساتھ سائیڈ سے امان کا فون اٹھایا۔ 

"میں کال ملا رہا ہوں"زمان نے امان کا موبائل سنبھالا۔

"اگر کچھ ہوگیا تو؟ اگر اس نے کہا اتنی مشکل سے تم سے جان چھوٹی ہے تم پِھر آگئے؟" ماتھے پر بل ڈالے وہ پریشانی سے اس سے پوچھ رہا تھا۔ 

"اچھا ہے کبھی تمہاری بےعزتی بھی ہونی چاہیے تاکہ تم میرا دکھ سمجھ سکو!" کال ملا کر اس کے ہاتھ میں فون دیا اور اٹھ کر باہر چلاگیا۔ وہ ان کی گفتگو نہیں سننا چاہتا تھا۔ لاؤنج میں بیٹھے امان کا خوف سے چہرہ رنگ بدل رہا تھا۔ اس نے کان پر فون لگا کر دوسری طرف کھلی کھڑکی کی طرف دیکھا جہاں ہلکی ہلکی بارش ہورہی تھی۔ اسے شانزہ کی کمی محسوس ہوئی۔

اترا ہے میرے شہر میں محبت بھرا موسم!

*-------------------------------------------------------*

"فاطمہ جلدی جلدی اتارو رسی سے کپڑے! بارش تھوڑی دیر میں تیز ہوجائے گی" شانزہ نے ایک ہی وقت میں کافی سارے کپڑے اتارے اور اندر لے کر آئی۔

"میں کوشش کررہی ہوں کہ ایک وقت میں سارے کپڑے اتارلوں" ٹیرس سے فاطمہ کی آواز آئی۔ شانزہ نے سارے کپڑے اپنے کمرے کے بیڈ پر ڈالے۔ 

وہ مڑنے لگی کہ موبائل پر آتی کال نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ سائیڈ میز سے اس نے موبائل اٹھا کر نام پڑھا۔ "امان" کا نام جگمگا رہا تھا۔ وہ ساکت ہوئی۔ اس کا کہنا اتنی جلدی قبول ہوگا؟ خوشی اور مسرت کے مارے اس نے کال اٹھا کر کان پر موبائل رکھا۔ وہ خاموش رہی۔ دوسری طرف بھی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ امان کو خوف نے آگھیرا تھا۔ وہ کچھ نہ بولا اور وہ بھی۔ 

کچھ لمحوں تک وہ دونوں ہی ایک دوسرے کی خاموشی سنتے رہے۔ 

"شانزہ" ایک لفظ نکلا تھا امان کے لبوں سے! 

شانزہ کے چہرے ہر مسکان پھیلی۔ کتنے دنوں بعد اس کے منہ سے اپنا نام سنا تھا۔ 

"جی" شانزہ نے جواب دیا۔ 

"کیسی ہو؟" ایک سوال کیا تھا۔ 

"ٹھیک ہوں۔۔" مختصر جواب۔ 

"مجھے معاف کردو۔۔۔" لہجہ کانپ اٹھا۔ 

" اس سے کیا ہوگا؟" 

"میں سب سے معافی مانگ لوں گا! تمہارے بابا سے بھی۔۔۔ اور۔۔ اور اگر تم کہو گی تو عدیل سے بھی" شانزہ نے حیرت سے فون کو دیکھا۔ اس شخص کو عدیل سے کتنی نفرت تھی اس کے باوجود وہ صرف شانزہ کے لئے عدیل کے پاؤں پڑنے کو تیار تھا۔ 

"ان سب سے کیا ہوگا؟" وہ کیا اگلوانا چاہتی تھی؟ 

"تم لوٹ آؤ شانزہ! میں کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔ کہ امان کے کان ترس گئے ہیں شانزہ کی آواز سننے کو، اس کی قدموں کی آہٹ سننے کو! وہ چاہتا ہے کہ شانزہ کے ساتھ ابھرتے سورج کو دیکھے، پھیلتی شفق اور اڑتے پرندوں دیکھے اور منظر میں کھوجائے۔ وہ چاہتا ہے کہ شانزہ اسے موقع دے کہ وہ اسے خود اپنے ہاتھوں سے شال پہنائے" وہ رکا نہیں تھا! کہتا گیا! 

شانزہ کی سانسیں گہری ہوئیں۔ وہ خاموش ہوا اس کا جواب سننے کے لئے۔ ہھر کئی لمحے گزر، کافی سیکنڈز گزر گئے مگر اس کی آواز نہ آئی۔ امان کے دل میں خوف کی لہر پھیلی۔ یہ علامت کہیں اس مطالبے کی تو نہیں تھی؟ اس کی سانسیں اٹک گئیں۔ 

"شانزہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر خود اس کے پاس چل کر آئے!" ساکت ہونے کی باری اب امان کی تھی۔ " وہ چاہتی ہے کہ وہ ہر چھٹی والے روز ساحلِ سمندر پر شفق دیکھتے گزاریں۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر یہ جان لے کہ وہ اسے چھوڑ کر نہیں جائے گی۔ وہ چاہتی ہے اس کا مجازی خدا اس کا نام دل پر لکھ لے تاکہ وہ مٹ نہ سکے۔ وہ چاہتی ہے کہ اس خوبصورت موسم میں وہ اور اس کا شوہر شہر کی سڑکوں پر آوارہ گردی کریں اور انہیں وقت کا احساس نہ ہو! یہ ملن کا موسم ہے اس لئے شانزہ چاہتی ہے کہ اس کا شوہر آدھے گھنٹے سے پہلے پہلے اس کو لینے آجائے ورنہ وہ پھر سے روٹھ جائے گی" امان کا دل مچل گیا۔ ہکا بکا اس کو سن کر فون کو تکنے لگا۔ یہ وہ کیا کہہ رہی تھی؟ امان کی آنکھیں گیلی ہوئیں۔ وہ متحیر ہوا۔ کیا وہ اپنی قسمت پر رشک کرے؟ وہ چلتا ہوا لاؤنج کے دروازے پر آیا جس کے باہر گارڈن تھا۔ 

"اور تمہیں پتا ہے امان کیا چاہتا تھا؟ امان چاہتا ہے اس کی شانزہ جلدی سے تیار ہوجائے کیونکہ کراچی کی سڑکیں اور یہ موسم ان کا انتظار کررہے ہیں۔ میں آرہا ہوں شانزہ! تمہارا امان آرہا یے۔ میرا انتظار کرو" شانزہ نے مسکراتے ہوئے ساتھ کال کاٹی اور نیچے نفیسہ کے کمرے میں بھاگی۔ 

"اماں میں جارہی ہوں" خوشی سے کہتے ہوئے اس نے نفیسہ کو اطلاع دی۔ نفیسہ نے پیچھے مڑ کر شانزہ کے چہرے کو دیکھا جہاں زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔ مدھم سی مسکراہٹ ان کے لبوں پر رینگی تھی۔ 

*--------------------------------------------------------*

"میں جارہا ہوں زمان۔ وہ میرا انتظار کررہی ہے" خوشی سے پھیلتی امان کی آنکھوں کو دیکھتے ہوئے وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگا۔ موبائل زمان کے ساتھ چھوٹتے ہوئے بچا۔ 

"کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟" وہ خوشی کے مارے چیخا تھا۔ 

امان جو تیزی سے جیکٹ پہن رہا تھا اس نے آنکھوں میں آئے آنسو کو انگلیوں کے ساتھ اثبات میں سرہلایا۔ زمان اس کے تیزی سے آکر گلے لگا۔ 

"میں نے کہا تھا نا وہ آئے گی؟ بس ایک کال کرنے کی دیر تھی۔ جاؤ اس کے پاس! اللہ تمہیں ہر خوشی دے۔ کامیابی تمہارے قدم چومے" اس نے اسے زور سے بھینچا اور تپھک کر پیچھے ہٹ گیا۔ 

امان نے مسکرا کر صوفے سے شال اٹھائی۔ 

"شال کس کے لئے لے کر جارہے ہو؟" وہ اسے چھیڑتے ہوئے پوچھنے لگا۔ 

"میں جانتا ہوں وہ شال نہیں پہن کر آئے گی! مجھے ہی دینی پڑے گی" کہتا ساتھ چابی اٹھاتا مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ پیچھے کھڑا زمان نے آج کتنے دنوں بعد اس کے چہرے پر کھلتی ہوئی مسکراہٹ دیکھی تھی۔ وہ اب بھی بے یقین تھا اور آنکھیں پھاڑے یقین کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ تو کیا وہ اسے معاف کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی؟ زمان نے مسکرا کر امان کو جاتے دیکھنے لگا۔

*------------------------------------------------------*

وہ تقریباً بھگاتا کوا گاڑی لایا تھا۔ وہ اس موسم کا لطف اپنی شریکِ حیات کے ساتھ مل کر لینا چاہتا تھا۔ گھر کے سامنے گاڑی روک کر گاڑی کا ہارن بجایا اور بجاتا چلا گیا۔ 

اندر نفیسہ کے پاس بیٹھی اس کی گاڑی کا ہارن سنا تو پرس اٹھاتی ماں کے گلے لگتی باہر کی جانب بھاگی۔ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھی اور گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ وہ اسے دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ اسے مخاطب بھی کرنا بھول گیا تھا۔

"پوچھیں گے نہیں کہاں جانا چاہوں گی؟" 

اس نے محبت سے شکوہ کیا۔ 

"کہاں جانا چاہو گی؟" اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا وہ اس کے سحر میں کھویا ہوا تھا۔ 

"بہت دیکھ لیا ہم نے ابھرتا سورج! اب ہم ڈوبتا سورج دیکھیں گے۔۔۔ اس ہلکی رم جھم میں شانزہ اور شانزہ کا امان دونوں ساحل کنارے کھڑے ہوکر اپنے مسقبل کا سوچیں گے۔ اپنی زندگیوں سے وحشتوں کو ختم کردیں گے۔ بھاپ اڑاتی چائے بھی پئیں گے اور دونوں ہاتھوں میں ہاتھ تھامے ننگے پیر گیلی ریت پر چلیں گے۔ جب پورے طریقے سے دل بھر جائے گا تو گھر کی راہ لیں گے اور زمان بھائی کی شادی کے بارے میں سوچیں گے" وہ آخری جملہ ہنستے ہوئے بولی تھی۔ وہ اس کی کھلکھلاہٹ میں کھو جانا تھا۔ وہ اس کا ہوجانا چاہتا تھا۔ وہ اس کا ہوچکا تھا۔ اسے اپنی قسمت پر رشک محسوس ہوا۔ اسے یاد آیا وہ کتنی بار اپنی قسمت کو کوس چکا ہے۔ قسمت بری نہیں ہوتی بلکہ انسان جو کچھ بوتا وہی کاٹتا ہے۔ وہ اس کے ساتھ تھی یہ کافی تھا امان کے لئے۔ 

*------------------------------------------------------*

شاہ منزل میں رنگ بکھیرتی خوشی کا داخلہ ہوا تھا۔ تین دن سے سب کچھ بدلا ہوا تھا۔ اس گھر میں شانزہ کو لوٹے تیسرا دن تھا۔ یہاں زمان کے قہقہوں کے ساتھ امان کی ہنسی بھی گونج رہی تھی۔ 

"ناشتہ تو لادے کوئی اللہ کا بندہ" وہ ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھا پندرہ منٹ سے دہائیاں دے رہا تھا۔ 

"لارہی ہوں زمان بھائی" وہ کچن سے ٹرے لے نکلی اور میز پر رکھی۔ 

"واہ واہ کیا ناشتہ بنایا ہے" اس نے ڈھکن اٹھا اٹھا کر دیکھے۔ شانزہ نے مسکرا کر ارد گرد دیکھا۔

"امان کدھر ہیں؟" اسی وقت امان لاؤنج میں داخل ہوا۔ 

"نام لیا شیطان حاضر" زمان اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتا ہوا بولا۔ 

"کیا کہا ذرا واپس تو دہرانا" امان نے اس کا کان پکڑ کر کھینچے رکھا۔۔

"آہ ہ۔۔ دیکھو "ش" کا کمال ہے! اب میں تمہیں شیطان کہوں یا شوہر! بات تو ایک ہی ہے" وہ اپنا کا چھڑاتا ہوا بولا۔ 

"ہم بھی دیکھیں گے" امان مسکراتا ہوا بنھویں اچکاتا ڈائیننگ ٹیبل کی کرسی کھینچ کر بیٹھا۔ 

"شادی تو ہوجانے دو" وہ ناشتہ شروع کرتے ہوئے بولا مگر پر کچھ یاد آنے پر ہاتھ روک لئے۔ 

"شانزہ آجاؤ اس سے پہلے میں تمہارے شوہر کو کھاجاؤں! بھوک ناقابلِ برداشتت یے" زمان نے کچن کی طرف آواز لگائی۔ 

"آرہی ہوں زمان بھائی" کہتے ساتھ چائے کی ٹرے بھی لے آئی۔ ٹرے میز پر سجا کر امان کے برابر میں بیٹھ گئی۔ سب نے ناشتہ ساتھ شروع کیا۔ زمان کے موبائل پر بپ ہوئی تو وہ بائیں ہاتھ سے موبائل نکال کر نوٹیفکیشن دیکھنے لگا۔ 

شانزہ نے اسے مصروف دیکھا تو امان کی طرف گردن موڑی۔ 

"میں نے آپ کے لئے کافی بنائی ہے" مدھم آواز میں کہتی وہ نظریں ملا کر بھی نہ بول پائی تھی۔ امان کے لبوں ہر مسکراہٹ پھیلی۔ 

"نوازش آپ کی" اس کی جھکی پلکوں اور سرخ ہوتے گالوں کو دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ یہ بھی نہ محسوس کرسکا کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ 

"ٹھیک ہے بیوی ہے مگر کمرے سے باہر صرف مجھے دیکھ کر گزارا نہیں کرسکتے؟" زمان نے اسے گھورا۔ امان گڑبڑایا۔ 

"نہیں وہ۔۔ میں۔۔" 

"مجھے بھی دیکھ لیا کرو" زمان نے شرمندہ ہوتے امان کو دیکھا۔ شانزہ کی جھکی نظریں اور جھک گئیں۔ 

"تمہیں دیکھنے سے اچھا میں کسی دیوار کو گھور لوں" زمانے بنھویں اچکائیں۔

"اپنے مشاغل بیان نہ کرو شاہ صاحب" اس نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ امان نے خاموشی میں ہی عافیت جانی۔ 

"خیر میری بات سنیں آپ دونوں! آج آپ دونوں نے گھر جانا یے میرے! اور جیسے میں نے بتایا تھا ویسے ہی کہنا ہے آپ نے امان!! اوکے؟" زمان کسی کو سوچ کر مسکرادیا۔ 

"ہم کل جائیں گے" امان نے اپنا فیصلہ سنایا۔

"ہاں یہ ٹھیک کہہ رہا ہے" زمان نے اس کا ساتھ دیا اور دونوں نے آپس میں تالی ماری۔

"ہم آج ہی جائیں گے۔ میں نے ماما سے کہا تھا کہ کچھ روز میں آپ دونوں کو لے کر آؤں گی! کسی سے نہیں ملے آپ لوگ اور اکثر نے تو چہرے بھی نہیں دیکھے آپ کے" وہ دونوں کو باری باری گھورتے ہوئے بولی۔ 

"بلکل ٹھیک! ہم آج ہی جائیں گے" امان نے پینترا بدلا۔ زمان حیرانی سے اسے دیکھنے لگا۔ 

"اوہو! فوراً اپنی بات سے پھر گئے؟" 

"بیوی کی بات بھی ماننی پڑتی ہے یار" وہ مبہم سا مسکرایا۔ شانزہ بھی ہنس دی۔ 

"شانزہ!" امان نے شانزہ کو مضاطب کیا۔ 

"میرا جانا بنتا ہے مگر زمان کیوں؟" اس نے آنکھیں سکیڑ کر زمان کو دیکھا۔

"تو کیا مجھے جھولے سے اٹھایا تھا؟ میں تمہارا بھائی نہیں ہوں؟" اس نے میز پر ہاتھ مارا۔

"میں نے آپ کو بتایا تھا کل رات! ان کا پروپوزل لے کر جانا ہے"۔ شانزہ نے امان کے آگے اس کی کافی کا کپ رکھا۔ 

"اس کا رشتہ؟ اتنا بڑا ہوگیا ہے یہ پتا بھی نہیں چلا" امان کی بات ہر شانزہ کا اپنی ہنسی نہ روک پائی۔

"ہاں میں اس کے ہونے کے دس سال بعد پیدا ہوا تھا" زمان نے طنز کیا۔ امان کا قہقہہ گونجا

"ویسے شانزہ بھابھی! کہو گی کیا وہاں پر جاکر؟" 

"کس بارے میں؟" 

"میرا پروپوزل؟" 

"فاطمہ نے گھر میں سب کو بتادیا ہے نا؟" شانزہ نے کنفرم کرنا چاہا۔ 

"ہاں کہہ رہی تھی صبور آنٹی کو بتادیا ہے! یقیناً انہوں نے سب کو خبر کردی ہوگی" 

"اوہ اچھا اچھا! پہلے تو ملاقات کرواؤں گی۔ پھر کہہ دوں گی اپنے دیور کا پروپوزل لائی ہوں" 

صدمہ! 

ایک اور صدمہ!

"کون دیور؟؟؟ جیٹھ ہوں تمہارا میں" اس نے میز پر پھر سے ہاتھ مارا۔ میز توڑنے کا پورا ارادہ کیا ہوا تھا۔

"کیوں؟ کیا آپ بڑے ہیں امان سے؟" لہجے میں حیرانگی واضح تھی۔ 

"دس منٹ بڑا ہوں میں پورے!" اس نے جیسے کوئی بہت بڑی اطلاع دی۔ 

"واقعی؟" شانزہ نے آنکھیں پھاڑیں ۔

"کوئی شک؟" 

شانزہ نے حیرت سے امان کو دیکھا جو کندھے اچکاتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ 

"ہاں دیکھ لو ایک دوسرے مگر خدا کا واسطہ ہے اب مجھے دیور مت کہنا! کہہ دینا کہ جیٹھ کا رشتہ لائی ہوں" 

شانزہ چونکی۔

"چلیں جیسا آپ کہتے ہیں ویسا ہی ہوگا" وہ مسکراتے ہوئے اس کا دل رکھتے ہوئے بولی۔ زمان بہل گیا۔ امان اس سب میں صرف ہنسی قابو کرتا رہ گیا۔ 

*-------------------------------------------------------*

"اماں وہ لوگ دوپہر تک آئیں گے!" وہ دھلے ہوئے پردوں کو لگاتے ہوئے بولی۔ 

"تمہارے ابا پہلے دیکھیں گے اس لڑکے کو" وہ صوفوں کے کشن ترتیب سے رکھ رہی تھیں۔ 

"اماں اب تو سب پتا لگ چکا نا! اب کیوں دیکھیں گے؟" 

" باپ یے وہ! ہر چیز دیکھیں گے! سب اچھا ہی نکلا ہے مگر ایک نظر ہمیں بھی تو دیکھنے دو لڑکے کو" 

"میں نے سب چیزیں تیار کردیں ہیں بھابھی! بس سب کچھ اچھا ہوجائے" نفیسہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں۔ 

"چلو یہ تو اچھا ہوگیا۔ فاطمہ وہاں سے جھاڑو صوفوں کو! اور دیکھو میز پر کتنی گرد ہے، جاؤ صاف کرو!" انہوں نے اسٹول پر کھڑی فاطمہ کو حکم دیا۔

"اماں میں دلہن ہوں! مجھ سے ہی کام کروا رہی ہیں؟ میں ایسے تو گندی ہوجاؤ گی" وہ منہ بسور کر بولی۔ 

"ارے فاطمہ تم جاؤ اور اپنا حلیہ ٹھیک کرو! میں کردیتی ہوں" رمشا نے اسے اسٹول سے اترنے میں مدد دی۔

"اتنا پروٹوکول مجھے کبھی پہلے نہیں دیا کسی نے" وہ ایک ادا سے اترنے لگی کہ زمین پر گرگئی۔

"ہائے اؤے رمشا کی بچی! گرادیا مجھے!" وہ کمر پر ہاتھ رکھے دہائیاں دینے لگی۔ رمشا نے نے اپنی انگلی دانتوں میں دبائی۔ 

"بس بہت ہوگئے نخرے! جاؤ فاطمہ کمرے میں اور ہاں اگر تمیز سے تیار ہوکر نہیں آئی تو میں نے لڑکے کے منہ پر کہہ دینا ہے یہ ماسی ہے ہمارے گھر کی" ڈپٹتے ہوئے اسے ہاتھ بڑھا کر اٹھایا اور کمر پر ایک لگا کر کمرے میں بھیجا۔

"چلو بھئ۔۔ گھر کی دوسری لڑکی کی بھی شادی ہوجائے گی۔ رمشا کے لئے بھی ہمیں اگلے ہفتے ایسے ہی تیاری کرنی ہے۔ اگلے ہفتے اسے دیکھنے اس کے ماموں کے گھر والے جو آرہے ہیں" 

نفیسہ نے ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ شروع کی۔

رمشا کے رخسار لال ہوئے۔ صبور نے اس کی پیشانی چومی تو وہ ان کے گلے لگ گئی۔ وہ عدیل کو پانے کی خواہش فراموش کرچکی تھی۔ جب آپ سے کوئی نفرت کا اظہار کرکے آپ کو کبھی نہ اپنانے کی بات کردے تو پھر اس کے پیچھے جانا بےوقوفی ہے اور اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کے ماموں زاد کا رشتہ اس کے لئے آرہا ہے۔ وہ یقیناً اسے پسند کرتا تھا جبھی تو رشتہ بھجوارہا تھا۔

"نفیسہ جلدی جلدی سب کام کرلیتے ہیں! پھر ہمیں اپنے شوہروں کے کپڑے بھی استری کرنے ہیں!" صبور کی بات نے نفیسہ کو یاد دلایا کہ وہ کل رات سے ناصر صاحب کو کوٹ پینٹ پہننے پر راضی کررہی تھیں مگر وہ ایک بات پر اڑے تھے۔ 

"میں صرف کرتا شلوار ہی پہنوں گا" وہ جنجھلا سی گئی تھیں۔ 

"ٹھیک ہی کہہ رہی ہیں آپ" وہ اثبات میں سرہلاتی کام میں لگ گئیں۔ 

*-------------------------------------------------------*

وہ کچھ دیر ہہلے شاور لے کر نکلی تھی اور اب ڈرائیر سے بال سکھا رہی تھی۔ گھنے لمبے براؤن بال اس کے قابو میں نہیں آرہے تھے۔ موبائل کی بیل نے اسے اپنی جانب متوجہ کیا۔ 

زمان کی آتی کال نے اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ اس نے جھٹ سے کال ریسیو کی۔

"ہیلو لیڈی ڈ۔۔۔" وہ ابھی بول رہی رہا تھا کہ فاطمہ نے اس کی بات کاٹی۔ 

"اس کے آگے ایک لفظ نہیں بولنا" انگلی اٹھا کر ایسے وارن کررہی تھی جیسے وہ واقعی سامنے کھڑا ہو۔ زمان نے ہنسی بمشکل قابو کی۔ 

"اچھا جی نہیں بولتا! خیر آپ بتائیں" وہ خود اپنے کمرے کے آئینے کے سامنے کھڑا کلون لگاتا ہوا پوچھ رہا تھا۔

"تم تیار ہو گئے؟" مدھم آواز میں پوچھا گیا سوال۔ 

زمان مبہم سا مسکرایا۔ ایک نظر خود کو آئینہ میں دیکھا اور بال سنوارے۔ 

"ہورہا ہوں۔ خود کو آئینہ میں بھی دیکھ رہا ہوں" 

فاطمی کی پلکیں جھکیں۔

"کتنا وقت لگے گا؟" دھیرے سے ایک اور سوال کیا۔ اس کی آواز زمان کے سماعتوں سے ٹکرائی، زمان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنا مدھم اور دھیرے بھی بولتی ہے؟ کیونکہ ہر بار تو کان پھاڑدینے والی آواز ہی سنی تھی۔ 

"تھوڑا وقت اور! شانزہ اور امان اپنے کمرے میں ہیں۔ تیار ہورہے ہیں اور پتا ہے میں نے کونسے رنگ کا سوٹ پہنا ہے؟ گہرا نیلا! نیوی بلو! یہ رنگ بابا کو بہت پسند تھا۔ بس اپنی زندگی کو بابا کی طرف سے دیئے گئے سبق اور کی گئی تاکید کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہا ہوں"۔ 

"تیار ہوجاؤ پھر مجھے ایک تصویر بھی دینا زمان۔ میں اپنے پاس رکھنا چاہتی ہوں اس تصویر کو"قدرے جذب سے وہ اپنی خواہش کا اظہار کررہی تھی۔

"جب تمہیں یہ پورا کا پورا شخص مل ہی رہا ہے تو تصویر کو اپنے پاس کیوں رکھنا چاہتی ہو" خواہش بےتحاشہ اچھی تھی مگر تھوڑی الجھی ڈوریں بھی سلجھانی تھیں۔ 

"اگر نصیب میں ہمارا ساتھ ہے تو ساتھ کھڑے ہوکر بھی تصویر لیں گے۔۔۔ ہم انسان صرف کوشش کرسکتے ہیں مگر نصیب اور قسمت اللہ کے ہاتھوں میں ہے۔ پورے دل سے تمہاری ہونا چاہتی ہوں لیکن اگر نصیب نہ ملا پائی تو ایک تصویر تمہاری ضرور رکھوں گی! اس لئے نہیں کہ روگ ساری زندگی کے لئے سینے سے لگا کر رکھنا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ اگر کبھی زندگی میں اپنوں سے تھک گئی اور ہمت ہارنے لگی تو تمہاری تصویر دیکھ لیا کروں گی۔ بہت ہمت ملے گی مجھے اس شخص کو دیکھ کر جو ایک اچھا بھائی بھی بنا اور ایک اچھا انسان بھی۔ جو اپنوں کو دکھی نہیں دیکھ سکتا۔ جو تکلیف دیکھتا ہے تو اپنے بھائی کے آنسو پونچھنے لگتا ہے یہ پرواہ کئے بغیر کہ اس کے بھی تو آنسو بہہ رہے ہیں۔ وہ بھی تو تڑپ رہا ہے۔ جب جب میں کمزور پڑنے لگوں گی تمہیں دیکھ لوں گی۔ مجھے ظرف اور مضبوط انسان کی ایک تصویر چاہئے۔ میں تمہاری لینا تصویر لینا چاہتی ہوں"۔ ایک ایک الفاظ زمان کے دل پر لگ رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر مسکرایا۔ 

"اس کے لئے میرے بھائی کی تصویر بھی لینی پڑیگی۔ کیونکہ یہ وہی شخص جس نے مجھے اتنا مضبوط اور بہادر بنایا میرے خدا کے بعد! یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے ہر اندھیرے اور غم کی دلدل سے باہر نکالا اور خود دلدل میں پھنستا چلاگیا۔ یہ میرا بھائی نہیں ہے صرف! خدا کے بعد میرا آخری سہارا ہے" دل کی گہرائی سے وہ اپنے بھائی کا شکرگزار تھا۔ 

"دونوں ہی پرفیکٹ ہو! میں نے کبھی بھائیوں میں اتنی محبت نہیں دیکھی!" وہ سانس لینے کو رکی" تو تم مجھے اپنی تصویر دو گے نا؟" وہ بچوں کی طرح اپنی خواہش ظاہر کررہی تھی۔ 

"آپ کی خواہش سر آنکھوں پر" لہجہ میں صدق تھی۔

"ٹھیک ہے! اب تم ایسا کرو تیار ہوجاؤ! اور مجھے بھی ہونے دو! سمجھ آئی ہے بات؟؟؟" وہ اپنے پرانا رویہ اختیار کرتے ہوئے بولی اور کال کاٹ دی۔ 

دوسری طرف موجود زمان نے خفا خفا سی نگاہوں سے فون کو گھورا۔ وہ ہمیشہ اپنی بات کرکے کال کاٹ دیا کرتی تھی۔ کچھ یاد آنے پر سر جھٹک کر مسکرادیا۔ اسے اب اپنی آدھی تیاری پوری کرنی تھی۔ 

*-------------------------------------------------------*

کانوں میں جھمکے پہنتے ہوئے اسے درد کا احساس ہوا۔ 

"افف کافی عرصے کچھ پہنا بھی تو نہیں کان میں" کان کو مسلتی وہ پھر سے جھمکے ڈالنے لگی۔ بمشکل دونوں کانوں نے اس کا ایک منٹ کا وقت لیا۔ وہ اب تیار تھی۔ لائٹ میک اپ اور ہلکی جیولری۔ رمشا کمرے میں داخل ہوئی۔ 

"کیسی لگ رہی ہوں میں رمشا" اس نے اپنی تیاری دکھائی۔ وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی۔ پیلے رنگ کی سادی میکسی تھی جس پر کسی قسم کا نہ پرنٹ تھا نہ کام۔ گلابی رنگ کا ڈوپٹہ اس نے اپنے گرد لپیٹا ہوا تھا جس پر ستارے اور بیل لگی تھی۔ سادی سی پیلی میکسی پر گہرا گلابی بھرا ہوا ڈوپٹہ اس پر اٹھ رہا تھا۔ سلیقہ سے بالوں کو کندھوں پر بچھائے، ہلکے جھمکے اور ہلکی لال لپ اسٹک میں وہ بہت زیادہ پیاری لگ رہی تھی۔ 

"وہ تمہیں دیکھتے ہی پسند کر لے گا" اس نے فاطمہ کو نیچے اور تک دیکھا۔

"وہ اسی لئے آرہا ہے رمشا۔ محبت کرتا ہے جبھی تو آرہا ہے" وہ سرخ ہوتے رخسار اور جھکی پلکوں سے ہاتھ میں باریک کنگن پہن رہی تھی۔

"ہاں مگر تمہیں دیکھنے کے بعد نہ کرنے کی بھی گنجائش نہیں رہے گے ۔ وہ سیدھا نکاح کی خواہش نہ کردے کہیں!" رمشا کی چھیڑ چھاڑ اس کے گال اور لال کرگئی تھیں۔ 

"تم بھی پیاری لگ رہی ہو رمشا" اس نے رمشا کی طرف نظر دوڑائی جو پرنڈ سوٹ میں بےحد ہلکا میک اپ کئے ہوئے تھی۔

"ہم کہاں؟ ابھی پیارا لگنے کی باری ہی آپ کی ہے! ہم ہونگے نا تیار اگلے ہفتے" وہ ایک ادا سے بولی تو فاطمہ کھلکھلا دی۔

کچھ لمحوں کی خاموشی چھائی۔ 

"دعا ہے کہ تم ہمیشہ خوش رہو۔۔۔" ہاتھوں کی پوروں سے اس کا چہرہ چھوا اور مسکراتے ہوئے دعا دی۔ 

فاطمہ نے مبہم سا مسکرا کر اسے گلے لگایا۔ رمشا نے ہاتھ اس کے گرد پھیلادیئے۔

"اور میری دعا ہے تم بھی خوش رہو" 

"آمین" رمشا اور فاطمہ کے لبوں سے ایک ساتھ نکلا اور وہ دونوں ہی اس اتفاق پر ہنسنے لگیں۔

*-------------------------------------------------------*

سرمئی رنگ کا ہلکا کام ہوئی جوڑا پہنے ساتھ کی لپ اسٹک لگاتے ہوئے وہ بس ایک ہی آواز بار بار لگارہی تھی۔ 

"امان تیار ہوجائیں کتنا وقت ہوگیا ہے" لپ اسٹک کا کیہ لگا کر رکھا اور آئی لائینر اٹھایا۔ 

"یار میں پیچھے ہی کھڑا ہوں اور آپ کو میری پرواہ ہی نہیں! دیکھیں تیار ہوچکا ہوں میں" پیچھے سے آتی آواز کی سمت مڑی تو واقعی تیار تھا۔ 

ڈارک براؤن رنگ کا کوٹ پہنے، نکھرا نکھرا سا چہرہ، اور ہاتھ میں شانزہ کی دی ہوئی واچ۔ شانزہ کی نظریں اٹک گئیں۔ 

"بہت اچھے لگ رہے ہیں آپ" مسکرا کر اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ 

"نوازش آپ کی!" وہ اس کے قریب آیا۔ 

"لیکن اگر آپ تیار نہیں ہوئی اور ہمیں دیر ہوگئی تو زمان کی چیخنے کی آوازیں آئیں گی اور کیا گارنٹی اسے آپ قابو کرلیں گی؟" 

شانزہ کو ہوش آیا۔ اس نے اپنی تیاری جلد ہی مکمل کی۔ 

اسی وقت باہر سے آواز آئی۔ 

"جانے کا ارادہ ہے کہ نہیں؟ یا میں سوجاؤں؟" 

شانزہ اور امان نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ 

"کہہ تو آپ ایسے رہے ہیں جیسے کہ آپ کے ترلے کرنے پڑے تھے ہمیں؟ مجھے پتا ہے آپ کیوں جارہے ہیں! دلی مراد پوری کرتے ہیں آپ کی! خیر ہم آرہے ہیں" اس نے بند دروازے سے ہی آواز لگائی۔ امان اپنی بیڈ کی سائڈ میز کی جانب آیا۔ دراز کھول کر اندر سے ایک چھوٹی ڈبیا نکالی۔ وہ تیار ہوچکی تھی۔ دھیرے قدم اٹھاتا اس کے قریب آیا۔ 

شانزہ نے اس کی نظروں تپش اپنے چہرے پر محسوس کی۔ 

"بہت خوبصورت" نظریں اس کے چہرے کا طواف کرنے لگی۔ شانزہ نے بال کھولے ہوئے تھے۔ وہ اس کو دیکھنے میں محو تھا۔ شانزہ نے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ شرم کے بارے اس نے نگاہیں پھر سے جھکا لیں۔ امان نے ڈبیا کھول کر انگھوٹی نکالی اور دھیرے سے اس کا ہاتھ پکڑا۔ 

شانزہ کی نگاہیں اپنے ہاتھ کے ساتھ بے اختیار اٹھیں۔ امان نے وہ خوبصورت چمتی رِنگ اس کی انگلی میں پہنائی۔ شانزہ دھیرے سے اپنی انگلی میں موجود وہ چمکتا موتی دیکھنے لگی۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اس نے چوما اور آنکھوں سے لگایا۔ 

شانزہ کے دونوں کانوں کی لو سرخ ہوگئیں۔ 

"امان کی شانزہ" دھیرے سے کہتے ہوئے شانزہ کی آنکھوں میں جھانکے لگا۔ 

شانزہ کی جھکی آنکھیں اور جھک گئیں۔ امان کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ شانزہ کا نظریں جھکانا اسے اتنا بھاگیا تھا کہ لطف لے کر کھلکھلانے لگا۔

"نیچے آجائیں زوجہ" اس کی ناک کو چھوتے ہوئے بولا۔ وہ اثبات میں سرہلاتا ہوئے آئینہ کی جانب مڑی۔

آئینہ میں آتا دونوں کا عکس کتنا مکمل لگ رہا تھا نا۔ شانزہ اسے تکنے لگی۔ امان نے اپنا دائیں ہاتھ جیب میں رکھا اور آئینے میں دیکھ کر مسکرا دیا۔

شانزہ نے نظریں جھکائیں۔

زمان کی باہر سے آتی آواز پر امان مڑگیا۔ 

"شانزہ کا امان" شانزہ اس کی جاتی پشت کو تکتے ہوئے مسکرا کر زیر لب بولی۔

بس اب سب مکمل ہے! وہ وعدہ دے چکی تھی اسے کہ کبھی زندگی میں وہ اسے تنہا نہیں کرے گی! خدا کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے کی حفاظت کرینگے۔ 

*-------------------------------------------------------*

"عدیل! تم کہیں جارہے ہو" صبور اس کے کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ سنگھار میز کے آگے کھڑا تھا۔ صبور کی آواز پر پلٹا۔ 

"تو کیا چاہتی ہیں آپ؟ یہاں بیٹھ کر کڑھتا رہوں؟ اس بے غیرت شخص کا منہ دیکھوں؟ دوستوں کے پاس جارہا ہوں میں" وہ نظریں پھیر کر بدلحاظی سے بولا۔ صبور خود بھی یہی چاہتی تھیں کہ وہ باہر چلا جائے۔ انہیں اطمینان ہوا۔ 

ان کے جانے کے بعد عدیل نے کال ملائی۔ 

"ہیلو" عدیل نے دوسری طرف موجود شخص سے کہا۔

"ہاں وقاص! سب پلین کے مطابق ہی ہوگا! دس منٹ میں گھر سے نکل رہا ہوں" 

"ہاں ہاں پستول میرے پاس ہے۔ بس میرا انتظار کر" عدیل نے کہتے ساتھ کال رکھ کر اپنے جوتے پہنے اور وارڈروب کی جانب بڑھ گیا۔ کپڑے میں لپٹی ہوئی پستول جیب میں رکھ کر باہر نکل گیا۔ 

*--------------------------------------------------------*

شانزہ سنبھل کر گاڑی سے اتری۔ امان نے گاڑی لاک کی اور تحائف نکال کر شانزہ کو پکڑائے۔ 

"یہ مجھے کیوں پکڑا دیئے؟ یہ لیں زمان بھائی آپ پکڑیں" اس نے تحائف زمان کو پکڑانے چاہے۔ 

"میں دلہا ہوں! کچھ پروٹول دینے کے بجائے سارا سامان مجھے پکڑادو تم لوگ" زمان نے برا سا منہ بنایا اور ہاتھ پیچھے کئے۔ 

شانزہ نے حیرت سے منہ کھولا۔ امان نے ہاتھ بڑھا کر شانزہ سے سامان لیا۔ 

"استغفراللہ اب تمہیں سر کا تاج تو نہیں بنا سکتے نا زمان۔ کتنا چاہئے اور پروٹوکول!؟ ہتھیار لے کر تمہارے پیچھے گھومیں کیا؟" امان نے اسے گھورا۔ 

"ہاں مگر اچھے سے بات کرسکتے ہو تم! اور خدا کا واسطہ ہے اگر میری بےعزتی کرنے کی کوشش کی" 

امان زور سے ہنس دیا۔

"ارے نہیں زمان بھائی۔ بس دعا کریں کہ میں اندر جو بولوں اچھا بولوں! پہلی بار کسی کا رشتہ لینے جارہی ہوں" 

زمان نے اسے سر تا پیر دیکھا۔ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی۔ زیر لب دعا پڑھ کر اس پر پھونک دی۔

"میں نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے! اب سنبھالنا تمہاری ذمہ!" وہ دعا کا ورد کرتا سائڈ پر ہوگیا۔ شانزہ اور امان دونوں ہی اسے گھور کر رہ گئے۔

"ویسے بھائی اور بھابھی! اندر جانا ہے یا یہیں سے رشتہ اندر پھینکنا ہے؟" دونوں ہاتھ کوٹ کی جیبوں ڈال کر وہ طنز کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑرہا تھا۔

"زمان بھائی میں آپ کو گرتے نہیں دیکھ سکتی!" وہ بہت پہلے ہی ثابت کرچکی تھی کہ وہ اس کی بہن ہے۔ 

"شانزہ لگتا ہے اسے بہت جلدی یے! تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اسے اندر بجھوادیتے ہیں۔ کیوں صحیح کہا نا؟" شانزہ نے ہنستے ہوئے ہامی بھری۔ شانزہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ رمشا نے کھولا تھا۔ 

"چلیں" شانزہ نے پیچھے ہوکر دونوں کو اندر جانے کا اشارہ دیا۔ امان نے زمان کو پکڑ کر اندر کرنا چاہا مگر زمان جھٹکے سے دور ہوا۔

"تم جاؤ پہلے اندر" زمان نے امان کو دھکا دیا۔ 

"میں کیوں جاؤں؟" وہ دانت پیس کر پوچھنے لگا۔ 

"کیونکہ تم داماد ہو" زمان اس کو یاد دلادیا۔ 

"تم بھی تو ہو" 

"ہاں مگر ابھی اصلی والا نہیں بنا" 

رمشا دونوں کو آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ کوئی اتنا ایک دوسرے کا ہمشکل کیسے ہوسکتا ہے؟

"دو دن سے تو اس گھر کا داماد کہہ رہے تھے خود کو! اب کیا ہوا؟" 

"اگر ایسا ہے نا تو میں۔۔۔۔" اس نے اپنے آپ وارن کرتے ہوئے بات ادھوری چھوڑی۔

"کیا میں؟" امان نے بنھویں اچکائیں۔ 

"تو میں واپس جارہا ہوں گھر" دھیرے سے کہتے ہوئے وہ مڑ گیا کیونکہ وہ یہ خود بھی جانتا تھا کہ اس کی امان کے آگے نہیں چل سکتی۔ 

"ہاں شاباش!جاؤ جاؤ!" امان کے یوں کہنے پر جاتے زمان نے مڑ کر اسے دیکھا۔ 

"ہاں جارہا ہوں میں!" 

"ہاں ہاں جاؤ جاؤ" 

شانزہ ہونقوں کی طرح ان دونوں کو دیکھنے لگی۔ 

"میں چلا جاتا اگر مجھے تمہارا خیال نہ ہوتا" وہ پلٹ کر منہ پھیرتا دروازے سے اندر داخل ہوا جیسے احسان کیا ہو۔ 

شانزہ ماتھے پر ہاتھ مارتی اس کی پشت گھور کر رہ گئی۔ 

"اب آپ جائیں گے یا آپ نے بِھی واپس جانا ہے؟" 

"اگر تم کہو تو واپس چلا جاتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا اندر کا ماحول بہت گرم ہے! مجھے دیکھ کر سب کے دماغ کی پھرکی گھوم جائے گی" معصومیت سے کہتا ہوا اندر جھانکنے لگا جہاں سے صرف دیوار کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ہاں لیکن اندر کھڑا زمان اسے دیکھ کر اپنے دانت دکھا رہا تھا۔

"آپ اندر جارہے ہیں یا نہیں" وہ سنجیدگی سے ہوچھنے لگی۔ 

"جارہا ہوں آپ ناراض نہ ہوں" لاحولا کا ورد کرتا ہوا وہ اندر داخل ہوا۔ رمشا کی ہنسی بےقابو ہوئی۔ 

"تم کون ہو لڑکی؟" زمان نے اسے ہنستے دیکھا تو باز نہ آیا۔ 

"امان بھائی میں رمشا ہ۔۔۔۔" 

"بائی دا وے میں زمان ہوں" مسکراتے ہوئے اس نے تصحیح کی۔ 

"او ہو آئم سوری" وہ شرمندگی مٹاتے ہوئے بولی "آئیں اندر آجائیں ڈرائنگ روم میں" راستہ بناتی وہ ان کو ڈرائینگ میں لے آئی۔ 

"مجھے ڈر لگ رہا ہے شانزہ" اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا۔ 

"کچھ نہیں ہوگا! بس معافی مانگ لے گا! اللہ بہتر کرے گا!" 

"اگر کچھ ہوگیا یہاں پر۔۔۔ تو مجھے چھوڑو گی تو نہیں؟" وہ خوفزدہ تھا! اب بھی۔ 

"ڈوبتا سورج گواہ ہے کہ ہم نے ایک دوسرے سے ساحل کنارے وعدہ لیا تھا" مدھم آواز میں کہتے ہوئے اس نے یاد دلایا۔ زمان ان دونوں سے ایک قدم آگے تھا۔ ڈرائینگ میں داخل ہوتے ہوئے اسے یاد آیا کہ وہ دلہا ہے! وہ ایک قدم پیچھے ہٹ کر ان کے آگے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ ان کے آگے آتے وہ ان کے پیچھے چلنے لگا۔

شانزہ نے امان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں سے دور کیا۔ اب بھلا وہ ایسا اندر جاتی؟ 

ڈرائنگ میں سب موجود تھے۔ 

سب نے سلام کیا۔

ناصر صاحب مسکراتے ہوئے قریب آئے اور ہاتھ آگے بڑھایا۔ امان نے سہمتے ہوئے لب پھیلائے اور ہاتھ ملانے کے لئے ہاتھ بڑھایا جسے انہوں نے تھام لیا۔ جب انہوں نے بڑھ کر امان کو گلے لگایا تو امان ساکت ہوا۔ زمان کے بعد کسی نے پہلی بار اسے یوں گلے لگایا تھا۔ ایک سسر باپ کی حیثیت سے! 

زمان کو بھی نااصر صاحب نے گلے لگایا! اور اس وقت زمان کو ان سے محبت ہوگئی! اور اتنی محبت ہوگئی کہ سختی سے بھینچ لیا اور کندھے پر سر رکھ دیا۔ امان اسے ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ ناصر صاحب کو اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا۔ جاوید صاحب نے بھی آگے بڑھ کر گلے لگایا۔ 

"او ہو غلط ہوگیا۔۔۔ محبت جن کے ساتھ دکھانی تھی ان کی شکل نہیں یاد تھی اور اب غلط دکھادی" وہ جاوید صاحب کو دیکھتا سوچ کر رہ گیا۔ وہ داماد جاوید صاحب کا بننے والا تھا مگر غلطی سے محبت میں آکر گلے ناصر صاحب کے لگ گیا تھا۔ ناصر صاحب کو اپنی سانس بند ہوتی محسوس ہوئی۔ 

"جاؤ برخوددار! ان سے بھی مل لو" انہوں نے محبت سے اس کا رخ جاوید صاحب کی طرف کیا جو اسے سر تا پیر دیکھ رہے تھے۔ زمان نے ان کو سلام کیا اور مسکراتا ہوا صوفے پر بیٹھ گیا۔ شرمندگی کے مارے امان ناصر صاحب سے نظریں بھی نہیں ملا پارہا تھا۔ 

"میں جانتا ہوں انکل مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا! جو مجھ سے ہوا میں اس کے معزرت خواہ ہوں" جھکی نظروں سے اس نے اعتراف کیا تھا اور دل کا سارا حال سنادیا۔ وہ بولتا جارہا تھا اور وہاں موجود نفوس سنتے جارہے تھے۔ نفیسہ بھی ناصر صاحب کے برابر بیٹھیں سب سن اور دیکھ رہی تھیں۔ شانزہ اپنے شوہر کو بے حد محبت سے تک رہی تھی جس کے لبوں سے آذاد ہوا ایک ایک لفظ اس کے دل پر لگ رہا تھا۔ 

"ٹھیک کہہ رہے ہو! آپ سے جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ میں بھی بدل گیا تھا! مجھے علم نہیں تھا کہ میرا اعتبار اپنی بیٹی پر اتنا کم ہوجائے گا کہ میں نے دھوکا کھالیا! مگر ہم سب نے دل سے تمہیں معاف کیا!" ان کی آنکھیں یہ سب کہتے ہوئے نم ہوئی تھیں۔ امان بےیقینی سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ وہ رورہے تھے کیونکہ وہ ایک بیٹی کے باپ تھے۔ ایک جان دی تھی انہوں نے اپنی! شانزہ دی تھی جو ان کے آنگن میں کھلتا ہوا پھول تھی۔ وہ ابھی بھی پیشمان تھے کہ وہ شانزہ کے لئے کچھ نہیں کر پائے۔ حتٰی کہ اتنے سال وہ ان کے ساتھ رہی وہ پیار بھی نہیں دے پائے. امان اٹھ کر ان کے پہلو میں بیٹھا۔ 

"مجھے خوشی ہے اس بات کی کہ آپ نے مجھے معاف کردیا!" ناصر صاحب نے اپنی نم ہوتی آنکھوں کو صاف کرنا چاہا۔ شانزہ ان کے گھٹنوں کی طرف زمین پر آبیٹھی۔ ایک ہاتھ سے ان کے آنکھوں میں امڈنے والے آنسو صاف کئے۔ 

"روئیں مت بابا! مجھے تکلیف ہوتی ہے" شانزہ کا دل مچل رہا تھا۔ ناصر صاحب نے یہ سنا تو دل چاہا اور رودیں۔ وہ عشق کرتی تھی اپنے باپ سے اور وہ اسے اپنی محبت بھی نہ دے پائے۔

"اگر آپ نے رونا بند نہیں کیا نا تو میں رونا شروع کردوں گی" وہ رونے کو تیار بیٹھی تھی۔ ناصر صاحب کو ہنسی آگئی۔ 

"ہاں بس اب مسکرائیں گے! مسکراتے ہوئے اچھے لگتے ہیں" 

ناصر صاحب نے اس کی پیشانی چومی۔ 

"نفیسہ! کچھ پیش کرو انہیں" ناصر صاحب نے میز پر رکھے لوازمات کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا۔ 

"پہلے میں اپنے داماد کو تو دیکھ لوں" وہ اٹھ کر امان جے سامنے آئیں تو وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"مجھ سے سلام بھی نہیں کیا۔۔ میں سوتیلی ساس ہوں کیا؟" وہ محبت بھرا شکوہ کرتے ہوئے اس دیکھ رہی تھیں۔ 

"نہیں وہ اتنی ساری خواتین ہیں یہاں سمجھ نہیں آیا سگی ساس کون ہے" وہ سر کجھاتا ہوا کھسیانا ہوا۔

"میں تو اپنی ساس کو آرام سے دیکھ سکتا ہوں" دور بیٹھا زمان دل ہی دل میں کہتا ہوا ایک نظر صبور پر ڈال کر مسکرادیا۔ صبور اسے ہی مسکرا کر دیکھ رہی تھیں۔ ان کی بیٹی کی پسند بری نہیں تھی۔

نفیسہ امان کی بات پر ہنس پڑیں اور محبت سے امان کا چہرہ ہاتھوں میں لے کر اس کی پیشانی چومی۔ امان کو اپنائیت کا احساس ہوا۔ اس کا دل چاہا وہ اس کی پیشانی پھر سے چومیں۔

"آپ دونوں کی والدہ نہیں آئیں؟ مجھے آپ کے والد صاحب کے انتقال کی خبر ہے مگر والدہ کا نہیں معلوم" انہوں نے ایک نظر امان اور زمان کو دیکھا۔

اس سوال پر امان کے لب سل گئے۔ زمان نے امان کے تاثرات دیکھے۔

"ان کا انتقال ہوچکا ہے" زمان کے بتانے پر کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ 

ناصر صاحب کے دل ہر بوجھ پڑا۔ 

"یہ کب ہوا ویسے؟" ناصر صاحب نے افسوس سے پوچھا۔ 

"جب ہم چودہ سال کے تھے تب ہی ہوگیا تھا" وہ جس کرب بتا رہا تھا یہ صرف امان اور وہ جانتا تھا۔ 

اس نے امان کو دیکھا جو ساکت بیٹھا تھا۔ 

"اللہ کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہے!" مسکراتے ہوئے وہ اپنا درد چھپا گیا۔ 

" اللہ مغفرت کرے! مگر اس کے بعد کوئی سرپرست تو ہوگا۔۔۔؟" جاوید صاحب نے نرمی سے پوچھا۔ 

"ہم اللہ کی ہی سرپرستی میں ہیں۔ اور اللہ کے بعد مجھے صرف میرا بھائی ہی دیکھتا رہا ہے۔ اس کو دیکھنے والا کوئی نہیں البتہ بھابھی دیکھتی ہیں! کیونکہ یہ میری نہیں سنتا" ہنستے ہوئے اس نے امان کی طرف دیکھا۔ 

"ویسے آپ دونوں ہمشکل ہیں۔ مانا کہ جڑواں ہے مگر چہرے میں کوئی تبدیلی نہیں اور نہ چال میں لگ رہی ہے" صبور نے مسکرا کر کہا۔ زمان بےاختیار مسکرایا۔

"جی سب یہی کہتے ہیں" امان ہنس دیا۔ 

"تائی فاطمہ کدھر ہے؟ اسے بلائیں نا۔۔۔ ہم اس کے لئے بھی آئے ہیں" وہ صوفے پر امان کے برابر بیٹھ گئی۔ 

صبور نے اثبات میں سرہلا کر فاطمہ کو آواز دی۔ زمان کی نگاہیں دروازے کی جانب اٹھی۔ 

"اسلام علیکم۔۔۔" سب کو سلام کرتی وہ صبور کے برابر میں بیٹھ گئی۔ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی تھی کہ زمان اس پر سے نظریں نہ ہٹا سکا۔ امان نے زمان کو پاؤں مارا۔

"سب دیکھ رہے ہیں زمان" آہستہ آواز میں اسے خبر دار کیا۔ 

"ہاں وہ سوری" زمان گڑبڑایا۔ 

"تائی ہم لوگ فاطمہ کے لئے زمان بھائی کا رشتہ لائے ہیں۔۔۔" 

وہاں موجود نفوس کو حیرانی نہیں ہوئی کیونکہ وہ یہ سب جانتے تھے۔ بات بڑھی اور جاوید صاحب نے ہاں کردی۔ فاطمہ اپنی پلکیں اٹھا بھی نہ پائی۔ زمان کی نظروں کی تپش وہ خود پر محسوس کررہی تھی۔ زمان جاوید صاحب کا اقرار سن کر ہی دیوانہ ہوا بیٹھا تھا اور اب رشک سے فاطمہ کو دیکھ رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں سب کھانے کا انتظام کرنے باہر چلے گئے۔ ان کے ساتھ رہ گئی تو صرف فاطمہ۔

فاطمہ نے نظریں اٹھا کر امان کو دیکھا۔

"کیسے ہیں آپ امان بھائی" مسکرا کر اس کا حال پوچھا۔ 

"میں تو ٹھیک ہوں مگر یہ ٹھیک نہیں" امان نے برابر میں بیٹھے بلکہ چپکے زمان کی طرف اشارہ کیا۔ 

"یہاں میں بھی موجود ہوں جس کا حال پوچھا جاسکتا ہے" زمان نے دانت کچکچائے۔ فاطمہ ہنسنے لگی۔

"میرے بھائی کا مذاق مت اڑاؤ فاطمہ! انہوں نے میرا بہت ساتھ دیا ہے۔ ہر دیور میں بھائی چھپا ہوتا ہے مگر میرے بھائی میں ایک ساس بھی چھپی ہے" 

اور یہ لگا زمان کے دل پر ٹھاہ کرکے۔ وہ ششدر ہوا تھا

"کون ساس؟ کون دیور؟ میں نہیں جانتا انہیں! میں نے تمہیں کچھ سمجھایا تھا شانزہ۔۔۔ مگر تم نے میرا دل توڑ دیا" اس نے افسوس کرتے ہوئے رنج کے عالم میں امان کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا اور اسکے بازوؤں کا تھام لیا۔

"سو سوری۔۔۔ وہ۔۔۔ زمان بھائی جیٹھ ہیں میرے دیور نہیں" شانزہ نے سر کجھایا۔ 

"میں تمہاری ماں ہوں کیا؟ جو یوں چپکتے ہی جارہے ہو زمان" امان جنجھلایا۔ 

"تو بن جاؤ میری ماں۔۔۔ بھائی کے نام پر دھبہ ہو! دھبہ بھی وہ جو سرف ایکسل سے بھی نہیں جاتا" اپنی ناک اس کے کندھے رگڑتا ہوا بولا۔ 

" اسلامْ علیکم" امان نے سامنے دروازے کی دیکھتے ہوئے کسی کو سلام کیا۔ زمان سہم سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ مگر وہاں کوئی نہیں تھا البتہ امان اسے دیکھ کر ہنس رہا تھا

"ذلیل" زیر لب ساتھ امان مو گالی بھی۔ 

"تمہیں شرم نہیں آتی بڑا بھائی ہوں تمہارا!" 

"اچھا میری بات تو سنو" وہ اس کے کانوں قریب آیا۔ 

زمان نے کان اس کے قریب کئے۔ 

"اچھے لگ رہے ہو" زمان کی باچھیں کھل اٹھیں۔ 

"سچ کہہ رہے ہو" وہ دونوں کھسر پھسر کررہے تھی۔

"واقعی۔۔ تمہیں یاد ہے نا یہ رنگ بابا کو پسند تھا۔۔ اور مجھے تم اس وقت بابا لگ رہے ہو" مسکراتے ہوئے اس خود سے لگایا۔

"مجھے اچھا لگا کہ میں بابا لگ رہا ہوں۔ مگر تم ماما نہیں لگ سکتے کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھیں" 

امان ہنس پڑا۔ تھوڑی دیر میں کھانا لگ گیا

یہ لوگ باہر میز پر بیٹھ گئے۔ سب نے ساتھ میں ہی کھانا تناول فرمایا تھا۔۔۔

کھانے کے بعد ایک دو باتیں ہوئیں اور پھر امان وقت دیکھتا اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اب ہم چلتے ہیں! ملاقات ہوتی رہے گی آپ سے" ناصر صاحب کے گلے لگ کر وہ سب کو اللہ حافظ کہہ کر باہر آگیا۔ 

"کوئی مجھے میرے سسر کے تو گلے ملوادو۔۔۔۔" منہ بسورتا وہ یہ بات صرف دل میں ہی کہ سکتا تھا۔

"سنو فاطمہ" فاطمہ باہر تک آئی تھی تو زمان نے پکارا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ 

"جی؟" وہ قریب آئی۔

"مجھے بتاتے رہنا کیا ہورہا ہے۔۔۔ میں شادی کرنا چاہتا ہوں منگنی کے چکر میں نہیں پھنسنا چاہتا!" 

وہ سرخ ہوئی۔ 

"تم فکر مت کرو۔۔۔ دھیان سے جانا! ٹھیک ہے اور میں تمہیں خبر کرتی رہوں گی" محبت سے دیکھتے ہوئے وہ شرماتے ہوئے مڑ گئی۔ 

سب انہیں باہر تک چھوڑنے آئے۔ وہ مسکراتا ہوا سر جھٹک کر باہر نکل گیا۔ 

*------------------------------------------------------*

گھر سے کچھ دور وہ بائک پر اپنی دوست کے پیچھے بیٹھا انہیں گاڑی میں بیٹھتے آرام سے دیکھ سکتا تھا۔ 

"ان کا پیچھا کرو۔۔۔ کہیں نہ کہیں تو رکیں گے" اس نے وقاص کا کندھا ہلایا۔ 

"اور اگر نہیں اترے۔۔" 

"تو اپنے گھر کے سامنے تو اتریں گے گاڑی سے! وہی ٹھوک دوں گا امان کو۔۔ اب چلو" کندھا تھپکتا ہوا اس نے پلین بتایا۔ وقاص نے بائک اسٹارٹ کی۔

*--------------------------------------------------------*

"کیا کوئی مجھے دکان سے کچھ کھلائے گا" گاڑی میں پیچھے بیٹھا ہوا نہیں تھا لیٹا ہوا تھا۔ 

"لولی پاپ؟" امان نے طنز کیا۔

"وہی دلادو۔۔۔ اتنے دنوں سے نہیں گئی۔ لگتا ہے ذائقہ ہی بھول گیا ہوں" زمان کے لہجے میں بلا اطمینان تھا۔

"تمہاری شادی میں میٹھا لولی پاپ کا ڈبہ رکھوائیں گے! ٹھیک؟" 

"شرط یہ کہ لولی پاپ کوکو کولا والی ہونی چاہئے" زمان نے چھوٹتے ہی کہا۔ 

"اور زہر کی اماؤنٹ بتانا ذرا" امان نے گاڑی روک کر پیچھے لیٹے زمان کو دیکھ کر پوچھا۔ 

"نہیں وہ صرف ہم تمہارے کھانے میں رکھوائیں گے" وہ مطمئن بےغیرت تھا۔

"پیسے دو تمہارے لئے کچھ لے کر آتا ہوں" امان نے ہاتھ بڑھائے۔ 

"یہ بھی میں دوں؟ خود لے کر آؤ! میرے پاس نہیں ہیں! میں امیروں کا غریب ہوں۔۔۔ جلدی جاؤ اب" 

امان اسے دیکھتا رہ گیا البتہ شانزہ ہنستے ہی رہ گئی۔ 

"میں بھی چلتی ہوں ساتھ" وہ امان کے ساتھ گاڑی سے اتری۔ زمان ویسے ہی لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر ہوگئی اور وہ دونوں نہ آئے تو وہ اٹھ کر کھڑکی کے پار دیکھنے لگا۔ گھومتے گھومتے نظر ایک جگہ ساکت ہوئی۔ 

عدیل بائک سے اترا تھا اور اس کے ہاتھ میں پستول تھی۔ زمان نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا۔ اس کی نظریں امان اور شانزہ پر ٹکی تھیں۔ زمان کی سانس اٹکی۔ وہ جھٹکے سے گاڑی سے اترا اور امان اور شانزہ کی طرف بھاگا۔ پہلے وہ عدیل کی جانب بڑھنے کا سوچنے لگا تھا مگر عدیل نے پستول سے نشانہ باندھ لیا تھا۔ وہ بجلی کی تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ دو فائر ہوئے تھے اور لمحوں میں ہی چیخیں بلند ہوئی۔ ان تینوں میں سے ایک شخص گرا تھا اور دوکی چیخیں بلند ہوئی تھیں۔

"زمان"۔ امان کی چیخیں گونجی تھیں۔ خون میں لت پت، زمین پر ڈھیر ہوا زمان کا وجود دیکھ کر شانزہ کی بھی ساتھ چیخ نکلی۔ نظریں بےساختہ عدیل کی جانب اٹھی۔ 

"یہ کیا کیا تم نے"۔ وہ ششدر اور خوف کے ملے جلے جذبات سے چلائی۔ عدیل ساکت رہ گیا تھا۔ وہ گولی امان پر چلانا چاہتا تھا مگر زمان سامنے آگیا تھا۔

"میں۔۔۔ وہ نہیں۔۔۔ وہ"۔ وہ ہکلایا۔ 

وقاص نے سہم کر بائیک عدیل کے بغیر چلادی۔ عدیل نے بھاگنا چاہا مگر جیسے مڑا تو انکشاف ہوا۔ وقاص اس کے بغیر ہی جاچکا ہے۔

"زمان" امان نے اس کا چہرہ تھپکا۔ 

"شانزہ۔۔۔ شانزہ۔۔۔ زمان۔۔۔ گارڈز! ایمبولینس" امان صدمے کے مارے چیخ رہا تھا۔ اس کا خون دیکھ کر اسے خوف محسوس ہورہا تھا۔ شانزہ منہ پر ہاتھ رکھے گھٹ گھٹ کر رونے لگی۔

"میں اسے مارنا آیا تھا مگر وہ۔۔۔۔۔ میری تم۔۔۔ " عدیل ہکلایا۔ 

" دفع ہوجاؤ" وہ حلق کے بل چیخی اور روتے ہوئے زمان کی طرف آئی۔ امان زمان کی یہ حالت دیکھتے ہوئے کمزور پڑنے لگا۔ اسے نہیں یاد وہ کس طریقے سے اسے ہسپتال لایا تھا۔ 

"شانزہ اسے۔۔۔ اسے اگر کچھ ہوگیا تو۔۔۔ شانزہ میں مرجاؤں گا کچھ کرو۔۔۔ کچھ کرو۔۔۔ اس نے یہ کیا کیا۔۔ میری ایک غلطی کی اتنی بڑی سزا دے دی اس نے مجھے؟". وہ دیوار کے ساتھ لگتا زمین پر بیٹھتا چلا گیا۔ 

شانزہ کی سانسیں رک گئی تھیں۔ وہ اندر تھا۔ اس کا بھائی۔ اس کا دوست! وہ گھٹ گھٹ رونے لگی۔ 

وہ خود امان کو سنبھالنے کے قابل نہیں تھی۔ کب خبر پہنچی اور کب شانزہ کے گھر والے آئے اسے اس بات کی بھی خبر نہ ہوئی۔

فاطمہ زرد پڑتے چہرہ لئے کپکپاتی ہوئی اس کے پاس بیٹھی۔

"کہاں ہے زمان؟ مجھے کوئی بتا کیوں نہیں رہا شانزہ! کہاں ہے زمان؟" اس نے سن بیٹھی شانزہ کو جھنجھوڑ ڈالا۔ نظریں بےاختیار بھٹک کر امان کی طرف اٹھیں جو خون میں لپٹی شرٹ پہنے زمین پر بیٹھا چیخ رہا تھا۔ 

"خ۔۔خون" وہ اچھل کر کھڑی ہوگئی۔ 

"کیا کوئی مجھے بتائے گا وہ کہاں ہے؟ اسے کیا ہوا شانزہ۔۔۔ وہ ٹھیک ہے نا؟" ہچکیوں سے روتے ہوئے وہ اسے ایک بار جھنجھوڑنے لگی۔ 

"دعا کرو صرف فاطمہ! ان کے لئے دعا کرو۔ دو گولیاں! دو گولیاں لگی ہیں انہیں۔۔۔ تمہیں پتا ہے انہیں کس نے ماری گولی؟" شانزہ نے اس کے دونوں بازو مضبوطی سے پکڑے۔ پیچھے سے عدیل ہانپتا ہوا کوریڈور میں داخل ہوا۔

وہ ششدر ہوئی اسے تکنے تھی۔ ایک دم آنسو بہے اور بہتے چلے گئے۔

" میں نہیں چھوڑوں گی اسے۔۔ کس نے مارا ہے؟ مجھے بتاؤ۔۔۔" 

انگلی سے فاطمہ کے پیچھے آتے عدیل کی طرف اشارہ کیا۔ 

"اس شخص نے!" فاطمہ نے اس کے اشارے کی طرف مڑ کر دیکھا اور ساکت رہ گئی۔ بس وہ وقت تھا اور اسے خبر نہیں تھی کہ اتنی جلدی اس کا دماغ سن ہوجائے گا وہاں موجود تمام نفوس بےیقینی سے عدیل کو دیکھنے لگے۔ قہر آلود نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ اس کی جانب بھاگی۔ 

"کیوں آئے ہو تم!" اس نے قریب آکر اس کا گریبان پکڑا۔ اس کی عزت فاطمہ کی نظروں میں اتنی کم ہوگئی تھی کہ "بھائی" کہہ کر مخاطب کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔

"مجھے نہیں پتا تھا اسے گولی۔۔۔ وہ مجھے"عدیل نے گبھرایا۔ 

"اگر میرے بھائی کو کچھ ہوا تو ایک بات یاد رکھنا۔ امان کچھ نہیں کریں گے تمہارا جو میں کروں گی!"۔ وہ اتنی زور سے چیخی تھی کہ عدیل کو اپنے کان سن ہوتے محسوس ہوئے۔

جاوید صاحب قریب آئے اور ایک زناٹے دار تھپڑ عدیل کے منہ دے مارا۔ 

"یہ تربیت کی تھی تمہاری؟ کہ کسی کی جان لینے کی ہمت بھی آگئی! اگر پولیس آئی تو میں تمہیں نہیں بچاؤں گا عدیل! تم نے اپنی بہن کا گھر بسانے سے پہلے ہی اجاڑنے کا کیسے سوچ لیا؟ اس کے ہونے والے شوہر پر گولی چلادی؟" ایک اور تھپڑ اس کے منہ پر پڑا تھا۔

زمین پر بیٹھا امان سسک رہا تھا۔ اس کا بھائی اندر تھا بس اسے یہ یاد تھا۔

اس نے نگاہیں اٹھا کر عدیل کو دیکھا۔ امان اس لمحے اپنے آپ کو اتنا کمزور کرگیا تھا کہ اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ گارڈز آچکے تھے اور امان کے ارد گرد کھڑے تھے۔

"دیکھو میری بے بسی۔ کچھ بھی نہیں کر پارہا میں۔ میرے بھائی کا مجرم سامنے کھڑا ہے اور میں ہل بھی نہیں پارہا۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے عدیل۔ اسے کچھ نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے نہیں معلوم تھا میری غلطیاں مجھے اتنی بڑی بڑی سزائیں دیں گی۔ وہ میرا خون ہے۔ وہ آخری خونی سہارا ہے۔ میں تمہارا دشمن ہوں نا؟ اب ایسا کرو اپنے دشمن کے لئے دعا مانگو عدیل۔ دعا مانگو کہ میرا بھائی بچ جائے۔ میرا دل لرز رہا ہے شانزہ۔ میرا دم نکل رہا ہے۔۔۔ میں مرجاؤں گا اگر ایسے رہا کچھ دیر!"۔ 

شانزہ کا دل کانپا اور وہ چیختے ہوئے اس کی جانب بڑھی۔ 

"امان۔ امان کچھ نہیں ہوگا۔ وہ ٹھیک ہوجائیں گے خدارا"۔ وہ چیخ رہی تھی۔ اسے اپنا شوہر یوں تڑپتا ہوا نہیں دیکھا جارہا تھا۔ 

"ماما" فاطمہ روتے میں سے چیخی تھی۔ صبور اس کی طرف بڑھیں۔ 

"وہ ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔ دعا کرو۔ اس وقت دعا سے بڑھ کر کچھ نہیں"۔ انہوں نے فاطمہ کو جنھجھوڑا۔ 

"ماما ان کو بولیں یہاں سے چلے جائیں۔ اماں میرا دل پھٹ جائے گا ان کو بولیں یہاں سے چلے جائیں۔ اماں وہ زمان اتنے خوش تھے آج۔۔۔ میرا بھائی اپنی بہن کی ہی خوشیوں کو کھاگیا اماں۔۔ ان کو بولیں یہاں سے دفع ہوجائے"۔ فاطمہ چیخ رہی تھی۔ ایک کہرام مچا تھا۔ صبور نے قہر آلود نگاہیں عدیل ہر ڈالی تھیں۔ 

ناصر صاحب کا دل بیٹھ گیا۔ وہ امان کی جانب آئے اور گھٹنوں کے بل بیٹھے۔ 

"اللہ سب ٹھیک کردے امان۔ بھروسہ کرو"۔ انہوں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھرا۔ 

"میں مررہا ہوں انکل۔۔ میں مررہا ہوں۔۔۔ میرا بھائی۔۔۔ میرے بھائی کو بلاؤ۔۔ شانزہ اس سے کہو کہ امان اسے کبھی بھی نہیں ڈانٹے گا۔ تم دیکھنا وہ اٹھ جائے گا۔ وہ یقیناً مجھ سے خفا ہے۔ تمہیں پتا ہے نا وہ کتنا اچھا لگ رہا تھا آج۔ میرا بھائی۔ میرا۔۔ بھائی۔ اسے اٹھاؤ۔۔ اس سے کہو امان بلا رہا ہے اسے۔۔ اسے تکلیف ہورہی ہوگی۔ اس سے کہو وہ اپنے بھائی کے بغیر مر جائے گا۔ وہ میرا بھائی ہے شانزہ۔ شانزہ میرا دل۔۔ مجھے کچھ ہورہا ہے" امان نے اپنے سینے کو سہلایا۔

شانزہ کا دل کسی نے سختی سے مٹھی میں جکڑا۔ 

ناصر صاحب نے اسے سنبھالنا چاہا۔ 

" انکل مجھے چھوڑیں۔ انکل میرا ہاتھ چھوڑیں میرے بھائی کو بلائیں۔ مجھے اس کے پاس جانا ہے" اس نے شانزہ کا ہاتھ تھام کر اٹھنا چاہا مگر لڑکھڑا گیا۔ شانزہ پیچھے ہٹ کر ماں کے گلے لگ گئی۔ وہ روتی گئی ہچکیوں سے! وہ اس کا بھائی! وہ اندر تھا۔ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہا تھا۔ رمشا حیرت سے عدیل کو دیکھتی رہ گئی تھی اور اب فاطمہ کو سنبھال رہی تھی۔ 

امان نے گردن عدیل کی طرف موڑی۔

"دعا کرو میرے بھائی کو کچھ نہ ہو۔۔۔ دعا کرو گے نا؟" وہ اپنے دشمن کے پاؤں پڑرہا تھا۔ عدیل کا بدن کپکپایا۔ وہ بھاگتا ہوا وہاں سے نکل گیا۔ 

*-----------------------------------------------------*

کتنے گھنٹے آپریشن کے بعد ڈاکٹر باہر آئے تھے۔ امان ان کی طرف بڑھا۔ 

"ایک گولی بازو پر لگی تھی جبکہ ایک کندھے کو چھو کر گزری تھی۔ ہم نے نکال دی۔۔ دعا کریں انہیں جلد ہوش آجائے" یہ بات امان کو قدرے سکون میں لائی تھی۔ 

آدھا گھنٹا یونہی گزر گیا۔

"تم اور مت رو! دیکھو اپنی آنکھیں۔۔ کتنی سوج رہی ہیں۔ تمہیں پتا ہے میرا دل کتما پرسکون ہے جب سے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اسے ہوش آجائے گا! جاؤ منہ ہاتھ دھو۔۔ اس کے لئے دعا مانگو۔۔۔۔ دل سے کی گئی دعا اللہ رد نہیں کریگا! میں امان کو دیکھتی ہوں ان کی حالت ٹھیک نہیں!" کہتے ساتھ وہ اٹھ کر زمین پر بیٹھے امان کے پاس بیٹھ گئی۔ بے سدھ سا زمین کو یک ٹک گھوررہا تھا۔

"وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ ہوش آجائے گا! ڈاکٹرز نے کہا ہے نا؟" اس کا کندھا تپھکتے ہوئے وہ محبت سے کہہ رہی تھی۔ 

"میری امیدیں ماند پڑ رہی ہیں" وہ دھیمی آواز میں خوفزدہ ہوکر بولا۔ 

"امیدیں اللہ سے لگائیں امان" اسے یقین تھا اپنے رب پر۔ 

"میں کمزور ہورہا ہوں" 

"ہاں آپ کمزور ہیں! آپ کا اللہ نہیں ہے کمزور۔۔۔ اس رب سے مانگیں جو مالک کل جہاں کا ہے" 

امان نے اس کی بات کو دل پر محسوس کیا۔ وہ اثبات میں سرہلاتا ہوا اٹھ کر پرئیر روم کی طرف بڑھ گیا۔ 

*--------------------------------------------------------*

تقریباً دو گھنٹے بعد اسے ہوش آیا تھا۔ امان اب بھی پڑئیر روم میں تھا۔ اسے خبر دی مگر اس نے کہا کہ وہ شکرانہ پڑھ کر اس سے ملے گا۔ فاطمہ کی بھی ابھی واپسی نہیں ہوئی تھی اس لئے شانزہ نے سوچا کہ وہ اندر چلی جائے۔ وہ دروازہ دکھیل کر اندر داخل ہوئی۔ زمان کی جگہ جگہ پٹیاں بندھی ہوئی تھی۔ آنکھوں میں بہت سا پانی آگیا۔ وہ چلتے ہوئے اس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ تھوڑی آنکھیں کھول کر زمان نے اسے دیکھا۔ 

"امان ٹھیک ہے؟" گھٹی گھٹی سی آواز سے زمان نے پوچھا۔ اتنی تکلیف میں ہونے کے بعد بھی اسے اپنے بھائی کی فکر تھی۔ شانزہ نے زیر لب مسکرا کر اثبات میں سرہلایا۔ شانزہ کی آنکھوں سے آنسو نکلے۔ 

"اچھا لگتا ہے ہمیں یوں تکلیف میں دیکھ کر؟" 

زمان نے اسے دیکھا۔ 

"تمہیں تو کچھ نہیں ہوا نا؟" وہ فکر مند ہوا

"ہو بھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ کو اپنی فکر نہیں ہوتی" 

"میں ٹھیک ہوں شانزہ۔۔ یہ دیکھو زندہ ہوں! تمہیں یاد ہے ایک دفعہ لاؤنج میں امان مجھے تکیہ مارا تھا تو میں زمین پر گرگیا تھا؟ بس اس سے تھوڑا ذیادہ درد ہے" وہ اس موقع پر بھی ہنسانے میں مصروف تھا۔ شانزہ ہنس دی۔ 

"سنو میری تکلیف کا امان کو مت بتانا! وہ کہاں ہے شانزہ؟"

"بہت برا حال تھا ان کا۔۔ نماز میں آپ کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں!" 

"کیا ہوا تھا اسے؟" وہ زیادہ بول نہیں پارہا تھا۔ 

"وہ بس چیخ رہے تھے! رورہے تھے۔ میں بہت ڈر گئی تھی بھائی" 

زمان مسکرادیا۔

"فاطمہ آئی ہے مجھے دیکھنے؟" زمان نے امید سے دیکھا۔ 

"وہ آرہی ہے زمان بھائی! باہر ہی ہے۔ میں بلالیتی ہوں۔ نماز پڑھ چکی ہوگی وہ!" کہتے ساتھ وہ باہر جاکر فاطمہ کو اندر بھیج دیا۔ 

"کیسی ہو" زمان چھوٹتے ہی پوچھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ وہ آبدیدہ ہوگئی۔

"مجھے ڈرادیا تم نے زمان! میں بہت روئی تمہارے لیے۔ میں ڈر گئی تھی بہت!" کرسی پر بیٹھ گئی اور چہرہ ہاتھوں سے چھپالیا۔ 

"کچھ نہیں ہوا ہے مجھے! کیا تمہیں لگتا ہے زمان اتنی آسانی سے مرجائے گا؟ صرف طبیعتاً نہیں بلکہ میری ہڈیاں بھی ڈھیٹ ہیں"۔ زمان کے یوں کہنے ہر فاطمہ روتے میں ہنس دی۔ 

"باز آجاؤ" آنسو صاف کرتے ہوئے وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ 

"کیا تم نے شادی کی بات کی گھر میں؟" 

فاطمہ متحیر ہوئی۔ یہ کونسا موقع تھا یہ گفتگو کرنے کا؟

"ابھی ہوش میں آئے ہو تم اور دیکھو تو کیسی باتیں کررہے ہو! میں نکاح کی بات کروں گی بس تم اب جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ! میں امان بھائی کو بلا کر لاتی ہوں۔۔۔" اس کو مسکرا کر دیکھتے ہوئے وہ باہر نکلی۔ 

اب زمان کو خود کو تیار کرنا تھا تاکہ امان کو سنبھال سکے۔

تقریباً پانچ منٹ بعد امان تیزی سے اندر داخل ہوا تھا اور اس کے قریب آیا تھا۔ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ لمحے گزر گئے مگر امان کچھ بول نہ پایا۔ اس نے زمان کا ہاتھ پکڑ کر لبوں سے لگایا۔ امان کے لب کپکپارہے تھے۔ 

"ہشششش۔۔ میں ٹھیک ہوں! سب ٹھیک ہے۔۔ یہ دیکھو مجھے! مجھے تو تکلیف نہیں ہورہی" بائیں ہاتھ پٹی بندھی تھی اور دایاں ہاتھ امان کے ہاتھوں میں تھا۔ 

"مگر مجھے تکلیف ہورہی ہے! میں بھائی ہوں نا! میں بہت ڈر گیا تھا زمان۔ دیکھو تمہیں دو گولیاں لگی ہیں"۔ 

"لگی ہیں گولیاں مگر اب مجھے درد ہی نہیں۔ دیکھو!" اس نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھاکر دکھایا۔ تکلیف کی ایک لہر اٹھی تھی جسے وہ امان کے لئے فراموش کرا چکا تھا۔ امان نے بڑھ اس کا ہاتھ آرام سے نیچے کیا۔ 

"میں ڈر گیا تھا زمان۔ ایسا مت کرنا دوبارہ میرے ساتھ۔۔ کیوں آئے میرے سامنے! کیا ہوا اگر مجھے لگ جاتی گولی! تم آئیندہ ایسا نہیں کرو گے! اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو؟" 

زمان نے اسے گھورا۔ 

"اگر تمہیں لگ جاتی گولی تو؟" 

"مجھے لگ جاتی گولی مگر تمہیں نہیں! میں مر بھی جاتا تو کچھ نہیں ہوتا اور اگر تمہیں کچھ ہوجاتا تو میں خود مرجاتا"۔ 

"پاگل نہ ہو تو"زمان نے نظریں پھریں۔ 

"ہوسکتا ہے پولیس آئے تفشیش کرنے!" امان نے خبردار کیا 

"کہہ دوں گا کہ مجھ سے ہی چل گئی تھی غلطی سے"

"تم اس کا نام نہیں لو گے؟" 

"نہیں! میں چکی نہیں پیسنا چاہتا! اس سے دور رہو تم۔۔ مجھے ڈرگتا ہے وہ تمہارے ساتھ کچھ نہ کردے امان مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کریگا! شاید اب باز آگیا ہو۔۔۔ ہم کیوں اب دشمنی پالیں۔ لیکن اگر یہ مجھے کہیں نظر آیا تو ایک تھپڑ منہ پر ضرور ماروں گا۔ تم چھوڑو نا ان باتوں کو۔۔ وہ بِھوک لگ رہی ہے۔ تم میرے لالی پاپ لینے گئے تھے۔ لائے نہیں؟ " 

وہ ایک شخصیت تھا جو اپنے بھائی کے لئے کچھ بھی کرسکتا تھا۔ خود تکلیف میں تھا مگر امان کے لئے اپنی تمام تکلیفیں بھولا ہوا تھا۔ 

"شاہ نواز سے منگوایا ہے تمہارے لئے بہت کچھ! شرط یہ ہے کہ تمہیں اس کے لیے جلدی سے ٹھیک ہونا ہوگا" اس نے کہتے ساتھ اس کا ہاتھوں لبوں سے لگایا۔ 

"میں تمہاری بیوی ہوں کیا؟ میرا ہاتھ مت چوما کرو مجھے اپنا آپ لڑکی لگنے لگتا ہے" برا سا منہ بناتے ہوئے ہاتھ چھڑایا۔ امان ہنس کر اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"دیکھو زمان میں کہنا تو نہیں چاہتا لیکن تم میرے بھائی ہو اور چونکے جڑواں بھائی تو مجھے تم سے بہت محبت ہے!" اس نے محبت سے زمان کو دیکھا۔ 

"۲۴ سالوں میں پہلی بار یہ انکشاف ہوا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے۔ ورنہ آج تک مجھے یہی لگ رہا تھا کہ ہسپتال کے باہر رکھے جھولے سے اٹھایا گیا ہوں۔ کوئی بات نہیں! جو بھی ہو امان اب تم نے اظہار کر ہی دیا ہے تو میں تمہیں بتادوں مجھے شرم آرہی ہے۔ جاؤ یہاں سے!" 

امان مسکرادیا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس کی پیشانی چومی۔

"تمہاری ماں ہوں میں کیا؟ جو مجھ سے اتنا چپک رہے ہو! یہی کہا تھا نا سسرال میں مجھے؟  شروعات تم نے کی تھی" امان جانتا تھا وہ تب تک یوں پٹر پٹر بولتا رہے گا جب تک وہ اس کے ساتھ بیٹھا رہے گا۔ اس لئے اسے تاکید کرکے باہر نکل آیا۔ اس کے جانے کے بعد زمان نے بدن میں اٹھتی تکلیف جسے امان کی وجہ سے دبایا ہوا تھا اٹھی۔ اس نے گہری سانس لی۔ 

*--------------------------------------------------------* ایک دن اور گزر گیا۔ سب ملے مگر جاوید صاحب خاموش رہے۔ زمان نے ان کو گہرائی تک جاننے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ پولیس تفشیش کرنے آئی تھی جس پر زمان نے یہ بیان دیا تھا کہ گولی اس کے ہی ہاتھ سے غلطی سے چل گئی۔ اس نے عدیل کا نام تک نہیں لیا۔ اس کے بیان دینے ہر جاوید صاحب ششدر رہ گئے۔ اگر زمان چاہتا تو عدیل سے بدلہ لے سکتا تھا۔ اگلے دن سورج کے طلوع ہوتے ہی جاوید صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔

"کیسے ہو برخوردار؟" 

زمان مسکرادیا۔ 

"اب بہتر ہوں" 

"عدیل کی طرف سے کیا میں معافی مانگ سکتا ہوں؟" کچھ دیر توقف سے وہ بولے۔ چہرے سے ندامت چھلک رہی تھی۔ 

"جو معاملہ تھا ختم ہوگیا ہے انکل! اب سب ٹھیک ہے" نرم انداز میں وہ بہت ادب سے بات کررہا تھا۔ 

جاوید صاحب نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ ان آنکھیں پھٹنے کے قریب ہوگئیں

"بہت ظرف والے ہو تم" وہ اٹھ کر اس کے پاس آئے۔ 

"میں چاہتا ہوں تم جلد ٹھیک ہوجاؤ زمان! میں اپنی بیٹی کی شادی میں دیر نہیں کرنا چاہتا" وہ اس کے کانوں میں گویا خوشیوں کا سحر پھونک گئے تھے۔ وہ حیرانی سے انہیں دیکھتا رہا۔ پھر اس کی ریکوری بھی تیزی سے ہونے لگی اور وہ دن بھی آگیا جب وہ ہسپتال سے ڈسچارج ہونے والا تھا۔ 

"چونکہ اب تم مکمل ٹھیک ہوچکے ہو تو میرا دل چاہ رہا ہے میں وہی کھیل کھیلوں جو کھیل تم نے میرے ساتھ ہسپتال کی واپسی پر کھیلا تھا" شاطرانہ مسکراہٹ امان کے لبوں پر پھیلی۔ زمان گڑبڑایا۔ اس نے تھوک نگلا

"کک۔کون سا کھیل؟ یاد نہیں آرہا! لگتا ہے ایک گولی دماغ پر لگی تھی۔ میموری مکمل لاس ہوچکی ہے امان بھائی" سر کجھاتے ہوئے وہ مسکرایا تھا۔ 

"یاد دلاؤں گا کوریڈور میں چلتے ہوئے، تم فکر نہ کرو!" 

"شش۔شانزہ کہاں ہے؟" اس کے پاس آخری راستہ یہی تھا۔ 

"میں نے اسے گھر بجھوادیا ہے! ایک ہفتہ ہوگیا ہے تمہیں ہسپتال میں رہے۔ اب میں تمہیں بتاؤں گا کہ کیسا لگتا ہے جب آپ کسی کے ساتھ یہ کھیل کھیلتے ہیں" کہتا ساتھ اس کے قریب آیا اور اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔ "پکڑو میرا ہاتھ" اس کا ہاتھ پکڑنا چاہا مگر زمان اس سے دور ہٹا۔ 

"مجھے منظور ہے!" زمان نے بنھویں اچکا کر اسے دیکھا۔ "مگر یاد کرو تم نے بدلے میں مجھے گدی سے پکڑ کر کمرے میں جاکر الٹا لٹکایا تھا۔ پھر میں بھی یہی کروں گا! کہو منظور ہے؟ دیکھو امان! منظور کر لو۔ کیونکہ تمہیں الٹا لٹکانے میں یہ دیکھو" اس نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا " یہاں سکون ملے گا" 

امان گھور کر رہ گیا۔

"اپنا بےکار چلتا دماغ مت چلایا کرو" کہتے ساتھ اسے سہارا دے کر اٹھایا۔ 

"بھائی مجھے سہارے کی ضرورت نہیں دماغ پر چوٹ نہیں لگی میرے جو تمہاری طرح چکرا جاؤں۔ جاسکتا ہوں میں! راستے سے ہٹو میرے" اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے وہ آگے بڑھ گیا۔ 

*--------------------------------------------------------*

زمان کے مکمل ٹھیک ہونے کے بعد جاوید صاحب نے اگلے مہینے دونوں کی شادی منعقد کردی تھی۔ گھر میں بہت سی تبدیلیاں بھی ہوئی تھیں۔ جیسے شانزہ نے اوپر والی منزل جہاں منہاج اور ماہ نور کا کمرہ تھا، اس کی مکمل صفائی کروائی تھی۔ وحشتوں اور اندھیرے کو کمرے سے نکال باہر کیا تھا۔ امان نے ماہ نور اور منہاج کی تصویر اپنے کمرے میں لگائی تھی اور ڈائری بھی اپنے پاس رکھی تھی۔ کچھ تصاویر زمان نے بھی اپنے کمرے میں وال پر لٹکائی تھیں۔ منہاج کے کپڑے امان اور زمان نے آپس میں بانٹ لئے تھے۔ ہفتے میں دو تین دفعہ وہ دونوں منہاج کے کمرے میں قیام ضرور کرتے۔ اس کمرے سے انہیں ماہ نور اور منہاج کی خوشبو محسوس ہوتی۔ کمرے میں داخل ہوتے وقت قدم لڑکھڑاتے ضرور تھے۔ وہ ڈائری امان نے بہت حفاظت سے رکھی تھی۔ اس میں منہاج کی زندگی تھی۔ اس ڈائری میں موجود ایک ایک لفظ گواہ تھا کہ انہیں پڑھنے والے کے اور لکھنے والے کا دل بہت بڑا تھا۔ 

بس اب یہ کہ وہ اپنی زندگی اپنے ماں باپ کے دیئے گئے سبق اور تاکیدوں کے عین مطابق گزارنے کوشش کررہے تھے۔ منہاج ٹھیک کہا کرتا تھا۔ 

کسی ایک کی غلطی نسلیں تباہ کردیتی ہے۔ 

وہ ایک غلطی ہوئی تھی کسی زمانے میں کسی شخص سے! 

منہاج نے یہ بھی ٹھیک کہا تھا کہ امان اس کا عکس ہے۔ اس کی چال بھی منہاج کی طرح تھی۔ بات کرنے کا انداز ہوبہو ویسا تھا۔ بنھویں اچکا کر مسکرانا گویا قیامت بن کر ڈھاتا تھا۔ 

عدیل یہاں نہیں تھا اب۔ وہ جاچکا تھا۔ بہت دور! سب سے دور! ہاں مگر اس کی کال ضرور آئی تھی۔ امیدیں ماند پڑ رہی تھی مگر حوصلہ ابھی بھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ پشیمان تھا۔ 

شانزہ نے بےدھیانی میں کال ریسیو کی تھی۔ 

"ہیلو!" دوسری طرف خاموشی پاکر شانزہ نے ابتدا کی۔ "ہیلو؟ کون ہے؟" اس کا نمبر شانزہ کے پاس محفوظ نہیں تھا۔ 

"ہیلو شانزہ" دھیمی آواز میں اس نے جواب دیا۔ شانزہ ٹھٹھکی۔

"عدیل؟ کیوں فون کیا ہے آپ نے؟ زندگیاں تباہ کرکے بھی چین نہیں ملا آپ کو؟ آئیندہ یہاں فون نہیں کیجئے گا" کہتے ساتھ اس نے غصے میں فون رکھنا چاہا مگر عدیل کی آواز نے اسے روکا۔

"میں جارہا ہوں شانزہ! میں ملک سے باہر جارہا ہوں! ہمیشہ کے لئے۔۔۔ دعا کرو کبھی نہ لوٹوں" 

شانزہ ساکت ہوئی۔ 

"میں دعا کروں گی تم کبھی نہ لوٹو!" شانزہ نے تلخی سے کہا۔ عدیل نے تکلیف سے آنکھیں میچیں۔ 

"آج فلائٹ ہے میری! میں جارہا ہوں تاکہ تم مجھے آئندہ نہ دیکھ سکو، تمہیں غصہ نہ آئے! تم میری غیر موجودگی میں چاچو اور چاچی سے ملنے بلا جھجھک آؤ!" 

"خدا حافظ!" شانزہ نے کہہ کر کال کاٹ دی اور موبائل بیڈ پر پھینک دیا۔ 

اس بات کو بھی بہت دن گزر گئے تھے اور وہ دن بھی آ پہنچا جس کے لئے زمان نے بہت انتظار کیا تھا۔ 

زمان کی آواز آنے پر وہ نیچے اتری تھی۔

"جی زمان بھائی اور یہ کیا اتنی خراب حالت بنائی ہوئی ہے؟" وہ حیرانی سے اس کو دیکھ رہی تھی جو پسینے سے شرابور باہر سے آیا تھا۔۔

"تھک گیا ہوں یار" وہ صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھا۔ وہ واقعی تھکا ہوا تھا۔ جسے دسمبر کے مہینے میں پسینہ آرہا تھا وہ یقیناً بہت کام کرکے آرہا ہوگا۔ 

"شادی ہے آج آپ کی! اب ایسا کریں تھوری دیر آرام کریں" 

زمان کو کچھ یاد اٹھ کھڑا ہوا۔ 

"کیا تم میرے ساتھ بابا کے روم میں چلو گی؟" 

شانزہ نے ناسمجھی میں ہامی بھری اور اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی منہاج کے کمرے میں داخل ہوئی۔ 

"زمان بھائی شادی کا جوڑا تو پریس کروالیا تھا نا؟ آپ نے نہ مجھے دکھایا جوڑا اور نہ امان کو۔ وہ بار بار پوچھ رہے تھے"

"آؤ تمہیں دکھاؤں جوڑا!" معنی خیز انداز میں دیکھتا ہوا مسکرایا اور وارڈروب کی جانب بڑھا۔ وہ اس کے پیچھے ہولی۔ 

وارڈروب کھول کر اس نے سامنے لٹکے جوڑا کو باہر نکالا۔ 

"یہ پہننے والا ہے تمہارا بھائی!" 

شانزہ ٹھٹھکی۔ وہ منہاج کی شادی کی شیروانی تھی۔ شانزہ کا دل کانپ اٹھا۔

"میں آج بابا جیسا لگنا چاہتا ہوں! یہ دیکھو یہ واچ!" اس نے دراز میں رکھی واچ نکالی۔ 

"وہ تصویر جو میں نے اپنے کمرے میں لگوائی ہے، اس تصویر میں بابا اپنی شادی پر یہ واچ ہاتھ میں پہنے تھے! یہ واچ اتنی پرانی ہے کہ اب کام نہیں کرتی! میں اسے ٹھیک کرواؤں گا" وہ محبت سے اس واچ کو اپنے ہاتھوں میں گھما رہا تھا۔ 

"اگر یہ ٹھیک نہ ہوسکی تو؟" شانزہ دھیما بولی۔

"تو میں اس گھڑی کو ایسے ہی پہن لوں گا!" وہ درازیں دیکھنے لگا۔ 

"آپ بہت اچھے ہیں زمان بھائی! میں واقعی نہیں جان سکتی کہ باپ کے بنا زندگی گزارنا کیسا تکلیف کا عالم ہوتا ہے! جو مجھ پر گزرا ہی نہیں میں وہ کیسے جان سکتی ہوں؟" وہ اعتراف کرتے ہوئے اس کی پشت کو تک رہی تھی۔ 

"میرا چہرہ کوئی پڑھنے کی کوشش تو کرے!" وہ اپنی کہہ رہا تھا۔ دراز نکال کر وہ بستر پر بیٹھا۔ 

"چہرے پر غم کے آثار بتارہے ہیں تکلیف بہت ہے" وہ اس کے چہرے کے تاثرات جانچنے لگی۔ دراز میں جھانکتے زمان نے جھٹکے سے سر اٹھایا۔ 

"میرا چہرہ پڑھنا بند کرو" اسے گھورتا ہوا وہ پھر سے دراز میں ہاتھ ڈال کر کچھ ڈھونڈنے لگا۔ 

"کسی کی یاد آرہی یے؟" وہ بستر کے دوسری سائڈ پر بیٹھی۔ 

"میں نے کہا نا! میرا چہرہ پڑھنا بند کرو شانزہ" 

"مجھ سے چھپائیں گے اب آپ؟ کیا مجھ پر یقین نہیں؟" 

لمحوں کی خاموشی پھیلی۔

"میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوجائیں گے اگر میں نے نام لیا۔ مگر میں کیا کروں میں خود پر قابو نہیں رکھ پارہا ہوں۔ میں بابا کو یاد کررہا ہوں۔ میں ماما کے لئے تڑپ رہا ہوں" اس سے برداشت نہ ہوا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "آج میرے اتنے بڑے دن میں میرے پاس ماں باپ نہیں! یہ وہ دن ہے جس میں ماں اپنے تمام خواہشیں اور ارمان پورے کرتی ہے. یہ وہ دن جب باپ اپنے بیٹے کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ اس کا بیٹا کتنی جلدی بڑا ہوگیا۔ وہ اسے محبت سے دیکھتا ہے اور رشک کرتا ہے۔ میں اِس کمرے میں اپنی تسکین کے لئے آتا ہوں شانزہ!اس کمرے میں  ماں باپ کی موجودگی محسوس ہوتی ہے۔ سب ختم ہوگیا ہے شانزہ! میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کتنا اچھا ہوگیا ہے نا کہ اب سب ٹھیک ہوگیا یے؟ تم لوٹ آئی۔ میری کون سی نیکی کام آگئی جو آج فاطمہ میرے نام ہونے جارہی ہے۔ امان اب ٹھیک ہوگیا ہے مگر ایسا نہیں ہے شانزہ! میں اور امان کہیں نہ کہیں ادھورے ہیں! کہیں نہ کہیں خلا ہے ہماری زندگیوں میں۔ میں بابا کو یاد کرنا چاہتا ہوں اور ماما کو سوچنا! خیر چھوڑو ان باتوں کو۔ دہرانے کا فائدہ نہیں! تم امان کو مت بتانا کہ میں بابا کی شیروانی پہن رہا ہوں! میں اسے سرپرائز دینا چاہتا ہوں!" وہ آخری بات کہتے ہوئے مسکرایا تھا۔ 

کیا شخص تھا وہ؟ روتے میں مسکرانا کوئی اس شخص سے جانے۔ درد دلوں میں چھپانے میں وہ ماہر تھا۔

"میں نے اس دراز سے بابا کی بہت سی چیزیں لے لی ہیں۔ اگر بابا اس وقت ہوتے تو وہ مجھے منع نہیں کرتے مگر یوں چوری کرتے ہوئے یہ ضرور کہتے کہ "زمان تم کبھی نہیں بدل سکتے!" وہ قہقہ لگاتے اور مجھے اپنے سینے میں چھپالیتے اور میں ہر بار کی طرح کہتا "بابا مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا" تمہیں بتاؤں وہ کیا جواب دیتے؟ وہ کہتے "کوئی بات نہیں زمان! آپ کے بابا آپ سے بہت محبت کرتے ہیں"۔ مجھے میری ماں بھی بہت یاد آتی ہے شانزہ! میں رویا کرتا تھا نا تو وہ کہتی تھیں کہ "زمان ماما کو تکلیف ہورہی ہے آپ رویا مت کریں!" شانزہ تم سوچتی ضرور ہوگی کہ میں غم میں ڈوبا ہوتا ہوں مگر آنسو نہیں بہتے؟  اس لئے کہ اگر میں رویا تو ماما کو تکلیف پہنچے گی! میں اب اللہ کے سامنے روتا ہوں! اپنے بھائی کے لئے! اپنے لئے! اپنے اہلِ خانہ کے لئے۔ اگر ماما ہوتی نا تو وہ بہت خوش ہوتیں! خوش تو بابا بھی بہت ہوتے مگر کہتے ہیں کہ ماں اپنے بیٹوں کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے جھوم سی جاتی ہیں۔ ماما کو بیٹیاں بہت پسند تھیں۔ تمہیں پتا ہے وہ اپنی "پرسنز" کہتی تھیں! وہ کہتی تھیں تم میری محبت ہو! " وہ آخری جملہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔ 

"میری محبت ہو۔۔ میں ۔۔۔۔ ان کی محبت۔۔۔تھا" آواز حلق میں پھنس گئی۔ شانزہ کے آنکھیں بھیک گئیں۔ 

"آپ کا بہت ظرف والے ہیں زمان بھائی"۔

زمان مسکرایا۔ 

"ہاں ہوں گا مگر تمہارے جتنا بڑا نہیں ہے میرا ظرف  پتا ہے کیوں؟"۔

"کیوں؟"۔ وہ حیران تھی۔ 

"اگر میں تمہارے جگہ ہوتا۔ پہلی بات ہوتا تو نہیں کیونکہ تم لڑکی ہو لیکن چلو فرض کر لیتے ہیں کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں کبھی بھی امان کی جانب پلٹ کر نہیں آتا۔ اس شخص کی جانب تو بلکل بھی نہیں جس نے آپ سے نکاح زبردستی کیا ہو۔ جس کی وجہ سے آپ کے گھر والے آپ سے منہ پھیر گئے۔ تم کسی کو پسند کرتی تھی اور سب سے بڑی بات ہی یہ کہ وہ تمہارا منگیتر بھی تھا۔ کچھ خواب تھے تمہارے جسے امان نے کچل دیئے۔ ہیں نا؟ وہ شخص جو تمہارا منگیتر تھا تمہیں اب بھی یاد آتا ہوگا۔ بہت کم سہی مگر یاد ضرور آتا ہوگا۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے کبھی معاف نہ کرتا۔ کبھی پلٹ کر نہ آتا۔ میں اسے تڑپتا چھوڑدیتا! جب تم گئی تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ تم کبھی نہیں پلٹو گی۔ مگر میں تو اصل زندگی میں اس کا بھائی ہوں۔ میں اسے تڑپتا نہیں دیکھ سکتا اس لئے تمہارے واپس آنے کی دعائیں مانگتا رہا۔ لیکن اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو پلٹ کر ہی نہ آتا"۔ شانزہ اسے غور سے سن رہی تھی۔ وہ بات بلکل سچی کیا کرتا تھا۔ 

"سچ کہتے ہیں آپ! مگر جو انہوں نے کیا وہ ہوش میں نہیں تھے۔زمان بھائی؟ ایک بات کہوں آپ سے؟ برا تو نہیں مانیں گے؟" زمان نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"کہو" مسکرا کر اجازت دی۔ 

"انہیں نفسیات کا مسئلہ تھا۔ یہ بات آپ جانتے تھے کہ وہ نارمل نہیں تھے۔ آپ تو بھائی تھے نا! آپ نے علاج کیوں نہیں کروایا؟ جو بھی ہوا پہلے اس گھر میں اس سب سے ان کی شخصیت بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے ماضی کو حاوی کرلیا تھا خود کے اوپر! وہ پاگل ہوگئے تھے۔ انہیں علاج کی بہت ذیادہ ضرورت تھی زمان بھائی! آپ نے کیوں نہیں دکھایا ان کو کسی ڈاکٹر کو؟"یہ وہ سوال تھا جسے شانزہ بہت عرصے سے پوچھنا چاہتی تھی۔

زمان سوچ میں پڑگیا وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ 

"تم ٹھیک کہتی ہو شانزہ! کچھ غلطیاں مجھ سے بھی ہوئی ہیں۔ وہ غلطیاں جس سے تمہاری زندگی بھی خراب ہوگئی تھی۔ وہ پہلے یہ بات کبھی قبول نہیں کرتا کہ اسے نفسیات کا مسئلہ ہے ہاں مگر یہی بات وہ اب قبول کرتا ہے کہ ماضی میں اس کو نفسیات کا مسئلہ رہا ہے اور وہ اب پشیمان ہے۔ اپنی ہر غلطی پر۔ اسے ہونا بھی چاہئے۔ اس کو ساری زندگی یہ سوچ کر شرمندگی ہوگی کہ اس نے جو کیا غلط کیا۔  تمہارے معاف کرنے پر ایسا نہیں ہے کہ وہ مطمئن ہوگیا۔ وہ اب بھی شرمندہ ہے اور ساری زندگی اسے اس بات کا افسوس رہے گا کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا"۔ 

وہ خود بھی اعتراف کرتا تھا کہ اس سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جیسے امان کا علاج بہت پہلے کروادینا چاہئے تھا۔ کچھ چیزیں بہت پہلے ہی ٹھیک ہوجانی چاہئے تھیں۔

شانزہ نے نظریں جھکائیں۔ ایسا نہیں تھا وہ مجبوری میں آئیندہ کی زندگی امان کے ساتھ گزاردے گی۔ اسے اپنے مجازی خدا سے محبت ہوچکی تھی۔ وہ صرف اس کی تھی، مگر یہ پچھتاوا بھی امان کے ساتھ رہنا ضروری تھا کہ اس نے جو کیا غلط کیا!

"باتیں پرانی ہوگئی ہیں زمان بھائی! اب تو سب ٹھیک ہے! میں بہت ذیادہ خوش ہوں اب! بڑی خوشی کی بات یہ ہے میرے لئے کہ میں نے اپنے دل کی سنی! میرا دل یہی چاہتا تھا کہ میں لوٹ آؤں۔ تو کیا اتنے عرصے بعد بھی میں اپنی نہ سنتی؟ میں نے اپنی خواہش کا احترام امان کے پاس لوٹ کر کیا۔ اب سب ٹھیک ہے۔ خیر پتا ہے شام ہونے میں وقت کتنا کم رہ گیا ہے؟" آخر میں شانزہ نے وقت دیکھ کر اسے یاد دلایا۔

"وقت کم ہے اور کام ذیادہ! چلو پھر میں یہ کپڑے پریس کرنے کلثوم کو دیتا ہوں اور یہ گھڑی بھی ٹھیک کروانی ہے۔ میں آج بہت خوش ہوں" اس نے دراز اٹھا کر وارڈروب میں دراز پھر سے لگائی۔ شانزہ اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل آئی۔ زمان نے کمرے میں ایک بھرپور نظر دوڑائی اور ٹھنڈی سانس بھرتا نیچے ہولیا۔  

*-------------------------------------------------------*

"آج ہماری بیٹی رخصت ہوجائے گی جاوید! میرا دل گبھرارہا ہے"۔ صبور کھڑکی پاس کھڑے جاوید صاحب کے پاس آئیں اور پیچھے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

"آج نہیں تو کل رخصت تو ہونا ہی ہے صبور!" وہ دھیمی آواز میں جواب دیا۔ 

"اگر اس خوشی میں عدیل بھی شامل ہوتا کتنا اچھا ہوجاتا نا؟" ان کے کندھے پر سر رکھ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں۔ 

"کس منہ سے آتا؟ کیا سامنا کر پاتا؟" ان کا لہحہ یک دم تلخ ہوا۔  صبور نے آنکھیں میچیں۔ 

"فاطمہ کو پارلر سے کب لینا ہے صبور ؟" 

"میں اس کو کال کرلیتی ہوں" وہ موبائل لینے بستر کی جانب بڑھیں۔ 

"تیاری مکمل ہے نا؟"  جاوید صاحب نے آنکھوں میں آئی نمی کو ہاتھ سے صاف کیا۔ ان کی پیاری بیٹی رخصت ہونے جارہی تھی۔ 

"الحمداللہ ہوگئی ہے مکمل" صبور نے جواب دیا۔ 

جاوید صاحب کو پتا ہی نہ چلا کب ان کے آنسوؤں تیزی آگئی۔  وہ واشروم کی جانب بڑھ گئے۔ 

*-------------------------------------------------------*

"ہمیشہ کی طرح بےانتہا خوبصورت!" امان چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔ 

اس نے گلابی رنگ کا شرارہ پہنا تھا۔ ہلکا لائٹ میک پارلر سے کروایا تھا۔ کانوں میں جمھکے اور گلے میں پتلی سی چین۔ وہ اس وقت خوبصورتی کا مجسمہ لگ رہی تھی۔ 

"آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں امان" سفید کرتا شلوار پر گہرا نیلا واسٹ کوٹ، نکھرا نکھرا چہرہ۔ وہ مدھم سا مسکرایا۔

"میں تو ہمیشہ اچھا لگتا ہوں" وہ اپنی ہی بات پر ہنسنے لگا۔ وہ بھی ساتھ ہنس دی۔ 

"اس میں واقعی کوئی شک نہیں امان!" محبت بھری نگاہیں امان کے چہرے پر سے ہٹنے کو تیار نہ تھیں مگر حیا جلد ہی آلیا۔

"نوازش آپ کی" امان نے شرارتی انداز میں کہا۔

یہ گہرا نیلا واسٹ کوٹ بھی منہاج کا تھا۔

شانزہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور لبوں سے لگایا۔ امان متحیر ہوا۔ اس کی نظریں شانزہ کے اس انداز پر اٹک گئیں۔ شانزہ نے اس کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اس بار یہ طریقہ شانزہ نے اپنایا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس کے اس انداز پر امان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو باری باری لبوں سے لگا کر آنکھوں پر رکھا تھا اور وہ اس سب میں صرف مسکراتی رہی۔ 

"کیا کوئی اللہ کا بندہ میری تعریف کرنا چاہے گا کیونکہ میں تیار ہوچکا ہوں" زمان کے کمرے سے آتی آواز پر وہ دونوں حیران ہوئے اور پھر ہنس دیئے۔

"آجائیں اب دلہے کو بھی دیکھ لیتے ہیں ہم!" اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی وہ آگے بڑھی۔ دونوں ساتھ زمان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ 

جب زمان سنگھار میز سے پلٹا تو امان اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ ہوبہو منہاج بابا لگ رہا تھا۔ 

"تم نے بابا کی شیروانی پہنی ہے نا؟" لہجے میں حیرانی واضح تھی۔ زمان نے اثبات میں سرہلایا۔ 

"بلکل"

"زمان بھائی! بہت اچھے لگ رہے ہیں ماشاءاللہ! تو کیا منہاج بابا کی گھڑی ٹھیک ہوئی؟" شانزہ نے نظروں سے اس کے کلائی میں بندھی گھڑی کی جانب اشارہ کیا۔ زمان نے گھڑی کو دیکھا اور سر جھٹکا۔ 

"نہیں ہوئی!" 

کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ امان سے رہا نہیں گیا وہ اس کے قریب آکر اس کے گلے سے لگ گیا۔ 

"اللہ تمہیں خوش رکھے زمان! تم بہت اچھے لگ رہے ہو!" وہ اس کو سختی سے بھینچا ہوا تھا۔

"شانزہ! میرے لیے دعا کرنے والے اس شخص سے کہو کہ یہ بھی اپنے خوش رہنے کی دعا مانگے! کیونکہ اگر یہ خوش رہے گا تو میں بھی خوش رہوں گا!" امان نے اس کی کمر سہلا کر پیشانی چومی۔ 

شانزہ نے زیر لب آمین کہا تھا اور یہ بھی دعا کی تھی کہ اس کے اہلِ خانہ پر خوشیوں کا سایہ رہے!

"کتنے دنوں بعد نہا کر آئے ہو شاید اس لئے ذیادہ اچھے لگ رہے ہو" امان نے چھیڑا۔ 

"ہر جگہ میرے راز مت کھولا کرو امان! اور آج اس گھر میں کسی کا اضافہ ہونے والا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اسے میرے اتنے گھٹیا راز پتا چلیں" وہ ہر چیز کو انجائے کرنے والا بندہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ آج صبح سے اب تک تیسری دفع نہا چکا تھا اور اس بات کا علم امان کو تھا مگر وہ چھیڑنے سے باز نہیں آتا۔ 

امان کا قہقہ بلند ہوا جبکہ شانزہ نے ہنسی قابو کرنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھا۔ 

"اسے خود ہی پتا چل جائیں گے جب وہ تمہارے ساتھ رہے گی" ہنستا ہوا وہ زمان کے کپڑوں پر پڑتی سلوٹیں درست کرنے لگا۔ 

"بہت دیر ہورہی ہے جلدی آجائیں۔ ماما کا فون آیا تھا کہ وہ پہنچ چکے ہیں ہال! اب ہمارا انتظار ہے" 

"ہاں ہاں جلدی چلو" زمان آگے بڑھا۔

اس کے کمرے سے جانے کے بعد امان نے شانزہ کو دیکھا۔

"کتنی جلدی ہے نا اس بندے کو؟" امان کے یوں کہنے پر وہ مبہم سا مسکرائی۔

*--------------------------------------------------------*

"زمان بھائی پیسے لوں گی میں! اسٹیج پر نہیں چڑھنے دوں گی اگر لفافہ نہیں ملا مجھے تو" 

زمان ٹھٹھکا۔

"پیسے؟" آنکھوں میں بلا کی حیرانی تھی۔

"جی پیسے" گاڑی میں پیچھے بیٹھی شانزہ نے سینے پر ہاتھ باندھا۔ 

گاڑی چلاتا امان نے بیک مرر سے مسکرا کر شانزہ کو دیکھا۔ 

"ارے ابھی دیتے ہیں پیسے! بہت پیسہ جیب میں! مگر جیب میری نہیں تمہارے شوہر کی ہے" کہتے ساتھ امان کی جیب ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگا۔ امان نے روکنا چاہا لیکن چونکہ گاڑی چلا رہا تھا اس لئے کچھ کر نہ پایا۔ والٹ نکال کر زمان نے اسے پیچھے دے دیا۔

"یہ لو یہ پورے پورے پیسے میری طرف سے" شانزہ نے اس بندہ کو حیرانی سے دیکھا۔

"مگر یہ تو میرے شوہر کے پیسے ہیں" والٹ کھول کر وہ امان کے رکھے پیسے دیکھنے لگی۔

"مگر بھائی تو میرا ہے اس لئے اس نے میری طرف سے تمہیں پیسے دیئے!" 

کیا تھیوری تھی۔ وہ تالی بجانے لگی۔ 

"اب مجھے لگ رہا ہے تم تالی بجا کر میری لوجک کی بےعزتی کررہی ہو" زمان نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا۔ 

"مجھ سے بات مت کریں" وہ رخ موڑ کر منہ پھیر کر کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ امان اس سب میں خاموش ہی رہا۔ ان کی باتیں انجائے کرتے ہوئے مسکراتا رہا۔ زمان نے ایک نظر شانزہ کو دیکھا جو روٹھ گئی تھی پھر امان کو دیکھا جو کندھے اچکا رہا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ باقی راستہ خاموشی میں گزر گیا۔ خوبصورت اور شاندار بینکوئٹ کے سامنے گاڑی رکی تھی۔ وہ تینوں اترے۔ پیچھے دو تین گاڑیاں بھی رکیں جن میں گارڈز تھے اور تحائف۔ 

لڑکی والوں کی طرف شور سا مچ گیا۔ 

"بارات آگئی" خوشیوں سے بھرپور آوازیں کانوں میں پڑنے لگیں۔ پھول نچھاور کئے گئے۔ سب کچھ بہت اچھا تھا۔ امان اس کے ساتھ چلتا ہوا اسٹیج کی طرف آیا۔ ہجوم نے ان کو گھیرا ہوا تھا۔ دلہن برائڈل روم میں تھی۔ زمان کو آج محسوس ہوا اس کی تمام خواہشات پوری ہوگئیں۔ اسٹیج پر چڑھنے کے لئے قدم رکھنے ہی لگا تھا کہ کچھ سوچ کر مڑا۔ اتنے بڑے ہجوم میں آنکھیں شانزہ کو ڈھونڈنے لگیں۔

امان نے اس کے یوں رک جانے پر اسے دیکھا۔ 

"شانزہ" وہ دور کھڑی خفا خفا سی اسے دیکھنے لگی۔ زمان نے پھر آواز دی۔  شانزہ نے اسے دیکھا۔ 

"جی؟" وہ وہیں سے دھیمی آواز میں بولی۔ زمان نے اسے وہیں سے آنے کا اشارہ کیا۔ مگر اس نے منع کردیا اور نظریں پھیر لیں۔ 

زمان نے امان کو دیکھا جو ایک بار پھر کندھے اچکا رہا تھا۔ 

"تم اسٹیج پر چڑھو سب انتظار کررہے ہیں۔ میں شانزہ کو دیکھتا ہوں" 

"نہیں! وہ ناراض ہے مجھ سے! میں آتا ہوں" کہتے ساتھ ہجوم سے نکلتا اس کی طرف آیا۔ سب مڑ کر دلہے کو دیکھنے لگے۔ وہ میز کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ وہ دنگ رہ گئی۔ آج اس کا ایونٹ تھا اور ان سب سے بیگانا ہوکر صرف اس کے لئے سب چھوڑ چھاڑ کر آرہا تھا۔ 

"آؤ شانزہ ورنہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں اپنی بہن کے بنا اسٹیج پر نہیں چڑھوں گا" وہ ضدی لہجے میں بولا۔ شانزہ پل بھر کر رکی۔ وہ اسے بلکل چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔ وہ بس اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔ 

"دیکھو نیگ لینا ہے تو جلدی سے چلو" اس کی بات پر شانزہ کھل اٹھی۔ 

وہ ہنستی ہوئی اس کے ساتھ چلنے لگی۔ 

اسٹیج ہر جاکر کھڑی ہوگئی اور ہاتھ آگے کیا۔ 

"اگر پیسے نہیں دیئے تو اسٹیج پر نہیں چڑھنے دوں گی!" 

امان نے محبت سے دونوں کو دیکھا۔ وہ دونوں ہی اس کے تھے۔ 

زمان نے جیب میں سے لفافہ نکال کر آگے بڑھایا۔ پیسوں سے بھرا بھاری لفافہ شانزہ نے تھاما۔ 

سب لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ اپنی بہن کے لئے اسٹیج چھوڑ کر بڑھا تھا۔ 

"شانزہ بعد میں ہم آپس میں بانٹ لیں گے ٹھیک ہے؟" امان نت سرگوشی کی جسے زمان نے آسانی سن لیا۔ 

"جی نہیں یہ میرے ہیں" وہ ادا سے رخ موڑ کر بولی۔ امان حیرت سے منہ کھول کر رہ گیا۔

"اب آسکتا ہوں اسٹیج پر؟" زمان نے اجازت مانگی۔

شانزہ نے مسکراتے ہوئے  اثبات میں سرہلایا اور راستے سے ہٹ گئی۔ بات پیسوں کی نہیں تھی! بات خوشیوں کی تھی اور یہ بات شانزہ اور زمان دونوں جانتے تھے۔ وہ خاص طور پر اس کے لئے گھر سے لفافہ بنا کر آیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنا جوڑا سنبھالتی برائڈل روم میں داخل ہوئی۔ 

اندر پہنچ کر اس کی نظریں فاطمہ پر ساکت ہوئی تھیں۔ جو لفظ لبوں سے آذاد ہوا وہ "خبصورت" تھا۔ 

"تم بھی بہت بہت ذیادہ پیاری لگ رہ ہو شانزہ!" فاطمہ نے اسے سر تا پیر دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ 

"نہیں مگر تم تو دلہن ہونا۔۔ تم بہت بہت بہت ذیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔ قاضی صاحب پہنچنے والے ہیں۔ نکاح جلد شروع ہوجائے گا" شانزہ نے مسکرا کر اطلاع دی۔ 

فاطمہ کے رخسار سرخ ہوئے۔ حیا سے آنکھیں جھک گئی۔ یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

"رمشا کہاں ہے فاطمہ؟" اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی۔ 

رمشا پیچھے سے برائڈل روم میں داخل ہوئی۔ فاطمہ نے نظروں سے رمشا کی طرف اشارہ کیا۔ 

"یہ رہی" 

شانزہ نے پلٹ کر دیکھا تو اٹھ کر گلے لگ گئی۔ 

"کیسی ہو رمشا" رمشا نے ہاتھوں سے اسے گھیر لیا۔ 

"میں تو ٹھیک ہوں مگر تم بہت پیاری لگ رہی ہو شانزہ!" اس کی پیشانی چوم کر وہ محبت سے بولی رہی تھی۔ 

"مگر تم سے ذیادہ نہیں" وہ مبہم سا مسکرائی "فاطمہ اس کے چہرے کی چمک کتنی بڑھ گئی ہے نا! اگلے مہینے منگنی جب سے طے پائی ہے محترمہ کی چمک کتنی بڑھ گئی ہے۔ ہے نا؟" وہ اسے چھیڑنے لگی۔ رمشا شرمائی۔ فاطمہ بھی ہنس دی۔ 

"شانزہ! زمان اسٹیج پر ہے؟" وہ لمبی گھنی پلکیں اٹھا کر پوچھنے لگی۔ شانزہ نے اسے دیکھا تو مسکرادی۔ 

"تمہارے لئے تصویر کھینچ کر لاؤں؟" 

فاطمہ نے مسکرا کر ہاں میں سرہلایا۔ 

"بس ابھی لائی" کہہ کر باہر نکلی اور موبائل میں کیمرہ کھول کر اسٹیج کے سامنے کھڑی ہوئی۔ امان اس کے بلکل برابر میں آ کھڑا ہوا۔ 

"امان آپ بھی بیٹھ جائیں زمان بھائی کے ساتھ!" 

"جو آپ کا حکم" سرجھکا کر کہتے ہوئے وہ اسٹیج پر چڑھ کر اس کے برابر میں آکر بیٹھ گیا۔

"تم بہت اچھے لگ رہے ہو امان" امان کے بیٹھتے ہی زمان نے اس کے کان قریب ہوکر سرگوشی کی۔ 

"جانتا ہوں میں! اور میں کب سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت بول رہے ہو! کم بولو اور صرف مسکراؤ!" اسے تاکید کرکے وہ سامنے کیمرے میں دیکھنے لگا۔ ایک بہترین تصویر دونوں کی کھینچ کر اس نے دونوں کو رشک سے دیکھا تھا اور مسکراتی ہوئی چلی گئی۔ 

"تمہیں تو تمہاری بیوی بھاؤ نہیں دے رہی تاکید تو بڑھ چڑھ کر کررہے ہو" 

"تمہیں تمہاری بیوی بھی بھاؤ نہیں دے گی"  

"زہر انسان دعا نہیں دے سکتے تو بدعا تو مت دو! میرا قاضی کب آرہا ہے؟" وہ کتنا جلدی میں تھا! امان سوچ کر رہ گیا۔

"یہ قاضی "تمہارا" کب سے ہوگیا؟" بنھیوں اچکا کر اس کے ہیچھے صوفے پر ہاتھ پھیلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

"جب نکاح میرا پڑھائے گا تو میرا ہی ہے نا؟" کیا لوجک تھی امان عش عش کر اٹھا۔ 

وہ ابھی جواب دینے لگا تھا کہ "قاضی صاحب" کے آنے کا شور مچ گیا۔ 

نکاح آمنے سامنے بٹھا کر ادا نہیں کیا گیا تھا۔ فاطمہ کا بڑائیڈل روم میں ایجاب و  قبول کروا کر اسٹیج پر زمان کی طرف آئے تھے۔

قاضی صاحب کے منہ سے نکلے ہر لفظ پر زمان مسکرا رہا تھا۔ اس کو اچھا لگا تھا جب اس کا نکاح پڑھاتے وقت اس کا نام منہاج کے نام کے ساتھ جوڑا تھا۔ تینوں دفع "قبول ہے" اس نے دل کی گہرائیوں سے ادا کیا تھا۔  تو آخرکار وہ ایک دوسرے کے ہوچکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد فاطمہ کو اسٹیج پر اس کے برابر میں لا بٹھایا تھا۔ دل میں اب ایک نیا احساس تھا۔ نئے جذبات تھے۔ وہ اس کی تھی یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

"اچھے لگ رہے ہیں آپ " اس نے سرگوشی کی۔ 

"مگر آپ کے منہ سے "آپ" اچھا نہیں لگ رہا" 

فاطمہ کی حیا سے پلکیں جھکیں۔ 

"ویسے آپ کیسی لگ رہی ہیں یہ بات میں آپ کو ابھی نہیں بتاؤں گا! ساری باتیں ابھی کریں گے تو گھر جاکر ایک دوسرے کی شکلیں دیکھیں گے کیا؟" 

فاطمہ اس کی باتوں پر ہنسی تھی اور وہ اس کے کھلکھلاہٹ میں کھوگیا تھا۔ ہاں یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

*------------------------------------------------------*

وہ اسے زمان کے باہر بٹھا گئی تھی۔ پھولوں سے سجا اور مہکتا ہوا کمرہ اسے اپنا اسیر کرگیا۔ لمبی گہری سانس لے کر اس نے ہوا میں چھوڑی تھی۔ 

تھوڑی دیر گزری تھی کہ زمان دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا۔ فاطمہ سمٹی۔ دروازہ بند کرکے وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔

" اسلام علیکم" جھک کر سلام کیا۔ 

"وعلیکم" فاطمہ نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔ کچھ دیر یونہی دیکھنے کے بعد زمان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دیکھنے لگا۔ مہندی سے سجا نازک ہاتھ اور انگلیوں میں پہنی انگھوٹیاں۔ 

" اتنی ساری انگھوٹیاں؟ یہ تو انگھوٹیوں کا دارالخلافہ لگ رہا ہے" وہ کہنے سے باز نہیں آیا تھا۔ فاطمہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر اپنے انگھوٹیوں سے سجے ہاتھ کو۔ 

"کیوں کیا ہوا؟" وہ معصومیت سے اپنے ماتھے پر پریشانی کے بل بناتے ہوئے پوچھنے لگی۔ 

"نہیں کچھ نہیں بس یہ ساری انگھوٹیاں اتاردو" 

فاطمہ کا دل حلق میں اگیا۔ 

"کیوں زمان؟" اسنے دھیمی آواز سے پوچھا۔ 

"مجھے انگھوٹی پہنانی ہے کہاں پہناؤں گا؟" نگاہیں فاطمہ کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ 

"ہاں مگر یہ دیکھو پورے چار انگلیاں خالی ہیں اس میں پہنادو!" 

زمان مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کیں تو نگاہیں بےاختیار سجدہ ریز ہوگئیں۔ رخسار لال ہوگئے۔ 

"یہ رخسار میری وجہ سے لال ہوئے ہیں یا پارلر والی نے کرکے بھیجا ہے؟" وہ موقع دیکھے بغیر ہی زچ کرنا شروع کردیتا تھا۔ کیوں نہ کرتا؟ یہی تو اس کا پیشہ تھا۔ امان ٹھیک کہتا تھا اگر زمان کو کسی انٹرویو کے لئے بلایا جائے تو اس کی سی وی میں تعلیم کے حصے میں لکھنا چاہئے تھا "لڑکا صرف زچ  کرتا ہے"! 

"کیا تمہیں تعریف نہیں کرنا آتی؟" 

"کیا تم چاہتی ہو میں جھوٹ بولوں؟" 

فاطمہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ 

"شادی کیوں کی تھی؟" وہ روہانسی ہوگئی۔ 

"یاد ہے تم نے ایک دفع میرے کھانے کا بل بھرا تھا۔ ہاں وہ بات الگ ہے کہ آگے بھی کھانے کا بل تم نے ہی ادا کرنا ہے لیکن اس دن والا احسان میں نے تم سے شادی کرکے چکادیا" وہ یہ بات کتنی آرام سے کرگیا تھا۔ فاطمہ کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو امڈ آئے۔ زمان نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ وہ فاطمہ سے اس چیز کی توقع نہیں کررہا تھا۔ 

"تم رورہی ہو؟" وہ دنگ ہی رہ گیا تھا۔ فاطمہ نے کچھ جواب نہ دیا۔

"یا خدایا میں نے اپنی بیوی کو پہلی رات ہی رلادیا. دیکھو ایسا نہیں ہے فاطمہ! بھلا احسان کون اس طرح چکاتا ہے؟ ہاں وہ بات الگ ہے میں تم سے زیادہ اچھا ہوں، ہینڈسم ہوں! مگر اس کا مطلب نہیں ہے تم مجھے اپنے سے کمتر سمجھو۔۔ میں نے محبت کی ہے یار" وہ اس بہلا رہا تھا یا سلگا رہا تھا۔ فاطمہ کا دل چاہا کہ اس کی دھنائی کردے. 

"تم یہ کیا کہے جارہے ہو مجھے رونا آرہا ہے" فاطمہ پھر سے روہانسی ہوگئی۔ 

" اظہارِ محبت کررہا ہوں اور کیا کررہا ہوں؟" زمان جنجھلایا۔ 

"کیا تمہیں یہ بھی نہیں آتا؟" 

"یار تم سے پہلے کسی لڑکی سے اتنی باتیں بھی نہیں کی نا" 

"مجھ سے بھی نہ کرو" وہ اپنا شرارہ سنبھالتی غصے سے اٹھنے لگی۔ 

"آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو فاطم

  تم کبھی نہیں بدل سکتے!" وہ قہقہ لگاتے اور مجھے اپنے سینے میں چھپالیتے اور میں ہر بار کی طرح کہتا "بابا مجھ سے کوئی پیار نہیں کرتا" تمہیں بتاؤں وہ کیا جواب دیتے؟ وہ کہتے "کوئی بات نہیں زمان! آپ کے بابا آپ سے بہت محبت کرتے ہیں"۔ مجھے میری ماں بھی بہت یاد آتی ہے شانزہ! میں رویا کرتا تھا نا تو وہ کہتی تھیں کہ "زمان ماما کو تکلیف ہورہی ہے آپ رویا مت کریں!" شانزہ تم سوچتی ضرور ہوگی کہ میں غم میں ڈوبا ہوتا ہوں مگر آنسو نہیں بہتے؟  اس لئے کہ اگر میں رویا تو ماما کو تکلیف پہنچے گی! میں اب اللہ کے سامنے روتا ہوں! اپنے بھائی کے لئے! اپنے لئے! اپنے اہلِ خانہ کے لئے۔ اگر ماما ہوتی نا تو وہ بہت خوش ہوتیں! خوش تو بابا بھی بہت ہوتے مگر کہتے ہیں کہ ماں اپنے بیٹوں کی شادی کا ذکر کرتے ہوئے جھوم سی جاتی ہیں۔ ماما کو بیٹیاں بہت پسند تھیں۔ تمہیں پتا ہے وہ اپنی "پرسنز" کہتی تھیں! وہ کہتی تھیں تم میری محبت ہو! " وہ آخری جملہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔ 

"میری محبت ہو۔۔ میں ۔۔۔۔ ان کی محبت۔۔۔تھا" آواز حلق میں پھنس گئی۔ شانزہ کے آنکھیں بھیک گئیں۔ 

"آپ کا بہت ظرف والے ہیں زمان بھائی"۔

زمان مسکرایا۔ 

"ہاں ہوں گا مگر تمہارے جتنا بڑا نہیں ہے میرا ظرف  پتا ہے کیوں؟"۔

"کیوں؟"۔ وہ حیران تھی۔ 

"اگر میں تمہارے جگہ ہوتا۔ پہلی بات ہوتا تو نہیں کیونکہ تم لڑکی ہو لیکن چلو فرض کر لیتے ہیں کہ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو میں کبھی بھی امان کی جانب پلٹ کر نہیں آتا۔ اس شخص کی جانب تو بلکل بھی نہیں جس نے آپ سے نکاح زبردستی کیا ہو۔ جس کی وجہ سے آپ کے گھر والے آپ سے منہ پھیر گئے۔ تم کسی کو پسند کرتی تھی اور سب سے بڑی بات ہی یہ کہ وہ تمہارا منگیتر بھی تھا۔ کچھ خواب تھے تمہارے جسے امان نے کچل دیئے۔ ہیں نا؟ وہ شخص جو تمہارا منگیتر تھا تمہیں اب بھی یاد آتا ہوگا۔ بہت کم سہی مگر یاد ضرور آتا ہوگا۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو اسے کبھی معاف نہ کرتا۔ کبھی پلٹ کر نہ آتا۔ میں اسے تڑپتا چھوڑدیتا! جب تم گئی تو مجھے محسوس ہوا تھا کہ تم کبھی نہیں پلٹو گی۔ مگر میں تو اصل زندگی میں اس کا بھائی ہوں۔ میں اسے تڑپتا نہیں دیکھ سکتا اس لئے تمہارے واپس آنے کی دعائیں مانگتا رہا۔ لیکن اگر میں تمہاری جگہ ہوتا تو پلٹ کر ہی نہ آتا"۔ شانزہ اسے غور سے سن رہی تھی۔ وہ بات بلکل سچی کیا کرتا تھا۔ 

"سچ کہتے ہیں آپ! مگر جو انہوں نے کیا وہ ہوش میں نہیں تھے۔زمان بھائی؟ ایک بات کہوں آپ سے؟ برا تو نہیں مانیں گے؟" زمان نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

"کہو" مسکرا کر اجازت دی۔ 

"انہیں نفسیات کا مسئلہ تھا۔ یہ بات آپ جانتے تھے کہ وہ نارمل نہیں تھے۔ آپ تو بھائی تھے نا! آپ نے علاج کیوں نہیں کروایا؟ جو بھی ہوا پہلے اس گھر میں اس سب سے ان کی شخصیت بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے ماضی کو حاوی کرلیا تھا خود کے اوپر! وہ پاگل ہوگئے تھے۔ انہیں علاج کی بہت ذیادہ ضرورت تھی زمان بھائی! آپ نے کیوں نہیں دکھایا ان کو کسی ڈاکٹر کو؟"یہ وہ سوال تھا جسے شانزہ بہت عرصے سے پوچھنا چاہتی تھی۔

زمان سوچ میں پڑگیا وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔ 

"تم ٹھیک کہتی ہو شانزہ! کچھ غلطیاں مجھ سے بھی ہوئی ہیں۔ وہ غلطیاں جس سے تمہاری زندگی بھی خراب ہوگئی تھی۔ وہ پہلے یہ بات کبھی قبول نہیں کرتا کہ اسے نفسیات کا مسئلہ ہے ہاں مگر یہی بات وہ اب قبول کرتا ہے کہ ماضی میں اس کو نفسیات کا مسئلہ رہا ہے اور وہ اب پشیمان ہے۔ اپنی ہر غلطی پر۔ اسے ہونا بھی چاہئے۔ اس کو ساری زندگی یہ سوچ کر شرمندگی ہوگی کہ اس نے جو کیا غلط کیا۔  تمہارے معاف کرنے پر ایسا نہیں ہے کہ وہ مطمئن ہوگیا۔ وہ اب بھی شرمندہ ہے اور ساری زندگی اسے اس بات کا افسوس رہے گا کہ اس نے تمہارے ساتھ کیا کیا"۔ 

وہ خود بھی اعتراف کرتا تھا کہ اس سے بھی کچھ غلطیاں ہوئی ہیں جیسے امان کا علاج بہت پہلے کروادینا چاہئے تھا۔ کچھ چیزیں بہت پہلے ہی ٹھیک ہوجانی چاہئے تھیں۔

شانزہ نے نظریں جھکائیں۔ ایسا نہیں تھا وہ مجبوری میں آئیندہ کی زندگی امان کے ساتھ گزاردے گی۔ اسے اپنے مجازی خدا سے محبت ہوچکی تھی۔ وہ صرف اس کی تھی، مگر یہ پچھتاوا بھی امان کے ساتھ رہنا ضروری تھا کہ اس نے جو کیا غلط کیا!

"باتیں پرانی ہوگئی ہیں زمان بھائی! اب تو سب ٹھیک ہے! میں بہت ذیادہ خوش ہوں اب! بڑی خوشی کی بات یہ ہے میرے لئے کہ میں نے اپنے دل کی سنی! میرا دل یہی چاہتا تھا کہ میں لوٹ آؤں۔ تو کیا اتنے عرصے بعد بھی میں اپنی نہ سنتی؟ میں نے اپنی خواہش کا احترام امان کے پاس لوٹ کر کیا۔ اب سب ٹھیک ہے۔ خیر پتا ہے شام ہونے میں وقت کتنا کم رہ گیا ہے؟" آخر میں شانزہ نے وقت دیکھ کر اسے یاد دلایا۔

"وقت کم ہے اور کام ذیادہ! چلو پھر میں یہ کپڑے پریس کرنے کلثوم کو دیتا ہوں اور یہ گھڑی بھی ٹھیک کروانی ہے۔ میں آج بہت خوش ہوں" اس نے دراز اٹھا کر وارڈروب میں دراز پھر سے لگائی۔ شانزہ اس کے ساتھ ہی کمرے سے باہر نکل آئی۔ زمان نے کمرے میں ایک بھرپور نظر دوڑائی اور ٹھنڈی سانس بھرتا نیچے ہولیا۔  

*-------------------------------------------------------*

"آج ہماری بیٹی رخصت ہوجائے گی جاوید! میرا دل گبھرارہا ہے"۔ صبور کھڑکی پاس کھڑے جاوید صاحب کے پاس آئیں اور پیچھے سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ 

"آج نہیں تو کل رخصت تو ہونا ہی ہے صبور!" وہ دھیمی آواز میں جواب دیا۔ 

"اگر اس خوشی میں عدیل بھی شامل ہوتا کتنا اچھا ہوجاتا نا؟" ان کے کندھے پر سر رکھ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگیں۔ 

"کس منہ سے آتا؟ کیا سامنا کر پاتا؟" ان کا لہحہ یک دم تلخ ہوا۔  صبور نے آنکھیں میچیں۔ 

"فاطمہ کو پارلر سے کب لینا ہے صبور ؟" 

"میں اس کو کال کرلیتی ہوں" وہ موبائل لینے بستر کی جانب بڑھیں۔ 

"تیاری مکمل ہے نا؟"  جاوید صاحب نے آنکھوں میں آئی نمی کو ہاتھ سے صاف کیا۔ ان کی پیاری بیٹی رخصت ہونے جارہی تھی۔ 

"الحمداللہ ہوگئی ہے مکمل" صبور نے جواب دیا۔ 

جاوید صاحب کو پتا ہی نہ چلا کب ان کے آنسوؤں تیزی آگئی۔  وہ واشروم کی جانب بڑھ گئے۔ 

*-------------------------------------------------------*

"ہمیشہ کی طرح بےانتہا خوبصورت!" امان چلتے ہوئے اس کے قریب آیا۔ 

اس نے گلابی رنگ کا شرارہ پہنا تھا۔ ہلکا لائٹ میک پارلر سے کروایا تھا۔ کانوں میں جمھکے اور گلے میں پتلی سی چین۔ وہ اس وقت خوبصورتی کا مجسمہ لگ رہی تھی۔ 

"آپ بھی بہت اچھے لگ رہے ہیں امان" سفید کرتا شلوار پر گہرا نیلا واسٹ کوٹ، نکھرا نکھرا چہرہ۔ وہ مدھم سا مسکرایا۔

"میں تو ہمیشہ اچھا لگتا ہوں" وہ اپنی ہی بات پر ہنسنے لگا۔ وہ بھی ساتھ ہنس دی۔ 

"اس میں واقعی کوئی شک نہیں امان!" محبت بھری نگاہیں امان کے چہرے پر سے ہٹنے کو تیار نہ تھیں مگر حیا جلد ہی آلیا۔

"نوازش آپ کی" امان نے شرارتی انداز میں کہا۔

یہ گہرا نیلا واسٹ کوٹ بھی منہاج کا تھا۔

شانزہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور لبوں سے لگایا۔ امان متحیر ہوا۔ اس کی نظریں شانزہ کے اس انداز پر اٹک گئیں۔ شانزہ نے اس کا ہاتھ چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ اس بار یہ طریقہ شانزہ نے اپنایا تھا۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ اس کے اس انداز پر امان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو باری باری لبوں سے لگا کر آنکھوں پر رکھا تھا اور وہ اس سب میں صرف مسکراتی رہی۔ 

"کیا کوئی اللہ کا بندہ میری تعریف کرنا چاہے گا کیونکہ میں تیار ہوچکا ہوں" زمان کے کمرے سے آتی آواز پر وہ دونوں حیران ہوئے اور پھر ہنس دیئے۔

"آجائیں اب دلہے کو بھی دیکھ لیتے ہیں ہم!" اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی وہ آگے بڑھی۔ دونوں ساتھ زمان کے کمرے میں داخل ہوئے۔ 

جب زمان سنگھار میز سے پلٹا تو امان اسے دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ وہ ہوبہو منہاج بابا لگ رہا تھا۔ 

"تم نے بابا کی شیروانی پہنی ہے نا؟" لہجے میں حیرانی واضح تھی۔ زمان نے اثبات میں سرہلایا۔ 

"بلکل"

"زمان بھائی! بہت اچھے لگ رہے ہیں ماشاءاللہ! تو کیا منہاج بابا کی گھڑی ٹھیک ہوئی؟" شانزہ نے نظروں سے اس کے کلائی میں بندھی گھڑی کی جانب اشارہ کیا۔ زمان نے گھڑی کو دیکھا اور سر جھٹکا۔ 

"نہیں ہوئی!" 

کوئی شک نہیں تھا کہ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔ امان سے رہا نہیں گیا وہ اس کے قریب آکر اس کے گلے سے لگ گیا۔ 

"اللہ تمہیں خوش رکھے زمان! تم بہت اچھے لگ رہے ہو!" وہ اس کو سختی سے بھینچا ہوا تھا۔

"شانزہ! میرے لیے دعا کرنے والے اس شخص سے کہو کہ یہ بھی اپنے خوش رہنے کی دعا مانگے! کیونکہ اگر یہ خوش رہے گا تو میں بھی خوش رہوں گا!" امان نے اس کی کمر سہلا کر پیشانی چومی۔ 

شانزہ نے زیر لب آمین کہا تھا اور یہ بھی دعا کی تھی کہ اس کے اہلِ خانہ پر خوشیوں کا سایہ رہے!

"کتنے دنوں بعد نہا کر آئے ہو شاید اس لئے ذیادہ اچھے لگ رہے ہو" امان نے چھیڑا۔ 

"ہر جگہ میرے راز مت کھولا کرو امان! اور آج اس گھر میں کسی کا اضافہ ہونے والا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اسے میرے اتنے گھٹیا راز پتا چلیں" وہ ہر چیز کو انجائے کرنے والا بندہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ آج صبح سے اب تک تیسری دفع نہا چکا تھا اور اس بات کا علم امان کو تھا مگر وہ چھیڑنے سے باز نہیں آتا۔ 

امان کا قہقہ بلند ہوا جبکہ شانزہ نے ہنسی قابو کرنے کے لئے منہ پر ہاتھ رکھا۔ 

"اسے خود ہی پتا چل جائیں گے جب وہ تمہارے ساتھ رہے گی" ہنستا ہوا وہ زمان کے کپڑوں پر پڑتی سلوٹیں درست کرنے لگا۔ 

"بہت دیر ہورہی ہے جلدی آجائیں۔ ماما کا فون آیا تھا کہ وہ پہنچ چکے ہیں ہال! اب ہمارا انتظار ہے" 

"ہاں ہاں جلدی چلو" زمان آگے بڑھا۔

اس کے کمرے سے جانے کے بعد امان نے شانزہ کو دیکھا۔

"کتنی جلدی ہے نا اس بندے کو؟" امان کے یوں کہنے پر وہ مبہم سا مسکرائی۔

*--------------------------------------------------------*

"زمان بھائی پیسے لوں گی میں! اسٹیج پر نہیں چڑھنے دوں گی اگر لفافہ نہیں ملا مجھے تو" 

زمان ٹھٹھکا۔

"پیسے؟" آنکھوں میں بلا کی حیرانی تھی۔

"جی پیسے" گاڑی میں پیچھے بیٹھی شانزہ نے سینے پر ہاتھ باندھا۔ 

گاڑی چلاتا امان نے بیک مرر سے مسکرا کر شانزہ کو دیکھا۔ 

"ارے ابھی دیتے ہیں پیسے! بہت پیسہ جیب میں! مگر جیب میری نہیں تمہارے شوہر کی ہے" کہتے ساتھ امان کی جیب ہاتھ ڈال کر ٹٹولنے لگا۔ امان نے روکنا چاہا لیکن چونکہ گاڑی چلا رہا تھا اس لئے کچھ کر نہ پایا۔ والٹ نکال کر زمان نے اسے پیچھے دے دیا۔

"یہ لو یہ پورے پورے پیسے میری طرف سے" شانزہ نے اس بندہ کو حیرانی سے دیکھا۔

"مگر یہ تو میرے شوہر کے پیسے ہیں" والٹ کھول کر وہ امان کے رکھے پیسے دیکھنے لگی۔

"مگر بھائی تو میرا ہے اس لئے اس نے میری طرف سے تمہیں پیسے دیئے!" 

کیا تھیوری تھی۔ وہ تالی بجانے لگی۔ 

"اب مجھے لگ رہا ہے تم تالی بجا کر میری لوجک کی بےعزتی کررہی ہو" زمان نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا۔ 

"مجھ سے بات مت کریں" وہ رخ موڑ کر منہ پھیر کر کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ امان اس سب میں خاموش ہی رہا۔ ان کی باتیں انجائے کرتے ہوئے مسکراتا رہا۔ زمان نے ایک نظر شانزہ کو دیکھا جو روٹھ گئی تھی پھر امان کو دیکھا جو کندھے اچکا رہا تھا۔ ایک گہری سانس لے کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ باقی راستہ خاموشی میں گزر گیا۔ خوبصورت اور شاندار بینکوئٹ کے سامنے گاڑی رکی تھی۔ وہ تینوں اترے۔ پیچھے دو تین گاڑیاں بھی رکیں جن میں گارڈز تھے اور تحائف۔ 

لڑکی والوں کی طرف شور سا مچ گیا۔ 

"بارات آگئی" خوشیوں سے بھرپور آوازیں کانوں میں پڑنے لگیں۔ پھول نچھاور کئے گئے۔ سب کچھ بہت اچھا تھا۔ امان اس کے ساتھ چلتا ہوا اسٹیج کی طرف آیا۔ ہجوم نے ان کو گھیرا ہوا تھا۔ دلہن برائڈل روم میں تھی۔ زمان کو آج محسوس ہوا اس کی تمام خواہشات پوری ہوگئیں۔ اسٹیج پر چڑھنے کے لئے قدم رکھنے ہی لگا تھا کہ کچھ سوچ کر مڑا۔ اتنے بڑے ہجوم میں آنکھیں شانزہ کو ڈھونڈنے لگیں۔

امان نے اس کے یوں رک جانے پر اسے دیکھا۔ 

"شانزہ" وہ دور کھڑی خفا خفا سی اسے دیکھنے لگی۔ زمان نے پھر آواز دی۔  شانزہ نے اسے دیکھا۔ 

"جی؟" وہ وہیں سے دھیمی آواز میں بولی۔ زمان نے اسے وہیں سے آنے کا اشارہ کیا۔ مگر اس نے منع کردیا اور نظریں پھیر لیں۔ 

زمان نے امان کو دیکھا جو ایک بار پھر کندھے اچکا رہا تھا۔ 

"تم اسٹیج پر چڑھو سب انتظار کررہے ہیں۔ میں شانزہ کو دیکھتا ہوں" 

"نہیں! وہ ناراض ہے مجھ سے! میں آتا ہوں" کہتے ساتھ ہجوم سے نکلتا اس کی طرف آیا۔ سب مڑ کر دلہے کو دیکھنے لگے۔ وہ میز کے ساتھ لگی کھڑی تھی۔ وہ دنگ رہ گئی۔ آج اس کا ایونٹ تھا اور ان سب سے بیگانا ہوکر صرف اس کے لئے سب چھوڑ چھاڑ کر آرہا تھا۔ 

"آؤ شانزہ ورنہ میں قسم کھا کر کہتا ہوں اپنی بہن کے بنا اسٹیج پر نہیں چڑھوں گا" وہ ضدی لہجے میں بولا۔ شانزہ پل بھر کر رکی۔ وہ اسے بلکل چھوٹی بہن کی طرح ٹریٹ کرتا تھا۔ وہ بس اسے حیرت سے دیکھتی رہ گئی۔ 

"دیکھو نیگ لینا ہے تو جلدی سے چلو" اس کی بات پر شانزہ کھل اٹھی۔ 

وہ ہنستی ہوئی اس کے ساتھ چلنے لگی۔ 

اسٹیج ہر جاکر کھڑی ہوگئی اور ہاتھ آگے کیا۔ 

"اگر پیسے نہیں دیئے تو اسٹیج پر نہیں چڑھنے دوں گی!" 

امان نے محبت سے دونوں کو دیکھا۔ وہ دونوں ہی اس کے تھے۔ 

زمان نے جیب میں سے لفافہ نکال کر آگے بڑھایا۔ پیسوں سے بھرا بھاری لفافہ شانزہ نے تھاما۔ 

سب لوگوں نے دیکھا تھا کہ وہ اپنی بہن کے لئے اسٹیج چھوڑ کر بڑھا تھا۔ 

"شانزہ بعد میں ہم آپس میں بانٹ لیں گے ٹھیک ہے؟" امان نت سرگوشی کی جسے زمان نے آسانی سن لیا۔ 

"جی نہیں یہ میرے ہیں" وہ ادا سے رخ موڑ کر بولی۔ امان حیرت سے منہ کھول کر رہ گیا۔

"اب آسکتا ہوں اسٹیج پر؟" زمان نے اجازت مانگی۔

شانزہ نے مسکراتے ہوئے  اثبات میں سرہلایا اور راستے سے ہٹ گئی۔ بات پیسوں کی نہیں تھی! بات خوشیوں کی تھی اور یہ بات شانزہ اور زمان دونوں جانتے تھے۔ وہ خاص طور پر اس کے لئے گھر سے لفافہ بنا کر آیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنا جوڑا سنبھالتی برائڈل روم میں داخل ہوئی۔ 

اندر پہنچ کر اس کی نظریں فاطمہ پر ساکت ہوئی تھیں۔ جو لفظ لبوں سے آذاد ہوا وہ "خبصورت" تھا۔ 

"تم بھی بہت بہت ذیادہ پیاری لگ رہ ہو شانزہ!" فاطمہ نے اسے سر تا پیر دیکھا اور مسکرا کر بولی۔ 

"نہیں مگر تم تو دلہن ہونا۔۔ تم بہت بہت بہت ذیادہ خوبصورت لگ رہی ہو۔ قاضی صاحب پہنچنے والے ہیں۔ نکاح جلد شروع ہوجائے گا" شانزہ نے مسکرا کر اطلاع دی۔ 

فاطمہ کے رخسار سرخ ہوئے۔ حیا سے آنکھیں جھک گئی۔ یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

"رمشا کہاں ہے فاطمہ؟" اس نے ارد گرد نظریں دوڑائی۔ 

رمشا پیچھے سے برائڈل روم میں داخل ہوئی۔ فاطمہ نے نظروں سے رمشا کی طرف اشارہ کیا۔ 

"یہ رہی" 

شانزہ نے پلٹ کر دیکھا تو اٹھ کر گلے لگ گئی۔ 

"کیسی ہو رمشا" رمشا نے ہاتھوں سے اسے گھیر لیا۔ 

"میں تو ٹھیک ہوں مگر تم بہت پیاری لگ رہی ہو شانزہ!" اس کی پیشانی چوم کر وہ محبت سے بولی رہی تھی۔ 

"مگر تم سے ذیادہ نہیں" وہ مبہم سا مسکرائی "فاطمہ اس کے چہرے کی چمک کتنی بڑھ گئی ہے نا! اگلے مہینے منگنی جب سے طے پائی ہے محترمہ کی چمک کتنی بڑھ گئی ہے۔ ہے نا؟" وہ اسے چھیڑنے لگی۔ رمشا شرمائی۔ فاطمہ بھی ہنس دی۔ 

"شانزہ! زمان اسٹیج پر ہے؟" وہ لمبی گھنی پلکیں اٹھا کر پوچھنے لگی۔ شانزہ نے اسے دیکھا تو مسکرادی۔ 

"تمہارے لئے تصویر کھینچ کر لاؤں؟" 

فاطمہ نے مسکرا کر ہاں میں سرہلایا۔ 

"بس ابھی لائی" کہہ کر باہر نکلی اور موبائل میں کیمرہ کھول کر اسٹیج کے سامنے کھڑی ہوئی۔ امان اس کے بلکل برابر میں آ کھڑا ہوا۔ 

"امان آپ بھی بیٹھ جائیں زمان بھائی کے ساتھ!" 

"جو آپ کا حکم" سرجھکا کر کہتے ہوئے وہ اسٹیج پر چڑھ کر اس کے برابر میں آکر بیٹھ گیا۔

"تم بہت اچھے لگ رہے ہو امان" امان کے بیٹھتے ہی زمان نے اس کے کان قریب ہوکر سرگوشی کی۔ 

"جانتا ہوں میں! اور میں کب سے دیکھ رہا ہوں کہ تم بہت بول رہے ہو! کم بولو اور صرف مسکراؤ!" اسے تاکید کرکے وہ سامنے کیمرے میں دیکھنے لگا۔ ایک بہترین تصویر دونوں کی کھینچ کر اس نے دونوں کو رشک سے دیکھا تھا اور مسکراتی ہوئی چلی گئی۔ 

"تمہیں تو تمہاری بیوی بھاؤ نہیں دے رہی تاکید تو بڑھ چڑھ کر کررہے ہو" 

"تمہیں تمہاری بیوی بھی بھاؤ نہیں دے گی"  

"زہر انسان دعا نہیں دے سکتے تو بدعا تو مت دو! میرا قاضی کب آرہا ہے؟" وہ کتنا جلدی میں تھا! امان سوچ کر رہ گیا۔

"یہ قاضی "تمہارا" کب سے ہوگیا؟" بنھیوں اچکا کر اس کے ہیچھے صوفے پر ہاتھ پھیلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا 

"جب نکاح میرا پڑھائے گا تو میرا ہی ہے نا؟" کیا لوجک تھی امان عش عش کر اٹھا۔ 

وہ ابھی جواب دینے لگا تھا کہ "قاضی صاحب" کے آنے کا شور مچ گیا۔ 

نکاح آمنے سامنے بٹھا کر ادا نہیں کیا گیا تھا۔ فاطمہ کا بڑائیڈل روم میں ایجاب و  قبول کروا کر اسٹیج پر زمان کی طرف آئے تھے۔

قاضی صاحب کے منہ سے نکلے ہر لفظ پر زمان مسکرا رہا تھا۔ اس کو اچھا لگا تھا جب اس کا نکاح پڑھاتے وقت اس کا نام منہاج کے نام کے ساتھ جوڑا تھا۔ تینوں دفع "قبول ہے" اس نے دل کی گہرائیوں سے ادا کیا تھا۔  تو آخرکار وہ ایک دوسرے کے ہوچکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد فاطمہ کو اسٹیج پر اس کے برابر میں لا بٹھایا تھا۔ دل میں اب ایک نیا احساس تھا۔ نئے جذبات تھے۔ وہ اس کی تھی یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

"اچھے لگ رہے ہیں آپ " اس نے سرگوشی کی۔ 

"مگر آپ کے منہ سے "آپ" اچھا نہیں لگ رہا" 

فاطمہ کی حیا سے پلکیں جھکیں۔ 

"ویسے آپ کیسی لگ رہی ہیں یہ بات میں آپ کو ابھی نہیں بتاؤں گا! ساری باتیں ابھی کریں گے تو گھر جاکر ایک دوسرے کی شکلیں دیکھیں گے کیا؟" 

فاطمہ اس کی باتوں پر ہنسی تھی اور وہ اس کے کھلکھلاہٹ میں کھوگیا تھا۔ ہاں یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

*------------------------------------------------------*

وہ اسے زمان کے باہر بٹھا گئی تھی۔ پھولوں سے سجا اور مہکتا ہوا کمرہ اسے اپنا اسیر کرگیا۔ لمبی گہری سانس لے کر اس نے ہوا میں چھوڑی تھی۔ 

تھوڑی دیر گزری تھی کہ زمان دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا۔ فاطمہ سمٹی۔ دروازہ بند کرکے وہ اس کے قریب بیٹھ گیا۔

" اسلام علیکم" جھک کر سلام کیا۔ 

"وعلیکم" فاطمہ نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔ کچھ دیر یونہی دیکھنے کے بعد زمان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور دیکھنے لگا۔ مہندی سے سجا نازک ہاتھ اور انگلیوں میں پہنی انگھوٹیاں۔ 

" اتنی ساری انگھوٹیاں؟ یہ تو انگھوٹیوں کا دارالخلافہ لگ رہا ہے" وہ کہنے سے باز نہیں آیا تھا۔ فاطمہ نے ایک نظر اسے دیکھا اور ایک نظر اپنے انگھوٹیوں سے سجے ہاتھ کو۔ 

"کیوں کیا ہوا؟" وہ معصومیت سے اپنے ماتھے پر پریشانی کے بل بناتے ہوئے پوچھنے لگی۔ 

"نہیں کچھ نہیں بس یہ ساری انگھوٹیاں اتاردو" 

فاطمہ کا دل حلق میں اگیا۔ 

"کیوں زمان؟" اسنے دھیمی آواز سے پوچھا۔ 

"مجھے انگھوٹی پہنانی ہے کہاں پہناؤں گا؟" نگاہیں فاطمہ کے چہرے کا طواف کرنے لگیں۔ 

"ہاں مگر یہ دیکھو پورے چار انگلیاں خالی ہیں اس میں پہنادو!" 

زمان مسکرا کر اسے دیکھنے لگا۔ اس کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کیں تو نگاہیں بےاختیار سجدہ ریز ہوگئیں۔ رخسار لال ہوگئے۔ 

"یہ رخسار میری وجہ سے لال ہوئے ہیں یا پارلر والی نے کرکے بھیجا ہے؟" وہ موقع دیکھے بغیر ہی زچ کرنا شروع کردیتا تھا۔ کیوں نہ کرتا؟ یہی تو اس کا پیشہ تھا۔ امان ٹھیک کہتا تھا اگر زمان کو کسی انٹرویو کے لئے بلایا جائے تو اس کی سی وی میں تعلیم کے حصے میں لکھنا چاہئے تھا "لڑکا صرف زچ  کرتا ہے"! 

"کیا تمہیں تعریف نہیں کرنا آتی؟" 

"کیا تم چاہتی ہو میں جھوٹ بولوں؟" 

فاطمہ کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ 

"شادی کیوں کی تھی؟" وہ روہانسی ہوگئی۔ 

"یاد ہے تم نے ایک دفع میرے کھانے کا بل بھرا تھا۔ ہاں وہ بات الگ ہے کہ آگے بھی کھانے کا بل تم نے ہی ادا کرنا ہے لیکن اس دن والا احسان میں نے تم سے شادی کرکے چکادیا" وہ یہ بات کتنی آرام سے کرگیا تھا۔ فاطمہ کی آنکھوں میں دو موٹے موٹے آنسو امڈ آئے۔ زمان نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ وہ فاطمہ سے اس چیز کی توقع نہیں کررہا تھا۔ 

"تم رورہی ہو؟" وہ دنگ ہی رہ گیا تھا۔ فاطمہ نے کچھ جواب نہ دیا۔

"یا خدایا میں نے اپنی بیوی کو پہلی رات ہی رلادیا. دیکھو ایسا نہیں ہے فاطمہ! بھلا احسان کون اس طرح چکاتا ہے؟ ہاں وہ بات الگ ہے میں تم سے زیادہ اچھا ہوں، ہینڈسم ہوں! مگر اس کا مطلب نہیں ہے تم مجھے اپنے سے کمتر سمجھو۔۔ میں نے محبت کی ہے یار" وہ اس بہلا رہا تھا یا سلگا رہا تھا۔ فاطمہ کا دل چاہا کہ اس کی دھنائی کردے. 

"تم یہ کیا کہے جارہے ہو مجھے رونا آرہا ہے" فاطمہ پھر سے روہانسی ہوگئی۔ 

" اظہارِ محبت کررہا ہوں اور کیا کررہا ہوں؟" زمان جنجھلایا۔ 

"کیا تمہیں یہ بھی نہیں آتا؟" 

"یار تم سے پہلے کسی لڑکی سے اتنی باتیں بھی نہیں کی نا" 

"مجھ سے بھی نہ کرو" وہ اپنا شرارہ سنبھالتی غصے سے اٹھنے لگی۔ 

"آج تم بہت اچھی لگ رہی ہو فاطمہ! ہال میں میری نظریں تمہارے چہرے کا طواف کرنے لگی تھیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ یونہی صبح شام تمہیں اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں! جب میں پہلی بار تم سے ملا تھا تو ایسا نہیں تھا کہ اسی وقت محبت ہوگئی تھی۔ مگر اس کے بعد سے ہر ملاقات میں مجھے تم سے محبت ہوتی رہی اور بڑھتی تھی" وہ اظہارِ محبت کررہا تھا۔ وہ متحیر ہوئی اور بیڈ پر بیٹھتی چلی گئی۔ 

"میرے اندر تمہارے لئے اتنے جذبات تھے کہ میں تمہاری طرف سے خوفزدہ ہونے لگا تھا۔ مجھے لگا کہ تم اس منہوس تابش کی وجہ سے انکار نہ کردو" اس نے زیر لب تابش کو گالی بھی دی تھی۔ فاطمہ کا دل چاہا وہ ہنس دے۔  مگر وہ اسے کہنے سے روکنا نہیں چاہتی تھی۔ 

"مجھے اچھا لگا تھا جب میرے زخمی ہونے پر تم روئی تھی۔ سنا تھا چلا بھی رہی تھی۔ مانا کہ بھیانک آواز میں رورہی تھی مگر رو تو میرے لئے رہی تھی" وہ اس کی پتلی سریلی آواز کو بھیانک کہہ رہا تھا فاطمہ کو برا نہیں لگا۔۔ وہ بس اسے دیکھتی رہی کیونکہ وہ اسے دیکھتے رہنا چاہتی تھی۔ 

"مجھے محبت کا احساس فاطمہ زمان شاہ نے دلایا ہے" فاطمہ کو اپنے نام کے آگے اس کا نام بے حد خوبصورت لگا۔ وہ اس کی ہوچکی تھی۔ وہ اس کی ہی ہونا چاہتی تھی۔ ایک شخص جس کے پاس دولت تھی خوشیوں کی! مسکرانے کی! وہ اس بندے کو اپنانا چاہتی تھی کیونکہ اسے مضبوط شخص چاہئے تھا۔ زندگی ایک سی نہیں رہتی۔ راستے میں کئی موڑ ہیں۔ سڑکیں اونچی نیچی ہیں۔ اسے ہر قسم کے وقت میں زمان جیسا شخص چاہئے تھا۔ جو زندگی انجائے کرنا والا بندہ تھا۔ اللہ کے حضور جھکتا کیونکہ اسی کی طرف پلٹا دیئے جائیں گے۔ جس کے آنسو اس کے وارڈروب میں رکھی جائے نماز میں جذب تھے۔ وہ جو صرف اپنے رب کے سامنے ہی روتا تھا۔ کوئی بھی وقت چاہے دکھ کا ہی کیوں نہ ہو لیکن زمان کے چہرے ہر ہمیشہ مسکراہٹ سجی رہتی تھی۔ وہ تو ہر غم کو بھی ہنس کر جھیلتا تھا۔ اسے وہ شخص چاہئے تھا۔ اسے اس شخص کو اپنا کرنا تھا ہر حالت میں! اور وہ آج اس کا ہوکر سامنے بیٹھا تھا۔ وہ آبدیدہ ہوگئی تھی۔ 

"میری زندگی میں کچھ ادھورا سا ہے۔ خلا ہے۔ مجھ میں اور میرے بھائی میں۔ مگر میرے بھائی کو دیکھنے والی شانزہ ہے۔ وہ اس سے اتنی محبت کرتا ہے کہ اس کے سامنے پگھل جاتا ہے۔ مگر مجھ میں باقی ہے ابھی ادھورا پن!" 

"میں سنبھال لوں گی تمہیں" وہ جذب سے بولی تھی کہ جیسے ہاں میں کرسکتی ہوں۔

"کیوں سنبھالو گی تم؟ تمہیں اس لئے نہیں لایا کہ مجھے ٹھیک کردو! تم سے محبت کی ہے تیمارداری کیوں کرواؤں گا؟  تم اپنی زندگی میرے ساتھ جیو! میرے زندگی میں موجود خلا بھی بھر جائے گی بس تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے۔ ٹھیک میں خود ہوجاؤں گا!" اس کا ہاتھ تھام کر تھپکنے لگا۔ 

زمان نے ایک ایک کرکے اس کی انگھوٹیاں اتاریں۔ جیب سے لال ڈبی نکال کر اسے کھولا۔ اندر موجود رنگ جس کے اوپر چمکتا ہیرا لگا تھا اس کے انگلی میں پہنادی۔ 

"میں چاہتا ہوں تمہارے ہاتھ میں موجود صرف میری دی گئی انگھوٹی چمکے! یہ دنیا بہت بڑی ہے فاطمہ! ہم دیکھیں گے اس دنیا کو! گھومیں گے مگر اللہ سے دوری کبھی بھی نہیں ہوگی۔ ہم دھنک کے رنگوں میں رنگ جائیں گے مگر قدرت کو نہیں بھولیں گے۔ زندگی کا مزہ لیں گے مگر زندگی دینے والے کو نہیں بھولیں گے۔  کبھی میں بٹھکنے لگا تو میرا ہاتھ تھام کر کھینچتے ہوئے مجھے سیدھی راہ پر لے آنا۔ میں تمہارے ساتھ اپنی زندگی گزارنا چاہتا ہوں! میں تمہیں وہ مقام دینا چاہتا جو اسلام نے ایک عورت کو دیا ہے۔ میں محبت تم پر تمام کرنا چاہتا ہوں۔ میں روز اظہار کروں گا تم سے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں کیونکہ محبت اظہار مانگتی ہے۔ ہوسکتا ہے ہم پر برا وقت بھی آئے کیونکہ وقت ایک سا نہیں رہتا! مگر ہم ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑیں۔ ہم ایک دوسرے کے ہوگئے ہیں اب ایک دوسرے کے ہی رہیں گے۔ میرے باپ نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ عورت پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ سوچ لینا وہ کسی کے آنگن میں کھلنا والا پھول تھی جسے بیاہ کر تم لے آئے۔ میں نے ان کے لکھے ہر لفظ کو محسوس کیا ہے دل پر۔ میں اپنی جوانی میں اپنے ہر ہر عمل سے اپنے بچوں کا نصیب لکھوں گا۔ میں بھی لکھوں گا ڈائری! ہم دونوں لکھیں گے ڈائری۔۔۔ ہاں مگر کچھ باتیں چھپالوں گا۔ ایسا نہ ہو بچے میری ڈائری پڑھ کر سوچیں کہ ان کا باپ کتنا بڑا کمینہ تھا اور کیسے وہ اپنے بھائی کے پیسے کھاتا تھا" فاطمہ اس کے آخری جملے پر ہنس دی۔ وہ بھی مسکرادیا۔ وہ ساتھ ساتھ ہنسا بھی رہا تھا۔

"میں انہیں بتاؤں گا مجھے محبت کیسے ہوئی۔ میں انہیں بتاؤں گا کہ محبت کیسے ہوتی ہے۔ اپنوں سے! اللہ نہ کرے کہ وہ اپنوں کی جدائی دیکھیں جیسے میں نے اپنے ماں باپ اور تم نے اپنی بھائی کی دیکھی۔ ہم اپنے بچوں کے لئے بہترین سبق چھوڑ کر جائیں گے۔ ہم اس ڈائری میں نفرت نہیں لکھیں گے۔ صرف محبت کا قیام ہوگا اس ڈائری میں۔ میں لکھوں گا میرے بھائی نے کب کب میرا ساتھ دیا۔ مجھے اپنے بھائی سے کتنی محبت ہے۔  تم بھی لکھنا اپنی زندگی کے بارے میں مگر اس میں کسی کے لئے نفرت نہ لکھنا! کل کو ہوسکتا ہے ہمارے بچوں کو بھی ان سے نفرت ہوجائے۔ میں ان سے اپنی ڈائری چھپا دوں گا۔ میں نہیں چاہتا وہ اپنی زندگی اپنے باپ اور اسکے باپ کا ماضی کنگھالنے میں گزاردیں۔ ہم اپنوں سے محبت کرینگے۔ ہم محبت بانٹیں گے۔ کچھ برا لگے تو کبھی تم درگزر کردینا! کبھی میں درگزر کردوں گا۔ میں اپنے اہلِ خانہ کو جنت میں اپنے ساتھ دیکھنا چاہتا ہوں" 

وہ دل موہ لینے والی باتیں کرتا تھا۔ اس کی باتوں کے سحر میں فاطمہ مکمل کھوچکی تھی۔ محبت ہوچکی تھی۔ 

"میں اپنی شادی کی پہلی رات اپنے شوہر سے اس بات کا عہد لیتی ہوں کہ میں اس کا ساتھ صرف اپنی موت پر چھوڑوں گی۔ میں اس سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ وہ بےفکر رہے۔ اسے کچھ نہیں ہوسکتا جب تک اس کی بیوی اس کے ساتھ ہے۔ وہ اسے زندگی کے ہر میدان میں اس کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ملے گی۔ زندگی کے کسی حصے میں وہ مشکل کا سامنا کرتے ہوئے تنہا نہیں ہوگا"۔ 

زمان نے اپنا دل اسے دے دیا۔ محبت اس پر تمام کردی۔ وہ اسے محبت سے دیکھنا لگا۔ وہ اس کی تھی یہ احساس بھی اچھا تھا۔ 

"زمان" 

"جی" وہ محبت سے بولا۔

"آج کی رات میں صرف تمہیں سننا چاہتی ہوں! " اس نے زمان کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما۔ 

"کیا سناؤں؟" 

"یہ بھی نہیں بتایا تم نے کہ یہ تمہارے بابا کے نکاح کی شیروانی ہے" اس نے محبت بھرا شکوہ کیا تو وہ بےاختیار ہنس دیا۔  اسے شانزہ نے بتادیا تھا اس جوڑے کے بارے میں۔

"میں جاننا چاہتی ہوں ایک کہانی" وہ کچھ دیر توقف سے بولی۔ 

"کہانی؟" وہ سمجھا نہیں۔ 

"ایک خوبصورت سی لڑکی ماہ نور کی اور ایک بکھرے شخص منہاج کی۔ سمیع دادا کی اور ان کی بیوی کی۔ ایک رکھوالے معظم صاحب کی! اس گھر میں موجود ایک ایک شخص کی!" اس کے لہجے میں صدق تھی۔

"تم تھک جاؤں گی سنتے سنتے" وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ 

"تھکوں گی تو نہیں ہاں مگر ابھی بیٹھے بیٹھے ضرور تھک گئی ہوں۔ آؤ کھڑکی کے پاس! کھڑے ہوکر داستان سنانا۔ میں اسے سننا چاہتی ہوں۔ کہانی جاننا چاہتی ہوں" وہ اٹھ کر زمین پر کھڑی ہوگئی۔ زمان نے اس کا ہاتھ تھاما اور کھڑی کے جانب لے آیا۔ وہ اس کے برابر کھڑی ہوئی اور باہر جھانکنے لگی۔ 

"مجھے شاہ منزل کی اوپر موجود کمروں کا راز جاننا ہے۔ مجھے دس سال کے بچے کی ڈائری تمہارے منہ سے سننی ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ دس سال کا بچہ کس لمحے کس موڑ کیوں بکھرا ٹوٹ کر؟" اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بہت لگاؤ سے کہا تھا۔ وہ بےیقین کھڑا تھا۔ کیا وہ اسے سننا چاہتی تھی؟ یعنی وہ دن رات بولتا بھی رہے گا تو بھی سنتی رہے گی۔

وہ اس کا شوہر تھا اور وہ اس کی بیوی۔ اس کی اطاعت اس پر فرض کردی گئی تھی۔ وہ اپنا فرض اچھے سے نبھانا چاہتی تھی۔ اس نے فاطمہ کا لمس اپنے ہاتھ پر محسوس کیا۔ وہ اس کا ہوگیا۔ 

"اس گھر میں بہت سالوں سے گھاٹیوں کا اندھیرا تھا۔ ایسے میں ایک لڑکا۔۔۔۔" وہ اسے کہانی سنارہا تھا۔ وہ سن رہی تھی کیونکہ وہ سننا چاہتی تھی۔ اس گھر میں جہاں اندھیروں کا بسیرا تھا اب خوشیوں کا راج تھا۔ منہاج اور ماہ نور کی یادیں رہ گئی تھیں۔ منہاج مجنو تھا اور ماہ نور اس کی لیلٰی۔ اس نے ایک بار ڈائری میں تاکید کی تھی کہ محبت کی دنیا کے بےتاج بن جاؤ اور دونوں ہی بھائی اپنے باپ کی باتوں پر عمل کررہے تھے۔ گھر کے دو کمروں کی بتیاں جلی ہوئی تھیں۔ ایک امان اور شانزہ کی بھی تھی۔ ڈھیر ساری باتیں جو نہ ختم ہونے والی تھیں وہ دونوں ہی ایک دوسرے سے کررہے تھے۔ اسے اب بھی پچھتاوا تھا اپنے کئے کا جو اسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ امان تھا۔ جو صرف اسکا تھا۔ وہ شانزہ تھی جو صرف امان کی شانزہ تھی۔ خوشیاں رنگ بکھیرتے ان کے گھر میں داخل ہوگئی تھی اور وہ اس سب میں سما گئے تھے۔ 

                            (ختم شد)

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wehshat E Awargi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wehshat E Awargi  written by Ayna Baig Wehshat E Awargi by Ayna Baig is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages