Khuwab E Ishqam Season 2 Complete Urdu Romantic Novel By Wahiba Fatima - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday, 17 November 2024

demo-image

Khuwab E Ishqam Season 2 Complete Urdu Romantic Novel By Wahiba Fatima

Khuwab E Ishqam Season 2 Complete Urdu Romantic Novel By Wahiba Fatima 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

mqdefault
Khuwab E Ishqam Season 2 Complete Urdu Romantic Novel By Wahiba Fatima 


Novel Name: Khuwab E Ishqam Season 2

Writer Name: Wahiba Fatima

Category: Complete Novel

وہ بڑے کروفر سے سکول میں داخل ہوا...ایسے جیسے یہ سکول بھی اس کے باپ سردار یوسف خان کی جاگیر ہی ہو...

ہوتا بھی کیوں نہیں..... ایک تو اس کے پاپا اس سکول کی ترقی کے نام پر اچھی خاصی بھاری رقم ہر سال ادا کرتے تھے...

دوسرا وہ اپنے بابا کا ضدی، بگڑا، خود سراور لاڈلا بیٹا تھا..دو ہی تو بیٹے تھے سردار یوسف خان کے.. شمس یوسف خان اور اس سے دس سال چھوٹا یشار یوسف خان.. 

اس کے جاگیردار بے تحاشا دولت مند بابا نے اس کی ہر جائز و ناجائز ضد پوری کر کے اس کو اتنی سی عمر میں بے حد خود سر بنا دیا تھا.. ابھی وہ ففتھ اسٹینڈرڈ میں تھا

وہ مغرور سی چال چلتا شانِ بے نیازی سے آگے بڑھا...اور کلاس میں داخل ہوا... ہر کلاس فیلو چاہے بوائز ہوں یا گرلز اس سے فرینڈ شپ کرنے کے لئے مرے جاتے مگر وہ کسی کو خاطر میں لاتا تو تب ناں.... اب بھی ردا اس کے پاس والی 


سیٹ پر بیٹھ کر دوستانہ سی مسکراہٹ سے اسے دیکھنے لگی.

Hy Yashar...... How are you?

ہممممم گڈ...... وہ جواب دے کر یوں چپ ہوا جیسے بول رہا ہو.

Not interested...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

بابا مجھے  نئے سکول میں  ماہی کی کلاس میں بیٹھنا ہے.

وہ عابد حسین کے سامنے روتی بصورتی پھر ضد کرنے لگی..

زری... میری پری... وہ تو تم سے ایک کلاس سینئر ہے ناں.. تم اپنی کلاس میں بیٹھنا...

اور میری گڑیا تو اتنی اچھی بچی ہے بابا کی بات مانتی ہے اور مما کا بھی..... نازیہ بیگم نے اسے پچکارا..

اوکے مما میں تو اچھی بچی ہوں.. میں اپنی کلاس میں جاؤں گی..وہ تھری جبکی ماہی فورتھ میں تھی.. 

عابد حسین ان دونوں کو سکول میں چھوڑنے گئے.. پرنسپل سر کو ایڈمیشن فارم سبمنٹ کروا کر وہ واپس آ گئے..

آیا ان کو کلاسز میں لے کر گئی.. ماہی زرا پر اعتماد سی تھی جبکہ وہ ہمیشہ کی طرح ہونق بنی خوفزدہ آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی..

جیسے تیسے کلاسز میں گئیں.کلاس میں وقت بھی خیر سے ہی گزرا..بریک ہوئی تو وہ خوفزدہ نظروں سے چاروں اور ماہی کو ڈھونڈتی رہی جب وہ نا ملی تو وہ  پلے گراؤنڈ کے ایک بینچ پر بیٹھ کر رونے لگی..

یشار کلاس سے نکلا تو چاروں اور نظر دوڑائی اور ایک جگہ آ کر ٹھہر گئی.

پلے گراؤنڈ کے بینچ پر بیٹھی ایک گرے آنکھوں والی باربی ڈول نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا.. ناصرف متوجہ کیا بلکہ  اٹریکٹ بھی کیا.. اور وہ بے اختیاری ہی اس کی جانب بڑھا....

Hy... Little barbie doll...

اس نے ہاتھ آگے بڑھایا.

آگے سے ڈول نے سہم کر اس کی جانب دیکھا... لیکن اس کی سوئیٹ سی سمائل دیکھ کر زرا ریلیکس ہوئی

Hy....

وہ مریل سی آواز میں بولی..اور چھوٹا سا ہاتھ آگے بڑھایا..... 

مجھ سے فرینڈ شپ کرو گی.. میں بہت اچھا بچہ ہوں.. اور اچھے بچوں کو پسند کرتا ہوں.. آس پاس کھیلتے بچوں نے حیرت سے یشار خان کو دیکھا. جو اس چھوٹی سی بچی کی جانب خود دوستی کا ہاتھ بڑھا رہا تھا 

اب کے بار وہ مسکرائی.. میں بھی اچھی بچی ہوں.. بٹ اگر میں فرینڈ شپ کروں گی تو تم کیا ماہی کو ڈھونڈ دو گے...

ماہی کون ہے؟

میری سسٹر ہے..

میں نے تم سے فرینڈ شپ کی ہے تو اب تم میرے ساتھ رہنا.. ہم دونوں مل کر گیمز کھیلیں گے جو تم لائک کرتی ہو... پھر ماہی کی تو نیڈ ہی نہیں ہو گی.. یشار نے اسے سمجھایا..

My name is Yashar Khan... And yours

My name is Zartasha

بہت پیارا نیم ہے تمھارا بٹ بہت  difficult ہے.. اس لئے میں تمھیں تاشی بولوں گا اوکے..

اوکے... تمھارا نام بھی difficult ہے... تاشی نے منہ بنایا

 تم مجھے یش کہنا... اوکے

ی..... یش.....

Yes...... Yash..

اور پھر پورے سکول نے ان کی فرینڈ شپ دیکھی.. نا یشار نے کوئی اور فرینڈ بنایا.. نا اس کو بنانے دیا.نا ان کو ضرورت محسوس ہوئی . اس کی چھوٹی سی فنگر پکڑ کر وہ پورے سکول میں گھومتا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ڈیڈ آپ اچھا نہیں کر رہے حرا پھپھو جان کے ساتھ.. شمس تلملایا سا بولا...

اپنے کام سے کام رکھو... شمس ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے کے بڑوں کے معاملے میں ٹانگ اڑاؤ...یوسف خان کی آواز میں غرور تھا... 

آپ ان کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے..

میں کچھ بھی کر سکتا ہوں..

خدا نا بنیں..

سربراہ تو ہوں...

وہ پیر پٹختا جھلایا ہوا سا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا...

بیس سالہ شمس اپنے باپ سردار یوسف خان کے ظلم و ستم جبر اور غریبوں سے نفرت سے خوب واقف تھا اور سخت خائف بھی

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

6 کلاس کا  یشار خان کلاس روم سے نکلا تو دیکھا اسکے دوست اور کچھ دوسری بچیاں تاشی کو گھیرے کھڑی ہیں..اور اسے زچ کر رہی ہیں...... وہ 4 کلاس کی بچی  زمین پر پیر پٹخ پٹج کر رو رہی ہے..

دیکھو... دیکھو اس کی گردن پر مکھی بیٹھی ہے.. اس نے تاشی کی گردن پر بنے دل کو دیکھ کر چھیڑا.. ٹھہرو میں ہاتھ لگا کر اڑا دیتا ہوں..

6 کلاس کے زین نے اس کی جانب ہاتھ بڑھایا.

یشار کا دیکھ کر خون کھول گیا..

Don't touch her...

پیچھے سے وہ دھاڑا..

کیوں تمھیں کیا تکلیف ہے.. زین بھنا کر یشار کی طرف گھوما.. تاشی کی  اپنے فرینڈ یش کو دیکھ کر آنکھیں چمکی..

یہ میری فرینڈ ہے.. اسے پریشان مت کرو.. یشار کے لہجے میں حکم تھا..

میں پریشان تو نہیں کر رہا تھا میں تو اس کی گردن پر سے مکھی اڑا رہا ہوں دیکھو.. یہ کہہ کر اس نے اس کے تل پر انگلی رکھی..

یشار جو کہ کراٹے کلاس بھی لے رہا تھا زین کا وہی  ہاتھ پکڑ کر ایک جھٹکا دیا.. زین بری طرح چلانے لگا. تاشی خوفزدہ ہو کر یش کی جانب لپکی.. جبکہ وہ اطمینان سے زین کو چنگھاڑتے دیکھ رہا تھا..

پھر تاشی کا ہاتھ پکڑ کر اسے پلے گراؤنڈ میں لے آیا.. اور سنجیدہ سا اسے پوچھنے لگا..... تاشی تم نے اپنے کلاس کے دانیال سے فرینڈ شپ کی.

اس نے پھولے پھولے گالوں سمیت معصومیت سے اثبات میں سر ہلایا.. جبکہ یہ بات سن کر یشار نے ناگواری سے اپنی چھوٹی سی فرینڈ کو دیکھا..

تاشی میں نے کہا تھا تم صرف میری فرینڈ ہو.. صرف میری.. تو تم نے کسی اور کو فرینڈ کیو ں بنایا..

یش..... تم نے بھی تو اتنے سارے فرینڈز بنائے ہیں.. اس نے آنکھیں پٹپٹا کر کہا..

پر سب سے اسپیشل تو تم ہی ہو ناں... وہ تو میں ویسے ہی بات کر لیتا ہوں میرے فرینڈ نہیں ہیں وہ..

پر میں تو فرینڈ بناؤں گی.. دانیال بہت اچھا ہے وہ مجھے سے اپنی کلر پینسلز بھی شئر کرتا ہے.. وہ ضد سے بولی.

میں تمھیں کلر پینسلز کے ڈھیر لا دوں گا... مگر تاشی اگر تم نے کوئی اور فرینڈ بنایا تو میں تمھاری پٹائی کروں گا..

تاشی نے بے حد حیرت سے اسے دیکھا وہ جو قدم قدم پر اس کی حفاظت کرتا تھا اسے خود پیٹنے کی بات کر رہا تھا.

تم مجھے مارو گے..

ہاں.. اگر تم نے کسی اور کو فرینڈ بنایا تو..

یش.... تمھیں پرنسپل سر آفس میں بلا رہے ہیں... پیچھے سے اس کی کلاس فیلو ردا بولی تو وہ بھنا کر اس کی جانب مڑا....

Ay.......... Don't call me Yash.... 

کیوں یہ تاشی بھی تو تمھیں یش کہتی ہے.. ردا بھی جھنجھنائی..

یہ میرے لئے اسپیشل ہے... صرف یہ مجھے یش بلا سکتی ہے... میں نے تمھیں کہا کہ تم میرے لئے اسپیشل ہو..

ردا پیر پٹختی وہاں سے چلی گئیی....

ی..... ی..... یش.... زین مجھے مارے گا... وہ خوفزدہ سی بولی

اس کی اتنی جرات نہیں ہے... ہاتھ توڑ دیا میں نے اس کا.

اطمینان قابلِ دید تھا..غور سے اسے دیکھا.. اس کے پھڑپھڑاتے چھوٹے چھوٹے لبوں سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکلتا اپنا نام سننا اسے دنیا کا سب سے اچھا منظر لگا کرتا تھا. 

ی..... یش.. سب مجھے ایسے کہہ کر چڑاتے ہیں کہ میری گردن پر مکھی بیٹھی ہے.ایسا ہی ہے کیا. وہ منہ بسور کر شکایت لگا رہی تھی...

وہ تو پاگل ہیں... یہ تو اینجل ہے جو تمھاری گردن پر بیٹھا ہے تاکہ تمھیں پروٹیکٹ کر سکے.. یشار نے اس کے تل کے اوپر انگلی رکھی.. تو وہ بے تحاشا خوش ہوئی تھی جان کر کے اس کی گردن پر اینجل ہے.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

مما مجھے پیسے دے دیں... میں نے پریکٹیکل بک لینی ہے..نوال نے مصروف سے انداز میں کہا.

پر ابھی تو تم لے کر گئی تھیں.. نازیہ بیگم نے کہا

کب... اس نے تحیر سے آنکھیں پھیلائیں...

پہلے منال آئی... اس کے بعد تم....

مما... پلیز.. اس نے روہانسی ہو کر زمین پر پاؤں پٹخے.. منال پھر دو مرتبہ لے گئی ہے پیسے آپ سے.. اور آپ کو پتہ نا چلا..

وہ دانت پیستی منال کے روم کی طرف بھاگی... نازیہ بیگم مسکرانے لگی پتہ تھا اب جنگ چھڑنے والی ہے.. جڑواں تھیں دونوں بس کچھ ہی فرق تھا دونوں میں جو نہایت غور کرنے پر پتہ چلتا.. اور منال آفت کی پڑیا اکثر اس بات کا فائدہ اٹھا جاتی 


تھی.. 

اور پھر وہ دیر تک ان کی لڑائی سنتی رہیں پھر آخر ان کو روم میں جا کر انھیں ٹوکنا پڑا

نوال، منال بری بات.. زرتاشہ سکول سے آنے والی ہے بابا بھی.. اور تم دونوں کچن میں میری مدد کروانے کی بجائے یوں بچوں کی طرح جھگڑ رہی ہو...

وہ شرمندہ ہوئیں اور فوراً جھگڑا ختم کیا...

عابد حسین اور نازیہ بیگم کی تین بیٹیاں تھیں.. منال اور نوال جڑواں ان کے پانچ سال چھوٹی زرتاشہ جسے سب گھر میں زری کہہ کر بلاتے تھے.. جبکہ مہ رخ عابد حسین کے دوست کی بیٹی تھی.. ایک حادثے میں ان کے دوست اور ان کی 


بیوی گزر گئی... آگے پیچھے کوئی نہ تھا تو وہ پیاری سی بچی بھری پڑی دنیا میں تن تنہا رہ گئی. پھر عابد حسین نے اس کے سر پہ دستِ شفقت رکھا... وہ زرتاشہ سے دو سال بڑی تھی.......

عابد حسین گورنمنٹ سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.. دنیا میں بس بیوی بچوں کے علاوہ دو ہی رشتے تھے ان کے پاس.. ایک ان کی بہن رضیہ بیگم اور دوسرے ان کے سگے چچا کے بیٹے قیصر حسن.......

عابد اور نازیہ  اپنی چاروں بیٹیوں کے ساتھ بے حد اور بے تحاشا محبت کرتے تھے.. ان کی بہترین پرورش کر رہے تھے.. وہ آئیڈیل گھرانہ تھا... اپنی رحمتیں اتنی عزیز تھیں کہ کبھی بیٹے کی کمی محسوس ہی نا ہوئی 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی اپنے گھر کے سامنے بنے چھوٹے سے پارک کے بینچ پر بیٹھی پاؤں جھلاتی یش کا ویٹ کر رہی تھی..بے حد ذہین، بے تحاشا خوبصورت... وہ اور یش اپنی اپنی کلاس میں ٹاپ کرتے آ رہے تھے.. یش سٹڈی میں بھی اس کی ہیلپ کرتا تھا.. 


اب وہ  6th اور یش 8th میں تھا..

یش کا بہت بڑا  بنگلہ یہاں سے کچھ دور تھا.. وہ اکثر یہیں کھیلتے تھے... سکول میں یش بہت اچھا ہاکی پلئیر بھی تھا

یش کے ڈیڈ کو پتا نہیں تاشی سے کیا پرابلم تھی.. ایک دو مرتبہ انھوں نے یش سے کہا کہ وہ اس غریب سی گندی لڑکی سے اپنی فرینڈ شپ توڑ لے... یش نے تو وہ ہنگامہ مچایا کہ پورا سردار مینشن ہلا کر رکھ دیا..اپنے ڈیڈ کے سامنے چیزیں 


ایسی پھینک پھینک کر ماریں کہ بس..

پھر دوبارہ انھوں نے اسے کچھ کہنے کی غلطی نہیں کی تھی..

وہ ویٹ کرتی کرتی اب بیزار ہو چکی تھی کہ تین ٹین ایج آوارہ اور لوفر سے لڑکے اس کی جانب آئے...

ارے دیکھو.. بےبی تو بہت کیوٹ سی ڈول ہے... ان میں سے ایک انتہائی خباثت سے بولا.

جتنی وہ خوبصورت تھی. بلکل گڑیا جیسی. سونے پر سہاگہ گرے (اپنی جانب کھینچتی آنکھیں) اتنی سی عمر میں بھی اسے نظریں سمجھ آنے لگی تھیں.جو ہر وقت اس کی جانب لپکتی تھیں .. یش کے علاوہ اسے اپنی اور اٹھتیں ہر لڑکے کی 


نظریں گندی لگتی تھیں..

اب بھی ان لڑکوں کی نظروں سے گھن سی آئی...

زرا دیکھوں تو ہاتھ لگا کر یہ بےبی ہے یا سچ مچ ڈول ہے..

پہلے تو وہ گھبرائی .. لیکن ان کے پیچھے یش کو ہاتھ میں ہاکی لئے اپنی جانب آتا دیکھ کر اطمینان سے بینچ سے ٹیک لگائی.. ببل گم چباتی، پاؤں جھلاتی.. آرام سے ان سے کہا

چلے جاؤ یہاں سے... پریشان مت کرو مجھے... ورنہ بہت برا ہوگا..

پہلے تو لڑکے اس بالشت بھر کی نازک سی بچی کے کانفیڈینس پر جی بھر کر حیران ہوئے پھر قہقہے لگا کر ہنس پڑے.. پھر ان میں سے ایک اس کی جانب بڑھا. اور اس کے گال کو چھونے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا.

کہ اچانک وہ اپنی کلائی سے لٹکا بازو دیکھ کر کٹے بکرے کی طرح چنگھاڑنے لگا....یش نے ہاکی سے اس کے ہاتھ کا نشانہ لیا تھا..

باقی دو لڑکے اپنے سے چھوٹے لڑکے کو اس طرح دیکھ کر غصے سے پاگل ہوتے اس کی جانب لپکے اور زندگی کی شاید سب سے بڑی غلطی کر بیٹھے..

یش اب تک کراٹوں میں بلیک بیلٹ ہو چکا تھا.. وہ مہارت سے خود کا بچاؤ کرتا ہاکی سے ان کی اچھی خاصی مرمت کر رہا تھا

تاشی جانا پہچانا منظر دیکھتی اطمینان سے بیٹھی رہی..

جب وہ لڑکوں کا بھرکس نکال چکا تو وہ اپنی جان بچاتے دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے..

Dogs.......

بزدل.......... یش بڑبڑایا..

تاشی میں نے کتنی دفعہ کہا ہے کہ یہ سامنے گھر ہے تمھارا جب میں آؤں تو تب ہی تم گھر سے نکلا کرو.. وہ غصے سے جھنجھلایا...

‏پِھر کسی گستاخ نے تُمہارا نام لیا،🌸

 پِھر کسی کے گال پر طمانچہ ہوا رسید😶

پتہ نہیں یش کا  اس کے لئے یہ پاگل پن.. حساسیت. پوزیسیو ہونا اسے کن حدوں تک لے جانے والا تھا.. 

میں بور ہو رہی تھی اس لئے یہاں آ کر ویٹ کر رہی تھی... 

وہ روہانسی ہوئی.

اوکے... چلو میرے ساتھ..

مگر کہاں یش.....

چلو تو سہی.... پھر بتاتا ہوں..

پر پہلے تو کبهی تم مجھے اپنے ساتھ یہاں سے کہیں نہیں لے کر گئے...

پہلے نہیں لے کر گیا.. مگر آج لے جا رہا ہوں چلو تو سہی تاشی.. وہ اسے زچ کر رہی تھی..

اچھا... اوکے چلو..

وہ اس کا ہاتھ تھامے اس کے ساتھ چل پڑی.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

نوال اور مینال کالج کے لئے ریڈی ہو رہی تھیں..

شروع دن سے ایک ہی سکول میں ایک ہی کلاس کے ایک بینچ پر بیٹھنے کی عادت تھی پر میٹرک میں سب الٹ ہو گیا تھا. نوال نے سائنس لی تھی جبکہ منال نے آرٹس...

اور اب تو کچھ عرصے سے برانچز بھی الگ کر دی تھیں ظالموں نے..

وہ گلی کے ایک موڑ پر آ کر اپنی اپنی منزل کی جانب چل پڑیں. جب نوال کو پھر اپنے اوپر کسی کی نظروں کی تپش محسوس ہوئی.

نظر اٹھا کر دیکھا تو سر جھکا کر ایک شرمیلی سی مسکراہٹ دانت سے لب تلے دبائی..

وہ تقریباً چوبیس سال کا لڑکا کئی عرصے سے اس کی راہوں میں آ رہا تھا.. کچھ نا کہتا مگر نظروں بہت کچھ بولتی محسوس ہوتیں..

کوئی امیر زادہ تھا.. یہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتا.. آئے دن گاڑی بدلی ہوتی تھی.. لیکن شرافت کا مظاہرہ کر رہا تھا....

اب تو کافی دن سے وہ بھی اس کے بارے میں لاشعوری طور پر سوچنے لگی تھی.

سنئیے.. وہ اپنے دھیان میں چل رہی تھی جب ایک مہربان سی آواز سنائی دی..

اس نے پیچھے مڑ کر سوالیہ نگاہوں سے دیکھا..

دیکھیں میں گھما پھرا کر بات کرنے والوں میں سے نہیں.. نا اس طرح کی حرکتیں پسند کرتا ہوں پر جتنی آپ سے محبت کرتا ہوں to the point بات کروں گا.. میں آپ سے ایک جائز اور پاکیزہ رشتہ جوڑنے کا خواہش مند ہوں

Will you marry me

وہ بے طرح گھبرائی تھی.. وہ سڑک پر کھڑا ہو کر اس سے اس کے رشتے کی بات کر رہا تھا...

اس کی گھبراہٹ سے وہ محظوظ ہوتا بولا..

او سوری پہلے مجھے اپنا تعارف کروانا چاہیے تھا.. میرا نام شمس یوسف خان ہے... نوال......... اور میں تمھارے بغیر نہیں جی سکتا.

نوال نے حیرت سے جھٹکا کھاتے اسے دیکھا.. وہ اس کا نام جانتا تھا..

وہ گھبرا کر بغیر کوئی جواب دئیے تیزی سے چلتی کالج میں گھس گئی.. لیکن شمس خان اس کے چہرے سے اس کے دل کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کرتا گہری مسکان لبوں پر سجائے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی بھگا لے گیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تبریز  ہونق چہرہ لیے دستک دئے فوراً سردار مینشن کے ڈرائینگ روم میں داخل ہوا

سردار یوسف خان نے انتہائی ناگواری سے اسے دیکھا مگر غصہ ضبط کر گئے.. کیونکہ وہ جانتے تھے اگر تبریز بغیر اجازت لئیے اندر آیا ہے تو یقیناً کوئی غیر معمولی بات ہے...

انھوں نے جلدی سے اپنے مہمانوں کو فارغ کیا..

وہ چلے گئے تو وہ تبریز کی جانب متوجہ ہوئے

بولو تبریز کیا مسئلہ ہے.. وہ غصے میں پھنکارے

وہ بڑے صاحب...... تبریز ہچکچایا..

کیا بات ہے اب بھونکو... کیوں وقت برباد کر رہے ہو...

وہ بڑے صاحب یشار بابا نے اس ماسٹر کی بیٹی سے دوستی نہیں ختم کی...بلکہ

اور اگلی بات جو تبریز نے بتائی.. اسے سن کر سردار مینشن کی دیواریں اور چھتیں جیسے یوسف خان کے سر پر آ گریں.

پھر وہ جو فیصلہ ایک عرصے سے کرنے میں ہچکچارہے تھے وہ انھوں نے چند سیکنڈ میں کر لیا تھا..

تبریز ابھی کے ابھی یشار جہاں کہیں بھی ہے اسے یہاں میرے پاس لے کر آؤ فوراً. نہیں تو تمھارے ٹکڑے کر کے کتوں کو کھلا دوں گا وہ دھاڑے..

تبریز وہاں سے فوراً نو دو گیارہ ہو گیا.  یسف خان نے پروین کو بلا کر یشار کی پیکنگ کرنے کو بولا.. وہ جی بڑے صاحب بولتی اندر چلی گئ 

یوسف خان نے اپنے مینجر کو فون کیا...

جی سر حکم.....

ہاں.. یشار کے لندن جا کر پڑھائی کرنے کی تیاریاں تو مکمل ہو ہی گئیں ہیں.. یوں کرو آج ابھی اور اسی وقت اس کی ٹکٹ بک کر دو.. آگے یہاں سے اسے بھیجنا میرا کام ہے.. سمجھ آئی کہ نہیں....

جی جی سر بلکل.... جیسا آپ کا حکم.....

فون بند کیا اور شمس کو کال ملائی..

شمس ابھی کہ ابھی گھر آؤ..

شمس بھی کچھ پل کے لیے گبھرایا تھا.

کیا ہوا ہے ڈیڈ.....

کچھ نہیں... یشار لندن جا رہا ہے ہے پڑھائی کے لیے.. آکے اسے سمجھاؤ.. اور مل لو

سرسراتا لہجہ تھا ان کا... شمس چونک  گیا.. اور فوراً گھر کے لئے روانہ ہوا...

اتنے میں تبریز یشار کے ساتھ اندر داخل ہوا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ آنکھوں میں نمی، سرخ چہرہ، لال انگارہ آنکھیں لئے ایئرپورٹ  کی چئیر پر بیٹھا شکایتی نظروں سے شمس کو گھور رہا تھا.. اور شمس مسلسل اس سے نظریں چرا رہا تھا....ینگ سی غیر شادی شدہ حرا پھپھو بھی اس کے جانے کا سن کر بے 


چینی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی. ان کی ماں کے بیماری میں گزر جانے کے بعد حرا نے ہی تو ان کی دیکھ بھال کی تھی.. 

شمس لالہ آپ لوگ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں...

یشار سمجھو ڈیڈ ابھی تمھاری وجہ سے بہت غصے میں ہیں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں. اس کئے چپ چاپ  بات مان لو.

مجھے تاشی سے ملنا ہے..

ناممکن..... فلائٹ کا وقت ہو گیا ہے..

اگر وہ کہیں کھو گئی تو؟ لالہ..... اس کی آنکھوں میں خوف ڈر اور وحشت دیکھ کر شمس نرم پڑا

میں نہیں کھونے دوں گا.. میرا وعدہ ہے جب لوٹ کر آؤ گے میں تمھاری تاشی تمھارے پاس لے کر آؤں گا.

یشار جب گھر آئا تو یوسف نے پورا سردار مینشن سر پہ اٹھا رکھا تھا..

پھر وہ لاکھ جھٹپٹایا، تلملایا اور بغاوت کی.. مگر تھا تو ایک بچہ ہی اس کی ایک نا چلی.. اور اب وہ کچھ دیر میں تاشی سے دور اجنبی فضاؤں میں اپنے لالہ کے وعدہ کے سہارے جانے والا تھا.. یوسف خان نے تو اسے اتنا بھی موقع نہیں دیا تھا 


کہ وہ جا کر اپنی تاشی سے ملے اسے کہے کہ وہ جا رہا ہے صرف  تاشی کے لئے لوٹ کر آنے کے لئے.. وہ اس کا انتظا کرے..

وہ لوٹے گا اور

ضرور لوٹے گا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یوسف خان نے یشار کو بھیج کر پھر مینجر کو فون ملایا..

جی سر حکم....

ہاں وہ جو کام بولا تھا ہوا..

جی سر وہ ایجوکیشن منسٹر سے بات کروا دوں گا آپ کی.

نہیں میرا بات کرنا ضروری نہیں تم صرف انھیں کہنا کہ میں نے کہا ہے کہ اس ماسٹر کا تبادلہ یہاں لاہور سے دور پنجاب کے کسی دوسرے کونے میں کر دے.. سردار مینشن پر اس ماسٹر کا سایہ بھی نہ پڑے..

وہ حقارت سے بولے...

جی جو حکم سر.. ہو جائے گا..

اپنی فتح پر یوسف خان فرعون بنے مسکرائے..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلے ایک دو دن میں تاشی کو بے چینی سے یش کا انتظار کر کر کے آخر پتا چلا کہ وہ سکول کیا بلکہ ملک چھوڑ کر................. اپنی بیسٹ فرینڈ تاشی کو چھوڑ کر چلا گیا ہے..

وہ سہمی سہمی سی رہنے لگی تھی.خوف و دہشت کے سائے ہر وقت اس کے تعاقب میں رہتے...... اب اس کا کوئی سائے کی طرح حفاظت کرنے والا  نہیں تھا.. دوسروں کی گندی نظروں سے  اپنی چوڑی پیٹھ پیچھے چھپانے والا کوئی نہیں تھا.. 


اس کی موجودگی میں شیرنی بنی جو گھومتی تھی اب بےتحاشا سہمی ہرنی بنی کونوں کھدروں میں چھپتی پھرتی 

جس سے بھی فرینڈ شپ کرنے کی کوشش کی اس نے بری طرح جھڑکتے ہوئے دھتکار دیا.

وہ سکول کے کونوں میں چھپ کر روتی تھی.. وہ بری طرح ہرٹ ہوئی تھی...

ہر دن خود سے یہی دہراتی تھی.

I hate u Yash.... I really very hate you

پھر قدرت نے اس کی یہ مشکل بھی حل کر دی تھی.. اس نے یہاں سے.. سکول میں اس کا تمسخر اڑاتے بچوں سے دور چلے جانا تھا.. بہت دور.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

عابد حسین جھکے سے کندھے اور ہاتھ میں ایک لفافہ لیے اپنے گھر داخل ہوئے.. انھیں ایسا دیکھ کر سب پریشان ہوئے.

نازیہ بیگم نے بے چینی سے پوچھا

 کیا بات ہے عابد...آپ اتنے پریشان کیوں ہیں..

نازیہ بیگم یہ میرا اتنی اچانک ٹرانسفر لیٹر آیا ہے سرگودھا ڈویژن میں کوئی جوہر آباد چھوٹا سا شہر ہے وہاں.. مجھے سمجھ نہیں آ رہا اتنی اچانک اور اتنی جلدی یہ سب کیسے ہوگا..

نازیہ بیگم بھی پریشان ہوئیں..اور یہ سن کر نوال بےتحاشا چونکی

نازیہ نے  بہرحال اپنے شوہر کو تسلی دی.

پریشان مت ہوں عابد.. اللہ تعالیٰ سب ٹھیک کردے گا..

اتنے میں ان کی فون کی بیل بجی...

انھوں نے فون سنا تو چہرے پر رونق بحال ہوئی.. فون رکھ کر نازیہ کو دبے دبے جوش سے بتایا..

بورڈ سے فون تھا.. اللہ تعالیٰ نے واقعی مشکل حل کر دی.. وہاں ہمیں رہنے کے لیے گھر بھی دیا جائے گا.. مجھے نہیں پتہ یہ سب کیسے ہوا.. بس اللہ مہربان ہے

اور پھر چند دنوں میں ہی ان کی تیاری مکمل ہوئی.. بچیوں کے سکولوں سے سرٹیفکیٹ وغیرہ لئے اور یہاں سے دور بہت دور چلے گئے.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آخر وہ گئی کہاں زمین کھا گئ کے آسمان نگل گیا... شمس دھاڑا تو اعظم کی جان پر بن گئ..

سر میم نے کالج چھوڑ دیا میں نے گھر والوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی..لیکن کالج میں کوئی ریکارڈ  ہی موجود نہیں.. پتا نہیں کیس......

کیا مطلب پتہ نہیں.. میں حرا پھپھو کی وجہ سے پریشان ہوں.. ڈیڈ زبردستی ان کی شادی خاندان کے بڈھے سے کرنے پر تلے ہوئے ہیں اتنی مشکل سے روکا ہوا ہے...اتنی مشکل سے پھپھو کو بچایا....

اونہہ.... یہ خاندانی راوایات کی سو کالڈ پخ... سمجھ نہیں آتی مجھے تو...خاندان میں ہی بڈھے سے بیاہ دو پر خاندان کے باہر کوئی ڈھنگ کا رشتہ نا کرو..... ربش.. اس نے مکہ بنا کر سامنے ٹیبل پر مارا 

اوپر سے تم مجھے یہ خبر سنا رہے ہوں... وہ پھر غرایا

ڈھونڈو اسے ورنہ.  آگ لگا دوں گا پورے شہر کو...

جی سر........ اعظم منمناتا وہاں سے رفوچکر ہو گیا

اففففف.. نوال کہاں ڈھونڈو تمھیں.. یار... کہاں چلی گئ ہو.. اسے اپنی فاش غلطی پر جی بھر کر غصہ آ رہا تھا.. کہ اس کا کوئی اتہ پتہ ہی لے لیتا اسے اپنا فون نمبر ہی دے دیتا..یشار کے جانے کے بعد حرا میں ایسا الجھا کہ اپنی محبت کو ہی 


گم کر بیٹھا تھا

اس نے چٹختے اعصاب کو انگلیوں سے سہلایا..

وہ چوبیس سال کا ہی میچورٹی کی کئی منزلیں طے کر گیا تھا.. حرا خاندان سے آنے والے رشتے کے انتظار میں تیس سال کی ہو چکی تھی.. اور اب اس کی شادی ہونے والی تھی بھی تو پچپن سالہ بڈھے سے.حالانکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ حرا 


اپنی یونی فیلو قیصر حسن کو پسند کرتی ہے..

وہ اپنی ماں کی جگہ ان کا خیال رکھنے والی حرا کے لئے اپنے باپ سے بھڑ گیا.. اور نکاح سے پچھلے دن راتوں رات اس نے حرا کو سردار مینشن سے غائب کروا دیا..

یوسف خان نے بہت واویلا مچایا..وہ جانتے تھے کی اتنی جرات صرف اور صرف شمس خان کی ہو سکتی ہے. بہت دھاڑے....... پر وہ ٹس سے مس نہ ہوا.. اس نے نہیں بتانا تھا نہ بتایا.. اس کا باپ حرا تک نہ پہنچ سکا

اب اسے اپنے باپ کے کتوں کے شانت ہونے کا انتظار تھا. تاکہ وہ شانت ہوں اور وہ حرا کا نکاح قیصر سے کر دے... اس پر بھی نظر رکھی جا رہی تھی.. اسے معلوم تھا..

حرا کی طرف سے شانت ہوا تو نوال کی یاد آئی پر اتنی دیر میں محبت اس کے ہاتھ سے سوکھی ریت کی طرح پھسل گئی تھی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

نازیہ بیگم اور ان کی بیٹیوں نے بڑی خوبصورتی سے اس چھوٹے سے گھر کو چند دنوں میں ہی سجا لیا تھا..منال اور نوال نے اپنی ماں کا پورا ساتھ دیا تھا.. زری اور ماہی بھی چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کام کرتی پھر رہی تھیں.

نوال کے دل میں ایک کسک اور بے چینی سی تھی..

نئ جگہ.. نئے سکول...انھیں ایڈجسٹ ہونے میں وقت لگا.. مگر ہو ہی گئے.. دو ماہ ہو گئے تھے ان کو آئے..

عابد اور نازیہ نے نوٹ کیا تھا کہ زری ان دنوں بے حد ڈری سہمی رہتی تھی.. اس لئے انھوں نے یہاں زری اور ماہی کا ایڈمیشن گرلز سکول میں کروایا تھا..

وہ بیٹھے شام کی چائے پی رہے تھے... زری اور ماہی اپنا ہو ورک کر رہیں تھیں کہ دروازہ ناک ہوا..

عابد نے اٹھ کر دیکھا تو سر خوشی سے آنے والے سے لپٹ گئے. باہرقیصر حسن تھے.. ..

اندر آئے تو وہ چاروں چاچو کا نعرہ لگاتیں ان سے لپٹ گئیں.. آخر ان کی بھی لاڈلی تھیں سب.

قیصر نے زری اور ماہی کے گال چومے....

اور ہمیشہ کی طرح ان کے لئے ڈھیر و ڈھیر گفٹس اور چاکلیٹس لائے.اکثر عابد ٹوکتے تو وہ ان کو یہ کہہ کر چپ کرا دیتے کہ یہ ان کا اور ان کی بیٹیوں کا معاملہ ہے وہ بیچ میں مت بولیں..

انھوں نے MBA کیا تھا اور اب خود کا بزنس سٹارٹ کر چکے تھے.. محنتی تھے اور ترقی کرنے کے چانس بہت تھے.

اور سناؤ قیصر کیسی گزر رہی ہے.. محلے والے کیسے ہیں.. ہم تو بہت یاد کرتے ہیں سب کو..نازیہ بیگم کے لہجے میں حسرت تھی.

سب ٹھیک ہیں بھابھی.... اور سب یاد کرتے ہیں آپ کو... لیکن میں نے وہاں سے اپنا مکان بیچ دیا ہے...اور ایک نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں گھر لیا ہے

آپ کا بھی بکنے ہی والا ہے.. پھر میں آپ کا بھی اپنے گھر کے بلکل قریب ایک ہی گلی میں مکان لوں گا.. تاکہ جب بھی بھائی صاحب کا دوبارہ ادھر ٹرانسفر ہو تو آپ لوگ ہمارے قریب رہ سکیں..

ہمارے.......قیصر کیا مطلب..

بھائی میں شادی کر رہا ہوں.. اس لئے آپ سب کو لینے آیا ہوں.. لڑکی کا نام حرا ہے.. دنیا میں کوئی نہیں سوائے دو بھتیجوں کے.. (قیصر نے لڑکی کے بھائی کی بات گول کر دی) بس سادگی سے نکاح ہو گا... لیکن main بات ابھی گھر کی 


سیٹنگ کرنی ہے.. نکاح کے بعد بھابھی اور میری بھتیجیاں اپنی چاچی کے ساتھ مل کر یہ کام بھی سر انجام دے لیں گی..

انھوں نے چم چم کرتے ان کے گھر کی جانب دیکھتے ہوئے کہا..

کیا سچ چاچو... کیسی ہے چاچی.. ہمیں پک تو دکھائیں.. منال نے بے چینی سے کہا..

تو انھوں نے موبائل نکال کر ان کے حوالے کر دیا.. جس میں حرا کی تصویریں تھیں... وہ موبائل لے کر اندر بھاگ گئیں.

تو عابد صاحب ان کی طرف متوجہ ہوئے...

دیکھو... قیصر یار برا مت منانا.. پر ابھی تو ہماری سیٹنگ ہوئی ہے نئی نئی .. اور ہم آئے بھی ان دنوں ہیں جب اینول پیپر ہونے والے ہیں.. ہمارے سکول کے بچوں کے بھی اور بچیوں کے بھی... اور تمھاری بھابھی کی طبیعت کا تو تمھیں پتہ ہی 


بی پی منٹوں میں بگڑ جاتا ہے... اس لئے بہت بہت معزرت... ہم پیپروں کے بعد آ کر بچی کے سر پر ہاتھ رکھ دیں گے...

انھوں نے تفصیل بتائی تو قیصر نے بری طرح منہ لٹکا لیا..

ارے منہ مت لٹکاؤ یار..... اچھا تم ایسا کرو نوال کو لے جاؤ اپنے ساتھ....

کیا سچ بھائی........ وہ دبے دبے جوش سے بولے.. لیکن نوال کے پیپر...

اس کی تیاری مکمل ہے کچھ وقت نکال کر وہاں اپنی چاشچی سے کر لے گی.... میں کالج سے لے لوں گا چھٹیاں... ویسے تو منال بھی چلتی تمھارے ساتھ... مگر اس نے سائنس رکھی ہوئی ہے. تیاری مکمکل نہیں اس کی.

او بھائی میں بہت بہت خوش ہوں... چلو میری زندگی کے اتنے اہم خوشی کے موقع پر کوئی تو میرا اپنا میرے پاس ہوگا...میری بیٹی نوال ہی کیوں نہ ہو

اور پھر نازیہ بیگم نے نوال کو تیار اور پیکنگ کرنے کا بولا تو خوشی خوشی تیار ہونے چلی گئ..

جانا تو بھی چاہتی تھی.. اس دشمنِ جاں کو ایک بار دیکھنا چاہتی تھی...

دیکھنا چاہتی تھی کہ وہ اس کے بغیر کتنا تڑپا کتنا بے چین ہوا.... بڑی پرجوش ہو کر اس نے پیکنگ کی یہ جانے بغیر کے شاید یہ سفر اس کی زندگی کا ہی آخری سفر ہونے والا تھا😭😞

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار اپنا سارا غم و غصہ یہاں نکال رہا تھا... دو ماہ ہوئے یہاں آئے ہوئے.. ہر کوئی اس براؤن آنکھوں والے مغرور سے شہزادے سے دوستی کرنا چاہتا تھا... چاہے لڑکی ہو یا لڑکا مگر اس نے دوستی تو دور کی بات ابھی ڈھنگ سے کسی سے 


بات تک نا کی تھی..

ابھی بھی دندناتا لندن کے سب سے بڑے سکول سے باہر نکلنے کو تھا پلے گرؤند کی ایک طرف لگے ڈھیر سارے درختوں کے پیچھے سے اسے دبی دبی سسکیاں سنائی دیں.....

ناچاہتے ہوئے بھی وہ اس طرف چلا گیا جہاں سے آوازیں آ رہی تھیں...

آگے بڑھا تو دیکھا کے اس کا ہم عمر کلاس فیلو اپنے رونے کی شدت اور سسکیاں دبانے میں بے حال ہو رہا ہے..

وہ ماتھے پر بل ڈالے اس کے قریب کیا.یشارکو  پتہ تھا وہ پاکستانی ہے

مرد ایسے گرلز کی طرح نہیں روتے  ہیں.... یشار نے ناگواری سے کہا..

سامنے والے نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا...

جب...... آپ کے اپنے... بہت پیارے آپ کی آنکھوں کے سامنے آپ سے دور ہو جائیں تو مرد کیا دوسری دنیا سے یہاں آئے ہیں جنھیں تکلیف اور درد نہیں ہوتا.  ہممممم.. سامنے والا بھی بھرا بیٹھا تھا.. یشار پر الٹ پڑا.. . میری ماں کے بعد 


میرے بابا کی بھی ڈیتھ ہو گئی ہے... اس دنیا میں اکیلا رہ گیا ہوں... وہ کرب سے بولا

یشار ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس کے پاس بینچ  پر بیٹھ گیا..

ایم سوری..... پر میں نے بھی اپنے جینے کی وجہ کو ہی کھو دیا ہے... میں تو نہیں رویا...

یشار نے بے دردی سے لب کچل کر کہا. اور بینچ پر ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں

رو لو تو اچھا... نہیں تو گھٹ کر مر جاؤ گے... یہ درد جو آنکھوں سے نہیں بہتا سینے کا ناسور بن کر اندر ہر چیز تہس نہس کر دیتا ہے...

کرنے دو...... بننے دو ناسور...... تاکہ جب میں واپس جاؤں تو اگر وہ مجھے نا ملی تو اپنے ساتھ ساتھ ہر چیز تہس نہس کر دوں.. وہ سیدھا ہو کر دانت پیس کر بولا.. آنکھیں کھولیں تو ان سے شعلہ لپک کر باہر آ رہے تھے.

سامنے والے نے اپنا رونا دھونا بھول کر ایک جھرجھری لی...

یشار پھر بولا.. میری لائف میں چند گنے چنے لوگ ہیں جنھیں میں اپنے قریب آنے دیتا ہوں... ان میں تم بھی شامل ہو سکتے ہو.. کیا مجھ سے  فرینڈ شپ کرو گے...میں یشار خان یوسف ہوں...اس نے ہاتھ آگے بڑھایا

اتنی دیر میں سامنے والا پہلی بار بھیگی آنکھوں سمیت مسکرایا... اس نے اس مغرور سے شہزادے کو دیکھا جس سے فرینڈ شپ کرنے کو یہاں ہر کوئی مرا جا رہا تھا اور وہ یہ آفر اسے کرا رہا تھا.

اس نے جلدی سے ہاتھ تھاما..

میں رزم علی ہوں... سب مجھے رزم کہتے ہیں...

تو میں تمھیں علی کہوں گا کیونکہ میں وہ نہیں کرتا جو سب کرتے ہیں..

اوکے ٹھیک ہے.... وہ مسکرا کر کھڑا ہوا اور اس کے ہم قدم ہو کر سکول سے نکلتا چلا گیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

پھپھو..... قیصر کدھر ہیں... میں تیاریاں مکمل کروا چکا ہوں... لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے.شمس نے گھر میں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا..گھر کیا تھا دو پورشن پر بنی انتہائی خوبصورت کوٹھی تھی سامنے بڑا سا لان تھا... سب قیصر 


کی محنت کا پھل تھا.. کچھ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے بزنس کرنے اور کچھ حرا کے انتظار کے چکروں میں بتیس سال کہ ہو چکے تھے.. اب کہیں جا کر امید بر آئی تھی

شمس نے شروع دن سے حرا کو یہیں رکھا تھا.. جبکہ ابھی قیصر اپنے پرانے گھر میں ہی رہ رہے تھے.اس لیے اس کے باپ کے آدمی حرا کو ڈھونڈ نہیں پائے.. شمس کے اپنے بھی فارم ہاؤس تھے... پر اس نے یہ غلطی نہیں کی تھی. 

وہ اپنے بھائی کی فیملی کو لینے گئے ہیں.. فنکشن میں شرکت کرنے کے لیے. وہ نظریں جھکائے شرمیلی سی مسکان سمیت بولی

کونسے بھائی... شمس حیران ہوا... پہلے تو کبھی انھوں نے زکر نہیں کیا.

ہاں ان کے تایا کے بیٹے ہیں... وہ انھیں بھائی ہی سمجھتے ہیں... پہنچنے والے ہیں...

ٹھیک ہے آپ اندر جا کر آرام کریں...، میں دیکھ لوں گا سب....

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

وہ گلاس وال کے قریب کھڑا کسی غیر مرئی نقطے کو گھور رہا تھا کہ جب فون رنگ ہوا...

ہاں بولو اعظم... ملی وہ؟

نہیں سر..... پتہ نہیں کس کا کیا دھرا ہے.. کہ کہیں کوئی ریکارڈ موجود نہیں.. میں خفیہ طور پر بھی کالج کھنگال چکا ہو پر....

اعظم تم سے ایک کام کہا تھا وہ بھی تم ڈھنگ سے نہیں کر پائے.. کہا تھا اس پر نظر رکھنا... جتنے دن میں مصروف ہوں اس کی حفاظت کرنا... کہ اسے کوئی تکلیف نہ ہو.. اسے کوئی تکلیف نا پہنچائے.. اور اب تم مجھے یہ سب بتا رہے ہو.. 


پتہ نہیں اس کے اور اس کی فیملی کے ساتھ کیا ہوا... شمس پھر غصے سے بے قابو ہو کر دھاڑا..

اور اعظم کی ناکامی کا سن کر موبائل دیوار میں دے مارا..

 اگر اعظم ناکام ہوا تھا تو یہ یقیناً تشویشناک بات تھی... کیونکہ اعظم اس کا وفادار وہ بندہ تھا جسے پھولوں کے ڈھیر میں سے سوئی ڈھونڈنے کا بولا جاتا تو وہ ڈھونڈ لاتا...اور یقینی طور پر اس نے پورا شہر چھان لیا ہوگا...

وہ قیصر کے گھر کے اوپر بنے پورشن پہ گلاس وال کے سامنے کھڑا تھا... ہر طرف پھولوں کے بڑے چھوٹے گملے رکھے تھے... اوپر چار آمنے سامنے کمرے تھے.. قیصر کو لگتا تھا پودوں سے بہت انسیت تھی..

وہ غصے میں جھنجھنا رہا تھا کہ گیٹ کھلا اور قیصر کی  گاڑی اندر داخل ہوئی.. وہ مہربان سی مسکراہٹ لئے گاڑی سے باہر آئے.. دوسری جانب سے حجاب اوڑھے ایک لڑکی گاڑی سے باہر آئی..

شمس کو حیرت ہوئی.. نوال اس کے اعصاب پر اس قدر سوار تھی کے اسے قیصر کے ساتھ ہینڈ بیگ اٹھائے بلیک ڈریس میں چاندی کی طرح چمکتی اس لڑکی میں بھی نوال نظر آ رہی تھی... وہ بے چین سا ہو کر نیچے آیا.

قیصر اسے لئے لاؤنج میں داخل ہوئے کہ سامنے  سے شمس سیڑھیوں سے تیزی سے اترتا دکھائی دیا..

وہ دیکھ کر مسکرائے.. جبکہ نوال اسے دیکھ کر اپنی جگہ ٹھٹھک گئی اور اس کی نظروں سے بری طرح نروس ہوئی..

شمس کی گنگ ہوتی زبان سے کوئی لفظ ادا نہیں ہو رہا تھا قیصر کچھ اور سمجھے..

ناراض مت ہو یار.... بغیر بتائے چلا گیا تھا.. لیکن حرا نے بتا دیا ہوگا کیوں گیا تھا..

اس سے ملو یہ میری بھتیجی ہے نوال.. کچھ دن پہلے یہ یہیں رہتے تھے پھر بھائی صاحب کا تبادلہ یہاں سے کہیں اور ہو گیا تو انھیں جانا پڑا.

اور نوال یہ حرا کا بھتیجا ہے شمس خان.

تڑپ اور محبت یوں حقیقی روپ دھار کر سامنے آجائے گی شمس نے سوچا بھی نہیں تھا... وہ یک ٹک اسے دیکھے گیا تو نوال نے ہی مریل سی آواز میں سلام کیا.

وہ چونک کر سیدھا ہوا اور سلام کا جواب دیا..

نوال وہ سامنے حرا کا کمرہ ہے.. جاؤ اس سے مل لو... میں نے بتا دیا تھا اسے تمھارے بارے میں.. اور آرام کرو مجھے شمس سے ضروری باتیں ڈسکس کرنی ہیں.. پھر کچھ دیر بعد سب کھانا کھائیں گے..اور پھر کل نکاح کی تیاری شروع کر 


دینا

جی چاچو...... یہ کہہ کر وہ اس کی نظروں کی تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے کمرے میں بھاگ گئی..

شمس پرسکون ہو کر گہرا سا مسکرایا.. یہ بھی اچھا ہو گیا تھا.. اس سے قریبی رشتہ نکل آیا تھا.. اب اسے حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں تھا...

وہ دونوں لاؤنج میں بیٹھ گئے.. قیصر شمس کا نوال کو دیکھ کر چوکنا... اس کی محویت اور اس کی نظر کا نوال کا تعاقب کرنا نوٹ کر چکے تھے. وہ انھیں بے حد عزیز تھا.. نیک سلجھا ہوا... اور سب سے بڑھ کر اپنے رشتوں کے معاملے میں بے 


حد حساس.. اس نے ہی تو ان کی حرا انھیں لا کر دی تھی اس لئے ڈائریکٹ پوچھ بھی لیا..

شمس خیریت.. تم نوال کو دیکھ کر چونک کیوں گئے.. خیریت تو ہے ناں..

پھر ان کے سامنے سے پوچھنے پر شمس نظریں جھکائے انھیں سب بتاتا چلا گیا کہ اس کے کھونے پر وہ کس طرح اسے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہا تھا..

قیصر مسکرائے .. تو یہ بات ہے برخوردار... پھر سنجیدہ ہوئے شمس تمھارا باپ اس رشتے کے لئے کبھی نہیں مانے گا.. تم تو جانتے ہو ناں سب.. جتنے طاقتور ہیں اگر انھیں پتہ چلا تو نوال کو بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں... آگے اب بڑی 


مشکل سے تم نے انھیں ڈاج دیا ہے.. ان کے حساب سے تو تم اس وقت لندن میں یشار کے ساتھ ہو.. جبکہ تم ایئرپورٹ میں جا کر دوسری طرف سے نکل کر یہاں چلے آئے.

شمس نے تڑپ کر ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے... بس اسی لئے........ اسی لئے قیصر میں چاہتا ہوں.. کہ آپ کل ہی آپ کے اور پھپھو کے نکاح کے ساتھ میرا نکاح  نوال سے کرا دیں... کسی کو بھی بتائے بغیر. میں اسے کسی بھی قیمت پر 


نہیں کھونا چاہتا . نکاح کے بعد وہ اپنے گھر چلی جائے گی.. میں پیچھے سے بابا کو بتا دوں گا.. تو وہ کچھ نہیں کر پائیں گے.. نا نوال کو ڈھونڈ پائیں گے .. وہ کچھ عرصے جھٹپٹائیں گے.. پھر جب ان کا  غصہ شانت ہو جائے گا.. تو میں نوال 


کو پورے حق سے اپنا لوں گا.. اس فنکشن کے بعد میں خود اسے اس کے گھر چھوڑ کر آؤں گا... اور اس کے پیرنٹس کو سب بتا دوں گا.. آئی پرامس میں اس کا بہت خیال رکھوں گا.

قیصر کو اس کی بے چینی پر ہنسی آئی... اوکے ڈن.. دلہے میاں.. پھر تو تم بھی جلدی سے تیاری کر لو...

شمس خوشی سے پاگل ہوتا ان سے لپٹ گیا.. تو وہ کھل کر ہنس پڑے..

پھر کھانا لگا.. وہ سب آمنے سامنے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے . شمس بے شرموں کی طرح بار بار دہکتی نظروں سے اسے دیکھتا رہا.. وہ پہلو بدلتی رہی.. اور قیصر اور حرا نیچے منہ کیے ہنسی دباتے رہے.. قیصر نے حرا کو بھی بتا دیا 


تھا..

قیصر نے گلا کھنکار کر شمس کو وارننگ دی کے ان کی بھتیجی کو پریشان کرنا بند کرو.. وہ شرارتی سی ہنسی ہنس دیا.

وہ سہی طرح کھانا کھائے بغیر جلدی سے اندر بھاگ گئی تو حرا نے اسے ایک دھموکا جڑا.

پھر حرا اور قیصر نے نوال کو سب بتایا.. شمس کے بابا کے بارے میں اس کو اچھی طرح سمجھایا تو وہ راضی ہو گئی کیونکہ یہ سب کرنے کو اس کے عزیز از جان چاچو نے اسے کہا تھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلا دن بہت روشن اور ان کے لئے بے شمار خوشیاں لئے طلوع ہوا تھا.. سب لاؤنج میں تھے..

حرا مکمل  دلہن کے روپ میں اور  نوال پارٹی ڈریس کے اوپر کامدار دوپٹہ اوڑھے تیار ہوئی ایک صوفے پر شرمائی ہوئی بیٹھی تھیں...

وہ دونوں بھی سامنے گہری مسکراہٹ لبوں پر سجائے بیٹھے تھے... قیصر کے کچھ دوست اور شمس کے دوست اور مولوی صاحب موجود تھے.

ایجاب و قبول کا مرحلہ طے ہوا تو ہر طرف  مبارک باد کی صدائیں گونج اٹھیں...

سب خوش تھے بے حد خوش...

شمس تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا.. اپنی زندگی میں آنے والے طوفانوں سے بے خبر جو اس کا سب کچھ تباہ و برباد کر کے اپنے ساتھ لے جانے والی تھیں..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

 اس کی زندگی کے خوبصورت ترین یہ چند دن کیسے پر لگا کر اڑ گئے اسے پتہ ہی نا چلا..چاہے جانے اور پھر اس چاہت کو پا لینے کی خوشی دل میں ہر وقت کرنوں کی طرح پھوٹ رہی تھی 

اگلے چار پانچ دنوں میں اس نے حرا چچی کے ساتھ مل کر گھر کی سیٹنگ کروائی..

شمس بھی ان کی مدد کرتا.. مدد کم کرتا اس کے اوسان زیادہ خطا کرتا... آتے جاتے کانوں میں ذومعنی جملے.. اس کی وارفتگی... نظروں کی تپش نوال کی ننھی سی جان پر بنائے رکھتی..

قیصر نے اسے کسی کو بھی بتانے سے منع کیا تھا.. کیونکہ وہ خود جا کر عابد کو تمام حقیقت بتانے والے تھے.

مگر منال کسی نہیں تھی... وہ تو اس کے وجود کا حصہ تھی.. اور اس نے منال کو سب بتا دیا..اسے پتہ تھا منال کسی کو نہیں بتائے گی. پہلے تو وہ بھڑکی اتنا زور سے چلائی کہ پاس بیٹھی زری بھی سہم گئی تھی.. پھر  منال نے زری کو پیار 


سے پچکار کے دوسرے کمرے میں بھیج دیا اور پھر چلانے لگی مگر پھر اس کے پوری بات بتا دینے پر شانت ہو گئی. مگر جب اس نے بتایا کے شمس کے بابا کی وجہ سے اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے وہ پھر بے چین ہو گئی.

نوال  نے اسے نکاح کی پک بھی سینڈ کی تھی...

رات کا ایک بجے بھی اسے نیند نہیں آ رہی تھی گھبراہٹ سی ہو رہی تھی..وہ اوپر والے پورشن میں گلاس وال کے قریب کھڑی تھی..

اور شمس کی باتیں یاد کر کے مسکرا رہی تھی جب کسی نے اس کے کان میں سرگوشی کی..

مجھے یاد کر رہی ہو... وہ خوف سے زرد پڑتی بوکھلا کر پیچھے مڑی.. گرنے والی تھی کہ کسی کے مضبوط ہاتھوں نے اسے اپنے حصار میں لیتے ہوئے گملے پر گرنے سے بچا لیا....

نوال نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو خود کو شمس کی مضبوط بانہوں میں پایا وہ بے تحاشا گھبرائی..

آپ......... آپ یہاں.... کک... کیوں آئے..

اپنی... زندگی... اپنی جان کی یہاں موجودگی محسوس کرنے.. اس کے جواب پر وہ سر نا اٹھا  سکی...

مجھے چھوڑ کر کیوں گئیں نوال تم.... شمس نے شکوہ کناں لہجے میں اس کو کہتے ہوئے اپنی جانب کھینچا تو وہ نازک گڑیا کی طرح اس کے سینے سے آ لگی....اس اپنے بازوؤں میں اٹھایا اور کمرے میں لا کر نیچے اتارا.. پر اس کی کمر شمس 


کے چٹانی حصار میں ہی تھی.. 

اس کی جسارتوں اور اتنی قربت  سے نوال کے اوسان خطا ہو رہے تھے..

تم نے بتایا بھی نہیں مجھے کہ جا رہی ہو... ایسے کرتے ہیں؟

مم.... میں... کک... کیسے بتاتی آ.... آپ... آئے ہی نن.... نہیں

اس کی یہ بات سن کر شمس کی مسکراہٹ گہری ہوئی.

یعنی تم میرا انتظار کرتی رہی ہو.. ہے ناں.

وہ اس کے چہرہ کے اور قریب ہوا... کہ اس کی سانسیں نوال کو اپنے لبوں پر محسوس ہو رہی تھیں..پھر وہ بے خود سا ہو کر اس کی گردن پر جھکا اور اپنے پیار کی پہلی مہر ثبت کی. 

پپ... پلیز...... چھوڑیں مجھے... کوئی آ جائے گا...نوال کی جان پر بنی...

آنے دو میں نہیں ڈرتا کسی سے.. ویسے بھی اپنی بیوی سے رومانس کر رہا ہوں... شمس نے ہوا میں بات اڑائی

گہری رات، تنہائی... بانہوں میں من چاہا ساتھی جس پر تمام حق حاصل ہوں.. شمس بہک چلا تھا.. اس کی گردن پر جھکا اور خود کو سیراب کرنے لگا....

نوال کی جان لبوں پر آ گئی..

شمس.... پلیز.... چھوڑیں مجھے.....

نہیں.... بلکل نہیں... نوال...

 تم تو چلی گئیں.. پتہ ہے میں کتنا تڑپا اس تڑپ کا حساب دو..یہ کہہ کر شمس نے اسے بیڈ پر لٹایا... اس سے پہلے وہ اٹھتی خود اس پر جھک گیا..

نوال......... مجھے اتنے قریب آنے دو کہ پھر تمھارے دور جانے کا ڈر نہ ہو.. جزبات سے بوجھل لہجے میں کہا تو نوال کی روح کانپ گئی... اس سے پہلے وہ کچھ کہتی.. شمس نے اپنے لبوں سے اس کے نازک  لب قید کر لئے...نوال تڑپی... 


مچلی.. پر شمس کی گرفت مضبوط تھی..

اس کی کوئی مزاحمت کام نہیں آ رہی تھی.... کافی دیر بعد جب شمس نے اسے آزاد کیا تو وہ آنکھوں میں آنسو لئے بول پڑی...

پلیز شمس نہیں کریں.. یہ غلط ہے...

شمس کو اس کے آنسو دیکھ کر دکھ ہوا... لیکن یونہی اس کو ریلیکس کرنے کو بولا.. خیر غلط تو کچھ بھی نہیں تھا....پر میں اپنی جان کے ایک بھی آنسو کا سبب نہیں بننا چاہتا... پھر شمس نے اسے سیدھا کیا اور کمفرٹر اوڑھایا... خود بھی کمفرٹر 


میں لیٹ کر اسے سینے سے لگایا...

وہ پھر مچلی...

تو شمس سے ناگواری سے کہا.

اونہو.ں........کچھ نہیں کروں گا... سو جاؤ آرام سے....قیصر نے کہا ہے تمھیں چھوڑ کر آنا ہے صبح.. چلی جاؤگی مجھے تڑپا کر.. آج ساری رات ایسے ہی میری بانہوں میں سونا پڑے گا...

مم..... مگر......... 

چپ بلکل چپ....... نہیں تو پہلے کی طرح خاموش کرواؤں گا.. 

اس کے یہ کہنے پر نوال نے اپنی عافیت اسی میں جانی کہ چپ چاپ اس کے سینے میں منہ دئیے لیٹ گئی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تبریز کی خبر سن کر سردار یوسف خان اپنے ڈرائینگ روم میں  غصے کی انتہا میں پھنکارتے ایسے ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھے...

جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو...

تبریز انھیں آگ بگولہ بنے دیکھ رہا تھا کہ اگلا حکم کیا جاری ہو گا جن سے وہ دوسروں کی خوشیاں بھسم کر دیا کرتے تھے..

یوسف خان اپنے دل میں شمس سے مخاطب ہوئے... شمس خان اپنےباپ کی انا کچل کر اور کھلِ عام یہ بغاوت کر کے تم نے اچھا نہیں کیا... کیا یاد کرو گے حرا کو معاف کیا پر تمھیں نہیں کروں گا.. ہر گز نہیں

تبریز...لڑکی کو ختم کردو.... .. تبریز نے حیرت کا جھٹکا کھا کر ان کی جانب دیکھا..

لیکن بڑے صاحب... شمس بابا......

اسے میں سنبھال لوں گا... تم سے جو کہا ہے وہی کرو.... وہ دھاڑے. جب بھی لڑکی واپسی کے لئے نکلے... ایکسیڈنٹ کروا دو..جی ٹی روڈز پر تو یوں بھی آئے دن ایکسیڈنٹ ہوتے رہتے ہیں. ... بچنی نہیں چاہئے... نہیں تو تم نہیں بچو 


گے......... سرسراتا سرد لہجہ.... تبریز نے جھر جھری لی..

لیکن بڑے صاحب

بھونکنا بند کرو... تبریز.. اور دفعہ ہو جاؤ.. جو کہا ہے وہ کرو.

تبریز چلچلاتا وہاں سے نکلا... ہونہہ..... پاگل بڈھا..اپنی ضد انا اور ہٹ دھرمی میں یہ بھی نا سنا کہ اگر وہ جس گاڑی میں نکلی اس میں اپنا خود کا بھی بیٹا ہوا تو پھر کیا کرنا چاہیے..مجھے کیا... میں تو بول دوں گا.. جیسا حکم ملا کر دیا... بعد 


میں لکیر پیٹے گا... پاگل جاگیر دار

تبریز........ یوسف خان کو دل میں کوستا وہاں سے نکلا.. پر کیا کرتا حکم ماننے کا پابند اور مجبور تھا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

سامان گاڑی میں رکھو فض بابا ہم لیٹ ہو رہے ہیں...

نوال تیار ہو کر باہر آئی.. سفید فراک کے نیچے پاجامہ اوپر حجاب باندھے وہ کوئی پرنور سی مخلوق لگ رہی تھی.. شمس مبہوت سا ہوا...وہ تو خود بلیک شلوار قمیض میں مردانہ چادر کندھوں پر لئیے شہزادہ لگ رہا تھا

وہ حرا اور قیصر سے مل کر گاڑی کی طرف بڑھی.. شمس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا.. اسے بٹھا کرخود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا.. اور گاڑی زن سے بگھا لی.

وہ بار بار پر حدت نگاہوں سے اپنے پہلو میں شرمائی گھبرائی بیٹھی نوال کو دیکھ رہا تھا..

وہ بری طرح کنفیوز ہو کر انگلیاں چٹخا رہی تھی..

یار ایسے تو نا شرماؤ... نیت اور خراب ہوتی ہے.. میں نے یہاں سے گاڑی کسی ہوٹل کی طرف موڑ لینی ہے..

نوال نے ہق دق ہو کر شمس کی جانب دیکھا تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑا..

نوال نے مکا بنا کر اس کے بازو پر مارا... توبہ بہت خراب ہیں  آپ.. جائیے میں نہیں بولتی آپ کے ساتھ...

یار ایسا............ وہ بول ہی رہا تھا کہ فون کی بیل بجی وہ فون کی طرف متوجہ ہوا.. اعظم کا نبمر دیکھ کر فون اٹینڈ کرنا ضروری سمجھا.

یس... اعظم... کوئی ضروری بات.....

سر آج اگر آپ میم کو کہیں بھیجنے لگے ہیں تو مت بھیجیں....

کیوں اعظم... شمس بے تحاشا چونکا..

سر. میری اطلاع کے مطابق  قیصر سر کی گاڑی کے بریک فیل کروائے گئے ہیں.. میم کو... وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا.. میم کو مارنے کے لئے

واٹ... وہ دھاڑا.نوال سہم گئی. اور یہ سب کرنے کی جرات کس نے کی..

کون کر سکتا ہے سر آپ اچھے سے جانتے ہیں..

اعظم وہ اس وقت گاڑی میں ہے اور ڈرائیونگ میں کر رہا ہوں... ڈیڈ کو مبارک دے دو فون کر کے ان کا پلان کامیاب رہا.... شمس نے موبائل پچھلی سیٹ پر پھینکا اور گاڑی کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگا اسے اس وقت خود سے زیادہ نوال کی 


فکر تھی.. وہ ہراساں سی یہ سب کاروائی دیکھ رہی تھی کسی انہونی کے ڈر سے اس کا دل تیزی سے دھڑک  رہا تھا... سمجھ تو وہ بھی گئی تھی.

باقاعدہ پلاننگ جو کی گئی تھی اسی لئے اچانک سامنے ایک ٹرک آیا تھاشمس  نے گاڑی ٹرن کرنے کی کوشش کی تو نوال والی سائیڈ ایک دھماکے سے ٹرک میں بجی تھی..

خون سے لت پت شمس کی غنودگی میں آنکھ کھلی تھی... وہ سڑک پر گرا ہوا تھا... جبکہ نوال کچھ ہی فاصلے پر خون میں نہائی بے جان پتلیوں سمیت پڑی تھی.. سفید فراک سرخ ہو چکی تھی...

شمس نے ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی.. ہونٹ پھڑپھڑائے.. نوال کو صدا دینے کی کوشش کی کہ مت جاؤ... خدارا مت جاؤ... اپنے شمس کے پاس رہو...

پر وہ تو اس کی سنے بغیر کب کی دنیا سے جا چکی تھی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

کفن میں لپٹے نوال کے پر نور چہرے پر جھکی منال کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ خود کفن اوڑھ کر لیٹ گئی ہے جیسے نوال کا نہیں اس کا اپنا  وجود ایکسیڈنٹ سے ادھڑ گیا ہے.

عابد غم سے نڈھال تھے.. نازیہ پر بار بار غشی کے دورے پڑ  رہے تھے.جب نوال کی میت اٹھائی گئی. منال کی دھاڑوں اور چیخوں نے  قیصر منزل کو ہلا ڈالا تھا...

پر جتنا مرضی چیخو چلاؤ جہاں نوال گئی تھی وہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا تھا.

زری اور ماہی کو تو حرا نے نوال کا چہرہ دیکھنے ہی نہیں دیا تھا.. کیونکہ وہ پہلے ہی بہت سہمی ہوئی تھیں..

نوال جا چکی تھی پر منال کی سسکیاں ہر وقت پورے گھر میں گونجتی تھیں..

خدا کی  وقت کے حوالے سے یہ عجیب قدرت ہے کہ جیسے جیسے گزرتا جاتا ہے پہاڑ جتنے غم پر بھی صبر آتا جاتا ہے. اگلے چند دنوں میں سب سنبھلے..منال قیصر چاچو کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتی رہی پر انھوں نے اپنے ہونٹوں 


کے چپ کے قفل نہ  توڑے..

وہ گلٹی تھے.. ان کے ایک قدم نے نوال کی زندگی نگل لی تھی. وہ اس کا خیال نہ رکھ پائے

نوال کے ساتھ ہی اس کے نکاح کا راز جیسے دفن ہو چکا تھا... جب قیصر نے اس کے ماں باپ کو کچھ نا بتایا تو منال نے بھی نوال کی عزت کا احترام کرتے ہوئے یہ راز اپنے سینے میں دفن کر لیا..

مگر ایک کسک ایک پھانس سی تھی جو دل میں کہیں چبھ گئی تھی.. اسے اس شخص سے نفرت اور شدید نفرت محسوس ہوئی جس نے اتنی محبت کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس کی بہن کی حفاظت بھی  نا کر سکا.. اس کے دو دن کی محبت نوال کی 


زندگی نگل گئی تھی... نوال نے اسے بتایا تھا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے تو کیا وہ شخص اندھا تھا جس نے اس کی بہن کو موت کے منہ میں جھونک دیا..

اب اس کے دل میں نفرت ہی نفرت تھی..

یہی نفرت سینے میں لئے وہ اپنی فیملی کے ساتھ واپس گھر آ گئ.. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

بخت کے تخت سے یکلخت اتارا ہوا شخص...

تُو نے دیکھا ہے کبھی جیت کے ہارا ہوا شخص...

ہم تو مقتل میں بھی آتے ہیں بصد شوق و نیاز...

جیسے آتا ہے محبت سے پکارا ہوا شخص...

کب کسی قرب کی جنت کا تمنائی ہے...

یہ ترے ہجر کے دوزخ سے گزارا ہوا شخص...

بعد مدت کے وہی خواب ہے پھر آنکھوں میں...

لوٹ آیا ہے کہیں دور سِدھارا ہوا شخص...

اب اندھیرے ہیں کہ لیتے ہیں بلائیں اُس کی...

روشنی بانٹ گیا دیپ پہ وارا ہوا شخص...

موت کے جبر میں ڈھونڈی ہیں پناہیں اس نے...

زندگی یہ ہے ترے لطف کا مارا ہوا شخص...

جب بھی حالات کی چھلنی سے گزارا خود کو...

ہاتھ آیا ہے مرے مجھ سے نتھارا ہوا شخص...

پورے ایک ماہ بعد  ہسپتال کے سرد سے کمرے میں پٹیوں سے لپٹا وہ اپنوں سے ہارا ہوا شخص کومے سے باہر آتا نیم غنودگی کی حالت میں رو رہا تھا...

آنسو قطار در قطار گرتے ہوئے تکیے میں جزب ہو رہے تھے..

پاس ہی اعظم بیٹھا تھا...

حالانکہ جانتا تھا کہ اپنی زندگی اپنی محبت کو اپنی آنکھوں کے سامنے مردہ دیکھ چکا تھا.. پر پھر بھی ایک موہوم سی امید میں لب پھڑپھڑائے...

اعظم قریب آیا..

کرب کی انتہاؤں پر پہنچ کر پکارا..... نن... نوال....

اعظم نے سنتے ہی نظریں چرا لیں.

وہ موہوم امید بھی دم توڑ گئی کیونکہ اعظم کبھی نظریں نہیں چراتا تھا..

وہ پھوٹ پھوٹ کر تڑپ تڑپ کر رویا تھا

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

نوال کی قبر کے پاس دو زانو بیٹھا وہ بے تحاشا رو رہا تھا..

نوال.... میری نوال.... پلیز واپس آ جاؤ... دیکو تمھارا شمس تمھارے بغیر کیسے تڑپ رہا ہے پلیز

وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہا تھا..

اعظم اس کے ساتھ تھا.

اسی نے ایکسیڈنٹ کی جگہ پر فوری پہنچ کر شمس کی تو جان بچا لی تھی.. پر اپنی میم کو مردہ پایا تھا..

یوسف خان کو جب پتا چلا کہ اس لڑکی کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹےکا بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے تو پھر اپنی بے وقوفی پر اپنا سینا پیٹا اور اسپتال بھاگے.. جہاں وہ زندگی اور موت کی لڑائی لڑ رہا تھا..

پھر جب وہ خطرے سے باہر ہوا تو کومے میں چلا گیا..

ہوش آیا تو باپ کی شکل تک دیکھنے سے انکار کر دیا. وہ لاکھ جھٹپٹائے لیکن شمس ان سے نہیں ملا.. پھر مکمل صحت یاب ہو کر وہ اپنے اس بنگلے میں گیا جو اس نے اپنے اور نوال کے لئے خریدا تھا..

قسم کھائی تھی کبھی باپ کی شکل دیکھے گا نا ان کو اپنی دکھائے گا.

یشار کو بھی اپنے باپ کی فرعونیت بتائی.. غصے سے جھنجھناتے اس نے بھی وہاں سکول بھی چھوڑ دیا اور ہوسٹل بھی... رزم کے ساتھ اس کی خالہ کے گھر چلا گیا جو اکیلی ہی تھیں وہاں... سکول بھی بدل لیا.

اب یوسف خان اپنے دونوں بیٹوں کو کھو چکے تھے... اور لکیر پیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے تھے..

شمس کے پاس اپنی اتنی تو پراپرٹی تھی کہ اس نے آرام سے اپنا بزنس سٹارٹ کر دیا تھا...

شمس کی واپس دوبارہ قیصر  کے سامنے جانے کی ہمت نا ہوئی.. کیا منہ لے کر جاتا... پرامس کیا تھا کہ نوال کا خیال رکھے گا وہ تو پہلے قدم پہ لڑکھڑاتے ہوئے اس کو موت کے منہ میں جھونک چکا تھا..

نا اس نے نوال کے گھر والوں کا پوچھا..... قیصر کا سامنا نہیں کر پا رہا تھا تو نوال کے گھر والوں کا کیسے کرتا...

بس دن کے دو گھنٹے ہر روز نوال کی قبر پر جا کر اسے پکارتا تھا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آٹھ سال بعد......

لاہور ائیر پورٹ سے براؤن آنکھیں بلو کلر کے تھری پیس سوٹ پہنے.... بالوں کو جیل سے سیٹ کیے.. ڈائمنڈ نگینوں کے ڈائل والی گھڑی پہنے.. بلیک سن گلاسز لگائے.. کسرتی چوڑا چٹانوں جتنا مضبوط جسم لیے وہ شہزادوں جیسی آن بان لئے 


سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا..

وہ یہاں سے گیا اکیلا تھا.. پر لوٹ کر ہر گز اکیلا نہیں آیا تھا... رزم علی اس کے ساتھ آیا تھا...

کم تو رزم بھی نہیں لگ رہا تھا.. بلیک سوٹ پہنے وہ بھی انتہائی ہینڈسم اور ڈیشنگ لگ رہا تھا..

دونوں اسپیشل فورسز کے انٹیلیجنس آفیسرز بن کر لوٹے تھے.. یہاں بھی  آ کر فورا ڈیوٹی جوائن کرنی تھی اور ایک مشن پہ فوراً کام شروع کرنا تھا..

باہر نکلے تو اعظم ہاتھوں میں یشار بابا کا بورڈ لئے کھڑا تھا.. وہ مبہم سا مسکرایا.. اور پاس جا کر کہا..

کیا اعظم صرف eight years میں مجھے بھول گئے.. میں تو کچھ نہیں بھولا ایک ایک بات یاد ہے..

کچھ تو تھا اس کے لہجے میں. رزم چونکا

اعظم مسکرانے لگا... پھر زرا سنجیدہ ہو کر کہا.. وہ یشار بابا.. بڑے صاحب بول ر................

ہر گز نہیں...... این مینشن چلو... اس کے ماتھے پر بل آئے..

پھر وہ شہزادوں کی طرح شاندار گاڑی میں بیٹھے...

یشار نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا..

رزم علی... اپنا پرامس یاد ہے ناں.... اپنے ہر مشن سے پہلے ہمیں کونسا مشن سرانجام دینا ہے..

ہاں یاد ہے.... تمھاری الٹی کھوپڑی ہے.. جس میں ایک بات سما جائے تو اسے نکالنا ناممکن ہے.. پھر شروع ہو گیا تاشی نامہ.. آخری لائن وہ دل میں بڑبڑایا.ججبکہ رزم جانتا تھا یشار کے کان بہت تیز تھے.. وہ ہر سرگوشی سن لیا کرتا تھا....

یشار نے لیپ ٹاپ بند کر کے لاہور کی سڑکوں پر ایک بے چین نگاہ دوڑائی

تاشی......... دل میں مخاطب ہوا..

دیکھو تمھارا یش تمھارے لئے لوٹ آیا ہے.... اب دنیا کی کوئی طاقت تمھیں مجھ سے دور نہیں کر پائے گی...

بہت انتظار کیا ہوگا میرا.. جیسے پل پل اپنی ہر سانس کے ساتھ میں نے کیا... ہر سانس کے ساتھ تمھارا نام پکارا...

جلد بہت جلد تم میرے سامنے میرے بہت قریب ہو گی..سکون سے آنکھیں بند کر کے سیٹ کی بیک سے سر ٹکایا. 

پر کیا یہ سب اتنا آسان تھا،؟ 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری..... پلیز میری بات سنو... ماہ رخ نے اسے آواز دی.. وہ دونوں اس وقت کالج کے پلے گراؤنڈ میں موجود تھیں.. ایک طرف درختوں کا جھنڈ سا تھا جن کے سائے میں بڑا سا پتھر کا بینچ بنایا  گیا تھا جہاں وہ دونوں اکثر اپنی شرارتوں کے 


منصوبے بناتی تھی..

کیا ہے؟ زرتاشہ اچانک سفید یونیفارم میں ذہانت سے بھرپور بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں لئے مڑی...

پلیز زرتاشہ حصہ لے لو ناں.... میں نے بھی تو لیا ہے.. میم بھی تو تمھیں آفر کر رہی ہیں.. سب مری جا رہی ہیں کرنے کے لئے اور تم نخرے کر رہی ہو...... پلیز تاشی.

Mah rukh.... Don't call me like that...

وہ اس منحوس نام کو یاد بھی نہیں کرنا چاہتی تھی.عجیب وحشت اور خوف سا آتا تھا اسے اس نام سے.نفرت تھی اسے اس نام سے.وہ چاہتی تھی دنیا میں کوئی اسے اس نام سے نا پکارے.... اس نے یاد کر کے جھر جھری لی.. اور سر جھٹکا.

اچھا ٹاپک کیا ہے.. ڈرامے کا.. وہ میڈیکل کے سیکنڈ ائیر میں تھیں.. کالج میں کسی بڑی سیاسی ہستی نے آنا تھا جس کی وجہ سے تیاریاں چل رہی تھیں

مجھے نہیں پتہ.. ماہ رخ روہانسی ہوئی 

مگر مجھے تو یہ کرنا ہے.. اپنا فیورٹ سونگ ایسے.

وہ بینچ پر چڑھی. ٹہنی ہاتھ میں لی اور گانے لگی

کنواری اے توں... سوہنٹیے تے میں وی آ کنوارا

چڑھ دی جوانی.... ہنڑ لٹ لے نظارہ

جے ناں مینوں کردی... نئیں پچھنا  دوبارہ

میری روٹیاں پکائیں... نالے میرے نال گائیں

ماہ رخ کا ہنس ہنس کر برا حال تھا..

قسم سے زری .... مراثن لگ رہی ہو..حالانکہ وہ بہت کیوٹ اور بے انتہا خوبصورت لگ رہی تھی

زرتاشہ.. نے صدمے سے آنکھیں پھاڑیں. اور خود جو پکی بھانڈ ہو وہ..یہ کہہ کر وہ بھاگ گئی پتہ تھا ماہی ایسا کہنے سے کتنا چڑتی تھی. 

ماہ رخ اس کے پیچھے بھاگی..

تھکی ہاری اپنے گرلز کالج سے گھر پہنچی...

مما.... مما... زری نے آتے ہی آواز دی جب نازیہ بیگم کچھ نا بولیں تو

مسز عابد........... نازیہ مسکرائیں.. یہی تو وہ سننا چاہتی تھیں.

کیا ہے آفت........ انھوں نے اپنی نٹ کھٹ سی خوبصورت بیٹی کی آنکھوں ہی آنکھوں میں نظر اتاری.

مسز عابد... یار بہت بھوک لگی ہے کھانا دے دو نا یار.. پھر کچن سے اٹھتی اشتہا انگیز خوشبوؤں سے سمجھ گئی..

کہ آج کچھ اسپیشل ہے.

مما... آج کیا اسپیشل ہے..

آج اس چڑیل کا برتھ ڈے ہے.. ماہ رخ یونیفارم چینج کر کے آ کر اس کے گلے میں جھول گئی...

کس کا...؟ 

منال آپی کی بیٹی کا....

او... ایک دلفریب سی مسکراہٹ لئے وہ منال اور اس کی بیٹی نوال کے روم کی طرف گئی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

گاڑی این مینشن کے بڑے سے گیٹ سے اندر داخل ہوئی..

بڑے سے لان کے بیچ بنی طویل سڑک سے گاڑی اندر پورچ تک گئی.

این مینش بہت بڑی خوبصورت سفید کلر کی پر شکوہ مگر سوگوار سی عمارت دیکھنے والا مبہوت ہی رہ جائے.. وہ بڑی شان سے داخلی بڑا گلاس کا ڈور دھکیل کر اندر وسیع و عریض لاؤنج میں داخل ہوئے... سامنے ہی شمس اپنے آگے اخبار 


پھیلائے ٹانگ پر ٹانگ رکھے کسی بادشاہ کی طرح بیٹھے تھے.

شمس لالہ....... یشار نے پکارا..

یشار....... وہ اخبار رکھ کر اس کی جانب لپکے...

دونوں بھائی برسوں سے ایک دوسرے سے دور اب بغلگیر ہوئے آپس میں محبت سے ایک دوسرے کی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے..

اب پرے ہٹو میری باری بھی آنے دو یشار...... رزم نے سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا.

پتھروں جیسے چٹانی اعصاب کے مالک  یشار جسے کبھی رزم نے روتے ہوئے نا دیکھا.. اسکی نم آنکھیں دیکھ کر رزم کو حیرت ہوئی وہ پیچھے ہوا تو رزم ان کے گلے لگا..

یہ بھی اچھا ہو گیا. رزم میرے اتنے اصرار پر تم یہاں چلے آئے.. بھیجا تھا ایک بھائی کو.. واپس دو آئے ہیں.. میں تو بڑا خوش ہوں بھئی

یشار نے دیکھا.. نارمل سی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں بھی شمس ہلکی بئیرڈ اور تنی مونچھوں کے ساتھ سوگوار سا آج بھی اتنا ہی ہینڈسم لگ رہا تھا.. جتنا کے پہلے لگا کرتا تھا..

کیا.......... ایسے کیا دیکھ رہے ہو یار.. سینگ نہیں نکل آئے ہیں میرے..

شمس نے اچانک کہا تو یشار جھینپ گیا..

بڑے سے جہازی سائز ڈائیننگ ٹیبل پر انھوں نے اکٹھے بیٹھ کر لنچ کیا...

شمس لالہ... پلیز یار اب تو شادی کر لیں... یشار کو اس کی اجڑی زندگی بہت تکلیف دے رہی تھی..

کس سے... شمس نے ہوا میں بات اڑائی.. رزم کو ہنسی آئی.

مجھ سے.. وہ جھلا کر بولا تو رزم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا..

شمس بھی مبہم سا مسکرائے. پھر سنجیدگی سے کہا..

جب مجھے کوئی ایسی لڑکی نظر آئی جو مجھے لگے کہ نوال کی جگہ لے سکتی ہے تو سوچوں گا.. پر  you know what. مجھے نہیں لگتا مجھے ایسی کوئی ملے گی... اسی لئے تم اپنے بارے میں سوچو... جلد از جلد ........ مجھے 


تمھارے ڈھیر سارے بچے چاہئیں جو مجھے بڑے پاپا. بڑے پاپا کہہ کر تنگ کیے رکھیں..

یشار نے لب دانتوں تلے دبا کر مسکراہٹ ضبط کی.. جبکہ رزم کو تو اچھو ہی لگ گیا..

لالہ آپ بھی ناں بات کو گھمانا اچھے سے جانتے ہیں..

کیا کروں انٹیلیجنس آفیسرز کا بھائی جو ہوں... شمس نے چھیڑا... ڈیوٹی کب جوائن کر رہے ہو...

یشار کھل کر مسکرایا... لالہ ہم چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہی ہوتے ہیں..

اوکے ٹھیک ہے.. میرا ہو گیا..  ضروری ای میلزر سینڈ کرنی ہیں.. تم لوگ دیکھ لو آرام کر لو کچھ دیر..

اوکے.....

بزنس کی دنیا میں شمس کا نام آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا... کچھ ہی عرصے میں اس نے اپنا اچھا خاصا نام اور مقام بنا لیا تھا..

.. اسی لئے اس کے لئے اور یشار کے لئے خود سامنے سے ہزاروں رشتے اس کے ہاتھ میں تھے.. لیکن اسے کوئی دلچسپی نہیں تھی..شادی خود وہ کرنا نہیں چاہتا تھا اور یشار کا پتہ تھا اسی کا بھائی ہے... سر پھرا...وہ ضرور اسے 


ڈھونڈے گا جسے یہاں کھو کر گیا تھا.

ان سات سالوں میں اس نے کبھی قیصر کا سامنا کیا ہی نہیں...

ان کے جڑواں بچوں کی پیدائش پر بھی وہ بس ہوسپیٹل جا کر حرا سے مل آئا تھا.

قیصر نے بارہا اس سے ملنے کی اور بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ خود کو ان کا اور نوال کا مجرم سمجھتا تھا. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

  وہ سب ایک کمرے میں بیٹھے دو سالہ نوال کا برتھ ڈے سلیبریٹ کر رہے تھے.. زری، ماہی اور نوال نے ادھم مچایا ہوا تھا جبکہ باقی تینوں نفوس ان کی شرارتوں پر دل کھول کر ہنس رہے تھے..

کہ دروازہ نوک ہوا.....

زری نے پوچھ کر دروازہ کھولا تو سامنے رضیہ بیگم تھیں.. وہ پھپھو چلا کر ان سے لپٹ گئی تو وہ بھی مسکرا دیں..

سب سے مل کر بیٹھیں تو زری بھاگ کر ان کے لئے کولڈ ڈرنک لے آئی

اوو.. ہو.. تو ہونے والی ساس کی خدمتیں ہور رہی ہیں.. ماہی اس کے کان میں گھسی تو.    زری نے.      آہستہ سے. شٹ اپ بول کر اسے گھورا...

وہ بڑوں سے باتوں میں مصروف ہو گئیں تو. زری، ماہی نروں روں کرتی نوال کو لے کر اپنے کمرے میں آ گئیں.

 رضیہ بیگم، عابد حسین کے سامنے اپنے دکھڑے لے کر بیٹھ گئیں تو منال نے خفگی سے اپنی ناشکری اور کسی حد تک خود غرض پھپھو کو دیکھا.. کچھ بولنے لگی تو عابد حسین نے آنکھوں کے اشارے سے منع کر دیا.. آخر کو بہن کے ساتھ 


ساتھ  سب سے لاڈلی بیٹی کی ہونے والی ساس جو تھیں.

ان کا اشارہ پاتے ہی نازیہ اور منال کچن کی جانب کھانے کی تیاری کرنے چل پڑیں...

اففف.. بھائی میری تو سفر کر کر کے جان نکل گئ.. ٹرانسفر کروا لیں اپنا دوبارہ لاہور میں ہی.. کب تک یہاں اپنوں سے اتنی دور اس چھوٹے سے علاقے میں رہیں گے.... آپ کو تو پتہ ہی ہے ہمارے کیا حالات ہیں... بارات لانا بھی مشکل ہو جائے 


گا اتنی دور...

عابد مسکرائے... ہاں قیصر کوشش تو کر رہا ہے.. انشاءاللہ جلد ہی خوشی کی خبر سنائے گا..

انشاءاللہ....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ چھوٹے سے پارک کے سامنے بنے گھر کے دروازے کو یوں گھور کر دیکھ رہا تھا کہ جیسے مطلوبہ چیز ابھی وہاں سے برآمد کر لے گا...لندن سے آ کر اس نے نا خود آرام کیا تھا اور نا بیچارے رزم  کو کرنے دیا تھا. 

گھورنا بند کرو یشار... سب مشکوک نظروں سے دیکھ رہے ہیں تمھیں. رزم نے چھیڑا

مجھے پرواہ نہیں.وہ لاپروائی سے بولا..  آگے بڑھا اور دھڑکتے دل سے دروازہ ناک کیا...

ایک کرخت سے چہرے والی عورت باہر آئی.. وہ شائستگی سے بولا.

اسلام و علیکم..... آنٹی یہ عابد حسین کا گھر ہے..

نہیں گھر میرا ہے....میرے نام پہ ہے کیوں؟ اس عورت نے فخریہ بتا کر مشکوک نظروں سے یشار کو دیکھا.

میرا خیال ہے آپ نے عابد حسین سے خریدا ہوگا؟ یشار کو شدید جھٹکا لگا تھا پہلی ہی بار میں

نہیں ہم نے تو واجد صاحب سے خریدا تھا..

تو واجد صاحب نے عابد حسین سے خریدا ہوگا....وہ اب اس عورت کو زچ کر رہا تھا عورت کی شکل کے بگڑتے زاویوں سے ہی پتہ چل گیا تھا.

دیکھو بھئی کس نے کس سے خریدا مجھے نہیں پتہ... مجھے تو بس یہ پتہ ہے کہ اب یہ میرے نام ہے.. عابد حسین کون ہے مجھے نہیں پتہ.. یہ کہہ کر وہ اندر گھسی اور ٹھک سے دروازہ بند کر دیا

یشار کی رگیں تن گئیں

تنتناتا سامنے پارک میں گیا.. اسی جگہ اسی بینچ پر بیٹھ کر  فون نکالا..

رزم بھی اس کے پیچھے آیا... اور اس کے لٹکے جھٹکے ملاحظہ کئے.

یشار نے اپنے خاص آدمی کا نمبر ڈائل کر کے فون کان کو لگایا.

ہاں... فرید... ایک ایڈرس سینڈ کر رہا ہوں... پچھلے آٹھ سال کی اس پراپرٹی کی اونرشپ کی ڈیٹیل مجھے پانچ منٹ میں اپنے فون میں چاہئیں..

یہ کہہ کر فون بند کردیا.. شدید ٹینشن میں وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے پاؤں جھلا رہا تھا... جب وہ ٹینشن میں ہوتا تھا تو اس کا یہ مخصوص سٹائل تھا.. جس سے رزم بخوبی واقف تھا کہ وہ اشتعال کا ایک طوفان اپنے اندر دبانے کی کوشش کر رہا ہے.

یہ کیا ہوا تھا... پہلا قدم ہی توقع کے برخلاف نکل آیا تھا..

 تقریباً پانچ منٹ کے بعد ہی میسج ٹون رنگ ہوئی

(اتنا ہی طاقت ور تھا اس کے اور رزم کے  خاص آدمیوں کا نیٹ ورک....... ان کا ہوم ورک بے پناہ مظبوط اور مکمل ہوتا تھا... اسی لئے تو ہر میشن میں کامیاب ہوتے تھے)

میسج کی ڈیٹیل نے اس کا دماغ الٹ دیا.

عابد حسین نے  تقریباً سات سال پہلے یہ گھر بیچا تھا اس کے بعد دو تین بار یہ مکان بک چکا تھا... اور اب پروین بیگم کے نام تھا...

کیا ہوا...... رزم نے پوچھا تو اس نے موبائل آگے کیا.. رزم بھی میسج پڑھ کر پریشان ہوا.

پھر اب..... رزم نے اس کے تیور دیکھ کر پوچھا

میں اپنے سکول گیا تھا... میرے جانے کے فوراً بعد کچھ دنوں میں تاشی نے سکول چھوڑ دیا تھا... اس کے بابا سکول میں ٹیچر تھے... بس یہ پتہ چلا کہ ان کا ٹرانسفر ہوا تھا... کہاں گئے... ساری انفارمیشن اور ریکارڈ غائب ہے... یہ یقیناً ڈیڈ 


کے کرتوت ہیں.

 اس نے نفرت سے دانت بھینچ کر رزم کو بتایا.

رزم کو حیرت ہوئی وہ اتنی سی دیر میں کتنی انفارمیشن نکلوا چکا تھا... لیکن یہ بھی جانتا تھا کہ معاملہ اس کی تاشی کا ہے..

پھر اب.......

پھر اب......... تمھیں لگتا ہے کہ میں پیچھے ہٹوں گا... یشار نے رزم کو دیکھا..

نہیں... لیکن اب چلو... یہاں کوئی کام نہیں ہمارا..

وہ اٹھے... یشار نے ایک حسرت بھری نگاہ پارک میں ڈالی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار خان یوسف تمھیں تکلیف کیا ہے آخر؟رزم  علی نے بھنا کر یشار سے کہا. اور کمرے میں داخل ہوا

کچھ نہیں کیا ہوا.. وہ انجان بنا..اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑا پتا نہیں کس نادیدہ چیز کو گھور رہا تھا..

تم آج پھر یہاں.. اپنے بچپن میں گھسے بیٹھے ہو... اور زونی نے فون کر کر میرے دماغ کی دہی جما رکھی ہے..

ایک تو اس لڑکی کو چین نہیں...وہ بڑبڑایا

تمھیں کونسا ہے...... علی بھی جھنجھلایا ہوا تھا..

مجھے تو تب ہی آئے گا.... جب اس کی ایک جھلک دیکھ لوں گا.. وہ گہری ٹھنڈی سانس بھرتا کھڑکی میں سے علی کی طرف مڑا..

علی کو اس کی سرخ بھوری آنکھوں سے خوف آیا.. برسوں کی وحشت، انتظار، بے چینی،بے سکونی، بے خوابی، تڑپ،کیا نہیں تھا ان آنکھوں میں..

(سب سے بڑا دکھ تو علی کو اس کی طرف سے یہ تھا کہ وہ بےخوابی کا مریض بن چکا تھا... ساری ساری رات نہیں سوتا تھا اسے نیند آتی ہی نہیں تھی...... . حیرت انگیز)

یار جانے دو..... پورا شہر  بلکہ آس پاس کے سارے شہر تمھاری وجہ سے چھلنی کی طرح چھان چکا ہوں... مگر وہ تمھاری سو کالڈ تاشی صاحبہ نہیں ملی.. اب تو انتظار کرنا بند کرو.. علی نے اس نام پہ بے حد برا منہ بنایا.. اگر اس کے بس 


میں ہوتا تو وہ..... یہ نام یشار خان یوسف کی زندگی سے کھرچ کر پھینک دیتا.

وہ کھڑکی میں سے پھر باہر گلی میں متوجہ ہو گیا جہاں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں کھیل رہیں تھیں.. وہ پھر اپنے بچپن میں کہیں کھو گیا........

ی....... یش.... وہ زمین پر بیٹھی بے تحاشا رو رہی تھی .. پھولے پھولے گالوں پر آنسوؤں کی قطاریں تھیں..

دیکھو مجھے چوٹ لگی ہے... مجھے بہت درد ہو رہا ہے.. آٹھ سالہ تاشی نے بڑی بڑی آنسوؤں سے بھری آنکھیں جھپک کر یش کی طرف دیکھا.

گیارہ سالہ یشار نے اس کی سکرٹ اٹھا کر اس کی ٹانگ دیکھی گھٹنے سے تھوڑی نیچے گرنے کی وجہ سے خون کی ننھی بوندیں نکلی ہوئی تھیں..

اپنی برانڈڈ نیو شرٹ اتار کر اس کی چوٹ پر رکھی.

تاشی میں نے کہا تھا.. تمھیں میرا ہینڈ پکڑ لو تو نہیں گرو گی پر... تم میری بات نہیں سنتیں.. یشار کا میٹر اس کی چوٹ دیکھ کر شارٹ ہوا.

تم مجھ پر شاؤٹ کر رہے ہو.. وہ اور زور کے روئی..

اچھا.. سوری... پلیز تاشی.. رونا بند کرو.. اب نہیں شاؤٹ کروں گا تم پر یہ دیکھو میں تمھارے لئے کتنی ساری چاکلیٹس لایا ہوں..لیکن تم جانتی ہو تم انجر ہوتی ہو تو مجھے بھی پین ہوتا ہے..

وہ روتی بسورتی زرا سا خاموش ہوئی.. اسے بازو سے اٹھا کر بینچ پر بٹھایا اور چاکلیٹ کھول کر دی..

چاکلیٹ کھاتے ہوئے اس نے پھر گرے آنکھیں پٹپٹا کر یش کو بولا.

یش آئی پرامس اب میں تمھارا ہینڈ کبھی نہیں چھوڑوں گی..

علی نے اس کی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی... یار واپس آ جاؤ..

وہ گہرے خیال سے اذیت سےتڑپتا باہر آیا...

دو ماہ ہو گئے تھے.. اسے نگر نگر کی خاک چھانتے مگر

ناکامی.... ناکامی اور صرف ناکامی ہی ہاتھ آ رہی تھی..

وہ انگاروں پر گھسیٹ لیا گیا تھا... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اس خباثت اور شیطانیت سے بھر پور چہرہ لئے سانڈ جیسے آدمی نے تھر تھر کانپتے اپنے آدمی کی کنپٹی پر گن رکھی اور ایک سیکنڈ میں اس کا بھیجا اڑا دیا..

جو باقی آدمی اس بھیانک کمرے میں موجود تھے وہ دہشت سے تھر تھر کانپنے لگے..

میرے وفادار کتو......... کیسا لگا یہ سین..ناکامی کی خبر لے کر آیا تھا.. اگر انجوائے کیا ہے تو دوبارہ پیش کروں.. اس کے لہجے میں درندگی تھی..

مم...... معاف کر دیں سر.. معاف کر دیں... ان میں سے ایک شخص نے گھگھیا کر جرم  کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ایس اے کے سامنے ہاتھ جوڑے... ہمم جج...... جلد اسے ڈھونڈ لیں گے....

اب تک تو اس کا سایہ بھی نا ہاتھ لگا تمھارے... بے غیرتو.... کون ہے....... کہاں سے آتا ہے... کہاں جاتا ہے کچھ پتہ نہیں..... طوفان ہے کیا... جو دکھائی نہیں دیتا...... تم اتنے کتے اسلحہ سمیت اسے قابو نہیں کر سکتے اور اس کے پاس 


صرف ایک ہاکی ہوتی ہے.جس سے ایسے شکلیں بگاڑتا ہے کہ بندہ پہچانا نہ جائے . ڈوب مرو حرامخورو........ایس اے نے غصے سے بل کھاتے منہ سے جھاگ اڑائی

وہ سر........ ہم... پپ..... پتہ لگا لیں گے جلد ہی......

پتہ لگاؤ جلدی.تین اڈے تباہ کر چکا ہے... لڑکیاں بھی لے گیا اور ان تک ہم نا پہنچیں اس لئے ان کو غائب بھی کر دیا اب اگر ایک بھی اڈہ اس کے ہاتھ لگا.. تو..... اس ہاکی والے سے  پہلے میں تمھاری شکلیں بگاڑ دوں گا.. ایس اے کی دم پر پہلی 


مرتبہ کسی نے پاؤں رکھا تھا.. اسی لئے وہ غصے سے پھنکار رہا. تھا......

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ سب رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ فون کی بیل بجی.. ماہی نے فون لا کر بابا کو دیا..

لاہور سے قیصر کی کال تھی.. وہ فون سننے صحن میں چلے گئے.

قیصر تم خواہ مخواہ ضد کر رہے ہو..عابد نے سنجیدگی سے کہا..

کچھ خواہ مخواہ نہیں ہے بھائی صاحب... آپ کے ہی مکان کے پیسے تھے جنہیں میں نے انویسٹ کیا تھا اسی کے پرافٹ میں سے لیا ہے میں نے مکان.

لیکن پھر بھی قیصر تمھاری ہاؤسنگ سوسائٹی میں تو بہت مہنگے ہوں گے گھر..

نہیں کچھ مہنگا نہیں لیا میں نے دو منزلہ  ہے... لیکن بہت پیارا مکان ہے.. مجھے پتہ ہے آپ کی خودداری کو میرے مکان میں اپنے پیسے خرچ کرنے سے ٹھیس پہنچتی اسی لئے فکر مت کریں.. آپ کے ہی پیسے تھے سارے..

ٹرانسفر میں کروا چکا ہوں آپ کا.. اب کوئی بہانہ نہیں سنوں گا.. حرا کی بھی طبیعت بہت خراب رہتی ہے..اس مرتبہ بچے کی پیدائش تک ڈاکٹر نے مکمل بیڈ ریسٹ بتایا ہے.. ہمارے اپنے ہمارے قریب ہوں گے تو مجھے تسلی ہو گی... میں کچھ 


عرصے کے لئے باہر جا رہا ہوں.. اسی لئے بس تیاری پکڑیں سامان پیک کریں.. میں خود لینے آؤں گا...

ٹھیک ہے بھئی... جس طرح میرا بھائی مناسب سمجھے.. عابد کی بات سن کر قیصر نے سکھ کا سانس لیا.

زری بکس اپنے سامنے پھیلائے کسی تھیوری میں سر کھپا رہی تھی کہ ماہی بھانپ اڑاتی کافی کے دو مگ لئے کمرے میں آئی..

او میری پیاری بہن... شکریہ تمھیں پتہ ہے اس وقت مجھے کافی کی کتنی طلب ہو رہی تھی..

مائی.. پلییر.. میری ڈول...

زری نے مگن سے انداز میں سر اٹھایا تو ماہی کسی گہری سوچ میں تھی.

کیا ہوا ماہی... بارہ کیوں بج رہے ہیں منہ پر.

تم سنو گی تو تمھارے تو تیرہ ہی بج جائے گے ڈئیر سسٹر

کیا مطلب،؟

تمھیں پتہ ہے زری بابا کا دوبارہ ٹرانسفر ہو گیا ہے لاہور... ہم پھر  شفٹ کر رہے ہیں.. قیصر چاچو نے کروایا ہے.. انھوں نے ہی اپنی گلی کے پاس والی گلی میں مکان لیا ہے ہمارا..

Ohh... No.... Not again

زری کے منہ پر ہوائیاں اڑی.... پتہ نہیں کیوں... لیکن لاہور کا نام ہی اس کے لئے کسی نائٹ مئیر سے کم نہیں تھا.. دو ہی یادیں تھیں لاہور سے جڑی.. ایک اس کا تلخ بچپن دوسرا نوال... دونوں ہی بے حد تلخ یادیں تھیں کے اس کا حلق تک کڑوا ہو 


گیا.

ماہی نے اس کا فق ہوا چہرہ ملاحظہ کیا تو چونک گئی

تمھیں کیا ہوا ہے زری.... کیا بات ہے اتنی پریشان کیوں ہو گئی ہو..

کچھ نہیں ماہی.. پھر سے وہی... نئی جگہ نئے لوگ اور تمھیں پتہ ہے مجھے بھیڑ بھاڑ اور خود کی طرف اٹھتی لوگوں کی عجیب عجیب نظروں سے کس قدر خوف آتا ہے.....

سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ.. گھر میں شیرنی اور باہر یوں خوفزدہ جیسے بھیڑ میں کوئی بچہ کھو گیا ہو..

ایک تو یہ چھوٹا سا علاقہ تھا.. دوسرا ان کا گرلز کالج جو کہ بے حد قریب تھا.. اس لئے یہاں کبھی کوئی مسئلہ ہوا ہی نہیں

اور اب پھر اس کے گلے پر تلوار لٹک گئی تھی.

ریلیکس زری... ہاؤسنگ سوسائٹیز میں اتنی بھیڑ بھاڑ نہیں ہوتی اور یوں بھی وہاں ہم حجاب لیا کریں گے..

اور یہ جو گرے آنکھیں ہیں.. جو چیخ چیخ کر کہتی ہیں کہ آؤ ہمیں دیکھو.. ان کا کیا کروں گی.. وہ اتنی بے زار تھی کہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی.

لینز یوز کر لیا کرنا یار.. جن سے آنکھیں بلیک لگیں.. ماہی کے پاس اس کی ہر پرابلم کا سلوشن تھا.

ہاں یہ ٹھیک ہے.. وہ مطمئن سی ہوئی.. ماہی کی آنکھیں پھیل گئیں وہ تو مزاق میں اسے چھیڑ رہی تھی لیکن وہ تو خود سے اپنے نوخیز حسن سے.اپنی بے حد حسین گرے آنکھوں سے. .لوگوں کی گندی نظروں سے اس قدر خائف تھی کہ ایسا کر 


گزرنے کو تیار ہو گئی تھی.

پھر اگلے دو دن میں ان کی پیکنگ کمپلیٹ ہو گئی تو قیصر چلے آئے انھیں لینے. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار اپنے خفیہ فلیٹ میں لیپ ٹاپ پر بیٹھا.. اہم اور خفیہ فائلز پر کام کر رہا تھا.. کہ رزم جلدی سے اندر داخل ہوا..

کیا خبر ہے....

کام کی خبر ہاتھ لگی ہے... مشن ایس اے کے ایک بہت ہی اہم اڈے اور بندے کالی کا پتہ لگا ہے... ہمیں فوراً نکلنا ہوگا.

کہاں؟

سرگودھا ڈویژن کے پاس ہی چھوٹا سا شہر ہے وہاں..

چلو پھر..... وہ وہاں سے اپنے مخصوص کمرے میں آئے اور اپنا مکمل حلیہ اور چہرہ چینج کر لیا.. اب وہ سادہ سے آوارہ اور لوفر ٹائپ لڑکوں کے حلیہ میں تھے.. چہرے بھی مکمل چینج تھے.. یشار اور رزم لینز لگا کر آنکھوں کا بھی کلر چینج 


کر لیتے تھے

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ بس سے اترے تو رزم نے ایک جانب اشارہ کیا.. آن ڈیوٹی وہ صرف مہارت سے اپنی آنکھوں سے بات کیا کرتے تھے.جینز کی بلو پینٹس اور بلیک ہڈی شرٹس میں دونوں ہاتھ شرٹ کی پاکٹوں میں ڈالے بڑا پر سکون سا سٹائل تھا

کچے پکے جھاڑیوں والے خاردار راستوں سے ہو کر آگے بڑھے.

سامنے کچے میدان میں قطار در قطار کچے  مکان تھے.. ان مکانوں کو بائیں طرف سے کراس کر کے ان کی بیک سائیڈ پر ایک بند مکان تھا.. اینٹوں سے بنا کچا مکان. نہ پلستر تھا نا پینٹ.. لکڑی کے دروازے کے پاس ایک دیو قامت آدمی بیٹھا 


تھا..

اس کے پاس گئے..

کیا بات ہے بابو..... کیوں آئے ہو یہاں.. وہ غرایا.

مال.... مال لینے آئے ہیں.. سنا ہے بلکل نیا اور ان ٹچ مال ملتا ہے یہاں.. یشار بولا

تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے بابو.. جاؤ کہیں اور جاؤ. اپنا کام کرو..

ہمیں مائیکل نے بھیجا ہے.(یشار نے ایس اے کے ایک خاص آدمی کا نام لیا جسے وہ جہنم رسید کر چکا تھا) .یشار پھر بولا.... منہ مانگے دام دیں گے.. استعمال کر کے مال کسی دریا میں پھینک دیں گے.. پولیس کے ہاتھ نہیں لگے گا.

اب اس نے کچھ سوچا.. اور انھیں اندر آنے کا اشارہ کیا.

وہ اندر گئے

سامنے کچا صحن تھا... چھوٹا سا صحن پار کر کے جب وہ ہال میں داخل ہوئے تو وہاں تو کوئی اور ہی دنیا آباد تھی. محل نما وہ کمرہ جس میں دنیا کی ہر آسانش موجود تھی.

پانچ چھ سانڈ نما آدمی تھے... جو گاؤ تکیوں کے سہارے نیم دراز تھے ان میں سے ایک کالا سیاہ سانڈ کی طرح تھا جس کے منہ پر چیچک کے داغ اسے اور بھیانک اور درندہ بناتے تھے.. وہ یقیناً کالی ہوگا

لڑکیاں نیم برہنہ کپڑوں میں نیل و نیل جسم کے ساتھ انھیں سرو کر رہی تھیں.. انھیں اندر آتا دیکھ کر سب ٹھٹھک گئے..

ابے کتے یہ کن کو منہ اٹھائے اندر لے آ رہا ہے.تجھے اجازت کس نے دی کسی کو بھی اندر لانے کی . کالی چلایا

کسٹمر ہیں صاحب..مائیکل نے بھیجا.. منہ مانگے دا...........

ابے حرامخور.... مر گیا ہے مائیکل....

 اب ہلچل سی مچی تھی وہاں... کون ہو تم لوگ.. کالی نے ان پر گن تانی.. جبکہ ان کا اطمینان دیکھ کر سامنے والے عش عش کر اٹھے تھے.

کالی نے رزم پر گولی چلائی.. اس نے بجلی کی سی تیزی سے جھک کر گولی سے اپنا بچاؤ کیا اور ایک پاؤں کی جان لیوا ضرب کالی کی ایڑھی  پر لگائی.. وہ اپنا سانڈ جتنا موٹا جسم لیے اوندھے منہ گرا اور ناک تڑوا بیٹھا...

اسی دوران یشار  اپنی ہُڈی کے پیچھے ہاتھ ڈال کر اپنی  ہاکی نکال چکا تھا ایک چھوٹا سا بٹن پریس کرتے ہی ہاکی  کے سرے سے آدھے حصے تک لوہے کی نوکیلے بلکل چھوٹے چھوٹے کیل نکل آئے  تھے.

اس ہاکی کی دہشت سن سن کر تو دشمن کا خون رگوں میں جما ہوا تھا.. اب بھی اسے ہاکی نکالتے دیکھ سب کی ہوائیاں اڑی تھیں.یعنی یہ وہی طوفان تھا جو اپنے اس مخصوص گیجڈ سے دشمن کو صرف عبرتناک موت دیتا تھا. اپنی درد ناک موت 


بلکل سامنے کھڑی نظر آئی تو تھر تھر کانپنے لگے.. پانچ منٹ لگے تھے یشار کو  ان بزدلوں  کو جہنم واصل کرنے میں.. رزم نے کالی کو دھنکا ہوا تھا.

رزم سٹاپ... مجھے یہ زندہ چاہیے.

وہ پانچ لڑکیاں تھیں جو کہ ایک جانب سہمی کھڑی تھیں..اس جہنم سے اپنی خلاصی ہوتی نظر آئی تو تشکر کے احساس سے پھوٹ پھوٹ کر رو دیں

یشار اور رزم نے ایک بار بھی ان کی جانب نہیں دیکھا تھا..

فوراً پردہ کرو...یشار نے نرمی سے کہا.

اس نے سگنل دے دیا تھا ان کے آدمی پہنچنے ہی والی تھے جگہ کلئیر کرنے..

وہ پانچوں بوکھلا کر ایک کمرے کی جانب بھاگیں.. جب وہ نکلیں تو پورے لباس اور بڑی بڑی چادروں میں تھیں.. ان کی عزتیں محفوظ تھی ابھی...

ان کے آدمی پہنچ چکے تھے... وہ ایس اے کا ایک اور اڈہ تباہ کر کے اسی اطمینان سے اپنی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے وہاں سے نکلتے چلے گئے.

راستے میں چلتے ہوئے رزم نے کہا...

یہاں کچھ دور ایک درگاہ... وہاں چلو گے... سنا ہے بڑی کرامت والی جگہ ہے جو جاتا ہے دل میں سکون لے کر لوٹتا ہے.

چلو..... یشار نے فوراً کہا.

❤️❤️❤️💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

قیصر نے انھیں گاڑیوں میں بٹھایا.. ایک وہ خود ڈرائیو کر رہے تھے اور دوسری ان کا ڈرائیور...

قیصر کے ساتھ منال، اس کی گود میں نوال، زری اور ماہی تھیں... جبکہ ڈرائیور کے ساتھ عابد اور نازیہ بیگم تھے.

گاڑیاں درگاہ کی طرف رواں دواں تھیں.

جانے سے پہلے وہ سلام کر کے جانا چاہتے تھے..

گاڑیاں درگاہ کے چاروں طرف بنے قبرستان کے باہر کھلے میدان میں کھڑی کر کے وہ  آگے بڑھے...

سب خواتین عورتوں والی سائیڈ کی جانب بڑھیں..جبکہ قیصر مردوں والی سائیڈ پر چلے گئے. ابھی وہ فاتحہ پڑھ رہے تھے کہ کسی نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا...

انھوں نے چونک کر پیچھے دیکھا تو ایک عجیب سے حلیے میں انجان مگر خوبصورت سا لڑکا سر پر رومال باندھے انھیں مسکراہٹ لئے دیکھ رہا تھا.

آپ قیصر حسن ہیں ناں...

قیصر حیران ہوئے.

ہاں مگر تمھیں کیسے پتہ...

میں یشار ہوں انکل..... یشار  خان یوسف

قیصر کو خوشگوار حیرت ہوئی.. وہ اس کے بارے میں حرا سے  جانتے تھے تو اندازہ ہو گیا کہ اس نے یہ حلیہ جان بوجھ کر بنایا ہو گا.

وہ دونوں گرم جوشی سے گلے لگے.. رزم نے بھی آگے بڑھ کر مصافحہ کیا.. یشار حیران ہوا وہ یہاں اتنی دور اس درگاہ پر کیا کر رہے تھے.

آپ یہاں کیسے؟

میں اپنے بھائی کی فیملی کو یہاں سے لینے آیا تھا... وہ یہاں سے لاہور شفٹ کر رہے ہیں.

(کاش یشار پوچھ لیتا کہ کونسے بھائی)

لیکن اسے تو ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہو رہی تھی.. جیسے اس کی زندگی یہیں کہیں آس پاس ہو.. اسے عجیب سی وحشت ہوئی.

 اگر کام مکمل ہو گیا ہے تو ہمارے ساتھ آ جاؤ..

نہیں اس کی ضرورت نہیں.. بہت شکریہ. یشار باؤلوں کی طرح ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جب رزم نے ہی جواب دیا.

اوکے تو میں چلتا ہوں.. بھائی انتظار کر رہے ہوں گے.. وہ  بھیڑ ہونے کی وجہ سے پہلے ہی وہاں سے جا چکے تھے.

لمبا سفر کرنا ہے ہمیں نکلنا چاہیے..

وہ وہاں سے نکلے تو خواتین کی طرف سے چار خواتین ان کے ہم قدم ہوئیں. جن کی یشار دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا...

یہاں سکون کی تلاش میں آیا تھا.مگر جانے کیوں مگر ماہی بے آب کی طرح تڑپ گیا تھا..

چلیں........... رزم نے اسے ہلتے ناں دیکھتے ہوئے کہا

نہیں... میں کچھ دیر رکنا چاہتا ہوں.. اوکے میں گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں.. یہ کہہ کو وہ بھی وہاں سے نکلتا چلا گیا..

💟❤️💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟❤️

یشار لال انگارہ آنکھیں موندے درگاہ کے برآمدے کی دیوار سے ٹیک لگائے زمین پر  بیٹھا تھا.. ایک ٹانگ نیچے بچھائے ایک ٹانگ فولڈ کیا اوپر بازو رکھا ہوا تھا سر دیوار سے ٹکائے کچھ سکون محسوس کر رہا تھا.

دس سالوں میں اس نے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ واپس لوٹنے کے بعد اسے تاشی وہاں نہیں ملے گی جہاں وہ اسے چھوڑ کر گیا تھا..

دیوانہ بنا ڈھونڈتا پھرا شہرِ لاہور میں اسے.گلیوں گلیوں . مگر اس کا پتہ نہیں معلوم تھا..

خود پر کسی کی پر جلال نظروں کا ارتکاز محسوس کر کے اس نے نم ہوئی آنکھیں کھولیں تو سامنے برآمدے کے پار بنے حدِ نظر قبرستان کے بیچوں بیچ برگد کے درخت کے نیچے وہ درویش بیٹھا اس کی جانب دیکھ رہا تھا.

بابا نے اشارہ کر کے اسے اپنے پاس بلایا..

وہ بے اختیار اٹھ کر ان کی جانب بڑھا...

ان کے قریب گیا تو انھوں نے جلالی انداز میں اس بیٹھنے کو بولا... یشار مرعوب سا ہوا کچھ تو تھا ان کے چہرے پر پر جلال لیکن پر نور سا...

وہ دو زانو عقیدت سے سر جھکا کر ان کے سامنے بیٹھ گیا..

کیا ڈھونڈ رہے ہو.... بابا کا سرسراتا لہجہ.. یشار نے حیرت سے انھیں دیکھا.

وہ مبہم سا مسکرائے....

حیران مت ہو بچے.. اللہ والے ہیں.. ماتھا دیکھ کر دلوں کے حال جان لیتے ہیں..

بابا... بابا.. پھر بتائیں جو ڈھونڈ رہا ہوں وہ کب ملے گا مجھے...

وہ پھر سے مسکرائے.لیکن آنکھیں میں جلال تھا..

یہ تو ڈھونڈنے والے کی تڑپ اور طلب پر منحصر ہے کہ وہ کتنی شدت سے اپنی منزل ڈھونڈ رہا ہے.

لیکن فکر مت کرو.تمھاری تڑپ... منزل کو وہیں کھینچ لائے گی ..  جہاں اسے کھویا تھا..

یشار بے تحاشا چونکا..اور ان کی بات سمجھ کر اندر روح تک سکون آیا.. پتہ نہیں کیوں..

بابا پھر بولے

تمھیں پتہ ہے بچے..... ع کے بعد غ کیوں آتا ہے... کیونکہ عشق کے بعد غم تو پہلے سے ہی طے ہے... آگ کا دریا ہے... جسے پار کرنے میں جان پر بن جائے گی..

تیرے ماتھے پر لکھا ہے.. 

کڑا امتحان دو گے...عشق میں .آگ کے دریا سے گزرو گے..انگاروں کی بھٹی میں جلو گے... قدم نہیں لڑکھڑانے چاہیں.. ننگی تلوار پر چلنے جیسا ہوگا یہ امتحان

دے لو گے؟بابا کے لہجے میں جیسے چیلنج تھا.

وہ گہرا سا مسکرایا

دنیا کا کوئی درد کوئی تکلیف مجھے میرے عشق کے امتحان دینے سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا بابا..

دیکھ لو....... پاس ہوئے تو منزل ملے گی... فیل ہوئے تو منزل دور ہوگی تجھ سے.... فنا ہو جائے گی.. مر جائے گی...

یشار کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچا..

نہیں... نہیں.. بابا میں پاس ہو کر دکھاؤں گا... کبھی فیل نہیں ہوں گا...

ٹھیک ہے.. ٹھیک ہے...جاؤ.. اب ہماری عبادت کا وقت ہے...

وہ جو ماہی بے آب کی طرح تڑپتا یہاں آیا تھا.. کچھ سکون ملا تھا اسے.. وہ پھر سے آ کر اپنی سابقہ پوزیشن میں بیٹھ گیا..

ہر سانس  تاشی تاشی پکار رہی تھی ...روح میں اس کی خوشبو معلق تھی.. اس کا عشق رگوں میں خون بن کر دوڑ رہا تھا .. اسے خوف

تاشی ناراض ہو گی مجھ سے.. میں اسے چھوڑ کر گیا تھا.. بتایا بھی نہیں.. پر منا لوں گا اسے.. وہ مان جائے گی... اسے ماننا ہی ہوگا... وہ ٹھیک تو ہوگی ناں... بلکل ٹھیک ہوگی

. میرے لئے...

صرف اور صرف میری تاشی...

ابھی ابھی اسے لگا تھا وہ اس کے آس پاس ہے.. وہ اس کی موجودگی محسوس کر سکتا تھا.. بچپن میں بھی جب وہ پارک میں اس سے پہلے آ کر چھپ جاتی تھی تو محسوس کر لیتا تھا کہ تاشی آ چکی ہے مگر اس سے چھپی ہوئی ہے. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟❤️❤️❤️❤️

لو جی  جناب پہنچ گئے گھر... حرا کے پاس چلتے ہیں.. ویٹ کر رہی ہو گی..

پلیز قیصر چاچو مجھے وہاں نہیں جانا مجھے اپنے گھر جانا ہے.. منال نے پہلو بدلتے ہوئے کہا.

ٹھیک ہے منال... انھوں نے اس کی حالت سمجھتے ہوئے کہا اور انھیں اگلی گلی میں ان کے گھر لے گئے.

جہاں پہلے سے سامان صحن میں رکھا تھا.. گاڑی اندر پورچ میں داخل ہوئی..

زری اور ماہی تیزی سے نکل کر باہر آئیں.

راستے بھر کی جو کوفت پریشانی اور گھبراہٹ تھی اپنا دس مرلے پر بنا اتنا خوبصورت گھر دیکھ کر سیکنڈوں میں ہوا ہوئی تھی.. اب چہروں پر دبا دبا جوش اور خوشی تھی.

چھوٹا سا لان تھا.. وہ گھوم پھر کر سارا جائز لینے لگیں.

پھر اندر گئیں.. چھوٹا سا لاؤنج اور پھر ان کے پیچھے بنے چار کمرے.. اور ایک طرف کچن تھا..

عابد اور نازیہ اپنے بچوں کے چہرے پر خوشی دیکھ کر نہال ہوئے...

لاؤنج کے ایک جانب اوپر جاتی سیڑھیاں دیکھیں تو زری اور ماہی اوپر بھاگ گئیں اوپر بھی تین کمرے تھے..

ماہی میں تو ٹیرس والا کمرہ لینے والی ہوں.. اففف اتنا پیارا گھر ہے ہمارا.. زری نے بچوں کی طرح خوش ہو کر کمروں کا جائزہ لیا.....

ہاں بہت پیارا گھر ہے.... ماہی بھی اکسائیٹڈ تھی.

وہ دوبارہ نیچے آئیں.. اتنے میں حرا اور اس کے پانچ سالہ بیٹا محسن اور بیٹی نائفہ بھی ساتھ ہی تھیں. وہ کھانا لے کر آئی تھی.. سب سے مل کر وہ زری کی جانب آئیں تو مبہوت رہ گئیں..

بابھی کیا یہ وہی ڈول ہے جس کا نام زرتاشہ ہے..حرا نے اس کا گال چھوا.. کم حسین تو ماہی بھی  نہیں تھی.. مگر زری کی گرے آئیز اسے سب سے منفرد بناتی تھیں 

حرا کی بات پر نازیہ مسکرا دیں.. محسن اور نائفہ بھی اس کے پاس آئے اور نائفہ نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا.. وہ گھنٹوں کے بل بیٹھ گئی تو نائفہ نے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اس کے گال چھوئے..

مما یہ تو بلکل میری باربی ڈول جیسی ہیں بلکل... دودھیا رنگت.. براؤن بال اور گرے آنکھیں.. خوبصورت تیکھے نین نقش.. نائفہ نے حیرت سے اپنی ماں کو کہا تو سب ہنس دئیے..

اور کم پیاری تو یہ ڈول بھی نہیں ہے.. زری نے پیار سے اس کے گال پہ بوسہ دیا.. تو انھوں نے ہاتھ آگے کیے

فرینڈز...

یس.... فرینڈز... زری نے ان کے چھوٹے پیارے سے ہاتھ محبت سے تھامے..تو دو سالہ نوال اپنی آنی کو کسی اور کے ساتھ فری ہوتے دیکھ اب زیادہ برداشت نہ کر پائی... اور آ کر پورے حق سے اس کی گود میں سوار ہو گئی.. پھولے گالوں 


والی وہ پیاری سی خوبصورت بچی بھی محسن اور نائفہ کو بہت پسند آئی.. 

بہت خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا.

بچے آپس میں گھل مل گئے اب نوال نائفہ اور محسن کے ساتھ کھیلنے میں مگن تھی...

حرا تمھاری بچوں کو پڑھانے والی ٹینش تو دور ہو گئی ہے... میں نے آتے وقت گاڑی میں ان کے لئے ایک ٹیچر ہائر کر لی ہے... جو کہ بے حد ذہین ہے..قیصر نے بہت پیار سے زری کی جانب دیکھا تو مسکرا دی.

بھئی میں تو سکھ کا سانس لوں گی.. اگر ان آفتوں کو کوئی کنٹرول کر لے تو.. حرا  جو اسپیکٹ کر رہی تھی.. طبیعت خراب رہتی تھی. اب یہ سن کر سکون کا سانس لیا تھا.

وہ پہلے ہی گاڑی میں میں اس سے بات کر چکے تو وہ خوشی خوشی مان گئ

پھر اگلا ایک ہفتہ بے حد تھکا دینے والا تھا.. عابد حسین نے اپنی ڈیوٹی جوائن کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن کے لئے کوششیں کی ہوئیں تھیں.

گھر کی سیٹنگ میں سب کی جان ہلکان ہو گئی.. حرا کی طبیعت کچھ اور بگڑی تو ماہی اور زری اکثر اس کے پاس قیصر منزل چلی جایا کرتیں تھیں.

زری نے بے حد شرارتی محسن اور نائفہ کو بھی قابو کر لیا تھا.. اور انھیں روز دو گھنٹے پڑھا رہی تھی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار اور رزم ایک مخصوص علاقے میں ایک گھر میں داخل ہوئے.... ایک  نیم تاریک راہداری سے ہو کر  وہ ایک ہال میں داخل ہوئے... رزم نے زمین سےکارپٹ ہٹایا اور ایک دروازہ کھولا.. بیسمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے..

یہ ان کا ٹاچر سیل تھا جہاں بڑے بڑے سورما یشار کے سامنے طوطے کی طرح فر فر بول پڑتے تھے.

سامنے ہی کالی ایک کرسی سے جکڑ کر بندھا ہوا تھا.آج بے بس تھا.... مگر ان لوگوں نے سنا تھا کہ اس کا طریقہ واردات انتہائی بھیانک تھا..... جانے کتنی ہی تتلیوں کو  پہلے کسٹمر کو دیتے تھے.. پھر وہاں سے لا کر سب خود درندگی کا نشان 


بنا کر دریا میں پھینک دیتے تھے.. 

. ایک طرف فرید ہاتھ باندھے کھڑا تھا..

یشار کے اشارہ کرنے پر فرید نے اس کے منہ پر سے ٹیپ کھینچ کر اتاری.. وہ بلبلا گیا..اور غرایا

کون ہو تم.. جانتے ہو میں کس کا آدمی ہوں.. ایس اے... ایس اے کا

میں ایس اے کا باپ ہوں... تم سے نمٹ کر پھر اسی کی باری ہے.وومن ٹریفکینگ میں اس کا نیٹ ورک کافی سٹرونگ ہے.. . اب صرف دو منٹ ہیں تمھارے پاس ایس اے کے بارے میں جتنا جانتے ہو منہ کھول دو تو سکون میں رہو گے ورنہ میں 


دوسری مرتبہ ہر گز آفر نہیں دیتا..یشار مخصوص سٹائل میں اپنی ہاکی اپنی انگلیوں میں گول گول گھما رہا تھا.. 

سرسراتا سرد لہجہ، بلیک ہُڈی میں رومال سے باندھا گیا منہ.. صرف شعلہ برساتی دو براؤن آنکھیں نظر آ رہی تھی.. دوسرا جو اس کے پیچھےاطمینان سے پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا.. تقریباً سیم حلیہ تھا پر اس کی آنکھیں سبز تھیں.. کالی کی 


ریڑھ کی ہڈی میں  خوف سے سنساہٹ ہوئی..  

جو کرنا ہے کر لو میں کچھ نہیں بتانے والا...

او رئیلی.. یشار نے فرید کو اشارہ کیا.. اس نے دوبارہ اس کے منہ پر ٹیپ لگا دی.. اور اس کے ہاتھ میں ایک تیز دھار کٹر تھمایا..

یشار نے کرسی پر باندھے گئے ہاتھ کو پکڑ کر پہلے اس کی ایک انگلی کاٹی... وہ تڑپا.. پھر دوسری... درد کی شدت سے چہرہ سیاہ سے سیاہ ترین ہوا. اور پھر تیسری.. اب کی بار تو اس کی گلے کی رگیں یوں تنی جیسے ابھی پھٹ پڑیں گی.. 


اسے اس پاگل آدمی سے اپنی خلاصی اسی میں نظر آئی کے زور زور کے اثبات میں سر ہلانے لگا. کہ وہ بتائے گا.........

یشار تمسخرانہ مسکرایا.. فرید نے آ کر ٹیپ اتاری تو پہلے تو وہ جی بھر کر چلایا یشار نے کٹر پھر اس کے ہاتھ کی جانب بڑھایا تو وہ پوپٹ کی طرح بول پڑا.

ہم نے کبھی ایس اے کو براہ راست نہیں دیکھا.. کبھی کوئی آدمی ہوتا ہے کبھی کوئی.. جو خود کو ایس اے کہتا ہے.. مگر ایک بزنس مین ہے سعید نامی  جو ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہتا ہے.. ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں... اسی سے رابطہ ہوتا 


ہے ہمارا.. اس نے ضرور اصلی ایس اے کو دیکھا ہوگا...اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا..

ہمم... گڈ... اگر اس کے علاوہ تم کچھ نہیں جانتے تو میرے کسی کام کے نہیں

کیا مطلب وہ چونکا..

فرید نے اس کے منہ پر ٹیپ لگائی..

یشار اور رزم وہاں سے نکلتے چلے گئے.. باقی کا کام فرید کا تھا جو اب تک اس درندے کو جہنم واصل کر چکا تھا.

یشار اور رزم آ کر گاڑی میں بیٹھے اور گاڑی زن سے بھگائی

سعید....یعنی ایس... اس کا مطلب یہ بھی ایس اے ہو سکتا ہے... یشار نے کہا..

ہمم. ہوم ورک کرنا پڑے گا.. اس کے بارے میں.. پھر ہی ہاتھ ڈالیں گے اس پر..

یشار چونکا... مجھے یاد آیا وہ جس ہاؤسنگ سوسائٹی کا نام لے رہا تھا وہاں تو حرا پھپھو بھی رہتی ہیں.

چلو یہ بھی اچھا ہو گیا اب وہاں رہ کر ہم یہ کام کر سکتے ہیں.. رزم نے لیپ ٹاپ آن کیا

یہ تو ہے...

یشار زونی تم میں انٹرسٹڈ ہے یار..انھوں نے اپنی ساتھی انٹیلیجنس آفیسر زونیہ ملک کا نام لیا.. جو ان کی مشترکہ فرینڈ بھی تھی.. 

مجھے پتہ ہے مگر میں نہیں ہوں.. یشار نے سنجیدگی سے کہا..

اس نے شمس لالہ سے بھی بات کر لی ہے.. تم سے شادی کے بارے میں..رزم نے بتایا تو یشار چونکا پھر دانت پیسے..

دماغ خراب ہو گیا ہے.. اس لڑکی کا..

اور تمھارا ٹھیک ہے جو کہ ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو.....

وہ سراب نہیں میری زندگی ہے... رزم مائینڈ اٹ

رئیلی... کدھر ہے..

یہاں.. یشار نے اپنے دل کی طرف اشارہ کیا تو رزم کا دل کیا ماتھا پیٹ لے.

وہ کرب سے مسکرا دیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

حرا پھپھو...... میں آپ کا دور کا رشتہ دار یوسف ہوں اور یہ علی..اور ہم یہاں بیرونی ملک سے گھومنے آئے ہیں . آپ سمجھ رہی ہیں ناں میری بات...

ہاں ہاں سمجھ رہی ہوں... کل کے پیدا ہوئے لڑکے... مجھے سمجھا رہے ہو.. جانتی ہوں تم لوگوں نے اپنی پہچان چھپانی ہے.اور یہ عجیب عجیب شکلیں بھی اسی لئے بنائے گھوم رہے ہو.. بلکل یشار اور رزم نہیں لگ رہے... حرا نے یشار کا کان 


مروڑا مگر اس پہ خاطر خواہ اثر نہیں ہوا.

وہ کچھ دیر پہلے ہی قیصر منزل پہنچے تھے.اپنے اپنے چھوٹے سفری بیگ لے کر جیسے باہر سے آئے ہوں . اور اب وہ حرا کو تمام تفصیل بتا کر اسے سمجھا رہا تھا.

اس کے آنے پر حرا نے اسے چٹا چٹ چوم ڈالا تھا.

تم لوگ اوپر والے کمرے میں چلے جاؤ.. جب سے نوال گئی وہ کمرہ یونہی ویران پڑا ہے.. وہ کوئی آتا جاتا نہیں ہے..ان کے لہجے میں حسرتیں تھیں 

نوال کے نام پر یشار چونکا..

یو مین پھپھو.. نوال بھابھی...

ہاں وہی بد قسمت... جو تمھارے باپ اور میرے بھائی کی انا کی بھینٹ چڑھ گئی.. اور اب سب کچھ کھو کر بھی جن کی اکڑ ہنوز برقرار ہے..حرا نے نفرت سے کہا

یشار نے لب بھینچے... کوئی بات نہیں پھپھو.. جو جھکتا نہیں وہ ٹوٹ جاتا ہے.

وہ اوپر آئے.. اور کمرے میں سامان رکھا....

یشار فریش ہونے چلا گیا جبکہ رزم نے آنکھیں موند کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی.

کانوں میں ایک نسوانی آواز اور کھلاہٹ سنائی دی.

رازی... میں تو تمھیں ایسے تنگ کروں گی...کھلکھلاہٹ....

کیا کروں گے..مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے تم آئے بڑے سورما.. 

جاؤ میں نہیں بولتی.. منہ پھولا ہوا.

پھر یہی کھلاہٹیں درد ناک چیخوں میں بدل گئیں..

راضی. میری پرواہ مت کرنا... ان درندوں کو ان کے انجام تک پہنچانا.

سسکیاں.. آہیں... بین... راضی میں بہت تکلیف میں ہوں..

دلدوز چیخیں..مجھے موت دے دو

رزم گھبرا کر اٹھ بیٹھا..... ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے..

یشار جو کے نہا کر نکلا تھا پھر اسے اذیت کی حدیں چھوتا دیکھ پاس آیا اور کندھے پر ہاتھ رکھا..

یقین کیوں نہیں کر لیتے کہ وہ سب تقدیر کا فیصلہ تھا... اس میں تمھاری کوئی غلطی نہیں تھی....

وہ لال انگارہ نم  آنکھوں سے  اسے دیکھتے تلخی سے مسکرایا.

اٹس اوکے.... میں ٹھیک ہوں.. رزم نے تسلی دی.. یشار بھی وحشت زدہ سا ہو کر باہر نکلا...

باہر چھوٹا سا صحن تھا.... خوبصورت گملے اور پودے رکھے ہوئے تھے.

وہ یونہی جائزہ سا لیتا باہر آیا.. سامنے گلاس وال کے پاس  گملے رکھے ہوئے تھے.. وہ گلاس وال کے قریب گیا.. اوپر کھڑے ہو کر ارد گرد ہر چیز کا جائزہ لیا...

پھر نظر سامنے گیٹ پر پڑی... اور جیسے پلٹنا بھول ہی گئی.. گرے اور ریڈ کمبینیشن میں کرتی اور پٹیالہ شلوار پہنے. ریڈ اور گرے سکارف سے حجاب باندھے  دودھیا رنگت اور بلیک آنکھوں والی وہ لڑکی گیٹ سے اندر داخل ہو رہی تھی..

کچھ تو تھا.

کوئی خاص بات

کچھ عجیب سی کشش کہ وہ نظریں نہیں ہٹا پا رہا تھا.. خود کو سرزنش کر کے دوسری جانب دیکھنے کی کوشش کی مگر نظر بھٹک بھٹک کر پھر نیچے کی طرف طواف کر رہی تھی.

کیا میں صرف اس کے حسن سے متاثر ہو رہا ہوں.. تف ہے میری سوچ پر..

مگر ایسا ہر گز نہیں تھا.... ایک سے ایک حسین ترین لڑکی دیکھی تھی اس نے لندن میں مگر یوں کبھی بے اختیار نہیں ہوا تھا

ویسے میری تاشی میرے خیال کے مطابق بلکل ایسی ہوتی.. آنکھیں بس گرے ہوں تو...اب وہ لڑکی لان میں بیٹھی نائفہ اور محسن کو پڑھا رہی تھی. 

اففف لعنت ہے میری سوچ پر...اب وہ دل ہی دل میں سخت کوفت میں مبتلا ہو چکا تھا خود سے بھی اور اس لڑکی سے بھی.. پھر ایک جھٹکا سے وہاں سے ہٹتا چلا گیا.

اندر  آ کر بیڈ پر ڈھے گیا.

اپنی سوچوں پر لعنت بھیجی... کیا مجھے میری تاشی کے علاوہ بھی کسی لڑکی میں اتنی کشش محسوس ہو سکتی ہے...

دماغ خراب ہو گیا ہے میرا...... Shhitttttttttttttt.

تنگ آ کر تکیے میں منہ دیا.. رزم اس کی حرکتیں دیکھ کر حیران ہوا. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری بچوں کو پڑھا رہی تھی جب اپنے وجود کو کسی کی نظر کے حصار میں محسوس کیا..

اس نے ادھر ادھر دیکھا... مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا

وہ سر جھٹک کر پھر پڑھانے میں مگن ہو گئی...

یشار کو بلکل بھی  سکون نہ آیا ایک عجیب سی بے چینی اور بے سکونی سی تھی..

دل ہمک ہمک کر چاہ رہا تھا کہ وہ اٹھے اور گلاس وال کے قریب جا کر کھڑا ہو جائے..بھنا کر اٹھا...

تن فن کرتا لاؤنج سے نیچے اترا..... اور لان میں نکل آیا..

اب لان میں حرا بھی موجود تھی......

آؤ یوسف.... بیٹھو ادھر آکر.... حرا نے کہا.. تو وہ یونہی پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ دیئے.. تھوڑا آگے ہوا...

سوالیہ نگاہوں سے حرا کی آنکھوں میں دیکھا جیسے پوچھ رہا ہو یہ نمونہ کون ہے.

زری نے بچوں سے نظریں ہٹا کر دیکھا تو ایک اول جلول سے حلیے میں لڑکا اسی کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھتا دکھائی دیا.. زری کو اس کے حلیے پر ہنسی آئی

مگر اس کی سرد بے تاثر سبز آنکھوں میں کچھ تو تھا جو وہ چونک گئی.

زری ان سے ملو... یہ میری خالہ کے دیور کا بیٹا یوسف ہے... باہر سے یہاں گھومنے آیا ہے اور یوسف اس سے ملو یہ زری ہے  قیصر کے بھائی کی بیٹی...

حرا نے تعارف کروایا تو

ہائے... زری نے رسماً بول دیا.

مگر وہ منہ کے زاویے بگاڑتا مڑا..... اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا گیٹ سے نکلتا چلا گیا

افف کیا ہو کیا رہا ہے مجھے... میں تاشی کے علاوہ کیوں کسی کو اپنے دل و دماغ پر اتنا سوار کر رہا ہوں.

وہ یونہی آگ کو گولہ بنا سڑکیں ناپتا پھرتا رہا..تاشی حرا پھپھو کے گھر کیسے ہو سکتی..

وہ قیصر کے بھائی کی بیٹی کیسے ہوسکتی......... ناممکن...

اففففف آج تو پاگل ہو جائے گا یشار خان یوسف...... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح یشار کی آنکھ کھلی توطبیعت بوجھل ہی تھی.. رات گئے تک وہ خود سے خفا خفا پھرتا رہا کل جو اس پر بیت گئی تھی وہ کبھی نہیں ہوا تھا اس کے ساتھ اسی لئے بے چین سا تھا..اپنے کام پر بھی کانسٹریٹ نہیں کر پا رہا تھا.

رزم بھی نوٹ کررہا تھا... پر خاموش تھا.. اسے پتہ تھا اسے وقفے وقفے سے تاشی نامی دورے پڑتے رہتے تھے.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

حرا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی.دن کے تین بج رہے تھے وہ لنچ بھی نہیں بنا پائی تھی. قیصر تو دو دن پہلے ہی چلے گئے تھے دبئی بزنس کے سلسلے میں .

 اس نے فون اٹھایا اور زری کا نمبر ملایا...یہ سوچ کر کے وہ کالج سے آ کر فری ہوگی.. ویسے بھی وہ کچھ دیر تک بچوں کو پڑھانے آنے والی تھی.

جی میری ینگ سی چچی کیا حکم ہے.. سلام دعا کے بعد زری چہکی..

زری بیٹا. میری طبیعت خراب ہے یار.. پلیز آ جاؤ.. مہمان بھی آئے ہیں میں تو لنچ بھی نہیں بنا سکی.. ماہ رخ کو بھی لے آنا.. حرا کے بوجھل لہجے میں لجاجت تھی

ہم ابھی آئے... آپ فکر ناں کریں چچی جان ...

یہ کہہ کر زری نے فون رکھا..

ماہی چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں کھانا بھی بنانا ہے.. منال آپی تو جائیں گی نہیں.. ہم جا کر ہیلپ کروا دیتے ہیں پھر بچوں کو پڑھا کر واپس آ جائیں گے. زری نے بال سمیٹتے پونی ٹیل بنائی.. حلیہ دیکھا تو ٹھیک ہی تھا.. ہاف وائٹ فراک کے نیچے 


پاجامہ.. اوپر جلدی سے وائٹ اور شاکنگ حجاب اوڑھا..ماہی بھی تقریباً سیم حلیے میں تھی پر اس کے ڈریس کا کلر فیروزی تھا.زری لینز جو لگاتی تھی تو بچوں کو پڑھا کر آ کر ہی اتارتی تھی.

تم تیار ہو جاؤ میں مما کو بول دوں.. یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں سے نکلی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے نازیہ بیگم کہ پاس آئی..

ٹھیک ہے جاؤ... اپنا اور حرا کا خیال رکھنا.. نازیہ نے ان دونوں کا ماتھا چوما..

وہ باہر نکلنے لگیں تو نوال جو کہ ان کے پیچھے تھی بازو اوپر پھیلائے دھاڑیں مار مار کر رونے لگی. زری نے چونک کر پیچھے دیکھا..

او میری گڑیا رانی... آنی کے ساتھ جانا ہے.. چلو.. ہم نہیں چھوڑ کر جائیں گے تمھیں... اس نے نوال کے آنسو صاف کیے.. تیار تو وہ بھی تھی.. بے بی پنک فراک کے نیچے گھنٹوں تک سکرٹ پہنے وہ بلکل گڑیا لگ رہی تھی.

منال آپی... ہم نوال بے بی کو ساتھ لے جا رہے ہیں.. یہ رو رہی ہے ساتھ جانے کے لیے..

ٹھیک ہے زری لے جاؤ.. منال نے کچن سے جھانک کر کہا.

وہ باہر نکلیں... بہت تیز ہوا چل رہی تھی.... مٹی.. تنکے زرات ہوا کے ساتھ اڑ رہے تھے..

وہ قیصرمنزل پہنچیں.... تو سیدھا لاؤنج میں آ گئیں. حرا بھی وہیں صوفے پر نڈھال سی بیٹھی تھی.. .. زری کی آنکھیں لال انگارہ ہو چکی تھیں.. لینز والی آنکھوں میں شاید مٹی یا کوئی تنکا چلا گیا تھا روانی سے پانی بہہ رہا تھا

زری یہ کیا ہوا ہے...

شاید تنکا چلا گیا ہے..

فوراً لینز ریموو کرو... اور پانی کے چھینٹے مارو جا کر.. میں تو اس وقت کو ہی کوس رہی ہوں جب تمھیں یہ نایاب مشورہ دیا تھا میں نے.. ماہی پریشان ہوئی.حرا بھی فکر مند ہوئی...

ہم کچن میں جا رہے ہیں.. فریش ہو کر کچھ دیر اندر کمرے میں بیٹھو.. جب آنکھیں اسٹیبل ہوں جائیں تو آ جانا کچن میں... چلو شاباش.. حرا نے اسے واش روم روانہ کیا.

اور خود کچن میں چلی گئیں.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آج پھر یشار کی بے چینی حد سے سوا تھی.. ہر ممکن کوشش کر رہا تھا تاشی کو ڈھونڈنے کی.پنجاب کے باقی شہروں میں بھی ڈھونڈ رہا تھا پر جب سے بابا جی سے ملاقات ہوئی تھی صرف لاہور میں ہی دوبارہ کوشش شروع کر دی تھی..

رزم ان گلیوں کا راؤنڈ لگانے گیا تھا  تاکہ سعید کا پتہ چل سکے..

اس کا لاشعور کسی کا بے چینی سے منتظر تھا...جب دم سا گھٹنے لگا تو لیپ ٹاپ لئے لاؤنج سے نیچے آیا.. کچن سے کھٹر پٹر کی آوازیں آئیں تو لاؤنج سے ملحقہ دو کمروں میں سے ایک میں چلا گیا..ملگجہ سا اندھیرا تھا.. جبکہ ساتھ والا روم 


میں دو تین انرجی سیورز کے آن ہونے سے بہت تیز روشنی تھی. صوفے پر بیٹھا.. سامنے کھڑکی میں سے گیٹ کا منظر واضح دکھائی دے رہا تھا.اور بائیں جانب سے دوسرا کمرہ تھا جس کے گلاس ڈور سے کمرے کا پورا منظر دکھ رہا تھا...

ٹیبل پر لیپ ٹاپ رکھا...ابھی کام شروع کرنے والا تھا کہ فون رنگ ہو.

فرید کی کال تھی.. جس کامطلب کال اہم تھی. اس نے فون یس کر کے کان کو لگایا

یس.. فرید... بولو

سر ایک گڈ نیوز ہے آپ کے لیے... فرید کے لہجے میں جوش تھا..

یشار چونکا..... کیا؟

سر ابھی کچھ دن پہلے یہاں ایک گورنمنٹ سکول میں عابد حسین صاحب نے اپنی ڈیوٹی جوائن کی ہے.. اور زرتاشہ عابد میم کا میڈکل کالج میں ایڈمیشن ہوا ہے.. ریکارڈز بتا رہے ہیں..

یشار کی روح تک میں سکون اترا.. آنکھیں موند کر صوفے سے ٹیک لگائی..

تھینک یو سو مچ... فرید مجھے اتنی اچھی نیوز سنانے کے لئے.

آگے کیا حکم ہے سر..

دونوں ریکارڈز میں سے ایڈریس دیکھو.. اگر میچ کرتے ہیں تو فوراً مجھے سینڈ کرو تمھارے پاس پانچ منٹ ہیں اور اس سے زیادہ میں پیشنس نہیں رکھ سکتا..

اوکے سر.. سمجھیں ہو گیا... فرید نے فون رکھا.. اب یہ پانچ منٹ بھی اس کے لئے پل صراط پہ سے گزرنے کے مترادف تھے...

اٹھا اور بالوں میں انگلیاں پھیرتا... ادھر سے ادھر چکر کاٹنے لگا...  اچانک مڑا تو سامنے کمرے میں وہ منظر دکھائی دیا کہ دونوں جہان اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گئے.

زری نے لینز ریموو کیے اور  ٹھنڈے پانی کے چھینٹے آنکھوں میں مار مار کر بے حال ہو گئی پر جلن تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی...

افففف. میرے بابا کی توبہ جو پھر کبھی یہ خرافات پالی میں نے تو.وہ سخت جھنجھنلائی ہوئی تھی . آخر کافی کھپنے کہ بعد جلن کم ہوئی اور آنکھوں کی سرخی بھی کم ہوئی... تو زرا سکون ملا.. وہ دوپٹے سے چہرہ تھپتھپاتی باہر نکلی حجاب اور 


دوپٹہ صوفے پر رکھا اور گلاس ڈور کے قریب  بائیں جانب نصب خوبصورت آئینے کی طرف بڑھی..

یشار اندھیرے کمرے میں بے تحاشا حیرت سے سامنے گلاس ڈور کے اس طرف قیامت خیز منظر دیکھ رہا تھا.. دوپٹے سے چہرہ تھپتھپاتی وہ باہر نکل تھی.. پھر جب نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو

وقت

لمحے

یہاں تک کے صدیاں ٹھہر گئی تھی.. وہ ان گرے آنکھوں کو غور سے دیکھ رہا تھا... پھر وہ گلاس ڈور کے قریب آئی.. تو وہ بھی اندھیرے میں چند قدم آگے گیا.. وہ اس کے بلکل سامنے ایسے کھڑی تھی کہ اس کی بائیں سائیڈ یشار کے سامنے تھی

چہرے کے ساتھ بال بھی گیلے ہو گئے تھے..کہ جب اس نے اپنےبے حد لمبے گھنے براؤن بال بائیں جانب سے سمیٹ کر دائیں طرف گرائے..اور ان میں انگلیوں سے برش کرنے لگی

یشار کی نظر اس کی گردن پر پڑی تھی تب اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ سی محسوس ہوئی.

 اس کی آنکھوں کے بلکل سامنے وہ تل پوری آب و تاب سے اس کی صراحی دار گردن پر جگمگا رہا تھا جسے بچپن میں سینکڑوں بار اس نے اپنی انگلی سے چھو کر دیکھا تھا.

تاشی.... یشار کے لب کپکپائے... وہ اب بالوں کی پونی ٹیل کر رہی تھی.

وہ دوپٹے کے بغیر اپنی تمام تر نزاکتوں اور رعنائیوں سمیت  کھڑی تھی..

مگر یشار کی نظر نے کوئی گستاخی نہیں کی تھی.. اس کی نظر تو بس  اپنی تاشی کی گرے آنکھوں اور اس قاتل تل میں الجھی ہوئی تھیں...

زری گھبرائی... جیسے خود کو کسی کی سلگتی پر حدت نگاہوں کے حصار میں محسوس کیا...

مگر خود کے ڈرپوک طبیعت کو دل میں کوسا... وہاں تو کوئی نہیں تھا...

یشار نے اسے گھبراتے دیکھا تو ہونٹوں پر دلفریب سی مسکان سجی...

اسے دیکھتے رہنے کی خواہش رگوں میں خون بن کر دوڑی.

سویا تھا رگ رگ میں اب یہ جگ گیا...

لہو منہ لگ گیا..........

میری جان... مجھے اپنے آس پاس محسوس کرو..

یشار کو اپنے دل پر بھی ٹوٹ کر پیار آیا.. وہ تو کل کا ہی ہمک ہمک کر بول رہا تھا اسے دیکھو پہچانو..

وہ یہ کیسے بھول گیا کہ وہ کشش اور اٹریکشن جو اس نے کل محسوس کی وہ دنیا میں تاشی کے وجود کے علاوہ اسے کسی میں بھی محسوس نہیں ہو سکتی..

اس کی روح نے اسے محسوس کر لیا تھا.. مگر اتنا ٹینس تھا کہ دل کی سنی ہی نہیں.

اتنا ٹینس کہ کل لان میں کھڑا ہو کر حرا سے ہی ڈیٹیل پوچھ لیتا.

زری........ میری زرتاشہ.... میری تاشی..

وہ حجاب اور دوپٹہ اٹھا کر جا چکی تھی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

کچن میں آئی تو ماہی نے چکن پلاؤ دم پر لگائی ہوئی تھی.. اب سلاد بنا رہی تھی. حرا ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھی تھیں اور نوال پاس ہی کھیل رہی تھی

لاؤ میں رائتہ بنا لوں.. زری آگے بڑھی.

اب ٹھیک ہو.....

ہاں میں ٹھیک ہوں....

زری نے رائتہ بنایا.....تو انھوں نے کھانا ٹیبل پر لگا دیا

آپ اور آپ کے مہمان کھانا کھائیں.. ہم بچوں کو دیکھ لیں.. انھوں نے لنچ باکس میں سے کھا لیا ہوگا.

ارے تم لوگ تو کھاؤ. حرا نے اصرار کیا..

ہم نے تو کالج سے آ کر کھا لیا تھا چچی... آپ لوگ کھائیں.. وہ دونوں نوال کو لئے لان میں آ گئیں...

یشار کچن میں آیا...  نظریں پیاسی اور متلاشی سی تھیں.

ٹیبل پر بیٹھا اور کھانا پلیٹ میں نکالا..

پھپھو جو بچوں کو لڑکی پڑھا رہی ہے.. وہ کون ہے..ڈیٹیلز بتائیں مصروف سا انداز تھا

کل بتا تو رہی تھی تم نے سنا ہی نہیں... حرا نے شکوہ کیا. اور پلیز ہر کسی پہ شک کرنا بند کرو.. وہ قیصر کے بھائی کی بیٹی ہے

مجھے ضروری میسج آ گیا تھا... اب بتا دیں.. فادر کا نام کیا ہے.

عابد حسین. نام ہے بھائی صاحب کا... وہ محبت سے بولیں..

اور لڑکی کا نام؟

زری ہے بتایا تو تھا... ارے میں بھی کتنی پاگل ہوں نک نیم بتا رہی ہوں.. زرتاشہ عابد نام ہے.. اس کے بابا گورنمنٹ سکول میں ہیڈ ماسٹر تھے.. پھر ان کا ٹرانسفر یہاں سے کافی دور ہو گیا تھا.. اب پھر قیصر نے کوششیں کر کے ان کا ٹرانسفر 


یہاں کروایا ہے.جو اس کے ساتھ ہے وہ اس کی بہن ہے.. حرا نے تفصیل بتائی.اور نوال کی بات گول کر دی وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اداس ہو. 

وہ بظاہر خاموشی سے کھانا کھا رہا تھا.

مگر اس کے دل میں کیسے کیسے طوفان اٹھ رہے تھے... یہ وہی جانتا تھا.. 

رزم کدھر ہے؟ حرا نے پوچھا..

پہنچنے والا ہے... ابھی وہ بات کر رہے تھے کہ رزم چلا آیا..

لو آ گیا...

رزم نے جوائن کیا.. اور کھانا کھانے لگا. اس نے حیرت سے یشار کو دیکھا جس کے چہرے پر پرسکون سی مسکراہٹ تھی.

یہ راوی اتنا چین کیوں لکھ رہا تھا.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ بے چین سی پڑھاتے ہوئے پہلو بدل رہی تھی اور ماتھا مسل رہی تھی.. مسلسل یوں لگ رہا تھا کہ کسی کی نظر کے حصار میں ہے... مگر جب چاروں طرف دیکھتی، کوئی نہیں ہوتا تو خود کو کوس رہی تھی...

پھر جیسے تیسے ان کی پڑھائی ختم ہوئی تو اس نے سکھ کا سانس لیا... نظر اوپر اٹھی تو گلاس وال کے پاس کوئی ہیولا سا نظر آیا مگر اگلی نظر میں وہاں کچھ نہیں تھا.

اس نے کنپٹیاں سہلائیں...

حرا بھی ان کے پاس کھلی ہوا میں چلی آئی تھی.

چلیں.. زری نے مڑ کر... ماہ رخ کو کہا.

نوال... آپ کی سینڈل کدھر ہیں....

اندل....... اندل... وہ توتلی زبان میں بولتی اندر کی جانب بھاگی...

ارے آہستہ ڈول گر جاؤ گی....... ماہ رخ اس کے پیچھے لپکی..

وہ لاؤنج میں بھاگ بھاگ کر اپنی سینڈل ڈھونڈ رہی تھی. جب ماہی لاؤنج کے دروازے میں داخل ہوئی. اتنے میں ہی نوال دوڑتی ہوئی کسی کے چٹانی سے پاؤں سے ٹکرا کر گری..

رزم جو کچن میں فون بھول گیا تھا.. اٹھانے آ ہی رہا تھا جب اس کے پاؤں کے سامنے اچانک بچی آئی اور الجھ کر گر پڑی.

ماہی غصے سے جھنجھناتی تڑپ کر آگے بڑھی...

اے مسٹر... اندھے ہو کیا نظر نہیں آتا.. کونسی ہواؤں میں ہو جو بچی نظر نہیں آئی

حالانکہ اس میں رزم کی کوئی غلطی نہیں تھی... نوال خود بھاگ کر اس کے سامنے آئی تھی.. مگر ماہی طیش میں اس پر الٹ پڑی.یہ  دیکھے بغیر کہ نوال کو چوٹ نہیں لگی وہ تو سینڈل اٹھا کر کب کی اپنی آنی کے پاس بھاگ چکی ہے.

اس میں میری کوئی مسٹیک نہیں.. بےبی اچانک بھاگ کر میرے سامنے.....

ارے واہ... ماہی نے اسی کی بات بیچ میں ہی اچک لی.. بہت خوب...... اتنے بڑے اپنی غلطی چھپانے کے لئے اتنی سی بچی کا نام لے رہے ہیں.. آپ کی ہی غلطی ہے... آپ کا ہی سارا قصور ہے.

رزم کی رگیں تنی تھیں..وہ بول رہی تھی اور رزم کے کانوں میں کئی آوازیں گڈ مڈ کر رہی تھی. کوئی چلایا.

سب تمھاری غلطی تھی.

تمھارا قصور.....

تم ہی زمہ دار ہو اس سب کے..

رزم کا دماغ گھوما تھا اور دل کیا اس بولتی لڑکی کو کسی بھی طرح چپ کروا دے...

اور پھر اس نے اپنے چٹانی سنگلاخ ہاتھ سے اس کی نازک گردن دبوچی تھی اور ایک جھٹکے سے دیوار سے لگایا تھا..

ماہ رخ کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے

شاید وہ غلط بندے سے الجھ بیٹھی تھی.. گردن پر دباؤ بڑھا تو اس کی نازک سی جان پر بن گئ.. ہڈیاں چٹخنے ہی والی تھیں.وہ پوری جان لگا کر مزاحمت کر رہی تھی اس کا ہاتھ ہٹانے میں.. پر وہ ایسے پر سکون کھڑا تھا جیسے وہ خود اپنی گردن 


اس کے ہاتھ میں دئیے کھڑی ہو.

چھ....چھوڑو..... مجھے...... .پپ.. پاگل آدمی... میں... مم.... مر جاؤں گی.ہمت.. کک.. کیسے ہوئی مم.... مجھے چھونے کی......... گھٹی گھٹی آواز میں وہ چلائی....

وہ سرخ چہرہ لئے اس کے قریب ہوا..

اب میرے سامنے آنے کی مسٹیک مت کرنا.اگین مجھے نظر آئی تو اس نازک گردن کی ہڈیاں چٹخانے میں مجھے بہت مزا آئے گا.. سمجھیں..

سرسراتے لہجے میں کہتا  اس نے ہاتھ جھٹکے سے  ہٹایا تو وہ وہیں بیٹھتی چلی گئی... اور زور زور سے کھانستی سانس بحال کرنے لگی.

جو اس نے چند سیکنڈوں میں ہی بند کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی. فون اٹھا کر وہ ظالم جانے لگا لاؤنج کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا کہ

ماہی کا خوف وہراس کم ہوا تو..... وہ پھر جھنجھنائی.....

 زلیل... کمینہ... کم ظرف..وہ بڑبڑائی

وہ ایک جھٹکا کھا کر سرخ چہرہ لئے پھر پیچھے مڑا.. تو وہ اپنی جان بچاتی اٹھ کر باہر کی طرف بھاگی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی بھاگتے ہوئے اندر سے باہر آئی. تو اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں.

کیا ہوا ماہی اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو....

کک... کچھ نہیں... وہ کچن میں کاکروچ تھا.. اس نے بہانا بنایا..

ماہی... تم بھی ناں.. مجھے اتنے لیکچر دیتی ہو بریو بننے کے اور خود دیکو کیسے رنگ اڑا ہوا ہے.. زری ہنستی چلی گئ یہ جانے بغیر کہ آج اس کی ایک ایک ادا کوئی اپنے دل میں اتار رہا ہے..

اچھا سنو زری.... کچھ شاپنگ کرنی ہے... بچوں کے لئے کپڑے اور گروسری کا سامان لینا ہے.. کل تم دونوں سوسائٹی کے ہی مال میں چلی جاؤ گی شاپنگ کرنے ڈرائیور کے ساتھ.

زری کی آنکھیں پھیل گئیں.

چچی ہم کیس.............

زری پلیز....... جیسی بھی کرنا تم یقین کرو مجھے پسند آئے گی...اور گروسری کی میں لسٹ بنا دوں گی. سامان ڈرائیور کیری کر لے گا.. تم دونوں نے قیصر سے وعدہ کیا تھا کہ ہر حال میں میرا خیال رکھو گی. 

زری اور ماہی کو مانتے ہی بنی...

وہ چپ چاپ وہاں سے چلی آئیں..

ماہی تو اپنے خیالوں میں ہی گم صم تھی. ۔زری بے حد گھبرا رہی تھی..

ماہی پیچھے مڑ کر دیکھو... زرا... پلیز کوئی ہمارا پیچھا تو نہیں کر رہا.. وہ پھر کسی کی دہکتی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی.

ماہی نے پیچھے دیکھا.. کوئی نہیں تھا... زری پلیز.. مجھے بھی ڈرا رہی ہو... سیدھی ہو کر چلو..نوال بھی پریشان ہو رہی ہے... 

زری نے حیرت سے اسے دیکھا.. آج سورج کہاں سے طلوع ہوا تھا.. جو ماہی ڈرنے کی بات کر رہی تھی..

گھر پہنچ کر ہی  انھوں نے سکون کا سانس لیا تھا..

یشار جو کہ آج اپنی زندگی کا پیچھا کرتے اس کے گھر تک آیا تھا اس کی گھبراہٹ اور خوف بہت انجوائے کر رہا تھا. وہ گھر داخل ہوئی تو اس نے گہری سانس لی..

ایک سرور سا تھا جو رگ و پہ میں دوڑتا محسوس ہو رہا تھا.. سکون.. بے حد سکون..

پر اب پھر وہ نظروں سے اوجھل ہوئی تھی تو کسی چھوٹے بچے کی طرح مچل گیا تھا... ابھی روح کہاں سیراب ہوئی تھی دیدار سے...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آدھی رات کا وقت تھا...

یشار بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر بالوں میں ہاتھ پھیرتا گھوم رہا تھا سوتا تو وہ پہلے بھی نہیں تھا..

پر اب جیسے انگاروں پر گھسیٹ لیا گیا تھا

دیدار اور وصل کی چاہ کی سوئیوں نے جیسے  اس کے دل چھلنی چھلنی کر رکھا تھا.

دل ہے کہ مانتا نہیں.. اس دل پہ کس کا زور ہے

تیری اور کھچا جا رہا ہے جانے یہ کیسی ڈور ہے

اور پھر ایک ان دیکھی ڈور اور طاقت نے اسے کھینچا اور وہ چلتا چلا گیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری اپنے کمرے میں گہری نیند سو رہی تھی.. لیمپ کی ملگجی سی روشنی پورے کمرے میں پھیلی ہوئی تھی..

کہ ایک ہیولہ کھڑکی پھلانگ کر اندر داخل ہوا.. وہ دھیمے سے چلتا  بیڈ کے قریب آیا تھا.. زرا روشنی میں آیا تو بلیک پینٹ کے اوپر بلیک ہی ہڈی... منہ پر رومال باندھے.. ہاتھ پینٹ کی پاکٹوں میں ڈالے یشار کھڑا بڑی محویت سے اس دشمن جاں 


کے دیدار میں مصروف تھا..

بلیک رنگ کی ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور براؤن ٹراؤزر میں وہ بلکل سیدھی ایک ہاتھ تکیے پر اور ایک اپنے پیٹ پر رکھے گہری نیند میں تھی.. کمفرٹر آدھا بیڈ پر اس کی ٹانگوں پر تھا اور آدھا نیچے کارپٹ پر جھول رہا تھا..

وہ بے خود سا ہو کر اور قریب گیا اور عقیدت سے زمین پر پڑا کمفرٹر اٹھایا.. اسے نرمی سے چھوا.. جیسے کمفرٹر میں اس کا لمس محسوس کر رہا ہو.. کمفرٹر اس کے اوپر اوڑھایا..

آہستگی سے بیڈ پر بیٹھا. اس کے چہرے پر گلاب کی پنکھڑیوں جیسے شربتی نرم لبوں کو بالوں کی ایک آوارہ سی لٹ چھو رہی تھی.. وہ اس کا دیدار کرنے زرا سا اس پر جھکا ہوا تھا..ایک ہاتھ اس کے تکیے پر رکھے خود کا سہارا دیا ہوا تھا 

اپنے اور اس کے بیچ اسے یہ لٹ بھی بلکل اچھی نا لگی تو دھیمے سے پھونک مار کر لٹ کو پیچھے کیا..

اس کا مہکتا وجود... دلفریب سی خوشبو اعصاب کو اپنے بس میں کر رہی تھی....

وہ کان کے قریب گیا اور سرگوشی کی.

تاشی...... میری..... تاشی.. دیکھو تمھارا یش لوٹ آیا ہے تمھارے لئے...

وہ کسمسائی اور نیند میں بھی چہرے پر یوں خوف کے آثار نظر آئے.. جیسے اس نے اس کی بات سنی ہو........ نا صرف سنی ہو بلکہ خوفزدہ بھی ہوئی ہو....جیسے وہ محسوس کر رہی تھی کہ کوئی اس کے پاس تھا.. اس کے روم میں.اس کی 


خوشبو محسوس کر رہی ہو..

ششششش.. ڈرو نہیں.. میں تمھارے ساتھ ہوں تمھارے پاس.. بہت پاس.... اس نے پھر سرگوشی کی اب اس نے سچ مچ پر سکون سا ہو کر دائیں طرف کروٹ بدلی..

سر تھوڑا ڈھلکا...... تو گردن اونچی ہوئی..

یش کی رگوں میں شعلے سے بھڑکے... حلق میں کانٹے سے اگ آئے..

تاشی.. میں مر جاؤں گا... ایسا مت کرو میرے ساتھ... اس نے پھر سرگوشی کی...

اور پھر خود کو بتہیرا روکا... بے لگام جزبوں پر قابو پانے کی بہت کوشش کی.. مگر پھر بھی ناکام ہوا.یہ سوچ کر کہ وہ صرف اور صرف یش کی ہے.. بڑے حق سے

 جھک کر اس کے تل پر اپنے دہکتے لب رکھ دئیے.وہ پھر کسمسائی.. اور بے چین سی ہوئی.. جیسے اس کے دہکتے لمس سے اس کا نرم و نازک جسم جلا ہو. .. وہ فوراً پیچھے ہٹا..

اسے خود سے بے تحاشا خوف محسوس ہوا.. وہ پھر رکا نہیں اور کھڑکی میں غائب ہوتا چلا گیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

دو اور نفوس تھے... جو آج سونے کی کوشش میں کروٹیں بدل بدل کر بے حال ہو رہے تھے..

ایک ماہ رخ.

 بہت ڈری ہوئی تھی...

بچپن سے جھانسی کی رانی بنی رہتی... زری تو تھی ہی ڈرپوک اور بزدل.. وہی تھی جو اپنے ساتھ ساتھ اس کی بھی حفاظت کیا کرتی تھی.

لیکن آج اس ظالم نے اس کا یہ کانفیڈینس بری طرح بریک کیا تھا..

جھر جھری لے کر اٹھ بیٹھی.. بار بار وہ دو شعلہ برساتی سرد اور بے تاثر گرین آنکھیں تصور میں آ کر اسے ڈرا رہی تھیں.

میرے پیارے  اللہ جی پلیز اب کبھی میرا اس سے سامنا نہ ہو... پلیز پلیز پلیز..

دعائیں مانگتے مانگتے آخر نیند کی دیوی مہربان ہو ہی گئی.

دوسری جانب رزم تھا جس کی آنکھوں سے آج نیند کوسوں دور تھی.

وہ ایسا تو نہیں تھا.. جو کسی بے حد کمزور لڑکی کو یوں ڈراتا... اسے چھوتا اسے تکلیف دیتا..

وہ تو عام لوگوں کے لیے بے حد نرم طبیعت کا مالک تھا..

وہ خود بہت تکلیف میں تھا اور اس لڑکی نے شاید اس کے زخم ادھیڑے تھے... اسی لئے وہ یوں آپے سے باہر ہو گیا تھا..

خود کو کوس رہا تھا...

ٹھیک ہے میں معافی مانگ لوں گا.. یہ ٹھیک ہے...

اب مطمئن ہو کر  آخر کروٹ لی.. اور سو گیا

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شازیہ بیگم خیر تو ہے... اپنی ڈیوٹی سہی طرح سر انجام نہیں دے پا رہی ہیں کالج.... کہیں یہ ہرجانہ تمھاری  خود کی بیٹیوں کو نا ادا کرنے پڑ جائے

سرسراتا خباثت سے بھر پور لہجہ فون میں ابھرا تھا..

نہیں میں جلد ہی کچھ نا کچھ بندوبست کر دوں گی... ویسے بھی کالج میں انتہائی خوبصورت مال آیا ہے... بس چند دن دے دو.. اگلا کنسائمنٹ جلد آپ کے پاس ہوگا.. اور ایسا ہوگا کہ آپ انعام دینے کے بارے میں سوچیں گے..

جلدی وقت نہیں میرے پاس... اگر جلدی کچھ نہیں کیا پھر میرے جو ہاتھ لگا اڑا لوں گا سمجھ رہی ہیں ناں میری بات.....

جی جی بلکل.. آپ بے فکر ہو جائیں.

یہ کہہ کر شازیہ نے اپنی جان چھڑائی.. اور نئے سرے سے پریشان ہو گئیں.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلے دن رزم کی آنکھ کھلی تو سست سا اٹھ بیٹھا... مگر اگلا منظر دیکھتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں..

حیرت انگیز...... کیونکہ اس کے پاس ہی دا گریٹ یشار خان یوسف آڑھا ترچھا ہوا سکون سے اوندھے منہ سویا پڑا تھا.

 سٹرینج... وہ بڑبڑایا.. جانے کتنے عرصے بعد رزم نے یہ سین ملاحظہ فرمایا تھا...یشار کو سوتے ہوئے دیکھا تھا

وہ اٹھا اور کپڑے لے کر فریش ہونے چلا گیا.. یہاں تین گلیاں چھوڑ کر ایک مشکوک سا گھر تھا جن کے لوگوں کی سرگرمیاں نارمل نہیں تھیں.. باہر نیم پلیٹ تو کچھ اور تھی مگر رزم کو یقین تھا وہ سعید کا گھر ہے..

ابھی کنفرم کرنا باقی تھا..

وہ فریش ہو کر باہر آیا تو وہ اٹھا بیٹھا تھا اور خود بخود مسکرائے جا رہا تھا..

کیا بات ہے... میرا بےبی سو رہا تھا سٹرینج... رزم نے اسے چھیڑا.

ہممم. بس رات ڈوز ہی ایسی ملی..... ایسا سکون ملا کے.. کہ بیڈ پر لیٹا اور کب نیند آئی پتہ ہی نہیں چلا..

وہ مسکرائے گیا اور جانے کیوں پر اپنے انگھوٹے سے اپنے لبوں کو. نرمی سے چھوا... جیسے ان کو چھو کر کچھ اور محسوس کرنا چاہتا ہو.

کیا مطلب کونسی ڈوز کی بات کر رہے.... ڈاکٹر نے تمھیں منع کیا تھا ناں کوئی بھی ڈوز لینے سے..

اب وہ کھل کر مسکرایا...

وہ کوئی بھی ڈوز نہیں ہے رزم... میری تاشی ہے... اور کل میں نے اسے دیکھا تھا اس کی بات کر رہا ہوں..اس نے رات والی بات گول کرنی چاہی پر جانتا تھا سامنے رزم علی ہے

رزم نے جھٹکا کھا کر اسے دیکھا....

کیا............. سچ کہہ رہا ہوں یار... وہ جو یہاں نائفہ اور محسن کو پڑھانے آتی ہے وہ ہے میری تاشی... اس نے محبت سے کہا

وہ تو قیصر کے بھائی کی بیٹی ہے ناں..

ہمممممم.

اور رات تم یقیناً اسی کے درشن کرنے گئے تھے..

ہاں.....

پھولوں کے ہار پہنائے ہوں گے اس نے یقیناً تمھیں .

نہیں میں نے اسے ابھی بتایا ہی نہیں... نا اسے جگایا وہ سو رہی تھی... اس نے آنکھیں بند کیں جیسے رات کے مناظر پھر دوہرا رہا ہو اپنے دماغ میں.

تو اب....؟

اب کیا... بہت جلد ہی شمس لالہ کو ان کے گھر بھیجوں گا....اس نے اگلا پلین بتایا.

بکواس آئیڈیا... تمھیں پہلے خود اس سے بات کرنی چاہیے..

واقعی.... مگر میں ڈرتا ہوں وہ کیسا ری ایکٹ کرے گی...ناراض ہو گی مجھ سے

بہت خوب... تو دا گریٹ یشار خان یوسف جس کی صرف ہاکی کی دہشت سے بڑے بڑے سورما تھر تھر کانپتے ہیں اسے بھی کسی چیز سے ڈر لگتا ہے سٹرینج........رزم نے مزاق اڑایا..

یار مزاق اڑانے کی بجائے کوئی ڈھنگ کا مشورہ دے دو.

وہ یش سے ناراض ہے... یوسف سے نہیں.. اسے یوسف پرپوز کرے گا... گدھے.. پھر جب وہ پرپوزل ایکسیپٹ کر لے گی تو تم اسے بتا دینا کہ تم اس کے یش ہو 

رزم نے اسے بلکل سامنے کی بات بتاتے ہوئے اس کی عقل پہ ماتم کیا.. وہ دشمنوں کو زیر کرنے کے لیے ایسے ایسے آئیڈیاز  بتاتا تھا کہ بعض دفعہ تو رزم بھی حیران ہو جاتا.. مگر تاشی کے معاملے میں اس کی عقل گھاس چرنے نکل گئی 


تھی.

ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں.. پر ابھی نہیں... ابھی اس ایس اے سے نمٹ لوں.... اور جانتے ہو سب سے مزیدار چیز  میں کل اسے چھپ کر دیکھ رہا تھا تو وہ بے حد گھبرائی گھبرائی سی تھی.. یشار نے اپنا کارنامہ اپنے منہ سے بتایا... 


رزم نے اس کے عجیب پاگل پن پر افسوس سے سر ہلایا..

مجھے اس کی وہ گھبراہٹ ابھی انجوائے کرنی ہے.. آج وہ مال جا رہی ہیں پھپھو کی شاپنگ کرنے....وہ گہرا مسکراتا اپنے کپڑے لے کر واش روم میں گھس گیا.

❤️💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

منال...... سر جھکائے بھیگی آنکھوں کے ساتھ نوال کی قبر کے پاس اپنی سسکیاں دبانے میں بے حال ہو رہی تھی..

گلے میں ایک پھندہ سا اٹکا ہوا تھا..

پھر بے دردی سے اپنا چہرہ رگڑ کر پاس کھڑی گبھرائی سی چھوٹی نوال کو دیکھا جو ہو بہو اپنی ماں اور خالہ کی کاربن کاپی تھی.

دیکھو نوال... یہ نوال آنی ہے.. Say hy...

منال کے کہنے پر نوال نے معصومیت سے ادھر ادھر دیکھا مگر وہاں تو کوئی نہیں تھا جسے وہ  hy بولتی.. منال نے کرب سے اپنے لب کاٹے...

شمس گاڑی سے اتر کر نوال کی قبر کی طرف بڑھا... جب اسے نوال کی قبر پر بیٹھی ایک لڑکی اور چھوٹی سی بچی کی پیٹھ نظر آئی..

وہ حیرن ہوا.... اس کی نوال کی قبر پر کون آیا تھا.. وہ دھیرے سے چلتا قبر کے قریب آیا.

بلیک شلوار قمیض میں وہ بڑی سے چادر اوڑھے بیٹھی فاتحہ پڑھ رہی تھی... بچی نے بھی چھوٹے چھوٹے ہاتھ دعا کے لیے باندھے ہوئے تھے.

آہٹ پا کر بچی نے مڑ کر دیکھا.

شمس بے تحاشا چونکا... جانی پہچانی شباہت تھی.. اس کے نین نقش میں... اسے بچی پر ٹوٹ کر پیار آیا... جو بلیک فراک اور نیکر اور گرے آنکھوں سے شمس کو تجسس سے دیکھ رہی تھی.

مما........ بچی نے اپنی ماں کا کندھا ہلایا تھا..

منال نے...... نوال کو دیکھا اور اس کی نظر کے تعاقب میں پیچھے مڑی

شمس پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹے تھے.... وہ پوری آنکھیں کھولے سامنے جو وجود نظر آ رہا تھا اس کے واقعی موجود ہونے کا یقین کرنا چاہتا تھا..

نوال... اس کے لب کپکپائے

جبکہ منال کی آنکھوں میں پہلے شناسائی ابھری پھر حیرت، پھر صدمہ   اور پھر بے تحاشا غصہ.اس نے چادر سے جلدی سے نقاب کیا

یہ شخص زندہ تھا... اس کی بہن تو مر گئی تھی.. محبت میں قربان ہو گئی.... پھر یہ شخص کیوں زندہ تھا.. کس لئے..

اس نے نفرت سے رخ پھیرا... مگر شمس بے اختیار ہو کر اس کی جانب لپکا..

بازو سے کھینچ کر اسے اپنے سامنے کیا..برسوں کی بے قرار نگاہیں اس چہرے کا طواف کرنے لگیں...

نوال...... کہاں چلی گئیں تھیں مجھے چھوڑ کر....

منال نے صدمے کی انتہا سے اس پاگل آدمی کو دیکھا... اور اس سے اپنا بازو چھڑانے کی پورے زور سے کوشش کرنے لگی..اس کے بے قرار لمس سے اسے گھن آئی

چھوڑ مجھے پاگل انسان...وہ چلائی

شمس کی پکڑ اور مضبوط ہوئی نم لال انگارہ آنکھوں سے زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگا..

نہیں ہر گز نہیں... پہلے جانے دیا تمھیں.. اب.. اب اتنے برسوں بعد ملی ہو.. اب نہیں جانے دوں گا.. کبھی نہیں نوال... میری نوال..

میں نوال نہیں ہوں... زلیل انسان....نوال یہ ہے... . اس نے قبر کی جانب اشارہ کیا.. وہ بھی صرف اور صرف تمھاری وجہ سے... تمھاری دو کوڑی کی محبت نے زندگی نگل لی اس کی... وہ پھنکاری...

اب قبرستان آئے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے.. کچھ آدمی بھاگ کر ان کے پاس آئے

نوال بھی اپنی ماما کو شاؤٹ کرتے دیکھ زور زور سے رونے لگی.

او صاحب.. کیا کر رہے ہو.. امیر ہو گے اپنے گھر... چھوڑو بچی کا بازو... ان میں سے ایک بزرگ سے بندے نے سختی سے کہا تو شمس کو نا چاہتے ہوئے بھی اس کا بازو چھوڑنا پڑا

منال نے نوال کو اٹھایا اور تیزی سے نکلتی چلی گئی..

شمس بے بس تھا.. مزید کوئی تماشا نہیں چاہتا تھا.. لوگوں کے سامنے اس کے پیچھے نہیں جا سکتا تھا..

بس بے تحاشا غصے اور بے بسی سے لب کاٹتا اسے جاتا دیکھتا رہا..

قبر ہر نیٹھ کر مغفرت کی دعا مانگنے لگا جب لوگ ہٹ گئے تو پاگلوں کی طرح قبرستان کے باہر کی جانب بھاگا.

سڑک پر آ کر ادھر ادھر دیکھا مگر کہیں کچھ دکھائی نہیں دیا..

کیا ہوا ہے صاحب.. کسے ڈھونڈ رہے ہیں.. ڈرائیور نے حیرت سے پوچھا کبھی اپنے صاحب کو اس حالت میں دیکھا جو نہیں تھا.

ایک لڑکی بلیک چادر میں نکلی تھی قبرستان سے گود میں چھوٹی بچی تھی.. تم نے دیکھا.

جی صاحب دیکھا تھا.

کک... کہاں... کہاں گئی وہ.

وہ تو صاحب رکشے میں بیٹھ کر اس طرف گئی.. ڈرائیور نے دائیں طرف اشارہ کیا..

شمس نے اپنی کنپٹیاں سہلائیں.. اور گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو آفس چلنے کو کہا.... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح زری کی آنکھ کھلی تو کچھ بہت عجیب لگا... کمرے میں ایک عجیب سی اجنبی خوشبو تھی جو اسے گھبراہٹ سے دوچار کر رہی تھی. وہ دونوں کالج کے لئے تیار ہوئیں

قیصر کا ہی ڈرائیور انھیں کالج سے پک اینڈ ڈراپ کیا کرتا تھا.

وہ گاڑی میں نکلیں.. زری پھر بے چین سی تھی.. کیوں اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی.. اسنے سڑک پر ادھر ادھر دیکھا.. کافی ٹریفک تھی..

مگر ایسے محسوس ہوا کہ ایک ہیوی بائیک پر لڑکا جس کی وہ شکل نہیں دیکھ سکتی تھی ہڈی اور منہ پر بندھے رومال کی وجہ سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا. جب اس نے دیکھا تو وہ اپنے دھیان میں اپنا سفر طے کر رہا تھا.. وہ جھنجھنلائی..

اور سر جھٹک کر پھر ماہی کی طرف متوجہ ہو گئی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟❤️💟

وہ کالج سے آ کر کھانا کھا چکی تھیں.. جب نازیہ بیگم نے انھیں ڈرائیور کے آنے کا بتایا.. ان کی طبیعت خراب تھی اور منال  باہر جاتی ہی نہیں تھی اسی لیے ناچار  حرا کی شاپنگ کرنے انھیں ہی جانا پڑا...

پرپل اور لائٹ پرپل کمبینیشن کی فراک اور حجاب لئے نیچے جینز کی  ٹائٹس پہنے وہ آج ایک جیسے ڈریس میں تھیں..

مال پہنچیں... ڈرائیور لسٹ لے آیا تھا... پہلے گروسری لی.. اور ڈرائیور کو تھمائی.. وہ گاڑی کی طرف چلا گیا.. پھر بچوں کی شاپنگ کی..

زری پہلو بدل رہی تھی.. یوں جیسے کوئی سائے کی طرح اس کے پیچھے تھا.. اس کا سایہ بنا ہوا تھا.. بار بار ماتھے پر آیا پسینہ ٹشو سے صاف کر رہی تھی.

ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا وجود جل رہا ہے...زری نے جھر جھری لی.

ہر بار چونک کر ادھر ادھر دیکھتی وہ عجیب سے حلیے ہڈی اور منہ پر رومال والا لڑکا دکھائی دیتا مگر اس کی جانب ہر گز نہیں دیکھ رہا ہوتا تھا

بار بار دل میں خیال آ رہا تھا کہ یہ کہیں ان کا پیچھا تو نہیں کر رہا.. مگر وہ تو ان کی جانب دیکھ ہی نہیں رہا ہوتا تھا تو پھر یہ کیا تھا.. 

انھوں نے بہت سلیکٹیو چیزیں لیں تھیں بچوں کے لئے...

بچوں کی کچھ سکول کی چیزیں بھی لینی تھیں جب وہ چار لڑکے ہنسی ٹھٹھول کرتے مال میں داخل ہوئے لیکن ان کو دیکھ کر ٹھٹھک سے گئے..

پھر وہ بار بار ہوٹنگ کر رہے تھے..

ماہی تو بھڑ پڑتی.. مگر زری بے حد گھبرا رہی تھی...

پھر انھوں نے باقی کی شاپنگ پھر کسی دن کے لئے اٹھا رکھنے کا فیصلہ کیا اور وہاں سے نکلتی چلیں گئیں...

 💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار جو تاشی کو تنگ کرنے کے لیے صبح سے اس کا پیچھا کر رہا تھا..

مال میں بھی ان کے ساتھ ساتھ ہی تھا وہ تاشی کو پر حدت نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور وہ بار بار ماتھے سے پسینہ صاف کر رہی تھی.. وہ مخصوص حلیے میں گہرا سا مسکرا رہا تھا.

جب وہ چار لڑکے اسے تاشی کی طرف گندی نظروں سے دیکھتے دکھائی دیئے.

اس کا جی چاہا ان کی آنکھیں نکال دے.مگر وہ پبلک پلیس پر ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا

. اشتعال سے وہ پاگل ہو جاتا جب وہ تنگ آ کر مال سے نکلی تھیں.. وہ تن فن کرتا ان کے پیچھے ہی نکلا تھا

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ پارکنگ میں داخل ہی ہوئیں تھیں.. جب ایک سپورٹ کار ان کے پیروں میں آ کر رکی تھی..اور زور سے پہیے چرچرائے تھے

وہ اچھلیں اور دہشت زدہ سی ہو کر پیچھے ہٹیں.. زری کا تو چہرہ پیلا زرد ہو چکا تھا خوف سے ایسے جیسے سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو.

اتنے میں کار کے دروازے کھول کر وہ چار بگڑے رئیس زادے باہر تشریف لائے تھے..

اور ان کی جانب بڑھے.

دیکھو تو زرا  پاشا.. کتنی پیاری ڈول ہے.. بلکل میرے معیار کے مطابق.... وہ خباثت سے بولا.

ہاں.... یہ نیچرل بیوٹی پہلے کیوں نہیں نظر سے گزری ہمارے...... حیرت ہے...

اچھا ٹچ تو کر کے دیکھو.. سچ مچ کی ہے کہ کوئی ڈمی ہے.

اے خبردار میری بہن کو پریشان کیا... منہ نوچ لوں گی. ماہی غرائی

تو تم کو کر لیتے ہیں پریشان... کم تو تم بھی نہیں ہو بیوٹی فل.... اس نے مکروہ انداز میں آنکھ دبائی..

زری پوری ماہی کے پیچھے چھپی تھر تھر کانپ رہی تھی جب وہ لڑکا آگے بڑھا.

اے ہٹو سامنے سے... مجھے اس سے فرینڈ شپ کرنی ہے.. بے بی کو گھمانے لے جانا ہو..

ایک لڑکا ماہی کے سامنے آیا اور دوسرا گھوم کر اس کے پیچھے گیا..

 ابھی وہ ہاتھ بڑھا کر زری کی کمر کو ہاتھ لگاتا کہ ایک پل بھی نہ لگا تھا.. اس کا ہاتھ ٹوٹ کر کلائی سے لٹک گیا تھا.

اور پھر اس کے سینے پہ دھماکے سے ایک چٹانی پاؤں بجا تھا جس سے وہ سوکھی لکڑی کی طرح ہوا میں اچھلا اور اپنے اس ساتھی کے اوپر جا کر گرا جو ماہی کے سامنے کھڑا تھا.

یہ سب اتنی اچانک ہوا تھا کہ وہ آنکھیں پھاڑے ہکا بکا کھڑے تھے... جبکہ زری اور ماہی نے پیچھے مڑ کر اپنے مسیحا کو دیکھا..

مگر صرف گرین آنکھیں دیکھ پائیں

گرے جینز اور بلو ہڈی میں منہ پر رومال باندھے وہ خونخوار نظروں سے ماہی اور زری کے سامنے آیا تھا اور ان لڑکوں کو بھسم کر دینے والی نظر سے گھور رہا تھا. اب اس کی چوڑی پیٹھ کے پیچھے وہ دونوں چھپ سی گئی تھیں.

زری کے رگ و پے میں ایسے سکون اور اطمینان دوڑا جیسے آج سے کئی سال پہلے اس کا اطمینان قابلِ دید ہوا کرتا تھا.

ٹوٹا ہاتھ لئے وہ امیر زادہ بکرے کی طرح چنگھاڑ رہا تھا..

اے کون ہو تم.. تمھاری جرات کیسے ہوئی اسے ہاتھ لگانے کی.. ہمیں جانتے نہیں ہو تم..... چلے جاؤ یہاں سے.. اس کا چمچہ چنگھاڑا

بات کچھ یوں ہے کہ میں اسے اس کے کیے کی سزا دے چکا ہوں.. اگر تم لوگوں نے اپنی ہڈیوں کا سرما نہیں بنوانا تو دفع ہو جاؤ یہاں سے... غراہٹ ہڈیوں میں خون منجمد کرنے والی تھی.وہ ہاتھ  میں ہاکی اپنے مخصوص طریقے سے گھما رہا 


تھا..

نہیں جائیں گے. تیری تو...

وہ تینوں اس کی جانب چاقو لئے لپکے.. نہیں جانتے تھے وہ سامنے والے کے لئے چیونٹیوں کے مترادف تھے.

کچھ ہی دیر میں وہ ان کا حشر بگاڑ چکا تھا..بجلی کی تیزی سے ہاکی ان کی ہڈیاں سینک رہی تھی . انھیں اس پاگل  کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اپنی جان چھڑانی پڑی.

دم دبا کر بھاگے تھے.

اب وہ اطمینان سے ان کی جانب پشت کیے کھڑا ہاتھ کی انگلیاں میں ہاکی گھما رہا تھا جسے دیکھ کر زری بے تحاشا چونکی تھی.اس کی روح فنا ہوئی تھی.. یہ منظر تو کچھ جانا پہچانا سا تھا.. 

مگر بے یقینی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں تو بلو تھیں.. وہ غور سے اس کی پیٹھ کو گھور رہی تھی کہ پھر یشار کی غراہٹ سنائی دی.

کیا جائزے لے رہی ہیں.. جائیے گھر.....واپس بلاؤں لڑکوں کو.. اگر تھوڑا اور انٹرٹین ہونا ہے..

وہ دونوں اچھلیں..جی بھر کر شرمندہ ہوئیں 

بدتمیز... ماہی دل میں جھلائی

جبکہ زری  ہونٹوں میں بڑبڑائی.. 

کمبخت.....

کم بختی......یشار نے اطمینان سے کہا جسے سن کر

وہ اس افلاطون سے گھبرا کر سر پٹ بھاگی تھیں..

جب وہ نظروں سے اجھل ہوئیں تو یشار نے کھل کر قہقہہ لگایا..ااور پھر اپنی ہیوی سپورٹس بائیک کی جانب بڑھا.

انھوں نے گاڑی تک ہی آ کر سانس بحال کیا تھا.. سامان ڈرائیور کو پکڑایا اور فوراً گاڑی میں بیٹھیں..

زری بے حد الجھی ہوئی تھی.. یہ کیا ہو رہا تھا اس کے ساتھ....عجیب بہت عجیب.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

قیصر منزل پہنچیں تو سامان اندر لاؤنج میں رکھوایا..

زری تم یہ کپڑے اور بچوں کا سامان ان کے کمرے میں سیٹ کر دو جا کر میں گروسری کچن میں لگا دیتی ہوں..

 ہر چیز سہی جگہ رکھنی ہوگی.. ورنہ چچی پریشان ہوں گی..زری کو حرا کی فکر تھی.

لگا دوں گی تم فکر نا کرو...

زری بچوں کا سامان اٹھاتی اندر کی جانب بڑھی... جبکہ وہ گروسری کا سامان لئے کچن میں گھس گئی..حجاب اتار کر صوفے پر رکھا اور دوپٹہ کندھے سے لا کر کمر پر باندھا اور سب چیزیں اپنے ٹھکانے پر رکھنے لگی..

رزم کو کام کے دوران شدید کافی کی طلب ہوئی تھی تو اوپر سے سیڑھیاں اترتا لاؤنج میں آیا... کچن میں سے کھٹر پٹر کی آوازیں آ رہیں تھیں..

شکر ادا کیا کہ کوئی ہے... جس سے کافی بنوا لے گا.. کچن کے اندر داخل ہوا.. تو حیران ہوا.

حرا پھپھو کی بجائے وہ پرپل فراک میں دوپٹہ باندھے گھنے سیاہ بالوں کی اونچی پونی ٹیل کیے.. کیبن کھولے سارا سامان بکھیرے کھڑی تھی..

اور پھر اس نے کیبن کے پاس لکڑی کا سٹول رکھا اور اس کے اوپر چھڑھ کر اوپر والے مصالحوں کے کیبن کھولنا چاہے.

بے وقوف لڑکی... وہ بڑبڑایا. اتنی دور سے اسے دکھائی دے گیا تھا کے سٹول کا ایک پاؤں ٹوٹنے والا ہے.. کیا اسے نہیں دکھا..

وہ اس پر چڑھ کر ابھی کیبن کھولنے ہی والی تھی کہ سٹول کا ایک پاؤں ٹوٹا.. اس کا توازن بگڑا.

آہہہہہہہہہہہہ. نازک لبوں سے چیخ نکلی اور اس سے پہلے وہ فرش پر گر کر اپنی کوئی ہڈی تڑوا بیھٹتی.. رزم بے اختیار تیزی سے آگے بڑھا تھا.

وہ ٹوٹی ڈال کی طرح اس کے بازوؤں میں گری تھی..خوف سے زور سے آنکھیں بند کیے خوشبوؤں میں بسا نازک وجود رزم کے آہنی بازوؤں میں تھا. 

نہیں گری ہو آنکھیں کھول سکتی ہو... رزم نے سنجیدگی سے کہا...

 اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں مگر اگلا منظر گرنے سے بھی زیادہ دل دہلا دینے وال تھا..وہ اس اجنبی کے بازوؤں میں تھی. خوف سے آنکھیں پوری کھولے اسنے بے اختیار دونوں نازک ہاتھوں سے پہلے اپنی گردن پکڑ کر رزم  سے 


چھپائی. پھر زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی.

دل میں آلتو جلالتو آئی بلا کو ٹال تو کاورد کرتی وہ سخت خوفزدہ ہوئی.اور پھر اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر مزاحمت کرنے لگی کہ اسے نیچے اتارا جائے 

بولنے کی غلطی اس نے آج  نہیں کی تھی

رزم اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا... اس کے چہرے پر خوف کے سائے دیکھے تو پھر چہرہ دھواں دھواں ہوا رزم کا.

اس نے نیچے اتارا اسے....... وہ بھاگنے کو پر تول رہی تھی جب پھر رزم کے زخم ادھڑے

(رازی مجھے تم سے ڈر لگتا ہے

دور رہو مجھ سے.. کسی کی غراہٹ کانوں میں گونجی.)

ماہ رخ اس کے دائیں سائیڈ سے نکل کر بھاگنے لگی جب پھر اس کا نازک بازو دبوچ کر اسے دیوار سے لگایا تھا رزم نے.

وہ پھر دہل گئی..

دد.... دیکھیں.. مم.. میں.... یہ... سامان....رکھنے آئی تھی یہاں... مجھے.. جانے....... دیں... اب....... نہیں....... آؤں.... گی... وہ کانپتی کہتی خوف سے بلکل  سفید پڑ چکی تھی..

رزم کی پھر آنکھوں سے شعلہ نکلے.. ایک تو کل بھی وہ اس کی وجہ سے ڈھنگ سے نہیں سو پایا تھا آج پھر وہ چلی آئی تھی اس کی نیند اس کا چین برباد کرنے.

کیوں ڈر رہی ہو مجھ سے... میں نے تم سے کچھ کہا...رزم نے دانت پیسے

آ.... آپ.....نے..... کہا ... تھا.... میں... سامنے.... نا..... آؤں.... آپ... مم... میری... گردن...

بازو پر گڑھے اس کے آہنی ہاتھ سے جب تکلیف ناقابلِ برداشت ہوئی تو اس کی آنکھیں چھلکیں..

ان بڑی بڑی کٹورا آنکھوں میں پانی دیکھ کر اسے اور تکلیف ہوئی.. بازو چھوڑا

کچھ نہیں کہتا. تمھیں ........اب جاؤ..

 وہ راہِ نجات دیکھ کر فوراً بھاگی تھی وہاں سے.

رزم نے بے دردی سے آنکھیں بند کرتے ہوئے لب کچلے تھے.

افففففف.    یہ پاگل لڑکی ضائع ہوگی کسی دن میرے ہاتھوں..... اس نے دانت کچکچائے.

❤️💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

 یشار کھڑکی پھلانگ کر اندر داخل ہوا... ایک ہفتہ ہو چکا تھا اسے تاشی کا سایہ بنے.. راتوں کو اس کے کمرے میں آتے...اس کے ساتھ ساتھ وہ دونوں دشمن پر بھی گھیرا بہت تنگ کر چکے تھے.

یشار کو  پتہ تھا وہ ڈرنے لگ گئ ہے بہت زیادہ.سہمی سہمی رہتی ہے... اس کے اسے دیکھنے اور ارتکاز سے وہ نیند میں بھی ڈسٹرب ہوتی تھی.

مگر وہ کیا کرتا وہ بے اختیار تھا.. بہت بےبس...

اب بھی اس کے پاس بیٹھے وہ اسے تکے جا رہا تھا.. پہلے دن کے علاوہ اس نے دوبارہ اسے چھونے کی گستاخی نہیں کی تھی.

اب بھی تاشی خواب میں ڈر رہی تھی شاید....... جو ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں نمودار ہوئیں تھیں.

یشار کا دل کیا اسے کھینج کر اپنے سینے میں بھینچ کر ہر خوف سے آزاد کر دے.. مگر ایسا کر نہیں سکتا تھا..اسی لئے سختی سے اپنے لب دانتوں سے کچل رہا تھا

اب وہ سیدھی لیٹی کسمسائی تھی اور بیڈ شیٹ اور کمفرٹر کو مٹھیوں میں بھینچ رہی تھی....

یشار کی جان لبوں پر آ چکی تھی..

اسے سینے سے لگانے کی خواہش بلکل منہ زور ہو چکی تھی..

اسے پتہ تھا وہ اٹھنے والی ہے اس لئے بمشکل خود کو گھسیٹ کر اٹھایا تھا.. اور پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا..

تاشی خوفناک خواب کی تاب نا لاتی بے حد گھبرا کر چیخ مارتی اٹھی تھی..

ادھر ادھر دیکھا اور خوف سے زور سے چہرہ چھپایا... پھر وہ اجنبی خوشبو اس کے آس پاس تھی..وہ گھبرا کر اٹھی.. ٹیبل تک گئی جگ میں سے گلاس میں پانی ڈالے ایک ہی بار میں سارا پانی پی گئی..

ایک ہفتہ ہو گیا تھا... جیسے اس کی نازک جان کو سولی پر ٹنگے...

یوں محسوس ہوتا تھا کوئی سایہ اس کے تعاقب میں ہے دن رات...

راتیں گزارنا سب سے بھیانک ہوتا.. جب اسے خواب آتا کہ کوئی اس کے پاس ہے.. اس کے کمرے میں. وہ اب اس خوشبو سے بے حد ڈرنے لگی تھی جو اکثر اسے اپنے آس پاس محسوس ہوتی تھی. 

اس نے پھر جھر جھری لی..

وہ تو آیت الکرسی کا ورد  بھی کرتی رہتی تھی پر ایک انجانا....... ان دیکھا سایہ سا تھا جو اس کی جان کو چمٹ گیا تھا.

وہ اکتا گئی تھی.. خود سے اپنے خوف سے تنگ پڑ گئی تھی.. تیزی سے اٹھی اور برے برے منہ بناتی بیڈ پر اوندھے  منہ گری.. اور تکیے میں سر دے لیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

 وہ بے زار سی شکل بنائے بینچ پر بیٹھی تھی.. پڑھائی میں زرا برابر بھی دل نہیں لگ رہا.تھا

ماہ رخ کمینی نے طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے  چھٹی مار لی تھی. کہ مس شازیہ اسے اپنی جانب آتی دکھائی دیں.....

اس کا حلق پھر کڑوا ہوا..

پتہ نہیں کیوں پر زری ان سے خار کھاتی تھی.. عجیب نظریں ہوتی تھیں ان کی مردوں سے بھی  زیادہ کراہیت میں مبتلا کرنے والی..

عجیب دکھاوے والا  پیار تھا ان کا سٹوڈنٹس کے لیے مگر آنکھوں کا تاثر بے حد سرد اور عجیب ہوتا.

کیا بات ہے بیٹا... اداس کیوں ہو....

نہیں میم... بس کچھ طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی..

اور وہ تمھاری بہن بھی تمھارے ساتھ نہیں... انکی آنکھوں میں عجیب سی حیوانی چمک آئی

نہیں میم اس کی طبیعت خراب تھی.. اس نے چھٹی کی ہے.

تمھاری بھی ٹھیک نہیں لگ رہی آؤ میں تمھیں اپنے گھر لے جاؤں..

نہیں میم بہت شکریہ میں ٹھیک ہوں. اس نے سہولت سے انکار کیا

ارے ایسے کیسے.. میرا گھر قریب ہی ہے... تم چلو تو سہی.

نہیں میم شکریہ میں اپنے بابا کی پرمیشن کے بغیر کہیں کسی کے ساتھ نہیں جاتی.. زری نے بہانے بنانے کی بجائے ٹھوک بجا کر جواب دیا.

مس شازیہ نے بے حد برا سا منہ بنایا. اور چلی گئیں.

پھر چھٹی ہوئی تھی.. جب کافی بھیڑ ہونے کی وجہ سے سے گاڑی تھوڑے فاصلے پر کھڑی تھی وہ گاڑی کی طرف بڑھی......... جب ایک وین اس کے بلکل قریب آ کر رکی تھی.......

اس سے پہلے کہ اس میں سے نکلنے والا سانڈ نما آدمی نکل کر اسے بازو سے کھینچ کر وین میں گھسیٹتا... چار پانچ آدمی اچانک کہیں سے نکل کر ان کی گاڑی میں گھسے اور ان پر آفت کی طرح ٹوٹ پڑے تھے.. وہ دنگ ہوئی یہ ساری کاروائی 


دیکھ رہی تھی یہ سب اتنی اچانک اور خاموشی سے ہوا تھا کہ اتنے رش اور بھیڑ میں کسی کو پتہ ہی نا چلا.. صرف زری کی جان نے جھیلا تھا یہ منظر اپنی آنکھوں پر کہ اچانک اس کی نظر بائیں جانب درخت کے پیچھے گئی..

وہ جلدی سے اس طرف لپکی

تو دیکھا وہ براؤن پینٹ کے اوپر براؤن ہڈی منہ پر رومال باندھے. نیلی آنکھوں سے پینٹ میں ہاتھ گھسائے بڑے اطمینان سے وہاں بے نیاز سا  کھڑا تھا.

اس کے کلون کی خوشبو سے زری بے تحاشا چونکی..

وہ بے خوف ہو کر اس کے  سامنے آئی تھی. وہ کیوں اس کی راہوں میں ہر وقت ہر سمت ہر جگہ اسے نظر آتا تھا...

کک...کون ہیں آپ

کیوں؟ آپ نے جان کر کیا کرنا ہے؟ لاپرواہ سا انداز تھا. (جبکہ یشار چونکا تھا کیا تاشی نے اسے پہچان لیا)

زری جی جان سے جلی

آپ میرا پیچھا کرتے ہیں؟ اب وہ ڈائریکٹ مدعے پر آئی تھی.

کیوں محترمہ . آپ میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہیں جو میں آپ کا پیچھا کروں گا... یا پھر آپ خود کو کسی کے لئے اتنا اسپیشل سمجھتی ہیں کہ وہ آپ کا پیچھا کرے.اس کا پھولا منہ یشار کو مزا دے گیا تھا

خیر جائیے آپ کا ڈرائیور آپ کا انتظار کر رہا ہے.. 

یہ کہہ کر وہ بھیڑ میں غائب ہو چکا تھا.. جبکی اس کی کسی کے لئے اسپیشل ہونے والی بات پر وہ بے طرح چونکی تھی.

وہ گاڑی میں بیٹھی جھنجھنا رہی تھی.. اسے کیسے پتہ چلا کہ میں اپنے آپ کو کسی کے لئے اسپیشل سمجھتی ہوں

میں تو شروع سے

 ی... یش کے لیے خود................. 

لا حولہ ولا قوۃ..........

اسے لگا اس کا دماغ پھٹ جائے گا.. سر جھٹک کر بیک سیٹ سے ٹیک لگا لی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

کچھ بولے.؟ ..... یا بتاؤ پھر میری ہاکی خود ہی بلوا لے گی.. یشار جو کہ تاشی کا تعاقب کرتے ہوئے اس کو بحفاظت گھر تک چھوڑ  کر آیا تھا اب اپنے سیکرٹ فلیٹ میں ان وین والے غنڈوں سے نمٹ رہے تھے

نہیں کچے اور چکنے گھڑے ہی تھے.. فرید کی درگت سے ہی فرفر بولنے لگے

کیا بتایا؟

کچھ خاص نہیں... بس انھیں فون پر یہ  بولا گیا تھا.. کہ گرے آنکھوں والی اس لڑکی کو کڈنیپ کرنا ہے.. اور بھاری رقم ایک بندے کہ ہاتھ بھجوائی گئی تھی.بس یہ بولا گیا تھا کے بے ہوش کر کے گاڑی کسی ویران جگہ پر چھوڑ کر بھاگ جائیں . 


رزم بولا

کیوں... مگر تاشی کیوں؟  یشار کہ انگ انگ سے بے چینی چھلک رہی تھی.کہیں میرے بارے میں تو بھنک نہیں لگ گئ..

ہر گز نہیں....میرا نہیں خیال... کچھ اور چکر ہے.... ایک اور بات پتہ چلی ہے.

کیا؟

کہ ہم جس سعید کو ڈھونڈ رہے ہیں.. وہ سعید نہیں بلکہ سعیدہ ہے..

مطلب؟

مطلب یہ کہ وہ آدمی نہیں عورت ہے... اور اس کا نیٹ ورک بہت مضبوط ہے.. ایس اے کے لئے کام کرتی ہے.. خود کی بھی دو بیٹیاں ہیں مگر دنیا سے اوجھل کر کے رکھیں ہوئی ہیں..

اور کہیں نا کہیں اس کا تعلق کالج سے ہے..وہ یقیناً کالج میں بجیس بدل کر کسی مقدس پیشے سے وابستہ ہو کر یہ شیطانی کھیل کھیل رہی ہے. بس اسی لئے تاشی ان کے لئے ایک نئے شکار..... مطلب خود ہی سمجھ جاؤ

اسے اپنے یار کی زندگی کے لئے ایسے الفاظ ادا کرنا خود ہی عجیب لگا... اس لئے لب دانت تلے دبایا..

مجھے وہ چائیے رزم وہ جو کوئی بھی ہے اس نے تاشی پر حملہ کیا.. جس کا مطلب وہ ڈائریکٹ مجھ سے الجھی ہے..مجھے وہ ہر قیمت پر چاہیے.. یشار کی آنکھوں میں خون اترا...اور اپنے لیپ ٹاپ پر بزی ہو گیا.. 

اوکے.. ڈن... سمجھو ہو گیا... رزم نے اطمینان سے کہا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شمس ایک ہفتے سے کانٹوں پر لوٹ رہا تھا..

الجھن سی الجھن تھی.

کون تھی وہ.؟ .. کہاں سے آئی تھی؟ .. کہاں گئی؟

اس کا نوال سے کیا تعلق تھا.. وہ اس کی قبر پر کیا کر رہی تھی...

کتنے دنوں سے دماغ سنسنسا رہا تھا..

پھر آخر فون ملا ہی لیا..

ہاں... اعظم..... جلدی سے میرے کمرے میں آؤ

جی سر  ابھی آیا....

وہ دو منٹ میں بوتل کے جن کی طرح دستک دے کر اس کے کمرے میں کھڑا تھا.

جی سر.......

اعظم مجھے نوال کی موت کے متعلق تمام تفصیلات بتاؤ.. سرسراتا لہجہ ےھا

اعظم بے تحاشا چونکا.. شمس نے کبھی ان آٹھ سالوں میں اس کربناک واقع کا زکر کرنا تو دور سننا پسند نہ کیا تھا لیکن آج وہ خود وحشت زدہ چہرے کے ساتھ اپنے زخم ادھیڑنے میں لگا ہوا تھا..

اعظم بولو.. میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو..

جج... جی سر... میں جب ایکسیڈنٹ والی جگہ پر پہنچا تو میم دنیا سے جا چکی تھیں...

شمس نے بے دردی سے لب کاٹے.

پھر ان کی خراب حالت کے پیشِ نظر ان کے گھر والوں کے آنے کے فورا بعد ان کی تدفین کر دی گئی تھی...

کچھ اور..... اور کوئی خاص بات

جی سر... جب ہم میت اٹھانے اندر گئے تو میں کافی حیران ہوا تھا.. مجھے لگا میم خود ہی اپنی میت پر بین ڈال رہی ہیں...

مطلب.... شمس چونکا..

مطلب یہ کہ بلکل ہو بہو ان کے جیسی لڑکی تھیں وہ.. سوال کیوں کہ میم کے متعلق تھا اس لئے میں نے بعد میں معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہ میم کی جڑواں بہن منال تھیں.. بلکل ان کی کاربن کاپی... عابد حسین صاحب کی چار بیٹیاں تھیں.. پہلے 


جڑواں نوال میم اور منال.. ان کے بعد دو اور بیٹیاں ہیں..

اعظم خاموش ہوا.....

تم نے مجھے پہلے کبھی نہیں بتایا....شمس بے چین ہوا.. 

سر آپ اس ٹاپک پر بات ہی نہیں کرنا چاہتے تھے.

آج میں نے اسے مطلب منال کو دیکھا تھا نوال کی قبر پر اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی بچی تھی.. جو اسے مما بول رہی تھی..

اعظم مجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کے متعلق تمام معلومات چاہیے..شادی کب اور کس سے ہوئی..

اعظم حیران ہوا.. سر کو منال اور اس کے شوہر سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی.

شمس نے لال انگارہ آنکھوں سے اعظم کو دیکھا.. تو اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی. 

اعظم پوچھ لو جو پوچھنا چاہتے ہو.. صرف تمھیں یہ مقام حاصل ہے کہ مجھ سے سوال کر سکتے ہو.

سر آپ ان کے بارے میں کیوں جاننا چاہتے ہیں.؟.

کیونکہ مجھے وہ چاہئے اعظم... شمس نے اعظم کے سر پر بم پھوڑا.. میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں.. وہ ہنوز سنجیدگی سے بولا.. مجھے اس میں وہی کشش محسوس ہوئی جو میں نوال کے لئے محسوس کرتا تھا..

اسی لئے کہہ رہا ہوں.... انفارمیشن نکال کے دو... شمس کا اطمینان قابلِ دید تھا..

اعظم چپ چاپ وہاں سے نکلتا چلا گیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

کیوں میڈم پھر ناکام ہو گئیں... پھر منہ کی کھانی پڑی.. تم تو مجھے کالج کی سب سے خوبصورت لڑکی گفٹ دینے والی تھیں... کیا ہوا

ایس اے کی سرسراتی آواز فون میں سے ابھری.

مجھے نہیں پتا کیسے مگر میں دو تین دفعہ کوشش کر چکی ہوں.. مگر کچھ تو ہے کوئی انجانی طاقت کے وہ اور اس کی بہن  بچ جاتی ہیں ہر بار... پر اب نہیں.. اب تو شازیہ کی ضد بن چکی ہیں یہ دونوں بہنیں.. اب تو ان کو عیاشی کا سامان بنا 


کر ہی رہوں گی...اس کے لہجے میں ایک عورت ہونے کے باوجود عجیب فرعونیت تھی

اپنے آدمیوں کے غائب ہونے کی بات وہ گول کر گئی.. جانتی تھی ایس اے کو بتایا تو وہ تو پہلی فرصت میں اسے گولی مار دیتا.

ٹھیک ہے ٹھیک ہے... جلد از جلد مجھے چاہیں یہ.. اگر تم تعریف کر رہی ہو تو یقیناً کوئی تو خاص بات ہوگی ان میں.....

 میں پوری کوشش کروں گی  کہ ایک دو دن میں ہی وہ میرے پاس ہوں

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری مصروف سے انداز میں قیصر منزل داخل ہوئی تھی...

اندر آ کر حرا سے ملی..

اور بچوں کو لان میں لا کر  پڑھانے لگی...

وہ جو دونوں گلاس وال سے اسے دیکھ رہے تھے..

کیا خیال ہے پھر مجنوں صاحب.... ؟

خیال تو بہت نیک ہیں.. کیونکہ اب میں بلکل پیشنس نہیں رکھ پا رہا..... جلد از جلد اپنی تاشی کو اپنے پاس لانا چاہتا ہوں..

آ... ہاں.. تمھیں پتہ ہے تمھاری تاشی... نوال بھابھی کی بہن ہیں... رزم نے کہا تو یشار بےتحاشا چونکا...

واقعی...

وہ بے یقینی سے بولا.. پر شمس لالہ نے تو کبھی مجھے نہیں بتایا کہ نوال بھابھی. عابد حسین کی بیٹی تھیں..

وہ خود اس بات کو یاد نہیں کرنا چاہتے تھے... تمھیں کیسے بتاتے....

یہ تو ہے...

چلو وہ فری ہوگئی... جاؤ اور جا کر بات کرو.. نرمی سے بات کرنا.. ڈرپوک سی ہی ہیں..

میری تاشی میری موجودگی میں ہی شیرنی بنتی ہے... وہ گہرا سا مسکرایا.. پر اس وقت تو میں خود نروس ہو رہا ہوں.. اس لئے تم بھی ساتھ چل رہے ہو...

واٹ... دماغ خراب ہے تمھارا....... رزم اچھلا

نہیں بلکل ٹھیک ہے... وہ اسے گھسیٹتے باہر لایا تھا

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری لان میں بچوں کو پڑھا کر  ابھی ریلیکس ہوئی تھی کہ وہ دونوں اس کے قریب آئے..اس وقت یشار اور رزم....... حلیے سے یوسف اور علی تھے.

زری نے چونک کر انھیں دیکھا.. بچوں کے ساتھ اٹھ کر جانے لگی جب علی نے اسے مخاطب کیا

پلیز میم... رکیں اسے آپ سے ضروری بات کرنی ہے..

جی.. وہ بغیر ڈرے متوجہ ہوئی. (کیونکہ یہ اس کے چچا کا گھر تھا)

دیکھئے میں بغیر لگی لپٹی ڈائریکٹ کام کی بات کرتا ہوں.. مجھے  بلکل پہلی نظر میں آپ سے  شدید قسم کی محبت ہو گئی تھی.

زری بری طرح نروس ہوئی

.. مجھے شارٹ کٹس پسند نہیں ہیں.نا ملاقاتیں نا منگنی..... آپ کی اجازت سے اپنے بڑوں کو آپ کے گھر بھیجنا چاہتا ہوں..

کیا آپ مجھ سے شادی کریں گی..؟وہ رکا

نہیں...... ایک لفظی جواب آیا.

کیوں؟

یہ میں بتانا ضروری نہیں سمجھتی... یہ میرا پرسنل میٹر ہے.. زری نے برا منایا.

میں آپ سے محبت کرتا ہوں.. یہ جاننا میرا حق ہے کہ آپ مجھ سے کیوں شادی نہیں کرنا چاہتیں...؟

دیکھئے مجھے آپ سے ہمدردی ہے.... مگر... جو قسمت کو منظور.... زری نے نرمی سے اسے سمجھانا چاہا کہ اس کا دل نہ ٹوٹے..

آپ تمہید مت باندھئے. سیدھی طرح بتا دیں کہ آپ مجھ سے شادی کیوں نہیں کرنا چاہتیں..

کیونکہ میرا نکاح ہو چکا ہے...... زری نے اطمینان سے کہا

کس سے..... سامنے والا پتہ نہیں کیا سننا چاہتا تھا..

 میری پھپھو کے بیٹے سے.... وہی اطمینان

جبکہ یشار کے سر پر آسمان گرا تھا.. پیروں نیچے سے زمین کھسکی تھی.. ایک سیکنڈ لگا تھا دھواں دھواں ہوتے سرخ چہرے پر آنکھیں لال انگارہ ہوتے.. اور رگوں میں شعلہ بھڑکتے.

رزم نے مضبوطی سے اس کا بازو تھام لیا تھا.. رزم کو سامنے کھڑی لڑکی سے نفرت سی محسوس ہوئی

مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا.. سرسراتا لہجہ تھا یشار کا زری کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں 

تو پھر یہ سننے کے باوجود کے میرا نکاح ہو چکا ہے. شاید آپ جیسے امیر زادے مجھے دل بہلانے کے لئے رکھنا چاہتے ہیں اپنے آس پاس. وہ تلخی سے بولی.

(اگر اسے زرا بھی اندازہ ہوتا کہ وہ یہ بکواس کسی یوسف سے نہیں اپنے یش سے کر رہی ہے تو اپنی زبان کو تالا لگا لیتی) 

شٹ اپ وہ غرایا.. میری محبت کی توہین مت کرو.. اچھا نہیں ہوگا..

آپ جیسے امیر زادوں کے لئے مجھ جیسی معمولی لڑکی کی یہی اوقات ہوتی ہے بس..... وہ کہتی یشار خان یوسف پر قیامت ڈھا رہی تھی جب اسے ایک سیکنڈ نا لگا اس کی نازک گردن دبوچنے میں....

بہت اچانک ہوا تھا یہ..چند سیکنڈز ہی میں زری کو اپنی سانسیں تھمتی محسوس ہوئیں تھیں.

آنسو تیزی سے اس ظالم کے ہاتھ پر گرے تھے..

خان... بی ہیو یور سیلف... رزم چلایا تھا.. اور اس کی گردن چھڑوا کر اسے دبوچے اندر کی جانب بڑھا تھا..

زری خوف و دہشت سے وہاں سے تیزی سے بھاگی تھی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ جو صوفے پر بیٹھا... سرخ چہرہ اور لال انگارہ آنکھیں لئے... رگیں یوں تنی ہوئی تھیں جیسے ابھی پھٹ پڑیں گی.

وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھے تیزی سے پاؤں جھلا رہا تھا. ایک غصے اور اشتعال کا طوفان اپنے اندر دبا رہا تھا..

رزم کو بے حد خوف محسوس ہوا اس سے.

یشار...... پلیز یار کول ڈاؤن...

میں اس پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا.. وہ دھاڑا.. اور تیزی سے ڈریسنگ کے شیشے کی جانب بڑھا. ایک وار کے مکے سے شیشہ چکنا چور اور اس کا ہاتھ لہو لہان ہو چکا تھا.

یشار کیا پاگل پن ہے... کنٹرول یور سیلف.. رزم نے دھاڑتے اسے قابو کرنے کی کوشش کی.

 آٹھ سال اس کا انتظار کیا... آج کا دن دیکھنے کے لیے.. یہ سب سننے کے لئے.. وہ دھاڑتا ٹیبل پر پڑے واس کا حشر بگاڑ چکا تھا...

پھر بھسم کرنے والے انداز میں الماری کی جانب بڑھا...اور اپنی ہُڈی والی شرٹ کی سیکرٹ پاکٹ میں سے ایک انجیکشن نکالا..

(اس انجیکشن سے وہ اپنے ٹارگٹ کو چار پانچ گھنٹے کے لئے بے ہوش کیا کرتے تھے.)

یشار واٹ اس دس.. پاگل مت بنو.. چھوڑو اسے.. مجھے دو..رزم چلاتا اس کی جانب لپکا

نہیں رزم... Don't you dare... مجھے روکنے کی کوشش بھی مت کرنا... ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گا.. مجھے سکون چاہیے...

کیا،؟ کرنا کیا چاہتے ہو تم....،

تاشی کو بچانا چاہتا ہوں خود سے..... سرسراتا رگوں میں خون منجمد کرتا لہجہ تھا اس کا.. رزم نے جھرجھری لی.

رزم اگر میں نے ایسا نہیں کیا تو جان سے مار دوں گا میں اسے..اپنے ہاتھوں سے سانسیں چھین لوں گا اس کی.. یہ کہہ کر مٹھی میں دبوچی سرنج ایک جھٹکے سے اس نے اپنے بازو میں کھبو ڈالی اور پورا انجیکشن خود میں انجیکٹ کر دیا..

رزم اس کی دگرگوں حالت دیکھ کر روح سے کانپا...

کچھ ہی دیر میں وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہو کر تاشی تاشی پکارتا بیڈ پر گر چکا تھا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری گھبرائی سی اپنے کمرے میں داخل ہو کر اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی..

کم ظرف..... اگر انکار کیا تو جان لینے پر ہی آ گیا بے ہودہ انسان.. زلیل.. وہ اسے کوس رہی تھی..

ڈھیر سارا رونا آ رہا تھا...

مگر کمرے میں کسی بھی وقت ماہی آ جاتی اسی لئے سسکیوں کو گلے میں ہی اٹکائے رکھا..

چار سال پہلے جب منال کی شادی ہوئی تھی تو اس کی شادی کے موقع پر پھپھو نے بڑی محبت سے سمیر کے لئے عابد سے اس کا ہاتھ مانگا..

خوبصورت جو اتنی تھی.. اور ہر ماں کو اپنے بیٹے کے لئے  چاند سی بہو چاہیے ہوتی ہے

سو عابد کے ماننے پر منگنی کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے انھوں نے ڈائریکٹ نکاح پر اصرار کیا تھا.

اور پھر منال کے نکاح کے دن اس کا بھی نکاح سمیر سے ہو گیا تھا..

کیا مصیبت ہے.... وہ جھنجھنلائی.

اور پھر کھانے کی ٹیبل پر بھی عابد نے نوٹ کیا کہ ان کی آفت اتنی خاموش کیوں ہے تو اس نے سہولت سے ٹال دیا تھا یہ کہہ کر کہ اس کی طبیعت خراب ہے.

رات کے ساڑھے بارہ بج چکے تھے.. وہ کروٹیں بدل بدل کر بے حال ہو گئی تھی... پھر ہر فضول خیال کو جھٹک کر آخر کمفرٹر میں منہ دئیے گہری نیند سو ہی گئی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار جب ہوش میں آیا تو رات کا ایک بج چکا تھا...

ہوش میں آتے ہی سب یاد آتے ہی وہ پھر انگاروں پر گھسیٹ لیا گیا....

اٹھا کر بیٹھا... رزم نہیں تھا وہاں جس کا مطلب تھا کہ وہ کچھ ضروری معلومات حاصل کرنے نکلا ہے.

کمرے میں اس کا دم گھٹنے لگا تو باہر گلاس وال کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا...

وحشت... غم...... غصہ...... رگوں میں بھڑکتے شعلے...... تڑپ

اس وقت اس کا جی چاہ رہا تھا کہ کاش وہ کبھی ہوش میں آتا ہی نہیں.....

بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا... جب یہ سب برداشت سے باہر ہوا تو بجلی کی سی تیزی سے اندر آیا.. نیلی پینٹ کے اوپر نیلی ہڈی میں منہ پر رومال باندھا.

اور دنیا بھسم کرنے والے انداز میں باہر نکلتا چلا گیا.

چھ گھنٹے پہلے جس تاشی کو خود سے بچانے کے لئے......اپنی جان سولی پر لٹکا چکا تھا وہ انجیکشن لے کر. اب اسی دہشت ناک حالت میں تاشی کو دیکھنے کے  لئے نکلا تھا.....

رزم جب اپنا کام نمٹا کر گھر آیا تو وہ وہاں سے غائب تھا..... اس نے ماتھا پیٹا..

اب یہ لڑکا  کیا طوفان لانے والا تھا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ کھڑکی پھلانگ کر آگ کا شعلہ بنا اندر داخل ہوا تو سامنے کے  منظر نے اس کا کلیجہ نکال لیا تھا سینے سے.

اس کا چین سکون نیند برباد اور حرام کرنے والی بہت مزے سے اپنے بستر میں گھسی.... گہری نیند میں تھی..

وہ بے تحاشا اشتعال انگیز ہو کر آگے بڑھا...

بیڈ پر بیٹھ کر پہلے پاؤں تیزی سے جھلا کر اشتعال اور غم و غصے کے طوفان کو اندر دبانے کی کوشش کی....

پھر اس پر جھکا تھا.

دونوں بازو اس کے دائیں بائیں تکیے پر تھے.

تاشی......... That's not fair......... بچپن میں تمھیں میں نے کسی سے دوستی نا کرنے دی... تو تمھیں کیا لگتا ہے کسی اور سے شادی کرنے دوں گا..؟ 

سرگوشی کانوں میں سیسہ پگھلانے کے مترادف دہکتی تھی.. وہ بے چین ہو کر کسمسائی.

میں تمھیں کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا....

ہر گز نہیں..

کبھی نہیں....

اسی لئے........... اسی لئے......... بس اسی لئے

تمھیں مرنا ہوگا..

دیوانگی... جنون...کی وہ کون سی انتہا تھی جس سے یشار گزر رہا تھا..

 یہ کہہ کر اس نے تاشی کا دوپٹہ اپنے ہاتھ پہ لپیٹا.. اور پھر اپنے آہنی ہاتھ سے اس کی گردن دبوچی تھی..اور دباؤ بڑھاتا چلا گیا.. ہڈیاں چٹخنے والی تھیں... 

وہ گہری نیند میں تڑپی..بے حد تڑپی.

اس کا سانس اکھڑنے لگا.............. گھٹنے لگا... بند ہونے لگا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی کی جب سانس بلکل اکھڑنے لگی تو یکدم اس نے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا...

اور بجلی کی سی تیزی سے کھڑکی پھلانگ کر بالکونی میں چھپا تھا...

یہ وہ کیا کرنے جا رہا تھا.. اپنے ہاتھ سے خود اپنی زندگی ختم کرنے چلا تھا.اس کی سانس چلنا ہی تو یش کے سانس چلنے کی گارنٹی تھی.. 

وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا... تاشی تو اس کا عشق تھی اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی اگر اسے کچھ ہو جاتا تو کیا وہ زندہ رہتا.

کبھی نہیں...

اور کیا اپنے بھائی کی حالت سے اسے کوئی سبق نہیں ملا تھا...... Shittttttttttt. Shittttttttttttt

اندر وہ ایک دردناک سسکی لے کر اٹھ بیٹھی تھی... اور لمبے لمبے سانس لے کر  اپنی دھڑکن بحال کر رہی تھی.

اٹھ کر گلاس بھر کر پانی کا پیا

ماتھے سے پسینہ صاف کیا...

کتنی دیر لمبے لمبے سانس لیتی رہی...

افففف... آج پھر مجھے sleep paralyze ہوا.شکر ہے آنکھ کھل گئی . ابھی مر ہی جاتی... وہ بڑبڑائی....

سانس کی تکلیف میں وہ یہ بھی بھول گئی کہ وہ پھر کسی کی نظروں کے حصار میں ہے اور پھر وہی خوشبو اس کے آس پاس ہے...

احساس ہونے پر جلدی سے کمفرٹر میں منہ تک گھس گئی.

وہ جو دیکھ رہا تھا اسے.. اس کی بڑبڑاہٹ سنی تو کچھ سکون آیا.. وہ ٹھیک تھی..

یشار کو اب خود سے اسے دور رکھنا تھا.. اپنی وحشت جنون اور دیوانگی سے.

اسی لئے وہاں سے نکلتا چلا گیا....

اپنے کمرے میں داخل ہوا تو رزم کو اپنے انتظار میں پایا..

کہاں سے آ رہے ہو....،؟

جب جانتے ہو تو کیوں پوچھ رہے ہو.... لال انگارہ آنکھوں سے وہ سنجیدگی سے بولا..

یشار اسے کچھ کہا تو نہیں تم نے......

سانسیں چھیننے لگا تھا اس کی... لیکن جیسے جیسے اس کی سانس اکھڑی مجھے میرے سینے میں سانس الجھتی محسوس ہوئی.. اسی لئے کچھ نہیں کہہ سکا اسے.. وہ کرب سے بولا

یشار وہ بے قصور ہے...

تو پھر میں سارا قصور اپنے سر لیتا ہوں اس سے عشق کرنے کے لیے.. بولو کیا سزا دوں خود کو.. یشار خود اذیتی کی انتہا پر تھا..

یشار یہ غلط ہے.. سوچو اگر آدھی رات کو کبھی کسی نے تمھیں اس کے کمرے سے نکلتے دیکھ لیا تو کیا ہوگا...

مجھے کسی چیز  کی کوئی پرواہ نہیں... اس نے بات ہوا میں اڑائی

لوگ اسے تمھاری.... رزم لمحہ بھر کو چپ ہوا... تمھاری رکھیل کہیں گے..

رزم...... وہ دھاڑا... تمھیں کیا لگتا ہے میں نے اب تک اسے کتنی مرتبہ چھوا ہوگا... .. صرف دیکھنے جاتا ہوں اسے.. یشار غصے سے پاگل ہوتا غرایا.

یہ تو تم جانتے ہو یا میں جانتا ہوں.. کہ وہ کتنی پاکیزہ ہے.. لیکن لوگ صرف آنکھوں دیکھی پر یقین کرتے ہیں...

میں آنکھیں نکال لوں گا.. گدی سے زبانیں کھینچ لوں گا...

کس کس سے لڑو گے یشار.. جب یہ ہے ہی غلط..

رزم خدا کے لیے.. اب مجھ سے یہ حق مت چھیننا کہ میں اسے دیکھ نہیں سکتا.. میں مر جاؤں گا.

لیکن یشار........

رزم پلیز...... اس معاملے میں میری محبت   بے اختیار ہے...... بلکل بے لگام.... میں. ایسا کچھ بھی ہر گز نہیں کروں گا... آڈکٹ ہو چکا ہوں اسے دیکھنے کا... اسی لئے میں نہیں جانتا سہی غلط کا......فی الحال مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح زری کی آنکھ کھلی... کپڑے لے کر واش روم تک آئی

فریش ہو کر باہر آئی..

فریش ہوتے ہوئے گردن پر جب پانی لگا تو بہت جلن سی ہوئی

باہر آئی آئینے میں خود کو دیکھا تو حیرت و صدمے سے گنگ ہو گئی..

یہ کیا...؟

پوری گردن لال  سرخ تھی...

اور مجھے لگا کہ کہ مجھے رات سلیپ پیرالائز ہوا تھا رات جیسے اکثر ہو جایا کرتا تھا...

تو پھر یہ نشان کہاں سے آیا تھا...

کل یوسف نے بھی تو...

نہیں... اس وقت تو یہ نشان نہیں تھا... اسے بے تحاشا خوف محسوس ہوا...

میں کیا کروں... کیا میرے روم میں کوئی تھا... یہ منحوس روم ہی آسیب زدہ ہے... میں رات کو ماہی کے کمرے میں سوؤں گی... یہ ٹھیک ہے..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رات کے ایک بج چکے  تھے.. ...

ہوم ورک مکمل ہے... کنفرم وہی گھر ہے..... گھر کا نقشہ بھی پاس ہے.. کوئی زبردست  مزاحمت نہیں ہو گی.

اس وقت صرف چار آدمی ہوں گے پہرے کے لئے....

رزم نے تفصیل بتائی.. وہ اپنے مخصوص حلیے میں گھر کی بیک سائیڈ سے نکلے تھے.

بلیک پینٹس اور بلیک ہڈی کے ساتھ... منہ  پر رومال باندھے...

آج اس سعیدہ کا بھی کھیل ختم ہونے والا تھا... ان کا اندازہ درست نکلا تھا ... جس نے ان غنڈوں کو پیسے دئیے اس کے فون کی لوکیشن اسی ایریا کی تھی..اور وہ آدمی بھی پکڑا گیا تھا.. اسی نے ہی یہاں کی تفصیلات اگلی تھیں.. 

رات کے گہرے اندھیرے میں وہ  مکان کی دیوار پھلانگ کر اندر گئے.. بڑا پر سکون انداز تھا جیسے واک پہ نکلے ہوں..

اندر لان میں کوئی نہیں تھا...سٹرینج...کوئی پہرہ نہیں تھا..اسی لئے انھیں کسی خطرے کا احساس ہوا..یشار کی چھٹی حس نے بہت تیزی سے کام کیا

 یشار نے رزم کی جانب اشارہ کیا

Plan b..............

اب وہ جیسے ڈائریکٹ پیچھے کے دروازے سےاندر جانے والے تھے... پہلے بہت ہی زیادہ خاموشی سے چھت پر گئے.. چھت سے لاؤنج کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے..

لاؤنج کے اندھیرے میں واقعی نظر آیا کہ کچھ ہیولے  چار پانچ اندرونی اور چار بیرونی دروازے پر گن تانے کھڑے تھے... شکر ہے اتنا تو ان بزدلوں اور گدھوں کا اندازہ تھا کہ ان کا آدمی پکڑا جا چکا ہے جس کا مطلب ان پر بھی حملہ ہونے والا 


ہے..

 رزم بیرونی طرف اور یشار اندرونی دروازے کی جانب چپکے سے بڑھا...

اور پھر ان کی گنز بھی ان کے کچھ کام نہیں آئی تھیں جنھیں چلانے کا انھیں موقع ہی نا ملا تھا...

ایک کو چھوڑ کر باقی سب جہنم رسید ہو چکے تھے.. یشار کی ہاکی خون میں نہا چکی تھی. رزم نے اسے رسیوں سے جکڑ کا باندھ دیا...

وہ بلند آواز میں مکروہ قہقہے لگانے لگا...

ویلکم...... ویلکم.....

تمھیں کیا لگا کہ تم میڈم تک پہنچ گئے..ناممکن.. اتنا آسان نہیں ہے.. لیکن ہاں میڈم نے ایک سرپرائز ضرور رکھا ہے تمھارے لیے بیسمنٹ میں..اس نے ایک جانب اشارہ کیا

رزم نے اسے ٹھوکرپر رکھ کر آدھ مرا کر دیا وہ بے ہوش ہو گیا..

اور بیسمنٹ کی  جانب محتاط سا بڑھے.. بیسمنٹ کی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے اندھیرا تھا.. چاروں جانب سے کلئیر تھا... رزم نے لائٹ آن کی تو سامنے روح فرسا منظر تھا.. انھوں نے فوراً آنکھیں بند کر کے رخ پھیرا تھا..

رزم کپڑا دو ان پر......

سامنے ہی تین لڑکیوں کی نیم برہنہ ادھڑی ہوئی لاشیں تھیں... جنھیں دیکھ کر ان کی روح فنا ہوئی تھی... رزم نے بیڈ پر پڑی شیٹ کھینچ کر ان پر دی تھی..

وہ اس ایک نظر میں ہی دیکھ چکے تھے کہ ان کے جسموں پر کچھ لکھ کر ان کے لئے پیغام چھوڑے گئے تھے.

یشار قریب گیا.... پاؤں کے سہارے نیچے بیٹھا..لڑکی کے ماتھے پر کسی تیز دھار آلے سے لکھا تھا...

ہاکی ماسٹر....

بازو پر لکھا تھا.... بڑا شوق ہے تمھیں مسیحا بننے کا.....

دوسرے بازو پر..

اپنی ہاکی سے کہو ان لڑکیوں کو زندہ کر دے...

غرض اسی طرح ان کے پورے جسموں کو ادھیڑا گیا تھا.. رزم اور یشار کی آنکھوں میں خون اترا تھا..وہ بے حد ٹینس ہوئے تھے

فکر مت کرو... تمھارا حشر اس سے بھی زیادہ بگاڑوں گا کہ خود اپنے منہ سے اپنے لئے موت کی دعائیں مانگو گی..

وہ وہاں سے نکلے فرید پہنچ گیا تھا اپنے آدمیوں کو لے کر..

وہ وہاں سے نکلے اور پھر پورے ایریے کا چکر لگایا

گھر اپنے روم میں آئے... 

رزم مجھے اس میڈم کی بیٹیاں چاہیں....

کسی بھی بل سے نکالو... کہیں سے بھی ڈھونڈو...

لیکن انھیں نقصان نا پہنچے... اس میڈم ک دم پر تو میں پاؤں رکھوں گا...

کھلے عام اسے چیلنج کیا گیا تھا.... یشار کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا.....

اس میڈم کو کسی بھی طرح بل سے نکالو...زونی سے کہو کالج جوائن کرے فوراً..... اور مجھے دو دن میں رپورٹ کرے..... 

ہو جائے گا... پیشنس رکھو یار.تمھارے کہنے سے پہلے زونی کالج جوائن کر چکی ہے.. میں نے خاص طور پر اسے کہا ہے کہ تاشی اور اس کی سسٹر کا خیال رکھے.. .. رزم سنبھل چکا تھا.. اس لئے اسے ریلیکس کرنے لگا.

کوئی عورت ماں ہونے کے باوجود اتنی ظالم بھی ہو سکتی ہے سٹرینج.... رزم ابھی تک حیران تھا...

وہ عورت نہیں عورت کے نام پر دھبا ہے...جسے سبق سکھانا ضروری ہے...

یشار کو دروازے کی جانب بڑھتے دیکھ رزم پھر جھنجھلایا

 اب تم کہاں چل دیئے؟

اپنی زندگی کے پاس........

تم ٹھیک نہیں کر رہے یش وہ کسی اور کی امان..............

رزم....... وہ پھر دھاڑا....... وہ سب سے پہلے یشار خان یوسف کی ہے.. کیا تم حقیقت نہیں جانتے...؟

پیشنس رکھو یار..... رزم نے اسے کسی طور سمجھانے کی کوشش کی

نہیں رکھ سکتا...... تاشی کے معاملے میں بلکل نہیں رکھ سکتا....

یہ کہہ کر وہ نکلتا چلا گیا...

رزم نے افسوس سے سر ہلایا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ کھڑکی پھلانگ کر اندر داخل ہوا تو دماغ بھنا اٹھا..

ایک سیکنڈ میں اس کا میٹر شارٹ ہوا تھا....

تاشی میڈم بستر سے غائب تھی.. خالی بیڈ منہ چڑھا رہا تھا..

اسے جی بھر کر زرتاشہ پہ طیش آیا....

وہ اب اس کا ضبط آزما رہی تھی...اس کا دل کیا ابھی جہاں وہ ہے اسے اٹھا کر لائے اور اسی بیڈ پر لا کر پٹخ دے.

کاش اسے یہ حق حاصل ہوتا. 

بیڈ پر بیٹھا.... بالوں میں ہاتھ پھیرا خود کو پر سکون کرنے کی ناکام کوشش کی.. 

پھر بیڈ پر نرمی سے ہاتھ پھیرا... اس دشمنِ جاں کی خوشبو سانسوں سے ٹکرائی اور بیڈ پر سے ایسے جیسے اس کا لمس محسوس ہوا.

کچھ سکون ملا.. تو چہرے پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا..

Not bad..........

پھر کچھ سوچ کر بیڈ پر لیٹا اور اس کے کمفرٹر کو بانہوں میں لپیٹا..

پر سکون ہو کر آنکھیں موند لیں...

تو تین گھنٹے کی پرسکون اور بھر پور نیند لے کر وہ فجر کے وقت وہاں سے نکل آیا تھا. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلے دن وہ پیریڈ لے کر گراؤنڈ میں بینچ پر بیٹھی تھی.. کتابیں اور نوٹ بکس گود میں رکھے کوئی پوائنٹ ڈسکس کر رہی تھیں

جب ایک لڑکی ان کی طرف آئی....

ہائے... میرا نام زونی ہے.... کیا  آپ لوگ مجھ سے فرینڈ شپ کریں گی.. میں نیو ہوں آپ کی کلاس میں .. مائیگریٹ ہو کر  یہاں آئی ہوں... اس نے ہاتھ آگے بڑھایا جو کہ انھوں نے خوشدلی سے باری باری تھاما..

وہ کافی باتونی لگتی تھی.جلد ان سے بے تکلف ہو گئی. زری کو غور غور سے دیکھ رہی تھی..

افففففففف.. اتنا معصوم حسن....... میں مری جا رہی ہوں.. یشار خان تو پھر......

ایویں ای نی پاگل اس کے لئے..اسے زرا اس نازک  گڑیا جیسی لڑکی سے جیلسی محسوس نہیں ہوئی 

زری نے نروس ہو کر اس کے سامنے چٹکی بجائی...

کیا بات ہے زونی... کیا دیکھ رہی ہیں؟

کچھ نہیں..... چلو کلاس میں چلتے ہیں.. کوئی بھی کسی قسم کی بھی پرابلم ہو مجھے بتانا ہے.. اوکے

وہ پتا نہیں انھیں کیا باور کروانا چاہ رہی تھی... وہ کلاس کی جانب بڑھی تو دو شعلہ بار خبیث نگاہوں نے ان کا دور تک پیچھا کیا..

چلو یہ بھی سہی ہے دو سے بھلی تین... مکروہ سی ہنسی ہنس دی گئی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اعظم ناک کر کے آفس میں داخل ہوا....

شمس نے اسے دیکھ کر تمام مصروفیت سائیڈ پر کی..اور اس کی جانب متوجہ ہوا

 اعظم... پلیز یار... اتنے برسوں بعد کچھ اچھی خبر سنانا..ویسے بھی مجھے جانے کیوں لگتا ہے کہ اس پر صرف میرا حق ہونا چاہئے..

سر اچھی خبر ہی ہے..عابد حسین کا ٹرانسفر یہاں سے سرگودھا ہوا تھا.. آٹھ سال وہیں گزارے... مطلب.... میم کی شادی چار سال پہلے وہیں پر ہوئی تھی... سسرال والے بڑے بے غیرت اور ظالم تھے.عابد صاحب بہت پریشان ہوئے.باپ پریشان 


نہ ہوں اس لئے میم ہر ظلم و ستم برداشت کرتی رہیں.. لیکن خدا کو ان پر رحم آ گیا..

دو سال پہلے بچی کی پیدائش کے دو تین ماہ بعد شوہر اچانک ہوئے ہارٹ اٹیک سے جہنم رسید ہو گیا.. تو انھوں نے میم کو منحوس کہہ کر بیٹی سمیت دھکے مار مار کر گھر سے نکال دیا...

تب سے وہ اپنے بابا کے پاس ہی ہیں.

ہممم......... گڈ... اس نے پر سکون سا ہو کر چیئر سے سر ٹکا کر آنکھیں موندیں.. اور کچھ خاص...

جی ایک اور خبر ہے.. 

کیا....؟ 

یشار بابا کسی لڑکی کا پیچھا کرتے نظر آ ئے ہیں مجھے...

شمس جانے کتنے عرصے بعد ریلیکس ہو کر کھل کر ہنسا تھا

واہ اعظم............. ماننا پڑے گا وہ انٹیلیجنس آفیسر جس کا دشمن سایہ بھی نہیں دیکھ پائے... تمھیں اس کی خبر ہوتی ہے... یشار کو تمھاری کارکردگیوں کے بارے میں پتا چلے یقیناً فرید کی جگہ تمھیں ہائر کر لے. شمس نے ہنستے ہوئے اعظم 


کو چھیڑا....

اب یقیناً تمھیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ وہ لڑکی کون ہے...یقیناً اس کی بچپن کی وہ دوست ہوگی. جسے اس نے ڈھونڈ لیا ہوگا... 

نہیں سر... یہ میں نے جرآت نہیں کی ابھی... یشار بابا کا پتہ ہے مجھے... اپنی جان سے نا ہاتھ دھونے پڑیں

 وہ کھل کر  مسکراتے ہوئے بولا...

ہاہاہا ہاہاہا... یہ تو ہے وہ شروع سے اپنی چیزوں کو لے کر بہت ٹچی اور پوزیسو ہوتا ہے...

تو جلد اتا پتا نکلواؤ پھر اس کا بھی... تاکہ جلد ہی رشتہ لے کر جاؤں ان کے گھر.... میں اپنے بھائی کے قدموں میں پورے جہان کی خوشیاں ڈال دوں گا... چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے......... کچھ بھی....

جی سر...... کیوں نہیں.... ایک اور بات ہے سر...

کیا

وہ بڑے صاحب بیمار ہیں کافی......

ہونے دو....... مجھے زرا برابر بھی پرواہ نہیں... اور پلیز یار خوشی کے موقع پر موڈ آف مت کرو... قیصر آتے ہیں تو مجھے اطلاع دینا... مجھے ملنا ہے ان سے.

جی سر جو حکم...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ جھنجھلائی ہوئی..... سی گرین فراک کے نیچے پاجامہ پہنے سی گرین دوپٹے کو حجاب سٹائل میں لئے قیصر منزل میں داخل ہوئی...

اسے رات کا سین یاد آیا...

پلیز ماہی مجھے اپنے روم میں سونے دو مجھے ڈر لگ رہا ہے..

اففف... زری کتنی ڈرپوک ہو... جاؤ اپنے کمرے میں اب مجھے اکیلے سونے کی عادت ہو چکی ہے.. تم میرے ساتھ سؤو گی تو مجھے نیند نہیں آئے گی...

ہر گز نہیں... وہ اس کے کمفرٹر میں گھسی... میں تو یہیں سوؤں گی..

زری آج یہ فرسٹ اور لاسٹ بار ہے آئندہ میں یہ فیور ہر گز نہیں دینے والی... اس نے انگلی اٹھا کر وارننگ دی..

اوکے میری دادی.. آج تو سونے دو...

اور اب پھر اس زری کی بچی نے اس کی جان سولی پر لٹکا دی تھی... طبیعت خراب کہہ کر اسے بچوں کو پڑھانے بھیجا...

اب رات زری کو بریو بننے کے لیکچر دے دے کر خود کس منہ سے بولتی کہ قیصر منزل تو خود اس کے لئے کسی نائٹ مئیر سے کم نہیں

پتہ نہیں کیوں پر وہ اس شخص سے.. اس کی غصیلی سرد نظروں سے خائف تھی.. جن میں بیک وقت نرمی بھی ہوتی اور وحشت اور غصہ بھی..

وہ بچوں کو پڑھا چکی تھی... جب فرزانہ نے آ کر اسے حرا کے بلانے کا بولا.. جو کہ صفائی اور کپڑے برتن دھونے کے لئے ہائر کی گئی تھی.

وہ اندر گئی جب سامنے حرا کے ساتھ ہی وہ سنجیدگی سے اپنا لیپ ٹاپ کھولے کسی کام میں مگن نظر آیا.

اونہہ.... سڑیل.... دل میں بڑبڑائی

جی چچی.... آپ نے بلایا مجھے....

ہاں. وہ زری تو ٹھیک ہے ناں.. آئی کیوں نہیں...

رات ڈر گئی تھی خواب میں... آپ کو پتہ ہے سٹارٹ سے پہت ڈرپوک ہے.. سر میں درد کروا لیا.. بزدل.

ہاں اسے بلکل تمھارے جیسا ہونا چاہیے تھا... بریو...

وہ حرا کی بات پربمشکل  مسکرائی.اور پہلو بدلا. جانے کیوں اس بندے کی آنکھوں میں مزاق اڑاتا تاثر نظر آیا.

.. جبکہ پاس بیٹھے رزم نے دانتوں تلے لب دبا کر بمشکل اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا.. کیونکہ وہ اس کے بریوری کے مظاہرے  خوب اچھے سے دیکھ جو چکا تھا...

اچھا سنو ماہ رخ.... بریانی بنانی ہے.. میں نے قورمہ، چاول اور ہر چیز تیار کر دی ہے... تم بس تہہ لگا کر دم لگا دو پلیز.....تمھارے ہاتھ سے بہت کھلی کھلی بنتی ہے بریانی..

جی کیوں نہیں چچی.... وہ یہ کہہ کر جلدی سے کچن میں چلی گئی..

بریانی دم لگائی...بس جلد از جلد وہ گھر پہنچنا چاہتی تھی.. یہ بھی نا دیکھا کہ کچن کے فرش پر جا بجا پانی گرا ہوا ہے... یہ یقیناً ان شیطانوں کا کام ہوگا... فریزر میں سے پانی نکال کر پیا ہوگا اور نیچے گرا دیا ہوگا.

وہ جلدی سے باہر کی جانب بڑھی تھی جب پانی پر سے پھسل کر بہت بری طرح پاؤں مڑا تھا..

آہہہہہہہہہ.... ایک دلخراش چیخ گونجی تھی قیصر منزل میں ...

حرا بری طرح چونک کر اٹھنے لگی اس کی حالت کے پیشِ نظر رزم نے انھیں فوراً بیٹھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود کچن کی جانب بڑھا.

سامنے ہی وہ نیچے بیٹھی.. پاؤں گود میں رکھ کر دہری ہو رہی تھی...

وہ آگے بڑھا... اس پر جھکا..

ڈونٹ ٹچ می........ وہ غصے سے پھنکاری... آخر یہ سب اس سڑیل کی وجہ سے تو ہوا تھا..

رزم کی تیوری پر فوراً بل نمودار ہوئے... اسے پتہ تھا کہ اس بے وقوف لڑکی کو کیسے ہینڈل کرنا ہے...

اسی لئے

 اب اگر ایک بھی لفظ منہ سے نکلا تو گلا دبا دوں گا پہلے کی طرح. وہ غرایا..

تو وہ سسک پڑی.آنسو تواتر سے بہنے لگے. جو کہ سامنے والے کو جانے کیوں بے حد تکلیف سے دو چار کر رہے تھے. درد ناقابلِ برداشت تھا.. اور وہ ظالم  چیخنے بھی نہیں دے رہا تھا.. ماہی کا چہرہ لال سرخ ہوا.

وہ پھر اسے اٹھانے اس کے قریب آیا.....

وہ بولے بغیر زور زور سے نفی میں سر ہلانے لگی...

رزم نے غصیلی نظروں سے اسے گھورا...

وہ تڑپ رہی تھی... رزم نے اس نازک سی جان کو بانہوں میں بھرا..نرم و نازک گداز وجود.. رزم کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی.. دل کی بے حد عجیب کیفیت ہوئی . ا لا کر نرمی سے اسے صوفے پر بٹھایا

وہ رو رہی تھی.. درد سے دہری ہو رہی تھی..

میرا خیال ہے موچ آئی ہے... رزم نے حرا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا..

رزم پلیز کچھ کرو.. ماہی بہت تکلیف میں ہے.. حرا بھی پریشان ہوئی...

وہ اس کے سامنے دو زانو کارپٹ پر بیٹھا.. پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھائے..

نہیں... نہیں...... اس نے اس کے ہاتھ جھٹک دئیے

دیکھنے دو مجھے... رزم نے غصیلی نظروں سے دیکھا

نہیں.. مجھے درد ہو رہا ہے..

رزم نے حرا کی جانب دیکھا حرا نے اشارہ کیا..

اس نے زبردستی پاؤں پکڑ کر اپنے گھٹنے پر رکھا.. ماہی نے سسکی بھری اور  زور سے اس کا ہاتھ پکڑ لیا..

رزم نے اس کا ہاتھ ہٹایا اور ایک جھٹکے سے پاؤں سیدھا کر دیا...

آہہہہہہہہہہہہہہ... دلخراش چیخ تھی.. رزم کا چہرہ وحشت سے سرخ ہوا... نفرت تھی اسے ان چیخوں سے..

حرا اندر فرسٹ ایڈ باکس لینے گئی تھی.

چپ....... ایک دم چپ... خاموش ہو جاؤ.. اب مجھے تمھاری ایک بھی چیخ سنائی دی تو بہت برا ہوگا.. وہ غرایا

ماہی نے زور سے ہاتھ منہ پر رکھ کر اپنی سسکیاں دبائیں...

حرا باکس لے آئی تو رزم نے موو کریم اس کے پاؤں پر لگائی.

پاؤں ہلاؤ...

نہیں.....

اگر میں نے ہلایا تو زیادہ تکلیف ہو گی...

اس سڑیل کے خوف سے اس نے پھر پاؤں ہلایا.. اسے حیرت ہوئی... وہ پاؤں ہلا پا رہی تھی.. درد بھی بس اتنا نہیں تھا..

بے تحاشا روتے ہوئے وہ ہنسی.. دیکھیں چچی میں ٹھیک ہو گئی.. میرا پاؤں ٹھیک ہو گیا.. دیکھیں میں پاؤں ہلا پا رہی ہوں..

ٹھہریں چل کر دیکھاتی ہوں.. وہ بچوں کی طرح بھیگے سرخ چہرے سے ہنستی ادھر ادھر چکر لگانے لگی..

یہ جانے بغیر کہ ایک کورے، پتھر نما چٹانی دل پر بے تحاشا ضربیں لگا رہی ہے.

رزم اٹھا اور ایک غصیلی نظر اسے دیکھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری  اپنے بیڈ پر بیٹھی بے چینی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی..

کیا کروں.

اپنا ڈر کیسے بھگاؤں....

پھر ایک کوندا سا لپکا دماغ میں... چھت پر ہی بنے ایک سٹور نما کمرے میں گئی...

واپس آئی....

اور پھر لائٹ آف کر کے سائیڈ لیمپ جلایا... اور مطمئن ہو کر سو گئی.

ایک بجے کا وقت تھا جب یشار اس کی کھڑکی تک پہنچا تھا.. لیکن پر جھنجھنا اٹھا...کھڑکی بند تھی..

اپنے سیکرٹ طریقے سے کھڑکی کھولی... لیکن ابھی آہستگی سے کھڑکی کے پٹ کھولے ہی تھے.. جیسے زلزلہ آیا تھا...

خاموش سی فضا میں سٹیل کے برتنوں کی دھمک دور تک گونجی تھی.😂

یشار بھی گڑبڑایا تھا..

اور فوراً وہاں سے ہٹا...

 ادھر زری بوکھلا کر اٹھی تھی..

تو اس کا شک بے فضول نہیں تھا.. کھڑکی میں اور پورے کمرے میں جابجا سٹیل کے برتن رکھ دیئے تھے.. تاکہ اگر کوئی کمرے میں آئے تو شور سے اس کی آنکھ کھل جائے..

اور واقعی یہی ہوا تھا اب تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے یہ سوچ کر کے روز اس کے کمرے میں کوئی آتا تھا...

روح کانپ گئی تھی.

کس کو بتائے... نہیں کسی کو نہیں بتا سکتی تھی.. اسے خود ہی اس سائے سے نمٹنا تھا.. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم  آج کی یشار پر بیتنے والی کاروائی پر ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہا تھا..

ہنسی تو اس کو بھی بے تحاشا آ رہی تھی.اس اپنی تاشی کی اس چالاکی پر ٹوٹ کر پیار اور ہنسی آ رہی تھی.تو اسے فائینلی اپنے یش کی موجودگی کا احساس ہو ہی گیا تھا. مگر اپنی خفت مٹانے کو غصے سے اس کو گھور رہا تھا..

واہ واہ.... تاشی جی... انٹیلیجنس آفیسر کا سایہ پڑ ہی گیا...

 Tashi rocked Yashar shoked

ہاہاہا ہاہاہا.... رزم اسے چھیڑنے سے باز نہیں آ رہا تھا...

اس نے تکیہ اٹھا کر رزم کی درگت بنا دی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شمس نے آٹھ سال بعد قیصر منزل میں قدم رکھا تھا....

وہ لاؤنج میں داخل ہوا حرا سامنے لاؤنج میں بیٹھی تھی..

اسے دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی.

وہ قریب آیا تو اسے سینے میں بھینچ لیا...

میں بتا نہیں سکتی میں کتنی خوش ہوں.. شمس اتنے سالوں بعد آئے ہو... میں بہت خوش ہوں...

 شمس مسکرایا.. حرا کو دیکھ کر پھر حیرت ہوئی کیونکہ نوال کے جانے کے بعد تو وہ مسکرانا بھول ہی گیا تھا.

آپ سنائیں کیسی طبیعت ہے آپ کی.

میں بلکل ٹھیک ہوں...

بچے نظر نہیں آرہے...

وہ نوال کے ساتھ کھیلنے گئے ہیں...

شمس چونکا..... کون نوال.... ؟

شمس تمھیں پتہ ہے نوال کی جڑواں بہن ہے منال... ہو بہو اسی کے جیسی....

شمس خاموش رہا...

اسی کی بیٹی ہے.. نوال... اس نے اپنی بہن کا نام دیا اپنی بیٹی کو......

آپ نے پہلے کبھی نہیں بتایا.... شمس کے لہجے میں کچھ تھا کہ حرا چونک گئی.

تمھیں پتہ ہے اس کے بارے میں...؟

ہاں میں نے اسے نوال کی قبر پر دیکھا تھا.... وہ افسردہ ہوا

تو حرا نے موضوع چینج کرنے کے لئے بات بدلی.. شمس تمھاری اجڑی زندگی دیکھ کر مجھے بے حد تکلیف ہوتی ہے. دوسروں کے گھر بسانے والا خود کتنا تنہا ہے... پلیز شمس شادی کر لو....

کروا دیں.....

حرا کو خوشگوار حیرت ہوئی... واقعی شمس... چہرہ پر دبا دبا جوش تھا....

کروا دیں شادی... مگر صرف اور صرف منال سے....... شمس نے حرا کے سر پر بم پھوڑا.

واٹ......... شمس ہوش میں تو ہو... تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو صرف اس وجہ سے کہ وہ بلکل نوال جیسی ہے..

حرا کو صدمہ لگا.

نہیں میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھے اس میں برسوں بعد وہی کشش محسوس ہوئی جو نوال کو دیکھنے پر محسوس ہوئی تھی.

شمس نوال اس سے کچھ نہیں چھپاتی تھی... اسے سب پتا تھا... اس نے قیصر سے بھی تمھارے متعلق بات کی تھی.. اور سب سے بڑی بات شمس وہ تم سے نفرت کرتی ہے جو بھی ہوا اس کا زمہ دار تمھیں سمجھتی ہے..

مجھے معلوم ہے.. اس دن میں نے اس کی آنکھوں میں اپنے لیے بے تحاشا نفرت دیکھی تھی... تو کوئی بات نہیں... ایک مرتبہ شادی ہو جائے میں اسے منا لوں گا...اس کی نفرت کو محبت میں بدل دوں گا... شمس نے ہوا میں بات اڑائی

شمس وہ کبھی نہیں مانے گی......

مجھے یقین ہے قیصر منا لیں گے اس کو.....

حرا حیران ہوئی.. وہ تو ساری پلاننگ کر کے بیٹھا تھا..

شمس وہ پہلے بہت تکلیفوں سے گزر چکی ہے.. بدنصیب...

میں جانتا ہوں... میں اس کے ہر دکھ درد تکلیف کا مداوا کرنا چاہتا ہوں...

جیتے رہو....... اگر یہ رشتہ ہو گیا تو سب سے زیادہ خوش مجھے ہی دیکھو گے. حرا نے اس کا ماتھا چوما.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم وہ دو دنوں سے بچوں کو پڑھانے بھی نہیں آئی.... کالج بھی نہیں جا رہی.رات بھی وہ سب کچھ ہو گیا.. مجھے اسے دیکھنا ہے... وہ بچوں کی طرح مچلا

پلیز میرے بھائی کچھ کرو.... میرے سینے میں میرا سانس الجھ رہا ہے... وہ بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے اذیت میں تھا.

اوکے.... سمجھو ہو گیا.... اب یہ رونی شکلیں بنانا بند کرو...

اس نے کال ملائی جو کہ اگلی ہی بیل پر رسیو کر لی گئی..

جی سر.... حکم...

ہاں... کامی........ یہ جو ایڈریس سینڈ کر رہا ہوں... آج اس گلی کے تمام گھروں میں ڈینگی کے مچھروں کا سپرے کرواؤ

لیکن جس گھر کا ایڈریس میں بھیج رہا ہوں وہاں ہمارے علاوہ کسی اور نے پاؤں رکھا تو ٹانگیں سلامت نہیں چھوڑوں گا.

جی سر جو حکم دو گھنٹوں میں پوری گلی میں ہو جائے گا... سر حلیہ اپنے والا ہی ہو کیا...

ہاں بلیک پینٹس.... وائٹ ہڈی پر بلیک رومال سمجھ گئے ناں میری بات..

جی سر

رزم نے اطمینان سے فون رکھا...

تو یشار کا دل کیا اس کے صدقے چلا جائے...

یہ یقیناً تم نے اپنی ہونے والی  محبوبہ کے دیدار کرنے کے لئے پلان بنا رکھا ہوگا..اس نے چھیڑا..

بلکل گدھے ہو تم یشار......... اب وہ اسے کیا بتاتا کہ چور تو اس کے دل میں بھی تھا... لاشعور میں ہی سہی وہ بھی کسی کو دیکھنا چاہتا تھا...

پھر ڈیڈھ گھنٹے بعد وہ کامی کی بیل دینے پر بلیک پینٹس اور وائٹ ہڈی میں منہ پر بلیک رومال باندھے عابد حسین کے گھر کے باہر کھڑے تھے..

بیل دی...

نازیہ بیگم باہر آئیں.

اسلام و علیکم آنٹی... ہم ڈینگی سروے کے لئے حکومت کے نمائندے ہیں.. یہ ہمارے آئی ڈی کارڈ ہیں... ہمیں آپ کے گھر کا سروے کرنا ہے اور سپرے بھی کرنا ہے...رزم پروفیشنل نمائندوں کی طرح بولتا گیا..

اس طرح کے سینکڑوں آئیڈینٹٹی کارڈز ان کے خاص کاموں کے لئے بنے ہوئے تھے 

ہاں بیٹا آ جاؤ پورے محلے میں ہو رہا ہے.... کیا زیادہ مچھر ہو رہے ہیں محلے میں..

جی آنٹی بس کیا بتاؤں آپ کو..

 اس نے یشار کی طرف طنزیہ سا دیکھا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ  مچھر تو اس کے دماغ میں ہو رہے ہیں جو اسے ٹکنے نہیں دیتے.

وہ اندر داخل ہوئے... تو لان میں لاؤنج میں جیسے ایک طوفانِ بدتمیزی سا برپا تھا... نوال، نائفہ اور محسن لاؤنج میں کھیل رہے تھے.. منال اپنے کمرے میں تھی. وہ دونوں گرین گھٹنوں تک آتی ٹی شرٹس کے نیچے ٹراؤزر  پہنے سروں پر حجاب 


سٹائل سکارف باندھے کچن میں گھسی ہوئی تھیں..

جب تک وہ سروے کے بہانے نیچے گھوم پھر رہے تھے تو تب تک تو شانتی ہی رہی لیکن وہ سپرے ریڈی کرنے کا کہہ کر اوپر چھت پر آئے

تو نیچے ایک ہنگامہ مچ چکا تھا.

سپرے تو ریڈی تھے... وہ تو اطمینان سے سیڑھیوں میں کھڑے نیچے ان کی کارستانیاں دیکھ رہے تھے.

ماہی میری آئس کریم  واپس کرو..تم اوربچے کھا چکے ہو.. بھوکڑ خاندان کی... زری نے دانت پیسے... اور ماہی کی طرف لپکی.. وہ لاؤنچ میں صوفے کے پیچھے ہوئی

مما یہ دیکھو مجھے کیا بول رہی ہے.......

مسز عابد آپ تو اس کی سائیڈ لینا ہی مت...... بہت بری پیش آؤں گی.. اور تم مما کی چمچی میں خود کے بنائے پاستے کا ایک چمچ بھی تمھیں نہیں دینے والی.... ماہی چڑیل...

میں تمھیں چڑیل نظر آتی ہوں.. ماہی کو صدمہ لگا... اور خود گرے آنکھوں والی بھوتنی.... ماہی نے حساب برابر کیا

او خدایا بھوتنیاں اس قدر خوبصورت ہوتی ہیں... صدقے جاؤں.. زری فرضی کالر جھاڑتی اشارے سے خود کے صدقے چلی گئی...

اونہہہہہہہہ. خوبصورت..... انسان جتنا مرضی خوبصورت ہو پر اپنی چمی نہیں لے سکتا. ماہی تلملائی

میں لے سکتی ہوں... یہ دیکھو.... زری نے مڑ کر لاؤنج کے آئینے میں اپنے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے.

زری نے مڑ کر دیکھا وہ اس کا دھیان بٹا کر ساری آئسکریم کھا چکی تھی

زری کی صدمے سے آنکھیں پھیلیں... ماہی چڑیل... وہ پھر ماہی کی طرف لپکی...

نازیہ بیگم نیچے منہ کئے مسکرا رہی تھیں... اور تو اور بچوں بھی ان کی لڑائی انجوائے کر رہے تھے.

جب کے اوپر قہقہے ضبط کرنے کے چکر میں ان دونوں کے چہرے لال سرخ ہو گئے تھے.....

بس کرو زری... ماہی.. میرا خیال ہے ہمارے گھر اجنبی موجود ہیں جو یہ سنیں گے تو کیا کہیں گے یہ لڑکیاں کتنی بدتمیز ہیں.. نازیہ بیگم نے مصنوعی سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا...

دا گریٹ زرتاشہ کو تو نہیں کہیں گے..... اس بھوکی کا پتہ نہیں.... زری نے پھر کہا.

بھوکی کسے بول رہی ہو... ابھی تو میں نے دا گریٹ تاشی کے ہاتھ کا بنا ہوا پاستا بھی کھانا ہے..

ماہی.. میں نے کتنی مرتبہ کہا ہے... Don't call me like taht.....

زری خفا ہو کر کچن میں واک آؤٹ کر گئی... 

زری جھنجھنائی..... یشار چونکا. وہ اس نام سے اتنا کیوں خفا ہوئی تھی..سٹرینج......

پھر وہ بظاہر  اپنے کام سے فری ہوئے اور لاؤنج میں آئے... کچن کی کھڑکی سے تمام نظارہ آنکھوں کے سامنے تھا..

نا صرف زری کو بلکہ آج تو ماہی کو بھی عجیب سی بے چینی ہو رہی تھی.

انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا...

یہ کون ہیں... ماہی  چونکی......

ڈینگی سروے والے . زری نے سرگوشی کی

اتنے ہینڈسم.....

ہاں یہ تو ہے..... کھی کھی کھی.... وہ اپنی بات خود ہی انجوائے کر رہی تھیں یہ جانے بغیر کے وہ دونوں ان کی گوہر افشانیاں سن کر پھر محظوظ ہوئے ہیں 

جی آنٹی... ہمارا کام ہو گیا... اب ہم چلتے ہیں... رزم نے کہا

نہیں بیٹا... تھوڑی دیر اور ٹھہر جاؤ پاستا کھا کے جانا.. پتہ نہیں کب سے بھوکے مارے مارے پھر رہے ہو.. ان کی آواز میں مامتا تھی.

زری... ماہی پاستا  ڈال کر  لاؤ....

جی مما.... زری نے آواز دی...

اب وہ بڑے تمیز کے دائرے میں دوپٹے اوڑھے سنجیدگی سے زری نے ٹیبل پر  ٹرے رکھی.... اور ماہی نے کولڈ ڈرنک کی بوتل...

وہ گھبرائی سی اوپر اپنے کمروں میں جا چکی تھیں...

جب انھوں نے منہ پہ رومال ہٹا کر پاستا کھایا...

اور گھر کی راہ لی....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آج زری گئے رات تک اس سائے کا انتظار کر رہی تھی... جو گہری نیند میں خوابوں میں بھی اسے بے چین اور خوفزدہ رکھتا تھا.. بے حد اور بے تحاشا..

.اس کی کلون کی خوشبو اسے گہری نیند میں بھی اپنے آس پاس محسوس ہوتی تھی. .. نیند سے جب اعصاب بوجھل ہوئے تو تھک ہار کر آنکھیں موند لیں.

وہ کچی نیند میں تھی.. جب وہ ہیولا کھڑکی پھلانگ کر ملگجے اندھیرے میں اندر آیا..

ہمیشہ کی طرح یشار  اس پر جھکا..اسے تڑپتی برسوں کی پیاسی نگاہوں سے دیکھا.... اور اپنی  ٹھنڈی  سی سانس سے اس کے بے تحاشا حسین چہرے پر دھیمے سے پھونک ماری...

وہ ہڑ بڑا کر اٹھی تھی...وہ اطمینان سے دور جا کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا..جیسے جانتا تھا کہ آج وہ اس کا انتظار کر رہی تھی.. اور جاگ بھی جائے گی 

مم....... مجھے پتہ ہے... کک... کوئی ہے.. کک... کون ہے... خوف سے کپکپاتے جب اس کی نظر سامنے پڑی تو روح فنا ہو گئی..

 ہمیشہ کی طرح وہ بلیک ہڈی میں منہ پر رومال باندھے تھا.. جو اس کا سایہ بن گیا تھا سائے کی طرح اس کا پیچھا کرتا تھا.. وہ کئی بار..، بارہا اسے اپنے آس پاس دیکھ چکی تھی.. مگر صرف آنکھیں.. وحشت زدہ آنکھیں.. اپنی طرف لپکتی تڑپتی 


آنکھیں...لیکن اج وہ آنکھیں بلو کی جگہ براؤن تھیں

اب بھی خود کی طرف لپکتی پرتپش دہکتی براؤن آنکھوں میں جھانکا تو زری کی  ننھی سی جان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ ہوئی.. پسینے سے چہرہ بھیگ گیا وہ سمٹ کر ٹانگوں پر بازو باندھے خوف سے تھر تھر کانپتی اسے دیکھ رہی تھی..

دیکھتا ہی ہوں ناں... چھوا تو نہیں تمھیں کبھی....... جو انتظار کر رہی تھیں مجھ سے نمٹنے کے لئے..یشار کا سرسراتا سا لہجہ تھا..

. کک... کون ہو... تم... مم.. میں بابا.. کو بب... بتاؤں گی.. وہ بےبسی سے بے تحاشا رو دی..

تاشی...میری.... تاشی... اس پکار میں صدیوں کی تڑپ تھی.

وہ بے تحاشا چونکی...

ی.... ی... یش....... تت... تم..... ی.... یش.... ہو.. ناں

اس کے پھڑپھڑاتے لبوں سے اپنا نام سن کر مقابل نے سکون سے آنکھیں موند کر سر دیوار سے لگایا..اور لمبی سی سانس بھری.

تمھیں پتہ ہے تاشی .. میں کتنے برسوں سے ڈھونڈ رہا ہوں تمھیں..کتنے برس انتظار کیا تمھارا سرگوشی نما آواز اس کی جان ہلکان کر رہی تھی.. اس کا پورا جسم جیسے اس کی آنکھوں کی ٹرانس کے زیرِ اثر تھا.. شل ہوا وجود.. لاکھ کوشش کے 


بعد بھی وہ اٹھ کر بھاگ نا سکی.

 تمھیں پتہ ہے جب تم 6th میں تھی اور میں 8th میں..

میں آخری بار تم سے ملنے آیا تھا.... میں نے اپنے ساتھ لے جا کر تم سے پیپر سائن کروائے تھے.. جو تم نے خوشی خوشی سائن کردیئے تھے.. جانتی ہو وہ کونسے پیپر تھے..

کک.... کون... سس.. سے.. وہ سسکی.

نکاح کے پیپر تھے وہ...ہم دونوں کے نکاح کے.. 

اس بات پر بیڈ پر سمٹا بیٹھا نازک سا وجود زلزلوں کی زد میں آیا تھا..

تاشی.... میری تاشی... اس نے سرخ انگارہ وحشت زدہ سی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور بیڈ کی جانب بڑھا.. اس کے سامنے جھک کر بیڈ پر ہاتھ رکھ کر اس کی خوف سے سرد پڑتی آنکھوں میں جھانکا..

تاشی... تم اپنے یش کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہو... نکاح پر نکاح کیسے کر سکتی ہو.تم تو میری امانت تھیں ناں.. صرف اور صرف یش کی.

. بچپن میں کسی نے تمھاری گردن پر اس تل کو چھونے کی کوشش کی میں نے اس کا ہاتھ توڑ دیا. تم اپنا سارا وجود میرے علاوہ کسی اور کے نام کیسے کر سکتی ہو... اس کی سرسراتی رگوں میں خون منجمد کرتی وحشت زدہ آواز تھی..

 تاشی نے اپنی چیخوں کا گلا گھوٹنے کے لئے اپنے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھے ہوئے تھے..

وہ خوف و دہشت کی تاب نہ لاتے ہوئے دوسری طرف سے پلنگ سے اتر کر دروازے کی جانب بھاگی.

جب  یشار کا آہنی بازو اس کے اور دروازے کے بیچ حائل ہوا تھا...وہ اس کے بےحد قریب کھڑا تھا کے اس کے بائیں کان کو یشار کی سانسوں کی گرماہٹ پگھلا رہی تھی. یشار نے بے قرار سی سرگوشی کی

With all my breath, in these eight years, I have cried out to you 

My mind remembere you

Soul commits you

You are mine.... You was mine... You will be mine forever and ever my Ishq... 

اس شخص کی خوشبو اور سانسوں کی تپش سرسراتا لہجہ اس کے ہوش گم کرنے کو کافی تھے..

تیورا کر دروازے سے لگی زمین بوس ہوئی تھی..وہ دو زانو بیٹھا... اتنی وحشت اور تڑپ کے باوجود اسے چھو نا سکا.. بستر سے کمفرٹر لایا اس کے اوپر اوڑھایا.. کمفرٹر میں لپیٹ کر اسے نرمی سے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا.

پھر اس پر جھکا....

تمھیں کیا خبر تاشی... تم اتنے برسوں کی میرے عشق کی جائز تمنا ہو... میرا جنون میری دیوانگی ہو.. پر نہیں تمھیں کہاں خبر.

اگر خبر ہوتی تو یوں مجھ سے گریز نہیں برتتیں....

کتنا اکیلا ہوں میں تمھارے بغیر

ادھورا..... بلکل ادھورا

وہ اٹھا اور اس پر آگاہی کا عذاب نازل کر کے وہاں سے چلا آیا....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یشار اس کے سر پر بم پھوڑ کر گھر واپس آیا گلاس وال کے قریب کھڑا ہوا... اور آٹھ سال پہلے کے وہ دن یاد آئے..

اعظم یہ کون ہے... وہ اعظم کے ساتھ گھونگھٹ میں لپٹی ایک گٹھڑی سی کو دیکھ کر حیرت سے بولا.

یہ...... یہ میری دوست ہے یشار بابا...اعظم ہچکچایا... بھلا اتنے سے بچے کو بیوی لفظ کے کیا معنی بتاتا.. اور یشار بابا تو سوال ہی اتنے کرتے تھے کہ پسینے چھوٹ جاتے.

دوست ہے تو تمھارے ساتھ کیا کر رہی ہے اعظم... اس کی فیملی نے اسے کیوں بھیجا تمھارے ساتھ.. اور آنے دے دیا.. یشار کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں.

ہاں یشار بابا... میں نے اس سے دوستی کے ایگریمنٹ کا پیپر سائن کروایا ہے اب یہ میرے ساتھ رہ سکتی ہے.. اب میری یا اس کی فیملی کہ گھر والے ہمارے ایک ہی گھر میں رہنے پر کوئی اوبجیکشن نہیں کر سکتے.

ہممم. اوکے... یشار گہری سوچ میں چلا گیا تھا...

جب دو دن بعد اس نے اعظم کے سر پر بم پھوڑا تھا... اعظم میں بھی ہمیشہ کے لیے اپنی فرینڈ کو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں.. ایک ہی گھر میں اس لئے مجھے بھی وہ فرینڈ شپ کے ایگریمنٹ کا پیپر سائن کرانا ہے تاشی کے ساتھ.

اعظم کے تو پسینے چھوٹ گئے تھے...

اب کیا کرے پھر اس نے لاکھ یشار بابا کو سمجھانے کی کوشش کی... مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا... اور اپنی ضد پر اڑا رہا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی صبح بھاری ہوئے سر کے ساتھ اٹھی تھی.. جب رات کے وہ قیامت خیز لمحے یاد کر کے ایک مرتبہ پھر اس کے اوسان خطا ہوئے تھے.

وہ لوٹ آیا...... وہ واپس آ گیا....

افففففف

اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی...

وہ پاگل... بلکل.. پاگل... نا کسی سے بات کرنے دیتا تھا... نہ کسی سے فرینڈ شپ کرنے دیتا تھا...

اور وہ یہ کیا کہہ کر گیا تھا... اسے یاد آیا..

آٹھ سال پہلے.... جب وہ اسے ساتھ لے کر گیا تھا..

وہ گاڑی میں سے اترے تھے... وہ چھوٹی سی حیران حیران آنکھوں سے اس بڑی سی بلڈنگ اور گارڈن  کو دیکھ رہی تھی.

یش..... ہم کدھر آئے ہیں....

یہ ہمارا فارم ہاؤس ہے تاشی..... آ جاؤ

پر ہم یہاں کیوں آئے ہیں... معصومیت سے پوچھا..

وہ اندر آئے... اوکے میں بتاتا ہوں...

دیکھو تاشی.. میں تمھارا بیسٹ فرینڈ ہوں ناں اور تم میری....

ہاں... اس نے اثبات میں سر ہلایا.

تو آج ہم اپنی فرینڈ شپ کے ایگریمنٹ کے پیپر پر سائن کریں گے... پھر کوئی بھی ہمیں یہ نہیں کہے گا کہ اکٹھے مت کھیلو... کہیں اکٹھے مت جاؤ... پھر میں تمھارے ہاؤس آ سکوں گا اور تم میرے..... ہم ایک ہی ہاؤس میں بھی رہ سکتے ہیں.. 


ساتھ کھیل سکتے.. ساتھ چاکلیٹ کھا سکتے ہیں... ساتھ ویڈیو گیمز کھیل سکتے ہیں..

یشار نے اپنی عقل کے مطابق اسے سمجھایا...

اوکے.. ہم سائن کر لیتے ہیں یش... وہ بے حد خوش ہوئی تھی.. بہت.. اس کا محافظ ہمیشہ اس کے آس پاس رہتا...

تاشی اور جب انکل کچھ بھی پوچھیں تو تم یس کہنا اوکے

اوکے یش

وہ لاؤنج میں آئے تو مولوی صاحب بھی ایک مرتبہ تو ان  چھوٹے دلہا دلہن کو دیکھ کر بھونچکے ہوئے تھے.

اعظم نے اشارہ کیا کہ جو کہا جائے وہ کر دو..

پھر ان دونوں نے فرینڈ شپ کے پیپر پر سائن کیے تھے.. پھر گھر آئے.. اس کے بعد یش گیا تھا تو لوٹ کر نہیں آیا تھا..اسے یہی تو سب سے بڑا دکھ تھا کہ یش نے تو اپنا فرینڈ شپ کا ایگریمنٹ تک توڑ دیا تھا

تاشی نے جھر جھری لی... وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی جب فون رنگ ہوا..

منال کو حیرانی ہوئی چچی کی کال تھی.. اس نے فون یس کر کے کان کو لگایا.....

 سلام دعا کے بعد منال کو جب حرا کی سسکی کی آواز آئی تو تڑپ گئی.

کیا بات ہے چچی... آپ رو کیوں رہی ہیں.. آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں..،؟

میری طبیعت ٹھیک ہے منال.. مگر کسی بھی وقت خراب ہو سکتی ہے.. اس سے پہلے میں تم سے معافی مانگنا چاہتی تھی..

مجھ سے معافی مگر کیوں چچی...

کیونکہ تم ہمیں نوال کی موت کا زمہ دار سمجھتی ہو اسی لئے تو ہمارے گھر نہیں آتی.....وہ پھر سسکی

نہیں چچی ایسی کوئی بات نہیں.. میں تو اسی لئے نہیں آتی کہ وہاں سے میں ہمیشہ کے لیے اپنی بہن سے بچھڑ........ خیر........ مگر جو آپ سوچ رہی ہیں ایسی کوئی بات نہیں..

اگر نہیں تو چلی آؤ میرے پاس  .. میری طبیعت ٹھیک نہیں... زری اور ماہی ابھی بچیاں ہیں.. وہ مجھے نہیں سنبھال سکیں گی...

ٹھیک ہے چچی میں آتی. ہوں.. مگر آپ نے کسی قسم کی کوئی ٹینشن نہیں لینی...

منال نے بوکھلا کر فون بند کیا نوال کو اٹھائے نازیہ بیگم کے پاس گئ... اور انھیں قیصر منزل جانے کا بتایا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟 💟

منال زری اور ماہی حرا کے کمرے میں ان کے ساتھ بیٹھی تھیں...جب کمرے میں قیصر حسن داخل ہوئے تھے... سب کو خوشگوار حیرت ہوئی...

منال، زری اور ماہی اٹھ کر ان سے لپٹ گئیں... انھوں نے تینوں کے سر پر پیار دیا..

جیتی رہو بچیو...

واٹ آ پلیزنٹ سرپرائز چاچو... بتایا نہیں...

اگر بتا کر سرپرائز ختم کر دیتا تو یہ اتنی پیاری پیاری شکلیں کیسے دیکھتا تمھاری چاچی سمیت.. انھوں نے چھیڑا اور آ کر حرا کے سرہانے بیٹھ گئے.. حرا نے بلش کیا..

وہ تینوں ہنس پڑیں

بچے باہر کھیل رہے تھے...

زری تمھارے ہاتھ کی چائے پینے کا دل کر رہا ہے بےبی کا.. حرا نے شرما کر کہا.. تو وہ مسکرا کر کچن میں چائے بنانے چلی گئی..

لان میں سے نوال کے رونے کی آواز آئی تو ماہی گھبرا کر باہر کی جانب بھاگی تھی...

منال بیڈ پر بیٹھی حرا کا ہاتھ تھامے ان دونوں سے باتیں  کر رہی تھی کہ کوئی دستک دے کر اندر آیا....

منال  نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو فوراً نفرت سے منہ پھیرا جو سب نے نوٹ کیا...

اسلام و علیکم... شمس سب پر سلامتی بھیجتا اندر آیا..

حرا نے قیصر کو سب بتا دیا تھا.اور .. اب قیصر سیدھا این مینشن سے ہو کر  شمس سے تفصیلی بات کر کے اسے لے کر گھر آئے تھے.. وہ تو بہت خوش تھے.. وہ دونوں ان کے دل کے بہت قریب تھے.. دونوں کی زندگی اجڑی ہوئی تھی جو وہ 


ایک ساتھ مل کر آباد کر سکتے تھے.

مگر ابھی منال کو منانے کا ایورسٹ سر کرنا تھا.

اس کے لئے بھی قیصر نے کچھ سوچ رکھا تھا.

وہ حرا کے قریب آیا تھا.. منال کی پشت کے بلکل قریب کھڑا تھا... وہ پہلو بدل رہی تھی.

کیسی طبیعت ہے آپ کی پھپھو.....

ٹھیک ہوں بلکل تم سناؤ... کیسے ہو...

 ٹھیک ہوں...

وہ وہیں صوفے پر ٹک گیا..

منال کو اپنی کمر پر پرحدت نگاہوں کی تپش محسوس ہوئی تو دل کیا اس بندے کو شوٹ کر دے..

چچی میں چلتی ہوں امی اکیلی ہوں گی... زری اور ماہی نوال کو لے کر آ جائیں گی..

ہر گز نہیں.. زری چائے بنا رہی ہے... پی کر جانا... حرا نے اس کا ہاتھ تھاما تو اس نے بے بسی سے لب کاٹے.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی لان میں نوال کے پاس آئی تھی.. وہ گر گئی تھی اب وہ اسے گود میں لئے بہلا رہی تھی.. جب پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے دنگ رہ گئی..

رزم بیگ ہاتھ میں تھامے لاؤنج سے باہر آ رہا تھا... مگر آج دکھنے میں وہ بلکل مختلف بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا..نیلی آنکھیں اس کی طرف اٹھیں.. تو پھر ماتھے پر بل آئے..

بے وقوف لڑکی... پتہ نہیں کیوں حواسوں پر سوار ہو جاتی ہے....

اونہہہ... سڑیل شکر ہے جا رہا ہے.. جان چھٹی لاکھوں پائے..... وہ بڑبڑائی

آپ نے کچھ کہا.. وہ پتہ نہیں کیوں پر اس سے آخری بار الجھنا چاہتا تھا...

نہیں میں نے تو کچھ نہیں کہا... وہ معصوم بنی...

اور سڑیل کس کو کہا... ماہی اب کے بار تو بوکھلائی تھی...

میں نے تو نہیں کہا... آپ نے سنا کیا... وہ پھر مکری...

رزم نے لب بھینچے.. وہ بھی تو یونہی پیروں پر مکر جاتی تھی... وہ ایک جھٹکے سے بیگ لیے باہر نکلا تھا اب اسے اس کی شکل کبھی نہیں دیکھنی تھی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ کچن میں اپنے دھیان میں چائے بنا رہی تھی جب وہی احساس ہوا.. پھر سر جھٹک دیا.. اب اسے اس سے نا ڈرنا تھا نا اس سے کوئی واسطہ رکھنا تھا.... کبھی نہیں...

تاشی....بھاری گھمبیر آواز سنائی دی تو وہ اچھلی.. اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے گنگ رہ گئ

سامنے یوسف تھا مگر بہت ہی الگ حلیے میں.. براؤن آنکھیں.. گرے پینٹ.. بلیک ہڈی والی شرٹ.. مگر آج چہرے پر رومال نہیں تھا... بے تحاشا ہینڈسم اور ڈیشنگ.. مہربان سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا حیران ہونا اور آنکھوں میں بے تحاشا خوف 


نوٹ کر رہا تھا.

کیا یار تاشی..... پہچانا نہیں تھا... میں یشار خان یوسف تھا... وہ اتنا بے تکلف تھا جیسے پتہ نہیں ان کے بیچ کتنی گہری دوستی ہو...

اس نے مڑ کر چائے کپس میں ڈالنی شروع کی...

مجھ سے ناراض ہو تاشی؟ آواز میں صدیوں کا درد تھا...

کیوں بھلا میں آپ سے ناراض کیوں ہونے لگی... آپ کا اور میرا تعلق ہی کیا ہے..

میرا تو تم سے میری روح کا تعلق ہے اور........

پلیز... مجھ سے ایسی باتیں کرنا بند کریں... آپ بھی جانتے ہیں کہ یہ غلط ہے تو پھر...؟

تاشی.....

پلیز........ یش......... میرا مطلب ہے یشار خان یوسف

نہیں یش ہی بولو.... اپنا سا لگتا ہے.... اس نے بے دردی سے لب دانتوں تلے کچلے..

یشار ان نازک پنکھڑیوں سے اسے یہ سلوک کرتے دیکھتا خفا سا ہوا..مگر اس سے پہلے وہ اسے ٹوکتا وہ چائے کی ٹرے اٹھائے وہاں سے نکلتی چلی گئی.

اس نے ٹھنڈی سی آہ بھری.. ظالم...... چائے بھی نہیں پوچھی....وہ ٹھنڈی سی آہ بھرتا وہاں سے بیگ لیے نکلا... شمس نے اپنی گاڑی میں آنا تھا.... شمس لالہ نے کہا تھا کہ اس کے آنے تک وہ گھر ہی رہیں کیونکہ انھوں نے ان سے کوئی 


ضروری بات کرنی تھی. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ چائے لے کر اندر آئی.... جب ایک اجنبی کو وہاں بیٹھے دیکھا... اس نے سلام کیا...

جاؤ زری ماہی کی چائے اور اپنی چائے لان میں لے جاؤ...

ہمیں منال سے ضروری بات کرنی ہے...

زری حیران ہوتی وہاں سے چلی گئی...

منال نے پھر پہلو بدلا..

منال شمس تم سے کچھ کہنا چاہتا ہے

مگر چاچو میں ان سے کچھ نہیں سننا چاہتی.....

منال نے درشتی سے کہا

کہ شمس بولا.... میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں...

دماغ جنھجنھایا تھا. منال کا... جیسے پہلے کی تھی چھپ کے... بزدلوں کی طرح...

شمس کا چہرہ دھواں دھواں ہوا... فوراً اٹھا..قیصر اب تو یہ شادی پوری دنیا کے سامنے کروں گا تب ہی ہوگی..... .اور باہر نکلتا چلا گیا...

منال نے شکایتی نظروں سے قیصر کو دیکھا.. مگر انھوں نے سنجیدگی کہا منال پرانی باتیں بھول جاؤ تمھارے سامنے پوری زندگی پڑی ہے...

چاچو مگر میں اس شخص سے ہر گز  شادی نہیں کروں.. یہ میرا آخری فیصلہ ہے......ااس نے نفرت سے کہا.

قیصر نے افسوس سے سر ہلایا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ تینوں کھانے کی ٹیبل پر آمنے سامنے بیٹھے تھے جب شمس نے انھیں تمام تفصیلات بتاتے ہوئے یہ گڈ نیوز سنائی تھی کہ وہ منال سے شادی کر رہا ہے..

وہ دونوں بے حد بے حساب خوش تھے... جب رزم نے شمس کو کچھ بتانے کے لئے منہ کھولنا چاہا.. تو یشار نے آنکھوں سے منع کر دیا..

شمس کے جانے کے بعد... تم نے مجھے لالہ کو تاشی کے بارے میں بتانے سے کیوں روکا...

کیونکہ میں نہیں چاہتا وہ اتنے سالوں بعد اتنی خوشی کے موقع پر کچھ اور سوچیں یا پریشان ہوں... جب سہی وقت ہوگا میں خود ہی بتا دوں گا...

آئی ایگری......

وہ دونوں اپنے کمرے میں آئے تھے تیاری کے لیے کیونکہ زونی نے بہت کام کی انفارمیشن دی تھی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ہائے ماہی زری نہیں آئی آج کیا.....زونی نے اس کو اکیلے بیٹھا دیکھا تو اس کے قریب چلی آئی... چھٹی کا وقت ہو چلا تھا

نہیں... آئی طبیعت خراب تھی اس کی اسی لئے...

اتنے میں ہی مس شازیہ بمشکل چلتے ہوئے ان کے قریب آئی تھی.... 

ماہ رخ اور زینیہ میری طبیعت بہت خراب بیٹا کیا تم دونوں آج مجھے گھر تک چھوڑ دو گی...قریب ہی ہے... کچھ وقت لگے گا..مجھے سے چلا نہیں جا رہا. بچو

ماہی پہلے ہچکچائی... مگر زونی کے اشارہ کرنے سے مطمئن ہو گئی...اور دل میں سوچا ٹیچر ہیں ہمارا فرض بنتا ہے ان کی مدد کرنا.....

وہ دونوں میم شازیہ کو سہارا دیئے نکلیں...... اور آ کر ان کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھ گئیں...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

مچلی کانٹے میں پھنس چکی ہے یشار.... اب بس اسے پکڑنے کی ایسی پلاننگ کرنی ہے کہ کہیں سے بھی بچ نکلنے کا راستہ نا ہو...

ایسا ہی ہوگا... ڈونٹ وری.... کوئی اور خبر..

زونی کے ساتھ تاشی کی سسٹر ماہ رخ بھی ہے..

واٹ... یشار پریشان ہوا... ایسا کیوں.

وہ میڈم ہے... میڈم............ ایک شکار نہیں پھنساتی... اگر زونی اسے منع کرتی تو جتنی وہ شاطر ہے اسے اندازہ ہو سکتا تھا.. اسی لئے اسے بھی ساتھ لے جانا پڑا...ویسے بھی میڈم کا پہلا ٹارگٹ وہی تھی.. رزم کا اندازہ لاپرواہ سا تھا 

مگر یشار اب بے چین تھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تقریباً تین بجے وہ میڈم کے گھر پہنچی تھیں .... انھیں سہارا دے کر اندر ان کے لاؤنج تک لائیں.. یہ بڑا سا گھر تھا... مگر عجیب اور ویران... انھوں نے شازیہ کو صوفے پر بٹھایا...

اوکے میم ہم چلتے ہیں... دیر ہو جائے گی.. ماہ رخ گھبرائی سی تھی اس لئے یہاں سے جلد از جلد نکلنا چاہتی تھی

ارے ماہ رخ بیٹا... ایسے کیسے تم لوگ اتنی دور مجھے چھوڑنے آئی میں تمھیں کچھ کھائے پئے بغیر نہیں جانے دوں گی....

ان کے اشارے پر ملازمہ فوراً جوس کے گلاس اور لوازمات لے کر آئی تھی... جیسے پہلے ہی تیار بیٹھی ہو.

مجبوراً انھیں بیٹھنا پڑا... 

پھر ہچکچاتے انھوں نے ایک ایک پیٹیز اٹھائی... اور جوس کا گلاس ختم کر کے اٹھ کھڑی ہوئیں...

اوکے میم ہم چلتے ہیں... جب ان کے سامنے دنیا گھوم گئی تھی...

شازیہ کے چہرے پر خباثت ٹپکی

چلی جانا... اگلی دنیا میں... مگر ہمارا کام کر کے...

ان کے یہ جملے بےہوش ہوتے ہوئے بھی بڑے واضح زونی اور ماہی نے سنے تھے...

ماہی نے بے اختیار اللہ کو مدد کے لیے پکارا تھا....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری گھر سے نکلی تھی قیصر منزل کا بول کر اور اب محلے میں موجود مدرسے میں جہاں بچیوں کا حفظ اور ترجمہ و تفسیر سکھائی جاتی تھی.. وہاں داخل ہوئی...

آخر کچھ انتظار کے بعد عالما اور فاضلہ باجی سے ملاقات کرنے کا وقت مل ہی گیا....

پھر اس نے اپنی دوست کا بول کر انھیں ساری تفصیل بتائی اور مسئلہ پوچھا...

دیکھو بیٹا..... تمھاری اس دوست کے پہلے نکاح کی کوئی حیثیت اور حقیقت نہیں...

ایک تو بچپن... دوسرے جب دلہا دلہن کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کونسے مقدس رشتے میں بندھنے جا رہے ہیں تو یہ نکاح تو ویلِڈ ہو ہی نہیں سکتا.. اور تیسری بات.. دلہن کے ولی اور گواہوں کے بغیر نکاح ہوتا ہی نہیں ہے... تو اس پہلے نکاح کی 


کوئی اہمیت نہیں

ہاں جو دوسرا ہے.. وہ حیثیت رکھتا ہے.. وہ دلہن کی رضامندی اور اس کے ولی کی سرپرستی میں ہوا ہے.. دلہن نے اس رشتے کو دل سے تسلیم کرتے سوچ سمجھ کر نکاح کیا ہے...

اس نے سکون کی لمبی سانس بھری... ضمیر پر ایک بوجھ سا تھا جو سرک گیا تھا....

مگر اس کا خوف تھا جو رگوں میں سرایت کر چکا تھا

وہ جانتی تھی اس کا جنون.، عشق، دیوانگی... خود کے لیے اس کے پاگل پن سے بے حد خوفزدہ تھی. 

وہ پر سکون ہو کر گھر آئی تھی..

جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی اس دن کی.وہاں سے قیصر منزل گئی.

 گھر آئی... تو ان دیکھی پریشانی سی محسوس ہوئی شام کے چھ بج چکے تھے.. ماہی کا کچھ اتا پتا نہیں تھا...

عابد اور قیصر ہر جگہ پتہ کر چکے تھے.. پریشانی حد سے سوا تھی...

اور اب تو رات کے آٹھ بج چکے تھے.... اب تو نازیہ، منال حرا اور زری نے رونا شروع کر دیا تھا..

محلے والے بھی آ آ کر کن سوئیاں لے رہے تھے.. اور تماشا دیکھ رہے تھے... دبی دب سرگوشیاں تھیں جو کانوں کے لئے اذیت کا سبب بن رہی تھیں..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زونی کو جب کمرا خالی نظر آیا... تو فوراً اٹھ بیٹھی..

وہ دونوں ایک جہازی سائز بیڈ پر تھیں.. ماہی ہوش و خرد سے بیگانہ تھی...

اس نے ایسی اینٹی ڈوٹ لے رکھی تھی جس سے وہ کسی بھی نشہ آور میڈسن کو لینے کے آدھے یا ایک گھنٹے بعد ہوش میں آ سکتی. تھی.

اس نے ٹریکر... ، کیمرہ ہر چیز چیک کی چو اپنی جگہ سہی سلامت  موجود تھی...اس نے سکھ کا سانس لیا

میڈم اپنی جیت کی خوشی میں اتنی اوور کانفیڈینس ہو گئی تھی کہ گدھی نے ان کی تلاشی لینا بھی ضروری نہیں سمجھی تھی.. اس نے گھوم پھر کر ہر جگہ چیک کی

کھڑکی میں سے باہر دیکھا... اب باہر جا بجا اسلحہ برادر سانڈ نما آدمی گھوم رہی تھے.

وہ مسکرائی... بے وقوف.. گدھے

شازیہ بیگم نےخود کو خود ہی تھالی میں پیش کر کے اس طوفان کے سامنے رکھ دیا تھا.. جسے وہ کھلے عام چیلنج کر چکی تھی.

اب زونی کو  سہی وقت کا انتظار تھا.. جو کہ طویل تر ہوتا جا رہا تھا..

آخر ساڑھے سات بجے.. شور کی آوازیں سنائی دیں.تو زونی نے انھیں گرین سگنل دیا.. اور پھر بے ہوش بن گئی...

میڈم اور کچھ شیطان نما انسانی درندے اندر داخل ہوئے تھے اور اب سامنے پڑے زیرو میٹر اور بے تحاشا خوبصورت مال کو بولی لگانے کے لئے غور سے دیکھ رہے تھے.

وہ مکان تاریکی میں ڈوبا تھا سردیوں کے دن تھے سر شام ہی گھپ اندھیرا ہو گیا تھا.. جب دو ہیولے گھپ اندھیرے والی جگہ سے دیوار پھلانگ کر اندر آئے

مخصوص حلیہ تھا... بلیک پینٹ.. بلیک ہڈی اور منہ پر باندھے گئے بلیک رومال...

پانچ منٹ لگے تھے انھیں لان میں لاشوں کے ڈھیر لگاتے...

وہ اطمینان سے چلتے اندر لاؤنج میں آئے...معلوم تھا کہاں کتنے کتے پہرہ دے رہے ہیں..

مزاحمت ہوئی جو کہ انھوں نے اسی خاموشی سے ان کتوں کو بھی ابدی نیند سلا دیا...

اب ہر جگہ کیلئیر تھی....

وہ اس بند کمرے کی جانب بڑھے

رزم نے پاؤں کے ایک ہی وار سے دروازہ کو ایسی ضرب لگائی کہ دروازہ دھاڑ سے ٹوٹ کر دور جا گرا تھا.

اب اندر موجود نفوس بے تحاشا چونکے تھے.. دو سانڈ جن کے ہاتھوں میں گن تھی... انھوں نے دروازے کی جانب رخ کر کے فائر کھولنا چاہا..کہ  پیچھے سے زونی نے ان کی کھوپڑیاں اڑا دی تھیں.

اب میڈم کی جان پر بنی تھی... ان دو مضبوط اور دلوں پر دہشت طاری کرتے سپاہیوں کو خونخوار نظروں سے خود کو گھورتے دیکھا

ان میں سے ایک کے ہاتھ میں کیلوں والی ہاکی تھی جو خون میں نہائی ہوئی تھی.

. زونی نے پاس آ کر میڈم کے چہرے پر ایسا زور دار چاٹا رسید کیا کہ اسے دن میں ہی چاند تارے نظر آنے لگے.

ٹیم پہنچ گئی تھی.. ان درندوں اور میڈم کو ٹارچر سیل میں لے جایا گیا تھا.

رزم کی نظر بیڈ پر گئی تو ایک مرتبہ پھر رگوں میں خون جیسے ابلنے لگا... دوپٹہ اور حجاب اتار کر ایک طرف پھینک دیا گیا تھا...

جس سے یونیفارم میں بھی اس کی جسم کی  تمام دلکشی اور رعنائیاں نظر آ رہی تھی.

رزم نے فوراً نظریں پھیریں... زونی اسے ہوش میں لاؤ اور دوپٹہ اور حجاب پہناؤ فوراً.. وہ دھاڑا.

زونی نے اس کے منہ پر پانی کے چھنٹے مارے... مگر کوشش کے باوجود وہ ہوش میں نہیں آ کر دے رہی تھی.

زونی جلدی کرو.... جگہ خالی کرنی ہے.. یشار نے کہا...

یہ نہیں آ رہی ہوش میں..اب وہ بھی اس کی حالت سے خائف ہوئی تھی.

ٹھیک ہو دوپٹہ اور حجاب دے دو یونہی لے جاتے ہیں.. رزم نے پھنکارتے ہوئے کہا.

زونی نے جیسے تیسے اسے دوپٹہ اور حجاب اوڑھایا... رزم نے اسے اٹھایا اور تینوں وہاں سے نکل آئے.

گاڑی میں بھی زونی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرتی رہی جب وہ کسمسائی تھی.. اور آہستہ آہستہ آنکھیں کھولی تھیں.. وہ ہوش میں آ کر بغیر دیکھے کہ وہ کن کے ساتھ ہے چلائے جا رہی تھی.

رزم کی رگیں تن گئیں....جب زونی نے بڑی مشکل سے اسے سنبھالا... تمام حقیقت بتائی...

اب بھی وہ حقیقت جان کر زار و زار رونے میں مصروف تھی...

بے وقوف لڑکی... رزم بڑبڑایا.

زونی گاڑی سے اتر کر میڈم سے نمٹنے کیلئے اپنی بائیک پر بیٹھ کر جا چکی تھی...

یشار نے اب فون ملا کر قیصر کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا تھا...

کچھ ہی پلوں میں گاڑی عابد حسین کے گھر کے اندر داخل ہوئی تھی...

وہ سہمی ہوئی سی بھاگ کر نازیہ بیگم کی آغوش میں چھپی تھی.. اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی..

اتنی دیر میں کچھ محلے والے تن فن کرتے عابد صاحب کے گھر گھسے تھے.

ان میں وہ بھی شامل تھے جنھوں نے اپنے آوارہ اور بدچلن بیٹوں کے لئے اس گھر کی خوبصورت بیٹیوں پر نظر رکھی ہوئی تھی.

ان میں سے ایک تیز طرار اور مکار سی عورت آگے بڑھی تھی...

ارے.... میں پوچھتی ہوں.. یہ شریف محلے میں کیا تماشہ لگا رکھا ہے.. یہ آوارہ بدچلن ان امیر زادوں کے ساتھ گل کھلا کر آئی ہے اور تم اسے سینے سے لگا رہے ہو... تم نے کیا یہ ہی کاروبار چلا رکھا ہے...

یہ کیا بکواس کر رہی ہیں آپ... ہوش میں تو ہیں... رزم جو آگے کھڑا تھا دھاڑا تھا..

اے میاں... تم تو خاموش ہی رہو تو بہتر ہے... تمھارے ساتھ ہی تو منہ کالا کیا ہے.. تمھیں نہیں ہمدردی ہو گی تو اور کس کو ہوگی..

رزم کا چہرہ دھواں دھواں ہوا تھا... یشار بھی پاؤں جھلا کر ابلتے اشتعال کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا.... پر مجبوری یہ تھی کہ وہ ان بکواس کرتے بے حس  لوگوں کو حقیقت نہیں پتا سکتے تھے کسی صورت نہیں..

نازیہ بیگم پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں.. عابد  حسین کے کندھے اچانک بہت جھک گئے تھے.منال اور زری اندر کھڑکی سے پھوٹ پھوٹ کر روتے اپنی بہن کا تماشا لگتے دیکھ رہیں تھیں پر افسوس کچھ کر نہیں سکتی تھیں.

سب کو پتا تھا کے ماسٹر عابد صاحب کا گھرانہ کتنا شریف تھا مگر اپنے مطلب کے کیلئے خود غرض لوگ آگ اگل کر ان پر کیچڑ اچھال رہے تھے.

خاموش ہو جائیں آپ... حادثہ ہوا تھا ان کے ساتھ... کچھ بھی مت بولیں.. رزم پھر غرایا..

اے لو میاں پاگل سمجھ رکھا ہے کیا... اگر حادثہ ہوتا تو یہ یوں پاگلوں کی طرح ڈھونڈتے پھرتے اس حرافہ کو... بس بہت ہو گیا.. اب اگر اس محلے میں رہنا ہے تو اس بدچلن کا میرے بھتیجے سے نکاح ہوگا نہیں تو ہم اس گند کو محلے میں نہیں 


رہنے دیں گیں..ساری تیاری کر کے آئے ہیں ہم...مولوی صاحب بھی ساتھ ہیں... انکار کی کوئی صرت نہیں ہے... یہ کہہ کر وہ فرعون عورت تمسخرانہ اور فاتحانہ سی ہنسی ہنس دی تھی.. جیسے کہہ رہی ہو دیکھا پھنس گئی چڑیا جال میں...

سب نے اس عورت کی ہاں میں ہاں ملائی تھی.. ماہ رخ تو سن ہوئے وجود کاور سفید پڑتے چہرے کے ساتھ بے تحاشا روئے جا رہی تھی..

اگر یہ لڑکی اتنی ہی بدچلن ہے تو اپنے بھتیجے کے لئے ہضم کر لیں گی آپ اس کو... ربش ........ یہ بات تو یہاں کھڑے کسی گدھے کو بھی پتہ چل جائے گی کہ یہاں کیوں اور کس لئے یہ تماشہ لگایا جا رہا ہے...اور رہی بات اس لڑکی کی تو 


اسے میرے نام سے بدنام کیا جا رہا ہے تو اس کا نکاح کسی اور سے کیسے ہو سکتا ہے... میں ابھی اور اسی وقت آپ لوگوں کے سامنے اس سے نکاح کروں گا.. اب کسی نے زبان کھولنے کی کوشش کی تو زبان گدی سے کھینچ لوں گا.. رزم 


دھاڑا تھا... سب کو سانپ سونگھ گیا تھا..

وہ عورت بازی پلٹتے دیکھ کر ناگن کی طرح پھنکار رہی تھی..

رزم نے قیصر کو اشارہ کیا... قیصر نے عابد کے کان میں کچھ کہا...

یشار حیرت سے اپنے دوست کو دیکھ رہا تھا جس نے کبھی شادی نا کرنے کی قسم کھا رکھی تھی.. مگر آج شاید اس کے دل پر ضرب پڑ چکی تھی. 

اور پھر وہیں سب کے سامنے لان میں کین کی کرسیوں پر بیٹھ کر مولوی صاحب نے ان دونوں کا نکاح پڑھویا...

اور پھر جب مولوی صاحب نے ماہ رخ سے پوچھا..

تمھیں یہ نکاح رزم علی جعفری سے با عوض پچاس لاکھ حق مہر قبول ہے.. وہ جو نازیہ بیگم کے پہلو میں سہمی بیٹھی تھی.. بہت زور سے نازیہ بیگم کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں دبوچے تھے.. رزم بہت غور سے بلیک ہڈی کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے 


اطمینان سے اس کا اپنے نام ہو جانے کے خوف وہراس کو دیکھ رہا تھا.

قیصر نے مضبوطی سے اس کے نازک کندھوں پر ہاتھ رکھا تھا.. اس نے بمشکل ہاں میں سر ہلایا تھا...

کانپتے ہاتھوں سے چادر میں لپٹی وہ سائن کر کے تا حیات اپنا آپ رزم علی کے نام کر چکی تھی..

نازیہ بیگم اٹھی اور اس کے نیم جان وجود کو گھسیٹتیں اندر لے گئی تھیں..

رزم پھر غرایا... اب دیکھ لیا ہے تماشہ تو سب تشریف لے جائیں... اور اگر دوبارہ کوئی غیر متعلقہ شخص مجھے اس دہلیز پر قدم رکھتے نظر آیا تو ٹانگیں سلامت نہیں چھوڑوں گا..

اپنے پلان کے فیل ہو جانے پر وہ سب کمینے لوگ بکتے جھکتے وہاں سے دفعہ ہو چکے تھے..

رزم یشار اور قیصر عابد کے ساتھ اندر داخل ہوئے..

عابد بھائی آپ لوگ اپنے کمرے میں چلیں... مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے.. یشار اور رزم تم لوگ نھی آؤ.

وہ عابد کے کمرے میں آئے تو قیصر نے ان کے متعلق انھیں سب کچھ بتا دیا... ان کے ہر سچ سے آگاہ کر دیا...

نازیہ اور عابد کی آنکھیں تشکر کے احساس سے نم ہو چکیں تھیں..

نازیہ بیگم نے رزم کو پاس بلایا.. اس کا ماتھا چوما اور سر پر پیار دیا...

تمھارا بہت شکریہ بیٹا  ایک تو تم لوگ حرا کے بتھیجے ہے.. مجھے تم لوگوں کی تعلیم و تربیت پر فخر ہے دوسرے تم اس قوم کے جانباز سپاہی ہو...نا صرف میری بیٹی کی جان اور عزت کی حفاظت کی بلکہ اب بھی ہمیں رسوا ہونے سے بچا 


لیا... میں نے یقیناً کوئی بہت نیک کام کیے ہوں گے جو یوں میری بیٹی کے نصیب جگمگا اٹھے ہیں.. عابد نے نم سے لہجے میں فخریہ کہا تھا..

کم آن انکل... شرمندہ مت کریں.. پلیز یہ تو ہمارا فرض تھا اور رہی اب کی بات تو..... میری وجہ سے اسے بدنام کیا جا رہا تھا... اب وہ میری زمہ داری اور میری عزت ہے.. اس کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کاٹ دوں گا میں...

عابد بھائی ابھی ماہ رخ کی تعلیم مکمل ہونے دیں.....پہلے میں نے منال کا سوچا ہے..... اسے رخصت کر کے ہم پھر ماہی اور زری  کے بارے میں سوچیں گے...

زری کے نام پر یشار کے دل نے ایک بیٹ مس کی...

یشار اور رزم جا چکے تھے... تو قیصر نے عابد سے منال کی کے بارے میں بات کی

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

پھر کچھ اور ضروری باتیں کر کے وہ وہاں سے نکل آئے تھے.

یشار مسلسل اسے گھور رہا تھا..

کیا؟... کیوں گھور رہے ہو...

کچھ لوگوں نے قسم کھائی تھی شادی ہی نہیں کریں گے.... یشار نے چھیڑا

یشار... پلیز.. میں نے ایسا کیوں کیا... یہ مجھے بھی نہیں معلوم ابھی اور.... پلیز تم بھی نا پوچھو...

گھر آ کر انھوں نے شمس کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا تھا... خوش تو وہ بھی تھا... اسے رزم پر فخر محسوس ہوا... اور یوں بھی اب وہ گھر تو اس کے لئے خاص تھا تو وہ اس کے گھر کے افراد کی فکر کیوں نہیں کرتا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ٹارچر سیل میں وہ اپنے مخصوص حلیہ میں لال انگارہ آنکھیں لئے ہاکی ہاتھوں میں مخصوص انداز میں گھماتے... میڈم کو گھور رہا تھا...

اس کے دائیں بائیں زونی اور رزم کھڑے تھے... 

لیکن وہ اطمینان سے بیٹھی تھی..

زونی نے اس عورت کی چمڑی ادھیڑ دی تھی پر وہ یہ عورت جانے کس مٹی کی بنی تھی... ایک لفظ نہ منہ سے پھوٹی..

ابھی میری ہاکی نے کسی خاتون پر زور آزمائی نہیں کی... نا ہی مجھے خواتین پر ہاتھ اٹھانا پسند ہے..

مگر یہ زونی ہے.. اب لحاظ نہیں کرے گی اسی لئے خیرت چاہتی ہو تو جلدی سے منہ کھول دو.یشار کا لہجہ سرد تھا..

تم کچھ بھی کر لو..  میں کچھ نہیں بتانے والی... وہ تمسخرانہ بولی.

رزم ..... ابھی تک جو ندا اور ردا کو حفاظت سے اپنے پاس رکھا ہوا تھا.... ایسا کرو انھیں ایس اے کے کسی اڈے پر پھینک آؤ..

یشار کے ہر لفظ پر میڈم کے طوطے اڑے تھے.....

اے خبردار تمھاری ہمت کیسے ہوئی میری بیٹیوں کو ہاتھ لگانے کی..

جیسے تمھاری رہی ہے.... دوسروں کی بیٹیوں کو ہاتھ لگوانے کی...وہ سکون سے بولا

اور سنو... ان معصوموں کو تو پتہ بھی نہیں ان کی ماں کیسے کیسے کالے دھندے چلاتی ہے.. پہلے ان کو ساری حقیقت بتانا اور پھر کہنا کہ اب تم جس جہنم میں پہنچنے والی ہو وہ صرف اور صرف تمھاری ماں کا کیا بھگتنے والی ہو.. یشار کا 


لہجہ سرد تھا..

میرا نام شازیہ سعید ہے... ایس اے کے لئے کام کرتی ہوں... ایس اے کسی ایک بندے کا نام نہیں ایک نیٹ ورک کا نام ہے... جس کی جڑیں بہت مضبوط ہے.. کچھ بندوں کی ڈیٹیلز میں بتا سکتی ہوں... اور پھر وہ طوطے کی طرح فر فر بولتی گئی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

دن بہت بوجھل سے تھے... وہ دونوں ہی کالج نہیں جا پائیں تھیں...

اب بھی ماہ رخ کسلمندی سے بستر پر لیٹی اپنا مستقبل اس  سڑیل نکمے آوارہ کے ساتھ سوچ رہی تھی.

اس کے مطابق وہ ایک بگڑا امیرزادہ تھا.. نکما..

اس پر متضاد اس شخص کا خوف جو اس کے دل و دماغ میں بیٹھا تھا... ایک سیکنڈ میں تو وہ گلا دبا دیا کرتا تھا

اففففف.. رو رو کر آنکھیں بھی خشک ہوچکی تھیں...

کہاں پھنس گئی... جب فون رنگ ہوا... اس نے یونہی فون کی جانب دیکھا تو پرائیویٹ نمبر لکھا ہوا تھا.

جب فون مسلسل چنگھاڑتا رہا... تو اس نے بے زاری سے فون یس کر کے کان کو لگایا.

کون؟

رزم بات کر رہا ہوں...

کون رزم؟ .... وہ شاید اپنے حواسوں میں نہیں تھی اس لئے پوچھ بیٹھی. مگر اس کا یہ سوال سن کر سامنے والا ضرور جھنجھنایا تھا.

تمھارا شوہر رزم علی..... یادداشت واپس آئی کہ آ کر شکل دکھاؤں... ڈارلنگ....

ماہی اچھلی...... فون ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچا.

آ........... آپ.......

جی میں.... یہ پوچھنے کے لئے فون کیا کہ کالج کیوں نہیں جا رہیں...

آپ کو کیا مطلب.... میں کالج جاؤں یا نا جاؤں... اب کے ماہی کو بھی غصہ آیا.

مجھے ہی تو مطلب ہے مسز رزم علی.. کیونکہ تمھاری رخصتی کالج جانے یا نا جانے پر ڈیپینڈ کرتی ہے... پھر اگر نہیں جانا کالج تو آ جاؤں رخصتی لینے...

نن......... نہیں... بلکل. نہیں.... اس کی روح فنا ہوئی تھی.. وہ اس شخص سے جان چھڑانے کے پلان سوچ رہی تھی جبکہ وہ تو جان کو ہی آ رہا تھا...

مجھے نہیں رخصتی کروانی... اور مجھے کالج بھی نہیں جانا... آخر بے بسی کے احساس سے وہ سسک پڑی...

رزم اس کے بھیگتے لہجے کو محسوس کر چکا تھا پر اس ٹائم کمزور پڑنے کا مطلب تھا قیصر کو مایوس کرنا جس نے اسے یہ زمہ داری سونپی تھی کہ وہ کسی کی بات نہیں مان رہی لہذا رزم اسے ایگری کرے کالج جانے کے لئے.

کیوں... کیوں نہیں جانا...

مجھے ڈر لگتا ہے....

پہلے کچھ ہوا کیا جو اب ہوگا... صبح کالج کے لیے تیاری کر لینا... نہیں تو پھر دوسرا آپشن تو موجود ہی ہے ڈئیر وائفی.

آپ مجھے ایسے دھمکا نہیں سکتے... میں دونوں ہی آپشن ماننے سے انکار کر رہی ہوں... میں آپ سے نہیں ڈرتی...

یہ کہہ کر وہ اپنے گھر میں شیرنی بنی بیٹھی فون بند کر چکی تھی...

یہ جانے بغیر کے سامنے والے کا دماغ گھما چکی تھی اور اب اس کی شامت آنی تھی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ادھر زری اپنے کمرے میں بیٹھی بے دردی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی.

وہ جانتی تھی کہ یش اب بھی اس کا پیچھا کرتا ہے سائے کی طرح..

اب بھی اس کے کمرے میں آتا ہے.

اسے پتہ چل جاتا تھا محسوس ہوتا تھا..

اور آج تو اس کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں ایک ڈائمنڈ رنگ موجود تھی..

جسے وہ اتارنے کی کوشش میں ہلکان ہو چکی تھی مگر رنگ..... پہنانے والے کی طرح ڈھیٹ تھی........... شاید............ اتر کر نہ دی.

اب تو انگلی بھی لال سرخ ہو کر دکھنے لگی تھی  پر رنگ نے نہیں اترنا تھا نا اتری

اس شخص کی ہمت بڑھتی ہی جا رہی ہے..

اسے  کسی بھی طرح روکنا ہو گا..

اس کی آنکھیں بھیگ چکی تھیں... جو کوئی گہری نظر سے دیکھنے میں مصروف تھا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ نوال کو کاٹ میں سُلا کر ابھی اٹھی تھی کے دراوزے پر ہلکی  سی ناک ہوئی..

اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو عابد حسین اندر آ رہے تھے..

ارے بابا یہ کیا بات ہوئی اگر کوئی کام تھا تو مجھ سے کہہ دیتے.. میں آ جاتی... منال خفا ہوئی.

انھوں نے مہربان سی مسکراہٹ سے اسے ساتھ لگایا..

کوئی بات نہیں بیٹا... ادھر آؤ مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے.

جی بابا حکم کریں...

وہ دونوں صوفے پر بیٹھے..

بیٹا میں گھما پھرا کر بات نہیں کرنا چاہتا.. سیدھی بات کروں گا... حرا کا بھتیجا ہے شمس... وہ تم سے شادی کرنا چاہتا ہے..قیصر نے مجھ سے بات کی ہے... بہت عزت اور احترام سے اتنے بڑے آدمی نے تمھارا رشتہ مانگا ہے... مجھے تو 


کوئی قابل اعتراض بات نہیں لگی تمھاری کیا رائے ہے...

منال کے پیروں نیچے سے زمین کھسکی تھی..بے چینی سے پہلو بدلا.

بابا  آپ انکار کر دیں.. مجھے یہ شادی نہیں کرنی...

اور اگر ایک باپ اور ایک دوست ہونے کی حیثیت سے میں انکار کی وجہ پوچھوں تو کیا تم مجھے بتاؤ گی..

بابا بس آپ انکار کر دیں..

بیٹا میں نے وجہ پوچھی ہے..

بابا آپ حقیقت نہیں جانتے...

اگر تم نوال سے اس کے نکاح کی بات کر رہی ہو اور اس ایکسیڈنٹ کی تو قیصر نے مجھے شروع دن سے ہر بات بتا دی تھی..

منال کو بہت بڑا دھچکا لگا تھا..

بابا آپ پھر بھی مجھ سے یہ سب کہہ رہیں ہیں وہ شخص میری بہن کی موت کا زمہ دار ہے... قاتل ہے اور مجھے اس سے نفرت ہے... منال سسک پڑی.

بری بات بیٹا.. بہت بری بات.. میں نے تمھاری تربیت ایسی تو نہیں کی.کہ تم اللہ کی لکھی مصلحت پر کوئی سوال اٹھاؤ یا کوئی بھی انسان کسی اچانک ہوئے حادثے کا زمہ دار نہیں ہو سکتا... یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں.. تم قسمت کا لکھا اس 


بیچارے کے سر نہیں تھوپ سکتی جس نے ایک دن پہلے اپنی زندگی میں بہت محبت سے شامل کی ہوئی اپنی بیوی کھو دی.نوال بس اتنی ہی زندگی لکھا کر آئی تھی.. اس میں اس کا کوئی قصور نہیں... تو تم اسے قاتل کہہ کر گناہ گار مت بنو...

تمھارے انکار کے یہ جواز انتہائی بودے ہیں.. اب اگر کوئی اور اعتراض ہے تو بتاؤ..

منال نے بے بسی سے لب کچلے... بابا میں شادی ہی نہیں کرنا چاہتی..

یہ بھی کوئی بات نہیں ہوئی... دیکھو بیٹا تم مجھ پر بوجھ نہیں... کوئی بھی بیٹی اپنے باپ پر بوجھ نہیں ہوتی.میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں.. تمہیں سہارا دینے کو تمھارا تو کوئی بھائی بھی نہیں ہے. شادی تو رسمِ دنیا ہے.. جو کہ نبھانا پڑتی 


ہے.. میں تمھیں اپنے گھر کا کر دوں تو ماہی اور زری کا سوچوں گا.. تم لوگوں کو بے سہارا چھوڑ کر دنیا سے جانا نہیں چاہتا... تم لوگوں کو اپنے اپنے گھروں میں بستے دیکھ کر ہی چین سے مر پاؤں گا..اور وہ شخص تو ہے ہی بہت اچھا اپنی 


محبت کی قربانی دے کر اپنی ماں جیسی پھپھو کا گھر بسایا.. اور سب سے بڑی بات وہ نوال کو اپنا نام دے کر اپنانا چاہتا ہے.. 

بابا پلیز....... وہ رو دی.

میری بیٹی بہت سمجھدار ہے.. یقیناً ہر پہلو پر غور کر کے مجھے فیصلہ سنائے گی...اور اپنے بابا کو مایوس نہیں کرے گی...

منال کو ایک ہفتے پہلے کا تماشہ یاد آیا... جو کہ لوگوں نے اپنی اپنی غرض کو پانے کے لئے عابد حسین کی بیٹی کا لگا دیا تھا..اور اگر ان کے بابا کو کبھی کچھ ہو جاتا تو دنیا تو بھیڑیوں کی طرح انھیں نوچ کھائے گی. اور تو اور وہ اپنی بہنوں 


کی بھی شادی میں رکاوٹ بنتی..اور اس کی اپنی بیٹی کا کیا مستقبل تھا. کچھ نہیں .... اپنے باپ کے جھکے کندھے یاد آئے.. اور ایک سیکنڈ لگا زندگی کا عذاب ناک فیصلہ کرنے میں...

وہ اٹھ کر جھکے کندھوں سے وہاں سے نکلنے والے تھے جب منال نے دھیمے سے انھیں پکارا تھا.

بابا. میرے لئے جو آپ مناسب سمجھیں... مجھے منظور ہے..

عابد خوشگوار سی حیرت سے مسکرائے.. اس کے سر پر پیار دیا... اور کمرے سے نکلے...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

این مینشن میں اس وقت جشن کا سا ماحول تھا.. یشار  زونی.نائفہ، محسن اور رزم  کھڑے ہو کر ہاتھ لہرا لہرا کر تیز میوزک پر  جھومنے میں مصروف تھے.

شمس چمکتے چہرے کے ساتھ مسکراتا بیٹھا ان کی کاروائیاں دیکھ رہا تھا.

حرا بھی تالیاں بجا کر ان کا ساتھ دے رہی تھی 

پاس کھڑا اعظم بھی ہنس رہا تھا.

جب سے قیصر نے اطلاع دی تھی.. کہ منال نے ہاں کر دی ہے اور  قیصر نے اس جمعے کو سادگی سے نکاح طے کر دیا تھا...

تین دن باقی تھے..

پھر انھوں نے تیاریاں کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی.. یشار نے بہترین انٹیریئر ڈیزائنر سے شمس کے کمرے کی سیٹنگ کروائی تھی.... وہ سب بہت خوش تھے.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

زری اور ماہی تو اچھل ہی پڑی تھیں منال کی شادی کا سن کر.. بہت خوش ہوئیں تھیں.... پھر دونوں کی خوشی پر اوس پڑی تھی جب زری کو پتا چلا کے منال آپی کی شادی یشار کے بڑے بھائی کے ساتھ ہے..

اور ماہی کو پتہ چلا کہ منال آپی کی شادی رزم کے بڑے بھائی کے ساتھ ہے..

دونوں کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے..

رشتہ داری ہونے  کے باعث ان کا سامنا بار بار ہونے والا تھا. اففففففف

لیکن اس کے باوجود وہ منال کے لیے بہت خوش تھیں. بہت زیادہ.

اسی لئے نازیہ بیگم کے ساتھ مل کر تیاریاں کروانے لگی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آج جمعہ کا دن تھا اور بے حد افراتفری تھی... حرا اور بچے تیار تھے.....

یشار اور رزم نے وائٹ شلوار قمیض کے اوپر بلیک ویسکوٹ پہنی تھی.. چمکتی ڈائمنڈ کے ڈائل والی گھڑی ڈالے . جیل سے بالوں سیٹ کئے.. سن گلاسز لگائے وہ وڈیرے بنے کسی ریاست کے شہزادے لگ رہے تھے.

شمس بھی بلو تھری پیس میں وائٹ شرٹ پہنے صوبر سے انداز میں شہزادہ لگ رہا تھا.. حرا نے ان کی نظر اتاری تھی.

تقریباً دو بجے کے قریب وہ گھر سے نکلے تھے..

زری اور ماہی منال کو لئے کمرے میں گھسی ہوئیں تھیں.. پارلر والی اس بے زار سی دلہن کو چار چاند لگانے میں مصروف تھی جس نے ریڈ اور بلو کمبینیشن کا بھاری کامدار لہنگا پہنا ہوا تھا. دلہن یہ ہر گز پہننا نہیں چاہتی تھی.. مگر کیونکہ یہ 


دلہا کی طرف سے آئا تھا اسی لئے

ماہی اور زری نے مہندی بھی زبردستی لگائی تھی اسے.منال پر انوکھا ہی روپ آیا تھا..چھوٹی نوال بھی ریڈ لہنگا پہنے تیار تھی.

دلہن کو تیار کر کے پالر والی نے انھیں تیار کیا... اورنج کرتیاں گھٹنوں تک جاتی نیچے پٹیالہ شلواریں.دوپٹے سیٹ کیے .. ہائی ہیل... ہلکا میک اپ.. بالوں کے خوبصورت سٹائل.. وہ آسمان سے اتری پریاں لگ رہیں تھیں.

مہمانوں میں بس اس کی پھپھو اور سمیر شامل تھے...سمیر بھی گرے ٹو پیس میں اچھا خصا ہینڈسم لگ رہا تھا...

تبھی قیصر نے آ کر بتایا کہ دلہا والے آ گئے..عابد اور نازیہ بھی سواگت کے لئے آگے بڑھے

وہ پھول لے کر ان کے سواگت کے لئے بھاگیں...جو کہ ان پر پڑی نظروں کی وجہ سے پل صراط سے گزرنے کے مترادف مشکل ہوا.. یشار مبہوت سا اپنی تاشی کو دیکھے گیا.یہ جانے بغیر کے وہاں اس کا شوہر موجود ہے تاشی کو دیکھنے کا 


حق صرف اس کا ہے.. وہ نروس سی ہو کر پہلو بدلتی رہی.. مگر یشار کی نظریں ہٹ کر نہیں دے رہیں تھیں.

ادھر ماہی بھی بے چین سی تھی.. اس سڑیل کی نظریں خود پر محسوس ہو رہیں تھیں مگر جب وہ دیکھتی تو وہ کہیں اور متوجہ ہوتا...

وہ آ کر لاؤنج میں بیٹھے... سب موجود تھے..حرا کے چہرے پر انوکھی ہی خوشی تھی..... حرا نے کوئی کثر نہیں اٹھا رکھی تھی کہ دنیا کی ہر چیز منال کے لئے خرید لیتی. انکی جانب سے لائے گئے مٹھائیوں اور پھلوں کے ٹوکرے تحفے.. 


ڈھیرو ڈھیر بری کا سامان.رضیہ بیگم تو حیرت سے دنگ ہی تھیں . اور مرعوب ہوئیں ..

 وہ دونوں دلہن کے پاس اوپر چلی گئیں...

نکاح ہوا... ہر طرف مبارک کی صدا بلند ہوئی...

کھانا کھایا گیا..

ان دونوں نے اوپر منال کے ساتھ کھانا کھایا... نا نا کرنے کے باوجود ان دونوں نے منال کو کھلا دیا......

نائفہ آئی تھی نازیہ بیگم کا پیغام دینے...

آپی برائیڈل کو نیچے لے آئیں... دادو بول رہی ہیں..

اوکے ہم آتے ہیں... آپ جاؤ...

اوکے......

زری تم آپی کو لے کر جاؤ... نوال سو رہی ہے.. میں اس کے پاس ہوں... کبھی اٹھ کر رونے لگے اور سیڑھیوں کی جانب نا نکل آئے..

اوکے..... زری نے منال کو تھاما اور نیچے کی جانب بڑھی.شمس کی نظر سیڑھیوں کی کانب اٹھی اور پلٹنا بھول ہی گئی... سوگوار سی دلہن بنی وہ سیدھا اس کے دل میں اتر گئی... زری نے لا کر اسے شمس کے پہلو میں بٹھایا تو وہ زرا سمٹ 


کر فاصلے پر بیٹھ گئی... شمس کو ہنسی آئی...

ان کی جانب سے آیا فوٹو گرافر دھڑا دھڑ تصویریں بنا رہا تھا جب اس نے کہا سر برائیڈل کے تھوڑا کلوز ہوکر بیٹھیں..

منال کے ہوش اڑے.. شمس کے چہرے پر گہری مسکان تھی.

اے منال چندا شرما کیوں رہی ہو تمھارا شوہر ہے.. جیسا یہ فوٹو کھینچنے والا کہتا ویسے کرو..

منال نے پہلو بدلا. شمس قریب ہوا اور اپنا بازو صوفے کی پشت پر رکھا. جب شمس کا بازو منال کے کندھے کی جگہ پر ٹچ ہوا. اس نے سانس بھی روک لی.. شمس کو قہقہہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا.

سب نے دلہا دلہن کے ساتھ تصوریں بنوائیں.. پہلے عابد اور نازیہ بیگم... پھر حرا اور قیصر... اور پھر جب رضیہ بیگم نے کہا کہ

بیٹا زرا میرے بیٹے اور بہو کی بھی اچھی سی بنانا... زری ادھر آؤ... انھوں نے زری کو منال کے ساتھ بٹھایا... پھر اس کے ساتھ سمیر بیٹھا...

تو اس محفل میں بیٹھے ایک شخص نے پہلو بدلہ اور آنکھیں خون رنگ میں نہا گئیں...کہ تاشی بھی تیکھی نظروں سے دیکھتی خوفزدہ ہوئی تھی. 

یشار فوراً وہاں سے اٹھ کر لان میں نکلا تھا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

واقعی عشق اتنا آسان نہیں تھا... اس وقت یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی نے اس کو سلگتے کوئلوں کی بھٹی میں جھونک دیا ہو..

باہر کین کی کرسی پر بیٹھا.. اپنے مخصوص سٹائل میں پاؤں جھلاتا.. اندر اٹھتے اشتعال کے طوفان کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا..

جب وہ دشمنِ جاں اندر سے نکل کر پیچھے بنے چھوٹے سے سٹور روم کی طرف جاتی دکھائی دی. وہ تن فن کرتا اٹھا تھا جیسے اس میں سارا قصور تاشی کا ہو.

اس کے پیچھے آیا..

وہ جو اپنے دھیان میں منال کا رکھا گیا سامان لینے یہاں آئی تھی آگے بڑھی...پر سامنے ہی پڑی الماری کو ٹوٹا لٹکا ہوا شیشہ نہیں دیکھ سکی... جو کہ سینڈل میں مقید سیدھے پاؤں کے بائیں جانب بری طرح پیوست ہوا تھا..

ہلکی سی چیخ مار کر وہ بیٹھتی چلی گئ.. یشار جو غصے میں اس کے پاس آ رہا تھااس کی چیخ سن کر بھاگ کر اس کے پاس آیا..اس کی ڈبڈباتی آنکھیں دیکھ کر تڑپا

کیا ہوا تاشی.......رو کیوں رہی ہو..؟

اس نے اپنا خون میں نہایا پاؤں اس کے سامنے کیا...

تو یشار نے سختی سے دانتوں تلے لب دبائے..

تاشی دیکھ کر کیوں نہیں چلتیں... سٹارٹ سے لاپرواہ ہو یار اور تمھیں پتہ بھی ہے تمھاری تکلیف مجھے ہرٹ کرتی ہے... یہ کہہ کر اس نے ہاتھ آگے بڑھا کر پاؤں سامنے کیا... سینڈل کا احتیاط سے سٹیپ کھول کر اتار دیا...

اپنی ہاکی سے دشمنوں کے چہرے بگاڑنے والا اپنی تاشی کے پاؤں کو یوں چھو رہا تھا.. جیسے وہ موم کا بنا ہو.. 

اس نے رومال نکال کر زخم پر رکھ کر ہلکا دباؤ دیا تاکہ خون رک سکے..

تاشی نے ایک سسکی بھری.. آنسو ٹوٹ کر نیچے گرا

ی........... یش... مجھے درد ہو رہا ہے...

 یشار نے چونک کر اسکے کپکپاتے پنک گلوز لگے  لبوں کو  دیکھا...اور فوراً نظریں چرائیں...

تاشی... ریلیکس بلیڈنگ رک چکی ہے... اس نے اپنی پاکٹ سے سنی پلاسٹ کے تین چار سٹریپ رب کر کے زخم پر لگا دیئے.. اور مخملی نازک پاؤں میں سینڈل پہنا کر پھر سٹیپ لگا دیا...

اوکے ہمت کرو.. اٹھو..... اس نے اپنا چوڑا مضبوط ہاتھ آگے بڑھایا... جو کہ تاشی نے بلا جھجھک تھام بھی لیا تھا... بھلا وہ کیوں جھجھکتی وہ تو بچپن سے عادی تھی اسکا ہاتھ تھام کر چلنے کی..

کیا کرنے آئیں تھیں یہاں.. اسے لا کر کین کی کرسی پر بٹھایا...

منال آپی کا سامان لینے آئی تھی...

کدھر رکھا ہے؟

وہ....... الماری کے پیچھے پڑا ہے بیگ....

اوکے میں لے کر آتا ہوں...

یہ کہہ کر وہ سٹور کی جانب جا چکا تھا...جب اندر سے سمیر اس کی جانب آتا دکھائی دیا..

مامی کہہ رہیں ہیں کہاں رہ گئی ہو زری.... آئی نہیں ابھی تک..

وہ.. مجھے چوٹ لگ گئی تھی.. اس نے پاؤں کی جانب اشارہ کیا...

اوو.... یہ کیسے ہوا.. چلو میں تمھیں اندر لے کر چلوں.. سمیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا...

نہیں... اٹس اوکے.. میں خود چل سکتی ہوں....

یشار جو کہ سامان لے کر باہر نکلا تھا تاشی کو اپنا ہاتھ اسے تھمانے سے انکار کرتے دیکھ ایک مرتبہ پھر گہرا سا مسکرایا تھا...

. چلو.. اندر... وہ سامان لے آئے..

 اسے سمیر کا محویت سے اپنی جانب دیکھنا بھی عجیب سے احساس سے دوچار کر رہا تھا اسی لئے اس کا دھیان دوسری جانب بٹانے کو بولی.

چلو چلتے ہیں...

وہ آہستہ آہستہ چلتی اندر کی جانب بڑھی. اپنے رویے پر بلکل  غور کیے بغیر....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

انکل ماہ رخ کدھر ہے.. قیصر انکل نے کہا وہ کالج نہیں جانا چاہتی.. میں نے اسے فون کیا مگر پھر بھی اس نے انکار کر دیا.. میں ایک مرتبہ پھر اس سے بات کرنا چاہتا ہوں... رزم نے عابد صاحب سے کہا

ہاں بیٹا ہم بھی کوشش کر چکے ہیں پر وہ مان کے نہیں دے رہی.. اپنے کمرے میں ہوگی بیٹا اسے ضرور ایگری کر لینا.. اس حادثے کی وجہ سے سے اپنا فیوچر برباد کرنے پر تلی بیٹھی ہے..

جی ضرور انکل....... بظاہر فرما برداری سے بولا لیکن دل میں اس کا دماغ ٹھکانے لگانے کی نیت سے اوپر کی جانب بڑھا...

وہ کمرے میں آیا.. کمرے کو لاک کیا.. مگر وہ اپنے ہی خیالوں میں صوفے پر بیٹھی بے دردی سے انگلیاں چٹخا رہی تھی...نک سک سی تیار ہوئی بے تحاشا خوبصورت لگ رہی تھی..

میرے بارے میں سوچ رہی ہو... ڈئیر وائفی...

وہ حواس باختہ سی ہو کر اٹھی تھی...اسے سامنے دیکھ کر روح فنا ہوئی..

آپ... آپ میرے کمرے میں کیوں آئے ہیں..

.

کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتے تو میں ان کی بریوری چیک کرنے آیا تھا. رزم اس کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں دیکھ کر تمسخرانہ سا بولا..ہاتھ باندھے کھڑا وہ اس کو جانچ رہا تھا

چلیں اچھا ہے. آپ خود ہی آ گئے مجھے بھی آپ سے  بات کرنی تھی. اب وہ کانفیڈینس بحال کرتی بولی.. اب جبکہ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے تو آپ مجھے ڈائیورس دے دیں.

واٹ....... رزم دھاڑا تھا... وہ پھر سہمی.. کیا کہا ابھی زرا دوبارہ کہنا...رزم نے اسکے بازو دبوچے کھینچ کر اپنے سامنے کیا. 

وہ....مم. میں نے کہا کہ آپ مجھے چھوڑ.........

کیا بکواس کر رہی ہو ہوش میں تو... کھیل سمجھ رکھا ہے کیا نکاح جیسے پاکیزہ بندھن کو..

. مم.. میں آ.... آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی...

کیوں؟

کیونکہ آ... آپ بب... بہت برے ہیں... رزم کی نظر اس کے پنک گلوز لگے لبوں پر ٹھہریں.

کچھ زیادہ ہی نہیں بولنے لگی ڈئیر وائفی.. چپ کرواؤں کیا..

وہ اپنے بازوؤں سے اسکے آہنی ہاتھ ہٹانے کی کوششوں میں ہلکان ہو گئی.. مگر وہ پتھر بنا کھڑا رہا.

کیا کریں گے آپ.. گلا دبائیں گے.. دبا دیں.. ایک ہی مرتبہ مار ڈالیں مجھے.. بازوؤں کی تکلیف سے آنکھیں بھر آئیں

نہیں اس مرتبہ تمھیں چپ کروانے کا انوکھا طریقہ ڈھونڈا ہے میں نے... رزم نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اپنی جانب کھینچا اس نے رزم کے سینے پر ہاتھ  رکھ کر خود کو اس کے اوپر گرنے سے روکا..

کچھ بھی کریں.. میں آپ سے......

اس کی بولتی بند ہوئی تھی.. آنکھیں پھٹ پڑیں جب رزم  اچانک اس کی گردن کے گرد ہاتھ لپیٹ کر اسکے نرم اور گداز لبوں پر جھکا تھا..

وہ تڑپی.... مچلی... پر سامنے والے کی گرفت آہنی تھی...آنکھوں سے آنسو جاری تھے

رزم کے جانے کیوں پر برسوں کے بھڑکتے دل کو کچھ سکون ملا تھا..

جب اس کی سانس اٹکنے لگی تو رزم کو رحم آیا.. اور نرمی سے اسے چھوڑ دیا.

وہ صوفے پہ گرنے والے انداز میں بیٹھی.. اور سانس ہموار کرنے لگی.

رزم نے غور سے اس کے سرخ آنسوؤں سے بھیگے چہرے کو دیکھا.

یہ تو ایک چھوٹا سا ڈیمو تھا ڈارلنگ کل سے اگر کالج نہیں گئی تو سوچو رخصتی کے بعد کیا کیا کر کے تمھارا حشر بگاڑوں گا....

وہ کہتا باہر آیا... اپنے آپ کو کوس رہا تھا.. اس کے گلاب کی پنکھڑیوں جیسے پنک لبوں کو دیکھ کر وہ بے خود اور بے اختیار کیوں ہو گیا تھا.. اتنا کمزور تو ہر گز نہیں تھا وہ..

وہ تو پہلے اس سے بدگمان تھی اب کیا سوچے گی اس کے بارے میں...

Shhhhiiiiiittttttttttt....

تو غصہ بھی تو اسی نے دلایا تھا علیحدگی کی بات کر کے.. وہ اب اس کی زندگی میں شامل ہو چکی تھی.. وہ عزت تھی اس کی... وہ اس کے جسم و جاں کا مالک تھا...

تو وہ اتنی آسانی سے کیسے وہ سب کہہ سکتی تھی...

بے وقوف لڑکی....

رزم بڑبڑایا تھا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

منال کی رخصتی کے وقت ان سب کی آنکھیں بھیگی ہوئیں تھیں...

منال بھی نازیہ بیگم سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی..

اور پھر قیصر  نے اسے گاڑی میں بٹھایا... تو وہ سمٹ کر ایک طرف ہو کر بیٹھ گئی.. نوال کو گود میں بٹھا لیا...

شمس اس کے ساتھ بیٹھا.. گاڑی چل پڑی..

گاڑی میں مکمل خاموشی تھی... صرف نوال نے ہی شور مچا رکھا تھا.. وہ کنفیوز سی تھی..

شمس نے ہاتھ بڑھا کر نوال کو اپنی گود میں لے لیا.. منال نے پہلو بدلہ.. مگر ڈرائیور کے سامنے کچھ بول نہیں پائی. اسی لئے خاموش تماشائی بن گئ..

وہ نوال کو گود میں لئے ایسے پچکار رہا تھا جیسے پتا نہیں کتنا مانوس ہوں ایک دوسرے سے.

نوال بے بی... اب چاکلیٹ کھائے گی.. اس نے اپنے کوٹ کی پاکٹ سے چاکلیٹ نکال کر نوال کو دی جسے وہ پا کر بے حد خوش ہو گئی..

این مینشن میں ان کے استقبال کی شاندار تیاری تھی.. گیٹ سے لے کر شمس کے کمرے تک پھولوں کی راہ گزر بنا دی گئ تھی..

منال دل میں اپنی حالت پر خوب کلس رہی تھی...

مگر حرا اور قیصر کی وجہ سے خاموش تھی..

کچھ رسمیں کرنے کے بعد اسے کمرے میں لایا گیا تھا.. حرا اس کے پاس بیٹھی تھی..

پھر ایک مہربان سی عورت کمرے میں داخل ہوئی.. چہرے پر بہت نرمی تھی...

منال ان سے ملو یہ شمس کے بہت ہی وفادار ملازم کم اور دوست زیادہ اعظم ان کی بیوی سارا ہیں... اپنی اولاد نہیں ہے.. آج سے نوال کی دیکھ بھال یہ بہت محبت سے کریں گی..مجھے پورا بھروسہ ہے ان پر. یہ بلکل ساتھ والے کمرہ  نوال کے لئے سیٹ کروایا ہے شمس نے... 

منال نے منع کرنا چاہا مگر اس نے دیکھا کہ کچھ دیر میں ہی نوال ان سے کس قدر مانوس ہو چکی تھی.ان کی آنکھوں میں بھی ممتا کا ایک جہان آباد تھا.. اسی لئے منال منع نہیں کر پائی..

جب نوال کھیل کر تھک چکی تو سارا اسے دوسرے کمرے میں لے گئی.

تم آرام کرو منال میں شمس کو بھیجتی ہوں.. حرا کی بات پر منال اندر سے لرزی تھی.حرا جا چکی تھی.وہ پریشان تھی. اس وقت باپ کا سوچ کر رشتے کے لئے ہاں کر چکی تھی... پر اب اس رشتے کو قبول کرنے میں اس کی روح فنا ہو رہی تھی. 

جب کچھ دیر میں شمس بہت خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا.. 

منال اس عالیشان کمرے میں بیٹھی اس شخص کا انتظار کر رہی تھی جس سے اس نے زندگی میں سب سے زیادہ نفرت کی تھی..

اس کا جی چاہا ہر چیز تہس نہس کر دے.

یہ قسمت نے کیا کھیل کھیلا تھا اس کے ساتھ..

اس نے جھر جھری لی...

نوال تمھاری جگہ میں...

اور وہ اشتعال اور وحشت کی انتہاؤں پر پہنچی تھی اور اٹھ کر اسپیشل انٹیرئر ڈیزائنر سے سجوائے گیے روم کو تہس نہس کر دیا.

مسہری کے ارد گرد لگائے گئے سارے پھول نوچ نوچ کر پھینک دئیے بیڈ شیٹ کھینچ کر نیچے پھینکی...

ڈریسنگ کے سارے پرفیوم اٹھا کر فرش پر پٹخے.

کچھ ہی لمحوں میں کمرہ یوں منظر پیش کر رہا تھا جیسے بہت بڑا ہوا کا بھنور وہاں سے گزر کر تباہی مچا گیا ہو..

اب وہ بیڈ کے کنارے فرش پر بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی.بس یہی سوچ روح فنا کر رہی تھی کہ

 اگر اس نے مجھے چھونے کی کوشش کی تو..... تو میں خود کو آگ لگا لوں گی..میں کبھی اس کو اپنے قریب نہیں آنے دوں گی..

شمس جو بڑی دیر سے یہ سب اطمینان سے پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے  دیکھ رہا تھا. جیسے معلوم تھا کہ یہی سب کچھ ہونے والا ہے..

آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کی جانب بڑھا..

آہٹ پاتے ہی اس نے ایک جھٹکے سے سر اٹھا کر خونخوار نگاہوں سے اسے گھورا تھا......

ہممم....... Not bad...... مسز شمس.... شکر ہے اتنی عقل تو ہے.. میں نے اس کمرے کو دیکھ کر کیا کرنا تھا.صرف اپنی وائف کو دیکھنا تھا. پر صد شکر کے تم نے اپنا حلیہ نہیں بگاڑا....

وہ اتنی سیریس سچویشن میں بھی بظاہر سنجیدگی سے کہتا اسے چھیڑنے سے باز نہیں آیا تھا.

وہ بپھری شیرنی تیزی سے اٹھی.. ڈریسنگ کے سامنے جا کر خود سے ایک ایک چیز نوچ کر پھینکنے لگی. وہ چپ چاپ پیچھے کھڑا آئینے میں اس کا ہر انداز دیکھ رہا تھا.. جب چوڑیاں نوچتے  ہوئے کافی ساری ٹوٹ کر اس کی نازک کلائی کو زخمی کر گئیں تھیں... منال کے منہ سے تکلیف سے سسکی نکلی اور خون کی بوندیں تیزی سے باہر آئیں...

اب شمس کا میٹر شارٹ ہوا تھا.. تیزی سے اس کی جانب بڑھا.. اسے اچانک بازوؤں میں بھر کر بیڈ تک لایا اور بیڈ پر پٹخا..

یہ کیا بد تمیزی ہے... وہ چلائی اور اس سے پہلے تیزی سے اٹھ کر بیڈ سے اترتی.. شمس اس پر جھک کر اس کے بازو بیڈ سے لگا چکا تھا..

دور رہیں مجھ... خبردار میرے قریب آئے... مجھے چھونے کی کوشش کی... چھوڑیں مجھے... وہ بہتی آنکھوں سمیت غرائی.

Don't you dare Mrs Shams khan.....

جو چاہو گی وہی ہوگا... اگر کہو گی قریب نا آؤ.... تو نہیں آؤں گا.. تمھاری مرضی کے بغیر نہیں چھوؤں گا تمھیں.. لیکن اگر خود کو نقصان پہنچانے کا سوچا بھی تو قریب بھی آؤں گا... اور روکوں گا بھی تمھیں... سمجھیں.اس نے جھک کر اس کے آنسو اپنے لبوں سے چنے...اس کی گردن پر اپنے ہونٹوں کا پیار بھرا لمس چھوڑا

وہ اس کے دہکتے لمس سے بے چینی سے مچلی... شمس نرمی سے پیچھے ہٹا.. دراز میں سے فرسٹ ایڈ باکس نکالا

اور اس کی جانب بڑھایا..

مجھے ضرورت نہیں..

ابھی ابھی جو اس نے تڑپتی سلگتی حرکت کی منال سرخ ہوئی بمشکل بولی..

منال اپنے زخم صاف کر کے آئنٹمنٹ لگاؤ.. پھر اگر یہ کرنے میں قریب آیا تو تمھیں ہی شکا یت ہوگی...

شمس نے سنجیدگی سے کہا.. لیکن آنکھوں میں شرارت کی چمک تھی.

 اتنے برسوں بعد یہ سونا اور برباد ہوا کمرہ آباد ہوا تھا اس کے دل کی طرح.. ایک سرور سا تھا جو رگ و پے میں سرائیت کر گیا تھا.

اسے چھیڑ کر... تپا کر شمس کو بہت مزا آ رہا تھا

منال نے شرافت سے باکس تھام لیا.. اور  اپنے زخم صاف کرنے لگی..

کمرے میں اس کی چوڑیوں کی معنی خیز سی کھنک گونج رہی تھی... وہ اٹھی.. ڈریسنگ روم میں گئی.. باہر آئی تو سادے سے حلیے میں تھی.

وہ اندر گئی تو شمس نے کمرے کی کچھ حالت سدھاری. 

شمس اپنا کوٹ اتارے بیڈ پر نیم دراز تھا.. اسے صوفے کی جانب بڑھتے دیکھ بھنا کر اٹھ بیٹھا..

مسز شمس بیڈ پر چلی آؤ... رائٹ ناؤ... کہا ہے نا.. کچھ نہیں کہوں گا... تو اعتبار کرو... نہیں کرو گی تو میں بھی خود کو نہیں روکوں گا....

منال جھنجھلائی... مگر اس ظالم کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا.. بیڈ کی ایک سائیڈ پر سمٹ کر لیٹ گئی ایک تکیہ اپنے اور اس کے درمیان رکھااور کمفرٹر سر تک تان کر سوتی بن گئی.

شمس کو ہنسی دبانا مشکل ترین امر لگ رہا تھا..

پرسکون اور لمبی سی سانس خارج کر کے سکون سے سو گیا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ اپنے بیڈ میں نیم دراز سے بے چینی سے ناخن چبا رہی تھی...

نیند گرے  آنکھوں سے کوسوں دور تھی.... اپنا آج کا رویہ جب فرصت میں سوچا تو خود پر بے تحاشا حیرت ہوئی..

وہ اس کے پیچھے سٹور روم میں آیا تھا..وہ تنہا تھے.. مگر وہ ڈری نہیں.

اس نے تاشی کے پاؤں کو ہاتھ لگایا.. تاشی کو عجیب نہیں لگا..

یش مجھے درد ہو رہا ہے.... کتنی آسانی سے اپنی تکلیف میں اس نے اسے پکارا تھا. 

اس نے تاشی کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا.. اسے ایک سیکنڈ کے لئے بھی جھجھک محسوس نہیں ہوئی اس کا ہاتھ تھامتے..

ایسا کیوں تھا.

وہ پاگل ہونے کو تھی سوچ سوچ کر........ اور اپنے ہی شوہر کا ہاتھ اس نے تھامنے سے انکار کر دیا تھا.

یش کا لمس اس کے لئے کیوں اتنا کمفرٹیبل تھا..

اففففففففففف.ابھی وہ ان سوچوں کے گرداب میں پھنسی بیٹھی تھی.جب وہ مانوس سی خوشبو والا ہیولہ کھڑکی پھلانگ کر اندر داخل ہوا.

گرین پینٹ پر گرین ہڈی... براؤن آنکھیں.. مگر اب وہ رومال نہیں باندھ کر آیا تھا.

وہ نا چونکی نا ہلی نا سر اٹھا کر اسے دیکھا اسی اطمینان سے ٹانگیں فولڈ کیے کمفرٹر گود میں لئے بیٹھی ناخن ہی چباتی رہی.. کھلی سی ٹی شرٹ میں کندھوں پر بکھرے بال، سکارف گلے میں ڈالا تھا..

جانے کیوں.............. نا اس کے آنے پر خوفزدہ ہوئی.. نا غصہ.... اور نا ہی اب تک اسے جانے کا کہا

یش آ کر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا.اسے پتہ تھا جب اس کی تاشی بے حد اپ سیٹ ہوتی تھی تو ناخن چباتی تھی..

میرے بارے میں سوچ رہی تھیں.. تاشی

وہ سختی سے اس کی بات نہیں جھٹلا سکتی تھی.. کیونکہ وہ ایسا ہی کر رہی تھی جھوٹ بولتی تو اس کا یش سیکنڈز میں پکڑ لیتا.

معلما کے پاس ہمارے نکاح کی حقیقت پوچھنے گئی تھیں..؟

تاشی نے چونک کر سر اٹھایا..

میں نے بھی پوچھا تھا. ایک قاری صاحب سے.. اس نے کہا ہمارا وہ نکاح ویلِڈ نہیں... یش کی آنکھوں میں بے تحاشا کرب تھا.

لیکن جانتی ہو مجھے کیا لگتا ہے... مجھے لگتا ہے تمھیں صرف میرے لئے بنایا گیا ہے... اس دنیا میں تم صرف میرے لئے آئی ہو.. میری ہو... صرف اور صرف میری... یش کی آنکھوں میں جنون اور دیوانگی سی تھی.

اور اس کے ہر لفظ پر تاشی جی جان سے لرز رہی تھی..وہ تو آگے اتنی الجھی بیٹھی تھی اب یش اسے اور  پریشان کر رہا تھا.. فوراً اس کی آنکھیں بھیگی تھیں. 

دنیا میں تم صرف میرے ساتھ کمفرٹیبل رہ سکتی ہو.. اپنا آج کا رویہ یاد کرو..تم نے میرے ہاتھ میں اپنا ہاتھ کیوں تھمایا تھا تاشی.... جبکہ اسے منع کر دیا.

پلیز یش....... پلیز...... خاموش ہو جاؤ پلیز... تاشی نے وحشت زدہ سا ہو کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھے.. دل کمبخت بغاوت پر اترتے ہوئے اس کی ہر بات پر ایمان لانے کو بول رہا تھا. اپنی اس حالت پر وہ بے تحاشا رو دی تھی.

یش چونکا... اور تڑپ کر بیڈ کے قریب آیا... تاشی روؤ مت پلیز.. میرا مقصد تمھیں ہرٹ کرنا نہیں تھا..اس کے کلون کی قریب آتی خوشبو تاشی کو اور بد حواس کر رہی تھی..

اسے خود سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ آخر  چاہتی کیا ہے.

یش نے گلاس میں پانی ڈالا اور اس کی جانب بڑھایا...

یہ لو تاشی....

وہ گلاس پکڑنے ہی والی تھی جب گلاس اس کے ہاتھ سے پھسلا اور پانی گود میں گرا.. وہ ہڑ بڑا کر بیڈ  پر کھڑی ہو کر نیچے اترنے لگی تھی جب اس کا پاؤں کمفرٹر میں الجھا.. وہ اوندھے منہ فرش پر گرتی جب ایک مضبوط ہاتھ کی نرم مگر دہکتی گرفت اسے اپنے پیٹ پر محسوس ہوئی.. تاشی نے دونوں ہاتھوں سے اس کا کندھا تھاما.. اس کا پورا وزن یش کے کندھے پر آیا تھا.. مگر وہ اپنی جگہ سے آدھا انچ بھی نا ہلا تھا.

کھلے بال آبشار کی طرح اس کے کندھے پر گرے تھے.. یش نے نرمی سے اسے نیچے اترنے دیا.. اور فوراً اس کے پیٹ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا...مخصوص سٹائل میں ہڈی میں ہاتھ ڈالے تھے. 

تم ٹھیک ہو تاشی...

 دل پر تاشی کی قربت سے قیامت گزرنے کے بعد بھی وہ اطمینان سے اس سے پوچھ رہا تھا تاکہ وہ نروس نا ہو..

اس نے نفی میں سر ہلایا.. یش چونکا

کیا مطلب تم ٹھیک نہیں ہو...

نہیں میں ٹھیک ہوں.. دل یوں دھڑک رہا تھا جیسے ابھی پسلیاں توڑ کر باہر آئے گا..وہ بے حد گھبرا رہی تھی.. اپنے آپ سے . وہ دھڑکتے دل کے شور سے گھبرا کر واش روم میں گھس گئی..اس کے کمرے میں ایک غیر اور اجنبی موجود تھا... آخر تاشی کو اس بات سے کوئی فرق کیوں نہیں پڑ رہا تھا. 

یش نے ٹھنڈی اور پرسکون سی سانس کھینچی اپنے اندر... اپنا بایاں ہاتھ سامنے پھیلا کر دیکھا...... اور وہاں سے نکل آیا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی شدید غصے سے پھنکارتی اپنے کمرے میں ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی.

اس کی حرکت پر بار بار طیش آ رہا تھا

بد تمیز، کمینہ، آوارہ ۔ لوفر کہیں کا..

اتنے شدید غصے کے باوجود اس بے ہودہ انسان سے خوفزدہ ہو کر اس نے  صبح کالج جانے کا ارادہ کر لیا تھا..

وہ لیٹنے لگی کہ فون رنگ ہوا.

نمبر دیکھا تو پھر حلق کڑوا ہوا..

اونہہ.... بدتمیز... کمینہ... ایسی حرکت کرنے کے باوجود اسے لگتا ہے میں اس کے منہ لگوں گی...

کان لپیٹ کر یونہی بیٹھی رہی.. فون رنگ ہو ہو کر اچانک خاموشی چھائی اور پھر میسج  رنگ ہوا..

اس نے ڈرتے ڈرتے میسج اوپن کر کے ریڈ کیا تو پھر کانوں تک سرخ ہو گئی.

ڈارلنگ.... آئی تھنک تمھیں میرا دن کا پیار اتنا اچھا لگا کہ اب فون نا اٹھا کر مجھے ضد دلا کر تم وہ عمل دہرانا چاہتی ہو..

ماہی تلملائی.

اففففففف سڑیل.... بدتمیز...

فون رنگ ہوا... تو بڑی شرافت سے اٹھا کر کان کو لگایا مگر خاموش رہی.

تو پھر کیا خیال ہے ڈئیر وائفی. کالج جانا ہے کہ میرے پاس آنا ہے... لہجہ بے حد معنی خیز تھا...

ماہی تپی.... مم..... مجھے کالج جانا ہے....اب جلدی سوؤں گی تو صبح کالج کے لئے اٹھوں گی... اس نے اپنی دانست میں طنز کیا پر سامنے رزم علی تھا... اس کی بولتی بند کرنا جانتا تھا.

تو ڈارلنگ سو جاؤ... کس نے کہا کہ اپنے ہبی کے کئے گئے پیار کے خیالوں میں کھوئی رہو....

ماہی نے ہڑبڑا کر فون رکھا تھا

رزم قہقہہ لگا کر ہنس پڑا. اور اپنی زندگی کے بارے میں سوچنے لگا... وہ اس کے قریب نہیں جانا چاہتا تھا مگر جا رہا تھا.. اسے اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا مگر کر رہا تھا..

اس سے محبت تو ہر گز نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ کسی مقناطیس کی طرح اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی.

اسے تپانا.... پٹانا... پریشان کرنا.. اس کا ہونق زدہ چہرہ... گھبراہٹ... خوف... ایک ایک ادا دل میں سوئی کی طرح اندر تک چبھ جاتی تھی..

آج اسے چھونے.... محسوس کرنے کا من کیا تو دل کی فرمائش پر عمل کرتے ایسا کر بھی گزرا....

نہیں... مجھے اس سے دوررہنا ہے....... بہت دور.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح شمس کی آنکھ کھلی تو مسکرا اٹھا..

قریب ہی بلکل اس کا پہلو ایک خوشبوؤں میں بسے وجود سے آباد ہو چکا تھا..

وہ اٹھا اور اس کے قریب آیا.

غور سے اسے دیکھا... بلکل نوال کی شباہت تھی اس میں

پر اس کے وجود کی اپنی کشش تھی.

رات کو جو شیرنی بنی ہوئی تھی... اب چہرے پر بچوں کی طرح معصومیت تھی.

اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے سے بالوں کی لٹ کی نرمی سے پیچھے کیا....

وہ کسمسائی.....

وہ جھکا اور اس کی پیشانی پر دہکتے لب رکھے.... اس کے لمس کی تپش کا احساس تھا کہ وہ اچانک جاگی..

اسے خود پر جھکے دیکھا تو جھٹکا کھا کر اٹھی

ماتھے پر بل آئے..

فوراً بیڈ سے نیچے اترنے لگی جب شمس نے اس کا بازو تھام کر روکا تھا.

تم مجھ سے اتنا ڈرتی کیوں ہو... ڈرتی ہو کہ کہیں قریب آئی تو مجھ سے محبت نا ہو جائے.. شمس صبح صبح اسے چھیڑ کے اپنا دن خوشگوار بنانا چاہتا تھا.

اونہہہ... ڈرتی ہے میری جوتی آپ سے.. میں کیوں ڈروں گی بھلا... یہ لیں یہیں بیٹھی ہوں... تو.. اور نفرت کرتی ہوں میں آپ سے... زہن میں اچھی طرح بٹھا لیں یہ بات

وہ بلکل سیدھی ہو کر بیڈ پر بیٹھ گئی

شمس نے ہنسی روکنے کے لئے دانتوں تلے لب دبایا.

اچھا... مسز شمس.. میں نے سنا ہے کسی سے نفرت کرنا طوفانی قسم کی محبت کا آغاز ہوتا ہے.

تو پھر میں آپ سے نفرت نہیں کرتی.. بلکہ محب........ منال نے دانتوں تلے لب دبایا وہ اسے باتوں میں الجھا کر کیا کہلوانے والا تھا..

وہ جھنجھلا اٹھی.

شمس کا قہقہہ بلند ہوا..

وہ فوراً اٹھی اور کپڑے لے کر واش روم میں گھس گئی...

نوال اٹھ گئی ہوگی اسی لئے فریش ہو کر جلدی دوسرے کمرے کی جانب بڑھی.

سب نے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا..منال کو مسلسل خود پر اٹھتی اس کی والہانہ نظریں ڈسٹرب کر رہی تھیں.

شمس نوال کو گود میں لئے باہر لان میں چلا گیا....

تومنال نے سکون کا سانس لیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

پورے دو ہفتے ہو چلے تھے ان کی شادی کو مگر منال کی بے رخی ہنوز برقرار تھی.

منال دو مرتبہ گھر بھی گئی تھی.. اور تاشی اور ماہی کو گھر آنے کا بھی کہا مگر انھوں نے پڑھائی کا بہانہ کر کے سہولت سے منع کر دیا...حرا بھی اپنے گھر واپس جا چکی تھی... پچھلے ہفتے ہی اس کی طبیعت خراب ہوئی اور ان کی گود میں چاند جیسی بیٹی آئی..

تاشی اور ماہی نے پورے ہفتے اس کی دیکھ بھال کی تھی. 

اب بھی وہ نوال کے ساتھ اس کے چھوٹے سے کمرے میں کھیل رہی تھی. جہاں دنیا کا ہر کھلونا موجود تھا.. پنک کلر کمبینیشن میں سارا کمرہ سجایا گیا تھا پنک پردے.. پنک بیڈ.... دیواروں پر باربی ڈولز اور ڈزنی کیرکٹرز کی تصویریں پینٹنگ سے بنائی گئی تھی.

مصروف سا انداز تھا جب شمس چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا آفس سے واپس آ کر سب سے پہلے نوال سے ملنے آیا..

پاپا......... پاپا... نوال کہتی بھاگ کر آ کر شمس کے پاؤں سے لپٹی. شمس نے اسے گود میں اٹھا کر ڈھیر سارا پیار کر ڈالا...

منال کا چہرہ غصے کی شدت سے  سرخ ہوا.... 

نوال... وہ دھاڑی...... نیچے اترو... نوال سہمی جبکہ شمس نے حیرت سے اسے دیکھا

ایک جھٹکے سے وہ نوال کی جانب لپکی.. اور اسے کھینچ کر شمس کی گود سے چھینا اپنے سامنے کھڑا کر کے خود دو زانو کارپٹ پر بیٹھی.

یہ کیا بدتمیزی تھی.. نوال تم دن بدن بدتمیز ہوتی جا رہی ہو... کس نے کہا یہ تمھارے پاپا ہیں.. کیوں بولا تم نے.. اتنی چھوٹی بچی نادمجھی سے اسے دیکھ رہی تھی کہ اس نے کونسی ایسی شرارت کی تھی کہ اس کی مما یوں ڈانٹ رہی تھیں .. وہ اس پر گرجتی برستی اسے ایک تھپڑ جڑ چکی تھی

نوال حلق پھاڑ پھاڑ کر رونے لگی شمس دھواں دھواں ہوئے چہرے کے ساتھ اس ضدی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جس نے اس سے ضد بازی کی خاطر اتنی چھوٹی بچی پر ہاتھ تک اٹھا دیا تھا..

سارا بی... شمس دھاڑا... سارا فوراً کچن سے آئی... سارا بی بےبی کو زرا چپ کروائیں... اور کھانا کھلا دیں...

ہم ابھی آئے کھانے کی ٹیبل پر..

وہ دھاڑا تھا.. اب کی بار تو منال کے بھی رونگٹے کھڑے ہوئے تھے...

سارا نے جلدی سے نوال کو گود میں لیا اور وہاں سے کچن میں چلی گئی.

شمس نے سرخ چہرہ لال انگارہ آنکھوں سے اس کی جانب دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا بیگ پرے پھینکا.... تو منال کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی.

شمس نے اس ک بازو دبوچا. اور اپنے کمرے کی جانب آیا.

چھ..... چھوڑیں میرا بازو... یہ کیا کر رہے ہیں آپ....

وہ دھاڑ سے ڈور اوپن کرتا کمرے میں داخل ہو کر لاک لگا چکا تھا.

اب تو سچ مچ منال کے اوسان خطا ہوئے تھے...

چھوڑیں میرا بازو.....

شمس اسے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگا چکا تھا..لال انگارہ آنکھوں سے اسے گھورا

یہ کیا تھا منال....... تمھاری ہمت کیسے ہوئی.. کہا تھا نا تمھارے اور نوال کے معاملے میں کوئی کمپرومائز نہیں.. تمھاری جرات کیسے ہوئی میری بیٹی پر ہاتھ اٹھانے کی.

کہا تھا خود کو نقصان مت پہنچانا.. اور نوال تمھارے وجود کا حصّہ ہے... بولو کیوں کیا ایسا

اس کا بے حد سرد اور غصیلا لہجہ تھا... انگلیاں بازوؤں میں پیوست ہو رہی تھی.

اس نے تکلیف سے سسکی لی.

چھوڑیں مجھے.... یو ہرٹنگ می....

اور جو تم نے مجھے ہرٹ کیا وہ....... تمھارے اور میرے بیچ جو پرابلمز ہیں میں نے کہا تھا انھیں اس کمرے تک محدود رکھنا.. مگر تم نوال کو بیچ میں لائیں.. کیوں..

منال بے آواز آنسوؤں سے رو رہی تھی. پر اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا.

میں نے تم پر حق نہیں جتایا..تمھیں تنگ نہیں کیا.... مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اپنی من مانی کرو.. نوال صرف اور صرف میری بیٹی ہے اور تم مجھ سے یہ حق نہیں چھین سکتیں.. سمجھیں.

آج پہلی مرتبہ وہ اسے یوں غصہ ہو رہا تھا اور منال سے برداشت نہیں ہو رہا تھا.. ابھی تک تو وہ اس کے بے پناہ محبت اور وارفتگی کی ہی عادی ہو چکی تھی.

اسے آج پتا چلا اس کے اس ہتک آمیز رویے سے شمس کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی.. مگر وہ مرد ہونے کے باوجود برداشت کر رہا تھا.. آخر کوئی تو بات تھی ورنہ ابھی تک تو وہ یہ سمجھتی تھی کہ شمس نے اس سے شادی محض اس لیے کی تھی کہ اس کی شکل نوال سے ملتی تھی.وہ آجر بولی

آئم......... سس..... سوری...

شمس کا غصہ جھاگ کی طرح بیٹھا تھا اس کے شربتی لبوں سے یہ دو لفظ سن کر.. اب اسے اس کے آنسو بھی دکھے..

ییلو اور ریڈ کمبینیشن فراک پاجامے میں دوپٹے کے بغیر جو کہ اسے گھسیٹتے ہوئے لاتے دروازے میں ہی گر گیا تھا.

کھلے ریشمی بالوں اور بھیگے خوبصورت چہرے سمیت وہ اس کے بے حد قریب کھڑی تھی. اتنے کہ شمس کی سانسیں اسے اپنے ماتھے پر محسوس ہو رہی تھیں.

غصہ اترا.. نظر کازاویہ بدلا تو شمس کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی..

دھیمے سے جھک کر لبوں سے اس کے آنسو چنے... منال کی سٹی گم ہوئی...

وہ بے خود سا ہوا... اور اس کی گردن پر جھکا تھا... اس کے جا بجا دہکتے لمس اور کمر پر رینگتے ہاتھ... منال کی جان پر بن گئ..

ش...... شمس... بب... بول تو دیا ہے.. سس... سوری.. مم..... مجھے جانے دیں... وہ پہلی مرتبہ غصے سے اسے پیچھے نا جھٹک سکی. 

نہیں جانِ شمس..... صرف سوری سے کام نہیں چلے گا... پنش کروں گا تمھیں..

نن... نہیں... اس نے سختی سے آنکھیں بند کیں... جب شمس نے اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں اس کی نازک گردن بھر کر اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں الجھائیں....

لمحے فسوں خیز تھے...

وہ تڑپی... بھر پور مزاحمت کی مگر اس چٹان کے سامنے بے بس رہی.

شمس نے خود کو سیراب کر کے نرمی سے اسے چھوڑا...

اس کے آنسو دیکھ کر وہ شرمندہ سا ہوا...

اور کپڑے لے کر واش روم چلا گیا...

پیچھے وہ سانسیں ہمورا کرتی نڈھال سی صوفے پر گری...

اس کا لمس ابھی بھی لبوں پر محسوس ہو رہا تھا..

پر حیرت انگیز. منال کو کوئی کرائیت یا گھن محسوس نہیں ہوئی تھی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

کیا خبر ہے...یشار اپنے فلیٹ میں لیپ ٹاپ میں مصروف نئے کیس کی ڈیٹیلز ریڈ کر رہا تھا...

اچھی ہے.. تین چار اڈے ختم ہونے کے بعد ایس اے کی جڑے کافی کمزور ہو گئیں ہیں.. رزم نے بتایا.

اور کوئی خاص بات...

جو تھوڑے بہت ایس اے کے بھیڑیے بچے ہیں وہ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں..اور میڈم کی وجہ سے کالج کے ارد گر بھی کئی مشکوک افراد کو دیکھا گیا ہے..رزم پریشان تھا.

تو اس میں پریشان ہونے والی کونسی بات ہے...

تمھیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی یشار..... تاشی اور ماہ رخ کی وجہ سے... رزم نے پہلو بدلہ

تمھیں شاید مجھ پر یا خود پر بھروسہ نہیں رہا..

نہیں ایسی کوئی بات نہیں... اگر ہماری جان پر بن آئے کبھی تو تمھیں پتہ ہے ہم پہلے بھی جھیل لیتے ہیں اور اب بھی جھیل لے گے.. مگر وہ....... اگر انھیں کچھ ہو گیا..... تو.... تو اس بار میں جی نہیں پاؤں گا.اور نا ہی خود کو معاف کر پاؤں گا...

رزم کی رگیں تنی ہوئی تھی...یشار کو اب سمجھ آیا وہ ماہ رخ کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار تھا...

تو پرابلم کیا ہے یار... عابد انکل تو ہمارے کام کے بارے میں جانتے ہیں... تم ان سے رخصتی کا کہو... اور پرسنل گارڈ بن جاؤ اسکے... کہو کہ کچھ دشمنوں کی وجہ سے تم اس کی سکیورٹی کے حوالے سے کوئی رسک نہیں لینا چاہتے. میں ابھی شمس لالہ سے بات کرتا ہوں وہ کل جائیں گے اور بات کر لیں گے..

جیسی ہماری فیلڈ ہے ہم زیادہ دھوم دھڑکا افورڈ کر ہی نہیں سکتے اسی لئے منال بھابھی کی طرح بس سادگی سے کل لے آتے ہیں تمھاری میڈم کو.. 

یشار نے سیکنڈز میں اس کے مسئلہ کا حل نکالا.

وہ چڑیل میرا گلا دبا دے گی..رزم مسکرایا.

یہ تو پھر تمھاری پرابلم ہے..... یشار ہنسا...

اور تاشی...؟

اسے میں دیکھ لوں گا....

رزم اب پر سکون ہوا تھا.... تو دماغ چلنا شروع ہوا..

ایک اور خبر تھی سچ......

کیا،؟

مری میڈیکل کالج اور ہوسپیٹل  کی جانب سے ماہی کے کالج کے سٹوڈنٹس کو سرچ اور تعلیمی سرگرمیوں کے لئے انوائیٹ کیا گیا ہے... وہ کل کو مری میں جانے والے ہیں...

رئیلی... اور تم مجھے اب بتا رہے ہو...

مجھے بھی کل ہی پتہ چلا....کل ہی ان کے جانے کا فائنل ہوا تھا... تاشی اور ماہی بھی جا رہی ہیں..

یشار اب سنجیدہ ہو کر اس کی جانب پلٹا تھا...

کالج کی جانب سے سکیورٹی کے کیا انتظامات ہیں...

کچھ خاص نہیں وہی بے وقوفوں کی طرح صرف دو تین گارڈز کو ساتھ لے جائیں گے...

تو پھر ٹھیک ہے.. ان کی سکیورٹی کے لئے میں جاؤں گا... اپنی گاڑی میں....... ان کے پیچھے.

اوکے فائن... یہ سب سے بیسٹ آپشن ہے...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ جانے کی تیاریاں کر رہیں تھیں... کل صبح جا کر پرسوں کی شام واپس آ جانا تھا..

نازیہ بیگم پریشان سی بیٹھی تھیں.. عابد بھی بیٹھے انھیں مشورہ دے رہے تھے کہ کیا کیا چیز رکھنی ہے. 

کیا یار مسز عابد... کیوں پریشان ہو رہی ہیں اور ہمیں بھی کر رہی ہیں...

اتنی دور جا رہی ہو زری اب بھی ناں پریشان ہوں میں...نازیہ بیگم خفا ہوئیں 

اف او کچھ نہیں ہوتا مما.... ہم اکیلی تھوڑی ہیں اتنی سٹوڈنٹس ٹیچرز اور گارڈز ساتھ ہوں گے.

اچھا بھئی کرو اپنی من مانی.... میری تو کوئی سنتا ہی نہیں...نازیہ بیگم پریشان تھیں.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلی صبح وہ جانے کے لئے بلکل تیار تھی.. منال بھی آ کر  مل گئی تھی اور وہ حرا سے بھی مل آئیں تھیں

جب بلکل اچانک ماہی کی طبیعت بگڑی اور بگڑتی چلی گئ.

اس کا تو جانا کینسل ہوا پھر تاشی نے کہا وہ بھی نہیں جائے گی.

مگر ماہی نے اسے جیسے تیسے روانہ کر ہی دیا..

عابد اسے کالج تک چھوڑ کر آئے....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

عابد صاحب گھر پہنچے تو سامنے شمس منال حرا.. قیصر اور رزم بیٹھے تھے..بچے لان میں کھیل رہے تھے.. ننھی حور حرا کی گود میں تھی. 

شمس منال کو بھی یشار اور رزم کے بارے میں حقیقت بتا چکا تھا..

عابد کو خوشگوار حیرت ہوئی..

مگر تمام صورتحال سے آگاہ ہونے کے بعد وہ پریشان سے ہوئے..

مگر رزم جیسے جانباز آفیسر کے ہوتے ہوئے ان کی بیٹی کا کوئی بال بھی بانکا نہیں کر سکتا تھا.. اسی لئے  انھیں تسلی ہوئی.

بھائی صاحب ابھی یہی بہتر ہے کہ آپ ماہ رخ کو رزم کے ساتھ رخصت کر دیں سادگی کے ساتھ ابھی اسی حالت میں..... 

پھر جب حالات کچھ بہتر ہونگے... ملک دشمن عناصر سے نجات مل جائے گی تب ہم اپنے خاص خاص رشتہ داروں کو بلا کر ریسیپشن دے دیں گے...

 انکل آپ مطمئن ہو جائیں... ہم ماہ رخ کا بہت زیادہ خیال رکھے گے.اور اسے کسی بھی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے . شمس نے انھیں تسلی دی..

ٹھیک ہے بیٹا جس طرح تم لوگ مناسب سمجھو.... مگر ماہی نہیں مانے گی... اور زری بھی نہیں ہے.. وہ بھی بہت شور مچائے گی..

بابا زری کو میں سمجھا لوں گی... آپ فکر مت کریں... اور ماہی وہ ابھی جھٹپٹائے گی مگر سہی وقت آنے پر اسے حقیقت بتا دیں گے تو سنبھل جائے گی.

وہ نڈھال سی اپنے کمرے میں پڑی تھی.. بخار نے کچھ ہی گھنٹوں میں جان نکال دی تھی.. جب منال اور  حرا اس کے کمرے میں داخل ہوئیں...

وہ اٹھ کر بیٹھی... ارے آپی چچی میں اتنی بھی بیمار نہیں ہوئی کہ آپ لوگوں کو تیمارداری کے لیے آنا پڑا...

اسے حیرت ہوئی جب منال آگے بڑھ کر بیگ نکال کر اس کی پیکنگ کرنے لگی..

منال آپی یہ کیا کر رہی ہیں آپ...

حرا اس کے قریب آئی....

گڑیا...... کسی مجبوری کی وجہ سے تمھیں رخصت کر رہے ہیں .. رزم کے ساتھ.. اب سے تم اپنے شوہر رزم علی کے ساتھ رہو گی...

ماہی کے پیروں نیچے سے زمین کھسکی تھی.. یہ اسے اس گھٹیا شخص کی کوئی چال لگی تھی..

منال آپی... رک جائیں پلیز... میں کہیں نہیں جا رہی... اور یہ میرا پہلا اور آخری فیصلہ ہے... وہ جھنجھنا اٹھی.

اچھااااا....اور مجھے لگا تمھارا فیصلہ کرنے کے لئے  بڑے ابھی تمھارے سر پر موجود ہیں.. جنھوں نے یہ فیصلہ کیا ہے... رزم جو کہ دروازے پر کھڑا تھا... پتہ تھا وہ چڑیل اتنی آسانی سے قابو نہیں آئے گی اسی لئے اندر آ کر طنزیہ بولا

ماہی کے تو پیروں پہ لگی اور سر پہ بجھی تھی.. جھٹکے سے رخ موڑ کر اس کی جانب پشت کی اور منال کو روکنے کی کوشش کی...

اگر منال بھابھی اور حرا پھپھو کا لحاظ نا ہوتا تو وہ ابھی اس کے ہوش ٹھکانے لگا دیتا.. مگر خاموش رہا.

جب کوئی چارہ چلتا نظر نا آیا تو اس نے زری کا پتہ پھینکا...

حرا پھپھو جب تک زری نہیں آ جاتی... میں کہیں نہیں جاؤں گی..

رزم نے دانتوں تلے لب دبایا...

زری آئے گی تو مل لینا اسے......... بلکہ میں خود ہی اسے تم سے ملانے لے آؤں گی.. حرا نے اس بات کا بھی حل نکالا..

پھر وہ لاکھ جھٹپٹائی. تلملائی... مگر کسی نے اس کی ایک نا سنی پھر اس نے سب کو جو دل کیا سنایا..سب سے زیادہ تو اسے اپنے گھر والوں پر غصہ تھا جو اسے گھر سے نکالنے میں لگے ہوئے تھے...

لیکن اس کی ایک بھی نا چل سکی...

آخر این مینشن محل میں آ کر اسے ایک بڑے اور عالیشان کمرے میں لا کر بیڈ پر بٹھا دیا گیا...

سادہ مگر خوبصورت اور کشادہ کمرہ جس میں دنیا کی  ہر سہولت موجود تھی...

کیا ایسے ہوتی ہے شادی.... کہ گلے سے اتار کر پھینک دیا جائے... عام لڑکیوں کی طرح اس کے بھی زندگی کے اتنے خاص دن کے حوالے سے کچھ خواب اور خواہشات رہیں ہوں گی جو پوری نا ہو سکیں..

اسی لیے کب کے رکے آنسو بہہ نکلے اور وہ گھٹنے فولڈ کیے بازو باندھے ان میں منہ دئیے پھوٹ پھوٹ کر رو دی..

اور اسے وہاں لانے والا.......... لا کر خود غائب تھا.. یہ بھی اچھا تھا نہیں تو وہ تو اس کا بھی منہ نوچ لیتی..

رات گئے رزم کمرے داخل ہونے لگا تو حیران ہوا... میڈم رخ کمرہ لاک کیے بیٹھی تھی اندر.. تحیر سے اس کی آنکھیں پھیلی... مگر ڈور اس کے فنگر پرنٹس سے کھلتا چلا گیا..

اندر داخل ہوا.لاک لگایا. تو وہ صوفے پر سکڑی سمٹی بیٹھی گہری نیند تھی... دوپٹہ خود پر سے ڈھلک کر نیچے کارپٹ پر پڑا تھا.. 

.چہرے پر نیند میں بھی بے آرامی اور اذیت کے تاثرات اور مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان تھے..

اس نے افسوس سے سر ہلایا.. قریب آیا..

بہت نرمی سے اسے بازوؤں میں بھرا... بیڈ پر لٹایا... اور کمفرٹر اوڑھا. دیا..اپنی جگہ پر بیٹھ کر اپنا لیپ ٹاپ لا کر کام میں مصروف ہوا..

نظر بار بار بھٹک کر ہلکے بخار سے تپے سرخ چہرے کا احاطہ کر رہیں تھیں ...بخار سے شاید اس کاجسم ٹوٹا تھا.. تبھی ایک جان لیوا انگڑائی لی تھی...

رزم کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی....

بےوقوف لڑکی...... وہ بھر جھلاتے بڑبڑایا... ماتھے کو چھو کر بخار چیک کیا... ہلکا تھا مگر اس پاگل لڑکی نے نا کھانا کھایا نہ میڈیسن لی تھی. 

 خود کے  خیالات اور جزبوں پر لعنت ملامت کرتا.. لیپ ٹاپ اٹھا کر سٹڈی میں آ گیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

پورے چھ گھنٹے کے تھکا دینے والے سفر کے ساتھ وہ اب کہیں جا کر مری پہنچے تھے..

لیکن مری کے جنت نظیر سبزہ زاروں میں آ کر ساری تھکاوٹ دور ہو چکی تھی.

تمام سٹوڈنٹس نے سامان وغیرہ ہوٹل میں رکھا.. ایک کمرے میں دو سٹوڈنٹس کے رہنے کا انتظام تھا.. آرام کا وقت نہیں تھا ابھی.. 

آبادی سے زرا ہٹ کر جنگل کے قریب پہلے بہت بڑا ہوسپیٹل تھا اس سے زرا نیچے اترائی پر کالج تھا..

انھوں نے سارا دن ہوسپیٹل اور کالج میں سیکھتے گزارا...

واپسی پر جب ہوٹل آ رہے تھے تو تاشی کو وہی جانا پہچانا سا احساس ہوا اور لبوں پر مسکان رینگ گئی..

آتے ہوئے بھی اس نے ایک دو مرتبہ اسے گاڑی میں بیٹھے اپنی بس کے آس پاس دیکھا تھا.

وہ یقیناً اس کی حفاظت کے لیے اس کے آس پاس تھا.

اس نے ٹھنڈی سی آہ بھری کاش سمیر کو بھی اس کی اتنی ہی فکر ہوتی... وہ تو اپنی جاب میں بزی تھا... جب پتہ چلا کہ وہ جا رہی ہے بس فون پہ ہی بیسٹ وشز دے دیں.. اسے سی آف بھی نہیں کرنے آیا...

اس نے سر جھٹکا بھلا وہ ان دونوں کا موازنہ کیوں کر رہی تھی.

ہوٹل پہنچ کر  فریش ہو کر بستروں پہ گرتی چلی گئیں... اتنی تھکاوٹ تھی کہ گرتے ہی گہری نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یش جو کہ ان کے پیچھے ہی آیا تھا..ہر طرف نظر تھی اس کی.... اس ہوٹل کے پاس والے ہوٹل میں ہی ٹھہرا تھا.

اگلی صبح بہت روشن اور خوبصورت تھی...

رات بہت پر سکون اور بھرپور نیند لی...( یہ جانے بغیر کے اس سے اگلی رات اس پر کیا قیامت لانے والی ہے.)

اٹھیں تیار ہوئیں...

تمھیں پتہ زرتاشہ آج بس آدھا دن جو کل کی سرچ باقی تھی وہ پوری کرنی ہے باقی سارا دن گھومیں گے... یس.. نور اس کی کلاس فیلو اور روم میٹ ایکسائٹمنٹ سے بولی..

تو وہ ہنس دی.

تاشی نے بلیک خوبصورت فراک پاجامے کے اوپر بلیک اور شاکنگ حجاب لیا.. اوپر یونیفارم کا ڈاکٹر والا وائٹ کوٹ پہنا تھا..

  وہ سب ہوٹل سے نکلے... اور ہوسپیٹل پہنچے.

پھر کالج گئے اور کینڈا سے آئے ہوئے ڈاکٹرز کی ٹیم سے خصوصی لیکچر لئے..

تین بجے فری ہوئے تھے...

بمشکل تین گھنٹے بچے تھے گھومنے کے لئے... چھ بجے نکلنا تھا یہاں سے واپسی کے لئے سو وہ بس اسی حلیے میں ادھر ادھر بکھر گئے... نور اور تاشی چلتے چلتے بازار آ گئیں تو انھیں شاپنگ کا خیال آیا...

ابھی شاپنگ کر ہی رہی تھیں جب کچھ بگڑے بدتمیز لڑکوں کا گروپ مال میں داخل ہوا...

جتنی شاپنگ کی تھی.. سو. کی..ان کو دیکھ کر نور نے چپکے سے تاشی کا ہاتھ پکڑا اور وہاں سے نکلتی چلیں گئیں.

مگر ان میں سے ایک خبیث اتنی خوبصورت گرے آنکھوں والی لڑکی کو وہاں سے نکلتے دیکھ چکا تھا..

مال میں کہاں گھسے جا رہے ہو اصلی مال تو باہر گیا.اس نے مکروہ سے لہجے میں کہا اور وہ سب کتوں کی طرح باہر لپکے.

ابھی نور اور تاشی کچھ ہی دور نکلیں تھیں کہ وہ ان کے پاس آئے اور اردگرد چکر لگاتے ہوٹنگ کرنے لگے.. سب تماشہ دیکھ رہے تھے. کسی میں ہمت نہیں تھی ان بگڑے نواب زادوں سے الجھنے کی. جن کے پاس شاید پسٹل بھی تھے.

نور کی جان پر بنی تھی... مگر تاشی اطمینان سے وائٹ کوٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے خاموشی سے کھڑی تھی..

جانتی تھی وہ آس پاس ہے.. اس کی خوشبو محسوس کر سکتی تھی.. بھیڑ میں دیکھ چکی تھی. بلو پینٹ کے اوپر ییلو ہڈی میں منہ پر رومال باندھے دو غصیلی سرخ اور براؤن آنکھیں... تو بھلا وہ کیوں ڈرتی.

ارے بے بی تو بلکل ڈمی بن گئی ہے... ہاتھ لگا کر دیکھوں کہ سچ مچ لڑکی ہے یا ڈمی..

او رئیلی..... تاشی کی طنزیہ آواز پر وہ چھ کے چھ چونکے تھے...ہاتھ لگانا ہے..... چلو کوشش کر کے دیکھو...اگر ایک ہی باپ کے ہو تو کرو کوشش

واضح چیلنج.. انھیں اس لڑکی کے کانفیڈینس پر حیرت ہوئی..

یش اپنی ہڈی کی بیک میں ہاتھ ڈال کر اپنی ہاکی نکال چکا تھا

ان میں سے ایک بھنا کر  آگے بڑھا اور ہاتھ آگے بڑھایا..

تاشی تمسخرانہ سا ہنسی. کیونکہ اگلا منظر کافی جانا پہچانا تھا وہ ٹوٹا ہاتھ لہراتا چلانے میں مصروف تھا..

تیری تو... گالی دی اور ان میں سے دو نے اپنی پینٹ سے گن نکالنے کی کوشش کی... مگر اگلے پل وہ بھی دھول چاٹ رہے تھے..

باقی تین بھی یش کی جانب لپکے.. مگر اپنی ہڈیاں تڑوا کر سٹرک پر پڑے چنگھاڑ رہے تھے... یش نے تاشی کو اشارہ کیا وہ نور کو لئے وہاں سے ہٹتی گئی..

پھر یش بھی بھیڑ میں اچانک یوں غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں..پورا بازار ان لڑکوں کی درگت بنے دیکھ ہکا بکا تھا کہ یہ ہوا کیا تھا.

مگر دو اور اجنبی اور خبیث آنکھوں نے تاشی کا دور تک پیچھا کیا.

فون ملایا اور بولا..ایس اے  سر وہ ہاکی والے کو دیکھا میں نے آج.. مگر چہرہ نہیں دیکھا.. ہاں مگر اس کا جس سے تعلق ہے اسے ضرور دیکھا ہے.. پھر اس نے آج کا سارا واقع بتایا.. وہ لڑکی بڑے اعتماد سے بات کر رہی تھی.... سر...... جیسے پتہ ہو کہ اس کی حفاظت کے لیے وہ ہاکی والا اس کے آس پاس ہی ہے.

تو حرام خور مجھے کیا سنا رہے ہو جا کہ اٹھاؤ اس لڑکی کو... اتنی مشکل سے اس ہاکی والے کی کوئی کمزوری کوئی نشانی ہاتھ لگی ہے... مری والے اڈے کے سارے آدمی بلا لو..میں بھی اپنے آدمی لے کر پہنچتا ہوں.. لڑکی ہاتھ سے نکل گئی تو تیری لاش بھی پہچانی نہیں جائے گی سمجھے

ٹھیک ہے سر... جو حکم وہ گھگھیا گیا.. فون بند کر کے فوری اپنے بندوں کو فون ملایا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

بسیں واپسی کے لئے نکلی تھیں .... ابھی ایک گھنٹہ ہی سفر کیا تھا...

بسیں زرا ویرانے اور جنگل کے بیچ میں سے گزری تھیں.. جب اچانک بسوں پر حملہ ہوا تھا...خاموش فضا میں دلدوز چیخ و پکار گونجی تھی جب پانچوں گارڈز کو شہید کر دیا گیا تھا..

تعاقب میں آتا یش بھی بے تحاشا چونکا تھا... چھٹی حس نے غیر معمولی ہونے کا سگنل دیا تو اس نے چند ضروری میسیجز سینڈ کیے اور گاڑی ریورس کر کے حملہ آوروں سے چھپائی..اگر ابھی ان پر حملہ کرتا تو کئی معصوم جانیں خطرے میں پڑ سکتی تھیں... 

وہ ڈاکو نما نقاب پوش تھے... دونوں بسوں میں آ کر غرائے... ہمیں تم لوگوں سے کوئی مطلب نہیں بس تم میں سے ایک لڑکی سے ہے... وہ ہمیں چاہیے کسی بھی قیمت پر.. گرے آنکھیں ہیں اس کی..

جلدی سے اسے سامنے کر دو ورنہ ایک منٹ کی دیر ایک لاش بچھا دے گی..

تاشی جو کہ سہمی سی نیچے جھکی بیٹھی تھی اس کی بات پر تھر تھر کانپنے لگی.

جب کسی نے منہ نا کھولا تو وہ بدتمیزی سے خود ہی اندر گھس آئے اور ایک ایک کا چہرہ پکڑ کر دیکھنے لگے.

وہ درندہ تاشی کی جانب بڑھا تھا.... تو آنکھوں میں عجیب سے چمک آئی... سر مل گئی ہے.... دیکھیں زرا یہی ہے.... اس نے تاشی کو بازو سے پکڑ کر باہر گھسیٹا.. 

سر بھی خباثت سے اسے دیکھ کر خوش ہوا..

ہاں یہی ہے... لے آؤ اسے....

اے چھوڑو اسے... چھوڑو... ایک جانباز ٹیچر اس درندے کی راہ میں حائل ہوئی تھی... جب دو فائر کی آواز آئی اور ٹیچر کو شہید کر دیا گیا.

اب کوئی بچانے آئے گا اسے....... وہ تمسخرانہ سا ہنسا.دفعہ ہو جاؤ یہاں سے...... اس نے بس ڈرائیورز سے کہا تو وہ تیزی سے وہاں سے گاڑیاں نکالتے چلے گئے

وہ تاشی کو گھسیٹ کر باہر اپنی گاڑیوں تک لائے.... وہ بھر پور مزاحمت کر رہی تھی..

دو نے اس کے ہاتھ جکڑے ہوئے تھے جب کے  وہ درندہ جسے سب سر کہہ رہے تھے تاشی کے حجاب سمیت بال مٹھی میں جکڑے...

اے بلاؤ اس ہاکی والے یار کو... میں بھی تو دیکھوں کتنا دم ہے اس میں..

وہ بزدل کہتا ہوا یہ بھول گیا کہ خود ایک کمزور لڑکی کے بل پر دم خم دکھا رہا تھا..

تاشی نے اپنی پوری جان لگا پکارا...

یش........ بچاؤ مجھے..... یش....... میری ہیلپ کرو...

یش نے خاموش فضا میں تاشی کی چیخ و فریاد سنی تو دیوانوں کی طرح گاڑی سے اتر کر آواز کی جانب بھاگا..

مگر وہ اسے گاڑی میں ڈال کر لے جا چکے تھے...

وہ فتح کے نشے میں چور اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے....اس بات سے بے خبر کے کس طوفان سے ماتھا لگا بیٹھے ہیں.

وہ اپنے اڈے پر پہنچے... تاشی کو گھسیٹ کر باہر نکالا..

چھوڑو مجھے...... چھوڑو مجھے... بزدل... یش نہیں چھوڑے گا تم لوگوں کو...

سر نے زور دار تھپڑ تاشی کو مارا تھا... کہ اس کا سر گھوم گیا اور ہونٹ پھٹ گیا تھا..

وہ تیرا یار.... ہاکی والا.... ابھی تک تو آیا نہیں... اے بند کرو اسے اندر کمرے میں..

سر مال بے تحاشا خوبصورت ہے... کیا خیال ہے ہمیں انعام تو دے دیں...

ان میں سے ایک درندہ خباثت سے بولا..

تاشی کی روح کانپی تھی... پہلے صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ اور پھر یش کو پکارا... 

نہیں ابھی نہیں... ایس اے کا اگلا حکم ملنے تک صبر کرنا پڑے گا...... سر کی سرسراتی آواز آئی

ان میں سے ایک نے لا کر تاشی کو ایک گندے سے جالے لگے کمرے میں پھینکا.. اور خود لاک لگا کر وہاں سے نکل گیا.. وہ بے تحاشا رو دی...

یش ان کا تعاقب کرتے کرتے اس جنگل اور ویرانے کے بیچ وبیچ  اس ٹوٹی پھوٹی عمارت  کے پاس پہنچا تھا... جہاں سخت قسم کا پہرا تھا...

جلدی جلدی دماغ چلایا..... فون نکال کر دیکھا... رزم کے میسیجز آ چکے تھے... وہ مطمئن ہوا... اب اسے کسی نقل حرکت کا انتظار کرنا تھا..

اسے اپنی فاش غلطی کا احساس ہوا... اسے پبلک پلیس میں یوں اپنی ہاکی نہیں استعمال کرنی چاہیے تھی... یقیناً ایس اے کے کسی کتے نے دیکھ لیا ہوگا..

اور تاشی کے اعتماد سے اس کا تعلق تاشی سے ہے اس کتے کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہوگا.

تاشی صرف اس کی وجہ سے اتنی بھیانک مشکل میں پھنس گئی تھی... یہ بات ہی اسے بے حد تکلیف کو کافی تھی..

ان کے پاس ہر صورت حال سے نمٹنے کیلئے ایک پلان ہوتا تھا..اذیت ناک تھا مگر اسے دو تین گھنٹے انتظار کرنا تھا

جب ان کی منشاء کے مطابق ہاکی والا ان کے سامنے نا آتا تو تلملا کر ضرور کوئی غلطی کرتے

اس نے ڈھائی گھنٹے صبر آزما انتظار کیا... اور پھر پلان کے مطابق ان درندوں کو جہنم واصل کرنے آہستہ سے عمارت کی جانب بڑھا..

تین گھنٹے کے صبر آزما انتظار کے بعد بھی جب کوئی اسے بچانے نا آیا تو اس نے.... ایس اے کو فون ملایا....

سر تین گھنٹے ہو گئے.... وہ ہاکی والا نہیں آیا..

ابے حرامی...... غلط چھوکری کو تو نہیں اٹھا لائے..

نہیں نہیں..... سر لڑکی تو وہی ہے.....

ابے پاگل کتے تو وہ ضرور تیرے آس پاس ہے... جانتا نہیں تو اسے..... چھوکری کو قابو کر... نوچ کر پھینک اسے... اس کی چیخیں سن کر ضرور آئے گا سامنے...میں بھی بس پہنچنے والا ہوں. 

اس درندے نے ہڑ بڑا کر فون رکھا اور اپنے تین آدمیوں کو لے کر تاشی کے کمرے کی جانب لپکا...دھاڑ سے دروازہ کھولا تھا.... تاشی جو سہمی بیٹھی تھی... چونکی....

وہ اس کی جانب لپکے اور دو جانوروں نے دائیں بائیں بازو سے اسے دبوچا..

اس درندے نے اس کا حجاب نوچ کر پھینکا. وہ بری طرح چلانے لگی..

چیخ اور چیخ... بلا اپنے یار کو....... آ کر بچائے تجھے ہم سے اس نے یہ کہہ کر تاشی کے دودھیا نازک بازو پر چاقو سے وار کیا تھا...

اس کی دلخراش چیخ جنگل کی خاموشی کا سینا چیرتی دور تک سنائی دی تھی..

ایسے نہیں آئے گا......... اے لٹا اسے سیدھا کر... ان دونوں نے تاشی کو زمین پر پٹخا تھا... جب وہ درندہ اپنی قمیض اتار کر تاشی پر جھکنے لگا...

کیلوں والی سنسناتی کوئی چیز آئی تھی جو اس کی کنپٹی پر بجی تھی.وہ سوکھی لکڑی کی طرح اچھلتا پیچھے گرا تھا.. وہ چنگھاڑ کر اٹھا تھا.....

سامنے ہی کالی پینٹ اور ہڈی میں منہ پر باندھا گیا کال رومال... مگر دو براؤن لہو ٹپکاتی آنکھیں اور ہاتھ میں کیلوں والا ہاکی دکھائی دیا تو ایک مرتبہ تو خوف سے رونگٹے کھڑے ہوئے.

تاشی لپک کر اٹھی تھی اور اس کے سینے سے لگی تھی.. نازک سی جان جی جان سے لرز رہی تھی.

وہ درندے اب کھڑے یش کو گھور رہے تھے... باہر سے بھی تین چار اندر آ چکے تھے.. ان سب کے ہاتھوں میں تیز دار بڑے بڑے  چاقو تھے....

اس نے تاشی کو خود سے الگ کر کے دیوار کے ساتھ لگایا..

تاشی یہاں کھڑی رہنا.... اپنی آنکھیں بند کرو...

وہ بے تحاشا روتی نفی میں سر ہلا رہی تھی......

تاشی میں نے کہا آنکھیں بند کرو.. اب کی بار اس نے غراتے کہا تو اس نے زور سے ہاتھوں سے چہرہ چھپا لیا...

اب اس کے سامنے وہ درندے کھڑے تھے جنھوں نے اس کی تاشی کو چھونے کی جرات کی تھی. وہ تو نارمل دشمنوں کے چہرے بگاڑ دیا کرتا تھا... اب تو دشمنی زرا پرسنل ہو گئی تھی...

وہ ان کا کیا حشر کرنے والا تھا.خود بھی نہیں جانتا تھا.. وہ نہیں چاہتا تھا اس کا یہ حیوانی روپ تاشی دیکھے...وہ تو بس اسے نارمل اپنے لئے ہاکی سے لڑتے دیکھتی آ رہی تھی

..

وہ سب اکٹھے سر کے علاوہ اس کی جانب لپکے تھے........ مگر دس منٹ میں کمرے میں خون کی ندی بہا دی تھی اسنے.....

یہ منظر دیکھ کر اس باقی بچے درندے کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے تو چلا کر بولا...... ہمیں مار رہے ہو.. بچو گے تو تم بھی نہیں پہنچنے والا ہے ایس اے اپنی پوری فوج کے ساتھ.. بڑے حساب نکلتے ہیں تیری طرف .. تیرے سامنے تیری اس آئٹم کو نوچے گا... کچھ نہیں کر پائے گا تو... ہاہاہا ہاہاہا

موت سامنے دیکھ کر وہ کتا شاید پاگل ہو گیا تھا..

پھر یش کی ہاکی نے اس کی ساری چمڑی ادھیڑ دی تھی..

کہ اچانک خاموش فضا میں ڈھیر سارے پہیے چرچرانے کی آوازیں سنائی دیں

تو یش چونکا....... اسے جلد از جلد تاشی کو کسی محفوظ مقام تک پہنچانا تھا... خود تو اکیلا چاہے ہزار بندوں سے نمٹ لیتا... مگر اس وقت صرف وہ تاشی کی جان وعزت کی سلامتی چاہتا تھا.

اسی لئے جیسے شیر  بھر پور حملہ کرنے کو دو تین قدم پیچھے لیتا ہے اسی طرح اسے بھی اس ایس اے کا سر کچلنے کے لئے چند قدم پیچھے لینے تھے. بیک اپ پلان ریڈی تھا اسے صرف عمل کرنا تھا.. وہ انھیں اپنے تعاقب میں بھگا کر وقت کا ضیاع کرنا چاہتا تھا.. تاکہ جب فورسز آ کر اس کا سر کچلیں تو وہ بھاگ نا پائے. 

اسی لئے بجلی کی تیزی سے اس نے تاشی کا بازو کھینچا...

تاشی ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا... سمجھ رہی ہو نا میری بات..... ادھر مت دیکھو... صرف میری طرف دیکھو... اس نے تاشی کو ان ادھڑی لاشوں کو دیکھنے سے منع کیا...... اور تیز ترین رفتار سے اسے لے کر وہاں سے بھاگا....

وہ جنگل میں دو تین گھنٹے سے وقفے وقفے سے بھاگ رہے تھے.تاشی بلکل نڈھال ہو چکی تھی.. گہری رات میں پیچھے ان کے تعاقب میں آتے ڈھیر سارے بندوں کے بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی تو پھر بھاگنے لگتے..

وہ بھاگتے ہوئے ایک جھونپڑی کے قریب سے گزرنے لگے جب ایک فقیر نما بابا نے یش کو ہاتھ کے اشارے سے روکا..

وہ رکا تو اس کا ہاتھ پکڑے دائیں جانب لپکا.....

یہاں جنگلی لٹیرے رہتے ہیں جو آئے روز کسی نا کسی خاندان کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں.. ایک دو میاں بیوی کی میں جان بچا چکا ہوں ان سے........

بھروسہ رکھو... جہان چھپاؤں گا صبح تک وہیں دبکے رہنا تو وہ سایہ بھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے تمھارا..

وہ بابا یہ کہتے ہوئے انھیں لئے ایک کھائی کے پاس آیا.. جہاں بظاہر نیچے اترنے کا کوئی راستہ نہیں تھا مگر ایک بہت بڑے سے پتھر کے بائیں جانب سے گھوم کر وہ انھیں اس پتھر کی نیچے لایا جہاں ایک بہت چھوٹا سا عار کا من بنا تھا..

بابا نے انھیں جلدی سے اندر جانے کا کہا.. یش تاشی کو لیے بیٹھ کر اس کے اندر آیا تو اس کے منہ کے مقابلے اندر سے وہ غار کچھ کشادہ تھا.. جہاں آسانی سے بیٹھا جا سکتا تھا.

وہ بابا جلدی انھیں چھپا کر پلٹا اور جھونپڑی میں گھس کر سوتا بن گیا..

بھاری بوٹوں کی آواز بلکل ان کے سر پر سے آ رہی تھی...

ابے حرام خوروں کہاں گئے وہ... ڈھونڈو اسے ... مل گئے تو چھوکری آج رات کے لئے تم سب کی دلہن ہوگی.....ایس اے ناکامی نظر آنے پر کتے کی طرح بھونک رہا تھا...

جبکہ تاشی یہ سن کر نڈھال ہوئی جان کے ساتھ پھر جی جان سے لرزی بے تحاشا روئی تھی... 

ی.....یش...یش... وہ... یہ... مجھے لے جائیں گے... میرے ساتھ...... وہ سسکی.....

یش نے اسے سینے میں بھینچا.اور بلکل آہستہ سے اس کے کان میں سرگوشی کی... .. کبھی نہیں..... ہو ہی نہیں سکتا میری جان. جب تک میں زندہ ہوں تم پر کسی کا سایہ بھی نہیں پڑنے دوں گا... تم صرف میری ہو... تم پر صرف میرا حق ہے... تمھیں صرف میں چھو سکتا ہوں....

اوپر اب بھی ایس اے چیخ چھنگھاڑ رہا تھا.. جس سے تاشی خوفزدہ ہو کر سسک رہی تھی.. اس کی سسکیاں بلند تر ہوتی جا رہی تھیں..

اششششششششش... تاشی خاموش ہو جاو..... میں ہوں ناں کچھ نہیں ہونے دوں گا تمھیں...یش نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اسے خاموش کرانا چاہا... مگر وہ شاید صدمے میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی...

نہیں... یش... وہ مجھے لے جائیں... میں مر جاؤں گی...... مم.... مجھے... کچھ...... . وہ ہزیانی سی ہو کر چلانے والی تھی جب یش نے اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی قید میں لیا.. تھا.

وہ نڈھال سی خود پر اس کو وزن برداشت نہیں کر پائی اور  پیچھے ڈھلانی زمین پر گرتی چلی گئی... یش اسے ریلیکس کرنے اس پر جھکا تھا... جب اس نے مزاحمت کرنا بند کی اور اوپر سے بھی شور آنا بند ہوا تو یش نے اسے نرمی سے چھوڑ دیا.. اس کے پاس بیٹھا...

اس کے بازو پر زخم محسوس ہوا تو اپنی ہڈی اتار کر اس کے زخم پر باندھ دی......

اب وہ صرف پینٹ اور وائٹ بنیان میں تھا......اب انھیں انتظار کرنا تھا... دو بج چکے تھے...

وہ بھی نڈھال سا ہو کر تاشی کے قریب ڈھلوان پر نیم دراز ہو کر سر ٹکا چکا تھا...

 یش.... اگر. ..... وہ.. دد... دوبارہ آ گئے... تت... تو...

تاشی خوفزدہ ہو کر اس کے پاس کھسک آئی تھی...... یش نے اس کی کمر کے نیچے سے بازو نکال کر اسے بازوؤں میں بھر لیا...جب اس نے تکلیف سے ایک سسکی بھری...تاشی کو پاوں کے اندر تک سوئی سی چبھتی محسوس ہوئی... وہ جان چکی تھی کہ اسے کسی چیز نے کاٹ لیا ہے... 

کوئی نہیں آئے گا میری جان.... تمھیں کوئی نہیں چھو پائے گا... تمھاری طرف بڑھنے والے ہاتھوں کا میں کیا حشر کرتا ہوں جانتی ہو ناں.....

تاشی مزید اس میں سمٹی تھی..

مکمل اندھیر...خاموشی .. تنہائی... اور اس کی بانہوں میں اس کی تاشی....

وہ مکمل اس پر جھکا اس کی قربت میں ڈوبا ہوا تھا...

اس کی گردن پر جھکا  مچل کر اس کے تل پر لب رکھے..

وہ جو نڈھال سی بے جان لیٹی تھی... اپنی تمام تر ہمتیں جوڑ کر اسے پکارا..کہ شاید اس کے یش کو اپنی تاشی پر رحم آ جائے. وہ اسے بتانا چاہتی تھی کہ اسے اپنی رگوں میں سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی.. کیونکہ اسے کسی چیز نے کاٹ لیا تھا...

ی......... یش...... یش...

یش نے زرا سا  سر اٹھا کر اس کے کپکپاتے زخمی لب دیکھے.. اور ان پر جھکتا چلا گیا..

وہ بن پئے بہک گیا تھا... مکمل بے خود اور مدہوش..

اسے زرا بھی ہوش ہوتا تو وہ یہ سمجھتا کہ اس وقت اس کی بانہوں میں کسی اور کی منکوحہ ہے..اور وہ یش کے لئے حرام ہے.

اسے زرا بھی ہوش ہوتا تو وہ  جانتا کہ وہ اپنی تاشی کو تکلیف پینچا رہا ہے..اس کے زخمی لب کو اور زخمی کر رہا ہے.. 

اسے زرا سا بھی ہوش ہوتا تو وہ یہ دیکھتا کہ تاشی بلکل مزاحمت نہیں کر رہی .. نیلے پڑتے وجود کے ساتھ وہ نیم مردہ... نیم جان سی اکھڑے اکھڑے سانس لے رہی ہے..

مگر وہ ہوش میں ہوتا تو تب ناں.

وہ خود کو روک نہیں پا رہا تھا.. ایک آگ تھی جو سینے میں جل اٹھی تھی.

اسے دہکتے کوئلوں کی بھٹی میں جیسے جھونک دیا گیا تھا.

ایک آگ کا دریا تھا جو سینے میں جل اٹھا تھا.

وہ اس کے ہونٹوں پر جھکا اپنی برسوں کی پیاسی روح کو سیراب کر رہا تھا..

پھر ہونٹوں سے گردن تک آیا. مکمل مدہوشی میں وہ اس کے کندھے سے اس کی شرٹ کھسکا چکا تھا..بے دردی سے اپنے دانت اس کے کندھے پر گاڑھے.. 

یہ جانے بغیر کے جب عشق کا امتحان اس کے سر پر آ پہنچا تو وہ کس قدر کمزور ثابت ہوا تھا.

یہ جانے سمجھے بغیر کے اگر آج وہ اپنے نفس کے ہاتھوں کمزور ہو کر فیل ہو گیا تو اس کی  تاشی.اس سے ہمیشہ کے لیے دور .. فنا ہو جائے گی.. مر جائے گی...

عشق کا امتحان سر پہ تھا.. اسے بس خود سے تاشی کو بچانا تھا..

مگر کاش یہ اتنا آسان ہوتا.. وہ ناکام، نامراد، شکست اور فیل ہونے کے قریب تر ہوتا جا رہا تھا.

یشار خان اس سے پہلے کہ اپنی ہر حد پار کرتا اس کے کانوں میں بابا کے الفاظ گونجے تھے.

تیرے ماتھے پر لکھا ہے

عشق

امتحان

.. وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ کر تاشی سے یوں پیچھے ہوا تھا جیسے وہ کوئی اچھوت ہو... یا وہ خود تاشی کے لئے اچھوت ہو..

یش کو اس پل  خود سے بے تحاشا نفرت، کراہیت ، اور گھن محسوس ہوئی تھی..

وہ کتنی دیر تک  یونہی بت بنا اپنے آپ سے نفرت محسوس کرتا رہا جب دور بہت دور کہیں سے فجر کی اذانیں سنائیں دیں..

اس کے بعد جنگل کی پوری فضا گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج اٹھی...

یقیناً اس کا یار رزم فورسز کو لے کر پہنچ چکا تھا... اور اب اس کو کتوں کی طرح ڈھونڈتے دشمنوں کو جہنم رسید کر چکا تھا.... آدھے گھنٹے فائرنگ کا تبادلہ ہوا...

مگر وہ تاشی کو یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا...

پھر فوجیوں کی مخصوص بوٹوں کی دھمک چاروں اور.... سنائی دی تو اس نے سکھ کا سانس لیا.

تاشی کے قریب ہوا.

تاشی ہل نہیں رہی تھی.....

تاشی.......... تاشی... یش نے اس کے گال تھپتھپائے...

اور پھر یش کی جان لبوں پر آئی تھی جب اسے محسوس ہوا کہ تاشی کی سانس تھم سی رہی ہے...

تاشی... اس نے بے قرار سا ہو کر اسے پکارا..

یشارخان...

قریب ہی کہیں شمس لالہ اور رزم کی پکار سنائیں دی تھیں..

یش نے نرمی سے اسے بازوؤں میں بھرا.....اور لے کر باہر نکلا آسمان کا رنگ سیاہ سے گہرا نیلا ہو گیا تھا.....

رزم....... یشار نے آواز دی تو کئی قدموں کی آوازیں اسے اپنی جانب  بے چینی سے لپکتی سنائی دیں...

یشار......... وہ ان کے پاس پہنچے... رزم نیچے اترا اور اسے سہارا دے کر اوپر لایا...

یشار کو سہی سلامت دیکھ کر شمس نے سر خوشی میں اس کا ماتھا چوما.

رزم... جلدی کرو تاشی کو ہوسپیٹل لے کر جانا ہوگا... یشار چلایا تو شمس نے اس کے بازوں میں ڈھلکے سر اور نیلے پڑتے ہونٹ لئے زری کو دیکھا....دوپٹے ندارد بے حال سی زری...

تاشی،؟. شمس الجھا...... رزم نے جلدی سے ہیلی کاپٹر لانے کا اشارہ کیا...ان سب کی نظریں جھکی ہوئی تھیں.. کسی نے تاشی کی جانب نہیں دیکھا تھا...

یشار  کی آنکھیں خون رنگ میں نہائی ہوئی تھیں..

رزم چادر لاؤ....... وہ پھر دھاڑا.

رزم چادر لے آیا... اور تاشی کے اوپر پھیلا دی

ہیلی کاپٹر آیا.... اور یش اسے لئے ہیلی میں بیٹھا...

وہ سب جلد از جلد ہوسپیٹل پہنچے تھے....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ہوسپیٹل کے کوریڈور میں یش بینچ پھر سر جھکائے بیٹھے اپنا ضبط آ زما رہا تھا...

اس وقت اپنی یونیفارم کی شرٹ پہنے.. سرخ چہرہ لہو ٹپکاتی آنکھیں تھیں...

خود کو کوئی ہزاروں مرتبہ لعنت ملامت کرتے وہ پچھتاووں کی بھٹی میں سلگ ریا تھا.

یہ اس نے اپنی تاشی کے ساتھ کیا کیا تھا... وہ تو زندگی بھر اس سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا. 

اس کے خوف، بے بسی، اور ڈر کا فائدہ اٹھاتا رہا تھا..اس نے اس کی حفاظت کرنی تھی.. مگر خود ہی اس کی معصومیت کو داغ دار کرنے چلا تھا.

بیشک اس نے خود کو ہر حد پار کرنے سے روک لیا تھا.. مگر وہ خود کو اس کا مجرم سمجھ رہا تھا..

وہ اس کی اس حالت کا زمہ دار تھا...بابا نے کہا تھا اگر وہ فیل ہو گیا تو اس کی منزل مر جائے گی... بے شک وہ انتہاؤں تک نہیں گرا تھا مگر اپنے نفس کے ہاتھوں زلیل ہونے میں کثر بھی نہیں چھوڑی تھی.

ڈاکٹرز نے کہا تھا کہ اسے کسی زہریلے سانپ نے کاٹا تھا... جس کی اینٹی ڈوٹ میسر ہی نہیں تھی..

وہ آئی سی یو میں اپنی زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی...

اور یشار کی  سانس اس کے سینے میں الجھی ہوئی تھی.

رزم اس کی حالت کو سمجھ سکتا تھا مگر شمس الجھا ہوا تھا.. شمس نے قریب جا کر اس کے جھکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا...

اس نے نظر اٹھا کر اوپر دیکھا تھا.. جب شمس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے..

نم آنکھوں میں وحشت، خوف، جنون، دیوانگی کیا نہیں تھا..شمس اس کے قریب بیٹھا... یشار نے شمس کے کندھے سے سر ٹکایا تھا.

وہ اپنے حواس میں بھی نہیں تھا...

لالہ... وہ میری زندگی ہے... میرے جینے کا مقصد... میری بچپن کی محبت..میرا عشق... میری دیوانگی... وہ میری ہر آتی جاتی سانس میں بسی ہے... میں نہیں جی سکتا اس کے بغیر . تاشی نہیں تو یش بھی نہیں... لالہ میں کیا کروں کے وہ ٹھیک ہو جائے... میں سہی طرح اس کی حفاظت نہیں کر سکا... مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے میرا دل  کسی نے کچل دیا ہے...

لالہ.... وہ.... وہ ٹھیک ہو جائے گی ناں.. اسے کچھ....

کڑے ضبط کے باوجود دو باغی آنسو تھے جو یشار کی آنکھوں سے ٹوٹ کر گرے تھے..

اس وقت شمس کو اس کی حالت ایسی لگ رہی تھی.. جیسے اس کی خود کی آٹھ سال پہلے ہوئی تھی. وہ اپنے بھائی کا درد، تڑپ تکلیف اذیت اپنے سینے میں محسوس کر رہا تھا.

رزم نے حیرت سے اس کے آنسو دیکھے تھے.. آٹھ سال میں وہ پہلی مرتبہ اس چٹان کے سینے سے چشمہ پھوٹتے دیکھ رہا تھا..رزم نے اسے اس حالت میں دیکھ کر  بے حد اذیت محسوس کی..

مجھے یقین ہے.. یشار.. اسے کچھ نہیں ہوگا... حوصلہ رکھو یار...

لالہ.. اس کی اس حالت کا زمہ دار میں ہوں.. میں اس کے قریب گیا...میں نے بہت برا کیا اس کے ساتھ..اسے چھوا....

یشار.... شمس اپنی جگہ سے اچھلا تھا جب غصے سے اسے پکارا... تمھارا دماغ خراب ہوگیا ہے یشار... اپنے حواسوں میں آؤ... میڈیکل رپورٹ بلکل ٹھیک ہے اسکی... تم نے کچھ نہیں کیا... اب کسی کے سامنے یہ بکواس نہیں کر دینا..

شمس غصے سے  کھڑا ہوا.. اور رزم کو اشارہ کیا.. وہ اسے لئے باہر آئے....

رزم تم مجھے تفصیل بتاؤ گے کے میں اب اپنے طریقے سے پتا کرواؤں.... شمس غرایا.

اس کے غصے سے رزم خائف ہوا... اور یشار اور تاشی کے بارے میں سب تفصیل شمس کو بتاتا گیا...

رزم بہت افسوس کی بات ہے.میرے بھائی کی زندگی میں اتنا کچھ ہو گیا اور تم نے مجھے بتانے کی بھی ضرورت نہیں سمجھی..

یشار نے منع کیا تھا.... رزم منمنایا..

تمھیں پھر بھی مجھے بتانا چاہیے تھا.اس کی حالت دیکھی ہے..رزم میرے بھائی کو یا اس کی محبت کو کچھ ہوا تو میں پوری دنیا کو آگ لگا دوں گا... تم نے مجھے بتایا ہوتا تو اب تک تو میں کچھ کر بھی چکا ہوتا..شمس کا سرسراتا لہجہ...... رزم چونکا

لالہ کیا کریں گے آپ....

کچھ بھی... کچھ بھی کا مطلب کچھ بھی... مجھے میرے بھائی کی محبت اسے دلانے کے لیے دنیا ادھر سے ادھر کرنی پڑے.. ہر حربہ ہر طریقہ، آزمانا پڑے. آزماؤں گا.. .. میں کچھ بھی کر گزروں گا..شمس کی آنکھوں میں جنون سا تھا

رزم نے جھرجھری لی.

اتنے میں ہی عابد حسین قیصر اور نازیہ بیگم پہنچے تھے.. نازیہ بیگم بے تحاشا رو رہیں تھیں.. عابد بھی غمزدہ تھے..

انھیں یہی بتایا گیا تھا کہ دہشت گرد تھے.. جنھوں نے حملہ کیا اور تاشی کو کڈنیپ کیا  تھا ..

عابد حسین ڈاکٹر سے تفصیلی گفتگو کر چکے تھے..

شمس اور رزم نے فون پاور آف کیے ہوئے تھے... بار بار منال اور ماہ رخ کی کالز آ رہی تھیں..

اسی لیے انھیں ایسا کرنا پڑا.

انھیں پتہ تھا وہ رو رو کر خود کو ہلکان کر چکی ہوں گی..

آئی سی یو سے ڈاکٹر باہر آئیں تھیں... وہ سب ڈاکٹر کی طرف لپکے...

ڈاکٹر کے چہرے پر مہربان سی مسکراہٹ ہوئی..

کونگریٹس...... میجر رزم...... پیشنٹ بلکل ٹھیک ہیں اور یقین کریں معجزانہ طور پر بچ گئیں ہیں.. پورا سٹاف حیران ہے.. کیونکہ جو زہر ان کی پوری باڈی میں تھا... اس کا اینٹی ڈوٹ ہمارے پاس نہیں تھا مگر پھر بھی جانے کس کی دعائیں تھیں کہ ان کی باڈی خود ہی سروائیو کر گئی...کچھ گھنٹوں تک ہوش آ جائے گا انھیں... 

عابد نے سجدہ شکر ادا کیا تھا...

وہ سب بے حد خوش  ہوئے تھے...

یش ہنوز بت بنا وہیں بیٹھا رہا.... اور پھر ایک جھٹکے سے اٹھا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا....تاشی سے دور ہونے کے لئے.. اس کے سامنے کبھی نا آنے کے لیے... کبھی واپس نہیں آنے کے لیے.. 

انتظار صبر آزما تھا... مگر وقت گزر ہی گیا جب ڈاکٹر نے آ کر بتایا کہ تاشی کو روم میں شفٹ کر دیا گیا ہے اور اسے ہوش بھی آ گیا تھا..

وہ سب روم میں داخل ہوئے... 

تاشی نے بوجھل سی نظروں سے سب کو دیکھا.... اور پھر آنکھیں موند لیں...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

دوسرے دن اسے ڈسچارج کر دیا گیا تھا...وہ ٹھیک ہو گئی تھی... اور پھر وہ سب واپس لاہور آئے تھے....

عابد حسین کے گھر وہ سب لاؤنج میں بیٹھے تھے.. جب منال اور ماہ رخ بے حد بے چینی سے اندر داخل ہوئیں تھیں.....

اور پھر وہ تینوں بہنیں تھیں اور ان کے آنسو...

شمس اور رزم پہلو بدل رہے تھے.

یشار جانے کدھر غائب تھا..

رزم ماتھے پہ بل لیے ماہی کو گھور رہا تھا..

تینوں بہنیں ہی پاگل ہیں.. میں تو صرف ایک کو سمجھا...

وہ دل میں بڑبڑایا...

اتنی دیر میں ہی رضیہ بیگم اور سمیر اندر داخل ہوئے تھے..

رضیہ بیگم اندر آتے ہی تاشی سے لپٹ کر زارو زاد رونے لگیں تھی.. اور چٹا چٹ اسے پیار کر رہیں تھیں..

شکر ہے میری بچی... میری تو جان لبوں پر آ گئی تھی... تم سہی سلامت گھر لوٹ آئیں.. ارے بیڑا غرق ہو ان مردودوں کا کیسے میری پھول سی بچی مرجھا گئی ہے... وہ اسے لئے صوفے پر بیٹھیں تو تاشی نے ان کی گود میں سر رکھ سکون سے آنکھیں موند لیں...

وہ بے حد نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں...

شمس نے یہ منظر عجیب نظروں سے دیکھا اور پہلو بدلہ  تھا...آج اس کا تاشی کو دیکھنے کا زاویہ نظر زرا مختلف تھا.. وہ اسے صرف اور صرف یشار کے حوالے سے دیکھنا چاہتا تھا.

وہ سب کافی دیر وہاں بیٹھے رہے اور تاشی کی ڈھارس بندھاتے رہے..

مما میں تھک گئی ہوں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں.. وہ تھکی سی بولی تو نازیہ نے کہا..

بیٹا ماہی تمھیں چھوڑ آتی ہے کمرے تک...

نہیں مما میں بلکل ٹھیک ہوں... ہوسپیٹل میں ہی قیصر نے اسے ماہی کی رخصتی کے بارے میں بتا دیا تھا..

وہ اکیلا رہنا چاہتی تھی..

اسی لئے خاموشی سے سیڑھیاں چڑھ گئی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رخ گاڑی کے عین کونے پہ سمٹی بیٹھی باہر دیکھنے میں یوں مگن تھی کہ جیسے اس سے دلچسپ کوئی بات ہو ہی نہیں..

کل وہ سو کر اٹھی تھی تو بری طرح جھنجھلائی تھی.. وہ تو صوفے پر سوئی تھی.. لیکن صبح کو اٹھی توخود کو بیڈ پر پایا.. صد شکر کے وہ خود موجود نہیں تھا..

وہ تو دن بھر بس زری کا انتظار کرتی رہی کے کب وہ رات تک واپس آئے... اور اسے اس جہنم سے نجات دلائے..

مگر رات آ گئی اور تاشی کے آنے کی بجائے جو اطلاع آئی وہ قیامت خیز تھی..حالانکہ انھوں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کے منال اور اس کو پتہ نا چلے.. مگر پھر بھی منال کچھ سن چکی تھی... 

شمس اور رزم انھیں تڑپتے چھوڑ خود چلے گئے تھے.

پوری رات انگاروں پر گزاری... فون کرتیں رہیں ان کو لیکن ان کے پاورڈ آف فون انھیں اور رلاتے رہے پھر آج صبح کچھ تسلی ہوئی جب تاشی کے سہی سلامت ہونے کی اطلاع آئی..

اور اب  تاشی سے مل کر پورا دن گزار کر رات کے نو بجے تھے جب اسے پھر اس سڑیل کے ساتھ واپس آنا پڑا..

اچانک گاڑی بھاری چرچراہٹ سے رکی تھی..وہ ڈرائیونگ سیٹ سے نکل کر چیک کرنے گیا کہ کیا ہوا...اور سامنے ڈگی کھول کر دیکھنے لگا... 

ویرانہ، اندھیرا، رخ کو بے حد خوف سا محسوس ہوا..

وہ ابھی گاڑی ٹھیک کر کے آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا ہی تھا کہ چار موٹر سائیکوں پر سے لڑکے اتر کر ان کی جانب لپکے... ان میں سے دو کے ہاتھ میں پسٹل تھے..

اے باہر آؤ جلدی.... ورنہ بھیجا اڑا دوں گا... رزم اطمینان سے باہر آیا..

اپنی آئٹم سے بھی بولو باہر آئے..

اس نے مڑ کر رخ کو اشارہ کیا وہ ڈرائیونگ سیٹ کی جانب سے کھسک کر نکل کر رزم  کے پیچھے اس کی شرٹ ہاتھوں میں دبوچ چکی تھی...

اس کے ہاتھوں کی لرزش رزم واضح طور پر محسوس کر رہا تھا.. وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی...

اب جو کچھ بھی تم لوگوں کے پاس ہے شرافت سے ہمارے حوالے کر دو... رزم کویشار کے واقع سے سبق تھا اس لئے پبلک پلیس پہ کوئی ہنگامہ نہیں چاہتا تھا.

تبھی اپنی گھڑی موبائل فون اور والٹ ان کے حوالے کر دئے.

اے اسے بھی بول... یا یہ کام ہم خود کر لیتے ہیں...

رزم نے غصہ اور اشتعال ضبط کرتے رخ کو اشارہ کیا... وہ ان چاروں کی گندی نظریں رخ پر دیکھ چکا تھا...انھیں نہیں معلوم تھا کس مصیبت کو اپنے گلے ڈال رہیے ہیں. 

رخ نے کانپتے ہاتھوں سے خود پر سے ٹاپس... چین اور رنگ اتاری اور موبائل سمیت ساری چیزیں رزم کی جانب بڑھائی...

رزم نے وہ چیزیں لے کر پھر ان کی جانب بڑھائیں..

وہ چیزیں چھپٹ کر وہ خباثت سے بولا

ابے ہیرو.... بات دراصل یہ ہے کہ تیری آئٹم پر دل آ گیا ہے ہمارا... اب یوں کرو. چپ چاپ یہاں سے چلے جاؤ اسے ہمارے حوالے کر کے...زرا اس گڑیا کو ہاتھ لگا کر تو دیکھیں.

اب کے رزم کا میٹر شارٹ ہوا تھا... 

ماہ رخ کی جان نکلی تھی.

جب اسے رزم کی سرسراتی آواز سنائی دی..

او رئیلی..... کوشش کر کے دیکھ لو....

اس کی بات پر چاروں بھنا کر اس کی جانب مڑے تھے.. جن کے پاس اسلحہ تھا.. انھوں نے گنز رزم کی طرف کر کے فائر کرنا چاہا....

مگر رزم  بجلی کی سی تیزی سے ان کی دونوں کلائیاں توڑ چکا تھا اور اب پسٹل رزم کے ہاتھ میں تھے.

وہ ہکا بکا یہ کاروائی دیکھتے رہ گئے... رخ پھٹی آنکھوں سے سب دیکھ رہی تھی..

رزم تیزی سے ان کی ہڈیاں توڑ رہا تھا.. شدید اشتعال میں وہ یہ بھی بھول گیا کہ ایک نازک سی جان کس صدمے سے اس کا یہ روپ دیکھ رہی ہے..

خوف ودہشت سے اس کا رنگ سفید پڑ چکا تھا.

مگر رزم کے سر پر خون سوار تھا... انھی کی پسٹل سے ان کی چاروں کی ٹانگوں کا نشانہ لے کر چار فائر کیے تھے اسنے....

رخ نے چیخ مار کر اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے تھے..

خون کی ندی دیکھ کر اس کی روح فنا ہوئی تھی..

وہ چاروں بے ہوش ہو چکے تھے.. رزم نے میسج کر کے ان کی اطلاع قریبی پولیس کو دی اور پھر اپنی چیزیں واپس لے کر رخ کی جانب پلٹا..

اور اسے دیکھ کر  حیران ہوا....

وہ خوف سے بلکل سفید پڑ چکی تھی.. وہ بھول گیا تھا کہ یہ سب اس کے لئے نارمل تھا مگر سامنے کھڑی نازک جان کے لئے بلکل نیا.

وہ اپنا مزید خوف و دہشت اس کے دل میں ڈال چکا تھا.

وہ اس کی جانب بڑھا.. وہ تیزی سے اتنے ہی قدم پیچھے ہٹی..

وہ حیران ہوا...

رخ نے پیچھے مڑ کر بھاگنا چاہا... وہ اس غنڈے کی پہنچ سے دور جانا چاہتی تھی.. گھر میں سب کو خاص کر بابا کو بتانا چاہتی تھی کہ انھوں نے اس کی نازک جان کہاں پھنسا دی ہے..

رزم نے لپک کر اس کے بازو پکڑے ..جب وہ خوف سے مزید 

 سفید پڑ چکی تھی.

اور بے تحاشا رو دی.

مم.... مجھے جانے دیں... مم........... میں نے کچھ نہیں کیا...... مجھے مت ماریں.... جانے دیں مجھے..... مم........ مجھے مت مارنا.........

رزم کا دماغ جھنجھنا اٹھا..

ماہ رخ کیا تماشا ہے... چلو گاڑی میں بیٹھو....ایک تو اس پاگل لڑکی کی باتیں اوپر سے آنسو اس کا دماغ گھما چکے تھے.. اسی لئے غرایا...

نن.... نہیں...... مم... مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ... آ.... آپ مجھے بھی مار ڈالیں گے... چھوڑیں... مم... مجھے...

وہ اپنی پوری جان لگا کر مزاحمت کرتی.. اپنا آپ رزم سے چھڑنے میں ہلکان ہو رہی تھی.

رزم کو اپنی فاش غلطی کا احساس ہوا..

مگر اس وقت اسے سمجھانے کی بجائے وہاں سے گھر لے کر جانا ضروری تھا..

سو اس نے اسے گاڑی کی جانب گھسیٹا... مگر اگلے ہی پل وہ کٹی ڈال کی طرح ہوش سے بیگانہ اس کے بازوؤں میں جھول گئی تھی..

Shhhhiiiiiitttttttt

رزم حد درجہ پریشان ہوا تھا.. اس کو اٹھا کر نرمی سے گاڑی میں لٹایا... خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی چلائی.. بار بار نظر بھر کر اسے دیکھتا رہا.. جس کا سر ڈھلک کر رزم کے کندھے سے لگا تھا..

ڈرپوک، بےوقوف لڑکی...... رزم بڑبڑایا..... اسے یہ نظر نہیں آیا کہ وہ صرف اسی کی خاطر ان لڑکوں سے الجھا تھا..

شوہر سے بھی کوئی ڈرتا ہے بھلا.. وہ سخت جھنجھلا رہا تھا.

این مینشن پہنچ کر رزم نے اسے نرمی سے گاڑی سے اٹھا کر بازوؤں میں بھرا.. پاؤں سے کار کا دروازہ لگایا اور اسے لئے بیڈروم میں آیا...

ڈور لاک کر کے اسے بیڈ پر لٹایا..اور خود پہلے فریش ہونے کی نیت سے شرٹ اتاری..

اتنی دیر میں وہ کسمسائی تھی.. وہ اس کے قریب گیا..

رخ.... اٹھو..... تم ٹھیک ہو.... رزم نے نرمی سے پکارا..

مگر اس کی آنکھیں کھلی تو ایک مرتبہ پھر خوف سے پھیل گئیں.. اس غنڈے موالی کو شرٹ لیس خود پر جھکے دیکھا تو بوکھلائی.. اور پھر اٹھ کر دروازے کی جانب لپکی...

اب تو رزم کا ضبط بلکل جواب دے چکا تھا... مٹھیاں بھینچ کر اشتعال اندر دبانے کی کوشش کی مگر بے سود...

بھناتا واپس مڑا.. اسے ایک سیکنڈ میں اپنی جانب کھینچ کر اٹھا چکا تھا..

لا کر بیڈ پر پٹخا اور اس کے بازو بیڈ سے لگا کر اس پر جھکتا چلا گیا..

تمھاری پرابلم کیا ہے مسز رزم علی.... میں نے ابھی تک تمھیں کچھ کہا ہے؟ ..... چلو ٹھیک ہے تمھارا ڈر ایک مرتبہ میں ہی نکال دیتا ہوں..

چھوڑیں مجھے....سڑک چھاپ غنڈے موالی کہیں کے... رزم کی اتنی جرات پر اب تو وہ بھی تنگ آ کر غرائی تھی مگر آنکھوں میں آنسو تھے... میں اپنے بابا کو بتاؤں گی کہ آپ ایک بہت بڑے غنڈے اور بدمعاش ہیں.. تو وہ ایک سیکنڈ بھی نہیں لگائیں گے مجھے یہاں سے لے کر جانے کے لئے... اب چھوڑیں مجھے... وہ بھر پور مزاحمت کر رہی تھی

.. اور اس کی گوہر افشانیوں پر رزم کا دل کیا زور زور سے قہقہے لگائے. وہ اسے کیا سمجھ رہی تھی.. رزم کو اس پر ٹوٹ کر  پیار آیا. مگر ہنسی ضبط کیے رکھی...

میری بدمعاشی ابھی دیکھی کہاں ہے تم نے مسز رزم.. کیا خیال ہے دیکھنی ہے... وہ کہہ کر اس کی گردن پر جھکا تھا.. اور اپنے دہکتے لب اس کی نرم و نازک دودھیا گردن پر رکھے.. وہ بری طرح مچلی تھی..

مگر وہ خود کو سیراب کرتا رہا.. جانے کیوں مگر یہ چھوٹی سی لڑکی اس کے جزبات جگا دیا کرتی تھی.. 

چھ..... چھوڑیں مجھے........

رزم کی اپنی گردن پر بڑھتی جسارتوں سے خوفزدہ ہو کر وہ سسک پڑی...

رزم نے نرمی سے اسے چھوڑ دیا یہ احساس ہوتے ہی کہ پہلے ہی وہ اس کے بارے میں کیا کیا سوچ رہی ہے... اب پھر وہ اپنا امیج بری طرح خراب کر رہا تھا اس کی نظر میں.

وہ کپڑے لے کر واش روم چلا گیا... باہر آیا تو وہ صوفے پر سہمی بیٹھی تھی..

ریلیکس ہو کر بیڈ پر  سو جاؤ... میں سٹڈی روم جا رہا ہوں.. اگر صوفے پر سونے کی کوشش بھی کی تو.... واپس آ جاؤں گا.. اور پھر تمھیں میرے ساتھ میری آغوش میں باقی کی رات سونا پڑے گا ڈارلنگ...

وہ کہتا وہاں سے نکل آیا.. وہ ڈرتے ڈرتے بیڈ پر آئی اور کمفرٹر سر تک تان کر سونے کی کوشش کرنے لگی..

اونہہ غنڈہ کہیں کا...

وہ سٹڈی میں آیا... اور کوئی ہزارویں بار یشار کو کال ملائی.. مگر وہ غائب تھا اور  فون آف....

پھر لیپ ٹاپ آن کر کے ہیڈ کوارٹرز کو ایس اے کو جہنم واصل کرنے کی ساری ڈیٹیلز بتانے لگا..

وہ یشار کے تعاقب میں اس قدر پاگل ہو گیا کہ اپنے بارے میں بھول ہی گیا جب فورسز نے پہنچ کر اسے اور اس کے ساتھیوں کو جہنم کی سیر کرا دی تھی..

,, 💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شمس بیڈ پر لیپ ٹاپ کھولے ضروری ای میلز چیک کر رہا تھا...

جب وہ پھولے منہ کے ساتھ روم میں داخل ہوئی..

ہہمم.... Not bad..... یعنی ناراضگی ہے.. شمس کو ہنسی آئی مگر ضبط کر گیا..

کل رات وہ ضد کرتی رہی کے اسے بھی ساتھ جانا ہے مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا.. اسی لیے اس کی لاکھ منت سماجت کے بعد بھی وہ انھیں ساتھ نہیں لے کر گئے..

اوپر سے فون بھی آف کر دئیے..

اب وہ اس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے چیزیں اٹخ پٹخ رہی تھی.. شمس نے دانتوں تلے لب دبائے...

شمس نے لیپ ٹاپ آف کیا اور اطمینان سے بیڈ کراؤں پر آنکھیں موند کر لیٹ گیا..

وہ سخت جھنجھلائی.. اور آ کر جھٹکے سے لائٹ آف کرتی سائیڈ لیمپ جلا کر اپنی جگہ پر لیٹ کر سختی سے آنکھیں بند کر لیں.

کچھ دیر گزری تھی جب شمس نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر ایک جھٹکے سے اپنی جانب کھینچا تھا.. وہ اس کے لئے بلکل تیار نہیں تھی اسی لئے اس کے چوڑے سینے سے  آ لگی تھی..

یہ... کیا بدتمیزی ہے....... وہ بھی منال تھی.. غصے میں غرائی

اسے بدتمیزی نہیں اپنی روٹھی بیوی کو منانا بولتے ہیں..

وہ اس کی کمر پر اپنے دونوں ہاتھ باندھ چکا تھا.. منال کے ہاتھ اس کے کندھوں پر تھے..

اگر اتنا ہی خیال ہوتا تو لے کر جاتے. مجھے.. اس کی آواز بھیگی. پر شمس اسے اپنی مجبوری نہیں بتانا چاہتا تھا..

جانِ شمس بتاؤں پھر... کتنا خیال ہے... پر منہ سے نہیں اپنے عمل سے.. یہ کہہ کر شمس نے زرا سا سر اٹھا کر اس کی بیوٹی بون پر لب رکھے تھے.

اس کے دہکتے لمس سے  وہ بری طرح مچلی...

نہیں مجھے کچھ نہیں کہنا نا کچھ سننا ہے.....

اس کے آنسو ٹوٹ کر شمس کے گریبان میں گرے تھے.. اسے چھوڑ کر وہ فوراً سیدھا.

منال بھی اٹھ بیٹھی.

کیا ہوا منال.. تم ٹھیک تو ہو......

میں اپنی ایک بہن کھو چکی ہوں.. اگر زری کو کچھ ہو جاتا تو.... وہ روتے ہوئے اس سے آگے بول نا پائی

کچھ نہیں ہوتا اسے.. یشار نے اپنی جان پر کھیل کر اس کی حفاظت کیے رکھی..

منال کو رونا بھول گیا.

وہ کر کیا رہا تھا وہاں پہ؟

اپنے کسی کام سے گیا تھا... شمس نے نظریں چرا لیں

ہے کہاں وہ آپ کے ساتھ تو نہیں آیا... وہ شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی کہ اسنے اس کی بہن کی حفاظت کی.

کسی کام سے ہی گیا ہے... تم ریلیکس ہو کر سو جاؤ.. میں اسے فون کر کے آتا ہوں...

وہ یہ کہتا روم سے نکلتا چلا گیا..

سٹڈی میں آیا تو رزم لیپ ٹاپ پر کام کر رہا تھا...

یعنی وہ بھی کمرے سے در بدر کیا گیا تھا.

پتہ چلا میاں مجنوں کا کدھر خوار ہوتا پھر رہا ہے

نہیں لالہ... فون آف ہے.

یہ تینوں بہنیں پاگل کر کے چھوڑیں گی ہمیں.. شمس نے جھنجھلا کر کہا رزم نے ہنسی ضبط کرنے کے لئے سر  مزید لیپ ٹاپ پر جھکایا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شمس اپنے آفس میں بیٹھا لیپ ٹاپ پر بزی تھا

جب دروازے پر ہلکے سے ناک  ہوئی .

یس.... کم ان....... شمس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے اعظم تھا..

جی سر بلایا مجھے.

ہاں اعظم... ایک ضروری کام تھا...

جی سر..

اعظم مجھے سمیر ملک چاہیے.عابد انکل کا بھانجا ہے.. ڈیٹیلز خود نکلوا لو.. شمس غیر معمولی سنجیدہ تھا... اعظم چونکا

مگر سر....

اعظم اسے فارم ہاؤس پر اٹھا لاؤ... اور یشار، رزم کو یا کسی اور کو اس بارے میں بھنک بھی نہیں لگنی چاہیے.

جی سر جو حکم.... کل وہ فارم ہاؤس پر ملے گا آپ کو...

ٹھیک ہے جاؤ...

اعظم نکلا تو شمس نے گہری سانس بھری...

جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے.. اس نے خود کو تسلی دی....

تمھیں یشار اور تاشی کی زندگی سے نکلنا ہوگا..

ہمیشہ کے لیے..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی..یہ دیکھو میں چاکلیٹ لایا تمھارے لئے.

تاشی..کلر پینسلز صرف تمھارے لئے لایا میں..

تاشی.میری.تاشی..کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا

تاشی تم صرف میری ہو..تمھیں میرے لئے بنایا گیا ہے. 

اب وہ بے حد قریب چلا آیا تھا.. تاشی کو اپنے سینے میں بھینچے بولا

تاشی تمھیں صرف میں چھو سکتا ہوں.. یہ کہہ کر ایک مرتبہ پھر وہ اس کے لبوں پر جھکا تھا.

وہ ہڑ بڑا کر گہری نیند سے اٹھی تھی.. گہرے گہرے سانس لیتی جیسے سچ مچ اس کا سانس سینے میں الجھا ہو.. ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے تھے..

کمرے میں ملگجا سا اندھیرا تھا... وہ تڑپ کر اٹھی اور پورے کمرے میں پاگلوں کی طرح کچھ ڈھونڈا.. کھڑکی میں بھی گئی مگر وہ خاص احساس محسوس ہی نہیں ہوا جو اس کی موجودگی کے وقت ہوا کرتا تھا.. نا اس کی خوشبو آس پاس تھی..یعنی وہ یہاں نہیں تھا... بلکل بھی نہیں 

اس کا مطلب وہ بس خواب ہی تھا.

ہوسپیٹل میں بار بار اس کی نظریں دروازے کی جانب جا کر ناکام اور مایوس پلٹ رہیں تھیں.

کیوں.. وہ اسے اب سمجھ آیا.

کارپٹ پر بیڈ سے ٹیک لگا کر سر ہاتھوں میں تھام کر تڑپ تڑپ کر رو دی

یش......... یش... میرے... یش... پلیز ایک مرتبہ کہیں سے میرے سامنے آ جاؤ.. میں تمھیں ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ دیکھنا چاہتی ہوں..

وہ دشمنِ جاں اپنی تاشی کو عشق کی بھٹی میں جھونک کر خود پتہ نہیں کہاں جا چھپا تھا.. اسے چھو کر..... اس کی روح کو چھو کر اپنا اسیر بنا کر پتا نہیں کہاں غائب تھا.

وہ اس کی اسیر تو تب ہی ہو گئی تھی.. جب اس نے اپنے شدت سے بہکتے قدم فوراً روکے تھے.تڑپ کر اس سے دور ہوا تھا. وہی... بلکل وہی....... لمحہ تھا جب یش کی محبت اس کی رگوں میں خون بن کر اتری تھی. غنودگی اور بے ہوشی میں جانے سے پہلے اس کا دل پھِر چکا تھا.. یش کی جانب جھک گیا تھا.. اس کی محبت کے آگے سر تسلیم خم کر چکا تھا. 

اور اب اذیت تو یہ تھی کہ پھپھو نے جلد از جلد رخصتی کا بھی کہہ دیا تھا..

اذیت سی اذیت تھی.

وہ ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی..

احساس جرم تھا جو روح کو کچوکے لگا رہا تھا..

یہ جرم اور گناہ ہی تو تھا کہ وہ کسی اور کی منکوحہ ہونے کہ باوجود کسی غیر کو پکار رہی تھی..

اذیت کی انتہا پر پہنچ کر اٹھی.

آئینے میں اپنا عکس دیکھا.. تاشی تو کہیں نظر ہی نہیں آئی بس یش  ہی اسے خود میں نظر آ رہا تھا..

ہاتھ اٹھا کر اپنے لبوں کو آہستگی سے چھوا.. لبوں سے ہاتھ گردن تک گیا.. جیسے ابھی بھی وہ دہکتا لمس اس کو اپنے اوپر محسوس ہو رہا ہو... اور پھر کندھے سے زرا قمیض ہٹا کر وہ نشان دیکھا..

تم نے سہی کہا یش.. مجھے صرف تم چھو سکتے ہو.تم ہی وہ پہلے اور آخری مرد ہو جو میرے قریب آ سکتے ہو. دیکھو چھو لیا تم نے مجھے..میرے جسم کو میری روح کو.. اپنا عادی بنا دیا..

دیکھو زرا... کسی کے نکاح میں ہونے کے باوجود تمھاری تاشی تمھارے لیے کیسے تڑپ رہی ہے. 

 وحشت زد سی ہو کر اس نے اپنی مٹھیوں میں اپنے ہی بال بھرے

اب اگر.. اب اگر کسی اور نے مجھے چھونے کی کوشش کی.. میں.. میں آگ لگا لوں گی خود کو..

مر جاؤں گی..

یش میں صرف تمھاری ہوں...

دیکھو میرا روم روم تمھیں پکار رہا ہے.. میرا جسم ٹوٹ رہا ہے تمھیں دیکھے بغیر.. تمھارا آڈکٹ ہو چکا ہے.

وہ فرش پر دو زانو بیٹھی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی جب دروازہ کھلا اور نازیہ بیگم دوڑ کر اندر آئیں.. اور اسے سینے سے لگایا..

کیا ہوا میری بچی..... ڈر گئیں کیا زری کیا ہوا..

مما مجھے زری نہیں تاشی کہیں ناں پلیز...

وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہی تھی. نازیہ نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اسے لئے بیڈ پر آئیں.. اسے لٹایا اور بیڈ پر بیٹھ کر اس کا سر اپنی گود میں رکھا.اور نرمی سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگیں. 

وہ نازیہ بیگم سے لپٹ کر پھر سسک پڑی..

تاشی کیا ہوا ہے میری بچی.. کہیں درد ہو رہا ہے... کسی زخم میں تکلیف ہے..

اس نے نفی میں سر ہلایا..کہ تبھی ان کی نظر اس کے کندھے پر پڑے نشان پر گئیں.. اور وہ صدمے سے بے حال ہوئیں.. ایک جھٹکے سے اٹھا کر اسے اپنے سامنے کیا..

تاشی.. یہ... یہ.... نشان... کیا ہوا تمھارے ساتھ... کس نے چھوا تمھیں... بولو..

نازیہ نے اسے جھنجھوڑا...

مما کچھ نہیں ہوا میرے ساتھ..... میں ٹھیک ہوں بلکل... ایک قیامت ٹل گئی آپ کی بیٹی کے سر سے.

اس نے سسکتے مبہم سا بتایا تو نازیہ بیگم کو تسلی ہوئی اور تاشی کو پھر سے اپنی گود میں لٹا لیا..

تمھیں جس نے بھی تکلیف پہنچائی.. وہ خود بھی بھگتے گا میری بچی...

اب وہ انھیں کیا بتاتی کہ وہ پوچھ رہی تھیں کہ اسے کس نے چھوا وہ کیا بتاتی کے ایک غیر نے ان کی بیٹی کی روح کو چھو لیا ہے.

اور کوئی دوسرا اسے کیا تکلیف دیتا وہ تو خود سے ہی ہار گئی تھی...

اور پھر وہ دل و دماغ کی جنگ سے سخت نڈھال ہوئی.. اور تیز بخار میں پھنکتی چلی گئ. نازیہ بیگم بھی پریشان ہو گئیں.. اور رات تک اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتی رہیں..

اگلے دو دن تک اس کی یہی صورت حال رہی... وہ بلکل مرجھا چکی تھی... عابد اور نازیہ بہت پریشان تھے کہ ان کی ہنستی کھیلتی شریر سی گڑیا کو ہوا کیا ہے. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

 آج تین دن کے بعد وہ رات کے آٹھ بجے ملگجے سے حلیے میں.. بڑھی ہوئی بئیرڈ اور بکھرا ہوا سا این مینش میں داخل ہوا تھا..

اسے دیکھتے شمس اس کی جانب لپکا.. اور اسے سینے میں بھینچا..رزم بھی اس سے لپٹ گیا.. منال اور ماہی نے اسے حیرت سے دیکھا.. وہ ایسا تو نہیں تھا. 

یہ کیا طریقہ ہے یشار.... تم اتنے غیر زمے دار کیسے ہو سکتے ہو... کہاں گئے تھے.؟ فون کیوں آف تھا۔

لالہ پلیز میں تھکا ہوا ہوں..... آرام کروں گا...

شمس خاموش ہو گیا...

اوکے جاؤ.. میں کھانا بھجوا دیتا ہوں..

مجھے بھوک نہیں لالہ.... جب ہوگی تو کھا لوں گا کچھ..

رزم نے شمس کی جانب اشارہ کیا... کہ میں دیکھ لوں گا.. وہ وہاں سے اپنے کمرے میں آیا...

اور صوفے پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا.. رزم اس کے پیچھے اندر داخل ہوا..

رزم پلیز کوئی سوال نہیں....

کیوں نہیں میں تو پوچھوں گا.. اور تمھیں جواب دینے بھی پڑیں گے. ہر صورت.. رزم کے لہجے میں سختی تھی.

یشار نے لب کاٹے

کہاں تھے..؟

ایبٹ آباد میں... مری میں سرچ کے دوران کچھ یو ایس بی ڈرائیوز ہاتھ لگیں تھیں.. انھیں کے ذریعے ایس اے کے ایبٹ آباد والے ٹھکانے کو ٹھکانے لگا کر آ رہا ہوں.. یشار نے آنکھیں موندے صوفے سے سر ٹکائے تفصیل بتائی.

اور مجھے شامل کرنا ضروری نہیں سمجھا.. رزم بہت ناراض ہوا.... خود سے بھاگنا بند کرو یشار... نبمر کیوں آف تھا..

چھوڑو یہ بتاؤ ایس اے کا چیپٹر کلوز ہوا کے نہیں.. یشار نے بات گھومائی

ہو گیا ہے.. جتنے بھی ایس اے کے نام سے یہ نیٹ ورک چلا رہے تھے سب جہنم رسید ہو چکے ہیں..مگر کالج کے باہر اب بھی مشکوک افراد دیکھے گئے ہیں... 

تمھاری چڑیل میڈم کی کیا صورتحال ہے...؟ یشار شاید خود کا دھیان بٹانا چاہتا تھا.. اسی لئے پوچھ لیا.

بہت خطرناک.بہت ڈرپوک .. مجھے غنڈہ موالی، بد معاش اور جانے کیا کیا سمجھتی ہے اور کہتی ہے.. رزم کے سامنے رخ کا معصوم چہرہ گھوما

تو پرابلم کیا ہے.. حقیقت بتا دو اسے... یشار نے حل نکالا

نہیں بتا سکتا.. حقیقت جان کر مزید خوفزدہ نا ہو جائے.. پھر ساری حقیقت ہی بتانی پڑے گی کے کالج اور گھر سے باہر خطرہ ہے.. ڈرے گی اور شاید کالج جانے سے بھی انکار کر دے..

 یعنی میرے بھائی کی کشتی ابھی بیچ منجدھار میں ہی ہے... یشار نے کرب سے کہا

ہم تینوں بھائیوں کی کشتی ہی بیچ منجدھار میں ہے میرے بھائی.. رزم نے ہوا میں بات اڑائی

کیا مطلب... ۔؟ وہ چونکا... منال بھابھی نے بھی قبول نہیں کیا لالہ کو؟.

میرا نہیں خیال.... کبھی نوال کے کمرے میں ہوتے ہیں کبھی میری طرح سٹڈی میں در بدر.. رزم نے خود کا مزاق اڑایا.

اور تم کیوں ہوتے ہو سٹڈی میں؟

یار بہت زیادہ ڈرتی ہے مجھ سے.. جب تک کمرے میں رہوں صوفے پر اڑی رہتی ہے.. نا ریلیکس ہوتی ہے نا ہی سوتی ہے اسی لئے...

یش کا دل کیا ماتھا پیٹ لے.. کیا شاندار قسمت تھی تینوں بھائیوں کی....... وہ عش عش کر اٹھا.

یش آنکھیں موندے گہری سوچ میں تھا جب رزم نے پکارا..

یش............

ہمممممم.....

تاشی کو دیکھ آؤ... بیمار ہے وہ بہت زیادہ... یش ایک جھٹکا کھا کر سیدھا ہوا.. وہ جتنا اس موضوع سے بچنا چاہتا تھا.. رزم نے پھر اسے جلتے کوئلوں پر گھسیٹا.

بیمار ہے وہ صرف میری وجہ سے اب اپنی شکل دکھا کر اسے اور تکلیف دوں.. یشار نے لہو ٹپکاتی آنکھیں لئے کہا.

اور خود جو اسے دیکھے بغیر پل پل مر رہے ہو اس کا کیا..

یہ میری سزا ہے رزم... جو میں نے اپنے لئے منتخب کی اسے تکلیف پہنچا کر.. .کہ یونہی پل پل مروں.. تڑپوں.. اسی لئے  لندن واپس جا رہا ہوں.وہ خود اذیتی کی انتہا پر تھا

یشار...........

پلیز رزم....جانے دینا مجھے.. جب مجھے لگے کہ میری سزا پوری ہو گئی تو واپس آ جاؤں گا.. لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا.. میں اپنی نظروں کے سامنے اسے کسی اور کا ہوتے نہیں دیکھ پاؤں گا..کبھی نہیں.. اس سے پہلے مر جاؤں گا.. اگر مجھے زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو جانے دو مجھے..وہ جھٹکے سے اٹھا اور واش روم گھس گیا

رزم نے بے حد اذیت سے لب بھینچے... اور باہر نکلتا گیا مگر اس کا یہ نیا شوشا شمس لالہ کو بتانا نہیں بھولا..

شمس کے سن کر اوسان خطا ہوئے فوراً کال ملائی اور لان میں چلا آیا... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح وہ رعب سےاپنی شاندار گاڑی سے نکل کر چلتا ایک فائل ہاتھوں میں تھامے.. فارم ہاؤس میں داخل ہوا.. ڈارک مہرون تھری پیس.. قیمتی گھڑی اور سن گلاسز لگائے شہزادوں جیسی آن بان لئے وہ فارم ہاؤس کے سٹور روم میں داخل ہوا.

اس کے پیچھے اعظم ہاتھوں میں بڑا سا بیگ تھامے چل رہا تھا.

کمرے اندھیرا تھا.. اشارہ کرنے پر اعظم نے لائٹ جلائی.

ایک فرد جو کہ بڑی سختی سے رسیوں سے جکڑا ہوا تھا.. اسے دیکھ کر بری طرح مچلا...

اعظم نے بھاگ کر شمس کے لئے کرسی رکھی.. وہ اس کے سامنے کرفر سے ٹانگ پر ٹانگ رکھے بیٹھ گیا..

شمس کے اشارہ کرنے پر  اعظم نے اس کے منہ سے ٹیپ اتاری..

شمس بھائی آپ یہ کیا کر رہے ہیں... مجھے یہاں کیوں لائے ہیں.. یہ کیا طریقہ ہے.. اگر ملنا تھا تو مجھے بول دیا ہوتا میں آفس حاضر ہو جاتا.. مگر یہ سب.....سمیر مرعوب سا ہوتا منمنایا. 

دراصل میں تمھیں اپنی طاقت کا چھوٹا سا مظاہرہ دکھانا چاہتا تھا.. مجھے جانتے ہو ناں... بلکہ اچھی طرح جانتے ہوگے مجھے بھی اور میری طاقت کو بھی

جی میں جانتا ہوں.. مگر یہ سب مجھے بتانے کا مقصد..

مقصد چھوٹا سا ہے... ان پیپر پر تمھارے سائن چاہئیں تھے. بس اور کچھ نہیں.. شمس نے فائل اس کے سامنے لہرائی

کیا ہے یہ... کس چیز کے پیپر ہیں..

تمھاری اور زرتاشہ کی طلاق کے پیپر ہیں.. دراصل میرا بھائی یشار اور زرتاشہ آپس میں محبت کرتے ہیں اسی لئے تمھیں ان کے راستے سے ہٹنا ہوگا.. شمس کا لہجہ سرسراتا تھا

سمیر بے تحاشا چونکا..اور جھنجھنا اٹھا

اور اگر میں ایسا نا کروں تو...؟

تو کوئی بات نہیں.. میرا بھائی جب ایک بیوہ کو سہارا دے گا تو اس کی زیادہ عزت کی جائے گی خاندان میں... تم اس وقت کہاں ہو.. کسی کے فرشتے بھی نہیں جانتے.. ڈیڑھ سو ایکڑ کی پراپرٹی میں میں نے تمھیں مار کر کہاں دفنایا کسی کو کان و کان خبر نہیں ہونے والی.یہ جو میرے پیچھے تمھیں میرا آدمی نظر آ رہا ہے میرے اشارہ کرنے پر ایک سیکنڈ نہیں سوچے گا تمھیں اس دنیا سے رخصت کرنے کے لیے..... 

شمس نے ہوا میں بات اڑائی... اب کی بار اس کی آنکھوں سے اور لہجے سے سمیر کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے.

یہ... یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں شمس بھائی..

اچھا چلو چھوڑو دھمکی دھمکی کھیلنا... تمھیں آفر دیتا ہوں.. ڈیل کر لو میرے ساتھ... تاشی کو طلاق دینے کے لئے کتنے پیسے لو گے.

اتنے دوں گا کہ ساری زندگی سنور جائے گی.. دولت ہاتھ آئی تو کئی حسینائیں آگے پیچھے گھومیں گی تمھارے.. آرام آسائش ہر چیز ملے گی بس تاشی کو چھوڑنا ہوگا.. بولو کیا کہتے ہو..

سمیر خاموش ہو گیا.

مجھے پتہ ہے میرے ہی دوست چیمہ کے آفس میں کام کرتے ہو.. ساری زندگی دوسروں کے آگے جوتیاں چٹخانے سے بہتر ہے اپنا بزنس سٹارٹ کر لینا.بات نا مانی تو کہیں جاب نہیں کرنے دوں گا.. بھکاری بن جاؤ گے.. اور بات مان لی تو نوٹوں میں تول دوں گا. 

تو تین سائن کے کتنے لو گے.

ففٹی لاکھ؟

سمیر کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں..

نہیں... چلو 60 سہی.

سمیر کی بولتی بند..

سیونٹی بھی نہیں...... مان جاو یار.. اور ویسے بھی وہ ایک رات میرے بھائی کے ساتھ گزار چکی ہے.. تمھارے کسی کام کی نہیں. شمس نے اس کو ڈیل کی جانب جھکتے دیکھا تو اسے  کمزور کرنے کے لئے ایک اور پتہ پھینکا.

جھوٹ بول رہے ہیں آپ اس کی میڈیکل رپو..............

دس بیس لاکھ پھینک کر کوئی بھی رپورٹس بنوائی جا سکتی ہیں ڈئیر...تمھیں ابھی تک اندازہ نہیں ہوا.

سمیر کے تو اوسان خطا ہوئے تھے.

چلو ایک کروڑ میں فائینل کرو...

سمیر کے تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں والا حساب تھا.... بس ایک جھجھک تھی جو باقی تھی اسی لئے جھجھکتے بولا...

لیکن امی.....

ان کی کوئی پرابلم نہیں.. تم اسی بات کو جواز بنا کر طلاق کے پیپر بھجوا دینا  کہ تم ایسی لڑکی سے شادی نہیں کرنا چاہتے جو ایک رات باہر گزار کر آئی ہے..

ٹھیک ہے شمس بھائی... اس نے آہستہ سے کہا... شمس کے اشارے پر اعظم نے اسے کھول دیا اور ہاتھ میں پکڑا بھاری بیگ اسے کھول کر دکھایا.. جو کڑکڑاتے نوٹوں کی گڈیوں سے بھرا ہوا تھا.

سمیر کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی.

شمس نے فائل آگے بڑھائی....... اس نے بلا جھجھک سائن کر دئے. بھلا ایسا موقع زندگی بار بار تھوڑی دیتی ہے..

یہ بیگ میں سیونٹی لاکھ ہیں..باقی یشار اور زرتاشہ کی شادی کے بعد ملے گے. اور یہ سٹام پیپر ہے جس پر لکھا ہے کہ میں تمہیں تھرٹی لاکھ دینے کا پابند ہوں....اس پر میرے سائن ہیں.. یہ میں نے اپنی سکیورٹی کے لیے کیا ہے.

اور ایک اور بات یہاں سے ذہن نشیں کر کے جانا دوست.. اس بند کمرے کی بات بھول کر بھی کسی کو بتانے کی کوشش مت کرنا....ایڑیاں رگڑ کر  مر جاؤ گے مگر یہ بات کبھی ثابت نہیں کر پاؤ گے... دوسرا تم نے اپنی مرضی سے با قائمی ہوش وحواس ان پیپر پر سائن کیے ہیں مجھ سے غداری کی تو لاش بھی پہچانی نہیں جائے گی...

جب تک تاشی عدت میں رہے گی.. منظر سے غائب رہنا.. جب شادی ہوگی تو آ جانا...

آپ بھروسہ رکھیں شمس بھائی میں نے اپنی مرضی سے ڈیل قبول کی ہے اور اپنی مرضی سے سائن کیے ہیں.. میں ایسا کچھ بےوقوفی والا کام نہیں کروں گا... 

عابد انکل کو میں جانتا ہوں وہ زیادہ دیر اپنی بہن سے ناراض نہیں رہ پائیں گے تو تم اپنی ممی کی فکر سے بھی آزاد ہو جاؤ... جا کر ابھی یہ پیپر عابد حسین کے گھر پہنچا دو... یاد رکھنا تمھارے ایک ایک قدم پر میری نظر ہوگی..

شمس نے اشارہ کیا.. دو آدمی اندر آئے اور سمیر کو لئے باہر نکل گئے

وہ آنکھوں میں دولت کے حصول کی چمک لئے... بیگ اٹھائے وہاں سے نکل گیا.

سر آپ نے جو کیا............. کیا وہ ٹھیک تھا.. اعظم ہچکچاتے پوچھ بیٹھا

مجھے میرے بھائی کی محبت کے آگے کچھ ثھیک یا غلط نہیں لگا اعظم

اگر یشار بابا کو............

نہیں پتا چلنا چاہیے اس بات کا خیال تم رکھو گے اعظم..

شمس کھڑا ہوا.. سن گلاسز لگائیں اور اطمینان سے باہر کی جانب چل پڑا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟😎

ایک قیامت سی تھی جو عابد حسین کے گھر پر آئی تھی..

رضیہ بیگم روتی، چلاتی، معافیاں مانگتی اپنے بیٹے کو کوستی طلاق کے پیپر لائیں تھیں.

عابد کے کندھے جھک چکے تھے..قیصر بھی پریشان تھے 

نازیہ بیگم کا رو رو کر برا حال تھا. حرا انھیں تسلی دے رہی تھی....

اوپر اپنے کمرے میں تاشی خالی خالی نظروں سے اپنے سامنے رکھے اس آزادی کے پروانے کو دیکھ رہی تھی جو اسے اذیت کی بھٹی میں سے نکال لایا تھا..

اب وہ اس دوہری اذیت سے بچ چکی تھی. 

اس نے سکون سے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں..

ایک خوبصورت براؤن آنکھوں والی شبہہ جھٹ سے آنکھوں کے پردے پر لہرائی..

اب وہ سکون سے اسے سوچ سکتی تھی..کسی بھی گلٹ کے بغیر.... یہ احساس ہی سکون بخش تھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ اپنا سفری بیگ پیک کیے نیچے اترا تھا..

 شمس آج لنچ ٹائم آفس سے گھر آیا ہوا تھا.

سب لنچ کر رہے تھے..وہ انھیں گڈ بائے کہنے ان کی طرف بڑھا ہی تھا.

جب منال کے فون کی بیل بجی.. اس نے فون اٹینڈ کیا.. شمس نے کن انکھیوں سے اسے دیکھا.. فون سنتے سنتے اس کے تاثرات صدمے سے دوچار ہوئے تھے... سامنے سے حرا نے اسے بری خبر سنائی تھی..

کیا...... وہ چلائی.. سب اس کی جانب متوجہ ہوئے.. چچی ایسا کیسے ہو سکتا ہے اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی... ماہی منال کی جانب لپکی.

فون اس کے ہاتھوں سے چھوٹ چکا تھا.

کک.... کیا ہوا آپی... کچھ بولیں تو سہی ہوا کیا..

ماہی.... زری.....

کیا ہوا زری کو آپی کچھ بولیں پلیز.. ماہی بھی گھبرائی تھی

زری کے نام پہ یشار بےتحاشا چونکا.. دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں..

وہ... سمیر نے... زری کو طلاق دے دی ہے...

کیا،؟ ماہی چلائی... ان دونوں کا میلو ڈرامہ(رونے والا) سٹارٹ ہو چکا تھا.

جبکہ رزم کا دل کیا بھنگڑے ڈالے....

یہ بات سن  کر یش کے دل میں ٹھنڈ سی پڑی تھی.. تڑپتے، سلگتے، دہکتے دل پر جیسے کسی نے ٹھنڈے ٹھار پانی کے چھینٹے مارے تھے. 

شمس منال کی جانب بڑھا.. اسے تسلی دینے لگا..

ماہی تیاری کرو ہمیں بابا کی طرف جانا ہے... منال ماہی سے کہتی اپنے کمرے کی طرف بڑھی...

یشار جن قدموں سے اتر کر نیچے آیا تھا.. انھیں قدموں سے واپس اوپر چلا گیا.. تو شمس اس کی پشت کو دیکھ کر گہرا سا مسکرایا اور دل میں بڑبڑایا..

مجنوں کی اولاد... اور پھر جاتی منال کو دیکھ کر دل میں کہا.

نہیں مجنوں کا بھائی.. اور منال کے پیچھے کمرے میں آیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ کمرے میں روتی بسورتی اپنا ضروری سامان ہینڈ بیگ میں ٹھونس رہی تھی..

جب کمر پر دہکتی نظروں کی تپش. اور گرم سانسیں پیچھے کے گہرے گلے پر محسوس ہوئیں..

ماہی  گھبرائی مگر اس وقت وہ اس خبطی سے الجھنے کے موڈ میں بلکل نہیں تھی.

کہاں چلیں.. بیگم.... اپنے مجازی خدا سے پوچھا کہ جاؤں کے نہیں.. اپنی بہن کی ڈائیورس کا اتنا غم ہے کبھی خود کے گھر پر بھی توجہ دی بے چارے شوہر کو توجہ دی..

وہ جان بوجھ کر تاک تاک کر طنز کرتا اسے اچھا خاصا تپا چکا تھا..

چلو تمھیں اپنے شوہر کا خیال نا سہی پر مجھے تو ہے.. میں تمھاری منہ دکھائی کا گفٹ لایا تھا. آخر تم بھی تو انتظار کر رہی ہو گی. میری طرف سے اس گفٹ کا..

وہ جا رہی تھی اور رزم کا دل بیٹھا جا رہا تھا جب تک وہ گھر ہوتا اسے وہ چاہیے تھی.. ہر حال میں اپنی آنکھوں کے سامنے.. رزم نے تسلیم کیا کہ اسے اس پاگل لڑکی سے شدید محبت بھی ہو گئی تھی اور اس کی عادت بھی.

قریب آنے کے بہانے جان بوجھ کر پٹا رہا تھا اسے 

وہ بھنا کر پلٹی تھی... اونہہ اب میں اتنی بھی گری پڑی نہیں.. کہ آپ جیسوں کے گفٹ پر بیٹھی رہوں.

او.... رئیلی.. ویسے رونگ...... گرتی پڑتی تو تم ہو.. کئی مرتبہ مجھ  معصوم پر گر چکی ہو...

ماہی کلس کر رہ گئ..

اچھا اپنا گفٹ تو دیکھ لو.. اس نے پینٹ کی پاکٹ سے ایک خوبصورت سا پینڈینٹ نکالا.. جس کی چین کے ساتھ بہت چھوٹا سا ڈائمنڈ جڑا سولجر بنا ہوا تھا.

وہ اس عجیب سے ڈیزائن کے پینڈینٹ کو دیکھ کر حیران ہوئی.

May I............

No.......

رزم کو اس کے جواب پر شدید قسم کی تپ چڑھی...

ڈارلنگ اب اچھا یہی ہوگا کہ قریب چلی آؤ اور شرافت سے میرے ہاتھوں سے یہ پہن لو.. ورنہ اچھا نہیں ہوگا..

میں جا رہی ہوں.. اس نے بیگ کندھے سے لٹکایا.. آپ یہ شوق کسی اور سے جا کر پورے کریں..وہ کہہ کر دروازے کی جانب بڑھی.

جب ایک پل اور ایک ہی جھٹکے میں وہ اسے صوفے پر گرا چکا تھا..

ایک گھٹنا صوفے پر رکھے وہ اس پر جھکا تھا.

کیوں ڈیئر وائفی... پیار کی زبان تو تمھیں بھی سمجھ میں نہیں آتی.. تمھیں شاید مزا آتا ہے مجھے ضد دلا کر.. پر یقین کرو مجھے اس سے بھی زیادہ مزا آتا ہے. تمھارے دئے گئے چیلنج پورے کر کے..

ہٹیے پیچھے جنگلی انسان..ورنہ میں....

ورنہ کیا... وہ پوچھتا اس پر جھکتا اسے پینڈنٹ پہنا چکا تھا.. اس کی انگلیوں کا لمس اب اپنی پیٹھ کے کھلے گلے پر محسوس ہو رہا تھا

وہ بوکھلائی اور اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی..

کیا ہوا ڈارلنگ....

چھچ.... چھوڑیں مجھے...

اور ہاں یاد آیا کیا کہہ رہی تھی تم.. اپنے شوق کسی اور سے پورے کروں ... کیوں ؟میری بیوی تو تم ہو تو شوق بھی تم سے ہی پورے کروں گا اور اپنے ارمان بھی.

یہ کہہ کر وہ اس پر جھکا اور اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چوما..

وہ لرزتی. ، کپکپاتی اپنے چہرے پر اس کی دہکتی جسارتیں برداشت کر رہی تھی.

رخ... جزبات سے بوجھل گھمبیر آواز میں اسے پکارا.

مت جاؤ

مم....... مجھے جانے دیں..... وہ اب رو دینے کو تیار تھی

تو ٹھیک ہے پھر... مجھ سے دور جانے کی سزا بھگت کر جاو...

کک... کیا... مطلب..وہ خود کو روک نہیں پا رہا تھا.. اسی لیے اس کے نرم و نازک گداز لبوں کو اپنی سانسوں میں بری طرح الجھایا تھا.

ماہی نے مزاحمت کرنے کے لئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کی.. وہ اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر صوفے کی پشت سے لگا چکا تھا.

وہ مچلی.. سانس بند ہونے کو ہوئی.. پر اس ظالم کو رحم نہیں آ رہا تھا..وہ مسلسل خود کو سیراب کر رہا تھا..اور وہ اس کی شدتیں برداشت نہیں کر پا رہی تھی.

آنسو روانی سے بہے.. رزم نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا..

وہ گہرے سانس لیتی ہاتھوں میں منہ چھپا کو پھوٹ پھوٹ کر رو دی..

رزم نے اسے ایک بھر پور نظر سے دیکھا...

میری ایک بات کان. کھول کر سن لو میری جان.. اب وہاں سے واپس آؤ تو اپنے زہن کو مجھے اور اس رشتے کو قبول کرنے کے لیے ریڈی کر کے آنا.. شوہر ہوں تمھارا..جتنا دل چاہے تمھارے قریب آ سکتا ہوں. اب میں اس رشتہ کی نئی شروعات چاہتا ہوں.. سو زہن نشین کر لو یہ بات واپسی پر مجھے کوئی مزاحمت کوئی بہانہ کوئی احتجاج نہیں چاہیے..اچھی طرح سمجھ لو....

رزم کو شکایت ہوئی اس سے.. اسے رزم  کی آنکھوں میں کیوں اپنے لئے عشق اور دیوانگی نظر نہیں آتی تھی.. کیوں وہ اسے سمجھ نہیں رہی تھی.

وہ اسے کیا سمجھتی تھی یہ جانے بغیر کہ وہ پہلی لڑکی ہے جسے رزم علی نے چھوا... یا جسے چھونے کی شدید خواہش ہے رزم کو.. 

اور اب..

اب تو وہ اس کے قریب آنا چاہتا تھا... بہت قریب.. مگر وہ نا سمجھ رہی تھی اور نا سمجھنا چاہتی تھی.. رزم طیش میں باہر نکل گیا..

یہ جانے بغیر کہ ماہی میڈم کا اگلا فیصلہ اس کی زندگی میں بھونچال لانے والا ہے... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

منال اپنی اور نوال کی تیاری کر رہی تھی..

شمس نوال کو گود میں لئے بیڈ پر بیٹھا تھا..

وہ پاپا پاپا کہہ کر شمس کے کان کھا رہی تھی. اور وہ کافی تحمل سے اس کے جواب دے رہا تھا..

کہ اچانک وہ بولی... پاپا بھائی تب  آئے دا... (بھائی کب آئے گا)

منال کا دل کیا ڈوب پرے.. 

یہ بات تو میرا بچہ مما سے پوچھو..کہ وہ کب آپ کے پاپا کو اپنے قابل سمجھیں گی.. شمس نےنوال کی توجہ  منال کی طرف کی کہ وہ یہ سوال اس سے پوچھے.

مما تب آئے دا...

اور مما کا چہرہ خجالت سے سرخ ٹماٹر ہوا تھا..

نوال بےبی. آپ کی ڈول کدھر ہے.. اسے بھی تو لے کر جانا ہے... منال نے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کی

اور وہ سچ مچ اپنی ڈول لینے اپنے کمرے کی طرف بھاگی.

شمس آہستگی سے اس کے قریب آیا....

اس کے گرد بازو حمائل کر کے اس کے کندھے پر منہ رکھا..

منال کی سانس اٹکی. 

تو پھر کیا خیال ہے مسز شمس.. بیٹی کی فرمائش کب پوری کرنی ہے..

وہ.... وہ... ہمیں.... دیر ہو رہی ہے... اس نے اپنے آپ کو چھڑاتے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کی.

او... کم.. آن... جانِ شمس. مجھے نوال سمجھ کر بات مت پلٹو.. بات کا جواب دو..

مم...... مجھے نہیں پتہ... وہ ہلکے سے کپکپا رہی تھی..زری کی پریشانی الگ تھی... شمس گہرا سا مسکرایا.

تو پھر ٹھیک ہے جان... واپس آؤ گی تو میں یہیں سے کانٹینیو کروں گا.. اوکے.

اس کے کندھے پر اپنے لب رکھ کر پیچھے ہٹا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ سب عابد حسین کے گھر بیٹھے تھے..

عابد کے کمرے میں.. ان کا بی پی ہائی ہو رہا تھا... ماہی حرا اور منال روئے جا رہی تھیں.

نازیہ بیگم اب عابد کی فکر میں تھیں... قیصر خاموش بیٹھا تھا..

ماہی تم تاشی کے پاس جاؤ.. اسے تمھاری ضرورت ہوگی...

شمس نے کہا تو وہ اٹھ کر اوپر چلی گئی...

شمس اٹھ کر عابد حسین کے پاس آیا. اور ان کا ضعیف و لاغر سا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما

میں جانتا ہوں بابا کہ غم بہت بڑا ہے... میرے پاس تسلی کے الفاظ ہیں بھی نہیں.. مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ میں آپ کا بیٹا ہوں.. اس گھر پر کبھی کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا..

زرتاشہ مجھے بہت عزیز ہے.. اپنی چھوٹی بہنوں کی طرح.. اسی لئے یہ بات دل سے کر رہا ہوں.. جانتا ہوں یہ سہی وقت نہیں مگر یہ زرتاشہ کے مستقبل اس کی خوشیوں کا سوال ہے اسی لئے میں  نے فیصلہ کیا ہے کہ تاشی کی شادی یشار خان سے ہوگی..

سب نے حیرت سے شمس کو دیکھا مگر وہ بولتا گیا.

یشار انٹیلیجنس  آفیسر ہے.. قوم کا بہادر سپاہی ہے..وہ دہشتگردوں کا پیچھا کرتا مری گیا اور وہاں تاشی مصیبت میں پھنس گئی.. اس کا نام حقیقت جانے بغیر یشار کے ساتھ لیا جا رہا ہے.. لہذا یشار ہی اسے اپنا نام دے گا.. اسے اپنی عزت بنائے گا... نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہیے  لہذا میں چاہتا ہوں عدت ختم ہونے کے فوراً بعد زرتاشہ اور یشار کی شادی کر دی جائے..

اس گھر کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا.. اب آپ لوگ اپنی رائے دے سکتے ہیں..

عابد کی آنکھیں تشکر کے احساس سے نم ہوئیں تھیں..اور انھوں نے شمس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں بھینچ لیا تھا 

حرا بے تحاشا خوش ہو کر شمس کی جانب آئی..اس کا ماتھا چوما تھا.

بابا بولیں.... آخری فیصلہ آپ کا ہی ہوگا... شمس نے اکسایا کہ بابا کچھ بولیں..

جیسے میرے بیٹے نے فیصلہ کیا مجھے منظور ہے مگر منال کو کہو ایک مرتبہ زری سے پوچھ لے.. جو اس کا فیصلہ... وہی اس کے بابا کا فیصلہ 

منال بھی اب روتے ہوئے مسکرا رہی تھی..

سب کے کندھوں سے پہاڑ جتنا بوجھ سرک گیا تھا.سب نے بخوشی  اپنی رضامندی دے دی تھی اس فیصلے کے لئے 

, 💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی کمرے میں داخل ہوئی تو تاشی نوال کے ساتھ کھیل میں مصروف تھی.ملگجا سا حلیہ... مرجھائی ہوئی سی.. مگر چہرے پر سکون تھا. 

ماہی کو حیرت ہوئی...

اسے سامنے دیکھ کر تاشی اس کی جانب لپکی. اور اس کے گلے لگ گئی..

جبکہ شریر سے دل نے سرگوشی کی. چاہت دیس سے آنے والے یہ تو بتا صنم کیسے ہیں.. تاشی نے اپنے بدتمیز دل کی شرارت پر دانت تلے لب دبا کر اپنی ہنسی روکی.

کیا ہو رہا زری.....

پلیز ماہی.. Call me   Tashi.......... Only  Tashi

ماہی کو ایک مرتبہ پھر جھٹکا لگا....غور سے اسے دیکھا. کہ کہیں صدمے سے اس کا زہنی توازن تو نہیں بگڑ گیا..

تاشی تم ٹھیک تو ہو ناں... بلکل.. اور وہ ڈائیورس....

میں بلکل ٹھیک ہو... ماہی.. مجھے کیا ہونا ہے... رہی بات ڈائیورس کی تو جو قسمت کو منظور اس میں... میں یا تم کیا کر سکتی ہیں..وہ مطمئین سی تھی. 

یہ کہہ کر وہ پھر نوال میں بزی ہو گئی

تو ماہی نے سکون کا سانس لیا..

اب وہ دونوں ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہو گئیں..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم جب یشار کے روم میں داخل ہوا تو وہ کھڑکی پر کھڑا  کسی گہری سوچ میں تھا..

گئے نہیں.... اس کے پیچھے کھڑے ہو کر اسے چھیڑا.

کچھ پتا چلا کے ڈائیورس کیوں دی اس نے تاشی کو.. یشار نے اس کا چھیڑنا نظر انداز کر کے سوال کیا

اسی بات کو جواز بنا کر کہ تاشی ایک رات باہر جانے کہاں گزار کر آئی... رزم نے کہتے ہوئے نظریں چرائی

یشار کی رگیں تن گئیں.. ربش... چار پانچ دن بعد اسے اچانک یہ بات یاد آئی اور اس نے ڈائیورس دے دی.. رزم تمھیں یہ سب نارمل لگ رہا ہے؟

اب چھوڑو نا یار کچھ چیزوں کو. کیوں؟ کیسے ؟ کس طرح کی پخ سے نکل کر بھی انجوائے کر لینا چاہیے.. مجھے یقین ہے لالہ تمھارا اور تاشی کا رشتہ طے کر کے ہی لوٹیں گے... سو کوئی بھی چیز سر پر سوار کرنے کی بجائے بس ان پلوں کو  انجوائے کرو.

رزم کی آخری بات پر یشار کے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہوئی... اور واقعی وہ تو اب اس بات میں کھو چکا تھا کہ تاشی ہمیشہ کے لئے اس کی ہونے والی تھی.

رزم نے سر جھٹکا...اب وہ اسے کیا بتاتا اسے تو خود ایک عجیب سا کھٹکا لگا ہوا ہے...اور وہ شمس لالہ کی پر اسرار مسکراہٹ بھی نوٹ کر چکا تھا.. بھلا ان سے یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کہاں چھپ سکتی تھیں. اسی لئے کسی بھی بات کا اثر یشار کے مستقبل پر نا پڑے اسی لئے اس نے اس بات کی تہہ تک جانے کا فیصلہ کیا تھا کسی کو بتائے بغیر...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

بابا... بابا آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا.... کیا کیا ارمان تھے میرے شادی کو لے کر.. سب خاک میں مل گئے... اگر آپ کی سگی بیٹی ہوتی میں...... تو یوں کرتے میرے ساتھ..

بھل بھل آنسو بہاتی ماہی نے عابد حسین کو اموشنل بلیک میل کیا

عابد حسین اس کی آخری بات پر تڑپ گئے.. اور اس کے حق میں فیصلہ دے دیا..

وہ روتے ہوئے فاتحانہ سی مسکان چہرے پر سجائے بابا کی کمرے سے نکلی..اسے خبطی بھی کہتی تھی اور اس سے الجھ بھی رہی تھی.. پاگل

منال اور نوال واپس چلے گئے جب کہ عابد نے شمس کو اپنا فیصلہ سنا دیا

کہ وہ ماہ رخ اور زرتاشہ کی اکھٹی اور دھوم دھام سے شادی کریں گے.. لہذا ماہ رخ اب  این مینشن نہیں جائے گی بلکہ یہیں تاشی کے پاس رہے گی.

شمس کیا کہہ سکتا تھا... اسی لئے چپ چاپ واپس چلا آیا.....

جبکہ یہ بات سن کر این مینش پورا ہل گیا تھا..

جب وہ واپس آئے اور لاؤنج میں داخل ہوئے.. تو رزم کی آنکھیں کسی کی متلاشی تھیں.... مگر اسے وہاں نا پا کر رزم کا دماغ کھول اٹھا تھا.

بھابھی رخ کدھر ہے؟ اس نے منال سے پوچھ ہی لیا..

اور پھر منال نے مسکرا کر جو اسے بتایا... این مینشن کی دیواریں اس کے سر پر آ گری تھیں..

اس نے شکایتی نظروں سے شمس کو دیکھا تو شمس نے کندھے اچکا دییے کہ وہ اس معاملے میں بے بس تھا.. وہ تن فن کرتا وہاں سے واک آؤٹ کر گیا..

یشار سیڑھیاں اترتا نیچے آیا... اور صوفے پر بیٹھ کر نوال کو گود میں لے کر پاؤں جھلانے لگا

جس کا مطلب تھا کے وہ بے چینی سے کچھ سننے کا منتظر تھا..

منال کمرے میں گئی. تو شمس اس کی طرف متوجہ ہوا.

کیوں برخوردار... کوئی کام تھا.. شمس نے چھیڑا..

او کم آن لالہ اب آپ بھی چھیڑیں گے... کچھ بتائیں گے کہ میں لندن جاؤں..وہ جھلایا.

تو جاؤ... میں جو تمھاری اور تاشی کی شادی طے کر کے آیا ہوں پوسٹ پون کر دوں گا..

اپنے مطلب کی بات سن کر وہ روح تک پر سکون ہوتا گہرا سا مسکرایا...اور اٹھ کر شمس سے لپٹ گیا....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ کمرے میں ادھر سے ادھر چکر لگاتا اپنی کنپٹیوں کو سہلاتا اندر اٹھتے اشتعال کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا..

مگر تڑپ تھی کے گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ہی جا رہی تھی.. پھر کچھ سوچا اور یشار کے کمرے کی طرف آیا.

وہ جاگ رہا تھا اور لیپ ٹاپ میں بزی تھا

رزم کو مخصوص حلیے میں اتنی رات کو اپنے کمرے میں آتا دیکھ اس نے سر اٹھایا

کیوں خیرت...ویسے تو مجھے مجنوں کہتے ہو خود کی حالت دیکھی ہے.. یشار نے چھیڑ کر حساب برابر کیا

مجھے چھوڑو تم اپنی بتاؤ... جانا ہے عابد ہاؤس.؟ میں تو جا رہا ہوں کچھ حساب نکلتا ہے اس چڑیل کی طرف.جو بے باک کرنا ہے. میری نیند حرام کر کے خود کیوں چین سے رہے.

رزم نے خود کی حالت سے جھنجھلا کر کہا.

یشار نے کچھ سوچا... اور کہا چلو..

پھر اٹھ کر رزم جیسی ڈارک براؤن ہڈی پہنی.... اور دونوں این مینشن سے نکلے...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

 وہ سٹڈی ٹیبل پر اپنی بکس اور نوٹ بکس میں منہ دئے بیٹھی تھی جب رزم کھڑکی پھلانگ کر بہت خاموشی سے اندر داخل ہوا..

اونہہ... میری نیندیں حرام کر کے خود کتنے سکون میں ہیں میڈم..... پر کب تک.... وہ آہستگی سے چلتا قریب آیا..

آئی لائک یور سپیرٹ میڈم... وہ بولا تو وہ ڈر کر اچھلی اور خوف سے چلانے کی کوشش کی.. مگر اگلے ہی پل رزم اس کے منہ پر ہاتھ رکھے دوسرے سے اس کی کمر پکڑے اسے خاموش کروا چکا تھا..

وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی یہ تو سوچا ہی نہیں تھا کہ اس جن سے جان چھڑا کر یہاں سکون میں ہو گی مگر وہ دندناتا پیچھے ہی چلا آئے گا..

اب اگر آواز نکلی تو میں کیسے خاموش کرواتا ہوں جانتی ہو ناں... یہ کہہ کر اس نے آہستگی سے اسے چھوڑا.... وہ تھر تھر کانپتی دروازے کی جانب لپکی.. اور منہ کھول کر بابا پکارنے والی تھی جب رزم نے پیچھے سے ایک ہاتھ اس کے منہ پر اور دوسرے سے اس کے پیٹ سے پکڑ کر دبوچا. اب اسے شدید غصہ آ چکا تھا وہ تو اسے دیکھنے اور باتیں کرنے آیا تھا مگر وہ مچھلی کی طرح اس کے ہاتھوں سے پھسلی جا رہی تھی جس سے رزم کا میٹر شارٹ ہوا.

یونہی لا کر اسے ہاتھ گھما کر سیدھا کیا اور بیڈ پر پٹخا... اور خود بھی اس کے اوپر جھکتا چلا گیا..

ایک ہاتھ منہ پر رکھا وہ پھر مچلی.

کیوں کرتی ہو ایسا ... کیوں دلاتی ہو مجھے غصہ اور میں نے تو تمھیں کہا تھا بولنا مت.. وہ غرایا.. ماہی کی نازک جان ہوا ہوئی.. اس نے منہ سے ہاتھ ہٹایا جیسے جانتا ہو کہ اب وہ اس سچویشن میں چلانے کی بے وقوفی ہر گز نہیں کرے گی ...

اور واقعی.. وہ ڈبڈباتی آنکھوں سے اتنا ہی بول پائی.

اوکے... آئم... سس... سوری... اب نن... نہیں چلاؤں گی... مجھے چھ..... چھوڑ دیں..

نہیں میں نے تمھیں کیا کہہ کر بھیجا تھا کہ جلد واپس آؤ اور ہمیں اس رشتے کی نیی شروعات کرنی ہے تو ہاؤ ڈییر یو... تم نے ایسا کیوں کیا.....مجھ سے دور رہنے کا سوچا بھی کیسے؟... 

یہ کہہ کر وہ اس کی گردن پر جھکا تھا..

وہ سادی ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں تھی کھلے بال خوشبوؤں میں بسا نازک وجود رزم اس کے اتنے زیادہ قریب آنے پر ہوش اڑا بیٹھا تھا..

مم... مجھے... نہیں... آنا آ... آپ کے پاس... چھ... چھوڑیں مجھے.. اس کی جسارتوں سے وہ سختی سے آنکھیں بند کرتی سسکتی بولی..

کیوں جان... کیوں نہیں آنا میرے پاس... ہمم.. جانتا ہوں میری شدتیں برداشت نہیں کر پاتی ہو.مگر ایک بار میرے قریب آؤ. مجھے سمجھو.. میری جان.. تمھارا سارا ڈر ختم ہو جائے گا . وہ اس کے بالوں میں منہ دئے بولا..

ماہی کی اس کے وزن سے اور اپنے سینے میں محسوس ہوتی اس کی دھڑکن سے جان نکلنے کو تھی.

چھوڑیں... مجھے... نن... نہیں.. رہنا آ... آپ کے.. ساتھ... آپ.. بب... بہت.. برے. ہیں... وہ گھٹی گھٹی آواز میں بولی.

رزم جھنجھنا اٹھا..

رہنا تو میری جان میرے ساتھ ہی پڑے گا.. آج کی رات ہمارے رشتے کی نئی شروعات کی رات تھی... وہ تھوڑا اوپر ہوا اور اپنی ہڈی اتاری..... وہاں نہیں تو یہاں سہی.

نن... نہیں.. وہ چلانے کو تھی جب رزم اس کے لبوں پر جھکا تھا.. دونوں ہاتھ پکڑ کر بیڈ سے لگائے..وہ اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں بری طرح الجھا رہا تھا.

ماہی کی  اس کے ارادے بھانپ کر روح فنا ہوئی تھی.. بری طرح تڑپی.. مگر گرفت ایک شیر کی تھی.. جسے توڑنا ماہی کے بس میں نہیں تھا..

پھر بھی اپنا پورا زور لگا کر تھوڑا پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوئی تیزی سے اٹھنے والی تھی جب رزم نے اسے بازو سے پکڑ کر پھر اپنے سامنے گرایا.اور اسے گرفت میں لیتے 

 اس کے کندھے سے شرٹ ہٹا کر اپنے دہکتے لب رکھے.. وہ سسک پڑی..

اور بے بسی کا یہ احساس ہی اس کے ہوش اڑانے کو کافی تھے.. اسی لئے اچانک ہوش کھو کر اس کا سر ایک جانب ڈھلکا.اور مزاحمت دم توڑ گئی

رزم ہوش میں آیا...

Shhhhhiiiiiiittttttttttt

کیا یار رخ....... سارا موڈ خراب کر دیا... افففففففففف.

کب سمجھو گی مجھے.. یار.... کب برداشت کرو گی میرے شدتیں... میری محبت... دیوانگی...

کب اپناؤ گی مجھے.... وہ سخت جھنجھلایا اس پر سے اٹھتا ہڈی اٹھاتا وہاں سے نکلتا چلا گیا..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یش اس دشمن جاں کی کھڑکی تک آیا تھا.. مگر اب اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی

کافی دیر یونہی بالکونی میں کھڑکی کے پیچھے چھوٹے سے دروازے سے ٹیک لگا کر کھڑا رہا.

پھر اچانک اس کے زہن میں کوندا سا لپکا....

Ssssshhhiiittttttttt.

وہ ایک مرتبہ پھر کیا کرنے چلا تھا...

وہ تو عدت میں تھی... اس کا پردہ توڑ کر پھر اسے اذیت دیتا.. وہ کیا سمجھتی.

دونوں ہاتھوں سے کنپٹیاں مسلیں... خود کو ریلیکس کیا.. اور شادی تک صبر کرنے کا تہیہ کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا........

 وہ بیڈ پر بیٹھی گہری سوچ میں تھی.. مری سے واپسی پر آج تک کوئی ایسا دن نہیں تھا جب وہ گئے رات تک بیٹھ کر یش کا انتظار نہیں کرتی تھی.

اور آج تو دن کی بات یاد آئی تو دل اتنا زور کے دھڑکا کہ خود کے کانوں میں دھمک سنائی دی...

منال آپی اس کے پاس آئیں تھیں اور لمبی تمہید باندھ کر اسے یشار خان کے رشتے کے لئے پوچھا تھا تو اس نے حیرت سے ایک مرتبہ منال آپی کو دیکھا تھا..

کیا دل کی مرادیں یوں بھی پوری ہوتی تھیں.

کیا یوں بھی بنا کچھ کہے جھولی میں دنیا بھر کی خوشیاں سمٹ آتی تھی.

اسے سمجھ نا آئی کے یہ اس کی محبت کی شدت تھی کہ یش کی جو یوں سب کچھ آسانی سے ہوتا جا رہا تھا.

نہیں یہ یش کی ہی محبت کی شدت تھی جو اسے اپنی جانب کھینچ رہی تھی کیونکہ یہ  اس کا یقین نہیں ایمان تھا کہ تاشی صرف اُس کی ہے.. صرف اُس کی..

وہ بولی تو صرف اتنا کہ

آپی جو بابا اور آپ لوگ میرے لئے فیصلہ کریں مجھے منظور ہے..منال خوشی خوشی اس کا ماتھا چوم کر چلی گئی تھی.

دل کمبخت تھا کہ سنبھلے نہیں سنبھل رہا تھا..

وہ اپنے خیالوں سے اچانک نکل کر بے تحاشا چونکی.. ایک جانا پہچانا سا احساس تھا جو اسے محسوس ہوا.ایک جانی پہچانی خوشبو تھی جو  کھلی کھڑکی سے اندر آ رہی تھی

یش......

تیزی سے بیڈ سے اتری..اور کھڑکی کی جانب بھاگی... دروازہ کھول کر دیوانہ وار بالکونی میں دیکھا.. مگر خوشبو تو تھی وہ دشمنِ جاں خود کہیں نہیں تھا...

افففففففففف...... یش...... الو کے پٹھے.....وہ بری طرح جھنجھلائی. 

شدید غصے میں اچانک گالی دے کر  خود ہی بری طرح دانتوں تلے لب دبایا.اور ہنستی چلی گئی.. 

کتنی شدید خواہش اٹھی تھی دل میں اس کی ایک جھلک دیکھنے کی مگر وہ ظالم بنا ملے جا چکا تھا..اور ستم تو یہ تھا کہ اس ستم گر کی تصویر بھی نہیں تھی اس کے پاس

آٹھ سال وہ تڑپا تھا اور اب تاشی میڈم کی باری تھی.

اور پھر یہ سوچ کر پھر دہری ہوئی کہ اگر وہ اس کے سامنے آتا تو وہ تو شرم سے مر ہی جاتی...

اندر آئی اور اپنی کیفیت پر ہنستی چلی گئی.. کوئی آدھی رات کو اس کی حرکتیں ملاحظہ کرتا تو بلا شبہ اسے پاگل سمجھ لیتا..

اونہہ... دیکھنا یش میں کیسے بدلے لیتی ہوں آپ سے جتنا مجھے پریشان کر رہے ہیں.... نہ بولو گی... نا سامنے آؤں گی... پھر تڑپنا.. وہ آگے کے پلین بنا رہی تھی. پر یہ بھی جانتی تھی کا اس کا یش صرف اس کی وجہ سے اس کے گلٹ کی وجہ سے اپنی تاشی سے دور تھا. یہ سوچ کر اسے اور ٹوٹ کر پیار آتا اس ستمگر پر. 

پھر اٹھی.. احتیاط سے الماری کھولی.. اور اس میں سے وہ بلیک ہڈی جو یش نے اس کے زخمی بازو پر باندھی تھی کسی قیمتی متاع کی طرح اٹھائی جسے ہوسپیٹل سے وہ سب سے چھپا کر اپنے ساتھ لے آئی تھی..

جس میں سے یش کی خوشبو آتی تھی. 

واش روم گئی اور جب باہر نکلی تو اپنی شرٹ کی بجائے وہ ہڈی پہن رکھی تھی.

آئینے کے سامنے آئی... ہڈی بے تحاشا کھلی تھی اسے..

بھلا کہاں وہ لمبا چوڑا کسرتی اور مضبوط چٹانی جسم اور کہاں وہ نازک سی گڑیا...

اس ہڈی میں تو دو تاشی اور سما سکتی تھیں.

وہ پہن کر یش کا لمس ایک مرتبہ پھر خود پر محسوس ہوا تو خود سے ہی بے تحاشا شرم محسوس ہوئی.

چہرہ بلکل گلنار ہو گیا..

بیڈ تک آئی... لیٹ کر کمفرٹر منہ تک لیا...

اور اگر یش مجھے یہ سب کرتے دیکھ لے تو.

افففف.. شرم سے ہی مر جاؤں.. وہ گبھرا کر سختی سے آنکھیں موندے سو گئی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

دو ماہ ہو گئے تھے اس کی عدت کو..

وہ  ماہی کے ساتھ  مکمل پردے میں کالج جا رہی تھی.

اس دوران وہ ڈھنڈتی نظروں سے دیکھتی مگر یش اسے اپنی راہوں میں کہیں نظر نا آیا..

اس نے تو پتہ نہیں ماؤنٹ ایورسٹ ہی اپنے دل پر رکھ لیا تھا.. جو یوں اپنی ہی زندگی سے کترا رہا تھا. 

ماہی بھی اب بے فکر تھی کیونکہ رزم دوبارہ اس کے سامنے نہیں آیا تھا.. ناراض تھا شاید...

پر اسے پرواہ نہیں تھی...بھلا ایک غنڈے موالی بگڑے رئیس زادے کی ناراضگی کی کون پروا کرتا..

آج نازیہ بیگم کی بہت طبیعت خراب تھی اسی لئے تاشی ان کے پاس ہی تھی...

ماہی کالج آئی تھی.. اور اب واپس گاڑی کی جانب آ رہی تھی... جب ایک وین اس کے پاس آ کر رکی.اور اسے وین میں کھینچ لیا.. اس کے منہ پر ایک رومال رکھا اور وہ ہوش و خرد سے بیگانہ ہوتی چلی گئی..

رزم کا فون رنگ ہوا.. اس نے کال اٹینڈ کی

یس........

سر میم کو کسی نے کڈنیپ کر لیا ہے.....

واٹ..... کیا بکواس کر رہے ہو.. اور تم کیا سوئے ہوئے تھے.. اس کی سکیورٹی کے لئے تھے وہاں ... جھک مار رہے تھے کیا.. رزم دھاڑا.  اور کہتا تیزی سے سیکرٹ فلیٹ کے کمرے سے نکلا... 

سر وہ سب اتنی اچانک ہوا کہ......... سر ہم... ایم سوری..ہمارا ایک گارڈ بھی غائب ہے... 

شٹ اپ..یو....... گاڑی کا نمبر نوٹ کیا...

 یس سر ہم.. فالو کر رہے ہیں... چھپ کے...

گڈ... میرے اگلے آرڈر کا ویٹ کرو.

فون رکھتا رزم دھاڑ سے یشار کے کمرے میں آیا تھا.. یشار ماہی کو کسی نے کڈنیپ کر لیا ہے. سنتے ہی یشار الماری کی جانب لپکا.. اپنی ہاکی ہڈی میں چھپائی اور گنز وغیرہ کپڑوں میں چھپائیں..

اور فورا باہر بھاگے...

گاڑی تیزی سے چل رہی تھی...

کوئی مین لیڈ......

ہاں میں نے ماہی کے پینڈینٹ میں سیکرٹ لوکیشن ٹریکر ڈالا تھا... لوکیشن ٹریس ہو رہی ہے.. اس نے فون نکلال کر دیکھا.

گاڑی میں جان لیوا خاموشی تھی اور رزم کو اپنی سانسیں سینے میں الجھی محسوس ہو رہی تھیں...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی ہوش میں آئی تو دعا مانگی کے کاش اسے کبھی ہوش آتا ہی نہیں.... ہوش میں آنے سے پہلے موت آ جاتی...

وہ حجاب چادر کے بغیر ان چار درندوں کے قدموں میں پڑی تھی.. اٹھ کر فوراً سہم کر پیچھے ہٹنے کو تھی.. جب ایک آدمی نے اسے بالوں سے کھینچا..اور غرایا.

جو پوچھ رہیں ہیں سچ سچ بولنا.. ٹائم نہیں تیرے پاس.جیسے جیسے جھوٹ بولے گی تیرے جسم سے کپڑے نوچتے جائیں گے ہم.. اب بتا. کہاں ہے میڈم تجھے ساتھ لے کر گئ تھی... ہمیں تیری ڈیٹیل بتا دی تھی اس نے.. تب سے غائب ہے میڈم بھی اور ہمارے  آدمی بھی.. تیرا اس ہاکی والے اور دوسرے فوجی سے کیا تعلق ہے بتا جلدی بول..

مم..مجھے.. نن... نہیں پتا......

ابھی اس کی بات پوری نہیں ہوئی تھی جب ان چاروں نے جلتی سگریٹوں سے اس کا کندھا اور بازو داغے تھے..

اس کی دلخراش چیخیں اس پوری کوٹھی میں گونج اٹھی تھیں.. اور ان میں سے ایک درندہ اٹھا اور اپنی بیلٹ نکال کر ماہی کو بیلٹ سے  دھنک کر رکھ دیا.

وہ چیختی رہی کہ اسے کچھ نہیں معلوم.. چلاتی رہی مگر اس جانور کو رحم نا آیا.اور اسے بیلٹ سے ادھیڑ کر رکھ دیا.

بیلٹ اس کے منہ پر بھی لگے ہونٹ پھٹا اور چہرہ خون سے نہا گیا. 

اتنی سکیورٹی ہے تیری یو بچ..... اور کہتی ہے تجھے پتہ نہیں... اتنی مشکل سے تجھے اٹھایا... یقیناً وہ تیرے پیچھے ہیں.. جلدی بول......

وہ بے تحاشا رو رہی تھی...

جب اس جانور نے بالوں سے گھسیٹ کر اس کا رخ ایک جانب کیا... سامنے کا منظر دیکھ کر ماہ رخ کے پیروں نیچے سے زمین کھسکی تھی... خوف سے آنکھیں پھٹ پڑیں

ایک آدمی کو الٹا لٹکا کر اس کی شہہ رگ کاٹی گئی تھی. اور نیچے رکھی بالٹی خون سے بھر رہی تھی.

یہ دیکھ... یہ تیرا سکیورٹی گارڈ تھا... تیرے یاروں کا بھی یہی حال کرنے والے ہیں ہم.... بہت شوق ہے انھیں دوسروں کو خون میں نہلانے کا چل آج ان کی معشوقہ کو خون میں نہلاتے ہیں اسی کے گارڈ کے

ہاہاہا ہاہاہا ہاہاہا

مکروہ قہقہہ تھے جو چاروں اور گونج رہے تھے..

وہ نہیں نہیں کہتی چیخ رہی تھی جب ایک سانڈ نما آدمی نے وہ خون کی بالٹی لا کر اس پہ انڈیل دی تھی

وہ اس سے سچ اگلوانے کے لئے جسمانی اور زہنی ٹارچر کر رہے تھے اسے...

وہ زہنی اور جسمانی طور پر زخموں سے چور ہو کر بے ہوش ہو چکی تھی.

اے لگا اسے وہ خاص ڈرگ کا انجیکشن... زرا بے بی کو ہم بھی تو چکھ کر دیکھیں کہ کیا خاص بات ہے اس میں جو اس کہ عاشق یوں حفاظت کرتے ہیں اس کی ...

ان میں سے ایک نے ماہی کو انجیکشن لگایا اور لے جا کر کمرے میں پھینک دیا..اور روم لاکڈ کر دیا. 

ماہی کو اپنی سانسیں گھٹتی محسوس ہو رہی تھیں.. اس کا نازک جسم اس طاقت ور ڈرگ کو سہہ نہیں پا رہا تھا.. اس لئے اس کی سانسیں اکھڑتی چلی گئیں..

باہر وہ جانور مکروہ قہقہے لگاتے شیطانی عزائم لیے کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے..

جب ایک آندھی اور ایک طوفان داخل ہوا تھا اس عمارت میں سب کچھ تہس نہس کر دینے کے لیے... ان حیوانوں کو عبرتناک اور دردناک موت دینے کے لئے...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ایک آندھی آئی تھی جس نے ہر طرف خون ہی خون بکھیر دیا تھا.. یش کی ہاکی اور رزم کی پسٹل دشمنوں کے بخیے ادھیڑ رہے تھے..

وہ اندر داخل ہوئے تھے.. دونوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا...

 وہ چاروں جانور بھی ایک مرتبہ تو اپنے سانڈ جیسے کتوں کہ حالت دیکھ کر گھگھیا گئے تھے... اور پچھلے دروازے کی جانب بھاگے..

یشار نے انھیں بھاگنے دیا..

پتہ تھا... فرید جلد ہی ان کی گردنیں دبوچ کر ٹارچر سیل لے جائے گا..

وہ پوری عمارت میں گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے جب ایک جانب سے اچانک فائرنگ ہوئی.

رزم جھکو....... یش چلایا...

رزم بجلی کی سی رفتار سے جھکا اور سامنے کھڑے ایک دیو ہیکل غنڈے کی گولی اس کے بازو کو چھو کر نکلی..

مگر اسے اس وقت اپنی ہر گز پرواہ نہیں تھی..

وہ تو دیوانوں کی طرح آگے بڑھ رہا تھا..اسے تو بس اس نازک جان کی فکر تھی جو ان حیوانوں کے ہتھے چڑھی گئی تھی.. 

یش نے ہاکی سے اس سانڈ کے دماغ کا نشانہ لیا.. ماتھے پر پڑنے والی کیلوں والی ہاکی سے اس کا بھیجا باہر آیا..

یش کے سر پر خون سورا تھا.. وہ راستے میں آنے والے ہر سانڈ کا جسم ادھیڑتا جا رہا تھا.. کہ پھر فائر ہوا.. یش تیزی سے جھکا.. وہ طوفان بنے اس پوری عمارت میں خون کی ندی بہا رہے تھے..

رزم میں ان کو دیکھتا ہوں... ماہی کو ڈھونڈو.. یش چلایا... رزم پسٹل لے کر آگے بڑھا..

ایک ہی کمرہ تھا جو بند تھا.. رزم نے دھاڑ سے پاؤں مار کر دروازہ توڑا تھا..

سامنے کا منظر روح فرسا تھا... رزم کی جان لبوں پر آئی تھی..وہ ادھ مری حالت میں خون سے لت پت فرش پر گری تھی.. چہرہ پر زخم کے نشان... یوں لگتا بہت سوں نے مل کر اس کا جسم ادھیڑ دیا تھا..

رزم کی جیسے روح کھینچی تھی کسی نے جسم سے.. تڑپ کر آگے بڑھا..اور اس مردہ سے جسم کو بازوؤں میں بھرا.. 

ماہ رخ........ میری... رخ.. آنکھیں کھولو.. وہ حلق کے بل چلایا.... اتنے میں یش بھی ان کتوں سے نمٹ کر رزم کے پاس آ چکا تھا.. رزم کے بازوؤں میں ماہی کا ادھڑا ہوا وجود دیکھا.. تو وہ  بھی نیچے بیٹھتا چلا گیا.

رزم پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا..

دیکھو یش... میں دوبارہ حفاظت نہ کر سکا اس کی... ایک مرتبہ پھر ہار گیا... یہ بھی مجھے چھوڑ کر چلی جائے گی.. میں جی کر کیا کروں گا یش.. مجھے بھی گولی مار دو.. یش میں مر جاؤں گا..

یش نے آگے بڑھ کر چیک کیا...

رزم چھوڑو اسے ہوسپیٹل لے کر چلتے ہیں... اس نے رزم کے بازوؤں میں بھنچے اس کے نیم جان وجود کو اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی..

نہیں.... نہیں میں کہیں نہیں جانے دوں گا اسے... ہوسپیٹل تو بلکل نہیں وہ ڈاکٹر کچھ گھنٹوں میں باہر آ کر آئم سوری بول دیں گے... یش میں کیا کروں گا.... یش بتاؤ مجھے پھر میں کیا کروں گا. سرخ آنکھوں سے آنسو تیزی سے رواں تھے.... وہ اپنے حواسوں میں نہیں لگ رہا تھا.

جب یشار نے زبردستی اس کے بازو کھول کر ماہی کے ڈھلکے وجود کو اٹھایا اور باہر کی جانب لپکا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم سر جھکائے بیٹھا دور کہیں اپنے ماضی میں کھویا ہوا تھا...

لندن میں ماں باپ کے گزرنے کے بعد... دنیا میں ایک واحد رشتہ بچا... 

اس کی اکلوتی خالہ بلقیس بیگم اور ان کی پاگل بیٹی رانیہ

جو اس سے محبت کرتی تھی بے حد اور بے تحاشا..

مختلف طریقوں سے رزم کے ناک میں دم کرنا اس کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا.

اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتیں اس گھر میں زندگی ہونے کا احساس دلاتی تھیں.

زندہ دل بے حد شوخ.

جب رزم نے فورس جوائن کی تو سب سے زیادہ مخالفت اسی نے کی تھی..

مگر رزم نے اس کی ایک نہ سنی.. بلقیس بیگم کے اصرار پر اس نے رانیہ سے نکاح کر لیا..

رانیہ کی محبت نے اسے اس کی جانب متوجہ کرنا شروع کر دیا.

ایک مشن کے دوران اس نے اور یشار نے  دشمنوں کی کمر توڑ دی جو پاکستان اور لندن میں ڈرگز ڈیلنگ کا کالا دھندا کرتے تھے..

ان میں سے ایک دشمن بھاگ نکلا... اس نے کسی طرح رزم کا چہرہ دیکھ لیا تھا.

اور پھر اس طرح دشمنی نکالی کے.. اس کے خاندان پر وار کیا... یعنی رانیہ کو اغوا کر لیا...

دو تین ٹیپس رزم کو بھیجیں جس میں رانیہ کو کچھ درندے وحشی پن سے نوچ رہے تھے.

اس سے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کرتے تھے. 

وہ چیخ رہی تھی... چلا رہی تھی... اس کی وہ دلدوز اور دردناک چیخیں آج بھی رزم کے کانوں میں گونجتی تھیں..

 پھر جب وہ رانیہ تک پہنچ گئے..تو انھیں اس کی لاش ملی.

رزم ٹوٹ گیا تھا...

خالہ رانیہ کے صدمے میں اسے زمہ دار سمجھتی رہیں اسے کوستی رہیں.

بعد میں معافی بھی مانگی

مگر رزم کے دل میں ایک پھانس تھی جو ہمیشہ کے لئے اٹک گئی تھی.. ایک کسک تھی جو اسے چین نہیں لینے دیتی تھی.. اور اب

اب تو وہ لڑکی ....... زندگی اور موت کی کشمکش میں تھی جسے اس نے عشق کیا تھا.. دیوانگی کی حدوں کو چھو کر.

وہ کب اس کی رگوں میں خون بن کر دوڑنے لگی اسے پتہ ہی نہ چلا.

لہو ٹپکاتے چہرے اور آنکھوں کے ساتھ وہ سر جھکائے بیٹھا تھا. جب یشار اس کے قریب آیا..

رزم.. ڈونٹ وری یار وہ خطرے سے باہر ہے...باڈی میں ڈرگز انجیکٹ کی گئیں تھیں.. 

رزم نے بے یقینی سے یشار کو دیکھا .. تم یش....... تم جھوٹ بول رہے ہو ناں.. تم مجھے بہلا رہے ہو اسے کچھ ہو گیا ہے ناں وہ بلڈ... وہ اس کی حالت...

وہ ٹھیک ہے بلکل....... رزم...... وہ بلڈ ہمارے باڈی گارڈ کا تھا..وہ بلڈ اس کے اوپر گرا کر اسے بس مینٹلی ٹارچر کیا گیا ہے.. کوئی سیریس انجری نہیں ہے... باڈی پر بیلٹ اور سگریٹ کے جلے کے نشان ہیں...کوئی اور نقصان ہونے سے پہلے ہم پہنچ گئے تھے... رپورٹس میں دیکھ چکا ہوں. 

رزم نے بے دردی سے لب کچلے..

یش جس نے میری رخ پر ہاتھ اٹھایا مجھے وہ زندہ چاہیں..

وہ آل ریڈی ٹاچر سیل پہنچ چکے ہیں..

انھیں بعد میں دیکھنا پہلے ماہی پر توجہ دو..

میں نے گھر میں شمس لالہ کو بتا دیا تھا.. انھوں نے عابد انکل کو مطمئین کر دیا ہوگا. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تقریباً چھ گھنٹوں کے بعد ماہ رخ نے آہستگی سے آنکھیں کھولی تھیں..

ابھی بھی غنودگی کا عالم تھا پر سامنے کا منظر اتنا حیران کن تھا اس کے لئے کے غنودگی میں بھی اس کا زہن جاگ کر سب دیکھ رہا تھا اور محسوس کر رہا تھا..

وہ دونوں فل یونیفارم میں کمرے میں بیڈ کے پاس کھڑے تھے.. جب چند پولیس آفیسرز کمرے میں آئے.. انھیں سلیوٹ کیا.. ان کے پیچھے چند سکیورٹی فورس کے اہلکار تھے انھوں نے بھی آ کر انھیں سلیوٹ کیا اور آج کی مکمل بریفنگ دینے لگے..

یہ سی ایم ایچ ہوسپیٹل تھا.. جہاں اکثریت سکیورٹی فورسز کے یونیفارم میں تھی.

وہ لوگ جا چکے تھے.. اب رزم اور یشار اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے..اب اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں.

شرمندگی سی تھی..

ساری باتیں سن چکی تھی..

قوم  کے اتنے جانباز سپاہی اور مرد مجاہد کو پتا نہیں کیا کیا بولتی آئی تھی..

اتنا ہتک آمیز رویہ اپنائے رکھا اس سے...

اس کی آنکھوں میں تو کب سے محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر دیکھ چکی تھی مگر بری طرح نظر انداز کر جاتی تھی.

اپنی نادانیوں اور بے وقوفیوں پر دو آنسو ٹوٹ کر گرے تھے.. جنھیں رزم نے تڑپ کر دیکھا اور پکارا

رخ....... آنکھیں کھولو.....پلیز... تم ٹھیک ہو...

مگر وہ آنکھوں موندے یونہی احساس جرم سے نڈھال لیٹی رہی...

یشار اسے بازو سے پکڑ کر  ایک طرف لے گیا.. ریلیکس رزم وہ ٹھیک ہے ابھی ڈرگز کے زیرِ اثر ہے.. غنودگی ہوگی.

ڈسچارج پیپر بنوا لئے میں نے.

تم خود گھر میں خیال رکھنا..میں زرا ہیڈ کوارٹرز کو بریفنگ دے کر آیا.. فلیٹ جا رہا ہوں . یہ کہہ کر یش وہاں سے نکلتا چلا گیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ اسے عابد حسین کے گھر لے کر جانے کی بجائے این مینشن لایا تھا..

منال اس کی جانب تڑپ کر بڑھی پر اس نے شمس کو اشارہ کیا.. شمس نے منال کا بازو پکڑ کر اسے روکا تھا

رزم جانتا تھا اس کی رخ ابھی مینٹلی ڈسٹرب ہوگی.. اسی لئے رونا دھونا مچانے کی بجائے وہ بس اسے سکون دینا چاہتا تھا

اپنی بانہوں میں بھرے اس کے نرم و نازک پر زخمی وجود کو بیڈ پر لٹایا... وہ غنودگی میں تھی پر زہن پوری طرح جاگ رہا تھا..

اس کی جانی پہچانی خوشبو اپنے بہت قریب محسوس کر کے ماہی کو تحفظ کا گہرا احساس ہوا تھا.

 کچھ دیر بعد وہ اس کے قریب آیا... اس کے پاس بیٹھا.. کندھے سے زرا قمیض ہٹا کر جلے ہوئے نشانوں پر آئٹمنٹ لگائی..پھر بازوؤں پر لگائی..

اس نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں..

رخ تم ٹھیک ہو ناں... پلیز مجھے بتاو.. وہ پھر اس پر جھکا اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں لیا..

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی.... رزم نے لب دانتوں تلے کچلے.. پتا تھا اس قدر ٹارچر پر اس کے جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی زخمی ہو چکی ہے.

مگر وہ اپنی زندگی کو زندگی کی جانب کھینچ لائے گا.. دل میں تہیہ کرتا اس کے سر پر بوسہ لیتا.. بالوں میں دھیمے سے ہاتھ پھیرنے لگا..

وہ پھر آہستہ آہستہ پرسکون ہو کر سو گئی.

آدھی رات کا وقت تھا رزم اس کے پاس نیم دراز تھا ابھی کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگی تھی..

جب کسی غیر معمولی پن کا احساس ہوا تو وہ فوراً آنکھ کھلی..

اپنے پہلو میں نظر پڑی تو چونک گیا

وہ پسینے میں بھیگی شیٹ مٹھیوں میں جکڑے اپنا سر بار بار تکیے پر پٹخ رہی تھی اعر کچھ بول رہی تھی.

مت مارو مجھے..کچھ نہیں جانتی میں ..... چھوڑو مجھے.......جانے دو...

اب وہ زور زور سے چلانے لگی... جب رزم اس پر جھکا..

رخ........ اٹھو..... وہ اسے اس بھیانک خواب سے جگانا چاہتا تھا.. اسی لئے اس کی نازک سی جان جھنجھنوڑ ڈالی..

اس نے آنکھیں کھولیں... خود پر اسے جھکے پایا.. تو اس کے سینے سے لپٹ گئی

رزم کو حیرت ہوئی.

مگر وہ اس کی پیٹھ سہلاتا اسے ریلیکس کرتا گیا.

سو جاؤ میری جان...... تمھاری جانب بڑھنے والے ہاتھ کاٹ کر پھینک دوں گا میں... اب کبھی تمہیں تکلیف نہیں پہنچنے دوں گا....

وہ یونہی اس خود میں سمائے تحفظ کا احساس دلاتا رہا.. جلد ہی وہ پھر ریلیکس ہوتی اس کے چوڑے سینے میں منہ دئیے سو گئی. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ ٹارچر سیل میں ٹانگ پر ٹانگ رکھے بڑے اطمینان سے بیٹھا ان چار درندوں کو گھور رہا تھا.. جنھوں نے اس کی رخ کو چھونے اسے اتنا ٹارچر کرنے کی جرات کی تھی.

جبکہ اس کا یہ اطمینان اور لہو ٹپکاتی آنکھیں سامنے والے کا سکون برباد کر رہی تھیں..

رزم کے پیچھے ہی یش اپنی ہڈی میں ہاتھ دئیے سکون سے کھڑا تھا.. ان کا یہی اطمینان و سکون تو دشمنوں کی نیندیں حرام کرتا تھا..

مجھے یہ بتاؤ اسے بیلٹ سے کس نے مارا تھا... تو باقی تین کی نجات ممکن ہے مجھ سے شاید... رزم کا سرسراتا لہجہ... ان میں سے تین کی بے اختیار ایک پر نظر گئی.

رزم کو اپنا مجرم سامنے مل گیا.

اس نے یش کے سامنے ہاتھ پھیلایا... یش نے بٹن پریس کر کے اپنی ہاکی رزم کو تھمائی..

اب تو ان سب کے پسینے چھوٹے تھے... مگر رزم نے اس بیلٹ والے کو نشانے پر رکھ کر ادھیڑ کر رکھ دیا...

اس کی دلدوز چیخیں ٹارچر سیل کی ساؤنڈ پروف دیوراوں سے ٹکرا کر واپس آ رہیں تھی.

باقی تین دم سادھے یہ ہولناک منظر دیکھ رہے تھے.. جب یش نے آگے بڑھ کر ان تینوں کی سگریٹ والی انگلیاں کٹر سے ہاتھوں سےالگ کر دیں..تو وہ بھی چنگھاڑنے لگے

بزدلوں. مرد ایسے مردوں سے مقابلہ کرتے ہیں.. تمہیں ہماری عزت پر ہاتھ نہیں ڈالنا چاہیے تھا.. رزم کے پے در پے وار سے چاروں بزدل  بے ہوش ہو چکے تھے

آج کے لئے اتنی ڈوز کافی تھی

وہ تینوں ان پر خونخوار نظر ڈالتے باہر نکل آئے. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلے دن مکمل ہوش میں اس کی آنکھ کھلی...

سامنے عابد اور نازیہ بیگم کو دیکھ کر اس کے منہ سے نکلا بابا...... مما...نازیہ نے اسے سینے میں بھینچا...

اس نے ان کی گود میں منہ دے لیا... جب وہ پھر مکمل یونیفارم میں کہیں جانے کے لئے تیار اندر داخل ہوا تھا

 بابا رخ بلکل ٹھیک ہے.. اگر آپ ساتھ لے جانا چاہتے ہیں تو لے جاییے.. میں انتظار کر لوں گا... ویسے بھی تقریباً دو ما بچے ہیں... رخ کی ہر خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں میں

جیتے رہو بیٹا....رزم  نے جھک کر نازیہ بیگم اور عابد سے کندھے پر پیار لیا اس ظالم کو دل میں اتارنے والی گہری نظر سے دیکھا اور باہر نکل گیا..

اس کا جی چاہا بول دے کہ اب تو وہ اس سے دور کہیں جانا ہی نہیں چاہتی تھی..ہمیشہ اس کی مضبوط بانہوں کی پناہوں میں رہنا چاہتی تھی

مگر بول نہ پائی....زخم رزم کی توجہ اور محبت سے کافی حد تک مندل ہو چکے تھے

عابد اسے اپنے ساتھ لے آئے

اسے اور تاشی کو شان سے رخصت کرنے کے لیے..... 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ملن کی گھڑیاں آن پہنچی تھیں..

وقت کیسے گزرا ....

یش کو تو ان آٹھ سال سے زیادہ بھاری یہ تین چار ماہ لگے جو تڑپ تڑپ کر گزارے تھے.. کیسے ایک ایک پل اپنی جان پر جھیلا خود کو اس سے دور رکھ کر...وہ جو اس کی ہر آتی جاتی  سانس میں بسی تھی. 

اور اس آگ میں وہ اکیلا کہاں جل رہا تھا... ایک اور چھوٹی سی نازک سی جان تھی جو سولی پر ٹنگی ہوئی تھی. پر یش اپنی تاشی کے عشق سے بے خبر تھا.

خبر ہو جاتی تو پتہ نہیں کیا قیامت ڈھاتا.

دوسری طرف جہاں رزم بے قرار تھا وہاں یہی بے قراری ماہی کی جان کو بھی چمٹ گئی تھی..

مگر اب اس کے دماغ میں ایک نئی خرافات نے جنم لے لیا تھا..

جب جسم اور روح کے زخم مندل ہوئے تو ایک اور سوچ روح کو دن رات کچوکے لگا رہی تھی..

کہ اس کے جسم میں ڈرگ انجیکٹ کرنے کے بعد اسے کچھ یاد نہیں تھا ان درندوں نے اس کے ساتھ کیا کیا تھا... یہ سوچ اسے آگے کچھ سوچنے ہی نہیں دے رہی..

شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں... وہ دونوں مایوں بیٹھ چکی تھیں

محبت کی منزل پا لینے کا سرو سا تھا جو رگ و پہ میں سرایت کرہا تھا.

محبت کو اپنی منزل ملنے والی تھی.. خوشیاں تھیں کہ دلوں میں دستک دے رہیں تھیں.

پر کیا محبت کو پانا

اور یہ سب اتنا ہی آسان تھا...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آج ابٹن کا فنکشن تھا..شمس نے جانے کیوں کس خدشے کے تحت آج ہی نکاح جیسے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیا تھا یش اور اس کی تاشی کو

سائن کرتے ہوئے تاشی اپنے رب کا لاکھوں اور کروڑوں مرتبہ شکر ادا کر رہی تھی.

تاشی اپنے یش کی ہو چکی تھی ہمیشہ کے لئے.

باہر یش کی بھی کیفیت کچھ ایسی ہی تھی... ایک سکون اور سرور سا تھا جو اسے ہمیشہ کے لئے اپنے نام کر لینے کے احساس سے رگوں میں دوڑ رہا تھا.

وہ دونوں لیمن ییلو شراروں میں آسمان سے اتری پریاں لگ رہیں تھیں. کھلے بال بائیں جانب گرائے ان میں موتیے اور گیندے کے پھول سجائے ہوئے تھے.

دوپٹے سر پہ سیٹ کیے ہوئے تھے.

ابھی تیار ہو کر کمرے میں بیٹھی تھیں.

دونوں کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب تھیں.. وہ یہیں موجود تھے... یہی بات گھبراہٹ سے دوچار کرنے کو کافی تھی.

تاشی یونہی بیٹھی ناخن چبا رہی تھی جب  فون پر میسج رنگ ہوا. Unknown نمبر تھا. 

اس نے اوپن کر کے ریڈ کیا تو بوکھلا گئی.

ناخن چبانا بند کرو جان... اچھے بچے نروس نہیں ہوتے. 

تیرا چہرہ دیکھ لوں گر ایک بار..

شکر کرتے کرتے یہ زندگی دوں گزار.

الفاظ نہیں تھے یش کے دل کی خواہش تھی اس کی تڑپ... فرمائش.. اور اسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس کی تاشی نروس ہو کر ناخن چبا رہی ہوگی. 

 وہ اتنے دنوں بعد اس کا من موہنا مکھڑا ایک مرتبہ دیکھنا چاہتا ہے..

پر سامنے بھی تاشی تھی..

اونہہ.. یش....اور جو مجھے اتنے دن پریشان کیا اس کا کیا..بدلہ تو میں لوں گی آپ سے

منال انھیں نیچے رسم کے لئے لینے آئی تو تاشی نے دل میں شرارت لئے منال کو  مصنوعی بے چارگی سے کہا

منال آپی میں نیچے نہیں جاؤں گی.... بہت نروس ہوں.. یا تو اس بیٹ پر جاؤں گی کہ آپ یہ دوپٹے کا گھونگھٹ اوڑھا دیں

پلیز آپی میرا بھی... ماہی بھی روہانسی ہوئی بولی..

افف کیا مصیبت ہےتم دونوں کو شوہر ہیں تمھارے کوئی غیر تھوڑی ہیں...

(اللہ کی شان............ کہہ کون رہا ہے.. جس نے خود بیچارے شوہر کو پانچ  ماہ ہوئے تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے) منال کے ضمیر نے اسے اندر سے آئینہ دکھایا.. وہ تو خود گرین اور ییلو لہنگے میں نک سک سی تیار شمس کی نظروں سے خائف سی چھپتی پھر رہی تھی.

ان کی ضد پر منال نے ان کے دوپٹوں سے   انھیں گھونگھٹ اوڑھا دییے.

آہستگی سے نیچے اتریں. دونوں دولہوں نے ان کے اس ظلم پر پہلو بدلے.

لان میں سجائے گئے صوفے پر تاشی کو یشار اور ماہی کو رزم کے پہلو میں بٹھا دیا گیا.

آخر مہمان ہی کتنے تھے.. چند دوست احباب، قیصر اور رضیہ کی فیملی...

وہ دونوں سمٹ کر زرا ان سے فاصلے پر بیٹھ گئیں.

رسم شروع ہوئی....

تاشی کے موبائل پر پھر میسج رنگ ہوا.. اس نے گھونگھٹ میں ہی اوپن کر کے دیکھا..

Tashii plzzzzz

ایک التجا، ایک آرزو ایک تمنا...

مگر تاشی ڈھیٹ... وہ جو یش کی خوشبو سے ہی مدہوش سی ہوئی بیٹھی تھی.. دانتوں تلے لب دبا کر شدید ہنسی ضبط کی.

ادھر رزم نے ماہی کی جان کو مشکل میں ڈالا ہوا تھا.

کبھی اس کے پیر پہ پیر مارتا تو کبھی سب سے  چھپا کر اسے بازو مار دیتا.... سخت تاکید تھی کہ گھونگھٹ ہٹاؤ

مگر وہ بھی ماہی تھی.ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی.

تاشی کے موبائل پر پھر میسج آیا... اوپن کیا.

Ready to pay for it...Tashi Jaan

جب دیدار کی جگہ جسم سے روح میں اتروں گا.. پھر میری شدتیں سہنا.... مگر شکایت ہر گز مت کرنا.

تاشی کے ہتھیلیاں اور ماتھا پسینے سے بھیگا تھا....

اففففففففف...... یش بے شرم... وہ دل و جان سے کانپتی جھلا کر رہ گئی اور جلدی سے موبائل ہی منال کو پکڑا دیا.

اس نے پہلے ہی منال آپی سے کہہ رکھا تھا کہ وہ موبائل میں ان کی پکچرز بنائے..

رسم تمام ہوئی مگر ان کا گھونگھٹ نہیں ہٹنا تھا نا ہٹا

اگر زرا سا بھی عابد، نازیہ اور رضیہ بیگم ادھر ادھر ہوتے تو یش تو ایک سیکنڈ نا لگاتا اور اس کا وہ یش کی جان کا آزار بنا گھونگھٹ پلٹا دیتا.

 وہ پہلو بدلتے رہے مگر آنکھوں کی پیاس نا بجھ سکی اور وہ اٹھ کر اوپر چلیں گئیں.

وہ دونوں سخت جھنجھلائے ہوئے تھے.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ دونوں طرف کی زمہ داری نبھانے اور بھاگ دوڑ کے چکر میں ہلکان ہو گئی تھی.حالانکہ حرا بھی اس کے ساتھ تھی اور یہیں پر رہ رہی تھی .

 ابھی بھی نوال کو دیکھ کر کے وہ سو گئی ہے تھکن سے چور کمرے میں داخل ہوئی

اور یونہی  چینج کیے بغیر اسی قیامت خیز حلیے میں بیڈ پر اوندھے منہ گر کر آنکھیں موند لیں.. اور شمس کے بارے میں سوچنے لگی جس نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا.. پلٹ کر کبھی اپنا حق نہیں جمایا. یہی بات منال کو متاثر کر گئی تھی مگر شمس نے  اسے ایک ڈائمنڈ چین ضرور لا کر دی تھی کہ جب وہ اس رشتے کو قبول کرے تو وہ اس چین کو پہن لے.. تب وہ سمجھ جائے گا کہ منال اسے اور اس رشتے کو قبول کرنا چاہتی ہے.

وہ اس دشمنِ جاں کے بارے میں سوچنے لگی تھی.

اس کی محبت کے سامنے جھک گئی تھی... مگر ایک ہچکچاہٹ اور فطری گھبراہٹ تھی.. جس سے وہ دوچار تھی.. مگر وہ چین اس کی گردن میں کچھ دنوں سے موجود تھی.. جس کے بارے میں شمس تو شاید بھول ہی گیا تھا. 

تبھی شمس کمرے میں داخل ہوا لاک لگایا اور آگے بڑھا..

اس خوشبوؤں میں ڈوبے نازک وجود کے قریب آیا...

منال چینج کر لو پہلے.ان کمفرٹیبل رہو گی  ساری رات .. نرمی سے کہتا وہ ڈریسنگ کی جانب پلٹنے لگا جب اچانک بے تحاشا چونک کر پھر اس کی جانب پلٹا.

لہنگے کی کرتی کا پچھلا گلا کافی گہرا تھا.. جس میں سے وہ جگمگاتی چین اسے نظر آئی..

غود سے دیکھا وہی تھی.. لبوں پر گہری مسکراہٹ آئی

ہمممم... تو یہ بات ہے...مسز شمس..... اتنی بڑی چینجینگ آئی اور ہمیں پتہ ہی نا چلا.

 شرٹ اتار کر اس نے صوفے پر رکھی.. اور اس پر جھکا.. بیڈ پر رکھے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑے اور پچھلے گلے پر اپنے دہکتے لب رکھے.

منال کی نیند بھک سے اڑی تھی... جب وہ تیزی سے سیدھی ہوئی..

شمس بلا جھجھک اس پر جھک کر اس کے بازو بیڈ سے لگا چکا تھا..

شمس....... آ... آپ یہ کک..... کیا

کیا... میں کیا؟ پہلے تم بتاؤ جانِ شمس یہ کیا ہے؟ شمس نے شہادت کی انگلی اس کی چین میں پھنسا کر تھوڑا اوپر کھینچا. جزبات سے بوجھل  اور گھمبیر آواز میں اس سے پوچھا.. آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی

یہ......... وہ..... وہ... منال سے بات نہیں بن پا رہی تھی جب لال ٹماٹر چہرہ اسی کے سینے میں چھپا لیا. شمس قہقہہ لگا کر ہنس پڑا..

ہاتھ بڑھا کر لائٹ آف کی.

کمرے میں معنی خیز خاموشی تھی.. شمس اپنی اتنے سالوں کے انتظار تڑپ اور محبت کا خراج وصول کر رہا تھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا.

آج بھی وہ ظلم کے پہاڑ توڑتی ملٹی کلر کے لہنگوں میں گھونگھٹ میں ہی تھیں..

پر آج دولہوں کی طرف سے بڑا سکون اور خاموشی تھی. جیسے کچھ پہلے سے انھیں سرپرائز دینے کا کوئی پلان طے کر کے بیٹھے ہوں.

سفید کلف لگے شلوار قمیض میں پیلے رنگ کی  چنریاں گلوں میں ڈالے وہ شہزادے لگ رہے تھے..

نازیہ بیگم نے ان کی نظر اتاری.. اسی محفل میں دو نظریں تاشی کی جانب بڑی حسرت اور حسد سے اٹھ رہیں تھیں. 

فنکشن ختم ہوا.. تو وہ اپنے کمروں میں آ گئیں...

تاشی نے چینج کیا..... اب وہ روز ٹراؤزر کے اوپر یش کی ہڈی ہی پہن کر سوتی تھی.

بیڈ پر بیٹھی.... موبائل فون میں اس کی آج کی پکس دیکھ کر مسکرائی

یش...... اچھا ہے... یو ڈیزرو اٹ... اسے تنگ کر کے تپا کر بہت انجوائے کر رہی تھی..

یہ جانے بغیر کہ وہ تمام حساب کتاب لینے چپکے سے بالکونی میں اینٹر ہو چکا تھا.

مگر اس کے آنے سے پہلے کھڑکی سے اس کی  خوشبو اندر آئی اور تاشی کو الرٹ کر گئی.

وہ بے تحاشا چونکی.. پھر ایک بھی پل ضائع کیے بغیر بجلی کی سی تیزی سے اٹھی... اور واش روم میں گھس کر خود کو لاک کر لیا.

یش اس کی پھرتی ملاحظہ فرما چکا تھا... پر صرف ہلکی سی پیٹھ نظر آئی...

وہ بھنا کر واش روم کے دروازے تک آیاَ.

تاشی کے تو اوسان یوں خطا ہوئے کہ یش اس کے جسم پر اپنی ہڈی نا دیکھ لے..

Tashi that's not fair.... Jaan

باہر  آؤ.. نہیں تو میں دروازہ توڑ دوں گا.. اب اور پیشنس نہیں رکھ پا رہا میں....

وہ جی جان سے لرزی... مگر یونہی دم سادھے کھڑی رہی.پھر آخر بولی...

ی........... یش... پلیز.... مجھے پریشان مت کریں..... اور ویسے بھی تاشی ناراض ہے آپ سے..اس نے منہ پھلایا

یش کے چہرے پر گہری مسکان  آئی.. کیوں........ اور میری تاشی کیوں ناراض ہے مجھ سے... رہی بات پریشان کرنے کی وہ تو کل کرنے والا ہوں میں.. آج کچھ نہیں کہوں گا.بس دیکھنا ہے تمھیں . باہر آؤ.. تاشی.. ذومعنی لہجہ..

 تاشی پھر لرزی....

ی........ یش..... پپ... پلیز...آپ کو میری قسم..

تاشی نے بات ہی ختم کر دی.... 

Ok.  I am going..

بٹ........ کل تو نہیں ناں دو گی قسم..میں کچھ سنوں گا بھی نہیں.. تاشی...میرے اتنے سالوں کا انتظار اور عشق تمھیں اپنی چھوٹی سی جان پر بھگتنا پڑے گا..آئی سوئیر

یہ کہہ کر.. اسے چھیڑ کر وہ جا چکا تھا..

جبکہ تاشی نے اگر دروازہ نا تھاما ہوتا تو کب کی نیچے جا پڑتی.

وہ کانوں تک سرخ ہوئی... 

اسے پتہ تھا.. قسم کی وجہ سے یش جا چکا ہوگا... اس لئے اطمینان سے باہر آئی...

باہر آ کر گہرا سا سانس لے کر اس کی خوشبو اندر اتاری.

بھاگ کر بیڈ تک آئی..

بیڈ پر چاکلیٹس، تازہ پھول اور ایک مخملیں ڈبیہ میں وائٹ گولڈ نازک بریسلیٹ تھا...

گہری مسکراہٹ لبوں پر آئی...

Oohh.. Yash I Love you so much

اپنے آپ سے خود ہی بول کر خود ہی شرم سے دوہری ہو گئی....

ادھر رخ نے قسم کھا رکھی تھی رزم کو کانٹوں پر گھسیٹنے کی.... جب وہ چپکے سے روم میں داخل ہوا تو خالی کمرہ منہ چڑھا رہا تھا.. واش روم میں دیکھا وہ بھی خالی تھا.

اسے شاید اپنے دولہے کی اتنی خاموشی اور سکون ہضم نہیں ہوا تھا اسی لئے ڈرنے کے بہانے نازیہ نیگم کی آغوش میں جا گھسی تھی..

اور اب رزم جھنجھناتا پیر پٹختا وہاں سے نکلا تھا..

کوئی بات نہیں ڈارلنگ... کل کا دن تو ہمارا ہوگا. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟😂😂

یہ دن بے حد روشن تھا.... 

جو بہت سی امیدیں، خوشیاں اور کامیابیاں لے کر طلوع ہوا تھا.

بہت گہما گہمی تھی...

این مینشن میں سب تیار ہو رہے تھے.

آف وائٹ ہلکے گلے پر کامدار شیروانیوں میں وہ شہزادے لگ رہے تھے..

ادھر عابد ہاؤس میں بھی پالر والی گھر میں ہی ان کو تیار کرنے آئی ہوئی تھی..بلڈ ریڈ لہنگوں میں وہ آسمان سے اتری پریاں لگ رہیں تھیں..

تاشی کے چہرے پر تو الگ ہی قسم کا الوہی روپ آیا تھا.. محبت کو پا لینے کی خوشی جو اتنی تھی.

مگر ماہی کے چہرے پر خود ساختہ فکریں تھیں جو وہ کسی سے شئر نہیں کر سکتی تھی.

تاشی تیار تھی... ماہی کو  پالر والی فائنل ٹچ دے رہی تھی.

جب تاشی کو نازیہ بیگم سے کوئی کام پڑا..... کمرے میں ان تینوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا.. اسی لئے وہ اوپر سے آواز دینے خود ہی کمرے میں سے نکلی ابھی سیڑھیوں تک پہنچی ہی تھی.. جب سیڑھیوں سے سمیر اوپر آتا دکھائی دیا.

وہ اسے دیکھ کر بے اختیار مبہوت ٹھٹھک سا گیا تھا... اپنی جگہ بلکل ساکت.. کاٹو تو بدن میں لہو نہیں 

اس کی خود پر سر تا پا غلیظ سی نظروں سے تاشی کو کراہیت سی محسوس ہوئی تو جھنجھنا کر پیچھے مڑی.

زری پلیز میری بات سنو... جو بھی ہوا اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی.. میں تمھیں سب سچ بتاتا ہوں..

مجھے تمھاری کسی بات سے اب کوئی دلچسپی نہیں ہے اب میں کسی اور کی امانت ہوں.. مجھے یوں دیکھنا بند کرو... اور دور رہو مجھ سے... 

تاشی بری طرح جھڑکتی جلدی سے کمرے میں گھس گئی...

وہ پیچھے سے سانپ کی طرح پھنکار کر رہ گیا.... ایک تو اس کا یہ روپ دیکھ کر اپنے حصے میں آئے خساروں کو وہ تول رہا تھا کیونکہ زری کے سامنے کروڑوں کیا عربوں ٹھکرائے جا سکتا تھے...

دوسرا کسی اور کی امانت..... وہ جھنجھنایا

ہونہہ...اتنی پارسا..... جب میری امانت تھی تب تو خیال نہیں آیا..... کسی نامحرم  کی بانہوں میں رات گزارتے وقت یہ پارسائی یاد نہیں آئی.. میرے حصے میں خسارے آئے تو تمھیں کیوں خوش رہنے دوں.. زری بی بی...

وہ زہر خند سا اپنے زہن میں شیطانی منصوبے بناتا رہا.

تاشی اندر آ کر ہر خیال جھٹک کر سکون سے بیٹھ گئی... بارات چل پڑی تھی. یش کے ذومعنی میسجز آئے جا رہے تھے... تبھی فون رنگ ہوا.

اسے لگا یش کی کال ہے

دھڑکتے شور مچاتے دل سے کال یس کر کے فون کان کو لگایا

مگر سامنے سے جو آواز سنائی دی اس حلق تک کڑوا ہو گیا.

اففف اب اسے کیا تکلیف ہے.. وہ جھنجھلا کر فون رکھنے والی تھی کہ

سمیر نے زہر اگلا... 

زری... پلیز فون مت رکھنا..میں تو بس تمھیں ایک سچائی.. ایک حقیقت بتانا چاہتا تھا. مجھے تمھیں طلاق دینے کے لئے ایک کروڑ دیے گئے تھے.. اور یہ کرنے والا کوئی اور نہیں تمھارا وہ رئیس زادہ یشار خان یوسف تھا.تم مانو گی نہیں میں نے سٹام واٹس ایپ کیا ہے تمھیں. جو اپنے بھائی کے نام سے اس نے مجھے دیا. اگر وہ مجھے صرف پیسے دیتا تو میں کبھی نہیں مانتا مگر اس نے مجھے کہا کہ...... وہ کچھ پل کے لیے خاموش ہوا 

تم وہ ایک رات اس کے ساتھ گزار چکی ہو.. اس لئے میں بھٹک گیا تھا زری...وہ اچھا انسان نہیں ہے... تم میرے پاس واپس آ جاؤ.. میں پیسے واپس کردوں گا.. اور سب کو سچ بتا دوں گا.. . وہ رئیس زادہ پیسے پھینک کر تمھیں بس چند دن جی بہلانے کے لئے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے.. ایک رات سے جی جو نہیں بھرا.............

شٹ اپ یو باسٹرڈ....... تاشی غرائی... اُس کو چھوڑو.. وہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے.. تم اپنی سناؤ نیچ اور گھٹیا انسان... اپنی یہ نیچ حرکت مجھے اتنے فخر سے بتانے سے پہلے چُلّو بھر پانی میں ڈوب مرتے...جو ایک کروڑ کے لئے اپنی منکوحہ بیچ سکتا ہے وہ کل کو دو کروڑ کے لئے اپنی بیوی بھی بیچ دے گا.... اسی لئے آئندہ مجھے اپنی منحوس شکل دکھانے یا آواز سنانے سے پہلے سو بار سوچنا...

یہ کہہ کر تاشی نے فون تو بند کردیا.. مگر عابد ہاؤس کی چھت جیسے اس کے سر پر گری تھی.

تصویر کھول کر دیکھی.. سٹام کی تھی.. ہر چیز واضح تھی.

مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ پیسوں والی بات کے علاوہ سمیر نے جو اس کے  یش کی طرف سے باتیں بتائیں تھیں جھوٹ تھیں.. نری بکواس

مگر پیسے.... تاشی تڑپ ہی تو گئی...

یش آپ کو مجھے اتنا ارزاں نہیں کرنا چاہیے تھا.. آپ کے عشق میں تو اتنی طاقت تھی کہ جس نے میرا دل بدل دیا اور میں جلد ہی بابا سے کہنے والی تھی.. کہ مجھے سمیر سے نہیں آپ سے شادی کرنی ہے.

مگر آپ نے میری قیمت دے کر مجھے دوسروں کی نظروں جی بہلانے کا سامان بنا کر  بے مول کر دیا... وہ سسکی.

بارات پہنچ گئی تھی.. مگر اب تاشی کو سامنے دہکتی آگ دکھائی دے رہی تھی جو اس کے وجود کو جلا کر خاکستر کر رہی تھی.

بارات آئی... انھیں نیچے لایا گیا.

وہ شہزادوں کی سی آن بان رکھنے والے قوم کے ہیرو بھی ایک مرتبہ ان کو دیکھ کر اپنا آپ بھول گئے تھے.. نظر تھی کے ہٹتی نا تھی... دل تھا کہ پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو ہوا.

انھیں اپنے دولہوں کے پہلو میں بٹھایا گیا..

یش اس نازک سی جان کی بے سکونی اور بے قراری نوٹ کر رہا تھا.. مگر اسے فطری ڈر اور اپنے بابا کا گھر ہمیشہ کے لیے چھوڑ جانے کا دکھ سمجھا.

ماہی بھی پہلو بدل رہی تھی.. رزم سکون سے بیٹھا اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا تھا.. اور ہنسی روکنے کے لیے دانتوں تلے لب دبا رہا تھا. 

.. رسمیں ہوئیں.. کھانا کھایا گیا.

اور رخصتی کا بھی وقت آن ہی پہنچا..

دلہنوں نے بابا اور نازیہ بیگم سے لپٹ کر خوب دل کی بھڑاس نکلالی.. منال بھی پاس کھڑی سوں سوں کرتی رہی.

پاگل بہنیں....... رزم بڑبڑایا.. یش نے واضح سنا.. اور دانت تلے لب دبایا.

بے تحاشا خوبصورتی سے سجائی گئی گاڑیوں میں تاشی کو یش اور ماہی کو رزم کی پہلو میں بٹھایا گیا... یوں لگتا تھا کے وقت کے امیر نئی دنیا فتح کر کے آئے ہیں. 

گاڑیاں این مینشن کی جانب رواں دواں تھی..

کہ رزم کے فون پر میسج رنگ ہوا... اوپن کر کے دیکھا تو تاثرات پریشانی میں ڈھلتے بلکل دیر نا لگی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

این مینشن میں جشن کا سماں تھا... تمام رسمیں ہو چکی تھیں...منال اور حرا نے تمام رسمیں نبھائی تھیں 

آخر تھکن سے چور دلہنوں کو ان کے کمروں میں پہنچا دیا گیا تھا.... یش لاؤنج میں سب کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف تھا...خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی.

رزم اچانک پتہ نہیں کہاں گیا تھا.

جب یش کے موبائل پہ رزم کا میسج آیا...

باہر لان میں آؤ..

یا اللہ خیر.......... یشار بڑبڑاتا باہر آیا..

باہر وہ لان میں درختوں کے پاس سنجیدہ سا کھڑا تھا.

خیریت....

No... I have a bad news for you.

واٹ....... یش فکر مند ہوا... لیکن اگر وہ نیوز تاشی کے بارے میں ہے تو پلیز یار آج نہیں...

رزم خاموش ہو گیا...

اوکے... ناؤ ٹیل می واٹ ہیپنڈ؟......

شمس لالہ نے ایک کروڑ دیا سمیر کو تاشی کو طلاق دینے کے لیے....

واٹ..... رزم نے یش کے سر پہ بم پھوڑا

یس..... مجھے لالہ کی جانب سے  شک تھا کہ کچھ گڑ بڑ ہے.. اسی لئے اعظم کو توڑا.. وہ لالہ کا اتنا وفادار ہے کہ سولجر بن کر توڑتا تو کبھی منہ نہیں کھولتا... تمھاری طرف سے اموشنل بلیک میل کرت ہوئے ایک چھوٹا بھائی بن کر توڑا تو آج اس نے مجھے یہ ڈیٹیلز سینڈ کر دیں.

رزم نے موبائل یش کے سامنے کیا.. تمام ڈیٹیل پڑھتے ہی اس کا سر گھوم گیا..

ہاتھ سے ماتھا سہلاتا بولا.. اب بس یہ سب تاشی کو نا پتہ چلے... یار وہ مجھے غلط نا سمجھے..

تم اس معاملے میں بھی بد قسمت ہو یشار...رزم کا چہرہ شدید اشتعال سے سرخ تھا

کیا مطلب....... یشار ٹھٹھک گیا.

اس الو کے پٹھے کی تمام ڈیٹیلز اور فون ریکارڈز نکلوائیں تو پتہ چلا اس نے آج تاشی کو کال کی تھی... مجھے شک ہوا اسی لئے کال کی ریکارڈنگ بھی میرے پاس موجود ہے.

اگر پیشنس رکھنے کا پرامس کرو تو سنا دیتا ہوں..لیکن مجھے پتہ ہے یہ ریکارڈنگ سننے کے بعد تمھاری ہاکی ایک خون کی پیاسی ہو جائے گی. 

یشار کی رگیں تنی تھیں... اوکے... پرامس... کچھ نہیں کروں گا... سناؤ..

رزم نے ریکارڈنگ آن کر کے یش کے کانوں میں ہینڈ فری لگائے...

جیسے جیسے سنتا گیا.. یش کی آنکھیں اور چہرہ لہو ٹپکانے لگا..

ریکارڈنگ ختم ہوئی تو یش نے ہینڈ فری  اتار کر رزم کی جانب بڑھائے.

اور اندر کی جانب جانے لگا پھر رکا..اور دانت پیس کر بولا

زرا اس خبیث کو اپنے ٹارچر سیل کہ ہوا تو کھلاؤ تاکہ وہ دوسروں کی بیوی تو کیا اپنی بیوی کو بھی فون کر کے  جھوٹی بکواس کرتے ہوئے ہزار  مرتبہ سوچے..

ابھی یہی کام کر کے آرہا ہوں.... رزم نے اطمینان سے کہا.

یشار جھنجھلایا سا اندر کی جانب بڑھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اپنے عجلہ عروسی کے لئے سجائے گئے کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا یش پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے پاؤں جھلاتا اندر کے غم و غصے اور اشتعال کو دبانے کی کوشش کر رہا تھا..

اففف لالہ یہ کیا کیا آپ نے میرے ساتھ.... میری محبت بے مول کر دی اس کی قیمت دے کر.. بہت ارزاں کر دی..

مگر یہ بھی سوچ رہا تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو  محبت کا حصول ناممکن تھا.

پر اب اس کا سامنا کیسے کرے جس کی سسکیاں اسے دروازے کے اِس پار تک سنائی دے رہیں تھی. پر اب سامنا تو کرنا تھا ناں...

اسی لیے ایک بہت گہرا سانس بھرا... اور چٹختے اعصاب کو   شانت رکھنے کی کوشش کرتا اندر داخل ہوا اور دروازہ لاک کیا...

موتیے کے سفید پھولوں ، سرخ گلابوں اور روح میں بسے اس نازک سے وجود کی خوشبو سانسوں میں سمائی.

سامنے ہی وہ پھولوں کی مسہری پر باریک اور دبیز سفید جالی دار پردوں کے پیچھے گھٹنے فولڈ کیے چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رونے کا شغل فرما رہی تھی.

بلڈ ریڈ بھاری کامدار لہنگے میں دوپٹہ سر پر سیٹ کئے بھورے بال آگے دائیں جانب گرا کر خوبصورت ہیر سٹائل میں چھوٹ چھوٹے موتی. یش کے دل پر قیامت گزر رہی تھی. اگر چہرہ دیکھ لے تو پھر تو ہوش ہی اڑ جاتے.

آہٹ پر خود میں سمٹی مگر ہاتھ پھر بھی نا ہٹائے..

تاشی.... جزبات سے بھر پور گھمبیر بھاری بوجھل  آواز میں اسے پکارا یہ بتانے کے لئے کہ وہ جس وجہ سے اپنے اتنے قیمتی پلوں میں اپنے اتنے قیمتی آنسو بے مول کر رہی ہے اس میں یش کا زرا برابر بھی قصور نہیں پر اگلے پل جو سنا..... یش کو لگا اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلا گیا ہے. 

یش...... ہچکچائیے مت.... آگے بڑھیں اور اپنی قیمت وصول کریں..

کڑے ضبط کی انتہا سے یش کے  گلے کی اور ماتھے کی رگیں یوں تنی تھیں  جیسے ابھی پھٹ پڑیں گی. لال انگارہ چہرہ اور آنکھیں لئے وہ مڑ کر  واپس دروازے کی جانب بڑھا تھا.

جب وہ  ظالم پری ایک جھٹکے سے بیڈ سے اتر کر اس کے سامنے آئی تھی. بھیگے چہرہ آواز رندھی ہوئی پر پھر بھی یش کی روح اور دل کو بری طرح روند رہی تھی.

ایک کروڑ زیادہ ادا کر دئیے یش آپ نے میرے... میں تو اس سے بھی زیادہ بے مول اور ارزاں تھی...

یش کا ضبط اب جواب دینے لگا تھا.. پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے مٹھیاں بہت زور سے بھینچی ہوئی تھیں. جب اس نے پھر اس کی سائیڈ سے نکل کر باہر جانا چاہا..

تاشی نے یک دم خود سے دوپٹہ نوچ کر پرے پھینکا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا کوٹ دبوچ لیا.

یش...کہاں جا رہے ہیں... میں نے کہا ناں وصول کیجئے اپنی قیمت... آگے بڑھیں

یش نے بری طرح دانتوں تلے اپنے لب کچلے.. جب اس کی نازک کلائیاں پکڑی تو گرفت میں بہت سختی تھی.. کئی چوڑیاں چٹخ کر اس کی کلائیوں اور یش کے ہاتھوں میں پیوست ہوئیں تھیں. وہ سسکی

یش نے ایک جھٹکے سے اپنا کوٹ چھڑایا اسے پیچھے بیڈ پر گرایا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا...

وہ تو چلا گیا... 

پیچھے تاشی اوندھے منہ بیڈ پر گری پھوٹ پھوٹ کر رو دی..

وہ تن فن کرتا سٹڈی میں داخل ہوا تھا.. کرسی پر بیٹھکر تیزی سے پاؤں جھلاتا اندر اٹھتے اشتعال کے طوفان کو دبانے کی کوشش کرتا رہا...جتنے غصے میں تھا اگر ایک پل بھی اندر رہتا تاشی کا گلا خود اپنے ہاتھوں سے ہی نا دبا دیتا...

اففففففففففف......

کیا سوچا تھا کیا ہوا.

کاش کے انسان جو سوچتا ہے ہمیشہ ویسا ہی اچھا اچھا ہوتا.

شمس کسی کام سے سٹڈی میں داخل ہوا تھا. جب اسے اس دگرگوں حالت میں وہاں غصہ پیتے بیٹھے دیکھا.

ایک سیکنڈ بھی نا لگا اسے بات کی تہہ تک پہنچتے..

سنجیدگی سے اس کی جانب بڑھا اس کے سامنے آ کر پینٹ کی پاکٹوں میں ہاتھ ڈالے بولا.

یشار..... تمھیں کیا لگتا ہے میں نے غلط کیا ہے؟

نہیں لالہ... آپ نے بلکل ٹھیک کیا.. اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو اپنے بھائی کی خوشی کے لئے پتہ نہیں کیا کر بیٹھتا.

لال انگارہ آنکھیں موندے اس نے جواب دیا.

جاؤ... اسے حقیقت بتاؤ.... کہ تمھارا اس چیز سے کوئی لینا دینا نہیں...

نہیں لالہ... میں اپنے غم و غصے کو کنٹرول نہیں کر پا رہا ہوں... ابھی نہیں جا سکتا اس کے پاس..

ہیڈ کوارٹر سے کال آئی ہے مجھے ابھی جانا ہوگا. رزم کو اس بارے میں مت بتانا... نہیں تو وہ بھی پیچھے چلا آئے گا

یہ کہہ کر وہ اٹھا... سٹڈی سے ملحقہ سیکرٹ روم میں گیا.. یونیفارم کی پینٹ کے اوپر بلیک ہڈی پہنے وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا.. 

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم کمرے میں داخل ہوا.....لاک لگایا اور دھیمے قدم اٹھاتا آگے بڑھا.

موتیے اور گلابوں کی خوشبو چہار سو بکھری ہوئی تھی.. 

سامنے ہی وہ نازک سی گھٹڑی گھونگھٹ نکلالے بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے ہلکے ہلکے کپکپا رہی تھی.

وہ قریب گیا... بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھا.

تو وہ اور خود میں سمٹ گئی..

رزم نے مہربان سی مسکراہٹ سمیت اس کا گھونگھٹ پلٹایا. رخ کے چہرے پر واضح گھبراہٹ تھی.وہ مبہوت سا دیکھے گیا. 

رخ.... تمھیں پتہ ہے میں تمھیں کب سے اور کتنی محبت کرتا ہوں... کہتے اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک مخملی ڈبیہ نکالی... ایک خوبصورت رنگ اس میں سے نکالی اور ہاتھ آگے بڑھایا..

May i.......

وہ ایک مرتبہ پھر پوچھ رہا تھا.... .اب تو غنڈہ موالی نہیں ناں سمجھتی مجھے... سنجیدگی سے پوچھا. مگر آنکھوں میں واضح شرارت تھی.

اس نے شرمندگی سے نظریں جھکائیں.. رزم نے اس کا کپکپاتا ہاتھ ہاتھوں میں لیا اور رنگ پہنا دی.

ہلکے سے جھک کر اس کے ہاتھ پر محبت کی مہرثبت کی.

جزبوں سے بوجھل دہکتا لمس... رخ جی جان سے لرزی اور بے اختیار ہاتھ کھینچنے کی کوشش کی..

او...... ہوں... نہیں جان... آج تو بلکل بھی نہیں... کوشش بھی مت کرنا مجھ سے گریز کی.

یہ کہتے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر زور سے اپنی جانب کھینچا.

وہ ٹوٹی ڈال کی طرح اس کے چوڑے سینے سے آ لگی. وہ اس کی گردن پر جھکا تھا..

رزم کے پگھلاتے لمس میں بہت شدت تھی.

ماہی کا دماغ پھر جھنجھنایا..

یہ اتنی محبت کرتے ہیں مجھ سے.. میں ان کی پاکیزہ  محبت کے قابل نہیں.. میرے ساتھ جانے کیا کیا ہو چکا ہے..

وہ تڑپ کر پیچھے ہٹی...

رزم چونکا....

کیا ہوا رخ..؟

وہ....... وہ..... رزم....... مم... مجھے..... کک... کچھ. وقت.. چاہیے...

رزم کے ماتھے پر بل آئے..

No.... I need you jaan right now...

یہ کہہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر اسے اپنی جانب کھینچا.. بانہوں میں بھرا.... اور اس کی سانسیں اپنی سانسوں میں الجھائیں..

مزاحمت دم توڑ چکی تھی. رزم آنکھیں بند کیے اپنی محبت اپنا عشق محسوس کر رہا تھا جب اپنے گریبان میں کچھ گرم سیال گرتا محسوس ہوا.

اس نے نرمی سے اسے چھوڑ کر سر جھکا کر دیکھا تو تڑپ گیا..

اس کے بے تحاشا بہتے آنسو تھے جو اس کے گریبان میں قطرہ قطرہ گر رہے تھے..

وہ ہاتھوں میں چہرہ چھپائے پھوٹ پھوٹ کر رو دی.

اب کچھ اور کہنے سننے کو بچا ہی نا تھا..

وہ خاموشی سے اٹھا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا.

شمس سٹڈی میں بیٹھا اپنی کنپٹیاں سہلا رہا تھا.. جب دھیمے سے دروازہ کھول کر رزم اندر داخل ہوا.

شمس سخت جھنجھلایا..

برخوردار.... کہیں تمھیں بھی تو ہیڈ کوارٹر سے فون نہیں آ گیا...

بھی.............. مطلب یشار........ رزم سمجھ کر سخت جھلایا.

پاگل بہنیں... وہ بڑبڑاتا تن فن کرتا باہر چلا گیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

رزم بھی جا چکا تھا

شاید دونوں فلیٹ میں گئے تھے...

شمس نے ٹھنڈی آہ بھری اور اعظم کو کال ملائی فون پہلی بیل پر ہمیشہ کی طرح رسیو کر لیا گیا..

جی سر... حکم

اعظم تم نے یشار کو سمیر کے متعلق بتایا.... ؟

جی سر... اس نے قبول کیا.

اور تاشی کو؟

سمیر نے سر... رزم بابا نے مجھے ریکارڈنگ بھیجی.. وہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں.. بس اسی لیے بتایا کہ یشار بابا بہو کی یہ غلط فہمی دور کر سکیں.

بھیج دو اور اس دن والی بھی بھیجو.. جب اس خبیث سے ڈیل ہوئی تھی.. اور اب مجھے وہ اس شہر میں نا نظر آئے..

وہ تو سر... رزم بابا نے پتا نہیں کیا درگت بنائی اس کی..... پہلے ہی ملک  چھوڑ کر بھاگ گیا ہے..

ٹھیک ہو جو کہا ہے وہ کرو...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

شمس نوال کے کمرے میں آیا تو منال اس کے انتظار میں جاگ رہی تھی.

ریڈ پاؤں تک میکسی پہنے ہلکا سا تیار ہوئی وہ قیامت ڈھا رہی تھی.

آپ نے مجھے انتظار کرنے کو کیوں کہا... اور کمرے میں جانے سے کیوں منع کیا.. وہ حیران ہوئی.

سرپرائز جانِ شمس.. وہ آگے بڑھا اور اسے بازوؤں میں بھرا.

یہ.... کک... کیا کرہے ہیں شمس... کوئی دیکھ لے گا...وہ مچلی

شمس کو دل میں ہنسی آئی اپنے بھائیوں کی درگت پر.. پھر بھی ہنسی ضبط کر گیا.

کوئی نہیں ہے.. چپ بلکل چپ.. وہ اسے یونہی اٹھائے روم تک لایا..

کلوز یورز آئیز ڈارلنگ.....

مگر شم.......

نو اگر مگر....

منال نے آنکھیں بند کیں.. وہ کمرہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا لاک لگایا..

منال کی سانسوں میں گلاب اور موتیے کی خوشبو بسی.

آنکھیں کھول سکتی ہو جان.

اس نے آنکھیں کھولیں تو حیران ہوئی... پھر بے تحاشا شرم سے چہرہ لال سرخ ہوا..

اس کمرے کو بھی بلکل باقی دلہنوں والے کمروں کی طرح سجایا گیا تھا..

بیڈ پر گلابوں سے ہارٹ شیپ بنی ہوئی تھی.

پورا کمرہ پھولوں سے جیسے بھر دیاگیا تھا.

میرے کمرے کی پہلی والی سجاوٹ تو میری جان کو پسند نہیں آئی تھی.. اس لئے اس کی حالت بگاڑ دی..

منال شرمندہ ہوئی.مگر شمس کی آنکھوں میں واضح شرارت تھی.

اب میں نے سوچا کیوں نا دوبارہ ٹرائی کیا جائے..

منال نے شمس کے سینے میں منہ دیا

شمس پلیز مجھے نیچے اتاریں..میں نے چینج کرنا ہے. 

اتار دوں گا جان... مگر نیچے نہیں.. بیڈ پر... وہ کہتا اسے بیڈ پر لٹا کر اس پر جھک چکا تھا.

بہت قریب ہوا اور اس کے ہاتھ میں ایک بریسلیٹ پہنا دی.

یہ رہی منہ دکھائی... اور اب اس سپیشل نائٹ کا باقی کا کام شروع کریں..

شمس قسم سے آپ بہت خراب ہیں.. وہ روہانسی سی ہو کر اس کے سینے میں منہ دے گئی.

شمس نے قہقہہ لگایا اور محبت کا خراج لینے اسے مکمل اپنی آغوش میں لیا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

اگلا دن بے حد بوجھل سا تھا.

وہ رات یونہی روتے ہوئے کب نیند کی وادی میں اتری پتہ ہی نا چلا.. سر بہت بھاری ہو رہا تھا.. کمرہ ہنوز خالی تھا..

اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں...

یش پوری رات ہی کمرے میں نہیں آئے.. اور اب تک کدھر ہیں... اب اسے اپنے ہتک امیز رویے اور اتنے سنگین الفاظ کا احساس ہوا تو تڑپ گئی... 

ابھی اٹھ کر سیدھی ہی ہوئی تھی... کہ دروازے پر ہلکی سی ناک ہوئی....

اس نے جلدی سے اٹھ کر خود پر دوپٹہ لپیٹا اور دروازہ کی جانب بڑھی..

دروازہ کھولا.. تو نظریں جھک گئیں...

اسلام و علیکم... شمس لالہ...

جیتی رہو.. شمس نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا.. وہ دروازے سے ہٹی شمس دھیمے سے اندر آیا

بیٹھیے نا لالہ.... وہ صوفے پر بیٹھا...

بیٹھو مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے..

وہ بیڈ پر ٹک گئی.

یشار کہاں ہے؟ شمس نے جان بوجھ کر پوچھا.

اس کی نظریں دوبارہ جھکیں.. اور نروس ہو کر ناخن چبانے لگی.

مجھے تمھارے اور یشار کے بارے میں مری میں پتا چلا... یشار بہت بکھرا ہوا تھا.. میں نے کبھی اس کی وہ حالت نہیں دیکھی جو اس دن تمھیں کھونے کے ڈر سے اس کی ہو گئی تھی... وہ بھی مرنے والا ہوا تھا.

بس اسی لئے ایک بھائی کی تڑپ اور تکلیف ایک بھائی سے دیکھی نہیں گئی اور میں نے وہ سب کر دیا... مطلب سمیر سے وہ ڈیل میں نے کی تھی...

تاشی بے تحاشا چونکی..

یشار کو تو تمھاری طرح کل ہی اس بارے میں پتہ چلا.. وہ سب میں نے کیا.. اگر اسے تمہیں کسی غلط طریقے سے پانا ہوتا.. تو کب کا پا چکا ہوتا.. تمھارے کمرے تک جاتا رہا ہے.. آگے تم خود سمجھدار ہو.

یہ مت سمجھنا کہ میں اپنے بھائی کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہوں.. ویڈیو بھیجی ہے تمھیں دیکھ لو..شاید اسی دن کے لئے رکھی تھی تاکہ تم یشار کو غلط مت سمجھو.

وہ کہتا اٹھا... ایک مرتبہ پھر اس کے سر پر ہاتھ رکھا.. اور وہاں سے نکلتا چلا گیا... وہ پتھرائی سی بیٹھی تھی

تاشی... شمس لالہ کی ہر بات پہ ایمان لے آئی تھی...

فون میں ویڈیو دیکھی... اور سر تھام لیا.

اففففف... تاشی ڈوب مرو......اپنے آپ کو کوسا.... الو کی پٹھی..... ایک مرتبہ سن تو لیتی کے یش کیا کہنا چاہتے تھے... اور بنا سوچے سمجھے جو منہ میں آیا بک دیا... تم نے سوچ بھی کیسے لیا کہ یش  صرف تمھارا جسم........... چھی...... گدھی... اگر ایسا ہوتا تو وہ مری کی اس بھیانک رات کو کیوں پیچھے ہٹتا جب تم مکمل بے بس اور اس کی دسترس میں تھی..

Shhhiiiiitttttttttt

پچھتاوے تھے کہ ناگوں کی طرح ڈس رہے تھے.. لیکن پھر کھوپڑی الٹی گھومی...

اونہہہ کیا تھا جو تھوڑی وضاحت کر دیتے.... بیشک مجھے ڈانٹ دیتے... جھڑک دیتے مگر کچھ تو کہتے... اور اب تک مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر پتہ نہیں کدھر خوار ہو رہے ہیں.

مطلب حد ہو گئی. وہ ناراض ہیں تو میں بھی ناراض ہوں مجھے کیوں چھوڑ کر گئے..سخت تلملائی

اور اب تو میں کتنا مس بھی کر رہی ہوں....وہ بھی بہت سارا... فون چیک کیا نا کوئی میسج نا کال... 

وہ جھلائی.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ناشتے کی ٹیبل پر سب موجود تھے.... عابد اور نازیہ بیگم ان کا ناشتہ لے کر آئے تھے

حرا قیصر اور بچے سب خوش گپیوں میں مصروف تھے..

مگر ان میں سے دو نفوس تھے جو بہت بے چینی سے بار بار پہلو بدل رہے تھے.ایک تاشی اور دوسری رخ. ان کی یہ بے قراری ہر کوئی معنی خیزی سے نوٹ کر رہا تھا.

نظریں بار بار ڈائینگ ہال کی کھڑکی میں سے داخلی بڑے سے دروازے کی جانب اٹھتیں اور مایوس واپس پلٹ آتیں.

لیکن تاشی کو حیرت تو اس بات کی تھی کہ گھر والے تو کیا..... خود بابا اور مما نے یش اور رزم کے بارے میں پوچھا ہی نہیں کہ وہ کہاں ہیں ناشتے پر کیوں نہیں موجود...

وہ اس بات سے انجان تھی کہ ان سب کو پتہ تھا کہ وہ کہاں ہیں.

بڑی مشکل سے چند نوالے زہر مار کیے.. ان کو تو کچھ اچھا ہی نہیں لگ رہا تھا... ماہی بھی ساری رات آگ کے بستر پر پہلو بدلتی رہی مگر نا نیند آئی نا آنسو رکے.. وہ خود اپنی کیفیت سمجھنے سے قاصر تھی کہ کیا چاہتی ہیں.. شاید اندر کہیں محبت بری طرح اپنی جڑیں پھیلانا شروع کر چکی تھیں تبھی اس دشمنِ جاں کی تلاش میں بار بار نظر بھٹک رہی تھی.

وہ جلد ہی ناشتے کی ٹیبل سے اٹھ آئی....

بے چینی حد سے سوا تھی..

یونہی فون اٹھا کر چیک کیا تو رزم کا میسج تھا... بے تحاشا خوش ہو کر میسج ریڈ کیا تو پھر روح فنا ہوئی.. جیسے جسم سے جان کھینچی گئی ہو.

جان.... بہت ہی خطرناک مشن پر ہوں... دعا کرنا شہید ہو جاؤں... تمھاری اور میری جان چھوٹ جائے گی اس روز  روز کی اذیت سے.....

صرف تمھاری محبت میں پاگل.. تمھارا رزم

وہ بیڈ پر گر پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور اس ستمگر  کے سہی سلامت لوٹنے کی دعائیں مانگنے لگی....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی بے چینی سے کمرے میں ادھر ادھر ٹہل رہی تھی.

عابد اور نازیہ جا چکے تھے....

یہاں تو کسی نے ولیمہ کی تقریب کا بھی ذکر نہیں کیا تھا.

 دولہے ہی غائب تھے.

بار بار آنکھیں بھی ڈبڈبا رہیں تھیں. 

صبح کی چھتیس سو مرتبہ یش کو کال ملا چکی تھی. مگر فون سوئچ آف تھا.

اور اب تو دوبارہ رات ہونے کو آئی تھی..

اب تو  تاشی ماہی بے آب کی طرح تڑپ رہی تھی.

جب بے چینی حد سے سوا ہوئی تو  کمرے سے باہر آئی..

سٹڈی کا دروازہ ہلکا سا ناک کر کے اندر  داخل ہوئی

شمس لیپ ٹاپ پر کام میں بزی تھا..

آؤ... گڑیا... ادھر کیوں کھڑی ہو... اندر آ جاؤ.ادھر بیٹھو 

وہ آئی اور اندر ان کے پاس رکھی چیئر پر بیٹھ گئی.

بری طرح انگلیاں چٹخاتی بے چینی سے پہلو بدل رہی تھی

شمس سمجھ گیا وہ ہچکچا رہی ہے.. اسی لیے نرمی سے بولا... گڑیا پوچھ لو جو پوچھنا ہے..... ہچکچاؤ مت

وہ.... لالہ...... وہ کدھر ہیں..... شمس کے اصرار پر اس نے جھجھکتے پوچھ ہی لیا.

شمس کی مسکراہٹ گہری ہوئی.. وہ کون.. اسے چھیڑا.. حالانکہ جانتا تھا کہ وہ اپنے یش کے لیے بے قرار ہے

لالہ..... پلیز.. وہ روہانسی ہوئی... شمس نے قہقہہ لگایا...

وہ سخت جھنجھلائی.

لالہ یش کدھر ہیں.. اب کے بار اس نے جھلا کر پوچھ ہی لیا...

 شمس سنجیدہ ہوا....

گڑیا... کیا تمھیں پتہ ہے کہ تمھارا یش پاکستانی آرمی کا انٹیلیجنس آفیسر ہے.....

تاشی کی آنکھیں حیرت اور صدمے سے  پھیل گئیں...

لالہ.... یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ.. وہ جی جان سے لرزی.

ہاں...بیٹا...سچ ہے یہ... اور اس وقت وہ ایک انتہائی خطرناک مشن پر ہے.. کچھ غیر ملکی صحافیوں کو دہشت گردوں نے پکڑ لیا.... انھیں ایمرجینسی کال آئی.. تو وہ انھیں چھڑانے چلے گئے...

بہت ہی نڈر بہادر بے خوف اور طاقتور ہیں قوم کے بیٹے..مرد مجاہد... دشمن تھر تھر کانپتا ہے یش کی ہاکی اور رزم کی گن سے...... مجھے میرے بھائیوں پر فخر ہے. بس دعا کرو غازی ہو کر لوٹیں... نہیں تو شہادت ملنے کی تمنا تو ہر مرد مجاہد کی پہلی آرزو ہے.

شمس کے ہر لفظ پر تاشی کا چہرہ خطرناک حد تک سفید پڑ چکا تھا...

کہ شمس بھی گھبرا گیا اسے اپنی سنگین غلطی کا احساس ہوا.

وہ یا تو اب اسے حقیقت نا بتاتا یا پھر مشن کا نا بتاتا..

گڑیا گھبراؤ نہیں دعا کرو....وہ جلد سہی سلامت لوٹ آئیں. گھبراؤ نہیں..

وہ ایک جھٹکے سے اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی تھی.

کمرہ لاک کیا بیڈ پر گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی..

مسہری کے پھول بھی مرجھانے لگے تھے..

یش......... تڑپ کر پکارا.... پلیز ائم سوری..... مجھے معاف کر دیں.... اب کبھی آپ کو تنگ نہیں کروں گی....

پلیز واپس آ جائیں....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

چار دن گز چکے تھے.... ننھی سی جانوں کو سولی پر لٹکے.

پر انتظار تھا کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا.

وہ این مینشن میں بولائی بولائی سی پھرتی رہتیں. 

ماہی بھی کوشش کرتی رہی... مگر نمبر سوئچ آف تھا. نا دوباہ  کوئی کال آئی نا میسج.

کچھ بھی نہیں....

شمس لالہ نے کالج کہ مائیگریشن بھی کروا دی تھی یہاں سے قریبی کالج میں..

وہ کالج جانا بھی سٹارٹ کر چکی تھیں.

اعظم کی زمہ داری تھی.. انھیں پک اینڈ ڈراپ کرنا...

یونہی طبیعت کچھ زیادہ ہی بوجھل سی ہوئی تو منال کے ساتھ قریبی شاپنگ مال آ گئیں.. انھیں بھی کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں...

تینوں مختلف کلر میں کرتی.. پٹیالہ شلوار اور سکارف لئے ہوئیں تھیں...

منال نوال کے لئے بے بی گارمنٹس میں چلی گئی تو وہ دونوں قریبی بکس سٹال کی طرف بڑھ آئیں.

مختلف بکس کو دیکھتے وہ آپس میں باتیں کر رہیں تھیں کہ کچھ عجیب سا محسوس ہوا..

سامنے دیکھا تو دو بڑی بڑی مونچھوں اور داڑھی والے پٹھان سر پر پگڑیاں باندھی ہوئیں تھیں... بوسکی آف وائٹ سوٹ.. پیروں میں پشاوری چپل.. پختونی اجرک پہنے ایک کی گال پر بڑا سا مساہ اور ایک کی گردن پر...عجیب اول جلول سے

بڑے زوق و شوق سے ان دونوں کی جانب دیکھنے میں مصروف تھے..

گدھے......الو کے پٹھے... تاشی بڑبڑائی..

ماہی کو بھی تپ چڑھی.... 

مگر دونوں پھر بکس کی طرف متوجہ ہو گئیں.. اب دقت تو یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جا رہی تھیں وہ نمونے کچے دھاگے سے بندھے ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے...

ان کی تو میں....... ماہی ایک مرتبہ آپے سے باہر ہوئی... مگر تاشی نے اسے دبوچ لیا....

کہاں کی شاپنگ کونسی شاپنگ..

موڈ فل خراب ہو چکا تھا.

اوپر سے آپی میڈم بھی پتہ نہیں کہاں غائب تھیں.. پارکنگ کی طرف آئیں..

اعظم صاحب بھی غائب تھے.. وہ تو سائے کی طرح ان کی حفاظت کرتا تھا.

آج کیا ہوا تھا

ابھی وہ گاڑی کے پاس آ کر کھڑی ہی ہوئیں تھیں... کہ جانے کہاں سے وہ پاگل پٹھان نکل کر ان کے قریب چلے آئے.

ایک تاشی کی جانب آیا اور ایک ماہی کی جانب...

اوو. ماڑا. دیکھو سمندر خان یہ تو بلکل امارا گل جاناں کی طرح دکھتا اے.... اے ناں..... وہ نیلی آنکھوں میں شوق کا جہان لیے تاشی کی جانب دیکھتا بولا

اور یہ بلکل امارا پھول جاناں کی طرح اے... امارا جان...

ہے ناں طوفان خان..... دوسرے نے بھی ماہی کی جانب  گرے آنکھ دباتے ہوئے شوشا چھوڑا...

دونوں کے دماغ گھومے تھے....

تاشی بھنا کر بولی.. اے پاگل پٹھان... چپلیں کھانی ہیں کیا.. دفع ہو جاؤ یہاں سے...

ماہی بولی... لگتا ہے انھیں اپنی ہڈیاں تڑوانی ہیں..

اے گل جاناں... اماری جان ایسے مت بولو... نہیں تو ہم تمھیں اٹھا کر لے جائے گا..وہ پھر بولا

اے کیا بکواس کر رہے ہو.... میرے ہبی کو پتا چلا تو وہ ہاتھ توڑ دے گا تمھارا..تم جانتے نہیں انھیں... ہڈیاں سلامت نہیں چھوڑیں گے.. 

اس نے اچانک تاشی کا ہاتھ تھاما تھا... اور دوسرے نے ماہی کا...

پھر ان کو آ کر بولو... مرد کا بچہ اے تو آ کر توڑے امارا ہاتھ..ہم چیونٹی کی طرح مسل کر رکھ دے گا ان کو... اور ان کے سامنے اٹھا کر لے جائے گا تم کو اماری جان..

اے پاگل چھوڑو مجھے.... .تاشی غرائی..اس ستمگر کا احساس آس پاس تھا مگر وہ خود کہیں نہیں تھا.. نا یش نے اس کی تاشی کو چھونے..... اس کی جانب ہاتھ بڑھانے والے کا ہاتھ توڑا تھا ابھی تک... اسے ڈھیر سارا رونا آیا.

چھوڑو مجھے ورنہ منہ نوچ لوں گی... ماہی غرائی... وہ کیا تمھیں پوچھے گے... تم دونوں چھچھوروں کے لئے تو ہم ہی کافی ہیں..

ماہی نے اچانک ہاتھ چھڑا کر اپنی چپل نکالی تھی... تاشی نے بھی ہمت کر کے ہاتھ چھڑایا اور پاؤں سے سینڈل نکالا.

ساری عاشقی ہرن ہو گئی...

او ماڑا ہماری جان تو بوت ظالم اے..پر جلد ام آئے گا.. تمھارے گھر میں گھس کر تمھیں اٹھا کر لے کر جائے گا. پھر امارا بارہ بچے بھی ہوں گے. 

اس پاگل نے تاشی کو نظروں میں بھر کر کہا.

اور دوسرا ماہی کی جانب متوجہ تھا... نہیں بارہ تو کم ہیں بھائی امارا تو چودہ ہوگا...

وہ دانت پیس کر ان بدتمیزوں کی جانب لپکی... جب وہ وہاں سے تیر کی طرح بھاگے...

زلیل... کمینے..... الو کے پٹھے....

 یش وئیر آر یو... تاشی کی آنکھیں ڈبڈبائیں اور وہ رو پڑی...

پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ اس کی جانب بڑھنے والا. ہاتھ توڑا نہیں گیا تھا.

ارے تاشی.... کیوں دل پر لیتی ہو... یونہی اکیلی لڑکیاں دیکھ کر بکواس کر رہے تھے... تم ڈرو نہیں یار... یش اور رزم کا پتہ ہے ناں... ان کی ایک بھی ہڈی سلامت نہیں رہے گی..

اتنے میں ہی منال اور اعظم کہیں سے نکل کر سامنے آئے تھے.

جانے کیوں مگر ان کے چہروں پر معنی خیز سی چمک اور شرارت تھی.

تاشی میڈم رونے کا شغل فرما رہی تھی..

ارے تاشی کیا ہوا.. منال یکدم پریشان ہوئی

کچھ نہیں آپی اور اعظم انکل آپ لوگ کدھر غائب ہو گئے تھے... دو لوگ ابھی اتنی بدتمیزی کر گے گئے ہمارے ساتھ.. تاشی اسی لیے ہرٹ ہوئی ہے..

منال نے دانتوں تلے لب دبایا..

اچھا بیٹھو تم لوگ گاڑی میں.. گھر چلتے ہیں...

وہ گھر آ گئے....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

پانچ دن بعد وہ اپنے مشن پہ سے کامیاب اور غازی بن کر لوٹے تھے..

یشار کے کندھے کے گوشت میں گولی لگی تھی... مگر چھو کر گزری پھر بھی زخم گہرا تھا.

رزم کو بھی کافی چوٹیں آئیں تھیں کیونکہ سامنے معمولی دشمن نہیں خطرناک دہشتگرد تھے.اسی لئے وہ ابھی گھر نہیں جانا چاہتے تھے 

سارے دشمن  جہنم رسید کر دئے گئے تھے..

یہی تو ان کی خاص بات.... نا وکیل نا عدالت نا جج... اپنا انصاف خود کرتے تھے.

اپنے فلیٹ میں واپس آ گئے جب پتہ چلا کہ ایک دہشت گرد شہر میں کھلے عام دندناتا پھر رہا ہے..

اس کے تعاقب میں  مکمل بھیس بدل کر نکلے تو مال میں اپنی زندگیوں سے ٹکرا گئے.

پھر اتنے دنوں کی کوفت، بے زاری اور ان کی بے رخی کا بدلہ برابر کرنے کی ٹھانی..

اور پھر انھیں چھیڑ بیٹھے.. منال اور اعظم کو بتا دیا.. اور ساتھ ملا لیا.

وہ سہی سہم گئیں تھیں.. مگر جب چپلیں نکالیں تو خوب ہنسی آئی..... آگے بھی ناک میں دم کرنے کا فل پروف پروگرام تھا ان کا.. اب اتنا انھوں نے ستایا کچھ تو بدلہ لینا تھا ناں..

کالج میں دو دن ان کا پیچھا کیا.. مختلف ذو معنی جملوں سے انھیں پریشان کرتے رہے.

کالج سے واپسی پر گھر تک بائیک پر پیچھا کیا...

انھیں پٹا کر بہت مزا آ رہا تھا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

یش.... پلیز واپس آ جاؤ... آئی مس یو سو مچ......

رو رو کر آنکھیں بھی خشک ہو چکی تھیں مگر اس ستمگر کی ایک بھی جھلک دیکھنے کو ناں ملی.وہ شام کے وقت بے چینی سے لان میں چہل قدمی کر رہی تھی.. 

اوپر سے وہ بد تمیز طوفان خان نامی عذاب مسلسل سر پر نازل ہو گیا تھا..

وہ سخت جھنجھلائی ہوئی تھی.

او...... اماری جان....... امارے بارے میں ہی سوچ رہا ہے... لگتا ہے...

اپنے ہی گھر میں وہ اس آواز پر اچھلی...

تمھاری تو درگت میں بنواتی ہوں آج..... وہ غرائی.. اور چلا کر سکیورٹی گارڈز کو بلانے والی تھی کہ اس نے ایک ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر ایک ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر  اسے درخت سے لگایا..

امارا... نام طوفان خان ہے میری جان.... ام نہیں ڈرتا کسی سے....

وہ اس غیر کی گرفت میں بری طرح مچلی... اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے.

اس کے آنسو دیکھ کر یش نے اسے فوراً چھوڑ دیا... اور دیوار پھلانگ کر غائب ہو گیا.

 💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ماہی اپنے کمرے میں بکس پھیلا کر بیٹھی تھی..

جب آہٹ محسوس ہوئی

تاشی پلیز ایک کپ کافی کا بنا دو.. سر بہت بھاری ہے..

مگر جب جواب میں کچھ سنائی نہیں دیا تو سر اٹھا کر سامنے دیکھا اور

بھونچکی رہ گئی..

سامنے ہی وہ سمندر خان کھڑا دانت نکال رہا تھا.. اس کی جان لبوں پر آئی.

فورا اٹھ کر باہر بھاگی جب بیچ راستے میں  وہ اسے اپنی مضبوط گرفت میں لے چکا تھا.

اس نے چلانے  کو منہ کھولنا چاہا...

تو رزم نے جھک کر  اس کی آواز بند کی اور اس کی سانسیں اپنے سینے میں اتاریں...

وہ بری طرح تڑپی.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

آج تو حد ہی ہو گئی تھی... اس بیغیرت انجان اور غیر آدمی نے اسے اتنے قریب سے چھوا.. یش کی غیر موجودگی میں 

اسے شدید رونا آ رہا تھا.. تلملاتی اپنے کمرے میں داخل ہوئی. ملگجہ سا اندھیرا تھا.

 تھوڑی آگے بڑھی تو غم وغصے اور شدید صدمے سے شاکڈ رہ گئی...

وہ پاگل آدمی اس کے بیڈ پر  سکون سے لیٹا ببل چباتا پاؤں جھلا رہا تھا..اسے دیکھتے ہی صدقے واری گیا

چشمِ بد دور اماری گل جاناں... آؤ.. آؤ امارے قریب آؤ.. تبھی تو امارہ بارہ بچہ لوگ آئے گا دنیا پہ..

زلیل... الو کے پٹھے... پاگل پٹھان..... تمھاری تکہ بوٹی تو آج میرے لالہ بنائیں گے..تاشی نے دانت کچکچائے

اس سے پہلے وہ واپس مڑ کر دوڑ لگاتی وہ بجلی کی سی تیزی سے اٹھا.. اور دروازے پر ہی اس کی پشت سے پیٹ پر ہاتھ رکھے بہت مضبوطی سے اسے خود میں بھینچا.

پاگل پٹھان کی پاگل پٹھانی.... تم کیوں بھول گئی اے کہ دنیا پہ تم کو صرف ام ہاتھ لگا سکتا ہے..اام چھو سکتا اے.

یش نے اپنا داڑھی مونچھوں والا منہ اس کے بالوں میں گھسایا. 

تاشی غصے سے بل کھاتی اب بھی نا سمجھی کہ اسے دنیا میں صرف کون ہاتھ لگا سکتا ہے.

نیچے جھک کر اس کے بازو میں سختی سے دانت گاڑھے.. دانتوں تلے لب دباتے یش نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کی. اور جان بوجھ کر گرفت ڈھیلی کر دی..

کیونکہ اسے اپنی جان کی بھیگی آنکھیں محسوس ہو گئیں تھیں. 

تاشی اس کی گرفت میں سے نکل کر باہر بھاگی.. افتاں و خیزاں شمس اور منال کو بلا کر لائی.

سامنے وہ اطمینان سے ہاتھ باندھے کھڑا تھا

لالہ... لالہ.. یہ وہی کمینہ انسان ہے.. جو بار بار مجھے پریشان کر رہا ہے.. ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتا ہے.یہ میرے قریب آیا.. اس نے مجھے........... . مجھ سے بری بری باتیں کرتا ہے.. کہتا ہے  مجھے اٹھا کر لے جائے گا.. پھر بارہ بچے ہونگے... تاشی رو رو کر  اپنی آپ بیتی سنا رہی تھی.

شمس اور منال کے چہرے ہنسی ضبط کرنے کے چکر میں لال ٹماٹر ہو گیے تھے..

یش کا بھی چہرہ خفت سے لال ہوا.. امید نہیں تھی.. اس کی پاگل پٹھانی اس کی محبت کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوڑے گی.

شمس نے آگے بڑھ کر اس کا کان مروڑا... منہ سے مساہ اور داڑھی مونچھیں صاف کیں...اور چہرہ صاف کیا.

کیوں.. کمینے... میری گڑیا کو اتنا پریشان کیوں کر رکھا ہے تم نے..

اتنے میں ہی ماہی چیخ وپکار کرتی اپنے کمرے سےباہر بھاگی آئی.

لالہ... وہ خبطی پٹھان میرے کمرے میں آ گیا ہے.. اور بد تمیزی کر رہا ہے.

شمس اور منال نے ماتھا پیٹا...

تاشی ہکا بکا اپنے یش کو سامنے دیکھ کر غش کھانے والی ہو گئی.. بے تحاشا شرم، خفت ہونق زدہ  سی اندر بھاگ گئی.

اب رزم ماہی کے پیچھے قہقہے لگاتا باہر آیا تھا.

وہ شمس کے پیچھے چھپی  بھل بھل آنسو بہا رہی تھی..

اب شمس نے رزم کے کان کھینچ کر اس کا حلیہ درست کرنا شروع کیا تو ماہی تو صدمے سے آنکھیں پھاڑیں.

اپنے بےوقوف بنائے جانے پر تن فن کرتی اپنے کمرے میں بھاگ گئی..

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ صوفے پر شدید قسم کا منہ پھلائے بیٹھی تھی.

یش کی ابھی دو دن کی گستاخیاں یاد کیں تو شرم سے دوہری ہو گئی..

اس کی خوشبو اپنی روح میں بسا رہی تھی.اس ستمگر کی سہی سلامت واپسی ہی سکون کے لیے کافی تھی.

. مگر بے وقوف بنائے جانے پر نخرے دکھانا بھی ضروری تھا... 

یش فریش ہو کر واش روم سے نکلا...

مگر شرٹ پہنی ہوئی تھی.. کہیں گھر میں جسی کو اس کا زخم نہ دکھائی دے جائے.. اور تاشی تو اور ہراساں ہو جاتی.

بے بی پنک فراک گلے میں پنک سکارف اور وائٹ ٹراؤزر میں آج سے آٹھ سال پہلے کی تاشی لگ رہی تھی. جب اس سے سخت قسم کا ناراض ہو کر منہ پھلا کر ایک جگہ بیٹھ جاتی تھی..

یش  نے دانت تلے لب دبایا...

ڈریسنگ کے سامنے تولیے سے بال رگڑتا اس کا عکس اپنے دل میں اتارتا رہا..

آپ نے مجھے بے وقوف بنایا؟ آخر تاشی ہی بولی.

نہیں جان.. بنے بنائے کو بنانے کی کیا ضرورت ہے..بظاہر سنجیدگی سے کہتا وہ بے حد شرارت سے بولا..

یش.... وہ چلائی... آپ کا مطلب میں بنی بنائی بے وقوف ہوں....

نہیں پر پاگل پٹھان کی پاگل پٹھانی ضرور ہو....اور الو کے پٹھے کی  پھٹی ہو... 

یش .ہاؤ ڈئیر یو..... میں چھوڑوں گی نہیں آپ کو..وہ کہتی یش کی جانب لپکی... مگر وہ کہاں اس کے ہاتھ آنے والا تھا... چھپاک سے کمرے سے باہر بھاگ چکا تھا.

وہ دانت پیس کر رہ گئی.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ شدید غصہ ضبط کرتی بیڈ پر بیٹھی پاؤں جھلا رہی تھی..

ایک تو پہلے اتنا جان لیوا میسج بھیجا..

اوپر سے اتنے دن سے یہ بے ہودہ مزاق...

اعصاب چٹخنے کو تھے. جب وہ فریش سا واش روم سے باہر نکلا....

ستم تو یہ کہ وہ ہمیشہ کی طرح الجھ بھی نہیں رہا تھا اس سے.. ڈریسنگ کے سامنے کھڑا بڑے سکون سے بال برش کر رہا تھا 

الجھتا تو رخ دل کی بھڑاس نکال لیتی..

چٹختے اعصاب سے تنگ آ کر بھناتی اس کی جانب بڑھی.

گریبان سے پکڑ کر رزم کا رخ اپنی جانب کیا.

آپ کی ہمت کیسے ہوئی.. مجھے وہ میسج کرنے کی.. اور میرے ساتھ اتنا بے ہودہ مزاق کرنے کی..

ہمت تو ابھی میری دیکھی نہیں تم نے جان.. یہ کہہ کر اس نے رخ کی نازک کمر کو اپنی آہنی گرفت میں لیا...ہمت تو بہت ہے. مگر تم بتاؤ تمھیں کیا فرق پڑتا ہے میں جیوں یا

م...........

رخ نے تڑپ کر اس کے منہ پر ہاتھ رکھا.. اور پھوٹ پھوٹ کر روتی اس کے سینے میں چہرہ چھپا لیا.

اتنے دنوں کی بے چینی، بے سکونی، تڑپ اور اس کی فکر اب آنسوؤں کی صورت غبار باہر آ رہا تھا..

رزم نے سکون سے آنکھیں موند کر اس کے گرد بازوؤں کا گھیرا مزید تنگ کیا.

کہ ایک مرتبہ پھر وہ ہتھے سے اکھڑ گئی.....

چھوڑیں مجھے....... بہت برے ہیں آپ... میں نے بات ہی نہیں کرنی آپ سے... خبردار مجھ سے بات کی.

وہ نازک ہاتھوں کے مکے اس کے چوڑے اور آہنی سینے پر برسا رہی تھی..

جب اس کی دونوں کلائیاں پکڑ کر اس نے رخ کی کمر کے پیچھے فولڈ کی اور اسے تھوڑا اوپر اٹھایا.

چلو ٹھیک ہے میری جان..... آج کی رات بلکل بات نہیں کریں گے.... مگر ایک اور کام تو کر سکتے ہیں ناں...

جی بھر کر پیار کریں گے اوکے...

وہ یہ کہتا اس کے چہرے کے ایک ایک نقش پر اپنے ہونٹوں کا سلگتا نرم گرم لمس چھوڑ رہا تھا...

اس سے پہلے وہ مزاحمت کرتی...

رزم اسے اپنے بازوؤں میں بھر چکا تھا..

رخ کی جان پر بنی....

وہ اسے بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر جھکا... اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی مہر ثبت کی...ماتھے سے گردن تک آیا. 

وہ کسمسائی....رز.......رزم.... وہ... مم.... میں

رخ...جزبات سے بوجھل گھمبیر آواز تھی.... سب بھول جاؤ... صرف مجھے اور میری محبت محسوس کرو...رزم نے اسکے اپنے اور اس کے بیچ رکاوٹ بنتے ہاتھ ہٹا کر بیڈ سے لگائے.

میں نے تمھیں کتنی شدت سے چاہا... میری چاہت محسوس کرو...

وہ آنکھیں بند کیے اسے پور پور اپنی محبت کی بارش میں بھگو رہا تھا...

رزم...مم.... میں آپ کی پاکیزہ محبت کے قابل نن... نہیں. وہ کہتی سسک پڑی.

واٹ...... رزم کے جزبات بھک سے اڑے تھے...اس سے دور ہوا..وہ اٹھ کر فوراً دور ہوئی اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی.

. اتنا تو جان چکا تھا کہ وہ بھی اس سے محبت کرنے لگی ہے مگر کچھ تو تھا... جو غلط تھا..

رخ... میری جان.... تمھارے دماغ میں کیا چل رہا ہے.. فورا مجھے بتاؤ...ابھی کہ ابھی شئر کرو مجھ سے... میں تم سے اس قدر محبت کرتا ہوں.. یہ میرا حق ہے کہ تم اپنی ہر پریشانی مجھ سے شئر کرو.

اس نے نرمی سے پوچھا

وہ... رزم.... وہ... مجھے کڈنیپ... انھوں نے مم.. مجھے انجیکشن لگایا.. اس... کک.. کے بعد.. مجھے.. کک... کچھ بتا نہیں.. مم. میرے ساتھ کیا ہوا.. مم... میں آ.... آپ کے قابل نہیں..

اس کے ٹوٹے پھوٹے جملوں سے ہی  ساری بات سمجھ کر رزم جھنجھنا اٹھا

رخ پاگل ہو کیا...مجھے جانتی ہو ناں.ہم وقت پر پہنچ گئے تھے.. کچھ بھی نہیں ہوا تھا اس دن.. کچھ بھی نہیں.. تمھیں با حفاظت لائے تھے ہم..

رخ نے بے یقینی سے اسے دیکھا... رزم نے سر تھام لیا.اور اس کی جانب افسوس سے دیکھتا بولا. تو اتنے دن سے میری پاگل بیوی یہ بے ہودہ بات سوچ سوچ کر ادھ موئی ہوئی جا رہی ہے.... ربش.

آ... آپ... مجھے ایسے.. ہی بہلا... رہے ہیں... وہ پھر پٹڑی سے اتری...

نہیں سچ بول رہا ہوں... لیکن اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتا بھی تو تم میرے لئیے اتنی ہی پاکیزہ ہوتی جتنی کہ اب ہو... فرشتہ صفت..... دنیا کی کوئی غلاظت تمھارا دامن داغدار نہیں کر سکتی... میری نظر میں...

میری محبت کو سمجھو رخ... مجھے سمجھنے کی کوشش کرو...

وہ روتی بسورتی ٹس سے مس نا ہوئی تو رزم نے ٹھنڈی آہ بھری..

اوکے... تمھاری تسلی کے لیے میں صبح تمھیں ہوسپیٹل لے جاؤں گا... وہاں ہوسپیٹل ریکارڈز میں اپنی رپورٹس دیکھ لینا میری پاگل وائفی....

رخ نے سوں سوں کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا. 

اور اگر جو تم یہ خرافات اپنے زہن میں پال کر بیٹھی ہو وہ رونگ ثابت ہو گئے تو کل رات خود بخود........ خود کو میرے سپرد کر دینا... وہ بے حد شرارت سے بولا تو وہ خود میں سمٹ گئی...

چودہ کیا یہاں تو چار کے بھی آثار نظر نہیں آتے... رزم با آواز بلند بڑبڑایا. تو رخ بلش کر گئ.

اچھا ادھر آو...

وہ ہچکچائی...

رخ کچھ نہیں کروں گا یار.... ادھر آؤ...

وہ قریب آئی.. رزم نے بیڈ پر نیم دراز ہو کر اسے بانہوں میں بھر کر سینے میں بھینچا... 

سو جاؤ....

لیکن..........

رخ... بحث چاہتی ہو تو جاگنا پڑے گا... جاگی تو میری شدتیں برداشت کرنی پڑیں گی ابھی... اسی لیے کہہ رہا ہوں سو جاؤ.

رخ نے عافیت اسی میں جانی کے اس کے سینے میں منہ دییے سو گئی...

اسے سکون سے سوتے دیکھ رزم بھی گہری نیند میں چلا گیا.....

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

وہ بیڈ پر بیٹھی انگلیاں چٹخاتی یش کا انتظار کر رہی تھی.

جب وہ دروازہ کھولتا سنجیدگی سے اندر داخل ہوا..

تاشی کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئیں.

وہ ڈریسنگ روم میں گیا...اور تھوڑی دیر بعد یونیفارم کی پینٹ کے اوپر براؤن ہڈی پہنے باہر نکلا...

تاشی... آرام کرو جان... میں ضروری کام سے جا رہا ہوں.. شاید ساری رات واپس نا آؤں... ویٹ مت کرنا... سو جانا.

وہ الماری میں منہ دئے پتہ نہیں کیا ڈھونڈ رہا تھا.

تاشی سخت بد مزہ ہوئی... کاش اسے کہہ سکتی.. یش مت جاؤ... یہیں رہو میرے پاس... مجھے آپ کے بغیر کچھ اچھا نہیں لگتا...

مگر کچھ بھی کہہ نہیں پائی.. یونہی بیٹھی بے چینی سے انگلیاں چٹخاتی رہی...

اونہہ.... میری اس بکواس کی وجہ سے مجھ سے بھاگ رہے ہیں... کھل کر بات نہیں کر سکتے مجھ سے.. کیا ہے جو تھوڑی وضاحت دے دیں.... وہ دل میں تلملائی..

اور سچ بھی یہی تھا... تاشی کا یش اس سے بھاگ رہا تھا..

وہ اس پر ایک بھر پور نظر ڈال کر کمرے سے نکلا.. کمرہ آٹو لاک ہو گیا. وہ باہر نکلتا چلا گیا..

پیچھے وہ کانٹوں پر گھسیٹ لی گئی تھی..

چہار سو کمرے میں اس کی خوشبو تھی مگر وہ نہیں تھا..

رات کے بارہ بج چکے تھے.. مگر اب تو کروٹیں بدل بدل کر بھی تھک گئی تھی..

یش کو باہر ایک پل بھی سکون نہ آیا... دل تھا کہ اپنے گھر اپنے کمرے میں اس دشمن جاں کے قدموں میں ہی کہیں رہ گیا تھا.... بے چینی حد سے سوا تھی... جسم یوں ٹوٹنے لگا جیسے آڈکٹ ہو تاشی کا.. اسی لئے فلیٹ سے فورا واپسی کی راہ لی. بھاڑ میں جائیں ساری غلط فہمیاں..... اسے بس اپنی تاشی کے پاس جانا تھا.. 

تاشی  کروٹیں بدل بدل کر فل بیزار ہوئی... مگر نیند نے نہیں آنا تھا نا آئی.. وہ جھنجھلا کر اٹھ بیٹھی..

اب کیا کروں؟

یونہی وقت گزاری کے لیے اٹھ کر بڑے سے کمرے میں گھوم پھر کر دیکھا...

پھر الماری کی طرف گئی.....

وہاں یش کی چیزیں پڑی تھی... ڈریسنگ کھول کر دیکھی..

ایک سیکرٹ کیبن  تھا الماری میں.....

پاسورڈ انگلش ایلفا بیٹ میں لگا تھا.

اور تاشی کو یش کے پاسورڈ کا نہ پتہ ہوتا... یہ سوچنا تو مزاق ہی تھا.

اس نے جلدی سے تاشی ملایا.. کیبن کھل گیا.. کیبن میں ڈھیر ساری ہاکی...بلیک اور اسی طرح کے ڈارک کلرز میں ہڈی والی ٹی شرٹس اور رومال رکھے ہوئے تھے..

جانے کیا سوچ کر ایک ہاکی،.  ایک ہڈی اور ایک رومال اٹھایا اور کیبن دوبارہ لاک کر دیا...

ہاکی اور رومال ڈریسنگ پر رکھا... اور واش روم گئی...

تھوڑی دیر بعد باہر آئی تو اپنے مہرون ٹراؤزر اور مہرون شارٹ شرٹ کے اوپر یش کی بلیک ہڈی پہنی ہوئی تھی...

باہر آئی... آئینے میں خود کا بھر پور جائزہ لیا... رومال اٹھایا... منہ پر نقاب کی طرح باندھا... اور ہڈی سر پر لی

Wow......... Not bad Tashi...... That's great.........

Yash.......... little part 2.      Hahahahha

خود ہی کھلکھلا کر ہنس دی یہ جانے بغیر کے اس کی ایک ایک حرکت قدرے اندھیرے میں دروازے میں اطمینان سے ٹیک لگائے کھڑا یش گہری مسکراہٹ سے دیکھ کر انجوائے کر رہا ہے.

اب اس نے ہاکی اٹھائی.ایک ہاتھ ہڈی کی پاکٹ میں ڈالا.. اور یش کی طرح اٹیٹیوڈ سے ہاکی بائیں ہاتھ میں گھمانے لگی...

یش کا بے ساختہ  قہقہہ بلند ہوا....... وہ بے تحاشا گھبرا کر اچھلی... تیزی سے گھومتی آہنی ہاکی... نازک سے پیر پر جا بجی.....

آؤچ......... تاشی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی... یش تڑپ کر اس کی جانب بڑھا.

یش کو دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوئے...

بھاگ کر واش روم میں جا کر بند ہونا چاہا... مگر پیر نے   بےوفائی کر دی.. بھاگ نا سکی اسی لئے یش کی مضبوط اور آہنی گرفت میں پھنس گئی...

اب کہاں چل دیں ہنی... زرا مجھے بھی تو دیکھنے دو... Yash little part 2

تاشی کانوں تک سرخ تھی. 

یہ کہہ کر اس نے ہڈی نیچے کرتے ہوئے شہادت کی انگلی پھنسا کر چہرے سے رومال نیچے کیا.. ایک ہاتھ سے اس کو کمر سے مضبوطی سے تھامے خود سے لگایا ہوا تھا..

یش.... پلیز...اور آپ نے کہا تھا کہ آپ پوری نائٹ گھر نہیں آئیں گے.جھوٹے.. یش کی جسم پگھلاتی دہکتی قربت سے گھبرا کر اور اپنی خفت مٹانے کو وہ اسی پر چڑھ دوڑی.

شکر ہے آگیا... ورنہ Yash little part 2 کو دیکھنا تو مس کر دیتا.. وہ مسلسل اسے چھیڑ رہا تھا...

خوشبوؤں میں بسا نرم و نازک گداز وجود.... تاشی کا وجود... اس کی قانونی اور شرعی ملکیت کا وجود اس کی بانہوں میں تھا...

یش کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی

ی.......... یش...... یش..... آج پھر اس کے کپکپاتے لبوں سے اپنا نام سن کر یش کی جان لبوں پر آئی...

اس نے بے خود سا ہو کر تاشی پر سے ہڈی اتاری... اسے بانہوں میں بھر کر اپنی جانب کھینچا اور اس کے نرم اور گداز لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لیا...

یش کے بھڑکتے لمس کی شدت تاشی کی چھوٹی سی جان پر بن آئی تھی... اس نے سختی سے یش کی ٹی شرٹ ہاتھوں میں جکڑی ہوئی تھی..

یش کے ہاتھ اس کے پچھلے گلے کی ڈوری میں الجھے... جھٹکے سے ڈوری ٹوٹ کر اس کے موتی کارپٹ پر جا بجا بکھرے تھے.

تاشی کی سانس اکھڑنے لگی....اگر یش نے مضبوطی سے تھاما نا ہوتا وہ کب کی پگھلتی زمین بوس ہو چکی ہوتی. 

یش نے نرمی سے اس کے لبوں کو  آزادی بخشی...

اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا...... اور خود اس کے اوپر جھکا..اس کے دونوں ہاتھوں میں اپنے ہاتھ پھنسائے.. 

یش.............. وہ... مم..... میں..تاشی اس کا پاگل پن سہہ نہیں پا رہی تھی.. 

یش کا فوکس  تاشی کے کپکپاتے لب ہی تھے... وہ ایک مرتبہ پھر محبت کا جام پینے اس کے بھیگے لبوں پر جھکا...

تاشی مچلی.....تڑپی...

اس کی بڑھتی جسارتیں تاشی کی روح فنا کر رہی تھیں.

وہ لبوں پہ سے اس کی گردن تک آیا....

اس کے کندھے پر اپنے ہی دانتوں کے نشان دیکھے..

ایک سیکنڈ لگا تھا جب تمام جزبات بھک سے اڑے تھے...

اسے چھوڑ کر سیدھا ہوا....

یش کو اپنے آپ سے بے حد خوف محسوس ہوا.. کچھ اور الفاظ کانوں میں گونجے... .. قیمت......... وصول..... 

گہرے گہرے سانس بھرتی تاشی کو کھینچ کر سینے پہ لٹایا.

سو جاؤ تاشی.....

ی.............. یش

شششششش...... سو جاؤ... تاشی... میری شدتیں برداشت نہیں کر پاؤ گی ابھی....... . مر جاؤ گی....

تاشی اب اپنے یش کی پناہوں میں تھی.. اسی لئے بہت جلد گہری نیند میں چلی گئی...

یش نے گہری سانس لی..... کروٹ لی اور اسے خود میں بھینچا..

اور آنکھیں سکون سے موند لیں......

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح رزم کی آنکھ کھلی تو وہ اس کے بازوؤں میں گہری نیند سو رہی تھی...

چہرے پر الوہی سی معصومیت تھی..

رخ....... اس نے پکارا.. وہ کسمسائی.. مگر اٹھی نہیں..

رزم کو بھی شرارت سوجھی.

اس کی گردن پر جھکا... ہلکی بیئرڈ سے گدگدی محسوس ہوئی..

اس نے نیند میں برا سا منہ بنا کر اسی کے سینے میں فوراً منہ چھپایا.

رزم نے اسے سیدھا کیا... اور اس کے لبوں پر جھکا.

نیند میں جب اسے خود پر ڈھیر سارا وزن اور سانسیں بند ہوتی محسوس ہوئیں تو جھٹ سے آنکھیں کھولی.

رزم کی شرارت سمجھ کر اس کے سینے پر مکا جڑا..

وہ قہقہہ لگاتا پیچھے ہٹا..

وہ لمبے سے سانس بھرتی.. غصے میں پھنکاری..

یہ کیا طریقہ تھا اٹھانے کا رزم... قسم سے آپ بہت بد تمیز ہیں....

میں تو روز اسی طریقے سے اٹھاؤں گا.... ڈارلنگ... بڑا کار گر رہا..... تم فوراً اٹھ بھی گئیں..

رخ دانت کچکچاتی تکیہ لے کر اس کی جانب لپکی...

اب پورا کمرہ جنگ کا میدان بن چکا تھا... رزم اس کے ہاتھ نہیں آ کر دے رہا تھا... اس کے کئی وار خالی گئے.. جب وہ روہانسی ہوئی چند ایک جان بوجھ کر کھا بھی لیے.

یہ تو رزم کے لئے پھولوں کی بارش تھی... جس سے اپنی نازک سی جان ہلکان کر رہی تھی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی سو کر اٹھی..

خود کو یش کی آہنی گرفت میں پایا..

اس کی نیند خراب نا ہو اسی لئے دھیرے سے اپنی کمر پر بندھے اس کے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی..

تاشی کے گھنے لمبے بال آبشار کی طرح یش کے سینے پر بکھرے ہوئے تھے.

.

رات پچھلے گلے کی ڈوری ٹوٹنے کی وجہ سے اب اگلا گلا گہرا ہو گیا تھا.

جس سے جسم کی تمام رعنائیاں واضح ہو رہی تھی... وہ شرم سے دوہری ہوئی.چہرہ لال ٹماٹر ہو گیا.. اس نے ایک ہاتھ سے سارے بال اکٹھے کر کے اپنے گلے پر گرائے.

یہ جانے بغیر کے یش تو اسکے جاگنے سے پہلے کا جاگ چکا تھا

اور اب اس کی ایک ایک معصوم حرکت نوٹ کر رہا تھا. 

.

یش کے اٹھنے سے پہلے تاشی اپنا آپ چھڑوا کر چینج کرنا چاہتی تھی.. مگر پانچ چھ  منٹ کی تھکا دینے والی  مشقت کے باوجود اس کے کسرتی بازوؤں کا حصار توڑ نا سکی اور نڈھال سی ہو کر اس کے سینے پر گر گئی.

یش کا قہقہہ بلند ہوا.. تاشی نے چونک کر سر اٹھایا..

یش............ وہ روہانسی ہو کر چلائی... یش ہنستا چلا جا رہا تھا. تاشی نے اس کے سینے پر چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مکے برسائے..

میں کب سے گھل رہی ہوں آپ کے ان ڈولے والے بازوؤں سے اور آپ تماشہ دیکھ رہے ہیں ... مجھے آپ سے بات ہی نہیں کرنی...چھوڑیں مجھے...وہ یش سے الجھتی اپنی حالت اور سچویشن بلکل بھول ہی گئی. جبکہ یش کی حالت غیر ہو چکی تھی اسے اس طرح دیکھ کر

Yash little part 2

اگر ہمت ہے تو چھڑوا لو مجھ سے اپنا آپ.... یش نے اسے پھر چھیڑا اور  ستایا.

یش پلیز... میں نے چینج کرنا ہے.. چھوڑیں مجھے.رات آپ نے میری شرٹ خراب کر دی.. تاشی کی زبان پھسلی...مگر فوراً دانت تلے لب دبایا.

میں نے کیا کیا..... میں نے تو کچھ نہیں کیا تھا... وہ صاف مکرا....

تاشی کی حیرت سے آنکھیں پھیل گئیں...

اور میری ڈوری کس نے توڑی....... فورا کہہ کر ہاتھوں میں شرم سے منہ چھپایا.

یش کا قہقہہ جاندار تھا.. یہی معصوم ادائیں تو اس کی جان لیوا تھیں..

یش نے کروٹ بدلی اور اس پر حاوی ہوا..

چہرے سے اس کے ہاتھ ہٹائے... جھک کر اس کی بیوٹی بون پر اپنے دہکتے لب رکھے..

تاشی کے رونگٹے کھڑے ہوئے..

یش.......بب....بریک فاسٹ پر سب ویٹ کک... کر رہے ہوں گے......

وہ بیوٹی بون سے اس کی گردن کے تل تک آیا تھا.

تاشی... جزبات سے بوجھل بھاری آواز میں اسے پکارا...

..ی..... ....یش......

ششش.... وہ مکمل اس پر جھکا گردن میں منہ دئیے بولا. تاشی میں جب بھی تمھارے قریب آیا... تو مجھے بس تمھارے اس تل کو اپنے لبوں سے چھونے کی خواہش ہوئی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں....

اس نے ایک مرتبہ پھر اپنے دہکتے  لب اس کے تل پر رکھے...اور اس سے پہلے وہ اپنی باتوں کی وضاحت دیتا 

اور اس سے پہلے کوئی اور گستاخی کرتا.

دروازہ ناک ہوا تھا.. وہ سخت جھنجھلایا.... تاشی کو بھی بلکل اچھا نہیں لگا.. وہ اسے سننا چاہتی تھی.

مگر یش اس سے دور ہوا.... اوراسے گلے کی طرف متوجہ کرتا ڈریسنگ روم میں جانے کا اشارہ..

وہ ہڑبڑا کر اٹھی.. اور ڈریسنگ روم بھاگ گئی..

یش گہرا سا مسکرایا.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ناشتے کی ٹیبل پر ایک اور سرپرائز ان کا منتظر تھا..

شمس لالہ نے ان کا شمالی علاقہ جات میں جانے اور گھومنے پھرنے کے تمام انتظامات مکمل کیے ہوئے تھے

 انھیں آج ہی جانا تھا.

رزم اور یش تو گہرا سا مسکرائے

تھینکس لالہ... مگر مزا تو تب آتا جب آپ لوگ بھی ساتھ چلتے...

نہیں... نوال ابھی چھوٹی ہے... اور ادھر ابھی برفباری کا موسم ہے... تم لوگ انجوائے کرو جا کر... مجھے آفس میں بھی چند بہت ضروری کام ہیں....

تاشی کے چہرے پر خوف کے سائے تھے.. یش نے اس کا ہاتھ دبا کر اسے حوصلہ دیا......

پیکنگ وغیرہ کرنے میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا.

وہ لاہور سے اسلام آباد بائی ائیر آئے.......

پھر وہاں سے اپنی اپنی گاڑیوں میں ایبٹ آباد کے لئے روانہ ہوئے

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ایبٹ آباد میں وہ اپنے ذاتی فارم ہاوس میں آئے تھے

انھیں پہنچتے پہنچتے شام کے سائے گہرے ہو چلے تھے

تاشی میڈم اور رخ تو سارے رستے وقفے وقفے سے سوتی آئیں تھیں

اسی لئے اب فریش سی تھی..

ایبٹ آباد میں آبادی سے قدرے ہٹ کر اونچائی پر بنی یہ چھوٹی سی عمارت جس کا زیادہ تر حص لکڑی سے بنایا گیا تھا خوبصورتی کی مثال تھا.

اس کی پچھلی جانب گھنے درخت اور  پہاڑ کی اونچائی اور اس کے پار اترائی تھی...

تاشی اور رخ پہلی مرتبہ آئیں تھیں اس لئے مبہوت سی قدرت کے حسین نظاروں میں کھوئی ہوئی تھیں 

 عمارت کے پیچھے درختوں کی وجہ سے جنگل سا محسوس ہو رہا تھا.

ڈبل سٹوری عمارت تھی

رزم نے نیچے کمرہ لیا.

اور یش نے اوپر...

نوکر چاکر پہلے ہی موجود تھے.. جنھوں نے رات کے کھانے کا بندوبست کر رکھا تھا.

خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا.. تاشی اور رخ کی کھلکھلاہٹیں اپنے عروج پر تھیں..

کھانا کھا کر  سب اوپر بنی بالکونی میں آ گئے.. دسمبر کے اوائل دن  تھے.. سردی بہت شدید تھی.. ہلکی ہلکی برفباری بھی ہو رہی تھی.

بالکونی میں کھڑے ہو کر گرما گرم کافی پی..... جنگل سناٹا اندھیرا تاشی اور رخ کو تو ڈر سا محسوس ہونے لگا.

یش.... بس اب اندر چلتے ہیں...تاشی سردی سے کم خوف سے زیادہ کپکپائی.

ہاں اندر چلتے ہیں.. رخ بھی بولی

یش نے شرارت سے رزم کو دیکھا.رزم سمجھ گیا.

یشار جب پچھلی مرتبہ آئے تھے.. تو اس پہاڑ سے ایک  نوجوان کی لاش ملی تھی.. کیا اب بھی وہ الٹے پیروں والی دلہن بنی چڑیل اس جنگل میں گھومتی ہوگی...

تاشی اور رخ کی خوف سے آنکھیں پھیل گئیں.. وہ بے اختیا بالکونی کی گرل سے ہٹ کر ان کے پیچھے ہوئیں.

پتہ نہیں یار... مگر پچھلی مرتبہ تو ہم نے بھی جھلک دیکھی تھی.. اس کی.. پر بال بال بچ گئے.. یش نے شوشا چھوڑا

ی...... ی... یش... آ... آپ کیسی بب... بات کر رہے ہیں.. مم... مجھے ڈر لگ رہا ہے... تاشی نے روہانسی ہو کر یش کے بازو کو دبوچا.

رخ بھی رزم کی جانب لپکی...

ہاں تو سچ بول رہے ہیں ہم .....نہیں یقین آتا تو آؤ کسی گاؤں والے سے پوچھ کر آتے ہیں. رزم نے رخ کا بازو کھینچا..

نن...نہیں.... میں کہیں نہیں جاؤں گی...

چلو آؤ تاشی ہم پوچھ کر آتے ہیں.... یش نے تاشی کا ہاتھ پکڑا..

نن... نہیں یش... آپ کو قسم ہے.. مجھے کہیں نہیں جانا.. جب اتنی ٹھنڈ میں بھی ان دونوں کے پسینے چھوٹ گئے تو فضا میں یش اور رزم کے قہقہے دور تک گونجے.

وہ فق چہرے لیے انھیں گھورتی تن فن کرتیں وہاں سے واک آؤٹ کر گئیں..

وہ اپنی جیکٹس میں ہاتھ ڈالے اپنے اگلے مشن کے بارے میں ڈسکس کرتے رہے

🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

رات کے گیارہ بج چکے تھے

رخ بے چینی سے بیڈ پر بیٹھی انگلیاں چٹخا رہی تھی..

کمبخت کھڑکی بھی جنگل کی جانب ہی کھلتی تھی..

وہ اچھی طرح بند تھی اس نے دبیز مہرون پردے بھی برابر کر دئیے تھے مگر خوف تھا کہ رگوں میں سرسرا رہا تھا.

رزم اسے یہاں لانے سے پہلے ہوسپیٹل لے کر گیا تھا..جہاں وہ خود باہر رکا تھا اور اسے بولا جا کر اچھی طرح اپنی تسلی کر لو. 

ریکارڈز میں سے اس نے اپنی رپورٹس دیکھیں تھی...

ڈاکٹر سے اپنی حالت کے بارے میں اچھی طرح معلوم کرنے کے بعد ایک بھاری سِل تھی جو دل و دماغ سے سرک گئی تھی.

اور اب نئی فکریں لاحق تھیں..رزم کی دیونگی اور شدتیں.

اففففف... سوچ کر ہی جھرجھری آئی.

پھر ایک کوندا سا دماغ میں لپکا.

بھاگ کر بیڈ پہ کمفرٹر میں گھسی... سر تک تانا... اور سوتی بن گئی..

رزم کمرے میں داخل ہوا... اور گہرا سا مسکرایا........ دل میں بولا.. جانم انٹیلیجنس آفیسر گھاس چر کر نہیں بنا میں..

بے حد شرارت سے لہجے میں حیرت سموتے با آواز بلند  بڑبڑایا...

افف خدایا یہ کھڑکی کس نے کھولی اتنی ٹھنڈ میں ...

وہ کمفرٹر سمیت اچھلی.اور کمفرٹر سے فوراً باہر نکلی.. رز... رزم... کک... کون... کک... کس. نے کھولی...خوف سے پیلی پڑی. 

نظر جونہی کھڑکی کی طرف اٹھی اس آفیسر کی چالاکی اور اپنی بے وقوفی  پر جی بھر کا طیش آیا..

اب بچنے کا کوئی چارہ نہیں تھا.

آخری کوشش کی اور جھلاتی دوبارہ کمفرٹر تان کر لیٹ گئی....

رزم بیڈ پر آکر گہرا سا مسکراتا نیم دراز ہوا.

رخ میری جان... اپنا پرامس پورا کرو اور خود کو میرے سپرد کر دو شرافت سے.

 وہ ٹس سے مس نا ہوئی... اوکے پھر میں جا رہا ہوں.. کھڑکی سے چڑیل اندر آئی تو دونوں فرینڈز بیٹھ کر چھم چھم کھیلنا ساری رات.

اس کے ہر لفظ پر رخ کی جان لبوں پر آئی تھی.. جھنجھلا کر اٹھی.

خبردار مجھے جان بوجھ کر ڈرا کر کہیں گئے آپ...

اگر گیا تو کیا کرو گی؟

حشر بگاڑ دوں گی آپ کا،

وہ تو اب بھی بگاڑ سکتی ہو منع کس نے کیا ہے... وہ ذومعنی سا بولا

رخ کی بولتی بند ہو گئی..

رخ..... جزبات سے بوجھل بھاری آواز میں پکارا... ادھر میرے قریب آؤ...

اس کے سامنے اپنا چوڑا مضبوط ہاتھ پھیلایا...

رخ نے جھجھکتے ہاتھ تھاما...

اب بہکتے جزبات پر بند باندھنا ناممکن تھا.. تڑپ کر اسے اپنی جانب کھینچا.

وہ ٹوٹی ڈال کی طرح اس کے چوڑے سینے پر گری...

تو پھر کیا خیال ہے پھول جان؟ اس کی کمر کو سہلاتے اس کے دہکتے ہاتھ..

کک..... کیا.....؟ رخ بمشکل بول پائی.

چودہ یا چار.......وہ بے حد شرما کر اس کے سینے میں منہ چھپا گئی..

رزم نے ہنس کر لائٹ آف کی.....

اور پھر رخ آج اپنا دامن اس کی شدتوں اور محبتوں سے نہیں بچا پائی تھی...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

تاشی صوفے پر بیٹھی اس چھوٹے مگر بہت خوبصورتی سے سجے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی...

جہازی سائز بیڈ،  دیوار گیر دبیز خوبصورت گہرے سبز پردے... سبز دبیز کارپٹ...

کھڑکیاں بند تھیں.. باہر کے مقابلے روم کا ٹمپریچر نارمل تھا..

وہ ابھی جائزہ لے رہی تھی جب یش اندر آیا..

کیا بات ہے جان... اس الٹے پیروں والی چڑیل کا انتظار کر رہی تھیں... یش شرارت سے بولا

نہیں ایک ہاکی والے جن کا انتظار کر رہی تھی.. تاشی بھی اطمینان سے بولی.. یش نے قہقہہ لگایا...

اور اس ہاکی والے جن کا کیوں انتظار تھا؟ وہ جانے کیا سننا چاہتا تھا.

کیونکہ اس جن کے ہوتے ہوئے مجھے کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا.. اور میں خود کو پروٹیک.................

اس کی روانی سے چلتی زبان کو بریک لگا تھا جب یش  اپنی جیکٹ اتار کر اس کے قریب آ کر زرا جھک کر اپنے ہاتھ اس کے دائیں بائیں رکھے تھے.

ہممم... تو تاشی کو میں جن لگتا ہوں....مجھ سے ڈر نہیں لگتا...؟

نو........ تاشی اطمینان سے بولی.

Why .........

بچپن سے اس جن کی شکل دیکھ دیکھ کر اب عادت ہو گئی ہے.اس کے جواب پر یش گہرا مسکرایا.

 وہ ایک دم چونکی.... اور پھر برا سا منہ بنایا... بے حد کڑوا

یش جو کہ اس کے انتہائی قریب تھا کہ تاشی کی سانسیں اسے اپنے ہونٹوں پر محسوس ہو رہی تھیں اس کا ایک ایک تاثر نوٹ کر رہاتھا.

ی..... یش... سچ میں تو آپ سے ناراض تھی.... بہت... بہت... بہت... ناراض... آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جانتے ہیں میرے ساتھ کیا کیا ہوا... وہ خود پر بیتی ایک ایک بات یش سے شئر کر رہی تھی.. برے برے معصوم منہ بناتی

یش کا دل کیا اسے خود میں بھینچ لے.. آگے بڑھ کر محبت کا جام پی لے.... مگر وہ اسے سن رہا تھا بڑے غور سے گہری مسکراہٹ سے.کیونکہ وہ اپنی آپ بیتی نہیں یش کے بغیر گزارے برے وقت کا احوال سنا رہی تھی.

یعنی وہ نھی اسے یاد کرتی رہی ہے.. اس کی کمی محسوس کرتی رہی ہے. 

آپ کو پتہ ہے میں کتنی اکیلی ہو گئی تھی..

ہاں.. جان... جانتا ہوں... یہ کہتے یش نے سیدھا ہوتے اس کی کمر میں بازو ڈال کر اپنی بانہوں میں سمایا.. اور اسے بیڈ پر لا کر لٹایا... خود اس کے اوپر جھکا.. بلو شارٹ شرٹ... بلو ٹراؤزر میں وہ چاندی کی طرح دمک رہی تھی..

کھلے بال... یش نے اس کے چہرے پر آتی لٹ کو انگلیوں سے پیچھے کیا.. جب بولا تو آواز بوجھل سی تھی.

جو تم پر بیتی تھی..اس سے کئی گنا زیادہ میں نے اپنی جان پر عذاب جھیلا تھا... آتی جاتی سانس میں تمھیں پکارا.. تمھیں یاد کیا... میرا ایمان تھا کہ چاہے تم مجھ سے دور ہو مگر میری ہو...میں تو اسی وقت سے عشق کی بھٹی میں سلگ رہا ہوں میری جان..

تاشی کا روان رواں سماعتیں بن کر اس وقت بس یش کو سن رہا تھا..

وہ خاموش ہوا تو تاشی کو اچھا نہیں لگا..

تاشی تمھیں سچ مچ ایسا لگتا ہے کہ میں نے تمھیں پانے کے لئے... ویسا کچھ کیا ہوگا.. یش نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا.

تاشی نے نفی میں سر ہلایا..

 تو وہ مسکرایا...

پھر تم نے مجھ سے وہ سب کیوں کہا؟ وہ مصنوعی ناراضگی سے بولا

آئم سوری....ی...... . یش.. مم.......

یش نے اس کی بات مکمل نہیں ہونے دی تھی... جب اس کی خوشبو میں بھری سانسوں کو اپنے اندر سمایا.

تاشی نے اس کی شرٹ کالر سے بری طرح مٹھیوں میں جکڑی..

مگر یش نرمی سے اس سے الگ ہوا تھا...

اسے بازوؤں میں بھرا...

تاشی... سو جاؤ... مری والی رات کے بعد میں خود سے بہت ڈرتا  ہوں تاشی.... بہت نازک ہو یار... کہیں میری شدتیں ۔ میری محبت، میرا پاگل پن برداشت نا کر پاؤ...

اسے بانہوں میں بھرے وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا.. بہت جلد اس کی سانس بھاری ہوئی تھی..

یش نے سکون سے آنکھیں موند لیں.

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

صبح ناشتے کے بعد وہ گھر سے گھومنے پھرنے کے لیے نکلے  دوپہر کا کھانا اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھایا.. اور واپس آ گئے

یش اور رزم جلد واپس آنے  کا کہہ کر کہیں باہر گئے تھے..

  وہ کافی دیر تک باتیں کرتیں ان کا انتظار کرتی رہیں.. رخ آرام کرنے کا کہہ کر اپنے کمرے میں اپنی نیند پوری کرنے چلی گئ کیونکہ رات تو رزم نے ساری رات جگائے رکھا تھا..

اب تاشی تھی اور اس کی بوریت. اب کیا کروں... وہ یونہی بے دھیانی میں گھر سے باہر نکلی

چوکیدار بابا نے اسے دیکھ کر کہا.

بیگم صاحبہ صاحب منع کر کے گئے ہیں کہ آپ لوگوں کو اکیلا کہیں نا جانے دیا جائے...

بابا میں کہیں نہیں جا رہی بس یہیں قریب ہی گھوم کر واپس آ جاؤں گی

یہ جو قریب ہی چھوٹا سا بازار ہے بس وہاں تک جانا ہے...

وہ کہتی گھر سے نکل آئی..

اتنے میں ہی یش اور رزم واپس آئے تھے

چوکیدار نے انھیں تاشی کے بارے میں بتایا کہ وہ گھر سے نکلی ہے..

یش کے ماتھے پر ڈھیر سارے بل نمودار ہوئے

کب گئی بابا اور آپ نے روکا نہیں.. یش کی رگیں تنی.

میں نے روک.................

ابھی وہ جواب دیتے کہ فضا میں  زور دار دھماکوں کی آواز گونجیں ... چھوٹے سے بازار سے دھوئیں کے مرغولے اٹھے اور افراتفری اور چیخ و پکار کی آوازیں گونجیں..

یش کا چہرہ سفید پڑا تھا رزم بھی صدمے سے ہق دق رہ گیا..

یش بازار کی جانب اندھا دھند بھاگا...

بابا آپ یہیں رک کر رخ کا خیال رکھنا اور اسے باہر ہر گز مت نکلنے دینا... رزم جلدی جلدی کہتا یش کے پیچھے لپکا.

وہ بازار پہنچے تو سامنے کا منظر دل دہلا دینے والا تھا گیس سلنڈر کی دکان میں کئی سلنڈر پھٹ گئے تھے جس سے آس پاس آگ بھڑک اٹھی تھی... کئی لوگ جاں بحق ہوئے تھے اور کئی زخمی تھے..انھیں ہوسپیٹل لے جایا جا رہا تھا

بازار تھا کتنا... چند دکانیں اور چند سٹالز.... چپا چپا چھان مارا تھا مگر تاشی کہیں نہیں تھی..

لوگوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ وہ تاشی کو ڈھونڈتے رہے...

آس پاس کے ہوسپیٹل بھی کنگھال لئے تھے.. مگر تاشی نہیں ملی.

وہ یشار خان جو بڑے بڑے خطرناک دشمنوں اور ان کے ہولناک ہتھیاروں سے نہیں ڈرا آج تاشی کو کھونے کے ڈر سے آنکھیں لہو ٹپکانے کو تھیں چہرہ لٹھے کی طرح سفید پڑ چکا تھا. رگیں یوں تنی تھیں جیسے ابھی پھٹ پڑیں گی.

عشا سے بھی اوپر کا وقت ہو چکا تھا اور گزرتے وقت کے ساتھ یشار کی جان لبوں پر آ رہی تھی..

وہ تو یونہی نیم پاگل سا بازار میں پھرتا رہتا رزم نے بڑی مشکل سے اسے قابو کیا....مگر وہ تھا کہ بکھرتا جا رہا تھا

بڑی مشکل سے اسے گھر لایا.. 

ان کے آدمی ابھی بھی تاشی کو ہر طرف ڈھونڈ رہے تھے....

ادھر رخ نےرو رو کر برا حال کر لیا تھا.

وہ آئے تو وہ ان کی جانب لپکی اور بے چینی سے نظریں ان کے پیچھے دوڑائیں..

رزم کہاں ہے میری بہن... اسے ساتھ نہیں لائے کدھر ہے وہ...

رزم خاموش تھا اب اسے کیا کہتا کہ وہ نہیں ڈھونڈ پائے ہیں تاشی کو...

ناکام لوٹ آئے ہیں...

💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Khuwab e Ishqam Season 2 Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Khuwab e Ishqam Season 2written by Wahiba Fatima.Khuwab e Ishqam Season 2 by Wahiba Fatima is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages

Contact Form

Name

Email *

Message *