Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 61&65
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 61&65 |
Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi
Writer Name: Ismah Qureshi
Category: Continue Novel
" لالہ جان مجھے کیا ہ۔ہوا یے؟ اتنا درد کیوں ہورہا یے سر میں۔ اور مما کہاں ہیں۔ مجھے چوٹ لگی ہے تو وہ کیوں نہیں آئیں۔ اور بابا جان کہاں ہیں؟ مجھے وہ چاہییں۔ انہیں بلائیں نا۔۔!!!"
اسے اگلے دن تک مکمل ہوش آگیا۔ درمان اس کے ہوش میں آنے کے بعد ابھی تک اس سے نہیں ملا تھا۔ ابھی ڈاکٹر اسکی رپورٹس چیک کررہی تھی۔ اور دیار اس کے پاس کھڑا اس کے بکھرے بال سنوار رہا تھا۔ جو خاصے الجھے ہوۓ تھے اور زرلشتہ کو چرچراہٹ ہورہی تھی ان سے۔ اسے پہلے بھی زرلشتہ کے کام کرنے کی عادت تھی تو وہ یہ کام بڑے انہماک سے کررہا تھا۔
اس کا سوال اور پہلے کی طرح معصومیت سے بھرا لہجہ سن کر دیار نے جھک کر اس کے سر پر بوسہ دیا۔ وہ اسے ایسے ہی بولتی اچھی لگتی تھی۔
" میرا بچہ آپ سیڑھیوں سے گری تھیں۔ تو چوٹ لگ گئ آپ کو۔مما کو آپ کی حالت کا ابھی میں نے نہیں بتایا۔ وہ پریشان ہوجاتیں نا آپ کو اس حال میں دیکھ کر تو یہ بات ہم بعد میں انہیں بتادیں گے۔ ابھی آپ بتائیں بھوک لگی ہے کیا کھانا ہے آپ نے ۔ !!!"
بڑی مہارت سے اس کے سلجھے ہوۓ بال الجھے بالوں سے الگ کرتے دیار نے اسے جواب دیا۔ یہ ہیئر برش بھی وہ کسی ڈاکٹر سے مانگ کر لایا تھا۔ عجیب تو اسے لگا پر کیا کرتا اپنی شہزادی کی بات بھی تو ماننی تھی نا۔
" عجیب بات ہے میں سیڑھیوں سے گری اور مجھے یاد ہی نہیں۔ اچھا چھوڑیں مجھے نا پاستہ کھانا ہے۔ کریمی پاستہ ساتھ میں سوفٹ ڈرنک اور چاکلیٹ آئس کریم۔ یمممم ۔۔!!! ابھی لاکر دیں مجھے۔۔۔!!! "
حیران تو وہ بھی تھی کہ اسے کچھ یاد کیوں نہیں۔ پر کھانے کا سوچتے ہی اس کی آنکھیں چمکیں۔سامنے کھڑی ڈاکٹر کی نظریں بھی ان دونوں پر ہی بھٹک رہی تھیں۔ کیا عجوبہ تھی یہ لڑکی۔ کل تک بول نہیں رہی تھی۔ کئ لوگوں کی جان نکالی تھی اس نے اور آج پاستہ کھانا تھا اسے۔ وہ بھی مسکرائ۔۔۔!!!
"For the next one week, you'll have to completely abstain from certain foods. You can't eat anything spicy or heavy, no matter how much you want to. You'll have to follow the hospital's diet plan, which includes foods like porridge, soup, broth, etc. Don't even think about eating pasta, noodles, cold drinks, or other such items if you want to recover quickly."
ڈاکٹر نے گویا اس کے ارمانوں پر ہاسپٹل کا ڈائٹ پلین مار دیا کہ وہ حیرت کے مارے پیشانی پر بل ڈال کر اسے دیکھنے لگی ۔سمپل سی شارٹ فراک اور ٹراؤزر پر وائٹ اپر پہنے کندھے پر دوپٹہ لٹکاۓ وہ مشرقی لباس میں ملبوس ڈاکٹر اپنے انگریزی لہجے سے اسے کوئ غیر ملکی ہی لگ رہی تھی۔
ڈاکٹر روحیہ نے اس کی خود پر جمی نظروں کو گہرائ سے محسوس کیا۔ پر سنجیدہ ہی رہی وہ۔
" کیا بول رہی ہیں یہ۔۔!! میرے تو کچھ پلے نہیں پڑا۔ اب انہیں بتایا کہ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئ تو بےعزتی ہوجاۓ گی لالہ جان۔ کیا چلا جاتا آپ کا جو آپ مجھے چار جماعتیں پڑھا دیتے۔ آج اتنی شرمندگی تو اٹھانی نہ پڑتی۔۔۔!!!"
دیار کی جانب دیکھ کر زرلشتہ نے معصوم سی صورت بنائی تو اس نے کندھے اچکادیے۔
"سمجھ تو مجھے بھی کچھ نہیں آئ۔ ہوسکتا ہے کہہ رہی ہوں میرے لیے بھی منگوا لینا جو خود کھارہے ہو۔ تم کہہ دو ہم منگوا لیں گے۔ کیا ہوگیا جو ہم غریب ہیں دل سے اتنے ہی امیر ہیں۔۔!!!"
زرلشتہ نے اس کی بات سن کر سمجھ کر سر ہاں میں ہلادیا پھر گلا کھنکار کر اسنے خود کو جواب دینے کے لیے تیار کیا۔
" اوو یو وانٹ ٹو کھانا کھائینگ ود اس ۔!!! ہم ریڈی ہیں فار آپ کو کھانا کھلائینگ۔ نو شرمائینگ جسٹ ٹیلنگ کیا کھائینگ پسند کرینگ آپ۔ یو نو ہم اصل میں پوور نو بھیک مانگنے والے پر پوور ۔۔!! پوور لٹل سول ۔۔۔!!!"
زرلشتہ نے دانتوں کی نمائش کروائی تو ڈاکٹر نے ناسمجھی سے دیار کو دیکھا جس نے سمجھداری سے سر ہاں میں ہلادیا۔
" ماۓ لٹل سٹر poor لٹل سول اینڈ میbig پوور سول ۔۔!!! ویری ویری پورر ۔!!! جسٹ ہیو سم بلین ڈالرز ان ماۓ اکاؤنٹ ایٹ دس ٹائم۔ ویری ویری پورر۔ گرانٹ می آ لیو فار ون ڈے۔ آۓ شیل بھی ویری ویری تھنک فل ٹویو۔ یور obediently. دیار درانی ۔۔۔!!!"
اس کی انگلش پر زرلشتہ نے مڑ کر اسے داد دینے والی نگاہوں سے دیکھا۔ پھر تالی بھی بجائ۔
" Have you losted your mind? You guys are too much ..!!!"
اس نے بےیقینی سے کہا۔ جب زرلشتہ نے سر کو خم دیا۔
" گاۓ از ناٹ مگرمچھ۔ گاۓ لاسٹڈ مائنڈ بکاز گاۓ از پانچویں فیل۔۔!! لک ماۓ برادر۔۔!! ہی از دسویں پاس۔۔!! ماۓ بردر انگلش ٹو گڈ، تھری گڈ، فار گڈ، فائیو گڈ۔۔!!! وی آر poor پر دل کے ٹام کروز، مارک زنگر برگز، بل کا گیٹ اینڈ مکیش امبانی کا پتر۔۔۔!!! ول یو میری می ۔۔۔!!! ڈاکٹر ول یو میری می۔ ہیپی برتھ ڈے ٹو یو۔ آۓ ایم ایل سو آۓ کانٹ کم ٹو سکول۔۔۔!!!"
دیار نے اس کے بال سلجھادیے تھے تبھی آگے بڑھ کر اس نے ڈاکٹر کو آنکھیں پٹپٹاکر دیکھا جسے اب اپنی سماعتوں میں گھنٹیاں بجتی محسوس ہوئیں۔
" زرلش دیکھو میں تمہارے لیے کیا لایا ہوں۔ تمہارا فیورٹ پاستہ۔ دیار نے بتادیا تھا مجھے تم ہوش میں آگئ ہو۔ تو میں نے سوچا تمہاری فیورٹ چیز تمہیں لاکر دوں ۔۔!!!!"
وہ جواب دینے والی تھی جب اچانک کمرے کا دروازہ کھلا اور درمان روم میں انٹر ہوا۔ زرلشتہ نے اس کی جانب اجنبی نظروں سے دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئ چمک نہیں تھی نا ہی واقفیت کا کوئ تاثر۔
اس کے آتے ہی وہ بیڈ پر تمیز سے بیٹھی لیکن دیار کے قریب۔ درمان نے ٹرے اس کے سامنے رکھی اس کا خود سے دور ہونا ابھی اس نے نوٹ نہیں کیا تھا۔ اسے کیا پتہ تھا یہاں ایک اور سیایہ کھڑا ہوگیا ہے۔
"She can't eat all this now. She has to be careful. Your friend was deceiving her in the name of caution, and now if you do the same, how'll she be okay?"
اسے ان سب کی دماغی حالت پر شبہہ ہوا۔ فائلز غصے سے بند کرکے اس نے دانت پیسے۔ جب درمان نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے اسے اگنور کیا۔
" بچے کھالو پاستہ۔ اب تو آپ کا سب سے بڑا سپورٹر میدان میں اترا ہے اب یہ ڈاکٹر آپ کو منع نہیں کرسکتی۔ کم آن۔ کھالو ۔۔!!!"
وہ خاموش ہوئ تو دیار نے زرلشتہ کو پیار سے پچکارا۔جس نے پہلے درمان کی جانب دیکھا انجان نگاہوں سے پھر سر نفی میں ہلایا۔
" یہ کون ہیں لالہ جان ؟؟ آپ کے دوست ہیں کیا۔۔۔؟؟ پر آپ کے دوست ہیں تو یہاں کیوں آۓ ہیں ؟؟"
اس نے سنجیدگی سے استفسار کیا تو درمان کی نیلی آنکھوں میں حیرت اتری وہیں رپورٹس کا مطالعہ ڈاکٹر روحیہ کے ہاتھ بھی تھمے۔ سماعتیں نتائج تک پہنچ چکی تھیں۔یعنی اس کا شک ٹھیک تھا ۔۔!!! زرلش نارمل نہیں تھی۔
" زرلشتہ میں تمہارا شوہر ہوں یار۔ کیوں مزاق کررہی ہو۔ ایسا مزاق اچھا نہیں ہوتا۔ اچھے بھلے انسان کا دل بند ہوجاتا ہے۔۔!!!"
زبردستی ہنسنے کی کوشش کرکے درمان اسے ڈانٹنا چاہا پر اس کا اپنا لہجہ بھی ڈر کی لپیٹ میں تھا۔ تب اچانک زرلش اچھلی۔
" میرا شوہر کہاں سے آگیا ۔۔۔!!!! میری شادی کب ہوئ۔۔!! خدا کا خوف کریں یار میں کل رات اسائنمنٹ بناکر سوئ ہوں اور آج اٹھتے ہی شوہر بھی آگیا میرا۔ دو تین بچے بھی لاکر یہاں لائن میں کھڑے کردیں۔ کہ وہ بھی میرے ہی ہیں۔ مطلب کچھ بھی ۔۔۔!!! آج فرسٹ ایپرل تو نہیں ہے۔۔!! لالہ جان یہ کیا مزاق ہورہا ہے میرے ساتھ۔ آپ کے سامنے کھڑے ہوکر یہ آدمی آپ کی غیرت کو اپنی بیوی کہہ رہا ہے اور آپ چپ ہیں۔ اٹھیں اور پوچھیں اس سے کیوں کہہ رہا ہے یہ شخص یہ سب ۔۔۔!!!"
زرلشتہ نے دیار کو بیچ میں گھسیٹا پھر حکم سنایا جو معاملہ سمجھ رہا تھا درمان کی صدمے سے سفید پڑتی رنگت پھر زرلشتہ کا ری ایکشن اسے ہنسنے پر مجبور کرگیا۔ اپنی نشست سے اٹھ کر سنجیدہ ہوتے ہوئے وہ درمان کے قریب جاکھڑا ہوا۔
" کون ہو تم؟؟ اور میری بہن سے کس انداز میں بات کررہے ہو۔کونسی بیوی، کونسی شادی ۔۔!! میری بہن کی شادی نہیں ہوئ۔ تو چلے جاؤ یہاں سے۔ اس سے پہلے کہ میں آپے سے باہر ہوجاؤں۔ میری غیرت کو مت للکارنا۔ میں بہت غیرت مند انسان ہوں۔اتنا غصہ ٹھیک ہے نا اب زرلش۔ یا مزید اسے اوپر تک لے کر جاؤں۔۔!!!"
چہرے پر غصہ سجاکر اس نے درمان کو تپادیا پھر مسکین سی صورت بناکر زرلشتہ سے راۓ لی کہ اتنا غصہ اچھا ہے یا مزید بھی کچھ کروں۔ وہ تو درمان کو ہی کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ اس نے غصے سے ہمم کہا یعنی ٹھیک ہے اتنا غصہ۔۔!!
" دیار کے بچے ۔۔!! یہ کونسا نیا ڈرامہ ہے۔ تو کیوں میری بہن کو بیوہ کروانا چاہتا ہے میرے ہاتھوں سے۔ کمینے انسان تونے ہی کچھ کیا ہے۔ تو تو میرے اور زرلش کے نکاح سے شروع سے ہی خوش نہیں تھا۔ بتا تونے بھڑکایا ہے نا اسے میرے خلاف۔۔!! میں جان نکال لوں گا تیری ۔۔۔!!!"
درمان نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکہ دیار کے جبڑے پر مارا جو اس مکے کے لیے تیار نہیں تھا تو کراہ اٹھا۔ اس کے لہجے میں بےانتہا غصہ تھا۔زرلشتہ فورا بیڈ سے نیچے اتری۔ کوئ اس کے لالہ کو مارے وہ کیسے برداشت کرلیتی۔
" اوۓ مسٹر ۔۔۔!!! میرے لالہ کو ہاتھ کیسے لگایا تم نے۔ ہاتھ کیا لگانا تھا تم نے تو منہ ہی توڑ دیا ان کا۔اب اس ٹوٹے منہ پر کون لڑکی دے گا میرے بھائ کو۔ میرا خواب ان کے بچے اپنی گود میں کھلانے کا خواب ہی رہ جاۓ گا۔ میرے لالہ کی شکل بگاڑ دی تم نے۔ میں جان نکال لوں گی تمہاری ۔۔۔!!!"
غراتے ہوئے وہ مکمل بھول گئ کہ آج ہی اسے ہوش آیا ہے دیار کے پھٹتے ہونٹ کو دیکھ کر اس نے اس کی صورت پر افسوس کیا اور آگے بڑھ کر درمان کا گریبان پکڑا۔ درمان تو اس کے بدلے تیور دیکھ کر غش کھانے والا تھا۔ اس کے اپنے گریبان پر موجود ہاتھ کو اس نے لب بھینچ کر دیکھا پھر شعلے برساتی نگاہ ایک مکہ کھاکر منہ تڑواکر اب ہنس رہے دیار پر ڈالی۔ جسے لطف آرہا تھا درمان کی حالت پر۔
" زرلش یار نہ تنگ کرو مجھے۔۔!! میں شوہر ہوں تمہارا۔ ہمارے آنے والے بےبی کا واسطہ ہے تمہیں مجھ معصوم پر رحم کرو۔۔!!!
کیا صورت دکھاؤ گا اپنے بچے کو میں کہ اس کی ماں مجھے پہنچانتی ہی نہیں۔ کیا ویلیو رہ جاۓ گی میری ۔۔!! پلیز یار۔۔!! نہ کرو یہ میرے ساتھ ۔۔۔!!!"
اس کے اپنے گریبان پر موجود ہاتھ درمان نے اپنے ہاتھوں کی ہلکی سی گرفت میں لیے تو اس کا لمس محسوس ہوتے ہی زرلشتہ کو سر میں درد کی ہلکی سی لہر محسوس ہوئی۔ یہ لمس جانا پہچانا سا لگا اسے۔۔!!!
جن سے تعلق روح کا ہو. بات موت کے بعد بھی ساتھ رہنے کی ہو، دعوے عشق کے ہوں، دماغ ان کی یادیں تو بھلادیتا یے پر ان کے چھوتے ہی پیدا ہونے والا احساس وہ نہیں بھولتا انسان ۔۔!!!
اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا اور جسم بے جان ہونے لگا وہ گرنے والی تھی پر اس سے پہلے ہی درمان اسے سنبھال گیا۔ دیار کے چہرے پر چھائ شرارت بھی اڑن چھو ہوئ۔ اسے لگا تھا زرلشتہ ڈرامہ کررہی ہے تو وہ بھی ساتھ دے رہا تھا اس کا۔ پر وہ سچ کہہ رہی تھی وہ بھول چکی تھی درمان کو ۔۔۔۔!!!
" زری ۔۔!!! آر یو اوکے ۔۔!!!"
اسے اٹھا کر درمان نے بیڈ پر لٹایا پھر جھک کر اس کے رخسار تھپتھپاۓ۔ ڈاکٹر نے رپورٹس وہیں بیڈ کے سامنے رکھے ٹیبل پر رکھیں اور آگے بڑھ کر زرلشتہ کی پلس چیک کی۔ جو نارمل تھی۔ پھر اس کی آنکھیں انگلیوں کی پوروں سے کھول کر اس کا معائنہ کیا۔ اس دوران درمان بےتابی سے زرلشتہ کو ہی تک رہا تھا۔ اور دیار بھی جاننا چاہتا تھا کیا ہوا ہے اسے۔
"Mr. Darman, due to the injury to the head of your wife, some nerves in her brain have been damaged. I thought the chances of short memory loss are high, but now I am sure that she has forgotten some part of her life.
معاملہ اتنا سیریس نہیں ہے۔ بس ہمیں معلوم کرنا ہے کہ یہ اس وقت اپنے پاسٹ کے کس حصے میں اٹکی ہیں۔۔۔!!! ہمیں اب ان کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنا ہوگا۔۔!!"
ڈاکٹر کی بات سن کر درمان نے ایک ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھا کہ اب یہی ہونا رہ گیا تھا۔ اس کی بیوی اسے بھول گئ۔ بھلا کیا عزت رہ گئ تھی اس کی۔ دیار کو بھی اب تشویش ہوئ ایسا تو نہیں چاہا تھا اس نے۔ درمان وہیں زرلشتہ کے ساتھ ہی بیٹھ گیا بیڈ پر۔ چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں۔
" ہوسکتا ہے یہ مزاق کررہی ہو۔۔!!! اسے ویسے بھی لوگوں کو تنگ کرنے کی عادت ہے۔۔۔!!!"
دیار نے کسی حدشے کے تحت پوچھا پر جواب میں جیسے ڈاکٹر روحیہ نے سر نفی میں ہلایا وہ چپ ہوکر رہ گیا۔
" ریپورٹس میں یہ بات واضح ہے کہ ان کا برین ڈیمج ہوا ہے۔ آہستہ آہستہ ہیل کریں گی یہ اب۔ تب تب آپ سب کو حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ ورنہ جلد بازی آپ کو ناقابل تلافی نقصان میں مبتلا کردے گی۔ آپ لوگ انہیں سمجھیں۔ انہیں ماضی کا جو حصہ یاد نہیں انہیں بس بتائیں لیکن پریشرائز نہ کریں۔ سٹریس ماں اور بےبی دونوں کے لیے خطرناک ہے ۔۔!!!!"
مختصراً انہیں سب بتاکر وہ اب ان کی اڑی رنگت دیکھ رہی تھی۔ اسے اردو بھی آتی تھی اور خالص لہجہ تھا اس کا۔ بولتے وقت کسی کو گمان بھی نہ ہوتا کہ وہ آسٹریلین نیشنلٹی ہولڈر یے۔ جہاں درمان نے کھاجانے والی نظر دیار پر ڈالی وہیں وہ بھی کھسیا کر دو قدم دور ہوا۔ اپنی موت اسے سامنے دکھ رہی تھی۔
" یہ سب اس دیار کی وجہ سے ہوا ہے۔ سالے نے بددعائیں ہی اتنی دیں کہ میرا بیڑہ غرق ہوہی گیا۔ تو سچ مچ کا سالا ہے۔ تو چاہتا تھا وہ مجھے بھول جاۓ۔ لے بھول گئ وہ مجھے۔۔۔!!! سالے میں اب زری کے ساتھ وشہ کو بھی لے کر جاؤں گا۔ تجھے بھی پتہ چلے گا جب بیوی بھول جاۓ آپ کو تو کیسا لگتا ہے۔۔!!!! "
اٹھ کر درمان نے پھر سے اس پر حملہ کیا تو اس بار مکہ پھر سے اس بیچارے کے منہ پر لگا۔ آج دیار کو احساس ہوا ہاتھ درمان کا بھی بھاری ہے۔ پر وہ اس کمینی سی خوشی کا کیا کرتا جو بار بار اس کے چہرے پر ظاہر ہوکر اسے درمان کے عتاب کا نشانہ بنارہی تھی کہ زرلشتہ درمان کو بھول گئ۔۔۔!!!
کیا سے کیا ہوگیا درمان کے ساتھ دیکھتے دیکھتے ۔۔۔!!!
" تو ہے ہی بےغیرت ۔۔!! دفع ہو میری نظروں کے سامنے سے ورنہ یہ دانت میں توڑ دوں گا۔ کوئ شرم نہیں ہے تجھ میں منحوس ۔۔!!! میری بےبسی پر ہنس رہا ہے۔ ایسا کر اس کولڈ ڈرنگ میں ڈوب کر مر جا۔۔!!! میں اس پاستے میں غوطہ کھالوں گا۔ کیونکہ اسے کھانے والی تو مجھے ہی بھول گئ۔۔۔!!!"
دیار ہنستا ہوا درمان سے برداشت نہ ہوا تو ٹرے سے کولڈ ڈرنک کا کین اٹھا کر درمان نے دیار کے منہ پر پھینکا۔ جس نے بروقت آنکھیں بند کرلی تھیں ورنہ وہ اندھا ہی ہوجاتا۔ لیکن اس کے بعد جیسے اس کا قہقہہ کمرے میں گونجا۔ ڈاکٹر ان دونوں پر دو لفظ بھیج کر وہاں سے واک آؤٹ کرگئ۔
درمان نے ٹرے سے پاستہ اٹھا کر چہرے پر مظلومیت طاری کرکے کھانا شروع کر دیا اب کسی نہ کسی کو تو وہ کھانا تھا نا۔ اپنے چہرے پر لگی کولڈ ڈرنک ہاتھ سے صاف کرکے دیار بھی ایک ہی چست میں اس تک پہنچا۔ پاستہ اسے بھی کھانا تھا۔۔!!!
" سالے ۔۔!!! مار تو بڑے دھڑلے سے لیا ہے تونے۔ کولڈ ڈرنگ بھی جنگلیوں کی طرح پلادی۔اب پاستہ اکیلے اکیلے کیوں کھارہا ہے۔ ٹینشن نہ لے وہ اپنی چیزیں سنبھال کر رکھتی ہے۔ انہیں کسی دوسرے کے لیے نہیں چھوڑتی۔ توُ تو پھر جیتا جاگتا انسان ہے۔ بھول بھی گئ ہے نا تو چھوڑے گی نہیں تجھے۔ تجھے سکون کا سانس نصیب ہونا ہی نہیں یے۔ بس ایک دو دن تیرے سے دور رہے گی پھر حق جتانا بھی شروع کردے گی۔ بےفکر رہ ۔۔۔!!!!"
اپنے پٹھے ہونٹ سے نکلتا خون اس نے صاف انگوٹھے سے رگڑ کر صاف کیا تو درمان نے اس کی جانب سے تسلی آمیز بات سن کر ٹھنڈا سانس خارج کرکے پاستے کی پلیٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔ کہ لو کھاؤ ۔۔!!!
یہ بھی تم ہی کھالو۔ جس نے ہنستے ہوۓ چمچ منہ میں ڈالا پھر پلیٹ ایک طرف رکھ کر اس کی جانب گھوما۔
" وہ سب بھول گئ ہے تو اب ہمیں بھی بھول جانا چاہیے۔ میرے مکوں کا حساب تونے آج میرا منہ پھٹے ہوۓ ڈھول جیسا کرکے لے لیا۔ اب میرا حساب زرلش لے لے گی تجھ سے۔ تو اسی بات پر دوستی پھر سے کانٹینیو کرتے ہیں۔ کیا کہتا ہے تو اس بارے میں۔ ۔۔!!!"
اپنا ہاتھ اس کے سامنے کرکے دیار نے تکلف سے پاک انداز میں کہا۔ تو درمان نے منہ کے زاویے بگاڑ کر رخ پھیرا۔
" ایک شرط پر کہ تو واپس آفس میں گدھے کی طرح کام کرے گا میرے ساتھ۔ میں اکیلا پانچ مہینے سے آفس سنبھال سنبھال کر آدھا ہوگیا ہوں اب مجھے اپنی فیملی کو بھی ٹائم دینا ہے۔ اگر تو راضی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ میں جارہا ہوں۔۔!!!"
ہنوز تاثرات اب بھی خفا ہی تھے جب اسے کھینچ کر دیار نے گلے لگایا۔ تو ناچاہتے ہوۓ وہ بھی لگ ہی گیا۔
" میں پہلے بھی افسری وقت پر آتا تھا آگے بھی ایسے ہی آؤں گا۔ تو جو کرسکتا ہے کرلے ۔۔!! اچھا اب روٹھی محبوبہ نہ بن۔ ہوجاۓ گی وہ ٹھیک۔ میرا جب دل کیا سمجھادوں گا اسے۔۔۔!!!"
اسے زور سے گلے لگاکر دیار نے پھر سے اس کا خون جلانا چاہا۔ جو اس بار چپ ہی رہا۔ ورنہ بات کرنا تو فضول تھا۔ فائنلی درمان اور دیار میں سب ٹھیک ہوگیا۔ وہ اب واپس سے دوست بن چکے تھے۔ جس دوستی کو ماضی کی وجہ سے توڑا گیا اب پھر سے وہ قائم تھی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
_ایک ہفتے بعد_
" لالہ مجھے گھر جانا ہے۔۔۔!!! مما پلیز نا گھر جانا ہے۔۔!!"
ہفتہ گزر چکا تھا زرلشتہ کی یادداشت گۓ ہوۓ اس دوران درمان کو اس نے جتنی گھوریوں سے نواز دیا تھا وہ بیچارا شمار بھی نہ کرسکا۔
رخمینہ بیگم اور بہراور درانی بھی وہیں تھے جنہیں دیار نے یہ کہہ کر بلایا تھا کہ زرلشتہ کا ایکسڈیٹ ہوا ہے۔ وہ ٹھیک ہے پر یادداشت چلی گئ ہے اس کی۔ وہ بھی پچھلے ایک سال کی ۔۔۔!!!!
انہوں نے اس ایک ہفتے میں بہت خیال رکھا زرلشتہ کا اور درمان کو بھی تسلی دی کہ وہ ٹھیک ہوجاۓ گی جو اب چیخ چیخ کر اس ہاسپٹل کے سٹاف سے پوچھنا چاہتا تھا وہ کب ٹھیک ہوگی۔
" بچے آپ کو ہمارے گھر نہیں جانا۔ درمان کے ساتھ جانا ہے۔ آج ڈسچارج ہوجائیں گی آپ۔۔۔۔!!! بیٹا شادی ہوئ ہے آپ کی۔ بھلے آپ کو یاد نہیں پر شرعی اور قانونی طور پر درمان ہی آپ کا سرپرست ہے۔ وہ چاہے گا تو آپ کو ہمارے ساتھ بھیج دے گا۔ ورنہ آپ اس کی مرضی کے خلاف نہیں جاسکتیں۔۔!!!"
اس کے سر پر ہاتھ پھر کر انہوں نے انکار کیا تو وہ منہ بسور گئ۔ آخر کونسا شوہر ۔۔!!
ابھی ایک ہفتہ پہلے تک تو یہ نہیں تھا اب کہاں سے آگیا۔ درمان دیوار سے ٹیک لگاۓ منتظر تھا ڈسچارج پیپرز کا۔ بس ایک دفعہ اسے یہ اکیلے میں مل جاتی پھر اسے اچھے سے یاد دلاتا وہ کہ آخر وہ اس کا کون ہے ؟؟؟
" لالہ جان یہ لڑکی تو بڑی پیاری ہے۔۔۔!! کہیں سے بھی میرے بھولے ہوۓ شوہر کی بہن نہیں لگتی۔ شرمیلی سی کیوٹ سی ۔۔!! آپ نے خود پسند کی تھی یا مما نے ڈھونڈی ہے۔ ویسے مجھے مما سے اس قدر عقلمندانہ فیصلے کی توقع تو نہیں ہے۔ لیکن ہوسکتاہے انہوں نے کرلیا ہو۔ یا پھر آپ نے محبت کی شادی کی ہے ۔۔!! لیکن گلہ ہے لالہ آپ نے مجھے نہیں بلایا۔ بھاگ کے ہی کرلی شادی۔۔!! بھلا بیٹھ کر کرتے ۔۔!!!"
اس کی نظریں وشہ پر بھٹکیں جو سکون سے کھڑی تھی۔ اس بات پر وہ گڑبڑا گئ۔ جبکہ دیار نے بھی منہ پر ہاتھ رکھا۔ کیا کیا بول رہی تھی یہ۔
" کوئ جواب تو دے دیا کرو میرے سوالوں کا۔ اچھا شوہر صاحب آپ بتائیں۔ ہم نے محبت کی شادی کی تھی یا مجھے اس رشتے میں زبردستی باندھا گیا ہے۔ بندوقوں کے ساۓ میں مجھ معصوم کو مما اور بابا نے گھر سے نکال باہر کیا ہو کہ جاؤ اور کرو شادی ہماری عزت بچانے کے لیے۔۔!!!
کیونکہ جتنا مجھے یاد ہے میں ایک سڑے ہوۓ مزاج کے بندے سے انسپائر ہوہی نہیں سکتی۔۔۔!!! بتائیں نا شوہر صاحب ۔۔!! کیسے کی ہم نے شادی ۔۔۔!!!"
یہاں سب ایک ہفتے سے اس کے الٹے سیدھے سوالوں کے جواب میں منہ بند کرکے ہنس لیتے تھے تو اب وہ بھی اکتا گئ۔ پھر سب کو چھوڑ کر اس نے درمان کو دیکھا جس نے سن کر سر ہاں میں ہلایا۔
" ہماری شادی تمہاری مرضی سے ہوئ تھی۔ مجھے پہلی بار تم نے اپنی یونی کے باہر دیکھا تھا۔ میں وشہ کو چھوڑنے گیا تھا وہاں پر۔ !! پھر تم میرے پیچھے پاگل ہوگئ۔ کہ مجھے یہی انسان چاہیے۔۔!!! تین دفعہ خودکشی کی کوشش کی تھی تم نے۔تو تمہارے اس بھائ نے میرے پیر پکڑے کہ میری بہن کی زندگی بچالو اس سے شادی کرلو۔ میں نے بس ایک بھائ کا مان رکھا تھا۔ اور کچھ نہیں ۔۔!!!"
اپنے بال ہاتھ سے سیٹ کرکے درمان نے زرلشتہ کو بیوقوف بنانا چاہا۔ وہ کونسا جانتی تھی کہ وہ ونی ہوئ ہے۔اچھا ہوتا نا درمان اس پر رعب ڈال لیتا۔ اس بات پر سب کے چہروں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئ سواۓ زرلشتہ کے جس نے بےساختہ اپنی دونوں کلائیاں دیکھیں کہ کہیں کوئ نشان نہ ہو وہاں چھری کا۔
پھر کچھ سوچ کر اسے واپس مخاطب کیا۔
" تو آپ راضی نہیں تھے اس شادی سے ۔۔!!!"
" بالکل نہیں ۔۔!! میں بس تمہارے بھائ کی بات مان رہا تھا ۔۔!!"
اس نے لاپرواہی دکھائ۔
" تو یہ تو اچھا ہوگیا نا۔ تب میں بچی تھی پاگل تھی جو چمکتے شعلے کو ستارہ سمجھ بیٹھی۔اب میں اپنے ہوش میں واپس آچکی ہوں تو میں اپنی مما کے ساتھ گھر جاؤں گی۔ ٹھیک ہے نا مما۔ انہیں میں نہیں چاہیے ہوں آپ نے سن لیا نا۔ اب مجھے گھر لے جائیں۔۔۔!!! پلیز ۔۔۔!!!"
درمان کو کن اکھیوں سے اس نے دیکھا جس کے چہرے پر انگنت رنگ آۓ۔ فورا دیوار کی ٹیک چھوڑ کر وہ سیدھا ہوا۔
" نہیں اب ایسا بھی نہیں ہے۔ ساتھ رہتے رہتے انسان کو انسیت تو ہوہی جاتی ہے نا۔ اب مجھے عادت ہوگئ ہے تمہاری۔ تمہیں بھی ہوگئ ہوگی۔ ایسا کرو نا واپس چلو۔ میں آہستہ آہستہ سب یاد دلا دوں گا تمہیں۔ بیوی ہو تم میری۔ خاص ہو میرے لیے ۔!!!"
جھٹ سے وہ لائن پر آیا تو اس بار دیار کے ساتھ سب کا قہقہہ گونجا۔ یہ تو روز کا معمول تھا۔ درمان کو تنگ کرکے وہ بھی خوش ہوتی تھی۔ وہ الگ بات تھی کہ یادیں مٹ چکی تھیں پر اپنائیت کا احساس اب بھی زندہ تھا۔
تب اچانک ہی درمان کا فون رنگ ہوا تو زرلشتہ کی جانب سے دھیان ہٹاکر درمان نے کام ریسیو کی۔ کال اس کے چاچو کے سیل سے آئ تھی۔
" درمان کہاں ہو تم فورا گھر پہنچو ۔۔!! ساتھ ہی فدیان اور وشہ کو بھی لے آنا۔ "
اس نے فون کان سے لگایا تو مقابل نے بغیر سلام دعا کے عجلت میں بات کی۔ درمان کو کچھ عجیب محسوس ہوا۔
" سب ٹھیک تو یے نا چاچو ۔۔!! آپ اتنے پریشان کیوں لگ رہے ہیں۔ سب خیریت تو ہے نا۔ ۔!!"
اس کا دل انجانے وسوسوں میں پڑا۔ دوسری طرف بادل نے لب بری طرح بھینچے۔ جو خبر اسے دینی تھی اسی ڈر تھا کہ کہیں اس کا صدمہ ان تینوں میں سے کسی پر گہرا نہ پڑجاۓ۔ پر خبر دینا ضروری تھی۔ آفریدی مینشن میں اسی لمحے ایمبولینس کی آواز گونجنے لگی۔ درمان نے دائیں ہاتھ سے اپنی گردن کی ابھرتی نسوں کو سہلایا۔ اس روم میں بیٹھے سب نفوس اسے ہی دیکھ رہے تھے۔
" چاچو بتابھی دیں۔ کیوں سسپنس کری ایٹ کررہے ہیں آپ ۔۔!!!"
اس نے کچھ سیکنڈز بعد پھر پوچھا۔
" درمان حوصلے سے سننا میری بات اور وشہ کو بھی سنبھال لینا۔ وہ جیسی بھی تھیں وشہ کی تو ماں ہی تھیں نا۔ اصل میں جس دن شنایہ بھابھی نے زرلشتہ اور معصومہ کو نقصان پہنچایا تب غصے میں وہ دوسری حویلی چلی گئ تھیں ابھی صبح ہی خبر ملی کہ اس حویلی میں آگ لگ گئ اور شنایہ بھابھی موقع پر ہی جاں بحق ہوگئیں۔ وقت کم ہے جلدی پہنچو جنازے کا ٹائم بھی مجبوری میں جلدی رکھوانا پڑا ہے مجھے۔۔۔!!!"
باران نے ایک ہی سانس میں اسے سب بتایا۔ پھر فون بند کرکے وہ فورا وہاں سے ایمبولینس کی سمت گیا۔
جبکہ درمان پر تو پورے ہاسپٹل کی چھت ہی گرگئ تھی جیسے۔ اس کے ہاتھ لرزے جو کسی نے محسوس کیے ہوں یا نہ کیے ہوں دیار اور زرلشتہ نے محسوس کیے تھے۔ فون آف کرکے اس نے پاکٹ میں رکھا۔ فدیان معصومہ کے روم میں تھا۔ باقی سب یہاں ہی تھے۔
" درمان سب ٹھیک تو ہے نا ۔۔!! گھر سے کال تھی کیا ہوا ہے ۔۔!!"
دیار کے پوچھنے کی دیر تھی اس نے گہرا سانس بھرا۔ پھر وشہ کے قریب آ کھڑا ہوا۔ جو اسی کے چہرے کے تاثرات دھڑکتے دل کے ساتھ جانچ رہی تھی۔
" وشہ ہمیں فورا حویلی کے لیے نکلنا ہے۔ بچے دھیان سے میری بات سننا۔ ٹھیک ہے۔۔!! زندگی اور موت کا اختیار تو اللہ کی زات کے ہاتھ میں ہے اور ہم سواۓ صبر کے کچھ نہیں کرسکتے۔ بیٹا ہمیں فدیان کو بھی یہ خبر دینی ہے۔ تو میری سٹرونگ بہن کا مضبوط رہنا ضروری ہے ۔۔!!"
کتنا مشکل ہوتا یے نا کسی کے مرنے کی خبر کسی اور کو دینا پر مجبوری بھی ایسی ہوتی ہے کہ خبر دینی ہی پڑتی ہے۔ درمان کی بھی مجبوری تھی۔ وشہ سمجھ گئ کچھ تو برا ہوا ہے۔ اس نے ہاں میں سر ہلایا۔ پھر ہاتھوں کی مٹھیاں بناکر ہمت پیدا کرنے لگی۔ سب درمان کی بات کے منتظر تھے۔
" بیٹا مورے کا انتقال ہوگیا ہے آج صبح۔ ۔۔!! وہ دوسری حویلی گئ تھیں وہاں آگ لگ گئ اور وہ موقع پر جاں بر نہ ہوسکیں۔ بی بریو وشہ ۔۔!! ہمیں فدیان کو بھی سنبھالنا ہے ۔۔!!!"
مائیں جیسی بھی ہوں نا چاہے اولاد کو ٹھوکر پر بھی رکھ لیں پر کچھ بچوں کو وہ بھی جان سے پیاری ہوتی ہیں۔ وشہ کو بھی اپنی ماں پیاری تھی۔ بھلا کس کو اپنی ماں پیاری نہیں ہوتی۔۔۔!!!!
وشہ کے پاؤں کے نیچے سے زمین سرک گئ پھر آنکھوں میں اپنی ماں کا عکس لہرایا۔ اور بےخبری میں اسی لمحے آنسو آنکھ سے رخسار تک لکیر کھینچ کر زمین پر گر گیا۔
پر وہ مضبوط بنی رہی۔ اس خبر کو سننے کے بعد بہراور درانی اور رخمینہ بیگم بھی شاک میں گۓ۔ انہیں وشہ کی ہی فکر تھی کہ وہ کیسے ری ایکٹ کرے گی۔ پر وہ ہمت کرکے کھڑی تھی۔ اس نے زیر لب انا اللہ پڑھا۔
پھر سانس ہوا کے سپرد کرکے درمان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
" چ۔ چلیں ل۔لالہ کو یہ بات بتادیں۔ آپ حوصلہ کریں۔ ہم ٹھیک ہیں۔ موت ب۔برحق ہے۔ آپ ہماری طرف سے بےفکر رہیں۔۔!!!"
اسے کہہ سکتے ہیں وہ مضبوط سے بھی مضبوط تھی اتنی مضبوط کہ اپنی سگی ماں کی موت کی خبر سن کر بھی اپنے پیروں پر کھڑی تھی۔ ورنہ آسان کہاں ہوتا یے کسی اپنے کو کھوکر ہواسوں میں رہنا۔ انسان بھول جاتا ہے اپنی زات بھی۔۔!!
پر وہ ابھی ہوش میں تھی۔۔۔!!!
درمان نے اسے خود سے لگایا۔ پھر اس کے سر پر بوسہ دیا۔
"بی سٹرونگ وشہ ۔۔!!! ہم ہیں تمہارے ساتھ ۔۔۔!! بی سٹرونگ ۔۔۔!!!"
زرلشتہ سمیت دیار کی نگاہیں بھی اس لڑکی پر جمی تھیں جس نے آنکھیں سختی سے بھینچ کر ناجانے خود کو کیا کہا کہ پھر درمان سے الگ ہوکر بغیر ایک لفظ کہے وہ فدیان کے پاس جانے کو تیار ہوگئ۔
انہیں کیا خبر تھی کہ وشہ نے خود سے بس یہ کہا تھا۔
" وہ پہلے کونسا میرے پاس ہوتے بھی میری تھیں ۔۔!! ایک میں ہی تھی جو ان کی نظروں میں حقیر تھی۔ کوی فرق نہیں پڑا میری زندگی میں ان کے جانے سے ۔ پہلے بھی میں یتیم ہی تھی ان کے ہوتے۔ اب چلو دنیا کو بھی پتہ چل جاۓ گا ۔۔۔!!!"
پھر ہمت آگئ اس میں سب سہنے کی۔ یہ ڈھارس شاید عارضی ثابت ہوتی کیونکہ ماں اور باپ بھلے نام کے ہی ہوں۔ پر نام بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے ان کا۔ ۔!!!
" دیار ساتھ جاؤ وشہ بچی کے ۔۔۔!! اسے ایک لمحہ بھی اکیلا نہ چھوڑنا۔ بہت معصوم ہے یہ۔ کسی کے سامنے نہیں روۓ گی۔ پر اکیلے میں جتنی ازیت اسے ملے گی ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔شوہر کا سہارا ایسے وقتوں میں بیوی کو لازمی چاہیے ہوتا ہے۔"
رخمینہ بیگم نے اسے اس کے پاس بھیجا چاہا جس نے رک کر اپنے بابا پر ایک نگاہ ڈالی جیسے ان کے حکم کا منتظر ہووہ۔
آج سب نہیں بس کچھ بھلا کے انہوں نے پلکوں کو جنبش دی ہاں کہنے کے لیے۔ اور دیار اسی لمحے ان دونوں کے پیچھے چلا گیا۔
" اٹھو زرلش تم بھی جاؤ۔ درمان کو ضرورت ہوگی تمہاری۔ اچھی بیویاں تکلیف اور مشکل کے لمحات میں شوہر کو اکیلا نہیں چھوڑتیں۔ اٹھو ۔۔!!"
اب ان کی توپوں کا رح زرلشتہ کی جانب تھا جو درمان کے پاس جانے کا سن کر نفی میں سر ہلاکر بیڈ کراؤن سے لگ کر بیٹھ گئ۔
" میں تو جانتی ہی نہیں انہیں۔ کیا پتہ وہ جھوٹ بول رہے ہوں۔ میرا نکاح ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے نہیں جانا کہیں بھی ۔۔۔!!!"
اس نے بچوں کی طرح منہ بسورا تو بہراور درانی نے سر کو نفی میں جنبش دی۔
" خود کروایا تھا میں نے تمہارا اور اس کا نکاح۔ !!
تمہیں یاد نہیں پر جرگے کو یاد ہوگا کیسے تم نے سوالوں کی بوچھاڑ کی تھی۔ اب اٹھو اس سے پہلے تمہاری ماں کا پارا ہائ ہوجاۓ جاؤ ۔ ان سب کے ساتھ۔۔!! اور خبردار تم درمان زوۓ کے بغیر گھر آئ تو۔۔۔!! جاؤ اب ۔۔!!"
انہوں نے درشتگی سے کہا تو چار و ناچار وہ اٹھ کر جانے لگی پھر چکر آنے کا ڈرامہ کرکے واپس سے بیڈ پر بیٹھ گئ۔ پر افسوس سامنے اسی کے ماں باپ تھے جو رگ رگ سے واقف تھے اس کی۔انہوں نے منہ ہی نہ لگایا۔
" ماں باپ میرے ہیں سگے اپنے اس بھولے بھٹکے داماد کے بن رہے ہیں۔ کہاں ہوتے ہیں اولاد کی چھوٹی سی چوٹ پر تڑپنے والے ماں باپ ۔۔۔!!! کہاں ہوتے ہیں ۔۔۔!!!"
ہاتھ اٹھانا کر دہائ دے کر اسے جانا پڑا تو پیچھے اس کے ماں باپ نے اس کی حالت پر دعا ہی کی۔ جانتے وہ بھی تھے سب کس نے کیا ہے۔
پر درمان کا اس سے لگاؤ دیکھ کر خاموش ہو جاتے تھے۔ بھلا کسی کی محبت چھیننے کا گناہ وہ پھر سے کیسے کرتے۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" سنیں نا روحیہ زہرہ جی ۔۔۔!!! ایک بات تو بتائیں اگر آپ کا شوہر آپ کو بھول گیا ہو۔ مطلب ایک بیوی یا پھر لڑکی جو بھی ہے۔۔!! وہ اپنے شوہر کو ہی بھول جائے تو اس شخص کے ساتھ رہنا جائز تو ہوتا ہے نا۔ میرے گھر والوں کو کون سمجھائے۔ میں اس شخص سے ملی ہی اب ہوں۔ کونسا نکاح ۔۔!! کیسا نکاح ۔۔!! بتائیں نا ڈاکٹر جی مجھے اس شخص کے ساتھ رہنا چاہیے یا نہیں ۔۔!!"
وہ کب سے کمرے سے باہر نکل کر ادھر ادھر ٹہل رہی تھی جب اچانک اسے ڈوکٹر روحیہ یاد آئی تو فورا وہ ایک نرس سے اس کے کیبن کا پوچھ کر وہاں آندھی طوفان کی طرح ٹپکی۔
ڈاکٹر روحیہ اس وقت کسی کیس کی فائل سٹڈی کررہی تھی جب اچانک دھرام سے دروازے کھلنے کے بعد آندھی طوفان کی طرح خود تک پہنچے اس وجود کو دیکھ کر وہ اچھلی اور فائل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر سائیڈ پر گرگئ۔
پھر اس کا انوکھا سوال اس نے دایاں ہاتھ پیشانی پر رکھا۔ کہ یہ لڑکی آخر کس کی کاپی ہے..!!!
اسے افسوس ہوا اس وقت پر جب اس پٹاخہ کو گھٹی دی تھی اس نے۔ یہ تو اس جیسی ہی تھی۔ سالوں بعد اس سے مل کر روح کو اندازا ہوا گھٹی کا اثر بھی ہوتا ہے ۔۔۔!!!
جی ہاں یہ روح تھی۔۔۔!!! باران کی روح ۔۔۔!!!!!!! ڈاکٹر روحیہ زہرہ یا پھر روحِ ذکیہ درانی ۔۔۔!!!
اسے افسوس ہوا اس وقت پر جب اس پٹاخہ کو گھٹی دی تھی اس نے۔ یہ تو اس جیسی ہی تھی۔ سالوں بعد اس سے مل کر روح کو اندازا ہوا گھٹی کا اثر بھی ہوتا ہے ۔۔۔!!!
جی ہاں یہ روح تھی۔۔۔!!! باران کی روح ۔۔۔!!!!!!! ڈاکٹر روحیہ زہرہ یا پھر روحِ ذکیہ درانی ۔۔۔!!!
" کیا چیز ہو تم آخر لڑکی۔۔!! یہ ایسے نیک خیالات آخر کیسے تمہارے دماغ میں آجاتے ہیں۔ ڈرا دیا تم نے مجھے۔ دیکھو نکاح ہوا ہے تمہارا اس شخص سے۔ اب وہ شوہر ہے تمہارا۔ تمہارے بھولنے یا نہ بھولنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ شرعی طور پر وہ تمہارا محرم ہی ہے۔ اور تم رہ سکتی ہو اس کے ساتھ۔ آخر کس پاگل نے گھٹی دی تھی تمہیں۔ جو بھی تھا دنیا کا سب سے بڑا مینٹل انسان تھا۔ اللہ پوچھے گا اس سے خود تو کم تھا ایک اور نمونہ بھی اپنے جیسا بنادیا اس نے۔!!!!"
اسے جھنجھلا کر دیکھ کر روحیہ نے اپنی فائلز زمین سے اٹھائ۔ پتہ اسے بھی تھا زرلشتہ اس کی ہی کاپی ہے۔ پر حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اس سے اس وقت مل لیتی۔ اپنے بھائ اور بھابھی کی یہاں آمد کی وجہ سے وہ ایک ہفتے سے چھپتی پھر رہی تھی۔
اس نے تو جھنجھلاہٹ میں زرلشتہ کو گھٹی دینے والے پر بات کردی پر اسے کیا پتہ تھا مقابل کی دکھتی رگ ہے یہ۔ جھٹکے سے زرلشتہ نے روحیہ کے ہاتھ سے وہ فائنل چھینی۔ سرمئ آنکھیں مقابل کی سرمئ آنکھوں میں گاڑ کر اس نے ایک ہاتھ اس کی کرسی کی ہتھی پر رکھا پھر اس کی جانب جھکی تو روحیہ فورا کرسی کی پست سے لگ گئ۔
" ڈاکٹر صاحبہ۔۔!! مجھے پاگل کہنا ہے تو کہہ لیں دل کرے تو اس ہاسپٹل کے پاگل خانے میں ایڈمٹ کرلیں۔ مجھے کوئ اعتراض نہیں۔ پر میری پھپھو کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا نہ کہیے گا۔ وہ پاگل نہیں تھیں مائنڈ اٹ ۔۔!!! میرے لالہ جان کہتے ہیں وہ اس دنیا کی سب سے پیاری اور کیوٹ لڑکی تھیں۔
ہماری جان ہیں وہ۔۔۔!!! میں خوش قسمت ہوں کہ اپنی پھپھو جیسی ہوں۔ اور مجھے ایسا ہی رہنا ہے۔ کسی کی ذاتیات پر بات کرنا آپ جیسی عقلمند انسان کو زیب نہیں دیتا۔ شکر کریں سامنے میں تھی ورنہ لالہ آپ کی جان نکالنے میں بھی وقت نہ لگاتے ۔۔۔!!!"
کرسی پر مکمل جھک کر زرلشتہ نے غصے سے اسے وارننگ دی پر روحیہ کے دل میں ننھی سی خوشی کی کونپل کھلی۔ اپنے بھتیجے پر اس لمحے اسے حد سے زیادہ پیار آیا جس نے اپنی بہن کو بھی اس سے پیار کرنا ہی سکھایا ہے۔ مجبوری نہ ہوتی تو اب تک وہ زرلشتہ کے گال کھینچ کر لال کرنے کے ساتھ اسے اچھے سے بتاتی دونوں میں سے استاد کون ہے اور شاگرد کون ہے۔ پر مجبوریوں نے فلوقت اپنے خون سے ملنے کی اجازت بھی نہ دی۔۔!!
اسے ابھی کسی کی نظروں میں نہیں آنا تھا۔
زرلشتہ کہاں جانتی تھی کہ روح کی خاطر جسے وہ ڈانٹ رہی ہے وہی تو اس کی پھپھو ہے۔ حالات نے روح کو مکمل بدل دیا تھا۔ اب وہ پہلے والی معصوم روح نہیں رہی تھی وہ اب پہلے سے بہت میچور اور دیکھنے میں حد سے زیادہ حسین تھی۔ پر اس کی یہ آنکھیں اب بھی ویسی تھیں۔
" اتنا پیار وہ بھی پھپھو سے۔ ویسے سن کر اچھا لگا۔ کہ آج کے دور میں بھی محبتیں زندہ ہیں۔۔!! اب مجھے دھمکا کر تم نے اپنی پھپھو سے محبت کے جھنڈے گاڑ لیے ہوں تو جاؤ اپنے شوہر کے پاس۔ اچھا بھلا انسان یے وہ اسے اپنی کم عقلی کی وجہ سے کسی اور کے لیے نہ چھوڑنا۔ تم بھول جاؤ یا یاد رکھو وہ تمہارا شوہر ہی رہے گا۔ اور اچھی بیویاں اپنے شوہروں کو ٹینشن نہیں دیتیں۔ اپنا خیال رکھنا۔ زیادہ سٹریس لینے کی ضرورت نہیں۔ طبیعت بگڑنے تو سیدھا ہاسپٹل آنا۔ اب جاؤ کام ہے مجھے۔۔۔!!!"
اپنی آنکھوں میں اتری چمک چھپاکر روحیہ نے فکر اور محبت بھرے لہجے میں اسے نہارا۔ پر اس کی حالت جتنی بری تھی اور زخم جتنے گہرے تھے اسے اس میں اپنی جھلک دکھی۔وہ بالکل اس جیسی تھی۔ اسی کے مجرم کے ہاتھوں ستائ ہوئ۔۔!!!
زرلشتہ بھی ناک پھلا کر اس کی فائل ٹیبل پر پٹخ کر کمرے کا دروازہ غصے سے کھول کر چلی گئ۔ اس کے جاتے ہی روحیہ کے چہرے کے تاثرات سرد ہوۓ۔
"شنایہ ۔۔۔!!! تم اس دنیا کی سب سے گھٹیا عورت ہو۔ جس نے پہلے مجھے باران سے الگ کیا پھر۔ پھر میری بھتیجی کو مارنے کی کوشش کی۔ میرے زخم ناسور بن چکے ہیں۔ آج اپنے خون کو اس حال میں دیکھ کر جتنا درد مجھے ہوا تم سوچ بھی نہیں سکتی۔ میری فیری کو درد دے کر تم نے اچھا نہیں کیا۔ روح کے ہر زخم کا بدلہ روحیہ لے گی۔ بس تھوڑا سا انتظار پھر آفریدی اور درانی خاندانوں کی زندگی میں طوفان نہ لادیا میں نے تو مجھے بھی روحیہ زہرہ نہ کہنا ۔۔۔۔!!!! "
روحیہ نے دانت بھینچے۔ چہرے پر حددرجہ ازیت تھی۔ وہ مری نہیں تھی۔ وہ مر ہی نہیں سکتی تھی۔ باران زندہ تھا تو وہ کیسے مرجاتی۔
اس رات شنایہ نے بےبس، بےسہارا روح کو تھپڑ مارکر نکالا تھا اپنے گھر سے۔ آج وہی مظلوم روح پاکستان کی سرزمین پر ڈاکٹر روحیہ زہرہ بن کر ایک الگ پہچان سے لوٹی تھی۔ جس کا شمار دنیا کے بہترین ڈاکٹرز کی فہرست میں ہوتا تھا۔ اپنی پہچان تو حاصل کرلی تھی اس نے۔ باقی اب بدلہ لینا رہ گیا تھا۔
وہ لوٹی ضرور تھی پر بادل کی روح بن کر نہیں ۔۔۔!!! وہ مجبور ماں بن کر جسے اپنی بیٹی کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔
وہ سب بھول جاتی پر یہ درد اسے ہمیشہ رہتا کہ اپنی بیٹی اس نے کسی انجان کو دے دی۔ جسے شاید ہی وہ کبھی واپس دیکھ سکے۔
" جلد ملیں گے باران ۔۔!! محرم بن کر ۔۔۔!!! تیار ہوجاؤ۔ میرے ہونے کے لیے۔ ہم ملیں گے ضرور۔ پر جیسے میں چاہوں گی ویسے ۔۔ !!!"
وہ یک طرفہ مسکرائ۔ پراسرار سی مسکراہٹ۔۔!!
جس میں بدلہ لینے کی تڑپ تھی اور ماضی کی ٹوٹی کرچیاں تھیں۔ روح آچکی تھی اپنا حساب لینے۔۔۔۔۔!!!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
آفریدی مینشن میں آگے پیچھے دو گاڑیاں داخل ہوئیں۔
پہلی گاڑی میں درمان اور زرلشتہ بیٹھے تھے اور دوسری گاڑی میں فدیان، وشہ اور دیار۔
معصومہ کی حالت ابھی مکمل ٹھیک نہیں تھی تو اسے احتیاطا ڈسچارج نہیں کیا گیا۔ وہ زیادہ تر وقت سوئ رہتی تھی۔ پیٹ پر لگنے والی گولی کی وجہ سے اسے بیٹھنے میں بھی مسئلہ ہوتا تھا۔ تبھی اس کی تکلیف کم کرنے کی خاطر ڈاکٹرز اس کا جسم یا تو سن کردیتے یا اسے نیند کی دوا دے دی جاتی۔
گاڑی رکی۔ تو فدیان کی گرفت سٹیرنگ ویل پر سخت ہوئ۔ وہ عجیب کشمکش کا شکار تھا رونا چاہتا تو دل معصومہ کی حالت اسے یاد دلاتا کہ کیا وہ عورت جو اس کی ماں یے اس قابل ہے کہ اس پر رویا جاۓ۔ جس کی وجہ سے اس کی بیوی ٹھیک سے بول بھی نہیں پاتی اب۔ معصومہ کی زندگی کے تمام درددوں کی وجہ ہی تو یہ سفاک عورت تھی۔پھر ضبط کرکے وہ آنسو پیچھے دھکیل دیتا۔
گھر میں علاقے کے تمام لوگ جمع تھے۔ آخر سردار کی بیوی تھی وہ لوگ کیوں نہ آتے۔ حویلی لوگوں سے بھری ہوئ تھی۔ درمان نے زرلشتہ کا ہاتھ پکڑا کہیں کوی پرانی یاد اسے تنگ نہ کرے۔ دیار کی نگاہیں کب سے خاموشی کی مورت بنی وشہ پر جمی تھیں۔ جو خاموش تھی بالکل۔
جونہی ان سب نے قدم گھر کے لاؤنج میں رکھے تو وشہ کو سانس لینے میں مسئلہ ہوا۔ بہت گھٹن محسوس ہوئی اسے اس جگہ۔ ضبط کرکے اس نے سامنے تابوت کو دیکھا جہاں آس پاس علاقے کی عورتیں موجود تھیں۔
" وشہ آپ ٹھیک ہیں۔۔!!!"
دیار کی فکر بھری آواز پر اس نے ہاں میں سر ہلادیا۔ پھر خاموشی سے جاکر اس تابوت کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھی۔ اس کی بےتاثر نگاہیں اسی تابوت پر جمی تھیں۔ بغیر پلک جھپکاۓ وہ اسے ہی دیکھتی رہی۔ باران بتاچکا تھا شنایہ بیگم کے چہرے کی حالت ایسی نہیں کہ کوئ انہیں دیکھ سکے۔ تو عورتوں کو بھی تاکید کی گئی تھی کہ غلطی سے بھی وشہ کو اس کی صورت نہ دکھائیں۔
شنایہ واقعی مرچکی تھی۔ یہ کوئ جھوٹ یا دکھاوا نہیں تھا۔ جب باران نے اسے پرانی حویلی بھیج دیا تب وہ وہاں پہلے پہل تو ہر وقت قہقہے لگاکر ہنستی رہتی کبھی چیختی کہ اسے باہر نکالا جاۓ۔ کبھی کھانا پھینک دیتی۔ کبھی غصے میں چیزیں توڑتی۔ باران نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ وہ سمجھ گیا تھا یہ پکڑ میں آچکی ہے۔ تو اب جو ہورہا یے وہی اس کی سزا ہے۔ سادہ لفظوں میں شنایہ اپنا دماغی توازن کھوبیٹھی تھی تبھی ہر وقت دیواروں سے باتیں کرتی۔ انہیں مارتی۔ کبھی اپنے بال ناچتی۔
دو سے تین دن تو وہ اپنے ہی ہوش میں نہیں تھی تو وہ دن گزر گۓ۔ پھر ضمیر نامی شے جاگی۔ جو جو اس نے کیا تھا اسے سب نظر آنے لگا۔ کہیں زکیہ کی وہ درد بھری آنکھیں اسے لمحہ لمحہ اس کا انجام دکھانے لگتیں تو کبھی باران کے ساتھ اس نے جو کیا اسے وہ تڑپاتا۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر خیالوں میں سحرش کی صورت دیکھتی رہتی جسے تئیس سال اس نے تڑپایا تھا۔ تئیس سال ۔۔۔۔!!!!!!
اسے ہر وقت یہی لگتا کہ یہ سب اس سے بدلہ لینے آرہے ہیں۔ اسے مارنا چاہتے ہیں۔ اور کوئ اسے بچا نہیں رہا۔ پھر کل رات شنایہ نے خود کو آگ لگادی۔ سحرش سے بچنے کے لیے۔ کیونکہ اسے وہ اپنی موت کی صورت میں نظر آرہی تھی۔
خود کو مارتے وقت شنایہ کا دماغی توازن ٹھکانے پر تھا۔ پر جو اس نے کیا اسے بھی سمجھ نہیں آیا۔ جب تک باران اس جگہ پہنچتا وہ پوری طرح جل کر مرچکی تھی۔ کئ گھنٹے وہ اسی درد سے چیختی رہی تھی۔
یہ تھی شنایہ کی سزا ۔۔ !!!
حرام موت ۔۔۔۔!!!!!!! وہ بھی معافی ملے بغیر حاصل کرنا۔ باران نے خاموشی سے اسے صبح کے اجالے میں گھر لانا مناسب سمجھا۔
خودکشی کی اسلام میں کہیں بھی کسی بھی حال میں اجازت نہیں۔ چاہے انسان ساری زندگی اللہ کی خاطر وقف کردے۔ ایک ایک سانس اس کی مرضی سے لے۔ اپنی خواہشوں کو مار کر اسے راضی کرتا پھرے پھر آخری وقت پر کسی تکلیف سے نجات کے لیے اگر خودکشی کرلے تو وہ پکا جہنمی ہے۔ اسے قیامت تک قبر میں بھی آگ ہی ملے گی۔ اور قیامت میں بھی اس کے اعمال اس کے منہ پر مارے جائیں گے۔
شنایہ بیگم نے دنیا میں بھی ذلت چنی اور اب آخرت میں بھی ذلت ہی اس کا مقدر تھی۔ اس کی کہانی ختم ہوگئ۔ وہ عورت اگر زندہ رہتی تو پھر کسی نہ کسی کی آہ ضرور لیتی۔
بغیر معافی ملے وہ اب اتنی بری حالت میں تابوت میں بند تھی کہ یہاں موجود عورتوں کو بھی بدبو آرہی تھی اس کے جسم سے۔ اس کا وجود اس حویلی میں تعفن پھیلانے کا کام کررہا تھا۔ آخر گناہوں کے بوجھ کی وجہ سے ایمان کی خوشبو تو کب کی کھوچکی تھی وہ۔
کچھ لوگوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ جتنی جلدی وہ اس دنیا سے اٹھ جائیں اتنا ہی اچھا ہوتا یے اس کے آس پاس کے لوگوں کے لیے۔
" مورے ۔۔۔۔!!!! کس حال میں لے آئ ہیں آپ ہمیں کہ ہم جی بھر کے رو بھی نہیں پارہے آپ پر۔ ورنہ یہ زیادتی ہوگی معصومہ اور زرلشتہ کے ساتھ۔۔۔!! آپ نے ہمیں سچ میں ان دونوں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں چھوڑا۔ خود تو راہِ فرار اختیار کرلی آپ نے۔ اور اپنے گناہوں کے بوجھ تلے ہمیں دبادیا۔۔۔!!!"
ایک ہاتھ اس کے تابوت پر رکھ کر وشہ نے خاموش آنسو بہانا شروع کیے۔ یہ وہی بیٹی تھی جس سے شنایہ بیگم کو نفرت تھی آج یہاں اس پر رونے والی واحد یہی تھی۔
زرلشتہ کو اس گھر میں آنے کے بعد ماضی کی دھندلی یادوں نے اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا۔ زیادہ کچھ بھی یاد نہیں آرہا تھا اسے بس کسی کی مقروع ہنسی سنائ دے رہی تھی۔کوئ ہنس رہا تھا یہاں ۔۔۔!!!
اس نے درد سے آنکھیں بند کیں پر ہنسی کی آواز بڑھتی ہی گئ۔اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھ کر زرلشتہ نے اس آواز سے بچنا چاہا۔ دماغ میں چبھ رہی تھی یہ آواز۔ تب اچانک درمان کی نگاہ اس پر پڑی۔
" زری ۔۔۔!!! ٹھیک ہو تم۔ یہاں دیکھو مجھے۔ کیا ہوا ہے زرلش ۔۔!!!"
اس نے زرلشتہ کے ہاتھ اس کے کانوں سے ہٹاکر اس کا رخ اپنی سمت کیا۔ جس کی آنکھیں تکلیف سے سرخ ہورہی تھیں۔ درمان کو سمجھ آگیا ابھی ڈاکٹر نے بھی بتایا تھا اسے۔ کسی بھی یاد سے اس کی طبیعت بگڑ سکتی ہے۔
سب کی موجودگی کو بھلا کر اس نے زرلشتہ کو اپنے حصار میں قید کیا۔ اس کا سہارا ملتے ہی زرلشتہ نے اس کی شرٹ مٹھی میں جکڑی۔
" بس کچھ نہیں ہوا ۔۔۔!!! میری جان ریلیکس ۔۔۔!!! ابھی تم روم میں جاؤ۔ میں بعد میں آؤں گا اوکے۔ میری جان کچھ بھی مت سوچو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ بس سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔۔۔!!!"
اس کے بال سہلاتے ہوئے درمان نے پیار سے اسے بہلایا۔ پھر اس کا چہرہ سامنے کرکے اس کے آنسو صاف کیے۔
" ڈ۔ڈر لگ رہا ہے۔ کوئ ہنس رہا ہے یہاں۔ اسے چپ کروائیں۔۔۔!!!"
بھاری سانسوں کے درمیان اس کے ہاتھ پکڑ کر زرلشتہ نے یہی کہا۔
"کوئ نہیں ہنس رہا یہاں زری۔۔!!! بالکل نہیں ڈرنا۔ بی بریو ۔۔!! "
درمان نے وہاں سے گزرتی ملازمہ کو اشارے سے اپنی طرف بلایا۔
" اسے روم میں لے جائیں۔ گاڑی میں اس کی میڈیسنز پڑی ہیں اسے کھلادیجۓ گا۔ اسے پتہ ہے کونسی میڈیسن لینی ہے۔ یہ جب سوگئ تب بھی اسے اکیلا نہ چھوڑیے گا۔ "
اس کی تلقین کے جواب میں سر کو خم دے کر وہ زرلشتہ کو اپنے ساتھ وہیں پاس میں موجود روم میں لے گئ۔ ابھی درمان کو باران کے پاس جانا تھا۔ جیسی بھی تھیں یہ عورت ماں تھی اس کی۔ اس کی آخری رسومات اسے ہی کرنی تھیں۔
کافی دیر تک وشہ خاموشی سے اس تابوت کو تکتی رہی پھر باران کے حکم پر ہی جنازہ اٹھانے کا فیصلہ کیا گیا۔ وشہ نے احتجاج نہیں کیا تھا بس خاموشی سے سائیڈ پر ہوگئ۔ بڑی مشکلوں کے بعد بھی کوئ دعا اس کے دل سے نہ نکلی اس عورت کے لیے۔
دراب آفریدی نے دو دن پہلے اسے طلاق دے دی تھی تو اب ان کا اس عورت کے پاس آنا بنتا نہیں تھا۔ تو وہ دور ہی رہے اس سے۔ پھر سحرش کا سامنا بھی انہوں نے اتنے دنوں سے نہیں کیا تھا۔ جب سے وہ آئ تھی دراب آفریدی اس سے بھی دور تھے۔
جنازہ پڑھنے کے بعد شنایہ بیگم کو ان کی آخری پناہ گاہ کے حوالے کرکے فدیان اور درمان واپس گھر کی طرف آگۓ۔
کیوں بھول جاتے ہیں ہم انسان کہ ہمارا آخری مقام بس ایک دو گز کی زمین ہے۔ یہ ہمارا گھر چایے دو مرلے کا ہو یا سو کنال کا ہم ہمیشہ اس میں نہیں رہ سکتے۔۔۔!!!
کاش ہم وقت رہتے یہ بات سمجھ جائیں تو کبھی اپنی زندگی دوسروں کو برباد کرنے میں ضائع نہ کریں۔
کاش ۔۔۔!!!!
ہم خالی ہاتھ آۓ تھے بس ایک کفن لے کر جائیں گے۔ پھر دوسروں کو برباد کرنے میں یا دنیا میں کھونے میں وقت کیوں ضائع کرنا۔۔۔!!!!
امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کا فرمان ہے۔
"کہاں بھٹک رہے ہو اور کدھر کا رخ کیے ہوۓ ہو، یا کن چیزوں کے فریب میں آگۓ ہو؟ یقین رکھو اس لمبی چوڑی زمین میں سے تم میں سے ہر ایک کا حصہ قد بھر زمین کا ٹکڑا ہی تو ہے جہاں یہ جسم رخسار کے بل زمین پر پڑا ہوگا۔۔۔!!!"
(نہج البلاغہ، خطبہ 81)
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" جانم ۔۔!!! کیا ہوا ہے آپ کو۔ کیوں دے رہی ہیں خود کو ازیت۔ میری جان یہاں دیکھیں میری طرف ۔۔!!"
رات ہوگئ تھی سارے کام درمان کے ساتھ نپٹا کر دیار فریش ہوا پھر اسی کے ہی کپڑے پہن کر سیدھا وشہ کے کمرے میں آیا۔ یہاں اس کی کوئ ضرورت کا سامان نہیں تھا تو کیا ہوا دوست تو تھا نا۔ اسے پتہ تھا وشہ خاموش ہی بیٹھی ہوگی۔ اور توقع کے عین مطابق بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر وہ خاموش مورت بنی بیٹھی تھی۔
قدموں کی آواز سے وشہ کو اندازا ہوگیا کون آیا ہے۔ لمحے جو اس کا ضبط لڑکھڑایا پھر وہ واپس سے خود پر سنجیدگی کا حصول چڑھاگئ۔ دیار اس کے پاس بیٹھ کر اسی کی صورت کا جائزہ لے رہا تھا فرصت سے۔
" بس ویسے ہی۔۔!! آپ بتائیں کھانا کھایا آپ نے یا ہم ابھی لادیں آپ کو۔ آپ تھک گۓ ہوں گے تو رات یہیں رک جائیں۔ پہلے کھانا کھالیں پھر سوجاییے گا۔"
کمزور پڑنے کے ڈر سے وہ اٹھنے لگی جب دیار نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے وہیں روک دیا۔ پھر ان آنکھوں کا درد پڑھنے لگا جو ناجانے کیوں پر ضدی تھیں۔
" بھوک نہیں ہے مجھے۔ آپ میرے پاس ہی رہیں۔۔!!"
اس نے التجا کی۔ تو وشہ نے سر جھکایا۔
" چاۓ بنالاتے ہیں ہم آپ کے لیے۔ آپ آرام کریں۔۔!!"
کمال ضبط تھا اس کا جو اب بھی وہ مضبوط بن رہی تھی۔
" مجھ سے فرار آپ کو ملنی نہیں جانم۔ آپ کے سارے راستے میرے پاس ہی آتے ہیں۔تو رو لیں۔ میں ہوں آپ کے آنسو پونچھنے والا۔ میں جانتا ہوں آپ رونا چاہتی ہیں پر ہمت نہیں کرپارہیں۔ آپ کے پاس آپ کا پرسنل شویر یے۔جس کا سہارا ساری زندگی کے لیے آپ کو میسر رہے گا۔ یہاں آئیں۔۔۔!!!"
لفظوں پر دباؤ دے کر دیار نے اسے جتایا تو شہد رنگ آنکھیں ہمت ٹوٹنے پر بھیگنے لگیں۔ دیار کے بلانے کی دیر تھی جب فورا وہ اس کے سینے سے لگ کر اس کے بازوؤں کے حصار میں چھپ سی گئ۔ گھٹی سی سسکی نکلی تھی جب دیار نے اسے خود میں بھینچا۔
" م۔مورے چلی گئیں دیار۔۔!! یہ سب کیسے ہوگیا۔ کیوں ہوگیا یہ سب۔ وہ جیسی بھی تھیں ماں تھیں ہماری۔ ہم کیسے رہیں گے اپنی ماں کے بغیر۔۔۔!!!"
وشہ کی سسکیوں میں تیزی آگئی۔ اس کے آنسو دیار کی قمیض کو بھگونے لگے۔ جس میں ہمت تو نہیں تھی اسے روتا دیکھنے کی۔ پر ابھی وشہ کا رونا ہی ضروری تھا۔ تاکہ اسے تسلی رہے وہ اکیلی نہیں ہے۔
" میری جان ۔۔!!! اللہ کے فیصلوں کے سامنے ہم انسان بےبس ہیں۔ آپ دعا کریں اپنی مورے کے لیے۔ اور کس نے کہا کہ آپ ماں کے بغیر رہیں گی۔ میری مما بھی تو آپ کی ہی ہیں نا۔ کتنا پیار کرتی ہیں وہ آپ سے۔ میرا سکون خود کو اکیلا نہیں سمجھنا ۔۔!!"
دیار نے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا پھر انگوٹھے سے اس کے گالوں پر بہتے آنسو صاف کرکے اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے اسے لفظوں کا سکون بخشا۔ جس کی ہچکی بندھ گئ۔
" ہ۔ہمارا دل کررہا ہے ہم بہت روئیں۔ بہت سے بھی زیادہ ۔۔۔!!! دیار ہم بہت برے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے آپ بھی ہمیں چھوڑ دیں گے۔ ہم کہاں جائیں گے پھر۔۔!!!"
آنکھیں اٹھیں پھر دیار نے ان آنکھوں کا خوف پڑھتے اسے واپس سے خود میں بھینچ لیا۔ کسی قیمتی شے کی طرح۔
" ایسی فضول باتیں نہیں سوچتے۔ رونا ہے تو رولیں پر زیادہ نہیں رونا۔ آپ بیمار ہوں مجھے گوارہ نہیں۔ میری جانم کا خیال رکھنا فرض ہے آپ پر۔ جانم میں آپ کو چھوڑ کر کہاں جاؤں گا بھلا۔ آئندہ یہ نہیں سوچنا۔۔!!!"
دیار نے تڑپ کر کہا تو وشہ نے روتے ہوۓ آنکھیں بند کیں۔ سکون پاس تھا تو نیند بھی مہربان ہوجاتی اب اس پر۔
" و۔وعدہ کریں آپ ہمیں پاس رکھیں گے نا اپنے۔ ہمیشہ ۔۔!!! "
زکام زدہ سانس کھینچ کر اٹکتے ہوۓ وشہ نے وعدہ چاہا۔جب دیار نے طویل بوسہ دیا اس کے سر پر۔
" پکا وعدہ۔ آپ کو خود سے دور نہیں کروں گا میں۔۔!!!"
وشہ نے سکون کا سانس لیا۔ دل کو تسلی ملی تھی۔پھر خود اسی کے حصار میں سونے کی کوشش کرنے لگی۔ دیار کے پاس اس کا سکون لکھا ہوا تھا۔ اس کی بیماری کی دوا بس وہی شخص تھا۔
اس کے سونے تک دیار مسلسل اس کا سر سہلاتا رہا پھر جونہی اسے اس کی ہلکی ہلکی سانسوں کی آواز سنائ دی تو اس کی بےچین روح بھی سکون میں آگئ۔ اسی لمحے اسے میسج کی بیپ سنائ دی۔ وشہ کے اٹھنے کے ڈر سے فورا اس نے اپنا فون نکالا۔
درمان کا میسج آیا تھا اسے وہ اسے لاونج میں بلارہا تھا۔ کوئ بات کرنی تھی اسے اس سے۔ وشہ کو بیڈ پر لٹاکر کمفرٹر اسے اوڑھا کر دیار نے ایک مطمئن نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی اور لاونج کی طرف چلا گیا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" میم اس دن ہاسپٹل میں جس دوسری عورت کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی اس کا پتہ ہم لگواچکے ہیں۔ سبرینہ نام ہے اس کا۔ یہ رہی اس عورت کی ڈیٹیل اور یہ رہی اس بچی کی ڈیٹیل جو آپ نے اس عورت کو دی تھی۔۔!!!"
روحیہ اپنے کیبن میں بیٹھی تھی جب اس کے ماتحت کام کرنے والے آدمی نے دو فائلیں اس کے سامنے رکھ دیں۔ سبرینہ کی بجاۓ اس نے اپنی بیٹی والی فایل اٹھائ۔
یہاں آنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کا پتہ لگانا شروع کردیا تھا۔ اور آج فائنلی اسے اس کی بیٹی کی انفارمیشن ملنے والی تھی۔
کانپتے ہاتھوں سے اس نے فائل کو کھولا سامنے اس کی بیٹی کی تصویر تھی جو سکول ڈیٹا سے نکلوائ گئ تھی۔ اس سہمی ہوئی آنکھوں والی بلی کو دیکھ کر روحیہ کے لبوں پر دلکش پر درد بھری مسکراہٹ مچلنے لگی۔ آنکھوں میں آنسو چمکے۔ وہ چند گھنٹوں کی بچی کتنی بڑی ہوگئ تھی۔ روحیہ نے اس کی تصویر پر لب رکھے۔ ممتا کو قرار آیا پھر ممتا نے خواہش کی اس بچی کو پاس سے محسوس کرنے کی۔ کتنی مجبور ماں تھی وہ جسے اپنی بیٹی کا نام بھی نہیں پتہ تھا۔ وہ بچی معصومہ ہی تھی۔ راسم اور زکیہ کی بیٹی ۔۔۔!!!
" ماں صدقے جاۓ میری جان۔۔۔!!!"
تصویر سامنے کرکے روحیہ نے اس پر ہاتھ پھیرا پھر نام دیکھا تو مسکراہٹ اس دفعہ دنیا کی ہر قیمتی شے کو مات دے گئ۔
" معصومہ خانم ۔۔!!! کتنا پیارا نام رکھا ہے اس عورت نے اس کا۔ ماشاءاللہ ۔۔!! میری بچی۔۔!! کتنی پیاری ہے نا۔ مما قربان جائیں تم پر میرے بچے۔۔!!!"
والہانہ انداز میں تصویر کو روحیہ نے سینے سے لگاکر دل میں اسے مخاطب کیا۔ جب سامنے کھڑا یہ شخص سوچ رہا تھا کہ معصومہ کے بارے میں اگلی خبر اسے کیسے دے گا۔
" یہ اس وقت کہاں ہے۔۔!! مجھے قریب سے محسوس کرنا ہے اسے۔ سترہ سالوں بعد میں اپنی جان کو دیکھوں گی۔ کہاں رہتی ہے یہ۔ کونسی کلاس میں ہے۔ خوش تو ہے نا یہ اپنی زندگی میں ۔۔!!"
لبوں نے جنبش کی تو ممتا کی تڑپ کی عکاسی کرتے کئ سوال اس کے لبوں سے ادا ہوۓ۔ سامنے کھڑے شخص نے سر جھکایا۔
" میم یہ پڑھتی نہیں ہیں ان کی شادی ہوگئ ہے مسٹر فدیان سے۔۔!!! یہ آفریدی مینشن میں ہی رہتی ہیں۔ دراب آفریدی کی بہو کی حیثیت سے۔ آپ کی بھتیجی کی دیورانی ہیں یہ ۔۔۔!!!"
اس نے مدھم لہجے میں کہا تو گویا روحیہ شادی کا لفظ سن کر ساکت رہ گئ۔ معصومہ ابھی چھوٹی تھی تو اس کی شادی ۔۔۔!!!
پھر وہ بھی باران کے بھتیجے سے ۔۔!! ناممکن ۔۔!!!
" تمہیں کوئ غلط فہمی ہوئ ہے۔ دراب لالہ کے چھوٹے بیٹے سے دلاور کی بیٹی کا نکاح ہوا ہے میری بیٹی کا نہیں۔ لفظ ٹھیک کرو اپنے ۔۔!!"
اس نے تصحیح کی پر سخت انداز میں پر سامنے کھڑے شخص کے تاثرات اب بھی ویسے ہی تھے۔
" میم یہ دنیا کی نظروں میں دلاور خان کی ہی بیٹی ہیں۔ سبرینہ نامی عورت جسے آپ نے اپنی بیٹی دی تھی وہ دلاور خان کی بیوی ہے۔ آپ کی بیٹی کو اس شخص نے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے ونی کردیا۔ اور اس وقت یہ اسی ہاسپٹل کے روم میں انڈر آبزرویشن ہیں۔ گولی لگی ہے انہیں۔ مارنے والی کوئ اور نہیں شنایہ ہے۔ میں پوری تحقیق کرکے آیا ہوں میم۔۔!!! آپ کی بیٹی دنیا کی نظروں میں دلاور خان کی بیٹی ہے۔۔!!!"
وہ سن اوسان کے ساتھ سب سنتی گئ۔ آنکھوں میں نمی نے تیرنا شروع کیا کہ اس کی بیٹی کا نصیب بھی اس جیسا ہی تھا۔ ماں کے نصیب کی سیاہی دور ہونے کے باوجود بیٹی تک پہنچ گئ۔ پر صدمہ بڑا ہونے کی وجہ دلاور خان تھا۔
" مطلب میں نے اپنی بیٹی اس سفاک انسان سے بچاکر اسی کی بیوی کو دے دی تھی۔ یااللہ یہ کیا کردیا میں نے۔ میری بچی۔۔۔!!! ہاسپٹل میں تھی اور مجھے پتہ بھی نہیں تھا۔ وہ لڑکی جو فدیان کے ساتھ ہے وہی میری بیٹی ہے۔۔!! میری معصومہ میرے پاس ہے ۔۔۔!!!"
دلاور خان کے نام پر اس نے افسوس سے دانت پیسے۔ اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہوا اسے۔ پھر فائل وہیں چھوڑ کر وہ معصومہ سے ملنے کے لیے اٹھ گئ۔
جب بیٹی پاس تھی تو وہ کیوں دور رہتی اس سے۔
باہر نکلتے ہی ایک نرس سے اس کا تصادم ہوا تو اس کے ہاتھ میں پکڑی دوائیوں کی ٹرے زمین بوس ہوگئ۔ روحیہ نے سپاٹ نگاہ ڈالی اس نرس پر پھر وہاں سے آگے نکل گئ۔ وہ جانتی تھی اس وقت فدیان یہاں نہیں ہے۔
اور روم کا بھی انداز تھا اسے۔ دروازے کے پاس کھڑے ہوکر اسے اپنے قدم جمے ہوۓ لگے۔ ہاتھ لرزا۔ اس نے دروازہ کھولا تو کمرے میں دوائیوں کی ہلکی سی مہک تھی۔ جو اس کے نتھنوں سے ہوتی جسم میں سرائیت کرنے لگی۔ دل ہزار کی سپیڈ سے دھڑکا۔ اپنا خون پاس تھا اس کے۔ اور وہ بےخبر تھی۔
پیشانی پر چمکتا پسینہ پونچھ کر ایک تفصیلی نگاہ پیچھے کوریڈور پر ڈال کر آج پھر وہ اسی انداز میں کمرے میں آئ جیسے سالوں پہلے اس بچی کو ہاسپٹل میں چھوڑا تھا اس نے۔ ویسے ہی کسی کے پیچھے آنے کا خوف۔ بیٹی کی جان کی فکر۔ اور بےرحم دنیا کے دیے گۓ زخم ۔۔۔!!!
سب ویسا تھا۔ بس فرق یہ تھا کہ تب وہ اسے دے رہی تھی تاکہ وہ بچ جاۓ۔ اور آج اسے دیکھنے آئ تھی تاکہ خود بچ جاۓ۔
وقت پلٹا کھاچکا تھا۔ اندر داخل ہوکر اس نے احتیاطا روم لاک کیا۔ نرس یہاں سے جاچکی تھی ابھی نماز کا وقت تھا شاید اس لیے۔
روحیہ نے قدم اٹھاۓ جو اٹھنے سے انکاری تھے پھر مشکل سے بیڈ پر سوۓ اس معصوم سے وجود کے پاس آئ۔ چہرے پر دنیا جہاں کی تڑپ لیے اس نے کئ منٹ تک ایسے ہی کھڑے ہوکر معصومہ کی صورت دیکھی۔ جیسے دل کو یقین نہ آیا ہو ابھی۔ پھر کچھ دیر بعد جھک کر اس نے معصومہ کی بند آنکھوں کو انگلی کی پوروں سے چھوا۔ وہ تصویر جیسی بالکل نہیں تھی۔ کتنی کمزور ہوگئی تھی وہ۔ زرد رنگ، آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے، خشک ہونٹ، ہاتھ پر لگی ڈرپ جس سے قطرہ قطرہ محلول اس کے جسم میں گھل رہا تھا۔
کیسا مقدر تھا روحیہ کا جس نے سالوں بعد اپنی بیٹی دیکھی اور دیکھی بھی اس حال میں کہ دل لرز گیا
آنسو ٹپ ٹپ آنکھوں سے گرتے گۓ۔ جھک کر اس کے گال پر بوسہ دے کر زکیہ کا خود سے ضبط ٹوٹ گیا۔ تو کمرے میں اس کے رونے کی آواز گونجنے لگی۔
" میرا بچہ ۔۔!! میری جان۔۔!!! میں نے تو زندگی کے لیے چھوڑا تھا آپ کو۔ پر بھول گئ تھی کہ ماں کے نصیب کی سیاہی سے اولاد بھی نہیں بچتی۔ جب ماں ہی بدقسمت تھی تو اولاد کہاں سکھ سے رہ لیتی۔ میں قربان جاؤں تم پر میرے بچے۔۔۔!!! کاش میں اس حال میں ہوتی کہ سب بتادیتی تمہیں۔۔۔!!!"
اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر والہانہ انداز میں اس کی پیشانی پر ممتا بھرا لمس چھوڑ کر روحیہ نے اپنی ممتا کی پیاس بھجانا شروع کی۔ ماں کی تڑپ کہاں کم ہونے والی تھی وہ تو بڑھتی ہی گئ۔
نیند میں خود پر کسی کی نچھاور ہوتی محبت محسوس کرکے معصومہ کسمسائ۔ اس نے آنکھیں کھولنا چاہیں پر جسم ابھی سن تھا۔ تو کوشش ناکام ہوگئی۔ پھر منہ کے زاویے بگاڑ کر اس نے ہنہہ کہا۔ کہ مجھے سونے دیا جاۓ۔ اس کے چہرے کے بگڑے زاویے روحیہ نے ہنستے ہوۓ دیکھے۔ پھر اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوم کر روحیہ نے اپنے سینے سے لگایا۔
" بہت جلد میرا بچہ میں آپ کے ساتھ رہوں گی۔ زندگی جتنی بچ گئ ہے مجھے آپ کے ساتھ گزارنی ہے۔ بہت رہ لیا آپ کے بغیر مما نے۔ اب نہیں رہنا۔ معصومہ آپ رہو گی نا میرے ساتھ۔۔!!!
مجھے چھوڑنا مت جب آپ کے اور اپنے بیچ کی رکاوٹوں کو میں ہٹا آؤں۔ میرے جینے کی واحد امید سالوں سے آپ ہو۔۔۔!!! میرا بچہ ۔۔!!! مما کو معاف کردینا ۔۔!!!"
اس کے ہاتھ واپس سے چوم کر وہ وہیں بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے لگی۔ کبھی اس کا منہ چومتی تو کبھی روتے ہوۓ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس پر بوسے دیتی۔ کبھی اپنی خواہشوں کو روتی تو کبھی اس دن کو روتی جب باران سے محبت کی غلطی اس نے کی تھی۔ نا اسے محبت ہوتی نا زندگی جہنم سے بھی بدتر ہوتی۔
تبھی تو اسلام میں نکاح سے پہلے والی محبت اچھی نہیں سمجھتی جاتی۔ کیونکہ یہ محبت نسلیں تباہ کردیتی ہے۔ دو لوگوں کی زندگیوں سے خوشیاں دیمک کی طرح چاٹ سکتی ہے۔ اس میں برکت نہیں ہوتی۔ باران اور روح اس محبت کے شر سے تباہ ہوۓ دو وجود تھے جو اس بات کی گواہی تھے کہ محبت نکاح سے پہلے ہوتو ہاتھ سواۓ حسارے کے کچھ نہیں آتا۔ محبت بس محرم سے ہوتی اچھی لگتی ہے۔
اگر بچپن میں انہیں سیدھا نکاح کے رشتے میں باندھ دیا جاتا تو آج نا باران اکیلا ہوتا نا ہی ذکیہ راسم کے ظلموں کا شکار ہوئ ہوتی۔
یا اگر محبت ہی نہ ہوتی تو ذکیہ کچھ بھی کرکے راسم کا دل موم کرلیتی اور اس کے سامنے جھکتی نا۔ وہ مضبوط رہتی ۔۔!!! نا ہی راسم سبرینہ کا دکھ اس بیچاری پر نکالتا۔ وہ اسے وقت کے ساتھ ساتھ قبول کرلیتا۔ راسم کو بھی تو اسی نکاح سے پہلے کی محبت نے روگ دیا تھا۔
پھر باران بھی زندگی میں خوش ہوتا۔ بغیر کسی پچھتاوے کے۔
پر محبت نے تباہ کیا تھا ان دونوں کو۔ ایسا تباہ کہ کوئ پیرس میں سکون ڈھونڈتا رہا اور کوئ آسٹریلیا میں اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" یہ بادل کہاں چلا گیا ہے۔ مانا گرمیاں آگئ ہیں پر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ یہ غائب ہی ہوجاۓ۔ سورج کی تپش میں بھاگتے میں پسینے سے نہا چکا ہوں اور یہ مجھے مل ہی نہیں رہا۔ یار کب ملو گے اب۔ فون بھی نہیں اٹھارہے تم تو ۔۔۔!!!"
یشاور کافی دنوں سے فون کررہا تھا اسے پر باران کا نمبر بند جارہا تھا۔ پھر اس نے دلاور خان کے آدمیوں سے پتہ کیا تو اسے جو جاننے کو ملا اسے یقین نہ آیا۔ باران کو نکال دیا تھا کام سے دلاور خان نے۔
اب یشاور کیسے پہنچتا بہار کے گھر والوں کے مجرموں تک۔ بار بار نمبر ٹراۓ کرنے کے بعد اس نے فون ہی آف کرکے دوسری سائیڈ پر رکھ دیا۔ اور خود آنکھیں بند کرکے سونے لگا۔ بہار دوسرے کمرے میں ہی سوتی تھی اب تک۔ دونوں اچھے دوست بن گۓ تھے پر بہار اب بھی کسی لمحے ڈر جاتی تھی وہ سب یاد کرکے۔ تو یشاور اسے وقت دے رہا تھا۔
وہیں حویلی میں بیٹھا دلاور خان توقع کے عین مطابق بادل کی یاد میں آدھا ہوچکا تھا۔
" کہاں چلا گیا ہے یہ بادل ۔۔۔!!! میں نے تو غصے میں کہا تھا چلے جاؤ۔ یہ چلا ہی گیا۔ کہاں رہ رہا ہوگا یہ۔۔!! کس حال میں ہوگا۔ میرے تو آدمی بھی نہیں ڈھونڈ پارہے اسے۔۔!!!"
اپنے ڈیرے پر بیٹھے دلاور خان نے پریشانی کے عالم میں اپنا دایاں ہاتھ مٹھی کی شکل میں کرسی کی ہتھی پر مارنا شروع کیا۔
کافی دنوں سے وہ باران عرف بادل کی تلاش میں تھا۔ چار سالوں میں اسے باران کی اتنی عادت ہوگی تھی کہ اس کے جانے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کا دل بےچین ہوگیا۔
صحیح کہا تھا باران نے اسے اس شخص کو اعتبار کی مار مارنی تھی۔ دلاور نے باران کو بہت ڈھونڈا پر وہ نہیں ملا۔
" اتنی پریشانی تو مجھے یشاور کے جانے کے بعد نہیں ہوئ تھی۔ معصومہ کو ونی کرکے نہیں ہوئ تھی۔ میں تو سکون میں ہی رہا تھا۔ جتنی پریشانی اس بادل کے جانے کے بعد یورپی ہے۔ مجھے یہ شخص اپنا اپنا لگتا ہے۔ یشاور سے زیادہ عزیز ہے مجھے۔ مجھے اسے برا کہنا ہی نہیں چاہیے تھا۔۔۔!!! بادل واپس آجاؤ۔۔!!!"
پے درپے کرسی کی ہتھی پر ہاتھ مارتے اس نے سچ میں پورے خلوص سے بادل ہو بلایا۔ جو بقول اس کے بیچارا بھوکا ہوگا۔ سڑکوں پر رہ رہا ہوگا۔ اور حقیقت میں وہ اپنی شاہانہ پرسنیلٹی کے ساتھ اپنی حویلی میں موجود تھا۔
" چاچو کیا بات کرنی تھی آپ نے۔۔۔؟؟ سب ٹھیک تو ہے نا ۔۔۔!!!"
اس وقت فدیان، درمان، دیار اور دراب آفریدی بادل کے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے سب کو کسی ضروری بات بتانے کے لیے یہاں بلایا تھا۔ فدیان نے اپنی سرخ سوجھن کا شکار آنکھیں دو انگلیوں سے مسلیں پھر خاموش گم سم بیٹھے باران کو خیالوں سے باہر نکالا۔ جس نے صوفے کی ٹیک چھوڑ کر اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں الجھائیں اور سنجیدہ سی نگاہ ان سب پر ڈالی۔
" سالوں پرانا ایک راز ہے جسے آج تک سب سے چھپاکر رکھا گیا۔ یا یوں کہوں کہ ایک کڑوا سچ ہے جس کا جاننا آپ سب کے لیے ضروری ہے۔ فدیان اور درمان کے لیے جہاں یہ راز ایک جھٹکا ہوگا۔ اور وشہ تک یہ سچ کسی بھی صورت نہیں پہنچنا چاہیے۔ وہ سہہ نہیں پاۓ گی۔
اور صرف دیار ہی ہے جو وشہ کو سنبھال پاۓ گا یہ سچ جان کر۔ چونکہ بات کا تعلق وشہ سے بھی ہے تو میں چاہتا ہوں دیار بھی سچ جان جاۓ۔ باتیں بڑی گہری ہیں تو ہمت سے سننا پھر سمجھنا۔۔۔!!!!! "
اس سب کے چہروں کو بغور دیکھتے ہوۓ باران نے وقفہ لیا۔ وہ سب الجھے ہوۓ تھے۔ پھر چند سیکنڈز بعد اس نے بات وہیں سے ہی شروع کی۔
"میں لمبی چوڑی تمہید باندھ کر بالکل بھی وقت ضائع نہیں کروں گا۔ بس اتنا بتاؤں گا کہ شنایہ بھابھی درمان اور فدیان کی سگی ماں نہیں ہیں۔ وہ صرف وشہ کی ماں ہیں۔ یعنی دراب آفریدی کی دوسری بیوی۔ تم دونوں کی ماں کے انتقال کے بعد تمہارے بابا نے اس عورت سے تم دونوں کی خاطر شادی کی جس نے بدلے میں تم سب کو برباد کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ۔۔۔!!!!"
باران میں اتنا حوصلہ نہیں تھا جو وہ فدیان اور درمان کو ساری حقیقت خود ہی بتادیتا۔ پر یہ سچ جان کر فدیان کی پیشانی پر انگنت بل نمودار ہوۓ۔
" چاچو ۔۔۔!!! آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ مورے ہماری ماں نہیں ہیں وہ وشہ کی ماں ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آیا۔ ابھی تو ان کے بیٹوں کی حیثیت سے ہم انہیں دفناکر آۓ ہیں۔ پھر ان باتوں کا کوئ مقصد تو نہیں بنتا۔ چاچو اگر یہ کوئ مزاق ہے تو دنیا کا واہیات ترین مزاق ہے۔۔۔!!! پلیز چاچو یہ الجھی ہوئی باتیں ابھی مت کریں۔ میں پہلے ہی معصومہ کی وجہ سے ٹینس ہوں مجھ میں مزید کسی ٹینشن کو سر پر سوار کرنے کی ہمت نہیں ۔۔۔!!!"
اس ٹاپک سے چڑ کر فدیان نے اضطراب کے مارے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور وہاں سے اٹھنے لگا۔ جب درمان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے روک دیا۔
" چاچو ۔۔!!! مورے اب اس دنیا میں نہیں رہیں تو بہتر ہے ہم ماضی کو نہ کریدیں۔ وہ ہماری سگی ماں تھیں یا نہیں تھیں اس ٹاپک کو کھولنا فضول ہے بالکل۔ ہماری سگھی ماں نہیں تھی بدلے میں ہمارے بابا نے دوسری شادی کی۔ تو بس مورے ہی ماں تھیں ہماری۔ باقی ہمیں کچھ نہیں جاننا۔۔۔۔!!!!"
دھیمے لہجے میں درمان نے موضوع بدلنا چاہا جب باران نے نفی میں سر کو جنبش دی۔ دیار ان سب کو ہی دیکھ رہا تھا۔ یہ سچ اسے بھی جھٹکے کی طرح لگا کہ درمان آج تک اپنی اصل ماں سے ہی ناواقف ہے۔
" وہ دنیا میں ہوں یا نہ ہوں مجھے فرق نہیں پڑتا۔ بھلا اپنے مجرم سے مجھے کیونکر ہمدردی ہونے لگی۔ وہ جس سوچ کی حامل تھی کچھ دیر میں جان جاؤ گے تم لوگ بھی۔۔۔!!! مجھے بس اس کی فکر ہے جو تئیس سال سے تم لوگوں کا نام لے کر روتی رہی۔ جو تم لوگوں کی ایک جھلک دیکھنے کی خاطر سالوں تڑپتی رہی۔ جسے رات کے اندھیرے میں شنایہ نے محض حسد کی وجہ سے حویلی سے نکال کر مردہ قرار دے دیا اور تم دونوں کی آڑ میں اس کی قسمت جینا چاہی۔۔!! وہ عورت کوئ اور نہیں تم دونوں کی سگی ماں ہے۔۔!!! سحرش دراب آفریدی۔۔۔!!!
باقی کے راز اب خود اپنی کانوں سے اس عورت کے منہ سے سن لو ۔۔۔!!!!!"
باران نے وہاں کھڑے ملازم کو اشارہ کیا کہ ویڈیو ایل سی ڈی پر پلے کردے۔ ساری سیٹنگ اس نے کروادی تھی۔ آج اس حویلی کے درو دیوار سمیت شنایہ بیگم فدیان اور درمان کے دل سے بھی نکل جاتی۔ خود وہ لاپرواہ بن کر کھڑا ہوگیا۔ جبکہ اچانک لاونج میں گونجتی آواز سن کر ان سب نے سکرین کی جانب نظریں گھمائیں۔ تو آنکھیں پھیل کر بڑی ہوگئیں۔
سامنے شنایہ بیگم خونخوار تاثرات لیے انہیں کسی نقاہت زدہ عورت پر حملہ کرتے ہوۓ دکھی۔ درمان اپنی نشست سے کھڑا ہوا۔ اس عورت کی شکل اسے اندیکھی لگی۔ کیونکہ یادیں جو سب مٹ چکی تھیں۔ فدیان کی نگاہیں بھی اسی عورت پر تھیں جس کی آنکھوں کا خوف وہ اس وقت باخوبی پڑھ رہے تھے۔
اسی لمحے دراب نے شنایہ کو تھپڑ مارا ان سب کی آنکھیں سکرین پر جمی تھیں۔ تب اچانک اٹھ کر شنایہ بیگم کا کیا گیا اعتراف ان سب کے سروں پر ہتھوڑے کی مانند برسا۔ وہ عورت خود کہہ رہی تھی اس نے سحرش کو اغواہ کیا۔
درمان کی آنکھوں میں بےیقینی پھیلی۔ کس سفاک عورت کو ماں کہتا تھا وہ۔
"درمان اور فدیان بھی اسی قابل تھے کہ ساری زندگی ماں کے پیار کو ترستے رہتے کیونکہ وہ اس سحرش کے بچے تھے۔۔۔۔۔۔۔!!!"
یہ لفظ سن کر اس نے تکلیف سے سانس کھینچا اور نظریں سکرین سے ہٹا لیں۔ وہ سمجھتا تھا شاید اس کی ماں کی نیچر میں محبت بانٹنا ہی نہیں ہے تو بس یہی ان کا نصیب ہے۔
آج اسے پتہ چلا یہ تو اس کی ماں ہی نہیں ہے۔ پھر محبت کیسی۔۔!! یہ تو اپنی محرومیوں کا بدلہ لے رہی تھی ان سے۔
"ہاں نفرت کرتی ہوں میں ہر اس شخص سے جو اس سحرش کے وجود سے جڑا ہو۔ چایے وہ درمان اور فدیان ہوں یا آپ۔۔۔۔!!!!"
فدیان نے نچلا لب دانتوں تلے شدت سے دبایا۔ اس عورت کی محبت چاہتا تھا وہ جسے محبت کیا انسانیت کا مطلب نہیں پتہ۔ جو انہیں فضول سمجھتی رہی۔۔۔۔!!!! بس اس کی آنکھوں نے بھی اس عورت کو مزید دیکھنے کی چاہ نہ کی۔ دل خون کے آنسو رونے لگا۔ تب اپنے منہ میں خون کا ذائقہ گھلتا محسوس کرکے اس نے لب آزاد کیے۔ غصہ اتنا تھا کہ بےبسی میں اسے درد بھی نہیں ہوا تھا۔
دیار کے لیے یہ سب نیا تھا اس نے تو آج تک محبت دیکھی تھی اپنے ماں باپ کی وہ سمجھ نہ سکا کہ کیا لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔
"کچڑے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی یہ عورت میرے لیے۔۔۔۔!!!"
دراب آفریدی نے آنکھیں بند کیں۔ جب سے سچ کھلا تھا وہ تو اپنے بھی نہیں رہے تھے کسی سے کیا کچھ کہتے۔ انہوں نے اس رات کے بعد سحرش کے پاس جانے کی ہمت بھی نہیں کی تھی۔ کیسے جاتے اس عورت کے پاس جس کی مجرم کو لاعلمی میں انہوں نے شاہانہ زندگی دی تھی۔ وہ عورت ان کے پیسوں سے ان کے بچوں کی ماں کو اذیت دیتی اور وہ علاقے کے سردار اپنی بیوی کی مکاری نہ جان سکے۔
دیار کے پیروں سے زمیں تو اپنی عزیزِ جان بیوی کا نام اس ہی سگی ماں کے منہ سے نفرت سے سن کر کھسکی۔
"میرا کبھی کبھی دل کرتا تھا اس کا گلا دبا دوں۔...!!!!"
شاک سے وہ لڑکھڑایا جب اچانک اس کے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا تو مڑ کر اس نے اس کی صورت دیکھی۔ وہاں باران کھڑا تھا۔ دیار نے اشارے سے اس سے پوچھا کیا ہے یہ سب۔۔؟؟
جس نے آنکھیں چڑا لیں۔ جواب اسکے پاس نہیں تھا۔
اسے آج پتہ چلا اس کی پھپھو کو اس رات اس عورت نے یہاں سے نکالا تھا۔ یہ قاتل تھی اس کی۔ اگر اس رات یہ حسد کی وجہ سے ایسا نہ کرتی تو ذکیہ زندہ ہوتی۔
" میری بلا سے مرے مجھے کوئ فکر نہیں اس۔۔۔۔!!!"
دیار نے آنکھیں جھپک کر ان میں آتی نمی چھپائ۔ اپنی سگی اولاد بھی اس سفاک عورت کو پیاری نہیں تھی۔
اس کے سارے جرائم کے اعتراف ان سب لوگوں نے سن لیے تھے ۔ اب سب جانتے تھے ذکیہ سے لے کر معصومہ اور زرلشتہ تک کی کہانی میں اس عورت کا کردار۔
بس اتر گئ وہ یہاں کے بچے کچے نفوس کے دل سے بھی۔۔!!!
ویڈیو ختم ہونے کی دیر تھی باران نے اس لاؤنج کی ہولناک خاموشی میں گہرا سانس چھوڑا۔
" اب سے انشا اللہ یہ سب کبھی تمہارا نام بھی نہیں لیں گے۔ شنایہ ۔۔۔!!! یاد کرنا تو دور کی بات ہے۔ یہ تھا میرا بدلہ۔ تم مرگئ یہ تمہارا فیصلہ تھا پر تمہیں ان سب کے دلوں سے مارنا میرا فیصلہ ہے۔۔۔!!!! آج سے شنایہ بیگم ان سب کی کچھ نہیں لگتی۔ شکر الحمدللہ آج ایک مجرم صفحہ ہستی سے مٹ گیا ۔۔!!!"
باران نے سر اٹھایا پھر آنکھیں ایک لمحے کے لیے بند کیں تب دل نے شکر کا سجدہ ادا کیا۔ سب اس وقت سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یہاں سوئی بھی گرتی تو آواز پیدا ہوتی۔
" ہم طلاق دے چکے ہیں اس عورت کو۔ تو ہمارا نام اس کی قبر کی تختی پر نہیں لکھا جاۓ گا۔ کل یہ خبر پورے علاقے میں پہنچ جاۓ گی کہ مرنے سے پہلے اسے ہم نے آزاد کردیا تھا اس تعلق سے۔ تم دونوں کا یہ بات جاننا ضروری ہے آئندہ اس گھر میں اس کا نام بھی کوئ نہیں لے گا ۔۔!!!"
دراب آفریدی نے آخر کار سکتے کو توڑا اور نشست سے اٹھے۔ ان کی بات سن کر بھی فدیان اور درمان نے کوئ جواب نہیں دیا۔ ان کے لیے تو ان کی ماں اب مری تھی۔ سوگ تو بنتا تھا۔ وہ وہاں سے چلے گۓ۔
" تم دونوں کی اصل ماں اسی حویلی میں ہیں ہمت ہوتو مل لینا ان سے۔ یاد کرتی ہیں وہ تمہیں۔۔!! اور وشہ کو اس بارے میں کچھ بھی نہ بتانا۔ اسے بعد میں کسی طرح سحرش بھابھی سے ملوادیں گے ہم۔ میں نہیں چاہتا وہ اپنی مری ہوئ ماں سے نفرت کرے۔ تم دونوں کی وہ کچھ نہیں لگتی پر اس کی ماں تھی وہ ۔سن رہے ہو نا تم دونوں مجھے۔ اس کے سامنے کوئ الٹی سیدھی بات کی تو منہ تور دوں گا میں تم دونوں کا۔ بہن ہے وہ تم دونوں کی یاد رکھنا یہ بات ۔۔۔!!!"
وہ دونوں فرش ہی گھور رہے تھے باران کی آواز انہوں نے نہیں سنی تھی۔ جب اس نے بےبسی سے نظریں پھیر لیں۔ اور وہاں سے اپنے کمرے کی سمت چلا گیا۔
اب لاونج میں فدیان اور درمان کے ساتھ دیار کھڑا تھا۔
ان تینوں نے کافی دیر تک ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ فدیان اٹھ کر حویلی کے داخلی دروازے کی طرف بڑھ گیا اس کا ارادہ یہاں سے راہِ فرار اختیار کرنے کا تھا۔ اس حویلی کے درو دیوار سے نفرت اور حسد کی بو آئ اسے۔ سکون نامی شے تو حرام ہوگئ تھی اسپر۔
" تم کمرے میں جاؤ درمان ۔۔۔!!! تمہیں آرام کی ضرورت ہے ۔۔!!!"
درمان نے لب بھینچے اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ پیچھے دیار نے قدم زرلشتہ کی تلاش میں اٹھانا شروع کیے۔
اسے اس جھلی کو اب درمان کے پاس بھیجنا تھا۔ فرسٹ فلور پر لاونج کے بیک سائیڈ پر بنے اس دوسرے پورشن کے انتہائی دائیں جانب بنے سیکنڈ روم میں سب سے چھپ کر زرلشتہ کمرے میں سونے کی کوشش میں تھی۔ دیار بغیر ناک کیے کمرے میں آیا تو توقع کے عین مطابق محترمہ کمفرٹر میں منہ دے کر سوی تھیں۔
" سوہنے ۔۔۔!!!! میرے شہزادے ۔۔!! مہمان میں ہوں یہاں تم نہیں ہو۔ مہمان ہونے کے باوجود اس گھر میں مٹرگشت کرتا پھررہا ہوں میں اور تم گھر کی مالکن ہوکر اس روم میں بند ہو۔ اٹھو بچے اپنے شوہر کے کمرے میں جاؤ۔ "
اگر بڑھ کر دیار نے اس کے منہ سے کمفرٹر نیچے کیا جس نے ایک آنکھ کھول کر اسے مسکین صورت بناکر گھورا۔
" لالہ جان کیسا شوہر۔۔!!! کہاں کا شوہر ۔۔۔!! مجھے تو وہ یاد بھی نہیں ہے۔ جب سے ملا ہے حق ہی جتارہا ہے۔ پتہ نہیں کونسا بدلہ لے رہے ہیں آپ لوگ مجھ سے زبردستی اس کے پلے باندھ کر۔ میں کوئ نہیں اٹھ رہی۔ وہ مجھے گھورتا ہے۔ عجیب سی نظروں سے دیکھتا ہے۔ میرا دل سپیڈ سے بھاگنے لگتا ہے اسے دیکھ کر میں نہیں جارہی اس کے پاس ۔۔ !!!"
اس کے ہاتھ سے کمفرٹر کھینچ کر وہ پھر سے سونے لگی جب دیار نے کمفرٹر کھینچ کر اسے مصنوعی رعب سے دیکھا۔
" بری بات ۔۔!!! شوہر کے بارے میں ایسی بات نہیں کرتے۔ اور وہ تمہیں ہی پیار سے دیکھے گا اب تمہاری جگہ اس حویلی کے گارڈز کو نہیں دیکھے گا۔ میرے پانچ گننے تک اٹھو اور سیکنڈ فلور پر اس کا کمرہ ڈھونڈ کر اس کے پاس جاؤ۔ ورنہ میں اٹھا کر وہاں پھینک کر آؤں گا تمہیں۔ بدتمیز ہورہی ہو تم۔ ضدی بھی ۔۔۔!!! میں ذرا لحاظ نہیں کروں گا۔ اٹھو اور جاؤ۔ ورنہ ایک مہینے تک فاسٹ فوڈ بند ۔۔۔!!!!"
یہ دھمکی تھی یا پھانسی کی سزا ۔۔!!!
زرلشتہ نے آنکھیں کھولیں اور اسے بےیقینی سے دیکھا پھر کمفرٹر دور پھینک کر بیڈ سے نیچے اتر کر اپنا جوتا پہن کر اس نے دیار پر خفگی بھری نظر ڈالی۔
" شادی ہوگئی ہے آپ کی۔ بیوی کے پاس رہا کریں۔ تاکہ وہ آپ کو قابو میں رکھے۔ میرے پر ہی رعب ڈالتے رہتے ہیں۔ جب سے اٹھی ہوں لگ رہا ہے میری بجاۓ میرے بھولے بھٹکے شوہر کو اپنا بنا لیا ہے سب نے۔ حد ہوتی ہے اجنبیت کی بھی۔ سارے ہی اس کے گن گارہے ہیں۔ اسے الیکشن پر بھی کھڑا کردیں۔ اور صدر کی کرسی بھی تھمادیں۔ ہنہہ ۔۔۔!!!"
غصے سے پیر پٹخ کر وہ کمرے کا دروازہ دھب سے بند کرکے اب اپنے بھولے شوہر کے پاس جاکر اس کا دماغ سیٹ کرنے کے لیے چل پڑی۔
دیار نے بھی سکون کا سانس لیا کہ یہ آفت ہلی تو سہی اس جگہ سے۔ پھر اس کے پیچھے وہ بھی وشہ کے روم میں چلا گیا۔ کہیں وہ اٹھ نہ گئ ہو۔
وہ سورہی تھی تو دیار بھی اس کی پیشانی پر لمس چھوڑ کر اس کے پاس بیٹھ گیا۔
" میری جان ۔۔۔!!! سب ٹھیک ہوجاۓ گا انشا اللہ۔۔!! بس آپ ٹینشن نہ لینا۔"
اس کے گال سہلاتے ہوۓ اس کی آنکھیں اسی کی صورت خفظ کررہی تھیں۔ زندگی میں مچا یہ طوفان ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" میرے بھولے بھٹکے شوہر اجازت ہے تو میں کمرے میں آجاؤں۔۔!!"
دروازہ کھولتے ہی اس نے بیزاریت سے کہا تو بیڈ پر نیم دراز درمان نے آنکھیں تھوڑی سی کھول کر اسے دیکھا۔ پہلے ماں کا دکھ اب اتنے راز پھر اس کی کھوئ ہوئ یادداشت ۔۔۔!!!
اس میں ہمت نہیں تھی اس سے بحث کرنے کی تو اس نے ہونہہ کہ کر آنکھوں پر دایاں بازو رکھا۔
" میرے لالہ کو بھڑکا کر میرے پیچھے بھیج کر، مجھے ڈانٹ پڑوا کر کیسے سکون سے سورہے ہیں یہ۔ ان کا سکون تو میں ہی خراب کروں گی ۔۔۔!!!"
اس نے دانت پیسے۔ پھر گھوم کر کمرہ دیکھا۔ سامنے دیوار پر بڑی سی فوٹو لگی تھی دونوں کی۔ وہ مسمرائز ہوئ۔ یہ جن ہنستے ہوۓ اچھا لگتا تھا۔ پھر وہ بھی تو اس کے ساتھ کیوٹ لگ رہی تھی اور اسے بالکل بھی انداز نہیں تھا یہ پک کب کی ہے۔ کمرے میں پھیلا پنک کلر اور ترتیب سے رکھے ٹیڈی بیئرز اسے حیران کرگۓ۔
" وہاں کیوں کھڑی ہوں۔ کچھ الٹا کرنے کا سوچ رہی ہو تو یاد رکھو میں جان نکال لوں گا تمہاری۔ تم مجھے بھول گئ ہو پر میرا غصہ تمہیں بھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں پرانا درمان ہوں تمہارے لیے اس وقت تک جب تک تم مجھے یاد نہ کرلو۔ بیٹھو یہاں اور سر دباؤ میرا ۔۔۔!!!"
سپاٹ انداز میں درمان نے اسے سر دبانے کو کہا جس نے جواب میں منہ کے زاویے بگاڑ کر اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔
" لائیں دیں اپنا سر میں دبا دوں ۔۔۔!!!"
سر نہ ہوگیا فٹ بال ہوگیا۔ جو وہ اب اس کے ہاتھ میں دیتا۔ اس نے آنکھیں کھولیں پھر اس کا ہاتھ پکڑ کے اسے کھینچ کر بٹھایا۔ جو گرتے گرتے بچی۔ اس کا منہ کھلا۔ درمان نے تکیہ اٹھا کر اس کے برابر میں سیٹ کیا پھر اس کا ہاتھ اپنے بکھرے بالوں پہ رکھ کر خود سکون سے آنکھیں موند لیں۔
" میرے سونے تک سر دباتی رہو۔ جب میں سوجاؤں تو یہیں سوجانا تم بھی۔ رات کے کسی بھی پہر میں اٹھا اور تم مجھے صوفے پر سوئ ملی تو قسم سے اس صوفے کو کل لان کے بیچ رکھ کر آگ لگاؤں گا میں۔ تم بھولی ہو پر مجھے یاد ہے تم میری ہی بیوی ہو۔ محرم ہو تم میری۔ تو اپنی یا میرے بےبی کی جان کو رسک میں ڈالنے کی غلطی نہ کرنا۔ ورنہ باخدا تمہاری جان نکالتے وقت میرے ہاتھ ذرا بھی نہیں کانپیں گے۔ چلو اب لگ جاؤ کام پر۔ بالکل چوں چراں کی آواز نہ آۓ مجھے ۔۔۔!!!"
دھمکی آمیز انداز میں بند آنکھوں سے ہی اس نے زرلشتہ کو جھرجھری لینے پر مجبور کردیا۔ جو سچ میں ڈر گئ تبھی فورا اس کا سر دبانے لگی۔ درمان کے لیے اسے قابو کرنا مشکل نہیں تھا۔ یہ پہلے والی زرلش تھی یعنی دھمکی سے ڈر جاتی۔ اتنا ہی بہت تھا ابھی کے لیے۔
" زبردستی ہی ہے ایک بھولے ہوۓ شوہر کے ساتھ رہنا۔۔!! میں بیمار کیا ہوئ مما اور بابا سمیت لالہ جان نے بھی آنکھیں پھیر لیں مجھ سے۔ یااللہ اب تو ہی رحم کردے مجھ پر۔ کیا ہورہا ہے یہ میرے ساتھ ۔۔!!!"
سر دباتے ہوۓ منہ بسور کر وہ بڑبڑائ۔ پھر خود ہی پانچ منٹ بعد تھک کر درمان کی تاکید کے مطابق وہیں سوگئ۔ تصویر دیکھ کر اسے انداز ہوگیا تھا یہ اس کا ہی کمرہ ہے۔ اور جب اسے یہاں بھیجا گیا ہے تو وہ کیوں جھجھک کر صوفے پر سوۓ۔
درمان نے اس کے سوتے ہی ایک آخری نظر کمفرٹر میں دبک کر سوئ اس لڑکی پر ڈالی اور خود بھی سوگیا۔
اسے یقین ہوگیا یہ پیدائشی پاگل ہے۔ ورنہ بیچارا سمجھتا تھا اس کا دماغ اس کے غصے نے خراب کیا ہے ۔۔۔!!!!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
شنایہ بیگم کے سوئم حتی کے دسویں میں بھی فدیان نے شرکت نہیں کی تھی۔ وہ گھر ہی نہیں آیا تھا وہیں معصومہ کے پاس ہی رہتا تھا وہ۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ دو دن پہلے معصومہ اور اس کا سامان ملازم وہاں سے شہر موجود اس کے اپارٹمنٹ میں شفٹ کرگۓ۔ اور گھر میں کسی نے اعتراض نہ کیا۔ سب جانتے تھے اسے سپیس چاہیے اس وقت تو سب راضی بھی تھے۔ درمان نے بھی براۓ نام ہی شرکت کی دسویں میں بھی۔ آج دس دن ہوچکے تھے شنایہ کو اس دنیا سے گۓ اور اس دن کے بعد سے کسی نے انہیں یاد نہیں کیا تھا۔ دیار وشہ کو سوئم کے بعد ہی گھر لے گیا۔
اور درمان اپنے بابا کی اجازت سے زرلشتہ کو دھمکا کر اپنے ساتھ اپنے شہر والے گھر لے گیا۔ وہ آفت کی پریا تو جانا ہی نہیں چاہتی تھی درمان کے ساتھ کہ وہ اسے مارے گا۔ لیکن درمان کو اسے ایک حساب سے ڈرانا ہی پڑا یہ کہہ کر کہ وہ اسے مار کر اسی لان میں دفنادے گا اور سب کو کہہ دے گا کہ وہ بھاگ گئ۔ پھر بدروح بن کر گھموتی رہے وہ جہاں دل کرے۔۔۔!!!!
بس پھر کیا تھا بھٹکی ہوئی روح کی طرح ہی وہ اس کے ساتھ گرتے پڑتے چلی گئ۔ اور درمان کے لیے یہی کافی تھا۔ باران کا کام پورا ہوچکا تھا تو وہ واپس سے اب دلاور کی زندگی میں طوفان لانے کے لیے لینڈ کرنے والا تھا۔ وہیں دراب اور سحرش بھی پاس ہوکر بھی انجان تھے۔ آج کاموں سے فارغ ہوکر اپنے اس سنسان سے گھر سے (جہاں کبھی زندگی بستی تھی آج موت کا سا سناتا تھا ) تنگ آکر ہمت کرکے لان میں آۓ۔
جس گھر کو انہوں نے سمیٹ کر رکھا تھا وہ بکھر چکا تھا۔ لان میں ہلکی ہلکی دھوپ محسوس کرکے انہوں نے چہل قدمی شروع کی۔ جب نظروں کو اپنے سامنے سحرش دکھی۔ وہ گم سم رہتی تھیں ہر وقت۔ بولتی بھی کچھ نہیں تھیں۔ نرسز ان کا پورا خیال رکھتیں پر ان آنکھوں کو تو اپنے چاہیے تھے۔ جو سچ جان کر بھی دور تھے ان سے۔
آج بھی اپنے ننھے شہزادوں کی یاد میں وہ سامنے درخت گھور رہی تھیں جہاں کبھی درمان اپنے چاچو کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ اسی کی یادیں ان کے ذہن میں گھوم رہی تھیں۔
دراب آفریدی ہمت کرکے آج ان کے قریب آۓ۔ اس عورت کو کس چیز کی سزا مل رہی تھی بے قصور ہوتے ہوۓ بھی آخر ۔۔۔!!!
انہوں نے اشارے سے نرس کو وہاں سے جانے کو کہا تو وہ سر ہلاکر چلی گئ۔ اور خود وہ عین سحرش کے سامنے آکر کھڑے ہوگۓ۔
" کیسی ہو تم عزیزم ۔ نہ سلام نہ دعا جب سے آئ ہو چپ ہی بیٹھی ہو۔ تم چپ رہنے والی ہو تو نہیں۔ چلو خیر ہے زبان کو سکون بھی دینا چاہیے۔۔؟؟ مجھے تو لگتا ہے بھول ہی گئ ہو۔۔۔!! مجھ ناچیز کو تمہارا شوہر کہتے ہیں سحر صاحبہ ۔۔!!! ایک نظر مجھ پر بھی ڈالو۔ بوڑھا ہوگیا ہوں پر اب بھی ہینڈسم ہوں۔ دیکھو تو سہی ۔۔۔!!!"
ان کی وہیل چیئر کے بالکل سامنے ہوکر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھگئے۔ پھر مسکراتے ہوۓ سحرش کا ہاتھ پکڑا۔ وہ اب بھی سامنے ہی دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے سحرش کے سامنے چٹکی بجائ تاکہ وہ انہیں دیکھے پر وہ اب بھی ہنوز اپنے کام میں مگن تھیں۔
" لگتا ہے بھول گئ ہو تم مجھے۔ ہم غریب لوگوں کے نصیب میں تمہارا پیار تھا ہی نہیں یہی سوچ لیں گے ہم۔ آگے ہی زندگی دو سے تین سال کی بچی گئ ہے اس میں بھی منہ نہ لگاؤ تم مجھے ۔۔۔!!! میڈم ادھر کسے دیکھ رہی ہو مجھے دیکھو یار ۔۔۔!!!"
انہوں نے سحرش کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑا۔ لہجے میں محبت تھی۔ وہاں کوئ سردار نہیں بلکہ ایک عاشق بیٹھا تھا۔ جس کے لہجے میں اکڑ نہیں محبت تھی۔ انہوں نے جواب چاہا۔
پر خاموشی برقرار تھی اب تک۔
تھک کر انہوں نے ان کے ہاتھوں پر سر رکھا۔
" یار کچھ تو بولو ۔۔۔۔!!! جو تمہارے ساتھ ہوا وہی بتادو مجھے۔ مجھ سے بات کرو۔ لڑلو۔ حساب مانگو۔ یا گریبان پکڑو۔ کچھ تو کرو ۔۔۔!!!"
انہوں نے منت کی جب سحرش نے نظریں جھکا کر ان کے جھکے سر کو دیکھا۔
" دوسری شادی کرتے تو میرا خیال نہیں آیا تھا اس شوہر صاحب کو ۔۔۔!! میرا کمرہ کسی دوسری کو دیتے تو دل نہیں دکھا تھا تمہارا دراب ۔۔۔!! اب کیسے معصوم بن رہے ہو۔ تمہیں کیا ساری دنیا میں ایک شنایہ ہی ملی تھی شادی کے لیے۔ باقی لڑکیاں کیا مرمرا گئ تھیں جو اس شنایہ کے علاؤہ تمہیں کوئ دکھا ہی نہیں۔ اور جو تجوری میں زیور رکھا ہے شنایہ کا وہ اسے ممتاز بیگم سمجھ کر تاج محل بنوانے کے لیے دے رہے تھے تم ۔۔۔۔!!!
اب میں تمہارا گریبان پکڑوں یا گنجا کروں تمہیں ۔۔۔!!!"
ان کی زبان کو لگا تالا ٹوٹا پھر اپنے ازلی انداز میں انہوں نے دراب آفریدی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوۓ سوالوں کی لائن لگادی۔
دراب آفریدی نے سر اٹھایا سامنے ہی سحرش انہیں کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ انہیں لگا تھا وہ روۓ گی اپنی آپ بیتی سناۓ گی پر وہ تو دوسری شادی کا حساب لینے کے موڈ میں تھیں۔ یہ آواز پورے تئیس سال بعد سنی انہوں نے تو ایسا لگا سالوں کی بےسکونی ختم ہوگئی ہو۔ کانوں میں رس گھل گیا ہو۔ وہ بے حس و حرکت انہیں تکنے لگے۔
" میرے پاس سے دور ہوجاؤ ورنہ اس عمر میں پٹتے اچھے نہیں لگو گے۔ سردار دوسروں کے لیے ہو تم۔ میرے لیے وہی دراب ہو جو میرے آگے پیچھے گھومتا تھا۔ہنہہ دوسری شادی کرکے اب میرے پاس آگۓ ہیں جناب ۔۔!! بیوی جو چلی گئ ان کی دنیا سے۔ اب میں ہی آخری آپشن جو ہوں۔ سنو نرس کی بچی مجھے یہاں سے لے کر جاؤ ورنہ تمہارا قتل کردوں گی میں۔۔۔!!!
باران سے کہہ کر پہاڑی سے الٹا پھینکوں گی تمہیں۔ ۔!! مجھے لے کر جاؤ ۔۔۔!!!"
اپنے ہاتھ کھینچ کر انہوں نے پیچھے کی جانب مڑ کر آواز لگائی۔ نرس زیادہ دور نہیں تھی تو فورا بوتل کے جن کی طرح وہاں حاضر ہوگئ۔ اس خاموش گم سم عورت کو چیختا دیکھ کر اسے دل کا دورا پڑتا پڑتا رہ گیا تھا۔
ان کی یادداشت تو اسی روز مکمل واپس آگئ تھی جب شنایہ نے اعتراف جرم کیا باقی کے دن تو وہ اس حقیقت کو قبول کرتی رہیں اور آج وہ حقیقت قبول کرچکی تھیں۔ بس کمزوری تھی انہیں وہ بھی جلدی ٹھیک ہوجاتی۔
دراب آفریدی وہیں بیٹھے رہے جبکہ وہ تو نرس کے ساتھ اوجھل ہوگئ تھیں نگاہوں سے۔
" اسے اچانک کیا ہوگیا۔ اتنا غصہ ۔۔۔!!!"
انہوں نے جھرجھری لی پھر مسکرائے۔ شکر تھا وہ بولی تھی۔ اتنا ہی کافی تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" اس پاگل دلاور کو زہر کس نے دیا ہے آخر۔ جب کہ حویلی کے ملازمین تک کو میں کہہ چکا ہوں اس بندے کو مرنے نہیں دینا۔ زندہ رکھنا ہے پھر یہ حماقت کس نے کی ۔۔۔۔!!!!"
ہاسپٹل کے کوریڈور میں کھڑے باران نے اپنے ساتھ موجود راسم پر اچٹتی نگاہ ڈالی پھر دانت پیسے۔ آج دوپہر اسے پتہ چلا دلاور خان کو کسی نے دن دہاڑے زہر دیا ہے۔ پھر زہر دینے والا اتنا بہادر تھا کہ سکون سے مین گیٹ کے راستے گھر سے نکلا۔ پوری شان کے ساتھ کہ ہے کسی میں ہمت جو اسے پکڑ سکے۔۔۔!!!
باران کا ارادہ دلاور کے پاس آنے کا تھا اس کے لیے تو یہ بہانہ ہی بن گیا۔ اپنے اسی بادل والے حلیے میں واپس آکر اسی شہر کے دوسرے ہاسپٹل وہ پہنچا جہاں پورے عملے کی دوڑیں اس نے لگوادیں کہ اسے دلاور زندہ چاہیے۔
راسم نے لب دباتے اپنے آس پاس دیکھا۔
" بادل وہ لڑکا نہیں لڑکی تھی۔ جس دلاور کے سامنے ہم بھی محتاط رہتے ہیں وہ لڑکی اسی دلاور خان کو دن دہاڑے جہنم کی سیر کرواگئی۔ وہ گھر میں ڈاکٹر کے حلیے میں داخل ہوئ تھی۔ پھر دلاور کو زہر کا انجیکشن میڈیسن کہہ کر لگاکر اس کے تڑپنے کا انتظار کیا اس نے۔ سبرینہ کے ساتھ چاۓ بھی پی کر گئ ہے وہ۔ جیسے چیلنج کررہی ہو کسی میں ہمت ہے تو پکڑ لے اسے۔ پھر اس دلاور کو مرتا ہوا دیکھ کر سکون سے وہ میں گیٹ کے راستے گھر سے نکل گئ۔ صرف نکلی نہیں اس نے تمہارے نام پیغام بھی بھیجا ہے ۔۔۔!!!"
راسم نے اپنی پیشانی دو انگلیوں سے رگڑتے پریشانی کے عالم میں اسے ساری تفصیل بتائی۔ جو خود بھی حیرت کے سمندر میں غوطہ زن ہوا۔ اتنا حوصلہ کس میں آگیا تھا جو اس کے شکار پر نظر ڈال رہا تھا۔ بات ختم کرکے راسم نے اپنا فون نکالا اور اسے آن کرکے ویڈیو ڈھونڈنے لگا۔
" تم نہیں جانتے بادل گھر میں ہمارے فٹ کیے گۓ سیکرٹ کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر اس شیر کی بچی نے ویڈیو بنائ ہے۔ میں تو فین ہوگیا ہوں اس لڑکی کا۔ کبھی مستقبل میں مجھے یہ ملی تو میں تو آٹو گراف لوں گا اس کا۔۔!!! اتنی ہمت وہ بھی ایک لڑکی میں ۔۔۔!!! واہ ۔۔۔!!!"
داد دیتے ہوۓ اس نے بادل کو تپادیا۔ جو راسم کے منہ سے کسی اور کی بہادری کے قصے سن کر غصے سے آگ بگولا ہورہا تھا۔
پھر اگلے ہی پل اسے موبائل کی سکرین پر ایک لڑکی دکھی۔ اورنج شارٹ فراک اور جینز پر وائٹ اوورآل پہنے دوپٹہ کندھے پر لٹکاۓ، سر پر شیڈ والی کیپ پہنے جو اتنی جھکی تھی کہ اس کی آنکھیں بھی چھپاگئ پھر چہرے پر ماسک لگاۓ وہ دونوں ہاتھ سینے پر فولڈ کرکے اس کیمرے کو دیکھ رہی تھی۔ چند سیکنڈز اس لڑکی نے اس کیمرے کا جائزہ لیا۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے اسی کیمرے کو دیکھتے اپنی ہیٹ ٹھیک کی۔
" ٹینشن نہیں لو ڈیئر بادل خان ۔۔ !!! نہیں مرے گا تمہارا یہ چلغوزہ ۔۔!! زہر نہیں اسے کاکریچ مارنے والی دوا دی ہے میں نے۔ یہ کاکروچ ہے میرے نزدیک جسے میں کچلنا چاہتی ہوں بس اسے تڑپاؤں گی۔ ماروں گی نہیں ۔۔!! بہت مزہ آۓ گا ۔۔۔!!! زہر تو تمہیں دوں گی میں نکاح نامے کی صورت میں ۔۔۔!!! اسے بھلا کیوں ماروں جب مارنا ہی تمہیں ہے ۔۔!!!"
روحیہ مسکرائ پر بادل اس مسکراہٹ کو دیکھنے سے محروم رہا۔ اس کا پورا فیس جو چھپا ہوا تھا۔ روحیہ نے اپنا چہرہ دیار اور زرلشتہ سے نہیں چھپایا تھا پر باقی سب سے وہ اب بھی چھپتی پھررہی تھی۔ کیونکہ اسے ڈر تھا کہیں کوئ اسے پہچان نہ جاۓ۔ کیونکہ دیار اور زرلشتہ تب چھوٹے تھے وہ اسے بس تصویروں سے جانتے تھے۔
جبکہ اب تو دکھنے میں وہ تقریبا بدل چکی تھی۔ فارن کنٹری میں رہتے وہیں کے رنگ اس کے چہرے کو اتنا بدل گۓ تھے کہ کوی اسے روح مانتا ہی نا۔ پر باران کے سامنے اسے آواز بھی بدلنی تھی۔ بس ڈر تھا اسے کہ باران اسے پہچان نہ لے۔
بادل نے اس دھمکی کو مزاق ہی سمجھا۔ اول تو اس لڑکی کو اس کی شناخت بھی پتہ تھی پھر اسے نکاح بھی کرنا تھا یہ مزاق ہورہا تھا اس کے ساتھ۔
" تیار ہوجاؤ ایک ہفتے کا وقت ہے تمہارے پاس ساری تیاریاں کرلو۔ میں بار بار تمہیں یہ بات نہیں بتاؤں گی۔ میں مصروف سا بندہ ہوں اور بھی بہت کام ہیں مجھے۔میرے رہنے کا بندوبست کرلو۔ نکاح کے بعد میں تمہارے ساتھ ہی رہوں گی اوکے۔ ذرا کھلی جگہ کا بندوبست کرنا مجھے تنگ جگہیں اور تنگ ذہنیت کے لوگوں سے نفرت ہے۔
کلر تھیم اور باقی سب ہم ساتھ مل کر ڈیسائیڈ کریں گے۔۔!!! اور میرے سارے نخرے پلس میری ضروریات نکاح ہوتے ہی تمہارے زمے ۔۔۔!!! اینڈ آۓ ایم سیریس ۔۔۔!!! ایک ہفتے کے اندر اندر تم میرے نکاح میں ہوگے۔۔۔!!! اپنا خیال رکھنا۔ جیسے میں تمہاری امانت ہوں تم بھی میرا ہی شکار ہو۔ اینڈ بلیو می میرے علاؤہ اب تم اپنے بھی نہیں ہو۔۔!!!"
راسم خوشگوار حیرت میں مبتلا مسکرا اٹھا۔ چیف آف سیکرٹ ایجنسی مسٹر باران آفریدی کو دن دہاڑے نکاح کی دھمکی ملی تھی۔ صرف دھمکی نہیں ملی کھلا چیلنج ملا کہ وہ بس اسی کا ہے۔
بادل نے دانت بھینچے۔ کتنی بےباک لڑکی تھی یہ جو اپنے منہ سے کیا کیا کہہ رہی تھی۔ اسے کیا خبر تھی روحیہ جیسے لوگ ایک وقت پر آکر پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوجاتے ہیں اتنے سخت کہ انہیں موت سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ روحیہ کو بالکل پرواہ نہیں تھی اس کے بعد بادل اسے کس قسم کے کردار کی لڑکی سمجھے گا۔ جو خود نکاح کی دھمکی دے رہی ہے ۔اسے بس اب اپنی محبت پانی تھی۔ چاہے سیدھے طریقے سے یا الٹے طریقے سے۔۔۔!!!
" میرا چہرہ تمہیں تب دکھے گا جب مجھے اندازا ہوگیا تم اس قابل ہوگۓ ہو۔۔۔۔!!!! بڈی bachelor ڈیز جی لو۔ کیونکہ میں دنیا کی خطرناک ترین بیوی ثابت ہوں گی۔ سچ کہہ رہی ہوں تمہاری سانسیں بھی چھینوں گی پھر آن سانسوں کو واپس لوٹاکر تمہیں اپنے پیچھے دیوانہ بھی کروں گی ۔انسین(پاگل) لیڈی کی دنیا میں ویلکم۔۔!! باۓ باۓ۔۔!!! "
روحیہ نے آگے بڑھ کر کیمرے پر ہاتھ رکھا پھر ایک سیکنڈ میں ہاتھ ہٹتے ہی وہ غائب تھی۔ گھر میں نوکروں کی دوڑیں لگی تھیں جو دلاور کے لیے ڈاکٹر بلارہے تھے تب۔ اور روحیہ صاحبہ اسے فوج کے بیچ میں سے گزر کر گئ تھیں۔
راسم نے ہنستے ہوۓ فون بند کیا۔ پر اسی لمحے باران نے اپنا سیکرٹ سیل نکال کر اپنی خفیہ ویب سائیٹ پر انسین لیڈی(incane lady) ٹائپ کیا۔ یہاں اسے دنیا کی ساری سوشل انفو ایک سیکنڈ میں مل سکتی تھی۔ اور مل بھی گئ۔
سامنے انسین لیڈی کا اکاؤنٹ تھا۔ اسی سائیٹ پر اس نے سالوں سے اسی نام کا اکاؤنٹ بنایا ہوا تھا۔
وہاں اس کی پروفائل پک لگی تھی جس میں بالکل ایسے ہی اس نے اپنے چہرے کو کیپ سے چھپایا تھا اور ماسک پر the maddest guy لکھا تھا ساتھ ہی ایک بلیک کلر کی بٹر فلاۓ بنی تھی۔ جس میں سے سرخ شعلے نکل رہے تھے۔ یعنی اسے غصے اور پاگل پن سے عشق تھا۔
اس نے اباونٹ میں چیک کیا تو وہاں لکھا تھا۔
" مجھے یہاں تلاش مت کرو بادل۔ یہاں محض الفاظ کے سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا۔ مجھے خود میں ڈھونڈو۔ میں تمہارا ہی ایک حصہ ہوں جو تم تک آنے والا ہے۔ جلد ملیں گے محرم بن کر "
اور اسی وقت بادل نے ایپ بند کی۔ کتنا جانتی تھی وہ کہ بادل اسے سرچ ضرور کرے گا۔ راسم ہنستا جارہا تھا جب باران نے دو حرف بھیجے اس پر۔ پھر سوچنے لگا کہ کونسی چڑیل اس کے پیچھے پڑگئ ہے۔ دماغ میں روح کا قبضہ تھا تو وہ وہیں الجھ گیا۔ انسین لیڈی روح ہوگی اس نے خیالوں کے ہزارویں حصے میں بھی مہیج سوچا
" دلاور خانا۔۔۔!!! در فٹے منہ تمہارا جانا۔۔کتے والا شکل تو تھا ہی تمہارا اب کتے کا موت بھی تم چاہتا ہے۔ تم اتنا گھٹیاپن کدھر سے لاتا ہے۔۔!!پر کباڑا تم ہم سے اتنا پیار کرتا تھا کہ ہمارا خاطر زہر ہی کھالی تم نے۔ ہم کو یقین نہیں آرہا۔ مطلب یارا زہر تو تمہارا انگ انگ میں بھرا پڑا ہے تو تم یہ رسک کیوں لیا آخر۔۔!!
اگر زہر کھاکر تم کو کچھ بھی نہ ہوتا تمہارا اندر کا زہر جیت جاتا تو تم جانتا ہے کتنا بےعزتی ہوتا تمہارا۔ پھر زہر کا بوتلوں پر پوائزن کی جگہ دلاور لکھا جاتا۔ انتباہ میں تمہارا فوٹو پر وہ لوگ کانٹا لگاتا۔ تم جانتا نہیں کتنا ذلیل ہوتا تم۔۔!!! خانا ہم چاہتا ہے تم جیے برابر جیے۔ قیامت تک جیے تم کو ہم عجائب گھر میں پھینکوانا چاہتا ہے۔ پر تم کیوں مرنا چاہتا ہے۔ ہم کو بتاؤ کیا ہوا ہے ایسا ۔۔۔!!!"
دلاور کے ہوش میں آتے ہی باران نے طوفان کی طرح اینٹری دی اس کے سر پر وہ بھی ذلالت کے تیروں کے ساتھ۔ کہ اپنا دل تھام کے اس بےعزتی کو دلاور خان نے زہر کی طرح خود میں اتارا۔ پھر مسکراتی نگاہ باران پر ڈالی۔ جس نے اس کا ہمدرد بننے کے لیے اتنی گلیسرین آنکھوں میں ڈالی تھی کہ اب آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
" میں نے زہر نہیں کھایا۔ ڈاکٹر کہہ رہے تھے کسی دوائ کا اثر الٹ ہوگیا ہے۔ تم چھوڑو اس بات کو بتاؤ جب چھوڑ ہی گۓ تھے مجھے تو واپس کیوں آۓ۔۔!!"
توقع کے برعکس دلاور نے زہر والی بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ تو باران نے اس ویڈیو والی لڑکی کو پھر سے یاد کیا۔ چہرے پر غصے سے شکنیں پڑی تھیں۔ جنہیں وہ چھپا گیا۔
" ہم تم کو چھوڑ ہی نہیں سکتا یارا۔۔!! ہم تو یہیں سڑکوں پر رل رہا تھا کہ اچانک ہم کو تمہارا گارڈ ملا جس نے ہم کو تمہارا حالت کے بارے میں بتایا تو ہم یہاں کھینچا چلا آیا۔ سب چھوڑ تم ۔۔!! تم بس یہ بتاؤ وہ لڑکی جو تم کو دوا دینے آیا تھا وہ کون ہے۔ ہم کو تو اس پر ہی شک تھا۔ اسنے ہی کیا ہے سب ۔۔۔!!! وہ ہی نیا آیا ہے کہیں زبر اس نے تو نہیں دیا ۔۔۔!!!"
باران نے اچانک ہی اس لڑکی کا ذکر چھیڑا اسے پسند تو نہیں تھا اس کمینے کے سامنے کسی بےقصور کو لانے کا پر اس لڑکی نے نکاح والی بات کہہ کر غصہ دلادیا تھا اسے۔ تو آج باران نے اس کے سامنے کسی لڑکی کا ذکر کرنے سے بھی دریغ نہ کی۔
پر مقابل بیٹھے اس شیطان نما شخص نے نفی میں سر ہلاکر اس کی بات کو رد کیا۔
" وہ لڑکی مجھے راستے میں ملی تھی چند دن پہلے شہر کے راستے پر۔ اچانک مجھے دل کا دورا پڑا تھا تب۔ تو اس نے ہی مجھے بچایا تھا ورنہ میں مرگیا ہوتا۔ مجھے وہ ہاسپٹل لےکر گئ تھی بس آنکھوں کو بھاگئ وہ۔ میں نے اسے چاۓ پر بلایا تھا تب اس نے میری بات سنی اسنی کردی پر کل اچانک ہی ناصرف وہ میرے گھر آئ بلکہ کافی وقت اس نے وہاں گزارا بھی۔
طبیعت بگڑنے پر ڈاکٹر کو فون بھی اس نے کیا تھا ایمبولینس بھی اس نے ہی منگوائی تھی اور آج صبح پھول بھی اسنے ہی بھیجے ۔۔۔!!! لاوارث لڑکی ہے بیچاری۔ !! ماں باپ مرچکے ہیں۔ تن تنہا اس شہر میں رہ رہی ہے۔۔۔!!! اوپر سے خوددار بھی ہے بس اسے نہ کچھ کہنا باقی جو کرنا ہے کرلو ۔۔۔!!!"
سامنے بیٹھے دلاور خان نے آج بادل کے علاؤہ اس دوسرے وجود کی تعریف کی تھی۔ پر اس کے انداز سے ٹپکتی حباثت خیالوں میں اس لڑکی کو برا بھلا کہتے باران نے محسوس نہ کی۔ دلاور ایک عیاش انسان تھا تو کسی کی عزت یا زندگی سے اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔
تبھی تو اب تک وہ روحیہ کا سارا ریکارڈ معلوم کرچکا تھا۔ روحیہ آسٹریلین نیشنلٹی ہولڈر تھی۔ اس کے ماں باپ کا تعلق بھی وہی سے تھا ریکارڈ کے مطابق۔ وہ بہترین سرجنز میں شامل تھی اور ماں باپ کا انتقال پچھلے سال ہی ہوا تھا۔ تبھی بزنس وائنڈ اپ کرکے وہ یہاں آگئ۔
(یہ سب ریکارڈ میں لکھا تھا۔ یہ روحیہ کی پہچان تھی ۔ حقیقت میں روحِ زکیہ ہی روحیہ ہے یہ بات تو باران بھی نہ پتہ کرپاتا )
باران نے ہمم کہا بس۔
" ہم خود ہی پتہ کرلے گا کہ یہ سب کس کا کیا دھرا ہے۔ پھر اس کو چھوٹے گا نہیں ہم۔ حد ہوتا یے لاپرواہی کا بھی تم کو اگر کوئ اور ماردے گا تو ہم کدھر جائے گا ۔۔۔!!!"
باران کچھ سوچ کے وہاں سے چلا گیا۔ پیچھے دلاور خان نے بھی سوچیں جھٹکیں اور سکون سے سوگیا۔ باران ناواقف تھا سامنے بیٹھے اس شخص کی نظریں ایک دفعہ پھر اس کی روح پر ٹکی ہیں۔ ناجانے اسے یہ بات کب پتہ چلتی۔ وقت پر یا وقت گزرنے کے بعد ۔۔۔!!!
باران کبھی خود اس راز تک نہ پہنچ پاتا کہ وہ انسین لیڈی کون تھی ؟؟؟ کیونکہ انسین لیڈی اس بیسٹ کے ہاتھ اس کی مرضی سے لگنے والی نہیں تھی۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" مجھے بھوک لگی ہے ۔۔۔!!! کھانا دے دیں بھولے بھٹکے شوہر۔۔ !!! کیا مجھ معصوم کو بھوکا ماریں گے"
اپنے ہاتھ میں پکڑا چمچ زرلشتہ نے ٹیبل پر پٹخ دیا۔ آج ملازمہ نہیں آئ تھی کسی ضروری کام کی وجہ سے تو کھانا درمان صاحب ہی بنارہے تھے۔ اسے شہر میں اکیلے رہنے کی عادت تھی اور کام بھی کرنے آتے تھے۔ زیادہ نہیں بس ضرورت لائق کھانا وہ بنالیتا تھا۔ل۔ پر اس آفت کی چلتی زبان اور بےصبری کی وجہ سے اس لمحے اس کا ہاتھ جلتا جلتا بچا۔
ٹرے میں چیز آملیٹ نکال کر درمان نے گلاس میں جوس انڈیلا۔ پھر باقی کی چیزیں ٹرے میں رکھ کر خود بھی ڈائیننگ ایریا کی طرف چل پڑا۔ جہاں زرلشتہ آدھے گھنٹے سے غصے سے بھری بیٹھی تھی۔
" صبر نام کی بھی کوئ چیز ہوتی ہے زرلش۔ اچھی چیز کے لیے انتظار کرنا پڑتا ہے۔۔!!! ایک تو تم چاۓ بنانا بھی بھول گئ کیونکہ بقول تمہارے وہ تم نے سیکھی ہی نہیں تھی اپنی پوری زندگی میں۔ اوپر سے تمہیں اپنے بال بنانا بھی نہیں آتے کیونکہ وہ دیار اور آنٹی کا کام ہے تو کم از کم صبر کرنا تو سیکھ لو۔۔۔!!! پتہ نہیں ایک سال میں کیا کیا سیکھا تھا تم نے سب بھول گئ ہو ۔۔۔!!!"
اسے ڈانٹتے ہوۓ درمان نے ٹرے اس کے سامنے رکھا پھر کرسی کھینچ کر بالکل اس کے برابر میں بیٹھا گیا۔ جس کے بکھرے بال اور پھولے ہوۓ گال اسے مزید کیوٹ بنارہے تھے۔
" مجھے بال بنانا آتے ہیں اتنی بھی پھوہڑ نہیں ہوں میں۔ بس دل نہیں کرتا ان سے الجھنے کا۔ ایک ہفتہ میرے بال کیا بنادیے آپ نے۔ آپ تو طعنے ہی دینے لگے۔ نہیں سنبھال سکتے مجھے تو کہہ دیں میرے لالہ کو وہ واپس لے جائیں گے مجھے۔باقی چاۓ میں نے کبھی نہیں بنائ۔ یہی سچ ہے۔ اب مجھے میرا حصہ دیں تاکہ میں کھاؤں۔ میرے پیٹ میں چوہے بریک ڈانس کررہے ہیں۔ سٹیج توڑ دیا ہے انہوں نے۔ پاگل ہورہے ہیں ۔۔۔!!!"
بےصبری کا مظاہرہ کرتے زرلشتہ نے آملیٹ کی جانب اشارہ کیا تو درمان نے گہرا سانس بھر کر خود پراٹھے کے ساتھ نوالہ بناکر اس کے منہ کے آگے کیا۔ جواب میں زرلشتہ نے نفی میں سر کو دائیں بائیں جنبش دی۔
" لالہ جان کہتے ہیں یہ بیڈ مینئرز ہوتے ہیں۔ جب ہم بڑے ہوجائیں تو کسی کے ہاتھ سے کھانا نہیں کھانا چاہیے سواۓ فیملی میمبرز کے۔تو میں لالہ، مما اور بابا کے علاؤہ کسی دوسرے کے ہاتھ سے کچھ نہیں کھاتی ژالے کے ہاتھوں سے بھی نہیں ۔۔!!! تو آپ خود کھائیں میں بھی خود کھاؤں گی ۔۔۔!!!"
سمجھداری سے درمان کو اپنی لاجک سمجھا کر زرلشتہ نے بچوں کے انداز میں سر کو جنبش دی جب درمان کو دیار کے نام پر ہی غصہ آیا۔
" کیا کیا سکھایا ہے تمہیں اس دیار نے۔ لگتا ہے منہ صحیح سے ٹوٹا نہیں یے اس کا۔ پھر سے توڑنا پڑے گا ۔!!! اور میں اگر فیملی نہیں ہوں تمہاری تو کون ہوں پھر۔ کوئ ایلین ہوں جو سپیس سے گرا ہے یا باہر والا ہوں۔ زرلش میں شوہر ہوں تمہارا مان جاؤ یہ بات۔ اس وقت تمہاری پہچان تک میرے نام سے ہوتی ہے۔ تم یہی سمجھ لو میری ملکیت ہو تم۔۔۔۔!!!! میرے ساتھ رہ رہی ہو پھر بھی اتنی دوری۔ کیوں غصہ دلاتی ہو مجھے ۔۔۔!!! "
درمان نے تنگ آکر کہا۔ زرلشتہ اب بھی منہ بند کیے بیٹھی تھی۔ جیسے اسے غصہ دلاکر مزہ آرہا ہو اسے۔
" میں شوہر ہونے کے باوجود تمہاری خاطر خوار ہورہا ہوں اور تم ایسے بدتمیزی کررہی ہو۔ نہیں کھانا میرے ہاتھ سے تو نہ کھاؤ۔ میں جارہا ہوں آفس۔ شام میں دیر سے آؤں گا۔فدیان سے ملنا ہے مجھے ابھی تو تم اپنا خیال رکھنا۔۔۔!!!"
نوالہ زرلشتہ کے سامنے سے ہٹاکر پل میں درمان ناراض ہوا اور وہاں سے اٹھ کر جانے لگا۔ چہرے پر واضح ناراضگی کا اعلان تھا۔ اب جس شخص کو اس کی بیوی ہی باہر والا سمجھے تو بیچارا وہ انسان کس دیوار کو ٹکڑ مارے گا۔
درمان وہ دیوار ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ اسے ناراض ہوکر اٹھتا دیکھ کر زرلشتہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور نوالہ منہ میں لے کر دونوں ہاتھ سینے پر لپیٹ کر دوسری سمت دیکھنے لگی۔
" بیٹھ کر کھالیں مزے کا ہے۔ اچھے شیف ہیں آپ۔ آۓ ایم ایمپریسڈ۔۔۔!!! میں آپ کو بھول گئ ہوں آپ تو نہیں نا بھولے تو بیٹھ جائیں واپس۔۔۔!!!"
انداز لاپرواہ سا تھا پر درمان نے اسی پر ہی گزارہ کیا اور واپس سے اپنی نشست پر براجمان ہوا۔
" اب میں کھلاؤں یا خود کھانا ہے ۔۔۔!!!"
وہ ایک ہی نوالہ منہ میں لے کر چباۓ جارہی تھی جب درمان نے دوسرا نوالہ بناتے ہوۓ جانچتی نظروں سے اسے دیکھا۔
بجاۓ جواب دینے کے زرلشتہ نے اس کی جانب رخ کرکے منہ کھولا کہ لو کھلادو اب۔ اگر اتنا ہی شوق ہے تو۔
درمان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلی اور اس نے دوسرا نوالہ اسے کھلانے کے بعد اب خود ہی اپنا بنایا یہ شاہکار چکھا۔ آملیٹ واقعی مزے کا تھا۔ اور پراٹھے کے ساتھ تو ذائقے کو چار چاند لگ گۓ تھے۔
" اچھا سنیں نا شوہر جی ۔۔!!! "
پچھلا نوالا جلدی جلدی کھاکر زرلشتہ نے معصوم سی صورت بنائی۔
" تو سنائیں نا بیوی جی۔۔۔!!!" جوس اس کے سامنے کرکے درمان نے بھی اسی کے انداز میں کہا تو وہ دل سے کھلکھلا اٹھی۔ اور جوس کا سپ لےکر اس نے دونوں کہنیاں ٹیبل پر ٹکاکر درمان کی نیلی آنکھوں کو دلچسپی سے دیکھا۔
"وہ میں کہہ رہی تھی کہ آپ کا باہر کوئ چکر وکر تو نہیں ہے نا۔ کہیں باہر بھی کوئ لڑکی سیٹ کی ہو آپ نے۔ اسے ہماری شادی کا بھی نہ بتایا ہو۔ ایسا ہے تو دو حرف بھیج دیں اس پر۔ میرے ہاتھ لگی تو فری میں میں قاتلہ بن جاؤں گی میں۔ کیونکہ جیسے آپ کو حق جتانا پسند ہے مجھے اس سے زیادہ پسند ہے ۔۔۔!!!
دکھنے میں اچھے بھلے ہیں آپ۔ جسٹ لائک آ کیوٹ پٹھان۔ کماتے بھی اچھا ہیں۔ ویل سیٹلڈ ہیں۔ تو جیسے جاگیرداروں کے شوق ہوتے ہیں لڑکیوں کو اپنے پیچھے پاگل کرنے کے آپ کے بھی تو ایسے شوق نہیں ہیں نا ۔۔۔!!!"
نوالہ اس کے ہاتھ سے لینے کے دوران زرلشتہ کا الٹا دماغ چلا تو بےساختہ اس نے عجیب و غریب سوال پوچھ کر درمان کے چہرے پر ہوائیاں اڑادیں۔ پھر مسکراہٹ دباتے ہوۓ اس نے معصومیت کی اعلی مثال بنتے ہوئے اس کے چہرے پر آۓ رنگ دیکھے۔ درمان اپنی تعریف پر جہان خوش ہوا تھا وہیں اس کی سوچ پر اپنا سر پیٹنے کو دل کیا اس کا۔
سب بھول گئ تھی یہ پر اپنے شوہر کو شیئر نہیں کرنا یہ اسے یاد تھا۔ واہ ۔۔۔!!!
" زرلش تمہاری یادداشت واقعی میں گئ ہے یا ڈرامہ کررہی ہو میرے ساتھ۔ ایسا ویسا کچھ نہیں یے. میں تم سے لائیل ہوں۔ یہی جاننا بہت یے تمہارے لئے۔ یہ لڑکی وغیرہ کے چکر استغفرُللہ ۔۔!!! میں ایسا فضول اور فارغ انسان لگتا ہوں تمہیں ۔۔۔!!!"
سامنے سے جوس کا گلاس اٹھا کر پیتے ہوۓ اس نے اسے آنکھیں دکھائیں۔دماغ میں تو اس کے الٹے دماغ کی سوچیں ہی چھیڑ چھاڑ کررہی تھیں۔ زرلشتہ نے سمجھ کر سر ہاں میں ہلایا۔
" مطلب آپ کو کسی لڑکی نے گھاس نہیں ڈالی۔۔!! سو سیڈ ۔ کوئ نہیں میں ہوں نا میں ہی کافی ہوں آپ کے لیے۔۔!!! "
ہنستے ہوۓ اس نے آئ ونک کی تو درمان نے سر جھٹکا۔ یہ شروع سے ہی پاگل تھی۔ اسے لگتا تھا اسنے اسے پاگل کیا ہے پر عقل اس میں شروع سے نہیں تھی۔
"میں گدھا یا گھوڑا نہیں ہوں جسے تم گھاس ڈالنا چاہتی ہو۔ بیوی ہو تو بیوی بنو اصطبل نہ کھولو یہاں۔۔۔!!! "
اس نے چڑ کر کہا۔ تو زرلشتہ نے اب اپنا سر ایک ہاتھ پر ٹکا کر دلچسپی سے اس کی صورت حفظ کرنا شروع کی۔ اتنا بھی برا نہ لگا وہ اسے جتنا وہ اسے سمجھتی تھی۔
" میں نے تو ڈالنی ہے آپ کو گھاس ۔۔!!! بقول آپ کے آپ میرے ہی تو شوہر ہیں۔ اور میں جنونی ہوں اپنے رشتوں کے معاملے میں جان لے بھی سکتی ہوں اور دے بھی سکتی ہوں۔ تو میری مرضی میں جوچایے کروں ۔۔۔!!!"
درمان کے ہاتھ تھمے اسے وہ دن یاد آیا جب اس کے ذرا سے مزاق کی وجہ سے زرلشتہ موت کے منہ میں پہنچ گئ تھی۔ پھر اس کا وہ اعتراف ۔۔۔۔!!!
" مجھ سے بہتر یہ بات کوئ نہیں جانتا ہوگا بٹرفلاۓ۔ !!! تو یاد رکھو تمہارے علاؤہ کسی پاگل کو دل نہیں دیا میں نے۔ درمان کی محبت تم سے شروع اور تم پر ہی ختم ہے۔۔۔!!!"
ناچاہتے ہوئے بھی گال پر گڑھا پڑا زرلشتہ مسمرائز ہوئ اس شخص کی مسکراہٹ سچ میں قاتلانہ تھی۔
" یہی ہونا بھی چاہیے مسٹر بھولے بھٹکے شوہر ۔۔۔!!! میں بھلے سب بھول جاؤں۔ آپ نہ بھولنا ۔۔ !! اٹس ماۓ آرڈر ۔۔۔!!!"
درمان کے ہاتھ سے نوالہ کھاتے اس نے سنجیدہ ہوتے ہوئے حکم سناتا تو درمان نے اسے اگنور کیا۔
خاموشی سے اسے ناشتہ کروا کر درمان نے ٹشو سے ہاتھ صاف کیے۔ پھر وہاں سے اٹھ گیا۔
" اپنا خیال رکھنا۔ بالکل اچھل کود نہیں کرنی۔ آرام کرنا ہے ۔!!! فریزر میں فروٹس اور باقی کے آئٹم بھی موجود ہے۔ سب تمہاری پسند کا ہے اور کل والا پلاؤ بھی فریز ہے۔ دوپہر اور رات میں اب اسی سے گزارہ کرنا ہوگا تمہیں۔ کیونکہ شیف اب کل آۓ گی۔ مائیکرو ویو میں گرم کرلینا کھانا اور کھالینا۔۔۔!!! جو فون میں نے تمہیں دیا ہے اس میں میرا نمبر سیو ہے مجھے دوپہر اور شام میں کھانے کے ساتھ تمہاری پک اس نمبر پر موصول ہوجاۓ۔ بھولنا مت ۔۔۔!!!! فون وائ فائ سے کانیکٹ یے تو تم بور نہیں ہوگی۔ ٹائم نہیں ہے ابھی میرے پاس تو اس گھونسلے کو خود سلجھا لینا یا میں رات میں آکر تمہارے بال بنادوں گا۔ لیکن خیال رکھنا ہے اپنا ۔۔۔!!!"
اپنا فون اور گاڑی کی کیز درمان نے وہیں ٹیبل سے اٹھا کر پاکٹ میں ڈالیں اور جھک کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا جس نے سب سمجھ کر ساتھ ساتھ سر بھی ہلانا جاری رکھا۔ جیسے باتیں اپنے دماغ میں ڈال رہی ہو۔
"اچھا نا آپ شام میں جلدی ہی آنا۔ کیونکہ مجھے اکیلے ڈر لگے گا۔۔۔!!! یہاں تو کوئ اور ہے بھی نہیں تو آپ لیٹ نہ ہونا۔۔ !!!"
زرلشتہ بھی اس کے پیچھے ہی باہر کی طرف چلنے لگی۔
پورچ میں کھڑی گاڑی درمان نے انلاک کرنے کے بعد اس کی ہدایت پر سر کو خم دیا۔
" دروازہ بند کرلو۔ پچھلے گارڈز پر مجھے بھروسہ نہیں تھا تمہیں لے کر۔ تمہارے معاملے میں تو خود پر بھی بھروسہ نہیں ہے مجھے۔ تو یونہی کسی جو بھی اپائنٹ نہیں کرسکتا۔ تو میں کل تک اپنے بھروسے مند گارڈز یہاں بلالوں گا۔ میری جان دروازہ نہیں کھولنا اوکے ۔۔۔!! میرے پاس سیپرٹ کیز ہیں میں رات میں خود ہی آجاؤں گا۔ لیٹ ہوجاؤں تو سوجانا۔ پر میں پوری کوشش کروں گا جلدی آنے کی۔۔۔!!! اللہ حافظ ۔۔۔!!!"
زرلشتہ کے رخسار تھپتھپاکر درمان گاڑی میں بیٹھ گیا۔ تو زرلشتہ نے اسے ہاتھ سے باۓ باۓ کرنے بعد گاڑی کے گیٹ سے نکلتے ہی گیٹ لاک کردیا۔ پھر گھر کا داخلی دروازہ لاک کرکے وہ باقی کا بچا ہوا آملیٹ کھانے لگی۔
اسے عجیب سی کیفیت محسوس ہوئی اس وقت کہ اس شخص کے جاتے ہی گھر جیسے ویران ہوگیا۔ اسے محسوس ہوا اس کا دل انجانے میں ہی سہی اسی شخص کے نام پر دھڑکتا ہے۔
" ویسے ذائقہ ہے ان کے ہاتھ میں۔ ایسا ٹیلنڈڈ شوہر پتہ نہیں کیسے ملا تھا مجھے۔ میری مما نے تو ڈھونڈا نہیں ہوگا نا میرے بس کا کام ہے یہ۔ اتنی میں عقل مند نہیں کہ کوئ ڈھنگ کا کام کرلوں۔پر مل گیا مجھے یہ شخص ۔۔۔!!! اس کے لیے تھینک تو اللہ تعالیٰ ۔۔۔!!"
جوس اور آمیلیٹ کا کام تمام کرکے زرلشتہ نے آنکھیں بند کرکے خوشی سے کہا پھر برتن سنک میں رکھ کر انہیں دھونے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ درمان کا ٹیلنٹ تھا جو بیوی کی یادداشت کھونے کے باوجود اس نے اسے خود سے دور جانے نہیں دیا۔ اس پٹاخہ کو قابو کرنے کے ساتھ ساتھ اسے خوش بھی رکھا اس نے۔ یہ ٹیلنٹ ہر کسی میں نہیں ہوتا۔۔۔!!!!
یادداشت جانے کے بعد بھی ایک لمحہ ایسا نہ آیا جس میں زرلشتہ کو اپنا آپ درمان کے ساتھ غیر محفوظ لگا ہو یا اس سے وہ ڈری ہو۔ ایسا نہیں تھا کہ درمان بالکل ہی دور رہتا تھا اس سے تاکہ وہ کمفرٹیبل رہے۔ وہ اب بھی پہلے کی طرح ہی اس کے آگے پیچھے گھومنے کے ساتھ حکم بھی برابر چلاتا تھا۔ اور انداز ایسا ہوتا کہ زرلشتہ ناچاہتے ہوۓ بھی ماننے پر مجبور ہوجاتی۔
وہ الگ بات تھی اپنی باتوں اور حرکتوں سے زرلشتہ اسے تنگ کرکے لطف اندوز ہوتی رہتی تھی۔ اور درمان صبر کے سوا کچھ نہیں کرپاتا تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" آرام سے ۔۔۔!!! احتیاط سے چلو معصومہ۔۔!! زخم ابھی بھی کچا یے۔ سو بی کیئر فل۔۔۔!!!"
معصومہ کو سہارا دے کر فدیان نے اسے ہاسپٹل کے بیڈ پر بٹھادیا۔ جس کا سانس اتنے میں ہی پھول چکا تھا۔ ابھی وہ اسے فیس واش کرواکر لایا تھا۔ معصومہ کل تک ڈسچارج ہوجاتی اب اس کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی۔اس نے اسے نرسوں کے سہارے نہیں چھوڑا اس کے سارے کام وہ خود کرتا تھا۔
کہتے ہیں بیوی کی وفاداری اور محبت کا پتہ مرد کے غربت کے دنوں میں لگتا ہے کہ وہ اسے سپورٹ کرتی ہے یا طعنے دے کر چھوڑ جاتی ہے اور مرد کی وفاداری اور محبت کا پتہ بیوی کی بیماری میں لگتا ہے کہ کیا وہ اسے ذمہ داری سمجھتا ہے یا بوجھ سمجھ کر ماں باپ کے در پر چھوڑ آتا ہے اور ایک اچھا شوہر کبھی اپنی بیوی کو بیماری میں دوسروں کے سہارے نہیں چھوڑتا۔ جیسے ایک وفاشعار بیوی مرد کے برے دنوں میں اسے غربت کے طعنے نہیں دیتی۔۔!!!! ویسے ہی شوہر اس کی خدمت خود کرتا ہے۔ یہی اس کی محبت ہے ۔۔۔!!!
فدیان نے بھی معصومہ کا خیال رکھ کر ایک وفادار اور مخلص شوہر ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
" فادی گھر جانا ہے۔ میری سونا اکیلی ہوگی۔ مجھے یہاں نہیں رہنا ۔۔۔!!!"
سانس ہموار کرنے کے ساتھ معصومہ نے ریکوئسٹ کی تو فدیان نے جھک کر اس کے دونوں پاؤں اٹھا کر بیڈ پر رکھے۔ لیکن احتیاط سے کہیں اس دوران بھی اسے درد نہ ہو۔
" خانی ۔۔!! ہم کل گھر چلے جائیں گے اور سونا اکیلی نہیں ہے اس کی دیکھ بھال کے لیے سرونٹس رکھ لیے تھے میں نے۔ اب جب تک تم ٹھیک نہیں ہوجاتی مکمل طور پر سارے کام سونا کے وہی کریں گے۔۔۔!!! اوکے میری جان ۔۔!!! اب ٹینشن نہیں لینی مجھے اپنی دونوں بلیوں کا خیال ہے ۔۔ !!!"
مسکراتے ہوۓ فدیان نے اس کا گال ہلکا سا چٹکی میں بھرا پھر اسی وقت اپنے فون پر کسی کی کال آتی دیکھ کر فورا اس نے فون ریسیو کیا۔
دوسری طرف درمان تھا۔
" فدیان میری بہن کیسی ہے اب ۔۔!!! "
دوسری طرف سے پوچھے گۓ سوال پر اس نے مدھم سی مسکراہٹ سنگ معصومہ پر نظر دوڑائ۔
" ٹھیک ہے اب۔ پہلے سے بہت بہتر ہے۔ کل تک ڈسچارج بھی ہوجاۓ گی۔۔۔!!! اور آپ بتائیں بھابھی کی یادداشت واپس آئ یا اب تک آپ کو بھولا بھٹکا شوہر ہی کہہ رہی ہے وہ ۔۔۔!!!"
فدیان نے شرارت سے بات کو اس کی دکھتی رگ کی طرف موڑ دیا تو درمان نے ٹھنڈی آہ بھری۔
" میری بیوی کی یادداشت کا واپس آنے کا کوئ ارادہ نہیں ہے۔ سنا تھا صبح کا بھولا شام کو واپس آجاۓ تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ پر میں تو صبح کچھ بھی بھول کر نہیں گیا تھا پھر بھی زرلشتہ نے مجھے بھولا بھٹکا شوہر ڈیکلیئر کرنے کے ساتھ مجھے میرا نیا تعارف یاد کروانے میں کسر نہیں چھوڑی۔
ڈاکٹر کہہ رہی تھی ابھی جو وہ کررہی ہے اسے کرنے دیا جاۓ تو میں صبر ہی کررہا ہوں۔ اللہ رحم کرے میرے حال پر ۔۔!!!"
درمان نے گاڑی آفس کے راستے کی جانب موڑتے ہوئے اسے بےبسی سے جواب دیا جس نے بڑی مشکل سے مسکراہٹ دبائ تھی۔ ورنہ بے موت مارا جاتا۔
"اچھا تمہیں یہ کہنا تھا کہ کل شام کا کھانا تم دونوں کا ہماری طرف ہوگا۔ ٹھیک ہے۔ زرلشتہ معصومہ سے مل کر خوش ہوجاۓ گی. ساتھ میں وشہ اور دیار کو بھی بلالوں گا میں۔۔۔!! تمہارے آفس کے بارے میں بھی ڈسکس کرلیں گے۔چلو خیال رکھو اس کا۔ اللہ حافظ "
اپنی بات کہہ کر درمان نے کال ڈس کنیکٹ کرکے اپنا فوکس ڈرائیونگ پر مبذول کیا۔ وہیں فدیان نے فون پاکٹ میں رکھ کر قدم معصومہ کی طرف لیے۔
" بھائ نے کل کھانے پر بلایا ہے ہمیں۔ واپسی پر ہمیں اب وہاں جانا ہوگا ۔۔۔!!! اوکے ۔۔۔!!!"
فدیان اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ بھی زرلشتہ کے پاس جانے کا سن کر کھلکھلا اٹھی۔ اسے فدیان نے زرلشتہ کی کنڈیشن پوری نہیں بتائ تھی بس اتنا بتایا تھا وہ بیمار ہے تبھی ملنے نہیں آئ۔
" فائنلی میں آپی سے ملوں گی۔ فادی میں اتنی خوش ہوں نا بتا نہیں سکتی۔ ابھی تو میں نے لڑنا بھی ہے ان سے کہ مجھے دیکھنے کیوں نہیں آئ وہ۔ ویسے آپی اور لالہ کیوں نہیں آۓ ۔۔۔!!!"
ہنستے ہوۓ یہ بات یاد آتے ہی وہ تھوڑی سی اداس ہوئ۔اب یہ الجھی کہانی فدیان کو اسے بھی سنانی تھی۔
" معصومہ وہ اصل میں ۔۔۔۔!!!"
فدیان نے اسے زرلشتہ کے سیڑھیوں سے گزنے سے لے کر موت کو مات دے کر واپس آنے کا بتایا پھر اس کی یادداشت جانے کا سن کر معصومہ صدمے کی زد میں تھی۔ اتنا کچھ ہوگیا اور کسی نے اسے بتایا ہی نہیں۔
" آپی مجھے بھی بھول گئیں۔۔۔!! فادی اب تو میں اکیلی ہوگئ نا۔وہ مجھے دیکھیں گی بھی نہیں اب ۔۔!!"
معصومہ نے منہ بنایا۔ تب فدیان نے درمان کی حالت یاد کی۔
" بھول تو وہ اہنے شوہر کو بھی گئ ہے پر اکیلا نہیں چھوڑا اس نے انہیں بھی۔ بھولے بھٹکے شوہر کے ساتھ رہ رہی ہے وہ۔ تو تمہیں بھی نہیں بھولے گی۔ مجھے جانتی ہے وہ میرے ریفرنس سے تم سے دوستی کرلے گی پھر سے۔اپنے فاد بھائ کی بیوی کو وہ اتنا ہی پیار کرے گی جتنا پہلے کرتی تھی۔ تو ریلیکس خانی ۔۔۔!!!"
درمان کی حالت سچ میں ان سب کے لیے ہنسنے کی وجہ بنی تھی۔ اب بات تھی ہی ہنسنے والی کہ اس کی بیوی اسے بھول گئ۔ معصومہ نے سمجھ کے ہمم کہا۔
وہ بھی اب پہلے سے بہتر تھی اور شنایہ کی ڈیتھ کا فدیان اسے بتاچکا تھا۔ اور باقی سب بھی ملنے آتے رہتے تھے۔ سواۓ اس کی ماں سبرینہ بیگم کے جنہیں بادل نے احتیاطا کچھ نہیں بتایا تھا۔ کہیں وہ پریشان نہ ہوجائیں۔
"ہم بہت سی چاکلیٹس اور چیزیں لے کر جائیں گے ان کے لیے تو وہ خوش ہوجائیں گی اوکے ۔۔۔!!!"
" جیسے تم کہو ۔۔ !!!"
فدیان نے اس کی سیاہ رنگ آنکھوں میں دیکھتے کہا۔ وہ خوش تھا اس کے ساتھ۔ اور اسے بھی خوش ہی رکھنا چاہتا تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
رات کے اگلے پہر یشاور کے کمرے کا دروازہ ناک ہوا۔ وہ ابھی آفس ورک میں ہی الجھا ہوا تھا۔ باران خود بھلے اسے نہیں ملا تھا پر یشاور کی جان عزاب بنانے کے لیے کام کا ڈھیر بلا ناغہ اس تک پہنچ رہا تھا۔ باران اپنے مسئلوں میں الجھ کر بھی اس سے باخبر تھا۔ اس نے سر اٹھایا بہار سامنے کھڑی تھی اور آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھی تھے۔
لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کر وہ بیڈ سے نیچے اترنے لگا۔
" بہار آپ ٹھیک تو ہیں۔ کچھ ہوا ہے کیا۔۔۔؟؟؟ آپ سوئ نہیں ابھی تک۔۔!!!"
فکر بھرے لہجے میں یشاور نے پوچھا جب بہار پھر سے رونے لگی۔ یشاور دو ہفتے پہلے ہی اپنے روم میں واپس آگیا تھا اور دوسرا روم اس نے بہار کے لیے سیٹ کروادیا تھا۔
" مجھے ڈ۔ڈر لگ رہا ہے وہاں۔۔!!! "
اس کی آواز لڑکھڑا گئ۔ تو اس کے سامنے کھڑے ہوکر یشاور نے بغور اس کی جھیل جیسی آنکھیں دیکھیں۔
" کس سے ڈر لگ رہا ہے آپ کو بہار ۔۔۔!!! مجھے بتائیں کچھ ہوا ہے کیا ۔۔۔!!"
اس نے فکر مندی سے پوچھا۔ تو گال پر آنسوؤں کی لکیروں میں اصافہ ہونے لگا۔
"لائٹ خراب ہوگئ ہے روم کی اور لگ رہا تھا کوئ مجھے مار دے گا۔ خون دکھ رہا تھا مجھے اور لگا میں مر جاؤں گی۔مجھے نہیں مرنا خان ۔۔۔!!! وہ مار دیں گے مجھے بھی ۔۔۔!!!"
اس کے لہجے سے خوف واضح تھا اس کی باتیں سن کر یشاور نے لب دباۓ اسے بس ان کمینوں کی تلاش تھی جو اس کے آنسوؤں کی وجہ تھے۔
ایک ہاتھ سے اس کے گال پر بہتا آنسو احتیاط سے صاف کیا یشاور نے۔ دل میں کسک سی اُٹھی۔ تب اس کی خوف اور رونے سے سرخ ہوتی آنکھیں دیکھ کر وہ نظریں پھیر گیا۔
" ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ میرے ہوتے کچھ نہیں ہوگا آپ کو بہار ۔۔۔!!! ٹرسٹ می میں خود تو مرجاؤں گا پر آپ کو اب خراش بھی نہیں آۓ گی۔ یہ وعدہ ہے میرا آپ سے۔ آپ پلیز اپنے آنسو صاف کرو یہ تکلیف دے رہے ہیں مجھے ۔۔۔!!!"
یشاور کی بھینچی مٹھیاں دیکھ کر بہار نے آنسو روکے اور اپنے ہاتھ سے اپنا چہرہ صاف کرنے لگی۔
" میں آپ کے پاس یہاں رہ سکتی ہوں کیا؟مجھے اکیلے میں ڈر لگتا ہے۔ پلیز خان۔ میں اب واپس نہیں جاؤں گی۔ اس روم میں۔۔!!! میں آپ کو تنگ نہیں کروں گی پکا۔ چپ کرکے بیٹھی رہوں گی۔ پر مجھے یہاں رہنے دیں۔ پلیز۔ مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے ۔۔۔!!!"
وہ دنیا کی پہلی بیوی ہی ہوگی جو اپنے ہی شوہر کے کمرے میں رہنے کے لیے منت کررہی تھی۔
یشاور سے مزید اب اس کے آنسو برداشت نہ ہوۓ۔ اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں کھول کر اس نے گہرا سانس لیا۔ وہ تو اس کے آنسو صاف کرتے بھی ڈرتا تھا کہ کہیں وہ اسے ماضی یاد دلانے کی وجہ نہ بن جاۓ۔
" بہار آپ کوئ غیر نہیں ہیں۔ بیوی ہیں میری۔ میرے ساتھ رہنے کے لیے آپ کو اجازت کی ضرورت کیوں پڑگئ۔ حق سے حکم دیا کریں بس مجھے۔ یہ غلام ہے نا آپ کی خدمت کرنے کو۔ اور مجھے تنگ کیوں نہیں کرنا۔ ایک آپ ہی تو ہیں جو جی بھر کر تنگ کرسکتی ہیں مجھے وہ بھی پورے حق کے ساتھ۔۔۔!!! اگر اجازت ہو تو میں آپ کے آنسو صاف کرسکتا ہوں ۔۔۔!!!"
یشاور کی آنکھوں میں دیکھتے بہار چند سانچے سٹل ہوگئ۔ اس کے نزدیک یہ دنیا کا سب سے انوکھا شوہر تھا جسے اپنی بیوی کے آنسو صاف کرنے کو بھی اجازت چاہیے تھی۔ بہار نے سر ہاں میں ہلایا۔
" آپ کو بھی اجازت کی ضرورت نہیں۔ پورے حق سے حق جتایا کریں۔۔۔!!! آپ غیر نہیں ہیں شوہر ہیں میرے ۔۔!!"
اس کا جملہ بہار نے اسی کو لوٹاکر زکام زدہ سانس کھینچا۔ تو پشاور نے آگے بڑھ کر اس کے رخساروں پر بہتے آنسو صاف کیے۔ آخر کار آج بہار نے بھی دل سے اسے شوہر مان ہی لیا تھا۔ بغیر کسی سمجھوتے کے ۔ پھر اسے اپنے حصار میں قید کرکے یشاور نے اس کے سر پر عقیدت بھرا لمس چھوڑا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
" بہار۔۔۔۔!!! آپ میری زندگی کی بہار ہیں۔ مجھے راہِ ہدایت دکھانے کا ذریعہ ہیں آپ۔ میری خزاں جیسی زندگی میں آپ کی آمد سے پھول کھلے اور رنگ بکھرے۔ یشاور کی کل کائنات آپ ہیں میری جان۔۔۔!!! تو رویا مت کریں۔ نا ہی ڈرا کریں۔ اگر ڈر لگے تو بلا جھجک میرے پاس آجایا کریں میں شوہر ہوں آپ کا۔اس ناطے کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ آپ کے سارے ڈر میں سمیٹ لوں گا۔ بس مجھ پر بھروسہ رکھیے گا ۔۔!!!
بی بریو بہار ۔۔۔!! بی بریو ۔۔۔!!!"
ہنوز آنکھیں بند تھیں پر الفاظ تو آبِ حیات ہوتے ہیں وہ تو اپنا کام کردکھاتے ہیں۔ ہشاور کی خوشبو محسوس کرکے بہار کو اس کے حصار میں اپنا آپ ہر خطرے سے دور لگا۔
ایک مخلص شوہر کا ساتھ عورت کے لیے صحرا میں بھی گھنے ساۓ کی طرح ہوتا ہے جو اسے ہر سرد و گرم سے محفوظ رکھتا ہے۔
بہار کا سایہ بھی وہی تھا۔
" تو میں آپ کے پاس رہ سکتی ہوں۔ آپ کو مسئلہ نہیں ہے کوئ بھی۔ پکا نا آپ دل سے راضی ہیں۔ یا کامپرومائز کررہے ہیں۔۔۔!!!"
اس کے حصار سے نکل کر اس نے بھولی سی صورت بنائی تو یشاور نے فورا سر کو دائیں بائیں ہلایا۔
" میں کومپرومائز کرنے کا عادی نہیں ہوں بہار۔ جو کرتا ہوں اپنی مرضی سے کرتا ہوں۔آپ سے نکاح بھی اپنی مرضی سے کیا تھا اور آپ کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ بھی میرا اپنا ہے۔ اس لیے الٹا سیدھا کچھ بھی نہ سوچیں۔ مجھے آپ ہمیشہ اپنے لیے مضبوط سہارے کی صورت میں سامنے پائیں گی۔۔!!!"
یشاور نے نرم سی مسکراہٹ کے سنگ اس کی کتھئ آنکھوں میں جھانکا۔ جہاں ڈر کی شدت میں کچھ کمی آئ تھی۔
اہنے دونوں ہاتھ پشت پر باندھ کر یشاور سامنے سے ہٹ گیا۔
" مسز آپ سوسکتی ہیں یہاں۔یہ کمرہ آپ کا ہے، یہ گھر بھی آپ کا ہے اور یہ خادم بھی آپ کا ذاتی ہے۔۔۔!!!!! آئندہ بس حکم کیجۓ گا آپ۔ یشاور پر وہ سانس بھی حرام جس میں آپ کو کسی بات پر بلاوجہ 'نہ' کہے۔۔۔!! رات بہت ہوگئ ہے تو سوجائیں۔ کل ناشتہ بھی بنانا ہے آپ نے۔ "
تکلف پڑے کرکے یشاور مسکرایا۔ تو بہار بھی چھوٹے چھوٹے قدم بھرتے ہوئے بیڈ کی بائیں سائیڈ پر جاکر بیٹھ گئ۔
" تو میں اپنا سامان بھی یہاں شفٹ کرلوں۔ اگر ایسا ہے تو کل آنٹی( ملازمہ ) کے ساتھ میں اپنی مرضی کی سیٹنگ کروں گی اس روم کی۔ میں کرلوں روم کی سیٹنگ۔ ۔۔!!!"
انداز معصومیت سے لبریز تھا کہ یشاور کے دل نے بیٹ مس کی۔ وہ ہنستے ہوۓ دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ہنستے ہوۓ وہ بھی دوسری طرف آکر بیٹھ گیا۔
"Possano io dirti che accetterei anche il veleno dalle tue mani. Sto impazzendo giorno dopo giorno per il tuo amore. Mi è capitato di amarti per le tue parole, per il tuo modo di parlare, per te stesso."
(کاش آپ سے میں کہہ سکوں کہ مجھے تو اب آپ کے ہاتھ سے زہر کھانا بھی قبول ہے۔ میں آپ کی محبت میں دن بدن دیوانہ ہوتا جارہا ہوں۔
مجھے آپ سے آپ کی باتوں سے آپ کے لہجے سے عشق ہے۔)
اس کی طرف دیکھتے ہوۓ اطالوی زبان(Italian language) میں یشاور نے بےساختہ یہ الفاظ کہے۔ جو بہار کے سر کے اوپر سے ہی گزرے تھے۔ یشاور نے بس دل کو حوصلہ دیا تھا کہ کسی بھی زبان میں سہی اس نے اعتراف تو کرلیا۔ بھلے جس کے لیے کیا اسے سمجھ آۓ یا نہ آۓ۔
"مطلب ...؟؟ یہ کیا کہا آپ نے ..؟؟"
بہار نے بھنویں اچکائیں تو یشاور نے لب دانتوں تلے دبالیے۔
" میں کہہ رہا تھا کہ آپ میرا سامان بھی اٹھا کر باہر پھینک سکتی ہیں اگر آپ کے سامان کے لیے جگہ کم پڑجاۓ۔ یا مزید اگر تبدیلی کرنی ہے تو مجھے گھر سے نکال بھی سکتی ہیں۔اچھے بچوں کی طرح آپ کی ساری باتیں میں مان لوں گا۔۔۔!!!"
یشاور نے بات سنبھالنا چاہی تب بہار کی ہنسی کی جلترنگ کمرے میں گونجی۔
" میں نے اس گھر میں بسنا یے قبضہ نہیں کرنا۔ اور مجھے تم کہا کریں۔ اچھا لگتا ہے مجھے۔ ایسے مجھے بھی احساس رہے گا کہ آپ میرے اپنے ہیں۔"
سر جھٹک کر وہ سکون سے کمفرٹر اوڑھ کر سونے لگی۔
وہیں بات ٹلتی دیکھ کر یشاور نے اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا اور واپس سے سر کھپانے لگا۔سٹاف کے سامنے اسے اپنی عزت پیاری تھی۔ اور یہ کام اسے کرنا ہی تھا۔
وہ خوش تھا کہ بہار کی اس پیش قدمی پر۔ باقی اسے یقین تھا وہ اسے اب مایوس نہیں ہونے دے گا۔ کبھی بھی نہیں ۔۔۔ !!!!
" بڑا ہی کوئ بورنگ دن یے آج۔ سنا تھا پاکستان میں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے پچھلے کچھ سالوں میں تو یہاں پانی کے نام پر ہی سہی زندگی میں کوئ لڑائ والی بات یا ایڈونچر آجاۓ گا۔ کبھی لائٹ چلی جاۓ گی تو بجلی والوں کو کوسوں گی میں۔ پر میرا گھر تو جیسے پیرس میں یے جہاں نہ بجلی کا مسئلہ ہورہا ہے نا پانی کا۔ بگ بی نے میرے آنے سے پہلے میرے سکون کے لیے یہ سب کرکے اچھا نہیں کیا۔
نا ہمساۓ لڑنے آتے ہیں نا کوئ بچہ کھڑکی کا شیشہ توڑ رہا ہے۔کوئ فن نہیں کوئ لڑائ نہیں۔ کوئ ہنگامہ نہیں ہے اب تو اس زندگی میں۔ایسے ہی زندگی میں مزید سکون آیا تو میں تو جنت میں پہنچ جاؤں گی۔ نہیں روح تمہیں ابھی سکون سے نہیں مرنا۔۔۔!!!!"
شہادت کی انگلی دانتوں تلے دبا کر روحیہ نے گاڑی کا شیشہ نیچے کرکے باہر سڑک پر دوڑتی گاڑیاں دیکھیں۔ ٹھنڈی ہوا میں گہرا سانس کھینچ کر اس نے اپنا دماغ الگ سمت میں مصروف کرنا چاہا۔ آسٹریلیا میں تو زندگی بہت مصروف تھی فالتو کی سوچیں سوچنے کا وقت نہیں ملتا تھا۔ ہاسپٹل کی تھکا دینے والی جاب اور کیوٹ سی فیملی کے ساتھ وقت گزارتے وہ ہر ٹینشن سے آزاد رہتی تھی۔
پر یہاں اسے ماضی کی وہ سیاہ راتیں جو راسم جیسے وخشی کے ساتھ گزاری تھیں اس نے اور تکلیف بھرے وہ دن جو موت مانگتے کٹے تھے۔ خود پر ٹوٹے ظلموں کے پہاڑ سکون کے لمحوں میں کانٹوں کی طرح چبھتے تھے ذہن میں آکر۔ ایسے کہ اس کا دل لہولہان کرکے یہ قسمت اس پر ہنستی تھی کہ دیکھو تمہیں تو سکھ ملا ہی نہیں۔ یہاں آکر جب بیٹی اور محبت دونوں پاس ہیں تمہارے پھر بھی کسی کو چاہ نہیں تمہاری۔ نا باران نے تمہیں کبھی ڈھونڈا نا معصومہ جانتی یے اس کی ماں تم ہو۔ کتنی بدقسمت ہو نا تم ۔۔!! جسے خوشیاں راس ہی نہیں آتیں۔ قریب آکر قسمت روٹھتی ہے تم سے۔۔۔!!!
تم مر کیوں نہیں جاتی۔۔۔۔!!!!
سکون بھی ہرکسی کو راس نہیں آتا۔ کئ لوگ گھڑی کی ٹک ٹک کرتی سوئیوں کو دیکھ کر سوچتے ہیں کاش تھوڑا سا وقت سکون کا مل جاۓ اور وہ خیالوں کی دنیا میں کھوسکیں تو کچھ لوگ زندگی سے اتنا ستاۓ ہوۓ ہوتے ہیں جو اس گھڑی کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ کہیں سکون کا لمحہ نہ مل جاۓ۔ کیونکہ ماضی کی یادیں کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ان کے وجود کو چھلنی کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گی۔
اور یہ جو یادوں سے بھاگتے لوگ ہوتے ہیں نا ان کا درد ہر کوئ نہیں سمجھتا۔ یہ خود سے ہی لڑتے رہتے ہیں۔
" لالہ ۔۔۔!! ہاسپٹل کتنی دور ہے ابھی۔ ایک گھنٹے سے میں یہاں بیٹھی ہوں۔ آپ گاڑی تیز کیوں نہیں چلارہے۔ چیونٹیاں تک ہم سے آگے نکل گئ ہیں اور ایک ہماری گاڑی ہے جو سڑک پر رینگ رہی ہے۔۔۔۔۔!!!!"
پہلے جھنجھلا کر آخر میں روح نے سخت لہجے میں کہا۔ تو ڈرائیور نے سامنے شو ہوتا وقت دیکھا۔
" میم ابھی آدھا گھنٹہ مزید لگے گا ہاسپٹل پہنچنے میں ہمیں۔ ہم ابھی دو منٹ پہلے ہی تو نکلے ہیں۔ پہلے والا راستہ تعمیراتی کام کی وجہ سے بند ہے تو مجبورا مجھے اس راستے سے آپ کو ہاسپٹل ڈراپ کرنا ہوگا
یہ راستہ تھوڑا پتھریلا ہے تو میں احتیاط سے گاڑی چلارہا ہوں۔ سڑک کے سائیڈ پر گہرائ ہے ذرا سی بداحتیاطی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔ سر کے آرڈرز ہیں آپ کو خراش بھی نہیں آنی چاہیے۔ تو مجھے میرا کام کرنے دیں۔ آپ آرام سے بیٹھ جائیں بس تیس منٹ ہیں پیچھے۔ ہم پہنچ جائیں گے ہاسپٹل ۔۔!!!"
ڈرائیور نے بیک ویو مرر سے اسے دیکھتے ہوۓ مؤدب انداز میں بات کی جس کے چہرے پر بیزاریت چھائ تھی تیس منٹ کا سن کر۔ جس کے لیے یہ دو منٹ گھنٹہ تھے تو تیس منٹ کا مطلب پندرہ گھنٹے۔۔۔!!!
یعنی بقول اپنی سوچ کے وہ شام تک یہیں بوڑھی ہوجاۓ گی۔
" گاڑی روکو اسی وقت ۔۔۔!! اٹس این آرڈر ۔۔۔!!! ورنہ آپ کے سر کا تو نہیں پتہ لیکن مین چلتی گاڑی سے کود ضرور جاؤں گی۔۔!!"
لہجے میں پختگی لیے اس نے ڈرائیور کو اپنے نیک اردوں سے آگاہ کیا جو اس لڑکی کی سوچ سے واقف تھا۔ یہ کل بھی چلتی گاڑی سے باہر اتری تھی۔ وہ تو شکر تھا سڑک کے کنارے کا سہارا لے کر یہ بچ گئ ورنہ آج ڈرائیور کسی سڑک پر الٹا لٹکا ہوتا۔
اس نے فورا سے پہلے گاڑی سائیڈ پر کھڑی کی۔
اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر روحیہ گاڑی سے باہر نکل آئ اور ڈرائیور کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
" بغیر کسی سوال کے پیچھے جاکر بیٹھیں۔ گاڑی میں چلاؤں گی۔ اتنا سکون مجھے گوارہ نہیں۔ لگ رہا ہے میں مرگئ ہوں اور جنت کی سیر کررہی ہوں۔ اتنا سکون مجھ پر حرام ہے۔ اٹھیں اور پیچھے جائیں۔ یا اگر زندگی پیاری ہے تو گاڑی میرے حوالے کرکے جہاں دل کرے وہاں جائیں۔ دوپہر میں گاڑی پک کرلیجۓ گا اگر یہ سلامت رہی تو۔۔۔!!!"
روحیہ نے لٹھ مار انداز میں کہا۔یعنی گاڑی کے بچنے کی بھی گارنٹی نہیں تھی۔ ڈرائیور کا حلق خشک ہونے لگا۔
" میم آپ کو گاڑی چلانی آتی بھی ہے کیا۔۔!!! دیکھیں معاملہ آپ کی جان کا ہے یہاں۔ باس نے مجھے آپ کی ذمہ داری سونپی ہے۔ انہوں نے مجھ پر بھروسہ کیا ہے میں ان کا بھروسہ نہیں توڑ سکتا۔ تو پلیز آپ پیچھے بیٹھ جائیں ۔۔!!"
اپنی طرف سے ڈرائیور نے منت کی بس پیروں میں گرنے کی کمی تھی۔ روح نے کندھے اچکادیے کہ مجھے فرق نہیں پڑتا۔
" صرف چلانی نہیں آتی جہاز کی طرح اڑانی بھی آتی ہے۔۔!!! بگ بی کو میں سنبھال لوں گی۔ میری بات وہ نہیں ٹالتے۔ آپ ابھی کے لیے اتریں اور جائیں یہاں سے۔ میں لیٹ ہورہی ہوں ۔۔۔!!!"
لہجہ ضدی تھا روح کی بات سن کر چار و ناچار وہ ڈرائیور گاڑی سے باہر نکل گیا۔ اس کے نکلنے کی دیر تھی جب بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوۓ روح نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی دروازہ لاک کیے بغیر گاڑی سٹارٹ کردی۔ اور چیخ اٹھی۔
ڈرائیور نے دل پر ہاتھ رکھا یہ اسے بھی مرواتی۔ اپنی الٹی حرکتوں سے۔
" یااللہ انہیں بخیر و عافیت ہاسپٹل تک پہنچا دینا ورنہ ان کا وہ جنونی بھائ میری کھال ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ جیسی بہن ہے ویسا ہی اس کا وہ بھائ بھی ہے۔۔۔!!! اب مجھے بچالینا ۔۔۔!!! "
سر اوپر اٹھا کر ڈرائیور نے دعا مانگی ۔روح کو دعائیں ہی بچاسکتی تھیں ورنہ اپنا اس کا بس چلتا تو سب کو اپنے پیچھے خوار کردیتی۔
" یہ ہے نا اصل زندگی۔۔۔!!! فل آف ایڈونچرز جس میں کوئ سکون نہیں۔۔۔!!! مزہ آگیا یارا ۔۔!! فل سپیڈ پر گاڑی چلانے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ "
گاڑی کی سپیڈ تیز کرکے روح نے چلتی گاڑی کا دروازہ بند کیا۔ اور بٹن دبا کر اس گاڑی کی چھت ریموو کردی۔ اس خوبصورت شہر کی ہوا اس کے وجود سے ٹکرانے لگی۔ آنکھوں میں درد اترا۔ پرانے لمحے آنکھوں کے آگے آۓ تو اس کا لمحے کو دل کیا گاڑی یہیں کسی کھائ میں پھینک دے۔ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوگی زندگی میں موت کا سناٹا بھی پھیل جاۓ گا۔
پھر ناجانے کیوں پر اس سوچ پر عمل نہ کرسکی وہ۔ ورنہ موقع اچھا تھا۔ سٹیرنگ ویل آزاد چھوڑ کر روح نے اپنے بیگ سے اس دن والا ماسک اور کیپ نکالی۔ ایسے ایڈونچرز انسین لیڈی پر ہی سوٹ کرتے تھے۔
گاڑی کی سپیڈ اس حد تک تیز تھی کہ اسے لگا وہ ہوائیں کو چیر رہی ہے۔ سامنے کھائ تھی وہ مسکرائ۔
سٹیرنگ آزاد چھوڑ کر اس نے سیٹ کی پشت سے سر ٹکایا۔ جیسے سامنے کھائ نہیں اس کا گھر ہو۔ گاڑی کھائی کے قریب جاتی گئ اور روح کا سکون مزید گہرا ہوتا گیا۔
" نہیں مار سکا یہ شہر مجھے۔ دیکھو میں یہاں زندہ ہوں۔ آۓ ایم بیک۔۔۔۔!!!! ہمت ہے تو مار دو مجھے۔ ورنہ باران کی خیر نہیں۔ اسے عشق تھا نا ان پتھریلے راتوں سے یہاں سکون ملتا تھا اسے۔ تو اس کے سکون ہمت ہے تو آج روحیہ کو اپنی آغوش میں لے لو۔ یہ موقع بار بار نہیں ملے گا۔ میں سامنے ہوں مار دو ۔۔۔!!!"
کھائ کے قریب پہنچ کر روح سٹیرنگ کے سہارے اوپر اٹھی دونوں بازو کھول کر اس نے سر اوپر کی طرف کیا اور چیخ کر کہا۔ اس کی آواز اس جگہ گونجی اٹھی۔ ایک سحر سا طاری ہوا اور اسی لمحے سٹیرنگ پوری طرح گھماکر اس نے کھائ کو آئ ونک کی۔
" اتنا آسان نہیں ہے روح کو مارنا۔ بیٹر لک نیکسٹ ٹائم۔۔۔!!!! کبھی پھر ملیں گے۔باۓباۓ۔۔۔!!!"
سٹیرنگ گھمانے کے دوران اس کا سر سامنے ڈیش بورڈ سے ٹکرایا تھا۔ جس کی اسے خبر بھی نہیں تھی۔
گاڑی کی سپیڈ اب بھی فل تھی اور روح اپنے پاگل پن میں ہواؤں کو چیرتے ہوۓ آگے بڑھ رہی تھی۔
جس نے بھی اسے انسین لیڈی کہاتھا ٹھیک کہا تھا وہ جنونیت کی آخری حدوں پر کھڑی تھی۔ اسے موت سے زرا ڈر نہیں لگتا تھا۔ اس موت کو اس نے بارہا قریب سے جو دیکھا تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" گاڑی خراب ہوگئ ہے میری راسم۔۔۔!!! اس دلاور کتے نے کہا تھا میں اسی کے گھٹنے سے لگا بیٹھا رہوں پر مجھے اس کی بو نہیں سونگھنی تھی تو میں ٹھنڈی ہوا کھانے شہر گھومنے کے ارادے سے نکل گیا پر افسوس یہاں اس سنسان علاقے میں میری گاڑی کو موت پڑگئ۔۔۔!!!!!
اب کچھ کرو میری لوکیشن ٹریس کرکے کوئ گاڑی بھیجو۔ میں یہاں کھڑا کھڑا سٹیچو بن جاؤں گا۔"
راستے میں پڑے پتھر کو بادل نے ٹھوکر ماری۔ پھر اپنی گاڑی پر دو حرف بھیج کر اس نے دور دور دھندلے ہوۓ پہاڑ دیکھے۔ لفٹ ملنے کی امید نہیں تھی اسے۔ یہاں کوئ پاگل ہی موت کو منہ لگانے آتا۔ کسی عقلمند کو اس راستے پر آنے کی ضرورت نہیں تھی تو اس نے راسم کو فون کیا۔
جو اس وقت کرسی پر جھول رہا تھا۔
" اپنی گاڑی خراب ہوئی تو تمہیں میں یاد آگیا اور چار سال سے سبرینہ مانگ رہا ہوں تم سے وہ تمہیں یاد نہیں رہا۔ آج آر یا پھر پار ۔۔۔!!!
میں لوکیشن ایک ہی شرط پر ٹریس کروں گا اگر تم اگلے دو دن کے اندر اندر سبرینہ کو اس دیو کی قید سے رہا کروانے کا وعدہ کرو۔ یا ایسا کرو اپنی محبت کی قسم کھاؤ۔۔۔!!! تمہیں قسم ہے اس کی قسم کھاؤ ابھی کے ابھی کہ تم اسی ہفتے سبرینہ کو آزاد کرواؤ گے ۔۔۔!!!"
چاۓ کا کپ لبوں سے لگا کر راسم نے سکرین پر کمرے میں سوۓ ہوۓ دلاور پر شرر باز نظر ڈالی تو دل کیا اس گھر کو بومب سے اڑادے۔ پر صبر کرنا ضروری تھا۔ تب اسے جو ٹھیک لگا اس نے کہہ دیا۔
وہیں بادل کا ارادہ تو تھا ہی اگلے چند دنوں میں سبرینہ کو آزاد کروانے کا پر راسم نے دکھتی نس پر ہاتھ رکھا تھا۔ بادل تلملا اٹھا۔
" اتنی جلدی کس چیز کی ہے تمہیں ۔۔۔!!!"
اس نے تپ کر پوچھا۔
" تیرے پیچھے ایک لڑکی ماسک لگاکر لگ گئ ہے۔ جتنا میں جانتا ہوں وہ تجھے نہیں چھوڑے گی اب۔ تیری شادی ہوگئ تَو تُو تَو مجھے بھول جاۓ گا باران۔ اور میں یہ سب برداشت نہیں کر پاؤں گا تو پہلے میرا مسئلہ کرنے کی قسم اٹھا اسی وقت ۔۔!!!"
چاۓ کا کپ سائیڈ پر رکھ کر اس نے جیسے بہت بڑا مسئلہ بیان کیا تھا تبھی باران کو دور سے ایک گاڑی آتی ہوئ دکھی۔ وہ ٹھٹھکا اس راستے پر کسی کا کیا کام۔۔۔!!!!
"تو ایسا کر پاس سے کوئ پانی والے شے اٹھا کر اس میں ڈوب کر مرجا۔ کیونکہ تو جو فضول بکواس کررہا ہے نا نکاح والی وہ مجھ سے برادشت نہیں ہورہی۔ کمینے انسان میری زندگی میں اب نکاح حوان نہیں آۓ گا جنازہ پڑھانے کو مولوی آۓ گا۔۔۔!!!!
پھول سجیں گے پر سہرے پر نہیں قبر پر۔۔۔!!! فون رکھ۔ اگر سبرینہ آپی چاہیے تجھے تو لوکیشن ٹریس کرلینا میری۔ ورنہ توبھی اسی دلاور کے پہلو میں بیٹھ کر گھٹنے دبا اس نے۔۔۔!!!"
دانت کچکچا کر باران نے کال بند کردی۔ وہیں راسم اس کی حالت سے حظ اٹھاتے ہوئے قہقہہ لگانے سے خود کو باز نہ رکھ سکا۔
" باران صاحب آپ کی زندگی میں وہ عجوبہ جو بھی ہے لینڈ کرچکی ہے۔ اب پھول بھی سجیں گے شہنائیاں بھی بجیں گی۔ میں مٹھائ بھی کھاؤں گا۔ دل سے دعا ہے میری وہ تجھے نکاح پر منالے۔ خوشیوں پر تیرا بھی حق ہے۔ اور انشا اللہ تجھے وہ خوشیاں ملیں گی۔۔۔!!!"
راسم نے فون بند کرکے سائیڈ پر رکھا تو دعا دل سے نکلی۔ اب سکرین پر سویا ہوا دلاور اسے فٹبال لگ رہا تھا جسے وہ کک مارنا چاہتا تھا۔
" اس کمینے پر نظر رکھنی پڑرہی ہے مجھے۔ میرا معیار کس قدر گرچکا یے۔کاش باران مجھے اس کا گلا دبانے کا کہتا تو آج میں اس کا قصہ ہی ختم کردیتا۔ کاش ۔۔۔!!!"
راسم کی سوچ اس کی حسرت ہی بن کر رہ گئ۔ نا باران نے یہ حکم دینا تھا نا اس کے ہاتھوں کو سکون ملنا تھا۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" بگ بی کی کال ۔۔۔!!! یہ کیوں کال کررہے ہیں۔ کہا تو تھا میں نے لائبہ آپی کو ٹائم دیں۔ میں بچی نہیں ہوں اپنا خیال رکھ لوں گی۔ پر یہ نہیں سدھر سکتے۔۔۔!!
بگ بی یار میں نے کال نہیں اٹھانی میرا حال دیکھ کر آپ وہیں سے میرے گارڈز کو قتل کردیں گے ۔۔۔!!"
روحیہ ہواؤں سے باتیں کرنے میں مگن تھی پوری طرح جب اچانک نگاہ گاڑی میں گرے فون پر پڑی جہاں۔ BIG B لکھا تھا۔ اس نے خشک ہونٹوں کو تر کیا پھر جھک کر فون اٹھانے لگی۔ لیکن کچھ سوچ کر اس نے فون گرا ہی رہنے دیا۔
" میں واپس نہیں جاؤں گی اتنی مشکلوں سے اجازت ملی ہے لائبہ آپی کے پیر پکڑے تھے میں نے تو انہوں نے مدد کی۔ اب میرے ساتھ بگ بی لائبہ آپی کو بھی مار دیں گے۔ نہیں میں نہیں اٹھارہی۔۔!!"
بوکھلاۓ ہوۓ انداز میں اس نے سر نفی میں ہلایا۔ گاڑی کی سپیڈ اب بھی تیز تر تھی۔ اس کے ہاتھ اچانک ٹینشن سے کانپنے لگے۔ سامنے کا راستہ اسے دھندلا سا دکھا جیسے دماغ میں سائیںںںںں کی آواز آرہی ہو۔ اس نے سٹیرنگ لاعلمی میں چھوڑ دی۔
گاڑی اب سڑک پر جھول رہی تھی۔ اور روح کے ذہن میں چل رہا تھا اگر اسے واپس جانا پڑا تو کیا ہوگا۔
تب اچانک اس کے دماغ میں زور کا جھٹکا لگا۔ آنکھیں بند ہوئیں چند سیکنڈز کے لیے اور لگا سب ختم ۔۔۔!!!
وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہی تھی۔ دماغ میں لگی سالوں پرانی چوٹ آج تک ویسی کی ویسی تھی۔ علاج کا مطلب اب موت تھا ۔۔۔!!!
تو علی نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اسے روحیہ کی زندگی عزیز تھی۔ پر کبھی کبھار اس کی بگڑتی حالت دیکھ کر اسے بھی دکھ ہوتا تھا ان لوگوں کی سوچ پر جنہوں نے اسے مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ تنہا ۔۔۔!!!
علی کون تھا ۔۔۔؟؟؟؟ لائبہ کون تھی ۔۔۔؟؟؟
چلتے ہیں واپس سے اسی سیاہ رات۔ جہاں روحیہ کا ماضی رکا تھا۔۔۔!!!
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
وہ سیاہ رات جب شنایہ کے تھپڑ کی گونج روحیہ کے دماغ میں گونج رہی تھی اور وہ خاموشی سے چلتی جارہی تھی ویران سڑک پر۔
اسے کسی چیز کی ہوش نہیں تھی۔ نا دوپٹے کا پتہ تھا کہاں گرا نا پیروں پر لگے چھالوں کی فکر تھی۔ پھٹے ہونٹ سے خون رستا جارہا تھا پر اسے اپنی فکر ہی نہیں تھی۔
یاد تھا تو فقط اتنا کہ باران نے کسی اور سے شادی کرلی۔ اور وہ اپنی زندگی میں خوش ہے اتنا خوش کہ روح کی خبر لینے کی فرصت نہیں اسے۔
وہ اسی سڑک پر چلتی جارہی تھی جب اچانک اسے احساس ہوا وہ بہت دور نکل آئ ہے اپنے علاقے سے۔ اتنا دور کہ اسے خود بھی پتہ نہیں۔
" بوس ہم ڈھونڈ رہے ہیں اس لڑکی کو۔ آپ بےفکر رہیں آج ایسا حال کریں گے اس کا کہ آپ کے دشمن دیکھتے ہی مرجائیں گے۔ اتنے ٹکڑے کریں گے کہ بہراور درانی سمیٹ نہیں پاۓ گا۔۔۔!! "
اسے اپنے عقب سے کسی کی آواز سنائ دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ وہاں جھاڑیوں کے پیچھے کوئ تھا۔ پر کون ۔۔۔؟؟؟
اسے سمجھ نہ آئ۔ آسمان پر چاند کی روشنی تھی اور زمین پر غموں کا سایہ۔ ہاتھ میں طلاق کے کاغذات تھے اور سر پر عزت کی چادر بھی نہیں تھی۔
اجڑنا اور کس کو کہتے ہیں کوئ اس لمحے اس سے پوچھتا۔۔۔!!! محبت کھاگئ تھی روح کا نصیب ۔۔۔!!!
سوچیں جھٹک کر وہ واپس سے چلنے لگی۔ کان اس نے سی لیے اور لبوں کو اب بولنے کی ضرورت نہیں تھی۔
" سر اس وقت ایک لڑکی ملی تو ہے ہمیں۔ اب اگر یہ وہی آپ کی بتائ لڑکی ہوئ تو انعام تیار کرلیں۔ موت کے قریب ہے یہ ۔۔۔!!!"
اس شخص نے حباثت سے ہنستے فون بند کیا اور اپنے ساتھیوں کو اس لڑکی کے پیچھے جانے کا اشارہ کیا۔
جو سر ہلاکر اب روح کے تعاقب میں تھے۔
" کہاں جارہی ہو درانی خاندان کا چشم و چراغ ۔۔۔!!!"
کوئ ہنسا تھا۔ طنز کا تیر روح کے دل پر لگا تو وہ اچھل پڑی۔ اس نے پیچھے دیکھا جہاں چاند کی روشنی میں اسے ایک عجیب سے گھٹیا شخص کی صورت نظر آئ۔
سرمئ آنکھوں نے آس پاس نظریں دوڑائیں تو دل سوکھے پتے کی مانند لرزا۔ وہاں تقریبا چھ لوگ تھے۔ جن کی آنکھوں میں حباثت تھی۔
روح کے ہاتھ میں موجود طلاق کے کاغذات پر اس کی پکڑ مضبوط ہوئ۔ اس سردی میں بھی چہرے پر پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں۔
" ک۔کون ہو تم ۔۔؟؟ " اس نے ایک قدم پیچھے کی طرف لیا۔
" میزبان۔۔!!! اور تم ہماری مہمان۔ خاطر مدارت کا موقع دو ہمیں۔۔!! رات کے اس پہر کیوں سڑکوں پر گھوم رہی ہو۔ ہمارے ساتھ چلو تمہارا بہت خیال رکھیں گے ہم ۔۔۔!!!"
روح کے پیچھے کھڑے آدمی نے کمینگی سے اسے سر تا پیر دیکھا۔ جو ان لوگوں کی نظریں پڑھ چکی تھی۔ موت سامنے تھی اس کے اس وقت ۔۔۔!!!
" بس اسی ذلت کی کمی تھی۔ مجھے موت بھی نہیں آتی۔" خوف سے سن ہوتے دماغ نے اس لمحے یہی سوچا تھا بس۔
کیا عجیب دنیا ہے نا یہ جہاں عورت کی تاک میں ہمیشہ بھوکے بھیڑیے بیٹھے رہتے ہیں۔ جنہیں اللہ سے بالکل ڈر نہیں لگتا۔ وہ بھوکے وخشی درندے انسانوں کا حول چڑھاکر خود کو انسان کہہ کر بےبس اور معصوم لوگوں کو اپنی نظروں سے ڈراتے ہیں یا اپنے عمل سے۔۔۔!!!! انہیں بس ایک موقع کی تلاش ہوتی ہے کہ کب انہیں موقع ملے اور کب وہ اپنا وحشی پن دکھائیں۔
عورت اپنے گھر کی چار دیواری میں ہی کسی حد تک محفوظ ہوتی ہے بس۔۔۔!!! یہ باہر کی دنیا، وہاں کے لوگ کسی بھی وقت بھیڑیے بن سکتے ہیں۔ روح کے ساتھ بھی یہی ہورہا تھا جب سے اسے اس کے سگے ماں باپ نے بیٹے سے وارا تھا وہ ذلیل ہورہی تھی۔
وہ لوگ اس کی جانب قدم لے رہے تھے اور روح کو اپنا دل بےجان ہوتا دکھ رہا تھا۔ نا موت آرہی تھی نا سکون مل رہا تھا۔وہ اس سے چند قدم کے فاصلے پر تھے جب روح نے اچانک جھک کر نیچے گرا پتھر اٹھایا اور ان میں سے ایک شخص کے سر پر ماردیا۔
پھر بغیر ان لوگوں کو دیکھے بھاگنے لگی۔
پیٹ میں شدید درد کی ٹھیسیں اٹھی اس وقت۔ پر ذلت سے زیادہ ٹھیک اسے یہ درد لگا۔ وہ بھاگ رہی تھی اور آسانی سے سن سکتی تھی وہ لوگ اس کے بارے میں گندی اور فضول زبان استعمال کررہے تھے۔
پر اس نے مڑ کر نہ دیکھا۔
جس شخص کا سر پٹھا تھا پانچ لوگ اس کے قریب تھے باقی ایک روح کے پیچھے۔
ناجانے کتنی ہمت آگئ تھی روح میں کہ وہ مقابلہ کررہی تھی۔ اچانک بھاگتے بھاگتے اس کا پیر مڑا اور وہ نیچے گرگئ۔
اس کے پیچھے کھڑے شخص کو اس لمحے اپنے ساتھی کی وجہ سے اس لڑکی سے مزید نفرت ہوئ تھی تبھی وہاں سے پتھر اٹھا کر اس نے روح کے سر کی جانب اچھالا جو سیدھا اس کے سر کی پشت پر لگا تھا۔ اتنی زور سے کہ چیخ بھی دب گئ۔
" تو (گالی *********) اسی قابل ہے کہ تڑپ تڑپ کر اسی حال میں مرے۔ تیرے تو میں اتنے ٹکڑے کروں گا تو مر کر بھی اس وقت کو روۓ گی جب میرے سامنے پر پھڑپھڑاۓ تھے تونے۔۔!!!"
اس نیچ اور گری ہوئ سوچ کے حامل شخص نے کسی کتے کی طرح کی اس مظلوم اور بےسہارا لڑکی پر اپنی وخشت دکھانا چاہی جب دور سے اسے کسی گاڑی کی آواز سنای دی۔ رات کے اس پہر اگر وہ کسی اور کے ہاتھ لگتا تو بچنا مشکل تھا تبھی خون میں لت پت روح کو وہ وہیں چھوڑ کر بھاگ گیا وہاں سے۔ وہ بقول اس کے مر تو اب جاتی ہی۔ کیونکہ سر سے خون بہت زیادہ بہہ چکا تھا۔ تو اس پر وقت ضائع کرنا فضول تھا۔
اب روح سڑک کے بیچ و بیچ کسی فالتو شے کی طرح پڑی تھی۔ ماں باپ نے تو ونی کردیا اسے۔ انہیں کیا خبر تھی روح نے اتنی سی عمر میں جہنم کی سیر کرلی ہے۔
•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•
" علی ۔۔!! آپ کیوں خود کو ازیت دیتے ہیں ہمیشہ روحیہ کی وجہ سے۔ وہ اللہ کی چیز تھی اس نے لے لی۔ آپ کا کیا قصور تھا اس میں۔ سال ہونے کو ہے روحیہ کو گۓ ہوۓ۔ اور آپ ہیں کہ اپنی جان کے دشمن بن گۓ ہیں۔۔۔!!!"
تقریبا ستائیس سے اٹھائیس سال کی عمر کا شخص اس وقت ڈرائیونگ کررہا تھا اور اس کے برابر میں چوبیس سے پچیس سال کی لڑکی بیٹھی تھی۔ وہ دونوں اس وادی میں گھومنے آۓ تھے۔ ٹورسٹ تھے وہ۔ لائبہ کی بات سن کر علی زخمی سا مسکرایا۔
" میری ہی تو غلطی تھی۔ کیوں بھیجا اسے میں نے اس رات اسکے دوستوں کے ساتھ۔۔۔!! یہ جانتے ہوۓ بھی کہ وہ لڑکی ذات ہے۔ ذرا سی لاپرواہی مجھے ناقابل تلافی نقصان میں مبتلا کردے گی۔ میں نے کیوں اس دنیا کو ہلکے میں لے لیا۔ پاور ہوتے ہوۓ کیوں اس کی ضد کی وجہ سے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ بھلے ہم براڈ مائنڈڈ لوگ ہیں پر میں نے اپنی بہن کی حفاظت کیوں نہیں کی۔
وہ ذمہداری تھی میری میں مجرم ہوں اس کا۔ ان کتوں کو تو میں نے دفنانے لائق نہیں چھوڑا۔ پر میری روحیہ مجھے آخری وقت میں پکارتی رہی تھی۔ یہ سوچ مجھے سونے نہیں دیتی لائبہ۔ لائبہ کاش وہ مجھے ایک آواز دے تو باخدا میں اسے فورا سینے سے لگا لوں۔ میں کسی کی گندی نظریں اس پر پڑنے نہیں دوں گا۔ پر وہ کیوں مر گئ لائبہ۔ کیا اسے اپنے بھائ کا خیال نہیں تھا کہ میں اسے اپنی بیٹی سمجھتا ہوں۔ بہن سے زیادہ اولاد سمجھ کر پالا ہے میں نے اسے۔ بس ایک آواز دے وہ مجھے یا اللہ ایک موقع دے مجھے میں اپنی بہن میں بچالوں یار۔وہ آواز ہی تو نہیں دیتی اب ۔ !!!"
علی نے سامنے دیکھتے ہوۓ اذیت سے کہا۔ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں یہاں بھیڑیے بھرے پڑے ہیں۔ کہیں استاد کے روپ میں تو کہیں دوستی کے لبادے میں۔ کہیں رشتے داری کا نقاب اوڑھے ہوۓ تو کہیں اجنبیت کے روپ میں۔ جہاں لاپرواہی بھلے ایک لمحے کی ہو خاندان کے خاندان تباہ کرسکتی ہے۔ یہاں سب کو محتاط رہنا پڑتا ہے۔ انہیں رہنا چاہیے محتاط۔۔!!!
کیونکہ پچھتانے سے بہتر محتاط رہنا ہے۔۔!!!
یہ لوگ مار دیتے ہیں معصوم سے پھولوں کو اور یہ بھی نہیں سوچتے ان کے اپنے ان کے بعد کس امید پر جئیں گے۔ کاش بنت حوا وقت رہتے یہ بات سمجھ جاۓ کہ اس کا اصل مقام کہاں ہے۔ اسے کس پر بھروسہ کرنا ہے اور کس پر نہیں۔
کاش وہ اپنے باپ بھائ کی پابندیوں کو بےجا نہ سمجھے تو کبھی خود موت کے پاس چل کر نہ جاۓ ۔۔۔!!!
کاش ۔۔۔!!!
روحیہ علی کی چھوٹی بہن تھی روح کی عمر کی ہی تھی وہ۔ علی نے اسے دنیا کی ہر آسائش دی تھی۔ کوئ پابندی نہیں لگائ تھی اس پر۔ وہ اس کی کل کائنات تھی تو علی کے لیے اس کی بات ماننا جیسے فرض تھا ۔ ایک رات اس نے یونہی معمول کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ باہر کھانے پر جانے کو کہا تو علی نے اجازت دے دی۔
پھر فجر کے قریب وہ اسے خود ڈھونڈنے گیا کیونکہ وہ واپس نہیں آئ تھی۔ تو اسے بہت ڈھونڈنے کے بعد اس کی لاش ملی۔ جو خبریں وہ اکثر ٹی وی پر سن کر دھیان نہیں دیتا تھا آج اس کی بہن بھی خبر بن چکی تھی۔
علی نے اس کے مجرموں کو ڈھونڈ کر ان کے اتنے ٹکڑے کیے تھے کہ دیکھنے والا انہیں اصل میں قیمہ ہی سمجھتا۔ پھر انہیں پھینک کر اس نے کئ روحیہ کا بدلہ لے لیا۔ پر اپنی روحیہ اسے واپس نہ ملی۔ آج سال ہوگیا تھا روحیہ کو مرے ہوئے۔ اور علی کو ذبردستی لائبہ ان یادوں سے دور پاکستان لے کر آئ تھی۔ جہاں اس کا میکہ بھی تھا۔
علی کی آنکھوں سے بہتے آنسو دیکھ کر لائبہ کے دل سے بددعا نکلی ان سب گھٹیا اور نیچ لوگوں کے لیے جو ناجانے کتنی بےقصور لڑکیوں کے مجرم تھے۔
" علی پلیز رونا تو بند کریں۔ وہ جہاں بھی ہوئ اس لمحے تکلیف میں ہوگی آپ کو روتا دیکھ کر۔ اسی کا واسطہ ہے چپ کرجائیں۔۔!!! علی گاڑی روکیں۔ سڑک پر کوئ ہے ۔۔۔!!!"
لائبہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی جب اچانک اسے سڑک پر کچھ دکھا۔
پورے چاند کی روشنی میں واضح تھا وہاں کوئی ہے۔
علی نے گاڑی کو بریک لگائی۔ پھر اترنے لگا جب لائبہ نے اس کا ہاتھ پکڑا۔
" کہیں کوئ خطرے والی بات نہ ہو علی ۔۔!! مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ آپ پلیز یہاں بیٹھ جائیں۔ نا جائیں وہاں۔۔۔!!"
لائبہ نے ڈرتے ہوئے کہا تو علی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے حوصلہ دیا۔
" میں کوئ عام انسان نہیں ہوں میری جان۔۔۔!! جسے چور ڈاکو نشانہ بنالیں گے۔ بس تم گاڑی میں رہو میں دیکھ آتا ہوں ۔۔!!"
اس کے رخسار تھپتھپاکر علی گاڑی سے باہر نکل کر ویران سڑک پر سامنے بے ہوش وجود کو دیکھنے لگا۔
لمحے میں اس کی آنکھوں میں مرچیں لگیں کیونکہ سامنے وہ لڑکی دنیا سے بےخبر موت کی وادی میں جارہی تھی۔
ایک لمحے میں وہ صورتحال سمجھ گیا۔ کسی کتے کی ہی نظر پڑی تھی اس وجود پر۔ بھاگتے ہوۓ وہ روح کے پاس آیا جو بے ہوش تھی۔ آستین اور کندھے سے پھٹی قمیض دیکھ کر اس کی آنکھیں بند ہوئیں۔ اسے اپنی روحیہ یاد آئ تھی۔ وہیں سائیڈ پر طلاق کے کاغذات گرے تھے جو یہاں تک اس نے پتہ نہیں کیوں پر سنبھال کر رکھے تھے۔ علی نے وہ پیپرز وہیں رکھ دیے۔
وہ اسے تو نہیں بچا سکا تھا پر اس لڑکی کو اسے بچانا تھا۔
اپنی جیکٹ اتار کر اس نے روح کو سہارا دے کر اٹھایا پھر اس کے شانوں پر جیکٹ پھیلا کر اسے اپنی گاڑی کی طرف اٹھاکر لے گیا۔ اس دوران دوسری نظر اس لڑکی پر اس نے نہ ڈالی۔
اسے اپنی گاڑی کی بیک سیٹ پر لٹاکر فوراً علی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کرنے لگا۔ لائبہ تشویش سے پیچھے دیکھ رہی تھی۔ اس لڑکی کے رخسار پر تھپڑ کا نشان پھر خون میں نہایا یہ وجود اس کا دل بھی لرز اٹھا۔
" لائبہ بیک سیٹ پر اس بچی کے پاس جاؤ۔ اس کے سر سے خون نکل رہا ہے کسی طریقے سے خون روکو۔ زیادہ خون بہہ گیا تو تم اسے بچا نہیں پائیں گے۔ اسے میری روحیہ سمجھ لو۔ پلیز بچالو اسے۔ تم ڈوکٹر ہو اور فرسٹ ایڈ دینا کام ہے تمہارا۔ اس وقت اس بچی کو تمہاری ضرورت ہے۔ ہمیں اسے ہاسپٹل لے کر جانا ہوگا۔۔۔!!"
علی کے اشارے پر لائبہ بیک سیٹ پر روح کے پاس جاکر بیٹھی اور کپڑے سے اس کا خون روکنے کے ساتھ اس کی پلس وغیرہ بھی چیک کرنے لگی وہ۔
" علی اسے نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ بلیڈنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے یہ سانس نہیں لے رہی ٹھیک سے۔ آپ کوشش کریں اگلے پندرہ منٹ تک ہم ہاسپٹل میں ہوں اس سے زیادہ میں نہیں سنبھال سکوں گی اس لڑکی کو ۔۔۔!!!"
لائبہ نے خون روکنے کی کوشش کی وہیں علی نے سپیڈ خطرناک حد تک تیز کردی۔ اسے تجربہ تھا اس سپیڈ میں بھی گاڑی ہینڈل کرنے کا تو اگلے دس منٹ میں روح آئ سی یو میں تھی اور یہ دونوں کوریڈور میں۔
ڈاکٹر روح کے ٹریٹمنٹ میں بزی تھے۔ اور علی کے سامنے اس وقت روحیہ گھوم رہی تھی۔
لائبہ وہ میری روحیہ جیسی ہے نا۔۔۔!! چھوٹی سی۔ معصوم سی ۔۔۔!! یہ بھی اسی حال میں ملی مجھے۔ مجھے آج پھر دیر ہوگئ۔ میں پانچ منٹ پہلے پہنچ جاتا تو آج یہ اس حال میں نہ ہوتی۔ لائبہ اس کے گھر والے بھی میرے جتنی تکلیف سے گزریں گے اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔ پلیز دعا کرو اسے کچھ نہ ہو۔"
علی بار بار ایک ہی بات کررہا تھا۔ اور لائبہ اسے حوصلہ دینے کے سوا کچھ نہیں کرپارہی تھی۔ روحیہ والا واقعہ پھر سے تازہ ہوچکا تھا دونوں کے لیے۔
جب فجر کے قریب ڈاکٹرز تھک ہار کر آئ سی یو سے نکلی۔
" ان کے سر پر کسی بھاری چیز سے ضرب لگائی گئی ہے اور خون زیادہ بہنے کی وجہ سے ہم ان کا بی پی کنٹرول نہیں کر پارہے۔ یہ مینٹلی بہت زیادہ ڈسٹرب ہیں۔ اتنا کہ انہیں نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے۔ اوپر سے بےبی کی ڈیلیوری کے بعد جب انہیں آرام کرنا چاہیے تھا تب انہوں نے بالکل اپنی کیئر نہیں کی ۔۔۔!!! "
ان دونوں نے چونک کر اسے دیکھا۔ پھر حیران بھی ہوۓ اتنا سب اس نے کیسے سہا ہوگا۔
" سمجھ نہیں آرہی کتنے خودغرض لوگ تھے جنہوں نے اس کنڈیشن میں ان پر تشدد کیا۔ اللہ ہی غارت کرے ایسے لوگوں کو جو معصوم سی بچیوں کو جنگلیوں کے حوالے کردیتے ہیں۔ بھلا اس لڑکی نے کیا بگاڑ دیا ہوگا ان کا جو اسے مہنیوں تک ٹارچر کیا جاتا رہا۔ اس کے جسم پر بیلٹ کی مار کے نشان ہیں مسٹر علی۔ جلے کے نشان ہیں۔۔۔!!! کھانا نہیں ملتا رہا انہیں کھانے کو۔ بڑے ہی کوئ فرعون صفت لوگ تھے جو خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ ایسا کیس میں نے پہلی بار دیکھا ہے۔ اور روح کانپ گئ ہے میری۔ پتہ نہیں یہ کیسے سہتی رہی ہے یہ سب ۔۔۔!!!
سوری ٹو سے پر پاکستان میں ان کا علاج ناممکن ہے۔ ہم بس مزید ایک دو دن انہیں زندہ رکھ پائیں گے پر پھر ۔۔۔!!! آپ مجھے ویل سیٹلڈ لوگ لگتے ہیں اگر ممکن ہے تو انہیں پاکستان سے باہر لے جائیں۔
شاید ان کی زندگی وہیں لکھی ہو ۔۔۔!!!"
ڈاکٹر اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلی گئ۔ پیچھے علی وہیں رکھی کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھ گیا۔
جاری ہے۔۔۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Hum Mi Gaye Yuhi written by Ismah Qureshi Hum Mi Gaye Yuhi by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment