Bandi By Anaya Khan Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Bandi By Anaya Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Bandi
Writer Name: Anaya Khan
Category: Complete Novel
نہں نہں مجھے مت ماریں ماں جی ابھی کر دیتی ہوں کام
ماں خبر دار جو مجھے ماں کہا تیری ماں نہں ہوں میں سمجھی تو قاتل کی بیٹی ہے تو
میرا بیٹا کھا گیا تیرا باپ ....
اس عورت نے اسے بالوں سے پکڑ کر کھنچا
وہ نازک سی لڑکی پیچھے گھیسٹتی چلی گئی
ہاتھ میں پکڑے ہوے ڈنڈے سے پاگلوں کی طرح مار رہی تھی گھیسٹتے ہوے پاؤں میں جکڑی ہوئی زنجیر ختم ہو گئی آگے نہں جا سکتی تھی وہ
مگر وہ کھنچتی رہی بےدردی سے پاؤں سے خون رسنے لگا تھا زنجیر سے کٹ آرہے تھے
درد کی شدت سے آنسوں بہنے لگے آنکھوں سے
مگر وہ عورت تو جیسے اس کو جان سے مار دینا چاہتی تھی
بے دردی سے بالوں سے پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے مار رہی تھی
مم میں کرتی ہوں ابھی کھانا بنا دیتی ہوں میں مجھے معاف کر دیں درد کی شدت سے کرہاتے ہوے کہا .....
تجھے پتہ ہے یہ میرے کھانے کاٹائم ہے تو نے جان بوجھ کر نہں بنایا ہو گا اب مجھے مارنا چاہتی ہے تو
بول ایسا سوچ رہی ہے نہ
نن نہں ماں جی
کتنی بار کہا ماں مت کہا کر مجھے سمجھ آئی
نہں تو جان لے لوں گی تیری
مارنے میں اور شدت آگئی .....
وہ نازک سی لڑکی بے ہوش ہو کر گر گئی ............
مگر وہ عورت پھر بھی اسے مارتی رہی .....
جب خود ہی نڈھال ہو گئی تو نفرت سے اس کو دیکھتے ہوے چلی گئی
منحوس کہیں کی میرا بیٹا کھا گئی
چلاتے ہوے اندر چلی گئی
اس بے جان وجود کو تپتی دوھوپ میں چھوڑ کر ............
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
سید سبطین شاہ جیسے گھر داخل ہوا اسکی نظر سامنے پڑے وجود پہ گئی وہ تڑپ کر آگے بڑھا مہک
بھاگتے ہوے ایک پل میں اس کے پاس گیا
مہک اسکا سر اپنی گود میں رکھا
تبھی اسکی نظر زخموں پہ گئی
پاؤں سے بہتا خون اور بیڑئیوں میں جکڑی ہوئی وہ معصوم سی لڑکی اردگرد سے بے خبر
اس نے ہاتھ سے منہ تپھتھپایا مہک اٹھو مہک
جب اسکے واجود میں کوئی ہرکت نہ ہوئی تو اس نے
اس کا سر گود سے ہٹایا اور پریشانی سے سامنے کے کمرے کی طرف دوڑ لگائی
چچی یہ کیا کیا آپ نے
مر جاے گی وہ
ہاں تو مر جاے سامنے سے زہریلے لہجے میں جواب دیا گیا
چابی دیں مجھے اسکو کھولنا ہے
ہمارے گھر کے معملات میں مت بولا کر آئی تجھے سمجھ نہ
چچی وہ انسان ہے جانور نہں ہے وہ
کیوں جانوروں جیسا سلوک کر رہے ہو آپ لوگ اس کے ساتھ چابی دیں مجھے
تو نے سنا نہں کیا کہا میں نے دور رہ اس سے
تیرا بھائی کھا گئی وہ ....
قاتل ہے وہ
چچی اس بیچاری کی کیا غلطی وہ تو بے قصور ہے
اس کو تو اس گناہ کی سزا دے رہے آپ لوگ جو کیا تک نہں اس نے
تو کیا اس کا ہمدرد ہے جو تیرے بھائی کے قاتل کی بیٹی ہے ہو گا ہی نہ تیرا کون سا سگا تھا وہ چچا زاد تھا نہ تیرا بھائی ہوتا تو احساس ہوتا میں نے اپنا بیٹا کھویا ہے مجھ سے پوچھو تکیلف کیا ہوتی ہے
تیرے چچا کے نکاح میں ہے وہ مگر کبھی چچی مت سمجھنا اسے آئی سمجھ تجھے
بیٹا کھا گئے اب تیرا چچا کھاے گی یہ
میرے بیٹے کو مارا تو ہی یہ ملی تیرے چچا کو ونی ہے یہ ونی انکا بھی کوئی حق نہں اس پہ
میرا حق ہے جو چاہے کروں اس کے ساتھ سمجھا نہ تو
تجھے پالا ہے تیرے ماں باپ کے جانے کے بعد یہ مت بھول تو احسان ہے ہمارا
بےبسی سے سید سبطین نے انکی طرف دیکھا
وہ مر جاے گی چچی چابی دے دو
وہ مر گئی تو کام کون کرے گا آپکا
کام تو کر دیتی ہے نہ یہ
ھمھم ........
یہ تو ٹھیک کہہ رہا ابھی میرے بیٹے کا دکھ کم نہں ہوا اتنی جلدی نہں مر سکتی یہ
تڑپاتڑ پا کے ماروں گی اسے میں نفرت سے کہتے ہوے چابی دی یہ پکڑ ....
پکڑ چابی جا ابھی دیکھ .......
منحوس کو مرنا نہں چاہیے
یہ مر گئی تو کیا جواب دوں گی میں تیرے بھائی کو اسکے قاتل ایسے آسانی سے مر گئے نہں بلکل نہں
🌹🌹🌹🌹🌹🌹
excuse me sir
سر میری بات سنیں پلز
انکا انٹر ویو چاہیے تھا پلز سر
نو میم آپ سامنے سے ہٹ جاؤ
سر کے پاس ٹائم نہں گارڈ نے اسے پیچھے کرتے ہوے کہا
پلز سر میری جاب کا سوال ہے
دیکھیں میم سر کو بلکل پسند نہں یہ انٹرویو دینا
دوسرا آپ بنا اپنٹمنٹ آگئی ہیں اندر نہں جا سکتیں آپ
سر پلز .....
انکی اپنٹمنت لینا آسان نہں
اگر مجھے یہ انٹر ویو نہں ملا تو جاب نہں ہو گی
جاب کے لیے یہی شرط رکھی بوس نے
مجھے جانے دو پلز
میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں
نو میم آپ ہٹ جاؤ نہں تو مجبورن مجھے گولی مارنی ہو گی تمہے .....
کہتے ہوے گیٹ بند کیا
میں بھی لے کے رہوں گی .....
نہں تو میرا نام بھی تاشہ نہں
کہتے ہوے آگے بڑھی
اور بری طرح گیٹ کو پیٹ ڈالا .....
میڈم جاؤ یہاں سے نہں تو اچھا نہں ہو گا تماشہ مت کرو صاحب کو پسند نہں
لوگ انکی طرف متوجہ ہوں
گارڈ نے بوکھلا کہ کہا .....
یہ تماشہ اس وقت تک رہے گا جب تک اندر نہں آنے دو گے مجھے
آپ نہں آسکتی میری جاب چلی جاے گی
سر گھر پر نہں ہیں آپ جاؤ
التجایا کہا ..
ایک شرط ہے میری .....
کیا
انکے آنے کا ٹائم بتاؤ نہں تو نہں جاؤں گی میں
میڈم انکے آنے کا کوئی وقت نہں .....
ہم نوکر ہیں پوچھ نہں سکتے
ہماری کیا اقعات
ٹھیک ہے میرا نمبر لو جب گھر ہوں کال کرنا
ٹھیک ہے میڈم
اور یاد رکھنا میں نیوز ریپورٹر ہوں انگلی اٹھا کر وارن کیا
اور ہاں اگر نہں کی کال تو پھر مجھ سے برا کوئی نہں ہو گا
ایسی نیوز دوں گی پپر میں کہ تم یاد رکھو گے
پھر نہ رہے گی جاب نہ رہے گی بیوی اگر ہے تو نہں ہے تو بھول جانا شادی
شٹ اپ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کے بنا میرے آفس میں قدم رکھنے کی وہ دھاڑتے ہوے اسکی طرف بڑھا ....کشف نے ڈر کے قدم پیچھے کیے مم میں وہ سس سر فائل زا ضروری تھی بہت زیادہ
آگے بڑھ کر اسے بازوں سے سختی سے پکڑا ..
کب سے کام کر رہی ہو میرے ساتھ ....غصے سے دھاڑا
دو دو سال سے سر ....
تو کبھی اجازت دی میں نے کسی کو اپنے روم میں آنے کی ....بولو
نن نہں سر .......
تو کیوں آئی تھی روم میں ......بنا اجازت
میری غیر ماجودگی میں
ایک جھٹکے سے دھکا دے کر پیچھے کیا
وہ سنبھل نہں پائی اور گر گئی
وہ نیچے جھکا ......ناگواری اور غصے کے ملے جلے
تاثرات سے اسکو دیکھا
اگر آ بھی گئی تھی تو میری فائل کو ہاتھ کیوں لگایا
سختی سے اسکے منہ کو پکڑا ..
سس سر یہ کنسیمنٹ کی فائل .....
آج دینی تھی نہ ....
تو کیا ہو جاتا میں آرہا تھا نہ ..
نو نقصان بہت بڑا ...
سو what ......
میرا ہوتا نہ تمہارا تو نہں ہونا تھا ......
دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے
اور ہاں میں بات صرف ایک ہی بار کرتا ہوں بار بار بات کرنا مجھے پسند نہں ...
آج کے بعد نظر مت آنا
سس سر میری جاب پلز
i said leave
مجھے اصول توڑنے والے لوگ پسند نہں
تمہاری ہمت کیسے ہوئی ملک دلاور کی فائل کو ہاتھ لگانے کی
get out
کہتے ہوے واپس اپنی چیئر پہ جا بیٹھا .....کشف نے جلدی سے باہر نکلنے میں ہی عافیت جانی .......
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
دادا جان آپکا پوتا جلاد ہے جلاد ابھی تک میرا بازوں دکھ رہا ہے شکر ہے الگ گھر میں رہتا ہے ہمارے ساتھ نہں کشف نے دل کی بھڑاس نکالی ....
کیا ہوا بیٹا ....تو کیوں غصہ کر رہی ہے
اسکی عادتوں کا پتہ تو ہے تمہے
اس وجہ سے اکیلا رہتا ہے وہ تاکے کوئی اس کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاے
اور تم بنا اجازت آفس چلی گئی اسکے
اس پہ بھی بس نہں کیا
اسکی سلیقے سے رکھی گئی فائل کو چھیڑ دیا
میں تو حیران ہوں تم زندہ کیسے واپس آگئی
دادا جان آپ بھی نہ ..
اسکی سائیڈ لے رہے
کشف نے منہ بسور کر کہا .....
نہں بیٹا نہں میں اسکیسائیڈ نہں لے رہا ...سچائی بتا رہا ہوں غلطی تو ہے تمہاری جب پتہ ہے کے نہں اسکو پسند گئی کیوں تھی تم
میں کچھ نہں جانتی بس آپ اسکو ڈانٹو گے ...
اوکے بیٹا اور کچھ .....
نہں بس .....
پکا والا promise......
اوکے ......پکا .....
تھنک یو دادا جی ....کہتے ہوے باہر نکلی ...
سامنے بیٹھے ہوے ازہان اور حنان نے اسے دیکھ کر قہقہ لگایا ...
تو وہ ٹھٹھکی .......
دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر انکی طرف متوجہ ہوئی .....
کیوں دانتوں کی نمائش کر رہے ہو تم
کڑے تیور سے انکی طرف دیکھا .....
ہاہاہا .....
کشف آو آو آج تو تمغہ لے کر آئی ہو بھائی سے ازہان نے ہنستے ہوے کہا
تو حنان نے بھی ساتھ دیا اسکا .......
دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر دوبارہ قہقہ لگایا ......
چنٹیوں کے بھی پر نکل آے کیا بھول گئے گھر میں میری حکومت ہے .......
دادا جی سے کہہ کر تم لوگوں کا جیب خرچ بند کرواتی ہوں
کیا دونوں کو ایک دم سانپ سونگھ گیا
کا کشف بات سنو ....
نہں ہم تو بس .....
کیا کڑے تیور لے کر دیکھا .....
اگلے ایک مہنے تک تم لوگوں کی بتیسی نظر نہں آے گی مجھے ...پورا یقین ہے ....
نہں یہ ظلم مت کرو ویسے ہی نظر نہں آے گی اگلا پورا مہینہ دونوں نے التجایہ لہجے میں کہا ...
سوچوں گی کہتے ہوے اندر چلی گئی
مجھے لگتا ہے دادا جی کے دو ہی پوتے ہیں
ایک کشف اور دوسرے دلاور بھائی .....
ہم لوگ تو آسمان سے گرے تھے ...نہ حنان نے جل کے کہا ....
سہی کہہ رہا ہے بھائی ......
ازہان نے افسردہ ہو کے کہا ...
اب پتہ نہں کیا ہو گا .....منتیں کرنی پڑیں گی مصوفہ کی
دلاور بھائی کو گھر لانا پڑے گا یار حنان نے پرسوچ لہجے میں کہا
سہی کہہ رہا ہے ہمارے بدلے وہی لے سکتے ہیں وہ بھی چن چن کے .....
پلان بنا تو بس انکو واپس لانے کا .....
سہی کہہ رہا ہے تو ....چل سوچتے ہیں کچھ
کہتے ہوے اندر کی طرف بڑھے
مہک ہوش میں آؤ تمہے کچھ ہو گیا تو میں خود کو کبھی معاف نہں کر پاؤں گا مہک ....سبطین نے اسے
بستر پر لیٹا کر اسکے منہ پہ پانی کے چھینٹے مارتے ہوے کہا
مہک اٹھو ...یہ کیا ہو گیا مہک میں قصو ر وار ہوں تمہارا
مہک نے آنکھیں کھول کر دیکھا ......سبطین
تو تم ....تم کب آے ......
یہ سب میری وجہ سے ہوا مہک
میں ...ہوں مجرم تمہارا سبطین نے دکھ سے کہا
تم
نہں کیا کرتے تم
میں تو بے مول ہوں
میری ہی ماں اور میرے ہی باپ نے مجھے ونی کر دیا
ونی سمجھتے ہو تم .......
میں انکے لیے مر گئی .......
میں تو اپنے لیے بھی مر گئی .....
تم ....کیوں آے
...چلے جاؤ انکو پتہ چل گیا تو .....
نہں نہں جاؤ تم یہاں سے
محک نے چلاتے ہوے کہا
مہک چپ .......
میں تمہے تکلیف میں دیکھ کر کیسے جیوں گا
تم بس کچھ نہ بولو
میں بینڈیج کر دیتا ہوں تم چپ رہو
کس لیے بینڈیج دوبارہ سے تکلیف دینے کے لیے یہ مرہم
اب کوئی دوا کوئی مرہم میرے کسی کام کا نہں
تم بھول جاؤ مجھے میں
وہ مہک نہں رہی مت بھولو
میری حقیقت کیا ہے ...تلخی سے کہتے ہوے اٹھی
مہک مت جاؤ بیٹھو آرام سے کتنی چوٹ آئی ہے
چوٹ .....ہاہا تلخی سے ہنسی
تم ہنس کیوں رہی ہو دکھ سے پوچھا
بے حس لوگوں کو احساس نہں ہوتا
غلام کو آرام کا حق نہں ہوتا
میں انسان نہں غلام ہوں ......غلام
اور غلام جانور سے بھی بد تر ہوتا ہے ......
سجھے تم ....
مہک
بس ...اب اور کچھ نہں کوئی نہں ہے میرا ...
میں جانور سے بھی بد تر ہوں ....
انسان نہں ہوں میں
مر گئی وہ مہک جو تمہاری تھی ...
کہتے ہوے باہر چلی گئی
سبطین نے دکھ سے اسے جاتے ہوے دیکھا
🌹🌹🌹🌹😱
کیا ہوا تاشہ تم کامیاب ہوئی انٹرویو لینے میں
نہں سر
تو واپس کیوں آئی ہو پھر ....ناکام کس منہ سے آئی ہو واپس تم تاشفین
کیا تم بھول گئی ہو جاب کی کنڈیشن کیا تھی
دو سال ہو گئے تم انٹرویو نہں لے پا ئی
اب اور نہں ......تم آفس میں نہں آسکتی کل سے
میری بات تو سنیں
بس ہاتھ اٹھا کر تنبھی کی
حنان کے بچے تو گھر آ آج
تیری تو خبر میں لیتی ہوں اچھے سے
مس تاشفین آپ بھول رہی ہیں کچھ یہ آفس میرا ہے
اور یہاں میری مرضی اور میرا حکم چلتا ہے
ہاں ہاں پتہ ہے مجھے بڑا آیا آفس والا
دلاور بھائی کا ہے یہ بھی آفس انہوں نے تمہے ترس کھا کے دے دیا تھا ......
جیسے بھی دیا تھا تاشہ ...ہے تو میرا آفس اور اگر تم نہں چاہتی کہ میں گارڈ کو بلا کر تمہے باہر پھنکوں
خود چلی جاؤ سمجھی تم
اور بنا انٹرویو کے قدم مت رکھنا دوبارہ آفس
حنان آج تم گھر آو پھر دیکھنا ........
جاؤ جاؤ .....تم گھر کی دھمکی مت دو
سوچ سمجھ کر آنا گھر .....
کشف کی چمچی ہے تو پتہ ہے مجھے .......
کیا کہا چمچی .......تاشہ نے صدمے سے اسکی طرف دیکھا
ججی .صیح سنا آپ نے مصوفہ .....
تم خود چمچے تمہاری ہونے والی بیوی ہو گی چمچی تمہارے ہونے والےدرجن بھر بچے چمچے .....
تمہارا پورا خاندان چمچہ ......
حنان کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
او بس کر بیبی ....جا ابھی نہں تو یہ آفس جنگ خانہ بن جانا ......
بیبی آخری بات پر تاشہ نے غصے سے دیکھا
یہ بیبی کس کو بولا تم نے
تمہے اور کوئی ہے کیا تمہارے علاوہ ..
بیبی تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بیبی کہنے کی ......
اس نے غصے سے جوتا اتار کے پھینکا جو بڑے آرام سے پکڑ کر ونڈو سے باہر پھنک دیا
یہ یہ کیا کیا تم نے ......
حیرت سے منہ کھولا .....
کچھ نہں .....
میں باہر کیسے جاؤں گی .....
یہ میرا مسلہ نہں ہے آرام سے کہتے ہوے چیئر پہ جا بیٹھا .....
تم صدمے سے کچھ بولا ہی نہں گیا .
آپ کو نکالا جا چکا ہے آفس سے
تو آپ جاؤ ابھی
مجھے کام ہے ......
آج تو تمہارا خون کر دوں گی میں ......تم گھر تو آو .....
پہلے گھر تو پہنچو تم ہنسی دبا کر کہا گیا ....
میں چھوڑوں گی نہں تمہے ......
کہتے ہوے دوسرا جوتا بھی پھنک کے مارا .......
جو حنان نے کیچ کر لیا جاؤ بیبی جاؤ ......
بیبی ......
اسکے تن بدن میں آگ لگ گئی .....
تم ...کہتے ہوے آگے بڑھی جب ڈور پہ نوک ہوا
سر مے ائی کوم ان ........
کہتے ہوے رپورٹر ہانی اندر آئی ......
غصے سے دیکھتے ہوے تاشہ باہر چلی گئی
🌹🌹🌹🌹
سر بری خبر ہے .....عاطف کے کہنے پر دلاور نے چونک کر دیکھا ....
اس نے بات جاری رکھی
سر ایوب انڈسٹری کہ ساتھ جو ہمارا آگریمنت تھا کینسل کر دیا بنا کسی نوٹس کے .......ہمے بہت بڑا لوس ہو سکتا ہے
کیا میرا اگریمنٹ ...کینسل
کس کی اتنی ہمت ہو گئی جو ایسا کیا
ملک دلاور کبھی کسی اور کے ساتھ زیادتی نہں ہونے دیتا اور یہاں تو میری ہی بات آگئی
بنا کسی وجہ اور بنا کسی نوٹس کے ہمت کیسے ہوئی انکی ......ایسا کرنے کی
غصے سے مٹھیاں بینچھی
سر سنا ہے انکا بیٹا آیا ہے انکی سیٹ پر وہ کچھ عرصے کے لیے باہر جا رہے ہیں .........
اپنے بیٹے کو میرے بارے میں بتانا بھول گیا شید
یاد دلانا پڑے گا اچھے سے کہ دبارہ نہ بھول پاے
عطف اسے بزنس کے ٹرم اینڈ کینڈ یشن بتانا پڑیں گی ......
آج تک کسی میں ہمت نہں تھی کہ میرا ملک دلاور سے کیا گیا اگریمنٹ کینسل کرے .......
مجھ سے دشمنی ....اسے اندازہ نہں اسکی کمپنی ڈوب سکتی ہے ایک ہی دن میں
سمجھاو اسے .......عطف ..
کیوں کہ اگر میں خود گیا تو اسکا کچھ نہں بچے گا ....سمندر میں رہ کر مگرمچھ سے بیر اچھا نہں ہوتا
اچھے سے سمجھاو اسکو .....نہں تو دیوالیہ نکل جاے گا اسکی کمپنی کا .......ملک دلاور سے دشمنی منہگی پڑے گی .......غصے سے ٹیبل پر ہاتھ مارا
جج جی سر ہم کنٹیکٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
آج کا دن ہے تمہارے پاس بات کرو ورنہ ملک دلاور کو اپنی بات دوبارہ کہنے کی ضرورت نہں پڑتی ......
نہ مجھے پسند ہے .........جاؤ ...
جج جی سر
🌹🌹🌺🌸🌸🌺
اندرون سندھ کا چھوٹا سا گاؤں .....
جہاں پر مہک اپنے چھوٹے سے خاندان کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہی تھی
فاروق جسکی ایک بیٹی مہک اور ایک ہی بیٹا تھا شمس
وہ مزدوری کر کے اپنی بیوی (میراں) اور دو بچوں کا پیٹ پالتا تھا ....مہک گاؤں بھر کی چیہتی تھی اپنی معصومیت اور شرارتوں کی وجہ سے ......
زندگی سے بھر پور .......زندگی کی مثال تھی وہ مگر پھر سب کچھ بدل گیا ایک حادثہ ......
جس نے مہک سے جینے کی وجہ بھی لے لی ......
موت سے بدتر زندگی ملی اسے ......
اس کے ہی ماں باپ نے اس سے جینے کی وجہ چھین لی
او شہزادی مہرانی روٹی جلا دی تو نے مفت آتا ہے کیا آٹا
کن خیالوں میں بیٹھی ہی تو تیرا باپ نہں دیتا یہ آٹا کتنا منہگا ہے پتہ ہے تجھے
جنت بی کی آواز پہ وہ ماضی سے حال میں لوٹ آئی
یہ یہ جان کہ نہں کیا مم
چپ رہ تو منہوس
تجھے روٹی نہں ملے گی آج تو نے جلا دی اپنے حصے کی بھوکی رہے گی تو عقل ٹھکانے آے گی تیری
چل ڈال روٹی جج جی کہہ کر روٹی ڈالنے لگی
یہ کیسی زندگی دی مجھے میرے ہی ماں باپ نے
ماں جس نے کبھی کام کو ہاتھ نہں لگانے دیا تھا آج ....
کسی اور کی غلا می میں دے دیا موت سے بد تر زندگی دے دی
تیرا بیڑا غرق ہو
منحوس مفت کا آتا ہے کیا آٹا اور روٹی جلا دی تو ایسے نہں سدھرے گی سبق سکھانا ہو گا تجھے ....
جنت بی نے کہتے ہوے آگ سے جلتی ہوئی لکڑی نکال کر اسکے نازک سے بازؤں پہ رکھ دی
مہک کی چیخ سے درو دیوار دہل گئے .......
منحوس تو کسی کام کی نہں ہے
اپنے گلے سے بوجھ اتار کر میرے گلے باندھ دیا تیری ماں نے بوجھ ہی تو ہے تو
کوئی کام نہں آتا کرنا .......کہتے ہوے اسکے منہ پہ تھپڑ مارا
مہک دور جا کہ گری .......
تجھے رات کو بھی روٹی نہں ملے گی سمجھی جتنی جلاے گی اتنے دن نہں دوں گی بنا اب جا کے مر .....
کہتے ہوے اندر گئی ......
مہک نے روتے ہوے اپنے ٹوٹے وجود کو گھیسٹا ......
اسے کام کرنا تھا .....پھر سے رونا تو اب قسمت میں تھا .....ساری عمر ...
😰😰😰😰
یہ تمہں کیاہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں ںسےآرہی ہےتواور جوتاکہاں ہےتیرا۔۔۔۔کشف نے حیرت سے اسکے پاوں دیکھے۔جو گرد سے بھرے تھے
یہ سب اس حنان کی وجہ سے ھواھے میں اس کو چھوڑوں گی نہں .......غصے سے کہتے ہوے اندر گئی
تاشہ کیا ہوا کچھ بتاؤ گی کیا کہا اس نے تمہے کشف کہتے ہوے پیچھے گئی .......
تاشہ کیوں رو رہی ہے بتا میری جان کیا ہوا
اس نے مجھے آفس سے نکال دیا ...اور ..اور
کیا اور بتاؤ ......
شوز بھی باہر پھنک دیا جب میں باہر آئی اور ڈرائیور کو بولا گھر چھوڑ دو ....
تو ...تو پتہ ہے کیا ........بری طرح روتے ہوے کشف کی طرف دیکھا ...
کیا ......کشف نے اسکی طرف پوری توجہ سے دیکھا ...
اس نے بولا آپ اس آفس کا حصہ نہں تو رکشہ پہ جاؤ
ننگے پاؤں آئی ہوں کیسے گھور رہا تھا وہ رکشہ والا بھی .......
اچھا تو اتنا بڑا ظلم کیا تم پہ
اور مجھے کہا کشف کی چمچی ہو
کیا یہ بولا .......
آج انکا کیس دادا جان کو دینا پڑے گا ....
چن چن کے بدلے لوں گی تم رونا بند کرو ......
اور بریانی پکاؤ .....
بریانی کیوں .....تاشہ نے روتے ہوے حیرت سے اسکی طرف دیکھا
حنان کو پسند ہے نہ .....آج کے بعد نہں کھاے گا کشف نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا ...
میں سمجھی نہں تم بناؤ باقی مجھ پہ چھوڑ دو ..جاؤ جاؤ اسکے آنے کا وقت ہو رہا ہے ......
بدلہ آج ہی لینا ہے کشف نے مسکرا کر کہا
اوکے کہتے ہوے تاشہ اٹھ گئی ....
دلاور بھائی آ آپ تاشہ نے ڈیننگ ٹیبل پر کھانا لگاتے ہوے دلاور کو ڈیننگ ٹیبل پر بیٹھتا دیکھ کے گھبرا کر کہا ....
ہاں میں کیوں کیا میں نہں آسکتا گھر یا پھر کھانا نہں کھا سکتا گھر آکے
ویسےیہ میراگھر ہے
سکندر نے کاٹ دار لہجے میں کہا
نن نہں میں تو بس ۔۔۔۔تاشہ نے صفائی دینےکے لیے ابھی منہ کھولا ہی تھاکہ
دلاور نے غصےسے دیکھا
ڈرکےمارےتاشہ کا منہ فورن بند ہوا
کیا میں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔بات پوری کیا کرو آدھی باتوں سے چڑہوتی ہےمجھے جانتی ہو نہ تم ۔۔۔۔۔
جج جی وہ کچھ نہں
بھوک لگی ہے جلدی کھانا لگاو سکندر کے کہنے پر بامشکل سر ہی ہلا پائی
اب دیکھ کیا راہی ہو باقی سب کدھر ہیں۔۔۔
مم میں بلا کے لاتی ہوں کہتے ہوے بھاگ کر اندر گیء ۔۔۔۔
کشف بےصبری سے پکارا سامنے سے آتی کشف کو دیکھ کر کچھ جان میں جان آئی
کیا ہوا سانپ دیکھ لیا کیا جو سانس پھول گیء تمہاری
کیا پاگلوں کی طرح بھاگ رہی ہے
کشف نے ڈپٹتےہوے کہا۔۔۔۔
دلاور بھائی آےہیں کشف اور کھانا مانگ رہے ہیں ۔۔۔اب کیا کریں گے باریانی تو انکی پسند کی ہے آج خیرنہں ہماری
فکر مت کرو آو میں ہوں نہ گھر پر کوئی نہں سب شادی میں گئے ہیں نہ رہی بات دلاور کی وہ مجھ پہ چھوڑ دو آرام سے کہتے ہوے باہر چلی گئی ۔۔۔۔
یہ پاگل ہو گئی ہے مروائے گی یہ ........
تاشہ نے کہتے ہوئے پیچھے قدم بڑھا ئے ....
سب آچکے تھے ڈاننگ ٹیبل پہ اور کشف سب کو کھانا سروکر رہی تھی تاشہ نے دیکھ کے فورن قدم واپس روم کی طرف کیے
تبھی ازہان نے پکارا تاشہ آو نہ ۔۔۔۔۔
ازہان کے بولانے پہ دلاور نےپیچھے مڑ کے دیکھا
وہ نہ چاہتے ہوے بھی دل ہی دل میں ازہان کو کوستےہوے آکربیٹھ گیء
سب سے پہلے دلاور نے کھانا سٹارٹ کیا تاشہ نے ڈر کے دیکھا مگر کوئی ردعمل نہ ظاہر ہوا تو تاشہ نے کشف کی طرف دیکھا
میں نے صرف حنان کی پلیٹ میں مرچی ڈالی تھی پورا ڈبہ آہستہ سے آگاہ کیا .....ڈونٹ وری
تبھی حنان کو کھانسی کا دورہ پڑا سب اسکی طرف متوجہ ہوے مرچی اف اللہ کسنے بنائی یہ بریانی کہتے ہوے پانی کا گلاس اٹھایا دلاور نےنگواری سے دیکھا
بریانی ٹھیک ہے بلکل ہم بھی کھا رہے نہ چپ کر کے کھاؤبچوں کے جیسے ڈرامے نہں ہفتے میں ایک دن گھر آتا ہوں سکون سے کھانا بھی نہں کھانے دیتے کہتے ہوے غصےسے اٹھکر اندر چلاگیا
مگر حنان مسلسل پانی پی رہا تھا اور
اسکی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا
یہ سب اس چوڑیل نے کیا ھے ازہان مجھے پتہ ہے ساتھ بیٹھی تاشہ کے بال پکڑکر کھینچھے
اس اچانک افتاد کے لیے وہ بالکل تیارنہں تھی اسکے ساتھ کھینچھتی چلی گیء
چھوڑو میرے بال درد سے وہ چلائی
آج تھجے گنجاکر کے چھوڑو گا
تاکہ تجھے یادرھے حنان نے غصےسے کہا
حنان چھوڑکیا پاگل پن ہے ازہان نے چھڑاتےہوے کہا
تاشہ کے بال چھوڑو نہں تو آج دادا جی کے آنے پہ کیا ہو گا سوچ لو کشف جو بڑے آرام سے بریانی کھا رہی تھی سکون سے کھاتے ہوے کہا
اسکے ماں باپ خود تو چلے گۓ اس مصیبت کو چھوڑ گئے
اسکی بات سن کر ٹیبل پہ موجودسب کو سانپ سنگھ گیا
حنان نے غصے سے بال چھوڑ تےہوے کہا
اسکی بات سن کر تاشہ روتے ہوے اندرکی طرف بھاگی
تاشہ رکو
کشف بھی اسکو بلاتی ہوئی پیچھے گئی
تبھی باہر آتے ہوے دلاور کے قدم اپنی جگہ تھم گئے حنان کی بات سن کر وہ غصے سے آگے آیا اور زور دار طماچہ حنان کے منہ پہ مارا
تم اپنی حد بھول گئے ہو تمیز کے دائرے میں رہو دفع ہو جاو میری نظروں کے سامنے سے
مذاق کی حد ہوتی ہے تم ازہان کو دیکھا
جاو تم بھی اپنے اپنے روم میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہک کیا ہوا سبطین جیسے ہی گھر میں داخل ہوااس کو گہری سوچ میں دیکھا تو اس کی طرف آیا
مہک جو اپنے خیالوں میں تھی اس کے بلانے پر چونکی
جج جی وہ میں ۔۔۔۔۔۔
تبھی سبطین کی نظراس کے ہاتھ پر گیء یہ کیا ہوا تمہں
اس نے بے صبری سے ہاتھ تھاما یہ چوٹ
کیسے جلا یہ مہک بتاؤمجھے کیا ہوا مہک چپ کیوں ہو
جواب دو کیسے جلا یہ ۔۔۔
مہک نے خالی خالی نظروں سے اسکی طرف دیکھا
تمہاری چپی تکلیف دے رہی ہے مجھے کچھ بولو چپ کیوں ہو تم اتنی چوٹ کیسے آںئ
میں غلام ہوں اور غلام کو پوچھنے کا حق نہں ہوتا
تالخی سے کہتے ہوے اٹھی
سبطین نے جاتے ہوے اسکا ہاتھ پکڑا
کیوں کر رہی ہو ایسی باتیں تم تو ایسی نہں تھی دکھ سے اسکی طرف دیکھا
تکلیف زندہ لوگوں کو ہوتی ہے مردہ کو نہں اور میں کب کی مر گئ مجھ میں کوئی احساس نہں بچا اب تمہں کہاں سے زندہ لگتی ہوں میں احساس سے عاری لہجے میں کہا
سبطین نے دکھ سے اسکی طرف دیکھا
تم بیٹھو میں انٹمنٹ لاتا ہوں کہتے ہوے اندر کی طرف جانے لگا جب اس کے قدم اپنی جگہ تھم گئے
مردے کو علاج کی ضرورت نہں ہوتی ......جب روح ہی مر جائے تو جسمانی تکلیف کا کوئی احساس نہں رہتا یہ تو اب سکون دیتی ہیں مجھے تکلیف
میرے پاس اب وقت کہاں ہے رونے کا
کس کس بات پہ رونا ۔۔۔۔۔۔جب اپنے ہی تمہں دوسرں کو دے دیں اور بول دیں آج سے تمہے دی جو کرنا ہے کرو تو پھر کسی اور کا کیا دکھ ........
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو کہتے ہوے درخت کے نیچے بیٹھ گئی .....
یہ دیکھ رہے ہو بیڑیاں میرے پاؤں میں ہیں کہ اگر چاہوں بھی جانہ پاوں۔۔۔۔۔۔۔
یہی مقدر ہے میرا اب
ایسا نہں ہے سب ٹھیک ہو گا میں تمہں اس حال میں نہں دیکھ سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرب سے اسکیطرف دیکھا
کوئی کچھ نہں کر سکتا کوئی بھی نہں تم بھی نہں
اب کیا کرو گی تم تب کہاں تھے جب ونی ہوئی تھی میں یہ جرگے کا فیصلہ ہے بدلہ نہں جا سکتا جان سے جاؤ گے تم اور جانورں کے لیے اپنی جان کا سودا نہں کرتےسمجھے۔۔۔۔۔۔جاؤکسی نے دیکھا تو مجھے ہی قصوروار سمجھا جاےگا ۔۔۔۔۔
کیوں کےجانور بول بھی نہں سکتا نہ جاو
سبطین نے کرب سے انکھیں بند کر لیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک حشمت شہرکے گنےچنے امیر لوگوں میں سے تھے شہرکے بہت بڑے بزنس مین تھے انکے دو بیٹے ملک جلال اور ملک داود دونو کی شادی اپنی چچاذاد امنہ اور ساجدہ سے ہوی جبکہ ایک ہی بیٹی مہرو نسا تھی ملک جلال اورساجدہ بیگم سے کے دو بیٹے تھے دلاور اور حنان دلاور گھر کا پہلا بچہ ہونے کی وجہ سے سب کا لاڈلا تھا سب کی جان تھی اس میں لاڈلا ہونے کی وجہ سے بچپن سے ہی اپنی بات منوانا اسکی عادت بن گیء جبکہ امنہ اور ملک داود کے بھی دو بچے تھے ازہان اور کشف گھر کی ایک ہی بیٹی ہونے کی وجہ سے کشف بھی چہیتی تھی گھر بھر کی مگر حشمت ملک کی تو گویا جان تھی پوتی میں
دسرطرف مہرو کا خاندان میں کوئی جوڑ نہ ہونے کی وجہ سے ملک حشمت نے اسکی شادی اپنے ہی افس میں کام کرنے والے فاروق کی ایمان داری اور لگن سے متاثر ہوکران سے کر دی ۔۔۔اور اپنے ہی ولا میں دو پورشن بنوا دیے
دونوں بیٹوں کا ایک پورشن اور بیٹی کا وہ چاہتے تھے بچے ساتھ رہیں
مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھاتاشفین جب دس سال کی ہوںئ تو فاروق اور مہرو کی ایکسیڈنٹ میں موت ہو گیء اور تاشہ اپنے پورشن سے اس پورشن آگیء
کشف کے روم میں ماموں اور مامیوں نے کبھی ماں باپ کی کمی محسوس نہں ہونے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سکندر تھوڑا بڑا تھا اور غصےکا تیز تو تینوں اس سے دور رہتے تھے بچپن سے ہء
دسری طرف باقی
تینوں بچے ایک ساتھ بڑے ہوے
ازہان حنان اور تاشہ age fellow thy
حنان اور تاشہ دونوں کی بچپن سے ہی لڑائیاں ہوتی آرہی تھی جو بڑے ہونے پر بھی ویسی ہی تھیں۔۔جبکہ ازہان تھوڑا چپ چاپ رہتا ٹھنڈے مزاج کا تھا
سب سے چھوٹی کشف بگڑی ہوںئ دادا جان کے پیار کی وجہ سے سب پہ روعب جماتی اپنی بات منواتی اور من مانیاں کرتی ازہان حنان اور تاشہ پہ حکم چلاتی تھی بس ایک دلاور تھا جس پہ وہ حکم نہں چلا سکتی تھی اور اس کے غصےسے ڈرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور اپنا بزنس چلا رہا تھا اس کا ایک نام تھا پورے شہر میں اور باہر کے کنٹری ميں بھی
دسری طرف نیوز چینل تھا اپنا جو حنان چلا رہا تھا جسکے ساتھ ازہان اور تاشہ بھی کام کر رہے تھے
کشف ابھی فائنل ایر کی سٹوڈنٹ تھی
پورا خاندان آپس میں جڑا ہوا تھا
...۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت ہمارے بڑھاپے کا سہارا تھا سید علی اس کے جانے کے بعد ہمارا کون ہے سید جابر نے کھانا کھاتے ہوے جنت سے کہا ۔۔۔۔۔ سبطین بھی شہر چلا جاتا ہے بیٹے کی طرح ہے مگر بیٹاتو نہں ہے نہ ہاں خون تو میرا ہی ھے بھائی کا بیٹا ہے مگر اپنی اولاد اپنی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔
یہ منحوس مر جاتی میرا بیٹاکھا گیء یہ دل کرتا ہے مار دوںاسکو میں جنت بی نے نفرت سے مہک کی طرف دیکھ کر کہا ابھی زندہ دفن کر دیتی میرا بس چلتا تو جرگے کا ڈرنہں ہوتا تو مار ڈالتی اسکو میں۔۔۔۔۔۔۔۔
میری بات سنو جنت یہ نکاح میں ہے میرے اس سے بچہ ہو سکتا ہے تم سےتو نہں ہو سکتا ہمارا وارث تمہارا بیٹا
سوچو بڑھاپے کا سہارا ھو گا ۔۔۔۔۔ہمارا جابر نے نولا منہ میں ڈالتے ہوے معنی خیز لہجے میں کہا ۔۔۔۔۔
کہہ تو ٹھیک رہے ہو آپ ۔۔۔۔
جنت نے نیم رضامندی سے کہا
اندر آتے سبطین کے پاؤں ڈگمگا گےء چچاچچی کی بات سن کر اس نےداروازے کو پکڑکر بامشکل خود کو سنبھالا ۔۔۔۔۔
یہ یہ کیا کہہ رھے ہیں یہ کک کیسے ہو سکتا ھے مم میں یہ ظلم نہں ہونے دوں گا ۔۔۔بڑبڑاتے ہوے اندر داخل ہوا
چچ چچا یہ کیا کہہ رہے ہو آپ یہ کک کیسے ہو سکتا ہے
دونوں نے اسکی طرف دیکھا
کیوں ایسا کیا ہو گیا ۔۔۔۔۔۔میں نے ایسا کیا کہہ دیا سید جابر نے اطمینان سے اسکی طرف دیکھ کر کہا
چچا آپ ایسا کیسے سوچ سکتے ہو
مم مہک آپکی بیٹی کی عمر کی ہے ۔۔۔۔۔چچا سبطین نے اضطراب سے کہا
بیٹی کی عمر کی ہے سبطین بیٹی ہے نہں جتاتے ہوے کہا
پر چچی تو ایسا کیسے ہونے دے سکتی ہے امید بھری نظروں سے جنت بی کی طرف دیکھا
صیح کہہ رہا ہے تیرا چچا ہمیں وارث چاہیے
مم میں ہوں نہ چچی اضطراب سے ہاتھوں کو مسلتے ہوے کہا آپکا بیٹا ہوں میں ۔۔۔۔۔۔۔
تو نے ثابت کیا نہں ہے تو ہمارا بیٹا ہمیں بیٹا چاہیے بس ھاتھ اٹھا کر تنبھی کی تیرا چچا صیح کہہ رہا ہے ۔۔۔۔۔
تو جا واپس شہر چلا جا ہمارے معملے میں مت بول اس کی وجہ سے مر گیا میرا بیٹا یہ ہے فساد کی جڑیہی دے گی اب دو ٹوک لہجے میں جواب دے کر جنت بی باہر چلی گیء
چچا تو ایسا نہ کر اسکی غلطی نہں تھی تو جانتا ہے نہ
بس چپ بڑوں کا مسلہ ہے ان پہ چھوڑدے واپس جا تو چلا جا کہتے ہوے وہ بھی اٹھ گےء
سبطین کی حالت ایسی ھو گیء تھی کا ٹو توبدن میں لہو نہں
واو وٹ آ پرسینلٹی
سہحر نے سامنے کھڑے انسان کو دیکھ کر بے اختیار کہا
وائٹ پینٹ اور وائٹ کوٹ میں بلیو شرٹ پہنے بالوں کو جل سی سیٹ کیے ایک ہاتھ میں قیمتی واچ پہنے دوسرے ہاتھ میں قیمتی موبائل پکڑے سامنے کھڑے انسان کو کسی بات پر ڈنٹتے ہوے اردگرد سے بے خبر کے وہ پارٹی میں ہے اور لوگ اسکو دیکھ رہے ہیں بےنیازی سے ویٹر کو اچھی خاصی سنا دیں
اسکی گہری نیلی آنکھوں میں برہمی تھی
سحر کو دلچسپی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے مہر آگے آیا کیا ہوا سحر ۔۔۔۔۔اس نے نگواری سے پوچھا
یہ بندا کیا چیز ہے
مغرور ۔۔۔اپنے آپ میں مگن کسی کی خبر نہں اسکو
ہنڈسم ۔۔۔۔۔۔بلا شبہ وہ ایک خبصورت مرد ہے مکمل کوئئ کمی نہں اس میں ۔۔۔
ستائیش سے دیکھتے ہوے کہا
وہ ہمارابزنس rival ہے سحر
اوہو تو یہ ہے دلاور ملک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے ڈیل کنسل کرنے پہ ڈنٹ پڑی
ایسا rivel واؤ ..
تو اسکی وجہ سے ڈیڈ نے ڈنٹا تمہں کہ ڈیل کنسل کیوں کر کی کوئئ تو بات ہو گی ہی نہ اس میں مہر ۔۔۔۔۔۔۔
او پلیز سحر اب تم بھی ڈیڈکی طرح سے بات کر رہی ہو بس کرو ۔۔۔کہتے ہوے باہر کی طرف چلا گیا
سحر نے لاپرواہی سے کندھے اچکے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یہ کک کیا کہہ رہی ہیں آپ ۔۔۔۔جنت بی کی بات سن کر مہک کے پاؤں سے زمین نکل گیء
کیا غلط بول دیا میں نے تو بیوی ہی تو ہے جابر کی نکاح ہوا ہے نہ تیرا تو اب یہ گھر سنبھال سب کچھ تو ہی کرے گی آج کے بعد اس بڑھاتا ے میں مجھ سے کچھ نہں ہوتا عزت مل رہی ہے تھجے نہ تو تھجے خوش ہونا چاہیے الٹا تو ایسے دیکھ رہی پتہ نہں کیا کہہ دیا میں نے
یہ یہ غلط ہے
مم میں نہں یہ نکاح میری مرضی سے نہں ہوا تھا زبردستی ہوا تھا
میں راضی نہں تھی یہ نکاح نہں ہوا
کیا بکواس کر رہی ہے تو یہ نکاح نہں مانے گی
تیری ہمت کیسے ہوںئ بول
تو تیری یہ مجال جان سے مار دوں گی تھجے مہک کو بری طرح سے پیٹتے ہوے جنت بی نے کہا
تیار ہو جا کر سمجھی نہں تو آج تھجے جان سے مار ڈالوں گی میں
بالوںسے پکڑکر گھسٹتے ہوے کہا
چھو چھوڑو مم مجھے درد ہو رہی ہے زبان کاٹ دوں گی تیری بہت چل رہی ہے گز بھر لمبی ہو گیء ہے
یہ کیا کر رہی ہو چچی چھوڑو اسے
اندر آتے سبطین نےاندرکا منظر دیکھا تو دوڑکے آیا مر جاےءگی وہ
تو مر جاےء یہ منحوس دونوہاتھوں سے گردن کو دباتے ہوے کہا چچی وہ مر جاے گی سانس رک جاے گا اسکا چھوڑو اسے سمبطین نے جنت بی کو پیچھے کی طرف دیھکلیتے ہوے کہا
سمجھا اسکو جو کہتی ہوں کرے نہں تو ۔۔۔۔بات ادھری چھوڑ کر سبطین کی طرف دیکھا اور مہک کو دھکا دے کر گرایا ۔۔۔۔۔۔اپنی زبان میں سمجھا کہتے ہوے اندر چلی گیء
مہک سبطین نے اسے پکڑ کر اٹھایا اور اسکا سر اپنی گود میں رکھا
یہ کیا کہہ رہی ہیں یہ یہ کیسے ھو سکتا ہے مم میں نن نہں
الجھی الجھی سی نظروں سے سبطین کی طرف دیکھا
جو کہہ دیا کہہ دیا مہک انسان نہں رہتے یہاں جرگے کے خلاف کوئی نہں جا سکتا اگر کوئی گیا تو اسکی سزاموت ہےمہک کوئی نہں آے گا مدد کو تمہاری
تم بھاگ چلومیرےساتھ مہک
چلے جاںئں گےبہت دور جہاں کو ئی نہں ہو
مم میں نن نہں خوف سے دیکھا دوسرے پل وحشت سے سبطین کا گریبان پکڑا
۔۔۔۔کیوں کر جاوں میں تمہارے ساتھ تب کیوں نہں آے تھے تم جب ظلم ہوا تھا بولو جواب دو تم نے تو کہا تھا پسند کرتے ہو مجھے واپس آکر بات کرو گے گھر والوں سے مجھے ہی میرے گھر والوں نے بھیڑ بکری کی طرح بھیج دیا
کسی پہ بھروسہ نہں مجھے اب
یہی قسمت ہےاب میری نہں جانا میں نے
بری طرح چلاتے ہوے کہا
شش چپ مہک چلو میرے ساتھ بات مانو
زندگی میں کوئئ ایک تو ہونا چاہیے جس پہ بھروسہ کرسکو چلو مہک بھروسہ کر لو آج تم مر جاؤگی
کیاساری زندگی ایسے رہو گی چچی بن کے یہ ظلم سہوگی
گھروالوں نے ظلم کیا اب خود پہ مت کرو چلو میرے ساتھ
کک کب ۔۔۔۔۔۔سبطین سوالیہ نظروں سے دیکھا
آج ہی رات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔تیار رہنا بس تم
مہک نے اسکی طرف بے یقینی سے دیکھا
یقین کرو مجھ پہ مہک ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے
تاشہ ۔۔۔تاشہ کہاں ہو یار بات سنو حنان باہر سے ہی تاشہ کو آوازیں دیتے ہوے اندر داخل ہوا
سامنے سے آتی ہوئئ کشف نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا بھول گےء کل کیا کہا تھا اسے کاٹدار لہجے میں کہا کشف نے
کیا کہا تھا اسےمیں نے مصومیت سے کہتے ہوے کشف کے روم میں جھانکا
وہ نہں ہے ادھر کشف نے کہتے ہوے باہر کی طرف قدم بڑھاے
کیا مطلب ہے تمہارا نہں ہے کا تو کہاں ہے وہ حنان نے اسکی بات سن کر حیرت سے اسکی طرف دیکھا
اپنے پورشن میں چلی گیء ہے وہ آرام سے بتایا گیا
کک کیا۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو تم ہوش میں ہو حنان نے صدمے سے اسکی طرف دیکھا مذاق کر رہی ہو نہ تم دونو ملکر مجھ سے شک سے کشف کی طرف دیکھا
میرا مذاق کا موڈ بلکل نہں وہ بھی اس وقت تم نے کہا تھا نہ عذاب ہمے دے گےء پھوپھو اور ماموں تو عذاب ٹل گیا اب ہم پر سے آگے سے ہٹو مجھے یونی جانا ہے لاپرواہی سے کہتے ہوے کچن میں گیء ۔۔۔۔
حنان دوڑکے پیچھے گیا یہ کیا کہہ رہی ہو تم کشف سس سچ میں ہی گھر چھوڑکر چلی گیء کیا ۔۔
ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ۔۔۔۔۔۔سوالیہ نظروں سے کشف کی طرف دیکھا
اب تم جا کے مناوء کیوںکے وہ نہں آے ء گی جب تک تم منا کے نہں لاوء گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ۔۔۔تت تم چلو نہ میرے ساتھ مم میں اکیلا کیسے جاوءں گا ۔۔۔۔۔۔شرمندگی سے کہتے ہوے دوسری طرف دیکھا
یہ تمہارا مسلہ ہے میرا نہں جب بنا سوچے سمجھے بولو گے تو ایسا ہی ہو گا نہ مجھ سے کوئئ امید مت رکھنا
یار غصےسے کہا تھا میرا یہ مطلب نہں تھا
ہاں معلوم ہے مگر تم جاؤ گے تو اسے اچھا لگے گا ہارٹ بھی تو تم نے کیا تھا نہ انجانے میں ہی سہی
جاؤ خود ہی یہ سامنے ہی تو پورشن ہے کہتے ہوے انگلی سے اشارہ کیا
ہاں پتہ ہے مجھے چلا جاؤں گا تم سے تو بھلائی کی امیدہی بیکار ہے بےبسی سے کشف کی طرف دیکھا
دیکھو مجھے جانے میں کوئئ مسلہ نہں پر تم خود جاؤتو زیادہ بہتر ہے ویسے بھی وہ تمہاری بہت اچھی دوست ہے نہ تم خود جاؤ اسے اچھا لگے گا میرا جانا شید اسے اچھا نہ لگے
چائے کپ میں ڈالتے ہوے اسکو سمجھاتے ہوے کہا ۔۔۔۔
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہومجھے ہی جانا چاہئے کہتے ہوے پھوپھو کے پورشن کی طرف قدم بڑھادئے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہک رات کی تاریکی میں کوئئ سایہ اسکی طرف آرہا تھا مہک اسکی آواز سن کر وہ چونکی سبطین تم اتنی رات کو کوئئ دیکھ لے گا تو تم جاو تمہے مار دیں گے یہ لوگ میری وجہ سے تمہے کچھ ہوا تو نہں نہں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسنے گھبرا کر اردگرد دیکھا
کوئئ نہں ہے مہک چچی کو نیند کی گولی دے دی میں نے چچا نہں ہے پر کسی وقت آسکتا ہے جلدی چلو اس نے چابی سے بیڑیاں کھولیں اور مہک کا ہاتھ پکڑا چلو مہک سوچو مت جلدی چلو کوئئ دیکھ لے گا تو جا نہں پائںں گے چلو اسکا ہاتھ پکڑ کر کھڑا کیا بھروسہ رکھو مہک اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔
کیسے کروں بھروسہ تم نے کہا تھا گھر با ت کرو گے چچا چچی کو بھیجو گے مگر کیا کیا میرے ساتھ تم نے
مجھے امید دلا کر کسی اور کے لیے چھوڑگےء تم ایک جھٹکے میں ہاتھ چھوڑا کر چلے گےء ابھی تو صرف سوچنا شروع کیا تھا تمہارے بارے میں اور تم نے کیا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔کاٹدار لہجے میں کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔
اس وقت بہتری تھی تمہاری اس میں اور میں مجبور تھا مہک تم سمجھ کیوں کر نہں رہی میں نے اچھا سوچا تھا تمہارے لیے جو میں کبھی نہ دے پاتا علی دے پاتا تمہے مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا ہم بے بس ہیں قسمت پہ زور نہں چلتا ہمارا چلو سو چو مت مہک چلو
نہں کر سکتی بھروسہ تم پہ پھر ہاتھ چھڑا جاؤگے اس نے اٹل لہجے میں کہا
مہک یہ وقت ان باتوں کا نہں ہے چلو بے شک پنجاب جب پیہنچ جائںں مت رہنا میرے ساتھ ابھی چلو
بے بسی سے سبطین نے ہاتھ جوڑے
مہک نے چپ چاپ اس کا ہاتھ تھام لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاشہ معاف کر دو یار کل سے مجھے سکون ہی نہں آرہا تمہے پتہ ہے نہ میری ایک ہی دوست ہے تو حنان نے اسکو دیکھتے ہوے شرمندگی سے کہا
تاشہ نے منہ دوسری طرف کر لیا
یار معاف کر دے نہ اب غلطی ہو گیء ہے تو ایسے چپ چاپ اچھی نہں لگتی سزادے دے بس جو دل کرے
میرا وہ مطلب نہں تھا غصےسے کہہ دیا تھا قسم سے ۔۔۔۔۔تیرے سے لڑے بنا سکون نہں ملتا مجھے اور تم چپ چاپ آگئ ادھر مجھے نکال دیتی وہ گھر تیرا ہے میرا نہں کہتے ہوے کان پکڑے دیکھو کان پکڑلئے بس اب تو معاف کر دو ورنہ رو دوں گا میں کہتے ہوے بےبسی سے تاشہ کی طرف دیکھا۔۔۔یار کچھ بولو گی اب
مرغا بنو پہلے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
اوکے کہتے ہوے حنان نیچے اتر کر مرغا بن گیا
ویڈیو بنا کے نیٹ پہ دے دؤں دل کر رہا ہے
ہاں دے دو بس تم ناراض نہ ہوا کرو یار مجھ سے سکون نہں مل رہا کل سے سچی کہتے ہوے اسکے پاس اٹھ کر آیا ہزار بار کہو گی نہ مرغا بن جاؤںگا بس ناراض مت ہونا دوبارہ اسکا ہاتھ پکڑکر اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا چلو گھر اب دوبارہ مت آنا مجھے چھوڑ کر
تاشہ نےاسکی نظروںسے گھبرا کر دوسری طرف دیکھا
بس کرو میں نہں ناراض ہاتھ چھڑو اور گھر چلو کہتے ہوے اس کے ساتھ گھر کی طرف بڑھی
سنو یہ اچھا موقع ہے دشمن سے بدلا لینے کا تیار ہوجاؤسب باقی گھر والوں کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ دن گھر پہ ہیں موقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے
آج وقت ہے دلاور ملک سے بدلا لینے کا اسکے کمرے میں گھس کر جینا حرام نہ کیا تو میرا نام کشف نہں
کشف نے کمر پہ ہاتھ باندھ کر ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوے جوش سے کہا ۔۔۔۔۔تو تیار ہو تم لوگ بولو
نن نہں مرواےءگی یہ مم میں نہں جا رہا تمہارے ساتھ مجھے گردن سے پکڑ کر میری گردن توڑدیں گے بھائی حنان نے جھرجھری لیتے ہوے اسکی طرف دیکھا
یہ تو مرد کہلانے لائق ہی نہں ہے دھبہ ہے مرد زات پہ کشف نے تاسف سے ہاتھ ملتے ہوے کہا
یہ بلکل صیح کہہ رہا ہے کشف تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے
دلاور بھائی کے کمرے میں جانا ہے گویا جان ہتیھلی پہ رکھنی ہوںئ نہ میں بھی نہں جا رہا ان کے غصےسے واقف نہں ہو کیا تم ازہان نے بھی نفی میں گردن ہلاتے ہوے انکار کیا
تاشہ تم نے چوڑیاں پہنی ہیں نہ زارا اتار کے دو چار چوڑیاں کشف نے سینجدگی سے تاشہ کی طرف دیکھتے ہوے کہا
کیوں تاشہ نے نہ سمجھی سے اسکی طرف دیکھا
انکو پہنا دو یہ دونوں مجرا کریں گی ہمارے خاندان میں آج کے بعد جسکی شادی ہوئئ اس میں ویسے تو کسی کام کے نہں دونوں۔ایسے کچھ پیسے کما لائئں گے باقی رہی بات
پوسٹر چھپوانےکی تو اس کا سارا خرچ میراٹھوڑی پہ انگلی رکھ کر سوچتے ہوے کہا
ازہان بائئ اور حنان بائئ۔۔۔۔۔۔نام تو ٹھیک ٹھاک ہی ہیں بدلنے کی ضرورت نہں اور گانا کون سا ہو میرے خیال میں بلو ٹھمکہ لگا بیسٹ ہےکشف نے سنجیدگی سے کہا
اسکی بات سن کر تاشہ نے بے اختیار قہقہ لگا یا جبکہ ان دونوں نے خنخوار نظروں سے دیکھتے ہوےہا تھ میں پکڑے کشن اسکی طرف پھنکے تیری آج خیر نہں کشف کی بچی حنان کہتے ہوے اسکے پیچھے بھاگا ۔۔۔۔۔۔۔
حنان بائئ پسند نہں آیا نام تو شیلہ منی رکھ لو یا پھر
کوئئ اور نام ماڈرن سارکھ لیتے ہیں کشف نے چڑاتے ہوے دوڑلگائئ
وہ دونوں بھی کشن لے کر مارنے کے لیے پیچھے بھاگے ۔۔۔۔۔۔جبکہ تاشہ اپنی جگہ پہ ہی ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلیک پینٹ کوٹ پہنے بالوں کا فلو سٹائل بناےء ایک ہاتھ میں برینڈڈ واچ پہنے آنکھوں پہ قیمتی گوگلز لگائے دلاور افس میں داخل ہوا تو سب نے اسے دیکھ کر سلام کیا اس نے سر ہلا کر جواب دیتےہوے اپنے روم کی طرف بڑھا ڈور اپن کر کے جیسے ہی روم میں داخل ہوا اگلے پل اسے حیرت کا جھٹکا لگا اور اسکے قدم اپنی جگہ تھم گئے سامنے اسکے روم میں اسکی چئر پہ بیٹھی ہوئئ وہ خبصورت لڑکی جسکی بےباقی پہ دلاور ملک ٹھٹکا
اسلام علیکم بڑی ادا سے بالوں کو جھٹکتے ہوے اسکی آنکھوں میں براہ راست دیکھتے ہوے سلام کیا دلاور دل ہی دل میں اسکی بےباقی کی داد دئے بنا نہ رہ سکا
سوری بنا بتاے آگئ میں اور آپکے افس میں آپکی چئر پہ بیٹھ گئ اور چئر تھی نہں ادھر اور سحر ایوب ورکر کے ساتھ تو بیٹھ نہں سکتی تھی نہ آپ سے زیادہ نہ سہی تو کم بھی نہں ہوں اگر آپ بزنس ٹیکون ہیں تو میں بھی بزنس ٹیکون کی بہن اور بیٹی ہوں اور فیچر میں آپکی راوئل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی بے باقی سے برہ راست آنکھوں میں دیکھتے ہو چلتے ہوے اسکے پاس آئي اور ہاتھ بڑھایا
دلاور نے ہاتھ دیکھ کر بلکل ہی اگنور کر دیا اور چلتے ہوے اپنی چئر پہ جا بیٹھا اور کاٹدار لہجے میں کہا اگرآپ میری مہمان نہ ہوتی تو آپکو میں اچھے سے سمجھاتا کہ دلاور ملک ہے کیا اور اس بتمیزی کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے آپکو گہری نظروں سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
بولیے نہ کیا قیمت ہو گی اس بتمیزی کی چلتے ہوے دلادر کے بلکل پاس آ کر ٹیبل پہ دونوں ہاتھ ٹکا کر آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا میرے پاس مجھ سے زیادہ قیمتی کچھ نہں اور یقین جانو کچھ اور ہو بھی نہں سکتا کہتے ہوے ایک آنکھ بند کی
دلاور نے نگواری سے اسکی اس حرکت پہ منہ دوسری طرف کیا
ہاہاہا ہا دلاور ملک ایسی لڑکی پہلے نہں ملی آپکو مجھے لگ رہا ہے ڈونٹ وری اب تو ملنا ہو گا ہی جو ڈیل مہر نے کینسل کی تھی وہ ڈیل اب کینسل نہں ہو گی کہتے ہوےسیدھی ہوںئ
چلتی ہوں اب جا نا چاہیے
پھر ملاقات ہو گی جانے کے لیے مڑی جب دلاور کی آواز پہ رکی
مس آپ جو بھی ہو یہ پہلی بار تھا تو معاف کر دیا آج کے بعد بنا اجازت اندر مت آنا نہں تو انگلی اٹھا کر وارن کرتے ہوے بات ادھوری چھوڑ دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہاں اس ڈیل کا ہونا یا نہں ہونا مجھے خاص فرق نہں پڑتا پر تم لوگوں کو کتنا فرق پڑتا ہے وہ مجھے بتا نے کی ضرورت نہں تمہارا آنا ہی بتا رہا ہے
you may go now plz
کہتے ہوے فائل پہ جھکا
سحر نے غصےسے مٹھیاں بند کئں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہک چلو جلدی سبطین نے اسکا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھتے ہوے کہا تیز تیز چلو کوئئ آنہ جاے ہمے جلد از جلد گاؤں کی حدود سے نکلنا ہو گا ورنہ مشکل ہو جاے گی اور پھر شید موقع ہی نہ ملے
مہک نے چپ چاپ قدموں کی رفتار تیز کر دی ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ سامنے سے گاڑی آ کے رکی دونوں کے قدم ایک دم رکے مہک نے گھبرا کر سبطین کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑا اور سبطین کے پیچھے ہو گیء اسکی چوڑی کمر کے پیچھے پوری ہی چھپ گیء وہ
چچا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔سبطین کی حیرت میں ڈوبی آواز آئی
تبھی فرنٹ ڈور کھول کر جو باہر آیا اسے دیکھ کر سبطین کے ہا تھ کی گرفت مہک کہ ہاتھ پر سے ڈھیلی ہو گیء
سس سردار آ آپ گھبرا کر کہا
میرے فیصلے کے خلاف جانے کی ہمت آج تک کسی نے نہں کی تو کیسے کر گیا یہ جانتے ہوے کہ اسکی سزا موت ہے گونج دار آواز میں کہتے ہوے آگے بڑھا اور مہک کو بالوں سے پکڑا اور اپنے آگے کیا مجھے بتایا تھا آج جابر نے پر مجھے یقین نہں ہوا تھا اس نے تمہے بات کرتے سنا تھا میرے لوگ نظر رکھے ہوے تھے تم پر غداری کی اپنی روایات سے اس لڑکی کی وجہ سے سردار نے مہک کو بالوں سے کھنچتے ہوے گاڑی کی طرف دھکا دیا
وہ نازک سی لڑ کی نیچے جا گری تبھی سبطین نے کہا رکو ہم چلتے ہیں آپکے ساتھ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہے کہتے ہوے جیپ کی طرف بڑھا ہاتھ اپر اٹھا کر اور مہک کے پاس آکر اسے اٹھایا مہک نے بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا تبھی سبطین نے اسے ہاتھ سے پکڑکر نیچے کھائی میں دھکا دے دیا مہک سنبھل ہی نہں پائئ اسکی چیخ نکل گئی نیچے گرتے ہوے آنکھیں بند ہونے سے پہلے اس نے گولی چلنے کی آواز سنی
سبطین اس نے زیر لب دہرایا پھر گھرا اندھیرا چھا گیا اس کی آنکھوں کے سامنے اسے لگا اسکی اخری چند سانسیں ہیں
یہ کیا حال کر دیا دلاور بھائی کے کمرے کا کشف تمہارا بچنا مجھے مشکل لگ رہا ہے آج تو ویسے بھی تم مرن سیڑھی پہ پہلے ہی ٹنگی ہوئی ہو کشف کو سٹول پہ چڑھا دیکھ کر تاشہ نے دروازے پہ ہی کھڑے ہو کہ کہا جو رنگوں سے دیواروں پہ کمال گری کر رہی تھی اور جن پہ جگہ جگہ کارٹون بناے ہوے تھے
تم آؤنہ اندر میری ہلیپ کروا دو کشف نے ہاتھ میں پکڑےبرش سے دیوار پہ کاری گری کرتے ہوے کہا
مار ڈالیں گے وہ
مجھ میں ہمت نہں اندر قدم رکھنے کی تم اپنی خیر مناؤ ڈر نہں لگتا ان سے تمہیں کیا حال کر دیا روم کا تاشہ نے حیرنگی سے دیواروں پہ نظر ڈالتے ہوے کہا
مجھے نکالا تھا نہ افس سے اب آے گا مزہ انکو جب رات بھر نیند نہں آے گی تمہے پتہ ہے نہ انکو سمپل روم پسند ہے یہ رنگ نہں پسند دوسری مزے کی بات کسی اور کے کمرے میں نیند نہں آتی نہ کسی اور کے بیڈپہ کشف نے جوش اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے کہا
اللہ خیر ہی کرے آج دلاور بھائئ معاف کر دیں تمہے کہیں یہ نہ ہو تمہاری لاش پہ رونا پڑے تاشہ نے سوچتے ہوے کہا
تو چپ کر منہ اچھا نہ ہو تو بات تو اچھی کر لے انسان کشف نے ڈپٹتےہوے کہا
بہن تھجے پتہ ہے تیرا کیا حال ہو گا تاشہ نے افسردگی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
تبھی تاشہ کی نظر سامنے سے آتے دلاور پہ پڑی میں تیری مغفرت کی دعا کروں گی کہتے ہوے بھاگ کے ساتھ والے روم میں گھس گئ
اسے کیا ہوا کشف نے کہتے ہوے کندھے اچکاے اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گیء
کشف گونج دار آواز پہ کشف نے مڑ کے دیکھااور سامنے دلاور کو دیکھ کر اوسان خطا ہو گئے اسکے اپنا توزن برقرار نہ رکھ سکی دھڑام سے نیچے آگری
اف میری کمر درد سے کرہاتے ہوے کمر پہ ہاتھ رکھا
دلاور نے ہاتھ سے پکڑکر ایک جھٹکے سے کھڑا کیا اور خنخوار نظروں سے اسکی طرف دیکھا
مم میں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری کمر کرہاتے ہوے رحم طلب نظروں سے دیکھا مگر مقابل پہ کوئئ اثر نہں ہوا
ہاتھ کو پکڑکر بری طرح سے موڑ دیا
درد کی شدت سے کشف کی چیخ نکل گیء
بچی نہں رہی اب تم جو برداشت کر جاوں ایک گھنٹے کا وقت ہے تمہارے پاس مجھے میرا روم پہلے جیسا چاہیے نہں تو زندہ گاڑھ دوں گا تمہیں سمجھی تم کاٹدار لہجے میں کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
جج جی اٹکتے ہوے جواب دیا
دلاور نے ہاتھ چھوڑا اور اسکی طرف انگلی سے ایک کا اشارہ کیا ایک مطلب ایک نہ زیادہ ایک منٹ نہ کم ورن کرتے ہوے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا
کشف نے گہرا سانس لے کر دیواروں پہ نظر ڈالی ۔۔۔۔۔۔
اب یہ کرنا ہو گا اکیلے ہی نہں تو واقعی میں قبر میں اتار دیں گے سوچتے ہوے کام سٹارٹ کیا
.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سورج کی کرنیں اسکے چہرے پہ پڑیں تو اس نے ہڑبڑاکر آنکھیں کھولیں درد کی شدید لہر اسکے جسم میں اٹھی تبھی اسے وہ منظر یاد آیا اور آنسوں بے اختیار بہہ نکلے سبطین زیر لب دہرایا
ماضی اسکی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا
مجھے پکڑ کر دیکھا حنا تو مانوں تمہیں دوپٹہ کمر پہ باندھے بھاگتے ہوے پیچھے مڑکر حنا کو بولا تبھی زور سے وہ کسی سے ٹکرا گیء اور نیچے گرنے لگی تھی جب مقابل نے اسے سنبھالا
دیکھ کے محترمہ یہ آندھوں کے لیے روڈ نہں ہے شرارت سے کہتے ہوے اسکی آنکھوں میں جھانکا
آندھی مطلب کیا ہے تمہارا ہم آندھے نہں تم آندھے ہو ہم پیچھے دیکھ رہے تھے تم تو آگے دیکھ رہے تھے نہ تو تمہں دکھائی کیوں نہں دیا دونوں ہاتھ کمر پہ رکھتے ہوے بتمیزی سے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
مقابل نے مسکراتے ہوے اسکی آنکھوں میں دیکھا بڑی بڑی آنکھیں لمبی پلکیں ایک طرف گال پہ پڑتا ڈیمپل گورا رنگ ستواں ناک لمبے بالوں کی چٹیا کیے گھور کے اسکی طرف دیکھ رہی تھی
میرا ہاتھ چھوڑو نگواری سے اسکی طرف دیکھا تو سبطین چونکا اسے سنبھالتے ہوے پکڑاتھا اور ابھی تک پکڑکر کھڑا تھا بے خودی سے دیکھتے ہوے
تمہارا نام کیا ہے بنا ہاتھ چھوڑے اسکی طرف دیکھا
کیوں بتاؤ آنکھیں پھاڑ کے اسکو دیکھا
تبھی حنا نے پکارا مہک آجا اتنی دور آگئ ہے تو خبر بھی ہے
مہک مقابل نے دہرایا بہت خوبصورت نام ہے تمہاری طرح
میرا ہاتھ
ہاتھ چھوڑانے کی ناکام کوشش کی گیء
مجھے سبطین کہتے ہیں مقابل نے اطمینان سے اپنا تعارف کروایا
تو کاٹ کھانے والے لہجے میں جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہارے والد کا کیا نام ہے ۔۔۔۔۔
کیوں اب شکايت دینی ہے میری کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تبھی حنا چلتے ہوے پاس آئی چل فاروق چچا کب سے آوازیں دے رہے ہیں تھجے آج لگتا تیری خیر نہں کہتے ہوے اس کی نظر سبطین پہ گیء
اسلام علیکم سبطین بھائی اس نے زبان کو بریک لگا کہ سلام کیا جبکہ مہک نے اچھی خاصی گھوری سے نوازا
اچھا یہ فاروق چچا کی بیٹی ہے مقا بل نے ہاتھ چھوڑ کر اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
مہک نے غصے سے اسکی طرف دیکھتے ہوے پاؤں پٹخے اور حنا کا ہاتھ تھام کے مڑگئ
سبطین اسے اس وقت تک دیکھتا رہا جب وہ نظروں سے اوجھل نہ ہو گیء
ہو گیا صاف
دلاور کے کہنے پہ کشف نے چونک کہ دیکھا
جج جی کشف نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا اور جانے کے لیے مڑی جب دلاور نے ہاتھ پکڑکر کھنچا کشف اس کے سینے سے جا لگی کشف نے گھبرا کہ دیکھا سانس لینا مشکل ہو گیا اسکا
آج کے بعد میری اجازت کے بنا میرے کمرے میں آئی تو یہ جن قدموں پہ تم چلتی پھرتی ہو نہ یہ نہں رہیں گے سمجھی کاٹدار لہجے میں کہتے ہوے ایک جھٹکے سے پیچھے دھکا دیا کشف لڑکھڑا کر گرنے لگی تبھی دلاور نے ہاتھ بڑھا کر اسے دونوں بازوؤں سے پکڑکر سیدھا کھڑاکیااور بیڈ پہ بیٹھ گیا
کشف اپنی جگہ ساکت سی کھڑی رہی
کچھ دیر بعد دلاور نے غصےسے اسکی طرف دیکھا اور دھاڑا اب کیا تمہیں روم تک چھوڑ کے آؤں جاو بھی
آواز سن کرکشف ہوش کی دنیامیں لوٹی اور باہر کی طرف دوڑلگائئ
ہاہاہا کشف جیسے دلاور کے کمرے سے باہر نکلی ان تینوں نے ایک ساتھ قہقہ لگایا
تم لوگوں کو چھوڑوں گی نہں میں کس نے بلایا دلاور بھائی کو سچ سچ بتاؤ کشف نے دانت پیستے ہوے حنان اور ازہان کی طرف شکی نظروں سے دیکھا
وہ تو بھا ئی کو فائل چاہیے تھی جو میں گھر لے آیا تو بھائی نے کہا میں گھر ہی آجاتا ہوں میں نے کہا اوکے حنان نے آرام سے بتایا
کیوں کیا کچھ ہوا ہے معصومیت سے کہتے ہوے کشف کی طرف دیکھا
اس سادگی پہ کون نہ مر جاے کشف نے دانت پیس کر اسکی طرف کہتے ہوے دیکھا
دادا جان کی ایک بندوق ہے خاندانی کبھی استعمال نہں ہوںئ مجھے لگتا ہے آج وہی کام آے گی کشف نے کہتے ہوے سامنے دیوار پہ ٹنگی بندوق اتاری اور حنان پہ تان لی
یہ کیا کر رہی ہو پاگل ہو کیا چل جاے گی حنان نے کہتے ہوے ازہان کے پیچھے پناہ لی
آگے سے ہٹ جاؤ نہں تو تم بھی قتل ہو جاؤگے میرے ہاتھوں سے کشف نے ازہان کو وارن کیا
یہ کیا ہو رہا ہے حشمت ملک کی آواز پہ سب کو سانپ سونگھ گیا
سامنے جلال ملک امنہ بیگم ملک داور بھی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے
دد دادا جی آپ کشف نے بندوق پھنک کر انکی طرف گیء اور گلے لگ گیء
انہوں نے سر پہ ہاتھ رکھا اور ان تینوں کی طرف پلٹے کیا ہو رہا تھا یہ
کک کچھ نہں نانوکشف نشانہ لگانا سیکھ رہی تھی تاشہ نے بات کو سنبھالا
یہ واقعی نیوز ریپوٹر ہے ازہان نے داد دی جبکہ حنان نے چپ رہنے کا اشارہ کیا
اندر لاونج میں ملک حشمت نے کشف کی طرف دیکھا
نہں دادو باہر لے کہ جا رہی تھی
ھمھمھم انہوں نے گہرا سانس لیا
ابھی اپنے اپنے روم میں جاو کل صبح مجھے بچوں کے مستقبل کی بات کرنی ہے بڑے ہو گئے ہیں شادی کی عمریں ہو گیء ناشتے پہ بات ہو گی ملک حشمت
نے جلال داود ؛ امنہ اور ساجدہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوے کہا سب نے حیرت سے انکی طرف دیکھا
ابھی جاؤ سب صبح بات ہو گی انکےکہنے پہ سب چپ چاپ اپنے رومز کی طرف چلے گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور کہیں کتوں کے بھوکنے کی آواز پہ مہک نے چونک کے سر جھٹکا اور ماضی سے حال میں لوٹی
نہں میں ہار نہں مان سکتی مجھے جانا ہو گا سبطین کی قربانی میں ضائع نہں ہونے دے سکتی وہ لوگ مجھے ڈھونڈ رہے ہوں گے کسی بھی وقت آسکتے ہیں وہ لوگ کیا پتہ آے بھی ہوں تو ملی کیسے نہں میں مہک نے سوچتے ہوے دیکھا جس جگہ پہ گری تھی ونہاں سے کافی دور موجودتھی وہ ڈھلوان ہونے کی وجہ سے شاید لڑکھتے ہوے کافی دور آگری تھی وہ سوچتے ہوے اٹھ کے بیٹھی درد کی شدید لہر اسکے جسم میں اٹھی
مگر اس نے پروہ نہ کرتے ہوے کوشش جاری رکھی
مجھے جانا ہو گا دور بہت دور سوچتے ہوے اٹھی مگر کس طرف جانا ہے کچھ پتہ بھی نہں کون سی منزل کی طرف بے بسی سے سوچا بے اختیار آنسوں نکل آے آنکھوں سے لا وارث ہوں میں مجھ سا بد نیصب کون ہو گا جو ماں باپ ہوتے ہوے لاورث ہو دکھ سے سوچا اور بے دردی سے آنسوں پونچھے مجھے جانا ہے بس یہاں سے ارد گرد گہرا جنگل تھا رات ہونے سے پہلے مجھے روڈ ڈھونڈنا ہو گا جس سے ہمیشہ کے لیے چلی جاؤں اور کبھی لوٹ کے نہ آوں
بہت دور سوچتے ہوے وہ آگے بڑھی پاؤں خون بہہ رہا تھا چلنے سے اور تکلیف بڑھ گئ تھی مگر اسے چلتے رہنا تھا بس یہی یاد تھا اسے اسکی منزل آگے تھی بہت آگے سوچتے ہوے اس نے رفتار تیز کر دی پورے جسم پہ چوٹیں تھیں اور درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں مگر آزادی بہت بڑی نعمت ہے اس وقت مہک کو احساس ہوا جینا بنا آزادی کوئئ جینا نہں اور آزادی کے لیے کسی بھی طرح کی تکلیف برداشت کی جا سکتی ہے
میں نے فیصلہ کیا ہے کہ بچوں کی اب شادیاں کر دینی چاہیے
ناشتے کی ٹیبل پہ سب کی طرف دیکھتے ہوے حشمت ملک نے کہا
انکی بات پہ سب نے انکی طرف دیکھا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تاشہ کا نکاح ازہان سے کر دیں حنان کے ہاتھ سے جوس کا گلاس گر گیا
کیا ہوا بیٹا دھیان سے ساجدہ بیگم اسکی طرف متوجہ ہوئی
کک کچھ نہں ماما
بیٹا طبیت ٹھیک ہے آپکی کیا ہوا ایک دم فکرمندی سے پوچھتے ہوے وہ اٹھ کے حنان کے پاس گئی
ماما مجھے کمرے میں جانا ہے حنان نےانکا ہاتھ پکڑکر آہستہ سے کہا
ہاں ہاں بیٹا آو میں لے چلتی ہوں انہوں نے اسے پکڑکر کھڑا کیا چلو
ان کے جانے کے بعد ملک حشمت نے ان سب کی طرف دیکھا
کشف میری پوتی ہے مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اس کے لیے میرے دوست نے اپنے پوتے کا کہا ہے مگر
میں اسے اس گھر سے دور نہں بھیج سکتا دو تو بچیاں ہیں ہماری تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
انہوں نے بات آدھوری چھوڑکر لا پروہی سے جوس پیتے دلاور کی طرف دیکھا
دلاور ہم کچھ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
جی دادو میں سن رہا ہوں اسی لاپروہی سے جواب دیا گیا
جبکہ ساجدہ بیگم نے دلاور کو تنبھی نظروں سے
اور بات سننے کا اشارہ کیا
میں نے فیصلہ کیا ہے کشف کا نکاح دلاور سے کر دیں اسی ہفتے انہوں نے کہتے ہوے دلاور کی طرف دیکھا
دلاور جو لاپروہی سے جوس پی رہا تھا انکی بات پہ چونکا اور جوس کا گلاس زور دار آواز میں پٹخنے کے انداز میں رکھا
what ...what do u mean dado
i do not understand your logic
بابا ماما یہ لڑکی ملی یہ
آپکو میرے لیے کشف کی طرف دیکھتے ہوے کاٹدار لہجے میں کہا جس کو مذاق کے علاوہ کچھ نہں سوجھتا جو نان سیریس ہے زندگی میں یہ لڑکی کہاں سے فٹ ہوتی ہے میرے ساتھ غصےسے کہتے ہوے ساجدہ بیگم کی طرف دیکھا
دلاور ملک مجھ سے بات کرو مجھ سے حشمت ملک نے گونج دار آواز میں کہا یہ میرا فیصلہ ہے میرا ملک حشمت کا
تو مجھے آپکا یہ فیصلہ منظور نہں دلاور نے سرد لہجے میں کہا
ملک دلاور
تم اپنی حد بھول رہے ہو بس اب اور کچھ نہ سنوں میں تمہارے منہ سے حشمت ملک نے ہاتھ اٹھا کر تنبھی کی
ملک حشمت کا کوئئ فیصلہ نہ کبھی بدلا ہے نہ بدلے گا سنا تم نے
تو ٹھیک ہے دادو آپکافیصلہ نہں بدل سکتا تو میں بھی آپکا پوتا ہوں فیصلہ تو میرا بھی نہں بدلتا کہتے ہوے اٹھا اور کرسی کو گھسیٹ کر ایک طرف کیا اور باہر چلا گیا بنا انکی بات سنے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلتے چلتے وہ نجانے رات کے کون سے پہر سڑک پہ آ گئ سامنے ہی اسے ریلوے اسٹیشن نظر آیا مہک دوڑکے گیء اسے دور سے ٹرین کی آواز آرہی تھی رات کافی گہری ہونے کی وجہ سے اکا دکا مسافر ہی نظر آرہے تھے ریلوے اسٹیشن پہ ٹرین کے آنے پہ مہک بھی باقی لوگوں کے ساتھ ٹرین میں سوار ہو گیء ٹرین آدھی سے زیادہ خالی ہی تھی وہ چپ چاپ ایک ڈبے میں جا کہ بیٹھ گیء
کچھ ہی دیر میں ٹرین روانہ ہو گیءاپنے حالات کو سوچتے ہوے اسکی آنکھوں میں آنسوں آگئے کیا تھی میں اور کیا ہو گئ میں
سنو ۔۔۔۔۔۔کسی کے پکارنے پہ املیاں توڑتی مہک نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور سامنے کل والے بندے کو دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہو گیا تم دونوں ہاتھ کمر پہ باندھ کہ اسکو گھورتے ہوے کہا تمہے تو میں
کیا مقابل نے مسکراتے ہوے اسکی طرف دیکھا
اسکے مسکرانے پہ مہک کو اور تپ چھڑی کیا ہے تم ہنس کیوں رہے ہو اور یہاں آنے کی ہمت کیسے کی تم نے
یہاں آنے کے لیے کون سی ہمت چاہیے یہ کوئی بارڈر ہے کیا سبطین نے کہتے ہوے ہاتھ بڑھا کر املی توڑی
مہک نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا وہ میری تھی دانت چبا کر کہا
تو تمہارے لیے ہی توڑی ہے یہ لو سبطین نے املی اسکو دیتے ہوے دیکھا
مہک نے جھپٹ کر املی لی
سبطین نے ہنستے ہوے اسکی طرف دیکھا
مہک نے جھنپ کر دوسری طرف دیکھا
سنو مجھ سے شادی کرو گی سبطین کے اچانک کہنے پہ مہک نے حیرت سے دیکھا
سبطین دلچسپی سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
کیوں کروں کہتے ہوےگھورا
مجھے اچھی لگتی ہو سبطین نے کہتے ہوے اسکا ہاتھ تھاما
ابا سے بات کرنا مہک نے کہتے ہوے ہاتھ چھوڑایا اور دوڑ تے ہوے پیچھے مڑکے دیکھا سبطین نے ہنستے ہوے ہاتھ ہلایا
ٹکٹ پلز ساتھ والے ڈبے سے آواز آئی تو مہک نے سر جھٹکا
تبھی مہک نے فورن سیٹکے نیچے چھپ گیء
ٹکٹ چیکر اندر آیا اور سیٹ کے ساتھ مہک کے ہاتھ پہ اسکا پاؤں آگیا
درد کی شدت سے مہک نے لبوں کو سختی سے بھینچا ہاتھ پہلے زخمی تھا خون بہنے لگا مگر مہک نے خود کو چلانے سے روکا آنسوں تواتر سےبہہ رہے تھے
جسمانی تکلیف سے بڑھ کر اپنوں کی دی ہوئی تکلیف برداشت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے یہ مہک جان چکی تھی
تاشہ تو کیوں رورہی ہے یار کشف نے تاشہ کوبیڈ پہ زور و شورسے روتا دیکھ کر حیرت سے کہا
ارے رونا تو مجھے چاہیے تھا میرے لیے دادو نے دلاور جلاد منتخب کیا اس نے کتنا انسیلٹ کیا مجھے میرا تو سانس سوکھ گیا تھا مجھے لگا مجھے گولی مار دے گا مجھے بھی رونا ہے پر دیکھو مجھے رونا ہی نہں آرہا کشف نے تاسف سے کہتے ہوے ہاتھ ملے تمہے پتہ ہے کیوں
تا شہ نے روتے ہوے سر اٹھا کے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
مجھے ہمیشہ سے دلاور پسند تھا بچپن سے لے کر آج تک میں اسکے پاس جانے کی جب کوشش کرتی تھی وہ ڈانٹ دیتا تھا میں اسکے پاس رہنا چاہتی تھی اور دیکھو دادو نے ایک بار کہنے پہ مجھے دے دیا میں بہت خوش ہوں
مطلب تاشہ نے نہ سمجھی سے آنسو صاف کرتے ہوے پوچھا
بلایا تھا مجھے رات دادو نے میرے لیے رشتہ آیا تھا دادو کے فرینڈ لائے تھے انکے جانے کے بعد مجھے بلایا تھا بیٹا آپکا رشتہ آیا ہے دادو کے کہنے پہ میں نے صاف کہہ دیا
دادو میں کسی اور گھر نہں جاؤگی آپکو چھوڑکر
یہ تو میری بھی خواہش ہے دادو نے مجھے سینے سے لگاتے ہوے کہا اس لیے میں سوچ رہا تھا حنان کے ساتھ تمہاری بات پکی کر کے نکاح کر دیں
حنان کیوں دادو دلاور بھی تو ۔۔۔۔۔
زبان دانتو تلے دبائی
میں سمجھ گیا بیٹا تم جاؤ ہنستے ہوے میری طرف دیکھا
مم میں وہ دادو
آپ جاؤ اپنے کمرے میں کشف بیٹا مسکراتے ہوے میرے سر پہ ہاتھ رکھا
دادو سخت ہیں مگر ہماری خوشی انکو عزیز ہے کشف نے تاشہ کو سمجھانے کے انداز میں کہا
تم دلاور بھائی کو پسند کرتی ہو کشف تاشہ رونا دھونا بھول کر اسکی طرف متوجہ ہوںئ
ہاں میں خود کو بدل لوں گی جیسا وہ چاہتے سیریس ہو جاؤں گی کشف نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
سنو میرا بھائی بہت اچھا ہے تم خوش رہو گی تاشہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوے کہا
مجھے حنان ۔۔۔۔۔تاشہ نے بات آدھوری چھوڑی اور کشف کی طرف دیکھا
مطلب او مائی گاڈ تاشہ اور حنان بھی تمہیں ۔۔۔۔۔بات ادھوری چھوڑ کر کھوجتی نظروں سے اسکی طرف دیکھا
پتہ نہں اسے تو بس تنگ کرنا ہوتا ہے مجھے پر مجھے لگتا ہے کہ شاید
یہ بھی ہو سکتا ہے حنان نہں پسند کرتا ہو اس طرح کشف نے پرسوچ لہجے میں کہا
اور تم خود تو کہتی ہو رپورٹر ہانی سے بہت بنتی ہے اسکی اسکے سامنے اگنور بھی کرتا ہے تمہیں تاشہ تمہیں
پھر بھی اگر تم کہو گی تو میں بات کرو گی دادو سے تمہارے لیے
نہں کشف نانو کے کتنے احسانات ہیں مجھ پہ بچپن سے لے کر اب تک اگر ایک فیصلہ کر بھی دیا تو مجھے منظور ہے تاشہ نے کہتے ہوے بےدردی سے آنسوں پونچھے اور پھر کیا پتہ حنان واقعی میں مجھے پسند نہں کرتا ہو بس فرینڈ ہی سمھتا ہو تو اسکی خوشی میں میں کیسے آجاؤں
تاشہ تم بات کر کے دیکھو حنان سے کشف نے اسکا ہاتھ پکڑکر کہا
نہں اگر وہ پسند کرتا تو ضرور کہتا کچھ بس آج کے بعد اس ٹاپک پہ بات نہں ہو گی کشف تاشہ نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
جیسے تم کہو ۔۔۔۔۔۔۔کشف نے دکھ سے اسکی طرف دیکھا میں چاہوں گی ایک بار اور سوچ لو
نہں کشف سوچ لیا میں نے
اوکے ۔۔۔مختصر جواب دے کر کشف نے بک اٹھا لی اور تاش دوسری طرف منہ کر کے سو گیء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تربیت کی ہے تم دونؤں نے بچوں کی حشمت ملک ساجدہ بیگم اور جلال کی طرف دیکھتے ہوے دھاڑے بابا سائئں میں کروںگا بات دلاور سے مان جائے گا وہ
بابا سائں آپ تو جانتے ہو دلاور کتنا سنجیدہ طبیعت کا مالک ہے اسے شور شرابا اور اوٹ پٹانگ حرکتیں نہں پسند اور کشف تو
بس ساجدہ تم کہنا کیا چاہتی ہو یہی نہ کے میرا فیصلہ غلط ہے حشمت ملک دھاڑے
نن نہں بابا سائئں میں تو بس
ملک جلال نے چپ رہنے کا اشارہ کیا
کیا تم تو بولو ساجدہ
بچی ہے وہ سمجھ جاےءگی
اور دلاور بات کرنا بھول گیا بڑؤں سے آج تک تو اس نے اونچی آواز میں بات نہں کی تھی اور آج سمجھاؤاپنے لاڈلے کو کل ہی نکاح ہے اسکا بس یہ میرا فیصلہ ہے آجانا چاہیے وہ وقت پر
کک کل بابا پر
چپ رہو تم جلال سادگی سے نکاح کریں گے بس بعد میں ولیمہ کریں گے تو سب کو بتا دیں گے سمجھے تم
جج جی بابا سائئں
جاؤابھی تم اور بتا دینا اپنے لاڈلے کو کہتے ہوے جانے کا اشارہ کیا اورسر تکیہ کے ٹیک لگا کہ آنکھیں موند لیں وہ دونو چپ چاپ باہر چلے گئے
ملک جلال آپ سمجھتے کیا ہو میرے بچوں کو ساجدہ بیگم روم میں آکے ان پہ برس پڑی
ایک ادھر رو رہا ہے تاشہ پسند تھی مجھے بھی حنان کے لیے مگر نہں بابا سائئں نے جو کہہ دیا تو پتھر پہ لکیر ہو گیء نہ اور دوسری وہ آفت کی پڑیا میرے بیٹے کے گلے باندھ دی میرے بچوں کی خوشی کا خیال ہے کہ نہں
میں یہ نہں ہونے دوں گی
ساجدہ بیگم آپ کچھ بھول رہی ہیں بابا سائئں کا فیصلہ بدلا نہں جا سکتا کم ازکم مجھ سے امید نہ رکھنا اپنے لاڈلے کو سمجھاؤ نہں مانتے یا پھر تم نہں منا سکتی اور تمھں بھی اگر اتنا اعتراز ہےتو بے شک میکے جا سکتی ہو تم انتہائی ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوے وہ بیٹھ گئے
ساجدہ بیگم نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے انکی طرف دیکھا
داود امنہ بیگم نے انہے لیپ ٹاپ پہ جھکے دیکھا تو پاس بیٹھتے ہوے پکارا
ھمھم
انہوں نے مصروف سے انداز میں جواب دیا
ارے میری بات سنیں اسے رکھ دیں دو منٹ امنہ بیگم نے جھنجھلا کہ انکی طرف دیکھتے ہوے کہا
چلیں جی رکھ دیا اور کوئی حکم انہوں نے لیپ ٹاپ بند کر کے ایک طرف رکھا اور انکی طرف متوجہ ہوے
میں آج بہت خوش ہوں بابا سائئں کے فیصلے پہ مجھے دلی خوشی ملی ہے ازہان کے لیے تاشہ گھر کی بچی ہے دیکھی بھالی ہے اس سے اچھی بہو تو مل ہی نہں سکتی تھی اورکشف کے لیے دلاور مجھے تویقین ہی نہں ہو رہا اتنا اچھا دماد تو قسمت والوں کوملتا ہے دلاور جیسا دماد ملنا خوش قسمتی کی بات ہے انہوں نے اپنی خوشی کا کھل کر اظہارکیا
کہہ تو تم بلکل ٹھیک رہی ہو مگر انہوں نے بات آدھری چھوڑ دی
مگر کیا امنہ نے اضطراب سے پوچھا
دلاور کا رویہ آج دیکھا تھا نہ تم نے مجھے تو ڈر لگ رہا ہے اسکا پتہ تو ہے تمہے ایک بار جو بات کر دے پھر مشکل ہے کے وہ پیچھے ہٹ جائے بابا سائئں اور دلاور بلکل ایک جیسا مزاج رکھتے ہیں
کشف کے لیے جلد بازی تو نہں کر رہے ہم اور پھر ابھی بچی تو ہے وہ فائنل ایئر کے اگزام بھی ابھی نہں ہوے اسکے
تو کیا آپکو دلاور پسند نہں
ایسا نہں ہے آمنہ مجھے پسند ہے وہ میرا بھتیجا ہے وہ چراغ لے کر ڈھونڈيں گے تب بھی نہں ملنا اور کشف کے لیے اس سے بہتر کوئئ اور ہو ہی نہں سکتا مگر
کیا آپ میرا دل ہولا رہے ہو مگر کہہ کر
مجھے لگتا ہے بابا سائئں کو ایک بار دلاور سے پو چھ لینا چاہیے تھا
کیا پوچھنا جی بس مجھے تو دلاور جیسا دماد چاہیے آمنہ نے خوشی سے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا
انہوں نے سر جھٹک کر دبارہ لیپ ٹاپ اٹھا لیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹا تم کیا چاہتے ہو بتاؤمجھے کیا حال بنایا ہوا ہے صبح سے کچھ نہں کھایا تم نے ساجدہ نے گم سم بیٹھے حنان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
ماما حنان نے افسردگی سے انکی طرف دیکھا مجھے جینا اچھا نہں لگ رہا مجھے کچھ بھی اچھا نہں لگ رہا مجھے اپنا آپ نہں اچھا لگ رہا مجھے نہں جینا
ششش یہ کیا کہہ رہے ہو تم چپ ساجدہ نے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا
میں بات کروں گی بابا سائئں سے میرے بچوں کے لیے میں کچھ بھی کروں گی بیٹا تم پریشان نہں ہو
ماما ۔۔
۔۔you are best mom of tje world
کہتے ہوے انکے گلے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو ابھی فریش ہو کے آو باہر میں کھانا لگاتی ہوں انہوں نے پیار سے اسکا ماتھا چوما
جی ماما ابھی آیا کہتے ہوے واش روم میں گس گیا ساجدہ نے گہرا سانس لیا اور باہر کی طرف قدم بڑھاے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی دلاور بھائی حنان نے فون کان سے لگا کر کہا فائل وہ ازہان کے پاس تھی بھائی دوسری طرف کی بات سن کر اس نے سر ہلاتے ہوے کہا اوکے میں ابھی لے آتا ہوں بھائی آپ بھیج دو ڈرائیور کو میں دے دوں گا انکو کہتے ہوے ازہان کے کمرے کی طرف گیا
یار تجھے پتہ ہے مجھے تاشہ بچپن سے پسند تھی مگر مجھے لگتا تھا وہ حنان کو پسند کرتی ہے پر تھجے پتہ ہے یار ایسا نہں ہے وہ بس دوست تھے اور ہیں اور مجھے لگتا ہے حنان بھی اسے پسند نہں کرتا
ہاں یار صیح کہہ رہے ہو تم دوسری طرف کی بات سن کر اس نے کہا
یار میں تو بہت خوش ہوں یار یقین نہں ہو رہا کہ اتنی جلدی میری خواہش پوری ہو گئ
کہتے ہوے پیچھے مڑا میں بعد میں بات کرتا ہوں کہتے ہوے کال کٹ کی
ارے حنان تم کب آئے آؤ نہ بیٹھو کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
نن نہں وہ فائل چاہیے تھی دلاور بھائی کو
اچھا کہتے ہوے ٹیبل سے فائل اٹھا کر اسکے ہاتھ میں تھمائی یہ لو
ھمممھمم
حنان نے بے جان ہاتھوں سے فائل پکڑی اور باہر نکلا
خود کے بے جان جسم کو گھسیٹتے ہوے آنسوں کو قابو کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوے
۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو آپ ماما
دلاور نے بے یقینی سے انکی طرف دیکھا
کل تمہارا نکاح ہے بابا سائئں نے طے کر دیا ہے میں نے ہامی بھر لی میری تر بیت پہ انگلیاں اٹھائے کوئی مجھے پسند نہں بس بہت سن لیا میں نے اور نہں
کوئئ اور پسند ہے تو بتاؤمجھے انہوں نے دلاور کی طرف دیکھتے ہوے کہا
نہں کوئئ اور نہں پسند مجھے آرام سے جواب دیا گیا
تو انکار کی وجہ نہں بنتی مان لو بابا سائئں کا فیصلہ بیٹا جب ہے کوئئ نہں تو پھر کیوں کر انکار ساجدہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا
بابا سائئں سمجھتے کیا ہیں خود کو جو چاہئں گے کریں گے کیا ہم مجھے منظور نہں انتہائی ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوے سامنے پڑے صوفے پہ جا بیٹھا
دلاور هوش میں ہو تم کیا کہہ رہے ہو اندازہ ہے تمہں
کشف اچھی لڑکی ہے مان لو ساجدہ نے التجایا لہجے میں
کہا
no way mama
مجھے یہ شادی کسی قیمت پہ نہں کرنی دلاور نے سنجیدہ لہجے میں کہا
تو کیا چاہتے ہو تم میں اس عمر میں میکے جا کے بیٹھوں
یہ کیا کہہ رہی ہو آپ ماما
صیح سنا تم نے تم نہں مانے تو میں میکے چلی جاوں یہی کہا تمہارے بابا نے
بابا کا دماغ ٹھیک نہں ہے کیا
اس عمر میں آپکو میکے بھیج کر کوئئ بہت بڑا کام کرنا ہے کیا انہوں نے دھمکی دی بس آپکو نہں بھیجتے
ویسے میری مانیں تو کچھ دن چلی جائں نانا طرف ہو آئں
کہتے ہوے کار کی کیز اٹھائیں
دلاور اب کیا مجھے اس عمر میں رسوا ہونا لکھا ہے کیا میری تربیت پہ انگلی اٹھانا ہی رہ گیا تھا اب بس اگر میری بات نہں مانی تو مجھ مری کا منہ دیکھو گے روتے ہوے کہا
دلاور نے غصےسے مٹھیاں بند کی اور باہر نکل گیا
بیٹا کیا ہوا ہے ساجدہ نے فکر مندی سے حنان کو گلے لگاتے ہوے کہا
ماما مجھے نہں رہنا ادھر پلز ماما مجھے باہر بھیج دو بابا سے کہو مجھے ہائر سٹڈی کے لیے باہر جانا ہے میں اور نہں رہ سکتا یہاں پلز ماما ہاتھ جوڑتے ہوے انکے گھٹنوں میں بیٹھ گیا اور اپنا سر انکی گود میں رکھا
بیٹاتو پریشان نہ ہو اس حال میں میں دیکھ نہں سکتی میں تمہے بات کروں گی میں امنہ سے اور داود بھائی سے سب ٹھیک ہو جاے گا انہوں نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوے پیار سے کہا
نن نہں ماما پلز آپ ایسا نہں کرو گی
تو کیا تم مجھے چھوڑ کر چلے جاو گے انہوں نے دکھ سے کہا
کچھ عرصے کی بات ہے ماما آپ تو سمجھو مجھے واپس آجاؤں گا کچھ ٹائم تک ڈگری بھی ہو جاے گی
مجھے نہں پتہ جیسے کیوں کر جا رہا ہے تو
میں کروں گی بات سب سنبھال لوں گی
آنسو پونچھتے ہوے کہا
نہں ماما ایسا کچھ نہں کرو گی آپکو میری قسم
ازہان پسند کرتا ہے تاشہ کو اور ماما بچپن سے لے کر آج تک اگر مجھے کچھ پسند ہوتا تھا تو ازہان خوشی سے مجھے لا دیتا تھا ہر بار اس نے میری خوشی کا خیال کیا ہے آج وقت ہے کہ میں اسکی خوشی کا خیال رکھوں اور جو چیز آپکی قسمت میں نہ ہو وہ آپکو کبھی نہں مل سکتی اس کے لیے پھر چاہے زمین آسماں ایک کر دیں
ہم
رب کے فیصلے بدلے نہں جا سکتے
سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور میں کروں گا ماما
رب کی راضا میں راضی ہونا ہی زندگی کہلاتی ہے کرب سے کہتے ہوے ہاتھ مسلے
اس ٹاپک پہ دوبارہ بات نہں ہو گی ماما بس مجھے باہر جانا ہے پلز ماما دکھ سے آنکھیں میچتے ہوے کہا
ٹھیک ہے بیٹا جیسے تم کہو انہوں نے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوے کہا پتہ نہں کس کی نظر لگ گیء میرے بچوں کو فکرمندی سے کہتے ہوے سر پہ بوسہ دیا
آج ہی بات کروں گی میں تمہارے بابا سے منا لوں گی انکو اتنا تو کر ہی سکتی ہوں نہ تمہارے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا نکاح ہے کل کس سے پوچھ کر رکھا بابا دلاور غصےسے دھاڑا
میں نے باہر سے آتے حشمت ملک نے اسی غصےسے جواب دیا
واہ کیا بات ہے دادو طنز سے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا
منع کیا تھا میں نے نہ تو کیوں کر غصےسے دھاڑا
کوئئ اور لڑکی ہے تو بتاؤمجھے انہوں نے ٹھنڈے لہجے میں کہا
یہ وجہ نہں دادو
تو بس فیصلہ ہو گیا کشف کی خوشی عزیز ہے مجھے ورنہ ہم سے ہر رشتہ بھول جانا کوئی تعلق نہں رہےگا زندگی بھر
کشف کی خوشی انکی بات پہ دلاور ٹھٹھکا
اس کی وجہ سے آپ سب کو چھوڑ دوں میں ٹھنڈے لہجے میں کہتے ہوے انکی طرف دیکھا
ساری بات سمجھ آرہی ہے مجھے سر ہلاتے ہوےکہا افسوس ہو رہا مجھے تو ٹھیک ہے دادو
کل کیوں کر آج اور ابھی کریں گے یہ میرا فیصلہ ہے غصےسے انکی طرف دیکھتے ہوے کہا
اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے حشمت ملک نے کہتے ہوے جلال کی طرف دیکھا قاضی بلاؤ
پر بابا انہوں نے کچھ کہنا چاہا
سنا نہں کیا کہا
جی بہتر کہتے ہوے باہر نکل گئے
جبکہ آمنہ اور ساجدہ نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا
جبکہ دلاور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا باہر نکل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔۔تمہاری ہمت کیسے ہوںئ میرا نام لینے کی سامنے سے آتی کشف کو دیکھ کر دلاور دھاڑا
کشف کے قدم اپنی جگہ جم گئے مم میں وہ
دلاور چلتا ہوا اسکے پاس آیا اور سختی سے بازوؤں سے پکڑکر کھنچا اور دوسرے ہاتھ سے منہ کو پکڑ کر دوبوچا بہت شوق ہےتمہں مسز دلاور ملک بننے کا اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے کہا
درد سے کشف کی سسکی نکلی
تم جیسی لڑکی میری بیوی ہو ہی نہں سکتی میرے لیے تم ہاہاہا نانسنس کہتے ہوے دھکا دیا
کشف نیچے گر گی وہ چلتا ہوا اسکے پاس آیا اور گھٹنوں کے بل ساتھ بیٹھ گیا
تمہارے لیے زندگی ایک ڈرامہ ہے تمہاری اپنی تو تھی ڈرامہ میری بھی بنا دی ساتھ
بےدردی سےاسکے ہاتھ پہ پاؤں رکھا
درد کی شدت سے آنکھوں میں آنسوں آگئے
ابھی سے آنسوں ضائع مت کرو بہت ٹائم ہے اس کے لیے کہتے ہوے انگلی کے پوروں سے صاف کیے
آج سے عادت ڈال لو تم اس سب کی سنا تم نے وہ دھاڑا
کشف نے سہم کر آنکھیں بند کی
میرا بس چلتا تو تمہں جان سے مار دیتا میں مجھے دلاور ملک کو اسکی زبان سے ہٹنا پڑے گا تمہاری وجہ سے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے
زندگی میں ایک لڑکی اچھی لگی تھی مجھے اسے لانا چاہتا تھا میں مگر تمہاری وجہ سے
غصےسے اسکا منہ دپوچا
ایک من چاہی اور ان چاہی بیوی میں زمین وآسمان کا فرق ہوتا ہے یاد رکھنا تم نفرت سے کہتے ہوے
ایک جھٹکے سے اسے پیچھے کرتے ہوے کھڑا ہوا
جاو تیار ہو قاضی صاحب آنے والے ہیں
کشف نے خالی خالی نظروں سے دیکھا سنا نہں تم نے جاؤ وہ دھاڑا کشف نے ہاتھ سے رستے خون کی طرف دیکھا
یہ ۔
۔۔۔۔یہ تو کچھ بھی نہں ہے کشف دلاور ملک تم نے دلاور ملک کو رشتوں کی زنجیروں سے باندھا ہے چبا چبا کر کہا اب دیکھو ہوتا کیا ہے تمہارے ساتھ
بلیک میل کیا مجھے ملک دلاور کو بہت حساب باقی ہیں ابھی سردمہری سے کہتے ہوے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا تم نے نکاح کر لیا ملک دلاور تم مکر گئے اپنی زبان سے
سحر نے بے یقینی سے دیکھا
تت تم نے تو کہا تھا تم مجھے
جانتا ہوں سحر مجھے یاد ہے وہ دن اچھے سے
میں نے زبان دی تھی تمہں اور ابھی بھی قائم ہوں میں
مگر مجبور تھا میں
مجبوری ملک دلاور کو ہاہاہا طنز سے ہنستے ہوے اسکی طرف دیکھا
مرد کبھی مجبور نہں ہوتا دلاور اور وہ بھی تم جیسا مرد
بزنس ٹئکون واہ تالی بجاتے ہوے اسکی طرف دیکھا
رشتوں میں بندھا مرد بھی مجبور ہو سکتا ہے رشتوں کو چھوڑ نہں سکتا وہ بھی
اسکا بھی دل اور احساسات ہیں
بس دلاور ہاتھ اٹھا کر تنبہی کی
اب اور نہں میں سحر ملک تمہاری دوسری بیوی بنوں گی سوچا کیسے تم نے بولو تم سحر نے گریبان سے پکڑکر جھنجھوڑتے ہوے کہا
آنسوں بے اختیار بہہ رہے تھے آنکھوں سے
سحر تم سمجھنے کی کوششش کرو پلز
میں تمہارا ہی ہوں
no way
سحر ایوب کبھی ایک جیسی چیز نہں لیتی جو کسی اور کے پاس ہو اور شوہر
شئیر کر لے کبھی نہں
میرے کپڑے ایسے بنتے ہیں جو صرف میرے لیے بنتے بس ایک ہی پیس بنتا ہے اور تم ۔۔۔۔۔
ختم سب کچھ آج کے بعد بھول جانا کہتے ہوے باہر نکل گئی دلاور نے سر پکڑا درد کی شدید لہر اٹھی اسکے سر میں
واہ کیا بندہ ہے یار ایسا بندہ میں نے پوری یونی میں نہں دیکھا
6فٹ ١ انچ کا قد چوڑاسینہ سلکی بال ایک ہاتھ میں برینڈڈ واچ قیمتی سن گلاسز لگاے سب سے بےنیاز مردانہ وجاہت کا شہکار واہ کیا پرسنلیٹی ہے یار
کومل نے مسلسل بولتے ہوے اسکی طرف دیکھا جو نگواری سے اسکی باتیں سن رہی تھی
بس ہو گیا تمہارا یا کچھ باقی ہے
سحر نے نگواری سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
ایک بار دیکھ لو سحر تم بھی یقین کر لو گی
میں جا کے دیکھوں میں جسکو دیکھنے کے لیے لڑکے لائن میں لگے رہتے ہیں وہ دیکھنے کے لیے جاے
ایک بار دیکھو تو صیح
ھمھمھم کہتے ہوے باہر کی طرف دیکھا اور دیکھتی رہی
یہ تو صرف میرا ہے کہتے ہوے اسکی طرف گیء
ہاے میں سحرایوب ہوں ایک ادا سے کہتے ہوے ہاتھ آگے بڑھایا
مگر مقابل نے نگواری سے دیکھ کر نظرانداز کر دیا اور آگے بڑھ گیا
سحر نے غصےسے مٹھیاں بند کی
مجھے اگنور کیا مجھے تم سب سن لو اگر کسی نے اس سے بات کی جان سے مار دوں گی صرف میں بات کروں گی میرے علاوہ کوئئ نہں سمجھے تم لوگ غصےسے کہتے کلاس فیلوز کی طرف دیکھا
سب نے ہاں میں سر ہلایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یونی کے 4 سال پلک جھپکتے گزرے پتہ ہی نہں چلا
کب لڑائیاں دوستی میں بدل گیء
دونوں بہت اچھے دوست بن گئے
سحر کو دلاور سے محبت ہو گیء تو دوسری طرف دلاور بھی اس میں دلچسپی لینے لگا مگر یہ بات ملک جلال کو پتہ چلی تو انہوں نے سکندر کو ملک سے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا سحر سن کر بہت روئی اور خودکشی کی کوشش کی دلاور کو سن کر شاک لگا اور وجہ پوچھی تو سحر نے اپنے دل کی بات بتائی اور اظہار کیا
دلاورسے زبان لی کے واپس آ کر مجھ سے شادی کرو گے نہں تو میں مر جاو گی
دلاور کی بہت اچھی دوست تھی دوسری کوئئ لڑکی تھی نہں زندگی میں دلاور کو پسند بھی تھی تو دلاور نے وعدہ کیا کے واپس آکر شادی کروں گا
مگر دو سال باہررہنے کے بعد جب واپس آیا تو بزنس میں الجھ گیا اور سحر کا خیال ہی نکل گیا پھر اچانک سے اسے افس میں دیکھا بزنس rivel کے طور پہ تو پرانی یادیں تازہ ہو گیء
سحر نے وعدہ یاددلایا تو دلاور نے ملک حشمت سے بات کرنے کی یقین دہانی کروئی
مگر اس سے پہلے ہی یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو گیا تھا کہ سوچنے سمجھنے کا موقع نہں ملا
فون کی بیل پہ دلاور نے گہری سانس لے کر آنکھیں کھولیں اور ماضی سے واپس آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم میرے کمرے میں کیا کر رہی ہو تمہاری ہمت کیسے ہوںئ کشف کو اپنے کمرے میں دیکھ کر دلاور کو 440وولٹ کا جھٹکا لگا
مم میں ماما دادو اور چچی چچانے بولا تھا اب ادھر رہنے کو
بہت زبان چل رہی ہے تمہاری دھاڑتے ہوے اسکو دیکھا
مم میں نن نہں
تو مطلب اب تم میراروم شئر کرو گی دلاور ملک کا سوچ کیسے لیا تم نے آٹھو دفع ہو جاؤ ابھی کے ابھی میری نظروں سے اوجھل ہو جاؤتم دکھائی مت دینا ائندہ سمجھی تم
یہ کیا چل رہا ہے یہاں حشمت ملک غصےسے اندر داخل ہوے تمہاری آواز باہر تک جا رہی ہے ہوش میں ہو تم یہ تمہارے نکاح میں ہے تو اس روم میں ہی رہے گی یہ میرا فیصلہ ہے
تو ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوںغصےسے کہتے ہوے کار کی چابیاں اٹھا کر باہر چلا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٍ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت تیز ڈرائیونگ کرتے ہوے وہ کافی دیر بلا وجہ روڈ پہ گاڑی دوڑاتا رہا
ہائی وے پہ جیسے ہی اس نےگاڑی ٹرن کی کوئی بہت اچانک آگے آگیا دلاور نے فورن بریک لگائی مگر چیخ سن کر اس نے گھبرا کر سامنے دیکھا اور اس کے ہوش اڑ گے خون دیکھ کر گیٹ کھول کر باہر نکلا اور دوڑکے گیا کافی زیادہ بلڈ بہہ رہا تھا دلاور نے جھک کر اسے گود میں اٹھایا اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ لٹایا
خود ڈرائیونگ سیٹ پہ جا بیٹھا اور گاڑی ہسپتال کے رستے پہ ڈال دی
اسے اپنا ذہن موف ہوتا محسوس ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک جلال سمجھتا کیا ہے خود کو دلاور کو مجھ سے پہلے بھی دور کر دیا تھا دو سال مگر اب
اب تو حد ہو گئ ہے نکا ح کر دیا دلاور کا یہ میں برداشت نہں کر سکتی ڈیڈ
سحر نے غصےسے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا اب اور نہں نکاح کیا ہے نہ میں بھی دیکھتی ہوں کیسے بیوی بنتی ہےوہ صرف نکاح ہو جانے سے کوئئ بیوی نہں بن جاتی
دلاور میرا تھا میرا ہے اور رہے گا
کشف کو طلاق نہ دلوئی تو کہنا آپ ڈیڈ
ملک حشمت خود دلواے گا طلاق پھر آئے گا سکون میری زندگی میں سحر نے کہتے ہوے غصےسے مٹھی بند کی
ملک حشمت وہ کیوں کر دلواے گا طلاق ایوب نے اسکی طرف دیکھتے ہوے نہ سمجھی سے کہا
اسکی پوتی ہے وہ اور دلاور کیوں کر دے گا طلاق میری تو سمجھ میں کچھ نہں آرہا
ڈیڈ دلاور نہں دے گا ملک حشمت دلواے گا آپ بس دیکھتے جاؤ کرتی کیا ہوں میں
ابھی کچھ دیر میں ایک ایسی خبر ملے گی ملک فیملی کو کہ نہ سر پہ آسماں رہے گا نہ پیروں تلے زمین
دلاور ہو گا اکیلا بلکل پھر اسکا سہارا بنو گی میں
سحرایوب
سب کچھ میری مٹھی میں ہو گا سب کچھ دلاور بھی دیکھ لینا آپ ڈیڈ
میری تو سمجھ میں کچھ نہں آرہا سحر کچھ غلط مت کرنا کہ تمہے نقصان ہو
انہوں نے فکرمندی سے کہتے ہوے اسکا ہاتھ تھاما
آپ بلکل بے فکر رہو ڈیڈ
سب کچھ ٹھیک ہو گا جیسے میں نے سوچا ہے آپ بس دیکھتے جاؤ
ملک فیملی کے برے دن شروع ہو گئےاب سمجھو ہاہاہاہا ہنستے ہوے انکی طرف دیکھا
سنبھل کہ بیٹا
فکر مت کرئں آپ
ٹھیک ہے بیٹا مجھے بھروسہ ہے تم پہ کہتے ہوے انہوں نے ٹی وی کا ریموٹ اٹھایا
جبکہ سحر نے فون اٹھا کر نمبر ڈائل کیا اور باہر چلی گیء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی بلکل صیح سنا آپ نے میں بات کر رہی ہوں مشہور بزنس ٹیکون دلاور ملک کی
جی وہی دلاور ملک جو کسی تعارف کے محتاج نہں بزنس کی دنیا کے بے تاج بادشاہ
دلاور ملک ملک حشمت کے پوتے ملک جلال کے بیٹے اور داود کے بھتیجے
جو میڈیا سے دور رہتے ہیں اب وجہ سمجھ میں آئی بہت راز ہیںانکی زندگی کے تبھی دور رہے وہی دلاور
جی ہاں میں بات کر رہی ہوں دلاور ملک کی جو ایک لڑکی کو آدھ مری حالت میں گود میں اٹھاے داخل ہوے ہسپتال میں ظلم کی انتہا ہے یہ
جو ملک دلاور نے کی اس معصوم پہ
اور جب وہ مرنے والی ہوںئ تو ہسپتال دوڑے
لاونج میں بیٹھے تمام نفوس ایک دم اس طرف دیکھنے لگے جہاں نیوز ریپوٹر چیخ چیخ کر دلاور کے لیے بہت کچھ بتارہی تھی حشمت ملک نے چونک کر اخبار بند کیا اور ٹی وی کی طرف متوجہ ہوے باقی سب بھی دم سادھے سننے لگے ۔۔۔۔۔
تبھی تصویرئں دکھائی جانے لگی جنہیں دیکھ کر سب کے ہوش اڑ گئے
یہ ہیں عزت دار لوگ جن کے بڑے بڑے گھروں میں کیا کچھ ہوتا ہے کوئئ جان نہں پاتا
یہ معصوم لڑکی جسے باندی بنا کے رکھا گیا تھا دلاور نے
کیا کیا نہ کیا ہو گا ہم اور آپ سوچ بھی نہں سکتے وہ اور بھی بہت کچھ بول رہی تھی
بند کرو یہ ٹی وی حشمت ملک کے دھاڑنے پہ تاشہ نے فورن بند کی
بچو اپنے کمروں میں جاو انہوں نے تاشہ اور بت بنی کشف کی طرف دیکھتے ہوے کہا
دونوں چپ چاپ باہر چلی گئ
ساجدہ اور جلال میرے کمرے میں آو دونؤں انتہائی سرد لہجے میں کہتے ہوے حشمت ملک تیز تیز قدم اٹھاتے اندر چلے گئے ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر آپ اندر نہں جا سکتے باوردی گارڈ نے اسے روکنے کے لیے اسکے سامنے آ کے کہا
اگر تم چاہتے ہو میرے ہاتھوں تمہارا قتل نہ ہو تو سامنے سے ہٹ جاؤ
ملک دلاور کو رکنے کی غلطی دبارہ مت کرنا
گارڈ کو ہاتھ سے پیچھے کی طرف دھکا دے کر آندھی اور طوفان کی طرح اندر گیا
نیوز کاسٹر نیوز سنا کر باہر نکل رہی تھی دلاور کو دیکھ کر ٹھٹھکی
دلاور تیز تیز قدم اٹھاتا اس کے پاس گیا
اور اسے بازوں سے پکڑکر ایک زور دار طماچہ اسکے منہ پہ مارا
تم
ہمت کیسے ہوںئ تمہاری بنا تصديق کیے نیوز دینے کی
مجھ پہ اتنا بڑا الزام لگانے کی
ملک دلاور پہ میں کرتا ہوں ظلم تو تمہے دیکھاتا ہوں ظلم ہوتا کیا ہے
سر پلز چھوڑو اسے 4گارڈ آگے بڑھے
آگے مت آنا ورنہ
دلاور نے گن نکال کر اسکی کن پٹی پہ رکھی
کس کے کہنے پہ دی یہ نیوز بولو وہ دھاڑا
ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں شیر کے منہ میں ہاتھ ڈال دیا ہے
اب خیر مناؤ اپنی اور اپنے گھر والؤں کی ایک بیٹی ہے نہ تمہارای دلاور نے اسکا ہاتھ موڑتے ہوے کہا
نن نہں سر سوری سر ہمے پارسل ملا تھا اس میں آپکی تصويریں تھی اور یہ نیوز ایسے ہی دو کہا گیا تھا
بعد میں ایک اور پارسل بھی ملے گا ایسا
اس لیے یہ نیوز دی
ریپوٹر نے بری طرح روتے ہوے کہا
دیکھ لوں گا سب کو کہتے ہوے
دلاور نے ہوا میں فائر کیا سب لوگ سہم گئے ریپوٹر جو سامنے کھڑی تھی ا سے دھکا دیا اورغصےسے باہر نکل گیا
یہ سب کیا ہے جلال
ملک حشمت نے چلاتے ہوے انکی طرف دیکھا
یہ یہ تربیت کی آپ نے اپنی اولاد کی
بابا سائئں ایک بار آنے تو دیں دلاور کو میں پوچھوں گا جلال ملک نے سر جھکاے کہا گویا وہی مجرم ہوں
ایسا نہں ہے میرا بچہ
یہ کوئی اور ہی بات ہو گی ساجدہ نےروتے ہوے بھرائی آواز میں کہا
تم تو چپ رہو بہو تم تو یہی کہو گی نہ بچہ جو ہے تمہارا
ہماری محبت کا ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے دلاور
اس حد تک چلا جاے گا سوچا نہں تھا میں نے
انہوں نے تاسف سے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا
اپنے لاڈلے کو کہو آج کے بعد حشمت ولا میں قدم نہ رکھے سمجھی آپ
کیا پر بابا سائئں
کوئئ اگر مگر نہں جو کہہ دیا کہہ دینا
اور یہ میڈیا ناجانے بات کو کس حد تک لے جاے گا اب سنبھالنا تو پڑے گا یہ سب
ایسے چپ نہں ہو گا
اور اب تو بات پھیل چکی ہے
قابو کرنا ہو گا
تیاری کرو جلال ہم ہسپتال جا رہے ہیں کچھ دیر میں
جی بابا سائئں کہتے ہوے چپ چاپ باہر چلے گئے
ساجدہ بھی روتے ہوے پیچھے ہو لیں
_________________________________________________________________
مجھے سمجھ نہں آرہی آخر کون ہو سکتا ہے جو میرے خلاف یہ سب پروپیگنڈہ کر رہا ہے دلاور نے پرسوچ لہجے میں کہا
عاطف
جی سر پتہ کرو پارسل کہاں سے آیا تھا کوئی کلیو ملے مجھے دو جلدی جتنا جلد ممکن ہو دشمن کون ہے پتہ تو چلنا چاہیے نہ جس نے ملک دلاور کی پیٹ میں چھرا گھونپا ہے زندہ نہں چھوڑوں گا میں اسے
جی سر میں نے اپنے بندے اس کام پہ لگا دئیے ہیں جلد ہی پتہ چل جاے گا
جتنی جلدی ممکن ہو یہ کام ہو جانا چاہیے
دلاور نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں
_________________________________________________’______________________________
یہ سب ہو کیا رہا ہے داود میں تو اس وقت سے سوچ سوچ پاگل ہوئی جا رہی ہوں جو میڈیا پہ بار بار دیکھایا جا رہا ہے اسے جھٹلا تو نہں سکتے نہ وہ دلاور ہی ہے اور وہ لڑکی پتہ نہں کون ہے منہوس میری بيٹی کی زندگی میں آگئ امنہ بیگم نے آنسو روکتے ہوے بمشکل انکی طرف دیکھ کے کہا وہ خود کسی گہری سوچ میں تھے انکی بات سن کر انکی طرف بغور دیکھا
تم کہہ تو ٹھیک رہی ہو مگر ۔۔۔۔۔۔
کیا مگر داود اب کیا رہ گیا ہے مجھے لگتا ہے ہم نے غلط کیا ہمارا فیصلہ غلط تھا اپنی کشف کے لیے جلد بازی میں بہت بڑی غلطی کر دی ہم نے برباد کر دی اپنی بچی کی زندگی دلاور منع کر رہا تھا مگر
حشمت ملک کا فیصلہ کبھی بدلا ہے جو بدل پاتے
آپ ہوش میں ہو امنہ
ابا جان کو نام سے بلا رہی ہو آپ
کیا کروں میں میری بچی کب سے رو رہی ہے کیا حال بنا لیا اس نے اپنا کچھ کھایا بھی نہں صبح سے ابھی تاشہ سے کہا ہے چاے دے کے ٹیبلٹ دے دو اسے کچھ آرام مل جاے کیا پتہ
صیح کہہ رہی ہو امنہ بچے بڑے ہو گئے ہیں انکی ترجیحات تبدیل ہو گئ ہیں اب بچے نہں رہے سمجھدار ہیں اور دلاور ایسا کرے گا کچھ سوچا تک نہں جا سکتا پر کیا پتہ ۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ٹھنڈی سانس لی
وہ لڑکی پتہ نہں کون ہے فکرمندی سے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا چاے ہی بنا دو امنہ سر درد کر رہا ہے بہت
جی میں لاتی ہوں آنسوں پونچھتے ہوے باہر چلی گیء
__________________________
______’________
سر باہر میڈیا والے لوگ آئے ہیں گارڈ کے بتانے پہ ملک حشمت چونکے اور جلال اور داود ملک کی طرف دیکھا جو بلکل تیار تھے انکے ساتھ ہسپتال جانے کے لیے
اسی بات کا ڈر تھا مجھے دیکھو وہ بھی ہو گیا کیا جواب ديں گے ان لوگوں کو یہ تو بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں کوئئ بات ہو یا نہں انکا تو بزنس ہے یہ چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔کہتے ہوے باہر کی طرف بڑھے
کیا کہیں گے انکو بابا سائئں ملک جلال نے فکر مندی سے کہا جو بھی میں بولوں گا اپنے اور تم سب کے بھلے کے لیے بولوں گا سمجھے تم تمہارے بیٹے نے تو کہیں کا چھوڑا نہں ہمیں
____________________
_____________________________________________________
ملک حشمت کیا آپ بتانا پسند کریں گے کے کون ہے وہ لڑکی اور اس قدر ظلم کی انتہا اس پہ انسانیت سوز عمل نہں یہ اور اپکے خاندان کا اس میں ملوث ہونا اتنا بڑا گھرانہ اور اس قدر گھٹیا سوچ
او بیبی زبان سنبھال کے نہں تو ملک جلال غصےسے سے دھاڑے جلال آپ چپ رہیں پوچھنے دیں انکو
ملک حشمت نے تنبہی کرتے ہوے انکی طرف دیکھا میں جواب دے رہا ہوں نہ
جج جی بابا سائئں ملک جلال نے پیچھے ہوتے ہوے کہا
وہ بچی سیڑهیوں سے گر گیء تھی اور دلاور اسے ہسپتال لے کر گیا کوئی تھا نہں اور ایمبولینس کا انتظار نہں کیا جا سکتا تھا بچی کی جان کو خطرہ تھا
تو آپ کہہ رہے ہو آپکے گھر میں ہی گر گیء وہ بچی ریپوٹر نے سوال کرتے ہوے کہا
ہاں یہی کہہ رہا ہوں میں ملک حشمت نے کہتے ہوے باہر کی طرف قدم بڑھاے
جب پیچھے سے کسی نے سوال کیا
تو کیا رشتہ ہے اسکا آپ سے
میری ہونے والی باہو ہے وہ یہ ہمارے گھر کا معملہ ہے تم لوگ دور رہو تو بہتر ہے انتہائی ٹھنڈے لہجے میں جواب دے کر وہ چلے گئے
جبکہ ملک جلال اور ملک داود نے انکی بات پہ ایک دوسرے کی طرف دیکھا
سنو مہک
ھمھھمھم اٹا گوندتے ہوے مصروف سے انداز میں بنا دیکھے جواب دیا
یہ سبطین بھائی نہں دکھائی دئیے کافی دنو سے حنا کے کہنے پہ مہک نے چونک کے اسکی طرف دیکھا
تو ۔۔۔۔مجھے کیا پتہ کہاں ہے چڑکے جواب دیا
ارے میں تو بس حنا نے کچھ کہنا چاہا
کیا میں تو بس بولو مہک نے کھا جانے والے لہجے میں کہا
ویسے پوچھ رہی تھی میں تو برا سا منہ بنا کر جواب دیا چلتی ہوں میرا بیٹھنا اچھا نہں لگ رہا تھجے حنا کہتے ہوے کھڑی ہوںئ چل بیٹھ جا ڈرامہ کوئن میں کچھ نہں کہہ رہی اب مہک نے گھورتے ہوے کہا
ارے تیری وجہ سے نہں جا رہی ابا آنے والا ہے تو چلتی ہوں اويں ناراض ہو گا رات بھی ہونے والی ہے نہ کہتے ہوے چلی گئ مہک نے سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گیء __________________________________________________________________________________________________
ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی مہک نے مسکراتے ہوے دیکھا
یہ حنا کی بچی کے ڈرامے ہی نہں ختم ہوتے ابھی سکھاتی ہوں سبق بڑبڑاتے ہوے پانی کی بھری ہوئی بالٹی اٹھائی اور بھاگ کے دروازے پہ جا کے دروازہ کھول کر بالٹی الٹ دی مگر اگلے لمحہ حیرانی کا تھا
سامنے حنا نہں سبطین کھڑا تھا اور پورا بھیگ چکا تھا
مہک نے شرمندگی سے اس کی طرف دیکھا جو حیرت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا
آپ یہاں ۔۔۔۔۔۔۔وہ میں سمجھی حنا تو میں نے آپ پہ نہں
وہ آپ آئیے نہ میں صاف کر دیتی ہوں کہتے ہوے سامنے سے ہٹی
نہں میں شہر جا رہا تھا سوچا تمہارے ابا سے بات کرتا جاؤں اپنی اور تمہاری
دلچسپی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
مہک نے اسکی طرف حیرنگی سے دیکھا
کہاں ہے چچا
ابا تو گھر پہ نہں اور اماں بھی ساتھ والے گھر گئ ہیں مہک نے منہ دوسری طرف کر کے جواب دیا
اب میں 4 میہنے بعد لوٹ کے آؤں گا
انتظار کرنا میرا کہتے ہوے مہک کا ہاتھ تھاما
مہک اس نے گھمبر لہجے میں پکارا
جج جی گھبرا کر جواب دیا
تبھی سبطین نے اسکا ہاتھ تھاما اور دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چوڑیاں پہنانے لگا
تمہارے لیے لایا تھا یہ میں
جب واپس آوں گا تو رنگ لے کے آوں گا
مجھے بلکل ایسی ہی ملنا ہنستی مسکراتی سی تمہاری یہ آنکھیں جن میں شرارت بھری ہے نہ بہت خوبصورت ہیں سچی اسکے ناک پہ اپنی انگلی رکھی اور یہ جو تمہاری مغرور سی ناک ہے نہ یہ تو بس ۔۔۔۔۔۔
تبھی وہ چونکا
چچ چچی تو اسکا ہاتھ چھوڑ کر انکی طرف متوجہ ہوا جو اندر داخل ہو رہی تھی
کی حال اے پتر انہوں نے خوش دلی سے پوچھا شايد دیکھ نہں پائی تھیں وہ
یہ لڑکی کو کب عقل آے گی کھڑا کر رکھا ہے بیٹھنے کو بھی نہں کہا چل آ جا پتر بیٹھ کہتے ہوے چار پائی پہ چادر سیدھی کی
نہں چچی بس جا رہا تھا شہر سوچا چچے کو ملتا جاؤں
پہلے تو کبھی نہں آیا تو پتر کب شہر جاتا ہے کب آتا ہےکچھ پتہ نہں چلتا ہمیں تو شکوہ کیا
وہ بس چچی مصروفیت ہی بہت ہوتی ہے اس لیے
چل کوئئ گل نہں اب آنا جا نا جی چچی ضرور ابھی اجازت دیں ۔کہتے ہوے سر انکے سامنے جھکایا
فی امان اللہ سر پہ ہاتھ رکھ کے دعا دی
________________________________________________________________________________________________
آپ کو ہوش آگیا نرس کے پوچھنے پہ اس نے چونک کے دیکھا
مم میں کہاں ہوں یہ کون سی جگہ ہے ڈر کے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
آپ گھبراؤ نہں یہ کراچی کا سٹی ہسپتال ہے
اور ابھی آپکی حالت خطرے سے باہر ہے
انسپکٹر صاحب بیان لیں گے آپ سے دلاور کے لیے جو سچ ہو بتانا بنا ڈرے سمجھی
دی دلاور کون اس نے حیرت سے پوچھا
تبھی ایک انسپکٹر اندر داخل ہو ا
کیسی ہو آپ مس اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
جج جی ٹھیک ہوں میں اس نے گھبرا کے جواب دیا
تو جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا بلا جھجھک بتائیے آپ مجھے
ڈرنے کی ضرورت نہں آپکو
مہک نام بتایا ہے آپ نے اپنا نرس کو
جج جی
کیا آپکو باندھ کے رکھا گیا تھا کیوں کے آپکے ہاتھوں اور پاوں کو دیکھ کر لگتا ہے کے آپ کو باندھا گیا تھا ۔۔۔۔۔
کیا یہ سچ ہے انسپکٹر نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
جج جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب کیا ہے ماں
حنان نے اندر آتے ہی بیگ ایک طرف پھینکا
ساجدہ بیگم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا میرا بچہ تو کب آیا انہوں نے اسے گلے لگاتے ہوے کہا
ماں بس ابھی آیا ہوں بھائی کا سنا تھا اور پھر رپورٹر ہانی کی بھی کال آئی تھی یہاں کے حالات دیکھتے ہوے میں واپس آگیا ہوں یہ سب ہو کیا رہا ہے بھائی کے ساتھ کون ہے وہ لڑکی اور چاہتی کیا ہے اسکا مقصد کیا ہے حنان نے ایک ہی سانس میں بہت سے سوال کر ڈالے
پتہ نہں بیٹا ہو کیا رہا ہے
میرا بچہ تو میصیبتوں میں گھر گیا ہے کچھ سمجھ نہں آرہی انہوں نے روتے ہوے کہا
بس ماں آپ فکر مت کرو میں آگیا ہوں نہ اب سب ٹھیک ہو جاے گا
حنان نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگاتے ہوے کہا
بس تو وعدہ کر میرا بیٹا واپس لاے گا تو
__________________________________________________________|||______________________________________________
نام کیا ہے تمہارا انسپکٹر نے اندر آتے ہی پوچھا
مم۔مہک
تو آپکو باندھ کے رکھا گیا تھا انسپکٹر نے مہک کی طرف دیکھتے ہوے کہا
جج جی
تشدد کیا گیا آپ پہ اس حد تک انسپکٹر نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
جی ۔۔۔۔۔۔
دلاور نے یہ سب کیا انسپکٹر نے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
دد دلاور کک کون ۔۔۔۔۔۔۔
آپ گھبراؤ مت آپکو انصاف ملے گا کہتے ہوے باہر نکل گیا
____________________________________________________________________________________________
ہمت کیسے ہوئی تمہاری انسپکٹر مجھ پہ اتنا بڑا الزام لگانے کی دلاور نے دھاڑتے ہوے کہا
میرے پاس ثبوت ہے ملک دلاور جیتا جاگتا
کیا ثبوت ہے مجھے بتاؤ دلاور نے اسکی طرف دیکھتے ہوے غصےسے کہا
وہ
وہ لڑکی جانتا تک نہں میں اسے دماغ خراب ہو گیا ہے تمہارا انسپکٹر ہوش میں رہو ورنہ ۔۔۔۔۔ہاتھ اٹھا کر وارن کیا
اس لڑکی نے خود کہا ہے یہ
کیا ۔۔۔۔۔حیرت سے دلاور نے انسپکٹر کی طرف دیکھا
لگتا ہے چوٹ کی وجہ سے دماغ ہل گیا ہے اس کا
اسے تو میں دیکھتا ہوں کہتے ہوے غصےسے انسپکٹر کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا اور باہر نکل گیا۔۔۔
____________________________________________________________________________
میرے لیے تو ملک حشمت نے کہا تھا باہر کی لڑکی باہو نہں بن سکتی اور آج وہی ملک حشمت ہے مگر اصول بدل گئے
کسی اور کو باہو بنا رہے ہیں کھلے عام میڈیا پہ بول رہے اس لڑکی کا جس کا کچھ پتہ نہں کون ہے
سحرایوب یہ کبھی نہں بھولے گی
نہ بھولنے دے گی ملک حشمت سحرایوب کو ٹھکرا دیا تھا نہ کہ با ہر کی لڑکی باہو نہں بن سکتی آج کیا ہو گیا پھر غصےسے کہتے ہوے مہر کی طرف دیکھا
اور تم مہر تمہے کیا ہوا
تمہں تو پسند تھی نہ وہ لڑکی مہر سحر نےاسکی طرف دیکھا
ہاں تھی اور ہے مہر نے اسکی طرف دیکھا
تو پھر کیو چپ ہو تم جو کرنے کو کہا تھا کیا یا نہں سحر نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
ہاں مل جاے گا وہ خط ملک دلاور کو آج ہی اور پھو ل بھی مہر نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
good thats like my bro
سحرنے کہتے ہوے اسے گلے لگایا
اب آئے گااصلی مزہ ملک حشمت ہاہاہا ۔۔۔۔۔جب اپنی پوتی کے کارنامےسامنے آئیں گے جو اس نے کیے ہی نہں مگر دلاور کو کوئی نہں سمجھاپائے گا ملک حشمت آپ بھی نہں ۔۔۔۔۔۔۔۔
تم نے کس کے کہنے پہ یہ بیان دیا ہمت کیسے ہوئی تمہاری دلاور اس کے سرہانے کھڑا ہو کے دھاڑا
مہک نے ڈر کے اسکی طرف دیکھا
مم میں نے نن نہں
بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں میں تم جیسی لڑکیوں کو جو چند پیسوں کے لیے یہ سب کرتی ہیں
بولو کتنے پیسے لیے ہیں میری عزت پہ کیچڑ اچھالنے کے اسکے منہ کو سختی سے دپوچا
تبھی انسپکٹر روم میں داخل ہوا
سر چھوڑو اسے آپ حراساں نہں کر سکتے اس طرح سے وہ بھی پولیس کی موجودگی میں
ہٹو یہاں سے انسپکٹر نے دلاور کو ایک طرف ہٹاتے ہوے کہا
سر آپ کو جانا تو ہو گا تھانے قانونی قاروائی ہے رک نہں سکتی اور آپکو میں لے کر ہی جاؤں گا
دنیا میں کوئی جیل نہں بنی جو ملک حشمت کے خون کو قید کر سکے تمہاری ہمت کیسے ہوئئ میرے پوتے پہ الزام لگانے کی کاٹدار لہجے میں کہا
ملک حشمت جو اسی وقت روم میں داخل ہوے تھے اور انسپکٹر کی بات سن لی تھی غصےسے سے مٹھیاں بند کی تھیں
میرےپاس ثبوت ہے سر بنا ثبوت نہں لے جا رہا ہوں انسپکٹر نے احترام سے کہا
کیا ثبوت ہے یہ لڑکی ملک حشمت نے مہک کی طرف اشارہ کیا
اسکی دماغی حالت ٹھیک نہں ہے چاہو تو ڈکٹر سے پوچھ لو بعد میں بیان لینا جب دماغی حالت ٹھیک ہو سمجھے تم دفع ہو یہاں سے اب قانون سیکھائے گا اب تو مجھے ٹرانسفر لیٹر مل جائے گا تھجے آج ہی
نن نہں سر معافی دے دو گڑگڑاتے ہوے ہاتھ جوڑے میراگھر ہے یہاں بیوی بچے ہیں انکا اور کوئی نہں میرے علاوہ وہ اکیلے نہں رہ سکتے یہ غلطی نہں ہو گی دوبارہ
ٹھیک ہے ابھی تم جاؤ ملک جلال جو چپ چاپ سب سن رہے تھے اسے اٹھاتے ہوے کہا
جج جی ملک صاحب مہربانی بہت بہت کہتے ہوے باہر چلا گیا
__________________________________________________________________________________________________
اور تم دلاور مجھے تم سے یہ امید نہں تھے
ملک دلاور سے اس بزدلی کی امید کی بھی نہں جا سکتی داداو
یہ لڑکی میں نہں جانتا اسے پتہ نہں کون ہے کل رات ہی دیکھا تھا جب میری گاڑی کے سامنے آگئ تھی
اس بات کو میڈیا بہت ہوا دے رہا ہے تمھں پتہ ہے کچھ
جی جانتا ہوں تو کیا حل نکالا ہے پھر تم نے
کچھ سمجھ نہں آرہی کون یہ سب کر رہا ہے دلاور نے مایوسی سے کہتے ہوے انکی طرف دیکھا
اس کی وجہ سے ہوا یہ سب اسے تو جان سے مار دوں گا میں دلاور نے آگے بڑھ کر اسکا گلہ دبایا
پاگل ہو گئے ہو چھوڑو اسے مر جائے گی وہ
ملک جلال نے کہتے ہوے دلاور کو پیچھے کیا ___
_______________________________________________________________________________________________________
سائئں بہت بڑی خبر لایا ہوں آپکے واسطے وادھن نے ہاتھ جوڑتے ہوے جھک کے کہا
بابا ودھن بتا کیا خبر ہے جو تو صبح صبح آگیا
سائئں چھوری کا پتہ چل گیا ہے
کیا کہہ رہا ایک بار پھر بول تو زرا بابا
سائئں لڑکی کھتے ہے پتہ چل گیا
مہک کا پتہ چل گیا سائئں
اگر تیری بات غلط نکلی تو گدی سے زبان کھنچ لوں گا تیری میں
میرے فیصلے کے خلاف گئ وہ چھوری میرا فیصلہ نہں مانا سردار سنگرام کا فیصلہ 20 گاؤں کے لوگ مانتے ہیں
میرا فیصلہ نہں مانا
وہ بغاوت کر گئ
اسے لے کے آؤ زندہ باقی لوگوں کے لیے عبرت کا نشاں بنا دوں گا تاکہ کوئئ اور ہمت نہ کر پائے آج ایک نے کی کل دو کرینگے ایسی سزادوں گا کہ دنیا یاد رکھے گی
______________________________________________________________________________________________________
دیکھ لڑکی سچ بتا کس کے کہنے پہ آئی ہے تو کس نے بھیجا تھجے ملک دلاور نے غصےسے سے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
مم میں کسی کے کہنے پہ نہں
میں نہں جانتی آپکو سچ کہہ رہی ہوں صاحب میں نہں جانتی انکو انہوں نے تو مدد کی تھی میری احسان کیا مجھ پہ صاحب یقین کرو ملک حشمت کو کہتے ہوے اس نے ہاتھ جوڑے
بات بگڑ گیء ہے بہت زیادہ سنبھالنا ہو گی
آج ہی نکاح کرنا ہو گا
نکاح کس کا دادو
دلاور نے حیرنگی سے پوچھا
تمہارا اس لڑکی سے
کیا یہ کیا کہہ رہے ہو آپ یہ ممکن نہں
بس دلاور جو کہہ دیا میں نے کہہ دیا پہلے بات بہت بگڑی ہوںئ ہے تمہاری وجہ سے اب اور مت بگاڑو بعد میں دیکھ لیں گے یہ سب
ہاتھ اٹھا کر تنبھی کی
گھر لے کے آو لڑکی کو کہتے ہوے باہر نکل گئے ملک جلال بھی پیچھے چلےگئے
نکاح مہک نے زیر لب دہرایا
بابا وادھن کیسے پتہ چلا تھجےچھوری کا وہ زندہ بچ کیسے گئی
سائئں ٹیوی پہ دیکھا تھا اسے جب شہر تھا
یہ کیا کہہ رہا ہے تو وادھن ہوش میں ہے سنگرام نے غصےسے اسکی گردن سے پکڑا
سائئں میری اتنی مجال کے آپ سے غلط بیانی کروں میں نے خود دیکھا تھا اپنی ان گنہگار آنکھوں سے سائئں وادھن نے کانپتے ہوے ہاتھ جوڑے
کیا دیکھا تو نے بتا پوری بات چہودری سنگرام نے غصےسے اسکے منہ کو دپوچا
دیکھا سائئں لڑکے نے اسے اٹھایا ہوا تھا سائئں گگ گود میں
وادھن ۔۔۔۔تو ہوش میں ہے سنگرام نے دھاڑتے ہوے اسے لات ماری
وہ دور جا کے گرا
تیری جان لے لوں گا میں
سائئں میں سچ کہہ رہا ہوں سائئں وادھن نے کانپتے ہوے ہاتھ جوڑے
تیری بات غلط نکلی تو زندہ گاڑھ دوں گا تھجے سمجھا تو جج جی سائئں
بابا فقیرو ۔۔۔۔۔۔۔۔
جج جی سائئں پتہ کر کون ہے وہ چھورا جس نے ملک سنگرام کے گاوں کی چھوری پہ نظر ڈالی ہے آنکھیں نکال دے اسکی
زندہ نہں بچنا چاہیے او چھورا
نہ نہ تواس کو بھی ساتھ لے کے آ گاؤں
میں اس کو خود سزا دوں گا اسکی ہمت پہ انعام تو ملنا چاہیے
اور او چھوری بڑی شریف بنتی تھی نہ او چھوری کا تو او حال کر ساں گاؤں کا گاؤں یاد رکھ سی
عبرت کا نشان بنا دوں گا میں اسے
بھیج اپنے بندے شہر لے کے آئیں ان دونوں کو
اسے بھی لے جاو ساتھ مدد ملے گی
وادھن کی طرف اشارہ کیا
جج جی جو حکم سائئں
فقیرو نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا
جاؤ ابھی کے ابھی
جی سائئں
او تو گیا نہں ابھی جا دفع ہو غصےسے اسکی طرف دیکھا
فقیرو ہاتھ جوڑتے ہوے الٹے قدموں سے باہر کی طرف جانے لگا
____________________________________________________________\\_________________________________
کشف کدھر ہو گھر آتے ہی دلاور نے اونچی آواز سے غصےسے کشف کو آواز دی اسکی آواز سن کر آمنہ بیگم اور ساجدہ بیگم دونوں باہر آ گئں
کیا ہو دلاور ساجدہ بیگم نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا
کشف کہاں ہے بلاو اسے ماں غصےسے پھنکارتے ہوے کہا
پر بیٹا ہوا کیا ہےآمنہ بیگم نے پریشانی سے پوچھا
اپنی لاڈلی کو بلاؤ چچی
دلاور نے غصےسے بنا انکی طرف دیکھے کہا
کیا شور مچا رکھا ہے دلاور ملک حشمت نے اپنے کمرے سے نکلتے ہوے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
پوچھیں اپنی لاڈلی سے یونی پڑھنے جاتی ہے یا یہ گل کھلانے دلاور نے ہاتھ میں پکڑے ہوے بوکے نیچے پھینکے
یہ سب کرنے جاتی ہے وہ
آج کے بعد اسکا یونی جانا بند
یہ کیا بکواس ہے دلاور
ملک حشمت نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
بکواس نہں کر رہا میں ثبوت ہیں میرے پاس یہ لو لیٹر آپکی چاہیتی کے لیے آرہے دلاور ولا میں اسکا عاشق بھیج رہا ہے یہ سب
دلاور ۔۔۔۔اپنا منہ بند رکھو ملک حشمت نے دھاڑتے ہوے کہا
کس کس کا منہ بند کرواؤ گے آپ ملک حشمت
دلاور نے کہتے ہوے غصےسے سے وہ سارے ليٹر نیچے پھینکے
یہ یہ کیا کہہ رہا ہے دلاور بھابھی صدمے سے آمنہ نے ساجدہ کی طرف دیکھا اور گر گیء
آمنہ ساجدہ بیگم کی آواز پہ سب نے اس طرف دیکھا
آمنہ بیگم گر کر بہوش ہو گیء تھیں
چچی دلاور نے دوڑکر انکو اٹھایا اور صوفے پہ لیٹایا
تاشہ ڈاکٹر کو فون کرو دلاور نے چلاتے ہوے بت بنی تاشہ کو کہا
__________________________________________________________________________________________________
یہ سب کیا کشف ملک حشمت نے دھاڑتے ہوے اسکی طرف دیکھا جو کٹہرے میں سر جھکاے مجرم کی طرح کھڑی تھی
لاونج میں سب نفوس دم سادھے سکتے کی حالت میں تھے
اتنا گھٹیا باتیں لکھی ہیں اس خط میں کے
توبہ توبہ ۔۔استغفار اب رونا کس بات کا جو کرنا تھا تم نے کیا اب چپ۔۔۔۔۔
یہ سب کوئئ اور کرتا تو زندہ گاڑھ دیتا میں مگر یہاں میرا ہی خون دوکھا دے گیا مجھے
کیا ہے یہ سب کون ہے وہ نامراد بولو ملک حشمت غصےسے سے دھاڑے
کشف بے تحاشا روے جا رہی تھی
مم مجھے نن نہں ۔۔۔۔۔
چپ ایک لفظ مت بولنا تم یہ صلہ دیا تم نے میرے پیار کا یہ ۔۔۔۔
ملک حشمت نے دھاڑتے ہوے کہا
کل سے تمہارا گھر سے نکلنا بند قدم باہر نہں رکھو گی تم سمجھی تم
پپ پر میرے پپ پپر
سنا نہں کیا کہا ہے میں نے
جج جی دادو
آج کے بعد مجھے داداو مت کہنا
دفع ہو جاؤمیری نظروں کےسامنے سے اور ہو سکے تو دبارہ میرے سامنے مت آنا
لے کے جاؤ کوئی اسے نہں تو مر جاے گی آج یہ میرے ہاتھوں سے کہتے ہوے خود ہی باہر نکل گئے
یہ سب سننے سے پہلے میں مر کیوں نہ گیء یہ دن دیکھنا رہ گیا تھا اب
کشف مر کیوں نہں گیء
کسی سے نظر ملانے کے قابل نہں چھوڑامجھے اس لڑکی نے آمنہ بیگم نے روتے ہوے کہا
بس کرو بھابھی بچی ہے وہ غلطی ہو گیء تو کیا اب جان لیں گی اسکی ساجدہ بیگم نے تسلی دیتے ہوے کہا
مر جاتی تو بہتر تھا یہ دن نہ دیکھنا پڑتا
دلاور نے آج پہلی بار اس لہجے میں بات کی مجھ سے صرف اسکی وجہ سے
اور بابا کے ساتھ بھی بتمیزی کی نام سے پکارا پہلی بار
صرف میری بیٹی کی وجہ سے
کک کشف بب بیٹا تم کب آئی آؤنہ بیٹا ساجدہ بیگم نے دروازے میں گم سم کھڑی کشف کو دیکھ کر کہا
میری وجہ سے ماما کک کو مجھ پہ بھروسہ ہی نہں مجھ پہ اپنی بب بیٹی کک کشف پہ
روتے ہوے باہر بھا گی
کشف کیا ہوا
اندر آتے ہوے
ازہان کی نظر روتی ہوئی کشف پہ پڑی
مگر اسکی بات سنے بنا وہ بھاگتے ہوے اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر دیا
ازہان بھی پیچھے بھاگا
_________________________________________________________________________________
/______/_____/_____<_______/
لڑکی کو ہسپتال سے لے آیا ہوں بابا جلال کے کہنے پہ ملک حشمت گہری سو چ سے چونکے
ھمھمھمھم
تاشہ سے کہو اسے تیار کرے اور ہاں قاضی کوبلا لو
آج ہی نکاح ہوح جاے تو بہتر ہے
یہ مسلہ جتنا جلد سلجھے گا بہتر ہے ورنہ میڈیا کی وجہ سے پہلے بہت نقصان ہو چکا ہے
ہمارے شئیر کی مارکیٹ والیو بہت ڈون ہو گئی ہے
اب اور کب تک یہ سب چلے گا اور دلاور کہاں ہے اسے بلا لو
جج جی بہتر بابا سائئں جلال نے کہتے ہوے فون سے نمبر ملانا شروع کر دیا جبکہ
ملک حشمت نے اپنی آنکھیں بند کر کے ہاتھ کو سر پہ رکھا
/______\\\\____________________________________________________________________//_____________________
سحر کا تھا دلاور سحر کا ہے اور رہے گا
دلاور کو کبھی کسی کا نہں ہونے دوں گی
اگر ملک حشمت تم بیچ میں آئے تو پھر کیا کر گزروں گی مجھے خود نہں پتہ
دلاور میں جان ہے میری اور اسے پانے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے سحر
اب تو ضد ہے میری یہ دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے دلاور کو مجھ سے نہں چھین سکتی
تبھی فون کی بیل ہوئی سحرنےفون کان سے لگایا
ہاہاہا ہا گڈ
تم تو بڑے کام کے نکلے اتنی جلدی کام ہو گیا
پارٹی ہاں ہاں کیوں نہں ہو گی بہت بڑی پارٹی ہو گی
دوسری طرف کی بات سن کر سحرنے کہتے ہوے فون بند کیا
-________/________/_____________/__________________/_____________/______/__________
سفید سادہ سے شلوار سوٹ میں مہک کسی پری سے کم نہں لگ رہی تھی
کتنی خوبصورت ہو تم سچ میں اس سادگی میں بھی تاشہ سراہے بنا نہ رہ سکی
چپ چاپ سی مہک نے اسکی طرف دیکھا
مم میں یہ نکاح نن نہں کر سکتی مہک نے ہاتھ مسلتے ہوے گھبراے ہوے لہجے میں کہا
کیا یہ کیا کہہ رہی ہو تم مہک دبارہ زبان سے یہ الفاظ مت نکالنا نہں تو پتہ نہں کیا ہو جائے گا گھر کے حالات ویسے بھی کچھ سمجھ نہں آرہے
مگر مم میں یہ نکاح نہں کر سکتی یہ نن نہں ہو سکتا
اندر آتے ہوئے دلاور نے اسکی بات سنی اور اسکا غصہ ساتویں آسمان پہ جا پہنچا
وہ غصےسے دروازے کو لات مار کر اندر داخل ہوا اور مہک کی کان پٹی پہ پسٹل رکھی اور دوسرے ہاتھ سے اسکا منہ دپوچا
فساد کی جڑہی تم ہو یہ سارے مسئلےتمہاری وجہ سے
جان سے مار ڈالوں گا تمہیں
یہ جو بکواس کر رہی ہو تم تمہاری اتنی ہمت پہلے تمہاری وجہ سے بہت مسائل پیدا ہو گئے ہیں چلو میں بھی دیکھتا ہوں کیسے نہں کرتی تم نکاح
اورہاں کسی خوش فہمی میں مت رہنا تم
مجھے کوئی شوق نہں تم سے شادی کرنےکا یا تمہں بیوی بنانے کا سمجھی تم
کہں کا نہں چھوڑا مجھے
میڈیا پہ مجھے تمہارے ساتھ دکھا رہے بار بار ہيڈ لائن آرہی میری امیج خراب کردی میرا غرور
مجھے سب واپس چاہیے کسی بھی قیمت پہ سمجھی تم دلاور نےکہتے ہوے اسے دھکا دیا
وہ دور جا گری
مہک نے ڈبڈبائی آنکھوں سے دلاور کی طرف دیکھا
مگر اسکی طرف بنا دیکھے دلاور نے تاشہ کی طرف دیکھا
تاشہ لےکے آؤ اسے کہتے ہوے باہر نکل گیا
جج جی بھائی ۔۔۔۔
سائئں ہم نے ہر طرف اسے ڈھونڈا ابھی تک اسکی کوئی خبر نہں ملی سائئں
پتہ نہں کس کونے میں جا کے چھپی ہے وہ
سائئں اپنے آدمی ہر طرف ڈھونڈ رہے ہیں جلد خوش خبری مل جائے گی فقیرو کے کہنے پہ
سنگرام نے پاؤں داباتے ہوے منچھی کو لات مار کے پرے کیا اور اسکی طرف آیا
بابا فقیرو
توجانتا ہے نہ کے مجھے ناکام لوگوں سے نفرت ہے اور بابا ناکامی کی سزا تو جانتا ہے نہ کے کیا ہے
سنگرام نے اسے گردن سے دپوچا
جج جی سائئں مم میں جانتا ہوں سس سائئں کانپتے ہوے ہاتھ باندھے
ہاہاہاہا ڈر گیا تو بابا ہاہاہا فقیرو تو ڈر گیا تو
خاص ہے میرا تھجے تو نہں ماروں گا نہ اب
پر ناکام لوٹے تو ۔۔۔۔۔انگلی اٹھاکر اسکی طرف دیکھا
پتہ ہے نہ تھجے تو کا مطلب
کیا سمجھا تو ۔۔۔۔سمجھ گیا نہ
جج جی سائئں
ہاہاہا ہا جا بابا جا تو اب سائئں کو آرام کرنا ہے
یہ یہ غلط ہے یہ نن نہں ہو سکتا مہک نے کانپتے ہوے کہا
اپنی زندگی چاہتی ہے تو جو ہو رہا ہےہونے دے
مم میں نن نہں کر سکتی نکاح دد دلاور نے مجھ پہ احسان کیا مجھے بچا کر میں مانتی ہوں مگر جو ہو رہا ہے وہ صیح نہں مم میں کسی اور کے
بس لڑکی پہلے بہت مسائل تمہاری وجہ سے
یہ نام کا نکاح ہے بس دکھاوے کا جب کہو گی آزاد کر دے گا دلاور تمہیں بس بات ختم ہاتھ اٹھا کر تنبہی کی
احسان کیا نہ مانتی ہو
تو جس زلت میں تم نے ڈالا اس سے تم ہی نکال سکتی ہو
ملک حشمت نے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا سن لڑکی ابھی جو ہو رہا ہونے دے روک مت یہ سب ہو جائے سب ٹھیک ہو جائے اس کے بعد تم جو کہو گی جیسا کہو گی
مجھے منظور ہو گا ابھی بس ہاں بول دو
کاغذی کاروائی سمجھو بس
باقی میں سنبھال لوں گا
ہمارے خاندان کی برسوں کی بنائی گئ عزت اک پل میں مٹی میں مل گئ
ہمے نکال لو اس سے بس
احسان مانتی ہو نہ تو یہ بدلہ سمجھ کر چکا دو
تمہارے ساتھ کچھ غلط نہں ہو گا ملک حشمت کی زبان ہے یہ تمہاری مرضی کے بنا کچھ نہں ہو گا میری درخواست ہے یہ تم سے ہو سکے تو حالات کو سمجھتے ہوے تم یہ فیصلہ ہمارے حق میں کرو
بیٹا ملک حشمت نے کہتے ہوے اس کی طرف دیکھا باہر میڈیا کے لوگ ہیں جنکو نئی تصاویر چاہیے تمہارے اور دلاور کے نکاح کی انکو ثبوت چاہیے بس یہ ہو جائے سب سنبھال لوں گا قاضی آرہا ہے یہ کاروائی کاغذی ہے بس تبھی قاضی اندر آیا اور
مہک نے سر ہلا دیا
جیتی رہو انہوں نے کہتے ہوے سر پہ ہاتھ رکھا اور باہر چلے گئے قاضی کو لے کر
/________________/__________/_______/________________/____________/_______/_____________/__/_/_______/_/_/______/_/_/__
کشف رونا بند کرو میں ہوں تمہارے ساتھ تمہارا بھائی ہے تمہارے ساتھ ازہان نے روتی ہوئئ کشف کو گلے لگایا
بھائی مم میں نے کک کچھ نن نہں کیا
مجھے پتہ ہے گڑیا میری بہن کچھ ایسا کر ہی نر سکتی مجھے یقین ہے تم پہ میری جان تمہے بتانے کی ضرورت ہی نہں یہ کے تم نے کچھ نہں کیا
ازہان نے اس کا سر تھپتھپاتے ہوے کہا
ماما ان کو انکو بھی یقین نہں مجھ پہ
انکی تو بیٹی ہوں میں ان سے بہتر کون جانتا ہے مجھے مم مگر انکو مجھ پہ یقین ہی نہں وہ کک کہتی ہیں مم میں
بس بس کشف ماما غصے میں ہیں بس
جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو وہ آجائیں گی آپکے پاس
کشو جان رونا بند کرو آپ دیکھو ساری دنیا آپکے خلاف ہو جائے یہ یاد رکھنا تمہارا بھائی ہے تمہارے ساتھ تمہاری ہر مشکل میں تمہاری ڈھال بن کر رہوں گا میں
بھبھ بھائی کشف نے روتے ہوئے ازہان کی طرف دیکھا
بس اب مت رونا ازہان نے کہتے ہوے اسے خود سے الگ کیا
مضبوط بننا ہو گا تمہے اب اور دلاور کی طرف سے دل برا مت کرنا یہ نکاح مجبوری ہے اور حالات کو دیکھو تو ٹھیک ہے
دوسرا تم پہ سوال اٹھایا یہ حق تھا اسکا
سوچنے کی بات یہ ہے کے دلاور ولا کیوں کر بھیجے اس نے مطلب صاف ہے تمہیں نکالنا چاہتا ہے دلاور کی زندگی سے ورنہ خط حشمت ولا آتے دلاور ولا نہں
اور وہ خط پڑھا ہے میں نے اتنی گھٹیا باتیں لکھی ہیں کے میں بتا نہں سکتا
وہ دلاور نے پڑھے تو غصہ فطری ہے اسکا
اب بس پتہ لگانا ہے کون کر رہا ہے یہ سب
مجھے تمہاری بھی مدد چاہیے ہو گی
گارڈ کو تاشہ ہینڈل کر لے گی دلاور کے گارڈ کو میں بات کروں گا
مہک نی مہک جا کواڑ بند کر کےآ اماں کے کہنے پہ وہ سبطین کے پیچھے گیء دروازے تک
سنو جاتےہوئے وہ پلٹا
مہک نےسوالیہ نظروںسے اسکی طرف دیکھا
واپس آکے چچا سے بات کروں گا میں شادی کی اور اگلی بار شادی کر کے جاؤں گا سبطین نے دھیمے لہجے میں کہا
اسکی بات سن کر مہک کے چہرے پہ کئ رنگوں کا خوبصورت احساس ابھرے اسنے شرما کر دوسری طرف دیکھا
سبطین نے دلچسپی سے اسکے چہرے کی طرف دیکھا جو گلنار ہو رہا تھا
کیا لاوں تمہارے لیے شہر سے اس کے پوچھنے پہ سر نفی میں ہلایا
بتاؤ نہ مہک پیار سے پوچھا گیا
میرے لیے چنی لانا کہتے ہوئے بھاگ گئ
سبطین نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھا اور سر جھٹک کر آگے چلا گیا
___________________________________________________________________________________________________________________
بریکنگ نیوز ملک دلاور شادی کے بندھن میں بندھ گئے
جی بلکل بہت سے دلوں کی دھڑکن بزنس ٹیکون ملک دلاور اب بیچلر نہں رہے بہت سی لڑکیوں کے دلوں کی دھڑکن
یہ سحر کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ گیا
یہ یہ کک کیسے ہو سکتا ہے یہ نن نہں ہو سکتا
دد دلاور نے شادی کر لی اس لڑکی سے
یہ کیا ہو گیا
یہ نہں ہو سکتا
کیا سوچا تھا کیا ہو گیا
اس لڑکی کو بہو کیسے بنا لیا ملک حشمت نے جسکا کوئئ اتہ پتہ نہں آگے پیچھے کا
وہ وہ ملک فیملی کی بہو
نہں نہں
سحر نے اپنا دونو ہاتھوں سے سر تھاما
میں یہ نہں ہونے دوں گی
دلاور میرا ہے بس اور کسی کا نہں ہونے دوں گی میں کہتے ہوئے سر تھاما
_______________________________________________________________________________________________________________________________
مہک سن تو رک جا اب کیا کر رہی ہے تو حنا نے پیچھے بھاگتے ہوئے ہانپتے ہوئے کہا
رک جا آگے مت جا وڈیرے کی زمینیں ہیں وہ حنا نے وہیں رک کر کہا
حنا پکڑ مجھے رک کیؤں گئی ہو بھاگتے ہوئے پیچھے دیکھا
تبھی وہ کسی سے زور سے ٹکرائی
او مہک اندھی ہے کیا تو دیکھ نہں سکتی سائئں سے ٹکرا گئی توکسی نے اسے کھینچتے ہوئے زور سے تھپڑ مارا
بابا فقیرو کوئی بات نہں بابا کوئی بات نہں
سنگرام نے کہتے ہوئے مہک کی طرف دیکھا
سس سائئں معافی سائئں مہک نے ہاتھ جوڑئے
کوئی بات نہں بابا کوئی بات نہں
سنگرام نے اسکے بندھے ہوئے ہاتھ تھامے
مہک ڈر سے کانپنے لگی
ہاہاہا سنگرام نے ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھا
سس سائئں معافی دے دیں سائئں بھاگ کے حنا آئی
اورہاتھ جوڑے
مم معافی سائئں
ہاہاہا ہنستے ہوئے ہاتھ چھوڑئے
حنا نے مہک کا ہاتھ تھاما اور دونؤں بھاگتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہو گئیں
بابا فقیرو
جج جی سائئں فقیرو نے ہاتھ جوڑ کہ کہا
یہ کون ہے بابا
یہ چھوری بڑی کٹیلی ہے بابا
سائئں اپنے فاروق کی بیٹی ہے آپ کے خادم کی سائئں
کیا حکم ہے سائئں
ہاہاہا بابا سوچتے ہیں کچھ
جو حکم سائئں
اچھا اچھا بابا چلو دیر ہو رہی ہے
پھر بات ہو گی اس موضوع پہ سنگرام نے کہتے ہوئے آگے قدم بڑھا دئیے
بھابھی ادھر بیٹھو آپ اب یہ آپ کا کمرہ ہے تاشہ کے کہنے پہ مہک چپ چاپ بیٹھ گئ
تبھی دھماکے سے دروازہ کھلا اور دلاور اندر آیا
تیزتیز چلتے ہوئے اس کے پاس اور اسے گسیٹھتے ہوئے بیڈ سے نیچے اتارا
مہک سنبھل نہ پائی اور منہ کے بل نیچے گری درد سے سسکی نکلی اس کے منہ سے
یہ یہ تکلیف نہں ہوا اس کے آگے جو تم نے دی ہے مجھے میرا سب کچھ چھین لیا لوگوں نے انگلیاں اٹھائئں مجھ پہ تمہاری وجہ سے چبا چبا کر کہا
نکاح ہونے کا یہ مطلب نہں کو تم میری بیوی بن گئی ہو سمجھی تم دلاور نے مہک کو کلائی سے پکڑکر کر کھڑا کیا
تم نے جو کچھ میرے ساتھ کیا چن چن کے بدلہ لوں گا تم سے میں میری عزت تمہاری وجہ
صرف تمہاری وجہ سے لوگوں نے سوال اٹھائے مجھ پہ کلائی پہ سختی بڑھ گئ مہک کی دبی دبی چیخ نکل گئی
انگلیاں بازوں میں دنھستی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں
پہلے سے موجود جلا ہوئے زخم سے خون فورے کی طرح بہنے لگا
دلاور نے چونک کے دیکھا یہ خون
یہ کیا ہوا یہ زخم یہ تو جلا ہوا ہے اس حد تک کس طرح جلا یہ فکرمندی سے بازوں کو دیکھتے ہوئے کہا
یہاں بیٹھو تم میں بینڈیج کر دیتا ہوں دونوں شانوں سے پکڑکر بیڈ پہ بیٹھایا
مہک نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا جو ڈرال سے فرسٹ ایڈ باکس نکال رہا تھا
کچھ دیر پہلے والے دلاور سے بلکل الگ
ادھر دیکھاؤ مجھے فکرمندی سے زخم پہ انٹمنٹ لگا کے بینڈیج کرنے لگا
مہک اسکی کئر دیکھ کے حیران رہ گئ جو بہت زیادہ اپنائیت سے اسکی بینڈیج کر رہا تھا
کچھ دیر پہلے والے غصے کا نام ونشان بھی نہں تھا
__________________________________________________________________________________________________
کشف تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو بولا کرو یار پہلے کی طرح تاشہ نے اسکے پاس بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے کہا
کشف نے خالی خالی نظروں سے اسکی طرف دیکھا
ایسےکیا دیکھ رہی ہو تم ہم سب وہی ہیں تمہارے اپنے
پہلے کی طرح ہنسا بولا کرو یار
میں پہلے جیسی نہں رہی اب تاشہ
میں قابل بھروسہ نہں اب کسی اور کے لیے تو ہوں ہی نہں اپنے لیے بھی نہں رہی میں اب
مما کو لگتے ہے میں نے دوکھا دیا انکو
داداو کو بھی اور بابا اس دن سے انکو دیکھا تک نہں میں نے اور دلاور اسکو بھی لگتا ہے کے ۔۔۔۔
چھت کو گھورتے ہوئے بے تاثر لہجے میں کہا
بس کر دو کشف مت سوچو کچھ بھی سب ٹھیک ہو جائے گا دیکھنا تم ہاں بس تھوڑا وقت لگے گا تاشہ نے کشف کو گلے لگاتے ہوئے کہا
تمہں پتہ ہے بچپن سے لے کر آج تک میں ہمیشہ دلاور کے پاس جانا چاہتی تھی مگر وہ ڈنٹ دیتا تھا
اسکی چیزوں کو جب بھی ہاتھ لگاتی تھی وہ مارتا تھا
اس کے کمرے کے دروازے پہ گھنٹوں کھڑی رہتی تھی
اس امید پہ کے موقع ملے اور اندر جا کے دیکھوں جب کبھی دلاور گہری نیند میں ہوتا تھا چپکے سے اندر جاتی تھی اور بیڈ کے ساتھ نیچے بیٹھ جاتی تھی
اور جب وہ اٹھتا تھا تو پتہ ہے کیا میں اگر ہاتھ نیچے رکھ کے بیٹھی ہوتی تھی نہ تو میرے ہاتھ پہ اپنا پاوں رکھ دیتا تھا میرا ہاتھ زخمی ہو جاتا تھا مگر اس کا غصہ نہں اترتا تھا کے اسکے کمرے میں کیوںکر آئی میں مجھے دھکا دیتا تھا اور کہتا تھا دفع ہو جاؤ
اور یہ میری ضد بنتی گئ جو بڑے ہونے پہ بھی نہں گیء بلکہ اور زیاہ ہو گئ
اور اپنی ضد کو پورا بھی کر لیا میں نے
مگر میں بھول گئ تھی کے رشتے زبردستی کے نہں ہوتے ہم زبردستی رشتے بنا تو لیتے ہیں اپنی مرضی دوسرں پہ تھونپ تو دیتے ہیں مگر انکو رشتے نبھانے پہ مجبور نہں کر سکتے انکے دل میں اپنا پیار نہں جگا سکتے انکو مجبور نہں کر سکتے کے وہ وہی پیار اپنے دل میں پیدا کریں جو ہمارے دل میں انکے لیے ہے
بلکہ اپنی اسی ضد کی وجہ سے ہم اپنا احترام بھی کھو دیتے ہیں جوانکے دل میں پہلے ہوتا ہے ہمارئے لیے
ہم وہ دوستی کھودیتے ہیں جو بہت قیمتی ہوتی ہے صرف اور صرف اپنی بے جا ضد کی وجہ سے
کشف نے خالی خالی نظروں سے تاشہ کو دیکھتے ہوئے کہا دیکھتے ہوئے کہا
میں سمجھ گئی ہوں میری بے جا ضد غلط تھی
اور اسکی وجہ سے آج یہ نوبت آگئ کے میں نے خود کو ہی کھو دیا آج میرا میں ہی کھوگیا میرا کردار میری زات سب کچھ بے نام ہو گیا ہے
مجھے آج پتہ چلے دنیا میں ہم ہر چیز کے بنا رہ سکتے ہیں مگر بےعتباری میں نہں
اپنے کردار کے بنا نہں
شک میں نہں رہا جا سکتا
سب سے بڑھ کر اپنے قریبی رشتوں کے بنا نہں رہا جا سکتا
جلد بازی کے اور ضد کے فیصلے کبھی ٹھیک نہں ہو سکتے
صبر کا گھونٹ دوسروں کو پلانا جتنا آسان ہوتا ہے نا خود پینا اتنا مشکل ہوتا
جب خود پیا تو پتہ چلا ایک ایک گھونٹ کتنا گراں گزرتا ہے
بس کرو کشف شششش چپ یہ ٹیبلٹ کھا لو نیند آجائے گی بلاوجہ مت سوچو یہ سب تاشہ نے کہتے ہوئے اسے ٹیبلٹ دی اور پانی کا گلاس
کشف نے چپ چاپ کھا لو اور کروٹ دوسری طرف بدل لی
______________________________________
_____________________________________________________
یہ نہں ہو سکتا سحرایوب کبھی نہں ہاری اور نہ ہار مانے گی سب سے چھین لوں گی میں دلاور کو
کسی کا نہں ہونے دوں گی میں
سحرنے نے غصےسے واس کو ٹیبل سے اٹھا کر زمین پہ پھینکا
اسی وقت مہر اندر داخل ہوا
کیا ہوا سحر کیوں اس قدر غصے میں ہو
اس کے پاس آکر اسکا ہاتھ تھاما اور اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا
جان سے مار دوں گی میں اس دو ٹکے کی لڑکی کو اسکی اتنی ہمت کے وہ میری جگہ لے
نہں چھوڑوں گی میں اسے غصےسے پھنکارتے ہوئے کہا
ریلکس رہو سحر ریلکس
یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس میں غلطی بھی تمہاری اپنی ہے
کیا ضرورت تھی اتنا بڑا پروپیگنڈہ کھڑا کرنے کی
اب بھگتو پھر
کسی سے کچھ پوچھنا تو گوارا ہی نہں کرتی نہ آپ
یہ سب کرنے سے پہلے ایک بار پوچھ لیتی آپ تو آج یہ سب نہ ہوتا
اور اب چپ رہو کچھ دن معملہ ٹھنڈا ہونے دو اور مت بگاڑو سمجھی تم انگلی اٹھا کر تنبہھی کی
پر بھائی
چپ سحر مجھ پہ چھووڑ دو یہ سب
میں سنبھال لوں گا
داروازے پہ ناک ہوا توازہان نے لیپ ٹاپ سے نظریں ہٹا کر دیکھا
ارے کشف تم آؤ ازہان نے لیپ ٹاپ بند کر کے ایک طرف کیا اور کشف کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
کشف چپ چاپ چلتے ہوئے ازہان کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئ
ازہان نے اپنی کھوجتی ہوئی نظریں اس کے چہرے پہ مرکوز کرتے ہوا پوچھا
کیا ہوا کشو پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
مجھے آپکی ہیلپ چاہیے
انگلیوں کو مروڑتے ہوئے نظریں دروازے پہ مرکوز رکھتے ہوا کشف نے دھیمے لہجے میں کہا
ہاں بولو کیا بات ہے
ازہان نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
میں انگلینڈ جانا چاہتی ہوں کچھ عرصے کے لیے کشف نے انتہائی ٹھنڈے لہجے میں کہا
کیا یہ کیا کہہ رہی ہو ازہان نے حیرنگی سے اسکی طرف دیکھا
پلز بھائی مجھے جانا ہے آپ مدد کرو نہ میری
میرے لیےیہی بہترہے
ویسے بھی میرا یہاں ہونے نہ ہونے سے کوئئ فرق نہں پڑتا اب تو
میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے
اس ازیت کو سہنا مشکل ہے میرے لیے
تو مطلب تم اس سب سے بھاگنا چاہتی ہو جو کچھ ہوا سچ ثابت کرنا چاہتی ہو
یہاں رہ کر فیس کرو کشف ازہان نے اسکا ہاتھ پکڑکر سمجھاتے ہوئےکہا
آپ ہو نہ
یہ سب میں آپ پہ اورتاشہ پہ چھوڑ رہی ہوں
تاشہ نے بھی یہی مشورہ دیا مجھے ماحول تبدیل کرنے کا کچھ عرصہ
ویسے بھی
اب اور نہں رہ سکتی میں صرف کچھ عرصے کی بات ہے ایک سال کی فائنل ایئر کے ایگزام واپس آکے دوں گی میں
یہ سال رہ گیا نہ میرا فریز کروادیا میں نے سمسٹر
ٹکٹ بھی کروا لی میں نے آج رات کی ہے آپ بس ماما بابا کو سنبھال لینا پلز کشف نے پرامید نظروں سے اسکی طرف دیکھا
تو تم اپنا فیصلہ نہں بدلو گی ازہان نے پوچھتے ہوئے اسکی طرف دیکھا
نہں دو ٹوک جواب دیا گیا ٹھیک ہے جیسے تمہے ٹھیک لگے میں تمہارے ساتھ ہوں
تھنک یو سو مچ کشف نے کہتے ہوئے ازہان کو گلے لگایا__
______________________________________________________________________________________________________________
یہ ہاتھ کس نے جلایا مہک سچ بتاؤمجھے
دلاور نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
وہ انہوں نے جب کوئی بات نہں مانتی تھی تو وہ لوگ مارتے تھے
کس وجہ سے میرے خلاف کام نہ کرنے پہ ان لوگوں نے تم پہ اس قدر تشدد کیا انکو تو میں دیکھ لوں گا
تم فکر مت کرو میری وجہ سے یہ سب ہوا نہ ٹھیک بھی میں کروں گا
وہ میں کہنا چاہتی تھی کہ
بس اب تم چپ رہو گی جو کروں گا میں کروں گا تم اپنا سامان پیک کرو ہم لوگ دلاور ولا جا رہے ہیں میں بھی تو دیکھوں کون لوگ ہیں جنکے ذہن اور دماغ میں اس قدر زہر بھرا ہے میرے لیے کہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں وہ لوگ
آپ میری پوری بات تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھ گیا ہوں تمہیں اب کچھ کہنے کی ضرورت نہں دلاور نے بیچ میں ہی بات کاٹی
میں کہہ رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہک نے کچھ کہنا چاہا
بس مہک دلاور نے ہاتھ کے اشارے سے تنبہی کی
چلو میرے ساتھ تم کہتے ہوئے اسکا ہاتھ پکڑا
میری بات توسن لیں آپ ایک بار
مہک نے دبا دبا احتجاج کیا
بعد میں بتا دینا ابھی چلو میرے ساتھ
مگر میں کک کیسے مہک نے گھبرا کر دیکھا
تم پریشان مت ہو تم سیو ہو
وہ لوگ تمہے دوبارہ نہ نقصان پہنچائئں اس لیے لے کے جا رہا ہوں خطرہ ابھی ٹلا نہں ہے تم سمجھ رہی ہو نا
مہک جو دلاور کے ساتھ گھسیٹتے ہوئے چل رہی تھی
بات سمجھ کے سر ہلایا اور چپ چاپ چلنے لگی ساتھ
_______________________________________________________________________________________________
حنان مجھے تم سے بات کرنی ہے تاشہ کے کہنے پہ حنان نے ٹیوی بند کر دیا اور اسکی طرف دیکھے بنا بولا ہاں بولو تاشہ میں سن رہا ہوں
تم سن رہے ہو مجھے تاشہ نے چباتے ہوئے لہجے میں کہا
ہاں سن رہا ہوں
میری طرف دیکھے بنا سنو گے تم تمےپتہ ہے نہ مجھے ایسے مزہ نہں آتا آرام سے کہتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گئ
تمہے کیا لگتا ہے حنان
تم اس طرح بھاگ جاؤگے اور مجھے پتہ بھی نہں چلے گا کہ وجہ کیا تھی
کک کیا حنان نے گھبرا کر اسکی طرف دیکھا
میرے نکاح میں میرا بیسٹ فرینڈ ہی نہں ہو گا
نکاح سے پہلے گھر سے نہں ملک سے بھاگ جائے گا تو کیا میں نکاح کر لوں گی
میں نے بھی کہہ دیا نانو سے جب تک حنان نہں آئے گا تب تک نکاح نہں ہو گا
مطلب کیا ہے تمہارا حنان نے حیرت سے اسکی طرف دیکھا
اب تم آگئے ہو
ہاں تو
اب سوچ رہی ہوں لگے ہاتھوں میں بھی کر لوں نکاح
آ اچھااا ۔۔کہتے ہوئے حنان نے ماتھے پہ آئے ہوئے پسینے کے قطرے صاف کیے
تاشہ نے اسکی طرف دیکھا ہاں نکاح کا جوڑا تم چلنا لینے میرے ساتھ اور کوئی بہانہ نہں سمجھے تم
تاشہ نے مزے سے کہتے ہوئے اسکی حالت کو انجوے کیا
مم میں تو بزی ہوں تاشہ
تت تم ازہان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔
وہ بزی ہے اس نے کہا اپنے فرینڈ کو لے جانا
اب تم ہی چلو گے بس سمجھے کہتے ہوئے اسکی طرف دیکھا
ویسے حنان یہ ac میں پسینہ کیوں کر آرہا ہے سمجھ رہی ہوں میں تاشہ نے معنی خیز لہجے میں کہا
کک کیا نن نہں کچھ نہں حنان نے گھبرا کے دوسری طرف دیکھا
سب پتہ ہے مجھے سمجھے تم کہتے ہوئے جانے کے لیے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے جاتا دیکھ کے حنان نے لمبی سانس لی_
____________________________________________________________________________________________________________
وہ تینوں کشف کو
See of
کرنے آئے تھے تاشہ نے بمشکل آنسوں روکے کشف کو گلے لگاتے ہوئے
جبکے ازہان نے اسکے ماتھے پہ پیار دیا اور جلد آنے کا کہا
یہ کیا کشف تم ہیل پہن کے آئی ہو سفر میں کہیں گر گئ تو
حنان نے ماحول کی سوگواریت دیکھتے ہوئے کہا
سب نے چونک کے کشف کے پاوں کی طرف دیکھا
ہاں واقعی تمہے ہیل نہں پہننی چاہیے تھی
تاشہ نے دیکھتے ہوئے کہا کافی ہائی ہیل ہے یہ تو
ہاں تو میرا پہلا سفرہےکیوں نہ پہنتی کشف نے تنک کے جواب دیا
تبھی انوسمنٹ ہونے لگی سب کو بائے کہہ کے چلی گئ
_________________________________________________________
کشف اپنی سیٹ پہ جا کے بیٹھی اور ناول نکال کر مطالعہ شروع کیے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ساتھ ایک ہینڈ سم سا نوجوان آکے بیٹھا
ہائے میں شاہ میر ہوں خوش دلی سے ہاتھ آگے بڑھایا
کشف نے نگواری سے دیکھتے ہوئے دبارہ پڑھنا شروع کر دیا
اس نے اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے سر جھٹکا اور ہاتھ پیچھے کیا
ویسےخوش قسمت دن ہے میرا آج تو واہ کیا خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی ہے میرے ساتھ کہتے ہوئے کشف کی طرف دیکھا
جس نے سنی ان سنی کر دی اسکی بات
ویسے کافی لمبا سفرہے بات کر کے آسانی سے کٹ جائے گا
کہتے ہوئے اسکی طرف دیکھا جہاں کوئی دلچسپی نہں تھی
ہم لوگ وڈیرے ہیں یہ اتنا بڑاگاؤں ہے ہمارا تم آنا دیکھاؤں گا ضرور
تم چپ رہو گے کشف نے تنگ آکے کہا اور دوبارہ پڑھنا شروع کر دیا
اس ناول میں ایسا کیا ہے جو آپ پڑھ رہی ہو جھانکتے ہوئے دیکھا
او اچھا یہ پڑھ رہی ہو فضول ترین ہے یہ تو ہیرو دوکھا دیتا ہے اور لاسٹ پہ ہیروئن اسے مار دیتی ہے سکون سے بتایا گیا
کشف نے غصےسے اسکی طرف دیکھا
اس نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کے پیج پھاڑ کے اسکے منہ میں ٹھونسا اور غصےسے اسکی طرف دیکھا
اتنا ڈھونڈنے کے بعد ناول ملا مجھے اور تم نے سارا مزہ خراب کر دیا ایک منٹ میں اب چپ رہنا سارا راستہ سمجھے
وہ جو ابھی تک سکتےکی حالت میں تھا کشف کی حرکت پہ چپ چاپ منہ سے کاغذ نکالے اور سر چیر کی پشت سے ٹیکا کے آنکھیں بند کر لیں
یہ کیا کہہ رہے ہو تم ازہان ہوش میں ہو ملک داود نے دھاڑتے ہوئے کہا
جبکہ آمنہ بیگم نے بھی حیرنگی سے ازہان کی طرف دیکھا
کس سے پوچھ کے گئ وہ
اتنی ہمت آگئ اس میں کےاب ماں باپ کو بنا بتائے سات سمندر پار چلی گیء وہ ملک داود نے غصےسے مٹھیاں بھینچیں
کس سے پوچھتی وہ بابا اور کیسے ہوچھتی
جب آپ دونوں اس سے بات ہی نہں کر رہےتھے تو کیا کرتی یہاں رہ کر وہ
جب اپنے ہی رشتے آپکو بے اعتبار کر دیں
اپنے ہی ماں باپ کو اپنی اولاد کےکردار کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ثبوتوں کی ضرورت ہو تو کیا کہا جائے
اورپھر وہاں رہنے کا فائدہ بھی کیا
جب گھر میں رہ کر بھی کسی ایک انسان کو تنہا کر دیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے پھر وہ گھر رہے یا باہر
ازہان نے کرب سے کہا
اور ماں آپ
آپ سے بہتر کون جانتا ہے کشف کو مگر آپ نے پوچھا تک نہں ایک بار بھی نہں بس اسے مجرم قرار دے دیا ایک بار پوچھ تو لیتی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہں
اولاد سے غلطی ہو بھی جائے تو درگزر کرنا چاہیے سمجھانا چاہیے قطع تعلق نہں کرنا چاہیے وہ بھی کسی کے پھول بھیجنے اور خط بھیجنے کی وجہ سے
آج کے لڑکے تو راہ چلتی لڑکی کی طرف بھی خط پھینک دیتے ہیں تو کیا قصوروار لڑکی ہوںئ
جو اسکا نام تک نہں جانتی ہوتی
باقی سوری مما بابا بنا پوچھے بھیج دیا اسے مجھے بھی یہی ٹھیک لگا
یہ یہ ٹھیک کہہ رہا ہے داود ہم نے اچھا نہں کیا میری بچی آمنہ نے روتے ہوےکہا
جبکہ ملک داود بھی چپ تھے اور گہری سوچ میں تھے
وہ اب ٹھیک ہے مما ازہان نے اپنے بازوں انکے گرد لیپٹتے ہوے کہا
میرا دوست ہے وہاں بات ہو گئی میری کشف اسکے گھر رہے گی اکیلی نہں ہے وہاں
چلیں آپ بے فکر ہو کر آرام کرواب فکر کی بات نہں میں چلتا ہوں کہتے ہوئے باہر چلا گیا
____________________________________________________________________________________________________________________
تمہارا سامان نہں تھا ڈرائیو کرتے ہوئے دلاور نے ساتھ بیٹھی مہک سے سنجیدگی سے پوچھا
نن نہں
ہاں ہو گا بھی کیسے جن حالات میں تم ملی تھی اور یہ سب ہوا تھا تو ۔۔۔
خیر کوئی بات نہں پہلے مال چلتے ہیں تم کپڑے لے لینا اپنے
پھر گھر چلیں گے
دلاور نے کہتے ہوئے اسکی طرف دیکھا جو بلکل چپ تھی اور اپنےہاتھوں کو دیکھے جارہی تھی اسکی نظروں کے تعاقب میں دلاور نے بھی اسکے گود میں رکھے ہاتھوں کو دیکھا گورے گورے ہاتھ بھرے بھرےسے لمبی انگلیاں اور ہاتھوں پہ مندمل ہوتے ہوئے زخم
کتنے خوبصورت ہاتھ ہیں نہ تمہارے دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے ہاتھ پکڑا
مہک نے چونک کے اسکی طرف دیکھا
نظروں کی تپش سے فورن دوسری طرف منہ پھیرا اور ہاتھ چھوڑانے کی ناکام سی کوشش کی
دلاور نےاسکی ہاتھ چھوڑانے کی حرکت کو بغور دیکھا اور اپنی ہنسی دباتے ہوئے ہاتھ چھوڑا
مہک نے بہت تیزی سے ہاتھ پیچھے کھینچا
ہاہاہا دلاور نے بے اختیار قہقہ لگایا
تمہے لگتا ہے تم نے چھوڑا لیا ہاتھ اسکی طرف دلچسپی سے دیکھتے ہوئے سوال کیا
نن نہں مہک نے گھبرا کے کہا
میں نے خود چھوڑا ہے
اور ایک بات یاد رکھنا تم
ملک دلاور سے کچھ بھی اسکی مرضی کے بنا نہ کروایا جا سکتا ہے نہ وہ کرتا ہے
ملک دلاور پہ کسی کی مرضی نہں چلتی سوائے اسکے اپنی سمجھی تم مہک کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا اور
ایک جھٹکے سے گاڑی روکی
جج جی سمجھ گیء مہک نے گھبرا کر کہا
چلو اترو اپنے ڈریسز لے لو
کہتے ہوے نیچے اترا اور آگے بڑھ کر کیز شوفر کو دیں
مہک بھی چپ چاپ نیچے اتری اور پیچھے چلنے لگی حیرنگی سے بلڈنگ کو دیکھتے ہوئے۔۔۔
______________________________________________________________
______________
کیا کروں میں ناول بھی نہں پڑھ سکتی اب منہوس نے پوری سٹوری بتا دی مجھے کشف نے بوریت سے ادھر ادھر دیکھا
اس بیچارے کے ساتھ ایسا نہں کرنا چاہیے تھا سب کے سامنے غلط کیا کشف تم نے غلط کیا خود کوڈانٹتے ہوئے کہا
سوری کر لیتی ہوں بیچارا ساری زندگی برے الفاظ میں یاد کرے گا
بڑبڑاتے ہوے اسکی طرف متوجہ ہوئی
ایم سوری کشف نے ساتھ بیٹھے شاہ میر کو دھیمے لہجے میں کہا
میں نے غلط کیا مجھے ایسے نہں کرنا چاہیے تھا شرمندگی سے اسکی طرف دیکھا
جو کافی دیر سے چپ چاپ دوسری طرف دیکھ رہا تھا
کیا کہا شاہ میر نے خوش دلی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
بہرے ہو کیا ایک بار میں سنائی نہں دیتا تمہے کشف نے چڑکے کہا
میں کہہ رہی تھی سوری کان میں بہت زور سے چلا کر کہا کے ساتھ بیٹھے سبھی لوگ متوجہ ہو گئے
جبکہ شاہ میر نے اف کہتے ہوے کان پہ ہاتھ رکھے
میم پلز آہستہ آپکی وجہ سے باقی مسافر ڈسٹرب ہو رہے ائرہوسٹس نے آکر تنبہی کی
ایم سوری میری گرل فرینڈ تھوڑی پاگل ہے شاہمیر نے شائستگی سے کہتے ہوے ایکسکیوز کیا
جبکہ اسکی بات سن کر کشف نے کھا جانے والی نظروں سے
اسکی طرف دیکھا
ائرہوسٹس سر ہلاتے ہوے واپس مڑ گئ گویا بات سمجھ آگئی ہو اسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے
اپنی گرل فرينڈ کہنے کی کشف نے غصےسے اسکی گردن دبائی ایک بار پھر سب لوگ ان دونوں کی طرف متوجہ ہوے
سب کو اپنی طرف دیکھتا دیکھ کشف نے ہاتھ ہٹاے اور خجل سے ہو کے دوسری طرف منہ کر لیا ۔۔۔
_______________________________________
___________
____________________
چھوڑو مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آواز سن کر دلاور ایک دم رکا اور پیچھے مڑ کے دیکھا
وہاں کامنظر دیکھ کر اسکے پاؤ کے تلے سے زمین نکل گئ
تین لوگ مہک کو گھسیٹتے ہوے لے جا رہے تھے
دلاور دوڑ کر آیا
چھوڑو اسے ہمت کیسے ہوئی تمہاری اس طرح اسے لے جانے کی
دلاور نے پاس آکر انکی طرف دیکھتے ہوئے غصےسے کہا
دیکھو بابا تم پیچھے ہٹ جاؤ کیوں مرنا چاہتے ہو تم
اس معملے سے دور رہو گے تو زندہ رہو گے ایک آدمی نے سمجھاتے ہوے کہا ورنہ کیا
اس سے پہلے کےوہ بات پوری کرتا دلاور نے ایک گھونسہ اسکے منہ پہ جڑ دیا وہ دور جاکے گرا
دلاور نے جھک کر نیچےپڑا ہوا راڈ اٹھایا اور دوسرے کے سر میں مارا
تیسرا آدمی دوڑ کر آیا اسے لات ماری وہ دور جا گرا
اتنی دیر میں پارکنگ میں موجود گارڈ اور اردگردکے لوگ شور سن کر جمع ہو گئے
تو وہ لوگ بھاگ جانے میں کامیاب ہو گئے
دلاور نے جھک کر سہارادیا اورمہک کو اٹھایا جو گر گئی تھی اور ٹانگ پہ چوٹ آئی تھی
چلو اسے سہارے دے کر گاڑی تک لایا اور اندر بیٹھایا
خود ڈرائیونگ سیٹ پہ آکے بیٹھا اور چپ چاپ گاڑی آگے بڑھا دی
_____________________________|__________
________/______/______/__________/__________________
تمہارا پہلا سفر ہے نہ یہ مجھے لگ رہا ہے شاہ میر نے اسے مخاطب کیا
کیا نہں بلکل نہں میں تو ہمیشہ جہاز پہ سفر کرتی ہوں
اپنے ملک میں بھی کراچی سے لاہور جانا ہو یا اسلام آباد
تنک کے جواب دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگی
اچھا سوری میں جسٹ مذاق کر رہا تھا شاہ میر نے اسکی طرف دیکھا جو منہ پھولا کر بیٹھی تھی
فرینڈ شاہ میر نے ہاتھ آگے بڑھایا
کشف نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا سو سوری میں چپ نہں بیٹھ سکتا یار سچ میں
اوکے سوری نہ اب موڈ ٹھیک کرو
چپ کر کے بیٹھے رہو نہں تو مار ڈالوں گی تمہے میں سمجھے تم
اوکے کہتے ہوے شاہ میر نے آگے بیٹھی انٹی سے گفتگو شروع کر دی
کشف نے منہ پہ میگزین رکھ کے سر چیر کی پشت سے ٹکایا اور آنکھیں موند لیں
تھوڑی دیر بعد لینڈنگ کی انوسمنٹ ہونے لگی اور جہاز لینڈ ہونے لگا کشف نے ڈر کے آنکھیں بند کی
ہیلو جی میرا ہاتھ چھوڑ گی آپ جہاز لینڈ ہو چکا ہے
اور مجھے جانا ہے آئی تھنک تم نے بھی جانا ہو گا
شاہ میر نے شرارت سے اسکی طرف دیکھتے ہوے کہا
تمہارا ہاتھ کشف نے چونک کے دیکھا
واقعی اس نے ساتھ بیٹھے شاہ میر کا ہاتھ کس کے پکڑا ہوا تھا
مم میں ڈرتی تو نہں وہ بس پتہ نہں کیسے
ججی مجھے پتہ ہے اور یہ آپکا پہلا سفر بھی نہں تھا نہ
شرارت سے کہتے ہوے ہنسی دبائی
کشف نے جھٹکے سے ہاتھ چھوڑا دفع ہو بتمیز کہتے ہوے اپنا سامان لینے لگی
شاہ میر کندھے اچکتا ہوا چلا گیا
شکر ہے جان چھوٹی میری کشف نے اونچی آواز میں کہا
شاہ میر نے سن کے ییچھے دیکھا اور مسکرا کے ہاتھ ہلایا
تھوڑی دیر بعد وہ باہر نکلی تو سامنے ہی شاہ میر کھڑا دکھا
یہ ایسے جان نہں چھوڑے گا کچھ کرنا ہو گا کہتے ہوے وہ پلٹی سامنے ہی اسے انٹی دکھائی دی جو کیلا کھا رہی تھی
کشف نے مسکرا کر انکی طرف دیکھا
انٹی نے بھی سمائل دی
انٹی ایک کیلا ملے گا کشف نے انکی طرف دیکھ کر امید سے کہا
ہاں ہاں بیٹا کیوں نہں کہتے ہوئے
کیلا دیا شکریہ انٹی کہتے ہوے کشف کیلا کھانے لگی
اور چھلکا سامنے پھینکا جہاں شاہ میر کھڑا تھا اور کسی سے بات کر رہا تھا
اب یہ گرے گا اور میں ہنسوں گی ہاہاہا کشف نے کہتے ہوے ہنسی دبائی
تبھی پیچھے ہوتے ہوے اسکے جوتے کی ہیل بیگ کے ہک میں پھنس گئی
اف یہ کیا یا اللہ
اسکو نکالتے ہوے ہیل ہی ٹوٹ گئ
یہ کیا اب کیا کروں میں کشف نے جھنجھلا کر ادھر ادھر دیکھا
پتہ نہں نیا شوز کہاں سے ملے گا ایسے ہی جانا ہو گا اب کھڑی ہوئی اور چلنا شروع کیا مگر جوتا اونچا نیچا ہونے کی وجہ سے بہت مشکل ہو رہی تھی
یہ کیا
اک ٹنگ چھوٹی تے اک ٹنگ وڈی ہاہاہا
دو قدم ہی لیے تھے کے پیچھے سے آواز آئی
کشف نے تپ کے دیکھا
یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے منہوس
نہں بلکل نہں تمہاری اپنی وجہ سے ہوا ہے
دوسرا کا برا سوچو گے تو اپنے ساتھ برا ہو گا نہ
وہ چھلکا تم نے پھینکا تھا میرے لیے نہ
مجھے ایک کیوٹ سی لڑکی نے بتا دیا تھا اور وہ چھلکا اٹھا بھی لیا تھا ۔۔۔اس طرح میں تو نہں گرا پر تمہاری ٹانگ بڑی چھوٹی ہو گئی
نن نہں تو میں کیوں کروں گی یہ کشف نے اسکی طرف دیکھا
جی جی بلکل کیوں کے یہاں کوئی اور پھینکتا نہں نہ ۔۔۔۔۔۔۔
اب ایسے جاو اونچی نیچی ٹانگ کے ساتھ ہاہاہاہاہا
یہ سزا ہے تمہاری ورنہ تمہے اپنا جوتا دیتا اور لفٹ بھی
پر غلطی کی ہے تو سزا تو ملے گی نہ اب
دفع ہو جاؤ پھر کھڑے کیوں ہو
چڑ کے کہا اور چلنے لگی
ہاہاہاہا
پیچھے مسلسل وہ ہنس رہا تھا
دعاکرو دبارہ ہمارا آمنا سامنا نہ ہو ورنہ میں کیا کر گزروں مجھے خود نہں پتہ کشف نے کہتے ہوئے ٹیکسی روکی
سحر غصہ سے دلاور ولامیں داخل ہوئی
سامنے ہی اسے مہک کچن میں نظر آئی
وہ تیز تیز چلتی ہوئی اس کے پاس گئی
تم تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں اس طرح سے رہنے کی
دلاور کے ساتھ نکاح کر کےتم سمجھتی کیا ہو دلاور تمہارا ہو گیا کیا سحر نے غصے سے مہک کا ہاتھ پکڑ کر مروڑا
نن نہں
ایسا کک کچھ نہں
آپ غلط سمجھ رہی ہو مہک کے کہنے پہ سحرنےبے دردی سے اس کا منہ دپوچا
مہک نے درد سے سسکی لی
آ آپ جو سمجھ رہ ہو وہ۔۔۔۔۔۔۔ابھی کچھ کہنا ہی چاہتی تھی کے سحر دھاڑی
چپ ایک دم چپ آواز نہ نکلے تمہاری انگلی اٹھا کر تنبہی کی
دلاور صرف میرا ہے سحر ایوب کا
سمجھی تم ۔۔۔
جان لے لوں گی میں تمہاری اگر تم نے اس پر اپنا حق سمجھا
اس پر صرف میراحق ہے یہ
جس ولا میں تم گھوم رہی ہو نا یہ میرا ولاہے
تمہارانہں جتنی جلدی ہو سکے نکل جاویہاں سے اور دلاور کی زندگی سے
گھر سے
تمہارا سایہ بھی نہ پڑے کسی چیز پہ
نہں تو میں کیا کر سکتی ہوں تم جانتی نہں
لیکن بہت جلد جان لو گی
سحر ایوب کے ساتھ پنگا مت لینا منہگا پڑے گا بہت
کہتے ہوئے بے دردی سے مہک کو دھکا دیا اس کا سر دیوار سے جا لگا
تبی دلاور داخل ہوا
سحر کو ایک طرف ہٹایا
اور دوڑ کر مہک کے پاس آیا
جو درد سے کراہ رہی تھی
دلاور نے دونوں ہاتھوں سے اسے کندھے سے پکڑ کر کھڑا کیا
تم ٹھیک ہو مہک
مہک نے سر ہاں میں ہلادیا
سحر تم پاگل ہو گئی ہو کیا
اس بیچاری کی کوئی غلطی نہں ہے
یہ تو خود وکٹم ہے
میری وجہ سے اس کے ساتھ یہ سب ہوا ہے
یہ میری responsibilty ہے
میں اسے ایسے نہں چھوڑ سکتا اور مجھے تم سے اس سب کی امید نہں تھی
اس طرح کی حرکت کرو گی تم
میں سوچ بھی نہں سکتا تھا دلاور نے تاسف سے کہا
اس کو کچھ کہنے سے پہلے مجھ سے پوچھنا چاہیے تھا
یہ نکاح ہوا ہے مانا میں نے
مگر کن حالات میں ہوا ہے
اندازہ ہے نہ تمہں
اس کے باوجود تم نے یہ حرکت کی دلاور نے بے یقینی سے سحرکی طرف دیکھتے ہوئے کہا
یہ دو ٹکے کی لڑکی لے گی میری جگہ
یہ آئے گی تمہارے اور میرے درمیان
میں برداشت نہں کر سکتی یہ
جان سے مار دوں گی میں اسے
اچھا واقعی یہ تم کہہ رہی ہو سحر حیرنگی سے دلاور نے اسکی طرف دیکھا
تم بھول رہی ہو جب میرا نکاح ہوا تھا کشف کے ساتھ تب تم نے ہی کہا تھا سب ختم تو اب کیا ہو گیا ہے
اب کیا سب ٹھیک ہو گیا ہے
اس سے ڈر رہی ہو جو اب تک کانپ رہی ہے تمہارا وحشی پن دیکھ کر
بہتر ہے تم یہاں سے چلی جاؤ اور جب تک یہ ہے اس گھر میں ہے مت آنا تم
تم اسکی وجہ سے مجھے نکال رہے ہو مجھے
جسکی وجہ سے تمہارے کردار پہ انگلی اٹھی
سحر کو نکال رہے ہو
سحرنے اپنی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور غصےسے مہک کی طرف بڑھی
مہک نے ڈر کے دلاور کے پیچھے پناہ لی اور دونؤں ہاتھوں سے اس کے بازوں کس کر پکڑ لیے
دلاور نے چونک کے اسکی طرف دیکھا
اور سحر کی طرف متوجہ ہوا
ایک قدم بھی مت اٹھا نا نہں تو مجھ سے برا کوئی نہں ہو گا نکلو یہاں سے میں نے بہت کر لیا لحاظ اپنے اور تمہارے چھ سال کے رشتے کا اب نہں کروں گا سمجھی تم
دفع ہو جاؤ
میرے کردار پہ انگلی اٹھی تو اسکاکردار بھی خراب ہوا
میں مرد ہوں یہ عورت ہے کون اپنائے گا اسے اب
میرےساتھ ساری دنیانے دیکھا ہے اسے
اب میرے علاوہ کوئی راستہ نہں بچا اس کے پاس اندازہ ہے کچھ تمہے
نہں تم صرف اپنا سوچتی ہو
یہ کہاں جاے اب
جہاں بھی دفع ہو بس میری اور تمہاری زندگی سے
یہ نہں ہو سکتا ایک لڑکی کی زندگی اس حد تک خراب نہں کر سکتا میں کے جینامشکل ہو جائے اسکا
عورت کی ایک عزت ہوتی ہے جو یہ میری وجہ سے کھو چکی ہے پوری دنیا کے سامنے
میں کیسے چھوڑ دوں یہ ممکن نہں رہا اب
تم جاؤ دوبارہ مت آنا کبھی
اتنے سرد لہجے میں کہا کے سحر کے قدم اپنی جگہ جم گئے
وہ غصےسے مڑی اور پاوں پٹختے ہوئے باہر چلی گئ
اس کے جانے کے بعد دلاور نے مہک کا ہاتھ جو اسکے بازوں پہ تھا پکڑا اور اسے اپنے سامنے کیا
تمہے ڈرنے کی ضرورت نہں بہت کچھ سہہ لیا میری وجہ سے قصوروار نہ ہوتے ہوئے بھی اب اور نہں
میری وجہ سے تو بلکل نہں جو عزت میری دشمنی کی وجہ سے تمہاری خراب ہوئی میں دوں گا معاشرے میں وعدہ کرتا ہوں
گھمبر لہجے میں کہتے ہوئے اسکے ہاتھ پہ اپنے لب رکھے
میں نے بہت بھاگ لیا رشتوں سے اب اور نہں بھاگنا کہتے ہوئےاور قریب ہوا اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے ماتھے پہ لب رکھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ یہ غلط ہے مہک نے کہتے ہوے اسے پیچھے کیا
دلاور نے اسکی طرف دیکھا اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا
مہک اسکی حرکت پہ گم سم اپنی دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگی
اسے ڈر تھا کہ کوئی اور نہ سن لے اسکی دھڑکنوں کی آواز
یہ سب کک کیا ہے
مم میں
نن نہں یہ ممکن نن نہں ۔۔۔۔۔کہتے ہوئے نیچے بیٹھتی گئی اور گھٹنوں میں سر دے کے رونے لگی
____________
سحر کیا ہوا مہر نے اسے غصےسے سے گلاس توڑتے دیکھ کر کہا
میں دیکھ رہا ہوں جب سے باہر سے آئی ہو برتن توڑے جا رہی ہو کچن کی حالت دیکھ رہی ہو تم کیا کر دی ہے
پچھلے پانچ منٹ سے میں تمہارے غصے کےکم ہونے کاانتظار کر رہا تھا مگر غصہ ہے کے کم ہونے کانام نہں لے رہا
بتاؤمجھے ہوا کیا ہے کس بات کا غصہ ہے پیار سے اسے گلے لگاتے ہوے کہا چلو آؤ لاونج میں بیٹھتے ہیں
وو وہ میرے ساتھ ایسا کر کیسے سکتا ہے
وہ بھی اس لڑکی کی وجہ سے
اسکو لگتا ہے اسکی وجہ سے یہ سب ہوا ہے
مگر وہ جانتا نہں یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ سحر یہ بات منہ سے نکالنا بھی مت ورنہ انجام کیا ہو کچھ کہہ نہں سکتے سمجھی تم
مہر نے کہتے ہوے اسکے منہ پہ ہاتھ رکھا
نوکروں کا بھروسہ نہں ہوتا
پتہ ہے نہ تمہے سحر
جی کہتے ہوے سر ہلایا
دلاور کہاں ملا تمہے
میں گئ تھی
کیوں
کر دی نہ غلطی منع کیا تھا میں نے
مانتی جو نہں ہو بات
اب چپ بات مت بڑھاؤ تم ۔۔۔۔۔میں کچھ کرتا ہوں کہتے ہوے سحر کا سر تھپتھپایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارا دن گھر ڈھونڈنے میں لگ گیا اف خدا یا
میری ہی غلطی تھی آدھا ایڈریس سنا تھا
اب یہ ایڈرس ٹھیک ہو بس کشف نے کوئی تیسری ٹیکسی میں بيٹھتے ہوے بڑ بڑاتے ہوے کہا
maam your place
ڈرائیور کے کہنے پہ کشف نے چونک کے دیکھا
ھمھم کہہ کے وہ نیچے اتری
ڈرائیور نے سامان نکال کے نیچے رکھا
کشف نے اسکی طرف آکے کرایہ دیا
پھر کچھ سوچ کے اسے کہا
wait jus a moment plz
ok maam sure
کہتے ہوے وہ گاڑی کے ساتھ ٹیک لگا کے کھڑا ہو گیا
جبکہ کشف نے ڈور بیل بجائی
یا اللہ یہی گھر ہو پلز دعا کرتے ہوئے دوسری بار بیل بجائی
اس پہ فورن دروازہ اپن ہوا
سامنے والے کو دیکھ کر کشف کا دماغ گھوم گیا
تم ۔۔۔۔۔کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
جی میں یہ گھر میرا ہے تو میں ہی ہوں گا نہ یہاں سکون سے جواب دیا گیا
تمہے میری یاد نے اتنا تنگ کیا کہ تم نے میرا گھر ڈھونڈ لیا
تمہاری محبت کا تو میں قائل ہو گیا ہوں
just shut up
کشف نے غراتے ہوے کہا
اپنی بکواس بند کرو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہں ہو گا
او اچھا پھر تم کیوں کر آئی ہو کہیں تم مجھے مارنے تو نہں آئی ہو نہ شاہ میر نے گھورتے ہوے اسکی طرف دیکھا
تم سے بدلہ لینے کےلیے میں اتنی دور آؤں گی کیا
اتنی اچھی قسمت نہں تمہاری جو میں تمہارے پیچھے آوں گی
میم ..
ڈرائیور نے اسکی طرف دیکھ کر آواز دی
yes am comming
کہتے ہوے واپس پلٹی اور ڈرائیور کو سامان کو اٹھانے کا اشارہ کیا
this is right place for her ......
شاہ میر نے کہتے ہوے اسے جانے کا اشارہ کیا
ok sir thanks
کہتے ہوے وہ چلا گیا
اوے رک میں لائی تھی تھجے نہ منہوس چلا گیا میری طرف دیکھا ہی نہں کشف نے مایوسی سے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
جو دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے داروازے سے ٹیک لگا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا
رات ہو رہی ہے کہاں جاؤں گی میں کشف نے بڑبڑاتے ہو روڈ کی طرف دیکھا
کشف آپ آجاؤ اندر یہی گھر ہے دلاور نے کال کر کے بتایا تھا مجھے
مگر پلین میں مجھے اندازہ نہں تھا کہ آپ ہی ہو وہ
ohh i am lucky welcome home
کہتے ہوے سامان گھسیٹتے ہوے وہ اندر چلا گیا
جبکہ اسکی بات سن کر کشف کو سانپ سونگھ گیا
دلاور نے بتایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔یا ازہان نے
____________________\______\________\______________\_____\______\_______\______\______\_____\\\\_____\______________\____\____\____\___\___
بابا وہ چھوری کیا نام تھا اسکا
سنگرام نے فقیرو سے پوچھاجو اسکی ٹانگیں دبا رہا تھا
سائیں مہک نام ہے اسکا
مہک بڑااچھا نام ہے
اسے تو حویلی ہوناچاہیے تھا
جج جی سائئں حکم سائئں
جب سے دیکھا ہے ایک پل سکون سے نہں گزرا خیال میں ہے ہر پل وہ بابا سائئں
کیا حکم ہے پھر میرے لیے سائئں فقیرو نے ہاتھ جوڑئے ہوے کہا
بابا رشتہ مانگو پھر ہمارا
لے کے آو حویلی کی زینت بڑھاو اسے سنگرام نے جوس کا سپ لیتے ہوے کہا
جو حکم سائئں ۔۔۔۔۔
بلاؤ اسکے باپ کو پھر آج کرتے ہیں بات نہ
جج جی سائئں
-------___________|______|___|___|______________________<______/____/______________
یہ کیا کہہ رہا ہے تو فاروق سائئں نے مانگا رشتہ اور تو نے ہاں کیسے بولا وہ تو تیری عمر کا ہے
اسکا بھلا کیا جوڑ مہک سے
میری ایک ہی تو بیٹی ہے نہ اسے ایسے کیسے دے دوں میں اس کی باپ کی عمر کے آدمی کو
مہک کی ماں وہ مالک لوگ ہیں سائئں نے پوچھا نہں تھا مجھ سے
بس بتایا کے تیری بیٹی کی شادی ہے
مجھ سے
تو اب کیا کریں گے ہم لوگ انکے حکم کے خلاف نہں جا سکتے ہم غلام ہیں وہ مالک ہے
پر اسکے تو بچے مہک کی عمر کے ہیں فاروق
اور اسکی پہلے دو بیویاں ہیں
تو اب کیا کر سکتے ہیں ہم مایوسی سے کہتے ہوے فاروق کھڑا ہوا کام جا رہا ہوں
مہک کو بتا دینا تو
اور سمجھا بھی دینا اب یہی نصیب ہے اسکا جاگیر دار کے خلاف نہں جا سکتے ہم لوگ
کہہ تو صیح رہا ہے تو مہک کا بابا
میں سمجھاؤں گی
________________________________________________________________________
_______________________________________________
یہ کیا کہہ رہی ہےتو اماں میں اس بڈھے سے شادی نہں کروں گی
ابا کی عمر کا ہے وہ
مہک نے بھڑک کر کہا
ارے مار ڈالے گا وہ ہم سب کو کوئی نہں بچے گا اسکے قہر سے سمجھ کیوں نہں رہی تو
مہک کی ماں نے فکر مندی سے کہا
دیکھ مان جا تو وارنہ جانتی ہے نہ کیا ہو گا جان سے مار دے گا وہ تھجے
ہاں تو مار دے اماں حویلی میں نوکرانی ہی بن کے راہوں گی پوری عمر میں بڑی بیبی کی
وہ کون سا سکھ کا سانس لینے دے گی جانتی ہے نہ تو اسے وڈیرے کی چچازاد ہے وہ
اسکا حکم چلتا ہے حویلی میں جیتے جی مجھے درگور نہ کر اماں دیکھ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں مجھے نہ دے ادھر اس کے نکاح میں اماں
چاہتی تو میں بھی نہں پر کیا کروں مجبور ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہں جا سکتے ہم لوگ ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھ اماں تو میرا خود گلہ گھونٹ دے اپنے ہاتھوں سے
پر اس دوزخ میں مت دیں مجھے ماں مہک نے کہتے ہوے ہاتھ جوڑئے
بس کر جا میری بچی تو سمجھ یہی نصیب ہے پھر مشکل نہں ہو گی کہتے ہوے اسے گلے لگایا
بابا سائئں فقیرو مولوی کو لے آئے ہو سنگرام نے کنگھا کرتے ہوے پوچھا
جی سائئں آ گیا ہے
ہاں تو ٹھیک ہے نہ چھوری کو لے آو اور اسکے ماں باپ کو بھی عزت سے گاڑی لے جاؤ سائئں اب تو ہونے والے سسرال ہو گئے نہ اپنے
جی جی سائئں جو حکم
میں ابھی جاتا ہوں کہتے ہوے باہر نکلا
گاڑی نکالو سائئں کی ہونے والی سسرال کو لینے جانا ہے بابا ڈرائیور کو کہتے ہوے فقیرو باہر نکلا
جی بہتر کہتے ہوے ڈرائیورنےگاڑی نکالی
۔۔۔۔۔ __________________________________________________________________________________________________________________________________________
داروازے پہ دستک دے کے فقیرو اندر داخل ہوا
پورا گھر بھکرا ہوا تھا فقیرو دیکھ کے چونکا
فاروق چچا یہ یہ کیا
گھرکا سامان کیوں بھکرا ہوا ہے یہ
بابا فقیرو مم میں مجبور ہوں بابا
میری بیٹی نہں مان رہی ہے بابا فاروق نے ہاتھ جوڑ کے کہا
کیا بولا تو نے فقیرو نے گریبان سے پکڑا ہوش میں ہے تو
انجام جانتا ہے تو انکار کا
بابا تو
تو خوش قسمت ہے بابا
تیری بیٹی بہت نصیب والی ہے
مہارانی بن رہی ہے مہارانی تو جانتا نہں کیا
مہارانی کون سی مہارانی مجھے نہں بننا مہارانی سمجھا تو مہک غصےسے باہر نکلی
جا جا کے کہہ دے اپنے سردار کو شرم نہں آتی اسے اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکی سے شادی کرنے چلا ہے
لڑکی زبان سنبھال تو اپنی نہں تو ۔۔۔۔۔۔
نہں تو کیا ۔۔۔بول تو
فقیرو نے مہک کے سر پہ گن تانی
نہں کروں گی شادی زندہ گاڑھ دے تب بھی نہں کروں گی چلا گولی
بابا فقیرو معافی معافی بچی ہے یہ ابھی سمجھ نہں اسے
میں معافی مانگتا ہوں ۔۔فاروق نے ہاتھ جوڑے
نہں باباسائئں اب اسکا فیصلہ سائئں کریں گے لے کے چلو لڑکی کو کہتے گارڈ کو اشارہ کیا
معاف کر دو بابا فقیرو سائئں کو مت بتانا نہں تو مار دے گا بچی ہے میں سمجھاتی ہوں مہک کی ماں نے ہاتھ جوڑئے
فیصلہ تو ہو گیا اب میں کچھ نہں کر سکتا لے کے آو سب کو فقیرو نے اشارہ کیا
گارڈ مہک کی طرف بڑھا اور اسے بازوں سے پکڑا
نہں جاؤں گی میں چلاتے ہوے کہا
گارڈ نے اسے پکڑا اور گھسیٹتے ہوے آگے بڑھا مہک کی مزحمت دم توڑ گئی اسکی طاقت کے سامنے اور ساتھ گھسیٹتی ہوئئ آگے بڑھنے لگی
چھوڑو مجھے مہک مسلسل چلا رہی تھی مگر اسکی سن کون رہا تھا
میں کہتی ہوں چھوڑو مجھے
چپ چھوری بڑی زبان چلتی ہے تیری اب آواز نکلی تو گولی تیری ماں کے آرپار ہو جاے گی فقیرو نے سفاکی سے کہتے ہوے گن اسکی اسکی ماں کی کان پٹی پہ رکھی
نن نہں مم میں چلتی ہوں کہتے ہوے چلنے لگی ساتھ
ماں باپ بھی آنسوں کو بہاتے ہوے بےبسی کی تصویر بنے چلنے لگے
_______________________________________________________________________________________________________________________
واہ بابا سائئں لے آے ہو سب کو
جج جی سائئں فقیرو نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا
اچھا اچھا قاضی کو لے کے آو نکاح کرو چھوری کا
جی بہتر سائئں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں جاو جاو جلدی سنگرام نے کہتے ہوے وادھن کی طرف دیکھا
حکم سائئں بابا وادھن جوتا پہناو مجھے
جو حکم سائئں کہتے ہوے جوتا پہنانے لگا
تبھی بوکھلاہٹ میں فقیرو اندر داخل ہوا
کیا ہوا فقیرو کوئئ موت کو دیکھ لیا کیا جو بھاگ رہے ہو
سس سائئں وہ
سانس تو لے لو بابا سائئں سنگرام کہتے ہوے کھڑا ہوا
سس سائئں چھوری نے انکار کر دیا مولوی کو
کیا بکواس کر رہا ہے فقیرو سنگرام نے دھاڑتے ہوے کہا
مم میں سچ کہہ رہا ہوں سس سائئں
چھوری کہتی ہے وہ وہ
کیا آگے بک سنگرام نے گریبان سے پکڑتے ہوے کہا
کک کسی اور سے شادی کک کرنا چاہتی ہے
کیا کہا تو نے اتنی ہمت آگئی اس میں کس کی وجہ سے
جانتی نہں کے انجام کیا ہو گا اس کا
سنگرام کو انکار مطلب موت سے بدتر زندگی
چلو میرے ساتھ کہتے ہوے آگے بڑھا ۔۔۔۔۔
________________________________¥______________________|______/_____/______/_____________________________
تم سچ سچ بتاؤ
کون ہو تم کشف نے لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ کمر پہ رکھ کے کہا
شاہ میر ہوں میں کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
تم کون ہو بتاو
نہں تو میں چلی جاؤں گی گھر چھوڑ کر
ارے مگر کیوں کر شاہ میر نے حیرنگی سے پوچھا
تم نے کہا دلاور نے کال کی تھی ؟
اپس
۔۔۔۔۔۔۔منہ سے نکل گیا یار دلاور بھائی کا نام
شا ہ نے چاے کے لیے پانی چولہے پہ رکھتے ہوے کہا اسکی طرف بنا دیکھے کہا
دہیکھو شاہ میر جو سچ ہے بتاؤمجھے کشف نے اپنی نظريں اس کے چہرے پہ مرکوز کرتے ہوے کہا
یار دلاور بھائی ۔۔۔میرے بھائی کے بہت اچھے دوست ہیں بھائی تو گاؤں ہیں اس لیے مجھے کال کی تھی کے
میری بہت خاص الجاص کزن آرہی ہے بہت سا خیال رکھنا بس نارمل انداز میں بتایا گیا
جبکہ کشف کے سر پہ گویا حیرنگی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پر میں تو دلاور کو بتا کے ہی نہں آئی کشف نے بڑبڑاتے ہوےطے ہوے کہا
چاے شاہ میر کی آواز پہ وہ چونکی
اور چاے کا کپ تھاما
________________________________________________________________________________________________
داروازے پہ ناک ہوا yes
دلاور نے لپ ٹاپ پہ نظريں جماےجماے ہی کہا
تبھی داروازہ کھول کر کوئی اندر آیا
ہاں رحیم (باورچی) مجھے فلحال کچھ نہں چاہیے تم مہک سے پوچھ لو اس کے کمرے میں جا کر
مصروف سے انداز میں بنا سر اٹھاے کہا
جب کوئئ جواب نہ ملا تو دلاور نےچونک کر لپ ٹاپ سے نظريں ہٹائئں اور کھڑا ہوا
ارے مما آپ یہاں خیریت کہتے ہوے انکی طرف آیا اور انہے گلے لگایا
مجھے بتا دیتی آپ میں خود لے آتا آپکو کہتے ہوے انہے لیے بیڈ کی طرف بڑھا
بیٹھیں مما ۔۔۔۔۔۔دونوں شانوں سے پکڑکر انہے بیٹھایا
آپ چپ کیوں کر ہیں مما کوئی بات ہے کیا
پریشانی ہے کوئئ دلاور نے ساتھ بیٹھتے ہوے ساجدہ بیگم کا ہاتھ پکڑکر کہا
______________________________________________
یہ سب کیا ہے دلاور ایسا کرو گے تم میں سوچ بھی نہں سکتی تھی میرا بیٹا ایسا کچھ کرے گا
کشف چلی گئ گھر سے ہی نہں ملک چھوڑ کر صرف تمہاری وجہ سے
میں تو آمنہ بھابھی سے نظريں تک نہں ملا سکتی
کیسے ملاؤں میرا بيٹا ہی تومجرم ہے نا ۔۔۔۔۔۔
کہتے ہوے دلاور کی طرف دیکھا اور اپنا سر پکڑ لیا
کشف کو واپس بلا لو دلاور وہ صرف تمہارے کہنے سے آے گی انہوں نے اسکی طرف امید سے دیکھا
زندگی میں ایک مقام ایسا آتا ہے جب آپ لوگوں کو بتانا چھوڑ دیتے ہو کے آپکے ساتھ کیا ہوا یا کیا ہو رہا ہے آپکی زندگی میں
میں آج اسی مقام پہ ہوں کچھ بول ہی نہں پا رہا
ایک طرف مہک ایک طرف کشف ہے جو جڑ چکی مجھ سے
تو دوسری طرف سحر مگر ۔۔۔۔۔۔کہتے ہوے ساجدہ بیگم کی طرف دیکھا آپ یہ بھی تو دیکھو مما
کشف مجھ سے 7 سال چھوٹی ہے
ہمیشہ میں نے اسے اپنی بہن سمجھا
بچپن سے لے کر آج تک اب اچانک سے
رشتہ ہی بدل گیا وہ تو ضدی ہے مما بچپن سے
اسے ہر چیز چاہیے ہوتی تھی جو اسکی دسترس میں نہں ہوتی تھی
افس ضد کر کے آتی تھی وہ مجھے تنگ کرنے بس
اور دادو اس کی ہر بے جا ضد مانتے ہیں
یہی بات میری ہے مما
اس نے بے جا ضد کی دادو نے اسکی محبت میں مان لی
وہ سمجھدار نہں ہے اتنی کے اتنا بڑا فیصلہ کر لے اپنے لیے
میں اسے اپنی بیوی نہں مان سکتا مما
وہ بھی تب جب کے اس کے لیے میں نے کسی اور سے وعدہ کیا تھا کے کشف اس کی ہے وہ بھی 5 سال پہلے میں نے
یقین دہانی کی تھی اسکی ہی امانت ہے وہ
اپنی زبان سے نہں ہٹ سکتا میں
ملک دلاور نے
تب زبان دی تھی جب کشف فرسٹ ائیر میں تھی
تو نکاح کیوں کر کیا پھر دلاور ساجدہ بیگم نے سکتے کیسی حالت میں پوچھا
تاکے ضد میں دادو اسکی شادی کسی اور کے ساتھ نہ کر دیں
میں نے سنا تھا وہ فون پہ بات کر رہے تھے اپنے دوست سے کے دلاور نہ مانا تو انکے پوتے سے کر دیں گے شادی
وہ لوفر ہے ایک نمبر کا کیسے اسکی زندگی برباد ہوتے دیکھتا
جانتی توہو آپ دادو کو
کچھ بھی کر لیتے وہ اپنی بات پوری کرتے
اس کے ساتھ غلط نہں ہونے دے سکتا میں مجھے بہت عزیز ہے وہ مما
پر میرے اپنے حالات اسکو بچانے کے چکر میں
آج حالات ایسے ہو گئے ہیں کے میں کچھ سمجھ ہی نہں پا رہا
مہک کو بھی میری وجہ سے ہر ٹیوی چینل پہ دیکھایا گیا میرے ساتھ نام لے لے کر
وہ اب کہاں جاے گی مما آپ خود عورت ہیں
اسکی جگہ خود کو رکھ کے دیکھیں آپ ۔۔۔۔۔۔۔
اور ہمارا معاشرہ کبھی اسے جینے نہں دے گا
میرے ساتھ اسکا کوئئ تعلق نہں تھا نہ ہے
مگر دنیا نہں مانے گی لوگ
لوگ نہں مانیں گے مما
جیتے جی مار دیں گے اسے ۔۔۔۔۔
لوگ اندھے اور بہرے ہیں
کہا جاتا ہے آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا بھی غلط ہو سکتا ہے
مگر یہ دنیا ہے مما
لوگ سنی سنائی باتیں مان لیتے ہیں
یہاں تو آنکھوں دیکھا ہے
وہ تصاویر ۔۔۔۔
جو مہک کو بچانے کے لیے میں نے کیا
اسکی مدد کی میں نے
مگر یہاں کہانی ہی بدل دی لوگوں نے
مجھے بدنام کرنے کے لیے ایک معصوم لڑکی کی عزت خراب کر دی
اسکا ازالہ ممکن ہی نہں ہو سکتا نہ مما
دلاور نے ساجدہ بیگم کا ہاتھ پکڑکر کہا
اور میری زندگی میں اتنا کچھ ہو رہا میں سمجھنے سے قاصر ہوں
پر بیٹا کشف بھی تو بچی ہے نہ غلطی ہو گئ اس سے معاف کر دو ایسا ہو جاتا ہے اس عمر میں
اسکی زندگی میں کوئئ تھا بھی سہی تو معاف کر دو بیٹا ہماری بیٹی ہے وہ ساجدہ بیگم نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
مما کیا آپکو لگتا ہے کشف غلط کر سکتی ہے کچھ دلاور نے حیرنگی سے انکی طرف دیکھا
پر مما مجھے ایسا نہں لگتا مجھے یقین ہے وہ ایسا کچھ نہں کر سکتی
کشف میرے نکاح میں آئی تواس پہ یہ الزام لگ گیا
یہ بھی میری وجہ سے میرے اتنے بزنس رائیول ہیں کے میں خود نہں جانتا
میری کمپنی کے شئیر کی والیو کم کرنے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں
بہت جلد پتہ چل جاے گا مما
اور جب پتہ چلا نہ تو _____________
پھر دلاور ملک کیا کرے گا
یہ انکے واہم و گمان میں بھی نہں ہو گا
انکا وہ حشر کروں گا دنیا دیکھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہوے غصےسے مٹھی بند کی
پر بیٹا تم نے تو کہا تھا کشف کا کسی کے ساتھ ۔۔ساجدہ بیگم نے نہ سمجھی سے اسکی طرف دیکھا
یہ سب کون کر رہا ہے یہ جاننا ضروری ہے
اسکا سامنے آنا ضروری ہے جو یہ سب کر رہا ہے
یہ ڈرامہ کرنا ضروری تھا
وہ سامنے آے تاکے اسے لگے وہ کامیاب ہو رہا ہے
اور کوئئ غلطی کرے
تو اسکے لیے یہ سب کرنا بہت ضروری تھا
ہمارے ہی گھر کا کوئئ ملازم انکی مدد کر رہا ہے
اسکو کیسے پتہ کشف کب کیا کر رہی ہوتی ہے گھرکا تو کوئئ فرد نہں بتاے گا نہ
تو اگر میں ایسا نہ کرتا تو وہ اس بندے کو بتا دیتا سب کچھ اور چھپا ہوا دشمن بہت خطرناک ہوتا ہے مما
اب سب پہ نظر ہے میری پل پل کی خبر ہے مجھے اور آپ پلز کسی سے ذکر مت کرنا کہتے ہوے امید سے دیکھا
ساجدہ بیگم نے اپنے آنسوں صاف کیے اور اسکے چہرے کو ہاتھوں میں لیا
جیتے رہو بیٹا مجھے فخر ہے تم پہ ساجدہ بیگم نے کہتے ہوے اسکاماتھا چوما
سر مے کم ان
یس ۔۔۔
حنان نے فائل پہ دیکھتے ہوے بنا اپر دیکھے کہا
تبھی تاشہ اندر داخل ہوئی اور اسکے سامنے پڑی چیر پہ بیٹھ گیء
حنان نے ہڑبڑاکر اسکء طرف دیکھا
تت تم یہاں افس
وہ میرا مطلب تھا
ہاں افس دادو سے اجازت لے کر آئی ہوں اور ویسے بھی تم بھول رہے ہو شاید تمہارے جانے کے بعد میں ہی سنبھال رہی تھی نہ
تم تو منہ چھپا کر دوڑ گئے تھے
مجھ سے اور اس سچائی سے جو تم مجھے بتا نہں پائے
مجھ سے تو پوچھ لیتے کے میں کیا چاہتی ہوں
میں تو بس انتظار کرتی رہی کے تم کچھ کہو گے مگر
جب وقت آیا منہ چھپا کے سات سمندر پار چلے گئے تم
تاشہ نے جتاتے ہوے کہا
کک کیا نہں بتایا اور مم
میں کیوں کر بھاگوں گا منہ چھپا کر پاگل ۔۔۔۔۔۔۔
حنان نے بنا اسکی طرف دیکھے کیا اور دبارہ فائل پہ جھک گیا ۔۔
سنو ۔۔۔۔۔تاشہ نے انچی آواز میں پکارا
ھمھمھمھم بنا اسکی طرف دیکھےجواب دیا
مجھ پہ اپنی مرضی مسلط نہں کر سکتے تم سنا تم نے تیز لہجے میں کہتے ہوے اسکی طرف ٹیبل پہ جھکی
میرے نکاح والے دن تم بھاگ جاؤ گے صرف گھر سے نہں ملک سے وہ بھی بنا وجہ کے
تو ۔۔۔۔۔۔
تمہے کیا لگتا ہے میں بچی ہوں جو سمجھ نہ پاؤں
تمہے بچپن سے جانتی ہوں میں واقف ہوں تم سے
تمہاری رگ رگ سے
میں ازہان کو پسند نہں کرتی تھی کبھی بھی
میرے جینے کی وجہ تم ہو ازہان نہں
وہ صرف کزن ہے میرا
جو میں تمہارے لیے محسوس کرتی ہوں کبھی کسی اور کے لیے نہں کر سکتی سمجھے تم کہتے ہوے اس کی آنکھوں میں دیکھا
نہں پسند کرتا میں تمہے
اگر کرتا بھی ہوں تو بھول جاؤ یہ بات
اب یہ ممکن نہں تاشہ
کسی صورت میں نہں ازہان چاہتا ہے تمہں
اسکی خوشی تم میں ہے
اور میں اس سے اسکی خوشیاں نہں لے سکتا
بہتر ہے تم دبارہ زکر نہ کرو کہتے ہوے فائل سے سر اٹھایا اور سامنے داروازے میں ازہان کو کھڑا دیکھ کر چونکا
از ۔۔۔۔ازہان تت تم ۔۔۔۔۔
حنان کی بات سن کے تاشہ نے بھی چونک کے
پیچھے مڑ کے دیکھا
ازہان بنا بات سنے تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل گیا
حنان بھی اسے پکارتے ہوے باہر گیا
________________________________________________________________________________________________________________________________________
دلاور جیسے ہی گھر میں داخل ہوا اسکی نظر سامنے کچن میں کھڑی مہک پہ پڑی
وہ سیدھا کچن میں گیا
دبے پاؤں کے اسے خبر ہی نہ ہوئی
وہ ارد گرد سے بے خبر کام میں مصروف تھی
لمبے بال کمر سے نیچے تک آرہے تھے
ملگجا سا حلیہ
ناک میں چمکتی سفید nose pin
نمایا تھی اسکے چہرے پہ بلا کی معصومیت
دلاور یک ٹک اسکی طرف دیکھے گیا
مسلسل نظروں کی تپش سے چونک کے مہک نے اسکی طرف دیکھا
آ آپ کک کب آے کک کچھ چاہیے تھا
مہک نے گھبرا کر بے رابط جملے بولے
اسکے بولنے پہ دلاور نے چونک کے دیکھا اور اس کی طرف آیا
مہک گھبرا کر پیچھے ہوئی
مگر وہ آگے بڑھتا رہا ۔۔۔۔۔
پیچھے ہوتے ہوے وہ دیوار سے جا لگی
مہک نے ڈر کے آنکھیں بند کر دی
لمبی پلکیں لرز رہی تھی
دلاور نے قریب آکر اسکے چہرے پہ آئی ہوئی آوارہ لٹوں کو پیچھے کیا
مہک کا دل زوروں سے دھڑکا گویا
سینہ توڑ کر نکل آئے گا باہر
دلاور نے اپنا ہاتھ اسکی کمر کے گرد حمائل کیا اور اسے
اپنے قریب کیا
اپنے لب اسکے گال پہ رکھے
i know
میری وجہ سے تم پہ مصیبت آئی ہے اب اور نہں آنے دوں گا پرومس گھبر لہجے میں اسکے کان کے قریب کہا
مہک نے آنکھیں کھولیں اور اسے پوری قوت سے دھکا دے کے پیچھے کیا
یہ نہں ہو سکتا غلط ہے یہ
اس نے چلاتے ہوے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلاور نے اسکی حرکت پہ غصےسے اسکا بازوں پکڑکر کھنچا وہ کھنچتی ہوئی سینے سے آ لگی
کیا غلط ہے بولو دلاور نے بازوں موڑتے ہوے کہا
کیا غلط کیا میں نے حق ہے میرا بیوی ہو تم میری دھاڑتے ہوے اسکی آنکھوں میں دیکھا
نہں حق آپکا مجھ پہ میں آپکی بیوی نہں سمجھے آپ
اس نے بھی اونچی آواز میں دھاڑتے ہوے کہا
کیا بکواس ہے یہ مہک ہوش میں ہو نکاح کیا ہے میں نے پوری دنیا کے سامنے دلاور نے غصےسے اسکا دپوچا
میں کسی اور کے نکاح میں ہوں چیختے ہوے کہا
دلاور کی گرفت ڈھیلی ہو گئ
ایک جھٹکے سے مہک کو پیچھے کیا
اور تیز تیز قدم اٹھاتا باہر چلا گیا
ازہان بات سن میری
حنان نے اس کے کمرے میں آتے ہوے اسے کندھوں سے پکڑا
چھوڑ مجھے تو ازہان نے اسے دھکا دے کر پیچھے کی اور بیڈ پہ جا کے بیٹھ گیا
حنان چلتے ہوے اسکے پاس گیا اور ساتھ بیٹھ گیا
کیا ہوا یار تو کیا سمجھ رہا ہے
ایسا کچھ نہں جو تو سمجھ رہا ہے حنان نے کہتے ہوے ازہان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا
نہں چھوڑ مجھے تو حنان
میں سوچ نہں سکتا تھا کے تم میرے ساتھ ایسا کرو گے ازہان نے
حنان کے ہاتھ جھٹکتے ہوے کہا
میری بات سن ازہان تو غلط سمجھ رہا ہے
میرا نہں کوئئ تعلق تاشہ سے
افسوس حنان تم کون ہو میرے یار
مجھ پہ اتنا بھروسہ نہں تھا تمہے کے تم مجھے بتاتے
میں تیرا بھائی ہوں یار تاشہ کو لے کر اور میری وجہ سے
تو گھر چھوڑ کے چلا گیا
مجھے یقین نہں آرہا
افسوس ہو رہا ہے مجھے تو
تاشہ تو لڑکی تھی مانا مجھے نہں بتا سکتی تھی مگر
تم حنان تم تو ۔۔۔۔
میرے دوست تھے
میرے بھائی ہر دکھ سکھ کا ساتھی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس ہو رہا ہے مجھے تم پہ نہں
اپنے آپ پہ ہو رہا ہے میں تمہارے لیے قابل بھروسہ نہں تھا تم نے بتانا تک گوارا نہں کیا
مجھے سمجھ تک نہں پاے تم یار
ازہان نے دکھ سے اسکی طرف دیکھا
تیری خوشی کے لیے میری جان حاضر ہے
اور تو ۔۔۔۔۔۔۔۔
تو بڑا آیا قربانی دینے والا ۔۔۔۔۔۔بات مت کرنا کبھی مجھ سے
پر ازہان تو تاشہ کو پسند کرتا ہے نہ تو
اور تاشہ کا کیا حنان
وہ ۔۔۔اسکی خوشی ۔۔۔۔۔کوئئ معنی نہں رکھتی کیا
وہ تمہے پسند کرتی ہے حنان مجھے نہں
اور میں اتنا خود غرض نہں
ہاں میں چاہتا ہوں اسے مگر
اس کو زبردستی "حاصل " کرنے کی مجھے کبھی بھی خواہش نہیں رہی اور نہ کبھی ہوگی
۔۔۔مجھے اس کی خوشیاں زیادہ عزیز ہیں😍
سب سے زیادہ۔۔۔۔اس کو پانے سے بھی زیادہ
اور اسکی خوشی میں نہں تم ہو یار
اور میرے لیے تم دونوں کی خوشی اہم ہے
دادو سے بات کر لوں گا میں
ویسے بھی کشف کے فیصلے کے بعد کافی بدلے ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مان جائئں گے
ازہان نے کہتے ہوے حنان کو گلے لگایا
________________________________________________________________________________________________________________________
سائئں معافی دے دو بچی ہے فاروق نے ہاتھ جوڑئے ہوے کہا
سب لوگوں نے حیرنگی سے دیکھا
او کوئئ بات نہں بابا سائئں کوئئ بات نہں
بچی ہے سنگرام نے کہتے ہوے مہک کی طرف دیکھا
مجھے پہلے بتا دیتےتو یہ سب نہ ہوتا نہ بابا
اب مجھے کیا پتہ تھا کے بچی چاہتی نہں شادی کرنا
میرا گاؤں ہے بابا
تو میں خیال رکھوں گا نہ سب کا
فاروق
سنگرام نے کہتے ہوے اس کی طرف دیکھا
جج جی سائئں ۔۔۔۔۔
فاروق نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا
بچی کو گھر لے جاؤ بابا
اور تم لوگ سب جاؤ اپنے گھروں کو شادی نہں ہو رہی
بچی کی رضامندی نہں نہ سائئں
دوسرا بچی بہت چھوٹی ہے مجھے اندازہ نہں تھا
کیوں فقیرو بتا تو دیتے نہ مجھے
سنگرام نے کرسی پہ بیٹھتے ہوے کہا
مم معافی سائئں فقیرو نے ھاتھ جوڑے
ہاں ہاں کوئی بات نہں
جاو سب ابھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا وادھن جا چھوڑ کے آ انکو گھر
جج جی بہتر سائئں ۔۔۔۔۔۔وادھن کہتے ہوے کھڑا ہوا
____________________________________________
کیا بات ہے مہر تم پریشان دکھائی دے رہے ہو کچھ
سحرنے اسکی طرف دیکھا جو سر تھامے بیٹھا تھا
ہمارا ہر داؤ الٹا پڑ رہا ہے سحر
پریشانی سے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
کیوں کیا ہوا مہر
سحر نے حیرنگی سے اسکی طرف دیکھتے ہوے پوچھا
ہمارے مارکیٹ شیر کی والیو کم ہوتی جا رہی ہے
مجھے لگا تھا دلاور کی
کنٹروورسی کے بعد ہمے فائدہ ہو گا
مگر۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ داؤ بھی ہمارا نہ چلا
اس کے شئیر کی ولیو کم ہونے کی جگہ اور زیادہ ہو گئ
میڈیا نے اسے سیلیبرٹی بنا دیا
دوسرا تمہے جس جگہ ہونا تھا وہ لڑکی آگئی
اب تو دلاور ولا میں رہ رہی ہے وہ دلاور کے ساتھ
مجھے تو تمہارا دلاور کے ساتھ ہونا بھی اب ممکن نہں لگ رہا سحر ۔۔۔۔۔۔مہر نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑا
اس دو ٹکے کی جاہل لڑکی کو تو میں زندہ نہں چھوڑوں گی
سحرنے کہتے ہوے گلاس زور سے نیچے پھینکا
تمہارے اسی غصے کی وجہ سے معملہ اور بگڑ جاتا ہے سحر
ہوش میں رہا کر تو
ورنہ اتنا بڑا لوس ہو گا کے اسکا ازالہ ممکن نہں ہو گا
سمجھی تو
مہر غصےسے کہتے ہوے کھڑا ہوا
تم سے کچھ نہں ہو گا سحر
دلاور کو شادی کے لیے راضی کرو نہں تو ہمارا دیوالیہ نکل جاے گا ۔۔۔۔۔۔
کہتے ہوے باہر چلا گیا
یہ یہ نہں ہو سکتا
مم میں دد دلاور کو کسی اور کا ۔۔
نن نہں بڑبڑاتے ہوے
سحر نے سر تھاما
__________´´´´¥________´´´´_____´´´´´¥______´´´´´´_______`````_______````_______``````_________________````````_______`````______````____`````_______
پتہ نہں کیسی ہو گی میری بچی کس حال میں ہو گی آمنہ بیگم نے روتے ہوے داود کی طرف دیکھا
ٹھیک ہے وہ آمنہ میری بات ہوئی ہے اس سے اور پھر جو کچھ ہوا اسکے بعد یہ سب اگر کشف نے کیا تو ٹھیک کیا نہ
کوئئ بات نہں اسکا بھی مائنڈ بدلے گا تھوڑا
یہاں جو کچھ ہوا بھول جاے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہاری بات کروا دے گا ازہان اسے کہہ دینا اور پھر وہ محفوظ ہے
لڑکے کو جانتا ہوں میں کئ بار ملا ہوں اپنے دلاور کا بہت اچھا دوست ہے دو بھائی ہیں دونؤں ساتھ رہتے ہیں
بہت بڑے لینڈ لورڈ ہیں ۔۔۔۔۔فکر مت کرو خاندانی ہیں ۔۔
ملک داود نے کہتے ہوے آمنہ بیگم کے آنسوں صاف کیے
ٹھیک ہے نہ میری بچی ۔۔۔۔۔فکرمندی چہرے سے واضح تھی
ہاں جی بلکل ٹھیک ہے وہ میری بھی بچی ہے آپ کی اکیلی کی نہں مجھے بھی فکر ہے اس کی
پل پل کی خبر ہے ۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کے لیے شوہر کو بھول گئ ہو آپ آج میری چاے نہں ملی مجھے ۔۔۔شکوہ بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔
ارے میں ابھی لائی کہتے ہوے اٹھ گئیں
یہ کیا کیا تو نے مہک
اب پتہ نہں کیا کرے گا سائئں اسکا ٹھنڈا مزاج نہں ہے جیسا اس نے رکھا
میں تو حیران ہوں
جانے کیسے دیا ہم لوگوں کو مہک
تیری وجہ سے کچھ بہت غلط ہونے والا ہے
مجھے لگ رہا ہے یہ ایسا کچھ
ارے نہں اماں
کچھ نہں ہو گا تو دیکھ لینا سب ٹھیک ہو جاے گا
اور اماں تھجے تو خوش ہونا چاہیے تھا نہ کے میں بچ گئ بڈھے سے
ارے بیٹاوہ تو خوش ہوں میں مگر
مگر کیا اماں مہک نے اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
دل ہول رہا ہے میرا
جیسے کچھ ہونے والا ہے بہت برا
ارے اماں ایسا کچھ نہں ہے تیرا وہم ہے بس
چل اب روٹی بنا دے پیاری اماں
صبح سے غم میں تھی
کچھ کھایا ہی نہں گیا
اب بھوک لگ رہی ہے بہت
مہک کہتے ہوے کھڑی ہوئی
اچھا بنا دیتی ہوں
پر تو کدھر جا رہی ہے
اس وقت رات کو (میراں نے پوچھا )
میں زارا حنا کو بھی لے آتی ہوں میرے غم میں اس نے کچھ نہں کھایا تھا
مہک کہتے ہوے باہر کی طرف بڑھی
یہ وقت ہے جانے کا کیا
شمس کے ابا روکتے کیوںکر نہں اسے
فاروق کی طرف دیکھا
ارے دروازے کے ساتھ تو گھر ہے
جانے دے فاروق نے کہتے ہوے مہک کی طرف دیکھا
جا بیٹاتو
جلدی آنا تیری ماں روٹی بنا رہی ہے
تو نے بے جا سر چڑھایا ہوا ہے اسے میراں نے شکوہ کیا
ارے جانے دے اسے جا بیٹا ابھی آنا
جی ابا
بس آئی کہتے ہوے باہر نکلی ۔۔۔۔۔۔
____________________________________________________________________________________________________
بابا سائیں چھٹانک بھر کی لڑکی پورے گاؤں کے سامنے میری عزت کی دھجیاں اڑا کر چلی گئ
سردار سنگرام کی
سنگرام نے فقیرو کو گریبان سے پکڑا
کک کیا حکم ہے سس سائئں
فقیرو نے گھبرا کر ہاتھ جوڑے
اس کو ایسی سزا دو
ایسی سزا کے سب کے لیے عبرت بن جاے
وہ چھوری اس کی اتنی ہمت
مجھے زلیل کیا
میرا کھاتے ہیں ۔
اور مجھ پہ ہی بھونکتے ہیں
کتوں کی اوقات ہی بھونکنا ہوتی ہے نہ بابا سائیں
کتے جتنی وفا نہں ان کمیوں میں
کہتے ہوے فقیرو کو دھکا دیا وہ دور جا گرا
وادھن ۔۔۔۔۔۔۔سنگرام نے اونچی آواز میں بلایا
جج جی سائئں
وادھن نے ہاتھ جوڑتے ہوے لرزتے ہوے لہجے میں کہا
چھوری کی ایک سہیلی ہے نہ
جج جی سائئں بجا فرمایا
مار دو اسکو
سنا ہے چھوری کے بھائی سے آنکھ مٹکا ہے اسکا
آدھا گاؤں جانتا ہے
اور آج تو چھوری کا بھائی بھی آرہا ہے
جج جی سائئں جج جو حکم
جاو دفع ہو جاؤ
اور اچھی خبر دینا مجھے
سنگرام نے حکہ گڑگڑاتے ہوے کہا
جی سائئں ۔۔۔وادھن نے ہاتھ جوڑے
جا مر
ابھی تک ادھر کیا کر رہا ہے
جی سائئں کہتے ہوے ودھن باہر کی طرف دوڑا
فقیرو
جا چھوری کے بھائی کو سیدھا حویلی لے کے آ
ہاں سن
جج جی سائئں
دھیان سے لانا اسے
کوئی دیکھے نہ
جج جی سائئں
سمجھ گیا کہتے ہوے فقیرو باہر دوڑ کر گیا
مجھے بے عزت کیا
چھوری اچھا نہں کیا
سنگرام کو
دیکھ اب تیرے ساتھ کیا کرتا ہے سنگرام
اب تو موت مانگے گی نہ
تو موت نہں ملے گی تھجے چھوری
تڑپے گی تو بس
اتنا زلیل ہو گی تو کے اپنے ہونے پہ افسوس ہو گا تھجے
یہ کیا کہہ رہا ہے تو فاروق کیا ہوامیرے بچے کو میراں نے چلاتے ہوے فاروق کا گریبان پکڑا
مجھے نہں پتہ پینچید بلائی ہے ان لوگوں نے
کک کیا ہو ہے بتا تو صیح مہک کا بابا
ارے مجھے نہں پتہ فاروق نے کہتے ہوے سر پکڑا
یہ سب تیری وجہ سے ہوا ہے تو مر جاتی
یہ سب نہ ہوتا میراں نے روتی ہوئئ مہک کی کمر پہ مارتے ہوے کہا
اماں مجھے کیا پتہ تھا ایسا کچھ ہو گا
چل نہ چل کے دیکھتے ہیں
چپ کر کے بہہ جا گھر باہر مت نکلنا سمجھی میں ہو کے آتی ہوں
مہک کی ماں اسے کہتے ہوے باہر نکلی
جبکہ مہک نے پریشانی سے ٹہلنا شروع کر دیا
__________________________________________________________________________________
کک کیا حح حنا کک کو مار دیا
شش شمس نے
وہ تو بہت بب بہت چاہتا تھا اسے ۔
یہ یہ کیا کہہ رہی ہو
نن نہں بے یقینی سے مہک نے حنا کی ماں کی طرف دیکھا جو اسے جھنجھوڑتے ہوے کہہ رہی تھی
کک کیا شش
شمس نن نشے میں تھا
مم مر گیا
یہ نن نہں ہو سکتا
مہک نے بے یقینی سے اپنے ارد گرد جمع ہوتے لوگوں کو دیکھا
یہ سب کک کیوں کر جمع ہو رہے ہیں
جھجھ جھوٹ ہے
مم میرا بھائی
وہ تو نن نشہ نہں کرتا تھا
کک کبھی بھی نہں
وو وڈیرے نے مار ڈالا اسے
مار ڈالا میری وو
وجہ سے مہک نے چیختے ہوے کہا
مم میں ہوں قاتل
میں نے مار ڈالا اپنی سہیلی کو
اپنے بھائی کو مم میں
میری وجہ سے ہوا یہ سب چلاتے ہوے بے حال ہو گیء
بے تحاشہ روتے روتے بے ہوش ہو کے گر گئی
سب لوگ ارد گرد جمع ہو گئے
____________________________________________________________________________________________________
سس سائیں لڑکی نے جرگہ بلا لیا ہے فقیرو نے کانپتے ہوے کہا
کیا بکواس کر رہا ہے تو فقیرو
سنگرام نے گرجتے ہوے اسے تھپڑ مارا
جج جی سائئں
آ آپ کو بلایا ہے جرگے نے
چھوری کی اتنی ہمت مجھے لگا بھائی مرے گا عقل آ جاے گی مگر یہ تو
اور پھیل گئ ہے
آ نے دو بابا
ہمے کیا ہے جرگے سے
ہم تو گاؤں میں تھے ہی نہں نہ
شہر تھے پیچھے کچھ ہو ہمارا کیا لینا دینا سائئں
جج جی بجا فرمایا آپ نے سائئں
کیا کر لے گی چھوری بنا ثبوت کے
بولو بابا
کچھ نہں سائئں ۔۔۔۔
تو بابا گھبرا کیوں کر رہا ہے
گاؤں کے لوگوں نے دیکھا انکو مرے ہوے تھے دونوں
میرا کوئی آدمی نہں تھا وہاں نہ بابا
جج جی سائیں
ہاں تو سنبھال لوں گا میں گھبرا کیوں کر رہے ہو سائیں
----_______________________________________________________________________________________________________________________
اس نے اس نے مار ڈالا
میرے بھائی اور میری دوست کو
مہک نے سنگرام کے آتے ہی اسے گریبان سے پکڑکر
چیختے ہوے جھنجھوڑا
صبر چھوری
تیرا دکھ سمجھ رہا ہوں میں سنگرام نے اس کے ہاتھ سختی سے پکڑ کر نیچے کیے
سرادار سنگرام تم پہ الزام ہے کے تم نے اس چھوری کے بھائی اور دوست کو مار ڈالا ذاتی دشمنی کی وجہ سے
سردار بخشو نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
کہنے کو تو میں آپکا نام بھی لے سکتا ہوں بابا
پر ثبوت کیا ہے سائئں
اسکا بھائی شہر جا کے نشے میں پڑ گیا
واپس آ کے چھوری کو ملنے بلایا نشے میں تھا اسکو مار ڈالا
جب ہوش آیا تو خودکشی کر لی بابا
اب میرا نام لے کے کیا ملے گا
میں تو گاؤں تھا ہی نہں پوچھو یہ فاروق چھورے کے باپ نے جاتے دیکھا تھا مجھے
میں تو تین دن بعد آیا ہوں میرے خاص فقیرو اور وادھن ساتھ تھے
بے بنیاد شک ہے بس
پتہ کر لو شہر سے بھی آپ ٹریفک سیگنل بھی توڑا تھا اور اتنا بڑا جرمانا بھرا تھا اسی رات جب یہ سب ہو گیا گاؤں میں
دوسرا پورا گاوں جانتا ہے
او چھوری کا آنکھ مٹکا چل رہا تھا
پوچھو گاؤں والوں سے کیا غلط بولا میں
سنگرام نے گاؤں والوں کی طرف دیکھا
نن نہں سائئں یہ سچ ہے سارے لوگ ایک زبان بولے
تو کون سا قتل کیا میں نے
سنگرام نے کہتے ہوے مہک کی طرف دیکھا جو بے یقینی سے گاؤں والؤں کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
سنگرام چلتے ہوے اسکے قریب آیا اور اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
یہ سچ ہے میں نے ماروایا دونوں کو
مگر گاؤں والے بھی سچے ہیں آہستہ سے کہتے ہو پیچھے ہوا
ابھی بچی دکھی ہے نہ سمجھ سکتا ہوں میں اسکا دکھ
ساری باتیں سننے کے بعد جرگہ سردار سنگرام سے معذرت چاہتا ہے
چھوری وقت ضائع کیا سب کا
دوبارہ غلطی نہ ہو ورنہ سزا ہو گی کہتے ہوے
سردار بخشو کھڑا ہوا
اسکے احترام میں سب کھڑے ہو گئے
ان کے جانے کے بعد سب چلے گئے آہستہ آہستہ
مہک بھی بوجھل قدموں سے ماں باپ کے ساتھ گھر آگئ
سحر غصےسے دلاور ولا میں داخل ہوئی
تم ابھی بھی یہاں ہو
مطلب مہر نے ٹھیک کہا
دفع ہو جاؤ تم یہاں سے
مم میں کک کہاں جج جاؤں
its none of my business
جہاں جاؤ تم
تفاخر سے کہتے ہوے اسکی طرف آئی
اور مہک کو بازوں سےپکڑ کر کھنچتےہوے کمرے سےباہر لائی
مم میری بات تومہک نے کچھ کہنا چاہا
چپ چلو تم
گھسٹتے ہوے باہر لائی
نکلو یہاں سے تم
مہک کو مین گیٹ سے باہر دھکا دیتے ہوے کہا
مہک نیچے گر گئ اٹھتے ہوے
ڈبڈبائی آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا
میں کدھر جاؤں گی
دفع ہو جاو میری بلا سے جہاں جاؤ تم
بند کرو گیٹ کہتے ہوے
اندر چلی گیء
_______________________________________________________________________________________________’’’’’’’’’’’________’’’’’’¥____’’’’’’’’_________’’’’’’’’’’’________
دلاور جیسے گھر میں داخل ہوا رحیم (باورچی )نے اسے جوس کا گلاس دیا
ھمھمھم
دلاور نے گلاس پکڑکر ادھر ادھر دیکھا
رحیم ۔۔۔۔۔۔دلاور نے پکارا
جاتے ہوے رحیم نے پلٹ کر دیکھا
جی سر ۔۔۔۔۔۔
یہ مہک کہاں ہے دلاور نے پوچھا
جی وہ ۔۔۔۔۔۔کہتے ہوے چپ ہوا
کیا وہ
بولو چپ کیوں ہو
دلاور نے اسکی طرف پریشانی سے دیکھا
سس سحر میم آئی تھی
کیا سحر آئی تھی دلاور نے چونک کے دیکھا
جج جی اس نے
اس نے کیا رحیم جلدی بولو دلاور نے اضطراب سے کہا
اس نے مم مہک میم کو نکال دیا گھر سے دھکے دے کر
یہ کیا کہہ رہے ہو رحیم
دلاور نے غصےسے گلاس دیوار پہ پھنکا
وہ میری ذمہ داری ہے
اور لوگ اسکی جان کے دشمن ہیں
پتہ نہں کہاں گئی ہو گی
ڈرائیور گاڑی نکالو
کہتے ہوے باہر نکلا
_______________________________________________________________________________________’___________
کشف شاہ میر نے اسکے کمرے کےداروازے پہ آ کے آواز دی
ہاں کشف نے ناول بند کر کے
اسکی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا
تم اتنا تیار ہو کے کہاں جا رہے ہو
کشف نے حیرنگی سے دیکھا
مجھے باہر کام ہے تھوڑا
ہاں تو جاؤ یہاں آکر
مجھے کیوں کر بتا رہے ہو چڑ کے کہتے ہوے دبارہ ناول کھولا
شاہ میر چلتے ہوے اسکے پاس آیا اور ناول کھنچا اس کے ہاتھ سے
میرا ناول واپس کرو تم شاہ میر کشف نے کھڑے ہوتے ہوے اسکی طرف دیکھا
اچھا یہ ناول پڑھ رہی ہو تم مت پڑھو فضول ہے بہت
اس میں تو ہیرو کا جو باپ ہوتا ہے نہ وہ
چپ آگے کچھ مت کہنا شاہ میر پلز مجھے خود پڑھنا ہے
کشف نے کہتے ہوے اسکی طرف معصومیت سے دیکھا
چلو نہں بتاتا ہنسی دبا کے کہا میری بات سنو پہلے
ہاں بتاؤ کیا کہہ رہے تھے تم کشف نے ناول ہاتھ سے لیتے ہوے کہا
یار میں باہر جا رہا ہوں میری میٹنگ ہے تم کھانا بنا لو گی
مجھے آنے میں شاید کافی دیر ہو جاے گی
اچانک سے میٹنگ فکس ہو گیء ورنہ میں خود بنا کے جاتا
شاہ میر نے عجلت میں کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
ہاں اوکے کہتے ہوے ناول کھولا
فریج میں چکن کے پیکٹ ہیں باقی ساری چیزیں کچن میں موجود ہیں کہتے ہوے باہر نکل گیا
کشف نے دبارہ ناول کھول لیا
___________________________________________________________________________
دلاور پاگلوں کی طرح سارا دن مہک کو ڈھونڈتا رہا تھک ہار کر وہ فٹ پاتھ پہ کھڑا ہو گیا
اور ارد گرد دیکھنے لگا
ہر طرف خانہ بدوش تھے
دلاور نے ذہن میں آئی سوچ پہ سر جھٹکا
اور جانے کے لیے مڑا ہی تھا
جب اسکی نظر سامنے کانہ بدوشوں کے درمیان بیٹھی مہک پہ پڑی جو گھٹنوں میں سر دئیے زارو قطار رو رہی تھی
دلاور تقریباً بھاگتے ہوے اسکے پاس گیا
اور غصےسے پکارا اسے مہک
اس نے سر اٹھا کر بے یقینی سے دیکھا
تم کیوں نکلی گھر سے پاگل ہو کیا تم
پتہ ہے کتنا ڈر گیا تھا میں تمہے کچھ ہو جاتا تو غصےسے کہتےہوے اسکی طرف بڑھا
اسکی آواز سن کر مہک نے اپر دیکھا
اور بنا اسکی بات کا جواب دئیے اسکی طرف بھا گ کے آئی اور اسکے سینے سے آلگی
مم مجھے لے جاؤ
یہ یہ لوگ بہت برے ہیں
گگ گاؤں مم میں لل لے جائئں گے مجھے
دیکھ لیا بب بہت مشکل سے بھاگ کے آئی
پھپھ پھر ماریں گے جج جلائئں گے
جج جان سے مار دیں گے
وہ وہ سنگرا
بب بری نظر سے دیکھتا ہے زارو قطار روتے ہوے کہا بب بہت مشکل سے چھپی میں ان سے کانپتے ہوے وہ اسکے سینے سےلگے کہہ رہی تھی
دلاور نے اپنا ہاتھ اسکے گرد حمائل کیا
کیا ہوا مہک تم ٹھیک ہو نا کسی نے کچھ کہا تو نہں فکر مندی سے پوچھتے ہوے اسکی تھوڑی کو پکڑ کر چہرہ اونچا کیا
بتاؤمجھے
نن نہں مم میں ٹھیک ہوں
ادھر کے لوگ بھی بہت برے ہیں
گاؤں سے زیادہ
کک کوئئ کہتا میرے ساتھ چلو گی
کک کوئی پپ پوچھتا کک کتنے پیسے لو گی
روتے ہوے بتایا
بس چپ مہک چلو گھر کہتے ہوے اسے خود سے الگ کیا
اورہاتھ پکڑکر گاڑی تک لایا
اور اسے بیٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا
اور چپ چاپ گاڑی آگے بڑھا دی
______________
یہ ہم کک کہاں آگئے ہیں مہک نے چونک کے دیکھا
چلو میرے ساتھ دلاور نے اسکا ہاتھ پکڑا اور اندر داخل ہوا
سامنے ہی سحر کھڑی تھی
مہک نے ڈر کے دلاور کے ہاتھ کو کس کے پکڑا اور اس کی چوڑی پشت کے پیچھے چھپ گئی
دلاور تم واٹ آ سرپرائز
کہتے ہوے سحر اسکی طرف آئی
چٹاخ کی آواز سے دلاور نے زور دار تھپڑ اسکے منہ پہ مارا
تھپڑ اتنا زور دار تھا کے وہ لڑکھڑا گئی
میرے ہی گھر آ کر میری ہی بیوی کوگھر سے نکالنے کی ہمت کیسے کی تم نے
وہ دھاڑا ۔۔۔اور اسکیطرف بڑھا
سحرایوب کو مارا تم نے سحرایوب کو سحرنے گال پہ ہاتھ رکھ کر بے یقینی سے اسکی طرف دیکھا
دلاور نے آگے بڑھ اسے دھکا دیا
ہمت کیسے کی تم نے
جان لے لوں گا تمہاری دبارہ کیا توکچھ
یہ صرف وارن کیا میں نے تمہے اگر دبارہ ایسا کیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انگلی اٹھاکر وارن کیا
اور مہک کو لے کے باہر چلا گیا
وہ چھوری مجھے لے کے گئ پینچید میں
اسکی اتنی ہمت سردار سنگرام کو بے عزت کرے گی وہ
بہت ہمت بڑھ گئ اسکی
بابا فقیرو سبق سیکھاو اسے
جو حکم سائئں جو حکم فقیرو نے کہتے ہوے ہاتھوں کو جوڑا
تبھی بھاگتے ہوے وادھن اندر داخل ہوا
کیا موت پڑی ہے وادھن موت کا فرشتہ دیکھ لیا کیا جو
سانس پھول رہا ہے تیرا بابا
سنگرام نے کہتے ہوے اسکی طرف دیکھا
سائیں ایسی خبر لایا ہوں آپ خوش ہو جاو گے
اچھا بابا ایسی کیا خبر لایا ہے تو زرا بتا تو
سنگرام نے سر کرسی کی پشت سے ہٹا کر سیدھا ہو کے بیٹھتے ہوے کہا
او چھوری مہک کا چکر چل رہیا سی سائئں ۔۔۔۔۔۔
او چھورے سبطین سنگ
کیا کہہ رہا ہے تو سبطین سنگ سنگرام نے چونکتے ہوے کہا
جج جی سائئں خبر پکی ہے
ھممھم ۔۔۔۔۔۔۔۔سنگرام نے گہری سوچ میں کہا
بابا جو کرنا ہو گا سبطین کی غیر موجودگی میں کرنا ہو گا اور سن وادھن یہ خبر باہر نہں جانی چاہیے
جج جو حکم سائئں
اب کیا حکم ہے چھوری کو مار دیں
فقیرو نے ہاتھ جوڑتے ہوے کہا
پاگل ہے کیا تو فقیرو اتنی آسان موت مرے گی کیا چھوری
تڑپ تڑپ کے مری گی موت مانگے گی موت نہں ملے گی اسے
سمجھا تو سردار سنگرام کو گھسیٹے گی پینچید میں
او چھوری نہ بابا نہ
موت ملے گی اسے پر بھیانک موت ملے گی
_________________________________________________________________________________________________________________________________________
بابا فقیرو
جج جی سائئں وہ اپنے جابر کا بھتیجا ہے نہ سبطین
جس پہ چھوری کا دل آیا
سنگرام نےچہرے پہ شیطانیت سجاے کہا
جج جی سائئں حکم سائئں فقیرو نے سر جھکاتے ہوے ہاتھ جوڑئے
اسکا بیٹا آیا تھا نہ کچھ عرصہ پہلے کام مانگنے
جی سائئں
ہاں تو بابا بلاؤ اسکو کام دینا ہے
کیا بول رہا تھا وہ
سائئں کے لیے جان دے بھی دونوں گا اور لے بھی لوں گا
جج جی سائئں یہی بولا تھا
ہاں تو بابا اسکی جان چاہیے مجھے اس طرح کے الزام اس فاروق پہ آے سمجھ گیا نہ تو
جی سائئں جو حکم
اب اس چھوری کو پتہ چلے گا کے کیا ہوتا ہے انجام سردار سنگرام سے دشمنی کا
ہاہاہاہاہا
جاؤ بابا کام ہو جانا چاہیے
چھورے کو بولو چھوری کو لائے
اور ساتھ جا تو بھی پیچھا کرنا زہر اتنا دینا چھورے کو کے جھگڑے میں مرے پہلے نہں
سمجھا تو ۔۔۔۔۔۔۔
دیر سے اثر ہوتا ہے نہ وہ زہر دینا اسے سمجھا تو
جج جی سائئں ۔۔۔۔۔۔
جا تو اب
جو حکم سائئں کہتے ہوے فقیرو باہر چلا گیا
____________________________________________________________________```````______```````___________`````_________``````_______``````______``````_____
علی بھبھ بھائی چھوڑو مجھے یہ کیا کر رہے ہو تم
مہک نے چیختے ہوے خود کو چھوڑانے کی کوشش کی
ابا
اماں بچاؤ مجھے
مہک نے چلاتے ہوے مدد کے لیے بلایا ۔۔۔
چپ کر چھوری چل میرے ساتھ سائئں سے معافی مانگ لے بات نہ بڑھا مہک
تو جانتی ہے نہ ورنہ انجام کیا ہو گا
چچا کو بھی مار دیں گے
چل میں بات کروں گا سائئں سے تیری معافی کی
وہ بغیرت ہے وہ مار دے گا مجھے اور تو اس کے ہاتھوں بک گیا ہے
چھوڑو مجھے مہک نے اپنا ہاتھ چھوڑانے کی کوشش کی
تو ایسے نہں مانے گی چلنا تو پڑے گا تھجے چل
سید علی نے غصےسے کہتے ہوے اسے کھنچا اور آگے چلنے لگا مہک اس کے پیچھے گھسٹتے ہوے جانے لگی جب
فاروق دور سے چلایا
چھوڑو میری بیٹی کو تم پاگل ہو گئے ہو کیا
کر کیا رہے ہو فاروق نے ساتھ آکر
اسے دھکا دیا
چچا تو ہٹ جا دیکھ اسے سائئں نے لانے کو کہا ہے
جانا تو پڑے گا نہ علی نے کہتے ہوے مہک کو گھسٹا
چٹاخ کی آواز سے زور دار تھپڑ اس کے منہ پہ مارا اور مہک کا ہاتھ چھوڑانے لگا اس کھنچا تانی میں
فاروق نے اسے ایک اور دھکا دیا سید علی دور جا
گرا اسکا سر پتھر پہ لگا اور وہ موقع پہ ہی چل بسا
ابا مہک نے چلاتے ہوے ان کے سینے پہ سر رکھا
گاؤں کے لوگ جو تماشادیکھ رہے تھے سب کہنے لگے
فاروق نے سید علی کا قتل کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
-----_____________________________________________________________________________________________________’’’’’’’’’______________________________
جرگے کا فیصلہ سننے کے لیے پورا گاؤں مخصوص جگہ جمع تھا
فاروق میراں اور مہک مجرموں کی طرح کھڑے تھے
سب کے درمیان فیصلے کے انتظار میں
گاؤں کے سارے بڑے اور اردگرد کے سردار آچکے تھے
تبھی بخشو بولا ۔۔
ہاں تو چھوری کو چھوڑانے کے لیے تو نے مار ہی ڈالا اس چھورے کو
کیوں فاروق
سس سائئں پکڑکر لے جا رہا تھا مم میری بیٹی کک کو
مم میں نے تو صرف دھکادیا تھا
سائئں وہ مر تو گیا نہ جیسے مرا
سید جابر کا اکلوتا بیٹا تھا بڑھاپے کا سہارا تھا
انصاف تو ملنا چاہیے نہ
کیوں پکڑکر لے جا رہا تھا وہ چھوری کو
سس سائئں سنگرام نے کہا تھا اسے لانے کے لیے مم مجھے بتایا تھا اس نے
سائئں بابا سراسر الزام ہے یہ مجھ پہ
میں کیوںکر بلاؤں گا
میں نے تو چھوری کو نہں بلایا
تھا نہ وہ چھورا میرا کام کرتا تھا
نہ حویلی ہوتا تھا
کیوں سچ ہے نہ یہ کہتے ہوے گاؤں والوں کی طرف دیکھا
یہ تو پورا گاؤں جانتا ہے
اور پھر کیا پتہ تیری چھوری کا کیا چکر تھا اس سے
شادی سے بھی تو منع کیا تھا نہ
بنا وجہ تو نہں کیا ہو گا نہ بابا سوچنے کی بات ہے یہ
سزا تو ملے گی نہ اب ونی ہونا ہو گا مہک کو بابابابا
اس کے بنا کوئی راستہ نہں
سنگرام نے شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ سجاے مہک کی طرف دیکھا
نن نہں سس سائئں رحم مم مجھے مار دو مم میری بیٹی کو یہ سزا نہں دو سائئں
مہک بلکل سن سی کھڑی تھی جیسے بے جان مورت ہو
یہ تو گاؤں کی روایات ہے بدلی نہں جا سکتی بابا
اور پھر تو مر گیا تو تیری بیوی اور بیٹی کا کیا ہو گا
فیصلہ ہو گیا اب تو مہک کو سید جابر کے نکاح میں دینا ہو گا سردار بخشو نے کہا
یہی جرگے کا فیصلہ ہے
فاروق بے جان جسم کے ساتھ روتے ہوے نیچے بیٹھ گیا میراں گر کر بے ہوش ہو گیء
تبھی سبطین مجمع کو چیرتے ہوے آیا اور حیرت سے سمجھنے کی کوشش کرنے لگا
اس کے ہاتھ میں سرخ پھولوں والی چادر تھی( جو وہ شہر سے مہک کے لیے لایا تھا )
تبھی سنگرام چلتے ہوے اسکی طرف آیا اور چادر لے لی اس کے ہاتھ سے
اور مہک پہ ڈالی
میرے سے شادی کرتی تو مہارانی ہوتی تو
آج باندی بن کے جا رہی تو موت سے بدتر زندگی ملی تھجے
اس گھر میں اسکے سامنے رہے گی جس سے تو پیار کرتی ہے اسکی چچی بن اسکے کان میں کے سرگوشی کی
پل پل مرے گی تو جینا حرام ہو جاے گا تیرا
انکا اکلوتا بیٹا مرا ہے تیری وجہ سے
کہتے ہوے اسکا ہاتھ تھاما اور سید جابر کے ساتھ بیٹھا دیا
پھر اسکا یاتھ پکڑ کر اسکا انگھوٹھا لگایا نکاح نامے پہ
جنت بی نے اسی دبپٹے سے پکڑکر اسے کھنچنا شروع کیا
جیسے پالتو جانور ہو وہ ۔۔۔۔۔
مہک بے جان قدموں سے چپ چاپ چلنے لگی
جب کے سبطین اپنی جگہ پہ ساکت تھا
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Bandi Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Bandi written by Anaya Khan.Bandi by Anaya Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment