Misal E Ishq Season 1 By AK New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Misal E Ishq Season 1 By AK New Complete Romantic Novel |
Novel Name: Misal E Ishq Season 1
Writer Name: AK
Category: Complete Novel
وسیع و شان بنی ہوئی یہ حویلی چودھریوں کی ملکیت تھی۔۔جو اندرونِ سندھ کے ایک گاؤں میں واقع تھی۔۔۔پورے گائوں میں چودہری حسنین کا ایک دبدبہ تھا۔۔۔۔۔گاؤں کا ہر فیصلہ وہی کرتے تھے۔۔۔۔
اُن کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔۔۔بڑے بیٹے شجاعت چودہری کی شادی اُنکی پسند سے نعیمہ سے ہوئی تھی جو انتہائی سادہ طبیعت کی مالک تھی۔۔۔چھوٹے بیٹے اسامہ کی شادی انہوں نے اپنے خاندان میں کی تھی فوزیہ سے جو انتہائی نکچری طبیعت کی مالک تھی۔۔۔۔بیٹی فاطمہ کو اُنہوں نے خالہ زاد کزن کے ساتھ بیاہا تھا۔جو پیشے سے فوجی تھے ۔۔۔۔۔
انکا چھوٹا سا گھرانہ بہت خوشحال تھا۔۔۔لیکن نعیمہ اور شجاعت کی زندگی میں اولاد کی کمی تھی۔۔۔وہ جب بھی فوزیہ کو اپنے بیٹے طلحہ کے ساتھ دیکھتے تو اپنی اولاد کی کمی شدت سے محسوس ہوتی تھی۔۔فوزیہ جو پہلے ہی مغرور طبیعت کی مالک تھی طلحہ کے انے کے بعد اُن کے غرور میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
آخر کار پانچ سال بعد اللہ نے انہیں اولاد کی نعمت سے نوازا تھا خضر جو خوبصورتی میں سب سے الگ تھا۔۔۔۔لیکن پیدائشی طور پر اُسکے ایک ہاتھ کا پنچا نہیں تھا۔۔۔یہ ایک کمی اُس وجود میں تھی ۔۔۔لیکن حسنین صاحب نے اپنے پوتے کو اس کمی کا احساس نہیں ہونے دیا شجاعت صاحب نعیمہ سب خوش تھے۔۔۔اگر کوئی خوش نہیں تھا تو وہ تھی فوزیہ۔۔۔کیونکہ حسنین صاحب نے خضر کے پیدا ہوتے ہی اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ آگے وہ اُنکی گدی سنبھالے گا۔۔۔۔۔۔
سب کچھ صحیح چل رہا تھا خضر کا دماغ نارمل بچوں سے تیز تھا اُسے بےحد لاڈ پیار سے پالا گیا تھا قیامت تو تب ٹوٹی جب کسی دعوت میں جاتے ہوئے شجاعت صاحب اور نعیمہ بیگم کا ایکسڈنٹ ہوگیا اور دونوں جائے وقو پر فوت ہوگئے خضر تب دس سال کا تھا۔۔۔۔۔
ماں باپ کے جانے کے بعد جو وہ پہلے ہنستا کھیلتا تھا سنجیدہ سا ہوگیا تھا آئے دن اپنی چاچی سے اپنی معذوری کے بارے میں طعنے سنتا وہ اُن سے سخت نفرت کرنے لگا تھا۔۔۔۔
حسنین صاحب سارا دن جرگے اور گاؤں کے فیصلوں میں مصروف ہوتے تھے لیکن رات کے ٹائم جب تک وہ خضر کو اپنے حصار میں لے کر نہ سوئے اُنہیں نیند نہیں اتی تھی اور خضر کے لیے بھی رات کا وقت سکون دہ ہوتا جہاں وہ اپنی چاچی اور کزن کی مذاق اراتی نظروں سے بچ کر اپنے دادا کے بازوں میں سو جاتا تھا۔۔۔۔۔
ابھی وہ ایک قیامت گزرنے سے سمنبھلے ہی تھے جب فاطمہ بیگم بیوگی کی چادر اوڑھے اپنی تین سالہ فلک کے ساتھ اپنے باپ کی دہلیز پر ائی ۔۔۔۔۔۔۔شوہر کی شہادت پر وہ بری طرح متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
پھر انہوں نے اپنے دکھ سے نکل کر خضر کی پرورش کی اس طرح خضر کو بھی فلک کے روپ میں ایک دوست مل گئی اور فاطمہ بیگم کے روپ میں ایک ماں۔۔۔۔۔جن سے وہ اپنی ہر بات آسانی سے شیئر کرسکتا تھا۔۔۔۔
وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزرتا گیا۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗
بارہ سال بعد۔۔۔۔
تھوڑی دیر میں نکاح ہے تم دونوں کا ۔۔۔۔ایک سخت آواز پر فلک نے اپنے گھٹنوں سے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔
میں یہ نکاح نہیں کرونگا۔۔۔۔کونے میں کھڑے اُس نوجوان نے سخت نظروں سے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
نکاح تو تم دونوں کو کرنا پڑے گا نکاح کرو گے تو ہی یہاں سے سردار تم دونوں کو جانے دے گے ورنہ نہیں۔۔۔۔۔وہی سخت آواز گونجی۔۔۔۔
میری بات سنے ہمارے درمیان کچھ نہیں ہوا تھا۔۔۔آپ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔۔۔فلک نے کھڑے ہوتے سامنے موجود لمبے سے آدمی کو دیکھتے ہوئے روتے ہوئے کہا۔۔۔
لڑکی ہم کچھ نہیں جانتے جو ہم نے اپنی نظروں سے دیکھا وہ کافی تھا ۔۔۔اب نکاح کے لئے خود کو تیار کرو۔۔۔وہ آدمی سختی سے بولتا ہوا چلا گیا۔۔۔۔
یہی چاہتی تھی نہ تم ۔۔۔۔تم جیسی امیر زادیوں کو نہ اپنی عزت کی فکر ہوتی ہے نہ دوسروں کی۔۔۔۔۔۔کامل نے فلک کے نزدیک آکر اُسکا بازو اپنی سخت گرفت میں لیں کر کہا۔۔۔۔۔۔۔
پر میں نے سب جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔۔
مجھے یقین ہے خضر آکر مجھے بچا لے گا۔۔۔فلک نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے ایک مان سے کہا۔۔۔
اوہ بی بی ہوش میں اؤ۔۔۔۔کوئی نہیں انے والا تمہیں بچانے کے لئے آخری راستہ یہی بچا ہے کہ نکاح کر کے یہاں سے نکلے پھر باہر کی دنیا میں نہ میں تمہیں جانتا ہُوں اور نہ تم مجھے۔۔۔کامل کے لہجے میں بیزاری تھی۔۔۔۔۔
اسکی بات پر فلک زمین پر بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔۔
میری نیکی میرے غلے پڑ گئی۔۔۔کامل نے ایک نظر فلک کے روتے وجود کو دیکھ کر کہا۔۔۔
کچھ دیر پہلے کا منظر اُسکی نظروں میں گھوما۔۔۔۔
وہ اور کامل کلاس میٹ تھے لیکن وہ زیادہ کامل سے بات نہیں کرتی تھی یہ یہ کہنا صحیح ہوگا وہ کامل کو جانتی بھی نہ تھی کہ وہ اُسکی کلاس میں پڑھتا ہے۔۔۔۔۔
اُنکی یونی سے ٹرپ سوات میں گھومنے کے لئے ایا تھا۔۔۔وہ بھی خوشی خوشی نہتی گہری نہر کے اوپر بنے پُل پر کھڑی اپنی تصویریں بنا رہی تھی جب اُسکے ہاتھ سے موبائل نہر میں گرا۔۔۔
اوہ یہ کیا ہوا میرا اتنا مہنگا موبائل۔۔۔۔فلک نے پُل کی ریلنگ پر چڑھتے نیچے دیکھتے ہوئے کہا وہ تقریباً جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔
کامل جو ایک کونے میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔۔۔وہ سمجھا شاید فلک خود خوشی کر رہی ہے اسی لئے فوراً اُسکی طرف بھاگا۔۔۔۔اُس نے اطراف میں دیکھا جہاں کوئی نہیں تھا کیونکہ سب کھانا کھانے کے لئے چلے گئے تھے۔۔۔۔اُسکے قدموں کی رفتار میں تیزی ائی۔۔۔۔
رُک جاؤ میڈم کیا کر رہی ہو۔۔۔کامل کی آواز پر وہ جو دریا میں اپنا موبائل دوبٹا دیکھ رہی تھی اچانک سے ڈری اور نیچے گرتی چلی گئی۔۔۔اُسے پکڑنے کے لئے کامل آگے بڑھا لیکن پاؤں ڈس بیلنس ہونے سے وہ بھی فلک کے ساتھ نہر میں گرا تھا۔۔۔نہر کا ٹھنڈا ٹھاٹھے مارتا پانی پل میں اُنہیں اپنے اندر ڈوبا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
کامل تیرنا جانتا تھا اسی لیے کچھ ہی دوری پر ڈوبتا فلک کا وجود اپنی طرف کھینچتے وہ نہر سے اوپر ہوکر تیرنے کی کوشش کرنے لگا تھا۔۔۔۔۔
لیکن پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔۔۔۔
کامل کو ہوش آیا تو وہ کسی گھنے جنگل میں موجود نہر کے کنارے پر پڑے ہوئے تھے۔۔۔کامل نے آٹھ کر دیکھا تو فلک بھی اُسکے ساتھ ہی موجود تھی۔۔۔۔۔
کامل نے فوراً سے اُسکی سانسیں چیک کی جو بہت مدھم چل رہی تھی۔۔۔۔اُس نے فلک کے بھیگے وجود سے نظریں چرائی جو لال رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ میں ملبوس تھی شرٹ گیلی ہونے کی وجہ سے اُسکے بدن کے خدوخال صاف ظاہر ہورہے تھے ۔۔۔۔
کامل نے اُسکے پیٹ پر اپنے ہاتھ کا دباؤ دیا تاکہ پانی باہر اسکے ۔۔۔لیکن سب بےسدھ۔۔۔۔۔
ایک ہی راستہ بچتا تھا۔۔۔کامل نے گہرا سانس بھرتے اُسکے چہرے پر دیکھا۔۔۔لمبی پلکیں سفید و سرخ گالوں پر بیچھی ہوئی تھی چھوٹی سی ناک۔۔۔جس میں سلور کی چھوٹی سی نتھنی تھی جس میں ایک چھوٹا سا نگ لگا ہوا تھا گلابی لب۔۔۔۔
وہ کتنی حسین تھی۔۔۔۔اُسکا حسن کسی کو بھی پاگل کردینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔۔
اپنے خیالات کو جھٹک کر کامل نے اپنے لب فلک کے لبوں پر رکھتے اُسے اپنی سانس دی۔۔۔۔۔
کچھ پل بعد کامل اُس سے دور ہوا تو فلک کی سانسوں میں تھوڑی تیزی ائی۔۔۔
کامل ایک اور بار اُن گلابی لبوں پر جھکا تھا۔۔۔جب فلک گہرے گہرے سانس لیتی کھانستی۔ ہوئی ہوش میں ائی تھی۔۔۔۔
اُس نے سامنے کامل کو دیکھا پھر ایک نظر چاروں طرف دوڑائیں ۔۔۔کامل کے نظریں چرانے پر وہ جان گئی تھی کہ وہ ہوش میں کیسے ائی ہے ۔۔۔۔
شکریہ ۔۔۔۔فلک نے اُسکی طرف دیکھنے سے اجتناب برتتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اٹھو دونوں۔۔۔کامل کچھ بولتا جب ایک سخت آواز اور اپنے گردن پر کوئی ٹھندی چیز محسوس کر کے وہ فوراً سے پلٹا۔۔۔۔
جہاں پانچ ہٹے کٹے آدمی بندوقیں تھامے۔۔۔اُنکی طرف سخت نظروں سے گھور رہے تھے۔۔۔۔
بیساختہ اُس نے فلک کو اپنے وجود کے پیچھے چھپایا تھا۔۔۔۔۔
لے چلو انہیں۔۔۔۔بیچ میں کھڑے لمبے ترنگے آدمی جس کی مونچھیں اُسکے ہونٹوں سے بھی لمبی تھی۔۔۔۔سخت اور بلند آواز میں بولا۔۔۔۔۔
لیکن ہم کیوں جائے ۔۔۔ہم یہاں غلطی سے اگئے ہے پلیز آپ لوگ ہماری مدد کر کے ہمیں ہوٹل تک لے جائے۔۔۔فلک نے تیزی سے کہا۔۔۔۔
چپ کرو لڑکی اور چپ چاپ جاکر گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔۔۔خوب سمجھتا ہُوں تم شہری لڑکوں اور لڑکیوں کو عیاشی کرتے ہو لیکن شادی نہیں۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔وہی آدمی غصے سے پلٹ کر بولا اسکی بات پر فلک کی آنکھیں پھیلی۔۔۔کامل کے بھی ماتھے پر بل پڑے ۔۔۔۔۔
آپ جیسا سمجھ رہے ہیں ویسا کچھ نہیں ہوا ہے یہ پانی میں ڈوب گئی تھی اسی لئے میں نے وہ سب کیا تاکہ اُنکی سانس واپس اسکے ۔۔کامل کا دل تو نہیں تھا وضاحت دینے کا لیکن یہاں معاملہ ایک لڑکی کی عزت کا تھا اسی لئے بولا ۔۔۔۔
وہ تو ہم دیکھ ہی چکے ہے بہتری اسی میں ہے لڑکے چپ چاپ گاڑی میں بیٹھو۔۔۔۔سخت آواز میں بولتا ہوا آگے بڑھ گیا جب کامل اور فلک بھی اپنے لب بھینچے سامنے کھڑی جیپ میں بیٹھ گئے تھے۔۔۔جبکہ دو بندوقیں اُن کے سر پر تنی ہوئی تھی ۔۔۔۔
فلک نے ڈر کر کامل کا بازو پکڑا ہوا تھا اور وہ ضبط سے یہ سب دیکھ رہا تھا وہ سمجھ گیا تھا وہ ان لوگوں کے علاقے میں آگئے تھے اور جانتا تھا وہ اتنی آسانی سے ان لوگوں کو یہاں سے جانے نہیں دے گے۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗
دروازے کھولنے کی آواز میں ہوش میں ائی۔۔۔۔دروازے سے دو عورتیں اندر ائی تھی جنہوں نے اپنے منہ ڈھاپے ہوئے تھے۔۔۔۔
آپ چلو ہمارے ساتھ سردار کا حکم ہے آپکو نکاح کے لئے تیار کرنا ہے ۔۔۔۔ایک عورت نے فلک کے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر کامل نے ایک نظر اُسکے سراپے کو دیکھا تھا جو اب ہلکا ہلکا سوکھ گیا تھا۔۔۔اُس نے غصے سے اپنے لب بھنچے۔۔۔۔
فلک کسی روبوٹ کی مانند انکے ساتھ چلی گئی تھی۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗💗
ضبط کے ساتھ اس نے قبول ہے بولا تھا۔۔۔آنکھوں کے پردوں پر فلک کا خوبصورت چہرہ اور سراپا لہرایا۔۔۔۔۔دل کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔۔۔پھر سر جھٹک کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سردار نے اُسے ایک کمرے میں جانے کا بولا۔۔۔وہ جانا تو نہیں چاہتا تھا لیکن جانتا تھا باہر رہا تو یہ سردار اُسے گولی مارنے سے بھی پرہیز نہیں کرے گا۔۔۔۔
وہ جو پورے دن میں ہوئے تمام واقعات کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی تھک گئی تھی اوپر سے اتنا بھاری جوڑا اُسکی قمر آکر سی گئی تھی۔۔۔اپنے آنکھیں بند کے تکیہ پر سر ٹکا کر وہ سو گئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ دیر پر بعد کامل کمرے میں داخل ہوا۔۔۔داخل ہوتے ہی جو منظر اُس نے دیکھا تھا اُسکے حواس جھنجھنا اٹھے تھے۔۔۔۔
سامنے لال رنگ کی کھلی فروک جو گھٹنوں تک اتی تھی لال رنگ کا کھلا پاجامہ پہنے ماتھے پر ماتھا پٹی باندھے ہونٹوں کو سرخ رنگ سے رنگے۔۔۔وہ حسین مورت کی طرح بیڈ پر لیتی ہوئی تھی۔۔۔ایک ہاتھ پیٹ پر جبکہ دوسرا بیڈ پر تھا۔۔۔۔۔
فلک کو دیکھتے ہی ایک جذبات کا طوفان تھا جو کامل کے وجود میں اُترا تھا ۔۔۔دروازہ بند کر کے ایک ضبط کے ساتھ اُس نے اپنے قدم بیڈ کے دوسرے کونے کی طرف بڑھائے تھے کمرے میں کوئی صوفہ نہیں تھا جہاں وہ سو سکتا۔۔۔
اپنے برابر میں ایک نرم نازک وجود کی بھینی بھینی خوشبو اُسکے حواس محتمل کر رہی تھی۔۔۔۔۔
ضبط تو تب ٹوٹا جب فلک نے کروٹ بدل کر کامل کی پشت پر اپنا سر رکھا۔۔۔۔
کتنا ضبط کرتا خود پر پہلو میں نسوانی حسین وجود جس کو چھونے کا اسکو پورا حق تھا ۔۔۔۔جوان جسم کے تقاضے اُسے سونے نہیں دے رہے تھے۔۔۔۔
کروٹ بدل کر فلک کے اوپر سایہ کیا۔۔۔فلک ذرا سا کسمسائی۔۔۔پھر سو گئی۔۔۔کامل نے اُسکی گردن میں منہ دیے گہرا سانس بھرا ۔۔اور خود پر سے ضبط کھوتا اُسکی گردن پر اپنے عنابی لبوں سے لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔
اپنی گردن پر کسی کا دہکتا ہوا لمس محسوس کر کےفلک نے اپنی آنکھیں ذرا سی واہ کی خود پر جھکے کامل کو دیکھتے حواس باختہ ہوکر اُسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کرنا چاہا۔۔۔۔
جب کامل اُسکے آٹھ جانے پر پیچھے ہوا اور اپنی خمار سے لال ہوتی آنکھوں سے اُسکا فق چہرہ دیکھا۔۔۔۔
نظر ان سرخ لبوں پر گئی تو جیسے گلے میں کانٹے چبھ گئے ہو۔۔۔۔فلک کے دونوں ہاتھ اپنے ایک ہاتھ میں لیتے وہ اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔۔
کتنی دیر وہ اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرتا رہا جب اسکو لگا فلک سانس نہیں لے پا رہی تب دور ہوا۔۔۔اسکی حرکت پر فلک کا رنگ لال ہوا تھا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک نے اُسکے دور ہونے پر اور واپس اپنی گردن میں منہ دینے پر پُکارا۔۔۔
چھوڑے مجھے۔۔۔۔کیوں کر رہے ہیں یہ سب۔۔۔فلک نے اُسکے بھاری مضبوط جسم کو خود سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔
بیوی ہو میری اپنا حق لے رہا ہو۔۔۔۔اسکی بات پر کامل نے اُسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھتے بھاری آواز میں کہا۔۔۔
وہی بیوی جسے صبح آپ چھوڑ دے گے ۔۔۔۔فلک کی آواز نم ہوئی۔۔۔۔۔
میرے نکاح میں ہو۔۔۔نہیں چھوڑ سکتا اتنا بیغیرت نہیں ہوں میں اُس وقت غصے میں تھا اسی لئے بولا۔۔ورنہ پٹھان ہوں اپنی عورت کو نہ کبھی چھوڑ سکتا ہوں اور نہ۔ اُس پر کسی کی نظر برداشت کرسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔کامل نے اپنی سرخ نظریں فلک کی شہد رنگ آنکھوں میں ڈال کر کہا۔۔اسکی بات پر فلک کے دل کو تھوڑی راحت ملی ۔۔۔وہ اچھی طرح جانتی تھی نکاح کی اہمیت کو اور طلاق کو بھی ۔۔۔۔۔۔
فلک کو خاموش نظروں سے اپنی طرف دیکھتے وہ دوبارہ اُسکے گلابی لبوں پر جھک گیا تھا۔۔۔فلک نے اپنے ہاتھ اُسکے کندھے کے گرد باندھے تھے ۔۔۔۔۔
جذبات کی رو میں دونوں بہکتے ایک دوسرے کو میاں بیوی تسلیم کر چکے تھے۔۔۔۔
فلک کے ہاتھ اپنے کندھے پر بندھے دیکھ وہ اُس پر اپنی تمام شدتیں لوٹانے لگا تھا یہ جانے بغیر کہ قدرت نے اُن دونوں کے لئے کچھ اور ہی سوچا ہوا ہے۔۔۔۔گزرتی رات دو وجود کے ملن کی رات تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗
کیا ہمیں خضر صاحب کو فون کر کے بتا دینا چاہئے۔۔۔۔
یونی کے ایک پرفیسر نے کہا۔۔۔۔وہ ہر جگہ فلک اور کامل کو ڈھونڈ چکے تھے لیکن وہ کہیں نہیں ملے تھے۔۔۔
نہیں صبح تک کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔اگر خضر صاحب کو پتہ چل گیا تو پوری یونی بند کروانے میں ایک منٹ بھی نہیں لے گے ۔۔۔دوسرے پروفیسر نے ڈرتے ہوئے کہا سب جانتے تھے خضر فلک کو لے کر بہت حساس ہے اُس دنیا میں صرف تین وجود ہی ایسے تھے جن پر وہ خروچ بھی نہیں برداشت کر سکتا تھا۔۔۔فلک فاطمہ مان اور داجی۔۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے صبح تک کا انتظار کرتے ہیں۔۔۔پروفیسر نے کہا ۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗
کراچی ڈیفنس کے علاقے میں بڑی شان سے کھڑے اس بنگلہ میں نوکروں کی چہل پہل لگی ہوئی تھی سب کو پتہ تھا ان کا مالک وقت کا بہت پابند ہے۔۔۔۔
پورے کمرے میں اندھیرا کرے وہ بغیر شرٹ کے اوندھے منہ سو رہا تھا۔۔۔۔کسرتی سفید بازو كمفرٹر سے جھلک رہے تھے۔۔۔۔
اس کمرے کی ہر چیز سفید تھی ہر چیز۔ بیڈ کے اوپر اُسکی اندراج سائز تصویر لگی ہوئی تھی جس میں وہ اپنے پسندیدہ گھوڑے کے سر پر اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
یکدم فون بجا۔۔۔بیڈ پر لیتے وجود نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھا کر اپنی بھوری آنکھوں کے سامنے کیا جہان پر فاطمہ ماں کا نام جگمگا رہا تھا۔۔۔۔۔
عنابی لبوں پر مسکراہٹ ائی۔۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز کمرے میں گونجی۔۔۔۔
وعلیکم السلام کیسا ہے میرا بیٹا۔۔۔۔نرم ممتا میں ڈوبی آواز سن کر وہ اٹھ بیٹھا۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہو آپ کیسی ہے داجی کیسے ہے۔۔۔۔اُس نے بیڈ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیسے ہو سکتے ہیں تم سے دور ہوکر بیٹا ۔۔۔۔فاطمہ بیگم کے لہجے میں اُداسی آگئی تھی۔۔۔۔
آتا تو ہوں ملنے۔۔۔۔۔آئینے کے سامنے اتے ہی اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ملنے اور ساتھ رہنے میں فرق ہوتا ہے۔۔۔فاطمہ بیگم نے جتلایا ۔۔۔۔
آپ اچھی طرح جانتی ہے جب تک وہ اُس حویلی میں ہے میں نہیں اؤنگا وہاں۔۔۔یہ بات کہتے ہوئے اُسکے لہجے میں سختی ائی تھی۔۔۔۔
اُسکی شادی ہونے والی ہے اور اب ہم بھی چاہتے ہے کہ آپ بھی شادی کر لے ۔۔۔۔فاطمہ بیگم کے لہجے میں ایک حکم سا تھا۔۔۔۔
کیوں میرے ساتھ کسی کو باندھ کر اُسکی زندگی برباد کرنا چاہتی ہے ۔۔۔۔ایک نظر اپنے ہاتھ کو دیکھتے ہوئے تلخئ سے کہا۔۔۔۔
آپکی زندگی میں جو آئے گی وہ خوش قسمت ہوگئی۔۔۔۔۔آپ جیسا ہمسفر کسی کسی کو ملتا ہے۔۔۔فاطمہ بیگم نے اُس کی بات پر ایک مان سے کہا۔۔۔۔
لیکن امان ۔۔۔لیکن ویکن کچھ نہیں لڑکی ہم دیکھ چکے ہیں کل آپ آرہے ہے حویلی بس۔۔۔فاطمہ بیگم غصے سے بولتی فون بند کر گئی تھی پیچھے وہ لب بھینچ گیا تھا ایک اُنکے سامنے وہ اپنی نہیں چلا سکتا تھا۔۔۔۔
الماری سے اپنے پریس ہوئے کپڑے نکالے اپنے جوتے نکال کر رکھے ۔۔۔۔اور واشروم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔نوکروں کی فوج ہونے کے باوجود وہ اپنے کام خود کرتا ہے اُسے نہیں پسند تھا وہ کسی پر انحصار کرے۔۔۔۔
کچھ ہی منٹ بعد وہ کالے رنگ کی شرٹ کے اوپر جینز کی جیکٹ پہنے بلیک پینٹ میں ملبوس وہ سیڑھی سے اترتا نیچے آیا تھا۔۔۔سب نوکر الرٹ ہوگئے تھے۔۔۔۔
وہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا کچھ ہی دیر میں ناشتہ اُسکے سامنے تھا ۔۔۔۔
یہ تھا خضر شجاعت چودھری جس نے کبھی اپنی محرومی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔۔۔شجاعت انٹرپرائز کا مالک جس نے خود اپنی محنت اور لگن سے اپنے باپ کے نام پر اپنا بزنس شروع کیا تھا اور آج وہ بزنس پورے ملک اور بیرون ممالک تک پھیلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔دنیا میں تین وجود تھے جن کی ہر بات وہ اپنے لئے ضروری سمجھتا تھا۔۔۔۔فلک فاطمہ امان اور داجي۔۔۔۔باقی نہ وہ کسی کی سنتا تھا اور نہ مانتا تھا سنجیدہ طبیعت کا مالک۔۔۔جس کے صرف دو ہی شوق تھے ایک جانور پالنا اور دوسرا اپنے مخالفین کو ہرانا ۔۔۔۔۔۔
خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا۔۔۔۔چال میں ایک غرور تھا۔۔۔وہ اپنے بر کام خود کرتا تھا گاڑی چلانےسے لے کر دشمن کی ہڈیاں توڑنے تک کا۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗💗
بابا اج نہ جائے نہ۔۔۔۔کندھے سے لگی شجیہ کی آواز پر آصف صاحب نے اپنی لاڈلی کو دیکھا۔۔۔۔
بیٹا جانا ضروری ہے خضر صاحب اپنے جانوروں کو لے کر بہت حساس ہے ایک دن بھی اُنکے جانوروں سے بے خیالی برتی تو بہت غصّہ ہونگے۔۔۔آصف صاحب نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا اُنکی بات پر شجیہ نے منہ بسورا۔۔۔۔۔
یار بابا ایک تو یہ آپکے مالک بھی نہ مجھے بلکل اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔شجیہ نے اُنکے کندھے سے سر ہٹا کر کہا۔۔۔۔
نہیں وہ بہت اچھے ہے بس کام میں کوئی خرابی نہیں پسند انہیں ۔۔۔آصف صاحب نے روٹی کا نوالہ اُسکی طرف بڑھا کر کہا۔۔۔
بس رہنے دے آپ۔۔۔۔شجیہ نے نوالہ چباتے ہوئے کہا دونوں باپ بیٹی کو باتیں کرتا دیکھ نسرین بیگم مسکرا گئی۔۔۔۔
سچ کہہ رہا ہوں بیٹا کبھی بھی کسی بھی مدد کی ضرورت ہو اور میں نہ ہو تمہارے پاس تو اُن سے جاکر مانگ لینا مدد وہ ضرور مدد کرے گے۔۔۔آصف صاحب کی بات شجیہ نے سنجیدگی سے اُنکی طرف دیکھا۔۔۔
آپ کہیں نہیں جائے گے میرے پاس ہی رہے گے تو مجھے مدد مانگنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔۔۔۔شجیہ نے اُنکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔۔اُسکی بات پر وہ مسکرا گئے
آصف صاحب خضر کے اسطبل کا دیہان رکھتے تھے جہاں پر خضر نے ہر نسل کے گھوڑے اور دیگر جانور پال رکھے تھے اُنکی ایک ہی بیٹی تھی شجیہ ۔۔۔نیلی آنکھوں اور بھورے بالوں والی آصف اور نسرین بیگم کی۔۔۔۔۔نیلی آنکھیں اُس نے اپنے باپ سے چڑائی تھی باقی چھوٹی سی ناک گلابی لب اور پھولے گال اُس نے اپنی ماں سے چرائے تھے ۔۔۔۔
اپنے نام کی طرح دلیر ہر مصیبت سے لڑ سکتی تھی ۔۔۔۔۔لیکن جب بات اُسکے بابا پر آجاتی تھی وہ بھی عام سی لڑکیوں کی طرح ڈر جاتی تھی ۔۔۔۔۔
صبح کامل کی آنکھ کھلی تو نظر اپنے سینے پر بھکری حالت میں لیتی فلک پر پڑی۔۔۔۔
اُسکے چہرے پر مسکان آگئی ۔۔۔نکاح کا مطلب وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔۔۔اور کل جب وہ اُسکے قریب ایا تھا تب وہ سوچ چکا تھا اب وہ فلک کو نہیں چھوڑے گا۔۔۔۔ہے شک انکا نکاح ایک ایسی صورتحال میں ہوا تھا جو کافی عجیب تھی لیکن وہ دل سے اس نکاح کو قبول کر چکا تھا اور اُسے یقین تھا میاں بیوی کے پاک رشتے میں محبت اللہ تعالیٰ خود ڈال دیتے ہیں اور کل جس طرح فلک نے اُسے اپنا حق لینے سے روکا نہیں تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ بھی اس رشتے کو دل سے قبول کر چکی ہے۔۔۔۔
کامل کی نظر اُسکی بند ہوتی آنکھوں سے لے کر اُسکے گلابی ہونٹوں پر ارکی۔۔۔تشنگی بڑھ گئی تھی وہاں سے نظر سرک کر اُسکی دودھیا گردن پر پڑی جہاں اُسکی شدتوں کے نشان واضح تھے۔۔۔
جھکتے اپنے لب اپنے دیۓ گئے نشانوں پر رکھے۔۔۔
اپنی گردن پر کل رات کی طرح سلگتا لمس محسوس کر کے فلک کی نظر کامل کے بالوں پر گئی جو اُسکی گردن پر جھکا ہوا تھا۔۔۔۔
شرم و حیا سے چہرہ لال ہوا تھا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک نے کامل کے شانے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اُسے پُکارا۔۔۔۔
کامل فلک کے پکارنے پر اُس سے دور ہوا ۔۔۔۔نظر فلک کے لال ہوتے چہرے پر پڑی۔۔۔۔۔
صبح بخیر۔۔۔کامل نے اُسکی چھوٹی سی سرخ ناک کو چومتے ہوئے کہا ۔۔۔
اسکے عمل سے فلک کی پلکیں اُسکے سرخ عارض پر جھکی۔۔۔۔
کامل۔۔۔۔وہ جو اُسکے بالوں کی مہک اپنے سانسوں میں بسا رہا تھا اُسکے بولنے پر اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔اُسکی آنکھوں میں موجود سوال وہ پڑھ چکا تھا پھر بھی پوچھا۔۔۔
آپ مجھے چھوڑ دے گے کیا یہاں سے باہر جاتے ہی ۔۔۔فلک نے اپنا ڈر واضح کیا۔۔۔
فلک اگر مجھے آپکو چھوڑنا ہوتا تو کل آپکی طرف اپنے قدم نہیں بڑھاتا نہ ہی آپ سے اپنا حق وصول کرتا ۔۔۔۔اب آپ میری بیوی ہے میرے وجود کا حصہ اور میں اپنے وجود کے حصہ کو کیسے خود سے جدا کر سکتا ہوں۔۔۔کامل نے نرم لہجے میں اُسکی شہد رنگ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
کامل کی بات پر فلک کی آنکھیں خوشی سے چمکی۔۔۔۔
ابھی آپ مجھے آپ کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں کل کیسے تم کہاں تھا آپ نے۔۔۔۔فلک نے اُسکی گردن کے گرد اپنے بازوں کا حصار بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اُسکی بات پر کامل مسکرا گیا۔۔۔اور فلک اسکو دیکھتی رہی ۔۔۔وہ مسکراتا ہوا حسین لگتا تھا۔۔۔۔
تب آپ میری کچھ نہیں لگتی تھی اب آپ میری بیوی ہے میری محبت میری عزت کی حقدار ۔۔۔ایسا نہیں ہے کہ میں عورت کی عزت نہیں کرتا لیکن کبھی ایسی نوبت ہی نہیں ائی کہ کسی کو تم یہ آپ کہہ کر مخاطب کرو۔۔۔کامل نے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔۔
اچھا جی۔۔۔فلک نے مسکراتے ہوئے کہا جس پر اُسکے دونوں گال پر پڑتے گڑھے کامل بیخود ہوتا اُن گرہوں پر اپنے لب رکھ گیا۔۔۔۔
ہاں جی۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گال پر اپنے لب پیوست کرتے ہوئے کہا ۔۔
میں نے بھی صرف آپکو آپ بولا ہے کیونکہ مجھ اماں کی ایک بات یاد آگئی تھی کہ شوہر مجازی خدا ہوتا ہے اُسکی ہمیشہ عزت کرنی چاہئے ۔۔۔۔فلک نے کسی دادی اماں کی طرح کہا۔۔۔
اچھا اور کیا سکھایا ہے اماں نے۔۔کامل اُسکے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتا ہوا بولا۔۔۔
اور ۔۔۔کچ ۔۔کچھ نہیں ۔۔۔فلک نے ہکلاتے ہوئے کہا۔۔۔
آپکو پتہ ہے میں نے آپکو ایک دو بار کلاس میں دیکھا تھا کسی بات پر ہنستے ہوئے اور تب سے مجھے آپکے یہ گڑھے پسند تھے۔۔۔کامل نے اُسکے دمپلز پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ۔۔۔
اور میں نے شاید آپکو ایک دفعہ دیکھا تھا منہ پھولا کر سب سے آخری سیٹ پڑ بیٹھے ہوئے اور تب آپ مجھے بلکل نہیں اچھے لگے تھے۔۔۔فلک نے اُسکی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں آپ جیسی حسن پڑی اور امیر لڑکی مجھ غریب سے لڑکے پر کیوں نظر ڈالے گی۔۔۔کامل نے شکوہ کیا تھا۔۔۔۔
میں کسی لڑکے پر نظر نہیں ڈالتی تھی۔۔۔اور بات امیری یہ غریبی کی نہیں ہے۔۔بس آپ ہو میرے ساتھ پھر جیسے بھی رکھے گے میں رہ لونگی۔۔۔۔فلک نے اپنے لب اُسکی تھوڑی پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
سوچ لو۔۔۔میرے پاس بڑی گاڑی نہیں ہے گھر ہے لیکن وہ بھی بڑا نہیں ہے ۔۔۔رہ لوگی تم میرے ساتھ۔۔۔۔کامل نے اُسکی حرکت پر مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
بلکل بس آپ ہونے چاہیئے میرے پاس۔۔۔پھر جہاں جیسے رکھے گے رہ لونگی بس شرط یہ ہے میرا شوہر میرے پاس ہو۔۔۔۔۔فلک نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا تھا۔۔۔
اتنا پیار ہوگیا مجھ ساولے سے وہ بھی ایک دات میں۔۔۔۔اُسکی باتوں پر سرشار ہوتے اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
محبت کا نہیں پتہ وہ بھی ہو جائے گی کیونکہ اللہ نے ہمیں ایک مضبوط رشتے میں باندھا ہے جس میں محبت خود بہ خود پیدا ہو جاتی ہے۔۔فلک نے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کامل اسکی بات پر خاموش ہوتا اُسکی گردن پر جھک گیا اور اپنا لمس چھوڑنے لگا جب دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔۔۔
کامل فوراً سے اُس پر سے اٹھا۔۔۔
سردار نے آپ دونوں کے جانے کا انتظام کر دیا ہے باہر آپکا انتظار کر رہے ہیں وہ ۔۔دروازے کے پار سے اتی آواز پر کامل نے فلک کو جلدی سے فریش ہونے کا اشارہ کیا اس چھوٹے سے کمرے میں ایک کونے پر واشروم بھی بنا ہوا تھا۔۔۔۔
فلک نے کامل کی شرٹ پہنی ہوئی تھی وہ فوراً سے واشروم کی طرف بھاگی۔۔۔
فلک کی سپیڈ دیکھ کر کامل کو حیرت ہوئی لیکن جب بات سمجھ میں ائی تو چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
فلک باہر نکلی تو رات والے کپڑوں میں ہی تھی۔۔۔وہ اب رات سے زیادہ۔ حسین لگ رہی تھی وجہ شاید یہ تھی کہ اُس پر کامل کی قربت کا رنگ چڑھ گیا تھا۔۔۔۔فلک نے شرٹ کامل کی طرف بڑھائیں جس نے فوراً سے شرٹ پہنی تھی۔۔اور فلک کا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔
کامل آپ فریش تو ہو جائے۔۔۔فلک نے اُسے دروازے کی طرف بڑھتا دیکھ بولا تھا۔۔۔
ابھی پہلے یہاں سے نکلتے ہیں پھر فریش ہو جاؤں گا میں۔۔۔کامل کا لہجے اب بہت سنجیدہ تھا۔۔۔۔
وہ فلک کو لے کر باہر نکلا تو باہر کوئی بھی نہیں تھا کامل اُسے لئے اُس چھوٹے سے گھر سے باہر ایا تو سامنے ہی اُسے جیپ نظر ائی۔۔۔جس کے ساتھ ہی ایک خوش شکل نوجوان کھڑا تھا ۔۔۔۔
فلک منہ دھاپو اپنا۔۔۔۔کامل کی آواز پر فلک نے جوڑے کے ساتھ کا دوپٹہ جو اُسکے گلے میں تھا فوراً سے منہ پر لیا۔۔۔۔۔
آجاؤ آپکو چھوڑ دو۔۔۔اُس نوجوان کے کہنے پر کامل فلک کو لے کر جیپ میں سوار ہوا۔۔۔
کامل۔۔۔فلک کامل کے کان میں بولی وہ بلکل کامل کے بازو سے لگی ہوئی تھی۔۔۔۔
ہم۔۔۔کامل نے فقط ہم کہا ۔۔
آپکو عجیب نہیں لگ رہا جب یہ لوگ ہمیں لے کر آئے تھے تو کتنے سارے تھے اور ابھی گھر میں بھی کوئی نہیں دکھا مجھے اور یہ اکیلا ہمیں لے کر جا رہا ہے اسکی شکل دیکھے یہ تو مجھے پڑھا لکھا تمیز دار بندہ لگتا ہے اُن میں سے نہیں لگ رہا ۔۔۔۔وہ جو فلک کی بات بڑی غور سے سُن رہا تھا اُسکی آخری بات پر اُسکی آبرو تنی ۔۔۔۔۔
آپکی بہتری اسی میں ہے بیگم کہ آپ مجھ پر اپنی نظریں رکھے اسکو مت دیکھے۔۔۔۔باقی جو بھی ہو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں ہے اُن سے ہم واپس جا رہے ہیں یہی بہت ہے۔۔کامل نے سخت آواز میں کہا۔۔۔
میں نے کب اُس پر نظر رکھی ۔۔۔فلک نے منہ بناتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اُنکی باتوں پر جیپ چلاتے وجود کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اُنکی جیپ انکے ہوٹل کے سامنے تھی ہوٹل کا پتہ کامل نے بتایا تھا۔۔۔
وہ جیسے ہی وہاں پر اترے۔۔۔سامنے اُن کی یونی کے پروفیسر فوراً سے اُن کی طرف بڑھے۔۔۔
فلک کامل کا بازو چھوڑ چکی تھی۔۔۔۔
کہاں گئے تھے تم دونوں۔۔۔پروفیسر نے پوچھا۔۔۔
جس پر کامل نے اپنے اور فلک کے نکاح کو چھپا کر سب بتا دیا۔۔۔
چلو شُکر ہے آپ دونوں واپس اگئے جائے اپنے اپنے روم میں فریش ہوجائے۔۔۔۔پروفیسر کی بات پر فلک نے ایک نظر کامل پر ڈالی جو ایک کونے میں کھڑا فون پر مصروف تھا اُسکے پاس فون کیسے ایا یہ سوال اُسکے ذہن میں گونجا لیکن نظرانداز کرتی ہوئی۔ اور اپنے روم کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
اچھی طرح سو کر فریش ہوکر وہ اپنے روم سے نکلی تھی تاکہ کامل سے مل سکے۔۔۔۔لیکن اُسے تو اُسکے روم کا ہی نہیں پتہ تھا۔۔۔
ہیلو کامل کے روم کا آپکو پتہ ہے۔۔۔۔فلک نے یونی کے ایک لڑکے سے پوچھا۔۔۔
کامل خان کی بات کر رہی ہے آپ۔۔۔لڑکے نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
جی۔۔فلک نے کہا۔۔۔
وہ تو کب کا چلا گیا ہے۔۔لڑکے کی بات پر اُس کے قدم ڈگمگائے آنکھوں میں بے یقینی در ائی۔۔۔۔
کہیں باہر گئے ہے کیا۔۔۔۔اُس نے دل سے دعا کی تھی کہ جواب مثبت ہو۔۔۔
نہیں وہ یہاں سے چلا گیا ہے ۔۔لڑکا بولتا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔۔
پیچھے وہ بھاگتی ہوئی ہوٹل ریسیپشن تک گئی تھی۔۔۔
کامل خان نے یہاں چیک آؤٹ کب کیا ہے۔۔۔دھڑکتے دل سے یہ سوال اُس نے پوچھا تھا۔۔۔
میم صبح 10 بجے وہ یہاں سے چلے گئے تھے۔۔۔ریسیپشن پر موجود لڑکی نے رسانیت سے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر اُسے لگا وہ سانس نہیں لے پائے گی اُسے تو اُسکا پتہ گھر کچھ نہیں معلوم تھا سوائے نام کے وہ کہا ڈھونڈے گی اُسے ۔۔۔پھر ایک اُمید جاگی کے پروفیسر کو پتہ ہوگا اُسکا ایڈریس یونی کے ڈاکومنٹ میں لکھوایا تو ہوگا۔۔۔۔
وہ بھاگتی ہوئی باہر کی طرف بڑھی تھی جہاں پروفیسر تھے۔۔۔
سر کیا آپ مجھے کامل خان کا ۔۔۔اد۔۔۔ایڈریس بتا سکتے ہے۔۔۔اُسکی آنکھیں نمکین پانی سے بھر گئی تھی۔۔۔۔
کامل بیٹا اُس کا صحیح ایڈریس مجھے نہیں پتہ پر وہ کشمیر کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتا ہے ۔۔۔پروفیسر جو جانتے تھے وہ بتا چکے تھے۔۔۔۔
کیسے ڈھونڈو گی میں کیسے جا سکتے ہیں چھوڑ کر مجھے۔۔۔میرے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑ کر وہ مجھے کیسے تنہا کر کے جا سکتے ہیں۔۔۔میں سب کو کیا جواب دونگی۔۔۔ساری باتیں جھوٹی نکلی سب فریب تھا ۔۔۔سب فریب اور میں سچ مان بیٹھی اپنا آپ لٹا بیٹھی۔۔۔۔وہ زبان سے کچھ نہیں بول رہی تھی بس ساکت آنکھوں سے پروفیسر کا چہرہ دیکھ رہی تھی لیکن سینے میں موجود خون کا لوتھڑا ٹرپ اٹھا تھا صدائے دے رہا تھا ۔۔۔۔موٹی موٹی شہد رنگ آنکھوں سے بارش کی بوندوں کی طرح آنسو بہہ نکلے۔۔۔۔
سچ ہی تو تھا جس عورت کا شوہر اُسے چھوڑ جائے وہ ہزار لوگوں کی موجودگی میں بھی تنہا ہوتی ہے۔۔۔۔
وہ مجھے۔۔۔مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔۔۔یہ الفاظ اُسکی زبان سے ادا ہوئے تھے اور آنکھوں کے سامنے یکدم اندھیرا چھا گیا تھا اور وہ ایک جھٹکے سے زمین بوس ہوئی تھی ۔۔۔۔
اُسکا اعتبار ٹوٹا تھا اور اس شخص نے توڑا تھا جس پر وہ اپنا تن من لٹا بیٹھی تھی اور وہی شخص ایک دِن کا وصل اُسکی جھولی میں ڈال کر اُسے تنہا چھوڑ گیا تھا۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
دو ماہ بعد۔۔۔
ہم نے تم دونوں کا رشتا طے کردیا ہے۔۔۔فاطمہ امّاں کی بات پر وہ دونوں حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے تھے ۔۔۔۔
پر امّاں میں ایسا نہیں چاہتا ۔۔۔فلک میری اچھی دوست ہے ۔۔۔۔خضر نے انکے فیصلے سے نفی کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
فلک بلکل چپ بیٹھی ہوئی تھی کچھ بچا ہی کب تھا اُسکے پاس بولنے کے لئے ۔۔۔۔
ہم پوچھ نہیں رہے بتا رہے ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں کا فیصلہ اٹل تھا۔۔۔
خضر نے ایک نظر انکے اسپاٹ چہرے پر ڈالی اور وہاں سے اٹھتا چلا گیا بچپن سے جانتا تھا فاطمہ امّاں کو وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی تھی چاہے کچھ بھی ہوجائے وہ اُسکی نہیں سنے گی۔۔۔۔
خضر کے جاتے ہی فلک بھی انکے کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔انہوں نے اپنی بیٹی کی پشت کو تکا نہ جانے کیا ہوا تھا اُسے جو ایسی چپ چپ سے ہوگئی تھی نہ پہلے کی طرح ہنستی تھی اور نہ پہلے کی طرح شوخ و چنچل بچی تھی۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
خضر بات کرنی ہے تم سے۔۔۔۔فلک نے خضر کے روم میں اتے ہوئے کہا۔۔۔۔خضر جو الماری میں سے اپنے کپڑے نکال رہا تھا اُسکی بات پر مکمل طور پر اُسکی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
بولو۔۔۔خضر نے اُسکے پاس اتے ہوئے کہا جو اُسکے بیڈ پر ایک جگہ بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
اور پھر فلک اُسے دو مہینے پہلے ہوئے اپنے ساتھ سارے ظلم کی داستان سناتی گئی۔۔۔۔
جسے لمحہ با لمحہ سنتے خضر نے اپنے ہاتھ کی مٹھی بنائیں تھی۔۔۔۔۔
فلک اتنا سب کچھ ہوگیا تمہارے ساتھ اور تم نے اپنے دوست کو نہیں بتایا۔۔۔خضر نے اُسکے گال پر بہہ جانے والے آنسو صاف کرتے ہوئے نرم لہجے کہا۔۔۔
خضر پلیز مجھے اُس سے ملوا دو۔۔۔میں کیسے رہ رہی ہو اُسکے بغیر یہ بات صرف میں جانتی ہوں۔۔۔۔اپنے وجود میں اُسکی نشانی لئے ۔۔۔۔میں اپنی ماں سے نظر نہیں ملا پاتی ۔۔خضر۔۔۔فلک نے روتے ہوئے خضر کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا جس کی خود کی آنکھیں لال ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
تمہیں پتہ ہے میں اُس انسان سے نفرت کرنا چاہتی ہوں لیکن یہ میرے بس میں نہیں کہی نہ کہیں میں اج بھی یہی سوچتی ہوں وہ آئے گا اور مجھے لے جائے گا اور مجھے میری اسی سوچ سے نفرت ہے۔۔۔
فلک کا ضبط کا پیمانہ ٹوٹا تھا وہ خضر سے اپنی ساری باتیں شیئر کرتی ائی تھی تو کیسے ممکن تھا وہ یہ بات چھپا لیتی۔۔۔۔۔
دو مہینے پہلے جب اُسے ہوش آیا تھا وہ بلکل چپ سی ہوگئی تھی وہ پوری رات اُس نے ہوٹل کی لوبی میں اُسکا انتظار کرتے گزاری تھی لیکن وہ ظالم شخص نہیں ایا تھا ۔۔۔۔۔۔
اُسکے بعد وہ واپس حویلی آگئی ہے اُس نے یونی جانا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔نہ کسی سے بات کرتی اور نہ پہلے کی طرح ہنستی کھیلتی۔۔۔۔ہر وقت فون اپنے پاس رکھتی کہ شاید کامل اُسکا فون نمبر معلوم کر کے اسے فون کرے گا۔۔۔لیکن نہیں نہ اُس نے انا تھا اور نہ وہ ایا اور نہ کوئی رابطہ کیا۔۔۔۔
آج صبح ہی اُسے پتہ چلا تھا کہ اُسکے وجود میں ایک ننھی سی جان بھی پل رہی ہے اور یہاں اُسکا ضبط ٹوٹا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ خضر کو سب بتاتی چلی گئی جو اتنے دن سے دل میں چھپائے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔
میرا وعدہ ہے اپنی دوست سے ۔۔۔میں اُسے ڈھونڈ کر ضرور لاؤ گا۔۔۔۔خضر نے ایک عزم سے کہا ۔۔۔
بس تم نے رونا نہیں ہے اور نہ ہی یہ بات کسی کو بتانی ہے۔۔۔یہ بات تمہارے اور میرے درمیاں ہی رہنی چاہئے ۔۔۔۔۔خضر نے اُسکے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
فلک کی آنکھوں میں اطمینان اُترا تھا۔۔۔خضر کی بات پر جانتی تھی خضر کبھی اپنا وعدہ نہیں توڑتا ۔۔۔۔
اب جاؤ جلدی سے جاکر سو جاؤ مجھے شہر کے لیے نکلنا ہے۔۔۔خضر نے اُسکا گال تھپتھپا کر کہا ۔۔۔
اسکی بات پر وہ اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔اُسکے جاتے ہی خضر کے چہرے کے تاثرات سخت ہوئے تھے کامل جہاں کہیں بھی تھا وہ اُسے ضرور ڈھونڈ نکالے گا اور پھر فلک کے بہہ ہر آنسو کا بدلا بھی لے گا۔۔۔وہ یہ وعدہ خود سے کر چکا تھا۔۔۔۔
اور خضر شجاعت چوہدری اپنے وعدوں سے پھرتا نہیں ہے۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
فلک اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر بیٹھی اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھے۔۔۔مسلسل اُس ایک رات کو اپنے دماغ میں دوہرا رہی تھی۔۔۔۔
اُسے نہیں پتہ تھا ایک ہی دن میں وہ شخص اُسکی نس نس میں بس جائے گا۔۔۔۔
وہ اُس انسان سے نفرت نہیں کر پا رہی تھی دل تھا جو ابھی بھی اُسکے نام پر دھڑک رہا تھا اور دل کّب ہماری سنتا ہے۔۔۔لیکن سامنے انے پر وہ اتنی جلدی معاف کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
وہ ہسپتال میں بیٹھی مسلسل نیلی آنکھوں سے آنسو بہائے جا رہی تھی نسرین بھی ایک جگہ بیٹھی مسلسل دعا پڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔
آصف صاحب کا ایکسڈنٹ ہوگیا تھا گھر واپسی اتے ہوئے لوگ جلدی سے اُنہیں ہسپتال لے آئے تھے وہ جو یونی میں تھی اچانک سے بابا کے نمبر پر سے انے والی کال پر مسکرا کر کال اٹھا گئی لیکن آگے سے جو سننے کو ملا اُسکے پیروں سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔۔
ڈاکٹر کیسے ہے میرے بابا۔۔۔۔ڈاکٹر کے باہر انے پر وہ جلدی سے اُنکی طرف لپکی ۔۔۔۔۔
دیکھئے سر پر بہت گہری چوٹ ائی ہے خون بھی بہت بہہ گیا ہے جلد از جلد آپریشن کرنا ہوگا۔۔۔۔ڈاکٹر نے مایوس کن جواب دیا۔ ۔۔
ٹھیک ہے آپ کرے نہ پھر آپریشن۔۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔۔
آپ پیمنٹ جمع کر وا دے ہم آپریشن کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر بولتا ہوا واپس اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
شجیہ جلدی سے کاؤنٹر کی طرف بڑھی اور جب آپریشن کی رقم سنی تو اُسکا دل بند ہوگیا ۔۔۔اتنی رقم وہ کہاں سے لائے گی کچھ سمجھ نہ ایا۔۔۔۔
اپنے کانوں سے جلدی سے بالیاں اتاری ۔۔۔۔اور نسرین کی طرف بڑھی جس نے بیٹی کے چہرے کو دیکھ کر پہنچان لیا تھا اور فوراً سے اپنے کان میں سے بالی اُتار کر رکھی یہ دو چیزیں ہی تو تھی جو آصف صاحب نے اُن دونوں کو تحفے میں دی تھی۔۔۔
امی آپ بیٹھے میں ابھی اتی ہوں۔۔۔شجیہ جلدی سے بولتی ہوئی چادر صحیح کرتی ہوئی باہر نکلی ۔۔۔۔
ہاسپٹل سے پیدل چلتی وہ مارکیٹ تک ائی تھی پیروں میں درد ہوگیا تھا لیکن یہ تکلیف اُس تکلیف سے کم تھی جو اُسکے بابا جھیل رہے تھے۔۔۔۔
جلدی سے جیولری کی دکان میں داخل ہوتے اپنے ہاتھ میں دبی بالیاں دوکاندار کی طرف بڑھائی ۔۔۔
یہ بیچنی ہے۔۔۔۔ایک آخری نظر اپنے بابا کے تحفے کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
دوکاندار نے بالیاں اٹھا کر وزن کی اور دس ہزار روپے اُسکی طرف بڑھا دیئے ۔۔۔۔
کیا اتنے ہی ملے گے ۔۔۔ایک نظر پیسوں پر ڈال کر پوچھا۔۔۔
جی ۔۔۔دوکاندار نے یک لفظی جواب دیا ۔۔۔
پیسے کم تھے لیکن کچھ نہ ہونے سے بہتر کچھ ہونا تھا۔۔۔۔
پیسے اٹھا کر اپنی جیب میں رکھتے وہ دوکان سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
اب کیا کروں کہاں سے لاؤ پیسے۔۔۔۔اپنے آپ سے بولتی اور آنکھوں میں ائی نمی کو روکتی وہ معصوم لڑکی سڑک کے ایک کنارے پر بیٹھ گئی ۔۔۔مغرب کی اذان چاروں طرف گونجی اُس نے اپنا سر آسمان کی طرف کیا اور اپنی آنکھیں بند کی جب اُسکے دماغ میں اُسکے بابا کے بولے گئے لفظ گونجے۔۔۔۔۔
(سچ کہہ رہا ہوں بیٹا کبھی بھی کسی بھی مدد کی ضرورت ہو اور میں نہ ہو تمہارے پاس تو اُن سے جاکر مانگ لینا مدد وہ ضرور مدد کرے گے)
آخری راستہ یہی بچا ہے۔۔۔خود سے بولتے ہوئے اُس نے اپنے لئے رکشہ رکوایا پتہ وہ جانتی تھی آصف صاحب نے اُسے بتا رکھا تھا کہ کبھی کوئی مصیبت آئے تو وہ وہاں جا سکے۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️
ایک عالیشان بنگلے کے باہر وہ کھڑی کشمکش میں تھی۔۔۔۔
اور پھر ہمت کر کے قدم اندر بڑھائے جب چوکیدار نے اسکو روکا۔۔۔۔
چوہدری صاحب سے ملنا ہے۔۔۔۔آصف کی بیٹی ہوں۔۔۔۔چوکیدار کے پوچھنے پر اُس نے کہا۔۔۔۔
جس نے فوراً سے کریدل اٹھا کر اندر سے پوچھا تھا ایا اُسے اندر انے دینا ہے یہ نہیں۔۔۔۔
جاؤ بچے۔۔۔چوکیدار نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔۔تو اُس نے قدم اندر بڑھائے ۔۔۔۔۔
اندر اتے ہی ایک بوڑھی عمر کے آدمی نے اُسے لاؤنچ میں بٹھا دیا تھا سب نوکر کام میں لگے ہوئے تھے اور وہ یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
وسیع لاؤنچ میں بیٹھی وہ مسلسل گھبراہٹ کے ساتھ اپنے ہاتھ آپس میں مسلتی اپنی نیلی غزالی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی لب مسلسل کوئی دعا پڑھنے میں مصروف تھے۔
نیلی آنکھوں میں نمی کی آمیزش تھی ۔۔۔۔دل بھی بری طرح دھڑک رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی وہ چاروں طرف ہی دیکھ رہی تھی جب سیڑھی پر سے اترتے کالے چمکدار جوتوں پر اُسکی نظر پری ۔۔۔
نظریں جوتوں سے ہوتے ہوئے اُسکے چہرے تک ائی۔۔۔سفید رنگت بھوری آنکھیں۔۔۔چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی سلکی کالے بال جو پیشانی پر بھکرے ہوئے تھے۔۔۔کھڑی مغرور ناک۔۔۔کسرتی جسم کالی شرٹ اور کالی آفس پینٹ میں ملبوس۔۔۔۔وہ وجاہت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔۔لیکن ایک جگہ اُسکی نیلی آنکھیں ٹھہر گئی۔۔۔آنکھوں میں حیرت ابھری۔۔۔۔۔
اس حسین نوجوان میں ایک کمی تھی اور وہ تھی کہ اُسکےایک ہاتھ کا پنجا نہیں تھا۔۔۔۔۔اور دوسری طرف اس نے ایک نظر اُس پر ڈال کر اپنی نظر اُس پر سے ہٹا لی تھی لیکن اس ایک نظر میں بھی وہ اسکا پوری طرح جائزہ لے چکا تھا۔۔۔۔۔۔
سفید رنگت گالابی لب نیلی آنکھیں اپنے گرد اچھے سے چادر اوڑھے وہ ایک غریب گھرانے کی عزت دار لڑکی لگ رہی تھی ۔۔۔۔
وہ سیڑھی سے اترتا اُس کے سامنے رکھے صوفے پر بیٹھ گیا چال میں ایک غرور سا تھا۔۔۔۔۔
کہو کیا کام ہے لڑکی۔۔۔بھاری مضبوط مردانا آواز سن کر اس نے گھبرا کر اپنی نظریں اُسکے ہاتھ سے ہٹائیں تھی ۔۔۔۔۔
وہ خود بھی اُسکی نظر اپنے ہاتھ پر محسوس کر چکا تھا۔۔۔۔
وہ میں آپ کے اسطبل میں جو آصف کام کرتے ہیں اُنکی بیٹی ہوں۔۔۔بابا کا ایکسڈنٹ ہوگیا ہے۔۔۔۔سر پر بہت گہری چوٹ ائی ہے ۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے جلد آپریشن کا کہا ۔۔۔۔ورنہ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔اٹک اٹک کر نم آواز میں اتنا بول کر اُس نے اپنی جھکی نیلی نظریں اٹھا کر اُسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ اسپاٹ تھا اُسکے چہرے سے کوئی تاثر نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔۔
وہ بس اپنی گہری بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
مجھے ۔۔۔پیسے چایئے۔۔۔بابا نے کہا تھا آپ سے مدد مانگ لو ۔۔۔۔اُسے کچھ نہ بولتے دیکھ وہ مزید بولی۔۔یہ بولتے ہوئے وہ شرمندگی کی تہا گہرائیوں میں ڈوب چکی تھی کہاں اُس نے آج تک کسی سے کوئی چیز مانگی تھی لیکن اج وہ مجبور تھی اُسکے بابا کی زندگی کا سوال تھا۔۔۔۔
اُسکی بات پر سامنے موجود وجود کی بھوری آنکھیں ایک پل کے لئے چمکی۔۔۔۔
ٹھیک ہے تیار ہُوں پیسے دینے کے لیے لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔۔۔مقابل کی بات پر وہ جو خوش ہوتے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی آخری بات پر چونکی۔۔۔۔۔
کیسی ۔۔کیسی شرط ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں ڈر چمکا تھا۔۔۔۔
تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہو۔۔۔مقابل نے اُسکی نیلی خوف زدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کیا مذاق ہے یہ آپ کیسے کسی کی مجبوری کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔۔۔بابا نے کتنے بھروسہ سے آپکے پاس مجھے مدد لینے بھیجا تھا کہ اُن کے مالک ضرور مدد کرے گے ۔۔لیکن آپ ۔۔۔
چپ ہوجاؤ لڑکی ۔۔۔پوری بات سننے سے سے پہلے اتنا چیخو مت۔۔۔۔وہ جو اُسکی بات پر بے یقین ہوکر اپنی جگہ سے اٹھ کر بغیر رکے بولی جا رہی تھی مقابل کی تیز آواز پر زبان بند ہوئی۔۔۔۔
میں نے اصل شادی نہیں کہیں کنٹرکٹ میرج کا بولا ہے۔۔۔صرف ایک سال کے لئے وہ بھی پھر تمہیں آزاد کردونگا۔ ۔۔اس شادی میں کچھ بھی اصل نہیں ہونگا ہم اجنبیوں کی طرح ایک کمرے میں رہے گے لیکن باہر سب کو یہی ظاہر کرنا ہے کہ ہم ایک میاں بیوی ہے۔۔۔۔مقابل بے تاثر آواز میں اُس سے دو قدم کی دوری پر کھڑے ہوتے بولا۔۔۔۔۔
اوہ واؤ آپ امیروں نے ہم غریبوں کو سمجھ کیا رکھا ہیں آپ مجھ سے میرے وجود کا سودا کر رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے چیختے ہوئے کہا۔۔۔
زبان سمنبھالوں لڑکی تم۔۔۔۔نکاح کرونگا تم سے پورے شرعی طریقے سے تمہیں اپنی بیوی بناؤ گا ۔ تمہارے وجود کو ہاتھ تک نہیں لگاؤ گا میں ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایک سال بعد آزادی۔۔۔۔خضر نے تیز آواز میں کہا ۔۔۔
اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں اپنے بابا کی زندگی کے لئے مجھ سے ایک سال کے لئے کانٹریکٹ میرج کرو یہ پھر ۔۔۔اگے تم خود سمجھدار ہو۔۔۔۔باہر کوئی تمھاری مدد کرے یا نہ کرے یہ کس کو پتہ ہے۔ ۔خضر نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔
اسکی بات پر شجیہ سوچ میں پڑ گئی۔۔۔پھر اچانک نظروں کے سامنے آصف صاحب کا خون میں لٹ پٹ وجود لہرایا۔۔۔۔وہ صحیح تو کہہ رہا تھا آخری راستہ تھا یہ جس پر بہت اُمید سے چل کر وہ ائی تھی اب باہر اُن ماں بیٹی کی مدد کرنے والا کون تھا۔۔۔
ٹھیک ہے چوہدری صاحب میں تیار ہوں۔۔۔شجیہ نے کچھ منٹوں میں جواب دیا تھا اپنے بابا کے لئے وہ ایک سال تو قربان کر ہی سکتی تھی اور ویسے بھی ناٹک ہی تو کرنا تھا سامنے کھڑے وجود کی بیوی بننے کا۔۔۔۔
وہ جو اُسکے حسین چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ہوش میں ایا۔۔۔۔
ٹھیک ہے پیسے پہنچ جائے گے ہسپتال نام بتاؤ۔۔۔۔خضر نے فون پر کچھ ٹائپ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔شجیہ نے جلدی سے ہسپتال کا نام بتایا۔۔۔
بیٹھ جاؤ لڑکی تمہارے بابا کا آپریشن شروع ہوگیا ہے۔۔۔خضر نے بے تاثر آواز میں کہا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ ایک طرف سکر کر صوفے پر بیٹھ گئی اور وہ بلکل اُس کے سامنے بیٹھا اپنے فون پر مصروف تھا۔۔۔کچھ ہی منٹ بعد شجیہ کے سامنے جوس اور بھی بہت سی کھانے کی چیزیں لا کر سجا دی گئی تھی ۔۔۔۔
جسے اُس نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا وہ بس یک تک خضر کے حسین چہرے کو دیکھ رہی تھی اور خضر یہ سب نوٹ کرتا اپنا غصّہ ضبط کر رہا تھا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں مولوی ایک وکیل اور تین افراد لاؤنچ میں داخل ہوئے۔۔۔شجیہ سمجھ گئی تھی اب وقت آگیا ہے اپنے آپ کی قربانی دینے کا۔۔۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ شجیہ آصف خان سے شجیہ خضر شجاعت چوہدری بن گئی تھی شجیہ کی نظریں صرف اور صرف خضر پر ہی جمی ہوئی تھی جس کا چہرہ بے تاثر تھا۔۔۔۔
میم یہ کنٹرکٹ پپیر ہے پڑھ کر دستخط کر دیے۔۔۔۔وکیل کے کہنے پر اُس نے خضر سے نظریں ہٹائیں جب خضر نے اُسکی طرف دیکھا جس کی نیلی آنکھیں اور چھوٹی سی ناک لال ہورہی تھی ۔۔۔۔بھورے بال چادر سے جھلک رہے تھے۔۔۔وہ انتہاء کی خوبصورت تھی جو اب بنا پڑھے کنٹرکٹ پیپر سائن کر گئی تھی خضر نے اسکی حرکت پر اپنے لب بھینچے۔۔۔۔کیسے وہ بنا پڑھے ہی سائن کر رہی تھی۔۔۔۔
شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
ابھی ابھی اُسکا نکاح سامنے موجود انسان سے ہوا تھا ۔۔۔۔وہ اُسکا شوہر اُسکا محرم بن گیا تھا۔۔۔۔۔۔
لڑکی ہمیں اج ہی حویلی کے لئے نکلنا ہے تاکہ سب کو تمہارے بارے میں معلوم ہو سکے ۔۔۔خضر بے تاثر آواز میں گویا ہوا ۔۔۔۔
شجیہ کو اُسکی بات پر حیرت ہوئی بھلا وہ کیسے اپنی ماں اور باپ کو چھوڑ کر جا سکتی تھی۔۔۔۔
لیکن۔۔۔میرے بابا۔۔۔شاجیہ نے بولنا چاہا۔۔۔۔
پیسے پُہنچ گئے ہے علاج بھی شروع ہوگیا ہے اُسکے علاوہ تمھاری مان کا بھی پورا خیال رکھا جائے گا صرف دو دِن کی بات ہے پھر ہم یہاں واپس آجائے گے ۔۔۔۔
اُسکے بعد تُم اس گھر میں رہنا چاہو تو رہ سکتی ہو لیکن اگر نہیں رہنا چاہتی تو بھی تمھاری مرضی ہے لیکن جب بھی مجھے تمھاری ضرورت ہوئی تمہیں یہاں انا پڑے گا۔۔۔
خضر نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔
آخری بار بابا سے مل لوں پھر چلتے ہیں۔۔۔شجیہ نے ایک نظر اُس مغرور انسان کی پشت کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
چلو۔۔۔باہر گاڑی تیار ہے۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔
شجیہ نے اُسکی نظراندازی پر اپنی آبرو ریز کردی۔۔۔۔خضر نے مشکل سے صرف تین سے چار بار اُسکی طرف دیکھا ہوگا۔۔۔۔۔
کالی چمکدار گاڑی کو دیکھتے شجیہ کی آنکھیں چمکی۔۔۔اُسے گاڑیاں بہت پسند تھی۔۔۔وہ بی ایس انگلش کر رہی تھی اُسکا ارادہ سی ایس ایس کرنے کا تھا لیکن اب اُسے اپنا خواب ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
خضر جاکر گاڑی کی پچھلی نشست پر براجمان ہوا۔۔۔۔
شجیہ اپنی اُنگلیاں چٹخاتی ہوئی کنفیوز سی پچھلا دروازہ کھول کر خضر سے فاصلہ رکھے بلکل دروازے کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔۔
یکدم اُسے اپنے پیٹ پر کسی کا دہکتا ہوا لمس محسوس ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے۔۔۔خضر اُسے اپنے قریب کھینچ چکا تھا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔سُرخ و سفید رنگت میں سرخیاں گهلی۔۔۔۔۔۔۔
شجیہ نے فوراً سے خضر کی طرف دیکھا جس کی آنکھیں اور چہرہ دونوں بے تاثر تھا۔۔۔۔
دروازہ صحیح سے بند نہیں ہوا ہے اسی طرح دروازے سے لگ کر بیٹھی رہتی تو سیدھا زمین پر گر چکی ہوتی۔۔۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اُسکے پیٹ پڑ سے اپنا ہاتھ بٹایا۔۔۔اپنے وجود سے دہکتے لمس کے ہٹنے پر شجیہ نے سکون بھرا سانس بھرا تھا۔۔۔
اتنے قریب سے خضر کے وجود سے اٹھتی مردانا پرفیوم کی خوشبو اُسکے حواسوں کو جھنجھوڑ گئی تھی۔۔۔
شجیہ نے جلدی سے اپنے سر سے سرکتی چادر صحیح کرتے خضر سے تھوڑا فاصلہ بنایا۔۔۔۔۔
پورے راستے وہ وقفے وقفے سے اُس یونانی دیوتاؤں جیسے حسن رکھنے والے شخص کو دیکھ رہی تھی جو سب کو یکسر نظرانداز کئے ۔۔۔اپنے ہاتھ میں موجود موبائل پر مصروف تھا۔۔۔۔
کیسا انسان ہے ہر وقت موبائل میں ہی گھسا رہتا ہے۔۔۔۔شجیہ کی بڑبڑاہٹ خضر کے تیز کانوں سے ٹکرائیں تھی۔۔۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی عمر کے بڑے لوگوں سے تمیز سے بات کرتے ہیں اور جب اُن کے بارے میں بڑبڑا رہے ہوتے ہے تب بھی تمیز کا خاص خیال رکھنا چایئے۔۔۔۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کے ہونک بنے چہرے کو دیکھ کر واپس اپنی نظریں موبائل پر مرکوز کی۔۔۔۔۔
نہیں تو میں تو نہیں بڑبڑا رہی۔۔۔آپ کے کان بج رہے ہیں۔۔۔۔۔شجیہ نے گڑبڑا کر کہا۔۔۔۔اور اپنی زبان دانتوں تلے دبائیں۔۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلایا ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں اُنکی گاڑی ہسپتال کے باہر تھی۔۔۔۔
شجیہ حیرت سے ان گارڈز کی فوج کو دیکھ رہی تھی جو خضر کے گاڑی سے اترنے سے پہلے ہی باہر تعینات ہوگئی تھی۔۔۔۔
ہوش تو تب ایا جب گاڑی کا دروازہ بند ہونے کی آواز کانوں سے ٹکرائیں۔۔۔۔۔
شجیہ نے جب خضر کو باہر دیکھا تو خود بھی باہر نکلی۔۔۔۔ارد گرد لوگ حیرت اور ستائش سے اُن دونوں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
ایک اگر یونانی دیوتاؤں جیسا تھا تو دوسری آسمان سے اُتری اپسرا کی مانند تھی۔۔۔۔۔
شجیہ کا دل دھڑکا تھا اپنی ماں کے بارے میں سوچتے ہوئے۔۔۔۔۔
خضر کے بھاری قدموں کے پیچھے چلتی ہاسپٹل کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جہاں سامنے ہی اُسے اُسکی مان نظر ائی۔۔۔۔
اماں ۔۔۔شجیہ نے اُنہیں پُکارا جو ہاتھ میں تسبیح لئے ورد کر رہی تھی شجیہ کی آواز پر انہوں نے اپنا سر اٹھایا تو شجیہ کے ساتھ کھڑے اس حسین مرد کو اجنبی نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
لاڈو ۔۔۔۔تیرے بابا کا علاج شروع ہوگیا ہے پتہ نہیں کون نیک بندہ تھا جس نے مدد کی۔۔۔۔۔نسرین نے عاجزانہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
اماں یہی ہے وہ ابا کے مالک جنہوں نے مدد کی۔۔۔شجیہ نے خضر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔جو لا پرواہ سا وہاں کھڑا تھا۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے۔۔۔۔۔
بہت بہت شکریہ آپکا ہماری مدد کرنے کا۔۔۔۔نسرین نے شکریہ کہا۔۔۔۔۔اور شجیہ نے اُسے بتانے کے لئے لفظ سوچ رہی تھی کہ کیسے اپنی مان کو بتائے اپنے نکاح کے بارے میں۔۔۔۔۔
چلے اب۔۔۔۔۔خضر نے اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر ایک نظر ڈالتے ہوئے شجیہ سے پوچھا تھا۔۔۔نسرین کے شکریہ کا اُس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔جو بات شجیہ کو انتہائی بری لگی تھی۔۔۔۔۔
کہاں۔ ۔نسرین نے الجھن بھرے لہجے میں کہا بھلا وہ اُنکی لاڈو کو کہاں لے جانے کی بات کر رہا ہے۔۔۔جبکہ شجیہ نے غصے سے خضر کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔کیا ضرورت تھی اس طرح بولنے کی ۔۔۔
اماں مجھے تُم سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ایک طرف لے جاتے کہا۔۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کے حسین چہرے کو دیکھا تھا جہاں ڈر بھی تھا اور معصومیت بھی وہ بار بار اپنے سر سے سرکتی چادر کو صحیح کر رہی تھی اور خضر اُسکی یہی بات نوٹ کر رہا تھا۔۔۔۔شجیہ کا اس طرح کرنا جانے کیوں اُسے اچھا لگ رہا تھا۔۔۔۔
وہ ایک لمبی سانس چھوڑتا۔۔۔۔وہی کھڑا اُسکی طرف دیکھنے لگا۔۔۔جو اپنی چپل میں مزین پاؤں کو کبھی دائیں کرتی کبھی بائیں کرتی اپنی اماں سے کچھ بات کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ بہت حسین تھی اور خضر کو وہی صحیح لگی۔۔۔جو ایک سال کے لیے اُسکی بیوی بن سکتی تھی۔۔۔۔اُسے پتہ تھا اب جب وہ حویلی جائے گا تو اُسکے اور فلک کے رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗
اماں میرا نکاح ہوگیا ہے چوہدری صاحب سے اور ابھی میں نے اُنکے ساتھ اُنکی حویلی جانا ہے۔۔۔۔شجیہ نے بولتے ساتھ اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔۔
یہ کیا بول رہی ہے لاڈو۔۔۔۔نسرین نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
جس پر شجیہ اسے سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔۔
تو اپنے وجود کا سودا کر ائی ہے لاڈو۔۔۔۔یہ کیا کیا تو نے ۔۔۔نسرین نے اُسکے بازو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔۔۔۔
نہیں اماں ایسا کچھ نہیں ہے ہم میاں بیوی بے شک ہے لیکن کبھی اس رشتے کے تقاضے پورے نہیں کریں گے۔۔۔اماں میرا یقین رکھ صرف ایک سال کی بات ہے پھر سب ختم ہوجائے گا۔۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کو سمجھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور جب تیرے باپ کو ہوش آجائے گا تو کیا بولوں گی میں بول مجھے۔۔۔۔نسرین نے آصف صاحب کی طرف شجیہ کا دہان دلایا۔۔۔۔۔
اماں بابا کو بھی میں سچ بتا دونگی ۔۔۔۔لیکن اگر میں یہ نہیں کرتی تو بابا نہیں ملتے ہمیں واپس اماں ۔۔۔ہم کہاں سے لاتے اتنے پیسے۔۔۔شجیہ نے اُسے اصلیت بتائیں۔۔۔۔
اب مجھے جانا ہوگا ۔۔۔شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھ کر کہا جی واپس اپنے موبائل میں مصروف تھا۔۔۔۔
میری بچی ۔۔۔۔اللہ تجھے اپنے امآن میں رکھے۔۔۔۔میری بچی اپنا خیال رکھنا۔۔۔۔نسرین کو بات سمجھ آگئی تھی اسی لیے اُسے گلے لگا کر دعا دی۔۔۔شجیہ کی آنکھیں بھی نم ہوئی۔۔۔پہلی مرتبہ اپنے ماں باپ سے دور جا رہی تھی بے شک دو دِن کے لئے جا رہی تھی لیکن جا تو رہی تھی ۔۔۔۔۔
شجیہ نے نسرین کے ماتھے پر پیار کیا اُسکی شروع کی عادت تھی جب بھی اُسے کسی پر پیار اتا وہ اُسکے ماتھے پر اپنے لب رکھتی تھی۔۔۔۔
اپنا اور بابا کا خیال رکھنا۔۔۔۔شجیہ نے ہدایت دی اور ایک الوداعی نظر اپنی مان کو دیکھتے۔۔۔وہ خضر کی جانب بڑھی۔۔۔دل ایک بار اپنے جان سے عزیز بابا کو دیکھنے کا کیا لیکن یہ مجبوری ۔۔۔۔۔۔
شجیہ کے واپس اتے ہی خضر کچھ بھی بولے بنا۔۔۔باہر کی طرف بڑھ گیا اور اُسکے ساتھ کھڑے گارڈ ۔۔۔شجیہ کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔۔۔۔۔
شجیہ حیرت سے پیچھے مڑ کر سانڈ جیسی جسامت کے آدمیوں کو دیکھتی تیز قدموں سے خضر کی جانب بڑھ کر اُسکے ہم قدم ہوئی تھی ورنہ ان گارڈ کو دیکھ کر وہ ڈر گئی تھی۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس بار شجیہ نے دروازہ صحیح سے بند کیا تھا۔۔۔اور گاڑی گاؤں کے راستے پر گامزن ہوگئی تھی۔۔۔۔۔
اور شجیہ باہر کے مناظر میں کھو گئی تھی ۔۔اپنے بابا اور اماں کا چہرہ آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تو نیلی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ نکل کر سرخ و سفید گال کی زینت بنا۔۔۔۔۔
ایک نظر پلٹ کر اُس مغرور انسان کو دیکھا جو اب لیپ ٹاپ پر مصروف ہوگیا تھا۔۔۔شجیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی ماتھے پر ننھے ننھے سے بل پڑے۔۔۔۔
آخر کیا تھا یہ شخص جو کسی روبوٹ کی مانند لگتا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے اپنا سر جھٹکا ایک نظر اُسکی مہارت سے لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیوں کو دیکھتی وہ اپنا سر جھٹک کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔۔۔۔۔
دِن بھر کی تھکن کا اثر تھا آنکھیں بند کرتے ہیں گہری نیند اُس پر مہربان ہوگئی۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗
رات کا وقت تھا ۔۔۔۔۔جہاں ہر طرف سناتا اور خاموشی کا راج تھا ایسے میں سبز آنکھوں والا وجود مکمل کالے لباس میں حویلی کے اندر کودا تھا۔۔۔۔۔۔
ایک نظر اطراف میں دیکھتے۔۔۔۔وہ مہارت کے ساتھ ایک کمرے کی بالکنی کے نیچے کھڑا ہوا اور سائڈ پر لگے پائپ پر مہارت سے چڑھتے۔۔۔وہ بالکنی میں کودا تھا مسکراتی نظروں سے گلاس وال کو کھلا دیکھ وہ سرشار سا ہوتا اپنے قدم اندر کمرے کی طرف بڑھا گیا تھا۔۔۔۔۔
کمرے میں نیم اندھیرا ہو رکھا تھا ایک سائڈ پر رکھے گئے لیمپ کی روشنی میں۔۔۔۔بیڈ پر موجود وہ نسوانی حسین وجود دھیمی دھیمی سانسیں بھرتا گہری نیند میں معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔
قدم اُس نسوانی وجود کے پاس اٹھے۔۔۔۔۔
بیڈ پر موجود جگہ میں بیٹھتے۔۔۔سبز آنکھوں میں چمک لئے اُس نے اُس حسین وجود کے حسین چہرے پہ بکھرے۔۔۔بھورے بالوں کی لٹو کو اپنی شہادت کی انگلی سے ہٹایا تھا۔۔۔۔۔
بند آنکھوں سے ہوتے ہوئے نظر اُسکے گلابی لبوں پر آن ٹھہری جو آپس میں پیوست ہوئے تھے ۔۔۔شہادت کی انگلی۔۔۔سے گلاب کی پنکھڑی سے بھی نرم و نازک لبوں کو سہلایا تھا ۔۔۔حلق میں کانٹے سے چب اٹھے تھے ان لبوں کا جام پینے کے لئے دل نے بہت بری طرح اُکسایا تھا۔۔۔۔
خود پر سے ضبط کھوتے وہ خمار سے سرخ سے ہوتی سبز آنکھوں سمیت اُسکی گردن میں جھک ایا۔۔۔۔
ایک گہرا سانس بھرتے اُس کندن جیسے وجود کی روح پرور خوشبو اپنے وجود میں اتاری ۔۔۔۔
اپنے دہکتے لب اُسکی گردن پر رکھے وہ اُسکے وجود کے میٹھے لمس سے خود کے وجود میں پھیلی بیچینی کو دور کر رہا تھا۔۔۔۔۔
سامنے موجود وجود کی نیند بہت پکی تھی یہ تو وہ سونے کا ناٹک کر رہی تھی۔۔۔۔اتنی گہری نیند میں کوئی نہیں سوتا ۔۔۔۔
اُس نے اپنا سر اُسکی گردن سے نکالتے۔۔۔اپنی سبز آنکھوں سے سائڈ ٹیبل پر رکھی چیز کو دیکھا تو آنکھوں میں سختی اور غصے کا تاثر اُبھرا۔۔۔۔۔
سلیپنگ پلز کا پتہ اٹھا کر اپنی مٹھی میں بھینچا تھا۔۔۔۔
ایک سخت نظر فلک کے سوئے وجود پر ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔
سزا ملے گی تمہیں۔۔۔ حیاتی (میری جان) ان سب چیزوں کی اپنی آنکھوں کو اتنا رُلانے کی خود پر ظلم ڈھانے کی سب کی سزا ملے گی۔۔۔۔سبز آنکھوں میں وحشت لئے وہ فلک کے کان کے پاس سرگوشی میں بولتے اُسکے کان کی لو کو اپنے دانتوں میں چبا گیا تھا لیمپ کی روشنی میں صرف اُسکی سبز آنکھیں اور عنابی لب نظر آرہے تھے۔۔۔۔
اپنی جیب میں رکھے موبائل پر میسج کی آواز پر وہ فلک سے دور ہوا تھا۔۔۔
فلک کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے وہ ایک گہری نظر اُسکے وجود پر ڈالتے۔۔۔جتنی خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا تھا اتنی ہی خاموشی سے کمرے سے نکلا۔۔۔۔بالکنی میں کھڑے ہوتے ایک آخری نظر اُس نرم و نازک وجود پر ڈالی تھی اور پھر جس طرح ایا تھا اُسی طرح اُس حویلی سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗
خضر اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا جب گاڑی کو جھٹکا لگنے سے یکدم شجیہ کا سر اُسکے کندھے پر گرا۔۔۔۔۔
خضر حیران ہوا۔۔۔۔ایسا نہیں تھا وہ ساتھ میں موجود وجود کو بھول گیا تھا لیکن اُسکا ایسے اچانک سے اُسکے قریب انا۔۔۔خضر کو عجیب لگا ۔۔۔۔
چادر سرک کر کندھے پر اگری تھی کالے گھنے سلکی بال اُسکے چہرے کو ڈھانپ گئے تھے۔۔۔۔
ز ندگی میں پہلی بار خضر کے ساتھ یہ صورتِ حال پیش ائی تھی ورنہ وہ اپنے نزدیک کسی نسوانی وجود کو برداشت نہیں کرتا تھا سوائے فلک اور فاطمہ اماں کے ۔۔۔۔۔۔
خضر نے اپنا دیمج ہاتھ شجیہ کے کندھے کے گرد رکھا۔۔۔۔۔اور دوسرے ہاتھ سے جلدی سے لیپ ٹاپ بند کر کے اسکے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا۔۔۔۔
یہ نظارا ایسا تھا جیسے چاند کو کالے بادلوں نے ڈھانپ دیا ہو۔۔۔اور جیسے ہی بادل ہٹے۔۔۔۔چاند اپنی پوری اب و تاب سے چمکنے لگا۔۔۔۔۔
خضر مہبوت ہوتا شجیہ کو دیکھیں گیا اتنا مکمل حسن۔۔۔۔معصومیت اور اعتماد کے ساتھ۔۔۔وہ چند پل اُسکے چہرے کے نقش دیکھتا رہا ۔۔۔بند نیلی آنکھیں ۔۔ جو سامنے والے کو سمندر کی طرح اپنے اندر غرق کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی چھوٹی سی ناک۔اور گلابی بھرے بھرے لب۔۔۔پھولے گال وہ حسن کی مورت تھی جسے خدا نے فرصت سے بنایا تھا۔۔۔۔۔
یہ کیا کر رہا تھا وہ کیوں اس لڑکی پر سے نظر نہیں ہٹ رہی تھی اُسکی۔۔۔۔حسن تو اس نے بہت دیکھا تھا پھر کیوں وہ اُسکے چہرے سے نظریں ہٹا پا رہا تھا۔۔۔۔جب سے وہ اُسکے سامنے ائی تھی آنکھیں دغا دیتی اُسکو دیکھنے کی ضد کیے جا رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے سٹپٹاتے اپنی نظریں اُسکے چہرے سے ہٹائیں تھی۔۔۔آرام سے اُسکا سر سیٹ کی پشت سے ٹکایا۔۔۔۔
اور اپنے آپکو سممبھالتے دوبارہ اپنے کام کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد اُنکی گاڑی ایک وسیع حویلی کے سامنے رکی۔۔۔۔۔
گاڑی رکنے کی آواز پر شجیہ نے بھی اپنی آنکھیں کھولی اور حیرت سے باہر نظر اتا منظر دیکھا تھا جہاں ایک انہتائی خوبصورت حویلی اپنی پوری شان کے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔۔۔
چلو ۔۔۔خضر نے اُسے محویت سے حویلی کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
خضر کی آواز پر وہ دھڑکتے دل سے اپنی چادر صحیح کرتی گاڑی سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے آگے بڑھ کر پورے حق سے اُسکا ہاتھ تھاما تھا شجیہ نے خضر کے ہاتھ میں مقید اپنا ہاتھ دیکھا تھا ۔۔۔۔وہ سمجھ گئی تھی سب کے سامنے اچھے ایک دوسرے سے پیار کرنے والے میاں بیوی بننے کا وقت آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔
خضر جیسے ہی حویلی میں داخل ہوا سامنے ہی فاطمہ اماں ۔۔۔داجی چاچی۔۔۔اور اُس ایک وجود کو بیٹھے دیکھا۔۔۔۔
جو خضر اور اُسکے ساتھ ایک حسین لڑکی کو دیکھتے فوراً سے اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ سب کو ایک نظر دیکھ کر ڈر گئی تھی پتہ نہیں کیا ردعمل ہونا تھا سب کا۔۔۔اُسکی آنکھیں جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
جتنے حق سے خضر اُس لڑکی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا اُنہیں کچھ کچھ پتہ لگ چکا تھا۔۔۔۔
خضر بچے۔۔۔۔کون ہے یہ۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر کے سامنے اتے اپنے ازلی نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
بیوی ہے میری ۔۔۔فاطمہ اماں۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے ہاتھ پر گرفت سخت کرتے بلند آواز میں کہا۔۔۔۔
اسکی بات پر سامنے کھڑے دو وجود بے یقین سے ہوئے تھے۔۔ جبکہ داجي اور فاطمہ اماں کی آنکھیں چمکی تھی۔۔۔۔
اُن دونوں کو بس یہی چائیے تھا خضر کی ز ندگی میں کوئی لڑکی شامل ہوجائے پھر چاہے وہ فلک ہو یا کوئی اور۔۔۔ویسے بھی شجیہ کا معصوم اور خوبصورت چہرہ دیکھتے وہ دونوں ہی مسکرا گئے تھے۔۔۔
جو لبوں پر ایک مسکراہٹ کے ساتھ خضر کے یہ الفاظ سن کر سر نیچے جھکا گئی تھی اُسے خود نہیں پتہ تھا اُسکے لبوں پر خضر کے یہ الفاظ سن کر مسکراہٹ کیوں ائی تھی۔۔۔۔
شاید دل کی بنجر زمین پر پھول کھلنے کی شروعات ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اوہ ماشاللہ ماشاللہ دیکھے بابا کتنی پیاری ہے ہماری بہو ۔۔۔فاطمہ اماں نے شجیہ کا ماتھا چومتے ہوئے خوشی سے بھرپور چہرے سے کہا۔۔۔۔
ماشاءاللہ ۔۔۔۔داجی نے بھی مسکراتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
اُنکی اتنی تعریف پر شجیہ کی رنگت لال ہوئی تھی ۔۔۔خضر کو اُسکے سفید چہرے پر اچانک سے اتی یہ لالی بہت بھائی تھی۔۔۔۔۔۔
ہن کہاں سے مل گئی ۔۔۔۔ضرور پیسے کے پیچھے ائی ہوگی۔۔۔۔چاچی نے زہر خند لہجے میں کہا۔۔۔اُنکی بات پر خضر کا چہرہ اسپاٹ ہوا تھا۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی سنجیدہ ہوئے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ نے بھی سخت نظروں سے پیچھے کھڑی عورت کو ذرا سے دائیں جھکتے دیکھا تھا ۔۔جو جھلبل سے جوڑے میں میکپ کئے اُسے انڈیا کے سیریل کی۔ ساس لگی ۔۔۔۔
اوہ کتنی اچھی سوچ ہے آپکی۔۔۔۔شجیہ نے ویسے ہی تھوڑا سا دائیں جانب جھکے اُنکے چہرے کی طرف دیکھتے۔۔۔ہنستے ہوئے طنز مارا تھا۔۔۔۔۔
اور واپس سیدھی ہوتے اپنی چادر صحیح کی تھی ۔۔۔۔۔۔
اسکے انداز پر خضر کے عنابی لبوں کے گوشوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری جسے وہ منہ موڑے چھپا گیا لیکن یہ اُسکی خام خیالی تھی کیونکہ فاطمہ اماں اور داجی اُسکی مسکراہٹ دیکھ چکے تھے۔۔۔۔اور وہ خود بھی شجیہ کے اس انداز پر مسکرا پڑے تھے۔۔۔۔
چاچی شجیہ کا طنز سنتے ہی پاؤں پٹختی اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی اُنہیں سمجھ نہ ایا کیسے خضر کو اتنی حسین لڑکی مل گئی اُنکی نظر میں خضر کے ہاتھ کا پنچا نہ ہونا بہت بری خامي تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی اج بھی ایسی لڑکیاں موجود ہے جو سیرت پر مرتی ہے ۔۔۔۔صورت اُنکے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔۔۔۔
آجاؤ بچے یہ تو تمہیں یہی کھڑے رکھے گا ۔۔۔۔فاطمہ اماں نے شجیہ کا ہاتھ نرمی سے پکڑتے اندر لاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
شجیہ خاموشی سے چلتی اُنکے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی تھی جہاں داجي د پہلے سے براجمان تھے۔۔۔۔۔
داجي نے بھی شجیہ کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔خضر بھی سامنے صوفے پر بیٹھا اُنکی طرف متوجہ تھا۔۔۔۔
بیٹا ہم تمہارے داجی ہے۔۔۔اج سے ۔۔۔۔داجی نے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور میں تمھاری فاطمہ اماں۔۔۔۔فاطمہ اماں نے بھی اسکو پیار سے دیکھتے ہوئے کہا جب شجیہ نے سامنے کھڑی لڑکی کی طرف دیکھا جو بلیک رنگ کی شلوار قمیض میں سینے پر ہاتھ باندھے اُسے ہی دیکھ رہی تھی سفید رنگت نرمل نین نقش۔۔۔۔
یہ خضر کی کزن ہے۔۔۔ثانیہ۔۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکی نظروں کے تعاقب میں دیکھتے ہوئے کہا ۔۔خضر نے اپنے کب بھینچے تھے۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔شجیہ نے خود ہی سلام کیا۔۔۔۔
جس کا جواب دیے بنا ہی وہ لڑکی وہاں سے چلی گئی تھی۔۔۔۔
کیا یہ بول نہیں سکتی۔۔۔۔شجیہ کو جو لگا وہ پوچھ لیا ۔۔۔داجی اور فاطمہ اماں جو ثانیہ کے اس عمل سے شرمندہ ہوگئے تھے۔۔۔شجیہ کے پوچھنے پر اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئے۔۔۔۔۔
نہیں بس جب اُسکا دل چاہتا ہے تب وہ بولتی ہے۔۔۔فاطمہ اماں نے کہا۔۔۔۔۔
اور ایک نظر خضر کو دیکھا ۔۔جو اپنے موبائل میں مصروف ہوگیا تھا۔۔۔۔ثانیہ کا انداز وہ بھی دیکھ چکا تھا۔۔۔۔
چلو بیٹا ۔۔۔۔نوری آپکو خضر کا کمرہ دکھا دے گی تھوڑا آرام کریں آپ ۔۔۔پھر آپکو ایک اور وجود سے ملوانا ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکا ماتھا چومتے ہوئے کہا یہ لڑکی اُنکے لاڈلے کی بیوی تھی اُنہیں عزیز تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر بلایا اور ایک نظر خضر کو دیکھا جس کو موبائل میں مصروف دیکھ اُس نے اپنے دانت پیسے تھے اور نوکرانی کے ساتھ کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
اب آپ بتائے گے ۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر سے کہا جس نے موبائل ایک طرف رکھ دیا تھا اور پوری طرح اُنکی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ میرے ایک ورکر کی بیٹی ہے مجھے پسند تھی اور وہ بھی مجھے پسند کرتی تھی تو میں نے اُس سے شادی کر لی۔۔۔۔خضر نے کندھے اچکاتے سادگی سے کہا۔۔۔وہ بات گھماتا نہیں تھا دو ٹوک بولتا تھا۔۔۔۔۔۔اس جھوٹ کو بھی اُس نے اتنی صفائی سے بولا تھا کہ فاطمہ اماں اور داجی یقین کر گئے تھے۔۔۔۔۔
اب چلتا ہوں تھک گیا ہُوں ۔۔۔خضر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا اور دونوں کے ماتھے چومتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
پیاری ہے نہ۔۔۔فاطمہ اماں نے پُر جوشی سے داجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
ہم ۔۔اللہ دونوں کو ایک ساتھ ہمیشہ خوش رکھے ۔۔۔۔۔۔داجی نے صادق دل سے دعا دی۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗💗
اِدھر ثانیہ نے کمرے میں آکر ایک نظر اپنے آپکو شیشے میں دیکھا تھا۔۔۔۔۔شجیہ کا خوبصورت چہرہ آنکھوں کے سامنے لہرایا تو نفرے سے اپنے دانت بھینچے تھے۔۔۔۔
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب داجی نے اُسکا رشتا خضر سے طے کیا تھا ۔۔جس پر وہ خضر کے منہ پر اُسے معذور بولتے ٹھکرا گئی تھی۔۔۔
لیکن آج خضر کی بیوی دیکھ کر اُسکے دل میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔۔۔
ایک ہفتے بعد ہی اُسکی شادی اُسکی پسند سے ہو رہی تھی وہ اُس پر خوش بھی بہت تھی لیکن ایک حسد دل میں انگڑائی لے چکا تھا۔۔۔۔
شجیہ حیرت سے اس شاندار کمرے کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اللہ اتنا بڑا صرف ایک کمرہ ۔۔۔اتنا بڑا تو ہمارا پورا گھر تھا۔۔۔شجیہ نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ایک طرف کو ٹیبل اور دو صوفے رکھے گئے تھے جن کے سائڈ پر ایک الماری تھی جس میں کتابیں رکھی گئی تھی اُسکے آگے تین سیریاں تھی پھر اُس کے اوپر بیڈ تھا جس کی دیوار پر ایک اندراج سائز تصویر لگی ہوئی تھی جس میں ایک ہاتھ اپنی جیب میں ڈالے ایک ہاتھ میں موبائل تھامے وہ کسی بات پر مسکرا رہا تھا۔۔۔۔
بیڈ کے سامنے ایک اندراج سائز ٹیوی لگا ہوا تھا اور سائیڈ کی طرف دو دروازے تھے یقیناً وہ ڈریسنگ روم اور واشروم ہوگا۔۔۔۔
جانے اب کیا ہوگا پتہ نہیں اماں کیا کر رہی ہوگی۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کے بارے میں سوچتے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکایا۔۔۔۔۔
آنکھوں کے سامنے دِن بھر کے مناظر لہرائے کیسے وہ شجیہ آصف سے شجیہ خضر شجاعت چوہدری بن گئی تھی۔۔۔۔۔
کیا کرو فون تو نہیں میرے پاس ۔۔باہر دیکھ لیتی ہوں اتنی بڑی حویلی ہے کہیں تو فون ہوگا۔۔۔شجیہ کہتے ساتھ صوفے سے اُٹھی اور کمرے سے باہر نکلی۔۔۔
💗💗💗💗💗
خضر اپنے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا جب سامیا نے اُسکا راستہ روکا۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔۔
تو آخر کر ہی لی تم نے شادی۔۔۔سامیہ نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے طنزیہ انداز میں کہا۔۔۔۔
مجھے تو لگا تھا جتنا تم مجھے پسند کرنے کا دعویٰ کرتے ہو اگلے تین چار سال تو ضرور سوگ مناؤ گے لیکن یہاں تو لگ رہا ہے جیسے تُم شادی کے لئے مرے جا رہے تھے۔۔۔۔سامیہ کا لہجہ زہر خند تھا ۔۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری تمہیں پسند کرتا ہے یہ بات اپنے ذہن سے نکال دو تو بہتر ہے غلط فہمیاں کبھی کبھار اچھی لگتی ہے لیکن اتنی بڑی غلط فہمی بلکل نہیں رکھنی چایئے۔۔۔۔تمہیں فاطمہ اماں نے میرے لئے پسند کیا تھا میں نے نہیں۔۔۔خضر نے سخت بے تاثر لہجے میں کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے۔۔جب سامیہ کے اگلے کہیں گئے الفاظ سن کر اُسکا وجود تھما ۔۔۔۔
مجھے نہیں کرنی تھی تم جیسے معذور انسان سے شادی اسی لئے منع کیا پتہ نہیں اُس لڑکی نے تم میں کیا دیکھ لیا ضرور پیسوں کے لئے بندھی ہوگی تم سے ۔۔۔ورنہ کوئی بھی لڑکی تم جیسے معذور انسان سے شادی نہ کرے اگر عقلمند ہو تو۔۔۔۔سامیہ کا ایک ایک لفظ حقارت اور نفرت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔
خضر نے اپنے لئے معذور جیسا لفظ سن کر اپنی آنکھیں مینچی تھی۔۔۔۔
ہر لڑکی تُم جیسی نہیں ہوتی جو صرف شکل و صورت پر ہی فدا ہو مجھے میرے شوہر کی سیرت سے پیار ہے پیسوں سے نہیں ۔۔۔۔یہ اُنکی اچھی تربیت اور سیرت ہی ہے جو اب تک تمہارے منہ سے اپنے لئے ایسے الفاظ سن کر بھی تم سے اونچی آواز میں بات نہیں کی اور نہ ہی تمہیں تھپڑ مارا ۔۔۔۔۔لیکن میرا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔۔۔میں تمہارے ان لفظوں پر تمہارا یہ سفید گال ایک سیکنڈ میں لال کر سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی پشت سے اُبھرتی تیز آواز پر خضر جھٹکے سے پیچھے مڑا تھا وہ تو سامیہ کی بات کو نظرانداز کر کے جا رہا تھا کیونکہ وہ کبھی بھی کسی کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیتا تھا کہ اُسکے الفاظ سن کر اُسے کچھ بُرا لگا ہے اسی لئے وہ خاموش رہتا تھا ۔۔۔۔
لیکن شجیہ کو سینے پر ہاتھ باندھے غصے بھری نظروں سے سامیہ کی طرف دیکھتے اور غصے سے بھری آواز میں بولتے دیکھ اُسے حیرت ہوئی تھی ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا شجیہ کو اُسکی زندگی میں آئے ہوئے اور وہ اُسکی خاطر بول رہی تھی۔۔۔۔
آج تک صرف فاطمہ اماں فلک اور داجی ہی اُسکی حمایت میں بولے تھے لیکن اج ایک اور وجود کا اضافہ ہوگیا تھا اور وہ تھی شجیہ ۔۔۔۔۔
خضر کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی شجیہ کو دیکھ کر۔۔۔۔۔
وہ تو وقت بتائے گا کہ تم کب تک اس کا ساتھ نبھاتی ہو۔۔۔۔میں بھی یہاں ہوں اور تُم بھی۔۔۔۔سامیہ اپنی بےعزتی پر جلتی بولی۔۔۔۔
ٹھیک ہے جانو تم بھی یہاں ہو میں بھی یہاں ہو دیکھتے ہیں۔۔۔۔شجیہ نے بھی اسی کے انداز میں بولتے خضر کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔
سامیہ غصے بھری نظر اُن دونوں کی طرف ڈالتی اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔
شجیہ جو فون کرنے کے لیے باہر ائی تھی لیکن پھر سامیہ کی بات سن کر وہ اُسکی طرف متوجہ ہوئی اُسے نہ جانے کیوں سامیہ کے الفاظ سن کر بےحد غصّہ ایا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا جو بے تاثر آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔
نہ جانے اس انسان کی آنکھوں میں کوئی تاثر مجھے کبھی دیکھنے کو ملے گا بھی یہ نہیں۔۔۔شجیہ نے خضر کی سنجیدہ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سوچا۔۔۔۔
جب خضر نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ اُسکی گرفت سے نکالا تھا۔۔۔۔شجیہ چونکی۔۔۔۔
آئندہ میرے معاملات میں دخل اندازی مت کرنا۔۔۔خضر بے تاثر لہجے میں بولتا ہوا جانے لگا ۔۔
لیکن ۔۔وہ آپکو کتنا غلط بول رہی تھی۔۔۔شجیہ نے اپنے قدم خضر کے ساتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
کوئی مجھے کچھ بھی بولے میں خود اُسکا منہ بند کرنے کا حوصلا رکھتا ہوں ۔۔۔تمہیں آئندہ کسی بھی میرے ذاتی معاملات میں دخل اندازی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کا بازو اپنی گرفت میں لیتے سخت لہجہ میں کہا اور ایک جھٹکے سے چھوڑتے اپنے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
عجیب بندہ ہے یار۔۔۔اور تُم بھی بہت شوق ہے نہ کہ جب کوئی غلط بولے تو اُسکا منہ بند کروانے کا کروا لی اپنی عزت ہوگئی خوش تم ۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی پشت کو دیکھ کر خود کے۔ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوئے خود کو کوسا۔۔۔۔
💗💗💗💗💗💗
فلک نے اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر سامنے دیوار گیر گھڑی کی طرف دیکھا جہاں دوپہر کے تین بج رہے تھے۔۔۔۔
یہ اللہ میں اتنی دور سوتی رہی ۔۔۔فلک جلدی سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
لیکن کمرے میں رچی جانی پہچانی خوشبو محسوس کر کے اس کا دل دھڑکا تھا۔۔۔۔
یکدم اُسے اپنی گردن پر ہونٹ پر کسی کے لمس کا احساس ہوا جیسے کسی نے بہت شدت سے اُسکے لبوں اور گردن پر اپنا لمس چھوڑا ہے۔۔۔۔
دل کی دھڑکن حد سے تجاوز کرگئی ۔۔۔
کا۔۔۔کامل۔۔۔فلک کے بال سمیٹتے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔یہ خوشبو یہ لمس یہ تو جانا پہنچانا تھا۔۔۔
کیا وہ ایا تھا۔۔۔فلک نے دھڑکتے دل سے کمرے میں نظر دوڑاتے ہوئے سوچا۔۔۔۔۔
وہ یہاں کیسے آئے گا فلک ۔۔۔وہ تمہیں چھوڑ گیا ہے کیوں نہیں سمجھتی یہ بات اور وہ تو جانتا بھی نہیں کہ تُم رہتی کہاں ہو وہ یہاں نہیں آسکتا ۔۔۔فلک نے تلخئ سے خود سے کہا۔۔۔اور اپنا وہم سمجھتی واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
کہ یکدم اُسے چکر سا ایا۔۔۔کل سے شدت سے اُسے چکر آرہے تھے اسی لیئے وہ کمرے سے باہر نہیں نکلی تھی۔۔۔۔
فلک نے کرسی کا سہارا لیا جب نارمل ہوئی تو الماری سے اپنے لئے ایک سوٹ لیتی وہ واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر واشروم سے نکلی تھی۔۔۔
آئینے کے پاس اتے اُس نے ایک نظر اپنے سوگوار سے چہرے پر ڈالی۔۔۔وہ ہر وقت تیار رہتی تھی۔۔۔چہرے پر ایک خوشی کی جھلک ہوتی تھی لیکن اب۔۔۔آنکھوں کے لال پپوٹے اس بات کو ثابت کر رہے تھے کہ وہ روتی رہی ہے۔۔۔آنکھوں کے نیچے سیاں ہلکے۔۔۔۔چھوٹی سی ناک اور گلابی بھرے بھرے لب۔۔۔ناک میں چھوٹی سی سلور رنگ کی بالی جس میں ایک چھوٹا سا نگ لگا ہوا تھا۔۔۔۔ڈارک گرین رنگ کی فروک ۔۔۔۔۔بھورے بھیگے بال وہ کسی گڑیا کی مانند تھی ۔۔۔
آنکھوں میں کاجل لگا کر اپنے سوجے پپوٹوں کو چھپایا اور ہلکا سا فاؤنڈیشن لے کر اپنے چہرے پر لگا کر ہونٹوں پر لب بام لگایا اتنے میں ہی وہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔یہ سب بھی اُس نے اپنی ماں کی نظروں سے بچنے کے لئے کیا تھا ورنہ اُسکی مان ایک پل نہ لگاتی اُسکی آنکھوں کا حال جاننے میں۔۔۔۔
فلک نے بیڈ پر رکھا دوپٹہ اٹھا کر اچھے سے اپنے سینے سے پیٹ تک چھپایا۔۔۔اپنے پیٹ پڑ ہاتھ رکھتے ہی اُسکی آنکھیں نم ہوئی تھی ممتا كا احساس رگوں میں بھر سا گیا تھا۔۔۔۔
اور دور اندھیرے کمرے میں بیٹھا وہ وجود جو کب سے فلک کی ایک ایک کاروائی دیکھ رہا تھا فلک کی اس حرکت پر چونکا۔۔۔۔
اگر جو وہ سوچ رہا تھا ایسا کچھ تھا تو وہ بہت بڑی تباہی لانے والا تھا ۔۔۔سبز آنکھیں پل میں سرخ ہوئی تھی۔۔۔۔جب فلک کو باہر جاتا دیکھ اُس نے جلدی سے اپنی سفید اُنگلیاں موبائل پر چلائی تھی۔۔۔۔انداز میں بیقراری نمایاں تھی۔۔۔جلدی سے کال ملا کر فون کان سے لگایا لیکن آگے سے موبائل بند ہونے پر اُس نے غصے سے اپنا موبائل دیوار پر دے مارا تھا۔۔۔۔۔
عنابی لبوں پر اپنی مٹھی جمائے وہ مضطرب سا تھا۔۔۔۔
💗💗💗💗💗
فلک اپنے کمرے سے نکلی ابھی کچھ قدم ہی اگے بڑھی تھی جب آنکھوں کے سامنے یکدم سے اندھیرا ایا۔فلک نے دیوار پر ہاتھ رکھ کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی ۔۔۔۔شجیہ جو کچھ دور راہداری میں کھڑی اپنے آپکو کوس رہی تھی ایک لڑکی کو گرتا دیکھ فوراً اُسکے پاس ائی۔۔۔
آپ ٹھیک ہے۔۔۔شجیہ نے فلک کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کندھے پر رکھ کر اُسے سہارا دیتے ہوئے پوچھا۔۔۔فلک نے اثبات میں سر ہلایا جب شجیہ نے اُسے تھوڑی دور رکھی کرسی پر بیٹھایا۔۔۔۔
پانی لاؤ آپکے لئے۔۔۔شجیہ نے فلک کا ہاتھ تھامے نیچے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
نہیں میں ٹھیک ہوں بس ذرا سا چکر آگیا تھا۔۔۔آپ کون ہے ۔۔۔فلک نے انجان چہرہ دیکھ کر پوچھا ۔۔کچھ پل تو اُسکی آنکھیں بھی شجیہ کے خوبصورت اور معصوم نقوش پر ٹھہر گئی تھی اوپر سے نرم لہجہ اور کسی غیر کے لئے اتنی فکر۔۔۔۔
جی۔۔۔وہ۔۔وہ ۔۔میں چوہدری صاحب کی بیوی ہوں۔۔۔شجیہ کو سمجھ نہ ایا کیسے بتائے ۔۔۔پھر ایک ہی سانس میں بول گئی ۔۔۔
خضر۔۔۔خضر کی بیوی ہو تُم۔۔۔فلک نے حیرت سے شجیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔
اوہ اللہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔اتنی جلدی اور اُس نے مجھے کچھ بتایا کیوں نہیں ۔۔۔فلک غصے سے کہتی کھڑی ہوئی تھی۔۔۔
فلک کے انداز کو دیکھتے شجیہ کو حیرت کے ساتھ ڈر بھی لگا ۔۔۔۔
فلک نے جب شجیہ کے چہرے پر ڈر اور حیرت دیکھی تو پیار سے اُسکا ہاتھ تھاما ۔۔۔شجیہ کی شکل دیکھ کر ہی وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ ایک صاف اور معصوم دل رکھنے والی لڑکی ہے۔۔۔اور خضر کو بھی اچھی طرح جانتی تھی ضرور کچھ تو گڑبڑ تھی۔۔۔۔
ڈرو مت تم ۔۔میں تمہیں کچھ نہیں کہو گی لیکن ذرا چوہدری صاحب کی تھوڑی کلاس لیتے ہے۔۔۔فلک نے شجیہ کا ہاتھ تھامے خضر کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
اُسے سمجھ نہ ایا اُسکے دوست کو شجیہ جیسی لڑکی مل کیسے گئی جس طرح شجیہ نے فلک سے بات کی تھی فلک کو وہ بہت اچھی لگی تھی ۔۔۔۔
دھڑام کے ساتھ فلک نے خضر کے روم کا دروازہ کھولا تھا لیکن سامنے کا منظر دیکھ کر وہ دونوں خفت سے سرخ پڑتی جلدی سے اپنا رخ موڑ گئی تھی۔۔۔
ارے میں تو اُسکی بہن پلس دوست ہوں تُم تو بیوی ہو دیکھ سکتی ہوں اسکو ۔۔۔فلک نے شجیہ کا رخ واپس خضر کی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ نے سٹپٹا کر خضر کی طرف دیکھا تھا جو شرٹ لیس ٹاول لپیٹے۔۔۔بیڈ کے پاس کھڑا حیرت سے اُن دونوں کی طرف دیکھ رہا تھا یہ پہلا تاثر تھا جو اُس نے خضر کی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔۔۔
خضر کا مضبوط توانا سینا دیکھتے شجیہ نے سرخ ہوتے اپنی آنکھیں منیچی تھی۔۔۔۔اور خضر نے مہبوت سا ہوتے اُسکا حسین چہرہ دیکھا تھا ۔۔۔دل نے فوراً سے ایک بیٹ مس کی تھی کیوں اس لڑکی کو دیکھ کر اُسکا دل تیز دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔۔۔۔۔
۔
اوہ بھائی میرے اگر اپنی بیوی کو اپنی ہوٹینس دکھا دی ہو تو جلدی سے چینج کر کے آجاؤ تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔
فلک نے پلٹے ہوئے ہی طنزیہ لہجے میں کہا آخر کب تک کھڑی رہتی وہ اوپر سے آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا الگ آرہا تھا۔۔۔۔اُسے اب جھنجھلاہٹ ہونے لگی تھی اپنی طبیعت سے۔۔۔
فلک کی بات پر وہ جو مہبوت ہوتا شجیہ کا سرخ چہرہ اور بند آنکھیں دیکھ رہا تھا۔۔فوراً سے واشروم کی طرف بڑھا۔۔۔
فلک جلدی سے جاکر صوفے پر بیٹھ گئی تھی فلک کو صوفے پر بیٹھا دیکھ کر شجیہ بھی اُسکے پاس ہی جاکر بیٹھ گئی جبکہ دل اندر تیزی سے دھڑک رہا تھا آخر فلک نے کیا بات کرنی تھی اُسے تو سمجھ نہیں آرہا تھا اُسکے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں کالی سینڈو اور کالے ڈھیلے سے ٹراؤزر میں خضر باہر ایا تھا۔۔۔۔
اور جاکر دوسرے صوفے پر بیٹھ کر فلک کی طرف متوجہ ہوا اب کی بار بھی ایک بھی نظر اُس نے شجیہ کی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔۔شجیہ کو بھی باہر اُسکا ڈانٹنا یاد آیا تو منہ بناتی چپ چاپ وہاں بیٹھی رہی۔۔۔
تم نے شادی کر لی اور مجھے بتایا بھی نہیں۔۔۔فلک نے صدمے بھری آواز میں پوچھا۔۔۔۔
ہاں بتانے کا وقت نہیں تھا اسی لئے نہیں بتایا۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائی۔۔۔۔۔
مجھے سچ سننا ہے اور صرف تمہارے پاس دس منٹ ہے مجھے بتانے کے لئے ۔۔۔کیونکہ میں تمہیں اچھی طرح جانتی ہوں شادی سے دور بھاگنے والا انسان اچانک سے شادی کیسے کر سکتا ہے۔۔۔۔فلک نے کڑے تیوروں سے خضر کو حکم دیا تھا جیسے۔۔۔۔
خضر نے ایک سنجیدہ نظر شجیہ پر ڈالی۔۔۔
فلک نے بھی خضر کی نظروں کے ارتکاز میں شجیہ کو دیکھا ۔۔۔
میں چلی جاتی ہوں ۔۔۔شجیہ نے زبردستی مسکرانے کی سعی کرتے ہوئے کہا وہ خضر کی نظروں کا مطلب اچھی طرح سمجھ گئی تھی وہ اُسکے سامنے بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
ایک منٹ تم رکو یہاں بیٹھو کوئی ضرورت نہیں جانے کی۔۔۔فلک خود بھی ایک لڑکی تھی جان گئی تھی شجیہ کو اچھا نہیں لگا تھا اسی لئے خضر کو آنکھیں دکھاتے ہوئے شجیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا۔۔۔۔۔
نہیں میں چلی جاتی ہو آپ دونوں بات کر لے۔۔۔۔ہوسکتا ہے کوئی ایسی بات ہو جو وہ میرے سامنے سے کرنے سے کترا رہے ہو ویسے بھی اتنی ضروری نہیں میں اُنکی زندگی میں۔۔۔شجیہ نے اپنا ہاتھ فلک کے ہاتھ سے چھوڑواتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا تھا لیکن دل میں تو خضر کا یہ عمل چب سا گیا تھا جانتی تھی وہ کہ انکا رشتا صرف ایک فرضی رشتا ہے لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اُسے یہ بات بری لگی تھی۔۔۔۔
وہ چپ چاپ سی واشروم کی طرف چلی گئی۔۔۔۔شجیہ کی یہ بات نہ جانے کیوں خضر کو انتہائی بری لگی تھی حالانکہ وہ یہی چاہتا تھا کہ شجیہ کے سامنے کوئی بات نہ ہو لیکن اُسکا ایسے اٹھ کر چلے جانا اُسے اشتعال ڈلا گیا تھا۔۔۔۔
کیا حرکت تھی یہ۔۔۔فلک نے غصے سے کہا۔۔۔جس پر خضر نے اپنا سر جھٹکا اور فلک کو سب بتاتا چلا گیا۔۔۔
تمہارا دماغ خراب ہے خضر۔۔۔نکاح کی اہمیت کو تم جانتے ہو۔۔۔ایک سال کے بعد تم نے سوچا ہے اُسکا کیا ہوگا جب وہ طلاق کا دھبہ لے کر اپنے گھر جائے گی اور تمہیں ایسے اُسکی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھانا چایئے تھا۔۔۔فلک نے افسوس سے کہا۔۔۔۔
یہ کرنا ضروری تھا ورنہ فاطمہ اماں کو تم جانتی ہو۔۔۔وہ زبردستی ہماری شادی کروا دیتی اور بتاؤ کیا تم کر لیتی۔۔۔خضر نے نرم لہجے میں کہا فلک سے بات کرتے وقت اُسکا لہجہ نرم ہوجاتا تھا۔۔۔۔
لیکن اُسکا کیا ہوگا۔۔۔فلک نے شجیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اُسے شجیہ کے ساتھ یہ سب ہوتا دیکھ بلکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
دیکھو اُسے بھی پیسے چائیے تھے اور فکر نہیں کرو اُسکی میں کوئی اچھا سا رشتا کر کے اُسکی شادی وہاں کروا دونگا۔۔۔خضر کے یہ الفاظ شجیہ نے بھی سنے تھے جو واشروم سے باہر نکل رہی تھی۔۔۔
شجیہ پتھر سی ہوئی تھی خضر کے یہ الفاظ سن کر۔۔۔۔۔
فلک نے ایک نظر پیچھے شجیہ کا پھیکا پڑتا چہرہ دیکھا تھا۔۔۔۔اور پھر ایک نظر خضر کو جو لاپرواہ سا موبائل میں مصروف تھا ۔۔شجیہ کا پھیکا پڑتا چہرہ اُسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔
تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔۔شام میں گھر میں نکاح کی تقریب ہے اُسکے بعد ہم دونوں مل کر ڈھیر ساری باتیں کرے گے ۔۔۔لیکن اس سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کیا تم میری دوست بنو گی۔۔میری کوئی لڑکی دوست نہیں ہے۔۔۔بس تمہارا یہ چوہدری ہی میرا دوست ہے۔۔۔۔فلک نے شجیہ کی طرف اتے محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر کہا نہ جانے اُسے اس لڑکی سے الگ سی انسیت ہوگئی تھی۔۔۔
تمھارا چوہدری سن کر شجیہ کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی کچھ ایسا ہی حال خضر کا تھا يہ الفاظ اُسے انجانے میں تقویت بخش گئے تھے۔۔۔شجیہ نے فلک کی بات پر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔اور فلک ایک نظر اُن دونوں پر ڈالتے کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔۔۔
آپکو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے نہ ہی میری شادی کے بارے میں سوچنے کی مجھے کسی سے شادی کرنی ہوگی میں کر لونگی۔۔۔۔شجیہ نے فلک کے کمرے سے جاتے ہی بیڈ پر بیٹھ کر اسپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔۔
خضر کا چہرہ تن گیا تھا یکدم شجیہ کی بات پر۔۔۔فلک کو یہ بات بولتے ہوئے بھی اُسے کافی عجیب لگ رہا تھا۔۔۔لیکن اب شجیہ کی بات سنتے اس کہ وجود میں غصّہ کا لاوا سا بھر گیا تھا۔۔۔۔
کیا مطلب ہے تمھاری بات کا۔۔۔خضر نے صوفے سے اٹھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
صاف صاف بات بولی ہے مجھے نہیں لگتا اس کا بھی مطلب سمجھانا پڑے گا۔۔۔شجیہ نے زمین پر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے ہوئے کہا ۔۔۔۔
خضر کی آبرو تنی تھی شجیہ کے جواب پر یہ لڑکی آخر سمجھتی کیا تھی اپنے آپکو۔۔۔۔۔
دیکھو لڑکی میں نے صرف ہمدردی کی وجہ سے وہ بول دیا تھا ۔۔۔خضر نے کچھ کہنا چاہا جب شجیہ نے اُسکی بات کاٹی ۔۔۔
شجیہ ۔۔۔شجیہ نام ہے میرا۔۔اور چوہدری صاحب آپکی ہمدردی نہیں چاہیئے مجھے۔۔۔یہ ایک کنٹریٹ میرج ہے جو ایک سال بعد ختم ہوجائے گی۔۔۔مطلب ایک طرح سے میری جوب ہو گئی آپکی بیوی بننے کا ناٹک کرنے کی تو میں اپنا کام پورا کرونگی ۔۔۔اُسکے بعد آپکی زندگی سے چلی جاونگی۔۔۔شجیہ نے سخت لہجے میں کہا ۔۔۔۔
شجیہ کی بات سوئی کی مانند خضر کے دل میں چُبی تھی لیکن تھا تو سچ جو بھی شجیہ نے بولا تھا۔۔۔
ہاں بلکل یہی سب ہونا چاہئے۔۔۔خضر بولتا ہوا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔
پیچھے شجیہ کی آنکھ سے آنسو نکل کر اُسکے گال کی زینت بنا تھا۔۔۔۔۔
ایک ہی دِن ہوا تھا اُسے اس شخص کے نکاح میں آئے ہوئے۔۔۔۔جسے وہ صحیح طرح سے جانتی تک نہ تھی لیکن خضر کی یہ بات کہ وہ اُسکی دوسری شادی کروا دے گا اُسے جلتی بھٹی میں جھونک گئے تھے۔۔۔یہ بات تو سچ تھی خضر کی پہلی جھلک دیکھتے ہی اُس کی دل کی حالت بدلی تھی۔۔۔۔لیکن اب کیوں اُسے خضر کی بات سے فرق پڑ رہا تھا۔۔۔۔
پر وہ نہیں جانتی تھی نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے جو دو انجان دلوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے۔۔۔اور نکاح ہوتے ہی اُن دونوں کی روحیں آپس میں مل گئی تھی وہ نہیں جانتی تھی نکاح کے بعد اللہ خود اُن کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت بھر دیتا ہے۔۔۔۔
اتنا دل پر نہیں لینا شجیہ تو نے۔۔یہ رشتا فرضی ہے جو ختم ہوجائے گا ایک سال بعد۔۔۔۔تم نہ سمنبھل جاؤ کیوں ہمک ہمک کر چوہدری صاحب کی طرح بڑھ رہے ہو۔۔۔شجیہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے جیسے اپنے دل کو سمجھایا تھا ۔۔۔۔
پر محبت تو ایک پل کا معاملہ ہوتا ہے یہاں نظریں ملی اور وہاں محبت شروع ۔۔۔یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کی روح تک میں شامل ہونے میں ایک پل نہیں لگاتا ۔۔۔۔بس کسی کسی کو خبر جلدی ہوجاتی ہے کہ وہ محبت جیسے مرض میں مبتلا ہوگیا ہے تو کسی کو دیر میں۔۔۔
💗💗💗💗💗
خضر اسٹڈی روم میں بیٹھا مسلسل شجیہ کے بارے میں سوچے جا رہا تھا ۔۔۔اُس نے اپنے ہاتھ کی وجہ سے کبھی کسی لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔۔۔۔
کچھ سال پہلے جب فاطمہ اماں نے خضر کا رشتا سامیہ سے طے کیا تھا۔۔۔تب خضر کو سامیہ سے تھوڑی بہت انسیت ہونے لگی تھی سامیہ بھی خوش تھی اُسکے ساتھ۔۔۔وہ پسند تو نہیں کرتا تھا سامیہ کو لیکن ہاں وہ مطمئن تھا فاطمہ اماں کے فیصلے سے لیکن پھر ایک دن زائد حویلی ایا۔۔۔۔طلحہ کا دوست ۔۔۔
پھر نکاح کے دِن سامیہ نے بھرے مجمعے میں خضر کو معذور کہتے اُس سے اپنا رشتا توڑا تھا اور زائد سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔۔۔اور پھر خضر شہر شفٹ ہوگیا اور پھر اپنی محنت کے بل بوتے پر اُس نے اپنا بزنس شروع کیا۔۔۔۔
وہ بچپن سے اپنے لئے لفظ معذور ، یتیم لفظ سنتا ایا تھا اور ان سب نے اُسے پتھر دل بنا دیا تھا۔۔۔
لیکن شجیہ کو دیکھ کر اُسے اپنا دل پگھلتا ہوا محسوس ہور ہا تھا وہ جب بھی اُسکے حسین معصوم چہرے کی طرف دیکھتا تھا اُس کا دل اُسے دغا دیتے اپنے پہلو سے نکلتا محسوس ہوتا تھا۔۔۔۔
لیکن وہ اپنے آپ پر ضبط کرنا جانتا تھا۔۔۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ اب دوبارہ اُسے کوئی ٹھکرائے ۔۔۔۔۔۔۔۔کیا پتہ وہ شجیہ کی طرف اپنے قدم بڑھاتا اور وہ اُسے سامیہ کی طرح ٹھکرا دیتی۔۔۔۔نہیں خضر اب کسی کو بھی اپنے اوپر اختیار نہیں دینا چاہتا تھا۔۔۔۔
شجیہ سامنے رکھے پنک رنگ کے لہنگے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی فاطمہ اماں نے یہ سوٹ بھجوایا تھا ۔۔۔۔۔
کیونکہ آج حویلی میں سامیہ کے نکاح کی تقریب تھی ۔۔۔ دل تھا کہ بیچین ہوا وا تھا اصف صاحب کی کوئی خیر خبر نہیں تھی۔۔۔۔
وہ بلکل چپ چاپ بیڈ کراؤن سے اپنی پشت ٹکائے بیٹھی اپنی سوچوں میں گم تھی۔۔۔
سوچوں کے محور میں تو خضر گردش کر رہا تھا۔۔۔نہ جانے دل کیوں لپک لپک کر اُسکی طرف بڑھ رہا تھا حالانکہ ابھی وقت ہی کتنا ہوا تھا اُن دونوں کو ساتھ۔۔۔۔۔
میں اندر آجاؤ۔۔۔۔فلک نے دروازے سے ہلکا سا اندر جھانک کر اجازت مانگی۔۔۔۔
جی جی آجائے۔۔۔۔شجئیہ فلک کی آواز پر اپنے سوچوں کے بھنور سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔
تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک۔۔۔فلک نے بیڈ پر رکھے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
نہیں۔۔۔بس جا رہی تھی۔۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ بیڈ سے اٹھنا چاہا جب فلک نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے واپس بٹھایا۔۔۔۔۔
پریشان ہو۔۔شجيہ کے حسین چہرے پر صاف صاف اُداسی اور پریشانی دیکھی جا سکتی تھی۔۔۔۔
ہاں بابا کے لئے پتہ نہیں کیسے ہونگے وہ۔۔۔۔شجيہ نے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے کہا تھا۔۔۔۔
فون ہے تمھاری والدہ کے پاس۔۔۔فلک نے پوچھا جس پر ۔شجيہ نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
لو پھر بات کرلو۔۔۔فلک نے فوراً سے اپنا موبائل ۔شجيہ کے آگے بڑھایا جسے ۔شجيہ نے جلدی سے تھام کر اپنی والدہ کا نمبر ڈائل کیا۔۔۔
ہیلو اماں۔۔۔نسرین نے جیسے ہی فون اٹھایا ۔شجيہ نے بیقراری سے کہا۔۔۔
میری بچی کیسی ہے تو سب ٹھیک ہے نہ تو ٹھیک ہے نہ۔۔۔۔نسرین نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔۔
میں ٹھیک ہوں اماں آپ کیسی ہو بابا ۔۔بابا کیسے ہے۔۔۔۔شجيہ کے حلق میں آنسوؤں کا گولا اٹکا۔۔۔۔
تیرے بابا ٹھیک ہے گڑیا۔۔ آپریشن ہوگیا ہیں ۔۔۔بس ابھی تک ہوش میں نہیں آئے ہے ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کل تک ہوش آئے گا۔۔۔نسرین نے ڈاکٹر کی کہیں بات بتائی۔۔۔۔۔
اللہ کا شکر ہے اماں آپ ٹھیک ہو نہ کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔۔۔۔شجيہ نے پوچھا۔۔۔
نہیں نہیں بیٹا یہاں تو ہر چیز کا خیال رکھا گیا ہے یہاں پر دو آدمی بھی ہر وقت کھڑے رہتے ہے میرے کھانے پینے ہر چیز کا خیال رکھا گیا ہے۔۔۔نسرین نے سامنے کھڑے دو لمبے ترنگے آدمیوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اپنا بہت سارا خیال رکھنا اماں میں ۔۔میں جلدی اونگی ملنے۔۔۔۔شجيہ کی۔آواز میں نمی شامل ہوگئی تھی الوداعی کلمات کرتے اُس نے فون فلک کی طرف بڑھایا تھا جو خود اُسے نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔شجيہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔۔
ارے شکریہ کیسا اب تُم تو میری دوست ہو اور دوستی میں شکریہ یہ معافی نہیں ہوتی۔۔۔۔فلک نے ۔شجيہ کو گلے لگا کر کہا ۔شجيہ مسکرا پڑی فلک کی بات پر۔۔۔
اچھا اب مجھے ایک بات بتاؤ۔۔۔فلک نے اپنے دونوں پیر بیڈ پر کرتے آرام سے بیٹھتے ہوئے ۔شجيہ سے پوچھا۔۔۔۔
جی بولے۔۔۔۔شجيہ کو تجسس ہوا آخر کیا پوچھنا چاہ رہی ہے فلک۔۔۔۔
تمہیں خضر کیسا لگتا ہے۔۔۔فلک نے اپنے ناخن چباتے ہوئے پوچھا۔۔۔
۔شجيہ کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی وہ ایک دم سے گڑبڑا گئی تھی۔۔۔۔
اچھے ہے۔۔۔۔شجيہ نے اپنی پلکیں جھکا کر کہا۔۔۔۔۔
بس اچھے ہے ۔۔۔فلک نے شجیه کے چہرے پر کچھ کھوجنا چاہا۔۔۔
بہت اچھے ہے۔۔۔اپنے ناخن کو دیکھتی ۔شجيہ نے بے دھانی سے کہا۔۔۔
۔شجيہ دیکھو تم مجھے یہ مت سمجھنا کہ میں اپنے مفاد کے لئے تمہیں کچھ بول رہی ہو ۔۔لیکن تم ایک لڑکی ہو ۔۔نکاح کی اہمیت کو اچھی طرح جانتی ہو۔۔اور طلاق کو بھی۔۔۔۔۔فلک نے آگے ہوکر ۔شجيہ کا ہاتھ تھامے کہا۔۔۔
اگر تم خضر کے ساتھ اپنا رشتا پوری ایمانداری کے ساتھ نبھاؤں تو اس میں کوئی غرض نہیں ہے۔۔مجھے پتہ ہے تم دونوں کے درمیان کنٹریکٹ میرج ہوئی ہے لیکن نکاح تو اصلی تھا نہ ۔۔۔طلاق خدا کو بہت نا پسند ہے ۔۔اور میں یہ بھی اچھی طرح جانتی ہو جب یہ رشتا ختم ہوجائے گا تو یہ دنیا تمہیں جینے نہیں دے گی۔۔۔اس معاشرے میں ایک طلاق یافتہ عورت کو بہت کچھ سہنا پڑتا ہے ۔۔۔فلک جو کہنا چاہتی تھی ۔شجيہ کو سمجھ آرہا تھا۔۔۔۔
وہ خود بھی تو ڈر رہی تھی کہ جب ایک سال بعد یہ کنٹریکٹ ختم ہوجائے گا تو وہ کیا کرے گی۔۔۔
میں اگر یہ رشتا نبھا بھی لو ۔۔لیکن چوہدری صاحب وہ نہیں مانے گے اس رشتے کو۔۔۔۔شجيہ نے خضر کا رویہ یاد کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
تم کوشش تو کرو تمھاری ذرا سی کوشش اُسے صحیح کر سکتی ہے وہ بہت ٹوٹا ہوا ہے بچپن سے اج تک اُس نے کئی لوگوں کو اپنی معذوری کا طعنہ دیتے سنا ہے جسکی وجہ سے اُسکا دل پتھر کا ہوگیا ہے لیکن تم یہ پتھر توڑ سکتی ہو شجيہ۔۔۔عورت میں بہت ہمت ہوتی ہے جب وہ کوئی رشتا نبھانے پر اتی ہے تو اُس رشتے میں کمیاں نہیں دیکھتی ۔۔۔۔
ایک تم ہی مجھے وہ وسیلہ نظر ائی ہو جو میرے دوست کی بیرنگ زندگی کو رنگو سے بھر دو گی۔۔۔۔فلک کے لہجے میں خضر کے لیے واضح فکرمندی تھی۔۔۔۔۔
تم مجھے خود غرض سمجھو گی کہ میں تمہیں زبردستی ایک رشتا نبھانے کو کہہ رہی ہو لیکن میرا یقین کرو تم دونوں ایک دوسرے کے لئے بہتر ہو خضر بہت اچھا بہت۔۔۔بس اُسے کچھ وقت لگے گا اپنے اوپر چڑھایا ہوا سختی کا کھول اُتارنے میں۔۔۔
فلک نے مسکرانے کی سعی کرتے ہوئے شجيہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کسی غیر مرئی نقطے کو تک رہی تھی۔۔۔۔۔
وہ ڈرتا ہے ٹھکرانے کا ڈر سمجھتی ہو۔۔۔۔وہ بیشک اپنی کمی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا ۔۔لیکن محسوس کرتا ہے وہ ۔۔۔۔اور پھر فلک شجيہ کو خضر کا بچپن اور سامیہ نے جو خضر کے ساتھ کیا وہ بتاتی چلی گئی۔۔۔۔
میں ۔۔میں کوشش کرونگی فلک۔۔۔یہ رشتا پوری ایمانداری کے ساتھ نبھاؤں گی ۔۔۔میں طلاق نہیں لونگی کبھی نہیں لونگی اپنے بابا پر بوجھ نہیں بنو گی۔۔۔۔۔شجيہ نے نم آنکھوں کے ساتھ فلک کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
خضر میرے شوہر ہے چاہے جیسے بھی ہمارا نکاح ہوا ہے لیکن نکاح ہوا ہے اور میں اسکی اہمیت اچھی طرح جانتی ہو اور اپنے شوہر کے دل میں کیسے جگہ بنانی ہے یہ بھی اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔شجيہ نے پر اعتمادی سے کہا فلک نے بیساختہ اُسے گلے لگایا تھا۔۔۔۔
اور تمھاری دوست اس میں تمہارے ساتھ ہے ہمیشہ۔۔۔تم بہت اچھی ہو شجيہ بہت جو تُم نے خضر کی کمی کو ٹارگٹ نہیں کیا ۔۔۔ایسی لڑکیاں بہت کم ہوتی ہے۔۔۔فلک نے خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا۔۔۔
ہونہہ ۔۔۔کمیاں ہر کسی میں ہوتی ہے ۔۔۔اور میرے خیال سے سیرت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے صورت سے ۔۔۔۔۔شجيہ نے کہا۔۔۔
چلو جلدی سے تم یہ چینج کر کے آجاؤ پھر میں تمہیں اچھا سا تیار کرتی ہُوں۔۔۔تاکہ خضر کی نظر تم پر سے ہٹے ہی نہ۔۔فلک نے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔
شجيہ مسکراتی ہوئی بیڈ پر سے لہنگا اٹھا کر واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
ماشاءاللہ۔۔۔تم تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔فلک نے آئینے میں نظر آتے شجيہ کے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
پنک رنگ کا لہنگا جس پر سفید رنگ سے کام ہوا تھا۔۔۔سفید رنگت پر جج رہا تھا بھورے بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔گالوں کو ہلکا سا پنک رنگ لگا کر لبوں پر پنک سرخی لگائے وہ حسین لگ رہی تھی۔۔۔لمبی پلکوں کو مسکارا لگا کر مزید نمایاں کیا گیا تھا۔ ۔۔۔
زیوروں کی اسائش سے پاک وہ معصومیت اور حسن کا پیکر تھی ۔۔۔۔۔۔
نیلی آنکھیں چمک رہی تھی چھوٹی سی ناک بھرے بھرے گال جن پر گلابی بلش لگایا گیا تھا بھرے بھرے گلابی لب۔۔۔دوپٹہ ایک کندھے پر ڈال کر استین سے اٹیچ کیا ہوا تھا۔۔۔۔
دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں نے دروازے کی طرف دیکھا تھا جہاں سے خضر اندر داخل ہوا تھا۔۔۔۔
خضرنے ایک نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تھا اور وہ پتھر کا ہوا تھا۔۔۔۔پتھر دل میں ہلکی سی ڈرار پڑی تھی۔۔۔۔
سامنے ہی وہ گلابی پری بنے اپنی نیلی آنکھیں جھکائی بیٹھی تھی۔۔۔۔پنک رنگ اُسکی سفید رنگت کو مزید نمایاں کر رہا تھا۔ ۔دل کی دھڑکن ایک دم سست ہوئی اور پھر تیز دھڑکنے لگی۔۔۔۔۔
اپنے اوپر گہری نظروں کی تپش محسوس کرتے شجيہ نے اپنی نیلی آنکھیں اٹھائی تھی۔۔۔۔اور یہاں خضر شجاعت چوہدری کو لگا تھا اُسکا دل اُسکے پہلو سے نکل کر سامنے بیٹھی پری پیکر کے قدموں میں گر گیا ہو۔۔۔۔شجيہ کی رنگت مزید گلابی ہوئی تھی۔۔خضر کو اپنی طرف دیکھتا پا کر۔۔۔
اہم اہم۔۔۔فلک نے اپنا گلا کھنکھارتے خضر کو ہوش دلانا چاہا ۔۔۔۔
خضر نے فلک کی آواز پر جلدی سے اپنی نگاہوں کا رخ بدلا تھا۔۔۔
میں اتی ہوں ذرا تیار ہوکر۔۔۔فلک نے شجيہ کی طرف دیکھتے آنکھوں سے اشارہ کرتے باہر کی طرف قدم بڑھائے تھے۔۔۔۔۔۔
فلک کے جاتے ہی خضر نے اپنے قدم ڈریسنگ کی طرف بڑھائے تھے۔۔
آپکا کرتا نکال دیا ہیں۔۔شجيہ نے فوراً سے کہا خضر کے بڑھتے قدم رکے ۔۔۔اُسکی آبرو فوراً سے تنی تھی۔۔۔۔۔
پلٹ کر شجيہ کی طرف دیکھا جو اپنی نیلی آنکھوں سے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسکی کوئی ضرورت نہیں تھی۔۔خضر نے اسپاٹ لہجے میں کہا۔۔وہ اپنے لہجے کی نرمی اُس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا جو اسکو دیکھتے خود بہ خود اُسکے لہجے میں ڈر انے لگی تھی۔۔۔۔
شجيہ کو سمجھ نہ ایا کیا جواب دے وہ بس خاموش نظروں سے خضر کا چہرہ تکنے لگی جو ہر تاثر سے پاک تھا۔۔۔۔
خضر نے خاموش بیٹھی شجيہ کو دیکھا اور ڈریسنگ کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔۔۔
ہاتھ میں سفید رنگ کا کرتا شلوار لیے وہ باہر ایا تھا شجيہ نے اُسکے ہاتھ میں موجود کپڑوں کو دیکھتے منہ بنایا تھا۔۔۔۔
خضر کے واشروم میں جانے کے بعد اُس نے آئینے میں خود کو دیکھا تھا۔۔۔۔
کیا ہوجاتا اگر میرے نکالے گئے کپڑے پہن لیتے۔۔۔شجيہ نے شیشے میں خود سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ۔۔
صحیح ہے اب میں نے بھی اتنی جلدی ہار نہیں ماننی ہے۔۔۔شجيہ نے کہتے ساتھ کھڑے ہوتے اپنا دوپٹہ سیٹ کیا تھا۔۔۔۔
خضر کچھ دیر بعد ہی واشروم سے باہر ایا تھا گیلے بال جن سے پانی ٹپک رہا تھا کھڑی مغرور ناک اور بھیگا چہرہ ۔۔۔۔
سفید کرتے میں نمایاں ہوتے اُسکے مضبوط توانا بازو اور سینا۔۔۔شجيہ کی نظر اُس پر جم سی گئی تھی۔۔۔۔وہ بلکل ایک شہزادوں جیسی شخصیت رکھتا تھا۔۔۔۔۔
اپنے اوپر شجيہ کی نظریں محسوس کرتے خضر کو عجیب لگا تھا اوپر سے دل جو ایک دم سے تیز دھڑکنا شروع کر دیتا تھا ۔۔۔وہ شجيہ کو نظرانداز کرتے بیڈ کے کونے میں کھڑا ہوتے اپنے بالوں کو تولیے سے سکھانے لگا ۔۔شجيہ کا تو خون جل سا گیا تھا خضر کی نظرندازی پر۔۔۔۔
وہ دھیرے دھیرے اپنے قدم پیچھے لیتی خضر کی پشت سے ٹکرائی اور اُسکا کرتا پکڑے اُسے لئے بیڈ پر گری تھی۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں سختی سے منیچے یہ قدم اٹھا تو لیا تھا خضر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے لیکن اب دل کی دھڑکن کو کیسے سمنبهالتی۔۔۔۔۔اپنے اوپر گرے خضر کے وزن کو برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔
اور خضر اتنے قریب سے اُسکا حسین چہرہ دیکھ رہا تھا بند لرزتی پلکوں سے نظریں ہوتی ہوئی اُسکے گلابی لبوں پر آ ٹھہری۔۔۔دل نے شدت سے دغا دیتے کہا تھا ان لبوں پر اپنی شدت چھوڑنے کا۔۔۔ان لبوں سے یہ مصنوئی رنگ ہٹا کر اپنی شدت سے انکو لال کرنے کا۔۔۔۔۔
شجيہ نے دھیرے سے اپنے نیلے نین کٹورے کھولے تھے نظر سیدھا خضر کی بھوری آنکھوں سے ٹکرائی ۔۔۔اتنے قریب سے خضر کا خوبرو چہرہ دیکھ کر دل کی حالت تو اُسکی بھی خراب ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
دونوں کی گرم جھلستی سانسیں ایک دوسرے کے چہرے پر پڑ رہی تھی ۔۔ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں اپنا اپنا عکس دیکھ رہے تھے کہ دروازہ کھلنے کی آواز پر دونوں کے گرد بندھا فسوں ٹوٹا تھا دونوں نے گردن گھما کر انے والے کو دیکھا تھا اور سامیہ کو سامنے کھڑا دیکھ کر خضر کے ساتھ ساتھ شجيہ کو بھی غصے ایا تھا ۔۔۔۔۔۔
جو دلہن بنی سامنے کھڑی بشرموں کی طرح اُن دونوں کو کینہ توز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
خضر جانتا تھا وہ ضرور خضر کو اپنا دلہن سراپا دکھانے کے لیے ائی تھی تاکہ خضر کو تکلیف ہو۔۔۔اور شجيہ بھی یہ بات سمجھ چکی تھی۔۔۔۔
خضر نے سامیہ کو دیکھتے ایک نظر شجيہ کو دیکھا تھا جس کی غصے بھری نظریں سامیہ کو ہی دیکھ رہی تھی شجيہ کی آنکھوں میں سامیہ کے لیے غصّہ دیکھ کر اُسے عجیب لگا ۔۔۔اور شجيہ کی اگلی حرکت پر تو اُسے شجيہ کے اندر کوئی دماغی مسئلہ لگ رہا تھا۔۔۔
شجيہ نے اپنے دونوں بازو خضر کی گردن کے گرد باندھ کر اُسے اپنے نزدیک کرتے اُسکے لبوں پر جھکنا چاہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اس سے پہلے اُن دونوں کے لب آپس میں ملتے سامیہ غصے سے کھولتی ہوئی کمرے سے تن فن کرتی نکلی تھی۔۔۔
لیکن وہ دونوں اُسی طرح ایک دوسرے سے ایک انگلی کے فاصلے جتنا دور ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔اپنے نزدیک ان گلابی لبوں کو دیکھتے اور اپنے لبوں پر پڑتی شجيہ کی گرم سانسیں محسوس کرتے خضر کو لگ رہا تھا وہ اپنا ضبط کھو دے گا۔۔۔
کیا حرکت تھی یہ لڑکی۔۔۔خضر نے اپنے اوپر ضبط کرتے شجيہ کے ہاتھوں کو کسی اچھوت کی طرح خود سے دور کرتے بیڈ سے اٹھتے ہوئے تیز آواز میں کہا تھا۔۔۔۔
کوئی غلط حرکت تو تھی نہیں جو آپ اتنا غصّہ کر رہے ہیں۔۔۔شجيہ کو غصّہ ایا تھا جس طرح خضر نے اُسکے ہاتھوں کو اچھوت کی طرح پھینکا تھا۔۔۔
یہ غلط حرکت نہیں تھی کیا دیکھانا چاہ رہی تھی تم اُسے۔۔۔خضر نے اپے سے باہر ہوتے شجيہ کا بازو اپنی وحشی گرفت میں لے کر اُسکے چہرے پر جھکتے سرد آواز میں کہا تھا۔۔۔۔
خضر کی آواز میں سرد پن اور بازو پر اُسکی سخت گرفت محسوس کرتے شجيہ کا پورا وجود سن ہوا تھا۔۔۔۔
میں کچھ نہیں دیکھانا چاہ رہی تھی آپ شوہر ہے میرے میں آپکو پیار کر رہی تھی وہ لڑکی غلط وقت پر کمرے میں دھڑلے سے ائی تھی۔۔اس میں اُسکی غلطی ہے میری نہیں۔۔۔شجيہ نے اپنی تمام تر ہمت جمع کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔بازو پر بڑھتی خضر کی گرفت اُسے درد دے رہی تھی لیکن وہ مضبوطی سے بولی تھی کیونکہ ڈرنا اُس نے سیکھا ہی نہیں تھا وہ اپنے ڈر کو چھپانا اور سامنے والے کا منہ بند کرنا اچھی طرح جانتی تھی۔۔۔۔
خضر کا دماغ سن ہوا تھا شجيہ کے الفاظ سن کر۔۔۔۔
سنو لڑکی یہ شادی اصلی نہیں ہے تم میری بیوی نہیں ہو ائی بات سمجھ میں۔۔۔تمہارے اس دماغ میں کیا چل رہا میں نہیں جانتا لیکن اب تمھاری ایسی کوئی حرکت اور بکواس میں برداشت نہیں کرونگا۔۔۔۔خضر نے شجيہ کے بال پکرتے سخت سرد لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
یہ شادی اصلی ہے خضر نکاح ہوا ہے آپکا اور میرا جو جھٹلایا نہیں جا سکتا ۔۔۔آپ میرے شوہر ہے اور میں آپکی بیوی یہ رشتا سچا ہے۔۔۔۔۔شجيہ نے اپنے بالوں پر رکھے خضر کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
چوہدری بولوں۔۔۔خضر صرف اُن لوگوں کے لئے ہوں میں جن سے میں پیار کرتا ہوں تمھاری کوئی اہمیت نہیں ہے میرے نزدیک اور یہ جو تم شوہر بیوی کر رہی ہو سمجھ گیا ہوں میں۔۔۔میری دولت پر مر مٹی ہو تُم۔۔۔خضر سرد لہجے میں شجيہ کے منہ پر پھنکارا تھا۔۔۔
غلط ہے آپ چوہدری صاحب شجيہ خضر شجاعت چوہدری ۔پیسوں پر مر مٹنے والی لڑکی نہیں ہے اُس کے لئے رشتے سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں اور آپ سے تو خدا نے میرا رشتا جوڑا ہے اور یہ رشتا میں کسی قمیت پر نہیں توڑنے والی۔۔۔۔شجيہ نے ایک جھٹکے سے اپنے بال خضر کی گرفت سے نکالتے سرد لہجے میں کہا تھا اُسکی آنکھوں میں خضر کو لے کر کوئی ڈر نہیں تھا نیلی آنکھیں بڑی بہادری کے ساتھ خضر کی بھوری آنکھوں کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔اُس نے اپنے نام کے آگے خضر کا نام لگا کر یہ بات صاف ظاہر کردی تھی کہ اب وہ کسی قیمت پر اُسکا پیچھا نہیں چھوڑنے والی۔۔۔۔
میں ہی غلط تھا جو تمہیں اپنے اس کام کے لئے چن لیا تمھاری اس معصوم شکل کو دیکھتے ہوئے لیکن خضر اپنی غلطی سدھارنا جانتا ہے میں ابھی تمہیں۔۔۔
نہ نہ۔چوہدری صاحب آپ مجھے ایک سال سے پہلے طلاق نہیں دے سکتے یہی کنٹرکٹ میں لکھا ہے۔۔۔اور اس ایک سال میں شجيہ کا خود سے وعدہ ہے آپکو اپنا بنا کر ہی دم لونگی میں۔۔۔
خضر شجيہ کی بات پر کچھ دیر کے لیے ستل ہوگیا تھا غصے میں طلاق دینے ہی جا رہا تھا جب شجيہ کے اگلے الفاظوں پر وہ رکا۔ تھا۔۔۔
لڑکی کیا چاہتی ہو تم۔۔۔خضر کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑی لڑکی کو اٹھا کر کہیں پھینک آئے ۔۔۔شجيہ کا بازو اب بھی خضر کی گرفت میں تھا جسے اُس نے آزاد نہیں کیا تھا اور نہ ہی شجيہ نے آزاد کروایا تھا۔۔۔۔
آپ کو چاہتی ہُوں یہ رشتا نبھانا چاہتی ہوں۔۔۔شجيہ نے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے صاف گوئی سے کہا تھا۔۔۔۔
اوہ واؤ امیزنگ ایک ہی دن میں ایسا کیا ہوگیا جو تم مجھ جیسے معذور انسان کے ساتھ رشتا نبھانا چاہتی ہو۔۔۔وہ جس نے آج تک کبھی اپنے منہ سے اپنی معزوری کا ذکر نہیں کیا تھا اج شجيہ کے سامنے کر چکا۔تھا۔۔۔
خضر کا لہجہ تلخ تھا لیکن شجيہ اس لہجے میں بھی اُس کے ٹوٹے دل کی کرچیاں محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔
صرف ایک ہی پوائنٹ ہی ان سب باتوں کا وہ یہ کہ تمہیں میری دولت نظر آگئی ہے اسی وجہ سے تم یہ رشتا نبھانا چاہتی ہو۔۔۔خضر نے ایک جھٹکے سے شجيہ کا بازو اپنی گرفت سے نکالتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
پھر غلط ہے آپ چوہدری صاحب۔۔۔۔کیوں عورت کو پیسوں میں طول رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔پیسوں سے دولت سے مجھے کوئی غرض نہیں۔۔۔غرض ہے تو صرف آپ سے۔۔۔شجيہ نے خضر کے دل کے مقام پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔خضر کی سفید رنگت غصے کی شدت سے لال ہورہی تھی ۔۔۔۔
دور ہتو لڑکی۔۔خضر نے شجيہ کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
آپ جتنا دور کرنا چاہتے ہیں کر لے میں آپکے اتنا قریب اؤ گی میں یہ رشتا اب پوری ایمانداری سے نبھاؤگی۔۔۔اور دیکھئے گا ایک دن آپ خود میری طرف بڑھنے پر مجبور ہوجائے گے ۔۔۔شجيہ مضبوطی سے بولتی ہوئی واشروم میں جا بند ہوئی تھی۔۔۔خضر کو پتھر کا کر کے۔۔۔۔
خضر نے اپنی لال ہوتی انکھوں سے واشروم کے بند دروازے کو دیکھا تھا۔۔۔کیسے یقین کر لیتا اُسکی بات پر اُسکا دل پتھر ہوگیا تھا جہاں پر کسی کے آنسو کسی کی تکلیف کا اثر نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔
شجيہ کا کہا ایک ایک لفظ اُسکے کانوں میں گونج رہا تھا۔۔۔۔
اُسے یہی لگ رہا تھا کہ شجيہ اُسکی دولت کی وجہ سے یہ سب کر رہی تھی۔۔۔اُسے یقین نہیں ہو پا رہا تھا شجيه پر ۔۔۔
وہ سر جھٹکتے کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا تھا ۔۔۔
شجیہ نے واشروم میں لگے آئینے میں اپنے آپکو دیکھا ۔۔۔اُسکی نیلی آنکھیں نم تھی۔۔۔۔
ایک لمبی سانس لیتے اُس نے اپنی آنکھوں کے گوشے صاف کیے تھے۔۔۔
تم بہت بہادر اور مضبوط ہو بلکل اپنے نام کی طرح شجیہ مطلب بہادر۔۔۔اتنی جلدی ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔شجیہ نے آئینے میں نظر آتے اپنے عکس سے کہا ۔۔۔خضر کا ہاتھ جھٹکنا اُسے بہت بُرا لگا تھا ۔۔۔دل میں چبن سی ہو رہی تھی خضر کا رویہ یاد کرتے۔۔۔۔۔
ایک لمبی سانس لیتے وہ واشروم سے نکلی تھی کمرے میں کسی کو نہ پاکر اپنا سر نفی میں ہلاتی وہ اپنے کمرے سے نکل گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
شجیہ سیڑھی کے کونے پر کھڑی حیرت سے نیچے دیکھ رہی تھی جہاں ہر طرف پھول ہی پھول تھے ساری عورتیں ایک طرف بیٹھی ہوئی تھی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا نیچے جائے یہ نہیں۔۔۔
کہ فلک جو فاطمہ اماں کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اُسکی نظر شجیہ پر پڑی تھی جو اپنے ہاتھ کی انگلیاں چٹخاتی کنفیوز سی کھڑی تھی۔۔۔فلک نے اپنے قدم اُسکی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
آجاؤ شجیہ ۔۔۔فلک نے اُسکے سامنے اپنا ہاتھ کرتے ہوئے کہا۔۔شجیہ نے ایک نظر فلک کو دیکھا جو جامنی رنگ کا لہنگا زیب تن کیے ہلکے سے میکپ میں حسین لگ رہی تھی ۔۔۔۔
فلک کے ساتھ دھیمے دھیمے قدم بڑھاتی وہ نیچے ائی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ کو اتا دیکھ فاطمہ اماں اٹھ کر اُسکی طرف بڑھی تھی ۔۔اُسکے ماتھے پر بوسا دیتے اُسکی بلائیں لی تھی۔۔۔۔چچی تو شجیہ کو دیکھ کر ہی منہ بنا گئی تھی اُنہیں گھمنڈ تھا اپنی بیٹی سامیہ پر لیکن شجیہ کے آگے تو سامیہ ایک دم پھیکی سی لگتی تھی۔۔۔۔۔
یہ ہمارے خضر کی دلہن ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے سب عورتوں سے شجیہ کا تعارف کروایا ۔۔۔اُنکی بات پر کچھ کی نظروں میں حسد در ائی تو کچھ پیار بھری نظروں سے اُسکی طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
یہ لو بیٹا یہ پہنو کلائی سونی نہیں رکھتے ۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکے خالی ہاتھ دیکھ کر فوراً سے اپنا کنگن اُتار کر اُسے پہنایا تھا ۔۔۔۔شجیہ نے منع کرنا چاہا لیکن فاطمہ اماں نے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ یہ کنگن اُنہوں نے اپنی خوشی سے دیے ہیں۔۔۔۔
اب بھی وہ سب عورتوں کے درمیان چپ چاپ سی بیٹھی ہوئی تھی فلک بھی اُسکے برابر میں بیٹھی بات کر رہی تھی۔۔۔۔۔
اماں نکاح کا وقت ہوگیا ہیں ۔۔۔۔خضر نے اندر آکر سنجیدہ لہجے میں فاطمہ اماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ایک بھی نظر اُس نے شجیہ پر نہیں ڈالی تھی اور یہ بات شجیہ کو اُداس کر گئی تھی۔۔۔۔۔
چلو بچے جاؤ سامیہ کو لے آو۔۔۔فاطمہ اماں کے کہنے پر فلک اثبات میں سر ہلاتے سامیہ کو لینے چلی گئی تھی جبکہ شجیہ صرف اور صرف خضر کو دیکھ رہی تھی جو اپنی پشت پر ہاتھ باندھے زمین پر نہ جانے کیا تلاش کر ربا تھا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سامیہ باہر ائی تھی جسے ایک طرف رکھے گئے صوفے پر بٹھا دیا گیا تھا سامیہ کو دیکھتے ہی شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا تھا جو ویسے ہی کھڑا تھا۔۔۔داجی کے اندر انے پر شجیہ نے جلدی سے اپنا دوپٹہ سر پر رکھا تھا اور ایک طرف اٹھ کر فلک کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔۔۔۔ایہاب و قبول کا مرحلہ شروع ہوا۔۔۔
یہ کون ہے۔۔۔طلحہ جو داجی کے ساتھ اندر ایا تھا شجیہ کو دیکھ کر اُسے حیرت ہوئی اج تک تو اُس نے یہاں اُسے نہیں دیکھا تھا
طلحہ کی آواز پر وہ جو مولوی صاحب کی طرف متوجہ تھا فوراً سے طلحہ کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا اور وہاں شجیہ کو دیکھ کر اُسکی آبرو تن گئی تھی اپنے جبڑے بھینچے اس نے ایک نظر طلحہ کو دیکھا تھا جو گہری نظروں سے شجیہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔خضر کے پورے بدن میں لاوا دھکا سا گیا تھا۔۔اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے وہ بمشکل اپنے غصے پر ضبط کر رہا تھا جب شجیہ کا دوپٹہ اُسکے سر سے سرکا اور فلک کی بات پر وہ مسکرائی تھی۔۔۔۔
آففف کتنی حسین ہے ۔۔۔طلحہ لوفرانا انداز میں کہا تھا اور خضر کو لگ رہا تھا وہ اپنا ضبط کھو دے گا۔۔۔
اپنی زبان اور آنکھوں پر لگام رکھو بیوی ہے وہ میری اگر اب اُسکی طرف دیکھا تو تمھاری آنکھیں نکال کر تمھارے اُن ہاتھوں میں تھما دونگا ۔۔۔خضر نے سرد لہجے میں طلحہ کو سرد لال نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔اُسکی بات پر طلحہ حیران ہوا تھا خضر کا سرد لہجہ سن کر اُس نے پھر شجیہ کی طرف نہیں دیکھا تھا۔۔۔
اپنے اوپر نظروں کی تپش محسوس کرتے شجیہ نے سامنے دیکھا تھا جہاں خضر لال ہوتی آنکھوں اور تنے چہرے کے ساتھ ااسکو ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔خضر کی سرد نظریں دیکھ کر شجیہ کو حیرت ہوئی بھلا وہ کیوں اُسے اس طرح دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
نکاح کا مرحلہ طے پایا تو سب نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی جبکہ خضر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے اُسکی پشت کو تکا پھر خود بھی اپنا لہنگا سمنبهالتے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
سامیہ اور طلحہ دونوں کی نظروں نے شجیہ کا دور تک پیچھا کیا تھا۔۔۔۔۔
خضر نے کمرے میں اتے ہی سگریٹ سلگا لی تھی۔۔۔۔دل کی جلن تھی کہ طلحہ کے لفظ یاد اتے ہی بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔
طلحہ کی گہری نظر اُسے جیسی ہی یاد ائی اُسکا دل کیا ابھی جاکر طلحہ کا منہ توڑ دے ۔۔۔۔یکدم ذہن میں خیال گونجا کہ وہ تو باہر ہی ہے اور طلحہ بھی باہر ہے فوراً سے قدم دروازے کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔وہ باہر تھی اور طلحہ اُسے اب بھی اُن نظروں سے دیکھ رہا ہوگا یہ سوچ اُسکے خوں اُبال گئی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ کو اندر اتا دیکھ وہ رکا تھا۔۔۔کمرے میں پھیلی سگریٹ کی خوشبو محسوس کرتے شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا تھا جو بیڈ کے پاس کھڑا ہاتھ میں سگریٹ تھامے اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔۔
سگریٹ ختم ہوتے ابھی خضر کے ہاتھ کو جلا دیتا جب شجیہ جلدی سے اُسکی طرف بڑھتے اُسکے ہاتھ سے سگریٹ پھینک گئی تھی۔۔۔خضر جو پہلے ہی غصے سے بھرا بیٹھا تھا شجیہ کو اپنے پاس سے دور کیا ۔۔۔شجیہ بیساختہ لڑکھڑائی تھی۔۔۔
بولا ہے نہ دور رہو ۔۔۔خضر نے انتہائی سرد لہجے میں شجیہ کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا جو اپنے لب آپس میں بھینچے اسپاٹ نظروں سے اُسے ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
ہاتھ جل جاتا آپکا اسی لئے پھینکی تھی میں نے۔۔۔شجیہ نے کہتے اپنے قدم ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔جہاں پر فلک کے کہنے پر اُسکے لئے کپڑے دکھاوا دیے گئے تھے۔۔۔جب خضر کی بات پر اُسکے چلتے قدم تھمے تھے۔۔۔۔
آئیندہ اس کمرے سے باہر تمہارا دوپٹہ نہیں اترتا چایئے سر سے۔۔۔شجیہ کا اسپاٹ چہرہ اور بات پر خضر کو بھی اپنا جھٹکنا برا لگا تھا لیکن پھر سرد آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔
شجیہ کے چہرے پر مسکراہٹ ائی تھی مطلب وہ اُس پر حق جتا رہا تھا ۔۔۔۔
شجیہ بغیر کچھ بولے ڈریسنگ روم میں چلی گئی تھی خضر نے شجیہ کی پشت کو تکا اُسکا ایسے بنا کوئی جواب دیے جانا بُرا لگا تھا۔۔۔۔
اور خود بھی اپنا کرتا اُتار بیڈ پر لیٹ گیا تھا وہ ہمیشہ شرٹ کے بغیر ہی سوتا تھا ۔۔۔۔
ابھی بھی وہ بیڈ پر لیتا سوچ رہا تھا۔۔۔طلحہ کی نظریں اور شجیہ کے لیے وہ الفاظ اُسے کیوں برے لگ رہے تھے اُسے غصّہ کیوں آرہا تھا۔۔۔
شاید وہ میرے نام کے ساتھ منسوب ہے اسی لیے مجھے غصّہ آرہا تھا اور کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔خضر نے پانی سوچوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔۔۔
لیکن تم تو اُسے اپنی بیوی مانتے ہی نہیں۔۔۔دل نے فوراً سے پوچھا۔۔۔۔
بیوی نہیں مانتا لیکن ہے تو نہ وہ ۔۔بس اسی لئے ۔۔۔اپنے دل کی آواز پر خضر گڑبڑایا تھا ۔۔اور کروٹ بدل کر اپنی آنکھیں موند لی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو سوچوں اُسکے دماغ میں گردش کر رہی تھی انکا جواب اُسکے پاس فل وقت نہیں تھا۔۔۔۔۔
شجیہ سفید رنگ کا سادہ سا سوٹ پہنے ڈریسنگ روم سے باہر ائی تھی۔۔۔بیڈ پر خضر کو کروٹ کے بل لیتےدکھ اُس انے ایک لمبی سانس بھری تھی ۔۔۔رات کی خاموشی اور کمرے میں خضر کی موجودگی اُسکے دل کی دھڑکنیں منتشر کرا گئی تھی۔۔۔۔۔
دھیمے قدم بڑھاتی وہ بیڈ کی دوسری طرف ائی تھی۔۔۔دھڑکتے دل سے اُس نے بیڈ پر تکیہ صحیح کرتے اپنی جگہ سمنبهالی تھی۔۔۔۔
بیڈ پر کسی اور کا وزن محسوس کرکے خضر نے چونکتے اپنی آنکھیں کھول کر پلٹ کر دیکھا تھا اور شجیہ کو آرام سے سیدھا لیتا دیکھ دل کی دھڑکنیں تو ہمیشہ کی طرح اُسے دغا دیتے بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
لڑکی۔۔۔۔۔خضر نے بولنا چاہا جب شجیہ نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔۔۔
دیکھے چوہدری صاحب میں بلکل بھی صوفے پر نہیں سونے والی اور نہ ہی آپ اُس بیچارے صوفے پر پورے آئے گے۔۔۔۔اسی لیے میرے بیڈ پر لیٹنے پر آپ کچھ نہ ہی بولے تو ٹھیک ہے کیونکہ آپ نے میرے قریب انا ہے نہیں اور اگر میں آپکے ذرا بھی قریب ائی تو اپنے مجھے ایسے جھٹکنا ہے کہ میں نے بیڈ سے گر جانا ہے اسی لئے بیفکر ہوکر سو جائے۔۔۔۔شجیہ نے جلدی جلدی سے بول کر خضر کی طرف سے کروٹ بدلی تھی۔۔۔اُسے خود کو اندازہ نہیں تھا اُس نے کیا بولا ہے لیکن خضر کی سفید رنگت اُسکی آخری بات پر سرخ ہوئی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر صوفے کو دیکھا واقعی میں وہ وہاں پر پورا نہیں آتا ۔۔۔اُسے سمجھ نہیں آتا کہ یہ لڑکی اُس کے سامنے اتنا کیسے بول لیتی ہے ۔۔جب اچھے اچھوں کی زبان اُسکے آگے بند ہوجاتی ہے لیکن یہاں اُسکی زبان شجیہ کے آگے بند ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر بلاتے اپنی آنکھیں بند کی تھی لیکن پاس لیتے وجود کی محصور کن حواسوں پر چھانے والی خوشبو اُسکے نتھنوں سے ٹکراتے اُسے سونے نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔
دل تو جیسے ہمک ہمک کر پاس لیتے وجود کو اپنے بازوں کے حصار میں لینے کا بول رہا تھا ۔۔۔۔۔
بڑی مشکل سے اُسکی آنکھ لگی تھی۔۔۔۔
💗💗💗
آدھی رات کا وقت تھا جب خضر کی آنکھ کھلی۔۔۔بچپن سے ہی اُسے آدھی رات کو بھوک لگتی تھی۔۔۔یہ عادت اُسکی فاطمہ اماں فلک اور داجی ہی جانتے تھے۔۔۔۔
خضر نے اٹھ کر ایک نظر شجیہ کو دیکھا تھا جو ایک ہاتھ اپنے گال کے نیچے رکھے ایک ہاتھ بیڈ پر اُسکی طرف کروٹ لیے معصومیت سے سو رہی تھی۔۔۔۔
خضر کا دل پھر دھڑکنا بھول گیا تھا۔۔۔
آخر کیا کششِ ہے تم میں جو بار بار میری توجہ تم پر مرکوز ہوجاتی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے چہرے پر آئے بال ارام سے اُسکے کان کے پیچھے کیے تھے ۔۔۔اُسکی اُنگلیاں جیسے ہی شجیہ کے نرم گال پر ٹکرائی خضر کے جسم میں ایک عجیب سا احساس اس لمس سے اجاگر ہوا تھا۔ ۔ پورے بدن میں ایک برق رفتاری دور گئی تھی۔۔۔دل کیا تھا یونہی وہ اس کے نرم و نازک لمس کو محسوس کرتا رہے۔۔۔۔
جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کرتے اُس نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے اپنے لئے رکھی گئی چاکلیٹ نکالی تھی۔۔۔
چاکلیٹ وہ انتہائی شوق سے کھاتا تھا ۔۔۔۔شجیہ کے من موہنی صورت کو دیکھتے وہ چاکلیٹ کھا رہا تھا ۔۔۔۔
نیند میں اپنے انتہائی قریب سے اتی چاکلیٹ کی خوشبو جیسے ہی شجیہ کے نتھنوں سے ٹکرائی بھوک کا احساس شدت سے ہوا۔۔۔مندی مندی آنکھیں کھول کر جیسے ہی سامنے دیکھا خضر کی دھندلی سی شکل دکھائی دی جو بغیر شرٹ کے صرف سینڈو پہنے اُسکی طرف ہی دیکھتے کچھ کھا رہا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے اپنی پلکیں جھپک کر صحیح سے دیکھا اور فوراً سے آٹھ بیٹھی تھی ۔۔نیلی آنکھوں میں اب بھی نیند کی سرخی تھی۔۔۔بغیر دوپٹہ کے وہ اپنے حسین سراپے کے ساتھ خضر کا چلتا منہ بند کروا گئی تھی۔۔۔پہلے ہی اس لڑکی کو دیکھ کر وہ عجیب سے احساسات میں گھر جاتا تھا۔۔۔اور اب ایسے ۔۔۔
آپ ۔۔آپ چاکلیٹ کھا رہے ہے۔۔۔خضر کی حالت سے لاپرواہ شجیہ نے اُس کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
مجھے بھی دے ۔۔۔شجیہ پوری طرح اُسکی طرف گھومتی آلتی پلٹی باندھ کر بیٹھتے اپنا سفید دودھیا ہاتھ اُسکے سامنے پھیلاتی معصومیت سے بولی تھی۔۔۔۔
یہ انداز خضر پر بجلی بن کر گر رہا تھا ۔۔۔۔کوئی اتنا حسین اتنا معصوم کیسے ہوسکتا ہے یہ تو یہ لڑکی ناٹک کر رہی ہے یہ پھر یہ اصل میں معصومیت کا پیکر ہے۔۔۔خضر سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہاتھ میں موجود چاکلیٹ کو دیکھا جو جھوٹی تھی ابھی ق سائیڈ ٹیبل کی دراز سے دوسری چاکلیٹ نکال کر اُسے دیتا کہ شجیہ نے اُسکے ہاتھ سے چاکلیٹ لیتے فوراً سے کھانا شروع کی تھی ۔۔۔۔
اپنی جھوٹی چاکلیٹ اُسے کھاتا دیکھ خضر کی دل کی دھڑکنیں متشر ہوئی تھی۔۔۔وہ بس ساکت نگاہوں سے شجیہ کو دیکھ رہا تھا جو سب کچھ بھولے کھانے میں مگن تھی ۔۔۔کیا تھی یہ لڑکی کبھی انتہاء کی معصوم تو کبھی انتہاء کی تیز ۔۔۔۔
آپکو پتہ ہے مجھے روز رات کو بھوک لگتی ہے تو میری اماں میرے لیے رات کو کچھ نہ کچھ رکھ دیتی تھی۔۔۔۔شجیہ نے نسرین کو یاد کرتے ہوئے کہا نیلی آنکھوں میں نمکین پانی ٹھہر گیا تھا۔۔۔۔
مجھے بھی۔۔۔خضر نے نہ جانے کس خیال سے اُسکی طرف دیکھتے کھوئے لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔
تم نے میرا جھوٹا کھایا ہے تمہیں عجیب نہیں لگ رہا ۔۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
آپ میرے شوہر ہے آپکا جھوٹا کھانے میں کیوں عجیب لگے گا اور ویسے بھی جھوٹا کھانے سے پیار بڑھتا ہے۔۔۔۔شجیہ نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔۔لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ خضر کی دکھتی رگ پر بڑے آرام سے پیر رکھ چکی ہے۔۔۔۔۔
شجیہ کی بات پر وہ جو نارمل تھا اُسکا چہرہ پل میں تنا تھا ۔۔۔۔۔
لڑکی کب تمہارا بھوت اترے گا مجھے اپنا شوہر کہنا بند کرو یہ صرف ایک۔ کنٹرکٹ ہے اور پیار ویار نہیں ہے کچھ بھی اس دنیا میں۔۔۔۔خضر کا لہجہ سرد تھا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ نے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
غلط پیار تو دنیا میں ہر طرف ہے۔۔۔اُسے محسوس کیا جاتا ہے اپنے دل کے دروازے کھولے جاتے ہے ۔۔۔اور میں اس کنٹرکٹ کو نہیں مانتی میری شادی ہوئی ہے اور الحمداللہ میں ایک شادی شدہ عورت ہو۔۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری چمکدار آنکھوں میں اپنی نیلی سمندر جیسی آنکھیں ڈالتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا۔۔۔
میں بھی دیکھتا ہوں یہ پیار کب تک چلتا ہے جہاں تمہیں مجھ سے بہتر کوئی نظر آئے گا تمہارے سر سے یہ پیار کا بھوت اُتر جائے گا۔۔۔خضر نے استحضائیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
دیکھتے ہیں۔۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ خالی ریپر کو اٹھا کر سائڈ ٹیبل پر رکھا۔۔۔اور لحاف اپنے گردن تک لیتے وہ سیدھی ہو کر لیٹ گئی۔۔۔۔
ویسے اماں کہتی تھی تمہارا شوہر تمھاری آدھی رات کی بھوک سے پریشان ہوجائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے شوہر ہی ایسا دیا ہے جسکو میری طرح آدھی رات کو بھوک لگتی ہے۔۔۔اپنا لب دانت میں دباتی وہ خضر کے لال چہرے کو دیکھ رہی تھی جو اُسکی بات پر لال ہوا تھا۔۔۔وہ جب جب شوہر لفظ استعمال کرتی تھی خضر ضرور غصّہ ہوتا تھا ابھی خضر اُسکی طرف اپنی غصے بھری نظروں سے دیکھتا کہ شجیہ نے جلدی سے ہنستے لحاف منہ تک لیا اور اپنی کروٹ بدل لی۔۔۔۔
خضر نفی میں سر ہلا گیا ۔۔۔ہونٹوں پر خود بہ خود مسکراہٹ آگئی تھی جسے جلدی سے وہ سمیت گیا تھا شجیہ کے وجود کی مہک اُسے انتہا کی اچھی لگی تھی جو اُسکے حواسوں پر چھاتی اُسے سکون دے رہی تھی۔۔۔۔ ایک لمبی سانس بھرتے وہ اپنے کمرے سے نکلتا چلا گیا تھا۔۔۔۔
دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز پر شجیہ نے بھی نفی میں سر ہلایا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
فلک نے کمرے میں اتی ہی اپنی جویلری اتاری تھی۔ ۔۔تھکن سے برا حال ہوا تھا اب تو وہ ذرا سا چلتی بھی تھی تو تھک جاتی تھی۔۔۔۔۔
آرام دہ سوٹ لیتی وہ اپنی شرٹ کی زیب کھول رہی تھی جب کچھ محسوس کرتے اُسکے ہاتھ تھمے تھے۔۔۔۔
اُسکے علاوہ بھی کمرے میں کوئی موجود تھا جب اچانک سے اپنی آنکھوں پر کالی پٹی بندھنے پر اُسکی دل کی دھڑکن بند ہوئی تھی ڈر کی وجہ سے آواز اُسکے حلق میں ہی دب گئے تھے۔۔۔جان تو تب نکلنے لگی جب کسی ہاتھوں کا ٹھنڈا لمس اپنی برہنہ قمر پر محسوس کیا تھا۔۔۔۔
فلک نے تیزی سے جھٹپٹاتے دور ہونا چاہا۔۔۔جب اُس وجود نے اُسکے پیٹ کے گرد نرمی سے اپنا ہاتھ رکھا تھا جبکہ ایک ہاتھ بازو پر رکھتے وہاں اپنی گرفت سخت کی تھی۔۔۔اور اپنے دہکتے لب فلک کی گردن پر رکھے۔۔۔فلک کی آنکھ سے آنسو نکلتے اُسکے گال کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔
کوئی غیر مرد اُسکے وجود پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔اپنی عزت کے لٹ جانے کا خوف اُسکی رگو میں دوڑتے خوں کو منجمد کر گیا تھا۔۔۔
ہشہش۔۔۔میں ہُوں ۔۔۔یہ آواز کانوں کے پردوں میں پڑتی یہ آواز تو جانی پہچانی تھی۔۔۔اس آواز کو تو وہ بھول ہی نہیں سکتی تھی اس آواز میں کی گئی اُسکے کانوں میں پیار بھری سرگوشیاں وہ کیسے بھلا سکتی تھی۔۔۔
کا۔۔۔مل۔۔۔لرزتے لبوں سے لرزتی آواز میں یہ الفاظ ادا ہوئے تھے ۔۔۔۔۔
جب کامل نے اُسکی آواز محسوس کرتے اسکی گردن پر اپنے دانت گاڑھے تھے فلک نے سسکی ضبط کی تھی اپنی۔۔۔۔
کامل نے اُسکے کندھوں سے شرٹ کھسکا کر وہاں اپنے لب رکھے تھے۔۔۔فلک کے لبوں سے سکسی نکلی تھی۔ ۔۔آنسو اُسکے پورے چہرے اور آنکھوں پر لگی پٹی کو بھی بھگو گئے تھے۔۔۔۔
جب کامل نے اُسے پلٹ کر اپنے سینے سے لگایا تھا ۔۔۔
آپ ۔۔۔کہاں تھے۔۔مجھے چھوڑ گئے آپ ۔۔پلٹ کر دیکھا تک نہیں مجھے۔۔۔کہاں گئے تھے۔۔۔کامل کی شرٹ اپنی متھی نے جکڑے وہ شدت سے روتے ہوئے اُس سے شکوے کر رہی تھی ۔۔۔
سب ٹھیک ہوجائے گا ایک دن آپ اور میں ساتھ ہونگے۔۔۔۔ان سب کے لیے آپ سے معافی چاہتا ہوں لیکن ابھی مجھے آپکی قربت میں سکون حاصل کرنا ہے بہت دن ہوگئے ہے مجھے آپکی قربت کے بنا رہتے ہوئے اور ان دنوں میں کامل خان کا وجود ادھورا ہوگیا تھا۔۔۔کامل نے فلک کی قمر سہلاتے اُسکا چہرہ اپنے چہرے کے نزدیک کیا تھا۔۔۔۔
فلک نے فوراً سے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنی آنکھوں پر لگی پٹی اتارنی چاہی جب کامل نے اُسکے ہاتھ اپنی گرفت میں لئے ۔۔۔
مجھے دیکھنا ہے آپکو۔۔۔فلک نے بےبسی سے کہا۔۔۔
کامل نے کوئی بھی جواب دیے بنا اُسکے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا نرمی سے اُن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ فلک کو بوکھلانے پر مجبور کر گیا تھا۔۔۔۔۔
اتنے دن وہ دور رہا تھا فلک اُس سے شکوہ کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اُسے اپنی قربت میں بہکا رہا تھا۔۔۔
فلک کے لبوں کو آزادی بخشتے وہ اُسے اپنے بازؤں میں بھر گیا تھا ۔۔۔۔
بیڈ پر آرام سے اسکو لٹاتے وہ اُس پر کسی کالی گھٹا کی طرح چھاتے وہ اُسکی گردن پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا اور فلک تمام شکوہ بھولتے اپنا آپ اُسکے حوالے کر گئی تھی یہ جانے بغیر کہ یہ ظالم انسان اُسکی جھولی میں وصل کی رات ڈال کر اُسے پھر سے ہجر کی بھڑکتی اگ میں جھونک دے گا۔۔۔۔کامل نے کمرے کی تمام لائیٹس بند کر کے اُسکی آنکھوں سے پٹی ہٹائی تھی۔۔۔اندھیرے کمرے میں وہ صاف اپنے چہرے پر پڑتی خضر کی گرم لو دیتی تپش زدہ سانسیں محسوس کر سکتی تھی کامل کا چہرہ اب بھی وہ نہیں دیکھ پا رہی تھی۔۔۔۔
خضر کے بےباک ہاتھوں کا لمس اپنے پورے جسم پر سرائیت کرتا محسوس کرتے فلک کی سانسیں تیز ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔
کامل نے اُسکی گردن سے منہ نکالتے اُسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا اپنے لبوں پر بڑھتی اُسکی شدت کو محسوس کرتے فلک نے اپنے دونوں ہاتھ اُسکی گردن میں ڈالتے اپنا آپ اُسکے حوالے کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کمرے میں دونوں کی بھاری ہوتی سانسیں گونج رہی تھی۔۔۔۔۔
ہجر کی آگ میں جلتے دو وجود ایک دوسرے میں کھوئے اپنی ترپ دور کر رہے تھے۔۔۔۔
💗💗💗💗
اپنے کندھے پر بکھری حالت میں۔لیتی فلک کو دیکھتے اُس نے ایک لمبی سانس لی تھی ۔۔۔۔سورج کی پہلی کرن زمین پر پڑھنے میں کچھ ہی دیر دی۔۔۔
فلک کی طرف اپنا چہرہ کرتے اُس نے شدت سے اپنے لب اُسکے ماتھے پر رکھے تھے۔۔۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا اب جو وہ کرنے جا رہا ہے وہ اس وجود کو اور تکلیف دے گا۔۔۔۔
لحاف کے اندر سے ہی اپنا ہاتھ اُس نے فلک کے برہنہ پیٹ پر رکھا تھا ۔۔۔ایک عجیب سا احساس اُسے محسوس ہورہا تھا۔۔۔ آنکھیں فوراً سے نم ہوئی تھی۔۔۔
اپنے اوپر ضبط کرتا وہ اٹھا تھا لیکن اپنے بازو کو فلک کے ہاتھ میں دیکھ کر وہ رکا تھا۔۔۔۔وہ نیند میں بھی اُسے اپنی گرفت میں لی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ارام سے اپنا بازو فلک کی گرفت سے نکالا تھا۔۔۔
اپنی شرٹ پہنے وہ آخری نظر فلک کے سوئے وجود پر ڈالے اپنے اوپر ضبط کرتا کھڑکھی کے پاس گیا تھا دل تھا جو کہہ رہا تھا اس وجود کو اپنے پاس رکھ لے کہیں ایسی جگہ وہ فلک کو لے کر چلا جائے جہاں کوئی بھی نہ ہو ۔۔۔۔
آنکھیں لال ہوگئی تھی ۔۔بہت ضبط کے ساتھ اُس نے کھڑکھی سے چھلانگ لگائی تھی ابھی وہ ایک قدم اگے بڑھتا جب اپنے گال پر پڑنے والے مکے سے وہ لڑکھڑایا تھا۔۔۔
نظریں گھما کر سامنے دیکھا تو سامنے خضر کو دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں بند کر کے کھولی تھی۔۔۔خضر نے اُسے اٹھنے کا موقع دیے بنا ہی اُسکے چہرہ پر ایک اور وار کیا تھا اپنے دیمجّ ہاتھ سے اُسے دھکا دیتے وہ ڈر پر ڈر اُس کے چہرے پر مکے مار رہا تھا۔۔۔جب کامل نے پلٹ کر ایک زور دار مکا اُسکے گال پر مارا تھا خضر پیچھے کو گرا تھا۔۔۔۔
تیری تو۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اگے بڑھ کر کامل کو مارنا چاہا تھا جب کامل نے اپنا پیر اُسکے گھٹنے پر مارتے اُسے گرایا تھا خضر نے بھی فوراً سے اُسکے ہاتھ کو موڑتے اُسے بھی زمین پر گرایا تھا۔۔۔۔
کیا کر رہا ہے یار مارے گا کیا۔۔۔کامل نے درد سے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔
تو ہے ہی مار کے قابل۔۔۔خضر نے کہتے اسے گریبان سے اٹھایا تھا۔۔۔۔۔
کہاں تھا تو۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اُسے اپنے گلے لگایا تھا ۔۔۔کامل بھی مسکراتا ہوا اُسکے گلے لگا تھا۔۔۔۔
سالے میری دوست کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔۔۔خضر نے ایسے ہی اُسکے گلے لگے اُسکی پشت پر زور دار تھپڑ مارتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
بہن بول۔۔۔اور میں تُجھے بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا کہ میں اپنی بیوی کے کمرے میں کیا کر رہا تھا۔۔۔کامل نے بھی اُسکی پشت پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
تُجھے نہیں لگتا ہے جو تو کرنے جا رہا ہے اگر اُسے پتہ چل گیا تو وہ تُجھے شاید ہی کبھی معاف کرے۔۔۔۔۔خضر نے نیچے زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
جانتا ہُوں لیکن۔ فرض تو ہر حال میں نبھانا ہے ۔۔۔کامل نے فلک کا چہرہ یاد اتے دیوار سے سر ٹکائے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔
تُجھے نہیں لگتا تو پہلے ہی اُسے بہت تکلیف دے چکا ہے۔۔۔خضر نے اپنے بال صحیح کرتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
جانتا ہو لیکن اُنکی ہر تکلیف پر خود بھی تو ترپتا ہوں ۔اور تُجھے نہیں لگتا جو تو بھابھی کے ساتھ کر رہا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔۔۔۔کامل نے کہتے ساتھ اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔کامل کی بات پر شجیہ کا خوبصورت سراپا اُسکی آنکھوں کے پردوں لہرایا تھا۔۔۔۔۔
ابھی تیری بات ہو رہی ہے ۔۔۔خضر نے ہوش میں اتے ہی تیز نظروں سے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
یہ بول اپنے دل میں پیدا ہوتے جذباتوں سے نظریں چرا رہا ہے۔۔۔کامل نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔۔
چپ کرے گا تو کالے ادمی۔۔۔خضر نے اُسکے ساولے رنگ پر طنز کرتے ہوئے کہا۔۔۔
جا رہا ہوں میں خیال رکھنا میری بیوی کا ۔۔۔۔کامل نے کھڑے ہوتے اپنے کپڑے جھاڑتے ہوئے کہا اور خضر سے بلغیر ہوتے باہر کی طرف نکلتا چلا گیا۔۔۔
خضر نے اُسکی پشت کو تکا اور اندر ایا ۔۔۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی میٹھی نرم آواز پر اُسکے قدم اپنی جگہ منجمد ہوئے تھے سامنے ہی شجیہ نماز کی طرح دوپٹہ باندھے قرآن پڑھنے میں مصروف تھی۔۔۔۔
خضر آرام سے اپنے قدم اٹھاتا صوفے پر بیٹھ گیا تھا جہاں سے صاف شجیہ کو دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
نہ جانے کیسا سکون تھا اُسکی آواز میں خضر نے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔
یکدم آواز بند ہوئی اور ایک گرم مہکتی ہوئی سانس کی مہک اُسے اپنے چہرے پر پڑتی محسوس ہوئی تو جھٹکے سے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔۔۔اپنے چہرے کے بے حد نزدیک شجیہ کا دوپٹہ کے ہالے میں چہرہ دیکھتے اُسکے دل کی دنیا تہہ بالا ہوئی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اپنی بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔۔گال تپ کر لال ہوئے تھے اُسکے خضر کی گہری نظروں کو خود پر محسوس کرتے۔۔۔۔۔
خضر سے دور ہوتی وہ دوپٹہ کو صحیح کرتی باہر نکلتی چلی گئی تھی اُسے صبح صبح اٹھنے کی عادت تھی فجر کی ازاں جیسے ہی اُسکے کانوں میں گونجی وہ اٹھ گئی تھی خضر کو کمرے میں نہ پاکر اسے عجیب لگا تھا کیا وہ ساری رات ہی کمرے میں نہیں آیا تھا۔۔۔دل دُکھا تھا پھر نماز پڑھنے کی غرض سے وہ وضو کرنے چلی گئی تھی۔۔۔
قرآن پڑھتے وہ اپنے اوپر خضر کی نظریں محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔۔قرآن کی تلاوت کرتے وہ خضر پر دم کر رہی تھی جب خضر نے اپنی بھوری آنکھوں سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
شجیہ کے جاتے ہی خضر نے ایک لمبی سانس لی تھی۔۔۔۔اور صوفے کی پشت سے اپنا سر ٹکا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اٹھ مہینے پہلے۔۔۔
یس سر آپ نے بلایا۔۔۔۔ایک مضبوط سخت آواز پر انہوں نے سامنے کھڑے دو نوجوانوں کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔بیٹھو۔۔۔کرنل محمد نے ان دونوں کو سامنے بیٹھنے کو کہا تھا۔۔۔
تم دونوں کو ایک خاص کام کے لیے بلایا ہے ۔۔۔۔کرنل نے اُن دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
اُنکی بات پر بھوری آنکھوں نے سبز آنکھوں کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
سوات کے جنگل کے بیچ و بیچ ایک گاؤں آباد کیا ہوا ہے جو لگتا ایک گاؤں ہے لیکن وہاں سے پاکستان کے ہر شہر سے اغوا کی گئی لڑکیوں اور کم عمر بچیوں کو لایا جاتا ہے اور باہر ملکوں میں سپلائی کیا جاتا ہے۔۔۔کرنل صاحب نے انتہائی ضبط سے یہ بات کہی تھی۔۔۔
اُنکی بات پر سامنے بیٹھے دونوں نوجوانوں کی آنکھیں لہو رنگ ہوئی تھی۔۔۔۔
وہاں کا مین آدمی اُس گائوں کا سردار ہے ۔۔اور اُسکی بیٹی جو فلہال اُس گاؤں میں نہیں رہتی۔۔۔۔۔لیکن یہ سب لوگ اکیلے نہیں کر رہے اس کے پیچھے بلیک ورلڈ کے کسی بندے کا ہاتھ بھی ہے ۔۔۔۔۔۔کرنل صاحب نے اپنی کرسی سے پشت ٹکاتے ہوئے کہا ۔۔
اور اُن دونوں کے چہرے کے تاثرات دیکھے جو سخت تھے۔۔۔۔
تم دونوں کو اُس گاؤں میں جانا ہے۔۔وہاں موجود پاکستان کی عزتوں کی حفاظت کرنی ہے اُنہیں بحفاظت اُنکے گھر پہنچانا ہے۔۔اور وہ پورا گاؤں تباہ کرنا ہے۔۔۔باقی اُسکی بیٹی اور انڈر ورلڈ کے اُس انسان کا بھی پتہ کرنا ہے ۔۔۔کرنل صاحب کی بات پر اُن دونوں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
آپ نے سارا ہیکنگ کا کام سمنبھالنا ہے ۔۔۔اور باقی آپ دونوں بہتر جانتے ہے کیسے اور کیا کیا کرنا ہیں ۔۔کرنل نے پہلی بات بھوری آنکھوں والے کو دیکھتے کہیں تھی اُنکی بات پر بھوری آنکھوں والے نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
اور دونوں اُنہیں سلوٹ کرتے باہر نکلتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
ہمیں جلد ہی یہ کام کرنا ہے۔۔۔سبز آنکھوں والے نے اپنی گھمبیر آواز میں بھوری آنکھوں والے سے کہا تھا جس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
ائی ایس ائی کا بہترین آفیسر ۔۔۔۔جسکے کئی روپ تھے اور ہر روپ میں وہ اپنے مخالفین کو کانپنے پر مجبور کردیتا تھا جس کی سبز آنکھوں میں چھائی سنجیدگی اور دشمن کے سامنے ہونے پر انے والی وحشت سے دشمن کی ٹانگیں تک کانپ جاتی تھی۔۔۔۔
۔۔۔کامل خان پشاور کے امیر ترین گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان ۔۔۔جسکی سبز سرد آنکھیں کسی کا بھی دل چرا سکتی تھی کھڑی مغرور ناک چوڑی جولائن ۔۔۔کسرتی جسامت اوپر سے آنکھوں میں سنجیدگی۔۔۔۔گورا رنگ پٹھانی نین نقش ۔۔واللہ وہ بلا کا حسین تھا۔۔۔
دوسرا ائی ایس ائی کا بہترین ہیکر ۔۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔حسین بھوری آنکھوں کا مالک جسکی آنکھوں میں کوئی تاثر نہیں دیکھا جاسکتا تھا کھڑی مغرور ناک عنابی لب ۔۔۔۔کسرتی جسم ۔۔۔سفید و سرخ رنگت۔۔ جس کے چہرے پر ہمہ وقت سنجیدگی رہتی تھی۔۔۔۔۔مسکراہٹ لفظ اُسکی زندگی میں تھا ہی نہیں شاید۔۔۔وہ منٹوں میں سامنے کھڑے انسان کا دماغ پڑھ لیتا تھا۔۔۔۔
وہ اپنی محرومی کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا تھا دنیا اُسے بزنس مین کے طور پر جانتی تھی مگر اُسکی سچائی صرف اور صرف اُسکے دوست کامل خان کو پتہ تھی۔۔جسکو دنیا نے اُسکی محرومی کی وجہ سے نیچا دکھایا۔۔۔جو اپنے ایک ہی ہاتھ کا استعمال کرتے اپنے دشمن کو دھول چٹا سکتا تھا۔۔۔۔جس کا دل سخت تھا ۔۔۔۔
اور دونوں جگری دوست۔۔۔ہر ایک مشکل اور مصبیت سے ساتھ مل کر لڑنے والے ۔۔۔محبت لفظ سے دور بھاگنے والے جنکو محبت نے ایسا جکڑنا تھا جس سے وہ ساری زندگی آزاد نہیں ہو پاتے ۔۔۔۔
💗💗💗💗
کامل نے ایک نظر آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھا تھا ۔۔۔سفید رنگت کو سانولی رنگت میں تبدیل کیا گیا تھا اور سبز آنکھوں کو کالی آنکھوں میں ۔۔۔۔
بلیک رنگ کی شرٹ اور بلیک ہی پینٹ میں سانولی رنگت میں بھی وہ خوبرو لگ رہا تھا چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی اُسے مزید پرکشش بنا رہی تھی ۔ ۔
پلین کے اوپر کام کرتے اج وہ یونی جا رہا تھا جہاں سے وہ ایک طالبہ علم کی حثیت سے سوات جاتا ۔۔۔۔
کیسا لگ رہا ہوں میں۔۔۔کامل نے پیچھے بیٹھے خضر سے پوچھا جو لیپ ٹاپ مصروف تھا۔۔۔۔
خضر نے نظر اٹھا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
کالا لگ رہا ہے ۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہا اور واپس لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔
اب اتنا بھی نہیں لگ رہا تھوڑا تو رنگ صاف لگ رہا ہے۔۔۔۔کامل نے آئینے میں خود کو دیکھ کر کہا اور بیگ اٹھایا۔۔۔
یونی میں جس کلاس میں تو ہے وہاں میری دوست پلس بہن بھی ہے ۔۔۔فلک ۔۔۔خضر کی بات پر کامل نے پلٹ کر اُسے دیکھا ایک یہ نام وہ خضر کی زبان سے اشتر و بیشتر سنتا رہتا تھا۔۔۔
تو ۔۔۔کامل نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں میں نے سوچا بتا دو ۔۔خضر نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔خضر نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر بندھی گھڑی پر ڈالی اُسے اج استبل بھی جانا تھا اپنے گھوڑے کو دیکھنے جو بیمار تھا۔۔۔۔
اپنے ماتھے پر انگوٹھا رگڑتے وہ لیپ ٹاپ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
کامل نے یونی میں داخل ہوتے ہی نفی میں سر ہلایا تھا وہاں پر موجود لڑکیوں کی ڈریسنگ دیکھ کر تو اُسے غصّہ چڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔
آگئی وہ یار کیا ہے یہ لڑکی۔۔۔۔ایک لڑکے کی آواز پر کامل کی آبرو تنی تھی۔۔۔اُس نے اُس لڑکے کی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تو سامنے سے اتی لال رنگ کی شورٹ فروک جو اُسکے گھٹنوں تک اتی تھی وائٹ پینٹ پہنے اسکراف کو گردن کے گرد لپیٹے اپنے براؤن بالوں کو کھلا چھوڑے ۔۔۔وہ کندھے پر بیگ لٹکائے وہ کسی بات پر ہنستی ارد گرد کھڑے لوگوں کی اپنے اوپر نظروں کو نظرانداز کرتی چل رہی تھی۔۔۔۔کامل کی نظر اُسکی بھوری چمکتی آنکھوں پر اٹک گئی تھی ایسی ہی آنکھیں اُس نے دیکھی تھی لیکن اُن میں ایسی چمک نہیں تھی ۔۔۔یہ آنکھیں تو خضر کی آنکھوں کی طرح تھی۔۔۔۔
نازک سے نین نقش ۔۔۔چھوٹی سی ناک جس میں پہنی چھوٹی سی بالی جس میں لگا ایک چھوٹا سا موتی جو شائد ہیرا تھا جو دور سے اُسکی آنکھوں میں جمع چمک کی طرح چمک رہا تھا۔۔۔۔
کامل کسی حصار میں بندھا اُسکی طرف دیکھے جا رہا تھا وہ حسین تھی انتہا کی حسین۔۔۔۔جو کسی کو بھی اپنے طرف دیکھنے پر مجبور کردے ۔۔۔۔۔
کامل خان کی نظریں اُسے دغا دیتی فلک کے چہرے پر مرکوز تھی۔۔۔
کسی مہکی ہوا کی طرح وہ اُسکے پاس سے گزری تھی کامل نے اُسکی پشت کو تکا تھا اور پھر اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔۔
اپنی گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بھی کلاس کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی اُسکی نظر سامنے اُٹھی تھی جہاں وہ بیٹھی اپنے موبائل میں مصروف تھی کامل نے فوراً سے اپنی نظریں اُس پر سے ہٹائی تھی۔۔۔۔اور جا کر سب سے آخری سیٹ پڑ بیٹھ گیا تھا۔۔۔۔۔
پروفیسر کے انے پر اُسے فلک کا نام معلوم ہوا تھا۔۔۔۔اور وہ گہرا سانس بھرتے رہ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اب اُسے سمجھ ائی تھی فلک کے وجود میں اتنی کشش کیوں محسوس ہورہی تھی آخر خضر کی کزن تھی اُس کی طرح ہی سحر انگیز شخصیت رکھتی تھی۔۔۔۔۔۔
پروفیسر نے اُسکا تعارف بھی کروایا تھا جس پر سب نے اُسکی طرف دیکھا تھا مگر فلک کا دیہان تو اپنی کتاب پر تھا اُس نے ایک دفعہ بھی نظر اٹھا کر کامل کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔اور یہ بات کامل خان کو کافی ناگوار گزر رہی تھی جسکا اُسے خود بھی اندازہ نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
اُسکی نظر وقفے وقفے سے فلک کی طرف اٹھ رہی تھی اور وہ ان سب سے جھنجھلا رہا تھا۔۔۔اُسے فلک سے چر ہونے لگی تھی جس کی وجہ سے اُس کے دل کی حالت عجیب ہورہی تھی۔۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗💗
خضر ابھی اپنے فارم ہاؤس میں موجود استبل میں ایا تھا۔۔۔۔
اندر داخل ہوتے ہی اُسکی نظر ایک غیر متوقع منظر پر پڑی۔۔۔
سامنے کوئی لڑکی کھڑی تھی اُسکے گھوڑے کے پاس جس کی پشت خضر کی طرف تھی۔۔۔دوپٹے کے حالے سے جھانکتے اُسکے بھورے بال خضر کی توجہ کا مرکز بنے تھے ۔۔۔۔
خضر کے کشادہ ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔لیکن اگلا منظر دیکھ کر اُسکے پتھر دل میں ہلکی سی درار اُسے محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔
لال رنگ کی شلوار قمیص زیب تن کیے سرخ و سفید رنگت نیلی آنکھیں چھوٹی سی ناک اور بھرے بھرے گال اور گلابی لب۔۔۔۔جو مسکراہٹ میں ڈھلے ہوئے تھے۔۔۔۔
خضر کا وجود کچھ پل کے لیے صرف کچھ پل کے لیے استل ہوا تھا وہ بس سامنے نظر اتے شجیہ کے حسین چہرے کو ٹکے جا رہا تھا۔۔۔۔جو اُسکے پسندیدہ گھوڑے کے پاس کھڑی اُسکے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔۔۔۔۔
لاڈو چلو بیٹا گھر جاؤ اب صاحب جی اتے ہوگئے اس کے پاس اُنہوں نے تمہیں دیکھ لیا تو غصّہ کرے گے ۔۔۔۔آصف صاحب نے شجیہ کے پاس اتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ نے منہ بناتے اُنکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔
یار بابا میرا دل نہیں چاہ رہا اس کے پاس سے جانے کا یہ کتنا پیارا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنے لب سفید گھوڑے کے جو بلا کا حسین تھا سر پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔وہ یونی جا رہی تھی بابا کے ساتھ جب اُنہوں نے اسکو بتایا تھا کہ استبل میں ایک گھوڑا بیمار ہے اور پھرشجیہ نے ضد لگا لی تھی ساتھ جانے کی۔۔۔۔
چل رہی ہوں بابا۔۔۔آصف صاحب کی آنکھوں میں دیکھتے اُس نے کہا تھا اور پھر وہ وہاں سے اندر کی طرف بڑھ گئی اپنا بیگ لینے جو اُس نے اندر رکھا تھا۔۔۔۔فارم ہاؤس کے۔۔
شجیہ کے سامنے سے اوجھل ہونے پر خضر شجاعت چوہدری نے اپنا سر جھٹکا تھا ۔۔۔اور اپنے قدم اپنے گھوڑے کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔
یہ گھوڑا خضر شجاعت چوہدری کے دل کے بہت قریب تھا وہ اس کے پاس کسی کو بھٹکنے نہیں دیتا تھا ہزار وہ مصروفیت میں گھرا کیوں نہ ہو وہ اس سے ملنے ضرور اتا تھا۔۔۔لیکن آج ایک انجان لڑکی کا اس کے پاس کھڑا ہونا اُسے بُرا نہیں لگا تھا۔۔۔۔آصف صاحب کی بات پر اُس لڑکی کو جاتا دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ آصف کی بیٹی ہے ۔۔۔۔۔۔
اُسے خود پر اچنبھا ہو رہا تھا کہ کتنی دیر سے وہ ایک لڑکی کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔اپنا سر جھٹکتے وہ گھوڑے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔۔۔۔
شجیہ جو اپنا بیگ لیتے باہر نکلنے لگی تھی اُسی گھوڑے کے پاس نیلے ٹو پیس میں ملبوس لمبے چوڑے آدمی کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔۔لیکن یہی سمجھتے کہ یہ ہی اُسکے بابا کے صاحب جی ہے اُس نے منہ بنایا تھا اور وہاں سے چلتی گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
اگلے دن پلین کے مطابق یونی کی طرف سے کامل سوات کے لئے نکلا تھا۔۔۔۔
بس میں بیٹھتے ہی اُسکی نظر فلک پر پڑی تھی اور اُسکی ڈریسنگ دیکھتے کامل نے اپنے لب بھینچے تھے۔۔۔۔۔
وہ اج بلیو رنگ کی شرٹ اور بلیک پینٹ میں ملبوس تھی۔۔۔۔جس سے اُسکا نازک سا سراپا واضح ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔
اوپر سے اج تو لبوں پر گلابی رنگ بھی لگایا گیا تھا۔۔۔بس میں بیٹھے تمام لڑکوں کی نظر فلک پر پڑتے دیکھ نہ جانے کامل کو کیوں اپنے وجود میں ایک اندھیکا لاوا سا بہتا محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔
اپنے دل کی حالت سے پریشان ہوتے اُس نے اپنی آنکھیں موند لی اور سر سیٹ کی پشت سے ٹیکا لیا تھا۔۔۔۔۔۔
کم سے کم دو دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ لوگ سوات پہنچے تھے تھکاوٹ کی وجہ سے سب لوگ اپنے اپنے بک کیے گئے کمروں میں چلے گئے تھے کامل نے اس سارے وقت میں فلک کو۔دیکھنے سے اجتناب برتا تھا۔۔۔۔۔۔
کامل۔نے اکمرے میں اتے ہی اپنے کانوں میں ائیرپیس لگایا تھا ۔۔جس سے وہ خضر سے رابطہ میں رہتا۔۔۔۔
ہاں کیا معلوم ہوا۔۔۔کامل نے اپنے بیگ سے اپنی شرٹ نکالتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
جس ہوٹل میں تم رکے ہو وہی سے تقریباً 150 کلو میٹر کی دوری پر وہ گاؤں ہے جہاں سے جانے کے دو راستے ہے ایک جنگل اور دوسرا تمہارے ہوٹل سے کچھ دور پر بہتی نہر ۔۔۔خضر نے کافی کا کپ اپنے لبوں سے لگاتے ہوئے تفصیل بتائیں ۔۔۔۔۔
چلو ٹھیک ہے میں انشاءاللہ کل وہاں تک پہنچ جاؤگا تم ٹیم تیار رکھنا۔۔۔کامل نے شرٹ بدلتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ۔۔۔خضر نے کہتے کال بند کی تھی نظریں سامنے آسماں پر چمکتے اُس چاند پر تھی۔۔۔۔۔جو آج اکیلا ہی آسمان پر تھا کوئی ستارہ اُسکے اس پاس نہیں تھا۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے اُسکی آنکھوں میں۔لال جوڑے میں ملبوس کسی پری پیکر کا عکس اُبھرا۔۔۔۔۔
خضر نے فورا سے اپنی آنکھوں کو بند کرکے کھولا تھا۔۔اُس عکس کو ہٹانا چاہا۔۔۔۔
اور پھر اندر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
💗💗💗
صبح ہوتے ہی کامل بوتل سے باہر نکل گیا تھا۔۔۔وہ صرف خضر کے اشارے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے تمام اسٹوڈنٹ ہوٹل سے نکلتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
کامل نہر کے پاس بنے پل سے کچھ دور ایک درخت پر ٹیک لگائے سگریٹ پینے میں مصروف تھا۔۔۔
جب اُسکی نظر فلک پر پڑی جو لال رنگ کی شرٹ اور سفید پینٹ میں موبائل پر مصروف پل پر ائی تھی۔۔۔
مختلف انیگل سے اپنی تصویریں لیتی وہ کامل خان کا دل دھڑکا گئی تھی۔۔۔۔۔کامل یک تک اُسکے حسین چہرے کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جب وہ اپنے ہونٹوں کو آپس میں ملاتی گول۔کرتے تصویر لیتی کامل کو لگتا اُسکا دل اُسکے سینے سے باہر نکل جائے گا۔۔۔اُس کا دل۔شدت سے فلک کے ان گلابی لبوں پر اپنا لمس چھوڑنے کی التجا کر رہا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے فلک پل کے نیچے کی طرف جھکی اور کامل نے اپنے دانت پیستے اپنے قدم اُس تک بڑھائے تھے فلک ذرا سی دس بیلنس ہوتی اور سیدھا نیچے نہر میں گرتی۔۔۔۔۔۔
وہ فلک کو پکڑنے آگے بڑھا ہی تھا جب فلک کے ساتھ ساتھ وہ بھی بہتی نہر میں گرا تھا۔۔۔اُسے اپنی فکر نہیں تھی وہ اپنے آپکو بچا سکتا تھا لیکن اُسے صرف اور صرف فلک کا خیال تھا فلک کے ڈوبتے وجود کو جلدی سے اُس نے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا تھا۔۔۔
اور اُسے لیے ایک طرف کو تیرا تھا لیکن تیز بہتے پانی کے بہاؤ کی وجہ سے وہ بھی بیہوش ہوگیا تھا۔۔۔
اُسے جب ہوش آیا تو وہ کسی جنگل کے کنارے پر تھا آنکھیں کھولتے ہی اُس نے فلک کو تلاشا تھا جو اُسے کچھ دور ہی بیہوش ملی تھی۔۔۔۔۔
اُسکی مدھم سانسیں محسوس کرتے کامل کی دل کی دھڑکن رکی تھی وہ جو آج تک کبھی خوفزدہ نہیں ہوا تھا سامنے پڑی بیہوش لڑکی جس کو جانے ہوئے بھی اُسے کچھ دِن ہوئے تھے اُسکی مدھم سانسیں اُسے خوف محسوس کروا گئی تھی۔۔۔۔۔
کامل نے جلدی سے اُسے اپنی سانسیں دی تھی جس کی وجہ سے وہ ہوش میں ائی تھی اور پھر اُنہیں انہی گاؤں کے لوگوں نے پکڑ لیا تھا جن کا صفایا کرنے کامل یہاں ایا تھا۔۔۔
ان آدمیوں کی فلک پر پڑتی غلیظ نظریں وہ محسوس کرتا ضبط کرتا رہ گیا تھا۔۔۔۔وہ فلک کی موجودگی میں سخت جھنجھلایا تھا۔۔۔
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُن کا نکاح ہوا تھا۔۔۔خضر سے کامل کا رابطہ بھی منطقہ ہوگیا تھا اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کرے۔۔۔۔
فلک کو اپنے نکاح میں لیتے ہی ایک عجیب سا سکون اُسے اپنی رگو میں اترتا محسوس ہوا تھا۔۔۔وہ جانتا تھا کہ اُن کا نکاح کروا کر وہ لوگ صبح تک کامل کو مارنے کی تجویز کر بیٹھے ہیں اور پھر وہ فلک کو دوسری لڑکیوں کے ساتھ یہاں سے باہر ملک سپلائی کر دیتے۔۔۔اور یہی سوچ تھی جس نے کامل کے تن بدن میں ایک اندیکھی سی آگ بھڑکا دی تھی۔۔۔۔۔۔
کامل کو یقین تھا صبح تک خضر نے یہاں اپنی ٹیم بھیج دینی ہے ۔۔نکاح کے دوران اور اُسکے بعد بھی اُسکی نظریں محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ رہی تھی اور پھر جب وہ کمرے میں ایا تھا سامنے فلک کا دو آتشہ روپ دیکھ کر وہ مضبوط مرد اپنا ضبط کھو بیٹھا تھا اس رشتے کو تسلیم کرتے وہ فلک سے اپنا حق لے بیٹھا تھا۔۔۔۔
صبح کمرے کے باہر انے والے شخص کو وہ پہچان گیا تھا جو اُنکی ہی ٹیم کا ممبر تھا۔۔۔اس کا مطلب تھا یہاں کی ہر چیز اب انکے ہاتھ میں تھی۔۔۔۔۔
وہ جانتا تھا ابھی تھوڑی دیر بعد یہاں کا منظر بدل جائے گا۔۔۔سب سے پہلے فلک کو محفوظ جگہ پر پہنچانا تھا۔۔۔وہ جلدی سے وہاں سے فلک کو لے کر ہوٹل ایا تھا اور اُسے وہاں صحیح سلامت چھوڑ کر وہ واپس اسی جگہ ایا تھا ۔۔جہاں خضر بھی موجود تھا۔۔۔
کیا اپڈیٹ ہے۔۔۔کامل نے خضر سے آکر کہا جو بلیک ٹی شرٹ اور بلیک جینز پہنے وہاں کھڑا تھا۔۔۔
ہم جب یہاں پر آئے تو کوئی بھی نہیں تھا صرف یہ عورتیں ہی یہاں موجود تھی۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں پانچ چھ عورتیں کھڑی تھی۔۔۔۔
یہاں نہیں ہے وہ مجھے اچھی طرح پتہ ہے کہاں ہے۔۔۔کامل نے کہتے اپنے قدم آگے بڑھائے تھے۔۔۔۔
تھوڑی دور پہنچ کر وہ زمین پر بیٹھا تھا خضر نے سنجیدگی سے اُسکی طرف دیکھا تھا جس نے اپنے ہاتھوں سے مٹی ہٹائی تھی اور پھر ایک چھوٹا سا دروازہ نظر ایا تھا۔۔۔
خضر نے اپنی ٹیم کو ریڈی رہنے کا آرڈر دیا جب ایک ایک کرتے وہ سب اُس دروازے سے اندر جاتے گئے۔۔۔۔
وہاں موجود سارے دشمن عناصر کو اُنہوں نے شکست دی تھی۔۔۔خضر کی نظر ایک طرف گئی جہاں پر جنگلے نما ایک کمرہ بنایا گیا تھا خضر فوراً سے اس طرف بڑھا تھا۔۔جہاں پر کئی معصوم لڑکیوں اور بچیوں کو رسی کی مدد سے باندھ کر رکھا گیا تھا۔۔۔خضر نے جلدی سے اُن کو آزاد کروایا ۔۔۔۔
جو آنکھوں میں تشکر لیے اپنے مسیحاؤں کو دیکھ رہی تھی جن کی وجہ سے اج اُنکی عزت خراب ہونے سے بچ گئی تھی۔۔۔۔۔۔
باقی سارے آدمیوں کو پکڑ لیا گیا تھا وہ لوگ فتح یاب ہو کر یہاں سے نکلے تھے ۔۔۔۔
اب اس سردار کا کیا کرنا ہے ۔۔۔کامل نے اپنی شرٹ صحیح کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
کیا کرنا رکھو اسے ٹارچر سیل میں کچھ نہ کچھ تو بتائے گا۔۔۔خضر نے ایک نظر اُن سب کو دیکھتے ہوئے کہا جن کو آفیسر پکڑ کر لے جا رہے تھے۔۔۔۔
مجھے کچھ بتانا ہے تُجھے۔۔۔کامل نے خضر کے خوبرو چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ نہیں جانتا تھا کہ خضر اُسکے اور فلک کے نکاح پر کیا ردعمل دے گا۔۔۔۔۔
جانتا ہُوں سب۔۔بہتر یہی ہے اب اس رشتے کو نبھاؤں فلک بہت اچھی ہے اور مجھے اُسکے لیے تم بہتر لگے ۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا اسکی بات پر کامل ہنس پڑا ۔۔۔
تُجھے کیسے پتہ چل جاتا ہے سب۔۔۔کامل کہ پوچھنے پر خضر نے اپنی بھوری آنکھیں اُسکے لینس لگی آنکھوں میں ڈالی۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری اپنے آپ سے جُڑے رشتوں کی پل پل کی خبر رکھتا ہے ۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔
خیر کوئی لال پڑی آجکل آپکے فارم ہاؤس پر دیکھی گئی ہے۔۔کامل نے کہتے ساتھ اُسے ان نظروں سے دیکھا کہ کامل خان بھی اپنے دوست کی زندگی کی پل پل کی خبر رکھتا ہے ۔۔۔
کامل کی بات پر جھٹ سے خضر کی آنکھوں میں شجیہ کا سراپا لہرایا تھا وہ اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔۔
تمہیں اج شام ہی امریکہ کے لیے نکلنا ہے اب فلک کو کیسے سمنبھالنہ ہے یہ تم جانو ۔۔۔خضر نے اپنے سر کو جھٹک کر کامل کے سر پر بم پھوڑا تھا۔۔۔
مگر کیوں۔۔۔کامل نے سنجیدگی سے فلک کے بارے میں سوچتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کیونکہ اس سردار کی بیٹی امریکہ میں ہے جسے تمہیں یہاں پاکستان لانا ہے اور اس سے انڈر ورلڈ میں موجود اُس انسان کے بارے میں بھی پتہ کرنا ہے جو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے۔۔۔قسط نے کہتے ساتھ اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
وقت نہیں ہے تین بجے کی فلائیٹ ہے تمھاری۔۔۔خضر نے گاڑی میں بیٹھتے تیز آواز میں کہا تھا کامل نے ایک نظر اپنے ہاتھ میں بندھی گھڑی کی طرف دیکھا تھا جہاں دو بج رہے ہیں وہ بری طرح اپنے لب چبا گیا تھا۔۔۔
ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنے کسی کام کی وجہ سے یوں پریشان ہوا ہو لیکن بات یہاں پر فلک کی تھی اُسکے ساتھ ایک اور وجود جر چکا تھا۔۔۔
لیکن فرض ہمیشہ پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔۔۔
اور پھر کامل خان فلک کو اپنے رنگ میں رنگے چھوڑ گیا تھا ۔۔۔۔اور وہ بچاری اُسکے جانے کے بعد اندر ہی اندر مر گئی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر شجاعت چوہدری اپنے ذہن سے شجیہ کے وجود کو پوری طرح مٹا چکا تھا لیکن نہیں جانتا تھا جسکی شبیہ وہ مٹا چکا ہے اُس وجود نے ساری زندگی کے لیے اپنی چھاپ اُسکے دل پر چھوڑ جانی ہے۔۔۔۔
فلک کو دن بہ دن خاموش دیکھ کر وہ اپنے لب بھینچ جاتا تھا۔۔۔پھر جب فاطمہ اماں نے فلک سے شادی کرنے کا بولا اُس وقت وہ حد سے زیادہ پریشان ہوگیا تھا شجیہ کے انے پر اُسے اپنی اس مصبیت کا حل نظر ایا تھا۔۔۔اور اُس نے کنٹرکٹ میرج کی تھی ایسے حالات میں ایک یہی حل تھا جو اُسے سمجھ ایا تھا کیونکہ وہ فاطمہ اماں کو اچھی طرح جانتا تھا وہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹتی ۔۔۔۔لیکن اگر اُسکی شادی ہو جاتی تو وہ کبھی اُسے مجبور نہیں کرے گی فلک سے شادی کرنے پر ۔۔۔۔۔
تقریباً دو مہینے بعد کامل نے پاکستان کی۔ سر زمین پر قدم رکھا تھا لیکن وہ اکیلا نہیں تھا اُسکے ساتھ ایک اور وجود تھا اور وہ وجود تھا سائرہ کا۔۔۔۔
جو سردار کی بیٹی تھی کامل نے اُسے ایسے اپنے جال میں پھنسایا تھا کہ وہ کامل کے وجود کو نظرانداز ہی نہ کر سکی تھی۔۔۔۔
کامل کے دل نے شدت سے پاکستان واپس آنے کہ انتظار کیا تھا تاکہ وہ اپنی متائے جان سے مل سکے جس کے بغیر وہ ادھورا تھا۔۔۔۔
وہ رات کی خاموشی میں اپنی اصلی شخصیت کے ساتھ فلک سے ملنے ایا تھا۔۔۔۔اُسکے پاس بیٹھ کر اُسکے وجود کو محسوس کرتے اس کے ترپتے دل کو سکون ملا تھا۔۔۔
فلک کے کمرے میں اُس نے ایک کیمرہ لگا دیا تھا جس سے وہ فلک کی ہر ایک حرکت پر نظر رکھ رہا تھا پھر جب فلک اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے روئی تھی کامل کی پیشانی پر بل پڑے تھے جو وہ سوچ رہا تھا اگر ایسا کچھ تھا تو وہ خضر کو نہیں چھوڑتے والا تھا اُس نے خضر کو فون ملایا تھا لیکن وہ بند جا رہا تھا ۔۔۔اگلے دن جب خضر نے فون اٹھایا اور کامل کے شک پر سچ کی مہر لگائی ۔۔۔تب اس مضبوط مرد کی آنکھوں میں اپنی بیوی کے لیے اپنی اولاد کے لیے ایک آنسو آنکھوں سے نکلا تھا۔۔۔۔
وہ نہیں روک سکا تھا خود کو فلک سے ملنے کے لیے اسی لیے وہ اپنا روپ بدل کر فلک سے ملنے ایا تھا اٹھ مہینے بعد اُسے ایک وصل کی رات نصیب ہوئی تھی جس میں وہ اپنے اوپر ضبط نہیں کر سکا تھا جانتا تھا فلک اس کے بعد ٹوٹ جائے گی بکھر جائے گی لیکن اپنے دل کا کیا کرتا۔۔۔۔
اُسے خضر کے بارے میں بھی سب پتہ تھا کس طرح اُس نے فلک سے شادی سے بچنے کی خاطر شجیہ سے شادی کی تھی اور وہ دل سے یہ چاہتا تھا جس طرح اسے محبت نے جکڑا ہے اُسکے دوست کو بھی محبت جکڑ لے۔۔۔۔تبھی اُسکا دوست اپنی زندگی کو کھل کر جی پائے گا۔۔۔۔
💗💗💗💗
حال ۔۔۔
فلک نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔لیکن خالی بیڈ کو دیکھتے وہ تیزی سے اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
وہ پھر یہاں نہیں تھا ۔۔۔۔۔
کا۔۔۔مل۔۔۔فلک نے ہوچکی لیتے اُسکا نام لیا تھا بھوری آنکھیں پل میں بھیگی تھی۔۔۔وہ فوراً سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی واشروم ڈریسنگ ہر جگہ اُس نے دیکھ لیا تھا لیکن کامل کہیں نہیں تھا۔۔۔
پھر چھوڑ گئے پھر ۔۔۔۔کیوں آخر کیوں اذیت دے رہے ہیں اتنی مجھے میرا خیال نہیں ہے تو کم سے کم اپنی اولاد کا تو خیال کر لے۔۔۔فلک اپنے بالوں کو دونوں مٹھیوں میں جکڑے چیخی تھی۔۔۔۔
شجیہ جو اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی فلک کے کمرے کے پاس سے گزرتی اُسکے چیخنے کی آواز پر گھبرائی اور فوراً سے اندر ائی تھی۔۔۔
نیچے زمین پر فلک کو ہچکیاں بھرتے دیکھ وہ فوراً سے اُسکے پاس ائی تھی۔۔۔
کیا ہوا فلک ۔۔شجیہ نے فلک کے دونوں ہاتھوں سے بال آزاد کرتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
فلک شجیہ کو اپنے پاس دیکھ کر اُسکے گلے لگی شدت سے رو دی تھی۔۔۔
وہ پھر مجھے چھوڑ گئے پھر میرے وجود پر اپنی چھاپ چھوڑ کر وہ پھر مجھے تنہا کر گئے اُن سے کہو آجائے میرے پاس یہ مجھے اپنے پاس بلا لے ۔۔۔میرے لیے نہیں تو اپنی اولاد کے لیے۔۔۔میں نہیں رہ سکتی اُنکے بنا۔۔۔فلک نے روتے ہوئے اذیت زدہ لہجے میں کہا تھا۔۔۔
اسکا ایک ایک لفظ شجیہ کو حیران اور پریشان کر گیا تھا اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی وہ فلک کی بات پر کیا کہہ پر اتنا ضرور تھا فلک کو اس طرح دیکھتے اُسکی اپنی آنکھیں بھی نم ہوئی تھی۔۔۔۔
اٹھو فلک ۔۔فلک اٹھ جاؤ۔۔۔یکدم اُسکے کندھے پر رکھا فلک کا۔ سر ڈھلکا تھا اور شجیہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے وہ فلک کا گال تھپتھپاتے اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔
جس طرح سے فلک نے اُسے کہا تھا وہ حویلی میں کسی اور سے کوئی بات نہیں کرسکتی تھی ایک نظر فلک کو دیکھا آرام سے اُسکا سر زمین پر رکھتے سر پیٹ وہ دوری تھی۔۔۔۔
اور یہ سب منظر اپنی سکرین پر دیکھتا کامل اپنی ضبط سے سرخ ہوتی سبز آنکھیں مينچ گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔اپنی محبت اپنی بیوی کو اس طرح اذیت میں دیکھنا جب وہ ممتا کے نازک مراحل سے گزر رہی ہو کتنا اذیت ناک ہوتا ہے یہ کوئی کامل خان سے پوچھتا۔۔۔۔
اُسکی نظریں بیقراری سے فلک کے وجود پر مرکوز تھی جس میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی تھی اپنی اُنگلیاں اُس نے دھیرے سے سکرین پر نظر آتے فلک کے وجود پر رکھی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر خضر کہاں ہے آپ۔۔۔۔شجیہ بھاگتی ہوئی کمرے میں ائی تھی اور خضر کو کمرے میں نہ پاکر اُس نے تیز آواز میں کہا تھا۔۔۔
خضر جو شاور لے رہا تھا شجیہ کے ایسے چلانے پر جلدی سے شاور بند کرتا اپنے کپڑے پہن کر نکلا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔خضر نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کرتے سنجیدگی سے شجیہ کی نیلی روئی آنکھوں اور لال چہرے کو دیکھتے پوچھا تھا۔۔۔۔۔نہ جانے کیوں ان نیلی آنکھوں میں نمی ایک آنکھ نہیں بھائی تھی۔۔۔۔
خضر وہ فلک بیہوش ہوگئی ہے آپ پلیز جلدی آجائے ۔۔۔۔۔شجیہ کہتی ساتھ اُسے کمرے میں چھوڑتے باہر بھاگی تھی ۔۔خضر یہ سنتا تیز رفتاری سے شجیہ کے پیچھے گیا تھا۔۔۔۔۔
کمرے میں اتے ہی خضر نے فلک کے بیہوش وجود کو اٹھا کر بیڈ پر لٹایا تھا شجیہ جلدی سے فلک کے برابر میں بیٹھی اُسکا ہاتھ رگڑ رہی تھی ۔۔۔
خضر کو فلک کے پاس دیکھتے کامل نے اپنی رکی ہوئی سانس بحال کی تھی ۔۔۔دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے وہ کرسی کی پشت پر اپنا سر ٹکا گیا تھا۔۔۔۔۔
کیا ہوا ہے اسے ۔۔۔خضر نے فون پر نظریں رکھتے شجیہ سے پوچھا تھا۔۔۔
پتہ نہیں میں نیچے جا رہی تھی کمرے سے چیخنے کی آواز ائی تو فلک رو رہی تھی اور پھر وہ بیہوش ہوگئی ۔۔شجیہ نے جلدی سے بتایا ۔۔۔خضر نے گاؤں میں موجود ڈاکٹر کو فون کیا تھا۔۔۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر شجیہ کو دیکھا جو بار بار کچھ پڑھتی فلک پر پھونک رہی تھی اُسکے چہرے پر صاف فکرمندی دیکھی جا سکتی تھی فلک کے لیے۔۔۔۔وہ گہری نظروں سے شجیہ کو دیکھ رہا تھا جو اس پاس کو بھولے صرف فلک کی طرف متوجہ تھی۔۔۔
سامنے بیٹھی لڑکی واقعی میں صاف دل کی مالک تھی۔۔۔اُسکی سچائی اُسکی نیلی آنکھیں صاف بتاتی تھی۔۔۔جسے خضر محسوس کرتے بھی جھٹلا جاتا تھا۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں ایک ملازمہ کے ساتھ ڈاکٹر آئے تھے۔خضر نے ملازمہ کو دروازے پر سے ہی واپس کر دیا تھا۔۔۔۔۔ڈاکٹر کے انے پر خضر نے اپنی نظریں شجیہ پر سے ہٹائیں تھی ۔۔۔۔
ڈاکٹر نے جلدی سے آکر فلک کا ہاتھ پکڑ کر اُسکی نبض چیک کی تھی اور سکرین پر نظر آتا یہ منظر دیکھتے کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی تھی۔۔۔
خضر کے بھی ماتھے پر بل پڑے تھے گاؤں میں ایک ہی چھوٹا سا ہسپتال تھا جس میں اُس نے کال کی تھی لیکن اُس نے لیڈی ڈاکٹر کو بھیجنے کا کہا تھا میل ڈاکٹر کو دیکھتے اُسکے ماتھے پر بھی بل پڑے تھے۔۔۔۔۔
انہوں نے کب سے کھانا نہیں کھایا ہے۔۔۔ڈاکٹر نے شجیہ کی طرف دیکھتے پوچھا تھا اور یہ بات خضر کو انتہائی ناگوار گزری تھی۔۔۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔فلک نے ایک نظر خضر کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔
یہ فور منتھ پریگنٹ ہے آپکو انکا خیال رکھنا ہے ٹینشن کی کوئی بات نہیں ہے بس یہ کمزوری کی وجہ سے بیہوش ہوئی ہے انکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھے یہ کچھ دوائیں ہے جو لکھ دی ہے یہ لینا انکے لیے نہایت ضروری ہے۔۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر نے مسکرا کر رثانیت سے شجیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور اُسکے ہاتھ میں پرچی دی تھی۔۔اور یہ حرکت تو خضر شجاعت چوہدری کے تن بدن میں ایک جلن سی پیدا کر گیا تھا۔۔۔۔
شجیہ خاموش سی ہوتی فلک کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔اور ڈاکٹر کی نظریں شجیہ پر مرکوز رہی۔۔۔۔۔اور خضر کو لگ رہا تھا اُسکے ماتھے کی رگیں اشتعال سے پھٹ جائے گی۔۔۔۔
جی ہم اسکا دیہان رکھے گے آپ کے انے کا شکریہ۔۔۔خضر نے دانت پیستے ہوئے کہا جبکہ غصے بھری نظریں ڈاکٹر پر مرکوز تھی جس نے خضر کی غصے بھری نظروں۔ کو اپنے اوپر دیکھتے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
میں نے لیڈی ڈاکٹر کو بھیجنے کا کہا تھا پھر آپ کیوں۔۔۔۔خضر نے ابکی بار سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔
لیڈی ڈاکٹرتھی نہیں ہسپتال میں ۔۔اسی لیے مجھے انا پڑا ابھی ابھی جواننگ دی ہے ۔۔۔ڈاکٹر نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا جب کہ اب بھی نظریں شجیہ کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔جو فلک کی طرف ہی متوجہ تھی۔۔۔۔
خضر نے انتہائی سختی سے اُسکی تھوڑی پکڑ کر اُسکا رخ اپنی طرف کیا تھا۔۔۔۔اور دھیمی سخت آواز میں اُسکے چہرے پر غرایا تھا۔۔۔۔
جاتے ہی اپنا ریزیگنیشن لیٹر لے جانا دوبارہ مجھے اس گاؤں میں نظر نہ اؤ۔۔۔خضر کی بات پر ڈاکٹر نے غصے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
اور تم ہوتے کون ہو مجھ سے یہ بولنے والے۔۔۔ڈاکٹر کے پوچھنے پر خضر نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔اُسکی گرفت میں اتنی سختی تھی کہ ڈاکٹر کو اپنی ہڈی ٹوٹتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری نام ہے میرا اُمید کرتا ہوں یہ نام اچھے سے معلوم ہوگا تمہیں۔۔۔خضر کی بات پر ڈاکٹر کے چہرے سے ہوائیاں اری تھی اس نام کو تو سب ہی اچھے سے جانتے تھے اس گاؤں کا ہونے والا سردار اور ایک مشہور بزنس مین ۔۔۔۔۔
سوری سر۔۔ڈاکٹر بولتا ہوا جلدی سے باہر بڑھا تھا۔۔۔ ۔
جب خضر نے شجیہ کی طرف دیکھا تھا۔۔جو اب بھی فلک کے بالوں میں اپنی اُنگلیاں چلاتی خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
خضر نے ایک گہرا سانس بھرا تھا دوسری طرف کامل نے بھی اپنی سرخ آنکھیں بند کی تھی ۔۔وہ جلد از جلد یہ مشن ختم کرتے فلک کو اپنے پاس لانے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔۔
لڑکی میری بات سنو۔۔۔۔خضر کو سمجھ نہ ایا شجیہ کو کیسے مخاطب کرے اسی لیے ایسے ہی اُسے پُکارا ۔۔۔شجیہ نے خضر کی بات پر اپنی غصے بھری آنکھیں اٹھا کر سکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔۔جب جب خضر اُسے اُسکا نام لینے کے بجائے لڑکی کہتا تھا اُسکا دل چاہتا تھا کچھ کر بیٹھے۔۔۔۔۔۔
شجیہ کی نیلی آنکھوں میں غصّہ دیکھتے خضر نے حیرت سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔۔
یہ بات صرف اس کمرے تک ہی رہنی چایئے باہر اسکے بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہونا چایئے۔۔۔خضر نے سرد سنجیدہ آواز میں کہا تھا۔۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر بلایا تھا اُسکی بات پر۔۔۔اور خضر خاموشی سے اُسے ایک نظر دیکھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔۔۔۔
فلک نے اپنی آنکھیں کھولی نظر سیدھا سفید چھت سے ٹکرائیں تھی۔۔۔۔سب کچھ یاد اتے ہی اُسکی خاموش بھوری آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت میں بہتے تکیے کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔
تم اٹھ گئی ۔۔۔شجیہ جو اُسکے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھی فلک کے آنکھیں کھولنے پر اُس سے گویا ہوئی۔۔۔۔
فلک نے گردن گھوما کر اُسے دیکھا ۔۔۔اور اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔
شجيہ نے اُسکے آنسو صاف کیے لیکن آنسو پھر بہتے اُسکے سرخ عارض کو بھگو گئے تھے۔۔۔۔۔
اوہو رونا نہیں ہے تم نے ۔۔۔شجیہ نے ہلکے پھلکے لہجے میں فلک کے دوبارہ بہتے آنسوؤں کو صاف کیا جب فلک نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی شجيہ نے اُسکی مدد کی۔۔۔۔
کچھ بولنا چاہتی ہو تو بول دو یقین کرو دوست کہا ہے تم نے دوست کی بات اپنے دل تک ہی محدود رکھو گی۔۔۔شجيہ نے فلک کا ہاتھ تھامتے اُس پر دباؤ دیتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔۔
شجيہ کی بات پر فلک کی آنکھیں پھر سے بھیگی تھی۔۔۔۔۔
اور پھر وہ سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔
شجيہ میں نہیں رہ سکتی اُس انسان کے بنا وہ میرا شوہر ہے میری محبت میں نہیں رہ سکتی اُس انسان کے بنا۔۔۔لیکن دیکھو اُسے میری کوئی فکر نہیں اُس نے پلٹ کر مجھے دیکھا ہی نہیں اور کل۔۔۔کل وہ ایا اُس نے پھر میری جھولی میں ایک وصل کی رات بھیک کی طرح ڈال دی اور اپنے ہجر میں جھونک گیا ۔۔۔۔فلک نے ہچکی بھرتے ہوئے شجيہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے ہوئے کہا اُسکی بات پر شجيہ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ نکلے اُس نے فوراً سے فلک کو اپنے گلے لگایا تھا۔۔۔۔۔
تم نے زیادہ ٹینشن نہیں لینی اپنا خیال رکھنا ہے اپنے بچے کے لئے۔۔۔۔شجيہ نے اُسکے چہرے پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
وہ مل جائے گے دیکھنا تم ایک دن تم وہ ایک ساتھ ہوگے ایک خوشحال زندگی گزارو کے انشاءاللہ۔۔۔شجيہ نے ایک اُمید سے کہا۔۔۔۔
مجھے نہیں لگتا ایسا کبھی ہوگا وہ انسان تو مجھے بھول ہی گیا ہے ۔۔۔کل بھی میں نے بنا شکوہ شکایت کیے اپنا آپ اُسکے حوالے کردیا۔۔۔دیکھ سکتی ہوں میری بے بسی مجھے جس انسان نے تکلیف دی اذیت دی میں اُسی انسان سے نفرت نہیں کر پا رہی ۔۔۔۔فلک نے اذیت بھری ہنسی کے ساتھ کہا۔۔۔۔
اللہ پر بھروسہ رکھو تم سب صحیح ہو گا اُنہیں ایک دن اپنے کیے پر ضرور پچھتاوا ہوگا اور وہ تمہارے پاس لوٹ آئے گے۔۔۔۔شجيہ نے یقین سے کہا اُسے حد سے زیادہ غصّہ آرہا تھا کامل پر جس کی وجہ سے فلک اتنی اذیت میں تھی۔۔۔۔
تُم اٹھو فریش ہوجاؤ میں جلدی سے کچھ اچھا سا بنوا کر لاتی ہو ۔۔۔۔شجيہ کے کہنے پر فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔شجيہ اُسے چھوڑتی ہوئی باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
وہ کچن میں جا رہی تھی جب اُسکی نظر سامیہ پر پڑی جس نے اسکو دیکھ کر اپنے قدم اُسکی طرف بڑھائے تھے جبکہ چاچی بھی لاؤنچ میں ہی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔اور ڈھیروں کپڑے اُن کے آگے پھیلے ہوئے تھے ۔۔
صبح صبح ڈاکٹر ایا تھا خیریت تو تھی۔۔۔۔سامیہ نے اپنی آبرو اچکا کر طنزیہ نظروں سے شجيہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔
اب میں آپکو کیا ہی بتاؤ دراصل کل میں نے کچھ کھایا نہیں تھا اور پھر تھکاوٹ بھی بہت ہورہی تھی تو مجھے ذرا سے چکر اگئے لیکن خضر اتنا پریشان ہوگئے کہ فوراً سے ڈاکٹر کو بلا لیا ۔۔۔پیار ہی اتنا کرتے ہے مجھ سے وہ۔۔۔۔شجيہ نے چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ سجاتے ہوئے اپنے دوپٹے کو انگلی میں لپیٹتے ہوئے کہا تھا۔۔۔اسکی بات پر سامیہ نے کینہ توز نظروں سے اُسکی طرف دیکھا تھا جبکہ چاچی کی بھی نظریں ایسی ہی تھی۔۔۔۔۔۔
خضر جو بلیک تھری پیس میں اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ نیچے ایا تھا شجيہ کی بات سنتے اُسکے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔اور آبرو واہ ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اب میں جاؤ خضر کو بھوک لگی ہے نہ ناشتہ میرے ہاتھ کا بنا ہی کھاتے ہے وہ۔۔۔شجيہ نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے کہا اور سائڈ سے ہوکر کچن کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔
سامیہ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جس کی نظریں شجيہ کی پشت کو تک رہی تھی وہ پیر پٹھکتی ہوئی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔
خضر نے بیساختہ اپنے قدم کچن کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
کچن میں اتے ہو اُسے سامنے شجيہ نظر ائی جو دوپٹہ کو اپنی قمر پر باندھے تیزی سے گیس پر رکھی پتیلی میں ہاتھ چلا رہی تھی۔۔۔۔۔
کچھ چائیے تھا آپکو۔۔۔شجيہ کی نظر دروازے میں استازدہ خضر پر پڑی تو اُس نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا ۔۔۔۔۔
مجھے جو چاہیئے ہوگا میں خود لے لونگا۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہتے فریج میں سے جوس نکالا ۔۔۔۔۔
وہ کچن میں آ تو گیا تھا لیکن اب اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کرے اسی لئے جوس گلاس میں نکالتے اُسکی نظریں شجيہ پر ہی جمی تھی۔۔۔۔۔
باہر وہ سب کہنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔خضر نے گلاس ہاتھ میں تھامتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
خضر کی بات پر شجيہ کے چلتے ہاتھ رکے تھے۔۔۔۔
کون سی بات۔۔۔شجيہ نے کندھے اچکا کر پوچھا۔۔۔خضر نے اُسکی پشت پر بکھرے بھورے بالوں پر نظر ڈالی تھی وہاں سے نظر سفر کرتی شجيہ کی پتلی قمر پر ٹھہر گئی تھی غلے میں بیساختہ گلٹی اُبھری ۔۔۔۔۔
وہی۔۔کے میں تمہارے ہاتھ کا بنا کھانا شوق سے کھاتا ہو۔۔۔خضر نے اپنی بیقابو ہوتی نظروں کو قابو کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
تو اس میں غلط کیا ہے میں آپکی بیوی ہو میرے ہاتھ کا بنا کھانا آپ نے شوق سے ہی کھانا ہے ۔۔۔شجيہ نے فلک کے لیے ٹرے سجاتے ہوئے کہا۔۔۔۔
غلط فہمی ہے لڑکی۔۔۔خضر کی زبان کو بریک لگی تھی کیونکہ شجيہ نے پوری قوت سے چمچ کو سلیپ پر رکھا نہیں مارا تھا۔۔۔۔
شجيہ خضر شجاعت چوہدری نام ہے میرا ۔۔۔شجيہ نے غصے بھری نظروں سے پلٹ کر خضر کو دیکھتے دانت پیستے ہوئے کہا ۔۔خضر کا جوس پیتا ہاتھ تھما تھا اُسکی بات پر۔۔۔۔۔
یہ پہلی لڑکی تھی جو اُسکی زبان بند کرنے کی ہمت رکھتی تھی ۔۔۔۔
شجيہ نے فوراً سے پلٹ کر ٹرے اٹھائی تھی اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے ۔۔۔۔
خضر نے مسکراتے ہوئے گلاس کو واپس رکھا تھا ہاں وہ مسکرا رہا تھا وہ انسان جو پتھر دل تھا جس نے اپنے اوپر مسکرانا حرام کر لیا تھا اج وہ مسکرایا تھا اپنی بیوی کی اس ادا پر۔۔۔۔۔
جب اپنے آپکو مسکراتے محسوس کیا تو خضر فوراً سے سنجیدہ ہوا ۔۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
آج سامیہ کی رخصتی تھی اور شجيہ کا دل اُداس تھا اُسے بس اپنے بابا کے پاس جانا تھا لیکن۔اج سامیہ کی رخصتی کی وجہ سے اُس نے یہ بات خضر سے کرنی مناسب نہیں سمجھی تھی۔۔۔۔۔
فلک سے موبائل لیتے اُس نے نسرین سے بات کر لی تھی جنہوں نے اُسے آصف صاحب کی صحت یابی کے بارے میں بتایا تھا پر اُنہیں ابھی تک ہوش نہیں ایا تھا اور یہ بات پریشانی کی تھی ۔۔۔۔۔۔
ابھی بھی وہ اس بھاری بھرکم جوڑے کو دیکھ رہی تھی اور فلک صوفے پر بیٹھے اسکے تاثرات کو۔۔۔۔
میں نے آج تک اتنا بھاری جوڑا نہیں پہنا فلک اوپر سے یہ جیولری تو دیکھو میں مغلے اعظم کی کوئی ملکہ لگو گی۔۔۔برات سامیہ کی ہے اور تیار میں دلہن کی طرح ہوجائو۔۔۔شجيہ نے پریشانی سے فلک کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تھا۔۔۔۔
اماں اج سب سے آپکو ملوانے والی ہے آخر کار چوہدری کی بیوی ہو اس طرح تیار تو ہونا پڑے گا نہ۔۔۔۔۔فلک نے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔۔۔
اب جاؤ جلدی سے چینج کر لو۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے وہ لال رنگ کا لہنگا اٹھایا تھا۔۔۔ اور چینج کرنے چلی گئی تھی ۔۔۔۔اور فلک اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
جب اُسے خضر اتا دکھائی دیا۔۔
طبیعت کیسی ہے تمھاری۔۔۔خضر نے نرم لہجہ میں پوچھا۔۔۔۔
ٹھیک ہے کیا تمہیں اُن کے بارے میں کچھ پتہ چلا۔۔۔فلک نے ایک اُمید سے پوچھا ۔۔۔
خضر نے اُسکی بات پر اپنے لب بھینچے نفی میں سر ہلایا تھا وہ صاف فلک کے چہرے پر اذیت محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
کل۔ہم شہر کے لئے نکل رہے ہیں اور تُم بھی ہمارے ساتھ جاؤنگی۔۔۔اور میں کوئی نہ نہیں سنو گا۔۔۔خضر نے اُسکا اُداس چہرہ دیکھتے ہوئے کہا فلک بنا ایک لفظ بھی بولے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی خضر نے بھی قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے تھے ۔۔۔۔۔
فلک ذرا اندر اؤ یار میری مدد کردو۔۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ روم سے آواز دی تھی وہ سمجھی تھی کہ فلک شاید باہر ہی ہے ۔۔۔خضر جو ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا ڈریسنگ روم سے اتی شجیہ کی آواز پر وہ کشمکش میں پر گیا ۔۔۔۔۔
یار آجاؤ اندر دیر ہورہی ہے۔۔۔شجیہ کی آواز دوبارہ سنتے اُس نے قدم اپنے ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔
یار دیکھو یہ زپ نہیں بند ہورہی۔۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ کا دروازہ کھلنے کی آواز پر بغیر مڑے ہی کہا۔۔۔خضر جیسے ہی ڈریسنگ روم میں داخل ہوا تھا سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُسکے چودہ طبق روشن ہوئے تھے۔۔۔سامنے لال رنگ کے لہنگے اور لال ہی چولی میں جو اُسکی قمر تک تھی جس کی زپ بند نہ ہونے کی وجہ سے اُسکی دودھیا بے داغ قمر خضر کی نظروں کے سامنے تھی۔۔۔۔
اُس نے کسی حصار میں باندھے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے تھے
خضر نے دھیرے سے اپنے ہاتھ زپ پر رکھے تھے۔۔۔اپنے انتہائی قریب مردانا پرفیوم کی سحر انگیز خوشبو محسوس کرتے شجیہ ساکت ہوئی تھی۔۔۔۔۔
خضر نے اُسکی زپ آہستہ سے بند کی تھی اس بیچ اُسکی کھردری اُنگلیاں شجیہ کی نرم قمر پر ہلکی سی ٹچ ہوئی تھی شجیہ خضر کے لمس پر اپنی آنکھیں بند کر گئی تھی پل میں سانسوں نے رفتار پکڑی تھی۔۔۔۔دل کی دھڑکن تو خضر شجاعت چوہدری کی بھی بڑھی تھی ۔۔۔پاس موجود گداز حسین وجود کو محسوس کرتے ااُسکے لمس کو محسوس کرتے۔۔۔۔خضر کی نظر اُسکی گردن پر پڑی اس سےپہلے وہ اپنے اوپر سے اپنا اختیار کھوتا وہ جھٹکے سے شجیہ سے دور ہوا تھا۔۔۔شجیہ کہ بازوں پر رکھے اپنے ہاتھ بھی فوراً سے ہٹائے تھے۔۔۔۔۔
خضر کے دور ہٹتے ہی شجیہ پلٹی تھی اور حیرت سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی جو لال چہرہ لیے اُسے ہی لال آنکھوں سے گھور رہا ہے۔۔۔۔
تمہیں اچھی طرح پتہ تھا نہ کہ فلک نہیں ہے یہاں یہ سب تم نے اپنی طرف میری توجہ حاصل کرنے کے لیے کیا ہے نہ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں فلک کی بیقينی سے پھیلتی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔۔۔۔اور اگر آپ میری طرف متوجہ ہوئے ہے تو اس میں غلط کیا ہے۔۔۔شجیہ نے بھی سنجیدگی سے کہا ۔۔۔۔
مطلب تم چاہتی ہی یہی ہو کہ میں تمہاری طرف متوجہ ہوں۔۔خضر کا لہجہ اب انتہائی حد تک سرد تھا۔۔۔
اگر میں ایسا چاہتی ہو تو بھی اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے آپ میرے شوہر ہے تو میری طرف ہی متوجہ ہوگے نہ آپ ۔۔۔شجیہ نے بھی آپکی بار پھر اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا۔۔۔۔
کیوں اپنے آپ کو ایک۔جہنم میں۔جھونک رہی ہو۔۔۔۔کچھ نہیں ملنا تمہیں یہ رشتا نبھا کر کنٹرکٹ ہوا ہے ایک سال تک بس ناٹک کرو اور چلی جاؤ۔۔۔خضر نے غصے سے تن فن کرتے شجیہ تک جاتے اُسکے بازو اپنی اہنی گرفت میں لیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔
خضر نکاح ہوا ہے کوئی مذاق نہیں پہلے مجھے بھی کچھ بھی سمجھ نہیں ایا تھا عقل پر پردہ لگ گیا تھا بابا کی وجہ سے پریشان تھی اسی لیے سمجھ ہی نہیں پائی کہ اپنے آپکو ایک مضبوط رشتے میں جوڑ رہی ہو۔۔۔میں طلاق جیسا عمل نہیں کر سکتی ۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا بازو پر بڑھتی گرفت سے اُسے تکلیف ہورہی تھی جسکو اُس نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔۔۔۔
نکاح نکاح نکاح بس یہ ایک لفظ ہی تمھاری زبان پر کیوں ہے ایک ایسے انسان کے ساتھ کیسے زندگی گزاروں گی جو تم سے محبت ہی نہیں کرتا بولو ۔۔۔خضر نے اُسکے چہرے پر غراتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔۔
اس نکاح کی میری نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔۔۔نہ کبھی ہوگی تم میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی میں سچ کہو تو پچھتا رہا ہو کہ میں نے تم سے ہی کیوں کنٹریکٹ میرج کی۔۔۔خضر نے ایک ایک لفظ انتہائی سرد لہجے میں ادا کیے تھی۔۔۔
کیونکہ میں آپکے نصیب میں لکھ دی گئی تھی آپکی گمشدہ پسلی تھی تو آپ تک انے کا کوئی نہ کوئی رستہ تو اُس خدا نے دیکھانا ہی تھا۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے اپنا ہاتھ خضر کے دھڑکتے دل کے مقام پر رکھتے ہوئے کہا تھا۔۔۔۔خضر اُسکی آنکھوں میں بڑھتی درد کی شدت سے سرخی کو اچھی طرح بھانپ گیا تھا لیکن اس لڑکی کے چہرے پر درد کا کوئی تاثر نہیں تھا نہ ماتھے پر بل تھے۔۔۔۔۔۔۔خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکے بازو اپنی فولادی گرفت سے آزاد کیے تھے ۔۔۔۔۔
شجیہ ہلکا سا لڑکھڑائی تھی اُسکا یکدم چھوڑنے پر۔۔۔۔۔
خضر ایک بھی غلط نگاہ اُس پر ڈالے ڈریسنگ روم سے باہر نکلتا چلا گیا تھا خضر کے جاتے ہی شجیہ کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی صورت میں بہہ تھے۔۔۔۔وہ خضر کے سامنے رو کر اپنے آپ کو کمزور ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی اُسے اس بات سے آگاہ نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اُسکا سخت لہجہ اور اُسکے بولے گئے سخت الفاظ اُسے تکلیف دیتے ہیں۔۔۔۔
ایک گہری سانس بھرتے اُس نے اپنے آپ ضبط کیا تھا آنسو صاف کرتی وہ ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
حویلی کے وسیع لون کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا۔۔۔۔فلک ایک کونے میں ہرے رنگ کا لہنگا پہنے سوگوار حسن لیے بیٹھی ہوئی تھی اُس کا دل ہی نہیں چاہ رہا تھا باہر انے کو لیکن اگر نہ اتی تو فاطمہ امّاں اور داجی پریشان ہوجاتے۔۔۔۔۔
برات آگئی تھی اسٹیج پر کالی شیروانی پہنے زائد اور دلہن کا جوڑا پہنے سامیہ بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔۔جبکہ طلحہ کی بھی آنکھیں اج بیقراری سے پورے لون میں گھوم رہی تھی۔۔۔اور کچھ یہی حال سامیہ کا تھا حالانکہ شادی اُسکی پسند کی ہورہی تھی لیکن شجيہ کو دیکھ کر جو جلن اور حسد اُسکے دل میں بھر گیا تھا وہ اُسے خوش نہیں ہونے ڈے رہا تھا۔۔۔۔
خضر ایک طرف داجی کے ساتھ کھڑا مہمانوں سے مل رہا تھا کالے رنگ کی شلوار قمیض جسکی آستین کہنیوں تک موری ہوی تھی جیل سے سیٹ کیے گئے بال خوبرو حسین چہرہ اور اُس پر چھائی سنجیدگی اُسے روعب دار بنا رہی تھی۔۔۔۔۔
مہمانوں سے بات کرتے خضر کی نظر ایک طرف اُٹھی جہاں سے لال لہنگے میں دوپٹہ کو اچھی طرح کندھے پر سیٹ کیے بھورے بالوں کو جوڑے میں مقید کیے لال سرخی سے اپنے لبوں کو رنگے نیلی آنکھوں میں کاجل کی بریک لکیر کھینچے ماتھے پر بندیاں اور بھاری جھمکے ہار پہنے وہ کسی شہزادی کی طرح سہج سہج کر قدم بڑھاتی سب کو اپنی طرف دیکھنے پر مجبور کر گئی تھی۔۔۔پشت پر اپنے ہاتھ باندھے وہ مہبوت سا ہوتا شجیہ کے حسین چہرے کو ہی دیکھے جا رہا تھا ۔۔وہ ایک حسین مورت کی طرح تھی معصوم بھی بہادر بھی ۔۔۔۔خضر کی نظریں اُسکے چہرے سے ہٹنے سے انکاری تھی دل کی دنیا میں ہلکے ہلکے سے دھماکے ہوتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔۔اور دل کب کسی کے بس میں رہا ہے۔۔۔۔۔
فسوں تو تب ٹوٹا جب فاطمہ اماں اٹھ کر اُسکے پاس گئی۔۔۔
ماشاللہ ماشاللہ کتنی پیاری لگ رہی ہے ہماری بچی اللہ نظر سے بچائے۔۔۔فاطمہ اماں نے اُسکی بلائیں لیتے ہوئے کہا شجیہ اپنی تعریف پر اپنی نیلی آنکھیں جھکائے مسکرا دی تھی اور یہاں گیا تھا خضر شجاعت چوہدری کا دل اُسکے پہلو سے نکلتے شجیہ کے پیروں میں۔۔۔۔۔
فاطمہ اماں تقریب میں ائی ہر ایک خاتون سے شجیہ کا تعارف کر وا رہی تھی ۔اور شجیہ سب سے مسکرا کر مل رہی تھی۔۔۔خضر کی نظر ایک پل کے لیے بھی شجیہ پر سے نہیں ہٹی تھی۔۔اور یہ دیکھتے سامیہ نے اپنی مٹھیاں غصے سے بند کی تھی ۔۔۔۔۔اُسے ایک اندھیکی سی آگ اپنے اندر جلتی محسوس ہورہی تھی۔۔۔وہ یہ سمجھتی کہ خضر اُسے پسند کرتا ہے اور اُسکے چھوڑنے پر وہ غم منائے گا لیکن یہاں تو بازی ہی پلٹ گئی تھی۔۔۔۔۔
بہت بہت مبارک ہو آپ دونوں کو۔۔۔شجیہ نے اسٹیج پر اتے خوشنودی سے کہا اسکی بات پر سامیہ نے منہ بنایا تھا جبکہ اپنے سامنے ایک انتہائی حسین لڑکی کو دیکھ کر زائد کی آنکھوں میں ایک چمک سی اُٹھی تھی جو دور کھڑا خضر اچھی طرح پہچان گیا تھا اُس نے فوراً سے اپنی مٹھیاں بھینچتے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
آپ کون۔۔زائد نے مسکراتے ہوئے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
یہ مسز خضر شجاعت چوہدری ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے پاس اتے اُسکی قمر سے ہاتھ گزار کر اُسکے پہلو پر استحاق سے اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔
خضر کے انے پر اور شجیہ کی قمر پر اُسکا ہاتھ دیکھ کر زائد کو حد درجہ ناگواری ہوئی۔۔۔
شجیہ نے نیلی آنکھوں سے خضر کی طرف دیکھا تھا اپنے پہلو میں رکھا اُس کا ہاتھ اُسکے وجود میں سنسنی سی بھر گیا تھا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے دیکھنے پر اپنی بھوری آنکھیں اُسکی نیلی آنکھوں میں گاڑھی تھی۔۔۔دور بیٹھی فلک یہ منظر دیکھتے مسکرا گئی تھی ۔۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی یہ منظر دیکھتے مسکرا گئے تھے ۔۔۔۔
واؤ اچھی بات ہے لیکن تمہیں یہ حسین لڑکی مل کہاں گئی۔۔۔زائد نہ جان بوجھ کر یہ بات کہی تھی خضر کی آبرو تنی تھی اُسکی بات پر۔۔۔۔
میرے نصیب میں لکھی تھی تو مجھ تک تو انا تھا۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کو لگا تھا وہ خواب دیکھ رہی ہے۔۔۔اُس نے مسکرانے کی سعی کی ۔۔۔۔
مجھے تو حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو پیسے کے لیے انسان کو دیکھیے بنا اُسکی خامی کو نظرانداز کر دیتی ہے۔۔۔سامیہ نے انتہائی کڑوے لہجے میں کہا تھا اسکی بات پر خضر کے ساتھ ساتھ شجیہ نے بھی اپنے لب بھینچے تھے۔۔۔۔
اور مجھے بھی حیرت ہوتی ہے ایسی لڑکیوں پر جو ظاہری خوبصورتی کو دیکھتے سامنے والے کی گندی فطرت کو نظرانداز کر دیتی ہے۔۔۔شجیہ نے اپنے غصے پر ضبط کرتے مسکراتے ہوئے ایک گہرا طنز کیا تھا وہ زائد کی نظریں اپنے اوپر محسوس کر چکی تھی۔۔۔ایک انسان کی آنکھیں اُسکی شخصیت کا کھلاصہ کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔۔۔
سامیہ اور زائد کے فق چہرے کو دیکھتے اور شجیہ کی بات پر خضر نے اپنا رخ موڑ کر اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔۔۔۔یہ اج کے دن کی دوسری مسکراہٹ تھی جو اُسکے چہرے پر اُبھری تھی۔۔۔۔۔اور وجہ اُسکی بیوی تھی۔۔۔
چلے میاں جی بھوک لگ رہی ہے کچھ کھاتے ہے یہاں کھڑے ہو کر وقت برباد نہیں کرنا چاہیئے بہت اہمیت کا حامل ہے یہ وقت۔۔شجیہ نے خضر کی طرف اپنا سر گھما کر میٹھے لہجے میں کہا تھا خضر نے اثبات میں سر ہلایا تھا اور وہاں سے شجیہ کو لئے اسٹیج سے اُترا تھا سامیہ اور زائد کی کینہ توڑ نظریں اُن دونوں پر ہی تھے۔۔۔۔
خضر میں زیادہ اچھی لگ رہی ہو آپکو۔۔۔شجیہ نے اپنی آنکھیں معصومیت سے گھماتے ہوئے کہا خضر نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا نیلی آنکھیں حسین چہرہ اُس سے ایک انگلی کی دوری پر تھا۔۔۔۔
ہاں۔۔خضر نے اُسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے ایک سحر میں جکڑے کہا شجیہ کے چہرے پر گہری ہوتی مسکراہٹ سے وہ ہوش میں ایا ۔۔
نہیں تو تمہیں کس نے کہا یہ کہ تم اچھی لگ رہی ہو۔۔خضر نے جلدی سے اپنی نگاہیں اُسکی نیلی نگاہوں سے ہٹاتے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
شجیہ نے غصے بھرا منہ بنایا تھا اُسکی بات پر۔۔۔
تو اپنا ہاتھ ہتائے میرے پہلو سے۔۔شجیہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔خضر نے اُسکے حسین چہرے کی طرف دیکھا جو اب غصے کے تاثرات لیے ہوئے تھا اور آرام سے اپنا ہاتھ اُسکے پہلو سے ہٹایا ۔۔۔۔۔
شجیہ نے غصے سے اُس پر سے اپنی نگاہیں پھیرتے اپنے قدم فلک کی طرف بڑھائے تھے جو ایک جگہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
وہ خوشبو بھرا وجود جیسے ہی خضر کے قریب سے دور ہوا خضر ایک گہرا سانس بھرتا رہ گیا تھا اور ایک نظر اُس پر ڈال کر جو فلک کی طرف جا رہی تھی اپنے قدم داجی کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
مجھے ہسپتال پر ڈراپ کر دی جئے گا۔۔۔شجیہ نے گاڑی چلاتے خضر سے کہا۔۔۔
وہ لوگ اج کراچی کے لئے نکلے تھے ۔۔ساتھ میں فلک بھی تھی جو پچھلی سیٹ پر بیٹھی ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی۔۔۔شجیہ کی بات پر وہ سیدھی ہوئی۔۔۔۔
میں بھی چلو گی تمہارے ساتھ۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔خضر سنجیدگی و خاموشی سے گاڑی چلا رہا تھا۔۔۔۔
ہسپتال کے باہر گاڑی رکنے پر شجیہ جلدی سے اندر بڑھی تھی۔۔۔فلک بھی جلدی سے گاڑی سے اُتری تھی۔۔۔خضر کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ فلک نے کڑے تیوروں سے اُسے گھورا تھا۔۔۔
چلو جلدی تمہیں بھی چلنا چایئے اندر۔۔فلک تیز لہجے میں بولتی ہوئی آگے بڑھی تھی۔۔۔نہ چاہتے ہوئے بھی خضر کو فلک کی بات پر گاڑی سے باہر نکلنا پڑا اُسکے گاڑی سے باہر اتے ہی تمام گارڈز چوکننا ہوئے تھے جنکو ہاتھ کے اشارے سے وہی رکنے کا کہتے وہ اندر بڑھا تھا۔۔۔
💗💗💗
اماں۔۔۔شجیہ نے کوریڈور میں ہی نسرین کو دیکھ کر کہا تھا جو نم آنکھیں لیے تسبیح پڑھ رہی تھی شجیہ کی آواز پر فوراً سے اُسکی طرف دیکھا۔ ۔
میری بچی۔۔۔نسرین نے جلدی سے کہتے شجیہ کو اپنے گلے لگایا تھا آنکھیں نم تو شجیہ کی بھی تھی۔۔۔
بابا۔۔۔کیسے ہے اماں۔۔۔شجیہ نے فوراً سے آصف صاحب کے بارے میں پوچھا۔۔۔
ڈاکٹر کا کہنا ہے وہ کوما میں چلے گئے ہے نہ جانے ہوش اتا بھی ہے یہ نہیں۔۔۔اللہ ہی مدد کر سکتا ہے اب۔۔۔نسرین کی آواز بھر ائی تھی یہ بتاتے ہوئے۔۔۔
یہ کیا بول رہی ہو اماں ایسا کیسے ہوسکتا ہے وقت پر آپریشن شروع ہوا تھا پھر یہ ڈاکٹر کہاں ہے۔۔۔شجیہ نے بہتی آنکھوں سے غصے سے کہا۔۔۔فلک بھی پیچھے کھڑی سب سن چکی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم انٹی۔۔۔۔اللہ پر بھروسہ رکھے وہ بہتر کریں گا۔۔۔۔۔فلک نے آگے بڑھتے سلام کرتے کہا۔۔۔نسرین نے اجان نظروں سے سامنے کھڑی نازک سی لڑکی کو دیکھتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔
یہ فلک ہے اماں۔۔۔شجیہ نے تعارف کروایا ۔۔۔
اور میں اُسکی نند پلس دوست ہوں۔۔۔۔فلک نے جلدی سے کہا۔۔۔۔۔
اتنے میں ڈاکٹر باہر آئے جو اندر آصف صاحب کو چیک کرنے گئے ہوئے تھے۔۔۔
ڈاکٹر میرے بابا۔۔۔۔شجیہ نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔
وہ ٹھیک ہے وہ سن سکتے ہیں سب محسوس بھی کر سکتے ہیں لیکن وہ نہ اٹھ سکتے ہیں اور نہ بیٹھ ۔۔۔اُمید ہے وہ جلدی کوما سے باہر آجائے ۔۔۔سو میں سے ستر پرسنٹ چانس ہے کہ وہ تین سے چار مہینے کے بعد ہوش میں آجائے۔۔۔۔ڈاکٹر کے کہنے پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
فلک نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے حوصلا دیا ۔۔۔۔
شجیہ کی نظر خضر پر پڑی جو ایک طرف دونوں ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے ہے تاثر چہرہ لیے کھڑا تھا۔۔۔
اُسکے قدم خضر کی طرف بڑھے۔۔۔۔
میں اج اماں کے ساتھ رکو گی۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر خضر کا دل عجیب ہوا تھا۔۔۔۔مگر ماننا کس کو تھا۔۔۔۔
تم جو چاہے کر سکتی ہو یہ گاؤں نہیں ہے نہ حویلی جہاں پر ہمیں میاں بیوی کا ناٹک کرنا پڑے ہے اسی لیے تم آزاد ہو ۔۔۔۔خضر نے بے تاثر آواز میں کہا۔۔۔اسکی بات پر شجیہ کا دل دُکھا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے بنا کچھ کہےاثبات میں سر ہلایا ۔۔۔۔۔وہ چاہتا تھا جیسے وہ ہر چیز میں اُسکی نفی کرتی ہے اس بات پر بھی اُسے کچھ نہ کچھ کہے اپنی چلائے ۔۔۔۔۔۔خضر نے فوراً سے اپنا سر جھٹکا۔۔۔۔
یہ کنٹرکٹ نہیں ختم کیا ہے جب تک فلک اور کامل مل نہیں جاتے تب تک یہ کنٹریکٹ چلے گا۔۔۔خضر نے اپنی گردن پر ہاتھ پھرتے جیسے خود کو سمجھانا چاہا تھا۔۔۔۔
پتہ ہے مجھے اور آپ بفکر رہے یہ کنٹریکٹ زندگی بھر نہیں ختم ہوگا۔۔۔۔یہ بات اپنے اس دماغ میں بٹھا لے۔۔۔شجیہ نے ایڑھی کے بل کھڑے ہوتے اُسکے ماتھے پر اپنی دو اُنگلیاں رکھتے اُسے نوک کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر اسکو دیکھا جو اُسکے کندھے تک بھی نہیں اتی تھی اونچا ہونے کے بعد بھی وہ صرف اُسکی گردن تک ہی آرہی تھی۔۔۔
وہ کیوں ایسی حرکتیں کرتی تھی کہ خضر کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کر جاتی اب بھی اُس نے بہت ضبط کے ساتھ اپنے ہونٹوں پر امدنے والی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔۔۔۔
شجیہ کہتی پیچھے پلٹی تھی جہاں اُسکی امّاں اور فلک مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی اُن دونوں کو دیکھتے ہی شجیہ کے چہرے پر بھی مسکراہٹ رقص کر گئی تھی۔۔۔۔
فلک نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو اپنی پشت اُنکی طرف کیے فون کان سے لگا گیا تھا۔۔۔۔
اب میں چلتی ہو اپنا ڈھیر سارا دیہان رکھنا ٹھیک ہے۔۔۔۔فلک نے شجیہ کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
فلک نے نسرین سے الوداعی کلمات کہتے اپنے قدم خضر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔اور شجیہ کی نظروں نے دور تک خضر کی پشت کو تکا تھا۔۔۔
اور پھر نسرین کے کہنے پر آصف صاحب کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔۔۔۔خضر نے ایک پرائیویٹ روم میں انکو شفٹ کر دیا تھا۔۔۔شجیہ نے ٹیبل کی طرف دیکھا جہاں ہر طرح کے پھل رکھے ہوئے تھے۔۔۔ساتھ میں کھانے کی بھی چیزیں رکھی گئی تھی ایک بیڈ پر آصف صاحب مشینوں میں جکڑے بے سدھ پڑے تھے۔۔ اُنکے ساتھ ہی ایک اور بیڈ رکھا گیا تھا جو نسرین کے لیے تھا۔۔۔یہ سب خضر نے کیا تھا۔۔۔۔۔شجیہ کے چہرے پر آسودگی بھری مسکراہٹ اُبھری۔۔۔۔
اُس نے قدم آصف صاحب کی طرف بڑھائے اُنکے ماتھے پر محبت سے بوسا دیتے اُسکا آنسو اُنکے ماتھے پر گرا تھا ۔۔۔نہایت پیار سے وہ آنسو شجیہ نے اپنے ہاتھ سے صاف کیا ۔۔۔نسرین اُن دونوں کو دیکھتے صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔۔
شجیہ آصف صاحب سے دور ہوئی اور جاکر نسرین کے پاس صوفہ پر بیٹھتے اُسکی گود میں اپنا سر رکھ گئی۔۔۔نسرین نے پیار سے اپنی بیٹی کو دیکھا تھا جس نے اپنے باپ کی زندگی کو بچانے کے لیے اپنا آپ قربان کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔۔۔۔
لاڈو میاں بیوی کا رشتا بہت خوبصورت ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ نازک بھی نکاح میں بہت طاقت ہوتی ہے یہ دو انجان لوگوں کو آپس میں جوڑ دیتا ہے محبت خود با خود اس رشتے میں شامل ہو جاتی ہے ۔۔لاڈو تمہارا اور صاحب جی کا رشتا چاہے جیسے بھی جرا ہو وہ تمہارے شوہر ہے اُنکی عزت کرنا محبت کرنا ۔۔۔اُس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھانا۔۔۔۔
تیرے بابا تیرے اوپر طلاق کا دھبہ نہیں برداشت کر پائے گے لادو۔۔۔نسرین کی بات پر شجیہ نے اپنی آنکھیں بند کئے ہی اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔۔۔
آنکھیں بند کرتے ہی خضر کا وجود پوری شان کے ساتھ اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا تھا مسکراہٹ نے فوراً سے لبوں کا احاطہ کیا۔۔۔۔
💗💗💗💗
حیرت کی بات ہے بھئی کوئی اپنی مسکراہٹ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔۔فلک نے شریر انداز میں خضر کی طرف دیکھتے کہا جو اپنا رخ بدلے ونڈو سے باہر دیکھتا مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔
ہم۔۔ہاں کیا بولا تم نے۔۔۔۔خضر نے یکدم چونکتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔
اُسکا دیہان تو تھا ہی نہیں یہاں سوچوں کے دھاگوں پر تو شجیہ سوار تھی۔۔۔۔۔۔۔
محبت ہو گئی ہے ؟۔۔۔فلک نے سیدھا سا سوال کیا۔۔۔خضر نے دونوں آبرو کو آپس میں ملا کر اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔
نہیں۔۔۔خضر نے کچھ پل کے بعد اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔
مجھ سے جھوٹ بول رہے ہو جو تمھارے دل کی بات بھی جان جاتی ہے ۔۔۔فلک نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
جھوٹ نہیں بول رہا۔۔۔خضر نے فلک کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔
اچھی بات ہے محبت نہیں ۔۔۔۔اب اُسکی بھی زندگی ہے اور میں تو سو پرسنٹ شیور ہو جتنی وہ خوبصورت اور معصوم ہے کوئی نہ کوئی کہیں نہ کہیں تو اُس سے محبت کرتا ہی ہوگا۔۔۔۔فلک نے خضر کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ دیکھتے کہا۔۔۔وہ خضر کے سنجیدہ چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی جو پل میں تنا تھا۔۔اُسکے ماتھے کی رگ بھی اچانک سے پھولی۔۔۔۔
ہیں نہ صحیح کہہ رہی ہو میں۔۔۔فلک نے اُسکے سخت تنے ہوئے چہرے کی طرف دیکھتے تصدیق چاہی ۔۔۔خضر نے اپنی ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کی تھی۔۔۔۔
یہ سنتے ہی سانس سینے میں تھمتا ہوا محسوس ہوا ۔۔۔نہ جانے کیوں ایسا لگا جیسے وجود جلنے لگا ہو۔۔۔۔رگو میں دوڑتا خوں لاوا میں تبدیل ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔
مجھے کیا پتہ۔۔۔خضر نے سخت لہجے میں کہا۔۔اپنے لہجے کی کڑواہٹ وہ فلک کے سامنے ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن عشق اور جلن چھپائے نہیں چھپتی اور وہ بھی اُسکی بچپن کی دوست تھی اپنے دوست کی ہر ایک بات جانتی تھی۔۔۔
فلک نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی ۔۔۔۔
میں پوچھو گی اُس سے کیا پتہ اُسکی زندگی میں بھی کوئی ہو جس سے وہ بھی محبت کرتی ہو۔۔۔فلک نے ایک اور تیر پھینکا تھا اور یہ سنتے خضر کے تن بدن جل اٹھا تھا۔۔۔
مجھے آفس کا کچھ کام کرنا ہے تو یہ بات یہی ختم کرو۔۔۔خضر نے لیپ ٹاپ آن کرتے سخت آواز میں کہا۔۔۔
فلک اثبات میں سر ہلاتی ونڈو سے باہر دیکھنے لگی۔۔لیکن خضر کی دماغ کی دہی کر دی تھی۔۔۔
خضر لیپ ٹاپ پر نظریں جمائے ہوئے تھا لیکن دیہان تو سب فلک کی باتوں میں اٹک گیا تھا۔۔۔
مجھے کیا جو بھی ۔۔۔کرتی ہو وہ کسی سے بھی محبت ۔۔۔۔۔
کیا ہے یار۔۔۔خضر نے دل میں کہا لیکن یہ بات کہتے ہوئے بھی اُسے اپنے اندر اشتعال بڑھتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔۔ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک انڈھیکی آگ اُسکے وجود میں جل رہی ہو۔۔جھنجھلا کر لیپ ٹاپ زور سے بند کرتے اُس نے آخری لفظ کہیں تھے۔۔۔۔
کیا ہوا۔۔۔فلک سمجھ گئی تھی کیا ہوا اپنے لبوں پر امڈتی مسکراہٹ ضبط کرتے اُس نے انجان بنتے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں آفس کا کام تھوڑا سا خراب ہوگیا ۔۔۔خضر نے جلدی سے کہا اور واپس لیپ ٹاپ آن کر لیا۔۔۔یہ بات تو اُسکے ذہن سے نکلنے والی نہیں تھی۔۔۔اسی لیے اپنے دماغ کو کہیں اور مصروف کرنا چاہا۔۔۔۔فلک واپس ونڈو سے باہر دیکھنے لگی ۔۔۔۔
💗💗💗💗
گاڑی روکو جلدی گاڑی روکو۔۔۔فلک نے یکدم چیختے ہوئے کہا ڈرائیور نے فوراً سے گاڑی روکی تھی خضر بھی حیرانی سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
جو کچھ بھی سمجھے بغیر گاڑی سے باہر بھاگی تھی۔۔۔خضر بھی پریشانی سے گاڑی سے باہر نکلا تھا لیکن سامنے نظر اتا منظر دیکھ کر اُسکا دل کیا تھا یہ تو اپنا سر کسی دیوار پر مار لے یہ پھر سامنے موجود ہستی کا ۔۔۔
فلک کی دھڑکنیں تیز تھی پھولی سانسوں کے ساتھ بھاگتی وہ اُس تک ائی تھی۔۔۔۔
کا۔۔۔م۔۔ل۔۔کامل۔۔۔فلک نے گہرا سانس بھرتے اُس سے دو قدم کی دوری پر رکتے کہا۔۔۔۔جو گاڑی کا دروازہ کھول رہا تھا۔۔۔۔۔نیلے تھری پیس پہنے ۔۔۔۔
کامل جو سائرہ کو ساتھ شوينگ کے لیے لایا تھا ابھی گاڑی میں بیٹھنے ہی لگا تھا جب اپنی پشت سے اُبھرتی آواز پر وہ تھما تھا شدت سے اپنی پیچھے اُس وجود کے نہ ہونے کی تمنا کی تھی ۔۔۔اپنی آنکھیں منینچ کر اُس نے خود کو تیار کیا تھا کیونکہ اگر فلک پیچھے کھڑی ہوتی تو جو وہ کرتا وہ شاید ہی فلک برداشت کر جاتی ۔۔۔۔۔
کامل ہلکے سے پلٹا۔۔۔اور فلک وہ کانپتے جسم کے ساتھ نم آنکھیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔آنکھیں لبالب نمکین پانی سے بھری تھی ۔۔
ہلکے سے اپنے قدم آگے بڑھاتی وہ اُس کے نزدیک ائی تھی اور کامل خان کا دل ساکت ہوا تھا وہ اپنی سانس تک روک گیا تھا۔۔لینس لگی آنکھوں میں سامنے موجود وجود کو دیکھتے تڑپ محبت کیا کیا نہ اُبھرا تھا۔۔۔۔
فلک نے اپنا کانپتا ہاتھ اگے بڑھاتے کامل کے گال پر رکھا تھا جیسے یقین کرنا چاہا ہو کہ ایا سامنے وہ موجود ہے یہ اُسکا وہم ہے۔۔لیکن جیسے ہی اُسکے ہاتھ نے کامل کے گال کا لمس محسوس کیا ۔۔۔وہ اپنا لب دانت میں دبائیں اپنی سسکی روکتے اُسکے گلے لگی تھی۔۔۔۔
افف کیا لمحہ تھا کامل خان کے لئے جب اُسکی زندگی اُسکے سینے سے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔فلک کی سسکیاں بلند ہوئی تھی وہ بےتحاشا رونے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کامل کے دل نے شدت سے چاہا تھا اُسکے گرد اپنے ہاتھ باندھ کر اُسے زور سے اپنے سینے میں بھینچ لیں ۔۔۔۔
اُسے تو یقین ہی نہیں تھا اُسکے پاس کامل ہے وہ اُسکی گلے لگی ہوئی ہے لیکن یہ سچ تھا وہ اپنی کالی آنکھوں اور خوبرو چہرے کے ساتھ اُسکے سامنے تھا۔۔۔
کہاں تھے آپ میں نے کتنا یاد ۔۔۔ابھی فلک کے الفاظ مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ کسی نے اُسے بیدردی سے کامل سے دور کیا تھا۔۔۔
اس سے پہلے وہ زمین پر گرتی خضر نے اُسے تھاما ۔۔۔۔۔
فلک کو گرتے دیکھ کامل کی سانس رکی تھی خضر کے پکڑنے پر اُس نے سکون کا سانس بھرا تھا ورنہ شاید وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا نقصان کروا بیٹھتا۔۔۔
اُس نے اپنی مٹھیاں بھینچے سائرہ کی طرف دیکھا تھا جو کھا جانے والی نظروں سے فلک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔اُسکا دل چاہ رہا تھا ابھی اس سائرہ کو جان سے مار دے جس نے فلک کو دھکا دیا ہے۔۔۔۔
لڑکی تمھاری ہمت بھی کیسے ہوئی میرے منگیتر کو گلے لگانے کی ۔۔سائرہ آگے بڑھتی فلک کو تھپڑ مارنے لگی جب خضر نے انتہائی سختی سے اُسکا ہاتھ بیچ میں ہی روکا ۔۔۔۔
دور ۔۔غلطی سے بھی یہ غلطی مت کرنا ۔۔ورنہ اس غلطی کی معافی تمہیں نہیں ملے گی۔۔۔۔خضر نے انتہائی زور سے سائرہ کا ہاتھ جھٹکتے ہوئے سخت سرد لہجے میں کہا۔۔۔خضر کا سخت لہجہ اور بھوری آنکھوں میں خونخوار تاثرات دیکھتے سائرہ نے تھوک نگلا اور اپنے قدم پیچھے لیے۔۔۔۔۔۔
فلک اُسکی بات پر بیقین سی ہوتی کامل کو دیکھے گئی ۔۔
یہ میرے شوہر ہے کامل کہیں نہ آپ اُسے آپ میرے شوہر ہے اسکے۔۔اسکے منگیتر نہیں۔۔فلک نے تڑپ کر کامل کا بازو پکڑ کر کہا۔۔۔۔
خضر نے غصے بھری نظروں سے کامل کی طرف دیکھا تھا جو اپنے لب بھینچے کھڑا تھا اُس نے ایک بھی نظر فلک کے چہرے پر نہیں ڈالی تھی۔۔۔
کامل بولے نہ ۔۔۔فلک نے کامل کو کچھ نہ بولتے دیکھ اپنے دونوں ہاتھ سے اُسکا چہرہ تھام کر آس بھرے لہجے میں کہا اور کامل خان کا دل تڑپ اٹھا تھا اپنی جان سے عزیز بیوی کی حالت دیکھتے۔۔۔
وہ تو چاہتا تھا کہ پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بتائے کہ ہاں سامنے کھڑی لڑکی اُس کی بیوی ہے اُسکی زندگی ہے اُسکی محبت ہے لیکن یہ فرض وہ اس فرض کی وجہ سے چپ تھا۔
آپ کچھ بول کیوں نہیں رہے۔۔۔دیکھے میری طرف دیکھے تو آپ بابا بننے والے ہے۔۔۔کامل میری طرف دیکھے تو صحیح۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔اسکی بات پر سائرہ نے غصے بھری نظروں سے اُسکی طرف دیکھا تھا جبکہ کامل خان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو رہا تھا اُسکی حالت دیکھتے ۔۔۔
کامل تم بولتے کیوں نہیں کچھ پتہ نہیں یہ لڑکی کس کی ناجائز اولاد کو تمہارے اوپر تھوپ رہی ہے ۔۔۔بتاؤ اسکو تم میرے منگیتر ہو پرسوں شادی ہے ہماری ۔۔۔۔سائرہ نے کامل کا بازو پکڑ کر حقیر انداز میں فلک کو دیکھتے کہا ۔۔۔۔جو اُسکی بات پر سن سی ہوگئی تھی۔۔۔۔
وہ یک تک کامل کو دیکھے گئی ۔۔۔اُسے پورا یقین تھا ابھی کامل بولے گا ہاں یہ میری بیوی ہے اور یہ بچا میرا ہے ۔۔۔۔
سائرہ کی بات پر خضر نے اپنی آنکھیں بند کی ضبط سے۔۔۔۔۔۔
دیکھے میں آپکو نہیں جانتا آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی پلیز ہمیں پریشان نہیں کریں میری کوئی بیوی نہیں ہے میری شادی میری گرل فرینڈ سے ہونے والی ہے۔۔۔۔یہ لفظ یہ لفظ کامل خان کی زبان سے نکلتے فلک کا دل چیر گئے تھے۔۔۔۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے جو دل کامل کو سامنے پا کر تیز دھڑک رہا تھا وہ سن ہوا۔۔۔کامل کے بازو پر رکھا ہاتھ بیساختہ نیچے ڈھلکا تھا۔۔۔۔اور کامل خان سمجھ گیا تھا اُس نے کھو دیا ہے فلک کو ۔۔۔وہ اُس سے کوسوں دور چلی گئی ہے۔۔۔
اُس نے اپنی بيقین بھوری آنکھیں جن میں چمک نامدار تھی کامل کی کالی آنکھوں میں گاڑھی جہاں شناسائی کی کوئی رمک اُسے نظر نہیں آئی۔۔۔۔
لیکن یہ چہرہ اور یہ لمس یہ تو وہ ہر صورت میں پہچان جاتی تھی کامل کے وجود سے اٹھتی خوشبو وہ کیسے نہ پہچانتی۔۔۔۔
فلک نے کامل سے دور ہوتے اثبات میں سر ہلاتے اپنے آنسو بیدردی سے صاف کیے ۔۔۔
ٹھیک ہے معذرت آپ کو تنگ کیا ۔۔۔مجھے ہی غلط فہمی ہوئی۔۔ہوئی ہوگی۔۔۔اور یہ۔۔یہ بچہ یہ بچہ میرا بچہ ناجائز ہی ہے۔۔۔فلک نے بہت ضبط سے لڑکھڑاتی آواز میں یہ لفظ اپنی زبان سے ادا کئے تھے۔۔۔اور یہ الفاظ نہیں تھے یہ چابک تھے جو کامل خان کے دل کو لہو لہو کر گئے ۔۔۔۔۔
چلو خضر چلے۔۔۔۔فلک نے ایک بھی نظر کامل کو نہیں دیکھا تھا۔۔خضر کو بولتی وہ گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
آنکھوں میں اب کوئی آنسو نہیں تھا ۔۔۔بلکل صاف بے تاثر آنکھیں۔۔۔۔۔
خضر نے کامل کو ایسی نظروں سے دیکھا تھا جیسے ابھی کچا چبا جائے گا۔۔۔اور اپنے قدم بھی گاڑی کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔۔
چلو چلے پتہ نہیں کہاں سے آجاتے ہے ایسے لوگ۔۔۔سائرہ بولتی ہوئی واپس گاڑی میں جاکر بیٹھ گئی۔۔۔
کامل نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔۔۔یہ سب اُسکی زندگی میں کیا ہورہا تھا۔۔۔۔
مجھے جلد از جلد اس منہوس عورت کا کام تمام کرنا ہوگا۔۔۔گاڑی میں بیٹھی سائرہ کو دیکھتے اُس نے سوچا ۔۔دماغ تو فلک کی طرف تھا جانے وہ کیسی ہوگی۔۔۔۔
💗💗💗💗
فلک تم ٹھیک ہو۔۔۔خضر نے گاڑی میں بیٹھتے ہی فلک سے پوچھا جو نہ جانے اپنے ہاتھ کی لیکروں میں کیا دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
ہم۔۔۔ٹھیک ہو میں۔۔۔۔خضر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے جس کا ہم نے سوچا تک نہیں ہوتا۔۔۔۔
دیکھو اج میں اُس شخص کے بچے کو اپنی کوک میں لیے پھر رہی ہو جس نے مجھے اپنی بیوی ماننے سی ہی انکار کر دیا۔۔۔کتنا عجیب ہے نہ۔۔۔۔۔فلک نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
طلاق لے لیتے ہے۔۔۔خضر نے کہنا چاہا جب فلک کی درد بھری آنکھوں میں دیکھتے وہ چپ ہوا۔۔۔
جو شخص مجھے اپنی بیوی نہیں مانتا وہ مجھے طلاق دے گا۔۔۔نہیں ۔۔میں طلاق لے بھی نہیں سکتی ساری زندگی میں اُس کے نام پر گزار سکتی ہوں ۔۔۔چاہے وہ شخص مجھے پہچانے یہ نہ پہچانے ۔۔۔میں جانتی ہو میرا رب جانتا ہے وہ انسان میرا شوہر ہے میرے بچے کا باپ ہے میرا بچہ ۔۔ناجائز نہیں ہے۔۔۔۔فلک کی آواز بھر ائی ۔۔۔
بس مجھے ڈر لگتا ہے اپنی ماں کا۔ سامنا کیسے کرونگی ۔۔۔۔اُنہیں کیسے اپنی پاک دامنِی کا یقین دلائو گی ۔۔۔فلک نے خضر کے چہرے کی طرف دیکھتے ٹوٹے لہجے میں کہا۔۔۔
تمہیں کسی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔کسی کی بھی نہیں تمہارا بھائی تمہارا دوست تم پر یقین رکھتا ہے میں ہوں تمہارے ساتھ اور میرے ہوتے ہوئے کوئی بھی تم انگلی نہیں اٹھا سکتا۔۔۔تم پاک ہو فلک ۔۔۔۔تمہیں کسی کو اپنی پاک دامنِی کا ثبوت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔خضر نے فلک کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئی اپنی گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
فلک کچھ بھی بولے بنا اپنا سر سیٹ کی پشت پر ٹکایا اور اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔۔
خضر نے ایک نظر اپنے فون پر دیکھا جہاں کامل کے لاتعداد میسج آئے ہوئے تھے۔۔۔فلک کی خیریت دریافت کرنے کے ۔۔۔خضر نے اپنے لب بھینچے۔۔۔فلحال وہ کامل سے بات نہیں کرنا چاہتا تھا فلک کی حالت کو دیکھتے وہ ابھی پریشان تھا۔۔۔۔
خضر نے اپنے کمرے میں آکر ایک گہری سانس بھری تھی۔۔۔۔ایک کمی سی محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی چیز اُسکے پاس نہیں ہے اُس سے دور ہے۔۔
فلک تو گھر اتے ہی اپنے کمرے میں چلی گئی تھی۔۔۔۔خضر نے اپنے لئے آرام دہ سوٹ نکالا اور فریش ہونے چلا گیا۔۔۔۔
کچھ دیر بعد وہ فریش سا کالی سینڈو اور کالے ٹراؤزر میں گیلے بالوں کے ساتھ باہر ایا تھا۔۔۔۔
بیڈ پر بیٹھتے ہی کل رات کا منظر آنکھوں میں لہرایا لبوں پر خود با خود مسکراہٹ نے اپنی جگہ بنائی۔۔۔۔اُسے نہیں یاد تھا وہ شجیہ کے انے سے پہلے کب مسکرایا تھا لیکن جب سے وہ اُسکی زندگی میں ائی تھی اُس کے لب مسکراہٹ میں ڈھل رہے تھے ۔۔۔۔
کل کا منظر۔۔۔🥀
سب مہمانوں سے فارغ ہوکر جب وہ کمرے میں ایا تھا سامنے شجیہ کو آئینے کے سامنے بیٹھا دیکھ رکا ۔۔۔۔
وہ محویت سے اُسے دیکھے گیا جو اپنے کانوں سے بھاری جھمکے اُتارنے کی جدوجھد کر رہی تھی۔۔۔۔
شاید اُسکے درد ہورہا تھا تبھی وہ اپنا نچلا لب دانت تلے دبائے ہوئے تھی۔۔۔
اور یہ دیکھتے خضر کا دل کی حالت عجیب ہوئی۔۔نازک ہونٹوں پر یہ ظلم اُس سے قطعی برداشت نہیں ہو رہا تھا دل ہمک ہمک کر اُسکے قریب جاتے اُسکے نازک لبوں کو اُسکی گرفت سے نکال کر خود کو شدت بھری گرفت میں لینے کو اکسا رہا تھا۔۔۔
ویسے بھی اُس لڑکی کو دیکھتے وہ اپنا ضبط کھو دیتا تھا۔۔۔۔۔
اپنے سر کو جھٹک کر اپنے دل میں پیدا ہوتے شوریدہ جذبات کو سلاتے وہ اپنے کپڑے لیے واشروم میں چلا گیا تھا شجیہ کو دیکھنے سے مکمل اجتناب کیا تھا۔۔۔
واشروم کے دروازہ بند ہونے کی آواز پر شجیہ نے سکون کا سانس بھرا تھا ورنہ بھوری انکھوں کی تپش اپنے آپ پر محسوس کرتے اُس کے ہاتھوں کی ہٹیلیوں میں پسینہ بھر گیا تھا۔۔۔۔۔
اُس نے یہ ظاہر نہیں ہونے دیا تھا کہ وہ جانتی ہے خضر اُسے لو دیتی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔۔۔پوری محفل میں بھی اُسکی نظر شجیہ پر ہی تھے۔۔۔۔لیکن جب شجیہ اُسکی طرف دیکھتی وہ سرعت سے اپنی نظریں پھیر جاتا تھا۔۔۔
اور شجیہ کو اپنے شوہر کی یہ ادا نہایت ہی اچھی لگی تھی ۔۔۔۔۔
شجیہ نے آئینے میں نظر آتے اپنے خوبصورت عکس کو دیکھا۔۔۔۔وہ محبت کرنے لگی تھی خضر سے اور یہ محبت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔لیکن خضر کے سخت الفاظ اُسکے دل کو لہو کر جاتے تھے۔۔پر وہ اپنے شوہر کی یہ بات بھی ہنس کر برداشت کر جاتی تھی جانتی تھی اگر خضر کے سامنے اُسکی باتوں پر روۓ گی تو خضر کا مقابلہ نہیں کر پائے گی ۔۔اُسے خضر سے زیادہ ڈھیٹ بننا تھا۔۔۔اور ڈھیٹ تو وہ شروع سے ہی تھی۔۔۔۔۔
شجیہ نے ڈریسنگ روم میں داخل ہوتے اپنے لیے کوئی آرام ده سوٹ نکالنا چاہا جب اُسکی نظر خضر کی شرٹس پر پڑی۔۔۔مسکراتے لبوں کو دباتی اُس نے وہ شرٹ اور خضر کا ٹراؤزر تھاما تھا۔۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ خضر کی ڈھیلی ڈھالی شرٹ جو اُسکے کندھوں سے نیچے کھسک رہی تھی ۔۔خضر کا ٹراؤزر جس کے پائچے کو کم سے کم پانچ بار موڑ کر اپنے برابر کیا گیا تھا۔۔۔۔اور شرٹس کی آستینیں اُسکی حتیلیوں تک آرہی تھی۔۔۔۔باہر نکلی تھی۔۔۔ ۔
شجیہ کے باہر نکلتے اُسکی نظر خضر پر گئی تھی جو ہمیشہ کی طرح کالی سینڈو اور کالے ٹراؤزر میں صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ میں مصروف تھا۔۔۔۔شجیہ کا دل دھڑکا۔۔۔دھڑکتے دل کے ساتھ اُس نے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے تھے جبکہ نظریں خضر پر جمی تھی جس نے ایک نظر بھی اٹھا کر اُسکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔
اُدھر خضر اپنے دل میں پیدا ہوتے جزباتوں کی وجہ سے پریشان شجیہ کی طرف دیکھنے سے گریز کر رہا تھا۔ ۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کے یوں انجان بننے پر اپنے دانت پیسے تھے۔۔۔تکیے کو اٹھا کر زور سے اپنی جگہ پر رکھا لیکن خضر نے نظر اٹھا کر نہ دیکھا۔۔۔۔
شجیہ نے سائڈ ٹیبل پر رکھے چھوٹے سے کینڈل کے اسٹینڈ کو دیکھا۔اور پھر کچھ بھی سوچے بنا ایک جھٹکے سے اٹھا کر زمین پر دے مارا۔۔۔۔
کوئی چیز نیچے گرنے کی آواز پر مجبوراً خضر کو اس طرف دیکھنا پڑا۔۔۔لیکن سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُسکے کی بورڈ پر چلتے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔وہ یک تک اُسکی طرف دیکھتے گیا۔۔۔جو اُسکی شرٹ اور ٹراؤزر میں ایک معصوم سی بچی لگ رہی تھی گلابی گال مزید گلابی ہوئے تھے جو یقیناً خضر کی گہری نظروں کی وجہ سے ہوئے تھے۔۔۔
وہ اُسکے حسین سراپے میں الجھ کے رہ گیا تھا ۔۔۔کندھوں سے سرکتی اُسکی شرٹ جس کی وجہ سے اُسکے دودھیا بازو نظر اتے خضر کے ضبط کا امتحان لے رہے تھے ۔۔۔۔صراحی دار گردن جو بھورے بالوں کے جوڑے باندھنے سے صاف نظر آرہی تھی بالوں کی چند شریر لٹیں اُسکے من موہنے چہرے پر اتی خضر کا چین و سکون غارت کر گئی تھی۔۔۔اتنی مشکل سے تو اپنے جذباتوں پر پل باندھا تھا اور اب ۔۔۔یہ تو طے تھا سامنے کھڑی لڑکی نے خضر کو چین سے جینے نہیں دینا تھا۔۔۔۔
وہ یہ غلطی سے گر گیا۔۔۔شجیہ نے معصوم سے انداز میں کہتے اسٹینڈ اٹھایا تھا۔۔
شجیہ کی آواز پر وہ ہوش میں ایا۔۔۔۔۔۔
لڑ ۔۔۔۔خضر نے کہنا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر کہیں ہاتھ میں پکڑا اسٹینڈ ہی لڑکی کہنے پر اُسکے سر پر نہ مارڈے وہ چپ ہوا۔۔۔
یہ میرے کپڑے کس کی اجازت سے پہنے ہے۔۔۔خضر نے لہجے کو سخت کرتے کہا۔۔۔
اپنے شوہر کی چیزیں استعمال کرنے کے لیے مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔شجیہ کہتے ساتھ بیڈ پر بیٹھی۔۔۔۔۔
نیلی نظریں خضر کی بھوری انکھوں پر ٹکی تھی۔۔۔جبکہ دل تو اُسکی لو دیتی نظروں سے پسلیوں سے سر توڑ رہا تھا۔۔۔۔۔
کسی کی بھی چیز استعمال کرنے پہلے اُس سے اجازت لیتے ہے اتنا بھی نہیں پتہ تمہیں۔۔۔خضر کے سرد لہجے پر شجیہ نے اُسکی آنکھوں پر غور کیا تھا اُسکے لہجے میں سختی ضرور شامل تھی لیکن آنکھوں میں نہیں۔۔۔۔
میاں بیوی میں ایسا نہیں ہوتا اپ چاہے تو میرے کپڑے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔۔۔شجیہ نے تیزی سے بولتے اپنی ٹانگوں پر كمفرٹر ڈالا لیکن جب خود کو ہی اپنی بات کا احساس ہوا تو کھسیانی سی ہنسی ہنستے خضر کی طرف دیکھا ۔۔جو اب سچ میں کھا جانے والی نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
مجھے لگتا ہے مجھے سو جانا چایئے اج کے لیے اتنا کافی ہے۔۔شجیہ جلدی سے کہتی اپنے منہ تک کمفرٹر اوڑھے کروٹ بدل کر لیٹ گئی۔۔۔اور خضر وہ بیساختہ اُسکی اس ادا پر مسکرا گیا۔۔۔۔۔شجیہ کا اشارہ جس طرف تھا وہ سمجھ گیا تھا مطلب وہ جان بوجھ کر اُسکے کپڑے پہن کر ائی تھی تاکہ اُسکی توجہ حاصل کر سکے۔۔۔۔
شجیہ نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ اپنی آنکھیں بند کی تھی جس طرح خضر کی لو دیتی نظریں اُسکے وجود کا احاطہ کر رہی تھی وہ اُسکی دل کی دنیا تہہ بالا کر گیا تھا۔۔۔۔یہ احساس کتنا خوش نما تھا ننھی ننھی محبت کی کونپلیں دل کی زمین پر اُگ رہی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗
خضر نے لیپ ٹاپ سے نظر اٹھا کر بیڈ کی طرف دیکھا۔۔اور نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
شجیہ اتنی سردی میں بھی اپنا ایک پاؤں کمفرٹر سے نکالے اُسکی طرف کروٹ لیے ایک ہاتھ بیڈ پر پھیلائے اپنا منہ پورا تکیہ میں گھسائے سو رہی تھی۔۔۔خضر نے لیپ ٹائپ بند کرتے اپنے قدم بیڈ کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔احتیاط سے شجیہ کی ٹانگ اٹھا کر کمفرٹر اُسکے پیروں پر ٹھیک کیا۔۔۔شجیہ کو کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔۔۔
نرمی سے اُسکے چہرے پر آئے بھورے بال پیچھے کرتے ۔۔اُسکے سرخ و سفید چہرے کو تکا جہاں نیلی آنکھیں جو اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے بات کرتی تھی بند تھی۔۔لمبی گھنی پلکوں کی جھالر سرخ عارض پر سایہ فگن تھی ۔۔۔۔گلابی لب جو ہلکے سے واہ ہوئے تھے۔۔اُنہیں دیکھتے خضر بلکل احتیاط سے اُس پر جھکا تھا دھیرے سے اپنے لب شجیہ کے ادھ کھلے لبوں پر رکھے پورے وجود میں ایک سرور سا دوڑتا محسوس ہوا۔۔۔اپنی آنکھیں بند کئے وہ نہایت نرمی سے اُسے لبوں کا لمس محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سکون صرف محرم کے لمس سے ہی رگوں میں بہتا ہے۔۔۔۔
شجیہ کی نیند کا خیال کرتے وہ اُس سے دور ہوا تھا۔۔۔۔
دور ہوتے ہی اپنی بے اختیاری پر شدت سے افسوس ہوا۔۔۔یہ اُس نے جذبات کی رو میں بہتے کیا کر لیا تھا ۔۔اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔
بیوی ہے میری چاہے جیسے بھی ۔۔اور ویسے بھی وہ سو رہی ہے اُسے نہیں پتہ چلا ہوگا۔۔۔خضر نے اپنے دل کو سمجھایا جو شاید اُس سے سوال کرنے لگا تھا کہ کس حق سے شجیہ کو چھو رہے ہو۔۔۔پر اسکا جواب تو خضر شجاعت چوہدری کے پاس تھا ہی نہیں۔۔۔۔۔
اُسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی اُس نے یہ کیوں کیا ہے۔۔۔۔۔
اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے اُس نے سائڈ ٹیبل کی دراز سے چاکلیٹ نکالی تھی۔۔۔۔جب تک وہ چاکلیٹ کھاتا رہا اُسکی نظر شجیہ کے حسین چہرے پر ٹکی رہی۔۔۔۔
اُس نے یہ کیوں کیا تھا اُسے نہیں پتہ تھا نہ ہی وہ اُسکی وجہ جاننا چاہتا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ کے قریب ہوتے وہ اُسکے چہرے سے ایک انچ کے فاصلے پر اپنا چہرے رکھتے اپنی آنکھیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔۔
صبح جب اُسکی آنکھ کھلی تو شجیہ کمرے میں نہیں تھی وہ سمجھ گیا باہر ہوگی۔۔اور پھر سب کے ساتھ ناشتہ کرتے وہ کراچی کے لیے نکل گئے تھے۔۔۔اُسے کہیں سے بھی شجیہ کے چہرے سے یہ نہیں پتہ چلا کہ وہ رات ہوئی کروائی کے بارے میں جانتی ہے۔۔۔۔خضر نے سکون کا سانس بھرا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
یہ سب سوچتے بھی اُسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔۔۔دل نے شدت سے اُس وجود کو اپنے پاس اس کمرے میں دیکھنے کی تمنا کی تھی ۔۔۔۔
سر۔۔۔ملازم کے دروازے پر انے پر وہ اپنی سوچوں سے باہر نکلا تھا۔۔۔
بولوں ۔۔۔خضر نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
سر فلک میم کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہی ہے۔۔ملازم کے کہنے پر وہ کسی انہونی کا سوچتے فوراً سے کمرے سے بھاگا تھا۔۔۔
ڈپلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولتے وہ فلک کے کمرے میں داخل ہوا تو اُسے سامنے ہی صوفے پر بیہوش دیکھ وہ جلدی سے اُسکی طرف لپکا۔۔۔۔
فلک کو اٹھاتے اُس نے آرام سے بیڈ پر لٹایا تھا۔۔ملازم کو ڈاکٹر کو بلانے کا کہتے اُس نے فلک کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تھا جو کوئلے کی طرح دہک رہا تھا۔۔۔۔۔
فلک کی جیسی حالت تھی کسی لڑکی کا اس کے پاس ہونا لازم تھا۔۔۔جلدی سے ہسپتال میں موجود اپنے گارڈ کو فون کر کے شجیہ کو گھر لانے کا حکم دیا ۔۔۔۔
شجیہ جو نسرین بیگم کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی گارڈ کے بتانے پر نسرین بیگم کو الوداعی کلمات کرتے فوراً سے وہاں سے نکلی تھی۔۔۔
دیکھ کر چلے۔۔۔۔ہسپتال سے باہر نکلتے ہی شجیہ کا کندھا ایک وجود سے ٹکرایا شجیہ جلدی میں کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی لیکن اُس وجود کو پتھر کا کر گئی تھی۔۔۔۔ایک پل صرف ایک پل میں ہی وہ شجیہ کے ہر نقش کو ازبر کر گیا تھا اپنی زیرک نگاہوں سے۔۔۔۔
کالے ٹو پیس میں موجود وہ شخص شجیہ کی پشت پر نظر آتے بھورے بالوں کو دیکھتے مسکرایا تھا۔۔۔۔۔آنکھوں پر سے چشمہ ہٹا کر اُس نے اپنے ساتھ کھڑے وجود کو دیکھا جو اُسکی آنکھوں کو دیکھتے ہی کپکپا گیا تھا ۔۔پتھر سی سرد آنکھیں ۔۔۔۔جن میں وحشت ناچ رہی تھی۔۔۔سب کچھ تباہ و برباد کرنے کی۔۔۔۔۔
Who is she ..?
عنابی لبوں سے سرد ٹھٹھرا دینے والی آواز نکلی۔۔۔۔
I don't know leopard…
پاس کھڑے منیجر نے ہلکی آواز میں کہا۔۔۔
Check out her details and send people to chase her…..
وہ بولتا ہوا پلٹ گیا پیچھے منیجر نے جلدی سے اپنے گارڈ کو شجیہ کے پیچھے بھیجا تھا ۔۔اگر غلطی سے بھی کوئی غلطی ہو جاتی تو وہ جانتا تھا وہ اُسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔۔۔
شجیہ باہر نکلتی گاڑی میں بیٹھی تھی اُسے گارڈ نے فلک کی طبیعت خرابی کا بتا دیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ خضر نے اُسے گھر واپس بلوایا ہے۔۔۔۔اُسے فلک کی ٹینشن ہو رہی تھی وہ جانتی تھی وہ کتنے نازک مراحل سے گزر رہی ہے۔۔۔۔۔
💗💗💗
شجیہ گاڑی رکنے پر جلدی سے اندر کی طرف بڑھی تھی لیکن اندر بڑھتے ہی اندر کا منظر دیکھتے اُسکی حسین چہرے پر ناگواری ائی تھی ننھے سے ماتھے پر بل پڑے تھے۔۔۔۔۔۔کیونکہ خضر صاحب سامنے ہی سینڈو پہنے اپنے مضبوط بازؤں کو دعوت نظارہ بنائے ڈاکٹر سے بات کر رہے تھے۔۔۔
شجیہ تیز قدموں سے اُسکی طرف بڑھی تھی بلکل خضر کے پاس پہنچتے اُسکے بازو سے اپنا بازو ٹکائے شجیہ نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا تھا جو اب انجان نظروں سے شجیہ کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔۔خضر کی بیوی۔۔شجیہ نے لفظ چباتے ہوئے کہا۔۔۔اس فیمیل ڈاکٹر کی پیار اور ستائش بھری نظریں وہ خضر پر محسوس کر چکی تھی۔۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی طرف دیکھا جو کھا جانے والی نظروں سے سامنے کھڑی فیمیل ڈاکٹر کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔فلک کو میں نے نیند کا انجکشن لگا دیا ہے وہ جتنا آرام کرے گی اتنا اُنکی صحت میں بہتری ائی گی۔۔۔۔۔۔باقی اللہ کے کرم سے سب ٹھیک ہے۔۔۔ڈاکٹر کا شجیہ کی بات پر عجیب سا منہ بنا تھا خضر کی شخصیت سے وہ کافی زیادہ متاثر ہوئی تھی۔۔۔۔اسی لیے بولتی ہوئی چلی گئی ۔۔۔۔
ڈاکٹر کے جاتے ہی شجیہ نے غصے سے خضر کی طرف دیکھا جو اُسکی طرف ہی نہ سمجھ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
کمرہ کون سا ہے ہمارا۔۔۔شجیہ نے اپنے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے تیز لہجے میں کہا۔۔۔خضر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے ایک طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا شجیہ کو جلن ہو رہی ہے۔۔۔۔شجیہ نے اپنے قدم کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکی آنکھیں ستائش سے پھیلی تھی۔۔۔اتنا شاندار کمرہ ۔۔۔۔ہر چیز اس کمرے میں پرفیکٹ تھی گول بیڈ جس کے اوپر خضر کی اندراج سائز تصویر چسپا تھی۔۔۔۔یہ کمرہ بلکل حویلی کے کمرے کی ہی طرح تھا بس کافی بڑا تھا حویلی کے کمرے کے مقابلے ۔۔۔سائڈ پر ایک روم فریزر بھی رکھا گیا تھا۔۔۔۔۔۔
بس ایک چیز تھی جو شجیہ کو پسند نہیں ائی تھی اور وہ تھا اُس کمرے کی دیواروں کا رنگ جو کالا تھا۔ ۔۔۔شجیہ نے اپنے قدم ڈریسنگ روم کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
ڈریسنگ روم میں موجود الماری کھول کر دیکھی تو وہ پوری ہی خضر کے کپڑوں سے بھری ہوئی تھی۔۔۔
جناب کے پاس اتنے کپڑے ہے لیکن پھر بھی اپنی باڈی دکھانے کا شوق پڑا ہے۔۔۔۔شجیہ نے سامنے نظر آتی سفید رنگ کی شرٹ اٹھائی اور باہر نکلی۔۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی اُسے خضر نظر ایا جو شاید کمرے میں ہی آرہا تھا۔۔۔شجیہ کے یکدم باہر نکلنے پر وہ رکا۔۔۔شجیہ نے شرٹ خضر کے کندھے پر رکھی۔۔۔۔
فلک کا کمرہ کدھر ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کی طرف دیکھے بنا ویسے ہی تیز لہجے میں پوچھا۔۔۔
خضر نے چپ چاپ سے راہداری کے تیسرے کمرے کی طرف اشارہ کردیا۔۔۔
اور شجیہ اب بھی بنا کچھ بولے فلک کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔اور خضر حیرت سے اُسکی پشت کو تکتا رہ گیا جو گھر میں اتے ہی مالکن کی طرح اُس پر حکم جھاڑ رہی تھی۔۔۔۔
ائی ایس ائی کا وہ ہیکر جس کے آگے کوئی کچھ بولتا نہیں تھا جو صرف اپنی سنتا تھا اپنی کرتا تھا اُسے پانچ فٹ کی نیلی آنکھوں والی لڑکی چپ کروا دیتی تھی۔۔۔۔۔۔وہ اُسکے سامنے کچھ بول ہی نہیں پاتا تھا کیونکہ اس پانچ فٹ کی نیلی آنکھوں والی آفت کے پاس اُسکے ہر سوال کا جواب موجود ہوتا تھا۔۔۔۔
کندھے پر رکھی شرٹ کو اُس نے جلدی سے پہن کر اپنے قدم فلک کے کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔تھے ہلکے سے کھلے دروازے سے وہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ فلک کی تمام دوائیاں چیک کر رہی تھی۔۔۔یکدم اُسکا فون بجا۔۔۔۔
فون اٹھا کر دیکھا تو کامل کا نمبر دیکھتے اُسکے ماتھے پر بل پڑے۔۔۔۔
ایک نظر شجیہ کو دیکھتے اُس نے اپنے قدم باہر لون کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔۔
بول۔۔۔خضر نے فون اٹھاتے کہا۔۔۔
ابھی تیرے گھر سے ڈاکٹر گئی ہے فلک ٹھیک ہے۔۔۔کامل نے پریشانی سے پوچھا۔۔۔۔
ٹھیک نہیں ہے وہ اسٹریس کی وجہ سے بیہوش ہوگئی تھی۔۔۔خضر کے بتانے پر کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔۔
اور تو یہ اب بتا رہا ہے مجھے۔۔ تو اُسے شہر لایا ہی کیوں۔۔۔۔۔۔کامل نے غصے سے پوچھا۔۔۔
حویلی میں رہتے وہ اور گھٹن محسوس کر رہی تھی جب جب وہ فاطمہ اماں کے ساتھ ہوتی اُسکے چہرے پر ایک عجیب طرح کی اذیت میں دیکھ سکتا تھا تو پھر تو وہ ماں ہے اور جیسی فلک کی حالت ہے اگر اُنہیں پتہ لگ گیا جانتا ہے نہ پھر کیا ہوگا۔۔۔خضر نے بھی سخت آواز میں کہا۔۔۔۔کامل نے اپنے لب بھینچے تھے خضر کی بات پر وہ صحیح تو کہہ رہا تھا۔۔۔
کیا آپ ڈیٹ ہے کچھ پتہ چلا۔۔۔خضر کے کہنے پر کامل نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
انڈر ورلڈ سے جو بھی ان لوگوں کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ یہاں پاکستان ایا ہوا ہے۔۔۔اگلے مہینے یہاں سے بہت زیادہ تعداد میں لڑکیاں سپلائی ہونی ہے۔۔۔کامل نے صبح سائرہ کی جو بات سنی تھی وہ سب خضر کو بتائی ۔۔۔۔
خضر کے چہرے پر سختی نے اپنی جگہ لی کامل کی بات سنتے۔۔۔۔
بس ایک کلو کا انتظار ہے اُسکے بعد سب سچائی سامنے ہوگی۔۔۔کامل کے کہنے پر خضر نے گہرا سانس بھرا جب اُسکی اگلِی بات سنتے خضر چونکہ تھا۔۔۔۔
میں تیرے گھر کے گیٹ کے باہر ہوں۔۔مجھے فلک سے ملنا ہے۔۔۔کامل کی بات پر خضر کا دل کیا اُسے اٹھا کر کہیں پھینک آئے ۔۔۔۔
وہی رک جا اندر قدم نہیں بڑھانا جب تک میں نہ بولوں۔۔۔سالے پہلے نہیں بتا سکتا تھا میری بیوی بھی اندر ہے۔۔۔اُسے کچھ نہیں پتہ۔۔۔۔خضر بہ دھانی میں کیا بول گیا تھا اُسے خود اندازہ نہیں تھا اندازہ تو تب ہوا جب کامل اُسکی بات پر ہنسا۔۔۔
مبارک ہو بھائی بھابھی کو اپنی بیوی مان ہی لیا بھائی تو نے۔کامل نے ہنستے ہوئے کہا۔۔اور اب خضر کا دل چاہ رہا تھا اپنے آپ کو کہیں پھینک آئے۔۔۔
چپ کر ورنہ اندر نہیں انے دونگا میں تُجھے۔۔۔خضر نے دھمکی دی ۔۔کامل نے ہنستے ہوئے فون بند کیا۔۔۔۔
💗💗💗
خضر فلک کے کمرے میں ایا تو شجیہ وہی فلک کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
اہم۔۔۔وہ مجھے بھوک لگی تھی کیا تُم کچھ بنا دونگی۔۔۔خضر کو سمجھ نہ ایا کس بات پر اُسے اس کمرے سے لے کر جائے۔۔۔اسی لیے جو سمجھ ایا وہ بول گیا لیکن شجیہ کی حیرت سے پھیلی آنکھوں کو دیکھتے اُسے جی بھر کر کامل پر غصّہ ایا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ کو حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی بھی ہوئی تھی خضر کی بات پر ۔۔۔کہ اُس نے پہلی بار اپنی ذات سے جری کوئی بات اُس سے کی تھی۔۔۔ورنہ گھر میں ڈھیروں ملازمین تھے وہ کسی سے بھی کہہ سکتا تھا۔۔
وہ فوراً سے اثبات میں سر ہلاتی اپنی جگہ سے اُٹھی تھی۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے کمرے سے نکلتے ہی کامل کو میسج کیا تھا۔۔۔۔جو بیک ڈور سے اندر آگیا تھا۔۔۔
خضر جلدی سے شجیہ کے پیچھے گیا۔۔۔۔
کیا کھائے گے آپ۔۔۔شجیہ نے کچن میں اتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔ابھی جب وہ ہسپتال سے ائی تھی تو ملازم موجود تھے لیکن ابھی گھر میں کوئی بھی نہیں تھا۔۔ ۔
کچھ بھی بنادو ۔۔۔خضر نے کچن کے سامنے رکھی چھوٹی سی ٹیبل کی کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر میگی بنا دو۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر نے اپنی نظریں موبائل سے ہٹا کر اُسکی طرف دیکھا تھا جو روایتی بیویوں کی طرح اُس سے پوچھ رہی تھی۔۔۔۔
میں کوئی بچا نہیں ہو بھوک لگ رہی ہے کوئی اور چیز بنا دو۔۔۔خضر نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
منہ تو ہمیشہ کسی بچے کی طرح ہی پھولا کر پھیرتے ہے۔۔۔شجیہ نے دوپٹہ سر سے اُتار کر قمر پر باندھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔لیکن خضر کے کانوں تک اُسکی آواز با آسانی پہنچ گئی تھی۔۔۔۔
کیا کہا۔۔خضر نے اپنی آبرو ریز کرتے پوچھا۔۔۔
کچھ نہیں ۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔اور فریج کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
اور خضر اپنے موبائل کو سائڈ پر رکھے محویت سے شجیہ کو دیکھنے لگا جو تیز تیز ہاتھ چلاتی کھانا بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ایک خوش کن احساس اُسے محسوس ہوا۔۔۔کیسے اُسکے ایک بار کہنے پر وہ انتہائی خوشی سے اپنی جگہ سے اٹھ کر کچن کی طرف ائی تھی۔۔۔۔۔۔
اپنے دل کی حالت اُسے بدلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔۔۔شجیہ آس پاس ہوتی تو اُسکے وجود میں سکون سا بھر جاتا ۔۔۔۔۔اُسے جب جب وہ دیکھتا تھا اُسے چھونے کی اُسکے لمس کو محسوس کرنے کی تمنا بڑھ جاتی تھی۔۔۔۔
یکدم فلک کی کہیں باتیں اُسکے دماغ میں گونجی۔۔۔۔تو اپنا وجود جلتا محسوس ہوا ۔۔۔
ایک بات پوچھو تم سے۔۔۔خضر نے شجیہ کی طرف دیکھتے کہا ۔۔۔
جی بولے۔۔۔شجیہ کو تو اج حیرت پر حیرت ہو رہی تھی کیسے وہ آدمی اُس سے بات کر رہا تھا ورنہ ہر وقت تو وہ سنجیدہ چہرہ لیے بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔
کیا ۔۔کسی کو پسند کرتی ہو تم۔۔۔خضر کو یہ کہتے ہوئے اپنے گلے میں تکلیف کا احساس ہوا دل کی دھڑکیں اور جسم کا روأ روأ اُسکے جواب کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔جبکہ سینے میں ایک لاوا دہکتا محسوس ہو رہا تھا ۔۔
خضر کی بات پر شجیہ کے چلتے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔
خضر بس خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔
نہیں۔۔۔شجیہ نے یک لفظی جواب دیا۔۔۔خضر نے ایک گہرا سانس بھرا تھوڑا سکون سا محسوس ہوا جلتے دل کو۔۔۔۔۔
آپ کیوں پوچھ رہے تھے ۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔۔
بس اسی لیے کہ اگر کسی کو۔پسند کرتی ہو تو بہتر ہے ایک سال بعد یہ کنٹریکٹ تو ختم ہو جائے گا پھر تمہیں بھی تو کچھ نہ کچھ مستقبل کے بارے میں سوچنا ہے۔۔۔میں اُس سے بات کر لیتا پھر ۔۔۔۔خضر نے یہ لفظ کیسے کہے تھے یہ بس وہ خود جانتا تھا یہ الفاظ بولتے ہوئے اُسکے دل میں ایک چھبن کا احساس ہوا تھا رگوں میں دورتا خوں رکتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔ایسا لگا تھا جیسے کسی نے وجود کو تپتی بھٹی میں جھونک دیا ہو ۔۔۔
آہ۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کا ہاتھ سن ہوتا گرم گرم توے سے ٹکرایا تھا۔۔وہ سسکی سی بھر کر اپنے لال ہوتے ہاتھ کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
یہ تکلیف اتنی نہیں تھی جتنی تکلیف خضر کے کہے گئے لفظوں سے ہوئی تھی۔۔۔ابھی کچھ پل پہلے وہ کتنا خوش تھی اور اس انسان نے ہمیشہ کی طرح سخت لفظ بول کر اُسکی خوشی غارت کی تھی ۔۔۔
خضر جلدی سے اپنی جگہ سے اٹھا تھا ابھی وہ شجیہ کا ہاتھ تھامتا اُس سے پہلے ہی شجیہ نے اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا۔۔۔اپنی نیلی لال ہوتی آنکھوں سے اُس نے خضر کی طرف دیکھا ۔۔۔
تکلیف دینے کے بعد مرہم رکھنے نہیں اتے چوہدری صاحب۔۔۔اور میرے مستقبل کی فکرِ آپ مت کرے۔۔۔آپکو کیا ملتا ہے میرے چہرے سے خوشی کی رمک چھین کر بتائے۔۔۔۔شجیہ نے درد ضبط کرتے سخت لہجے میں کہا۔۔خضر اُسکی بات پر اپنے لب بھینچ گیا ۔۔۔اگر اُن لفظوں سے تکلیف شجیہ کو ہوئی تھی تو اُس سے بھی زیادہ اُن لفظوں سے اپنا دل خضر کو رکتا ہوا محسوس ہوا تھا یہ سب کیوں تھا وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔۔
نہیں ہے نہ کوئی جواب آپ کے پاس کبھی اپنے دل سے ٹھکرا جانے کے ڈر کو نکال کر میری طرف بڑھے ۔۔۔۔میری محبت کا مذاق نہیں بنائے۔۔۔آپکو ذرا بُرا نہیں لگا اپنی بیوی سے وہ سب لفظ کہتے ہوئے جو سنتے ہی میرا دل چاک ہوا ہے۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر کی بھوری آنکھوں میں سرخی نمایاں ہوئی۔۔۔
بہت خوشی ہوگی اپنی بیوی کے منہ سے کسی غیر مرد کا نام سن کر ۔۔۔کس طرح آپ یہ پوچھ سکتے ہیں یہ بول سکتے ہیں کہ ایک سال بعد میں آپ سے جدا ہوکر کسی اور کے ساتھ گھر بساؤ گی کیا بات ہے ۔۔۔صحیح ہے ختم کرے یہ کنٹرکٹ ڈھونڈ لونگی میں بھی کوئی ایسا جو مجھ سے ۔۔۔ابھی شجیہ کے لفظ اُسکی زبان پر ہی تھے جب خضر نے اپنے ایک ہاتھ سے اُسکا سر پکڑ کر اپنی طرف کیا اُسکے پہلو سے اپنا دیمج ہاتھ گزار کر اُسکے سرخ لبوں کو اپنی جنونی گرفت میں لیا۔۔۔۔
شجیہ سوکھے پتے کی ماند لرز اٹھی خضر کے اس اقدام سے ۔۔۔اور وہ جنونی ہوتا اُسکی ایک ایک سانس پینے کے ڈر پر تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے جھتپٹا کر اُسکی گرفت سے نکلنا چاہا۔۔۔لیکن خضر کی گرفت انتہائی سخت تھی اپنے منہ میں خون کا ذائقہ محسوس ہوتے خضر پیچھے ہٹا تھا۔۔۔شجیہ نے خضر کے پیچھے ہونے پر ایک لمبا سانس بھرا۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہاتھ سے شجیہ کے چہرے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا اور اُسکے لبوں سے نکلتے خون کو اپنی انگلی کی پوروں سے چنا۔۔۔۔
شجیہ تڑپ اٹھی تھی خضر کی اس حرکت سے۔۔۔۔
وہ الفاظ میں نے کیسے اپنی زبان سے ادا کیے تھے وہ میں ہی جانتا ہو لیکن تمہارے اُن گلابی لبوں سے یہ سب سنتے میں ضبط نہیں کر سکتا۔۔۔مجھے میرا وجود دہکتے کوئلے کی طرح جلتا محسوس ہورہا ہے ۔۔ابھی تک۔۔۔
وہ سب بولنے کے بجائے میرے منہ پر ایک تھپڑ مارتی اور کہتی کہ ایک سال بعد کیا پوری زندگی یہ کنٹریکٹ ختم نہیں ہوگا۔۔۔۔۔میں۔یہی لفظ تو تمہارے ان لبوں سے سننا چاہتا تھا۔۔۔۔خضر کا ہاتھ ابھی بھی شجیہ کے گال پر تھا۔۔۔۔
میں ڈرتا نہیں ہو ٹھکرائے جانے سے بیشک پوری دنیا مجھے ٹھکرا دے ۔۔مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن جب سے تم میری زندگی میں ائی ہو تب سے ڈر گیا ہو یہ سوچتے کہیں تُم مجھے نہ ٹھکرا دو۔کہیں میں تُمیں اپنے احساسات بیان کرو اور تم انکا مذاق بنا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ نے تڑپ کر اُسکی طرف دیکھا جس کی آنکھوں میں ایک گہرے دکھ کی رمک نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
آپ غلط ہے خضر بلکل غلط ہے آپ نے خود اپنے اوپر زندگی کی خوشیاں حرام کر رکھی ہے اپنے اوپر ایک بےجا سخت کھول چڑھا کر اس کھول کو توڑ دے اور پھر دیکھے زندگی کتنی حسین ہے۔۔۔۔میں آپکو کیوں ٹھکراؤ گی پیار کرتی ہو آپ سے محرم ہے آپ میرے مجازی خدا آپکو ناراض کرتے اپنے رب کو ناراض نہیں کر سکتی میں۔۔۔شجیہ نے محبت سے چوڑ لہجے میں کہا۔۔۔۔
تمہیں میری خامی ۔۔۔خضر نے کچھ کہنا چاہا جب شجیہ نے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رکھتے اُسے چپ کروایا۔۔۔
کبھی آئینے میں دیکھا ہے آپ نے خود کو ۔۔۔شیر جیسی یہ بھوری آنکھیں اور اتنی لمبی گھنی پلکیں کہ هدا بیوٹی کی نکلی پلکوں کو بھی ٹکر دے ۔۔۔یہ کھڑی مغرور سی ناک جس پر ہر وقت ایک غرور اور غصّہ جمع رہتا ہے اور پھر یہ۔ ۔۔۔یہ پتلے پتلے عنابی لب۔۔۔چہرے پر ہلکی سی داڑھی ۔۔۔اُف کیا کمی ہے آخر آپ میں مجھے بتائیں ایک یہ دل بھی جو لگتا سرد و سخت لیکن ہے نہیں۔۔۔شجیہ نے باری باری اُسکی آنکھوں ناک اور لبوں پر انگلی رکھتے کہا ۔۔
اہ۔۔۔شجیہ کہتے کہتے ذرا سا نیچے کو ہوتی گرنے لگی جب خضر نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے مضبوط بازوں میں بھرا تھا۔۔۔
یہ لے کہاں ہے آپ میں خامِی جب آپ اپنی بیوی کو گرنے سے بچا سکتے ہیں اُسکی حفاظت کر سکتے ہیں۔۔ کوئی خامی نہیں ہے ۔۔۔آپ اُن ہزار مردوں سے اچھے ہے جو عورت کو اپنے نام پر چھوڑجاتے ہیں جو عورت پر بیجا ہاتھ اٹھانے کو اپنی مردانگی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے گلے میں اپنی بابیں ڈالتے کہا۔۔خضر کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔۔۔۔
اور تمہیں کیسے اتنا یقین ہے کہ میں تم پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاؤ گا۔۔۔خضر نے پوچھا۔۔۔
یقین ہے مجھے آپ پر۔۔۔آپکی آنکھوں میں میرے لیے غصّہ ضرور نظر آئے گا لیکن حقارت نہیں۔۔۔۔نفرت نہیں۔۔۔اور میں یقین سے کہہ سکتی ہو آپ مجھ پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھائے گے ۔۔۔۔آپکی آنکھوں میں میرے لیے عزت ہے جو میں محسوس کر سکتی ہو۔۔۔شجیہ نے مضبوط پُر یقین لہجے میں کہا۔۔۔
اور خضر شجاعت چوہدری اپنی بیوی کا یہ یقین کبھی نہیں ٹوٹنے دے گا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی ناک پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔
چلے اب جلدی سے بول دے ۔۔شجیہ نے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
کیا۔۔خضر نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
یہی کہ پہلی نظر میں آپ مجھے اپنا یہ دل دے بیٹھے تھے۔۔۔محبت کرتے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔شجیہ نے خضر کے دل پر اپنی انگلی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ میں بتاؤنگا نہیں عملی طور پر کر کے دکھاؤ گا۔۔۔خضر نے بیباکی سے کہا شجیہ کا سفید رنگ فوراً سے سرخ ہوا۔۔۔خضر نے اپنے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھائے۔۔۔۔۔
کامل نے فلک کے کمرے میں اتے دروازہ بند کیا۔۔پلٹتے ہی اُسکی نظر اپنی زندگی پر گئی جو سارے جہاں سے بیگانہ اپنی بھوری آنکھیں بند کئے گہری نیند میں محو تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کامل نے قدم فلک کی طرف بڑھائے بیڈ پر بیٹھتے اُس نے اپنے پاؤں جوتوں کی قید سے آزاد کیے اور آرام سے فلک کے سرہانے بیٹھتے اُس نے احتیاط سے فلک کے ماتھے پر آئے بالوں کو پیچھے کیا۔۔۔
ذرا سا جھکتے اپنے دہکتے لب فلک کی پیشانی پر رکھے ۔۔۔۔۔کیسا جادو تھا اس لمس میں فلک کے لمس کو محسوس کرتے اُسے اپنی ساری تھکن اُترتی محسوس ہوتی تھی۔۔۔۔
دھیرے سے لب سرائیت کرتے اُسکی بند ہوئی آنکھوں پر آئے پلکوں پر ٹھہری نمی نے کامل خان کے لبوں کو ہلکا سا نم کیا۔۔۔۔۔۔
اپنے کامل کو معاف کردو میری جان میری زندگی۔۔۔۔تمہیں اُن نازک مراحل میں یہ سب برداشت کرنا پر رہا ہے۔۔۔پر میرا یقین کرو تم سے زیادہ مجھے یہ ہجر دیمک کی طرح ہلکے ہلکے ختم کر رہا ہے۔۔۔کامل نے فلک کی گردن میں منہ چھپائے گھمبیر آواز میں کہا ۔۔۔۔
دھیرے سے اپنا ہاتھ فلک کی قمیض کے اندر سے اُسکے پیٹ پر رکھا۔۔۔
ہمارا بچا ناجائز نہیں ہے۔۔ اور قسم ہے مجھے اپنی محبت کی میں اُس عورت کا انجام نہایت ہی بُرا کرونگا جس نے ہمارے بچے کو ناجائز کہا ہے۔۔۔۔۔اپنے بابا کو معاف کردو بیٹا جو اُس وقت تمہیں اور تمھاری ماما کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔۔تمہارے بابا اپنے فرض کے آگے مجبور ہے ۔۔۔فلک کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہی کامل خان کی سبز آنکھیں نم ہوئی تھی ۔۔۔ اپنی اولاد سے مخاطب ہوتے ہوئے اُسکے دل میں عجیب سے احساسات رونما ہوئے تھے۔۔۔
فلک کی گردن میں منہ دیے اُس نے گہرا سانس بھرتے اُسکی مہکتی خوشبو اپنے وجود میں اتاری تھی۔۔۔۔۔
مجھ پر غصّہ کرنا مجھے بُرا بھلا بولنا چاہے تو مجھے مار بھی لینا لیکن مجھ سے نفرت مت کرنا تمھاری ان آنکھوں میں نفرت نہیں دیکھ سکتا میں اپنے لیے ۔۔۔کامل نے فلک کی گردن سے منہ نکالتے اُسکی بند آنکھوں کو دھیرے سے اپنی انگلیوں کی پوروں سے چھوا۔۔۔۔
نظر بھٹک کر اُسکی ناک میں موجود بالی پر گئی ۔۔۔۔احتیاط سے اُس نے اپنے لب اُس چمکتی بالی پر رکھے ۔۔۔۔لب سفر کرتے اُسکے گلابی لبوں تک آئے اور کامل خان کی تشنگی میں اضافہ ہوا۔۔۔۔
دھیرے سے جھکتے اُس نے فلک کے گلابی لبو پر اپنا نرم لمس چھوڑا تھا۔۔۔کچھ تھا اس لمس میں ایک سکون سا جو یہ لمس محسوس کرتے ہی اُسکے وجود میں سرور سرایت کر جاتا تھا۔۔۔۔۔۔
پیٹ پر رکھا ہاتھ فلک کے وجود پر بیباکی سے سفر کرنے لگا۔۔۔شدت سے دل کیا اس وجود کو اپنی شدتوں میں بھگونے کا۔۔۔۔۔۔تشنگی تو مٹنی تھی نہیں لیکن فلک اُسکے لمس سے ضرور جاگ جاتی جو وقت کے ساتھ ساتھ شدت پکڑ رہا تھا۔۔۔کامل نے بہت مشکل سے خود پر ضبط کرتے فلک کے لبوں کو آزادی دی تھی لیکن ہاتھ ابھی بھی بیباکی اور حق سے اُسکے وجود کی دلکشی کو محسوس کر رہے تھے۔۔۔۔۔
کامل نے اپنی جیب سے موبائل نکالا۔۔دھیرے سے لب فلک کے لبوں پر رکھتے اُس نے یہ لمحہ کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا تھا۔۔۔
کبھی فلک کے گال پر کبھی اُسکی ناک پر اور کبھی اُسکی گردن پر اپنے لب رکھتے اُس نے یہ لمحے موبائل میں محفوظ کیے ۔۔۔۔
تصویریں لینے کے بعد دھیرے سے جھک کر اُسکے پیٹ پر اپنے لب رکھے۔۔۔اور فلک کی گردن میں منہ دیے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔۔اُسے سکون صرف فلک کے قریب ہونے پر ہی ملتا تھا۔۔۔۔۔بیچین دل کو اب راحت ملی تھی۔۔۔۔اُسکا چین سکون اور قرار صرف ایک وجود کے پاس تھا اور وہ تھی فلک ۔۔۔۔۔
آج جب فلک نے اُسکے بچے کو ناجائز کہا تھا تب کامل خان کو اپنا وجود ٹکڑے ٹکڑے ہوتا محسوس ہوا تھا۔۔۔اس میں غلطی فلک کی نہیں تھی وہ یہ بھی جانتا تھا۔۔۔جبکہ سائرہ کو وہ اب کسی صورت بھی نہیں چھوڑنے والا تھا کیونکہ معاملہ اب ذرا پرسنل ہوگیا تھا۔۔۔۔۔
💗💗💗
خضر نے کمرے میں اتے نہایت نرمی سے شجیہ کو بیڈ پر لٹایا تھا۔۔خضر کی آنکھوں میں قربت کی طلب دیکھتے ۔۔۔شجیہ کے ہاتھ پسینے سے بھرے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اپنی شرٹ اپنے وجود سے علیحدہ کی ۔۔۔
ڈر لگ رہا ہے۔۔۔خضر نے شجیہ پر جھکتے اُسکی نیلی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
نہیں تو ۔۔۔شجیہ نے پلکیں جھکا کر دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔اُسے ڈر تو لگ رہا تھا خضر کی قربت سے۔۔۔۔دل کی دھڑکنیں الگ تال پر دھڑک رہی تھی لیکن خود کو مضبوط بھی تو دیکھانا تھا۔۔۔۔
سوچ لو۔۔۔میری شدت بھری قربت برداشت کر پاؤں گی ۔۔۔خضر نے شجیہ کے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتے گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔اور شجیہ کو لگا اُسکا دل سینے سے نکل کر باہر آجائے گا۔۔۔۔۔۔۔
سوچ لیا۔۔۔شجیہ نے اپنے آپکو مضبوط کرتے کہا۔۔۔
میری جان تمہیں اپنا اعتماد بھروسہ اور محبت سونپ رہا ہو اُمید کرتا ہو ان سب کو سمنبھال کر رکھو گی۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے نرمی سے کہا۔۔۔
آپکی محبت آپکا بھروسہ میں یہ سب سمنبھال کر رکھو گی۔۔۔کبھی بھی کبھی بھی زندگی میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری آپکا اعتبار نہیں توڑے گی بس بدلے میں مجھے اپنے شوہر کی محبت چاہئے ۔۔۔شجیہ نے اپنا ہاتھ خضر کی داڑھی پر رکھتے آنکھوں میں محبت کے دیپ جلانے کہا۔۔۔۔۔
محبت تو دھیرے دھیرے تم سے ہو ہی گئی ہے دن با دن بڑھتی بھی جائے گی۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری کی محبت پر اُسکے دل پر صرف اور صرف شجیہ خضر شجاعت چوہدری کا حق ہے۔۔۔اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ اپنے لب شجیہ کی پیشانی پر ثبت کیے تھے۔۔۔شجیہ کے چہرے کے ہر نقش کو چھوتا وہ شجیہ کی دھڑکنیں بڑھا گیا ۔۔۔۔۔
نظر شجیہ کے ادھ کھلے گلابی لبوں پر گئی تو پوری شدت کے ساتھ وہ اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔۔۔۔
شدت سے شجیہ کی سانسیں پیتے وہ شجیہ کی سانسیں بند کر گیا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی سینڈو کو اپنی مٹھیوں میں جکڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے لبوں کو آزادی بخشی شجیہ کی پلکیں اُسکے عارض پر جھکی ہوئی تھی اُس میں ہمت نہیں تھی خضر کی لو دیتی آنکھوں میں دیکھنے کی۔۔۔
مجھے تو لگتا تھا جس طرح میری بیوی میری آنکھوں میں دیکھتے محبت کا اظہار کرتی ہے میری قربت میں وہ میری شدتوں کا ساتھ دے گی۔۔۔خضر کی بےباک سرگوشی پر شجیہ کا رنگ سرخ کندھاڑی ہوا۔۔۔زبان تو تالو سے چپک گئی تھی۔۔۔۔
مجھے یہ نیلی آنکھیں اپنی قربت میں جھکی نہیں چایئے۔۔۔خضر نے شجیہ کی تھوڑی پکڑ کر اُسکی آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔اور پھر اُسکی گردن میں جھک ایا۔۔۔۔۔نرمی سے اپنے دہکتے لب اُسکی گردن پر رکھتے وہ شجیہ کو اپنی قربت میں پگھلاتا چلا گیا۔۔۔شجیہ کے کندھے سے قمیض نیچے کرتے وہ بخودی میں اپنے لب اُسکی کندھے پر رکھ گیا ۔۔۔شجیہ کے ہاتھ خضر کے سر پر گئے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں پھیرتے وہ اپنی گردن اور کندھے پر اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔خضر کے لمس میں شدت محبت اور جنونیت سب تھا۔۔۔۔۔
خضر کے لب اب حدود کو پار کرتے اُسکے پورے جسم پر سرائیت کر رہے تھے۔۔اور شجیہ کی سانسیں اتھل پٹھل ہورہی تھی۔۔۔۔دھیرے دھیرے وہ اپنے اور شجیہ کے درمیان کی ہر دوری کو مٹاتا چلا گیا۔۔۔۔کمرے کی معنی خیز خاموشی میں دونوں کی بکھرتی سانسوں کا شور گونج رہا تھا۔۔۔۔شجیہ اپنے وجود پر خضر کی شدتیں برداشت کرتے آسودگی سے مسکرا دی۔۔۔اُسے نہیں پتہ تھا اتنی جلدی اُن دونوں کے درمیان سب صحیح ہو جائے گا۔۔۔اُسکا شوہر اُسے اپنی بیوی تسلیم کر لے گا۔۔۔لیکن جو کچھ بھی تھا وہ بہت خوبصورت تھا۔۔۔۔۔۔اس بات سے بےخبر کہ جلد کوئی آکر اُسے اس خوبصورت آشیانے سے دور لے جائے گا۔۔۔۔
💗💗💗💗
فجر کی اذان جب کامل کے کانوں پر پڑی تب وہ نیند سے جاگا اُس وجود کے پاس اُسے انتہا کا سکون محسوس ہوتا تھا اتنی راتوں سے وہ جو جاگ رہا تھا بےچینی سے اج جاکر وہ آرام دھ نیند سویا تھا۔۔۔
اُس نے ایک نظر فلک کو دیکھا جو ویسے ہی لیتی ہوئی تھی۔۔۔۔۔کامل نے دھیرے سے اٹھ کر اُس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے۔۔۔۔ فلک کے پہلو پر رکھا اپنا ہاتھ ہٹاتے اُس نے نہایت آرام سے اُسکی ناک میں پہنی وہ بالی نکالی تھی۔۔۔اُسے اپنی ہٹیلی پر رکھتے وہ گہرا مسکرایا ۔۔۔۔
جانے کا وقت ہوا بیگم لیکن بہت جلد آرام سے تمہیں اپنی باہوں میں جکڑے صبح دیر تک سوؤں گا۔۔۔۔کامل نے فلک کے گال پر اپنے لب رکھے اور اُسکی بالی کو جلدی سے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ڈالا ۔۔۔۔
فلک سے دور جانا مشکل ہوتا تھا اُس کے لئے لیکن جانا بھی ضروری تھا۔۔بس کچھ دِن اور تھے جیسے ہی سائرہ کی طرف سے ہلکا سا بھی کلیو ملتا وہ اُسکی زبان کھینچنے والا تھا اپنے بچے کو نہ جائز بولنے پر۔۔۔
جس طرح خاموشی سے وہ ایا تھا ویسے ہی کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
💗💗💗
خضر اپنے سینے پر سر رکھی شجیہ کو دیکھ رہا تھا اپنی انگلیوں سے اُسکے برہنہ بازو پر لکیر بناتے وہ گہری سوچ میں تھا۔۔صبح اٹھتے ہی شجیہ کو اپنے پاس بکھری حالت میں دیکھتے اپنی قربت میں رنگا دیکھ وہ سرشار ہوا تھا۔۔۔۔
وہ اپنے دل کے بدلتے حالات کی وجہ سے مجبور ہوتے شجیہ کی طرف اپنے قدم بڑھا گیا تھا۔۔۔۔جس طرح اُس نے شجیہ کی آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی تھی وہ اُس پر یقین کر بیٹھا تھا آخر کب تک جھٹلاتا۔۔۔وہ بھی کھل کر اپنی زندگی جینا چاہتا تھا۔۔۔فلک کی بات اور پھر کل شجیہ کہ منہ سے یہ بات سنتے کہ ایک سال بعد وہ الگ ہوکر کسی اور کا گھر بسائے گی اُسکے وجود میں ایک درد سا بھر گیا تھا۔۔۔۔اُسے شجیہ کی عادت ہونے لگی تھی اور محبت ۔۔۔محبت تو خضر شجاعت چوہدری کو شجیہ کی پہلی جھلک دیکھتے ہی ہوگئی تھی۔۔۔جس کو اُس نے سلا دیا تھا۔۔۔۔یہ لڑکی چند دنوں میں ہی اُسکے دل میں اپنا گھر بنا گئی تھی۔۔۔
آخر کیسے وہ اُسکو نظرانداز کر سکتا تھا اُسکی خوشبو اُسکے آس پاس ہونا اُسے تقویت بخشتا تھا۔۔اور خضر شجاعت چوہدری دھیرے دھیرے اس نیلی انکھوں والی لڑکی کا اسیر ہوگیا تھا۔۔جو لہجہ وہ دوسروں کے ساتھ استعمال کرتا تھا ویسا سخت لہجہ شجیہ کے لیے استعمال کرتے اُسے خود بھی نہایت بُرا لگتا تھا اور پھر جب اُس نے سامیہ کو جواب دیتے اسکی زبان بند کروائی تھی وہ بات خضر کے دل میں اُسکی جگہ بنا گئی تھی۔۔۔۔۔
محبت پر یقین وہ رکھتا نہیں تھا اُسے لگتا تھا کوئی بھی لڑکی جو اُسکی زندگی میں شامل ہوگی وہ صرف اُسکے پیسوں اور رتبے کو دیکھ کر ہی ہوگی لیکن شجیہ کی آنکھوں میں کوئی لالچ نہیں تھا۔۔۔وہ تو اُس سے اُسکی محبت چاہتی تھی پیسے نہیں ۔۔۔شجیہ کے لیے اپنے بدلتے جذبات سے وہ بخوبی واقف تھا لیکن اُسے یہ ڈر تھا اگر وہ شجیہ کے سامنے اُن جذبوں کا اظہار کر دے گا تو شاید شجیہ اُسے ٹھکرا دے گی اُسکا مذاق بنائے گی۔۔۔لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا پاس لیتا وجود اُس سے ہر غرض سے پاک محبت کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔
اگر اُسکی بیوی اُس سے محبت کرتی تھی اُس سے اُسکی محبت کی تمنائی تھی تو خضر شجاعت چوہدری پر یہ فرض بنتا تھا کہ وہ اُسے اپنی محبت سے نوازے۔۔۔۔۔
خضر نے جھکتے اُس کے کندھے پر اپنے لب رکھے تھے۔۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کی حرکت پر اپنا چہرہ مزید اُسکے سینے میں چھپایا تھا ۔۔۔
خضر گہرا مسکرایا مطلب وہ جاگ رہی تھی۔۔۔
صبح بخیر۔۔۔خضر نے کروٹ بدلتے شجیہ پر جھکتے کہا جو چہرے پر حسین مسکراہٹ سجائے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔نیلی انکھوں میں رت جگے کی لالی صاف واضح تھی۔۔۔۔
ماما بابا کے جانے کے بعد یہ پہلی صبح ہے جب میں مسکراتے ہوئے اٹھا ہوں ۔۔۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے بال کان کے پیچھے کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اچھا جی اور وہ کیوں۔۔۔شجیہ نے خضر کی کھڑی مغرور ناک کو اپنی انگلیوں سے دباتے ہوئے پوچھا۔۔۔
وہ یوں کہ اج میرے پہلو میں ایک ایسی لڑکی موجود ہے جس کے ہونے سے میرے وجود میں سکون سا بھر گیا ہے جسکی محبت نے میرے دل پر موجود سختی کے لبادے کو توڑ دیا ہے۔۔ خضر نے شجیہ کی گردن پر اپنے دیے گئے نشان پر انگوٹھا پھیرتے کہا۔۔۔۔
اوہ اچھا جی ۔۔۔ایسی بات ہے۔۔لیکن آپ تو اس لڑکی سے محبت نہیں کرتے۔۔۔شجیہ نے خضر کے ماتھے پر آئے بالوں کو اپنے ہاتھ سے صحیح کرتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔
کیا رات کو میرا عملی اظہار کافی نہیں تھا۔۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔
چوہدری صاحب کبھی کبھار لفظی اظہار بھی ضروری ہوتا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی ناک سکورتے ہوئے کہا۔۔۔
تو پھر سنو۔۔مجھے اس نیلی انکھوں والی لڑکی سے محبت ہوگئی ہے شاید تب جب یہ نیلی انکھوں والی لڑکی لال سوٹ میں میرے گھوڑے کے پاس کھڑی اُسے پیار کر رہی تھی۔۔۔خضر نے کہتے اپنا لب دانت تلے دبائے شجیہ کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھا تھا۔۔۔
مطلب تب آپ نے مجھے دیکھا تھا۔۔۔آپ مجھے پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔۔۔شجیہ نے حیرت سے پوچھا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔۔۔
مطلب آپ تب سے مجھ سے محبت کرتے تھے خضر۔۔۔شجیہ کے خوشی سے پوچھنے پر خضر ایک دم سے گڑبڑایا ۔۔۔۔
نہیں۔۔۔مطلب ہاں۔۔۔مطلب جب تمہیں میں نے دیکھا تھا تم اچھی لگی تھی ۔۔۔بہت اچھی لگی تھی ۔۔۔۔اور پھر کئی دنوں تک میں تمہارے بارے میں سوچتا رہا تھا۔۔۔پھر بہت مشکلوں سے تمہارا خیال ذہن سے جھٹکا ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دن بعد تم سامنے تھی۔۔۔۔۔اور پھر دھیرے دھیرے تمہارے سامنے ہونے پر اور ہمارے رشتے کا احساس کرنے پر مجھے بھی ہوگئی محبت تم سے۔۔۔خضر نے پہلی نفی کی لیکن شجیہ کی غصّہ بھری نظر محسوس کرتے اُس نے ساری سچائی اُس کے سامنے کہی ۔۔۔۔
اوہ تو یہ بات ہے۔۔شجیہ نے اپنے ہونٹوں کو گول کرتے کہا۔۔۔
اچھا یہ بتائے مجھے پہلی نظر میں دیکھتے آپ نے میرے بارے میں کیا سوچا تھا۔۔۔۔شجیہ نے چمکتی انکھوں سے سوال کیا۔۔۔۔
یہی کہ کوئی اتنا پیارا بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔خضر نے شجیہ کی چھوٹی سی ناک کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور تم نے۔۔۔خضر نے سوال کیا جبکہ اب نظریں اُسکی گردن سے نیچے تک کا سفر کر رہی تھی جو کنفرٹر کھسکنے سے واضع ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔
بابا کے کھڑوس صاحب جی ۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے چڑانے والے انداز میں کہا۔۔۔
بیگم مجھے لگتا جس حالت میں آپ میرے سامنے ہے اُس حالت میں آپکو مجھ سے پنگا نہیں لینا چاہیئے۔۔۔خضر کے کہنے پر شجیہ نے اُسکی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تھا اور لال ہوتی فوراً سے اپنے اوپر کمفرٹر کھینچا ۔۔۔۔۔
بہت بیشرم ہے آپ۔۔۔شجیہ نے اپنی نظریں جھکائے منمناتے ہوئے کہا۔۔۔خضر اُسکی بات اور حرکت پر ہنس پڑا ۔۔۔۔شجیہ اُسکی ہنسی میں کھو گئی بیشک وہ مسکراتے ہوئے حسین لگتا تھا ۔۔۔۔۔
کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔خضر نے چپ ہوگئے سوال کیا۔۔۔
یہی کہ میرا شوہر ہنستا ہوا کتنا حسین لگتا ہے ۔۔شجیہ نے خضر کے دونوں گال کھینچتے ہوئے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔
آپ بدلہ تو لونگا میں بیگم۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے دونوں گالوں پر شدت سے اپنے لب رکھے۔۔۔۔شجیہ نے مسکراتے اپنی آنکھیں بند کی ۔۔۔۔
جاؤ فریش ہوجائو ۔۔۔۔پھر ہم آج شاپنگ پر بھی چلے گے۔۔۔خضر نے شجیہ کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے ہوئے کہا۔۔۔
پہلے اپنی آنکھیں بند کریں اور سامنے دیوار کو دیکھے ۔۔خبردار جو میری طرف دیکھا تو۔۔۔شجئہ کے کہنے پر خضر نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی وہ سمجھ گیا تھا وہ کیوں ایسا بول رہی ہے۔۔۔ خضر نے اثبات میں سر ہلاتے اپنا رخ بدلہ۔۔۔
شجیہ جلدی سے کمفرٹر اپنے اوپر لیپٹے واشروم کی طرف بھاگی تھی۔۔۔اور پیچھے خضر اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا مسکرا گیا تھا۔۔اُسے اب زندگی کے اصل معنی سمجھ آرہے تھے۔۔۔۔
یہ اُسکی ز ندگی کا سب سے خوبصورت دن تھا ۔۔۔۔
💗💗💗
فلک جب اُٹھی تو اپنے آپ کو اپنے بیڈ پر پایا کل کمرے میں اتے ہی وہ انتہا کا روتے ہوئے کب ہوش و خرد سے بے گانہ ہوئی اُسے نہیں پتہ تھا۔۔۔اور اب جاکر اُسکی آنکھ کھلی تھی۔۔۔۔
اپنے وجود پر کسی کا حصار سا محسوس ہوا کمرے میں ایک الگ سی خوشبو بھی پھیلی ہوئی تھی ۔۔اپنا سر جھٹک کر اپنے بال سمیٹے تھے اُسکے ساتھ جو کچھ ہوچکا تھا وہ بہت تکلیف دہ تھا لیکن اب اُسے مضبوط بننا تھا اپنے بچے کے لئے۔۔۔۔
اپنے قدم بڑھاتی وہ آئینے کے سامنے ائی تھی۔۔۔۔اپنے چہرے کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی اُسکی نوز رنگ غائب تھی۔۔۔۔۔۔
لگتا ہے کل کہیں گر گئی ہوگی۔۔۔فلک نے خود سے کہا۔۔اور الماری کی طرف بڑھی۔۔۔وہ اپنے آپکو مضبوط کر چکی تھی اپنی زندگی ایک نئے طریقے سے شروع کرنا چاہتی تھی۔۔۔۔
فلک نے نیلے رنگ کا شینیل کا سوٹ نکالا ۔۔یہ کمرہ اسکا تھا جہاں انے سے پہلے ہی خضر نے اُسکا سارا سامان رکھوا دیا تھا۔۔۔۔۔۔اور فریش ہونے واشروم میں چلی گئی ۔۔۔کچھ دیر بعد وہ باہر نکلی نیلا رنگ اُسکی سفید رنگت پر حد سے زیادہ جج رہا تھا۔۔۔۔
اپنے بھورے بالوں کو سکھاتے اُنہیں اپنی پشت پر کھلا چھوڑا تھا۔۔۔۔ہونٹوں پر ڈارک پنک رنگ لپسٹک لگائے دراز سے دوسری نوز رنگ نکالے پہنتے کانوں میں چھوٹے سے جھمکے ڈالے ۔۔۔اپنی بھوری آنکھوں میں کاجل کی لکیر کھینچے وہ تیار تھی۔۔۔۔ایک نظر آئینے میں خود کو دیکھتے گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔یہ سب آسان تو نہ تھا ۔۔۔۔اُس شخص کو بھول جانا اُسکی باتوں کو بھول جانا لیکن یہی اُسکے لیے اور اُسکے بچے کے لیے بہتر تھا۔۔۔
اپنا دوپٹہ کندھے پر پھیلاتی وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔
لاؤنچ میں اتے ہی اُسکی نظر خضر پر پڑی جو سفید رنگ کے ٹو پیس میں اپنی شاندار شخصیت کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔شجیہ کو دیکھتے اُسکے ہونٹوں کو مسکراہٹ نے چھوا تھا جو پنک رنگ کے سوٹ میں دوپٹہ سر پر لیے بھیگے بالوں کو پشت پر چھوڑے۔۔۔شرمائیں لجھائی سی کچن سے باہر نکلی تھی۔۔۔چہرہ بنا میکپ کے پاک جس پر خضر کی قربت کے رنگ صاف نظر آتے اُسے حسین سے حسین تر بنا گئے تھے ۔۔۔اُسکی نہیں کم سے کم اُسکے دوست کی زندگی تو سدھڑی ۔۔۔فلک نے اللہ کا شکر ادا کیا
اسلام علیکم ۔۔۔فلک نے ٹیبل پر اتے کرسی پیچھے کرتے سلام کیا ۔۔
شجیہ جو خضر کے کپ میں چائے ڈال رہی تھی نظر اٹھا کر فلک کو دیکھا اور دل ہی دل میں اُسکی نظر اتاری وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے جواب دیا اور اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
خضر مجھے تم سے بات کرنی ہے۔۔فلک نے بیٹھتے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔شجیہ بھی خضر کی برابر والی کرسی پر بیٹھتے فلک کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
بولو۔۔خضر نے ایک نظر شجیہ کو دیکھتے کہا۔۔۔
مجھے جوب کرنی ہے۔۔۔میں گھر پر بیٹھے بور ہو جاؤ گی۔۔۔فلک کی بات پر خضر کا منہ کو جاتا ہاتھ تھما۔۔۔
پر تمھاری طبیعت۔۔۔خضر نے اُسے اُسکی حالت کے بارے میں اندازہ کروانا چاہا۔۔۔
پلیز خضر اگر گھر پر رہی تو محتلف قسم کی سوچوں کو سر پر سوار کرتے اندر ہی اندر ختم ہوجاؤ گی۔۔۔۔فلک نے متلجی لہجے میں کہا۔۔۔
ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہو۔۔۔۔خضر نے اُسکی حالت کے پیشِ نظر نرمی سے جواب دیا۔۔۔یہ بات کامل کو بتانا بہت ضروری تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے پر میں اج کہیں باہر جانا چاہتی ہو شجیہ کے ساتھ۔۔۔فلک کے کہنے پر خضر نے شجیہ کو دیکھا جو مسکرا رہی تھی۔۔۔۔
ٹھیک ہے مجھے کچھ بہت ضروری کام ہے میں اتا ہو پھر چلتے ہے۔۔۔خضر نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے کہا۔۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔خضر کو کھڑا ہوتے دیکھ شجیہ بھی اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی جب خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر واپس بٹھایا۔۔۔اور جھکتے عقیدت سے اپنے لب شجیہ کے ماتھے پر رکھے۔۔۔
آرام سے بیٹھ کر ناشتہ کرو۔۔۔میں جلدی اجائونگا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے نرمی سے کہا۔۔۔شجیہ فلک کے سامنے اُسکی حرکت پر اپنا سرخ ہوتا چہرہ جھکا گئی۔۔۔۔
اوئے ہوئے۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ کا جھکا سر مزید جھکا۔۔جبکہ خضر نے فلک کو گھور کر دیکھا تھا۔۔۔۔
اور پھر ایک نظر شجیہ پر ڈالتے وہ نکلتا چلا گیا۔۔۔
میں بہت خوش ہو میری جان تمہارے لیے آخر تمھاری محنت رنگ لے ہی ائی۔۔۔فلک نے شجیہ کا ہاتھ تھامتے ہوئے محبت سے کہا۔۔۔
مجھے نہیں پتہ تھا فلک اللہ اتنی جلدی میری سن لے گا خضر کا دل میری طرف مائل کر دے گا۔۔۔شجیہ نے فلک کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
میری جان اللہ سب کی سن لیتا ہے کچھ کی دعائیں وہ جلدی پوری کر دیتا ہے تو کچھ کی صحیح وقت انے پر۔۔۔فلک کی بات پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
تمہیں بھی اپنا بہت سارا خیال رکھنا چاہئے۔۔۔یہ چھوڑو میں تمہارے لیے فریش فروٹ لاتی ہو۔۔۔شجیہ کے کہنے پر فلک نے اثبات میں سر ہلایا تھا تھوڑی دیر بعد ہی شجیہ اُسکے لیے فریش پھل لے ائی تھی۔۔۔اور پھر شجیہ اُسے اپنی باتوں میں مصروف کر گئی۔۔کامل کے بارے میں اُس نے کوئی بات بھی فلک سے کرنا بہتر نہیں سمجھی تھی اگر فلک سب کچھ بھول کر خود کے لئے جینے لگی تھی تو یہ بہتر تھا۔۔۔۔۔
گھر میں۔تمام۔ملازمین صفائی میں لگی اپنی نئی مالکن کو خوشی سے دیکھ رہے تھے جن کے انے سے اُنکے سنجیدہ سے صاحب جی مسکرائے تھے۔۔۔۔اج بھی ناشتہ اُس نے خود بنایا تھا ۔۔۔۔
💗💗💗
شجیہ آصف خان۔۔۔۔عنابی لبوں نے بڑی دلکشی سے یہ لفظ ادا کیے ۔۔۔۔
جی اور انکا پیچھا کرتے ڈیفنس کے ایک گھر میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔۔۔منیجر کے کہنے پر اُس نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
ٹیبل پر پڑی شجیہ کی تصویر اٹھاتے اُس نے اپنی پتھر جیسی کالی آنکھوں سے تکا تھا۔۔ہونٹوں پر مسکراہٹ جمی ہوئی تھی اور منیجر اپنے بوس کی یہ مسکراہٹ دیکھتے سخت پریشان تھا کیونکہ یہ مسکراہٹ صرف اُسکے لبوں پر تب ہی نمودار ہوتی تھی جب وہ اپنے ہاتھوں سے کسی کی جان لیتا تھا ۔۔
سر کیا ۔۔کیا کرنا ہے۔۔انکا۔۔۔منیجر کے پوچھنے پر اُس نے اپنی سرد نظریں اُسکی طرف مرکوز کی تھی۔۔۔۔
لیو کو لاؤ ۔۔۔۔منیجر کو اپنی نیلی انکھوں والی سفید بلی کو لانے کا حکم دیا۔۔۔کچھ ہی دیر میں لیو اُسکے سامنے تھا۔۔۔
لیو کی چین اُتار کر اُس میں ایک منی کیمرا فٹ کرتے اُس نے واپس اُسے اُسکے گلے میں ڈالا تھا۔۔۔
اور ایک نوٹ اٹھا کر اپنے ہاتھ سے اُس پر کچھ لکھا۔۔۔
یہ دونوں اُس تک پہنچ جانا چایئے۔۔اج شام سے پہلے پہلے۔۔۔۔سرد آواز میں کہتا وہ واپس اپنی نظریں شجیہ کی تصویر پر مرکوز کر گیا تھا۔۔۔اور منیجر اثبات میں سر ہلاتا لیو کو لیے کمرے سے باہر نکلا ۔۔۔
اُسے انتہاء کی حیرت ہو رہی تھی کہاں اُس نے اس بلی کے لیے ایک معصوم سے انسان کی جان تک لے لی تھی اور کہاں اب وہ یہی بلی کسی انجان لڑکی کو بھیج رہا تھا۔۔۔لیکن منیجر شجیہ کی اہمیت کا اندازہ لگا چکا تھا کیونکہ آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔۔۔اگر جو وہ سوچ رہا تھا وہ سچ تھا تو اُسے شجیہ پر رحم آرہا تھا کیونکہ لیپرڈ کو جب کوئی چیز پسند آجاتی ہے وہ اُسے کسی بھی حال میں حاصل کر لیٹا تھا۔۔چاہے اُسکے لیے کسی کی جان بھی کیوں نہ لینی پڑے ۔۔۔
اُسکی حالت دیکھی ہے ایسے میں وہ جوب کرے گی بلکل نہیں۔۔۔کامل نے خضر کی بات سنتے ہی نفی میں سر ہلایا۔۔۔ویسے ہی فلک کی طبیعت صحیح نہیں رہتی تھی ۔۔۔۔
اگر وہ گھر پر رہی تو فضول سوچوں کو سر پر سوار کرتے اپنی حالت اور خراب کر لے گی۔۔۔۔خضر نے سخت نظروں سے کامل کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔وہ کامل کے فلیٹ پر ایا تھا جس کا صرف کامل اور اُسے ہی پتہ تھا۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے پھر وہ جوب کرے لیکن میری کمپنی میں ۔۔۔کامل نے حتمی فیصلہ سنایا۔۔۔
پاگل ہے تو وہ تُجھے پہچان نہیں جائے گی۔۔۔خضر نے اُسے عقل دلائی۔۔۔
وہ خان گروپ آف کمپنی میں کام کرے گی ۔۔۔۔تو کیسے پہنچانے گی جب اُسکے سامنے کامل خان اپنی اصل شناخت میں آئے گا۔۔۔کامل نے اپنی آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔
خطرہ خودی اپنے سر رکھ رہا ہے۔۔خیر میں جا رہا ہو۔۔۔خضر نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
کہاں۔۔۔کامل نے آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
شاپنگ پر لے کر جانا ہے اپنی بیگم کو۔۔۔خضر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
سالے کمینے میں وہی بولوں تیرے چہرے پر یہ مسکراہٹ اور خوشی کیوں ہے۔۔۔خوش رھے یار تو۔۔۔کامل نے خضر کو گلے لگاتے خوشی سے کہا۔۔خضر مسکرا گیا۔۔۔۔
چل اب جا۔۔۔کامل کے کہنے پر خضر اثبات میں سر ہلاتا باہر نکلتا چلا گیا۔۔پیچھے کامل سائرہ کے پاس جانے کے لیے تیار ہونے چلا گیا۔۔۔
💗💗💗💗
میم یہ آپکے لیے ایا ہے۔۔۔۔ملازمہ نے ایک نیلے رنگ کی باسکٹ شجیہ کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔۔جو فلک کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔
میرے لیے۔۔شجیہ نے اچھنبے سے باسکٹ تھامتے ہوئے پوچھا۔۔
دیکھو تو صحیح ہو سکتا ہے خضر نے بھیجا ہوگا۔۔۔۔فلک کے کہنے پر شجیہ نے باسکٹ کھولی ۔۔۔۔۔۔
اوہ یہ کتنی پیاری ہے۔۔۔۔شجیہ نے نیلی آنکھوں والی سفید بلی کو باہر نکالتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔۔
واقعی میں یہ بہت پیاری ہے۔۔فلک نے بھی بلی کے سر پر پیار کرتے ہوئے کہا۔۔۔شجیہ حسین مسکراہٹ کے ساتھ بلی کے سر پر ہاتھ پھر رہی تھی۔۔۔۔اور کہیں دور اندھیرے کمرے میں بیٹھا وہ وجود ہاتھ میں حرام مشروب کا گلاس پکڑے دیوانگی سے ایل ای ڈی میں نظر اتے شجیہ کے حسین چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔
شجیہ کی نظر اُس لیٹر پر پڑی اُس نے جلدی سے وہ اٹھایا۔۔۔جبکہ خضر کا سوچتے وہ لال گلابی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
نیلی آنکھوں والی لڑکی کے لیے ادنا سے تحفہ۔۔۔۔اُمید کرتا ہوں پسند آئے گا ۔۔۔۔شجیہ نے ایک حسین مسکراہٹ کے ساتھ یہ نوٹ پڑھا تھا۔۔۔۔
باہر گاڑی رکنے کی آواز پر وہ سمجھ گئی کہ خضر ایا ہے اور پھر کچھ ہی پلو بعد خضر اندر اتا دکھائی دیا۔۔۔
شجیہ کے ہاتھ میں سفید بلی کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کے پاس اتے محبت سے اُسکی پیشانی چومی۔۔۔شجیہ اپنی نظریں جھکا گئی۔۔۔
میں اتی ہوں اپنا بیگ لے کر۔۔فلک اُن دونوں کو اکیلا چھوڑتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ ۔۔خضر یہ بہت پیاری ہے۔۔۔شجیہ نے خوشی سے بھرپور مسکراہٹ لیے خضر کی طرف دیکھتے کہا جس کی آنکھوں میں الجھن اُبھری تھی۔۔۔۔
اُس نے تو یہ بلی نہیں بھیجی تھی پھر کس نے بھیجی تھی۔۔۔
تم جاؤ چادر لے آو۔۔۔خضر کے کہنے پر شجیہ نے جلدی سے بلی کو نیچے اُتارا تھا اور اثبات میں سر ہلاتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔
خضر نے جھکتے تنی آبرو سے اس بلی کو دیکھا تھا۔۔۔نظر اُس بلی کے گلے میں موجود چین پر پڑی۔۔خضر نے ہاتھ آگے بڑھاتے وہ چین اپنے ہاتھ سے چھوئی۔۔۔
نظر پاس رکھے نوٹ پر گئی ۔۔۔جس پر لکھی تحریر پڑھتے خضر کا سنجیدہ چہرہ پل بھر میں سخت ہوا۔۔۔۔بھوری آنکھیں پل بھر میں لال ہوئی ۔۔۔آخر کون تھا یہ جس نے شجیہ کو یہ گفٹ بھیجا تھا۔۔۔نوٹ پر لکھی تحریر سے وہ یہ تو سمجھ گیا تھا کہ جو کوئی بھی ہے وہ لڑکا ہے۔۔۔اور یہی بات خضر کے خون میں اُبال پیدا کر گئی تھی۔۔۔
خضر نے نوٹ اپنے ہاتھ میں بھینچا تھا ایک نظر اس معصوم سی بلی کو دیکھا ۔۔۔۔اب وہ اس بلی کو شجیہ کے آس پاس بلکل بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔
اپنے خاص ملازم کو آواز دیتے اُس نے جلدی سے اس بلی کو یہاں سے دور کسی کیٹ ہاؤس میں بھیجنے کو کہا تھا لیکن جاتے جاتے وہ بلی کی گردن سے وہ چین نکالنا نہیں بھولا تھا۔۔۔وہ ائی ایس ائی میں ہیکر ایسے ہی نہیں بن گیا تھا وہ اس چین کو دیکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ اس میں کیمرا فٹ ہے تبھی اُس نے شجیہ کو اندر جانے کا کہا ۔۔۔
خضر نے اپنے پاؤں کے نیچے چین رکھتے اُس چین کے بچوں بیچ موجود پرنٹڈ شیشے کو کچلا تھا۔۔۔۔
ملازم سے صفائی کا کہتے اُس نے فوراً سے کامل کو فون ملایا تھا۔۔۔
خضر کہاں گئی وہ بلی۔۔۔شجیہ نے لاؤنچ میں اتے اِدھر اُدھر دیکھتے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں میں فون پر مصروف تھا میرے خیال سے کہیں باہر چلی گئی ہوگئی۔۔۔خضر نے کندھے اُچکاتے انجان بنتے کہا۔۔۔
ایسے کیسے کہیں جا سکتی ہے کتنی پیاری تھی وہ رکے میں باہر دیکھ کر اتی ہو۔۔۔شجیہ فکرمندی سے کہتے باہر جانے لگی جب خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔شجیہ خضر کے سینے سے ٹکرائیں۔۔۔
بیگم وہ نہیں ہے پتہ نہیں کب باہر نکلی ہوگی اور ہوسکتا ہے اب وہ بہت دور چلی گئی ہو۔ ۔خضر نے شجیہ کے سر سے ڈھلکتی چادر کو صحیح کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
پر خضر وہ بہت پیاری تھی اور آپ نے مجھے گفٹ کی تھی اور میں آپکے پہلے گفٹ کی حفاظت تک نہ کر پائیں۔۔۔شجیہ نے خضر کے کورٹ کے بٹن سے کھیلتے ہوئے اُداس لہجے میں کہا۔۔۔۔
میری جان کوئی بات نہیں ہم ابھی ایک نئی بلی لے لیں گے ٹھیک ہے۔۔۔۔۔اور پھر تم اُسکی اچھی طرح حفاظت کرنا اور خیال رکھنا۔۔۔خضر نے شجیہ کا چہرہ تھوڑی سے تھامتے ہوئے کہا۔۔۔
اگر آپ دونوں کا رومانس ختم ہوگیا ہے تو شاپنگ پر چلے۔۔۔۔فلک نے شوخ لہجے میں اُن دونوں کی طرف دیکھتے کہا۔۔شجیہ فوراً سے پیچھے ہٹی۔۔۔۔۔
خضر نے پورے حق کے ساتھ شجیہ کا ہاتھ پکڑ کر قدم باہر بڑھائے تھے ۔ فلک بھی اُن دونوں کو دیکھتی آگے بڑھی تھی ۔۔۔۔
💗💗💗💗
یہ کیا ہے۔۔۔خضر نے ایک لوکل بازار کے باہر گاڑی روکتے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
یہ بازار ہے۔۔۔شجیہ نے معصومیت سے کہا۔۔۔
لیکن یہاں کتنی بھیڑ ہے ہم اچھا خاصا مال میں چلتے ۔۔۔خضر نے اس پاس لوگوں کی بھیڑ دیکھتے کہا۔۔۔شجیہ کا خوشی سے دمکتا چہرہ فوراً سے اُداسی میں ڈھلا تھا۔۔اور خضر کو اُس کے چہرے پر دکھتی یہ اُداسی انتہائی بری لگی ۔۔۔
نہیں بہت مزا آئے گا شجیہ چلو ۔۔فلک نے خوشی سے کہتے اپنی طرف کا دروازہ کھولا۔۔۔
آپ اپنے ان گارڈز کو اور گاڑی کو کہیں اور چھوڑ کر آئے دیکھے کیسے سب عجیب نظروں سے ہمیں دیکھ رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے اپنی گاڑی سے پیچھے کھڑی گارڈز کی گاڑی کو دیکھتے کہا۔۔۔۔اور گاڑی سے باہر نکلی۔۔۔
جبکہ خضر نے گاڑی آگے بڑھائیں۔۔۔کافی مشکل سے اُسے ایک جگہ ملی تھی پارکنگ کے لیے گاڑی سے باہر نکلتے ہی اُس نے اس بازار کو دیکھا تھا جو ایک بہت بڑے گراؤنڈ میں لگا ہوا تھا۔۔۔جبکہ لوگوں کے چلنے سے جو دھول اٹھ رہی تھی۔۔۔وہ الگ ۔۔خضر نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ماسک نکال کر پہنا تھا۔۔۔اپنا دمیج ہاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے وہ شجیہ اور فلک کی طرف بڑھا تھا جو کچھ دور ہی ساتھ کھڑی تھی۔۔۔
خضر کے انے پر وہ دونوں جلدی سے بازار میں داخل ہوئی۔۔۔۔۔
اور اندر داخل ہوتے ہی اُسے لگا تھا جیسے بھگدڑ مچ گئی ہو۔۔۔اُدھر اُدھر دائیں بائیں عورتیں ہی عورتیں۔۔اُن کے بیچ بیچ میں چلتے مرد حضرات ۔۔۔جن کو کچھ لینا نہ بھی ہو تب بھی وہ ایسے بازاروں میں گھس جاتے ہیں۔۔۔۔
خضر احتیاط سے چلتا اُن دونوں کے پیچھے ایا تھا جو اُس کو اکیلا چھوڑتے اپنی ہی دنیا میں مگن تھے۔۔۔۔۔۔
شجیہ ۔۔۔خضر نے شجیہ کے قریب جاتے کہتے اُس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔۔۔۔
خضر ہاتھ چھوڑ دے یہاں عجیب لگ رہا ہے۔۔۔شجیہ نے ہلکی آواز میں آگے چلتے ہوئے کہا۔۔۔
جبکہ خضر نے اُسکے ہاتھ پر گرفت مضبوط کی۔۔۔۔۔
کہ یکدم ایک بڑھی عمر کی عورت خضر کے کندھے سے ٹکرائی ۔۔۔
ائی لڑکے تمیز سے چلو جان بوجھ کر کیوں ٹکڑا رہے ہو۔۔۔انٹی نے اپنے لال لپسٹک لگے ہونٹوں سے یہ الفاظ ادا کیے اور خضر کو لگا کسی نے اسکو کھائی سے نیچے پھینک دیا ہو ۔۔۔جھوٹا الزام اور وہ بھی منہ پر۔۔۔توبہ توبہ۔۔۔
میں نہیں ٹکرایا آپ سے انٹی آپ ٹکرائی ہے۔۔خضر نے اپنی سنجیدہ آواز میں کہا ۔۔۔۔
ہائے اللہ انٹی کس کو بولا کم سے کم تم سے عمر میں دو سال چھوٹی ہی ہونگی میں۔۔۔اور ایک تو چوری اُس پر سے سینا زوری۔۔۔خاتون کی بات پر خضر نے ایک نظر انکو دیکھا پیٹ انکا باہر تھا ہاتھ اور پاؤں بھی کافی موٹے موٹے تھے چہرے پر جھریوں کے نشان بھی تھے جن کو فاؤنڈیشن کی گہری تہہ سے چھپانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔اور پھر بھی وہ خضر کو اپنی عمر سے بڑا کہہ رہی تھی۔۔۔۔خضر کو اب اپنی عمر پر شک ہورہا تھا۔۔۔۔سامنے کھڑی عورت اُس سے عمر میں کافی بڑی تھی۔۔۔۔
فلک اور شجیہ سائیڈ پر کھڑی اپنی ہنسی ضبط کر رہے تھے۔۔۔۔۔
سوری انٹی۔۔۔انکی طرف سے میں معذرت کرتی ہو۔۔۔شجیہ نے آگے بڑھ کر نرمی سے کہا اور خضر کا ہاتھ تھامے اُسے لیے آگے بڑھ گئی۔۔۔فلک نوز رنگ کا سٹول دیکھتے وہاں چلی گئی تھی۔۔۔
اور خضر اپنا سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔۔
اؤ گڑیا۔۔۔دیکھو سیل لگی ہے اؤ پیاری۔۔۔۔۔ایک سٹال پر سے اتی آواز پر خضر نے غصے بھری نظروں سے وہاں موجود آدمی کو دیکھا تھا جو گٹکا کھاتے شجیہ کو دیکھ کر کہہ رہا تھا۔ لیکن خضر کی غصے بھری نظریں محسوس کرتے وہ سیدھا ہوا۔۔۔۔ اور شجیہ اُسے نظرانداز کرتی وہاں موجود چپلوں کو دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کا ہاتھ پکڑا اور اُسے اس سٹال سے اگے لے گیا۔۔۔
خضر کیا کر رہے ہیں کتنی پیاری چپلیں تھی وہاں پر۔۔شجیہ نے خضر سے کہا۔۔۔
پیاری تھی اور وہ جو تمہیں دیکھ کر گڑیا اور پیاری بول رہا تھا میرا دل چاہ رہا تھا اُسکا وہی گنڈا سا لال منہ توڑ دو۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ نے اپنی مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔۔
یہاں سب ایسے ہی بولتے ہیں ۔۔۔وہ دیکھے۔۔ہر جگہ جہاں سے خواتین گزر رہی ہیں وہ سب کو یہی بول رہے ہیں۔۔۔شجیہ کی بات پر خضر نے اطراف میں نظر گھمائیں تھی اور شجیہ کی بات سچ ہی تھی۔۔۔۔
شجیہ اُسے لیے ایک سٹال پر ائی جب فلک بھی اپنی نوز رنگ لیتی وہاں ائی تھی اور پھر شجیہ اور فلک نے وہاں سے اپنے اپنے لیے سوٹ خریدے۔۔۔۔جبکہ خضر تو چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ چلو وہ کھاتے ہے۔۔۔فلک کے کہنے پر وہ دونوں ایک چاٹ شاپ کی طرف بڑھی خضر نے کپڑوں کی تھیلی اپنے ہاتھ میں تھامی۔۔۔عورتوں سے بچتا بچاتا وہ اُن دونوں تک پہنچا تھا۔۔۔۔
یہاں اُس نے ایک بات نوٹ کی تھی اگر عورتوں کو ذرا سا دھکا لگ جائے تو اُن کے اندر کٹپا کی روح آجاتی ہے۔۔۔اور یہاں پر ماہا یود بھی چھر سکتی ہے ۔۔۔
خضر اور وہ دونوں ایک ٹیبل پر بیٹھے تھے شجیہ اور فلک تو چات مانگا کر اُسے کھانے میں مگن تھی اور خضر نے حیرت سے اپنی آبرو اُچکائی تھی اُن دونوں کی پلیٹ دیکھتے جس میں اُسے حد سے زیادہ مرچیں نظر آرہی تھی۔۔۔۔۔
وہ یہاں کبھی بھی نہ اتا لیکن اپنی بیوی کی خوشی کے لیے وہ یہاں ایا تھا ۔۔شجیہ کے چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ رقصا تھی جس کے لیے اب خضر شجاعت چوہدری کچھ بھی کر سکتا تھا۔۔۔۔
خضر نے دوبارہ بازار کی طرف دیکھا جب اُسکی نظر ایک منظر پر تک گئی جہاں دو لڑکے آگے چلتی لڑکیوں کا کبھی دوپٹہ کھینچتے تو کبھی اُنکے کندھے پر ہاتھ مارتے اور وہ لڑکیاں جب پلٹ کر دیکھتی تو وہ انجان بن جاتے ۔۔۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے تھے۔۔۔۔
ایک نظر اُن دونوں کو دیکھا جو سکون سے بیٹھی کھا رہی تھی۔۔۔
میں ابھی ایا۔۔۔خضر کہتا فوراً سے وہاں سے اٹھا تھا۔۔۔۔
اُن لڑکوں کے پیچھے جاتے اُن کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
ذرا اُدھر انا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔خضر نے آرام سے سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
اسکی بات سنتے وہ دونوں لڑکے نہ سمجھی سے اُسکے ساتھ ائے ۔۔۔خضر ایک سٹال کی بیک سائڈ پر رکا۔۔۔پیچھے پلٹ کر دیکھا تو وہ دونوں لڑکے بھی اگئے تھے۔۔۔
بازار کیا لینے آئے تھے۔۔خضر کی بات پر اُن دونوں لڑکوں نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا خضر کو اکیلا دیکھ کر اور اُسکے دمیج ہاتھ کو دیکھتے وہ اُس کو لوٹنے کا فل پلین بنا چکے تھے۔۔۔۔
ابے سالے چپ چاپ نکال جو بھی ہے تیرے پاس۔۔۔ایک لڑکے نے اپنی جیب سے چاقو نکالتے خضر سے کہا۔۔۔
پہلے میری بات کا جواب دو پھر میں سب دے دیتا ہوں تمہیں۔۔خضر نے اطمینان سے کہا۔۔۔
لڑکیاں دیکھنے اے تھے تھوڑی چھیڑ چھاڑ بھی ہوجاتی ہے اور مست۔۔۔ابھی اُس لڑکے نے اپنا جملہ بھی پورا نہیں کیا تھا جب خضر کا مضبوط ہاتھ کا مکّہ اُسکے منہ پر پڑا وہ نیچے زمین پر گرا۔۔۔۔
دوسرے لڑکے نے اپنے ساتھی کو زمین پر گرتا دیکھ چاقو سے خضر پر وار کرنا چاہا جب خضر نے اپنے ہاتھ سے اُسکا وار روکتے اُسکے سر پر انتہائی زور سے اپنا سر مارا ۔۔۔
وہ دونوں لڑکے اتنی زیادہ عمر کے نہیں تھی اور نہ ہی انہیں کوئی تجربہ تھا اسی لیے زمین پر لیتے درد سے تڑپ اٹھے۔۔۔خضر نے فوراً سے اپنے گارڈز کو فون کیا اور یہاں انے کا حکم دیا۔۔۔
عورت عزت اور محبت کرنے کے لیے بنائی گئی ہے چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے نہیں اج کسی کی بہن پر اپنی گندی نظریں اور ہاتھ اٹھاؤ گے کل کو تمھاری بہن کو کوئی تم جیسا ہی گندی نظروں سے دیکھے گا۔۔۔احتیاط کرو۔۔۔خضر نے لڑکے کا گال تھپتھپاتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔۔۔اور اپنے گارڈ کو اُن دونوں کو پولیس کے حوالے کرنے کا کہتے وہ شجیہ اور فلک کی طرف بڑھا تھا لیکن وہ دونوں یہاں تھی ہی نہیں۔۔۔۔
خضر نے فکرمندی سے اُنہیں اُدھر اُدھر دیکھا۔۔۔
یہاں پر دو لڑکیاں بیٹھی تھی کہاں گئی ہے وہ۔۔۔خضر نے دوکاندار سے پوچھا جو خضر کی براؤن سرد آنکھیں دیکھتے گھبرا گیا تھا۔۔۔۔
وہ اُس طرف گئی ہے۔۔۔دوکاندار کے اشارہ کرنے پر خضر نے جلدی سے اپنے قدم اُس طرف بڑھائے تھے جبکہ نظریں اضطرابی سے چاروں طرف اُن دونوں کو تلاش رہی تھی جب وہ سامنے نظر ائی۔۔۔۔چوریاں پہنتے ہوئے۔۔۔۔
خضر نے سکون بھرا سانس بھرا ۔۔۔۔۔
چلے۔۔خضر نے اُن دونوں کے پاس اتے ہوئے کہاں۔۔۔۔۔۔
بس خضر میں یہ چوریاں پہن لو۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ اپنا ہاتھ چوڑی والی کی طرف بڑھایا جب خضر نے اُسکا ہاتھ تھاما اور احتیاط سے شجیہ کی پسند کردہ لال چوڑیاں اُسکے ہاتھ میں پہنائی۔۔بھرے بازار میں اُسکی بیباکی پر شجیہ کا رنگ سرخ اناری ہوا تھا۔۔جبکہ فلک اپنی مسکراہٹ ضبط کرتی رہ گئی ۔۔۔اچانک سے آنکھوں کے سامنے کامل کا چہرہ لہرایا ۔۔۔پورے جسم میں اذیت سی گزرتی محسوس ہوئی ۔۔کاش وہ دونوں بھی ساتھ ہوتے اور اس طرح وہ بھی فلک سے اپنی محبت کا اظہار چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کرتا۔۔۔۔سر جھٹک کر اپنے دماغ سے یہ خیال جھٹکا۔۔۔۔
خضر نے پیمنٹ کرتے شجیہ کا ہاتھ تھاما تھا اور باہر نکلتا چلا گیا پیچھے چوڑی والی ہنستی رہ گئی۔۔۔۔۔
خضر نے گاڑی میں اتے اپنے منہ سے ماسک اُتارا تھا اُسکا پورا منہ پسینے سے بھر گیا تھا۔۔۔۔۔شجیہ نے فوراً سے اپنے دوپٹے سے اُسکے چہرے سے پسینہ صاف کیا ۔۔۔۔اُسے تھوڑی سی شرمندگی ہوئی کہاں وہ محلوں میں رہنے والا آدمی اور کہاں اب وہ اسکی خاطر ایک چھوٹے سے بازار میں گرمی میں اُسکے ساتھ گھوم رہا تھا۔۔۔
خضر ائی ایم سوری اور اینڈ تھنکیو۔۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے کہا فلک تو اپنے موبائل میں مصروف تھی۔۔۔۔گاڑی سٹارٹ کرتے خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔
اور یہ دونوں کس لیے۔۔۔خضر نے پوچھا۔۔۔
سوری اس لیے کہ میری خوشی کی خاطر آپکو اُس چھوٹے سے بازار میں انا پرا ۔۔اور تھنکیو بھی اسی کے لیے۔۔۔۔شجیہ کے کہنے پر خضر مسکرا گیا ۔۔۔
تمھاری خوشی میرے لیے سب سے پہلے ہے اور اپنی بیوی کی یہ حسین مسکراہٹ دیکھنے کے لیے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں۔۔۔خضر نے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
میں بھی یہی پر ہو ۔۔فلک نے اُن دونوں کا دیہان اپنی طرف کروایا ۔۔۔شجیہ نے مسکراتے سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکایا تھا جبکہ خضر اب خاموشی سے ڈرائورنگ کر رہا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
اکیا ہو رہا ہے۔۔۔۔خضر نے شجیہ کی قمر سے ہاتھ گزار کر اُسکے پیٹ پر رکھا۔۔۔۔۔
الماری میں کپڑے رکھتی شجیہ مسکرائی تھی۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔۔شجیہ نے الماری بند کرتے ہوئے کہا جب خضر نے اپنے لبوں کا لمس اُسکی گردن پر چھوڑنا شروع کیا۔۔۔۔۔
شجیہ اپنی آنکھیں بند کریں اُسکا لمس برداشت کرنے لگی خضر کے لب گردن سے کندھے تک سفر کرتے محسوس کرتے شجیہ نے اپنے پیٹ پر رکھے اُسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ سیدھا کیا اور شجیہ کو مہلت دیئے بنا اُسکے گلابی لبوں پر جھک آیا۔۔۔نرمی سے شجیہ کے لبوں پر اپنا نرم لمس چھوڑتے اُسکے دماغ میں صبح والا نوٹ اور اُس پر لکھی تحریر لہرائی اور اُسکی شدت میں اضافہ ہوا۔۔۔۔شجیہ کو اٹھاتے اُسکی دونوں ٹانگیں اپنی قمر پر باندھے وہ شدت کے ساتھ شجیہ کے لبوں پر اپنا لمس چھوڑنے لگا ۔۔۔۔جس نے بھی وہ حرکت کری تھی وہ اُسے جلد از جلد ڈھونڈ کر انتہائی خطرناک سزا دینا چاہتا تھا جس نے اُسکی بیوی پر نظر رکھی تھی۔۔۔۔۔
اپنی سانس بند ہونے پر شجیہ نے خضر کا کولر جکڑ کر اُسے جھنجھوڑا تھا۔۔۔خضر شجیہ کے لبوں کو آزادی دئیے بنا ہی اُسے لیے بیڈ پر لیتا تھا ۔۔۔۔آخر اُس پر رحم کھاتے اُس نے اُسکے لبوں کو آزادی بخشی تھی۔۔۔۔۔اور پھر اُسکی گردن میں جھک آیا تھا۔۔۔شجیہ نے گہرا سانس بھرتے اپنے ہاتھ خضر کی پشت پر رکھے ۔۔۔اج جتنی شدت خضر کے لمس میں تھی وہ اُسے روک نہیں پائی تھی اور جانتی تھی وہ رکے گا بھی نہیں۔۔۔اور خضر جو صبح والی بات پر حد درجہ پریشان اور تعیش میں تھا اُسے صرف ایک ہی چیز پرسکون کر سکتی تھی اور وہ تھا شجیہ کا لمس۔۔۔۔
کمرے کی لائٹس بند کرتے وہ شجیہ پر اپنی قربت اپنی شدتیں برساتا چلا گیا ۔۔۔۔۔
💗💗💗
کیا ہوا ہے تم یہاں باہر کیا کر رہے ہو۔۔۔۔گھر کی ملازمہ نے آکر جھون سے پوچھا جو لیپرڈ کے کمرے کے باہر کھڑا تھا جبکہ اندر سے توڑ پھوڑ کی آوازیں بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔
کیا چاہتی ہو اندر جاکر بھوکے چیتے کا کھانا بن جاؤ سر ابھی بہت غصے میں ہے۔۔۔جهون نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔۔۔
اور کیوں غصے میں ہے۔۔۔ملازمہ نے پوچھا۔۔۔
میں یہ تمہیں نہیں بتا سکتا اور اگر چاہتی ہو کہ اس گھر میں زندہ رہ کر کام کر سکو تو اس کمرے کے اس پاس بھی مت بھٹکنا ۔۔۔۔۔جهون کی بات پر وہ ملازمہ منہ بناتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔پیچھے جهون کمرے سے اتی توڑ پھوڑ کی آواز پر سر نفی میں ہلا گیا۔۔۔۔۔
انڈر ورلڈ کا سب سے خونخوار اور ظالم انسان ایک لڑکی کے لیے اج پورا کمرہ تباہ کر بیٹھا تھا۔۔۔
تیز تیز سانس لیتے وہ اپنا غصّہ ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔جو کسی آدمی کو شجیہ کے انتہائی نزدیک دیکھ کر اُس کے پورے بدن میں پھیل گیا تھا۔۔۔جس طرح خضر شجیہ کے پاس تھا اُس سے یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ اُن کے مابین کوئی بہت گہرا اور مضبوط رشتا ہے۔۔۔اور یہی بات لیپرڈ کے غضب میں اضافہ کر رہی تھی۔۔۔۔
اُسے رہ رہ کر وہ منظر یاد آرہا تھا جب خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھے تھے اور وہ اپنی نظروں کو جھکاتے بلش کر گئی تھی۔۔۔
بہت بری بات ہوئی یہ تو ۔۔۔اب مجھے تمہیں بیوہ کرنا پڑے گا۔۔۔تمہیں تو ہر حال میں میرا ہونا ہے میرے پاس ہونا ہے میری باہوں میں ۔۔۔۔تو تم وہاں کیا کر رہی ہو لیکن فکر نہیں کرو۔۔۔۔لیپرڈ کا خود سے وعدہ ہے تمہیں اپنے پاس لے کر آئے گا۔۔۔۔بہت پاس۔۔۔شجیہ کی تصویر کو ہاتھ میں پکڑے وہ انتہائی جنونیت سے بولا تھا۔۔۔اس وقت اُسکی آنکھوں میں ایسی دہشت تھی کہ اگر کوئی انسان اُسکے سامنے ہوتا تو یقیناً ڈر سے بیہوش ہوجاتا ۔۔۔۔
دیوار کی پشت سے اپنی پشت ٹکائے وہ دیوانہ وار شجیہ کی تصویر کو دیکھنے لگا۔۔۔پورے کمرے کا نقشا بدلہ ہوا تھا کوئی بھی چیز صحیح نہیں تھی سب ٹوٹی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔
💗💗💗
فلک نے خان گروپ آف کمپنی کی۔عمارت کے باہر رکتے گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔۔کل خضر نے اُسے بتایا تھا کہ اُس نے اپنے ایک دوست کے آفس میں اُسکے لیے بات کی ہے۔۔۔وہ یہاں اسسٹنٹ کی جوب پر رکھی گئی تھی۔۔۔
فلک کو حیرت ہوئی تھی لیکن پھر خضر نے بتایا اُس کے دوست کو کچھ عرصے کے لیے ایک سیکٹری چایئے اُسکے بعد اُسکی پرانی سیکٹری آجائے گی۔۔۔
کالے رنگ کی شلوار قمیض میں ریشمی دوپٹہ سینے پر پھیلائے بھورے بالوں کو سٹریٹ کیے پشت پر کھلا چھوڑے آنکھوں میں کاجل اور ناک میں اپنی نوز رنگ پہنے وہ بنا میکیپ سے پاک انتہائی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم میں فلک فاطمہ یہاں سیکٹری کی جوب کے لیے اپوانٹ ہوئی ہو۔۔۔فلک نے ریسپشن پر آکر کہا۔۔۔
جی جی میم آپ یہاں سے سیکنڈ فلور پر چلے جائیے مسٹر خان آپکا اپنے آفس میں انتظار کر رہے ہیں۔۔ریسپشن پر موجود لڑکی نے رسانیت سے کہا فلک نے اثبات میں سر ہلاتے اپنے قدم لفٹ کی طرف بڑھائے تھے۔ ۔۔۔
سیکنڈ فلور پر اتے ہی اُس نے چاروں طرف دیکھا تھا جہاں ہر کوئی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھا۔۔۔۔
ایکسکیوز می کیا آپ بتا سکتی ہے مسٹر خان کا آفس کہاں ہے۔۔۔فلک نے پاس سے گزرتی لڑکی سے پوچھا۔۔۔
جی یہاں سے بلکل سامنے ۔۔۔۔لڑکی نے سامنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔فلک نے شکریہ کہتے اپنے قدم اُس طرف بڑھائے تھے۔۔۔
کامل خان جو اپنی کرسی پر بیٹھا اپنی زندگی کا ہر ایک بڑھتا قدم دیکھ رہا تھا مسکراہٹ کے ساتھ اپنی کرسی سے اٹھا اور دروازے کی طرف پشت کئے گلاس وال سے باہر دیکھنے لگا۔۔۔۔
فلک نے آہستہ سے دروازہ نوک کیا۔۔۔
کم۔۔۔۔اندر سے بھاری گھمبیر آواز سنتے اُس نے اپنے قدم اندر بڑھائے تھے ڈارک گرین رنگ کے تو پیس میں اُسکی طرف پشت کئے کامل خان کو دیکھتی وہ تھوڑا گھبرائی تھی۔۔۔
اسلام علیکم سر میں فلک فاطمہ۔۔۔فلک نے تھوک نگلتے اپنا تعارف کروایا اور اُسکے اس تعارف پر کامل خان نے اپنے لب بھینچے تھے اُس نے اپنے نام کے آگے اُسکا نام نہیں لگایا تھا اور یہ بات اُس کے دل میں ایک چھبن سی پیدا کر گئی تھی۔۔۔۔
کامل ایک دم سے پلٹا۔۔۔اور فلک کی آنکھیں حیرت سے پھیلی۔۔۔۔ناک بال ہونٹ قد سب کچھ تو کامل سے ملتا تھا۔۔۔کوئی اتنا ہوبہو کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔وہ حیرت سے کامل خان کی طرف دیکھتے گئی۔۔۔اور کامل اُسکی گہری نظریں محسوس کرتے پزل ہوا جس طرح سے وہ دیکھ رہی تھی اُس سے صاف واضح ہو رہا تھا کہ اُسے پہنچاننے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔۔۔
کامل نے اپنا گلا کنھکھاڑا۔۔۔فلک نے فوراً سے اُس پر سے اپنی نظریں بتائی اُسکے کامل کا رنگ تو سانولا تھا اور آنکھیں ایسی سبز چمکتی آنکھیں تو نہیں تھی اُسکی۔۔۔۔
بیٹھے ۔۔۔کامل نے اپنی کرسی پر بیٹھتے گہری نظروں سے فلک کا چہرہ دیکھتے کہا۔۔۔کامل کی نظر اُسکی ناک میں پہنی بالی پر اٹک گئی کل ہی تو وہ اُسکی ناک سے اتار لایا تھا اور اب پھر اُس نے پہنی ہوئی تھی مطلب اُسکی بیوی نوز رنگ کی دیوانی تھی ۔۔۔۔۔
فلک کچھ بھی کہے بغیر کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔
آپ شادی شدہ ہے ۔۔کامل کے سوال پر فلک کی آبرو تنی تھی۔۔۔ویسے ہی اس کمرے میں اُسے اپنے کامل کی خوشبو محسوس ہو رہی تھی لیکن سامنے بیٹھا انسان اُسکے بولنے کا انداز چلنے کا انداز کچھ بھی تو کامل جیسا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔
جی ہاں۔۔۔لیکن آپکا یہ سوال پوچھنے کا مقصد۔۔۔۔فلک نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔۔۔۔اور کامل خان کا دل گویا سکون سے بھر گیا۔۔یہ لفظ سنتے۔۔۔
وہ آپکا نام اپنے فلک فاطمہ کہا اسی لیے۔۔۔کامل نے وضاحت دی۔۔۔فلک نے جواباً کچھ نہ کہا بس خاموش رہی ۔۔۔۔
تو مس فلک آپ اج سے میری اسسٹنٹ ہے مجھے امید ہے آپ جانتی ہوگئی۔۔۔کہ ایک سیکٹری کی کیا جوب ہوتی ہے۔۔۔یہ میرا شیڈول ہے اسے آپ نوٹ کر لے اور وہ سامنے آپکا آفس۔۔۔۔۔کامل نے اپنے ہاتھوں کو باہم ملاتے ہوئے کہا ۔۔۔فلک نے اثبات میں سر ہلاتے سامنے اپنے آفس کو دیکھا تھا جو اس آفس سے صاف نظر آرہا تھا ۔۔۔
فلک نے ٹیبل پر سے ایک فائل اٹھائیں اور کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔کامل نے کمرے میں پھیلی اُسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرا تھا اب وہ سامنے تھی اُسکی نظروں سے وہ اُسے گھنٹوں بیٹھا دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔
اُسے سامنے آفس میں کرسی پر بیٹھا دیکھ کامل گہرا مسکرایا۔۔۔۔
وہ اپنے بالوں کو جوڑے میں بدلتی لیپ ٹاپ آن کیے اپنی آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے اپنے کام میں مگن تھی اور کامل خان اپنا سارا اہم کام چھوڑے کرسی کی پشت پر اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر کے نیچے رکھتے مگن انداز میں اُسے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
تو بیگم کی چار چار آنکھیں ہے ۔۔۔لیکن ماشااللہ کیا خوبصورت لگ رہی ہے۔۔۔۔۔۔کامل نے خود سے کہا ۔۔۔
فلک نے آفس میں اتے ہی اُس دیوار کو حیرت سے دیکھا تھا جہاں سے اُسے اس پار کا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا فلک نے دیکھا تو سائیڈ پر ایک بٹن تھا ۔۔اُسے لگا جیسے یہ بٹن دبانے سے وہاں سے بھی کوئی اس طرف کا دیکھ نہیں پائے گا۔۔اسی لیے جلدی سے وہ بٹن دبایا جس سے ایسی آواز گونجی جیسے اس دیوار پر ایک اور ان وزیبل دیوار لگ گئی ہو۔۔۔
ایک لمبی سانس لیتے وہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی اور کامل خان اپنی معصوم بیوی کی اس معصوم سی چالاکی پر دھیمے سے مسکرا گیا ۔۔وہ جانتا تھا فلک نے ایسا ضرور کرنا ہے لیکن یہ فلک کی غلط فہمی تھی کہ کامل اس پار کا کچھ بھی نہیں دیکھ پائے گا وہ اب بھی آرام سے بیٹھا اپنی بیوی اپنی ز ندگی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری نام ہے سر بزنس کی دنیا میں کافی نام ہے اُسکا اور۔۔۔اور میم اُسکی بیوی ہے۔۔۔۔منیجر نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کرتے ہوئے کہا اُسکی بات پر وہ جو روکنگ چیئر پر جھول رہا تھا تھما ۔۔کالی سخت لہو رنگ آنکھیں بند کرتے اُس نے مینجر کے آخری لفظوں کو برداشت کیا ۔۔۔۔
نمبر ملاؤ ۔۔۔لیپرڈ کی سخت آواز سنتے منیجر نے جلدی سے خضر کا نمبر ملایا تھا جو اُس نے معلوم کیا تھا۔۔
خضر اس وقت اپنے آفس میں بیٹھا ضروری فائل کو چیک کر رہا تھا۔۔جب اُسکا موبائل بجا۔۔۔۔انجان نمبر دیکھتے اُس نے فون اٹھایا ۔۔۔۔
کون۔۔۔خضر نے اپنی آبرو آپس میں ملاتے ہوئے پوچھا۔۔۔
دیوانہ۔۔۔شجیہ آصف کا دیوانہ۔۔۔تمھاری بیوی انتہا کی خوبصورت ہے۔۔اور اُسکی چمکتی نیلی آنکھیں آفف۔۔لیپرڈ نے ہنستے ہوئے یہ الفاظ کہے۔۔۔
اپنی زبان کو لگام دو۔۔۔ورنہ ایک پل نہیں لگائو گا تمھاری یہ گندی زبان کھینچنے میں اگر اب میری بیوی کا نام اپنی زبان سے لیا تو بخدا نہایت عبرت ناک انجام کرونگا میں تمہارا۔۔۔۔۔۔کسی انجان شخص کے منہ سے نکلتے شجیہ کے نام اور الفاظ پر خضر فورا سے اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا خوں میں اُبال اٹھتے محسوس ہوئے اُسکا بس نہ چلا کہ فون پر موجود انسان کو ابھی اپنے سامنے لا کر ایسی بھیانک موت دے کہ دیکھنے والے کا روم روم کانپ جائے۔۔۔
کول مین آرام سے جانتا ہوں اپنی بیوی کے لیے کسی غیر کے منہ سے ایسے الفاظ سنتے کیسا لگتا ہے۔۔لیکن فکر نہ کرو وہ تمھاری بیوی رہے گی نہیں بہت جلد بہت جلد وہ لیپرڈ کی کوین بنے گی۔ اُسکے پاس ہوگی۔۔۔۔۔لیپرڈ نے کہتے فون بند کیا۔۔۔خضر کا چہرہ سرخ ہوا بھوری آنکھوں میں پل بھر میں سرخی نمایاں ہوئی ہاتھوں اور ماتھے کی نسیں اشتعال سے پھولی۔۔۔۔یہ الفاظ سنتے اُسکا دل سب کچھ تہس نہس کرنے کا چاہ رہا تھا اُسکا دل کیا ساری دنیا کو آگ لگا دے ۔۔۔۔
اُس نے جلدی سے اپنے فون میں شجیہ کا نمبر تلاشنہ چاہا لیکن نمبر ہوتا تو ملتا۔۔۔۔فوراً سے گھر کی لینڈ لائن پر کال۔ کی لیکن کسی نے نہ اٹھائی۔۔۔خضر نے تعیش میں اتے موبائل سامنے دیوار پر دے مارا جو فوراً سے دو حصوں میں تقسیم ہوا۔۔۔یکدم خضر کو خیال ایا اج صبح ہی وہ شجیہ کو ہاسپٹل چھوڑ کر ایا تھا۔۔۔۔لیپرڈ کے منہ سے وہ سب سنتے اُسے شدت سے شجیہ کی فکر ہوئی تھی اُسکی بیوی خطرے میں تھی اُسکی عزت خطرے میں تھی۔۔۔خضر جتنی تیز اپنے قدم بڑھا سکتا تھا بڑھا رہا تھا۔۔۔
آدھے گھنٹے کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کرتا وہ ہاسپٹل ایا تھا۔۔۔بھاگتے قدموں سے وہ آصف صاحب کے روم کی طرف بڑھا تھا۔۔۔۔
ایک جھٹکے سے روم کا دروازہ کھولا اور سامنے شجیہ کو دیکھتے اُسکے دل کو تھوڑا سکون ملا ۔۔۔بگڑتی دل کی دھڑکن یکدم صحیح ہوئی۔۔۔۔دماغ کی تنی نسیں اُسے سامنے بیٹھا دیکھ ڈھیلی پڑی۔۔۔
کیا ہوا خضر ۔۔۔اچانک سے کمرے کا دروازہ کھلنے پر شجیہ اور نسرین بیگم چونکے سامنے خضر کو دیکھ کر شجیہ نے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔خضر کی لال ہوتی آنکھیں اُسے فکرمند کر گئی تھی۔۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے نسرین کے سامنے سر جھکا کر کہا۔۔
وعلیکم السلام بیٹا۔۔۔نسرین نے پیار سے خضر کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔۔۔جبکہ شجیہ اب بھی خضر کی طرف فکرمند نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ اُسکے چہرے سے بھانپ گئی تھی کہ وہ بیچین ہے پر کیوں یہ اُسکی سمجھ سے باہر تھا۔۔۔۔
کیسی طبیعت ہے اب۔۔خضر نے آصف صاحب کی طرف دیکھتے انکا حال جاننا چاہا ۔۔
بابا ٹھیک ہے آپ طبیعت میں بہتری آرہی ہے۔۔ڈاکٹر کا کہنا ہے انشاءاللہ جلد ہی وہ کوما سے باہر آجائے گے۔۔۔شجیہ نے جواب دیا۔۔۔۔
خیریت آپ ایسے اچانک یہاں اگئے ۔۔۔شجیہ نے خضر کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔
ہاں وہ میں تمہیں لینا ایا تھا۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی کھجاتے ہوئے کہا۔۔۔
ہاں بیٹا جاؤ ویسے بھی شام ہونے والی ہے مغرب سے پہلے گھر پہنچ جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔۔۔نسرین نے فوراً سے کہا ۔۔صبح سے اپنی بیٹی کے چہرے پر حیا اور محبت کے رنگ دیکھ کر وہ انتہاء کی خوش تھی۔۔نہ جانے کتنی بار وہ اپنے رب کا شکر ادا کر چکی تھی۔
شجیہ نے اپنا بیگ اٹھایا آصف صاحب کے ماتھے پر پیار دیتی وہ نسرین سے ملتی خضر کے ہمراہ باہر نکلی تھی۔۔۔
خضر نے کمرے سے نکالتے ہی شجیہ کا ہاتھ تھاما تھا جبکہ بھوری نظریں اطراف کا جائزہ لے رہی تھی۔۔۔
اپنا منہ ڈھانپو شجیہ اور اپنے بال بھی۔۔۔خضر ہے سخت آواز میں اطراف میں دیکھتے کہا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا پھر دیہان اپنے دوپٹے پر گیا جو سر سے ڈھلک کر کندھوں پر گر گیا تھا۔۔۔۔۔
شجیہ نے جلدی سے دوپٹہ سر پر لیا جبکہ دوپٹہ سے اپنا چہرہ بھی اچھی طرح ڈھانپا ۔۔۔ذہن میں سو سوال گڈ مڈ کر رہے تھے لیکن نظرانداز کر گئی۔۔۔۔
💗💗💗
پورے راستہ خضر نے شجیہ سے کوئی بات نہیں کی تھی جبکہ شجیہ بھی اُسکا لال ہوتا ہاتھ جو اسٹیئرنگ پر مضبوطی سے رکھا گیا تھا ۔۔اور لال ہوتی آنکھیں دیکھتی چپ تھی۔۔۔
خضر کیا ہوا ہے۔۔۔شجیہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی خضر سے پوچھا جس نے ابھی بھی گاڑی سے نکلتے ہی اُسکا ہاتھ تھام لیا تھا۔۔۔۔
کچھ نہیں ہوا تُم ٹینشن نہ لو بس کچھ آفس کا کام تھا اسی لئے تھوڑا فکر مند تھا۔۔خضر نے شجیہ کی بات پر اُسکے پریشان چہرے کی طرف دیکھتے نرمی سے کہا۔۔گاڑی میں بھی وہ اپنی طرف اٹھتی اُسکی پریشان نظریں محسوس کر چکا تھا لیکن وہ تب کچھ بھی بولنے کی حالت میں نہ تھا دماغ میں اُس فون کال سے گونجتے الفاظ گھوم کر اُسکے سینے میں جلن سی پیدا کر گئے تھے۔۔۔۔۔
اچھا پھر آپ روم میں جائے میں آپکے لئے کافی بنا کر لاتی ہو۔۔۔شجیہ نے جلدی سے کہا۔۔خضر اثبات میں سر ہلاتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا جبکہ شجیہ نے کچن کا رخ کیا۔۔۔
کمرے میں ادھر اُدھر چکر لگاتا اپنے بھینچے لبوں کے ساتھ وہ اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا اج جو ہوا تھا وہ قطعی نظرانداز نہیں کر سکتا تھا آخر کون تھا وہ شخص جو شجیہ کو جانتا تھا اُسکی باتوں سے وہ اتنا تو سمجھ گیا تھا جو کوئی بھی ہے وہ اُسکی دشمنی میں شجیہ کو ہتھیار نہیں بنا رہا ۔۔۔۔وہ واقعی میں شجیہ کے پیچھے ہے۔۔اور جو کوئی بھی ہے خضر اسکو نہ چھوڑنے کی قسم کھا بیٹھا تھا۔۔۔
شجیہ کے کمرے میں انے پر وہ صوفے پر بیٹھا تھا۔۔جب شجیہ کافی کا کپ لیے اُسکے برابر میں بیٹھی۔۔۔۔
خضر مجھے آپ سے بات کرنی تھی۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر اپنا سر رکھتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔
بولو ۔۔شجیہ کے بالوں سے اُٹھی مدہوش کن خوشبو کو اپنی روح تک میں جذب کرتے اسے سکون سا ملا تھا ورنہ جب سے وہ فون کال ائی تھی وہ تڑپتا جلتا بیچین تھا۔۔۔۔
میں یونی پھر سے جوائن کرنا چاہتی ہو میری ڈگری ابھی تک مکمل نہیں ہوئی خضر۔۔لیکن اگر آپ منع کردے گے تو پھر نہیں جاؤنگی۔۔۔آپ کا فیصلہ مجھے زیادہ عزیز ہے۔۔شجیہ نے اپنے ناخن کو دیکھتے خضر سے کہا۔۔
جبکہ خضر نے اُسکی بات پر اپنی آنکھیں مینچی تھی اگر وہ فون کال اُسکے پاس نہ ائی ہوتی تو وہ بغیر کسی جھجھک اور دیری کے لیے اُسے جانے دیتا ۔۔۔لیکن اب وہ ڈر گیا تھا شجیہ کی حفاظت کو لیتے۔۔۔۔ایسے میں وہ اُسے یونی کیا کمرے سے باہر اپنی پناہوں سے باہر نہ جانے دیتا ۔۔۔۔
شجیہ نے آس بھری نظروں سے خضر کے چہرے کی طرف دیکھا جو سنجیدہ تھا۔۔۔خضر نے اپنی بھوری آنکھیں شجیہ کی نیلی آنکھوں میں ڈالی۔۔
ٹھیک ہے تم یونی جا سکتی ہو لیکن ایک شرط پر۔۔۔خضر نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھتے۔۔شجیہ کی قمر میں اپنا ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے مزید قریب کرتے کہا۔۔۔
کون سی شرط ۔۔۔شجیہ نے انتہائی قریب خضر کے چہرے کو دیکھتے پوچھا جس کی گرم لو دیتی سانسیں اُسکے ہونٹوں پر پڑتی اُسکی سانسوں میں روانی پیدا کر گئی تھی۔۔۔۔
یہی کہ پھر تم مجھے بلکل نظرانداز نہیں کرونگی۔۔۔اتنا سا بھی ۔۔یونی سے اتے ہی تمہارا سارا وقت صرف میرا ہوگا۔۔۔خضر نے اپنی پرتپش سانسیں شجیہ کے لبوں پر چھوڑتے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
میرا سارا وقت صرف اور صرف آپکا ہی تو ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی باہیں خضر کی گردن میں ڈالتے ہوئے اٹھلاتے لہجے میں کہا۔۔۔
بلکل اور ہونا بھی چایئے۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے گلابی لبوں کو فوکس کرتے اُن پر جھکنا چاہا جب شجیہ نے اُسکے لبوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔
اور شرارت بھری نظروں سے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
دھیرے سے اپنے لب خضر کے لبوں کے قریب لاتے اپنا ہاتھ ہٹایا اور تیزی سے اپنے لب خضر کے لبوں پر رکھے۔۔۔۔۔
خضر کی آنکھیں تحیر سے پھیلی لیکن لبوں پر ایک نرم لمس محسوس کرتے وہ کب تک حیرانگی میں رہتا شجیہ کی گردن میں اپنا ہاتھ ڈالے وہ بھی شجیہ کے لبوں کے لمس کو پوری شدت سے محسوس کرنے لگا۔۔۔۔
جو تن بدن ،دل و دماغ شدید جلن اور اشتعال سے تپ رہے تھے اُن میں شجیہ کے لمس نے ٹھندی ہوا جیسا اثر کیا تھا ۔۔۔۔۔
ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے تھے۔۔۔شجیہ نے پھولی سانسوں سے خضر کی لو دیتی بھوری آنکھوں میں جھانکا جہاں پہلے یہ چمک نامدار تھی جو اب صاف واضح ہے۔۔۔۔
اہم اہم۔۔۔۔خضر نے اپنا گلا کھنکھارتے آنکھوں میں شوخ سی چمک لیے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔
شجیہ نے فوراً سے اپنا سرخ قندھاری چہرہ خضر کے سینے میں چھپایا ۔۔۔خضر اُسکے گرد اپنا حصار باندھتے ہنس دیا۔۔۔فلوقت دماغ پُر سکون ہوگیا تھا اور وجہ تھا پاس بیٹھا وجود۔۔۔جو اب اُسکی زندگی تھا اُسکے جینے کی وجہ۔۔۔۔
💗💗💗💗
آج اُسے افس میں کام کرتے پانچواں دن تھا اور ان پانچوں دن وہ جب جب مسٹر خان کے سامنے گئی تھی اُسے عجیب سا محسوس ہوتا تھا۔۔۔دل اُسے اندیشہ کرتا یہ ہی تمہارا کامل ہے۔۔۔لیکن دماغ فوراً سے دل کی نفی کرتا۔۔۔لنچ ٹائم پر اُسکے لیے لنچ دِن میں کم سے کم دو بار اُسکے لیے فریش جوس مہیا ہوتا تھا اور وہ حیرت سے گنگ رہ جاتی ایسا نہیں تھا صرف اُسکے لیے ہی یہ سب تھا اُس نے باقی ایمپلائز کو بھی دیکھا تھا یہ سب چیزیں باقی ورکرز کو بھی مہیا کی جاتی تھی اب اُسے کوں بتاتا کہ اُسکے شوہر نامدار نے صرف اُسکی وجہ سے پورے آفس کے لیے بھی یہ چیز مہیّا کروائی تھی ۔۔۔لیکن ایک چیز میں اُسکا دماغ بھنا اٹھا جب سے وہ یہاں ائی تھی اُسکے پاس کوئی کام ہی نہیں تھا۔۔۔اگر اُسے کوئی کام ملتا تو وہ بھی صرف بیٹھ کر کرنے کا۔۔۔۔
وہ سخت جھنجھلاہٹ میں مبتلا ہوگئی تھی۔۔ ابھی بھی افس کے باہر وہ اپنی گاڑی کے انتظار میں کھڑی انہی باتوں کو سوچ رہی تھی۔۔۔۔جب اُسکی نظر روڈ کے اُس پار کھڑے ٹھیلے پر پڑی گول گپے دیکھتے اُسکی بھوک بڑھی ویسے بھی آجکل اُسے حد سے زیادہ بھوک لگنے لگی تھی۔۔۔۔
اُس نے روڈ کروس کرنے سے پہلے اطراف میں دیکھا جہاں گاڑی بہت دور تھی۔۔۔
سائرہ جو اپنے گھر کی طرف جا رہی تھی سامنے روڈ پر فلک کو دیکھتے اُس کی آنکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔فلک کے الفاظ یاد اے تو اس نے اپنی گاڑی کی رفتار تیز کی۔۔۔۔۔
اپنے قریب تیز رفتار میں اتی گاڑی کو دیکھتے فلک کا وجود سن ہوا۔۔دماغ ماؤف ہوا ۔۔پورا وجود پسینے سے بھیگا۔۔۔جب کسی مضبوط ہاتھ نے اُسے جھٹکے سے اپنے قریب کھینچا۔۔۔سائرہ کی گاڑی اُس سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھی۔۔۔۔
سائرہ نے بیک مرر سے پیچھے دیکھ کر اسٹیئرنگ پر اپنا ہاتھ مارا تھا اور اپنی گاڑی آگے بھگا لے گئیں ۔۔۔
فلک نے خوف سے مینچِی آنکھیں اپنے آپکو ایک مضبوط گرفت میں محسوس کرتے کھولی۔۔۔
کامل نے دور جاتی گاڑی کا نمبر فوراً سے اپنے دماغ میں بٹھایا۔۔جبکہ اب نظریں بیقراری سے فلک کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
ٹھیک ہے آپ۔۔۔کامل نے فلک کے ماتھے پر چمکتا پسینہ صاف کرتے نرم لہجے میں پوچھا۔۔۔وہ فلک کو آفس سے جاتا دیکھ خود بھی باہر نکلا تھا جب سامنے کا نظر اتا منظر دیکھتے اُسکی روح فنا ہوئی تھی اُسے لگا اگر وہ وقت پر نہیں پہنچے گا تو اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔۔۔وہ دیکھ چکا تھا فلک کی غلطی نہیں تھی۔۔۔وہ پوری طرح دیکھ کر ہی روڈ کروس کر رہی تھی۔۔۔۔
وہ ۔۔۔وہ گا۔۔گاڑی۔۔۔فلک کے زبان سے خوف کی وجہ سے الفاظ ادا ہی نہیں ہو رہے تھے۔۔۔۔
ریلیکس ٹھیک ہے آپ کچھ نہیں ہوا آپ کو۔۔۔۔کامل نے اُسکے گال پر ہاتھ رکھتے تسلی دلائی۔۔۔۔
فلک نے آنکھیں مینچ کر گہرا سانس بھرا آنکھیں کھولتے ایک نظر روڈ کی طرف دیکھا جہاں پر گاڑیاں روا دوا تھی حواس کچھ بحال ہوئے تو اپنے انتہائی قریب مردانا کلون کی خوشبو محسوس کرتے اس نے سامنے کامل خان کو دیکھا ایک پل کے لیے اُسے لگا یہ اُسکا کامل ہے ۔۔۔۔
قمر پر رکھے کامل خان کے لمس کو محسوس کرتے اب اُسکی آنکھیں تحیر سے پھیلی تھی۔۔۔۔
اُس نے سبز انکھوں میں اپنی بھوری آنکھیں ڈالتے کچھ تلاشنا چاہا شاید شناسائی کی کوئی رمک۔۔۔۔
وہ سب کچھ نظرانداز کر جاتی شاید اُسکی آواز مہک آنکھیں نین نقش سب لیکن یہ لمس یہ لمس وہ کیسے نظرانداز کرسکتی تھی۔۔۔یہ لمس تو وہ آنکھیں بند کئے بھی پہچان جائے۔۔۔۔۔یہ لمس تو اُسکے وجود پر سرائیت کرتا اُسکی روح میں جذب ہوا تھا ۔۔۔۔
فلک کی دل۔ کی دھڑکن بڑھی وہ یک تک کامل خان کو دیکھتی گئی۔۔۔
کامل بھی شاید اُسکی حالت پہچان گیا تھا وہ کیا سوچ رہی تھی یہ بھی۔۔۔اُس نے آرام سے فلک کی قمر سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا اور اس سے تھوڑی دوری بنائیں۔۔۔۔
کامل خان کے دور ہونے پر فلک ہوش میں ائی۔۔۔
آپ۔۔آپ۔۔۔فلک نے کچھ بولنا چاہا لیکن کامل نے اُسکی بات کاٹی۔۔۔
آپکی گاڑی آگئی ہے مس فلک اور آئندہ دیہان سے روڈ کروس کی جئے گا۔۔۔کامل نے پاس رکتی اُسکی گاڑی کو دیکھتے سخت آواز میں کہا اور اپنے قدم آگے بڑھائے۔۔۔
فلک نے نم انکھوں سے اُسکی پشت کو تکا۔۔۔
یہ آنسو بھی نہ بڑے دغا باز ہوتے ہے ہم جتنی مرضی خود سے وعدہ کر لے ہم روۓ گے نہیں لیکن جب اذیت حد سے بڑھ جاتی ہے نہ تو یہ بہہ نکلتے ہے لاکھ ضبط کرنے کے بعد بھی۔۔۔۔
فلک نے جلدی سے اپنے آنسو پوچھے۔۔۔
مجھے کیوں لگ رہا ہے آپ کامل ہے یہ پھر میں اُس شخص کو اپنے ذہن پر اتنا حاوی کر چکی ہو کہ کسی بھی غیر کو کامل سمجھ رہی ہو۔۔۔۔لیکن دل کیوں ہر بار مسٹر خان کو دیکھتے یہ کہتا ہے جیسے یہ کوئی غیر نہیں ہے تمہارے اپنے ہے بہت اپنے۔۔۔فلک نے گاڑی میں بیٹھتے اپنا سر سیٹ کی پشت سے ٹکاتے سوچا۔۔۔۔
کامل نے فلک کی گاڑی کو آگے بڑھتا دیکھ اپنی گاڑی آگے بڑھائیں تھی۔۔جس طرح اج فلک اُسے دیکھ رہی تھی اس سے واضح ہو رہا تھا وہ اُسکے لمس کو پہچانتی ہے
کامل بیساختہ مسکرا گیا۔۔لیکن اگر وہ اس لمس کو پہچان گئی تھی تو کامل کے لیے مشکل بھی کھڑی ہوسکتی تھی۔۔۔۔
یکدم اُسکے دماغ میں وہ گاڑی ائی جس نے فلک پر حملے کی کوشش کی تھی۔۔۔اُسکا نمبر جیسے ہی دماغ میں دہرایا تو کچھ یاد انے پر اُسکے جبڑے تنے۔۔۔۔چہرے پر غضب چھلکا۔۔۔
پہلے تمہیں پیار سے ڈیل کر رہا تھا سائرہ محترمہ لیکن اب آپ نے میری زندگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔۔اب تو رحم کی اُمید مت کریے گا۔۔۔۔کامل نے دانت پیستے ہوئے کہا اور فلک کی گاڑی کا پیچھا کیا جب تک فلک کی گاڑی خضر منشن میں داخل نہ ہوئی وہ تب تک اُسکی گاڑی کا پیچھا کرتا رہا۔۔۔
فلک کو گھر کے اندر جاتا دیکھ اُس نے ایک گہرا سانس بھرا۔۔۔موبائل نکالتے خضر کا نمبر ڈائل کیا جو بند تھا اُسے حیرت ہوئی اج تک تو کبھی اُسکا نمبر بند نہیں ہوا تھا۔۔۔۔
سر جھٹکتے اپنی گاڑی اپنے فلیٹ کی طرف موڑی۔۔۔۔
💗💗💗
خضر اپنا لیپ ٹاپ لیے کاؤنچ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔جبکہ شجیہ فریش ہو رہی تھی۔۔۔
اچانک سے اُسکے لیپ ٹاپ پر ایک ویڈیو ریسیو ہوئی۔۔۔خضر نے ایک نظر واشروم کے بند دروازے کو دیکھا ۔۔اور ویڈیو کو اوپن کیا لیکن۔۔اُس میں نظر آتے شجیہ کے چہرے کو دیکھتے اُسکا چہرہ تنا۔۔۔۔
اپنے ہاتھ کی مٹھی بھینچے اُس نے وہ پوری ویڈیو دیکھی جب میں وقتاً فوقتاً شجیہ کی تصویریں تھی صبح ہسپتال جاتے ہوئے کی نسرین کے پاس بیٹھنے کی خضر کے ساتھ واپس آنے کی ۔۔۔۔
خضر کو لگا اُسکا سر پھٹ جائے گا۔۔۔۔آخر کون تھا یہ چاہتا کیا تھا۔۔خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔ایسا لگا کسی نے جلتے ہوئے لاوے میں اُسے پھینک دیا ہوا۔۔پورا وجود سلگ اٹھا تھا۔۔۔
جب آخر میں گونجتی آواز میں نے اُسکے پور پور میں آگ لگا دی۔۔۔۔
کیسے ہو خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔تُو کیسا لگا تمہیں میری طرف سے دیا گیا ایک تحفہ۔۔۔تمھاری بیوی۔۔۔اوہ سوری سوری یار میرا دل جل گیا یہ کہتے ہوئے ۔۔۔میری کوین کی ہر ایک پل پر نظر ہے میری۔۔۔۔کیا کرو دل ہی نہیں بھرتا اُسکی یہ خوبصورت نیلی جھرنے جیسی آنکھیں دیکھتے۔۔۔اب تمہارا دل جلا ہوگا۔۔۔جانتا ہو۔۔۔
خضر کی برداشت یہی تک تھی اُس نے جھٹکے سے لیپ ٹاپ بند کیا۔۔۔ہاتھ کی مٹھی بنائے اپنے لبوں پر رکھتے اُس نے اپنے اوپر ضبط کرنے کی کوشش کی۔۔۔لیکن ناکام
۔۔
اب پانی سر کے اوپر پہنچ گیا تھا وہ اب کسی صورت اس انسان کو نہیں چھوڑنے والا تھا۔۔۔خضر کو یہ الفاظ سنتے ایسا لگا جیسے کسی نے دہکتے کوئلے اُسکے وجود پر انڈیل دیے ہو۔۔۔۔
شدید غصے میں وہ اپنی جگہ سے اٹھا تھا بھوری لہو رنگ آنکھوں میں غضب کی سختی اور سرد پن تھا۔۔۔۔
ابھی وہ کمرے سے باہر جاتا جب شجیہ واشروم سے بھیگے بالوں کے ساتھ باہر نکلی۔۔۔خضر تھما ۔۔
کہیں جا رہے ہیں آپ۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔
خضر نے کچھ بھی کہہ بغیر اُسے انتہائی شدت سے اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔۔
اپنی جلتی آنکھیں بند کئے اُس نے شجیہ کے وجود سے اُٹھی مسحور کن خوشبو محسوس کی۔۔۔
میں جلدی انے کی کوشش کرونگا ایک ایمرجنسی کام آگیا ہے۔۔۔تم یہاں کمرے میں ہی رہنا ۔۔۔گھر سے باہر کیا تم اُس کمرے سے بھی باہر نہیں نکلو گی ۔۔۔میں فلک کو یہی تمھارے پاس بھیج رہا ہوں۔۔۔خضر نے شدت سے اپنے لب شجیہ کے ماتھے پر ضبط کرتے نرمی سے کہا۔۔۔
خیریت تو ہے نہ۔۔۔شجیہ نے فکرمندی سے پوچھا۔۔۔نہ جانے کیوں اُسے صبح سے ایسا لگ رہا تھا جیسے خضر کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔۔۔۔
سب ٹھیک ہے تم اپنا اورفلک دونوں کا خیال رکھنا۔۔۔خضر نے نرمی سے اُسکے گال پر اپنا انگوٹھا پھیرتے ہوئے کہا۔۔
شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔سر پر دوپٹہ لیتی۔۔۔آیت ال کُرسی پڑھتی اُس نے خضر پر پھونکی تھی۔۔۔
خضر ایک بار پھر اپنے لب اُسکے گال پر رکھتا باہر نکلا۔۔۔۔ساتھ ہاتھ میں اپنا لیپ ٹاپ لینا نہیں بھولا تھا
کمرے سے باہر نکلتے ہی اُسکی آنکھوں میں جو نرم تاثر شجیہ کے سامنے تھا وہ بدلہ اب بھوری آنکھوں میں دہشت ناچ رہی تھی۔۔۔۔
تنی رگوں کے ساتھ وہ لاؤنچ تک ایا تھا۔۔جہاں اُسے فلک اتی ہوئی نظر ائی۔۔۔
شجیہ کے پاس کمرے میں جاؤ۔۔۔اور دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔۔۔خضر نے فلک کے پاس اتے سخت لہجے میں کہا۔۔فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔خضر کی لال آنکھیں دیکھتے وہ سمجھ گئی تھی کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے لیکن کیا یہ اُسے نہیں پتہ تھا۔۔۔
خضر باہر نکلتا چلا گیا جبکہ فلک ملازمہ کو کھانے کا کہتی شجیہ کے کمرے کی طرف بڑھی تھی۔۔۔۔
💗💗💗
اچھا ہوا تو یہی آگیا مجھے تُجھ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔۔۔کامل نے فلیٹ کا گیٹ کھولتے سامنے خضر کو دیکھتے کہا۔۔۔
خضر تیزی سے اندر ایا۔۔۔۔
کیا ہوا ہے تُجھے ۔۔۔کامل نے خضر کے سخت چہرے کو دیکھتے پوچھا۔۔۔
جس پر خضر نے کچھ بھی بولے بنا اپنا لیپ ٹاپ آن کرتے ویڈیو آن کی۔۔۔اور یہ ویڈیو دیکھتے اور آخر میں گونجتے لفظوں کو سنتے کامل خان کا چہرہ بھی تنا تھا۔ بات اُسکے دوست کی عزت کی تھی۔۔۔۔
کون ہے یہ۔۔۔۔کامل نے سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔
وہی پتہ کرنے یہاں ایا ہو شجیہ کے سامنے نہیں کر سکتا تھا۔۔۔خضر نے کہتے تیزی سے اپنی انگلیاں لیپ ٹاپ پر چلائی۔۔۔۔
آج سائرہ نے فلک پر حملہ کرنے کی کوشش کی اگر میں وقت پر نہ اتا تو بہت کچھ غلط ہوچکا ہوتا۔۔۔کامل نے سخت لہجے میں اپنے دونوں ہاتھوں کو باہم ملا کر کسی غیر مرئی نقطے کو تکتے کہا۔۔۔
اُسکا فلک سے کیا لینا دینا۔۔۔خضر نے اپنے ہاتھ روکتے کامل کی جانب دیکھتے پوچھا۔۔۔
پتہ نہیں شاید وہ فلک کے بولے گئے لفظوں کا بدلہ لینا چاہتی تھی۔۔۔کامل۔نے کندھے اچکا کر کہا ۔۔۔
میں اج ہی اُسکا دماغ ٹھکانے لگاتے اُس سے ساری انفارمیشن لینے والا ہو۔۔۔کامل کی بات پر خضر نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
دیہان سے کوئی غلطی نہ ہو۔۔۔خضر نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
کچھ پتہ چلا۔۔۔کامل نے پوچھا۔۔
جھون۔۔۔خضر نے سکرین پر نظر آتآ نام زیرِ لب دہرایا۔ سکرین پر لوکیشن اور باقی ساری ڈیٹیل نظر آرہی تھی ۔۔۔۔
کیا۔۔کامل نے پوچھا۔۔۔
جب خضر نے اُسکے آگے لیپ ٹاپ کیا۔۔۔
تُجھے لگتا ہے ایک کمپنی میں کام کرنے والا منیجر یہ حرکت کرے گا۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
نہیں ہے تو کوئی اور اس کے پیچھے صبح فون پر اُس نے ایک غلطی کی تھی اور وہ غلطی تھی اُس نے اپنا نام بتایا تھا لیپرڈ۔۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی رب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
یہ کیسا نام ہوا۔۔۔ایسے نام تو ۔۔۔کامل نے بات ادھوری چھوڑی ۔۔
ایسے نام انڈر ورلڈ میں رکھے جاتے ہیں۔۔۔دونوں یک زبان بولے۔۔۔۔
لیکن ایسا کیسے ہوسکتا ہے بھابھی کو اس نے دیکھا کیسے۔۔۔کامل نے حیرانگی سے پوچھا ۔۔
میں نہیں جانتا لیکن اُس نے میری بیوی پر نظر رکھی ہے کسی بھی قیمت پر میں اُسے چھوڑنے نہیں والا۔۔سائرہ کا معاملہ اج ہی حل کرو ۔ہو سکتا ہے کوئی کنیکشن نکل آئے لیپرڈ اور سائرہ کا۔۔۔خضر نے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
کیا ہوا ہے خضر کو ۔۔۔فلک نے کمرے میں داخل ہوتے شجیہ سے پوچھا جو بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
پتہ نہیں صبح سے مجھے کافی پریشان سے دکھ رہے ہیں ابھی بھی کچھ ایمرجنسی کام کا کہتے باہر گئے ہے ۔۔شجیہ نے بتایا ۔۔
تم نے کھانا کھایا۔۔۔شجیہ نے فلک کے تھکے چہرے کو تکتے ہوئے پوچھا۔۔۔
نہیں منگوایا ہے۔۔۔فلک نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔
ٹھیک ہو ۔۔۔شجیہ نے فلک کا سر اپنی گود میں رکھتے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے ہوئے پوچھا۔۔
ہاں بھی نہیں بھی۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں موندتے جواب دیا۔۔۔۔۔
خیریت۔۔۔شجیہ نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔۔
شجیہ اگر آپکا دل و دماغ دو الگ الگ بات کرے تو کس کی سُننی چایئے۔۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔
ہمیشہ اپنے دل کی سننّی چایئے کیونکہ کبھی کبھار دل وہ سب محسوس کر لیتا ہیں جو دماغ محسوس نہیں کر پاتا ۔۔۔۔شجیہ نے اپنا نظریہ بتایا۔۔۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
اج جو کچھ ہوا وہ نظرانداز نہیں کر سکتی تھی بلکل بھی نہیں اپنی قمر پر رکھا مسٹر خان کا ہاتھ وہ لمس وہ کیسے نظرانداز کر جاتی اب بھی ذہن میں سو سوال گڈ مڈ کر رہے تھے ۔۔۔۔کیا مسٹر خان ہی کامل ہے۔۔۔ملازمہ کی آواز پر وہ اپنی سوچوں کے محور سے نکلی۔۔۔
کھانا کھاتے اُس نے اپنا دیہان شجیہ کی باتوں میں لگایا جو اُسے اج سارے دن کی راود سنا رہی تھی۔۔۔
💗💗💗
کامل سائرہ کے گھر میں داخل ہوا تو ہر طرف اندھیرا تھا وہ سائرہ کو اپنے انے کے مطلق بتا چکا تھا۔۔گھر میں غیر معمولی خاموشی دیکھتے وہ الرٹ ہوا ۔۔۔باہر کوئی گارڈ بھی نہیں تھا جس کا مطلب تھا وہ کامل کے انے کا سنتے اُنہیں یہاں سے بھیج چکی تھی ۔۔۔
خضر اور اُسکی ٹیم کے کچھ ممبر بھی اُسکے ساتھ تھے جنہوں نے فلیٹ کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا تھا سائرہ کے بھاگنے کا کوئی چانس ہی نہیں تھا۔۔
کامل نے اپنے قدم سائرہ کے روم کی طرف بڑھائے اور سامنے نظر آتا منظر دیکھتے اُس نے با مشکل اپنا چٹخے اعصاب ڈھیلے کیے تھے سامنے سائرہ ایک بیہودہ سی نائٹی جو با مشکل اُسکے بدن کو ڈھانپی ہوئی تھی ہاتھ میں حرام مشروب پکڑے ایک ادا سے بیڈ پر نیم دراز تھی ۔۔۔
کامل نے فوراً سے اپنی نظروں کا ارتکاز دوسری طرف کیا۔۔۔
کیسی لگ رہی ہو میں۔۔۔سائرہ نے کامل کے قریب اتے اُسکے گال پر انگلی ٹریس کرتے خمار اور نشیلی آواز میں پوچھا۔۔۔
کامل نے اپنی آنکھوں میں نرم تاثر لاتے اُسکی طرف دیکھا تھا جو ایک مشکل امر تھا۔۔۔
ہمیشہ کی طرح حسین۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ مورتے پشت اپنے سینے سے قریب کی لیکن بیچ میں کچھ فاصلہ رہنے دیا۔۔۔۔
تمہارے اُس پارٹی کا کیا ہوا جو کسی چیف گیسٹ کے لیے رکھی گئی تھی۔۔۔کامل نے سرسری لہجے میں پوچھا۔۔۔
چیف گیسٹ نے منع کردیا ہے کوئی پارٹی نہیں کرنی ۔۔۔سائرہ نے اپنے کامل کے ہاتھ اپنے بازو سے ہٹاتے اپنے پیٹ پر باندھتے کہا۔۔۔۔
کون ہے یہ چیف گیسٹ۔۔۔کامل نے یکدم اپنی گرفت اُسکے پیٹ پر انتہائی سخت کی سائرہ کو لگا اُسکا پیٹ اُبل کر باہر آجائے گا۔۔۔
تمہیں جان کر کیا کرنا ہے ۔۔سائرہ نے اپنے پیٹ پر سے اُسکا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کرتے پوچھا۔۔۔
سائرہ محترمہ سیدھی شرافت سے بتاؤ کون ہے وہ چیف گیسٹ ۔۔کامل نے سائرہ کا رخ پلٹتے اُسکے بال اپنی سخت گرفت میں لیتے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
کون ہو تم۔۔۔سائرہ نے کامل کی سرد سبز آنکھیں اور ویشی گرفت محسوس کرتے اسپاٹ لہجے میں پوچھا۔۔
یہ تمہارے لیے نہ جاننا ہی بہتر ہے اب جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں میں جھٹکا دیتے ہوئے سخت آواز میں کہا۔۔۔
گارڈز۔۔۔سائرہ چیخی۔۔۔
غلط سب گارڈز کو تو تم مجھ سے ملنے کی وجہ سے چھٹی دے چکی ہو کوئی بھی نہیں ہے اب یہاں سوائے تمہارے اور میرے۔۔۔کامل نے طنزیہ لہجے میں اُسکا سفید پڑتا چہرہ دیکھتے کہا۔۔۔
اب سیدھی طرح بتاؤ کون ہے وہ انڈر ورلڈ کا آدمی جو تمہارے ساتھ ملا ہوا ہے۔۔۔دیکھو میں عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتا لیکن گولی ضرور مار سکتا ہو۔۔۔۔کامل نے اپنی گن نکالتے اُسکے سر پر تانتے ہوئے سرد آواز میں کہا۔۔۔۔
سائرہ نے ایک نظر کمرے میں لگے کیمرے کو دیکھا اور مسکرائی ۔۔۔کامل نے اُسکی نظروں کے ارتکاز میں دیکھا تو نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
بند ہے وہ جسے دیکھتے تم زہریلی ہنسی ہنس رہی ہو ۔۔۔کامل کی بات پر سائرہ کے مسکراتے لب سمٹے۔۔۔۔
وہ سمجھ گئی تھی اب اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
لیپرڈ ہے وہ۔۔۔وہی انڈر ورلڈ سے ہمارے ساتھ ہے۔۔۔سائرہ کی بات سنتے کامل کی آبرو تنی تھی مطلب خضر صحیح تھا۔۔۔ان سب کے پیچھے لیپرڈ تھا اور وہی شجیہ کے پیچھے پڑ چکا تھا ۔۔۔
اندر آجاؤ۔۔۔کامل نے اپنا کان میں لگے چھوٹے سے آلے کو پریس کرتے کہا۔۔۔
یہ چادر اپنے وجود پر لیپٹو۔۔۔تم جیسی عورت ۔۔۔عورت کہلانے کے لائق نہیں ہے جو پیسوں کی لالچ میں دوسری عورتوں اور بچیوں کی عزت بیچ دیتی ہے۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے بیڈ کی چادر کو کھینچ کر سائرہ کے اد برہنہ جسم کو ڈھانپا۔۔۔
تم بچو گے نہیں تمہیں کیا لگتا ہے میرے ساتھ دھوکا کرتے تم جیت گئے ہو نہیں وہ لیپرڈ ہے تم سے بھی ایک ہاتھ آگے رہنے والا ۔۔۔۔۔اُسے پکڑنا نہ ممکن ہے۔۔اور نہ تم اُسے پکڑ پاؤں گے ۔۔سائرہ پھنکاری ۔۔۔۔
ابھی کامل کچھ کہتا کہ خضر اندر ایا جس کا چہرہ سخت تھا یقیناً وہ سائرہ کی بات سن چکا تھا۔۔۔خضر کے ساتھ اپنی لیڈی افسر کو کامل نے ڈریسنگ روم میں لے جانے کہ اشارہ کیا تاکہ سائرہ کے وجود کو صحیح کپڑوں میں دھکا جا سکے ۔۔۔
صحیح تھا تو ان سب کے پیچھے وہ لیپرڈ ہے۔۔۔اگے کا رستہ اور اُس تک پہنچنے کا راستہ بھی یہی بتائے گی۔۔۔۔کامل نے خضر کی طرف دیکھتے کہا جو گن کی نوک سے اپنا ماتھا رب کر ربا تھا۔۔۔۔
سائرہ کے باہر نکلتے ہی خضر نے اُسکی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا۔۔
کہاں ملے گا یہ لیپرڈ۔۔۔خضر کا لہجہ انتہاء کا سرد تھا۔۔۔۔
یہ میں نہیں جانتی یہ کوئی نہیں جانتا سوائے اُسکے منیجر جھون کے جو ہر وقت اُس کے ساتھ ہوتا ہے ۔۔۔سائرہ نے اپنا ہاتھ لیڈی افیسر سے چھروانے کی کوشش کرتے ہوئے دانت پیستے کہا۔۔۔
بچیاں کہاں ہے جن کی ڈیلنگ ہونے والی ہے۔۔۔خضر نے دوسرا سوال داغا۔۔۔
اُسکے مینشن میں جہاں وہ رہتا ہے ۔۔۔سائرہ کے کہنے پر خضر نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔۔
جون کہاں ملے گا۔۔۔کامل نے جون کے متعلق پوچھا۔۔۔
میں نے کہاں نہ مجھے نہیں پتہ میری اج تک اُن سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔جب مجھے لڑکیوں کو اُن تک پہنچانا ہوتا ہے تب اُنکے اڈے پر چھوڑ اتی ہو جہاں صرف و صرف اُنکے گارڈ ہوتے ہیں باقی مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔سائرہ چیخی تھی۔۔جب کامل کے اشارے پر لیڈی آفیسر نے اُسکے منہ پر رکھ کر تھپڑ رسید کیا ۔۔۔
لے کر جاؤ اچھی طرح سے خدمات انجام دینا انکی کوئی کسر نہیں رہنی چاہئے۔۔۔سب کچھ تب ہی اگلے گی یہ۔۔کامل کی بات پر لیڈی آفیسر کھینچتی ہوئی سائرہ کو باہر لے گئی۔۔۔
مگرمچھ کو جال تک لانے کے لیے اُسکے آگے اپنی مچھلی پھینکنے کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔۔کامل کہتا ہوا کمرے سے نکلتا چلا گیا جبکہ خضر اُسکے جملے کے اصل معنی سمجھتا اپنے جبڑے بھینچ گیا ۔۔۔
💗💗💗💗
دوپہر کے بارہ بجے وہ گھر میں ایا تھا ۔۔۔کامل تو صبح ہوتے ہی اپنے افس چلا گیا تھا ۔۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے اُسکی نظر اپنی بیوی پر پڑی جو ناراض چہرہ لئے آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال۔سلجھا رہی تھی ۔۔۔۔
خضر کو ایک نظر دیکھتے شجیہ نے اپنی آنکھیں پھیری تھی اور یہ خضر کو انتہائی نگوار گزرا۔۔۔۔۔
تو بیگم ناراض ہے۔۔خضر نے شجیہ کے قریب اتے اُسکا چہرہ اپنی طرف کرتے پیار سے پوچھا۔۔
شجیہ نے پھر اپنا چہرہ موڑنا چاہا جب خضر نے اُسکی تھوڑی پر گرفت سخت کی۔۔۔۔
ناراضگی دکھانے کے ہزار طریقے ہوتے ہیں لیکن یہ رخ
پھیرنے والا طریقہ مجھے قطعی منظور نہیں۔۔۔خضر کا لہجہ سنجیدہ تھا۔۔۔۔
شجیہ نے ناراض نظروں سے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھا ۔۔۔۔
ایسا بھی کون سا کام تھا آپکو جو پوری رات آپ گھر ہی نہیں آئے پوری رات میں جاگتی آپکا انتظار کرتی رہی ذہن میں کیسے کیسے وسوسے آرہے ہیں تھے یہ صرف میں جانتی ہو۔۔۔شجیہ نم لہجے میں کہتی خضر کے سینے کا حصہ بنی۔۔۔۔
آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔۔۔کچھ انتہائی ضروری کام تھا اگر نہیں کرتا تو مسئلہ ہوجاتا ۔۔۔خضر نے اپنا حصار شجیہ کے گرد باندھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
وعدہ کرے ۔۔شجیہ نے خضر کے سینے پر تھوڑی رکھتے اُسکے چہرے کی جانب دیکھتے کہا ۔۔
وعدہ۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے
کہا۔۔۔
آپ فریش ہوجائے کپڑے نکال دیے ہیں میں نے میں ناشتہ کا انتظام کرتی ہو۔۔۔شجیہ کہتی کمرے سے نکلی ۔۔خضر بھی فریش ہونے چلا گیا۔۔سائرہ کو سیو جگہ پہنچاتے اُسے کافی وقت لگ گیا تھا۔۔۔اور وہ حد سے زیادہ تھک گیا تھا۔۔۔
فلک کو شجیہ نے خود ہی آفس بھیج دیا تھا وہ شجیہ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی تھی لیکن شجیہ کے اسرار کرنے پر وہ آفس کے لیے نکل گئی تھی۔ ۔۔
💗💗💗
فلک اپنے ہاتھ میں فائل تھامے کامل کے آفس میں داخل ہوئی تھی۔۔۔
اندر مسٹر خان کو نہ پا کر اُسے حیرت ہوئی۔۔۔ابھی وہ پلٹتی جب موبائل کی ٹون پر اُسکی نظر ٹیبل پر رکھے کامل کے فون پر پڑی۔۔۔اور وہی جم گئی ۔۔۔
دھیمے قدم اٹھاتے وہ فون تک ائی تھی فون کے وال پیپر پر نظر آتی اپنی تصویر دیکھتے اُسے حیرت ہوئی۔۔یہ اُسکی تصویر تھی جس میں وہ کسی بات پر ہنس رہی تھی۔۔۔۔
کانپتے ہاتھوں سے اُس نے فون اٹھایا۔۔۔۔دل کی دھڑکنوں میں امتشار پھیلا۔ ۔
دھڑکتے دل سے اُس نے فون کی گیلری اوپن کی۔۔۔اور اُس میں نظر آتی تصویریں دیکھتے اُسے لگا اُسکے پیروں کے نیچے سے زمین ہل گئی ہو۔۔۔۔
ایک نہیں پوری گیلری ہی اُسکی تصویروں سے بھری ہوئی تھی کچھ تصاویر میں کامل نے اُسکے چہرے اُسکے لبوں اور گردن پر اپنا لمس چھوڑا تھا ۔۔۔
یہ سب کیا تھا۔۔۔اُسکا سر زور سے چکرایا ۔۔۔تصاویر دیکھتے اُسکی نظر ایک تصویر پر تک گئی جس میں کامل تھا وہی کالی آنکھیں سانولی رنگت۔۔۔۔
آنکھیں کب برسنا شروع ہوئی اُسے پتہ ہی نہ چلا ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔۔۔
یہ کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ اور کیوں اس کے جواب صرف ایک انسان کے پاس تھے۔۔۔۔
موبائل ہاتھ سے چھوٹتے زمین پر گرا تھا۔۔۔۔
رونا کب ہچکیوں میں بدلہ اُسے پتہ ہی نہ چلا۔۔۔۔
یکدم آفس کا دروازہ کھلا اور کامل اندر ایا اپنی ٹیبل کے پاس فلک کو شدت سے روتا دیکھ اور پاس اپنا موبائل دیکھ جہاں اُسکی تصاویر لگی ہوئی تھی۔۔۔
کامل نے اپنی آنکھیں مینچِی۔ ۔۔۔
فلک نے دروازہ کھلنے کی آواز پر اُس طرف دیکھا اور کامل کو وہاں دیکھتے وہ ایک جھٹکے سے اپنی جگہ سے اُٹھی تھی بھوری آنکھوں میں غصّہ لہرایا۔۔۔
کون ہو تم بولو ۔۔۔کامل ہو یا مسٹر خان یہ پھر تمہیں میں دھوکے باز کہو۔۔۔جواب دو۔۔۔فلک نے کامل کا گریبان پکڑتے اُسے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔
کامل نے اپنا ہاتھ فلک کے بازو پر رکھنا چاہا جسے فلک نے ایک جھٹکے سے جھٹکا۔۔
خبر دار جو مجھے ہاتھ لگایا بہت استعمال کر لیا تم نے میرا۔۔۔بہت۔۔۔تمہیں ذرا شرم نہ ائی میرے وجود سے کھیلتے ہوئے نکاح کیا تھا نہ نکاح کی اہمیت کو تو جانتے ہونگے۔۔۔تمہارے ہوتے ہوئے بھی میرا بچہ ناجائز کہلایا۔۔۔۔فلک نے کامل کے سینے پر اپنے دونوں ہاتھ دھرتے اُسے پیچھے کو دھکا دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اسکے سخت الفاظ سنتے خضر کی شریانیں کھولنے لگی تھی۔۔۔
فلک اب تمہارے منہ سے میں کوئی فضول بات نہیں سنو گا۔۔۔سمجھ ائی ایک بار خاموشی سے میری بات سنو۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں ہاتھ سختی سے اپنی گرفت میں لیتے۔۔اپنے لہجے کو حد درجہ نرم کرتے کہا۔۔۔
نہیں سننی مجھے تمہاری کوئی بات طلاق دو ابھی کہ ابھی طلاق دو مجھے۔۔کامل نے جھکتے شدت سے فلک کے لبوں کو اپنی سخت گرفت میں لیتے اُسکے الفاظ چرائے۔۔۔۔
شدت سے اُسکی سانسیں پیتا وہ فلک کو نڈھال کر گیا۔۔۔۔اپنے ہونٹوں پر بڑھتی کامل کی شدت محسوس کرتے وہ اُسکے شرٹ کندھوں سے اپنی مٹھیوں میں جکڑ گئی ۔۔۔
کامل جو اُسکے زبان سے ادا ہوئے لفظوں کی سزا دینے کے لیے اُسکے لبوں پر جھکا تھا۔۔۔اتنے دنوں بعد اُسکا لمس محسوس کرتے بہکتا چلا گیا ۔۔
شدت سے اُسکے بالائی لب کو اپنے لبوں سے چھوتے وہ اُسکی سانسیں اپنی سانسوں میں اُلجھا گیا۔۔۔
فلک اپنی سانس بحال نہ ہوتے دیکھ اپنی آنکھیں بند کرتی کامل کی باہوں میں جھول گئی۔۔۔۔
فلک کے ڈھیلے پڑتے وجود کو محسوس کرتے کامل پیچھے ہٹا۔۔۔اپنے کندھے پر گرتے فلک کے چہرے کو دیکھتے اُس نے گہرا سانس بھرا ۔۔۔۔
فلک کے بھیگے لال لب انگھوٹے سے صاف کرتے اُس نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنے مضبوط بازؤں میں بھرا۔۔۔۔۔
محترمہ میں طاقت ہے نہیں میری شدت برداشت کرنے کی اور چلی ہے مجھ سے لڑنے ۔۔۔۔۔کامل نے فلک کے بیہوش وجود کو دیکھتے کہا۔۔اور اُسے لیے باہر نکلا۔۔۔
طلاق کا لفظ سنتے اُسکا دماغ جس حد تک گھوما تھا یہ بات صرف وہی جانتا تھا اور یہ بہت چھوٹی سزا تھی جو اُس نے فلک کے لفظوں کی دی تھی ۔۔۔وہ بھی صرف اُسکی حالت کے پیشِ نظر ورنہ وہ سخت سزا دیتا فلک کو ان لفظوں کی۔۔۔
کسی نے بھی نظر اٹھا کر اس طرف دیکھا تو اپنا رزیگنیشن لیٹر وصول کرنے کے لیے تیار رہے۔۔۔۔کامل نے افس سے نکلتے سخت سرد آواز میں کہا اسکی بات پر سب نے گھبرا کر اپنی نظریں جھکائی تھی۔۔۔۔اور کامل خان اپنی زندگی کو لیتے آفس سے باہر نکلا۔۔۔
اپنے فلیٹ پر اتے آرام سے اُس نے فلک کو اپنے کمرے میں بیڈ پر لٹایا۔۔۔۔
اُسکے سرہانے بیٹھتے وہ اُسکے تیکھے نقوش کو تکتے اپنی پیاسی نگاہوں کو تقویت بخش رہا تھا۔۔۔۔
بھینی بھینی سانسوں کی مہک اور فلک کے گداز وجود کو دیکھتے جذباتوں میں طغیانی سی ائی تھی۔۔۔
سوتے ہوئے جتنی حسین وہ لگ رہی تھی کامل جانتا تھا ابھی اٹھ کر اُس نے شیرنی بن جانا ہے۔۔۔
فلک کی گردن میں منہ دیتے اُس نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
دور ہوتے ایک نظر اسکو دیکھتے وہ کچن کی طرف بڑھا تاکہ اُسکے لیے جوس اور کچھ کھانا بنا سکے۔۔۔
💗💗💗💗
فلک نے اپنی آنکھیں کھولی دماغ نے شعور پر انے پر تھوڑا وقت لیا۔۔۔انجان کمرے کو دیکھتے وہ ایک جھٹکے سے اُٹھی۔۔اُسے یاد آیا وہ تو آفس میں تھی کامل کے پاس پھر اپنے ہونٹوں پر ایک دہکتا لمس محسوس ہوا تھا۔۔۔فلک نے بیساختہ اپنے لبوں کو چھوا۔۔۔
قدموں کی آواز پر سامنے دیکھا تو کامل خان چہرے پر حسین مسکراہٹ لیے اندر آرہے تھے فلک کا خون جل اٹھا۔۔۔۔۔۔
تم۔۔۔فلک نے کچھ بولنا چاہا جب کامل نے تیزی سے ٹرے پاس رکھی ٹیبل پر رکھتے بیڈ پر اتے اُسکے اطراف میں اپنے دونوں ہاتھ رکھتے اُسکے چہرے کے نزدیک اپنا چہرہ کیا۔۔فلک کی زبان تالو سے چپکی کامل کی اتنی نزدیکی پر۔۔۔۔
تم نہیں آپ ۔۔۔آپ کا شوہر ہوں میں۔۔۔تو آپ۔۔۔مجھے آپ کہہ کر مخاطب کرے۔۔۔کامل نے اپنی پر تپش سانسیں فلک کے گلابی ہوتے چہرے پر چھوڑتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
جیسی آپ نے حرکتیں کی ہے ۔۔ایسے میں آپ کو آپ نہیں تم ہی کہنا چایئے اور ۔۔اور دور رہ کر بات کرے مجھ سے۔۔فلک نے کامل کے سینے پر ہاتھ رکھتے اپنے آپکو مضبوط رکھتے جواب دیا۔۔۔جب کامل نے اُسکے وہی ہاتھ پکڑ کر اُسے بیڈ پر لٹایا۔۔فلک کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی ۔۔اُس نے سرامیگی نگاہوں سے کامل کی طرف دیکھا جو اُسکے چہرے پر جھکا ہوا تھا اُسکی ناک فلک کی ناک سے مس ہو رہی تھی۔۔۔۔
جتنا دور رہنے کی بات کرے گی کامل خان اتنی شدت سے آپکی روح میں سما جائے گا۔۔کامل نے فلک کی ناک کی ٹپ کو اپنے لبوں سے چھوتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
فلک کی آنکھیں لباب نمکین پانی سے بھری۔۔۔
اس شخص کی قربت اُسکی کمزوری تھی جس کا فائدہ وہ خوب اچھی طرح اٹھا رہا تھا اب بھی اُسکی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوتی اُسکی پسلیوں سے سر ٹکڑا رہی تھی۔۔۔
وہ سب کیوں کیا مجھے میرے ہر سوال کا جواب چایئے۔۔۔کیوں مجھے اکیلا چھوڑا مجھے تنہا کرا کیوں رات کے اندھیرے میں مجھ سے ملے کیوں اپنی
قربت میری جھولی میں ایسے ڈالی جیسے میں کوئی فقیر ہو۔۔کیوں اپنے بچے کے لیے نہ جائز لفظ سن کر بھی آپ خاموش رہے جواب دے مجھے۔۔۔
فلک نے کامل کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے روتی آواز میں کامل سے پوچھا۔۔
اُسکے لفظوں میں چھپی اذیت کامل خان محسوس کر سکتا تھا ضبط سے اُسکی سبز آنکھیں لال ہوئی۔۔۔۔
اگر اُس کے سچ کہنے سے اُسکی بیوی کے دل سے اُسکے لیے بدگمانی دور ہو سکتی تھی تو اُسے کوئی جھجھک کوئی پریشانی نہیں تھی اُسے سچ بتانے میں ۔۔۔۔
یقین کرے گی آپ میرا۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری نم آنکھوں سے آنسو اپنے لبوں سے چنتے پوچھا۔۔۔
جب صرف نکاح کے بولوں پر آپکو اپنا سب کچھ مان کر بغیر آپکے بارے میں سب کچھ جانے اپنا آپ سونپ سکتی ہو تو پھر کیوں نہیں کرونگی میں یقین۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے سے اُسکی شرٹ جکڑے اُسکے لبوں کا لمس اپنی آنکھوں پر محسوس کرتے لرزتی آواز میں کہا۔۔۔
فلک کی بات پر کامل نے اُسکے برابر میں لیٹتے اُسے اپنے سینے میں بھینچا اور سب سچائی بتاتا چلا گیا۔۔۔
کامل نے فلک کی سکسی محسوس کرتے سر جھکا کر اُسکی طرف دیکھا جو اُسکے سینے لگی رو رہی تھی ۔۔۔
ایک جھٹکے سے وہ کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوا۔۔۔
یہ رونا اس بات کا ہے کہ میں ائی ایس ائی ایجنٹ ہو یہ اس بات کا کہ میں نے آپ سے یہ بات چھپائی۔۔۔کامل نے اُسکے سرخ رخسار پر بہتے آنسو صاف کرتے پوچھا۔۔۔
فلک نے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
پھر ۔۔۔کامل نے اُسکے نفی میں سر ہلانے پر پوچھا۔۔۔
مجھے اس بات پر رونا آرہا ہے کہ آپ نے اُس لڑکی صائمہ سے پیار کا ۔۔ناٹک کیا۔۔۔فلک نے کامل کی شرٹ پر لگے بٹن کو اپنی انگلی سے چھوٹے بھرائے لہجے میں کہا۔۔۔
کامل خان کو لگا وہ ہنس پڑے گا واقعی میں عورت سب کچھ برداشت کر جاتی ہے لیکن دوسری عورت کو کبھی نہیں چاہے وہ نام ہی کی کیوں نہ ہو۔۔۔۔اب بھی وہ سب کچھ نظرانداز کیے اُسکی ایک بات کو لے کر رو رہی تھی۔۔۔
میں نے کبھی اُسے نظر اٹھا کر دیکھا نہ تھا اور نہ ہی کبھی چھوا تھا۔۔اور اُسکا نام صائمہ نہیں سائرہ ہے۔۔۔کامل نے اپنی ہنسی ضبط کرتے فلک کی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے نرم لہجے میں کہا۔۔
آپ کو اُسکا نام تک یاد ہے کامل۔۔۔فلک نے روتے ہوئے کہا۔۔۔کامل نے اُسکے لبوں کو دیکھا نچلا لب روتے ہوئے اُسکے اوپری لب پر آگیا تھا اور تھوڑی پر ہلکا سا گڑھا بھی نظر آرہا تھا۔۔۔
کامل نے جھکتے اپنے دانت فلک کی تھوڑی پر گاڑھے۔۔فلک نے درد سے سسکی بھری ۔۔۔۔
سچ والا پیار تو میں آپ سے ہی کرتا ہو اور ہمیشہ کرتا رہو گا انجانے میں فرض کے آگے مجبور ہوتے میں نے آپ کو بہت تکلیف دی ہے کیا آپ اپنے شوہر کو معاف کردے گی۔۔۔کامل نے فلک کے بال کان کے پیچھے کرتے پیار بھڑے لہجے میں کہا۔۔۔
آپ نے جو بھی کیا وہ آپکا فرض تھا اس ملک کی عزت بچانے کے لیے کیا اُن معصوم لڑکیوں کو بچانے کے لیے ۔۔۔اور مجھے آپ پر فخر ہے کہ آپ میرے شوہر ہے ۔۔۔فلک نے تھوڑا سے اٹھتے کامل کی کھڑی مغرور ناک پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔ ۔
کامل نے فلک کی بھوری آنکھوں میں دیکھا اور اُسکے گلابی لبوں پر جھک ایا۔۔
اپنی سانسیں اُسکی سانسوں سے مہکاتے وہ اپنا نرم لمس فلک کے لبوں پر چھوڑنے لگا۔۔۔
فلک نے دھیرے سے اپنی انگلیاں کامل کے بالوں میں ڈالی۔۔۔کتنے دنوں بعد وہ یہ لمس محسوس کر رہی تھی۔۔۔
اُسکی خوشی اُسکا سکون اُسکا آرام صرف ایک انسان میں تھا اور وہ تھا اُسکا شوہر۔۔۔۔
کامل کی شدت میں اپنی شدت شامل کرتی وہ کامل خان کو سرشار کر گئی ۔۔۔کامل نے کچھ دیر بعد فلک کے لبوں کو آزادی دی۔۔۔۔
فلک کو دیکھا جو گہرا سانس بھرتی اپنی گلابی ہوتی آنکھوں اور بھیگے لبوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔چہرہ حد درجہ سرخ تھا۔۔۔کامل نے جھکتے اسکے ہر ایک نقش پر اپنا بیتاب لمس چھوڑا فلک اپنی آنکھیں بند کئے گہرے سانس بھرتے کامل کا لمس اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی۔۔
کامل کے ہاتھ بیباکی سے اُسکے وجود پر سرایت کرتے اُسکے وجود میں سنسنی سی ڈورا گئے تھے۔۔
کامل نے فلک کی گردن پر اپنا لمس چھوڑا ۔۔اپنے دہکتے لبوں کی بوچھاڑ فلک کی گردن پر کرتے وہ کندھوں سے اُسکی شرٹ کھسکا گیا۔۔۔اپنے پیار کی نشانیاں دیتے وہ فلک کو سسکنے پر مجبور کر گیا۔۔۔۔
آرام سے فلک کو پلٹتے وہ اُسکی شرٹ کی زپ ایک جھٹکے سے کھولتے اُسکی برہنہ قمر پر اپنے لب رکھ گیا۔۔۔۔۔فلک گہرا سانس لیتے اپنے آپکو انے والے لمحات کے لیے مضبوط کر رہی تھی۔۔۔
رات گزرتے کامل نے اُسکے پور پور کو اپنی شدت سے بھگایا تھا اُس نے فلک کو اتنی نرمی سے چھوا تھا جیسے کوئی پھول ہو اور واقعی میں وہ ایک پھول کی طرح ہی تھی۔۔۔
گزرتی رات تمام شکوہ شکایت اُنکے درمیان سے مٹاتی چلی گئی۔۔۔فلک نے تمام شکوہ دور کرتے آنکھیں موندتے
اپنا آپ کامل کے حوالے کیا تھا۔۔۔اور کامل اُس پر اپنی محبت کی برسات کرتا چلا گیا۔۔۔۔
کامل نے جو کچھ کیا تھا وہ اپنے ملک کی بچیوں کی عزت کی حفاظت کرنے کے لئے کیا تھا۔۔۔سائرہ کا انجام ویسے ہی بہت غلط ہونے والا تھا ۔۔۔۔
💗💗💗💗
سورج کی کرنیں جیسے ہی کامل کی آنکھوں پر۔پڑی اُس نے اپنی سبز چمکتی آنکھیں کھولی۔۔۔نظر سیدھا اپنے سینے پر سر رکھے اپنی حیاتی (میری جان ) پر گئی ۔۔۔لبوں پر گہری مسکراہٹ نے احاطہ کیا۔ ۔
اُن دونوں کے درمیان سب صحیح ہوگیا تھا۔۔۔ورنہ اُسے تو سب اپنے ہاتھوں سے سرکتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔۔۔
کامل نے کروٹ بدلتے فلک کے چہرے کو تکا ۔۔کیسی تشنگی تھی جو بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔
وہ اُسکی کالی شرٹ میں سوئی ہوئی انتہاء کی معصوم اور حسین لگ رہی تھی ۔۔۔کامل نے جھکتے اُسکے پیٹ پر اپنے دہکتے لب رکھے ۔۔۔
اپنے پیٹ پڑ کامل کے لبوں کا لمس محسوس کرتے فلک نے اپنی آنکھیں کھولی نظر سیدھا کامل کے کالے بالوں پر گئی۔۔۔
اُسے کامل کے لمس سے گُدگُدی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔فلک نے جھرجھری لی۔۔۔۔کامل فلک کے ہلنے پر سمجھ گیا وہ اٹھ گئی ہے۔۔۔
کامل نے اوپر ہوتے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھا۔۔۔۔
کامل آپکی آنکھیں یہ اصلی ہے۔۔۔فلک نے کامل کی آنکھ کو اپنی انگلی سے چھوتے ہوئے اشتیاق سے پوچھا۔۔۔
آپکو نقلی لگ رہی ہے۔۔کامل نے اپنی آنکھ بند کرتے پوچھا۔۔
ہاں پہلے آپ نے کالے لینس لگائے تھے کیا پتہ یہ بھی نقلی ہو۔۔۔فلک نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔
آپکو میری کالی آنکھیں نہیں پسند تھی۔؟ ۔۔کامل نے اُسکے اُسکے لبوں پر اپنی انگلی رب کرتے پوچھا۔۔۔
نہیں وہ پسند تھی پر یہ زیادہ پسند ہے آپ تو سانولی رنگت میں بھی انتہاء کے پیارے لگتے تھے مجھے اور اب تو آپ اور حسین ہوگئے ہیں۔۔۔ماشاللہ سے میرا شوہر کتنا پیارا ہے۔۔۔فلک نے بھوری انکھوں میں چمک لیے کامل کی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے کہا۔۔
تعریف کا کام تو میرا تھا نہ پر یہاں اُلٹا ہوگیا ہے بیگم یہاں خاوند کی تعریف کر رہی ہے۔۔۔کامل نے اُسکی ناک میں پہنی بالی کو اپنی انگلی کی پوروں سے چھوا ۔۔۔
ضروری نہیں جس طرح عورت کی تعریف اُسکے لیے ایک غذا کی طرح اثر کرتی ہے ویسے ہی شوہر بھی اپنی تعریف کروانے کا حقدار ہے میرے خیال سے ایک بیوی کو اپنے شوہر کی تعریف لازمی کرنی چاہیئے اس سے پہلے کوئی باہری عورت اُسکی تعریف کرتے اُسے اپنی جانب راغب کرے ۔۔۔۔فلک نے بڑی سمجھداری کی بات کہی۔۔۔کامل کی آبرو داد دینے والے انداز میں اُچکی ۔۔۔۔
واہ کیا بات ہے اس خان کی خانی اتنی سمجھدار ہے۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گالوں پر اپنے لب ثبت کرتے کہا۔۔۔
میں پہلے سے ہی سجھدار ہو آپکو اج پتہ ہے۔۔۔فلک نے فخریہ لہجے میں کہا۔۔۔
کامل اگر آپ ایجنٹ ہے تو خضر بھی اجنٹ ہے ۔۔فلک نے کچھ یاد انے پر پوچھا۔۔۔
ہاں ۔۔۔کامل نے اُسکے ہاتھوں کو اپنے لبوں تک لاتے کہا۔۔۔
خضر کو سب پتہ تھا اور شجیہ کو بھی۔۔۔فلک نے کامل کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
خضر بھی میری طرح فرض کے آگے مجبور ہے اور بھابھی کو کچھ نہیں پتہ۔۔۔اب اور کوئی سوال نہیں جلدی سے فریش ہو جاؤ پھر ڈاکٹر کے پاس جانا ہے۔۔۔کامل نے اُسکے واہ ہوئے لبوں پر بوسا دیتے کہا اور اُسکے اوپر سے اٹھا۔۔
ڈاکٹر کے پاس کیوں۔۔فلک نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
بیگم آپ بھول گئی ہے آپکے ساتھ ایک اور جان جری ہے جس کی حفاظت اور صحت سب سے زیادہ ضروری ہے اسی کے چیک اپ کے لئے ہم جا رہے ہیں۔۔کامل نے بیڈ سے اٹھتے فلک کے بالوں کو بکھیرتے ہوئے کہا۔اور اُسکے ماتھے پر بوسا دیتے کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔
فلک پیچھے مسکرا گئی ایک ہی دن میں اُسے اپنی زندگی جو کل تک ایک بوجھ لگتی تھی وہ خوشگوار لگنے لگی تھی۔۔۔حسین تر۔۔من پسند شخص جو ساتھ تھا۔۔۔
وہ چاہتی تو کامل کو کبھی نہ معاف کرتے اپنا اور اُسکا رشتا داؤ پر لگا دیتی۔ ۔۔۔لیکن کامل نے جس وجہ سے اُس سے جھوٹ بولا تھا جس وجہ سے اُس سے دوری بنائیں تھی وہ وجہ بہت اہم تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗
سر۔۔۔سائرہ کو ائی ایس ائی کی ٹیم نے پکڑ لیا ہے۔۔۔جون کی بات پر اُسکا حرام مشروب پیتا ہاتھ رکا۔۔۔
ہمیں جلد سے جلد یہاں سے اُن لڑکیوں کو لے کر نکلنا ہوگا سائرہ کچھ بھی بتا سکتی ہے۔۔۔جون نے فکر مندی سے کہا۔۔۔
تیاری کرو جون تمھاری میم کو لے کر انا ہے۔۔۔لیپرڈ نے صوفے سے اٹھتے سامنے دیوار پر لگی لارج سائز شجیہ کی تصویر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔
جون نے اثبات میں سر ہلایا اور ویسے ہی جھکی نظروں سے باہر نکلتا چلا گیا تھا پورا کمرہ شجیہ کی تصویروں سے بھرا ہوا تھا اگر غلطی سے بھی وہ نظر اٹھا کر اُسکی ایک بھی تصویر دیکھ لیتا تو لیپرڈ کا کوئی بھروسہ نہیں تھا وہ اُسے بینائی سے محروم کر دیتا۔۔۔
خضر فریش ہوکر جیسے ہی باہر نکلا اُسکے فون پر بیس سے کال انے لگی میجر مہمد نے ارجنٹ اُسے ملنے کے لیے بلایا ۔۔۔
خضر نے فون رکھتے شجیہ کے بارے میں سوچا۔۔۔۔پوری رات وہ یہاں نہیں تھا اب بھی چلا جاتا نہ جانے شجیہ کیسا ردِ عمل دے گی۔۔۔۔۔
ایک گہرا سانس بھرتے اُس نے اپنے قدم بڑھائے لاؤنچ میں پہنچتے ہی اُسے سامنے ہی وہ نظر ائی جامنی رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ سر پر اوڑھے ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگاتی ہوئی ۔۔۔۔۔
خضر کے کلون کی تیز مہکتی خوشبو محسوس کرتے شجیہ نے پلٹ کر خضر کو دیکھا اور مسکرائی ۔۔۔
آجائے خضر ناشتہ تیار ہے۔۔۔شجیہ نے مسکراتے چہرے سے کہا۔۔۔
شجیہ مجھے کچھ ضروری کام ہے ارجنٹ جانا ہے۔۔۔خضر نے اُسکے قریب اتے نرم سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
خضر کی بات پر اُسکا مسکراتا چہرہ فوراً سمٹا۔۔۔۔
پر۔۔ابھی تو آپ آئے تھے۔۔۔شجیہ نے دھیمی آواز میں خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے کہا ۔۔
مجھے پتہ ہے میرے دل ۔۔۔بس یہ ایک کام ختم کر کے آجاؤ پھر سارا وقت میرا تمہارا ہوگا۔۔۔بس۔۔ جب تک میں گھر نہیں آتا تب تک کچھ بھی ہوجائے باہر نہیں نکلنا ۔۔۔۔خضر نے شجیہ کا گال تھپتھپاتے ہوئے اُسکی نیلی انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
شجیہ نے فقط اثبات میں سر بلایا۔۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیا اور تیز قدموں سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔۔۔۔
شجیہ نے خضر کے جاتے ہی ایک نظر ڈائننگ ٹیبل کو دیکھا تھا جہاں پر ناشتہ سجا ہوا تھا ۔۔نہ جانے کیوں اُسکی نیلی آنکھیں نم ہوئی ۔۔۔۔۔۔
تیزی سے وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔
اُسے لگ رہا تھا خضر اُسے نظرانداز کر رہا ہے۔۔۔۔نہ پوری رات وہ گھر تھا اور نہ اب۔۔۔بیڈ پر اوندھے منہ لیتی وہ اانہی سب چیزوں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔۔۔
اتنا بڑا گھر اُسے گھٹن زدہ لگ رہا تھا نہ فلک گھر پر تھی کہ وہ اُس کے پاس چلی جاتی یہ تنہائی اُسے کاٹ کھانے کو دور رہی تھی۔۔۔۔۔
نسرین بیگم کے پاس جانے کا سوچتی وہ اُٹھی۔۔۔اپنی چادر الماری سے نکالتے پہنتے اُس نے ایک نظر اپنے آپکو آئینے میں دیکھا تھا نیلی انکھوں میں رونے کے سبب جو لالی ظاہر ہو رہی تھی کاجل کی گہری لکیر سے بھر کر اُسے چھپایا اور کمرے سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
دل میں ایا کہ ایک مرتبہ خضر کو بتا دے لیکن ابھی اُسے خضر پر انتہا کا غصّہ تھا۔ اور ویسے بھی جس طرح خضر اُسے منع کرتے گیا تھا وہ اُسکو جانے ہی نہ دیتا۔ ۔اور وہ گھر پر تنہا نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے ڈرائیور کو ہسپتال لے جانے کا حکم دیا۔۔۔
اس بات سے بےخبر کہ اُسکا یہ قدم خضر اور اُسے گہرے ہجر میں ڈال دے گا۔۔۔
💗💗💗
شجیہ کی گاڑی کے باہر نکلتے ہی جوہن نے اپنی گاڑی اسکے پیچھے لگائی لیپرڈ کے حکم کے مطابق اُسے کسی بھی طرح اج ہی شجیہ کو لیپرڈ تک پہنچانا تھا اور یہ اچھا موقعہ تھا۔۔۔
شجیہ نے سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکایا ابھی وہ ہاسپٹل سے تھوڑے فاصلے پر ہی تھی جب اُسے دائیں بائیں جانب دو کالی گاڑیوں کو دیکھتے اُسے حیرت ہوئی انجانے خوف سے دل دھڑکا۔۔۔
سانس تو تب تھمی جب ایک گاڑی نے اُنکی گاڑی کو اور ٹیک کیا۔۔۔اور اُس میں سے نکلتے کالے لباس میں ملبوس آدمیوں نے گاڑی کو چاروں طرف سے گھیرا۔۔۔۔۔
شجیہ نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا موبائل تلاشنا چاہا لیکن وہ اپنا موبائل تو گھر ہی چھوڑ ائی تھی۔ ۔
جلدی سے خضر کو فون کرے۔۔۔شجیہ نے ڈرائیور کو تیزی سے کہا ۔۔۔ابھی ڈرائیور خضر کو فون کرتا کہ ایک گولی سامنے سے اتی اُسکے دماغ کے بیچ و بیچ لگی۔۔۔
شجیہ چیخی ۔۔گاڑی میں پھیلتے خون کو دیکھتے اُسے لگا اُسکی سانسیں بند ہوجائے گی۔۔جب اُسکی طرف کا دروازہ کھلا ۔۔۔
چھوڑو مجھے ہاتھ مت لگانا چھوڑو مجھے۔۔۔۔کالے لباس میں ملبوس جون نے شجیہ کا بازو تھام کر اُسے باہر نکالنا چاہا جب۔شجیہ مزاحمت کرتے چیخی۔۔۔لیکن یہ مزاحمت چند پل کی تھی جون نے کلوروفوم سے بھرا رومال شجیہ کے چہرے پر رکھا۔۔۔شجیہ کی آنکھوں سے بےبسی بھرے آنسو نکلے ۔۔۔
شجیہ کا سر ایک طرف کو ڈھلکا۔۔۔جون کے اشارے پر دو لڑکیاں گاڑی سے باہر نکلی اور شجیہ کو لے کر ایک گاڑی میں سوار ہوئی۔۔۔
پل بھر کا کھیل تھا اور شجیہ خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔۔خضر شجاعت چوہدری سے دور چلی گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر میجر مہمد سے مل کر اپنی گاڑی میں سوار ہوا تھا ۔۔۔نہ جانے کیوں اچانک اُسے سینے میں دل کے مقام پر درد سا محسوس ہوا ۔۔۔۔۔ایسا لگا جیسے دل کا کوئی حصہ کٹ کر اُس سے جدا ہو رہا ہے ۔۔۔
بیساختہ شجیہ کا سراپا ذہن میں لہرایا ۔۔۔۔دل کی دھڑکن حد سے سوا ہوئی۔۔۔وہ ٹھیک تو ہے یہ خیال خضر کے ذہن میں فوراً سے گونجا۔۔۔۔اپنے فون سے گھر کے لینڈ لائن پر کال کی۔۔۔۔
ہیلو شجیہ کہاں ہے میری بات کرواؤ۔۔۔ملازمہ کے فون اٹھانے پر خضر نے جلدی سے پوچھا۔۔۔۔لہجہ میں واضح فکر اور ایک خوف سا تھا ۔۔۔۔
سر میم ہاسپٹل چلی گئی ہے ۔۔۔ملازمہ کے بتانے پر خضر کے ماتھے پر بل پڑے انجانے خوف سے ماتھے پر پسینہ چمکا ۔۔۔
فون ڈیش بورڈ پر پٹھکتے اُس نے گاڑی تیز رفتار میں دوڑائی ۔۔اُس نے شجیہ کو منع کیا تھا گھر سے باہر نکلنے سے پھر بھی وہ نکلی اُسے پتہ تھا باہر لیپرڈ شجیہ کے ہر ایک قدم پر نظر رکھا ہوا ہے۔۔۔ایسے میں شجیہ کا باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں تھا ۔۔
ڈیم ات۔۔۔تمھاری اس غلطی کی سزا تمہیں ضرور ملے گی شجیہ ۔۔اگر میری بیوی مجھ سے دور ہوئی تو میں سب کچھ تہس نہس کردونگا۔۔۔۔۔اپنا ہاتھ زور سے اسٹیئرنگ پر مارتے خضر لال بھبھوکا چہرے لیے ڈھاڑا ۔۔۔۔۔۔
اگر غلطی سے بھی شجیہ تک لیپرڈ پہنچ گیا تو خضر نہ جانے کیا کر گزرتا اُسے خود نہیں معلوم تھا۔۔۔
ہسپتال کے راستے پر اُسے سامنے ہی گاڑی نظر ائی دھڑکتے دل سے وہ اپنی گاڑی سے باہر نکلا۔۔۔
دل تھا کہ انجانے خوف سے دھڑکتا اُسکے سینے سے ٹکڑا رہا تھا یہ خوف انجانا نہیں تھا بلکل بھی نہیں یہ خوف تو شجیہ کو کھو دینا کا تھا۔۔۔۔۔
اپنے ڈرائیور کو مردہ حالت میں دیکھتے خضر نے اپنی مٹھی بھینچی ۔۔۔پچھلی سیٹ پر پڑا شجیہ کا دوپٹہ اٹھا کر اپنے ہاتھ میں تھامتے اُس نے اپنے سینے سے لگایا تھا جان گیا تھا وہ اُس نے دیر کردی ہے۔۔۔۔اپنی آنکھیں مینچتے اُس نے خود پر ضبط کرنا چاہا جو انتہائی مشکل تھا۔۔۔
شجیہ اُس لیپرڈ کے ہاتھ لگ گئی ہے اس وقت وہ اُس کے پاس ہے یہ سوچ خضر کے سینے میں آگ دھکا گئی تھی ۔۔۔۔
اُس کا بس چلتا تو وہ شجیہ کو اپنے سینے میں چھپا کر اس دنیا کی ہر نظر سے بچا لیتا۔۔۔۔
بھوری آنکھیں پل بھر میں لال ہوئی۔۔۔ہاتھوں اور ماتھے کی نسیں اُبھری ہوئی اُسکے اشتعال کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔
ابھی اُسکی بیوی اُسکے پاس نہیں تھی اُسکی بیوی کی عزت جان خطرے میں تھی۔۔۔اور خضر یہ سب سوچتا پاگل ہونے کے در پر تھا۔۔۔
شدید غصے میں اتے اُس نے اپنا ہاتھ گاڑی کے شیشے پر مارا بھل بھل خون اُسکے ہاتھ سے بہتا زمین بھگو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ اُسکی ایک جھلک تک کسی غیر کو دیکھنے نہ دے اور اب تو وہ اُسکے پاس تھی۔۔۔۔۔۔
لہو رنگ بھوری آنکھوں سے اُس نے کامل کو زخمی ہاتھ سے فون ملایا۔۔۔۔بھوری آنکھیں خطرناک حد تک سرخ تھی۔۔۔
💗💗💗
فلک ابھی فریش ہوتے باہر نکلی ہی تھی کہ اُسے کامل سامنے نظر ایا جو کسی سے فون پر بات کر رہا تھا جبکہ چہرہ حد درجہ اسپاٹ تھا۔۔۔
فلک کو حیرت ہوئی ابھی تو ہنستا مسکراتا ہوا کمرے سے گیا تھا تو اب کیا ہوا۔۔۔
کامل نے فلک کے انے پر اُسکی طرف دیکھا فون اپنی جیب میں رکھتے اُس نے فلک کے پاس اتے اُسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالے میں تھاما۔۔۔
میرے دوست کو میری ضرورت ہے ۔۔۔اور میرے ملک کو بھی۔۔۔مجھے اس وقت جانا ہوگا۔۔۔لیکن میں تم سے ایک وعدہ چاہتا ہوں میرے انے تک میری بیوی اور بچے کا اچھے سے خیال رکھو گی۔۔۔مجھے میری واپسی پر دونوں صحیح سلامت تندرست چایئے۔۔۔۔کامل نے گھمبیر آواز میں فلک کے خوبصورت چہرے کو تکتے کہا جس کی بھوری چمکدار آنکھیں اُسکے جانے کا سوچتے ہی نم ہوئی تھی۔۔۔
خضر کو کیا ہوا ہے کامل سب ٹھیک ہے نہ۔۔۔فلک نے خضر کے متعلق پوچھا کامل کی بات پر وہ سمجھ گئی تھی کہ خضر کی بات کر رہا ہے وہ۔۔۔۔
بھابھی اُس لیپرڈ کے ہاتھ لگ گئی ہے ۔۔اور اُنہیں اور باقی بچیوں کو صحیح سلامت واپس لانا ہے۔۔۔کامل کی بات پر فلک کی آنکھوں میں شجیہ کے لیے فکر مندی چھلکی ۔۔۔۔
ایسے کیسے ہوسکتا ہے کامل شجیہ ٹھیک تو ہوگی نہ وہ اُسے کوئی نقصان تو نہیں پہنچائے گا اور خضر وہ تو شجیہ کے بنا ایک دن نہیں رہ سکتا ہے یہ سب کیا ہورہا ہے کامل۔۔۔۔فلک کی آنکھیں چھلک پڑی اور کامل نے اُسکے آنسو دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔
ریلیکس حیاتی کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔سب ٹھیک ہوجائے گا ہم بھابھی کو صحیح سلامت واپس لے کر آئے گے ۔۔لیکن تم اگر اس طرح روتی رہو گی تو میرا جانا مشکل ہوجائے گا۔۔۔۔کامل نے اُسکے آنسو دیکھتے بےبسی سے کہا۔۔۔
فلک نے جلدی سے اپنے آنسو صاف کیے لیکن وہ پھر بہہ نکلے۔۔۔۔
آپ مجھ سے وعدہ کرے خضر کو تنہا نہیں چھوڑے گے ۔۔شجیہ اور باقی سب کو صحیح سلامت واپس لے کر آئے گے اور مجھے میرا شوہر اور میرے بچے کے بابا بھی صحیح سلامت واپس چایئے ۔جس طرح میں آپکو بلکل ٹھیک ٹھاک بھیج رہی ہو بلکل اسی طرح ۔۔فلک نے کامل کے سینے پر اپنا ہاتھ رکھتے دوسرا ہاتھ اُسکے گال پر رکھتے بھرائے لہجے میں کہا جبکہ آنکھیں اچھی طرح کامل کے ہر نقش کو حفظ کر رہی تھی۔۔۔
میرا وعدہ ہے اپنی بیوی سے سب کو با حفاظت واپس لے کر اونگا۔۔۔چاہے کچھ بھی ہوجائے ۔۔۔کامل نے فلک کے ماتھے سے اپنا ماتھا لگاتے نرم لہجے میں کہا آنکھیں بند کرتے فلک کو اپنے قریب محسوس کرنا چاہا۔۔۔اُسکا دل تو کیا تھا فلک کو خود میں بھینچ لے اور کبھی اپنے سینے سے الگ نہ کرے۔۔۔فلک کے ہر نقش کو اپنے بیتاب لمس سے بھگو دے ۔۔۔لیکن وقت نے اتنی اجازت کب دی تھی۔۔۔۔
چلو میں تمہیں حویلی چھوڑ اؤ وہاں تم محفوظ رہو گی۔۔کامل نے اپنے اوپر ضبط کرتے فلک سے علیحدہ ہوتے کہا۔۔
فلک نے اثبات میں سر ہلایا اور کامل کا ہاتھ مضبوطی سے تھاما اور اُسے لیے باہر نکلتا چلا گیا۔۔۔۔
💗💗💗💗
میں اور انتظار نہیں کرسکتا آپ سمجھ کیوں نہیں رہے میری بیوی اس وقت اُس انسان کے پاس ہے میں انتظار کسی صورت نہیں کر سکتا۔۔۔۔خضر اپنی کرسی سے اٹھتا چیخا تھا میجر مہمد نے خاموش نظروں سے اُسکی طرف دیکھا جس کا چہرہ دیکھتے اُنہیں ایک بھوکے شیر کی تصویر لہراتی نظر آرہی تھی۔۔۔لال آنکھوں کے ساتھ وہ انتہائی غصے میں تھا۔۔۔۔۔
کامل نے خضر کا بازو پکڑ کر اُسے کنٹرول کرنا چاہا۔۔۔۔
خضر میں جانتا ہوں تم پر کیا گزر رہی ہے ۔۔میجر مہمد نے کہنا چاہا۔۔۔جب خضر پوری قوت سے ڈھاڑا ۔۔۔
آپ نہیں جانتے سر آپ بلکل نہیں جانتے میں اپنی بیوی کی ایک جھلک تک کسی انسان کو دیکھنے نہ دو یہاں تو بات ہی کچھ اور ہے۔۔میری بیوی ابھی اُس لیپرڈ کے پاس ہے۔۔۔۔۔خضر کی آواز آفس کی دیواروں سے ٹکراتے واپس ائی تھی۔۔۔۔
کیا چاہتے ہو۔۔۔میجر مہمد جانتے تھے وہ سکون سے نہیں بیٹھے گا۔۔۔
ٹیم ریڈی کرے ۔۔ہم ابھی اُسکے مینشن پر حملہ کرے گے۔۔۔خضر نے اسپاٹ حتمی لہجے میں کہا۔۔۔۔
وہ اب اور مزید برداشت نہیں کر سکتا تھا کسی بھی حال میں اُسے شجیہ اپنے پاس چایئے۔۔۔کسی بھی حال میں۔۔۔
ٹھیک ہے کامل ٹیم ریڈی کرے۔۔۔اگر خضر شجاعت چوہدری کو مینشن کا پتہ معلوم ہے تو پھر دیر کس بات کی۔۔۔میجر مہمد نے اطمینان سے کہا اُنکی بات پر کامل نے اپنی آنکھیں مینچِی نفی میں سر ہلایا۔۔۔
اور خضر ابکی بار خاموش ہوا۔۔۔صرف یہی تو ایک چوک تھی جو اُس سے ہوگئی تھی اُسے مینشن کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم تھا اور نہ سائرہ کچھ بتانے کو تیار تھی۔۔۔۔وہ اس وقت جو بےبسی اپنے وجود میں محسوس کر رہا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔۔وہ نہیں جانتا تھا شجیہ ابھی کس حال میں ہے کیسی ہے۔۔۔اُسکا دل ان وقتوں میں نارمل رفتار سے تیز دھڑک رہا تھا۔۔۔۔
کیا ہوا خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔اب بھی بولے کچھ آپ۔۔۔میجر مہمد نے اطمینان سے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اُس سے پوچھا ۔۔
وہ صرف اپکی بیوی ہی نہیں ہماری بہو بھی ہے ہمیں بھی اُسکی اتنی ہی فکر ہے جتنی آپکو ہے۔۔۔میجر مہمد نے ابکی بار سخت آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے اپنی بھوری آنکھوں سے اپنے ماموں کی طرف دیکھا جو بچپن سے اُسکے ساتھ تھے انہی کی بدولت تو وہ ائی ایس ائی میں ایک ہیکر کے طور پر اپنی خدمات انجام دے رہا تھا۔۔۔۔
جاؤ جاکر سائرہ سے بات کرو کوئی نہ کوئی کلو وہ لازمی دے گی۔۔۔میجر مہمد کے کہنے پر وہ دونوں اثبات میں سر ہلاتے اُنکے افس سے باہر نکلے تھے۔۔۔۔
💗💗💗
سیدھی طرح سچ بتاؤنگی تو مریم کا بھاری ہاتھ اپنے اس نازک سے گال پر پڑنے سے بچ جاؤں گی۔۔۔کامل نے سائرہ کے سامنے بیٹھتے اُس کے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو لال ہورہا تھا۔۔۔۔
مجھے جو کچھ پتہ تھا میں نے بتا دیا ۔سائرہ نے قہر بھری نظروں سے کامل کو دیکھتے کہا۔ اُسکی بات پر شیشے کے پار کھڑے خضر نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔
ٹھیک طرح سے یاد کرو کچھ تو تمہیں پتہ ہوگا لیپرڈ کے مینشن کے بارے میں۔۔۔خضر مزید برداشت نہ کرتا سائرہ کے پاس اتے غرایا ؟۔۔۔۔
خضر کی سخت سرد آواز پر سائرہ کی آنکھوں میں خوف لہرایا ۔۔۔
مجھے کچھ نہیں پتہ۔۔۔سائرہ نے کہا ۔۔اسکی ایک ہی رٹ پر اب کامل اور خضر دونوں کا ضبط ختم ہونے لگا تھا ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا اتنی خاص بندی کو اپنے بوس کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہ ہو۔۔۔۔
مریم۔۔۔کامل نے پاس کھڑی لیڈی آفیسر کو اشارہ کیا جو اُسکا اشارہ سمجھتے گرم کھولتا ہوا پانی سائرہ کے پاس ائی۔۔۔
یہ۔۔یہ۔۔کیا کر رہے ہو تم لوگ۔۔۔سائرہ گرم کھولتے پانی کو پاس دیکھتے خوف سے چیخی۔۔۔۔
تم نے ہمیں بیوقوف سمجھ رکھا ہے کہ تم مجھے کچھ نہیں پتہ کی رٹ لگائے رکھو گی اور ہم اُس پر یقین کر لے گے ۔۔۔۔نہ سائرہ بی بی ۔۔۔تم نے ائی ایس ائی کو مذاق سمجھ رکھا ہے شاید۔۔۔۔خضر نے انتہائی سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔
بتاتی ہو میں بتا رہی ہو۔۔۔۔مریم نے سائرہ کو بالوں سے پکڑتے اُسکا سر پانی کی بالٹی کی طرف کیا جب وہ چیخی۔۔۔
کامل اور خضر نے گہرا سانس بھرا۔۔۔
💗💗💗
نکالو مجھے یہاں سے۔۔۔شجیہ نے ڈریسنگ ٹیبل کی ساری چیزیں ایک جھٹکے سے نیچے پھینکتے کہا۔۔۔
جب اُسکی آنکھ کھلی وہ اس اندھیرے کمرے میں ایک شاندار بیڈ پر تھی یہ کمرہ ہر اسائش سے مالا مال تھا۔۔۔اُس نے کتنی بار دروازہ بجایا لیکن کسی نے نہ کھولا۔۔۔
شدید غصے میں اتے اُس نے پورے کمرے کا حال برا کر دیا تھا۔۔۔۔
سنائی نہیں دے رہا نکالو مجھے یہاں سے شجیہ نے پاس پڑا واس اٹھا کر سامنے شیشے پر دے مارا۔۔۔۔
💗💗💗💗
کیا ہوا ہے۔۔۔لیپرڈ نے کمرے کے پاس اتے باہر کھڑے جون سے پوچھا۔۔۔
ابھی جون کوئی جواب دیتا جب اندر سے اتی آواز پر اُس نے جون کو جانے کا اشارہ کیا۔۔۔
ہلکے سے کمرے کا دروازہ کھولتے اُس نے اندر قدم رکھا ۔۔۔۔
شجیہ جو اب دوسرا واس اٹھا کر مارنے لگی تھی دروازہ کھلنے کی آواز پر پلٹی۔۔۔۔
سامنے کالے سوٹ میں ملبوس لیپرڈ کو دیکھتے وہ تھمی۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں غصے کی شدت سے سرخی نے اپنی جگہ بنا لی تھی۔۔۔۔
ہاتھ میں واس تھامے نیلی آنکھوں میں غصّہ لیے بھورے سلکی بھورے بال پشت پر پھیلآئے۔۔لیپرڈ کو اپنی جگہ سٹل کر گئی ۔۔۔۔
وہ یک تک شجیہ کے حسین چہرے کو تک رہا تھا۔۔۔۔عنابی ہونٹوں پر ایک گہری حسین مسکراہٹ نے اپنی جگہ لی۔۔۔اپنے قدم آگے بڑھاتا وہ شجیہ کے قریب انے لگا۔۔۔
رک جاؤ میرے قریب مت انا جانے دو مجھے۔۔۔شجیہ نے اپنے ہاتھ میں تھاما واس اُسکی طرف پھینکتے چیختے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
واس سیدھا لیپرڈ کے سینے پر لگتا ٹوٹا ۔۔لیکن اب بھی اُسکے چہرے سے مسکراہٹ جدا نہ ہوئی پر وہ اپنی جگہ رک گیا تھا۔۔۔آخر سامنے محبوب کھڑا تھا جس کی کوئی بات وہ ٹال ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔
اگر جون یہاں ہوتا اور شجیہ کی اس حرکت پر لیپرڈ کو بلکل ریلیکس مسکراتے دیکھ لیتا تو یقیناً وہ پانچ چھ سالوں تک کوما میں چلا جاتا۔۔۔۔
وہ لیپرڈ جو اپنی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے والے کا انجام نہایت عبرت ناک کرتا تھا اج اپنے سینے پر ایک لڑکی کا وار سہہ گیا تھا۔۔۔
شجیہ نے حیرت سے سامنے کھڑے انسان کو دیکھ رہی تھی جس نے ایک لفظ تک نہ اسکو بولا فقط مسکراتا رہا۔۔۔۔
شجیہ کی نظر اُسکی کالی آنکھوں پر پڑی اور اُس میں نظر آتی چمک شجیہ کو پتھر کا کر گئی۔۔۔۔
وہ بھی تو ایک شخص سے محبت کرتی تھی تو کیسے نہ پہچانتی کہ سامنے کھڑے شخص کی آنکھوں میں ایک خاص چمک ہے محبت کی چمک ۔۔۔۔
کیسی ہو۔۔۔لیپرڈ نے انتہائی نرمی سے شجیہ سے پوچھا۔۔۔
مجھے یہاں سے جانے دو۔۔۔میں نے آخر تمہارا کیا بگاڑا ہے ۔۔شجیہ نے لیپرڈ کے کہنے پر سخت آواز میں پوچھا۔۔۔
بہت کچھ بگاڑا ہے آپ نے اس لیپرڈ کا۔۔۔اس دل کو لے کر غائب ہوگئی ہے۔۔۔میری نیند آپ نے چڑائی ہے میرے خیالات میرے ذہن پر اپنا قبضہ کیا ہے۔۔۔مختصر یہ کہ اس لیپرڈ کے اس بنجان دل پر حکمرانی کرنے لگی ہے۔۔۔لیپرڈ نے گھمبیر آواز میں شجیہ کا چہرہ دیکھتے ایک جذب سے ۔۔۔۔
میں ۔۔میں شادی شدہ ہو مجھے جانے دو۔۔۔شجیہ لیپرڈ کی بات پر گھبرائی اُسکی آنکھیں حیرانی سے پھیلی۔۔۔
ہونہہ ۔۔یہی تو بات ہے یہی ایک بات ہے جس کی وجہ سے مجھے آپکو اس طرح اپنے پاس لانا پڑا ۔۔۔۔لیپرڈ نے اپنا سر نفی میں ہلاتے کہا۔۔۔
دیکھو مجھے جانے دو تم میرے شوہر کو جانتے نہیں ہو تمہیں شرم نہیں اتی کسی شادی شدہ لڑکی سے یہ بات کہتے ہوا کچھ تو خدا کا خوف کرو۔۔۔شجیہ اپنی جگہ پر کھڑی ہی ہزیانی انداز میں چیخی۔۔۔اب تو اُسکا گلا بیٹھنے لگا تھا۔۔۔۔
میں کیا کرو میرے بس میں نہیں محبت ہوگئی ہے آپ سے چھوڑ تو سکتا نہیں آپکو۔۔۔اور خدا آپکو میرے نصیب میں بھی لکھ سکتا تھا پھر کیوں نہیں لکھا کیوں آپ مجھے دیر سے ملی پہلے بھی تو مل سکتی تھی۔۔۔۔لیپرڈ کی بات پر شجیہ نے زور سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
دیکھو میں خضر کا نصیب۔۔۔آہ ۔۔۔شجیہ ابھی کہنے لگی ہی تھی جب لیپرڈ نے اپنے ہاتھ میں تھامی پسٹل سے سامنے پڑے بڑے سے واس پر وار کیا۔۔۔۔
میں خضر کے نصیب میں تھی اُنکے نصیب میں لکھی گئی تھی اور یہ میرے اللّٰہ کا فیصلہ تھا جو مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔۔۔جب اُنکے نصیب میں تھی تو اُن تک ہی انا تھا مجھے۔۔۔شجیہ نے سمنبھل کر سرد آواز میں لیپرڈ کی طرف دیکھتے کہا آنکھوں میں ابکی بار کوئی ڈر نہیں تھا ۔۔لیپرڈ کی آنکھیں پل میں لال ہوئی ۔۔۔۔
اور میری محبت۔۔۔لیپرڈ نے گن سے اپنی داڑھی رب کرتے پوچھا۔۔۔
تمھاری محبت تمھاری غلطی۔۔میں جانتی ہو دل پر اختیار نہیں ہوتا لیکن جب آپکو پتہ چل جائے جس کو دیکھ کر آپکا دل دھڑک رہا ہے وہ آپکے نصیب میں نہیں وہ کسی اور کی امانت ہے تو اپنے قدم پیچھے لینے پڑتے ہے اپنے دل کو روکنا پڑتا ہے۔۔۔۔شجیہ نے پاس پری چادر بیڈ سے کھینچتے خود کے گرد اوڑھی۔۔۔۔
غلط یہ کرتے هونگے دوسرے لوگ میں لیپرڈ ہو ۔۔جسکو جو چیز اچھی لگتی ہے وہ حاصل کر لیتا ہے یہاں تو بات محبت کی ہے تو کیسے نہ چھینٹا میں آپکو اُس سے۔۔۔اور فکر نہیں کرے کچھ ہی پلوں میں آپ بیوہ ہوجائے گی۔۔اور اُسکے بعد ہم دونوں اپنی دنیا بسائے گے۔۔۔۔لیپرڈ نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی پشت پر رکھتے اطمینان سے کہا۔۔۔
اُس نے جیتنے اطمینان سے یہ بات کی تھی اتنی ہی یہ بات شجیہ کو اذیت دے گئی تھی۔۔۔خضر کے بارے میں سوچتے اُسکی نیلی آنکھوں میں نمکین پانی جمع ہوا ۔۔۔۔
میں تمہارا منہ نوچ لونگی اگر میرے شوہر کو ایک کھڑوچ بھی ائی تو۔۔شجیہ غرائی نیلی آنکھوں میں غضب کا غصّہ سمایا ۔۔۔۔
یہی پیار یہی فکر میں اپنے لیے دیکھنا چاہتا ہوں اور ایک دن دیکھو گا ضرور۔۔۔لیپرڈ نے سائڈ سمائل کرتے کہا۔۔۔
کبھی نہیں میری فکر میرا پیار مجھ پر میری ہر چیز پر فقط میرے شوہر کا حق ہے ۔۔۔۔شجیہ نے نفی میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
باہر سے اتی فائرنگ کی آواز پر شجیہ مسکرائی۔۔۔۔اُس نے دروازے کی طرف اپنے قدم بڑھائے جب لیپرڈ نے اُسکا بازو پکڑا۔۔۔
چھوڑو مجھے ۔۔۔چھوڑو ۔۔۔خضر بچائے مجھے۔۔۔خضر۔۔۔۔کوئی ہے۔۔۔شجیہ لیپرڈ کی گرفت میں چیخی دل نے جیسے صدا دی تھی کہ خضر ہی ہے وہ ہی ہے جو اُسے بچانے ایا ہے۔۔۔
لیپرڈ نے شجیہ کی گردن کی مخصوص رگ دبائیں اور پل میں وہ بیہوش ہوتے اُسکے کندھے پر گری تھی۔۔۔۔
سر ہمیں یہاں سے جانا ہوگا۔۔نیچے والے پورشن پر حملہ ہوگیا ہے۔۔جون نے کمرے میں اتے عجلت سے کہا۔۔۔
لیپرڈ نے آرام سے شجیہ کے وجود کو اپنی باہوں میں بھرتے قدم روف ٹاپ کی جانب بڑھائے تھے جہاں انکا ہیلی انکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔
سر وہ لڑکیاں۔۔۔جون نے نیچے قید ہوئی لڑکیوں کے بارے میں پوچھنا چاہا ۔۔
فلوقت میرے لیے میری محبت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔۔۔لیپرڈ سرد آواز میں گویا ہوا۔۔۔
💗💗💗💗
سائرہ کی بتائی جگہ پر وہ لوگ آئے تھے ۔۔جہاں پر اس پاس سنسان میدان تھا اور بیچ میں بنا وہ عالیشان سا مینشن۔۔۔۔
خضر کی ٹیم نے جلدی سے پورے بنگلہ کو اور ٹیک کر لیا تھا شاید لیپرڈ اس بات سے نہ واقف تھا کہ وہ لوگ یہاں بھی آسکتے ہے اسی لیے اُس نے اپنی ٹیم کو تیار نہیں کیا تھا۔۔۔
کالی شرٹ اور کالی پینٹ میں ہاتھ میں گن تھامے خضر بیتابی سے سامنے اتے ہر وجود کو مارتا اندر داخل ہوا تھا ۔۔نظریں بس ایک وجود کو دیکھنا چاہتی تھی ۔۔۔
نیچے موجود ہر کمرے کے دروازے کو کھولتے وہ شجیہ کی تلاش کر ربا تھا اور ہر کمرے میں اُسے نہ پاکڑ اُسکے چہرے کے تاثرات مزید سخت ہوتے جا رہے تھے ۔۔اُسے ہر حال میں شجیہ واپس چایئے تھی صحیح سلامت ۔۔۔
مقابل کے وار سے بچتے بچاتے وہ شجیہ کو ہر جگہ تلاش رہا تھا لیکن اُسکی تلاش ناکام ہو رہی تھی دل کی دھڑکن اور گھبراہٹ حد سے سوا تھی۔۔۔۔
یکدم اُسے شجیہ کی آواز محسوس ہوئی ۔۔خضر نے جلدی سے اوپر کی جانب جانا چاہا جب پیچھے سے اتی گولی اُس کا بازو چیرتی نکل گئی اپنے درد کو ضبط کرتے اُس نے پلٹ کر وار کیا اور تیز قدموں سے اوپر کی طرف بڑھا۔۔۔اوپر اتے اُس نے ہر کمرے کو دیکھا ۔۔۔ایک آخری کمرے میں داخل ہوتے ۔۔وہ تھما سامنے ہی شجیہ کی چپل پڑی ہوئی تھی اسکا مطلب تھا وہ یہاں ہی تھی ۔۔۔خضر نے جلدی سے وہ چپل اٹھائی۔۔۔ہیلی کی آواز پر وہ چھت کی طرف بھاگا۔۔
قدموں کی رفتار تیز تھی بازو سے بہتا خون تلکیلف دے رہا تھا۔۔۔لیکن اُس سے زیادہ تکلیف سینے میں ہورہی تھی دل میں ۔۔۔جو شجیہ کے دور جانے سے اُسے محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔۔
خضر جب تک چھت پر ایا ہیلی ہوا میں اڑتے اُسکی شجیہ کو اُس سے دور لے گیا تھا۔۔۔
شجیہ ۔۔۔خضر اپنی پوری قوت سے چیخا تھا۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلایا بھوری آنکھیں پل میں لال ہوئی۔۔۔۔اتنے قریب اتے ہوئے بھی وُہ اُس سے دور چلی گئی تھی۔۔۔۔وہ زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔
خضر نے شدت سے اپنا ہاتھ پہلے سے زخمی ہاتھ زمین پر مارا تھا۔۔۔آخر کیوں ہوا تھا یہ اُسکے ساتھ ۔۔۔
ایک ہی انسان تو میری زندگی میں خوشیاں لایا تھا میرا تھا صرف و صرف میراجس نے بنا میری خامی کو دیکھے مجھ سے پیار کیا۔ ۔۔اور اب وہ بھی دور کر دیا ہے آپ نے۔۔۔خضر کے لبوں سے شکوہ نکلا ۔۔
میں تمہیں چھوڑو گا نہیں بلکل بھی نہیں ۔۔۔۔بخدا تمہاری موت میرے ہاتھوں سے ہونے ہے اگر میری بیوی کو ذرا سی بھی چوٹ ائی یہ کوئی نقصان پہنچا تو بہت بری موت دونگا میں تمہیں یہ میرا تم سے وعدہ ہے ۔۔خضر کے لہجے میں چٹانوں سی سختی تھی۔۔۔وہ اب لیپرڈ کو بلکل بھی نہیں چھوڑنے والا تھا قطعی نہیں۔۔۔۔
خضر۔۔۔کامل کی آواز پر خضر نے اپنی بھوری انکھوں سے اُسکی طرف دیکھا تھا۔۔۔اپنے دوست کی آنکھوں میں نظر اتی اذیت تکلیف اور غصّہ دیکھ کر کامل نے اپنے لب بھینچے ۔۔۔
لڑکیاں مل گئی ہے وہ صرف یہاں سے بھابھی کو لے کر گیا ہے۔۔۔کامل کی بات پر خضر اپنی جگہ سے کھڑا ہوا۔۔۔
چلو۔۔۔۔خضر نے فقط اتنا کہا اور آگے بڑھتا چلا گیا۔۔۔۔
کہنے کو خضر کا لہجہ سادہ تھا لیکن اُس میں چھپے جنون اور شدت کو کامل اچھی طرح پہچان گیا تھا۔۔۔۔
اب لیپرڈ کی موت پکی تھی یہ بات کامل جان گیا تھا پہلے خضر اپنی قوم کی بچیوں کی۔عزت کی وجہ سے مجبور تھا پر اب نہیں۔۔۔
اندھیرے کمرے میں وہ حسرت اور رشک بھری نظروں
سے سامنے لیتے وجود کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
آنکھوں میں حسرت کے ساتھ ساتھ اُداسی اور گہرے دکھ کی رمک بھی تھی۔
شجیہ نے دھیمے سے اپنی آنکھیں واں کی نظریں سیدھا سفید سیلنگ سے ٹکرائی۔۔۔
آٹھ گئی آپ۔۔ایک نرم میٹھی سی آواز پر شجیہ نے اپنے برابر میں دیکھا ۔۔۔۔
آنکھیں جھپک کر اپنے دماغ کو جگہ پر لانے کی کوشش کی۔۔۔
آنکھیں کھولتے دوبارہ سامنے دیکھا جہاں کالی ساڑھی میں کالے بالوں کو اپنی پشت پر پھیلائے وہ گندمی رنگت کی حامل لڑکی تیکھے نین نقش اور گلابی ہونٹوں پر ایک دھیمی مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
شجیہ سب کچھ یاد اتے ہی ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔
میں کہاں ہو کون ہو تم ۔۔مجھے جانا ہے یہاں سے ۔۔۔شجیہ تیزی سے کہتے بیڈ سے اترنے لگی جب انابیہ نے اُسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
رک جاؤ۔۔۔میری بات سنو۔۔۔انابیہ نے شجیہ کا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکتے کہا ۔۔
مجھے کچھ نہیں سننا مجھے یہاں سے جانا ہے خضر کے پاس پلیز مجھے جانے دو۔۔۔شجیہ کی آنکھیں نم تھی اُس کا دل کٹ رہا تھا خضر سے دوری پر ۔۔۔
یہاں سے تم نہیں نکل سکتی وہ تمہیں جانے ہی نہیں دے گا ۔۔۔صبر رکھو اپنے رب سے رہائی کی دعا مانگو ۔۔۔۔انابیہ نے نرمی سے کہا۔۔۔
شجیہ نڈھال سی ہوتی بیڈ پر بیٹھی آنسو نیلی انکھوں سے بہتے اُسکے گالوں کو بھگوتے چلے گئے ۔۔
آخر ایسا کیا کردیا میں نے جو وہ میرے پیچھے پر گیا ہے۔۔۔میں اپنے شوہر سے بہت پیار کرتی ہو مجھے اُنکے پاس واپس جانا ہے میں نہیں رہ سکتی اُنکے بنا میں مر جاؤں گی ۔۔۔۔شجیہ اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپائے رو پڑی ۔۔۔
چپ ہوجاؤ میں جانتی ہو تمہارے لیے یہ صحیح نہیں ہے بس اپنے رب سے مدد مانگو وہ بہت قادر ہے رحمان ہے مدد کرے گا رحم کرے گا تم پر۔۔۔انابیہ نے شجیہ کو اپنے گلے لگاتے کہا۔۔۔
آپ۔آپ کون ہے۔۔۔۔شجیہ نے حیرت سے پوچھا ۔۔کیونکہ لیپرڈ یہاں کہیں نہیں تھا صرف یہی لڑکی تھی اور جس طرح وہ اتنے پیار سے بات کر رہی تھی شجیہ کو حیرت ہوئی۔۔۔۔
میں۔۔۔میں ایک بدنصیب بیوی ہو جس کا شوہر اُسکے سارے حقوق تو پورے کرتا ہے پر محبت نہیں کرتا جو کسی غیر مرد کی نظر مجھ پر پڑنے نہیں دیتا لیکن خود بھی ایک پیار بھری نظر مجھ پر ڈالنا گوارا نہیں کرتا۔۔۔وہ بدنصیب بیوی جس کے سامنے وہ ایک پریوں جیسی خوبصورت لڑکی کو لایا ہے یہ کہہ کر کہ وہ اُسکی محبت ہے۔۔۔انابیہ نے دھیمے لہجے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے تلخئ سے کہا۔۔۔
شجیہ کو لگا وہ سانس نہیں لے پائی گی یہ سب کیا ہوا تھا اُسکے ساتھ۔۔۔
آپ اُسکی بیوی ہے۔۔۔شجیہ نے اٹکتی آواز میں پوچھا۔۔۔
ہاں میں ہی لیپرڈ کی بیوی ہو۔۔۔انابیہ نے شجیہ کا ہاتھ اپنے سانولے ہاتھ میں دیکھتے کہا۔۔۔۔
مجھے معاف کردے میری وجہ سے یہ ہوا بخدا میں آپکے شوہر کو نہیں جانتی میری دنیا تو بس اتنی چھوٹی سی تھی جس میں ۔۔۔میں تھی میرے شوہر میرے ماں باپ اور میری دوست۔۔۔سب کے ذکر پر شجیہ کی آنکھیں پھیر بھر ائی۔۔۔
ہونہہ ! تمہیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے،یہ تو میرا نصیب ہے یہاں اگر تُم نہ ہوتی تو کوئی اور ہوتی۔۔۔،یہ اُسکی عادت ہے ہر خوبصورت چیز کو حاصل کرنے کی۔۔۔۔انابیہ نے نفی میں سر ہلاتے کہا ۔۔۔
میں کوئی چیز نہیں ہو۔۔شجیہ نے نیلی آنکھوں میں غصّہ لیے کہا۔۔
جانتی ہو لیکن لیپرڈ کا تو یہی اصول ہے جو چیز اسکو پسند ہے وہ حاصل کر لیتا ہے چاہے وہ ایک جیگتی جاگتی انسان ہو یا کوئی بےجان چیز۔۔۔انابیہ کی بات پر شجیہ کے چہرے پر غصّہ لہرایا۔۔۔
ابھی شجیہ کوئی جواب دیتی جب ڈھر کی آواز سے گیٹ کھلا اور تیز قدموں سے وہ اندر ایا۔۔۔
انابیہ نے فوراً سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
ہاتھ چھوڑو انکا۔۔۔لیپرڈ نے آنکھوں میں سختی لیے سرد آواز میں انابیہ سے کہا جس نے ایک جھٹکے سے شجیہ کا ہاتھ چھوڑا ۔۔
شجیہ نے حیرت سے انابیہ کی طرف دیکھا جس نے لیپرڈ کی بات پر فوراً سے اُس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ ہٹایا تھا۔۔۔۔
جاؤ اپنے کمرے میں اور یہاں نظر نہ انا مجھے تُم۔۔۔لیپرڈ کی سخت آواز پر انابیہ ایک زخمی نظر اُس پر ڈال کر کمرے سے جانے لگی جب شجیہ کی آواز پر تھمی۔۔۔
یہ یہی رہے گی تمہیں کوئی مسئلہ ہے تو تم جا سکتے ہو۔۔۔شجیہ نے سرد آواز میں کہا۔۔۔
جیسا آپ کہے۔۔۔۔لیپرڈ نے نرمی سے کہتے اپنے قدم شجیہ کی طرف بڑھائے ۔۔
شجیہ کے لیے نرم لہجہ سنتے انابیہ کا دل سو ٹکڑوں میں تقسیم ہوا تھا۔۔۔وہ اپنی آنکھیں بند کرتے خود پر ضبط کرتی رہ گئی ۔۔۔جب لیپرڈ کا اگلا قدم اُسکے وجود میں ایک اذیت سی بھر گیا۔۔۔
لیپرڈ نے آگے بڑھ شجیہ کا وہی ہاتھ تھامتے اُس پر اپنا ہاتھ رکھتے انابیہ کا لمس مٹانا چاہا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں بيقینی سے پھیلی ایک جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ لیپرڈ کے ہاتھ سے نکالا اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ تیزی سے لیپرڈ کے گال پر رسید کیا۔۔۔
انابیہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا۔۔۔لیپرڈ کا چہرہ ایک طرف کو ڈھلکا کالی پتھر آنکھیں پل میں لال ہوئی۔۔۔۔
آئندہ مجھے ہاتھ مت لگانا اور نہ ہی اپنی ان گندی نظروں سے دیکھنا میں کوئی عام لڑکی نہیں ہو جو تمھاری ان کالی سرد آنکھوں کو دیکھتے یہ تمہارے سخت چہرے کو دیکھتے ڈر جاؤنگی میں شجیہ خضر شجاعت چوہدری ہو اگر اب مجھے ہاتھ لگایا تو تمہارے ہاتھ کو توڑ کر تمہارے دوسرے ہاتھ میں رکھ دونگی۔۔۔۔
شجیہ نے ایک ایک لفظ انتہائی سرد آواز میں کہا ۔۔۔اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔
لیپرڈ نے اپنی کالی لہو رنگ آنکھوں سے شجیہ کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔۔۔۔
آپ آرام کرے اج کی شام بہت خاص ہونے والی ہے۔۔۔لیپرڈ نے اپنی جگہ سے اٹھتے نرم لہجے میں کہا اور انابیہ کا ہاتھ سختی سے تھامے وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
لیپرڈ کے جاتے ہی شجیہ نے دروازہ بند کیا اور دروازے سے ٹیک لگاتے نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔۔۔
جتنی مضبوطی کے ساتھ ابھی کچھ پل پہلے وہ لیپرڈ سے مخاطب تھی اب اتنی ہی ٹوٹ چکی تھی۔۔۔۔
نیلی آنکھوں سے بھل بھل آنسو نکلتے اُسکے سرخ عارض کو بھگوتے چلے گئے تھے ۔۔۔
کاش ۔۔کاش میں غصے میں آکر گھر سے نہ نکلتی تو اج یہاں نہ ہوتی۔۔۔خضر کہاں ہے آپ آجائے پلیز آپکی شجیہ کو آپکی ضرورت ہے۔۔۔زیرِ لب کہتی وہ گھٹنوں میں اپنا منہ چھپائے شدت سے رو دی۔۔۔۔
سوات کے جنگلات میں بنے اس لکڑی کے الیشان گھر کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ۔۔سوائے لیپرڈ کے خاص آدمیوں کے۔۔۔برف سے ڈھکا اندر سے نہایت گرم تھا کہ گھر کے اندر موجود لوگوں کو ٹھنڈ کا اثر نہیں ہوتا تھا۔۔۔
💗💗💗
وہاں کیوں گئی تھی۔۔۔لیپرڈ نے کمرے میں اتے انابیہ کو دونوں بازو سے پکڑتے اپنے نزدیک کرتے پوچھا۔۔۔
میں دیکھنے گئی تھی کہ اب میرے محبوب شوہر کو کیا بھایا ہے جسے وہ اپنی محبت مان بیٹھا ہے۔۔۔انابیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے کہا۔۔۔جبکہ لیپرڈ اُسکے لہجے میں ازیت محسوس کر سکتا تھا۔۔۔
تم اُنکے پاس اب نہیں جاؤنگی ۔۔لیپرڈ نے انابیہ کی بات نظرانداز کرتے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑتے سخت آواز میں کہا ۔۔۔
واہ واہ ۔۔اپنی بیوی اپنے محرم کے لیے تم اور دوسری عورت کے لیے آپ ۔۔۔کیا عزت ہے۔۔۔انابیہ نے تمسخرانہ لہجے میں کہا۔۔۔
اِدھر دیکھو میری طرف ۔۔۔کیا میں خوبصورت نہیں ۔۔۔سب کچھ تو تمہیں دیتی ہُوں تمہارے سارے حقوق تو پورے کرتی ہو تو پھر ایسا کیا ہے اُس میں جو مجھ میں نہیں۔۔۔۔انابیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا ساڑھی کا پلوں ہٹاتے کہا۔
لیپرڈ کی آنکھوں میں پل میں سرخی اُبھری تھی۔۔۔اُس نے تیزی سے انابیہ کی قمر میں اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے انتہائی نزدیک کیا۔۔اور شدت سے اُسکے لبوں پر جھک ایا۔۔۔۔
اپنے لبوں پر لیپرڈ کی گرفت محسوس کرتے انابیہ نے اُسکے دونوں کندھوں کو تھامتے اُسکے لبوں پر بھی اپنا لمس چھوڑنا شروع کیا۔۔۔۔
کالی گھنی آنکھوں سے آنسو بہتے لیپرڈ کے گال کو بھی ہلکا سا نم کر گئے تھے۔۔۔
شدت سے ایک دوسرے کی سانسیں پیتے دونوں سب چیزوں سے بیگانہ ہوگئے تھے۔۔۔۔
مت کرو۔۔۔اُسے چھوڑ اؤ وہ شادی شدہ ہے۔۔۔لیپرڈ کے آزادی دینے پر انابیہ نے گہرا سانس بھرتے التجائی لہجے میں کہا۔۔۔۔
لیپرڈ کچھ بھی جواب دیے بنا اُسکی گردن میں جھک ایا گردن کندھوں اور گہرے گلے سے نظر آتے اُسکے بدن پر اپنے لب رکھتے لیپرڈ سب کچھ نظرانداز کر گیا تھا۔۔
یہ بات سچ ہے کہ تمہارا وجود میرے اندر ایک سرور سا بھر دیتا ہے جب جب تمہیں چھوتا ہوں تمہیں محسوس کرتا ہوں تو ایک انجانا سا سکون پورے وجود کا احاطہ کرتا ہے لیکن ۔۔۔لیپرڈ نے کہتے اُسکے دل کے مقام پر اپنے دانت گاڑھے ۔۔۔پوری گردن اُسکے دیے گئے نشانوں سے بھر گئی تھی ۔۔۔۔
لیپرڈ نے انابیہ کی سرخ ہوتی آنکھوں میں دیکھا وہ درد ضبط کرتی اُسکی پُر تپش اور شدت بھرے بوسے اپنے وجود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔
لیکن۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کی کالی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔
لیکن تم سے محبت نہیں ہے ۔۔نہ کبھی ہوگی۔۔میرے باپ کی دشمن کی بیٹی ہو جسے میں نے قبول کیا لیکن محبت نہیں کی ۔۔۔لیپرڈ نے سائڈ سمائل کرتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔
انابیہ کی آنکھوں میں اذیت کا ایک طوفان سا تھا جو اُبھرا تھا ۔۔۔کالی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔۔ وہ بس چپ چاپ لیپرڈ کو دیکھنے لگی جو اُسکی آنکھوں میں دیکھتے اپنے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔
محبت تمہیں اُس سے بھی نہیں ہے۔۔۔نہ کبھی ہوگی تمھاری عادت ہے ہر خوبصورت چیز اپنی ملکیت میں لانے کی اور تُم وہی کر رہے ہو۔۔۔محبت اسے نہیں کہتے۔۔۔اسے فقط غرور کہتے ہے اسے حوس کہتے ہے محبت تو قربانی دینے کا نام ہے۔۔۔انابیہ لیپرڈ کے چہرے کو دیکھتی بولی تھی جب لیپرڈ کا ہاتھ اٹھا تھا اور اُسکے نرم و نازک گال کو لال کرتا چلا گیا۔۔۔
انابیہ لڑکھڑاتی پیچھے کو گری تھی ٹیبل پر رکھی چھڑی اُسکے ہاتھ پر لگتی اُسکے ہاتھ کو زخمی کر گئی ۔۔۔۔
انابیہ کے ہاتھ سے رستا خون دیکھتے وہ تھما تھا دل میں چھبن سی محسوس ہوئی
کچھ بھی بولے بنا وہ کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔۔انابیہ کو تکلیف اپنے ہاتھ میں لگی چوٹ سے محسوس نہیں ہورہی تھی ۔۔سینے میں موجود دل تھا جس پر لیپرڈ نے اپنے لفظوں سے چھڑی چلائی تھی جس سے رستا خون اُسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔
لیپرڈ کے جاتے ہی میڈ اندر ائی ۔۔۔فوراً سے اتے اُس نے انابیہ کے ہاتھ کی پٹی کی ۔۔۔انابیہ تلخئ سے مسکرا دی پہلے زخم دیتا تھا اور پھر دوسروں کے ہاتھوں مرہم لگواتا تھا کیسا ستمگر تھا وہ۔۔۔
زخم دیتے ہو کہتے ہو سیتے رہو،،،،🥺
جان لے کر کہو گے کہ جیتے رہو ،،،❤️
پیار جب جب زمین پر اُتارا گیا،،،🙂
زندگی تُجھ کو صدقے میں وارا گیا،،،😣
💗💗💗
اپنے آفس میں اتے اُس نے فوراً سے اپنا لیپ ٹاپ کھولا تھا۔۔۔۔جلدی سے انابیہ کے کمرے کی فوٹیج نکالی اور سامنے اُسے بہتی آنکھوں کے ساتھ ڈریسنگ کرواتے دیکھ اُس نے سکون بھرا سانس لیا ۔۔۔۔
ایک نظر شجیہ کے کمرے کی طرف دیکھا جہاں وہ گھٹنوں میں سر دیے رو رہی تھی۔۔۔اپنی کرسی پر بیٹھتے وہ اپنا سر کرسی کی پشت سے ٹکا کر اپنی آنکھیں موند گیا۔۔۔۔
انابیہ کے الفاظ اُسکے دماغ میں گونجے۔۔ اُس نے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔
لیکن حقیقت تو یہی تھی جسے وہ جھٹلا رہا تھا۔۔۔بچپن سے یہی تو اُسکی عادت تھی ہر خوبصورت چیز ہمیشہ اُسے اپنی تحویل میں چایئے ہوتی تھی۔۔۔اور جب جب انابیہ اُسے آئینہ دکھاتی تھی وہ اپنا رخ موڑ لیتا تھا۔۔۔خود کی سچائی سامنے انے کے ڈر سے۔۔۔
ہیلو جون ۔۔لیپرڈ نے جون کو فون ملایا۔۔۔
آج ہی اُس خضر شجاعت چوہدری کا کام ختم ہونا چائیے۔۔۔اج بی کا مطلب ہے اج ہی۔۔۔سختی سے ارڈر دیتا وہ فون بند کر گیا تھا۔۔۔۔
آنکھیں بند کرتے شجیہ کو سوچنا چاہا لیکن انابیہ کا دلکش سراپا لہرایا ۔۔ایک جھٹکے سے اُس نے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔
💗💗💗
شجیہ کو نہیں پتہ تھا کہ کیا وقت ہوا ہے۔۔۔اس کمرے میں کوئی کھڑکی تک نہ تھی کہ اُسے کچھ اندازہ ہوتا۔۔۔صوفے پر ایک طرف سکر کر بیٹھی وہ مسلسل خضر کو یاد کر رہی تھی لب اللہ سے دعا گو تھے۔۔۔۔
یکدم دروازہ بجا شجیہ نے نظر اٹھا کر سامنے دیکھا تو انابیہ تھی جس کے ہاتھ میں ایک نیلے رنگ کا سوٹ موجود تھا۔۔۔
شجیہ کی نظر اُسکے ہاتھ پر پڑی جہاں پر پٹی کی گئی تھی۔۔۔
میں یہ سوٹ لائی تھی یہ پہن کر فریش ہوجاؤ۔۔۔تھوڑا ریلیکس فيل کروگی ۔۔۔انابیہ نے سوٹ شجیہ کے پاس رکھتے نرم لہجے میں کہا۔۔۔
آپکو مجھ سے نفرت سی محسوس نہیں ہوتی ۔۔شجیہ نے حیرت سے یہ سوال پوچھا۔۔۔
نہیں جب اپنے ہی سکے میں کھوت ہو تو دوسروں کو خراب نہیں سمجھتے۔۔۔انابیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔
آپ میری مدد کرے نہ اگر اپ کے پاس فون ہے تو پلیز میرے شوہر کو فون کردے وہ آجائے گے یہاں میرے بغیر وہ بہت پریشان ہو رہے ہونگے۔۔۔شجیہ نے خضر کو یاد کرتے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
میں تمھاری کیا مدد کرو پورے نو مہینے سے میں نے خود اپنی ماں کی شکل نہیں دیکھی ہے۔۔۔اور ہم کہاں ہیں یہ میں بھی نہیں جانتی یہ ایک زنداں ہے جہاں ہم دونوں ہی ایک طرح سے قید ہے بس فرق صرف اتنا کہ میرا دل اس زنداں کے درندے کا ہوگیا ہے وہ درندہ میرے دل پر قابض ہے۔۔اور اُس درندے کا دل تمہیں اپنی محبت مان بیٹھا ہے۔۔۔۔انابیہ نے غیر مرئی نقطے کو تکتے دھیمی آواز میں کہا ۔۔۔
شجیہ رونے لگی وہ یہاں سے جانا چاہتی تھی وہ انابیہ سے مدد مانگ رہی تھی جو خود اُسکی طرح بےبس ہے۔۔۔۔
آپ دونوں کو سر نے لاؤنچ میں بلایا ہے۔۔۔ملزمہ کے کہنے پر اُن دونوں۔ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔
شجیہ کا دل کسی انہونی سے دھڑکا۔۔۔۔انابیہ کے کہنے پر اُس نے جلدی سے اپنے کپڑے بدلے تھے ۔۔
نیلی فروک میں دوپٹہ سر پر اچھی طرح اوڑھے نیلی سمندر جیسی آنکھوں میں رونے کے باعث سرخی لیے اُس نے انابیہ کے ساتھ اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔
اور باہر نکلتے اُسے لگا۔۔ وہ کسی کارٹون کی دنیا میں بنے گھر میں آگئی۔۔۔۔لکڑی سے بنا یہ گھر نہایت ہی خوبصورت تھا۔۔۔
لاؤنچ میں اتے ہی اُسکی نظر لیپرڈ پر پڑی جو صوفے پر بیٹھا ایک گہری مسکراہٹ ہونٹوں پر سجایا ہوا تھا۔۔۔
شجیہ کا دل اب تیز دھڑک رہا تھا۔۔اس نے دائیں طرف دیکھا جہاں جون کے ساتھ دو آدمی اطراف میں کھڑے تھے۔۔۔اور اُن دونوں کی ہی نظریں شجیہ کے وجود پر جمی تھی شجیہ کے دیکھنے پر کالی داڑھی والے نے اپنی نظریں پھیر لی تھی جبکہ بھوری داڑھی والا مستقل شجیہ کو دیکھے جا رہا تھا۔۔۔۔
آئے لیپرڈ کی کوین بیٹھے۔۔لیپرڈ نے نرم پیار بھرے لہجے میں شجیہ سے کہا جس نے تنفر سے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔جبکہ وہاں موجود ایک وجود نے اپنی مٹھی بھینچے خود پر ضبط کیا
انابیہ نے زخمی نگاہوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھا تھا۔۔۔جس نے اس پر ایک بھی نظر نہیں ڈالی تھی۔۔۔
کیوں بلایا ہے مجھے۔۔۔۔شجیہ نے سخت لہجے میں پوچھا۔۔۔
کچھ دکھانے کے لیے ۔۔لیکن میں جانتا ہوں جو آپکو دکھانے لگا ہو اُسکے بعد آپ نہیں میں بہت خوش ہوگا۔۔۔لیپرڈ کی بات پر شجیہ کو یقین ہوگیا تھا کہ کچھ تو بہت بُرا ہوا ہے۔۔۔۔
یکدم سامنے لگی ٹیوی سکرین چلی اور وہاں پر نظر آتا چہرہ دیکھتے شجیہ مسکرائی۔۔
سامنے ہی سکرین پر خضر اپنے گھر میں لاؤنچ میں بیٹھا ہوا تھا شجیہ اُسکے چہرے سے اندازہ لگا چکی تھی کہ وہ پریشان ہے ۔۔۔یقیناً وہ شجیہ کے لیے ہی پریشان تھا ۔۔
جلدی سے وہ آگے بڑھی لیکن اگلا نظر آتا منظر دیکھتے اُس کے پاؤں تھمے۔ سانسیں اکھڑتی ہوئی محسوس ہوئی دل دھڑکنا بھول گیا۔۔۔۔اُسے لگا اُسکے اس پاس سب چیزیں ختم ہوگئی اُسکی زندگی ختم ہوگئی۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے خضر کے اس پاس کالے لباس میں ملبوس آدمی آئے ۔۔۔
اور خضر کو ایک بھی موقعہ دیے بنا اُسکے سامنے کھڑے جون نے اُس پر گولیاں برسائی۔۔۔۔۔
خضر۔۔۔۔
شجیہ سکرین پر نظر آتا یہ منظر دیکھتے چیخی تھی اُسکی چیخ اتنی دلدوز تھی کہ انابیہ کا دل ڈوب کر اُبھرا سکرین پر نظر آتا منظر دیکھتے وہ بھی رو دی تھی۔۔۔
شجیہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی اُسکی ٹانگوں سے جان نکل سی گئی تھی۔۔۔
سامنے سکرین پر پل میں خضر کا وجود خون میں رنگا تھا اور بےجان ہوتا پیچھے صوفے پر گرا تھا ۔۔۔
دیکھتے دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں بند کی تھی ۔۔۔
اور شجیہ اُسکی نیلی آنکھوں سے سمندر بہہ نکلا یہ سب دیکھتے۔
زوروں سے نفی میں سر ہلاتے اُس نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے تھے۔۔۔۔زبان کچھ کہنے سے انکاری تھی اور جب کہا تو فقط اتنا۔۔۔
خضر،خضر،خضر۔۔۔۔صرف یہ لفظ یہ نام اپنے ہونٹوں سے ادا کرتی وہ سامنے سکرین کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
دوپٹہ کب کا سر سے اُتر کر گلے میں گرا تھا۔۔بھورےبال لہراتے اُسکے بھیگے چہرے کو چھو رہے تھے۔۔۔۔وہ پاس جانا چاہتی تھی اپنے خضر کے چہرے کو چھونا چاہتی تھی لیکن ٹانگے بےجان ہوگئی تھی۔۔۔۔
بہت مشکل سے وہ اُٹھی قدم گھسیٹتے وہ سکرین تک ائی کانپتا ہاتھ دھیرے سے خضر کی بند ہوتی آنکھوں پر رکھا ۔۔اور وہ سسک پڑی ۔۔۔
اٹھے خضر آنکھیں کھولیں۔۔۔اٹھے ۔۔اور آئے مجھے بچانے جلدی سے میں انتظار کر رہی ہو۔۔اٹھ جائے نہ۔۔۔سکرین پر نظر آتے خضر کے چہرے پر ہاتھ رکھتی وہ اُس سے مخاطب تھی اور یہ منظر وہاں پر موجود تین لوگوں ما دل چیڑ گیا تھا ۔۔
بس اور جان نہیں تھی اُس میں کہ وہ کھڑے ہو پاتی نیچے زمین پر گھٹنوں کے بل گرتی چلی گئی ۔۔۔۔
آآآآآء۔۔۔شجیہ نے اپنے بال مٹھئیوں میں جکڑے۔۔۔
چھین لیا ۔۔۔چھین لیا مجھ۔۔سے میرا سب کچھ۔۔۔خضر۔۔۔میرے خضر۔۔۔اللہ۔۔۔۔اللہ۔اللہ مجھے میرے خضر چائیے واپس چایئے۔۔۔مجھے وہ چایئے ۔۔میرے خضر کو واپس بھیج دے مت چھینے ورنہ پھر مجھے بھی مار دے۔۔ مجھے میرے خضر چایئے۔۔۔۔یہ اللہ ۔۔۔روتے ہوئے اپنا ہاتھ زمین پر مارتی اُس نے شدت سے چیختے یہ لفظ ادا کیے اپنے رب کو پُکارا۔۔۔۔
میں کیوں زندہ ہو یا اللہ، خضر, بابا ,میرے خضر ،مجھے نہیں جینا ۔۔۔۔میرے ساتھ یہ نہیں ہوسکتا مجھے میرا شوہر چایئے۔۔۔پلیز، اللہ ۔۔۔بابا ۔۔بابا آجائے ۔۔۔وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی ماتم کنہ تھی۔۔۔اپنے بابا کو پکارتی اور بیٹیاں جب تکلیف میں ہو تو اپنے باپ کو ہی یاد کرتی ہے ۔۔وہ تکلیف میں تھی اور یہ تكيلف ایسی تھی جو وہ برداشت نہیں کر پا رہی تھی۔۔۔اس وقت وہ سب کچھ بھول گئی تھی اس پاس کون تھا کون نہیں تھا۔۔۔سب کچھ۔۔۔
بس اُسے کچھ یاد تھا تو یہ کہ سامنے اُس کے شوہر کو گولیوں سے مار کر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا بس۔۔۔
اسکی یہ حالت دیکھتے انابیہ شدت سے رو دی۔۔۔اور وہاں۔ موجود ایک وجود کا دل کیا اُسے اپنے سینے میں بھینچ لے۔۔۔۔
یکدم وہ اُٹھی۔۔۔اس نے جون کی طرف دیکھا اب اُسکی آنکھوں میں آنسو کے ساتھ ساتھ ایسا قہر تھا کہ جون دیکھتے گھبرا گیا۔۔۔۔
پاس کھڑے گارڈ کو سمجھنے کا موقعہ دیے بنا اُس نے اُسکی گن لی لوڈ کی اور سیدھا جون کے دونوں ہاتھوں پر گولی مارتے ایک اُسکے سینے پر ماری۔۔۔۔۔
وہاں موجود سب کی آنکھیں حیرت سے پھیلی جون زمین پر گرتا چلا گیا۔۔۔اُسکے دونوں ہاتھ سے اور اُسکے سینے سے خون نکلتا زمین کو بھگو رہا تھا۔۔۔۔
تم نے چھینا مجھ سے میرا شوہر میں تمہیں جان سے مار دونگی۔۔۔۔شجیہ کہتی ابھی اور گولیاں جون کے سینے میں پیوست کرتی جب لیپرڈ نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسکی گردن کی مخصوص نس دبائیں اور اُسے لیے روم کی طرف بڑھا۔۔۔انابیہ نے نفرت سے یہ منظر دیکھا۔۔۔
وہ ایک ظالم سے دل لگا چکی تھی۔۔۔اور اس چیز کا پچھتاوا اُسکو ساری زندگی ہونا تھا۔۔۔
یہ منظر دیکھتے اُس وجود نے آگے بڑھنا چاہا جب دوسرے وجود نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے روکا۔۔۔کسی کی سنہری آنکھوں میں غضب کی سرخی چھائی تھی۔۔۔۔
جون کے وجود کو جلدی سے لیتے وہ لوگ ہسپتال بھاگے تھے۔۔۔
💗💗💗
مجھے جانا ہے مجھے مر جانا چایئے۔۔میں کیوں زندہ ہو جب خضر نہیں ہے تو شجیہ کیوں زندہ ہے اُنکے بغیر تو میری کوئی زندگی ہی نہیں میرا دل تو اُنکے سینے میں دھڑکتا تھا۔۔۔تو اب یہ کیوں دھڑک رہا ہے یہ سانسیں کیوں چل رہی ہے۔۔۔شجیہ نے ہذیانی انداز میں انابیہ کو جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔۔۔
انابیہ کو وہ دیوانی لگی ۔۔
ہاں وہ دیوانی ہی تو تھی اپنے خضر کی جس سے اُس نے عشق کیا تھا ۔۔ہے اور کرتی رہے گی۔۔۔۔وہ اُسکی دیوانی تھی ہے اور رہی گی۔۔۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری ہے تو ہی شجیہ کا وجود ہے وہ نہیں تو کچھ نہیں ۔۔۔
شجیہ صبر رکھو۔۔۔انابیہ اب کیا کہتی اُسی کے شوہر نے ہی تو سامنے کھڑی معصوم لڑکی کا سہاگ چھینا تھا۔۔۔۔
صبر۔۔۔شجیہ کہتی زوروں سے ہنسی۔۔یہ اذیت سے بھری ہنسی تھی۔۔۔۔۔
کیسے کرو صبر۔۔۔۔۔مجھ سے نہیں ہوگا۔۔جانتی ہو محبت ہے وہ میری عشق ہے ۔۔۔تم تو جانتی ہوگی نہ تم بھی تو اُس ظالم خونی سے محبت کرتی ہو۔۔۔۔شجیہ نے اُس سے تصدیق چاہی انابیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
میں اپنے شوہر سے عشق کرتی ہو۔۔۔وہ میری رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔۔۔اتنی کہ اُن کو کچھ ہو تو میری سانسیں بند ہوجائے ۔۔۔۔لیکن دیکھو میں سانس لے رہی ہو میں زندہ ہو ۔۔۔میں زندہ کیوں ہو۔۔۔شجیہ کو دیکھ کر اب انابیہ کو لگ رہا تھا وہ ضبط نہیں کر پائے گی جب سے شجیہ ہوش میں ائی تھی ایسی ہی باتیں کی جا رہی تھی۔۔۔۔
انابیہ نے پاس کھڑی نرس کو اشارہ کیا جس نے جلدی سے آکر شجیہ کے بازو پر نیند کا انجکشن لگایا تھا۔۔
مجھے ۔۔۔میرے خضر۔۔۔خضر۔۔۔شجیہ کہتی نیند میں چلی گئی تھی۔۔۔۔انابیہ نے نہایت آرام سے اُسے بیڈ پر لٹایا تھا ۔۔
جتنی حسین وہ تھی اتنا ہی اُسکے نصیب میں دکھ لکھ دئیے گئے تھے۔۔انابیہ نے شجیہ کے بال صحیح کرتے سوچا۔۔۔
اُس پر کمفرٹڑ ڈالتے لائیٹس بند کرتے وہ باہر نکلی تھی۔۔۔۔
باہر نکلتے ہی اُسے سامنے ہی لیپرڈ نظر ایا۔۔۔
ابھی مت جانا اُس کے پاس اُس وقت وہ ایک بھوکی شیرنی ہے جس کے شوہر کو تُم نے مارا ہے تمہیں مارنے سے وہ ذرا سا بھی نہیں ہچکچائے گی۔۔۔
انابیہ نے اسپاٹ آواز میں کہتے اپنی نظریں اُس پر سے پھیری ۔۔۔
واپس اُدھر میری طرف دیکھو اس چیز کا حق تمہارے پاس نہیں ہے۔۔لیپرڈ کا اشارہ اُسکی آنکھیں پھیرنے پر تھا۔۔۔
تمہیں ذرا احساس ہے تم اُس معصوم لڑکی کے ساتھ کیا کر رہے ہو تم نے اُسکے شوہر کو مار دیا اور یہ بات ایک بیوی کو مردہ کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔۔۔تم اُسے حاصل تو کر لو گے زبردستی سے لیکن وہ اب ایک زندہ لاش بن کر ملے گی تمہیں۔۔۔۔ایسے کام مت کرو جس کا خمیازہ تمہیں ساری زندگی بھگتنا پڑے گا۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کو آئینہ دکھایا۔۔۔۔
کچھ زیادہ ہی تمھاری زبان چلنے لگی ہے شاید میری سزائیں بھول گئی ہو جو تمہیں اپنے اس وجود پر برداشت کرنی پڑتی ہے۔۔۔لیپرڈ نے اُسکی تھوڑی اپنی سخت گرفت میں لیتے دبی دبی آواز میں کہا۔۔۔
نہیں بھولی اور نہ ساری زندگی بھولوں گی لیکن تم ایک نہ ایک دن ضرور پچھتاؤ گے۔۔۔۔انابیہ کی آنکھیں نم ہوئی تھی اُسکی وحشی گرفت اپنی تھوڑی پر محسوس کرتے۔۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک جھٹکے سے اُسے چھوڑا تھا اور واپس پلیٹ گیا۔۔۔۔۔
انابیہ نے نفی میں سر ہلایا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر آپکو بچے پسند ہے۔۔۔شجیہ نے چاکلیٹ کھاتے خضر کے سینے سے سر اٹھا کر اُسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔۔
خضر نے سامنے چلتی سکرین پر لگی فلم کو دیکھتے محض اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
اچھا۔۔۔مجھے بھی۔۔۔بہت پسند ہے بچے۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے چہرے کو دیکھتے کہا جس کا سارا دہان صرف و صرف ٹیوی پر تھا۔۔۔
خضر پانچ بچے اچھے ہوتے ہیں نہ انشاءاللہ ہمارے پانچ بچے ہونگے ۔۔۔شجیہ نے چاکلیٹ کھاتے اپنی آنکھیں چھوٹی کرتے خضر سے کہا جس نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
نہیں دس بچے ٹھیک ہوتے ہیں۔۔۔شجیہ نے دانت پیستے پوچھا۔۔۔خضر نے اب بھی اثبات میں سر ہلایا ۔۔۔شجیہ نے غصے سے منہ پھولا کر سامنے ٹیوی کی طرف دیکھا جہاں اب ہیروئن بری مہارت سے ویلن لڑکی سے لڑ رہی تھی شجیہ کی آبرو آپس میں ملی اُس نے پلٹ کر خضر کی طرف دیکھا ۔۔جس کے چہرے پر ایک حسین مسکراہٹ تھی۔۔۔
پل بھر میں اُس کے پورے وجود مو جلن سی پیدا ہوئی تھی۔۔۔۔
اُس نے ایک جھٹکے سے خضر کے پاس آکر اُس کے چہرے کے نزدیک اپنا چہرہ کیا۔۔کچھ اس طرح کے ٹیوی کی سکرین اب خضر کو نظر نہیں آرہی تھی۔ ۔۔
کیا ہوا۔۔۔شجیہ کے چہرے کو اپنے قریب دیکھتے خضر نے اپنی آبرو اچکا کر پوچھا۔۔۔
اگر اُس انگریزن کو دیکھ لیا ہو تو ایک نظر کرم اپنی اُس حسین و جمیل گھر والی پر بھی ڈال لے جو کب سے آپ سے بات کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔شجیہ نے ایک ایک لفظ چباتے ہوئے ادا کیے۔۔۔۔
خضر نے اپنے ہونٹوں پر امدنے والی مسکراہٹ ضبط کی۔۔۔شجیہ کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُس نے ایک جھٹکے میں کروٹ بدلی تھی۔۔۔شجیہ پر ایک گہری گھٹا سا چھاتے اُس نے شجیہ کے بال کان کے پیچھے کیے ۔۔
میرا سارا دیہان تو میری اس حسین و جمیل گھر والی پر ہی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے گلابی ہونٹوں پر اپنی پر تپش سانسیں چھوڑتے ہوئے گھمبیر لہجے میں کہا۔۔۔
جھوٹ نہیں بولے میں نے ابھی آپ سے پوچھا دس بچے اچھے آپ نے تب بھی ہاں میں سر ہلایا میں نے پوچھا پانچ بچے آپ نے تب بھی اثبات میں سر ہلایا۔۔۔شجیہ نے خضر کے بٹن سے کھیلتے ہوئے منہ بناتے کہا۔۔۔
بچے جتنی خدا کی دین ۔۔۔چاہے جتنے بھی بچے ہو ہمارے سب کے لیے میرا پیار برابر ہوگا۔۔۔خضر نے شجیہ کا گال اپنی انگلیوں سے سہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔
اور میرے لیے کم ہو جائے گا؟۔۔۔شجیہ نے جلدی سے پوچھا۔۔۔
ہونہہ آپ تو میری زندگی ہے آپکی بدولت تو وہ اس دنیا میں آئے گے تو کیسے میرا پیار کم ہوگا میرا پیار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جائے گا۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔شجیہ مسکرا دی اُسکی بات پر۔۔۔
انجیکشن کے زیرِ اثر نیند میں بھی وہ اپنے اور خضر کے بارے میں سوچ رہی تھی بند آنکھوں سے آنسو نکلتے تکیے میں جذب ہو رہے تھے۔۔۔اُسے تو نیند بلکل نہ اتی ۔۔لیکن نرس نے کافی ہیوی دوز لگائی تھی جس کی وجہ سے اُسکی آنکھیں تک نہیں کھل پا رہی تھی۔۔۔۔
گہری رات نے اپنے پر پھیلا لیے تھے۔۔۔۔انابیہ نم آنکھوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی جو لاؤنچ میں بیٹھا مسلسل حرام مشروب پی رہا تھا۔۔۔۔۔
جبکہ سامنے گارڈ کھڑے تھے۔۔۔۔
لیپرڈ نے یہ آخری گلاس اپنے لبوں سے لگایا اور گٹاگٹ اپنے وجود میں اتارتا چلا گیا۔۔۔۔
اُسکی آنکھیں دھیرے دھیرے بند ہوتی گئی اور سر ایک طرف کو ڈھلکا۔۔۔۔
انابیہ جلدی سے نیچے ائی۔۔۔
اُنہیں کمرے میں چھوڑ ائے۔۔۔ایک نظر لیپرڈ کے بھاری وجود کو دیکھتے اُس نے پیچھے پلٹ کر اُن دو گارڈز سے کہا جنہوں نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا اور چمکتی انکھوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔
لیپرڈ کو بازو سے پکڑتے اُسے لیے انابیہ کے پیچھے پیچھے آئے ۔۔۔
بس آپ جائے شکریہ آپکا۔۔۔۔لیپرڈ کو بیڈ پر لیتا دیکھ انابیہ نے نرم لہجے میں اُن دونوں سے کہا جو اثبات میں سر ہلاتے باہر نکلے تھے ۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے ہی بھوری داڑھی والے نے اپنی جیب سے ایک کالے رنگ کا چھوٹا سا ریموٹ نکالا اور بٹن دبایا۔۔۔۔پورے گھر میں لگے کیمرے بند ہوئے۔۔۔
کالی داڑھی والے نے اُسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھتے وہ ایک طرف بڑھ گیا۔۔۔۔
💗💗💗
گہری سانس بھرتے وہ اس کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔دروازہ بند کرتے اُس نے بیتاب نگاہوں سے بیڈ پر لیتے اُس وجود کو دیکھا تھا جس کی چلتی سانسیں اُسکی زندگی کی علامت تھی ۔۔۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی اُسکے وجود کی مدھم اور بھینی بھینی مہک اُسکے نتھنوں سے ٹکراتی اُسکے وجود میں زندگی سی بھر گئی تھی۔۔۔۔
دھیرے قدم اٹھاتے وہ اُس تک آرہا تھا ۔۔۔بھوری آنکھیں اُس وقت نم تھی۔۔۔
اُسکے قریب اتے اُسکی بھیگی پلکیں اور گالوں پر مٹے مٹے آنسوؤں کے نشان دیکھتے اُس نے اپنے لب بھینچے ۔۔۔۔
نہایت احتیاط سے اُسکے بیڈ کے سرہانے بیٹھتے اُس نے اُسکا ڈرپ لگا ہاتھ تھاما ۔۔
اُسکی بند آنکھ سے نکلتا آنسو جھکتے اپنے لبوں سے پیا ۔۔۔
شجیہ کی پلکیں لرزی ۔۔آنسو تیزی سے بہتے تکیہ بھگونے لگے پلکیں تیزی سے نم ہوئی۔۔۔۔
اور پاس بیٹھتے وجود کے چہرے پر مسکراہٹ دور گئی وہ پہچان گئی تھی اُسے اُسکے لمس کو اُسکی خوشبو کو۔۔۔۔
شجیہ ۔۔۔نہایت دھیمی آواز میں اُس نے اُسکے کان میں سرگوشی کی۔۔۔اور شجیہ نے اپنا نچلا لب دانت تلے دباتے اپنی سسکی روکی آنکھیں اب بھی بند تھی۔۔۔
خضر کے دل آنکھیں کھولو۔۔۔خضر نے اُسکے کان کی لو کو اپنے لبوں میں لیتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ نے زوروں سے نفی میں سر ہلایا۔۔۔
میں۔۔میں آنکھیں کھولو گی تو آپ غائب ہو جائے گے ۔۔میں نہیں کھولو گی آنکھیں۔۔۔شجیہ نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
وہ ہر بار جب بھی نیند سے جاگتی تھی اُسے اس پاس کہیں خضر نظر نہیں اتا تھا اور آنکھیں بند کیے وہ اپنی اور خضر کی دنیا میں کھو جاتی تھی جہاں اُسکا خضر تھا اور وہ تھی ۔۔۔شاید اسی ڈر سے وہ اپنی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے اُسکی بات پر شدت سے اُسکے گال پر اپنا لمس چھوڑا۔۔۔
نہیں جاؤنگا کہیں بھی اپنی آنکھیں کھولو جاناں۔۔۔اور دیکھو تمہارا خضر تمہارے پاس ہے۔۔۔خضر نے اُسکا حسین چہرہ جو ایک ہی دن میں مرجھا گیا تھا دیکھتے کہا۔۔۔
وعدہ کرے۔۔۔شجیہ نے روتی آواز میں کہا۔۔۔ایک مان تھا جو خضر نے دیا تھا کہ وہ اُس سے کیا وعدہ کبھی نہیں توڑے گا۔۔
وعدہ ۔۔خضر نے فوراً سے کہا۔۔۔شجیہ نے دھیمے سے اپنی آنکھیں کھولی۔۔۔۔
بھیگی نیلی آنکھیں پل میں خضر کے چہرے پر ٹکی۔۔ تو حیرت میں پھیلی خضر نے اُسکی آنکھیں حیرت میں پھیلی دیکھ اپنے چہرے پر لگی نقلی بھوری داڑھی اتاری ۔۔۔۔
شجیہ نے ویسے ہی لیٹے اپنا کانپتا ہاتھ اگے بڑھا کر خضر کے چہرے کو چھوا۔۔۔جیسے یقین کرنا چاہا تھا وہ حقیقت میں ہے یہ نہیں۔۔۔۔
جیسے ہی اُسکا ہاتھ اُسکے لبوں سے پر ٹچ ہوا۔۔۔شجیہ کی آنکھوں سے سمندر بہہ نکلا۔۔۔
وہ ایک جھٹکے میں اُٹھی۔۔۔گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھتے اُس نے بیقینی سے خضر کے چہرے کو چھوا۔۔۔۔
خضر۔۔۔تڑپتی آواز میں کہتے اُس نے بیتابی سے خضر کے چہرے پر اُسکی گردن اُسکے دل کے مقام پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔نیلی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے نیلی فروک میں دوپٹہ سے بےنیاز بکھرے بالوں میں شدت سے روتی وہ خضر کو ترپا گئی تھی۔۔۔۔
آپ ٹھیک ہے۔۔۔میرے خضر ٹھیک ہے۔۔۔خضر ۔۔۔شجیہ دیوانوں سے کہتی خضر کے چہرے کے ہر نقش کو چوم رہی تھی۔۔۔۔اور خضر اُسکا اپنے لیے پیار دیکھ کر سٹل ہوگیا تھا ۔۔۔۔
کیا کوئی اتنا پیار بھی کر سکتا تھا کسی سے ۔۔۔۔
ہاں کر سکتا تھا سامنے موجود لڑکی اُس سے فقط محبت نہیں عشق کرتی تھی وہ لڑکا جسے اُسکی محرومی کی وجہ سے ہر کسی نے طعنے کسے اُسے کم تر محسوس کروایا جس کے ساتھ فقط اُسکے دادا ، پھوپھو اور اُسکی دوست مخلص تھی۔۔۔۔
اُس سے ایک نیلی انکھوں والی لڑکی نے عشق کیا تھا۔۔۔
خضر کو یکدم ایک غرور سا ہوا ۔۔۔اور ہوتا بھی کیوں نا اُسکی محبت اُس سے عشق کرتی تھی اُسکی بیوی اُس سے عشق کرتی تھی ۔۔۔
میں ڈر گئی تھی۔۔۔میں مر جاتی خضر ۔۔۔میں مر جاتی ۔۔۔میں نہیں رہ سکتی آپکے بنا۔۔۔آپکی شجیہ آپکے بنا سانس تک نہیں لے سکتی۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے سینے کے گرد اپنے ہاتھ سختی سے باندھتے روتے ہوئے کہا۔۔۔
خضر نے شدت سے اُسے خود میں بھینچا۔۔۔۔
ہشش جانم میں اگیا ہوں نہ تمھارے پاس رونا بند کرو ۔۔اب میں ہوں تمہارے پاس۔۔۔خضر کی آنکھیں ضبط سے لال ہوئی ۔۔شجیہ کی کمر سہلاتے اُس نے اُسے چپ کروانا چاہا۔۔۔
،آپ کو اُس نے گولیاں ماری وہ خون آپکے سینے یہاں سے خون۔۔۔خون نکل رہا تھا۔۔۔۔آپکی آنکھیں بھی بند تھی خضر ۔۔۔میں نے کتنی آوازیں دی آپکو ۔۔۔۔اپ نے میری ایک نہیں سنی۔۔۔۔میں نے خود دیکھا اُس نے آپکو گولیوں سے مارا تھا خضر۔۔خضر مجھے لگ رہا تھا میری سانسیں بند ہو گئی ہے۔۔۔وہ گولیاں مجھے اپنے وجود میں اُترتی محسوس ہوئی تھی۔۔۔۔آپ نہیں تھے خضر میں بہت روئ ہو۔۔۔۔
بے ربط جملے کہتی وہ خضر کے سینے کو ٹٹولتی خضر کا دل چیر گئی تھی۔۔۔۔۔۔
میں ٹھیک ہو شجیہ ۔۔تمہارے سامنے ہو زندہ ہو بھلا خضر شجاعت چوہدری اپنی نیلی انکھوں والی حسین بیوی کو چھوڑ کر جا سکتا ہے کبھی ۔۔۔نہیں کبھی نہیں۔۔۔۔اُدھر دیکھو اب ان آنکھوں سے آنسو نہیں نکلنے چایئے۔۔۔خضر نے شجیہ کو ہوش میں نہ اتا دیکھ اُسکے دونوں کندھے جھنجھوڑتے ہوش میں لانا چاہا۔۔۔
شجیہ چپ ہوئی ۔۔ایک۔ دم سٹل اور پھر تیزی سے خضر کے گلے لگی۔۔۔
آنسو تھم گئے تھے لیکن سسکیاں اب بھی جاری تھی۔۔۔۔۔
بس میری جان بلکل بھی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے میں ٹھیک ہو ہم ٹھیک ہے ہم جلد یہاں سے چلے جائیے گے۔۔۔خضر نے شجیہ کے بالوں پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔
خضر مجھے یہاں نہیں رہنا مجھے یھاں سے لے چلے ۔۔۔مجھے اُس سے خوف اتا ہے مجھے اُسکی نظریں اپنے وجود پر گڑھتی محسوس ہوتی ہے۔۔۔مجھے اب سکون چایئے مجھے صرف آپ چایئے اپنے پاس اور ہماری چھوٹی سی وہی دنیا جہاں ہم خوش تھے ساتھ تھے کوئی غم نہ تھا۔۔۔۔شجیہ نے دھیمی آواز میں خضر کے سینے پر سر رکھتے کہا۔۔۔
شجیہ کی بات پر خضر نے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔اُسکا دل کیا تھا لیپرڈ کو ابھی جاکر زندہ درگور کر دے ۔۔۔شجیہ کی بات پر اُس نے کیسے ضبط کیا تھا یہ وہی جانتا تھا۔۔۔
انشاءاللہ میری جان ہم یہاں سے چلے جائیے گے اپنی اُسی دنیا میں۔۔۔بہت جلد یہ تمھارے خضر کا تم سے وعدہ ہے۔۔۔۔خضر نے اُسکے بالوں سے اٹھتی مہک کو اپنے وجود میں اُتارتے کہا۔۔۔
ابھی وہ پاس تھی اُسکے قریب وہ اُسکا لمس محسوس کر پا رہا تھا دو دن سے جلتے تڑپتے دل کو راحت ملی تھی۔۔۔۔رگوں میں سکون خون بن کر دوڑنے لگا تھا ۔۔۔۔
پر اُس نے تو آپکو گولیاں ماری تھی۔اور یہ ہاتھ ۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے سینے سے منہ اٹھاتے اُسکی طرف دیکھتے نم انکھوں میں حیرت لیے اُس سے پوچھا۔۔۔
وہ بہت لمبی کہانی ہے جو فرصت میں اپنی بیگم کو سناؤ گا ابھی مجھے تمہیں جی بھر کر دیکھنے دو محسوس کرنے دو۔۔۔رگوں میں جو تڑپ تمھاری دوری سے بھری ہے اُسے تمہارے لمس سے سکون میں بدلنے دو۔۔۔خضر نے شجیہ کے چہرے کے حد درجہ قریب اپنا چہرہ لاتے گھمبیر خمار زدہ آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے شجیہ کی نیلی آنکھوں میں دیکھتے اپنے لب اُسکے لبوں پر رکھتے شدت سے اُسکی سانسیں پی ۔۔۔
شجیہ نے اپنی نم پلکیں اپنے سرخ عارض پر جھکاتے اُسکے کندھوں پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں بند کئے وہ خضر کا لمس محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔
اور خضر مسرور سا ہوتے اُسکے لبوں کا جام پیتے اپنی تشنگی مٹا رہا تھا۔۔۔
خضر کروٹ بدلتے اُس پر حاوی ہوا اور شجیہ اپنی آنکھیں بند کر گئی۔۔۔
شجیہ کی گردن پر اپنے لب رکھتے وہ ایک سرور سا اپنے وجود میں دوڑتا محسوس کر رہا تھا۔۔اپنے بالوں پر گردش کرتے شجیہ کے ہاتھ محسوس کرتے اُسکے بوسوں میں اور شدت در ائی تھی۔۔۔۔
شجیہ نم آنکھیں لیے خضر کی شدتیں برداشت کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔اور خضر اُسکے پور پور پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔۔۔کانوں میں گونجتی اُسکی پیار شدت بھری سرگوشیاں سنتے وہ آسودگی سے مسکرائی ۔۔۔
خضر کو اپنے سامنے دیکھ اُسکا دل سکون میں تھا ۔۔۔یہ بات اُسکے لیے موت کے مترادف تھی کہ خضر اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔ وہ سب دیکھتے اُس پر کیا کیا گزری تھی یہ وہی جانتی تھی ۔۔۔خضر کے بغیر وہ زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔۔
اگر خضر ابّھی نہ اتا تو یقیناً وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی جس بات کا ادراک خضر کو بھی تھا۔۔۔
💗💗💗💗
انابیہ نے لیپرڈ کے جوتے اُتارے اُسکا سر تکیہ پر رکھتے اُس نے اُس پر لحاف دھکا۔۔۔۔
دھیرے سے اُسکے پاس بیٹھتے اُسکے بالوں میں اپنی انگلیاں چلاتے وہ لیپرڈ کے خوبرو چہرے کو تکنے لگی۔۔۔۔۔
کاش تم میری تھوڑی سی قدر کر لیتے۔۔۔کاش جتنا پیار میں تُم سے کرتی ہو بدلے میں صرف تھوڑا سا ہی پیار کر لیتے۔۔۔۔کاش تمہیں یہ خبر دیتے ہوئے کہ تُم بابا بننے والے ہو مجھے اس بات کا ڈر نہیں لگتا کہ تم میرے بچے ہمارے بچے کو قبول کروگے بھی یہ نہیں ۔۔۔یہ پھر یہ بھی اپنی ماں کی طرح تمھاری زندگی اور تمہارے اس محل میں ایک بیکار چیز کی طرح پڑے رہے گا۔۔۔نم آواز میں کہتی وہ اُس سے مخاطب تھی جو آنکھیں بند کیے گہری نیند میں غرق تھا۔۔اُسکی آواز میں ایسی اذیت اور تکلیف تھی کہ سننے والے کا دل سو ٹکڑوں میں تقسیم ہوجاتا۔۔۔۔
کاش تم بھی مجھ سے محبت کرتے۔۔۔لیپرڈ کے سینے پر اپنا سر رکھتی وہ اپنی ٹانگیں بیڈ پر رکھتی اپنی آنکھیں موند گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
ہیلو۔۔کیسے ہے آپ کامل شجیہ کیسی ہے اور خضر۔۔۔۔فلک ابھی ابھی فرش ہوکر اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی جب اُسکے نمبر پر کامل کی کال ائی۔۔۔
سب ٹھیک ہے بھابھی مل گئی ہے حیاتی آپ کیسی ہے اور ہمارا بچا کیسا ہے۔۔۔کامل نے شیشے کے اُس پار لیتے جون کو دیکھتے نرم آواز میں پوچھا۔۔۔
وہ ٹھیک ہے بس اپنے بابا کو یاد کر رہا ہے بہت شدت سے۔۔۔فلک نے لبوں پر ایک حسین مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔۔
ہمارے شہزادے اور اُسکی ماما کو تھوڑا سا انتظار کرنا پڑے گا اُسکے بعد وہ اور اُسکی ماما ہمیشہ کے لیے میرے پاس ہوگی۔۔۔کامل کی بات پر فلک کے ہونٹوں پر جمی مسکراہٹ اور گہری ہوئی۔۔۔۔۔
آپ نے اپنا اور بیبی کا بہت سارا خیال رکھنا ہے ۔۔۔میرے لیے ۔۔جب میں اؤ تو آپ دونوں مجھے صحت یاب چایئے ۔۔۔اب میں فون رکھتا ہو۔۔۔ کامل نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فلک سے کہا۔۔۔۔
فلک نے ایک لمبی سانس بھری اُسکی بات پر۔۔۔
آپ بھی اپنا خیال رکھیے گا ۔۔اور ائی لو یو ۔۔۔۔فلک نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔کامل کے لبوں پر مسکراہٹ دور گئی اُسکے لفظ سنتے ۔۔۔
آئی لو یو ٹو ۔۔۔۔کامل نے کہتے ساتھ فون بند کیا۔۔۔
ایک نظر سامنے دیکھا جہاں جون کا علاج چل رہا تھا۔۔۔۔
اس پاس دوسرے آفیسر بھی تھے۔۔۔۔
اُسے کل کا منظر یاد ایا۔۔۔۔
،ایک دن پہلے۔۔۔💗💗💗
تو یہاں ریلیکس انداز میں کیسے بیٹھ سکتا ہے جب بھابھی اُس لیپرڈ کی تحویل میں ہے۔۔۔۔کامل نے غصے سے خضر کو دیکھتے کہا جو نہایت اطمینان سے صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔۔
خضر تُجھے بھابھی کی کوئی فکر ہے بھی یا نہیں کوئی جواب کیوں نہیں دے رہا ہے تو۔۔۔کامل کو اُسکے جواب نہ دینے پر شدید تعیش ایا۔۔۔۔
کیا کہا تو نے ۔۔مجھے اُسکی فکر نہیں ہے۔۔۔میں یہاں ایک ایک ایک پل گن رہا ہو اُسکے پاس جانے کا ۔۔۔کیا مجھے جلدی نہیں ہے اُس تک پہنچنے کی۔۔۔مجھ سے پوچھ کتنا بےبس ہو میں ۔۔۔میں اپنی بیوی کو اُس کی قید سے۔۔۔میرے لیے ایک ایک لمحہ کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔۔۔خضر ڈھاڑا تھا۔۔۔
میں بس انتظار کر رہا ہو۔۔مجھے اچھے سے پتہ ہے وہ اپنے کتوں کو ضرور بھیجے گا خضر شجاعت چوہدری کو مارنے۔۔۔۔خضر نے اپنی داڑھی رب کرتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل سمجھ گیا تھا وہ کیا کہنا چاہ رہا ہے۔۔۔۔
گہری رات نے کراچی پر اپنے پر پھیلائے تھے ایسے میں کالے لباس میں ملبوس جون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خضر پلیس میں داخل ہوا تھا۔۔۔
محتاط انداز میں چلتے وہ چاروں طرف دیکھ رہا تھا جہاں ہر طرف اندھیرا تھا۔۔۔یہاں انے سے پہلے وہ پتہ کر چکا تھا خضر اس وقت اپنے گھر میں ہے۔۔۔
خضر کے کمرے کے دروازے کو ایک جھٹکے سے کھولتے اُس نے بیڈ پر لیتے خضر پر گولیاں چلائیں۔۔۔لیکن سامنے روئی کو دیکھ کر اُسکا ماتھا تنکا۔۔۔۔تیز قدم بڑھاتا وہ بیڈ تک ایا تھا ایک جھٹکے سے لحاف اٹھایا اور سامنے تکیہ دیکھتے اُس نے اپنی آنکھیں مينچی۔۔۔یکدم کانوں میں سیٹی کی آواز گونجی۔۔۔آواز کے ارتکاز میں سامنے دیکھا تو سامنے ہی دروازے کے بیچ و بیچ خضر کھڑا تھا۔۔۔۔
خوش آمدید۔۔۔۔ایک جھٹکے سے کامل نے ونڈو سے اندر چھلانگ لگا کر بلکل جوں کے پاس کھڑے ہوتے ایک آنکھ ونک کرتے کہا۔۔۔
اتنا حیران مت ہو جون۔۔۔۔تم نے یہاں انا تھا یہ بات خضر شجاعت چوہدری تو نہیں جانتا تھا لیکن ائی ایس ائی اجنٹ خضر شجاعت چوہدری ضرور جانتا تھا۔۔خضر نے اپنی پشت پر اپنے ہاتھ رکھتے دھیمی مگر سخت آواز میں کہا۔۔۔
جون کی آنکھیں پھیلی تھی۔۔اُس نے تیزی سے اپنی گن لوڈ کرتے خضر کا نشانہ لیا۔۔۔
چچچ۔۔۔گولیاں تو ساری تم جوش میں اتے بیچارے تکیہ پر برسا چکے ہو ۔۔۔اور تمہارے سارے ادمی اس وقت اپنی خاطر تواضح سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔۔۔کامل نے اُسکے ہاتھ سے گن لیتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔
چلو اب سیدھی شرافت سے بتاؤ میری بیوی کہاں ہے۔۔۔خضر نے اُسکے قریب اتے بھوری انکھوں میں سرخی لیے سرد و سپاٹ آواز میں پوچھا۔۔۔۔
مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔جوں کے کہنے پر کامل نے رکھ کر اُسکے منہ پر تھپڑ رسید کیا۔۔۔
سوات میں ہے۔۔۔وہ لیپرڈ کے وؤڈ ہاؤس میں ۔۔۔۔جوں نے کامل کے زور دار تھپڑ سے نکلنے والا خون صاف کرتے بتایا۔۔۔۔
خضر نے اپنی مٹھیاں بھینچی۔۔۔دل کو راحت تو نہیں ملی تھی یہ سن کر راحت تو تب ملنی تھی جب وہ سامنے ہوتی اُسکے قریب۔۔۔۔
چلو پھر کیوں نہ ایک چھوٹا سا ڈراما بنایا جائے تمہارے اُس لیپرڈ کو اُلّو بنائے کے لیے۔۔۔۔خضر نے انگوٹھے سے اپنی داڑھی رب کرتے کہا۔۔۔
اور پھر خضر نے وہ سب ناٹک کیا ۔۔۔جون کے ہاتھ میں ایک نقلی گن تھمائی خضر کے وجود سے نکلتا خون بھی نقلی تھا۔۔۔آس پاس خضر کے ہی ٹیم کے ممبرز تھے جو بلیک لباس میں ملبوس تھے۔۔۔۔
ویڈیو بنانے کے فوراً بعد ہی جوں کو آفسیر نے ہتکڑی لگا دی تھی۔۔۔۔
لیپرڈ کے ووڈ ہاؤس میں سیکیورٹی بہت زیادہ تھی۔۔۔وہاں صرف جون اور اُسکے قریبی گارڈز کو ہی جانے کی اجازت تھی۔۔۔۔
خضر نے اپنے چہرے پر بھوری داڑھی لگائی تھی۔۔۔سفید رنگت بھوری آنکھیں اور بھوری ہی داڑھی وہ بلکل ایک انگریز لگ رہا تھا۔۔۔۔اپنے دیمج ہاتھ پر اُس نے ایک نقلی ہاتھ لگا لیا تھا۔۔۔
کامل نے بھی فوراً سے اپنی سبز انکھوں کو کالی آنکھوں میں بدلہ تھا۔۔۔چہرے پر کالی گھنی داڑھی لگائے وہ بھی اپنا سراپا بلکل بدل گیا تھا۔۔۔
اپنی ٹیم اور جون کو لیے وہ لوگ سوات کے لیے نکلے تھے اور اس سارے سفر میں خضر کا دل صرف و صرف شجیہ کو دیکھنے کے لیے بیچین تھا۔۔۔کامل نے جاتے وقت فلک کو دیکھا تک ہی نہ تھا وقت ہی نہیں تھا اتنا کہ وہ اُس سے بات بھی کر پاتا اپنے موبائل میں اُسکی تسویر کھولے وہ پورے راستے اسے دیکھتا رہا تھا۔۔۔۔
سوات پہنچتے وہ سب سے پہلے بیس میں گئے تھے وہاں سے جون اور اپنے وجود پر ٹریکنگ ڈیوائس لگوا کر وہاں سے صرف وہ دونوں اور جون آگے کے سفر پر نکلے تھے۔۔۔پیچھے ٹیم تیار بیٹھی۔ تھی۔۔۔۔۔۔
گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے وہ ووڈ ہاؤس میں پہنچے تھے جس کے مین گیت پر اُنہیں روک کر اُن تینوں کی تلاشی لی گئی تھی۔۔۔کامل اور خضر محتاط انداز میں چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
بہتے دریا کے کنارے پر بنا یہ ووڈ ہاؤس باہر سے انتہا کا حسین لگتا تھا۔۔۔
اندر قدم بڑھاتے خضر کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا نہ جانے وہ کس حال میں ہوگی۔۔۔کیا کر رہی ہوگی ۔۔کہیں اُس لیپرڈ نے اُسے ہاتھ تو نہیں لگایا۔۔اور یہ سوچ اتے ہی اُسکے سینے میں الاؤ سا دہک جاتا تھا ۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے پورے بدن پر کسی نے جلتے کوئلے انڈیل دیے ہو۔۔۔۔
اؤ اؤ جون اُمید کرتا ہو جو کام تمہیں دیا تھا وہ پوری ایمانداری سے مکمل کر کے آئے ہوگئے۔۔۔سامنے صوفے پر بیٹھتے لیپرڈ نے مسکراتے ہوئے یہ الفاظ کہے۔۔۔اور خضر نے بمشکل اپنے اوپر ضبط کیا تھا۔۔۔لیپرڈ کو سامنے دیکھتے اُسکا دل کیا تھا ابھی اُسے ایسی موت دے کہ وہ تڑپ تڑپ کر مرے ۔۔۔۔
جون نے اثبات میں سر ہلایا اور لیپرڈ کے سامنے یو ایس بی رکھی۔۔۔۔
جسے دیکھتے لیپرڈ کی مسکان اور گہری ہوئی ۔۔۔۔
لگاؤ۔۔۔۔خضر کی طرف اشارہ کرتے اُس نے ٹیوی کی طرف دیکھا۔۔۔۔
کامل کو لگا وہ ہنس دے گا ۔۔۔
خضر شجاعت چوہدری پہلا انسان تھا جو خود اپنی موت کی ویڈیو لوگوں کو دکھا رہا تھا۔۔۔۔
خضر نے ویڈیو لگا کر ایک نظر لیپرڈ کو دیکھا جس نے ملازم کو شجیہ کو بلانے کا کہا تھا۔۔۔
آنکھیں بیتابی سے اُسکے انے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر اُسے وہ نظر ائی ۔۔۔نیلی فروک میں دوپٹہ سے اپنا آپ ڈھانپے نیلی آنکھوں میں ڈر اور سرخی لیے ۔۔۔نیلی آنکھوں میں کسی انہونی کے ہونے کا خوف تھا جو صرف و صرف خضر شجاعت چوہدری ہی پڑھ سکتا تھا۔۔۔۔۔
سامنے اُسے صحیح سلامت دیکھتے خضر کی رکی سانس بحال ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔لال گلابی چہرہ اُسکی دوری پر کملا سا گیا تھا۔۔۔
لیپرڈ کی نظریں شجیہ پر محسوس کرتے خضر اپنے لب بھینچ گیا تھا۔۔۔یہ سب اُسکی برداشت سے باہر تھا مجبوراً وہ برداشت کر رہا تھا۔۔۔
اور پھر اُسکی وڈیو چلتے شجیہ کا ماہی بے آب کی طرح تڑپتا وجود اُسکے آنسو اُسکی آہیں سنتے خضر شجاعت چوہدری کو اپنے وجود میں ایسی بے بسی اُترتی محسوس ہوئی جو اُسکے روۓ روۓ کو ایک اذیت و تکلیف میں جھونک گئی تھی۔۔۔۔۔
اُسکا دل کیا شجیہ کے تڑپتے بلکتے وجود کو اپنی باہوں میں بھر لے اُسے اپنے سینے میں بھینچ کر یہاں سے دور لے جائے ہر تکلیف و پریشانی سے دور۔۔۔لیکن فلوقت وقت اُسکے حق میں نہیں تھا۔۔۔۔
اور پھر اُس نے اپنی بیوی کا جلالی روپ دیکھا۔۔۔جہاں اُس نے ایک پل میں جون کے وجود کو خونم خون کر دیا تھا۔۔۔یہاں اُسکا شیرنی والا روپ دیکھتے خضر سرشار سا ہوا تھا۔۔۔اور کامل کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھی۔۔۔۔
خضر کا دل کیا تھا ابھی جاکر اپنی شیرنی کے چہرے پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑ دے۔۔۔وہ اُسکی تڑپ اور اُسکی اس حرکت سے اپنے لیے اُسکی محبت کا اندازہ لگا چکا تھا اور یہی بات تھی جو خضر شجاعت چوہدری کے وجود میں سرشاری سی بھر گیا تھا۔۔۔۔
لیپرڈ کو شجیہ کے بیہوش کرتے اُسے اٹھانے پر خضر اپنا آپا کھو چکا تھا وہ جھٹکے سے اگے بڑھا تھا جب کامل نے اُسکا ہاتھ تھام کر اُسے روکا تھا ۔۔۔اور دونوں جوں کے زخمی وجود کو لیتے اس ووڈ ہاؤس سے باہر گئے تھے۔۔۔اُسے اپنی بیس میں موجود ہاسپٹل میں چھوڑتے وہ دونوں واپس آئے تھے ۔۔۔
پورے گھر کے کمرے وہ ہیک کر چکا تھا۔۔۔کامل نے لیپرڈ کی ڈرنک میں نشہ اور گولیاں بھی ملا دی تھی۔۔۔ایک تو حرام مشروب اور پھر نیند کی گولیاں۔۔۔۔دونوں نے ہی لیپرڈ کو گہری نیند میں سلا دیا تھا ۔۔۔
خضر شجیہ کے پاس چلا گیا تھا جبکہ کامل فوراً سے واپس بیس ایا تھا ۔۔۔۔
💗💗💗
سونا نہیں ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کی نیند سے بھاری ہوتی پلکوں۔ کو چھوتے پوچھا۔۔۔
۔وہ رات بھر نہیں سوئی تھی صرف اس ڈر سے کہیں خضر چلا نہ جائے ۔۔۔اور خضر کو اب اُسکی فکر ہونے لگی تھی ۔۔۔۔
نہیں میں سو جاؤنگی پھر آپ چلے جائے گے مجھے لگ رہا ہے یہ ایک آنکھ خواب ہے جو میری پلکیں جھپکتے ہی ٹوٹ جائے گا۔۔۔اور میں ایسا نہیں چاہتی۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی ناک پر اپنے لب رکھتے ہوئے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
اتنا ڈر ۔۔ کل تو میری بیوی نے شیرنی کی طرح بغیر ڈرے ایک انسان پر گولیاں چلائیں تھی۔۔۔۔خضر نے اُسکے گال کو اپنے ہاتھ کی پوروں سے سہلاتے ہوئے آبرو ریز کرتے کہا۔۔۔
یہ ڈر صرف آپکے لیے ہے آپکو کھو دینا کا، آپکو کوئی تکلیف نہ پہنچائے اس کا،آپکے دور چلے جانے کا،باقی سب کے سامنے شجیہ نہیں ڈرتی۔۔۔بلکل بھی نہیں اُس انسان نے میرے شوہر پر گولیاں چلائیں تھی اُسے میں زندہ نہ چھوڑتی ۔۔۔شجیہ نے خضر کے گال پر اپنا ہاتھ رکھتے پیار و شدت سے یہ الفاظ ادا کیے۔۔۔۔
تمھاری اُس محبت پر خضر شجاعت چوہدری اپنے آپ کو بھی قربان کر دے میری جان۔۔۔ویسے گن چلانی کہاں سے سیکھی ہے زوجہ خضر۔۔۔۔خضر نے اُسکے لبوں سے اپنے لب مس کرتے پوچھا۔۔۔۔
آپکی بیوی مستقبل کی ڈی ایس پی ہے خضر شجاعت چوہدری اُسے انڈر اسٹیمت مت کرئے گا مجھے گن چلانے کے ساتھ ساتھ ہڈیاں تورنی بھی اتی ہے۔۔۔شجیہ نے فخریہ لہجے میں کہا لہجے میں شرارت کا عنصر بھی شامل تھا۔۔۔۔
اوہو یہ تو بہت بری بات ہوئی مطلب تمہیں جب غصّہ آئے گا تم مجھ پر بھی گن تان سکتی ہو یہ میری بھی ہڈی توڑ سکتی ہو۔۔۔خضر نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔
نہیں میں آپ پر ہاتھ تھوڑی اٹھاؤ گی بس آپ نے کچھ ایسی ویسی حرکت کی تو میرے یہ دانت ہے نہ یہ ان سے کام لونگی۔۔۔شجیہ نے اپنے دانتوں کی نمائش کرتے کہا۔۔۔
اور وہ کیسے۔۔۔۔خضر نے سوالیہ لہجے میں پوچھا۔۔۔
وہ ایسے۔۔۔شجیہ نے کہتے ساتھ اپنے دانت زور سے خضر کے بازو پر گاڑھے۔۔۔خضر نے اپنے لب بھینچے۔۔۔۔لیکن افف نہ کہا۔۔۔
شجیہ کے پیچھے ہٹنے پر خضر نے ایک نظر اپنے بازو پر دیکھا جہاں اُسکے چھوٹے چھوٹے دانتوں کے نشان واضح تھے۔۔۔
اگر تم ایسے کروگی تو میں بھی ایسے ہی نشان یہاں تمھاری گردن پر ثبت کرونگا۔۔۔خضر نے شجیہ کی گردن پر اپنی انگلی ٹریس کرتے ہوئے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
ہم یہاں ایک انتہائی مشکل میں پھنس چکے ہیں اجنٹ خضر ۔۔۔اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہے اور آپکو رومانس سوجھ رہا ہے۔۔۔شجیہ نے اپنی گردن پر رقص کرتی اُسکی انگلی تھامتے اُسے یاد دلایا ۔۔۔خضر اُسے سب کچھ بتا چکا تھا۔۔۔اپنے بارے میں ۔۔۔
کیا کر سکتے ہیں جب اتنی حسین بیوی ہو جس سے آپکو انتہا کی محبت ہو تب رومانس کچھ زیادہ ہی کرنے کا دل چاہتا ہے۔۔۔خضر کی بےباک بات پر شجیہ کا رنگ سرخ اناری ہوا۔۔۔
یکدم خضر کے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر لال بتی جلی۔۔۔
چلو اٹھو میری جان گھر جانے کا وقت ہوا جاتا ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیتے پیار سے کہا اور اُسے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔۔۔
خضر۔۔۔وہ آپکو نقصان تو نہیں پہنچائے گا ۔۔۔شجیہ نے ایک ڈر کے تحت پوچھا۔۔۔
ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے زوجہ خضر ۔۔۔میرا وعدہ ہے۔ ہم سب یہاں سے صحیح سلامت واپس جائے گے اپنی اُسی خوشیوں بھری زندگی میں۔۔۔خضر نے اُسکے بال سوارتے ہوئے مضبوطی سے کہا۔۔۔شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا اُسکی بات پر۔۔۔جب خضر نے وعدہ کر لیا تھا تو اُسے یقین تھا وہ ضرور اُسے پورا کرے گا۔۔
خضر کے ہاتھ میں موجود گھڑی میں ظاہر ہوتی لال بتی اس بات کی نشاندھی تھی کہ کامل اور اُسکی ٹیم وّوڈ ہاؤس کے قریب ہے۔۔۔
باہر سے فائرنگ کی آواز آرہی تھی۔۔۔خضر بس شجیہ کو محفوظ یہاں سے نکالنا چاہتا تھا پھر لیپرڈ سے وہ نمٹنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔۔۔
گولیوں کی آواز سنتے لیپرڈ اٹھا اسے پل لگا تھا سب کچھ سمجھنے میں۔۔اُس نے انابیہ کو دیکھا جو خود بھی گولیوں کی آواز سنتے پریشانی سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
اس کمرے سے باہر مت نکلنا بیہ ۔۔۔لیپرڈ نے الماری سے اپنی گن نکالتے انابیہ کو اُسکے نیک نیم سے پُکارا۔۔۔۔
کتنے عرصے بعد اپنا یہ نام اُس نے اس ظالم کے منہ سے سنا تھا۔۔۔
کس نے حملہ کیا ہے۔۔۔انابیہ نے بیڈ سے اٹھتے پوچھا۔۔۔
ائی ایس آئی کا۔۔۔۔لیپرڈ کے کہنے پر انابیہ کا دل خوف سے دھڑکا باہر سے اتی گولیوں کی آوازیں لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
تمہیں کیسے پتہ ۔۔۔انابیہ نے کانپتی آواز میں پوچھا۔۔۔
ابھی ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے تم اس کمرے سے نہیں نکلو گی بیہ۔۔۔لیپرڈ نے اُسکے پاس اتے آنکھوں میں سختی لیے اُس سے کہا۔۔۔۔
اور اُسکا جواب سنے بغیر کمرے سے باہر نکلا۔۔۔۔
پیچھے انابیہ نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا جو انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
💗💗💗💗
خضر شجیہ کا ہاتھ پکڑے لاؤنچ میں ایا تھا جب پیچھے سے گونجتی آواز پر رکا۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر گرفت مضبوط کی۔۔۔
کہاں بھاگ رہے ہو خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔مجھ سے ملو گے نہیں۔۔۔لیپرڈ نے خضر کی پشت کو تکتے ہوئے کہا۔۔۔
تم سے آرام سے ملنے کا بندوبست کر رکھا تھا فلهال تمھاری بہن کو گھر چھوڑنے جا رہا تھا اُسکے بعد تُم سے بھی مل لیتا۔۔۔خضر نے شجیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے پلٹ کر طنزیہ کہا۔۔۔۔
اتنی بھی کیا جلدی ہے ۔۔۔۔حیران تو ضرور ہوگئے ہوگے کہ لیپرڈ کو کیسے پتہ چلا تمہارے بارے میں وہ کیا ہے نہ لیپرڈ ایک ہاتھ آگے رہتا ہے ۔۔لیپرڈ نے گن کی نوک سے اپنی آبرو رب کرتے ہوئے سر جھٹکتے کہا۔۔۔
خضر نے جبڑے بھینچ کر اُسکی طرف دیکھا شجیہ بس خاموشی سے لیپرڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
میں وہی بولو اتنا شارپ بزنس مین اتنے بڑے گھر میں بغیر کسی گارڈ اور سیکیورٹی کے اکیلا کیسے بیٹھ کر اپنی موت کا انتظار کر سکتا ہے۔۔۔۔لیپرڈ کی کالی آنکھیں اس وقت لال ہو رہی تھی۔۔۔۔اُسکے لہجے میں سختی تھی۔۔۔
پھر میرے دماغ نے کام کیا اور میں نے وہ کیا جس سے تم مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اچھا ہوا تُم بھی اگئے ۔۔۔دونوں دوستوں کو ساتھ دکھا دیتا ہوں ۔۔۔۔کامل کے انے پر لیپرڈ نے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا ۔۔
کامل نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔کیا کچھ تھا جو اُن سے مس ہوگیا تھا۔۔۔
جون کے ساتھ دو انجان چہروں کو دیکھتے میں پہلی نظر میں سمجھ گیا تھا کہ یہ بہروپیے ہے تم دونوں کیا سمجھتے ہو میرے وؤد ہاؤس سے آسانی سے جب دل چاہے گا جاؤ گے اؤگے اور مجھے پتہ نہیں چلے گا تو یہ تمھاری غلط فہمی ہے۔۔۔یہاں پر ارتے ایک پرندے کی خبر بھی لیپرڈ کو ہو جاتی ہے۔۔۔شک یقین میں تب بدلہ جب اپنی ڈرنک میں نشہ اور گولیاں محسوس کی ۔۔۔اور تب ہی تمھاری اس معصوم سی بیوی کو اٹھا لایا ۔۔۔کہ اگر میری بازی مجھ پر پلٹ جائے تو میرے پاس کوئی نہ کوئی راستہ بچے جس سے وار کیا جاسکے۔۔۔تم دونوں ائی ایس ائی اجنٹ ہو یہ بات تو تب ہی پتہ چل گئی تھی جب میرے آدمیوں نے تم دونوں کا پیچھا کیا تھا جوں کو اپنی بیس میں لے جاتے۔۔۔لیپرڈ کی بات سنتے خضر اور کامل نے اپنے جبڑے بھینچے تھے جبکہ شجیہ کو گھبراہٹ ہو رہی تھی اُسے لگ رہا تھا سب ختم ہونے والا ہے ۔۔۔
کمرے کا دروازہ کھلتے اور وہاں پر موجود فلک کو دیکھتے وہ تینوں حیران ہوئے۔۔۔کامل خان کو لگا اُسکی سانس رک گئی ہو سامنے ہی فلک جس کے ہاتھوں کو رسی سے باندھا گیا تھا منہ پر ٹیپ لگا کر اُسکی آواز بند کی گئی تھی ۔۔۔۔بکھرے بال اور روتا وجود۔۔۔۔اور اُسکے سر پر تنی بندوق دیکھتے کامل کو اپنے وجود سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
سبز آنکھیں فوراً سے لال ہوئی۔۔۔نسیں اشتعال سے پھولی۔۔۔
اُسے چھوڑو لیپرڈ۔۔۔کامل بولا نہیں ڈھاڑا تھا ۔۔۔خضر نے اپنی بھوری آنکھیں مينچی ۔۔۔۔۔
کیا تڑپ ہے لگتا ہے بہت محبت کرتے ہو۔۔۔لیپرڈ نے فلک کے پاس اتے اُسکے بال پکڑتے کامل سے کہا۔۔۔
اُسے ہاتھ مت لگانا تمہارے ہاتھ کاٹ کر پھینک دونگا میں۔۔۔کامل اپنی جگہ سے آگے بڑھتا چلایا جب لیپرڈ نے اُسکے پیروں کے پاس فائر کیا۔۔۔۔
ایک قدم اگے نہیں بڑھانا ۔۔۔۔شجیہ کو دو مجھے اور یہاں سے جانے دو اور بدلے میں بچا لو اپنی بیوی اور دوست کی زندگی۔۔۔لیپرڈ کے کہنے پر شجیہ نے نیلی نم انکھوں سے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا جو خضر کے ہاتھ میں محفوظ تھا اُس نے ایک نظر فلک کی طرف دیکھا جو نم انکھوں سے اُسکا ارادہ سمجھتے نفی میں سر ہلا رہی تھی۔۔۔اور پھر کامل کی طرف جو آنکھوں میں بےبسی لیے فلک کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔
دھیمے سے اپنا ہاتھ خضر کے ہاتھ سے نکالتی وہ خضر کو پتھر کا کر گئی تھی۔۔۔۔
لب خاموش تھے آنکھیں بہہ رہی تھی۔۔۔۔
خضر نے نفی میں سر ہلا کر شجیہ کا ہاتھ پکڑنا چاہا جب شجیہ نے نفی میں سر ہلاتے اپنا ہاتھ پیچھے کیا ۔۔۔۔
مجھے جانے دے خضر بس یہ بات یاد رکھیے گا شجیہ آپکی تھی آپکی ہے اور آپکی ہی رہے گی۔۔۔میں موت کو گلے لگا لونگی لیکن آپکا نام آپکی زوجیت سے کبھی خود کو الگ نہیں کرونگی ۔۔دھیمی آواز میں کہتی وہ خضر کو پریشان کر گئی ۔۔۔۔
شجیہ میں قسم کھاتا ہوں میں سب کچھ تحس نہس کردونگا اگر تم نے اپنا ایک قدم بھی اگے بڑھایا پاگل پن مت کرو واپس اؤ میرے پاس۔۔۔خضر نے شجیہ کا بازو پکڑنے کی کوشش کرتے سخت آواز میں کہا۔۔۔
نہیں ۔۔ہمارا ساتھ شاید یہی تک تھا۔۔۔فلک ماں بننے والی ہے اُسکے بچے کا سوال ہے۔۔۔میں اُسکی زندگی اُسکے بچے کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتی دو میاں بیوی کے درمیان جدائی کا باعث نہیں بن سکتی ایک باپ کو اُس کے بچے سے جدا نہیں کر سکتی خضر۔۔۔۔اٹکتی آواز میں کہتی وہ خضر کے دل کے سو ٹکڑے کر گئی تھی ۔۔۔کیا اُسے اس پر یقین نہیں تھا ۔۔کیا شجیہ کے لیے خضر کی محبت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی جو وہ اُسے جُدائی اور ہجر کی اس آگ میں جھونک رہی تھی۔۔۔
اور میں۔۔۔میرا کیا۔۔۔جانتی ہو مر جاؤنگا تم سے دوری پر۔۔۔کیا مجھ پر اتنا یقین نہیں کہ میں تمہیں اور سب کو یہاں سے صحیح سلامت واپس لے کر جاؤنگا۔۔۔خضر نے تھوک نگلتے کہا آواز گلے میں اٹکتی محسوس ہوئی۔۔۔ایسا لگا پورا گلا خشک ہوگیا ہو۔۔۔
یقین ہے۔۔آپ پر۔۔لیکن میں فلک کے لیے کوئی رسک نہیں لے سکتی۔۔۔۔خضر پلیز۔۔۔۔دیکھے کامل بھائی کو اُنکی آنکھوں میں فلک اور اپنے بچے کے لیے کیسی تڑپ ہے ۔۔۔اگر میری قربانی سے وہ دونوں مل سکتے ہیں تو میں قربان ہونے کو تیار ہو۔۔۔شجیہ نے دوپٹہ اپنی مٹھیوں میں جکڑے ایک نظر کامل کو دیکھتے خضر سے کہا۔۔۔
اور میری آنکھوں میں جو تڑپ تمہارے لیے ہے وہ ۔۔۔وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ۔۔۔خضر نے ضبط کے ساتھ سوال کیا بھوری انکھوں میں سرخی کی تہہ جم چکی تھی دل سے خون رس رہا تھا۔۔۔۔
شجیہ نے کوئی بھی جواب دیۓ بنا اپنے قدم اگے بڑھائے اور خضر شجاعت چوہدری کی آنکھ سے ایک آنسو نکلتا داڑھی میں جذب ہوا۔۔۔۔
لیپرڈ کا دیہان سارا شجیہ کی طرف تھا ۔۔۔۔انابیہ جو نم نگاہوں سے اپنے کمرے کے باہر کھڑی یہ دیکھ رہی تھی اُس نے کامل کی طرف دیکھا اور پھر اُسکے ہاتھ میں موجود گن کو ۔۔۔۔
یہ ایک ہی ذریعہ تھا جس سے لیپرڈ پیچھے ہت سکتا تھا اُس نے شجیہ کی طرف دیکھا جو اپنے قدم لیپرڈ کی طرف بڑھا رہی تھی۔۔۔
تیزی سے آگے بڑھتے اُس نے کامل کہ آگے اتے اُسکا ہاتھ گن سمیت اٹھا کر اپنے سر پر تانا اور کامل کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔۔۔۔کامل نے فوراً سے اُسکا اشارہ سمجھتے اُسے بازو سے تھاما۔۔اور گن اُسکے ماتھے پر رکھی۔۔۔
رک جائے بھابھی ۔۔۔اگر اپنی بیوی کی زندگی چاہتے ہو تو ایسی وقت فلک کو کھولو اور اپنی گن نیچے کرو۔۔۔کامل نے تیزی سے شجیہ سے کہا اور پھر لیپرڈ سے مخاطب ہوا۔۔۔
خضر نے تیزی سے آگے بڑھتے شجیہ کا ہاتھ تھام کر اُسے اپنی طرف کھینچا جو اُسکے سینے سے ٹکرائیں۔۔۔۔شجیہ کے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے خضر نے اُسکی پشت کو شدت سے اپنے سینے میں بھینچا تھا۔۔۔۔
کامل کی گرفت میں انابیہ کو دیکھتے لیپرڈ کا ہاتھ جس سے اُس نے فلک کے بال دبوچے تھے ڈھیلا پڑتے اُسکا پہلو میں گرا تھا۔۔۔۔
آنکھیں ساکت ہوئے اور لب خاموش ۔۔۔۔۔دل کو دھرکن پل کے لیے رکی۔۔۔۔
میں ۔۔میں جانتی ہو میرا وجود تمہارے لیے عزرہ ہے پر ۔۔۔اگر تمہارے لیے تمہارا وارث تمہارے وجود کا حصہ کچھ معنی رکھتا ہے تو پلیز چھوڑ دو اسکو خود کو حوالے کردو قانون کے ۔۔۔ انابیہ نے بہتی آنکھوں سے لیپرڈ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
اور لیپرڈ کا وجود تھما پتھر کا ہوا۔۔۔کیا وہ باپ بننے والا تھا یہ بات اُسے معلوم ہوئی بھی تو کب جب وہ اس دوراہے پر کھڑا تھا جہاں اُسے شکست بلکل قبول نہیں تھی۔۔۔۔
لیپرڈ نے انابیہ کی آنکھوں میں دیکھا جہاں ایک اذیت رقم تھی پورے حال میں خاموشی تھی سب خاموشی سے لیپرڈ اور انابیہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔
انابیہ کی آنکھوں میں ایک اُمید سی تھی مہم سی کہ وہ شاید پیچھے ہت جائے۔۔۔
لیپرڈ نے اس پاس کھڑے اپنے گارڈز کو گن نیچے کرنے کہ اشارہ کیا۔۔۔فلک کے ہاتھ کھولتے اُسے اس نے کامل کی طرف کیا اور خود بھی اپنی گن اپنے پیروں کے پاس رکھی۔۔۔
انابیہ مسکرا دی اُسے اُمید تھی اور لیپرڈ اُسکی اُمید پر پورا اترا تھا۔۔۔۔
کامل نے جلدی سے انابیہ سے دور ہوتے فلک کو تھاما تھا۔۔اُسکے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتے وُہ اُسکے آنسو صاف کرتا وہ اُسکے صحیح ہونے کی تصدیق کر رہا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔۔
تم ٹھیک ہو میری جان ۔۔۔کامل نے دھیرے سے اُس کے منہ سے ٹیپ ہٹا کر اُسکے گال پر اپنا ہاتھ پھیرتے پیار سے پوچھا۔۔۔
فلک نے روتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا تھا اور جھٹکے سے کامل کے سینے کا حصہ بنی۔۔۔۔۔کامل نے شدت سے اُسے خود میں بھینچا ۔۔
وہاں پر موجود لیپرڈ کے گارڈز کو خضر کی ٹیم نے اریست کر لیا تھا۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک نظر خضر کو دیکھا جو شجیہ کا رخ اپنی طرف کیے اُس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔
ایک انا کا پہاڑ تھا جسے وہ توڑنا نہیں چاہتا تھا بدلہ حرص حسد۔۔۔اُس نے ایک جھٹکے سے جھکتے اپنے پیروں میں گری گن اٹھائی ۔۔۔۔
انابیہ جو اُسکی طرف بڑھ رہی تھی لیپرڈ کو گن اٹھا کر خضر کی طرف رخ کرتے دیکھ وہ تھمی ۔۔۔۔
اپنے قدم تیزی سے خضر کی طرف بڑھائے۔۔۔۔
خضر اور شجیہ کے قریب اتے اُن دونوں کو ایک طرف کو دھکا دیا اور خود سامنے ائی۔۔۔
لیپرڈ کی گن سے نکلتی گولیاں جو وہ خضر کے وجود میں پیوست کرنا چاہا رہا تھا وہ دیکھتے دیکھتے انابیہ کے وجود میں پیوست ہوئی۔۔۔۔۔
دو محبت کرنے والوں کو بچاتے اُس نے اپنے آپکو قربان کیا تھا ۔۔۔
انابیہ۔۔لیپرڈ چیخا تھا۔۔۔گن سائڈ میں پھینکتے وہ انابیہ کے گرتے وجود تک پہنچا۔۔۔۔
خضر اور شجیہ زمین پر گرے انابیہ کے وجود کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
بیہ۔۔۔بیہ ۔۔گھٹنوں کے بل جھکتے اُس نے انابیہ کا سر اپنی گود میں رکھا تھا۔۔۔کالی پتھر جیسی آنکھوں میں نمی بھری تھی۔۔۔۔
محبت۔۔۔نہ ۔۔محبت چھوٹا لفظ ہے عشق تھی وہ اُسکا۔۔۔جو اُسے اب سمجھ ایا تھا جب وہ اُسکے سامنے اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔۔لیکن کیا اب اس عشق کی ضرورت تھی یہ اسکا کوئی فائدہ تھا ۔۔۔نہیں بلکل نہیں۔۔۔اب یہ عشق کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔۔۔
بیہ ۔۔پلیز اپنی آنکھیں بند مت کرنا ۔۔میں تمہیں کچھ نہیں ہونے دونگا ہمارا بچا ۔۔بیہ۔۔۔۔انابیہ کی بند ہوتی آنکھوں کو دیکھتے لیپرڈ نے روتے ہوئے یہ الفاظ کہے ۔۔۔۔
انابیہ کے حسین چہرے پر مسکراہٹ ائی۔۔۔
اُس نے اپنا ہاتھ بری ہمت سے اٹھاتے لیپرڈ کی ان بہتی آنکھوں کو چھوا جن میں اج اس پل اسکے لیے محبت نظر آرہی تھی۔۔۔
ان۔۔ان کا ۔۔کالی ۔۔آنکھوں میں ساری زندگی۔۔۔۔آپ۔ ۔اپنے لیے محبت دیکھنے کی تمنا کی ۔۔۔تھی ۔۔۔اور وہ کب دکھائی دی۔۔۔جب میری سانسیں مجھے دغا دے رہی ہے۔۔ انابیہ کی کالی آنکھوں سے آنسو جاری تھے ہونٹوں پر مسکراہٹ جبکہ لفظوں میں اذیت تھی۔۔۔۔
لیپرڈ نے ایک سسکی بھری۔۔۔۔اُسکی بات۔پر۔۔۔۔
پلیز میں جانتا ہو میں بہت برا ہوں تمہیں بہت ٹکیلف دی ہے۔۔میں کسی اور سے محبت نہیں کرتا تم سے کرتا ہوں پلیز ایک موقعہ تو خدا بھی اپنے بندوں کو دیتا ہے ۔۔۔مجھے بھی ایک موقعہ دو یو چھوڑ کر مت جاؤ۔۔۔لیپرڈ ۔۔۔نہ اب اس ہارے ہوئے شخص کو لیپرڈ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس میں اب وہ غرور وہ آکر وہ انا نہیں تھی۔۔۔اب تو اُسکے ہمیشہ تنے رہنے والے کندھے جھکے ہوئے تھے۔۔۔
وہ مغرور کالی آنکھیں جن میں غرور ہوتا تھا دوسروں کے لئے حقارت اور سامنے لیتی آخری سانسیں بھرتی لڑکی کے لیے نفرت۔۔۔اج ان میں آنسو تھے محبت تھی اور وہ بھی اسی لڑکی کے لیے جس سے وہ نفرت کا پرچار کرتا تھا۔۔۔۔۔
وہ ایک موقعہ اُس سے مانگ رہا تھا۔۔۔جو اپنی زندگی کی آخری سانسیں بھر رہی تھی۔۔زندگی ہر کسی پر رحم نہیں کھاتی ہر کسی کو موقعہ نہیں ملتا۔۔۔۔
بہت۔۔دیر کردی مہربان یہ کہتے ۔۔کہتے۔۔۔انابیہ نے بس ا۔۔۔آپ سے۔۔مو۔۔محبت کی ہے۔۔۔اب تھوڑا سکون سے مر سکونگی یہ الفاظ جو تمہارے لبوں سے سن لیے۔۔۔انابیہ نے لیپرڈ کے گال پر اپنا خون میں رنگا ہاتھ رکھتے ہوئے ہچکی بھرتے کہا۔۔۔
دو پیار کرنے والوں کو جدا نہیں کرتے۔۔۔اب کہیں بھی دو پیار کرنے والے دیکھو تو اُن کو ملانے کی کوشش کرنا جدا کرنے کی نہیں۔۔۔تم جب جب یہ کروگے تب تب تُم اپنے پاس مجھے محسوس کروگے۔۔۔انابیہ نے کہتے ایک آخری ہچکی بھری ۔۔۔اپنی آنکھوں میں اپنے ظالم ہمسفر کا عکس سجائے وہ اپنی وہ دلکش کالی آنکھیں بند کر گئی تھی جس میں محبت سموئے وہ اپنے حسام کو دیکھا کرتی تھی۔۔۔۔
بیہ۔۔انابیہ کا چہرہ اپنے سینے میں۔بھینچے وہ پوری شدت سے چلایا ۔۔۔۔۔۔
پلیز نہیں۔۔۔یہ خدا۔۔۔۔نہیں۔۔۔بیہ۔۔ہے ربط جملے کہتا وہ شدت سے رو دیا تھا۔۔۔۔
محبت کے بدلے محبت ہر کسی کو نہیں ملتی اور نہ ہی زندگی ہر کسی کو موقعہ دیتی ہے۔۔۔یہ محبت تب ہی کیوں محسوس ہوتی ہے جب وہ انسان آپ سے دور چلا جاتا ہے۔۔۔جو آپکے پاس رہتے آپ سے آپکی محبت بھیگ کی طرح مانگتا ہے جبکہ آپکی محبت پر اُسکا حق ہوتا ہے۔۔۔۔
بہتر یہی ہے جب کوئی پورے دل سے اپنی آنکھوں میں آپکے لیے بےانتہا محبت لے کر اپنی جھولی پھیلائے آپکے در پر آپکی محبت مانگنے آئے تو اُسکی جھولی کو اپنی محبت سے بھر دو اُسے یہ احساس کرواؤ کہ ہاں اُس نے آپ سے محبت کرکے کوئی غلطی نہیں کی۔۔۔۔اُس نے اگر آپ سے محبت کی ہے تو بدلے میں آپ نے اُسے دھتکارا نہیں بلکہ اُسکی زندگی بھی اپنی محبت سے بھر دی ۔۔۔
یہ انا یہ غرور کسی کام کا نہیں سب کچھ فانی ہے جتنی زندگی ہے اُسے محبت کے ساتھ گزارے آپس کی رنجشوں کو بھلا کر محبت کا جواب محبت سے دے کر۔۔۔
آج وہ تہہ دامن رہ گیا تھا اُسکی باہوں میں ایک بےجان وجود پڑا تھا جو اُسکی ایک پیار بھری نظر ایک پیار بھرے جملے کے لیے ترستا تھا۔۔۔جسکو اُس نے اپنی انا اپنے بدلے میں جھونک دیا تھا۔۔۔
اس کہانی میں انابیہ نے اپنے آپ کی قربانی دیتے شجیہ کی محبت کو بچایا تھا۔۔۔اس کہانی میں اگر کوئی قربان ہوا تھا تو وہ انابیہ تھی جس نے کسی کی محبت کو بچانے کے لیے خود کو قربان کیا تھا۔۔۔
اپنے بچے کو قربان کیا تھا جو ابھی اس دنیا میں ایا ہی نہ تھا۔۔
ہر ایک کی آنکھیں نم تھی سامنے انابیہ کے خون میں لت پت بےجان وجود کو دیکھتے اور حسام کو روتا دیکھتے۔۔۔۔شجیہ خضر کے سینے سے لگی اُس پر اپنی گرفت سخت کر گئی تھی۔۔۔کامل نے فلک کو مزید خود میں بھینچا تھا۔۔۔۔
خضر کے اشارہ کرنے پر دو گارڈز آگے بڑھے تھے۔۔۔۔
لیپرڈ کو بازو سے پکڑتے اُنہوں نے انابیہ سے دور کرنے کی کوشش کی ۔۔۔۔
لیپرڈ کی بہتی آنکھوں سے نکلتا سمندر تھما۔۔۔۔اُس نے خود سے دور ہوتے انابیہ کے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنے ہاتھوں کو اُس نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی دنیا ختم کی تھی اپنی محبت کی جان لی تھی۔۔۔۔
دھیرے دھیرے وہ اُس سے دور ہوتا جا رہا تھا۔۔۔اور لیپرڈ کا وجود ڈھیلا پڑتا جا رہا تھا۔۔۔
"داستان ہے یہ کہ اُس معصوم حسینہ نے جیسے چاہا وہ تھا اندر سے ہرجائی" ۔۔۔🥺
"سنگ دل سے دل لگا کے بیوفا کے ہاتھ آکر اُس نے ایک دن موت ہی پائی"۔ ۔😭
انابیہ اور لیپرڈ کی کہانی کا یہ اختتام تھا لیکن بیہ اور حسام کی کہانی کی شروعات ہوئی تھی۔ ۔۔
💗💗💗
بات ہوئی تمھاری خضر سے۔۔۔فلک نے بیڈ پر لیتے ہوئے شجیہ سے پوچھا جو الماری سے کپڑے نکال رہی تھی فلک کی بات پر پلٹی ۔۔۔
آنسوؤں کا گولا گلے میں اٹکا۔۔۔
نہیں۔۔۔وہ مجھ سے بہت زیادہ ناراض ہے فلک۔۔۔دو دن ہوگئے جب سے یہاں چھوڑ کر گئے ہے ایک بھی بار مجھ سے بات نہیں کی۔۔۔۔گھر تک نہیں آئے وہ۔۔۔شجیہ نے فلک کے پاس بیٹھتے نم آواز میں کہا ۔۔۔۔
بیوقوف شوہر ناراض ہے تو مناؤ نہ اُس کو۔۔۔فلک نے اپنا ماتھا پیٹتے نفی میں سر ہلاتے کہا۔۔۔
پر وہ گھر تو ائے۔۔۔شجیہ نے چرتے ہوئے کہا۔۔۔۔
اسلام علیکم بھابھی۔۔۔۔فلک شجیہ کو جواب دینے لگی تھی جب دروازے پر کھڑے کامل کی آواز سنتے وہ چپ ہوئی۔۔۔۔
وعلیکم اسلام بھائی ۔۔۔شجیہ نے بیڈ سے کھڑے ہوتے کامل کے پیچھے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔
وہ نہیں ایا بھابھی۔۔۔۔شجیہ کو بیقراری سے پیچھے خضر کو تلاش کرتے دیکھتے کامل نے بتایا۔۔۔۔
شجیہ کا اُداس چہرہ مزید اُداس ہوا۔۔۔وہ اثبات میں سر ہلاتی کمرے سے باہر نکلی۔۔۔۔
کامل نے شجیہ کے جاتے کمرے کا دروازہ بند کیا پلٹ کر اپنی بیوی کو دیکھا جو ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
اپنے پیروں سے جوتے اُتارتے کامل اُسکے انتہائی نزدیک بیڈ پر اوندھے منہ لیٹتے اُسکے پیٹ پر اپنا سر رکھ گیا۔۔۔۔۔
فلک نے کامل کے بالوں پر اپنی اُنگلیاں چلائی۔۔۔
تھک گئے ہے۔۔۔فلک کے پوچھنے پر کامل نے ویسے ہی نفی میں سر ہلایا۔۔۔۔
کامل۔۔۔اماں سے کب بات کرے گے ۔۔۔اپنے پیٹ پر کامل کے لبوں کا لمس محسوس کرتے فلک نے پوچھا۔۔۔۔
کامل نے اٹھتے فلک کے پاس اتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا۔۔۔
بہت جلد۔۔۔کامل نے اُسکے بالوں سے اٹھتی مسحور کن خوشبو اپنے وجود میں بھرتے کہا۔۔۔
کب کامل میری صحت دیکھے میں حویلی جانے سے ڈر گئی ہو اب۔۔۔میں کیا جواب دونگی میری سمجھ سے سب باہر ہے۔۔۔فلک نے چڑچڑے پن سے کہا۔۔
آجکل ویسے ہی اُسکے موڈ بدلتے رہتے تھے۔۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر فلک کو دیکھا جس کے گال بھر اے تھے ہاتھ اور پاؤں بھی پھول رہے تھے اُسکے وجود میں ہوتی تبدیلیاں اب نظر انے لگی تھی۔۔۔۔
آپ غصّہ کیوں کر رہی ہے۔۔۔غصّہ آپکی صحت کے لیے بلکل اچھا نہیں ہے۔۔۔میں بات کر لونگا حویلی میں آپ ٹینشن نہ لے ۔۔کامل نے واپس اُسکا بازو پکڑتے اُسے اپنے سینے پر لٹاتے پیار سے کہا۔۔۔
فلک نے اُسکی شرٹ پر لگے بٹن کو اپنی انگلیوں میں لیے کھینچا اور کامل نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
کامل نے اسکو مزید خود میں بھینچے اپنی آنکھیں بند کی۔۔۔وہ بہت تھک گیا تھا لیپرڈ کی گرفتاری اور پھر اور کام ۔۔۔۔سکون تو یہاں تھا اُسکا ۔۔۔فلک کے پاس۔۔۔
ابھی اُسے آنکھیں بند کئے کچھ دیر ہی ہوئی تھی جب فلک کی آواز گونجی۔۔۔
کامل۔۔فلک نے اُسکے سینے پر سر رکھے ہی اُسے آواز دی۔۔۔
ہمم۔۔۔کامل نے نیند میں جواب دیا۔۔۔
مجھے ہنسنا ہے۔ مجھے ہنسائے آپ۔۔۔فلک نے منہ بناتے کہا ۔۔۔
کامل نے ایک لمبی سانس لی اپنی بیوی کی اس فرمائش پر۔۔۔۔
میری جان کوئی کامیڈی فلم دیکھ لو۔۔۔کامل نے ویسے ہی آنکھیں بند کیے جواب دیا۔۔ ۔
نہیں مجھے آپ ہنسائے گے اٹھے نہ آپ مجھے اگنور کر رہے ہیں۔۔۔فلک نے اُسکے سینے سے اپنا سر اٹھاتے اُسکے سوتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا ۔۔
کامل نے بمشکل اپنی آنکھیں کھول کر اپنی ضدی بیوی کو دیکھا۔۔۔
اور اٹھ بیٹھا۔۔۔۔
کیسے ہنساؤ۔۔۔کامل نے اُسکے پاس بیٹھتے پوچھا۔۔۔
وہ آپکو پتہ ۔۔فلک کے لٹھ مارنے والے انداز میں کہا ۔۔۔۔
کامل کو سمجھ نہ ایا کیا کرے۔۔۔اپنے ہاتھوں کو اپنے ماتھے تک لے جاتے اپنی اُنگلیاں ہلاتے اُس نے اپنی زبان باہر نکالی تھی۔۔۔
فلک نے سنجیدہ چہرے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
یہ کیا ہے کامل آپ مجھے منہ چڑا رہے ہیں۔ ۔۔۔فلک نے اپنی آنکھیں چھوٹی کیے اُس سے پوچھا۔۔۔
نہیں تو یہ تو فنی فیس بنا رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔کامل نے سیدھا ہوتے بتایا۔۔۔۔
ہی ہی ہی ۔۔۔مجھے تو بہت ہنسی ائی آپکا یہ فنی فیس دیکھتے یہ فنی فیس نہیں ہے اسے منہ چڑانا۔ بولتے ہیں اور آپ نے کہاں سے سیکھا یہ۔۔۔۔۔فلک نے ہنسنے کی ایکٹنگ کرتے غصے سے کہا۔۔۔
یہ جب میں آرہا تھا تب ایک بچا اپنی گاڑی کے شیشے سے باہر نکلتے ایسے کر رہا تھا تو مجھے ہنسی ائی مجھے لگا آپ بھی ہنسے گی لیکن خیر مجھے تو ایسے ہی ہنسانا اتا ہے اب آپکو ہنسی نہیں آرہی یہ میرا قصور تو نہیں میں چلا سونے۔۔۔آجائے۔۔۔۔کامل نے کندھے اچکا کر کہا اور فلک کا بازو لیے واپس بیڈ پر لیٹنے لگا۔۔۔
جب فلک نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔
کامل اُس بچے نے آپکو منہ چڑایا تھا اور آپکو ہنسی آرہی تھی۔۔۔فلک نے دونوں ہاتھ اپنے پہلو پر رکھتے پوچھا۔۔۔
ہاں ۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔فلک نے نفی میں سر ہلایا تھا جیسے بہت افسوس کی بات ہو۔۔۔
آپکو ہنسانا نہیں آتا پر مجھے ہنسنا ہے اب آپ میرے ساتھ مسٹر بین دیکھے۔اور ہنسے ۔۔فلک نے کہتے ساتھ سائڈ ٹیبل سے ریموٹ اٹھاتے ٹیوی آن کیا۔۔۔۔
اور کامل کے کندھے پر سر رکھے ٹیوی دیکھنے لگی۔۔۔۔کامل خان نے اپنی چھوٹی سی بیوی کو دیکھا جو چھوٹے سے چھوٹے فنی سین میں بھی زور دار قہقہہ لگا رہی تھی کامل مسکرا گیا۔۔۔اور اُسکے سر پر اپنے لب رکھے ۔۔۔۔ خود بھی ٹیوی کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔
اپنی تھوڑی دیر پہلے اپنی کی گئی حرکت یاد ائی۔۔۔
ائی ایس ائی کا بہترین آفسیر اپنی بیوی کو ہنسانے کے لیے فنی فیس بنا رہا تھا کتنا مضحکہ خیز تھا۔۔۔۔
💗💗💗💗
شجیہ اپنے کمرے میں اتے بیڈ پر اوندھے منہ گرتی رو دی تھی۔۔۔۔
خضر اُس سے اُس بات پر ناراض تھا جو موقعہ کی نزاکت کی وجہ سے اُس نے کی تھی۔۔۔۔۔
غصے سے اپنے بیڈ سے وہ اُٹھی تھی۔۔۔۔۔
بیڈ پر پڑا اپنا موبائل اٹھاتے اُس نے خضر کو فون ملایا۔۔۔۔لیکن دوسری طرف سے فون نہ اٹھانے پر اُس نے غصے سے وائس میل کیا ۔۔۔
اگر شام تک آپ گھر نہیں آئے خضر شجاعت چوہدری تو پھر شجیہ شجاعت چوہدری کو مردہ پائے گئے۔۔۔۔۔غصے بھری آواز میں کہتے اُس نے اپنا موبائل بند کیا ۔۔۔۔
اور سکون سے شاور لینے واشروم کی طرف بڑھ گئی تھی یقین جو تھا کہ اب وہ ہر صورت گھر ائے گا چاہے کچھ بھی ہوجائے۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر اپنے آفس میں بیٹھا فائل ریڈ کر رہا تھا۔۔۔جب شجیہ کی کال موبائل پر ائی۔۔۔
خضر نے کال اٹھانے کے لیے ہاتھ اگے بڑھایا جب اُسے اپنی ناراضگی یاد ائی۔۔۔وہ شجیہ سے ناراض تھا کس طرح وہ اُسکے حصار سے نکل کر چلی گئی تھی۔۔۔۔۔اُس نے ایک مرتبہ بھی اُسکے بارے میں نہیں سوچا تھا اور یہی بات خضر کے دل میں چب گئی تھی۔۔۔۔۔
کچھ پل بعد کال۔بند ہوئی اور شجیہ کا وائس میل ریسیو ہوا۔۔۔خضر نے فوراً سے موبائل اٹھا کر اُس کا وائس میل سنا۔۔۔اور سنتے ہی اُسکے آبرو تنی۔۔۔اپنے جبڑے بھینچے وہ اپنی کرسی سے اٹھا تھا۔۔۔
بیگم آپ اب سزا کے لیے تیار ہو جائے۔۔۔۔۔بھوکے شیر کو اپ نے خود جگایا ہے۔۔۔خضر موبائل اپنی جیب میں رکھتے تصور میں شجیہ سے مخاطب ہوا اور آفس سے نکلتا چکا گیا ۔۔۔۔۔
دو دن پہلے وہ شجیہ اور فلک کو خضر پلیس لے ایا تھا اور اُنہیں چھوڑتے وہ اپنے افس آگیا تھا دو دن سے وہ گھر نہیں گیا تھا اور وجہ یہ تھی کہ وہ ناراض تھا اپنی بیگم سے۔۔۔۔
لیپرڈ کو حراست میں لے لیا گیا تھا اور انابیہ کا جنازہ بھی پڑھوا لیا گیا تھا۔۔۔۔
💗💗💗
خضر تیز رفتاری سے گاڑی چلاتا گھر پہنچا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔لمبے لمبے دھگ بھرتا وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھا ۔ اور ایک جھٹکے سے کمرے کا دروازہ کھولا۔۔۔
شجیہ جو ابھی فریش ہوکر پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں بھیگے سراپے کے ساتھ باہر نکلی تھی خضر کے دروازہ کھولنے پر پلٹی۔۔
سامنے خضر کو دیکھتے جس کی بھوری انکھوں میں غضب کا غصّہ تھا اُسکے اوسان خطا ہوئے۔۔۔۔
خضر نے دروازہ بند کرتے گہری نظروں سے اپنی حسین بیوی کا جائزہ لیا جو پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں دوپٹہ سے بےنیاز بھیگے بالوں کو پشت پر پھیلائے آنکھوں میں ڈر اور گھبراہٹ لیے اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
چہرے پر ائی بھیگی لٹو سے ٹپکتی پانی کی بوندیں اُسکے سرخ رّخصار سے ہوتے اُسکی گردن میں گرتے جذب ہورہے تھے اور خضر کی نظر اُن بوندوں پر ٹکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔
وہ جو دو دن سے اُس سے خفا تھا سامنے اُسکا بہکاتا خوبصورت سراپا دیکھتے اُسکی ناراضگی ختم ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔
دھیمے قدموں سے شجیہ کی طرف بڑھتے وہ اُسے اب خمار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔
شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں خمار اور اُسکے بڑھتے قدموں کو دیکھتے تھوک نگلا ۔۔۔
خضر نے شجیہ تک پہنچتے اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے انتہائی نزدیک کیا۔۔۔
خضر کی دہکتی سانسیں شجیہ کے چہرے پر پڑتی اُسکے گال تپاء گئی ۔۔۔۔۔
خضر۔۔۔شجیہ نے اُسکے سینے پر دونوں ہاتھ رکھتے دھیمی آواز میں ایک گہرا سانس بھرتے کہا۔۔۔۔
کیا کہا تھا وائس میل میں۔۔۔خضر نے یکدم اُسکی قمر پر اپنی گرفت سخت کرتے سرد لہجے میں پوچھا۔۔۔۔
وہ۔۔وہ آپ گھر نہیں آرہے تھے اسی لیے کہا۔۔۔۔شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھیں جن میں اب غصّہ تھا دیکھتے اٹکتی آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ خضر شجاعت چوہدری کو مجھ سے دور جانے کی بہت جلدی ہے جو ایسی بات ان لبوں سے ادا کی۔۔۔خضر نے شجیہ کے کانپتے گلابی لبوں پر اپنی نگاہ مرکوز کرتے گھمبیر سخت آواز میں کہا۔۔۔۔۔
نہیں میں آپ سے کبھی بھی دور نہیں جانا چاہتی خضر۔۔۔آپ مجھ سے ناراض تھے اور مجھے پتہ تھا آپ اسی طرح گھر واپس آئے گے اسی لیے میں نے وہ کہا۔۔۔شجیہ نے معصوم شکل بناتے اپنے ہاتھ خضر کے سینے سے گزارتے اُسکے کندھوں کے گرد رکھتے پیار بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اگر ایسا تھا تو کیوں کہیں وہ لفظ کیوں مجھے چھوڑ کر جا رہی تھی مجھ پر یقین نہیں تھا کہ میں بچا لیتا سب کو یہ محبت نہیں تھی۔۔۔یکدم ایک جھٹکے سے شجیہ کو مزید نزدیک کرتے وہ سخت لہجے میں اسکے چہرے پر جھکے گویا ہوا۔۔۔۔
شجیہ کی آنکھیں بیقینی سے پھیلی آخر خضر ایسا کیسے بول سکتا تھا۔۔۔
محبت ۔۔۔محبت نہیں ہے آپ سے آپ ایسا کیسے بول سکتے ہیں خضر ۔۔۔اُس وقت جس طرح کے حالات تھے کسی نہ کسی کو قربان ہونا تھا۔۔۔یقین تھا آپ پر لیکن اُس وقت مجھے وہی صحیح لگا۔۔۔۔آپ کو لگتا ہے جو سب میں نے کہا وہ صرف آپکو تکلیف میں مبتلا کر گیا تھا تو نہیں خضر وہ سب کہتے میرا دل بھی خون کے آنسو رویا ہے۔۔۔خضر کے سینے پر ہاتھ مارتی اُسے ایک جھٹکا دیتی شجیہ چیخی تھی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔۔۔
خضر کو شدت سے اپنی غلطی کا احساس ہوا غصّہ میں وہ بہت غلط بول گیا تھا۔۔۔۔
آپ سے دور جانا میرے لیے سوہانے روح ہے ۔۔۔اور انابیہ وہ قربان ہوئی اُسکا بچا ۔۔۔۔۔میں اپنے آپکو ان سب کا زمیدار سمجھتی ہو۔۔۔۔وہ میری محبت کو بچاتے خود قربان ہوئی خضر۔۔۔۔آنسوؤں میں شدت ائی تھی وہ سب یاد کرتے خضر نے جلدی سے آگے بڑھتے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔
تمھاری غلطی نہیں ہے اس میں۔۔۔تم کیوں خود کو زمیدار سمجھ رہی ہو اُس نے جو کیا وہ ہم کبھی نہیں بھول پائے گے کبھی نہیں میری جان وہ ہمیشہ ہمارے ذہنوں میں سوچوں میں زندہ رہے گی۔۔۔۔خضر نے اُسکے بالوں پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔اُسکے آنسو دیکھتے غصّہ تو کہیں دور جا سویا تھا۔۔۔
شجیہ اُسکے سینے پر سر رکھے اپنی بہتی آنکھیں بند کر گئی تھی ۔۔۔
آپ نے کہا میں آپ سے محبت نہیں کرتی ۔۔شجیہ نے اپنے آنسو اُسکی قمیض سے صاف کرتے شکوہ کیا۔۔۔
وہ تو غصے میں بول دیا تھا باقی میں اچھی طرح جانتا ہو میری بیوی مجھ سے کتنا پیار کرتی ہے ۔۔خضر نے جھکتے شجیہ کے کندھے پر لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
خضر کے لمس پر شجیہ کے وجود میں سنسنی سی دور گئی ۔۔اُس نے خضر سے دور ہونا چاہا جب خضر نے اُسکی پشت پر رکھے ہاتھ سے اُسے مزید نزدیک کرتے اُسکی کوشش ناکام کی۔۔۔۔
خضر۔۔۔اپنی گردن پر پڑتی خضر کی سانسیں اُسکی گردن جھلسا گئی تھی۔۔۔۔
خضر نے اپنے دہکتے لب شجیہ کی کان کی لو پر رکھے اور وہاں سے سفر کرتے اُسکی گردن پر جھک ایا۔۔۔
شجیہ نے خضر کی شرٹ کو دونوں مٹھیوں میں جکڑا۔۔۔۔
خضر کے دہکتے لمس اپنی گردن پر محسوس کرتے شجیہ کی سانسیں تیز ہوئی دل کی دھڑکن حد سے تجاوز کرتی بڑھی۔۔۔۔۔
خضر نے ایک جھٹکے سے اُسکا رخ پلٹتے اُسکی پشت اپنے سینے سے لگائی شجیہ کی پچھلی گردن پر اپنا لمس چھوڑتے وہ اُسکے اوسان خطا کر رہے تھے۔۔۔
۔آپ ۔۔آپ ناراض تو نہیں اب مجھ سے۔۔۔شجیہ نے اپنی آنکھیں بند کئے کانپتے لبوں سے یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔
ناراضگی ہی تو دور کر رہا ہوں تمھارے لمس سے میری ناراضگی میرا غصّہ میری تھکن سب دور ہوجاتی ہے۔۔۔خضر نے کہتے اُسکا رخ اپنی طرف کرتے اُسکے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔
شجیہ اپنی آنکھیں بند کئے اپنے لبوں پر خضر کی شدت محسوس کر رہی تھی جو لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔
شجیہ کو اپنی سانسیں رکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی لیکن اُس نے خضر کو خود سے دور نہیں کیا ۔۔۔۔
خضر اُسکی سانسوں پر رحم کرتا پیچھے ہٹا نظر اُسکے بھیگے ا لال ہوتے لبوں میں ٹھہری جو اُسکی شدت سے لال ہوئے تھے۔۔۔۔
تمہارا ہونا میری زندگی ہے کیوں ہو تم اتنی پیاری کہ میرا پتھر دل میرا سخت لہجہ تمہارے سامنے نرم پڑ جاتا ہے۔۔۔خضر نے اُسے اپنے بازو میں بھرتے اُسکے چہرے پر جھکتے پوچھا۔۔۔۔
کیونکہ آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور جو محب ہوتا ہے اُسکے لیے اُسکی محبت ہی سب سے حسین ہوتی ہے وہ لاکھ چاہنے کے بعد بھی اپنی محبت کو تکلیف نہیں دے سکتا۔۔۔۔شجیہ نے اپنی باہیں خضر کی گردن میں ڈالتے مان سے کہا ۔۔اور خضر مسکرا گیا اُسکی بات پر۔۔۔۔
یہ تو ہے تم پیار ،محبت ،عشق سب ہو میرا۔۔۔خضر شجیہ کو بیڈ پر لٹاتے اُسکے بال کان کے پیچھے کرتا گھمبیر آواز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔
تم ہی ہو جس کے انے سے خضر پورے دل سے مسکرایا ہے جسکی محبت نے خضر کو زندگی کا اصل مطلب سمجھایا ہے۔۔۔جس کے انے سے میری زندگی سوری ہے ۔۔۔۔۔خضر کہتے اُسکی گردن میں جھک ایا اور شجیہ اپنی آنکھیں موندیں اپنا آپ خضر کے حوالے کر گئی ۔۔۔۔
💗💗💗💗
شجیہ چہرے پر حسین مسکراہٹ لیے کچن میں کھڑی خضر کے لیے کافی بنا رہی تھی۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اُس نے اُسے اپنی شدت بھری گرفت سے آزادی دی تھی۔۔۔
اب بھی بھیگے بالوں کے ساتھ وہ جلدی ہاتھ چلاتی خضر کے لیے کافی بنا رہی تھی کہ ملازمہ کی آواز پر اُسکے ہاتھ تھمے ۔۔۔۔
بیگم صاحبہ سامیہ بی بی ائی ہے حویلی سے۔۔۔ملازمہ نے اپنی پیاری سی مالکن کو دیکھ کر کہا جو چہرے پر محبت کے رنگ سجائے میٹھی سی مسکان لیے کھڑی تھی۔۔۔۔
شجیہ نے ملازمہ کی بات پر جلدی سے سر پر دوپٹہ اوڑھا اُسے حیرت ہوئی تھی سامیہ کے یہاں انے پر۔۔۔
یکدم اُسے یاد آیا فلک اور کامل دونوں گھر پر ہیں کہیں وہ اُن دونوں کو دیکھ نہ لے کیونکہ ابھی تک خضر نے گھر میں اُن دونوں کے بارے میں بات نہیں کی تھی وہ تیز قدموں سے باہر نکلی۔۔۔سامنے ہی لال رنگ کی بولڈ ساڑھی میں اُسے سامیہ نظر ائی جو اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
اسلام علیکم ۔۔۔شجیہ نے پاس اتے سلام کیا۔۔۔۔
زائد کی نگاہ شجیہ پر ٹھہر سی گئی تھی کچھ پل تو سامیہ بھی اُسے دیکھے گئی جو سنہرے رنگ کی سادہ سی فروک میں سر پر ٹشو کا ہم رنگ دوپٹہ اوڑھے لال چہرہ لیے اُسکے سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
وعلیکم السلام ۔۔۔۔زائد نے فوراً سے جواب دیا جبکہ سامیہ نے وہ بھی دینا لازم نہیں سمجھا۔۔۔۔شجیہ کے چہرے پر بکھرے رنگ دیکھتے وہ پہچان گئی تھی کہ وہ خضر کے ساتھ کتنی خوش ہے اور یہی بات اُسے خٹک کر رہی تھی۔۔
کیسے انا ہوا آپ دونوں کا۔۔۔شجیہ نے ملازمہ کو اشارہ کرتے ہوئے اُن دونوں سے پوچھا۔۔۔
کیوں کیا کوئی کام ہوگا تب ہی میں اونگی ۔۔۔میں یہاں خضر سے ملنے ائی ہو بلاؤ اسکو ۔۔۔سامیہ نے اپنی بھنویں چڑھاتے ہوئے کہا۔۔۔
اُسکی بات پر شجیہ نے اپنے لب بھینچے۔۔۔
کون ایا ہے ۔۔۔خضر کی آواز پر شجیہ سمیت اُن دونوں نے بھی پلٹ کر دیکھا تھا جو آرام دہ کالی ٹی شرٹ پہنے بھیگے بالوں کے ساتھ کمرے سے نکلا تھا۔۔۔۔سامیہ اور زائد کو دیکھتے اُس نے اپنی بھنویں سکوڑی۔۔۔اور چلتا شجیہ کے برابر میں آکر بیٹھا۔۔۔
خیریت تم دونوں یہاں۔۔۔خضر کے سوال پر شجیہ نے اپنی مسکراہٹ لبوں تلے دبائیں سامیہ تو تلملا گئی تھی خضر کی بات اور شجیہ کی مسکراہٹ پر۔۔۔۔وہ یہاں یہ دیکھنے ائی تھی کہ خضر اور شجیہ کا رشتا کیسا چل رہا ہے ۔۔۔
وہ ہم یہاں کراچی ایک دوست کے گھر دعوت میں آئے تھے تو سامیہ نے کہا تم سے ملتے چلے بس اسی لیے۔۔۔زائد نے دانت پیستے خضر کی طرف دیکھتے کہا جس نے جان بوجھ کر شجیہ کی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے اپنے مزید قریب کیا تھا۔۔۔۔
لگتا ہے میرا انا تم دونوں کو پسند نہیں آیا۔۔۔سامیہ نے جلتی آنکھوں سے شجیہ کے لال ہوتے چہرے کو دیکھتے ملازمہ کے ہاتھ سے جوس تھاما۔۔۔۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے آپ مہمان ہے اور مہمانوں کی عزت کرنی چایئے۔۔۔شجیہ نے مسکراتے ہوئے کہا جب سامیہ کی اگلی بات پر اُسکی مسکراہٹ سمٹی۔۔۔۔۔
ویسے تمہیں اپنا پہناوا صحیح کرنا چایئے اس طرح سادگی میں ہمارے خاندان میں نہیں رہتے مانا تم جہاں۔ سے ائی ہو وہاں پر اس طرح ہی کے کپڑے پہنتے تھے پر اب دیہان رکھنا چایئے۔۔۔۔سامیہ نے اپنا ساڑھی کا پلوں صحیح کرتے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
میرا پہننا اوڑھنا سب میرے شوہر کے لیے ہے میں سادہ رہو یہ سجی سوری اپنے شوہر کو ہر حال میں اچھی لگتی ہو اور یہی کافی ہے میرے لیے کوئی اور کیا سوچتا ہے اس سے مجھے فرق نہیں پڑتا۔۔۔شجیہ نے ہر ایک لفظ پر زور دیتے کہا۔۔۔۔
شجیہ کی بات پر جوس پیتی سامیہ کے ہاتھ سے جوس چھلک کر اُسکی ساڑھی پر گرا۔۔۔
اوہو واشروم کہاں ہے اب دھبہ آجائے گا اس پر۔۔۔سامیہ جلدی سے اپنی جگہ سے اُٹھی۔۔۔
آجائے میں آپکو لے چلو۔۔۔شجیہ نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اور سامیہ کو لیے اپنے کمرے کی طرف بڑھی ۔۔۔
اپنی نگاہوں پر قابو رکھو میں نہیں چاہتا تمھاری بیوی کم عمر میں بیوہ ہو جائے ۔۔۔۔لیکن اگر تم نے اپنی آنکھوں کو کنٹرول نہیں کیا تو جو میں نہیں چاہتا وہ مجھے کرنا پڑے گا ۔۔۔خضر نے اپنی ٹانگ پر ٹانگ رکھتے سخت و سرد آواز میں زائد کی طرف دیکھتے کہا جو شجیہ کی پشت کو تک رہا تھا۔۔۔یکدم سیدھا ہوا۔۔۔۔
خضر کے سنجیدہ اور سخت چہرہ دیکھتے اُسکے ماتھے پر پسینہ چمکا۔۔۔
کمرے میں اتے ہی سامیہ کی آنکھوں میں ستائش اُبھری تھی۔۔۔ڈریسنگ ٹیبل پر رکھی گئی شجیہ کی چیزیں جو ایک سے ایک برینڈ کی تھی ۔۔۔اور وہی پر رکھی خضر اور شجیہ کی تصویر جس میں خضر اور شجیہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہنس رہے تھے ۔۔۔۔اُسکے تن بدن میں آگ لگی تھی۔۔۔۔
اگر وہ خضر کو ریجیکٹ نہیں کرتی تو اج یہ سب اُسکا ہوتا یہ شاندار گھر اور وہ شاندار شخص جو آج شجیہ کا تھا ۔۔اُس نے چبھتی نگاہوں سے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔۔
یہ رہا واشروم۔۔۔شجیہ نے واشروم کے پاس اتے اُسے کہا۔۔
ایک طرح سے تمہیں میرا شکریہ کرنا چاہئے ۔۔۔اگر میں خضر کو ریجیکٹ نہیں کرتی تو اج تم ایسی آسائشوں بھری زندگی نہ گزار رہی ہوتی۔۔۔سامیہ نے تیز نگاہوں سے شجیہ کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
اہم اہم۔۔۔تمہارا شکریہ نہیں مجھے میرے رب کا شکریہ کرنا چایئے جو میں روز کرتی ہو جب جب اپنے جان سے عزیز شوہر کو دیکھتی ہو۔۔۔کیونکہ جوڑے بنانے والا وہ ہے۔۔۔خضر میرے نصیب تھے کسی نہ کسی طرح سے ہم دونوں کو ملنا ہی تھا۔۔۔شجیہ نے سینے پر ہاتھ باندھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔اور سامیہ تلملاتی ہوئی واشروم کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔
شجیہ نے نفی میں سر ہلایا اور باہر کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔
💗💗💗💗
سامیہ اپنی ساڑھی صاف کرتے باہر ائی تھی کمرے میں کسی کو نہ پاکر اُسکی آنکھوں میں چمک اُبھری ڈریسنگ روم میں جاتے اُس نے الماری کھولی اور اُس میں موجود شجیہ کے کپڑوں کو دیکھتے اُسکے چہرے پر ناگواری ائی تھی ۔۔۔
کپڑے اُدھر سے اُدھر کرتے اُس کی نظر سائڈ پر رکھے پیپر پر پڑی۔۔۔۔
جلدی سے پیپر اٹھاتے اُس نے پڑھے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ نے اپنی جگہ لی۔۔۔
بڑی ائی میرا نصیب کرنے والی ۔۔۔جھوٹی شادی رچا کر بیٹھی ہے سب کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں دونوں۔۔۔دانت پیستے بولتے اُس نے تیزی سے اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے تھے۔۔۔ہاتھ میں خضر اور شجیہ کے کنٹرکٹ میرج والے پیپر تھے۔۔۔۔
💗💗💗💗
کامل چھوڑے مجھے اب۔۔۔فلک نے کامل کے سر کو دیکھتے کہا جو اُسکی گردن میں منہ دیے گہرا سانس بھر رہا تھا۔۔۔
فلک کو اپنے آپ پر غصّہ ایا کہاں وہ سونے لگا تھا اور اُس نے اُسے سونے نہیں دیا تھا اور اب کامل اُسے سکون نہیں لینے دے تھا تھا۔۔۔۔
مسٹر بین دیکھنا اُسے بھاری پر گیا تھا کامل چھوٹی موٹی شرارتیں کرتے اُسکے اوسان خطا کر رہا تھا۔۔۔۔۔
نہیں ایسے ہی رہو۔۔۔۔کامل نے اُسکے مزاحمت کرتے وجود کو جکڑتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے ۔۔۔فلک نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔کامل ایک جھٹکے سے دور ہوا۔۔۔۔
کیا۔ ۔۔چلے ڈاکٹر کے پاس چلتے ہے آپ بھی نہ بلکل احتیاط نہیں کرتی ہے کس نے کہا تھا لیٹتے کو ۔۔چلتے ہیں تھوڑا سا ایسی کنڈیشن میں۔۔۔کامل نے فوراً سے فلک کے پیٹ پر ہاتھ رکھتے بغیر سانس لیے کہا اور فلک حیرت سے منہ کھولے اُسے دیکھے گئی جو کب سے اُسے اپنے سینے سے لگائے لیتا ہوا تھا نہ جانے کتنی بار فلک نے اُسے کہا اُسے جانے دے باہر چلتے ہیں لیکن نہیں۔۔۔۔اور اب کس طرح اُسے ڈانٹ رہا تھا۔۔۔۔
کامل آپ دائی ہے۔۔۔فلک نے اپنے لب بھینچ کر فقط اتنا پوچھا۔۔۔
کامل جو فکرمندی سے اُسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا اُسکی بات پر چونکا اور اپنی ائبرو اچکا کر اُسکی طرف دیکھا۔۔۔۔
کیا میں آپکو دائی لگتا ہو۔۔۔کامل نے اُلٹا سوال پوچھا۔۔۔
جس طرح ابھی آپ مجھے ڈانٹ رہے ہیں اور احتیاط کا کہہ رہے ہیں ایسے تو مجھے آپ دائی ہی لگ رہے ہیں ۔۔۔غلطی آپکی تھی میں آپکو بول بھی رہی تھی مجھے اٹھنے دے لیکن آپ مجھے نہیں چھوڑ رہے تھے۔۔اور اب مجھے ہی ڈانٹ رہے ہیں۔۔۔فلک کی آواز آخر میں بھر ائی۔۔۔۔۔
اور کامل اپنی مسکراہٹ ضبط کرتا رہ گیا فلک کو رونا نہ بھی آرہا ہو تب بھی وہ اپنی ان بھوری چمکدار آنکھوں میں آنسو بھر لیتی تھی تاکہ کامل خان فوراً سے پگھل جائے۔۔۔۔
میں تو اچھا خاصا سو رہا تھا آپ نے ہی میری نند ارائی تھی تو پھر ایسے ساری غلطی آپکی ہوئی ۔۔۔۔کامل نے اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے اپنے نزدیک کرتے کہا۔۔۔
کامل ساری غلطی میری تھی۔۔۔۔موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو لیے اُس نے کامل سے پوچھا ۔۔۔وہ جانتی تھی اب کامل نے کیا کہنا ہے اُسے پتہ تھا اُسکی آنکھوں میں آنسو کامل خان کی کمزوری ہے۔۔۔
نہیں بلکل نہیں غلطی تو میری تھی آپ تو بہت معصوم سی پیاری سی میری جان ہے۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری نمی لی آنکھیں دیکھتے اُسکی ناک میں پہنی بالی پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
بلکل ۔۔۔فلک نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔اور کامل خان ہنس دیا اپنی بیوی کی چالاکی پر ۔۔۔
چلے باہر چلتے ہے۔۔۔فلک نے کامل کو کہتے تیزی سے بیڈ سے اُترنا چاہا جب کامل نے اُسکا ہاتھ تھاما۔۔۔
آرام سے احتیاط سے۔۔۔کامل نے اُسکی ناک کی ٹپ پر اپنی انگلی رکھتے کہا فلک نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا کر آرام سے بیڈ سے اُتری۔۔۔۔کامل کا بازو تھامے وہ اپنے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔۔
💗💗💗💗
سامیہ طنزیہ مسکراہٹ لیے لاؤنچ میں ائی تھی جہاں پر صرف خضر اور زائد تھے اُس نے کچن میں دیکھا جھاں شجیہ کھڑی ملازمہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔
کتنے اچھے ہو نہ تم دونوں۔۔۔سامیہ نے لاؤنچ کے بیچ و بیچ کھڑے ہوکر تیز آواز میں کہا۔۔۔
شجیہ فوراً کچن سے باہر نکلی ۔۔خضر نے اچھنبے سے اُسکی طرف دیکھا۔۔۔
ایکٹنگ میں۔۔۔سامیہ نے طنزیہ ہنستے خضر اور شجیہ کی طرف دیکھے جملہ مکمل کیا۔۔۔
خضر کی نظر اُسکے ہاتھ میں موجود کاغذ پر پڑی اور وہ سب سمجھتے نفی میں سر ہلا گیا۔۔
کیا کہنا چاہتی ہو۔۔۔شجیہ نے غصے سے پوچھا اب اُسکی برداشت کی حد ختم ہوچکی تھی ایک تو یہ لڑکی بن بلائے یہاں آکر عجیب قسم کی باتیں کر رہی تھی اور پھر اب یہ۔۔۔
میں یہ کہنا چاہتی ہو کہ بہت اچھی ایکٹنگ کرتے ہو دونوں ایک خوش حال سو کالڈ میاں بیوی کی ۔۔۔۔جبکہ اصلیت تو یہ ہے کہ تم دونوں نے کنٹرکٹ میرج کی تھی ۔۔۔سامیہ کی بات پر شجیہ نے خضر کی طرف دیکھا۔۔۔
کسی کے کمرے میں گھس کر اُسکی چیزوں کو ہاتھ لگانا باتمیزی کہلاتی ہے ۔۔۔شجیہ نے اب کی بار آنکھوں میں غصّہ لیے سامیہ سے کہا۔۔۔۔۔
کیا ہو رہا ۔۔۔۔۔ہے۔۔۔فلک اور کامل جو باہر ہی آرہے تھے تیز آواز سنتے فلک نے پوچھا پر سامنے سامیہ کو دیکھتے اُسکی زبان لڑکھڑائی۔۔۔۔
یہ ۔۔۔یہ کیا ہے ۔۔۔کیا کرتے پھر رہے ہو تم سب۔۔۔کون ہے یہ لڑکا۔۔۔اور تم ۔۔تم اسی لیے حویلی نہیں آرہی تھی۔۔۔۔بتاؤ کیا چکر ہے یہ سب کس کا بچا ہے یہ فاطمہ اماں مجھ پر تو بہت روک ٹوک لگایا کرتی تھی اب اپنی بیٹی کی کرتوت دیکھے گی تو اُنہیں پتہ چلے گا۔۔۔فلک کو اس حال میں دیکھتے سامیہ نے بوکھلا کر کہا۔۔۔۔
چپ کرو تُم ۔۔۔۔ورنہ تمھاری زبان نکال لونگا اگر اب ایک لفظ بھی میری بیوی کو بولا ۔۔۔۔شوہر ہو میں اُسکا میرا بچا ہے یہ۔۔۔سامیہ کی بات سنتے فلک کی سانسیں تیز ہوئی تھی وہ نفی میں سر ہلاتے رونے والی ہوئی تھی اور اُسکی بگڑتی حالت دیکھتے کامل نے غصے سے آگے بڑھتے سامیہ کے قریب اتے غراتے ہوئے یہ لفظ ادا کیے ۔۔۔
فلک کی بگڑتی طبیعت دیکھتے اُسکا دماغ ماؤف ہوا تھا اُسکا کوئی بھروسہ نہیں تھا سامیہ کا وہ گلا ڈبا دیتا اگر خضر نے اُسکا ہاتھ پکڑ کر اُسے روکا نہ ہوتا تو۔۔۔
کیوں چپ کرو میں۔۔۔میں ابھی حویلی فون کرکے سب کو بتاؤ گی ۔۔۔کہ یہ شادی ایک ناٹک ہے اور اسکا بھی صبر کرو ۔۔۔۔سامیہ نے پہلے شجیہ اور پھر فلک کو دیکھتے ضدی لہجے میں کہا۔۔۔
شجیہ فوراً سے فلک کی طرف بڑھی جس کے چہرے سے یہ لگ رہا تھا وہ کسی بھی پل گرنے والی ہے۔۔۔۔۔
بلکہ مجھے فون کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے وہ سب تو یہاں ہے۔۔۔سامیہ جیسے ہی پلٹی دروازے میں داجی اور فاطمہ اماں کو دیکھتے اُس نے تیزی سے کہا۔۔۔۔
اُسکی آواز پر سب ہی بیرونی دروازے کی طرف متوجہ ہوئے تھے اور وہاں داجی اور فاطمہ اماں کو دیکھتے اُن تینوں کے چہرے پر پریشانی جھلکی تھی زائد تو اپنی پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے سکون سے کھڑا تھا۔۔۔۔
فلک نے بھیگی نظروں سے اپنی ماں کی طرف دیکھا جو اُسکی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔
آئے فاطمہ اماں دیکھے اپنی بیٹی کی حرکتیں۔ ۔۔۔مان بننے والی ہے چھپ کر شادی رچا رکھی تھی انہوں نے۔اورہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ شادی کی بھی ہی ہےیہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔سامیہ کے الفاظ سنتے کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔۔
کیا کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے ہاں جس انسان کے دل میں خود غرضی حرض ہو وہ کسی بھی حد تک گر سکتا ہے۔ ۔۔
فلک نے تیزی سے نفی میں سر ہلایا تھا اور اپنی آنکھیں مونڈتے وہ زمین پر گرتی چلی گئی۔۔۔
فلک ۔۔۔۔کامل بھائی ۔۔۔خضر۔۔۔۔شجیہ فلک کو بیہوش دیکھتے چیخی ۔۔۔۔فاطمہ اماں اور داجی بھی پریشانی سے اُس تک آئے ۔۔۔
خدا کی قسم خضر اگر میری بیوی یہ بچے کو کچھ ہوا تو میں اس عورت کو چھوڑونگا نہیں ۔۔۔کامل ڈھاڑا اور جلدی سے فلک کے بیہوش وجود کو اپنی باہوں میں بھرتے باہر بھاگا۔۔۔
فاطمہ اماں داجی بھی فکرمندی سے اُسکے پیچھے بھاگے تھے۔۔۔۔
شجیہ نے جاتی سامیہ کا ہاتھ پکڑا اُسے پلٹتے کھینچ کر ایک تھپڑ اُس کے منہ پر مارا۔۔۔۔
لعنت ہے تم جیسی شیطانی عورت پر۔۔۔۔۔اگر اُسے کچھ ہوا نہ تو کامل بھائی بعد میں پہلے میں تمہارا یہ خبیث قسم کا دماغ ٹھکانے پر لے کر ائونگی۔۔۔۔۔شجیہ انتہائی غصے میں کہتی خضر کے پیچھے بھاگی تھی جو گھر سے پریشانی سے نکلا تھا۔۔۔۔
سامیہ اپنا سن ہوا لال گال لیے وہی کھڑی رہی ۔۔۔شجیہ کی بات پر اُسکے پورے وجود میں سنسنی سی دور گئی تھی۔۔۔۔
سب ہسپتال میں فکرمندی سے ڈاکٹر کا انتظار کر رہے تھے تقریباََ ادھا گھنٹہ ہونے کو ایا تھا لیکن ابھی تک ڈاکٹر باہر نہیں ائی تھی۔۔۔۔
کامل بےچینی سے چکر لگاتا اپنے آپ پر ضبط کر رہا تھا اُس نے ایک خونخوار نظر ایک طرف کھڑی سامیہ پر ڈالی جو اب بھی ڈھیٹوں کی طرح ہسپتال تک آگئی تھی۔۔۔۔
کامل کی سبز لہو رنگ ہوتی آنکھوں کو دیکھتے سامیہ نے تھوک نگلا۔۔۔۔
داجی اور فاطمہ اماں کی نظریں بھی اس خوبرو نوجوان کو دیکھ رہی تھی جو اضطرابی کیفیت میں چکر لگاتا اپنی سبز انکھوں میں اُنکی بیٹی اور نواسی کے لیے ڈھیروں فکر اور محبت سموئے ہوئے تھا۔۔۔۔
اور یہاں روم کا بند دروازہ دیکھتے کامل کی جان لبوں پر ائی ہوئی تھی ۔۔۔اُسکا دل اج سے پہلے کبھی اس طرح نہیں دھڑکا تھا ۔۔۔وہ اب فلک پر کوئی آنچ بھی نہیں انے دے سکتا تھا وہ اُسکی بیوی اُسکی محبت اُسکے بچے کی ماں تھی۔۔۔۔
کیسی ہے وہ۔۔۔۔۔ڈاکٹر کے انے پر کامل نے اگے بڑھتے تیزی سے ان سے پوچھا۔۔۔
وہ اب ٹھیک ہے ۔۔زیادہ اسٹریس لینے کی وجہ سے وہ اپنے حواس بحال نہیں کر پا رہی تھی بہت مشکل سے اُنکی طبیعت بحال ہوئی ہے۔۔۔اسٹریس پریشانی اُن کے لئے اور بچے دونوں کے لیے اچھا نہیں ہے آپ کوشش کرے اُنہیں پر سکون ماحول میں رکھے اگر اب اُنہیں کوئی اسٹریس یہ پریشانی دی تو ہوسکتا ہے تب اُنکی طبیعت بہت زیادہ بگڑجائے اور اُنکی جان اور بچے کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا ہے ۔۔۔باقی آپ اُن سے مل سکتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر لب بھینچے کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔۔۔۔
ڈاکٹر کے کہنے پر کامل نے اپنی مٹھیاں بھینچی ۔۔۔۔بنا کسی کی طرف دیکھے وہ ایک جھٹکے سے دروازہ کھولتے اندر گیا ۔۔۔۔
شجیہ خضر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر داجی کی طرف۔۔جو اب خود بھی کمرے میں داخل ہوگئے تھے۔۔۔۔
فلک اپنی آنکھیں موندے لیتی ہوئی تھی ہاتھ میں ڈرپ لگی ہوئی تھی اور بند آنکھوں سے آنسو بہتے اُسکے چہرے کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔۔
فلک۔۔۔کامل نے اُسکے پاس اتے اُسکے بال صحیح کرتے پیار بھرے لہجے میں اُسے پُکارا۔۔۔
فلک نے کامل کے پکارنے پر اپنی لال روئ روئ آنکھیں کھولتے اُسکی طرف دیکھا ۔۔۔۔
کامل اُسکی روئی سوجی آنکھیں دیکھتے اپنے لب بھینچ گیا۔۔۔فاطمہ اماں نے کمرے میں داخل ہوتے اپنی جان سے عزیز بیٹی کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر اذیت تھی وہ اسکے قریب ائی۔۔۔۔
فلک نے کامل کے چہرے سے نظریں پھیرتے اپنی اماں کو دیکھا ۔۔۔
اماں۔۔۔میں ۔۔میں بتانا چاہتی تھی۔۔۔اماں مجھے معاف کردے۔۔۔میں آپکو بتانا چاہتی تھی نکاح کا۔۔۔پر میں ڈر ۔۔ڈر پلیز اماں مجھ سے ناراض مت ہو۔۔۔پلیز۔۔۔۔فاطمہ امّاں کا ہاتھ پکڑے فلک نے روتے ہوئے بے ربط جملے ادا کیے ۔۔
اور کامل خان کا بس نہ چلا کہ وہ اُسکے روتے تڑپتے وجود کو اپنے سینے میں بھینچ لے۔۔۔وہ محض سبز آنکھوں سے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچے کھڑا فلک کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔
ہششس۔۔۔پہلے تو آپ چپ کرے۔۔۔۔آپکو رونے کی ضرورت نہیں ہے میں اور بابا آپکے نکاح کے بارے میں جانتے ہیں بھائی جان ہمیں سب کچھ بتا چکے ہیں بیٹا۔۔۔ہم کیوں اپنی بیٹی سے ناراض ہونگے۔۔۔ہم یہ سب جانتے ہیں آپکا نکاح کس حال میں ہوا ہے کیسے ہوا ہے۔۔۔آپ اپنے شوہر کے ساتھ خوش ہے ہمیں اور کیا چائیے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے فلک کے آنسو صاف کرتے اُسکے چہرے پر پیار کرتے نرم آواز میں کہا ۔۔۔
فاطمہ اماں کی بات پر سامیہ کے چہرے کی رنگت متغیر ہوئی۔۔۔۔
جبکہ فلک اُنکے ہاتھ پر اپنا سر رکھے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔۔۔
خضر اور شجیہ نے سکون کا سانس بھرا۔۔۔۔۔
فاطمہ اماں نے فلک کو اپنے سینے سے لگایا۔۔۔۔۔
کامل نے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے میجر مہمد اندر آرہے تھے کامل نے آنکھوں سے انکا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اپنی آنکھیں جھپکتے اُسے تسلی دی ۔۔۔۔
خضر۔۔۔داجی نے اپنا رخ خضر کی طرف کیا ۔۔۔اُنکی آواز پر شجیہ نے بھی اُنکی طرف دیکھا۔۔۔ڈر تو اُسے بھی لگ ربا تھا نہ جانے وہ کیا کہہ گے۔۔۔۔
داجی۔۔۔خضر نے اُن کی طرف دیکھتے کہنا چاہا۔۔۔۔
کچھ بھی کہنے یہ وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔۔ہم ایک فیصلہ کر چکے ہیں آپ چاروں کے لیے۔۔۔۔۔۔داجی کی بات پر اب لڑکیوں نے بھی اُنکی طرف دیکھا تھا ۔۔۔دل اُن چاروں کے انجانے خوف سے دھڑکے۔۔۔
کیسا فیصلہ ۔۔۔۔خضر اور کامل دونوں نے یک زبان کہا۔۔۔
آپ چاروں کا دوبارہ نکاح کیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔خضر آپ چائیے جتنے بھی بڑے ہوجائے ہمارے لیے ہمارے وہی چہوٹے سے خضر رہے گے آپکے ہر ایک عمل پر ہماری نگاہ تھی ہم جانتے تھے آپ نے یہ کنٹرکٹ میرج کی ہے اور اپنی بہو کی صورت دیکھتے ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ پوری ایمانداری سے اس شادی کو نبھائے گی ۔۔۔اور آپ کا دل بھی اپنی جانب راغب کر لے گی۔۔۔۔
داجي کے کہنے پر خضر اور شجیہ کی آنکھوں اور دل میں سکون بھرتا جا رہا تھا اور سامیہ کے چہرے پر موجود مسکان اور سکون ختم ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔یہاں تو بازی پلٹ گئی تھی۔۔۔۔
خضر نے مسکراتے شجیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھامہ ۔۔۔۔اُسکی آنکھوں میں اب سکون تھا ۔۔اُس نے شجیہ کی طرف دیکھا جس نے اُسکے ہاتھ پر اپنی گرفت بھی مضبوط کر دی تھی اور مسکراتی نظروں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
کامل کے والدین سے بات ہو چکی ہے وہ جلد کراچی آرہے ہیں ۔۔۔اور پھر بہو کے والد کی طبیعت کو دیکھتے ہم نے سادگی سے نکاح کی تقریب کرنے کا سوچا ہے۔۔۔۔فاطمہ اماں نے مسکراتے ہوئے اُن سب سے کہا۔۔۔
میجر محمد سب کچھ داجی اور فاطمہ اماں کو بتا چکے تھے اور کامل کی فلک کے لیے محبت کو بھی فاطمہ اماں اور داجی پہلے فکرمند ہوئے تھے لیکن کامل کے بارے میں جاننے اور اُسکی فیملی کے بارے میں جاننے کے بعد وہ مطمئن ہوگئے تھے۔۔۔۔
💗💗💗
فلک کی ڈرپ ختم ہوتے ہی کامل اُسے احتیاط سے ہسپتال کے باہر لایا تھا۔۔۔اُسکا ہاتھ تھامتے اُسے نرمی سے گاڑی میں بٹھاتے اُس نے اُسکا دوپٹہ جو گاڑی سے باہر نکلا ہوا تھا اُسے اندر کیا۔۔اور پلٹ کر اُن سب کو دیکھا ۔۔۔سامیہ اور زائد تو ہسپتال سے چلے گئے تھے فاطمہ اماں اور داجی خضر اور شجیہ کے ساتھ ہی تھے۔۔۔
میں اپنی بیوی کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔۔امید ہے آپ لوگوں کو اعتراض نہیں ہوگا۔۔۔۔کامل نے داجی اور فاطمہ اماں کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔اُسکی بات پر فلک کا رنگ سرعت سے لال ہوا۔۔۔اُسکے لہجے سے کہیں نہیں لگ رہا تھا کہ وہ پوچھ رہا ہے وہ اُنہیں بتا رہا تھا ۔۔
جبکہ فاطمہ اماں نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔کامل نے اُنکے اثبات میں سر ہلانے پر اُن دونوں کے سامنے اپنا سر جھکایا داجی اور فاطمہ اماں دونوں نے اُسکے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا ۔۔اور کامل نے گاڑی میں اپنی جگہ سمنبھالي ۔۔۔۔۔
ہم کہاں جا رہے ہیں کامل۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے پر سر رکھتے پوچھا۔۔۔۔
ہم آئس کریم کھانے جا رہے ہیں۔۔۔کامل نے موڑ کاٹتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا۔۔۔۔۔
سچی ۔۔۔فلک نے خوشی سے اُسکی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
مچی۔۔۔کامل نے اُسکے گال پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔فلک لال ہوتی واپس اپنا چہرہ اُسکے کندھے پر رکھ گئی۔۔۔۔۔
جبکہ کامل نے اپنے فون سے ایک۔ضروری میسج کرکے اپنا دہان ڈرائیونگ پر مرکوز کیا۔۔۔
💗💗💗💗
شام کا وقت ساحلِ سمندر پر گاڑی کے بونٹ پر بیٹھے وہ دونوں آئس کریم سے لطف اندوز ہوتے سامنے لہروں اور ڈوبتے سورج کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
کامل اُسے ساحل سمندر پر لے ایا تھا۔۔۔۔
کامل ۔۔۔فلک نے کامل سے کہا جو اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالے اُسکے پاس بیٹھا سامنے سمندر کی لہروں کو تک رہا تھا۔۔۔
جی حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکے سر پر اپنے لب رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل کتنا حسین منظر ہے نہ یہ۔۔۔فلک نے مہبوت ہوتے کہا۔۔۔
واقعی سب سے حسین منظر ہے یہ۔۔۔کامل نے اُسکے سر پر اپنی تھوڑی رکھتے ہوئے کہا۔۔۔
کامل میں اج بہت ڈر گئی تھی۔۔۔فلک نے آئس کریم کھاتے ہوئے کہا۔۔۔
میں بھی۔۔۔کامل نے اُسکی قمر پر گرفت مضبوط کرتے اُسے مزید خود میں بھینچا۔۔۔اج جس طرح وہ بیہوش ہوئی تھی اور پھر ڈاکٹر کی بات یاد اتے اُسکا دل دوبارہ تیز دھڑکا تھا۔۔۔۔
آپ کیوں ڈرے تھے۔۔۔فلک نے کامل کے کندھے سے سر اٹھا کر اُسکے خوبرو چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔۔۔
آپ کو بیہوش ہوتا دیکھ کر ۔۔۔آپکے اور اپنے بچے کے لیے، آپ دونوں کی صحت کے لیے میں ڈر گیا تھا آپ دونوں کو کوئی آنچ ائے میں یہ کبھی برداشت نہیں کر پاؤ گا۔۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری انکھوں پر اپنے لب رکھتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
اور اگر اماں ہمیں الگ کر دیتی تب ۔۔۔آپ کیا کرتے۔۔۔فلک نے اپنا نچلا لب دانتوں تلے دباتے کامل کے چہرے کی طرف دیکھتے سوال کیا۔۔۔
کامل کا نرم چہرہ فوراً سے سخت ہوا۔۔۔اُس نے جبڑے بھینچ کر فلک کی طرف دیکھا۔۔۔
آپکو مجھ سے صرف و صرف موت الگ کر سکتی ہے ہمارا رشتا کمزور نہیں ہے ۔۔۔۔آپ میری ہے ۔۔۔اور میں کسی بھی حال میں آپکو خود سے دور نہ کرتا۔۔۔میں یہ جملہ سوچنا بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی آئندہ یہ جملہ آپ کہ ان گلابی لبوں سے سننا چاہتا ہوں ۔۔۔۔کامل کا ہر لفظ سنجیدگی اور شدت میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔
اتنا پیار کرتے ہیں آپ مجھ سے۔۔۔فلک نے چمکتی انکھوں سے پوچھا۔۔۔
حد سے زیادہ۔۔۔۔کامل نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے مضبوطی سے کہا۔۔۔۔
چلے اب۔۔۔کامل نے گاڑی کے بونٹ سے اترتے فلک کو قمر سے تھامتے نیچے اُتارا ۔۔۔۔
چلتے ہیں پر میں چاہتی ہو آپ یہاں ریت پر دل بنا کر میرا اور اپنا نام لکھے۔۔۔فلک نے فرمائش کی۔۔۔۔
اور اس سے کیا ہوگا۔۔۔کامل نے اچھنبے سے پوچھا۔۔۔
میں اُسکی تصویر کھینچ کر اُسے اپنے فون وال پیپر پر لگاؤ گی نہ۔۔۔اور کتنا کیوٹ لگتا ہے میں نے بہت ساری ویڈیوز بھی دیکھی ہے کامل پلیز نہ۔۔۔۔فلک نے اُسکا کندھا پکڑتے ہوئے التجائی لہجے میں کہا۔۔۔۔
کامل نے اگے بڑھتے ایک پتھر اٹھایا اور اُس سے سمندر کے کنارے پر دل بنا کر اُس میں اپنا اور فلک کا نام لکھا۔۔۔۔
فلک کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ نے احاطہ کیا ۔۔وُہ آنکھوں میں محبت لیے کامل کو دیکھے گئی جو اپنے کپڑوں کی پرواہ کیے بنا گھٹنوں کے بل بجتے محویت سے اپنا اور اُسکا نام لکھ رہا تھا۔۔۔۔
ہوگیا ہے کیسا لگ رہا ہے ۔۔۔کامل نے کھڑے ہوتے فلک سے پوچھا۔۔۔
جس نے ریت پر دیکھا اور پھر جلدی سے کامل کی پاکٹ سے فون نکالتے اُسکی تصویریں لی۔۔۔
بہت خوبصورت۔۔۔ فلک نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔یکدم ایک تیز لہر ائی اور دونوں نام آپس میں گڈ مڈ کر گئی۔۔۔
کیا فائدہ لہر نے ہمارا نام مٹا دیا۔۔۔کامل نے گہرا سانس بھرتے کہا۔۔۔۔
اُس نے ہمارا نام مٹایا نہیں ہمیں ایک دوسرے میں شامل کر دیا ہے دونوں نام ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہے جیسے ہم دونوں ایک دوسرے میں سمائے ہے۔۔۔۔میرا دل آپکے سینے میں دھڑکتا ہے اور آپکا دل میرے سینے میں ،جیسے آپ ہے تو میں ہے ہو جیسے میں ہو تو آپ ہے۔۔۔۔بلکل اس طرح اس لہر نے ہم دونوں کے ناموں کو آپس میں ملا کر ہم دونوں کو ایک کردیا ہے ۔۔۔۔فلک نے کامل کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔۔
کامل نے اُسکی بات پر اسکا خوبصورت چہرہ تکا تھا۔۔۔واللہ یہ حسین لڑکی اُسکی زندگی تھی۔۔۔۔
آپ سے تو میرا روح کا رشتہ ہے حیاتی۔۔۔کامل نے اُسکا گال سہلاتے ہوئے کہا۔۔۔
آپ مجھے حیاتی کیوں بولتے ہے۔۔۔فلک نے پوچھا۔۔۔
کیونکہ آپ میری زندگی ہے اسی لیے۔۔۔۔اور عربی میں اسکا مطلب ہوتا ہے میری زندگی۔۔۔۔کامل نے اُسکی تھوڑی چومتے کہا۔۔۔
اوہ تو میں بھی آپکو حیاتی کہہ سکتی ہو۔۔۔فلک نے اپنی ائبروں اچکا کر پوچھا۔۔۔
جی بلکل آپ میری زندگی ہے میں آپکی زندگی ہو بس بات ختم ۔۔۔کامل نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
تو چلے حیاتی۔۔۔فلک نے ہنستے ہوئے کامل سے کہا۔۔۔
جی حیاتی چلے۔۔۔۔۔کامل نے اُسکی ناک کی ٹپ کو لبوں سے چھوتے کہا۔۔اورفلک کا ہاتھ تھامے وہ گاڑی میں سوار ہوا ۔۔۔
💗💗💗💗
فارم ہاؤس سے کچھ دور کامل کی نظر فلک پر پڑی۔ جو سیٹ کی پشت سے اپنا سر ٹکائے سو گئی تھی۔۔۔۔
کامل نے اپنا ہاتھ بڑھاتے نہایت نرمی سے اُسکا گال سہلایا ۔۔۔فارم ہاؤس کے باہر گاڑی روکتے اُس نے فلک کو دیکھا۔۔۔
حیاتی۔۔۔نرم محبت بھرا لہجہ ۔۔۔
ہم۔۔۔فلک نے نیند میں بند انکھوں سے کہا۔۔۔
گھر آگیا ہے۔۔۔کامل کی بات پر فلک نے اپنی آنکھیں کھول کر ونڈو سے باہر دیکھا جہاں ایک خوبصورت سا فارم ہاؤس تھا۔۔۔
ہم یہاں کیوں آئے ہے کامل۔۔اور یہ آپکا فارم ہاؤس ہے۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔
ہم یہاں کیوں آئے ہے یہ تو اندر جاکر پتہ لگے گا۔۔اور ہاں یہ ہمارا فارم ہاؤس ہے۔۔۔۔کامل نے کہتے اپنی طرف کا دوازا کھولا ۔۔۔۔۔۔
فلک کی طرف اتا دروازہ کھولتے اُسے باہر نکالا ۔۔
اُسکا ہاتھ تھامتے وہ فارم ہاؤس کے اندر بڑھا تھا۔۔۔جہاں اندر داخل ہوتے ہی ایک خوبصورت لون تھا جہاں سے اتی موتیاں کے پھولوں کی مہک فلک کا دل خوشگوار کر گئی تھی۔۔۔۔
کامل اُسے لیے فارم ہاؤس کے اندر داخل ہوا جہاں دروازے پر ہی دو لڑکیاں کھڑی تھی۔۔۔فلک حیرت اور ستائش سے اس محل نما گھر کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔
آپ ان کے ساتھ جائے یہ آپکو تیار کرے گی ہم ملتے ہے کچھ دیر میں۔۔۔کامل نے فلک سے نرمی سے کہا اور اُن دو لڑکیوں کو اشارہ کیا۔۔۔فلک سمجھ گئی تھی کہ کامل نے ضرور اُسکے لیے کوئی سرپرائز پلین کیا ہے ۔۔۔اُسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا اثبات میں سر ہلاتی وہ اُن لڑکیوں کے ساتھ ایک طرف بڑھ گئی تھی۔۔۔۔
میم یہ آپکا ڈریس ہے آپ چینج کر لے۔۔۔۔ایک لڑکی نے اُسے سامنے رکھا گیا ڈریس اٹھا کر کہا۔۔۔فلک نے ڈریس کو دیکھتے اپنی آنکھیں پھیلائئ تھی۔۔۔اتنا حسین ڈریس ۔۔۔۔
پیلے رنگ کی فروک جس کا گھیر انتہاء کا تھا۔۔۔گہرا گلا۔۔۔اور انتہا کی خوبصورت فروک ۔۔۔
"یہ تو سیم بیل کی طرح کا سوٹ ہے"۔۔
۔فلک نے بیوٹی اینڈ ڈا بیسٹ میں موجود لڑکی کا نام لیتے کہا۔۔۔اُسے یہ فلم انتہاء کی پسند تھی۔۔۔نہ جانے کتنی بار وہ یہ فلم دیکھ چکی تھی اور جس طرح کی فروک بیوٹی نے پہنی تھی کتنی ضد کی تھی اُس نے ایک ایسا ڈریس لینے کی۔۔۔۔
اُسکی آنکھیں خوشی سے چمکی تھی۔۔ وہ فوراً سے وہ ڈریس لیتے چینج کرنے گئی تھی۔۔۔۔
💗💗💗
فلک نے آئینے میں خود کی طرف دیکھا ۔۔۔۔بھورے بالوں کا کچھ حصہ لے کر درمیان میں جوڑا بنایا گیا تھا اور باقی بال پشت پر کھلے چھوڑ رکھے تھے۔۔۔۔
بھوری آنکھوں پر کاجل لگائے نوز رنگ پہنے لبوں کو گہرے سرخ رنگ سے رنگے ،بھرے بھرے گالوں پر لالی لگائے ۔۔۔نازک سے بندے پہنے وہ انتہاء کی حسین لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
گہرے گلے سے نظر آتی اُسکی سفید بے داغ گردن اُسکا رنگ لال کر گئی تھی۔۔۔۔کامل کا سوچتے اُسکے وجود میں ایک برق رفتاری سی دور گئی تھی ہاتھ فوراً سے پیسنے سے بھرے۔۔۔۔
" میم یہ شوز "۔۔۔ملازمہ کے جوتے لانے پر اُسے حیرت ہوئی۔۔۔۔
"ہیل نہیں ہے۔"۔۔فلک نے پوچھا۔۔۔
"وہ سر نے خاص تاکید کی تھی کہ ہیل والی چپل نہیں پہننی آپکے لئے یہ شوز بھی وہ خود لائے ہے"۔۔۔ملازمہ نے رسانیت سے بتایا۔۔۔اور فلک محض مسکرا کر رہ گئی۔۔۔کامل کی اس حرکت پر۔۔۔وہ اُسکے لیے نہایت فکرمند تھا۔۔۔وہ اُسکی چھوٹی سی چھوٹی چیز کا بھی خیال رکھتا تھا ۔۔۔۔اور فلک اُسکی محبت محسوس کرتے اپنے آپکو نہایت ہی خوشنصیب سمجھتی تھی۔۔۔۔
کمرے سے باہر نکلتے اُسکا دل پسلیوں سے سر ٹکڑا رہا تھا ہاتھوں میں۔پسینہ بھرنا شروع ہوگیا تھا۔۔۔۔۔۔
ملازمہ اُسکا ہاتھ تھامے اُسے پچھلے لون میں لے ائی فلک کو وہاں چھوڑتے وہ گدھے کی سینگ کی طرح غائب ہوگئی ۔۔۔۔
ارے رکے ۔۔۔فلک نے ملازمہ کو آواز دی پر وہ ان سنا کرتے وہاں سے چلی گئی۔۔۔
فلک نے سامنے دیکھا جہاں ہر طرف اندھیرا تھا۔۔اُسے حیرت ہوئی اُس نے ایک قدم اگے بڑھایا جب اُسکے پیروں کے نیچے سے لائٹ جلی۔۔۔فلک کو حیرت ہوئی وہ جیسے جیسے قدم بڑھا رہی تھی ویسے ویسے اُسکے قدموں کے نیچے سے لائیٹس جل رہی تھی۔۔ لبوں پر مسکراہٹ آ ٹھہری وہ کسی چھوٹی بچی کی طرح اپنے قدم بڑھاتے اس روشنی کو دیکھتے مسکرا رہی تھی ۔۔۔۔ایک جگہ پر جاکر وہ رکی ۔۔۔۔یکدم ساری لائیٹس آن ہوئی اور سامنے نظر آتا منظر دیکھتے فلک کی آنکھیں تحیر سے پھیلی ۔۔۔
اس پاس کے درختوں پر چھوٹی چھوٹی جگنوں کی ماند گولڈن رنگ کی لائیٹس لگائی گئی تھی۔۔۔۔۔اُسکے دائیں اور بائیں طرف دیوں کی ایک قطار تھی جو جلتے وہاں روشنی بکھیر رہے تھے ۔۔۔۔پھولوں کی مدھم مدھم خوشبو،
اور سامنے پرنس سوٹ میں ملبوس اُسکا سبز آنکھوں والا شہزداہ جس کے ہاتھ میں ایک جگنوؤں سے بھرا جار تھا عنابی لبوں پر ایک گہری مسکان لیے آنکھوں میں خمار محبت کا سمندر لیے مہبوت سا ہوتا اپنی شہزادی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔یہ انتہائی دلکش منظر تھا۔۔۔۔
یہ سب بہت خوبصورت تھا ۔۔بہت زیادہ ۔۔ وہ اُسکی بیوٹی تھی اور وہ فلک کا بیسٹ ۔وہ صبح سے جتنا رو چکی تھی جتنا وہ پریشان ہوئی تھی اب سامنے نظر اتا منظر دیکھتے اُس سے کئی زیادہ خوش تھی۔۔۔۔
کامل مہبوت سا اپنی حیاتی کو دیکھے گیا۔ دل کی دھڑکنوں میں تلاطم برپا ہوا۔۔۔جذبات انگڑائی لیتے بیدارہوئے ۔۔۔کھوئے کھوئے انداز میں اپنے قدم بڑھاتا وہ فلک تک ایا اُس سے ایک انگلی کے فاصلے پر رکتے اُس نے فلک کی بھوری چمکدار آنکھوں میں دیکھا۔۔۔
دیہان دے محترمہ اپنی زلفوں پر،
یہ میرا ذہن اُلجھا رہی ہے ،
دیہان دے محترمہ اپنی ان آنکھوں پر،
یہ مجھے خود میں ڈوبا رہی ہے ،
پھر سے کہہ رہا ہوں دیہان دے محترمہ اپنی مسکراہٹ پر،
یہ میرے دل کی دھڑکن بڑھا رہی ہے۔،
کامل نے فلک کے چہرے پر جھکتے گھمبیر آواز میں کہا کامل کے اس طرح شعر پڑھنے پر فلک کے لبوں پر ٹھہری مسکان مزید گہری ہوئی ۔۔۔
آپ تو شاعر بھی بن گئے ہے ۔۔۔فلک نے کامل کی سبز آنکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
عشق میں عاشق شاعر نہ بنے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔۔۔کامل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔۔اور فلک کے ہاتھ میں جگنوؤں سے بھرا جار تھمائیہ۔۔۔۔
فلک کے پیچھے جاتے اُسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا فلک اپنی سانسیں روک گئی اُسکی نزدیکی پر۔۔۔کامل نے اپنے دونوں ہاتھ اُسکی قمر سے گزارتے اُسکے پیٹ پڑ رکھے ۔۔۔
حسین ہے نہ ۔۔۔کامل نے فلک کے ہاتھ میں تھامے جار کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
جی۔۔فلک نے اپنے ہاتھ میں تھامے جار میں موجود جگنوؤں کو محویت سے دیکھتے کہا۔۔۔
اور بھی حسین لگے گے جب آپ انکو آزاد کرے گی۔۔۔کامل نے اپنی تھوڑی فلک کے کندھے پر رکھتے کہا۔۔۔۔۔اُسکے جسم سے اٹھتی مدہوش کن خوشبو میں گہری سانس بھرتے اُس نے فلک کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔
فلک نے کامل کی لو دیتی سانسیں اپنی گردن پر محسوس کرتے جار کھولا ۔۔۔۔روشنی بکھیرتے جگنوں جار سے نکلتے ہر سو بکھرے ۔۔۔فلک کے لبوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوئی۔۔۔۔
کامل فلک کے چہرے پر نظر آتے خوشی کے رنگ دیکھتے مسکرا گیا۔۔۔۔۔
دیکھا حسین لگ رہا ہے نہ یہ منظر۔۔۔کامل نے اُسکے کان کی لو کو اپنے لبوں میں دبائے پوچھا۔۔۔
بہت حسین لگ ربا ہے۔۔۔۔فلک نے جگنوں کو دیکھتے کہا۔۔۔اور کامل خان جنگوؤں کی روشنی میں فلک کا حسین چہرہ دیکھے گیا۔۔۔
اپنی گردن پر کچھ محسوس کرتے فلک نے اپنی گردن کی طرف دیکھا جہاں پر ایک انتہائی نازک خوبصورت سا پینڈینٹ تھا۔۔۔۔جس میں چھوٹا سا دل بنا ہوا تھا اور وہ ایسے چمک رہا تھا جیسے کوئی جگنو اُس میں قید ہو۔۔۔۔
یہ بہت خوبصورت ہے کامل۔۔۔۔فلک نے ستائش بھرے لہجے میں اُس پینڈینٹ کو چھوتے کہا۔۔۔
آپ سے کم۔۔۔کامل نے اُسکے کندھے پر لب رکھتے محبت سے کہا۔۔۔
ڈانس کرے۔۔۔کامل نے فلک کا رخ پلٹتے اُس سے پوچھا۔۔۔
پر یہاں تو کوئی میوزک ہی نہیں ہے۔۔۔فلک نے کندھے اچکا کر کہا۔۔۔
آپ بس میری انکھوں میں دیکھئے گا۔۔میری نظروں کی زبان کو سمجھئے گا ہمیں میوزک کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔۔۔کامل نے اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔
فلک نے کامل کی بات پر اُسکی سبز محبت سے بھری آنکھوں میں دیکھتے اپنا ہاتھ اُسکے کندھے پر رکھا۔۔۔
آپ نے میری خواہش پوری کی ہے کامل۔۔۔فلک نے اُسکی آنکھوں میں دیکھتے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
جانتا ہو۔۔۔کامل نے اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے کہا۔۔۔
کیسے جانتے ہے آپ کہ بیوٹی بننا میری خواہش تھی۔۔۔فلک نے سوال کیا۔۔۔کامل اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالے ہلکے ہلکے موو کر رہا تھا۔۔۔۔
آپ سے جری ہر چیز کے بارے میں جانتا ہو میں آپکی ہر خواہش پوری کرنا میرا فرض ہے۔تو یہ کیسے ادھوری چھوڑ دیتا۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے من موہنی صورت کو تکتے کہا۔۔۔۔
اور یہ سب آپ نے کب کیا۔۔۔فلک نے اُسکے قدموں کے ساتھ قدم ملاتے پوچھا۔۔۔
یہ سب کرنے کا سوچا تو بہت پہلے تھا لیکن آج جو کچھ ہوا اور جتنا آپ نے ان حسین بھوری انکھوں پر اج ظلم ڈھایا ہے ان آنکھوں میں چمک اور یہ خوشی جو اس وقت نظر آرہی ہے یہ دیکھنے کے لیے اج ہی یہ سرپرائز دینے کا سوچا۔۔کامل کے کہنے پر فلک مسکرا گئی۔۔۔۔
آپ بہت اچھے ہے کامل ۔۔۔بہت اچھے نہ جانے آپ میں ایسا کیا ہے جو میں آپ میں گم ہوتی چلی گئی میں اپنے دل کو آپکی طرف راغب ہونے سے روک ہی نہ پائی ۔۔۔میرے قدم آپکی طرف بڑھتے چلے گئے ۔۔۔۔میرا اپنے دل پر اپنے حذباتوں پر قابو ہی نہ رہا۔۔۔فلک نے ااُسکی سبز انکھوں میں دیکھتے ایک جذب سے کہا۔۔۔
کہتے ہیں اللہ زندگی میں آپکے کسی نیک عمل کا انعام دے دیتا ہے اور مجھے نہیں معلوم میرا ایسا کون سا عمل ہے جو میرے رب کو پسند آگیا اور اُس نے اُسکے عوض۔ آپکو میرے نصیب میں لکھ دیا۔۔۔۔شاید آپ میرے کسی عمل کا تحفہ ہے جو مجھے ملا ہے۔۔۔۔ کامل نے گھمبیر لہجے میں ایک جذب سے کہا۔۔۔
آپکا شکریہ میری زندگی میں انے کے لیے ۔۔۔آپکا شکریہ مجھے باپ جیسے مرتبے پر فائض کرنے کے لئے۔۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے سرخ رنگ سے رنگے ہونٹوں کو اپنی انگلی سے چھوتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
وہ کب سے اُسکے یہ ہلتے سرخ لبوں کو دیکھتے اپنے اوپر ضبط کر رہا تھا۔۔
اپنا ضبط کھوتے وہ اُسکے سرخ لبوں پر جھکا فلک کی قمر پر ہاتھ رکھتے اُسے مزید اپنے قریب کیے وہ سب کچھ بھلائے بس فلک کی سانسیں پینے میں مگن تھا۔۔۔فلک نے اُسکے کولر کو دونوں ہاتھوں سے دبوچا ۔۔۔۔۔
نرمی سے فلک کے لبوں کو چھوتے وہ فلک کو بھی خود میں گم کرتا چلا گیا۔۔۔۔فلک کے بال اُسکے کندھے سے سرکتے اُسکے بالوں تک آئے اُسکے بالوں میں اُنگلیاں پھیرتے وہ کامل کے عمل میں اُسکا ساتھ دینے لگی۔۔۔۔
سب سے دلکش آپ مجھے تب لگتی ہے جب میری شدت سے آپکے یہ گلابی لب بھیگ جاتے ہیں اور آپکے چہرے کی رنگت سرخ ہوتی ہے۔۔۔کامل نے فلک سے دور ہوتے اُسکے سر سے اپنا سر ٹکائے گھمبیر خمار بھری آواز میں کہا۔۔۔فلک نے اُسکے کہنے پر اپنی آنکھیں بند کی۔۔چہرہ لال گلابی ہوا۔۔۔۔۔
کامل نے ایک جھٹکے سے اُسے اپنی باہوں میں بھرتے لون کے سائڈ پر بنے دروازے سے اندر داخل ہوا۔۔۔فلک نے حیرت سے اس راستے کو دیکھا جو سیدھا ایک کمرے میں کی طرف اتا تھا۔۔پورے کمرے کو سجایا گیا تھا ۔۔جگہ جگہ دیئے جلا کر رکھے گئے تھے۔۔۔کامل نے فلک کو کمرے کے بیچ و بیچ اُتارا ۔۔۔۔
اسکی پشت اپنے سینے سے لگائے اُس نے اُسکے پیٹ پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے مزید خود میں بھینچا۔۔۔۔
کا۔۔مل۔۔۔کامل مجھے بھوک لگ رہی ہے کھانا کھاتے ہے۔۔۔فلک نے اُسکی پر تپش سانسیں اپنی نظر آتی قمر پر محسوس کرتے اٹکتی آواز میں کہا۔۔۔
حیاتی آپ باہر سے بہت کچھ کھا کر ائی ہے ابھی میری بھوک مٹائے ۔۔۔۔کامل نے اُسکے کان میں گھمبیر سرگوشی کی اور اپنے دہکتے لب اُسکی پچھلی گردن اور واضح ہوتی قمر پر رکھتے فلک کے اوسان خطا کیے۔۔۔گہرے سانس بھرتے وہ اپنی دھڑکنوں کو قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔جو لمحہ لمحہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔
کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکی زپ کھولی اور فلک کو لگا اُسکا دل بس اب سینے سے نکل کر باہر آجائے گا۔۔۔
فلک نے فوراً سے اپنے سینے سے فروک پکڑ کر روکی۔۔۔۔کامل نے ایک جھٹکے سے اُس کا رخ بدلا اُسکے ہونٹوں کو اپنے قبضے میں لیے وہ اُسکی قمر پر اپنا ہاتھ رکھتے اُسے سہارا دیے پیچھے قدم لیتا چلا گیا ۔۔۔اور فلک کو سمجھ نہ ائی اپنا آپ کیسے سمنبھالے۔۔۔۔
فلک کو ارام سے بیڈ پر لٹاتے وہ اُس پر جھک ایا ۔۔۔
آج یہ گریز نہ ممکن ہے میری جان ۔۔۔۔آپکی روح میں اُتر کر آپکی سانسوں سے بھی زیادہ آپکے قریب ہونا چاہتا ہوں اُمید کرتا ہو آپ میرے کام میں دخل نہیں دے گی۔۔۔۔۔۔کامل نے اُسکے سینے سے جکڑی فروک سے اُسکے ہاتھ ہٹاتے بیڈ پر رکھے اُسکی انگلیوں میں اپنی اُنگلیاں پھنسائے وہ دوبارہ اُسکی سانسوں پر قابض ہوا۔۔۔۔
اور فلک کو لگا اُسکا دل بند ہوجائے گا۔۔۔کامل نے فلک کے لبوں کو آزادی دیتے اُسکی گردن پر اپنے لب رکھے۔۔۔۔اور فلک نے گہری سانس بھرتے اپنے آپ کو سمنبھالا ۔۔۔۔۔
کامل کے لب اب حدود کو پار کر رہے تھے۔۔۔اُسکے ہاتھ بیباکی سے فلک کے وجود پر سفر کر رہے تھے اور فلک آنکھیں بند کئے اُسکا لمس برداشت کر رہی تھی ۔۔۔۔
وہ انتہائی نرمی سے اُسے چھو رہا تھا ۔۔۔کمرے کی معنی خیز خاموشی میں اُن دونوں کی دہکتی بکھرتی سانسوں کا شور گونج رہا تھا۔۔۔۔
شجیہ کچن میں کھڑی ملازمہ کے ساتھ مل کر ناشتہ تیار کر رہی تھی خضر داجی اور فاطمہ اماں سب لاؤنچ میں بیٹھے اپنی باتوں میں مگن تھے۔۔۔۔
موبائل کی آواز پر شجیہ نے جلدی سے پاس پڑا اپنا فون اٹھایا ۔۔۔سکرین پر نسرین کا نام جگمگاتا دیکھ اُسے فکر ہوئی۔۔۔جلدی سے فون يس کرتے کان سے لگایا۔۔۔۔
آگے سے جو خبر ملی وہ سنتے اُسکا دل خوشی سے جھوم اٹھا ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں لبالب نمکین پانی جمع ہوا ۔۔ایک جھٹکے سے فون وہاں رکھتے وہ کچن سے باہر نکلی ۔۔۔
خضر ،خضر ۔۔۔شجیہ چیختی ہوئی لاؤنچ میں ائی۔۔۔اُسکی چیخ پر خضر فوراً سے صوفے سے اٹھا فاطمہ اماں اور داجی نے بھی فکرمندی سے اُسکی طرف دیکھا جو نم آنکھیں لیے بھاگتی ہوئی لاؤنچ میں ائی تھی۔۔۔۔
کیا ہوا شجیہ ۔۔خضر نے اُسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے فکر مندی سے پوچھا۔۔۔
خضر ۔۔وہ بابا کو ہوش آگیا ہے۔۔۔شجیہ نے گہرا سانس بھرتے خضر کی آنکھوں میں دیکھتے خوشی سے کہا۔۔۔۔
یہ اللہ شکر ۔۔۔فاطمہ اماں نے فوراً سے شجیہ کی بات پر اللہ کا شکر ادا کیا۔۔۔۔
ہم ہاسپٹل چلتے ہیں ابھی۔۔۔داجی نے کہتے اپنے قدم باہر بڑھائے تھے۔۔۔شجیہ داجی کی بات پر اثبات میں سر ہلائے خضر کے ہاتھوں سے ایک جھٹکے میں اپنے ہاتھ نکالتے اُنکے پیچھے تیز قدموں سے بھاگی۔۔۔۔
خضر خاموشی سے آنکھوں میں سنجیدگی لیے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتا گیا جسے ایک جھٹکے میں شجیہ چھوڑ گئی تھی۔۔۔۔خضر کے دل میں ایک ٹییس سی اُبھری شجیہ کا اُسکا ہاتھ چھوڑنا اُسے کانٹوں میں گھسیٹ گیا تھا۔۔۔۔
خضر کی آنکھوں میں ایک انڈھیکا سا خوف جھلکا اُس نے اپنی بھوری انکھوں سے فاطمہ اماں کی طرف دیکھا ۔۔۔جو اپنے بھانجے کی آنکھوں میں نظر اتا خوف بھانپ گئی تھی۔۔۔۔
شجیہ آپکی بیوی ہے اُسے آپ سے کوئی الگ نہیں کرے گا آپ بفکر رہے اور چلے ہسپتال۔۔۔فاطمہ اماں نے خضر کے پاس اتے نرم آواز میں رسانیت سے کہا۔۔۔
خضر نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔اور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے وہ نہیں جانتا تھا آصف صاحب اُسکے اور شجیہ کے رشتے کو اپنائے گے یہ نہیں۔۔۔لیکن وہ اب کسی حال میں شجیہ کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔۔۔
پورے راستے شجیہ اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے ونڈو سے باہر دیکھ رہی تھی اُس نے ایک دفعہ بھی خضر کی طرف نہیں دیکھا تھا اور خضر کو یہ بات حد سے زیادہ چبھی تھی۔۔۔۔
ہسپتال کے سامنے گاڑی رکتے شجیہ تیزی سے گاڑی سے باہر نکلی ۔۔۔۔
تیز رفتاری سے وہ اپنے قدم بڑھاتی جلد از جلد اپنے بابا کے پاس جانا چاہتی تھی۔۔۔۔
خضر نے لال ہوتی بھوری انکھوں سے اُسکی قمر پر لہراتے بھورے بال دیکھتے اپنے جبڑے بھینچے ۔۔۔۔
سیڑھیاں چڑھتے یکدم اُسکا پاؤں لڑکھڑایا ۔۔۔خضر جو اپنے لب بھینچے اُسکے پیچھے آرہا تھا اُسے يو تیز چلتا دیکھ اس کے غصّہ کا گراف بڑھا۔۔۔۔۔اور اُسکے گرتے وجود کو دیکھتے جلدی سے اُسے تھاما۔۔۔۔
دیہان کہاں ہے تمہارا ابھی گر جاتی ۔۔۔خضر نے شجیہ کو قمر سے تھامتے کھڑا کیا اور غصے سے اُسکے سرخ ہوتے چہرے کی طرف دیکھتے کہا جو شائد ہسپتال میں سب کے سامنے اتنی نزدیکی پر سرخ ہوا تھا۔۔۔
بیگم جانتا ہو آپ کے لیے یہ بات بہت خوشی کی ہے لیکن اس خوشی میں آپ اپنے آپ سے غافل ہوجائے یہ مجھے قطعی منظور نہیں۔۔۔شجیہ سے دور ہوتے اُس نے شجیہ کے سینے پر پھیلا دوپٹہ جو گاڑی سے باہر نکلتے اُسکے سر سے پھسل گیا تھا اُسکے سر پر درست کرتے سینجدگی سے کہا۔۔۔
خضر کی بات پر شجیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔۔
خضر نے شجیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے اپنے قدم آصف صاحب کے کمرے کی طرف بڑھائے ۔۔۔
کمرے کے باہر رکتے اُس نے شجیہ کو اندر جانے کا اشارہ کیا جو اُسکی بھوری انکھوں میں دیکھتے دھڑکتے دل سے کمرے کے اندر داخل ہوئی تھی۔۔۔
خضر وہی دیوار پر اپنی پشت ٹکائے کھڑا ہوگیا فاطمہ اماں اور داجی بھی اُسکے پاس اتے باہر رکھی گئی کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔
وہ تینوں ہی یہی چاہتے تھے کہ شجیہ پہلے آرام سے اپنے بابا سے مل لیں ۔۔۔
💗💗💗
کمرے میں قدم رکھتے ہی اُسکی نظر آصف صاحب پر پڑی جو بیڈ پر نیم دراز اُسکی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
اپنی اُنہیں شفقت اور محبت نظروں سے۔۔۔ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے۔۔۔
کتنے عرصے بعد اُس نے اپنے بابا کو ہنستا مسکراتا دیکھا تھا اپنے بابا کی ان آنکھوں کو دیکھا تھا جہاں ہر غرض سے پاک اُس کے لیے محبت تھی۔۔۔۔
نیلی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ نکلے۔۔۔۔اُسکے قدم اپنی جگہ جم گئے تھے وہ آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی۔۔۔۔۔
اُسے یکدم اپنے بابا کا خون میں رنگا وہ وجود یاد آیا اُس وقت اُسے لگا تھا جیسے اُسکی سانسیں بند ہوگئی ہو۔۔۔۔
اپنے باپ کو تکلیف میں دیکھنا کتنا اذیت دہ لمحہ ہوتا ہے یہ ایک اولاد اچھی طرح جانتی ہے۔۔۔۔
اتنے عرصے بعد اپنی نازوں میں پلی بیٹی کو دیکھتے آصف صاحب کی آنکھیں بھی نم ہوئی۔۔۔اپنے باہیں واہ کیے اُنہوں نے شجیہ کو اشارہ کیا ۔۔۔جو اُنکے اس طرح کرنے پر بھاگتی اُنکے سینے میں منہ چھپائے ۔۔۔شدت سے رو دی تھی۔۔۔۔
نسرین کی آنکھیں نم ہوئی دونوں باپ بیٹی کو دیکھتے۔۔۔۔
بس میری لاڈو بابا ٹھیک ہے ۔۔۔آصف صاحب نے اُسے چپ نہ ہوتا دیکھ اُسکا چہرہ اپنے سامنے کرتے پیار سے کہا۔۔۔
بابا میں نے آپکو بہت یاد کیا میں بہت روئی بھی تھی۔۔۔۔میں نے کتنے دونوں سے آپکے ہاتھوں سے کھانا نہیں کھایا۔۔۔میں نے کتنے دنوں سے آپکی یہ آواز نہیں سنی بابا۔۔۔آپکے بنا کہنے کو تو سب کچھ تھا پر اصلیت میں بابا کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔کتنے دنوں میں سے آپکے منہ سے اپنے لیے لاڈو سننے کے لیے ترس گئی تھی بابا۔۔۔میں نے روز اللہ سے دعا کی کہ میرے بابا جانی کو جلدی ٹھیک کردے۔۔۔۔کسی دو سال کی بچی کی طرح وہ اپنے بابا کے سامنے بیٹھی روتے ہوئے اُنہیں سب کچھ بتا رہی تھی ۔۔۔
ایک بیٹی کے لیے باپ کیا معنی رکھتا ہے یہ وہ خود جانتی تھی ایک وہی مرد تو ہوتا ہے جس پر وہ آنکھیں بند کئے بھروسہ کر لیتی ہے۔۔۔۔جو اُسے کبھی دھوکا نہیں دیتا جس کا بس چلے تو وہ اپنی بٹیا کی آنکھوں میں خوشی اور اُسکے اچھے نصیب کے لیے اپنے آپکو قربان کردے ۔۔۔۔۔
بس میری لاڈو۔۔۔اب بابا ٹھیک ہے اب بابا خود اپنی لاڈو کو کھانا کھلائے گے ۔۔۔بس بابا کی لاڈو کو بابا کی ایک بات ماننی ہے ۔۔۔اپنی بیٹی کی باتوں پر آصف صاحب کی آنکھوں میں ٹھہری نمی بڑھنے لگی تھی انہوں نے پیار سے اُسکے آنسو صاف کرتے محبت بھرے لہجے میں کہا۔
کیا۔بابا ۔۔شجیہ نے ہچکی بھرتے پوچھا ۔۔۔
رونا نہیں ہے۔۔لاڈو جانتی ہے لاڈو کے بابا اُسکی ان نیلی انکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتے ۔۔۔یہ بات تو لاڈو مانے گی اپنے بابا کی۔۔۔۔۔آصف صاحب نے محبت سے کہا۔
میں نہیں رو رہی بابا ۔۔۔یہ آنسو ہے نہ خود بہ خود آپکو سامنے صحیح سلامت دیکھتے بہہ نکلے ہے ورنہ آپ تو جانتے ہیں آپکی لاڈو کتنی بہادر ہے بلکل اپنے نام کی طرح بس آپکے سامنے وہ کمزور پڑتی ہے ۔۔کیونکہ وہ جانتی ہے کہ آپ اُسکی کمزوری کا فائدہ نہیں اٹھائے گے اُسکا مذاق نہیں بنائے گے بلکے اپنے ان محفوظ بازؤں میں اسے بھر کر اُسے ہر مشکل سے بچا لے گے ۔۔۔۔شجیہ نے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کرتے مان بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔
اور آصف صاحب مسکرا دئیے اپنی لاڈو کی بات پر۔۔۔
یکدم اُسے خضر یاد ایا ۔۔۔وہ کیسے اپنے بابا کو سچ بتائے گی اُنکے کندھے پر سر رکھے وہ اپنے اندر ہمت پیدا کرنے لگی اُنہیں سچ بتانے کی۔۔۔۔
بابا مجھے آپکو کچھ بتانا ہے۔۔ میں چاہتی ہو آپ مجھے سمجھے گے میں نے آج تک آپ سے کوئی بات نہیں چھپائی بابا اور یہ بات بہت اہم ہے جو میں اب آپ سے بلکل نہیں چھپا سکتی۔۔۔۔۔شجیہ نے انکے کندھے سے سر اٹھا کر اُنکی طرف دیکھتے کہا دل زوروں سے دھڑک رہا تھا۔۔۔
نسرین بھی بیٹی کے چہرے کو دیکھتے سمجھ گئی وہ کیا کہنا چاہ رہی ہے۔۔۔
آصف صاحب کے چہرے پر الجھن اُبھری۔۔۔۔اور پھر شجیہ اُنہیں سب بتاتی چلی گئی۔۔۔۔۔شجیہ نے ایک نظر اُن کے بيقین چہرے کی طرف دیکھا۔۔۔
آصف صاحب نے اُسکے ہاتھ پر سے اپنا ہاتھ ہٹایا۔۔۔اور شجیہ کی دل کی دھڑکن مدھم پڑی۔۔۔
بابا خضر مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں میرا یقین کرے وہ مجھے بہت خوش رکھتے ہیں میں جانتی ہو میری غلطی ہے میں نے خضر سے کنٹرکٹ میرج کی ۔۔پر بابا خضر برے نہیں ہے ۔۔میں نے اس رشتے کو پوری ایمانداری سے نبھایا ہے بابا۔۔۔۔۔پر آپ میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے آپکا ہر فیصلہ مجھے منظور ہے بابا۔۔۔شجیہ کی آواز دھیمی ہوئی ساتھ ہی نیلی آنکھوں میں پھر نمی چمکی۔۔۔۔۔۔۔اُسکی نظریں خود بہ خود جھکتی چلی گئی اپنی بابا کی آنکھوں میں دیکھنے کی اُس میں ہمت ہی نہیں تھی۔۔۔۔
اُنہیں اندر بلائے ۔۔۔آصف صاحب نے سنجیدگی سے کہا۔۔
شجیہ نے روتی آنکھوں سے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔دھیمے قدم اٹھاتی وہ دروازے تک ائی تھی۔۔۔نہ جانے بابا نے کیا فیصلہ کیا ہوگا۔۔۔اگر وہ اُسے خضر سے الگ ہونے کا فیصلہ سنا دیتے تو۔۔اور یہی سوچ سوچتے اُسے اپنے قدموں سے جان نکلتی محسوس ہو رہی تھی۔۔۔
شجیہ کے باہر اتے وہ جو بیچینی سے بار بار اپنی گردن اور داڑھی رب کر رہا تھا اُسکی طرف متوجہ ہوا جو نیلی بھیگی انکھوں سے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔
شجیہ کی آنکھوں میں نظر اتا ڈر اور سرخی دیکھتے خضر کا دل دھڑکا۔۔۔۔
آپ کو اندر بلایا ہے۔۔۔شجیہ نے بھرائی آواز میں کہا۔۔۔
خضر نے آگے بڑھتے اُسکی پلکوں پر ٹھہری نمی کو اپنی پوروں سے صاف کیا اُسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھامتے اپنے لبوں تک لاتے چوما۔۔۔
تمہیں مجھ سے کوئی الگ نہیں کرسکتا کوئی بھی نہیں۔۔۔شجیہ کی نیلی آنکھوں میں۔دیکھتے خضر نے مضبوطی سے یہ لفظ ادا کیے اور اُسے لیے اندر داخل ہوا۔۔۔داجی اور فاطمہ اماں بھی فوراً سے اندر بڑھے۔۔۔
💗💗💗
کمرے میں گہری خاموشی تھی داجی فاطمہ اماں ایک طرف رکھے گئے صوفے پر بیٹھے آصف صاحب کے کچھ بولنے کے انتظار میں تھے۔۔
اور سامنے کھڑے اُن دونوں کی دل کی دھڑکن تیز دھڑکتی انکا جینا محال کر رہی تھی۔۔۔
آصف صاحب نے خضر کی طرف دیکھا اور پھر اُسکے ہاتھ میں مقید اپنی بیٹی کے ہاتھ کو۔۔۔
نظر خضر کی بھوری انکھوں پر پڑی جہاں ایک ضد ایک جنون سا تھا۔۔۔جیسے وہ کچھ بھی ہوجائے شجیہ کو نہیں چھوڑے گا ۔۔۔اور پھر اُنکی نظر اپنی بیٹی پر پڑی۔۔۔جو بھیگے چہرے کے ساتھ کھڑی اُنکے فیصلہ کی منتظر تھی۔۔۔اپنی بیٹی کے چہرے اور آنکھوں سے وہ اُسکی خضر کے لیے محبت کو محسوس کر چکے تھے۔۔۔
خضر نے آصف صاحب کی طرف دیکھا جبکہ شجیہ کے اندر ہمت نہیں تھی اپنی نظریں اٹھانے کی۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ۔۔۔آپ نے مجھ غریب باپ کی بیٹی کو اپنے گھر کی عزت بنایا ایک باپ صرف اپنی بیٹی کی خوشی چاہتا ہے یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں خوش رھے اُسکا ہمسفر اُس سے انتہاء کی محبت کرے اور عزت دے۔۔۔۔میں آپکا جتنا شکریہ ادا کرو اتنا کم ہے ۔۔۔ آصف صاحب نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جوڑتے داجی کی طرف دیکھتے عاجزی بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
ایسے آپ ہمیں شرمندہ نہ کرے آپ بیٹی کے باپ ہے ۔۔آپ نے ہمیں اپنی بیٹی دی ہے جسے آپ نے محنت اور محبت سے پالا ہے ۔۔۔آپ ہاتھ جوڑتے اچھے نہیں لگتے۔۔۔۔داجی نے فوراً سے اپنی جگہ سے اٹھتے آصف صاحب کی طرف بڑھتے اُنکے جڑے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
اور شجیہ اُس نے اپنی نیلی آنکھیں اٹھا کر اپنے بابا کی طرف دیکھا جو آج بھی ہمیشہ کی طرح اُسکی جھولی میں اُسکی خوشیاں ڈال گئے تھے۔۔۔۔
خضر نے اپنی بھوری انکھوں میں چمک لیے شجیہ کی طرف دیکھا۔۔۔جیسے کہا تھا ۔۔۔
دیکھا تمہارا اور میرا ساتھ تاقیامت رہے گا ہمیں کوئی الگ نہیں کرسکتا۔۔اُس رب نے ہمیں ایک دوسرے کے لیے ہی بنایا ہے۔۔۔
بس میری ایک خواہش پوری کردے میں اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرنا چاہتا ہوں۔۔۔آصف صاحب کی بات پر داجی اور فاطمہ اماں نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔۔۔
آصف صاحب کی بات پر خضر کا چہرہ جس پر ابھی کچھ دیر پہلے مسکراہٹ دور گئی تھی سمٹی۔۔۔جبکہ شجیہ خضر کا چہرہ دیکھتے اپنی مسکراہٹ ضبط کر گئی تھی۔۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر کہاں لے جا رہے ہیں۔۔۔شجیہ نے خضر سے پوچھا جو کمرے میں سب کو باتوں میں لگا دیکھ اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر لے ایا تھا۔۔۔
ایک خالی کیبن میں داخل ہوتے خضر نے دروازہ بند کرتے شجیہ کی پشت کو دروازے سے لگا کر اُسے اپنے حصار میں قید کیا۔۔۔
کیا ہوا ہے۔۔۔اپنے چہرے پر پڑی خضر کی گرم جھلستی سانسیں محسوس کرتے شجیہ نے خضر کی بھوری آنکھوں میں دیکھتے پوچھا۔۔۔
تم نے مجھے نظرانداز کیا تو کیا کیسے۔۔۔خضر کی بات پر شجیہ کی ائبرو۔ آپس میں ملی۔۔۔
اُس نے کب اُسے نظرانداز کیا تھا۔۔۔۔
میں نے کب کیا۔۔۔۔شجیہ نے پوچھا۔۔۔
پورے راستے تم نے مجھے ایک بار بھی نہیں دیکھا ۔۔۔خضر نے اُسکی نیلی انکھوں میں دیکھتے اپنا چہرہ مزید اُسکے قریب کرتے اُسکے ہونٹوں پر اپنی گرم لو دیتی سانسیں چھوڑی ۔۔۔۔۔
ایم
مجھے تمھاری ذرا سی بھی نظراندازی نہیں گوارا شجیہ ۔۔۔مجھے اپنے چہرے پر پڑتی تمھاری ان نیلی محبت بھری نظروں کی عادت ہے ۔۔ہر لمحہ میں تمہارے ہونٹوں سے نکلے ان۔لفظوں کی جس میں تم مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہو مجھے اسکی عادت ہے۔۔تمہارے یہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے انکی نرماہٹ کو محسوس کرنے کی مجھے عادت ہے اور عادت بہت جان لیوا ہوتی ہے۔۔۔۔خضر نے اُسکی آنکھوں پر اپنا لمس چھوڑا پھر اُسکے لبوں کو ہلکے سے اپنے لبوں سے چھوا۔۔۔اُسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے چھوتے اُس نے گھمبیر آواز میں یہ لفظ ادا کیے۔۔۔۔۔
اور شجیہ کی سانسیں اتھل پتھل ہوئی۔۔۔خضر کے ہاتھ اُسکی کمر پر گردش کرتے اُسکی دل کی دھڑکن میں طغیانی لے آئے تھے۔۔۔۔
خضر یہ ہسپتال ہے۔۔اپنے لبوں پر خضر کو جھکتے دیکھ شجیہ نے کہنا چاہا۔۔۔۔
فرق نہیں پڑتا۔۔۔خضر نے کہتے ساتھ شجیہ کے گلابی لبوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔۔۔
نرمی سے اُسکی سانسیں پیتے وہ اپنی تشنگی مٹانے لگا۔۔۔جو اسکے لبوں کا لمس محسوس کرتے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
دو دن بعد۔۔۔
آج وہ دن تھا جسکا اُن دونوں لڑکوں کو بے صبری سے انتظار تھا۔۔۔۔
پورے دو دن سے وہ اپنی اپنی بیویوں سے دور تھے اور یہ دو دن جس طرح اُن دونوں نے گزارے تھے یہ وہی دونوں جانتے تھے۔۔۔۔
کامل۔خان تو جلتے انگاروں پر سوار ہوگیا تھا جب وہ صبح اٹھتے فلک کو واپس خضر پیلس لایا تھا اور وہاں سے اُسکی بیوی کو اُس سے دور کر دیا گیا تھا۔۔۔۔جبکہ آخری مقالات میں شجیہ کو اپنے انتہائی قریب محسوس کرتے خضر اُسی لمس میں کھوتے دن گزار رہا تھا ۔۔۔
وائٹ رنگ کے کرتے شلوار میں کالی واسکٹ پہنے وہ دونوں انتہائی خوبرو لگ رہے تھے۔۔۔چہرے سے جھلکتی خوشی اور چمک اُنہیں مزید خوبرو بنا رہی تھی ۔۔۔
دونوں لڑکیوں کو آصف صاحب کی طرف بھیج دیا گیا تھا۔۔۔برات نے وہی جانا تھا۔۔۔
فاطمہ اماں فلک اور شجیہ کے پاس تھی ۔۔۔خضر اور کامل کے ساتھ داجی اور میجر مہمد اور اُنکے کچھ جاننے والے تھے۔۔۔۔
حویلی سے چاچی نے بھی شرکت کی تھی۔۔۔یہ کہنا صحیح ہوگا اُنکی شرکت صرف نام کی تھی ۔۔۔۔
جبکہ سامیہ نے انے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔۔
چھوٹے سے علاقے میں ایک گھر کے باہر گاڑی رکی تھی ۔۔۔۔خضر اور کامل گاڑی سے اُترتے مسکرائے۔۔۔
دروازے پر کھڑے آصف صاحب اور اُنکے گھر والوں نے انتہائی خوش اسلوبی سے اُن سب کا ویلکم کیا تھا آصف صاحب نے آگے بڑھتے پھولوں کے ہار خضر کامل کو پہنائے۔۔۔اور اُنہیں لیے اندر کی طرف بڑھے۔۔۔
چھوٹا سا یہ گھر نہایت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔۔۔
گھر میں موجود ڈرائنگ روم میں اُنکے بیٹھنے کا بندوبست کیا گیا تھا ڈرائنگ روم کافی بڑا تھا جس میں گاؤں تکیے لگا کر زمین پر بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا۔۔۔۔
چاچی نے ناک منہ چڑھا کر یہ سب دیکھا ۔۔اتنی سادگی اُنہیں ایک آنکھ نہ بھائی ۔۔۔
دوسرے کمرے میں پیچ اور پنک رنگ کی کام ہوئی وی شلوار قمیض میں دوپٹہ کو سر پر سیٹ کیے اپنا پور پور اپنے محرم کے لیے سجائے وہ دونوں انتہاء کی پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔
ہلکے سے میکپ میں لائیٹس سی جیولری پہنے۔۔۔تیز دھڑکتی دل کی دھڑکنوں کے ساتھ اپنا چہرہ جھکائے ہونٹوں پر نرم سی مسکراہٹ لیے بیٹھی وہ انے والے لمحات کا سوچتی لال گلابی ہو رہی تھی۔۔۔۔
نسرین بیگم اور فاطمہ اماں نہ جانے کتنی بار اُن دونوں کی بلائے لے چکی تھی۔۔۔۔۔
داجی میجر مہمد اور آصف صاحب مولوی کے ہمراہ لڑکیوں کی طرف آئے تھے۔۔۔۔
نکاح کی رسم شروع ہوتے ہی شجیہ کے ہاتھ کانپے تھے۔۔۔تب آصف صاحب نے آگے بڑھتے اُسے اپنے بازوں کے ہلکے میں لیا۔۔۔۔شجیہ کی آنکھ سے آنسو بہہ نکلے تھے۔۔۔کہاں آسان ہوتا ہے یہ لمحہ ایک لڑکی کے لئے جس پر نکاح کے بعد سب سے زیادہ حق اُسکے شوہر کا ہوجاتا ہے۔۔اُسکے باپ کا اُس پر سے حق ختم ہوجاتا ہے۔۔۔۔
فلک نے نم انکھوں سے شجیہ اور آصف صاحب کی طرف دیکھا اپنے بابا کی کمی اج اُسے شدت سے محسوس ہوئی۔۔۔جب اپنے کندھے پر۔ایک نرم لمس محسوس کرتے اُس نے اس طرف دیکھا تھا جہاں اُسکی اماں کھڑی آنکھوں میں محبت لیے اُسکی طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
دونوں نے قبول ہے کہتے اپنا آپ دوبارہ اپنے اپنے محرم کے حوالے کیا ۔۔۔۔
مولوی صاحب کے ڈرائنگ روم میں اتے ہی دونوں لڑکوں کی طرف سے نکاح کی رسم ادا کی گئی تھی ۔۔اپنے نکاح میں اپنی اپنی محبت کو قبول کرتے وقت جو سکون جو خوشی اُس وقت اُن دونوں نے محسوس کی تھی وہ نہ قابلِ بیان تھی۔۔۔۔سب سے گلے ملتے اُن دونوں نے مبارک باد وصول کی۔۔۔
آصف صاحب نہایت عاجزی سے خضر کے سامنے کھڑے ہوئے شاید ایک جھجھک سی تھی ایک عرصہ اُنہوں نے خضر کے لیے نوکری کی تھی اور اب اچانک رشتا بدل گیا تھا۔۔۔۔
بابا ۔۔خضر کہتے ساتھ اُنکے گلے لگا۔۔۔
آپکی لاڈو کو اپنی ملکہ بنا کر لے جا رہا ہو آپ جتنا پیار تو شاید ہی اُس سے میں کرسکو لیکن یہ وعدہ کرتا ہوں اُسے خوش رکھو گا۔۔۔اُنکے گلے لگے خضر نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
آصف صاحب مسکرا دئیے اُسکی بات پر۔۔۔
آپکا بہت بہت شکریہ ۔۔خضر سے الگ ہوتے آصف صاحب نے کہا۔۔
شکریہ آپکا بابا جو اپنی بیٹی آپ نے میرے حوالے کی ۔۔۔۔آپ نے بیٹی دی ہے۔۔شکریہ آپکو نہیں کہنا چاہئے شکریہ تو مجھے آپکا ادا کرنا چایئے۔۔۔۔خضر نے انکا ہاتھ پکڑتے نرمی سے کہا۔۔۔
آصف صاحب نے اپنے رب کا شکر ادا کیا جنہوں میں اُنکی بیٹی کے نصیب میں ایک نیک لڑکا لکھا تھا جو دوسروں کی عزت کرنا جانتا تھا۔۔۔
نکاح کی رسم ادا ہوتے ہی دونوں لڑکیوں کو ڈرائنگ روم میں لایا گیا تھا۔۔۔۔
اُن دونوں کو ڈرائنگ روم داخل ہوتے دیکھ خضر اور کامل اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔۔
سامنے اُن دونوں کو دلہن بنا دیکھتے دونوں لڑکوں کی دل کی دھڑکنیں منتشر ہوئی تھی وہ یک تک اُن کو دیکھتے گئے جو سہج سہج کر قدم اٹھاتی اُن تک آرہی تھی ۔۔۔۔
شجیہ کا ایک ایک بڑھتا قدم خضر کی دل کی دھڑکن کو بڑھا گیا تھا نیلی انکھوں میں شرم و حیا لیے وہ کبھی اپنی پلکوں کی جھل من اٹھاتے اُسکی طرف دیکھتی تو کبھی اپنی نظروں کو جھکا لیتی ۔۔۔
ہائے یہ ادا۔۔۔اس ادا پر خضر شجاعت چوہدری نثار ہوا تھا۔۔۔۔
فاطمہ اماں کے ہاتھ سے فلک کا ہاتھ تھامے اُس نے احتیاط سے اُسے اپنے ساتھ بٹھایا دونوں لڑکیوں نے اپنے لیے کپڑے ایسے سیلکٹ کیے تھی جن میں وہ آرام سے بیٹھ سکتی تھی ۔۔۔۔۔۔
دا پتھان قربان ستا پر ما جان دی
(یہ پٹھان قربان ہے آپ پر میری جان)
کامل نے فلک کے کان کے پاس جھکتے سرگوشی کی۔۔۔
فلک کو سمجھ تو نہ ایا تھا کہ کامل نے کیا کہا ہے لیکن کامل۔کی اس قدر نزدیکی پر اور اُسکی گرم سانسیں اپنے کان پر محسوس کرتے اُسکا۔رنگ لال ضرور ہوا ۔۔۔۔
اتنی بھی سادگی اچھی نہیں لگتی اب دیکھو گاؤں کے سردار کا نکاح اور وہ بھی اتنا سادہ۔۔۔چاچی نے نخوت سے کہا ۔۔۔۔
شجیہ نے آصف صاحب کی طرف دیکھا ۔۔اُنکی جتنی حثیت تھی اُس حساب سے اُسکے بابا نے سب کچھ بہت اچھے سے کیا تھا اور شجیہ کی ہی خواہش تھی اُسکا نکاح سادگی سے کیا جائے۔۔۔۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق جس شادی میں کم خرچہ کیا جائے اُس شادی میں رب کریم کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہے۔۔۔۔
غرض یہ کا سادگی سے نکاح کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔۔۔بلکہ ہم سب کو چایئے کہ سادگی سے شادی کرے۔۔۔تاکہ کسی باپ پر اسکی بیٹی کی شادی بوجھ نہ بنے۔۔۔۔شجیہ نے سنجیدگی سے چاچی کی طرف دیکھتے جواب دیا جو منہ بناتی چپ ہوئی۔۔۔جبکہ خضر اپنی بیوی کی سوچ پر مسکرا گیا۔۔۔۔
شجیہ کے کہنے پر ہی سادگی سے نکاح طے ہونا پایا تھا اور اُسکی بات پر کسی کو اعتراض بھی نہیں تھا۔۔
مہمانوں کے ملنے ملانے کے بعد رخصتی کا وقت کا وقت آیا۔۔۔۔شجیہ اپنے بابا کے سینے سے لگی خوب روئی کچھ۔ ایسا ہی حال فلک کا بھی تھا ۔۔۔۔۔کامل اپنی فیملی کے ساتھ کراچی میں اپنے فارم ہاؤس میں ہی شفٹ ہوگئے
سب سے ملتے وہ دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں سوار ہوئی تھی۔۔۔
خضر آپ نے وہ کیا جو میں نے کہا تھا آپ سے۔۔۔گاڑی میں بیٹھتے شجیہ نے خضر سے پوچھا۔۔۔
ہاں جی تمھاری کوئی بات ہم ٹال سکتے ہے۔۔۔خضر نے اُسکا ہاتھ اپنے لبوں سے چومتے کہا جس پر شجیہ اپنا سر جھکائے مسکرا دی۔۔۔۔
کراچی کے ایک سرکاری ہسپتال کے باہر کامل اور خضر کی گاڑی رکی تھی۔۔۔۔
اور اُنکے پیچھے ایک اور گاڑی ۔۔۔۔
خضر اور کامل نے احتیاط سے اُن دونوں کو گاڑی سے باہر نکالا ۔۔۔۔
شجیہ اور فلک نے ہسپتال کی طرف دیکھا جہاں ڈھیروں لوگ پریشانی سے بھوکے پیٹ اپنے پیاروں کو لیے بیٹھے سخت گرمی میں انکے علاج کے لیے خوار ہورہے تھے کوئی ہاتھ میں دوائیوں کی پرچی تھامے میڈیکل کی طرف بھاگ رہا تھا تو کوئی پانی یہ کھانے کا انتظام کر رہا تھا کوئی اسٹریچر پر لیتے اپنےعزیز کی اُمید باندھ رہا تھا۔۔۔۔غرض یہ ہر طرف نفرہ نفری تھی۔۔۔۔۔
گاڑی کی ڈگی میں رکھے گئے کھانے کے باکس اٹھاتے فلک اور شجیہ اندر کی طرف بڑھی کامل اور خضر نے اپنے ہاتھوں میں جوس اور پانی کے کا ٹن تھامے۔۔۔۔
یہ اُنکے نکاح کا کھانا تھا جو اُنہوں نے ان لوگوں میں تقسیم کرنے کا سوچا تھا ۔۔۔
وہ دونوں پہلی دلہنیں تھی جو اپنے نکاح کا کھانا ایک سرکاری ہسپتال میں بیٹھے لوگوں میں تقسیم کر رہی تھی۔۔۔۔
نرم مسکراہٹ لیے لوگوں کی طرف کھانے کے باکس بڑھاتے وہ سب کو حیران کر گئی تھیں۔۔۔۔نہ جانے کتنے لوگوں نے اُن چاروں کو اپنی نیک دعاؤں سے نوازا تھا۔۔۔۔نہ جانے کتنے لوگ وہاں ایسے تھے جن کی جیبوں میں کھانے کے پیسے نہیں تھے ۔۔جو بھوکے پیٹ وہاں موجود تھے۔۔۔۔یہ کوئی اپنی جیب میں پڑے چند پیسوں کو دیکھتے یہ سوچ رہا تھا کہ ان پیسوں سے وہ کیا لے جس سے اُسکے ساتھ موجود اُسکے عزیز کا پیٹ بھر جائے۔۔۔۔
یہ کوئی پبلسٹی سٹنٹ نہیں تھا۔۔۔یہ ایک احساس تھا ۔۔یہ انسانیت تھی۔۔۔۔۔اگر آپکو اللہ نے اتنی توفیق دی ہے کہ آپ کسی کے کام اسکو اُسکی مدد کر سکو تو کبھی پیچھے مت ہٹنا بلکہ خوش ہونا کہ اللہ نے آپکو اس قابل بنایا ہے۔۔۔
💗💗💗
ایک سال بعد۔۔۔
کیا سوچا ہے پھر۔۔۔خضر نے ہسپتال کے ایک کمرے کے باہر کھڑے ہوتے کامل سے پوچھا۔۔۔
میں اُسے لے کر آسٹریلیا جا رہا ہو۔۔۔کامل نے اپنی پینٹ کی پاکٹ میں ہاتھ ڈالتے خضر سے کہا۔۔۔
یہی اُسکے لیے بہتر ہے اگر باہر جاکر اُسکا علاج اچھے سے ہوسکتا ہے تو میں یہ بھی کرونگا۔۔۔کامل نے خضر کی طرف دیکھتے سنجیدگی سے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر تیاری کرو جانے کی۔۔۔خضر نے اُسکے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے کہا۔۔۔کامل نے اثبات میں سر ہلایا اُسکی بات پر ۔۔
💗💗💗
عروہ بیٹا ماما کو تنگ مت کرو جلدی سے کھانا کھا لو ۔۔فلک نے اپنی ڈھیر سالہ بیٹی کی طرف چمچ بڑھاتے کہا ۔۔جو اپنے لب آپس میں ملائے اپنا منہ نہیں کھول رہی تھی۔۔۔۔
بلکل اپنے باپ پر گئی ہے آپ ۔۔بہت تنگ کرتے ہیں آپ دونوں مجھے اب ماما رو دے گی ۔۔۔فلک کی آنکھوں میں نمی چمکی ۔وہ پچھلے ایک گھنٹے سے عروہ کو کھانا کھلانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن عروہ کھا لے مجال ہے۔۔۔۔
کیا برائی ہو رہی ہے میری بیٹی سے میری۔۔۔۔کامل نے کمرے میں اتے عروہ کو اپنی گود میں لیتے فلک کی طرف دیکھتے پوچھا۔۔۔
جی نہیں برائی نہیں ہو رہی تھی۔۔۔آپکی یہ بیٹی کھانا نہیں کھا رہی لے اب خود ہی کھلائے تھک گئی ہو میں ۔۔۔فلک نے کامل کے پاس اتے اُسکے آگے باؤل بڑھاتے ہوئے کہا جب کامل نے ایک جھٹکے سے اُسکی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے اپنے نزدیک کیا تھا۔۔۔
اور عروہ اپنے باپ کی اس حرکت پر تالیاں بجانے لگی۔۔۔
بہت تیز ہے آپکی بیٹی ۔۔۔فلک نے چمچ دوبارہ عروہ کی طرف بڑھاتے کہا جس نے ابکی بار آرام سے کھا لیا تھا۔۔۔
جی نہیں میری بیٹی سب سے زیادہ معصوم ہے۔۔۔کامل۔نے فوراً سے نفی کرتے اپنی بیٹی کے گال پر پیار کیا۔۔۔
ہاں ایک آپ معصوم اور آپکی بیٹی معصوم میں تو بہت تیز ہو۔۔۔فلک نے نروٹھے پن سے اُسکے حصار میں کھڑے کہا۔۔
نہیں میری حیاتی تو سب سے زیادہ معصوم ہے۔۔۔کامل نے اُسکے لبوں پر بیباک گستاخی کرتے نرمی سے کہا۔۔۔
عروہ کے سامنے کامل کی اس حرکت پر فلک کا رنگ گلابی ہوا۔۔۔۔
ما ماما کسی۔۔۔اپنے دونوں ہونٹوں کو آگے کرتے عروہ نے بھی فلک کو کس کرنا چاہا ۔۔۔۔فلک مسکراتی آگے ہوئی۔۔۔۔اور دونوں اپنی بیٹی کی حرکت پر ہنس دیے۔۔۔۔
کامل کی طرح سبز آنکھیں ۔۔۔پٹھانی نین نقش وہ ہو بہو کامل جیسی تھی۔۔۔۔۔کامل اور فلک کی بیٹی عروہ خان ۔۔۔۔
💗💗💗💗
ہسپتال گئے تھے آپ۔۔۔۔فلک نے کامل کے سینے پر سر رکھتے اُس سے پوچھا ایک نظر اپنی بیٹی کو دیکھا جو اپنے کارٹ میں سو رہی تھی۔۔۔۔
ہم۔۔۔۔کامل نے فلک کی قمر میں ہاتھ ڈالتے اُسے ایک جھٹکے سے اپنی گرفت میں لیتے کروٹ بدلی ۔۔۔۔
کیسی ہے وہ۔۔۔فلک نے کامل کی پلکوں کو چھوتے پوچھا۔۔۔
ٹھیک نہیں ہے وہ کوما سے باہر انے کے بہت کم چانسز ہے باہر ملک جانا پڑے گا ۔۔۔۔کامل نے اُسکی ناک سے اپنی ناک مس کرتے گھمبیر آواز میں کہا۔۔۔
ہم جا رہے ہیں پھر باہر ملک۔۔۔فلک نے اپنے ہاتھ کامل کی گردن میں باندھتے پوچھا۔۔۔
ہاں جانا پڑے گا۔۔۔کامل نے اُسکے دونوں گالوں پر اپنا۔لمس چھوڑتے کہا۔۔۔
تھک گئے ہے۔ ۔۔۔کامل کے لبوں کا لمس اپنے گالوں پر محسوس کرتے فلک نے پوچھا۔۔
ہاں اور وہی دور کر رہا ہو۔۔۔کامل نے کہتے اُسکی گردن میں اپنا منہ چھپایا اور وہاں اپنا لمس چھوڑا ۔۔فلک اُسکے بالوں میں اپنی اُنگلیاں چلاتی اُسکا لمس اپنی گردن پر محسوس کرنے لگی۔۔۔۔
جب کامل اُسکے چہرے پر جھکتے اُسکے لبوں پر اپنے لب رکھ گیا تھا۔۔۔ایک دوسرے کے لمس کو محسوس کرتے وہ ایک دوسرے میں کھوتے چلے گئے تھے۔۔۔۔
اُنکی زندگی حسین تھی ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔کامل خان کے لئے اُسکی حیاتی اور اُسکی بچی اُسکی زندگی تھے جن کے بنا وہ اپنی زندگی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔۔۔
اور فلک اُسکے لیے اُسکا یہ نرم مجاز پٹھان جو صرف اُسکے معاملے میں نرم ہوتا تھا اور اُسکی بیٹی اُسکی زندگی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
خضر نے اپنے کمرے میں قدم رکھا تو چہرے پر مسکراہٹ دور گئی۔۔۔
سامنے اُسکی متائے حیات اُسکے بیٹے کے پیٹ پر ہاتھ رکھے گہری نیند میں تھی ۔۔
دونوں ماں بیٹا ۔۔مجھے بھول کر نیند کے مزے لے رہے ہیں۔۔۔خضر نے دھیمی آواز میں خود سے کہا۔۔۔اور بیڈ تک ایا۔۔۔
نظر اپنے بیٹے پر گئی ۔۔۔اُسکا عزیر بلکل اپنی ماں کی طرح ۔۔۔چھوٹے چھوٹے معصوم سے نین نقش۔۔۔اُس نے نہایت نرمی سے اُسکے چھوٹے سے ہاتھ کو اپنے لبوں سے چھوا۔۔۔
نظر اپنی بیوی پر گئی جو اب اپنی نیلی آنکھیں کھولے اُسکی طرف مسکراتے دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا خضر اُسکے قریب ہو اور وہ اُسکی موجودگی سے غافل رہے وہ تو اپنے شوہر کو اُسکی اہٹ سے بھی پہچان لیتی تھی۔۔
کیسی ہو میری جان۔۔۔خضر نے شجیہ کے پاس اتے اُسے اپنے حصار میں لیتے پوچھا۔۔۔
ٹھیک ہو ۔۔۔مل لیے آپ اپنے بیٹے سے۔۔۔۔شجیہ نے خضر کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو سنوارتے پوچھا۔۔۔
بیٹے سے مل لیے لیکن اُسکی ماں سے ملنا ابھی باقی ہے۔۔۔خضر نے شجیہ کے لبوں کو فوکس میں لیتے کہا۔۔۔
خضر کی نظروں کا ارتکاز اپنے لبوں پر محسوس کرتے شجیہ کی پلکیں لرزی۔۔۔
خضر نرمی سے اُسکے ہونٹوں پر جھک ایا ۔۔۔اُسکی سانسوں میں اپنی سانسیں شامل کرتا وہ اُس سے دور ہوا۔۔۔
تمہارا جتنا شکریہ ادا کرو اتنا کم ہے میری جان ۔۔۔کس کس چیز کا شکریہ کرو۔۔۔مجھ سے محبت کرنے کے لیے مجھے باپ کے مرتبے پر فائز کرنے کے لیے میرے ہر سُکھ دکھ میں میرے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے۔۔۔خضر نے شجیہ کے ماتھے پر بوسا دیتے کہا۔۔۔۔
آپ بس میرے ساتھ رہے میرے پاس مجھ سے اسی طرح محبت کرتے رہے۔مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔۔۔آپ سے محبت کرنا مجھ پے فرض تھا ۔۔۔اور میں یہ فرض مرتے دم تک نبھاؤں گی۔۔۔مجھے اگر پوری دنیا کو چیخ چیخ کر بھی یہ بتانا پڑے کہ میں آپ سے محبت کرتی ہو میں بتاونگی۔۔۔میں فخر سے کہتی ہو مجھے میرے شوہر سے محبت ہے مجھے آپ سے عشق ہے خضر شجاعت چوہدری ۔۔۔شجیہ نے خضر کی گلے کی اُبھرتی ہڈی پر اپنے لب رکھتے کہا۔۔۔۔
میری دنیا مکمل ہے جس میں تم ہو اور ہماری یہ پیار کی چھوٹی سی نشانی ہے۔۔۔۔۔خضر نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھتے کہا۔۔۔۔
بلکل ہماری دنیا مکمل۔ہے۔۔۔شجیہ نے خضر کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے مسکراہٹ لیے کہا۔۔۔
خضر شجیہ کے لبوں پر جھکنے لگا جب ایک ننھی سی آواز گونجی۔۔۔
چوہدری شاحب۔۔۔۔اپنی آنکھیں جھپکتے وہ آٹھ کر بیٹھتے اپنے باپ کو پکار رہا تھا۔۔۔۔شجیہ ہنس پڑی۔۔۔
خضر نے تیز نظروں سے اپنے اس چھوٹے پیکٹ کو دیکھا جس نے اُسکے اور اُسکی بیوی کے بیچ میں اتے انکا سپشل مومنٹ خراب کیا تھا۔۔۔
ایک یہی لفظ تھا جو وہ صاف بولتا تھا۔۔۔۔نہ جانے کب شجیہ کے منہ سے یہ لفظ سنتے وہ خضر کو اسی نام سے بلانے لگا تھا۔۔۔۔
چوہدری صاحب کے بچے تھوڑی دیر اور نہیں سو سکتا تھا مجھے اپنی بیوی سے صحیح طرح سے ملنے تو دیتا۔۔۔۔خضر نے شجیہ سے دور ہوتےعزیر کے پاس اتے اُسکے نزدیک اپنا سر رکھتے کہا۔۔۔
نہیں۔۔۔ممی میری ہے۔۔۔عزیرنے جلدی سے کہا۔۔۔
کیا کہا۔۔وہ میری ہے۔۔۔خضر نے غصے بھری نظروں سے اُسکی بات پر اُسکی طرف دیکھتے کہا۔۔۔
نہیں میری ہے۔۔۔وہ بھی اسی کا بیٹا تھا۔۔۔۔
میری ہے وہ۔۔باپ کون سا کسی سے کم تھا۔۔۔
میری ہے میری ہے میری ہے۔۔۔۔خضر کے بالوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچے کھینچتے وہ چیختا ہوا بولا ساتھ ساتھ نیلی انکھوں میں تیزی سے آنسو بھی جمع ہوئے۔۔۔اور خضر اُسکی حرکت پر بھونچا کر رہ گیا۔۔۔
دیکھا رلا دیا میرے بچے کو بس ماما۔کی جان میں آپکی ہو ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔اپنے بیٹے کو روتا دیکھ شجیہ نے جلدی سے اُسے اپنی گود میں اٹھایا ۔۔۔۔
خضر کو تو اُسکی بات پر پتنگے ہی لگ گئے تھے۔۔۔
اور جو تمہارے بیٹے نے مجھے غنجا کرنے کی کوشش کی ہے اُسکا کیا۔۔۔خضر نے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے کہا۔۔۔
ہوئے تو نہیں نہ اتنے گھنے بال ہے ایک دو ٹوٹ جائے گے تو کچھ ہو نہیں جائے گا۔۔۔شجیہ کہتی کمرے سے نکلتی چلی گئی اور خضر نفی میں سر ہلا گیا۔۔۔
پھر اپنے بیٹے کی حرکت یاد ائی تو مسکرا گیا۔۔۔۔
💗💗💗
تین سال بعد۔،،،
کیا اُسے بتا دینا چاہیے اس بارے میں۔۔۔خضر نے فون پر دوسری طرف کامل سے پوچھا۔۔۔۔
نہیں ڈاکٹر نے منع کیا ہے ماضی کی کوئی بات اُسکے سامنے ائی تو اُسکی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے میں رسک نہیں لے سکتا میں نے صرف اُسے بہن کہا نہیں مانا بھی ہے ۔۔۔کامل نے لون میں کی طرف دیکھتے کہا جہاں انابیہ فلک اور عروہ بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔
ان تینوں سالوں میں وہ بھی بدل گیا ۔۔۔اگر اُسے غلطی سے بھی پتہ چلا کہ انابیہ زندہ ہے وہ ایک قہر برپا کر دے گا جانتے ہو یہ بات تم بھی۔۔۔خضر نے پریشانی سے کہا۔۔۔
میں اُسے کبھی انابیہ کے پاس انے نہیں دونگا۔۔۔بہت مشکلوں سے اُسکی جان بچائی ہے اللہ نے دوبارہ اُسکی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا میں۔۔۔۔کامل کا لہجہ سخت ہوا۔۔۔
آج اُسے آزادی مل رہی ہے انڈر ورلڈ کے سارے راز بتانے پر اُسکی سزا میں کمی کردی گئی تھی ۔۔۔۔خضر نے اُسے انفورم کیا۔۔۔
کامل نے پریشانی سے اپنا ماتھا رب کیا۔۔۔اور اپنا فون بند کرتے جیب میں رکھا۔۔۔
ایک نظر انابیہ کے ہنستے چہرے کو دیکھا ڈاکٹر نے اُسکے وجود سے پانچ گولیاں نکالی تھی۔۔۔بہت کوششوں کے بعد اُسکا آپریشن کامیاب ہوا تھا لیکن وہ کوما۔میں۔چلی گئی تھی۔۔۔
تین سال پہلے وہ انابیہ فلک اور عروہ کو لئے آسڑیلیا آگیا تھا ۔۔جہاں پر علاج ہونے پر انابیہ ہوش میں آگئی تھی لیکن دماغ پر گہرا اثر پڑنے کی وجہ سے وہ اپنی یاداشت کھو چکی تھی۔۔۔کامل نے اُسے اپنی بہن کے نام سے یہاں سب سے انٹرڈیوز کروایا تھا اُسکے سارے لیگل ڈاکومنٹ پر بھی وہ کامل خان کی بہن تھی۔۔۔۔اور اُسے وہ بہنوں کی طرح ہی عزیز تھی۔۔۔۔
انابیہ کو فقط اتنا بتایا گیا تھا کا اُسکا چھوٹا سا ایکسڈنٹ ہوا ہے جس کی وجہ سے اُسکی یاداشت چلی گئی ہے۔۔اور وہ اس بات پر یقین بھی کر بیٹھی تھی۔۔۔۔
کامل نہیں چاہتا تھا لیپڑد کبھی انابیہ تک پہنچے کیونکہ ڈاکٹرز کے مطابق ماضی کی کوئی بھی بات دوبارہ انابیہ کی جان کو خطرے میں ڈال دے گی جو کامل نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔
بس یہی اُسکی زندگی تھی اور وہ اس میں بہت خوش تھا لیکن انابیہ تک اُسکا لیپرڈ نہیں پہنچ پائے گا یہ اُسکی غلط فہمی تھی انابیہ اور لیپرڈ کے دل آپس میں جڑے تھے ایک نہ ایک دن وہ دونوں آمنے سامنے انے والے تھے۔۔۔اور تقدیر بہت جلد ایسا کرنے والی تھی۔۔
💗💗💗
خضر نے فون رکھتے شجیہ کی طرف دیکھا جو عزیر کے ساتھ کھیل رہی تھی ان تین سالوں میں وہ اپنی ڈگری مکمل کر چکی تھی اور اب ڈی ایس پی کے توڑ پر اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہی تھی ۔۔۔
اپنی اس چھوٹی سی فیملی میں وہ بہت خوش تھا۔۔۔وہ اپنے رب کا جتنا شُکر ادا کرتا اتنا کم تھا جس نے اُسکی زندگی میں شجیہ جیسی ہمسفر لکھی تھی۔۔۔
جس نے اُسکی خامی کو خامی نہ سمجھتے اُس سے محبت کی تھی۔۔۔۔
💗💗💗💗
سینٹرل جیل سے قدم باہر رکھتے تیز دھوپ اُسکی آنکھوں میں پڑی اور وہ اپنی آنکھیں مینچ گیا۔۔۔
اور آنکھیں بند کرتے ہی ایک نازک سا مسکراتا سراپا اُسکی آنکھوں کے پردوں پر لہرایا ۔۔۔
چند لمحے بعد اُس نے اپنی آنکھیں کھولی ۔۔۔۔اور اس پاس دیکھا۔۔۔اور اُسے شدت سے یہ محسوس ہوا کہ یہ دنیا تو اسکے کسی کام کی نہیں تھی۔۔جو اُسکی دنیا تھی اُسے وہ خود اپنے ہاتھوں سے دور کر چکا تھا۔۔۔
اب بس شدت سے اُسے اپنی موت کا انتظار تھا۔۔۔کالی آنکھوں میں اب کوئی تاثر نہیں تھا سنجیدہ چہرہ مزید سنجیدگی میں ڈوب گیا تھا اُسے دیکھتے ایسا گمان ہوتا تھا جیسے وہ کوئی روبوٹ ہے۔۔۔
اور دل وہ ۔۔۔وہ مردہ ہو چکا تھا۔۔
یہاں خضر،شجیہ، کامل فلک کا سفر ختم ہوا تھا اور اب لیپرڈ اور انابیہ کی کہانی کا صفحہ شروع ہوا تھا۔۔جہاں محبت تھی نفرت تھی جنون تھا تڑپ تھی۔۔۔
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Misal E Ishq Season 1 Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Misal E Ishq Season 1 written by AK . Misal E Ishq Season 1 by AK is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment