Janam Novel By Riha Shah Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 29 September 2024

Janam Novel By Riha Shah Complete Romantic Novel

Janam By Riha Shsh New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Janam Novel By Riha Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: Janam  

Writer Name: Riha Shah

Category: Complete Novel

صبح اسکی آنکھ کھلی تو خود کو ایک عجیب سی ویران سی جگہ پر پایا جہاں کسی کو نا پاکر اسکی سانسیں اٹکی تھیں۔۔

سر درد سے دکھ رہا تھا اور یاد کرنے پر بھی کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔۔

جسم میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اٹھ کر بیٹھ سکتی۔

اس سے پہلے وہ کچھ سوچتی سمجھتی کوئی اندر داخل ہوا تھا۔

اس نے جلدی سے آنکھیں بند کیں۔

وہ جو کوئی بھی تھا آہستہ سے اسکے پاس آکر بیٹھا تھا اور اب وہ اسکی نظریں خود پر اچھی طرح محسوس کر رہی تھی۔۔۔

تبھی اسکے لگا کوئی ٹھنڈا لمس اسکے پیروں کو چھو رہا ہے

اس سے یہ ناٹک مزید نہیں ہو رہا تھا کیونکہ وہ جو کوئی بھی تھا اپنے ٹھنڈے ہاتھ اسکے پیروں سے لگا رہا تھا۔۔

وہ ڈر رہی تھی مگر اس میں اتنی سکت میں تھی کہ وہ چیخ چلا سکے۔

بے بی آنکھیں کھولو نا۔۔۔۔

اسکی گردن پر انگلی پھیرتے اس آدمی نے سرسراتے لہجے میں اسکے کان میں سرگوشی کی اور اسکا کان اپنے لبوں میں دبایا ایک سسکی تھی جو اسکے لبوں سے نکلی تھی۔

اس نے بےساختہ اپنے لبوں پر ہاتھ رکھا مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔۔

اس آدمی نے جھک کر اسکی آنکھوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور پھر ناک اور گال سے ہوتا وہ اسکے لبوں تک آیا اور اسکا ہاتھ لبوں سے ہٹانا چاہا مگر اس نے فوراً سے اپنے ہاتھوں سے اسکا ہاتھ روکا تھا۔

کون ہو تم دور رہو مجھ سے۔۔۔ وہ منمنائی مگر اس سے پہلے ہی وہ اسکے نازک لبوں کو اپنی سخت گرفت میں لے گیا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ اسکے ہونٹوں کا جام اپنے اندر انڈیل رہا تھا۔

اسکا دوسرا ہاتھ اسکے جسم پر چل رہا تھا اور وہ تکلیف سے تڑپ رہی تھی۔

ارحہ بے بی میری دنیا میں خوشامد۔۔۔۔۔

اسکی شہہ رگ پر لب رکھتا وہ اس سے دور ہوا تو کئی آنسو اسکے گال کو بھگوتے چلے گئے۔۔

ارے رو کیوں رہی ہوں ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے۔۔

"مجھے کچھ مت کرنا دیکھو پلیز۔۔۔۔"

اسکے اپنے سینے کی طرف بڑھتے ہاتھ تھام اس نے التجا کی ۔

"جاننا نہیں چاہو گی کون ہوں میں جو تمہارے جسم و جان کا مالک بن بیٹھا ہے"اسکے ہونٹوں پر انگوٹھا پھیرتے وہ پراسرار سا مسکرایا تھا۔

"کک۔۔۔کون ہو تم؟"اپنا آپ اس سے چھڑاتے اس نے ہکلاتے سوال کیا تو سامنے والے کی شاطر نگاہوں میں ایک تپش سی لپکی تھی۔

"بتا دوں کون ہوں میں؟"اسکے کان کے قریب جھکتے اس نے سرگوشی کے سے انداز میں پوچھا تو وہ فوراً سے ہاں میں سر ہلا گئی۔

"اتنی بھی کیا جلدی ہے ویسے دل کو کر رہا ابھی تم میں سما جاؤں مگر بنا نکاح کے شاید تم پر اپنا حق جمانا کچھ خاص مزہ نہیں دے گا میں چاہتا ہوں تم بھی مجھ سے ویسے ہی محبت کرو جیسے میں تم سے کرتا ہوں مگر تم تو مجھ سے محبت ہی نہیں کرتیں"اسکا چہرہ مٹھی میں دبوچے وہ سخت لہجے میں بولا تو ارحہ کو لگا اسکی سانس رک جائے گی۔

"اب تم تب تک یہاں قید رہو گی جب تک تمہیں مجھ سے محبت نا ہوجائے اور ہاں۔۔۔"وہ اپنی جگہ سے کھڑا ہوتے ایک دم رکا۔

"تمہارے ماں باپ اور وہ بیچارہ منگیتر بہت پریشان ہیں اگر انہیں دیکھنا ہے اور یہاں سے نکلنا ہے تو تمہیں خود کو مجھے دینا ہوگا۔۔

میں تمہارے جسم و جان کا جب مالک بن جاؤں گا اور تمہیں مجھ سے محبت ہو جائے گی اسی دن تم اپنے ماں باپ کا چہرہ دیکھ سکوں گی اب چاہے اس سب میں تمہیں دن لگے ہفتہ لگے مہینہ یا سال۔۔۔۔۔۔

ہوسکتا ہے اتنے وقت میں تمہارے ماں باپ مر جائیں اور تم انہیں دیکھ نا سکوں۔۔۔

کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر اتنا یاد رکھنا میری دنیا سے اب رہائی ممکن نہیں۔۔"

اسکے لبوں کو چھوتا وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا اور اسکے جاتے ہی سسک اٹھی تھی۔

________

پورا گھر سوگ میں ڈوبا ہوا تھا کل جہاں شادی کے شادیانے بجنے تھے وہاں آج ماتم کا سا سماں تھا

میری بچی کو لے کر آئیں شمس صاحب کیسے بھی کر کے لائیں۔۔۔۔

"کہاں سے لاؤں میں بخت کہاں سے اغوا ہوا ہے اسکا زبردستی لے کر گئے ہیں کوئی مطالبہ بھی نہیں ہوا پولیس ڈھونڈ رہی ہے اسے۔

وہ خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھے اپنی بیوی کو کہاں سے تسلی دیتے۔۔

امی وہ مل جائے گی آپ پریشان نا ہو اگر آپ کی طبعیت خراب ہوگئی تو۔۔

سدرہ کی بات پر انہوں نے اپنا سر پکڑا۔

سب برباد ہوگیا سب معاشرہ تھوکے گا ہم پر میری بچی کو زندہ درگور کر دے گا یہ معاشرہ کیا غلطی تھی اسکی کیوں اسکے ساتھ ایسا ہوا مجھے میری بچی کا دو کوئی خدا کا واسطہ ہے مجھے میری بچی لا دو۔۔۔

وہ روتی سسکتی جارہی تھی اپنی حالت خراب کر لی تھی مگر وہاں سننے والا کوئی نہیں تھا وہ سب بے بس تھے۔

سدرہ ماں کو اندر لے کر جا میں پولیس اسٹیشن جارہا ہے شاید کوئی سراغ ملا ہو۔

ابا صفیر بھائی کیسے ہیں اب؟

پاگل ہوگیا ہے ڈھونڈتا پھر رہا ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آتا کچھ بھی اگر میں بھی ہار مان گیا ٹوٹ گیا تو میری بیٹی کبھی نہیں مل پائے گی۔۔

آپ پریشان نا ہوں آپ دیکھنا جلد آجائیں گی اپی۔۔انہیں تسلی تو دے دی تھی مگر اسکا اپنا خود کا دل رو رہا تھا کیوں ان کی خوشیوں کو نظر لگ گئی تھی۔۔

_________

کمرے میں لال رنگ کی ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی جو ماحول کو رومانوی بنا رہی تھی۔

بستر پر لیٹے جمیل نے مخمور آنکھوں سے سامنے دیکھا جہان ڈریسنگ کے سامنے وہ حسینہ کھڑی تھی۔

وہ آہستہ سے قدم بڑھاتی اسکی جانب بڑھی 

اس سے پہلے وہ اگلا عمل کرتا بجتے فون نے اسکا موڈ خراب کیا تھا۔۔

وہ بدمزاج سا اندر کمرے میں داخل ہوا تو سامنے اسے دو صوفے پر براجمان پایا۔۔

ایک ہاتھ صوفے کی پشت پر پھیلائے وہ دوسرے ہاتھ سے سیگریٹ پی رہا تھا۔

آگئے اس طوائف کے پاس سے گندگی کر کے؟ اسکے لہجے میں جمیل کے لئے حقارت ہی حقارت تھی۔

باس وہ۔۔۔۔

اس نے کچھ کہنا چاہا مگر وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے روک گیا۔۔

کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے یہ جو کتے تمہاری مالکن کو ڈھونڈ رہے ہیں ان کا منہ بند کرواؤ ۔۔۔

جی کنگ۔۔۔۔ تابعداری کا مظاہرہ کرتا وہ الٹے قدموں واپس ہوا تھا مگر چہرے کے تاثرات سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اس کی رنگیں رات کی بربادی اسے پسند نہیں آئی تھی

کیا ہوا اتنا کیوں لٹکا ہوا ہے؟ وہ باہر آیا تو سبحان کی بکواس نے اسکا دماغ خراب کیا تھا۔

کتنی مشکل سے ہاتھ آتی ہے وہ اور کنگ کے اس مسئلے کی وجہ سے سکون بھی نہیں لے سکا میں۔

اسکا موڈ ٹھیک ٹھاک خراب تھا۔

ریلکس ایک بار یہ مسئلہ حل ہو جائے پھر تو موج ہی موج اور ویسے بھی ایسا تو پہلی بار ہوا ہے کہ اپنے باس کو کوئی پسند آئی ہو

ہاں پسند آئی وہ بھی ایک پولیس افسر کی ہونے والی بیوی۔۔

ابے وہ ایک نیا نیا آفیسر بنا ہے اسکی پہنچ اتنی نہیں جتنی اپنے باس کی ہے وہ پاتال میں بھی چلے جائے گا تب بھی نہیں نہیں ڈھونڈ پائے گا اپنی منگیتر کو۔۔۔

سبحان کے لہجے میں غرور تھا اسکی بات پر جمیل سر جھٹک کرسی پر بیٹھ گیا موڈ تو سارا خراب ہو ہی چکا تھا۔

چل نا یار موڈ تو خراب مت کر۔۔۔

اسکے کندھے پر ہاتھ مارتے سبحان نے کہا تو وہ بس سر ہلا گیا اب کیا بتاتا اس ایک رات کے لئے کتنے پیسے وہ دے کر آیا تھا۔

کچھ کھائے گا یا بس یونہی منہ پھلا کر بیٹھا رہے گا۔

میں نے لاکھ سے اوپر دئیے تھے اس سے ملنے کے لئے اور سب برباد ہوگیا۔

تو جانتا تو ہے اپنا کام پھر بھی۔۔۔۔

تو بتا میں کیا کروں کس کے پاس جاؤ ؟

شادی کر لے.."سبحان کے مشورے پر اسکے آگ لگی تھی

مگر کچھ بولنا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔۔

ویسے جمیل تو نے کبھی سوچا کہ کنگ آخر دیکھتا کیسا ہوگا؟

نہیں پہلے سوچتا تھا مگر پھر اس چیز کو سوچنا چھوڑ دیا کیونکہ مجھے چڑ ہونے لگی تھی وہ کام کرتا ہے اور کام مانگتا ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔۔۔

اور ویسے بھی جیسے اسکا ماسک ہے سخت ویسے ہی اسکا دل ہے پتھر جیسا مجھے اس معاملے میں تو محبت کہیں سے نہیں لگتی سبی۔۔۔۔

وہ ناجانے کتنے سالوں سے اس کام میں تھا اور کنگ کے ساتھ تھا اپنے تجربے کی بنیاد پر وہ یہ سب کہہ رہا تھا۔

لگتا تو مجھے بھی یہی ہے مگر وہ کنگ ہے اسکا ہر قدم ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔۔

دیکھتے اب یہ کونسا دھچکا ہمیں لگنے والا ہے خود کو تیار کرلو اب ۔۔

لیپ ٹاپ آن کرتا وہ اپنے کام میں نے مگن ہوگیا تو سبحان نے اپنا کام شروع کیا تھا۔۔

________

اس چھوٹے سے کمرے میں اسکا دم گھٹ رہا تھا زندگی نے کیسے موڑ پر لا کر کھڑا کردیا تھا اسکا تو تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔

اج سے اسکی شادی شروع ہونے والی تھی ڈھولکی مایوں مہندی نکاح۔۔۔

مگر قسمت نے جیسا کھیل کھیلا تھا۔

چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔

ہاتھ کی پشت سے اپنا چہرہ صاف کرتے اس نے سامنے ٹیبل پر رکھے کھانے کو دیکھا تھا

کل سے وہ بھوکی تھی اسکا دل تک نہیں کر رہا تھا وہ کچھ کھائے۔

اس لئے واپس سے گھٹنے میں منہ دے کر وہ سسکی۔

اپنے جسم پر اس آدمی کا رینگتا ہاتھ اسے ابھی تک محسوس ہو رہا تھا اسے یہاں سے فرار چاہیے تھی ہر حال میں۔۔

زندگی کتنی پرسکون تھی وہ اپنے ماں باپ اور بہن کے ساتھ اپنے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی جب صفیر اسکی زندگی میں آیا اس کے ماں باپ کو وہ اتنا پسند آیا کہ انہوں نے لمحہ نہیں لگایا تھا اسکا رشتہ طے کرنے میں۔

ان کی منگنی دو سال سے تھی اس دوران اس نے اپنی پڑھائی مکمل کرلی اور اب ان کی شادی تھی مگر جس دن اسے پارلر جانا تھا اپنے لئے اسی دن پارلر سے نکلتے ہی اسے کسی نے اغوا کرلیا اور وہ اسی دن سے یہاں تھی۔

وحشت تکلیف اذیت کیا کچھ نہیں تھا جو وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی۔

اس نے ہمت کر کے خود کو سنبھالا اور اٹھ کر کمرے کا جائزہ لیا تھا۔

چاروں اور نظریں دوڑانے کے باوجود اسے کچھ نظر نا تو مایوس ہو کر وہ اپنی جگہ آکر بیٹھی تھی۔۔

یا اللہ مجھے یہاں سے نکال خدا کے لئے۔۔

گڑگڑاتے روتے وہ فریاد کر رہی تھی۔

تبھی دروازہ کھلا تھا اور وہ ماسک والا ایک بار پھر کمرے میں داخل ہوا تھا۔

ابھی تک بھوکی بیٹھی ہو کیا مرنے کا اتنا شوق ہے؟

اسکے پاس بیٹھتے کنگ نے کھانے کی پلیٹ کو دیکھا تھا۔

ہاں مرنا ہے مجھے کیونکہ یہاں سے نکل کر تو ویسے بھی پل پل مرنا ہے تو آج ہی سہی مار دو مجھے نہیں رہنا مجھے یہاں مار دو۔۔۔

اسکا ہاتھ اپنی گردن پر رکھتے ہذیانی انداز میں چیخ رہی تھی۔

کنگ نے بغور اسکا یہ ردِعمل دیکھا تو چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔

ایسے کیسے مرنے دوں؟ ابھی تو مرنے نہیں دے سکتا پہلے تمہیں اپنا بنانا ہے۔۔

اسکے بکھرے بال ایک طرف کرتے وہ خباثت سے ہنسا تھا۔

نفرت ہے مجھے تم سے آئی سمجھ دفع ہوجاؤ یہاں سے۔۔۔اسکے سینے پر ہاتھ مارتے وہ چلائی تو کنگ نے ایک نظر اسکے روتے سسکتے وجود کو دیکھا اسکی آنکھوں سے عجیب سی تپش نکل رہی تھی۔۔۔

تو تمہیں مجھ سے نفرت ہے؟انکھوں میں سلگتی آگ جیسے جذبات لئے وہ ایک ایک لفظ پر زور دے کر بولا تو اس نے فوراً سے ہاں میں سر ہلایا۔۔۔

تو بس اب تم دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں بس تھوڑا اور انتظارِ پھر تم پچھتاؤ گی اپنے لفظوں پر ۔۔۔

اسکا منہ مٹھی میں دبوچے وہ غرایا تھا۔

اس سے پہلے میں مرنا پسند کرونگی۔۔۔

اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ دوبدو بولی تو کنگ نے ایک جھٹکے سے اسکا چہرہ چھوڑا اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

___________

گاڑی کے سائرن کی آواز چاروں اور گونجی تو سارا اہلکار الرٹ ہوئے تھے۔

سر آگئے ہیں جلدی کرو۔۔

سب لوگ اپنی اپنی جگہ پر آکر کھڑے ہوئے تھے تبھی ایک گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوئی۔

تو سب نے ایک ساتھ سلیوٹ کیا۔

ایک اہلکار نے آگے بڑھ کر گاڑی کا دروازہ کھولا تو وہ گاڑی سے باہر نکلا تھا۔

بلیک کلر کی پینٹ پر بلیک لیدر کی جیکٹ پہنے آنکھوں پر گلاسس لگائے وہ پوری شان سے سامنے آیا تو سب کے ہاتھ ایک ساتھ ماتھے تک گئے۔

سلام۔۔۔ سر۔۔

سب کو اشارے سے جواب دیتا وہ آگے بڑھ گیا اور اس کے اندر آتے ہی ایک طرف کھڑا صفیر اسکے پیچھے لپکا تھا

"سر سر پلیز میری بات سنیں سر۔۔۔۔"

اسکی پکار پر آگے بڑھنے والے کے قدم رکے تھے

اس نے گردن موڑ بغور اس وردی میں موجود اپنے نئے بھرتی ہونے والے آفیسر کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے۔

"سر وجدان پلیز میری بات سنیں پلیز"وہ اس کے پاس آکر گڑگڑایا تو وجدان کے ماتھے پر بلوں کا اضافہ ہوا تھا۔۔

"یوں گڑگڑانا ایک پولیس والے کو زیب نہیں دیتا اندر چلو۔۔۔"

اسے کہتے وہ اپنے آفس کی طرف بڑھ گیا تو وجدان اس کے پیچھے آیا تھا۔

"کہو کیا مسئلہ ہوا ہے؟"

"سر میری منگیتر لاپتا ہے سر میں نے کر ممکن طریقے سے اسے ڈھونڈنے کی کوشش مگر کوئی سراغ نہیں مل سکا۔۔"

"ایک آفیسر ہو کر اتنے بے بس؟؟"

"بے بس نہیں ہوں سر بس مجبور ہو اسکی عزت پر آنچ آئی تو اسکے گھر والے مر جائنگے ۔۔"

"تو بہتر یہی ہے اسے واپس نا ڈھونڈو اب تک ناجانے اسکے ساتھ کیا کچھ ہوچکا ہوگا"

وہ بت رحم تھا سب جانتے تھے اسکی سرمئی آنکھوں میں کئی راز پوشیدہ تھے۔

"سر۔۔۔"اسے دھچکا نہیں لگا تھا اس بات پر مگر وہ پھر بھی سہم گیا تھا۔

"مجھ سے کیا چاہتے ہو؟"

"آپ اس کیس کو دیکھیں "وہ التجا کر رہا تھا اور پھر کچھ دیر ان آنکھوں نے سامنے والے کو جانچا تھا۔

"ٹھیک ہے مجھے اپنی منگیتر کی ساری ڈیٹیلز دو میں دیکھتا ہوں کہ کیا کر سکتا ہوں"

اتنا کہتے اس نے اپنی فائل اوپن کر لی۔

یہ اشارہ تھا کہ اب وہ جا سکتا ہے۔

اس لئے وہ خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے نکل گیا چہرے پر حزن وملال ملال چھایا ہوا تھا۔

اسکے جاتے ہی وجدان نے نظریں اٹھا کر دروازے کی جانب دیکھا اور پھر فون نکال اس نے ایک مخصوص نمبر ملایا تھا۔

"ہیلو صبور۔۔۔ مجھے انسپکٹر صفیر کی ساری معلومات چاہیے کوئی ایسا پہلو نا ہو جو ہم سے چھپا رہ سکے آئی سمجھ۔"

"جی باس ہوجائے گا"

صبور کے جواب پر اس نے سر ہلا کر فون بند کیا تھا آنکھوں میں کئی سوچ کے پہلو ابھرے تھے۔

آج اسے غائب ہوئے ہفتہ ہونے کو آیا تھا جس گھر میں شادی کے شادی گونجنے تھے وہاں اب صرف ماتم تھا آنسو تھے۔

گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا بخت بیگم بیمار ہو کر بستر سے لگ گئی تھیں جب کہ شمس صاحب بیچارے اسے ڈھونڈنے کے لئے پاگل ہو رہے تھے وہ بڑی عمر کے تھے تھک رہے تھے۔

سدرہ نے بے چینی سے سامنے کمرے کی جانب دیکھا جہاں اسکی ماں بستر سے لگی ہوئی تھی۔

"آجاو رحہ پلیز آجاؤ دیکھو تمہارے بغیر ہمارا کیا حال ہوگیا ہے۔"اسکی تصویر دیکھتے وہ سسکی تھی

کتنی محبت تھی ان دونوں بہنوں میں بچپن سے لے کر اب تک۔

وہ یہ بھی جانتی تھی کہ رحہ کو صفیر سے محبت نہیں ہے مگر وہ پھر بھی اپنے ماں باپ کے لئے قربانی دے رہی تھی لیکن کیا فائدہ ہوا اس سب کا سب کچھ تو برباد ہوگیا وہ اکیلے رہ گئے۔

وہ خاموشی سے ایک طرف بیٹھی رو رہی تھی جب دروازہ بجنے پر وہ چونکی تھی۔

"اس وقت کون آگیا ؟"گھڑی میں وقت دیکھتے وہ چونکی تھی اور پھر اٹھ کر آنسو صاف کر کے باہر آئی تو صفیر کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔

"سدرہ میں ہوں دروازہ کھولو۔۔۔"

"صفیر بھائی"صفیر کی آواز سن اس نے جلدی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو وہ اندر داخل ہوا اسکے اندر داخل ہوتے ہی سدرہ نے دروازہ بند کیا تھا۔

"صفیر بھائی کچھ پتا چلا رحہ کا؟"اسے بیٹھتے دیکھ وہ بے چینی سے پوچھ بیٹھی تو صفیر نے نا میں سر ہلایا

"میں نے اپنے بڑے آفیسر سے بات کی ہے سدرہ اب دیکھو کیا ہوتا ہے انکل آنٹی ٹھیک ہیں اب ؟'

"ٹھیک نہیں ہیں امی کی تو طبعیت ہی نہیں سنبھل رہی ہے ابا بھی کوشش کر رہے ہیں مگر وہ کمزور ہیں نہیں کر سکتے کچھ کھو دیا ہے ہم نے رحہ کو"اسے بتاتے بتاتے وہ رو دی تو صفیر کو سمجھ نہیں آیا وہ اسے کیسے چپ کروائے۔۔

"پریشان نہیں ہو میں نے اوپر بات کی ہے دیکھنا وہ ہمیں ضرور ملے گی۔۔"اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ صفیر نے اسے تسلی دی تو وہ سر ہلا گئی۔

"آپ تھک گئے ہونگے میں کھانا لاتی ہوں فریش ہو جائیں"اپنی غلطی کا احساس ہوا تو شرمندہ ہوتی وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی

صفیر اسکی شرمندگی سمجھ گیا تھا جبھی خاموشی سے سر ہلا کر فریش ہونے چلا گیا۔

جب سے رحہ غائب ہوئی تھی وہ شاذونادر ہی گھر جاتا تھا اور اب بھی وہ صبح سے اسکے لئے خوار ہو رہا تھا۔

سدرہ نے اسے کھانا لا کر دیا تو چپ چاپ کھانا کھانے لگا دماغ بالکل کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل فلحال نہیں تھا

"صفیر بھائی آپ خود کو پریشان مت کریں ہلکان مت کریں انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ خود کو تھکاو مت "اسکی ٹوٹی حالت پر سدرہ کو ترس آیا تھا وہ خود بھی مضبوط بنی ہوئی تھی کیونکہ اب ماں باپ کا واحد سہارا وہی تھی۔

_________

اس اندھیرے کمرے میں رہ رہ کر وہ روشنی کو بھول گئی تھی وہ شخص اس کا آیا ابھی تک واپس نہیں آیا تھا اور وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی آج اسے یہاں آئے ہفتہ ہوگیا تھا اور یہ گزرا ایک ہفتہ اس کے لئے کسی سال سے کم نہیں تھا اذیت تکلیف۔۔۔

رو رو کر اب آنکھیں بھی خشک ہوگئی تھی زندہ رہنا نہیں چاہتی تھی مگر پھر بھی زندہ رہنا تھا یہ اسکی مجبوری تھی کھانا پانی وقت پر اسکے لئے آ جاتا تھا وہ ابھی تک اپنے اغوا کا مقصد نہیں سمجھ پارہی تھی۔

وہ کوئی امیر ترین لڑکی نہیں تھی کہ جس کی دولت کے لئے اسے اغوا کیا جائے۔

یہ گتھی سلجھنے کے بجائے مزید الجھتی جارہی تھی۔۔

کھانے کی ٹرے ایک طرف کر وہ اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئی اور خود کو چادر میں چھپا لیا۔

اس جگہ اسکے لئے ضرورت ہی ہر چ

شہ دی مگر پھر بھی سب اندھیرا تھا۔

وہ گہری سوچ میں تھی جب دروازہ کھلا تھا

وہ ایک دم سے سمٹی تھی خود میں۔

"اٹھو باہر چلو کنگ کا حکم ہے تمہیں باہر لایا جائے"سبحان کی کرخت آواز پر وہ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

سبحان کا چہرہ ماسک سے چھپا ہوا تھا۔

چادر کو اچھے سے لپیٹے وہ مرے قدموں سے اسکے ہمراہ باہر آئی تو اتنے دنوں بعد سورج کی روشنی دیکھ اسکی آنکھیں چندھیا گئی تھیں۔

اس نے بے اختیار آنکھوں پر ہاتھ رکھا ۔

سبحان نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا تو گہرا سانس بھرا۔

"جلدی کرو فوراً میرے پیچھے آؤ۔۔۔"

غصے سے کہتا وہ آگے بڑھا تو وہ آہستہ سے اسکے پیچھے چلنے لگی۔

عجیب سی سنسان راہداری یہ کوئی بہت پرانا سا گھر تھا یا کوئی عمارت۔۔

اسکے پیچھے چلتے چلتے وہ ایک کمرے میں داخل ہوئے تھے۔

وہ بڑا سا کمرہ جس کے وسط میں ایک بڑی سی ٹیبل رکھی تھی۔

اور اس ٹیبل کے دوسرے سرے پر وہ براجمان تھا جس سے اسے اس دنیا میں سب سے زیادہ نفرت تھی۔

"کیسا لگ رہا ہے اتنے دنوں بعد سورج دیکھ کر ؟"آہستہ سے آگے ہو کر ہاتھ ٹیبل پر رکھتے وہ مزے سے بولا تو رحہ کا دل کیا اسکے سامنے رکھی بوتل سے اس شخص کا سر پھاڑ دے۔

"جواب نہیں دو گی؟"

اسے آپس میں ہونٹ پیوست کرے دیکھ وہ سپاٹ لہجے میں بولا تو رحہ نے غصے سے منہ پھیرا۔

کنگ کا قہقہ اس کمرے میں گونجا تھا۔

"چلو مت جواب دو میں تمہیں دے دیتا ہوں جواب۔۔"اپنی جگہ سے اٹھتے وہ آہستہ سے اسکی جانب بڑھا تو اسکی جان خشک ہوئی تھی۔

غیر محسوس انداز میں اس نے اپنے قدم پیچھے لئے تھے مگر وہ زیادہ پیچھے ہو نا سکی کیونکہ وہ ایک جست میں اس تک پہنچ اسے دیوار سے لگا گیا۔

"بیت وقت لے لیا اب نکاح کی تیاری کرو آج شام نکاح ہے ہمارا"اسکے چہرے پر آئی لٹ کو پھونک سے پیچھے کرتا وہ اسکی جان اپنے لفظوں سے نکال گیا تھا۔

"نہیں کرنی تم سے شادی مار دو مجھے "اسکے سینے پر ہاتھ مارتے وہ چلائی تو کنگ نے ناگواری سے اسے دیکھا۔

"تھوڑی آواز رات کے لئے بھی بچا کر۔ رکھو تب زیادہ چلانے کی ضرورت پیش آئے گی۔"زومعنی انداز میں کہتا وہ اسکو شرمندہ کر گیا تھا

"تم سے نفرت ہے تھی اور رہے گی کچھ بھی کر لو مگر دیکھنا تمہیں سزا مل کر رہے گی۔"غصے سے کہتے اس نے اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کیا تھا۔۔

"چلو دیکھتے ہیں تم بھی یہی ہو اور میں بھی"اسی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے وہ چیلنج دینے کے انداز میں بولتا اسے آگ لگا گیا۔

سبحان کی ہمراہی میں وہ واپس کمرے میں آتے آتے بہت کچھ سوچ چکی تھی اسے یہاں سے نکلنا تھا ہر حال میں۔۔

_______

ٹیبل پر فائل پھینکتے وہ اپنی جگہ سے اٹھا تو صبور بھی ساتھ اٹھا تھا۔

"اس کیس پر کام کرو مجھے ایک کام سے جانا ہے تو کل تک اسے سالو کر کے رکھنا ۔"

صبور کو ہدایت دیتا وہ اپنے اپارٹمنٹ آیا تھا۔

گھر میں جیسے ہی اس نے قدم رکھا دل پر بوجھ سا آیا تھا

بکھرا گھر ۔۔۔ خالی کچن ۔

وہ اپنے کام میں اتنا مگن رہتا تھا اسے زرا وقت نہیں تھا کہ وہ یہ سب کر سکے دوسرا میڈ نے ابھی نوکری چھوڑی تھی تو ۔۔

"اففففف " سارا سامان پیروں سے ایک طرف کر وہ الماری کی طرف بڑھا تھا کام تو اس نے کرنا تھا نہین کیونکہ اسے ابھی کسی کام سے جانا تھا۔

اپنی تیاری مکمل کرتا وہ گھر لاک کرتا اپنی منزل پر روانہ ہوا تھا

________

شام کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے اسکے سامنے دولہن کا لباس موجود تھا جسے اس نے خاموشی سے اٹھایا اور تیار ہونے چل دی۔

سبحان اسے کھانا دینے آیا تو اسے دولہن کے لباس میں دیکھ ٹھٹکا تھا۔

مگر بولا کچھ نہیں۔

آرام سے کھانا کھا کر اس نے خود کو تیار کیا اور پھر انتظار کرنے کے بجائے اس نے آنکھیں بند کر خود کو پرسکون کیا تھا

دماغ تیری سے تانے بانے بن رہا تھا۔۔

"رحہ یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا ہر صورت یہاں سے نکلنا ہے کچھ بھی کر کے"خود سے کہتے اس نے اپنے پلو میں کچھ چھپایا تھا۔

سورج کب کا ڈھل چکا تھا وہ تیار تھی کہ دروازہ کھلا تھا وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی۔

سامنے ہی سبحان تھا۔

"گڈ اچھا ہے تمہارے لئے "اسے خاموشی سے کھڑا ہوتا دیکھ اس نے طنزیہ کہا تو وہ اسے اگنور کرکے آگے بڑھ گئی ۔

اسے آگے بڑھتے دیکھ وہ جلدی سے اسکے آگے آیا تھا تاکہ اسے لے کر جا سکے۔

رحہ کے پاس صرف چند منٹ تھے اسے یہاں سے نکلنا تھا ہر حال میں۔

تبھی تھوڑا اندھیری جگہ آتے کی اس نے ہاتھ میں موجود وہ گولڈن پیس پوری قوت سے سبحان کے سر پر مارا تھا کہ وہ درد سے کراہتا ایک طرف گرا تھا۔

بنا اسکی فکر کئے وہ تیزی سے باہری راستے کی جانب بھاگی تھی۔

دن کی روشنی میں دیکھا گیا راستہ ابھی ڈھونڈنا اتنا مشکل نہیں تھا جبھی تیزی سے بھاگتے وہ اس عمارت سے نکلی تھی۔۔

وہیں دوسری طرف جمیل نے ہاتھ بڑھا کر سبحان کو اٹھایا۔

"ناٹک اچھا کرتے ہو چلو اب"سبحان کو سہارا دئیے وہ اندر کی طرف بڑھا تھا۔

___________

مخملی نائٹی پہنے وہ اس ادھیڑ عمر آدمی کی بانہوں میں قید تھی۔

"یہ زندگی پہلے کبھی اتنی حسین نہیں لگی"ماہ جبیں کی کمر پر ہاتھ رکھ اسے قریب کرتے اس آدمی نے اسکی گردن کو اپنے لبوں سے چھوا تو وہ ایک ادا سے مسکراتی اپنی نائٹی کا گاؤں اتار گئی۔

"اففففف یہ ادا"اسکے جسم کو چھوتے وہ آدمی مدہوش ہو رہا تھا۔

ماہ جبیں نے شر••ب کا گلاس اسکے لبوں سے لگایا تو وہ مدہوش سا اسے پینے لگا

ماہ جبیں نے آہستہ سے اسکی شرٹ کو اتارا تو وہ جیسے خوشی سے پاگل ہوگیا۔

"سیٹھ تمہارا دھندا تو خوب چل رہا ہے کیا مزے سے یہاں اپنا سامان سپلائے کر رہے"اسکے گال پر لب رکھتے وہ مسکرا کر بولی۔

"ارے یہ تو کچھ نہیں ابھی تو بڑا دور تک میرا مال جانا ہے اگلے ہفتے دبئی ایک کنسائمنٹ جاری ہے دیکھنا تجھے پیسے میں تول دونگا"اسکے لمس سے پاگل ہوتے وہ اس پر قابض ہوگیا تھا اور ماہ جبیں جانتی تھی اپنا کام کیسے پورا کروانا ہے

_________

رات ہو چکی تھی اسے اپنے کام سے فارغ ہوتے ہوتے۔

اب وہ تیزی سے گھر کی جانب جارہا تھا۔

ٹھنڈ بڑھتی جارہی تھی۔

روڈ پر ٹریفک نا ہونے کے برابر تھا۔

اس نے جیسے ہی یو ٹرن لیا کوئی اس کی گاڑی سے آکر ایک سے ٹکرایا تھا

اس سے پہلے بڑا نقصان ہوتا اس نے گاڑی کو بریک لگائی تھی۔

"شٹ"

تیزی سے گاڑی سے اترتے وہ باہر آیا تو سامنے زمین پر دولہن بنی ایک لڑکی کو موجود پایا جس کے ہاتھ پیر پر بندھے رسیوں کے نشان اسے ٹھٹکا گئے تھے۔۔۔

"اے کون ہو تم؟"

اسکے پاس جھک کر بیٹھتے وہ بولا تو رحہ نے زرا سا ہمت کر خود کو سنبھالا تھا۔

"میری مدد۔۔۔۔"

اتنا کہتے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئی تھی جب کہ اسکا چہرہ دیکھ وجدان پوری طرح سے ٹھٹکا تھا

گاڑی روکنے کی آواز سن ان دونوں نے بیچارگی سے ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔

سبحان کے سر پر پٹی بندھی تھی۔

اسکا دل بری طرح دھڑک رہا تھا اتنا بڑا قدم اٹھا تو لیا تھا مگر اب اگلا لمحہ اسکی سانسیں تک چھین سکتا تھا۔

وہ غیض و غضب کی تصویر بنا وہاں آیا تھا۔

"آخر اتنی بڑی لاپرواہی کیسے؟"ٹیبل کو ٹھوکروں میں اڑاتا وہ آندھی طوفان بنا اندر داخل ہوا تو ان دونوں کی سانس خشک ہوئی تھی۔

"کنگ وہ۔۔۔۔" کپکپاتے لہجے میں۔ جمیل اتنا ہی بول سکا اور آہستہ سے سبحان کی طرف اشارہ کیا۔

جس کے سر پر بندھی پٹی دیکھ کنگ کی آنکھوں میں خون اترا تھا

"ڈھونڈو اسے جیمل ہر حال میں چاہیے مجھے وہ اس سے پہلے وہ اپنے گھر پیچے دبوچ کر لاؤ اسے میرے بندے پر ہاتھ اٹھانے کی کڑی سزا ملے گی چاہے کچھ بھی ہو جائے "سبحان کا زخمی سر دیکھتے وہ غرایا تھا۔

"کنگ وہ کہیں نہیں ہے میں ڈھونڈ آیا ہوں".جمیل کی بات پر اس نے کانچ کی ٹیبل کو زور سے ٹہوکر ماری تھی۔

"بندے لگاؤ کام پر جمیل مجھے وہ یہاں چاہیے چاہے کچھ بھی ہو جائے آئی سمجھ"پاگل دیوانہ وہ وہاں سے نکلا تھا۔

اور اسکے جاتے ہی ان دونوں نے سکون کا سانس بھرا تھا

"ڈھونڈو اسے ورنہ کنگ ہمیں ہمیشہ کے لئے گم کر دے گا"اسے خونخوار نظروں سے گھورتے جمیل نے کہا تو وہ سر کھجا گیا۔

ان کی نظر میں اسکا یہاں رہنا ان دونوں کے کام خراب کر رہا تھا

اس لئے ان دونوں نے مل کر اسے یہاں سے آزاد کروایا تھا اور اگر یہ بات کنگ کو پتا چلتی تو وہ دونوں اپنی جان سے جاتے اسی لئے انہوں نے ایسا ظاہر کیا تھا کہ وہ اسے زخمی کر کے بھاگی ہے

"میں زخمی ہوں تم ڈھونڈو اسے "سبحان کے ہری جھنڈی دیکھانے پر جمیل کھول اٹھا مگر فلحال کچھ بھی بول کر وہ اپنا سکون تو بالکل غارت نہیں کر سکتا تھا۔

_______

مندی مندی آنکھیں کھول اس نے اپنے بھاری ہوتے سر کو تھاما تھا۔

جسم میں درد سے ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔

کمزوری و نقاہت حد سے زیادہ تھی۔

اسے لمحے لگے تھے خود کو نارمل حالت میں لانے میں اور جب دماغ سکون میں آیا تو گزرا وقت کسی فلم کی ماند اسکے سامنے آیا تھا۔

وہ ایک سے گھبرائی تھی۔

اور چاروں طرف نظر دوڑائی تو خود کو ایک کمرے میں پایا۔

یہ کمرہ اس کمرے سے تو ہزار گنا بڑا تھا کھلا ہوا دار۔۔

وہ ابھی سوچوں میں گم تھی جب کمرے کے دروازہ کھلا تھا۔

اور دروازے کی آواز سن اسکا دل حلق میں آیا تھا خوف سے اس نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑا تھا۔

کمرے میں داخل ہوتے وجدان نے بغور اسکے تاثرات دیکھے تھے۔

"ریلکس"اسے اشارے سے ریلکس ہونے کا کہتا ہو اسکے پاس آکر کھڑا ہوا تو رحہ نے سر جھکایا تھا۔

"کون ہیں آپ ؟"جھکے سر کے ساتھ اس نے پوچھا تو وجدان نے اسکا جھکا سر دیکھا

"یہ سوال تو مجھے پوچھنا چاہیے اتنی رات کو میری گاڑی کے سامنے آپ آئی تھیں میں نہیں"

"تو آپ نہیں بچاتے میں مرنا چاہتی ہوں پلیز مجھے یہاں نہیں رہنا "

اتنا کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تو وجدان نے گہرا سانس بھرا۔

"دیکھیں میں ایک پولیس آفیسر ہوں آپ مجھ پر یقین کر سکتی ہیں"

اسکے پاس بیٹھتے وجدان نے اسے اپنا کارڈ دیکھایا تو وہ سوچ میں پڑ گئی۔

اور پھر کچھ سوچتے اس نے سب کچھ اسے بتایا شروع سے آخر تک ایک ایک لفظ اسے بتایا تھا اور اسکی باتوں پر وجدان کو جھٹکا لگا تھا۔

تو کیا یہ انسپکٹر صفیر کی۔۔۔۔

وہ بس سوچ کر رہ گیا۔

"کنگ یہی نام لیا نا آپ نے؟"

"جی"

"وہ ایک بہت خطرناک انسان ہے مجھے حیرت ہے اسکے ساتھ رہ کر آپ اب تک محفوظ کیسے رہی ہیں"

"مجھے نہیں پتا لیکن مجھے بس وہاں واپس نہیں جانا پلیز میری ہیلپ کردیں "

"ٹھیک ہے میں آپ کی مدد کروں گا لیکن کیا آپ اپنے گھر جانا چاہتی ہیں وہ کنگ ہے وہ آپ کو کہیں بھی ڈھونڈ لے گا"وجدان کی بات پر اس نے خوفزدہ ہو کر اسے دیکھا تھا۔

"تو اب میں کہاں جاؤں گی اور میرا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے"

"فلحال جب تک وہ آپ کی تلاش بند نہیں کردیتا آپ یہاں میرے گھر میں رہ سکتی ہیں"وجدان کو فلحال ایک یہی حل نظر آیا تھا۔

"میں یہاں کیسے؟"اس نے پریشانی سے اسے دیکھا اس سے پہلے وجدان اسے کوئی جواب دیتا اسکا فون بجا تھا۔

نمبر دیکھ اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔

"آپ آرام کریں میں بات کر کے آیا"اسے کہتے وہ باہر اپنے روم میں آیا اور فون ریسو کیا

"اسلام وعلیکم"

"وعلیکم السلام کیسی اولاد دی ہے اللہ نے مجھے جو مجال ہے خود سے کبھی ماں کو فون کرکے"تسنیم بیگم کی آواز پر اس دانتوں تلے لب دبایا۔

"یار اماں آپ کو پتا تو ہے میری روٹین "

"ہاں بس اس نوکری کے چکر میں بوڑھا ہوجانا میں بتا رہی ہوں وجدان مجھے تیری دولہن کو دیکھنا ہے تو آ گاؤں یہاں بہت رشتے ہیں کسی سے بھی تیرا نکاح کردوں گی تاکہ مرنے سے پہلے اپنے پوتے پوتیوں کا چہرہ تو دیکھ سکوں"

"اماں۔۔۔"ان کے مرنے کی بات پر وہ تڑپا تھا۔

"کوئی اماں نہیں جب تک مجھے بہو نہیں مل جاتی تو مجھے اپنی ماں نہیں کہے گا اب ایسے تو ایسے ہی سہی۔۔"

غصے سے کھولتے وہ فون بند کرگئیں تو اس نے گہرا سانس بھرا تھا

پہلے ہی زندگی میں اتنے مسئلے تھے اب یہ ایک اور نیا مسئلہ۔

فون بند کر کے وہ جیسے ہی مڑا ڈور بیل کی آواز سن وہ دروازے تک آیا تھا جہاں صبور اس کا منتظر تھا۔

"آجاؤ صبور"

"خیریت ہے سب باس یہ لیڈیز کپڑے؟"اس نے رحہ کے لئے کچھ سامان منگوایا تھا اور وہی صبور دینے آیا تھا۔

"کیا ہوا کیوں پریشان لگ رہے ہیں"اسکے تاثرات دیکھ صبور کو ہنسی آئی تھی مگر وہ یہ گستاخی نہیں کرسکتا تھا۔

صبور کے پوچھنے پر وہ اسے سب بتاتا چلے گیا تو اسکی باتوں پر وہ خود بھی پریشان ہوا تھا مگر یہ پریشانی وقتی تھی۔۔

"میرے پاس ایک حل ہے آپ کے مسئلے کا اگر آپ راضی ہوں"

"کیسا حل؟"

"آپ اور رحہ میڈم شادی کرلیں اس طرح انہیں رہنے کو چھت بھی مل جائے گی اور آپ کو اس شادی نامی بلا سے چھٹکارا آنٹی پھر آپ کے ساتھ زبردستی بھی نہیں کرینگی۔

جب معاملات ٹھیک ہو جائیں تو رحہ میڈم جہاں جانا چاہیں جا سکتی ہیں"

"دماغ خراب ہے تمہارا وہ لڑکی جو مجھے ابھی چند گھنٹے پہلے ملی ہے میں اس سے شادی کرلوں ناممکن"

"باس اس طرح ہمیں کنگ تک رسائی مل سکتی ہے آپ کا فائدہ زیادہ ہے"صبور کی بات وہ سوچ میں ضرور پڑا تھا مگر اتنی جلدی وہ ایسا کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔

"آپ سوچیں اس بات پر میں چلتا ہوں کچھ ضروری کام ہے"اسے راستہ دیکھاتا صبور وہاں سے گیا تو وہ اندر کمرے میں آیا جہاں وہ کھڑکی کے سامنے کھڑی تھی۔

"یہ کپڑے ہیں اور کچھ سامان آپ کے لئے۔۔۔"ٹیبل پر سامان رکھتے اس نے رحہ کو متوجہ کیا تو اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر سامان کو۔

"آپ پلیز مجھے کسی دارلامان میں چھوڑ آئیں "

"کیوں؟"اسکی بات پر وجدان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔

"میں کسی پر بوجھ نہیں بن سکتی میں نہیں چاہتی کہ میں واپس گھر جاؤں اور میرے گھر والوں کے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو"

اسکے آگے ہاتھ جوڑتے وہ روہانسی ہوئی تو وجدان نے لمحے کو کچھ سوچا۔

"میرے پاس اس مسئلے کا ایک حل ہے مگر شاید آپ کے منظور نا ہو"

"کیسا حل؟"اس نے چونک کر وجدان کو دیکھا

"آپ مجھ سے نکاح کر سکتی ہیں جب تک کنگ کا مسئلہ حل نا ہو جائے اس طرح آپ کو کہیں جانا بھی نہیں پڑے گا اور آپ ایک محفوظ جگہ پر رہ لینگی دوسرا میری مدد بھی ہوجائے گی."

"کیسی مدد؟"اسکی بات پر وہ حیرت زدہ تھی مگر مدد کے نام پر اسکے کان کھڑے ہوئے تھے۔

"میری مدر چاہتی ہیں کہ میں شادی کرلوں مگر میں فلحال کسی بھی رشتے میں بندھنے کا رسک نہیں لے سکتا کیونکہ میری اپنی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آپ سے نکاح سے ہم دونوں کا فایدہ ہوگا میری ماں بھی مجھے شادی کے لئے فورس نہیں کرینگی اور آپ کو بھی گھر مل جائے گا جب حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو آپ جہاں مرضی چاہیں جا سکتی ہیں"

وجدان کی بات پر وہ واقعی سوچ میں پڑ گئی تھی کیا واقعی ایسا کرنے سے اسکے مسئلے حل ہو جائیں گے؟

"دیکھو یہ سب تمہارے مرضی کے ساتھ ہوگا میں بس اس کنگ تک پہنچنا چاہتا ہوں جس نے ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی برباد کردی تمہیں پتا ہے آج تک ایک بھی لڑکی زندہ نہیں ملی ہے"

"جانتی ہوں میں نے نیوز میں دیکھا تھا مگر میں نہیں جانتی اس نے آج تک کیوں مجھے نقصان نہیں پہنچایا حالانکہ میں نے اس سے بہت زیادہ نفرت کا اظہار کیا تھا"

"وہ اس لئے کیونکہ تم سے ضرور اسکا کوئی نا کوئی مطلب جڑا ہے اور اگر ایسا ہے تو وہ تمہیں ڈھونڈنے کے لئے سب پاگل ہورہا ہو گا "

"تو کیا وہ میرے ماں باپ کو بھی نقصان پہنچائے گا اب ؟"

ایک نئے ڈر نے سر اٹھایا تو وجدان نے اسکا معصوم سا چہرہ دیکھا۔

"جب تک تم ان لوگوں کے پاس نہیں ہو تب تک وہ لوگ محفوظ ہیں وہ سب سے پہلے تمہارے گھر اور قریبی رشتہ داروں میں تمہیں ڈھونڈے گا اگر تم نہیں ہونگی تو وہ انہیں کچھ نہیں کرے گا"

وجدان کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا

"مجھے اپنے گھر کا ایڈریس دو فوراً"وجدان نے اتنے اچانک کہا کہ رحہ نے چونک کر اسے دیکھا

"ان لوگوں کی حفاظت بہت ضروری ہے مس رحہ"

اس کی بات کا مطلب سمجھتے اس نے جلدی سے اپنا ایڈریس اسے لکھوایا تھا

اور پھر بہت سوچنے کے بعد وہ اس فیصلے پر پہنچی تھی کہ اسے وجدان سے یہ نام کی شادی کرنی ہے...

"میں آپ سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں"اسے واپس جاتے دیکھ وہ جلدی سے بولی تو وجدان کے باہر کو بڑھتے قدم رکے تھے۔

"کل میں نکاح خواں کو بلا لونگا."

"مگر میرے ولی؟"اسے باہر بڑھتے دیکھ وہ ایک بار پھر بولی تو وجدان نے گہرا سانس بھرا۔

"حالات آپ کے سامنے ہیں ہم کسی کو آپ کی یہاں موجودگی کا نہیں بتا سکتے۔۔۔"

"مولوی سے پوچھ لونگا اور پھر اسکے بعد ہی یہ نکاح ہوگا آپ بے فکر رہیں"

اسے کہہ کر وہ رکا نہیں تھا اور اسکے جاتے ہی آنسوؤں نے تواتر سے رحہ کے بال بھگوئے تھے کیوں زندگی اتنی مشکل ہوگئی تھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔

_______________

"کیا خبر ہے تیرے پاس"اس آدمی کی کڑک آواز پر اس نے اپنی ساڑھی میں چھپا وہ انوالپ اسکے آگے پھینکا تھا اور ایسی جرات وہی کر سکتی تھی۔

"اس میں ہے سارہ خبریں اور اگر آئندہ میرے سے ایسے بات کی تو یاد رکھنا تمہارے لئے کام کرنا بند "اسکے لہجے پر وہ سلگ کر بولی تو آدمی کے ماتھے پر بل آئے تھے۔

ایک طوائف ہو کر مجھے تیور دیکھا رہی ہے کیا اوقات بھول گئی ہے اپنی؟"

"مجھے میری اوقات تو بہت اچھے سے بتا ہے سرکار کہ تم جیسے عزت دار لوگ بھی اپنی اوقات بھول کر اکثر ہم طوائفوں کے قدموں میں ڈھیر ہوئے نظر آتے ہو"اسکی کاٹ دار آواز پر سامنے والے کے چہرے کا رنگ سرخ ہوا تھا۔

"بڑی زبان آگئی ہے ماہ جبیں بائی ؟"

"جب کام بڑے کرتی ہوں تو زبان بھی بڑی کرنی ہی پڑتی ہے ورنہ تیرے جیسے مجھے نوچ کھانے کو تیار رہتے ہیں"زہریلے انداز میں کہتی وہ واپسی کے لئے مڑی تھی اس آدمی نے بےبسی سے مٹھیاں بھینچی کیونکہ وہ چاہ کر بھی اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا کیونکہ وہ اس جگہ تھی جہاں کوئی نہیں تھا۔

"ایک بار مطلب پورا ہوجائے پھر نکالتا ہوں میں تیری اکڑ"غصے سے بڑبڑاتا وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا اور اسکے جاتے ہی دروازے کی اوٹ سے ماہ جبیں کی چمچی برآمد ہوئی تھی۔

"بائی اسکا کیا کرنا ہے وہ حد سے زیادہ بکواس کر رہا تھا "

"کرنے دے گلابو کرنے دے ابھی وہ بس زبان ہی چلا سکتا ہے بہت مگر آگے جا کر اسکے قابل بھی نہیں رہے گا"

حقارت سے کہتے وہ قہقہ لگا اٹھی تھی۔

"یہ میری دنیا ہے اور یہاں صرف میری مرضی چلتی ہے میرا سکہ چلتا ہے کتنے آئے کتنے گئے کیا کبھی غائب ہونے والے کی کسی نے خبر لی ؟"

اس کی بات پر گلابو ہنس پڑی۔

"چل جا تیاری کر میری آج بڑے نواب کو عیش کروانے ہے"بال کو چوٹی سے آزاد کرتی وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی۔

___________

نکاح خواں کے ساتھ صبور اپنے چند دوستوں کو لایا تھا تا کہ یہ نکاح ہو سکے۔

اندر وہ بیٹھی اپنی قسمت کی ستم ظرفی پر ماتم کے سوا کچھ نہیں کر سکتی تھی ایک دلدل سے نکلی تو ایک نئی پریشانی نے اسے گھیر لیا تھا ایک اجنبی جسے وہ جانتی تک نہیں تھی اس سے شادی کرنا اس کے لئے اس دنیا میں سب سے مشکل کام تھا مگر اس نے یہ کرنا تھا اپنے گھر والوں کی حفاظت کے لئے۔

چند دنوں میں ہی اسکی زندگی ایک دم سے تبدیل ہوگئی تھی کہ اس طرح تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

کچھ دیر بعد نکاحِ خواں آئے اور نکاح کی رسم ادا کی۔

وہ منٹوں میں ایک اجنبی کے ساتھ باندھ دی گئی تھی۔

اب ایک نئی کہانی کا آغاز ہونے لگا تھا جس سے وہ انجان تھی۔۔

کنگ کے کتے پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈ رہے تھے اور جمیل اور سبحان ایک طرف کھڑے اسے دیکھ رہے تھے جو بپھرے شیر کی طرح بھڑکا ہوا تھا۔

"کنگ ریلکس وہ مل جائے گی"

"مل جائے گی کیسے ملے گی ہاں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا جو وہ غائب ہوگئی۔۔"

"کنگ تم نے اپنے بندوں کو لگایا تو ہے کام پر وہ ڈھونڈ لینگے اسے "

"ہممم ملنا تو اسے پڑے گا چاہے وہ پاتال میں ہی کیوں نا چلی جائے "اس کے لہجے میں ایک عجیب سی آنچ تھی۔

"اسکے گھر کے باہر آدمی سب سے پہلے بھیجے تھے مگر وہ ابھی وہاں نہیں گئی ہے کنگ اسکا باپ اور منگیتر اسے ابھی بھی ڈھونڈ رہے ہیں"

"ماں باپ کے پاس جانے کی غلطی وہ کبھی نہیں کرے گی اتنی بیوقوف نہیں ہے وہ کہ اتنا بڑا قدم اٹھائے اور ماں باپ کے لئے مصیبت کھڑی کرے۔ وہ ضرور کسی دارالامان گئی ہوگی۔۔ اس شہر کے سارے دارالامان کھنگالو۔

"باس ہوسکتا ہو شہر سے باہر نکل گئی ہو"سبحان کی بات پر کنگ نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔

"یہ سب تمہاری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے شکر کرو کے ابھی تک زندہ سلامت ہو ورنہ آج تمہارے ٹکڑے بھی کسی کو نہیں ملتے۔۔۔"وہ سبحان پر غرایا تو خوف سے اسکا دل کانپا تھا وہ واقعی کنگ تھا جو کچھ بھی کر سکتا تھا۔

"جمیل سارے بس اڈوں اسٹیشن پر آدمی بھیجو وہ مجھے زندہ چاہیے جس دن وہ مجھے مل گئے نا اس دن اسے پتا چلے گا کنگ سے دھوکہ کر کے کتنی بڑی غلطی کی ہے اس نے کنگ اسے سر پر بٹھانے چلا تھا مگر وہ قدموں میں رہنا چاہتی ہے تو ایسا ہی سہی"اس کے لہجے میں سوائے نفرت کے اسکے لئے اور کچھ بھی نہیں تھا

سبحان اور جمیل خاموشی سے اسکا یہ جنون بھرا انداز دیکھ رہے تھے ناجانے کتنی لڑکیاں آئیں اور گئیں مگر کسی لڑکی کے لئے کنگ کی اتنی جنونیت دیکھ وہ دونوں بھی اب خوفزدہ ہوگئے تھے اپنے ساتھ ان دونوں نے اس لڑکی کو بھی ایک نا ختم ہونے والے عذاب میں جھونک دیا تھا۔

وہ ایک آتش تھا ایک آگ کو خود تو جلتی تھی مگر اپنے ساتھ وہ دوسروں کو بھی جلا کر خاکستر کر دیتی تھی۔

ایک ایسا لاوا تھا وہ کو کبھی ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا اور اس آگ پر اس لڑکی کے بھاگنے نے گھی کا کام کیا تھا۔

"سبحان اسے کیسے بھی کر کے ڈھونڈنا ہے ہم نے" جمیل کی بات پر کچھ سوچتا سبحان چونک اٹھا تھا۔

"کیسے ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا وہ کہاں ہے اس وقت٫

"معلوم کرنا پڑے گا ورنہ کنگ پاگل ہو جائے اور جب وہ اس لیول پر جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے یہ تو بھی جانتا ہے"

سبحان اس کی بات پر سر ہلا گیا یہی تو سب سے بڑا ڈر تھا ان دونوں کو کہ وہ جنون کی حد تک نا جائے مگر اب بہت دیر ہوگئی تھی اب اسے ڈھونڈنے کے سوا ان دونوں کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔۔

__________

بیڈ پر بیٹھے وہ بے آواز رو رہی تھی جس شخص سے اسکی شادی تھی وہ تو کہیں تھا ہی نہیں اور وہ خود کو کسی اور کو سونپ چکی تھی یہ نکاح مجبوری میں ہی سہی مگر اب ہوگیا تھا۔۔

گھنٹوں کے گرد بازو باندھے وہ اداس سی تھی جب کمرے کا دروازہ کھول وجدان اندر داخل ہوا تھا۔

اسے دیکھ وہ خود میں سمٹی تھی۔

"ٹھیک ہو ؟

اسکے پوچھنے وہ آنسو پونچھتے خاموشی سے ہاں میں سر ہلا گئی۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا بس تھوڑا سا وقت "

مجھے یقین ہے آپ پر"اتنا کہہ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی تھی کہ اچانک اسکا سر بری طرح چکرایا تھا۔

اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی وجدان نے آگے بڑھ کر اسے تھاما تھا۔

اس نے گھبرا کر وجدان کی شرٹ کو مٹھی میں جکڑا تھا۔

اسکی خوشبو اسکے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے گئی تھی۔

وجدان نے اسکی کمر کو مضبوطی سے پکڑا تو دونوں کا دل ایک ہی لے لے دھڑکا تھا۔

رحہ نے آنکھیں کھول اسے دیکھا جس کا چہرہ اسکے بے حد نزدیک تھا اتنا نزدیک کے اگر وہ کچھ کہتی تو اسکے لب وجدان کے لبوں سے ٹکراتے۔۔

وہ ایک دم سے اسکے پاس سے اٹھی تو وجدان ایک دم سیدھا ہوا تھا۔

دونوں کا دل پوری اسپیڈ سے دھڑک رہا تھا۔

"کھانا کھانے آجاؤ "

اتنا کہہ کر وہ رکا نہیں تھا اس کے جاتے ہی رحہ نے کھل کر سانس لی تھی۔۔

فریش ہو کر وہ باہر آئی تو وجدان نے اسکے لئے جگہ بنائی

تب وہ صوفے پر اسکے برابر بیٹھی تھی۔

ان دونوں نے مل کر کھانا کھایا اور پھر وہ سونے کے لئے اپنے کمرے میں آگئی جبکہ وجدان کسی کام سے باہر چلا گیا تھا۔

اتنا بکھرا گھر دیکھ اسے وحشت ہو رہی تھی مگر سر درد کے باعث وہ کچھ نہیں کر سکی اور گہری نیند میں اتر گئی۔

دوسری طرف وہ گھر سے نکل کر سیدھا صبور کے پاس آیا تھا۔

"آپ یہاں کیا کر رہے ہیں آج تو نکاح ہوا ہے آپ کا ؟

صبور کی بات پر وجدان نے گھور کر اسے دیکھا۔

"بہت نارمل حالات میں ہوا ہے نا یہ نکاح "

"باس اب ہو تو گیا ہے دیکھئے گا آخر میں آپ دونوں کو ایک دوسرے کو قبول کرنا پڑے گا "

صبور کی بات پر اس نے بیزاری دیکھائی۔

"فضول باتوں کے لئے ٹائم نہیں ہے میرے پاس "

"اچھا اچھا "

"بتاؤ کیا خبر ہے کنگ کے بارے میں؟"سیٹ پر بیٹھتے اس نے فائل اٹھائی تھی۔

"کچھ خاص نہیں اسکے آدمی ہیں جو یہاں وہاں بھابھی کی تلاش میں ہیں "

"کون بھابھی ؟"وجدان نے اسے چونک کر دیکھا

"باس ابھی تو نکاح ہوا اور آپ بھابی کو بھول بھی گئے؟"

"اپنا منہ بند کرنے کا کیا لو گے صبور ؟"

غصے سے فائل پھینکتے وہ غرایا تو صبور نے ہونٹوں پر انگلی رکھی تھی۔

"سوری باس "

"ویسے سر کلکٹر صاحب غائب ہیں آخر بار انہیں گھر سے نکلتے دیکھا گیا تھا اور اسکے بعد وہ گھر واپس نہیں آئے اتفاق سے وہ اپنا موبائل گھر ہی چھوڑ گئے تھے اس لئے کوئی خبر بھی نہیں ہے ان کی کوئی لوکیشن ٹریک نہیں ہو رہی ہے "

"ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنا بڑا کلکٹر بنا سیکیورٹی کے گھر سے نکلے اور موبائل بھی نا لے جائے"اس کیس کی فائل دیکھتے وہ پریشانی سے بولا۔

"سر بڑے آفیسر تیزی سے غائب ہو رہے ہیں آپ کو بڑے آفیسرز کے ساتھ میٹنگ کرنی چاہیے۔

"میٹنگ نہیں کرنی اب اپنا کام کرنا ہے سب کو الرٹ کردو اور صبور اب وقت آگیا ہے ایکشن کا"

"اوکے سر"اسے سلیوٹ کرتا وہ وہاں سے چلا گیا تو وجدان کے ماتھے پر پرسوچ لکیریں ابھری تھی وہ ایک قابل آفیسر تھا اور اسے جب کون سی چال چلنی تھی وہ بہت اچھے سے جانتا تھا

_________

"کیا ہوا کنگ پریشان ہو"اپنے لب کنگ کی گردن پر رکھتے ماہ جبیں اسکے سینے سے لگی تھی

"وہ لڑکی مجھے ہر حال میں چاہیے ماہ"

"ایسا کیا ہے اس لڑکی میں کہ میں بانہوں میں ہوں اور تمہیں اسکی یاد ستا رہی"

"وہ ایک ایسا مہرہ ہے جو مجھے میرے دشمن تک پہنچائے گا ضرور کوئی ایسا ہے جس کو اس کا پتا تھا تبھی تو اس رات "وہ بہت کچھ کہتے کہتے رک گیا تھا کیونکہ وہ کنگ تھا ماہ جبیں کو اس سے زیادہ شاید ہی کوئی جانتا ہوگا۔

"پریشان نہیں ہو کنگ وہ مل جائے گی "اسکے لبوں کو چھوتے وہ اسے بے فکر کرنے کی خاطر بولی تھی۔

مگر وہ بے فکر نہیں ہوسکتا تھا اتنے سالوں میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی اسکے چنگل سے نکل کر بھاگا ہو اور ایسا بھاگا کہ ابھی تک اسکا نام و نشان بھی نہیں مل رہا تھا۔

اسکا سر سینے پر سے ہٹا کر وہ اٹھا تو ماہ جبیں نے اسکی پشت کو دیکھا جو اب شرٹ پہن رہا تھا۔

"مت جاؤ کنگ آج تو مت جاؤ"وہ اس سے محبت کرتی تھی حد سے زیادہ

"یہاں رک کر میں مزید اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا جتنا وقت ضائع کرنا تھا میں نے کر لیا اب میرے پاس زرا وقت نہیں پولیس میرے پیچھے ہے اور مجھے ہر حال میں اس مشکل سے نکلنا ہے وہ دونوں ناکارہ ہو چکے ہیں میں اب دونوں پر بھروسہ نہیں کر سکتا "

اسکے ہاتھ تیزی سے بٹن بند کر رہے تھے۔۔

"تم کیوں ان راہوں پر چل نکلے ہو یہ تو تمہارا راستہ نہیں تھا تم تو ایسے نہیں تھے نا کنگ ؟تم تو کنگ بھی نہیں تھے"

اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ ماہ جبیں نے افسوس سے کہا تو اس نے غور سے سکا خوبصورت چہرہ دیکھا۔

"تم بھی تو ایسی نہیں تھیں نا جیسی ہو گئی ہو تم بھی تو ماہ جبیں بائی نہیں تھی نا"

مجھے حالات نے بائی بنایا ہے"

"اور مجھے کنگ تم اچھے سے میری سچائی جانتی ہو میں ایسا نہیں تھا لیکن ہوگیا کیونکہ مجھے ایسا بنایا گیا ہے میری معصومیت چھین لی گئی اور تم گواہ ہو اسکی اب میں اس ناسور کو ہی ختم کردوں گا جو مجھ سے ناجانے کتنے لوگوں کی زندگیاں برباد کر کے سکون سے بیٹھے ہیں انہیں اب سانس لینا بھی مشکل لگے گا اب انہیں پتا چلے گا کہ آخر کنگ ہے کون "

چہرے پر ماسک پہنتے وہ واپس سے اپنے خول میں گم ہوگیا تھا کوئی نہیں جانتا تھا وہ کیسے دیکھتا ہے سوائے ماہ جبیں کے۔۔۔

"میں روز دنیا کرتی ہوں تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ تاکہ کل کو کوئی ماہ جبیں بائی بننے پر مجبور نا ہو کوئی اپنی عزت ہر دوسرے مرد کے آگے ختم نا کرے"اسکے کندھے پر ہاتھ رکھ وہ نم لہجے میں کہتی اپنے آنسو صاف کرنے لگی اور یہ آنسو صرف اس انسان کے آگے ہی بہتے تھے ان دونوں۔کے دکھ ایک جیسے تھے کیونکہ وہ دونوں بھی ایک جیسے ہی تو تھے

ایک پل میں مظلوم تو دوسرے میں ظالم۔۔

___________

پوری رات اس نے اپنے کیس پر کام کیا تھا سر شدت سے دکھ رہا تھا وہ چائے بھی کئی بار پی چکا تھا مگر درد میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا تھا اور گھر کا سوچ ہی اسے کوفت ہو رہی تھی بکھر گھر اسکا موڈ خراب کر دیتا تھا مگر اب یہاں رہنا بھی محال تھا اسے نیند آرہی تھی اس لئے چابی لیتا وہ باہر آگیا اور گھر کا رخ کیا تھا۔

گاڑی پارک کر وہ اوپر آیا تو دل ودماغ پر بوجھ تھا مگر جیسے ہی اس نے گھر کے اندر قدم رکھا وہ بری طرح چونکا تھا۔

سامنے ہی صاف ستھرا گھر اسکا منتظر تھا پورے گھر میں اشتہا انگیز خوشبو پھیلی ہوئی تھی اور ایسا پہلی بار ہوا تھا۔

وہ اپنے کام میں تو سرے سے بھول ہی گیا تھا کہ کل ایک شخص کا اسکی زندگی میں اضافہ ہوا ہے

وہ کچن میں آیا تو وہ دوپٹہ سائیڈ رکھے مصروف تھی وجدان نے غور سے اسکے سراپے کو دیکھا تھا دل میں ایک تڑپ سی جاگیر تھی نظروں کی تپش محسوس کر وہ فوراً مڑی تھی

وجدان نے اس تمام عرصے میں اسے پہلی بار غور سے دیکھا تھا۔

نازک سے نقوش کھلی رنگت کمر کو چھوتے بال۔۔۔

وہ مبہوت ہوا تھا اسکے معصوم حسن کے آگے

جبھی بے اختیار ہوتا وہ اسکے سامنے آیا تھا

اس سے پہلے وہ کچھ سمجھتی وجدان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال اسے اپنے قریب کیا تھا۔

"یی۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ"دھڑکتے دل کے ساتھ اس نے وجدان کو خود سے دور کرنا چاہا مگر وہ بے اختیار ہوتا جھک کر اسکے نازک لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے گیا۔۔

رحہ کی جان نکلنے کے قریب تھی اس اچانک افتاد پر۔

اس نے شیلف کو مضبوطی سے تھاما تھا

وجدان مدہوش سا اسکے چہرے پر جھکا ہوا تھا تبھی اچانک ان کے پیچھے کچھ گرنے کی آواز آئ تو وہ دونوں ہی ایک دم ایک دوسرے سے دور ہوئے تھے اور جھٹکے سے مڑ کر پیچھا دیکھا جہاں ایک ادھیڑ عمر عورت کو کھڑے دیکھ رحہ نے خوف سے وجدان کا ہاتھ تھاما تھا۔

"مانا کہ شادی ہوگئی ہے مگر تھوڑا خیال بھی کر لیتے ہیں آس پاس کا "کرخت آواز وجدان کے کانوں سے ٹکرائی تو وہ جھٹکے سے مڑا تھا.

"اماں۔۔۔۔"خوشگوار حیرت کے ساتھ وہ آگے بڑھ کر ان کے گلے لگا تھا۔

"بتایا کیوں نہیں آنے کا میں لینے آجاتا"ان کا ہاتھ تھامے وہ محبت سے بولا تو انہوں نے ایک تھپڑ اسکے کندھے پر رسید کیا تھا۔

"بہو کو مجھ سے کیوں چھپایا وجدان اگر مجھے صبور نا بتاتا تو مجھے تو اندھیرے میں ہی رکھنا تھا تو نے"

"ایسا نہیں ہے اماں بس حالات ٹھیک نہیں تھے سب کچھ بہت اچانک ہوا تھا تو۔۔۔"سر کھجاتے وہ انہیں اپنے حصار میں لے گیا۔

"آج اس سے ملیں اماں یہ رحہ ہے آپ کی بہو اور رحہ یہ میری امی ہیں"آگے بڑھ کر رحہ کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب کیا تو اس نے بے ساختہ سر جھکایا تھا۔

"ماشاءاللہ بہت پیاری"وجدان سے الگ ہوتے انہوں نے اسے سینے سے لگایا تو اس کی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

"تجھے کیا پسند آیا اس بھوت میں لاڈو"ان کی بات پر جہاں وہ حیرت میں مبتلا ہوا تھا وہیں وہ ہولے سے مسکرائی تھی۔۔

اسکے سامنے عجیب سی صورتحال تھی تسنیم بیگم نے اسے اسے خود میں بھینچا ہوا تھا اور وہ بے بسی سے وجدان کو دیکھ رہی تھی جو اپنی ماں کو اتنے عرصے بعد اتنا خوش دیکھ رہا تھا۔

"بس کردیں اماں میری بیگم کی جان لینگی کیا"انہیں مسلسل اسے پیار کرتے دیکھ وہ انہیں ٹوک گیا تو ہنس پڑی۔

"تو نے اتنی بڑی خوشی دی ہے مجھے وجی میں لفظوں میں بیان نہیں کرسکتی ایسی چاند جیسی دولہن تو نے مجھے لا کر دی ہے"اسکا ماتھا چومتے وہ جذباتی ہوگئی تھیں۔

وجدان نے تھوڑا بہت سچ جھوٹ ملا کر انہیں بتایا تھا اور ہو مان گئی تھیں۔

وہ تو اسے سہی وقت پر ان کے آنے کا پتا چل گیا تھا ورنہ وہ لوگ بری طرح سے پکڑے جاتے۔۔

"میں آپ کے لئ

ے چائے لاتی ہوں"ان دونوں کو باتیں کرتا دیکھ وہ فوراً سے اٹھ کر کچن میں آگئی۔

دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ہونٹوں پر ابھی بھی اس شخص کا لمس محسوس ہو رہا تھا جان لبوں پر آگئی تھی۔

زرا سی قربت پر یہ حال تھا جب وہ حقیقت میں قریب آئے گا تب کیا ہوگا یہ سوچ آتے ہی اس کی جان نکلی تھی۔۔

اس کے پسینے چھوٹ گئے تھے حقیقت میں۔

باہر تسنیم بیگم وجدان کی کلاس لے رہی تھیں شادی چھپانے پر مگر اسے سب سے اچھا یہ لگا کہ وجدان نے اس پر زرا سی بھی آنچ نہیں آنے دی تھی۔۔

کچھ دیر بعد وہ باہر گئی تو وہ ان کے پاس بیٹھا انہیں منا رہا تھا اسے دیکھ تسنیم بیگم نے اسے اپنے آنے کو کہا تو وہ آہستہ سے چلتی ان کے برابر آکر بیٹھی تو انہوں نے مسکرا کر اسے دیکھا۔

"اس کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ رہی میں دیکھ کتنی معصوم سی ہے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ میرے پوتا پوتی تجھ پر نہیں جائیں گے میری بہو پر جائینگے"اسکے گال چٹا چٹ چومتی وہ ہنس کر بولی تو رحہ کو لگا وہ شرم سے سر نہیں اٹھا پائے گی۔۔

"اففف اماں ابھی ہماری شادی ہوئی ہے اور آپ کو پوتا پوتی یاد آرہے "اپنی خفت مٹانے کو وہ جلدی سے بولا۔

"مجھے نہیں پتا بس سب مجھے جلدی سے خوشخبری دو"وہ باضد ہوئیں تو وجدان نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا جو سر جھکائے بیٹھی تھی۔

"اب یہ بات اپنی بہو سے پوچھیں میں تو تیار ہوں"

اس کے ایک دم پینترا بدلنے پر رحہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

وہ کیا بول رہا تھا یہ۔۔۔۔۔۔

"ہائے ماں صدقے میری بہو کیوں نہیں مانے گی میری بات "اسکے گال چٹا چٹ چومتے وہ خوشی سے بولی تو وہ سر جھکا گئی۔

"جاؤ تم لوگ آرام کرو اب میں بھی آرام کرونگی"اسکی شرم دیکھتے انہوں نے کہا تو وہ فوراً سے وہاں سے بھاگ کر اپنے کمرے میں آئی تھی۔

یہ اب کونسا نیا تماشہ اسکی زندگی میں آنے والا تھا۔۔

وہ ابھی سوچوں میں گم تھی کہ دروازہ بند ہونے کی آواز پر اس نے چونک کر پیچھے دیکھا تو سامنے وجدان کو کھڑے پایا۔

اسکے دل کی اسپیڈ حد سے زیادہ تیز ہوئی تھی۔

"آپ یہاں کیوں آئے ہیں؟"

"تو کہاں جاؤں اماں کی موجودگی میں دوسرے کمرے میں تو میں نے سونے سے رہا اور ویسے بھی شوہر ہوں میں تمہارے ساتھ سو سکتا ہوں۔۔"اسکی طرف قدم بڑھاتے اس نے کہا تو اسکی جان نکلی تھی۔

"لیکن یہ تو مجبوری"."

"شادی شادی ہوتی ہے رحہ اور اب آپ میرے زمہ داری ہیں اس رشتے کو قبول کرلیں زیادہ اچھا ہے"اسکی کمر کے گرد ہاتھ ڈال اس نے ایک دم سے اسے کھینچا تو وہ اسکے بدلے انداز پر ساکت ہوئی تھی۔

"آپ دور۔۔۔۔۔"

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی وہ جھک کر اس کے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے گیا اور آج کے دن میں یہ دوسرا جھٹکا تھا اس کے لئے۔

آزادی ملتے ہی وہ اس سے دور ہوئی تو وجدان کے ماتھے پر بل آئے تھے۔

"کیا چاہتی ہو اپنی ضرورت کے لئے کسی اور کے پاس جاؤں ؟ اس کے غصے بھرے انداز پر وہ سہمی تھی اور فوراً سے نا میں سر ہلایا تھا ۔

"قریب آؤ میرے فوراً"اس نے سخت لہجے پر وہ کپکپاتے اس کے پاس آئی تو بنا وقت ضائع کئے وہ اسکے چہرے پر جھکا تھا۔۔

مدہوشی سے اسکے ایک ایک نقش کو اپنے سلگتے لبوں سے چھوتا وہ اسے الگ ہی دنیا میں لے جا رہا تھا۔

رحہ نے مضبوطی سے اسکی شرٹ کو اپنی گرفت میں جکڑا تھا۔

وہ اسکے لبوں سے ہوتے اسکی گردن تک آیا تھا اور وہاں اپنے سلگتے لب رکھے تھے اسکی شہہ رگ جو چومتا وہ اسکے کندھے کر اپنے لب رکھ اسے کپکپاتے پر مجبور کرگیا تو اس نے گھبرا کر دروازے کی طرف دیکھا تھا۔

"کوئی آجائے گا"

اسکی گھبرائی آواز وجدان نے اسکا پریشان چہرہ دیکھا۔

"کوئی نہیں آئے گا اماں جو پتا ان کے پوتا پوتی کو لانے کی تیاری ہو رہی "اسکے بے باک لفظوں پر وہ شرم سے لال ہوگئ تھی تبھی اسکے سینے میں سر چھپایا تھا۔

"کیا ہوا شرم آرہی ہے؟"اسکے بال کان کے پیچھے اڑستے وہ جھک کر بولا مگر رحہ سے کوئی جواب نا دیا گیا اس کے لئے تو یہ صورتحال ہی دل دہلانے والی تھی جن حالات میں ان کی شادی ہوئی تھی ان میں اس طرح اس کا یوں اچانک اپنا حق جمانا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا مگر وہ اسے روک نہیں سکتی تھی کیونکہ یہ حق تو خود اس نے وجدان کو دیا تھا اب مکرنے سے وہ خود کا نقصان نہیں کر سکتی تھی اسے صفیر کو بھلا کر ایک نئے رشتے کے لئے خود کو تیار کرنا تھا۔

وجدان آہستہ سے اسکے شولڈر سے گردن تک آیا تھا وہ کپکپا رہی تھی مگر وجدان کو اس پر رحم نہیں آرہا تھا وہ اسے یونہی لئے بیڈ تک لایا اور اسے بیڈ پر گراتے خود اس پر حاوی ہوا تھا۔

اسکے شولڈر کے پاس سے قمیض ہٹاتے وہ دیوانہ وار وہاں اپنے سلگتے لب رکھتے اسے بے حال کر رہا تھا۔

اور وہ مزاحمت کرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی تھی۔

اس سے پہلے وہ مزید کوئی گستاخی کرتا بجتے فون نے اسے بری طرح ڈسٹرب کیا تھا.

اس نے فون نکال کر دیکھا تو اسکے ماتھے پر پڑے بل خود ہی غائب ہوئے تھے وہ ایک دم سے سیدھا ہو کر بیٹھا تھا۔

رحہ نے اسکا یہ انداز بہت اچھے سے نوٹ کیا تھا۔

"سب ٹھیک تو ہے؟"

"سب ٹھیک ہے مجھے ابھی جانا ہوگا اپنا اور اماں کا خیال رکھنا۔"

اسکے ماتھے پر لب رکھتا وہ بنا لمحے کی دیری کے وہاں سے نکلتا چلا گیا تو رحہ کو حیرت نے گھیرا تھا مگر اپنی جان خلاصی ہونے پر اس نے شکر ادا کیا تھا۔

مگر اسکا یہ بدلہ اسکی واقعی سمجھ نہیں آیا تھا۔

_________

وہ تیزی سے اپنے آفس آیا تھا جہاں صفیر کو پریشانی میں دیکھ اسے بہت کچھ برا ہونے کا ڈر لگا تھا۔

"کیا ہوا ہے انسپکٹر صفیر ؟

"سر کچھ بدمعاشوں نے رحہ کے گھر پر حملہ کیا ہے جب تک پہنچا وہ لوگ اس جگہ کو کافی نقصان پہنچا چکے تھے۔

"اسکے فیملی میمبر ٹھیک ہیں"اسکا دل انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔

"نہیں سر رحہ کے والد صاحب بہت بری طرح سے زخمی ہوئے ہیں اور اسپتال میں ہیں ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے انہیں ہوش نہیں آرہا اور اسکی والدہ کو ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے وہ دونوں۔۔۔"اتنا بولتے وہ ایک دم چپ ہوا تھا وجدان اچھے سے سمجھتا تھا وہ لوگ جس کیفیت سے گزر رہے ہیں مگر اسے پرواہ صرف اور صرف رحہ کی تھی وہ کیسے اسے یہ سب بتائے گا۔۔۔

"سدرہ کو میں فلحال اپنے گھر لے گیا ہوں مگر سر میں زیادہ دن تک اسے وہاں نہیں رکھ سکتا میں ہر ممکن کوشش کر چکا ہوں رحہ کو ڈھونڈنے کی "

"صفیر کا تم میری ایک بات مانو گے؟"

وجدان کے کہنے پر اس نے سر ہلایا تو اس نے گہرا سانس بھرا تھا۔۔۔

"تم سدرہ سے نکاح کرلو دیکھو ایسے دنیا باتیں بھی نہیں بنائے گی اور دوسرا کوئی نہیں جانتا رحہ شمس کب واپس آئے اور اگر آئی بھی تو کیا یہ دنیا اسے قبول کرے گی تم اسے قبول کرو گے؟"وجدان کی بات پر وہ گہری سوچ میں پڑ گیا تھا آنکھوں کے سامنے وہ معصوم سا چہرہ گھوما تھا جس نے کل سے رو رو کر اپنا برا حال کر لیا تھا وہ تو شکر تھا کل وہ اسکے ساتھ تھی ورنہ وہ آدمی اسے لے جاتے۔

اسکا سوچ کر ہی وہ اتنا پریشان ہوگیا تھا وجدان کا مشورہ اسے بالکل ٹھیک لگا تھا۔

اس لئے وہ خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چلا گیا تبھی صبور اندر داخل ہوا تھا۔

"سر وہ کنگ کے ہی آدمی تھے جو بھابھی کی تلاش میں وہاں آئے تھے مگر ان کے ماں باپ کے سوا وہاں انہیں کوئی نہیں ملا تو کافی توڑ پھوڑ کی ہے انہوں نے"

"یہ تو ہونا تھا صبور ایک نا ایک دن تو اب ہی سہی "

"کیا مطلب سر"اسکے عجیب سے لہجے پر صبور نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔

"مطلب کنگ کو اسے ڈھونڈنا تو تھا"

"اب آگے کیا کرنا ہے؟"

"اب تک غائب ہونے والی تمام لڑکیوں کے نام پتا کرو ہر حال میں"

اسے حکم دیتا وہ وہاں سے آگے بڑھ گیا۔

_________

"پورا کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا اور ان پھولوں سے سجی سیج پر وہ معصوم سی گڑیا اپنے شوہر کی منتظر تھی اسکا دل ڈر سے سکتا جارہا تھا آنے والے لمحات کا سوچ اسکی ہتھیلی پر پسینہ نمودار ہوا تھا۔۔

تبھی دروازہ کھلا تھا اور کوئی اندر داخل ہوا تھا۔

قدموں کی چاپ پر اسکا دل اچھل کر حلق میں آیا تھا۔۔

اسکا شوہر اسکے پاس آکر بیٹھا اور آہستہ سے گھونگھٹ اٹھایا تھا۔۔

"بہت حسین"اسکے ہاتھ تھامتے وہ مدہوشی سے بولا تو اس نئی نویلی دلہن کے سر پر دھماکہ ہوا تھا کیونکہ اسکا شوہر نشے میں تھا۔۔

"اپ۔۔۔نشہ۔۔۔"

"شش۔۔۔۔ کچھ نا بولو میری جان آج کچھ بولنا نہیں ہے"اسکے لبوں پر انگلی رکھتے وہ ہولے سے ہنسا تو اسے لگا وہ کسی دلدل میں پھنس گئی ہے۔

"دور رہے ہم سے ایک حرام چیز پی کر آئے ہیں آپ کو احساس بھی ہے؟"اسے خود سے دور کرتے وہ چیخی تو سامنے والے نے ناگواری سے اسے دیکھا تھا۔

"زیادہ نا بک بک کر"اسکے کھینچ کر بیڈ پر گراتے وہ نشے میں دھت ہر چیز بھول رہا تھا۔۔

اسکے ہونٹوں کو ہونٹوں میں قید کئے وہ دیوانہ وار انہیں چوم رہا تھا اور وہ خود کو بچانے کی کوشش میں ہلکان ہورہی تھی۔

وہ شخص ہونٹوں سے سفر کرتا اسکی شہہ رگ پر رکا تھا اور پھر آہستہ سے مزید جھکتا وہ اسکی زپ کھول رونے پر مجبور کرگیا۔۔۔

اپنے اوپر اسکے ہاتھ کا لمس محسوس کر وہ رو رہی تھی مگر سامنے والے کو یہ آنسو سکوں پہنچا رہے تھے اسے صرف اپنی خواہشات سے مطلب تھا۔

وہ دیوانہ وار اس پر جھکا اپنی شدتیں اس پر لٹا رہا تھا اور ہو بن پانی کی مچھلی بنی تڑپ رہی تھی بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اس چیز کی خواہش تو نہیں کی تھی اس نے ۔

وہ شخص اپنا مقصد پورا کر کے اٹھا اور ایک نظر اسکے روتے چہرے کو دیکھا۔

"ابھی تو فلم شروع ہوئی ہے ابھی سے یہ آنسو"خباثت سے ہنستا اس نے ایک دم کسی کو پکارا تو دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا اسکے آنسو تھمے تھے۔

کیا اسکا شوہر اسکا سودا۔۔۔

وہ بے یقین سے آنے والے شخص کو بے لباس ہوتے دیکھ رہی تھی جو اب آہستہ آہستہ اسکے قریب آرہا تھا اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ چیخ سکے مزاحمت کر سکے۔۔۔

اسکا شوہر اسے کسی اور کے حوالے کرتے کونے پر رکھے صوفے پر آنکھیں موندے لیٹ گیا۔

اس شخص نے آہستہ سے جھک کر اسکے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا تھا اور پھر وہ ایک بار اپنی زات کو روندنے ہر غم منانے لگی تھی۔۔

وہ کیا تھی اسکا وجود ایسے کویں روندا جارہا تھا اس نے تو کبھی کسی کا برا نہیں چاہا تھا پھر کیوں وہ اس دلدل میں گر گئی تھی کیا قصور تھا اسکا وہ بے بس تھی اسکے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کیا بن باپ کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔۔

اس کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے مگر وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئی تھی وہ مر گئی تھی اسے جیتے جی مار دیا گیا تھا۔۔۔

وہ شخص اپنی حوس پوری کر پیسے اس کر پھینکتا کب کا جا چکا تھا اور وہاں بچا تھا تو اس کا سانسیں لیتا مردہ جسم۔۔۔

ایک قیامت آکر اس پر سے گزری تھی اور اب وہ جینا نہیں چاہتی تھی مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اسکے چاہنے نا چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

_________

"آپ بہت جلد میری بیٹی کا نکاح کر رہے ہیں ابھی تو صرف پانچ سال کی ہے"انہوں نے ایک بار پھر اپنے شوہر کو سمجھانا چاہا۔

"چپ کر جا نیک بخت اپنا داماد کونسا بڑا ہے وہ بھی تو دس سال کا ہے اور ویسے بھی وہ لوگ بہت دولت مند ہیں ہم ایک عرصے سے انہیں جانتے ہیں تو بس چپ ہوجا ان لوگوں کے یہاں سے جانے سے پہلے نکاحِ ہونے دے ورنہ کہاں سے پالیں گے بیٹیوں کو؟ان کی بات پر وہ چپ رہ گئیں یوں وہ چھوٹی سی بچی کسی کے نکاح میں آئی تھی۔۔۔

اس بات سے انجان کے آنے والے کئی سال اس کی زندگی پوری طرح سے بدل کر رکھ دینگے۔۔

خاموشی کا راج چار سو چھایا ہوا تھا وہ ابھی تسنیم بیگم کو سلا کر اپنے کمرے میں آئی تھی کافی دیر تک وہ اس سے باتیں کرتی رہی تھیں اسے وجدان کے بچپن کے قصے سناتی رہی تھیں جنہیں سن اسکا ہنس ہنس کر برا حال ہوا تھا۔

یہاں تک کے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔

وہ جلدی سونے کی عادی تھیں اس لئے ان کے سوتے ہی وہ اپنے کمرے میں آگئی تھی وجدان ابھی تک نہیں آیا تھا۔

ایسے میں اپنے گھر والوں کی یاد اسے بری طرح آئی تھی۔

کتنی مگن زندگی تھی ان کی۔۔۔

اپنی سوچوں سے نکلی تو دھیان اسکا سامنے رکھی وجدان کی تصویر پر گیا تھا۔

اس نے وہ تصویر اٹھاتے غور سے دیکھا۔

وہ بے حد حسین تھا کہ کوئی بھی اس پر مر مٹ جاتا مگر وہ اسکا نصیب بنا۔

دن کا منظر یاد آتے ہی اسکے چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ نے ڈیرہ جمایا تھا۔

بے اختیار اسکے ہاتھ اپنے لبوں پر گئے تھے جہاں اسکا لمس ابھی محسوس ہوا تو اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا وہ نا ہو کر بھی ہر جگہ تھا۔

اسے خود میں وہ محسوس ہورہا تھا اسکا لمس اسے اپنے وجود کے ہر حصے پر محسوس ہورہا تھا۔

اس نے آنکھیں موند کر اس کی تصویر کو سینے سے لگایا تھا۔

چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی یوں جیسے وہ اس کے سامنے ہو۔

اتنا خوبصورت احساس اس نے آج تک محسوس نہیں کیا تھا اور اب جب یہ احساس محسوس ہوا تو وہ اس سحر سے نکل نہیں پارہی تھی۔۔

گھڑی گیارہ بجا رہی تھی جب گاڑی کی آواز کر وہ اپنی سوچوں سے نکلی تھی۔

یہ آواز وجدان کی گاڑی کی تھی اس نے جلدی سے اسکی تصویر ایک طرف رکھی تھی اور کچھ آنکھیں موندے لیٹ گئی۔

کمرے کا دروازہ کھلا تو اسکا دل تیزی سے دھڑکا تھا۔

وہ خود میں اتنا حوصلہ نہیں پاتی تھی کہ اٹھ کر اس سے کھانے کا ہی پوچھ لے۔

وہ جو تھکا ہارا آیا تھا اسے سوتے دیکھ سکوں کا سانس لیا تھا وہ ابھی اسے کچھ بھی نہیں بتا سکتا تھا اسکے ماں باپ کے متعلق۔۔۔

اسے دھچکا تو اس بات سے لگا تھا کہ اتنی سیکیورٹی کے باوجود اتنا کچھ ہوگیا اور اسے پتا نہیں لگ سکا۔۔۔

وہ پچھتا رہا تھا اپنی لاپرواہی پر اس سے کیسے اتنی بڑی کوتاہی ہو سکتی ہے وہ پاگل ہورہا تھا۔

چینج کر کے وہ باہر آیا اور لائٹس آف کرتا اپنی جگہ پر لیٹا تھا۔

اسکے یوں پاس لیٹنے پر وہ خود میں سمٹی تھی وہ اسکی سوچوں سے یکسر انجان تھی۔

وجدان نے ایک نظر اسکے سوتے وجود کو دیکھا اور سیگریٹ سلگائی۔۔

دل میں ٹسیس سے اٹھی تھی اگر کوئی اسکے اندر جھانک لیتا جو اس کی پریشانی کی وجہ سمجھ جاتا مگر ایسا اب تک کوئی تھا ہی تو نہیں۔

سیگریٹ کی بدبو محسوس کر وہ شرم سائیڈ رکھتی اہک دم سے اٹھی تھی۔

"آپ سیگریٹ کیوں پی رہے ہیں ؟"

"سوری میں نے نیند خراب کر دی؟"شرمندہ ہوتے اس نے سیگریٹ بجھائی تو وہ فوراً سے نا میں سر ہلا گئی۔

"آپ پریشان لگ رہے ہیں سب ٹھیک تو ہے نا؟"

اسکے پریشان ہونے کر وجدان نے گہرا سانس بھر کر خود کو کمپوز کیا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں کچھ نہیں ہوا بس ایک کیس کی وجہ سے تھوڑا الجھا ہوا تم سوجاؤ "اتنا کہتا وہ اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تو اس نے بدلے انداز پر وہ چونکی تھی۔

اسے اس وقت کیا کرنا چاہیے تھا اسے۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کروں اور کیا نہیں۔

پھر کچھ سوچ کر وہ اپنی جگہ سی اٹھی اور باہر لاونج میں آئی جہاں وہ صوفے کی پشت سے سر ٹکائے آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔

"وجدان کوئی پرابلم ہے تو مجھ سے شئیر کریں ایسے اکیلے تو پریشان نا ہوں",اسکے پاس بیٹھتے اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ کر رکھا تو اس نے سرخ آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا تھا۔

"میں بہت بے سکون ہوں رحہ حد سے زیادہ"اچانک سے اسکے گلے لگتے وہ بولا تو اسکے لہجے میں نمی محسوس کر اسکا دل دکھا تھا۔

رحہ نے اسکے گرد اپنے بازو سختی سے لپیٹے تو وجدان نے اسکے کندھے کر اپنے لب رکھے تھے۔

"مت ہو بے سکون دیکھئے گا سب ٹھیک ہوگا مجھے دیکھیں میں بھی تو امید پر زندہ ہوں

"رحہ۔۔۔"اسکے لہجے میں ایک عجیب سی بات تھی جسے سن کر وہ بری طرح چونکی تھی۔

"وجدان کیا اس بات کا تعلق میرے بابا سے ہے؟"اسکے سینے سے ہٹتے وہ پوچھ بیٹھی تو کچھ سوچ کر اس نے اسے سب سچ بتانے کا فیصلہ کیا تھا

"کنگ نے تمہارے گھر پر حملہ کردیا ہے تمہارے ماں باپ اسپتال میں ہے ہوش میں نہین ہیں اور سدرہ صفیر کے گھر کل صفیر اور اسکا نکاح ہو جائے گا اگر سدرہ راضی ہوتی ہے"

اس کی بات پر اسے سکتا ہوا تھا اسکی وجہ سے اسکے گھر والوں کے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا تھا۔

آنسو اسکی آنکھوں سے رواں ہوئے تھے درد سے اسکا دل بے حال تھا ۔

"رحہ پلیز ہمت کرو"اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے میں وہ اہنے لبوں سے اسکے آنسو چن گیا مگر اس وقت اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا درد بہت تھا حد سے زیادہ۔

وجدان نے اسے اپنے سینے سے لگا کر اسے رونے دیا تھا اگر ایسا نا کرتا تو وہ پینک ہوجاتی۔۔۔

"میں سب ٹھیک کر دوں گا رحہ گناہگار کو اسکے کئے کی سزا ہر حال میں مل کر رہے گی سب تمہیں تھوڑا صبر سے کام لینا ہوگا تھوڑا برداشت کرنا ہوگا میری بات کا یقین کروں میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا آخر میں سب ٹھیک ہو جائے گا رو نہیں"اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرے وہ اسے مسلسل پرسکون کرنا چاہ رہا تھا جو اسکا سہارا پا کر اور سسک اٹھی تھی۔

"وجدان مجھے ان لوگوں سے ملنا ہے پلیز"

"ابھی وقت نہیں ہے رحہ ابھی نہیں کنگ کے کتے ہر جگہ گھوم رہے ہیں اور میں بھی نہیں جانتا کہ ہم لوگوں میں سے کون اس سے ملا ہوا ہے ہمیں ہر ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا پڑے گا اگر ابھی تم منظر پر آتی ہو تو وہ تمہیں پھر سے یہاں سے لے جائے گا اور ہم اس تک کبھی نہیں پہنچ پائیں گے "۔

"تو کب تک مجھے یوں چھپنا ہوگا وجی کب تک میرے نا ملنے پر اس نے دیکھیں میرے گھر والوں کے ساتھ کیا کردیا۔

"کچھ نہیں کیا میری بات سنو رحہ وہ صرف کچھ خاص لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور رپورٹ کے مطابق ہر لڑکی اسکے نشانے پر نہیں ہے بلکہ کچھ خاص"وہ بہت کچھ کہتے کہتے رکا تھا کیونکہ ابھی صحیح وقت نہیں تھا۔

"تم مجھ پر بھروسہ کرو پلیز"وجدان کے کہنے پر اس نے سر ہلایا اور اپنا سر اسکے سینے پر رکھا تھا۔

وجدان نے ایسے ہی اسے اپنے بازوؤں میں اٹھایا تھا اور اپنے کمرے میں آکر اسے بیڈ پر لیٹایا تھا۔

خود دوسری طرف آتے اس نے اسکا سر اپنے سینے پر رکھا اور دونوں پر بلینکٹ ٹھیک کیا تھا

وہ اس وقت اسکے حصار میں قید تھی بے بس۔۔۔

"زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے میں ہوں رکھ رہا ہو۔ تمہارے پیرنٹس کا خیال خود کو بالکل بھی اداس نہیں کرنا اور نا اب ان آنکھوں میں آنسو آئیں"اسکی نم آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوتے اس نے سرگوشی کی تھی۔

رحہ نے اپنی بند لزرتی پلکوں پر اسکا سلگتا لمس محسوس کیا تو اسکا گریبان مضبوطی سے تھما تھا۔

وجدان نے آہستہ سے اسکے گال پر اپنے سلگتے لب رکھے اور پھر گال سے ہوتا وہ اسکی ٹھوڑی کو اپنے لبوں سے چھوتا اسکا حسین چہرہ دیکھنے لگا جو رونے کی وجہ سے لال سرخ ہورہا تھا۔

اسکے بند یاقوتی لبوں پر اپنے لبوں کی مہر لگاتے وہ مدہوش سا اسے خود میں قید کرگیا کی اسکا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رحہ نے اسکی گردن کے گرد اپنے ہاتھ باندھے تھے۔

وہ مدہوش سا اسکی سانسوں کی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا۔۔۔

اسکے لبوں کو آزادی دیتے اس نے مخمور نگاہوں سے اسکے بھیگے لبوں کو اپنے انگوٹھے سے چھوا تھا اور پھر آہستہ سے جھک کر اسکی شہہ رگ کو اپنے لبوں سے چھوا تھا۔

اپنی انگلی کی پور سے اسکے چہرے کا ایک ایک نقش چھوتا وہ اسکے کان کو اپنے لبوں سے چھوتا اسکا سر سینے پر رکھتے اسے خود میں چھپا گیا۔

"سوجاؤ جان ابھی صحیح وقت نہیں آیا"اتنا کہتا وہ اسے خود میں بھینچ کر آنکھیں موند گیا تو رحہ نے اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپایا تھا۔۔

__________

وہ کل رات سے یہاں موجود تھی ایک قیامت تھی کو ان لوگوں پر آئی تھی اور اب چیزیں مزید خراب ہوتی چلی جارہی تھیں۔

صفیر کی امی بہت اچھی تھی اسکا بہت خیال رکھ رہی تھیں مگر ابھی جو کچھ صفیر اسے کہہ کر گیا تھا اسنے اس کا دل و دماغ جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔

بھلا وہ کیسے اپنی بہن کے منگیتر کے ساتھ شادی کر سکتی ہے مگر ابھی صفیر کی امی نے اسے بہت کچھ سمجھایا تھا اور اب اسکے پاس اس رشتے کو قبول کرنے کے علاؤہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا مل اسکا نکاح ہو جانا تھا اسکی بہن اور ماں باپ کے بغیر مگر اب حالات کا یہی تقاضا تھا اور یہ کڑوا گھونٹ پینا تھا۔۔۔

وہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھی جب کمرے کا دروازہ ناک ہوا تھا وہ ایک سے سنبھل کر بیٹھی تو دروازہ کھلا تھا اور آنے والا صفیر تھا جس کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔

"آپ.."

"امی بتا رہی تھی کہ تم نے کھانا نہیں کھایا تو میں کھانا لے کر آیا ہوں"

"سوری بس وہ مجھے بھوک نہیں تھی "شرمندگی سے اس نے سر جھکایا تھا وہ لوگ پہلے ہی ان سب کے لئے اتنا کر رہے تھے اور وہ مزید اسے پریشان کر رہی تھی

"سوری کے بولو میں سمجھ سکتا ہوں آسان نہیں ہے یہ سب قبول کرنا"اسکے پاس بیٹھتے وہ بولا تو وہ زرا سا کھسکی تھی۔

"امی نے بتایا کہ تم نکاح کے لئے راضی ہوگئی ہو تو میں نے سوچا تم سے کچھ باتیں کلیئر کرلو"

"ج۔۔جی"وہ محض اتنا ہی بول سکی۔

"یہ نکاح میں کسی بھی طرح کے دباؤ میں آکر نہیں کر رہا ہوں اور جب تم میرے نکاح میں آؤ گی تو تمہارا وہی مقام ہوگا جو میری بیوی کا ہونا چاہیے۔

رحہ میرا ماضی تھی میں اسکی حفاظت کرونگا اسے ڈھونڈوں گا مگر مجھ پر صرف تمہارا حق ہوگا میں پوری دلی رضامندی سے اس رشتے کو قبول کر رہا ہوں اور تم سے بھی اسی کی امید رکھوں گا۔"

اسکی بات پر وہ آہستہ سے اپنا سر جھکا گئی تھی کیونکہ اب بولنے کو اسکے پاس کچھ نہیں بچا تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔

"یہ مت سمجھنا سدرہ کے میں ماضی میں رہ کر تمہارے ساتھ ناانصافی کرو گا۔۔

"مجھے آپ پر یقین ہے صفیر مگر میری بہن میرے بارے میں کیا سوچے گی نہ اسکے منگیتر ہے ساتھ"

وہ بہت کچھ کہتے کہتے چپ ہوگئی ۔

"وہ کچھ نہیں سوچے گی کیونکہ حالات کی نزاکت کا اسے بھی اندازہ ہے میں بنا کسی رشتے کے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا اور اگر تمہیں اکیلا چھوڑا تو کنگ تمہیں نقصان پہنچا سکتا ہے یہ کھیل بہت بڑا اور خوفناک ہے یہاں سے نکلنا بالکل بھی آسان نہیں ہے میری بات کو سمجھو اور سب بھول کر آگے بڑھو "

اسکا ہاتھ تھامتے وہ نرمی سے بولا تو وہ سر ہلا گئی اب اسکے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا یہاں سے آزادی حاصل کرنے کا۔۔

"میں سمجھ رہی ہوں میں آپ کے ساتھ کر قدم پر اس کنگ سے اپنی بہن کو بچانے کے لئے مجھے جان بھی دینی پڑے میں دونگی صفیر کیونکہ بنا قصور وار ہوئے ہم لوگوں نے بہت برا وقت دیکھا ہے میرے ماں باپ اسپتالوں ہے بستر پر پڑے ہیں میں بے گھر ہوگئی ہوں اور میری بہن میں نہین جانتی وہ اس وقت کہاں ہے لیکن۔ میں ہر وقت دعا گو رہتی ہوں اس کے لئے کہ اللہ اسے صحیح سلامت رکھے اور وہ جلد ہم لوگوں کے پاس واپس آجائے۔۔۔"

یہ کہتے ہوئے اسکی آنکھیں نم تھیں وہ رو رہی تھی صفیر نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا تھا اور اسکا سہارا پاتے وہ پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی۔۔

_______

وہ بے حس و حرکت بستر پر پڑی تھی اور وہ درندہ اسے نوچ کھسوٹ رہا تھا آج اسے یہاں آئے تیسرا دن تھا اور ان تین دنوں میں اس کی آبرو ریزی ہوئی تھی اسکی عزت کی دھجیاں بکھیر دی گئی تھیں۔

وہ رو رہی تھی لیکن اب تو رونا بھی جیسے ختم ہوتا جارہا تھا وہ پتھر کی ہوگئی تھی اسے ایسا لگا تھا اسکا شوہر اسکا سودا کئے ناجانے کہاں غائب ہوچکا تھا اور وہ ان درندہ کے رحم و کرم پر تھی۔۔

وہ آدمی اب کسی سے اسکو بیچنے کی بات کر رہا تھا اور وہ جیسے جیسے اس آدمی کی باتیں سنتی جارہی تھی اسے اس دنیا کے لوگوں سے گھن آرہی تھی۔۔۔وجدان بذات خود اسکے نکاح میں شرکت کے لئے آیا تھا اور ایک بھائی کی طرح اس نے سب کچھ کیا تھا۔

ایک انجان انسان کی اپنی لئے اتنی فکر دیکھ اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔

اور جب وجدان نے اپنا ہاتھ اسکے سر کر رکھا تو اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا ایک رواں ہوا تھا۔

زندگی کے اتنے بڑے دن اسکے ساتھ اسکا کوئی بھی اپنا نہیں تھا دل دکھ سے بھرا ہوا تھا مگر وہ کمزور پڑ کر اپنا تماشہ نہیں بنانا چاہتی تھی۔

وہ صفیر اور اسکی ماں کی شکر گزار تھی کہ ان لوگوں نے اسے اپنایا تھا ورنہ وہ کہاں جاتی یہ دنیا تو اسے نوچ کھاتی۔۔

نکاح کے بعد صفیر کی امی اسے صفیر کے کمرے میں چھوڑ کر گئی تو اسکا دل ایک نئی لے پر دھڑکا تھا کل تک جو انسان اسکی بہن کا تھا آج وہ اسکا ہوگیا تھا یہ سوچ آتے ہی سارے خواب زمین بوس ہو کر بکھر گئے تھے۔۔۔

اس نے سوچ لیا تھا وہ اس رشتے کو نہین نبھائے گی بلکہ اپنی بہن کے واپس آنے پر وہ صفیر اور اس کے بیچ سے نکل جائے گی۔

ابھی وہ اسی سوچ میں تھی جب کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور صفیر کمرے میں داخل ہوا تھا۔

سلام کرتا وہ اسکے پاس بیٹھا تو وہ خود میں سمٹی تھی۔۔

صفیر نے آگے بڑھ کر اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھے تو اسکی ریڈھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئی تھی۔

وہ اسے روکنا چاہتی تھی مگر خود میں اب ہمت نہیں پا رہی تھی۔

"صفیر رحہ"

"شش سب بھول جاؤ یاد رکھو تو یہ کہ میں تمہارا شوہر ہوں اور آج ہماری شادی ہوئی ہے"اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے وہ مخمور لہجے میں۔کہتے اسکا دوپٹہ اس سے الگ کرتے بولا تو اس نے سختی سے آنکھیں میچی تھیں۔۔

اسکا سر تکیے پر رکھتے وہ اسکے اوپر آیا تھا اور آہستہ سے اسکی آنکھوں پر اپنے سلگتے لب رکھے تھے۔

اسکے گال چھوتے صفیر نے اسکی ٹھوڑی پر لب رکھے تو وہ سسکی تھی۔

صفیر نے جھک کر اس کے چہرے پر اپنے محبت کی مہر لگائی تھی اور اسکی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں الجھاتے تکیے سے لگائے تو اس نے زرا سی آنکھیں کھول اس انسان کو دیکھا وہ اسکی کسی نیکی کا صلہ تھا ورنہ جس طرح اسکی بہن غائب ہوئی تو وہ اس پر الزام لگا کر خود ایک طرف ہوجاتا مگر اسکا ظرف بہت بلند تھا وہ ہر قدم پر اسکے ساتھ تھا اور اب وہ اسے ایک ایسے رتبے پر فائز کر رہا تھا جس کا تصور تو کبھی اس نے کیا ہی نہیں تھا۔

اسکی گردن میں جھکتے وہ اسکی خوشبو کو خود میں اتار رہا تھا سدرہ کے لئے یہ سب بہت مشکل تھا اس نے گھبرا کر اسکا کندھا تھاما تھا۔

اسکی شہہ رگ پر لب رکھتے وہ ایک مدہوش سا اپنی شدتیں اس لٹانے لگا تھا اور وہ آنکھیں بند کئے اسکا لمس محسوس کر رہی تھی۔

یہ دنیا کا سب سے خوبصورت احساس تھا کہ کوئی ہے جو اسے اس طرح چاہ رہا ہے پیار کر رہا ہے اسے ایک عزت بھرا مقام اپنی زندگی میں دے رہا ہے۔۔۔

خود سپردگی کے عالم میں اس نے اپنی دونوں بانہیں صفیر کے گرد باندھی اور اپنا چہرہ اسکے سینے میں چھپایا تو صفیر نے اسے خود میں بھینچا تھا اور آہستہ سے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آف کر گیا

__________

اسکی آنکھ کھلی تو خود کو ایک عجیب سی جگہ پر پایا تھا عورتوں کا شور چیخیں۔۔

حواس بحال ہوئے تو اس نے اس سجے سجائے کمرے کی طرف دیکھا۔

کل رات اس نے پانی پیا تھا اور پیتے ہی سو گئی تھی اور اب اٹھی تو اس جگہ۔۔

اسے سمجھنے میں دیر نہیں لگی تھی اسے اس کوٹھے پر لایا گیا تھا۔

اسکا ڈر سچ ثابت ہوا تھا اسکا شوہر اسے بیچ چکا تھا اپنی طلب پوری ہوتے ہی وہ اسکا یہاں سودا کرگیا تھا اور اب اسکے آگے صرف کھائی تھی پیچھے کا راستہ وہ اب چننا چاہتی بھی نہیں تھی۔۔

اس نے اس سب کو قبول کرلیا تھا وہ اتنے مہینوں سے مفت میں دوسرے آدمیوں کے ساتھ تھی اور اب یہاں کی بائی نے جب اسکی بولی لگائی تو رات کے بعد اسکی جھولی میں پیسے ڈالے تو اس نے حیرت سے پیسوں کی جانب دیکھا تھا۔

"ایسے مت دیکھ تیری محنت کی کمائی ہے جہاں دل چاہے خرچ کرنا "بائی کی بات سن اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے دل تو اب مر گیا تھا بس یہ جسم زندہ تھا دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کو تھا جو صرف۔۔۔

وہ اپنا ماضی سوچنا نہیں چاہتی تھی۔

اس نے اس نام نہاد محنت کو دل جمعی سے کیا تھا اور بہت جلد وہ بائی جی خاص لڑکیوں میں شامل ہوگئی تھی۔

محض دو مہینے۔۔۔۔۔ وہ ایک شریف آدمی کی بیٹی سے اس کوٹھے کی مشہور طوائف بن گئی تھی۔۔

اسکا دل پھٹتا تھا وہ خود کو نوچتی تھی چیختی تھی۔۔۔

اور پھر اسکا وقت آیا اور ایک آدمی کا اس پر دل آگیا۔۔

اس آدمی کی اولاد ہوئی تو وہ جیسے بپھر گیا تھا۔

اس نے اس بچی کو اپنانے سے منع کردیا۔

وہ اس آدمی سے محبت کرنے لگی تھی جیسے خود کو سنبھالتی۔

بائی نے اسے کندھا دیا۔ سنبھالا اور اسے ایک ایسا عہدہ دیا کہ ایک وقت آیا جب اس کوٹھے پر صرف اسکا راج تھا اسکے ہاتھ کے اشارے سے لوگ چلتے تھے۔

وہ بائی بنی ماہ جبیں بائی محض سولہ سال کی عمر میں وہ یہاں آئی تھی وہ سب سے کم عمر بائی تھی کسی بھی کوٹھے کی۔۔۔

وہ حسین تھی اور تیس پینتیس کی ہونے کے باوجود وہ بیس سال کی لگتی تھی

اسکے حسن کے چرچے چاروں طرف تھے ایک رات کے لئے وہ لاکھوں روپے سمیٹتی تھی۔

اور وہ اسکا خاص تھا بے حد خاص۔۔۔

جس نے خود کو کنگ کا خطاب دیا تھا۔۔۔

وہ اس دنیا سے لڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا جو اسکے دشمن تھے وہی اس کنگ کے دوشمن تھے وہ دونوں ایک ہی سانپ کے ڈسے ہوئے تھے اب وہ وقت دور نہیں تھا جب وہ دونوں اس آدمی کی زندگی جہنم کردینگے...

_________

"کیوں بے چین ہو رحہ ؟"وہ کب سے یونہی ٹہل رہی تھی تسنیم بیگم نے اس سے پوچھا تو وہ ان کے پاس آکر بیٹھی۔

"امی کیا وجدان کسی سے محبت کرتے تھے ؟"اسکے یوں پوچھنے پر وہ بری طرح چونکی تھی۔

"ایسا کیوں پوچھ رہی ہو خیریت ہے بیٹا ؟"

"جی خیریت ہے بس یونہی"وہ انہیں یہ نا بتا سکی کہ اس نے وجدان کی شرٹ سے کسی کے پرفیوم کی خوشبو سونگھی ہے۔

"پاگل فالتو نا سوچا کر ایسا کچھ نہیں ہے وجدان صرف تجھ سے محبت کرتا ہے ابھی سے نہیں بہت پہلے سے"ان کی بات پر وہ بری طرح چونکی تھی ایسا کیسے ممکن تھا بھلا۔۔۔

وہ اسی ادھیڑ پن میں پریشان ہوتی اپنے کمرے میں آگئی۔

کل جس طرح وجدان نے اسے کہا اور اب اسکی شرٹ سے لڑکی والی خوشبو اسکا دل بے حد دکھ رہا تھا۔

کل وہ اسکا انتظار کر رہی تھی جب وہ آیا مگر بنا کچھ کہے وہ اسٹڈی روم میں بند ہوگیا اور اسکے کپڑوں سے خوشبو ۔۔

پورا دن وہ سوچوں میں گھلتی رہی...

آج وہ پورا دن گھر نہیں آیا تھا جبھی غصہ ہوتے وہ تسنیم بیگم کے سونے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی اور کمرے میں اندھیرا کر کے سو گئی کیونکہ کل تسنیم بیگم کو واپس جانا تھا۔۔۔

آدھی رات اسکی آنکھ تسنیم بیگم کی آواز سن کر کھلی تھی۔

وجدان کی جگہ خالی دیکھ اسکا دل ایک بار پھر دکھا تھا ۔

صبور تسنیم بیگم کو لینے آیا تھا۔

"میڈم سر کے کچھ کپڑے دے دیں انہیں ضروری کیس کے سلسلے میں کہیں جانا ہے"

صبور کی بات پر اسکے ماتھے کے بلوں میں۔ اضافہ ہوا تھا مگر بنا کچھ کہے چپ چاپ وجدان کے کپڑے لا کر اسے تھما دئیے۔

پہلے ہی اس گھر میں دل نہیں لگتا تھا اب تسنیم بیگم بھی جانے والی ہیں زندگی اب ایک بار پھر سے عذاب ہو جائے گی۔

یہ سوچتے ہی اسکی آنکھیں نم ہوگئی تھی۔

تسنیم بیگم کو نم آنکھوں سے الوداع کہتے وہ اپنے کمرے میں آگئی اور سونے لیٹ گئی۔

ماں باپ بہن سے دوری ۔۔۔

اور اب یہ سب بہت مشکل تھا اسکا خوش رہنا جہاں وہ خوش رہنے کی کوشش کرتی وہیں کچھ نا کچھ ایسا ہوجاتا کہ وہ واپس سے ڈپریشن میں چلی جاتی۔۔۔

انہیں سوچوں میں گم وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی تھی۔۔۔

_________

ویران بیاباں جنگل کے بیچوں بیچ اسکی نفرت چاروں طرف پھیل چکی تھی آج ایک اہم مشن کے سلسلے میں اسے یہاں آنا پڑا تھا۔۔

وہ پوری تیاری کے ساتھ دشمنوں سے کرنے والے کو تیار بیٹھا تھا۔

اسکا دھیان سارا اپنے دشمن کی جانب تھا۔۔۔

آہستہ سے قدم بڑھاتے وہ آگے ہوا اور سامنے بنے اس کاٹیج کی طرف دیکھا۔۔۔

اسکے اشارے پر ساری نفری چاروں طرف پھیلی تھی اس نے آہستہ سے پیچھے مڑ کر دیکھا دیکھا جہاں سے ماسک میں موجود وہ شخص اسے اشارہ کرتا وہاں سے نکلا تھا اور اشارہ ملتے ہی وہ کاٹیج ایک زور دار آواز کے ساتھ زمین بوس ہوا تھا۔۔۔

"اوووو شٹ باس یہاں اتنا۔۔۔"

"فوراً سے نکلو سب یہاں سے "وجدان کی تیز آواز پر وہ سب چیختے وہاں سے نکلے تھے۔

"سر وہ کنگ اندر ہی ہے"

"وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے تم لوگ نکلو یہاں سے"وجدان کے تیز لہجے پر وہ تیزی سے وہاں سے نکلے تھے۔۔۔

________

وہ گھر میں داخل ہوا تو گھر میں اندھیرے کا راج تھا تسنیم بیگم کے جانے سے گھر میں ایک دم سے سناٹا ہوگیا تھا۔۔

وہ کمرے میں آیا تو کمرے میں سناٹا تھا اور وہ گہری نیند میں بستر پر نیند میں گم تھی۔

وہ فریش ہو کر اسکے پاس آکر لیٹ گیا جانتا تھا وہ اس سے بدگمان ہو رہی ہے مگر ابھی صحیح وقت نہیں آیا تھا کہ اسے سب سچ بتایا جائے۔۔

اسکے چہرے پر بکھرے بالوں کو سنوارتے وہ جھک کر اسکے ماتھے پر اپنے لب رکھ گیا تو وجدان کا لمس محسوس کر رحہ نے نیند سے بوجھل آنکھوں کو کھولا کر اسے دیکھا تھا۔

اسے جاگتا پاتے وجدان نے آہستہ سے اسکی پلکوں پر اپنے سلگتے لب رکھے۔

"اماں بتا رہی تھیں بدگمان ہو رہی ہو مجھ سے شک کر رہی ہو مجھ پر "

اسکے یوں ڈائیریکٹ کہنے پر وہ شرمندہ ہوتی کروٹ بدل گئی تو وجدان نے مسکراہٹ دباتے اسکے گرد اپنا حصار بنایا اور اسکے کندھے کر اپنی ٹھوڑی ٹکائی تھی

"چلو ٹھیک ہے بیویاں تھوڑی شکی ہوتی ہیں مگر آپ کو کس لئے شک ہوا ہم تو گوڈے گوڈے آپ کے عشق میں۔ ڈوبے ہوئے"

"کچھ وقت میں کسی سے عشق نہیں ہوتا۔۔"

تڑخ کر کہتے اس نے وجدان کی گرفت سے نکلنا چاہا تو وہ اپنا حصار مزید سخت کرگیا۔

"اگر میں یہ کہوں یہ عشق دو دن کا نہیں برسوں کا ہے تو"

اس کی بات پر رحہ نے جھٹکے سے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

"فضول بات مت کریں ہمیں ملے ہوئے کچھ ہفتے ہی ہوئے ہیں میرا دل رکھنے کے لیے چھوٹ مت بولیں وجدان"اسکے سینے کر ہاتھ مارتے وہ غصے سے بولی تو اسکا ہاتھ تھام اپنے لبوں سے لگا گیا۔

"وقت آنے پر سب کچھ بتاؤ گا بس میرا بھروسہ رکھو اور وہ پرفیوم کی خوشبو سدرہ کی تھی رخصتی کے وقت روئی تو اسے چپ کروایا تھا میں نے ایک بھائی کی طرح"

اسکے پھولے پھولے گالوں کو چھوتے وہ بولا تو حیا سے اسکی پلکیں لرزی تھیں۔۔

"اور رہی بات اس رشتے کو آگے بڑھانے کی تو ابھی کئی رازوں سے پردہ اٹھنا باقی ہے جو یقیناً تمہارے لئے قابل قبول نہیں ہونگے جب تک میں ان رازوں سے پردہ نہیں اٹھا دیتا مجھے وقت درکار ہے میری خواہش ہے کہ جب میں تمہارے پاس آؤ تو ہمارے درمیاں کوئی غلط فہمی نا ہو کوئی اذیت کوئی تکلیف نا ہو"اسکے چہرے کو تھامے میں وہ نرمی سے بولا تو رحہ نے زرا سا اٹھ کر اسکے لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا تو اسکے عمل سے وجدان چونکا تھا۔

"ایک آتش فشاں کو بھڑکا رہی ہو"

"مجھے آپ کو محسوس کرنا ہے اس رشتے کو نام دینا ہے وجدان جو ماضی تھا مجھے اس کے بارے میں جاننا مجھے حال میں جینا ہے میں آپ سے محبت کرنے لگی ہوں اور یہ بات مجھے کہنے میں کوئی دقت نہیں ہے"اسکے گرد بانہوں کا حصار بنائے وہ اسکے کانوں میں رس گھول رہی تھی..

"ایسے کرو گی تو بندہ بشر ہوں بیک جاؤں گا"اسکے کان میں سرگوشی کرتے اس نے رحہ کی کان کی لو کو اپنے لبوں میں دبایا تھا کہ ایک سسکی سی اسکے منہ سے نکلی تھی۔۔

وجدان نے غور سے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا جہاں صرف اور صرف اسکا عکس نمایاں تھا۔۔

__________

"یہ کاغذات کیسے ہیں؟"

"طلاقِ کے کاغذات ہیں میں اسے اس رشتے کو ختم کرنا چاہتا ہوں"

"آپ پاگل ہوگئے ہیں پہلے کم عمری میں نکاح اور اب طلاق کیوں ہماری بیٹی کی زندگی برباد کر رہے ہیں ؟"

"برباد نہیں آباد کر رہا ہوں وہ لوگ زیادہ امیر ہیں اور پیسے بھی زیادہ دینگے۔۔"

"تو آپ پیسوں کے لیے ہماری بچی کا سودا کرینگے۔۔"

"سودا نہیں کر رہا اسکا مستقبل بنا رہا ہوں"

"وہ لوگ کبھی طلاق نہیں دینگے اور"

"بس مجھے نہیں پتا کچھ بھی کرتا ہی کیا ہے آخر وہ میری مت ماری گئی تھی جو شادی کر دی مگر اب مجھے نصیحت ہوگئی ہے اب یہ طلاق ہو کر رہے گی ورنہ نکاح کی ویسے بھی کوئی اہمیت نہیں ہے اور۔ نا تم ہماری بیٹی کو اس نکاح کا بتاؤ گی"

اپنے شوہر کی بات پر وہ بس ان کا چہرہ دیکھ کر رہ گئیں۔

وہ اسکے بانہوں کے حصار میں قید تھی اور وہ اسکے محسوس کرتا اسکے ایک ایک نقش کو اپنے لبوں سے چھو کر معتبر کر رہا تھا.

"مجھے نہیں پتا کیوں مگر یہ آنکھیں مجھے اس دنیا کی سب سے خوبصورت آنکھیں۔ لگتی ہیں"

اسکی آنکھوں پر اپنے لب رکھتے وہ آہستہ سے بولا تو رحہ کے چہرے پر الوہی مسکراہٹ نے ڈیرہ جمایا تھا

مجھے لگتا تھا میں کبھی شادی نہیں کر سکوں گا میں شادی سے بہے خائف تھا اماں کے بار بار کہنے کے باوجود مجھے مجھے یقین تھا کہ میرا صبر رائگاں نہیں جائے گا۔۔"اسکی پلکوں کو چھوتے وہ سرگوشی میں بولا تو رحہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا۔

"کیا آپ مجھے پہلے سے جانتے ہیں وجی ؟"اس کے کالر کو مٹھی میں جکڑتے اس نے پوچھا تو وجدان نے بغور اسکا چہرہ دیکھا۔

"اگر میں کہوں کہ ہاں تو؟"

"تو میں جاننا چاہوں گی کہ آپ کب سے مجھے جانتے ہیں"

"تو میں کہوں گا بچپن سے جب سے ہوش سنبھالا صرف ایک کام کیا ہے تم سے محبت کرنے کا"اس کی بات پر اب کے چونکنے کی باری اسکی تھی۔

"وجی۔۔۔۔۔"

"میں وہ انسان ہوں رحہ جس سے نکاح میں تم اس وقت بندھی تھیں جب تمہیں خود کا بھی ہوش نہیں تھا محض پانچ سال کی عمر میں "وہ اسکے سر پر دھماکہ کر گیا تھا اس نے بے یقینی سے اس نے ایک جھٹکے سے اسے دیکھا تھا۔

"ہاں یہی سچ ہے نکاح کے بعد میرے بابا کا تبادلہ ہوگیا تھا اور ہم دوسرے شہر شفٹ ہوگئے بابا کے اچانک انتقال کے بعد ہم واپس آئے تو تم لوگ وہاں نہیں تھے۔

ہم نے سب سے معلوم کروایا مگر تمہارا کچھ پتا نا چل سکا۔

میں ایک عرصے تک تمہیں ڈھونڈتا رہا۔

میں پولیس فیلڈ میں بھی اسی لئے آیا تاکہ تمہیں ڈھونڈ سکوں تب میرے پاس صفیر کیس لے کر آیا تمہارا نام اور پھر تمہارے بابا کا نام سن کر میں چونک اٹھا جب معلوم کروایا تو تم میری ہی رحہ نکلیں۔

میں تمہیں ڈھونڈنے نکلا تو راستے میں تم مجھے مل گئیں۔

میں تمہیں سچ بتانا چاہتا تھا مگر میں جانتا تھا تم سچ پر یقین نہیں کرو گی اور پھر تمہاری حفاظت کرنا میرے لئے بہت ضروری تھا جبھی اتنا بڑا قدم مجھے اٹھانا پڑا۔

اماں تو تمہیں دیکھتے ہی پہچان گئی تھیں مگر میں نے انہیں سمجھایا کہ ابھی تم شاید اس حقیقت کو برداشت نا کر سکو میں تمہیں کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا رحہ"

اسکی باتوں پر رحہ کا دماغ ماضی میں الجھا تھا اسے اب سمجھ آیا تھا کیوں اسکے بابا بار بار اسکی شادی کے لئے زور دیتے تھے کیوں بچپن میں ہی اسکے رشتے ہوکر ٹوٹ جاتے تھے۔

وہ اسکے لئے امیر سے امیر لڑکے ڈھونڈتے تھے اور اس بات سے اس نے اکثر اپنی ماں کو پریشان دیکھا تھا اسے اب سب سمجھ آرہا تھا تو دل کیا چیخے وہ اسکا نکاح کر نکاح کرنا چاہتے تھے اگر وہ اغوا نا ہوتی اگر اسکی صفیر سے شادی ہوجاتی تو وہ زنا جیسے عمل کی مرتکب ہوتی وہ ایک گناہوں بھری زندگی گزارتی۔۔

یہ سوچ آتے ہی اسکے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے اور وہ وجدان کے سینے سے لگتے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔۔۔

"شششش۔۔۔ جان اس لئے نہیں بتایا کہ تم یوں رو رو کر خود کو تکلیف دو اس لئے بتایا ہے کہ یہ نیا رشتہ شروع کرنے سے پہلے ہمارے درمیان کوئی جھوٹ نا ہو ہمارے درمیاں کوئی راز نا ہو"اسکی گردن میں جھکتے وہ سرگوشی کرتا اسکے بیوٹی بون کو لبوں دے چھوتا پیچھے ہٹا تو اس نے نم آنکھوں سے وجدان کو دیکھا اور آہستہ سے اپنے لب اسکے لبوں پر رکھ کر خود کو اسکے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔۔

وجدان کے لئے یہ بہت بڑا جھٹکا تھا وہ تو سمجھتا تھا سچ جاننے کے بعد وہ اسے قبول کرنے سے انکار کردے گی اپنے باپ کو کوئی بھی بیٹی کبھی غلط نہیں سمجھتی مگر وہ کیا جانتا تھا کتنا کچھ وہ برداشت کر کے بیٹھی ہے۔۔"

وجدان آہستہ آہستہ اپنی سانسیں اس میں انڈیل کر اسے اپنے ہونے کا احساس دلا رہا تھا اس کا ہاتھ رحہ کے پور پور کو محسوس کر رہا تھا۔

اور وہ آنکھیں موندے اسکا لمس اپنے جسم پر محسوس کر سکون میں تھی۔

یہ وہ سکون تھا جو اسے کسی اور دنیا میں لے گیا تھا۔۔

وجدان نے اسکو ہونٹوں کو آزادی دیتے اسکی گردن کو اپنے لبوں سے چھوا اور پھر وہاں اپنی محبت کا نشان چھوڑتے اس نے بیوٹی بون پر اپنے لب رکھے تھے۔

اسکی شرٹ کندھوں سے سرکاتے وہ اپنے لب وہاں رکھ گیا اور پھر آہستہ سے وہ پورا اس پر حاوی ہوا تھا اپنے پورے وجود پر اسکے ہونٹوں کا لمس محسوس کر رحہ نے اسکی شرٹ کو مٹھیوں سے تھاما تو وہ زرا سا اٹھ کر اپنی شرٹ اتار دور پھینک گیا۔۔

اسے یوں دیکھ رحہ کا دل بری طرح دھڑکا تھا وہ آہستہ سے اس پر جھکتا اسکے لبوں کو ایک بار پھر اپنی گرفت میں لے گیا۔

وہ اس پر حاوی ہوتا اپنی شدتوں سے اسے روشناس کروا رہا تھا۔

وہ آنکھیں بند کئے بس اسے محسوس کر رہی تھی وہ رفتہ رفتہ اسکی روح میں تحلیل ہوتا جارہا تھا۔۔

رحہ نے زرا سی آنکھیں کھول خود پر جھکے اس شخص کو دیکھا تھا جو اپنی محبت کی بارش کی اسے پور پور کر بھگو رہا تھا

وہ سراپا محبت تھا اسکے لئے وہ ہر حال میں اسکے ساتھ تھا اور یہی یقین اسے مایوس نہیں ہونے دے رہا تھا اسکی وجہ سے اسکی بہن آج محفوظ ہاتھوں میں تھی اور ایک لڑکی کو کیا چاہیے ہوتا ہے وہ اپنے ماضی سے انجان بالکل بھی نہیں تھی مگر ابھی صحیح وقت نہیں آیا تھا کہ وہ ان رازوں سے پردہ اٹھا دے جنہیں وہ خود سے بھی چھپائے بیٹھی تھی۔

وجدان کی گردن کے گرد بانہیں ڈالے وہ اسکی گردن میں اپنا چہرہ چھپا گئی وہ اس وقت صرف اور صرف اسے محسوس کرنا چاہتی تھی جس سے اس نے بے تحاشہ محبت کی تھی بے غرض اور بے لوث

_____________

اسپتال کا کاریڈور اس طرف سنسان پڑا تھا۔

پہرداری پر معمور کانسٹیبل سردی کی وجہ سے چائے پینے گئے تھے۔

وہ ماسک پہنے کالی چادر خود پر تانے آہستہ سے اندر داخل ہوا تھا جہاں شمس صاحب بستر پر بے ہوش پڑے تھے ۔

اس نے ایک نظر اس شخص کو دیکھا آنکھوں میں نفرت ہی نفرت تھی کہ شعلے سے لپک رہے تھے۔

اس نے دبے قدموں سے وہ فاصلہ عبور کیا تھا اور پھر بہت خاموشی سے مشین کا بٹن بند کیا تھا۔

ایسے کرتے اسکی آنکھوں میں کئ کرچیاں تھیں مگر وہ کمزور نہیں تھا۔۔

وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی دبے قدموں واپس پلٹ گیا کیونکہ اب یہاں رہنا بے فضول تھا وہ اپنا کام پورا کر چکا تھا اب آگے دیکھنا تھا کہ اسکا کام ہوا ہے یا نہیں ۔

آنکھوں میں ایک عجیب سا تاثر لئے وہ وہاں سے نکلتا چلے گیا اور اسکے جاتے ہی دوسری طرف سے کانسٹبل واپس سے ڈیوٹی پر آئے تھے۔

______

آئینے میں کھڑی وہ اپنے بال بنا رہی تھی جب صفیر نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیا اور آہستہ سے اسکے بال سائیڈ کرتے اپنے لگ اسکی گردن پر رکھے تو شرم سے اسکی پلکیں جھکی تھیں

"مارننگ میری جان"کل صبح ایک اہم کام کے سلسلے میں صفیر کو جانا پڑا تھا اور اب رات کا گیا وہ اب آیا تھا۔

"اسلام وعلیکم مارننگ"اپنے پیٹ پر بندھے اسکے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتے وہ شرمگیں مسکراہٹ کے ساتھ بولی تو صفیر نے مخمور نگاہوں کے ساتھ اسے دیکھا تھا

"ناراض تو نہیں ہوں نا مجھ سے میں یوں ہی چھوڑ کر چلا گیا تھا"

اسکے کان پر لب رکھتے وہ اس سے پوچھ رہا تھا جو اسکے لمس سے خود میں سمٹی جارہی تھی۔

"میں بھلا کیوں آپ سے ناراض ہونگی یہ تو آپ کا کام ہے نا اور مجھے سمجھنا ہوگا "اسکی بات پر صفیر نے اسکے پچھلی گردن پر اپنے لب رکھے اور پھر آہستہ سے اپنی جیب سے ایک لاکٹ نکال کر اسکی صراحی دار گردن کی زینت بنایا تھا۔

اتنا خوبصورت لاکٹ دیکھ اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں۔

"صفیر یہ۔۔۔۔"

"یہ منہ دیکھائی جو میں پہلے ہی دے دیتا اگر مجھے جانا نا ہوتا مگر اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے یہ میری طرف سے میری بیوی کو ایک خوبصورت تحفہ"

اسکا رخ اپنی طرف کرتے صفیر نے اسکے ماتھے پر لب رکھے وہ سدرہ نے آہستہ سے اپنی آنکھیں موندی تھیں

صفیر نے جھک کر ان بند آنکھوں کو اپنے لبوں سے چھوا اور ایسے ہی گال پر لب رکھتے وہ آہستہ سے اسکے لبوں کو اپنی گرفت میں لیتے اسکی سانسوں کو پینے لگا۔۔

سدرہ نے گھبرا کر اسکی شرٹ کو مٹھیوں میں۔ دبوچا تو وہ اسے کمر سے پکڑتا ڈریسنگ پر بیٹھا گیا

وہ مدہوش سا اس پر جھکا تھا کہ وہ مزاحمت بھی نہیں کر پارہی تھی کیونکہ وہ بری طرح اسے اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔

"صفیر باہر امی"اسے بانہوں میں بھرے وہ بیڈ کی جانب بڑھا تو سدرہ نے بوکھلا کر اسے ہوش دلانے کی کوشش کی

"امی کو پتا ہے بیٹا ایک دن بعد گھر آیا ہے بہو آج فارغ نہیں ملے گی"اتنا کہتے وہ اسے بیڈ پر لٹا کر خود اس پر حاوی ہوا تھا۔

اپنی شرٹ اتار کر دور پھینکتے وہ اس پر حاوی ہوا اور اسے لمحوں میں پوری دنیا بھلا گیا۔

وہ آنکھیں بند کئے اسے محسوس کر رہی تھی جان تو تب نکلی جب قمیض کی زپ کھلتی محسوس ہوئی

"صفیر"

"شش۔۔۔۔ بہت تھک گیا ہوں آج یہ تھکن اتارنے دو"اسکی شہہ رگ کو لبوں سے چھوتے وہ آہستہ سے اسکی شرٹ نیچے سرکا گیا۔۔

سدرہ نے خود کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا۔۔

__________

آج وہ اپنے مقصد کے ایک قدم اور نزدیک پہنچ گیا تھا اب محض کچھ وقت بچا تھا اور اسکا بدلہ پورا ہوجاتا جس مقصد کے لئے وہ کنگ بنا تھا وہ مقصد پورا ہوجاتا وہ خوش تھا آج بے حد خوش اسے آج سے پہلے اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی تھی۔

ماہ جبیں نے اسکے کھلے چہرے کو دیکھ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسکی نظر اتاری تھی۔

"میں تمہیں ہمیشہ یونہی خوش دیکھنا چاہتی ہوں"

ماہ جبیں کی بات پر وہ مسکرایا تھا۔

"اور میں چاہتا ہوں کہ تم خوش رہو تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے ماہ مگر اب وقت آگیا ہے اپنے دشمنوں کو سبق سیکھانے گا گناہگار کو اس کے گناہ کی سزا مل کر رہے گی پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے میں اپنا بدلہ لے کر رہوں گا۔

پھر کوئی ہمت نہیں کرے گا میرے آگے آنے کی میرا مقابلہ کرنے کی مجھ سے چالاکی کرنے کی"

اسکی بات پر ماہ جبیں نے مسکرا کر اسکے آگے گلاس رکھا اور خود اسکے پہلو میں دراز ہوئی تھی۔

کنگ نے اسے آہستہ سے کمر سے پکڑ کر اپنے نزدیک کیا تھا۔

"اس سفر میں تم نے میرا بہت ساتھ دیا ہے میں خوش قسمت ہوں جو تم مجھے ملی"وہ کبھی اس طرح نہیں کرتا تھا ج ضرور کچھ ایسا ہوا تھا کہ وہ ایسے کر رہا تھا۔

"تمہیں خوش دیکھ کر میرے دن بھر کر تھکن اتر گئی ہے کنگ میری دعا ہے تم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاؤ اور پھر ہم دونوں یہاں سے بہت دور چلے جائینگے جہاں کوئی ہمیں نہیں جانتا ہوگا"اسکی شرٹ کے بٹن سے کھیلتے وہ آنے والے دنوں کا سوچ رہی تھی۔

وہ اپنا جسم بیچنے پر مجبور تھی مگر اب مزید نہیں وہ دونوں اپنے مقصد کے بے حد قریب تھے

کنگ نے آہستہ سے اسے خود پر جھکایا اور اسکے لبوں پر اپنے لب رکھے۔

"وہ ہماری دنیا ہوگی پھر چاہے وہ ہمیں مرنے کے بعد ہی کیوں نا ملے"

اسکی بات سمجھتے وہ مسکرائی تھی۔۔

"مجھے یقین ہے تم پر"اسکا ہاتھ مضبوطی سے تھامتے وہ پریقین تھی۔

_____________

اسکی آنکھ کھلی تو خالی کمرہ دیکھ وہ فوراً سے اٹھ بیٹھی۔

"وجدان آپ باہر ہیں؟"خود کا حلیہ ٹھیک کرتے وہ باہر آئی تو وجدان کہیں نہیں تھا۔

گھڑی صبح کے چھ بجا رہی تھی اتنی صبح صبح وجدان کی غیر موجودگی نے اس بے حد اداس کردیا تھا

"لگتا ہے پھر کسی کیس کے سلسلے میں چلے گئے ہیں"خود سے کہتے وہ واپس بیڈ پر آکر بیٹھ گئی رات انہیں سوتے ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی وہ اپنے آنکھ کھلنے پر حیران تھی لیکن اب دوبارہ سونا مظلھ سر درد کو دعوت دینا۔

وہ اٹھ کر فریش ہوئی اور آئینے کے سامنے آکر اس نے اپنا ایک نیا روپ دیکھا

اسے خود میں وجدان کا عکس دیکھا تھا چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ آئی تھی اپنے گردن پر ہاتھ رکھ اسنے وجدان کے دئے نشاں کو چھوا تھا اسکے ایک ایک پور پر اس شخص کی حکمرانی تھی اسکا نقش تھا۔

اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے اسے اس شخص کا لمس یاد آیا تو نگاہیں خود بہ خود جھکی تھیں۔

بھلا کوئی یوں بھی اسے چاہے گا اس نے تو سوچا بھی نہیں تھا آج وہ مکمل ہوگئی تھی اسکا عشق مکمل ہوگیا تھا اور اب ایک اور چیز تھی جسے مکمل کرنا تھا اور اسکا اسے بے صبری سے انتظار تھا

چادر میں خود کو چھپائے وہ وجود آہستہ سے وہاں سے نکلتا ایک گاڑی میں بیٹھا تھا۔

دل میں پکڑے جانے کا خوف بھی تھا مگر یہ قدم ایک نا ایک دن تو اٹھانا ہی تھا اور اب جب موقع تھا تو وہ یہ موقع کیسے ضائع ہونے دیتے۔۔

گاڑی مختلف راستوں سے ہوتی اپنے مخصوص ٹھکانے پر پہنچی تھی اس نے گہرا سانس بھرا تھا اور گاڑی سے اترتے وہ آہستہ سے چلتے اوپر اس جگہ رکا جہاں سے سب شروع ہوا تھا۔

اندر قدم رکھے تو سامنے ہی کنگ کو براجمان پایا۔

"فائنلی تم آگئیں"

کنگ نے کھڑے ہو کر بانہیں پھیلائیں تو وہ وجود بھاگ کر اسکے سینے سے لگا تھا۔

"کیسی ہو"اسکے ماتھے پر لب رکھے تو چادر اس کے سر سے ڈھلکی تھی۔

کنگ نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔

"وجدان کو پتا تو نہیں چلا نا کہ تم یہاں ہوں"

کنگ کی بات پر اس نے نفی میں سر ہلایا تھا۔

تبھی اچانک کنگ نے اپنا ماسک اتارا تھا۔۔

"وجدان کا کوئی ہاتھ نہیں ہے اس سب میں یہ سب بابا کا کیا دھرا ہے وہی ہے جنہوں نے بچپن میں میرا نکاح وجدان سے کروایا اور لالچ میں اب کسی اور سے میری شادی کروا رہے تھے۔

"وہ ایسا اب کبھی نہیں کرسکیں گے کیونکہ اب ایسا کرنے کے لئے انہیں طاقت چاہیے جو ان کے پاس نہیں"

"کنگ کی آنکھوں میں شعلے لپکے تھے

"مجھے خوشی ہے رحہ تم نے سچ جان کر میرا ساتھ دیا تمہاری وجہ سے میں اپنی منزل کے بہت قریب پہنچ گیا ہوں"

"صرف میری بیوی کی وجہ سے مجھے کریڈٹ نہیں دو گے صبور؟"وجدان کی آواز پر وہ دونوں بری طرح چونکے تھے۔

رحہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑی تھیں وہیں یہ جان کر کہ کنگ کوئی اور نہیں صبور ہی ہے وجدان جو جھٹکا لگا تھا مگر یہ وقت جزباتی ہونے کا نہیں تھا۔

صبور نے اسکے بڑھتے قدم دیکھے تو رحہ کو بے ساختہ اپنے پیچھے کیا تھا۔

"بے فکر رہو اسے کچھ نہیں کہوں گا کیونکہ اس سے دل کا رشتہ ہے مگر تم اتنا بڑا سچ مجھ سے چھپا کر میرے ہی انڈر کام کرتے رہے اور مجھے پتا ہی نہیں چل سکا میں واقعی ایک بیوقوف مرد ہوں جو جذبوں اور رشتوں پر یقین رکھتا ہے۔"وجدان کی بات پر اسکا دل کٹا تھا وہ اسے سچ نہیں بتا سکتی تھی اور جھوٹ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس سے بول گئی تھی ایسا سوچ جس کی کوئی معافی نہیں تھی۔

"رحہ کا اس سب میں کوئی ہاتھ نہیں ہے وجدان"

"جانتا ہوں مگر میں آج صرف سچ سننا چاہتا ہوں صبور اس کنگ کا سچ جو وہ آج تک اس دنیا سے چھپاتا آیا ہے"

وجدان کی بات پر اس نے گہری سانس بھر کر اپنے پیچھے چھپی رحہ کو دیکھا تھا وہ اپنی وجہ سے اپنی بہن کا گھر برباد نہیں ہونے دے سکتا تھا ایسا تو وہ مر کر بھی نہیں کر سکتا تھا۔

رحہ نے اسے اشارے سے منع کرنا چاہا مگر وہ اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسے اپنے ہونے کا یقین دلاتا سر ہلا گیا۔

"آجاؤ یہاں بات کرنا ٹھیک نہیں ہے" وجدان کو اشارہ کرتا وہ رحہ کا ہاتھ تھامے آگے بڑھا تو وہ آہستہ سے اسکے پیچھے بڑھا تھا۔

_________

اس کوٹھے میں ماہ جبیں کو وہ ملا تھا گیارہ سال کا صبور۔۔۔

جس کا اسے اپنا نہیں مانتا تھا اپنی ماں کو دوسروں کی راتیں رنگیں کرتے دیکھ اسکا کیلجہ چھلنی ہوتا تھا اور ہو آدمی روز آکر اسکی ماں کو رلاتا تھا وہ چھوٹا بچہ ڈر کر ماہ جبیں کے پاس جا کر چھپ جاتا اور وہ خود ظلم کی شکار اسے خود میں چھپا لیتی۔

ناجانے کب تک یہی سب چلتا رہتا کہ اسکی ماں ایک بار پھر امید سے ہوگئی اس آدمی نے ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیا۔

اور جب بیٹی کی پیدائش ہوئی تو ایک رات وہ چپکے سے آکر اس بچی کو لے گیا۔۔

اسکی ماں نے رو رو کر برا حال کر لیا۔

اسکا باپ ایک اچھا آدمی نہیں تھا۔

وہ اپنی بہن کو ڈھونڈنے باہر نکلا تو کچھ اوباش آدمیوں کے ہتھے چڑ گیا اور جب اسکے سامنے اسکے باپ کا چہرہ آیا تو اسے یقین نہیں آیا کہ اسکا باپ اسے بیچ سکتا ہے۔

ان آدمیوں نے اسکی معصومیت چھین لی تھی۔۔

وہ روتا بلکتا سسکتا رہا تڑپتا رہا۔

مگر ان ظالموں نے اسے نا بخشا اسکا باپ اسکا سودا کر گیا تھا۔

وہ ناجانے کتنے دنوں تک ناجانے کتنے لوگوں کا نشانہ بنتا رہا۔

اسے رہ رہ کر اپنی ماں کی فکر ستا رہی تھی وہ پہلے ہی بیٹی کے غم میں مبتلا تھی اسکی گمشدگی نے اسکی ماں کا کیا کیا ہوگا۔۔

وہ سوچوں میں گم تھا اسے یہاں آئے مہینہ ہونے کو آیا تھا تب اسے پتا چلا اسکا باپ اسکی بہن کا سودا کرنے آیا تھا مگر وہ بچی بہت چھوٹی تھی اس لئے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا۔

یہ سن کر اسکی نسین پھولنے لگی تھیں۔

دماغ پھٹ رہا تھا۔

اسے کیسے بھی کر کے اپنے باپ کا پتا کرنا تھا۔

ایک سال دو سال وہ یونہی دربدر بھٹکتا رہا اور کبھی کسی کے بستر پر تو کبھی فٹ پاتھ پر پھینک مانگتا..

پانچ سال گزر گئے تھے وہ واپس نہیں جا سکا تھا روز مشقت کے بعد وہ اپنی ماں کے لئے روتا تھا اور پھر اسکی دعائیں رنگ لے آئی تھیں۔

وہ وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوا تو اپنے باپ کو ڈھونڈا تھا۔

کو ہمیشہ کی طرح جوئے کے اڈے پر تھا اسکی بہن کا نکاح ہوچکا تھا۔۔

وہ اپنی ماں کے پاس جانا چاہتا تھا بہت مشکل سے بچتے بچاتے وہ کوٹھے پر پہنچا تو اسے ماہ جبیں نے ایک کمرے میں بند کردیا وہ رو رہا تھا اپنی ماں کے لئے تب اس پر یہ ہولناک انکشاف ہوا کہ اسکی ماں اسکے پیچھے گئی تھی اور کچھ لوگوں نے اسے اغوا کر لیا اور پھر کچھ وقت بعد اسکی کٹی پھٹی لاش ملی تھی جس کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

وہ بکھر گیا تھا کرنے والا سب اسکا اپنا باپ تھا ایسے وقتوں نے ماہ جبیں نے اسے سہارا دیا اور دنیا کی نظروں سے چھپا دیا۔

اسکی ساری تعلیم تربیت ماہ جبیں نے کی تھی وہ اسے اپنے ساتھ رکھتی تھی جتنا کچھ اسے آتا تھا وہ صبور کو سیکھاتی جاتی۔

وہ عمر میں اس سے بڑی ضرور تھی مگر اسکا تجربہ سب سے زیادہ تھا اس نے اس کوٹھے کے لئے بہت کچھ کیا تھا اور صبور کے لئے بھی۔

لیکن اسکا خاندان تو بکھر چکا تھا اسے اپنے باپ سے بدلہ لینا تھا وہ اس پر نظر رکھتا تھا وہ جس شہر جاتا اس پر نظر رکھتا اور پھر وقت گزرتا گیا اور وہ بڑا ہوگیا۔

اس نے اپنے آدمیوں کے ساتھ ایک ٹیم بنائی جس میں لوگوں کو گندے درندوں سے محفوظ رکھا جاتا تھا۔

جمیل اور سبحان اسکے خاص آدمی تھے وہ دونوں ہی اسکے اور ماہ جبیں کی حقیقت سے انجان تھے۔

وہ ماہ جبیں کے لئے جذبات رکھتا تھا مگر وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھ سکتا تھا وہ پولیس فیلڈ میں اسی لئے آیا تھا اور اسے بہت خوشی ہوئی تھی وجدان سے مل کر۔

وہ لوگوں کے لئے کام کرتا تھا اور اس سے اچھا ان لوگوں کے لئے کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

پھر ایک کالج جاتے اس نے رحہ کا راستہ روکا اور اسے ساری حقیقت بتا دی۔

سچ پر یقین کرنا بہت مشکل تھا مگر اپنے باپ کے رویے سے وہ اچھے سے واقف تھی اور اسکے تانے۔۔

اس نے صبور سے وعدہ کیا کہ وہ واپس اسکے پاس آجائے گی اور کبھی نکاح کر نکاح نہیں کرے گی اور ٹھیک نکاح کے بعد وہ صبور کے پاس آگئی۔

سبحان اور جمیل کی وجہ سے اسے یہ سب ناٹک کرنا پڑا تھا اور ان دونوں نے اسے بھاگنے میں مدد کی تھی۔

کنگ کی موجودگی میں وہ اس پر ظلم کرتے تھے مگر زیادہ نہیں اور کچھ نشانات وہ جان کر خود کو دیتی تھی تاکہ ان دونوں کو شک نا گزرے۔۔۔

وہ وہاں سے نکلی تو اسے سمجھ نہیں آیا وہ کہاں جائے جب اچانک وہ وجدان کی گاڑی سے ٹکرائی تھی۔

وہ حد سے زیادہ خوفزدہ ہوچکی تھی۔

وجدان اسے لئے اپنے ساتھ لے آیا اور جب اس نے وہاں صبور کو دیکھا تو اسکی جان میں جان آئی تھی۔

دوبارہ سے نکاح کرنے کا مشورہ بھی صبور کا تھا کیونکہ اس کے نزدیک بچپن کا نکاح نکاح نہیں ہوتا وہ وجدان کے ساتھ مل کر دشمنوں کو دھول چٹا رہا تھا۔

وجدان کو اس بات کو علم تھا کہ کنگ برا نہیں ہے بلکہ وہ ہر قدم پر اسکی مدد ہی کرتا تھا۔۔

وہ اپنے باپ کو سبق سکھانا چاہتا تھا اسے لگتا تھا رحہ کے اغوا ہونے سے اسکا باپ کچھ نا کچھ سبق ضرور حاصل کرے گا مگر انتہا تب ہوئی جب اس نے سدرہ کا سودا کرنا چاہا وہ ایک لالچی آدمی تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اسکی لالچ بڑھتی جارہی تھی۔۔

"یہ سب ٹھیک ہے مگر تم نے ان کے گھر حملہ کیوں کروایا"؟

اسکے خاموش ہونے پر وجدان نے سوال کیا تو اسنے نا میں سر ہلایا۔

"میں نے کوئی حملہ نہیں کروایا تھا اور میرے لوگ معلوم کر رہے ہیں کہ حملہ کس نے کروایا ہے۔"

ابھی وہ اسی بات کو کر رہے تھے جب وجدان اور صبور دونوں کا فون ایک ساتھ رنگ ہوا تھا۔

فون اٹھانے پر جو خبر ان دونوں کو ملی اس نے ان دونوں کے قدموں سے زمین کھینچ لی تھی۔

________

شمس صاحب کو کسی نے قتل کردیا تھا اسپتال کی سی سی ٹی وی سے ایک شخص نظر آیا مگر چہرہ چھپا ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اسے پہچان نہیں پائے تھے۔

رحہ اور سدرہ اتنے وقت بعد مل کر خوب روئی تھیں اور اب بھی وہ اپنے گھر کے بجائے صفیر کے گھر موجود تھیں۔

صبور نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا۔

"اگر ان کا قتل کسی اور نے کیا ہے تو کون ہے وہ کیا کوئی اور دشمن؟" صبور کی بات پر وہ چونکا تھا

"کیا لگتا ہے صبور کون ہوسکتا ہے جس کی ان سے دشمنی ہو؟

"ان کی ہر ایک سے دشمنی تھی وہ میرا باپ تھا میں اسے سزا دینا چاہتا تھا مگر مارنا ہر گز نہیں چاہتا تھا نا میرا کوئی ایسا ارادہ تھا وہ جو کوئی بھی ہے اس نے اتنا بڑا قدم ایسے ہی تو نہیں اٹھایا۔

"ہممم صبور ماہ جبیں سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟"

اسکی بات پر صبور چونکا تھا وہ کیا بتاتا کہ اتنے سال سے گناہ کی ایک دلدل میں پھنسا ہوا ہے جس سے چاہ کر بھی وہ باہر نہیں آسکتا کہ اس عورت کے اس پر کئی احسان تھے۔۔

"وہ میری ایک غلطی ہے جو میرے گناہوں کا بڑھا گئی اس نے جتنی مدد کی اسکا شکر گزار ہوں مگر کچھ ایسا ہے جو وہ چھپاتی ہے اور کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔"

وہ اپنی بات ابھی مکمل بھی نہیں کر پایا تھا جب ایک خبر نے ان دونوں کو ساکت کیا تھا۔

"ماہ جبیں بائی نے خودکشی کر لی ہے باس"وجدان کا اہلکار آکر اس سے بول رہا تھا اور وہ دونوں بے یقینی سے اسے دیکھ رہے تھے۔

وہ دونوں فوراً سے وہاں پہنچے تھے تب صبور کے ہاتھ ایک خط لگا تھا جو کنگ کے نام تھا۔

"کنگ۔۔۔

میں جانتی ہوں سچ جاننے کے بعد تم مجھ سے نفرت کرو گے مگر میں اب میں تھک گئی ہوں سچائی کو چھپا چھپا کر۔

تمہاری ماں کے مرنے کے پیچھے صرف تمہارا باپ ہی زمہ دار نہیں تھا بلکہ میں اس سب میں برابر کی شریک رہی تھی مجھے اس سے محبت ہوگئی تھی اور ہم دونوں نے مل کر وہ سب کیا تھا۔

اور ہمارا کام آسان تھا بھی مگر مجھے اس کی اصلیت معلوم ہوگئی وہ میرا سودا کرنے لگا تھا میں دوسرے بڑے آدمیوں کے ساتھ وقت گزارتی اور وہ مجھے ایک ڈھیلا نہیں دیتا اور میں اسکی محبت میں ہر چیز کرنے کو تیار تھی میں نے تمہاری ماں کو رستے سے ہٹا دیا اور جب شمس کی بکواس بڑھنے لگی تو میں نے اسے بھی ہمیشہ کے لئے کومہ میں بھیج دیا مگر مجھے شک تھا وہ ضرور ناٹک کر رہا ہے اس لئے میں نے اسے ختم کردیا ۔

میں تھک گئی ہوں اپنی اس زندگی سے اس لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس دنیا کو چھوڑ کر جا رہی ہوں"

یہ خط اسکے باقی سوالوں کا جواب تھا۔

حقیقت تلخ تھی مگر وہ صبر کرگیا تھا اب انہیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا تھا۔

_______

وقت تیزی سے گزر رہا تھا جو ان کے زخموں کو مندل کر گیا تھا۔

سدرہ اور صفیر اپنے گھر میں خوش تھے ان کے دو بچے تھے۔

صفیر کا تبادلہ ہو گیا تھا اور اب وہ لاہور شفٹ ہو رہا تھا۔

وہ کب سے کھڑکی میں کھڑی ماضی کو سوچ رہی تھی ان کا ہنستا بستا گھر سب ختم ہوگیا تو اللہ نے اسے ایک نیا گھر دیا تھا اور وجدان اور ان کے بچے۔۔

زویا اور سوہم۔۔۔۔

اس کل کائنات تھے۔

وہ اپنی سوچوں میں تھی جب وجدان نے پیچھے سے اسے اپنے حصار میں قید کیا تھا اور اسکے بال سائیڈ کرتے اسکے کندھے کر اپنے لب رکھے تھے۔

"کن سوچوں میں گم ہو جان؟"

"آپ کب آئے ؟"

"جب آپ سوچون میں الجھی ہوئی تھیں "اسکے کنپٹی پر لب رکھتے وہ بولا تو رحہ ہولے سے مسکراتے اسکی طرف رخ کر گئی۔

"بہت مس کیا میں نے آج آپ کو پورا دن۔۔ سویم اور زویا تو سدرہ کے پاس ہی رک گئے ہیں آج"اسکے گلے میں بانہیں ڈالتے وہ منہ بسور کر بولی تو مسکراتے اس نے آہستہ سے ان لبوں کو اپنے لبوں سے چھوا تھا۔

"کوئی نہیں میں آگیا ہوں نا اب میری جان کا موڈ ایک دم اچھا ہوجائے گا"شرارت سے کہتے اس نے رحہ کو بانہوں میں بھرا تو اسنے کئی مکے اسکے کندھے پر مارے تھے مگر وہ اسے بیڈ پر ڈالتا اس پر ابر بن کر چھایا تھا۔

"آج سے ایک نئی شروعات ہماری"اسکی بند آنکھوں پر لب رکھتے وہ اسکے لبوں کو اپنے لبوں کی گرفت میں لے کر اسے سب دنیا بھلا گیا۔۔

ختم شد

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

Janam Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Janam written by Riha Shah.Janam by  Riha Shah is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages