Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 1&2 - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Saturday 28 September 2024

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 1&2

Hum Mil Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 1&2

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Storiesa

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Hum Mi Gaye Yuhi By Ismah Qureshi New Romantic Novel Episode 1&2

Novel Name: Hum Mi Gaye Yuhi 

Writer Name: Ismah Qureshi  

Category: Continue Novel

"پوچھے ان سے آخر کس دشمنی کی بنا پر انہوں نے ہمارے بھائ کو غائب کروایا ہے کہاں ہے وہ ۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ مجھے جواب چاہیے ۔۔۔۔ !!!!!!"

کسی کی جنگاڑتی ہوئ آواز اس وسیع میدان کے چاروں اطراف پھیلی اور سننے والوں میں سے اکثر کے دل لرزا گئ۔اپنی اوشن بلیو آنکھوں میں غصے کا ایک جہان لیے وہ اپنی نشست سے کسی بھپرے شیر کی مانند اٹھا۔گردن کی رگیں ابھر کر واضح ہوئیں۔سیاہ مردانہ سوٹ زیب تن کیے۔مردانہ سیاہ شال ہی دونوں شانوں پر پھیلاۓ یہ اٹھائیس سے انتیس سال کا شخص اپنی پوری وجاہت سمیت کسی کو بھی اپنے سامنے زیر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔پھر اس کا یہ غصہ تو تھا ہی اس کا بھی دشمن۔۔۔!!!!!

لہجہ انتہا کا سخت تھا کہ اگر کوئ کمزور دل سامنے کھڑا ہوتا تو اب تک نا کردہ جرم بھی قبول کرچکا ہوتا۔پر مقابل بیٹھا اسی کی عمر کا شخص اس کی للکار پر بس مٹھیاں بھینچ سکا۔

ضبط کی وجہ سے سختی سے مینچی گئیں اس کی آنکھیں گواہ تھیں کہ اسے اس وقت اس ناکردہ گناہ پر سراپہ سوال بننا کس قدر ناگوار گزر رہا ہے۔ان آنکھوں کو کھول کر اس نے سامنے خود کو زہریلی نگاہوں سے تکتے شخص کو دیکھا۔گرے سحر طاری کرتی آنکھوں کی کیفیت مقابل کی آنکھوں سے یکسر مختلف نا تھی۔

"درمان آفریدی۔۔۔!!!!!! میں نہیں جانتا تمہارا بھائ کہاں ہے۔۔۔ !!!!!! میں مر کر بھی ایسی گری ہوئی حرکت نہیں کرسکتا۔ اس لیے یہ الزام مجھ پر نہ لگاؤ۔۔۔!!!!! "

ابھی بھی کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوۓ دیار نے تنبیہہ کرنا چاہی۔بغیر کسی ثبوت کے اپنی بے گناہی ثابت کرنا اور دوسروں کی اٹھتی شک بھری نگاہوں کو سہنا کتنا مشکل ہوتا ہے کوئ اس سے پوچھتا جو یہ بات کہہ کہہ کر تھک چکا تھا کہ وہ اس معاملے میں بے قصور ہے۔ہر بار کی طرح اس بار بھی اس بات پر درمان آفریدی کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ ابھری۔

"تم سوچو گے کیوں ۔تم تو سیدھا سیدھا کرو گے۔۔۔!!!!! یقینا تم تو میرے بھائ کو اب تک مار بھی چکے ہو گے تبھی تو ایک ہفتے کی مسلسل تلاش کے باوجود وہ نہیں ملا ہمیں۔۔۔!!!!! اور رہی بات کہ تم کیسے یہ سب کرو گے تو تم نے جیسے آج سے ٹھیک پندرہ دن پہلے مجھے مار کر قبر میں اتارنے کی عظیم حرکت کی تھی ویسے ہی کرو گے۔۔۔۔!!!!!!!

اس بارے میں کیا کہنا ہے تمہارا دیار درانی۔۔۔!!!!!"

اپنی شال کو اپنا غصہ ضبط کرنے کی خاطر اس نے دائیں ہاتھ سے جھٹکا دے کر بائیں کندھے تک اوڑھا۔وہ اسے بہت کچھ یاد دلا چکا تھا۔وہی سب جو اسے سونے بھی نہیں دیتا تھا کہ وہ کسی کا مجرم ہے۔۔۔!!!!

جرگے میں بیٹھے معززین ان کی آپسی بحث سن رہے تھے۔وہ اس وقت ایک وسیع میدان میں موجود گھنے سایہ دار درخت کے نیچے اپنی اپنی نشستوں پر براجمان اس جھگڑے کو نمٹاکر ہی اٹھنا چاہتے تھے۔

درد کی لہر درمان کے سینے میں اٹھی تھی۔جسے وہ کمال مہارت سے چھپا گیا۔اپنا درد ظاہر کرنا درمان کو پسند نہیں تھا۔

"وہ غلطی تھی میری۔۔۔!!!! میں اعتراف کرچکا ہوں۔جو سزا تم دو گے مجھے قبول ہے۔۔۔!!!! لیکن اس بات کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب تمہارے علاقے میں چیونٹی بھی مرگئ تو دیار درانی نے ہی ماری ہوگی۔۔۔۔!!!!!"

دیار درانی نے لب بھینچے اس کی کنپٹی کی رگ اب کی بار شدت سے پھڑکی تھی۔وہ کب تک صفائیاں دیتا رہتا۔اس نے درمان کے چہرے سے نگاہیں ہٹالیں۔اس کے بابا نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے پرسکون ہونے کا اشارہ کیا جس سے سکون اب روٹھ چکا تھا۔

درمان کی اوشن بلیو آنکھوں میں تمسخر ابھرا۔اس نے تاسف سے دانت پیسے یہ باپ بیٹا اسے اس وقت زہر لگ رہے تھے۔جن کی بدولت پہلے وہ موت کے منہ تک پہنچا پھر اس کا بھائ لاپتہ ہوگیا۔اس کے بس میں ہوتا تو کب کا سب کچھ تہس نہس کرچکا ہوتا۔ابھی ان دونوں کو بات کرنے کا موقع دیا گیا تھا کہ شاید اس لڑائ کا آخر امن سے کرلیا جاۓ۔کیونکہ بدامنی کی صورت میں دوعلاقے کبھی نا ختم ہونے والی جنگ کا شکار ہوجاتے۔جو یہاں کسی کو بھی منظور نہیں تھا۔

"بس بہت ہوگئ یہ بحث۔۔۔!!!!! ان تین دنوں میں بہراور درانی یہ بات ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ مقابل بیٹھے دراب آفریدی کے بیٹے کی گمشدگی میں ان کے بیٹے کا کوئ ہاتھ نہیں۔جب کہ اب تک کی ساری باتوں کا رخ دیار کو ہی مجرم ثابت کررہا ہے۔جو درمان پر کیے گۓ حملے کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔پھر فدیان اپنی گمشدگی سے پہلے بھی اسی سے ہی مل کر گیا تھا۔۔۔۔!!!!!!

مسلسل تیسرے دن بھی ہم کوئ مناسب فیصلہ کیے بغیر واپس نہیں جاسکتے۔آج فیصلہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔۔۔!!!!

بتاؤ دراب آفریدی کیا چاہتے ہوتم۔۔۔!!!!"

ان دونوں کی بحث کو جرگے کی سربراہی نشست سنبھالے ہوۓ اس عمررسیدہ شخص کی بارعب آواز نے ختم کیا۔جسے سنتے ہی درمان ناچاہتے پوۓ بھی واپس اپنی نشست پر بیٹھا۔اس کے سینے پر موجود زخم سے اب ہلکا سا خون رسنے لگا تھا۔زخم بس دو ہفتے ہی تو پرانا تھا۔ابھی تو سٹریچز بھی نہیں اترے تھے۔اور وہ اسی غصے کے چلتے خود کے ساتھ برا کرچکا تھا۔حیران کن بات یہ تھی کہ وہ نارمل بیٹھا تھا۔جیسے کہ کچھ ہوا ہی نا ہو۔اسے درد محسوس ہی نہ ہوا۔۔۔!!!!!!

وہ سنگدل تھا اپنے معاملے میں بھی۔۔۔۔!!!!!!

 اب سب کا دھیان دراب آفریدی کی جانب تھا جن کے تاثرات سخت سے سخت ہوتے گۓ۔سب جانتے تھے اب جو بھی وہ کہیں گے سردار غیث امن کی خاطر وہی سزا متعین کردیں گے۔وہ ان کا قانون تھا۔

وہ وہاں سے اٹھے اور کروفر سے چلتے چند قدم آگے آۓ۔پھر دیار درانی پر ایک سخت نگاہ ڈالی دل میں اپنے لاڈلے کی گمشدگی کی کسک اٹھی۔دوسری طرف بیٹھا ان کا بیٹھا بھی بس معجزاتی طور پر ہی زندہ تھا۔ورنہ گولی اس کے دل کے پاس لگی تھی۔ان کی تکلیف الگ تھی۔اور ذمہ دار سامنے بیٹھا شخص۔۔۔!!!!!

"یہاں بیٹھے تمام معززین جانتے ہیں کہ آفریدی خاندان نے آج تک کسی سے دشمنی مول نہیں لی۔حتی کے اپنے خاندانی دشمنوں کو بھی معاف کرنے میں پہل کی ہے۔۔۔!!!!! مگر آج میرا ایک بیٹھا ناجانے زندہ بھی ہے یا نہیں اور دوسرا بیٹا موت کے منہ سے واپس آیا ہے...!!!!

میرے درمان کا خون اتنا سستا نہیں کہ میں کسی کو معاف کروں۔نا ہی ایک وقتی سزا سنا کر معاملہ رفع دفع کروں۔۔۔!!!!!

مجھے اس خون کا بدلہ چاہیے۔(ویسی ہی تکلیف کی صورت میں جو میں سہہ رہا ہوں۔اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے بہراور آفریدی اب تم جانو گے)

باقی آپ سب خود سمجھدار دیں۔ہمارے اصولوں کے مطابق فیصلہ سنایا جاۓ۔۔!!!"

سنجیدگی سے کہتے ان کی نظر جب بہراور درانی پر پڑی تو دل میں اس سے مخاطب ہوۓ۔پھر جو وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں مانگ چکے تھے دیار کی آنکھیوں میں بے یقینی پھر خون اترا۔

اس نے اپنے ساتھ بیٹھے اپنے باپ کو دیکھا پھر وہاں سے اٹھا۔

"جو آپ چاہتے ہیں وہ نہیں ہوسکتا۔کبھی نہیں ہوسکتا۔۔!!!!!! خون کا بدلہ چاہیے نا آپ کو۔تو دیری کیسی۔۔۔۔!!!!!! میں کھڑا ہوں آپ کے سامنے۔چلائیں گولی۔اور اپنے دل کو مطمئن کرلیں۔ میرا سینہ حاضر ہے۔ماریں مجھے اور لے لیں اپنا بدلہ۔۔۔!!!!!"

وہ تمام لحاظ بالائے طاق رکھ کر دھاڑا۔ہاں اس کی دھاڑ وہاں بیٹھے نفوس کو حیرت کے گہرے سمندر میں غوطہ زن کرگئ۔ وہ چیخنے چلانے والا انسان تھا ہی نہیں۔وہ تو اپنے لہجے میں ایسی شیرینی رکھتا تھا کہ لوگ فدا ہوۓ بغیر رہ نہ سکیں۔

پر اب حالات اسے سختی پر اکسا چکے تھے۔ایک لمحے کے لیے تو درمان بھی حیران ہوا۔پھر اگلے ہی لمحے وہ اپنی قمیض کی جیب سے اپنی پسٹل نکال کر اس پر تان چکا تھا۔

"بدلہ مجھے بھی چاہیے۔اور ابھی چاہیے بابا جان۔۔۔!!!!! "

اپنی نیلی آنکھیں مقابل کی الگ کشش رکھتی سرمئ آنکھوں میں گاڑ کر اس نے ٹریگر پر انگلی رکھی اور گولی چلادی۔فضا میں پرندوں کی خوف کے مارے آوازیں گونجئ۔ماحول میں اس دلخراش آواز کے بعد سکتہ چھاگیا۔سب اپنی نشستوں سے اچھل پڑے کہ ان کے دیکھتے دیکھتے کیا قیامت گزر گئی یہاں۔

ایسا تو کسی نے نہیں چاہا تھا۔درمان کی آنکھوں میں وہ غصہ اب بھی ویسا ہی تھا۔اور دیار اب بھی یونہی کھڑا تھا۔دراب درانی نے بروقت گن کا رخ آسمان کی طرف کردیا تھا تبھی گولی فضا میں کہیں غائب ہوگئ۔

دیار کو زندہ دیکھ کر سب کی جان میں جان آئ۔دیار نے اس سب کے دوران پلک بھی نہیں جھپکی تھی وہ تیار تھا مرنے کو تو ڈر کیسا۔۔۔!!!!!

"ایا ستاسو زوی په ښه مزاج کې دی۔۔۔۔؟؟؟(دماغ ٹھکانے پر ہے کیا آپ کا زوۓ(بیٹے)) جب ہم ابھی موجود ہیں تو آپ کیسے فیصلہ خود کرسکتے ہیں۔دماغ ٹھکانے پر لائیے اپنا۔۔۔!!!!"

انہوں نے گن اس کے ہاتھ سے چھینی تو ہر کسی کا اٹکا سانس بحال ہوا۔سردار تو ان سرپھرے لوگوں کے بیچ پھنس چکے تھے کہ جو اب فیصلہ بھی خود ہی لینا چاہتے ہیں۔پھر انہیں کیوں بلایا ہے یہاں۔۔۔!!!!!

وہ بس سوچ ہی سکے ۔

"کل اسی وقت اسی جگہ بہراور درانی کی بیٹی صلح کے لیے آفریدی خاندان کے حوالے کی جاۓ گی۔پر اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوۓ۔یعنی کل نکاح ہوگا درمان آفریدی کا ۔۔!!!! جرگہ کل تک برخاست کیا جاتا ہے۔۔۔!!!!"

انہوں نے وقت ضائع کیے بغیر ایک ہی سانس میں فیصلہ سنایا اور یہ جا وہ جا۔۔!!!

پیچھے دو نفوس کسی سوچ میں ڈوب گۓ۔درمان سے برداشت نہیں ہورہا تھا کہ وہ اب دشمن کی بیٹی سے نکاح کرے گا۔وہیں دیار شاکڈ تھا کہ اس کی بہن اب دشمن کے نکاح میں دی جاۓ گی۔جو اپنا غصہ اس معصوم پر اتارے گا۔

یہ سوچتے اس کی آنکھوں میں عجیب سا درد اٹھا۔اس نے باپ کی طرف ایک آخری بار امید سے دیکھا کہ شاید وہ راضی نہ ہوں پر وہ تو چپ تھے۔فدیان کہاں تھا وہ نہیں جانتا تھا۔پھر سزا اس کی بہن کیوں جھیلتی۔

"میں مرنے کو تیار ہوں پر میری بہن کہیں نہیں جاۓ گی۔۔۔!!!!"

باپ کا ہاتھ چھوڑتے وہ پھر سے میدان میں اترا جیسے سامنے موت نہیں چھٹیوں پر جانے کا انتظام ہوا ہو۔

"میں مارنے کو تیار ہوں۔۔!!!! لڑائ مردوں کی ہیں عورتوں کو بیچ میں لانا غیرت مندی کا کام نہیں ۔بات یہیں ختم کرتے ہیں۔۔!!!!"

درمان نے بھی شانے اچکاۓ کہ تمہیں مرنے کا اتنا شوق ہے تو چلو تمہیں مار ہی دیتے ہیں۔اس نے اپنی گن اپنے باپ کے ہاتھ سے لی اور دیار پر تان لی۔

سردار غیث نے اپنی گاڑی میں بیٹھتے ان دونوں کی باتیں سنی تھیں انہوں نے دو حرف بیجھے ان دو سر پھروں کی لڑائ پر اور گاڑی میں بیٹھ گے۔ان سے بحث کرنا دیوار سے ٹکڑ مارنے کے مترادف ہی تھا۔

"درمان زوۓ۔۔۔!!!! اگر اب کچھ کہا تو باپ کا مرا منہ دیکھو گے۔۔۔!!!"

دراب آفریدی نے جھنجھلا کر وہ گن واپس چھینی۔وہ للکارے تو وہ لب بھینچ کر رہ گیا۔

"دیار اگر تم نے اب کچھ کہا تو زرلشتہ کا گلا میں اپنے ہاتھوں سے گھونٹوں گا۔تمہیں بہن عزیز ہے تو مجھے تم عزیز ہو۔۔!!!! تم پر میں ہزار زرلشتہ قربان کرنے کو تیار ہوں۔اب بحث نہیں۔۔۔!!!"

انہوں نے دیار کی دنیا ہلادی۔وہ سمجھتا تھا اس کے بابا زرلشتہ پر اپنی جان بھی دے سکتے ہیں وہ اکلوتی اور لاڈلہ بیٹی تھی ان کی۔جسے آج تک انہوں نے کانٹا بھی نہ چبھنے دیا تھا اور آج کہہ رہے تھے وہ جیتی جاگتی بیٹی قربان کرسکتے ہیں۔

ٹھٹھکا تو وہاں سے اپنے لب سیتے جاتا درمان بھی کہ کوئ باپ کیسے بیٹے پر بیٹی قربان کرسکتا ہے۔لیکن وہ کچھ نہ بولا۔ورنہ باپ کی نافرمانی ہوتی۔

اس کی سیاہ قمیض خون سے تر تھی۔اس کی شال پر بھی خون کے نشان تھے۔جنہیں کوئ دیکھ نہ پایا۔

"بہن بہت عزیز ہے نا تمہیں دیار درانی۔۔۔!!!! اب اسی بہن کی حالت پر روؤں گے تم۔۔.!!!! تمہیں شکل دیکھنے کو نا ترسا دیا تو میرا نام بھی درمان آفریدی نہیں۔۔۔!!!!"

کچھ سوچ کر اس نے آخری نگاہ دیار پر ڈالی جو ابھی بھی شاکڈ تھا۔درمان سنگدل ہوچکا تھا۔یا ابھی غصے میں تھا تبھی یہ گری ہوئی سوچ اس کے ذہن میں آگئ۔وہ ایسا ہی تو تھا غصے میں وہ کچھ بھی کرجاتا اسے رحم نہیں آتا تھا پر بعد میں جب اس کا غصہ ٹھنڈا ہوتا تب پشیمانی اسے گھیرے رکھتی تھی۔اس کی زندگی الگ رخ لینے والی تھی جس کا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

┈┈┈┈ 𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼 ┈┈┈┈

"زرلش۔۔۔!!!!! اٹھ جاؤ بچے..!!!بابا به په غوسه شي چې راشي.(بابا آئیں گے تو غصہ کریں گے) دن چڑھ آیا ہے پر بچی تم اٹھنے کا نام نہیں لے رہی۔بچے اتنی دیر تک سونا لڑکیوں کو زیب نہیں دیتا۔بڑی ہوگئ ہو تم بچپنہ چھوڑ دو۔۔۔!!!"

کمرے کی کھڑی سے انہوں نے لائٹ پنک کرٹنز ہٹاۓ تو دوپہر کی دھوپ کھڑکیوں کے شیشے چیرتی کمفرٹر اوڑھے سوئی زرلشتہ کے چہرے پر پڑی۔اس دھوپ نے اس کی نیند میں حلل ڈالا تو وہ کمفرٹر چہرے تک اوڑھے سوگئ۔البتہ ماں کی دھمکی پر اس کا دل ہنسنے کو کیا کہ اس کے بابا بھلا کیوں اس پر غصہ کریں گے وہ دل تھی ان کا۔بھلا اپنے دل پر بھی کوئ غصہ کرتا ہے۔۔۔!!!!!

"یہ دھمکیاں لالہ جان کو دیجۓ گا مما ۔.!!!! مجھ پر اثر نہیں ہونے والا۔۔۔!!!"

کمفرٹر سے اس کی نیند میں ڈوبی آواز آئ۔رخمینہ بیگم اس کا پھیلاوا سمیٹ رہی تھیں۔کمرے میں جگہ جگہ اس کی کتابیں بکھری پڑی تھیں۔اور کھانے پینے کی چیزیں بھی۔جن کے بغیر اس کا گزارہ تھا ہی نہیں۔سارے ریپرز اکٹھے کرکے انہوں نے ڈسٹ بن میں پھینکے جو ان کے خیال میں اس کمرے میں بےکار ہی پڑی تھی کیونکہ زرلشتہ میڈم اس کا استعمال شاذ و نادر ہی کرتیں جب ان کا دل ریپرز نشانہ باندھ کر اس میں پھینکے کو کرتا صرف تب۔۔۔!!!!

"اٹھ بھی جاؤ ۔۔۔!!!! بارہ ہوگۓ ہیں۔۔!!! پھر ساری رات رونا ڈالوں گی کہ تمہیں نیند نہیں آرہی اور بیچارے دیار کو اپنے ساتھ مووی دیکھنے اور فضول کی ویڈیو گیمز کھیلنے پر مجبور کرو گی۔۔۔!!!!! وہ بیچارا لاڈ اٹھاتا نہیں تھکتا اور تم اسے ستاتی نہیں تھکتی۔۔۔!!!!!

بچے اٹھ جاؤ۔۔۔!!!!!"

انہونے اب تنگ آکر اس کے اوپر سے کمفرٹر کھینچا جسے یہ حرکت بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی۔

"وہ بھائ ہیں میرے۔۔!!!  میرے لاڈ نہیں اٹھائیں گے تو کیا راہ چلتے لوگوں کے لاڈ اٹھائیں گے۔اور وہ ہم بہن بھائ کا آپسی معاملہ ہیں مما ۔۔!! آپ انٹر فیئر نا کریں۔۔۔!!!!! میں انہیں تنگ نہیں کرتی بلکہ آپ تھوڑا تھوڑا جیلس ہورہی ہیں ہماری ٹیم سے۔۔۔!!!

 بابا آپ کی ٹیم کا حصہ نہیں بنتے نا اس لیے۔وہ بھی اپنی زرلشتہ کا ہی ساتھ دیتے ہیں ۔۔!!!! بری بات ہے مما۔۔۔!!!! اپنی بیٹی کو ایسے طعنے نہیں دیتے گناہ ملتا ہے۔۔!!!"

اپنی نیند سے بند ہوتی آنکھیں اس نے زبردستی کھولنی چاہیں جو کھلنے کو ابھی تیار نا تھیں۔اب جب بندی صبح چھ بجے ساری رات نیٹ فلکس دیکھتے سوۓ گی تو بارہ بجے بھی اسے آدھی رات والی نیند ہی آۓ گی نا۔

اس کی چلتی زبان کے جوہر دیکھتے اس کی ماں کا منہ کھلا کہ یہ کب سدھرے گی۔

"کرواتی ہوں میں تمہاری شادی۔۔!!!! بیس کی تو تم ہوہی گئ ہو پر تمہارے باپ اور بھائ نے تمہیں بڑا نہیں ہونے دیا۔کیا اب تمہاری شادی بھی نہیں کروائیں گے۔۔۔!!!!! کرتی ہوں میں تمہیں رخصت اس گھر سے۔سسرال والوں کو یہ زبان دیکھانا۔بیوقوف لڑکی۔۔۔!!!!

انہوں نے وہ کمفرٹر وہیں پھینکا۔جب کہ یہ شادی والی بات سن کر زرلشتہ کی آنکھیں پوری کھل گئیں اس نے میکانکی انداز میں اپنی سرمئ آنکھیں اپنی ماں کی طرف اٹھائیں جنہوں نے بس اس کی نیند اڑانے کے لیے یہ سب کہا تھا۔

وہ نازوں میں پلی اپنی اس سلطنت کی شہزادی تھی جس کے لیے اس کے باپ اور بھائ دوست جیسے ہی تھے۔اسے ہر وہ آسائش ملی تھی جو شاید ہی ان کے علاقے میں کسی دوسری لڑکی کو ملی ہو۔اس کی زبان سے نکلی بات فورا پوری کردی جاتی تھی۔وہیں اس کا معصوم سا ذہن اس کے بابا اور بھائ کی بے انتہا محبت کی وجہ سے اب بھی معصوم ہی تھا۔

زندگی کی تلخیاں اس نے دیکھی ہی نہیں تھیں۔اسے پتہ ہی نہیں تھا دنیا کتنی بری ہے۔۔۔!!!!!

"بچی نہیں ہوں میں۔۔۔!!!!! بس تھوڑی سی کم عقل ہوں ۔۔!!! لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ مجھے طعنے دیں۔میں خود بھی اب اس گھر میں نہیں رہوں گی۔بابا کو آلینے دیں کہتی ہوں ان سے کہ کوئ کیوٹ سا میرے خوابوں جیسا پٹھان دیکھ کر میرے ہاتھ رنگیں اور مجھے اس کے ساتھ چلتا کریں۔پھر دیکھیے گا وہ بھی آپ کی بیٹی کا ڈھیر سارا خیال رکھے گا۔اور میں نا آپ کے پاس واپس ہی نہیں آؤں گی۔۔۔!!!!"

منہ بسورتے ہوۓ وہ بیڈ سے اتری۔اس کے فرنچ کٹ بال اس کے معصوم سے چہرے کو مزید معصوم بنانے کو کافی تھے۔جو اس کی پیشانی کو مکمل ڈھک چکے تھے۔اس نے انہیں ہاتھ سے اپنی پیشانی سے ہٹایا جو پھر سے اپنی جگہ پر آگۓ۔

اس کی ماں تو بس اب غش کھانے کے قریب تھیں اس کے نیک ارادے سننے کے بعد۔اس لڑکی کی بیوقوفی پر ان کا ہاتھ اس کے کان تک پہنچ چکا تھا۔انہیں پتہ تھا وہ کہہ بھی دے گی۔اسے کونسا فکر ہے کسی چیز کی۔

"تمہیں تو وہ خیالی کیوٹ پٹھان میں دیتی ہوں۔کم عقل نہیں جھلی ہوتم۔۔۔!!!!! لڑکیاں منہ پھاڑ کر شادی کی باتیں نہیں کرتیں۔کیا بنے گا تمہارا زرلشتہ درانی۔۔۔!!!!"

انہوں نے کان مڑوڑا تو اس کی چیخ نکلی۔اس کی چیخ اتنی خطرناک تھی کی انہوں نے دہل کر اس کا کان چھوڑا ورنہ وہ اپنی چیخوں سے گھر کے کسی کونے میں مقیم کیڑوں کو انہونی آفت سے ڈرا کر ہجرت پر مجبور کرسکتی تھی۔

"میرا پٹھان کیوٹ ہی ہوگا ۔۔۔!!!!!! اب وہ کیوٹ ہو گا تو کم از کم میں اس کے گال ہی کھنچ لوں گی۔اب آپ جیسا سنگدل ہوا تو وہ تو مجھے اپنی للکار سے ہی مار دے گا۔میں مرگئ نا تو آپ بھی بابا کی طرح فاتحہ پڑھتی رہ جاؤں گی۔جیسے وہ پھپھو کی قبر پر روز جاتے ہیں۔اگر پھپھو کو بھی کیوٹ پٹھان ملتا تو وہ زندہ ہوتیں پر انہیں ظالم پٹھان ملا جس نے میری پھپھو کو ماردیا تھا ۔آپ نے ہی تو بتایا تھا نا یہ۔۔۔!!!!! مجھے نہیں چاہیے ظالم پٹھان۔وہ مار دے گا۔۔۔!!!!"

اپنا کان سہلاتے ہوۓ اس نے منہ بنا کر کہا۔پر جانے انجانے میں وہ کچھ کڑوی باتیں کرید چکی تھی۔کچھ پرانے زخم جو ناسور بن جاتے ہیں۔رخمینہ بیگم نے اسے فورا اپنے گلے سے لگایا۔ان کا دل کانپ گیا تھا۔

"ایسے نہیں کہتے بچے۔۔۔!!!!! اللہ تمہارے نصیب اچھے کرے۔۔!!!! تمہاری پھپھو تو خون بہا میں گئ تھیں۔ونی ہوکر۔۔!!! اور ظالموں نے بے قصور کو مار دیا۔اللہ تمہیں دنیا جہاں کی خوشیاں دے۔تم کسی ظالم کے پاس کبھی نا جاؤ۔دوبارا یہ اب نہیں کہنا۔۔!!!"

اسے خود میں بھینچ کر انہوں نے ڈرتے ہوئے اللہ سے دعا کی کہ آج جرگے کے فیصلے میں ان کی بیٹی کا ذکر نہ آۓ۔ورنہ برا ہوگا بہت برا۔۔۔!!!!

پر فیصلہ تو ہوچکا تھا۔ان کی بیٹی کی خوشیوں اور خواہشوں کی قربانی تو اب طے تھی۔ایک آنسو ان کی آنکھوں سے نکلا زکیہ کی یاد میں۔وہ دوست تھی ان کی ۔جو ان رسموں کی وجہ سے نکاح کے چند ماہ بعد ہی سرخ جوڑے سے سیدھا کفن پہنے قبر میں اتر گئ۔وہ بھی زرلشتہ جیسی ہی تھی معصوم سی ۔۔!!!!

"یہ ونی کیا ہوتی ہے۔۔۔؟؟؟؟؟"

زرلشتہ نے پوچھنا ضروری سمجھا۔اس نے یہ لفظ پہلی بار ہی سنا تھا۔ان کے گھر میں اس لفظ کی ادائیگی پر بھی پابندی تھی۔آج بس وہ غلطی سے یہ لفظ بول گئیں۔پھر اپنے کہے پر خود بڑبڑا اٹھیں۔۔!!!

"کچھ نہیں ہوتی ونی۔۔!!! تمہیں اب اس لفظ کی گہرائ میں اترنے کی ضرورت نہیں ۔جاؤ فریش ہو جاؤ۔میں ناشتہ بناتی ہوں تمہارے لیے۔آج اپنی شہزادی کو میں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی۔۔۔!!!!"

اس کے بال سنوارتے انہوں نے لاڈ سے کہا تو وہ اس آفر پر مسکراتے ہوۓ ان کے دونوں ہاتھوں کو چومتے واش روم کی طرف بھاگ گئ۔

"اسے تو ونی کا مطلب بھی نہیں پتہ۔۔!!بیس سال سردار نے اسے زکیہ کے ساتھ ہوئ زیادتی کی تلافی کرنے کے لیے نازوں سے پالا ہے۔اب اگر اسے کچھ ہوا۔۔۔!!!!!!! اللہ خیر کرے۔۔!!!"

اس کی چیزیں سمیٹتے ہوۓ واش روم کے بند دروازے پر نظر ڈال کر وہ کچن میں اس کا فیورٹ چیز آملیٹ بنانے چلی گئیں۔اور وہ اپنی دنیا کے فرضی شہزادے کے خوابوں میں کھوگئ۔جو اس دنیا میں تو اسے نہیں ملنا تھا۔

┈┈┈┈ 𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼 ┈┈┈┈

درمان نے گھر آتے ہی اپنی شال اتاری۔جس پر خون کے نشان تھے۔ یہ غصہ پھر سے اسے اذیت دے رہا تھا۔پر اس کے حواسوں پر تو بس نکاح والی بات چھائ تھی۔

 اس کا سانس اب اٹکنے لگا۔اس نے صوفے کے سرے پر ہاتھ رکھ کر اپنا اٹکتا سانس بحال کرنا چاہا۔

"درمان لالہ۔۔۔!!!!! کیا ہوا ہے آپ کو۔۔۔!!!"اسے صوفے پر درد سے کراہتا دیکھ کر وشہ جو سیڑھیوں سے اتر رہی تھی بھاگتی ہوئ اس کے پاس آئ۔درمان نے جبڑے بھینچے ۔اس کی پیشانی پسینے سے تر تھی۔

"کیسے کوئ مجھے مجبور کرسکتا ہے ۔۔!!! کیسے ۔۔!!! کیسے۔۔۔!!!!"

اس نے اپنے سینے سے ہاتھ ہٹایا اور خون دیکھتے ہی وشہ کے ہوش اڑے۔اس کا رنگ سفید پڑا ۔

"لالہ۔۔!!! خ۔خون۔۔" وشہ کی ہلکی بھوری آنکھوں میں خوف اترا وہ تڑپ اٹھی اس کی کیفیت پر۔۔!!!! درمان کا غصہ اس کی تڑپ پر جھاگ کی طرح بیٹھا۔

"وشہ۔۔!!!!! کچھ نہیں ہوا بچے۔۔!!!! ٹھیک ہوں میں۔بس تھوڑا سا خون نکل رہا ہے۔ابھی ہاسپٹل جاکر بینڈیج کرواؤں گا تو سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔تم فکر نہیں کرو۔۔۔!!!!"

وشہ کو تسلی دیتے وہ اٹھنے لگا پھر اگلے ہی لمحے سینے میں اٹھتا شدید درد اسے صوفے پر پھر سے بیٹھنے پر مجبور کرگیا ۔وشہ کی آنکھوں میں آنسو بھرے اس نے درمان کو اٹھنے سے روکا۔

"آپ بیٹھے رہیے لالہ۔۔!!!! ہم آغاجان کو بلا کر لاتے ہیں۔دیکھیں خون بہہ رہا ہے۔زخم زیادہ خراب ہوا تو مسئلہ ہوجاۓ گا۔اپ ضد نہ کریں۔۔!!!! ہم پہلے ہی فدیان لالہ کی جدائ سہہ رہے ہیں ۔آپ کو کچھ ہوا تو آپ کی بہن کیا کرے گی پھر۔۔۔!!!! "

اپنے آنسو رگڑ کر صاف کرتے اس نے وہاں سے اٹھنے کو قدم باہر کی سمت لیے۔پر درمان کی اگلی بات اسے روک گئ۔

"وشہ۔۔!!!!! آغاجان کو مت بلاؤ۔میں خود جاسکتا ہوں ہاسپٹل۔۔۔!!!! اور فدیان کو واپس لانے کی ذمہ داری میری ہے۔تمہارا بھائ اپنی زمہ داریوں سے منہ موڑنے والوں میں سے نہیں۔اب رونا مت۔۔!!!!!"

وشہ اس کے لہجے کے کرب سے واقف تھی۔تبھی مڑ کر ایک درد بھری نگاہ اس کے چہرے پر ڈال کر اس کی بات کی پرواہ کیے بغیر بھاگتی ہوئ اپنے آغاجان کو بلانے کے لیے گئ۔سر سے دوپٹہ بار بار ڈھلک رہا تھا جسے وہ نم آنکھوں کے سنگ بار بار اپنے سر پر ٹھیک کررہی تھی۔شہد رنگ آنکھوں میں اپنے بھائیوں کی تکلیف دیکھتے ادسی تھی تکلیف تھی۔غم کا ایک جہان آباد تھا۔

پر وہ ان کے سامنے دل کھول کر رو نہیں سکتی تھی۔ورنہ ان کی تکلیف میں بھی بس اضافہ ہوتا۔مردان خانے میں آتے ہی ہانپتے ہوۓ اس نے دروازے کا سرا تھاما اور گہرا سانس کھینچا۔وہاں بس اس کے بابا موجود تھے۔دراب آفریدی نے دروازے کے پاس کھڑی وشہ کو دیکھا تو چونک اٹھے۔وہ عموما اس طرف کبھی نہیں آئ تھی۔یہاں عورتوں کا داخلہ ممنوع تھا۔

"وشہ۔۔!!!! کیا کررہی ہیں آپ یہاں۔۔۔!!!! بھول گئ ہیں کہ یہاں عورتوں کا داخلہ منع پے۔"وہ اس کے سامنے کھڑے ہوۓ جس کے رخساروں پر آنسو پھسلتے جارہے تھے۔

"آ۔آغا جان ۔۔!!!! لالہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ان کے زخم سے خون بہہ رہا ہے ۔جلدی چلیں۔۔!!!"

وشہ نے اٹکتے ہوۓ اپنے آغاجان کو درمان کی حالت بتائ جو یہ سنتے ہی سب بھولتے اس کی طرف بڑھے۔جانتے تھے اسے کچھ بھی ہوجاتا پر وہ کبھی کچھ نہ بتاتا۔وہ جو چپ چاپ ان کے حکم کو مان گیا تھا اب اکڑ بھی تو اس نے دکھانی ہی تھی۔

رستے میں ہی انہیں درمان نظر آگیا۔جو خود ہی اپنی گاڑی میں سوار ہوکر اس حال میں بھی ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔وشہ اور وہ بس دیکھتے ہی رہ گۓ۔وشہ کے جاتے ہی وہ جیسے تیسے خود کو سنبھال کر لڑکھڑاتے قدموں کے سنگ گھاڑی تک پہنچا تھا۔اور ڈرائیور کو بس اپنی گھوری سے ڈرا کر سائیڈ پر کرچکا تھا۔

یہ سب بھی اس نے اپنے بابا کو تکلیف دینے کے لیے ہی کیا تاکہ وہ کسی طرح نکاح والی بات سے مکر جائیں۔

"زوۓ۔۔۔!!!!! کیوں اذیت دے رہے ہو خود کو۔چاہے جو بھی کرلو نکاح تو تمہارا کل ہی ہوگا بہراور درانی کی بیٹی سے۔۔۔!!!!! "

اسے گاڑی سٹارٹ کرتا دیکھ کر وہ غراۓ۔پر مقابل بھی انہی کا خون تھا یوں گزرا جیسے اسے فرق ہی نہ پڑا ہو۔

عجیب تھا وہ جس کا اپنا سانس ابھی رکا ہوا تھا پر اپنے باپ کا سانس وہ سکھا کر گیا تھا۔

"رحیم گاڑی نکالو اور اس کے پیچھے جاؤ۔۔!!!!! اسے صحیح سلامت گھر تک لانا تمہاری ذمہ داری ہے۔زبردستی کرنی پڑے تو کرلینا۔یہ اب شرافت کی زبان نہیں سمجھے گا۔۔!!!!"

انہوں نے اپنے خاص آدمی کو حکم دیا۔جو فورا حکم مانتا وہاں سے نکل گیا۔

"وشہ بچے روتے نہیں۔۔!!!! اپنے بھائ کو آپ بھی جانتی ہیں۔شادی ہوگی تو دماغ ٹھیک ہوجاۓ گا اس کا۔۔۔!!!!! "

انہوں نے روتی ہوئی وشہ کو اپنے سینے سے لگایا ۔جو اب یہ سب سہتی تھک گئ تھی۔ان کا سہارا ملتے ہی شدت سے رونے لگی۔

"کل سے اپنی یونیورسٹی جانا شروع کریں آپ۔۔!!!! گھر میں بند رہیں تو ذہنی اذیت میں مبتلا ہو جائیں گی۔آپ کا بھائ بھی مل جاۓ گا اللہ پر یقین رکھیں۔۔!!!!! اور یوں رونا ہمارے خون کو زیب نہیں دیتا۔بہادر بنیں۔۔۔!!!!!! بیٹی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزور پڑجائیں آپ کو ہمارے بیٹوں سے زیادہ بہادر بننا ہے ۔سمجھ گئ آپ۔۔۔!!!!"

اس کا سر سہلاتے انہوں نے ہدایت دی تو وہ اپنے آنسو پونچھتے ان کے سامنے کھڑی ہوئ۔

"جو حکم آپ کا۔۔۔!!!! ہم رونے والوں میں سے نہیں ۔بس آج گھبراگۓ تھے۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔۔۔۔!!!!!!"

"شاباش ۔۔!!!!! اسی لیے تو ہمیں آپ اپنے دونوں نالائقوں سے زیادہ عزیز پیں۔آپ اب کمرے میں جائیں۔"

ان کی بات سنتے وہ خود کو مضبوط کرتی کمرے میں چلی گئ۔وہ L.L.B کے سیکنڈ لاسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ تھی۔عمر اس کی زرلشتہ جتنی ہی تھی۔بیٹی کی پرورش میں دراب آفریدی نے بھی کسر نہیں چھوڑی تھی۔بہادری میں وہ اپنے بھائیوں کے برابر نہ سہی پر کم بھی نہ تھی۔ پر ان دو ہفتوں نے اسے اندر تک توڑ کر رکھ دیا تھا۔حالات تو اچھے بھلے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے وہ تو پھر بھی ابھی کم عمر لڑکی تھی۔

┈┈┈┈ 𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼 ┈┈┈┈

دیار شکستہ قدموں سے گھر کی دہلیز پار کرتا ہوا لاؤنج میں آبیٹھا۔آنکھوں کے سامنے اپنی معصوم سی بہن کا چہرہ لہرا رہا تھا اس کے بابا نے سنگدل بنتے دشمنوں کو بیٹی دینے کی خامی تو بھرلی پر اب گھر آنے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔

دیار نے اپنے خالی ہاتھ دیکھے۔جن ہاتھوں سے اس نے اپنی بہن کے لاڈ اٹھاتے اسے بڑا کیا تھا آج انہی ہاتھوں کی وجہ سے وہ نفرت کی بھینٹ چڑھنے والی تھی۔اس نے پہلی بار شدت سے خود سے نفرت کی کہ کاش یہ سب ہوا ہی نہ ہوتا ۔

سر صوفے کی پشت پر گرا کر وہ اوپر لٹکتا قیمتی فانوس تکنے لگا۔

زرلشتہ فریج کے پاس کھڑی افسوس سے خالی فریج دیکھ رہی تھی۔فریج خالی نہیں تھا اس میں تو اب مزید کچھ رکھنے کی گنجائش ہی نہیں تھی پر جو زرلشتہ کو چاہیے تھا وہ فلحال ختم ہوچکا تھا۔تو اب یہ سب اس کی نظروں میں بے کار تھا۔

"کتنی غلط بات ہے۔۔!!! آئس کریم ختم ہوگئی چاکلیٹس بھی نہیں ہیں ۔اور گھر میں تو کسی کو فکر ہی نہیں۔زرلش یہ سب تم سے تنگ آگۓ ہیں۔اس لیے اب تمہارا خیال بھی نہیں رکھتے بابا جانی،لالہ جان,مما کسی کو بھی میرا تھوڑو سا بھی خیال نہیں ۔۔!!!!"

فریج کا دروازہ بند کرتے ہوۓ اپنی اداس آنکھوں سے نادیدہ آنسو صاف کرتے وہ ڈرامہ کوئین رونے کی تیاریوں میں تھی۔

"نہیں لالہ جان کو میرا خیال ہے۔۔۔!!!! وہ آگۓ ہوں گے انہیں کہتی ہوں میری چیزیں لاکر دیں..!!!"

دیار درانی کی گاڑی کا ہارن وہ سن چکی تھی۔اس لیے فورا اس سے ملنے کے لیے بھاگی۔پر اس کی اکسائٹمنٹ کا شکار وہاں رکھا شیشے کا جگ ہوگیا۔جس کی میت اب سامنے پڑی تھی۔

وہاں چھٹاک کی آواز پیدا ہوئ۔تو اس نے زبان دانتوں تلے دبائی کہ جلدی جلدی میں وہ کیا کرچکی ہے۔

"یااللہ۔۔!!! مجھے مما سے بچالے۔کیوٹ پٹھان تم کب آؤ گے۔جب اس گھر کی چیزیں توڑنے کی وجہ سے مما میرا قتل کرچکی ہوں گی تب آؤ گے۔بتاؤ تم کب آؤ گے۔۔۔!!!!"

جگ ٹوٹنے کے افسوس میں اپنے خیالی کیوٹ پٹھان صاحب کو یاد کرتے وہ اس جگ کی طرف سے آنکھیں پھیر کر یوں گزری کہ بھائ تم کون اور میں کون۔۔!!!!

جاؤ اپنا کام کرو۔میں نے تمہیں نہیں توڑا مجھ پر الزام ڈالنے کی ضرورت نہیں۔اور مطلع صاف دیکھتے وہاں سے بھاگ گئ۔

اسے ہر چیز پر بس اتنا ہی افسوس ہوتا تھا۔جتنا وہ کرچکی تھی۔وہ ایسی ہی تھی۔پر ناجانے کب تک اب ایسی ہی رہتی۔

لاؤنج میں آتے ہی سامنے اسے دیار دکھا۔اس کا چہرہ کھل اٹھا۔

"لالہ جان۔۔!!!" وہیں سے اسے پکارتے وہ مسکراتے ہوۓ کھڑی ہوئ۔زرلشتہ کی آواز سن کر دیار نے تھکی ہوئی آنکھیں کھول کر آواز کی سمت دیکھا۔جہاں زرلشتہ وائٹ ڈیسنٹ سی شرٹ جو اس کے گھٹنوں تک لمبی تھی۔اور آستینیں اس نے آگے سے ہلکی سی فولڈ کی ہوئ تھیں۔

بلیو جینز نیچے وائٹ ہی شوز پہنے لمبے بال پونی ٹیل میں مقید کیے اپنی گرے آنکھوں کی خوبصورت سی چمک سمیت اس کی توجہ کی ہی منتظر تھی۔

دیار کا دل پسیج گیا کہ کیا یہ کسی کے بدلے کی آگ میں جل سکے گی۔دل نے فورا کہا نہیں۔۔!!!! وہ صرف محبت پانے کے لیے ہی اس دنیا میں آئ ہے وہ کسی کی نفرت کی بھینٹ چڑھ ہی نہیں سکتی۔اور درمان سے تو وہ واقف تھا کہ درمان اس سے کتنی نفرت کرتا ہے تو اس کی بہن سے تو اس سے بھی دگنی نفرت کرے گا۔

"بچے ادھر آؤ۔۔۔!!!!" آنسوؤں کا پھندا گلے میں ہی روک کر دیار نے اپنا دایاں بازو وا کرکے اسے اپنے پاس بلایا جو آکر اس کے ساتھ بیٹھ گئ۔

"میری چیزیں ختم ہوگئ ہیں لالہ جان۔۔۔!!!!! اور آپ لاۓ بھی نہیں۔۔۔!!!! اب میں کیا کھاؤں گی۔۔!!!"

منہ بناتے ہوۓ اس نے شکوہ کیا۔اور اپنے بھائ کے سینے سے لگ گئ۔دیار نے اپنی آنکھوں کی نمی بڑی مشکل سے چھپائ۔

اور اسے خود میں کسی انمول شے کی طرح بھینچا۔

"بچے مجھے معاف کردینا۔۔!!! میں بے بس ہوگیا ہوں۔سمجھ نہیں آرہی تمہیں بچانے کے لیے کیا کروں۔۔!!!!!" وہ بس دل میں ہی کہہ سکا۔اور اپنے آنسو پونچھ کر اٹھ بیٹھا۔

"تم کمرے میں جاؤ۔۔!!! میں تمہاری چیزیں بھجوا دوں گا۔۔!!!"

جب برداشت ختم ہونے لگی تو وہ وہاں سے نکل گیا پیچھے زرلشتہ دنیا سے بے خبر اپنے کمرے کی سمت بھاگ گئ۔"بابا جان آپ کہاں رہ گۓ تھے۔۔۔؟؟؟ میں کتنا یاد کررہی تھی آپ کو۔۔!!!"

وہ جو اپنی چیزیں فریج میں رکھ کر اپنے کمرے کی طرف جارہی تھی اپنے بابا کو دیکھ کر بھاگتی ہوئ ان کے گلے لگ گئ۔رخمینہ بیگم بھی بے چینی سے انہی کی منتظر تھیں تاکہ آج جرگے میں ہوا فیصلہ جان سکیں۔

بہراور درانی خاموش ہی رہے انہوں نے پہلے کی طرح اسے پیار نہیں کیا تھا۔نا ہی زرلشتہ نے ان سب کے بدلے رویے نوٹ کیے تھے ابھی تک۔

"زرلش۔۔۔!!!!! اندر جاؤ آپ۔۔!!! بابا ابھی تھکے ہوۓ واپس آۓ ہیں۔انہیں تنگ نا کرو۔۔!!!"

رخمینہ بیگم نے بہراور درانی کے چہرے پر بے رونقی دیکھی تو بہانے سے زرلشتہ کو وہاں سے بھیجنا چاہا۔وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنی ہی منوانے پر تلی ہوئی تھی۔

"میں نہیں جارہی یہاں سے مما۔۔!!!! آپ نا مجھ سے تنگ آگئ ہیں۔لالہ جان کو آلینے دے بتاتی ہوں انہیں کہ اب آپ مجھے بابا جانی سے بات بھی نہیں کرنے دیتیں۔"

منہ بسورتے ہوۓ زرلشتہ نے وہیں کھڑے کھڑے انکار کیا۔تو وہ اس کی بیوقوفی پر اسے گھور کر ہی رہ گئیں جسے اشارہ تو دور کی بات منہ سے بولی بات بھی سمجھ نہیں آرہی تھی۔کہ اس کے بابا کے تیور آج بدلے بدلے ہیں۔

رخمینہ بیگم نے ٹھنڈی آہ ہی بھری اس بیوقوف پر۔۔!!! کہ یہ کب سمجھدار ہوگی۔

"زرلش یہ کونسا طریقہ ہے ماں سے بات کرنے کا۔۔۔!!!!!!! بچی نہیں ہوں تم۔اب بڑی ہوگئ ہو۔۔۔!!!!! یہ بچپنا چھوڑ دو۔اور جو ماں کہہ رہی ہے مانو اسے۔۔۔!!!! جاؤ اپنے کمرے میں۔۔!!!!"

بہراور درانی نے سخت لہجے میں کہا۔زرلشتہ ان کی سخت آواز سن کر جھٹکے سے ان سے دور ہوئ۔سانس لمحے کے لیے رکا۔پہلی بار کوئ اس قدر سخت لہجے میں اس سے مخاطب تھا کہ اس کا دل رکنے لگا۔حیران تو رخمینہ بیگم بھی ہوئیں۔انہیں ان سے اس قسم کے لہجے کی توقع نہیں تھی۔

زرلشتہ کی آنکھوں میں موتی چمکے۔اس نے تو کچھ بھی ایسا نہیں کہا تھا کہ ڈانٹ ہی پر جاتی۔

"میں نہیں بولوں گی اب۔۔!!!! آپ بھی بدل گۓ ہیں۔آلینے دیں میرے بھائ کو دونوں کی شکایتیں لگاؤں گی۔کہ اب مجھے ڈانٹنے بھی لگے ہیں۔مجھے نہیں رہنا آپ کے ساتھ۔۔!!!"

خفگی بھری نگاہ دونوں پر ڈال کر اپنے آنسو رگڑتے ہوۓ وہ وہاں سے بھاگ کر کمرے میں چلی گئ۔بہراور درانی نے اس سمت دیکھا بھی نہیں تھا۔کتنی جلدی حالات لوگوں کو بدل دیتے ہیں نا۔کہ کل تک جس کا درد بھی ہم نہ دیکھ سکیں اسے ہم خود رلانے کی وجہ بن جاتے ہیں ۔

"سردار...!!!! آپ کس انداز میں بات کررہے تھے زرلشتہ سے۔اسے تکلیف ہوئ ہے۔دیکھیں روتی ہوئ گئ ہے وہ یہاں سے۔۔۔!!!!! "

رخمینہ بیگم کی نظریں جھکی تھیں پر وہ بھی اس قدر روکھے لہجے کے سبب خفا لگ رہی تھیں۔بہراور درانی نے ایک گہرا سانس فضا میں خارج کیا۔پھر نظروں کا زاویہ بدل گۓ۔

"سامان پیک کروادیجۓ اس کا۔۔۔!!!! یہ جارہی ہے یہاں سے۔کل نکاح ہے اس کا درمان آفریدی کے ساتھ۔۔۔!!!! اسے سمجھا دیجۓ گا کہ کوئ ہنگامہ کھڑا نا کرے۔جو ہمارا حکم ہے مانے اور یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جاۓ۔۔۔!!!!!!

ہم کوئ الٹی سیدھی حرکت یا اس کی کوئ ضد اب برداشت نہیں کریں گے."

انہوں نے فیصلہ سنایا۔اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے کمرے میں چلے گۓ۔دل ان کا بھی لرزا کہ کیا ان کی بیٹی کا نصیب ایسا ہی تھا کہ سادگی سے بغیر مرضی کے ہی رخصت ہوجاۓ۔

ہاں لوگ بیٹیوں کے نصیب سے ہی تو ڈرتے ہیں۔ جو انہیں کبھی فرش سے عرش تو کبھی عرش سے فرش پر لاچھوڑتا ہے۔ اور اس نصیب سے ہی تو لڑنا یا اسے بدلنا مشکل ہے۔زرلشتہ کا نصیب بھی یہی تھا۔

"میری بیٹی بھی اپنی پھپھو کی طرح کسی کے جرم کی سزا بھگتے گی۔۔۔!!!!!! جو ماں صاحب پر بیتی تھی زکیہ کی جدائ میں اس جگہ آج میں آکھڑئ ہوں۔۔!!!! میری بیٹی۔۔۔۔!!!!"

وہ تو فیصلہ نہیں حکم صادر کرگۓ۔رخمینہ بیگم کو لگا کسی نے ان کا دل مٹھی میں جھکڑ لیا ہو۔انہوں نے گہرے گہرے سانس لیے۔وہ ماں تھیں۔۔!!!! یہ سوچ ہی سوحان روح تھی کہ ان کی لاڈلی کل اس گھر سے دشمنوں کے گھر جارہی ہے۔ہمیشہ کے لیے ۔!!!!!

دو آنسو گالوں پر پھسلے۔لگا کوئ ان کی روح جسم سے کھینچ رہا ہے۔

"زرلش۔۔۔!!!!!" پتھرائی آنکھوں کے سامنے اسی کی صورت آئ تو ان کے لب بے آواز پھڑپھڑانے ۔

ضبط ختم ہونے کو تھا۔وہ اپنے قدموں پر کھڑی تو تھیں پر بڑی مشکلوں سے۔۔!!!! ان کے چہرے پر غصے کی ایک لہر دوڑی۔ انہیں ایک کوشش تو کرنی ہی تھی کہ شاید کوئ اور راستہ نکل آتا۔اور ان کی بیٹی بچ جاتی۔۔!!!!

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

بہراور درانی کمرے میں آۓ تو ان کے ضمیر نے انہیں خبردار کرنا چاہا کہ کیا ایک بوجھ کم ہے تمہارے سینے پر کہ اپنی بہن کی موت کے ذمہ دار تم ہو۔کیوں ایک اور بوجھ پالنا چاہتے ہو۔وہ بیٹی ہے تمہاری ۔کوئ بے جان شے نہیں جسے کسی کے بھی حوالے کردو۔سوچ لو ایک بار پھر۔۔۔!!!!!

"میں کچھ غلط نہیں کررہا۔۔!!!! مجھے صرف زرلشتہ کا باپ بن کر نہیں سوچنا میں دیار کا بھی باپ ہوں۔اور جانتا ہوں میرا بیٹا بے قصور ہے۔کسی نے اس کی اچھائ کا فایدہ اٹھایا ہے۔یہ سب جانتے بوجھتے میں کیسے اسے مرنے دوں۔

جب تک فدیان واپس نہیں آتا اور میرے بیٹے پر لگے الزام دھل نہیں جاتے زرلشتہ کو یہ کڑوا گھونٹ پینا ہوگا۔یہاں سوال دیار کی جان کا ہے۔کوئ معمولی بات نہیں۔۔۔!!!!! 

اور میں اسے ہمیشہ وہاں نہیں رہنے دوں گا۔جونہی سب ٹھیک ہوا میں اپنی بیٹی اپنے پاس واپس لے آؤں گا۔۔۔!!!!!"

خود کو انہوں نے صفائ پیش کی۔بھونڈی سی تسلی دے کر انہوں نے اپنا دل بہلایا اور صوفے پر بیٹھ گۓ۔تبھی دروازہ دھرام سے کھلا۔انہوں نے دروازہ کی سمت دیکھا۔جہان رخمینہ بیگم شکوے اور غصے کی ملی جلی کیفیات کے سنگ انہیں ہی دیکھ رہی تھیں۔آنسوؤں کا ایک جہان آباد تھا ان کی آنکھوں میں ۔

"سردار بہراور درانی۔۔۔!!!!!! کیوں میری بیٹی کو دشمنوں کے حوالے کررہے ہیں۔کیا آپ نہیں جانتے ونی کی گئ لڑکیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک ہوتا ہے۔وہ لوگ ہمیں اس کی شکل بھی نہیں دیکھنے دیں گے۔اس کے معصوم سے ذہن پر اپنے اندر کے زہر کی چھاپ چھوڑ دیں گے۔آپ کا دل کیوں نہیں کانپا جرگے میں یہ فیصلہ سنتے ہوۓ۔کیا اسی دن کے لیے آپ نے اسے شہزادی بنا کر رکھا تھا کہ کل کو بے حسوں میں پھینک دیں۔۔!!!!"

وہ نہیں ان کی ممتا بول رہی تھی ۔انہوں نے وہیں کھڑے ہوکر سخت نظروں سے انہیں گھورا۔جو شدید طیش کے عالم میں اٹھے۔

"ہاں نہیں کانپ رہا میرا دل۔۔۔!!!!!!! کر آیا ہوں اسے ونی۔تاکہ وہ لوگ صلح کے لیے راضی ہوجائیں۔اور کوئ افسوس نہیں ہے مجھے اپنے فیصلے پر سمجھی آپ۔۔۔!!!!"

وہ بھی اٹھے اور ان سے دگنی آواز میں دھاڑے۔کہ کمرے کے درو دیوار اس دھار پر ہل گۓ۔

زرلشتہ جو کمرے میں رونے کی غرض سے گئ تھی۔جب کافی دیر بعد بھی کوئ اسے منانے نا آیا۔تو اسے یاد آیا کہ اسے جاکر کچھ کھا پی لینا چاہیے۔ناراضگی ماں باپ سے ہے تو بھوکا رہ کر سزا خود کو کیوں دوں۔اور اگر وہ کمرے میں ہی بیٹھی رہی تو ہوسکتا ہے اس کے ماں باپ سکون سے سوجائیں اور اسے ناراضگی ظاہر کرنے کا وقت بھی نہ ملے۔اب ناراض ہوئ ہے تو کم از کم کوئ اعلان بھی تو کرے۔

پر یہاں اس کی سماعتوں سے جو بات ٹکڑائ وہ اس کے سر کے اوپر سے گزر گئ۔

"مجھے ونی کردیا ۔۔۔!!!! فنی، اور بنی تو سنا تھا یہ مارکیٹ میں اب ونی کب آئ۔۔!!!!!

پھپھو بھی ونی ہوئ تھیں ۔اب میں بھی ونی ہورہی ہوں۔پر یہ آخر ہے کیا ۔۔!!!!!! اور مورے اس بات پر باباجانی سے لڑ کیوں رہی ہیں ۔پتہ تو لگانا ہی پڑے گا۔۔۔!!!!!" 

اس کے اندر کی جاسوس جاگ گئ۔گھر میں جو ہنگامہ مچا تھا اسے اس کی تہہ میں پہنچنا تھا۔تاکہ اپنے جاسوس دماغ کو سکون پہنچا سکے۔جس میں یہ ونی لفظ اٹک گیا ہے۔۔۔!!!!!

جس انداز میں اس کے ماں باپ چلا رہے تھے اس نے اس سمت جانے کی غلطی نہیں کی۔وہ وہاں سے کچن میں گئ۔اپنے لیے کھانا پلیٹ میں نکال کر اطراف کا جائزہ لے کر احتیاط سے کمرے میں گئ۔کہیں کوئ دیکھ نا لے۔ورنہ ناراضگی دکھانے میں اس کا پلڑا ہلکا پڑجاتا۔

"واہ سردار صاحب۔۔۔!!!! آپ تو سفاک بھی ہوگۓ۔پر میں نہیں ہوئ ۔اگر اتنا ہی شوق ہے نا آپ کو میری بچی کو جہنم میں بھیجنے کا تو میرے جنازے کے بعد بھیج دیجۓ گا۔۔!! اپنی زندگی میں تو میں اپنی بچی کو کوئ دکھ نہیں سہنے دوں گی۔۔!!!"

وہ طنزیہ انداز میں مسکرائیں۔اور ان کے دل پر کاری ضرب لگائ۔پھر آکر بیڈ پر بیٹھ گئیں۔انہیں لگا کہ شاید اب ان کے شوہر کے دل میں رحم آجاۓ۔

بہراور درانی نے اپنے بیٹے کا چہرہ یاد کیا۔پھر زرلشتہ کا۔داؤ پر تو ان کی دونوں اولادیں لگی تھیں۔کوئ ایک تو قربان ہوتا۔بیٹا یا پھر بیٹی۔۔!!!

"رخمینہ بیگم یا تو اپنے بیٹے کے کفن دفن کا بندوبست کرلیں۔یا اپنی بیٹی کا سامان پیک کروالیں۔۔!!! کیونکہ ایک اولاد تو اب قربان ہوگی۔دیار بے قصور ہے اور زرلشتہ بھی۔۔!!!! ہم فیصلے کا اختیار آپ کو دیتے ہیں دونوں میں سے کسی کو بھی بچالیں۔۔!!!!

پر یاد رکھیں بیٹی کو چنیں گی تو بیٹے کا جنازہ کل ہی اٹھے گا۔اور بیٹے کو چنا تو بیٹی کی سانسیں چلتی رہیں گی۔چاہے تکلیف سے ہی کیوں نہ چلیں..!!!! 

اور فدیان کے ملتے ہی ہماری بیٹی ہمیں واپس مل جاۓ گی۔فیصلہ آپ کا ہوگا۔کل یا تو نکاح ہوگا یا جنازہ اٹھے گا۔۔۔!!!!"

انہوں نے اپنے لفظوں کا زہر مقابل کے دل میں اتارا کہ وہ پلک جھپکنا،سانس لینا ،یہاں تک کہ لمحے کے لیے زندہ رہنا ہی بھول گئیں۔ایسا لگا ہر چیز تھم گئ ہو۔وقت رک گیا ہو۔دنیا ختم ہونے والی ہو۔۔!!!!!

ان کا چہرہ سفید پڑگیا۔تو بہراور درانی نے وہاں سے پانی کا گلاس اٹھا کر ان کے سامنے کیا۔لگ تو رہا تھا بچوں کی بربادی سے پہلے وہ خود زندگی کی دوڑ ہار جائیں گی۔

اجڑنا اب مقدر تھا۔انہیں خاموش دیکھ کر انہوں نے پانی کا گلاس واپس رکھا اور وہاں سے نکل گۓ۔تاکہ اب دیار کو مناسکیں اس سب کے لیے 

پیچھے وہ شدت سے روئیں کہ ہر سو اس ماں کے گریے نے اداسی برپاکردی ۔کوئ ماں کیسے اپنے بچوں میں سے کسی ایک کو چن سکتی ہے۔قسمت نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

درمان ہاسپٹل سے سیدھا اپنے ڈیرے پر چلا گیا تھا۔اور اب تک وہیں تھا۔اس نے فون نکال کر کسی کو کال ملائ۔

"ہاں بتاؤ کچھ پتہ چلا فدیان کا۔۔!!!!"

اپنی پیشانی رگڑتے ہوۓ اس نے کسی امید کے تحت پوچھا۔تو جواب سن کر اس کا پارہ ہائ ہوا۔

"سر ہم ہر جگہ چیک کر چکے ہیں ،ہاسپٹل میں،ایئر لائنز کے ریکارڈ میں، حتی کے تمام ہوٹلز میں جہاں جہاں ہم جاسکے ہم وہاں گۓ پر ان کا پتہ تو دور کی بات یہی نہیں پتہ لگ پایا کہ ان کی گاڑی شہر کی سمت بھی گئ یا نہیں۔۔!!!!".

اس نے بغیر جواب دیے ہی فون کاٹ دیا۔اور سائیڈ پر پھینک دیا۔اور آنکھیں بند کرگیا۔

"دیار درانی تم نے میرا سکون چھینا ہے۔سکون میں تو تم بھی نہیں رہو گے۔دیکھ لینا۔۔۔!!!!!"

بینڈیج وہ کرواچکا تھا۔زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے اسے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے کو کہا تھا پر اس نے بس بینڈیج کروائی اور واپس آگیا۔اب بس اسے کل کا انتظار تھا جب دیار کے چہرے پر وہ تکلیف دیکھتا ۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"ژالے۔۔!!!! یہ ونی کیا ہوتی ہے۔۔!!!"

کھانے کی خالی ٹرے اس نے سائیڈ ٹیبل پر پی رکھ دی کہ کوئ آۓ گا اور اٹھا کر لے جاۓ گا۔اب وہ کہاں ٹرے رکھنے کے لیے اتنی محنت کرکے کچن تک جاۓ گی۔

اس نے لیز کا پیکٹ کھولا اور بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئ۔پھر اپنی بیسٹ فرینڈ کو کال کی جو اس کی یونیورسٹی فیلو بھی تھی۔زرلشتہ B. Com کلیئر کرنے کے بعد ابھی یونیورسٹی کی طرف سے دی گئ چھٹیاں گزارنے میں مصروف تھی۔اس کے بعد MBA کی کلاسز شروع ہوجاتیں تو وہ پھر مصروف ہوجاتی۔ یہ شوق بھی اسے اپنے لالہ کی طرف سے ہی ہوا تھا کہ اگر وہ بزنس کا پروفیشن منتحب کرسکتے ہیں تو وہ کیوں نہیں کرسکتی۔ویسے تو وہ بہت معصوم تھی پر پڑھائ میں اتنی ہی تیز تھی۔

ژالے نے چونک کر فون کو دیکھا کہ اب اس سوال کے پیچھے اس کی دوست کا کونسا سسپینس چھپا ہے۔

"تم کیوں پوچھ رہی ہو۔۔!!!"

اس نے سوال کیا۔

"میرے گھر والے مجھے ونی کررہے ہیں ۔پر مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ہوتا کیا ہے۔تم ہی بتادو یار۔۔۔!!!!"

چپس منہ میں ڈالتے اس نے لاپرواہی سے جواب دیا جبکہ ژالے کا رنگ اڑا۔وہ جو چاہے بنانے میں مصروف تھی اس کے مزاق پر ہنسنے لگی۔

"زرلش۔۔۔!!!! تمہارے بابا یا بھائ نے کوئ قتل تو نہیں کردیا۔یا کسی سے کوئ نا ختم ہونے والی لڑائ لڑنا شروع کردی ہے۔پاگل تمہیں وہ ونی کیوں کریں گے۔شریف سا تو خاندان ہے تمہارا۔ نا کوئ لڑائ نا جھگڑا۔۔!!!تم ان ونی وغیرہ کے چکروں میں نا پڑو۔"

ژالے نے رسان سے انکار کیا پر زرلشتہ تو اب جب تک جان نہ لیتی اسے سکون نہیں ملنے والا تھا۔

"لو جی لالہ اور بابا نے قتل ہی کردیا۔۔۔!!!! اب مجھے ونی کررہے پیں۔چلو اچھا ہے ماحول بدل جاۓ گا۔میں بھی آجکل بور ہوگئ ہوں۔"

ژالے نے ان کی سچائی کو فضول سی بات سمجھا ۔پھر اسے جو پتہ تھا بتانے لگی ورنہ زرلشتہ اسی کا سر کھاتی۔

"ونی یا سوارہ ایک ہی رسم کے دو نام ہیں۔جن کے ذریعے دو خاندانوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے ان کے خاندان کی لڑکیاں دشمن خاندان کے گھر میں بیاہ دی جاتی ہیں ۔یہ ہے تو انتہا کی مکروہ رسم۔پر ہمارے آباؤ اجداد اسے قائم کرگۓ ہیں۔اس لیے بہت کوششوں کے بعد بھی یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوپائ۔خصوصا ہمار علاقے میں اب بھی یہ رسم چل رہی ہے۔ جس میں اصل مجرم تو سکون میں رہتا ہے اور بے قصور کو اس کے حصے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔۔۔!!!!!

یہ رسم پنجاب میں ،سرحد میں ،بلوچستان میں اس کے علاؤہ اور بھی کئ جگہوں پر آج بھی نۓ نۓ ناموں سے جانی جاتی ہے ۔۔!!!!! اور مجھے پتہ ہے تمہیں ابھی بھی سکون نہیں ملا ہوگا۔اس لیے گوگل سے سرچ کرلو۔یا کوئ ناول ڈاؤں لوڈ کرکے پڑھ لو۔اب پلیز یہ نا پوچھنا ناول کیا ہوتا ہے۔رکو میں ہی تمہیں کوئ ناول بھیجتی ہوں۔پڑھ لینا پھر تمہیں پتہ چل جاۓ گا ونی کیا ہوتی ہے۔۔۔!!!!"

اس نے خود ہی فون کٹ کیا۔زرلشتہ کی باتیں اسے مزاق ہی لگی تھیں۔ 

"بڑا شوق ہورہا ہے نا اسے میرے ساتھ مزاق کرنے کا اب میں اس کے ساتھ مزاق کروں گی کہ یہ یاد ہی رکھے گی۔اس لڑکی کا دماغ ٹھکانے پر لانا ضروری ہے۔بھلا ہمیں کیا ضرورت ونی کا راگ الاپنے کی ۔..!!!!"

شرارتی مسکان سنگ اس نے وہ ناول ڈھونڈا جسے پڑھ کر زرلشتہ ڈر کے مارے ونی کا نام اپنے ذہن میں بھی نا لاۓ۔کوئ ایسی کہانی جو پڑھنے والے کے رونگٹے کھڑے کردے۔۔۔!!!!

وہ زرلشتہ کا نقصان کرنے والی تھی کیونکہ اب جو امپریشن اس کے ذہن میں ونی کو لے کر بننے والا تھا وہ اس کی رہی سہی ہمت بھی ختم کر دیتا ۔

"زرلشتہ تم کتنی کیوٹ ہو یار۔۔۔!!!! یہ پڑھنے کے بعد کہیں رونے ہی نا لگ جانا۔۔۔!!!! پر تمہیں اس ونی والے خیالوں سے بھی تو نکالنا ضروری ہے نا۔۔۔!!!!! مجھے یقین ہے تم مجھے تنگ کررہی تھی۔اب دیکھنا میرا بدلہ۔۔۔!!!!"

ہنستے ہوۓ اخیر ظلم والا ناول ڈھونڈ کر اس نے زرلشتہ کو سینڈ کیا۔پھر اس کی متوقع حالت سوچ کر اسے تھوڑا برا لگا کہ وہ رونے لگے گی۔پھر اس نے سوچا کل وہ جاکر اسے سنبھال لے گی۔اور چاۓ کا مگ اٹھا کر سکون سے کمرے میں چلی گئ۔

دوسری طرف زرلشتہ اسی کے میسج کے انتظار میں تھی۔واٹس ایپ پر موجود پی ڈی ایف فارم میں موجود ناول اس نے اوپن کیا۔اور چپس کا خالی پیکٹ گول کرکے ڈسٹ بن کی طرف اچھالا جو سیدھا نشانے پر لگا۔پھر دوسرا پیکٹ کھول کر وہ ناول کی طرف متوجہ ہوئ۔

جیسے جیسے وہ پڑھتی گئ خود کو اس لڑکی کی جگہ رکھ کر امیجن بھی کرتی رہی۔اس کے بھولے بھالے چہرے کے تاثرات میں درد کی لہر دوڑی جب اس نے جرگے میں کی گئ اس لڑکی کی آہیں اور فریادیں پڑھیں۔ہاتھ کانپے...!!!!!

پھر ظلم کی ناختم ہونے والی داستان شروع ہوئ۔شادی کی پہلی رات کو تھپڑ اس ونی کو پڑا زرلشتہ کا تو دل ہی جکڑ گیا۔اس نے اپنے رخسار پر ہاتھ رکھا۔اور تھوک نگلا۔

وقت گزرتا گیا۔اور وہ ناول بھی اختتام تک پہنچ گیا۔اسے خبر ہی نہ ہوئ وہ رو رہی ہے۔اس فرضی لڑکی کے غم میں۔۔۔!!!!!

"بیڑہ غرق ہو تمہارا ۔۔!!! منحوس مارے ۔۔!!!! اس بیچاری نے کچھ نہیں کیا کیوں مار رہے ہو تم اسے۔۔۔!!!!!! ہاتھ ٹوٹ جائیں تمہارے معصوم سی لڑکی کو فٹبال سمجھ کر ماررہے ہو۔اگر اتنا ہی شوق ہے مار دھار کرنے کا تو کسی اپنے جیسے منحوس سے لڑو پر اس بیچاری کو تو چھوڑ دو۔۔!!!!!"

زرلشتہ روتے ہوۓ غصے سے بولی۔جیسے وہ لوگ سامنے ہی کھڑے ہوں۔اس کا بس نا چلا کہ اس ناول والے لڑکے کا منہ نوچ دے۔

"ظالموں کوئ تو شرم کرو۔۔۔!!!!! اتنی پیاری لڑکی کو کیوں مار رہے ہو۔اگر بری لگتی تھی تو طلاق دے دیتے ۔کوئ اچھا سا شہزادہ اسے سنبھال لیتا پر تم لوگ کتنے بے حس ہو۔۔!!! لیڈی ہٹلر پیر تمہارے قبر میں لٹکے ہیں اور حرکتیں شیطان کی نانی والی کررہی ہو۔بڈھی گھوڑی لال لگام۔۔۔!!!!! 

اور کمینے تم نے تو آخر میں رونا ہی ہے دیکھنا وہ تمہیں منہ بھی نہیں لگاۓ گی۔سسکتے رہو گے ایسے ہی۔کمینہ۔۔۔!!!!!"

باقاعدہ انہیں لعنت ملامت کرتے زرلشتہ کا دل تو اپنا فون توڑنے کو کیا۔پھر یہ سوچ کر پڑھنے لگی کہ شاید آخر میں سب ٹھیک ہوجاۓ۔پر آخر تو بھیانک تھا۔۔۔!!!!!

جب وہ بیچاری ونی مرگئ اور اس کا وہ کمینہ شوہر روتا ہوا اسے واپس بلانے لگا تو اس کا بس نا چلا اس کمینے کا منہ توڑ دے۔

"مار دیا نا بچی کو۔۔۔!!!! بیچاری روتی روتی مرگئ۔۔۔!!!!! یا اللہ مجھے صبر دے۔۔۔!!!! اب کیوں رو رہے ہو ہیرو صاحب۔جاؤ جشن مناؤ مرگئ وہ بیچاری۔۔!!!!! اور یہ ظالم ساس اسے تو فالج نہیں کسی کٹی پہاڑی سے گرنا چاہیے تھا۔وہ بیچاری اسی کی وجہ سے مری ۔۔۔!!!!"

اس نے فون وہیں پٹخا اور گھٹنوں میں سر دے کر اس ونی کی یاد میں رونے لگی۔

" خور۔۔۔۔!!!!! هغه غریب۔۔!!!!! دا څومره ظالمه شوې، زما خدای...!!!!! کاش زه تا وژغورم۔۔۔۔۔!!!!!کاش ته ژوندی وای....!!!!! الله دې دې نجلۍ ته مغفرت وکړي او په جنت کې دې لوړ مقام ورکړي. آمین۔۔!!!

(بہن۔۔۔!!!!!بیچاری۔۔۔!!!!! یہ کیسا ظلم ہوگیا میرے خدایا۔کاش میں تمہیں بچا سکتی۔کاش تم زندہ ہوتی۔یا اللہ اس لڑکی کی مغفرت فرما اسے جنت میں اعلی مقام دینا۔آمین۔۔۔!!!!)

اس نے اپنے آنسو پونچھے۔دل تو نا کیا پر اسے صبر کرنا پڑا۔اس نے اپنے بال دیکھے اگر کوئ انہیں کھینچتا تو وہ کیا کرتی۔اور اتنے تھپڑ وہ کیسے کھاتی۔۔۔!!!!! 

لیز کا دوسرا پیکٹ غم کی وجہ سے خالی کرکے اس نے فرش پر ہی پھینکا۔اور چہرے پر تکیہ رکھ کر رونے لگی۔اس کے تو کیوٹ پٹھان والے خواب ہی ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگۓ تھے ۔تکیہ سائیڈ پر رکھ کر اپنا ٹیڈی بیئر اٹھا کر اس نے گلے سے لگایا۔

ژالے کا انجانے میں کیا گیا مزاق اس بیچاری پر بہت بھاری پڑا تھا۔رو رو کر اس کی آنکھیں سوجھ چکی تھیں۔پھر اچانک اسے دیار کا خیال آیا۔صرف وہ تھا جو اسے سمجھ سکتا تھا۔بکھرے بال سمیٹ کر وہ بغیر سلیپرز پہنے کمرے سے نکلی تاکہ دیار کے پاس جاکر رو سکے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"لالہ جان۔۔۔!!!!" دیار ابھی ہی گھر میں داخل ہوا تھا۔زرلشتہ بھاگتی ہوئ اس سے لپٹ گئ۔جو اس کے ہچکولے کھاتے وجود کو دیکھ کر ششدر تھا۔وہ کبھی یوں نہیں روئ تھی۔وہ بڑے حوصلے کے بعد گھر آیا تھا پر بہن کے اس حال نے اس کے ہوش اڑادیے۔اس نے اسے بازوؤں کے گھیرے میں لیا۔

"بچے کیا ہوا رو کیوں رہی ہو۔۔۔!!!!! کسی نے ڈانٹا ہے کیا میری شہزادی کو۔۔!!!!"

اسے پیار سے بہلاتے ہوۓ وہ اسے صوفے تک لے کر آیا جو باقاعدہ ہچکیوں سے رو رہی تھی۔اس رونے میں کچھ افسوس اس ناول والی لڑکی کی موت پر بھی تھا۔اس کے رونے کی آواز سن کر رخمینہ بیگم اور بہراور درانی بھی وہاں آچکے تھے ۔

"م۔مجھے نہیں مرنا۔مجھے ونی نا کریں۔۔!!!! مجھے خود سے د۔دور نا کریں۔وہ ب۔بہت ماریں گے کھانا بھی نہیں دیں گے۔موبائل بھی نہیں م۔ملے گا۔کوئ گیم بھی نہیں کھیلنے دے گا۔اور آخر میں مجھے مار کر روئیں گے۔۔۔!!!!! مجھے چھپالیں کہیں لالہ جان۔۔۔!!! میں تو آپ کی جان ہوں نا۔مجھے ب۔بچالیں۔۔۔!!!!"

تکلیف سے وہ اسے پڑھیں ہوئ باتوں میں کچھ اپنے دکھڑے بھی سنا گئ۔سب اس کی ہی باتیں سن رہے تھے۔جو انہیں کمزور کررہی تھی۔رخمینہ بیگم نے اپنے دونوں بچوں کو دیکھا۔پھر فیصلہ لے ہی لیا۔انہیں دیار کو بچانا تھا زرلشتہ کی جان خطرے میں نہیں تھی۔تو انہیں فلوقت اسے بچانا ہی مناسب لگا 

"میری جان۔۔!!! لالہ آپ پر قربان۔۔۔!!!!! کوئ آپ کو ونی نہیں کرے گا۔میرے بچے کی خوشیاں کوئ نہیں چھینے گا۔کسی میں اتنی ہمت نہیں کی میری شہزادی کو مارے۔۔۔!!!!! لالہ ہیں نا بچالیں گے وہ اپنی بہن کو ۔۔!!!!"

اس کا سر سہلاتے دیار نے اپنے والدیں پر اچٹتی نگاہ ڈالی۔

"زرلش۔۔!!!!! آجاؤ کمرے میں چلو۔بھائ ابھی آیا ہے۔اسے آرام کر لینے دو۔آجاؤ میرے ساتھ۔۔۔!!!!"

رخمینہ بیگم اسے پیار سے پچکارتے ہوۓ اس سے الگ کرکے لے گئیں۔جس کا بس نا چلا چیخ چیخ کر بتاۓ کہ وہ ونی بیچاری اس کے ناول پڑھتے پڑھتے مرگئ۔اس نے بھی نہیں بچنا۔۔۔!!!!

"فیصلہ ہوگیا ہے بابا جان۔۔۔!!!! انہیں بدلا چاہیے تو کل انہیں بدلا مل جاۓ گا۔پر میری بہن کہیں نہیں جاۓ گی۔۔۔!!!!!"

وہ وہاں سے اٹھا اور اپنے کمرے کی سمت بڑھا۔

"ٹھیک ہے ایسا کرو میرا اور اپنی ماں کا بھی کفن تیار کرلو۔اور اسے دھکے کھانے کے لیے چھوڑ دو۔ہم اس کا نکاح کروارہے ہیں۔اسے مار نہیں رہے۔۔۔!!!!!! جب اسے پتہ لگے گا کہ وہ اپنے بھائ کو بچا سکتی تھی پھر بھی نہ بچا سکی تو وہ اسی دکھ سے مرجاۓ گی۔یاد رکھو تمہیں کچھ ہوا تو ہمارا پورا گھر قبرستان بن جائے گا۔۔۔!!!"

انہوں نے جیسے اپنی بیوی کو راضی کیا تھا ویسے ہی اب دیار کو بھی چپ لگوادی۔وہ بے بسی کی حدوں کو چھوتا واپس اسی صوفے پر بیٹھ گیا۔قسمت بھی کیسے کیسے کھیل کھیلتی ہے۔

•┈┈┈┈┈𝓘𝓼𝓶𝓪𝓱 𝓠𝓾𝓻𝓮𝓼𝓱𝓲 𝓝𝓸𝓿𝓮𝓵𝓼┈┈┈┈┈•

"زرلش اب اپنے بھائ کے سامنے کوئ اوٹ پٹانگ بات نہ کرنا۔وہ پہلے ہی تکلیف میں ہے اسے مزید نہ ستاؤ۔۔۔!!!!! چپ چاپ نکاح کے لیے راضی ہوجاؤ اسی میں بہتری ہے۔۔۔!!!!! سامان پیک کرلو۔اور اپنا منہ اب بند ہی رکھنا۔۔۔!!!!"

کمرے میں آتے ہی انہوں نے اس کا بازو جھنجھوڑا۔جو ان سب کے اتنی جلدی بدل جانے پر حیران تھی۔

"آپ تنگ آگئ ہیں نا مجھ سے۔اسی لیے مجھے کیوٹ پٹھان کی بجاۓ ظالم خان کو دے رہی ہیں۔مما نا کریں نا یہ سب۔۔۔!!!!! اب نہیں تنگ کروں گی آپ کو۔۔۔!!!!! پرامس۔۔۔!!!!! میں نے پڑھا ہے نا ظالم خان تھپڑ بھی مارتا ہے ۔بال بھی کھینچتا ہے۔چیختا بھی ہے۔اور گھر والوں سے ملنے بھی نہیں دیتا ۔میں کیسے آپ سب کے بغیر رہوں گی وہاں ۔۔!!!!!"

اپنے بال چہرے سے ہٹاتے اس نے اپنی ماں سے اپنا بازو چھڑوایا۔

"اگر تم نا گئ تو وہ لوگ تمہارے بھائ کی جان کے دشمن بن جائیں گے۔مار دیں گے اسے۔اور اس کے بعد میں اور تمہارے بابا بھی نہیں بچیں گے۔پھر رہ لینا اپنے خوابوں کی دنیا میں۔۔۔!!!!!! سب صرف تمہارے وہاں جانے سے ٹھیک ہوسکتا ہے ۔سمجھ لینا ہم کبھی تھے ہی نہیں۔۔۔!!!! "

انہوں نے غصے سے اس کے کمرے کا دروازہ بند کیا ۔اور چلی گئیں۔

"یہ بات سکون سے بھی ہوسکتی تھی کہ تمہارے بھائ کی جان تمہارے وہاں جانے سے بچ سکتی ہے۔مارنے کی ضرورت نہیں تھی۔چلی جاؤں گی یہاں سے۔بچ گئ تو پھر بس اپنے بھائ سے ہی ملوں گی۔یہ جو آج مما اور بابا نے کیا ہے نا میں کبھی نہیں بھولوں گی۔"

اپنا بازو سہلاتے ہوۓ اس نے اپنا بیگ نکالا اور اپنے کپڑے اس میں رکھنے لگی۔اسے تو ابھی پتہ چلا تھا کہ اس کے بھائ کی جان خطرے میں ہے۔ مگر جیسے اس کے ماں باپ نے اسے ارزاں جانا تھا وہ اب کبھی نا بھولتی۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Hum Mi Gaye Yuhi Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Hum Mi Gaye Yuhi  written by Ismah Qureshi   Hum Mi Gaye Yuhi  by Ismah Qureshi is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages