yeh mohabbatein yeh shiddatein By Haniya Shah Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Friday 30 August 2024

yeh mohabbatein yeh shiddatein By Haniya Shah Complete Romantic Novel

Yeh Mohabbatein Yeh Shiddatein By Haniya Shah New Complete Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

yeh mohabbatein yeh shiddatein By Haniya Shah Complete Romantic Novel 

Novel Name: yeh mohabbatein yeh shiddatein

Writer Name: Haniya Shah

Category: Complete Novel

کوئ  زور زور سے دروازہ بجا رہا تھا اور بیڈ پر دو سوۓ ہوۓ وجود بری طرح پریشان ہوۓ تھے

حور۔۔۔۔۔۔

حورر۔۔۔۔

دیکھو باہر کون ہے کس نے دروازہ توڑنا لیا ھے 

دروازہ پھر بجا تھا لیکن سونے والے کو کوئ پرواہ نہیں تھی 

حوووووووررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔ 

کیا بات ھے روح کیوں چیخ رہی ہو نید خراب کر دی میری اتنا اچھا خواب دیکھ رہی تھی میں ہاے میرا پرنسس لے جا رہا تھا مجھے لیکن تمہیں تو یہ برداشت ھی نہیں ھر جگہ ٹپک پڑتی ہو 

حور پرنس کے ساتھ بعد میں جانا پہلے باہر دیکھو کون ھے کب سے دروازہ بجا رہا ھے جاؤ دیکھو ناں مجھے سونا ھے پلیز اگر ماما ہوئیں ناں تو انہیں بول دینا کے مجھے بہہہہہہہہہہہہہہت بخار ھے اب جاؤ دیکھو

روح بی بی یہی سیم ورلڈ میرے لیے بول دینا ماما کو میں بھی سونے لگی 

اےےے اٹھو اب نہیں سونا اٹھو چلوروح نے حور سے کمبل چھین کے نیچے پھینک دیا تھا  

اٹھو اب چلو 

میں نہیں اٹھ رہی حور ابھی بھی نید میں تھی 

روح کمبل رکھ کر واشروم میں گھس گئ

آاااااااااااااا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ کیا کیا روح کی بچی پانی کیوں گرایا میرے اوپر  

تم اٹھ نہیں رہی تھی میں نے سوچا تمہیں بیڈ پر ھی فریش کر دوں کیسا لگا ہا ہا ہا ہاہاہاہاہاہاہاہاہا 

حور منہ بسور کر اس کے پیچھے بھا گی تھی روح نے جلدی سے بھاگ کر دروازہ کھولا اور جلدی سے باہر بھاگ گئ

وہ دونوں بھاگ رہی تھی آگے پیچھے 

روح حور کو پیچھے دیکھتی بھاگ رھی تھی آگے آتے ہوے ولید کو ناں دیکھ سکی اور اس میں جا لگی ولید بھی اپنے دیہان چل رہا تھا اچانک روح کے گرنے سے  توازن برقرار نا رکھ سکا اور دونوں دھڑام سے نیچے گرے تھے 

اب ولید روح کے اوپر اور روح میڈم ولید کے نیچے تھی

گرنے سے ولید کے ہونٹ سیدھا روح کی گردن سے لگے تھے اور موقع غنیمت جانتے ہوئے ولید نے اس کی گردن کو نا معلوم سا چوما تھا 

اااااااااا میرے اوپر کونسا پہاڑ گر گیا ہے  روح چیخی تھی 

آنکھیں کھولو 

ولید نے مصنوعی غصے سے کہا تھا 

روح نے فوراً آنکھیں کھولی تھی ولید کی آواز سن کر 

آ۔۔۔۔۔آ۔۔۔۔۔آآآ۔۔۔۔۔اآپ 

روح کی آواز کہیں گلے میں ہی کھو گئ تھی ولید کو دیکھ کر

کیوں بھاگ رھی تھی تم صبح صبح ہاں 

کیوں صبح صبح بھاگنا منع ھے کیا روح نے بھی ویسے ہی سٹائل میں جواب دیا تھا

اگر گر جاتی تم تو۔۔۔۔

گر تو گئ 

ھوں۔۔۔

اب تو میں نے بچا لیا

پھر بھی آپ بچا لیتے مجھے پتا ھے آپ میرے گرنے رونے کھانے سونے ہر کام کرنے سے پہلے ویہاں موجود ہوتے ہیں تو مجھے کیا ٹینشن پھر

اہووووووووووو کیا بات ھے پھر تو اب گرو گئ ناں تو میں نہیں آؤں گا

تو نا آیئے گا میں گر کے مر جاؤں گی پھر آپ ہی رویئں  گے مجھے کیا ناک چڑھا کر روح نے جواب دیا تھا اسے

مرنے تو نہیں دیتا میں تمھیں 

اگر آپ میرے اوپر سے نا اٹھے ولید بھائ تو میں پکا ابھی مر جاؤں گی 

کیاااااااااااااااا بھائ

بھائ کیوں کہا مجھے بیوقوف عورت 

کیییییییا آپ نے مجھے عورت بولا 

اب آپ کو اس کی سزا زرور ملے گی 

یہ کہہ کر روح نے زور سے ولید کے ناک پر کاٹا تھا

یہ کیا کیا جنگلی بلی ولید اپنے ناک پر ہاتھ رکھ کر روح کو گھور رہا تھا 

وہ دونوں ابھی بھی ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہوئے تھے

تو اب تمہیں بھی سزا ملے گی تم نے مجھے بھای بولنے کی

کیا آپ مجھے ماریں گے کیا 

ھاں مار ہی دوں گا 

دیکھیں ولید بھائ گولی نا مارئیے گا مجھے پین ھو گی گلا بھی نا دبانا میرا سانس بند ھو جاے گا

تم نے پھر بھائی بولا مجھے ولید نے غصے سے اپنا چہرہ روح کے مزید قریب کر لیا تھا اور اس کے دونوں بازوؤں پر پکڑ مظبوط کی تھی

اس کی سانسیں روح کے چہرے پر گھوم رھی تھی

روح نے زور سے آنکھیں میچی تھی شاید ولید کو اسی بات کا انتظار تھا اس نے فوراً سے جھک کر روح کے ہونٹوں کو اپنے دانتوں میں ہلکا سا دبایا تھا

آآآآاااااااا چھوڑیں مجھے آپ نے میرے لپس پر کاٹی کیوں کی میں بتاؤں گی سب کو  آپ بہت گندے ھیں اتنی زور سے کاٹی کی آپ نے میرے لپس پر میں ناراض ہوں آپ سے روح منہ بسور کر آنکھوں میں نا نظر آنے والے آنسوں صاف کیے 

اٹھ بھی جائیں اب میرے اوپر سے ورنہ کل نیوز آئے گی بزنس مین ولید شاہ کی کزن انہی کے ٹرک جیسے ملبے کے نیچے آ کر مر گئ  

وہ اسی پوزیشن میں اس کے اوپر لیٹا اس کی باتیں  سن کم اسے دیکھ زیادہ رہا تھا 

کیا ہو رہا ھے یہ سب

اس آواز پر ان دونوں نے سر اٹھا کر پیچھے دیکھا تھا

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩  

تو یہ ھے  شاہ پیلس جو ھر دیکھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کرتا ھے 

اس گھر کے مکین بھی بلکل اسی طرح کے تھے 

 وجاہت شاہ کے تین بیٹے تھے 

سکندر شاہ، دلاور شاہ، اور آزر شاہ اور ان کے بعد ان کی ایک بیٹی تحریم شاہ تھی 

ان کے تینوں بیٹوں کی شادی خاندان سے باہر ہوی تھی

سکندر شاہ کی بیوی عظمیٰ سکندر ان کی ایک ھی اولاد تھی ولید شاہ جنہیں انہوں نے بھت لاڈ پیار سے پالا تھا  

چھ فٹ سے نکلتا قد ،گورا رنگ، ھلکی سے مونچھیں اور داڈھی عنابی لب اور سب سے بڑھ کر نیلی آنکھیں جن میں ہمیشہ سرد پن رہتا لیکن روح کے لیے وہ ہمیشہ شرارتی بن جاتا 

دلاور شاہ کی بیوی عافیہ دلاور ان کے تین بیٹے تھے ارمان سب سے بڑا جبکے امان زمان دونوں جڑواں تھے

  ارمان وجیہہ شخصیت کا مالک تھا امان اور زمان دونوں ہم شکل تھے صرف آنکھوں کا فرق تھا امان کی آنکھوں کا رنگ گرین جبکہ زمان کی آنکھیں گرے رنگ کی تھی وہ دونوں ھی بہت شرارتی تھے اور ارمان بے حد سنجیدہ رہتا  

آزر شاہ کی بیوی عمارہ آزر ان کی دو بیٹیاں  ھیں روح اور حور دونوں جڑواں ھیں حور اور روح دونوں 16 سال کی ھیں بھورے بال پھولے ہوئے گال گلابی ہونٹ اور روح نے کی گالوں پر ڈمپل ھے جبکے حور ہوبہو روح جسی تھی لیکن اس کی آنکھیں اپنی ماں جیسی سرمئی رنگ کی تھیں اور اس کے پاس ڈمپل بھی نہیں تھے لیکن بلاشبہ  وہ دونوں بہنیں حسن کا پیکر تھی وہ دونوں فرسٹ ائیر کی سٹوڈنٹس ہیں

اس کے بعد تحریم شاہ اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنے باپ کے پاس ان کے ولا میں رہتی ان کی ایک بیٹی زمل ہے جس کی عمر بائیس سال ھے

ور بھی بہت خوبصورت ھے لیکن بھت نکچڑھی  

کیا ہو رہا ہے یہ  

بولو 

کیا ہو رہا ہے یہاں

تحریم شاہ اپنی بیٹی کو اٹھانے کے لیے اس کے کمرے کی طرف جا رہی تھی سیڑیوں کے پاس انہوں نے ولید اور روح ایک دوسرے کے اوپر گرے ہوے دیکھا تو بھڑک پڑی ان پر 

ولید بڑے اطمینان سے اٹھا تھا پھر بھی روح پر سے  

کیا ہو رہا تھا

کچھ نہیں پھوپھو جان بس میں تو سزا دے رہا تھا روح کو کالج سے کمپلینٹ آئ تھی اس کی 

واہ کیا بات ہے بیٹا یہ کیسی بیشرمی ھے جو اس گھر میں پھیلی ہوئی ہے میں پہلے بھی تمہیں بہت بار دیکھ چکی ہوں رات کو روح کے کمرے سے نکلتے ہوے اور اب تو تم لوگ دن کی روشنی میں ماشاءاللہ چاند چڑھا رہے ہو 

اااا۔۔۔۔۔ییییی۔۔۔۔اییسی ب۔۔۔اا۔۔۔ااا۔اا۔بات نہہہ۔۔۔نہیں پھوپھو میں ت۔۔۔ت۔۔تو بس گر گئی تھی ولید بھائ کے اوپر روح روتی ہوئی اپنی صفائی دینے کی کوشش کر رہی تھی اور ولید سکون سے پینٹ کی پوکیٹس میں ہاتھ ڈالے ہوئے کھڑا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں

بھائ واہ واہ اب بھائ بن گیا ہاں پہلے کہاں تھا بھائی جب نادیدہ حرکات کر رہی تھی 

تم دونوں بہنیں ہو ہی ایسی بے حیا اب تو گھر میں بھی بے حیائی شروع کر دی ہے تم لوگوں نے پتا نہیں کیا کیا ھے دونوں بہنیوں نے میرے بھائی کے بیٹوں پر کے ان کو تم دونوں کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا 

ایک نے زمان کو پیچھے لگایا ہوا ھے اور اب تم ولید پر ڈورے ڈال رہی ہو 

بس پھوپھو بہت ہوا گیا کیسے کہہ سکتی ھیں آپ یہ سب روح کو اس نے کہا تھا نا کہ وہ گر گئی تھی بس تو پھر کیوں بڑھا رہی ہیں بات کو آپ 

ولید بیٹا تمہیں نہیں پتا یہ تمیہں اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن تم تو سمجھدار ہو نا تو سمجھو اب 

سب گھر والے اکٹھے ہو گئے تھے تحریم بیگم کی اونچی آواز سن کے عمارہ بیگم اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ سب سن کے گرنے والی ہو گئی تھی عافیہ بیگم نے انہیں سہارا دے کر صوفے پر بیٹھایا تھا

کیا تحریم سچ کہہ رہی ہے ولید 

شجاعت شاہ کی کرخت آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا 

جی سچ کہہ رہیں ھیں یہ 

ولید کے اس جواب پر جہاں سب حیران ہوئے تھے وہیں روح نے زخمی نظروں سے ولید کی طرف دیکھا تھا

نہیں دادا جان ولید جھوٹ بول رہے ہیں ایسی بات نہیں ھیں میں گر گئی تھی ان پر یقین کریں دادا جان میرا  یہی تنگ کر رہے تھے مجھے اور انہوں نے میرے بازو بھی توڑنے لگے تھے اور میرے لپس پر بھی کاٹی کی تھی 

روح کا یہ کہنا تھا کے سب کی نظریں ولید کی جانب اٹھی تھی

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب بے یقینی سے ولید کو دیکھ رہیے تھے کے اتنا باروب انسان ولید شاہ جو لوگوں کو ایسے گناہوں کی سزا دیتا وہ خود ایسی حرکت کر سکتا ھے

چٹاخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شجاعت شاہ نے زندگی میں پہلی بار اپنے جان سے عزیز پوتے پر ہاتھ اٹھایا تھا 

جہاں سب روح کی بات کو غلط سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے وہیں سب کو دادا جان کے تھپڑ نے ماؤف کر دیا تھا 

مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی بلکل بھی ولید تم مان تھے میرا مگر  سر جھکا دیا آج تم نے میرا

وہ بھی میری ہی اولاد کے سامنے 

شجاعت شاہ نے دکھ سے بولا تھا شاید ولید نے ان کا بھروسہ توڑا تھا 

دادا جان آپ نے ولی کو کیوں مارا میری پوری بات تو سن لیتے 

وہ تو انہوں نے میرے سے بدلا لیا تھا 

بدلا ۔۔۔۔۔کیسا بدلا بیٹا عابدہ بیگم(دادی) نے جلدی سے آگے بڑھ کر روح کو اپنے ساتھ بیٹھا کر پوچھا تھا 

اوہو دادی جان میں نے ولی کے ناک پر کاٹی کی تھی نا زور سے اس لیے انہوں نے بھی کی آپ نے انہیں کیوں مارا وہ تو پہلے بھی ایسے ہی کرتے ھیں 

ویہاں موجود سب ہی نفوس ایک بار پھر حیرت میں ڈوبے تھے 

عظمیٰ بیگم تو اپنے بیٹے کی حرکات سن کر شرمندگی سے سر ھی نہیں اٹھا پا رہی تھی 

اور عمارو بیگم اپنی بیٹیوں کی معصومیت کو کوس رہیں تھیں 

سکندر شاہ نے ولید کو کالر سے پکڑ کر مارنے کی کوشش کی تھی لیکن روح نے جلدی سے آ کر ان کا ہاتھ روکا تھا 

تایا جان بس کر دیں اگر اب کسی نے بھی ولی کو مارا نا تو میں رو دوں گی ہاں 

ولید اپنی حرکت سب کے سامنے آنے پر شرمندہ تھا لیکن روح کی بات پر مسکرایا تھا 

تم ابھی بھی ہنس رہے ہو اس بچی کی معصومیت کا فائدہ اٹھایا تم نے کیا یہ ہی تربیت کی تھی میں نے تمہاری  عظمیٰ بیگم بھی بھڑک اٹھی تھی ولید پر 

تو ٹھیک ہے پھر روح دے دیں آپ لوگ مجھے ولید نے بہت اطمینانِ سے جواب دیا 

کیا بات کر رہے ہو تم ںاں اگر اس کا باپ نہیں تو کیا لاوارث سمجھ لیا تم نے اسے  میری بیٹیاں ھیں وہ دونوں اور میں اسے تمہیں دے دوں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سکندر صاحب نے غصے سے پکارا تھا ولید کو 

اور روح میڈم اتنا سب ہونے کے بعد بھی ولید کے ساتھ چپکی کھڑی تھی

نکاح کرنا جائز ہے پاپا اور میں اپنی جائز خوائش کا مطالبہ کیا ھے 

بیٹا پاگل ہو گئے ہو تم اس بیوقوف سے نکاح کرنے

کی بات کر رہے ہو کیا ہو گیا ہے تمہیں 

تحریم شاہ کو بات اپنے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دے رہی تھی اس لئے ولید روح کے خلاف کر رہیں تھیں

پھوپھو جان یہ بیوقوف ہی چاہیے مجھے میں خود ٹھیک کر لوں گا اسے 

بولو عمارا بیٹا تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں 

نہیں بابا جان آپ کا فیصلہ مجھے دل و جان سے قبول ھے

تو پھر ٹھیک ھے آج رات کو روح کو نکاح ولید سے ہو گا

 روح بیٹا ۔۔۔۔۔

جی دادا جان 

بیٹا تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں

کس پر دادا جان

ولید کے ساتھ شادی پر 

شادی کیا میری شادی 

جی بیٹا آپ کی شادی 

دادا جان مجھے چھپا لیں اللہ جی مجھے تو بہت شرم آ رہی ھی روح نے شجاعت صاحب کے سینے میں منہ چھپا لیا تھا سارے گھر والے ہنسے تھے روح کی اس حرکت کے سواے تحریم کے 

روکیں دادا جان

اس آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا

اگر ولید کا نکاح ہو رہا ہے تو مجھے بھی کرنا ھے 

کیا بول رہے ہو زمان پتر 

عافیہ بیگم یہ اب آپ کا بیٹا کیا چاند چڑھانے والا ہے 

  مجھے کیا پتا آپ کی اولاد ھی آپ پر ھی گئی ہے 

اوہو ممی ڈیڈی آپ لوگ بعد میں لڑنا دیکھیں تو زمان بھائ بھی شادی کی بات کر رہیں ہیں 

ارمان بے شرارت سے آنکھ ماری تھی عافیہ بیگم کو 

توبہ میری تو اولاد ھی گندی ھے 

چلیں زمان بھائ آپ شروع کریں 

امان نے ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر زمان سے بولا 

دادا جان میں حور سے نکاح کرنا چاہتا ہوں 

جہاں آپ ولید کا کر رہیں ھے میرا بھی کر دیں 

اور قسم سے چچی جان اور حور کو کویئ اعتراض نہیں 

سب مسکراے تھے اس کی جلد بازی دیکھ کر

 تو ٹھیک ھے پھر بلاؤ مولوی کو ابھی کے ابھی نکاح ہو گا میرے پوتوں کا 

روح ابھی بھی شجاعت شاہ کے سینے سے لگی بیٹھی تھی اور ولید اسے ہی دیکھ رہا تھا 

آج سے تم صرف میری پناہوں میں رہو گی صرف میری بن کر  اس نے سوچا تھا یہ کہہ کے مرنا نہیں تھا سب گھر والوں کے سامنے

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

کچھ ہی دیر میں روح ولید کی اور حور زمان کی ہو چکی تھی

عافیہ بیگم تو حور کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی اور عظمیٰ بیگم روح کو کنگن پہنا رہی تھی سب خوش تھے اگر کوئ نہیں تھا تو وہ تھی تحریم اور اس کی بیٹی زمل 

چلو بھئی اب سب لگو اپنے اپنے کاموں پر 

شجاعت شاہ نے سب کو اکٹھا بیٹھے دیکھ کر کہا 

سب جا چکے تھے 

صرف روح عظمیٰ بیگم اور عافیہ بیگم لاؤنچ میں بیٹھی تھی

حور بھی اپنے کمرے میں جا چکی تھی

جب اس نے کمرے کا دروازا کھولا تو کمرے میں اندھیرا چھایا ہوا تھا اس نے لائٹ آن کرنا چاہی تو کسی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تھا 

وہ سیدھا جا کر اس کے سینے سے ٹکرائی ویسے بھی حور بہت مشکل سے زمان کے سینے تک آتی تھی اس کے آگے تو وہ بلکل بچی لگتی 

آندھرا ہونے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اس لیے حور اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکی 

ککککک۔۔۔۔کککک۔۔کون ھے 

کون ہو سکتا ہے جواب پورے سکون سے آیا تھا 

آپ 

جی میں

میرے علاوہ کون یہ کرنے جرت کر سکتا ھے 

آپ کیا کر رہے ہیں میرے کمرے میں اور لائیٹس کیوں ا

آف کیں آپ کو پتا ھے ناں مجھے ڈر لگتا ھے اندھرے سے 

میں ہوں نا پاس اب کیوں ڈر لگے گا 

آپ پاس کہاں آپ تو اتنے اوپر ہیں اور مجھے تو آپکی شکل بھی نہیں دکھ رھی

یہ لو دیکھ لو زمان نے اسے بچو کی طرح گود میں اٹھا کے اپنے روبرو کیا تھا 

وہ اسے گود میں لیئے بیڈ پر بیٹھ گیا تھا

آپ نے مجھے بچوں کی طرح کیوں اٹھایا 

کیوں کہ تم میرا بچہ ہو 

کیا میں آپ کا بچہ ابھی تو تائ جان کہ رہی تھیں میں آپ کی بیوی ہوں 

اچھا تو روح میری بیوی ھے انٹرسٹنگ 

تو کیا آپ کو نہیں پتا 

نہیں مجھے نہیں پتہ ۔۔۔۔

زمان نے اس کے بال ماتھے سے ہٹا کر ویہاں اپنے لب رکھے تھے

آپ نے مجھے کس کیوں کیا اب نہیں بتاؤں گی مییں میں پہلے آپ کو بتاتے لگی تھی 

اچھا اب بتاؤ نیں کرتا اب 

گود میں کیسے زور سے پکڑ کر بیٹھے ھیں میں کونسا بھاگ جاؤں گیں 

بھاگ کر جاؤ گی بھی کہاں آنا تو میرے پاس ہی ھے 

نہیں میں روح کے پاس چلی جاؤں گی 

وہ تو ولید کے پاس ھے 

نہیں ولید بھائ تو آفس چلے گئے 

میں بھی تو آفس ھی ھوں 

آپ تو یہاں ھیں

بس پھر وہ بھی ویہاں ھے 

کیا ھےےےے مجھے بلکل بھی سمجھ نہیں آ رہی 

اچھا تم اسے چھوڑہ مجھے سمجھو بس 

کیوں آپ کوئ مئتھ کا سوال ھیں کیا 

ھاں 

وہ کیسے 

وہ ایسے 

زمان نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا تھا 

اوور واقع ہی حور کو سمجھ نہیں آیا کی یہ کیا تھا 

زمان اس کے نرم لبوں کو اپنی قید میں لیے ہوئے ایسے ہی بیڈ پر لیٹا تھا 

جب اس کے عمل میں شدت آئی تو روح نے اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں زور سے پکڑا تھا 

وہ اس کے لمس میں اس قدر مدہوش تھا کے اسے خبر نہیں ہیوی کے حور کا سانس بند ہو رہا ہے 

جب اس کا دل بھر گیا اس کے ہونٹوں سے تب وہ پیچھے ہوا اور ہٹنے سے پہلے ایک زور سے کاٹی کی اس سے پہلے کے حور چیخ مارتی اس نے اس کے چیخ کو اپنے منہ میں ہی دبا لیا تھا اب پھر اس کے ہونٹ اس کے رحم و کرم پر تھے

 ہاااااےےے اللہ آپ نے بھی کاٹی کی مجھے میں بھی بتاؤں گی دادا جان کو ہاں 

کاٹی کب کی میں نے تو تمہاری سانسیں بند کیں تھیں 

ہاں تو میں یہ بھی بتاؤں گی ۔۔۔۔۔اب اٹھیں ناں میرے اوپر سے میں نیچے آ کے مر جاؤں گی زمان پلئز اتنے بھاری ھیں آپ

پہلے وعدہ کرو جو کچھ بھی ہمارے بیچ ہوا یا ہو گا تم کسی کو نہیں بتاؤ گی 

کیوں میں تو بتاؤں گی

گناہ ملتا ہے حور اپنے شوہر کی باتیں کسی کو بتاتے سے 

ہاں تو سانس بند کرنے اور لپس پر کاٹی کرنے سے گناہ نہیں ملتا 

نہیں اگر میں تمہارے ساتھ یہ سب کروں گا تو تمہیں ثواب ملے گا گناہ نہیں 

کیااااااااااااااا سچی 

ہاں ناں سچی 

اچھا ہوا پھر تو آپ نے مجھے ثواب دلوا دیا وہ میں روح کے اوپر پانی پھینکا تھا صبح تو گناہ ملا تھا اب ثواب مل گیا حساب برابر ہوا 

لیکن ابھی تو مجھے زیادہ ثواب ملا ہے تمہیں کم 

ہہہہہہہہہہہہں وہ کیسے 

کیوں کے میں نے تمہیں کس کیا تم نے مجھے نہیں اب تم مجھے کس کرو پھر تمہیں اور زیادہ ملے 

نہیں زمان آپ اللہ کو بولیں مجھے ویسے ہی دے دیں مجھے شرم آ رہی ھے میں نی کس کرو گی آ پ کو ہاں بس 

چلو پھر گال پر کر لو حور اس طرح بھی مل جاتا ھے 

ہاں ٹھیک ہے لائیں کروں 

حور نے نرمی سے زمان کی گال پر کس کیا تھا لیکن زمان تو شاید موقع کی تلاش میں تھا ادھر حور نے اس کی گال پر اپنے لب رکھے تب ہی زمان نے دوبار سے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا تھا 

یہ کیا حور تمہارے ہونٹ پھسل کر میرے ہونٹوں پر آ گئے اور خود ھی کس ہو گئ 

زمان شاہ حور کے ساتھ بچا بنا ہوا تھا کوئ اور دیکھتا تو شاید ناز کرتا حور کی قسمت پر اتنا اکڑو شخص اپنی حور کے لیے اتنا نرم دل ہی

ے ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کیسے لے گئی وہ میری آنکھوں کے سامنے زمان کو کیسے 

زمان صرف میرا ھے کیسے کسی

 اور کا ہو سکتا ھے وہ 

یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا کیا ضرورت تھی روح اور ولید کو دیکھ کر اتنا ڈرامہ کرنے کی آپ کے ڈرامے کی وجہ سے زمان بھی نکل گیا ہاتھ سے 

چلے گیا وہ حور کے پاس ہاں وہ چلے گیا اور میں دیکھتی رہ گئی 

بیٹا بات سنو میری 

آپ چپ کر جائیں ماما پہلے آپ سب خراب کر چکی ہیں 

بس اب زمان کو میرے پاس آنا ہی ہو گا 

حور  کو جانا ھو اس کی زندگی سے جانا ہو گا ہمیشہ کے لیے 

میرا پیار ھے زمان اور اسے بھی اب میرا ہونا ہو گا 

جب سے زمل کو پتا چلا تھا زمان کے نکاح کا وہ تو پاگل ہو رھی تھی اور اپنی ماں پر بھڑک رہی تھی 

زمل زمان کو پسند کرتی تھی اور وہ کئی بار اس سے اظہار بھی کر چکی تھی لیکن زمان کو اس سے سخت نفرت تھی شاید اس کی وجہ زمل کا لیٹ گھر آنا اور آوارہ لڑکوں کے دوستی تھی 

زمل اور اس کی ماں لالچی تھیں تحریم کی نظر ولید پر تھی کیونکہ وہ ساری پراپرٹی کا اکلوتا وارث تھا جبکہ زمل کو زمان شاہ چاہیے تھا 

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حیا بیٹا آپ کو امان لینے آئیں ھیں

جیی امان آئیں ھیں 

جی بیٹا وہ اکیلے ہی آئیں ھیں اور آپ کو جلدی آنے بولا ھے 

جی میں جا رھی ہوں 

وہ ہوسٹل سے نکل کر باہر آئ تو وہ سامنے ھی کھڑا تھا  

اسے دیکھ کر حیا کی سانسیں اس کے سینے میں اٹکی تھیں شاید ڈر کی وجہ سے یا اس کو دیکھ کر وہ آہستہ آہستہ چل کر اس کے پاس آئ

اسلام علیکم

امان اپنے فون میں مگن تھا کے اسے اسںکی مطلوبہ آواز سنائ دی اس نے آنکھوں سے گلاسس اتار کر دیکھا تو وہ اس کے سامنے کھڑی تھی 

وعلیکم سلام

تمہیں امی نے کال کی تھی آئی کیوں نہیں ڈرائیور کے ساتھ 

وہ۔۔۔۔۔۔وہ مممممم۔۔۔۔میییرا پیپر تھا ممممیییی۔۔۔مممممیں پڑھ رہی۔۔۔۔۔۔تھی 

خالہ جان ۔۔۔۔۔کو ۔۔۔میں نے ۔۔بتا ۔۔۔دیا تھا ۔۔اور ان ۔۔۔سے سوری بھی کر لی تھی 

اور میں ۔۔۔

میرے سے کی سوری 

اب تمہیں مجھے نا بتانے کی سزا ملے گی 

دیکھو اوپر بارش ہونے والی ھے نا تم بارش میں بھیگو گی میرے ساتھ 

حیا کی آنکھوں میں آنسو دیکھ چکا تھا وہ 

وہ ااااااآ۔۔۔۔۔اااااا۔آپ کو پتا ھے نا مجھے ڑر لگتا ھے بارش۔۔۔۔۔۔۔سے 

ہاں پتا ھے اس لیے ہی تو کہا ھے 

چلو بیٹھو گاڈی میں 

وہ کانپتی ہوئی گاڑی کی طرف چل دی 

امان نے اس کے لیے گاڈی کا دروازہ کھولا اور اسے بیٹھا کر بند کر دیا اور خود دوسری جانب جا کر ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی 

گاڈی کسے انجان راستے پر چل رھی تھی حیا کی جان ہوا ہوی یہ دیکھ کر 

ہمممم۔۔۔۔ہممممم۔ہممم کہاں جا رہیں ھیں 

میرے فارم ہاؤس اس نے سامنے نظر ٹکائے جواب دیا 

لیکن کیوں امان 

بارش میں بھیگنے 

پلیز امان ایسا نا کریں 

کیسا

ہم گھر چلتے ھیں ناں پلیز 

گھر ھی تو جا رھیں ھیں 

نہیں وہاں نہیں

اور کہاں 

جہاں سب ھیں 

چلیں گے بعد میں 

اب حیا بھی بے بس ہو کر چپ ہو گیئ تھی وہ جانتی تھی آج اسے بارش اور امان سے کوئ نہیں بچا سکتا 

جب تک وہ لوگ فارم ہاؤس پہنچے تب تک بارش شروع ہو چکی تھی  

امان گاڑی سے اترا اور حیا والی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اسے نیچے آنا کا کہا 

حیا ڈرتی ڈرتی نیچے اتری تو امان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے فارم ہاؤس کی چھت پر لے آیا وہ تو جیسے کٹی پتنگ کی طرح اس کی جانب کھیچی چلی آئی 

امان نے اسے لا کر بارش میں کھڑا کر دیا  

اما۔۔۔۔۔۔۔اماا۔۔۔ن۔۔۔۔۔امان پلیز ایسا ناں کریں 

کیسا کر رہا ہوں میں امان نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کے پوچھا 

امان بارش۔۔۔۔۔۔ڈر لگ رہا ہے مجھے 

میں ساتھ ہوں پھر بھی لگ رہا ھے کیا

حیا ساری بھیگ چکی تھی 

اس کا بھیگا ہوا سراپا امان کو بہکا رہا تھا لیکن ابھی وہ اس پر کویئ حق نہیں رکھتا یہ سوچ اس کے تمام جزبات کو دبا دیا تھا 

وہ دونوں اتنے قریب کھڑے تھے کے انہیں ایک دوسرے کی دھڑکن بخوبی سن رہی تھی 

اچانک بادل گرجا تو حیا کی چیخ ہوا میں گونجی وہ اسے کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اسے انداز ہی ناں ہو سکا کے وہ امان کے گلے لگ چکی ھے 

ہوش تو تب آیا جب اسے اپنے پاؤں زمین سے اٹھے ہوے محسوس ہوے 

امان نے اسے اپنے بازوؤں میں اٹھا کر زور سے سینے میں بینچ لیا تھا 

حیا کی قربت نے اس کا سادہ غصہ ساری نفرت کہیں دور دفن کر دی تھی 

وہ ٹرانس سی کیفیت میں اسے لیے زمین پر بیٹھا وہ بھول چکا تھا کے وہ اس کے لیے نا محرم ھے وہ بھول چکا تھا وہ اسے سے دس سال چھوٹی ھے اس کی شدتوں کو سہ نہیں پائے گی وہ بھول گیا تھا کے وہ حیا شاہ سے نفرت کرتا ھے  اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو چکی تھی 

حیا کانپ رہی تھی جہاں امان نے اسے لٹایا تھا ویہاں زمین بہت ٹھنڈی تھی 

حیا آنکھیں بند کئے لیٹی ہوئی تھی کے اسے اپنی گردن پر کسی کا گرم لمس محسوس ہوا 

اس نے فوراً آنکھیں کھولیں تو خود کو امان کے حصار میں پایا امان نے دہکتے لب حیا کی ٹھنڈی گردن پر رکھے تھے وہ جی جان سے لرز گئی تھی یہ سب نیا تھا اس کے لیے وہ معصوم نا واقف تھی دنیا جہاں کی سبھی باتوں سے  

امان کے لب اسے اپنی شاہرگ پر محسوس ہو رہے تھے اور شاید مونچھوں کی چبھن بھی 

امان کسی پیاسے کی طرح اس کی گردن چوم رہا تھا کے اچانک کچھ دماغ میں آیا تو فوراً سے حیا سے الگ ہوا 

تم تم کیا سمجھتی ہو یہ ایسے مجھے اپنا حسن دکھا کر اپنا گرویدہ بنا لو گی ہاں اور میں کھینچا چلا آؤں گا تمہاری طرف حیا میڈم آپ آپنے حسن کے جلوے کسی اور کو دیکھائے گا بلکہ کسی اور کو کیوں میں تمہیں کسی کے کابل چھوڈوں گا ہی نہیں 

ام۔۔۔۔۔ام۔۔۔۔ام۔  اما۔۔۔امان ممم۔۔۔مییی۔میں نے کککک۔۔کیا ۔۔کیا

کیا کیا تم نے یہ تم پوچھ رہی ہو 

تم نے مجھے خود کے قریب کیا تم  میجھے بہکا دیتی ھو جب بھی میرے پاس آتی ہو مجھے کچھ نظر نہیں آتا تمہارے علاوہ نفرت بھی بھول جاتا ہوں تمھارے آگے کیوں آتی ہو تم میرے پاس کیوں آتی ہو نفرت کرتا ہوں میں تم سے بہت نفرت کرتا ہوں وہ اتنی زور سے چیخا کے اس کی آواز طوفانی بارش میں بھی واضح سنائ دی وہ رو رہا امان شاہ رو رہا تھا جب محبت عشق بن کر خون میں سرایت کر جائے تب انسان ایسے ہی تڑپتا ھے جیسے امان شاہ تڑپ رہا تھا وہ جانتا تھا حیا اس کی نہیں ہو سکتی وہ کسی اور کو چاہتی ھے لیکن یہ اس کے غلط فہمی تھی 

وہ اپنا رونا بھول کر امان کے پاس آئی اور اس کے پاس زمین پر بیٹھ گیئ 

امان میں۔۔۔۔۔آپ سے۔۔۔ایک بات ۔۔۔پوچھوں وہی ہیچکیوں میں رو رہی تھی 

امان خاموش کویئ جواب نہیں دیا بس وہ رو رہا تھا اور زمین پر گرتی بارش کو دیکھ رہا تھا 

امان۔۔۔۔۔۔۔ حیا نے اس کا بازو ہلایا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا 

آپ ۔۔۔۔مجھ سے ۔۔۔ااا۔۔۔۔اااا۔۔اتنی نفرت کیوں کرتے ھیں امان 

امان نے غصے اور رونے سے سرخ ہوئی آنکھیں اٹھا کر حیا کو دیکھا 

تمہیں نہیں پتا حیا 

نننن۔۔نن۔۔نہیں 

نہیں ۔۔۔پتا ۔۔۔مجھے 

تمہیں پتا ھے حیا تم چھوٹی سی تھی جب تمہیں خالہ اور خالو میرے ماما کی جھولی میں ڈال کر اس دنیا سے چلے گئے میں اس وقت دس سال کا تھا بہت چھوٹا بھی نہیں تھا 

پھر تم ہماری زندگی میں آئی ایک خوشی بن کر ۔۔۔۔میں سکول سے آ کر جب تک تمہیں نا دیکھتا چین نہیں آتا تھا تم تو تب ایک سال کی بھی نہیں تھی وہ بے بسی سے ہنسا 

حیا تم روتی تھی ناں جب میرے دل میں درد ہوتا تھا تمہارہ ہنسنا میرے سانس چلنے کا سبب بن گیا شاید بہت لگاؤ ہو گیا تھا تم سے 

تمہارے چھوٹے چھوٹے ہاتھ  جب میرے منہ پر لگتے تو لگتا جیسے نئی زندگی ملی ہو میں بہت خوش تھا تمہارے ساتھ پھر ماما پاپا نے مجھے اور امان کو لندن بیجھ دیا ھے جانتی ہو کیوں 

ان کا کہنا تھا میں یہاں رہ کر کچھ نہیں کر سکتا کیوں کے میں ہر وقت تمہارے ساتھ کھیلتا رہتا 

پھر میں اور ارمان چلے گیا 

میں نے تمہیں بہت یاد کیا حیا بہت رویا تھا میں 

تم تو بھول بھی گئی تھی مجھے 

وقت گزر کیا حیا 

پورے دس سال گزر گئے 

جب میں واپس آیا میں ایک بچے سے مرد بن چکا تھا حیا لیکن تم تو ابھی بھی بچی چھٹی سے معصوم سی 

میرے دل میں تمہارے لیے جزبات بہت بدل گئے تھے سمجھ لو میرے دل میں تمہارے لیے محبت نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا 

لیکن مجھے خود سے نفرت ہونے لگی تھی کے ایک نا سمجھ اور چھوٹی سے پری کے بارے میں ایسی سوچ رکھتا ہوں میں  

پھر میں نے اپنے دل سے بغاوت کی اور تم دیکھنا سوچنا سب چھوڑ دیا اور تم سے دور رہنے کی کوشش کی 

لیکن کب تک حیا میرا پیار عشق بن چکا تھا 

5 سال گزر چکے تھے 

اب تو تم 15 سال کی ہو گئی تھی اور میرا عشق بھی اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا لیکن میں اب بھی تم سے چھپتا تھا کی تم میری آنکھوں میں اپنے لیے شدت نا دیکھ لو لیکن جب بھی تم میرے پاس آتی یا مجھے چھوتی اب بھی ایسا لگتا زندگی بدل گئی 

لیکن یہ کیا حیا تم نے مجھے ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر ایک دن میں نے تمہاری بک میں ارمان کا نام لکھا دیکھا 

میری موت ہوئی تھی حیا اس دن مر گیا تھا میں 

تمہیں پتا تھا میرا دل پھٹ رہا تھا درد سے لیکن تمہیں کیسا پتا ہو گا تم تو بے خبر تھی 

ویہں سے ہوئی نفرت کی ابتدا لیکن وہ نفرت تم سے نہیں بلکے اپنے وجود سے جس نے ایک ایسے وجود کو چاہا جو اس کا نہیں تھا بلکہ اسے تو خبر بھی نہیں تھی  

میں روز مرتا تھا تب تب مرتا تھا جب جب تمہیں ارمان کے پاس دیکھتا پھر میرے بس سے باہر ہو گیا اور میں نے امی سے بول کر ہاسٹل بھجوا دیا تھا  

اور کل جب میں نے کل ڈرائیور کو تمہیں لینے بھیجا تو تم نہیں آئی میرا دل پھر ٹوٹ گیا بس ختم ہوئی میری برداشت 

 باقی سب تمہارے سامنے ھے

امان نے آنسو صاف کر کے حیا کی طرف دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہی تھی 

ہاےےےےےےےےے امان آپ اس لئے 

وہ سامنے سے اٹھ کر جلدی سے امان کی گود میں آ کر بیٹھی اور بازو اس کے گلے میں ڈالے 

امان تو  اس کی ہمت پر حیران تھا اور کہیں کہیں خوش بھی 

اب میری بات سنیں امان 

 جب آپ چلے گئے تھے نا ولید بھائ مجھے سب بتاتے تھے کے آپ مجھے بہت پیار کرتے تھے اور کسی کو گود میں بھی نہیں اٹھانے دیتے تھے اور آپ امان کو بھی بہت مارتے تھے میری وجہ سے  ہاہاہاہاہاہاہاہاہا

پھر میرا بھی دل کیا کے میں دیکھوں آپ کو 

کبھی دیکھا ہی نہیں تھا نا آپ کو پاکستان آنے سے پہلے 

پھر جب آپ واپس آئے میں بہت خوش ہوئی لیکن آپ تو مجھے بلاتے بھی نہیں تھے☹️☹️☹️☹️ 

اور مجھ سے دور دور رہتے اور مجھے لگا کے سب جھوٹ بولتے تھے کے آپ مجھے پیار بھی کرتے تھے آپ تو اتنے کھڑوس ہیں 

امان نے اس کی طرف مصنوعی غصے سے 

دیکھا 

نہیں نہیں اب نہیں کہا پہلے کہا تھا 

اچھا آگے بتاو اب 

ہاں آگے کیا ہوا پھر کیاہوا کیا ہوا کیا ہوا ۔۔ہاں یاد آگیا پھر ہی ہوا جو آپ نے میری بک پر۔ نام لیکھا دیکھا تھا نا وہ تو میں نے امان لکھا تھا وہ تو ارمان کے بچے نے ر لکھ کر ارمان کر دیا اور مجھے بھی آپ بہت اچھے لگتے تھے ایک دم سالاد سکندر جیسے 

اور ارمان جیسے لنگور کو تو میں نے ہوم ورک کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا ہاہاہاہاہاہاہاہاہا دیں ✋

حیا تم اعتراف کر رہی ہو میری محبت کا امان نے سنجیدگی سے پوچھا 

حیا خاموش اس کے تو سر پر سے گزر گئی تھی یہ بات 

بولو حیا سہ پاؤ گی میرے شدتیں ⁦❤️⁩

حیا پھر خاموش 

جواب بھی دو اب بنو گی امان شاہ کی ہمیشہ کے لیے 

آپ کیا بول رہیں ھے امان 

حیا ایک بات بتاؤ 

جی بولیں 

ہم بھی شادی کریں جیسے ولید اور زمان بھائ نے کی ہے 

کیا شادی 

کیاااااااااا وہ چیخی 

آہستہ چیخو کان خراب کرو گی کیا 

شادی میں نی کروں گی 

کیوں 

وہ نا روح کے لپ پر زخم ہوا ھے میں نے پوچھا کے کیا ہوا کہتی کے نا ولید بھائ ۔۔۔۔۔۔۔بلکہ میں آپ کو نہیں بتاؤ گی اللہ پاک مارے گے 

بتا دو نا پلیز بےبی نی میرا 

ادھر آیئں کان کریں میرے پاس 

امان نے کان اس کے ہونٹوں کے بلکل قریب کئے

روح نے کہا کے ناں ولید بھائ نے نا ان کو کاٹی کی تھی اور وہ کہتے شادی کے بعد نے ایسے ہی کرتے ھیں 

کیاااااااااا

امان کا تو مانو برا حال تھا روح کی حرکت سن کر 

آئیندہ تم اس کی ایسی باتیں نہیں سونو گی حیا 

اور میں کہتا ہوں ولید بھای سے کے اپنی بیوی کو دور ہی رکھیں تم سے 

کیوں دور رکھیں 

میں اس کے ساتھ گھر جا کر کھیلتی ہوں پھر کون کھیلے گا میرے ساتھ 

میں کھیلوں گا پکا 

اور اب سے تم ہوسٹل نہیں گھر رہو گی 

اور ہم نے جو باتیں کیں کسی کو نہیں بتاؤ گی یہ بھی نہیں کے ہم فارم ہاؤس اے تھے اوکے پرومس کرو 

پکے والا مرومس 

اتنے میں کافی دیر سے روکی ہوی بارش پھر شروع ہو چکی تھی 

چلو آؤ نہایں بارش میں 

نہیں امان بہت سردی لگ رہی ھے

امان نے زور سے اسے اپنے سینے میں بینچ لیا 

وہ پر سکون ہو گئی تھی اس کے گرم حصار میں 

ہاااااےےے امان اب تو بلکل بھی سردی نہیں لگ رہی

حیا امان نے اسے بہت پیار سے پکارا 

جی 

اگر میں تمہارے ساتھ کوئی جسارت کر لوں تو کیا مجھے معاف کر دو گی 

کیا مطلب 

کچھ نہیں بس تم مجھے معاف کر دینا کیوں کے تمہاری قربت مجھے بہکا رہی ہے 

یہ کہ کر امان نے نرمی سے اس کی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں۔ لیا تھا ⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

حیا امان کی خالہ کی بیٹی ھے اس کے والدین کی وفات ایک حادثہ میں ہو گیئ تھی تب سے اسے عافیہ بیگم نے پالا تھا 

وہ اپنے میڑک کے پیپرز کی تیاری کر رہی تھی کے بیچ میں امان آ ٹپکا تو کیا خیال ھے پیارے ریڈرز کیا کرے امان اور حیا کا بھی نکاح کروا دیں یا یہ ابھی ایسے ھی انجوائے کریں

 آج ڈائینگ ٹیبل پر سب موجود تھے سواۓ روح کے 

روح کہاں ھے عمارہ بیٹا ۔۔۔

پتا نہیں بابا جان یہیں کہیں ھو گی میں تو دیکھا نہیں اسے کافی دیر سے 

آپ کو پتا ھے حور بیٹا اس کا ۔۔۔۔

نہیں دادا جان مجھے تو نہیں پتا۔۔۔۔

باقی گھر والوں نے دیکھا ھے بچی کا یا آپ سب کو بھی نہیں پتا 

سب ایک دوسرے کی طرف دیکھ رھے تھے کے شاید کوئی بولے اور ولید سر ہر چیز سے بے نیاز بریانی سے بھرپور انصاف کر رھے تھے 

ارمان بیٹا جاؤ بہن کو دیکھ کر یہاں لے کر آؤ 

کیا دادا جان میں نی جانے والا اس بیھنڈی کو لینے آپ کو بھی مجھے لگتا سکون عزیز نھیں دو پل کے لیے گم ہویئ ھے تو گھر میں شانتی آگئ

آللہ ہمیشہ ایسے ھی رکھے آمین 

تم بھی بولو حیا آمین 

لنگور بھائی آپ چپ کر کے بیٹھ جائیں مجھے میرے بال بہت پیارے ھیں میں نے بول کر یہ خراب نہیں کروانے روح سے 

دادا جان

ولید سکون سے پیٹ بھر کر دادا جان سے مخاطب ہوا 

وہ دادا جان روح میرے کمرے میں سوئی ہوئی ھے اور میں اس کا کھانا وہیں لے کر جا رہا ہوں 

کیا روح کیا کر رہی ھے تمہارے کمرے میں

وہ دادا جان کیا ھے نا ہفتہ ہو گیا ھے ہمارے نکاح کو لیکن آپ نے ابھی تک رخصتی نہیں کی تو میں نے خود ہی کر لی اس کا سامان اور سامان کے ساتھ روح کو بھی اپنے کمرے میں شفٹ کر لیا اور آپ لوگوں کو زہمت بھی نہیں دی 

یا اللہ تو نے ایک اولاد دی اور وہ بھی بے شرم 

عظمیٰ بیگم جو کام میرے سے نہیں ہو سکے تھے وہ میرا بیٹا کر رہا ھے لو یو پتر اب میرے بیٹے کو بےشرم نہیں کہنا 

لیکن ۔۔۔۔

بس چپ کر جاؤ بیگم اور تماشا دیکھو دادے ہوتے کا 

شجاعت شاہ تو پوتے کی بےشرمی پر سر پکڑ کر بیٹھ گے تھے 

کیا ہوا دادا جان زمان بھاگ کر ان کر پاس آیا 

کچھ نہیں بیٹا میں سوچ رہا ہوں کون سی ایسی غلطی ہوی تھی جس کی سزا میں یہ ولید پیدا ہوا تھا 

دادا جان کی بات سن کر سب کی قہقہے بلند ہوئے 

دادا جان میری بات سنیں وہ کیا ھے ناں کے میرا روح کے بغیر دل ہی نہیں لگتا اس لیے میں اسے اپنے پاس لے آیا نکاح تو آپ نے ویسے میرا کر ہی دیا ھے تو اب میری بیوی میرے پاس ہی رہے گی ناں جیسے دادو آپ کے پاس رہتیں ھیں 

ولید پتر روح ابھی چھوٹی سی ھے وہ تمہارے ساتھ نہیں رہے گی بیٹا ابھی 

تو پھر ٹھیک ھے آپ بھی نہیں رھیں گی دادا جان کے ساتھ

آیئں آپ میرے ساتھ چلے ولید نے زبردستی عابدہ کو آپنے ساتھ کھینچا 

اوےے نکمے چھوڑ میری بیوی کو 

تو آپ لوگ بھی میری بیوی کو چھوڈ دیں اب مہربانی ہو گی 

بابا جان مجھے پوچھنے دیں اس سے نکمی اولاد میری قسمت ہی رہ گئی تھی 

اوہو اماں جان نکما کہاں ہوں بوڑھی ہونے سے پہلے ہی آپ کی گود میں بہو ڈال دی ھے اب بھی نکما کہ رہی ھیں 

بیٹا تمہارا کوئی قصور نہیں سارہ قصور میرا ہی ھے میں نے ہی تمہیں پیدا کیا ھے 

نہیں ماما جان سارا قصور آپ کا نہیں کچھ بابا جان کا بھی ھے 

عظمیٰ بیٹا جانے دو اسے کس ڈھیٹ سے سر کھپا رہی ہو 

شکریہ دادا جان میں زرا اپنییی بیوی کو کھانا کھلا دوں 

پتر جی آپ کا بھی کوئی ایسا اردہ ھے تو بتا دو 

نہیں نہیں امی جان آپ کی اولاد نکمی نہیں مجھے کوئی جلدی نہیں  

عافیہ بیگم میری اولاد ھے مجھ پر گئی ھے 

جی جی بلکل 

اب میں نے سوچ لیا ھے کے حور کی رخصتی امان اور ارمان کی شادی کے ساتھ ہی کریں گے

کییییا امان کی شادی 

حیا چاولوں سے منہ بھر کر چیخی تھی 

جی بیٹا امان کی شادی 

دادو جان ابھی تو میرے پیپر ہو رہیں ھیں ناں میں شادی کیسے کروں گی بھلا 

بیٹا میں آپ کی نہیں امان کی شادی کی بات کر رہا ہوں 

ہاں تو میں ہی کروں گی نا امان سے شادی 

سب حیران ہو گئے تھے حیا کی بات سن کر 

اور امان تو خوش تھا کے اس کچھ کرنا نہیں پڑے گا 

مگر بیٹا آپ بہت چھوٹی ھیں امان سے 

تو کیا ھوا دادا جان انہوں نے میرے سے کہا تھا کہ یہ مجھے پال کر بڑھا کر دیں گے 

آؤ تو امان شاہ حیا کے کندھے پر رکھ کر بندوک چلا رہیں ھیں 

ارمان نے دل میں سوچا 

چلو سوچتے ھیں اس بارے میں بھی بات کرتے ھیں سب سے چلو اب کھانا کھاؤ سب 

وہ بابا جان میں کل کالج جاؤں گا میں نے اپلائے کیا تھا لیکچرار کے لیے انہوں نے کل بلایا ھے

لیکن ارمان بیٹا کیوں آپ اپنا بزنس سنبھالو 

نہیں دادا جان میں کچھ الگ کرنا چاہتا ہوں 

چلو بیٹا تمہاری مرضی 

اوکے دادا جان

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

اگلے دن ارمان کالج آیا تھا 

گاڑی پارک کر کے وہ اندر داخل ہوا 

تو ہر نظر اس کی طرف اٹھی 

بلیک پینٹ کوٹ پہنے بال نفاست سے سیٹ کیے ہوے آنکھوں پر بلیک گلاسس لگاے وہ کوئی شہزادہ ہی لگ رہا تھا 

وہ سب کو اگنور کر کے پرنسپل کے آفس کی طرف بڑھا 

وہ جا رہا تھا کے آچانک اس میں ایک لڑکی آکر ٹکرائی 

اس سے پہلے کے وہ زمین بوس ہوتی ارمان نے اسے اپنی باہوں میں سنبھالا 

لو جی آج تو ارمان بھی گیا کام سے 

ارمان تو شاید بھول ھی چکا تھا کے اسے زارا کو چھوڑنا بھی ھے 

زارا تو ہونکون کی طرح اسے دیکھ رھی تھی اور اتنا زیادہ ڈر گئی تھی جیسے ابھی بے حوش ہو جاے گی 

ارمان نے اسے باہوں سے نکال کر کھڑا کیا تو وہ اسے بلکل بچی لگی 

سسسسسو۔سسسسو۔سور۔۔۔ی سر 

آپ کو کیسے پتا میں سر ہوں 

سر ۔۔۔۔۔وہ حبا نے بتا۔۔۔۔۔یا تھا۔۔۔۔ کے آپ ۔۔۔۔۔نیو سر ھیں 

اووہ تو یہ بات تھی 

ویسے کونسی کلاس میں ھیں آپ 

وہ سر میں ۔۔۔۔میں۔۔میں فرسٹ ائیر میں ہوں 

اچھا اچھا آپ اتنی ڑری ہوئی کیوں ھیں 

سر وہ مجھے لگا آپ مجھے ڈانٹے گے 

میں کیوں ڈانٹوں گا آپ کو 

وہ ۔۔۔۔میں ۔۔۔آپ کے۔۔۔۔اوپر گر ۔۔۔گیئ تھی ناں اس لیے 

اوہو اچھا چلو اب دہھان رکھنا میں پرنسپل سے مل لوں

⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩⁦❤️⁩

روح بات سنو 

روج اپنے کمرے سے نکل سے نیچے جانے لگی تو اسے ولید کی آواز سنائی دی 

جی 

وہ کمرے میں آنا ذرا 

اچھا آتی ہوں 

روح کمرے میں آئی تو ولید نے دروازہ بند کیا 

جی بولیں اور دروازہ کیوں بند کر دیا 

روح پاس آؤ یاد درو کیوں کھڑی ہو 

کیا کہنا ھے آپنے مجھے 

ادھر آؤ میری گود بلا رہی ھے تمھیں آؤ ناں یار 

ولید نے ہاتھ آگے کیا تو روح نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا ولید نے اسے ایک جھٹکے میں اسے اپنے اوپر گرایا 

روح ۔۔۔۔۔۔۔۔

جی 

اتنے دن ہو گے ناں میں نے لپس پر کاٹی نی کی میرے لپس رو رھے ھیں 

ھیییںں ولید آپ کے لپس کیوں رو رھے ھیں 

وہ مس کر رہے ہیں ناں اپنی روح کے لپس کو 

اب کیا کرے ولید آپ اپنے لپس کو چپ کرا لیں اب دیکھ تو لیا میرے لپس کو انہوں نے

نہیں یہ کہ رہے ھیں کے میں نے ملنا ھے روح کے لپس سے 

کیسےےے ۔۔۔۔

زرا نیچے منہ کرو بتاؤں

جی 

اپنے لپس پاس کرو ناں

کر تو لیے 

اب رکھو میرے لپس پر 

کیا ۔۔۔۔۔

اپنے لپس اور کیا 

اچھا ۔۔۔۔۔

روح نے اپنے ہونٹ ولید کے ہونٹوں کے اوپر رکھے تو ولید نے انہیں ایک سیکنڈ میں اپنی قید میں لے لیا 

وہ پیاسوں کی طرح اس کے لبوں سے پیاس مٹا رہا تھا آخر اتنے دنوں بعد جو لپس کی ملاقات ہو رہی تھی ولید کے کہنے کے مطابق

ولید تو روح کا لمس پا کے بھول ھی گیا تھا کے اسے آزاد بھی کرنا ھے 

روح نے اسے پیچھے کرنے کی کوشش کی تو ولید کو شاید اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی اس نے کروٹ بدل کر روح کو نیچے کیا اور خود اوپر آ گیا 

ایک سیکنڈ کے لیے اس کے لبوں کو آزادی دے کر دوبارہ سے اس کے لب جکڑ لیے تھے 

وہ اس کی سانس خود میں اتار رہا تھا اور روح کو اپنی سانسیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہوئی 

ولید کو اس پر ترس آیا تو اس کے ہونٹوں کو چھوڑا 

اور اس کی گردن پر لب رکھے 

ولید ۔۔۔۔۔

روح نے اسے بلانے کی کوشش کی لیکن وہ تو اپنے کام میں مصروف تھا 

روح کی چیخ نکلی تھی جب ولید نے اس کی گردن پر لو بائٹ کیا 

ولید نہیں کریں ناں پلیز 

روح بس چپ کر جاؤ 

مجھے محسوس کرنے دو نا روح چپ کرو تم میری شدتوں کو سمجھو میرے جذبات کو سمجھو 

روح کے تو سر سے ساری باتیں گزر رہی تھی لیکن جو بھی تھا لیکن اسے اب برداشت کرنا تھا یہ سب

اس سے پہلے کے ولید روح کی گردن سے نیچے جاتا روح کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی

ولید پلیز ایسا مت کیا کریں آپ میرے ساتھ 

کیوں روح کیا ہوا ہے 

مجھے اچھا نہیں لگتا یہ سب پتا نہیں آپ کیا کرتے رہتے ھیں آپ کو کہا بھی تھا کے نا دیکھا کریں عمران ہاشمی کی فلمیں اسے دیکھ دیکھ کر آپ بھی اس جیسے ہی ہو گئے ھیں 

روح نے روتے روتے یہ بات بولی تو ولید کو اس پر اور بھی پیار آیا

کیا  اچھا نہیں لگتا میری جان کو ہاں۔۔۔۔

یہ جو آپ میرے ساتھ گندی حرکتیں کرتے ھیں یہ 

روح یہ پیار ھے میرا میری جان ادھر دیکھو میرا بس چلے میں تمہیں کھا جاوں 

اور گندی حرکتیں تمہیں سہنی پڑیں گی ابھی لیکن ابھی نہیں پہلے میرا بے بی آٹھارہ سال کا ہو جائے تب لیکن یہ ناں سمجھنا کے میں تمہیں بلکل ہی چھوڑ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔

روح خاموش 

روح میری بات سنو

میں مانتا ہوں کے تم ابھی بہت چھوٹی ہو اور میرے جذبات کو نہیں سمجھ سکتی لیکن روح تمہیں سمجھنا ہو گا کیونکہ تم سے دور رہنا میرے بس کی بات نہیں میں چاہتا ہوں کہ تم میری قربت میں رہو

بولو روح رہو گی میرے پاس 

میرے کمرے میں

میری باہوں میں 

میری پناہوں میں

بولو روح 

نہیں مجھے نہیں رہنا مجھے اپنے کمرے میں ہی رہنا ھے 

سوچ لو 

روح خاموش

ولید اب سوچ چکا تھا کے اسے کیا کرنا ھے

اوکے روح جاؤ کوشش کرنا کے میرے سامنے نا آؤ اب 

جاؤ 

اور دروازہ بند کر دینا 

روح کو کچھ سمجھ تو نہیں۔ آیا لیکن وہ چپ کر کے کمرے سے نکل گیئ 

ولید کو افسوس ہو رہا تھا کے پیار ہوا بھی تو اپنے سے بارہ سال چھوٹی نا سمجھ لڑکی سے 

کوئی حال نہیں تمہارہ ولید 

وہ اٹھا اور فریش ہونے کی غرض سے واشروم گیا 

بلیک ٹی شرٹ اور بلیک جینز پہن کر وہ باہر نکلا بال سیٹ آور کار کی چابیاں اٹھا کر کمرے سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ادھر زمل اپنا پلین تیار کر چکی تھی کے اسے کیسے حور کو زمان کی زندگی سے نکالنا ھے 

ماما آج میری جیت کا دن ھے 

کیا کرو گی تم زمل 

میں کرو گی کچھ بہت ہی نیا 

زمل دیہان سے بیٹا 

ہاں ماما سہی کہ رہیں ھیں آپ لیکن جو بھی ہو اب تو زمان اور زمل کو ایک ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا 

وہ مکروہ ہنسی ہسی تھی 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حور بیٹا یہ چاۓ ،مان کو دے آؤ 

جی تائی جان 

حور چاۓ لے کر زمان کے کمرے میں گئی تو زمان کمرے میں نہیں تھا 

اس نے زمان کو آواز دی 

زمان ۔۔۔۔

کہاں ھیں آپ میں چاۓ لایئ ہوں 

واشروم سے پانی گرنے کی آواز آئی تو اسے سمجھ آیا کے وہ باتھ لے رہا ھے 

حوررر۔۔۔۔

جییی

ٹاول دینا الماری میں ہو گا 

حور نے الماری سے ٹاول نکالا اور زمان کو پکڑانے کے لیے ہاتھ آگے کیا 

زمان نے اس کے ہاتھ کو کھنچا تو وہ سیدھی زمان کے سینے سے جا لگی زمان ٹراؤزر پہنے شرٹ لیس تھا اور جسم سے پانی کی بوندیں گر رہیں تھیں 

زمان نے جان بوجھ

کر اس سے ٹاول مانگا تھا 

زماااان۔۔۔۔۔

جی جان زمان۔۔۔۔

آپ نے مجھے کیوں کینچھا 

ویسے ھی بات کرنی تھی 

واشروم میں بات کرنی تھی آپ کو

ہاں ناں یہاں کوئی نہیں آسکتا ناں اس لیے 

اچھا کیا بات کرنی تھی 

وہ پاس تو ہو پھر ہی بتاؤں گا 

زمان اب اتنی تو پاس ہو اور کتنا آؤں۔۔۔۔۔۔۔ 

اتنا ۔۔۔۔۔۔۔۔

زمان نے اسے بازوؤں میں اٹھا کر خود میں جکڑ لیا حور کو زمان کی سانسیں اپنے وجود پر محسوس ہو رہیں تھیں 

زمان۔۔۔۔

ششششششش ۔۔۔۔حور چپ بس محسوس کرو

زمان نے اپنے دہکتے ہونٹ حور کی گردن پر رکھے تو حور کو کرنٹ لگا اس نے پیچھے ہونے کی کوشش کی تو پیچھے دیوار تھی 

زمان نے اس کی شاہ رگ پر ہونٹ رکھے تو وہ کانپ اٹھی ۔۔۔۔۔۔

زمان۔۔۔۔

گردن سے ہونٹوں تک کا فاصلہ طے کر کے زمان نے اس کی زبان پر کفل لگا دیا تھا 

وہ اس کے لمس سے بہک جاتا تھا وہ بھول جاتا تھا کے وہ معصوم برداشت نہیں کر سکتی

جب اس کی پیاس بجھی تو وہ اسے ایسے ہی بازوؤں میں اٹھا کر بیڈ پر لے آیا 

زمان۔۔۔۔۔حور نے اسے پکارا 

ااااف حور کتنا بولتی ہو تم 

زمان ایک بات بولوں 

بولو 

وہ جب آپ مجھے ہگ کرتے ھیں ناں مجھے بہت سکون ملتا ھے ایسا لگتا ھے جیسے اب میں بلکل محفوظ ہوں کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا میرے تک وہ زمان کی گود میں لپٹی ہوئی اسے اپنے احساسات بتا رہی تھی 

حور جب تک میں زندہ ہوں ناں تم محفوظ ہی رہو گی میری جان ۔۔۔۔

زمان نے اس کا ماتھا چوما تو حور مزید اس کی گود میں چھپ گئی 

آپ کے چاۓ تو ٹھنڈی ہو گئی 

تو کیا ہوا 

میں گرم کر کے کا دوں 

نہیں میں ایسے ہی پی لوں گا 

اچھا 

میں جاؤں اب 

مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی جاؤ گی 

نہیں ناں مجھے پڑنا تھا 

اچھا جاؤ 

اوکے

وہ اس کی گود سے نکل کر دروازے تک گئی کے پھر کسے احساس کے تحت واپس آگئی 

کیا ہوا حور واپس کیوں آگئی

زمان۔۔۔

مجھے ڈر لگ رہا ھے ایسا لگ رہا ھے کے اگر چلی گئی تو  ۔۔۔۔

تو کیا حور ۔۔۔

ایسا لگ رہا ہے جیسے بہت دور چلی جاؤں گی 

کیا ہوا ھے حور 

پتا نہیں زمان بس ڑر لگ رہا ھے 

کچھ نہیں ہوتا حور بس ڈرو نہیں 

زمان نے اسے باہوں میں لے کر سمجھایا تو وہ ڈرتی ڈرتی جانے لگی 

کون جانتا تھا کے حور کا ڈر سہی ثابت ہونے والے تھا وہ واقعی بہت دور جانے والی تھی❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج ارمان کا پہلا دن تھا کالج میں اور اسے فرسٹ ائیر کا انگلش کی کلاس لینی تھی 

وہ کلاس میں داخل ہوا تو سب نی کھڑے ہو کر اسے سلام کیا 

سلام کے بعد وہ سب کا انٹرو لینے لگا 

فرسٹ بینچ پر زارا بیٹھی تھی وہ اور ارمان ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہوئے 

ارمان اس دن والے واقع کو یاد کر کے مسکرا دیا 

سب اپنا اپنا انٹرو دے رہے تھے اور زارا نیچے منہ کیۓ انگلیاں چٹخا رہی تھی 

ھیلو میڈم آپ اپنا نام بتانا پسند کریں گی 

جججججی۔۔۔۔۔۔سر۔۔۔۔۔میں 

جی میم آپ

سر۔۔۔۔میرا نام۔زارا نزاکت ۔۔۔۔ھے 

اوکے سٹ ڈاؤن

چلے آج آپ سب کا انٹرو ہو گیا کل سے کلاس سٹارٹ ہو گئی 

اللہ حافظ 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان پرنسپل کے آفس میں بیٹھا تھا کے دروازہ بجا 

آ جاؤ ۔۔۔۔۔۔اس نے موبائل چلاتے ہوۓ جواب دیا 

سر۔۔۔وہ پرنسپل کہاں ھیں 

ارمان کو زارا کی ڈرتی ڈرتی آواز سنائی دی 

وہ کام سے باہر گیے ہیں آپ مجھے بتا دیں جو کہنا ھے میں سر کو بتا دوں گا 

سر وہ۔۔۔۔

کیا وہ ۔

سر مجھے کمپلینٹ کرنی تھی 

کس کی۔۔

سر وہ بی ایس کی سانیہ کی 

کیا کہا اس نے آپ سے 

سر وہ مجھے روز ہاسٹل میں آ کر تنگ کرتی ھے اور میرے سارے نوٹس خراب کر دیتی ھے 

ارمان کو حیرانی ہوئی کے وہ ہاسٹل میں رہتی ھے ۔۔۔۔۔

آپ ہاسٹل میں کیوں رہتیں ھیں گھر کہاں ھے آپ کا ۔۔۔۔

سر گھر ۔۔۔۔

جی گھر۔۔۔

زارا گھر کی بات پر باقاعدہ رونے لگ چکی تھی 

ہیے کیا ہوا ھے رو کیوں رہی ہو 

ارمان صوفے سے اٹھ کر اس کے پاس آیا ۔۔۔

سر ۔۔۔میرے ممی پاپا کی ڈیتھ ہو چکی ھے ۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔چچی جان نے گھر سے نکال دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لیے میں ہاسٹل میں ہی رہتی ہوں۔۔۔۔۔۔

ارمان کو دلی افسوس ہوا اس کی بات سن کر اور شاید بہت دکھ بھی 

ارمان کو وہ روتی ہوئی کوئی چھوٹی سے بچی ہی لگ رہی تھی 

زارا کا رونا ارمان شاہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا 

ادھر آو۔۔۔

یہاں بیٹھو۔۔۔

ارمان نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا بولا 

ایسے نہیں روتے اوکے میں پتا کرواتا ہوں سانیہ کا ۔۔۔۔وہ آپ کو اب تنگ نہیں کرے گی ۔۔

پکا نا سر ۔۔۔

ارمان کو ہنسی آئی اس کی بات اور بات کے انداز پر ۔۔۔۔۔

پکا۔۔۔

تھینک یو سر ۔۔۔۔۔

زارا کسی احساس کے تحت ارمان کے گلے لگ کر تھینکس بول چکی تھی 

ارمان تو حیران رہ گیا تھا اس کی حرکت پر ۔۔۔

اوکے سر اب میں جاؤں 

ہہ۔۔۔ہاں جاؤ 

ارمان ابھی بھی اسی کیفیت میں تھا 

اپنا چشمہ تو لیتی جاؤ پاگل 

اووہ۔۔۔۔سر میں بھول گیئ تھی 

یہ چشمش پاگل کر کے چھوڑے گی مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️🙈🙈🙈🙈

ارمان نے کالج سے نکل کر اپنے دوست کو کال کی 

ہیلو ریحان کام تھا یار ایک تم سے 

وہ میں ایک لڑکی کی تصویر سینڈ کر رہا ہوں اس کا پتا کروانا یار 

 اور جلدی بتانا مجھے 

چلو اوکے 

ارمان نے سانیہ کی تصویر ریحان کوو بیجھی تھی اب سانیہ کی خیر نہیں تھی ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

حور زمان کے کمرے سے باہر نکلی تو وہ سیڑیوں کی طرف جا رہی تھی کے اسے پیچھے سے کسی نے دھکا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس اس کی چیخ ہوا میں بلند ہوئی تھی اس کے بعد وہ ہوش سے بیگانہ ہو گیئ تھی 

فرش پر بہت سارہ خون بہہ چکا تھا ۔۔۔

زمان حور کی چیخ سن کر باہر آیا سامنے والا منظر دیکھ کر اس کے پیروں تلے سے زمین نکلی تھی 

حوورررررررر

زمان مجھے لگتا میں آپ سے بہت دور چلی جاؤں گی اس کی سماعتوں میں ایک آواز گونجیں ۔۔۔۔۔۔۔

وہ وہیں گر چکا تھا ۔۔۔۔

کیسے دیکھ سکتا تھا اپنی زندگی کو اس حال میں۔۔۔۔

زمان سیڑیوں سے نیچے آ رہا تھا کے اس کے حواس جواب دے چکے تھے چلنے سے ۔۔۔۔۔۔

وہ گرنے ہی والا تھا کے ارمان نے آ کر اسے تھاما ۔۔۔۔

حور۔۔۔۔حوررر اٹھ جاؤ 

اٹھ جاؤ حور 

زمان کی چیخو پکار سے سب اکھٹے ہو چکے تھے روح ور عافیہ بیگم تو بیہوش ہو چکیں تھی 

کیا ہو گیا ھے میری بیٹی کو 

کیسے ہو گیا یہ 

شجاعت شاہ حواس باختہ ہو کر بول رہے تھے 

ادھر ولید گھر داخل ہوا تو زمان کی چیخوں نے اس کا استقبال کیا ۔۔۔۔

کیا ہوا دادا جان حور کو 

یہ ۔۔یہ خون کہاں سے آیا 

کیا ہوا اسے 

حور اٹھو ۔۔

حور۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولید حور کو بلا رہا تھا مگر وہ یہاں ہوتی تو سنتی 

ولید یار اسے بول نا اٹھ جا 

دیکھ یار اسے بول مزاق نا کر میرا دل پھٹ رہا ھے اٹھا دے میری زندگی کو یار 

حور اٹھ جاؤ مر جاؤں گا میں 

حوورررررررر 

عمارہ بیگم کو ابھی تک حور کو بے یقینی سے دیکھ رہی تھیں 

کون جانتا ہے کے آگے کیا ہونے والا ھے کیا پتا زمان کو زندگی کس موڑ پر لا کھڑا کرے گی کیا جیت جائے گی زمل اور تحریم

ارمان جلدی سے گاڑی نکالو اس سے پہلے کے دیر ہو جاۓ جلدی کرو

جی ولید بھائی

دیکھ ولید یاد رکھنا میں اپنی امانت تجھے سونپ رہا ہوں اسے ایسے ہی مجھے لوٹا دینا یار اگر اسے کچھ بھی ہوا تو کسی کو معاف نہیں کروں گا کسی کو بھی مار لوں گا خور کو سمجھے سب میری حور کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔ہاں کچھ نہیں ہو گا میں کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔ یا اللہ اتنا بڑا دکھ ناں دینا جو میں برداشت ناں کر سکوں میری زندگی واپس دے دے مولا۔۔۔۔زمان شاہ تڑپ رہا تھا اپنی محبت کو اس حال میں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے اتنا مضبوط شخص اپنے پیار کو تکلیف میں دیکھ کر اتنی جلدی ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔

ہمت کر زمان کچھ نہیں ہو گا حور کو ۔۔۔اٹھ پتر چل اللہ سے دعا کر شجاعت شاہ سے اپنے پوتے کی یہ حالت بلکل نہیں دیکھی گئی ۔۔۔۔۔۔

ولید نے حور کو اٹھایا اور گاڑی کی طرف بھاگا ارمان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ولید حور کا سر گود میں رکھ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا 

ان کے بعد شجاعت شاہ عابدہ بیگم روح اور عافیہ بیگم امان کے ساتھ ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئیں ۔۔۔۔۔

ولید حور کو لے کر ہاسپٹل آ چکا تھا ابھی حور کا چیک اپ چل رہا تھا ہر اچھے سے اچھا ڈاکٹر ویہاں موجود تھا آخر کو شاہوں کی اولاد تھی حور ۔۔۔۔۔

آپ کیا لگتے ہیں پیشنٹ کے ۔۔۔

میں بھائی ہوں حور کا ۔۔۔

دیکھیں ولید صاحب ہمیں فوراً آپریشن کرنا پڑے گا خون بہت ضائع ہو چکا ھے بچنے کے چانسس بہت کم ھیں کیونکہ ان کے دماغ پر چوٹ لگی ھے۔۔۔آپ پلیز ہمارے ساتھ چلیں اور سائن کر دیں 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تین گھنٹے ہو چکے تھے حور کا آپریشن چل رہا تھا کوئی بھی ڈاکٹر کچھ نہیں بتا رہا 

دادا جان دادی جان اور عافیہ بیگم رو رو کر خدا سے حور کی زندگی مانگ رہیں تھیں

اور ادھر زمان ابھی تک گھر کے خون آلودہ فرش فرش پر بیٹھا کسی بہت ہی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا 

آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے کوئی دیوانہ ھی لگ رہا تھا اس وقت زمان شاہ ۔۔۔۔ 

مجھے حور کے پاس جانا چاہیے۔۔۔۔وہ ویہاں اکیلی ہو گی ۔۔۔۔۔ہاں اسے ڈر لگ رہا ہو گا ۔۔۔مجھے جانا چاھیے۔۔۔۔

وہ جیسے تیسے کر کے ہاسپٹل پہنچا تو اسے سب ویٹنگ ایریا میں بیٹھے نظر آئے ۔۔۔۔۔

دادا جان کیا کہا ڈاکٹر نے کہاں ھے حور وہ ٹھیک ھے میں مل لوں اسے سے 

بولیں دادا جان 

۔۔۔

میرے بیٹے میری بات سنو

زندگی اللہ کی امانت ہوتی ھے اور سب کو ایک ناں ایک دن جانا ھے ۔۔۔

لیکن داد جان آپ کیوں بتا رہیں ھیں مجھے میں جانتا ہوں 

میں اس لیے بتا رہا ہوں کے تم کسی بھی حالات کے لئے زہنی طور پر تیار رہو کیونکہ۔۔۔۔۔۔

کیا دادا جان بولیں 

کیونکہ بیٹا حور کے دماغ پر چوٹ لگی ھے ڈاکٹرز کا کہنا ھے کے بچنے کے چانسس بہت کم ھیں 

زمان ان کی بات سن کر فرش پر گر گیا اس کے اعصاب اس کا ساتھ دینے سے بلکل جواب دے چکے تھے ۔۔۔

ولید نے اسے پکڑ کر بینچ پر بیٹھا کر اسے سہارہ دیا۔۔۔۔۔

اور زمان حوش سے بیگانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تقریباً 5 گھنٹے بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے 

میرے پاس آپ کے دو خبریں ایک اچھی اور ایک بری 

زمان شاہ ہم نے آپ کی وائف کو بچا تو لیا مگر

کیا مگر۔ ۔۔۔۔

بولو کیا ہوا حور کو 

ان کی یاداشت چلی گئی ھیں اب وہ ان کا ذہن ایک بچے جیسا ھے 

یہ خبر تھی یا بم جو بھی تھا شاہ پیلس کے مکینوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا 

ایسا لگا کے وقت کی سوئیاں روک گیں ھیں 

ہر چیز کی حرکت بند ہو گئی ھے 

کچھ سنائی نہیں دے رہا

سوائے ان آنسوؤں کی آواز سے جو زمان شاہ کے دل پر گر رہے تھے 

حوور۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے دل سے آواز آئی 

سب ایک طرف اس بات سے غمگین تھے کے حور کو کچھ یاد نہیں ایک طرف خوش تھے کے حور کی جان بچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ مل سکتے ھیں پیشنٹ سے مگر انہیں کچھ یاد مت کروائے گا 

ابھی تو حور بے حوش تھی سب اس سے مل کر اور دعا دے کر واپس باہر آگے 

عافیہ بیگم اور عابدہ بیگم کو ارمان گھر چھوڑنے آیا تھا 

امان نے آکر سب کو حور کا حال بتایا تو سب کو ھی دلی دکھ ہوا سوائے زمل اور تحریم کو 

دکھ تو انہیں بھی ہوا مگر حور کے زندہ بچ جانے کا 

چلو اچھا ہی ہو گیا کی اس کی یاداشت چلی گئی ورنہ وہ سب کو بتا دیتی کی اسے دکھا میں نے دیا تھا 

زمل اب بھی موقع ھے زمان کو اپنے بس میں کرنے کا 

ابھی وہ دکھ میں ھے بس اس کے دکھ میں دکھی ہو کے اسے اپنے جال میں پھانس لو

اچھا سوچا آپ نے ماما 

چلو کوئی بات نہیں اس بار بچ گئی تو کیا بار بار بچے گی میرا اگلا وار اس سے بھی  بڑا ہو گا 

کیونکہ زمان صرف زمل کا ھے اور اس کا ہی رھے گا آج نہیں تو کل آنا تو میرے پاس ہی ھے ناں 

❤️❤️❤️❤️❤️

امان اپنے روم میں میں فریش ہونے آیا 

ابھی وہ واشروم سے باہر نکلا ھی تھا اس کا کمرہ نوک ہوا 

آ جاؤ 

حیا تم 

جی امان وہ مجھے حور کا پوچھنا تھا 

جب آپ نے بتایا تھا سب کو تب میں سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔

ادھر آؤ ۔۔۔امان نے آنکھوں میں محبت کا جہاں بسائے اسے بلایا

جی 

تم ناں دور جانا کبھی زمان تو برداشت کر گیا لیکن میں مر جاؤں گا 

کیا ہوا امان ایسے کیوں بول رہیں ھیں 

بس خیال رکھا کرو اپنا 

جی 

اچھا تو آپ رات کے اس ٹائم میرے سے حور کا پوچھنے آئیں ھیں ھییںںں

جی اس ٹائم کیا ہوا 

ہوا تو کچھ نہیں

بس یہ ٹائم بندہ بہک جاتا ھے 

امان بتایں ناں 

امان کی جان ٹھیک ھے وہ 

اچھا چلو شکر ھے 

اچھا میں چلی ۔۔۔

ارے روکو تو

امان کیا کر رہیں ھیں چھوڑیں ناں 

نہیں چھوڑوں گا 

امان اسے گود میں لیے صوفے پر بیٹھا 

اور ساتھ دراز سے چاکلیٹ نکال کر حیا کو دیا

ہاااےےےےے امان تھینکس اتنا دل کر رہا تھا ناں میرا چاکلیٹ کھانے کو 

میرا بھی کر رہا ھے 

ہاں تو آپ نیو لے لیں میں یہ نہیں دوں گی 

میں یہ کھاؤں گا بھی نہیں میڈم 

اچھی بات ھے 

حیا سکون سے امان کی گود میں بیٹھی بےفکر سی چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی اس بات سے بے نیاز کے کوئی بہت غور اسے دیکھ رہا ھے 

ختم ہو گئی اور دے دیں 

امان اس کی آواز سن کر ہوش میں آیا اور ساتھ ہی زور زور سے ہنسنے لگا 

کیا ہوا امان 

روکو 

امان نے اپنے فون کا فرنٹ کیمرہ آن کر کے حیا کو اس کی شکل دیکھائی تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی 

حیا نے جلدی سے امان کو ہنستا دیکھ کر اس کی شرٹ سے منہ صاف کرنے کی کوشش کی لیکن نا کر سکی 

امان کر نے دیں نا صاف 

میں کر دوں 

کر دیں 

میں ٹیشو دو۔ 

نہیں میں اپنے طریقے سے کروں گا 

کیسے 

ایسے۔۔۔۔

امان نے کہتے ہی اس کی گال پر ہونٹ رکھے اور چاکلیٹ صاف کی اپنے ہونٹوں سے

پھر اسی طرح دوسری گال سے 

اب امان اس کے ہونٹوں کے پاس تھا اتنا کے اس کے ہونٹ حیا کے ہونٹوں کو چھو رہے تھے مگر وہ جانتا تھا کے یہ نا ہی سہی ٹائم ھے اور نا ہی کوئی حق 

وہ جلدی سے پیچھے ہٹا اور ٹیشو اٹھا کر اس کا منہ صاف کیا 

حیا ۔۔۔

جی۔۔۔۔

کچھ نہیں 

اوکے میں جا رہی 

حیا نے امان کے گال پر کس کیا اور اسے ہگ کر کے گوڈ نائیٹ بولا 

میں بھی کروں نائیٹ کس۔۔۔

نہیں

کیوں تم نے بھی تو کی 

آپ نے بھی کی تھی چاکلیٹ کھاتے ہوئے 

اوو یاد آگیا 

اچھا اپنا خیال رکھنا اوکے صبح کے کر جاؤں گا حور کے پاس 

اوکے ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حور کو حوش آچکا تھا 

سب اس سے مل رہے تھے مگر وہ سب کو اجنبی نظروں سے دیکھ رہی تھی 

شاید اسے جسے کا انتظار تھا جو وہ بار بار دروازہ کی طرف دیکھ رہی تھی 

زمان مردہ قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے دشمن جان ایسے بیٹھی تھی جیسے اسی کے انتظار میں تھی 

زمان کے دل میں درد کی ٹھیس اٹھی حور کو اس حال میں دیکھ کر 

اور حور کے چہرے پر اطمینان چھا چکا تھا 

لیکن یہ کیا حور نے زمان کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا 

زمان بھاگ کر اس کے پاس آیا 

سب ھی پریشان ہو چکے تھے 

کیا ہوا حور 

۔۔۔۔

آپ۔۔۔۔۔

آپ۔۔۔ کہاں تھے۔ ۔۔۔۔یہ سب مجھے دیکھ رہے تھے جیسے کھا جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔آپ کہاں گئے تھے ۔۔۔۔۔۔

زمان کا تو خوشی سے برا حال تھا کے اس کی روح اسے پہچانتی ھے 

میں آگیا ہوں ناں اب کوئی کچھ نہیں کہے گا  

❤️❤️❤️❤️ 

تو اب کیا کرے گی زمل کیا جان پائیں گے سب اس کی سچائی یا اس حور نشانہ بنے گی اس کے اگلے وار کا 

کیا مل پائے گی امان کو اس کے محبت 

بہت راز کھلے گے اگلی ایپی میں so be ready

زمان ۔۔۔۔۔۔زمان۔۔۔۔۔

ہہ۔ہاں 

چل اندر حور کو حوش آ گیا ھے 

کیا ۔۔۔۔۔

ہاں۔۔۔

چلو تم ولید میں آرہاں ہوں 

مطلب میں خواب دیکھ رہا تھا کے حور مجھے پہچانتی ھے ۔۔۔۔۔

دروازہ کھلنے کی آواز سے حور نے آنکھیں کھولیں تو سامنے کسی اجنبی کو پایا 

آآ۔۔۔آآ۔۔۔آآپ ۔۔۔کون۔۔۔ہیں

میں زمان ہوں حور ۔۔

کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمان

اور یہی لمحہ تھا جب زمان کو لگا کے اس کے جسم سے کسی نے روح کھینچ لی ہو 

حور میری جان سنو ۔۔۔زمان نے خود کو پر سکون کر کے حور کو سمجھانا شروع کیا 

دیکھو بےبی آپ کا نیم حور ھے 

اور میں زمان ہوں آپ کا دوست 

میرے۔۔۔۔دوست 

۔۔۔ہاں  بےبی تمہارہ دوست

میں آپ ۔۔۔۔۔۔بے بی ہوں 

ہاں۔۔۔۔

پھر گھر لے چلیں ناں مجھے یہاں بہت گندہ لگ رہا ھے 

اچھا تو چلو پھر 

زمان نے حور کے ہاتھ سے ڈرپ نکالا اور اسے گود میں آٹھا کر باہر کی طرف چل دیا 

رات کا ٹائم تھا اس نے سب کو گھر بھیج دیا تھا ہاسپٹل بھی خالی تھا صرف ولید ہی تھا وہ بھی گاڑی میں بیٹھا تھا 

زمان ۔۔۔زمان 

تو حور کو کیوں لے آیا ابھی اسے ٹریٹمنٹ کی ضرورت ہے یار 

نہیں وہ گھر جانا چاہتی ھے 

تو پاگل ھے یار تجھے پتا بھی ھے اس کی کنڈیشن کا 

تو چپ چاپ گاڑی چلا دماغ نا خالی کر میرا 

اب اسے سیٹ پر ڈال دے بھائ

وجہ۔۔۔۔۔یہ میری گود ھے تیری نہیں۔

چل تیری مرضی 

جب وہ لوگ گھر آۓ تو سب سو چکے تھے یا اپنے کمروں میں تھے 

زمان حور کو کے کر اپنے کمرے میں لے آیا اور آرام سے اسے بیڈ پر لٹا کر کمبل اوڑھ دیا ۔۔۔

حور نے اس کی شرٹ مٹھیوں میں بینچی ہوئی تھی اسے دور جانے کا ڈر ہو 

زمان نے اس کے ہاتھوں سے ہلکے سے شرٹ نکالی۔۔۔۔

پاگل کر کے چھوڑے گی مجھے سلیپنگ بیوٹی

اور اس کے گال پر ہونٹ رکھے 

۔۔خود فریش ہونے واشروم گیا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ولید گاڑی سے باہر نکلا تو اسے عجیب سی بیچینی نے اسے آ گھیرا 

اس نے ٹی شرٹ اتاری اور پول میں جمپ کیا 

ٹھنڈے پانی سے اس کے دل کو سکون پہنچا 

مگر پھر بھی اس کے دل کو کچھ ہو رہا ھے

در اصل وہ روح کو نظر انداز کر رہا تھا تین دن سے 

ہاےےے روح مر جاؤں گا میں ایسے ہی 

پول سے باہر نکل کر شرٹ اٹھا کر اندر کی طرف بڑھ گیا 

وہ اپنے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیوں کی طرف جا رہا تھا لاؤنچ میں سے گزرتے ہوئے اس کی نظر روح پر پڑی جو فرائز کھا رہی تھی ۔۔۔۔

ولی 

بات سنیں 

ولید اس کی آواز کو نظر انداز کر کے اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔۔

پتا نہیں کیا ہوا انہیں بات کیوں نہیں کرتے میرے ساتھ 

کمرے میں جا کر ہی پوچھتی ہوں

ولی۔۔۔

کیا ھے روح

ولی آپ کیوں مجھے اگنور کر رہے ہیں 

خوش ہو جاؤ تم 

تمہیں تو شوک ھے ناں میرے سے دور رہنے کا 

ولی میں نے کب کہا کے دور رہیں ۔۔

ہاں تو جب پاس آتا ہوں تب بھی تمہاری چیخیں نکلتی ھیں ۔

ولی سوری ۔

جاؤ روح 

آپ مان جائیں ناں پلیز 

میرے ماننے کا طریقہ تمہیں پسند نہیں آئے گا روح 

نہیں آپ مان جائیں ناں 

 ۔۔ 

اچھا۔۔۔

ادھر آؤ  

جی 

ولید نے اسے اپنے ساتھ بیڈ پر بیٹھے کا بولا 

جب روح اس کے پاس آئی 

ولید نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود پر گرایا

ولید۔۔۔۔

چپ روح 

ولید نے دہکتے ہونٹ روح کی گردن پر رکھے 

 وہ اس کی گردن کو چوم رہا تھا اور روح میڈم کو گدگدی

 ہو رہی تھی ولید کی مونچھوں کے بالوں کی چبھن سے 

ابھی کرتا ہوں تمہارے دانت بند 

ولید کروٹ لے کر خود روح کے اوپر آ گیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا 

روح کا ہونٹوں کا لمس پاتے ہی اس کو  اندر تک سکون اترتا محسوس ہوا 

وہ تو اس کے ہونٹوں سے ایسے پیاس بجھا رہا تھا جیسے کتنے ہی دن کا پیاسا ہو 

روح کو آپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا 

تو اس نے ولید کو پیچھے کرنے کی کوشش کی 

مگر وہ نازک جان اس پہاڑ جیسے وجود کو ہلا بھی نا پائی

کتنے ہی لمحے گزرنے کے بعد ولید کو اس پر ترس آیا تو اس کے ہونٹوں کو آزاد کیا 

مگر صرف دو سیکنڈ کی لیے

وہ دوبارہ سے اس کے ہونٹوں پر قابض ہو چکا تھا اس کے عمل میں شدت تھی جو روح کے بس سے باہر تھی ۔۔۔۔

اس کے ہونٹوں کو چھوڑ کر وہ دوبارہ سے اس کی گردن تک آیا اور روح کی شاہ رگ پر ہونٹ رکھے۔۔۔۔۔ 

کتنا وقت گزر چکا تھا مگر وہ اب بھی اس کی گردن میں منہ چھپائے اس کے اوپر لیٹا تھا ۔۔۔۔۔

و۔۔۔ولید ۔۔۔۔۔۔

ہاں 

مجھے سونا ھے 

تو سو جاؤ 

آپ تو ہٹیں پیچھے 

نہیں مجھے یہیں سونا ھے 

ولید اٹھ جائیں ناں آپ اتنے بھاری ھیں

نہیں میں نہیں اٹھنا 

ولید۔۔۔۔

چپ روح 

آواز نا آۓ اب تمہاری   

سو جاؤ ایسے ہی 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حیا کھانا کھا کر جیسے ہی اپنے کمرے میں داخل ہوئی تو اندھیرے نے اس کا استقبال کیا 

یہ لائیٹس کس نے بند کی میں تو جلا کر گئی تھی 

جیسے ھی اس نے ہاتھ

بڑھا کر لائیٹس جلانا چاھیں کسی نے اس کو اپنی طرف کینچھا 

وہ کٹی ڈور کی طرح اس کے سینے سے جا لگی 

کک۔کککک۔۔۔ککک۔۔کون ھےے

میں ہوں 

ک۔۔ککون میں

تمہارا سب کچھ 

کککون ھیں آپ میں امان کو ۔۔۔۔بتا۔۔بتاوں گی ۔۔۔وہ۔  ۔مار دیں ۔۔۔گے آپ کو۔۔۔ 

امان خود کو کیسے مارے گا میری جان 

 happy birthday 🎉 🎉🎉 

امان کے بولنے کی دیر تھی کہ کمرہ روشنی میں نہا گیا 

حیا تو ابھی تک شاک میں تھی کہ امان کو یاد تھا 

اوووووہ امان تھینک یو سوووو مچ 

حیا اتنی خوش تھی آج 

امان نے کمرے کو بہت اچھی طرح سے سجایا تھا سب حیا کی پسند کا تھا 

ادھر آؤ 

امان نے پنکھے کا بٹن اون کیا اور حیا کو بازوؤں میں اٹھا کر گھمایا تو پھولوں کی بارش ہونے لگی 

اوووووہ امان 

کتنا اچھا لگ رہا ھے ناں پلیز روکنا نہیں اور زور سے جھولا دیں ناں پلیز 

زمان نے اسے اور تیز گھمایا تو دونوں زور سے بیڈ پر گرے 

ہاےےےے امان مار دیا 

تم نے ہی بولا تھا اور زور سے گھماؤ 

امان تھینکس ۔۔۔

حیا نے امان کو کس کیا اور تھینکس بولا 

یہ کیا

کس تھا 

کیوں کیا 

تھینکس کے لیے 

میں بھی کروں 

کر لیں لیکن یہاں 

حیا نے گال پر انگلی رکھ کر امان کو بولا 

نہیں میں نہیں کرنی یہاں چلو آؤ پہلے کیک کاٹیں اور پھر گفٹ بھی دوں گا 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حور یہ لو میڈیسن لے لو 

نہیں میرا دل ۔۔۔۔نہیں کر رہا 

جلدی کرو پھر میں اپنے بےبی کو چاکلیٹ دوں گا 

پکا

ہاں یہ دیکھو 

زمان نے پوکیٹ سے چاکلیٹس نکال کر حور کو دیکھائیں اور حور میڈیسن لینے کے لیے تیار ہو گئی 

اور کھڑکی سے دیکھ رہی زمل آگ بگولہ ہو گئی سب دیکھ کر 

بس حور کچھ دن پھر تمہیں جانا ہو گا زمان میرا ہو کر ھی رھے گا تمہیں جانا ہو گا ہمیشہ کے لیے بہت دور 

اب دیکھو میں کیا کرتی ہوں اس بار تو بچ گئی اب نہیں بچو گی 

❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان جلدی سے گاڑی نکالو اس سے پہلے کے دیر ہو جاۓ جلدی کرو

جی ولید بھائی

دیکھ ولید یاد رکھنا میں اپنی امانت تجھے سونپ رہا ہوں اسے ایسے ہی مجھے لوٹا دینا یار اگر اسے کچھ بھی ہوا تو کسی کو معاف نہیں کروں گا کسی کو بھی مار لوں گا خور کو سمجھے سب میری حور کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔ہاں کچھ نہیں ہو گا میں کچھ نہیں ہونے دوں گا ۔۔۔ یا اللہ اتنا بڑا دکھ ناں دینا جو میں برداشت ناں کر سکوں میری زندگی واپس دے دے مولا۔۔۔۔زمان شاہ تڑپ رہا تھا اپنی محبت کو اس حال میں دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کے اتنا مضبوط شخص اپنے پیار کو تکلیف میں دیکھ کر اتنی جلدی ٹوٹ جائے گا۔۔۔۔۔۔

ہمت کر زمان کچھ نہیں ہو گا حور کو ۔۔۔اٹھ پتر چل اللہ سے دعا کر شجاعت شاہ سے اپنے پوتے کی یہ حالت بلکل نہیں دیکھی گئی ۔۔۔۔۔۔

ولید نے حور کو اٹھایا اور گاڑی کی طرف بھاگا ارمان نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا ولید حور کا سر گود میں رکھ کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا 

ان کے بعد شجاعت شاہ عابدہ بیگم روح اور عافیہ بیگم امان کے ساتھ ہاسپٹل کی طرف روانہ ہوئیں ۔۔۔۔۔

ولید حور کو لے کر ہاسپٹل آ چکا تھا ابھی حور کا چیک اپ چل رہا تھا ہر اچھے سے اچھا ڈاکٹر ویہاں موجود تھا آخر کو شاہوں کی اولاد تھی حور ۔۔۔۔۔

آپ کیا لگتے ہیں پیشنٹ کے ۔۔۔

میں بھائی ہوں حور کا ۔۔۔

دیکھیں ولید صاحب ہمیں فوراً آپریشن کرنا پڑے گا خون بہت ضائع ہو چکا ھے بچنے کے چانسس بہت کم ھیں کیونکہ ان کے دماغ پر چوٹ لگی ھے۔۔۔آپ پلیز ہمارے ساتھ چلیں اور سائن کر دیں 

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تین گھنٹے ہو چکے تھے حور کا آپریشن چل رہا تھا کوئی بھی ڈاکٹر کچھ نہیں بتا رہا 

دادا جان دادی جان اور عافیہ بیگم رو رو کر خدا سے حور کی زندگی مانگ رہیں تھیں

اور ادھر زمان ابھی تک گھر کے خون آلودہ فرش فرش پر بیٹھا کسی بہت ہی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا 

آنکھوں سے مسلسل آنسو گر رہے تھے کوئی دیوانہ ھی لگ رہا تھا اس وقت زمان شاہ ۔۔۔۔ 

مجھے حور کے پاس جانا چاہیے۔۔۔۔وہ ویہاں اکیلی ہو گی ۔۔۔۔۔ہاں اسے ڈر لگ رہا ہو گا ۔۔۔مجھے جانا چاھیے۔۔۔۔

وہ جیسے تیسے کر کے ہاسپٹل پہنچا تو اسے سب ویٹنگ ایریا میں بیٹھے نظر آئے ۔۔۔۔۔

دادا جان کیا کہا ڈاکٹر نے کہاں ھے حور وہ ٹھیک ھے میں مل لوں اسے سے 

بولیں دادا جان 

۔۔۔

میرے بیٹے میری بات سنو

زندگی اللہ کی امانت ہوتی ھے اور سب کو ایک ناں ایک دن جانا ھے ۔۔۔

لیکن داد جان آپ کیوں بتا رہیں ھیں مجھے میں جانتا ہوں 

میں اس لیے بتا رہا ہوں کے تم کسی بھی حالات کے لئے زہنی طور پر تیار رہو کیونکہ۔۔۔۔۔۔

کیا دادا جان بولیں 

کیونکہ بیٹا حور کے دماغ پر چوٹ لگی ھے ڈاکٹرز کا کہنا ھے کے بچنے کے چانسس بہت کم ھیں 

زمان ان کی بات سن کر فرش پر گر گیا اس کے اعصاب اس کا ساتھ دینے سے بلکل جواب دے چکے تھے ۔۔۔

ولید نے اسے پکڑ کر بینچ پر بیٹھا کر اسے سہارہ دیا۔۔۔۔۔

اور زمان حوش سے بیگانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تقریباً 5 گھنٹے بعد ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آئے 

میرے پاس آپ کے دو خبریں ایک اچھی اور ایک بری 

زمان شاہ ہم نے آپ کی وائف کو بچا تو لیا مگر

کیا مگر۔ ۔۔۔۔

بولو کیا ہوا حور کو 

ان کی یاداشت چلی گئی ھیں اب وہ ان کا ذہن ایک بچے جیسا ھے 

یہ خبر تھی یا بم جو بھی تھا شاہ پیلس کے مکینوں کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا 

ایسا لگا کے وقت کی سوئیاں روک گیں ھیں 

ہر چیز کی حرکت بند ہو گئی ھے 

کچھ سنائی نہیں دے رہا

سوائے ان آنسوؤں کی آواز سے جو زمان شاہ کے دل پر گر رہے تھے 

حوور۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے دل سے آواز آئی 

سب ایک طرف اس بات سے غمگین تھے کے حور کو کچھ یاد نہیں ایک طرف خوش تھے کے حور کی جان بچ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ مل سکتے ھیں پیشنٹ سے مگر انہیں کچھ یاد مت کروائے گا 

ابھی تو حور بے حوش تھی سب اس سے مل کر اور دعا دے کر واپس باہر آگے 

عافیہ بیگم اور عابدہ بیگم کو ارمان گھر چھوڑنے آیا تھا 

امان نے آکر سب کو حور کا حال بتایا تو سب کو ھی دلی دکھ ہوا سوائے زمل اور تحریم کو 

دکھ تو انہیں بھی ہوا مگر حور کے زندہ بچ جانے کا 

چلو اچھا ہی ہو گیا کی اس کی یاداشت چلی گئی ورنہ وہ سب کو بتا دیتی کی اسے دکھا میں نے دیا تھا 

زمل اب بھی موقع ھے زمان کو اپنے بس میں کرنے کا 

ابھی وہ دکھ میں ھے بس اس کے دکھ میں دکھی ہو کے اسے اپنے جال میں پھانس لو

اچھا سوچا آپ نے ماما 

چلو کوئی بات نہیں اس بار بچ گئی تو کیا بار بار بچے گی میرا اگلا وار اس سے بھی  بڑا ہو گا 

کیونکہ زمان صرف زمل کا ھے اور اس کا ہی رھے گا آج نہیں تو کل آنا تو میرے پاس ہی ھے ناں 

❤️❤️❤️❤️❤️

امان اپنے روم میں میں فریش ہونے آیا 

ابھی وہ واشروم سے باہر نکلا ھی تھا اس کا کمرہ نوک ہوا 

آ جاؤ 

حیا تم 

جی امان وہ مجھے حور کا پوچھنا تھا 

جب آپ نے بتایا تھا سب کو تب میں سوئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔

ادھر آؤ ۔۔۔امان نے آنکھوں میں محبت کا جہاں بسائے اسے بلایا

جی 

تم ناں دور جانا کبھی زمان تو برداشت کر گیا لیکن میں مر جاؤں گا 

کیا ہوا امان ایسے کیوں بول رہیں ھیں 

بس خیال رکھا کرو اپنا 

جی 

اچھا تو آپ رات کے اس ٹائم میرے سے حور کا پوچھنے آئیں ھیں ھییںںں

جی اس ٹائم کیا ہوا 

ہوا تو کچھ نہیں

بس یہ ٹائم بندہ بہک جاتا ھے 

امان بتایں ناں 

امان کی جان ٹھیک ھے وہ 

اچھا چلو شکر ھے 

اچھا میں چلی ۔۔۔

ارے روکو تو

امان کیا کر رہیں ھیں چھوڑیں ناں 

نہیں چھوڑوں گا 

امان اسے گود میں لیے صوفے پر بیٹھا 

اور ساتھ دراز سے چاکلیٹ نکال کر حیا کو دیا

ہاااےےےےے امان تھینکس اتنا دل کر رہا تھا ناں میرا چاکلیٹ کھانے کو 

میرا بھی کر رہا ھے 

ہاں تو آپ نیو لے لیں میں یہ نہیں دوں گی 

میں یہ کھاؤں گا بھی نہیں میڈم 

اچھی بات ھے 

حیا سکون سے امان کی گود میں بیٹھی بےفکر سی چاکلیٹ کھانے میں مصروف تھی اس بات سے بے نیاز کے کوئی بہت غور اسے دیکھ رہا ھے 

ختم ہو گئی اور دے دیں 

امان اس کی آواز سن کر ہوش میں آیا اور ساتھ ہی زور زور سے ہنسنے لگا 

کیا ہوا امان 

روکو 

امان نے اپنے فون کا فرنٹ کیمرہ آن کر کے حیا کو اس کی شکل دیکھائی تو اس کی بھی ہنسی نکل گئی 

حیا نے جلدی سے امان کو ہنستا دیکھ کر اس کی شرٹ سے منہ صاف کرنے کی کوشش کی لیکن نا کر سکی 

امان کر نے دیں نا صاف 

میں کر دوں 

کر دیں 

میں ٹیشو دو۔ 

نہیں میں اپنے طریقے سے کروں گا 

کیسے 

ایسے۔۔۔۔

امان نے کہتے ہی اس کی گال پر ہونٹ رکھے اور چاکلیٹ صاف کی اپنے ہونٹوں سے

پھر اسی طرح دوسری گال سے 

اب امان اس کے ہونٹوں کے پاس تھا اتنا کے اس کے ہونٹ حیا کے ہونٹوں کو چھو رہے تھے مگر وہ جانتا تھا کے یہ نا ہی سہی ٹائم ھے اور نا ہی کوئی حق 

وہ جلدی سے پیچھے ہٹا اور ٹیشو اٹھا کر اس کا منہ صاف کیا 

حیا ۔۔۔

جی۔۔۔۔

کچھ نہیں 

اوکے میں جا رہی 

حیا نے امان کے گال پر کس کیا اور اسے ہگ کر کے گوڈ نائیٹ بولا 

میں بھی کروں نائیٹ کس۔۔۔

نہیں

کیوں تم نے بھی تو کی 

آپ نے بھی کی تھی چاکلیٹ کھاتے ہوئے 

اوو یاد آگیا 

اچھا اپنا خیال رکھنا اوکے صبح کے کر جاؤں گا حور کے پاس 

اوکے ❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حور کو حوش آچکا تھا 

سب اس سے مل رہے تھے مگر وہ سب کو اجنبی نظروں سے دیکھ رہی تھی 

شاید اسے جسے کا انتظار تھا جو وہ بار بار دروازہ کی طرف دیکھ رہی تھی 

زمان مردہ قدموں کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے دشمن جان ایسے بیٹھی تھی جیسے اسی کے انتظار میں تھی 

زمان کے دل میں درد کی ٹھیس اٹھی حور کو اس حال میں دیکھ کر 

اور حور کے چہرے پر اطمینان چھا چکا تھا 

لیکن یہ کیا حور نے زمان کو دیکھ کر رونا شروع کر دیا 

زمان بھاگ کر اس کے پاس آیا 

سب ھی پریشان ہو چکے تھے 

کیا ہوا حور 

۔۔۔۔

آپ۔۔۔۔۔

آپ۔۔۔ کہاں تھے۔ ۔۔۔۔یہ سب مجھے دیکھ رہے تھے جیسے کھا جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔آپ کہاں گئے تھے ۔۔۔۔۔۔

زمان کا تو خوشی سے برا حال تھا کے اس کی روح اسے پہچانتی ھے 

میں آگیا ہوں ناں اب کوئی کچھ نہیں کہے گا  

آج سنڈے تھا اور سب ہی گھر پر تھے 

آج کی صبح شاہ ولا میں بہت سے منظر لانے والی ھے ۔۔۔۔

سکندر پتر کہاں ھے تیرا صاحب زادہ۔۔

یہی کہیں ہو گا ابو جان۔ 

بھئی اتنے دن ہو گئے اپنے کسی پوتے کی شکل نہیں دیکھیں ۔ ۔۔

ابا جان وہ گھر ہوں تو آپ ان کی شکل دیکھیں ناں۔۔۔۔

ہےناں بھائی جان۔   

دلاور صاحب میرا تو ایک ھے آپ کے تین تین ھیں ماشاءاللہ خبر رکھا کریں۔۔۔

جی بھائی جان۔ ۔۔۔❤️❤️❤️❤️

الارم کی آواز سے ولید کی نیںد میں خلل ڈالا ۔۔۔۔

الارم بند کر کے آنکھیں ملتا وہ نیند بھگانے کی کوشش کر رہا تھا 

اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کی زندگی اس کے آنچل میں سو رہی تھی ۔۔ 

وہ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھنے میں مگن تھا کے روح انگڑائی کے کر اس کے اوپر آ گئی اور باہیں پھیلا کر لیٹ گئی۔  

میں لیٹوں تو جان نکلتی ھے اس کی اور اب خود دیکھو جیسے پراویٹ پراپرٹی ہو۔۔  

ویسے میں اس کا ہو تو ہوں ۔۔۔

روح جانتی ہو تم   ۔۔۔

بہت پیار کرتا ہوں میں تمہیں اتنا جیسے ایک پیاسا کنویں کو

ایک مرتا انسان زندگی کو ۔۔

جب سے تم ملی ہو زندگی خوشیوں سے بھر گئی ھے۔   

بس ایسے ہی رہنا ہمیشہ میرے پاس میرے دل میں۔  

۔۔

میں اتنا بول گیا اور یہ ابھی بھی نہیں اٹھی۔   ۔۔

روح۔۔

روح۔ 

روح اٹھ جاؤ ۔۔

آج سنڈے ہے سب ویٹ کر رہیں ہوں گے ہمارا ناشتے پر۔۔ 

روح ابھی بھی ویسے ہی سوئی ہوئی تھی ۔۔۔

اوکے میں اپنے طریقے سے اٹھا لیتا ہوں ۔۔

ولید کروٹ لے کر روح کے اوپر آ گیا اور اس کی گردن سے بال ہٹا کر ویہاں لب رکھے ۔۔۔

گردن کا کوئی بھی ایسا حصہ نہیں تھا جو ولید نے نا چوما ہو۔   

اپنی گردن پر کچھ گیلا اور اپنے اوپر وزن محسوس ہو تو روح کی آنکھیں کھولیں ۔۔۔

ولید مکمل طور پو اس قابض ہوا وا تھا ۔۔۔

ولید اگر آپ نے میری گردن پر کسی کی ناں پھر دیکھیے گا سارا تھوک لگا کر رکھ دیا۔ ۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا کہاں لگایا تھوک    

میری گردن کیوں گیلی ھے پھر   ۔۔۔

اوو سوری بےبی غلطی سے ہو گیا۔۔۔

اب اٹھ جائیں میرے اوپر سے ورنہ میرا فالودہ بن جانا ۔۔

تو کوئی بات نہیں میں کھا لوں گا فالودہ تمہارہ۔۔۔

ولیییییی۔۔۔۔

جی جان ولی 

اٹھ جائیں ناں۔   

پہلے میرا ناشتہ 

ہاں تو آپ اٹھیں گیں تو نیچے جا کے ناشتہ کریں گے نا ۔۔۔

نہیں میں نے یہاں ہی کرنا ھے۔  

یہاں کسے ہو گا ۔۔۔۔

کر کے بتاؤں ۔۔

ہنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔

ولید نے نرمی سے روح کے لبوں پر لب رکھے ۔۔۔

اور اس کی سانسیں اپنے اندر اتارنے لگا ۔۔

لیکن کچھ ہی لمحوں بعد پیچھے ہٹ گیا۔  

ایسے ہوتا ھے میرا ناشتہ۔۔۔

آپ بہت گندے ھیں ولی۔۔۔

اچھا مجھے تو پتا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔

چلو اب اٹھو چلیں نیچے ۔۔

آپ اٹھیں گے تو میں آٹھوں گی ناں 

او ہاں۔۔۔

ولید نے روح کی گال پر اپنے ہونٹ رکھے اور اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا۔  ۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمان نے حور کو تیار کیا اور خود فریش ہونے کے لیے واشروم گیا۔۔۔

وہ فریش ہو کے نکلا تو حور گم سم بیٹھی تھی۔۔۔۔

حور بےبی کیا ہوا۔۔۔

زمان۔۔۔۔

کیا ہوا حور رو کیوں رہی ہو۔۔۔۔

مجھے۔۔۔ڈر۔۔لگ رہا ھے۔۔۔

کس سے ۔۔ 

وہ وہاں کھڑکی میں کوئی تھا۔   

کون تھا ۔۔ 

مجھے۔۔۔۔نہیں پتا۔۔۔۔۔

اچھا چلو تم چپ کرو میں دیکھتا ہوں 

نہیں۔۔۔زمان آپ نہیں جائیں۔   وہ مجھے مار دے گی آپ چلے۔۔۔۔گے تو۔۔۔۔آپ میرے پاس ہی رہیں۔ ۔۔۔آپ چھپا لیں مجھے۔۔۔۔۔

حور کیا ہو گیا ھے ادھر دیکھو ۔۔۔کچھ نہیں ہوتا ۔۔

نہیں۔  ۔۔۔بس آپ کہیں نہیں جائیں۔۔۔۔

نہیں جا رہا حور ۔۔۔

حور زمان کی گود میں بیٹھی اس کے سینے میں منہ چھپائے رو رہی تھی اور زمان شاہ تڑپ رہا تھا اپنی محبت کو اس حال میں دیکھ کر۔۔۔ 

حور میری روح چھلنی حو جاتی ہے تمہیں ایسے دیکھ کر میں تمہیں سب سے دور کے جانا چاہتا ہوں جہاں تمہیں خوشیوں کے علاوہ کچھ نا ملے۔۔۔

مجھے بس پتا چل جائے کے اس دن کیا ہوا تھا میں جانتا ہوں تم خود نہیں تھی گری کچھ تو ہو تھا۔  ۔۔۔۔

وہ یہ سب سوچ رہا تھا کیونکہ حور کے سامنے ایسی بات نہیں کر سکتا تھا وہ    

اچھا چلو ناشتہ کرنے چلیں۔۔۔

ایسے ہی لے کے جائیں ناں مجھے نیچے نہیں اترنا۔۔۔

ٹھیک ہے پھر پہلے ایک ہگ اور ایک کس دو پھر لے کر جاؤں گا۔۔۔

حور نے زمان کی گال پر ہونٹ رکھے اور زوررر سے اسے ہگ کیا۔۔۔

اووو میرا بےبی لو یو۔۔۔

زمان نے اسے بازوں میں اٹھایا اور نیچے چل دیا۔  ۔۔۔

روح وہ دیکھو زمان بھائی کیسے حور کو اٹھا کر کا رہیں ہیں۔۔۔۔

ہاےےےے کتنے مزا آ رہا ہو گا ناں رو کو حیا۔۔۔

ہاں ناں جھولے مل رہیں ہوں گے ۔۔

میں بھی بولوں گی امان کو مجھے بھی ایسے جھولیں دیں ۔۔

ہاں ہاں بول دینا ۔۔۔

تم دونوں کیا کھسر پھسر کر رہی ہو ۔۔۔

تائی جان اوپر دیکھیں آپ کے بیٹے کے کام ۔۔

تو تمہیں کیا ۔۔۔میرا پتر میری بیٹی کا خیال رکھ رہا ہے۔۔  

آؤ بھئی زمان تمہارا ہی انتظار کر رہے تھے سب۔ 

ارمان کہاں ھے۔  ۔

دادا جان وہ۔۔۔

ابو جان وہ رات سے گھر نہیں آیا۔۔۔

کیا۔۔۔

جی میری بات ہوئی تھی وہ اپنے دوست کے ساتھ ھے اس ک طبیعت نہیں ٹھیک تھی اس لیے ۔۔۔۔

اسلام علیکم۔۔

اس آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا ۔۔۔

وعلیکم اسلام ارمان بچے یہ آپ کے ساتھ کون ھے۔  

وہ دادا جان دراصل۔۔۔۔

تم چپ رہو ولید میں نے ارمان سے پوچھا ھے۔۔۔

اوہو دادا جان یہ میرے دوست کی بہن ھے اس کے امی ابو کا انتقال ہو گیا تھا تو اس لیے میں اسے اپنے گھر لے آیا ۔۔۔

کچھ دن بعد اس کا بھائی آۓ گا تو اسے ساتھ لے جائے گا۔  

بہت افسوس ہوا پتر۔ ۔۔۔

دیکھ عافیہ چھوٹی سی بچی ھے اور اتنا ظلم ہو گیا۔۔۔

ادھر آؤ میرا بچہ آج سے تم میری بیٹی۔۔۔

میں ارمان کی ماما ہوں بیٹے ۔۔۔۔

جج۔۔۔۔جی آنٹی

پتر ڈرو نہیں ہم سب تمہارے آپنے ہی ھیں۔۔۔

۔ہاں ہمیں تو آپ نے کبھی اپنا سمجھا ہی نہیں باقی سارے آپ کے اپنے ھیں۔۔ 

ولید تو چونچ لڑانا بند کر تو میرا بیٹا ھے اور آج سے یہ بیٹی۔ ۔۔۔۔

چلو آؤ سب ناشتہ کرو۔۔۔۔

ایسے کیسے ہم منہ اٹھا کے کسی کو بھی گھر رکھ سکتے ھیں۔۔۔۔

پہلے امان حیا کو لے آیا اور اب یہ صاحب اس بی بی کو ۔ 

تحریم آپا حیا کوئی اور نہیں میری بھانجی ھے۔۔۔

تحریم کو سب اپنے ہاتھوں سے نکلتا نظر آ رہا تھا اس لیے اس نے بھڑکنا شروع کر دیا۔۔۔۔

تو بھانجی تمہاری ھے ناں اس سے کیا فرق پڑتا ھے اس گھر کا فرد تو نہیں۔  

حیا اس گھر کا فرد ہی ھے۔۔۔۔جیسے زمل میری بھانجی ھے اسی طرح حیا عافیہ کی بھانجی ھے ۔۔

چلو مان لیا حیا تو ھے یہ کون ھے ۔۔۔۔

ابھی کے ابھی اسے گھر سے باہر نکالو۔۔۔۔۔

کیا کہ رہی ہو تم تحریم۔ 

جو سنا آپ نے ابا جان۔۔۔۔۔

چلو اٹھو نکلو باہر۔۔۔

آپا ہاتھ چھوڑیں بچی کا۔   

چھوڑیں پھوپھو جان زارا کو۔۔۔

کیوں چھوڑوں۔ کیا لگتی ھے یہ تمہاری۔۔۔

بیوی ھے میری۔۔۔۔۔

یہ بات تھی یا کوئی اطلاع لیکن شاہ پیلس کے مکینوں کے لئے شاک سے کم ناں تھی۔ ۔۔۔۔

چلو اٹھو نکلو باہر۔۔۔۔

چھوڑ دیں پھوپھو ایسے۔۔

کیوں چھوڑیں نکالیں ماما آپ ایسے باہر۔۔

تم اپنی زبان بند رکھو تو بہتر ہو گا زمل۔۔۔

چلو نکلو تم منہ کیا دیکھ رہی ہو۔۔

چھوڑ دو تحریم بچی کو ۔

نہیں اب یا تو یہ یہاں رہے گی یا ہم۔۔۔

چلو نکلو۔۔

پھوپھو جان ہاتھ چھوڑیں اسکا ۔۔

کیوں کیا لگتی ھے تمہاری کوئی رشتہ ھے تمہارا اس کے ساتھ میں اس گھر کی بیٹی ہوں اور میں نکال سکتی ہوں اسے۔۔۔

اور یہ بہو ھے اس گھر کی پھوپھو جان۔۔۔ہاتھ چھوڑیں میری بیوی کا ۔

کیا۔۔۔۔کیا کہ رہے ہو تم 

جو آپ نے سنا۔۔۔

لیکن پتر۔۔۔

دادا جان کچھ بھی کہنے اور فیصلہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لیجیے گا کے میں ایک بے سہارا کو سہارا دیا ھے اور ویسے بھی میں پیار کرتا ھوں زارا سے ۔۔

شجاعت شاہ ارمان کی بات سن کر خاموش ہو گئے تھے وہ جانتے تھے ان کا خون کبھی بھی کوئی غلط کام نہیں کر سکتا۔ ۔

اچھا یہ بے سہارا۔۔۔۔میری بیٹی کیا ھے پھر۔۔۔میری بیٹی اتنی دیر سے تم لوگوں کے نام پر بیٹھی ھے اور تم لوگ ہو کے باہر سے گند اٹھا کر لائے جا رہے ہو۔  

گند نہیں ہو پھوپھو اور آپ زارا کو کچھ نہیں کہیں گئیں۔۔۔۔

ابا جان فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ھے اب۔۔۔۔یا تو ارمان اس لڑکی کو طلاق دے یا پھر میرا اور میری بیٹی سے اپنا تعلق ختم۔ ۔۔۔

کیا کہ رہیں ھیں آپا آپ۔ 

تم چپ رہو عافیہ تمہاری ہی اولاد ھے اپنی تربیت پر توجہ دو بی بی

تحریم پتر کیوں تماشا کر رہی ھے بچے ہیں ہمارے کچھ تو سوچ۔  ۔۔

نہیں اماں آج آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا۔۔

ارمان۔۔۔۔۔۔میری۔۔۔وجہ۔۔۔سے ۔۔۔سب ہو رہا۔۔۔ھے تو۔ ۔۔آآ۔۔آپ۔۔مجھے چھوڑ۔۔۔۔آئیں۔۔میں کہیں۔۔بھی رہ لوں گی۔۔

نہیں پتر مجھے یقین ھے اپنے پوتے پر اگر ارمان تمہیں لایا ھے تو کچھ سوچ کر ہی لایا ہو گا ۔۔ارمان پتا کبھی نہیں چھوڑے گا تجھے ۔۔

تو ٹھیک ھے پھر زمل کا نکاح کر دیں زمان کے ساتھ ۔۔ویسے بھی اب حور تو پاگل ہو چکی ھے ساری زندگی اسی پر تو نہیں گزارے گا ناں۔ ۔۔۔

تحریم کی اس بات سے سب کو ہی حیرانگی ہوئی تھی 

اور زمل کو خوشی اپنی ماں کے فیصلے پر۔۔۔

کیا کہ رہی ھو پاگل ہو گئی ہو تم کیا۔۔۔

بس دلاور بھائی فیصلہ کر لیں۔ ۔۔۔

زمان بیٹا۔۔۔تم جانتے ہو تمہارے چاچو نہیں ھیں اور میں اتنا بڑا غم نہیں سہ سکوں گی میری بیٹی کے ساتھ یہ ظلم مت کرنا میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے آگے۔ 

عمارہ اپنی بیٹی کے نصیب کے لیے ہاتھ جوڑ کر زمان سے فریاد کر رہی تھی۔  

چچی جان آپ نے سوچ بھی کیسے لیا کہ میں حور کو چھوڑوں گا کبھی۔۔۔

حور ھے تو زمان ھے ۔

حور نے بغیر زمان کا کوئی وجود نہیں ۔۔

میں مرتے دم تک اپنی آخری سانس تک حور کو نہیں چھوڑوں گا اور نا ہی اس کی جگہ کسی کو دوں گا۔۔

اور پھوپھو جان پاگل نہیں۔ ھے میری بیوی بس اس کا دماغ آپ جیسے شاتر لوگوں جیسا نہیں ۔۔۔

آپ اپنے دماغ سے یہ خیال نکال دیں کہ میں حور کو چھوڑ کر زمل سے نکال کروں گا ۔

زمان کی بات سے سب کو خوشی ہوئی ۔اور تحریم کو اپنا پلان ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔  

 زمل تو پاگل ہو رہی تھی اپنی اتنی بےعزتی پر بس سب کے سامنے اپنا غصہ دبائے ہوئے تھی۔ ۔۔۔

تحریم نے ولید سے کچھ کہنے کی لیے منہ کھولا تو روح جلدی سے جا کر ولید کے ساتھ چپک گئی ۔۔

نہیں پھوپھو میں نہیں دوں گی ولید کو اس کی طرف ناں دیکھیں آپ  ۔۔ہیں ناں ولید میں نہیں دوں گی آپ کو زمل کو ۔۔۔

اور میں بھی نہیں دوں گی امان زمل کو کوئی اور لا دیں۔ ۔حیا امان کے بازو سے لگی تحریم کے سارے راستے بند کر گئی۔۔۔

جہان سب گھر کے ماحول سے افسردہ تھے وہیں روح اور حیا کی باتیں سب کے چہرہ پر مسکراہٹ کا باعث بنی۔۔۔۔

اتنی بےعزتی کے بعد تحریم کو یہاں کھڑا ہونا اور مشکل لگا ۔۔

چلو زمل چلیں اب ہمارا یہاں کچھ نہیں۔۔

نہیں ماما ہم کہیں نہیں جائیں گے اگر یہ سب ہمیں اپنا نہیں مانتے تو کیا ہوا ہم تو ان سب سے پیار کرتے ھیں ناں ہم نہیں جایں گے آپ چکیں کمرے میں

زمل زبردستی اپنی ماں کو کمرے میں کے گئی جھوٹے آنسو بہاتے ہوئے۔۔

کیا کر رہی آپ وہاں جانے کی باتیں۔۔

آپ تھوڑا صبر نہیں کر سکتیں تھیں۔۔م

اگر آج آپ چلیں جاتیں تو میرا سب پلان برباد ہو جاتا 

میں انہیں میں رہ کر ان کو برباد کروں گی آپ بس صبر رکھیں۔ ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آؤ بیٹا ڈرو نہیں ناشتہ کرو بیٹھ کر کچھ نہیں ہوا۔۔۔

میں سوچ رہا ہو اب سب نے اپنے کیے زندگی کے ساتھی ڈھونڈ ہی لیے ھیں تو گھر میں ایک فنگشن رکھ لیتے ھیں سب کو پتا بھی لگ جائے گا خاندان میں اس طرح کیا خیال ھے تم لوگوں گا۔  

جیسے آپ کی مرضی ابا جان ۔۔۔

نہیں دادا جان پہلے حور ٹھیک ہو جائے پھر۔۔۔

اور میں بھی نہیں ابھی زارا پڑھ رہی ھیے اور ویسے بھی میں ابھی اپنے رشتے کا آغاز نہیں کرنا چاہتا۔۔۔

مجھے کوئی اعتراض نہیں میرا تو آج ولیمہ کر دیں بھلہ۔۔

ولید کی بات سے سب کے قہقہے گونجے تھے لاؤنچ میں۔۔

ولید پتر بڑا بے صبرا ھے تو اپنے باپ کی طرح۔۔۔

بابا جان میں کب تھا ایسا میں تو بہت شریف تھا جوانی میں ۔

ہاں ولید پتر تیرا باپ اتنا شریف تھا کہ تیری ماں سے اس کے گھر 

ااااا بس بس اماں جان اب اولاد کے سامنے تو مت کریں زلیل مجھے۔۔۔

ویسے چاچو آپ بڑی چیز ھیں میں تو آپ پر ہی گیا ہون۔۔

ہاں ارمان تو چھوٹے پاپا پر گیا ھے اور میں دادا جان پر ۔

دیکھ لیں دادا جان میں نے ابھی تک اپنی بات نہیں کی آپ سے۔۔۔

ہاں پتر تو تو مجھ پر گیا ھے پر یہ حیا پتا نہیں کس پر چلی گئی تیری کسریں یہ پوری کر دیتی ھے۔۔۔

میں دادی جان پر گئی ہوں۔۔۔

ایک بار پھر شاہ پیلس میں بھر پور قہقہے گونجے تھے۔۔۔۔

چل ہٹ شیطان کہیں کی۔۔

اسی نوک جھوک میں سب نے ناشتہ کیا ❤️❤️❤️❤️

❤️❤️❤️❤️

دوپہر کا وقت تھا امان اپنی الماری میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا۔۔ کی حیا کمرے میں آئی۔   ۔

کیا ڈھونڈ رہیں ھیں امان۔۔

تمہیں۔ 

میں تو یہاں ہوں ۔۔۔۔

اچھا مجھے لگا الماری میں ہو ۔۔۔

اچھا چھوڑیں ایک بات بتاؤں آپ کو۔۔۔

ہاں بولو۔

کیسے بولوں آپ تو الماری کے ساتھ لگے ھیں۔۔

اچھا تو تمہارے ساتھ لگ جاؤں کیا۔ ۔۔

ہاں 

کیا میرا مطلب نہیں ۔۔

امان نے الماری کا دروازہ بند کیا اور حیا کی کمر میں ہاتھ ڈال کر خود پر گرا لیا اور خود بیڈ پر گر گیا۔ ۔

اچھا بتاؤ کیا بتانا تھا۔  

وہ ۔۔

کیا وہ ۔۔

وہ ناں

کیا وہ ناں

وہ میں نا ماما بننے والی ہوں۔۔۔

کیاااااااااا۔۔ 

کیا کہ رہی ہو پاگل لڑکی 

جو آپ نے سنا ۔

امان پر تو گویا حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔۔۔

مطلب تم کیسے یہ بات کر سکتی ہو پاگل ہو 

منہ سے کر سکتی ہوں یہ بات ۔۔۔

اچھا حیا بات سنو تم سے کس نے کہا یہ ۔۔

وہ مجھے ووٹنگ ہوئی تھی کل میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا لڑکی کو وومٹ ہوا اور اس نے جا کر لڑکے کو بتایا کے وہ ماما بننے والی ھے ۔۔۔مجھے بھی ابھی وومٹنگ ہوئی میں نے آپ کو بتا دیا اب بے بی آ جائے گا ناں۔۔۔۔

مطلب تم ٹی وی دیکھ کر یہ بول رہی تھی۔ ۔۔۔

پاگل لڑکی ڈرا دیا تھا مجھے۔۔۔

پاگل ایسے نہیں آتا بےبی 

پھر کیسے آتا ھے 

پہلے شادی کرنی پڑتی ھے پھر آتا ھے بےبی۔۔۔۔

امان ہم بھی شادی کر لیں مجھے بھی بےبی چاہیے مجھے بہت اچھے لگتے ھیں بےبی۔

حیا دیکھو ایسی باتیں نہیں کرتے اچھا اور تم نے اب کسی اور کو نہیں کہنا یہ۔۔۔

۔اچھا نہیں کہتی ۔۔

اب چھوڑیں مجھے میں جاؤں ۔۔۔

کیا کرنا جا کر ۔

سونا ھے مجھے نیند آ رہی ھے ۔

یہیں سو جاوں۔۔

یہاں آپ کے اوپر ۔۔۔۔

ہاں تو سو جاو۔۔

ٹھیک ھے سو جاتی ہوں۔۔۔

نہیں حیا کمرے میں جا کر سونا میرے اوپر نہیں۔۔۔

جاؤ اب 

اوکے۔۔۔

حیا نے امان کو کس کیا اور بھاگ گئی۔ 

میرا پاگل بچہ۔۔۔امان اپنی گال پر ہاتھ رکھ کر اس کے لمس کو محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ولی ۔۔

جی۔۔۔ 

فون دے دیں اپنا۔۔۔

کیا کرنا ھے 

گیم کھیلنی ھے بور ہو رہیں ہوں ۔۔۔

اچھا میرے ساتھ کھیل لو۔۔۔

سچی ۔۔۔

ہاں۔۔۔

چلیں آپ میری آنکھوں ہو پٹی باندھیں اور میں آپ کو پکڑوں گی۔۔۔

اوکے۔۔۔۔

ولید نے اس کی آنکھوں ہو پٹی باندھیں تو روح نے ولید کو ڈھونڈنا شروع کیا ۔۔ 

ولید جا کو بیڈ پر لیٹ گیا اور روح کو آواز دی میں یہاں ہوں پکڑلو ۔۔۔روح جیسے ہی بیڈ کے پاس پہنچی ولید نے اس کو کھنچ کر خود ہو گرا لیا۔۔۔

آپ نے کیوں پکڑا مجھے ۔۔ 

پیار کرنے کے لئے ۔۔۔

ہاےےےےے اللہ چھوڑیں ولی ورنہ ماروں گی ۔۔۔

اچھا روکو میں آیا۔ ۔۔۔

کہاں جا رہیں۔۔۔۔

سرپرائز

یہ اس کا ریڈ روم تھا۔۔۔

آدمی کی دردناک چیخیں اسے سکون پہنچا رہی تھی۔۔۔

وہ آدمی تڑپ رہا تھا اور وہ ظالم آنکھیں موندے اس کی چیخیں سن رہا تھا جیسے اسے یہ آوازیں تسکین دے رہیں ہوں۔۔۔

وہ ایسا ھی تھا بے حد ظالم مگر حق کے راستے پر ۔۔

وہ نہیں جانتا تھا کے اس کی پرورش ایک ایسے انسان نے اپنے مقاصد کے لیے کی جو دنیا جہان کی برائیوں میں ملوس تھا جانے اس کا باپ اب تک کتنی ھی لڑکیوں کی عزت پامال کر چکا تھا کتنے ہی گھر برباد کر چکا تھا کتنے ہی جوانوں کو ڈرگز پر لگا چکا تھا ۔۔۔مگر اس کا بیٹا جو شاید اس کا نا تھا بلکل اس جیسا نا تھا لڑکیوں کی عزت بچانے والا ۔۔لوگوں کو انصاف دلانے والا مگر وہ بے حد جابر تھا وہ دردناک موت دیتا کے انسان مرنے سے پہلے ہی سو بار مرتا۔۔۔

وہ ستائیس سال کا شاہانہ مرد تھا 

ہلکی سے بئرڈ آور اس کی آنکھوں کا گرین کلر جو اسے اور پر کشش بناتا 

بھورے بال وہشت زدہ آنکھیں

جن میں ہر وقت سرد تاثر رہتا ۔۔

وہ مسکراتا بہت کم تھا مگر جب مسکراتا تو جانے کتنے ہی دلوں کو دھڑکا دیتا تھا۔۔۔

ہمت کیسے ہوئی تمہاری میرے باپ سے غداری کرنے کی۔۔

کیسے تم نہیں جانتے تھے اس کا کیا انجام ہو گا۔۔

نہیں زیان شاہ میں نے غداری نہیں کی بلکہ سچ جان گیا ہوں اس کا۔۔

زیان شاہ نہیں زیان ملک نام ھے میرا۔۔ 

یہی تمہاری بھول ھے زیان کہ تم ملک کی اولاد ہو۔۔

وہ ہنسا تھا اسے دیکھ کر مگر کیوں

میں اپنے باپ کی ہی اولاد ہوں اور تم میرے باپ کے کتے جہاں کھایا وہیں حرام کیا۔ 

نہیں زیان کتا بہت وفادار ہوتا ھے۔۔میں جانتا ہوں تم مجھے دردناک موت دو گے مگر میں مرنے سے پہلے تمہیں سچ بتانا چاہتا ہوں جو میرے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا تمہیں۔

مجھے تمہاری کوئی بکواس نہیں سننی تمہیں اب مرنا ھے ۔۔

اس سے پہلے کے خنجر اس کے جسم سے آر پار ہوتا وہ بول اٹھا ۔۔۔

تم شاہوں کی اولاد ہو زیان اور ملک تمہارے باپ کا قاتل جیسے تم اپنا باہ مانتے ہو۔۔۔

زیان کو خنجر والا ہاتھ وہیں رک گیا وہ کنگ سا اس کی بات سن کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔

میں جانتا ہوں تم جھوٹ بول رہے ہو ۔

نہیں زیان تم اچھے سے جانتے ہو مجھے میں تمہارے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتا۔۔

آزر شاہ کی اولاد ہو تم ملک اسے قتل کروا کر تمہیں اغوا کر لیا۔اور وہ ملک ہر برے کام میں ملوس ھے لڑکیوں کا کاروبار کرتا ھے تمہارا باپ ۔۔

زیان یہ سب سن کر اس پر بلکل یقین نہیں کر پا رہا تھا ۔۔

اور وہ تمہاری بہنوں کو لا کر وحشیوں کے آگے ڈالنے والا ھے بچا سکتے ہو تو بچا لو اپنی عزت۔۔۔

کریم تم جھوٹ بول کر مجھے گمراہ کر رہے ہو میں جانتا ہوں یہ سچ نہیں اتنا بڑا دھوکا نہیں کھا سکتا میں ۔۔

دیکھو۔۔۔زیان ۔۔میرے پاس۔۔۔وقت بہت کم گے۔۔۔ملک کی دئے گئے زخم اپنا کام ۔۔۔۔دیکھا رہیں ھیں میں بس تمہیں اور تمہاری عزت بچانا چاہتا ہوں میرے بعد۔۔۔۔تمہیں یہ سچائی عزیز ہی بتا سکتا ھے میری ۔۔بات کا یقین کرو اور۔۔۔۔اسے نہیں مارنا ۔

اس سے پہلے کے زیان اسے کچھ بولتا وہ کلمہ پڑھ کر اس دنیا سے آزاد ہو چکا تھا۔۔

اٹھو کریم تم مجھے اس غلط فہمی میں ڈال کر نہیں جا سکتے۔۔۔۔

ڈیم۔اٹ۔۔۔۔۔۔

اس نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لمبا سانس خارج کیا۔۔

آؤ کچھ سوچ کر اٹھا ۔

وہ سوچ چکا تھا اب اسے کیا کرنا ھے ۔۔

دروزی کھول کر اس نے اپنے قدم اپنی اگلی منزل کی طرف بڑھائے۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ولید مجھے کالج چھوڑ دیں

روح میں تھوڑا جلدی میں یوں آج پلیز تم ارمان سے بول دو ۔

اوکے پھر اللہ حافظ 

ارے ارے واپس آؤ ایسے نہیں بولتے اللہ حافظ اپنے ہسبنڈ کو۔۔

روح ولید کے پاس آئی ولید اے اسے اٹھا کر اونچا کیا تو اس نے اس کے دونوں گالوں پر لب رکھے۔۔

اور پھر ایسے ہی ولید نے اس کے دونوں گالوں پر بھرپور کس کی اور  ہلکی سی بائیٹ بھی۔۔

یہ تو ان کا معمول تھا جیسا کے ولید نے روح کو سیکھایا تھا ہسبنڈ کو ایسے اللہ حافظ کرنے سے ثواب ملتا ھے۔۔

اچھا اب جاؤں میں۔۔۔

ہاں جاؤ۔۔۔

وہ جاتے جاتے پھر مڑی ولید۔۔

پیسے تو دے دیں میری پوکٹ منی ختم ہو گئی۔۔۔

اوووو میرا بچہ یہ لو اس میں سے لے کو۔۔

ولید نے اپنا والٹ اسے دیا اور خود پرفیوم چھڑکنے لگا۔۔

روح نے اس میں سے پیسے نکالے اور اسے واپس کیا۔۔

روح کچھ گندہ نا کھانا طبیعت خراب ہو جائے گی۔۔۔

اوکے ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️ 

روح چلو تمہیں بھی کالج چھوڑ دوں میں زارا اور حیا کو چھوڑنے جا رہا تھا ۔۔۔

ہاں چلیں مجھے بھی چھوڑ دیں۔۔

میں ایک منٹ میں آئی ۔۔

کہاں جا رہی ہو حیا ۔۔۔

پانی لینے۔۔۔

میرا بھی لیتے آنا زارا نے اسے پیچھے سے آواز دی۔۔۔

اچھا۔۔

چلو تم لوگ بیٹھو گاڈی میں۔۔

زارا آگے ارمان کے ساتھ بیٹھ گئی اور حیا اور روح پیچھے۔۔

میرے ساتھ ہی جانا واپس اوکے پارکنگ میں میرا ویٹ کرنا تم دونوں اور زارا کو میں کے آؤں گا۔۔

لے آئیے گا ارمان بھائی ہم کونسا کہ رہیں ھیں ہم کے لے آئیں گے

ہاں ارمان بھائی تو زارا سے بارمت بھی نہیں کرنے دیتے جیسے ہم ایسے کھا جائیں گے حیا نے بھی لقمہ دیا ۔

اور ارمان تو ان کی باتیں سن کر مسکرائے جا رہا تھا اور زارا چپ بیٹھی تھی۔۔۔

چلو اب آگیا کالج باقی باتیں گھر جا کر کرنا ۔۔۔

حیا اور روح گاڑی سے نکل کر اپنی کلاسکی جانب بڑھ گئیں۔۔۔

میں جاؤں کلاس میں آپ تو آفس جائیں گے۔۔

رکو۔۔

جی۔۔

تم رات جلدی سو گئی تھی نا تو بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔اب کرنی ادھر آؤ کان کرو۔۔

زارا نے کان قریب کر کے ارمان کی بات سننا چاہی۔۔

تو ارمان نے اس کا منہ گھما کر اسے کے لبوں کو اپنی دسترس میں لیا۔۔

زارا کی آنکھیں تو پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ارمان کی حرکت پر ۔۔۔

اس نے اپنے آپ کو آزاد کروانا چاہا تو ارمان کو اس پر ترس آیا اور اسے چھوڑ دیا۔۔

رات کو یہیں سے کنٹینیو کرے گے اوکے۔۔۔

کتنے گندے ہیں آپ۔۔

جی پتا ھے اب جاؤ کلاس میں آتا ہوں میں۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

حور بےبی کھانا کھایا آپ نے ۔۔۔

نہیں ۔۔

کیوں ۔۔

بھوک نہیں تھی ۔۔

میں کھلاؤں ۔۔۔۔

نہیں ناں مجھے نہیں کھانا۔۔۔

میرے ٹوائز کہاں ھے آپ نے بولا تھا میں لا کر دوں گا۔۔۔

ہاں میں آج جا ریا ہوں نا دبئی وہاں سے لے کے آؤں گا اپنے بےبی کے کیے۔۔

میں آپکا بےبی ہوں زمان؟؟؟؟؟ 

حور نے ایسے معصوم منہ بنا،کر پوچھا تو زمان کو اس پر ڈھیروں پیار آیا۔ 

جی حور میرا بے بی ھے۔۔

زمان نے گود باہوں میں لیتے ہوئے جواب لیا۔۔

آپ نے کہاں سے لیا مجھے۔۔۔

میں نے اللہ سے مانگا تمہیں۔۔۔۔۔

اچھا اب آپ اللہ سے مانگے نا ایک اور بےبی جو میرے ساتھ کھیلے۔۔۔

بےبی تو تب آئے گا نا جب تم بڑی ہو گی میری ماں ۔۔

کچھ بولا آپ نے۔۔

نہیں وہ میں نے کہا آللہ بس ایک ہی بےبی دیتیں ھیں بار بار نہیں ۔۔

اچھا۔۔

حور اس کے جواب سے افسردہ ہو چکی تھی اور زمان کو اس بات کا دکھ ہوا تھا۔۔

حور بار سنو۔۔

میں نا آپ کئی ٹوائز لینے جا رہا ہوں اوکے اور آپ نے میرے بعد ماما کو بلکل تنگ نہیں کرنا اور میڈیسن بھی لینی ھے اوکے۔۔

اوکے زی۔۔

چلو سو جاؤ اب۔۔

زمان اسے باہوں میں بھر کر آنکھیں موند گیا۔۔

کچھ دیر بعد حور سو گئی۔۔

جب اسے یقین ہو گیا کی حور سو گئی تو اس نے نرمی اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔۔اور اس کی سانسیں اپنے اندر اتارنے لگا۔۔

اس کے لبوں کو چھوڑ کر وہ اس کی گردن کی طرف آیا اور وہاں اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔

گردن سے ہٹ کر وہ ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے قبضے میں کے چکا تھا۔۔۔

حور جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ میرے منہ زور جزبات اب زیادہ دیر تمہاری دوری برداشت نہیں کر سکیں گے۔۔

 وہ اس کی گردن میں منہ چھپائے سونے کے لیے لیٹ گیا۔۔۔

آنے والے وقت کا کیا پتا وہ انہیں دوبارہ یہ موقع دے یا ناں

اچھا ماما جان حور کا خیال رکھیے گا اسے کچھ نہیں ہونا چاہیے آپ کے پاس امانت ھے میری۔۔۔

زمان بیٹا بے فکر ہو کر جاؤ میں اپنی بیٹی کا خیال اپنی جان سے بھی زیادہ رکھوں گی اور جلدی واپس آ جانا تمہیں پتا ھے ناں تمہارے بغیر نہیں رہیے گی وہ۔۔

بس امی دو دن بعد آ جاؤں گا۔۔

اوکے بیٹا خیر سے جاؤ اللہ اپنی امان میں رکھے۔۔۔

اللہ حافظ۔۔

زمان گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ اسے پیچھے سے زمل کی آواز آئی۔۔

زمان۔۔

ہاں

کہاں جا رہے ہو۔

وہ میری فلائیٹ ھے دو بجے کی آئیرپورٹ کے لیے نکل رہا ہوں۔۔

اچھا واپس کب آؤ گے۔۔

پرسوں۔۔

اچھا۔۔۔۔۔۔

تم کیوں پوچھ رہی ہو 

زمل کو سوچ میں پڑے دیکھ کر زمان نے پوچھا۔۔

نہیں بس ویسے ہی 

اوکے آللہ حافظ۔۔

زمان جانی اللہ حافظ تو اپنی حور کو بولنا تھا ہو سکتا ھے واپسی پر تمہیں نا ملے۔۔ہم تو یہیں رہیں گے ہمیشہ تمہاری پناہوں میں۔۔

زمان کی گاڑی کو جاتے دیکھ کر زمل اپنا آگے کاپلان سوچ رہی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان ۔۔

جی ۔۔۔

مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی ۔۔۔

کیا۔۔۔

یہی کی میں آپ سے ناراض ہوں اور آپ کو پتا بھی نہیں۔۔

زارا نے منہ پھلا کر ارمان کو بتایا تو ارمان کو اس کی حرکت پر بھر پور پیار آیا۔۔۔

آاااااا میرا بچہ کیوں ناراض ھے۔۔

اتنے دن ہو گئے ھیں آپ مجھے بھول ہی گئے ھیں۔۔بلکل بھی بات نہیں کرتے میں نہیں بولتی آپ سے۔۔۔

اچھا آ جاؤ کریں باتیں۔۔

ارمان نے اسے کھینچ کر اپنے اوپر گرایا۔۔

اور اسے بال ہٹا کر ماتھے پر اپنے لب رکھے ۔۔۔

ارمان چھوڑے ناں کوئی آ جائے گا۔۔

نہیں کوئی بھی نہیں آئے گا دروازہ بند ھے ۔۔

ھیں کس نے کیا بند۔۔۔۔

میں نے کیا۔۔۔

ارمان۔۔۔

جی۔۔

آپ کو پتا پرسو میرے برتھڈے ھے ۔

کیا سچ میں۔۔

ہاں ناں ۔۔کیا گفٹ دیں گے آپ مجھے۔۔۔

کیا چاھئے آپ کو۔۔

وہ نا ہاسٹل میں میرے پاس ایک ٹیڈی بیئر تھا میں اسے ہگ کر ک سوتی تھی پھر مجھے بہت اچھی نیند آتی تھی وہ گم گیا۔آپ اس جیسا آیک لا دیں۔۔

اچھا میرے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت۔۔

ہاں تو آپ کونسا مجھے ہگ کر کے سوتے ھیں۔۔

ارمان کو واقعی شرمندگی ہوئی کہ وہ اسے بلکل ہی نظر انداز کر رہا تھا ۔۔

کوئی بات نہیں اب سے میں اپنی جان کو ہگ کر سویا کروں گا۔۔۔۔

پکا پرومس۔۔

جی پکا پرومس۔۔

مجھے بھوک لگی ھے زارا ۔۔

اچھا میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں ۔

نہیں میں خود کھا لوں گا بس تم میری طرف دیکھو۔۔

زارا نے اوپر منہ کیا ارمان نے اس بار کا فائیدہ اٹھاتے ہوئے ایک سیکنڈ سے پہلے اس کی ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔

وہ اس کی سانسیں اپنے اندر اتار رہا تھا

اس کی قربت ارمان شاہ کے لئے مدہوشی کا باعث بن رہی تھی۔۔

وہ تو کسی پیاسے کی طرح اپنی پیاس بجھا رہا تھا ۔۔اس کے عمل میں بہت شدت تھی جو زارا کی نازک جان کے بس کی بات نہیں تھی ۔

ارمان کو ترس آیا تو اسے آزاد کیا ۔

زارا کے ہونٹ بلکل سرخ ہو چکے تھے جیسے ابھی خون نکل آئے گا۔۔

آپ نے کھا جانے تھے میرے لپس وہ تو شکر ھے آپ کو ترس آگیا۔ گندے بچے۔۔

ہاں تو بھوک لگی ھے تو کھاوں گا ناں۔۔

تو کیا لپس کھائے گے میرے ۔۔۔

نہیں تمیں ساری کو کھا جاوں گا۔۔

زمان  کروٹ لے کر خود زارا کے اوپر آ گیا اور اس کی گردن پر لب رکھے۔۔

وہ اس کی گردن پر اپنی شدتیں لٹا رہا تھا اور زارا کی جان ہوا ہو رہی تھی۔۔۔

ارمان اٹھ جائیں ناں آپ بہت بھاری ھیں میرا سانس بند ہو رہا ھے۔۔

ابھی سے سانس بند ہو رہا ھے بعد میں کیا کرو گی کیسے سہو گی میری محبت کو۔۔۔ 

ہٹیں مجھے واشروم جانا ھے۔۔۔

بہانا بہت برا ھے میں نہیں ہٹ رہا۔۔۔

ایک بار پھر ارمان نے اس کے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا اب پتا نہیں کب جان بخشے گا بیچاری کی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کمرے میں صرف اندھیرا تھا اور اس کی سیسکیاں گونج رہیں تھیں۔۔

پتا نہیں کتنی دیر سے اسے اس قید میں رکھا گیا تھا اور کب تک رہائی ملے گی وہ نہیں جانتی تھی۔۔

وہ معصوم چڑیا نا جانے کب شکاری کا شکار بنی اور اس کی اگلی زندگی کیسے کٹے گی وہ نہیں جانتی تھی ۔۔

اس کا نازک وجود زخموں سے چور تھا۔۔۔

اور پیاس سے گلے میں کانٹے چب رہے تھے ۔

اتنے میں اسے دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔۔

اس نے اپنی آدھ کھلی آنکھوں سے دیکھا کوئی وجود اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔

زیان نے لائیٹس آن کیں تو سامنے ہی آیک سترا سالہ لڑکی بے جان سی پڑی تھی۔۔

وہ اس کی طرف بڑھا اور امبر کو لگا آج پھر اس مارا جائے گا لیکن اس سے پہلے اس نے اس انسان جو نہیں دیکھا تھا ۔۔

زیان اس کے پاس گیا تو اسے امبر کی آواز سنائی دی ۔۔۔

پانی۔۔۔

پانی دے۔۔۔۔دیں۔۔۔پل۔۔پلز۔۔

زیان نے پانی کا گلاس اٹھایا اور اسے پلایا۔۔

امبر کو تھوڑی حوش آئی تو اس کے سامنے ایک اجنبی بیٹھا تھا۔۔

پل۔۔۔پلیز آ۔۔۔۔۔اپ ۔۔۔مجھے۔۔۔۔مت ۔۔۔مارنا۔۔۔۔۔وہ کل۔۔۔۔۔انکل۔۔۔۔نے مجھے۔۔۔۔بہت ۔۔۔مارا۔۔تھا۔۔۔۔بلکہ روز۔۔۔ہی کوئی ناں کوئی مارتا ھے۔۔۔

زیان کے پیروں تلے زمین نکلی جب اس نے امبر کو پہچانا تھا۔۔۔

امبر زیان کو ایک شاپنگ مال میں ملی تھی وہیں وہ اپنے ساتھ ہی زیان کا چین سب لے جا چکی تھی ۔۔مگر کچھ عرصے بعد وہ غائب ہو گئی۔۔زیان نے اسے بہت ڈھونڈا مگر اس کا پتا نا چلا 

مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ اس کے ہی گھر اسی کے باپ کی قید میں ہو گی۔۔۔

امبر تم یہاں کیسے۔۔۔۔

آپ ۔۔۔مجھے۔۔۔جانتے۔۔۔۔ھیں۔۔؟؟؟؟

ہاں تمہیں یاد نہیں ہم مال میں ملے تھے۔۔۔۔

ہاں۔۔۔یاد۔۔۔آگیا۔۔۔

تم یہاں کیسے آئی اور یہ کیا حالت ھے تمہاری۔۔۔

وہ ایک۔۔۔انکل نے ۔۔۔میرے ماما۔۔۔۔بابا۔۔۔کو مار دیا۔۔اور مجھے اٹھا ۔۔۔۔کر یہاں۔۔۔لۓ آئے۔۔

آپ۔۔۔پلیز۔۔مجھے ۔۔۔یہاں ۔۔۔سے لے ۔۔جائیں۔۔وہ مجھے ۔۔۔سب بہت ۔۔۔۔مارتے ھیں۔۔۔۔

تم نے اس انسان جو دیکھا جس نے تمہارے ماں باپ کو مارا۔۔۔۔

جی ۔۔دیکھا تھا اس کے ہاتھ پر ا۔۔۔۔ایک۔۔۔نشان تھا۔۔۔

زیان کو پہلی فرصت میں ملک کیا خیال آیا ۔۔

اس نے اپنے فون میں سے اپنے باپ کی تصویر امبر کو دیکھائی۔۔

یہی تھا وہ کیا۔۔۔۔

جی۔۔۔جی۔۔۔یہی تھا ۔۔۔۔اس نے مار دیا ۔۔۔میرے بابا۔۔۔۔کو ۔۔۔مار دیا۔۔۔۔

وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔۔۔۔

اچھا چپ دیکھو ہمیں یہاں سے نکلنا ھے۔۔۔اچھا چپ رہنا۔۔

امبر کی حالت چلنے کے قابل نا تھی اس لیے زیان نے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور باہر کی طرف چل دیا۔۔۔

گھر میں اس وقت کوئی نہیں۔ تھا اور باہر بھی گاڑز شائید کہیں گے ہوئے تھے۔۔۔

اس نے سب کی نظروں سے بچتے ہوئے امبر کو گاڑی میں لٹایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا

گاڑی ملک ہاؤس سے نکل چکی تھی اور یہیں سے شروع ہوئی تھی ملک کی بربادی

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آپا یہ دیکھیں کیسا سیٹ ھے میں روح اور حور کو دوں گی ایک جیسا ان کی رخصتی پر۔۔

عمارہ تم ماں ہو ان کی تم ان کو جو بھی دو گی سب اچھا ہو گا۔۔

عافیہ زمان کب واپس آئے گا۔۔حور بہت زد کر رہی تھی بہت مشکل سے سوئی ھے۔۔

بس عظمیٰ آپا رات تک آ جائے گا۔۔

اچھا چلو عمارہ یہ سب سمیٹو اور کھانے کی تیاری کرتے ھیں۔۔۔

واہ مامی یہ کس کی لیے۔۔

بیٹا یہ حور کا ھے اسکی شادی پر دوں گی اسے۔۔

نہیں یہ تو میں لوں گی مجھے اچھا لگا یہ سیٹ 

نہیں بیٹا یہ عمارہ نے حور کے لیے بنایا ھے آپ کو اور دلا لوں گی میں۔۔

نہیں عافیہ ممانی میں یہیں لوں گی۔۔

تمہیں سمجھ نہیں آ رہی زمل یہ تم نہیں لے سکتی۔۔

عظمیٰ کیوں ڈانٹ رہی ہو بچی کو ایک سیٹ ہی تو ھے۔۔

تحریم یہ حور کا ھے اسکی ماں نے بنوایا ھے اس پر صرف حور کا حق ھے۔۔

عظمیٰ بیگم نے صرف پر زور دے کر اچھا خاصا غصے سے سنایا تھا تحریم کو۔۔

تو کیا ہوا عمارہ اور بنوا کے گی اپنی بیٹی کے لئے یہ تو صرف میرے بیٹی پر سجے گا ۔۔

اچھا چھوڑے آپا آپ دیں دیں یہ زمل کو میں حور کے لیے اور بنوا لوں گی۔۔۔

زمل اور اس کی ماں سیٹ کے کر جا چکی تھیں۔۔

یہ تحریم اور اس کی بیٹی آجکل زیادہ ہی چڑھائی کر رہی ہم پر ۔۔

جی عظمیٰ آپ ایسا ہی ھے۔۔

عمارہ کو بہت دکھ ہوا تھا کیون کہ وہ سیٹ آزر شاہ نے بنوایا تھا حور کی پیدائش پر۔۔اس لئے وہ چپ بیٹھیں تھیں۔۔

عمارہ ٹینشن نہیں لو میں ولید سے کیوں گی وہ جائے گا جیولرز کے پاس آخر بھائی ھے حور کا۔۔

بھائی کے نام پر عمارہ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے اور کچھ خیال بھی ۔۔۔

ابھی تو صرف سیٹ چھینا ھے ناں کسی دن تم سے تمہارا سب چھین لوں گی ۔۔بلکہ تمہارہ کیا میرا ہی تو ھے سب جس پر تم ڈاکہ ڈال کر بیٹھی ہو۔ ۔۔

کیا کہ رہی ھیں زمل آپو چھوڑیں میرا بازو مجھے چاکلیٹ لینا ھے۔۔

چاکلیٹ کی جگہ زہر کھا لو اور جان چھوڑ دو زمان کی ۔

کیا کہاں ھیں زمان وہ آ گئے مجھے ملے بھی نہیں۔۔زمان زمان۔۔۔زمان کہاں ھیں آپ۔۔

آےےے چپ کر اب 

زبان سے زمان کا نام لیا تو دیکھ لینا کاٹ کر ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔۔

زمل تو حور کو دھکا دے کر جا چکی تھی لیکن زمل کا بازو دروازے کے ہینڈل کے ساتھ لگا تو درد کی زبردست لہر دوڑی اس کی جسم سے۔۔۔

آہہہ

بہت گندی ھیں یہ زمان کو شکائیت لگاؤں گی۔ 

زی جلدی آ جائیں آپ ۔۔۔۔

حور بیٹا یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو ۔۔کیا ہوا۔۔

بڑی ماما وہ ۔۔زمل۔۔

آ ممانی جان کچھ نہیں ہوا ایسے یہ گر گئی تھی دیکھا میں نے۔۔

اچھا چلو روح بیٹا بہن کو اندر لے کر جاؤ۔۔

جی ممی۔۔

آج تو یہ حور کی بچی نے بھانڈہ پھوڑ دینا تھا وہ تو شکر ھے میں آ گئی۔۔۔

کچھ کرنا پڑے گا اس کا جلد ہی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یہ ہم کہاں۔۔۔۔جا۔  رہیں۔۔۔ھیں ۔۔

تمہیں محفوظ جگہ چھوڑنے جا رہا ہوں۔۔

فکر نہیں کرو وہ تم تک نہیں پہنچے گے۔۔

ؤہ اب۔۔۔آپ کو ماریں گے۔۔آپ ۔۔مجھے۔۔وہہاں سے ۔۔۔نکال ۔۔لائے نا۔۔۔ اس لئے۔۔

زیان نے اس معصوم لڑکی کی طرف غور سے دیکھا جو سامنے دیکھتے ہوئے انگلیاں مڑوڑ رہی تھی۔۔

تمہیں میری فکر ہو رہی ھے یا اپنا ڈر لگ رہا ھے۔۔

نہیں۔۔۔آپ کا۔۔۔۔۔آپ کی۔۔فکر ۔۔ہو رہی ھے ۔۔وہ آپ۔۔کو۔   مار۔۔۔دیں گے۔۔۔

آپ میری ۔۔وجہ۔۔سے۔۔۔مارے جائیں۔۔گے۔۔

کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ مجھے ہاتھ بھی لگا سکیں۔۔۔میں زیان ہوں ۔۔امبر نہیں جو کسی کی قید میں  چپ کر کے بیٹھی رہے۔۔

تو کیا ۔۔۔میں وہاں ڈانس کرتی ۔۔۔۔ہاتھ۔۔پاوں باندھے ۔۔۔۔ہوئے تھے میرے۔۔۔آپ ہوتے ۔۔۔تو آپ۔۔۔بھی ۔۔۔روتے۔۔

اچھا چلو اترو آ گیا گھر۔۔۔

یہاں تو بہت اندھیرا..

آآآآپ۔۔۔بھی۔۔۔مجھے۔۔اغوا کر ۔۔۔لیں گیں۔۔کیا۔۔

بیوقوف اگر اغوا ہی کرنا ہوتا تو ویہاں سے کیوں لاتا۔۔

لیکن اگر تم زیادہ بولی تو میں ایسا سوچ بھی سکتا ہوں۔۔۔۔چلو اب۔۔۔

زیان امبر کو لے کر اپنے فارم ہاؤس آیا تھا جس کا ملک کو بھی نہیں پتا تھا وہ امبر کو محفوظ کر کے اپنے باپ کے متعلق تفتیش کرنا چاہتا تھا۔۔۔

یہاں مکمل اندھیرا تھا جیسے کبھی روشنی کا گزر ہوا ہی نا ہو۔۔۔

مجھے ڈر لگ رہا ھے۔۔

امبر زیان کے بازو کے ساتھ چپک گئی تھی کیونکہ اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ھے۔۔

میں ساتھ ہوں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔

مجھے پھر بھی۔۔۔لگ رہا۔۔ھے۔۔۔

امبر چپ کرو۔۔۔

پتا نہیں میرا اب کیا ہو گا۔۔

امبر نے منہ میں بولا تھا لیکن زیان کے کانوں تک پہنچ گیا تھا۔۔۔

تمہارا وہ ہو گا جو تم نے سوچا بھی نہیں ہوگا مس امبر۔۔۔زیان نے اندھیرے میں اس کے وجود کو دیکھ کر سوچا ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

وہ کھڑکی پھلانگ کر کمرے میں آیا تھا ۔

کمرے میں ہلکی لیمپ کی روشنی میں اس کی فیری کسی ننھے بچے کی طرح تکیے کو ہگ کر کے سو رہی تھی۔۔۔

اس دور سے دیکھ کر دل نے قریب سے دیکھنے اور محسوس کرنے کی کوشش کی۔۔

وہ بے اختیار سا اسے کے چہرے پر جھک گیا۔۔۔

اس کے نرم وملائم ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔

اپنے ہونٹوں پر کسی کا نرم گرم لمس پا کر اس کی آنکھ کھلی۔۔۔۔

زمان۔۔۔

یہ آواز زمان کے منہ میں ہی دب چکی تھی۔۔۔

خود کو اچھے سے سیراب کر کے زمان پیچھے ہٹا اور حور کے ماتھے پر لب رکھے ۔۔۔

حور جلدی سے زمان کے گلے لگ گئی ۔۔۔

زمان آپ آ گئے۔۔

آپ کو پتا میں نے آپ کو کتنا مس کیا۔۔۔

میرا بلکل بھی دل نہیں لگ رہا تھا ۔۔

مجھے سب نے ڈانٹا تھا دادا جان ماما نے بھی۔۔۔

زمان تو اس کے جھوٹ پر حیران رہ گیا تھا کیوں کے دادا جان تو زمان کے ساتھ تھے ناں۔۔لیکن اسے خوشی تھی کہ اس کی فیری نے اسے مس کیا

زمان۔۔

اچانک اس کی آواز بھر آئی تھی ۔

کیا ہو حور۔۔

زمان آپ نے تو کہا تھا میں آپکا بے بی آپ نے مجھے اللہ سے مانگا تھا پھر آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گئے 

آپ کو پتا زمل نے مجھے دھکا دیا تھا اور میرے بازو پر چوٹ آئی ھے یہ دیکھیں۔۔

وہ اپنی شرٹ اٹھا کر زمان کو اپنی چوٹ دیکھا رہی تھی۔۔

اور زمان کے اندر طوفان اٹھ رہیے تھے کہ اس کی زندگی کو کسی نے چھوا تھا۔۔جس کو صرف حور کی قربت نے قابو کیا ہوا تھا۔۔

میری جان بس چپ میں صبح پوچھو گا کہ کس نے میرے بےبی کو ڈانٹا تھا۔۔

زمان اسے پر سکون کرنے کی کوشش کی کر رہا تھا 

وہ تو اسے سرپرائز دینے والا تھا آج لیکن وہ خود سرپرائز ہو گیا تھا بہت سی باتیں اس کے دماغ میں آرہی تھیں حور کے متعلق۔۔

happy birthday sweety

زمان نے اس کی کان کی لو چوم کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔

Happy birthday meri jan مجھے امید ھے اگلی سالگرہ ہم اپنی زندگی کی شروعات کے طور پر منائیں گے۔۔۔

حور اس کی آغوش میں سو چکی تھی۔۔

زمان نے اسے بیڈ پر لٹایا اور اس کے گلے میں اپنے نام کا لاکٹ پہنایا۔۔اور جھک کر اس پر لب رکھے۔۔

اس کا دل مزید گستاخیاں کرنے پر اکسا رہا تھا مگر وہ خود کو روکے ہوا تھا مزید کچھ وقت کے لیے۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

روح سوئی ہوئی تھی کے اسے اپنے اوپر بوجھ سا محسوس ہوا 

اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تو اس کی آنکھوں پر کسی نے کالا کپڑا باندھا ہوا تھا۔۔

کوئی اس کے نازک وجود پر مکمل قابض تھا۔۔۔

کککک۔۔۔۔ککو۔۔کون۔۔۔۔ھے۔۔۔

کوئی جواب نہیں آیا تھا۔۔

کسی کی گرم سانسیں اس کا چہرہ جھلسا رہیں تھیں۔۔۔

کون۔۔۔۔۔ھیں۔۔۔۔

ولیید۔۔۔۔کہاں۔۔ھیں۔۔۔آپ۔۔

اسے پھر جواب خاموشی میں ہی ملا۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ کچھ بولتی اس کے اوپر سے بوجھ ہٹا اور اس نے اپنے آپ کو کسی کے بازوؤں میں محسوس کیا۔۔

اسے خوشبو تو ولی کی ہی آ رہی تھی لیکن اس کے ننھے دماغ میں یہ تھا کہ ولید ایسا کیوں کرے گا۔۔

ولید نے اسے نیچے کھڑا کیا اور اس کی آنکھوں سے پٹی ہٹائی۔۔۔

پورے کمرہ غباروں اور پھولوں سے سجایا ہوا تھا اور کمرے کے درمیان ایک کیک پڑا تھا ۔۔

ابھی روح کمرہ دیکھ رہی تھی کہ ولید نے اسے پیچھے سے ہگ کیا۔۔

happy birthday my life...

اس کے کان کی لو کو دانتوں میں دبا کر اس کی کان میں سرگوشی کی۔۔

روح کو بلکل ایک خواب لگ رہا تھا یہ۔۔۔

ولی یہ سچی ھے ۔۔

نہیں خواب ھے ۔

مجھے بھی لگ رہا ھے۔۔

اچھا خواب سے باہر نکالوں تمہیں۔۔

نہیں اتنا اچھا تو خواب ھے۔۔

او پاگل حقیقت ہے یہ۔۔۔

ولید نے روح کی گردن پر لب رکھے تو روح کو احساس ہوا کہ وہ ولی کے کتنی پاس ھے۔۔

ولی یہ سب آپ نے کیا ۔۔۔

ہاں ۔

سب میرے لئے کیا۔۔

ہاں ۔۔۔

مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔

اب مجھے تھینکس تو بولو۔۔

تھینکس۔۔ 

بس ایسے روکھا تھینکس 

اور کیسے۔۔

ایسے

ولید نے اس کی گردن میں منہ چھپا کر اس کی گردن کو چوما یہاں تک کی روح کی گردن بلکل سرخ ہو گئ۔۔۔

ولی اب کیا گردن کھائیں گے چھوڑیں مجھے کیک کھانا ھے۔۔

اچھا آؤ کھاتے ھیں۔۔پھر گفٹ بھی دو۔ گا۔۔

ولید روح کا ہاتھ پکڑ کر اسے ٹیبل تک لے کر آیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر کیک کاٹا۔۔۔

کیک کا ایک ٹکڑا اٹھا کر روح کو کھلایا۔

اب میری باری چلو کھلاؤ مجھے۔۔۔

آپ نیچے ہوں ناں پھر ہی آپ کے منہ میں کیک ڈالوں گی۔۔

نہیں مجھے ہاتھ سے نہیں کھانا۔۔۔

پھر کیسے کھانا ھے۔۔

ہونٹوں سے۔۔

نہیں ولید پہلے ہی میری گردن پر جلن ہو رہی ھے اب آپ میرے لپس بھی کھا جایں گی۔۔

تو میں نے تمہیں کیک کھلایا اب تم مجھے کھلاؤ۔۔۔

ہاں تو کیک کھائے ناں پھر۔۔

ہاں کیک ہی کھاؤں گا لیکن اپنی پسند کا۔۔۔۔۔

ولید۔۔۔

ولید نے روح کو پکڑ کر بیڈ پر بیٹھایا اور خود اسے باہوں میں لے کر اس کی ساتھ ہی بیٹھ

ولی نہیں پلیز۔۔

میں تو کھاوں گا اپنے بےبی کو گیا۔۔

ولید پلیز ۔۔

روح چپ۔۔

ولید نے نرمی سے روح کے ہونٹوں پر اپنے لب رکھے

وہ اس کے ہونٹوں سے اپنی تشنگی مٹانے میں مصروف تھا اس بات سے بے خبر کہ کل کیا ہونے والا ھے

ہمت کیسے ہوئی تمہاری حور کو ہاتھ لگانے کی۔۔

مم۔۔مم۔۔۔میں نے کیا ۔۔۔۔۔کیا۔۔۔

دھکا کیوں دیا تھا اسے چوٹ لگی ھے اسےےے ۔

جانتی ہو زمان شاہ کی زندگی کو ہاتھ لگانے والے کا انجام کیا ہوتا ھے۔۔

میں نے ۔۔۔نہیں دیا دھکا اسے۔۔۔

اووو زبان بند رکھو سب جانتا ہوں میں۔۔۔

اور ہاں ایک بات دعا کرو کہ جو میں کرنے جا رہا ہوں اس میں تمہارا کوئی لنک ناں ہو ورنہ انجام دیکھ لینا مس زمل۔۔۔

کک۔۔ککہاں ۔۔۔جا رہے۔۔ہو۔۔۔تم۔۔۔

چل جائے گا پتہ۔۔۔

زمان اسے وہیں چھوڑ کر جا چکا تھا مگر ہائے یہ قسمت ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان بھائی ہم سب نے شاپنگ کرنی ھیں آپ چلیں ہمارے ساتھ۔۔

ولید سے کہو نا روح۔۔

وہ تو چلے گئے کہیں۔۔

امان کہا ھیں۔۔

وہ بھی دفترھیں۔۔

اچھا چلو۔۔

کس کس نے جانا ھے۔۔

میں نے زارا اور حیا۔۔

اور شاپنگ کس بات کی کرنی ھے

وہ امان بھائی کا نکاح ھے ناں اس لیے۔۔۔

اچھاااااااا۔۔۔

جیییی۔۔۔

چلیں اب ارمان۔۔

جی جان ارمان۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ہیلو۔۔۔

کون۔۔

زمل۔۔

ہاں بولو ۔

تمہارا شکار گھر سے نکل چکا ھے شاپنگ مال کی طرف جا رہیں ھیں وہ لوگ اب آگے تمہارہ کام ھے پورا کرنا 

یاد رکھنا میں زمل ہوں آگر مجھے میرا ٹارگٹ نا ملا تو میں تمہیں بھی نہیں چھوڑوں گی۔۔

آےےے لڑکی ملک کو دھمکی دینا بند کر جانتی نہیں مجھے تو کچی کلی کو مسلنے میں میں ٹائم نہیں لگاتا۔۔۔

چلو وقت آنے پر دیکھیں گے کون کسے مسلتا ھے ابھی تو تم حور اور روح کا کام تمام کرو۔۔۔

جابر یہ فون بند کر اور گاڑی نکال۔۔

آج پھر سولہ سال پہلے والا دن آئے گا آج پھر میں آزر کی عزت کچلوں گا ۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔

یہ زیان کہاں ھے اتنے دن سے نظر نہیں آیا۔۔

پتا نہیں ملک صاحب کہاں غائب ھیں وہ۔۔

چلو اسے کال کر کے بلاؤ گھر۔۔۔

زمل نے ارمان لوگوں کو شاپنگ پر جاتے دیکھ لیا تھا وہ سمجھ رہی تھی حور بھی ان لوگوں کے ساتھ گئی ھے۔۔

مگر افسوس حور اس بار بچ گئی اور اس کا خمیاضا اس کی بہن بھگتے گی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ہاں جابر کیا خبر ھے۔۔

بھائی وہ ملک صاحب کسی آزر شاہ کی عزت کو کچلنے کی بات کر رہے تھے۔۔

کہاں ھیں وہ اس وقت ۔۔

وہ نکل گئے ھیں گھر سے شاپنگ مال کی طرف گئے ھیں۔۔

چلو پھر اوکے ۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

میں تو لہنگا لوں گی اپنا بھی اور حور کے لئے بھی۔۔۔

میں تو امان کے ساتھ شاپنگ کروں گی جب وہ آئیں گے۔۔۔

تو تم آج کیا کرنے آئی ہو ہمارے ساتھ۔۔

وہ تو میں بس ویسے ہی آئی ہوں۔۔امان نے کہا تھا کہ میں خود کا کر دوں گا ڈریس۔۔

اب میں خود کیسے لوں۔بھلا وہ تو ناراض ہو جائیں گے۔۔۔۔

حیا کی شرمانے کی ایکٹنگ سے گاڑی میں بھر پور لہنگا گونجا تھا۔۔۔

چلو لیڈیز اب بس کرو اور چلو نیچے شاپنگ کر کے مجھے کال کر دینا مجھے ایک ضروری کام سے جانا ھے ۔۔

اوکے۔۔۔

اوکے ارمان بھائی میں کر دوں گی کال ۔۔

اوکے خیال رکھنا آیک دوسرے کا۔۔۔

زارا گاڑی سے نکلنے لگی تو ارمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔۔۔

جی۔۔

بلیک ڈریس لینا مجھے بہت پسند ھے۔۔۔

اچھا۔۔۔۔

اچھا پاس تو آؤ ۔۔۔

کیوں۔۔

میٹھا کھانا ھے۔۔۔۔ 

ارمان ہم پبلک پلیس میں ھیں۔۔۔

کوئی بات نہیں پاس آؤ جلدی۔۔۔

ارمان پلیز۔۔

ارمان نے زارا کا بازو کھینچ کر اسے خود سے قریب کیا اور نرمی سے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے۔۔

اس کے نرم گرم لمس سے زارا کی جان ہوا ہوئی تھی۔۔۔۔

اگلے ہی لمحے وہ اس سے دور ہوئی۔۔

ارمان آپ بہت گندے ھیں۔۔

اچھا گھر آ کے بتانا اب جاؤ ۔۔۔

اللہ حافظ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان حیا زارا اور روح کو چھوڑ کر دفتر چلا گیا تھا۔۔

ابھی وہ لوگ شاپنگ کر رہیے تھے کہ روح کو محسوس ہوا کہ جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو ۔۔۔

حیا۔۔۔

ہوں۔۔

واپس چلیں۔۔مجھء ڈر لگ رہا ھے۔۔

کچھ نہیں ہوتا روح تمہیں ولید بھائی نے زیادہ ہی ڈرپوک بنا دیا ھے۔۔۔

حیا اور زارا اپنے ڈریس دیکھنے لگ گئی لیکن روح کو ابھی بھی ڈر لگ رہا تھا کسی کی نظریں اپنی پشت پر محسوس ہو رہی تھیں۔۔۔

زارا چلو یہاں سے۔۔

کیا ہوا روح۔۔

بس چلو۔۔کوئی ہمارہ پیچھا کر رہا ھے۔۔

تمہیں کیسے پتا۔۔۔

مجھے محسوس ہوا ھے۔۔چلو پلیز یہاں سے۔۔

اچھا چلو۔۔۔چلتے ھیں۔۔

زارا ایک منٹ میرا سوٹ شاپ میں ہی رہ گیا تم اور روح یہاں کھڑے ہو میں آتی ہوں۔۔۔

اچھا جلدی آنا پلیز۔۔

تم ارمان کو کال کرو نا جلدی آئے وہ۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زارا بار بار ارمان کو کال کر رہی تھی لیکن ارمان کا نمبر بند جا رہا تھا۔۔اور حیا بھی ابھی تک نہیں آئی تھی۔۔

اور ادھر سے ملک کے بندے بھی ان کا تعاقب کر رہے تھے۔۔۔

ہاں جابر۔۔۔

ملک صاحب ایک لڑکی ھے کوئی اس کی ہم شکل نہیں اور اسے دیکھ کر نہیں لگتا کہ اسے کوئی بیماری ہو گی۔۔

مطلب اس کی ایک بیٹی آئی ھے۔۔ساتھ کون ھے۔۔

جی وہ دو لڑکیاں اور ھیں۔دو پارکنگ ایریا میں ھیں اور ایک اندر گئی ھے۔۔

بس پھر ان دونوں کو اٹھا لاو۔۔

اور اگر نا لا سکے تو مار دینا۔۔

جو حکم صاحب۔۔

بس آزر تھوڑا انتظار اور پھر تمہاری بیٹی تمہارے پاس آنے والی ھے ۔۔

وہ خباثت سے ہنسا۔۔۔

دو آدمی زارا اور حور کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔

اور وہ دونوں اس بات سے انجان تھیں۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

حور پتر۔۔۔

جی ممی۔۔

آجا بچے تیرے سر میں تیل ڈالوں۔۔

نہیں ممی بہت گندہ لگتا ھے مجھے نہیں لگوانا تیل۔۔

بیٹا اس سے سر درد کو آرام ملتا ھے بیٹا لگوا لو ۔۔

پھر چاکلیٹ دوں گی اپنے پتر کو۔۔

نہیں لگانا مجھے۔۔ممی زی کو بلا دیں پلیز۔۔

پتر زمان تو کہیں گیا ہوا ھے۔۔آجاے گا تھوڑی دیر میں۔۔

لیکن زی نے میرے ساتھ پرومس کیا تھا کہ وہ میرے ساتھ کھیلیں گے۔۔اور مجھے سلائیں گے۔۔۔

تو آجا پتر میں سلاؤں تجھے۔۔۔۔

نہیں ممی بلا دیں ناں زی کو۔۔میرا سر درد کر رہا ھے۔۔۔

اچھا پتر بلاتی ہوں۔۔

 عافیہ بیگم کو اپنے بیٹے پر بہت پیار آ رہا تھا کہ اس نے حور کو اپنا اتنا عادی بنا لیا تھا کہ وہ اسے ہر وقت اپنے پاس رکھنا چاہتی تھی۔۔۔

بس پتر جلدی سے ٹھیک ہو جا میں بھی دیکھو اپنے بیٹے کو خوش۔۔

ممی ۔۔۔

ہاں پتر۔۔

روح کہاں ھے۔۔

روح۔۔

پتر کیا ہوا۔۔۔

روح کہاں ھیں۔۔

بیٹا روح ارمان کے ساتھ گئی ھے۔۔۔

نہیں روح ۔۔۔۔روحححححح۔۔

وہ روح کا نام لے کر چیختی ہوئی باہر کو بھاگی۔۔۔

روح ۔۔۔روح کہاں ھے۔۔

دادا جان روح کہاں ممی ۔۔ممی روح کو کچھ ہو گیا ھےےے۔۔میرے دل کو کچھ ہو رہا ہے۔۔

نہیں روح۔۔روح کہاں ھےےے دادو روح کہاں ھےےے 

بلائیں روح کوووو۔۔۔

وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی۔۔۔۔

اس کی چیخیں سن کر سب گھر والے اکھٹے ہو چکے تھے۔۔

پتر وہ ارمان کے ساتھ گئی ھے۔۔کچھ نہج ہوا اسے ۔۔

نہیں دادو میری روح کو بلا دیں۔۔

پتر آ رہی ہو گی وہ تو رک میں فون کرتا ہوں اسے۔۔

دادا جان مجھے لگا روح کو کچھ ہو گیا۔ 

میں نے خون دیکھا اس کے ہاتھوں پر۔۔۔کوئی نوچ رہا تھا اس کا چہرہ۔۔۔

نہیں پتر ایسی باتیں نا کر ۔۔آپ کریں ناں ارمان کو فون۔۔

میں کر رہا ہو لیکن نمبر بند ھے۔۔

کوئی میری بچی کا پتا کرے میرا دل گھبرا رہا ھےے۔۔

اماں حوصلہ کریں کچھ نہیں ہو گا۔۔

نہیں عمارہ تیری بیٹیاں جڑواں ھیں ایک کو تکلیف ہو تو دوسری کو پتا چل جاتا ھےے۔۔تو دعا کر سب خیریت ہو۔۔۔

اہ۔وووو تو مطلب حور نہیں گئی۔۔تو کیا اب حور کی جگہ روح مرے گی۔۔

چلو مجھے کیا جو بھی ہو میرا مقصد تو صرف انہیں تکلیف پہنچانا ھے ۔۔

وہ خباثت سے ہنستی گھر سے نکل چکی تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️

دو آدمیوں نے زارا اور روح کو پکڑ کر گاڑی میں ڈالنے کی کوشش کی تو پیچھے سے حیا دوڑی آئی۔۔۔۔

روحححححح۔۔۔بچو۔۔۔

کککون۔۔۔کککون ھیں۔آپ چھوڑیں۔۔۔مجھے۔۔۔

سکون سے گاڑی میں بیٹھو ورنہ بہت برا ہو گا۔۔۔

نہیں ۔۔۔۔میں نہیں۔۔۔بیٹھوں گی ۔۔چھوڑیں۔۔۔مجھے۔۔۔

بیٹھ جا لڑکی۔۔۔

تم بھاگ جاؤ زارا۔۔حیا۔۔جاو۔۔

نہیں میں نہیں جاؤں گی تمہیں چھوڑ کر۔۔

چھوڑ میری بہن کو۔۔

اس آدمی نے حیا اور زارا کو دھکا دے کر پیچھے گرایا۔۔

اس سے پہلے کی وہ روح کو گاڑی میں گرتا ایک نقاب پوش نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کی۔۔

وہ آدمی روح کو وہہں چھوڑ کر اپنے بچا ؤ کے لئیے بھاگے۔۔۔

روح وہیں کھڑی تھی۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ نقاب پوش روح تک پہنچتا گولی روح کے پیٹ سے آر پار ہو چکی تھی۔۔

یہ کیا ادھر ولید کی سانسیں تمہیں اور ادھر روح کی۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ زمین پر گرتی کسسی اپنے کے حصار میں تھی۔۔۔

ولید۔۔۔۔آ جائیں۔۔نہیں تو ۔۔۔کبھی نہیں۔۔آؤں گی۔۔میں۔۔۔

سانسیں تھم چکیں تھیں وہاں موجود سبھی نفوس کی۔۔۔

ادھر آفس میں ولید کی سانسیں رک چکیں تھی ۔۔۔

ولید کے پاس تو اپنا کوئی نا تھا سوائے آفس کے سٹاف کے۔۔

لیکن روح کسی اپنے بہت خاص کے پاس تھی۔۔۔

دو ایمبولینس دوڑ پر دوڑ رہیں تھیں ایک روح کو کے کر جسے گولی لگی تھی ۔۔۔

اور ایک ولید کو لے کر جیسے ہرٹ اٹیک ہوا تھا۔۔

اور گھر میں ماتم بچھ چکا تھا کیونکہ حور بے حوش ہو چکی تھی ۔۔

ایک اور ایمبولینس نکلی تھی شاہ ولا سے اس حور کو لے کر جس کا دل اپنی بہن کے لئے پھٹ گیا تھا۔۔۔

اب وقت کو خبر آگے کیا ہو گا ۔۔۔

کون بچے گا ۔۔

کون جئے۔۔گا۔۔

کون قربانی دے گا کسی اپنے کے لئے۔۔۔

کچھ لوگ ایسے ہوتے ھیں جو اپنی آنا کی خاطر دوسروں کی خوشیاں برباد کر دیتے ھیں اور ایسا ہی کچھ زمل نے کیا تھا اس بات سے بے فکر ہو کر کے اس کا انجام کیا ہو گا۔۔۔

آور کچھ بیچھڑے حفاظت کریں گے اپنی عزتوں کی۔۔۔۔

کیا کوئی ماں کھوئے کی اپنا اکلوتا بیٹا۔۔

یا ایک بیوی کھوئے کی اپنی جڑواں بیٹیاں۔۔۔

آج سولہ سال بعد شاہ پیلیس میں ایک ایسا ہی دھماکہ ہوا تھا جو سولہ سال پہلے سب کی زندگیاں برباد کر چکا تھا 

بس فرق صرف اتنا تھا۔۔تب برباد کرنے والے پرائے تھے لیکن اب کی بار اس میں اپنوں کا ہاتھ تھا۔۔

شاہ پیلس میں ماتم کا سماں تھا۔۔۔

گھر کی بیٹیاں اور بیٹے جب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوں گے تو طوفان تو آئے گا ہی۔۔۔۔

ابھی گھر میں صرف زارا اور ولید کا پتا تھا ۔۔

ولید کے آفس سے کال آ چکی تھی۔۔۔جبکہ روح کی طرف سے سب بے خبر تھے۔۔

سب ہاسپٹل جا چکے تھے سوائے زمل اور اس کی ماں کے۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ڈاکٹر صاحب میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں میرے بچوں کو بچا لیں ۔۔دیکھیں میری حور کو بچا لیں ورنہ میرا زمان مر جائے گااا۔۔۔

اور ولید۔۔روح کی تو سانسیں ہی اس میں ھیں ۔

میں ہاتھ جوڑتی ہوں بچا لیں میرے بچوں کو بچا لیں۔۔۔

دیکھیں مسز شجاعت حور کی کنڈیشن بہت خراب ھے اسے کوئی بہت بڑا دھچکا لگا ھے جس سے اس کے دماغ کی شریان پھٹ چکی ھے۔۔

اور آپ جانتی ھی اسے پہلے بھی دماغ کا مسئلہ تھا۔۔

تو اس حالت میں اس کا آپریشن کرنا اور آپریشن کے بعد اس کا سروائو کرنا بہت ہی مشکل ھے۔بلکہ ناممکن ھے۔۔

آپ سمجھ لیں کہ 100 میں سے 1٪چانس ھے اس کے بچنے کا۔۔

اور آپ کا پوتا اس کے لئیے آپ دعا کریں جوان ھے انشاللہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا ۔،۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ہیلو۔۔

کون۔۔

دادا جان میں زارا۔۔

کیا ہوا زارا بیٹا رو کیوں رہی ہو۔۔

دادا جان روح۔۔

کیا ہوا روح کو۔۔

روح کے نام پر سب دادا جان کے گرد اکٹھے ہوئے۔۔

عمارہ بیگم نے جلدی سے شجاعت شاہ سے فون چھینا۔۔

کیا ہوا میری روح کو۔۔۔۔

آنٹی۔۔۔روح۔۔۔

بولو۔۔۔زارا۔۔۔میری۔۔۔بچی۔۔

آنٹی روح کو گولی لگی ھے۔۔۔۔

اور ۔۔۔ہم ہاسپٹل آ رہیں ۔۔۔ھیں۔۔۔

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

نہیں میری روح کو کچھ نہیں ہو گا۔۔کچھ نہج ہو گا۔۔ ہاں وہ ٹھیک ہو گی ۔۔۔نہیں ایسا نہیں کرسکتے اللہ میری دونوں پریاں نہیں لے سکتے۔۔۔میرے سےے۔۔۔۔

کیا ہوا عمارہ پتر کیوں چلا رہی ھے۔۔کیا ہوا روح کو

۔۔۔

میری۔۔۔بچی۔۔کو 

۔۔۔گولی ۔۔لگ گئی۔۔اماں۔۔

ولید کی روح کو گولی لگ گئی۔۔۔

کیا بول رہی ہو۔۔

کیا ہو گیا یہ ہمارے ساتھ۔۔۔۔

عمارہ تم جانتی  ہو ناں۔۔۔ولید کو۔۔۔اب میرا بیٹا کیسے بچے۔۔۔گا جب اس کی روح کو ہی کچھ ہو گیا۔۔۔

نہیں نہیں ۔۔۔ایسا نہی۔ ہو سکتا میرے بچوں کو کچھ نہیں ہو گا۔۔۔۔۔زمان کہاں ھے۔۔۔

جلدی بلاؤ اسے میرے۔۔۔۔اللہ کیا ہو گیا ھے ہمارے ساتھ۔۔۔

عمارہ بیگم کے بعد اب عظمی بیگم رو کر پاگل ہو رہیں تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں اگر روح کو کچھ ہو گیا تو ولید مر جائے گا۔۔۔

شجاعت شاہ  نے زمان کو کال کر کے ہاسپٹل آنے کا کہا مگر صرف ولید کا بتایا اگر حور کا بتاتے تو شائید زمان ہاسپٹل بھی نا پہنچ پاتا۔۔۔

کچھ لوگ روح کو سٹریچر پر ڈال کر ہاسپٹل میں لا رہے تھے۔۔جب عافیہ بیگم کی نظر اس کے خون سے لت پت وجود پر پڑی۔۔۔

روح۔۔۔

وہ اس کی جانب لپکی تو سب کا دھیان اس طرف گیا۔۔

کیا ہوا میری بچی کو ۔کس نے کیا یہ۔۔۔

دیکھو میرا پھول مسل دیا کسی نے ۔۔

ارے ترس نہیں آیا ظالم کو۔۔۔۔کیوں کیا یہ سب۔۔۔میری بچی روح۔۔

دیکھیں پیچھے ہو جائیے ہمیں ہمارہ کام کرنے دیجئے ان کی جان خطرے میں ھے پہلے ہی بہت خون بہ چکا ھے آپ لوگ خون کا انتظام کیجئے۔۔۔

ڈاکٹر انہیں بس اتنا بول کر روح کو آپریشن تھیٹر میں لےجا چکے تھے۔۔۔

عافیہ آپا مجھے آج بھی یاد ھے جب آزر نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا تھا۔۔

مجھے یاد ھے جب وہ خون میں لت پت آئے تھے۔۔۔

میں نے دیکھا تھا انہیں۔۔بلکل روح کی طرح۔۔

وہ تو مجھے چھوڑ کر چلے گے۔۔تو کیا اب روح اور حور بھی چلیں جائیں گئیں۔۔۔

کیسی باتیں کر رہی ھے پاگل تو رو نہیں دعا کر اپنی اولاد کے لئے اس سے مانگ جس نے تجھے ان سے نوازا تھا۔۔

وہ بڑا مہربان ھے تجھے خالی نہیں لوٹائے گا۔۔۔۔

دادا جان۔۔۔

زمان کی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔

کیا ہوا۔۔۔۔دادا جان۔۔ولید کو۔۔

چٹاخ کی آواز نے سب کو حیران کیا۔۔

کیا ہوا امی آپ نے مجھے مارا کیوں۔۔۔

کہاں تھا تو میری بیٹیاں زندگی سے جنگ کر رہیں ھیں اور بیٹا۔۔۔میرا ولید مر رہا ھے کہاں تھا تو زمان ۔۔۔۔

حور۔۔۔بچا لے زمان بچا لے اپنی حور کو مر جائے گی وہ۔۔

زمان کا زہن تو حور کے نام پر اٹک چکا تھا۔۔لیکن وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا آگے۔۔۔

کیا ہوا۔۔۔۔۔حور۔۔۔۔کو۔۔

کہیں اندر کھائی سے آواز آتی محسوس ہوئی تھی ۔۔۔۔۔

دماغ پھٹ چکا ھے اس زمان۔۔۔

عمارہ بیگم نے بے خیالی میں جواب دیا۔۔

کسی کو ان سے ایسے جواب کی امید ناں مگر قسمت نے انہیں بے بس کر دیا تھا آج۔۔

آنکھوں کے نیچے رو رو کر ہلکے پر چکے تھے اور حالت ایسی تھی کہ دیکھنے والے کا دل کانپ جائے۔۔۔۔کیوں ناں ہوتی ایسی حالت۔۔۔

شادی کے تین سال بعد شوہر کو ہمیشہ کہ لئے کھو دیا اور اب بیٹیاں۔۔

کیا ہوا۔۔۔میری حور۔ کو۔۔

ڈاکٹر۔۔۔ڈاکٹر نے کیا کہا۔۔۔

کیسی ھے وہ ۔۔۔کہاں ھے۔۔۔

کیسے ہوا یہ سب۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔

بولیں مجھے۔۔بتائیں کچھ سب کیوں خاموش ھیں بتائیں مجھے ۔۔۔

بھائی آپ بات سنیں۔۔۔

کیا سنو 

بولو کیا سنو۔۔

میری غیر موجودگی میں تم لوگ میری۔۔۔امانت کا خیال نہج رکھ پائے۔۔۔اب کیا سنوں ۔میں۔۔۔

ارے کیسے پہنچ گئی وہ اس حال۔۔میں۔۔۔

کیوں ہوتا ھے ہمیشہ اس کے ساتھ ہی ایسا۔۔۔۔

کیوں ہر دکھ اس معصوم کی قسمت میں لکھا ھے۔۔۔

کیا۔۔۔بگاڑا ہی ہم نے کسی کا جو اتنے غم ایک ساتھ مل گئے۔۔۔۔

سب کے دل کٹ گئے تھے زمان کو اس حالت میں روتا تڑپتا دیکھ کر۔۔۔

وہ بکھر چکا تھا ٹوٹ چکا تھا آج اب ہمت نہیں تھی حالات سے مقابلہ کرنے کی۔۔۔

اس کو سمیٹنے والے سب اپنے تھے۔۔لیکن کو جانتا تھا کرچیوں کو جتنا بھی جوڑو پہلے جیسی نہیں رہتیں۔۔۔

آج شاہ خاندان ٹوٹ چکا تھا اور توڑنے والے جشن منا رہے تھے۔۔

اب تو سب کی نظریں آپریشن تھیٹرز کی طرف تھیں۔۔۔

جہاں تین لوگ اپنی اپنی جانوں سے کر رہے تھے ایک دوسرے کو کھونے کہ ڈر سے یہاں پہنچ چکے تھے۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

تین گھنٹے بعد ولید کا ڈاکٹر باہر آیا تھا ۔۔۔

امان فوراً ان کی جانب گیا۔۔

ڈاکٹر صاحب کیسا ھے میرا بھائی۔۔کیا حالت ھے اس کی۔۔۔

آپ میں سے روح کون ھے۔۔

سب چپ تھے کسی کے پاس کوئی جواب ناں تھا۔۔

پیشنٹ بار بار روح کو پکار رہیں ھیں۔۔آپ پلیز انہیں اندر بھیج دیں۔۔

اس کا تو آپریشن چل رہا ھے ڈاکٹر صاحب۔۔

کیا۔۔۔

اللہ پاک خیر کریں آپ کے بچوں پر آپ لوگ دعا کریں۔۔

تھوڑی دیر میں آپ لوگ ولید سے مل سکتے ھیں لیکن ان سے کوئی ایسی بات نہیں کیجئے گا جس سے ان کی صحت پر اسر ہو۔۔۔

میں کیا جواب دوں گی ولید کو اماں۔

وہ اٹھ کر میرے سے اپنی روح کا پوچھے گا تو کیا بولوں گی اسے۔۔

حوصلہ کر عظمیٰ پتر کم سب ھیں ناں سنبھال لیں گیں اسے پتر ۔۔۔

تو عمارہ کا خیال کر دیکھ اس کی کیا حالت ہو چکی ھے۔۔۔

زمان۔۔

زمان پتر سنبھال خود کو۔۔

اللہ نے چاہا تو حور بلکل ٹھیک ہو جائے گی۔۔

دادو۔۔۔

میری حور بچ۔۔۔بچ۔۔جائے گی ناں وہ ۔۔۔مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائے گی ناں۔۔۔

آپ کو پتا ھے ناں میں مر جاؤں گا۔۔۔

میرا کوئی وجود نہیں اس کے بغیر۔۔

ہاں پتر وہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی اللہ سے دعا کر بیٹا ۔۔۔

زمان دادی جان کی گود میں سر رکھے بلک بلک کر رو رہا تھا ۔۔۔

اگر کوئی خوبرو مرد کو ایسے روتا دیکھتا تو یقیناً حور کی قسمت پر رشک کرتا ۔۔۔

محبت چیز ہی ایسی ہے محبوب تکلیف میں ہو تو انسان کی روح زخمی ہو جاتی ھے۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کوئی انسان مکمل اپنا چہرہ چھپائے ہوئے ڈاکٹر کے کیبن میں داخل ہوا۔۔

جی۔۔

میں خون دینے آیا ہوں روح نامی پیشنٹ کو۔۔

آپ ان کی کیا لگتے ھیں۔۔

میں ان کا کیا لگتا ہوں کیا نہیں یہ آپ کا مسئلہ نہیں۔۔

آپ بس خون نکالیے میرا۔۔۔

دیکھیں ہم ایسے کیسے ۔

اس سے پہلے کے ڈاکٹر کچھ کہتا اس نے ایک کارڑ نکال کر اس کے سامنے کیا۔۔

اوووو سوری سر۔۔

میں ابھی نرس سے بول کر آپ کا بلڈ لیتا ہوں۔۔۔۔

اگلے دس منٹ میں وہ بلڈ دے جیسے چپکے سے آیا تھا ویسے ہی چلا گیا۔۔۔

ارمان صاحب بلڈ کا انتظام ہو چکا ھے آپ لوگ اس پیپر پر سائن کر دیں تا کہ ہم لوگ آپریشن شروع کر سکیں۔۔

کیا بول رہیں ھیں آپ ڈاکٹر اتنی دیر ہو چکی ھے ابھی تک آپ نے آپریشن شروع نہیں کیا ۔۔میری بہن مر سکتی ھے آپ لوگ جانتے تھے پھر بھی آپ ایک ڈاکٹر ہو کہ اتنی لاپرواہی کیسے کر سکتے ھیں ۔

دیکھیں امان صاحب ہم نے آپ سے بولا تھا بلڈ کا ارینج کریں دیر ہم نے نہیں آپ نے کی ھے۔۔۔

امان پتر تو نے کچھ کیا نہیں۔۔۔

سوری دادا جان وہ ٹینشن میں دماغ میں ہی نہیں رہا۔۔میں ابھی کرتا ہوں ۔۔

سوری امان شائد آپ نے سنا نہیں کہ کوئی بلڈ دے کے جا چکا ھے۔۔

کس نے دیا۔۔ہم میں سے تو سب یہیں ھیں۔۔

اوہ سر یہ ہاسپٹل ھے یہاں کوئی ناں کوئی بلڈ ڈونیٹ کرنے آتا رہتا ھے۔۔

اور آپ کے پیشنٹ ولید کو حوش آ چکا ھے آپ ان سے مل سکتے ھیں۔۔

شکریہ ڈاکٹر ۔۔۔

ہمارہ فرض ھے یہ آپ بس اپنی بچیوں کے لیئے دعا کیجئے۔۔۔

چلو عظمیٰ پتر تیرے بیٹے کو حوش آ گیا آجا مل لے اس سے۔۔

نہیں ابا جان میرے میں ہمت نہیں اس کے سامنے جانے کی وہ میرے سے اپنی روح کا۔پوچھے گا تو میں کیا جواب دوں گی۔میں نہیں کر سکتی اس کا سامنا۔۔

آپ لوگ جائیں۔۔

عمارہ بیٹا تو تو آئے گی ناں تیرے تو بیٹے جیسا ھے وہ۔۔

ضرور اباجان میں اپنے بیٹے سے ضرور ملوں گی۔۔

بس بیٹا رونا بند کر دے اب مجھے یقین ھے اللہ تجھے تیری بیٹاں ضرور لوٹائے گا۔۔

انشاللہ بابا جان۔۔

چلو آؤ آ جاؤ بیٹا...

شجاعت شاہ کے ساتھ ان کے سارے گھر والے ہاسپٹل کے کمرے میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ولید آکسیجن ماسک پہنے آنکھیں بند کئے لیٹا تھا ۔۔۔

ہاتھوں پر ڈرپس آنکھوں کے نیچے گہرے ہلکے پیلا رنگ ہاسپٹل ڈریس میں وہ صدیوں کا مریض لگ رہا تھا۔۔۔

شجاعت شاہ اور عابدہ بیگم کا دل کٹ کے رہ گیا تھا اپنے جان سے عزیز پوتے کو اس حالت میں دیکھ کر۔۔۔

پتر۔۔۔

چچی ۔۔۔جان۔۔۔

چچی قربان پتر تجھ پر۔۔

چچی۔۔جان۔روح۔۔

اس سے پہلے کے وہ کچھ اور بولتا عافیہ بیگم بول پڑی

پتر تو بول ناں زیادہ ڈاکٹر نے منع کیا ھے ۔۔۔۔

دادو ۔۔۔روح۔۔۔کہ۔۔کہاں ھیں۔۔۔۔ٹھیک۔ہیں۔۔نا وہ۔۔۔۔سب ٹھیک ۔۔تھا ۔۔۔۔جب۔۔۔مجھے۔۔۔لگا کوئی میری ۔۔۔روح کو جسم ۔۔۔سے الگ ۔۔۔کر رہا۔۔۔ھے۔۔میری جان۔۔۔نکل۔۔رہی تھی۔۔۔سانس۔۔سینے ۔۔۔میں اٹک گئی۔۔۔تھی۔۔۔۔آنکھیں ۔۔پتھر ہو چکیں ھیں۔۔کچھ نہیں نظر آ۔۔رہا تھا۔۔۔۔بس۔۔روح کی۔۔۔چیخیں ۔۔سن رہیں تھیں۔۔۔

وہ مجھے۔۔۔۔بلا۔۔رہی۔۔۔تھی۔۔دادو۔۔میری  روح مجھےبولا رہی تھی ۔۔۔مجھے۔۔۔بتائیں کہاں ھے وہ۔۔مجھے جانا ھے۔۔۔

بیٹا میری بات سنو۔۔

میرے بہادر بیٹے ہو ناں۔تم۔۔۔

دیکھو بیٹا روح میری  بیٹی ھے لیکن میں ماں ہو کہ تمہیں سمجھانے جا رہیں ہوں کیوں کہ مجھے پتا ھے تم اسے میرے سے زیادہ پیار کرتے ہو۔۔

ولید حیران سا عمارہ بیگم کہ باتیں سن دیا تھا۔۔۔

دیکھو بیٹا حادثہ ہوتے رہتے ھیں زندگی میں۔ ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔۔

تم وعدہ کرو بات سننے کے بعد تم کچھ نہیں کرو گے بلکہ جلدی ٹھیک ہو کہ اس پتا کرو گے بدلہ لو گے جس نے یہ سب کیا تم لوگوں کے ساتھ۔۔

چچی جان ۔۔۔کیا۔۔بول رہیں۔۔آپ۔۔۔

میں بتاتی ہوں ولید بھائی۔۔۔

حیا تم چپ کرو۔۔

نہیں انہیں پتا چلنا چاہیے حق ھے ان کا۔۔۔

میں بتا رہی ہوں نا بیٹا۔۔

ولید بھائی روح کو گولی لگی ھے ۔۔اور۔۔۔اور وہ اسی ہاسپٹل ۔۔میں ھے ۔۔۔۔آپریشن ہو رہا ھے۔۔اس کا۔۔۔

نا جانے کیا کیا بتایا تھا حیا نے ولید کو لیکن اس کا دل اور دماغ اس بات پر اٹک گیا تھا کہ روح کو گولی لگی ھے۔۔

روح۔۔۔روح۔۔۔کو گولی۔۔لگی ھے اور ۔۔۔اپ سب مجھے۔۔۔اب بتا رہیں۔۔۔ھیں۔۔۔

پتر تو خود نہیں ٹھیک تھا تجھے کیسے بتاتے۔۔۔

دادو میں نے کہا تھا ۔۔نا ۔۔میری روح ۔۔میرے جسم کا ساتھ۔۔۔چھوڑ ۔۔۔رہی تھی۔۔۔۔دیکھیں دادو دیکھیں۔۔۔میری روح ۔۔۔واقعی ہی ساتھ چھوڑ رہی ھے۔۔۔۔

جب زندگی کا سانس بند۔۔۔تھا تو۔۔۔مجھے۔۔۔سانس کیسے آتا۔۔۔

جب اس کی ہی آنکھیں۔۔۔۔بند تھیں۔۔مجھے ۔۔کیسے نظر ۔۔آتا۔۔۔۔کیسے اتنا بے خبر ہو سکتا ہوں میں ۔۔۔

اس کمرے میں موجود ہر شخص رو رہا تھا ولید کی حالت دیکھ کر۔۔۔

پتر روک جا ۔۔کیا کر رہا ھے۔۔

دادا جان ہٹ جائیں۔ مجھے اپنی روح کے پاس جانا ھے۔۔۔

ہاتھوں سے ڑرپس کینچھ کر نکال کر ماسک اتار کر وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔

پتر رک جا ہم چلیں گے سب۔تو ابھی تک جا بیٹا۔۔۔

بھائی رک جائیں آپ آرام کر لیں ہم سب ھیں اس کے پاس۔۔

امام کیسے آرام کروں میں اسے میری ضروت ھے۔۔۔مجھے۔۔جانا ھے اس کے پاس ہٹو۔۔۔

بھائی نا جائیں رک جائیں اس کا آپریشن ہو رہا ھے۔۔۔

ارمان ہاتھ چھوڑ دو میرا وہ تکلیف میں ھے مجھے جانے دو۔۔۔میں۔اسے کچھ نہیں ہونے دوں گا۔۔۔ہاں میں بچا لوں گا اسے

بھائی۔۔۔

چھوڑو مجھے۔۔۔

ولید کو قابو کرنا اس وقت کسی کے بس کی بات نا تھا ۔۔وہ سب کو چھوڑ کر باہر نکل چکا تھا اور باہر نکلتے ہی اس کی نظر اس کی ماں پر پڑی۔۔۔

وہ حیران نہیں تھیں وہ جانتی تھیں کہ ایسا ہی ہونے والا ھے۔۔۔۔

لیکن اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ کر ان کی جان ضرور نکلی تھی۔۔۔

ولید آپریشن تھیٹر کے دروازہ پر کھڑا اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا مگر دروازہ اندر سے لاک تھا ۔۔۔

کھولو مجھے روح کو دیکھنے دو۔۔

بھائی چلے یہاں سے ۔۔۔

نہیں مجھے اسے دیکھنا ھے انہیں بولو مجھے دیکھنے دو

اتنے میں ایک ڈاکٹر باہر آیا۔۔

آپ کیوں ہنگاما کر رہیں ہیں ولید صاحب۔ اور آپ کی کنڈیشن ابھی ایسی نہیں ھے جو آپ ایسے ریئکٹ کریں۔۔۔

ڈاکٹر مجھے روح کو دیکھنے دیں بس ایک بار۔۔

دیکھیں ولید آپ کی بیوی کا آپریشن چل رہا ھے اگر آپ اس طرح ہمارہ ٹائم ویسٹ کریں گے تو ان کی جان جا سکتی ھے۔۔۔اس لئے ہمیں اپنا کام کرنے دیں اور آپ آرام کریں۔۔۔۔

ڈاکٹر ولید صاحب کو کمرے میں لے جاؤ ۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

یا اللہ تو جانتا ھے ناں میں نے کبھی اپنی محبت میں خیانت نہیں کی۔۔

تو جانتا ھے ناں میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔

میرے مالک آپ کو تو سب پتا ھے ناں۔۔

آپ میرے دل کا حال جانتے ھیں مولا۔۔

میری حور مجھے لوٹا دیں میرے مالک میری جان کو میرے سے الگ نا کرنا 

یا اللہ میری زندگی بھی اسے لگا دے میرے مالک مگر اس زندگی دے دے۔۔

میں نے آپ سے کبھی کچھ  نہیں مانگا۔ مگر آج مانگ رہا ہوں اپنی حور اپنے شریک حیات۔۔

مجھے لوٹا دے اللہ مجھے میری ،ندگی لوٹا دے۔۔۔

زمان رو رو کر اپنا حال دل اپنے خدا جو سنا رہا تھا اور باہر کھڑی زمل سن کر آگ بگولہ ہو رہی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

کیا حال ہو گیا ھے میرے بھتیجے کا ۔۔۔

میں نے تو پہلے ہی کہا تھا یہ دونوں منہوس ھیں پیدا ہوتے ہی اپنے باپ کو کھا گئی ۔۔۔

اور اب تم دونوں کے بیٹوں کو کھائیں گی ۔۔

اگر آج میری بیٹی کو اپنی بہو بنایا ہوتا تو تمہارے بیٹے کا یہ حال نا ہوتا۔۔۔

ابھی بھی وقت ھے جان چھڑوا لو ان سے۔۔۔

اس سے پہلے کی عمارہ اپنی بیٹیوں کے بارے میں بولنے والوں کا منہ توڑتی عظمیٰ بیگم بول اٹھی۔۔۔

بس آپا بہت سن لیا آپ کو ۔۔

ایک بات یاد رکھیے گا۔۔کہ روح میری بہو بعد میں اور بیٹی پہلے ھے ۔۔اور میں آپ کی بیٹی کو بہو کیوں بناؤں جب اس سے بہتر لڑکی میری بہو ھے۔۔۔

اللہ زندگی دے میری دونوں بیٹیوں کو۔۔۔اور بعد میں اپنے شوہروں کے ساتھ ایک خوشگواری زندگی۔۔۔

اگر اب کسی نے بھی میرے بیٹیوں کے بارے میں بولا تو عمارہ بعد میں پہلے میں بولوں گی۔۔۔

آپا ہم بہت عزت کرتے ھیں آپ کی مگر عزت انسان کے خود کے ہاتھ میں ہوتی ھے باقی تو آپ سمجھ چکی ہوں گی۔۔۔

عافیہ بیگم نے بھی اچھی خاصی سنا دی تحریم بیگم کو۔۔

اور باہر سے آتے ہوئے سالار اور سکندر صاحب بھی سب سن چکے تھے۔۔۔

افسوس ہوا پتر تیری سوچ پر۔۔

اماں آپ بھی 

چلی جا تحریم اس سے پہلے کے میرا ہاتھ اٹھ جائے تجھ پر۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

گھنٹے بعد دو ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر آئے۔۔۔

ہم نے روح کو بچا تو لیا مگر۔۔۔

مگر کیا ڈاکٹر۔۔۔

مگر وہ کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔۔کیون کہ خون زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی باڈی کے انر پاڑس ڈیمج ہو چکے ھیں۔۔

ہو سکتا ھے وقت کے ساتھ ساتھ وہ ریکور کر جائیں ویسے بھی ان کی عمر بہت کم ھے انشاللہ کچھ سال تک وہ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔یا ہو سکتا ھے انہیں یہ محرومی تا اصل رہے۔۔۔

یہ خبر آگ بن کر گری تھی سب پر مگر سب خوش تھے کہ روح اب خطرے سے باہر ھے۔۔

اور ولید آپ مل سکتے ھیں اپنے وائف سے۔

ڈاکٹر کے کہنے کی دیر تھی ولید فوراً اندر کی طرف بھاگا۔۔۔

روح کا وجود پٹیوں سے لپٹا اس کے سامنے تھا۔۔۔

اور وہ ساری دنیا سے بے خبر پڑی تھی۔۔۔

ولید اس کے پاس چئیر رکھ کر بیٹھا اور اس کا نالیوں میں جکڑا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔

روح۔۔

 میری جان بہت تڑپایا ھے تم نے آج اس کا بدلہ ضرور لوں گا تم سے ۔۔لیکن پہلے تم ٹھیک ہو جاؤ تب۔۔

بلکہ میں ابھی لوں گا تم نے کونسا میرے ٹھیک ہونے کا انتظار کیا تھا ۔۔

تمہیں پتا ھے ڈاکٹر نے کیا کہا کہ تم کبھی ماما نہیں بن سکتی۔۔۔

اب کسی کو کیا پتا کہ میں خود یہی چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی نا آئے ہمارے وجود کا حصہ بھی نہیں۔۔۔

ولید  نے اس کا ہاتھ جیسے ہی لبوں سے  لگایا اسے روح کی آواز سنائی دی۔۔۔

ولی۔۔

جان ولی۔۔

ولی۔۔۔

بس روح رونا نہیں ورنہ بہت ماروں گا۔۔۔

ابھی بھی مارے ۔۔۔گے۔۔پہلے۔۔ہی

۔۔اتنی چوٹ ل۔۔۔لگی ھے۔۔۔۔

سو جاؤ روح تمہیں جلدی ٹھیک ہونا ھے میرے لئے۔۔۔

ولی مجھے باتیں کرنی ھیں آپ۔۔۔سے۔۔

بتانا ھے کچھ۔۔۔

اور مجھے روح کو محسوس کرنا ھے باتیں بعد میں ۔۔۔

ولید نے نرمی سے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔ ۔

شاید دونوں کو ایک دوسرے کے لمس سے سکون مل رہا تھا جو دونوں ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔۔۔۔

کافی دیر بعد جب ولید پیچھے ہٹا تو روح نے لمبے لمبے سانس لے کر  خود کو نارمل کرنا چاہا مگر اگلے لمحے پھر جان نکلی تھی جب گرم ہونٹوں کا لمس اسے اپنے پیٹ پر محسوس ہوا۔۔۔

ولید نے دہکتے ہونٹ اس کے پیٹ پر رکھے تو وہ جی جان سے کانپ اٹھی۔۔

روح کے پیٹ میں اٹھنے والی ٹیسوں پر وہ اپنے ہونٹوں سے مرہم رکھ رہا تھا

ولید کیا ۔۔۔کر۔۔رہیں ۔۔ھیں۔۔آپ۔ہٹیں۔۔ہاسپٹل ھے یہ۔۔

پیار کر دیا ہوں آپنی وائف سے 

کوئی دیکھ لے گا تو کیا۔۔۔۔سوچے کا۔۔

کسی کی اتنی جرت کے ولید شاہ کی طرف دیکھے۔۔۔۔

روح کی نظر اس کے ہاتھ پر گئی اور اس نے اب غور کیا کہ وہ ہاسپٹل ڈریس میں ھے ۔۔

ولید یہ۔۔یہ آپ کے ہاتھ پر۔۔خون۔۔۔اور آپ اس۔۔ڈریس میں ہوں ھیں۔۔۔کیا ہوا آپ کو۔۔۔

بس میرے دل نے انکار کر دیا تھا بولا اگر اس کی روح کو ہوش نہیں تو مجھے بھی نہیں چلنا۔۔۔

ولید ۔۔کیا۔۔کیا۔۔۔ہوا آپ کو۔۔۔

کچھ نہیں۔۔۔سوجاؤ روح۔۔۔

بس اب برداشت کر لی تم نے جتنی تکلیف برداشت کرنی تھی اب سے خوشیاں ہوں گی۔۔ہر جگہ ہر لمحہ۔۔۔

بس جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پھر ۔۔۔۔

پھر۔۔کیا۔۔۔

پھر۔۔۔

ولید۔۔بتائیں ناں۔۔

سرپرائز۔۔۔

روح مجھے ایک بات بتاؤ۔۔

جی۔۔

بلکہ تم ابھی ریسٹ کرو میں یہیں ہوں کچھ چائیے ہو تو بتا دینا۔۔۔

اوکے۔۔

ولید اس سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ کس نے گولی چلائی تھی اس پر مگر وہ اس سے پوچھ کر اسے مزید ڈرانا نہیں چاہتا تھا۔۔

اب وہ مسئلے کو خود حل کرے گا۔۔

آخر کو ولید شاہ کی بیوی کو مارنے کی کوشش کی تھی کوئی عام بات نہیں تھی۔۔۔۔

ولید مسلسل اس کے بالوں میں انگلیاں چلا رہا تھا جس کی وجہ سے وہ جلد ہی نیند کی وادیوں میں جا چکی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

اب روح اور ولید کی طرف سے تو سب مطمعین تھے کیونکہ وہ ٹھیک تھے اب صرف حور کا انتظار تھا ۔

آٹھ گھنٹے گزر چکے تھے مگر اس کی کوئی خبر ناں تھیں 

زمان تو زندہ لاش کی ماند ہو چکا تھا۔۔

کون کہتا ھے کہ مرد روتے نہیں۔۔مرد روتے ھیں بلکہ ٹوٹ جاتے ھیں جب ان کی محبت کسی بھی مشکل میں ہو ۔۔۔

کون کہتا ھے مرد پتھر دل ھے۔۔

اگر آج کوئی زمان کو دیکھے تو مرد ذات کا دیوانہ ہو جائے۔۔۔

ایک ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو سب اس کی جانب ہوئے مگر زمان ویسے ہی سر گرائے بیٹھا تھا جیسے اسے نتیجے کا پتا ہو۔۔۔

وہ زندگی سے ہارا ہوا شخص کسی کی جانب کیا دیکھتااسے تو بس اپنے محبوب کو زندہ سلامت دیکھنا تھا اپنے سامنے۔۔۔

مبارک ہو۔۔۔اللہ نے آپکی بیٹی کو نئی زندگی دی ھے اور ایک خوشخبری ھے آپ سب کے لئے۔۔۔

اب زمان کی نظریں ڈاکٹر کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔

آپ کی بیٹی کی یاداشت واپس آ چکی ھے۔۔۔۔اب وہ پہلے کی طرح ایک نارمل زندگی گزارے گی۔۔۔

اور مسٹر زمان۔۔۔

مرد محبت کرتا ھے تو دل سے کرتا ھے یہ سنا تھا مگر آج دیکھ بھی لیا ۔۔۔

آج حور کو جو زندگی ملی وہ شائید آپ کی دعاؤں سے ۔۔دعا ھے اللہ سے کہ وہ آپ کو اور آپ کی وائف کو اور خوشیاں عطا کرے۔۔۔

اور یہی یہ لمحہ تھا جب زمان کو لگا سکون اندر تک سرائت کر رہا ھے۔۔۔

جیسے ہی طرف ٹھندی ہوائیں چل رہی ھے۔۔۔

جیسے کوئی بہت بڑا خزانہ ملا ہو ۔۔

اور شائید آج زمان کو خزانہ ملا بھی تھا۔ حور کی زندگی کی صورت میں۔۔۔

اس کی زبان سے یہی لفظ ادا ہو سکے

۔۔یا اللہ تیرا شکر ھے۔۔۔

سب ہی خوش تھے اب سب ٹھیک ہو چکا تھا۔۔۔

ارمان پتر تم حیا اور زارا کو لے کر گھر چلے جاؤ اور عافیہ اور عظمی کو بھی لے جان گھر جا کر آرام کر لیں صبح آ جانا۔۔

میں اور زمان یہاں رکیں گے بیگم آپ بھی جائیں۔۔اور عمارہ کو بھی لے جائیں۔۔

مگر ابا جان میں کیسے جا سکتی ہو ابھی تو میں اپنی بیٹی سے ملی بھی نہیں۔۔

پتر وہ بے حوش ھے۔۔صبح ہی اٹھے گی تم چلی جاؤ آ جانا میرا بیٹا بعد میں آرام کر کے۔۔۔

دادا جان آپ بھی جائیں میں ہوں حور کے پاس ۔۔

یہ وہ پہلے لفظ تھے جو زمان نے پچھلے پانچ گھنٹوں میں بولے تھے۔۔۔

مگر بیٹا۔۔

آپ تھک جائیں گے تو طبیعت خراب ہو جاے گی۔۔۔

اچھا بیٹا جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔

سب جا چکے تو زمان کے قدم بے آختیار حور کی جانب بڑھے۔۔۔

اس نے دروازہ کھولا تو سامنے ھی اس کا وجود پٹیوں میں لپٹا مڑا تھا۔۔۔

مرجھایا ہوا چہرہ اپنی تکلیف کہ داستان سنا رہا تھا۔۔۔

وہ مردہ قدموں سے کمرے میں داخل ہوا اسے دیکھتے ہی اس کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔

وہ دھیرے دھیرے اس کے پاس پہنچا جیسے۔۔کوئی چھوٹا سا بچہ ۔۔

دل کے ہزاروں حصوں میں یہی ڈر تھا کے وہ جاگ نا جائے کیونکہ وہ اسے خود کو ترپانے کی سزا دینا چاہتا تھا۔مگر کیسے۔۔۔

زمان نے اس پاس ہی بیڈ پر بیٹھا اور اس کا ٹھندا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔

حور۔۔۔

کیوں کرتی ہو ہمیشہ میرے ساتھ ایسا جانتی ہو ناں مجبور ہوں اسی لئے اتنا ستاتی ہو۔

جانتی ہو کہ تم جان ہو میری اسی لئے بار بار جان نکالتی ہو

حور تم جاتی ہو میں کبھی رویا نہیں تھا لیکن آج ایک سترا سالہ لڑکی نے ایک ستائیس سالہ مرد رلا دیا واہ عشق بھی کیا کمینہ چیز ھے ناں حور۔۔۔

لیکن اب تم بھول جاؤ کہ میں روؤں گا۔۔

بلکہ اب تم رو گی میں رولاؤں گا تمہیں اپنی شدتوں سے۔بہت چھوٹ مل گئی تمہیں اب اور نہیں تم میری تڑپ کیا بدلہ چکانا ہو گا روح۔۔۔

اور ان کو اپنی جان دینی ھے جنہوں نے میرے جان ہو دکھ پہنچایا۔۔۔

زمان۔۔

اپنا نام سن گھنی مونچھوں تلے عنابی لب مسکرائے تھے۔۔

حور۔۔۔

زمان۔۔۔مجھے۔۔کیا۔۔ہوا۔۔تھا۔۔۔مجھے۔۔ایسا لگ۔۔۔رہا ھے۔۔جیسے میں۔۔بہت دیر بعد ۔۔نیند سے اٹھی ہوں۔۔۔

ہاں سہی کہ رہی ہو تم بہت سو لیا تم نے۔۔اب تو جاگنے کا وقت ھے۔۔۔

کیا۔۔مطلب۔۔

کچھ نہیں ۔۔۔کہیں درد تو نہیں ہو رہا ناں۔۔۔

ہو رہا ھے۔۔۔

کہاں۔۔۔

جہاں ڈرپ لگی ھے۔۔

زمان نے اس کے ہاتھ سے ڈرپ اتار پھینکی اور اس کے ہاتھ کو سہلایا۔۔۔اور ویہاں اپنے لب رکھے۔۔۔

حور جلدی ٹھیک ہو جاؤ ہمیں مل کر ان سے بدلہ لینا ھے جنہوں نے تمہیں۔ اس حال تک پہنچایا۔۔۔

زمان وہ زمل۔۔۔

جانتا ہوں میں سب حور  بس تم جلدی ٹھیک ہو جاؤ۔۔۔پھر کچھ کریں گے۔۔۔

زی روح کہاں ھے۔۔مجھے کوئی بھی ملنے نہیں آیا۔۔۔

میں آیا ہوں ناں۔۔تمہارا سب تو میں ہی ہوں۔۔

لیکن زمان۔۔۔

بس چپ زیادہ نہیں بولنا ورنہ میں چپ کرا دوں گا۔۔۔

حور۔۔۔

جی۔۔۔

اب نہیں ناں جاؤ گی کہیں۔۔

میں نے کہاں ۔۔۔۔۔۔جانا زمان۔۔۔

 مجھے تنگ بھی نہیں ناں کرو گی۔۔۔۔

پہلے کب کیا۔۔۔۔

گھر جا کر بتاؤں گا۔۔۔

تمہیں پتا ھے تم مجھے خود ہی کس بھی کرتی تھی اور ہگ بھی۔۔۔

زمان۔۔۔جھوٹ ۔۔۔نہیں بولیں۔۔۔

سچ کہ رہا ہوں یار اچھا وڈیو دکھاؤں۔۔۔

نہیں نہیں ۔۔۔۔۔رہنے دیں۔۔۔

اب بھی ویسے ہی کرنا بلکل نہیں شرمانا۔۔۔۔

حور آج بہت مانگا میں نے اللہ سے تمہیں مجھے ڈر تھا کہ تمہیں کچھ ہو نا جائے۔۔۔

اب سے آج سے تم صرف میری سنو گی میرے ساتھ کھاؤ گی میرے ساتھ باہر جاؤ گی میرے ساتھ لیٹو گی میرے ساتھ بیٹھو گی۔۔۔۔۔اوکے۔۔پرومس۔۔۔

جی۔۔پرومس۔۔۔

زمان۔۔کیا۔۔۔کر رہیں ھیں۔۔۔

کچھ نہیں بس چپ حور۔۔۔

زمان نے نرمی سے اس کے ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لیا۔۔۔اور اتنی جنونیت نے چوما کہ حور کی جان ہوا ہوئی تھی۔۔۔وہ جانتے تھی اب قید سے رہائی ممکن نہیں اور وہ شائد اب خود بھی رہا ہونا نہیں چاہتی تھی۔۔۔زمان اس کے ہونٹوں سے اپنی پیاس بجھانے میں اس قدر مگن تھا کہ یہ بھی بھول گیا کہ اس کی طبیعت خراب ھے۔۔۔

یاد آنے پر جلدی سے پیچھے ہٹا اور روح کے ہونٹ صاف کئے جنہیں وہ گیلا کر چکا تھا۔۔

جان گھر چلو پھر بتاؤں گا تمیں ۔۔۔

محبت لمس کی محتاج ہوتی ھے اور سکون دہ لمس صرف اپنے محبوب کا ہی ہوتا ھے

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زیان آج اپنے فارم ہاؤس آیا تھا۔۔

گاڑی پارک کر کے وہ اندر داخل ہوا تو سارے گھر کی لائٹس آن تھی مطلب رہنے والا اندھیرے سے زیادہ ڈرتا ھے۔۔۔

وہ امبر کے کمرے کہ طرف گیا۔۔۔تو کمرہ لاک نا تھا اس نے دروازہ کھولا تو وہ سامنے ہی بیڈ پر تکئے کو ہگ گئے سو رہی تھی 

گلابی چادر میں لپٹا گلابی وجود زیان شاہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔۔۔

وہ تو پہلے ہی اس کا دیوانہ تھا بس حالات نے ان کو دور کر دیا تھا ورنہ وہ آج اس کی باہوں میں ہوتی۔۔۔

وہ بے اختیار اس کی جانب بڑھا۔۔۔

اس کے پاس جا کر خوب اپنی آنکھوں کی پیاس بجھائی۔۔۔

اور پھر دماغ میں کچھ خیال آیا ۔۔اس نے اپنا فون نکالا۔اور کسی کو کال کی۔۔۔

ہاں جلدی سے مولوی کے کر میرے فارم ہاؤس آ جاؤ۔۔۔

اور فوراً ہی کال کاٹ کر اس کے پاس بیڈ پر بیٹھا۔۔۔

زیان نے اس کے بازوں سے تکیہ نکالنے کی کوشش کی تو امبر نے تکیہ کے ساتھ اس کی بازو کو کھنچھا تو وہ سیدھا اس کی باہوں میں گیا۔۔۔۔

اسے اتنی قریب سے دیکھ کر اس کا دل بے ایمان ہو رہا تھا اس کے ہونٹوں کے قریب تل اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا اور وہ بے خبر سو رہی تھی۔۔۔

وہ ہلکا سا جھکا اور اس کے تل پر لب رکھے۔۔

پاس ہی ہونٹوں کا جام تھا مگر وہ بغیر حق کے اس پینا نہیں چاہتا تھا ۔۔۔۔

اس لیے اس کی باہوں کا حصار توڑ کر جلدی سے پیچھے ہٹا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کیسے بچ گئیں وہ دونوں۔۔۔کیسے۔۔۔۔

اور وہ حور تو ٹھیک بھی ہو گئی ھے۔۔۔

اور اگر زمان میرا سچ جان گیا ہوا تو۔۔۔

نہیں نہیں اسے کون بتائے گا۔۔۔

میں نے تو پہلے ہی کہا تھا سنبھل کے بیٹا۔۔۔

ماما وہ کیسے بچ سکتی ھے ہر بار بچ جاتی ھے ہر بار آخر کیسے۔۔۔

تم ایک کام کرو زمل ۔۔

یہ جائیداد کے پیپر ھی۔ تم ان پر ابا جان کے سائن کروا لو تو یہ گھر ہمارے نام ہو جائے گا اور ابا جان کا سب کچھ۔۔۔

پھر تم اس زمان کی جان چھوڑنا اور کسی امیر زادے سے شادی کرنا۔۔۔

ماما آپ کا کام ہو جائے گا لیکن زمان کی جان تو میں مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گی۔۔۔

انسان حوس میں یہ بھول جاتا ھے کہ دینے والا تو اللہ ھے کسی سے چھین کر یا تکلیف پہنچا کر کھانا بہت بڑا گنا ھے اور اسی طرح یہ ماں بیٹی بھی اپنا انجام بھولی بیٹھیں ھییں۔۔۔

مولوی کا انتظام تو ہو گیا اب امبر کو جگانا اور نکاح کی لئے منانا باقی تھا۔۔

امبر۔۔۔

امبر۔۔۔

امبر اٹھو۔۔

پر امبر ٹہری نیند کی پکی۔۔

زیان نے اس کا بازو پکڑ کر جھنجھوڑا تو وہ ہڑبڑا کے اٹھی۔۔۔

امبر اٹھوو۔۔۔

ہااائےےے اللہ کون آگیا۔۔۔۔

میں ۔۔۔۔

اس نے پوری آنکھیں کھولیں تو سامنے ہی زیان پوکٹ میں ہاتھ ڈالے سکون سے کھڑا تھا۔۔۔

آآ۔۔آاپ۔۔۔

جی۔۔میں۔۔

مجھے۔۔۔مممجھے۔۔کیوں۔۔۔اٹھایا۔۔۔

بات کرنی تھی تم سے۔۔۔

جج جی۔۔۔بولیں۔۔

دیکھو۔۔زیان اس کے قریب ہی بیڈ پر بیٹھا تو وہ پیچھے کو کھسکی۔۔۔

اور یہی حرکت اس کی زیان کو زہر لگتی تھی۔۔۔

دیکھو امبر۔۔۔اس دنیا میں نا میرا کوئی ھے ناں تمہارا ۔۔تو کیوں نا ایک دوسرے کے بن جائیں۔۔۔

آپ۔۔۔۔کے۔۔۔تو پاپا۔۔ھیں۔۔۔ناں۔۔۔پھر۔۔

نہیں ھے وہ میرا باپ بس ایک قاتل ھے وہ ۔۔۔۔

امبر میں تمہیں تحفظ دینا چاہتا ہوں وہ تمہیں بھی ڈھونڈ کر مار دے گا۔۔۔

نہیں نہیں ۔۔۔زیان۔۔مجھے۔۔مرنا۔۔۔نہیں۔۔ھے۔۔پلیز۔۔

وہ ڈر کے بھاگ کر اس کی پناہوں میں آ سمائی۔۔۔

چلو پھر تیار ہو جاؤ نکاح ھے آج تمہارا۔۔۔۔

میرا۔۔۔۔

جی آپ کا۔۔۔

کس۔۔۔سے۔۔۔

لڑکے سے۔۔۔۔

لیکن۔۔۔زیان۔۔

کیا۔۔۔

میں یہاں سے نہیں جاؤں گی۔۔مجھے یہاں ڈر نہیں لگتا۔۔۔آپ میرا کسی سے نکاح کیوں کر رہیں ھیں۔۔۔۔مجھے یہاں پر ہی رکھ لیں ناں۔۔۔

زیان کے ہونٹوں پر ایک پر اسرار مسکراہٹ آئی تھی جیسےوہ آسانی سے چھپا گیا۔۔۔

ٹھیک ھے پھر تم مجھ سے نکاح کر لو اور ہمیشہ رہنا یہاں میرے پاس ۔۔

امبر کا دل زور سے دھڑکا تھا ایک تو وہ اس کے ساتھ چپکی بیٹھی تھے اوپر سے اس کی ایسی باتیں۔۔۔

بولو۔۔منظور ھے۔۔

جج ۔۔۔۔۔جی۔۔

چلو پھر تیار ہو جاؤ جلدی میں تمہارا ڈریس بھجواتا ہوں۔۔۔

ٹھیک ھے۔۔۔

میں جاؤں ۔۔۔

جی۔۔۔

بازو تو چھوڑو پھر ہی جاؤں گا ناں۔۔۔

ہہہ۔۔ہنہ۔۔

میری جان حق کے بعد بھلا جو مرضی کرنا فلحال چلتا ہوں۔۔۔

امبر تو بے حوش ہونے کو تھی زیان کا یہ روپ دیکھ کر۔۔۔کہاں وہ کھڑوس سا شخص اور اب اتنا رومنٹک۔۔۔

بتمیز کیا سوچ رہی ھے تو شرم نہیں آتی میرا دل بھی پتا نہیں کیوں اتنا ناچ رہا ھے۔۔۔

میم یہ آپ کا ڈریس سر کہ رہیں ھیں آپ کو تیار کر کے جلدی نیچے لے آؤں۔۔۔

اوکے۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان کھانا کھا لیں۔۔۔پھر ہاسپٹل بھی جانا ھے ناں آپ نے۔۔۔

زارا کی آواز پر اس نے سے اوپر اٹھایا۔۔۔پنک رنگ کے سوٹ بالوں کی ہونی بنائی ہوئی گلابی گال وہ سیدھا اس کے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔

ان بہت دنوں بعد اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔

یہاں آؤ زارا۔۔۔

جی۔۔۔

ارمان نے اسے کینچھ کر اپنے اوپر گرایا۔۔۔

اور اسے نرمی سے اپنے بازؤں میں بھنچ کر سکون سے آنکھیں بند کیں۔۔۔

اس کی نرم و ملایم جسم کا لمس ملتے ہی ایسا لگا جیسے  ساری تھکاوٹ اتر گئی۔۔۔

ارمان کیا کر رہیں ھیں۔۔۔۔آپ۔۔۔چھوڑیں۔۔۔ناں ۔۔مجھے کوئی دیکھ لے گا۔۔۔

شششششش چپ۔۔بس کچھ دیر لیٹی رہو پھر چلی جانا۔۔۔۔

لیکن ارمان۔۔

چپ زارا۔ ۔۔اس بار تھوڑا غصے سے کہا تا کہ وہ چپ کر جائے۔۔۔

زارا جان گئی تھی اب ہو گا وہی جو ارمان چاہے گا اس لیے کوئی مزاہمت کیے بغیر اس کے سینے پر سر رکھا اور سکون سے آنکھیں موند گئی۔۔۔

ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی۔۔جب اسے اپنی گردن پر نرم گرم سا لمس محسوس ہوا۔۔۔

ارمان آس کی گردن کو ہونٹوں سے چھو رہا تھا ۔۔۔

اس کے ہونٹ گردن سے ہونٹوں کی طرف سفر کر رہی تھے۔۔

اس کی سانسوں کی تپش سے زارا کا وجود جھلس رہا تھا۔۔۔

اس کی گردن میں ہاتھ ڈال نرمی سے اس کے ہونٹوں پر قابض ہوا وہ ۔۔۔

خاموشی سے اس کی سانسیں اپنے اتار رہا تھا ۔۔۔

جانے کتنے ہی پل ایسے بیتے اب اسے اور برداشت کرنا زارا کے بس سے باہر تھا۔۔اس لیے اسے پیچھے ہٹانے کے لئے کوشش کرنے لگی۔۔۔

مگر پہاڑ نما وجود کو پیچھے کرنا اس کے بس کی بات کہاں تھی۔۔۔

میرا سانس۔۔یہ آواز ارمان کے منہ میں ہی کہیں دب گئی۔۔۔

ارمان نے نرمی سے اسے  چھوڑا۔۔۔

آپ نے مجھے۔۔۔مارنا تھا ۔۔کیا۔۔۔۔ابھی۔۔۔میرا سانس بند ہو جاتا تو۔۔۔

کیسے ہوگا تمہارا سانس بند میں ہونے ہی نہیں دوں گا۔۔۔

چھوڑے۔اب میں جاؤں۔۔۔

نہیں جانا۔۔۔جاتے ھی اکھٹے۔۔۔

چلیں ناں پھر مجھے حور اور روح سے بھی ملنے جانا ھے

نہیں میں ہاسپٹل نہیں لے کے جاؤں گا تمہیں وہ لوگ گھر آئیں گے تو مل لینا۔۔۔میں پہلے ہی بہت پچتا رہا ہو تمہی بھیج کر اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو ۔۔۔میں تو مر جانا تھا ۔۔۔۔

ایسے نہیں بولتے ارمان۔۔۔اچھا میں نہیں جاؤں گی۔۔۔۔۔

چلو آؤ کھانا کھانے چلیں۔۔۔

آپ مجھے چھوڑے گے تو اٹھو گی ناں۔۔۔

ارمان کے ہاتھ ابھی بھی اس کی قمر کے گرد بندھے ہوئے تھے ۔۔۔

اووو اچھا سوری۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

کھانے کے ٹیبل پر سب موجود تھے سوائے حور زمان ولید اور روح کے۔۔۔عافیہ بیگم بھی ان کے پاس ہی تھیں۔۔۔

کیسی ھیں تمہاری بیٹیاں اب ۔۔۔بچ گئی کیا۔۔۔

تحریم کی بات نے سب کو حیران کر دیا تھا وہ اب بھی زہر اگلنے سے باز نہیں۔ آئی۔۔۔۔

پھوپھو آپ کو سکون نہیں ھے کیا۔۔۔اگر نہیں ھے تو مہربانی کر کے ہمارا سکون برباد نا کریں۔۔۔

ارمان تمہیں تو ماما نے کچھ نہیں کہا تم کیوں اتنے گرم ہو رہے ہو ۔۔۔۔

جن کو کہا ھے وہ تو ہمارے بہنیں ھیں ناں۔۔۔

اوہو تو امان بھی بولا بھائی کے ساتھ میں۔۔۔

میں نے کہا تھا نا جادوگرنی ھیں سارے گھر والوں کو پیچھے لگایا ہوا ھے۔۔۔

بس آپا بہت ہوا اب آپ نے میری بیٹیوں کو کچھ کہا تو اچھا نہیں ہو گا۔۔۔یاد رکھیے گا ۔بس رہ لیا آپ کے آگے جتنا چپ رہنا تھا اب اگر آپ نے کچھ کہا تو بہت برا ہو گا۔۔۔

زمل بی بی آپ کا فون کب سے بن رہا ںے۔۔۔

جاؤ لاؤ کس کا ھے۔۔۔

جی ملک لکھا ہوا ھے اوپر۔۔۔

گھر میں داخل ہوتے زمان کے کانوں میں یہ بات پڑ چکی تھی۔۔۔

ملک۔۔۔کے نام پر سارے گھر والوں کی نظریں زمل کی جانب اٹھیں تھیں۔۔۔

ملک کون ھے زمل۔۔۔

وہ ۔۔وہ۔۔نانو۔۔میرے ٹیچر۔۔ہاں میرے ٹیچر ھیں۔۔۔ان کی کال آرہی ھے۔۔۔

ملک کے نام پر حیا کے دماغ میں جماکھا سا ہوا۔۔۔

دادا جان وہ آدمی جس نے روح پر گولی چلائی تھی۔۔۔

وہ وہ بھی ۔۔یہی نام لے رہے تھے۔۔۔۔ملک۔۔۔

کیا۔۔۔۔

جی دادا جان میں نے بھی سنا تھا۔۔۔

اب یہ کونسا ملک ھے اس کا پتا بھی لگوانا پڑے گا۔۔۔

زمان پتر تو کیوں آ گیا۔۔۔

نقاب پوشوں کے چہرے سے پردہ اٹھانے

زمل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہ بات بولی تھی اس نے۔۔۔

کیا مطلب بیٹا۔۔

کچھ نہیں دادای جان اب ہاتھ پر ہاتھ دہر کر تو نہیں بیٹھ سکتا نا۔ پتا تو کرنا پڑے گا کہ کس نے میری بہن پر گولی چلائی۔۔۔

بس اسی لیے گھر آیا تھا کام تھا کوئی ابھی واپس جاتا ہوں۔۔۔

اچھا بیٹا اللہ تمہارے مدد کرے۔۔۔

اور زمل کی چہرے کے رنگ دیکھنے کے قابل تھے ۔۔۔اسے لگ رہا تھا اس کی جان زمان نکال دے گا۔۔۔۔

دادا جان آپ سے بات کرنی ھے ۔ 

اب جبکہ حور ٹھیک ہو گئی تو میں چاہتا ہوں آپ ہمارا ولیمہ رکھ دیں۔۔۔

میرا بھی۔۔

اور میرا بھی۔۔۔

زمان کے بعد ارمان اور امان دونوں ایک کے بعد ایک کر کے بولے۔۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا کتنی جلدی ھے ناں تم لوگوں کو۔۔۔

جی بھائی بہت۔۔۔

زمان کے چہرے پر آج تنزیہ مسکراہٹ تھی۔۔۔۔

اور آج کئی لوگوں کے دلوں میں اس کا ڈر بھی بیٹھ چکا تھا۔۔۔

زیان بیٹا مولوی آ گیا ھے نیچے۔۔۔

اوکے چچا آپ بیٹھائیں جا کہ انہیں میں امبر کو لے کر آتا ہوں۔۔۔۔

زیان نے دروازہ کھولا تو سامنے ہی وہ سجی سنوری اس کے دل کی دھڑکنوں کو بڑھا رہی تھی۔۔۔

سرخ رنگ کے لہنگا۔۔۔سرخ لپسٹک سے سجے ہونٹ ناک میں ہیرے کی نتھلی،بھاری زیورات میں ملبوس زیان کو بے بس کر رہی تھی۔۔۔۔

زیان کی نظریں اس سے ہٹنے سے انکاری تھیں۔۔۔مگر بس تھوڑا صبر اور کرنا تھا پھر وہ اس کی تھی ۔۔

امبر نیچے چلو اس سے پہلے کہ میں بہک جاؤں اور گناہگار ہو جاؤں۔۔

امبر نے نا سمجھ سے اس کی طرف دیکھا تو زیان نے منہ پر ہاتھ پھیر کر خود کو پرسکون کیا اور آگ بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور نیچے کی طرف چل دیا۔۔۔۔

جہاں ایک نئی زندگی اس کی منتظر تھی۔۔۔۔

آج تو سب حیران تھے بڑی سے بڑی حسینا زیان کو پگھلانے سے قاصر تھی مگر یہاں تو ایک چھوٹی سی لڑکی نے اس کے دل کی دنیا ہلا کر رکھ دی تھی۔۔۔

نکاح میں صرف اس کے وفادار لوگ شامل تھے۔۔۔

اکرام بابا بہت خوش تھے آج زیان کے لئیے وہ ہمیشہ سے ہی دھوکہ میں رہا ھے اب اس کی زندگی میں خوشی آ رہی تھی تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہے تھے۔۔۔۔

اجازت ھے زیان بیٹا۔۔۔

جی بابا۔۔۔

زیان ظفر۔۔۔اس سے پہلے کہ مولوی آگے بڑھتا زیان بول اٹھا۔۔۔

رکئے میرے باپ کا نام ظفر نہیں آزر شاہ ھے۔۔اور میں زیان ملک نہیں زیان شاہ ہوں۔۔

سب ہی اپنی اپنی جگہ حیران تھے اور خوش بھی کہ زیان سچ جان گیا ھے۔۔۔۔

سب کہ چہرے کھل اٹھے تھے اب منتظر تھے سب ملک کے انجام کے لئے۔۔۔۔۔

کچھ دیر بعد امبر زیان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️🔥

زمل تمہیں کیا ہوا ۔۔۔تمہارے 

رنگ رنگ کیوں اڑ رہے ھیں۔

نہہ۔۔نہہ۔۔نہیں مجھے کیا ہونا ھے۔۔۔میں آتی ہوں امی۔۔۔

وہ زمان کی نظروں کا مقابلہ نہیں کر پائی اس لئیے آٹھ کی جانا ہی مناسب سمجھا۔۔۔

اسے لگا اگر وہ کچھ دیر وہاں بیٹھی تو اس کا سچ پکڑا جائے گا۔۔۔۔

اوکے دادا جان میں چلتا ہوں اب ہاسپٹل ۔۔۔آپ گھر کا خیال رکھیے گا۔۔۔

زمان بھائی میں بھی آؤں آپ کے ساتھ ۔۔

نہیں حیا بیٹا آپ نہیں جاؤ گے۔۔۔

زمان بھائی آپ مجھے بیٹا نا بولا کریں۔۔میں بھی حور جتنی ہی ہوں اسے تو آپ بیٹا نہیں بولتے مجھے بھی نا بولا کریں۔۔۔

حیا کی بات سب کے چہروں پر مسکراہٹ کا باعث بنی تھی۔۔۔

اوکے حیا۔۔

اب ٹھیک ھے۔۔۔

اوکے میں چلتا ہوں اللہ حافظ دادو۔۔۔

زارا پتر تو جا امان کو چائے دے کے آ۔۔

اوکے ممی جی۔۔۔

عمارہ تم عافیہ اور عظمی تیار رہنا شام کو آفس سے آتے وقت تم لوگوں کو ہاسپٹل لے جاؤں گا۔۔۔

ٹھیک ھے سالار بھائی۔۔۔

اور سکندر تم گھر رہو گے ۔۔۔

ٹھیک ھے ۔۔اب میں جا رہا ہوں بہت ضروری میٹنگ ھے۔۔۔

اس وقت ۔۔۔۔۔

ہاں وہ زیان انڑسٹریز کے مالک سے کانٹریکٹ ھے۔۔۔اس سلسلے میں ۔۔۔

اچھا پتر اللہ تجھے کامیاب کرے۔۔۔

اللہ حافظ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

امان ۔۔۔

امان۔۔۔

امان کہاں ھیں آپ۔۔

حیا کمرے میں امان کو چائے دینے آئی تھی مگر امان وہاں نہیں تھا۔۔۔

وہ کمرے سے باہر نکلی تو اس نے امان کو زمل کے روم سے نکلتے دیکھا۔۔۔

امان۔۔۔

آپ ویہاں کیا کر رہے تھے۔۔

کہاں۔۔

زمل کے روم میں۔۔

وہ میں اس کا فو۔۔۔وہ میں اس کے روم کا اے سی چیک کر رہا تھا شاید کام نہیں کر رہا تھا وہ۔۔۔

اوووہ اچھا۔۔۔

وہ آپ کی چائے دکھ دی ھے پی لیجئے گا۔۔

تم کہاں جا رہی ہو۔۔

میں ماما پاس۔۔۔

کیوں۔

ویسے ہی وہ پریشان ھیں ناں روح اور حور کی وجہ سے۔۔۔

میں بھی تو پریشان ہوں۔۔

ہیییییییں وہ کیوں۔۔۔

حیا کے انداز پر امان کو  سب ہنسی آئی۔۔۔مگر وہ چھپا گیا

اچھا ادھر آؤ کمرے میں چلتے ھیں۔۔۔

نہیں نا مجھے نیچے جانا ھے۔۔۔

نہیں تمہیں میرے ساتھ جانا ھے۔۔۔

امان جانے دیں ناں پلیز۔۔۔

نہیں ۔۔۔

امان اسے زبردستی روم میں لے آیا۔۔۔

کیا ھے امان۔۔۔

چھوڑیں مجھے۔۔۔

حیا جانتی ہو ناں کتنے دن سے چھوڑا ہوا ھے۔۔۔۔

اتنے دن سے میں نے تمہیں محسوس نہیں۔ کیا اور یہی سب سے مشکل کام ھے میرے لئیے۔۔۔تمہیں سمجھ نہیں آتی کیا۔۔۔

سوری امان۔۔۔

میری جان سوری کرنے کا نہیں بولا میں تو بس یہ کہ رہا ہوں کہ مجھے مت ترسایا کرو ۔۔۔میں چاہوں تو تم سے اپنا حق وصول کر سکتا ہوں مگر میں جانتا ھوں تم میں اپنی سکت نہیں کہ امان شاہ کو جھیل سکو۔دو منت میں تو تمہاری سانس بند ہو جاتا ھے۔۔۔ایسا ہی ھے ناں۔۔۔

حیا کے گال سرخ ہو چکے تھے امان کی اتنی بے باک باتوں پر۔۔۔

آااااا میرا بےبی بلش کر رہا ھے۔۔۔

امان اس کے ہونٹوں پر جھکنے لگا ۔۔۔

امان پلیز۔۔

نو پلیز اونلی فیل۔۔ 

امان نے ایک ہاتھ اس کےبالوں میں پھنسایا اور ایک ہاتھ کمر میں ڈال کر اس بیڈ پر گرایا اور خود اس کے اوپر جھکا۔۔اور نرمی سے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں جکڑا۔۔۔

امان کے دہکتے لمس سے حیا کی جان ہوا ہوئی تھی۔۔۔

وہ اس کے ہونٹوں سے اپنی بھر پور پیاس بجھا رہا تھا۔۔۔

حیا نے مضبوطی سے اس کی شرٹ کے کالر کو جکڑ رکھا تھا آخر کو اتنے مضبوط مرد کو برداشت کرنا اس نازک کے بس میں کہاں تھا۔۔۔

ایک پل کے لئے اس کے ہونٹوں کو آزادی دی تو دوسرے پل ہی حیا کی سانسیں امان کی منہ میں سنائی دے رہین تھیں۔۔۔

مگر اس بار نرمی کہیں کھو گئی تھی ۔۔۔بہت شدت تھیں اس کی پکڑ میں۔۔۔

مگر وہ جلدی ہی اس کے ہونٹوں کو چھوڑ چکا تھا۔۔۔

اس کے حیا کے لپس کو دیکھا جس کے کنارے سے خون نکل رہا تھا۔۔۔

جھک کر وہ خون کی بوند کو ہونٹوں سے چنا۔۔۔

سوری حیا۔۔میں پتا نہیں کیوں بے بس ہو جاتا ہوں۔۔تمہیں دیکھ کر۔۔۔

امان پلیز نو۔۔۔

امان ایک بار پھر اس کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا مگر بے حد نرمی سے۔۔۔

 ❤️❤️❤️❤️❤️❤️

زمان ہاسپٹل پہنچا تو حور جاگ چکی تھی۔۔۔

زمان۔۔۔

جی ۔۔۔

آپ کہاں گئے تھے۔۔۔

میں تمہارے اور روح۔۔۔میرا مطلب تمہارے لئے کچھ کھانے کو لینے گیا تھا۔۔۔

چلو جلدی کھاؤ ۔۔۔

زمان نہیں یہ بہت گندہ ھے۔۔۔

حور کھاؤ گی تو۔ جلدی ٹھیک ہو گی ناں۔۔چلو جلدی کرو۔۔۔

لیکن زمان۔۔۔

حور چپ بس کھانا ھے بولنا بعد میں۔۔

ارمان اس کے لئے سوپ لایا تھا جو حور کو بلکل بھی پسند نہیں تھا۔۔۔

مگر مجبوری تھی کھلانا تو تھا ھی ورنہ زمان کبھی بھی اسے مجبور نہیں کرتا ۔۔۔

❤️❤️❤️❤️😍

روح۔۔۔

جی۔۔۔

جوس پی لو تم نے صبح سے کچھ نہیں کھایا ماما نے فریش بھیجا ھے ابھی پی لو۔۔۔

ولید دم نہیں کر رہا ناں ۔۔۔

لیکن روح۔۔۔

نو ولید ۔۔

اوکے چلو میں پی لیتا ھوں۔۔۔

ولید نے بھرا سا گھونٹ بھرا اور جلدی سے روح کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے قریب کیا اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں کے کر اپنے منہ میں بھرا ہوا جوس اس کے منہ میں انڈیل دیا۔۔۔

کیسا لگا میرا طریقہ۔۔۔

ولید کتنے گندے ھیں آپ ۔۔۔

ہاں میں ہو نا گندہ اپنی روح کے لئے۔۔

اب پیو گی یا پلاؤں ایسے ہی۔۔

نہیں نہیں میں پی رہی ہوں۔۔۔

گڈ گرل۔۔۔

آپ بیڈ بوائے۔۔۔

جو حکم میرے آقا۔۔۔

آپ بہت گندے ھیں ولید ۔۔

ہاں میں ہوں ناں گندہ مگر صرف اپنی روح کے لئے باقی سب کے لئے میں بہت خطرناک ہوں۔۔۔

ویسے خطرناک تو میں تمہارے لئے بھی ہوں۔۔کیسے بولتی ہو ۔۔۔۔چھوڑ دیں نا ولید۔۔میرا سانس بند ہو رہا ھے۔۔۔۔اٹھ جائیں بہت بھاری ھیں آپ۔۔۔ولید روح کے انداز میں ہی اس کی نکلیں اتار رہا تھا اور روح پانی پانی ہو رہی تھی اس کی باتیں سن کے۔۔۔

اچھا روح بول کے تو دیکھاؤ ایک بار۔۔۔

کیا ھے ولید اگر آپ نے بولنا بند ناں کیا تو میں نے رونے لگ جانا ھے۔۔۔

ایسے کیسے رونے لگ جانا ۔۔۔تم رؤ گی اگر پھر تو اور بھی اچھا ھے مجھے تمہارے آنسوؤں کا ذائقہ بہت پسند ھے۔۔اور تم تو اچھے سے جانتی ہو کیسے پیتا ھوں میں تمہارے آنسو۔۔۔۔

ولییییییییییید۔۔۔۔۔۔بس کر دیں۔۔۔

روح پورے زور سے چیخی۔۔۔

رووووووووووووح کر گیا چپ ۔۔۔

ولید کا انداز بھی ویسا ہی تھا۔۔۔۔

چلو میرے جان جلدی جلدی ختم کرو ہمیں گھر جانا ھے آج۔۔۔

ہائےےےے سچی ہم گھر جائیں گے۔۔۔

بلکل۔۔وہ کیا ھے ناں ہاسپٹل کا بیڈ بہت چھوٹا ھے یہاں میں تمہارے ساتھ لیٹ نہیں سکتا اور کہیں اور مجھے نیند نہیں آتی۔۔تمہیں پتا ھے ناں مجھے ڈر لگتا ھے اپنی روح کو باہوں میں لئے بغیر۔۔۔

ولی آپ کو سچ میں ڈر لگتا ھے میرے ںغیر۔۔۔

ہاں ناں روح۔۔۔

ولید معصومیت کی بھرپور ایکٹنگ کر رہا تھا اور روح کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ چکے تھے وہ معصوم اس کی چلاکیاں کہاں سمجھتی تھی۔۔۔

ولی میں اب پکا آپ کو ہگ کر کے سلاؤں گی اچھا اب آپ کو ڈر بھی نہیں لگے ھے۔۔۔

 ولی کو اپنے نازک سے بازوں میں بھر کر وہ سینے سے لگا چکی تھی۔۔۔

اور ولید کے لئیے اس سے بڑھ کر اور اچھی بات کیا ہوگی۔۔

تنہائی میں محبوب کی باہیں۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

اسمہ بیٹا آپ امبر بیٹے کو کمرے میں لے جاؤ۔۔

جی بابا۔۔آئیں آپو۔۔۔

اسمہ اکرام بابا کی بیٹی تھی اور وہ دونوں زیان کے فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔۔۔

نہیں اسمہ تم ایسا کرو میرے لئیے چائے بناؤ میں خود ہی امبر کو اوپر چھوڑ آتا ہوں۔۔۔

جی بھائی۔۔۔

زیان نے امبر کو بازوں میں اٹھایا۔۔اور اوپر کی طرف چل دیا۔۔۔

ھییں آپ نے مجھے اٹھایا کیوں۔۔۔

اتنا بھارت لہنگا پہنا ہوا ھے اگر گر جاتی تو۔۔۔

اوووووہ ہاں۔۔

اچھا چلو اب بازو ڈالو میری گلے ورنہ ہونے ساتھ مجھے بھی گراؤ گے۔۔۔

زیان نے ٹانگ سے کمرے کا دروازہ کھولا اور ہاتھ بڑھا کر لائیٹس آن کی۔۔۔

پورے کمرہ پھولوں سے سجایا گیا تھا رنگ برنگے پھولوں میں گھڑے ان پھولوں کا ہی حصہ لگ رہے تھے۔۔۔

بیٹ پر چاروں جانب سرخ گلابوں کی پتیاں بھکری ہوئی تھی۔۔

وائیٹ بیڈ شیٹ کے اوپر سرخ گلاب الگ ہی نظارہ پیش کر رہے تھے۔۔

جگہ جگہ کینڈلز سٹینڈ میں کینڈلز پری تھی جو ابھی تو بند تھی۔۔۔

امبر ابھی تک زیان کے بازؤں میں تھی اور کمرے کا لگن سے جائزہ لے رہی تھی۔۔۔

یہ کینڈلز کیوں۔۔۔

رات کو بتاؤں گا۔۔۔تیار کر لو خود کو آج کوئی جگہ نہیں ہو گی مجھ سے بھاگنے کی بس میرا سینا میسر ہو گا چاہو تو لپٹ جانا چاہو تو چھپ جانا ۔۔

امبر کا دل زور سے دھڑکاتھا۔۔زیان کی معنی خیز باتوں پر۔۔۔

مجھےےے۔۔۔نیچے۔۔۔اتار۔۔۔۔دیں۔۔

اس کی قربت میں آواز

تک نہیں نکل رہی تھی۔۔مگر رات کو کیا کرے گا وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی۔۔۔

زیان نے نرمی سے اسے بیڈ پر بیٹھایا۔۔۔اور مزید جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔۔۔

سو جاؤ امبر پھر میرے سے شکوا نا۔ کرنا کہ نیند پوری نہیں کرنے دی۔۔۔کیونکہ آج کی رات کی بلکہ اب کے بعد تمہارہ ہر لمحہ میرا ھے۔۔۔

بولتے ہوئے اس کے ہونٹ امبر کے کان کی لوہ کو چھو رہے تھے۔۔۔

امبر کی جان نکل رہی تھی اس کے دہکتے لمس سے۔۔

چلتا ہوں میری جان ابھی کام ھے تھوڑا تب تک تم بھی سو جاؤ۔۔

اور ہاں لپسٹک نا اتارنا میں خود اتاروں گا اپنے طریقے سے تم مجھے ایسی ہی ملو جیسی بیٹھی ہو میں فرصت سے اپنی جان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔

آتا ہو تھوڑی دیر تک۔۔۔

اللہ حافظ۔۔۔

ھیں یہ آج مسڑ کھڑوس کو کیا ہوا مجھے لگتا کوئی مووی دیکھ کر آئیں ھیں۔۔

مجھے واقعی میں بہت نیںد آرہی ھے۔۔۔

چل امبر پتر سو جا۔۔۔کھڑوس تو چلا گیا۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

سالار صاحب زیان سے میٹنگ کرنے اس کے آفس آئے تھے۔۔

کب تک آئیں گے آپ کے باس۔۔

جی سر وہ نکل رہیں ھیں بس۔۔

اوکے۔۔۔

دروزہ کھولا تو ایک خوبرو جوان مغرور چال چلتے ہوئے ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔

سالار صاحب تو اس کی شکل میں ہی گم تھے۔۔۔ان کے منہ سے بے ساختہ نکلا ۔۔

آزر۔۔۔

اور سالار صاحب کے منہ سے اپنے باپ کا نام سن کر جھٹکا لگا زیان کو وہ جانتا تو تھا کہ سامنے کھڑا ہوا انسان اس کا کیا لگتا ھے مگر ان کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اس شدید حیرت کا جھٹکا لگا۔۔

اسے امید نہیں تھی کہ وہ اتنی جلدی اپنے آپ کو پہچان جائیں گے۔۔۔

بیٹا۔۔۔۔۔کون۔۔۔ہو تم۔۔۔

یہ لفظ مشکل سے ان کی زبان سے نکلے۔۔

میں زیان حیدر ۔۔۔

کالے گلاسس کے پیچھے آنکھیں آنسو ضبط کرنے کی کوشش میں لال ہو چکیں تھیں۔۔

سالار صاحب سے بے اختیار زیان کو سینے سے لگایا۔۔

اور زیان کا بھی یہی حال تھا کسی اپنے کا حصار پا کے لگا جیسے دنیا مل گئی۔۔۔

وہ کھل کے رونا چاہتا تھا مگر ابھی ٹایم نہیں تھا سچ بتانے کا تو اسے اپنے آپ کا سنبھالنا ہی بہتر لگا۔۔۔

آپ سے مل کر خوشی ہوئی ۔۔

مجھے بھی۔۔۔

آپ کو میرے سیکٹری نے سب بتا ہی دیا ہو گا تو کیا آپ کو یہ ڈیل منظور ھے۔۔۔

جی بیٹا میری طرف سے فائنل ھے۔۔۔

اوکے انکل انشاللہ یہ ہمارے لئے فایدہ مند ثابت ہوگی۔۔۔

اوکے بیٹا اللہ حافظ۔۔

اللہ حافظ۔۔

وہ جلد سے جلد گھر جانا چاہتے تھے انہیں زیان میں آزر نظر آ رہا تھا بس وہ اپنی کیفیت سے چھٹکارا چاہتے تھے۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

آپا بھائی آئے ہی نہیں ہمیں ہاسپٹل جانا تھا۔۔۔

آتے ہوں گے بس عمارہ تھوڑی دیر دوکو۔۔

ارے ارے سامنے تو دیکھو تم لوگ کہاں جانے کی تیاری کر رہی ہو۔۔۔وہ تو خود گھر آ گئے۔۔ھیں۔۔

عمارہ عافیہ اور عظمی بیگم بیٹھی باتیں کر رہیں تھیں جب ان کی نظر سامنے ولید اور زمان پر پڑی جو حور اور کو اٹھائے اندر کی طرف آ رہے تھے۔۔۔

ارے بیٹا تم حور کو کیوں کے ائے۔۔

ماما یہ وہاں سیف نہی تھی اس لئیے میں اسے گھر کے آیا ۔۔۔

اور دوسری بات حور کے پاس کوئی نہیں جائے گا کوئی کا مطلب کوئی بھی نہیں میرے سے پوچھے بغیر اور آپ لوگوں کو بھی ملنا ھے تو ابھی مل لیں۔۔۔

اور پتر تو کیوں لے آیا روح کو۔۔۔

اس سے پہلے کہ ولید کچھ کہتا روح بول اٹھی۔۔۔

وہ تائی جان ولی کو ڈر لگتا تھا ناں میرے بغیر اس لئے۔۔۔

ھیییں پتر ڈر اور اسے۔۔۔

آآااا ماما روح کو سب پتا ھے میں آتا ہو اسے کمرے میں چھوڑ کر۔۔۔

ویسے ایک بات تو ھے۔۔

میری بیٹیاں بہت خوشنصیب ھیں کہ انہیں اتنے پیار کرنے والے شوہر ملے۔۔۔

بہت معصوم ھیں عمارہ تیرے بیٹیاں اسے لیے اللہ نے ان کے لئے اچھا کیا۔۔۔

جی آپا اور آپکا بیٹا بہت پاگل ھے۔۔

ہاں مجھے پتا ھے میں نے ہی پیدا کیا ھے۔۔۔

ہاہا جی اپا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زیان گھر آیا تو رات ہو چکی تھی۔۔

اس نے آہستہ سے دروازہ کھولا تو سامنے ہی امبر تمام تو ہتھیاروں سے لیس سونے میں مگن تھی۔۔۔

وہ آہستہ سے چلتا ہوا اس کے قریب آیا اور اس کے بلکل پاس ہی بیڈ پر بیٹھ گیا۔۔۔

امبر۔۔۔

اسے نے دھیرے سے اسے پکارا ۔۔۔

امبر۔۔

مگر کہاں نیند کی پکے ایسے کیسے آٹھ جاتی۔۔

زیان نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے اپنے اوپر گرایا اور خود بیڈ پر اڑھا ترچھا گر گیا۔۔

زیان کے اوپر گرنے سے امبر ہڑبڑا کے اٹھی۔۔۔

کو۔۔کون ھے۔۔

میں ہوں مسسز 

آآپ۔۔۔کب ائے۔۔

جب آپ نیند کے مزے لے رہیں تھیں۔۔

اچھا پھر سونے دیں مجھے۔۔نیند آرہی ھے۔۔۔

آہ ہاں ایسے کیسے۔۔۔

زیان کروٹ لے کر اس کے اوپر اگیا۔۔۔

اور اپنا منہ بلکل اس کے منہ کے قریب کے ایا۔۔

امبر نے زور سے آنکھیں بند کی ۔۔یہ سب اس کے لئیے نیا تھا۔۔۔ابھی وہ اپنے رشتے کے آغاز کے لئے تیار نا تھی۔۔۔

اس کی گرم سانسوں کی تپش سے اس کا چہرہ جھلس رہا تھا۔۔۔

زیان نے لب اپنی بیوٹی بون ہر محسوس ہوئے تو اس کے بدن میں کرنٹ دوڑا۔۔۔

جلدی سے آنکھیں کھولیں۔۔مگر تم تک زیان اس کے ہونٹوں پر جھک چکا تھا۔۔

اس کے گرم لمس سے وہ تڑپ کر ہی تو رہ گئی تھی۔۔

اور زیان اپنی زندگی کے ساری کرواہٹیں آج امبر کے ہونٹوں سے بھلا رہا تھا۔۔

وہ اس کے ہونٹوں کے جام پینے میں اس قدر مگن تھا کے اس احساس ہی نہیں ہوا کہ سامنے والا وجود کس حال میں ھے۔۔۔

اس نے دھیرے سے اس ہونٹوں کو چھوڑا۔۔

امبر کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا اور لپسٹک تو کب کی زیان کے پیٹ میں جا چکی تھی۔۔۔

اس کے بھیگے ہوئے لب اسے مزید بہکا رہے تھے آج تو موقع بھی تھا اور دستور بھی اور سب سے بڑھ کر حق بھی تھا ۔۔

ایک بار پھر اس کے ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا۔۔

وہ مچل رہی تھی اس کی پکڑ میں مگر اس کی پکڑ بہت سخت تھی ۔۔

آج تو وہ جی بھر کر اپنی پیاس بجھانے کے چکر میں تھا۔۔۔

اس کے ہونٹوں میں اپنے ہونٹ الجھا کر اب اس کے ہاتھ اس کی قمر پر رینگ رہے تھے۔۔۔

اور امبر کی جان ہوا ہو رہی اس کی جسارتوں پر۔۔

جان تو تب نکلی جب قمر سے بلاؤز کی ڈوریاں کھلتی ہوئیں محسوس ہوئی۔۔

تڑپ کر زیان کو پکارنا چاہا مگر آواز زیان کے منہ میں ہی کہیں دب گئی۔۔

وہ اس کے ہونٹ اس قدر سرخ کر چکا تھا جیسے ابھی خون نکل آئے گا مگر دل تو ابھی بھی نہیں بھرا تھا۔۔

اس کے بھیگے ہونٹ زیان شاہ کو بہکا رہے تھے۔۔۔

ہاتھ کو پیچھا لیجا کر اس کے بلاؤز کی ڈوریاں کھولنی شروع کئیے۔۔

اس کی انگلیاں قمر سے ٹچ ہوئیں تو امبر کا دل زور شور سے دھڑکا۔۔

زیان ڈوریوں کو چھوڑ کر انگلیوں کے پوروں سے اس کی قمر کو سہلانے لگا۔۔

لیکن امبر کی جان نکل رہی تھی اس کے اس کی انگلیوں کے گرم لمس سے۔۔

اس کی گردن میں منہ چھپائے ایک ہاتھ پیچھے قمر پر اور ایک اس کے بالوں میں وہ اسے بلکل بے حوش کرنے کے موڈ میں تھا۔۔۔

کھینچ کے ڈوریاں کھنچی تو موتی ٹوٹ کر نیچے بکھر گئے۔۔

موتیوں کی آواز نے ایک الگ سا ارتعاش پیدا کیا۔۔

اس کے دھیرے سے کندھے سے اس کا بلاؤز ہٹا کر وہاں لب رکھے۔۔۔

اپنے کندھے پر اس کا گرم لمس پاتے ہی امبر کے ہاتھ پاؤں پھولے تھے۔۔

ز۔۔۔۔زیا۔۔۔۔زیان۔۔

شششششششش امبر۔۔بس محسوس کرو ان لمحوں کو۔۔۔

انگلیوں میں انگلیاں الجھا کر سکون سے اس کے لبوں کو اپنی پکڑ میں لیا۔۔۔

لبوں سے گردن تک اور پھر کندھے۔۔ہر جگہ اپنا لمس بکھیر رہا تھا وہ۔۔۔

امبر آج میری رات ھے بلکہ ہم دونوں کی ھے لیکن جو انجوائے کرے گا اسی کی ہو گی ناں اب تمہیں تو رونا ھے ساری رات۔۔لیکن بھول جانا کہ تمہارے آنسو مجھے پھگلا سکیں گے۔۔۔آج اپنے وجود پر میری شدتیں برداشت کرنی ہوں گیں تمہیں۔۔۔

وہ انگھوٹھے سے اس کے ہونٹ سہلاتا ہوا اسے اپنے ارادے بتا رہا تھا۔۔

بٹن کھولو میری شرٹ کے۔۔۔۔

عجیب سی فرمائیش پر امبر کی آنکھیں کھل چکیں تھیں۔۔

اس نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا مگر وہ پر سکون سا اسے دیکھنے میں محو تھا۔۔۔

ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔۔۔تمہارا ہی ہوں جتنا چاہو دیکھنا۔۔ابھی جو کہا ھے وہ کرو۔۔۔

لیی۔۔لیککن۔۔۔لیکن۔۔

کیا لیکن۔۔بٹن کھولو ۔۔

و۔۔۔وہ۔۔۔

کیا کر رہی ہو امبر ابھی تو صرف بٹن کھولنے کا ہی بولا ھے نا۔۔

مگر پر زور دیتا وہ اسے اور خدشات میں ڈال چکا تھا۔۔

زیا۔۔۔۔زیا۔۔۔۔زیان۔۔پل۔۔۔لیز۔۔مم۔۔میر۔۔میرے ۔۔۔سے۔۔۔نن۔نہی ہو گا۔۔۔۔

کیوں نہیں ہو گا کوئی مشکل کام تو نہیں کہا نا ۔۔۔

چلو شاباش میرا بچہ شرٹ کے بٹن کھولو جلدی سے۔۔۔

اس کا ہاتھ پکڑ پر شرٹ پر رکھا جو امبر نے جلدی سے پیچھے کر لیا۔۔۔

امبر پیار سے سمجھا رہا ہوں نا میرے جان تو سمجھ جاؤ بعد میں جو ہوگا وہ تم سے برداشت نہیں ہو گا۔۔۔

اس کا انداز ایسا تھا کہ امبر ایک پل میں اہم گئی تھی۔۔۔

اس نے دوبارہ سے اس کا ہاتھ پکڑ کر بٹن پر رکا تو اس بار امبر نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کئے۔۔۔

بٹن کھول کر اس کی شرٹ کو کندھوں سے سرکایا۔۔

لیکن نظریں نیچے کی طرف جھکیں ہوئیں تھیں ۔جیسے اگر اوپر اٹھائیں تو جانیں کیا ہو گا۔۔

زیان نے اس کو دوپٹہ سے آزاد کیا تو اس کی جھکی گردن مزید جھک گئی۔۔۔

اس نے سائڈ ٹیبل سے لائٹر اٹھایا تو امبر ایک دن ع

سہم گئی۔۔۔

لائیٹر جلا کر وہ اس کے اتنا قریب ہو گیا کہ ان کے بیچ میں ہوا کا گزر بھی ناممکن تھا۔۔۔۔

اس کے ہونٹوں کے قریب لائٹر لا کر اسے ڈرانا چاہا اور امبر تو اصل کی ڈرپوک بہت پہلے سے ہی ڈر چکے تھی۔۔۔

ایک آنسو ٹوٹ کر اس کی گال پر بہا جیسے زیان سے اپنے ہونٹوں سے چنا۔۔

ڈرو نہیں تمہیں نہیں جلاؤں گا۔۔۔

اس نے ہاتھ بڑھا کر لائٹس آف کر دیں۔۔

اور لائٹر کی آگ بھی بند ہو چکی تھی۔۔کمرے میں اس وقت مکمل۔اندھیرا چھا چکا تھا۔۔۔

امبر اندھیرے کو محسوس کر کے چلا اٹھی۔۔۔

لیکن زیان نے اسے کی چیخ کو اس کے منہ میں ہی دبا دیا تھا۔۔۔

اندھیرا تینائی اور محبوب کے لب کون ظالم نا بہکے۔۔یہ تو پھر زیان شاہ تھا اور محبت بھی باہوں میں تھی۔۔۔

ایک دم سے اٹھے چھوڑ کر زیان اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

جب امبر کو لگا کہ زیان پاس نہیں تو اس نے اسے پوکارا۔۔

زیا۔۔۔زیان۔۔۔کہ۔۔۔کہاں ھیں ۔۔۔آپ۔۔۔

زی۔۔۔زیا۔۔۔زیان۔۔۔پلیز ۔۔۔ایسا ناں کریں۔۔۔۔

پلیز۔۔۔۔سامنے۔۔۔آئیں زیان نے۔۔۔

اندھیرے کمرے میں ہلکی سی لائٹر کی آگ چمکی۔۔

آگ کی روشنی میں اس کو زیان کا وجود محسوس ہوا۔۔۔

وہ بھاگ کر اس کے سینے سے آ لگی۔۔

زیان نے اسے بازؤں میں لئے آہستہ آہستہ ساری کینڈلز جلا دیں۔۔

پورا کمرے میں روشنی ہو۔ کی تھی۔۔۔

زیان نے اس کی طرف دیکھا تو دوبٹہ سے بے نیاز بالاؤز کندھوں سے نیچھے گرا۔۔۔اس کے جسم کے سبھی نشیب و فراز ظاہر کر رہا تھا۔۔۔

وہ بہکا بہکا سا اس کی جانب جکھا اسے بازؤں میں اٹھایا اور بیڈ پر لے لے آیا۔۔۔

نرمی سے اسے لیٹایا اور اپنے بازو سے واچ نکالا پینٹ کی پاکٹ سے کیز وغیرہ نکال کر ٹیبل پر رکھے۔۔۔اور امبر پر جھک گیا ۔

اپنے اوپر وزن محسوس کر کے امبر نے آنکھیں کھولیں تو زیان اسے اپنی پناہوں میں لئے ہوئے تھا۔۔

زیان نے اس کے بازو اپنی پشت پر رکھے تو امبر اس کے سینے میں چھپ چکی تھیں۔۔۔

اپنے جسم پر اس کے ٹھنڈے ہاتھوں کا لمس زیان کو سکون دے رہا تھا۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی تھی آج یہ سب جو ہو رہا ھے نا تمہاری وجہ سے ہی ہو رہا ھے کس نے کہا تھا اتنا خوبصورت لگنے کی۔۔۔زیان شاہ تو بہکے گا ناں پھر میرا تو کچھ نہیں گیا۔لیکن میری چھوٹی سی جان کی جان کر بن گئی ھے۔۔۔

وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا اس کے کان کی لو کو دانتوں میں دبا چکا تھا۔۔امبر کی ہلکی سے سسکی نکلی تھی۔۔۔

اوو میرے بچے کی تو ابھی سے سسکیاں نکل رہیں ھیں آگے کیا کرو گی۔۔۔

مگر امبر خاموش تھی زیان کی گردن میں منہ دئے وہ پر سکون سی کیٹی ہوئی تھی۔۔

سکون تب غارت ہوا جب زیان کا لمس اسے اپنی شاہ رگ پر محسوس ہوا۔۔

اس نے دھیرے سے اس کے لہنگے کا بلاؤز اس کے جسم سے علیحدہ کیا تو امبر نے زور سے اس کی پشت کو سینے میں بھنچا۔۔۔

اس کی انگلیوں کو اپنی انگلیوں الجھا کر وہ اس کے ہونٹوں پر جھکا امبر کی سانسیں پینے لگا۔۔۔

ہونٹوں سے لبوں نے نیچے کی طرف شروع کیا۔۔۔۔

اس کی گردن پر لب رکھ کر انگلی سے سینے پر لکیر کھنچی تو امبر جی جان سے تڑپ اٹھی۔۔۔اپنے ہاتھوں کو آزاد کرانا چاہا مگر ناکام وہ اپنے دو ہاتھ اس کے ایک ہاتھ سے چھڑوانے میں ناکام رہی۔۔۔

زیان نے اس کے کندھے سے لب ہٹائے ایک سیک ڈ کے لئے اس کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کئے رونے کی تیاری کر رہی تھی۔۔۔

نیچے جھک کر نرمی سے اس کے دل کے مقام پر لب رکھے تو وہ مچل اٹھی۔۔

زیا۔۔۔زیان۔۔پلیز۔۔نہیں۔۔۔

مگر زیان اس دنیا میں ہوتا تو سنتا وہ تو کسی اور ہی منزل پر پہنچ چکا تھا۔۔۔۔

اس کی تیز دھڑکن وہ اپنے ہونٹوں پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ اپنا حق وصولتا کمرے میں موبائل کی آواز گونجی۔۔۔

زیان نے سر اوپر اٹھایا امبر پر اپنی شرٹ ڈالتے ہوئے اپنا فون اٹھایا۔۔

فون پر جگمگاتے نام کو دیکھ کر اس کا موڈ بری طرح خراب ہو چکا تھا مگر پھر بھی کال ریسیو کی۔۔۔

جی ڈیڈ۔۔

کہاں ہو زیان کتنے دن سے نظر ہی نہیں آئے۔۔۔

کچھ نہیں ڈیڈ بس کسی کے حوش ٹکانے لگا رہا تھا اس نے امبر کی طرف دیکھ کر ہونٹوں پر تنزیا مسکراہٹ سجا کر ملک کو جواب دیا۔۔۔

تم جہاں بھی ہو ابھی گھر آؤ۔۔

مگر ڈیڈ۔۔

اگر مگر کچھ نہیں ابھی کا مطلب۔ ابھی۔۔۔

اوکے ڈیڈ آتا ہوں۔۔

وہ اسے ابھی شک کروانا نہیں چاہتا تھا اسی لئے آنے کی ہامی بھر لی۔۔۔

کال بند کر کے اس نے لائٹس آن کی تو امبر نے زور سے آنکھیں میچ لیں کیونکہ وہ شرٹ لیس تھا۔۔۔

آنکھیں کیون بند کر رہی ہو شرٹ تو تم نے بھی نہیں پہنی۔۔۔

امبر نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں اس کی بات سن کر۔۔۔

اس کا چہرہ خرچ پڑ چکا تھا شرم کی وجہ ۔۔۔

آآآہ میرا بچہ بلش کر رہا ھے۔۔

ابھی ٹائم نہیں جانی بچا کر رکھو سب ۔۔

واڈروب سے اپنے کپڑے نکالے اور واشروم میں گھس گیا۔۔

امبر وہیں پڑی چھت کو گھور رہی تھی۔۔۔

شکر ھے بچ گئی۔۔یہ کھڑوس تو عمران ہاشمی کا بھی باپ ھے۔۔

ہائےےےےے کیا بنے گا میرا۔۔۔

وہ اس کی حرکتوں کو سوچتی شرما اور مسکرا رہی تھی  

زیان فریش ہو کر باہر نکلا۔۔تو امبر کو ویسے ہی اپنے شرٹ سے سینا چھپائے لیٹے پایا۔۔۔

آٹھ کر چینج کر لو گفٹ اس دن دوں گا۔جس دن ہمارا ولیمہ ہو گا۔۔

ہاں اگر میرا انتظار ایسے ہی کرنا ھے ہو مجھے کوئی مسئلہ نہیں کر سکتی ہو میں آ جاؤں گا صبح تک۔۔۔

امبر گڑبڑا کر اٹھنے لگی مگر اپنی حالت دیکھ کر پھر لیٹ گئی۔۔

زیان اس کی بات سمجھ چکا تھا اس لئے الماری سے اپنی ٹی شرٹ نکالی اور اس کے قریب آیا۔۔۔

 جھک کر اس کے چہرے کے قریب آیا۔۔۔

آج چھوٹ مل گئی میری جان تمہیں مگر کب تک ہلکہ سا اسکے لبوں کو چھوتا ہوا پیچھے ہوا۔۔

یہ لو کپڑے چینج کر کے سو جانا۔۔

اوکے میں آتا ہوں تھوڑی دیر تک

اللہ حافظ۔۔۔

شکر ھے چلے گئے کھڑوس۔۔۔

ہائےےےے اللہ کتنے گندے ھیں یہ ایویں شادی کر لی کیں نے ان سے۔۔۔

ایویں کیوں مجھے بچائیں گے ناں وہ سب سے۔۔۔گندے تو ھیں لیکن اچھے بھی ھیں۔۔۔۔

ہائےےےے امبر بیٹا سو جا ورنہ وہ چنگیز خان پھر آ جائے گا ۔۔

اپنے کپڑے سمیٹتے گرتے پڑتے وہ کبرڑ تک پہنچی۔۔

وہاں سے اپنا کیپری نکالا اور زیان کی ٹی شرٹ لے کر واشروم چلی گئی۔۔۔

توبہ یہ کتنی کھلی ھے مجھے۔۔۔

چلو کوئی بات نہیں سونا ھی ھے صبح چینج کر لوں گی۔۔۔

وہ ایسی ہی تھی خود سے سوال کرتی اور پھر خود ہی جواب دیتی۔۔

❤️❤️❤️❤️

امی جی مجھے بات کرنی ھے آپ سے۔۔۔

ہاں امان پتر بول۔۔

امی آپ کو اپنے بیٹے پر ترس نہیں آتا۔۔۔

ہائےےے ربا کیوں بیٹا تجھے کیا لقوہ ہوا ھے جو میں ترس کھاؤں تجھ پر۔۔۔یا پتر تجھے نشے کی کے لگ گئی ھے جو تجھے نہیں مل رہا اور تم قابلِ ترس ہو گئے ہو۔۔۔

امی آپ خود بتائیں آپ کے دونوں بیٹے اپنی بیویوں کے ساتھ کمرے میں سکون سے سو رہیں ھیں اور میں بے چارہ اکیلا میرا دل ہی نہیں لگتا۔۔تو میرے بھی شادی کریں اب میرا نہیں دل لگتا حیا کے بغیر۔۔

تو بیٹا تم اس کے بغیر رہتے کب ہو۔

رات کو اتنی اتنی دیر بیٹھ کر دونوں گیمز کھلتے ہو۔۔اکھٹے کھانا کھاتے ہو۔۔آتے جاتے اکھٹے ہو۔۔ابھی بھی اکیلے ہو تم۔۔۔

تائی جان آپ کیا مجھ پر ہی نظر رکھتی ھیں سارا دن۔۔۔

امان کی تو حیرانگی سے آنکھیں ہی کھل گئیں تھیں کہ یہ کیا بن گیا تھا اس کے ساتھ عظمی تائی کو سب پتا ھے۔۔۔

ہاں پتر تیرے تایا جان تو سارا دن رات اخبار پڑتے رہتے ھے اور میں تم لوگوں پر نظر رکھتی ہوں۔۔

آپ تھوڑی نظر تایا جان پر بھی رکھ لیں آفس میں نیو سیکٹری رکھی ھے۔۔قسم سے بہت اچھی ھے اب آپ کو بھول جائیں گے وہ۔۔

کوئی نا پتر آفس میں رہ لیں گے اس کے ساتھ گھر میں کس کے پاس انہوں نے اچھی طرح پتا ھے تیرے تایا کو میرا۔۔

اوہ اچھا آپ لوگ اپنی چھوڑیں میرا کچھ کریں۔۔۔

اچھا پتر صبح بابا جان سے بات کریں گے۔۔۔

اوکے آپ دادا جان سے بات کر لیجئے گا یاد سے۔۔۔

امان کہاں ھیں آپ میں جب سے ڈھونڈ رہی ہوں آپ کو ہمارا سارا شو نکل رہا ھے جلدی آئیں۔۔

لوووو جی آ گیا رولا ۔۔جا پتر جا دیکھو جا کر شو۔۔

اوکے ممی میں چلا آپ بھی جائیں آپ کا رولا بھی آپ کا انتظار کر رہا ہو گا۔۔

بدماش ماں سے مزاق کر رہا ھے۔۔۔

چلو تائی جان سے کر لیتا ہوں۔۔۔

جوتا ماروں گی مجھے کچھ کہا تو۔۔

لو جی میں چلا یہاں تو سب ہی خون کے پیاسے ھیں۔۔

عافیہ ایک بات تو ھے ہمارے بچے بہت اچھے ھیں خاندان میں ہی سب رہ گئے باہر سے لے کے آتے تو ناجانے ہمارے ساتھ کیا کرتیں۔۔

جی آپا مجھے تو ولید بہت اچھا لگتا ھے دیکھا نا آپ کتنا کرتا ھے روح کا گرم ہوا بھی نہیں لگنے دیتا۔۔

جی آپا بس اللہ سب کی قسمت اچھی کرے۔۔

❤️❤️❤️❤️

حور کبرڈ میں سر دئے کچھ تلاش کر رہی تھی اسے اپنے پیچھے کچھ محسوس ہوا اس نے مر کر دیکھنا چاہا تو سیدھا زمان کے سینے سے ٹکرائی۔۔

دھیان سے مسز دل میں تو آپ پہلے ہی ھیں اب کیا اندر گھسنے کا ارادہ ھے۔۔

زمان نے اس کی قمر میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید نزدیک کیا۔۔

اس کے بالوں میں انگلیاں پھنسا کر اس کا منہ اوپر کیا۔۔

کیا ہوا چپ کیوں ہو۔۔ڈر لگ رہا ھے

کک۔۔کک۔کس بب بات کا ڈر۔۔

میرا ڈر۔۔میری شدتوں کا ڈر۔۔میرے بدلوں کا ڈر میرے پیار کا ڈر۔۔

نہہی۔۔۔نہیں تو۔۔

اچھا پھر یہ پسینہ کیوں میری قربت تمہیں کیوں بھیگو رہی ھے۔۔

وہ۔۔وہ۔۔۔

کیا وہ کتنا تڑپایا ھے نا تم نے۔۔

اب جھیلو مجھے اپنی اس نازک جان پر۔۔۔

ز۔۔زما۔۔زما۔۔زمان آپ کو کیا۔۔۔ہوا۔۔ایسی با۔۔باتیں کیوں۔۔کر رہیں۔۔ھیں۔۔۔

کیوں ناں کروں ۔۔۔

نہیں۔۔۔

میں تو کرو گا بلکہ صرف باتیں ہی نہیں بلکہ باتوں پر عمل بھی کروں گا۔۔۔آج۔۔

زمان نے اسے باہوں میں اٹھایا اور ٹیرس پر لے آیا۔۔۔

جہاں ٹھندی ہوائیں چل رہی تھیں۔۔بادل گرج رہے تھے اور شاید بجلی بھی چمکنے لگتی ۔۔۔

لگتا آج موسم کا موڈ بھی میرے جیسا ھے۔۔۔آج بادل بھی بارش کریں گے۔۔۔

حور۔۔۔

جج۔۔۔جی۔۔۔

کیوں اتنا گھبرا رہی ہو۔۔۔

پت۔۔پتا۔۔۔نہیں۔۔۔زمان۔۔۔لیکن ۔۔۔پتا نہیں ۔۔۔کیوں ۔۔۔عجیب۔۔۔سا فیل ۔۔۔ہو رہا ھے۔۔۔

گھنی مونچھوں تلے عنابی لب مسکرائے تھے ۔یہ سوچ کر کہ وہ زمان کے تقاضوں کو سمجھتی ھے۔ ۔

حور ہم اپنے رشتے کا آغاز کر سکتے ھیں اب تم ٹھیک ہو اور ویسے بھی تم سے دور رہنا اب میرے بس کی بات نہیں۔۔

وہ اس کے ماتھے سے ماتھا ٹیکائے اپنے دم کا حال سنا رہا تھا۔۔۔

اب ہمیں ایک ہونا ھے تا کہ ہمارے دشمنوں کو مزید ہمیں دور کرنے کا موقع نا ملے۔۔۔

حور۔۔۔

جی۔۔۔

ساتھ دو گی نا میرا زندگی کے اس کے خوبصورت سفر میں۔۔

بس میں چاہتا ہوں تم مجھ میں گم رہو اور میں تم میں۔۔

میں تمہارے اتنا قریب آنا چاہتا ہوں کہ میں جو بھی سانس لوں اس میں مجھے تم محسوس ہو۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ میں تمہیں پیار سے اتنا بے بس کر دوں کے تمہیں میرے علاوہ کچھ نظر ناں آئے۔۔

تمہیں پتا ھے تم ٹھیک نہیں تھی نا بہت ضبط کیا میں نے خود پر میں چاہتا تو تمہاری حوش بھلا سکتا تھا مگر میں تمہارے مرضی سے تمہارے قریب آنا چاہتا تھا۔۔۔لیکن اب نہیں پوچھو گا کیونکہ اب تمہارے اجازتیں بھی میری ہی ھیں 

اس کی سانسوں کی تپش سے حور کا چہرہ جھلس رہا تھا مگر وہ تھا سمجھ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔

زمان نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر نرمی سے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔

اس کا گرم لمس حور کے لئے جان لیوا تھا۔۔۔

وہ سکون سے اس کے سارے ڈر اپنے ہونٹوں سے چن رہا تھا۔۔۔

اچانک سے بجلی کڑکی تو حور نے ڈر کر زمان میں سمانا چھاہا۔۔۔

زمان نے دھیرے سے اس نازک وجود کو اپنے بازؤں میں بھینچا۔۔۔

اس کا عمل مزید شدت پکڑ چکا تھا۔۔آج نا جانے ایسا کیا تھا کہ حور کی جان نکل رہی تھی اس کے چھونے سے۔۔۔

ایک پل کے لئے اس کے ہونٹوں آزادی دی ۔۔۔

اتنے دنوں کی پیاس ھے اتنی جلدی نہیں بجھے گی میرا جان۔۔۔

اسے لئیے ریلنگ کے پاس آیا اپنے دونوں ہاتھ اس کے اردگرد رکھ کر ایک بار پھر اس کے ہونٹوں پر جھک آیا۔۔۔

بارش بھی اپنا زور پکڑ چکی تھی۔۔۔

اور زمان اپنے کام میں مصروف تھا۔۔حور نے مضبوطی سے اس کے شرٹ کو جکڑ رکھا تھا ورنہ وہ گر چکی ہوتی۔۔۔

زمان ۔۔۔۔مجھے۔۔۔بارش۔۔۔

بارش سے زیادہ اب میں خطرناک ثابت ہونے والا ہوں تمہارے لئے۔۔۔میرے سے ڈرو۔۔

وہ دونوں بھیگ۔ کے تھے بارش میں ۔۔۔

حور کا بھیگا سراپا زمان کو مزید بہکا دیا تھا۔۔۔

اس کی گردن سے بال ہٹا کر اس کی شفاف کردن پر لب رکھ چکا تھا۔۔۔

حور بے بس ہو رہی تھی اس ظالم کی پناہوں میں۔۔

اس کے ہونٹ اس کی گردن پر سفر کر رہے  تھے۔۔۔ 

جب وہ پیچھے ہٹا تو حور کی گردن پر اس کی جنونیت کے نشان واضح ظاہر ہر رہے تھے۔۔۔

زم۔۔۔زمان۔۔۔سردی۔۔۔لگ۔۔رہی ۔۔۔ھے۔۔مجھے۔۔۔

کچھ سردی اور زیادہ زمان کی قربت نے اسے کپکپانے پر مجبور کر دیا تھا۔۔۔

زمان نے جھک کر اسے باہوں میں اٹھایا اور کمرے میں لے آیا۔۔

اس کے گرم پناہوں میں آتے ہی حور کو سکون ملا تھا ۔۔۔

وہ اسے لئے بیڈ کی جانب بڑھا۔۔۔

زمان۔ بیڈ۔ گیلا ہو جائے گا۔۔۔ہم سوئیں گے کہاں۔۔۔۔۔

میری باہوں

 زمان بیڈ پر نہیں پلیز ہم لوگ گیلے ھیں۔۔۔

تو۔۔۔

بیڈ گیلا ہو جائے گا۔۔۔

تو۔۔

ہم سوئیں گے کہاں۔۔

میری باہوں میں۔۔۔

زمان لیکن۔۔

بس چپ۔۔۔

زمان نے دھیرے سے اسے بیڈ پر لیٹایا اور اس پر جھکا۔۔۔

زم۔۔۔زم۔۔زما۔۔زمان۔۔مجھے۔۔۔۔سونا۔۔۔ھے۔۔۔

ہاں سو جانا صبح کو۔۔۔۔

لیکن صبح تو اٹھتے ھیں ۔۔۔۔ناں تو اب میں سونے لگی۔۔۔

میں سونے دوں گا تو تم سوؤ گی نا۔۔۔

زمان۔۔۔

حور بہت رہ لیا دور اب ناممکن ھے۔۔۔تو اب مجھے مجبور نا کرو کہ میں زبردستی کروں ورنہ مشکل ہو گا تمہارے لئے۔۔۔

زمان نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اس کے منہ کو اونچا کیا اور اس کے ہونٹوں کو نرمی سے اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔۔

اس کی گردن سے بال ہٹا کر اس کی شاہ رگ پر لب رکھے۔۔

حور کی جان نکلی جب کمر سے قمیض کی زپ کھلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔

زمان۔۔۔پلیز نہیں۔۔۔

اچھا پھر جاؤں میں زمل کے پاس۔۔۔

میں نے مار دینا آپ کو اگر سوچا بھی تو ایسا۔۔۔

مار تو دیا پہلے ہی تم نے۔۔۔۔بس اب چپ اب باتو کا نہیں عمل کا وقت ھے۔۔۔

زمان نے دھیرے سے اس کے کندے سے قمیض سرکا کر ہونٹ رکھے۔۔۔

وہ اسے اپنے پیار کی بارش میں بھگونے کا دل ارادہ کر چکا تھا۔۔

حور بھی سمج چکی تھی کہ اب بچاؤ ممکن ھے اس لئے خود کو زمان کے حوالے کر دیا۔۔

وہ اسے اپنا آپ سونپ کر اس کے گلے میں باہیں ڈال چکی تھی۔۔

اس کے چہرہ پر اپنا لمس چھوڑ کر اب اس کے سینے پر شدتیں لٹا رہا تھا۔۔۔

اور حور مچل رہی تھی اس کی پناہوں میں ۔۔

وہ کبھی اس کی پناہوں میں شرماتی کبھی سسکتی لیکن زمان نے پیار سے اسے چنا تھا۔۔۔

ساری رات اس نے اس موم کی گڑیا تو اپنے پیار سے معطر کیا تھا۔۔۔

حور نے ساری رات اس کی باہوں میں گزاری ۔۔۔مگر اب وہ اس ظالم کے ظلم سے ہار چکی تھی۔۔۔مگر وہ ابھی بھی اس کے وجود پر سفر کر رہا تھا ۔۔

رات سرک رہی تھی ویسے ہی حور زمان کے حصار میں اس کی پناہوں میں پناہ تلاش کر رہی تھی۔۔۔

بہت نرمی سے زمان نے اس اپنا بنایا تھا ۔وہ تو اپنے نصیب پر بہت خوش تھی کہ اس زمان جیسا شوہر ملا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

اندھیرے میں ڈرتی چھپتی ہوئی وہ کمرے میں پہنچی تو سامنے ہی ولید فون چلانے میں مصروف تھا۔۔۔۔۔۔

وہ اسے دیکھ کر ٹھٹکی۔۔۔

لو جی وہاں سے بچی تو یہاں پھنس گئی۔۔۔

کہاں سے آ رہی ہو روح تم اس وقت۔۔۔

میں۔۔وہ۔۔میں۔۔

یہ تمہارے ہاتھ میں کیاھے۔۔۔

یہ۔۔۔یہ تو کچھ۔۔بھی نہیں۔۔۔

کیا ہوا ایسے کیوں ری ایکٹ کر رہی ہو۔۔

کچھ نہیں۔۔۔ولید۔۔۔آئس کریم ھے یہ۔۔

ارمان بھائی نے زارا کو لا کر دی تھی میں اٹھا لائی فریج سے ۔۔۔۔اب آپ تو مجھےلا کر نہیں دیتے۔۔۔اور نا ہی ماما کھانے دیتیں ھیں۔۔۔

آااااا میرا بچہ۔۔یہاں آو۔۔

ولید نے فون سائیڈ پر رکھ کر باہیں کھول کر اس پاس آنے کا بولا۔۔۔

روح اس کے پاس آئی تو ولید نے اسے باہوں میں بھر کر اپنے گود میں بیٹھایا۔۔۔

میں آئسکریم نی لا کر دیتا اپنے بچے کو۔۔۔

آپ مجھے بچا کیوں بولتے ھیں۔۔بچے تو چھوٹے چھوٹے ہوتے ھیں ۔جیسے وہ ہاسپٹل میں نرس کا بےبی تھا۔۔

جو چھوٹے ہوں گے وہ ہم دونوں بےبی ہوں گے اور تم میرا بےںی ہو۔۔۔

ولی ۔۔

ہوں۔۔

ہمارا بےبی کب آئے گا۔۔۔

ولید کا دل کانپا تھا اس کی بات سن کر۔۔۔

وہ اسے کیسے بتاتا کہ اسے کیا محرومی لگ چکی ھے۔۔۔

بولیں ناں۔۔

ولید نے اس کے ماتھا چوما اور اس اپنے اور قریب کیا۔۔۔

بےبی ایسا ھے کہ میں نہیں چاہتا میرے اور میرے بچے کے درمیان کوئی آئے اس لئے ہمارا کوئی بےبی نہیں آئے گا۔۔۔

میں اپنی روح کو کبھی بھی نہیں بانٹوں گا۔۔۔

بس ہم دونوں ہی ایک دوسرے کی زندگی ھیں۔۔اوکے۔۔۔

لیکن ولی مجھے بےبی بہت پسند ھیں۔۔۔

لیکن مجھے نہیں پسند ۔۔۔اور میں ہوں نا تمہارا بےبی۔۔

ہاہاہاہاہاہاہاہاہا۔۔

ولید اسے ہنستا دیکھ کر حیران ہوا۔۔

ہنس کیوں رہی ہو ۔۔۔

آپ بےبی ھیں۔۔کہان سے لگتے ھیں آپ بےبی۔۔۔ولی مزاق بھی ایسا کیا کریں جو ہضم ہو سکے۔۔۔

ولید تو اس کی بات سن کر حیران ہو گیا تھا مطلب وہ اس کا مزاق اڑا رہی تھی ۔۔۔مزاق کیا سچ ہی تھا اتنا بڑا بےبی کیسے ہو سکتا ھے۔۔۔

ہاں سہی کہ رہی ہو میں بےبی نہیں تمہارا لیکن تم تو میرا بچہ ہو نا اس لیے میں تو جو چاہوں گا جیسے چاہوں گا پیار کروں گا تم سے۔۔۔

باتیں نا کریں آئسکریم کھانے دین مجھے۔۔۔میلٹ ہو رہی ھے ساری۔۔۔

اوکے ۔۔کھا لو۔۔۔

آپ نہیں کھائے گے۔۔

نہیں تم باؤل میں سے کھا لو میں تم سے کھا لوں گا۔۔۔

روح نے نا سمجھیں سے اس کی طرف دیکھا۔اور آئس کریم کی طرف متوجہ ہوئی۔۔۔

جتنی دیر وہ آئس کریم کھا رہی تھی ولید کی نظریں اسی پر تھی۔۔۔

جیسے ہی اس نے لاسٹ سکون منہ میں ڈالا ویسے ہی ولید نے اس کا منہ اوپر کر کے اس کے لبوں کو اپنے لبوں میں جکڑا۔۔

روح کے منہ سے آئسکریم وہ اپنے منہ میں ڈال چکا تھا۔۔۔

آئسکریم کو چھوڑ کر اب وہ اس کے لبوں پر اپنا لمس چھوڑ رہا تھا۔۔

خود بیڈ پر گر کر کروٹ بدل کر اسے بیڈ پر لیٹا کر نرمی سے اسے اپنے حصار میں لیا۔۔اور لائٹس آف کر دیں۔۔

سو جاؤ میری جان اس سے زیادہ برداشت کرنا تمہارے بس کی بات نہیں۔۔۔

ولی نیند نہیں آ رہی۔۔۔باتیں کریں ۔۔۔

کونسی باتیں۔۔۔۔

روح نے اپنے ہاتھوں سے اس کی بئرڈ کو چھویا تو ولید کو بہت سکون ملا۔۔۔

بولو نا کونسی باتیں۔۔۔

ولی۔۔۔۔

جی جان ولی۔۔۔

آپ مجھ سے کتنا پیار کرتے ھیں۔۔۔

ولید تو حیران تھا یہ کیسا سوال تھا۔۔۔

میری جان کیون پوچھ رہی ھے۔۔۔

بتائیں نا۔۔۔

اتنا کرتا ہوں کہ کبھی بھی نہیں بتا سکتا۔۔۔

تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔۔۔

وہ حیا مجھے بول رہی تھی امان بھائی اس سے بہت پیار کرتے ھیں اس کے لئیے ڈریسس بھی لاتے ھیں اور ۔۔۔

اور کیا۔۔۔

اور وہ اکھٹے مووی بھی دیکھتے ھیں۔۔۔

پھر تم نے کیا بولا اس سے ۔۔

میں نے بولا کہ ولی بھی مجھ سے بہت پیار کرتے ھیں مجھے بھی ڈریسس لا کر دیتے ھیں اور ہگ کر کے سوتے ھیں۔۔۔

اچھا ااااا میری جان نے یہ بولا۔۔۔

جی ولی۔۔۔

ولید نے اس کی گردن میں منہ دیا اور زور سے اسے اپنے سینے میں بھنچا۔۔۔

اتنا پیار کرتا ہوں میں اپنی روح سے کہ اگر کبھی اس نے میرے سے دور جانے کی بات کی تو میں مر جاؤں گا۔۔۔۔۔۔

لو یو ولی۔۔۔

می تو میرا بچہ۔۔۔۔

اب نیند آ رہی ھے سوتے ھیں اب۔۔۔

اوکے۔۔

ولی نے اس کے گال پر بھرپور لب رکھے۔۔۔

ولی آپ نے کس کیوں کیا مجھے۔۔۔۔

گڈ نائٹ ایسے ہی بولتے ھیں اب تم بھی بولو ایسے ہی۔۔۔

اوکے۔۔

روح کے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے دونوں گالوں پر رکھے پہلے نرمی سے ہونٹ رکھے پھر جلدی سے ولید کی گال کو دانتوں سے کاٹا۔۔۔

آہ میرے جنگلی بلی۔۔۔مجھے یہ بھی منظور ھے ۔۔۔

سکون نے اسے اپنے سینے سے لگائے باہوں کا حصار بنائے سلانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں روح سو گئی تو ولید نے پیر سے کمبل کھینچا اپنے اور روح کے اوپر اوڑھا اور خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

ہیلو۔۔۔

ہاں بولو۔۔۔

کیا بنا میرے کام کا۔۔۔

کیسے کروں میں تمہارا کام اب تمہارے گھر میں گھس کر تو نہیں اٹھا سکتا ناں انہیں۔۔۔

میری بات غور سے سنو اس بار ایسا وار کرنا کی وہ بچ ناں سکے۔۔۔۔جو مرضی کرنا اس کا اسے بیچنا یا اس کو اپنی رکھیل بنانا یہ تمہاری مرضی ھے۔۔۔

مگر اسے زمان سے دور کرنا ہو گا تمہیں ۔۔۔۔۔

اےےے لڑکی تمعیز سے بات کر میرے ساتھ اگر میں زمان شاہ کی بیوی کو کچل سکتا ہوں تو تمہی کچلنا میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ھے۔۔۔۔

دھمکی دینا بند کرو اور جلدی سے جلدی میرا کام کرو۔۔۔

زمل فون بند کر چکی تھی ۔۔۔۔

اس چڑیا کہ بھی ہر کاٹنے پڑیں گے ویسے بھی بہت دن ہو گئے کسی جوان کی جوانی سے کھیلے ہوئے۔۔۔

زمل اب کیا کرو گی تم بیٹا اب تو حور بھی ٹھیک ہو چکی اور اس نے زمان کو سب بتا بھی دیا ہو گا۔۔۔

اب میں اپنا آخری داؤ کھیلوں گی ماما ۔۔۔۔۔اب حور تو کیا روح بھی نہیں بچے گی ۔۔اور یہ گھر ۔۔۔یہ تو میں اپنے نام لگوا ہی لوں گی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

زیان گھر آیا تو امبر اس کی ٹی شرٹ میں ملبوس تکئے کو ہگ کر کے سو چکی تھی ۔۔۔

زیان نے گھڑی اتاری کیز نکال کر ٹیبل پر رکھیں اور اس کی باہوں سے تکیہ نکال کر نیچے پھنکا۔۔۔

میرے ہوتے ہوئے اس کی کیا ضرورت میری جان کو۔۔۔

نرمی سے اسے بازووں میں بھر کر اس کے گرد باہوں کا حصار بنا کر نرمی سے اس کے ہونٹوں کو چھو کر پیچھے ہوا اس کا سر اپنے سینے سے لگایا اور سونے کے لئے آنکھیں موند گیا ۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

ارمان زارا کو سینے پر لیٹائے سولانے کی کوشش کر رہا تھا کیونکہ آج اس کے بیڈ پر کوکروج پایا گیا تھا اور زارا میڈم کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ بھی آ سکتا ہی اس لئے وہ آج ارمان۔  کے سینے پر سوئیں گیں۔۔۔۔

زارا سو جآؤ پلیز میرے لئے مشکل نا بناؤ۔۔۔

انسان ہوں بہک بھی سکتا ہو۔۔۔۔

پھر تم نے رونے لگ جانا اس لئے اچھا ھو سو جاؤ۔۔۔

زارا اس بات سن کر واقعی میں سیم گئی تھی اسے لیے جلدی سے اس نے گلے میں بازو ڈالے اور سونے کی کوشش کرنے لگی۔۔۔

ارمان اس کے قمر سہلا رہا تھا جس سے وہ جلد ہی سو گئی۔۔۔

پاگل کاکروج سے ڈرتی ھے اور میرے دل پر سو رہی ھے اس  بات سے بے خبر کہ اگر یہ دل بغاوت کر بیٹھا ہو سوئے ہوئے ہی پاگل کر دوں گا اپنی محبت سے

سکون کی یہ رات شاید کل بہت بڑا سچ لانے والی تھی ۔۔۔

آج سب ہی گھر پر تھے کیونکہ آج شاید برائی کا خاتمہ ہو جاتا اور زیان کو اس کی زندگی کی خوشیاں مل جاتی جو وہ کئی سالوں سے کہیں کھو بیٹھا تھا ۔۔

سب ہی لاؤنچ میں جمع تھے شاید کوئی بہت ضروری فیصلہ کرنے والے تھے دادا جان۔۔

تو میرے بچو۔۔میری زندگی پتا نہیں کتنی ھے میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھ لو۔۔۔

ایک منٹ بابا جان میں نے آپ کو ایک بات بتانی تھی ۔۔

ہاں بول پتر۔۔

کل میں ایک کمپنی آنر سے ملا۔۔زیان گروپ آف انڈسٹریز۔۔

لیکن بابا۔۔۔۔

کیا بیٹا۔۔

بابا مجھے اس لڑکے سے۔۔ ۔۔۔

کیا ہوا پتر تیری آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے۔۔۔۔۔

امی جان مجھے اس لڑکے سے آزر کی خوشبو آتی ھے۔۔مجھے میرے خون کی خوشبو آتی ھے اس سے بابا جان اسے سینے سے لگا جو سکون ملا تھا وہ مجھے پچھلے سترا سالوں سے نہیں ملا مجھے لگا جیسے میرا آزر میرے ہاتھوں میں باباجان۔۔۔وہ ہی شکل وہ ہی غرور ویسا ہی انداز۔۔۔

بھائی ۔۔۔۔کیا۔۔ ۔آپ سچ کہ رہی۔ ھیں۔۔۔۔کہ آپ نے میرے بیٹے کو دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

ہاں عمارہ میں سچ کہ رہا ہوں وہ اس کی آنکھوں میں ویسی ہی تڑپ تھی جیسی آج میرے آنکھوں میں ھے تمہارہ آنکھوں میں ھے ہم سب کی آنکھوں میں ھے۔۔۔

عمارہ پتر تو مجھے بتا اس روز کیا ہوا تھا۔۔۔

بابا جان میں تو بس اتنا جانتی ہو کہ تحریم کے گھر سے واپس لوٹ رہے تھے ہم لوگ۔۔تو ۔۔۔۔راستے ۔۔میں۔۔ہمارا ۔۔۔ایکسیڈینٹ ہوا اور گاڑی کھائی میں گر گئی۔۔۔۔

اس کے بعد ۔۔۔زیان کہیں نہیں ملا۔۔۔اور۔۔۔۔

اور۔۔۔آزر۔۔ہمیشہ کے لئے چھوڑ کے۔۔۔۔چکے گئے ہمیں۔۔۔۔

وہ ایکسیڈینٹ نہیں تھا چچی جان۔۔۔۔

زمان کی اس آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔

سب کی نظریں زمان پر اور زمان کی نظر تحریم بیگم پر تھی۔ ۔

کیا بول رہا ھے تو پتر۔۔۔

جی دادا جان وہ ایکسیڈینٹ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی چال تھی۔۔۔

ایک ایسی چال جس نے ایک ماں سے اس کا بیٹا ایک بیوی سے اس کا شوہر اور دو بیٹیوں سے ان کا باپ چھین لیا۔۔۔اور زیان کو ایک ایسے انسان کے ہاتھوں میں پہنچا دیا جو انسان عورتوں کو عزت روندنے میں ایک منٹ نہیں لگاتا۔۔بلکہ یوں سمجھئے کہ عورتوں کا کاروبار کرتا ھے۔۔۔

زمان کی نظریں ابھی بھی تحریم بیگم پر تھی اور ان کا حال ایسا تھا جیسے ابھی جان نکل جائے گی۔۔

آخر ایسی کونسی بات تھی جس سے وہ ڈر رہی۔ تھی   

ایسا کونسا راز تھا جیسے وہ سامنے لانے اتنا کترا رہیں تھیں۔۔۔۔

زمان بیٹا کھل کے بتا کیا بولنا چاہ رہا ھے۔۔۔

میں بتاتا ہوں دادی جان ۔۔

ولید بتا کیا بات ھے بیٹا۔۔۔۔

دادا جان آپ کو یاد ہو گا کہ پھوپھو ملک ظفر سے شادی کرنا چاہتی تھیں اور آپ نے انکار کر دیا تھا اور انہیں دنوں میں آپ کے دوست کے بیٹے کا رشتہ آیا اور آپ نے پھوپھو کی شادی کر دی۔۔۔۔

لیکن بیٹا تو یہ سب کیوں بول رہا ھے۔۔۔۔

ماما جان بتاتا ہوں سب بتاتا ہوں۔۔۔

آپ نے پھوپھو کی شادی تو کردی لیکن ان کا تعلق ملک سے ختم نا کر سکے ۔۔۔

وہ ان سے ویسی ہی ملتی رہیں جیسا کہ شادی سے پہلے ملتی تھیں ۔۔

پھر کچھ سال بعد زمل اس دنیا میں آئی۔۔۔

اس کے پیدا ہونے پر ملک نے کہر مچایا لیکن جب اسے پتا چلا کہ زمل اس کی بیٹی ہے تو وہ خبیس چپ کر گیا ۔۔

وقت گزرتا گیا اور پھوپھو جان کی تعلق ملک سے بڑھتے گئے۔۔۔۔

اور جب جمشید انکل(تحریم کا شوہر)انہیں ان کی سچائی کا پتا چلا تو انہوں نے آپ کو بتانے کی کوشش کی مگر وہ آپ کو نا بتا سکے دادا جان جانتے ھیں کیوں۔  

کیونکہ پھوپھو جان نے اپنے ہاتھوں سے اپنے شوہر کو زہر دے کر مار دیا

ایک نا محرم کی خاطر اپنے محرم کو مار دیا ۔

مگر انہیں کیا انہی تو محرم اور ںا محرم کے درمیان کا فرق ہی نہیں پتا تھا تو یہ کیسے نا کرتیں یہ ۔۔

وہ تو چلے گئے اب ان کا راستہ صاف تھا۔۔

حور اور روح جب پیدا ہوئیں تو آزر چاچو کو ان پر شک ہوا کیونکہ وہ ہاسپٹل میں انہیں ایک ساتھ دیکھ چکے تھے۔۔۔

انہوں نے پھوپھو کو سمجھانا چاہا مگر انہوں نے سمجھنے کی بجائے انہیں راستے سے ہٹانے کا سوچا کیونکہ وہ ان کا سب سچ جان چکے تھے۔۔۔

انہوں نے ملک کے ساتھ مل کر چاچو کو مارنے کا پلین بنایا۔۔۔

اس روز پھوپھو نے ان لوگوں کو اپنے گھر بلایا کسی ضروری کام سے وہ تو شکر تھا کہ عافیہ چچی نے حور اور روح کو گھر رکھ لیا ورنہ آج ان نا وجود پاک صاف نا ہوتا ۔۔

اور واپسی پر ۔۔۔۔

واپسی پر اس ملک نے چاچو کی گاڑی کا جان بوجھ کر ایکسیڈینٹ کیا تا کہ لوگوں کو لگے یہ صرف ایک حادثہ تھا نا کہ قتل۔۔۔

اور پھر ہوا یوں کہ ملک نے انہیں بھی چھوڑ دیا اور یہ اپنی گناہوں کی پوٹلی اٹھا کر یہاں آ گئی۔۔۔

تم۔۔۔۔۔تمہیں۔۔۔۔۔شرم۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔ائی۔۔۔۔اپنے۔۔۔۔بھائی۔۔۔۔کو۔۔۔۔مارتے ہوئے۔۔۔

روکیں بابا جان یہ تو تھیں ان کی کرتوت ابھی تو ان کی بیٹی کا سچ باقی ھے ۔۔

زمل جو کہ اپنی ماں کا سچ سننے کے بعد خاموش کھڑی تھی زمان کی اس بات سے  کانپ اٹھی۔۔۔

آپ کو پتا سالار چاچو حور کو دھکا دینے والی زمل تھی۔۔۔۔اور روح کو گولی لگی تھی 

اس زمل نے ملک کے ساتھ مل کر حور کو راستے سے ہٹانا چاہا کیونکہ اس کا خیال تھا کہ حور مجھے اس سے خ

چھین چکی ھے۔۔

لیکن اللہ کی قدرت اس دن حور کی جگہ گولی روح کا جسم چیر گئی۔۔۔

ولید کا دماغ سن ہو چکا تھا یہ سن کہ کہ اس کی روح کو تکلیف دینے والے اس ہی گھر میں موجود ھیں۔۔۔

وہ سرخ آنکھیں لئے زمل کی طرف بڑھا ۔۔۔

اور زمل کو اس کی آنکھوں سے خوف آ رہا تھا اس وقت۔۔۔

تمہیں پتا تھا نا روح میری ھے اور اسے تکلیف دینے والوں کو ولید شاہ زندہ نہیں چھوڑتا۔۔۔

تو تم ابھی تک زندہ کیسے ہو۔۔۔

ولید نے اس کے گلے کو دونوں ہاتھوں سو دبایا اور دبا بڑھا دیا ۔۔۔

کیسے ہمت ہوئی تمہارہ ہمارے ساتھ ایسا کرنے کی۔۔۔

کیسے سوچ کیا تم نے کہ تو تم میرے روح کو مجھ سے دور کرو گی ہاں اور حور کو زمان سے چھینو گی ہاں کبھی دیکھا جان کو زندہ جسم سے الگ ہوتے ہوئے۔۔۔۔

بولو ۔۔

ولی چھوڑ دیں اسے مر جائے گی وہ ۔۔

اس نے تمہیں مارنے کی کوشش کی تو میں اسے کیسے چھوڑ دوں۔۔۔۔

ولی چھوڑیں اسے۔۔۔

زمان بھائی دادا جان روکیں ولی کو۔۔۔

ارمان بھی روکیں ناں۔۔۔

چھوڑ دیں بھائی اسے اپنے ہاتھ ک

گندے نا کریں ۔۔اس کا قتل کر کے۔۔۔۔

ولید ہٹ جا چھوڑ دے اسے اس پر ہمارا کوئی حق نہیں۔۔۔

کیسے چھوڑ دوں دادا جان میں ایسے اس کی وجہ سے میں ساری زندگی اولاد سے محروم رہوں گا ۔۔۔۔

آپ کو پتا ھے ناں میری ماما بابا کیسے روتے تھے اولاد کے لئے اب اس عورت کی وجہ سے آپ کا پوتا اور ہوتی ساری زندگی ایسے روئیں گے ۔۔

اور آپ کی بہو جس نے ساری زندگی روتے ہوئے گزار دی پہلے شوہر پھر بیٹیوں گے غم میں ۔۔

اس کا قتل واجب ھے مجھ پر اس مرںا ھے بس ۔۔

چھوڑ اسے ولید تجھے تیرے باپ کے قسم چھوڑ دے ۔۔

چھوڑو میری بیٹی کو مار دوں گی میں تمہیں پی ھے ہٹو۔۔۔ 

تحریم بیگم چھری اٹھا کر ولید کے سامنے آئی ۔۔

جتنے دکھ تو ہمیں دے چکی ھے تمیں لگتا ھے کہ اب یہ چھری سے تو میرے ہوتے کو ڈرا سکتے گی۔۔۔

ڈرا نہیں رہی اگر میں آپ کے بیٹے کو مار سکتی ہوں تو آپ کے پوتے کو کیوں نہیں۔۔۔

چٹاخ کی آواز سے پورے شاہ ولا میں گونچی۔۔۔۔

ایک کے بعد ایک کئی تھپڑوں نے تحریم کا چہرہ لال کر دیا تھا۔ ۔

تجھے مر جانا چاہئے تھا پتا نہیں کونسے گناہ کے بدلے میں تو مجھے ملی تھی۔۔۔اگر تو نا ہوتی تو شاید آج میرا بیٹا اپنے بچوں میں زندہ ہوتا اور آج ہم اتنی تکلیف سے نا گزر رہی ہوتے۔۔۔

ارے اپنے بھائی کو تو چھوڑ دیتی تو نے تو اسے بھی ڈس لیا۔۔۔اور اب اس کے بچو کے پیچھے لگ گئی تیری یہ منحوس اولاد۔۔۔

یا اللہ یہ سب جاننے سے پہلے میں مر جاتی مر جاتی میں۔ ۔۔۔

دادو آپ ایسے نہیں روئیں۔۔۔

کیسے نا روؤں بیٹا اس عورت نے ساری زندگی تیری ماں کو منحوس ہونے کا تانا دیا۔۔اور ساری زندگی تم دونوں بہنوں کو  نفرت کا نشانہ بنایا۔۔۔

یہ ہماری بہن ہو ہی نہیں سکتی یہ کیسے اپنے ہی بھائی کو مار سکتی ھے۔۔کیسے۔۔۔

سکندر بھائی جو اپنے شوہر کو نہیں چھوڑ سکتی اس کے لئے بھائی کیا چیز ھے۔۔۔

کیوں کیا آپا آپ نے میرے ساتھ ایسے۔۔۔

کیوں میرے شوہر کو اس وقت مجھ سے چھین لیا جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔۔

میرا بیٹا میرے جگر کا ٹکڑا ہمیشہ لئے میرے سے دور ہو گیا۔۔

آپ کو پتا ھے کہ کتنا تڑپی ہوں میں اس کے لئے ۔۔۔

اور آپ اتنے گناہ کر کے بھی اتنے سکون سے زندگی جی رہیں ھیں ۔کیسے آپا آپ کے ضمیر نے کبھی ملامت نہیں کی۔۔۔

ایسے لوگوں کا ضمیر نہیں ہوتا عمارہ۔۔۔۔

ٹھیک کہ رہی ھیں آپا عافیہ آپا۔۔۔

کہاں کمی رہ گئی تھی میری تربیت میں جس نے تجھے اپنے ہی بھائی کا قاتل بنا دیا۔۔۔

میں نے تو بہت اچھا بنانا چاہا تھا تجھے تحریم آخر کو تو اپنے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔۔۔پھر تو نے کیسے اپنے ہی بھائی کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔مار دیا۔۔۔۔۔۔تیرا دل نہیں کانپا ۔۔۔۔۔۔

ترس نہیں آیا ان معصوم بچیوں پر کیسے اپنے باپ کے بغیر زندگی گزاریں گی۔۔۔۔اس سے تو اچھا تھا تو مجھے مار دیتی میری اولاد کو کیوں اتنا دکھ دیا تم نے ۔۔۔۔۔

ہاں مارا میں نے جو جو میرے پیار کی راہ میں آیا میں نے سب کو مارا۔۔۔۔اور اب میں اس اس کو ماروں گی جو میری بیٹی کے پیار کی راہ میں آئے گا۔۔۔۔

مجھے اپنی زات اور اپنی بیٹی کے علاؤہ کچھ بھی عزیز نہیں سنا آپ سب لوگوں نے۔۔۔۔

اور یہ حور ابھی تک تو بچی ہوئی ھے مگر کب تک۔۔۔۔زمان کو ہونا تو زمل کا ہی ھے۔۔۔۔

چاہے اس کے لئے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے کچھ بھی۔۔۔۔۔

آپا مجھے لگا آپ کو شرم آ جائے گی اور آپ اپنے کئے کی معافی مانگے گی سب سے۔۔۔۔۔

ہاہاہا عظمی معافی اور میں اور وہ بھی تم لوگوں سے ۔۔۔۔تم نے سوچ بھی کیسے لیا ہاں۔۔۔۔معافی تو اب آپ لوگ مانگے گے مجھ سے۔۔۔۔

اگر کسی کو اس گھر میں رہنا ھے تو زمان کی شادی زمل سے کرنا ہو گی اور حور کو طلاق دینا ہو گی۔۔ورنہ۔۔۔وہ رہا دروازہ۔۔۔۔جا سکتے ھے سب ۔۔۔

تم ہوتی کون ھو ہمیں ہی ہمارے گھر سے نکالنے والی یہ گھر میرا ھے ۔۔۔

اوہو کتنے بھولے ھے آپ بابا جان ۔۔۔آپ کو ابھی تک نہیں پتا لگا۔۔۔۔

ماما انہیں کیسے پتا لگتا جب ہم نے لگنے ہی نہیں دیا ۔۔۔چلیں نانا جان میں ہی بتا دیتی ہوں۔۔۔

یاد ہے اس دن میں نے آپ سے ایک پیپر پر سائن کروائے تھے۔۔۔

وہ پیپر اسی گھر کے تھے اور آپ خود یہ گھر میرے نام کر چکے ھیں۔۔۔۔

اتنا کیسے گر سکتیں ھیں آپ زمل آپو۔۔۔

ہم تو گر لئیے جتنا گرنا ھے اب تو شاہوں کی گرنے کی باری ھے مس حور ۔۔۔۔۔

ابھی تک شاہوں کے ٹکڑوں پر پلتی آئی ہو۔۔۔اب اپنی اوقات ہی بھول گئی ہو ۔۔۔۔

وہ کیا ھے نا ارمان اب اوقات دیکھانے کا وقت ھے یاد کرنے کا نہیں ۔۔۔۔۔

چلو جلدی فیصلہ کر لو سب زمان سے شادی یا یہ گھر ۔۔۔۔۔۔

ایک بات کان کھول کر سن لو تم زمل۔۔۔۔یہ گھر تمہیں ہی مبارک ہو اس جیسے ایک تو کیا سو گھر وار کے پھینک کر دوں اپنی فیملی کے اوپر سے۔۔اور تم نے سوچ بھی کیسے لیا۔۔۔تم زمان شاہ کو بلیک میل کرو گی اوقات ھے تمہاری اتنی۔۔۔۔۔

اور زمان ہمت تو دیکھو اس کی ڈرا دیکھو کس کو رہی ھے ۔۔۔۔اوہ میڈم دنیا کانپتی ھے میرے بھائی سے اور تم چونٹی چلی تھی ہمیں چلانے ۔۔۔۔۔

زبان بند رکھو اپنی امان ورنہ ۔۔۔۔۔

ورنہ کیا ہاں کیا کروگی تم ۔۔۔۔۔۔مار دو گی مجھے بھی۔۔۔۔۔

ہاں مار دوں گی۔۔۔۔سب کو مار دوں گی۔۔۔ایک ایک کو ۔۔۔۔

اور تمہاری حیا کو بھی۔۔۔۔۔

ہاہاہا یار یہ کیسی لڑکی ھے پاگل سمجھا ہوا ھے اس نے ہم سب کو۔۔۔۔کیسی کھوکھلی دھمکی دے رہی ھے۔۔۔۔

دھمکی۔۔۔تمہیں دھمکی لگ رہی ھے ناں یہ لو دیکھو نظارہ۔۔۔۔

زمل نے پنٹ کی پوکٹ سے پسٹل نکال کر حیا اور روح کے سر پر رکھا ۔۔۔

بچاؤ اب امان حیا کو۔۔۔۔

دو طلاق حور کو ورنہ ان دونوں کو شوٹ کر دوں گی۔۔۔۔

سب پر ہی حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے آج ۔۔۔۔۔

اور تمہیں لگتا ھے کہ تم انہیں کچھ کر سکو گی ۔۔۔

بلکل میں ان کی قبر یہیں بناؤں گی اگر تم نے حور کو طلاق نا دی ۔۔۔۔

نہیں دیتا میں چلو کرو جو کرنا ھے۔۔۔۔۔

لگتا ھے تم لوگوں کو ٹریلر دیکھانا ھی پڑے گا۔۔۔

اس سے پہلے کے زمان آگے بڑھتا گولی آواز نے اس کے قدم وہیں روک دئے تھے۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

امبر ۔۔۔

امبر۔۔۔۔

کہاں ہو ۔۔۔۔

زیان میں یہاں ہوں ۔۔۔

کہاں ہو ۔۔۔

یہاں دیکھیں۔۔۔

کہاں دیکھو ۔۔آواز آ رہی ھی لیکن تم نہیں آ رہی۔۔۔۔

میں یہاں تھی ۔۔۔۔۔

امبر تم بیڈ کے نیچے کیا کر رہی ہو اور یہ کیا حالت بنا رکھی ھے تم نے۔۔۔۔

میں چھپی ہوئی تھی آپ سے ۔۔۔

کیوں چھپی تھی میرے سے۔۔۔

آپ یہ اپنی مونچھوں کے بال لگا لگا کے میرا منہ ریڈ کر دیتے ھیں۔۔۔

اووو تو میرے جان کو لگا کہ وہ بیڈ کے نیچے چھپ کر میرے سے بچ جائیں گی۔۔۔

زیان نے اسے پیچھے سے باہوں میں لے کر اس کے کاندھے پر ٹھوڑی رکھی۔۔۔۔

ہاں تو میں جب آپ کو دیکھوں گی ہی نہیں تو اپ مجھے پکڑیں گے کیسے۔۔۔

میں تمہیں آنکھیں بند کر کے بھی پکڑ لو تم چھپنے کی بات کر رہی ہو ۔۔۔

زیان کو اپنے ہونٹوں پر جھکتا دیکھ کر امبر چکا اٹھی۔۔۔

زیان نہیں ۔۔۔نہیں پلیز۔۔۔قسم سے آپ نے کھا ہی جانے ھے کسی دن میرے بچارے ہونٹ۔۔۔۔

ہاں تو تمہارے یہ بچارے ہونٹ میرے ہی تو ھیں میں کھاؤں یا نا میری مرضی۔۔۔

زیان چھبتی ھیں یہ۔۔۔۔

امبر نے اس کی مونچھوں کو ہاتھ لگا کر اس انداز میں کہا کہ زیان کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔

بس ایک کس پھر کہیں لے کر جانا ھے تمہیں ۔۔

کہاں۔۔۔

نو پہلے۔۔۔۔

زیان پلیز ۔۔۔۔

نو پلیز۔۔۔

زیان نے اس کے ہونٹوں کو نرمی سے اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔۔۔

اور نرمی سے اپنا لمس چھوڑ کر پیچھے ہوا لیکن پیچھے ہوتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر مونچھیں رگڑنا نہیں بھولا۔۔۔

زیاااااانننننن 

جی زیان کی جان۔۔۔

آپ بہت برے ھیں ۔۔

ابھی تو میں برا ہوا ہی نہیں جب ہوا نا قسم سے تم نے رونے لگ جانا ھے۔۔۔۔

زیان بس کریں۔۔۔گندی باتیں نا کیا کریں۔۔۔۔

ہاہا اوکے بےبی۔۔۔

کہاں جانا تھا ہمیں۔۔۔

میری ماما بہنیں دادا دادی اور باقی گھر والوں سے ملنے۔۔۔۔

کیا آپ کی فیملی ھے زیان۔ ۔۔۔۔

ہاں نا بہت بڑی۔۔۔۔

آپ نے کبھی بتایا ھی نہیں ۔۔۔

میں نے تو کہا تھا اپنی فیملی بنا کے ہی بتاؤں گا اپنی فیملی کے بارے میں مگر افسوس تمہاری چیخیں نکل جاتیں ھے۔۔۔۔

زیان اب آپ نے کچھ بولا نا تو میں مار دوں گی آپ کو ۔۔۔

واہ کیا بات ہی جانیں من میری باہوں میں سما کے مجھے ہی مارنے کی باتیں کر رہی ہو۔۔۔۔

امبر نے دیکھا تو وہ واقعی ہی زیان کی قید میں تھی۔۔۔۔۔

زیان۔  نہیں کریں نا۔۔۔

اوکے نہیں کرتا چلو جلدی چینچ کرلو۔۔۔پھر چلیں۔۔۔

اوکے۔۔۔

امبر بات سنو۔۔۔

جی ۔۔۔

زیان نے دھیرے سے جھک کر اس کی گال پر بھر پور بوسہ دیا۔۔۔۔

کچھ نہیں۔۔۔

ہاں گال سرخ کر کے کچھ نہیں۔۔۔

امبر نے منہ بنا کر کہا تو زیان کو وہ بہت اچھی لگی۔۔۔۔

اب چھوڑیں میں نہا لو۔۔۔

میں بھی آؤوں ۔۔۔

کیوں۔۔۔

ہیلپ کر دوں گا نا ۔۔۔

زیااااااااااااااااااااان۔۔۔۔

ہاہا اب نہیں بول رہا کچھ جاؤ۔۔۔۔

یا اللہ شکر ھے یہ دن ایا۔۔

بس مجھے میری ماں آوے باقی سب سے ملنا نصیب فرما آپ تو جانتے ھیں نا ایک مجرم کے ساتھ رہ کر کبھی کوئی جرم نہیں کیا۔۔۔میرے مولا اگر پھر بھی کبھی کسی کے ساتھ کبھی کچھ غلط کیا ہوا تو آپ مجھے معاف کر دینا میرے خدا مجھے ہمت دے اپنی ماں اپنی بہنوں کو سامنا کرنے کا۔۔۔۔

کچھ دیر بعد ہی وہ اپنی ہمسفر کے ساتھ اپنی نئی زندگی کے سفر پر روانہ تھا 

برسوں سے ٹوٹے ہوئے رشتے کی ڈور آج جوڑے کا زیان ۔۔۔

شاید شاہ ولا کے مکینوں کو آج ان کا بیٹا ملنے والا تھا

گولی کی آواز نے سب کو حیران کر دیا تھا ۔۔۔

سب کی نظریں فرش پر بہتے خون پر تھیں ۔۔

مگر یہ خون کس کا تھا زمل حیا یا روح کا۔۔

گولی حیا کے بازو کو چیر کر نکل چکی تھی۔۔

یہ کیا کیا تم نے جنگلی عورت چھوڑو حیا کو۔۔۔

تم طلاق دو حور کو۔۔۔

کبھی بھی نہیں دوں گا تم یہاں کے ہر ایک فرد کو بھی مار دو نا تب بھی نا دوں میں طلاق۔۔

چٹاخ ۔۔۔۔

پورے شاہ ولا کو تھپڑ کی آواز نے ہلا کر رکھ دیا تھا زمل کے ہاتھ سے پسٹل چھوٹ کر دور جا گرا۔۔۔

یہ تھپڑ تمہیں پہلے ہی ماردینا چاہیے تھا ۔۔گندہ خون ھے تمہارا اور کیا امید کی جا سکتی ھے تم سے۔۔۔میرا بیٹا اگر کبھی حور کو چھوڑ بھی دے نا تو میں کبھی بھی تمہیں نا اپناؤ۔۔

اوقات دیکھی ھے اپنی۔۔۔دونوں ماں بیٹھا قاتل ھیں۔۔

بس بہت ہوا بابا جان اب یا تو یہ اس گھر میں رہیں گے یا ہم سب۔۔۔

آپ سب ہی جاؤ گے کیونکہ یہ گھر تو ہمارا ھے اب۔۔مطلب زمل ملک کا۔۔۔۔

یہ گھر ازل تک شاہوں کی وراثت رہے گا۔۔۔تم تو کیا کوئی سورمہ بھی آ جائے تو پھاڑ کر رکھ دوں اسے۔۔۔

اس اجنبی آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔۔۔

ایک خوبرو جوان گوری رنگت ہلکی سی شیو۔۔سبز آنکھیں جو اسے سب سےمنفرد بناتیں۔۔بلیک تھری پیس پہنے اپنے ساتھ ایک نازک وجود کا ہاتھ پکڑے شاہ ولا کی دہلیز پر کھڑا تھا۔۔۔

سب کی نظریں زیان پر مرکوز تھیں اور زیان کی نظر اپنی ماں اور بہنوں پر۔۔۔

تم کون ھو بیٹا۔۔۔

میں آپ کا وہ ۔۔۔۔بدنصیب پوتا۔۔۔جو سترا سال آپ کے لمس کو ترستا رہا۔۔۔۔۔

تم۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔میرے۔۔۔۔میر۔۔۔میرے۔۔۔۔بیٹے۔۔۔۔

جی میں آپ کا بیٹا زیان حیدر شاہ۔۔۔

یہ کہنے کی دیر تھی کہ عمارہ بیگیم ٹوٹی پتنگ کہ طرح زیان کی باہوں میں جا سمائیں۔۔۔

میرا۔۔۔۔۔بیٹا۔۔۔۔۔

اپنی ماں کی باہوں میں آتے ہی زیان کو لگا جیسے کئی صدیوں سے بھٹکا ہوا سکون آج اسے مل گیا ہے۔۔۔۔

ماما۔۔

بہت تڑپا ہو میں اس حصار کے لئے۔۔۔بہت تڑپایا ھے تنہائی نے۔۔۔۔مین سوچتا تھا کہ شاید مجھ سے کوئی گناہ ہوا ھے جو مجھے سکون نہیں۔ ملتا مگر مجھے کیسے سکون ملتا جب میری ماں میری بہنیں میرے لئے تڑپ رہیں تھی۔ اور میں اس بات سے غافل دنیا کی راہ گزر میں مصروف تھا۔۔۔۔

مجھے یقین تھا تم ۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔آؤ گے۔۔۔۔۔بیٹا۔۔۔میں نے۔۔۔کبھی۔۔۔امید نہیں چھوڑی۔۔۔۔

بس ماما آنسوؤں کا وقت ختم ہوا اب سے بس خوشیاں ہوں گیں۔۔۔۔۔۔ایک بھر پور زندگی ہو گی۔۔ایک خاندان ہو گا جس کی لوگ مثال دییں گے۔۔۔

بیٹا ۔۔۔۔ہمیں۔۔بھی تو ملو۔۔ہماری بوڑھی جانیں ۔۔بھی بہت تڑپی ھیں اپنے جان سے عزیز پوتے کے لئیے۔۔۔۔

دادا جان۔۔۔

شجاعت شاہ نے زور سے سے زیان کو اپنے سینے میں بھینچا۔۔۔۔۔

میرا بیٹا آج دوبارہ مل گیا مجھے۔۔۔اہنے پوتے کی صورت میں۔۔۔۔

بس دادا جان اب آپ کا یہ بیٹا کبھی بھی کہیں نہیں جائے گا۔۔۔

دادو۔۔۔

آجا دادو کی جان۔۔۔

میں قربان ہو جاؤں تم پر میرے بیٹے تو سوچ بھی نہیں سکتا کتنی بڑی خوشی دی ھے تم نے مجھے۔۔۔اب تو میں سو سال بھی جیوں کو کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی۔۔۔۔

بھائی۔۔۔۔

آپ۔۔۔۔سچ۔۔۔میں ۔۔۔۔ہمارے۔۔۔۔بھائی۔۔۔ھیں۔۔۔۔

زیان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ہی لڑکی یاد آئی اسے جسے اس دن گولی لگی تھی۔۔۔۔

ہاں نا۔۔۔روح ۔۔یہ سچ میں۔۔۔ہمارے بھائی ھیں۔۔۔ابھی ماما انہیں اپنا ۔۔۔۔بیٹا بول رہیں تھیں۔۔۔۔

بھائی ۔۔۔۔ماما بہت روتیں تھیں آپ کے لئے۔۔۔

مگر۔۔۔مجھے نہیں پتا تھا ۔۔۔سچ میں ہمارا بھائی آئے گا۔۔۔

اب آ گیا ہوں ناں اب پتا لگ جائے گا۔۔۔۔

زیان نے دونوں کو اپنے سینے سے لگایا اور دونوں کے سر پر بوسہ دیا۔۔۔

دادا جان یہ رہے گھر کے پیپرز اس دن اس نے جب آپ سے سائین کروائے اور وکیل کے پاس گئی مجھے تبھی اس پر شک ہو گیا تھا اور میں نے اس وہ پیپرز ضائع کروا دئے۔۔۔

مطلب یہ گھر ابھی بھی آپ کے نام ھے۔۔اور رہتی دنیا تک رہے گا۔۔۔

شکریہ پتر۔۔۔

شکریہ کس بات کا میں بھی تو ہیاں ہی رہوں گانا۔۔

بیٹا یہ بچی کون ھے ۔۔

اوہہہ میں بتانا ھے بھول گیا۔۔۔

یہ امبر زیان شاہ ھے۔۔۔

یعنی کہ میری بیوی۔۔۔

مبارک کو عمارہ تیری میں بہو آگئی۔۔

عافیہ چچی یہ آپ کی بھی تو بہو ھے۔۔نا۔۔۔

ہاں پتر تو بیٹا اور یہ بہو۔۔

آجا بیٹا تجھے گلے لگاؤں۔۔۔

امبر ڈرتی ڈرتی آگے بڑھی تو سب سے پہلے اسے عافیہ نے گلے لگایا اسی طرح وہ سب سے ملی۔۔۔

زیان بھی سب سے مل چکا تھا اب سب کی نظریں زمل اور تحریم پر تھی۔ جو اپنے برے انجام کی بارے میں سوچ کو کانپ رہیں تھیں۔۔۔

بابا جان یہ تحریم کا حصہ ہماری جائددادا میں سے آن سے یہ ہمارے گھر میں نہیں رہے گی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہمارا ہی تعلق ختم۔۔۔

ہاں سالار پتر صحیح فیصلہ کیا تو نے اب یہ مزید اس گھر میں نہیں رہے گی ۔۔۔

یہ لو اور چلی جاؤ یہاں سے آج کے بعد اپنی صورت کبھی نا دیکھانا مجھے۔۔۔میں مر بھی جاؤں تو اس گھر کی دہلیز پر پاؤں بھی نا رکھنا۔۔۔مین سمجھ لو گا میری کبھی کوئی بیٹی تھی ہی نہیں۔۔۔

جا رہی ہوں میں مگر یہ نا سمجھنا سب کہ میں ہار گئی اپنی بیٹی کا بدلہ ضرور لوں گی۔۔

میری بہنوں کو کبھی بھی کچھ ہوا تو یاد رکھنا تمہاری گردن پر میرا ہاتھ ہو گا۔۔۔۔

یاد رکھنا تحریم شاہ۔۔۔

دیکھ لوں گی تم سب کو۔۔۔

چلو زمل۔۔۔۔۔

مگر ماما زمان۔۔۔

زمان تمہارا ہی ھے ابھی نہیں تو پھر صحیح۔۔۔

بات سنو زمل۔۔۔میں نا کبھی تمہارا تھا اور کبھی تمہارا بنوں گا کیونکہ مجھے بے کار چیزوں میں کوئی انٹرسٹ نہیں۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کا وقت تھا سب اپنے اپنے کمروں میں سو رہے تھے ۔۔۔

کلک کی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا تو کوئی وجود خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا۔۔۔

کمرے میں ہر سو اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔

بس کسی کی نازک سانسیں کمرے میں گونجی رہیں تھیں۔۔۔۔

وہ وجود اس سوئے ہوئے وجود کی جانب بڑھا۔۔۔

سوتے ہوئے اپنے چہرے پر کسی کی گرم لگتی ہوئی سانسیں محسوس ہوئی تو اس کی آنکھ کھلی ۔۔

اپنے چہرہ پر کسی کو جھکا ہوا پایا۔۔۔۔

ولید۔۔۔۔

شششششششش

کیا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ایسے کیوں دیکھ رھیں ھیں ۔۔۔۔

دیکھ رہا ہوں۔۔۔تم برداشت کر لو گی آج مجھے۔۔۔

کیا۔۔۔کیا مطلب۔۔

مطلب ہی سمجھانے آیا ہوں۔۔۔

ولی۔۔۔

روح بہت نہیں ھے اتنا ٹائم۔۔۔۔اب ختم ہوئی برداشت۔۔۔۔

مگر۔۔۔

کچھ اگر مگر نہیں بس ۔۔۔۔

ولید نے روح کے سر کی نیچے ہاتھ رکھ اس کا سر اونچا کیا اور دھیرے سے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے۔۔۔

وہ دھیرے سے اس کی سانسیں اپنے اندر اتارنے لگا۔۔۔

اس کے نازک لبوں پر ظلم کرتا ہوا کسی اور ہی دنیا میں جا چکا تھا۔۔۔

جب روح کی سانسیں بند ہونے لگی تو اس نے ولید کو پیچھے ہٹانا چاہا مگر اس نازک وجود میں اتنی ہمت نا تھی کہ اس پہاڑ نما وجود کو ہٹا سکے۔۔۔

جب ولید نے خود بھر پور سیراب کر کیا تو روح کا آزاد کیا

روح اس وقت کچھ نہیں سوچو ہم ایک ایسے سفر پر جا تھیں ھیں جہاں تم اور میں دونوں ھوں گیں اس لئے کسی کے بارے میں نہیں شوچنا۔۔۔

ولید کروٹ لے کر روح کے اوپر آ گیا۔۔۔اور اس کی گردن پر لب رکھے۔۔۔

اپنی گردن پر ولید کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر کے روح کی جان نکل تھی تھی۔۔۔

کافی دیر بعد جب وہ پیچھے ہٹا تو اس کی گردن پر اپنی جنونیت کے واضح نشان دیکھ سکتا تھا ۔۔

شفاف گردن پر گلابی نشان اسے مزید بہکا رھے تھے۔۔۔

مدہوش ہو کر وہ دوبارہ اس کے لبوں پر جھکا۔۔۔

مگر اس بار پکڑ سخت تھیں جس روح کی برداشت سے باہر تھی۔۔۔

روح نے اپنے ہاتھوں سے اسے پیچھے کرنا چاہا تو ولید نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بیڈ کراؤن کے ساتھ لگائے اور اس کے شاہ رگ پر لب رکھے۔۔۔

ولید نہیں۔۔۔

اپنی کمر پر کھلتی زپ محسوس کر کے روح کی جان نکلی۔۔۔۔

ولید پلیز۔۔۔

نو روح۔۔

اپنی کمر پر اس کی انگلیوں کا لمس روح کے جسم میں کرنٹ کی لہریں دورا رہا تھا۔۔۔

اس ہاتھ اس کی کمر میں ڈال کر ایک ہاتھ سے اس کے کندھے سے شرٹ کھسکا کر وہاں دہکتے ہوئے لب رکھے۔۔ ٹھنڈے جسم پر ولید کا گرم لمس روح کو سلگھا رہا تھا۔۔  روح کی حالت کو سمجھتے ہوئے ولید نے اسے سینے سے لگایا تا کہ وہ ریلیکس کو سکے۔۔۔۔

ولید کو شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے دیکھ کر روح نے زور سے آنکھیں بند کی۔۔۔

ہلکے سے لمپ کی روشنی میں لمحہ بہت معنی خیز اشتعال پیدا کر رھے تھے۔۔۔

اپنی قمر پر ولید کے ہونٹوں کا لمس محسوس کر رہی تھی وہ بیڈ شیٹ جو مضبوطی سے ہاتھوں میں پکڑ کر اس پہاڑ نما وجود کو اپنی قمر پر شدتیں لٹاتا برداشت کر رہی تھی وہ۔۔۔۔۔

ولید کروٹ لے کر اس کے اوپر آیا تو روح کی شرٹ نیچے کھسک چکی تھی۔۔۔۔

وہ مدہوش سا ہو کر اس کے سینے پر جھکا۔۔۔۔

وہ اس کے دل کے مقام پر لب رکھ کر اسے مزید بے بس کر رہا تھا۔۔۔

روح کی جان نکل رہی تھی اس کے ہونٹ اپنے سینے پر محسوس کر کے۔۔۔

وہ اس کے پور پور پر شدتیں لٹا رہا تھا آج۔۔

روح کو اندازہ ہو چکا تھا اب اس کی قید سے نکلنا نا ممکن ھے اس لئے بغیر مزاحمت کے خود کو اس کے حوالے کر دیا۔۔۔

رات دھیرے دھیرے سرک رہی تھی۔۔۔

اور کمرے میں معنی خیز سی سسکیاں ۔۔۔۔۔

ولید نے اس موم کی گڑیا کو بہت نرمی سے چنا تھا ۔۔

آج ولید نے روح کو اپنا بنا لیا ۔۔۔

آج ان دونوں کی روحیں ایک ہو چکیں تھیں۔۔۔۔

ایک نیا دن ایک نیا سفر ایک نئی زندگی سب کی منتظر تھی۔۔

سورج کی کرنیں کھڑکی کے پردوں کو پھاڑ کر ولید کے چہرے کو چھویا تو اس کی آنکھ کھلی۔۔۔

اپنے سینے پر سوئی بیکھری حالت میں اپنی زندگی کو دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر جان لیوا مسکراہٹ آئی۔۔۔

گڈ مارننگ مسز ولید ان نیو لائف۔۔

اس کے بالوں میں انگلیاں الجھا کر کان میں سرگوشی کی۔۔۔۔

ولید سونے دیں نا ابھی تو سوئی تھی میں۔۔۔

اچھا ابھی سوئی تھی تو رات کیا کر رہی تھی۔۔۔

رات تو آپ نے ۔۔۔۔

جب اپنی بات پر غور کیا تو سر تا پیر سرخ ہو گئی۔۔۔

ہاں کیا کیا میں نے رات کو بتایا نہیں تم نے۔۔۔

آپ بہت گندے ھیں ولید۔۔۔

ہاہا ابھی تو بس شروعات ھے بےبی میں تو چاہتا ہوں تم سانس بھی لو تو میری خوشبو تمہیں اپنے سانسوں میں محسوس ہو۔۔۔۔

ہاں تا کہ میں سانس ہی ناں لے سکوں ہنا۔۔۔۔

ہاہا میرا بےبی سمجدار ہو گیا ھے۔۔۔

آچھا اب چپ کریں سونے دیں مجھے۔۔

ارے ایسے کیسے سونے دوں مارنگ والا پیار کون کرے گا۔۔۔۔

ولید نو پلیز۔۔۔

ولید کروٹ لے کر اس کے اوپر آ چکا تھا۔۔۔

کیوں نو میرا بچہ۔۔۔

ولید پلیز سونا ھے مجھے۔۔۔

اب سونا قسمت میں کہاں روح بےبی ابھی تو جاگنے کے دن ھیں۔۔۔۔

ولید اس کی گردن میں منہ چھپائے سرگوشیاں کر رہا تھا اور روح کی آنکھ پھر سے لگ گئی تھی۔۔۔

ظاہر ھے ساری رات تو اس نے سونے نہیں دیا تھا اسے اپنی شدتوں سے بے بس کر دیا تھا۔۔۔

چلو سو گئی تو اس میں میرا ہی فائیدہ ھے مزاہمت نہیں کرو گی اور میں اپنا کام اچھے سے کر لو گڈ گرل۔۔۔

روح تو سو گئی تھی مگر وہ ظالم سوتے ہوئے بھی اس پر ظلم کر چکا تھا۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

آج شاہ ولا میں خوشیوں کا سما تھا۔۔

ہر طرف گہما گہمی تھی۔۔کوئی آ رہا تھا تو کوئی جا رہا تھا۔۔شہر کی مشہور ترین ہستیوں کا بسیرا تھا آج شاہ ولا میں ہوتا بھی کیوں نا آج شجاعت شاہ کے پوتے اور پوتیوں ولیمہ جو تھا۔۔۔

ولیمہ شاہ ولا کے لان میں ہی رکھا گیا تھا کیونکہ ان کا گھر ہی کسی محل سے کم نا تھا۔۔۔

سب لڑکیاں تیار ہونے پالر جا چکی تھیں اور لڑکے گھر میں ۔۔۔۔

آمان اور حیا کو نکاح کل رات میں ہی کر دیا گیا تھا ۔۔۔

ایک شور سا اٹھا تھا لان میں ۔۔

تب ہی چار شور مچاتی گاڑیاں داخل ہوئیں۔۔۔۔

بلیک میکسی جس پر بلیک ہی نگینوں کا کام کیا گیا تھا وائیٹ ہیروں کی جیولری اور برائڈل میک اپ میں وہ آج آسمان سے اتری ہوئی پریاں ہی لگ رہیں تھیں۔۔۔

سب کے ڈریسس سیم تھے ۔۔۔

اور لڑکے بلیک ڈنر سوٹ پہنے کیسی ریاست کے بادشاہ لگ رہے تھے۔۔۔۔

سب کو ایک ساتھ سٹیج پر بیٹھایا گیا۔۔۔۔۔اور ساری رسمیں ہوئیں۔۔۔۔۔۔

ولیمہ پورے زور و شور سے چل رہا تھا کہ ایک نقاب پوش لڑکی ہاتھ میں پسٹل لئے سٹیج کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔۔۔

سب حیران تھے آخ یہ کون تھی ۔۔۔

میں نے کہا تھا نا اگر میں نہیں تو تم حور کے بھی نہیں ہو گے۔۔۔۔

زمل۔۔۔

زمان سکون سے کھڑا ہوا وہ جانتا تھا وہ یہاں آنے والی ھے۔۔۔۔

اچھا اب تم کیا کرو گی۔۔۔

حور کو ماروں گی۔۔۔

اچھا مارو یہ لو۔۔۔۔

زمان اچانک سے حور کا ہاتھ چھوڑ کر سائڈ پر ہوا سب ہی حیران تھے زمان کو کیا ہوا جو حور کو گرم ہوا نہیں لگنے دیتا تھا آج اسے زمل کے سامنے چھوڑ رہا ھے۔۔۔

زمان۔۔آپ۔۔۔۔

نہیں حور زمل جو تمہیں مارنے کا شوق ھے تو اسے پورا کرنے دو نا۔۔۔

میں تمہیں جان سے مار دوں گا اگر میری بہین کو کچھ بھی ہوا تو۔۔۔۔

یاد رکھنا۔۔۔۔

اور تمہیں میں مار دوں گا زیان شاہ۔۔

ملک کی موجودگی سے سب بے خبر تھے۔۔

اچانک اس کا وہاں آنا سب کو پریشان کر رہا تھا۔۔۔

کیوں آئے تم یہاں۔۔۔

تمہیں ختم کرنے ۔۔۔۔تمہیں اتنے سال پالا اس لئے کے تم میرا مہرہ بنو گے مگر تمہارا خون جاگ اٹھا تو اب کیا ھے نا میں نے سوچا جو چیز میرے کام کی ہی نہیں رہی اسے دنیا میں کیوں چھوڑوں۔۔۔

تم میرا بال بھی بانکا نہیں کرسکتے مسڑ ملک۔۔۔تمہارے سارے کالے کرتوتوں کے ثبوت میں پولیس کو دے چکا ھوں اور یہاں آ کر تم نے میری نہیں اپنے موت کو آواز دی ھے۔۔۔۔

پولیس آتی ہی ہو گی بس تھوڑا وقت اور۔۔۔

پولیس کے نام سے ملک کا رنگ زرد ہو چکا تھا وہ نہیں جانتا تھا وہ اتنی آسانی سے پھنس جائے گا۔۔۔

زمان نے انہیں باتوں کا فایدہ اٹھاتے ہوئے بے دھیان زمل کے ہاتھوں سے پسٹل چھین لیا تھا۔۔۔۔

اور زوردار تھپڑ سے اس کا منہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔

آج کے بعد زمان شاہ کے خاندان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا نا تو آنکھیں نکال دوں گا سمجھ گئی نا مس زمل۔۔۔۔

تمہیں تو ۔ین چھوڑوں گی نہیں۔۔۔

پہلے خود کو بچا لو وہ آگئے تمہارے سسرال والے۔۔

پولیس کو آتا دیکھ کر ارمان نے زمل کا مزاق بنایا۔۔۔

تم سب مرو گے سب جو کام میں نے سترا سال پہلے ادھورا چھوڑا تھا وہ اب پورا ہو گا۔۔۔۔

ملک گلا پھاڑ کر چیخ رہا تھا دھمکیاں دے رہا تھا مگر اس کی دھمکیوں کا اثر زیان پر تو ہونے سے رہا۔۔۔

پولیس لے جا چکی تھی ان دونوں کو برائی کے بادل چھٹے چکے تھے ہمیشہ کے لئے اب صرف خوشیوں کا سما تھا ۔۔۔۔

ولیمہ پورے ہائی لیول پر ہو چکا تھا۔۔۔

سب دلہنوں کو ان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔۔۔

جہان وہ اپنے مجازی خدا کی سیج سجائے بیٹھیں تھی۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

رات کے ایک بج رھے تھے جب امبر بیٹھ بیٹھ کر تھک چکی تھی۔۔۔

وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا اور دروازہ لوک کر دیا۔۔۔

امبر کے دل کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔۔۔اسے اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر۔۔۔

وہ جیسے جیسے نزدیک آتا جا رہا تھا امبر کے دل میں طوفان اٹھ رہے تھے۔۔۔۔

زیان کوٹ اتار کر پوکٹ سے کیز کار اور موبائل وغیرہ نکال کر سکون سے امبر کی پاس بیڈ پر گر گیا۔۔۔۔

اس کا ٹھندا کپکپاتا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔۔۔۔

امبر۔۔۔جزبوں سے چور لہجے میں پکارا تو امبر کے دل کی ایک بیٹ مس ہوئی۔۔۔

جج۔۔۔جج۔۔جی۔۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ھو۔۔۔۔بلکل کسی پری جیسی۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ اپنے لبوں تک لایا اور دہکتے ہوئے لب اس کے ہاتھ پر رکھے۔۔۔۔

اس کے ہونٹوں کا لمس پاتے ہو امبر کو لگا جیسے کسی نے لاوا انڈیل دیا ہو اس کے ہاتھ پر۔۔۔۔

زیا۔۔۔۔زیان۔۔۔آپ کے ہونٹ ۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔اتنے گرم۔۔۔۔ھیں۔۔۔۔

کیونکہ وہ تمہارے ہونٹوں کو چھونا چاہتے ھیں ان میں آگ لگی ھے جو صرف تمہارے ہونٹوں سے بجھے گی۔۔۔۔

جانتی ہو یہ تمہاری دوری کی تپش ھے۔۔۔۔

مگر یہ صرف آج تک تھی۔۔۔۔۔

اب سے میں تمہین خود میں سما لوں گا امبر قید کر لوں گا خود میں ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔۔

وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑے مسلسل اسے ڈرنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔۔

جھٹکے سے اسے اپنے اوپر گرایا ایک ہاتھ اس کے قمر میں ڈال کر اسے سوچے سمجھنے کا موقع دئے بغیر اس کے ہونٹوں کو اپنی دسترس میں لیا ۔۔۔۔

وہ ہولے ہولے اس کی سانسیں اپنے اندر اتار رہا تھا۔۔۔۔

آج اس کے عمل میں شدت نہیں تھی بلکہ نرمی تھی ۔۔۔

وہ دھیرے سے پیچھے ہٹا اور اس کی گردن پر سلگتے ہوئے لب رکھے۔۔۔۔

وہ اس کی گردن کو جا بجا اپنی مہریں چھوڑ رہا تھا۔۔۔

اور امبر کی دھڑکنیں ادھم مچا رہیں تھیں۔۔۔

وہ اسے روک بھی نہیں سکتی تھی وہ جانتی تھیں وہ روکے گی بھی تو وہ نہیں روکے گا۔۔۔

اس کا دوبٹا پنز سے آزاد کر کے اس کے لہراتے بال قمر پر بھکھیر دئے۔۔۔۔

امبر ڑرو نہیں ۔۔۔۔۔۔بس محسوس کرو مجھے اپنی ان دھڑکنوں میں وہ اس کے دھڑکنوں کو آپنے ہاتھ پر محسوس کرتا اسے سمجھا رہا تھا۔۔۔۔۔

میں ڈریس چینج کر ۔۔۔۔۔۔۔لو۔۔۔۔۔

نہیں میں خود کروا دوں گا۔۔۔۔۔

زیان پلیز۔۔۔

نہیں امبر آج میں تمہاری نہیں بلکہ اپنے دل کی سنو گا۔۔۔

مجھے ڈر لگ رہا ھے۔۔۔

جب ڈر لگے میرا سینا میسر ھے لپٹ جانا سارا ڈر اپنے اندر اتار لوں گا۔۔۔۔۔

وہ اس کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا کب اس کی میکسی کی زپ کھول چکا امبر کو پتا ہی نا لگا۔۔۔۔

اس کی جان ہوا ہوئی جب شرٹ اس کے کندھوں سے نیچے کھسک رہی تھی۔۔۔

وہ جھکا اور اس کے کاندھے گردن اس کے پور پور پر اپنا لمس چھوڑنے لگا۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے اس کی بھاری میکسی سے آزاد کر چکا تھا وہ اس کی کی سینے میں خود کو چھپا چکی تھی۔۔۔

زیان نے اوپر ہونا چاہا مگر وہ مزید اس کے ساتھ چمٹ گئی۔۔۔

میں نے تو تمہیں دیکھا ہو ہوا ھے تو کیوں چھپ رہی ہو میری جان میں سے۔۔۔۔

وہ اوپر ہوا تو اس کی نظریں اس کے شفاف پیٹ بازو اور اس کے سینے پر گئی تو وہ مزید بہکنے لگا۔۔مگر جلدی خود کو کمپوز کر گیا۔۔۔

دیکھو میں نے تمہارے شرٹ اترنے میں تمہاری مدد کی نا چلو اب تم میرے ہیلپ کرو۔۔۔۔

وہ تو اس کے انداز پر ہی دنگ رہ گئی تھی مطلب وہ اتنے سکون سے یہ سب بول رہا تھا اور وہ شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی۔ ۔

زیان۔۔۔مگر۔۔۔

امبر شرٹ کے بٹن۔۔۔

اس نے مصنوئی غصے سے کہا تو وہ ڈر گئی۔۔۔

اور جلدی سے اس کی شرٹ کے بٹن کھولے کانپتے ہاتھوں سے۔۔۔

گڈ گرل ۔۔۔۔

اپنے شرٹ اتار کر بیڈ سے نیچے پھینکی اور اس کے اوپر جھکا۔۔۔۔

وہ اس کی پور پور پر اپنے ہونٹوں سے شدیں بکھیر رہا تھا ۔۔۔

آج رات امبر نے زیان کی باہوں میں گزاری تھی۔۔۔۔

زیان نے اسے اتنے پیار سے چنا تھا کہ وہ اس کے آگے بے بس ہو کر اپنا آپ اس کے حوالے کر چکی تھی۔۔۔

وہ دونوں زندگی کے نئے سفر کی طرف گامزن تھے۔۔جہاں خوشیاں ان کی منتظر تھیں۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

امان کمرے میں آیا تو حیا سو چکی تھی۔۔۔۔

ظاہر ھے نیند کی کچی اپنی سوہاگ رات کو بھی نہںں جاگ سکتی نا🤭🤭🤭

وہ دھیرے سے چلتا اس کے پاس آیا اور سکون نے بیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔

وہ چھوٹی سے لڑکی جیسے امان نے بچپن سے چاہا تھا اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ پورے حق سے آج اس کے سامنے اس کے حصار میں موجود تھی۔۔۔

امان کے دل و دماغ میں جنگ چل رہی تھی۔۔۔

دماغ کہ رہا تھا وہ ابھی چھوٹی ھے امان شاہ کی شدتوں کو برداشت نہیں کر پائے گی مگر دل پکار رہا تھا۔۔۔امان شاہ کو اپنا حق لینا چاہیے مزید اس سے دور رہنا اب اس کی بس بات نہیں۔۔۔

دل اور دماغ کی جنگ میں اس کا دل جیت چکا تھا وہ اپنے دل کی سونتا ہوا جھکا اور اس کے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا۔۔۔۔

اپنے ہونٹوں اور قمر کی پر کسی کی پکڑ محسوس کر کے اس کی آنکھ کھلی تو امان کو خود پر جھکا ہوا پایا۔۔۔۔۔

اس نے تڑپ کر اسے پکارنا چاہا مگر آواز کہیں۔ امان کے منہ میں ہی دفن ہو گئی۔۔۔۔

وہ پیچھے ہٹا اور اسکے ماتھے سے ماتھا جوڑا۔۔۔

جانتی ہو حیا بہت انتظار کیا اس پل کا۔۔۔

اپنے حق سے تمہیں چھونا چاہتا تھا دیکھو وہ دن بھی آ ہی گیا۔۔۔آج تم امان شاہ کی دسترس میں ہو۔۔۔۔

حیا تو بس نہریں جھکائے اپنی انگلیاں مروڑنے میں مصروف تھی۔۔۔۔

تم کچھ نہیں بولو گی۔۔۔۔

میں کیا بولوں آپ تو آتے ہی عمران ہاشمی بن گئے۔۔۔۔۔۔

اس کی بات پر امان کا قہقہ گونچا تھا کمرے میں۔۔۔

تو آپ بتا دو میں کیا بنو۔۔۔

آپ حیا کے امان بنو اچھے والے۔۔۔

وہ اس کے گلے میں دونوں بازو ڈال کر لاڈ سے اسے بتا رہی تھی۔۔۔اور امان کو اپنی جان کی اس حرکت پر ٹوٹ کر پیار آیا۔۔۔۔

میں تو ہمیشہ ہی سے حیا کا امان تھا اور ہمیشہ رہوں گا۔۔۔۔

مین بھی۔۔۔

میرا گفٹ۔۔۔

اوہ میں دینا بھول گیا۔۔۔

امان نے اپنی پوکٹ سے ایک ڈبیا نکالی جس میں ایک چمکتی نوز پن تھی جس میں چھوٹا سا ہیرا جڑا تھا۔۔۔

امان جانتا تھا حیا کو نتھلی بہت پسند ھے اس لئے مہنگے گفٹوں کو چھوڑ کر اس کی پسند کی چیز لایا تھا۔۔۔

وااااووووو امان بہت اچھی ھے۔۔۔

مجھے بہت پسند آئی۔۔۔میں پہنو۔۔۔

نہیں صبح پہن لینا۔۔۔

اوکے۔۔۔

لیکن میرا گفٹ۔۔۔

اوہ میں تو لیا ہی نہیں۔۔۔۔میں بھول گئی۔۔۔

چلو کوئی بات نہیں میں خود ہی لے لو گا تم سے اپنا گفٹ۔۔۔

امان نے دھیرے سے اپنے حصار میں لیا اور لا ئٹ آف کی۔۔۔

وہ بہت پیار سے اسے اپنا بنا رہا تھا۔۔۔ساری رات نے حیا پر اپنی محبت کی برسات کی تھی۔۔۔

اور ساری رات حیا نے امان کو خود میں محسوس کیا تھا۔۔۔

وہ خود کو بہت خوش نصیب تصور کر رہی تھی کہ امان اس کے نصیب میں لکھا گیا ھے۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زارا۔۔۔

جی۔۔۔

وہ ارمان کی گود میں بیٹھی اس کے سینے میں منہ چھپائے اس کے دل کی دھڑکن کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔

ہم بھی کتنے پاگل ھیں نا ۔۔۔

ہیںںں کیوں ہم کیوں پاگل ھیں۔۔۔

بھلا آج کی رات بھی کوئی باتیں کرتا ھے۔۔۔تم سجی سنوری میری گود میں میں بیٹھی میرا صبر آزما رہی ہو ۔۔۔۔

تو اور کیا ڈانس کریں۔۔۔۔

نہیں تو ۔۔۔

پھر۔۔۔

جونئر زارا کو لانے کی تیاری۔۔۔۔

ارمان۔۔۔۔

جی جان ارمان۔۔۔

مجھے نیند آ رہی ھے۔۔۔

لیکن میں سونے نہیں دوں گا۔۔۔۔

کیوں۔۔۔

مجھے بےبی چاہیے ھے نا اس لئے۔۔۔۔

میں آپ بے بی ہی ہوں ارمان۔۔۔

ہاں لیکن تم روز میری گود میں نہیں آتی ناں ۔۔اور نا ہی ہگ کرتی ہو ۔۔۔

امان اب پکا کروں کی ۔۔۔

مرومس پکا۔۔۔۔

اوکے۔۔۔

ارمان نے جھٹکے سے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیا ۔۔۔۔

اس کے نرم ہونٹوں کے لمس سے وہ اپنی بے قراری کو مٹا رہا تھا ۔۔۔

دھیرے دھیرے اس کی روح میں اتر رہا تھا اور زارا اس ظالم کے سامنے بے بس ہو چکی تھی۔۔۔

اس لئے بغیر مزاہمت کے بازو اسے گلے میں ڈال کر خود کو اس کے حوالے کیا۔۔۔۔

ارمان نے بہت پیار سے چنا تھا اپنی جانب کی گڑیا کو۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

روح بہت تھک چکی تھی اس لئے ولید اس کے کپڑے چینچ کر کے اس پر کمفرٹ اوڑھا کر اسے سولا چکا تھا اور خود اپنے رب کے حضور اپنی محبت مل جانے کا شکریہ ادا کر دیا تھا۔۔۔۔

محبت جب مل جائے تو انسان جنت میں محسوس کرتا ھے خود کو اور جب انسان جنت میں ہو تو اپنے رب کو کیسے بھول سکتا ھے۔۔۔

محبت کا حاصل ہونا ہو کسی کے بس کی بات نہیں ہوتی اور جن کو ان کی طلب مل جاتی ھے وہ ساری زندگی اپنے رب کے شکر گزار رہتے ھیں اور ولید بھی انہیں میں سے تھا۔۔۔

اور سب سے بڑھ کر روح کا علاج ہو چکا تھا اب وہ ولید کی نسل کو آگے بڑھا سکے گی مطلب وہ ماں بن سکے گی۔۔یہ ولید کے لئے سب سونے زیادہ خوشی کی بات تھی۔۔۔۔

اور اب وہ اپنے رب کی تمام نعمتوں کا شکر ادا کر رہا تھا۔۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️

زمان۔۔۔

ہاں۔۔۔۔

آپ میرے اوپر سے تواٹھے میرا سارا ڈریس خراب کر دینا آپ نے۔۔۔

میں تو بس محسوس کر رہا تھا اپنی جان کو۔۔۔

کر لیا نا اب اٹھیں۔۔۔

آں ہاں ایسے کیسے اٹھیں۔۔۔اب تو ہم کچھ کر کے ہی اٹھیں گیں۔۔۔

وہ اس کی قمر میں ہاتھ ڈال کر اس کی میکسی کی زپ کھولنے لگا تو حور نے ٹوکا۔۔۔

ارمان نہیں پلیز۔۔

کپڑوں سے۔۔۔۔۔۔۔خلل نا آ جائے

ہم آپ سے بے لباس ملاقات چاہتے ھیں۔

وہ بہکے بہکے انداز میں بول کر حور کو اس کے کپڑوں سے آزاد کر کے اس پر جھکا اور اپنی چھاپ چھوڑتا چلا گیا۔۔۔

حور جانتی تھی اس سے رہا ہونا اس کے بس کی بات نہیں اس لئے اس اس کے حال پر چھوڑ دیا۔۔۔

آج سب خوش تھے کیونکہ سب نے اپنی اپنی منزل پا لی تھی۔۔

❤️❤️❤️❤️❤️❤️

محبت اگر جنون بن کر روح میں اتر جائے تو اسے حاصل کرنا ضروری ہو جاتا ھے ورنہ جدائی زہر بن کر رگوں میں سرائیت کر جاتی ھے جس سے انسان پل پل مرتا ھے۔۔۔

مگر یہاں سب کو سب کی محبت مل چکی تھی ۔۔

محبت لمس کی محتاج ہوتی ھے اور لمس میں شدت نا ہو ایسا کیسے ہو سکتا ھے سمجھ میں آیا پھر یہ محبتیں یہ شدتوں کا مطلب

ختم شد 

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about

yeh mohabbatein yeh shiddatein Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  yeh mohabbatein yeh shiddatein  written by Haniya Shah  .yeh mohabbatein yeh shiddatein  by Haniya Shah  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages