Khumar E Junoon By Minal Mehar New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Thursday, 29 August 2024

Khumar E Junoon By Minal Mehar New Complete Romantic Novel

Khumar E Junoon By Minal Mehar New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Khumar E Junoon By Minal Mehar New Complete Romantic Novel 


Novel Name: Khumar E Junoon  

Writer Name: Minal Mehar

Category: Complete Novel

ہسپتال کے کوریڈور  میں موت سا سناٹا تھا۔ ایسے میں وہ اپنی سُرخ آنکھیں اس بند دروازے پر ٹکاۓ جانے کن سوچوں میں گُم تھا۔ گھر کے کسی افراد نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اندر جا کر اس کی ساری تکلیفیں خود پر لے لیتا۔

اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جس پر اس کی متاعِ جان کا خون لگا ہوا تھا ۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مگن تھا کہ اُسے اردگرد کا بالکل بھی ہوش نہ تھا۔

اس کے کانوں میں اس کی کھلکھلاتی ہوئی آوازیں گونج رہی تھی۔ پھر یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا روتا ہوا چہرہ لہرایا اور ساتھ ہی اُس کی درد میں ڈوبی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔

" میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی آپ نے میری محبت میں شراکت کی ہے مجھے بغیر میرا قصور بتاۓ اتنی تکلیفیں دی ہیں آپ ایک دفعہ مجھے میری غلطی تو بتاۓ۔آپ خود میرے قریب آۓ خود اپنی عادت ڈالی اور اب اس مقام پر آکر مجھے تنہا کردیا جہاں میری واپسی کا کوئی دروازہ ہی نہیں اور یہ دروازے اپنے ہی تو میرے لیے بند کیے ہیں مجھے یقین 

دلا کر کے ہر مقام پر میرا ساتھ دیں گے۔پر آپ اپنے ایک بھی وعدے پر پورا نہیں اُترے۔ دیکھنا ایک دن آپ سے اتنی دُور چلی جاؤں گی کہ آپ چاہ کر بھی مجھے واپس نہیں لا سکیں گے۔ "

اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اس کے سامنے لہرا رہی تھی ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وقت کے پیچھے جا کر سب ٹھیک کردے۔۔

 وہ اس قدر خود میں مگن تھا کہ شہیر صاحب کا غصے سے اس کی طرف بڑھنا بھی محسوس نہ کر سکا۔

شہیر صاحب اس کے نزدیک آتے اسے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوۓ بولے ۔

"اب یہاں کیوں ہمارا تماشا لگانے کھڑے ہو یہی تو تم چاہتے تھے مجھے تکلیف دینا جو تم بہت اچھے سے دے چکے ہو صرف مجھے نہیں اپنے پورے گھر والوں کو اب تم جا سکتے ہو کوئی بھی تمہیں نہیں روکے گا۔ بہت اچھا کام کیا تم نے مجھے یہ سوچتے ہوۓ بھی شرم آرہی ہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔ایک دفعہ اُس  باپ کی طرف بھی دیکھ لو جن کی زندگی کا کُل سرمایہ اندر لیٹا وہ معصوم وجود ہے جسے اس سب کے بارے میں رتی برابر بھی نہیں پتہ تو بتاؤ کیسا بدلہ اُس معصوم سے۔ضروری نہیں جو تم نے دیکھا جو تمہیں بتایا گیا وہی سہی ہو کبھی کبھی حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔تم نے مجھے اس قدر مایوس کیا ہے میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔"

یزدان نے ایک بے بس نظر اُٹھا کر سامنے اپنے چاچو کی طرف دیکھا۔ جن کے کندھے آج کچھ اور جُھکے ہوۓ لگ رہے تھے۔ پھر ایک نظر اپنے دا جان پر ڈالی جن کی تو جان بستی تھی اس معصوم میں۔" 

وہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اس نے بالکنی میں چھلانگ لگاتے محتاط انداز میں چلتے اِدہر اُدھر نگاہ دوڑائی۔ تسلی کر لینے کے بعد وہ بالکنی کا دروازہ کھول کر کمرے کی طرف بڑھا۔اگر اسے کوئی ایسی حرکتیں کرتے دیکھ لیتا تو کوئی یقین نہ کرتا کہ  یہ وہی یزدان ہے جو آفس میں کھڑوس کے نام سے مشہور ہے۔ وہ لڑکا جو سب کے لیے کھڑوس کے نام سے مشہور تھا اپنی میرو کے لیے شرارتی سا محبت لٹانے والا بن جاتا تھا۔ 

 پہلی ہی نگاہ اس نے بیڈ پر سوۓ اس وجود پر ڈالی تھی جس میں اس کی خود کی زندگی بستی تھی۔ 

"میری زندگی" اس کو سکون سا سوتا دیکھ وہ دلکشی سے مسکراتا ہوا بڑبڑایا۔ 

قدم با قدم چلتا اس کے نزدیک آیا۔ اس کے نزدیک بیڈ پر براجمان ہوتے اس نے ایک ہاتھ اس کے رخسار کی طرف بڑھایا۔ دھیرے سے اس کا گال سہلایا۔

"راحت حیات ( میری زندگی کا سکون)" وہ ہولے سے بڑبرایا۔ اس نے اس کی بند پلکوں کو ہولے سے چھوا۔

اس نے دلکشی سے مسکراتے اس کی ہلتی پلکوں کا رقص دیکھا تھا۔یعنی وہ جاگ گئ تھی۔ 

جاگ تو تب ہی گئ تھی جب وہ اس کے نزدیک بیٹھا تھا۔ وہ سانس روکے اس کی حرکت ملاحظہ کر رہی تھی۔

یزدان نے اس کی بند آنکھوں کو ہولے  سے چھو کر اُس کے چہرے پر پھونک ماری تھی۔

زومیرہ نے اُس کی حرکت پر پٹ سے آنکھیں کھولی تھی۔ سامنے وہ بھرپور طریقے سے مسکراتا اس کی حرکتوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ 

" جانم " وہ قریب آکر ہولے سے اس کے کان میں بڑبڑایا۔ 

زومیرہ کے ہونٹوں پر شرمیلی سے مسکان پھیلی۔ اس نے پل میں اپنی حالت پر قابو پاتے اسے گھورا تھا۔ 

” آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ " وہ زیادہ دیر اُسے گھور بھی نہ سکی اُس کی آنکھوں میں محبت کا جہاں دیکھ اس کی پلکیں جھکتی چلی گئ۔

" میں یہاں اپنی جانم سے ایک بہت اہم بات کرنے آیا ہوں۔" وہ اس کے مزید نزدیک ہوتا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے سہلانے لگا ۔ ساتھ ساتھ اس کے ایک ایک ایکسپریشن کو غور سے ملاحظہ کیا۔ جانے ایسا کیا تھا اس کے چہرے میں کہ اس کے معصوم نقوش میں اس کی نگاہیں اُلجھ کر رہ جاتی تھی۔ 

  زومیرہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کا دل ہاتھوں میں دھڑک رہا ہو۔ اس کے ہاتھ اس کی گرفت میں کپکپا کر رہ گۓ۔  

اس نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ یعنی کے وہ اس کی یہاں موجودگی کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔  

" ہمارے نکاح کو تین سال ہو چکے ہیں۔" اس نے بات کرنے سے پہلے جیسے تمہید باندھی۔ 

زومیرہ نے فوراً ہاں میں سر ہلایا۔ 

" تم جانتی ہو جب سے تم پیدا ہوئی ہو نا تب سے ہی مجھے بہت عزیز ہو۔ لیکن جب سے تم میرے نکاح میں آئی ہو تب سے اور بھی زیادہ عزیز ہوگئ ہو۔ میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ کوئی لڑکی میرے دل کے اتنا قریب بھی ہوسکتی ہے کہ جس کے بغیر مجھے یہ دنیا پھیکی سی لگتی ہے۔میں دا جان اور پاپا سے رخصتی کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ پر اس سے پہلے میں تمہاری رضامندی چاہتا ہوں۔"

اس نے اپنی بات کے اختتام پر اس کے گلابی چہرے کی طرف دیکھا۔

" میں ۔۔۔ کیسے۔۔ میرا مطلب ہے ابھی تو میں پڑھ رہی ہوں۔ میرا مطلب ہے ابھی تو میری پڑھائی بھی مکمل نہیں ہوئی۔" اس نے کچھ ہچکچاتے ہوۓ ہوۓ اپنی بات کہیں۔

" میں جانتا ہوں کہ تم ابھی اس سب کے لیے تیار نہیں ہو۔شادی کی ذمہ داری سنبھالنا چھوٹی سی بات نہیں۔ابھی تو میری پرنسس خود چھوٹی سی ہے۔ لیکن اس دل کا کیا کروں جو اب تمہیں خود کے پاس دیکھنا چاہتا ہے ۔ بس تم دا جان کو رخصتی کے لیے ہاں کر دینا باقی سب میں سنبھال لوں گا۔ مانو گی نا میری بات " اس نے اُمید سے اپنی کُل کائنات کو دیکھا۔ 

 وہ جھجھکتی ہوئی ہاں میں سر ہلا گئ۔ 

یزدان کو یوں لگا جیسے اُس کی ایک ہاں پر اُسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی محبت سے چومی تھی۔ 

" تھینک یوں سو مچ جانم " وہ اسے خود میں بھینچتا خوشی سے بولا۔ 

" زومیرہ! بیٹا وہاں کیوں کھڑی ہو۔ رات ہونے والی اب اندر آجاؤ " اس نے چونک کر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ 

اس کی ماما اُسے آواز دے کر اندر کی طرف بڑھ گئی تھی

اس نے اردگرد نظر دوڑائی وہ کہی بھی نہیں تھا سارا الویژن پل میں ختم ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگی۔سارا بھرم پل میں چکنا چور ہوا۔

 "آئی ہیٹ یو یزدان ! آپ یوں میری ذات کا تماشا بنا کر مجھے تنہا کر کے چلے گۓ۔ میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی۔ اب دیکھنا میں بھی آپ جیسی ہوجاؤں گی آپ جو بھی کرلے میں آپ سے بالکل بات نہیں کروں گی۔ " 

________________________________________

اس کی جیپ ایک جھٹکے سےآفس کی بلڈنگ کے آگے آکر رُکی۔ گارڈ نے پُھرتی سے آکر اس کی کار کا دروازہ کھولا۔ اس نے باہر نکل کر اپنے یونیفارم  پر سے نادیدہ گرد جھاڑی پھر اس نے قدم اندر کی جانب بڑھاۓ۔ وہ جہاں جہاں سے گزر رہا تھا سارا سٹاف اُسے کھڑا ہوکر سلام کررہا تھا ۔ وہ شادو نادر ہی یہاں آتا تھا۔  اس نے  سر ہلا کرسب کے  سلام کا جواب دیا اور اندر اپنے باپ کے آفس کی جانب بڑھ گیا۔ 

وہ آفندی خاندان  کا چھوٹا چشم و چراغ تھا جسے ایک دنیا ایس پی عرید آفندی کے نام سے جانتی تھی۔جو بلا کا مغرور تھا ۔اس کی آنکھوں بلا کی ذہانت تھی۔ وہ وجاہت کا شاہکار سب کو اس کی اوقات میں رکھنا جانتا تھا وہ نرم تھا فقط اپنی چھوٹی بہن کے لیے جس میں اس کی زندگی بستی تھی۔ اسے اپنی ہر شے ملاوٹ سے پاک شفاف چاہیے تھی۔ بغیر کسی کھوٹ کے۔ اسے زندگی میں نہ تو دوسرا ہونا پسند تھا اور نہ ہی اپنی چیز کسی کے ساتھ بانٹ سکتا تھا۔ 

پر زندگی اسے بہت جلد اسکی مغروریت اس کی شان و شوکت اس کے منہ پر مارنے والی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے کھڑکی سے باہر جھانک کر اپنی زندگی کے گزرے ماہ و سال کا جائزہ لیا تھا آج دو سال پہلی تک تو اس کی زندگی نہایت پُرسکون تھی۔ لیکن اس دو سالوں میں اس کی زندگی میں ایسی ہلچل مچی تھی وہ خود بھی سمجھ نہ پائی تھی ان گزرے سالوں میں اس نے سب کچھ کھویا ہی تھا کوئی خوشی کوئی سکون اس کی  زندگی میں آیا ہی نہ تھا۔جیسے خوشیاں اس کی زندگی کا راستہ ہی بھول گئ تھی۔ 

اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اور الماری میں موجود اپنی جمع پونجی نکالی جو چند ہزار روپوں پر محیط تھی اس کا رُخ باہرکی طرف تھا اس کی زندگی میں وہ واحد رشتہ تھا جسے وہ کسی بھی قیمت پر نہیں کھونا چاہتی تھی۔ وہ واحد ہستی جس نے ہر مشکل حالات میں اس کی ڈھال بننے کی کوشش کی تھی۔ اسے اپنے پیارے دادا جان اپنی زندگی سے بڑھ کر عزیز تھے۔ 

ازوہ آفریدی نے کرب سے آنکھیں موندے رکشہ اس چھوٹے سے پرائیویٹ ہسپتال کے آگے رکوایا تھا۔ اس نے جلدی جلدی قدم اندر کی جانب بڑھاۓ تھے۔ آنکھیں  بار بار نم ہورہی تھی جسے بار بار وہ ہاتھ کی پشت سے رگڑ رہی تھی۔ جانے کیوں اس کا دل مسلسل گھبرا رہا تھا۔ اپنے آخری رشتے کو کھونے کا خیال ہی سوحانِ روح تھا۔ وہ کیسے نہ تڑپتی۔ 

اس کے قدم وارڈ کے باہر آکر رُکے تھے جب اندر سے دو لوگ نکلتے ہوۓ نظر آۓ تھے۔ جنھیں آج سے پہلے اس نہ تو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ 

عالم آفندی نے اس کا رُکنا اور چوکنا محسوس کیا تھا۔ پھر اس کی طرف قدم بڑھا کر پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

" ازوہ بچے فکر کرنے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہمیں بھی اپنا دا جان ہی سمجھو۔ ہم آپ کی تکلیف سمجھ سکتے ہیں ہم یقین دلاتے ہیں ہم حالات کو بہتر کرنے کی کوشش ضرور کریں گے۔ شاید تم ہمیں نہ جانتی ہو ہم اور تمہارے دادا جان کسی زمانے میں بہت اچھے دوست رہ چکے ہیں۔ اور سکندر ہمیں تمہارے اور ان کے حالات کے بارے میں سب بتا چکا ہے۔ جسے سُن کر ہمیں بہت افسوس ہوا۔ اور دُکھ بھی ہوا کہ پہلے کیوں نہ پکارا اس نے ہمیں۔ خیر ان سب کو چھوڑو ۔اب ہم آگۓ ہیں ہم سب سنبھال لے گے۔ تم ٹینشن مت لو۔" وہ اس کا سر تھپکتے آگے کی طرف بڑھ گۓ۔

وہ اس کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتے ایک بہت اہم فیصلہ کرچکے تھے۔ جس پر جلد ہی وہ عملی جامہ پہنانے والے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 ماضی 

وہ گاڑی کے باہر کھڑا تپتی دھوپ میں کب سے اس کا انتظار کررہا تھا۔ آتی جاتی لڑکیاں اس کا بھرپور دیدار کرتی گزر رہی تھی۔ وہ آنکھوں پر سن گلاسسز لگاۓ بے نیازی سے کھڑا تھا۔ ماتھے پر لکیروں کا جال بچھا تھا۔ جب وہ اسے سامنے سے آتی نظر آئی دھوپ کی تمازت سے اس کا چہرہ سُرخ ہورہا تھا 

جب سفید یونیفارم میں ڈوپٹہ سر پر ٹکاۓ وہ نظریں جھکاۓ اسی کی طرف آتی ہوئی نظر آئی۔ اسے دیکھ کر اس کے ماتھے پر پڑی سلوٹیں خود بخود ہٹتی چلی گئ۔ اس کے چہرے پر دھیمی سی مسکان نے اپنا احاطہ کیا۔ 

زومیرہ نے قریب آکر جھجھکتے ہوۓ اسے سلام کیا۔ جس کا اس نے بھرپور طریقے سے جواب دیا۔ پھر اسے گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ اس کا خود سے جھجھکنا اچھے سے نوٹ کر چکا تھا وہ اس کی یہی جھجھک تو دور کرنا چاہتا تھا۔ اس نے بھرپور طریقے سے اس کا جائزہ لیا۔ اس کی پٹر پٹر بولتی یہ کزن جو مجال ہے اس کے سامنے چُپ بیٹھی۔ وہ یہ تبدیلی کی وجہ بھی اچھے سے جانتا تھا۔ ان کا دو دن پہلی بندھنے والا وہ مظبوط بندھن۔ 

اس نے گاڑی میں بیٹھتے پانی کی بوتل اس کی جانب بڑھائی۔ جو اس نے تھام کر فورًا ہونٹوں کو لگائی۔  یزدان نے اس کا ماتھے پر آیا پسینہ دیکھا تو فورًا اپنی جیب سے رومال نکالے بنا ہچکچاۓ اسے صاف کیا۔ وہ سانس روکے اس کی حرکت ملاحظہ کررہی تھی۔ آج سے پہلے اس نے یہ جسارت کبھی نہیں کی تھی کیونکہ پہلے ان کے درمیان یہ مضبوط رشتہ بھی نہ تھا۔ یزدان شہیر آفندی اپنے حدود اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ اس کا گال تھپتھپاتا گاڑی آگے بڑھا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

حال

اس کا آج یونی کا پہلا دن تھا۔ہر چیز میں کانفیڈنٹ رہنے والی آج ذرا گھبرا رہی تھی۔ لیکن اس نے ایسا کچھ بھی ظاہر نہ کیا۔ اس کے نسبت اس کی دوست کچھ زیادہ ہی گھبرائی ہوئی تھی۔ کیونکہ ان دونوں نے ہی یونی میں ہونے والی ریگنگ کے بارے میں سن رکھا تھا ماہا کا بس نہیں چل رہا تھا اس میں گُھس جاتی۔

نشوہ نے اس کے ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے سے باہر نکالا۔ 

" کیا کر رہی ہو ماہا؟ اگر تم یونہی مجھ سے چپکی رہو گی تو میں کیسے چلوں گی۔اور تم ڈر کس چیز سے رہی ہو میں بھی تمہارے ساتھ ہی ہوں۔" 

نشوہ نے گھور کر اسے دیکھا۔

"پتہ نہیں کیوں مجھے گھبراہٹ سی ہورہی ہے۔" وہ منمنا کر بولی۔ 

"جسٹ ریلکس میں تمہارے ساتھ ہوں۔اب ایسا ویسا کچھ نہیں ہوتا۔یہ سب پرانی باتیں ہیں۔اب یونی میں کوئی کسی کو فضول میں تنگ نہیں کرتا۔ہہممم!" نشوہ اسے سمجھاتی ہوئی اس کا ہاتھ پکڑتی تیز تیز چلنے لگی۔ 

نشوہ آتی جاتی لڑکیوں کو دیکھتی نخوت سے بڑبڑائی۔

" بےشرم! یار ویسے مجھے یہ یونی کم اور فیشن انڈسٹری زیادہ لگ رہی ہے۔ حد نہیں ہوگئ ویسے۔ہمیں کیا۔" وہ کندھے اچکاتی آگے کو بڑھ گئ 

کہہ تو ویسے وہ سچ ہی رہی تھی اکا دُکا لڑکیوں کے علاوہ سب جینز ٹاپ میں ملبوس تھی۔ نشوہ نے یہ بھی غنیمت سمجھ کہ چلو کچھ لڑکیوں میں تو شرم و حیا ہے۔ جو شلوار قمیض میں اور عباۓ میں ملبوس تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یار چل نہ کسی کو تنگ کرتے ہیں۔ آج ہمارے جونیئر آرہے ہیں کچھ ہمارا بھی حق بنتا ہے ان کی خاطر مدارت کریں۔" کیا کہتے ہو سب۔ 

صارم نے اپنی بات کہہ کر سب کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ سب نے اس کی بھرپور تائید کی۔ اس نے ایک نظر احان کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر نو لفٹ کا بورڈ لگا تھا۔ 

" احان! اب تو ہمیں اس سے منع نہیں کریں گا آخر یہ ہمارا حق ہے اور نۓ آنے والے سٹوڈنٹ کے ساتھ ذرا جان پہچان بھی ہوجاۓ گی۔ " صارم نے اسے منانے کی بھرپور کوشش کی۔ 

" مجھے کوئی شوق نہیں ان فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کرنے کا۔ تم لوگ ہی کرو اپنے وقت کا ضیاع " اس نے گویا ناک سے مکھی اُڑانے والے انداز میں بات مکمل کی۔ 

" اچھا ہم کونسا کہہ رہے ہیں تو اس سب میں شامل ہو تو ہمارے ساتھ کھڑے رہنا باقی ہم خود ہی مزے کر لے گۓ۔ " صارم اس کی بات پر زیادہ کان دھرے بغیر ادھر ادھر نگاہیں دوڑانے لیا۔ جب اس کی نظر سامنے سے آتی دو لڑکیوں پر ٹھہر گئ۔جن میں سے ایک گرے رنگ کے عباۓ میں ملبوس سر پر حجاب سجاۓ کافی کانفیڈنٹ لگ رہی تھی جبکہ اس کے برعکس شلوار قمیض میں ملبوس لڑکی جس نے ڈوپٹہ خوبصورتی سے سر پر سجا رکھا تھا کافی زیادہ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی۔  اسے اپنے شکار مل چکے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ اور ماہا نے ان کے قریب سے گزرنا چاہا جب نے ایک گروپ نے ان کے گرد گھیرا بنایا۔ 

احان ذرا فاصلے پرکھڑا یہ سب بیزاری سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایک سرسری سی نظر ان پر ڈال کر ہٹالی تھی۔ 

ماہا نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تسلی دی۔ 

" ہٹیے ہمارے راستے سے ہمارا وقت ضائع مت کریے۔"

نشوہ کی بات پر اس نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔ 

" ہم سوچ رہے تھے کہ نۓ آنے والے سٹوڈنٹڑ سے کچھ جان پہچان ہی بڑھا لیں۔" صارم نے جواباً اطمینان سے کہا۔

وہ دونوں اچھی طرح ان کی بات کو سمجھ رہی تھیں۔ 

" دیکھو تم اسے جانتے نہیں ہو یہ اس یونی کے ٹرسٹی کی بیٹی ہے تمہیں دو منٹ میں نکلوا سکتی ہے اس کے پاپا اور پرنسپل سر بہت اچھے دوست ہیں۔سمجھے تم"نشوہ نے اس کی طرف اشارہ کر کے کہا۔

ماہا کی آنکھیں صدمے سے پوری کُھل چکی تھی جو گوہر افشانی وہ اس کے بارے میں کر چکی تھی اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی۔ 

صارم نے ایک بھرپور نظر اس پر ڈالی تھی جس کا بس نہیں چل رہا تھا ساتھ کھڑی اپنی دوست کے وجود کے پیچھے چُھپ جاۓ۔ 

" اچھا ہم تو ڈر گۓ۔ " اس نے بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوۓ کہا۔

" چلو تم پھر پیچھے ہٹو ذرا تمہاری اس دوست سے بھی تھوڑی سی بات ہوجاۓ کیا پتہ ہمیں بھی اس کی پاور کی ضرورت پڑ جاۓ کبھی۔ " اس نے سائیڈ پر کھڑی ماہا کی طرف قدم بڑھایا اور اس کےعین سامنے جا کھڑا ہوا۔ ماہا کی ہوائیاں اتنے میں ہی اُڑ گئ تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے کہی غائب ہوجاۓ۔  سامنے کھڑا لڑکا اسے کوئی غنڈا ہی لگ رہا تھا۔

" اوکے لیڈی۔ یور گُڈ نیم پلیز" اس نے بھرپور دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔ 

ابھی وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی نشوہ ایک بار پھر ان کے درمیان آچکی تھی۔ 

" دیکھو مسٹر بہت ہوگیا تمہارا ۔ تمہیں نظر نہیں آرہا وہ تم سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ ایکچولی وہ تم جیسے لُچے لفنگے کو دیکھ کر ذرا گھبرا گئ ہے.  اب شرافت سے ہمارا راستہ چھوڑو۔ " اس نے انگلی اُٹھا کر اسے وارننگ دی۔ وہ ماہا کی ڈرپوک نیچر سے واقف تھی۔ اس لیے فوری ان کے درمیان کودی۔ 

احان ذرا فاصلے پر کھڑا اس چھٹانگ بھر کی لڑکی کی تیزی سے چلتی زبان کب سے ملاحظہ کر رہا پھا ۔  پہلی نظر میں ہی وہ اسے زہر سے بھی زیادہ بُری لگی۔ اسے ایسی تیز طرار لڑکیاں انتہا سے زیادہ بُری لگتی تھی۔ جو آگے پیچھے دیکھے بغیر اپنی زبان کے جوہر دکھاتی ہیں۔وہ چند قدموں کا فاصلہ طے کرتا ان تک پہنچا۔ 

اس کی آخری بات پر صارم کو بھی بے تحاشا غصہ آیا تھا کہاں سے وہ اسے لچے لفنگا لگ رہا تھا۔ 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتا احان ان کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ 

" بہت سُن لی تمہاری بکواس۔ ذرا سوچ سمجھ کر بولا کرو اگر تمہاری جگہ کوئی لڑکا ہوتا تو اب تک میں اس کا منہ توڑ چکا ہوتا۔ میں اپنے دوست کے معاملے میں بہت پوزیسو ہوں۔ سمجھی اب اپنی شکل گُم کرو امید ہے تمہاری شکل اب ہمیں دیکھنے کو نہ ملے"احان بدتمیزی سے اسے وارن کرتا ہوا بولا۔ 

اسے اپنی زندگی میں چند لوگ ہی عزیز تھے ان میں سے ایک صارم تھا اس کا جگری دوست اس کے ہر راز کا واقف اس کی زندگی کی ہر سچائی سے آشنا ۔ 

نشوہ نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا تھا جب ماہا نے بس کا بازو تھام کر اسے کچھ بھی بولنے سے روکا وہ لب بھینچ کر رہ گئ۔ ماہا نے اسے کھینچ کر وہاں سے لے جانا چاہا جب کسی نے اسے بہت شدت سے دھکا دیا وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پائی اس سے پہلے وہ زمین بوس ہوتی کسی نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے گرنے سے روکا۔ اور ایک جھٹکے میں اسے سیدھا کھڑا کیا۔ اسی لڑکے نے اسے گرنے سے بچایا جو ابھی اس کی بےعزتی کر رہا تھا۔ 

" کیا تکلیف ہے تمہارے ساتھ ہما۔ ہر جگہ تمہارا ٹانگ پھنسا ضروری ہے " احان نے بیزاری سے اس کی طرف دیکھا۔

" جو تمہارا دشمن وہ میرا دشمن.مجھے بھی اس کی بدتمیزی پسند نہیں آئی " اس نے ایک ادا سے بال جھٹکتے ہوۓ کہا۔

" میری معاملوں سے دور رہا کرو ۔ لاسٹ وارننگ دے رہا ہوں ۔ مجھے یہ بالکل نہیں پسند کوئی میرے معاملوں میں بے جا مداخلت کرے ۔ سمجھی۔" وہ اسے وارننگ دینے والے انداز میں بولا جس کا خیر اس ڈھیٹ لڑکی پر تو اثر نہیں ہونے والا تھا۔ اس نے صارم کو اشارہ کیا وہ بغیر کسی کی طرف دیکھتے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔

اس وسیع عریض حویلی میں آفندی خاندان سالوں سے آباد تھا۔ عالم آفندی اور صدف کے تین بیٹے تھے۔ سب سے بڑے شہیر آفندی اس سے چھوٹے کبیر آفندی اور سب سے چھوٹے شاہ ویز آفندی۔ جن سے ان کی محبت مثالی تھی ایک وجہ تو وہ گھر میں سب سے چھوٹا اور باپ کا لاڈلا دوسری اس کی حد درجہ مماثلت عالم صاحب کے چھوٹے بھائی سے ہوتی تھی انہیں دیکھ کر انہیں اکثر اپنے چھوٹے مرحوم بھائی کی یاد آتی تھی۔ 

شہیر آفندی کی شادی عائشہ سے ہوئی تھی جن کا ایک ہی بیٹا تھا یزدان شہیر آفندی گھر کا پہلا چشم و چراغ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے دا جان کا خوب لاڈلا تھا۔ 

شہیر اور کبیر کی شادی ایک ساتھ ہی ہوئی تھی۔ کبیر کی شادی ان کی مرضی سے ان کی یونی فیلو ہاجرہ  سے ہوئی تھی۔ جن کی دو اولادیں تھی بڑا بیٹا عرید آفندی جو یزدان سے محض پانچ ماہ چھوٹا تھا۔  اور اس سے چھوٹی نشوہ آفندی جو گھر میں سب سے چھوٹی تھی.  

عالم صاحب شادی کے معاملے میں کسی بھی زور زبردستی کے قائل نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے بچوں کی پسند کو ذہن میں رکھتے ہی ان کے رشتے طے کیے تھے اس کے باوجود کہی نا کہی وہ خود بھی اس بات کے گواہ تھا کہ ماضی میں شہیر صاحب کے ساتھ ناانصافی تو ہو چکی تھی جس کا کہی نا کہی وہ اژالہ بھی کر چکے تھے۔یہ اژالہ ماضی میں بھی ان کی زندگی میں طوفان لایا تھا اور آگے ناجانے اور کیا کیا ہونا باقی تھا۔ اب یہ آنے والا وقت بتانے والا تھا کہ یہ اژالہ ان کے لاڈلوں کی زندگی میں طوفان لانے والا تھا۔

سب سے چھوٹے شاہ ویز کی شادی ان کی مرضی سے ان کے چچا کے ہاں ہوئی تھی۔ ماہ نور سے ان کی محبت کی شادی تھی۔ شادی کے چند سال تک ان کے ہاں اولاد نہ ہوئی ۔ شادی کے چھ سال بعد جاکر بہت ہی منتوں مرادوں کے بعد زومیرہ نے ان کی سونی زندگی میں قدم رکھا ۔وہ یزدان اور عرید سے آٹھ سال چھوٹی تھی۔ گھر بھر ہی پہلی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ سب کو بے حد عزیز تھی۔ داجان کی تو اس میں جان بستی تھی انھیں خود بھی بیٹی کی خواہش تھی لیکن وہ پوری نہ ہو سکی لیکن اب زومیرہ کے روپ میں ان کی خواہش پوری ہوگئ تھی۔ ان کے عزیز جان لاڈلے بیٹے کی اولاد تھیں انہیں وہ جان سے بھی پیاری تھی جب وہ ان سے فرمائشیں کرتی تھی تو اس کے دا جان پر اس کو پورا کرنا فرض ہوجاتا تھا۔ نشوہ زومیرہ سے دو سال چھوٹی تھی جو محبت اور لاڈلا پن زومیرہ کو حاصل تھا اس کی جگہ نشوہ بھی نہ لے سکی۔ داجان کو وہ بھی عزیز تھی لیکن جو تعلق ان کا زومیرہ سے تھا وہ  اس سے نہ بن پایا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

 اس نے بے پناہ خوشی کے ساتھ اپنے ہاتھ میں پکڑے ان کاغذات کو دیکھا اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے سارے ٹیسٹ کلیئر کرلیے تھے۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھی۔ پولیس فورس جوائن کرنا اس کا بچپن کا خواب تھا۔ جس کی تعبیر اس کے ہاتھوں میں تھی اسے معلوم تھا اس خبر سے کسی کو بھی خوشی نہ ہوگی۔ اسے آج بھی وہ دن یاد تھا جب اس نے اس شعبے میں جانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سب سے پہلے اس کے خلاف اس کا باپ ہی تھا۔ جنہوں نے بھرپور ناراضگی کا اظہار کرکے اسے یزدان کی مثال بھی دی تھی۔ کہ وہ کیسے وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ  بزنس کو بھی اچھے سے سنبھال رہا تھا بس ایک یہی بات تو اسے چُبھی تھی۔بلکہ ہمیشہ چبھی تھی۔ ہمیشہ اسے اس یزدان کی ہی مثال کیوں دی جاتی تھی۔ لیکن جو بھی ہو وہ یہ خبر سب کو دے کر ان کے ایکسپریشن دیکھنا چاہتا تھا جنھیں یہی لگتا تھا کہ وہ کبھی بھی یہ ٹیسٹ کلیئر نہیں کر پاۓ گا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکلا۔ 

" دا جان۔ بابا جان۔ ماما " اس نے خوشی سے لاؤنج میں آکر سب کو آواز دی۔ سب ہی اس کی آواز پر وہاں اکٹھے ہوچکے تھے۔

" کیا ہوا برخودار ؟" داجان اس کا خوشی سے چمکتا چہرہ دیکھ کر بولے۔  

"داجان میرا خواب پورا ہونے جا رہا ہے۔" عرید نے اپنا ہاتھ میں پکڑا جوائنگ لیٹر ان کی طرف بڑھایا۔ 

جنھیں دیکھ ان کا چہرہ بہی کھل اُٹھا تھا ان کا پوتا ان کا نام روشن کرنے والا تھا کیسے نا وہ خوش ہوتے۔ ان سب میں اس کے سب سے بڑے حامی وہی تو تھے۔

انہوں نے اسے خود سے لگا گلے لگا کر ان کی پیٹھ تھپکی۔ پھر محبت سے ان کی پیشانی پر بوسا دیا۔ 

" ہمیں فخر ہے اپنے پوتے پر۔ " وہ کتنی دیر اسے خود سے لگاۓ جانے کون سے راز و نیاز کرتے رہے۔ سب انہیں ایسے دیکھ کر خوش تھے۔ 

نشوہ نے یاہو کا نعرہ لگا کر سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

" اب تو بھائی ہمیں ٹریٹ بھی دینگے اور شاپنگ پر بھی لے کر جائینگے ۔ ہے نا بھائی" اس نے عرید نے کی طرف دیکھ کر تصدیق چاہی۔ 

" بالکل میری جان۔ جا آپ کہے گی۔ " وہ اپنی لاڈلی بہن کو کب منع کرسکتا تھا۔ 

سب نے ایک ایک کر کے اسے مبارکباد دی۔ جن میں یزدان بھی شامل تھا ان دونوں کی کچھ خاص نہ بنتی تھی۔ پر ایسی کوئی دشمنی بھی نہ تھی۔ سب سے آخر میں کبیر آفندی نے اس کی پیٹھ تھپک کر اس کو شاباشی دی ۔ وہ اتنے میں ہی خوشی سے نہال ہوگیا۔ یوں عرید کبیر آفندی کے اس سفر کا آغاز ہوا۔وو باپ تھے انہیں کیسے اس کی خوشی عزیز نہ ہوتی اس کے اس شعبے میں جانے سے سب سے زیادہ انہیں اس کی جان کاخدشہ تھا۔ وہ ان کی پہلی اولاد تھا انہیں جان سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ غصے اور ڈانٹ میں لپٹی ان کی محبت اور فکر کو کبھی دیکھ نہ پایا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال

آج پورے دو سال بعد اس نے واپس پاکستان کی زمین پر قدم رکھا تھا۔ ان دو سالوں میں اسے یہاں سے جانے کا فیصلہ اپنی سب سے بڑی بےوقوفی لگی۔ اس کے پیچھے کسی کو بھی شاید کوئی فرق نہیں پڑا ہو۔ اب وہ اچھے سے انہیں ان کی غلطی کا احساس دلوانے کے لیے دوبارہ اسی جگہ واپس آچکا تھا جہاں سے اپنا سب کچھ گنوا کر گیا تھا۔

اس کے چہرے پر بڑی عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ کچھ سوچتے پل میں اس کی مسکراہٹ سمٹی جلد ہی ماما آپ کو رولانے والوں کے چہروں سے یہ مسکراہٹ چھین لوں گا۔ ان دو سالوں مجھے اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ ان کی زندگی میں ہماری کوئی اہمیت نہیں۔اگر انہیں میری کوئی پرواہ نہیں تو مجھے بھی کوئی پرواہ نہیں۔ وہ ساری سوچوں کو ذہن سے جھٹکتا سن گلاسسز آنکھوں پر چڑھاۓ اپنی کیب  کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بغیر کسی کو بتاۓ ہی آیا تھا اور نہ ہی اس نے پاکستان آکر کسی کو انفارم کیا بلکہ خود ہی ٹیکسی کروا کر حویلی پہنچ چکا تھا۔ اس نے نظر اُٹھا کر اس شاندار سے آشیانے کو دیکھا جس کو چھوڑنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ بر کبھی کبھی جو ہم نہیں بھی چاہتے قسمت ہم سے وہی کرواتی ہے۔ داجان نے اس کی ضد پر بھی اسے باہر جا کر پڑھنے کی اجازت نہ دی تھی تو کیسے انہوں نے دو سال اس کی خبر بھی نہ لی ۔ وہ سوچ کر تلخی سے ہنسا جیسے خود کا ہی مزاق اُڑایا ہو۔ 

" میں اچھے سے جان گیا ہوں کہ یہاں کسی کو بھی میری ضرورت نہیں " وہ منہ میں ہی بڑبڑایا۔ 

اگر وہ اپنی خودساختہ آنکھوں پر بندھی پٹی کھول دیتا تو اسے اچھے سے اندازہ ہوجاتا کہ آج بھی سب اس پر جان وارتے تھے۔ پر کبھی کبھی انسان دیکھ کر بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔

وہ ساری سوچوں کو جھٹک کر اندر کی طرف بڑھا۔ اس سب پر اس کا بھی حق تھا تو وہ کیوں نہ یہاں آتا۔ اگر وہ عورت اندر موجود ہوئی تو شاید وہ اپنے غصے پر بھی کنٹرول نہ کر پاۓ۔ آخر وہ ہی تو اس سب کی وجہ تھی۔ 

اس نے جیسے ہے لاؤنج میں قدم رکھا تو وہ خالی پڑا تھا۔ شاید اس وقت سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ 

" ماما! بڑی ماما ! دیکھیے نا نشوہ نہ میرے سارے نوٹس خراب کردیئے۔" وہ بغیر ادھر اُدھر دھیان دیے سیڑھیاں اترتی نیچے آرہی تھی اس کا سارا دھیان اپنے نوٹس پر تھا. جس پر نشوہ نے مختلف نقش و نگار بناۓ ہوۓ تھے۔ وجہ کل ہونے والی ان دونوں کی لڑائی تھی۔ کل وہ یونی سے آکر اسے سارے دن کی رودادا سنا رہی تھی وہ پہلے ہی پریشان تھی اس لیے اسے ڈانٹ کر کمرے سے باہر نکال دیا جس کا بدلہ اس نے ایسے لیا تھا۔  وہ رونے والی ہوگئ تھی۔ 

یزدان نے مُڑ کر اسے دیکھا جو بغیر دھیان دیے سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ اس کی بے دھیانی پر اسے غصہ آیا تھا اگر وہ گر جاتی خود سے اس کی یہ لاپرواہی اسے بالکل اچھی نہ لگی تھی۔ ماتھے پر خود بخود شکنوں کا جال بچھتا چلا گیا۔ 

 پر اس کی معصوم شکل دیکھ کر ساری کوفت سارا غصہ دور ہوتا چلا گیا۔ آج بھی اُسے دیکھ کر اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ آتشی رنگ کی پرنٹڈ شلوار قمیض میں ڈوپٹہ خود پر اچھے سے پھیلاۓ۔ سبز آنکھوں کو جھکاۓ وہ بے دھیانی میں اس کے قریب آتی جارہی تھی۔ اسے دیکھ کر اس کا دل کیا آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لے۔ دو سالوں کی بےچینی جیسے پل میں دور ہوئی تھی دل پر جیسے ٹھنڈی سی پھوار برسی تھی۔وہ آج بھی ویسی ہی تھی پر کچھ تو بدلا تھا چہرے پر ہما وقت رہنے والی شرارتی مسکراہٹ کی جگہ اس وقت گہری سنجیدگی تھی۔ آنکھوں کی چمک مانند پڑ چکی تھی جس کی جگہ ویرانی سی تھی۔ یزدان کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔ دل نے شدت سے گواہی دی تھی کہ سامنے کھڑی لڑکی اسے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ اس کا دل بار بار ہمک ہمک کہ کہہ رہا تھا کہ اسے بکھرنے سے بچالو۔لیکن اس نے دل کی بات بالکل کان نہ دھرے۔ 

زومیرہ کی آواز سن کر ماہ نور اور ہاجرہ بیگم دونوں ہی باہر آگئ تھی۔

" کیا ہوگیا میرو؟  " ماہ نور بیٹی کی آواز سنتی بے دھیانی میں کچن سے باہر آکر بڑبڑائی۔  

مگر یزدان کو لاؤنج میں کھڑے دیکھ کر ان کے الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ۔ ہاجرہ بیگم بھی اسے دیکھ کر ٹھہر گئ تھی۔ یزدان ان طرف متوجہ نہ تھا اس کا سارا دھیان سامنے کھڑی اپنی زندگی پر تھا جیسے اس کا دل اجازت ہی نہ دے رہا تھا اس پر نظر بھی ہٹانے کو۔

میرو نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا تو اس کی پلکیں ساکت رہ گئ۔ پورے دو سال بعد یوں اسے سامنے دیکھ کر۔ اسے یقین نہ آیا وہ سچ میں سامنے موجود ہے۔  وہ پوری طرح اس کی طرف ہی متوجہ تھا۔ اسے لگا کہ وہ ایک منٹ بھی اس کے سامنے رہی تو خود کو رونے سے نہیں باز رکھ سکے گی۔ اور وہ مر کر بھی اس شخص کے سامنے بےبس نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ یہی تو چاہتا تھا کہ وہ بےبس ہو اور اسے تسکین ملے۔وہ بغیر کسی پر بھی نظر ڈالے دوڑتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ 

اس کے جانے پر جیسے اس کا سکتہ ٹوٹا ۔ اس نے جلدی سے خود کو کمپوز کیا۔ بغیر ان دونوں پر نظر ڈالے بغیر لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں گُم ہوگیا۔

ماہ نور بیگم نے ایک تھکی ہوئی نگاہ اس کی پشت پر ڈالی تھی۔ ان کی اکلوتی لاڈلی بیٹی کے مقدر میں جانے کیا لکھا تھا۔ ان کی آنکھیں نمکین پانی سے بھرنے لگی۔اگر ان کے ہاتھ میں ہوتا تو اپنی ساری جمع پونجی بیچ کر اس کی خوشیاں خرید لیتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے کمرے میں آکر دروازہ بند کیا اور خود دروازے کے ساتھ ٹیک لگاتی نیچے بیٹھتی چلی گئ۔ آنکھوں سے گرم سیال خود بخود بہتا چلا گیا۔ کیسے بھول جاتی اپنی ذات کا یوں بےمول کرنا۔ وہ بھی اس انسان کے ہاتھوں جس نے پل پل یہ یقین دلایا ہو کہ اس کی ذات کتنی خاص ہے اس کے لیے۔ اس نے اپنی ہاتھوں کی لکیروں میں دیکھا جانے اسے خوشیاں راس کیوں نہ آتی تھی۔ اس نے عرش پر بٹھا کر یکدم اسے زمین پر لاپٹکا تھا وہ بلبلا کر رہ گئ تھی۔ 

" یزدان ! میں آپ کو بالکل بھی معاف نہیں کروں گی۔" اس بات کا جیسے وہ خود کو یقین دلا رہی تھی۔

یوں ہی امید دلاتے ہیں زمانے والے

کب پلٹتے ہیں بھلا چھوڑ کے جانے والے

تو کبھی دیکھ جھلستے ہوۓ صحرا میں درخت

کیسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے

 ان سے آتی ہے تیرے لمس کی خوشبو اب بھی

خط نکالے ہوۓ بیٹھا ہوں پرانے والے

آکبھی دیکھ ذرا ان کی شبوں میں آکر

کتنا روتے ہیں زمانے کو ہنسانے والے

کچھ تو آنکھوں کی زبانی بھی کہہ جاتے ہیں 

منہ سے ہوتے نہیں سب راز بتانے والے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کے دادا جان کی طبیعت اب پہلے سے بہتر تھی لیکن ڈاکٹرز نے ابھی کچھ عرصہ انہیں ہسپتال میں رکھنے کے لیے کہا تھا۔ تاکہ ان کا علاج بہتر طریقے سے ہوسکے ۔ عالم صاحب کو بھی یہ بات بہتر لگی تھی۔ اب وہ ان کے علاج میں کوئی کوتاہی نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے ان کی سکیورٹی کا اچھے سے انتظام کروا دیا تھا۔ کیونکہ وہ ان کی جان پر کسی قسم کا رسک نہیں لے سکتے تھے۔ 

عالم صاحب کے اصرار پر بھی وہ ان کے ساتھ جانے کے لیے راضی نہ تھی۔ اسے ڈر تھے کہ وہ لوگ اگر اُسے ڈھونڈتے ہوۓ پہنچ گۓ اور اس کے دادا جان کچھ کر دیا تو وہ کیا کرے گی۔اسے ہر پل یہ ڈر لاحق تھا کہ وہ کہی سے آ نہ جاۓ اور اس کی زندگی کا رہا سہا سکون برباد نہ کردے۔  پہلے بھی وہ ان سب کا ذمہ دار خود کو ہی سمجھتی تھی۔ اب وہ کوئی رسک نہیں لے سکتی تھی۔ 

" ازوہ بیٹا آپ بے فکر رہیں ہم نے یہاں اچھے سے سارا انتظام کردیا ہے ۔ اب آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہم سب سنبھال لیں گۓ ۔ اب ہم آپ کی کوئی بات نہیں سنیں گے ۔ آپ بس اب ہمارے ساتھ گھر چل رہی ہیں۔ " وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی جب عالم صاحب کی آواز پر وہ سوچوں کی بھنور سے نکلی۔

" پر انکل ! ہم دادا جان کے پاس رہنا چاہتے ہیں " اس نے ان کی طرف دیکھ کر بیچارگی سے کہا۔ 

" ازوہ بچے ! آپ ہماری بات نہیں سمجھ رہی ابھی کچھ وقت تک آپ کے دادا جان کا علاج چلے گا ۔ اور یہاں پر رُک کر کچھ نہیں ہوگا ۔ اب وہ پہلے سے بہتر ہیں اور ہم آپ کو روز آپ کے دادا جان سے ملوانے لے آئینگے۔ " وہ اس کا سر تھپک کر آگے بڑھ گۓ۔ ازوہ بےبسی سے ہسپتال کے بند دروازے کو دیکھ کر ان کے پیچھے بڑھ چل دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دا جان ازوہ کو لے کر حویلی پہنچ گۓ تھے۔ ازوہ نے سر  اٹھا کر اس عالیشان سی حویلی کو دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حسرت ہی حسرت تھی اس کا بھی چھوٹا سا آشیانہ تھا۔ اس نے کبھی بھی دولت ، عیش و آرام کا خواب نہیں سوچا تھا۔ اسے تو زندگی میں بس سکون چاہیے تھا اور وہی اس کی زندگی میں نہیں تھا۔اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اور داجان کے ساتھ اندر کی طرف بڑھ گئ۔ 

داجان نے پہلے ہی سب کو اس کے بارے میں بتا چکے تھے۔ سب نے بہت گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ نشوہ نے پورے دل سے اسے خوش آمدید کہا تھا۔ داجان نے چاروں اور نگاہ دوڑائی پر انہیں میرو کہیں نظر نہ آئی۔ 

" میرو کدھر ہے ؟ " انہوں نے سوالیہ نظروں سے ماہ نور بیگم کی طرف دیکھا۔ اسے پتہ تھا کہ ازوہ آنے والی ہے پھر وہ کیوں نہ آئی۔ حالانکہ وہ اس سے ملنے کے لیے کافی ایکسائیٹڈ تھی۔ 

اس سے پہلے وہ کچھ کہتی یزدان عجلت میں سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا۔ سب کو ایک جگہ اکٹھا دیکھ اور ایک نۓ چہرے کو دیکھ کر بھی اس نے کوئی خاص دھیان نہ دیا۔ اس کی بلا سے کچھ بھی ہو گھر میں اسے اس سب سے کوئی سروکار نہیں تھا۔

اس نے کوئی نوٹس لیا ہو یا نہ لیکن داجان اسے دیکھ کر کِھل اُٹھے تھے۔ اتنے ٹائم بعد اسے سامنے دیکھ کر انہیں یقین ہی نہ ہوا کہ نہ لوٹ آیا ہے۔ وہ انتظار میں تھے کہ وہ کب وہ آکر ان کے سینے سے لگے گا۔ کب وہ ساری رنجشیں دور کریں گا۔ کب وہ کہے گا کہ داجان مجھ سے غلطی ہوگئ مجھے معاف کردیں۔مگر وہ ان کی طرف نگاہ ڈالے بغیر باہر کی طرف بڑھ گیا۔ داجان کے چہرے کی خوشی پل میں مانند پڑھ گئ۔ سب نے دا جان کے ساتھ یزدان کا یہ رویہ نوٹ کیا۔ انہیں یوں یزدان کا سب کو اگنور کرنا بالکل بھی پسند نہ آیا تھا۔ پر سب ہی اپنی اپنی جگہ خاموش رہے۔ 

" نشوہ بیٹا! شاباش بہن کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔" اس جامد خاموشی کو دا جان آواز نہ توڑا۔ 

یہاں سب ہی گھر والے موجود تھے ماسواۓ عرید کے وہ کسی اہم مشن کے لیے گھر سے باہر تھا۔ اس کی جاب ہی ایسی تھی کہ اس کے آنے جانے کا کوئی وقت نہ تھا۔ دوسرا اسے اپنی جاب سے عشق تھا وہ ہمہ تن تیار رہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

" ماما " اس نے گھر میں داخل ہوتے ہی اپنی ماں کو آواز لگائی ۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ اس گھر میں دو لوگ ہی تو رہتے تھے وہ اور اس کی ماں۔ سالوں سے ایک دوسرے کی تنہائی کو وہ دونوں ہی دور کرتے آۓ تھے۔ 

" یہاں ہوۓ میرے چاند "شیریں بیگم نے کچن سے آواز لگائی۔ ان کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ گھلتی چلی گئ۔ وہی تو تھا ان کی زندگی کا کُل اثاثہ۔ ان کی زندگی کا سکون۔ ان گزرے سالوں میں اگر ان کی زندگی میں کچھ بھی اچھا ہوا تھا تو وہ صرف اور صرف ان کا بیٹا ان کا احان تھا۔

احان نے پیچھے سے آکر ان کے کندھے پر سر رکھا۔ انہوں نے محبت سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

انہوں نے اس کے موڈ کا اندازہ لگایا جو کافی اچھا تھا۔

" احان! وہ تمہارے بابا ۔۔۔۔" ابھی وہ بات مکمل کرتی وہ درمیان میں ہی بول اُٹھا۔

" پلیز ماما ! میرا موڈ اچھا ہے اور میں اسے خراب نہیں کرنا چاہتا۔ ماما ہم اپنی زندگی میں خوش ہیں مجھے نہیں چاہیے اُن کا ساتھ اور نہ ہی ان کی ہمدردی ۔ میری فیملی آپ ہیں۔ میں خوش ہوں ایسے ہی۔ پلیز اب ان کی کوئی بات نہیں کرنا مجھ سے۔ جب مجھے ان کی ضرورت تھی تب کہاں تھے وہ " وہ ان کے کندھے سے کر اُٹھاتا سنجیدگی سے بولا۔ 

وہ اسے دیکھ کر رہ گئ۔ وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھا۔ کیا عمر تھی ابھی اس کی جو وہ اتنا سنجیدہ ہوگیا تھا۔ انہوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا جو آنسو ضبط کرنے کے چکروں میں لال ہورہی تھی۔ انہیں بےساختہ اس پر ترس آیا۔  

" اچھا چھوڑو ان سب کو تم اپنا موڈ خراب مت کرو میرا بچہ۔ شاباش جلدی سے فریش ہو کر آجاؤ آج تمہاری فیورٹ بریانی بنائی ہے۔ " وہ اس کے ماتھے پر بکھرے بال پیچھے کرتی  محبت سے ماتھے پر بوسہ دیتی ہوئیں بولیں۔ 

ممتا بھرے اس لمس کو محسوس کرکے وہ بھی پرسکون ہوا۔

" ابھی آیا فریش ہوکر ۔ آپ جلدی سے کھانا لگا دیں بہت بھوک لگی ہے۔ " وہ لاڈ سے بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اس کی پشت کو دیکھ کر انہوں نے خود سے عہد کیا کہ اب وہ اس معاملے میں اس سے کوئی بات نہیں کریں گی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی یہ بات اسے تکلیف دیتی تھی۔ انہوں نے یہ معاملہ خدا کے سپرد کیا۔ 

وہ سر جھٹکتی ساری سوچوں کو ذہن سے نکالتی کھانا لگانے لگیں۔ 

ماضی

یزدان کی کزن یعنی اس کے ماموں کی بیٹی وردہ  ان کے گھر پر موجود تھی۔ ان دونوں کی اتنی دوستی دیکھ کر دا جان کے دل کو دھڑکا سا لگا کہ کہی ماضی خود کو دہرانے والا تو نہیں کہیں ان کی بچی کی خوشیوں کو نظر تو نہیں لگنے والی۔ اسی ٹینشن میں ان کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ انہیں ہسپتال لیکر جانا پڑا۔ 

 ُُُ ُڈیڈ کیسی طبیعت ہے دا جان کی۔”  یزدان کو جیسے ہی دا جان کے بارے میں پتہ چلا وہ فوراً بھاگتا ہوا وہاں پہنچا۔ 

" ابھی تک ڈاکٹرز نے اس بارے میں کچھ نہیں بتایا۔" شہیر صاحب اس کا کندھا تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔

ڈاکٹر کے باہر نکلتے وہ فوراً ان کی طرف لپکا۔  

" ڈاکٹر کیسی طبیعت ہے میرے دا جان کی۔" وہ مضطرب سا ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر بولا۔

" زیادہ پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے ان کا بی پی شوٹ کرگیا تھا۔ شاید انہوں نے کسی بات کی ٹینشن لی ہے۔ اس عمر میں ذرا احتیاط کریں کہ ان کو ہر پریشانی سے دور رکھا جاۓ۔ تھوڑی دیر میں ان کو ہوش آجاۓ گا تو آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں ۔” وہ پُرسوچ نظروں سے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا کہ گھر میں تو سب ٹھیک ہے پھر کس بات کی ٹینشن لی ہے داجان نے۔ یہ بات تو شہیر صاحب بھی جاننا چاہتے تھے۔

تھوڑی دیر بعد انہیں ہوش آیا تو انہوں نے شہیر صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ شہیر ان کے بلاوے پر فوراً اندر کی طرف بڑھے۔ یزدان کب سے مضطرب سا اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ سب سے پہلے وہ خود اپنے پیارے دا جان سے ملنے جانا چاہتا تھا لیکن ان کی خواہش کا احترام کرکے رُک گیا۔ اب وہ کب سے شہیر صاحب کے باہر آنے کا انتظار کررہا تھا۔ جانے دا جان ان سے کون سے راز و نیاز کررہے تھے جو وہ باہر آنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ 

شہیر صاحب کو باہر آتا دیکھ وہ ان کی طرف بڑھا۔ 

" ڈیڈ ! داجان نے کیا کہا انہیں کس بات کی ٹینشن ہے۔  اگر کوئی پریشانی ہے تو مجھ سے شیئر کریں۔” اس کی عالم صاحب سے اتنی محبت پر وہ ہلکا سا مسکراۓ تھے۔ 

"ڈیڈ !” ان کے مسکرانے پر وہ جھنجھلا سا گیا تھا۔ کہاں وہ اتنا پریشان تھا اور اوپر سے ان کا مسکرانا اس کی جھنجھلاہٹ میں اضافہ کرگیا۔ 

"کوئی ٹینشن والی بات نہیں ہے میری جان۔ میں ذرا ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں۔ بابا جان گھر جانا چاہ رہے ہیں۔ وہ تم سے جلد ہی خود اس بارے میں بات کریں گے۔ ابھی وہ آرام کررہے ہیں انہیں پریشان مت کرنا۔اوکے۔" وہ چھوٹے بچوں کی طرح اسے سمجھاتے اس کا گال تھپتھپا کر ڈاکٹر کے کیبن کی طرف بڑھ گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام تک وہ لوگ داجان کو گھر لے آۓ تھے۔ میرو تب سے ان سے چپکی ہوئی تھی۔ 

یزدان مضطرب سا تھا جانے کیا بات تھی جو داجان نے اتنی ٹینشن لے لے اس کی یہ گتھی بھی جلد ہی سلجھ گئ جب داجان نے اسے اپنے کمرے میں بلایا۔ 

اسنے ہلکا سا دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آنے کی اجازت لی۔  

" داجان میں آجاؤں۔" اس نے باہر سے ہی آواز دے کر پوچھا۔ 

" آجاؤ میری جان۔" وہ دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا جب پہلی ہی نظر ہری آنکھوں والی اس گڑیا پر پڑی۔جس کی آنکھیں رونے کی وجہ سے لال ہورہی تھی۔ وہ اچھے سے اس کی داجان سے اٹیچمنٹ سے واقف تھا۔ خود بھی وہ کچھ وقت کے لیے ان کی طبیعت خرابی کا سُن کر ڈر سا گیا تھا۔

گنگھریالے بالوں کو کیچر میں قید کیا وہ کوئی موم کی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ اس نے فوراً اپنی نظریں اس پر ہٹائی۔کہیں اس کی نظر ہی نہ لگ جاۓ۔ اور نہ ہی ابھی کوئی ایسا حق رکھتا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر دا جان کے ساتھ مزید جُڑ کر بیٹھ گئ جیسے اسے یہ جتانا چاہا ہو کہ داجان  سب سے زیادہ پیار صرف اسی سے کرتے ہوں۔ وہ اس کی حرکت پر ہلکا سا مسکرایا تھا۔ جیسے اس کی حرکت کو بہت انجوائے کیا ہو۔

اس کے مسکرانے پر میرو نے اپنی ناک چڑھائی۔

"داجان سب سے زیادہ پیار مجھ سے کرتے ہیں۔ ہے نا داجان۔" وہ داجان کی طرف دیکھتی لاڈ سے بولی۔

"ہاں میرا بچہ ! داجان سب سے زیادہ پیار اپنی گڑیا سے کرتے ہیں۔" انہوں نے محبت سے اس کا گال تھپتھپایا تھا۔

میرو نے ایک جتانے والی نظر اس پر ڈالی۔ جیسے کہہ رہی ہو دیکھ لو اب تو داجان نے منہ سے بھی اقرار کرلیا ۔ یزدان کا دل کیا اس کی حرکت پر قہقہے لگاۓ یعنی وہ اس سے مقابلہ بازی پر اُتر آئی تھی۔ اس نے  سنجیدگی سے میرو کی طرف دیکھا۔ ظاہر یہ کرنا چاہا جیسے واقعی اسے اس بات کا دُکھ ہوا ہو۔ 

ویسے تو میرو اور اس کی اچھی دوستی تھی لیکن دا جان کے معاملے میں دونوں اکثر یوں ہی اڑ جاتے تھے۔ یزدان کو اس سے تنگ کرکے مزہ آتا تھا۔کچھ وہ شاید ناراض تھی کیونکہ داجان کی طبیعت خراب ہونے پر وہ اسے ہسپتال نہیں لیکر گیا تھا ۔وہ شاید اب اس بات کا بدلہ لے رہی تھی۔ 

اب میرو شان سے اپنی گردن اکڑاۓ بیٹھی تھی جیسے دنیا فتح کرلی ہو۔ 

"داجان ! میرے خیال میں آپ نے مجھے ضروری بات کرنے کے لیے بلایا تھا۔ " دادا پوتی کو راز ونیاز کرتے دیکھ وہ جتانے والے انداز میں بولا۔

" ہاں یزدان ! آؤ میری جان وہاں کیوں کھڑے ہو اپنے داجان کے پاس آکر بیٹھو۔" داجان اسے وہی کھڑا دیکھ کر بولے۔

" میرو ! مجھے یزدان سے کچھ خاص بات کرنی ہے آپ تھوڑی دیر بعد میں آجانا میرا بچہ" وہ اسے پیار سے بولتے یزدان کی طرف متوجہ ہوگۓ۔ 

"پر داجان ابھی ہم آپ کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں۔" وہ روٹھی روٹھی سی بولی۔ 

" میرو! ہم نے کہاں نا ہمیں ضروری بات کرنی ہے یزدان سے آپ کچھ دیر بعد میں آئیے گا۔" اب کی بار ان کے لہجے میں تنبیہ تھی۔ 

وہ یزدان کو غصے سے گھورتی پیر پٹکتی باہر نکل گئ۔ 

یزدان سر جھٹکتا داجان کی طرف متوجہ ہوا۔جو گہری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔انہوں نے ایک گہری سانس خارج کرتے بات کا آغاز کیا۔

"یزدان ! میں نے زندگی کے کسی بھی معاملے میں اپنے کسی بھی بچے کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کی۔ اور نہ ہی تم لوگوں پرکرنے کا کوئی ارادہ ہے۔" انہوں نے اصل مدعے پر آنے سے پہلے تمہید باندھی۔ 

یزدان نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔ اس سے بہتر کون جان سکتا تھا کہ بے شک وہ اصول پسند تھے پر سب سے بلا کی محبت کرتے تھے۔ 

"تمہیں شاید یہ سب بہت جلدی لگ رہا ہوگا۔ کہ دا جان کو جانے کس چیز کی جلدی ہے پر جو چیز میں دیکھ رہوں شاید وہ تم نہ دیکھ پاؤ۔میں تمہارے آگے دو رستے رکھوں گا کونسا رستہ چننا ہے یہ تم پر ہے تم پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہوگا۔ بےفکر رہو۔" یزدان کے ماتھے پر لکیروں کا جال بکھرا وہ سمجھ نہیں پایا تھا جب وہ ایک بار پھر گویا ہوۓ۔

"اب تم اچھے سے اپنا بزنس سنبھال  رہے ہو ۔تم اس قابل ہوچکے ہو کہ اس  ذمہ داری کو اُٹھا سکو۔ہم نے تمہارے لیے ایک فیصلہ لیا ہے جسے چاہے تو تم مان لو چاہے تو انکار کردو۔ تم جانتے ہو میرو ہمیں کس قدر عزیز ہے ہم ہمیشہ اسے خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے تو چاہتے ہیں وہ ہمیشہ ہماری نظروں کے سامنے رہے۔ اس لیے اگر تم راضی ہو تو ہم تمہارا نکاح میرو سے کروانا چاہتے ہیں۔ ہم پھر سے کہہ رہے ہیں تم پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ اگر تمہیں کوئی اور پسند ہے ہم تب بھی انکار نہیں کریں گے۔ یہ زندگی بھر کا فیصلہ ہے سوچ سمجھ کر جواب دینا۔" وہ دھیمے سے مسکراتے ہوۓ بولے۔پر اندر سے ان کا دل ڈر بھی رہا تھا کہ کہی واقعی ہی وہ انکار نہ کردے۔

یزدان کو سچ میں یقین نہ آیا کیا خدا اتنا بھی مہربان ہوتا۔ بن مانگے ہی اس کی محبت اتنی آسانی سے اس کی جھولی میں ڈال دی جاۓ گی۔ وہ کچھ بھی بول نہ سکا۔وہ خود کو یقین دلانا چارہا تھا کہ داجان نے جو کہا کیا وہ سچ ہے۔ان کی عمروں میں اتنا فرق تھا اس لیے اسے خدشہ تھا کہ داجان اپنی لاڈلی کہ لیے کوئی اور فیصلہ نہ کرلے۔ ویسے بھی وہ سہی وقت کا انتظار کررہا تھا جب وہ داجان سے اس بارے میں کرتا۔ مگر اسے کیا خبر تھی کہ قدرت اس پر اتنی مہربان ہے کہ بن مانگے ہی اس کی محبت اس کی جھولی میں ڈال دی جاۓ گی۔ 

اس کو خاموش دیکھ کر داجان کو دُکھ ہوا کہ شاید اسے ان کی بات اچھی نہیں لگی۔ 

" کوئی بات نہیں بچے اگر تمہارا انکار ہے۔ تب بھی ہمارا پیار تمہارے لیے کبھی کم نہیں ہوگا۔  اگر تم نہیں تو عرید سے کریں گے ہم میرو کا نکاح۔ ہمیں یقین ہے اسے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ " ان کے چہرے پر ابھی بھی وہ دھیمی سی مسکان تھی۔  وہ اکثر اسے دیکھ کر ان کے چہرے پر آتی تھی۔ 

داجان کی بات اس کے ڈھیلے نقوش فوراً تنے تھے۔  وہ کیسے اپنی محبت کسی اور کی جھولی میں ڈال سکتا تھا۔  کسی قیمت پر بھی نہیں۔ بےشک میرو اس رشتے پر راضی نہ بھی ہو پر وہ ہر حال میں صرف اس کی تھی یہ اس کی سوچ تھی۔  وہ فوراً ان کے قدموں میں بیٹھ کر ان کا ہاتھ تھام گیا۔ 

" داجان!  مجھے صرف میرو چاہیے کوئی اور نہیں۔ وہ صرف میری ہوگی ہے نا داجان۔ " وہ کسی ضدی بچے کے مانند بولا۔ 

" مجھے نہیں بتہ آپ کو میرے کس انداز سے لگا کہ میری زندگی میں کوئی اور ہے۔  داجان!  بہت سالوں سے میں اسے چاہ رہا ہوں پر کسی کے سامنے کبھی ذکر نہیں کیا کہ کوئی غلط نہ سمجھ لے۔  پہلے میں اس کے قابل بننا چاہتا تھا پھر اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا۔  داجان ! آپ میرو کو مجھے دے دیں میں اسے بہت  خوش رکھوں گا۔" وہ اُمید بھری آنکھوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ 

دا جان تو خوشی سے نہال ہوگۓ انہیں اور کیا چاہیے تھا۔ان کا پوتا ان کا مان رکھ رہا تھا۔

" اسے خوش رکھنا میرے بچے اسے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتے ہم۔" وہ فرطِ جذبات سے اس کی پیشانی چومتے ہوۓ بولے۔

وہ بھلا کب اُسے اداس یا روتا ہوا دیکھ سکتا تھا۔ وہ تو ہمیشہ ہنستی ہوئی اچھی لگتی تھی۔ اس کا مسکراتا چہرہ آنکھوں میں لاتے اس نے خود سے ایک عہد کیا تھا کہ وہ اسے کبھی نہیں رولاۓ گا۔ کبھی کوئی غم یا تکلیف اس کے نزدیک نہیں آنے دے گا۔اور یہ وعدہ وہ خود ہی بہت بُری طرح توڑنے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

جب سے میرو کو داجان کی خواہش کے بارے میں پتہ چلا تھا وہ جلے پیر کی بلی کی طرح یہاں وہاں منڈلا رہی تھی۔ سوچ سوچ کے کے ہی اس کی حالت پتلی ہورہی تھی ۔ خود کو اور یزدان کو ایک ساتھ سوچ کر اس نے جھر جھری لی۔

" بیٹھ جائیں آپی ! پیر دُکھنے لگے گے۔" نشوہ جو کب سے اسے پیدل مارچ کرتے دیکھ رہی تھی آخرکار جھنجھلا کر بولی۔

نشوہ میرو سے دو سال چھوٹی تھی اس کے باوجود بھی ان میں بلا کی دوستی تھی۔

" نشوہ! یہ تو میرے ساتھ زیادتی ہے۔ تم ہی بتاؤ ذرا اس عُمر میں کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے۔ میری ساری دوستیں میرا مزاق اُڑاۓ گی۔” وہ رو دینے والے انداز میں بولی۔

" شادی نہیں صرف نکاح۔ میری پیاری آپی ذرا تھوڑی سی تصیح کرلیں کہ داجان اتنے بھی ظالم نہیں کہ اتنی جلدی آپ کی شادی کروادیں۔" نشوہ نے فوراً اس کی تصیح کی۔ 

نشوہ کے ٹوکنے پر اس نے فوراً گھوری سے نوازا۔

" دیکھیے! ویسے یہ اتنی بڑی بات بھی نہیں ہے۔ آپ کی زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آۓ گی۔کیونکہ ابھی صرف نکاح ہے رخصتی نہیں۔اور یہ تو سوچیں یزدان بھائی سے شادی کرکے آپ کو بہت سے فائدے ہوسکتے ہیں۔" نشوہ نے اپنی عمر کے مطابق فوراً ایک مثبت پوائنٹ نکالا۔ 

میرو نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا جیسے کہنا چاہ رہی ہو ذرا مجھے بھی بتاؤ بی بی ایسا کونسا فائدہ ہورہا ہے۔ 

" سب سے پہلے فائدہ آپ کو یہ گھر چھوڑ کر جانا نہیں پڑے گا۔ دوسرا آپ کو کھانا بنانا سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی دا جان جو ہونگے چاچی کی ڈانٹ سے بچانے والے۔ کیسا" اس نے خوش ہوتی تالی بجائی تھی۔ 

" یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔” میرو نے فوراً سے اس کی بات پر اتفاق کیا تھا۔

" ایک اور فائدہ ہے آپی۔" اس بار اس کے ہونٹوں پر شرارتی مسکان تھی۔ جسے میرو غور نہ کرپائی۔وہ فوراً ایکسائٹڈ سی ہوتی اس کے قریب ہوئی آخر اس کے فائدے کی بات چل رہی تھی۔

" آپ نے یزدان بھائی کو دیکھا ہے کبھی غور سے کتنے پیارے ہیں آپ کی تو مفت میں ہی لوٹری نکل آئی۔ورنہ کون کرتا آپ جیسی بھنگن اور نوڈلز کی دکان سے شادی " وہ شرارتی مسکان کے ساتھ اپنی بات مکمل کرتی باہر کی جانب بھاگی۔  

میرو جو اتنی غور سے اس کی باتیں سننی رہی تھی اپنی بے عزتی پہ اس کا منہ حیرت سے کُھلا تھا۔ 

بھنگن کہاں سے تھی وہ بھنگن۔ اچھی خاصی اتنی پیاری اس کی ہری آنکھیں تھی جس کی وہ بچپن سی تعریف سنتی آئی تھی۔ ہاں اس کے بال کرلی تھے مگر اتنے بھی نہیں کہ نوڈلز لگتے ۔ 

"بدتمیز لڑکی شرم نہیں آتی بڑی بہن کو ایسا بولتے ہوۓ۔"   وہ اسے مارنے کو فوراً پیچھے لپکی۔ 

 "بیچارے یزدان بھائی ! کیا قصور تھا اُن کا جو داجان نے اُن کو یہ سزا سُنا دی۔" وہ بھاگتے ہوۓ بھی بولنے سے باز نہ آئی۔اس نے ایسے افسوس کا اظہار کیا جیسے واقعی ہی یزدان کا بہت بڑا نقصان ہوگیا ہو۔اگر وہ میرو کے ہتھے چڑ جاتی تو آج اس کی خیر نہیں تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال

ازوہ کو آتے ہی گھر میں چل رہی کشیدگی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ کچھ حد تک اسے وجہ بھی سمجھ آگئ تھی وجہ تھا یزدان آفندی  ۔ اسے تو وہ رتی برابر بھی اچھا نہ لگا.

"مغرور کہی کا۔" وہ ہولے سے بڑبڑائی۔ 

ان دو دنوں میں اسے داجان سے اُنسیت سی ہوگئ تھی۔ کیسے وہ اس کا اور اس کے دادا جان کا خیال رکھ رہے تھے۔اس کے دل میں ان کے لیے بے حد عزت تھی۔ انہی کی وجہ سے سب گھر والوں کا رویہ اس کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ ہاں مگر ابھی وہ داجان کی لاڈلی پوتی میرو سے نہیں ملی تھی۔ شاید اس کی طبیعت خراب تھی اسی لیے وہ ابھی تک اس سے نہ مل سکی۔ اس گھر وہ آۓ ابھی اسے ایک دن تو ہوا تھا۔

"داجان بیچارے کتنے اچھے ہیں۔ اور وہ بدتمیز ان سے ملے بغیر ہی چلا گیا کتنے خوش تھے وہ اسے دیکھ کر اور وہ بغیر انہیں دیکھے چلا گیا۔ مجھے تو بالکل بھی پسند نہیں آیا۔" وہ ناک چڑہاتے چھوٹے چھوٹے قدم لیتی ہاتھوں میں جگ تھامے سیڑھیاں اُتر رہی تھی۔ 

"تمہیں پسند کرنے کی ضرورت بھی نہیں محترمہ ۔ وہ نکاح شدہ ہے۔ اور خیر سے اپنی منکوحہ کے پیچھے پاگل بھی ہے۔" وہ یزدان کے بارے میں سوچ کر ہولے سے بڑبڑایا۔

 وہ اپنی ہی دھن میں سیڑھیاں اُتر رہی تھی جب بڑی قریب سے ایک مردانہ آواز گونجی۔ 

ڈر سے اچھلتے اس کے ہاتھوں سے جگ چھوٹا جسے پیچھے کھڑے بندے نے بڑی مہارت سے آگے بڑھتے کیچ کیا۔ 

ازوہ کے دونوں ہاتھ اس کے لبوں پر تھے جب کے وہ خود پیچھے مڑتے ٹُکر ٹُکر اسے گھور رہی تھی۔ 

" کون " وہ خود کو سنبھالتی ہولے سے بڑبڑانے والے انداز میں بولی۔

"جلاد" وہ یک لفظی جواب دیتا وہ ہاتھ میں پکڑا جگ اس کے ہاتھ میں تھماتا اسے حیران پریشان چھوڑتا سیڑھیاں اُترتا نیچے کی طرف بڑھ گیا۔

وہ حیرانی سے اس کی پُشت کو گھور کر رہ گئ۔ اس کی آنکھوں میں اُلجھن سی تھی۔ 

جب سے اپنے داجان کی طبیعت کے سنبھلنے کے بارے میں پتہ چلا تھا وہ کچھ حد تک ریلیکس تھی۔  اسے ان لوگوں کی شان و شوکت دیکھ اس بات کا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ یہاں کم از کم اس کی عزت تو محفوظ ہے۔ وہ کالی یہاں تک تو کبھی نہیں پہنچ سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید کچھ دیر پہلے تھکا ہارا پولیس اسٹیشن سے واپس آیا تھا۔ اس کا ارادہ فریش ہوکر کچھ دیر لان میں واک کرنے کا تھا۔ جو اس کا روز کا معمول تھا۔اس کی نوکری ایسی تھی کہ اس کے آنے جانے کی کوئی روٹین نہ تھی۔ اپنے اسی ارادے کو پیراہن پہناتے وہ نیچے کی جانب بڑھا۔ جب سیڑھیوں پر ایک لڑکی تھی جو نشوہ اور میرو تو بالکل نہیں تھیں۔ وہ جو کوئی بھی تھی وہ سیڑھیاں اُترتے ساتھ ساتھ بڑبڑا بھی رہی تھی اس کی سست رفتاری پر اسے غصہ آرہا تھا۔وہ اس کے پیچھے کھڑا اس کے اُترنے کا انتظار کررہا تھا۔ جو خود میں مگن جانے کونسے جہاں کی سیر کو پہنچی تھی۔

گھر والوں سے اسے اس لڑکی کی بابت پتہ چل چکا تھا۔ وہ شاید داجان کے کسی دوست کی پوتی تھی۔ اس کا ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں تھا اس لیے اس نے زیادہ دھیان بھی نہ دیا۔ 

جب اس کے سائیڈ پر ہٹنے کے کوئی امکان نظر نہ آۓ تو وہ تھک ہار کر وہ اسے مخاطب کر ہی گیا۔  اپنے یوں مخاطب کرنے پر اس کا ہونک چہرہ دیکھ کر اسے ہنسی آئی تھی۔مدھم چلتی لائٹ میں اس کے خوبصورت نقوش واضح ہورہے تھے۔ براؤن چمکتی آنکھوں میں اس کے لیے الجھن سی تھی۔ اس کا کوئی ارادہ نہ تھا اس کی الجھن دور کرنے کا۔ اس لیے خاموشی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

" احان میرے خیال میں تجھے انٹی کی بات مان کر ایک بار ان سے مل لینا چاہیے۔  سُن لو وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ " صارم اسے سمجھانے والے انداز میں بولا۔ 

"یار پتہ نہیں دل نہیں مانتا۔ اتنے سالوں کیوں ہمیں سب سے دور رکھا۔ آخر میرا بھی حق تھا سب کی محبتوں پر۔ میرا بھی دل کرتا تھا کہ کوئی میرے لاڈ اُٹھاۓ۔ " وہ اذیت سے پُر لہجے میں بولا۔ 

" بول کیوں نہیں جاتا وہ سب میرے یار ۔ آگے بڑھنے کی کوشش کر۔ان کی جائیداد میں تیرا بھی حق ہے ایسے اپنے حق  سے منہ نہ موڑ۔ اگر حالات بہتر ہورہے ہیں تو اسے ہولینے دے۔جب بھی ان کی بات آتی ہے تو انٹی کو بھی چُپ کروا دیتا ہے۔" وہ اس کے کندھے کو تھپتھپاتا ہوا بولا۔"

" صارم مجھے جائیداد کا کوئی لالچ نہیں ہے جتنا خدا دیتا جا رہا ہے بہت ہے میرے لیے۔ تو نہیں سمجھ سکتا تو ہمیشہ اپنے باپ کے ساۓ کی گھنی چھاؤں میں رہا ہے۔ مجھ سے پوچھ یہ محرومی جس کا باپ دو مہینوں بعد ایک دفعہ آکر ہمیں اپنی شکل دکھا جاتا تھا۔اس ڈر سے کہی اس کی دوسری بیوی اس کے بیٹے کو ان سے دُور نہ کردے۔کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ ہم سے ملے۔ تو خود بتا کیا میں اُن کا بیٹا نہیں تھا پھر کیوں وہ میرے لیے اسٹینڈ نہ لے سکے۔ میں جانتا ہوں حالات ان کے لیے بھی سازگار نہیں تھے پر میں نے بہت زیادہ کی نہیں بس اتنی ڈیمانڈ تھیں کہ مجھے میرے گھر  لے کر جاتے تاکہ میں بھی اپنے پیاروں میں رہ پاتا۔ چل یہ بھی چھوڑ مجھے کسی بھی محبت کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں پل پل اپنی باپ کی محبت کے لیے ترسا ہوں۔ " صارم نے اس کی طرف دُکھ سے دیکھا جس کی آنکھیں آنسو ضبط کرنے کی وجہ سے لال سی ہورہی ہیں۔ صارم کے اپنی طرف دیکھنے پر وہ نظریں چُرا گیا۔ 

" میں بس یہی دعا کرتا ہوں کہ سب ٹھیک ہوجاۓ۔ تجھے تیرے حصے کی ساری خوشیاں ملیں۔" صارم سچے دل سے دس کی خوشیوں کی دُعا کرتا ہوا بولا۔

" پر تجھ سے ایک بات کہوں۔ تو صرف خود کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ایک بار آنٹی کے بارے میں سوچ۔ جیسے بھی ہیں وہ ان کے شوہر ہیں۔  ایک بار اُن سے بھی پوچھ وہ کیا چاہتی ہیں۔ " صارم کی باتوں نے اسے گہری سوچ میں ڈال دیا تھا اس نے واقعی آج سے پہلے اس کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ اس نے ایک بھی بار جاننے کی کوشش نہ کی تھی وہ کیا چاہتی ہیں۔ 

صارم غور سے اسے دیکھ رہا تھا جو گہری سوچوں میں گُم ہوچکا تھا۔ بے شک وہ اسے سمجھا رہا تھا مگر وہ خود کو اگر احان کی جگہ رکھ کر سوچتا تو اسے وہ کہی بھی غلط نظر نہ آیا لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ وہ بڑے دل کا مظاہرہ کرتے سب کچھ بھول کر اپنے گھر والوں کو اپنا لیتا۔ تاکہ اس کے دوست کی زندگی بھی خوشیوں سے بھر جاتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

"داجان ! آپ مجھے بلا لیتے۔" وہ داجان کو اپنے کمرے میں دیکھ فوراً ان کا ہاتھ تھامتی کمرے میں لے آئی۔

" کیوں ؟ میں اپنی گڑیا کے کمرے میں نہیں آسکتا۔" وہ خود صوفے پر بیٹھتے اسے بھی اپنے حصار میں لیکر بیٹھ گۓ۔

" شاہویز اور ماہ نور کے ذریعے تمہیں یہ بات پتہ چل گئ ہوگی۔میرے بچے" ان کی بات کا مطلب سمجھتی وہ اثبات میں سر ہلا گئ۔

" کوئی کچھ بھی کہے پر ہم اپنی گڑیا سے خود اس معاملے میں بات کرنا چاہتے تھے اسی لیے ہم یہاں آۓ ہیں۔ہم کوئی بھی فیصلہ اپنی گڑیا کی مرضی کے خلاف نہیں کرنا چاہتے۔ ہم خود اس لیے آۓ ہیں تاکہ کوئی اور تم پر اس رشتے کے لیے دباؤ نہ ڈال سکے۔ ہم چاہتے ہیں تم جو فیصلہ کرو پورے دل سے کرو۔ اب بتاؤ تمہیں یزدان سے رشتے پر کوئی مسئلہ تو نہیں۔" وہ اپنی بات مکمل کرتے اب پوری طور پر اس کی طرف متوجہ تھے۔ 

میرو تو ان کے اتنے مان دینے پر ہی نہال ہوگئ تھی۔ یعنی واقعی ہی اس کی ذات اس کے داجان کے لیے بہت اہم تھی۔  انہیں اس پر اتنا مان تھا تو وہ کیسے ان کا مان توڑ سکتی تھی۔ 

" ہمیں کوئی اعتراض نہیں داجان۔ " وہ ان کے کندھے پر سر رکھتی ہوئی بولی۔

داجان نے نہال ہوتے اس کی پیشانی چومی۔ 

ان دونوں کی طرف سے رضا مندی ملتے ہی نکاح کی تیاری شروع ہوگئ۔  نکاح کا انتظام زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا تھا بس کچھ خاص خاص لوگوں کو ہی مدعو کیا تھا۔    

ایک طرف جہاں زومیرہ بےتحاشا گھبرائی ہوئی تھی تو دوسری طرف یزدان آفندی اتنا ہی خوش تھا۔ اسے یہی چیز ہی بار بار نہال کر رہی تھی کہ میرو کا نام اس سے جڑنے والا ہے۔  بہت جلد وہ اس کے نام لکھ دی جاۓ گی۔اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دنیا کی ساری خوشیاں جیسے اس کا مقدر ہوں۔ 

اسی افراتفری میں نکاح کا دن بھی آپہنچا۔ 

میرو سفید شرارے میں ملبوس ہلکے پھلکے میک اپ میں ہری آنکھوں میں  گھبراہٹ اور ہونٹوں پر شرمیلی سی مسکان تھی جب جب وہ یزدان کے بارے میں سوچتی اس کا دل زور سے دھڑکتا۔ کچھ ہی دیر میں وہ اس کے نام لکھ دی جاۓ گی۔ ان کے درمیان ایک نیا رشتہ جڑنے وال ہے۔ عرید کی نسبت اس کی ہمیشہ یزدان سے بنتی آئی تھی وہ ہمیشہ اسے اتنی محبت سے پیش آتا تھا اس کی ساری فرمائشیں پوری کرتا تھا۔ اسے یہی ڈر تھا کہ یہ نیا رشتہ اس کی پُرانے وہ کٹھی میٹھی دوستی سے پُر رشتے کو نہ بگاڑ دے۔

دوسری طرف یزدان بھی سفید کرتا شلوار پر سفید ہی واسکٹ پہنے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ سجاۓ تیار کھڑا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے دنیا فتح کرلی ہو۔ اس کی یہی مسکان اسے اور خوبرو بنا رہی تھی۔ کالی گہری آنکھیں تیکھی ناک ہلکی ہلکی داڑھی وہ واقعی ہی شہزادہ لگتا تھا۔

وہ اپنی تیاری پر آخری نظر ڈالتا نیچے کی طرف بڑھا ۔نکاح کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔ اس وقت خوبصورتی سے سجا لان بہت خوبصورت منظر پیش کررہا تھا۔

کچھ ہی دیر میں سارے مہمان آگۓ تو نکاح کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ 

عرید بھی اس وقت بلیک کرتا شلوار میں ملبوس ہر کسی کا دل دھڑکا رہا تھا۔ وہ یزدان کے نکاح کے لیے اسپیشل ٹائم نکال کے آیا تھا۔ 

نکاح کا وقت ہوتے ہی مولوی صاحب کے ساتھ شاہ ویز اور داجان میرو کے کمرے کی طرف بڑھے۔ جو سرخ نکاح کا ڈوپٹہ اوڑھے ہلکی ہلکی کپکپارہی تھی۔ جیسے جیسے نکاح کا وقت گزرا ویسے ویسے اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہورہا تھا۔

شاہ ویز نے آکر فوراً بیٹی کو حصار میں لیا۔مولوی صاحب کے پوچھنے پر اس نے دھیرے سے اقرار کیا۔ پھر کپکپاتے ہاتھوں سے نکاح نامے پر سائن کیے۔آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو کی برسات ہونے لگی۔نکاح نامے پر سائن لیکر مولوی صاحب باہر کی طرف برھ گۓ۔ شاہ ویز نے اس کے روتے وجود کو سینے سے لگایا۔ باپ کے حصار میں آتے وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔ اس کے دل کی کیفیت عجیب سی ہورہی تھی۔ انہوں نے محبت سے میرو کی پیشانی چومی۔اس کے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ان کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے ڈوپٹے میں جذب ہوا۔ ان کی خود کی حالت عجیب ہورہی تھی۔ ماہ نور بھی دور کھڑی باپ بیٹی کو دیکھ آنسو بہارہی تھی۔انہیں پتہ بھی نہ چلا اور ان کی چھوٹی سی گڑیا اتنی بڑی ہوگئ۔ آج اس کا حقدار بدل گیا تھا۔ وہ اب کسی اور کے نام سے جانی جاۓ گی۔ پر انہیں ایک بات کا اطمینان تھا کہ وہ ہمیشہ ان کی نظروں کے سامنے رہے گی۔

" نہ میری جان! آپ کونسا کہی جارہی ہو ہمیشہ اپنے بابا کے پاس رہو گی۔ دیکھو ماہ نور ! ہماری گڑیا کتنی بڑی ہوگئ ہے۔" وہ ماہ نور کو مخاطب کرتے ہوۓ بولے۔

انہوں نے روتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا

۔وہ خود بھی میرو کی طرف بڑھتے اسے سینے سے لگا کر پیار کرنے لگی۔ماں کی آغوش میں آتے وہ ان کے ممتا بھرے لمس کو محسوس کرنے لگی انہیں وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی کبھی وہ اس کا ماتھا چومتی کبھی اس کے رخساروں کی چھوتی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تمام مہمانوں کے درمیان وہ صوفے پر شان سے بیٹھا تھا۔  میرو کے اقرار کے بعد اب مولوی صاحب اس کے سامنے بیٹھے اسکی رضامندی پوچھ رہے تھے اسنے بنا وقت ضائع کیے اقرار کیا۔ سرشاری سے ناح نامے پر سائن کرتے اس نے میرو کو اپنی زوجیت میں لیا تھا۔  نکاح کے بعد مبارکباد کا سلسلہ چل نکلا۔

" مبارک ہو میرے بچے۔ " داجان اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولے۔ آج وہ بےتحاشا خوش تھے۔ جس کا وہ بھرپور اظہار بھی کررہے تھے۔ 

اب وہ بےچینی سے میرو کا انتظار کررہا تھا۔جب کچھ ہی دیر میں وہ نشوہ اور کچھ کزنز کے ہمراہ سہج سہج کے قدم اُٹھاتی اس کی طرف آرہی تھی۔ اس کا ہر اُٹھتا قدم یزدان کی دل کی سلطنت میں ہلچل مچارہا تھا۔نکاح کا ڈوپٹہ ابھی بھی اس کے حسین چہرے کو چُھپاۓ ہوۓ تھا۔جسے دیکھنے کے لیے وہ بےچین تھا۔ اسے اچھا لگا تھا اس کا یوں خود کو چُھپانا۔ابھی وہ سٹیج سے کچھ قدم فاصلے پر تھی جب وہ خود اُٹھتا اس کی طرف بڑھ گیا۔اس کے نزدیک پہنچنے پر ساری لڑکیاں خود بخود سائیڈ پر ہٹ گئیں۔یزدان نے اس کے کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھا تو نرمی سے اسے تھام کر اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔پھر اس کے گرد اپنا حصار قائم کرتا اسٹیج کی طرف بڑھا۔ 

وہ جو پہلے ہی گھبرائی ہوئی تھی اس کے اس اقدام پر اس کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگۓ۔

مگر وہ نرمی سے اسے سنبھالتا اسٹیج پر بٹھا چکا تھا۔ پھر ساتھ خود بھی براجمان ہوگیا۔اس سب کے درمیان اس نے اس کا ہاتھ بالکل بھی نہیں چھوڑا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اس کے ہاتھ کو سہلاتا اس کی گھبراہٹ دُور کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ 

"ریلکس میری جان! اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔میں ہوں نا تمہارے ساتھ۔" وہ محبت سے اس کے جُھکے سر کو دیکھتا ہوا بولا۔

وہ بغیر کچھ بولے محض سر ہلا گئ۔

"یزدان بھائی اب تو یہ پردہ ہٹائیے آخر ہم بھی تو دیکھیں میرو کیسی لگ رہی ہے۔ " سب کزنز جن میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں شامل تھے مل کر شور مچاتے ہوۓ بولے۔

" جس کے لیے وہ تیار ہوئی ہے وہ دیکھ لے گا تم لوگوں کا دیکھنا ضروری نہیں۔" وہ سب کو ٹکا سا جواب دیتا سیدھا ہوکر بیٹھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے اس کی ماما اسے کمرے میں چھوڑ کے گئ تھیں۔اس نے سب سے پہلےآکر اپنا نکاح کا دوپٹہ اُتارا تھا۔ ان سب میں ہی وہ اتنا تھک چکی تھی۔ اب وہ ریلکس سی بیڈ پر بیٹھی اور  پیروں کو ہیلز سے  آزاد کیا  تھا۔ پھر اُٹھتی ہوئی ڈریسنگ کے سامنے خود کو دیکھا نشوہ اور اس کی کزنز کا کہنا تھا وہ بہت پیاری لگ رہی ہے پر وہ جس کے لیے تیار ہوئی تھی اس نے تو اسے دیکھا ہی نہ تھا سراہنا تو بہت دُور کی بعد تھی۔ انہی سوچوں میں گُم اس نے چوڑیاں اُتار کر ڈریسنگ پر رکھی تھی۔نکاح کا دوپٹہ تو وہ اُتار چکی تھی مگر شرارے کے ساتھ کا ڈوپٹہ اب بھی پنوں کے ساتھ سر پر سیٹ تھا۔ اس نے پنے نکالتے ہوۓ بھاری ڈوپٹہ سر ہٹاتے بیڈ پر ڈالا تھا اسے یوں لگا جیسے وہ بھاری بوجھ سے آزاد ہوگئ ہو۔ڈوپٹہ اس قدر ہیوی تھا دوسرا سر پر لگی ان پنوں نے الگ ہی عذاب ڈالا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو کے جانے کے کچھ دیر بعد وہ بھی اُٹھتا اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ نکاح کے جوڑے میں کیسی لگ رہی ہے۔وہ تو اسے سادگی میں بھی حسین لگتی تھی اب تو وہ پور پور سجی ہوگی صرف اور صرف اس کے لیے یہ خیال ہی اس کے دل میں ہلچل مچا گیا۔ 

وہ آہستہ سے دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھا۔ جہاں وہاں ڈریسنگ کے سامنے بغیر ڈوپٹے کے کھڑی شاید اب جیولری اُتارنے کی تیاریوں میں تھی۔ وہ اس کی طرف بڑھتا اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ آئینے میں نظر آتے اس کے عکس پر ایک بھرپور نظر ڈالی۔وہ اس کی سوچ سے بڑھ کر حسین لگ رہی تھی۔ ہری آنکھوں نے نظر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھا تو اپنے پیچھے کھڑے عکس پر نظر پڑتے وہ فوراً اس کی طرف مُڑی۔ حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا وہ یہاں کیا کررہا تھا۔

وہ جیسا اس کے حسین رُوپ کی دلکشی میں کھویا تھا۔اس کے مڑنے پر یہ جادو طلسم ٹوٹا۔ وہ مسکراتا ہوا اس کی طرف قدم بڑھاتا اسے اپنے حصار میں قید کرگیا۔ اس کے حسین نقوش میں اس کی نگاہیں اُلجھ کر رہ گیئں۔

میرو اس کے حصار میں کپکپا کر رہ گئ۔ دوسرا اس کی بولتی گہری آنکھیں اسے اپنی وجود پر گڑھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ جن میں آج عجیب سی چمک تھی۔ جیسے کوئی میدان فتح کرلیا ہو۔

" نکاح مبارک زندگی"  وہ اس کی پیشانی چومتا آہستہ سے بولا۔ 

اس کے اقدام پر وہ جیسے اپنی جگہ فریز ہوگئ تھی۔  کہاں دیکھا تھا اس کا یہ انداز ۔ وہ سانس روکے اس کے حصار میں کھڑی تھی۔

"ماشاء اللّہ! کوئی اتنا پیارا بھی ہوسکتا ہے۔" وہ اس کے ایک ایک نقش کو گہری نگاہوں سے دیکھتا ہوا بولا۔

"میں آج بے حد خوش ہوں۔ خدا نے میری زندگی کو مکمل کرنے کے لیے تمہیں جو بھیج دیا ہے۔ تم میری زندگی کا سب سے خوبصورت حصہ ہو اور یہ لمحے سب  سے حسین۔" وہ اس کے رخساروں کو نرمی سے سہلاتا ہوا بولا۔

وہ اس کی اتنی قربت پر پل میں سُرخ قندھاری ہوئی۔ اس کی سانسوں کی تپش اپنے چہرے پر وہ اچھے سے محسوس کرسکتی تھی۔ اس کے ماتھے پر ننھی ننھی پسینے کی بوندیں نمودار ہونے لگی۔

وہ اس دفعہ جھکتا اس کی آنکھوں کو چومتا پیچھے ہوا۔وہ سمجھ سکتا تھا اس کا یہ انداز اس کے لیے نیا ہے۔ مگر وہ اسے اپنی محبت کا یقین دلانا چاہتا تھا اسے احساس دلانا چاہتا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنی خاص ہے۔کوئی ہے جو اس کی ایک جھلک دیکھنے کو پل پل ترستا ہے۔کوئی ہے جو اس کی فضول باتوں کو بھی بہت غور سے سنتا ہے۔  کوئی ہے جس کے لیے وہ پُور پُور عقیدت تھی۔  اس کی زندگی کی خوشیوں کی وجہ۔ وہ ایک آخری محبت بھری نظر اس کے معصوم چہرے پر ڈالتا باہر نکلتا چلا گیا۔

میرو نے اپنے دل کی مقام پر ہاتھ رکھیں جو سو کی سپیڈ سے چل رہا تھا۔ چہرے پر خود بخود شرمیلی سی مسکان بکھرتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ڈیڈ آپ نے تو کہا تھا کہ یزدان مجھ سے شادی کرے گا۔ پر دیکھئیے آپ کی بات جھوٹ ہوگئ۔اس معاملے میں تو پھپھو بھی کچھ نہ کرسکی۔آج نکاح ہوا ہے جلدی ہی رُخصتی بھی ہوجاۓ گی۔” وہ باپ کے سامنے آتی بدتمیزی سے بولی۔   

حماد صاحب جو یزدان کے ماموں تھے۔بیٹی کی بدتمیزی کو اگنور کرتے وہ اپنی گہری سوچوں میں گُم تھے۔ 

"اچھے سے جانتاہوں یہ سب اُس عالم آفندی کا کیا دھرا ہے پر اتنی آسانی سے میں بھی اسے چھوڑنے والا نہیں ۔ ضروری نہیں ہر دفعہ وہ عالم شاہ مجھ سے سبقت لے جاۓ۔ اسے دفعہ اس کے خاندان کی جڑیں ایسے ہلاؤں گا پورا آفندی خاندان بلبلا اُٹھے گا۔" وہ چہرے پر نفرت سجاتے ہوۓ بولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نکاح کے بعد اسے کالج چھوڑنے اور لے کر جانے کی ذمہ داری اسی نے لے لی تھی۔ وہ اس کی ذمہ داری تھی اور یزدان آفندی اپنی ذمہ داری نبھانا اچھے سے جانتا تھا۔اس کی زندگی میں وہ رفتہ رفتہ بےحد ضروری ہوتی جارہی تھی دوسری طرف میرو کے دل میں بھی اس کی محبت کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوگئ تھی۔

کالج میں اس کا پہلا سال تھا۔جو ٹیوٹر اسے گھر پڑھانے آتی تھی اس کی کچھ ماہ پہلے شادی ہوچکی تھی۔ تب سے وہ خود ہی سب مینج کررہی تھی۔

"داجان! میری ٹیوٹر کا انتظام ہوا کہ نہیں۔مجھے تھوڑی مشکل آرہی ہے۔ اور اب تو کالج میں ٹیسٹ بھی شروع ہونے والے ہیں۔ میں سارے ٹیسٹوں میں فیل ہوجاؤں گی۔" سارے گھر والے لاؤنج میں بیٹھے چاۓ سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔

یزدان بھی ابھی آفس سے آکر فریش سا بیٹھا تھا۔ایک بھرپور نظر اپنی ناراض ناراض سی متاعِ جان پر ڈالی۔ جو سب کو ناراضگی بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

" بچے ہم بھول گۓ" داجان اپنی غلطی پر ہلکا سا مسکراتے ہوۓ بولے۔ کیونکہ اس نے کافی ٹائم سے انہیں کہا ہوا تھا۔

" اگر میں فیل ہوگئ تو مجھے الزام مت دیجیۓ گا۔" وہ ناراضگی کا اظہار کرتی منہ پُھلاۓ واپس سیڑھیاں چڑھ گئ۔

یزدان نے مسکراہٹ دباتے داجان کو دیکھا۔ وہ ان سے ناراض ہوکر گئ تھی۔ اور ان کا پوتا ہنس رہا تھا۔ انہوں نے اسے بھرپور گھوری سے نوازا۔

" آپ فکر مت کریں داجان۔ میں پڑھا دیا کروں گا آفس سے آنے کے بعد رات کو۔" وہ سیریس ہوتا ہوا بولا۔

وہ فوراً اس کی ناراضگی کا سوچتا اُٹھتا ہوا اس کے پیچھے بڑھا۔

وہ جب اس کے کمرے میں داخل ہوا میرو منہ پُھلاۓ بیڈ پر بیٹھی تھی۔کتاب کو گُھور گُھور کر دیکھتی جیسے ایسا کرنے سے سب خود بخود سمجھ آجاۓ گا۔

وہ اس کا ساتھ  بیڈ پر بیٹھتے اس کے ہاتھ سے کتاب پکڑ کر بند کرچکا تھا۔ 

" کیا ہوا ہے میرو؟ میں پڑھا دوں گا تمہیں میری جان۔ بالکل بھی ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اب تمہارے چہرے پر مجھے اُداسی نظر نہ آۓ۔جلدی سے یہ کتابیں وغیرہ سمیٹوں ڈنر کا ٹائم ہونے والا چلو شاباش۔پھر ڈنر کے بعد بات کرتے ہیں۔اس معاملے پر " وہ اس گال تھپتھپاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

ڈنر کرنے کے بعد وہ اپنا چیزیں لیے اس کے کمرے میں موجود تھی۔ 

وہ اسے وضاحت سے ایک ایک چیز سمجھا رہا تھا۔ میرو کو اس کے سمجھانے کا انداز بےحد اچھا لگا۔ اسے سارے پوائنٹ کلیئر ہوگۓ تھے اس کو یقین کا اس کا کل والا ٹیسٹ بہت اچھا ہونے والا ہے۔ وہ اسے کچھ سوال حل کرنے کا کہتا خود لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گیا۔میرو نے چور نظروں سے اسے دیکھا جس کی انگلیاں تیزی سے لیپ ٹاپ پر حرکت کررہی تھی۔ اسے اس وقت وہ اتنا اچھا لگا اس نے بےساختہ دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔ 

یزدان نے آئیبرو اچکا کر اس کی طرف دیکھا وہ ہڑبڑاتی ہوئی فوراً اپنی نوٹ بک پر جُھک گئ۔  ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر اس نے کافی سوال حل کرلیے تھے۔اب اس کی آنکھیں نیند سے بند ہونے لگی تھی پھر اسے پتہ ہی نہ لگا کب اس کی آنکھ لگی اس کا سر ڈھلک کر اس کے لیپ ٹاپ پر آیا۔

یزدان نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ جو مزے سے اس کے لیپ ٹاپ پر سر رکھے خواب و خروش کے مزے لوٹ رہی تھی۔ اس نے احتیاط سے اس کا سر اُٹھا کر تکیے پر رکھا۔ ایک دفعہ پھر اس کی انگلیاں لیپ ٹاپ پر چلنے لگی۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد کام مکمل کرتے اس نے لیپ ٹاپ سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دوسری نظر اپنی منکوحہ کو دیکھا جو بڑے استحاق سے اس کے بستر پر محو استراحت تھی۔ یزدان کو یہ نظارہ اتنا اچھا لگا کہ اس کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ دوڑ گئ۔  اس نے محبت سے اس کے چہرے پر جھولتی لٹوں کو پیچھے کیا۔ اور ایک بھرپور نگاہ اس کے چاند چہرے پر ڈالی۔  جہاں پر دنیا جہاں کی معصومیت تھی۔  اس نے فدا ہونے والے انداز میں دل پر ہاتھ رکھا۔ 

پھر اس کی پیشانی چومتا اس کو گود میں اُٹھا کر اس کے کمرے کی طرف بڑھا۔ 

نیچے لاؤنج میں بیٹھے سب بڑوں نے یہ مظاہرہ سکون سے ملاحظہ کیا۔

" اس گھر ایک اور بےشرم کا اضافہ ہو چکا ہے۔ صدف بیگم ڈوپٹے کا کونا دانتوں میں دباتی ہوئی بولی۔" 

" بیگم بتانا پسند کریں گی اس گھر میں اور کون کون اس رُتبے پر فائز ہے۔ " داجان اپنی بیگم کو دیکھتے ہوۓ بولے۔ 

" یہ اپنے چھوٹے صاحبزادے کو بھول گۓ کیسے شادی کے لیے اتاولا ہورہا تھا۔ روز ہمارے کمرے کا چکر لگاتا تھا۔" وہ شاہ ویز کی طرف دیکھتی مسکراتی ہوئیں بولی۔

شاہ ویز  نے ماں کی بات سُن کر پاس بیٹھی اپنی بیگم کو محبت بھری نظروں سے دیکھا۔

یزدان اسےبیڈ پر لٹا کر اس کے قریب ہی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔نظریں اس کی بند آنکھوں پر ٹکی تھیں۔

" تم پاگل کردو گی مجھے۔" وہ اس کی آنکھوں کو چھوتے ہولے سے بڑبڑایا۔

ابھی ایک لمبا انتظار پڑا تھا وہ اتنی جلدی اس کے دسترس میں بالکل نہیں آنے والی تھی۔ اسے معلوم تھا داجان اس کی پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے کبھی اس کی رُخصتی نہیں کریں گے۔وہ گہری سانس خارج کرتا اس کے ماتھے کو لبوں سے چھوتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 

ازوہ کا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔رمیز آفریدی کی دو اولادیں تھی بڑی ازوہ اور اُس سے سات سال  چھوٹا اس کا بھائی علی۔ ان کی ماں کا انتقال پانچ سال پہلے ہوچکا تھا۔ ان کے گھر میں ٹوٹل چار لوگ تھے۔ سکندر آفریدی ازوہ کے دادا جان اور اس کے پاپا اور اس کا چھوٹا بھائی علی۔

رمیز آفندی انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے جہاں انہیں اپنی وردی سے عشق تھا وہی ازوہ کے لیے وہ ان کے آئیڈیل تھے۔ چُپکے چُپکے اس نے کئ بار دُعائیں مانگی کہ کاش اس کا شوہر بھی اس کے بابا جیسا ہو۔

  انکے گھر میں دولت کی ریل پیل نہیں تھی اس کے باوجود وہ بڑی سکون کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کا گھرانہ ایک مثالی گھرانہ تھا۔ ازوہ تھرڈ ائیر کی طالبہ تھی۔  

اس کی زندگی میں ہلچل زبیر شجاعت کے آنے پر مچی۔ وہ اس کے بابا کے کسی دوست کا بیٹا تھا۔ جس کی نظر ازوہ پر پڑی اسے وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ لگی۔  پھر رفتہ رفتہ زبیر کو اس سے محبت ہونے لگی۔  زبیر ایک کمپنی میں مناسب پوسٹ پر کام کررہا تھا۔ 

ایک دفعہ ازوہ کا کالج پِک کرنے کے وقت وہ رمیز صاحب کے ساتھ تھا۔  وہی اس کی نظر ازوہ پر پڑی۔ پھر وہ ازوہ کو دیکھنے کے چکروں میں کبھی کبھی بہانے سے گھر کا چکر لگا لیتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 یہ ایک  معمول کی طرح کا سادہ سا دن تھا جب رات کے کھانے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گۓ۔ازوہ بھی اپنی کتابیں لیکر پڑھنے کے لیے بیٹھ گئ۔ وہ پڑھنے میں منہمک تھی جب کسی نے دروازے پر دستک دی۔ اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو اس کے پاپا دروازے پر کھڑے تھے۔

"پاپا! آئیے نا کوئی کام تھا۔" وہ کُرسی سے اُٹھ کر ان کے نزدیک آئی ۔ 

" تم سے کچھ بات کرنی تھی بچے۔اِدھر ہمارے پاس آکر بیٹھو۔" 

وہ خود بیڈ پر بیٹھ گۓ اسے بھی قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ ان کے قریب ان کی حصار میں بیٹھ گئ۔ ماں کے جانے کے بعد سب سے عزیز رشتہ یہی تو تھا اس کے پاس اس کے پیارے پاپا۔ 

" پڑھائی کیسی جا رہی ہے میری جان " وہ محبت سے اس کا حسین چہرہ دیکھ کر بولے۔ 

"اچھی جارہی ہے پاپا۔" وہ بھی دھیرے سے مسکراتی ہوئی بولی۔

"کیا دیکھ رہے ہیں؟" وہ ان کی گہری نظریں اپنے چہرے پر محسوس کر کے بولی۔

" دیکھ رہا ہوں میری ننھی سی گڑیا اتنی بڑی ہوگئ۔" وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔

" ازوہ ! زبیر کو جانتی ہیں نا آپ۔ جو کئ دفعہ ہمارے گھر بھی آچکا ہے۔" انہوں نے تمہید باندھتے بات کا آغاز کیا۔  

" جی وہ آپ کے دوست کے بیٹے۔ " وہ کچھ جھجھکتی ہوئی بولی۔ 

" ہہمم ان کی طرف سے رشتہ آیا ہے تمہارے لیے۔ ویسے تو مجھے اس رشتے میں کوئی برائی نظر نہیں آئی لیکن آپ مجھے سوچ کر اپنا فیصلہ بتادینا۔  کوئی دباؤ نہیں ہے آپ پر۔  جیسا تمہیں ٹھیک لگے وہ فیصلہ کرنا”

وہ اس کا گال تھپتھپاتے اُٹھ کر چلے گۓ۔ 

زبیر کو وہ زیادہ تو نہیں جانتی تھی ایک دو بار دیکھا تھا۔ زبیر بالکل بھی اس کے آئیڈیل جیسا نہ تھا۔ عام سی شکل و صورت والا سادہ سا بندہ تھا۔ وہ چاہتی تھی اس کی زندگی میں اس کے باپ جیسا کوئی انسان آۓ مضبوط اور ملک کی حفاظت کرنے والا۔  جیسے اس کے باپ کو اپنی وردی سے عشق تھا ویسے اسے بھی ہوچلا تھا۔

 حُسن کبھی بھی اس کی کمزوری نہ رہا تھا۔  اس لیے اسے زبیر کے ظاہری حلیے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ کیسا دکھتا ہے۔ اسے تو ملک کے محافظوں سے عشق تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے یہ فیصلہ باپ پر چھوڑ دیا تھا۔ اور انہیں یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ جیسے آپ کی مرضی۔ اس کا پاپا نے اس کی رضا مندی جان کر زبیر کی فیملی کو ہاں کردی تھی۔  اس طرح ان کے تباہی کے راستے کا آغاز ہوا۔ 

ابھی فی الحال دونوں کی منگنی کا فیصلہ کیا گیا اگلے سال اس کی بی ایس سی مکمل ہوتے ان کی شادی کا فیصلہ کیا۔یوں وہ زبیر کے ساتھ اس بے رنگ رشتے میں بندھ گئ۔  وہ کبھی کبھی ان کے گھر آتا تھا۔ وہ اس کی عزت کرتی تھی مگر محبت نہیں۔ یوں ایک سال گزر گیا اس کی بی ایس سی بی مکمل ہوگئ۔  تو دوسری طرف زبیر نے جلدی ڈال کر گھر والوں کو ان کی طرف بھیج دیا۔ ان کی شادی کی تاریخ ایک مہینے بعد کی طے پائی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی شادی کا سُن کر اس کی دوست اسے ایک مال لے آئی تھی تاکہ اس کی بارات اور مہندی کا جوڑا لے سکے وہ اتنے پیسے برباد کرنے کے حق میں نہ تھی مگر وہ اس کے باپ سے اجازت لیکر اسے لیکر یہاں موجود تھی۔ اس کی دوست کا کہنا تھا کہ یہی وہ پل ہیں جن کو ہنس کر انجوائے کیا جاۓ ۔ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے اس پر کُھل کر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ 

" کیا ضرورت تھی پاپا کے اتنے پیسے خرچ کروانے کی۔ " وہ سعدیہ کو گھورتی ہوئی بولی۔ 

" چِل کر یار!  دیکھ کتنے پیارے جوڑے ملے ہیں۔"وہ اس کی بات کو نظر انداز کرتی خوش ہوتی ہوئی بولی۔

ابھی وہ اپنی ہی باتوں میں مگن تھی جب کوئی تیز تیز چلتا آیا اس کا دھیان ان کی طرف نہیں تھا وہ بار بار آگے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ وہ آکر سعدیہ سے بُری طرح ٹکرایا۔ 

سعدیہ اس افتاد پر سنبھل نہ پائی اور بُری طرح زمین بوس ہوئی۔ ازوہ نے فوراً اسے تھام کر کھڑا کیا۔

سعدیہ کے سر پر لگی تلو پر بجھی۔وہ تلملا کر اس کی طرف بڑھی۔ 

" او مسٹر! اندھے ہو ۔کیا تکلیف ہے۔ بندہ دیکھ کر ہی چل لیتا۔ نہیں تم تو بے لگام بیل کی طرح اِدھر اُدھر دیکھے بغیر بھاگے چلے آرہے ہو۔ مجھے پتہ ہے تم جیسوں کا جان بوجھ کر ٹکراۓ ہو" وہ انگلی اُٹھاتی غصے سے بولی۔

" چھوڑو سعدیہ چلو یہاں سے چلتے ہیں۔" ازوہ  اس شخص کی وحشی سی لال آنکھوں کو دیکھتی ڈر کر سعدیہ کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔ وہ فوراً یہاں سے نکلنا چاہتی تھی۔ وہ انسان غصے بھری آنکھوں سے اسے گھور رہا تھا۔ جسے دیکھ اس نے جھرجھری سی لی۔ 

اس شخص نے آنکھیں اُٹھا کر اس دھیمی سی آواز کو دیکھا تو وہ پل بھر میں ساکت ہوا۔اس کے براؤن کرسٹلز نے اسے بُری طرح اپنی طرف اٹریکٹ کیا تھا۔ اس کا سہما سہما چہرہ اسے ہر چہرے سے زیادہ خوبصورت لگا۔ اس کے بےتحاشا خوبصورت نقوش پر اس وقت ہلکی ہلکی گھبراہٹ کی لکیر تھی۔

وہ سعدیہ کا ہاتھ کھینچتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔

اس کے جاتے ہی وہ ہوش میں آیا تھا۔ اس کی اندھیری زندگی میں  وہ لڑکی بہار لا سکتی تھی۔ وہ دونوں کی راستے بالکل جدا تھے کہاں وہ معصوم سی لڑکی کہاں وہ گناہوں سے لتھڑا بےحس انسان۔جو اس کی زندگی میں تباہی کا سبب بننے والا تھا۔

وہاں یہاں ایک بندے سے ملنے آیا تھا۔پر اسے دیکھ کر وہ سب بھولا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیزی سے دن گزرتے گۓ اس کی شادی کا دن بھی آپہنچا تھا۔ وہ دلہن بنی غضب ڈھا رہی تھی۔ پر وہ بے تحاشا اداس تھی اپنے گھر والوں کو چھوڑنے کی وجہ سے۔ سب کو چھوڑنے کی وجہ سے بار بار اس کی آنکھیں نم ہورہی تھی۔پھر نکاح کے بعد وہ وقت آپہنچا وہ سب کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ نئ زندگی کے لیے نکل پڑی۔

وہ دلہن بنی بیڈ پر بیٹھی تھی۔ سب دیکھنے والوں نے اس کی خوب تعریف کی تھی کہ وہ بےحد خوبصورت لگ رہی ہے۔ زبیر سے اس کی شادی اس کے بابا کے پسند پر ہوئی تھی۔ اسے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ تھا کیونکہ اس کی زندگی میں کوئی اور نہ تھا جس کی وجہ سے وہ انکار کرتی یوں شادی کے مراحل بےحد آسانی سے طے ہوۓ تھے یوں وہ زبیر کی دلہن بن کر اس کے کمرے میں موجو تھی اسے زبیر میں کوئی برائی نظر نہ آئی ۔ سوبر سا زبیر اسے ہر لحاظ سے اچھا لگا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز آئی وہ فوراً سیدھی ہو کر بیٹھی۔ 

وہ شکستہ سے قدموں سے چلتا اس کے قریب آیا۔ایسا ازوہ کا محسوس ہوا۔ 

اس نے تمہید باندھتے اپنے مکروہ عزائم سے اسے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

"مجھے معاف کردینا میں مجبور تھا۔" وہ اسے دیکھے بنا بولا۔

ازوہ نے اپنا جھکا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔آنکھوں میں اُلجھن  سی تھی وہ پوچھنا چاہتی تھی کس بات کی معافی۔ مگر وہ خاموشی سے اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی۔ جب وہ دوبارہ اسے دیکھتا ہوا گویا ہوا۔ 

"اُٹھو اور اپنے کپڑے تبدیل کرو تمہارا اصل حقدار تمہیں لینے آنے والا ہوگا۔  ہمارا سفر یہی تک تھا۔ خدا کو بھی شاید یہی منظور تھا۔ میں مجبورہوں مجھے معاف کر دینا۔ " وہ خود بھی مضطرب سا لگ رہا تھا یا شاید اس کے سامنے بننے کی کوشش کررہا تھا۔

"میں سمجھی نہیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ " وہ بیڈ سے اترتی اس کے  روبرو آتی اپنی الجھن دور کرنے کے لیے بولی۔ 

"دیکھو میں یہ سب کرنا نہیں چاہتا تھا مگر وہ لوگ بہت طاقتور ہیں مجھے پل میں ڈھیر کر دیں گے۔  جانے کب کالی کی نظر تم پڑی اور وہ تمہیں ہر حال میں حاصل کرنا چاہتا ہے ۔" ازوہ نے بےیقین نظروں سے اس کی طرف دیکھا وہ کیا بول رہا تھا کون کالی اور وہ کیوں اس کے ساتھ جاۓ گی۔ وہ اس کی آنکھوں میں موجود الجھن کو دیکھتا ہوا بولا۔ 

"یقیناً تم کالی کے بارے میں جاننا چاہتی ہو۔کالی ایک بہت بڑا غنڈہ ہے جانے کتنے قتل وہ کرچکا ہے اور میرا قتل کرنا بھی اس کے لیے مشکل نہ ہوگا۔ اس کے لیے تمہیں حاصل کرنا بھی مشکل نہ ہوگا۔" وہ جہاں تھی وہ وہی کھڑی رہ گئ۔

جب وہ تین دن پہلے ہوۓ حادثے کے بارے میں بتانے لگا۔ 

 جب وہ آفس سے باہر نکلا تو کالی کے لوگ اسے کڈنیپ کرکے اپنے بوس تک لے گۓ تھے جس نے اسے ازوہ سے شادی کے بعد اس کے حولے کرنے کی ڈیمانڈ رکھی جسے سنتے وہ ہتھے سے اُکھڑ گیا۔  جس پر اسے جان سے مارنے کی دھمکی اور اس کے بہن کو اٹھوانے کی دھمکی دی۔  ڈرپوک سا زبیر فوراً سے ڈر گیا۔  اور انہوں نے جتنی رقم اسے آفر کی وہ کبھی بھی زندگی میں اتنی جلدی وہ رقم کما نہیں سکتا تھا۔ اسے یہ ڈیل ہر لحاظ سے فائدے مند لگی۔ 

وہ آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ کیا سامنے کھڑا انسان اس کا محافظ تھا جو پیسوں کی خاطر اس کا سودا کرآیا تھا۔ اس کے بابا نے تو کہا تھا کہ اس کا شوہر ہر سرد و گرم میں اس کی حفاظت کریں گا کبھی بھی اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔ جیسے بچپن سے اس کے بابا نے اسے ہر حالات سے بچایا تھا۔ اس کے بابا کی باتوں میں جو خوش فہمی اس کے دل میں جاگی تھی پل میں چکنا چور ہوئی۔ اگر محافظ ایسے ہوتے ہیں تو اسے نہیں چاہیے تھا اپنی زندگی میں ایسا کوئی محافظ۔ اس کی آنکھوں میں ذرا بھر بھی ندامت نہ تھی کچھ دیر پہلے جو وہ مضطرب سا لگ رہا تھا اب اس کی آنکھوں میں محض پیسوں کی حوس نظر آئی ۔

ازوہ کے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ گئ۔کتنی آسانی سے وہ یہ بات کرگیا تھا۔اس نے پوری قوت سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔

"بےغیرت انسان تمہیں شرم نہیں آئی میں تمہاری عزت ہوں اور تم میرا ہی سودا کر آۓ۔" وہ بھپری شیرنی بنتی اس کا گریبان پکڑ کر چلائی۔

زبیر نے اس کے ہاتھ اپنے گریبان سے جھٹکے۔ 

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے تھپڑ مارنے کی۔ میں تو تمہیں یوں ہی معصوم سمجھ رہا تھا یوں ہی نہیں وہ کالی تمہارے پیچھے دیوانہ ہوا ضرور تم نے بھی کوئی ادائیں دکھائی ہونگی۔ ورنہ کوئی یوں ہی کسی کے پیچھے پاگل نہیں ہوتا۔ تم نے سوچا ہوگا پل میں امیر ہوجاؤں گی۔ جانتا ہوں میں تم جیسی دوغلی لڑکیوں 

کو۔پیسوں کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہو۔" وہ شرافت کا لباس اتارتا اپنی اصلیت پر اترا۔

" بکواس بند کرو۔ ہمت بھی کیسے ہوئی میرے کردار پر الزام لگانے گی۔  اپنی بزدلی کو چھپانے کے لیے میرے کردار کو داغ دار مت کریں۔میں ہرگز برداشت نہیں کروں گی۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتی ہوئی بولی۔  وہ معصوم سی لڑکی عزت پر بات آتے فوراً ڈٹ گئ۔

" میں تم سے بحث کے موڈ میں نہیں ہوں کالی کے لوگ آنے والے ہونگے تمہیں لینے۔ میں تمہیں طلاق دے کر اس قصے کو بہت جلد ختم کرنا چاہتا ہوں۔" ازوہ کو یوں لگا جیسے وہ پتھر کی ہوگئ ہو اور یہاں سے کبھی بھی ہل نہیں پاۓ گی۔

ازوہ کو اپنی جان سے زیادہ عزت کی فکر لاحق ہوئی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے کلچ کو اور مضبوطی سے تھاما اس میں اس کا موبائل موجود تھا اس کے گھر والوں سے رابطے کا آخری ذریعہ۔ 

اس نے زبیر کا دھیان بٹا دیکھ دروازے کی طرف بڑھنا چاہا جب وہ پُھرتی سے آتا اس کو تھام چکا تھا۔ 

" اتنی آسانی سے تم نہیں جاسکتی مجھے بھی اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان عزیز ہے۔ ابھی ہم لوگ اس کالی کے ہاتھوں مرنا نہیں چاہتے۔

" چھوڑو مجھے ذلیل انسان۔ تمہیں شرم نہیں آتی میرے پاپا نے تم پر کتنا بھروسہ کیا اور تم نے کیا کیا۔ میں یہاں ایک پل بھی نہیں ٹھہروں گی سمجھے تم۔" وہ اس کے حصار میں غراتی ہوئی بولی۔ 

زبیر نے اسے پکڑ کر بیڈ پر دھکیلا تھا۔ 

" اتنی آسانی سے تو جانے نہیں دوں گا تمہیں۔ آخر میری زندگی کی خوشیوں کی چابی ہو۔ " وہ چہرے پر مکروہ مسکراہٹ سجا کر بولا۔ تم یقین مانو کچھ وقت پہلے تک میں خود تم سے شادی کرکے ایک اچھی زندگی گزارنا چاہتا تھا پر اب میں مجبور ہوں۔

ازوہ کو اس سے بے تحاشا نفرت سی محسوس ہوئی۔اسے اس کے مکروہ چہرے سے گِھن سی آنے لگی۔

وہ بغیر ہمت ہارتی ایک دفعہ پھر اپنا لہنگا سنبھالتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ ایسے تو ہمت نہیں ہار سکتی تھی۔اس نے خود کو اس قید سے آزاد کروانے کے لیے ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ اس اپنے پیچھے بیڈ سائیڈ پر پڑا شیشے کا جگ نظر آیا۔"

" میں تمہارے مکروہ عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔ " وہ اسے اپنی طرف  بڑھتا دیکھ کر چلا اُٹھی۔

" میں بھی دیکھتا ہوں کیسے جاتی ہو یہاں سے۔" وہ اس کا منہ دبوچتا ہوا چلا اُٹھا۔

ازوہ نے ہمت مجتمع کر کے وہ شیشے کا جگ اُٹھا کر اس کے سر میں دے مارا۔

زبیر کے سر سے خون تیزی سے بہنے لگا۔اس کے ہاتھ بہتے خون کو دیکھ کر بُری طرح کپکپاۓ۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا وہ ایسے کسی کو نقصان پہنچاۓ گی  اور وہ اس کا شوہر ہوگا وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ اس نے ہمت مجتمع کرکے خود اسے پیچھے کی طرف دھکیلا اور دروازے کی طرف دوڑ لگائی۔ باہر نکل کر اس نے باہر سے دروازے کو کُنڈی لگادی۔ رات کے تین بجے کا وقت تھا سب سونے کے لیے جاچکے تھے۔ اندھیرے میں وہ خود کو سنبھالتی مین گیٹ کی طرف بھاگی۔ باہر نکلتے اس نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ سنسان سڑک دیکھ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ پھر خود کو سنبھالتی ایک راستے کی طرف دوڑ لگا دی۔ 

کافی دُور پہنچ کر اس نے کلچ سے اپنا موبائل نکالا۔ جس کی بیٹری پہلے ہی لو تھی۔ اس نے جلدی سے باپ کا نمبر ڈائل کیا جو چوتھی بیل پر اُٹھا لیا گیا۔

ہیلو کی آواز سُن کر وہ فوراً بولی۔

" پاپا مجھے بچا لیں۔ ہم نے جیسا سوچا تھا وہ زبیر ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ میں بہت مشکل سے وہاں سے جان بچا کر نکلی ہوں۔بابا جلدی پہنچ جاۓ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ " وہ روتی ہوئی جو سمجھ آیا جلدی جلدی بول گئ۔  

موبائل کی بیٹری لو ہونے کی وجہ سے جلد ہی وہ بھی بند ہوگیا۔  وہ سہمے دل سے اللّہ کو مدد کے لیے پکار رہی تھی۔ 

جب قریب سے ہی جیپ کی آواز آنے پر وہ بُری طرح گھبرائی تھی۔ اس نے ڈوپٹے کا کونہ پکڑ کر اپنا منہ چھپایا۔  وہ نہیں چاہتی تھی کوئی بھی اس کا چہرہ تک دیکھا۔  پولیس جیپ کو قریب رُکتے دیکھ اسے سمجھ نہ آئی۔ روۓ یا خوش ہو۔ کیونکہ وہ کسی کی بھی فطرت سے واقف نہیں تھی۔ جو پل میں بدل جاۓ۔  اس کے قدم وہی منجمد ہوگۓ جب کوئی پولیس والا جیپ روکتا بھاری قدم اُٹھاتا اس کی طرف آرہا تھا اس کی تو روح فنا ہورہی تھی۔ وہ شخص اس سے چار قدم کے فاصلے پر رُک گیا۔

" اتنی رات کو یہاں کیا کررہی ہو۔ شادی سے بھاگ کر آئی ہو۔" وہ سر تا پیر حقارت سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ جو ڈوپٹے سے اپنا منہ چُھپاۓ کھڑی تھی۔ اس وقت اس کی صرف میک اپ کی تہہ میں دبی بھوری آنکھیں نظر آرہی تھی۔

ماضی

وہ اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر تقریباً رات کے سوا تین بجے پولیس اسٹیشن سے نکلا۔ وہ ایک مجرم کی فائل اسٹڈی کررہا تھا کچھ اس وجہ سے بھی اسے وقت کا اندازہ نہ ہوا۔ اب اس کی رُخ گھر کی طرف تھا۔ اس کی جیپ خالی راستوں پر فراٹے بھرنے لگی۔ابھی جیپ کچھ دُور ہی گئ تھی کہ اسے راستے میں کسی لڑکی کے وجود کا گمان ہوا۔

کچھ قریب پہنچنے پر اسے اندازا ہوا وہ لڑکی دلہن کے لباس میں ملبوس تھی۔ اس کی آنکھوں میں شدید غصے کی لہر دوڑی۔ اسے ایسی لڑکیوں سے نفرت تھی جو شادی والے دن اپنے والدین اور اپنی عزت کو داؤ پر لگا کر بھاگ جاتی تھی۔ فقط ان جھوٹے دو پیار بھرے بول کی خاطر۔ ایسی لڑکیوں کو کیوں اپنے ماں باپ کی محبت نظر نہیں آتی۔ 

ایسے والدین پر اسے ترس آتا تھا جو ان کے بعد کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ حالانکہ ان سب میں اُن کا رتی برابر بھی قصور نہیں ہوتا۔ لیکن یہ معاشرہ پھر بھی انہیں قصور وار ٹھہراتا ہے۔  

وہ ساری سوچوں کو جھٹکتا جیپ کچھ فاصلے پر روکتا اس وجود کی طرف بڑھا۔ جو ڈوپٹے سے اپنا چہرہ چھپاۓ کھڑی تھی۔ وہ اس کے نزدیک آتا کچھ قدموں کے فاصلے پر رُک گیا۔

اتنی رات کو یہاں کیا کررہی ہو۔ شادی سے بھاگ کر آئی ہو۔" وہ سر تا پیر حقارت سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ جو ڈوپٹے سے اپنا منہ چُھپاۓ کھڑی تھی۔ اس وقت اس کی صرف میک اپ کی تہہ میں دبی دو بھوری آنکھیں نظر آرہی تھی۔

ازوہ نے تڑپ کر جھکا سر اُٹھایا ایک اور الزام۔ اس کی آنکھوں میں کرب سا اُبھرا۔ قصور سامنے کھڑے وجود کا بھی نہ تھا جس حالات میں اور جس حُلیے میں وہ یہاں کھڑی تھی ہر دوسرا شخص یہی سمجھتا۔

" تم جیسی لڑکیوں کو شرم نہیں آتی اپنے ماں باپ کی عزت مٹی میں رول کر آتے ہوۓ۔ " وہ اس کی خاموشی کو اس کی رضا مندی سمجھتا دبے دبے غصے میں بولا۔

" آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔ میں اس حالت میں نہیں ہوں کسی کو کچھ سمجھا سکوں۔ کیا آپ مہربانی کرکے مجھے میرے گھر تک چھوڑ سکتے ہیں؟ " وہ اس کی باتوں کی پرواہ کیے بغیر دھیمے سُروں میں بولی۔ اسے پولیس یونیفارم میں دیکھ اسے کچھ حوصلہ ہوا۔ اس نے اللّہ پر یقین کرتے سامنے کھڑے انسان سے مدد مانگی۔ شاید خدا نے ہی اسے مشکل سے نکالنے کے لیے سامنے کھڑے وجود کو دیکھا۔ اس  میں اتنی ہمت نہیں تھی جو یہاں کھڑی بھی ہوپاتی پیدل چل کر گھر پہنچنا تو بہت دُور کی بات تھی۔ 

جو بھی تھا اس کا سامنے والے وجود پر ایسا کوئی حق نہ تھا جو وہ کوئی باز پرس کرتا۔

" چلو"  وہ مزید ایک بھی لفظ کہے بغیر اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرگیا۔ 

ازوہ ڈرتے ہوۓ بے تحاشا وہموں کے ساتھ اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ جیپ میں بیٹھ کر بھی اس نے دوپٹے کا پلّوں چہرے سے نہ ہٹایا اس کا چہرہ اب بھی ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے گھر کا پتہ پوچھنے کے بعد ایک دفعہ پھر جیپ سڑکوں پر فراٹے بھرنے لگی۔ 

اس نے ازوہ پر ایک دفعہ بھی نظر اُٹھا کر اس کی طرف نہ دیکھا۔ پر وقفے وقفے سے اس کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ اور اس کا ہچکیاں بھرتا وجود بھی اسے بخوبی محسوس ہورہا تھا۔وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ 

اکثر غلط فیصلوں کے بعد یونہی پچھتانا پڑتا ہے۔ کچھ دیر بعد جیپ اس کے گھر کے آگے رُکی۔

" شکریہ ! میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔" وہ زکام زدہ آواز میں بولی۔شاید یہ دوسری بات تھی جو اس نے کی تھی۔

"ہوسکے تو اپنے ماں باپ سے معافی مانگ لینا۔وہ معاف کردیں گے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا اُن کے لیے۔ دوبارو ایسی غلطی مت دھرانا۔" وہ اُترتے ہوۓ بھی اسے  نصیحت کرنا نہیں بولا تھا۔

 اس کا گھر آگیا تھا وہ اس کا شکریہ ادا کرتی جیپ سے اُترتی گھر کی جانب بڑھ گئ۔

اس کے اُترتے ہی اس نے جیپ گھر کی جانب موڑ دی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بہتی آنکھوں سے دروازے پر دستخط دی۔جسے فوراً کھول دیا گیا۔

اپنے دادا جان کو سامنے دیکھ وہ ان کے سینے سے لگتے تڑپ تڑپ کے رو دی۔ رمیز صاحب گھر نہیں تھے وہ اس کی کال پر فوراً اسے ڈھونڈنے کے لیے نکل گۓ تھے۔ اس کی کال پر انہیں اتنا تو اندازہ ہوگیا تھا کہ ضرور زبیر نے کچھ غلط کیا ہے جو وہ وہاں سے نکل آئی تھی۔ سکندر صاحب اسے لیے صوفے پر بیٹھ گۓ۔پھر وہ ہچکیوں کے دوران خود پر بیتی ایک ایک بات انہیں بتاتی چلی گئ۔

سکندر صاحب نے رمیز کو بھی فون کردیا تھا کچھ دیر میں وہ بھی گھر پر موجود تھے۔ سب جاننے کے بعد انہوں نے عہد کیا تھا کہ وہ اس زبیر اور اس کالی دونوں کو نہیں چھوڑنے والے۔ جس کی وجہ سے ان کی بیٹی اتنی مشکلات سے گزرتی گھر پہنچی تھی۔ پہلے تو اس زبیر کا کچھ انتظام کرنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح ہوتے ہی وہ زبیر کے خلاف اریسٹ جاری کروا چکے تھے۔ ازوہ کو حراص کرنے کے جرم میں۔ 

ان کی گاڑی زبیر کے گھر کے آگے رُکی۔ وہ اسے گریبان سے پکڑ کر باہر لیکر آۓ وہ اسے حوالدار کے حوالے کیا جس نے اسے پولیس جیپ میں پھینکنے والے انداز میں بٹھایا۔  

وہ مسلسل منہ سے مغلظات بک رہا تھا اس کا کہنا تھا اس پر جھوٹا الزام لگایا گیا بلکہ ان کی بیٹی اسے مار کر بھاگی ہے۔ پر وہ اس کی سُنے بغیر اسے لاک اپ میں ڈال چکے تھے۔ 

اب اُس کالی کی باری تھی جس کو وہ اچھے سے جانتے تھے۔ جس پر کئ کیسز قتل کے ، ڈرگڑ ڈیلنگ کے چل رہے تھے۔ پر وہ ہر بار بچ نکلتا تھا۔ وہ ایک بہت بڑے گینگ کے لیے کام کرتا تھا۔ وہ باس کا کافی خاص بندہ تھا ان کے خلاف تو وہ کب سے کام کررہے تھے۔ جلد ہی وہ ان پر کچھ نا کچھ عمل درآمد کرنے والے تھے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس واقع کو گزرےچالیس دن گزر چکے تھے۔محلے والوں نے کافی باتیں بنائی تھی پر انہیں کسی کی بھی باتوں کی پرواہ نہیں تھی۔ انہیں اپنی بیٹی ہر چیز سے عزیز تھی۔ وہ طلاق کے پیپرز بھی کورٹ میں جمع  کروا چکے تھے۔ وہ جلد سے جلد ازوہ کو اس بے نام رشتے سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔  

انہوں نے نوٹ کیا تھا وہ پہلے کی نسبت کافی خاموش سی ہوگئ تھی۔ پہلے علی کے ساتھ مل  کر وہ پورے گھر میں شور مچاۓ رکھتی تھی۔ اب علی بھی اسے یوں دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔

سارے گھر والے اس وقت ناشتہ کرنے کے لیے کھانے کی میز پر موجود تھے۔  ازوہ اچھے سے ڈوپٹہ سر پر جماۓ سب کو کھانا سرو کر رہی تھی۔ جب کتنی ہی جیپ کی  آوازیں ایک ساتھ سنائیں دی۔  جب کوئی دروازے کا لاک توڑتا ان کے گھر کے اندر گُھس آیا۔  

اُسی مال والے لال آنکھوں والے شخص کو دیکھ کر وہ ڈر کر باپ کے بازو سے چپک گئ۔ 

" اوۓ بلبل!  ڈرو نہیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ وہ نامرد زبیر تمہیں مجھ تک پہنچانے کا چھوٹا سا کام بھی نہ کرسکا۔ اسے تو اچھے سے سب سکھاؤں گا۔ تم بس میری دسترس میں آجاؤں رانی بنا کر رکھوں گا۔ ” وہ اس کے ڈرے سہمے وجود کو دیکھتا ہوا بولا۔

اس نے ابھی ارد گرد کے لوگوں پر نظر ہی نہ ڈالی تھی۔ اس نے سر اُٹھا کر اس شخص کو دیکھا جس کے حصار میں وہ چُھپی کھڑی تھی۔اُسے وو شخص جانا پہچانا لگا۔ پھر ایکدم سے جھماکا ہوا۔ یہ تو وہی شخص تھا جس کی وجہ سے ایک دفعہ پہلے بھی وہ حوالات کی سیر کرچکا تھا۔اسے اتنا تو معلوم تھا کہ ازوہ کا باپ  پولیس والا ہے مگر رمیز صاحب کو سامنے دیکھ کر اسے ذرا خوشی نہ ہوئی۔ 

" سسر صاحب پہچانا! میں کالی جسے آپ نے سزا دلوانے کی کافی کوشش کی تھی۔آگیا ہو گا یاد"  وہ مسخرے پن سے ہنستا ہوا بولا۔ 

" کیا بدتمیزی ہے اور تم گھر کے اندر کیسے آۓ ہو میں تمہارا منہ توڑ دوں گا۔ " وہ ازوہ کو اپنے پیچھے کرتے انگلی اُٹھانے والے انداز میں بولے۔ 

"اچھا خاصا پلان بنایا تھا کہ اس کا وہ بزدل شوہر اسے میرے تک پہنچا دے گا اس سے طلاق دلواکر میں شادی کر لوں گا۔  پر ماننا پڑے گا بڑی بہادر ہے۔ کیسے اپنے شوہر کا سر پھاڑ کر وہاں سے بھاگ آئی اور گھر تک بھی پہنچ گئ تمہاری بیٹی۔  آخر پولیس والے گا خون ہے کچھ تو اثر دکھاۓ گا۔ بھئ ہمیں تو لڑکی پسند ہے ہمارے ٹکر کی ہے۔ تو رشتہ پکا سمجھو۔ اب تو میں ان سب سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا اب تو ضد بن گئ ہے میری۔ اسے میرا ہونا ہی پڑے گا۔ ایسے نہیں تو ویسے ہی سہی۔یہ مٹھائی اور کچھ سامان لایا ہوں اپنی ہونے والی بیوی کے لیے۔  اب تو سوچ لیا تمہارے گھر بارات لے کر میں ہی آؤں گا۔  جلد سے جلد اس بے وقوف سے طلاق دلواؤں۔ جلدی آؤں گا سسر صاحب۔  " وہ ٹیبل کی طرف رکھے سامان کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔ 

" پھر آؤں گا میری خوابوں کی شہزادی اس دفعہ تمہیں لیکر ہی جاؤں گا۔ " وہ ان کے پیچھے چُھپے وجود سے ہمکلام ہوتا بے شرمی سے آنکھ مارتا ہوا باہر نکل گیا۔ 

کالی کو ایک بات تو سمجھ آگئ تھی کہ اس کے باپ کے ہوتے ہوۓ اسے اُٹھا نہیں سکتا۔  پہلے اس کا اس ازوہ سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن اس لڑکی سے شادی کرکے وہ اس کے باپ کو دبا سکتا تھا۔ جو ان کے خلاف کافی ٹائم سے ثبوت اکٹھا کررہا تھا۔ ضرور اس نے کچھ نا کچھ ثبوت تو اکٹھے کیے ہونگے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"پاپا! آپ ایسا کریں میری جان لے لیں ۔ یہ قصہ یہی ختم ہوجاۓ گا۔" وہ  کالی کے جاتے ہی ہذیانی انداز میں چلاتی ہوئی بولی۔ 

" کیسی باتیں کررہی ہو ازوہ۔ پاگل ہوگئ ہو۔" وہ اس سے دُگنی آواز میں دھاڑے ۔کیسے گوارا کرتے اپنی لاڈلی کے منہ سے ایسی باتیں۔ 

" یہ سب میری وجہ سے تو ہورہا ہے۔" وہ درد سے چُور آواز میں بولی۔

" اپنے پاپا پر یقین رکھو پاپا سب ٹھیک کردیں گے۔" وہ محبت سے اس کا ماتھا چومتے اسے سینے سے لگا گۓ۔

وہ ان کے حصار میں سسک کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رمیز صاحب نے اپنا وعدہ واقعی سچ کردیا تھا نہ صرف اسے  زبیر سے آزادی دلوادی تھی بلکہ کالی کے خلاف ثبوت بھی اکٹھا کر لیے تھے۔ ان کے خوفیہ اڈے پر ریڈ ڈال کر ان کے ڈرگز اور ہتھیار جن کی وہ سمگلنگ کرنے والے تھے۔ سب اپنے قبضے میں لے لیا۔ 

کالی پر اب ایک لمبا کیس چل نکلا تھا۔ وہ اسے کڑی سے کڑی سزا دلوانا چاہتے تھے۔ وہ ان کی بیٹی سے زیادہ اس ملک کا دشمن تھا۔ اب ان کی پوری کوشش تھی کہ وہ ان کی گینگ کے دوسرے بندوں کے خلاف بھی ثبوت اکٹھا کریں۔ وہ اپنے ملک کے ہر دشمن کا نام صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتے تھے۔ 

آج وہ بے حد خوشی سے گھر میں داخل ہوۓ تھے ان کے کتنے ہی مہینوں کی محنت رنگ لائی تھی اب کوئی نہ تھا جو اس کی بیٹی کو تنگ کرتا۔ 

"ازوہ! میری جان ۔ کدھر ہو؟" وہ گھر میں داخل ہوتے اونچی آواز میں بولے۔

ازوہ کچن سے نکلتی ہوئی باہر لاؤنج میں آئی۔  باپ کو اتنا خوش دیکھ کر وہ سمجھ گئ ضرور کوئی اچھی خبر ہے۔  اتنے میں سکندر صاحب بھی کمرے سے باہر آچکے تھے۔  

" ازوہ ! میرا بچہ۔  پاپا نے وعدہ کیا تھا نا اس انسان کو کڑی سے کڑی سزا دلواؤں گا۔  اور آج دیکھوں تمہارے پاپا نے اپنا وعدہ سچ کردیا۔  وہ کالی اب جیل میں ہے۔  اب اتنی جلدی اسے کوئی نہیں نکلوا سکتا۔  اب میرے بچے کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ " وہ اسے سینے سے لگاتے ہوۓ بولے۔ 

ازوہ نے من ہی من میں خدا کا ڈھیروں شکر ادا کیا تھا۔ 

وہ پُرسکون سی ان کے حصار میں کھڑی تھی۔ شاید اب اس کی زندگی میں بھی خوشیاں آجائیں۔

" بھئ پھر تو آج دعوت بنتی ہے۔آج میری پوتی کوئی کام نہیں کریں گی آج باہر سے کھانا آرڈر کردو۔  ساتھ میں گڑیا کی پسندیدہ آئس کریم بھی۔  " سکندر صاحب بیٹے اور پوتی کا پُرسکون چہرہ دیکھتے ہوۓ بولے۔

" بالکل بابا ۔ میں یونیفارم چینج کر لوں پھر آرڈر کرتا ہوں۔"  وہ اس کا سر تھپتھپاتے اندر کی طرف بڑھ گۓ۔  

سکندر صاحب ازوہ کو آج خوش دیکھنا چاہتے تھے۔ کالی کے اس دن گھر میں آکر دھمکانے کے بعد اس کی مسکراہٹ کہیں کھو سی گئ تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جانے ازوہ کو کیوں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ کچھ غلط ہونے والا ہے اس کا دل گھبرا سا رہا تھا۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم لاؤنج میں صوفے پر کھوئی کھوئی سی بیٹھی تھی۔ جب رمیز صاحب کے ساتھ علی بھی ان کے ساتھ جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اس کا دل کر رہا تھا وہ انہیں روک لے۔ علی کا معصوم چہرہ اس وقت جگمگا رہا تھا۔ باپ کا ہاتھ پکڑے آج وہ ڈھیر ساری چاکلیٹ اور آئس کریم  خریدنے کا بول چکا تھا۔ 

" پاپا میرا دل گھبرا رہا ہے آپ مت جائیں۔" وہ گھبراہٹ میں ان کے ساتھ لگتی ہوئی بولی۔ 

" کیوں نا جائیں ؟ پاپا ہم ضرور جائیں گے۔" وہ بہن کو گھورتا باپ کو لاڈ سے بولا۔

جانے اس کے دل میں کیا سمائی وہ بے ساختہ اسے خود میں بھینچ چکی تھی۔ پھر اس کے ماتھے پر محبت سے بوسا دیا۔ 

"میرا شہزادہ۔" وہ اس کا معصوم چہرہ دیکھتی ہوئی بولی۔ وہ بھی بہن کی محبت پر نہال ہوگیا۔ 

" آپی ! میں آپ کے لیے بھی ڈھیر ساری چیزیں لاؤں گب۔آپ فکر مت کریں۔" اس کے رخسار پر بہتے آنسوؤں کو صاف کرتا ہوا بولا۔ اس کے ننھے دماغ میں اس کے رونے کی جو وجہ سمجھ آئی وہ بےساختہ زبان پر لاتا ہوا بولا۔ 

" اوکے ۔میں انتظار کروں گی جلدی آنا۔ آپی کا دل نہیں لگتا اپنے افلاطون کے بغیر۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتی پیچھے ہوگئ۔ 

وہ کہا جانتی تھی کچھ انتظار ہمیشہ کے لیے رہ جاتے ہیں۔اس کا یہ انتظار اس کے لیے ناسور بننے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تقریباً رات کا وقت تھا ڈھیر ساری چیزیں لینے کے بعد وہ باپ کے ساتھ خوش خوش گھر آرہا تھا۔ ان سب میں بھی وہ ازوہ کی پسندیدہ آئس کریم لینا نہیں بھولا تھا۔  

پولیس جیپ میں موجود رمیز نے محبت سے علی کے چمکتے چہرے کو دیکھا۔  آج ان کے سر سے جیسے ایک بوجھ سرک گیا تھا۔  کہی نا کہی انہیں لگتا تھا کہ وہ ازوہ کے لیے غلط فیصلہ کرگۓ ہیں۔ انہیں کہاں خبر تھی شریف سا دکھنے والا زبیر ایسا کچھ بھی کرسکتا ہے۔  وہ اپنی سوچوں میں گُم تھے جب انہیں گاڑی ڈس بیلنس ہوتی محسوس ہوئی۔  

جیسے ہی ان کی گاڑی کچھ کم رش والے علاقے میں آئی ۔کالی کے باس کے آدمی جو انہی کا پیچھا کر رہے تھے  ان پر حملہ کرگۓ۔ اس وقت اس کا بوس شدید غصے کی حالت میں تھا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے ان کا کروڑوں کا نقصان ہوچکا تھا۔ وہ غصے میں تلملایا پھر رہا تھا۔ دوسرا کالی ان کا بہت خاص بندہ تھا جس پر اس نے ہاتھ ڈالا تھا۔ اب وہ تبھی پُرسکون ہوتا جب ان کے موت کے پروانے پر دستخط ہوتے۔

رمیز کو پے ساختہ علی کو رات کے اس پہر اپنے ساتھ لانے کافیصلہ غلط لگا۔ انہوں نے بے ساختہ اسے اپنے حصار میں لیا۔ 

لیکن آج ان کی کوئی بھی تدبیر کام نہیں آنے والی تھی۔کالی کے آدمی اپنی گاڑی کو ان کی جیپ کے سامنے کی طرف لاتے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کرچکے تھے۔ رمیز صاحب نے بھرپور جوابی کاروائی کرنے کی کوشش کی۔ مگر کہاں وہ اکیلے ان  لوگوں کا مقابلہ کرسکتے تھے۔ ان کی گولیاں جلد ہی ختم ہوگئ۔ ان کی طرف سے حملہ رکتے ہیں وہ مزید نزدیک آتے ایک ساتھ کئ گولیاں ان پر برساتے چلے گۓ۔ ایک ساتھ کئ گولیاں ان کے سینے میں پیوست ہوئیں۔جو ان کے وجود کو ساکت کر گئ۔ایک گولی علی کے ننھے جسم پر بھی پیوست ہوئی اور وہ بھی موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ 

وہ لوگ دو زندگیوں کا چراغ بجھاتے ہی فتح کے جشن میں وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔ان کے مردہ وجود جانے کتنی دیر یہاں پڑے رہنے والے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 جب سکندر صاحب اور ازوہ کو اس جان لیوا حقیقت کے بارے میں پتہ چلا تو وہ سنبھلنے میں ہی نہ آرہے تھے۔ ازوہ تڑپ تڑپ کر روتی باپ کی میت پر سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سب حقیقت ہے اسے یہ کوئی ڈراؤنا خواب لگ رہا تھا وہ اس سے بیدار ہونا چاہتی تھی۔ مگر یہ تو وہ حقیقت تھی جو اژدھا  کی طرف منہ کھولے اس کے لیے کھڑی تھی۔ 

کبھی باپ کا مسکراتا چہرے اسے بےتحاشا نڈھال کردیتا تو کبھی علی کی معصومیت سے بھرپور شرارتیں یاد آتی تو وہ انگاروں پر لوٹ جاتی۔  وہ یتیم ہوچکی تھی۔  وہ اس وقت جس کرب میں تھی کوئی بھی اس کی نکلیف کا اژالہ نہیں کرسکتا تھا۔  

جانے والوں کو کون روک سکتا ہے مگر ان کے ساتھ جیسے اس کی زندگی بھی رُک گئ تھی۔ اپنے داداجان کے سینے سے لگتی وہ اکثر یہی کہتی تھی داداجان یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ میں ہوں ان سب کی قصور وار۔ یہ وہ زخم تھا جو بھرنے سے بھی نہ بھر رہا تھا۔ 

وہ کہتے ہیں نا کہ جانے والوں کے لیے نہیں رُکا جاسکتا اسے بھی یہ اذیت بھری زندگی جینی تھی اپنے پیارے داداجان کی خاطر۔  زخم تو نہ بھرے تھے مگر رفتہ رفتہ اس  نے خود کو سنبھال لیا تھا۔  زندگی کی گاڑی سستی روی سے رواں دواں تھی۔  اس واقعے کو گزرے چھ مہینے سے زیادہ ہوگۓ تھے۔  جب اسے خبر ملی تھی کہ کالی جیل سے فرار ہوگیا ہے۔  وہ اب اپنا آخری رشتہ کھونے کی متحمل نہیں تھی مگر اپنی عزت بھی جان سے بڑھ کر عزیز تھی۔ اس لیے دل پر پتھر رکھتی اپنے اس آشیانے کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کیا۔ جسے انہوں نے محبت سے سینچا تھا۔ یہاں کی در و  دیوار پر ان کی کئ خوشیاں رقم تھی۔ مگر وہ سب کچھ چھوڑتی سکندر صاحب کو لیتی ایک چھوٹے سے گاؤں میں جابسی۔

داجان نے عرید کو بُھلا کر اسے ازوہ کے ماضی سے آگاہ کیا۔ وہ اس کی شادی والی بات گول کرکے باقی ساری حقیقت بتا گۓ۔ یہ حقیقت انہوں نے گھر پر کسی کو نہیں بتائی تھی۔ وہ ازوہ کو ایک مضبوط پناہ گاہ دینا چاہتے تھے۔ اس کی حفاظت کا انتظام وہ خود بھی کرسکتے تھے۔ مگرانہیں یقین  تھا ان کا پوتا ان سے بہتر اس کی حفاظت کا انتظام کرسکتا تھا۔ 

عرید کو حقیقت جان کر واقعی اس لڑکی سی دلی ہمدردی محسوس ہوئی تھی۔ وہ اس ملک کا محافظ تھا وہ اس لڑکی کے لیے اتنا تو کرسکتا تھا کہ وہ بغیر کسی خوف بغیر کسی ڈر کے اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزار سکے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازوہ کو آج یہاں رہتے ایک ہفتہ ہوچکا تھا سب نے اس کو محبت اور مان دیا تھا۔ اس ایک ہفتے میں وہ زومیرہ سے بھی مل چکی تھی۔ اسے وہ پیاری سی لڑکی بہت اچھی لگی تھی۔ 

یہ صبح کا وقت تھا۔جب وہ اپنے لیے چاۓ بنا کہ لاؤنج میں چلی آئی۔ یہاں سب دوپہر کا کھانا اور ڈنر ایک ساتھ کرتے تھے مگر ناشتے کے لیے تقریباً سب کو آزادی تھی۔ کیونکہ سب کی ٹائمنگ الگ تھی۔ کچن میں  ماہ نور اور ہاجرہ سب کے لیے ناشتہ بنانے میں مصروف تھی۔ کیونکہ ابھی ان کی بے صبری بیٹیاں آکر بھوک بھوک کا شور مچاتی۔ لیکن سب سے پہلے وہ عرید کا ناشتہ تیار کرتی تھی۔ 

عرید پولیس یونیفارم میں ملبوس سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا۔ جب اُسے لاؤنج کے صوفے پر ازوہ بیٹھی نظر آئی۔ جو ہاتھ میں چاۓ کا کپ پکڑے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لیتی کچھ سوچنے میں مصروف تھی۔ کل رات تک تو اسے اس لڑکی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ لیکن اب اس پر ہوۓ ظلم کو جاننے کے بعد اس کی آنکھوں میں ہمدردی کے ساتھ نرمی بھی تھی۔ 

ازوہ جو اپنی سوچوں میں گُم تھی۔ بوٹوں کی بھاری دھمک کی آواز پر چونک کر سامنے دیکھا۔جہاں پولیس یونیفارم میں ملبوس عرید  نیچے آتا ہوا نظر آیا۔ اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اور وہ پیچھے اپنی شادی کی رات والے دن سڑک پر جب تنہا کسی کی مدد کے لیے کھڑی تھی اسی کیفیت میں چلی گئ۔  یہی تو تھا وہ جس نے باحفاظت اسے گھر پر پہنچایا۔ اسی رات اس کا یقین اس وردی پر اور مضبوط ہوگیا تھا۔ اس کے لیے تو وہ اس کا محافظ تھا۔ کیونکہ جس پہر وہ سڑک پر تن تنہا کھڑی کچھ بھی ہوسکتا تھا اس کے ساتھ۔ رات کو یقیناً یہی بندہ تھا کیونکہ باقی گھر والوں سے تقریباً وہ مل چکی تھی۔ رات کو اس کا چہرہ ٹھیک سے دیکھ نہ پائی تھی۔ کیونکہ رات کو جلتی مدھم سی روشنی میں شاید وہ تو اس کے نقوش دیکھ چکا تھا۔جب کہ وہ خود اس جگہ پر کھڑا تھا جہاں لائٹ اس کے چہرے کے نقوش دکھانے میں ناکام رہی تھی۔ 

ازوہ کی آنکھوں میں اس کے لیے عزت تھا احترام تھا۔ کیونکہ وہ مر کر بھی اس کا احسان نہیں بھولنے والی تھی۔ کیونکہ ازوہ آفریدی احسان فراموش نہیں تھی۔ 

عرید چلتا ہوا اس کے نزدیک ٹھہر گیا۔

" مجھے افسوس ہوا تمہارے بارے میں جان کر۔ پر تمہیں یقین دلاتا ہوا تمہیں کسی سے پھی ڈرنے کی ضرورت نہیں۔اب کوئی کالی تو کیا کوئی اور بھی تمہارے نزدیک نہیں بھٹک سکتا۔" وہ اس کے نزدیک ٹھہرتا مضبوط لہجے میں بولا۔

اس کی آنکھوں کہی بھی شناسائی کی چمک نہیں تھی یعنی وہ اسے نہیں پہچان پایا تھا۔ شاید اس وقت اس کا چہرہ ڈھکا ہوا تھا اور اس واقعے کو گزرے ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا تھا۔

ازوہ نے ناسمجھی سے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا کہ وہ کیوں اس کی حفاظت کرے گا۔

" داجان کے لیے تم خاص ہو۔ اور وہی چاہتے ہیں میں تمہاری حفاظت کروں۔ اس لیے میں تمہاری حفاظت کا ذمہ خود پر لے چکا ہوں۔" وہ اس کی آنکھوں میں اُبھرتے سوال کو پڑھ چکا تھا۔ اس لیے وضاحت دینے والے انداز میں بولا۔

" شکریہ ! میں آپ سب کی بے حد مشکور ہوں جو ایک انجان کے لیے اتنا سب کچھ کررہے ہیں۔میں آپ لوگوں کا یہ احسان کبھی نہیں چُکا سکتی۔" وہ پاپا اور بھائی کو یاد کرتے جھلملائی ہوئی آنکھوں سے بولی۔ان کو تو وہ جب جب یاد کرتی تب تب اس کی آنکھوں سے برسات ہونے لگتی تھی۔

عرید نے اس کی بہتی آنکھوں کو افسوس سے دیکھا۔گوری رنگت ، تیکھے نقوش، ہیزل براؤن چمکتی آنکھیں جو اس وقت آنسوؤں سے بھری تھی۔ چھوٹی سی ناک جو رونے سے سُرخ ہورہی تھی۔ وہ لڑکی واقعی ہی بے تحاشا حسین تھی۔ عرید نے پل میں اس پر سے نظریں ہٹائی تھی۔ من ہی من خود کو ڈپٹا۔

اسے سمجھ نہ آئی اب اسے کیا کہے۔ جب اس کی مامانے کچن سے ہی اسے ناشتہ کرنے کے لیے پکارا۔ 

اس نے سیڑھیوں سے اُترتی نشوہ کو دیکھا جو اسے روتا دیکھ کر اس کی طرف ہی آگئ۔ 

" کیا ہوا آپی؟ آپ رو کیوں رہی ہیں؟" وہ تشویش سے اس کا سُرخ چہرہ دیکھ رہی تھی۔ 

"کچھ نہیں ۔ بس پاپا کی یاد آگئ۔" وہ اپنے آنسو پونچھتی زبردستی مسکراتی ہوئی بولی۔ 

عرید نے کچھ دُور سے یہ دھوپ چھاؤں کا منظر دیکھا۔اس کی آنکھوں کو یہ منظر بےحد بھایا تھا۔ پھر مزید وہاں ایک بھی منٹ رُکے بغیر ہٹتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ آج  یونی سے لیٹ ہوچکی تھی وہ تقریباً بھاگتے ہوۓ کلاس میں پہنچنا چاہ رہی تھی۔ اپنی لیٹ اُٹھنے والی عادت پر وہ اکثر نالاں رہتی تھی۔

"یا اللّہ ! بس آج کے دن بچا لیں۔بس اُس منحوس مسٹر بدتمیز کا چہرہ نہ دکھانا۔ جس دن اُس کو دیکھتی ہوں کوئی نا کوئی کام خراب ہوجاتا ہے۔"  تیز تیز قدم اُٹھاتے ساتھ ساتھ اس کا بڑبڑانا بھی جاری تھی۔ احان کا کہنا تھا اس کی زبان قینچی سے بھی تیز چلتی ہے جو اس وقت بھی فراٹے بھر رہی تھی۔

احان جو بدقسمتی سے اس کے پیچھے آرہا تھا اس کی زبان کے جوہر ملاحظہ کر چکا تھا۔ اپنے بارے میں اس کی گوہر افشانیاں سُن کر اسے تپ چڑھی تھی۔ معصوم سی دکھنے والی لڑکی کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ یوں بھی زبان کے جوہر دکھا سکتی ہے۔ 

" شکریہ مس  نان سٹاپ ۔بہت اچھا بول لیتی ہیں آپ ۔ آپ کو تو کہی موٹیویشنل سپیکر ہونا چاہیے تھا۔" وہ اس کے پیچھے سے ہی طنزیہ انداز میں بولا۔

نشوہ کے چلتے قدموں کو بریک لگی۔ بڑی بڑی آنکھیں صدمے سے اور بڑی ہوگئ۔ زبان کو بھی تالا لگ چکا تھا۔ اس نے آنکھیں میچتے دُعا کی کہ یہ اس کا وہم ہو اور پیچھے کوئی نہ ہو۔

جیسے ہی اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا وہ خونخوار نظروں سے اسے ہی گھور رہا تھا۔

" میں نے تمہیں بدتمیز نہیں کہا۔" وہ اسے سامنے دیکھتے غلط بول گئ۔

" بالکل تم نے مجھے صرف بدتمیز نہیں ساتھ میں منحوس بھی کہا ہے۔ اور شاید میری شکل دیکھنے سے تمہارے کام بھی خراب ہوجاتے ہیں۔" وہ اسے دیکھتا یہ ملاحظہ کروا چکا تھا کہ وہ سب سُن چکا ہے۔ 

" میں نے کچھ نہیں کہا  آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ مجھے کلاس سے دیر ہورہی ہے۔" وہ اس کے ماتھے کے بلوں کو دیکھتے بھاگنے والے انداز میں وہاں سے نکلتی چلی گئ۔

" بےوقوف" وہ اس کے یوں ڈر کر یہاں سے بھاگنے کے انداز پر بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

" ماما ! جلدی سے کچھ دے دیں بہت بھوک لگی ہے۔" وہ کالج سے آتے ہی یونیفارم چینج کرتے ہی نیچے آچکی تھی۔ سامنے ہی اپنی ماں کو کچن میں کام کرتا دیکھ لاڈ سے بولی۔

ماہ نور پہلے ہی غصے سے بھری بیٹھی تھی۔ دو دن سے بیٹی کی لاپرواہی اور داماد کی بےشرمی ملاحظہ کر رہی تھی۔ دو دن ہی ہوۓ تھے میڈم کو یزدان سے پڑھتے ۔ وہ پڑھتے پڑھتے سو جاتی تو ان کا بےشرم داماد بڑوں کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر اسے گود میں اُٹھا کر اس کے کمرے تک پہنچاتا تھا۔ آج وہ ان کے ہتھے چڑھ گئ تھی۔  اب اس کی کلاس پکی تھی۔

" ادھر آؤ ذرا۔مجھے یہ بتاؤ رات کو کتنے بجے پڑھ کر فارغ ہوتی ہو۔" وہ اس کا معصوم چہرہ دیکھ کر بولیں۔

" ماما ! یہ تو مجھے یاد ہی نہیں۔مجھے تو روز پڑھتے پڑھتے نیند آجاتی ہے۔" وہ معصومیت سے پُر لہجے میں بولی۔

" ہہمم! تو کمرے میں کیسے پہنچتی ہو۔یہ پتہ ہے کہ یہ بھی نہیں پتہ۔" وہ اس کے خوبصورت نقوش کو دیکھتی طنزیہ بولی۔

" اوہ ! یہ تو میں نے واقعی ہی نوٹ ہی نہیں کیا۔" اس کے لہجے میں ابھی بھی وہی سادگی تھی۔ دو دن ہی تو ہوۓ تھے اس کو یزدان سے پڑھتے۔ وہ نیند کی بےحد کچی تھی اس کو جلدی سونے کی عادت تھی اس لیے پڑھتے پڑھتے کب نیند آجاتی تھی اسے پتہ بھی نہ چلتا تھا۔

ماہ نور کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لے۔

" تمہارا وہ شوہر تمہیں دو دنوں سے بڑوں کی موجودگی کا لحاظ کیے بغیر گود میں جھولا جھولا کر چھوڑ کر آتا ہے۔ اور ایک یہ میری بےوقوف بیٹی جسے زمانے کا بھی ہوش نہیں رہتا۔ اب تمہارا نکاح ہوچکا ہے تھوڑی عقل مندی کا ہی مظاہرہ کردیا کرو۔" وہ اس کے سر پر چپت لگاتی ہوئی بولی۔ 

ماں کی بات پر پل میں اس کا چہرہ گلابی ہوا تھا۔ وہ واقعی ہی بےشرم تھا اس کا نکاح والا انداز یاد آیا تو چہرے کی سُرخی میں مزید اضافہ ہوا۔

ماہ نور نے اس کے چہرے پر بکھرے حسین رنگوں کو دیکھا تو ہمیشہ اس کے خوش رہنے کی دُعا مانگی۔  

" تو آپ یزدان کو کہیے مجھے دوپہر میں پڑھایا کریں۔  رات کو مجھے نیند آجاتی ہے۔ " کچھ پل میں وہ خود کو سنبھال چکی تھی۔ اس لیے ماں کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتی ہوئی بولی۔  

" شاباش!  بچہ آفس کا سارا کام چھوڑ کر تمہیں دوپہر کو پڑھانے آجاۓ مہرانی صاحبہ" وہ اسے لتاڑنے والے انداز میں بولی۔

وہ ماں کے پل میں رنگ بدلنے پر جھنجھلا کر رہ گئ۔ ابھی وہ اسے بےشرم کہہ رہی تھی ابھی وہ اس کی سائیڈ لے رہی تھی۔ اس نے ناراض نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے نکاح کو ایک سال ہونے والا تھا۔ اس ایک سال میں وہ اسے اچھے سے اپنی محبت کا یقین دلا چکا تھا۔ وہ نا صرف اس کی محبت پر یقین کرچکی تھی بلکہ وہ خود بھی اس کی محبت میں جھکڑی جا چکی تھی۔ اس کی محبت میں اس کے لیے مان ، عزت ، فکر اور وفا تھی پھر وہ کیسے نا یقین کرتی۔ 

آج ان کے جاننے والوں میں شادی تھی۔ سب جانے کے لیے تیار کھڑے تھے۔ جب کہ صرف میرو ہی تیار نہ تھی وجہ اس کے کالج میں آج اس کا بہت اہم ٹیسٹ تھا جس سے وہ ابھی کچھ دیر پہلے لوٹی تھی۔ 

” کہاں بھی تھا اس لڑکی کو کہ آج چھٹی کرلے۔ ویسے تو ہمیشہ چھٹی کے لیے تیار رہتی ہے۔ اور ناجانے کونسا ٹیسٹ نکل آیا۔ " ماہ نور اسے ڈانٹتی ہوئی بولی۔  اس کی وجہ سے سب  لیٹ ہو رہے تھے۔  

" ماما ! ٹیسٹ تھا۔ " وہ منمنانے والے انداز میں بولی۔

ان کے ڈانٹنے پر اب وہ روہانسی ہوگئ تھی۔ 

" چچی ! اسے مت ڈانٹیں۔ آپ لوگ جاۓ میرو کو میں لے آؤں گا۔" وہ اس کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ فوراً ماہ نور سے بولا۔ 

" ہاں بھئ تم سہی بگاڑ رہے ہو اسے۔ پہلے کم لاپرواہ تھی جو تم اب اسے اور بچی بناتے جاؤ۔" وہ میرو کو گھورتی ہوئی وہاں چلی گئ۔ 

" شکریہ ماما کی ڈانٹ سے بچانے کے لیے۔ " وہ ماہ نور کے جاتے ہی چہکتی ہوئی بولی۔  

" جاؤ جلدی سے تیار ہوجاؤ۔  نہیں تو اس بار چچی کی ڈانٹ سے میں بھی بچا نہیں پاؤں گا۔" وہ اس کی کنپٹی چومتا اس کو جانے کا اشارہ کرچکا تھا۔ 

سارے گھر والے جا چکے تھے جب وہ لاؤنج میں بیٹھا موبائل استعمال کررہا تھا۔   جبکہ میرو اپنے کمرے میں تیار ہورہی تھی۔ 

میرو ابھی نہا کر سمپل سا گلابی فراک پہتی باہر نکلی تھی۔ اس نے جلدی سے بال خشک کیے۔ ٹائم کافی ہوچکا تھا۔ اسے ایک بار پھر ماہ نور کے خطرناک تیور یاد آۓ۔ 

اس نے پریشانی میں باہر کی جانب قدم بڑھاۓ جہاں وہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا موبائل استعمال کررہا تھا۔ 

وہ گرے پینٹ کوٹ میں شادی کے مطابق تیار ہوا بےتحاشا ہینڈسم لگ رہا تھا۔میرو نے اوپر ریلنگ سے ہی اس کی تیاری کوملاحظہ کیا اور دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔

اسے دیکھتے ہی اس کے چہرے پر پُرسکون سی مسکراہٹ اُبھری۔پھر اسے دیکھتی شرارت سے گویا ہوئی۔ 

" آفندی صاحب ! ذرا اوپر آئیے گا ۔ ملکہ عالیہ کو آپ کی مدد کی ضرورت ہے۔ " 

اس کی شرارتی آواز پر یزدان نے حیرت سے اوپر کی طرف دیکھا۔ جب وہ محض اس کی پُشت دیکھ سکا۔ وہ پلٹتی ہوئی کمرے کی طرف چلی گئ۔ اس کے آفندی صاحب کہنے پر یزدان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ اُبھری۔اس نے موبائل جیب میں رکھا اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھاۓ۔

"میرے بال بنادیں پلیز۔" جب اس نے کمرے میں قدم رکھا وہ پلٹے بغیر بولی۔

" مجھے میرے بال بالکل بھی نہیں پسند کرلی بھی ہیں اور اتنے لمبے بھی ماما کٹوانے بھی نہیں دیتی۔"وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔ اسے اپنے کرلی بال بالکل بھی پسند نہیں تھے جو حد سے زیادہ بھاری تھے۔

"کٹوانے تو میں بھی نہیں دوں گا جانم۔" وہ اس کے بالوں بناتے ہوۓ بولا۔

اتنے میں اس نے ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنی۔تب تک وہ بھی اس کے بال سے ساری الجھنیں سلجھا چکا تھا۔

" لو ہوگیا۔" وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔اس نے نرم مسکراہٹ اس کی طرف اُچھالی۔ جواباً وہ بھی دھیما سا مسکرائی تھی۔  

اس نے اپنی دوست کو یزدان اور اپنے نکاح کے بارے میں بتایا تھا۔ اور یہ بھی کہ وہ اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ اس کی دوست کا کہنا تھا کہ مرد سچی محبت نہیں کرسکتا۔یہ محبت وحبت چار دن کا مشغلہ ہوتا ہے ان کے لیے۔ اس کی بات اسے بالکل بھی اچھی نہیں لگی تھی کیونکہ اس کا یزدان بالکل بھی ایسا نہیں تھا۔ لیکن جانے کیوں وہ پھر بھی چاہتی تھی کہ یزدان کی توجہ اس پر سے کبھی نہ ہٹے۔

اس نے بالوں کو لپیٹ کر جوڑا سا بنایا تھا۔ پھر اس کی طرف مڑی۔لاپرواہ سی دو لٹیں چہرے پر جھول رہی تھیں۔

" میں کیسی لگ رہی ہوں؟ " وہ اس کی طرف مُڑتی ہوئی مسکراتی ہوئی بولی۔

یزدان نے اس پر بھرپور نظر ڈالی۔ جو ہلکے گلابی رنگ کے پیروں کو چھوتے فراک میں کوئی مومی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ گوری رنگت میں کیا گیا ہلکا سے میک اپ اس کے روپ کو دو آتشہ کرگیا۔

یزدان جیسے طلسمی جادو کے زیر اثر آیا۔ جو بستر پر بیٹھا اس کی تیاری مکمل ہونے کا انتظار کررہا تھا۔ قدم قدم چلتا اس کے قریب آیا۔ 

" بیوٹیفل " وہ اس کے قریب آتا زیرِ لب بڑبڑایا۔وہ اس کے مزید نزدیک ہوتا اس کے گرد اپنا حصار قائم کرچکا تھا۔ 

" مجھے تو پتہ ہی تھا کہ میں پیاری لگ رہی ہوں۔" وہ چھوٹی سی ناک چڑھائی اترا کر بولی۔ اس کے لہجے میں مان تھا جیسے وہ اسے ہر حال میں اچھی ہی لگ سکتی ہے۔

اس کے ناک چڑھانے پر یزدان کے دل نے ایک بیٹ مس کی۔اس لگا کہی اس کی ہی نظر نہ لگ جاۓ اس نے فوراً اپنے چہرے کا رُخ موڑا۔ 

اس کا رُخ موڑنا اسے ذرا پسند نہیں آیا تھا۔جانے اس کے چہرے کو یوں منہ موڑنے کا کیا مطلب اخذ کرگئ۔

" جب ہم آپ کے سامنے ہو۔ تو آپ کو چہرہ پھیرنے کی اجازت نہیں۔" وہ اس کا چہرہ اپنی طرف موڑتی حکم دینے والے انداز میں بولی۔

" جو حکم ملکہ عالیہ۔" وہ سر کو خم دینے والے انداز میں بولا۔ یزدان کو اس کا یہ انداز بےتحاشا اچھا لگا۔

میرو کو اب اپنی پوزیشن کا اندازہ ہوا جو اس کے حصار میں اس کے بےحد نزدیک کھڑی تھی۔ اس کی گرم سانسوں کی تپش اس کے چہرے پر پڑتی اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرگئ۔ اس کا چہرہ پل میں سُرخ ہوا۔ 

"چھوڑیں یزدان ! دیر ہوجائے گی۔ مجھے حجاب بھی لینا ہے۔" وہ اس کی انتہا کی قربت پر منمنانے والے انداز میں بولی۔ 

جس کا اس پر اُلٹا ہی اثر ہوا تھا وہ اسے مزید قریب کرگیا۔ چہرے پر جھولتی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسا۔ 

"جانم۔" وہ اس کے کان کے نزدیک ہونٹ لاتا کان کی لو کو چومتا ہوا بولا۔ایک ہاتھ سے اس کے جوڑے میں باندھے گۓ بال کھول چکا تھا۔

وہ اس کے حصار میں لرز کر رہ گئ۔ 

پھر اپنے ہونٹ اس کے رخسار پر لاتا نرمی سے انہیں چھوگیا۔دل تھا جو اس کے نقوش میں الجھتا جارہا تھا۔ دل نے اس کو چھونے کی دہائی دی۔دل کی پکار پر وہ اس کے ایک ایک نقوش کو ہونٹوں سے متعبر کرتاچلا گیا ۔

میرو کو اپنے ہونٹوں پر اس کی سانسوں کی تپش محسوس ہوئی۔ وہ سختی سے آنکھیں میچ گئ۔اس کے آنکھیں میچنے پر وہ اس کی سانسوں کو دسترس میں لے گیا۔کیسی بے خودی چھائی تھی وہ خود سمجھ نہیں پارہا تھا۔

میرو اس کے حصار میں کپکپا کر رہ گئ۔ یزدان اپنی کیفیت پر قابو پاتا پیچھے ہٹا۔

" جلدی سے آجاؤ۔میں گاڑی نکال رہا ہوں۔"ایک دفعہ پھر اس کے ماتھے کو چومتا کمرے سے نکلتا نیچے کی طرف بڑھ گیا۔ 

اس کے جاتے ہیں میرو نے دل پر ہاتھ رکھا جو سو کی سپیڈ سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے اپنے گلابی چہرے پر ہاتھ پھیرتے خود کو قابو کیا۔ کپکپاتے ہاتھوں سے دوبارہ بال باندھے انہیں جوڑے کی شکل میں لپیٹ کر خوبصورتی سے حجاب کیا۔ پھر دھڑکتے دل سے نیچے کی طرف بڑھ گئ۔

اس نے داجان کے کمرے کے باہر کھڑے ہوکر دروازہ کھٹکھٹایا۔  ابھی کچھ دیر پہلے اسے پیغام ملا تھا کہ داجان اسے کمرے میں بلا رہے ہیں۔ 

” آجاؤ ازوہ بچے " داجان نے اسے دروازے میں ہی کھڑا دیکھ کر اندر آنے کی اجازت دی۔ 

"داجان ! آپ نے بلایا۔کوئی کام تھا۔" وہ اندر آتے ہوۓ دھیمے انداز میں بولی۔ 

"ہہمم! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی۔ ہم نہیں چاہتے آپ یوں گھر میں قید رہو۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں آپ اپنی سٹڈیز پھر سے شروع کردیں۔" وہ اس کی طرف پُرسوچ نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولے۔ 

" نہیں داجان ! میں گھر سے باہر نہیں جانا چاہتی ۔ میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ اب میں اپنی زندگی اور مشکلات نہیں چاہتی۔ " اس میں واقعی اب اتنی ہمت نہیں تھی کوئی بھی نقصان اُٹھا پاتی۔ 

" بچے  آپ کو یہ سب سوچنے کی ضرورت نہیں.اب آپ کی حفاظت ہماری زمہ داری ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی کُھل کر گزارو گی تو ہمیں لگے گا کہ سکندر سے کیا وعدہ پورا ہوگیا۔ اب ہم کچھ نہیں سُنیں گے ۔ ہم عرید کو کہتے ہیں وہ میرو کی یونیورسٹی میں آپ کا ایڈمیشن کروا دیں۔" وہ دو ٹوک انداز میں بولے۔

خواہش تو اس کی بھی تھی آگے پڑھنے کی اس لیے محض سر ہلا کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ چار دنوں بعد یونیورسٹی جانے کے لیے تیار کھڑی تھی۔چار دنوں سے وہ اتنی پریشان تھی کہ کچھ سوچ ہی نہ پائی پھر ساری سوچوں کو جھٹک کر تیار کھڑی تھی۔  جب اُس انسان کو اس کی پرواہ نہیں تھی  پھر وہ کیوں اس کے لیے آنسو بہاتی۔  اب اس نے سوچ لیا تھا وہ اس انسان کے لیے ایک بھی آنسو نہیں بہاۓ گی۔بیگ کندھوں پر ڈال کر وہ کمرے سے باہر   نکلی۔ جب پہلی نظر ہی اس کی سیڑھیوں سے اُوپر آتے یزدان پر پڑھی۔ وہ بھی اسے دیکھ چکا تھا۔ 

دو دنوں سے وہ جو کرنے کا سوچ رہا تھا سامنے کھڑے معصوم چہرے کو دیکھ اسے اپنے سارے ارادے بھربھری ریت کی مانند ڈھتے ہوۓ محسوس ہوۓ۔ 

کیا وہ اس کے ساتھ بے وفائی کا مرتکب ہو سکے گا؟

وہ تو اس کی زندگی تھی جسے اس نے خود ہی خود سے دُور کیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان یہ فاصلے میلوں پر محیط تھے جو شاید ختم کرنے سے بھی ختم نہیں ہوسکتے تھے۔

میرو کا سکتہ ٹوٹا۔ وہ اپنی حواسوں میں آتے اس کے قریب سے گزرتی نیچے چلی گئ۔ اور وہ وہی کھڑا رہ گیا۔ اس کی نگاہیں ابھی بھی اُس جگہ جمی تھی جہاں سے وہ پلٹ کر گئ تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

وہ بےچینی سے کب سے یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی ۔ بار بار نظر گھڑی کی سوئیوں کی طرف جارہی تھی۔ جہاں دس بجنے میں ابھی بھی پانچ منٹ تھے۔  دس بجے اس کا رزلٹ آنے والا تھا۔  اس کے پیپرز بہت اچھے ہوۓ تھے۔  اسے اُمید تھی کہ رزلٹ بھی بہت اچھا آۓ گا۔  سوئیوں نے جیسے ہی دس کا ہندسہ عبور کیا وہ فوراً ہی موبائل لیکر بیٹھ گئ تاکہ اپنا رزلٹ چیک کرسکے۔  اس نے یزدان کو بالکل بھی نہیں بتایا تھا کہ 

آج اُس کا رزلٹ آنے والا ہے۔  اسے یقین تھا اس کا اے پلس گریڈ تو آہی جاۓ گا۔ پھر وہ خوشی خوشی یزدان کو اپنا رزلٹ بتاۓ گی۔

کچھ دیر بعد اس کی خوشی سے بھرپور چیخ نکلی۔ اس کا رزلٹ اس کی سوچ سے بھی اچھا آیا تھا۔ وہ فوراً بھاگتی ہوئی یزدان کے کمرے کے باہر پہنچی کیونکہ سب سے پہلا حق اسی کا بنتا تھا جس نے اسے اتنی محنت سے پڑھایا تھا۔ 

اس نے دھڑکتے دل سے کمرے کا دروازہ کھولا۔ وہ سامنے ہی کھڑا تھا۔ جو شاید ابھی نہا کر نکلا تھا۔ جو اس وقت پینٹ کے ساتھ بنیان میں ملبوس تھا۔ اس کی شرٹ بیڈ پر پڑی تھی۔ اپنی خوشی میں اس کا حلیہ بھی نہ نوٹ کر پائی۔ اور فوراً بھاگتی ہوئی اس کے سینے سے لگی۔

 وہ اپنی جگہ سٹل کھڑا رہ گیا۔ جو یہاں اس کی موجودگی پر حیران تھا جو اس دن کے واقعے کے بعد پچھلے کچھ دنوں سے اس سے کترائی کترائی پھر رہی تھی۔ آج خود ہی اس کے کمرے اس کی پناہوں میں آگئ تھی۔اس نے مسکرا کر اس کے گرد حصار باندھا تھا۔

" یزدان! میرا رزلٹ آگیا۔ اور آپ کو پتہ ہے میرا اے پلس گریڈ آیا ہے۔ جتنا میں نے سوچا تھا۔ اس سے بھی اچھا رزلٹ آیا ہے۔" وہ اس کے سینے سے لگی خوشی خوشی بولی۔

" یہ دیکھیے۔" وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاتے موبائل اس کے سامنے لہراتی ہوئی بولی۔

یزدان نے ایک نظر موبائل پر ڈالی جہاں اس کا شاندار سا رزلٹ جگمگا رہا تھا۔ 

" مبارک ہو میری جان" وہ اس کی کنپٹی پر لب رکھتا ہوا بولا۔ 

"چلو اب میری ٹیوشن کی فیس دو۔ دیکھو کتنا اچھا پڑھایا ہے میں نے۔" وہ اپنی مسکراہٹ کا گھلا گھونٹتا سریس انداز میں بولا۔

" آپ مجھ سے فیس لینگے۔" وہ خفی سی اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

" بالکل تم بیوی ہو تو کیا اس کا مطلب فیس معاف کردوں۔" وہ اس کی آنکھوں میں پھیلتی خماری کو نہ دیکھ سکی۔ 

" ہہمم! آپ ایسا کریں جتنی بھی آپ کی فیس ہے وہ جمع کرلیں۔ جب میری شادی ہوگی اپنے شوہر سے لیکر دے دوں گی۔" وہ کونسا کم تھی فوراً دوبدو انداز میں بولی۔

وہ اس کی چالاکی پر عش عش کر اُٹھا۔ 

" نہ! اتنا انتظار کون کریں گا۔" وہ فوراً سر کو نفی میں ہلا کر بولا۔

میرو نے سر اُٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں محبت کا ایک جہاں آباد تھا۔  اس نے ہچکچا کر پیچھے ہونا چاہا۔  جو کہ اب ناممکن ہی تھا۔  

"تمہاری یہ ہری آنکھیں جادو کرتی ہیں مجھ پر۔ " وہ اس کی آنکھوں کو چوم کر بولا۔ 

وہ حصار میں کھڑی اپنی زندگی کو اپنے پاس محسوس کرکے بے خود سا ہورہا تھا۔  

میرو کو اپنی پوزیشن کا اچھے سے اندازہ ہوچکا تھا۔  یزدان کا ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد مضبوطی سے لپٹا تھا۔  وہ اس کے اس قدر نزدیک تھی کہ اس کی سانسوں کی تپش اس کے چہرے پر پڑھتی اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھی۔ دل علیحدہ دھڑک دھڑک کے پاگل ہورہا تھا۔ 

میرو کا ایک ہاتھ اس کے دل کے مقام پر تھا۔جس کی ہر ایک دھڑکن پر اسے اپنا نام سنائی دے رہا تھا۔

یزدان نے اس کی آنکھوں کے بعد اس کی ناک پر ہونٹ رکھے تھے۔ میرو نے اس کے بےباک لمس پر آنکھیں بند کی۔ اس کے ہاتھوں میں واضح لرزش تھی۔ وہ اس کے کانپتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیکر ہونٹوں سے لگا گیا۔ 

" یز۔۔۔" اس کے الفاظ منہ میں ہی رہ گۓ جب وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ چکا تھا۔

" شش! کچھ مت بولو۔ میری محبت کو محسوس کرو۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کتنی محبت کرتا ہوں تم سے۔" وہ اس کے کان میں مسلسل بولتا میٹھی سی سرگوشیاں کررہا تھا۔ اس کے ہونٹ مسلسل اس کی کان کی لو کو چھو رہے تھے۔ وہ مرنے والی ہوگئ۔ 

 اس کی کان کی لو کو چھو کر اسنے نرمی سے اپنے ہونٹ اس کے کندھے پر رکھے۔ میرو نے کپکپاتے ہاتھوں سے دور کرنا چاہا ۔جب وہ اس کے دونوں بازو تھام کر اپنی گردن میں ڈال گیا۔ اس کی کمر کو جکڑ کے خود سے اور نزدیک کیا۔ اس کی اتنی بے باکیوں پر میرو کا چہرہ بھاپ چھوڑنے لگا۔ 

" چھو۔۔۔ڑ۔۔یں۔" وہ کپکپاتی  آواز میں بولی۔ مگر وہ اس کی سُن کہا رہا تھا۔ وہ تو اپنی ہی دنیا میں مگن  اس کے ہوش ٹھکانے لگا رہا تھا۔

یزدان نے اس کی کپکپاتی ٹھوڑی پر اپنا بےباک لمس چھوڑا تھا۔ 

میرو کی بس ہوئی تھی اس نے دھکا لگا کر اسے خود سے دُور کیا ۔ جو اس کی گرفت ڈھیلی ہونے کی  وجہ سے ذرا سا پیچھے ہوا۔ مگر اسے چھوڑا نہ تھا۔  اس کے بھاگنے کی چاہ میں بھی اس کی کلائی اس کے ہاتھ میں آچکی تھی۔  

" جانا مت۔  میں ابھی آیا۔ " وہ اس کے کہنے پر وہی کھڑی رہ گئ۔  میرو اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھ کر اس کے شور کو کم کرنا چاہا۔  

یزدان الماری کی طرف بڑھا اس میں سے ایک مخملی کیس نکال کر اس کی طرف آیا۔ اندر سے ایک خوبصورت سا ہارٹ شیپ لاکٹ نکال کر کیس بیڈ پر اچھال دیا۔ 

ایک دفعہ پھر اس کے نزدیک آکھڑا ہوا تھا۔ اس کے بال پیچھے سے ہٹا کر اس کے کندھے پر ڈالے اور وہ خوبصورت سا لاکٹ اس کے گلے کی زینت بنایا۔پھر اس کے گردن کے پچھلے حصے پر اپنے لب رکھے۔ 

اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا۔

" کیسا لگا تحفہ تمہارے اچھے رزلٹ کی خوشی میں۔" اور اسے یہ اچھے سے باور کروایا کہ وہ اتنا بھی انجان نہیں تھا۔ اسے اچھے سے پتہ تھا کہ آج اس کا رزلٹ آنے والا ہے۔ یہ لاکٹ تو اس نے کب سے اس کے لیے بنا کر رکھ لیا تھا اسے پورا یقین تھا اپنی میرو پر کہ وہ بہت اچھی کارگردگی دکھاۓ گی۔ 

"اپنی جانم کی کسی بات سے میں لاپرواہ ہوسکتا ہوں۔" وہ اس کا رُخ اپنی طرف کرتا ہوا بولا۔

اس سے پہلے کے وہ مزید جسارت کرتا وہ دروازے کی جانب بھاگی۔ 

" میرو! میں نے تمہیں تحفہ دیا ہے ۔ اب تم بھی مجھے تحفہ دو۔ ابھی تو میں نے صرف فیس لی ہے۔ اب تم اپنے رزلٹ کی خوشی میں تحفہ دو۔" وہ اسے دروازے کی طرف بھاگتا دیکھ کر بولا۔

" مٹھائی بجھوا رہی ہوں ۔ اچھے سے کھائیے گا۔ منہ بھی میٹھا ہوجاۓ گا۔ " وہ اسے دیکھے بغیر جھپاک سے دروازے سے باہر نکل گئ۔ 

وہ اس کے جاتے ہی دلکشی سی مسکرایا۔

تیرے عشق کی ہے جستجو

تیری کربتوں کا سوال ہے

میری سانس ہے جو رواں رواں

تیری چاہتوں کا کمال ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال

"پاگل مت بنو یزدان۔ تم ان سب میں میرو کو مت گھسیٹو۔وہ بہت معصوم ہے۔ یہ نہ ہو بعد میں پچھتاتے رہو۔" نیہا نے اس اڑیل کو سمجھانا چاہا جو مسلسل ایک ہی گردان کررہا تھا۔

" تم میرے درد کو کبھی سمجھ نہیں سکو گی۔ " وہ بےتاثر نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

" میں سمجھ رہی ہوں تمہاری کنڈیشن۔پر تم نہیں سمجھنا چاہ رہے۔ کیا تم میرو کو دُکھ پہنچا کر خوش رہ سکو گے۔" وہ سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑھتی ہوئی بولی۔

اس کے دل نے دہائی دی کہ وہ نہیں رہ سکتا میرو کے بنا مگر اس نے دل کی سرگوشیوں پر کان  لپیٹ لیے۔ 

" ہاں رہ لوں گا۔ایک بار اُن سب کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔میری ماں کی تکلیف میں نہیں بھولا نہ ہی کسی کو بھولنے دوں گا۔" وہ آنکھوں میں سُرخی لیے بولا۔

نیہا جو اس کی اچھی دوست تھی اسے  اس کے ارادوں سے اسے باز رکھنا چاہ رہی تھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ میرو کو دُکھ دے کر وہ خود بھی تکلیف میں مبتلا رہے۔

" آخری بار سوچ لو ۔ یہ نہ ہو بعد میں تمہیں پچھتانے کا بھی وقت نہ ملے۔" اس نے اپنی آخری سی کوشش کی۔ مگر وہ تو کان لپیٹ کر بیٹھا تھا ۔ نیہا نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس نے اپنی پوری کوشش کی تھی مگر وہ کچھ سمجھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم  احان اور اپنے گروپ کے ساتھ بیٹھا تھا جب وہ اسے دُور سے ہی اپنی دوست کے ساتھ آتی دکھائی دی۔ جو سر پر سوٹ کے ہم رنگ حجاب باندھے۔ ڈوپٹہ ایک سائیڈ پر ٹکاۓ اسے اپنی اپنی سی لگی۔

پہلے دن سے ہی وہ لڑکی اسے مسلسل اپنی طرف اٹریکٹ کررہی تھی۔ وہ بُری طرح دل کے ہاتھوں بےبس ہوا تھا۔ 

اس کی سُرمئ آنکھوں میں اس کا دل بُری طرح ڈوبا تھا۔ 

احان نے اس کی محویت نوٹ کرکے اس کی نظروں کا زاویہ دیکھا تو پہلی نظر اس کی نشوہ پر ٹھہری۔ مگر وہ اُس کو نہیں ماہا کو دیکھ رہا تھا۔

 جو بُری طرح اس کی طرف متوجہ تھا جو اس کی باتوں کا بھی کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔

" اچھی لڑکی  ہے ۔ اور معصوم بھی اگر تو اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے تو بالکل پرفیکٹ ہے لیکن اگر تو ٹائم پاس کرنا چاہتا ہے تو وہ حد سے زیادہ معصوم ہے۔ اس لیے تجھے ایسا میں کرنے نہیں دوں گا۔" وہ اس کی محویت نوٹ کرتا اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

وہ چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

" ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تو سوچ رہا ہے۔ میں اُسے نہیں دیکھ رہا تھا۔" وہ خود کو  لاپرواہ ظاہر کرتااِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔

"ایسا ہی ہو تو اچھا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا تو یہ روگ پالے۔" وہ جواباً بولا۔

صارم محض نظریں چُرا کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ یونی سے واپس گھر جارہی تھی ۔ آنکھوں وہی ہمیشہ والی اداسی تھی۔ چہرے حد سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ 

"گاڑی روکے کاکا۔" وہ ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا کہتی پوری طرح بائیں طرف رُخ موڑ کر بیٹھ گئ۔ 

اسے اس شخص پر یزدان کا گمان ہوا تھا اس لیے اس نے گاڑی رکوائی تھی۔ 

جب اس کی نظر سڑک کے بائیں طرف پڑھی۔ اس شخص کی ایک سائیڈ نظر آرہی تھی۔ مگر اسے تو وہ آنکھیں بند کرکے بھی پہچان سکتی تھی۔ وہ یزدان تھا مگر اس کے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھ کر اس کا دل زوروں سے دھڑکا۔ وہ سامنے ہوٹل سے نکلتے باتیں کرتے باہر کی طرف آرہے تھے اب اس کا چہرہ مکمل طور پر اس کے سامنے تھا۔  یزدان نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ مگر وہ اسے دیکھ کر مکمل ساکت ہوگئ تھی۔ 

اب وہ لڑکی اس کی کار کا فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھ چکی تھی مگر اس کی آنکھوں میں دھند چھانے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ماضی کا ایک منظر پوری شدت سے لہرایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

ان دنوں وردہ ان کے گھر پر موجود تھی۔ وردہ کے ہی اصرار پر وہ انہیں باہر لیکر جارہا تھا۔ وہ تو اکیلی اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی مگر وہ میرو کو بھی ساتھ شامل کرچکا تھا۔ جس سے اس کا خوشگوار موڈ بُری طرح غارت ہوا تھا۔ 

وردہ کو وہ لڑکی زہر سے بھی بُھری لگی۔ جو یزدان کی زندگی میں اس قدر اہمیت کی حامل تھی۔ 

مگر وہ مصنوعی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر ان کے ساتھ باہر کی طرف بڑھی۔ 

وردہ گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول کر کھڑی تھی۔ اس کا ارادہ آگے بیٹھنے کا تھا۔ 

جب میرو اسے فرنٹ ڈور کھولتے دیکھ کر دو قدموں کے فاصلے پر رُک گئ۔ 

یزدان اس کو رُکتے دیکھ کر اس کے طرف متوجہ ہوا۔ 

" میرو ! وہاں کیوں کھڑی ہو۔ آجاؤ میری جان۔" وہ اسے کچھ قدم دُور ٹہرے دیکھ کر بولا۔

میرو نے نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ جیسے وہ اس کی آنکھوں میں موجود ہر بات پڑھ چکا تھا۔  

" وردہ ! تم پیچھے بیٹھ جاؤ ۔ یہاں میری پرنسس بیٹھے گی۔ " وہ اس کی طرف قدم اُٹھاتا ہوا بولا۔  

" پر مجھے آگے بیٹھنا ہے یزدان۔ اسے کہو کے پیچھے بیٹھ جاۓ۔ " وہ بےتحاشا اشتعال کے باوجود غصہ دبا کر بولی۔  

" نہیں میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کا حق صرف میری میرو کو ہے۔ " وہ اس کے گرد باہوں کا حصار بناتا اس کے لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے اسے بٹھا چکا تھا۔  

میرو نے جگمگاتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔اس کے اتنے مان پر وہ کھلکھلا اُٹھی تھی۔ 

وردہ نے یہ منظر حسد بھری نظروں سے دیکھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال

وہ بغیر کسی بھی طرف دیکھے فوراً کمرے میں آئی تھی۔ بار بار آنکھوں میں وہی منظر لہرا رہا تھا۔آنکھوں میں مرچی سی بھرنے لگی۔

"نہیں یزدان جو بھی کرلیں مگر میرے ساتھ بےوفائی نہیں کرسکتے۔ہوسکتا ہے وہ کوئی دوست ہو۔" اس نے بہتے آنسو پونچھ کر خود کو تسلی دی۔ مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ایک دفعہ پھر آنسوؤں کی لکیر پھر سے رخساروں پر پھیلنے لگی۔

اس نے گہرے گہرے سانس لیکر خود کو مطمئن کرنا چاہا۔ مگر دل تھا جو قابو ہی نہیں آرہا تھا۔ وہ سب کچھ برداشت کرسکتی تھی مگر شراکت ہر گز نہیں۔

"میں آپ کو ایسا کبھی نہیں کرنے دوں گی۔ اگر آپ نے کبھی ایسا کرنے کا سوچا بھی تو آپ کی میرو مر جاۓ گی۔" وہ ہذیانی انداز میں روتی ہوئی بولی۔ وہ جو کچھ دیر پہلے خود سے عہد کرچکی تھی کہ وہ اُس انسان کے لیے ایک آنسو بھی نہیں بہاۓ گی۔ اب اسی کے لیے بے تحاشا رو رہی تھی۔ 

دل بار بار کہہ رہا تھا کہ اس کے کمرے میں جاۓ اور اس سے جواب طلب کرے۔  مگر دماغ بار بار عزت ونفس کی دہائی دے رہا تھا۔  وہ وہی زمین پر بیٹھتی چہرہ گھٹنوں پر ٹکاتی شدتوں سے رونے لگی۔

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ آج دوسری دفعہ اس کی گاڑی میں اس کے ساتھ موجود تھی۔ پہلی دفعہ تو شاید وہ جانتا تک نہیں تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھا وجود ہے کون۔ 

وہ گہرا سانس بھر کر رہ گئ۔ کیا تھی اس کی زندگی اور کیا بن کر رہ گئ۔ صرف اس وجود کی وجہ سے جو کہنے کو اس کا شوہر تھا۔ جس کی بزدلی کے وجہ سے وہ سب اپنوں کو کھو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے کناروں میں ہلکی سی نمی چمکی۔

کاش ! وہ واپس جاکر اُس پل کو مٹا سکتی جب وہ زبیر شجاعت کی زندگی میں شامل ہوئی تھی۔ اسے  شدت سے اُس انسان سے نفرت محسوس ہوئی۔ جو اسے ذرا سی تحفظ بھری چھت نہ دے سکا۔ 

اس پل اسے یہ غیر لوگ اُس سے سو گُنا اچھے لگے جو نہ صرف اسے تحفظ بھری چھت دے رہے تھے بلکہ اس کی خواہشات کا بھی احترام کررہے تھے۔ اس پل وہ ایک نامحرم کے ساتھ تنہا تھی مگر اسے اس کی عزت کا ذرا خوف نہیں تھا۔ کیونکہ ساتھ بیٹھا وجود محافظ تھا لُٹیرا نہیں۔

شاید یہ تربیت کا بھی اثر تھا کہ وہ ہر لڑکی کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ اس پل اسے ہاجرہ بیگم یاد آئی۔ اُسے واقعی ہی وہ ایک ملکہ لگی جس نے اس کی اتنی اچھی تربیت کی تھی۔ وہ ایک فرمانبردار بیٹا ہونے کے ساتھ ایک فرمانبردار پوتا بھی تھا۔

اس کے حساب سے مرد کی سب سے اچھی چیز تھی کہ اُسے عورت کی عزت کرنی آنی چاہیے۔ اس مرد سے جڑی عورت کبھی اُسے خوف محسوس نہ کریں۔

وہ اس کو جتنا جان پائی تھی اُس سے اس نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا۔ 

ابھی تک تو وہ اس کی صرف اچھائیاں دیکھ پائی تھی۔ ہر انسان مکمل نہیں ہوتا۔ اگر انسان میں خوبیاُ ہوتی ہیں تو کہی نہ کہی خامی بھی موجود ہوتی ہے۔ 

وہ ساری سوچوں کو جھٹکتی سیدھی ہو بیٹھی۔  آج وہ داجان کے کہنے پر اپنی مصروف روٹین سے وقت نکال کر اس کا ایڈمیشن یونی میں کروانے آیا تھا۔  میرو صُبح یونی کے لیے نکل چکی تھی۔ وہ اُس سے کچھ دیر بعد نکلے تھے۔  

ویسے تو یونی میں داخلے بند ہوچکے تھے۔ مگر اب ناجانے کیسے وہ اس کا یونی میں داخلہ کروانے آیا تھا۔ 

" أجاؤ۔ یونی آچکی ہیں۔ " وہ اسے سوچوں میں ڈوبا دیکھ گاڑی یونورسٹی کے باہر روکتا ہوا بولا۔ 

ازوہ اثبات میں سرہلا کر باہر نکل أئی۔

وہ أگے چلتا اسے پیچھے آنے کا اشارہ کرچکا تھا۔ وہ اسے لیکر پرنسپل آفس کی طرف بڑھا۔

پرنسپل نے پُرجوش طریقے سے اس کا خیر مقدم کیا۔ وہ بھی اُن سے نہایت عقیدت سے ملا۔

"کیسے ہیں سر۔" وہ کرسی سنبھالتا اسے بھی بیٹھنے کا اشارہ کر گیا۔ 

" میں ٹھیک ہوں تم سناؤں کیسی جارہی ہے نوکری ینگ مین۔ " وہ جواباً دھیما سا مسکرا کر بولے۔ 

" اچھی جارہی ہے۔ ایکچولی۔  یہ میری کزن ہے۔  کچھ وجوہات کی بنا پر اس کا ٹائم پر داخلہ نہیں ہوسکا۔  بس اس لیے میں یہاں موجود ہوں انہی کے داخلے کی وجہ سے۔" جو اسے ٹھیک لگا وہ آسان لفظوں میں انہیں کہہ گیا۔ 

" تم فکر مت کرو۔  ان کا داخلہ پکا سمجھو ۔ یہ ایڈمیشن فارم ہے اسے فل کردو۔" وہ مسکراتے ہوۓ ایڈمیشن فارم اس کی طرف بڑھاتے ہوۓ بولے۔ 

" شکریہ سر۔  یہ کب سے جوائن کر سکتی ہیں۔” وہ ایک نظر ازوہ پر ڈالتا وہ فارم پکڑ چکا تھا۔ 

" کل سے ہی۔ جیسا کہ تم۔جانتے ہو کلاسز شروع ہوۓ تقریباً دو ماہ ہوچکے ہیں۔ تو انہیں اب وہ سب خود ہی کور کرنا ہوگا۔" پرنسپل سر اس سے مصافحہ کرتے ہوۓ بولے جو کہ اب جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔

" شیور۔" وہ سر ہلاتے پرنسپل آفس سے باہر نکل آیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں بیٹیوں کو پڑھایا لکھایا ضرور جاتا ہے مگر شادی کے لیےان کی رضا مندی تک نہیں پوچھی جاتی۔ ان کا اباؤ اجداد ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ 

اس کے پاپا پڑھائی کے لیے شہر آبسے۔ اپنا بزنس بھی سیٹل کرلیا۔ شادی کے بعد پھر وہ مکمل شہر کے ہوکر رہ گۓ۔ اپنی پسند کی شادی پر ان کے بابا جان ان سے کچھ وقت تک لا تعلق رہے پھر خود ہی بیٹے کی محبت میں مان۔گۓ۔ گوکہ شادی تو ان کی موجودگی میں ہی ہوئی مگر شادی کے کچھ عرصے بعد ان کی طرف سے بالکل لاتعلق ہوچکے تھے۔پھراحمد کی پیدائش پر خود ہی مان گۓ۔ احمد سے پانچ سال چھوٹی ماہا تھی۔ 

ماہا کے بابا فارض لوگ دو بھائی تھے۔ ان کے بڑے بھائی ان کے باپ کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے۔ جن کے دو بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے ہشام سے وہ بچپن سے ہی منسوب ہوچکی تھی۔ 

ان کے دادا جان کو یہ ڈر تھا کہ کہی ماہا کی شادی خاندان سے باہر نہ ہوجاۓ اس لیے وہ اپنے ہوش میں ہی اسے اپنے پوتے سے منسوب کرچکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یزدان" وہ اسے کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر پیچھے سے ہی آواز دیتے روک چکے تھے۔ 

یزدان نے مُڑ کر سوالیہ نظروں سے دیکھا آج اسے آۓ ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت ہوچکا تھا۔ آج انہوں پہلی بار ہی اسے مخاطب کیا تھا۔ 

ان کے لہجے میں بات کرتے ہوۓ جو نرمی اکثر اس کے لیے پائی جاتی تھی وہ ان کے لہجے میں مفقود تھی۔  

" مجھے کچھ بات کرنی ہے کچھ دیر کے لیے میرے کمرے میں آؤ۔ " وہ اس کی سوالیہ نظروں کو خود پر پاکر اپنی بات کہتے کمرے کی طرف بڑھ گۓ۔  

وہ گہرا سانس لیتے ان کے پیچھے ہی آچکا تھا۔ 

کچھ وقت کے لیے کمرے میں جامد خاموشی چھائی رہی۔  

جب داجان۔کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا۔

" کیا چاہتے ہو اب تم۔ " وہ اسے دیکھتے سنجیدگی سے بولے۔ 

"آپ کس بارے میں بات کرنا چاہ رہے ہیں۔" وہ انجان بنتا ہوا بولا۔

" میرو کے متعلق بات کررہے ہیں۔ بولو اب کیا چاہتے ہو۔" اس کا یوں انجان بننا انہیں ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔

" میں کیا چاہتا ہوں؟ ہوتا تو وہی ہے جو آپ چاہتے ہیں۔کسی کے چاہنے نا چاہنے پر اب کونسا فرق پڑھتا ہے۔" وہ انہیں دیکھ کر طنزیہ لہجے میں بولا۔

" یزدان اپنی حدود مت پھلانگو۔ یہ یاد رکھو تم کس سے بات کررہے ہو۔" وہ دھاڑتے ہوۓ رعب دار آواز میں بولے۔ 

" ہمیں تم سے کچھ نہیں چاہیے بس اپنا وہ وعدہ یاد کرلو جو تم نے نکاح سے پہلے کیا تھا کہ تم میرو کو خوش رکھو گے۔ اپنا یہ وعدہ تم ایک بار توڑ چکے ہو اس کے باوجود اپنی بچی کی خاطر تمہیں ایک موقع دے رہے ہیں۔ " وہ اس دفعہ غصے پر قابو پاکر ذرا تحمل سے بولے۔   ورنہ اس کی بدتمیزی انہیں ذرا پسند نہیں آئی تھی۔ 

" واہ کیا کہنے آپ کے۔ جب بات اپنی پوتی پر آئی تو جان۔ لبوں پر آگئ۔  پر میری ماں پر جب سوتن لا رہے تھے تب کوئی خیال نہیں آیا۔  میری ماں کی موت کے ذمہ دار آپ سب لوگ ہیں۔ " اس کی آنکھوں میں کرب سا پھیلتا چلا گیا۔ 

" عائشہ کی موت کا دُکھ ہمیں بھی ہے مگر وہ ایک قدرتی موت تھی۔  اس میں کسی کا بھی عمل دخل نہیں تھا۔ " وہ اس کی بات کا بُرا مناۓ بغیر سمجھانے والے انداز میں بولے 

"قدرتی موت نہیں تھی۔  آپ سب کی بے حسی  اور میرے اپنے ہی باپ کی بےوفائی نے مارا ہے۔آپ سب وہ بھول سکتے ہیں میں نہیں۔" اس کی آنکھیں ضبط سے لال ہورہی تھی۔ 

" باتوں کو غلط رنگ مت دو۔ جس بات کا اندازہ نہ ہو اس کو جانے بغیر نہ بولو۔ ہم جانتے ہیں تم کس کی زبان بول رہے ہو۔ جو باتیں ڈھکی ہیں انہیں ڈھکا ہی رہنے دو۔ " وہ بڑی مشکل سے اپنے اشتعال پر قابو پا رہے تھے۔

"ماہ نور چچی کی وجہ سے کیا نا آپ نے یہ سب انہی کہ کہنے پر۔ اپنی بھگوڑی بہن کو زبردستی ہم سب کی زندگی میں شامل کرنا چاہا اور دیکھیے کتنا بڑا نقصان ہوا۔ ان کی وجہ سے میرے سر سے ممتا کا ہاتھ اُٹھ گیا۔" وہ بغیر سوچے سمجھے اُس وجود کے لیے ایسا لفظ بول گیا تھا  جس کو وہ جانتا تک نہیں تھا۔ 

" بکواس بند کرو اپنی۔" وہ اس کے منہ سے اپنی بھانجی کے لیے ایسا لفظ سنتے غصے کی شدت سے کانپ اُٹھے تھے۔  

" سچ سننا چاہتے ہو۔  تو سنو۔  اس سب میں قصور ماہ نور کا نہیں بلکہ عا۔ ۔۔۔" وہ غصے کی شدت سے کانپتے اس کے سامنے کچھ بولتے وہ پہلے ہی انہیں ٹوک گیا

" آپ خود کو ماہ نور چچی کو بےقصور ثابت کرنے کے لیے جانے کتنے جھوٹ بولے گے۔ میری ماں پر بھی الزام تراشی کریں گے اس لیے مجھے کچھ نہیں سننا۔ آپ کو میرا فیصلہ جاننا ہے جلد ہی آپ کے سامنے آجاۓ گا۔آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔" وہ دو ٹوک انداز میں ساری بات کہتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 

داجان اس کی پُشت کو دیکھ کر رہ گۓ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ لاشاری پور گاؤں کا منظر تھا۔ سردار وحید لاشاری اس گاؤں کے کرتا دھرتا تھے۔ ان کے دو بیٹے ٹھے۔ بڑا بیٹا حارث لاشاری جن کے دو بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا ہشام لاشاری ( ماہا کا منگیتر) چھوٹا صارم لاشاری۔  جسے گاؤں کا یہ نظام بالکل بھی پسند نہیں تھا اس لیے وہ ہاسٹل میں ہی رہائش پذیر تھا۔ 

دوسرے فارض لاشاری جن کا بڑا بیٹا احمد اور چھوٹی ماہا لاشاری۔  

وہ حویلی سے باہر قدم رکھتا اپنی گاڑی کی طرف بڑا۔ ڈرائیور نے مؤدب انداز میں اس کے لیے کار کا پچھلا دروازہ کھولا۔

" چابی مجھے دو۔ میں خود چلاؤں گا۔ " وہ ڈرائیور سے چابی لیکر گاڑی میں سنوار ہوتا بولا۔ گاڑی حویلی سے نکالتا زن سے بھگا لے گیا۔

اس کا رُخ گاؤں سے ذرا دُور ایک ہاسٹل کی طرف تھا۔ اس کی کار ہاسٹل کے باہر آکر رُکی۔  اس نے بھاری قدم اندر کی جانب بڑھاۓ۔  وارڈن کو اپنے آنے کی اطلاع دیتا وہ فاریہ کو باہر بھیجنے کا پیغام بھجوا چکا تھا۔ 

وہ سست قدموں سے چلتی اس کے قریب آئی جو أج پورے ایک مہینے بعد اس سے ملنے آیا تھا۔ 

" گاڑی میں بیٹھو۔ " اس نے قریب آکر دھیرے سے سلام کیا جس کا جواب دیتا وہ گاڑی میں بیٹھنے کا اشارہ 

کر چکا تھا۔  

فاریہ کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھرنے لگی۔  اس اپنی لاتعلقی کا کوئی جواز نہ دیا تھا بس آتے ہی حکم دینے والے انداز میں گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ چکا تھا۔ 

اس ایک ماہ میں اس نے کتنی ہی فون کالز اس کو کی جسے اُٹھانے کی اس نے زحمت تک گنوارا نہ کی۔  

اسے خبر بھی نہ ہوئی آنکھوں سے برسات ہونے لگی۔  اس نے شدید ناگواری سے اس کے بہتے آنسوؤں کا دیکھا۔  

" کس بات کا ماتم منا رہی ہو؟" وہ اس کے آنسوؤں کو دیکھتا طنزیہ بولا۔

" آپ اتنے انجان نہیں بن سکتے۔ آپ کی نظروں میں میری کوئی اہمیت بھی ہے کہ نہیں۔آپ مہینوں مہینوں مجھ سے لاتعلق رہتے ہیں۔کبھی جاننے کی بھی کوشش کی کے میں کس حال میں ہوں۔" وہ شکوہ کُن نظر اس پر ڈال کر بولی۔ 

" کس چیز کی کمی ہے تمہیں تمہاری ہر ضرورت پوری کر تو رہا ہوں۔ دوسرا اپنی اہمیت کا اندازہ میرے اپنے ساتھ ہونے پر لگا لو۔" وہ ناگواری سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔ 

" ساتھ ہونے اور ساتھ دینے میں بہت فرق ہوتا سردار ہشام لاشاری۔ اور اپنی اہمیت کا اندازہ میں اس بات سے لگا چکی ہوں کہ جس کی فون کالز آپ اُٹھانا ضروری نہیں سمجھتے۔ جس سے مہینوں آپ لاتعلقی برتتے ہیں۔" وہ کوشش کے باوجود آنسو ضبط نہیں کر پارہی تھی۔ 

اس نے فاریہ کی بات کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا محض خاموشی سی گاڑی چلاتا رہا۔ 

فاریہ کو اس بات کا شدید رنج تھا کہ وہ محض اس کی ضرورت ہے وہ اس کے پاس تبھی آتا تھا جب اُسے اس کی طلب ہوتی تھی۔ اسے ایک مہربان کندھے کی شدت سے طلب ہورہی تھی۔جس پر سر رکھ کر وہ اپنے آنسو بہا سکتی۔ 

وہ اسے لیکر اپنے فارم ہاؤس پر آیا تھا۔ 

" اُترو نیچے۔" وہ گاڑی سے باہر نکلتا اسے بھی باہر آنے کا حکم دے چکا تھا۔ 

وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔ اس نے بہت غلط جگہ دل لگایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ساری رات بےچینی سے گزارنے کے بعد وہ صبح صبح اس گھٹن زدہ ماحول سے نکلنے کے لیے باہر آگئ۔ آنکھیں ساری رات رونے کی وجہ سے سُرخ ہورہی تھیں۔

ابھی کوئی بھی اپنے کمرے سے باہر نہ آیا تھا۔ وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد  گارڈن میں ٹہلنے کے خیال سے باہر آچکی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس کے وجود کو تقویت بخش رہی تھی۔

یزدان جو جاگنگ کرنے کی غرض سے باہر جا رہا تھا اسے گارڈن میں ٹہلتا دیکھ وہی ٹھہر گیا۔ جو نظریں سامنے پھولوں پر ٹکاۓ کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔ اس کی سُرخ آنکھوں کو دیکھ اس کے دل میں بے چینی سی پھیلنے لگی۔

اس کا دل کیا اس سے رونے کی وجہ پوچھے۔ وہ لاتعلق ہو کر باہر کی طرف بڑھنا چاہتا تھا۔ مگر وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہ پایا۔

اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتا  وہ اس کی طرف قدم بڑھا چکا تھا۔ وہ اس کے نزدیک رُک کر نظریں اس کے حسین چہرے پر ٹکا چکا تھا۔

مسٹرڈ رنگ کے سوٹ میں وہ مرجھائی مرجھائی سرسوں کا پھول لگ رہی تھی۔ جس چہرے پر ہمیشہ گلابیاں گُھلی رہتی تھی اس وقت زردیاں پھیلی ہوئی تھی۔ یزدان کے دل کو کچھ ہوا۔

" اتنی صُبح یہاں کیا کررہی ہو؟ " اس کی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر وہ سوال داغ چکا تھا۔ 

میرو چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ جو اپنی وجاہت کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا بس خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی۔

" تم روئی ہو۔تمہارے آنکھیں اتنی سُرخ کیوں ہورہی ہیں؟" وہ شدید بےچینی سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔ 

" کچھ نہیں ہوا۔ جائیے آپ یہاں سے۔" وہ اس کی طرف سے رُخ موڑ کر ایک دفعہ پھر اپنی نظریں سامنے پھولوں پر ٹکاگئ۔

کیا کہتی کہ تم ہی تو ہو میری ساری تکلیفوں کی وجہ۔  

اس کی ذات اتنی ارزاں نہیں تھی جو اس کے سامنے بےمول کرتی۔ 

وہ اس کی پُشت پر ایک نظر ڈالتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ 

اس کے جانے پر اس کے رُکے ہوۓ آنسو ایک دفعہ پھر بہہ نکلے ۔

" آپ واقعی اپنی میرو کو بھول چکے ہیں یزدان۔  اب آپ کو میرے آنسوؤں سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ " 

اس کے لہجے میں گہری یاسیت تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ یتیم تھی اس کے آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔  اس کے بابا پانچ سال پہلے انتقال پاگۓ تھے۔  ماں  کا آنچل اس نے کبھی محسوس ہی نہ کیا تھا۔ وہ اس کی پیدائش پر ہی وفات پاگئ تھی۔ اس کے بابا ایک گورنمنٹ ٹیچر تھے۔ ان کی وفات کے بعد اپنے گھر کو تالا لگا کر ہاسٹل میں آبسی۔وہ باپ کی پینشن پر اپنا گزر بسر کر رہی تھی۔

اس کی ملاقات ہشام سے یونی میں ہوئی تھی۔ گاؤں سے کچھ دُور ایک یونیورسٹی تھی۔ ہشام کا گاؤں چھوڑنے کا کوئی پلان نہ تھا۔ اس لیے گاؤں کی قریبی یونیورسٹی میں ہی اپنی تعلیم پوری کی تھی۔ ہشام کی یونیورسٹی کا آخری سال تھا جب فاریہ کی اس سے ملاقات ہوئی۔ فاریہ اس کی جونیئر تھی۔ اور عمر میں بھی اس سے چھوٹی تھی۔ اسے وہ معصوم سی لڑکی پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی۔

جب سے ہوش سنبھالا تھا تب سے وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی کزن کے ساتھ منصوب ہے۔ اس نے بچپن سے ہی اپنے باپ کو ماں سے سختی کرتے ہوۓ پایا تھا اس کا انداز بھی کچھ کچھ ویسا تھا۔اپنے باپ کو دیکھا دیکھی وہ بھی مردوں کو عورتوں کا حاکم سمجھتا تھا۔

اس کا چہرہ ماسک سے ڈھکا ہوا تھا۔ وہ گاڑی میں بیٹھا حسد بھری نظروں سے سامنے کا منظر دیکھ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا سامنے کھڑے اُس وجود کو گولیوں سے چھلنی کردیں۔کتنی مشکلوں سے جیل سے بھاگا تھا۔  اس لڑکی کی خاطر اس نے کتنا نقصان اُٹھایا تھا۔ اتنے مہینوں جیل کی سزا کاٹی تھی۔ جیلروں کی مار کھائی تھی۔ اب تو وہ اس کا پیچھا مر کر بھی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ وہ لڑکی کسی جنون کی طرح سر پر سوار ہوچکی تھی۔ جب تک اُس پر اپنی نام کی مہر نہ لگا دیتا اسے کسی پل سکون نہ آنے والا تھا۔

" تم مجھ سے نہیں بھاگ سکتی۔ بُلبُل۔ بہت جلد تمہیں میری ہی پناہوں میں آنا پڑے گا۔ چاہے تو سسکتے ہوۓ آؤ یا خوشی سے۔" اس نے ایک قہر بھری نظر عرید پر ڈالی تھی۔ 

" جیسے تمہارے اُس بےوقوف شوہر کو راستے سے ہٹایا تھا ویسے اس پولیس والے کو بھی ہٹا دوں گا۔" وہ ازوہ اور عرید کو ایک ساتھ دیکھ کر دانت پیس کر رہ گیا تھا۔

وہ بڑی مشکلوں سے جیل سے بھاگا تھا۔ اس دفعہ اس کا باس بھی کچھ نہیں کرپایا تھا۔ ازوہ کے باپ نے ایسے  ایسے ثبوت پیش کیےتھے ۔ وہ محض پھڑپھڑا کے رہ گیا۔ وہ ابھی منظر عام پر نہیں آسکتا تھا۔ اس کا محض ایک غلط قدم اسے واپس جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال سکتا تھا۔

پچھلے دو مہینوں سے وہ ازوہ کو جگہ جگہ ڈھونڈ رہا تھا مگر وہ جانے کس کونے میں جا چُھپی تھی جو ملنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ ابھی کل ہی تو اس کے بندوں نے ازوہ کے مل جانے کی اطلاع دی تھی مگر وہ اس وقت مضبوط پناہ گاہوں میں جا چکی تھی۔ آفندیوں کو کون نہیں جانتا تھا شہر کے جانے مانے بزنس مین۔دوسرا ان کا چھوٹا پوتا اپنے نۓ نۓ مشن کی کامیابیوں پر ہمیشہ سُرخیوں میں رہتا تھا۔ مگر وہ بھی سوچ چکا تھا وہ اس بندے کو اتنی آسان موت ہرگز نہیں دینے والا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید اور ازوہ یونی سے باہر نکلے تھے۔ جب ازوہ کا پیر مڑا تھا اس پہلے وہ گرتی عرید اس کا بازو تھام چکا تھا۔ یہی وہ منظر تھا جس سے کالی کے تن بدن میں آگ لگ چکی تھی۔ 

" ٹھیک ہو تم۔" وہ پریشانی سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

" میں بالکل ٹھیک ہوں۔" وہ محض سر ہلا کر رہ گیا۔

عرید کا ارادہ اسے گھر چھوڑنے کے  بعد جلد سے جلد پولیس اسٹیشن پہنچنے کا تھا۔ وہ ایک بہت اہم کیس پر کام کر رہا تھا ۔ آج وہ پہلے ہی لیٹ ہوچکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج نشوہ یونی نہ آئی تھی۔ ماہا اکیلی آئی تھی۔ اسے نشوہ پر بےتحاشا غُصہ آرہا تھا۔ جس نے اسے بتانا بھی ضروری نہ سمجھا کہ آج وہ چھٹی پر ہے۔ ورنہ وہ بھی چھٹی کرلیتی۔ اب وہ آہی گئ تھی تو اس نے لگاتار ہوتے سارے پیریڈ لیے تھے۔ فری پیریڈ میں آکر وہ کینٹین میں بیٹھ گئ۔

وہ اپنے لیے منگوائی گئ فرائز سے بھرپور انصاف کررہی تھی۔ جب اپنے نزدیک بھاری مردانہ آواز محسوس ہوئی۔

" ہاۓ بیوٹیفل! میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں۔بیٹھ ہی جاتا ہوں تمہیں کیا مسئلہ ہوسکتا ہے آخر تمہارا کلاس فیلو ہوں۔" وہ لاپرواہی سے کہتا اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

ماہا کی سانس سینے میں اٹک گئ۔زبان تالو سے جالگی۔

اسے اپنی بزدلی پر غصہ آیا تھا۔ اور سامنے بیٹھے اس وجود پر بھی جو یوں منہ اُٹھاۓ بیٹھ گیا تھا۔اس نے کچھ بولنے کے لیے منہ کھولا جب وہ ایک بار پھر سے شروع ہوچکا تھا۔

" مجھے آپ پہلے دن سے کافی اچھی لگی ہیں۔ میں آپ سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ کیا آپ کا فون نمبر مل سکتا ہے۔ دراصل میں آپ سے دوستی کرنا چاہتا ہوں۔" وہ ڈھیٹائی سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

" دیکھئیے میں آپ سے دوستی بالکل بھی نہیں کرنا چاہتی۔ آپ جاسکتے ہیں۔ " وہ اس سے دوستی کرنے میں بالکل بھی انٹرسٹڈ تھی۔ وہ اپنے حدود اچھے سی جانتی تھی اس لیے دو ٹوک انداز میں بولی۔ 

" دیکھو زیادہ۔ ۔۔۔۔۔" ابھی وہ لڑکا مزید کچھ کہتا جب کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔  

" جب وہ کہہ رہی ہے اسے بالکل کوئی دلچسپی نہیں تم سے دوستی کرنے میں۔تو کیوں تنگ کررہے ہو۔" صائم اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے اس کے سامنے آتا ہوا بولا۔

وہ لڑکا ان کے گروپ کو اچھے سے جانتا تھا۔ وہ سارے دوست ایک دوسرے کے لیے جان وارنے کو تیار رہتے تھے۔  وہ ان کے سینئر تھے۔  وہ ان سے پنگا بالکل بھی افورڈ  نہیں کر سکتا تھا۔  اس لیے فوراً ماہا کو سوری بولتا فوراً نو دو گیارہ ہوگیا۔  

وہ ماہا کو اکیلا دیکھ کر اس کی طرف آیا تھا۔ 

اس کے جاتے ہی وہ ماہا کی طرف متوجہ ہوا۔  جو گرے آنکھیں اس پر سجاۓ بیٹھی تھی۔  

" شکریہ " وہ دھیمے سُروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

پہلے دن کے بعد وہ جہاں تک سمجھ پائی تھی کہ وہ اچھے لوگ تھے۔ جو لڑکیوں کی عزت کرتے تھے۔ وہ لڑکیوں سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ 

" آج آپ اکیلی۔آپ کی دوست نہیں آئی۔" وہ بات بڑھانے کو اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

نہیں وہ آج چھٹی پر ہے۔" وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔ 

مزید اُسے سمجھ نہ آئی وہ کیا کہے وہ  مڑتے ہوۓ واپس اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ان سب میں میں تمہاری کوئی مدد نہیں کروں گی۔ میں اُس پیاری سی لڑکی کو بالکل دُکھ نہیں دے سکتی۔" نیہا اس کی پُشت کو گھور کر بولی۔ جس سب سے وہ اتنے دنوں سے اُسے منع کررہی تھی۔ اب وہ اُلٹا اسی سے اس سلسلے میں مدد مانگنے آگیا تھا۔ 

" اگر تم نے میری مدد سے منع کیا۔ تو کسی بھی راہ چلتی لڑکی کو اُس کے سامنے لا کر کھڑا کردوں گا۔" وہ بھی اس کی طرف مڑتا اپنی سُرخ آنکھوں سے اسے گھورتا ہوا بولا۔

" ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس سوچنے کے لیے ورنہ میں کوئی اور بندوبست کروں۔ " وہ ایک آخری نظر اس پر ڈالتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔وہ اس کی پُشت تکتی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ خاموشی سے بیڈ پر بیٹھی تھی ابھی وہ کچھ دیر پہلے ہی اسے چھوڑ کر باہر گیا تھا۔ آنسو اب خود بخود خشک ہو چکے تھے۔

وہ کچھ دیر بعد وہ اندر آیا اس کے پیچھے ایک ملازمہ کھانے لیکر آئی تھی۔ 

" یہاں ٹیبل پر رکھ دو۔ اب ہمیں کوئی ڈسٹرب نہ کریں۔" وہ حکم صادر کرتے اسے باہر جانے کا اشارہ کرچکا تھا۔ 

 اس کے اندر آنے پر بھی فاریہ نے اس پر ایک نظر بھی نہ ڈالی تھی وہ ویسے ہی لاتعلق بیٹھی رہی۔

"آؤ کھانا کھا لو۔" وہ اسے لاتعلق بیٹھا دیکھ کر بولا۔ اس کا یہ لاپرواہ انداز اسے ذرا پسند نہ آیا تھا۔ 

" آپ کھالیں ۔ مجھے نہیں کھانا۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ سنجیدگی سے بولی۔

" چُپ چاپ اُٹھ کر آؤ۔ اگر میں اُٹھا تو میرا انداز تمہیں پسند نہیں آۓ گا۔" وہ غصہ ضبط کرتا ذرا سختی سے بولا۔

" آپ کو اور آتا کیا سختی کرنے کے علاوہ۔" وہ روندھی آواز میں بیڈ سے اُٹھ کر کھڑی ہوگئ۔

" زبان زیادہ نہیں چل رہی۔ " وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔ 

وہ خاموشی سے آکر صوفے پر بیٹھ گئ۔

وہ اسی کے پلیٹ میں بریانی ڈال کر اسے کھانا شروع کرنے کا اشارہ کرچکا تھا۔  

وہ پر جانے کیوں اس کا کھانے کو دل ہی نہیں کررہا تھا۔  بار بار دل بھر آرہا تھا۔  وہ اسے ویسے ہی بیٹھا دیکھ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔ 

وہ چاولوں کا  چمچ بھر کر اسے کے سامنے کرگیا۔ اس کی اتنی کرم نوازی پر آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا۔  وہ خاموشی سے اس کے ہاتھ سے کھانے لگی۔     

اس کے بہتے آنسو جانے کیوں اسے بالکل بھی اچھے نہ لگے تھے۔  وہ کھانا ختم کرکے ٹرے ایک سائیڈ پر 

رکھ چکا تھا۔  اب وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔  جو خاموشی سے سر جھکاۓ بیٹھی آنسو بہانے میں مصروف ہو۔  دل خود بخود اس کے لیے نرم پڑا تھا۔ 

" کیوں رو رہی ہو۔ " وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔ جو اس کی اتنی سی کرم نوازی پر روانگی سے بہنے لگے۔  

" تمہیں پتہ ہے نا مجھ پر گاؤں کی ذمہ داری ہے۔ سرداری سنبھالنا چھوٹی سی بات نہیں ہے۔ مصروف  تھا اس لیے وقت نہیں نکال سکا۔ " وہ اس کی بہتی  آنکھوں کو نرمی سے چومتا ہوا بولا۔ 

فاریہ کو سمجھ نہ لگی اس کے کس روپ پر یقین کریں۔  اس کا دھوپ چھاؤں سا امتزاج اس کی سمجھ سے باہر تھا۔  وہ اسے سینے سے لگا کر اس کے بال سہلانے لگا۔ 

" میں کب تک ہاسٹل میں رہوں گی۔ " وہ اس کے اچھے رویے کو دیکھ کر بولی۔  مگر وہ یہ نہ کہہ سکی کہ وہ کب اسے اپنی بیوی کی حیثیت سے اپنے ساتھ اپنے گھر لیکر جاۓ گا۔  کب اسے سب سے سامنے اس کا مقام دے گا۔  کب وہ زمانے کے سرد تھپڑوں سے بچا کر اسے اپنی تحفظ بھری آغوش میں لے گا۔ 

" تم فکر مت کرو۔ میں تمہارے لیے ایک گھر کا انتظام۔کرچکا ہوں۔ ایک ملازمہ کا بھی جو ہمہ وقت تمہارے ساتھ رہے گی۔" وہ اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔

کاش اس کے بابا زندہ ہوتے۔ تو وہ اپنے لیے ایک مضبوط پناہ گاہ کے لیے اس پر اتنی جلدی یقین نہ کرتی۔ نہ ہی وہ اس کے عشق میں مبتلا ہوتی۔ 

واقعی ہی اس کا باپ اس کی مضبوط پناہ گاہ تھی۔  اس نے ہشام سے رشتہ صرف اس لیے جوڑا تھا تاکہ وہ اسے ایک مضبوط سہارا دے سکے۔  

وہ اسے کہنا چاہتی تھی کہ وہ اکیلے گھر میں نہیں بلکہ اس کے گھر میں اس کے اپنوں کے درمیان اس کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔  مگر وہ اس دفعہ کچھ نہیں بس خاموش ہوگئ تھی۔  

اب وہ اس پر جھکتا اس کے ایک ایک نقوش کو محبت سے چوم رہا تھا۔  

دائیں گال سے نیچے جگماتے اس ننھے سے سیاہ تل کو دیکھتا شدت سے اپنے لب جما چکا تھا۔ وہ اس کے سینے پر ہاتھ جماۓ اسے پیچھے دھکیل رہی تھی۔ 

" بہت وقت دے چکا ہوں تمہیں ۔ اب تمہارے ساتھ شادی شدہ زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ وہ اس کے مزاحمت کرتے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرچکا تھا۔ اس کی چھوٹی سی ناک کو چومتا وہ پیچھے ہٹتا اس کے چہرے کے ایکسپریشن غور سے دیکھنے لگا۔ جو  اس کی جسارتوں پر سرخ قندھاری ہوچکا تھا۔ 

فاریہ کے ماتھے پر پسینے کی ننھی ننھی بوندے نمودار ہونے لگی۔ پہلے تو وہ چھوٹی موٹی جسارتیں کر کے اسے چھوڑ دیتا تھا مگر آج شاید وہ اسے چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ 

اس کے آنکھوں میں قربت کی خماری چھائی ہوئی تھی۔ اس کی سانسوں کی گرم تپش اپنے چہرے پر محسوس کرکے وہ آنکھیں موند گئ۔ 

" میں یہ سب ایسے نہیں چاہتی۔" وہ اس کی بڑتی جسارتوں پر اسے خود سے دور دھکیل کر صوفے سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

" میں چاہتی ہوں آپ مجھے سب کے سامنے میرا مقام دے۔اس رشتے کو سب سے سامنے اپناۓ۔ میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ أپ کی ہی مرضی سے گواہان کے سامنے نکاح کیا ہے۔ مجھے میرا مقام دیں پھر اپنا حق جتائیے گا۔" وہ بپھری شیرنی بنتی ہوئی بولی۔

" کیا بکواس کررہی ہو؟ ہماری درمیان ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی میں مے تم سے ایسا کوئی وعدہ کیا تھا۔ تم۔میرے گھر والوں سے دُور رہو تو بہتر ہے۔ تمہیں مجھ سے غرض ہونی چاہیے نہ کہ میرے گھر والوں سے۔ " وہ اس سے دُگنی آواز میں دھاڑتا ہوا بولا۔ 

اس نے پےیقینی سے ہشام کی طرف دیکھا۔ 

یعنی وہ ساری زندگی کسی گناہ کی طرح اسے سب سے چُھپا کر رکھنا چاہتا تھا۔ اس کی زبان تالو سے جالگی۔

" اب میری ہاتھ مت جھٹکنا ۔ورنہ بہت پچھتاؤ گی۔ " وہ اس کے نزدیک آتا ایک دفعہ پھر اپنی سخت گرفت اس پر قائم کرچکا تھا۔ 

" کیوں مجھے سختی پر مجبور کررہی ہو۔" وہ اس کی بہتی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔اس کی کپکپاتی ٹھوڑی پر نرمی سے لب رکھے تھے۔

وہ تھک کر اس کے کشادہ سینے پر سر ٹکا گئ۔ اس میں اب اور بحث کی ہمت نہیں تھی۔ اب شاید اس کی ساری زندگی یوں ہی گزرنے والی تھی۔

وہ اس کی خاموشی کو رضا مندی گردانتا اس کے حسین چہرے پر جھکتا چلا گیا۔ اس کے نقش نقش پر اپنی ملکیت کی مہر لگاتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھامتا حویلی کی جانب بڑھا۔ حویلی کے لاؤنج میں اس وقت خاموشی چھائی ہوئی تھی گرمی کی شدت کی وجہ سے شاید سب اپنے اپنے کمروں میں موجود تھے۔ آج اتفاق سے عرید بھی گھر تھا۔

" داجان ۔" لاؤنج میں آتا وہ اونچی آواز میں چلایا۔

اس کی دھاڑ نما آواز پر سب اپنے کمروں سے نکلتے نیچے لاؤنج میں آگۓ۔ 

میرو نے سیڑھیاں اُترتے اسی دن والی لڑکی کے ہاتھ میں اس کا ہاتھ دیکھا اس کا دل شدت سے دھڑکا۔ دل نے کچھ غلط ہونے کی شدت سے گواہی دی۔ اس نے بمشکل خود کو سنبھالتے نیچے لاؤنج میں قدم رکھا۔

" کیا بات ہے برخودار؟ اتنا شور کیوں مچارہے ہو؟ اور یہ لڑکی کون ہے۔"وہ یزدان کے ہاتھوں میں اس کے ہاتھ اگنور کرتے زوردار آواز میں بولے۔

" کل آپ مجھ سے میرا فیصلہ پوچھ رہے تھے میں کیا چاہتا ہوں۔تو یہ ہے میرا فیصلہ۔" وہ ساتھ کھڑی لڑکی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"کیا بکواس ہے یہ۔ اپنے ہوش میں تو ہو۔" داجان۔کا بس نہیں چل رہا تھا اس کا منہ تھپڑوں سے لال کردے۔ جو بات انہیں سمجھ آرہی تھی وہ اس پر یقین نہیں کرنا چاہ رہے تھے۔ 

میرو نے دھندلائی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا تھا وہ آخری سیڑھی پر گھڑی ریلنگ کو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ کوئی قطرہ قطرہ کرکے اس کی سانسیں چھین رہا ہو۔ 

" بکواس نہیں ہے حقیقت ہے یہ۔ دراصل یہ میری بہت اچھی دوست ہے۔ بے سہارا تھی اسے کوئی سہارے کی بھی ضرورت تھی اور دوسرا ہم ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے تھے اس لیے میں نے زیادہ نہ سوچا اور اسے اپنے نکاح میں لے لیا۔ ویسے میں نے اچھا کام کیا ہے ایک بےسہارا کو سہارا دے کر آپ کو بُرا کیوں لگے گا۔" وہ بول رہا تھا میرو کو لگ رہا تھا کہ وہ قطرہ قطرہ اس کے کانوں میں زہر انڈیل رہا ہے۔ 

داجان نے بے یقین نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔یعنی وہ ان سے بدلہ لینے کے لیے اتنا کچھ کرگیا۔

میرو نے گہرے گہرے سانس لیتے خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کی۔ ا۔سے لگا اگر وہ اور کچھ دیر ٹھہری رہی تو اس کے دماغ کی نس پھٹ جاۓ گی۔ وہ خود کو سنبھالتی سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ اسے یزدان سے بےوفائی کی اُمید نہیں تھی۔

" ہم تمہاری جان۔لے لیں گے یزدان۔" وہ شدید اشتعال میں غصے سے کانپتی آواز میں بولے۔

" جان لینا آپ لوگوں کے لیے بہت آسان ہے۔" وہ استہزایہ انداز میں ہنستا ہوا بولا۔

شہیر صاحب بیٹے کی نافرمانی پر جہاں تھے وہی کھڑے رہ گۓ۔ کیا نہیں کیا تھا انہوں نے اس کے لیے اور کیا صلہ مل رہا تھا انہیں۔

انہیں اس وقت وہ میلوں کے فاصلے پر کھڑا نظر آیا۔ انہیں گہری چُپ لگ گئ۔ وہ ایک لفظ بھی بول نہ سکے۔

عرید کب سے اس کی بدتمیزی ملاحظہ کررہا تھا مزید خاموش نہ رہ سکا۔ بےشک اس نے کبھی جتایا نہیں تھامگر  میرو اسے بالکل نشوہ کی طرح عزیز تھی۔ اس نے کبھی اُسے کسی سے بدتمیزی کرتے ہوۓ نہیں پایا۔ اپنی معصوم نیچر کی وجہ سے ہی شاید وہ گھر میں سب کی لاڈلی تھی۔ کسی نے میرو کا جانا نوٹ کیا ہو یا نہ کیا ہو عرید نے اس کی ایک ایک حرکت کو بغور دیکھا تھا۔ اسے اپنی کچھ دن پہلے ازوہ سے کہی اپنی بات یاد آئی جب اس نے بڑے یقین سے کہا تھا کہ یزدان اپنی بیوی کے پیچھے پاگل ہے۔ اسے اپنے ہی الفاظ کھوکھلے لگے۔ 

عرید اس کے روبرو آکر کھڑا ہوا۔

" کیا تکلیف ہے تمہارے ساتھ؟ کیوں سب کو پریشان کررہے ہو؟ اگر تمہاری وجہ سے میرو کو تکلیف ہوئی تو میں تجھے چھوڑوں گا نہیں۔" وہ اسے وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

" تمہارا اس سب معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس سب معاملے سے دُور رہو۔" وہ بھی اسی کے انداز میں دوبدو بولا۔

" کیوں نہیں ہیں لینا دینا؟ میرو مجھے بالکل نشوہ کی طرح ہے اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچاۓ گا تو میں خاموش نہیں بیٹھوں گا۔" عرید کا بس نہیں چل رہا تھا۔ اُسے اور ساتھ کھڑی اس بےشرم لڑکی دونوں کو گولیوں سے بھون کر رکھ دے۔

بحث کا سلسلہ طویل ہوتا جارہا تھا۔ ازوہ نے ایک نظر اوپر دیکھا جہاں سے کچھ دیر پہلے ہی میرو اوپر گئ۔ اسے میرو کی فکر ہوئی۔ اور اپنا آپ یہاں اَن فٹ لگا وہ سیڑھیاں چڑھتی اس کے پیچھے اوپر کی طرف بڑھ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو سب کی آوازوں سے بچتی کان لپیٹتی بمشکل سیڑھیاں چڑھتی اوپر پہنچی تھی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا  اس کا جان لُٹانے والا یزدان اتنا بدل گیا۔

آنکھوں کے آگے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا۔ جسے وہ سر جھٹکتی نظر انداز کررہی تھی۔ اتنے دنوں سے جس آنکھوں دیکھی حقیقت کو وہ جھٹلا رہی تھی۔ آج کسی عذاب کی طرح اس کے سر پر نازل ہوچکی تھی۔

اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھ کر کمرے میں داخل ہونا چاہا مگر اتنی مہلت نہیں ملی ۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاتا چلا گیا وہ زمین پر گرتی چلی گئ۔

ازوہ نے جیسے ہی اوپر قدم رکھا اس کی پہلی نظر زمین پر گری میرو پر پڑی وہ حواس باختہ سی اس کی طرف آئی۔

" میرو۔" اس نے میرو کا گال تھپتھپا کر اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی مگر بےسود۔

وہ بھاگتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھی۔

"داجان۔۔۔وہ میرو" وہ سیڑھیوں پر کھڑی اونچی آواز میں چلاتی ہوئی بولی۔ 

" کیا ہوا میرو کو؟" داجان تیزی سے اس کی طرف آتے ہوۓ بولے۔ 

"داجان وہ میرو بےہوش ہوگئ ہے۔ " وہ واپس سیڑھیاں چڑھتی ہوئی بولی۔

یزدان نے سب کو اوپر کی جانب بھاگتا ہوا دیکھا مگر وہ بےحس بنا وہی کھڑا رہا۔ پھر دل میں ناجانے کیا سمائی نیہا کا ہاتھ تھامتا حویلی سے نکلتا چلا گیا۔ 

عرید نے قہر بھری نظروں سے یہ منظر دیکھا تھا۔ 

سب گھر والے میرو کے کمرے کے باہر جمع تھے۔ ڈاکٹر اندر اس کا معائنہ کر رہی تھی۔سب گھر والوں کی سانس سینے میں اٹکی تھیں۔یزدان کی بےحسی پر داجان کڑ کررہ گۓ۔ اس وقت انہیں اپنے فیصلے پر پےحد بفسوس ہوا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر صاحبہ کمرے سے باہر نکلی۔ جب سب ہی ان کی طرف متوجہ ہوۓ۔

" انہوں نے کسی چیز کا بہت زیادہ سٹریس لیا ہے۔ انہیں اتنا تیز بخار ہے کسی نے چیک اپ کروانا ضروری نہیں سمجھا۔ " ڈاکٹر ان کی لاپرواہی پر کڑھتی ہوئی بولی۔ 

جب سے یزدان کو کسی لڑکی کے ساتھ دیکھا تھا اس نے اس بات کا سٹریس لیا تھا جس کا نتیجہ بخار کی صورت میں نکلا۔  لیکن اس نے گھر پر اپنی طبیعت خرابی کے بارے میں کسی کو بھی نہ بتایا۔  

" اسے ٹینشن سے دُور رکھے۔ اس کا نروس بریک ڈاؤن بھی ہوسکتا ہے۔ مہربانی کرکے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کریں۔ میں تو حیران ہوں اتنی چھوٹی سی عمر میں انہیں کس بات کی پریشانی ہے۔" وہ حیران کن انداز میں ان کی طرف دیکھ کر بولی۔

" آپ فکر مت کریں ہم ان کا دھیان رکھیں گے۔ " عرید رسمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

ڈاکٹر کے جاتے ہی سب نے پریشانی بھری نظر سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ جو یزدان کرچکا تھا اس کے بعد ٹینشن کیسے نہ ہوتی۔ 

شہیر صاحب خواہ مخواہ ہی نظر چرانے لگے جیسے ساری غلطی انہی کی ہو۔ کتنا مان تھا انہیں یزدان پر کہ وہ میرو پر ایک آنچ تک نہیں آنے دے گا۔ مگر کتنی آسانی سے وہ ان کا مان توڑ گیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے حویلی سے باہر نکل کر نیہا کا ہاتھ چھوڑا۔ چہرے پر کرب کے گہرے ساۓ لہراۓ۔  اپنے ڈگمگاتے قدموں کو سنبھالتے گاڑی کی بونٹ پر زور سے ہاتھ مارا۔ 

اس کے جارحانہ انداز پر نیہا نے گہرا سانس بھرا۔  اسے تکلیف پہنچا کر وہ خود بھی تکلیف میں تھا۔ نیہا نے اس کی اضطرابی حالت کو دیکھ کر کچھ بھی کہنا مناسب نہ سمجھا۔

"کیوں آخر میں ہی کیوں؟ کاش وہ سب نہ ہوا ہوتا۔  کاش!  مام آج میرے ساتھ ہوتی تو یہ سب کبھی نہ ہوتا۔" وہ بےبسی سے چلا کررہ گیا۔

وہ وہاں سے نکلنے کے بعد یزدان کے فلیٹ میں آۓ تھے۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے مسلسل اِدھر سے اُدھر گردش کرتا گھوم رہا تھا۔ اسے مسلسل اِدھر سے اُدھر بےچینی سے ٹہلتے دیکھ نیہا غصے سے بولی۔

" بہت اچھا ہوگیا یزدان ۔ تمہارے بدلے کے پہلے قدم پر بہت اچھا نتیجہ نکل آیا۔ اب تو تمہیں خوش ہونا چاہیے تھا۔مگر تم تو یوں پیدل مارچ کررہے ہو جیسے تمہیں بڑا فرق پڑھ رہا ہو۔" وہ بھرپور طنز کے تیر اُچھالتی ہوئی بولی۔

یزدان نے ایک غصے بھری نظر اس پر ڈالی۔

" اوہ تم ضرور کسی بڑے نقصان کا انتظار کررہے تھے۔ اس چھوٹی سی جیت پر تم خوش نہیں ہو۔ تم ضرور زومیرہ کے مرنے کی خبر کا انتظار کررہے ہو۔ شاید پھر ہی تمہارا بدلہ پورا ہو۔" وہ اسے مزید سلگاتے ہوۓ انتہا کا جملہ بول گئ۔

" بکواس بند کرو نیہا۔ اگر ابھی تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا۔تو اس کو جان سے مار ڈالتا۔ ہمت کیسے ہوئی میرو کے لیے یہ سب بولنے کی۔" نیہا کے منہ سے میرو کے مرنے کی بات سُن کر وہ خود مرنے والا ہوگیا تھا۔ 

" اچھا تمہیں یہ بکواس لگ رہی ہے۔ خیر تم یہی تو چاہتے تھے۔مجھے ضروری کام ہے میں جارہی ہو۔ آج تم اکیلے ہی اپنی جیت کی خوشی مناؤ۔" وہ جاتے ہوۓ بھی اسے سلگانا نہ بولی تھی۔

اس کے جاتے ہی وہ صوفے پر بیٹھا سر ہاتھوں میں ٹکا گیا۔ آنکھیں آنسوؤں کو ضبط کرنے کے چکروں میں لال ہورہی تھی۔ 

اس کی آنکھوں میں کچھ دیر پہلے کا منظر لہرایا۔ جب وہ بےیقین نظروں سے اسے نیہا کے ساتھ دیکھ رہی تھی۔ پھر جب اس نے نیہا سے نکاح کی بات کی تو اس کی آنکھوں ٹوٹے کانچ سی کرچیاں تھی۔ پھر اس کا لڑکھڑاتے قدموں سے اوپر کی طرف بڑھنا۔ ایک ایک منظر تو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ آج ایک بیٹا جیت گیا تھا اور اپنی میرو کا یزدان ہار گیا تھا۔ 

مرض عشق جسے ہوا اسے کیا یاد رہے

نہ دوا یاد رہے اور نہ دعا یاد رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یونیورسٹی گراؤنڈ میں وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھی تھی۔ ماہا اس کے گھر کے سارے افراد سے بخوبی واقف تھی۔ دونوں کے گھر والوں کا کافی آنا جانا تھا۔ نشوہ کی طرح ماہا کو بھی میرو اپنی بہنوں جیسی عزیز تھی۔ 

کل سے گھر میں جو ماحول تھا اس کی وجہ سے وہ بہت ڈسٹرب تھی۔ 

" ماہا! یزدان بھائی نے اچھا نہیں کیا۔ میرو کتنی اچھی ہے۔ میں کبھی بھی اُن سے بات نہیں کروں گی۔" وہ ٹشو ہاتھ میں پکڑے بار بار بہتی آنکھوں کو صاف کررہی تھی۔ 

ماہا کو حقیقتاً میرو کو  کے لیے بہت دُکھ ہوا تھا۔ وہ بچپن سے اسے جانتی تھی۔ سیدھی سادھی سی وہ معصوم سی لڑکی پل میں سب کو اپنا گرویدہ کرلیتی تھی۔ وہ گھر میں سب کی لاڈلی تھی۔ اتنے لاڈ پیار کے باوجود اس میں کوئی بُری عادت نہیں تھی۔یہ بات تو ماہا کو اس کا گرویدہ بناتی تھی۔

" نشوہ ! یار چُپ کرجاؤ ۔  یونی میں ایسے اچھا نہیں لگتا۔ سب تمہاری طرف متوجہ ہورہے ہیں۔" ماہا اسے ساتھ لگاتی سمجھانے والے انداز میں بولی۔

ان سے کچھ فاصلے پر کھڑا وہ شخص کب سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ جانے کیوں ان سنہری آنکھوں میں بہتے آنسو اسے ذرا پسند نہیں آۓ تھے۔ 

وہ لڑکی جو اپنی چلتی زبان سے سب کی بولتی بند کردیتی تھی۔ اس وقت خود بےبس سی لگ رہی تھی۔اسے اس بات کا حقیقتاً ادراک ہوا تھا وہ لڑکی بولتی ہی اچھی لگتی ہے۔ یوں روتی اور بےبس بالکل نہیں۔

اس کے دل میں محبت اپنے پر پھیلانے لگی تھی۔ جس سے وہ خود بھی اس وقت انجان تھا۔ بہت جلد آگاہی کے دوار اس پر کُھلنے والا تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کل کا پورا دن گھر سے باہر رہ کر آج ہی گھر لوٹا تھا۔ کسی نے بھی اس سے بات کرنا گوارہ نہ کیا۔وہ بھی چُپ چاپ اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ اپنے کمرے سے چند قدم فاصلے پر میرو کے کمرے کی طرف کچھ پل نظریں ٹکاۓ رکھے کھڑا رہا۔ دل بار بار اُسے دیکھنے کی دہائی کررہا تھا۔  

مگر وہ اپنے سارے جذباتوں پر پیر رکھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ کمرے میں بھی آکر اسے کسی پل چین نہ آیا تھا۔

میرو کی طبیعت ابھی بھی ٹھیک نہیں تھی مگر اُسی کے گھر آنے کی اطلاع مل چکی تھی۔ وہ اب اس سے جواب طلب کرنا چاہتی تھی۔ آخر اس کی کہاں غلطی تھی۔سر میں درد سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھی جسے وہ لگاتا اگنور کررہی تھی۔ 

دھاڑ کی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا۔ وہ تیز تیز قدموں سے چلتی اس کے نزدیک آئی۔ اس کے چہرے  پر غم ، غصہ ، بےبسی اور جانے کیا کیا تھا۔ 

وہ پہلے ہی مضطرب سا کمرے میں ادھر سے اُدھر چکر کاٹ رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے۔ سب بھاڑ میں جھونک کے اس کو سینے سے لگا لے.  اس کی ساری غلط فہمی سارے شکوے دور  کر دیں۔ پر وہ صرف سوچ ہی سکا۔ 

میرو نے درشتگی سے آکر اس کا گریبان پکڑا۔ 

" ہمت کیسے ہوئی آپ کی میری جگہ کسی اور کو دینے کی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں خود کو کہ جو دل میں آیا وہ کریں گے۔ میں کوئی آپ کی غلام نہیں ہوں جو آپ کے حکم کے تابع چلوں۔ آپ کے لیے میری زندگی کوئی مزاق ہے۔ جب دل کیا نکاح کرلیا۔ جب دل کیا قریب آگۓ جب دل کیے دور چلے گۓ۔ جب دل کیا کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔ " وہ ایک جھٹکے سے اس کا گریبان چھوڑ کر پیچھے ہوئی ۔ آنکھوں سے آنسو خود کے یوں بےمول ہونے پر زار و قطار بہہ رہے تھے ۔ آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا لیکن وہ ڈھیٹ بنی کھڑی رہی۔ 

سارے گھر والے دروازے کے قریب کھڑے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ کسی نے بھی ان کے درمیان بولنا مناسب نہ سمجھا۔ دا جان اپنی لاڈلی پوتی کو یوں دیکھ کر جیسے خود بھی ڈھے گۓ تھے ۔ جانے اس کے لیے انہوں نے کیا کیا خواب نا سجھاۓ تھے۔ جسے بے دردی سے روندھنے والا ان کا اپنا پوتا ہی تھا۔ کسی اور سے وہ کیا شکوہ کرتے۔

" آپ دھوکے باز ہیں۔ بتائیں ان سب میں میرا قصور کہاں ہیں۔ میری غلطی بتائیں مجھے۔ میں کہاں غلط ہوں ۔  " یزدان یوں کھڑا تھا گویا اس کے لبوں پر قفل لگ گیا ہو۔ اس سوال کا جواب خود اس کے پاس نہ تھا وہ اسے کیا جواب دیتا۔ کچھ وقت تک تو وہ کچھ بھی بول نہ پایا۔ پھر خود کو کمپوز کر کے اس کی طرف بڑھا۔ 

" میرو ! میری بات سنو ۔ ابھی تمہاری طبیعت  ٹھیک نہیں ہے ہم بعد میں اس کے بارے میں بات کریں گے۔ " اس نے آگے بڑھ کر اسے تھامنا چاہا۔ وہ فوراً دو قدم پیچھے ہوئی۔

" سوچیے گا بھی مت ۔ آپ مجھے ہاتھ لگانے کا حق بھی کھو چکے ہیں۔ اور بعد میں کیوں ابھی جواب دیں مجھے۔ آپ کیا جواب دیں گے ۔ اب فیصلہ تو میں کروں گی۔ " وہ اس کی طرف دیکھ کر طنزیہ مسکرائی۔ 

" آپ تو بس دوسروں کی غلطی کی سزا کسی دوسرے کو دے سکتے ہیں۔ بہت کر لیا آپ کی غلطیوں کو معاف بہت کرلیا آپ کا انتظار کہ جانے کب آپ واپس آئیں اور کب اس رشتے کو دوبارہ اپناۓ۔ میں ہی کیوں ہر بار جھکوں؟  آپ تو مجھ سے محبت کے دعویٰ دار تھا تو کہا گئ آپ کی محبت۔" اس نے بے دردی سے رخسار پر بہتے آنسوؤں کو رگڑا۔جو اس کی بے اعتنائی پر بےمول ہورہے تھے۔

  جو اس کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں پر تڑپ جاتا تھا وہ بس کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھتی پھر سے بولی۔ 

" اب آپ میری شکل دیکھنے کو بھی ترسیں گے ۔ جائیے آزاد کیا آپ کو اس رشتے سے ۔ آپ نہیں نبھانا چاہتے اس رشتے کو تو اب آپ سے کوئی بھی زبردستی نہیں کرے گا۔ آپ میرے ذریعے سب گھر والوں کو تکلیف دینا چاہتے ہیں تو مبارک ہو آپ کامیاب ہوۓ۔ آپ میری ماں کو تکلیف دے کر تائی جان کا بدلہ لینا چاہتے تھے اس میں بھی آپ کو فتح ہوئی۔  اکلوتی بیٹی کے اجڑنے پر کون ماں تکلیف میں نہ ہوگی۔  اس وقت آپ کی آنکھوں پر انتقام کی پٹی بندھی ہے آپ کچھ دیکھنا ہی نہیں چاہتے جس دن یہ دھند ہٹے گی نا آپ کی آنکھوں سے تب  دیکھنا آپ پچھتائیں گے۔" وہ اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھتی ہوئی بولی۔

وہ اس کی باتوں پر جیسا فریز سا ہوگیا۔ 

وہ مزید ایک بھی لفظ کہے بغیر اپنے چکراتے سر کو سنبھالتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ یزدان کے دل نے اسے دھائی دی کہ روک لے اسے۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اگر وہ چلی گئ تو اس کی زندگی میں جو چند ایک خوشیاں ہیں وہ بھی چلی جائیں گی۔ اس کا ایک ایک بڑھتا قدم اس کے خوشیوں کے دروازے اس پر بند کرتا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئ پر وہ ڈھیٹ بنا کھڑا رہا وہ ایک بھی قدم اس کی طرف نہ بڑھا سکا۔ وہ اسے کہہ کر گئ تھی کہ وہ پچھتانے والا ہے اور وہ واقعی پچھتانے والا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر بھی دو سنہری آنکھیں اسے مسلسل ڈسٹرب کررہی تھی۔ جتنی کوشش کررہا تھا اس کو جھٹکنے کی۔ اتنا اس کا معصوم چہرہ اس کی آنکھوں کے پردے پر لہراتا۔ وہ منظر اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تھا۔

یہ سب اس کے ساتھ پہلی بار ہوا تھا۔ اپنی اس کیفیت پر  وہ جھنجھلا سا گیا تھا۔ 

" بےوقوف لڑکی! ایسے سب کے سامنے کون روتا ہے وہ بھی یونی میں۔" اس کو وہی منظر یاد آیا جب  دو تین لڑکے اس کے رونے پر اس کی طرف متوجہ ہوگۓ تھے۔وو مسلسل اسی کی طرف اشارہ کرکے کوئی بات کررہے تھے۔ یہ منظر احان کو ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ اس پل اس کا دل کیا یا تو ان لڑکوں کی آنکھیں نوچ لے یا اُس بےوقوف لڑکی کو وہاں سے غائب کردے۔

"سٹاپ اٹ احان! تو کیوں اس لڑاکا لڑکی کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ تیری بلا سے وہ روۓ یا ہنسے۔" وہ بار بار اسی کی سوچ آنے پر خود پر لعنت بھیجتا ہوا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید نے کبھی اس کا نشوہ کی طرح لاڈ نہیں کیا تھا۔ کیونکہ بچپن سے ہی یزدان اس کو لیکر کافی ٹچی تھا۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا وہ ننھی سی گڑیا ان کی زندگی کا حصہ بن چکی تھی۔ یزدان کا اس کے لیے سحت انداز دیکھ کر وہ پیچھے ہٹ گیا تھا۔ اسے وہ بالکل نشوہ کی طرح عزیز تھی۔ اسے تکلیف میں دیکھ کر اسے حقیقتاً دُکھ ہوا۔ 

اسے یزدان پر بےتحاشا غصہ تھا۔ 

" میرو! میں آجاؤں بچے۔" وہ دروازے پر دستک دیتا اس سے اجازت طلب کررہا تھا۔ 

وہ جب سے یزدان کے قمرے سے آئی تھی اس کے آنسو ایک پل کے لیے بھی نہ تھمے تھے۔

" آجاۓ۔ " وہ آنسو پونچھتی اسے اندر آنے کی اجازت دے چکی تھی۔  

عرید نے اندر آتے اس کے سر پر محبت سے ہاتھ رکھا تھا۔

" کیسی ہو گڑیا؟" وہ صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔اس کا یہ محبت بھرا انداز پہلی بار دیکھا تھا۔ نہیں تو وہ لیے دیے انداز میں اس سے گفتگو کرتا تھا۔

کچھ دیر پہلے جو آنسو صاف کیے تھے ذرا سا شفقت بھرا مان پاتے ہی نکل آۓ تھے۔

" میرو! تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے تمہارا بھائی ابھی زندہ کسی میں اتنی ہمت نہیں جو تمہارے ساتھ غلط کرجاۓ۔ یزدان کی فکر مت کرو اس کو تو میں اچھے سے دیکھ لوں گا۔” اس کا بھائیوں والا مان دینے پر وہ شدت سے رو دی۔

" عرید بھائی! مجھے نہیں رہنا یزدان کے ساتھ۔ مجھے ان کے ساۓ سے بھی دُور رہنا ہے۔" وہ اس کی طرف بہتی آنکھوں سے دیکھ کر بولی۔

" جو تم چاہتی ہو وہی ہوگا۔" وہ اسے یقین دلانے والے انداز میں بولا۔

" شکریہ بھائی!  میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی۔" وہ تشکر بھری نظریں اس کے چہرے پر گاڑھتی ہوئی بولی۔

" بھائی بھی کہتی ہو۔ اور شکریہ۔ اب یزدان تم تک تبھی پہنچ سکے گا جب تم چاہو گی۔ " وہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑھے بہت کچھ سوچنے میں مصروف تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

عائشہ بیگم بھی میرو کو اپنی بہو بنانے کے لیے ہرگز رضامند نہیں تھی۔ انہیں نہ ہی ماہ نور پسند تھی اور نہ زومیرہ۔

ان کا بس چلتا تو اپنے بیٹے کی زندگی سی اُس لڑکی کو کب کے نکال دیتی۔ جس کی معصومیت انہیں ایک ناٹک لگتی تھی۔ 

"پھپھو آپ نے کہا تھا یزدان کی دلہن صرف میں بنوں گی۔" وہ غصے سے عائشہ بیگم کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

"چاہتی تو میں بھی یہی تھی۔ مگر یزدان اس چالاک لڑکی کے پیچھے پاگل ہے۔ دوسرا داجان اور شہیر دونوں ہی اس رشتے کے لیے راضی تھے۔ میری اس معاملے میں ایک بھی نہ چلی۔" وہ یزدان کی آنکھوں میں میرو کے لیے محبت دیکھ کر جلتی کڑھتی رہتی تھی۔

" پھپھو آپ کے چاہنے نہ چاہنے سے اب کیا ہوگا۔ یزدان تو اب میری دسترس سے بہت دُور چلے گۓ۔" وہ مصنوعی اداسگی چہرے پر سجاتی ہوئی بولی۔

عائشہ بیگم اس کا اداس چہرہ دیکھ کر پل میں پگھل گئ۔ ان کی دلی خواہش تھی اپنے اکلوتے بھائی کی بیٹی کو اپنے یزدان کی دلہن بنانے کی۔ لیکن اس معاملے میں کسی نے بھی ان۔کا ساتھ نہ دیا۔

ان کے پاس ایک ہی رشتہ تھا اور وہ تھا ان کا اکلوتا بھائی۔ جن سے انہیں بےحد محبت تھی۔ اسی محبت کی خاطر وہ وردہ کو اپنے بیٹے کے لیے سوچ چکی تھی۔  لیکن داجان اور شہیر دونوں ہی اس کے ارادوں پر پانی پھیر چکے تھے۔  

انہیں ماہ نور سے بےتحاشہ نفرت تھی۔ جس کی وجہ سے نہ تو وہ اپنے بیٹے کی محبت ٹھیک سے دیکھ پارہی تھی اور نہ اس کی خوشیاں جو صرف اور صرف  میرو کے ساتھ وابستہ تھی۔  

ماضی

میرو یزدان اسپیشل

زندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی۔کہ اچانک ہونے والا یہ حادثہ ان کی زندگی میں ہلچل مچا گیا۔

 عائشہ بیگم ایک دن ایسا سوئی کے دوبارہ اُٹھ ہی نہیں پائی۔ حرکت قلب بندھ ہونے کی وجہ سے وہ ان۔سب کو اکیلا چھوڑ اپنے اگلے سفر کے لیے روانہ ہوگئ۔ 

یزدان کو تو یقین نہ آیا کہ اس کی زندگی میں اتنا بڑا سانحہ بھی ہوسکتا ہے۔

وہ یقین کرتا بھی تو کیسے ابھی صبح ہی تو انہیں سہی سلامت چھوڑ کرگیا تھا۔اسے لگا اس کی زندگی اُس سے خفا ہوچکی ہے۔ وہ گُم صُم سا ہوکر رہ گیا۔

زندگی نے اتنا بڑا دھوکا کیا تھا وہ خود سے بھی خفا ہوکر رہ گیا۔

ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی سارے مرد عائشہ بیگم کو دفنا کر واپس لوٹے تھے۔ 

یزدان بغیر کسی سے بات کیے اپنے کمرے کی طرف 

بڑھ گیا۔  

میرو اس کے درد کو خود پر محسوس کررہی تھی۔  یہ تکلیف ایسی تھی جس کا کوئی بھی اژالہ نہیں تھا۔ وہ اس کو کمرے کی طرف جاتا دیکھتی رہ گئ۔    

کچھ دیر بعد وہ کھانا ٹرے میں رکھتی اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔  وہ صبح سے بھوکا پیاسا کملایا سا گھوم رہا تھا۔  میرو اس کے لیے حقیقتاً فکر مند تھی۔  بےشک اس کا عائشہ بیگم کے ساتھ رشتہ بہت اچھا نہ تھا۔  وہ ذرا ذرا سی بات پر اس کو ڈانٹ دیتی۔  پچھلے ایک سال سے جب سے وہ یزدان کے نکاح میں آئی تھی ان کا رویہ اس کے ساتھ انتہا سے زیادہ بُرا ہوگیا تھا۔ مگر اس نے کبھی اُن کی باتوں کا بُرا نہ مانا تھا۔  

مگر یزدان کی تو وہ ماں تھی۔ وہ بغیر دروازے پر دستک دیے اندر کی طرف بڑھی۔  جب وہ اسے صوفے پر سب سے لاتعلق سا بیٹھا نظر آیا۔  اس نے قدم اس کی جانب بڑھاۓ۔ کھانے کی ٹرے میز پر رکھ کر اس کے قریب ہی بیٹھ گئ۔

"یزدان " اس نے قریب بیٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

یزدان نے اپنی سُرخ نظریں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

"یزدان کھانا کھا لیں۔ آپ صبح سے ایسے ہی گھوم رہے ہیں۔ میں مانتی ہوں آپ کا غم بہت بڑا ہے۔ مگر جانے والوں کو کون روک سکتا ہے۔ ہم سب اُسی کی تو امانت ہیں۔ آج نہیں تو کل سب نے جانا ہے۔ " وہ معصومیت سے پُر لہجے میں بولی۔ 

" جانتا ہوں۔ پر اس دل کا کیا کروں جسے صبر نہیں آرہا۔" وہ اس کے معصوم چہرے کو دیکھتا درد سے چُور آواز میں بولا۔ 

" آجاۓ گا۔  یہ اللَہ کی طرف سے آزمائش ہے۔  وہ آپ کی پسندیدہ چیز لیکر ہی تو آزماتا ہے۔" وہ جتنی سمجھ داری سے بات کررہی تھی کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ محض سترہ سال کی ہے۔ 

وہ کچھ نہ بولا محض اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ میرو اس اچانک ہونے والے افتاد پر گھبرا سی گئ تھی۔ مگر وہ اس کی حالت کی پیش نظر کچھ نہ کہہ سکی۔

" یزدان ! پہلے کھانا تو کھا لیتے۔ " وہ اسے آنکھیں موندتا دیکھ فکر مندی سے بولی۔

" مجھے بھوک نہیں ہے میں محض کچھ دیر سکون چاہتا ہوں۔" وہ اس کی بات پر اپنی بند پلکوں کو کھولتا جواب دیتا دوبارہ آنکھیں موند گیا۔

میرو نے اس کے گھنے بالوں والے سر کو دیکھا۔ جانے اس کے من۔میں کیا سمائی وہ دھیرے دھیرے اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔سکون ملتے ہی وہ نیند کی گہری وادیوں میں اُترتا چلا گیا۔

اس کے سونے کا یقین کرکے اس نے اس کا سر صوفے پر رکھا۔ پھر بیڈ سے تکیہ اُٹھا کر اس کا اس کے سر نیچے سیٹ کیا۔ اور ایک نظر اس پر ڈالتی کھانے کی ٹرے لیتی باہر چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی کسی کے لیے نہیں رُکتی۔ چلتی رہتی ہے۔ یزدان کی زندگی میں یہ خلا تو شاید ساری عُمر رہنا تھا۔ مگر وہ سنبھل گیا تھا۔ 

اس دوران جو چیز اس نے شدت سے نوٹ کی تھی وہ تھی میرو کے لیے اس کی فکر۔ وہ شاید اسے اُداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔ 

وہ تو پہلا ہی اس کا دیوانہ تھا۔ اب دل اُس کی اتنی مخلصی پر اور اُس کی طرف جُھکا جا رہا تھا۔ سہی کہتے ہیں کہ اپنوں کی پہچان غم کی صورت حال میں ہی ہوتی ہے۔

ان کی زندگیوں کی اوراق دو سال مزید آگے پلٹے۔ اس کے میرو کے نکاح کو تین سال ہوچکے تھے۔ رات کو وہ اس کے کمرے میں اس سے اجازت طلب کرکے آیا تھا۔ وہ میرو سے بےتحاشا محبت کرتا تھا۔ اب اس کا ارادہ بہت جلد اُسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کا تھا۔ 

" میرو! بس کچھ دن اور تمہارا یہ یزدان تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرنے کے لیے شدت سے بےقرار ہے۔" وہ دلکشی سے مسکراتا ہوا خود کو آئینے میں دیکھتا نیچے کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنے بال سنوار رہی تھی۔ ساتھ ساتھ آنکھوں کے پردے پر رات کا وہ منظر لہرا رہا تھا۔ جب یزدان اس کے نزدیک اس کے بیڈ روم میں موجود تھا۔

اسے اس کی یہ بات اتنی اچھی لگی کہ وہ اس سے اس کی رضامندی پوچھنے آیا تھا۔کیسے وہ انکار کرتی محبت کی منزلوں پر وہ خود اس کے ساتھ قدم رکھ چکی تھی۔ وہ اس سفر کی ہمراہی بن چکی تھی جہاں سے واپسی شاید ناممکن ہی تھی۔ اور وہ واپس آنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ وہ یزدان کے سنگ آگے آنے والے سارے راستے ساری منزلیں پار کرنا چاہتی تھی۔ 

وہ خدا کا شکر کرتی نہ تھکتی تھی۔ کہ یزدان اس سے اتنی محبت کرتا تھا۔ وہ اس کے قریب آنے کے  اس کے ساتھ وقت گزارنے کے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ وہ محبت میں شدت کا قائل تھا۔ وہ کئ دفعہ اس سے اپنی محبت کا اظہار کرچکا تھا۔ 

جب جب وہ اس پر اپنا حق جتاتا میرو کو وہ لمحے بےحد پسند تھے۔ 

وہ شرمیلی سی مسکان چہرے پر سجائی اس کی محبت کے اظہار میں کھوئی تھی۔ چہرے پر اس وقت ڈھیروں رنگ بکھرے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے تقریباً گیارہ بجے کا وقت تھا۔ آج اسے آفس سے آتے کافی دیر ہوگئ تھی۔ ورنہ وہ عموماً ٹائم پر ہی آتا تھا۔ لیٹ وہ تبھی ہوتا تھا جب اُسے واقعی ضروری کام ہو۔ 

اس دوران یہ ڈیوٹی میرو کی تھی کہ وہ اسے کھانا دے کر پھر ہی سوتی۔وہ نیند کی اتنی کچی تھی کہ رات کو جلد ہی  سو جاتی تھی۔ ماں کے ڈانٹنے پر وہ منہ بسور کر اس کا انتظار  کرتی تھی۔ آج بھی کچھ ایسا ہی حال تھا۔

گھڑی نے جب گیارہ کا ہندسہ بھی عبور کیا ۔اس کی بس ہوئی تھی آنکھیں نیند سے بند ہونا شروع ہوئی۔ جب گاڑی رُکنے کی آواز پر اسے حقیقتاً خوشی ہوئی تھی۔ اس نے سوچا تھا کہ جلدی جلدی کھانا دے کر وہ سونے کے لیے چلی جاۓ گی۔

یزدان کے لاؤنج میں قدم رکھتے ہی میرو اسے دیکھ کر بولی۔

" کھانا لاؤں۔" اس کی اتنی جلد بازی پر یزدان کے لبوں پر مسکراہٹ بکھری۔ 

" بیوی ! اندر تو آنے دو یار۔ نہ سانس لینے دیا نہ ہی فریش ہوا ہوں آتے ہی کھانا کھانے بیٹھ جاؤں۔" یزدان اس کی جلد بازی پر چوٹ کرتا ہوا بولا مگر سامنے بھی میرو تھی جس کی اپنی ہی منطق تھی۔

" ہاں تو میں کب سے یہاں فریز ہوکر آپ کا انتظار کررہی ہوں۔ جلدی آیا کریں۔ ورنہ کھانا نہیں ملے گا۔" وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔

یزدان کا بھرپور قہقہ لاؤنج میں گونجا۔

" بیوی یہ ظلم مت کرنا۔غریب سا بندہ ہوں کہا جاؤں گا۔ " وہ مسکراہٹ ضبط کرتا مصنوعی اداسی چہرے پر سجا کر بولا۔

صبح سے کام کرکے جو تھکان ہوئی تھی۔ اس کی بیوی اپنی معصوم باتوں سے پل میں  فریش سا کر گئ۔اسے ساری تھکن پل میں دُور ہوتی محسوس ہوئی۔

" غریب وریب کوئی نہیں ہیں آپ۔ " اس نے کہتے ہی منہ بسورا۔

" ٹائم ضائع مت کریں ۔ جلدی سے فریش ہوکر  آئیے کھانا گرم کررہی ہوں۔ آپ کی وجہ سے میری نیند خراب ہوتی ہے۔" وہ اسے جانے کا اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

" بہت زیادہ نیند نہیں آتی تمہیں۔ شادی کے بعد اچھے سے تمہاری نیندوں کا علاج کروں گا۔" وہ اسے دیکھتا زومعنی انداز میں بولا۔

" آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔ کہ شادی کے بعد بھی میں ایسے ہی رہوں گی جیسے اپنے ماں باپ کے گھر ہوں۔اپنی مرضی سے سوؤں گی ۔ کھاؤں گی پیوں گی۔اگر آپ مجھ پر حکم چلانا چاہتے ہیں تو میں ابھی آپ سے شادی سے انکار کرتی ہوں۔" وہ اس کی باتوں کا مطلب سمجھے بغیر گھورتی ہوئی بولی۔

" جانم انکار تو اب میں تمہیں کسی صورت بھی کرنے نہیں دوں گا۔" وہ قریب آتا اسے اپنے حصار میں لیتا اس کے دائیں رخسار کو چومتا ہوا بولا۔

" ہاں تو پھر آپ بھی وعدہ کریں جیسے ہیں ویسے ہی رہے گے شادی کے بعد بالکل بھی نہیں بدلیں گے۔" وہ اس کے حصار میں کھڑی اپنا آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑھتی ہوئی بولی۔

" وعدہ رہا جانم۔ تمہارا یہ یزدان پوری دنیا کے لیے بدل جاۓ مگر اپنی میرو کے لیے کبھی نہیں بدلے گا۔" وہ اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا ہوا بولا۔

اس کے اقرار پر وہ کھل سی گئ تھی۔وہ اس کی مسکراہٹ کو دیکھتا اس کے سر پر ہونٹ رکھتا فریش ہونے چلا گیا۔

میرو بھی ہنستی ہوئی اس کے لیے کھانا گرم کرنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد وہ نائٹ ڈریس ٹراؤزر اور شرٹ میں ملبوس فریش سا نیچا آیا۔ تب تک وہ اس کے لیے کھانا گرم کرچکی تھی۔ اس کو جاتا دیکھ وہ اسے ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ والی کرسی کو قریب کھینچتا بٹھا چکا تھا۔ میرو بھی خاموشی سی اس کے نزدیک بیٹھ گئ۔

" جب تک میں کھانا نہیں کھا لیتا میرے قریب بیٹھی رہو۔" وہ محبت سے اسے دیکھتا کھانا شروع کرچکا تھا۔

"تم نے کھایا کھانا۔" اس کے پوچھنے پر میرو نے محض اثبات میں سر ہلایا۔پھر بھی وہ اسے اپنے ساتھ ساتھ کھلا رہا تھا۔ میرو نے چند ایک نوالے لیکر بس کردیا اس کا واقعی من نہیں تھا۔

کھانا کھا کر میرو نے برتن اُٹھاۓ انہیں دھو کر ریک میں رکھا۔ وہ کچن کے دروازے پر کھڑا محبت سے پُر نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

اس کے فارغ ہونے پر یزدان نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ جسے کچھ ہچکچاتے ہوۓ اس نے تھام لیا۔

وہ اسے لیکر باہر گارڈن میں آگیا۔ 

"

 ہم رخصتی کے بعد روز ایسے ہی گارڈن میں سیر 

کریں گے۔ اور وہ ساری چیزیں کریں گے جو میری میرو کو پسند ہو۔"وہ اس کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوۓ بولا۔

"آپ مجھےہفتے میں ایک بار لانگ ڈرائیو پر لیکر جائینگے ۔" وہ چمکتی آنکھیں اس پر ٹکا کر بولی۔

" میں تو روز لیکر جانے کے لیے تیار ہوں۔ بشرط یہ تم اپنی نیند کا کچھ انتظام کرلو۔" وہ شرارتی نگاہیں اس پر ٹکا کر بولا۔

" آپ تو ابھی سے میری نیند  کے دشمن ہیں۔ " وہ خفی سے موڑ گئ۔ 

"کہاں یار ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔ناراض ہو گئ۔ " وہ پیچھے سے اسے اپنے حصار میں لیکر ٹھوڑی اس کے کندھوں پر ٹکا گیا۔ 

" نہیں۔" وہ اس کی طرف چہرے موڑے یک لفظی جواب دے گئ۔

"دیکھنا ہماری زندگی بہت حسین ہوگی۔ جس میں یزدان اور اس کی میرو اور ان کی ڈھیر ساری محبت ہوگی۔میں زندگی کے ایک ایک پل کو تمہارے ساتھ کُھل کر انجواۓ کرنا چاہتا ہوں۔تمہارے ساتھ بہت ساری حسین یادیں بنانا چاہتا ہوں۔ " دونوں کی نظریں اس وقت سامنے چمکتے چاند پر تھی۔اور  وہ زندگی کی حسین خواب بُن رہے تھے۔ وہ اس کے کانوں میں محبت بھری سرگوشیاں کرتا اسے مسکرانے پر مجبور کررہا تھا۔

"میں کل صبح داجان سے بات کرنے والا ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ ضرور مان جاۓ گے رخصتی پر۔ " وہ اس اتنے آگے والے ارادوں سے ظاہر کررہا تھا۔ 

وہ ہوا خنکی بڑھتی دیکھ اسے لیے اندر کی جانب بڑھ گیا۔رات بھی بہت ہوچکی تھی اب واقعی اسے سو جانا چاہیے تھا۔

ہم عشق کے اس مقام پر ہیں

جہاں دل کسی اور کو چاہے تو گناہ ہوتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ صبح ہوتے ہی داجان کے کمرے کے باہر میں موجود تھا۔ اس کے علاوہ شہیر صاحب اور شاہ ویز دونوں ہی وہاں موجود تھے۔ جنھیں یزدان نے یہ کہہ کر بلایا تھا کہ وہ ضروری بات کرنا چاہتا ہے۔ 

" ہاں برخودار! بولو کیا کہنا ہے بھئ؟ اتنے ارجنٹ نوٹس پر سب کو یہاں جمع کیا۔" داجان ایک نظر اس پر اور ایک نظر شہیر اور شاہ ویز پر ڈالتے ہوۓ بولے۔ جو خاموشی سے یزدان کے بولنے کا انتظار کررہے تھے۔

" داجان ! بات واقعی بہت اہم ہے۔" وہ بلاوجہ کا سسپنس پھیلاتا ہوا بولا۔

داجان نے اسے ان نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہو کہ برخودار اِدھر اُدھر کی ہانکنا بند کرو سیدھا مدعے کی بات پر آؤ۔ 

یزدان کو اپنی شادی کی بات اپنے منہ سے کرتے تھوڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ 

داجان کی نظروں سے گڑبڑاتا وہ فوراً سیدھا ہوا۔ اب کی بار جب وہ بولا تو اس کی لہجے میں بےحد سنجیدگی تھی۔ 

" داجان!  میں چاہتا ہوں اب آپ میرو کی رخصتی کردیں۔ ہمارے نکاح کو تین سال ہوچکے ہیں۔  میرے خیال میں اتنا عرصہ بہت ہوتا ہے۔  ہم ایک دوسرے کو اتنا سمجھ چکے ہیں کہ اب ہم ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ اور اب میں مزید میرو سے دور نہیں رہ سکتا۔یقین مانیے آپ کی پوتی سے بےانتہا محبت کرتا ہوں اُسے بہت خوش رکھوں گا۔" وہ اپنا بات مکمل کرتا خاموش ہوکر اب ان کی طرف دیکھنے لگا۔

داجان نے داد دینے والی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

" بہت خوب صاحبزادے۔ ہم۔سمجھتے تھے ہمارا بس یہ چھوٹا بیٹا ہی بےشرم ہے مگر ہمارا پوتا تو ان سے بھی چار ہاتھ اگے نکلا۔" انہوں نے ایک نظر شاہ ویز پر ڈال کر پوتے کو طنزیہ نظروں سے دیکھا ۔پر سامنے بھی یزدان تھا بلا کا ڈھیٹ اور بے شرم اسے بھلا کیا فرق پڑھنا تھا۔ مگر شاہ ویز صاحب خواہ مخواہ میں گڑبڑا کر رہ گۓ۔

" بابا جان ! اِدھر بھلا میرا کیا ذکر؟" انہوں نے خُفی بھری نگاہوں سے باپ کی طرف دیکھا۔ شہیر صاحب نے نیچے منہ کرکے اپنی ہنسی چھپائی۔ اپنے چھوٹے بھائی کو یوں لپیٹ میں آتا دیکھ کر وہ ہنسی ضبط کرکے رہ گۓ۔

" شرم نہیں آتی اپنے دادا کے سامنے اپنی محبت کا یوں دھڑلے سے اظہار کرتے ہوۓ۔" وہ شاہ ویز کی دُہائی کو اگنور کرتے ہو یزدان کی طرف مُڑے۔ 

" داجان کیسی شرم میری منکوحہ ہے۔ اور محبت کرتا ہوں اگر اظہار کردیا تو  پھر کیا ہوا۔ آپ میری توجہ رخصتی سے نہیں ہٹا سکتے۔" اگر داجان سیر تھے تو وہ سوا سیر تھا۔

" ابھی وہ بچی  ہے پڑھ رہی ہے پھر بھی آپ کی بات پر ہم ایک سال بعد غور کرنے کا سوچ سکتے ہیں۔" وہ اس کی باتوں کو سرے سے اگنور کرتے ہوۓ بولے۔

" ہاں یہ اچھا ہے پوتی کے بڑا ہونے کا انتظار کریں بےشک پوتا بوڑھا ہوجاۓ۔" وہ ان کی باتوں پر جھنجھلایا سا بولا۔

اس کی بات پر ان تینوں کے فلک شگاف قہقہے گونجے۔ یزدان نے ناراض نظر ان سب پر ڈالی۔

” داجان آپ رخصتی کا انتظام کردیں انہیں بڑا میں  خود ہی کرلوں گا۔ اتنی بھی کوئی بچی نہیں ہے محترمہ انیس سال کی ہوچکی ہیں۔اگر آپ اب بھی نہ مانے تو میں خود ہی رخصتی کرلوں گا۔ " وہ ان کے قہقہوں کو اگنور کرتا ہوا بولا۔ 

" اچھا بھئی سوچتے ہیں کچھ اس بارے میں۔  پہلے میرو کی رضامندی تو لے لیں۔ " وہ اس کے سامنے ہار مانتے ہوۓ بولے۔ 

" میرو کو کوئی اعتراض نہیں آپ رخصتی کی ڈیٹ فکس کریں۔ " وہ اس عمل کو مزید طوالت میں ڈالتے وہ برجستگی سے بولا۔

" ہاں بھئی ہمارے پوتے کو بہت جلدی ہے ۔ شاہ ویز تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں۔" وہ پوتے کی 

بےقراریوں پر محض اسے گھور کر رہ گۓ۔

" نہیں بابا جان ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔" وہ داجان کو جواب دیتے یزدان کی طرف متوجہ ہوۓ۔

" یزدان ! ہمارے لیے میرو ہی ہماری زندگی کی ساری خوشیوں کی وجہ ہے۔ ہماری اور ماہ نور کی زندگی کا کُل اثاثہ۔  تم یقین مانو ہماری زندگی میں جو مسکراہٹیں ہیں وہ محض میرو کے دم  سے ہیں۔  ہم انہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے۔  ہماری زندگی ہماری چھوٹی سی گڑیاہے ۔ بس اتنا کہے گے انہیں خوش رکھیے گا ہمیں اور کچھ نہیں چاہیے۔" ان کے لہجے میں میرو کے لیے محبت ہی محبت تھی۔ وہ فکر مندی سے یزدان کی طرف دیکھ کر بولے۔انہیں یقین تھا کہ یزدان میرو کو بہت خوش رکھے گا مگر وہ ایک باپ  تھے کیسے اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے فکرمند نہ ہوتے۔

"چاچو ! میں میرو کو بہت خوش رکھو گا ۔یقین مانیے کبھی اُس پر کوئی آنچ بھی نہیں آنے دوں گا۔ " وہ ان کا ہاتھ تھامتا یقین دلانے والے لہجے میں بولا۔ 

شاہ ویز اس کی باتوں پر محض سر ہلا کر رہ گۓ۔ 

شاہ ویز نے محبت سے اسے گلے لگایا۔ 

"مبارک ہو یزدان۔ " شہیر بھی بیٹے کو گلے لگاتے ہوۓ بولے۔ یزدان باپ سے ملتا داجان کی طرف آیا۔

داجان نے بھی اس کی پیشانی پر پیار کیا۔  سب کے باہمی مشورے پر اس مہینے کے آخری جمعے کو رخصتی کا فریضہ انجام دینے کا فیصلہ ہوا۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ رات کا وقت تھا میرو بیڈ پر لاپرواہی سے بیٹھی سامنے چلتی سکرین پر چلتی باربی مووی دیکھنے میں مصروف تھی۔ 

شاہ ویز نے دروازہ کھولا تو وہ بغیر حجت کے کُھل گیا۔

وہ بیٹی کے بچوں والے انداز پر محض مسکرا کر رہ گۓ۔

ان کی میرو سے محبت مثالی تھی۔انہوں نے شاید ہی اپنی زندگی میں اسے کبھی ڈانٹا تھا۔اکثر ماہ نور کی ڈانٹ سے بھی وہ اسے بچاتے آۓ تھے۔ 

"میرو! بچے آجاؤں۔" وہ اجازت طلب کرنے والے  انداز میں بولے۔ 

"آئیے نا بابا۔ آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں؟" وہ مووی بند کرتی سیدھی ہو بیٹھی۔ 

وہ اس کے قریب آتے بیڈ پر بیٹھے اسے اپنے حصار میں لے چکے تھے۔ اس کے معصوم چہرے پر بلا کا سکون تھا۔

" میری گڑیا کی پڑھائی کیسی جارہی ہے؟ یزدان ٹھیک تو  پڑھا  رہا ہے۔" وہ اس کے سر پر لب رکھتے ہوۓ بولے۔

یزدان کے ذکر پر ڈھیروں رنگ اس کے چہرے پر بکھرے۔ 

"جی بابا! اچھے سے پڑھاتے ہیں۔" وہ یزدان کے ذکر پر جھجھکتی ہوئی بولی۔

"میری چھوٹی سی گڑیا کتنی بڑی ہوگئ۔ کہ اسے کسی اس کا حقدار اُس کو لینے آنے والا ہے۔ ابھی وہ کل کا دن ہی لگتا ہے جب گلابی کمبل میں لپٹی چھوٹی سی گلابی گڑیا مجھے پکڑائی گئ تھی۔" وہ آبدیدہ ہوتے اس کے ہاتھوں کو چوم گۓ۔ 

میرو بھی روتے ہوۓ ان کے سینے سے لپٹ گئ۔

" گڑیا یزدان رخصتی چاہتا ہے انہوں نے آپ سے بات کی۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتے ہوۓ بولے۔ 

اس نے محض اثبات میں سرہلایا۔ 

"آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں اگر  آپ کے بابا آپ کی رُخصتی کا فیصلہ کریں۔" وہ رخصتی سے پہلے اس سے تصدیق چاہتے تھے۔ انہیں پورا یقین تھا ان کی بیٹی ان کا مان کبھی توڑ ہی نہیں سکتی۔

میرو نے ان کے ساتھ لگے ہی نفی میں سر ہلایا۔ 

پھر وہ کتنی دیر اس کے پاس بیٹھے اس کی بےمعنی گفتگو سنتے رہے۔ کیونکہ اب میرو کو چُپ کروانا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔وہ بڑی توجہ سے اس کی ایک ایک بات سُن رہے تھے۔ 

ماضی 

یزدان میرو ماضی اسپیشل

سب گھر والوں کی باہمی رضا مندی سےگھر میں شادی کے ہنگامے شروع ہوگۓ تھے۔ ساری شاپنگ یزدان نے میرو کی پسند سے کی تھی۔ بڑی تیزی سے دن آگے کو سرکتے جارہے تھے۔ 

شادی سے ایک ہفتہ پہلے میرو کو مایوں بٹھا دیا گیا۔ اس رسم پر یزدان بےحد جھنجھلایا سے گھوم رہا تھا۔  

اب وہ اس فضول سی رسم کا جواب طلب کرنے داجان اور دادی کے کمرے میں موجود تھا۔  اس کے مطابق ایسی کوئی رسم تھی ہی نہیں۔ 

"دادای جان!  یہ کسی عجیب سی رسم ہیں۔ کہ ہم اب شادی تک میرو کا چہرے نہیں دیکھ سکتے۔ " وہ کوشش کے باوجود اپنے لہجے کی جھنجھلاہٹ نہ چُھپا سکا۔ 

"کیا بولے جارہے ہو؟ یہ کوئی فضول سی رسم بالکل بھی نہیں ہے۔  بلکہ میرو کا اب تم سے پردہ ہے۔ اب تم اُس کے آس پاس بھٹکتے نظر نہ آؤ۔" وہ تنبیہ کرنے والے انداز میں بولی۔

" واہ بہت خوب ! یہ اچھا ہے شوہر سے پردہ کروا دو۔اور وہ چڑیلیں جو دن رات اس کے سر پر سوار رہتی ہیں اگر میری بیوی کو نظر لگا دی تو۔ " وہ لڑکیوں کے گروپ پر چوٹ کرتا ہوا بولا جو اس وقت میرو کے گرد گہری پہرہ داری کررہی تھی۔

"داجان پوتے کے انداز پر مسکرا کر رہ گۓ۔ جب کے دادی جان نے پوتے کی بےشرمی پر ڈوپٹہ منہ پر رکھ کر ہنسی دبائی۔

" یزدان بچے کچھ شرم کرو۔ آپ کی بیوی کچھ دنوں تک آپ کے پاس ہوگی۔ بس کچھ دن انتظار کرلیں۔" دادی جان نے اسے سمجھانے کی ناقص سی کوشش کی۔

"اوکے کوشش کروں گا۔آپ کی پوتی سے دُور رہنے کی۔" وہ منہ کے زاویے بگاڑتا ہوا بولا۔

ان کے سمجھانے پر اس نے محض اثبات میں سر ہلایا۔

دادی جان اس کے سمجھ جانے پر سکون کا سانس لے کر رہ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کر دن سرکتے گۓ اور آج مایوں کا دن آپہنچا۔ مایوں کا اتظام بہت زیادہ بڑے پیمانے پر نہیں کیا گیا تھا۔ حویلی کے لان  کو خوبصورتی سے برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔ ایک طرف اسٹیج بنا کر اس پر صوفے سیٹ کر دیے گۓ تھے۔ہر طرف خوبصورت لائٹ جلتی ماحول کو خوبصورت بنا رہی تھی۔  

میرو نارنجی رنگ کا لہنگا پہنے ہر دیکھنے والے کی آنکھ کو خیرہ کررہی تھی۔ پھولوں کا زیور پہنے وہ خود بھی مہکتا گلاب لگ رہی تھی۔ہاتھوں میں گجرے پہن رکھے تھے۔ ماتھے پر پھولوں کا چھوٹا سے مانگ ٹیکا اور کانوں میں بالیاں جو اسے بےتحاشا حسین دکھا رہی تھی۔ ہری آنکھوں میں سنہری خواب سجا رکھے تھے۔ چہرے کسی بھی آرائش سے پاک ویسے ہی دھمک رہا تھا۔ ہونٹوں پر محض ہلکا سا گلابی گلوز لگایا گیا تھا۔

دوسری طرف یزدان گرے کلر کے کرتا شلوار میں بےحد ہینڈسم لگ رہا۔ محبت کو پالینے کی سوچ پر اس کی جھپ ہی نرالی تھی۔ جیسے دنیا فتح کرلی ہو۔آنکھیں خوشی سے بےتحاشا چمک رہی تھی۔

ہلا گُھلا کرتے دوستوں اور کزنوں کے ہمراہ یزدان آکر اسٹیج پر بیٹھا تھا۔ اس کے دوستوں اور کزنوں نے خوب رونق لگائی تھی۔ ہر طرف خوشیوں کی شادیانے بج رہے تھے۔ اس کے ہونٹوں سے مسکراہٹ جدا ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔ یہ لمحے اس کے لیے بےحد خاص تھے۔ 

کچھ دیر بعد میرو نشوہ اور کچھ دوستوں کے ہمراہ اسی کی طرف آتی نظر آئی۔ چہرے پر گھونگھٹ ڈال کر چہرہ چُھپایا گیا تھا۔ یزدان کا دل اس کا چہرہ دیکھنے کو شدت سے دھڑکا۔ پچھلے پانچ دنوں سے وہ اس کی جھلک تک نہ دیکھ پایا تھا۔ اس بےقرار دل کو اس کی جھلک دیکھ کر سکون ملنا تھا۔ اس کو قریب آتا دیکھ کر وہ اسٹیج کے کونے پر کھڑا ہوتا ہاتھ اس کی طرف بڑھا چکا تھا۔جسے دھڑکتے دل کے ساتھ میرو تھام چکی تھی۔ اس کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگاتا نرمی سے لب رکھ چکا تھا۔ہر طرف ہوٹنگ کا شور ہونے لگا۔سب کے سامنے اس کی جسارت پر میرو کے قدم لڑکھڑاۓ تھے۔ مگر وہ اسے سہارا دیتا اسٹیج پر چڑھا چکا۔

" میری زندگی میں پہلا قدم مبارک ہو جانم۔" وہ اس کے کان سرگوشی کرتا اسے احتیاط سے صوفے پر بٹھا چکا تھا۔

میرو کے لب اس کی بات پر مسکراہٹ میں ڈھلے۔دل کی دھڑکن تو اس کے نزدیک آنے سے سو کی سپیڈ پکڑ چکی تھی۔ وہ اس کے ساتھ جُڑ کر بیٹھتا اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔ اتنے مہمانوں کی موجودگی میں اس کی جسارتیں اسے سُرخ کرگئ تھی۔

" ہاتھ چھوڑیں یزدان۔کوئی دیکھے گا تو کیا سوچیں گا۔" وہ اس کے ہاتھ میں دبا اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔

" سارے یہی سوچیں گے یزدان اپنی میرو سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔" وہ اس کے قریب جھکتا سرگوشی کرنے والے انداز میں بولا۔ ان سب میں اس نے اس کا ہاتھ بالکل بھی نہیں چھوڑا تھا۔ بلکہ وہ ڈھیٹ بنا اس کے پیچھے سے اس کی کمر کے گرد ہاتھ گزارتا اسے اپنے ساتھ لگا چکا تھا۔ 

میرو نے اس کے ہاتھ پر چُٹکی کاٹی مگر وہ بھی ڈھیٹ واقع ہوا تھا مجال تھا کہ وہ ایک آنچ بھی ہلا ہو۔میرو محض دانت پیس کر رہ گئ۔

ان سب میں بھی یزدان بےچین سا تھا وہ ڈوپٹے کے نیچے چُھپا اس کا چہرہ نہیں دیکھ پارہا تھا۔ کچھ سوچتے ہوۓ اس نے کسی کو موبائل سے پیغام بھیجا ۔ اس کا دوست اس کا اشارہ ملتے ہی کام پر لگ چکا تھا۔  اس کا اشارہ ملتے ہی اس کا دوست مین سوئچ بند کرچکا تھا۔  ہر طرف اندھیرا سا چھا گیا۔ میرو نے گھبرا کر اس کا بازو تھاما۔  

" ریلکس میں اِدھر ہی ہوں تمہارے پاس۔ " وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔ پھر اندھیرے کا فائدہ اُٹھاۓ اسے کمر سے تھامے لان سے باہر ایک سنسان گوشے میں آگیا۔ جہاں اس وقت کوئی نہ تھا۔ میرو نے اس افتاد پر گرنے سے سنبھلنے کے لیے اسے مضبوطی سے تھاما۔

اس نے پلر کے نزدیک لا کر اس کی کمر سے ہاتھ ہٹایا۔ میرو نے گرنے کے ڈر سے پلر سے ٹیک لگائی۔

" یزدان کیا کررہے ہیں؟ کوئی دیکھ لے گا۔" وہ اندھیرے میں ہی اس سے بولی جو اس کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔ چاند کی ہلکی سی روشنی اس کے چہرے پر پڑھ رہی تھی۔ وہ اس کی کہاں سُن رہا تھا۔ وہ تو محض اپنے دل کی آواز سُن رہا تھا۔دل کی دھڑکنیں اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بے قرار تھیں۔

" جانتی ہو نا پچھلے پانچ دنوں سے تمہیں دیکھا نہیں بس اس لیے جان جارہی ہے۔ " وہ اس کے کان کے قریب جھکتا سرگوشی کرنے والے انداز میں بولا۔ بولتے ہوۓ اس کے لب میرو کی کان کی لُو کو چُھو رہے تھے۔

اتنا کہتے ہی اس نے میرو کے چہرے پر موجود گھونگٹ اُٹھایا تھا۔ وہ سٹل وہی کھڑا رہ گیا وہ لگ ہی اتنی حسین رہی تھی۔ مایوں کے جوڑے میں وہ چاندی کی طرح دمک رہی تھی۔ کچھ اُس کی قربت پر اس کے چہرے پر ڈھیروں رنگ بکھرے ہوۓ تھا۔ 

" ماشاء اللّہ " اس کے حسین چہرے کو دیکھ وہ ہلکے سے بڑبڑایا۔

"جان لینا کا ارادہ ہے۔ " اس کے حُسن کے آگے وہ چاروں شانے چت ہوا تھا۔

گہرا سانس لیتے اس کی ناک سے اپنی ناک جوڑ گیا۔ میرو اس کی قربت میں سانس بھی روک گئ۔اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر پڑھتے وہ اچھے سے محسوس کرسکتی تھی۔ اس کے بازو میرو کے گرد مضبوطی سے حائل ہوچکے تھے۔  وہ اس کی تیز دھڑکنوں کی آواز بخوبی سُن رہا تھا۔ 

”دل چاہ رہا ہے تمہیں سب سے دُور اپنے ساتھ لے جاؤں۔سارا زمانہ ظالم سماج بنا ہے۔ابھی دو دن مزید ہیں۔ہاۓ کیسے انتظار کروں۔ " وہ ٹھنڈی آہ بھرتا ہوا بولا۔

"دو دن ہیں محض۔ ایسے گزر جائیں گے۔" وہ نہایت دھیمی آواز میں بولی اگر وہ اس کے قریب نہ کھڑا ہوتا تو وہ اس کی آواز سن نہ پاتا۔

" ایسے نہیں گزریں گے جانم۔میرے لیے ایک ایک پل صدیوں جیسے ہیں۔" وہ گہری سانس بھر کر اپنا چہرہ پیچھے کرگیا۔غور سے اس کی طرف دیکھا جو آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔

یزدان نے اس کی بند آنکھوں پر ہونٹ ٹکاۓ تو فٹ سے آنکھیں کھول گئ۔ اس کا چہرہ دیکھ وہ بےخود ہورہا تھا۔ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا اس کے ایک ایک نقوش کو ہونٹوں سے چھونے لگے۔ میرو کپکپاتے ہوۓ اس کا کندھا تھام گئ۔ وہ مزید مضبوطی سے اس کی کمر کو جھکڑے اپنے ساتھ لگا گیا۔ کتنے ہی لمحے وہ اسے خود میں بھینچے کھڑا رہا۔میرو اس کے دل کے مقام پر سر ٹکاۓ اس کی دھڑکنوں کا رقص سُن رہی تھی۔ 

وہ کتنی ہی دیر ایک دوسرے میں کھوۓ کھڑے رہے۔  اردگرد کا تو جیسے ہوش ہی نہ تھا۔جب موبائل کی رنگ ٹون نے یہ فسوں توڑا تھا۔  

یزدان نے پیچھے ہوتے موبائل نکال کر دیکھا جہاں اس کے دوست کا میسج جگمگا رہا تھا۔ 

" چلو چلے لائٹ آنے والی ہے۔  " وہ اس کا گھونگھٹ واپس اُلٹتا اس کا ہاتھ تھامتا واپس لان کی جانب بڑھا۔ 

اس کی باتوں سے اتنا اندازہ اسے ہوچکا تھا۔ کہ یہ لائٹ اسی نے بند کروائی ہے۔ مگر وہ ایک لفظ بھی بھول نہ سکی۔ابھی تو وہ اپنی دھڑکنوں کا شمار کررہی تھی جو اس کی قربت پر اس قدر بڑھ گئ تھی

وہ اسے واپس لاکر اسٹیج پر بٹھا چکا تھا۔ ان کے بیٹھنے کے چند پل بعد ہی لائٹ آچکی تھی۔

مایوں کی یہ رسم خیر و عافیت سے انجام پائی تھی۔سارے مہمان تقریباً  اپنے اپنے گھر جاچکے تھے۔ چند ایک مہمانوں کے علاوہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ تقریباً رات کا وقت تھا۔ اپنے قریب ٹھہری  ساری لڑکیوں کو تھکان کا بہانہ کرکے بھیج چکی تھی۔ اس نے کمرے میں آکر سکون کا سانس لیا جو پچھلے کچھ دنوں سے مچھلی بازار بنا ہوا تھا۔ آج بڑی مشکلوں سے دادی جان سے کہہ کر اس نے سب سے جان چھڑائی تھی۔

وہ ابھی تک مایوں کی لباس میں ملبوس تھی۔ ڈوپٹہ اچھے سے پنوں سے سیٹ کیا گیا تھا۔ بس نے جھنجھلا کر ڈوپٹے پر لگی پنوں کو دیکھا۔ 

" ویسے حد ہے ان بےوقوفوں نے اتنی پنیں لگا دی ۔" اس نےبڑبڑاتے ہوۓ پنیں نکالی تھی۔ساتھ ساتھ نشوہ اور اپنی کزنز کو غائبانہ گھوری سے نوازا تھا۔  کیونکہ آج بیوٹیشن کو بالکل بھی بلایا نہیں گیا تھا۔  اس نے کوئی میک اپ نہ کیا تھا۔ اس لیے اس کی کزنز نے اس کا ڈوپٹہ اچھے سے سیٹ کیا تھا۔ جو کہ اسے اب اپنی جان کا ازار لگ رہا تھا۔ 

پنیں نکال کر وہ ڈوپٹہ اُتار کر لاپرواہی سے صوفے پر ڈال  چکی تھی۔ ہاتھوں میں پہنے اُن گجروں کو اتارتی وہ وہ بالوں میں لگی پنیں اُتارنے لگی۔ لمبے گھنے بال پیچھے کمر پر بکھر گۓ۔

یزدان نے کمرے میں قدم رکھ کر احتیاط سے دروازہ بند کیا۔

" ہاۓ پرنسز! ویسے ڈوپٹے کے بغیر زیادہ اچھی لگ رہی ہو۔" وہ کمرے میں داخل ہوتا آنکھ مارتا ہوا بولا۔

میرو نے اسے بھرپور گھوری سے نوازا۔ اب کچھ دیر پہلے گزرے  قربت کے وہ لمحے نہیں بھولی تھی وہ جن کی طرح پھر نازل ہوگیا تھا۔ میرو نے ڈوپٹہ اُٹھا کر خود پر اوڑھا۔ پھر کڑے تیوروں سے اس کی طرف مُڑی۔

" آپ کو اپنے کمرے میں سکون نہیں ہے۔ جو بار بار جن کی طرح نازل ہوجاتے ہیں۔ بےشرم کہی کے۔" وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔  

" میں تو یہاں تمہیں باہر لیکر جانے آیا تھا۔  سوچا تھا کچھ پل ساتھ گزاریں گے پھر تمہیں تمہاری فیورٹ آئس کریم بھی کھلاؤں گا۔ مگر افسوس اگر تم نہیں جانا چاہتی۔  تو کوئی بات نہیں۔ " وہ مصنوعی اداسی چہرے پر سجاتا ہوا بولا۔ 

میرو نے اس کی باتوں میں سے محض آئس کریم والی بات دھیان سے سُنی ہے۔

" میں چل رہی ہوں چینج تو کرنے دیں۔" وہ اس کو باہر جاتا دیکھ اس کے راستے میں حائل ہوئی۔ 

اس کی چالاکی پر وہ مسکراہٹ دبا گیا۔یزدان نے اس کے ماتھے پر جھولتے ٹیکے کو دیکھے جو اپنی جگہ سے ہلتا ایک سائیڈ پر ہوگیا تھا۔یزدان نے وہ ٹیکا اُتار کر نرمی سے اپنے لب ماتھے پر رکھے تھے۔

" جلدی سے چینج کرلو ۔ میں ویٹ کررہا ہوں۔" وہ اس کا گال چومتا بیڈ پر  لیٹتا موبائل چلانے لگا۔میرو جلدی جلدی میں جو ڈریس ہاتھ لگا اسے لیتی واشروم میں بڑھ گئ۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ نکھری نکھری سی باہر نکلی۔ جو کالے رنگ کا شارٹ فراک پہنے چاندی کی دمک رہی تھی۔ گوری رنگت پر کالا لباس بےتحاشا جچ رہا تھا۔مزید پانچ منٹ بعد وہ ڈوپٹہ سر پر اچھی طرح سجاتی۔ پیروں میں نازک سی چپل پہنے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

" چلیں یزدان میں ریڈی ہوں۔" وہ میٹھی سی آواز میں بولی۔ یزدان نے نظر اُٹھا کر دیکھا پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ لڑکی اسے تسخیر کرنے کا ہر ہنر جانتی تھی۔ 

" میں نے جانے کا ارادہ بدل دیا ہے۔ اب میں تمہارے ساتھ خوبصورت سے لمحے گزارنا چاہتا ہوں۔" وہ مبہوت سا اسے دیکھتا اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنے قریب کرگیا۔

" نوووو! یہ چیٹنگ ہے۔ آپ میرے ساتھ یہ نہیں کرسکتے اب تو ہر حال میں آپ کو مجھے آئس کریم کھلانی ہوگی۔" وہ نو کو لمبا کھینچتی چیختی ہوئی بولی۔

" اور تم جو چیٹنگ کرتی ہو۔ مظلوم سے بندے پر اپنی خوبصورتی کے تیر چلاتی ہو وہ کیا۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بڑبڑایا۔

" جی نہیں میں نے کچھ نہیں کیا۔ " وہ اس کی باتوں پر کھلکھلاتی ہوئی بولی۔ اپنے لیے اُس کی یہ دیوانگی بےحد اچھی لگی تھی۔ چاہے جانے کا یہ احساس کتنا انوکھا تھا۔ کتنا پیارا تھا۔

" آفس کا کوئی بندہ دیکھ لیں نا مجھے تو کبھے یقین نہ کرے۔ کہ میں وہی یزدان ہوں جو ان کی سانسیں خشک کیے رکھتا ہوں۔کسی کام کا نہیں چھوڑا مجھے۔" اس کے لہجے میں واضح شرارت کی رمق تھی۔ جسے محسوس کرکے میرو اس کے کندھے پر ایک مُکا جڑ گئ۔ اس کے حسین چہرے پر سے اس کی نظریں ایک پل بھی نہ ہٹی تھی۔

"آپ مجھے تنگ مت کریں جلدی سے لیکر جاۓ۔ ورنہ میں آپ سے بالکل بھی بات نہیں کروں گی۔" وہ انگلی اُٹھاتی وارننگ دینے والے انداز میں بولی۔

" یہ ظلم نہ کرنا بیوی۔ تم بات نہیں کرو گی تو تمہاری یہ میٹھی سی آواز کیسے سُنوں گا۔ " وہ اسے ساتھ لگاتا اس کے بالوں پر ہونٹ ٹکا گیا۔ پھر اس کا ہاتھ تھامتا باہر کی جانب بڑھا۔ بڑے احتیاط سے دروازہ کھولا۔ ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ اندھیرے وہ اس کا ہاتھ پکڑے احتیاط سے ایک ایک قدم اُٹھا رہا تھا۔ وہ اس کے ساتھ آتو گئ تھی مگر اب اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہی کوئی انہیں دیکھ ہی نہ لے۔ 

" یزدان ! مجھے ڈر لگ رہا ہے اگر کسی نے دیکھ لیا تو کتنی باتیں بناۓ گے۔" وہ سرگوشی کی آواز میں اس کے ساتھ چلتی ہوئی بولی۔

" میں کسی سے نہیں ڈرتا تم میری منکوحہ ہو کوئی غیر نہیں۔" وہ اس کا ہاتھ سہلاتا ساتھ ہونے کا یقین دلاتا ہوا بولا۔

وہ اسے گاڑی میں بٹھاتا خود بھی فرنٹ سیٹ پر سوار ہوچکا تھا۔ اس دوران اس نے ایک پل بھی اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔ جیسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا ہو۔ میرو کو واقعی ہی اس کے ساتھ کا بھرپور یقین ہوا تھا۔اب اس کے دل میں کوئی خوف نہیں تھا بلکہ اسے یقین تھا کہ جب اس کا یزدان اس کے ساتھ ہے تو اسے فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ اپنی میرو کے لیے سب سے لڑ جاۓ گا۔ 

یزدان نے کار ایک آئس کریم پارلر کے باہر روکی۔ پھر اس کے لیے آئس کریم لاتا اسے کھانے کا اشارہ کرچکا تھا۔ وہ بس محبت بھری نگاہوں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ خود اُسے میٹھا بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ میرو  نے آئس کریم والا ہاتھ اس کے سامنے کیا۔ جسے وہ ہلکا سے چکھ کر پیچھے کر چکا تھا۔ اسے پتہ تھا یزدان کو میٹھا نہیں پسند۔ مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ اپنی میرو کو نہ کبھی نہیں کرے گا۔

اس کے آئس کریم کھا لینے پر وہ فاتحانہ مسکرائی تھی۔ 

"یزدان! آپ کو میٹھا کیوں نہیں پسند۔" وہ آئس کریم سے بھرپور انصاف کرتی ہوئی اس سے سوال کرگئ۔ 

" کیونکہ میرے پاس میری میٹھی سی میرو ہے۔ جس کے سامنے مجھے ہر چیز پھیکی لگتی ہے۔" اس کے جواب پر وہ بھرپور انداز میں کھلکھلائی تھی۔ 

" ہاۓ اللّہ یزدان أپ سچ میں بہت فنی ہے۔" وہ اسے دیکھتی ہنستی ہوئی بولی۔

" اچھا پر ابھی کچھ دیر پہلے کوئی مجھے بےشرم کہہ رہا تھا۔" اپنی بات پر اس کے سُرخ پڑھتے چہرے کو دیکھ کر وہ ہلکا سے ہنسا۔

پھر اسے لیکر وہ بیچ سائیڈ پر آیا تھا۔ جو خالی پڑا تھا اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ 

جہاں ایک طرف رات کے اندھیرے میں چاند کی روشنی پانی پر پڑتی خوبصورت منظر پیش کررہی تھی۔ وہی دوسری طرف کالی اندھیری رات میں پھیلا وہ سناٹا کچھ خوف سا بھی پھیلا رہا تھا۔ کہہ دُور سے کتوں کے بھونکنے کی آواز پر میرو ڈر کر اُچھلی اور اس کے  سینے کا حصہ بنی۔ وہ وہاں پھیلے سناٹے کو اگنور کرتی خود کو ہمت دیتی  اس خوبصورت نظارے کو دیکھ رہی تھی۔ مگر  رات کے اندھیرے یہ خوفناک آوازیں اس کی ساری بہادری ہوا کرکے لے گئ۔

" یزدان ! مجھے ڈر لگ رہا ہے یہاں کتنا اندھیرا ہے۔ چلیں نا یہاں مجھے نہیں دیکھنا کچھ بھی۔" وہ خوفزدہ ہوتی تقریباً رو دینے کو تھی۔ 

وہ اسے ساتھ لگاتا آہستہ سے اس کا سر تھپکنے لگا۔

" میرو! میری جان میں اِدھر ہی ہوں آپ کے ساتھ.  پھر کیسا ڈر۔اِدھر میرو طرف دیکھو۔" وہ اس کا چہرہ سامنے کرتا محبت بھرے انداز میں بولا۔

اس کی آنکھوں میں دیکھتی جہاں وہ اپنے ساتھ ہونے کا بھرپور یقین دلا رہا تھا۔ یزدان اسے ساتھ لگاۓ ہی آگے بڑا مگر اب کی بار اس کا چہرہ سامنے سمندر کی لہروں پر تھا۔ 

جانے کتنی دیر وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہاں ننگے پیر واک کرتے رہے۔ ہوا میں خنکی بڑھنے لگی۔ یہ ٹھنڈی ہوا ان۔دونوں کو ہی بہت بھلی لگ رہی تھی۔ 

" شکریہ یزدان ! مجھے بہت اچھا لگا یہاں آکر۔ یہ میری زندگی کا سب سے حسین دن تھا میں نے بہت انجواۓ کیا۔" وہ چہرہ اونچا کرتی اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

" مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم نے ہر پل کو انجواۓ کیا۔اب میں نے تمہارے لیے یہ سب کیا۔ اب تم بھی مجھے ایک میٹھی سی کس دو۔” وہ سنجیدگی سے بولتا آخر میں پٹری سے اُترتا شرارت سے بولا۔

میرو نے اسے پیچھے کو دھکیلا ۔وہ اس افتاد کے لیے تیار نہ تھا اس کی گرفت میرو پر بہت نرم سی تھی اس لیے وہ فوراً ہی اس کے حصار سے آزاد ہوتی آگے کی طرف بھاگی۔

" یہ چیٹنگ ہے میرو واپس آؤ۔" وہ دُور سے اسے دہائی دیتا اس کے پیچھے بھاگا۔

کچھ دیر میں ہی وہ اسے پکڑتا اپنی آغوش میں قید کرچکا تھا۔

"اب کہاں جاؤ گی بچ کر۔" وہ اپنی ناک اس کی گردن پر سہلاتا ہوا بولا۔پھر جگہ جگہ ہونٹ رکھتا اسے کھلکلانے پر مجبور کرگیا۔

"یزدان چھوڑیں گُدگُدی ہورہی ہے۔" وہ کھلکھلاہٹوں کے درمیان بولی۔

وہ اس کی بات پر سچ میں اس کے گُدگُدی کرتا اس کی کھلکھلاہٹوں میں اضافہ کرگیا۔

" بس کریں۔یزدان" وہ پھولی ہی سانسوں کے درمیان بولی۔

یزدان ہاتھ پیچھے ہٹاتا اسے لیے ریت پر بیٹھ گیا۔ جہاں اس کے حصار میں چُھپی اس کے سینے پر سر رکھتی جانے کون کون سی فرمائش کر رہی تھی۔ جسے یزدان توجہ سے سُنتا اس کی ایک ایک بات نوٹ کررہا تھا۔ کیونکہ وہ اس کی ایک ایک فرمائش پوری کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ 

"یزدان! مجھے نا تُرکی بھی جانا ہے۔ہمیں وہ خوبصورت سا ملک آپ کے ساتھ دیکھنا ہے۔آپ لیکر جائیں گے نا۔" وہ اُمید بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولی۔

یزدان نے مسکراتے ہوۓ ہاں میں سر ہلایا۔ جس پر میرو کے چہرے پر بھی زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اُبھری۔یہ وہ رات تھی جس میں یزدان نے اس کے چہرے پر سے ایک بھی لمحے مسکراہٹ جدا نہ ہونے دی۔ 

اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھتے یزدان نے دل سے دُعا کی تھی اس کی میرو یوں ہی مسکراتی رہے۔

وہ دونوں ایک دوسرے کے سنگ ایک بھرپور رات  باہر گزار کر آۓ تھے جہاں یزدان کی محبت بھری سرگوشیاں اور میرو کی شرمیلی سی کھلکھلاہٹیں تھی۔

یہ ان کی زندگی کہ وہ آخری رات تھی جہاں دونوں بھرپور طریقے سے مسکراۓ تھے۔ ان کے اس خوبصورت سے رشتے کو نظر لگ چکی تھی۔ جو ان کو ایک دوسرے سے دُور کرنے والی تھی۔

یزدان میرو ماضی اسپیشل

آج اگر اس کی ضروری میٹنگ نہ ہوتی تو وہ کبھی آفس نہ آتا۔ دوسرا وہ اس بات پر جھنجھلایا تھا کہ میٹنگ شام۔کو چھ بجے کے بعد تھی۔ یہ میٹنگ تقریباً ایک مہینے پہلے ہی فکس تھی۔ اس کی ساری پریزنٹیشن تیار تھی۔ دوسرا اس سے ان کے بزنس کو کافی فائدہ ہونے والا تھا۔ اس لیے آج مہندی ہونے کے باوجود وہ بجھے دل سے یہ میٹنگ اٹینڈ کرنے آگیا تھا۔ 

ابھی ابھی وہ کامیابی سے یہ پروجیکٹ اپنے نام کرچکا تھا۔اب اسے بس گھر جانے کی جلدی تھی۔ گھڑی کی سوئیاں آٹھ کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں۔

کلائنٹ کو فارغ کرتا اب وہ جلدی جلدی سامان سمیٹ رہا تھا۔ اب وہ جلد سے جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا۔

جیسے ہی اس نے آفس کے باہر قدم بڑھانے چاہے۔اسے حماد صاحب اندر آتے ہوۓ دکھائی دیے۔ انہیں اس پل آفس میں دیکھ کر اسے ذرا خوشی نہ ہوئی۔ جتنا وہ جلدی میں تھا اتنا ہی وہ لیٹ ہورہا تھا۔

" ماموں جان! ائیے نا خیریت سے آنا ہوا۔ابھی ہم کچھ دیر میں ملنے ہی والے تھے۔ " وہ ایک ہی سانس میں سارے سوال کرگیا۔ وہ چاہتا تھا کہ جلد سے جلد وہ اپنی بات کہیں تاکہ وہ بھی گھر جاسکے۔ 

" یزدان!  مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔  اگر بات زیادہ ضروری نہ ہوتی تو کبھی نہ آتا۔" وہ سنجیدگی سے اس کے چہرے کے تاثرات جانچتے ہوۓ بولے۔انہیں اس کا یہ انداز ذرا پسند نہ آیا تھا۔جس پر ان کے ماتھے پر بلوں کا جل بچھا۔  

" جی ماموں جان بولیے نا۔ " وہ اپنی انداز پر کچھ شرمندگی محسوس کرتا مسکراتا ہوا بولا۔ 

" یزدان!  عائشہ مجھے بہت عزیز تھی۔ میں نے اسے چھوٹی بہن کم بلکہ بیٹی بن کر زیادہ پالا تھا۔ " وہ آبدیدہ ہوتے ہوۓ بولے۔

یزدان۔کی آنکھیں بھی ان کے ذکر پر لال ہوئی۔ وہ کہاں انہیں بھول سکتا تھا۔ مگر ان دو سالوں میں وہ رب کی رضا سمجھ کر قبول کر چکا تھا۔

"ماموں جان! ماما کو جب بھی یاد کریں مسکرا کر کریں۔آپ کو روتا دیکھ کر ان کی رُوح کو بھی تکلیف  ہوگی۔" وہ خود کو سنبھالتے ہوۓ انہیں دیکھ کر گویا ہوا۔

"تم نہیں سمجھ سکتے۔ کیونکہ ابھی تم ان حقیقتوں سے انجان ہو۔ جو تمہاری ماں کی تڑپ کا باعث تھی۔ " انہوں نے ٹھیک موقع پر تیر نشانے پر مارا تھا۔

" کیا کہنا چاہتے ہیں ماموں؟ ماما کس بات کی پریشانی تھی۔" وہ ماں کی تکلیف کا سُن کر تڑپ اُٹھا تھا۔اس کی سوالیہ آنکھیں ان کے چہرے پر ٹکی تھی۔

"بہت دنوں سے میں فیصلہ نہیں کر پارہا کہ تمہیں یہ حقیقت بتاؤں یا نہ۔میں نہیں چاہتا تمہاری زندگی میں کوئی طوفان آۓ۔میں تمہیں ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔" اپنی بات پر یزدان کے چہرے پر پھیلی بےچینی وہ بخوبی نوٹ کرچکے تھے۔

"کیا بات ہے ماموں جان؟  کُھل کر کہیں کیا کہنا چاہتے ہیں؟" اب کی بار وہ سنجیدہ لہجے میں گویا ہوا۔

"عائشہ اور میں نے بچپن سے ہی بہت سختیاں دیکھی ہیں۔ ہمارا باپ اچھا انسان نہیں تھا۔اس لیے ہماری ماں کے مرتے ہی ہماری خالہ ہمیں اپنے ساتھ لے آئی کیونکہ ہمارے باپ نے ہمیں رکھنے سے انکار کردیا تھا۔  ہماری خالہ کی دو بیٹیاں تھی۔  ماہ نور اور شیریں۔ شیریں کا رشتہ کافی ٹائم سے تمہارے باپ شہیر کے ساتھ پکا تھا۔  مگر عین شادی والے روز وہ شادی سے انکار کرکے اپنے عاشق کے ساتھ بھاگ گئ۔  ایسے میں تمہاری ماں نے سب کی عزت کو سنبھالا۔  اس گھر کو اتنے سال دیے۔  مگر ان کو کیا ملا بدلے میں بےوفائی۔  عائشہ اب تک اس حقیقت سے انجان تھی کہ تمہارے باپ نے دوسری شادی کررکھی ہے۔ یہی صدمہ اور بےوفائی تو وہ برداشت نہیں کرپائی۔ " وہ جھوٹے آنسو بہاتے یزدان کا سُرخ چہرہ دیکھ رہے تھے۔

لفظ دوسری شادی یزدان کے دل میں پھانس کی طرح چُبھا تھا۔

" جب شیریں کے اُس عاشق نے اُس سے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ تو وہ واپس آگئ۔ جب وہ لٹی پٹی واپس آئی سب نے ہی انہیں جلد ہی معاف کردیا۔ پھر یہی سے تمہاری ماں کی بربادی کا آغاز ہوا۔  تم جانتے ہو ان کی شادی کس کی ضد اور اصرار پر تمہارے باپ سے ہوئی ہے۔" وہ یزدان کی طرف دیکھرے تجسس پھیلانے والے انداز میں بولے۔

" تمہاری اُس پیاری ماہ نور چچی نے۔ اُس نے خود کو مارنے کی دھمکی دی ۔گھر چھوڑنے کی دھمکی دی۔  تو سب پل میں مان گۓ۔ آخر تمہارے داجان کی لاڈلی بھتیجی تھی کیسے نہ مانتے۔ تمہاری ماہ نور چچی کو صرف اتنی بہن کی تکلیف نظر آئی یہ کبھی نہ سوچا کہ عائشہ بھی اُن کی بہن جیسی ہے۔" وہ بات مکمل کرتے دو پل ٹھرے۔

 " تمہاری ماں کو کچھ وقت پہلے ہی تمہارے باپ کی بےوفائی کا پتہ چلا تھا وہ گُم سُم ہوکر رہ گئ تھی۔جس دن اُسے حقیقت پتہ چلی تھی وہ میرے گلے لگ کر بہت روئی تھی۔ یہاں تک کے اُن کا ایک بیٹا بھی ہے۔ احان آفندی۔" وہ اس کے تاثرات بھی نوٹ کر رہے تھے۔ جو ان کی باتوں پر خطرناک حد تک سنجیدہ ہوگۓ تھے۔انہیں اپنا تیر بالکل نشانے پر لگتا نظر آیا۔  وہ اپنی بےعزتی کا بدلہ اچھے سے اُن لوگوں سے لینا چاہتے تھے۔ 

" یہاں تک کہ تمہارا باپ اُس عورت کو گھر لانا چاہتا تھا۔  اور شیریں کی ڈیمانڈ تھی کہ وہ تمہاری ماں کو چھوڑ دے تبھی وہ اُن کے ساتھ گھر آۓ گی۔ وہ ایک سوتن کے ساتھ گزارہ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ انہیں کوئی پچھتاوا ہی نہیں تھا کہ وہ ایک عورت کی زندگی برباد کرچکی ہیں۔ اور تم جانتے ہو شہیر عائشہ کو طلاق دینے کے لیے راضی بھی ہوگیا تھا۔ عائشہ کو اپنی عُمر بھر کی ریاضت ضائع ہوتی نظر آئی۔  تمہارے باپ کی یہی بےوفائی ان کی ابدی موت کا سبب بنی۔ اور تم اُسی عورت کی بیٹی کی جھولی خوشیوں سے بھر رہے ہو۔ جو کہی نا کہی تمہاری ماں کی بربادی کا سبب بنی۔  "ان کا اشارہ ماہ نور کی طرف تھا جس کے اصرار پر ہی سب نے شیریں کو معاف کرتے شہیر سے ان کا نکاح کروا دیا۔ وہ اپنی مکاری کا جال بہت اچھے سے بچھا چکے تھے۔  اب دیکھنا یہ تھا کہ تباہی کہاں تک جانی تھی۔ 

" حقیقت جاننا تمہارا حق تھا۔  اب آگے تم جو بھی فیصلہ کرو مجھے کوئی بھی اعتراض نہیں ۔ یہ تمہاری زندگی ہے جس پر تمہارا حق ہے تم چاہو جیسا بھی فیصلہ کرو۔تمہاری ماں تمہاری شادی وردہ سے کروانا چاہتی تھی مگر تمہاری پسند کے آگے خاموش ہوگئ۔ " وہ اپنی بات کہتے اس کا کندھا تھپتھپاتے کیبن سے نکلتے چلے گۓ۔ 

یزدان بے تحاشا غصّے سے چیخ اُٹھا۔ٹیبل پر پڑی ساری چیزیں وہ غصے سے اُلٹ چکا تھا۔ اس کی ماں اتنی تکلیفیں برداشت کرتی رہی اور وہ سب حقیقتوں سے انجان اپنی خوشیوں میں مگن تھا۔ 

اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے گھر والے اتنے بےحس ہوچکے تھے۔ کہ ان کی بےحسی سے ان کی ماں کی جان چلی گئ اور ان لوگوں کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا۔

وہ بےحد غصے میں اپنے کیبن سے نکلتا گھر کی جانب بڑھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو نے آئینے کے سامنے بیٹھے اپنی تیاری ملاحظہ کی۔  ابھی کچھ دیر قبل بیوٹیشن اسے تیار کرکے گئ تھی۔  

ملٹی کلر کے خوبصورت سے لہنگے اور گرین کلر کی کُرتی میں ملبوس آج اس کی جِھپ ہی نرالی تھی۔آنکھیں رات کی قُربت اور پیاری بھری سرگوشیاں یاد کرتی چمک رہی تھی۔ چہرے پر شرمیلی سی مسکان تھی۔ یقیناً آج اسے سجا دھجا دیکھ یزدان اپنے ہوش کھونے والا تھا۔

ہلکے پُھلکے میک اپ میں سجی وہ دیکھنے والوں کی آنکھ کو خیرہ کررہی تھی۔ ماہ نور بیگم آکر کئ بار اس کی نظر اُتار چکی تھی۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی انہیں ڈر تھا کہ کہی کسی کی نظر نہ لگ جاۓ۔

نشوہ تیار ہوتی اس کے کمرے میں آئی تھی۔ وہ خود پھی لہنگا چولی میں ملبوس بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔ 

اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا میرو کو خیالوں میں کھوۓ ہنستے ہوۓ پایا۔

" ماشاءاللّہ میرو بہت پیاری لگ رہی ہو۔" وہ اسے دیکھتی اس کے قریب ہی آکر بیٹھ گئ۔

اس کی آواز پر میرو چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ 

"اکیلے اکیلے کیا سوچ کر شرمایا جارہا ہے۔ ذرا ہم بھی تو سُنیں۔" وہ تھوڑی دیر پہلے والی اس کی مسکراہٹ پر چوٹ کرتی ہوئی بولی۔

" کچھ بھی تو نہیں۔" میرو بوکھلاتی ہوئی بولی۔

" ویسے آپ بڑی چالاک ہیں۔ بڑی ہوشیاری سے لڑکیوں کو کمرے سے نکالا۔ تاکہ یزدان بھائی کا دیدار آسانی سے ہوسکے۔ ویسے یزدان۔بھائی کل رات آپ کو لیکر کہا گۓ تھے۔" وہ آنکھیں چھوٹی کرتی اسے گھورتی ہوئی بولی۔

میرو اس کی بات پر ہڑبڑا گئ تھی۔ ان کے حساب سے انہیں کل رات کوئی بھی دیکھ نہیں پایا تھا مگر وہ غلط تھے یہ آفت کی پرکالہ سے کون بچ پایا تھا۔

" ہم۔۔۔ کہی بھی نہیں۔" وہ لاپرواہی سے کندھے اچکاتی ہوئی بولی۔

" ہاۓ میری معصوم میرو۔ اگر کل میں نے بذات خود ان گنہگار آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو ضرور تمہاری بات پر یقین  کر لیتی۔" وہ اسے جتا چکی تھی کہ وہ ان لوگوں کو دیکھ چکی ہے۔

"تمہیں اپنی زندگی میں سکون نہیں جو دوسروں کی جاسوسیاں کرتی پھر رہی ہو۔" میرو تیکھے انداز میں اسے گھورتی اس کی ایک بازو پر تھپڑ رسید کرچکی تھی۔ 

نشوہ نے ڈرنے کی ایکٹنگ کرتے بازو سہلائی۔ لیکن وہ باز پھر بھی نہ آئی تھی۔ 

"ویسے یزدان بھائی رومانٹک بہت ہیں۔ ہے نا۔" وہ تصدیق کرنے والے انداز میں پوچھتی اسے جھیپنے پر مجبور کرچکی تھی۔

میرو اس کی باتوں پر اسے ٹھیک کے گھور بھی نہ سکی۔

"نشوہ! یزدان بہت اچھے ہیں " وہ جھینپی جھینپی اسے دیکھ کر بولی۔

"ہاۓ تم۔شرماتی ہوئی کتنی پیاری لگتی ہو۔ یزدان۔بھائی یوہی نہیں تم جان نثار کرتے۔" وہ چھیڑنے والے انداز میں اسے سر جُھکانے پر مجبور کرگئ۔

آج کا سارا انتظام بھی میرج ہال میں کیا گیا تھا۔  اس 

 لیے سارے مہمان جاچکے تھے۔ گھر میں اس وقت گھر کے ہی لوگ موجود تھے۔ جو بس یزدان کے آتے ہی نکلنے والے تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بےحد غصے میں آفس سے نکلتا کار میں آکر بیٹھا۔ گردن کی پھولی نسیں اس کے بےتحاشا غصے کی گواہ تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا سب کچھ تہس نہس کردے اس وقت اسے اپنا بھی ہوش نہ تھا۔

نہایت ہی تیز رفتار میں ریش ڈرائیونگ کرتا وہ دس منٹ میں حویلی کے باہر موجود تھا۔

لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ حویلی کے لاؤنج میں پہنچا تھا۔

"ڈیڈ! " لاؤنج میں آکر وہ بےتحاشا غصے میں دھاڑا۔ 

شہیر صاحب کےساتھ ساتھ سارے گھر والے اس کی پکار سُن کر باہر آچکے تھے۔ کبیر اور ہاجرہ بیگم مہمانوں کے استقبال کے لیے ہال میں جاچکے تھے۔اس لیے وہ یہاں موجود نہ تھے۔

" یزدان بچے کیا ہو؟ کیوں شور مچارہے ہو؟ پہلے ہی تم لیٹ آۓ ہو۔جاؤ جاکر جلدی سے تیار ہوجاؤ۔" وہ اس کے غصے پر دھیان دیے بنا اسے کمرے میں جانے کا بول چکے تھے۔

یزدان نے ان کی بات سُنی ہی نہیں تھی۔ 

"ڈیڈ! کیا آپ دوسری شادی کرچکے ہیں؟کیا آپ کا ایک بیٹا بھی ہے؟" گھر کے سب بڑوں کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ سارے اپنی جگہ جمے رہ گۓ۔ 

وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجاۓ ڈائریکٹ پوائنٹ کی بات پر آیا۔

" یزدان! بچے کیا ہوا ہے؟ ابھی ان سب معاملوں کو بعد کے لیے رکھو۔مہمان انتظار کررہے ہونگے۔ اس معاملے پر آکر بات کریں گے۔" داجان معاملے کی نزاکت کی سمجھتے ہوۓ خود نزدیک آۓ تھے۔

"بات تو ہوگی اور ابھی ہوگی۔ مجھے میرے سارے سوالوں کے جواب چاہیے۔" وہ ایک نظر داجان پر ڈالتا باپ پرنظر ٹکا گیا۔ 

"آپ نے میری ماں کو دھوکا دیا۔ دوسری شادی کی۔کیوں ۔۔کیوں؟ مجھے وجہ جاننی ہے۔" وہ تقریباً دھاڑتا ہوا بولا۔ اس کی آواز آہستہ آہستہ بلند ہوتی  جارہی تھی۔

میرو اس کا جارحانہ انداز دیکھ کر کچھ گھبرا سی گئ تھی۔ ابھی کل تو دیکھا تھا اسے اتنے پیارے انداز میں۔وہ پُور پُور سجی کھڑی تھی مگر اُس نے ایک نظر بھی اس پر ڈالنا گوارہ نہیں کیا تھا۔ 

"مجھے جواب چاہیے۔آپ لوگ کیوں کچھ نہیں بول رہے کیوں میرا ضبط آزمارہے ہیں۔" وہ اپنی سُرخ آنکھیں  کو میچتا ہوا بولا۔

"ہاں میں نے دوسری شادی کی ہے۔ مگر وہ حالات ایسے تھے کہ مجھے یہ قدم اُٹھانا پڑا۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولے۔ بیٹے کا یہ ٹوٹا بکھرا انداز انہیں خود تکلیف میں مبتلا کررہا تھا۔

"جیسے بھی حالات تھے آپ کی ہمت کیسے ہوئی یہ سب کرنے کی۔" اس نے غصے سے سائیڈ ٹیبل پر پڑا گلدان اُٹھا کر دیوار پر دے مارا۔

"چچی آپ سے تو مجھے یہ اُمید نہیں تھی۔آپ ایک عورت ہو کر ایک عورت کی تکلیف نہیں سمجھ سکی۔ سمجھتی بھی کیسے مقابل آپ کی بہن تھی۔ اپنی بہن کی خوشیوں کی خاطر میری ماں کی زندگی اُجاڑ دی۔" وہ اپنی سُرخ آنکھیں ماہ نور پر ڈال کر بولا۔ 

ماہ نور اس کے انداز پر تڑپ اُٹھی تھی۔  

"یزدان !ایسا نہیں ہے میری جان۔ " وہ روتی ہوئی اسے دیکھ کر بولی۔ 

" داجان ! آپ ان سب کو منع کرنے کی بجاۓ ان کے آگے ہار مان گۓ۔  کیونکہ ماہ نور چچی آپ کی بھتیجی تھی اس لیے اور میری ماں شاید آپ کی کچھ نہیں لگتی تھی۔ آپ سب میری ماں کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ " اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ رہے تھے مگر وہ آنسوؤں کو باہر آنے کی اجازت نہیں دے سکتا تھا۔  اس تکلیف کا مداوا ہی نہیں تھا کہ اس کے اپنوں نے اس کو یہ دُکھ دیا تھا۔ 

یہ تکلیف اس کی برداشت سے باہر تھی۔

"جب آپ لوگ میری ماں کو خوش نہیں رکھ پاۓ تو میری کیا اوقات ہے۔ جہاں میری ماں کے لیے جگہ نہیں تھی وہاں میں بھی رہنا گوارا نہیں کروں گا۔ آج کے بعد میرا آپ لوگوں سے کوئی رشتہ نہیں۔ " وہ سب پر قہر بھری نظریں ڈال کر پلٹا تھا۔ 

میرو اس کی تکلیف خود پر محسوس کر رہی تھی۔ جو بھی تھا وہ کہی نا کہی حق بجانب تھا۔ حالات چاہے جو بھی ہو ایک بیٹے کے لیے ماں کی تکلیف اذیت کا باعث تھی۔ وہ اسے حویلی سے باہر جاتا دیکھ تڑپی تھی۔ میرو کو لگا اگر وہ چلا گیا۔ تو اس کی خوشیاں اس سے روٹھ جاۓ گی۔ وہ اسے جانے نہیں دے گی ہر گز نہیں۔ نہ ہی اپنی زندگی سے نہ ہی حویلی سے۔

"یزدان!" وہ سیڑھیاں اُترتی دوڑتی ہوئی اس کے راستے میں حائل ہوئی۔اس کا اتنا جارحانہ انداز پہلی بار دیکھا تھا۔ وہ تو اس کا محبت لُٹانے والا یزدان تھا۔

" میں آپ کو جانے نہیں دوں گی۔ آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتے۔" وہ اس کے سینے سے لگتی سسکتی ہوئی بولی۔ وہ اسے ہر قیمت پر روک لینا چاہتی تھی۔

یزدان نے ایک پل آنکھیں بند کی۔ مگر پھر سُرخ آنکھوں کو کھولتا بےدردی سے اسے خود سے دُور جھٹک چکا تھا۔اس کے سجے سنورے روپ نے بھی آج اس پر کوئی جادو نہیں بکھیرا تھا۔  نہ ہی آج اُس کے بہتے آنسوؤں پر وہ تڑپا تھا۔ 

اس کی سُرخ آنکھوں میں دیکھ کر میرو ایک پل لرزی۔

"دُور رہو مجھ سے۔ تم بھی تو انہی جیسی ہو۔ " وہ سب کی طرف دیکھ کر بولا۔

میرو روتے ہوۓ نفی میں سر ہلا گئ۔

"میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔تم اِس عورت کی بیٹی ہو جس میں سب سے زیادہ نفرت کرتا ہوں۔ تم ان کی پوتی ہوں جن سے آج کے بعد میرا کوئی رشتہ نہیں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ بےحسی کے بولا۔

"نہیں یزدان! میں آپ کی میرو ہوں۔" وہ مسلسل روتے ہوۓ نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ 

" آج میں تم سے دستبردار ہورہا ہوں۔ کیونکہ تم ان کی بیٹی ہوں۔ تمہیں ان کے کیے کی سزا ملے گی۔" وہ بے دردی سے اس کی جان نکالتا ہوا بولا۔

جن آنکھوں میں اس کے لیے محبت کے دیپ جلتے تھے آج وہاں وحشتوں کے جال بچھے تھے۔ 

"اگر تم چاہو تو میں تمہیں طلاق دے کر آزاد کرسکتا ہوں جس سے مرضی چاہے شادی کرنا۔" وہ اپنے لفظوں سے قطرہ قطرہ اس کی سانسیں کھینچ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسا اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو۔ وہ واقعی اس کے الفاظ سنتے مرنے والی ہوگئ تھی۔

"یز۔۔دا۔۔ن" اس کے لبوں سے بے یقینی کی کیفیت میں یزدان کا نام ٹوٹ کر نکلا۔ آنکھیں میں بہتے آنسو خُشک ہوگۓ۔ اُسے یقین نہ آیا یہ اس کا جان لُٹانے والا یزدان ہے۔ 

"یزدان ! " داجان اس کے الفاظ پر قہر بھرے لہجے میں دھاڑے۔ 

" اپنی پوتی کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھے ہیں۔ ذرا ایک بار میری ماں کی تکلیف کے بارے میں ضرور سوچیے گا۔" وہ میرو پر نظر ڈالے بغیر ایک سائیڈ پر ہوتا حویلی سے نکلتا چلا گیا۔

پیچھے میرو کو پتھر کا کرچکا تھا۔اس نے خالی خالی نظروں سے سب پر نظر ڈالی اور اپنے بکھرے وجود کو گھسیٹتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔

کمرے میں آکر اس نے دروازہ بند کیا ۔ 

خالی کمرے میں اسے وحشت سی ہونے لگی۔  اس نے گہرے گہرے سانس لیے۔  اپنا شدید نقصان یاد کرتے ہوۓ وہ زمین پر بکھرتی چلی گئ۔ 

"یزدان۔ ۔۔میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں۔" اس کی ہچکیاں کمرے سے باہر کھڑے ہر وجود کا دل چیر رہی تھی۔   

اگر وہ داجان ، شہیر یہاں تک کہ ماہ نور سے بھی ناراض ہوتا تو وہ اس کو حق بجانب سمجھتی مگر وہ اسے کس چیز کی سزا دے کر گیا تھا۔اس نے ایک ایک چیز نوچ کر دور پھینکی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی ہچکیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اور وہ پوری رات اس کی سسکیوں اس کی تکلیف کی گواہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شدت سے یہاں وہاں ٹہلتے کسی کے فون کالز کا انتظار کررہے تھے۔ جب سے وہ یزدان کو حقیقت بتا کر آۓ تھے اسے آفندیوں کی بربادی کی خبر کا شدت سے انتظار تھا۔

مگر فون کال پر جو خبر اُن کو سننے کو ملی وہ ان کے اشتعال میں اضافے کا سبب بنی۔

انہیں یزدان سے ایسی بے وقوفی کی اُمید نہیں تھی۔ وہ ماہ نور کی بیٹی کو طلاق دینے کی بجاۓ۔ خود یہ ملک چھوڑ کر جارہا تھا۔ انہیں لگا تھا وہ میرو کو طلاق دے کر ان کے پاس آۓ گا۔ تو وہ اسے ورغلا کر آفندیوں سے اسے اپنا حصہ مانگنے کا کہہ گے اور اسے مجبور کرکے اس کی شادی وردہ سے کروائیں گے مگر سب کچھ اُلٹ ہوگیا تھا ان کی سوچ کے برعکس۔

وہ بےحس تھے انہیں کسی کی فکر نہ تھی نہ ہی عائشہ کی نہ یزدان کی۔ انہیں بس آفندیوں کی بربادی چاہیے تھی اور اُن کی دولت۔

انہیں لگا ان کا یزدان کو حقیقت بتانا بھی رائیگا چلا گیا ہے۔ کیونکہ وہ اُن لوگوں کو سزا دینے کی بجاۓ یہ عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ کر خود دربدری کی ٹھوکریں کھانے نکل گیا تھا۔ 

حال

آج نشوہ اور ماہا کی یونی میں نۓ آنے والے سٹوڈنٹس کے لیے ویلکم پارٹی تھی۔ ہلے گُلے کی شوقین نشوہ ان سب کاموں کے لیے ہر وقت تیار رہتی تھی مگر اس دفعہ اس کا جانے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ گھر میں جو ٹینشن چل رہی تھی اس کے باعث اس کا بالکل من نہیں تھا۔ 

ماہا اپنی پیاری سی دوست کو اُداس نہیں دیکھ سکتی تھی۔  اسی لیے چاہتی تھی کہ وہ اس ٹینشن زدہ ماحول سے نکل کر کچھ دیر باہر جاۓ تاکہ اُس کا دل بہل جاۓ۔ 

ماہا نے اس کے انکار کو دیکھ کر نشوہ کے گھر والوں کو راضی کیا تھا۔ تاکہ وہ انکار کر ہی نہ سکے۔

ماہا کے بےحد اصرار پر وہ بُجھے دل سے جانے کے لیے مان گئ تھی۔ ان کو چھوڑنے کی ذمہ داری عرید پر تھی۔ ماہا کا گھر ان کی حویلی کے بالکل سامنے تھے۔  اس لیے دونوں نے عرید کے ساتھ ہی جانے کا فیصلہ کیا جو ٹھیک دو گھنٹوں بعد انہیں واپس لیکر جانے والا تھا۔

دونوں ایک ہی ڈیزائن کی بنی ہوئی سادہ سی میکسی میں ملبوس تھی۔ جس پر کہی کہی خوبصورت سے ستارے ٹانکے گۓ تھے۔ نشوہ نے لائٹ بلیو جبکہ ماہا سی گرین رنگ کی میکسی زیب تن کیے ہوۓ تھی۔ میکسی کے ہم رنگ حجاب دونوں نے سر پر ٹکا رکھے تھے اور میچنگ ڈوپٹہ کندھے پر سلیقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔ لائٹ میک اپ میں دونوں ہی بےحد پیاری لگ رہی تھی۔ 

عرید ابھی انہیں یونی چھوڑ کر گیا تھا اور انہیں دو گھنٹے بعد واپس لیکر جانے کی ہدایت بھی کرچکا تھا۔

اور انہیں باقاعدہ ہدایت کر کے گیا تھا کہ کوئی بھی مسئلہ ہو تو بلا جھجھک اسے فون کریں۔ جس پر دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

یونی میں بےتحاشا رونق لگی ہوئی تھی۔ لڑکیاں رنگ برنگی تتلیاں بنی اِدھر اُدھر منڈلا رہی تھی۔ لڑکے کہاں ان سے پیچھے رہ سکتے تھے۔وہ بھی ایک سے ایک ڈریسنگ کیے ایک دوسرے  سے بہتر لگنے کی چاہ میں تھے۔ہالمیں چلتے تیز میوزک کی آواز باہر تک آرہی تھی۔

 دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے ہال کی جانب بڑھی جہاں پارٹی ارینج کی گئ تھی۔ وہاں پہنچتے ہی انہیں اپنی کلاس کے کچھ سٹوڈنٹز مل چکی تھی۔ انہیں کچھ تسلی ہوئی تھی۔

وہ پارٹی میں ہلا گُھلا کو لوگوں کو دیکھ کر اپنی کلاس فیلوز سے باتوں میں مشغول ہوچکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان اور صارم گرے  رنگ کا تھری پیس سوٹ پہنے کافی ہینڈسم لگ رہے تھے۔ دونوں ایک ساتھ ہی ہال میں داخل ہوۓ کئ نظریں ایک ساتھ ان پر اُٹھی تھی۔کئ نظروں میں ان کے ستائش تھی اور کئ نظروں میں حسد تھا۔

وہ دونوں اپنے اوپر پڑتی نظریں اچھے سے محسوس کرسکتے تھے مگر یہاں پرواہ کسے تھے۔ 

صارم کی بےچین نگاہیں ہال میں کسی کی تلاش میں اُٹھی۔ جب ایک کونے میں کھڑی اُس بےتحاشا حُسن کی مورت کو دیکھ کر وہی ٹھہر گئ۔ تڑپتے دل پر جیسے نرم سی پھوار پڑی تھی۔ چہرہ پر خود بخود مسکراہٹ کِھلی۔

آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوا تھا۔ اس کا دل اسے سے بغاوت کررہا تھا۔ جو اُس لڑکی کے قدموں میں ڈھیر ہوا جارہا تھا۔ دل کی اس بغاوت پر حیران تھا۔ مگر یہ بغاوت اسے بُری نہیں لگی تھی۔ بلکہ بےتحاشا اچھی لگی تھی۔وہ پہلی لڑکی تھی جس پر آکر اس کی نظریں ٹھہر سی جاتی تھی۔ اس کی گرے آنکھوں کا وہ رفتہ رفتہ اثیر ہونے لگا تھا۔ 

"صارم ! کیا کررہا ہے؟ اپنا نہیں تو اس کی عزت کا ہی خیال کرلے۔ تو کب سے یہ دیدے پھاڑے اس کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اگر تجھے نوٹ کرلے تو کیا سوچے گا۔ اپنی نظروں کو تھوڑا سا لگام دے۔ " احان کب سے اس کی نظریں ماہا پر ٹکی محسوس کررہا تھا۔ اس لیے اسے احساس دلانا ضروری سمجھا کہ وہ اکیلا یہاں نہیں تھا یہاں بہت سے لوگ موجود تھے اس لیے احتیاط بہتر تھی۔ 

اس نے محض ایک نظر ماہا کے ساتھ کھڑی نشوہ پر ڈالی تھی جو بلیو رنگ میں بےتحاشا حسین لگ رہی تھی بالکل اپنی اپنی سی۔ جو چیز اسے  اُس میں اچھی لگی تھی وہ تھا اُس کے سر پر سجا وہ حجاب جو اسے پُروقار دکھا رہا تھا۔ اس ایک نظر میں وہ اس کا تفصیلی جائزہ لیتا نظر ہٹا چکا تھا۔ 

"ویسے تجھ جیسے جن کے ساتھ وہ معصوم سی گڑیا سجتی نہیں ہے۔ تو تو پل میں اس کی جان ہلکان کردے گا۔" احان اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتا شرارت سے بولا۔ جو اس کی باتوں پر کافی سنجیدہ ہوگیا تھا اس کی اگلی بات پر دانت پیس کر رہ گیا۔

احان کو لگا تھا کہ شاید وہ اس کی باتوں کا غصہ کر چکا ہے اس لیے اس کا دھیان بھٹکانے کو بولا۔

"اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ چل میں جن سہی پر تو تو دیو ہے ۔ بچاری کا کیا حال کرے گا۔" صارم افسوس سے بولتا اسے گڑبڑانے پر مجبور کرگیا۔ اسے لگا جیسے صارم اس کے دل تک رسائی حاصل کرچکا ہو۔ جس سچ سے وہ ابھی خود بھی انکاری تھا کسی دوسرے کو اس کی بھنک کیسے لگنے دے سکتا تھا۔

" میری زندگی میں کوئی خاص نہیں ہے۔ جسے قید کرنے کی ضرورت پڑے۔"وہ اس کے زیادہ جیسے خود کو صفائی دے رہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہی وہ اس کے دل کا راز نہ پالے۔

"ہاں جانتا ہوں۔تو اور کسی کو اپنے دل میں آنے کی اجازت دے دے ۔ ناممکن سی بات ہے۔ " صارم اس کی نیچر پر چوٹ کرتا ہوا بولا۔ 

احان اسے گھور کر رہ گیا۔ صارم نے اس کی گھوری پر بتیسی کی نمائش کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ کا موبائل مسلسل رِنگ کررہا تھا۔ اس نے اردگرد بجھتے میوزک کے شور کو دیکھا۔ موبائل پر عرید کا نام جگمگا رہا تھا۔ اتنی آواز میں بات نہیں ہوسکتی تھی۔

" ماہا ! عرید بھائی کی کال آرہی ہے۔ میں آتی ہوں۔" وہ ماہا کے کان میں بولتی ہوئی ہال سے نکلتی باہر آگئ۔اس کا رُخ پارکنگ کی طرف تھا۔ وہاں بالکل بھی شور نہیں تھا۔

" السلام علیکم بھائی!  " اس نے فون اُٹھاتے ہی اس پر سلامتی بھیجی۔ 

"وعلیکم السلام گڑیا!  کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔  سب ٹھیک ہے نا۔" وہ بہن کی آواز سنتا محبت سے بولا۔  پہلی بار  وہ یوں رات کو کسی پارٹی میں گئ تھی۔ اس لیے عرید کو اس کی فکر ہورہی تھی۔ 

" جی بھائی سب ٹھیک ہے۔ بالکل بھی فکر مت کریں۔" وہ اس کی فکر پر کُھل کر مسکرائی تھی۔

گاڑی کی آواز پر اس نے ذرا سی نظر اُٹھا کر پیچھے دیکھا جہاں اس کے پیچھے موجود کار سے  دو لڑکے اور لڑکیاں کار سے اُترتے اندر کی طرف بڑھ گۓ۔ 

اس نے غور ہی نہیں کیا کہ اس کے بائیں کندھے پر لٹکتا ڈوپٹہ ان کی کار کے دروازے میں آچکا ہے۔ اس نے عرید کو خدا حافظ کہہ کر کال رکھی ۔ جیسے ہی اس نے واپسی کے لیے قدم بڑھاۓ اسے فوراً رُکنا پڑا۔ بائیں کندھے پر پڑنے والے کھچاؤ کی وجہ سے۔ اس نے پیچھے مُڑ کر دیکھا جہاں پیچھے کھڑی گاڑی میں اس کا ڈوپٹہ بُری طرح پھنس چکا تھا۔ 

کال سُنٹے سُنتے وہ اس طرف آگئ تھی۔ مگر اب اس کا دل ایک دم سے تنہائی کے خیال سے کانپا۔ اردگرد کوئی ذی روح موجود نہ تھا۔ سب کے سامنے بہادری دکھانے والی نشوہ کا دل خوف سے پھیل کر سُکڑا۔

اس نے ڈوپٹے کو کھینچا مگر وہ بُری طرح پھنس چکا 

تھا۔

اس کا دل کیا پوری شدت سے ڈوپٹہ کھنچے مگر ڈوپٹے کا ایک بڑا حصہ کار کے دروازے کے اندر آچکا تھا۔ ڈوپٹے کے پھٹنے کے ڈر سے اس نے زیادہ زور بھی نہ دیا۔ کچھ کندھے پر سجا وہ ریشمی ڈوپٹہ اتنی جلدی پھٹنے والا ہر گز نہ تھا۔

"اللّہ ! پلیز میری مدد کریں۔کسی کو میری مدد کے لیے بھیج دیں۔" وہ روتی ہوئی آسمان۔کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ منہ سے مسلسل دعاؤں کا ورد جاری تھا۔  ایک تنہائی کا خوف دوسرا اپنی عزت اسے بےحد عزیز تھی۔ آنکھوں سے آنسوؤں خود بخود بےمول ہونے لگے تھا۔

تنہائی کا خوف اس قدر حاوی تھا اسے اتنا خیال بھی نہ آیا کہ فون کرکے ماہا کو ہی بلا لیتی۔

وہ مسلسل اللّہ کو پکارنے میں مصروف تھی جب بھاری قدموں کی رمق اسے قریب آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کا دل سو کی رفتار پکڑ چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کب سے دوستوں میں گھرا کھڑا تھا جو ایک پل بھی اس کی جان نہیں چھوڑ رہے تھے۔ جب وہ مل جاتے تھے تو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ اور آج تو موقع بھی تھا اور دستور بھی۔ بس اسی لیے وہ ایک دوسرے کے ہتھے چڑے ہوۓ تھے۔ 

ان کا گروپ ایک سائیڈ پر کھڑا تھا۔ اس کے باوجود وہ سب میں نمایاں ہورہے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ ایک دوسرے پر فکرہ کستے۔ اور ان کے جناتی قہقہے ہال میں گونجتے۔ 

اس کی نظریں بھٹک بھٹک کر اس طرف اُٹھ رہی تھی جہاں وہ کچھ دیر پہلے کھڑی تھی تھی۔ مگر وہ اب مسلسل دس منٹ سے اپنی بےچین نگاہیں پورے ہال میں  دوڑا رہا تھا مگر وہ ہوتی تو نظر آتی۔ 

اب وہ اپنے دوستوں سے ایکسکیوز کرتے ضروری کال کا کہتے باہر کی جانب بڑھا۔ یونی کا ایک حصہ جہاں بھرپور روشنیوں سے جگمگا رہا تھا وہی باقی حصہ تقریباً سنسان پڑا تھا۔ تو اُس طرف اس نے جانے کی غلطی ہر گز نہیں کی تھی۔ ہال کے باہر آکر اس نے چاروں اور نگاہ دوڑائی تھی مگر وہ اسے دُور دُور تک کہی دیکھائی نہ دی۔ کچھ سوچ کر اس نے اپنے قدم پارکنگ ایریا کی طرف بڑھاۓ۔جہاں کسی کے بڑبڑانے کے ساتھ رونے کی آواز بھی صاف صاف سنائی دے رہی تھی۔ 

پارکنگ میں پہنچ کر اس نے اُس بیوقوف لڑکی کو دیکھا تھا جو آنکھیں میچے مسلسل کچھ پڑھ رہی تھی ۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

"اے لڑکی! یہاں کیا کررہی ہو؟ دِکھ نہیں رہا یہاں کوئی نہیں ہے۔ پھر بھی بیوقوفوں کی طرف یہی کھڑی ہو۔" احان کو اس پر بےتحاشا غصہ آیا تھا۔ اس کے رونے کو مکمل اگنور کرتا اس کے اکیلے یہاں موجودگی پر وہ غصے میں آتا اسے ڈپٹ چکا تھا ۔

"لُڈّو کھیل رہی ہوں۔نظر نہیں آتا میرا ڈوپٹہ کار میں پھنس گیا ہے۔" اس کے بےتکے سوال پر وہ بھی سُوں سُوں کرتے اُلٹا جواب دے چکی تھی۔ اس کی یہاں موجودگی پر کچھ حوصلہ ہوا تھا۔

"کس کی گاڑی ہے یہ؟" وہ گھمبیر آواز میں ایک قدم اس کے نزدیک آتا ہوا بولا۔

"مجھے نہیں پتہ۔" وہ لاتعلقی کا اظہار کرتی ہوئی بولی۔

وہ محض اثبات میں سر ہلاتا پیچھا ہوا۔

اس کا ارادہ فون کال کر کے صارم کو بُلانے کا تھا۔

" مجھے چھوڑ کر مت جانا مسٹر بدتمیز۔" اس کے جانے کا سوچ کر ہی وہ خوف سے بولی تھی۔اتنی پریشانی میں بھی وہ اس کا مخصوص نام لینا نہیں بھولی تھی۔ احان اسے گھور کر رہ گیا۔ واقعی ہی اس لڑکی کی زبان پر بند باندھنا ناممکن تھا۔

اتنی پریشانی میں بھی اس کی زبان جوہر دکھانے کے پیچھے نہ ہٹی تھی۔ اپنی جلدی بازی پر وہ زبان دانتوں تلے دباگئ۔نشوہ تنہائی میں اور ماہا کے سامنے اسے اسی نام سے پکارتی تھی۔ اس گیے بےدھیانی میں اسے اسی نام سے پکار گئ۔

"اِدھر ہی ہوں مس پٹاخہ۔" وہ حساب برابر کرتا ہوا اس کے نزدیک آیا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر کار کا ہینڈل کھولا جو حیرت انگیز طور پر کُھل گیا تھا۔ یعنی کار لاک نہیں تھی۔ احان کو اس کی بےوقوفی پر غصہ آیا تھا۔ جو رونے کی بچاۓ ایک بار دروازہ کھول کر بھی دیکھ سکتی تھی۔ مگر یہاں اُسے رونے سے فرصت ملتی تو وہ کچھ سوچتی۔

اپنا ڈوپٹہ آزاد ہوتے ہی وہ خوشی سے کھلکھلا اُٹھی۔ احان نے یہ منظر بڑی غور سے دیکھا۔جہاں ایک طرف اس کی آنکھوں میں آنسو تھے وہی دوسری طرف ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ تھی۔ وہ اس خوبصورت منظر کا اسیر ہوا تھا۔ 

"تھینک یو۔ تھینک یو۔۔ تھینک یو سو مچ۔" وہ اس کی طرف دیکھتی ہنستی ہوئی بولی۔یہ شاید ان کی پہلی گفتگو تھی جو انہوں نے کچھ  نارمل طریقے سے کی تھی۔نہیں تو اکثر جب بھی سامنے آتے تھے گولا باری ہی کرتے تھے۔

نشوہ نے تشکر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ جتنا سوچ رہی تھی اتنا بھی بُرا نہ تھا یہ مسٹر بدتمیز۔

"بندہ تھوڑی عقل ہی استعمال کر لیتا ہے۔ ایک دفعہ گاڑی کا دروازہ کھول کر دیکھ لیتی۔ چلو اس بات کو بھی چھوڑو۔ یہ فون ہاتھ میں دیکھنے کے لیے پکڑا ہے۔ کسی کو کال کر کے نہیں بلا سکتی تھی۔ واقعی سہی کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے پاس دماغ کم ہی ہوتا ہے۔" وہ اس کی بیوقوفی پر چوٹ کرتا ہوا بولا۔

نشوہ کے سر پر لگی تلوں بجھی۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے بیوقوف کہنے کی۔خود ہوگے بیوقوف۔" وہ ناک سکوڑ کر اپنی ٹون میں واپس آتی ہوئی بولی۔واقعی وہ کہہہ تو سہی رہا تھا مگر وہ نشوہ ہی کیا جو اتنی غلطی مان لے۔

"چلو اندر۔بیوقوف لڑکی اپنی دوست کے پاس جاؤ۔ اب میں تمہیں یہاں  کھڑا ہوتے نہ دیکھوں۔" وہ اسے اندر جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔

نشوہ اسے گھورتی پیر پٹکتی اندر کی طرف بڑھ گئ۔

احان بھی اس کے پیچھے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"بھئ کتنی بورنگ سی پارٹی ہے کچھ ہلا گُھلا ہی ہوجاۓ۔  کیوں احان۔" صارم اسے دیکھ کر بولا۔ 

"ہاں احان ! ایک گانا ہی ہوجاۓ۔ ذرا ماحول ہی بنا دو۔ " سارے دوست یک زبان ہوکر بولے۔ 

"احان۔ ۔۔احان۔ ۔۔احان"  سب نے یک آواز ہوکر نعرے لگاۓ۔  

ان کی پکار پر سارے سٹوڈنٹز اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔  سارے ہال میں اس کے نام کے نعرے گونج اُٹھے۔ 

احان نے صارم کو ایک زبردست گھوری سے نوازا۔ وہ بری طرح پھنس چکا تھا اس نے ہار مانتے ہوۓ ہاں میں سر ہلایا۔ 

احان کے ساتھ صارم بھی اسٹیج کی طرف بڑھا تھا ۔ اس نے ہاتھ میں گٹار تھام رکھا تھا۔ وہ گا نہیں سکتا تھا تو کیا ہوا اس کا ساتھ تو دے سکتا تھا۔

صارم نے انگوٹھے سے اسے اوکے کا اشارہ کیا۔احان نے بھی اوکے کا اشارہ کرتے گانا شروع کیا۔

پھر اگر مجھے تو کبھی نہ ملے

ہمسفر میرا تو بنے نہ بنے

فاصلوں سے میرا پیار ہوگا نہ کم

تو ہوگا نہ کبھی اب جدا

احان کی آواز جیسے ہی ہال میں گونجی ہر طرف خاموشی چھا گئ۔ صرف اس کی میٹھی آواز چار سو گھونج رہی تھی۔

احان نے گاتے ہوۓ جیسے ہی آنکھیں بند کی۔ بند پردوں پر پورے استحاق سے نشوہ کا چہرہ لہرایا۔ اس کی نے بوکھلا کر آنکھیں کھولی۔مگر بھر مسکراتے ہوۓ دوبارہ آنکھیں بند کرلی جہاں ایک دفعہ پھر اس کا حسین چہرہ لہرایا۔ اس دفعہ اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھی۔ 

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

دھڑکا گا مجھ میں صدا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

"یہ مسٹر بدتمیز اتنا اچھا گا بھی لیتا ہے۔ اسے دیکھ کر تو نہیں لگتا۔ " نشوہ ماہا کے کان میں بڑبڑائی۔

اس کے حساب سے تو وہ بس لڑنے میں ہی تیز تھا۔مگراس کی خوبصورت آواز سُن کر حیرانی ہوئی تھی۔

تیرے واسطے کبھی میرا

یہ پیار نہ ہوگا کم

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

دھڑکا گا مجھ میں صدا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

نہ بھول سکا میں تیری چاہتیں

عشق پہ کہاں بس کسی کا چلے

ہوبھی جاۓ میری چاہے سانسیں ختم

کم نہ ہوگی یہ وفا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

دھڑکا گا مجھ میں صدا

میں نے تیرا نام دل رکھ دیا

جیسے ہی اس نے گانا ختم کیا پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ رنگ برنگی آوازیں اُٹھ رہی تھی سب اسے سرا رہے تھے۔

احان نے آنکھیں کھولتے ہی ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی جو ستائش سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے۔

نشوہ نے داد دیتی نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ اس کی آواز سے کافی امپریس ہوچکی تھی۔ 

محبت خاموشی سے اپنے پر پھیلانے لگی تھی۔جانے ایک ہونا ان کے نصیب میں تھا یا نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کھڑکی پر کھڑی خاموش نظریں چاند پر ٹکاۓ کھڑی تھی۔ آنکھوں کے گوشوں پر ہلکی سی نمی تھی۔ اسے شادی جیسے رشتے سے خوف آنے لگا تھا۔ جو اس کے ساتھ ہوا اُسے تو شاید وہ کبھی بُھلا پاتی۔ پہلے اپنے شوہر کے روپ میں ایک درندہ اس کے حصہ آیا تھا۔

دوسرا روپ وہ یزدان کا دیکھ کر ڈر گئ تھی۔ اسے میرو پر بےتحاشا ترس آیا تھا وہ معصوم سی لڑکی ان۔سب کی حقدار نہیں تھی۔ 

"یااللّہ ! اگر محافظ ایسے ہوتے تو مجھے کبھی بھی دوبارہ اس رشتے میں نہیں بندھنا۔ " وہ روتے ہوۓ آسمان پر نظر ڈال کر بولی۔ 

اس کا شادی جیسے خوبصورت رشتے سے ایسا بھروسہ اُٹھا تھاکہ شاید ہی کبھی جُڑ پاتا۔

سارے مرد باپ جیسے مہربان کیوں نہیں ہوتے اس نے کرب سے سوچا۔ آج شدت سے باپ اور بھائی کی یاد اس پر حملہ آور ہوئی۔ اس کی ہلکی ہلکی سسکیاں گونج اُٹھی۔ 

اس نے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹا۔ وہ نہیں چاہتی تھی اس کی آواز باہر جاۓ۔ اسے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں تھی۔ رات کی خاموشی میں اس کی سسکیاں آسانی سے باہر کھڑا وجود سُن سکتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے تقریباً ساڑھے دس کا وقت تھا وہ تھکا ہارا سا گھر لوٹا۔اس کا رُخ اپنے کمرے کی طرف تھا جب ازوہ کے کمرے کے باہر سے اسے رونے کی آواز آئی۔  

اس نے ٹھٹھک کر کمرے کے بند دروازے کو دیکھا۔ اس نے پہلے تو خاموشی سے آگے بڑھنا چاہا مگر پھر کچھ سوچ کر دروازہ کھٹکھٹا چکا تھا۔

کہی اسے کوئی مسئلہ تونہیں تھا۔ وہ اس کی پریشانی جاننا چاہتا تھا۔اس کے دروازہ کھٹکھٹانے سے رونے کی آواز آنا بند ہوچکی تھی۔ بلکہ وہ دھیمے قدموں سے  چلتی دروازے کے قریب آچکی تھی۔ 

اس کے دروازہ کھولنے پر اس کی پہلی نظر اس کی روئی روئی آنکھوں پر گئ تھی۔ وہ بری طرح ان چمکتی ہیزل براؤن آنکھوں میں اٹکا ٹھا۔ پلکوں پر پڑے شبنم کے قطرے اس کے رونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ چھوٹی سی ناک سُرخ ہوگئ تھی۔ ایک پل اس کا دل شدت سے دھڑکا تھا۔ اپنی کیفیت پر وہ حیران ہوتا خود کو کنٹرول کرتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔ جو اسے سامنے دیکھ جذبذ سی ہوگئ تھی۔ جیسے اُس کی یہاں موجودگی اسے پسند نہ آئی ہو۔

" کوئی مسئلہ ہے؟ کیا ہوا ہے آپ رو کیوں رہی تھی؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ " وہ اس کا رویا رویا چہرہ دیکھ کر بولا۔

"نہیں کسی نے ہمیں کچھ نہیں کہا۔" وہ سپاٹ چہرہ کے ساتھ نظریں جُھکا کر بولی۔

"پھر آپ رو کیوں رہی تھی؟ " وہ سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر ٹکا کر بولا۔

"کچھ نہیں بس پاپا کی یاد آرہی تھی۔" وہ چاہتی تھی کہ وہ جلد سے جلد یہاں سے چلا جاۓ۔ وہ اپنے آنسو کسی کو بھی دکھانا نہیں چاہتی تھی۔

عرید نے سمجھتے  ہوۓ ہاں میں سر ہلایا ۔ اس معاملے میں وہ واقعی کچھ نہیں کرسکتا تھا۔

" ان کی مغفرت کی دُعا کیا کرو ۔ انہیں تمہاری دُعاؤں کی ضرورت ہے آنسوؤں کی نہیں۔" وہ گہری سانس بھرتا ہوا بولا۔

جانے سامنے کھڑی لڑکی کے آنسوؤں سے اسے کیوں فرق پڑنے لگا تھا۔ 

"اوکے ۔ تم آرام کرو میں چلتا ہوں۔" اس کو پہلو پر پہلو بدلتا دیکھ وہ بوجھل سانس بھرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اس کی پُشت پر ایک نظر ڈال وہ دروازہ بند کر چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں آکر اس نے گہرا سانس بھرا جانے کیوں اُس کو روتا دیکھ دل اُداس ہوچکا تھا۔ اسے اپنی دل کی بدلتی حالت پر حیرانی ہوئی تھی۔

ایک پل اس کا دل کیا تھا کہ ہاتھ بڑھا کہ پلکوں پر اٹکے اُن موتیوں کو چُن لے ۔ مگر وہ اس پر کوئی حق نہیں رکھتا تھا۔

"یہ تم ٹھیک نہیں کررہی لڑکی۔ زبردستی اس دل میں گُھستی چلی آرہی ہو۔ " وہ اپنی حالت پر جھنجھلاتا ہوا بولا۔

"ٹھیک ہے ۔ ایسا ہے تو ایسا سہی۔ اب تمہیں عرید آفندی کی ہوکر اس کی قید میں رہنا پڑے گا۔ بہت جلد تم پر صرف میرا حق ہوگا ۔ تمہیں اپنی زندگی کا آنے والا ہر دن اب میری  پنا ہوں میں گزارنا ہوگا پنک روز۔" وہ اس کے روۓ روۓ گلابی چہرے کو ذہن میں لاتے ہوۓ بولا۔

اتنے دنوں سے جو دل کی حالت پر پریشان تھا۔ وہ اب  ایک فیصلہ کرکے  خاصا مطمئن ہوچکا تھا۔ جہاں کچھ دیر پہلے چہرے پر جھنجھلاہٹ کا راج تھا وہاں اب زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی۔

جانے اس محبت کا کیا انجام ہونے والا تھا۔ اب ازوہ کا مقدر اسے کہاں لیکر جانے والا تھا۔

"ماہا مجھے  آپ سے بات کرنی ہے۔" فارض صاحب اسے لاؤنج میں بیٹھا دیکھ کر اپنے کمرے میں آنے کا اشارہ کرچکے تھے۔

ماہا سر اثبات میں ہلاتی ان کے پیچھے ان کی کمرے کی طرف بڑھ گئ۔وہ آکر خاموشی سے صوفے کے کنارے پر ٹک گئ۔

"ماہا ! أپ کو پتہ ہے نا کہ ہمارے خاندان میں بیٹیوں کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ کسی بھی معاملے میں مرضی پوچھی جاۓ۔ ان کے ناز نحرے اُٹھاۓ جاۓ۔ مگر میں نے ہر معاملے میں آپ کی مرضی کو اہمیت دی۔ آپ یونی جانا چاہتی تھی میں نے آپ کو نہیں روکا۔ گوکہ جو آپ کرنا چاہتی تھی کبھی آپ کو منع نہیں کیا۔أپ کی ہر خواہش پوری کی ہے۔ مجھے اُمید ہے اب میں جو آپ سے مانگنے جارہا ہوں۔ اس پر أپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ آپ پہلے سے ہی اس رشتے کی حقیقت سے واقف ہیں۔ مجھے اُمید ہے آپ اپنے بابا کا مان نہیں توڑو گی۔ " وہ اصل بات پر آنے سے پہلے تمہید باندھ چکے تھے۔  

ماہا نے محض اثبات میں سر ہلایا۔کہی نہ کہی وہ بات کے پسِ منظر تک پہنچ چکی تھی۔ ایک پل کے لیے اس کا دل شدت سے دھڑکا تھا۔

"بابا جان چاہتے ہیں کہ اب تمہاری اور ہشام کی شادی ہوجانی چاہیے۔ وہ ہمیں گاؤں بلا رہے ہیں۔ ہشام کو سرداری سنبھالے ایک سال ہونے والا ہے۔ وہ سب ذمہ داریاں بہت احسن طریقے سے سر انجام دے رہا ہے۔ اب وہ اس قابل ہوچکا ہے کہ آپ کی ذمہ داری اُٹھا سکے۔ ہم انہیں ہاں کہہ چکے ہیں۔" ماہا ان کی باتوں کا پس منظر جان کر نظریں جُھکا چکی تھی۔ وہ کافی ٹائم پہلے جب وہ تقریباً تیرہ سال کی تھی تب وہ آخری بار گاؤں گئ تھی. اس کے بعد جانے کا اتفاق ہی نہیں ہوا تھا۔

اس دوران جو چیز اسے کھٹکتی تھی وہ تھا اس کے تایا جان کا اس کی تائی سے رویہ۔ ان کا تحکمانہ لہجہ اسے ذرا  پسند نہیں آیا تھا۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں سب کے سامنے ذلیل کرکے رکھ دیتے تھے۔ اسے ہشام سے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر جہاں تک وہ اندازہ لگا پائی تھی اس کی نیچر اپنے باپ جیسی تھی۔ بس یہی چیز اسے بےحال کررہی تھی۔ یہی ڈر تھا کہ اس کی زندگی کہی  تائی جان جیسی ہوکر نہ رہ جاۓ۔ اس کے خواب ، اس کی پڑھائی کہی روک دی نہ جاۓ۔

اس کے دل میں کوئی نہیں تھا کہ وہ انکار کرتی۔ مگر وہ ہشام۔کو کبھی بھی اپنے لائف پارٹنر کے طور پر تصور نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے اللّہ سے دُعا کی تھی کہ کاش اس کی زندگی میں ایسا کوئی آۓ جو اسے غلام نہیں اسے واقعی ہی اپنا ہمسفر سمجھے۔ جو اسے پیچھے دھکیلنے کی بجاۓ اپنی محفوظ تحفظ میں لیکر زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر ہر منزل پار کرواۓ۔ جس کے ساتھ وہ قدم سے قدم ملا کر چل سکے۔ نا کہ وہ جو سے نوکرانی کی طرح ٹریٹ کریں۔ مگر اس پل اسے یوں لگا اس کی ساری دعائیں رائیگاں چلی گئ ہوں۔

وہ باپ کے سامنے کوئی اعتراض نہ کرسکی۔ انہیں اس پر اتنا مان تھا وہ چاہ کر بھی یہ توڑ نہیں سکتی تھی۔  

"جی بابا مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے آپ کے فیصلے پر۔ " وہ دھیمی آواز میں بولتی جُھکا سر مزید جُھکا گئ۔ 

انہوں نے محبت سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔  وہ اپنے دل میں چلتی کھدبد انہیں دکھا نہ پائی۔ 

اس نے سوچا کاش وہ بھی منہ پھٹ ہوتی اور باپ کے سامنے ہی ان کے فیصلے پر انکار کر دیتی۔اس کے دل میں کوئی خلش نہ رہتی۔

فارض صاحب بیٹی کے دل میں چلتی ایک ایک بات کو پڑھ گۓ تھے۔ مگر انہیں پورا یقین تھا ہشام اسے خوش رکھے گا۔ان کی بیٹی کو پھر ان سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔انہیں پورا یقین تھا کہ جس احسن طریقے سے وہ گاؤں کے اُمور سر انجام دے رہا تھا۔ شادی کے بندھن کو بھی بہت اچھے سے  نبھاۓ گا۔ بےشک وہ زیادہ ظاہر نہیں کرتے تھے مگر وہ ماہا سے بےتحاشا محبت کرتے تھے۔ انہیں وہ بہت عزیز تھی

مگر اس دفعہ وہ من مانی کرکے اپنے باپ کو دوبارہ ناراض نہیں کرسکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جب سے یونی آئی تھی خاموشی سے سارے لیکچر لیتی رہی۔ نشوہ کو یوں محسوس ہوا کہ وہ یہاں ہو کہ بھی یہاں نہیں ہے۔ اس نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا۔ جو خاموشی سے سر جُھکاۓ بیٹھی تھی۔

"ماہا! کیا ہوا ہے؟ اتنی پریشان کیوں ہو؟ کسی نے کچھ کہاں ہے؟ " نشوہ اس کے چہرے سے کچھ بھی اخذ نہیں کر پائی اس لیے ایک ساتھ ہی کئ سوال کر ڈالے۔

ماہا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ 

"ہاں! کیا کہہ رہی ہو؟ " وہ بےدھیانی میں اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

نشوہ نے اس کا ہاتھ تھاما تھا وہ اس وقت کینٹین میں آمنے سامنے بیٹھی تھی۔ 

"کیا بات ہے ماہا؟ مجھے نہیں بتاؤ گی۔" نشوہ نے اس کا ہاتھ تھپتھپایا تھا۔

"نشوہ! بابا مجھے گاؤں لیکر جانا چاہتے ہیں۔" وہ یہ کہتی خاموش ہوگئ۔

"تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟" نشوہ نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

"بابا جان  اس بار مجھے وہاں میری شادی کے لیے لیکر جارہے ہیں۔" یہ کہتے ہی اس کے آنکھوں کے کنارے میں ہلکی سی نمی چمکی۔

نشوہ نے پریشان نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اچھے سے اس کی اس کے کزن سے منگنی کے بارے میں آگاہ تھی۔ 

"نشوہ مجھے ہشام سے شادی نہیں کرنی۔مجھے پتہ ہے وہ مجھے اس حویلی میں قید کردیں گے۔ میری پڑھائی میرا مستقبل ، میرے خواب سب ادھورے رہ جائیں گے۔ میں جانتی ہوں وہ مجھے کبھی بھی آگے پڑھنے نہیں دیں گے۔" آنسوؤں ضبط کرنے کے چکروں میں اس کا لہجہ کپکپا کے رہ گیا۔

"ماہا ! تم انکل سے بات کرو ۔ وہ سمجھ جائیں گے۔" نشوہ تسلی دینے والے انداز میں بولی۔

" نہیں یار! ہشام ان کا بھتیجا ہے انہیں اُس میں کوئی برائی نہیں دکھے گی۔ دوسرا وہ دادا جان سے کیا ہوا اپنا وعدہ کبھی نہیں توڑیں گے۔ میں نے بھی اب یہی سوچ کر صبر کرلیا ہے اب وہی میرا مقدر ہیں۔ کیا پتہ وہ میرے حق میں بہتر ہو۔".  وہ نشوہ کے ساتھ ساتھ خود کو تسلی دینے والے انداز میں بولی۔

اس کے بعد ان کے درمیان اس معاملے میں مزید بات نہ ہوئی۔ وہ اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہوچکی تھیں۔نشوہ اسے مزید اس معاملے میں بات کرکے تکلیف نہیں پہچانا چاہتی تھی۔ اس لیے خاموشی سے اس معاملے میں ادھورا چھوڑ دیا۔

مگر پیچھے بیٹھے وجود کا تو سارا سکون سارا چین غارت ہو چکا تھا۔ احان نے پریشانی سے اس کے سُرخ چہرے کو دیکھا تھا۔ جس کا ہنستا مسکراتا چہرہ پل میں ویران ہوچکا تھا۔

"صارم ! تو ٹھیک ہے؟" وہ سوالیہ نظریں اس پر ٹکاۓ ہوۓ تھا۔جس کے جہرے پر کرب کے اثار تھے۔

مگر صارم تو ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا۔وہ یہاں ہوتا تو کچھ کہتا۔ وہ تو اذیتوں کے سفر پر نکل چکا تھا۔ اسے یوں محسوس ہو رھا تھا کہ جیسے کسی نے پیروں سے اس کے دل کو مسل ڈالا ہو۔ ابھی تو محبت کے ان راستوں پر اس نے قدم رکھا ہی تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ اس راستے کا انجام اتنا بھیانک ہے۔ پچھلے دنوں وہ پےتحاشا خوش رہنے لگا تھا۔ محض اسے سوچنے پر ہی دل کی دھڑکنوں میں قرار سا آجاتا تھا۔

کیسے برداشت کرسکتا تھا اس کو کسی اور کا ہوتے۔ اس کے ساتھ تو اس نے مستقبل کے حسین خواب بھی سجا لیے تھے۔ 

آنکھیں جیسے اپنے شدید نقصان پر لہو چھلکانے لگی تھی۔اس سے پہلے  وہ خود پر ضبط کھوتا وہ کرسی کو پیچھے دھکیلتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

احان نے پریشان نظروں سے اسے جاتا دیکھا تھا۔صارم کی عادت تھی وہ کبھی بھی اپنے دکھوں کا اشتہار نہیں لگاتا تھا۔ وہ تو ہنسنے ہنسانے والا جولی سا انسان تھا۔  احان کو اس کے لیے شدید  پریشانی ہوئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں اِدھر سے اُدھر چکر لگاتا اپنا اضطراب کم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ اپنے گھر والوں سے دُور وہ پچھلے آٹھ سالوں سے شہر مقیم تھا۔

اس کے اور اس کے باپ میں ہمیشہ جنگ چِھڑی رہتی تھی۔ وہ اگر گاؤں جاتا تو محض اپنی ماں سے ملنے اسے باقی کسی سے بھی کوئی غرض نہیں تھا۔  وہ جب بھی گاؤں جاتا محض ایک دن وہاں ٹھہر کر آتا تھا۔  پچھلے کچھ سالوں سے وہ ہاسٹل میں مقیم تھا۔  مگر پچھلے سال ہی اپنے داداجان کی ضد پر وہ اس فلیٹ پر شفٹ ہوا تھا۔ 

یہاں اکثر وہ خود کو تنہا محسوس کرتا تھا۔ اس کے باوجود بھی وہ واپس جانا نہیں چاہتا تھا۔ جب جب وہ وہاں جاتا تھا محض گھر کا ماحول خراب ہوتا تھا۔ اس لیے وہ وہاں جانا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ 

اس نے اپنے گھر کے حالات کے بارے میں احان کو بھی کبھی نہیں بتایا تھا۔ احان کو لگتا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے موج مستی  کے لیے یہاں مقیم تھا۔ 

جب سے ماہا اس کی زندگی میں آئی تھی وہ خوش رہنے لگا تھا۔ اس کے جذبے اس کے لیے سچے تھے۔ وہ اسے اپنی زندگی میں بہت جلد شامل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسے پتہ تھا کہ شاید اس کے گھر والے ان کے رشتے کے لیےنہ مانیں۔مگر وہ اس کی خاطر ہر ایک سے لڑنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ مگر یہاں تو سب کچھ ہی اُلٹ ہوگیا تھا۔ 

اس کی شادی کی خبر سُن کر ایک دفعہ پھر اس کے اندر شدید اشتعال کی لہر اُٹھی۔ گردن کی رگیں پھولنے لگی تھی۔ آنکھیں شدید سُرخ ہورہی تھی۔ اسے اب اندازہ ہورہا تھا کہ وہ لڑکی اس کے لیے بےحد ضروری ہوچکی ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

"تمہیں میری ہونا ہوگا ہر حال میں۔ " وہ بال مٹھیوں میں جھکڑ کر چلایا۔ اسے ماہا کو اپنا بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اگلی صبح وہ جلد ہی یونیورسٹی پہنچ چکا تھا۔ اب وہ داخلی دروازے پر کھڑا بےچینی سے اُس کا انتظار کررہا تھا۔ کل رات اس نے شدید بےچینی سے کانٹوں پر گزاری تھی۔وہ اسے اپنی دل کی بات بتانا چاہتا تھا۔ وہی نہیں چاہتا تھا کہ مستقبل میں کبھی اس کے دل میں کوئی خلش رہ جاۓ کہ اس نے اپنی محبت کو حاصل کرنے کی کوئی کوشش ہی نہیں۔ اس لیے وہ ہر ممکن کوشش کرنا چاہتا تھا۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم تھا جب وہ اسے سامنے سے آتی ہوئی نظر آئی۔ آنکھوں میں خود بخود نرمی در آئی تھی۔ جلتے دل پر ٹھنڈی پھوار برسی تھی۔گرے آنکھیں جُھکی ہوئی تھی جس کا وہ اثیر ہونے لگا تھا۔ چاند چہرہ مرجھایا ہوا تھا۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم اُداس اُداس اس کی طرف ہی آرہی تھی۔ صارم لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کے قریب پہنچا۔ 

"ماہا! کیسی ہو؟" وہ اس کے قریب پہنچ کر اسے مخاطب کرتا ہوا بولا۔ماہا نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔ وہ اس سے کیا بات کرنا چاہتا تھا۔

" کیا تم میرے ساتھ چل سکتی ہو دو منٹ۔ مجھے تم سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔" وہ اس کا چہرہ دیکھتا نرمی سے بولا۔

وہ کچھ سوچتی ہوئی اثبات میں سر ہلاتی اس کے پیچھے چل دی۔ وہ گارڈن کے ایک کونے میں آگۓ تھے جہاں اس وقت کوئی نہیں تھا۔ اس کے رُکنے پر ماہا بھی اس سے کچھ قدم پر رُک گئ۔اب وہ اس کے بولنے کا انتظار کررہی تھی۔ 

"ماہا میری زندگی بالکل سیدھی سی ہے ۔ میری زندگی میں چند لوگ ہی ہیں جو مجھے بےحد عزیز ہیں۔جن کی خاطر یہ صارم لاشاری کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اور تم یقین مانو تم بھی ان لوگوں میں شامل ہونے لگی ہو۔ میں یہ بالکل نہیں چاہتا تھا مگر یہ دل تمہارا بُری طرح اسیر ہونے لگا ہے۔ اسے تمہارے آنسوؤں سے فرق پڑھنے لگا ہے۔ میں اپنے دل کے سامنے بےبس ہوکر رہ گیا ہوں۔ یقین مانو ایسا میرے ساتھ پہلی بار ہوا ہے۔ پہلی بار کسی نے اس دل پر دستک دی ہے۔ پہلی بار ہی یہ دل تمہارے ساتھ کا تمنائی ہونے لگا ہے۔ " بولتے ہوۓ اس کے لہجے میں واضح بےبسی تھی۔

ماہا اس سے ایسی کسی بات کی توقع نہیں کررہی تھی۔ وہ اپنی جگہ جم کر رہ گئ۔زبان کو جیسا تالا لگ گیا۔ وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہی۔ 

"میں تمہیں کسی اور کا ہوتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتا۔ تم بس ایک بار یہ ہاتھ تھام لو۔ تمہیں ساری مشکلوں ساری پریشانیوں سے نکال لوں گا۔ تمہیں کبھی بھی پچھتانے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ یہ صارم لاشاری تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا۔" وہ اس کی گرے آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔ 

اس کی آنکھوں میں موجود سچائی کو دیکھتے وہ اس کے سحر میں کھوئی تھی۔  مگر جب باپ کے الفاظ کانوں میں گونجے تو پلک جھپکتے اس کی آنکھوں کے سحر  سے نکلی۔  شاید وہ سچ کہہ رہا تھا مگر ماہا اسے کسی بھی طرح کا یقین نہیں دلانا چاہتی تھی۔ 

" دیکھئیے مسٹر صارم۔ نہ ہی میرے دل میں آپ کے لیے کوئی جذبہ اور نہ ہی کبھی ہوسکتا ہے۔ جتنا ہوسکے مجھ سے دُور رہیے۔ مجھے نہ ہی آپ کی کسی بات کا یقین کرنا ہے۔ نہ ہی مجھے آپ کا ساتھ چاہیے۔مجھے میرے بابا کی عزت ہر چیز سے عزیز ہے۔ جسے ٹھیس پہچانے کا میں کبھی سوچ ہی نہیں سکتی۔ انہیں مجھ پر اتنا مان ہے جو میں مر کر بھی نہیں توڑو گی۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لیے بتاتی چلوں میری منگنی ہوچکی ہے بہت پہلے سے ۔ اور میں بہت خوش بھی ہوں اپنی منگنی سے۔ تو مہربانی کر کے آج کے بعد میرے راستے میں مت آئیے گا۔اگر آپ کی ضروری بات ہوگئ ہے تو میں جاسکتی ہوں۔" وہ سپاٹ انداز میں اس کا سفید پڑھتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔ 

"ماہا صرف ایک بار مجھ پر یقین کرلو میں تم پر تمہاری عزت پر کوئی آنچ نہیں آنے دوں گا۔ یقین کرو میرا۔" وہ اپنی محبت کو دُور جاتا دیکھ آخری بار کوشش کرنا چاہتا تھا۔

" صارم میں آپ کی فیلنگز کی قدر کرتی ہوں۔ اگر آپ کو میری عزت عزیز ہے۔ اگر آپ واقعی مجھ سے محبت کرتے ہیں تو دوبارہ کبھی میرے راستے میں نہیں آئیں گے۔پلیز۔۔" وہ منت کرنے والے انداز میں بولتی اس کی سانسیں کھینچ رہی تھی۔

"میں ہمیشہ محبتوں کے معاملے میں غریب رہا ہوں چاہے وہ باپ کی محبت ہو یا تمہاری محبت ہو ماہا فارض۔میری قسمت میں کسی سے لاڈ اٹھوانا لکھا ہی نہیں ہے۔ " آنکھیں اس کے گہرے دُکھ کی گواہ تھی۔

ماہا نے محض ایک لمحے اس کے سُرخ چہرے کو دیکھا تھا۔

"تم میری محبت کا امتحان۔لینا چاہتی ہو۔ تو جاؤ یہ صارم کا وعدہ ہے اب وہ کبھی تمہارے راستے میں نہیں آۓ گا۔ کیونکہ مجھے تمہاری عزت تمہارا وقار تم سے زیادہ عزیز ہے۔" یہ بولتے ہوۓ اُسے کتنی تکلیف ہو رہی تھی نہ خود ہی جانتا تھا۔ اس سے دُور جانے کا بول رہا تھا مگر دل بُری طرح سینے کی دیواروں میں مچل رہا تھا۔

ماہا اس کی باتوں کو سنتی مڑ کر تقریباً بھاگنے والے انداز میں وہاں سے غائب ہوتی چلی گئ۔

پیچھے وہ اپنا بےجان وجود گھسیٹتا ہوا یونی سے نکل گیا۔ کیونکہ اب اس میں ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی کا سامنا کرسکے۔ 

ابھی ان کو ملے فقط دو ماہ ہوۓ تھے ان دو مہینوں میں وہ اس کے لیے سانسوں کی طرح ضروری ہوگئ تھی۔ 

سانسوں کی طرح ضروری تھا وہ مجھ کو

جس نے بےدردی سے میری سانسوں کو چھینا

( منال مہر)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا وہاں سے بھاگتی ہوئی کلاس میں آئی تھی جہاں سٹوڈنٹس آرہے تھے سر کے آنے میں بھی ابھی دس منٹ تھے۔ نشوہ ابھی تک نہیں آئی تھی وہ لیٹ اُٹھنے کی عادی تھی جس کی وجہ سے وہ عموماً دیر سے ہی پہنچتی تھی۔ 

ماہا کے ذہن میں ایک بار پھر اس کی وہ کرب میں ڈوبی کالی آنکھیں گھومی۔ جانے اُسے تکلیف دے کر اسے خود بھی کیوں اچھا نہیں لگا تھا۔ وہ اپنی ذات سی کسی کو بھی تکلیف دینا نہیں چاہتی تھی۔ وہ ابھی تک بےیقین سی اس کی باتوں کو سوچ رہی تھی۔ ابھی انہیں ملے دو ماہ تو ہوۓ تھے۔ ان کے درمیان اگر اچھے تعلقات نہیں تھے تو بُرے بھی نہیں تھے۔ پہلے دن کے بعد ان کے درمیان کوئی بھی جھگڑا نہ ہوا تھا۔ 

مگر وہ صارم کی طرف سے ایسا کچھ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ مغرور سا لڑکا جس کے آگے پیچھے کئ لڑکیاں گھومتی تھی وہ اس سے محبت کرسکتا تھا۔  ان کا گروپ یونی میں کافی مشہور تھا جس کا ان دو ماہ میں اسے اچھے سے اندازہ ہوچکا تھا۔ 

وہ خود کو عام سی کہہ رہی تھی۔ اب اسے کون بتاتا وہ عام نہیں تھی بہت خاص تھی صارم لاشاری کے لیے۔ اس کی زندگی کا سکون ، اس کے جینے کی وجہ بنتی جارہی تھی۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی جب نشوہ نے آکر اس کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔ 

"ماہا۔شکر ہے۔ آج میں سر کے آنے سے پہلے آگئ۔ نہیں تو بےعزتی پکی تھی۔" وہ خوشی سے چہکتی ہوئی بولی۔ مگر دوسری طرف سے جواب نادار۔

"ماہا! کہاں گُم ہو؟ " وہ اس کا کندھا ہلاتی ہوئی بولی۔

"ہاں۔۔۔۔۔ کیا؟ " وہ چونکتی ہوئی اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

" ایک تو یہ بیٹھے بیٹھے تمہارے سونے کی بیمارے سے مجھے نہایت چڑ ہے۔ کس کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہوں۔" وہ اس کے چونکنے پر چوٹ کرتی ہوئی بولی۔

"نہیں کچھ خاص نہیں۔" وہ اس کی طرف متوجہ ہوتی مسکراتی ہوئی بولی۔

" اگر یہ سب تمہارے اُس پاگل کزن کی وجہ سے ہے۔ تو ایک بار وہ میرے ہاتھ لگ جاۓ گنجا کرکے رکھ دوں گی اُسے۔" نشوہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

وہ اس کی باتوں پر محض مسکرا کر رہ گئ۔ 

سرکے کلاس میں آنے  پر وہ دونوں ان کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنکھوں میں گہرے دُکھ کی رمق لیے وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے ایک نظر اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھا۔ جہاں اسے صرف خسارے ہی نظر آۓ تھے۔ 

"صارم لاشاری ہر معاملے میں بدنصیب ہے۔ لو ایک اور خسارہ میرے حصّے میں آگیا۔اللّہ میری زندگی میں اتنی آزمائشیں اتنے امتحان کیوں؟ یہ نقصان مجھ سے برداشت نہیں ہورہا۔ اگر وہ میرا نصیب نہیں تھی تو کیوں اُس کی محبت میرے دل میں ڈالی۔ اور اتنی شدت سے ڈالی کہ مجھے لگ رہا ہے میری سانسیں رُک جائیں گی۔" وہ گہرے یاسیت پھرے لہجے میں خود سے ہی مخاطب تھا۔مگر کوئی بھی اس کی تکلیف بانٹنے کے لیے اس کے ساتھ نہیں تھا۔

اب تو یہ غم اس کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے لکھا جاچکا تھا۔

درد دیتی ہے تیری خاموشی

مار دیتا ہے تیرا یوں بےخبر رہنا

عام سے دنوں کی طرح یہ بھی ایک عام سا دن تھا۔ آج پھر وہ اسے چھوڑنے یونی جارہا تھا۔ مگر اس دفعہ ایک واضح تبدیلی آئی تھی۔ وہ آئی تھی اس کی سوچ میں۔ آنکھیں جس میں پہلے ساتھ بیٹھے وجود کے لیے محض ہمدردی ہوتی تھی۔ آج وہاں نرم گرم جذبات تھے۔ آنکھوں میں  بے تحاشا نرمی سمیٹے وہ اس کے وجود پر اک نظر ڈال لیتا جو خود سے بھی لاپرواہ سی بیٹھی تھی۔ساتھ بیٹھا صندل سی مہکتی خوشبو لیے وجود اس کی کمزوری بننے لگا تھا۔ محبت نے پر پھیلاۓ تو ساری دنیا حسین لگنے لگی تھی۔

" ازوہ! کوئی مسئلہ ہوگا تو ہمیں فون کرلیجیۓ گا۔" وہ یونی کے باہر گاڑی روکتا اسے پر ایک نظرِ اُلفت ڈالتا ہوا بولا۔

ازوہ نے اُترنے سے پہلے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ 

"تھینکیو! ہمیں ڈراپ کرنے کے لیے۔" وہ نرمی سے پُر لہجے میں بولتی کار کا دروازہ کھولتی باہر نکل گئ۔

آج اُس کا پہلا دن تھا وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھی۔ دوسرا میرو بھی نہیں آئی تھی۔ اس کی طبیعت پچھلے کچھ دنوں سے خراب تھی اس لیے اسے اکیلے ہی آنا پڑا۔ وہ گہرا سانس لیتی خود میں ہمت مجتمع کرتی اندر کی طرف بڑھ گئ۔

عرید تب تک وہی کھڑا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئ۔اب واقعی ہی وہ لڑکی اسے ہر حال میں اپنی زندگی میں چاہیے تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دن ایسے ہی بےکیف گزر رہے تھے جب اسے یونی آتے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔ وہ کافی حد تک ایڈجسٹ کرچکی تھی۔ کلاس کی ایک دو لڑکیوں سے اس کی اچھی خاصی سلام دُعا بھی ہوچکی تھی۔

وہ سب دوستوں کو خدا حافظ کہتی گیٹ کی طرف نکل آئی۔ جہاں ابھی تک عرید اسے لینے نہیں آیا تھا۔اس نے حیرانی سے ایک نظر کلائی میں چمکتی گھڑی پر ڈالی تھی۔ جہاں ٹائم تو ہوچکا تھا۔ ہر روز وہ اس کے آنے سے پہلے ہی اسے لینے پہنچ جاتا تھا۔

 اس دوران اس کو یونی سے پِک ڈراپ کرنے کی ذمہ داری اسی کی تھی۔ پہلے وہ یہ کام صرف داجان کے کہنے پر کررہا تھا۔ مگر اب وہ خود دل سے یہ سب کرنا چاہتا تھا۔ 

وہ کتنی دیر کھڑی اس کا انتظار کرتی تھی۔ تپتی دھوپ میں اس کا رنگ پل میں سُرخ ہوچکا تھا۔ اس کا انتظار کرتے اسے تقریباً پینتالیس منٹ ہونے والے تھے۔ شاید وہ کسی کام میں پھنس گیا ہو۔ اس کی جاب بھی تو ایسی تھی۔ اور نہ ہی اس کے پاس کوئی موبائل تھا جو اسے انفارم کرپاتا۔ 

کاش اس کے پاس موبائل ہوتا تو وہ دا جان کو انفارم کردیتی وہ ہی کسی کو اسے لینے بھیج دیتے۔ اس کی ساری دوستیں ایک ایک کرکے جا چکی تھیں۔ یونی آہستہ آہستہ کرکے خالی ہورہی تھی۔ اب اسے بھی یہاں رُکنا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔ مزید کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد بھی وہ نہ آیا تو اس نے ہمت مجتمع کرکے رُخ باہر کی جانب کیا۔ دعاؤں کا ورد مسلسل جاری تھا۔ باہر نکل کر اس نے تمتماتی دھوپ سے بچنے کے لیے چہرے پر ہاتھ رکھا۔

اس نے تھوڑا سا آگے بڑھتے ٹیکسی کی تلاش میں نظر اِدھر اُدھر دوڑائی۔ اسے اردگرد کوئی ٹیکسی نہ نظر آئی۔ اس نے تھوڑا آگے جانے کا سوچا۔ وہ یونی سے کچھ قدموں کے فاصلے پر پہنچ چکی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کالی کی گاڑی پچھلے ایک ہفتے سے اس کے آنے جانے کی روٹین نوٹ کررہی تھی۔ وہ روز عرید کے ساتھ ہی آتی تھی اور اس کے ساتھ ہی واپس جاتی تھی۔ 

وہ پولیس والا اس کی جان کا ازار بن چکا تھا۔ جب جب وہ ازوہ کو اُس کے ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ قہر بھری نظریں اس کے وجود پر ڈالتا تھا۔

مگر آج اسے موقع مل چکا تھا آج عرید اسے لینے نہیں آیا تھا اور وہ غلطی کرتی یونی سے نکل کر پیدل چلنے لگی۔ یہی موقع کی تو اسے تلاش تھی اور وہ موقع وہ اسے خود دے چکی تھی۔

ازوہ دھوپ سے بچتی تیز تیز چلتی سڑک کے ایک کنارے آکھڑی ہوئی۔ کالی نے دُور کھڑے ہی اس حُسن کی مورت کو دیکھا۔ کوئی بھی ان کی طرف متوجہ نہ تھا۔ وہ کار سے اُترتا اس کی جانب قدم بڑھانے لگا۔ چہرے اب بھی ماسک سے ڈھکا تھا۔ اس کی صرف کالی وحشت سے بھرپور آنکھیں نظر آرہی تھی۔ جن میں عجیب سی سُرخی تھی۔ بال ماتھے پر بےترتیب بکھرے ہوۓ تھے۔ اس کے قدم ازوہ کے پیچھے آکر رُکے۔

" بُلبل" وہ اس کے پیچھے کھڑا کمینگی سے بولا۔

ازوہ یہ آواز بھلا کبھی بھول سکتی تھی۔ ماضی کا ایک ایک کربناک لمحہ آنکھوں کے سامنے گھوم کر رہ گیا۔ باپ اور بھائی کی خون سے سنی لاشوں کا منظر سامنے آیا۔ اس نے آنکھیں میچتے شدت سے دُعا کی کہ یہ اس کا وہم ہو۔ وہ دوبارہ کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتی تھی۔  اپنی وجہ سے وہ اُن لوگوں کا نقصان نہیں کرسکتی تھی. ان لوگوں کی وہ پہلے ہی بےحد مشکور تھی جو بغیر کسی رشتے کے بھی اس پر اتنے مہربان تھے۔

"لگتا ہے تم مجھے بھول گئ۔  مگر پےفکر رہو یہ کالی تمہیں کچھ بھے بھولنے نہیں دے گا۔ تیرے لیے میں نے جیل تک کی ہوا کھالی۔  اب تو تو مجھ سے بالکل بھی نہیں بچ سکتی۔  بڑا اُڑ رہی تھی۔  اس پولیس والے کے بل بوتے پر۔ بھول گئ اپنے باپ کا انجام ایسا ہی انجام اُس پولیس والے کا بھی ہوگا۔  بڑا جو تیری حفاظت کرتا پھرتا ہے۔ " وہ اس کے سامنے آتا اس کا خوف سے سفید پڑھتا چہرہ دیکھ رہا تھا۔ 

ازوہ نے ماسک سے ڈھکا اُس کا چہرہ دیکھا۔ اس کالی وحشت سے بھرپور آنکھیں دیکھ اس نے جھرجھری لی۔ ازوہ کو اس کے وجود سے کراہیت سی محسوس ہوئی۔

اس کا دل کیا وہاں سے بھاگ جاۓ مگر اس کے قدم ہلنے سے انکاری ہوۓ۔ آنکھوں کے أگے دُھند چھانے لگی۔ لبوں پر گویا قفل لگ گیا تھا۔ اپنی بےبسی پر اس کے منہ سے ایک سسکاری نکلی۔ ایک اور آزمائش ایک اور امتحان۔ یہ بھیانک سا ماضی کا سایہ اس کا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ رہا تھا۔ جب جب وہ سب بھولنے کی کوشش کرتی وہ کسی نا کسی طرح اس کے سامنے آجاتا ہے۔

کالی نے جیسے ہی اسے کھینچنے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔اس کھینچا تانی میں ازوہ کے کندھوں پر لٹکا بیگ زمین بوس ہوچکا تھا مگر یہاں پرواہ کسے تھی۔ جانے اتنی طاقت اس میں کہاں سے آگئ تھی وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر ایک راستے کی طرف تیزی سے بھاگنے لگی۔ اس نے ایک بھی بار مُڑ کر نہیں دیکھا تھا۔وہ پوری قوت سے بھاگ رہی تھی اسے یوں محسوس ہوا یہ اس کا آخری موقع ہے اگر وہ اس کے ہاتھ آگئ تو وہ اسے کسی صورت نہیں چھوڑے گا۔ وہ بس یہاں سے دُور جانا چاہتی تھی۔ بےدھیانی میں بھاگتی اس کے پیر کے نیچے پتھر آیا جس کی باعث وہ اوندھے منہ زمین پر گرتی اس سے پہلے ہی دو مہربان بازو اسے خود میں سمیٹ چکے تھے۔

ازوہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اس مہربان کو دیکھنا چاہا۔ جس کا عکس آنسوؤں کی وجہ سے دھندلا گیا تھا۔ مگر وہ پھر بھی اسے پہچان گئ تھی۔ عرید کو سامنے پا کر اسے یوں محسوس ہوا کہ وہ تپتے صحرا سے ٹھنڈی چھاؤں میں آگئ ہے۔ اس نے بغیر سوچے سمجھے اس کے سینے کو محفوظ پناہ گاہ گردانتے اپنا سر ٹکایا تھا۔ اس کے بازو کو مضبوطی سے تھامے وہ آنسو بہانے میں مصروف تھی۔ آنکھیں شدت سے میچ رکھی تھی۔ جیسے ابھی وہ یہاں سے غائب ہوجاۓ گا اور وہ کالی اسے پھر اپنی دلدل میں گھسیٹ لے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید کو کام کرتے وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔ اس کے ذہن سے یہ بات محو ہو چکی تھی کہ اس نے ازوہ کو یونی سے لینے جانا ہے۔ جیسے ہی اس کے ذہن میں ازوہ کا خیال آیا وہ سر پر ہاتھ مار کے رہ گیا۔ اس کے پاس فون بھی نہ تھا جو کال کرکے اس کی خیریت پتہ کرلیتا اسے خود پر غصّہ آیا تھا وہ کیسے اتنا لاپرواہ ہوسکتا تھا۔ وہ فوراً ہی پولیس اسٹیشن سے نکلتا اس کی یونی کی جانب بڑھ گیا۔  

وہ تیز ڈرائیونگ کرتا اس کی یونی پہنچا تھا۔ جہاں گارڈ نے اُس کے جانے کی اطلاع دی تھی۔  اس کی پیشانی بل نمودار ہوۓ ۔ اسے ازوہ پر بےتحاشا غصہ آیا جو اس کا انتظار کرنے کی بجاۓ خود ہی منہ اُٹھا کر نکل گئ تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھتا سڑکوں پر گاڑی دوڑاتا اسے ڈھونڈتا رہا۔ 

گاڑی دوڑاتے اسے سڑک کے کنارے گرا اس کا بیگ نظر آیا۔ اس کا ماتھا ٹھنکا۔ کہی تو کچھ غلط تھا۔ ورنہ وہ لڑکی اتنی لاپرواہ ہر گز نہیں تھی۔ وہ گاڑی سے اُترتا اس کا بیگ اپنے ہاتھ میں تھام چکا۔ بیگ گاڑی میں رکھتا وہ اسی راستے کی جانب بڑھا۔ 

ابھی اُس کی گاڑی کچھ دُور ہی گئ تھی جب اسے کوئی آدمی ازوہ کا ہی تعاقب کررہا تھا۔ وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا کیونکہ وہ ماسک سے ڈھکا تھا وہ گاڑی وہی چھوڑتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا انہی کی جانب بڑھا۔ 

اس کا ارادہ پہلے اُس انسان کو پکڑنے کا تھا۔ وہ آدمی اسے دیکھ چکا تھا اس لیے وہ چوکنا ہوتا بنا راستے کا تعین ایک سمت بھاگ چکا تھا۔ عرید اسی کے پیچھے جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ جب ازوہ کی دلخراش چیخ سے وہ اس کی جانب متوجہ ہوچکا تھا۔ وہ اوندھے منہ زمین پر گرتی اس سے پہلے ہی وہ اسے تھام کر گرنے سے بچا چکا تھا۔ 

ازوہ نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا تو اس کے سینے سے سر ٹکاتی شدت سے رو دی۔ اس کی حرکت پر وہ اپنی جگہ کھڑا رہ گیا۔

"عرید۔۔۔وہ پھر سے آگیا۔ میری زندگی تباہ کرنے۔ " وہ ہچکیوں سے روتی اس کی شرٹ بگھو رہی تھی۔

" میرے پاپا اور بھائی کو مجھ سے دُور کرکے اسے ابھی بھی چین نہیں ملا۔ اسے کہو میرے پاس کچھ نہیں ہے گنوانے کو۔" وہ بےحد تکلیف میں تھی۔ اس کا درد سے چُور انداز اس کی تکلیف زدہ ہچکیاں عرید آفندی کے دل کی دنیا کو بُری طرح ہلا چکی تھی۔ 

عرید نے اس کے سر کو تھپک کر اسے چُپ کروانے کی کوشش کی۔

" اب وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔میں ہوں نا اِدھر۔" وہ تسلی دینے والے آواز میں اسے چُپ کروانے کی کوشش کررہا تھا۔

ازوہ جو اپنے کرب اپنے تکلیف دہ ماضی میں ڈوبی  اپنا درد اس سے بانٹ رہی تھی۔ عرید کی آواز پر جھٹکے سے پیچھے ہٹی۔ 

"سوری۔" وہ شرمندہ شرمندہ سی نظریں جُھکاۓ بولی۔   اپنی بےاختیاری پر وہ جُھکا سر مزید جُھکا گئ۔ 

عرید نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ جس کا چہرہ بےتحاشا سُرخ ہورہا تھا۔ چہرہ آنسوؤں سے تر تھا اس کے دل میں شدت سے ان انسوؤں کو سمیٹنے کی خواہش جاگی۔ مگر وہ ایسا کوئی اختیار نہیں رکھتا تھا۔ اس نے گہرا سانس بھرتے۔ جیب سے رومال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ جسے خاموشی وہ تھام کر اپنا چہرہ صاف کرچکی تھی۔ 

عرید اسے لیتا گاڑی کی طرف بڑھا۔ سارا راستہ خاموشی سے کٹا دونوں نے آپس میں مزید کوئی بات نہ کی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر آکر وہ فوراً گاڑی سے نکلتی اپنے کمرے میں بند ہوچکی تھی۔

عرید آتے ہی داجان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اب وہ ان کے سامنے بیٹھا آج کا سارا واقعہ گوش گزار کر چکا تھا۔

" دا جان ازوہ کے دادا جان۔کی سکیورٹی سخت کروائیں۔ وہ پہلے ہی بےحد تکلیف میں ہے یہ اس کا آخری رشتہ بچاہے۔ میں نہیں چاہتا ہمارے ہوتے ہوۓ بھی وہ اس آخری رشتے سے محروم رہے۔ میں یہ سب اکیلے بھی کرسکتا تھا مگر یہ سب جاننا آپ کا حق ہے۔ ازوہ کو اس گھر میں لانے والے آپ ہیں آپ نے اس کو اپنی سرپرستی میں لیا ہے۔ اور اس گھر کے بڑے ہونے ناطے یہ سب جب جاننا آپ کا حق ہے۔ " وہ ان کے پریشان چہرے کو دیکھتا ہوا بولا۔

داجان ہنکار بھر کر رہ گۓ۔ داجان گہری سوچوں میں گُم ہوچکے تھے۔ عرید پُرسوچ نظروں سے ان کا چہرہ دیکھتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے ایک ہفتے سے وہ اپنے کمرے میں بند تھی۔ وہ نہ تو یونی جا رہی تھی اور نہ ہی کسی بھی کام کے لیے باہر۔ اس کے دل میں کالی کا اس قدر خوف بیٹھ چکا تھا۔  وہ اب باہر جانا ہی نہیں چاہتی تھی۔ 

داجان کے پیغام پر وہ ان کے سامنے موجود تھی۔ 

" ازوہ بچے ہمیں آپ سے  ایسی اُمید نہیں تھی۔آپ ایک

 معمولی سے انسان کے ڈر سے گھر میں قید ہوکر رہ گئ ہیں۔" داجان اس کے پچھلے دنوں گھر میں بند ہوجانے پر چوٹ کرتے ہوۓ بولے۔ 

" داجان! وہ عام انسان نہیں ہے۔ وہ بےحد خطرناک ہے۔ اسی کی وجہ ہی سے میرا ہنستا بستا گھر اُجڑ گیا۔ اب میرے پاس کھونے کو کچھ نہیں بس میری عزت ہے جو مجھے ہر چیز سے عزیز ہے۔" وہ روتی ہوئی ان پر نظریں ٹکاتی ہوئی بولی۔

" ازوہ! وہ خدا بیٹھا ہے نا سب کی حفاظت کے لیے پھر کیسا ڈر۔ اپنے سارے ڈر نکال کر سارے معاملے اللّہ کے سپُرد کرکے مطمئن ہوجائیں۔" وہ رسانیت سے بولے۔

وہ اپنے اس خوف کا کیا کرتی جو اس کے دل میں بُری طرح بیٹھ۔ وہ ڈبڈبائی نظروں سے انہیں دیکھ کر رہ گئ۔

"بیٹا ہم آپ کی بات سمجھ رہے ہیں۔مگر اس میں آپ 

 کی بھی غلطی ہے اگر عرید کو دیر بھی ہوگئ تھی مگر آپ کو یونی سے باہر نہیں جانا چاہیے تھا۔" وہ اسے اس کی غلطی بھی بتا گۓ۔

ازوہ نے سر جُھکاتے شرمندہ سے انداز میں معذرت کرلی۔ 

"ہمارا  مقصد آپ کو شرمندہ کرنا ہر گز نہیں تھا۔ " وہ اس کا جُھکا سر دیکھ کر بولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داجان کی باتوں نے اس پر مثبت  اثر ڈالا تھا۔ وہ اب خاموشی سے یونی جارہی تھی۔ عرید کے لیے اتنا ہی بہت تھا کہ وہ ان سب سے نکلنے کی کوشش تو کر رہی تھی۔ 

اس واقعے کے بعد وہ اتنا ڈر چکی تھی کہ وہ یونی سے اکیلے قدم اُٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ 

اس وقت وہ اس کی گاڑی میں خاموشی سے بیٹھی ہر چیز سے لاتعلق تھی۔ 

عرید کو اس کی اتنی چُپی ہضم نہیں ہورہی تھے۔ ویسے تو وہ کم گو ہی تھی مگر پچھلے کچھ دنوں سے وہ بولنا ہی چھوڑ گئ تھی۔ ہنستا ہوا تو اسے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ کبھی کبھی اس کا دل چاہتا تھا کہ اس کے چہرے پر کہی سے لا کر ڈھیروں خوشیاں بکھیر دے۔ 

اسے اب اس لڑکی کی اداسی بالکل اچھی نہیں لگتی تھی۔ وہ اسے خوش دیکھنا چاہتا تھا۔

" ازوہ! آپ اتنا خاموش کیوں رہتی ہیں بات کیا کریں سب سے۔  نشوہ کی طرح ہنستی مسکراتی رہا کریں۔ آپ کی عُمر کی لڑکیاں تو اپنی زندگی کا ہر پل خوشی سے جیتی ہیں۔ آپ بھی خوش رہنے کی کوشش کیا کریں۔ " وہ اسے دیکھ ہلکا سا مسکرایا تھا۔

" نشوہ کے پاس مسکرانے کی بہت سی وجہ ہیں مگر میری زندگی تو ویران ہے کوئی ہے نہیں جس کے لیے مسکرا سکوں۔" وہ اپنے گود میں رکھے ہاتھوں پر نظر ڈال کر بولی۔

" آپ تھوڑا سا ہاتھ تو بڑھاۓ خوشیاں خود آپ کی منتظر کھڑی ہیں۔" وہ اس کے چاند چہرے پر ایک نظر ڈال کر بولا۔

"جی" ازوہ نے مُڑ کر ناسمجھی والے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

عرید گڑبڑا کر رہ گیا۔ اسے اپنی بےخودی پر غصہ آیا تھا۔

" میرا مطلب ہے آپ کوشش کریں۔ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوتا جاۓ گا۔" وہ بات بناتا ہوا بولا۔ 

" میری زندگی میں کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔کالی میرا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا۔ میں جانتی ہوں۔ جس نے میرے گھر والوں کی زندگی نہیں بخشی ۔ اُس سے اور کیا اُمید کرسکتی ہوں کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا۔ وہ آج نہیں تو کل مجھ تک پہنچ جاۓ گا اور اپنے ایک ایک نقصان کا حساب لے گا۔" وہ روندھی ہی آواز میں بولی۔ آہستہ آہستہ اس کے رونے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وقفے وقفے سے گاڑی میں اس کی ہچکیاں گونج رہی تھی۔ اتنے دنوں کا غُبار آج نکلا تھا۔

اس کے یوں شدت سے رونے پر وہ بوکھلا کے رہ گیا۔ مگر پھر گہرا سانس بھرتا گاڑی ایک سائیڈ پر روکتا اس کی طرف مُڑا۔

" کالی کیا اُس کے جیسے ہزار بھی آجائیں نا تب بھی وہ تم تک پہنچ نہیں پائیں گے۔ تمہارا طرف اُٹھنے والے ہر ہاتھ کو تم تک پہنچنے سے پہلی کاٹ کر پھینک دوں گا۔ کیونکہ عرید آفندی کو اپنے سے جُڑے ہر رشتے کی حفاظت کرنا اچھے سے آتا ہے۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے چٹانوں سی سختی لیے بولا۔

ازوہ رونا بھول کر اس کے لہجے پر اس کی طرف متوجہ ہوگئ۔ اس کے چہرے پر چٹانوں سی سختی تھی مگر اس کی آنکھوں میں اس کے لیے بےتحاشا نرمی تھی۔ جسے دیکھ وہ ایک پل گھبرا سی گئ تھی۔ وہ ایسا کوئی تعلق اب بالکل بھی نہیں جوڑنا چاہتی تھی۔ مگر اس کی آنکھیں عجیب ہی داستان سُنا رہی تھی۔ وہ اس کے پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ اس کی اپنی تو نہیں ہے بلکہ وہ تو اس کی کچھ بھی نہیں لگتی مگر وہ ایک لفظ بھی نہ بول پائی۔ گویا زبان پر قفل لگ گیا ہو۔ 

ازوہ نے گھبرا کر رُخ موڑ لیا۔ وہ ایسا کچھ بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس لیے اس کی اپنے لیے فکر اور اس کی بولتی آنکھوں کو اگنور کرتی اس سے لاتعلق سی ہوکر بیٹھ گئ۔

عرید گہری سانس بھر کر رہ گیا۔ وہ اچھے سے سمجھ گیا تھا  کہ وہ اس کے جذبوں کی آنچ سے گھبرا کر رُخ موڑ گئ ہے۔  اتنا بھی آسان نہیں تھا اسے زیر کرنا ۔ اس لڑکی کو اپنی محبت کا یقین دلانا۔ جتنا عرید آفندی نے سمجھ لیا تھا۔ وہ اسے ناکوں چنے چبوانے والی تھی۔

کالی رات کا اندھیرا آہستہ آہستہ چھٹنے لگا تھا۔ یہ صبح سحر کا وقت تھا۔ پوری رات وہ ایک منٹ بھی نہ سو سکا تھا۔ ساری رات اذیت کی بھٹی میں جلتا رہا تھا۔ آنکھیں رات بھر جاگنے گی خمازی کر رہی تھی۔ وہ بستر پر  چت لیٹا کمرے کی چھت کو گھورتا جانے کن لامعنی سوچوں میں گُم تھا۔ دور کہی سے اذانوں کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔ اس نے چونک کر ایک نظر وال کلاک پر ڈالی۔ یعنی کے اگلا دن نمودار ہونے کو تھا۔ مگر وہ پوری رات جاگ کر گزار چکا تھا۔  زندگی کی مصروفیت پھر سے شروع ہونے والی تھی۔  

وہ ساری سوچوں کو جھٹکتا بستر سے اُترتا باتھ روم کی جانب بڑھ  گیا۔ کچھ دیر بعد وہ باہر نکلا تو اس کے چہرے اور بازوؤں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے یعنی وہ وضو کر کے آیا تھا۔ اب وہ جاۓ نماز بچھاتا خدا کے حضور جُھک چکا تھا۔ نہایت خشوع وخضوع سے نماز ادا کرتا وہ ہر دنیاوی سوچ کو ذہن سے نکال کر اپنے خدا سے ہمکلام ہونے لگا تھا۔ نہایت ہی تسلی سے نماز ادا کرتے وہ دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا چکا تھا۔اپنی سُرخ ہتھیلیوں کو گھورتے اسے سمجھ نہ آئی کس طرح اپنے خُدا کے حضور اپنی عرضی پیش کرے۔

" یااللّہ! تو تو دلوں کے حال جانتا ہے۔ اے میرے مالک تو تو میری شہہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے۔ میں اپنی فریاد تیرے آگے رکھتا میری مولا۔ اُس لڑکی کو میرا محرم بنا دے۔ یا اُس کی محبت اس دل سے نکال دیں تاکہ اس اذیت سے جان چھوٹے۔ یا خدا میں تیری رضا پر راضی ہوں تو بہتر کارساز ہے۔ میرے دل کو سکون دے دے۔" وہ ہاتھ اُٹھاۓ اپنے رب کے آگے اپنی عرضی بڑی محبت سے رکھ رہا تھا۔ اور بھلا اُس خدا سے بہتر کون جانتا ہے کہ کیا چیز ہمارے لیے بہتر ہے۔ کبھی کبھی ہم ایسی چیز کے پیچھے بھاگنے لگتے ہیں جو ہمیں ہمارے لیے بہت اچھی لگتی ہے۔پر حقیقت تو وہ رب ہی جانتا ہے۔

وہ سجدے میں گرتا اپنے ہر گناہ کی معافی مانگتا۔ اپنی حسرتیں ، اپنی خواہشات ، اپنا ہر دُکھ ہر تکلیف دل کھول کر اُس کے سامنے رکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھ سے بہتے آنسو جاۓ نماز میں جذب ہوتے جارہے تھے۔ جیسے جیسے وہ اپنا حال اپنے رب کو سُنا رہا تھا اسے اپنے رگ رگ میں سکون دوڑتا محسوس ہورہا تھا۔ کب سے تڑپتے دل کو قرار سا آگیا۔ اس نے اپنا معاملہ خُدا کے سپُرد کیا تھا۔ اور بےشک وہ بہتر طریقے سے اس معاملے کو حل کرنے والا تھا۔

اس نے کوئی غلط طریقہ نہیں اپنایا تھا اُس کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا بلکہ وہ اپنی عرضی خُدا کے سامنے رکھ کے خُود پُرسکون ہوگیا تھا۔اسے اپنے خُدا پر بھرپور توکل تھا کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ غلط کرہی نہیں سکتا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داجان پچھلے دو دنوں سے ازوہ کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔ وہ بار بار اس کے لیے ایک فیصلہ کرتا پھر خود ہی اپنی سوچ جھٹک دیتے۔ وہ اپنے پہلے فیصلے پر ہی بےحد پچھتا رہے تھے۔ میرو اور یزدان کا رشتہ جس موڑ پر آپہنچا تھا وہ خود نہیں جانتے تھے کہ اُن کے رشتے کا کیا انجام ہونے والا تھا۔ ابھی  تو دونوں طرف سے گہری چُپی تھی جو کسی شدید طوفان کی پیشن گوئی کررہی تھی۔ 

وہ یزدان سے اس وقت بےتحاشا ناراض تھے۔ جس تکلیف سے میرو اس وقت گزر رہی تھی اُس تکلیف کا وہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے تھے۔ہر تکلیف کا ذمہ دار یزدان تھا۔

داجان آرام دہ کُرسی پر بیٹھے سر اس کی پُشت پر ٹکاۓ بہت کچھ سوچنے میں مصروف تھے۔ ان کے بچوں کی زندگی میں کیسا طوفان آیا تھا جو ہر چیز تباہ کرنے کے در پر تھا۔

"داجان! آجاؤ؟" وہ دروازہ کھٹکھٹاتا اب بھی دہلیز پر کھڑا اجازت طلب کررہا تھا۔  

داجان نے چونک کر دروازے کی طرف دیکھا۔ پھر شفیق سی مسکان۔چہرے پر سجاۓ سر اثبات میں ہلایا۔  

"کوئی کام تھا بچے ؟ ازوہ تو ٹھیک ہے۔" وہ اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔ 

"نہیں تو۔میں تو ویسے ہی آپ کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا۔" وہ اپنی بات کہتے ہوۓ کچھ ہچکچا رہا تھا۔

" اچھا۔۔۔۔ بڑی مہربانی برخودار۔ آج کے دن آپ تین دفعہ اسپیشل ہمارے کمرے میں آکر ہماری خیریت دریافت کرچکے ہیں۔" داجان نے طنز بھری نظروں سے اسے دیکھا۔ وہ داجان کی نظروں سے گڑبڑا کے رہ گیا۔

"ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔" وہ سر پہ ہاتھ پھیر کے رہ گیا۔ وہ دا جان سے بات بھی کرنا چاہتا مگر ایسی بات کرنے میں کچھ ہچکچا رہا تھا۔ 

" میں چلتا ہوں۔" جب کوئی بات نہ بن پائی تو اُٹھ کھڑا ہوا۔

"بیٹھ جاؤ۔" وہ اسے بیٹھنے کے اشارہ کرچکے تھے۔

" ازوہ کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔" وہ سنجیدہ ہوتے ہوۓ بولے۔

عرید نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ ازوہ کے نام پر ویسے ہی اس کے کان کھڑے ہوگۓ تھے۔ وہ جی جان سے متوجہ ہوا۔

" وہ انسان جب تک اُس کا پیچھا نہیں چھوڑے گا بچی سکُون سے نہیں رہ سکے گی۔ اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ کوئی نا کوئی ایسا ہونا چاہیے جو ہر سرد و گرم سے اس کی حفاظت کرے۔ ہر مشکل گھڑی میں اُس کے ساتھ کھڑا ہو۔ اُس کی پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھے۔ " ان کی باتوں پر عرید نے بےچینی سے اپنا پہلو بدلہ۔

" پر داجان میں کوشش تو کر رہا ہوں کہ اس پر کوئی آنچ نہ آۓ۔" وہ داجان کی باتوں کے جواب میں بولا۔

" ہہمم! جانتے ہیں۔ پر جو بھی ہو ہم اس حقیقت کو نہیں جُھٹلا سکتے کہ تم اس کے نامحرم ہو۔ درحقیقت تم اس کے کچھ نہیں لگتے۔ وہ تم سے فقط ڈیڑھ ماہ پہلے ملی۔ وہ تم پر ہم پر یقین کرنے پر مجبور ہے کیونکہ اس کا سرپرست نہیں ہے اس کی حفاظت کے لیے۔ اور جو ہے وہ ہسپتال کے بیڈ پر خود بےبس پڑا ہے۔" داجان کی باتوں پر وہ لاجواب ہوکر رہ گیا۔

واقعی صحیح تو کہہ رہے تھے وہ۔بھلا کیا رشتہ تھا اس کا ازوہ سے۔ یہ حقیقت صرف اس تک محدود تھی کہ اس کا ازوہ سے بڑا گہرا دل کا رشتہ جُڑ چکا تھا۔ اور شاید دل کا رشتہ ہر لفاظی رشتے سے مضبوط ہوتا ہے۔ مگر وہ ایسی باتیں کرکے وہ خود لوگوں کو موقع دے دے گا ازوہ کے خلاف بات کرنے کا۔ ہرگز نہیں وہ یہ مر کر بھی نہیں کرسکتا تھا۔

" ہم جلد سے جلد اُس کے لیے کسی ایسے انسان کی تلاش ہے جو نہ صرف اس کی حفاظت کرے بلکہ اُس انسان کی وجہ سے اس پر کبھی انگلی نہ اُٹھاۓ۔ " وہ اس کے چہرے کے ایکسپریشن اچھے سے نوٹ کررہے تھے۔ پوتے کے دل کی بات کو وہ اچھے سے سمجھ چکے تھے۔ وہ بھی اس کے منہ سے سننا چاہتے تھے۔ 

" کیا تمہاری نظر میں ہے ایسا کوئی۔" انہوں نے بڑی معصومیت سے پُرتجسُس نگاہیں پوتے کے چہرے پر ڈالی جس کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھ چکا تھا۔

" نہیں میری نظر میں کوئی نہیں ہے۔ اور نہ ہی میری خیال سے ازوہ کو اس گھر سے بھیجنا محفوظ رہے گا۔" وہ ان کی باتوں پر منہ بناتا سپاٹ انداز میں بولا۔

" مگر آج نہ تو کل اسے اس گھر سے جانا ہی ہے۔ جیسے ہی سکندر کی طبیعت ٹھیک ہوتی ہے میں ازوہ کو یہاں رُکنے کی اجازت نہیں دے سکوں گا۔وہ اس وقت یہاں اس کے لیے موجود ہے کیونکہ وہ بےسہارا ہے فی الحال۔  اُمید ہے میری بات سمجھ گۓ ہوگۓ۔" وہ اچھے سے جانتے تھے پوتے کو کیسے قابو کرنا ہے۔

" اگر میں کہوں کہ ہم اُسے ہمیشہ کے لیے یہاں روک سکتے ہیں۔پھر " وہ اپنی بات کہتا ان کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔  شاید وہ اپنی بات پر ان کا ریئکشن جاننا چاہتا تھا۔  اس کے لہجے میں ایک عزم تھا۔ 

" اچھا۔۔۔۔ وہ کیسے؟" وہ بھولپن سے بولے۔ 

عرید ان کی اتنی معصومیت کی اداکاری پر عش عش کر اُٹھا۔ 

" داجان!  میری بات کا مطلب آپ اچھے سے سمجھ گۓ ہیں۔ " وہ لہجے میں ناراضی سموۓ ہوۓ بولا۔ 

" مگر پھر بھی ہم آپ کے منہ سے سُننا چاہتے ہیں۔" اس دفعہ ان کے لہجے میں بھی سنجیدگی تھی۔ 

" میں ازوہ آفریدی کو پورے حق سے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔اُس کو مسز عرید ازوہ آفندی بنانا چاہتا ہوں۔اُسے ہر مشکل سے بچانا چاہتا ہوں ۔ اس کی زندگی میں سب سے اونچا مقام حاصل کرنا چاہتا ہوں۔" اس کے انداز پر داجان کے لب ہلکی سی مسکراہٹ میں ڈھلے۔ 

" ہمیں اچھا لگا آپ کا انداز۔ وہ بہت پہلے ہی بہت مشکل حالات سے گزر چکی ہے۔ اسے خوش رکھنے کی کوشش کیجیئے گا۔  کبھی اُن کے ماضی کا سایہ ان کے حال پر نہ پڑنے دیجئیے گا۔  ابھی ہم یہ بھی نہیں جانتے کے ازوہ کا کیا ریئکشن ہوگا۔ پتا نہیں وہ اس رشتے پر راضی ہونگی کے نہیں۔" وہ ازوہ کے بارے میں سوچتے ہوۓ بولے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داجان نے جب اس کے سامنے اپنی بات رکھی۔ تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئ۔ وہ عرید کیا کسی سے بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

" داجان ! ہمیں کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔" وہ بمشکل اپنے آنسو پلکوں پر روکے ہوۓ تھی۔ 

" پر کیوں میرے بچے؟ میں مانتا ہوں آپ کا پہلا تجربہ ٹھیک نہیں رہا مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنی ہر خوشی اپنے اُوپر تنگ کرلیں۔ ایک موقع تو دیں عرید کو ہمیں یقین ہے وہ آپ کا دامن خوشیوں سے بھر دیں گے۔ آپ کو کبھی بھی اس فیصلے پر پچھتانا نہیں پڑے گا۔" وہ اس کے انکار کا بُرا مناۓ بغیر اسے منانے والے انداز میں بولے۔ انہیں کچھ کچھ اس کے ریئکشن کا اندازہ تھے۔ مگر وہ ہر قیمت پر اسے قائل کرنا چاہتے تھے۔

" داجان ! اگر آپ لوگوں کو میرے یہاں رہنے سے کوئی مسئلہ ہے ہم آج ہی یہاں سے چلیں جائیں گے۔آپ سب پر مزید بوجھ نہیں بنیں گے۔" وہ سفاکی سی بولتی ان کا چہرہ تاریک کرگئ۔ اپنے لفظوں کا اسے بھی اندازہ تھا۔ وہ لوگ اس کا اتنا خیال رکھ رہے تھے اسے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر ایک تلخ تجربے کے بعد وہ ان راہوں کی طرف دوبارہ آنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

"کوئی بات نہیں بچے۔ ہمیں اندازہ ہے یہ آپ کی زندگی ہے۔ بھلا ہم کون ہوتے ہیں آپ پر اپنا فیصلہ تھوپنے والے آپ ہر فیصلے کے لیے آزاد ہیں۔آپ بےفکر رہیں ہم آپ کا انکار عرید تک پہنچادیں گے۔ اور اس بات کی فکر تو بالکل مت کیجئے گا کہ ہمارا رویہ آپ کے اس فیصلے کے بعد بدل جاۓ گا۔ بالکل نہیں بلکہ آپ کو وہی مان ملے گا۔ جو پہلے ملتا آیا ہے۔" وہ بےحد سنجیدگی سے بولتے ازوہ پر ایک نظر ڈالتے رُخ موڑ گے۔ یعنی یہ اشارہ تھا کہ وہ اپنی بات ختم کرچکے ہیں اب چاہے تو وہ جاسکتی ہے۔ 

وہ خود کو بےبس سی محسوس کررہی تھی۔ وہ جو چاہتے تھے وہ کبھی نہیں کرسکتی تھی۔ ان کی محبتوں کو حق تو وہ ادا ہی نہیں کرسکتی تھی جو اس پر بغیر کسی رشتے کی بھی اتنے مہربان تھے۔ اسے پہلے دن سے ہی اس گھر میں بیٹیوں جیسا مان مل رہا تھا۔ کیسے ناشکری کرتی۔وہ اپنے انکار پر خُود ہی شرمندہ تھی۔ اس لیے اپنے آنسو پونچھتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

وہ یونی آکر بھی بےچین تھی۔ جب سے اس نے صارم کے پرپوزل پر انکار کیا تھا۔ وہ خود بھی سکون سے نہ رہ پائی تھی۔ اپنی باتوں پر اُس کا سفید پڑتا چہرہ آنکھوں کے سامنے لہراتا تو اسے افسوس سا ہوتا۔ اس کے دل میں اُس کے لیے کوئی خاص جذبہ تو نہیں تھا مگر ہمدردی تھی۔

وہ ہنستا کھیلتا لڑکا اس کی وجہ سے مسکرانا نہ بھول جاۓ۔ اس کی نظریں چاروں اور بھٹک رہی تھی۔جب اس کی نظر ایک منظر پر آکر ٹھہر سی گئ۔ وہ صارم ہی تھا جو سامنے احان کے ساتھ چلا آرہا تھا۔  وہ اس کی  کسی بات پر ہلکا سا مسکرایا۔  وہ خود کو سنبھال چکا تھا اپنا اشتہار لگانا اسے ذرا بھی پسند نہ تھا۔ 

ان سب کے باوجود ماہا محسوس کرسکتی تھی کہ اس میں ایک واضح تبدیلی آئی تھی وہ مسکرا تو رہا تھا مگر اس کی آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ وہ سب کے سامنے خود کو نارمل ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔ 

بےساختہ ماہا کا دل بوجھل سا ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید کو جب سے اس کے انکار کا پتا چلا تھا وہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔ اسے کسی پل بھی چین نہ ملا۔ تو آخر کار اپنے فیصلے پر مہر لگاتا تن فن کرتا اس کے کمرے کی جانب بڑھا۔ 

وہ جو اپنے دھیان میں گُم سُم سی بیٹھی تھی. اسے کمرے میں اتنے غصّے سے آتا دیکھ تھم سی گئ تھی۔ اس کا جارحانہ انداز دیکھ کر سہم سی گئ تھی۔

" عرید ! یہ کوئی طریقہ ہے کسی کے کمرے میں آنے کا۔" وہ اِس کے جارحانہ انداز کو نظر انداز کرتی ہوئی بولی۔ 

عرید نے جیسے اس کی بات سُنی ہی نہیں تھی۔ یا سُن کر بھی اَن سُنی کر دی تھی۔

" انکار کیوں کیا اس رشتے پر؟  مجھے وجہ جاننی ہے۔ یقین مانو اگر کوئی مضبوط دلائل دو گی۔  تو کبھی تمہارے راستے میں بھی نہیں آؤں گا۔ " وہ اپنے غصّے کو کنٹرول کرتا اپنے ازلی انداز میں بولا۔ 

" میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔" وہ اس کے نرم انداز کو دیکھتی ہوئی بولی۔اس کا یہی انداز تو اسے پسند تھا کہ وہ غصّے میں بھی بات کرنے کی تمیز نہیں بُھولتا تھا۔

وہ آیا تو غصّے میں تھا مگر وہ اپنے غُصّے کو کنٹرول کرگیا۔ وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ اس کے غُصّے کی وجہ سے اس سے خوف کھاۓ۔

" اگر تم وقت لینا چاہتی ہو تو لے سکتی ہو مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔" وہ اس کی بدتمیزی کو اگنور کرتا ہوا بولا۔

"مجھے شادی کرنی ہی نہیں ہے نہ ابھی نہ آئندہ کبھی۔" وہ ابھی بھی اپنی بات پر قائم تھی۔ وہ خود کو مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر اس کا لہجہ کپکپا رہا تھا جو سامنے کھڑا وجود بھی بخوبی محسوس کرسکتا تھا۔

" وجہ بتاؤ شادی کیوں نہیں کرنی۔" وہ اس کا روہانسا انداز دیکھ کر پہلے سے بھی زیادہ نرمی سے بولا۔

وہ اس کے نرم لہجے کے سامنے بےبس ہورہی تھی۔ وہ واقعی ہی تھکنے لگی تھی اسے واقعی ہی کسی کے مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔ مگر اس دل کا کیا کرتی جہاں بےتحاشا خوف تھا خود کے دھتکارے جانے کا۔

" آپ سمجھ کیوں نہیں رہے؟ کالی آپ کی جان لے لےگا۔ اور میں نے چاہتی میری وجہ سے آپ کو کچھ بھی ہو۔میرے پیچھے تو رونے والا کوئی نہیں ہے۔ اگر ازوہ آفریدی کی زندگی کا اختتام بھی ہوجاۓ تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر آپ کے سارے رشتے آپ پر جان لُٹاتے ہیں اگر میری وجہ سے آپ کو کچھ ہوا تو میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکوں گی ۔" وہ ہاتھوں میں چہرہ چُھپاۓ شدت سے رودی۔ جانے کیوں وہ اس کے سامنے بےبس ہوجاتی تھی۔

بلی تھیلے سے اب باہر آئی تھی۔ اس کے انکار کی حقیقی وجہ جان کر عرید کو کہی نہ کہی خوشی محسوس ہوئی تھی۔ اُسے عرید کی جان کی فکر تھی۔ مگر عرید کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا۔ جب تک اس کا رب اس کے ساتھ تھا وہ کالی اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا۔

وہ دو قدم مزید اس کے نزدیک آتا اس کے چہرے پر رکھے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام گیا۔

" ازوہ یقین مانو مجھے اُس کالی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا یہ وہم اپنے دل سے نکال دو۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا نرمی سے بولا۔ ان ہیزل براؤن کرسٹلز میں اسے آنسو بالکل بھی پسند نہ آۓ تھے۔ 

" آپ کیوں اپنی ہی جان کے دشمن بن رہے ہیں۔" وہ رونا بھول کر اس کے ہاتھوں میں قید اپنے ہاتھ کو دیکھ کر رہ گئ۔

" کیونکہ میری جان تو تم میں اٹکنے لگی ہے۔ کیونکہ تم اس دل کے دروازے بنا کھٹکھٹاۓ اس دل کی مکین بن گئ ہو۔ تمہارے ایک  ایک آنسو سے مجھے فرق پڑنے لگا ہے۔ تمہارا ادس چہرہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔ اور تمہاری ان حسین آنکھوں نے مجھے اپنا اسیر کرلیا ہے۔ یہ دل رفتہ رفتہ تمہارا دیوانہ ہونے لگا۔ جس دن تم نظر نہ آؤ میری آنکھیں تمہیں ڈھونڈنے لگتی ہیں یہ دل بےچین ہو اُٹھتا ہے۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے اسے زندگی کی نوید سُنا رہا تھا۔ 

ازوہ کے چہرے پر پل میں گُلال بکھرا۔ آنکھیں خُود بخود حیا سے جُھکتی چلی گئیں۔

عرید نے مبہوت ہو کر یہ نظارا دیکھا تھا۔ 

" کیسے یقین کروں آپ پر۔ کیا پتا آپ مجھے بیچ راستے میں ہی چھوڑ دیں۔ " وہ دل کی بات زبان پر لاتی ہوئی بولی۔

" تم اس بات کا یقین کرلو۔ میں تمہیں کبھی چھوڑ نہیں سکتا اگر کبھی چھوڑنے کا سوچوں گا بھی تو یہ دل مجھے ایسا کرنے ہی نہیں دے گا۔" وہ اسے یقین دلانے والے لہجے میں بولا۔

"میں آپ پر یقین کررہی ہوں۔ یہ یقین کبھی نہیں ٹوٹنے دیجئیے گا۔" وہ جُھکی نظروں کے ساتھ بولتی اس کا دل دھڑکا گئ۔

" کبھی نہیں۔ تیاری کرلو میرا بننے کی۔  عرید آفندی تمہیں اتنا چاہے گا تم خُود پر ناز ہوگا۔ تمہاری آنے والا ہر دن خوشیوں سے بھر دوں گا۔ جنھیں سمیٹتے تمہارا دامن تنگ پڑ جاۓ گا۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتا سرشاری کی کیفیت میں نکلتا چلا گیا۔

پیچھے وہ اپنے دھڑکتے دل کو سنبھال کر رہ گئ۔ وہ واقعی ہی ساحر تھا۔ اس کو بھی رفتہ رفتہ اپنے سحر میں جھکڑنے لگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ کلاس رُوم کے باہر منہ لٹکاۓ کھڑی تھی پھر ایک نظر کلاس رُوم پر ڈالتی اُداس اُداس سی کینٹین کی طرف بڑھ گئ۔ 

کلاس میں ٹیسٹ چل رہا تھا۔ گھر پر چل رہی سچویشن سے اس سے بالکل بھی پڑھا نہیں جارہا تھا۔ دوسرا اس کی پڑھائی میں مدد اکثر میرو ہی کرتی تھی۔اُس کو دیکھ کر وہ خود بھی اُداس تھی اس دوران اس کا پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگا وہ ایک بھی لفظ نہ پڑھ پائی۔ سر نے تین دن پہلے ہی اس ٹیسٹ کی اناؤنسمنٹ کردی تھی۔ سب کو سختی سے ٹیسٹ  کی تیاری کرنے کا بولا تھا۔ وہ تیاری نہ کرنے کی باعث سر سے بےعزتی کروا کر کلاس سے باہر موجود تھی۔ 

احان نے اس کی اُداس شکل دیکھی تو رہا نہیں گیا۔اس کے نزدیک آتا اسے مخاطب کر بیٹھا۔

" کیا ہوا مس پٹاخہ؟ اتنی اُداس کیوں ہو؟ وہ اس کے نزدیک آتا ہشاش بشاش لہجے میں بولا۔

" کچھ نہیں۔" وہ بیزاری سے بولتی آگے بڑھ گئ۔

" کچھ تو ہے۔ اور تمہاری تو اس وقت کلاس ہوتی ہے باہر کیا کررہی ہو۔" وہ زرا سخت لہجے میں بولا۔

" مجھے ٹیسٹ نہیں آتا تھا سر عرفان نے کلاس سے باہر نکال دیا۔اور پورے ایک ہفتے کلاس میں نہ آنے کی سزا دی ہے۔" وہ شرمندہ شرمندہ سی منمنا کر بولی۔

" اور تمہیں ٹیسٹ کیوں نہیں آتا تھا۔" وہ پُرتجسُس انداز میں بولا۔.

مگر وہ خاموش رہی۔ یا شاید وہ اسے بتانا نہیں چاہتی تھی۔ 

" اگر تم چاہو میں سر سے بات کر سکتا ہوں۔مگر شاید تم میری مدد نہیں لینا چاہتی۔ 

اُس کو جاتا ہوا دیکھ کر وہ فوراً بول پڑی۔

" احان ! رُکو نا مجھے چاہیے تمہاری مدد۔" وہ معصوم سی شکل بناتی ہوئی بولی۔

" ایکچولی ہمارے گھر میں کچھ پرابلم چل رہی ہے۔ میری آپی جو اکثر مجھے پڑھاتی ہیں ان کی طبیعت نہیں ٹھیک اور اس ٹینشن میں میرا پڑھنے کا دل بھی نہیں کررہا تھا۔ بس اس لیے ایک لفظ بھی نہ پڑھ پائی۔" وہ جس حد تک اِس کو بتا سکتی تھی اسے بتا چکی تھی۔

احان نے بھی زیادہ کریدنا ضروری نہ سمجھا۔ وہ سچ کہہ رہی تھی ۔ اپنی آپی کے ذکر پر وہ سچ میں اُداس ہوگئ تھی۔ میرو اور اس کی عُمر میں دو سال کا فرق ہونے کے باوجود ان کی دوستی مثالی تھی۔ میرو کی تو وہ دیوانی تھی۔ دونوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ ہی نہیں تھا۔ وہ میرو کو داجان سی ملنے والی اہمیت پر بھی کبھی اُس سے جیلس نہیں ہوئی تھی۔ 

" اوکے چلو ! آج تمہیں ٹیسٹ کی تیاری میں کروا دیتا ہوں۔ میں سر سے بھی بات کرلوں گا۔ وہ تمہیں کلاس میں آنے سے نہیں روکیں گے۔ پر آئندہ جو بھی ہو گھر کی ٹینشن ایک طرف رکھ کر اپنی پڑھائی پر پوری توجہ دو گی سمجھی۔" وہ اسے نرمی سے سمجھاتا ہوا بولا۔

نشوہ نے ہاں میں سر ہلایا۔ 

وہ اسے اتنے اچھے انداز میں سمجھا رہا تھا۔ کہ نشوہ اس کے پڑھانے کے انداز کی اسیر ہوئی تھی۔ وہ نرمی سے بات کرتا کتنا اچھا لگتا تھا۔ واقعی ہی وہ اتنا پیارا تھا کہ کسی کو بھی اپنا دیوانہ کرسکتا تھا۔ نشوہ اُس کے نرم انداز کو دیکھتی ہوئی سوچ رہی تھی۔ اُسے خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا وہ رفتہ رفتہ اس کی اسیر ہورہی تھی۔ جو محبتیں رفتہ رفتہ دل میں اُترتی ہیں وہ بڑی پائیدار ہوتی ہیں۔

نشوہ اور میرو اس کو گھیرے بیٹھی تھی۔ آج تقریباً کافی دنوں بعد وہ کمرے سے نکلتی ان کے درمیان بیٹھی تھی۔ نشوہ اسے کھینچ کر لائی تھی۔ ورنہ وہ گُم سُم سی ہوکر رہ گئ تھی۔

" مجھے تو بڑی خوشی ہورہی ہے میرو۔ ازوہ ہماری بھابھی بنے گی۔ بھائی اور تمہاری جوڑی پرفیکٹ ہے ازوہ۔ بھائی اور تم ساتھ کھڑے کتنے پیارے لگو گے۔ میں تو خوب انجواۓ کروں گی شادی پر۔ بلکہ میں اور میرو ایک جیسے ڈریس بنائیں گے۔ ہیں نا میرو۔" نشوہ ایکساٹڈ سی ازوہ کا گال چومتی ہوئی میرو کی طرف متوجہ ہوئی۔

میرو نے مسکرانے کی کوشش کرتے اثبات میں سر ہلایا۔ ہری آنکھوں میں ویرانی لیے وہ ان دونوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ نشوہ کا دل اسے دیکھ کر کٹ کے رہ گیا۔  وہ اسی لیے اسے کمرے سے باہر لائی تھی تاکہ وہ کچھ فریش محسوس کرے۔  پچھلے کچھ دنوں سے وہ ایسی کمرے نشین ہوئی تھی کہ وہ کھانے کے ٹائم بھی باہر نہ آتی تھی۔ ماہ نور اسے کھانا کمرے میں ہی پہنچا آتی تھی۔

" بالکل ازوہ ! عرید بھائی اور تمہاری جوڑی بالکل پرفیکٹ ہے۔ اور ہم ضرور ایک جیسا ڈریس بنائیں گے میری جان۔ "  میرو نشوہ کو اُداس ہوتے ہوۓ دیکھ خود پر چڑھا کھول اُتارتی اس کو گلے لگاتی ہوئی بولی۔ 

نشوہ اس کے چہرے پر اداسی نوٹ کرسکتی تھی جو صرف اس کے خاطر مسکرا رہی تھی۔ اسے نے دل ہی دل میں یزدان سے ڈھیروں شکوے کر ڈالے۔

" ویسے ازوہ! بھائی نے تمہیں پرپوز کیسے کیا؟ بڑی چُھپی رستم نکلی میرے بھائی کے دل پر قابض بھی ہوگئ اور ہمیں پتا بھی نہ چلا۔" نشوہ اس کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتی ہوئی بولی۔

اس کی پرپوز کرنے والی بات پر ازوہ کو عرید کے الفاظ یاد آئیں۔اس کا چہرہ پل میں سُرخ ہوا۔

اس کے سُرخ چہرے کو دیکھ میرو نے دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری اور اپنا رُخ موڑ لیا۔ کہی اسی کی ہی نہ نظر لگ جاۓ ۔ اسے تو خوشیاں راس نہ آئی تھی مگر وہ ازوہ اور عرید کے لیے بےحد خوش تھی۔ 

" ارے ابھی تو بھائی بھی سامنے نہیں ہیں۔ بھائی ایسے دیکھیں گے تو تمہارے اور بھی دیوانے ہوجائیں گے۔ " وہ ازوہ کے من موہنے چہرے پر کھلتے قوس و قزاح کے رنگ دیکھتی ہوئی بولی۔

" بدتمیز۔" ازوہ نے خود کو کمپوز کرتے اس کے کندھے پر ایک تھپڑ جڑا۔

پھر نشوہ چابی والی گڑیا کی طرف بنا رُکے بولتی انہیں شادی کی پلاننگ بتانے لگی جسے وہ دونوں خاموشی سے سنتی رہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ان دونوں کے پاس کافی دیر بیٹھی رہی۔ پھر انہیں آرام کرنے کا بہانا کرتی کمرے میں آگئ۔ اسے نشوہ کے الفاظ یاد آۓ جو ازوہ اور عرید کی جوڑی کو سراہنے کے لیے کہہ رہی تھی. ایسے ہی الفاظ اس سے بھی تو کسی نے ماضی میں کہے تھے۔ وہ آنکھیں بند کرتی حقیقت سے نظر چُراتی ماضی میں کھو گئ۔

مایوں والے دن اچھی طرح ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزار کر وہ گھر واپس آگۓ تھے۔ اس وقت وہ دونوں  

   میرو کے کمرے میں موجود تھے۔ 

" چلیں اب آپ جائیں بہت وقت ہوگیا۔" وہ اسے کمرے کے وسط میں یوں ہی کھڑا دیکھ کر بولی۔ 

"یار جانے کو دل نہیں کررہا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے تم یونہی سامنے بیٹھی رہو۔ اور میں تمہیں نہارتا رہوں۔ تم بولتی رہو میں تمہاری آواز سنتا رہوں۔" وہ اس کے پیچھے سے اس کے گرد باہوں کا حصار بناتا ٹھوڑی اس کے کندھے پر ٹکا کر بولا۔

وہ اس کی باتوں پر معصومیت سے مسکرا دی۔ اس نے سامنے موجود شیشے میں دیکھا جہاں ان دونوں کا بھرپور عکس نمایاں تھا۔ وہ دونوں پرفیکٹ کپل کی عکاسی کررہے تھے۔ 

یزدان نے اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں ان دونوں کا عکس لہرا رہا تھا۔

" پرفیکٹ جانم۔ دیکھو نا جانم یہ شیشہ بھی ہم دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرفیکٹ دکھا رہا ہے۔ جیسے ازل سے ہم بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ہوں۔میں جب جب تمہیں دیکھتا ہوں۔ میرے دل کے ساتھ ساتھ میری روح بھی تمہاری طرف کھینچی چلی آتی ہے۔تم اس دل کے ساتھ ساتھ میری رُوح کی بھی مکین ہو۔" وہ اس کے رخسار پر ہونٹ رگڑتا ہوا بولا۔ وہ اس کی مونچھوں کی چُھبن رخسار پر محسوس کرکے ذرا سے کسمسائی تھی۔ 

وہ نظریں جُھکاۓ اس کی قید میں کھڑی تھی جب یزدان نے اس کا رُخ اپنی طرف موڑا۔ 

"ایک بات تو بتاؤ۔" وہ جملہ مکمل کرتا خاموش ہوا تو میرو نے سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر ٹکائی۔ 

" یہ جادو کرنا کہاں سے سیکھا؟ ایسے چلاتی ہو کہ بندے کو ہوش ہی نہیں رہتا۔ " وہ مسکراہٹ دباتا اس کے چہرے کو پُرمتجسس انداز میں دیکھتا ہوا بولا۔ آنکھوں میں واضح شرارت کی چمک تھی۔

پہلے تو ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہی پھر اس کی بات کی سمجھ آتے وہ چلائی۔ یزدان کا بھرپور قہقہ کمرے میں گونجا۔

" یزدان! جائیے یہاں سے آپ کتنے بدتمیز ہیں؟" وہ اس کے حصار کو توڑتی اسے آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی۔ 

وہ دوبارو اس کے نزدیک آتا اس کے  لفظ نرمی سے چُنتا پیچھا ہٹا۔ اس کی بےباک حرکت پر میرو نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے پیچھے دھکیلا تھا۔ یزدان نے  دلچسپی سے اس کے چہرے پر کھلتے رنگوں کو دیکھا۔ 

اس کی حرکت پر وہ نظریں تک جُھکا گئ۔ 

" ہاۓ انہی اداؤں نے تو یزدان آفندی کو اپنا دیوانہ بنایا ہے۔" وہ دل پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔ 

اس کی لرزتی پلکوں کا رقص کتنا دلکش تھا۔ دل کی پُکار پر آمین کہتے وہ اس کی آنکھوں پر ہونٹ ٹکاتا ان کی لرزش میں اضافہ کرگیا۔ 

"یزدان۔" میرو نے پلکیں کھول کر اردگرد دیکھا۔ تو منظر بدل چکا تھا۔ جہاں اس کی محبت کہی نہیں تھی محض یزدان کی بےوفائی کسی  اژدھے کی طرح منہ کھولے کھڑی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"داجان ہمیں لگتا ہے شادی سے پہلے عرید کو تمام۔حقیقت بتا دینی چاہیے۔ اُس کا حق ہے میرے ماضی کے بارے میں جاننا۔ " اس وقت کمرے میں دو ہی نفوس موجود تھے۔  

ازوہ کی آواز کمرے میں گونجی پھر کچھ دیر تک خاموشی چھائی رہی۔  

 ایک دفعہ کمرے کے سکوت کو کسی کی آواز نے توڑا مگر اس دفعہ گونجنے والی آواز داجان کی تھی۔ 

"ہمیں نہیں لگتا ابھی عرید کو یہ سچ بتانا چاہیے۔ صحیح وقت آنے پر ہم خود ہی اُن کو سب بتا دیں گے۔ ابھی آپ عرید کو خود پر اتنا یقین دلا دیں کہ بعد میں اس حقیقت حیثیث بےمعنی رہ جاۓ۔" وہ ازوہ کی بات سنجیدگی سے رد کرتے ہوۓ بولا۔ 

" داجان اگر انہیں کہی اور سے پتا چل گیا پھر تو وہ ہم پر بالکل یقین نہیں کریں گے۔" وہ دل میں آیا خدشہ زبان پر لاتی ہوئی بولی۔

" اُسے کہی سے بھی پتا نہیں لگا گا یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہے اور اب یہ یہی ختم ہوجانی چاہیے۔" اب کی بار ان کے لہجے میں تنبیہ تھی۔ ازوہ خاموش سی ہوکر رہ گئ۔مگر دل میں ڈر سا بیٹھ گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اُس کو حویلی سے آۓ پندرہ دن ہونے والے تھے اُس واقعے کے بعد وہ واپس نہیں گیا تھا نہ ہی کسی نے اسے واپس بُلانے کا تکلُف کیا تھا۔پچھلے پندرہ دنوں سے وہ انگاروں پر لوٹ رہا تھا۔ اسے کہی بھی سکون نہیں تھا۔ 

"یزدان آفندی ان سب میں تم نے میرو کو شامل کرکے بہت غلط کیا ہے۔ وہ معصوم اس سب کی حقدار نہیں تھی۔ ایک ہی مخلص رشتہ بچا تھا جسے خود ہی بےدردی سے دُور کک چُکے ہو۔ " وہ سر ہاتھوں میں گراۓ پچھتاوے کی آگ میں جل رہا تھا۔اس کا ضمیر اسے بُری طرح لتاڑ رہا تھا۔

" میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔" وہ خود کو یقین دلانے والے انداز میں بولا۔

"واقعی تم نے غلط نہیں کیا۔ ایک معصوم کو پچھلے دو سالوں سے جدائی کی آگ میں جھونکا ہوا تھا۔ اب ایک اور نیا ستم بےوفائی کا روگ بھی اس کی جھولی میں ڈال آۓ ہو۔واقعی تم نے کچھ نہیں کیا۔" اسے یوں لگا کوئی اس کی بےبسی کا مزاق اُڑا رہا ہو۔ 

وہ ضمیر کی آواز کا گھلا گھونٹتا کان لپیٹ کر بیٹھا رہا۔ اندر سے اس کا دل کرلا رہا تھا۔ مگر وہ واقعی ہی ہر معاملے میں بےحس ہوچکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب کے باہمی صلاح مشورے پر دو ہفتوں کے بعد کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئ تھی۔ ہر کوئی گھن چکر بنا ہوا تھا۔ آۓ دن مارکیٹ کے چکر لگ رہے تھے۔ 

ازوہ اس دوران خوش ہونے کے ساتھ ساتھ گھبرا بھی رہی تھی۔ کہیں ایک دفعہ پھر اس کی خوشیوں کو کسی کی نظر نہ لگ جاۓ۔ اس بار واقعی ہی اتنی ہمت نہیں تھی جو کچھ بھی سہہ پاتی۔ 

" ازوہ دیکھو  تمہارے لہنگا  تیار ہوکر آگیا۔ دیکھو کتنا پیار ہے۔ " نشوہ اس کے کمرے میں آتی باکس میں سے بھاری لہنگا نکالتے اس کے سامنے لہرا چکی تھی۔ ڈیپ ریڈ کلر کا موتیوں سے مزین بھاری لہنگا آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ 

" جلدی سے ایک بار ٹرائی کرلو۔ میں بھی تو دیکھوں یہ لہنگا آپ پر کیسا لگتا ہے۔ میرے ہونے والی پیاری بھابھی جی۔" اس کی طرزِِ مخاطب پر وہ پل میں سُرخ ہوئی۔ 

" اس کی کیا ضرورت ہے۔ ٹھیک ہی ہوگا۔" ازوہ اس کی فرمائش پر گھبراتے ہوۓ بولی۔ 

" ضرورت کیوں نہیں ہے بالکل ضرورت ہے۔ جاؤ جلدی سے ٹرائی کرکے آؤ۔ آپ تو ایسے گھبرا رہی ہیں جیسے عرید بھائی یہاں موجود ہو۔" وہ بھاری لہنگا اس کے ہاتھ میں تھماتی ڈریسنگ روم کی طرف دھکیل چکی  تھی۔ 

ازوہ گہری سانس بھرتے اس کے ہاتھ سے لہنگا تھامتی ڈریسنگ روم کی جانب بڑھ گئ۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ بھاری لہنگا پہنے سہج سہج کر قدم اُٹھاتی ڈریسنگ روم سے نکلتی اس کی طرف آئی۔

بھاری ٹیل لہنگے کے ساتھ شارٹ کُرتی پہنے وہ بےحد حسین لگ رہی تھی۔ بھاری ڈوپٹہ سر پر بمشکل سجا رکھا تھا۔

نشوہ کے منہ سےبے ساختہ ماشاءاللّہ نکلا ۔ وہ بغیر کسی تیاری کے بھی بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔

گوری رنگت پر سُرخ رنگ خوب جِھپ دکھلا رہا تھا۔ کرسٹل براؤن آنکھیں جُھکی ہوئی تھی۔ سلکی براؤن بال شانوں پر بکھرے اس کے حُسن کو مان بخش رہے تھے۔

" کاش عرید بھائی یہاں ہوتے وہ آپ کو ایسے دیکھتے تو دیوانے ہی ہوجاتے۔" وہ اس کے نزدیک آتی چمکتی أنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

عرید اور نشوہ کی محبت مثالی تھی۔ اس کی ہرخواہش کو پورا کرنا وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ اس کے ناز نخرے اُٹھاتا وہ اسے دنیا کا سب سے پیارا بھائی لگتا تھا۔ اپنے بھائی کی نسبت سے اسے ازوہ اور بھی عزیز ہوگئ تھی۔ اسے وہ اپنی اپنی سی لگنے لگی تھی۔ 

نشوہ نے اسے محبت سے دیکھتے اس کی دو تین تصویریں بنا ڈالیں۔

" کوئی بات نہیں عرید بھائی ادھر نہیں ہے تو کیا ہوا ۔ آپ کی تصویریں ان تک پہنچ جائیں گی۔ پھر کیا وہ آج کے آج نکاح پڑھوا لیں گے۔" وہ چہکتی ہوئی اس کی تصویریں دیکھتی ہوئی بولی۔

" نشوہ تم ایسا کچھ بھی نہیں کرو گی۔ تم انہیں یہ تصویریں بالکل بھی نہیں بھیجو گی۔" وہ انگلی اُٹھاتی تنبیہہ کرنے والے انداز میں بولی۔

" سوری بھابھی جی۔۔ آپ لیٹ ہوگیئں۔ تصویریں انہیں واٹس ایپ ہوچکی ہیں۔" وہ شرارتی مسکان سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

اس کی باتوں پر ازوہ کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوا۔ دل کی دھڑکن نے یکدم سپیڈ پکڑی۔ اس کی بولتی آنکھیں آج کل اس پر ہی مرکوز رہتی تھی۔ جب سے ڈیٹ فکس ہوئی تھی وہ اس سے چُھپتی پھرتی تھی۔ 

اس کے ریئکشن کا سوچتے اس کے ہاتھ پاؤں پھولے۔ چہری کی رنگت گُلابی ہوئی۔

" اوہ ! اُدھر سے جواب بھی آگیا۔" وہ موبائل کی سکرین اس کے سامنے کرتی ہوئی بولی جہاں دل والا ایموجی بڑی شان سے لہرا رہا تھا۔ 

نشوہ کی معنی خیزی شرارتی سی ہنسی پر  اس کی گلابی رنگت مزید سُرخ ہوئی۔ 

" اوہ! وائس میسج بھی آگیا۔" وہ کھکھلا کر ہنستی اسے گڑبڑانے پر مجبور گرگئ۔اس نے وائس میسج چلا کر موبائل مزید اس کی جانب کیا۔

" نشوہ اپنی بھابھی کو بولو آج ہی پہنچ جاؤ نکاح کے لیے۔ ہاۓ ابھی تو پورے پانچ دن باقی ہیں۔ رحم کھائیے مجھ معصوم پر۔" وائس اینڈ ہوچکا تھا مگر ازوہ کو منہ چُھپانے کی جگی نہ ملی۔ 

" بدتمیز۔تم اور تمہارا بھائی دونوں ہی بےشرم ہیں۔" وہ اپنی  شرم کو غُصّے کے لُبادے میں چُھپاۓ ناراضگی سے بولتی ڈریسنگ میں بند ہوگئ۔

پیچھے وہ اس کی معصومیت پر بےتحاشا ہنستی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ حویلی واپس آیا تو گھر میں مچی افراتفری دیکھ کر حیران ہوا۔ وہ کچھ متجسس سا ہوا۔

قریب سے گزرتے ایک ملازم کو اشارے سے اپنے پاس بلایا۔

" کیا چل رہا ہے یہ۔" وہ اردگرد چلتی تیاریوں کو دیکھتا ہوا بولا۔

" عرید سر کی شادی کی تیاریاں چل رہی ہیں۔کل مہندی کا پروگرام ہے۔ سب اُسی میں مصروف ہیں۔" وہ  عجلت میں اسے بتاتا آگے بڑھ گیا۔

یزدان نے بےیقینی سے چاروں اور دیکھا کسی نے بھی اسے بتانا ضروری نہ سمجھا۔ وہ سرجھٹک کر کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسے کونسا اس سب سے فرق پڑتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

آج ماہا اور نشوہ دونوں ہی یونی نہ آئی تھی۔ نشوہ کو نہ پاکر وہ کافی بےچین سا ہو اُٹھا تھا۔ اس کی نگاہیں بار بار اُسے تلاش کررہی تھی۔

آخر تھک ہار کر جھنجھلاتا ہوا اس کی کلاس کی طرف بڑھ گیا۔اس کی ایک کلاس فیلو  جس کی نشوہ اور ماہا  سے اچھی سلام دُعا تھی اُن کو مخاطب کرتا وہ پوچھ ہی بیٹھا۔

" ایکسکیوزمی! کیا آپ بتا سکتی ہیں۔نشوہ اور اُس کی دوست کیوں نہیں آئی۔وہ دراصل کل میں نے ایک اہم موضوع سے متعلق نوٹس اُس کو دیے تھے۔وہ مجھے واپس چاہیے تھے۔" وہ بات بناتا ہوا بولا

" ہاں وہ دراصل نشوہ کے بھائی کی شادی ہے۔ تو اس لیے وہ دونوں نہیں آئی۔ ماہا بھی اسی وجہ سے چھٹیوں پر ہے۔" وہ لڑکی جتنا جانتی تھی بتاتی ہوئی بولی۔

وہ اس کا شکریہ ادا کرتا سر ہلاتا وہاں سے نکل آیا تھا۔صارم کا بھی کم و بیش یہی حال تھا مگر وہ سب سے لا تعلق ہی بیٹھا رہا تھا۔ 

احان وہاں سے نکلتا صارم کو ڈھونڈتا کینٹین آگیا وہ وہی موجود تھا۔ 

" کہاں تھا تو؟ " صارم اسے دیکھتا ہوا بولا۔ 

"کہیں نہیں اِدھر ہی تھا۔" وہ لاپرواہی سے اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا بولا۔

" اچھا مگر کچھ دیر پہلے تو نشوہ کی کلاس میں کیا کرنے گیا تھا۔ " وہ جو کینٹین آنے سے پہلے اسے نشوہ کی کلاس میں جاتا ہوا دیکھ چکا تھا۔دوست کے دل کی بات اچھے سے جان گیا تھا۔ جسے وہ چُھپانے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔

" کام تھا مجھے کچھ۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھیر کے رہ گیا۔

اسی کی گھورتی نظریں خود پر مرکوز پاکر آخر کار وہ بول ہی پڑا۔

" وہ نشوہ سے کام تھا۔ مگر آج وہ آئی نہیں۔ شادی ہے اس کے بھائی کی۔" وہ اس کی گھوریوں پر بھی بات گھول مول کرتا ہوا بولا۔

شادی کے ذکر پر صارم کی نظروں میں ماہا کا چہرہ لہرایا۔ اُس کی بھی تو بہت جلد شادی تھی۔  اُس دن وہ یہی تو کہہ رہی تھی۔ اس کا دل یکدم سے اُداس ہوگیا۔

شاید کچھ لوگ آپ کی زندگی میں آتے ضرور ہیں مگر وہ آپ کی زندگی میں شامل ہوکر آپ کی زندگی کو مکمل نہیں کرتے۔ بلکہ اُن کے جانے سے ایک خلا آپ کی زندگی میں ہمیشہ کے لیے رہ جاتا ہے۔  وہ زندگی کے جس بھی مقام پر پہنچ جاتا جو خلا ماہا کی وجہ سے اس کی زندگی میں آیا تھا وہ کوئی بھی پُر نہیں کرسکتا۔

"کیا ہوا صارم؟ تو اتنا اُداس کیوں ہوگیا؟  کوئی پریشانی ہے۔" احان اس کے اُداس چہرے پر نظریں مرکوز کیے بولا۔

" ماہا کی بھی بہت جلد شادی ہے۔ پھر میں شاید اُسے کبھی نہ دیکھ سکوں۔ جو لوگ نصیب میں نہیں ہوتے اُن سے کیوں اتنی شدید محبت ہوتی ہے۔  کتنا قسمت والا ہے وہ انسان جسے بغیر مشقت کے ماہا نصیب ہوگی ۔ مجھے رشک آتا ہے اُس کے نصیب پر۔ " وہ تھکی تھکی سانس خارج کرتا پہلی بار اپنا فیلنگز کا اظہار اس کے سامنے کر چُکا تھا۔ 

" تو اتنی جلدی ہار کیسے مان سکتا ہے۔  تجھے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے تھی تو تو اُس کے ایک بار منع کرنے پر ہی پیچھے ہٹ گیا۔ زبردستی کر جو بھی مگر اُسے اپنی زندگی میں شامل کرلیں تاکہ کبھی کوئی پچھتاوا نہ رہے۔" وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتا اسے نئ راہ دکھانے کی کوشش کررہا تھا۔

" میرے  محبت کے  اُصول کچھ الگ ہیں۔ میں محبت میں زبردستی کا قائل نہیں۔ فرض کر میں زبردستی اُسے اپنی زندگی میں شامل کر بھی لوں تو شاید وہ میری اُس طرح عزت نہ کرپاۓ۔ محبت تو بہت دُور کی بات ہے۔ اور جب بات لڑکی کی عزتِ نفس پر آتی ہے۔ تو بےشک تم ایڑی چوٹی کا زور لگا لو وہ تمہارے معاملے میں ہمیشہ لاتعلق  رہے گی۔ تو یقین مان مجھے اُس سے محبت کے علاوہ کچھ نہیں چاہیے۔مجھے اُس کی عزت بہت عزیز ہے میں اُس کے عزتِ نفس کو چوٹ پہنچا کر حاصل کر بھی لوں تو کیا یہ مردانگی تو نہ ہوئی۔ میں کسی کی بےبسی کا فائدہ اُٹھانے والوں میں سے نہیں ہوں۔" وہ بولنے پر آیا تو بولتا چلا گیا۔

" تیرے محبت کے اُصول الگ ہونگے مگر میرے اُصول الگ ہیں۔اگر کسی سے محبت ہوجاۓ تو ایڑی چوٹی کا زور لگا کر اُسے اپنی زندگی میں شامل کرلو۔میری زندگی میں ہمیشہ محبتوں کی کمی رہی ہے میں نے اپنی ماں کے علاوہ کسی کی محبت کو محسوس نہیں کیا۔ اب جو بھی میری زندگی میں آۓ گی اُسے ہر حال میں میرا ہونا ہوگا۔ ایک دفعہ وہ میری زندگی میں آگئ تو اس کے دل پر حکومت میں خود ہی بٹھا لوں گا۔" وہ شدت سے پُر لہجے میں بولا۔ صارم اس کا جنونی انداز دیکھ کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گُم سُم سی صوفے پر بیٹھی تھی۔ ابھی کچھ دیر قبل فارض صاحب اسے موت کی نوید سُنا کر گۓ تھے۔ 

اگلے مہینے اس کی اور ہشام کی شادی کی تاریخ رکھی جاچکی تھی۔ ایک ہفتے بعد وہ سب گاؤں جارہے تھے۔ پتا نہیں اسے واپس شہر آنا کب نصیب ہو۔ ایک بات تو پکی تھی کہ اس کی پڑھائی رُک جانی تھی۔ اس کے بابا جتنا بھی کہتے کہ وہ ہشام سے بات کریں گے۔ مگر وہ جانتی تھی وہ کبھی بھی راضی نہیں ہوگا۔

جانے کیوں بار بار اس کی آنکھوں میں صارم کی سُرخ انگارہ آنکھیں لہراتی تو وہ خود بھی بےچین ہو اُٹھتی۔

" پلیز صارم لاشاری میری زندگی سے دُور رہو۔ میں ایک اور شکست برداشت نہیں کر پاؤں گی۔ کیوں تم میرے حواسوں پر چھا رہے ہو۔ہم کبھی ایک نہیں ہو پائیں گے۔ میری سوچوں سے دُور رہو۔" وہ سر ہاتھوں میں گراتی خود سے ہی مخاطب تھی۔ 

بس کچھ دن کی بات تھی پھر وہ کسی اور کے نصیب میں لکھی جانے والی تھی۔ہشام جیسا بھی تھا مگر وہ پوری آمادگی کے ساتھ اس کی زندگی میں شامل ہونا چاہتی تھی۔

کبھی اک پل میں زندگی گزر جاتی ہے۔

اور کبھی زندگی کا اک پل نہیں گزرتا۔

گہرے بادل ہر سُو چھاۓ تھے۔ رات کا اندھیرا ہر طرف پھیلا ماحول کو خوفناک بنا رہا تھا۔ ایسے میں وہ اک وجود ہر چیز سے بے نیاز بیٹھا تھا۔اس وقت اس گھر میں موجود تھی جو ہشام نے اسے لیکر دیا تھا۔ اس کے ساتھ فی الوقت ایک ملازمہ رہتی تھی۔ اس کے باوجود وہ تنہا تھی بالکل تنہا۔ 

کبھی کبھی یہ تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ ہشام کو آخری دفعہ وہ ڈیڑھ ماہ پہلے ملی تھی وہ اسے یہاں شفٹ کرکے خود اُس دن کا گیا واپس نہ لوٹا تھا۔ اس بار فاریہ نے بھی اس سے رابطے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اسے اُس کے حال پر چھوڑ چکی تھی۔ اُس کے ساتھ رہتے وہ ایک بات تو جان چکی تھی کہ ہشام لاشاری خود غرض تھا۔

کہنے کو تو اس کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ مگر یہ کوئی فاریہ سے پوچھتا وہ آج بھی خالی ہاتھ تھی۔

نہ اس نے کبھی اس سے  محبت کا اظہار کیا تھا نہ ہی کبھی اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔ اُس نے ذرا سی عزت کا کیا دی وہ پگلی اُسے محبت سمجھ بیٹھی تھی۔ وہ کہاں جانتی تھی اس کی حیثیت ہشام لاشاری کی آگے ایک پسندیدہ شے کی سی تھی جو چیز ہشام لاشاری کو پسند آجاتی تھی وہ ہر حال میں اسے اپنی دسترس میں لے لیتا تھا چاہے اسے زبردستی ہی کیوں نا کرنی پڑے۔ پھر وہ تو خود اپنی مرضی سے ہشام کی زندگی میں شامل ہوئی تھی۔تو شکوہ کرتی بھی تو کس سے کرتی۔ کوئی تھا ہی نہیں اس سے کے شکوے سُننے والا۔

کالی اندھیری رات میں وہ بالکنی میں بیٹھی تھی۔ کالے کپڑوں میں ملبوس وہ اس کالی رات کا حصّہ معلوم ہورہی تھی۔ نم بال شانوں سے نیچے بکھرے ہوۓ تھے۔ شہد رنگوں آنکھوں سے جیسے کسی نے سارے رنگ ساری خوشیاں نچوڑ کر نکال پھینکی تھی۔ 

یخ بستہ ٹھنڈی ہوا کا جھونکا نم بدن سے ٹکراتا کسی کو بھی ٹھٹھرنے پر مجبور کرسکتا تھا مگر وہ بےحس بنی بیٹھی تھی۔ جیسے کوئی چیز اس پر اثر ہی نہ کررہی ہو۔ آہستہ آہستہ ہوا میں نمی بڑھتی چلی گئ۔ ٹھنڈی ہواؤں میں اضافہ ہوا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بارش برسنا شروع ہوگئ۔ اس نے چہرہ اُوپر اُتھا کر ایک نظر آسمان کی جانب  دیکھا۔اور دوبارہ اپنے گھٹنوں پر سر ٹکا کر بیٹھ گئ۔ بارش کے قطروں میں  اس کے آنسو بھی شامل ہونے لگے تھے مگر یہاں پرواہ کسے تھی۔ وہ بالکنی کے رکھے جھولے پر دونوں ٹانگیں اوپر رکھ کر اس پر سر ٹکاۓ بیٹھی کسی غیر مرئی نقطے کو گھورنے  میں مصروف تھی۔ 

تیز تیز برستی بارش نے اسے منٹوں میں بگھو ڈالا تھا۔ سردی سے آہستہ آہستہ ہونٹ نیلے پڑنے لگے۔ بدن میں ہلکی ہلکی لرزش طاری ہوچکی تھی۔ مگر وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔ 

معاً گھر کے پورچ میں کسی کی گاڑی آکر رُکی۔ یہ ہشام لاشاری کے علاوہ کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔

ہشام لاشاری کی گاڑی پورچ میں آکر رُکی۔وہ بارش سے بچتا اسے ڈھونڈتا کمرے میں آیا وہ کہی نہیں تھی بالکنی کا دروازہ کُھلا ہوا تھا۔ یعنی وہ اتنی برستی بارش میں  بالکُنی میں موجود تھی۔ اس کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا۔

اتنی سردی میں اس کا یوں بارش میں بھیگنا اسے غُصّہ دلا گیا۔ 

وہ پل میں اس کے سر پر پہنچ چکا تھا۔

" اتنے سردی میں یہاں کیوں بیٹھی ہو پاگل لڑکی۔" وہ اس کے سر پر کھڑا ہوکر چلایا۔

فاریہ نے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتے پھر سے سر جُھکا دیا۔

اس کے انداز پر ہشام نے اپنا غصّہ بمشکل ضبط کیا تھا۔ وہ اسے یعنی کے ہشام لاشاری کو اگنور کررہی تھی۔ 

" اٹھو جلدی سے اندر چلو۔" وہ خود بھی اس برستی بارش میں پورا بھیگ چکا تھا۔

مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔ 

" فاریہ کیا بچپنا ہے یہ۔میں کہہ رہا ہوں۔ اُٹھ کر اندر چلو۔ تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی۔" اس کا غصّہ سوا نیزے پر جا پہنچا تھا وہ اس کی ڈھیٹائی پر کڑھ کر رہ گیا۔اس نے فاریہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

فاریہ اس کا ہاتھ اپنے تک پہنچنے سے پہلے جُھولے سے اُترتی ریلنگ کی طرف بڑھ گئ۔ اب اس کی پُشت ہشام کی طرف تھی۔ اس کا ہر انداز اس کے غصّے میں اضافہ کرتا جارہا تھا۔

وہ غصہ سے اس کے نزدیک آتا اس کا ہاتھ کھینچتا اس کا رُخ اپنی طرف موڑ چکا تھا۔

" کیا بدتمیزی ہے؟ تم نے آتے ہی میرے دماغ خراب کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔" وہ اس کے بازو پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرتا ہوا بولا۔

وہ اس کی طرف مُڑتی اس کی سخت گرفت سے اپنا بازو آزاد کرواتی اس کا گریبان تھامتی اس کی نظروں پر اپنی نظریں ٹکا گئ۔

ہشام ایک پل اس کی جرأت پر سُن ہوکر رہ گیا۔ اس نے آنکھیں اس کی شہد رنگ کرسٹلز پر گاڑھی جن میں ڈھیروں  شکوے ,شکایات ، ناراضگی ہچکولے لے رہی تھی۔ آنکھوں میں تیرتی نمی وہ بارش کے باوجود بھی محسوس کرسکتا تھی۔وہ بول کچھ بھی نہیں رہی تھی بس اس کی آنکھیں اپنے سارے شکوے ساری تکلیفیں اس تک پہنچاتی اس سے حساب مانگ رہی تھی۔

اس نے شدت سے آنکھیں بند کیے اپنے گریبان سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔

" ہمت کیسے ہوئی میرے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی۔ اتنی آزادی میں نے کسی کو بھی نہیں دی کہ وہ میرے گریبان تک آسکیں۔ تمہیں بھی نہیں سمجھی تم۔ آج کے بعد ایسا کیا تو ہاتھ توڑ دوں گا۔ " وہ اس کے ہاتھوں کو جھٹکتے شدت سے دھاڑا۔

وہ ایک بار پھر  اس کی طرف سے رُخ موڑتی ریلنگ کی طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئ۔

" تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔ جب بات نہ کروں تو مسئلہ اب اپنے سارے ضروری کام پسِ پُشت ڈال کر آیا ہوں۔پھر بھی تمہارے نخرے نہیں ختم ہورہے۔ " وہ ایک بار پھر اس کا رُخ اپنی طرف موڑ چکا تھا۔

" آپ میرے تک صرف اپنے مطلب کے لیے آتے ہیں۔ آج بھی اپنا مطلب پورا کرنے آۓ ہیں۔ پھر چھوڑ کر چلے جائیں گے۔" وہ روتی ہوئی شکوہ زبان پر لے ہی آئی تھی۔

" تو کیا چاہتی ہو ہر وقت تمہارے پلّوں سے جُڑ کر بیٹھا رہوں۔ اور کیا بکواس کررہی ہو۔ تم نرمی کے قابل ہی نہیں ہو۔دو گھڑی جو تم سکون سے بیٹھنے دو۔" وہ اس کی چلتی زبان کے جوہر دیکھتا سُرخ چہرے کے ساتھ بولا۔

" میں نے کبھی نہیں چاہا کہ آپ میرے پلُّوں سے جُڑ کر بیٹھے رہیں۔ میں تو بس یہ چاہتی کہ آپ پوری دنیا کے سامنے مجھے قبول کریں۔ پر مجھے لگتا میں ایک پتھر سے سر پھوڑ رہی ہوں۔جسے میری تکلیف میری تنہائی کچھ نہیں دکھتی۔ آپ میرے ذرا سے اگنور کرنے پر اس قدر غُصّے میں آگۓ۔ تو ایک بار سوچیے میں تو روز آپ کی لاتعلقی سہتی ہوں۔ تو میں کہاں جاؤں ؟ کس سے کروں اپنے شکوے۔بولیے نا کہاں جاؤں؟ میں یوں ہی آپ کی لاتعلقی سہتے سسکتے سسکتے مر جاؤں گی اور أپ کو فرق بھی نہیں پڑے گا۔ شاید آپ بھول بھی جائیں کہ کوئی فاریہ بھی آپ کی زندگی کا حصّہ تھی۔" وہ سسکتی سسکتی اس کے سینے سے سر ٹکا گئ۔

" مجھے کچھ نہیں چاہیے میری جھولی میں دو بول محبت کے ڈال دیں۔ بس مُجھے اتنا یقین دلا دیں آپ کی زندگی میں میرے علاوہ کبھی کوئی نہیں آسکتی۔ بس اتنا مان دے دیں کہ میں آپ کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم ہوں۔بس مجھے ٹوٹنے سے بچا لیں۔آپ کی بے اعتنائی سہتے میں قطرہ قطرہ مر رہی ہوں۔" وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاتے ایک بار پھر سے بول اُٹھی۔

"میں تم سے محبت نہیں کرتا۔ نہ محبت جیسا لفظ میرے لیے بنا ہے۔ تم مجھے اچھی لگی تو بس حلال طریقے سے تمہیں اپنی زندگی میں شامل کرلیا۔ کیونکہ حرام کھانا ہشام لاشاری کی فطرت نہیں۔ اور نہ ہی میں کبھی تُم سے محبت کرسکتا ہوں۔" وہ رسانی سے اس کے ہاتھ سینے کے ہٹاتا ہوا بولا۔

" میں صرف آپ کی پسند ہوں۔ یعنی یہ پسند کبھی بھی بدل سکتی ہے۔ آپ مجھے کبھی  بھی چھوڑ سکتے ہیں۔کیونکہ مرد کی پسند تو روز ہی بدلتی ہے۔" وہ شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھتی پیچھے ہٹ گئ۔ 

" تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔" وہ اٹل لہجے میں بولا۔

" بہت شکریہ آپ کا مجھ پر اتنا بڑا احسان کرنے کے لیے۔ " وہ روندھی ہی آواز میں بولی۔

"میں نے تمہیں کبھی یقین نہیں دلایا کہ میں کبھی دوسری شادی نہیں کروں گا۔ میں تمہیں کبھی بھی دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا۔ اس لیے آج تمہیں یہی حقیقت بتانے آیا ہوں۔اگلے ماہ میری شادی ہے۔ میری منگنی بچپن سے ہی میری کزن کے ساتھ طے ہے۔اور اب میرے دادا جان میری شادی اُس سے کروانا چاہتے ہیں۔ اور مجھے بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں۔کیونکہ ہمارے خاندان اپنی منگ کو کسی دوسرے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا۔ " وہ اپنے لفظوں سے قطرہ قطرہ اس کی جان کھینچ رہا تھا۔ 

فاریہ نے بےیقینی بھری نظروں سے اسے دیکھا۔  اس حقیقت سے تو وہ پہلے ہی آگاہ تھی کہ اس کی ایک منگیتر بھی ہے۔  پر وہ اس وقت خود غرض ہوگئ تھی اس لگا تھا وہ آج نہیں تو کل اس کا اسیر ہوجاۓ گا۔ مگر وہ آج بھی وہی کھڑی تھی جہاں  سے اس نے یہ سفر شروع کیا تھا۔ 

"کیوں ہشام ؟ کیوں خواہش ہے آپ کو دوسری شادی کی؟ کیا میری محبت میں کہی کمی رہ گئ ہے۔ جو آپ کو میری تکلیف نہیں دِکھ رہی۔ " وہ واقعی تکلیف میں تھی۔ 

" تم سمجھ کیوں نہیں فاریہ میں اس رشتے سے انکار ہرگز نہیں کرسکتا۔ ہمارا خاندان بکھر جاۓ گا۔ اور اُس لڑکی کا کیا جو کئ سالوں سے میرے نام پر بیٹھی ہے۔ جب میں تمہیں یقین دلا رہا ہوں کہ تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی ۔ پھر کیا مسئلہ ہے  تمہارے ساتھ۔" وہ اس کے بہتے آنسو اس کا لرزتا بدن دیکھ دھیمے انداز میں بولا۔

" ابھی بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گے۔چھوڑ تو رکھا ہے آپ نے تنہا اور کیسے چھوڑیں گے۔ اگر آپ کا اشارہ اس محل کی طرف ہے تو یقین مانیے مجھے یہ سب نہیں چاہیے۔ یہ ظاہری مال و دولت مجھے کبھی اپنی طرف اٹریکٹ نہیں کرسکتی۔" اس کو یوں محسوس ہورہا تھا جیسے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ بارش تھم چکی تھی۔ کیوں تھا وہ اتنا سنگدل۔

" فاریہ کیا مسئلہ ہے کیوں خود کو اور مجھے تھکا رہی ہو۔" وہ اس کے بےتحاشا رونے سے جھنجھلا سا گیا تھا۔

" چلے جائیے یہاں سے آپ میری تکلیفوں کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے۔" وہ غم سے نڈھال ہوتی زمین پر بیٹتی چلی گئ اب اس کی ٹانگوں میں اتنی بھی ہمت نہ تھی وہ مزید کھڑی رہ پاتی۔ 

" سوچ لو اگر آج چلا گیا تو واپس کبھی نہیں آؤں گا۔" وہ اس کے بار بار خود کے دھتکارنے پر چیختا ہوا بولا۔ 

آج اسے اپنا یوں اگنور کرنا غصّہ دلا رہا تھا۔ اور وہ خود ہمیشہ سے اس کے دُکھوں کی وجہ تھا۔ یہ بات وہ چاہ کر بھی محسوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔

" نہیں روکو گی آج میں آپ کو۔ کیونکہ ایک عورت سب برداشت کرسکتی ہے مگر بے وفائی نہیں۔ اور آپ وہی میری جھولی میں ڈال رہے ہیں۔ میں پچھلے دو سال سے آپ کے ساتھ آپ کی بیوی کی حیثیت سے موجود ہوں۔مگر کوئی ایک لمحہ بھی ایسا نہ آیا جو آپ کے دل میں میری محبت کے دیپ جلا سکے۔ جائیے ہشام لاشاری فاریہ نے آپ کو اپنی محبت سے آزاد کیا۔ اب میری محبت کبھی بھی آپ کے راستے کی دیوار نہیں بنے گی۔ جائیے جس سے شادی کرنی ہے کرلیں۔ جس کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہے کرلیں۔ اب میں آپ کو کبھی بھی نہیں روکوں گی۔" وہ اس کی طرف سے رُخ موڑتی اسے جانے کا سندیسہ سُنا چکی تھی۔

" تم بہت پچھتاؤں گی فاریہ۔" وہ آنکھوں شدید غُصّے کی رمق لیے بولا۔

" پچھتائیں گے تو آپ۔ایک دن ایسا آۓ گا آپ مجھے ہر جگہ ڈھونڈے گے مگر آپ کو تب فاریہ کہی نہیں ملے گی۔" اس نے چہرہ اُٹھا کر ہشام کی طرف دیکھا۔ 

ہشام لاشاری آخری نظر اس پر ڈالتا باہر نکلتا چلا گیا۔ جھکنا تو ہشام لاشاری نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ اور یہ بات آج اچھے سے وہ فاریہ پر ثابت کرکے گیا۔

پیچھے اس پورے محل نما گھر میں فاریہ تھی اور اس کی سسکیاں۔

ہشام لاشاری آج فاریہ کو نہیں بلکہ اس کی محبت کو ٹھکرا کر گیا تھا اور محبت کو ٹھکرانے والوں کے حصّے میں اکثر پچھتاوے رہ جاتے ہیں۔

فاریہ اپنے بےجان وجود کو گھسیٹتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ جہاں ہر سو وحشتوں کا ڈیرا تھا بالکل اس کی زندگی کی طرح۔ الماری میں سے جو سوٹ ہاتھ لگا اُسے لیتی واش روم میں بند ہوگئ۔

ہم کو معلوم نہ تھا پہلے یہ آئین جہاں

اس کو دیتے ہیں سزا جس کی خطا کچھ بھی نہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام لاشاری غصّے سے بلبلاتا ہوا فاریہ کے گھر سے نکلا تھا۔ دماغ کی رگیں غُصّے کی شدت سے پھٹنے والی ہوگئ تھی۔ 

اسے غُصّہ ناجانے کس بات کا تھا۔ فاریہ کو ہمیشہ ہمیشہ کھونے کا یا اُس کا خود سے دُور دھکیلنے کا وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔وہ انتہائی ریش ڈرائیونگ کرتا ڈیرے پر پہنچا تھا۔ سارے ملازم اس کا غُصّہ دیکھ کر خود بخود پیچھے ہٹ گۓ تھے۔ 

سردار ہشام لاشاری کو جب غُصّہ آتا تھا تو وہ کسی بھی لحاظ نہیں کرتا تھا۔ ملازموں نے اسے غُصّے سے اندر کمرے کی جانب بڑھتا دیکھ اپنی جان چھوٹنے پر سکون کا سانس لیا۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا ہر چیز تہس نہس کردے۔ وہ لڑکی جو کبھی اس کے سامنے زبان نہیں کھولتی اب کیسے اسے اپنی زندگی سے جانے کا کہہ رہی تھی۔ 

اس نے بچپن سے اپنے باپ کی کہی بات آج بھی ذہن نشین کی تھی کہ عورت ذات کو کبھی اپنے سر پر مت چڑھانا۔اپنی انا اپنا غرور سب سے اوپر رکھنا۔ جُھکتی ہمیشہ عورت آئی ہے۔ پھر کیوں فاریہ اس کے سامنے نہیں جُھک رہی تھی بار بار کیوں اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو جاتی تھی۔

عورت محبت کے لیے نہیں صرف حکم چلانے کے لیے ہوتی ہے۔ آج جانے کیوں یہ سوچ سوچ کر اس کا دل گھبرا رہا تھا کہ وہ فاریہ سے ہر تعلق توڑ آیا ہے۔ 

" فاریہ ہشام لاشاری اب تم بھیک بھی مانگو گی نا میری زندگی میں شامل ہونے کی تو ہشام لاشاری تمہیں پھر بھی قبول نہیں کرے گا۔ نفرت کرتا ہوں میں تم سے ۔ سُنا تم نے نفرت۔ وہ سامنے نظر آتے فاریہ کے عکس کو دیکھ کر دھاڑا۔ " وہ پہلی لڑکی تھی جس کی طرف خود ہشام لاشاری نے ہاتھ بڑھایا تھا۔ اس کی زندگی میں اس سے پہلے کبھی کوئی لڑکی آئی ہی نہیں تھی یا یوں کہنا بہتر تھا اسے کبھی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔ 

فاریہ ہی وہ پہلی لڑکی تھی جسے دیکھ کر اس کے دل میں ہلچل ہوئی تھی۔ اس کا من موہنا چہرہ ، شہد رنگ بڑی بڑی آنکھیں ، اس کا شرمانا گھبرانا جھجھکنا سب کا ہی تو وہ رفتہ رفتہ دیوانہ ہونے لگا تھا۔  مگر یہ بات کبھی بھی وہ خود سے تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ یہ اس کی مردانہ انا کے خلاف تھا۔ 

یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ سردار ہشام لاشاری ایک معمولی سی لڑکی کے سامنے گھٹنے ٹیکے۔ اگر ایک بار وہ اپنے دل سے پوچھتا تو محض یہی جواب آتا وہ معمولی لڑکی نہیں ہے بلکہ اس کے دل کی بڑی اونچی مسند پر براجمان تھی۔ مگر وہ دل کی آواز سننا چاہتا تھا پھر ہی تھا۔

اس وقت وہ محض فاریہ کی لاتعلقی محسوس کررہا تھا۔ اگر ایک بار سوچتا تو اسے ضرور محسوس کرتا اسے اس سب پر مجبور بھی اس نے خود کیا تھا۔ خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنی محبت کا گھلا گھونٹا تھا۔ 

اکثر انا کی جنگ میں محبتیں ہار جاتی ہیں۔

اور وہ واقعی محبت ہارنے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

فاریہ کی یونیورسٹی کا آج پہلا دن تھا۔ یتیمی کی زندگی گزارنے کی وجہ سے اس میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔

اپنی کلاس کی طرف جاتے ایک لڑکوں کے گروپ نے اسے روک لیا تھا۔ 

" ہے بیوٹیفل ! روکو ذرا کہاں بھاگی جارہی ہو؟" اسے تیز تیز آگے بڑھتے دیکھ اِن کے گروپ کا ایک لڑکا اس کے راستے میں حائل ہوگیا۔ 

مجبوراً فاریہ کو رُکنا پڑا۔ اس نے ایک گھبرائی سی نظر ان پر ڈالی۔ وہ شکل سے ہی آوارہ لگ رہے تھے۔ گلے میں بھاری چین ڈالے ، ہاتھوں میں بینڈ چڑھاۓ۔ وہ ایک سے ایک خوفناک لگ رہے تھے۔ فاریہ انہیں دیکھ کر بےتحاشا گھبرا گئ۔

" نیو کمر! رائٹ" ان میں سے ایک اس کے روبرو آتا ہوا بولا۔

فاریہ نے ڈرتے ڈرتے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہہمم! چلو ایسا کرو اپنی میٹھی سی آواز میں کوئی گانا سُنا دو۔" ایک لڑکا آنکھ دباتا کمینگی سے بولا۔

" جی" فاریہ حیرانگی سے ان کی فرمائش سُن کر بولی۔

وہ سارے اس کا ہونق انداز دیکھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہنستے ہوۓ بولے۔ 

" اگر ساتھ میں رقص ہوجاۓ تو مزہ ہی آجاۓ۔" وہ ان کے چنگُل میں پھنسی رونے والی ہوگئ۔

" دیکھیے ! ہمیں کچھ نہیں آتا ہمیں جانے دیں۔" وہ پلکیں جھپک جھپک کر آنسو کو باہر آنے کے روک رہی تھی۔

"ایسے کیسے جانیں دیں۔ کتنے ٹائم بعد تو ریئل بیوٹی دیکھی ہے۔ ورنہ آدھی لڑکیاں تو دو کلو میک اپ تھوپ کے آتی ہیں۔" وہ فاریہ کا میک اپ سے پاک چہرہ دیکھتا ہوا بولا۔

" چلو جلدی سے شروع ہوجاؤ۔" وہ اسے گانے کا اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔ اپنی بےبسی پر وہ کڑھ کر رہ گئ تھے۔ وہ اکیلی ان سب کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی تھی۔

"کیا ہورہا ہے یہ؟" پیچھے سے آتی ایک رُعب دار آواز سُن کر سبھی سیدھے ہوۓ۔ وہ ہشام لاشاری تھا۔ اس کو کون نہیں جانتا تھا۔ یونیورسٹی کا ٹاپر۔ ہر ٹیچر کا من پسند۔ لاشاری پور گاؤں کے سردار کا پوتا۔ اتنے کام میں مگن رہنے والا۔ بھرپور مردانہ وجاہت کا شاہکار۔

ہشام ان کے نزدیک آتا ایک نظر فاریہ پر ڈال کر بولا۔ وہ ایک نظر ان لڑکوں پر ڈال کر فاریہ کی طرف متوجہ ہوا۔

 گوری رنگت ، شہد رنگ آنکھیں، تیکھے نین نقوش ان میں جھلملاتے آنسو وہ لڑکی واقعی ہی کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی تھی۔ 

وہ لڑکے اسے دیکھ کر فوراً سیدھے  ہوگۓ تھے۔ 

" کچھ بھی نہیں۔ یہ بس ہم سے راستہ پوچھ رہی تھی۔وہی بتا رہے تھے۔" ایک لڑکا فاریہ کو آنکھیں دکھاتا ہشام سے بولا۔

" تم لوگ خاموش رہو۔تم بتاؤ لڑکی۔" وہ انہیں خاموش کرواتا فاریہ سے بولا۔

" یہ لوگ۔۔۔ مجھے تنگ۔۔۔۔ کررہے تھے۔" وہ آنسوؤں کے درمیان اٹکتی ہوئی بولی۔

" تم لوگ نکلو یہاں سے آج کے بعد مجھے کسی لڑکی کو تنگ کرتے نظر آۓ تو اچھا نہیں ہوگا۔" وہ انگلی اُٹھاتے وارننگ دینے والے انداز میں بولا۔

وہ سارے ایک منٹ سے پہلے وہاں سے غائب ہوۓ۔

اب وہ اس کی طرف متوجہ ہوا جو اپنے آنسو پونچھ کر اس کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔

"شکریہ۔ ہمارا آج پہلا دن ہے۔ اس لیے ہمیں اکیلا دیکھ کر وہ ہمیں تنگ کر رہے تھے۔" وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

" جائیے اپنی کلاس اب وہ آپ کو بالکل بھی تنگ نہیں کریں گے۔" اس کا دھیما انداز فاریہ کو بےحد پسند آیا وہ اس کا شکریہ ادا کرتی اپنی کلاس کی طرف بڑھ گئ۔ ہشام۔لاشاری کا پہلا نقش فاریہ کے دل پر پڑا تھا۔

مہندی اسپیشل

یہ صبح کا وقت تھا۔ ہر کوئی رات میں ہونے والی مہندی کی تقریب کے لیے  تیاریوں میں مصروف تھا۔ ہاجرہ اور ماہ نور کچھ ضروری سامان لینے مارکیٹ گئ تھی۔ ازوہ اپنے کمرے میں موجود تھی آج کل وہ عرید سے چُھپتی پھر رہی تھی۔ 

اس وقت لاؤنج میں محض وہ دونوں موجود تھی۔ 

"واؤ میرو! لہنگا تو بہت زبردست ہے۔ " نشوہ نے عرید کی شادی کے لیے ہر چیز اسپیشل تیار کروائی تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی ان کے مہندی کے یہ ملبوسات موصول ہوۓ تھے ۔ اس نے اپنے ساتھ ساتھ میرو کے 

لیے بھی اپنے جیسے کپڑے بنواۓ تھے۔

"میرو! یہ رنگ تم پر کتنا جچ رہا ہے۔" لہنگے کے ہم رنگ مونگیا رنگ کا ڈوپٹہ اس کے سر اوڑھتی ہوئی بولی۔

میرو نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا۔

" اس رنگ میں تمہاری آنکھوں کا کلر کتنا نمایاں ہورہا ہے۔ کاش میری آنکھوں کا رنگ بھی تمہاری طرح ہرا ہوتا۔" وہ اس کی تعریف کرتی منہ بسور کر بولی۔ واقعی وہ رنگ میرو پر بےتحاشا کِھل رہا تھا۔ 

اپنی گوری رنگت ، ہری آنکھوں اور تیکھے نین نقوش کے ساتھ وہ لڑکی کسی کو بھی چاروں شانے چِت کرسکتی تھی۔ 

نشوہ نے دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔  وہ دونوں باتوں میں مگن تھی جب نشوہ کے ہاتھ میں پکڑا موبائل فون بجا۔

" میں آتی ہوں ماہا کی کال ہے۔ اور تم یہ ڈوپٹہ مت اُتارنا ابھی آکر باقی تفصیلی تبصرہ کرتی ہوں۔تم سارے ڈریسز دیکھو۔ " وہ اس کا گال کھینچتی کال سُننے کی غرض سے لاؤنج کے ایک کونے کی طرف بڑھ گئ۔ 

میرو سارے کپڑوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ ڈوپٹہ ابھی بھی سر پر ٹکا تھا۔ اس نے نشوہ کی پسند کو سراہا۔  سارے ڈریسز ایک سے بڑھ کر ایک تھے۔ وہ ایک ڈریس پر ہاتھ پھیرتی جانے کن سوچوں میں گُم ہوچکی تھی۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدان عجلت میں سیڑھیاں اُترتا نیچے آیا۔  جب لاؤنج کے بیچ و بیچ میرو کو گُم سُم سا کھڑا دیکھ تھم سا گیا تھا۔  مونگیا ڈوپٹہ سر پر سجاۓ وہ ایک پل اس کا دل دھڑکا گئ۔ وہ جتنی  مرضی کوشش کرلیتا وہ اس لڑکی سے لاتعلق ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ 

چہرے کے گرد جھولتی ان آوارہ لٹوں کو سمیٹنے کی دل نے شدت سے چاہ کی تھی۔ جُھکی ہوئی ان ہری آنکھوں میں ایک بار پھر اپنا عکس دیکھنے کی شدت سے خواہش جاگی۔ وہ ایک ٹرانس کی کیفیت میں چلتا قدم قدم اس کے قریب تر آتا گیا۔ اس سے ایک قدم کے فیصلے پر آکر ٹھہرتا اس کا من موہنا چہرہ قریب سے نہارا تھا۔

میرو نے اپنے پاس کسی کی موجودگی محسوس کرکے جُھکا سر اُٹھایا۔ سامنے موجود ہستی کو دیکھ وہ اپنی جگہ فریز ہو کر رہ گئ۔ وہ جو خود سے نہ رونے کا عہد کرچکی تھی۔ اسے سامنے پاکر آنکھوں میں دُھند چھانے لگی۔اس کی بےوفائی شدت سے یاد آئی۔ یزدان کا عکس دھندلا پڑنے لگا۔ 

یزدان ناجانے  کن خیالوں میں کھویا تھا۔ کتنا دنوں سے دل پر جو بےچینی چھائی تھی وہ منٹوں میں دُور ہوتی چلی گئ۔ 

وہ اس کے اس قدر قریب کھڑا تھا کہ اس کی سانسیں میرو کا چہرہ جُھلسا رہی تھیں۔وہ اس کے مزید نزدیک ہوتا چہرہ اس کے کان کے قریب لایا۔

"مائن" وہ اس کے کان کے قریب بڑبڑایا۔ اس کے ہونٹ میرو کے کان لُو کو چھوۓ وہ تڑپ اُٹھی۔ کیسا بھول جاتی وہ سب۔ اس کی بےوفائی کو یاد کرکے اس نے غُصّے سے مٹھیاں بھینچی تھی۔اب یہ  اس کا عجیب انداز جیسے ان کے درمیان کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس کا تنفس بگڑنے لگا۔ چہرہ غُصّے کے مارے مزید تپنے لگا۔ 

یزدان نے بےخودی کی کیفیت میں ہاتھ اس کے رخسار کی جانب بڑھاۓ۔ جب میرو نے اس کا ہاتھ جھٹکتے پوری قوّت سے پیچھے دھکیلا تھا۔ وہ ہوش کی دنیا میں آتا چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوا۔

" آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرے نزدیک آنے کی؟ مجھے چُھونے کی۔" وہ ہذیانی ہوتی چلائی۔ کیسے برداشت کر لیتی اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد اس کا محبوبانہ لمس۔ 

وہ اس کا غُصّہ دیکھ کر ذرا بھی حیران نہ ہوا تھا۔ اتنا تو وہ جانتا تھا کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد اس کا یہی انداز ہونا تھا۔ مگر جانے کیوں اس کا یہ انداز ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ 

"آئندہ میرے نزدیک مت آئیے گا۔ آپ کے لمس سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔شدید نفرت۔" وہ چیختی ہوئی سر پر سجا ڈوپٹہ لاؤنج میں رکھے صوفے پر پھینکتی دوڑتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔

پیچھے وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر رہ گیا۔ ابھی تو یہ شروعات تھی اس کے اس بدلے کی آگ میں وہ خود بھی پل پل جلنے والا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منال مہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازوہ اس وقت خوبصورت سے نیوی بلیو رنگ کے لہنگے میں ملبوس مہندی کی مناسبت سے لائٹ سا میک اپ کیے بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔  لائٹ سے میک اپ نے اس کے حُسن کو مزید نکھار دیا تھا۔ ماتھا پر سجا مانگ ٹیکا اپنی قسمت پر رشک کررہا تھا  آنکھوں میں چمکتے خواب سجاۓ وہ ہر کسی کا دل دھڑکا رہی تھی۔ ہاجرہ بیگم نے اس کی نظر اُتاری تو وہ آبدیدہ ہوگئ۔ ممتا بھرا لمس پہلی بار محسوس ہوا تھا۔ہاجرہ بیگم اس کا معصوم حُسن دیکھ کر بیٹے کی قسمت پر رشک کیا تھا۔

میرو اور نشوہ بھی اس کے پاس ہی موجود تھی۔  دونوں ایک جیسے مونگیا لہنگے میں ملبوس تھی۔  میرو کی آنکھوں سُرخ ہورہی تھی جو اُس کے بےتحاشا رونے کی چُغلی کھا رہی تھی۔  میرو کے منع کرنے کے باوجود نشوہ بیوٹیشن  سے اس کا بھی میک اپ کروا چکی تھی۔ گھنکھریالے بال اس وقت جوڑے میں مقید جس میں سے دو آوارہ لٹیں اس کی رُخساروں کو چومتی اس کے حُسن کو دو آتشہ کر رہی تھی۔  ہری آنکھوں پر سجا لائٹ سا میک اپ اور اندر لگی کاجل کی لکیر ان کو مزید نمایاں  کر رہی تھی۔ وہ کوئی گڑیا ہی لگ رہی تھی۔ سر پر سلیقے سے سجا ڈوپٹہ اس کے حُسن کو مزید نکھار رہا تھا۔ 

نشوہ بھی مہندی کی مناسبت سے میک اپ کیے بہت پیاری لگ رہی تھی۔ 

عرید کافی دنوں سے لیٹ ہی گھر آتا تھا۔ وہ شادی سے پہلے ساری کام نپٹالینا چاہتا تھا۔ اس لیے وہ آج بھی پولیس اسٹیشن گیا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ واپس لوٹا تھا۔ اب ماں کی ہدایت پر کمرے میں تیار ہونے گیا تھا۔ 

سفید کُرتا شلوار پر وہ نیوی بلیو واسکٹ پہنے، بالوں کو جیل سے اچھے سے سیٹ کیے وہ بے حد ہینڈسم دکھ رہا تھا۔ نیلی چمکتی آنکھوں میں بےتحاشا چمک لیے وہ معمول سے ہٹ کر جاذبِ نظر لگ رہا تھا۔ چہرے کے تیکھے نقوش پر کھڑی ناک لیے وہ کسی سلطنت کا شہزادہ لگتا تھا۔ جو جلد ہی اپنی ملکہ کو اپنی زندگی میں شامل کرنے والا تھا۔ 

ہاجرہ بیگم دونوں بچوں کو نظر نہ لگ جانے کے خدشے کی تحت بار بار ان کی نظر اُتار رہی تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منال مہر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آہستہ آہستہ مہمانوں کے آنے سے ہر سُو رونق سی پھیل گئ۔ ہر کسی کا چہرہ خوشی سی تمتما رہا تھا۔ ایسے میں وہ ہر چیز سے لاتعلق بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا تھا۔ جیسے اسے کسی چیز سے کوئی غرض ہی نہ ہو۔ 

وہ موبائل ہاتھ میں تھامے نکاح کے وقت کھینچی گئ میرو کی تصویر کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ وہ تصویر تقریباً پانچ سال پہلے لی گئ تھی۔ ان کو نکاح کو پانچ سال ہوگۓ تھے۔ اب بھی وہ دونوں میلوں کے فاصلے پر کھڑے تھے۔ اگر دو سال پہلے وہ عین شادی کے وقت اسے چھوڑ کر نہ جاتا تو اِس وقت وہ اس کی دسترس میں ہوتی۔ اس وقت ساری سوچے ذہن کے محو تھی۔یاد تھی محض زومیرہ آفندی۔ 

داجان اس کے کمرے میں داخل ہوۓ۔ اسے دیکھ کر انہوں نے اپنا گلا کنکھارا تھا۔ 

وہ ان کی آواز پر فوراً سیدھا ہو بیٹھا۔ 

" ہمیں آپ سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔" وہ دروازے سے کے قریب سے دو قدم آگے کو بڑھاتے ہوۓ بولے۔ 

یزدان نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔

" جیسے کہ آپ جانتے ہیں۔ کہ آج عرید کی مہندی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں آپ اپنے سارے اختلافات ایک سائیڈ پر رکھ کر شادی میں شرکت کریں۔ کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ کی غیر موجودگی سے لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع ملے۔ جو بھی معاملات ہیں انہیں گھر والوں کے درمیان سُلجھایا جاۓ۔نہ کہ ان کا اشتہار لگایا جاۓ۔ ہم دو سال پہلے بھی آپ کی وجہ سے بہت ذِلت برداشت کرچکے ہیں۔ اگر ان بوڑھی ہڈیوں کا خیال ہو تو ہماری بات مان جائیے گا۔ اگر تم چاہو تو ہم تمہارے سامنے ہاتھ جوڑ کر بھی عرضی کرسکتے ہیں۔ اتنے سال اس سارے خاندان کو ساتھ سینچ سینچ کر رکھا۔ اسے بکھرتے ہوۓ نہیں دیکھ سکتے ہیں۔" وہ بات کے درمیان واقعی اس کے سامنے ہاتھ جوڑ گۓ۔ 

یزدان جو کب سے منہ پھیرے بیٹھا تھا تڑپ کے ان کے ہاتھ کھول تھا۔ ایک وقت تھا جب وہ داجان کا اس قدر لاڈلا تھا۔ بلا جھجھک وہ اُن سے اپنی ہر بات منوا لیا کرتا تھا۔ اور آج وقت جیسے ان دونوں کی بےبسی کا مزاق اُڑا رہا تھا۔

"ہم آجائیں گے داجان۔" وہ ان کے ہاتھ کھولتا بغیر کسی تاثرات کے بولا۔

داجان کے لیا اتنا ہی بہت تھا کہ وہ آنے کی حامی بھر چکا تھا۔ دو سال گزر گۓ تھے اسے سینے سے لگاۓ اس پر شفقت لُٹاۓ۔ ان کا دل کیا ہر رنجش ، ہر غلط فہمی مٹاۓ اسے سینے سے لگا لیں۔مگر وہ چاہ کر بھی یہ نہ کرسکے۔

وہ اس کی پُشت پر ایک تھکی تھکی نظر ڈالتے کمرے سے باہر نکل گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منال مہر_۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہندی کی تقریب کا انتظام باہر لان میں گیا تھا۔ لبن کو خوبصورتی سے لائٹوں اور برقی قمقموں سے سجایب گیا تھا۔ ایک سائیڈ پر اسٹیج بنایا گیا۔مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔ ہر طرف لڑکیوں کے رنگ برنگے آنچل لہرا رہے تھے۔ لڑکے ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے محفل کا مزہ مزید دوبالا کر گۓ۔ مہندی کی مناسبت سے چلتا میوزک محفل کو چار چاند لگا رہا تھا۔ ہر چیز کا ایک سے بڑھ کر ایک انتظام کیا گیا تھا۔

عرید سب دوستوں کے ہمراہ کچھ دیر قبل ہی اسٹیج پر آکر بیٹھا تھا۔ اب وہ بےصبری سے ایک ایک پل گنتا ازوہ کا انتظار کررہا تھا۔ 

کچھ وقت گُزرنے کے بعد وہ اسے  میرو ،نشوہ اور ماہا کے درمیان اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئی۔ اسے یوں محسوس ہوا اس کا ہر بڑھتا قدم اس کے نشان عرید آفندی کے دل پر مضبوط کرتا جارہا ہوں۔ وہ لڑکی رفتہ رفتہ ہی تو اسے اپنا اسیر  کررہی تھی۔ 

وہ اسٹیج کے بالکل قریب پہنچ گئ جب عرید اُٹھتا ہوا اس کی طرف بڑھا۔ وہ لڑکی اتنی محبت اور مان تو ڈیزرو کرتی تھی۔ عرید نے اس کے نزدیک جُھکتے اپنی ہتھیلی اس کے سامنے پھیلائی۔

ازوہ نے دل کی پوری آمادگی کے ساتھ اس کی پھیلی ہتھیلی پر اپنا نازک ہاتھ سجایا۔ وہ اپنی مضبوط گرفت میں اسے تھام چکا تھا۔ 

عرید نے قریب سے اس کے ایک ایک نقش کو حفظ کیا تھا۔ نیوی بلیو لہنگے میں اس کی گوری رنگت دمک رہی تھی۔ ماتھا سجا وہ روشن ٹیکا دیکھ عرید کی دل نے شدت سے اسے ہونٹوں سے چھونے کی خواہش کی تھی۔ مگر ابھی اس پر ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا اس لیے اپنی ساری خواہشات دل میں دبا گیا۔ 

عرید کا ارتکاز اپنے چہرے کے نقوش پر محسوس کرکے وہ لحظہ بھر کپکپا کر رہ گئ۔ اس کی بولتی آنکھیں آج کچھ اور ہی کہانی سُنا رہی تھیں۔

عرید نے اس ریلکس کرنے کو اس کا ہاتھ سہلایا تھا۔

" بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ اتنی کے یہ دل شدت سے تمہارے ایک ایک نقش کو چھونے کی دہائی دے رہا ہے۔ تمہیں اپنی پناہوں میں قید کرنے کو یہ دل مچل رہا ہے۔" وہ اس کی طرف چہرے موڑے شدت سے پُر لہجے میں بولتا اس کی جان لبوں پر لے آیا۔

"عر۔۔۔۔ید" وہ کپکپاتے لہجے میں اسے پکار گئ۔

"جی میری جان۔" وہ اس کی گھبراہٹ دیکھتا مزید شرارت پر آمادہ ہوا۔

"ایسے مت بولیں پلیز۔" وہ اس کے طرز مخاطب پر اسے ٹوک گئ۔

"اوکے جان! کل تو بول سکتا ہوں۔" وہ اس کے نزدیک جُھکتا راز داری سے پوچھ رہا تھا۔

"آپ بہت بُرے ہیں۔" وہ منہ بناتی اس کی طرف سے چہرہ پھیر گئ۔

وہ اسے مزید تنگ کرنے کا خیال جھٹکتا سیدھا ہو بیٹھا۔ 

اس کے رُخ موڑنے پر ازوہ نے بھی سکون کا سانس لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کب سے ازوہ اور عرید پر نظریں ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ ایسا ہی ایک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ جب وہ اور یزدان بھی یونہی ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیٹھے تھے۔ وہ پرانے لمحے یاد کرکے اس کا چہرہ پل میں سپید پڑا۔ اسے یکدم ہی گُھٹن کا احساس ہونے لگا۔ 

وہ لان میں قدرے ایک کونے والی ٹیبل پر بیٹھی تھی۔ 

ابھی تو وہ اپنا غم غلطاں کرنے میں مصروف تھی۔ جب کسی کی آواز بہت قریب سے سُنائی دی۔

" ہاۓ پریٹی گرل! آر یو اوکے؟ میں کب سے آپ کو ہی دیکھ رہا ہوں ۔ لگتا ہے آپ کی طبیعت بگڑ رہی ہے۔ کیا میں آپ کی کوئی مدد کرسکتا ہوں۔" وہ لہجے میں شائستگی سموۓ اسے دیکھتا ہوا بولا۔

" نو تھینکس! آپ کا شکریہ جو آپ نے پوچھا۔مگر میں ٹھیک ہوں مجھے کسی کی بھی مدد کی ضرورت نہیں۔" وہ بات کرتی رُخ موڑ گئ یعنی  اسے جانے کا اشارہ کرچکی تھی۔ 

لیکن وہ بھی شاید کوئی صدا کا ڈھیٹ بندہ تھا ٹس سے مس نہ ہوا۔

" میرا نام زید ہے۔ پچھلے ماہ ہی لندن سے واپس آیا ہوں اپنی پڑھائی مکمل کرکے۔ اور اب اپنے ڈیڈ کے ساتھ بزنس سنبھالتا ہوں۔ آپ اپنے بارے میں بھی بتائیے۔" وہ جانے کی بجاۓ مزید نزدیک آتا اسے اپنا تعارف کروانے لگا۔

میرو نے خونخوار نظروں سے اُسے گھورا۔ جو بےوجہ اس کے سر پر چڑھ رہا تھا۔

" آپ مجھے اپنا تعارف کیوں کروارہے ہیں۔مجھے آپ کو جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔" وہ در آنے والا غُصّہ کنٹرول کرتی نرم مزاجی سے بولی۔

" میں عرید بھائی کے دوست کا بھائی ہوں۔ وہ یہاں مجھے زبردستی لاۓ تھے۔ مگر یہاں آکر میری ساری کثافت دُور ہوگئ۔ میرے یہاں پاکستان میں فی الحال  کوئی دوست نہیں ہے۔ کیا آپ مجھ سے دوستی کرنا پسند کریں گی۔" وہ مزید پھیلتا اس کی باتوں کو سرے سے اگنور کرتا اپنی ہانک رہا تھا۔

" یہاں مہمان بن کر آۓ ہیں تومہمانوں کی طرح رہے تو بہتر ہوگا۔ نہ تو مجھے آپ میں دلچسپی ہے اور نہ ہی آپ سی دوستی کرنے میں۔" وہ انگلی اُٹھاتی تنبیہ کرنے والے انداز میں بولی۔ اس کا موڈ پہلے ہی یزدان کو دیکھ کر خراب ہوچکا تھا۔ اور اب یہ لڑکا بِن بُلاۓ مہمان کی طرح اس کا مفت میں ہی دماغ چاٹ رہا تھا۔ 

" اگر آپ دلچسپی لیں گی تو ہی بڑے گی۔" وہ دانت دکھاتا اس کی طرف ہاتھ بڑھاتا اس کا ہاتھ تھامنے کو تھا۔ جب کوئی گھنے ساۓ کی طرح ان کے درمیان حائل ہوا تھا۔ 

" کیا تکلیف ہے تمہارے ساتھ؟ ہاتھ بھی لگایا اِسے تو ہاتھ کاٹ دوں گا۔ بیوی ہے میری ۔ " وہ شیر کی طرح غُرایا۔

اس کا جنونی سا انداز دیکھ میرو بھی پل بھر سہم سی گئ تھی۔

" سوری وہ مجھے لگا۔۔۔۔۔" ابھی وہ اپنی بات مکمل کرتا جب یزدان اس کی بات کاٹ گیا۔

" تمہیں لگا اکیلی لڑکی ہے کیوں نا اپنے جال  میں پھنسایا جاۓ۔ تمہیں کیا لگتا ہے تمہیں یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہاں شادی اٹینڈ کرنے آۓ ہو اُسی پر دھیان دو۔ سمجھے۔" وہ اس کی شرٹ کا کارلر ٹھیک کرنے والے انداز میں اسے دھمکا بھی گیا۔

وہ جو کب سے میرو کو اس  لڑکے کے پاس محسوس کررہا تھا گویا جلتے توے پر جا بیٹھا۔ اسے کہاں گوارہ تھا کہ اس کی میرو کو کوئی اس کے علاوہ دیکھے بھی۔

" کیا کہہ رہا تھا وہ؟" وہ اس لڑکے کے جاتے ہی اس کی طرف مڑتا گہری نظر اس کے حسین  سراپے پر ٹکاتا ہوا بولا۔

"آپ سے مطلب۔" وہ کاٹ کھانے والے انداز میں کہتی آگے بڑھی۔

جب اس کی کلائی یزدان کی مضبوط گرفت میں آگئ۔

" تمہارے سارے مطلب مجھ تک ہی آتے ہیں۔" وہ اس کو جھٹکے سے قریب کرتا ہوا بولا۔

وہ استہزایہ نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔جیسے کہنا چاہتی ہو سریسلی۔ میرو نے اسے دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا وہ نظریں پھیرتی ایک طرف دیکھنے لگی۔

اس کا یوں نظریں پھیرنا اُسے آگ لگا گیا۔ اس نے اردگرد دیکھا اگر یہاں وہ کچھ بھی کہتا تو لوگ متوجہ ہوتے وہ اس کا ہاتھ کھینچتا حویلی کے اندرون حصہ کی طرف بڑھ گیا۔

" چھوڑیے میرا ہاتھ۔" وہ مہمانوں کے خیال سے دبا دبا چلائی۔ اسے یزدان پر غُصّہ آرہا تھا جو اس پر یوں حکم چلا رہا تھا۔ یعنی اتنا سب کچھ کرکے بھی اسے سکون نہ تھا۔

یزدان اسے اپنے کمرے میں لاتا کمرے کا دروازہ لاک کرتا اسے دروازے سے لگاتا اس کے دونوں اطراف اپنے ہاتھ رکھتے اس کے گرد حصار بنا گیا۔

میرو نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھتے اسے پیچھے دھکیلنا چاہا۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ 

"بار بار مجھے جھٹک کر کیا ثابت کرنا چاہتی ہو۔" اُس کے چہرے کے نقوش اس کی دیدہ دلیری پر تن سے گۓ تھے۔

" میں کچھ بھی ثابت نہیں کرنا چاہتی۔ آپ میرا راستہ چھوڑیں ۔ مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔" وہ اس کے سخت انداز پر پلکوں پر ٹھہرے موتیوں کو بہنے سے روکتی ہوئی بولی۔

کیا اسے ذرا بھی افسوس نہیں تھا کہ وہ کیا کرچکا ہے۔ 

"میں کب سے تمہارا یہ رویہ برداشت کر رہا ہوں۔ تو اسے میری مجبوری نہ سمجھو۔" وہ اس کے بازو پر سخت گرفت کرتے ہوۓ بولا۔

میرو اس کے جارحانہ انداز پر سسک کر رہ گئ۔ 

" آپ چاہے کچھ بھی کرتے رہے مگر میں آپ کو جھٹک بھی نہیں سکتی۔ اب مجھے پرانے والی میرو سمجھنے کی غلطی بالکل مت کریے گا۔ جو آپ کی باتوں میں آ جاتی تھی۔  جسے آپ منٹوں میں بےوقوف بنا لیتے تھے۔ آپ کے سامنے زومیرہ آفندی کھڑی ہے۔ وہ بےوقوف سی میرو تو کہی دفن ہوگئ۔ اب آپ کا سامنا زومیرہ آفندی سے ہوگا جو ہر ایک کو اُس کی اوقات میں رکھنا اچھے سے جانتی ہے۔" وہ انگلی اُٹھاتی تنبیہ کرنے والے انداز میں دیکھ کر غُرائی۔

اس کا انداز دیکھ یزدان کی آنکھوں میں سُرخی سی دوڑی۔ 

"زبان سنبھال کر بات کرو یہ مت بھولو سامنے کون کھڑا ہے۔" وہ غُصّے سے سُرخ پڑتا اس پر گرفت مزید مضبوط کرگیا۔

"آج کے بعد مجھے تم کسی بھی لڑکے سے بات کرتے نظر نہ آؤ۔ سمجھی" وہ اس کے ماتھے پر دو انگلیاں مارتا ہوا بولا۔

"نہیں سمجھی۔ اور نہ ہی میں سمجھنا چاہتی ہوں۔جائیے اب آپ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ اپنی دوسری بیوی کے پاس جائیے جس کی خاطر آپ نے مجھے چھوڑا ہے۔ اب آپ کو ہم سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ دُور ہٹیے  مجھ سے۔ میں آپ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ اگر آپ کا بدلہ پورا ہوگیا ہو تو میری جان چھوڑ دیں۔ یا ابھی بھی کوئی کسر باقی ہے۔" وہ اس کا ہاتھ شدت سے جھٹکتی ہوئی بولی۔

اس کی باتوں پر جیسے وہ ہوش میں آیا تھا۔ وہ کیوں اُس پر حق جتا رہا تھا۔ کیوں اُسے دیکھ اپنا آپ بے قابو ہونے لگتا تھا۔ اس کی گرفت  میرو پر ڈھیلی پڑی۔ لفظ دوسری بیوی پر اس کا چہرہ تاریک پڑا تھا۔

وہ گرفت ڈھیلی محسوس کرکے پوری شدت سے اسے پرے دھکیل گئ۔

"آئندہ میرے راستے میں مت آئیے گا۔ کوئی لحاظ نہیں کروں گی۔" وہ تنبیہ کرنے والے انداز میں کہتی دروازہ کھولتی باہر نکلتی چلی گئ۔ وہ اس کی پُشت کو تکتا رہ گیا۔

میرو کے کمرے سے نکلتے ہی وہ شدت سے دروازے پر ہاتھ مار کر رہ گیا۔

"کیسے بھول سکتا ہوں میں سب کہ وہ کس کی بیٹی ہے۔ ؟ میری ماں کو برباد کرنے والوں کی۔ ہرگز نہیں میں کسی صورت اپنی ماں کا خون انہیں معاف نہیں کروں گا۔ ہر ایک کو حساب دینا ہوگا۔" وہ سُرخ آنکھوں سے چلا اُٹھا تھا۔

"نفرت کرتا ہوں میں تم سے زومیرہ آفندی۔ جیسے میں اس آگ میں جل رہا ہوں تمہیں بھی میرے ساتھ جلنا ہوگا۔ " وہ اپنی کیفیت سمجھ نہیں پارہا تھا۔

جب جب زومیرہ آفندی اس کے آس پاس ہوتی تھی وہ سب کچھ بھولنے لگتا تھا۔  

مہندی کے بجتے گانوں کا شور بلند ہونے لگا تھا۔ مگر اس کے اندر لگی وحشتیں مزید بڑھتی چلی جارہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو اس کے کمرے سے نکلتی لرزتے قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ ۔ ابھی اس کی حالت ایسی نہیں تھی جو کسی کا سامنا کر پاتی۔ 

"اس دفعہ زومیرہ آفندی کمزور نہیں پڑھے گی۔ آپ کی بےوفائی کی سزا آپ کو ہر صورت ادا کرنی پڑی گی۔" وہ آئینے میں نظر آتے اپنے عکس کو دیکھ کر بولی۔

وہ کیا تھی اور کیا سے کیا بنا دی گئ تھی۔نیند کی کچی میرو جسے کانٹوں پر بھی نیند آجاتی تھی مگر اب یا تو اس کی پوری رات اذیتوں میں گزرتی تھی یا نیند میں جانے کے لیے اسے نیند کی گولیوں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ ہنستی کھلکھلاتی وہ لڑکی چُپ ہوکر رہ گئ تھی۔

وہ پہلا شخص تھا جو اس پر محبتیں لُٹا کر اس کے دل میں اپنی جگہ بنا چُکا تھا۔ وہ شخص اپنے ہاتھوں سے اس کے دل میں پھوٹنے والی  محبتوں کی کونپلوں کو اس کے دل سے اکھیڑ کر نفرتوں کے جہاں آباد کرگیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہندی کا فنکشن خیر و عافیت سے انجام پاگیا تھا۔ رات دو بجے تک سارے کزنز مستی مزاق کرتے رہے ۔رات گۓ تک خُوب رونق لگی رہی۔ پھر دا جان کے جھڑکنے پر آخر کار سب اُٹھتے کمروں کی طرف بڑھ گۓ۔

 عرید آفندی پولیس اسٹیشن سے ضروری کال آنے پر  کچھ دیر کا کہہ کر نکل گیا تھا۔ ہاجرہ بیگم نے بیٹے کو روکنے کی خوب کوشش کی۔مگر وہ جلدی آنے کا کہہ کر انہیں راضی کر گیا تھا۔ چونکہ بارات کا فنکشن رات کا تھا۔ اس لیے انہوں نے عرید کو جانے دیا۔

وہ سارے کام نپٹا کے اب گھر جانے کے لیے مُڑا تھا۔ جب موبائل پر میسج کی بِپ نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

"اگر اپنی  ہونے والی بیوی کے بارے میں کچھ بہت اہم جاننے چاہتے ہو۔ تو اس پتے پر پہنچ جاؤ۔" سکرین پر نمودار ہوتا میسج  پڑھ کر اس کی پیشانی پر بل پڑے۔

کون تھا یہ جو یوں ازوہ کے بارے میں بات کررہا تھا۔ 

ضرور اس کا کوئی دشمن ہی ہوگا جو اسے دھوکے سے بُلا کر گمراہ کرنا چاہتا ہوگا۔  وہ ساری سوچوں کو جھٹکتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ 

 ایک دفعہ پھر موبائل پر آنے والی کال نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

اس نے ایک نظر سکرین پر اُبھرتے نمبر کو دیکھا۔پھر کچھ سوچتے ہوۓ کال پِک کرکے موبائل کان کو لگایا۔

"ہیلو! ایس پی عرید آفندی سپیکنگ۔" وہ اپنا تعارف کرواتا دوسری طرف سے بولنے کا منتظر تھا۔

"ایس پی ! تجھ سے بہت ضروری بات کرنی ہے تیری ہونے والی بیوی کے بارے میں۔ اگر پوری حقیقت جاننا چاہتا تو جو اڈریس میسج پر بھیجا ہے وہاں پہنچ جا۔ اب تیری مرضی تو یہ سچ جاننا چاہتا ہے یا نہیں۔" اپنی بات کہتے ہی دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئ تھی۔ 

عرید کے ماتھے پر پھیلی لکیریں مزید گہری ہوئیں۔کچھ سوچتے ہوۓ وہ جیپ اسی راستے پر ڈال چکا تھا جس کا پتا اُس انجان شخص نے بھیجا تھا۔وہ بھی دیکھنا چاہتا تھا کون ہے جو یوں ازوہ کے بارے میں بات کررہا تھا۔ 

اس کی پولیس جیپ ایک ہوٹل کے باہر آکر رُکی۔ وہ بھاری قدم اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھا۔ہوٹل کے اندر پہنچ کر اس نے چاروں اور نگاہ دوڑائی۔ جب ایک ویٹر بھاگتا ہوا اس کے پاس آیا جسے شاید پہلے ہی اس کے آنے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ عرید اس کی رہنمائی میں چلتا ایک کیبن کے باہر آ رُکا۔

اس نے جیسے ہیں اندر قدم رکھا۔ اندر موجود ہستی کو دیکھ اس کے جبڑے تنے۔ اس نے پہلے کیوں نہیں سوچا اس انسان کے علاوہ کون ہوسکتا ہے جو اسے یوں گمراہ کرے۔ 

"کیا مزاق ہے یہ؟ کس لیے یہ بےفضول کال کر کے مجھے بُلایا ہے۔" وہ ان کے سر پر پہنچ کر غُصّے سے دھاڑا۔

"بیٹھ جاؤ بھئ اتنے گرم کیوں ہورہے ہو؟ واقعی ضروری بات کرنے کے لیے تمہیں بلایا ہے۔" ان کے اطمینان میں رتی برابر بھی فرق نہ آیا تھا۔وہ اب بھی تحمل مزاجی سے بولے۔

وہ ان کے ساتھ موجود انسان پر نظر ڈالتا بیٹھ چُکا تھا۔ جو کچھ گھبرایا سا لگ رہا تھا۔

حماد صاحب نے ایک نظر اس پر ڈالی اور بولنا شروع کیا۔

" کیا جس لڑکی سے تُم شادی کررہے ہو۔ اس کی پوری حقیقت تُم جانتے ہو۔" وہ پُرتجسس نگاہوں سے اس کا چہرہ تکتے ہوۓ بولے۔

وہ کچھ نہ بولا بس بےتاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا ان کے بولنے کا انتظار کرتا رہا۔

"وہ لڑکی تم سب کو دھوکا دے رہی ہے۔ وہ پہلے سے شادی شُدہ ہے۔ بلکہ طلاق یافتہ۔" وہ اپنی بات مکمل کرتے اس کے چہرے کے تاثُرات دیکھتے رہے۔ جو ان کی بات پر تن سے گۓ تھے۔

" بکواس بند کریں۔ آپ کی عُمر کا لحاظ کررہا ہوں۔ورنہ ازوہ کے خلاف بکواس کرنے والے کو میں زندہ سلامت نہ چھوڑتا۔" وہ مزید ان کی بکواس نہیں سُن سکتا تھا۔ اس لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔ 

"اگر میں کہوں میرے پاس ثبوت ہے۔ تو کیا تب بھی یقین نہیں کرو گے۔" وہ اس کے انداز پر بھی بےحد پُرسکون سے بولے۔

عرید کے بڑھتے قدم منجمد ہوۓ وہ ایک ہی جست میں گھوم کر اس کی طرف بڑھا۔

"تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں۔ اگر تم ان پانچ منٹوں میں اپنی بات نہ ثابت کرسکے۔ تو مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔" وہ آنکھوں میں غصّہ لیے اس کو دیکھتا ہوا بولا۔

" پانچ منٹ کیا دو منٹ ہی کافی ہونگے۔  ایس پی عرید تم اپنے آپ کو بڑے سمجھدار اور تیز طرا سمجھتے ہو۔  مگر افسوس وہ چھٹانک بھر کر لڑکی تمہارے آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کا میاب ہوگئ۔  چچ افسوس"  وہ نہایت ہمدردانہ لہجے میں بولا۔  عرید کو صاف محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس کا مزاق اُڑا رہے تھے۔

"ایک منٹ ضائع کر چکے ہیں آپ ماما جی۔" وہ بھی دوبدو اسی کے انداز میں بولا۔

" ازوہ آفریدی! مڈل کلاس لڑکی چھوٹے سے گھر میں رہنے والی مگر خواب بڑے بڑے دیکھنے والی۔اُس کے باپ نے اُس کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے کی تھی۔ جس کا ساتھ رہ کر اسے اندازہ ہوا۔ کہ وہ تو اُس کے بڑے بڑے خواب پورے نہیں کرسکتا۔ اِس دوران اس کی ملاقات کالی نامی ایک غُنڈے سے ہوئی۔ جس کے ساتھ اُس کےجنسی تعلقات قائم ہوچکے تھے۔وہ اس کی ہر خواہش جو پوری کررہا تھا۔ جب اُس کے شوہر کو اس کی نیچ حرکت کا علم ہوا تو اسے طلاق دے دی۔ مگر وہ کالی نامی غُنڈے سے اس کا دل بھر چکا تھا اس لیے اُس نے سوچا کیوں نا اب ایک شریف گھرانے کے لڑکے سے تعلقات بڑھاۓ جائیں۔ اور تم اتنے بے وقوف فوراً ہی اُس کی باتوں میں آگۓ۔ایک بدکردار لڑکی کو اپنی عزت بنانے چلے ہو۔ افسوس  در افسوس " وہ ابھی بھی کچھ بولنا چاہتے تھے جب عرید نے اُنہیں گردن سے دبوچ لیا۔

"کیا بکواس کی تو نے ازوہ کے بارے میں میں تیری جان لے لونگا غلیظ انسان ۔ تیری ہمت کیسے ہوئی یہ بکواس کرنے کی۔ میں چھوڑو کا نہیں تجھے۔" وہ شیر کی مانند دھاڑتا سُرخ آنکھیں اس کے چہرے پر گاڑھے اس کے گلے پر دباؤ بڑھا گیا۔

حماد کے ساتھ آیا وجود جو تب سے خاموشی سے ان کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن رہا تھا۔ عرید کو آپے سے باہر ہوتا دیکھ فوراً اُٹھتا عرید کے شکنجے سے اُن کی گردن چھوڑوانے لگا۔

"سچ کہہ رہے ہیں یہ ۔ وہ لڑکی واقعی ہی بدکردار ہے۔میں اُس کا سابقہ شوہر ہوں۔" عرید نے قہر برساتی آنکھوں سے اُس انسان کو دیکھا تھا۔  پھر بائیں ہاتھ کی پُشت سے ایک زور دار تماچہ اس ذلیل انسان کے رسید کیا۔وہ چند قدم دُور جا گرا۔ اس نے جھٹکے سے حماد صاحب کی گردن چھوڑی۔ وہ گردن پر ہاتھ رکھے بُری طرح کھانس رہے۔ چہرہ سُرخ ہوچکا تھا۔

" تم اپنے ان اوچھے ہتھکنڈوں سے سچائی نہیں بدل سکتے سمجھے۔ " وہ اب بھی باز نہیں آۓ تھے۔ انہیں عرید کی لال انگارہ آنکھوں سے خوف محسوس ہورہا تھا۔

" ٹھیک ہے تمہیں میری بات پر یقین نہیں مگر ان ثبوتوں پر تو کرو گے۔ یہ زبیر ہے ازوہ کا پہلا شوہر۔ اس کے پاس نکاح نامہ موجود ہے۔" انہوں نے زبیر کو اشارہ کیا جو نکاح نامہ ان کی طرف بڑھا گیا۔ انہوں نے وہ نکاح نامہ عرید کی نظروں کے سامنے لہرایا تھا۔

"اب بھی یقین کرو گے کہ نہیں۔" وہ فاتحانہ تاثُرات چہرے پر سجاۓ اسے ہی دیکھ رہے تھے۔ 

عرید نے ایک قہر برساتی نگاہ زبیر پر ڈالی تھی۔ زبیر اپنی جگہ گڑبڑا سا گیا۔ گال ابھی تک پڑنے والے تھپڑ سے جھنجھنا رہا تھا۔

"آپ کی ساری بات سچ ہوسکتی ہے۔ میں نے مان لیا کہ یہ انسان ازوہ کا شوہر ہے" وہ لحظے پر کہتا چُپ ہوا۔

حماد صاحب کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ لہرائی۔ انہیں اپنا تیر بالکل نشانے پر لگتا ہوا محسوس ہوا۔

"مگر اس بات پر میں مر کر بھی یقین نہیں کرسکتا کہ میری ازوہ کا کردار داغ دار ہوسکتا۔ وہ پانی کی طرح صاف شفاف ہے۔ اس کے دامن پر یہ داغ ہوہی نہیں سکتا۔ کیونکہ ان دو ماہ میں آپ لوگوں زیادہ جان چُکا ہوں میں ازوہ کو۔" وہ چٹانوں سی سختی لیے بولا۔

حماد صاحب کو چُپی لگ کئ۔ وہ ان کی بولتی اچھے سے بند کروا چُکا تھا۔ 

"آئندہ مجھے زیر کرنا ہو تو کوئی اچھا بہانہ ڈھونڈیے گا۔ کیونکہ میں یزدان آفندی نہیں عرید آفندی ہوں۔جو اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتا ہے۔ یزدان کو آپ اپنی چکنی چُپڑی باتوں سے بےوقوف بنا سکتے ہیں مجھے نہیں۔" وہ بہت اچھے سے انہیں باور کروا چکا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ان کی باتوں میں نہیں آنے والا۔

" چلتا ہوں ماما جی آج شادی ہے میری۔" وہ ایک چُھبتی ہوئی نظر ان پر ڈال کر کیبن سے باہر نکل گیا۔

پیچھے وہ دونوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھ کر رہ گۓ۔

اس کے جاتے ہی حماد صاحب بھی آتش فشاں بنے ہوٹل سے باہر نکلتے چلے گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ انتہاۓ غُصے سے گھر واپس آۓ تھے۔ اس وقت وہ کمرے میں ہر چیز توڑ پھوڑ چکے تھے۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ایک دفعہ پھر آفندیوں سے مات کھا چکے تھے۔ 

"نہیں عرید آفندی تم اتنے بےغیرت کیسے ہوسکتے ہو؟ میں عالم آفندی کا نام ، رتبہ سب مٹی میں ملا کر رہوں گا۔ کسی کو بھی نہیں بخشوں گا۔" وہ دہاڑتے ہوۓ اپنی حالت پر ماتم کررہے تھے۔

انہوں نے پلین تو فُل پروف بنایا تھا۔کیسے اُس لڑکی کی ایک ایک معلومات اکٹھی کی تھی اُس کے سابقہ شوہر کو پیسے دے کر اس کا منہ کھلوایا تھا۔انہیں ہر حال میں اُن کی جائیداد چاہیے تھی جس کے لیے انہوں نے بہت کچھ قربان کیا تھا اپنا ضمیر بھی۔ وردہ کی شادی یزدان سے نہ ہوسکی تو انہوں نے سوچا تھا کہ وہ عرید کے لیے کسی طرح انہیں راضی کرلے گا۔مگر وہ لڑکی ازوہ جانے کہاں سے ٹپک پڑی تھی۔

اتنا سب کچھ کرکے پھر بھی وہ اُن کا کچھ نہیں بگاڑ پاۓ تھے۔ انہیں عالم آفندی سے شدید نفرت تھی۔ وہ ہر حال میں انہیں برباد کرنا چاہتے تھے۔ 

عرید کا ازوہ پر اتنا بھرپور یقین دیکھ وہ چکرا کر رہ گۓ تھے۔ 

" اتنی آسانی سے تو میں بھی چُپ نہیں بیٹھوں گا۔ " وہ غُصّے  سے چیختے ہوۓ بولے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ حماد صاحب کے سامنے تو تحمل کا مظاہرہ کر آیا تھا۔ مگر ہوٹل سے نکلتے ہی اس کی رگیں تن گئ تھی۔ آنکھیں سُرخ انگارہ ہورہی تھی۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا 

جیپ کی پاس پہنچا۔ اندر بیٹھتے  انتہائی غُصّے سے گاڑی کا دروازہ بند کیا۔ اس کی جیب سڑکوں پر فراٹے بھرنے لگی۔ بیس منٹ کا راستہ اس نے پانچ منٹ میں طے کیا تھا۔جیپ حویلی کے باہر رُکی تو وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا رُخ ازوہ کے کمرے کی جانب تھا۔ بغیر دروازے پر دستک دیے اس نے دھاڑ کی آواز سے دروازہ کھولا۔ کمرے میں موجود نشوہ، میرو اور ازوہ کا دھیان بیک وقت دروازے کی طرف گیا۔

ازوہ اس وقت سادے سے سبز فراک میں ملبوس تھی۔ 

عرید کو دروازے کے بیچ و بیچ ایستادہ دیکھ کر نشوہ فوراً آگۓ آتی اس کے اور ازوہ کے درمیان حائل ہوئی۔ 

"عرید بھائی آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟آپ نکاح تک ازوہ کو نہیں دیکھ سکتے۔" وہ ازوہ کے آگے کھڑی ہوتی اس کا وجود عرید کی نظروں سے چُھپا گئ۔

"باہر جائیے" وہ اُسے وہی کھڑا دیکھ کر بولی۔

"نشوہ اور میرو بچے آپ لوگ باہر جاؤ ہمیں ازوہ سے کچھ بات کرنی ہے۔ " وہ ان دونوں کی وجہ سے بمشکل اپنا غُصّہ کنٹرول کرتا ہوا بولا۔

"بالکل بھی نہیں آپ جائیے ہم نہیں جائیں گے۔" وہ ہونٹوں پر شرارتی مسکراہٹ لاتے ہوۓ بولی ۔ اس نے عرید کے تاثُرات نوٹ ہی نہیں کیے تھے۔

میرو نے بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا۔ انتہائی سنجیدہ سپاٹ چہرہ, گردن کی پھولی رگیں اس کے شدید غُصّے کی گواہ تھیں۔میرو نے آگے بڑھ کر نشوہ کا ہاتھ تھاما اور اُسے لیتی کمرے سے باہر نکل گئ۔ نشوہ نے مزید کچھ کہنا چاہا جب وہ زبردست گھوری سے اسے نوازتی کھینچتی ہوئی باہر نکل گئ۔

ان کے باہر جاتے ہی عرید نے دروازہ بند کیا تھا۔وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے قریب آرُکا۔

ازوہ کا سر جُھکا ہوا تھا۔

"زبیر کون ہے؟ "وہ سنجیدہ تاثرات سے اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ 

ازوہ اس کی بات پر جم کر رہ گئ۔ اس کا چہرہ فق ہوا تھا۔اس نے جھٹکے سے جُھکا سر اُٹھایا تھا اس کے سنجیدہ تاثرات دیکھ اس کے وجود میں خوف کی لہر سی دوڑ گئ۔

" کیا تم پہلے سے شادی شُدہ تھی۔ "  وہ اس کے سپید پڑتے چہرے کو اگنور کرتا ہوا بولا۔

ازوہ نے ہمت مجتمع کرتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا۔

"عر۔۔۔۔۔ید" وہ بمشکل کچھ بولنے کے قابل ہوئی تھی۔

"ہاں یا نہ" وہ اس کی بات کاٹتا ہوا دھاڑا۔

اسنے ہچکیوں سے روتے محض اثبات میں سر ہلایا۔

عرید نے ایک پل  آنکھیں بند کی۔ وہ بولنے کے قابل نہ رہا۔

"اتنا بڑا دھوکا۔ میں نے تم پر اتنا یقین کیا یہ صلہ دیا مجھے۔ تمہیں شرم نہیں آئی مجھ سے جھوٹ بولتے ہوۓ۔ سخت نفرت ہے مجھے جھوٹ سے اور جھوٹے لوگوں سے۔" وہ اس کو کندھوں سے تھامتے شدت سے دھاڑا۔ 

"میں۔۔۔۔نے کوئی ۔۔۔۔ جھوٹ ۔۔۔۔۔ نہیں ۔۔۔ بولا۔" وہ ہچکیوں کے درمیان روتے بمشکل بولی۔

"تم نے جھوٹ نہیں بولا  لیکن سچائی تو چُھپائی ہے نا ۔ کیا کہو گی اس کے بارے میں۔" وہ اس کے کندھوں کو جھٹکے سے چھوڑتا کمرے میں اِدھر اُدھر چکر لگانے لگا۔ غُصّے سے اس کے دماغ کی شریانیں پھٹنے کو تھیں ۔

"عرید۔۔۔ ہماری۔۔۔ بات سُنیے۔" وہ اس کی غُصّے کو دیکھ کر بمشکل بول پائی تھی۔ 

" کیا سُنوں ہاں ۔ بولو کچھ رہ گیا ہے سُننے کو۔" وہ ایک دفعہ پھر اس کے مقابل آتا غُصّے سے چیخا تھا۔

"میں آپ کو بتانا چاہتی تھی۔"وہ عرید کی طرف دیکھتی ہوئی بولی جس کی آنکھوں میں نرمی مفقود تھی جو ہمیشہ اسے دیکھ خود بخود اس کی آنکھوں میں در آتی تھی۔ وہ چٹانوں سی سختی لیے اسے دیکھ رہا تھا۔

"کب بتانا چاہتی تھی۔ شادی کے بعد یا ساری زندگی ہی مجھے دھوکے میں رکھنا چاہتی تھی۔" عرید نے اس کے ستے چہرے پر ایک نظر ڈال کی نگاہیں پھیر لی۔

وہ اسے لاجواب کر گیا تھا کہ ازوہ کچھ بھول ہی نہ پائی۔

"مجھے یہ سوچ سوچ کر وحشت ہورہی ہے۔ تم مجھ سے پہلے بھی کسی کی دسترس میں رہ چکی ہو۔ تمہیں پہلے بھی کسی نے چُھوا ہوگا۔ میری سانسیں سینے میں اٹک رہیں ہیں۔"وہ آنکھیں بند کرکے کرب سے بولا۔

وہ روتے ہوۓ مسلسل نفی میں سر ہلا رہی تھی۔ مگر وہ دیکھ کہاں رہا تھا۔

"تم جانتی ہو عرید آفندی نے کبھی جھوٹا نہیں کھایا۔ تو اس معاملے میں میں کیسے کمپرو مائز کر لوں۔ میرے دل بند ہوجاۓ گا۔کسی بھی چیز میں شراکت عرید آفندی برداشت ہی نہیں کرسکتا۔ بولو کیسے برداشت کروں۔" وہ اُلٹے قدم لیتا اس سے چار قدم دُور ہوا تھا۔

"عرید آفندی تم پر کبھی بھروسہ نہیں کرپاۓ گا۔ کبھی نہیں۔"وہ الٹے قدم لیتا کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔

ازوہ پورے وجود کے ساتھ زمین پر ڈھتی چلی گئ۔ایک اور خسارہ اس کے حصّے میں لکھ دیا گیا تھا۔ اس کے اتنے مان ، محبت اور عزت دینے کے بعد یوں چھوڑ کر جانا اسے اندر ہی اندر اذیت میں مبتلا کررہا تھا۔ اس کی سانس سینے میں اٹک رہی تھی۔

پھر وہ زمین سے اُٹھتی بھاگتی ہوئی کمرے سے نکلتی تیز تیز سیڑھیاں اُترتی ایک ہی جست میں داجان کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ 

داجان آرام دہ کُرسی پر بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔ کسی کے یوں بے دھڑک دروازہ کھولنے پر ان کے ماتھے پر بل پڑے تھے۔

انہوں نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ازوہ اپنی ٹوٹی بکھری حالت میں کھڑی تھی۔

"داجان عرید کو سب پتا چل گیا ۔ اب ہم کیا کریں گے۔ " وہ ہذیانی سی ہوتی ان کی طرف بڑھتی ہوئی بولی۔

"پہلے آپ بیٹھیے پھر ہمیں بتائیے کیا ہوا ہے؟ " داجان اسے صوفے پر بیٹھاتے پانی کا  گلاس اس کے ہاتھ میں تھما گۓ۔ 

"داجان عرید کو ہماری شادی کی بات پتہ چل گیا ہے۔ پتا نہیں اُنہیں کہاں سے یہ بات پتا چلی اور اُس انسان نے انہیں کیسے حقیقت بتائی ہوگی۔ ہم نے آپ سے کہاں تھا کہ عرید کو سچ بتا دینا چاہیے۔" وہ سسکتی ہوئی چہرہ ہاتھوں میں چُھپا گئ۔

داجان خاموش سے ہوگۓ۔ انہیں کچھ حد تک اندازہ تھا کہ انہیں یہ حقیقت کس نے بتائی ہوگی۔ اور وہ انسان اتنا اچھا تو نہیں تھا کہ سیدھی بات اُسے بتا دے۔ ضرور اُس نے کچھ تو ایسا کہا ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ اس کی فطرت کو جانتے تھے کہ وہ تو وہ سانپ تھے جو اپنوں کو بھی نہ بخشتے تھے۔ حماد صاحب پر یہ کہاوت بالکل ٹھیک بیٹھتی تھی۔ جس  تھالی میں کھایا اُسی میں چھید کیا۔

وہ داجان کو گہری سوچوں میں گُم دیکھ کر ایک دفعہ پھر بولی۔

"داجان عرید بہت غُصّے میں گۓ ہیں اب وہ ہم سے کبھی شادی نہیں کریں گے ۔ میں ایک دفعہ پھر خالی ہاتھ رہ جاؤں گی۔ اسی لیے میں شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ کیونکہ میں جانتی ہوں ماضی کا یہ کربناک سایہ میرا پیچھا کبھی نہیں چھوڑے گا۔" وہ بھاری پلکے اُٹھاتی ان کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

داجان اسے دیکھ کر رہ گۓ۔

"شادی تو اس کا باپ بھی کرے گا۔ آپ ابھی ان سب باتوں کو چھوڑیے اور جائیے جا کر اپنی تیاری کریں۔ بہت کم وقت رہتا ہے۔ اس مسئلے پر ہم بعد میں بات کریں گے۔"داجان تحمل سے بولے تھے۔

"داجان وہ کبھی راضی نہیں ہونگے اتنا سب ہونے کے بعد مجھے اپنانا ان کے لیے مشکل ہوگا۔  خوشیاں میرے لیے بنی ہی نہیں ہے۔  آپ زبردستی میری جھولی میں خوشیاں ڈالنا چاہتے تھے۔" وہ خود کا مزاق اُڑانے والے انداز میں بولی۔ 

"آپ اپنی تیاری کریے عرید ضرور آۓ گا آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم انہیں جلد ہی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے وہ ہماری بات سمجھیں گے۔"وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ بولے۔

وہ تھکے قدموں سے ان کی بات پر اُٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔

وو ازوہ کے کمرے سے نکلتا سیڑھیاں اُترتا حویلی کا دروازہ عبور کرتا چلا گیا۔ اس وقت اس کی یہ حالت تھی کہ وہ کسی کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جتنا اس بارے میں سوچ رہا تھا اُتنا اُس کا دماغ پھٹا جارہا تھا۔ وہی جانتا تھا اس وقت دل کی کیا حالت تھی۔ 

ازوہ نے اس سے حقیقت چُھپا کر بالکل ٹھیک نہیں کیا تھا۔ جتنے اس کے دھوکے کے بارے میں یاد کرتا اتنا اسے ازوہ پر غصّہ آرہا تھا۔ وہ اس پر اتنا تو یقین کرسکتی تھی۔ کسی دوسرے کے منہ سے یہ سچائی اسے زہریلے ناگ کی مانند لگی تھی۔ اُس انسان کو ازوہ پر انگلی اُٹھانے کا موقع مل گیا تھا۔یہ چیز اسے اذیت کی بھٹی میں جھونک رہی تھیں۔

 اور جو دوسری چیز بار بار اسے اذیت کی بھٹی میں دھکیل رہی تھی وہ تھی ازوہ کی زندگی میں دوسرا بن کر شامل ہونے کی تکلیف۔ اُسے اتنا تو یقین تھا کہ ازوہ کا کردار بالکل صاف تھا مگر یہ تو حقیقت تھی کہ وہ زبیر اس کا شوہر رہ چکا ہے کہی نہ کہی ماضی میں ازوہ کے دل میں اُس کے لیے محبت ضرور جاگی ہوگی ۔  

وہ بےمقصد گاڑی سڑکوں پر دوڑاتا رہا۔ آہستہ آہستہ رات کا اندھیرا پھیلتا جارہا تھا۔ اگر آج یہ سب نہ ہوا ہوتا تو وہ خوشی خوشی اب اپنی بارات کے لیے تیار ہورہا ہوتا۔ مگر اب اس کا واپس جانے کا ذرا بھی دل نے چاہ رہا تھا۔ غصّہ کم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔

وہ گاڑی ایک سائیڈ پر روکتا کار کی بونٹ پر چڑھ کر بیٹھتا بےمعنی سوچوں میں گُم ہوچکا تھا۔

مسکرانے پر شروع  اور رُلانے پر ختم

یہ اک ستم ہے جسے لوگ محبت کہتے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بارات لے کر جانے کا وقت ہوچکا تھا۔  مگر عرید کا کچھ  اتا پتہ ہی نہ تھا۔  کچھ مہمان میرج ہال پہنچ چکے تھے۔  داجان مہمانوں کے استقبال کے لیے ماہ نور اور شاہ ویز کو ہال بھیج چکے تھے۔  وہاں پر بھی کسی نہ کسی بڑے کا ہونا ضروری تھا۔

"کبیر ذرا عرید کو فون لگاؤ۔  ہم بھی تو دیکھے کیسے واپس نہیں آتے ہیں وہ۔ " وہ کبیر صاحب کو عرید کو کال کرنے کا کہتے خود وہ سوچ چکے تھے کہ اُس سے کیسے نپٹنا ہے۔  

کال بند ہوچکی تھی دوسری طرف سے فون نہ اُٹھایا  گیا۔

کبیر صاحب نے داجان کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

انہوں نے دوبارہ کال کرنے کا اشارہ کیا۔ اس بار دوسری بیل پر ہی کال پِک ہوچکی تھی۔ 

کال پِک ہونے پر انہوں نے فون داجان کی طرف بڑھایا۔

"کدھر ہو برخودار؟ کیا آپ کو نہیں پتا آج آپ کی بارات ہے اور بارات کا ٹائم بھی ہوچکا ہے آپ ابھی تک گھر کیوں نہیں آۓ۔" وہ بنا تمہید باندھے سیدھے مدعے کی بات پر آۓ تھے۔

کچھ دیر کے لیے خاموشی چھائی رہی۔ جب دوسرے جانب سے عرید کی آواز گونجی۔

" کیا آپ ازوہ کی شادی کے بارے میں جانتے تھے۔" دوسری جانب سے بھی بنا تمہید پوچھا گیا۔

"ہاں جانتے تھے۔ہم بس سہی وقت کا انتظار کررہے تھے ۔ ہم آپ کو بہت جلد بتانے والے تھے۔" وہ اسے زیر کرنے والے انداز میں بولے۔

" آپ واپس تو آئیے ہم ساری حقیقت آپ کو بتاتے ہیں۔ آپ کو کسی بھی باہر والے کی بات پر یقین کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔ " وہ اسے کسی بھی حال میں واپس بُلا لینا چاہتے تھے۔ ازوہ سے وعدہ جو کرچکے تھے۔ اسے  اس کی خوشیاں لُٹانے کا۔وہ ہر حال میں اس وعدے پر پورا اُترنا چاہتے تھے۔

"آپ کو ہمیں بتانا چاہیے تھا داجان یہ ہمارا حق تھا۔ آپ نے ہمیں اندھیرے میں رکھ کر اچھا نہیں کیا۔"فون کے دوسری طرف سے عرید کی آواز گونجی۔

"عرید اس میں ازوہ کا کوئی قصور نہیں ۔ اُنہیں ہم نے منع کیا تھا۔ اب آپ یہ بتائیے آپ کہاں ہیں؟ اور واپس کیوں نہیں آۓ ابھی تک یہ باتیں ہم بعد میں کریں گے۔" وہ اسے واپس آنے کا حکم دیتے ہوۓ بولے۔

"جو بھی ہو داجان انہوں نے ہمیں دھوکا دیا ہے۔ ہم کسی بھی صورت انہیں معاف نہیں کرسکتے۔ ہم واپس نہیں آئیں گے۔" وہ ان کی باتوں پر وہ صفا چٹ انکار کرچکا تھا۔

"یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے تو ٹھیک ہے۔ ہم بھی کسی بھی راہ چلتے سے ازوہ کا نکاح پڑھوا دیں گے۔ ہماری بلا سے جو بھی ہو۔ ہم اتنے مہمانوں میں یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتے۔" انہیں پتا تھا پوتے کو کیسے زیر کرنا ہے فوراً اس کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ واقعی ہی بلبلا اُٹھا تھا۔

کبیر صاحب باپ کے انداز پر عش عش کر اُٹھے۔ وہ واقعی ہی جانتے تھے ہر کسی کو کیسے ہینڈل کرنا ہے۔

"داجان! آپ یہ نہیں کرسکتے۔" وہ احتجاجاً بولا۔

"ہم کرسکتے ہیں بلکہ آپ کو کرکے دکھائیں گے اگر آپ دس منٹ تک گھر پر نہ پہنچے۔" وہ اسے دھمکاتے فون بند کرنے والے تھے جب دوسری جانب سے مثبت جواب موصول ہوا تھا۔

"آرہا ہوں داجان دس منٹ تک۔" وہ کہتے کال کاٹ گیا۔

داجان نے فاتحانہ نظرون سے کبیر صاحب کو دیکھا۔ وہ عرید آفندی کو زیر کرنے میں کامیاب ہوگۓ تھے۔

پھر واقعی ہی وہ دس منٹ میں گھر پر موجود تھا۔ بغیر کسی کو دیکھے وہ اپنے کمرے میں گُم ہوا۔

تقریباً بیس منٹ بعد وہ کمرے سے تیار ہوکر نکلتا باہر آیا۔ ہاجرہ بیگم کی تب سے جان اٹکی ہوئی تھی۔ اس کی تیاری کو دیکھ کر دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔ جو بلیک کلر کی شیروانی میں بےحد خوبرو لگ رہا تھا۔نیلی آنکھوں میں مغروریت لیے انتہائی سنجیدہ چہرے سے ان کے سامنے آ رُکا۔ ہاجرہ بیگم نے اس کی نظر اُتاری۔

داجان نے اس کا ماتھا چوم کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی تھی۔ مگر وہ ان سے خفا خفا منہ موڑے کھڑے رہا۔ پوتے کا ناراضگی جتاتا انداز انہیں مسکرانے پر مجبور کرگیا۔

پھر بڑے شان شوکت سے وہ بارات لیکر ہال کی جانب روانہ ہوا۔ کچھ مہمان پہلے سے ہی ہال میں موجود تھے کچھ بارات کے ساتھ شامل تھے۔ 

میرو اور نشوہ ازوہ کو لیکر پارلر گئ تھی انہوں نے وہی سے ہال آنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازوہ دُلہن بنی قیامت ڈھارہی تھی۔ ڈیپ ریڈ کلر کا یہ لہنگا اس کی گوری رنگت پر دمک رہا تھا۔ بھاری زیورات پہنے وہ بے تحاشا حسین لگ رہی تھی۔ ناک میں پہنی نتھ کے موتی ہونٹوں کو چھورہے تھے۔ لبوں پر گہرے لال رنگ کی لپ اسٹک سجاۓ وہ کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی تھی۔

چہرہ پر تفکر کی لکیریں بچھی تھی دل میں ڈر سا بیٹھ گیا تھا عرید کو لیکر کے جانے وہ آۓ گا بھی یا نہیں۔

وہ تینوں اس وقت ہال کے ایک کمرے میں موجود تھی۔ 

میرو اور نشوہ گرے کلر کی میکسی میں ملبوس تھی۔ آج بھی میکسی کے ہم رنگ حجاب سر پر سجا رکھا تھا۔ مہارت سے کیا گیا میک اپ دونوں کو خوبصورتی بخش رہا تھا۔

ازوہ اس وقت شدت سے دُعا کررہی تھی کہ سب ٹھیک ہو جاۓ۔داجان نے عریدکو منا لیا ہو۔ وہ انہی سوچوں میں گُم تھی۔ جب بارات آنے کا شور فضامیں اُٹھا۔  ازوہ کا دل بےساختہ خدا کے حضور سجدہ شکر ہوا۔ وہ پل میں ہلکی پُھلکی ہوگئ تھی۔اس بات کو بالکل بھی فراموش نہیں کرسکتی تھی کہ ابھی اُسے منانے کا مشکل امتحان سر کرنا ہے۔

نشوہ اور میرو بارات کے استقبال کے لیے باہر کی طرف بڑھ گئ۔

پھر خیر و عافیت سے نکاح کا مبارک فریضہ انجام دیا گیا۔ اس دوران ایک بھی پل عرید کے چہرے پر مسکان نہ آئی۔ وہ ویسے ہی سنجیدہ تاثرات سجاۓ بیٹھا رہا۔

نکاح کے دوران ازوہ کا دل شدت سے بھر آیا۔  آج اپنے بابا کی شدت سے یاد آئی تھی۔  ایک تلخ تجربے کے بعد اس کا دل شدت سے انہیں پکار رہا تھا۔  میرو اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سب سمجھ چکی تھی وہ بھی تو اس مرحلے سے گزر چکی تھی۔ مگر اس کے پاس تو سب تھے۔ اس کے جان لُٹانے والا بابا اس کی پیاری ماما مگر ازوہ کے پاس ایسا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ میرو کو بےساختہ اس سے ہمدردی محسوس ہوئی۔ وہ آگے بڑھتی اسے اپنے ساتھ لگا گئ۔

"دیکھنا میری جان سب ٹھیک ہوجاۓ گا۔ مجھے یقین ہے عرید بھائی تمہیں بہت خوش رکھیں گے۔ تمہارے سارے خسارے آہستہ آہستہ مانند پڑھ جائیں گے۔  تمہارا دامن خوشیوں سے بھر جاۓ گا۔" وہ اس کے مسلسل بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر بولی۔

اس کی باتوں پر ازوہ نے دل سے آمین کہا تھا۔ وہ خود یہی چاہتی تھی کہ اس کی زندگی میں سب ٹھیک ہوجاۓ۔ وہ بھی خوشیوں بھرے لمحے گزارے۔ اسے پورا یقین تھا وہ جلد ہی عرید کو منا لے گی۔

کچھ وقت بعد وہ میرو اور نشوہ کے ہمراہ ہال کی جانب بڑھی۔ وہ سہج سہج کر قدم اُٹھاتی اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ عرید نے ایک نظر اُٹھا کر بھی اسے نہ دیکھا تھا۔ اس کا دل ایک بار دیکھنے کی دہائی دے رہا تھا۔ لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتا ڈھیٹ بنا بیٹھا رہا۔

ازوہ نے ایک نظر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ بالکل بھی اس کی طرف متوجہ نہ تھا۔ وہ لاتعلق سے بیٹھا تھا۔ 

کل اس کی بےقراریوں کو یاد کرتے ازوہ کے دل سے ہونک سی اُٹھی تھی۔ 

میرو اور نشوہ اسے اسٹیج پر بٹھا کر جاچکی تھی کیونکہ عرید نے اس کی طرف قدم نہ بڑھاۓ تھے۔ پھر اُنہیں خود ہی یہ فریضہ سر انجام دینا پڑا۔

ازوہ نے ہلکی سی گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا جو سنجیدہ تاثرات سجاۓ ناک کی سیدھ میں دیکھ رہا تھا۔ ازوہ نے گردن موڑلی۔ اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی دُھند چھانے لگی جس سے ساتھ بیٹھا وجود انجان بالکل بھی نہ تھا۔

عرید بےشک اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا مگر اس کے دھیان کے سارے دھاگے اسی کے ساتھ جُڑے تھے۔ اس کا عرید کی طرف دیکھنا ۔ نظریں جُھکانا اور پھر خود کو رونے سے باز رکھنا ہر چیز تو  اس نے نوٹ کی تھی۔ 

مگر ابھی وہ اپنے دل کی سُننے کی حالت میں بالکل نہ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو عرید کی شادی پر اپنے ہر غم کو بُھلاۓ انجواۓ کررہی تھی۔ اسے خود کا اشتہار لگانا بالکل بھی پسند نہیں تھا وہ لوگوں کو باتیں کرنے کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ  سجاۓ وہ ہر ایک سے  خوشدلی سے مل رہی تھی۔

"زومیرہ بیٹا کیسی ہو؟ " میرو جو اپنے کزنز سے مل کر اسٹیج کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کسی کی پُکار پر رُک گئ۔ میرو انہیں پہچان گئ تھی وہ ہاجرہ بیگم کی کوئی رشتے دار تھی۔ 

"میں ٹھیک ہوں آنٹی ۔ آپ کیسی ہیں؟" وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاتے ہوۓ بولی۔

"میں تو بالکل ٹھیک ہوں تم سناؤ۔تمہاری اور یزدان کی شادی کے تو کوئی آثار نہیں نظر آرہے۔ " وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھیں بڑی تجسس سے اس کی ایک ایک حرکت ملاحظہ کر رہی تھیں۔ 

مگر اس کے سپاٹ چہرے پر کچھ بھی اخذ نہ کرکے وہ بدمزہ ہوئیں۔وہ بات کو مزید بڑھاتے ہوۓ بولیں۔ 

"بھئ یزدان ! عرید سے بڑا ہے تو عرید کی شادی کیوں پہلے ہورہی ہے۔ اب تو خیر سے واپس بھی آگیا ہے۔ تم دونوں کے نکاح کو بھی کافی سال ہوچکے ہیں۔ کیا یزدان نکاح پر راضی نہ تھا جو تمہیں شادی والے دن چھوڑ کر بھاگ گیا۔" وہ بڑی پُرتجسس نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکا کر بولے۔

میرو کا چہرہ ان کی بات پر سپید پڑھا۔ اس کے لبوں پر قفل لگ گیا۔ وہ اپنے دفاع میں ایک لفظ بھی نہ بھول پائی۔ 

"مامی جی ! خیر سے ندا آپی تو میرو سے کافی بڑی ہیں۔ آپ کیوں نہیں اُن کی شادی ابھی تک کررہی ۔ کیا کوئی مسئلہ ہے۔" نشوہ جو میرو کو ہی ڈھونڈرہی تھی۔ وہ ان کے قریب آئی تو اپنی ممانی کو کہی جانے والی بات اور میرو کا سفید پڑھتا چہرہ بھی دیکھ چکی تھی۔اس لیے آگے آتی ان کو آگ لگا گئ۔

" نشوہ تم بڑی بدتمیز ہوگئ ہو۔ میری ندا اب اتنی بھی بڑی نہیں ہے۔اور نہ ہی میری بیٹی کو کوئی شادی والے دن چھوڑ کر بھاگا ہے۔ ضرور تمہاری اس کزن نے ہی کچھ کیا ہوگا۔ جو اس کا شوہر یوں اسے  چھوڑ کر بھاگ گیا۔" وہ نشوہ کو باتیں سُناتی ایک دفعہ پھر میرو کو لپیٹ میں لے چکی تھی۔ 

وہ ہوتے ہیں نہ کچھ انسان جو دوسروں کو خوش نہیں دیکھ سکتے۔ وہ بھی انہی میں سے تھی۔

اپنی باتوں پر وہ میرو کا سفید پڑتا چہرہ بخوبی دیکھ رہی تھی مگر زبان کے جوہر دکھانے سے پھر بھی باز نہ آئیں۔

میرو جو کب سے خود کو مضبوط بناۓ اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی۔ ان کی باتوں پر ساری مضبوطی بُھربُھری ریت کی مانند ڈھیر ہوتی چلی گئ۔ ایک آنسو پلکوں کی باڑ توڑتا گالوں کی حدود پر پھسلتا چلا گیا۔

اس کا دل کیا سب چھوڑ کر وہ یہاں سے بھاگ جاۓ۔ جانے یہ باتیں کب اس کا پیچھا چھوڑیں گی۔  کب تک کسی دوسرے کے کیے کا بُھگتان اسی کو چُکانا تھا۔

یزدان جو کب سے اسی پر نظریں ٹکاۓ بیٹھا تھا۔ اس محفل میں اگر کوئی چیز اس کی دلچسپی کا باعث تھی تو سامنے کھڑا وہ حسین  وجود۔ جو آج اس قدر حسین لگ رہی تھی کہ اس کا دل اُس کے قدموں میں ڈھیر ہوتا جارہا تھا۔ وہ جو تب سے ہنستی مسکراتی اِدھر اُدھر گھوم رہی تھی۔ مگر اب سامنے نشوہ اور ایک عورت کے درمیان کھڑے مسلسل آنسو بہارہی تھی۔ اس کی ماتھے پر بلوں کا جال بچھا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ان کی طرف پہنچا۔ وہ ان کے نزدیک آتا اس عورت کی آخری بات سُن چکا تھا۔ جانے کیوں اس عورت کے منہ سے میرو کے خلاف باتیں زہر لگی۔

وہ قریب آتا میرو کی کمر کے گرد ہاتھ لپیٹتا اسے اپنے حصار میں لے چکا تھا۔ 

"جی آنٹی کیا کہہ رہی تھی آپ ذرا پھر سے کہیے؟ آپ میری میرو سے ایسی بات کیسے کرسکتی ہیں۔  آپ کو  قطعی یہ فکر کرنے کی ضرورت بالکل بھی نہیں کہ میں نکاح پر  راضی تھا یا نہیں۔ اور بات رہی ہماری شادی کی تو یہ ہمارا پرسنل ایشو ہے ہم خود ہی حل کرلیں گے۔ اور میری میرو میں نہ کوئی خرابی ہے اور نہ ہی اُس نے  کوئی  ایسی حرکت کی ہے جس میں اُسے چھوڑ کر بھاگوں۔ جلد ہی آپ کو ہماری شادی کی بھی خبر مل جاۓ گی۔ ضرور آئیے گا۔ اور ہاں آخری بات مجھے میری میرو سے بہت محبت ہے آپ ٹیشن لیکر اپنا بی پی ہائی مت کریں۔" وہ میرو کی آنکھوں میں دیکھتا اس کا ماتھا چومتا ان کی بولتی اچھے سے بند کروا چکا تھا۔ 

واقعی ہی وہ شرمندہ سی ہوکر رہ گئ۔ پھر ان کا دھیان ہٹتے ہی خاموشی سے وہاں سے کھسک گئ۔

میرو ابھی بھی بے یقین نظریں اس ستمگر پر ٹکاۓ اس کے حصار میں کھڑی تھی جو زخم بھی خود دیتا تھا اور مسیحائی کرنے بھی آجاتا تھا۔ 

مگر اب وہ مر کر بھی اس انسان پر یقین نہیں کرسکتی تھی۔ اس نے فوراً اس کا ہاتھ اپنی کمر سے ہٹایا۔ اور ماتھے پر ہاتھ کی پُشت پھیرتے اس کا لمس مٹانے کی کوشش کی۔ اس کی حرکت پر یزدان کے ماتھے پر بل پڑے۔

"میں صرف تمہاری مدد کررہا تھا۔" وہ اس کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر بولا۔

"مدد لفظ آپ کے منہ سے اچھا نہیں لگ رہا۔ جو لوگ زخم دیتے ہیں ان کے منہ سے مسیحائی کا لفظ اچھا نہیں لگتا۔ اور میں نے آپ کو مدد کے لیے نہیں بلایا۔ ایسی باتیں سُننے کے مجھے عادت ہوگئ ہے پچھلے دو سالوں سے سُنتی آرہی ہوں۔ لوگوں کی نظر آپ مظلوم ہی ہیں۔ کیونکہ یہاں صرف یہی سمجھا جاتا ہے ضرور لڑکی میں ہی کوئی عیب ہوگا یا اُسی کی غلطی ہوگی جو لڑکا یا تو بارات نہیں لایا یا بارات واپس چلی گئ۔  

آپ ظلم کرکے بھی سب کی نظروں میں مظلوم ہیں اور زومیرہ آفندی بغیر کسی غلطی کے بھی بُری۔" وہ مہمانوں کے خیال سے دھیمی آواز میں غُرائی۔

یزدان آفندی جہاں تھا وہی کھڑا رہ گیا۔ میرو نے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا تھا جس میں اسے اپنا روپ بڑا بھیانک سا نظر آیا تھا۔وہ نظریں چُرا کر رہ گیا۔

"آخری دفعہ وارن کررہی ہوں۔ اب میرے راستے میں مت آئیے گا۔ ورنہ لحاظ نہیں کروں گی۔ اگر میں مر بھی رہی ہوں تب بھی زومیرہ آفندی کو نہ ہی آپ کی ہمدردی اور نہ ہی آپ کی مدد کی ضرورت ہوگی۔ جتنا آپ مجھ سے دُور رہے گے اُتنا ہی اچھا ہوگا آپ  کے لیے بھی اور میرے لیے بھی۔" وہ وارننگ دینے والے انداز میں کہتی اس کی نظروں کے سامنے سے ہٹتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مختلف رسموں کے بعد ازوہ عرید آفندی ایک نۓ عہد کے ساتھ اپنے شوہر کے سنگ رُخصت ہوگئ۔ ازوہ نے خود سے عہد کیا تھا کہ وہ اپنی شادی کبھی ٹوٹنے نہیں دے گی۔ اس کے دل میں اپنا کھویا مقام واپس پالے گی۔

آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ حویلی کے سامنے موجود تھے۔ مختلف رسموں کے بعد ازوہ کو عرید کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔دل کہی نہ کہی ڈر بھی رہا تھا جانے عرید کا کیا ریئکشن ہوگا۔ جانے وہ اس کا ساتھ کیسا رویہ رکھے گا۔ 

وہ دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے کمرے میں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔ 

عرید ضروری کام کا کہہ کر حویلی سے نکلا تھا۔ ہاجرہ بیگم کے روکنے پر بھی وہ نہ رُکا۔بےمقصد سڑکوں پر کتنی دیر ہی گاڑی دوڑاتا رہا۔ فی الحال اس کا ازوہ کا سامنا کرنے کا دل نہیں کررہا تھا۔  رات کے تقریباً ڈھائی بجے کا ٹائم ہوا تو اس نے تھک ہار کر گاڑی واپسی کے راستے پر ڈال لی۔ جتنا بھی حقیقت سے نظریں چُراتا مگر واپس تو جانا ہی تھا۔ 

گاڑی حویلی کے احاطے میں کھڑی کر وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اسے یقین تھا کہ اب تک ازوہ سو چکی ہوگی۔ 

اس نے آہستہ سے دروازہ کھول کر کمرے کے اندر قدم رکھا۔ پہلی نظر ہی اپنے بستر پر استحاق سے لیٹی اپنی شریکِ حیات پر گئ۔ جو ابھی تک ویسے ہی تیار تھی شاید وہ اس کا انتظار کرتے کرتے سو گئ۔ اس نے ایک تھکی سی سانس خارج کرکے اس کی طرف قدم بڑھایا۔ اس کا بھاری لہنگا دیکھ اس کے ماتھے پر بلوں کا جال بکھرا۔اس کی پوزیشن کو دیکھ کر وہ ارادہ لگا چکا تھا وہ غیر آرام دہ تھی۔ اس نے احتیاط سے اسے سیدھا لٹایا۔  اس کا خوشبو بکھیرتا نرم سا وجود اسے بُری طرح اپنی طرف اٹریکٹ کرگیا۔

اس نے ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی مگر پھر نظر ہٹ ہی نہ پائی۔ وہ کیل کانٹوں سے لیس اس کا ایمان ڈگمگا  رہی تھی۔ ہونٹوں پر بلڈ ریڈ لپ اسٹک اس کے حُسن کو دو آتشہ کررہی تھی۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میں اس کی طرف ذرا سا جُھکا تھا۔ اس کے گلابی گالون پر اپنے ہاتھ کی پُشت پھیری تھی۔ اس کے لمس پر وہ ذرا سا کسمسائی تھی۔ عرید ہوش میں آتا پیچھا ہٹا۔ الماری سے اپنا آرام دہ سوٹ نکالتا واش روم میں بند ہوگیا۔

جانے ان کی زندگی اب کونسا موڑ لینے والی تھی۔

رات کی سیاہی ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ جب ہر کوئی محو خواب تھا ایسے وہ ایک وجود جاگ رہا تھا۔ وہ اس کے بالکل قریب لیٹا اس کے خوبصورت نقوش کو نہار رہا تھا۔کل تک وہ کتنا خوش تھا ۔ پہلو میں لیٹے وجود پر پُور پُور اس کا حق تھا۔ مگر ناجانے کیوں اس کی طرف ہاتھ بھی بڑھا نہ پارہا تھا۔ جب جب حماد صاحب کا ازوہ پر الزام لگانا یاد آتا وہ انگاروں پر لوٹ جاتا۔

اسے وقتی غُصّہ تھا واقعی ہی اس کی شادی کا سُن کر اسے تکلیف ہوئی تھی مگر وہ کم ظرف مردوں میں سے نہیں تھا جو سارا غُصّہ اس نازک وجود پر اُتارتا۔  ازوہ کا سچائی چُھپانا اسے ناگزیر گُزرا تھا۔ اسے واقعی اس کی یہ بات بالکل پسند نہیں آئی تھی۔  اتنی آسانی سے وہ اسے ہر گز معاف نہیں کرنے والا تھا۔

وہ اسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں موند گیا۔ رات کا جانے کونسا پہر تھا جب اس کی آنکھ لگ گئ تھی۔

صبح کا سویرا ہر سُو پھیل چُکا تھا۔ گھڑی دس کا ہندسہ عبور کرچکی تھی۔ اس نے کسمسا کر آنکھ کھولی اسے خود پر وزن سا محسوس ہوا۔ بس نے جھٹکے سے آنکھیں کھول خود کے گرد لپٹا بازو دیکھا اس نے چہرہ بائیں طرف گُھومایا۔ وہ اس کے بڑے قریب محو استراحت تھا۔ وہ سوتے ہوۓ کتنا پیارا لگ رہا تھا۔ نیلی دلکش آنکھوں پر اس وقت پلکوں کا پہرا تھا۔ ازوہ نے دل ہی دل میں اس کی نظر اُتاری۔ وہ جانے رات کے کس پہر آکر اس کے پہلو میں لیٹا تھا۔ ازوہ نے ہمت مجتمع کرکے اس کے ماتھے پر بکھرے بالوں کو سمیٹا تھا پھر اس کے جاگنے کے خیال سے ہاتھ پیچھے کرگئ۔

احتیاط سے اس کا بازو اُٹھا کر سائیڈ پر کرتی بستر سے اُترتی الماری کی طرف بڑھ گئ۔ الماری سے آتشی رنگ کا شارٹ فراک نکالا تھا۔ پھر اُسے لیے واش روم کی طرف بڑھ گئ۔

کچھ دیر بعد وہ فریش ہوکر نکھری نکھری سی باہر آئی۔ بھاری لہنگے سے آزادی ملتے ہی وہ خود کو ہلکا پُھلکا محسوس کررہی تھی۔ وہ آئینے کے سامنے بیٹھتی بال سُلجھانے لگی۔ وقتاً فوقتاً ایک نظر اُس ستمگر پر بھی ڈال لیتی جو اس سے بےخبر سو رہا تھا۔بالوں کو سُلجھانے کے بعد اس نے لبوں پر ہلکے گلابی رنگ کی لپ اسٹک لگائی۔پھر صوفے پر بیٹھتے اس کے اُٹھنے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ انتظار طویل ہوگیا ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد بھی وہ نہ جاگا۔ ازوہ نے تھک کر صوفے کی پُشت پر سر ٹکا لیا۔ 

قدرت کو شاید اس پر رحم آگیا تھا جب عرید بھر پور انگڑائی لیتا اُٹھا اور  ایک نظر اپنے دائیں جانب ڈالی مگر بیڈ کا دوسرا حصّہ خالی تھا۔وہ جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا جب نظر سامنے ٹھہر سی گئ جو فریش فریش سی صوفے کی پُشت سے سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔وہ شاید غنودگی میں چلی گئ تھی۔ 

وہ الماری سے براؤن رنگ کی شلوار قمیض نکالے واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ فریش سا باہر نکلا اس نے ایک نظر ازوہ پر ڈالی مگر اس کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے جان بوجھ کر ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہوکر اُٹھک پٹھک کی۔ اس کا طریقہ کارآمد ثابت ہوا ازوہ کی آنکھ کُھل چکی تھی۔

ازوہ نے گردن موڑ کر ڈریسنگ  کی طرف دیکھا جہاں وہ نک سک سا تیار کھڑا تھا۔  ازوہ نے کچھ سوچتے ہوۓ قدم اُس کی جانب بڑھاۓ۔  ایک قدم کے فاصلے پر آکر رُک گئ۔ 

"عرید۔ " اس نے ہولے سے پکارا تھا مگر دوسری طرف سے جواب نادار۔ 

"پلیز عرید میری بات تو سُنیے۔ " اس کی بےرُخی پر چہرہ پل میں تاریک پڑا۔  جو اُس کی طرف دیکھ بھی نہ رہا تھا۔ 

ازوہ نے ہمت مجتمع کرکے ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھا عرید نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ 

"عرید پلیز ایک دفعہ میری بات سُن لیں نا۔ " وہ التجائی انداز میں اس پر نظریں ٹکاۓ بولی۔ 

"جب بولنے کا وقت تھا تب تم کچھ نہ بولی اب بولنے کا کیا فائدہ۔" وہ طنزیہ انداز میں اسے دیکھتا ہوا بولا۔

وہ کچھ بھی بول نہ پائی۔ کہنے کو تو کچھ تھا ہی نہیں۔ازوہ اس کے بازو پر سر ٹکا گئ۔  قطرہ قطرہ پھسلتے آنسو اس کے بازو کو  بھگو رہے تھے۔ عرید نے اسے جھٹکا نہیں تھا وہ اسے جھٹک ہی نہیں سکتا تھا۔اگر اسے جھٹک دیتا خود کو کبھی معاف نہ کرپاتا۔

"مجھے معاف کردیں۔میں وعدہ کرتی ہوں آئندہ آپ سے کچھ نہیں چُھپاؤں گی۔" وہ بھیگا چہرہ اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

"بات یہاں معافی کی نہیں ہے۔تم نہیں جانتی اُس انسان نے تم پر کتنے گھٹیا الزام لگاۓ ہیں۔ عرید آفندی کی بیوی کے کردار کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ چیز مجھ سے برداشت نہیں ہورہی۔" چہرہ دھو کر آؤ ہم نیچے جارہے ہیں۔ وہ فی الحال شاید اس موضوع پر بات ہی نہ کرنا چاہتا تھا۔

وہ اس کی طرف سے رُخ موڑتا لاتعلقی کا اظہار کرچکا تھا یعنی اتنی آسانی سے اسے معافی ہرگز نہیں ملنے والی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے کی تقریب اپنے پورے زوروں شور سے جاری تھی۔ ازوہ سلور کلر کی میکسی پہنے بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔ عرید بھی گرے کلر کے ڈنر سوٹ خوب جچ رہا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے پرفیکٹ کپل کے عکاسی کررہے تھے۔

فوٹو شوٹ کے درمیان بھی وہ دونوں خاموش سے تھے۔

میرو شارٹ میرون فراک میں ملبوس ہر آنکھ کو خیرہ کررہی تھی۔ اس کے برعکس یزدان بلیک ڈنر سوٹ میں ملبوس تھا۔

خیر و عافیت سے اس خوبصورت تقریب کا اختتام ہوا تھا۔تو داجان نے رب کا بےحد شُکر ادا کیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کے تقریبا چار بجے کا وقت تھا جب وہ بستر پر لیٹا بےچین سا ہو رہا تھا۔ غالباً وہ نیند میں کوئی بُرا خواب دیکھ رہا تھا۔

عائشہ بیگم سفید پوشاک میں کھڑی نظر آئی اس کے قریب آنے پر وہ چہرہ موڑ گئیں۔جیسے وہ اس سے شدید ناراض ہو۔وہ جیسے ہی اِس نے نزدیک آکر ہاتھ اُن کی طرف بڑھایا۔ اُن کا وجود ہوا میں تحلیل ہوتا چلا گیا۔

 منظر بدلنے لگا تھا اب عائشہ بیگم کی جگہ میرو تھی۔میرو ایک گھنے کالے جنگل میں کھڑی تھی ہر سُو گہرا اندھیرا تھا ۔مگر وہ یہ منظر صاف دیکھ پارہا تھا۔ ۔دیکھتے   ہی دیکھتے اس کے گرد خون پھیلنے لگا۔ وہ چیختی ہوئی کسی کو مدد کے لیے پُکار رہی تھی۔ یزدان فُل سپیڈ میں اس کی طرف بھاگا۔

مگر وہ ایک قدم بھی اس کے نزدیک نہ جاسکا۔ رفتہ رفتہ اُس کا وجود کالی سیاہی میں گُم ہونے لگا۔

وہ جھٹکے سے نیند سے بیدار ہوتا اُٹھ بیٹھا۔ اے سی فُل سپیڈ میں چل رہا تھا اس کے باوجود اس کا پورا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ اس نے گھڑی کی طرف نظر ڈالی جو صبح کے چار بجنے کا پتہ دے رہی تھی۔ وہ پاؤں میں چپل اڑستہ میرو کے کمرے کی جانب بڑھا۔وہ تقریباً بھاگنے والے انداز میں اُس کے کمرے میں پہنچا تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا پہلی نگاہ بیڈ پر ہی گئ تھی۔ مگر وہ خالی تھا۔ اس نے کمرے کے چاروں اور نگاہ دوڑائی خالی کمرہ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔ اس نے بالکنی پھر واش روم تک چیک کیا مگر وہ کہی نہ تھی۔ کسی انہونی کے خیال سے اس نے الماری کھول کر دیکھی جو خالی تھی۔ اس کا دل شدت سے دھڑکا تھا۔

وہ فوراً باہر کی جانب بھاگا اس نے پوری شدت سے عرید کے کمرے کا دروازھ کھٹکھٹایا۔ جو کچھ دیر بعد کھول دیا گیا۔

"میرو کدھر ہے؟ "  دروازہ کُھلتے ہی وہ اس کا گریبان جھکڑتا شدت سے دھاڑا۔

"کیا بدتمیزی ہے یہ اور میں نہیں جانتا کہ میرو کہاں ہے۔ " وہ لاپرواہی سے اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر بولا۔

"عرید پلیز مجھے بتا دو میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔" وہ آنکھوں میں آئی نمی کو بہنے سے روکتا ہوا بولا۔

"تجھے اب اس سب سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہیے کہ وہ کہاں ہے اور کیسی ہے؟ تو اپنے بدلے کی آگ میں رہ ۔ جا جا کر خوش ہو تیری وجہ سے وہ اپنے گھر سے دُور ہے۔ کیونکہ یہ ہم ہی جانتے ہیں کہ وہ کتنی تکلیف میں تھی۔ وہ رُکی تھی تو صرف میری شادی کی وجہ سے۔" وہ اسے حقیقت کا آئینہ دکھاتے ہوۓ بولا۔

"ایک بار اُس کا پتہ بتا دے تو یقین مان میں سب ٹھیک کر دوں گا۔" وہ ابھی تک اُس خواب کے زیر اثر عجیب انداز میں بولا۔

"میں مر کر بھی تجھے نہیں بتا سکتا کیونکہ یہ ایک بھائی کا اپنی بہن سے وعدہ ہے۔ تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے وہ جہاں بھی ہوگی ٹھیک ہوگی۔ کیونکہ تیرے علاوہ باقی سارے گھر والے اُس کے خیر خواہ ہی ہیں۔" وہ آج اسے بھگو بھگو کر مار رہا تھا۔ اور واقعی ہی وہ تڑپ رہا تھا۔  مگر عرید کو اس کی تڑپ سے بالکل فرق نہیں پڑھ رہا تھا۔

"تو کیا سمجھتا ہے تو نہیں بتاۓ گا تو میں ڈھونڈ نہیں پاؤں گا تو یہ تیری خیام خیالی ہے میں بہت جلد اُسے ڈھونڈ لوں گا۔ " وہ سنجیدہ چہرے کے ساتھ بولتے ہوۓ اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ یونی کی کینٹین میں اکیلی بیٹھی تھی۔ جب وہ اسے اکیلا اُداس سا دیکھ کر اس کے نزدیک بیٹھ گیا۔ 

"کیا ہوا آج اکیلی آئی ہو تمہاری پارٹنر کدھر ہے؟ " وہ اس کے سامنے والی کُرسی گھسیٹ کر اُس پر بیٹھ چُکا تھا۔ 

"ماہا کی شادی ہے پندرہ دن بعد وہ گاؤں چلی گئ۔"نشوہ نے ایک نظر اس کو دیکھا پھر اُداسی سے پُر لہجے میں بولی۔

احان کا چہرہ تاریک پڑا تھا ۔ یہ سُن کر اس کی حالت عجیب سی ہورہی تھی جانے صارم کا کیا حال ہوتا۔صارم کو اس نے کتنا سمجھایا تھا کہ وہ ایک بار کوشش تو کرے اسے اپنی زندگی میں شامل کرنے کی مگر وہ اپنی بات سے ٹس سے مس نہ ہوا کہ اُسے اپنی محبت سے زیادہ ماہا کی عزت عزیز ہے۔ وہ جانتا تھا یہ خبر جان کر اُس کا کیا ریئکشن ہوگا۔ کیونکہ وہ اس کی ماہا سے محبت کی شدت سے آگاہ تھا۔

احان فی الحال ساری سوچوں کو جھٹکتے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ جو خاموش سی بیٹھی تھی۔ اس کی یہ خاموشی اسے ذرا پسند نہ آئی تھی۔ ایک وقت تھا جب وہ خود اس کی.  چلتی زبان سے خار کھاتا تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کی تیز چلتی زبان بند کروا دے۔ مگر اب سب کچھ بدل چکا تھا۔ وہ لڑکی جب خاموش ہوتی تھی اس کا دل بےچین ہو اُٹھتا تھا۔واقعی ہی وہ لڑکی بوگتی ہوئی ہی اچھی لگتی تھی۔ اس کا وہی انداز اسے پسند تھا۔

"تمہارے بھائی کی شادی تھی کیسی گزری؟ " وہ اس کی اداسی دُور کرنے کی غرض سے پوچھ بیٹھا۔

"بہت اچھی گزری میں نے بہت انجواۓ کیا۔" وہ ازوہ اور عرید کے متعلق سوچتی دھیمی مسکان چہرے پر سجا کر بولی۔ 

اس کو ہنستے دیکھ کر احان کو یک گونہ سکون محسوس ہوا تھا۔ 

"تم ہنستی مسکراتی رہا کرو۔  تم ہنستی ہوئی بےتحاشا بولتی ہوئی اچھی لگتی ہو ۔ تمہارا یہ اُداس چہرہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔" وہ ٹیبل پر موجود اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے اس کی آنکھوں میں اپنی ساحرانہ آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔

 وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا۔ اس کی بولتی آنکھوں کو دیکھ نشوہ نے نظریں چُرائی اور اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے دھیرے سے نکال لیا۔ وہ خواہ مخواہ ہی اِدھر اُدھر دیکھتی اپنی گھبراہٹ دُور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔

احان نے اس کے حسین چہرے سے ایک پل بھی نظر نہ ہٹائی تھی۔ آج وہ کتنے دنوں بعد یونی آئی تھی اتنے دنوں سے دل پر جو کثافت سی چھائی تھی وہ اسے دیکھنے پر دُور ہوتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج دو دن ہوگۓ تھے مگر ماہا نہیں آئی تھی۔ نشوہ تو کافی دنوں سے یونیورسٹی  آرہی تھی۔ اس کی ہمت بھی نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ نشوہ سے پوچھ سکے کہ آخر ماہا کیوں نہیں آرہی۔ 

احان اس کی بے چینی اچھے سے نوٹ کررہا تھا۔ اس کا بار بار اِدھر اُدھر دیکھنا جیسے کسی کی تلاش کررہا ہو۔مگر نگاہیں بار بار ناکام واپس لوٹ رہی تھی۔

"ماہا کو ڈھونڈ رہا ہے۔" احان نےاس کے بےچین چہرے کو دیکھ کر پوچھا۔

"نہیں۔ میں تو بس ایسے ہی۔۔۔" اس سے مزید کوئی بات نہ بن پائی تو خاموش ہوگیا۔

" تجھے میں نے کتنا سمجھایا مگر تو نے میری بات نہیں مانی نا۔ چلی گئ وہ " اس کی بات پر صارم نے پہلو بدلہ۔

اس کی سوالیہ نظروں کو دیکھ کر وہ اسے سب بتانے کا عہد کرچکا تھا آج نہیں تو کل اُسے ماہا کی شادی کا پتہ چلنا ہی تھا۔

"وہ گاؤں چلی گئ ہے۔ عنقریب ہی اُس کی شادی ہے۔" اس کی بات پر صارم کا چہرہ سپید پڑا یوں جیسا کسی نے سارہ لہو نچوڑ لیا ہو۔

صارم کو یکدم ہی گھبراہٹ ہونے لگی ۔ اسے محسوس ہوا جیسے اس کا سانس بند ہورہا ہے۔ اس نے گہرے گہرے سانس لیتے خود کو پُر سکون کرنے کی کوشش کی۔

احان اس کی حالت دیکھ کر گھبرا سا گیا تھا۔ وہ فوراً اس کے قریب آتا پانی کا گلاس اس کے ہونٹوں سے لگا چکا تھا۔ احان نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی تھی۔

"ٹھیک ہے تو۔" وہ پریشان سا اس کی طرف دیکھ کر بولا جو پہلے سے کچھ بہتر محسوس کررہا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں۔تو فکر مت کر۔" وہ اسے دیکھ زبردستی مسکرایا تھا۔ 

"مجھے کچھ کام ہے میں جارہا ہوں۔" وہ اس پر ایک نظر ڈالتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔احان نے اس کے قدموں میں واضح لڑکھڑاہٹ دیکھی تھی۔ 

احان اس کی پُشت تکتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کو سفر کرتے ہوۓ تقریباً تین گھنٹے سے زائد کاوقت گزر چکا تھا۔ ان کی گاڑی گاؤں کے حدود میں داخل ہوچکی تھی۔ مزید پندرہ منٹ کے سفر کے بعد وہ حویلی کے سامنے کھڑے تھے۔

ماہا نے گاڑی سے نکلتے ایک نظر حویلی کی جانب ڈالی جس میں نمایاں تبدیلیاں آئی تھی۔اُسے گاؤں آۓ کافی سال ہوچکے تھے۔ اس نے ایک تھکی سی سانس خارج کی ۔ وہ جتنا اس حویلی سے بھاگتی آئی تھی اس کی  قسمت نے اسے وہی لا پٹکا تھا۔وہ اپنے پاپا کی پیروی کرتے ان کے پیچھے اندر کی طرف بڑھ گئ۔ جہاں پہلے ہی سب کھڑے تھے شاید وہ انہی کا انتظار کررہے تھے۔ سب گھر والوں نے اچھے سے ان کا استقبال کیا تھا۔  

ہشام بھی وہی موجود تھے

ہشام نے اس پر  ایک نظر ڈال کر نظریں پھیر لیں۔

بےشک وہ لڑکی بےتحاشا خوبصورت تھی مگر ہشام کو اس میں رتی بھر بھی دلچسپی محسوس ہی نہ ہوئی ۔نہ ہی اس کے دل میں کوئی ہلچل ہوئی تھی۔۔ اسے اس وقت فاریہ یاد آئی جس پر ایک نظر ڈالنے کے  بعد اس پر سے نظریں ہٹا ہی نہیں پاتا تھا۔جتنی خوبصورتی اسے فاریہ میں محسوس ہوتی کبھی کسی میں محسوس نہ ہوئی تھی۔ وہ سامنے ہوتی تھی تو وہ اردگرد کا ہوش بھولنے لگتا تھا۔

اگر وہ اپنا دل ٹٹولتا تو اسے محسوس ہوتا کہ وہ پورے حق سے اس کے دل میں براجمان تھی۔ اس کے نقش اتنے گہرے تھے کہ وہ چاہ کہ بھی مٹا نہیں سکتا تھا۔ بات پسندیدگی کی حدوں سے بہت آگے نکل چکی تھی مگر وہ یہ ماننا ہی نہ چاہتا تھا کہ وہ بھی کبھی کسی کی محبت میں جُھک سکتا تھا۔

ماہا نے ایک نظر اسے دیکھا تھا وہ بےحد خوبرو تھا وہ کسی بھی لڑکی کا خواب ہوسکتا تھا مگر یہ وہی جانتی تھی کہ وہ اپنے باپ جیسا سفاک تھا۔اس کے دل میں ہونک سی اُٹھی۔ اس نے کبھی ان دنیاوی عیش و عشرت کی خواہش نہیں کی تھی۔ اس کی خواہش بس اتنی تھی کہ ایک اچھا قدر کرنے والا ہمسفر ۔ ہر دُکھ سُکھ کا ساتھی۔

 مگر ضروری تو نہیں کہ ہر خواہش پوری ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گھر پر بھی بےسکون سا تھا اس لیے ڈیرے پر چلا آیا۔ مگر یہاں بھی کہاں چین آنے والا تھا۔ وہ ہمیشہ سے اس کے پل پل کا حساب رکھتا آیا تھا جسے وہ نازک وجود لا علم تھا اگر اسے علم ہوتا تو اپنی قدر جان جاتی۔

وہ جان بوجھ کر کئ کئ دن اس سے لاتعلق رہتا تھا تاکہ اپنی جھوٹی انا کا پرچم بلند رکھ سکے۔ مگر وہ ایک پل بھی اس سے غافل نہ ہوا تھا۔

وہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا  لامعنی سوچوں میں گُم تھا۔جب اس کی جیب میں پڑا موبائل فون بجا۔ اس نے بنا دیکھے فون کان کو لگایا۔

"صاحب جی ! فاریہ بی بی گھر نہیں ہے۔" دوسری طرف سے منمنانے والے انداز میں اطلاع دی گئ۔ اس نے کان سے موبائل ہٹا کر ایک نظر سکرین کو دیکھا پھر ماتھے پر بل ڈالے دوبارہ موبائل کان سے لگایا تھا۔

"کیا مطلب ہے کہ وہ گھر نہیں ہے۔ اگر وہ گھر نہیں ہے تو کہاں چلی گئ۔" وہ چاہنے کے باوجود اپنی آواز دھیمی نہ رکھ سکا۔

"جی وہ کام نپٹا کر میں تھوڑی دیر آرام کی غرض سے کمرے میں گئ تھی۔ جب باہر آئی ہوں تو بی بی کہی نہیں ہے۔  میں نے سامان چیک کیا ہے سارا سامان تو گھر پر ہی موجود ہے۔ " دوسری جانب سے ڈرتے ڈرتے اطلاع دی گئ۔ اس کے غُصّے سے کون ناواقف تھا۔ 

"گارڈ کہاں مر گیا تھا۔ اگر فاریہ نہ ملی یا اُسے کچھ ہوا تو تم سب کو زمین میں گاڑھ دوں گا۔ " وہ شدت سے چلاتے ہوۓ بولا۔ 

"وہ گارڈ کو لگا وہ آپ سے اجازت لیکر گئ ہے۔ " وہ اپنی لاپرواہی پر کڑھ کر رہ گئ ایسا پہلی بار ہوا تھا ورنہ وہ ہمیشہ سے یہی ٹائم آرام کرتی تھی۔

"ہہممم ! آرہا ہوں ایک ایک سے حساب لوں گا۔ " وہ کڑھتے ہوۓ کال کاٹ چکا تھا۔

وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ڈیرے سے نکلتے اپنی گاڑی میں سوار ہوا اس کا رُخ فاریہ کے گھر کے جانب ہی تھا۔

ریش ڈرائیونگ کرتے وہ جلد ہی گھر کے سامنے موجود تھا۔ 

اس نے منٹوں میں سب کا سانس سُوکھا کر رکھ دیا تھا۔ سب شدت سے فاریہ کے ملنے کا اتنظار کررہے تھے۔ اس کے گارڈز اس کا حکم ملتے ہی کام پر لگ  چُکے تھے۔ خود بھی وہ ایک گھنٹہ خوار ہوکر تھکا سا واپس آیا تھا۔ فاریہ پر غُصّہ بھی آیا تھا۔ جو بنا بتاۓ گھر سے نکل گئ تھی۔

اس نے لاؤنج میں قدم رکھا تو وہ خالی تھا۔ جو فی الوقت ملازمہ اس نے فاریہ کے لیے رکھی تھی وہ انیکسی میں جا چکی تھی۔ اس جلاد کے سامنے رہنے کا مطلب اس کے غُصّے کو ہوا دینا۔

وہ مسلسل اِدھر سے اُدھر ٹہلتا گارڈز کے فون کا انتظار کررہا تھا۔ جب گھر کا دروازہ کُھلا اور فاریہ اندر آئی۔ اس کے ہاتھ شاپنگ بیگ تھے۔ جس میں ضرورت کا کچھ سامان تھا۔ فاریہ کی پہلی نظر ہی لاؤنج میں ٹہلتے ہشام پر پڑی تھی۔ جو  بےچین سا اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ وہ دروازے کے أگے جم سی گئ تھی۔ 

معاً ہشام کی نظر دروازے پر کھڑے وجود پر پڑی تھی۔ وہ ایک ہی جُست میں اس تک پہنچتا اپنی پناہوں میں چُھپا چکا تھا۔ فاریہ اچانک ہونے والے اس افتاد پر گھبرا سی گئ تھی۔

وہ اسے اپنے سینے میں شدت سے  بھینچے ایک پل کے لیے آنکھیں موند گیا۔  تڑپتے دل کو جیسے قرار سا آگیا تھا۔

"کہاں چلی گئ تھی۔" وہ اسے سامنے کرتا اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لے گیا۔ 

اسے دیکھ وہ دیوانہ سے ہورہا تھا۔ اس کا یہ انداز فاریہ کو حیران سا کر رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں بےیقینی سی تھی۔

اس کے چمکتے چہرے کو دیکھ ہشام نے اس کے ایک ایک نقوش کو دیوانہ وار چوم ڈالا۔وہ کبھی اس کی آنکھوں پر ہونٹ ٹکاتا کبھی اس کا لمس اس کی گال پر بکھرتا۔ کبھی اس کی سانسوں پر حکمرانی جماتا جیسے اس کے ہونے کا یقین کررہا تھا۔

فاریہ نے گھبرا کے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا تھا۔ جس کی منمانیاں بڑھتی چلی جارہی تھی۔ وہ بےقرار سا اس کے ایک ایک نقش پر اپنی تحریر رقم کرتا چلا گیا۔ اس کے شدت بھرے انداز پر وہ لڑکھڑائی تھی جب اس نے فاریہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اسے سینے سے لگایا تھا۔ 

ہشام نے اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکائی تھی۔ اس کا چہرہ ہشام کی قربت سے ہی سرخ اناری ہوچکا تھا۔

"میں کتنا ڈر گیا تھا۔ تم نے بتایا نہیں کہاں گئ تھی۔" وہ اب بھی اسے اپنے حصار میں لیے کھڑا تھا۔

"آپ کیوں ڈر گۓ تھے ہشام ۔ آپ کو کونسا فرق پڑتا ہے میرے ہونے نہ ہونے سے ۔" اس نے ہشام کے سینے پر دباؤ ڈال کر خود کو اس کے حصار سے آزاد کروایا۔

اس کی باتوں پر ہشام کی گرفت اس پر ڈھیلی پڑی تھی۔ وہ اسے لاجواب کرگئ تھی۔ وہ تو اس سے محبت نہیں کرتا تھا پھر کیوں اتنا ڈر گیا تھا۔ وہ اس کی بیوی تھی اس کی عزت تھی ہاں بس اس لیے ڈر گیا تھا۔ اس نے خود کو یقین دہانی کرائی تھی۔

"کیونکہ تم میری بیوی ہو میری عزت ہو۔ہر غیرت مند آدمی اپنی بیوی کے غائب ہونے سے یوں ہی ڈر جاتا ہے۔" اس نے ایک جتاتی نگاہ فاریہ پر ڈالی تھی۔وہ خود کو کمپوز کرگیا تھا۔

فاریہ نے شکوہ کناں نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔

"میں کہی بھی غائب نہیں ہوئی تھی بس کچھ ضروری سامان لینے مارکیٹ تک گئ تھی۔" وہ سنجیدہ سے چہرے سے نگاہیں جُھکا کر بولی۔

اس کی باتوں پر ہشام کے ماتھے پر بل پڑے۔ 

"ایسا کونسا ضروری سامان تھا جو اتنا ضروری تھا۔ فرض کرو اگر بہت ضروری تھا تو تم گارڈ سے بول دیتی۔" وہ ماتھے پر شکنوں کا جال بچھاتا ہوا بولا۔ کچھ دیر پہلے والی خماری اڑن چُھو ہوچکی تھی۔

"میرا اس شیش محل میں دم گھٹ رہا تھا۔" اس نے ایک دفعہ بھی نظر اُٹھا کر اسے نہیں دیکھا تھا یہی چیز ہشام لاشاری کو آگ لگا رہی تھی۔

"آپ کو میری فکر میں گُھلنے کی ضرورت نہیں ہے جاکر اپنی شادی کی تیاریاں کریے۔ یقین مانیے میرا یہاں کے سوا کوئی ٹھکانا نہیں ہے نہیں تو بہت پہلے آپ کی زندگی سے دُور چلی جاتی۔" وہ اپنی باتوں سے اُسے انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی۔

" اگلی دفعہ اپنے وعدے پر قائم رہیے گا۔ جیسے یہاں آپ بھاگے ہوۓ آۓ ہیں مجھے یہ خوش فہمی لاحق ہوگئ تھی کہ آپ بھی مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں ۔" وہ آنکھوں میں نمی کو چُھپانے کے لیے چہرہ مزید جُھکا گئ۔

"یقین مانیے جس دن آپ ہمارا رشتہ اپنے گھر والوں کے سامنے لے آئیں گے۔ مجھے سب کے سامنے اپنی بیوی ہونے کا مان دیں گے اُس دن میں آپ کی مشکور ہوجاؤں گی۔ اس دن پھر میں بغیر کہے آپ کی ہر بات مانتی چلی جاؤں گی ۔ مگر آپ بزدل ہیں آپ ہمارے رشتے کو گناہ بنا کر سب سے چُھپانا چاہ رہے ہیں۔ آپ کبھی میرا دُکھ نہیں سمجھ سکتے۔" وہ اسے ہکا بکا چھوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔

ہشام نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا تھا۔یہ لڑکی ہمیشہ اس کی انا پر  وار کرتی تھی۔  وہ اسے بزدل کہہ کر گئ تھی۔ہشام دوبارہ یہاں نہ آنے کا عہد کرچکا تھا۔  جسے ابھی خود وہ ایک بار توڑ چکا تھا۔ اب آنے والا وقت بتانے والا تھا کہ جیت کس کی ہوتی ہے فاریہ کی محبت کی یا ہشام کی انا کی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں کب سے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔ ہاتھ میں پکڑے فون کو بار بار دیکھتا وہ کسی کی کال کا انتظار کررہا تھا۔ جیسے جیسے وقت بڑھتا جارہا تھا اس کی بےچینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

اس کا موبائل فون بجا اس نے بےصبری سے پہلی بیل پر ہی کال اُٹھالی۔ 

جیسے جیسے وہ دوسرے فرد کی بات سُنتا جارہا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی جارہی تھی۔ 

"میں آرہا ہوں جانم اب ایک بھی پل تمہیں خود سے دُور نہیں کروں گا۔  "وہ ایک عزم کے ساتھ بولا تھا۔

شام چھ بجے کا وقت تھا۔ آسمان پر ہلکی ہلکی لالی چھائی سورج غروب ہونے کاپتہ دے رہی تھی۔ ایسے میں وہ کمرے میں کب سے اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔پچھتاوے کا ناگ اسے مسلسل ڈس رہا تھا۔ ہاتھوں میں چہرہ گراۓ وہ اپنی قسمت پر ماتم کناں تھا۔ اس نے خدا کا دیا وہ خوبصورت انعام ٹھکرایا تھا۔ خدا کی طرف سے تحفہ ہی تو تھی اس کی زندگی کا۔ کیسے وہ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتی تھی۔ اس نے ناشکری کی تھی۔اور جو لوگ خدا کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں وہ اکثر ایسے ہی پچھتاتے ہیں۔کیا تھا وہ خود۔ جو وہ دوسروں سے انتقام لینے چلا تھا۔ اور انتقام بھی اُس وجود سے جو سرے سے ان سب سے ناواقف تھا۔ وہ تو خود معصوم تھی بلا ان سب میں اُس کا قصور کہا تھا؟ کہاں تھی وہ غلط؟ جتنا وہ اُس کے بارے میں سوچ رہا تھا اُتنا ہی انگاروں پر گھسیٹتا جارہا تھا۔

"میرو ! مجھے معاف کردو۔پلیز میری زندگی میں واپس آجاؤ۔تمہارے بغیر میرا سانس گُھٹ رہا ہے۔میں تو تم سے محبت کا دعویٰ دار تھا پھر کیسے یہ سب کرگیا تمہارے ساتھ۔ اللّٰہ میں انتقام کی أگ میں اس قدر اندھا ہوگیا۔ کہ اپنے وجود کا حصّہ ہی کاٹ کر پھینک دیا۔" وہ اس کا وجود کا حصّہ ہی تو تھی جو ناجانے کتنے سالوں سے اس کے دل میں محبت بن کر براجمان تھی۔

کچھ سوچتے اس نے کسی کو کال کی تھی۔ 

وہ تیزی سے اِدھر اُدھر ٹہلتا اپنے اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ پچھلے ایک مہینے سے وہ اسے تلاش کررہا تھا۔ ابھی صُبح ہی تو اس کے گارڈز کے ہاتھ ذرا سا سرا لگا تھا۔ انہوں نے اسے کچھ دیر انتظار کرنے کا کہا تھا۔مگر وہ دیوانہ ہوتا ہر تھوڑی دیر بعد کال ملاتا ابھی بھی وہ انہی کو کال کرکے سب معلومات جاننا چاہتا تھا جنہوں نے پانچ منٹ مزید انتظار کرنے کو کہا تھا۔ یہ پانچ منٹ اس کے لیے کتنے تکلیف دہ تھے یہ وہی جانتا تھا۔ہاتھ میں پکڑے فون کو بار بار دیکھتا وہ کسی کی کال کا انتظار کررہا تھا۔ جیسے جیسے وقت بڑھتا جارہا تھا اس کی بےچینی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

اسے خود پر حیرت ہوتی تھی کہ کیسے اُس نے دو سال اُس دلکش وجود کے بغیر گُزار لیے تھے۔حقیقت تو یہ تھی کہ وہ پل پل اس کے لیے تڑپا تھا مگر وہ اس وقت انتقام کی آگ میں اتنا پاگل ہوچکا تھا کہ وہ ہر تکلیف برداشت کرنے کو تیار تھا۔

اس نے ایک نظر پھر ہاتھ میں پکڑے موبائل کو دیکھا اُسی وقت اس کا موبائل فون بجا اس نے بےصبری سے پہلی بیل پر ہی کال اُٹھالی۔ 

جیسے جیسے وہ دوسرے فرد کی بات سُنتا جارہا تھا اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیلتی جارہی تھی۔اس کی مسکراہٹ میں سکون تھا۔ بھیگی آنکھوں سمیت مسکراتا وہ خُدا کا شکر ادا کررہا تھا۔

"میرے جانے کا انتظام کرو میں ابھی نکلوں گا۔" وہ حکم صادر کرتا کال کاٹ چکا تھا۔

"میں مانتا ہوں میں بہت غلطیاں کر چکا ہوں مگر اب اپنی ہر غلطی سُدھار لوں گا۔میں آرہا ہوں جانم اب ایک بھی پل تمہیں خود سے دُور نہیں کروں گا۔  "وہ ایک عزم کے ساتھ بولا تھا۔مگر شاید وہ یہ نہیں جانتا تھا یا شاید وہ یہ سوچنا ہی نہیں چاہتا تھا کہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں سے میلوں دُور دھکیل چُکا تھا۔ جب جب اس کی شکوہ کناں نظریں سامنے آتی تو اس کی تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا۔

"سوری جانم! جو تمہیں میری وجہ سے اتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ " وہ موبائل پر موجود میرو کی تصویر دیکھتا ہولے سے بڑابڑایا۔ آنکھوں میں شدید ندامت تھی۔ اور خود کی حرکات پر اسے غُصّہ آرہا تھا۔بلا وہ کون ہوتا ہے کسی سے بدلہ لینا والا۔ کیا وہ خدا اوپر بیٹھا نہیں تھا انصاف کرنے کے لیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"صارم یار تو جانتا ہے نہ تیرے سوا کوئی دوست نہیں ہے میرا۔ جب تو گاؤں جاتا ہے نا میرا بالکل بھی دل نہیں لگتا۔" احان اس کے بستر پر براجمان ہوتا ہوا بولا۔ 

وہ دونوں اس وقت صارم کے فلیٹ میں موجود تھے۔ صارم اپنے کپڑے پیک کر رہا تھا۔  احان اس کے سامنے بستر پر بیٹھا۔ 

"یار ماما کتنے مہینوں سے بلا رہی ہیں۔ میں کب سے انہیں ٹال رہا ہوں۔مگر میرا خود دل اُن سے ملنے کو کررہا ہے۔جلد ہی واپس آجاؤں گا۔ " وہ بیگ کی زپ بند کرتا اسے دیکھتا ہوا بولا۔ 

احان نے سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا۔  

"ویسے بھی میں خود اس ماحول سے کچھ دیر دُور جانا چاہتا ہوں۔ کچھ دن اپنوں کے درمیان گزاروں گا تو اچھا محسوس ہوگا۔ اس جگہ پر میرا دم سا گُھٹنے لگا ہے۔ وہ لڑکی جاتے جاتے میری سانسیں بھی ساتھ لے گئ ہے۔ " وہ نم آنکھوں کو جُھکا کر بولا۔ 

احان نے بستر سے اُترتے اسے گلے لگایا ہے۔

"میرا دوست لاکھوں میں ایک ہے تجھے ماہا سے سو گُنا اچھی لڑکی ملے گی جو تیرے احساسات کی قدر کرے گی۔ دیکھنا۔" وہ تسلی دینے والے انداز میں بولا۔

"میری زندگی میں کوئی بھی لڑکی آجاۓ مگر وہ ماہا فارض کی جگہ نہیں لے سکتی۔  اب تو شاید اس دل میں کوئی گنجائش ہی نہیں بچی جو کوئی آ سکے۔  جو کوئی بھی میری زندگی میں شامل ہوگی اُس کے حصّے صرف خسارہ آۓ گا۔ کیونکہ اُس کے حصّے میں محض کھوکھلا وجود آۓ گا۔ کیونکہ دل و دماغ تو ماہا کے قبضے میں ہے۔ اس لیے میں نے سوچ لیا ہے میں کبھی شادی نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کرسکتا۔" وہ کھویا کھویا سا بولا۔

احان کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔اس نے سنجیدگی سے صارم کا مُرجھایا چہرہ دیکھا تھا۔

"وہ لڑکی تجھے ڈیزرو نہیں کرتی۔ اور تو اُس کے پیچھے اپنی جان کو کوئی روگ نہیں لگاۓ گا سمجھا۔" وہ وارن کرنے والے انداز میں دانت کچکچاتے ہوۓ بولا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا ماہا کی گردن مڑوڑ دے۔ جس نے اس کے ہنستے کھیلتے دوست کی یہ حالت کردی تھی۔

"نہیں شاید صارم لاشاری اُسے ڈیزرو نہیں کرتا تھا۔ وہ اتنی پاک تھی۔اس کی اسی پاکیزگی سے ہی تو صارم لاشاری نے عشق کیا تھا۔ میں ہمیشہ دُعا کروں گا وہ ہمیشہ خوش رہے۔ اُس کے نصیب میں اتنی خوشیاں ہوں کہ انہیں سمیٹتے سمیٹتے اُس کا دامن تنگ پڑ جاۓ۔" وہ ٹرانس کی کیفیت میں بولتا جارہا تھا۔ 

احان کو ماہا کے نصیب پر افسوس ہوا۔ اگر وہ صارم کے حصّے آجاتی تو وہ شاید خود ہی اپنی قسمت پر رشک کرتی۔ اس کی دیوانگی دیکھ اسے دُکھ بھی ہورہا تھا کیونکہ وہ وہاں دل لگا بیٹھا تھا جہاں  لاحاصل انتظار اس کے حصّے میں لکھ دیا گیا تھا۔ اگر وہ خود اس کی جگہ ہوتا تو کبھی یہ قربانی نہ دیتا بلکہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر اُسے اپنی زندگی میں شامل کرلیتا۔

"احان ایک بات مشورہ دوں تجھے۔" وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتا اسے دیکھ کر بولا۔

احان نے اثبات میں سر ہلا کر اسے بولنے کی اجازت دی۔

" تو نشوہ سے اپنی محبت کا اظہار کردیں مجھے لگتا ہے اُس کی زندگی میں کوئی نہیں ہے وقت رہتے اس کا ہاتھ تھام لے۔ ورنہ میری طرح پچھتاتا رہ جاۓ گا۔" صارم اس کے چہرے پر نظریں ٹکا کر بولا جو اس کی باتوں پر گڑبڑا سا گیا تھا۔

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تو سوچ رہا ہے۔" وہ خواہ مخواہ نظریں چُرا گیا۔

"تیرا دوست کم بھائی زیادہ ہوں تیری رگ رگ سے واقف ہوں۔اور یہ بھی جانتا ہوں آج کل مس پٹاخہ کی کلاس کے کافی چکر لگ رہے ہیں۔" وہ باتوں کو مزاح کا رنگ دیتا ہوا بولا۔

"مس پٹاخہ تو وہ میری ہے تیری وہ بھابھی ہے۔" وہ اسے مصنوعی گھوری سے نوازتا ہوا بولا۔

صارم نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔تو اسے دیکھ کر احان کا قہقہ گونجا صارم نے بھی ہلکا سا مسکرا کر اس کا ساتھ دیا۔

"میری بات کا جواب نہیں دیا۔" صارم ابھی بھی اپنی بات سے پیچھا نہیں ہٹا۔

"تو فکر مت کر بیوی تو وہ تیرے یار کی ہی بنے گی۔" وہ سرشاری کی کیفیت میں اس کا دلکش وجود آنکھوں میں لاتا ہوا بولا۔

"صارم!اچھا چھوڑ ان سب باتوں کو اور میرے ساتھ کچھ وقت گزار پھر تو چلا جاۓ گا۔ تو میں تجھے بہت یاد کروں گا۔" وہ اس کے گردن کے گرد ہاتھ ڈالٹا اسے لیے باہر کی طرف بڑھ گیا۔وہ اپنے گنے چُنے رشتوں کے معاملے میں حد درجہ پوزیسو تھا۔ 

"ہاں بیچاری تیری بیوی مجھ سے جل جل کر کوئلہ ہوجاۓ گی۔ بھلا میں تیری کوئی گرل فرینڈ ہوں جو تیرے ساتھ وقت گزاروں۔" صارم بتیسی کی نمائش کرتا اس کی گرفت سے خود کو چھوڑا کر بھاگا۔ 

"بدتمیز انسان تجھے چھوڑوں کا نہیں ایک بار ہاتھ تو آ۔ تیری یہ بتیسی توڑ دوں گا۔" احان دانت پیستا اس کے پیچھے بھاگا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ فاریہ کی طرف سے انتہائی غُصّے سے گھر آیا تھا۔اب وہ اس کو اچھے سے بتاۓ گا کہ ہشام لاشاری ہے کیا چیز۔

"فاریہ ہشام لاشاری تم دیکھتی جاؤ اب میں تمہیں شادی کرکے دکھاؤں گا۔ تم نے میری نرمی کا بہت ناجائز فائدہ اُٹھا لیا ۔ اب اور نہیں۔" وہ فاریہ کے عکس کو ذہن میں لاتے ہوۓ بولا۔

اس نے بالکنی سے کھڑے نیچے جھانکا تھا جہاں ماہا لان میں  کھڑی پودوں کو گھورنے میں مصروف تھی۔کچھ سوچ کر اس نے قدم کمرے سے باہر بڑھاۓ۔ کچھ دیر میں وہ اس کی پُشت پر کھڑا تھا۔ 

اس نے گھلا کھنکھار کر اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔

ماہانے چونک کر اس کی طرف دیکھا جو اسے ہی گھورنے میں مصروف تھا۔ ماہا گڑبڑا کر رہ گئ۔

"کیا نام ہے تمھارا؟" ہشام کو اس کے وجود میں نہ پہلے دلچسپی تھی اور نہ  اب ہورہی تھی۔ اب  وہ یہاں آگیا تھا تو  کچھ تو پوچھنا ہی تھا۔ مگر وہ بڑا بے تُکّا سا سوال کرگیا۔ اس کے نام سے وہ ناواقف تھوڑی تھا۔

ماہا کے دل میں  ہونک سی اُٹھی وہ اس کے نام تک سے ناواقف تھا۔اور بھلا اس سے کیا توقع کرتی۔جو اس کا نام نہ یاد رکھ سکا وہ اسے کہاں یاد رکھے گا۔

"ماہا نام ہے میرا۔" وہ اس کے سوال کا جواب دیتی خاموش سی ہوگئ۔

"کیا کرتی ہو آج کل۔" وہ مزید بات بڑھاتے ہوۓ بولا۔

"بی ایس اکنامکس کے پہلے سال میں ہو ابھی کچھ وقت پہلے ہی داخلہ لیا تھا۔" وہ اُمید بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولی کیا پتہ وہ کہہ دے کہ تم آگے بھی پڑھ سکتی ہو۔

"ہہمم! شادی کے بعد اچھے سے گھرداری سنبھالنا آگے پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔" وہ فاریہ کو ڈھیل دے کر دیکھ چکا تھا جو اب اس کے سر کو آرہی تھی۔ اس لیے پہلے سے ہی وہ اس لڑکی کو اس کی حدود سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔

ماہا نے احتجاجی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی سرمئ آنکھوں میں ہلکی سی نمی تیری تھی۔ جو اس کی آنکھوں کو مزید خوبصورتی بخش رہی تھی۔ مگر سامنے والے پر رتی برابر بھی فرق نہیں پڑا تھا۔

"جتنا تم۔میری باتوں پر بغیر چوں چراں عمل کرو گی۔ اُتنا ہی تمہارے لیے اچھا ہوگا۔ میری خیال سے میری باتیں تم سمجھ چکی ہو۔" وہ اس کی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو اگنور کرتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

ماہا اس کی پُشت کو دھندلی آنکھوں سے تکتی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کھڑکی پر کھڑی چاند کو گھورنے میں مصروف تھی۔ اسے گھر سے آۓ تقریبا ایک مہینہ ہونے والا تھا۔اس سے پہلے وہ کبھی اکیلی کہی  نہ گئ تھی۔ وہ گھر والوں کی اتنی لاڈلی تھی کہ کوئی اسے جانے ہی نہیں دیتا تھا۔ پہلے تو اس کے بابا کا ہی اس کے بغیر دل نہیں لگتا تھا۔ وہ روز اُن کے سینے سے لگ کر دن بھر کی ساری روداد انہیں سناتی تھی۔

داجان بھی تو اس کے بغیر نہیں رہتے تھے۔ مگر اب سب ہی اس کے آنسوؤں کے آگے ہار گۓ تھے۔ وہ فی الحال اس گُھٹن زدہ ماحول سے آزادی چاہتی تھی۔ اس لیے وہ یہاں آگئ تھی۔ وہ اس وقت اسلام آباد میں موجود تھی۔ یہ گھر داجان کے ایک کزن  کا تھا۔ یہاں محض وہ دونوں میاں بیوی رہتے تھے۔ان کی ایک ہی بیٹی تھی جو شادی کے بعد لاہور میں مقیم تھی۔ اور وہ چھٹیوں میں ہی اپنے بچوں کے ساتھ یہاں آتی تھی۔

جب اس نے گھر سے دُور جانے کی بات کی تو داجان کے ذہن میں پہلا خیال انہی کا آیا تھا۔ اور وہ پھر راتوں رات ہی عرید کے ساتھ یہاں آگئ تھی۔ انہوں نے بہت محبت سے اس کا استقبال کیا تھا۔ وہ لوگ اس کا اتنا خیال رکھ رہے تھے اسے ایک پل بھی یہ محسوس نہ ہوا کہ وہ کسی غیر کے گھر موجود تھی۔

وہ اس کی اداسی دُور کرنے کے لیے اسے کسی نا کسی چیز میں مصروف رکھتے تھے۔ وہ وقتی طور پر بہل بھی جاتی تھی۔ مگر رات کے وقت وہ اکیلی ہوتی تھی پھر وہی زہریلی یادیں اس پر حملہ آور ہونے لگتی تھی۔ 

وہ گہری سانس لیتی کھڑکی سے ہٹتی بستر پر لیٹ چکی تھی نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ 

اکثر رات کے وقت ہی اس کے کانوں میں یزدان کے محبت بھرے جُملوں کی باز گشت ہوتی تھی یہاں آکر وہ ہار جاتی تھی۔

"میں بہت جلد آپ کی ایک ایک یاد دل سے نکال کر پھینک دوں گی۔" وہ اُٹھ کر بیٹھتی سائیڈ دراز سے نیند کی گولیاں نکالنے لگی۔ اس کی تو اب اسے عادت ہونے لگی تھی۔ اس کے بغیر تو نیند بھی نہیں آتی تھی۔

نیند کی گولیاں پانی سے نگلتی وہ دوبارہ لیٹ چکی تھی۔ کچھ ہی دیر میں اس کی آنکھیں بھاری ہونے لگی تھی۔ رفتہ رفتہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیند کی وادیوں میں گُم ہوتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کار ڈرائیو کرتا مسلسل اسی کے بارے سوچ رہا تھا۔ کئ گھنٹوں کی تھکا دینے والی ڈرائیونگ کے بعد اس کے اعصاب جھنجھنا اُٹھے تھے۔ مگر وہ بھی ڈھیٹ تھا آج کے آج ہی وہ میرو کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔ ایک ماہ پہلے جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ ذہن کے پردے پر تازہ تھے۔ اس خواب کا کیا مطلب تھا وہ نہیں جانتا تھا اور نہ ہی وہ یہ جانتا تھا کہ اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں مگر جب جب وہ اس خواب کے بارے میں سوچتا تھا وہ ڈر سا جاتا تھا۔ 

اب وہ میرو کی زندگی میں کوئی تکلیف نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسے اب ہر حال  میں خوش دیکھنا چاہتا تھا۔جس کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ وہی دو سال پہلے والی ہنستی مسکراتی میرو ہے۔

ماضی کا ایک منظر آج بھی اسے شدت سے یاد تھا۔ 

یہ ایک شادی کا منظر تھا جب وہ نشوہ کی کسی بات پر کھلکھلا کر ہنسی۔ دُور کھڑا یزدان اسی کی طرف تو متوجہ تھا۔ 

یکا یک اسے احساس ہوا کہ لوگ اسی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں تو وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس تک پہنچا۔

"میرو" وہ کزنوں میں گھِری کھڑی تھی جب یزدان نے اسے مخاطب کیا تھا۔

سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔

"جی " وہ فوراً چہرہ موڑ کر اسی کی طرف متوجہ ہوئی۔

"اِدھر آؤ کچھ ضروری بات کرنی ہے۔" وہ سب کومکمل اگنور کرتا اس کی طرف ہاتھ بڑھا گیا۔

جسے کچھ ہچکچاتے ہوۓ وہ تھام چکی تھی۔وہ اسے لیا ذرا سا آگے بڑھا۔ سب نے معنی خیزی نظروں سے اس کی طرف دیکھا وہ گڑبڑا کر رہ گئ۔

"یزدان کیا کرتے ہیں۔ سب ہماری طرف کیسے دیکھ رہے تھے۔" وہ خفا خفا سی اسے دیکھ کر بولی۔

" دیکھنے دو نا جانم۔ آؤ ہم وہاں چلتے ہیں۔ " وہ اسے لیا ایک کونے والی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔

" ہاں جی جلدی سے بولیں کیا بات ہے۔" وہ عجلت بھرے انداز میں اسے دیکھ کر بولی۔

یزدان نے غور سے اسے دیکھے تھا ان کے نکاح کو محض ایک سال ہوا تھا۔ 

"تم یہی پر بیٹھو ۔ سب کے درمیان جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"پر کیوں یزدان۔ مجھے سب کے ساتھ بیٹھنا ہے۔" وہ روہانسی لہجے میں بولی۔

"یار تم بار بار کھلکھلا کر ہنستی ہو تمہیں پتہ ہے کتنی پیاری لگتی ہو۔ تمہاری مسکراہٹ کتنی پیاری ہے نظر لگ جاۓ گی۔" وہ اس کا روہانسی انداز دیکھ کر نرمی سے بولا۔

میرو کا دل کیا اپنا ماتھا پیٹ لیں۔ 

"یار تمہاری مسکراہٹوں کو اگر نظر لگ گئ تو میں کہی کا نہیں رہوں گا۔" وہ اس کے آگے دیوار کی طرح حائل ہوتا ہوا بولا۔

"اچھا تو اب بس ایک ہی حل ہے مجھے قید کرلیں۔" وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔ 

"ہاں میرا دل چاہتا ہے تمہیں اپنا دل میں قید کرلوں جہاں کوئی تمہیں دیکھ بھی نہ سکے۔" میرو اس کا دیوانگی بھرا انداز دیکھتی کھلکھلاتی چلی گئ۔

واقعی ہی اس کی مسکراہٹوں کو نظر لگ گئ تھی۔

یزدان نے سر جھٹک کر ساری سوچوں کو ذہن سے جھٹکا تھا اس کی منزل آچکی تھی۔ اس کی آنکھیں چمکی تھی۔ سامنے ایک چھوٹا مگر خوبصورت سا  گھرتھا جہاں اس کی متاعِ جان مقیم تھی۔ اس نے گاڑی سے اُترتے احتیاط سے چاروں اور نظر دوڑائی۔ 

جیب سے ایک چابی نکالی جس کا انتظام اس کے گارڈز کرچکے تھے۔ اس کے آدمیوں نے بہت اچھا کام کیا تھا ہر چیز پرفیکٹ تبھی انہیں اتنا وقت لگ گیا۔

اس نے احتیاط سے دروازہ کھولا اور گھر کے اندر داخل ہوا۔ اس گھر میں محض دو کمرے تھے بائیں جانب والے کمرے میں اس کی زندگی موجود تھی۔ اس کے کمرے کا  دروازہ کھولنے میں اسے ذرا دِقت نہ پیش آئی ۔ 

اس نے پہلی نگاہ ہی بستر پر ڈالی تھی جہاں اس کی زندگی محوِ استراحت تھی۔ وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آتا ایک قدم پر ٹھہر گیا۔ وہ ایک قدم مزید نزدیک آتا بستر کے ایک کنارے پرٹک گیا۔  اس نے بڑے احتیاط سے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قید کیا۔  پھر اپنے ہونٹوں سے لگاتے اس پر بوسہ دیا تھا۔  مگر وہ ہلی تک نہیں تھی۔  وہ تو یہ شروع سے جانتا تھا کہ وہ نیند کی کتنی پکی ہے۔  معاً اس کی نظر سائیڈ ٹیبل بر پڑی اس ڈبی پر گئ تھی۔  اس نے ماتھے پر بل ڈالے میں وہ ڈبی اُٹھائی تھی۔ جسے دیکھ اسے جھٹکا لگا تھا نیند کی گولیاں کیا میرو نیند کی گولیاں استعمال کر رہی تھی۔

اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا تھا یہ سوچ ہی سوہان روح تھی کہ اس کی ہر تکلیف کی وجہ وہ خود تھا۔ ڈبی آدھی خالی تھی جو اس بات کی گواہ تھی کہ اس کا روز ہی استعمال ہورہا تھا۔ اس نے وہ ڈبی اُٹھا کر ڈسٹ بین میں پھینکی تھی۔

"آئی ایم سوری۔" وہ ایک دفعہ پھر اس کے ہاتھوں کو لبوں سے لگا گیا۔یزدان نے ایک پل کے لیے نظر اس  کے چہرے نہ ہٹائی تھی۔ وہ اس کی طرف جُھکا اس کی پیشانی بر ہونٹ ٹکا گیا۔ کتنے ہی پل ایسے ہی گزر گۓ۔  یزدان کو اپنے رگ رگ  پہ سکون دوڑتا ہوا محسوس ہوا۔ 

رات کی سیاہی میں  ہی وہ اس کے نازک  وجود کو احتیاط سے اُٹھاۓ باہر کی طرف بڑھ گیا۔اس کی وجود میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی تھی۔یزدان نے اس کے ڈھلکتے سر کو احتیاط سے سینے سے لگایا تھا۔ وہ اس گھر سے نکلتا اپنی گاڑی کی طرف بڑھا۔ احتیاط سے اس کے وجود کو بیک سیٹ پر لٹایا تھا۔

پھر اس کی گاڑی کالی رات میں مختلف راستوں سے گزرتی فراٹے بھرنے لگی۔ آدھی رات سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔ جب وہ مطلوبہ مقام پر پہنچ چکا تھا۔ یہ مری کے مقام پر چھوٹا سا مگر نہایت خوبصورت سے کوٹیج تھا۔ اس کے اعصاب مسلسل ڈرائیونگ کی وجہ سے تھکن کا شکار تھے۔اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ  کھولا پھر احتیاط سے اس کے وجود کو اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ 

دروازو کھولتے ہی اس نے ایک نظر چاروں اور دوڑائی تھی۔بائیں طرف چھوٹا سا اوپن کچن تھا سامنے چھوٹا سا مگر خوبصورتی سے سجا لاؤنج تھا۔ لاؤنج کے ایک کونے پر سیڑھیاں تھی جو اوپر کی جانب جارہی تھی۔ اس نے سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھاۓ۔ پانچ سیڑھیاں چڑھتے ذرا سا آگے اوپر ایک ہی کمرہ تھا۔ اس نے اندر داخل ہوتے کمرے کاجائزہ لیا۔کمرہ خاصا کشادہ تھا۔  دروازہ کھولتے ہی دائیں جانب جہازی سائز بیڈ سیٹ کیا گیا تھا۔  کمرے کے ایک کونے پر الماری موجود تھی۔  اور بائیں جانب ایک کونے پر واش روم تھا۔

اس نے اپنے قدم بستر کی جانب بڑھاۓ پھر اسے احتیاط سے لٹا دیا۔ گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھتے وہ قریب سے اس کا ایک ایک نقش کو  نہارنے لگا۔  وہ سوتے ہوۓ اتنی پیاری لگ رہی تھی۔  اس نے محبت سے اس کی صبیح پیشانی پر بوسہ دیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر وہی اس کے قریب بیٹھا اس کے خوبصورت وجود کو نہارتا رہا۔ اسے افسوس ہوا کہ اس نے دو سال اپنے فضول سے انتقام میں نکال دیے۔

اسی لیے غُصے کو اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔ اسی غُصّے کی وجہ سے وہ اپنا اور خاص طور پر اس وجود کا کتنا نقصان کرچکا تھا۔

"میں سب ٹھیک کردوں گا۔ بس مجھے ایک موقع دے دو۔" وہ اس کی گال پر بائیں ہاتھ کی پُشت پھیرتا ہوا بولا۔پھر اس کے گالوں کو ہونٹوں سے چھوتے اُٹھ کھڑا ہوا۔اس نے اچھے سے اس کے اوپر کمبل پھیلایا تھا۔پھر ایک نظر اس پر ڈالتا آہستہ سے دروازہ بند کرتا نیچے لاؤنج میں آگیا۔

لاؤنج کے صوفے پر بیٹھتے اس نے اپنے تھکن زدہ اعصاب  کو پُر سکون کرنے کے لیے صوفے کی پُشت سے سر ٹکایا۔پھر وہ وہی صوفے پر لیٹ گیا۔ اس کے اعصاب اس قدر  تھکن کا شکار تھے وہ لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں گُم ہوتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم نے رات گۓ حویلی میں قدم رکھا وہ اکثر رات کے وقت  ہی سفر کرتا تھا۔وہ اپنا سفری بیگ گاڑی سے نکالتا اندر کی جانب بڑھا۔ وہ ٹھٹھک کر رکا۔  اسے لان کے کونے میں کھڑے وجود پر ماہا کا گمان ہوا اس کی پُشت صارم کی جانب تھی۔  صارم کا دل شدت سے دھڑکا آخر وہ یہاں کیسے ہوسکتی تھی۔ وہ اس وجود کی طرف قدم بڑھاتا اس سے پہلے ہی کسی کی آواز نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ 

"وٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ۔" ہشام اس کی طرف دیکھتا اس گلے لگا گیا۔  بےشک اس کے اپنے باپ کے ساتھ خوشگوار تعلقات اچھے نہیں تھے مگر ہشام کے ساتھ اس کے تعلقات قدرے بہتر تھے۔ اس نے بھی خیر مقدم والی مسکراہٹ کے ساتھ اسے گلے لگایا۔

"اچھا کیا تو آگیا۔ کتنے مہینے گزر جاتے ہیں تو حویلی کا رُخ نہیں کرتا۔ کیسے غیروں کی طرح مہینوں بعد آتاہے۔" وہ اس کی گردن میں ہاتھ ڈالتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ صارم نے چہرے موڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا۔مگر اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ صارم سر جھٹک کر اندر کی طرف بڑھ گیا۔

ہشام رات گۓ تک اس کے ساتھ باتوں میں محو رہا۔ پھر باتوں باتوں میں اسے اپنی شادی کا بھی بتا چکا تھا۔صارم اس کے لیے بےحد خوش تھا۔ اس نے ہشام کہ گلے لگا کر مبارکباد دی۔ وہ واقعی ہی اپنے بھائی کے لیے خوش تھا۔ اور دوسرا اسے اپنی بھابھی کو دیکھنے کا بھی کافی تجسُس تھا۔ جو جلد ہی دُور ہونے والا تھا۔ہشام اسے آرام کرنے کا بولتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے بھاری ہوتے سر کے ساتھ بمشکل اپنی آنکھیں کھولی تھی یہ تو روز ہی اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ نیند کی گولیاں کھانے کا بعد صبح ایسے ہی سر درد سے پھٹتا تھا۔اس نے ایک بھرپور انگڑائی لیتے پوری آنکھیں کھولیں اردگرد کا جائزہ لیا۔ خود کو کسی انجان جگہ پر محسوس کرکے اس کی آنکھیں حیرت کی زیادتی سے مزید کُھل گئیں۔ وہ ایک ہی جست میں بستر سے اُترتے اردگرد کا جائزہ لینے لگی۔ اسے شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔وہ بھاگتے ہوۓ دروازے کی جانب بڑھی جو اس کی پہلی کوشش سے کُھلتا چلا گیا۔وہ سیڑھیوں کی طرف بڑھتی عجلت بھرے انداز میں نیچے اُتری۔وہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔  یہ سوچ ہی اس کے لیے سوہان روح تھی کہ وہ کیسے یہاں پہنچی۔ آنکھوں کے آگے دُھند سی چھانے لگی۔ اردگرد کا نظارہ دھندلا پڑنے لگا۔وہ اپنے آنسو پونچھتی ہمت مجتمع کرکے باہری دروازے کی طرف بڑھی۔ اس نے پوری شدت لگا کر دروازہ کھینچا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اسے اپنی قسمت پر مزید رونا آنے لگا۔ 

"کوئی ہے مجھے یہاں سے نکالو۔" وہ اردگرد دیکھتی چلاتی ہوئی بولی۔

معاً اسے اپنے پیچھے کھٹکے کی آواز آئی۔ وہ گھبرا کر آنکھیں شدت سے میچ گئ۔

"میرو! میری جان کیا ہوا؟ میں ہوں نہ اِدھر کیوں گھبرا رہی ہو؟" اپنی پُشت پر جانی پہچانی آواز محسوس کرکے جھٹکے سے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ اس آواز کو وہ کیسے بھول سکتی تھی۔

اپنے سامنے کھڑے وجود کو حیرت سے دیکھا۔یکا یک اس کے دماغ میں دھماکے سے ہونے لگے۔ یعنی وہ پھر کسی نۓ انتقام کے لیے اسے یہاں لایا۔ پھر کوئی نئ شکست اس کے حصّے میں آنے والی تھی۔ کیا وہ پھر کوئی نیا عذاب اس کی جھولی میں ڈالنے والا تھا۔ اس نے بےساختہ گرنے کے ڈر سے دروازے کو تھاما۔

یزدان اس کی کیفیت دیکھ کر کچھ کچھ معاملے کا اندازا لگایا تھا۔ وہ اس کا دماغ پڑھ چُکا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔وہ اسے غلط سمجھ رہی تھی۔ اپنے لیے اس کی آنکھوں میں بےیقینی سی دیکھ اس کے دل میں درد اُٹھا۔

"میرو! میری جان۔ایسا۔۔۔۔" وہ کچھ کہتا اس کی طرف بڑھا۔

جب میرو نے ہاتھ بڑھا کر اسے رُک جانے کا اشارہ کیا۔ اس کے قدم وہی جم گۓ۔ زبان پر قفل سا لگ گیا۔

"یزدان آفندی میرے پاس مت آئیے گا۔کیا اب بھی آپ کا کوئی انتقام ادھورا رہ گیا جو یوں رات کی سیاہی میں مجھے یہاں لے آۓ۔"وہ آنکھوں میں در آنے والے موتیوں کو پونچھتی دو قدم اس کی طرف بڑھی۔

"نہیں میرو جیسا تم سوچ رہی ہو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔" وہ اسے سمجھانا چاہتا تھا مگر اس کے پاس الفاظ ہی نہیں تھے۔جس سے وہ اپنے دفاع میں کچھ کہہ پاتا۔

"آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے یہاں لانے کی۔کیوں بار بار میرا ضبط آزمانے چلے آتے ہیں۔ آخر کیوں؟ " وہ آنسوؤں بھری نظر اس پر ڈال کر بولی۔

"میرو میری جان ایسا نہیں ہے۔ ایک بار میری بات سُن لو۔بس ایک بار۔" وہ  اس کے نزدیک آتا اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا التجائی انداز میں بولا

"مجھے دوبارہ ہاتھ مت لگائیے گا۔" میرو نے اپنے چہرے پر موجود اس کے ہاتھ کو شدت سے جھٹکا تھا۔

"میرو میں جانتا ہوں مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئ۔ مجھے بس ایک بار معاف کردو۔ یقین مانو دوبارہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔" وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں کی مضبوط گرفت میں قید کرتا ہوا بولا۔

میرو اس کی بات پر بےتحاشا ہنستی چلی گئ۔ جیسے خود کا ہی مزاق اُڑا رہی ہو۔ ایک جھٹکے میں اس کی گرفت میں قید اپنے ہاتھوں کو کھینچ کر نکالا۔

"بڑی خوب یزدان آفندی۔پہلے جان نکال لو پھر معافی مانگنے آجاؤ۔ بڑا اچھا مزاق کرتے ہیں۔" وہ تالی بجاتی داد دینے والے انداز میں بولی۔

یزدان کو یکدم ہی گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ اسے شدت سے محسوس ہوا جیسے وقت ریت کی طرح اس کے ہاتھ سے پھسل گیا ہو۔

"پلیز ایک بار بس ایک بار معاف کردو۔" وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتا اس کا ہاتھ تھام گیا۔ نظریں ایک پل کے لیے بھی اس پر سے نہ ہٹی تھی۔ وہ بنا پلکے جھپکاۓ اُمید بھری نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا جیسے اگر وہ پلکیں جھپکاۓ گا تو وہ غائب ہوجاۓ گی۔ 

"مجھے جانے دیں میں یہاں ایک لمحہ مزید نہیں ٹھہروں گی۔ مجھے جانے دیں یزدان آفندی مجھے جانے دیں۔" وہ ہذیانی ہوتی ہوئی چیخی تھی۔اُس نے جیسے یزدان کی بات سُنی ہی نہ تھی۔

وہ اس کے ہاتھ جھٹکتی دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔

یزدان مایوس سا اُٹھ کھڑا ہوا۔ آنکھیں سُرخ انگارہ ہورہی تھی۔

"میں جانتا ہوں میں نے اگر تمہیں جانے دیا تو میں تمہیں کھو دوں گا۔" وہ آنکھیں میں نمی کو روکتا ہوا بولا۔

"آپ کو لگتا ہے آپ مجھے کھودیں گے۔ آپ مجھے کھوچکے ہیں۔" وہ طنزیہ نظریں اس پر ٹکاتی ہوئی بولی۔

یزدان ڈگمگا سا گیا تھا اس نے صوفے کی پُشت پر ہاتھ ٹکاۓ تھے۔

"جانے دیں مجھے اب ان سب سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔" وہ اس کی حالت دیکھ کر بھی نہ پگھلی تھی۔

"میں تمہیں جانے نہیں دے سکتا۔ تم میرے پاس رہو گی تو مجھے اُمید ہے تم مجھے معاف کردو گی۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ایک نۓ عزم سے بولا۔

"مجھے آزاد کردیں اس بے نام رشتے سے۔ میری زندگی کو پُرسکون کردیں۔" وہ ہمت مجتمع کرتی وہ الفاظ بھی بول گئ جو شاید وہ مر کر سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

"میرو۔" یزدان نے بےیقینی سے اس کی طرف دیکھا۔یعنی وہ اس سے آزادی چاہتی تھی۔

"آپ ایسے کیوں ریئکٹ کررہے ہیں۔ بُھول گۓ دو سال پہلے آپ ایسے ہی الفاظ بول کر مجھے توڑ کر گۓ تھے۔" وہ بھیگی آنکھوں سے چیخی تھی۔

یزدان کے کانوں میں اپنے ہی کہے لفظوں کی باز گشت ہونے لگی۔

("میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔تم اِس عورت کی بیٹی ہو جس میں سب سے زیادہ نفرت کرتا ہوں۔ تم ان کی پوتی ہوں جن سے آج کے بعد میرا کوئی رشتہ نہیں۔")

(" آج میں تم سے دستبردار ہورہا ہوں۔ کیونکہ تم ان کی بیٹی ہوں۔ تمہیں ان کے کیے کی سزا ملے گی۔")

اپنے لفظوں کی بازگشت پر اس کا دل گھبرانے لگا۔

("اگر تم چاہو تو میں تمہیں طلاق دے کر آزاد کرسکتا ہوں جس سے مرضی چاہے شادی کرنا۔")

اپنے آخری الفاظ یاد کرکے اس کا سانس گُھٹنے لگا۔

"یزدان آفندی آپ مجھے قید کرکے بھی دیکھ لیں۔ مگر زومیرہ آفندی کا جواب نہیں بدلے گا۔میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔" وہ اس کی أنکھوں میں اپنی ہری آنکھیں گاڑھتی چیلیجنگ انداز میں بولی۔

پھر اس کے سامنے سے ہٹتی سیڑھیاں چڑھتی کمرے میں بند ہوگئ۔وہ پیچھے وہ اپنے خالی ہاتھ تکتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

صارم لاشاری صبح صبح فریش سا نیچے آیا تھا۔ اسے دیکھ کر دادا جان نہال ہوگۓ۔ وہ صوفے اسے اُٹھتے اس کی طرف بڑھ گۓ۔

"میرا شیر کب آیا۔" وہ اس کی پیٹھ تھتھپاٹے ہوۓ بولے۔

"ہن! صدا کا نکما۔"حارث صاحب نے اسے دیکھ کر طنز کا تیر پھینکا تھا۔

صارم کا چہرہ اہانت سے سُرخ پڑا تھا۔ بس اسی لیے وہ گاؤں نہیں آتا تھا اس کے باپ اسے دیکھتے ہی طنزیہ گفتگو شروع کردیتے۔

"حارث" داداجان نے تنبیہ نظروں سے بیٹے  کو گُھورا تھا۔

حارث صاحب باپ کی تنبیہ پر خاموش ہوگۓ۔وہ حارث صاحب کو اگنور کرکے پھر صارم کی طرف متوجہ ہوۓ۔

رفتہ رفتہ سارے ناشتے کی میز پر جمع ہونے لگے۔ معاً سیڑھیاں اُترتے ماہا سب کو مشترکہ سلام کرتی ہوئی آگے بڑھی۔جب سامنے موجود صارم لاشاری کو دیکھ کر وہ جہاں تھی وہی تھم گئ۔ 

" آؤ ماہا بچے ۔ اِدھر آؤ یہ صارم ھے ۔ تمہارا کزن 

اور ہشام کا چھوٹا بھائی صارم لاشاری اور تمہارا دیور۔" وہ اسے حلقے میں لیے صارم کی طرف دیکھ کر بولے۔ 

صارم کو لگا وقت تھم سا گیا ہے۔ اس کا چہرہ تاریک پڑ گیا۔ قسمت کے اس بدترین مزاق پر اس کی سانسیں سینے میں اٹک رہی تھیں۔ماہا کا یوں ہشام کی منگیتر بن کر سامنے آنا اسے انگاروں پر گھسیٹ گیا۔اس سے یہ حقیقت برداشت نہیں ہورہی تھی۔

ماہا کا حال بھی کم و بیش اسی جیسا تھا۔ وہ قسمت کے اس مزاق پر ہنسے یا روۓ اسے سمجھ نہیں آیا۔ اس نے صارم کے سپید پڑھتے چہرے سے نگاہ ہٹا کر زمین پر ٹکا لیں۔

"دادا جان ! مجھے یہاں گُھٹن ہورہی ہے۔ میری تھوڑی دیر لان میں بیٹھ کر آتا ہوں۔" دادا جان نے اثبات میں سر ہلا کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ پورے ایک مہینے کے بعد یونیورسٹی آئی تھی۔

بلیک ٹاپ کے ساتھ بلیک  ہی جینز پہن رکھی تھی۔چہرے پر نفاست سے کیا گیا میک اپ اسے حسین دکھا رہا تھا۔ ہائی ہیلز کی آواز آتے جاتے لوگوں کو متوجہ کر رہا تھا۔ کچھ اُس کا دعوت دیتا نظارہ لوگوں کے متوجہ ہونے کی وجہ تھا۔ 

اس کی نظریں چاروں اور احان کو تلاش کررہی تھیں۔جو اسے کینٹین میں بیٹھا نظر آگیا۔مگر جیسے ہی قریب آئی احان کے ساتھ بیٹھے وجود کو دیکھتی اپنا جگہ جم سی گئ۔ ماتھے پر شکنوں کا جال بچھا تھا۔

احان اس وقت نشوہ کے ساتھ موجود تھا۔ نشوہ اس کے دیکھنے کے انداز پر جھنجھلا سی گئ تھی۔ وہ جہاں ہوتی تھی وہ وہی پہنچ جاتا تھا۔ کبھی اسے نوٹس دینے کے بہانے کبھی اسے پڑھانے کی آفر کرنے کے بہانے۔اس کی بولتی آنکھیں جو پیغام۔دیتی تھی جانے دل اسے قبول کرنے پر کیوں آمادہ نہ تھا۔

وہ اس کو نظر انداز کرتی نوٹس کھولے کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ جب زارا اسے تیز تیز چلتی ان کے قریب آئی۔

"ہے۔چیپ کرل تم میرے احان کے ساتھ کیا کررہی ہو۔" وہ ان کے پاس آتی بدتمیزی سے بولی۔دونوں نے بیک وقت پڑنے والے افتاد کو دیکھا۔اسے سامنے دیکھ احان کے ماتھے پر بل پڑے وہ ایک مہینہ یہاں نہیں تھی تو اسے سکون تھا۔

احان نے کوفت سے آنکھیں گُھومائی۔ 

"زبان سنبھال کر بات کرو زارا۔ یہ کیسی لینگویج استعمال کررہی ہو۔" وہ درشتی سے بولا۔

"ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔" زارا دوبدو بولی۔

نشوہ نے ان دونوں کومقابل آتا دیکھ وہاں سے جانا ضروری سمجھا۔

"بہت اہمیت رکھتی ہے احان آفندی کی زندگی میں یہ لڑکی۔ سمجھی تم۔ دُور رہو مجھ سے بھی اور اس سے بھی۔"احان کی باتوں پر زارا نے کوفت سے اسے دیکھا۔

"تمہارا معیار یہ ہے دو ٹکے کی لڑکی۔" زارا نشوہ کو کھا جانے والی نظروں کے گھورتی ہوئی بولی۔

"دو ٹکے یہ نہیں بلکہ تم ہو۔ تمہاری کوئی عزت و نفس ہے بھی یا نہیں۔ میں تمہیں بار بار جھٹک چکا ہوں مگر تم پھر اپنی بےعزتی کروانے آجاتی ہو۔ آخری بار وارن کررہا ہوں مجھے تم میں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں۔" وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

نشوہ سانس روکے اس کا اٹل انداز دیکھ رہی تھی۔

اس نے نشوہ کا ہاتھ تھاما اور اسے لیے کینٹین سے باہر نکل گیا۔

نشوہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

وہ اسے اس کی کلاس روم کے باہر چھوڑتا اس کا گال تھپتھپاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گارڈن میں بےچینی سے اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔

"کیسے ہو سکتا ہے یہ ۔ آخر کیسے؟ ماہا ہی کی کیوں یاخدا۔" یہ سوچ کر ہی اسے گُھٹن ہورہی تھی کہ ماہا اس کی بھابھی بننے والی تھی۔ وہ کیسے یہ سب برداست کریں گا۔

وہ تو اسے بُھلانے کی خاطر یہاں آیا تھا۔اور وہ یہاں اس کی ہونے والی بھابھی کی حیثیت سے موجود تھی۔

اس نے خود سے عہد کیا تھا وہ یہاں نہیں رُکے گا چلا جاۓ گا یہاں سے۔ کیونکہ اپنی آنکھوں کے سامنے وہ اسے کسی اور کا ہوتے دیکھ ہی نہیں سکتا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو تب سے بستر پر ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔ آنکھوں سے گرم سیال بہہ بہہ کر خشک ہوچکا تھا۔ جانے کیوں وہ اب اسے یہاں لایا تھا۔

اسی سے ہی بچنے کی خاطر وہ یہاں آئی تھی جب جب اُسے دیکھتی تھی اسے شدت سے اپنا نقصان یاد آنے لگتا۔

دو سال لوگوں کی کڑوی باتیں سُنی تھی جس کی وجہ صرف اور صرف یزدان تھا۔ تو کیسے وہ اس سے یوں معافی مانگنے آسکتا تھا۔ وہ اس اذیت کا اندازا بھی نہیں لگا سکتا تھا جو وہ یوں اتنی آسانی سے سب بُھلاۓ معافی مانگنے آگیا تھا۔وہ ہرگز بھی اسے معاف نہیں کرسکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کل پوری رات اس نے کانٹوں پر بسر کی تھی۔ رات بھر جاگنے کی وجہ سے اس کا جسم بخار سے پھنکنے لگا تھا۔ چہرہ حد درجہ سُرخ ہورہا تھا جو بخار کی شدت کا گواہ تھا۔ آنکھیں رات بھر جاگنے کی خمازی کررہی تھی۔

"ایک دن میں ہی یہ کیا حالت بنا لی۔" ہشام اس کے کمرے میں آتا فکر مندی سے اس کے قریب ہی بیٹھ گیا۔

"میں ٹھیک ہوں بھائی۔ بس ہلکا سا بخار ہے۔" وہ اسے تسلی دینے کی غرض سے لاپرواہی بھرے انداز میں بولا۔

"سریسلی۔ یہ تجھے ہلکا سا لگ رہا ہے۔ چہرہ دیکھ اپنا کیسے سُرخ ہوا پڑا ہے۔" وہ اس کا سُرخ چہرہ پریشانی سے دیکھتا ہوا بولا۔

صارم اس کی بات پر کچھ بول ہی نہ پایا۔

"جلدی سے فریش ہوکر نیچے آ ۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں۔" وہ حکم صادر کرتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"بھائی میں ٹھیک ہوں۔مجھے کہی نہیں جانا۔میں میڈیسن لے لوں گا۔" وہ جھنجھلاہٹ بھرے انداز میں بولا۔اس پر کثافت سی چھائی تھی وہ کہی بھی نہیں جانا چاہتا تھا۔

"جلدی سے فریش ہوکر آ۔ میں تیری کوئی بات نہیں مان رہا ۔ سمجھے۔" وہ تنبیہ کرنے والے انداز میں کہتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

صارم بیزاری سے اُٹھتے الماری میں سے جو بھی کپڑے ہاتھ لگے اُسے لیتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔

دس منٹ بعد وہ تھکا تھکا سا نیچے آیا تھا۔

"میرے چاند کو نظر لگ گئ۔"اپنے ماں کے اس انداز پر ذرا سا مسکرایا تھا۔جنہوں نے کچھ پڑھتے اس پر پھونک ماری۔ اس کی پیشانی چومی۔

"ماما ریلکس میں بالکل ٹھیک ہوں۔بس ہلکا سا بخار ہے بھائی ایسے ہی سب کو پریشان کررہے ہیں۔" وہ ماں کے گرد ہاتھ لپیٹتا تسلی دینے والے انداز میں بولا۔

"ہشام بالکل صحیح کہہ رہا ہے۔ اپنا چہرہ دیکھ کیسے سُرخ ہورہا ہے۔ ایک بار ڈاکٹر کو دکھا لے۔" اس نے دھیمے سے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔

ماہا کب سے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک اچھا انسان ہونے کے ساتھ سدتھ اچھا بیٹا بھی تھا۔اس کے انکار کو اُس نے اپنی انا کا مسئلہ نہیں بنایا تھا۔نہ ہی اسے کوئی نقصان پہنچایا تھا۔ بلکہ وہ اپنے قول کا پکا تھا وہ خاموشی سے اس کے راستے سے ہٹ گیا تھا۔مگر یہاں آکر دونوں بےبس ہوگۓ تھے یہ بات ان دونوں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھی۔ کہ ان دونوں کی ملاقات ایسے ہوگی۔

معاً صارم کی نظر صوفے پر بیٹھی ماہا پر پڑی اس کی مسکراہٹ سمٹ سی گئ۔ 

ماہا پریشانی سے اس کا سُرخ چہرہ دیکھ رہی تھی۔ 

وہ ماں کو جانے کا بولتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

ہشام اسے قریبی ہی چھوٹے سے ہسپتال میں لایا تھا۔ وہ ڈاکٹر کے کلینک میں بیٹھا تھا جب ہشام کا فون بجا وہ اس سے ایسکیوز کرتا باہر کی جانب بڑھا۔کال سُنتا جب وہ مُڑا تو سامنے والے کلینک سے فاریہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے ہمراہ کھڑی تھی۔ وہ دونوں جانے آپس میں کونسے راز و نیاز کررہی تھیں۔اسے وہ پہلے سے کمزور لگی۔ وہ ڈاکٹر کی ہدایت سُنتی اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔

وہ ڈاکٹر سے مصافحہ  کرتی جانے کے لیے مُڑی تو پہلی نظر ہے سامنے کھڑے ہشام لاشاری پر گئ۔ دونوں ہی ایک لمحے کے لیے ٹھٹک سے گۓ تھے۔مگر وہ پھر سر جھٹکتی اس کے نزدیک سے ایسے لاپرواہی کے گُزری جیسے اسے جانتی نہ ہو۔ہشام کی نظروں نے دُور تک اس کا پیچھا کیا۔

فاریہ کو یہاں دیکھ اس کا دل پریشان ہونے لگا تھا وہ یہاں کیوں تھی کیا وہ بیمار تھی۔کسی نے بھی اسے انفارم کیوں نہیں کیا تھا کہ وہ بیمار ہے۔بھلا وہ اسے کیوں بتانے لگی وہ اس سے اس قدر ناراض تھی۔ 

اس نے ساری سوچوں کو جھٹکا اگر وہ خود نہیں بتانا چاہتی تھی تو اسے بھی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھنی چاہیے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہاں تو وہ مضبوط بنتی گھر آگئ تھی مگر گھر آکر وہ بُھربُھری مٹی کی مانند بستر پر ڈھیر ہوتی چلی گئ۔

وہ اپنے دکھوں میں اس قدر مگن تھی کہ اس طرف اس کا دھیان ہی نہ گیا تھا۔ وہ کیسے اس چیز کو فراموش کرسکتی تھی۔تین دن پہلے جب اس کی طبیعت بےحد خراب ہوئی تب اس نے ڈاکٹر کو چیک کروایا۔ تو جو خبر اس کو ملی وہ اس کے لیے سوہانِ روح تھی۔ یہاں اس سے خود کا وجود ہی نہیں سنبھلتا تھا وہ کسی اور کا وجود کیسے سنبھال سکتی تھی۔ اس کی پریگننسی کو دو ماہ ہونے والے تھے مگر وہ اس سب سے انجان رہی۔

پچھلے کچھ دنوں سے اس کی حالت اس قدر خراب تھی کہ اس سے کچھ بھی کھایا پیا نہیں جارہا تھا اس کے باوجود اس کا دھیان اس طرف نہ گیا۔ 

آج بھی اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو اس نے ڈاکٹر کو چیک کروانے کا سوچا۔ ڈاکٹر نے سختی سے اسے اپنی ڈائٹ ٹھیک رکھنے اور پریشانی سے دور رہنے کا کہا تھا۔ پر وہ انہیں کیا بتاتی کہ اس کی زندگی خود ایک پریشانی تھی تو کیونکر وہ پریشانیوں سے دُور رہ سکتی تھی۔

أج ہشام کو سامنے دیکھ اس کا دل چاہا تھا کہ اُس کے سینے سے لگ کر اُسے کہہ کہ میری ہر پریشانی سمیٹ لے۔ مگر وہ یہ صرف سوچ ہی سکی۔ کیونکہ اسے اپنی عزتِ نفس بہت پیاری تھی۔ اس لیے خاموشی سے وہاں سے نکل آئی۔

کوئی نہیں تھا اس کا خیال رکھنے کو وہ اپنی طرف سے لاپرواہ سی ہوگئ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

اتفاق سے ہشام۔کے بھی وہی سبجیکٹ تھے جو فاریہ کے تھے۔ ان کے پروفیسر نے انہیں ریسرچ پروجیکٹ دیا تھا۔ انہوں نے ان کی گروپ بندی ان کے سینیئر سے کردی تھی۔ تاکہ وہ لوگ ان کی کچھ رہنمائی کرسکیں۔

فاریہ کا گروپ ہشام اور کچھ اور کلاس فیلو کے ساتھ بنا تھا۔ وہ قدرت کے اس حسین اتفاق پر چونک کر رہ گئ۔ پر اُسے کیا پتہ تھا کہ یہ اتفاق نہیں تھا بلکہ ہشام نے خود کہہ کر اس کی اور اپنی گروپنگ کروائی ہے۔

ہشام کو وہ معصوم سی لڑکی اپنی طرف اٹریکٹ کررہی تھی۔ 

ایسا اس کے ساتھ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس نے فاریہ کے بارے میں ساری معلومات نکلوائی جب اسے اندازہ ہوا کہ وہ یتیم ہے اور ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے۔

رفتہ رفتہ وہ ایک دوسرے کے قریب آنے لگے۔ فاریہ کو بھی وہ اچھا لگنے لگا تھا جو اس سے دھیمی آواز میں بات کرتا اس کے دل میں گھر کرتا چلا گیا۔ 

یہ بھی ایک عام سے دن میں سے ایک دن تھا۔ ہشام کے آخری چند دن رہ گۓ تھے۔ اُسے کسی بھی حال میں وہ لڑکی اپنی زندگی میں چاہیے تھی۔اس وقت وہ یہ بات بھی فراموش کرچکا تھا کہ ایک نازک وجود سالوں سے اس کے ساتھ جُڑا ہے۔

"مجھ سے شادی کرو گی۔" اس نے فاریہ کے ٹیبل پر موجود ہاتھ کو تھاما۔

فاریہ نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ کہاں وہ گاؤں کے سردار کا پوتا اور کہاں وہ خود ہاسٹل میں یتیمی کی زندگی گزارنے والی معمولی لڑکی۔

اس نے ساری سوچوں کو جھٹک کے اس کی طرف دیکھا۔

"آپ میرے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔نہ ہی میں آپ کی طرح امیر ہوں۔شاید آپ یہ جاننے کے بعد مجھے قبول بھی نہ کریں۔" وہ آنکھیں جُھکاتی ہوئی بولی۔

"سب جانتا ہوں تمہارے بارے میں مجھے کسی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بس تمہاری رضامندی چاہیے۔ مجھے پہلی بار کوئی لڑکی اچھی لگی ہے۔ اور وہ تم ہو۔ اب بتاؤ کیا تم مجھ سے نکاح کروں گی۔" وہ اس کی باتوں کے جواب میں بولا۔

فاریہ سُرخ چہرے کے ساتھ محض اثبات میں سر ہلایا۔

وہ گھر آکر بھی مضطرب رہا تھا۔ زارا کی حرکت پر اسے اپنے الفاظ یاد آۓ۔ اور نشوہ کی حیران صورت یاد کرکے اسے اپنی جلد بازی پر افسوس ہورہا تھا۔وہ اس معاملے میں کسی بھی جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہتا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو بھی نشوہ پر الزام لگانے کا موقع ملے۔ 

وہ تھکا سا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ جہاں شیریں بیگم اسے صوفے پر بیٹھی ہی مل گئیں۔وہ کسی گہری سوچ میں گُم تھی۔احان ان کی گود میں سر رکھتا صوفے پر لیٹ گیا۔ وہ اپنے خیالوں سے چونک کر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ پھر ایک نظر اسے دیکھ اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں چلانے لگی۔

"کیا ہوا میرا چاند اُداس کیوں ہے ؟" وہ اس کا اداس چہرہ نوٹ کرچکی تھی۔

اُسے سمجھ ہی نہ آئی وہ کیا کہے ۔ وہ محض ان کا ہاتھ پکڑے اپنی آنکھوں پر رکھ گیا۔

شیریں بیگم دھیما سا مسکرائی۔ 

"بھئ کب ملوا رہے ہو مجھے میری ہونے والی بہو سے۔" انہوں نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ پوچھا۔

ان کی بات سمجھ آتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا۔

"مام ! آپ کو کیسے پتہ۔" وہ بےیقین سی نظریں ان پر ٹکا گیا۔

"بھئ تمہاری ماں ہوں تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتی ہوئی بولیں۔

"آپ  کو صارم نے بتایا۔" وہ آنکھیں چھوٹی کیے پُر سوچ نظریں ان پر ٹکا کر بولا۔

"صارم نے بھی بتایا ہے۔ مگر میں تمہاری ماں ہوں اتنے دنوں سے تمہارا عجیب سا رویہ دیکھ رہی ہوں۔مجھے تو تبھی اندازا ہوگیا تھا کہ ضرور کوئی نہ کوئی مسئلہ ہے۔" احان نے صارم کی  حرکت پر دانت پیسے۔

"صارم کے پیٹ میں کوئی بات بچتی نہیں ہے۔ وہ میرا دوست کم باڈی گارڈ زیادہ ہے جو میری ہر خبر آپ تک پہنچاتا ہے۔ایک بار واپس آجاۓ اُس کی گردن میں اپنے ہاتھوں سے مڑوڑوں گا۔ "وہ صارم کو ذہن میں لاتا دانت کچکچا گیا۔ 

"تم اُسے کچھ نہیں کہوں گے اتنا پیارا بچہ ہے۔ ایسے مخلص لوگ آج کل کے دور میں کہاں ملتے ہیں؟ "شیریں بیگم فوراً صارم کی طرف داری میں بولی۔ 

یہ بات تو احان بھی مانتا تھا کہ اس معاملے میں وہ واقعی خوش نصیب ہے جو اُسے صارم جیسا مخلص دوست ملا تھا۔

"بھئ اب تم بات مت بدلو۔ مجھے بھی میری ہونے والی بہو سے ملنا ہے۔ کب ملوا رہے ہو؟" وہ اس کادھیان دوبارہ اسی طرف لاتی ہوئیں بولیں۔

"ماما میں نے اُسے ابھی بتایا ہی نہیں۔" وہ سنجیدہ سے چہرہ کے ساتھ بولا۔

"بھئ کب بتاؤں گے ۔ بچی کی رضامندی لے لو پھر ہی ہم اُس کے گھر رشتہ لے کر جائیں گے۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولیں۔

"میرا دل ڈرتا ہے اگر اُس نے انکار کردیا پھر۔" وہ ماں کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"اتنا پیارا میرا بیٹا ہے کوئی اسے انکار کر ہی نہیں سکتا۔" وہ دھیمے سی مسکراتی ہوئیں بولی۔

 "اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔ ہر ماں کو اپنا بچہ ایسے ہی پیارا لگتا ہے۔کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ کسی ماں کو اپنے بچوں میں خامی نظر آۓ۔" وہ منہ بنا کر بولا۔

"بالفرض وہ انکار کر بھی دیں تو میں اُس کے گھر جاکر ایک بار ضرور اُس کے پیرنٹس سے اور  اُس سے  درخواست کروں گی اپنے چاند کے لیے۔" وہ محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتی اس کی پیشانی چُوم گئیں۔

"تھینک یو ماما۔ آپ دنیا کی سب سے پیاری ماما ہیں۔" وہ ان کے گرد بازو لپیٹتا ان کے کندھوں پر لاڈ سے سر رکھ گیا۔انہوں نے مسکرا کر اس کا گال تھپتھپایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ کسی بھی حال میں اسے منا لینا چاہتی تھی۔ ایک ماہ سے زیادہ ہوچکا تھا ان دونوں کی شادی کو اور عرید کی ناراضگی کو۔ بےشک وہ اس سے ناراض تھا مگر اب تک نہ ہی اُس نے کبھی بدتمیزی کی تھی اور نہ ہی بےفضول اس پر کوئی الزام لگاۓ تھے۔ بس وہ لاتعلق سا ہوگیا تھا۔ان درمیان بات نہ ہونے کے برابر تھی۔

مگر سب سے زیادہ تو اسے اس کی لاتعلقی ہی کھل رہی تھی۔ وہ چاہتی تھی وہ اسے ڈانٹے غُصّہ کرے مگر یوں لاتعلق نہ ہو۔

اس نے الماری سے کالے رنگ کی ساڑھی نکالی۔ساڑھی بڑی ڈیسنٹ سی تھی فل سلیوز بلاؤز کے ساتھ ساڑھی کا بارڈر پر گولڈن موتیوں کا نفیس سا کام تھا۔ پھر ساڑھی کے ہم رنگ جیولری نکال کر وہ ڈریسنگ روم میں کپڑے تبدلی کرنے چلی گئ۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ ساڑھی میں ملبوس باہر آئی۔  اس کا متناسب سراپا ساڑھی میں خوب جچ رہا تھا۔ بالوں کو سٹریٹ کر کے کمر پر کُھلا چھوڑ دیا۔  پھر خوب دل لگا کر میک اپ کیا۔ جیولری پہن کر اس نے ایک نظر آئینے میں دیکھ اپنی تیاری پر نظر ڈالی۔  وہ کافی مطمئن نظر آرہی تھی۔ 

ایک نظر گھڑی پر ڈالی اس کے آنے کا ٹائم ہونے والا تھا۔ روم فریج سے کیک نکال کر میز پر سیٹ کیا۔  جس پر سوری لکھا گیا تھا۔ پھولوں کی خوشبوکو سونگھ کر اس نے بُکے بھی کیک کے ساتھ رکھ دیا۔  اب انتظار تھا تو بس عرید کا۔ مزید پندرہ منٹ گزرے تو گاڑی رُکنے کی آواز آئی۔ اس کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ کِھلی۔ کچھ کچھ جھجھک بھی محسوس ہورہی تھی۔

عرید تھکا ہارا سا تیز تیز قدم اُٹھاتا سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا پہلی نظر ہی کمرے کے درمیان سیٹ کیے میز پر پڑی۔ جس کے اوپر خوبصورت سا کیک رکھا تھا۔ کیک کے ساتھ ہی ایک خوبصورت سے بُکے پڑا تھا۔میز پر گلاب کے پھول جابجا بکھرے پڑے تھے۔ کمرے میں چلتی مدھم لائٹ ماحول کو خوابناک بنا رہی تھی۔

اس نے ایک نظر کمرے میں دوڑائی جب ازوہ اسے بیڈ کے قریب کھڑی نظر آگئ۔ بلیک ساڑھی میں ملبوس اس کا حُسن دو آتشہ لگ رہا تھا۔کمرے کی مدھم لائٹ میں بھی وہ اس کی تیاری کو بھرپور ملاحظہ کر چکا تھا۔ اسے دیکھ اس کا دل شدت سے دھڑکا تھا مگر پھر لاتعلقی کا مظاہرہ کرتے الماری کی طرف بڑھا۔الماری میں سے نائٹ ڈریس نکالتا زور سے واش روم کا دروازہ بند کرتا اندر بند ہوگیا۔

ازوہ جو تب سے سر جُھکاۓ کھڑی تھی۔دروازو بند ہونے پر جُھکا سر اُٹھایا۔اس کا یوں اگنور کرکے جانا اس کی آنکھوں میں پانی بھر گیا۔ مگر وہ بغیر ہمت ہارے اس کے باہر نکلنے کا انتظار کرنے لگی۔ 

کچھ دیر بعد وہ پولیس یونیفارم تبدیل کرتا باہر آیا۔ وہ اسے دیکھے بنا بالکُنی کی طرف جانے لگا۔ جب ازوہ ہمت مجتمع کرتی اس کی راہ میں حائل ہوئی۔

"عرید پلیز بس کریے نا۔ آپ کا ہم سے یوں لاتعلق رہنا ہم سے برداشت نہیں ہورہا۔ " وہ آنسو بھری آنکھیں اُٹھا کر اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

اس کی آنسو بھری آنکھوں میں دیکھ اس کا دل ڈوب کر اُبھرا۔وہ اتنی حسین لگ رہی تھی اس کا دل اس کے نقش نقش میں اُلجھ رہا تھا۔ پچھلے ایک ماہ سے وہ اسے اگنور کررہا تھا مگر اس کا اپنا دل بھی اس سے لاتعلق رہ ہی نہیں پاتا تھا۔اب بھی اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ہر چیز بھول کر اسے سینے سے لگا لے۔  اس کی ہیزل براؤن آنکھوں کو جھلملاتے آنسو اسے بےبس کررہے تھے۔ 

"ازوہ اس وقت میں بہت تھکا ہوا ہوں کچھ دیر ریلکس کرنا چاہتا ہوں۔ میرے راستے سے ہٹو یا چاہتی ہو کہ میں کمرے سے باہر چلا جاؤں۔" وہ بغیر اسے دیکھے منہ موڑتا ہوا بولا۔

"آپ ہمارے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔" وہ اس کے سینے سے سر ٹکاتی شدت سے روتی ہوئی بولی۔ 

وہ جہاں تھا وہی تھم گیا۔  یہاں آکے وہ بےبس ہوجاتا تھا۔ 

اس نے آنکھیں بند کرکے کھولی اور دھیرے سے اس خود سے جُدا کیا تھا۔ 

"میں آپ کا دھوکا بھولا نہیں ہوں۔  آپ پر یقین کرنا اب میرے لیے بہت مشکل امر ہے۔ " وہ دو قدم پیچھے ہٹتا اس سے دُور ہوا ۔

"جب جب یہ سوچتا ہوں وہ گھٹیا انسان آپ کا شوہر تھا دل میں آگ سی لگنے لگتی ہے۔ شاید میں یہ بات کبھی نہ بھولا سکوں۔ " وہ اس کا سجا سنورے روپ پر نظر ڈالتا کمرے سے نکلنے کے لیے قدم بڑھا گیا۔ 

"عرید میں مر جاؤں گی پلیز میرے ساتھ ایسا مت کریں۔ مجھے چھوڑ کر مت جائیں مجھے ٹوٹنے سے بچالیں۔ " وہ بےتحاشا روتی ہوئی چلائی۔

وہ کمرے سے نکل کرسیڑھیوں کی طرف بڑھا۔اس کے کانوں میں بار بار ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔ 

(عرید میں مر جاؤں گی )

عرید کے قدم آگے بڑھنے سے انکاری ہوۓ۔ وہ ایک قدم بھی مزید نہ بڑھا سکا۔اگر آج وہ اسے چھوڑ کر چلاگیا تو شاید وہ واقعی بکھر جاۓ گی۔

اس نے تیزی سے قدم واپسی کی طرف بڑھاۓ۔اس روتا بکھرتا وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔

اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا پہلی نظر ہی اُس کی ٹوٹی بکھری حالت پر پڑی۔جو خود کو گرنے سے بچانے کے لیے  صوفے کے ساتھ پُشت لگاۓ ایک ہاتھ صوفے پر رکھے لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔اگر شاید اب بھی وہ اس کی طرف قدم نہ بڑھاتا تو وہ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہوجاتی۔

عرید ایک ہی جُست میں اس تک پہنچتا اس کے بلکتے وجود کو خود میں بھینچ گیا۔ازوہ نے سر اُٹھا کر اسے دیکھا نہیں تھا مگر وہ اس کی خوشبو سے اس کے مضبوط حصار سے اسے پہچان گئ تھی۔

وہ اس کی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچے مزید شدتوں سے رونے لگی۔وہ دانت بھینچے اس کا یہ انداز ملاحظہ کررہا تھا۔ اسے خود پر غُصّہ آرہا تھا کیسے وہ اس کو اتنی دیر سزا دے سکتا تھا۔کافی دیر تک جب وہ چُپ نہ ہوئی تو عرید جھنجھلا سا گیا تھا اُسے روتے دیکھ عرید کو تکلیف ہورہی تھی۔

"ازوہ یار بس کریں نا پلیز۔میری غلطی ہے مجھے آپ سے لاتعلقی نہیں برتنی چاہیے تھی۔ میری طرف تو دیکھیں یار ۔ میں معافی مانگتا ہوں جان۔ اب تو چُپ کرجاؤ اور اپنے عرید کو معاف کردو۔" عرید نے اسے خود کے روبرو کرنا چاہا جو روتے ہوۓ نفی میں سر ہلا گئ۔

"اچھا چلیں آئیں کیک کاٹتے ہیں۔ نہیں تو آپ کی ساری محنت برباد ہوجاۓ گی۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا ہوا بولا۔ ایک بار پھر اس کا سر نفی میں ہلا تھا۔ 

" اگر میں کہوں کہ میں آپ پر کبھی دوبارہ یقین نہیں کر پاؤں گا۔" اسے پتہ تھا اب وہ ضرور اسے جھگڑے گی۔ اس نے جان بوجھ کر یہ جملہ بولا تھا تاکہ وہ اس سے لڑے ناراض ہو مگر رونا تو بند ہو۔

ازوہ نے روتے ہی اس کے سینے پر ہاتھ مارتے احتجاج کیا۔ 

"آپ بہت بُرے ہیں۔ قطرہ قطرہ ہماری سانسیں کھینچتے ہیں۔ " وہ سر اُٹھاتی خفا خفا نظروں سے بولی۔ 

"آپ کو ہم پر یقین کرنا پڑے گا سمجھے۔" وہ دھونس بھرے انداز میں بولی۔

عرید نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔

"اگر میں آج چلا جاتا واپس نہ آتا تو آپ کیا کرتی۔" وہ اس کے گرد باہوں کا حصار بناتا ہوا بولا۔

"تو میں چلی جاتی آپ کی زندگی سے۔ جس رشتے میں یقین ہی نہ ہو پھر اُسے گھسیٹنے کا کیا فائدہ۔کیونکہ شک ایک ایسا کیڑا ہے جو کسی مضبوط سے مضبوط رشتے کو بھی کھوکھلا کردیتا ہے۔پھر چاہے ہم جتنا بھی زور لگا لیں۔ اُس رشتے کی ڈور ٹوٹ کر رہتی ہے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔

عرید واقعی ہی لاجواب ہوگیا تھی۔

"ویسے ایک بات تو بتاؤ۔ اتنے آنسو لاتی کہاں سے ہو؟ پتہ ہے نا میں ان آنسو سے پگھل جاتا ہوں۔ یہ آنسو مجھے تمہاری آنکھوں میں بالکل بھی نہیں پسند۔ اسی لیے بار بار مجھے ازماتی ہو۔" وہ پلکوں پر ٹھہرے موتیوں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے چُنتا ہوا بولا۔

"جھوٹ ۔بالکل جھوٹ۔پچھلے ایک مہینے سے آپ نے ہمیں کتنا رولایا ہے۔آپ کی بے اعتنائی سہتے ہم بار بار تڑپے ہیں۔مگر آپ کو ہم پر رحم نہیں آیا۔" وہ شکوہ کناں نظریں اس پر ٹکاتی ہوئی بولی۔

"سوری۔"وہ باری باری اس کی بھیگی آنکھوں کو چومتا ہوا بولا۔ازوہ کی پلکیں شرم سے سایہ فگن ہوئی۔

"میں آپ کو سب بتانا چاہتی ہوں۔ ہماری بات سُنیے۔ میں نہیں چاہتی کسی دوسرے کی باتوں میں آکر آپ مجھ پر شک کریں۔کیونکہ آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے بےاعتباری نہیں دیکھ سکتی میں۔" وہ نظریں جُھکاتی اس کی شرٹ کے بٹنوں پر انگلی پھیرتی ہوئی بولی۔

" مجھے کچھ نہیں جاننا۔ مجھے میری ازوہ پر یقین ہے۔وہ تو بس وقتی غُصّہ تھا۔ اور اُن لوگوں نے آپ کے بارے میں جو بکواس کی تھی اُسے سُن کر ہمارا دماغ  خراب ہوگیا تھا۔ " وہ اسے اپنے ساتھ کا یقین دلاتا ہوا بولا۔

"مگر پھر بھی میں سب کچھ آپ کو بتانا چاہتی ہوں۔" وہ مزید بولنا چاہتی تھی جب عرید نے اس کے لبوں پر انگلی جما کر اُسے خاموش کروادیا۔

"شش۔۔۔ آج ہمارے درمیان کوئی دوسرا بالکل نہیں آۓ گا۔ آج بس آپ ہونگی ،میں اور میری منمانیاں۔جو آپ کو اس نازک جان پر سہنی ہونگی۔" وہ اس کے کان کے قریب جُھکتا سرگوشی کرنے والے انداز میں بولا۔

ازوہ اپنے آپ میں سمٹ کر رہ گئ۔چہرہ سُرخ قندھاری ہوتا بھاپ چھوڑنے لگا۔

عرید نے مسکراہٹ دباتے اس کا کپکپاتا وجود دیکھا۔

"چلے آئیے بھئ میری بیوی نے میرے لیے جو انتظام کیا ہے اُسے تو دیکھ لیں۔" وہ سر سے پاؤں تک اسے دیکھتا معنی خیزی سے بولا۔ازوہ نے جھنجھلاتے ہوۓ اس کے کندھے پر مُکّا جڑا۔

وہ اس کا ہاتھ تھامتا ٹیبل تک لے آیا۔ٹیبل پر پڑے کیک پر بڑے بڑے حروف میں سوری لکھا تھا۔ اسے ٹوٹ کر اس نازک جان پر پیار آیا تھا جو اسے منانے کے لیے اتنے جتن کر رہی تھی۔جس کا اظہار کرتے اِس نے ازوہ کا ماتھا شدت سے چوما تھا۔

"تھینک یو میری جان۔مجھے یہ احساس دلانے کے لیے کہ میں آپ کی زندگی میں اہم ہوں۔" وہ اسے پیچھے سے حصار میں لیتا کیک کاٹتا اسے روبرو کرتا اس کے منہ میں ڈال گیا۔

ازوہ نے جھجھکتے ہوۓ اس کی طرف کیک بڑھایا۔ جسے وہ اس کا ہاتھ تھامے کھا گیا۔

اس نے ازوہ کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا بلکہ وہ بغیر پلکیں جھپکاۓ اس کو ہی دیکھنے میں مصروف تھا۔اس نے کھینچ کر اسے اپنے حصار میں لیا تھا۔

"ویسے یہ بلیک کلر تم پر بہت سوٹ کررہا ہے جیسے بنا ہی تمہارے لیے ہو۔" وہ اس کی آنکھیں میں اپنی نیلی آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔

عرید نے اس کے گال کو ہونٹوں سے چھوا۔ پھر اس کی ٹھوڑی پر محبت بھرا لمس چھوڑا۔

"عرید پیچھے ہٹیے ہمیں چینج کرنا ہے۔" وہ اس کے کندھوں پر دباؤ ڈالتی اسے پیچھے دھکیلنا چاہ رہی تھی مگر مقابل وجود ٹس سے مس نہ ہوا۔

"کیوں چینج کرنا ہے؟ ابھی تو میں نے ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں۔ ابھی تو آپ کی تیاری کو سراہنا باقی ہے۔" وہ اس کے کان کی لُو کو چومتا ہوا بولا۔

عرید نے ایک جھٹکے میں اسے گود میں اُٹھایا اور قدم بیڈ کی جانب بڑھاۓ۔ازوہ نے اس کے سینے میں منہ چُھپایا تھا۔اسے بیڈ پر آہستہ سے اُتارتا وہ اسے اپنے حصار میں قید کرگیا۔

"عر۔۔ید" وہ اس کے حصار میں کپکپاتی ہوئی بولی۔

"جی عرید کی جان۔" وہ اس کے نقش نقش پر اپنی تحریر رقم کرتا اسے سمٹنے پر مجبور کرگیا۔

رفتہ رفتہ گزرتی رات ان کے دونوں کے پاک ملن کی گواہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گھٹنوں میں سر دیے بیٹھی تھی۔ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے اس کے حواس منجمد ہوگۓ تھے۔ کمر جیسے اکڑ کر تختہ بن چکی تھی۔مگر وہ بےحس بنی بیٹھی رہی۔معاً کوئی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

مگر اس نے سر نہیں اُٹھایا تھا۔کیونکہ وہ جانتی  تھی کہ آنے والے کون ہے۔

"میرو! میری جان کھانا کھا لو۔" یزدان خود بھی بکھرا سا کھڑا تھا۔ مگر اسے احساس تھا وہ صُبح سے بھوکی ہے۔ اس لیے وہ ہر چیز پسِ پُشت ڈال کر اس کے لیے سخت سردی میں کھانا لایا تھا۔

"میرو پلیز ! تمہاری ناراضگی مجھ سے ہے یار کھانا کھا لو۔ " وہ التجائی انداز میں ابھی بھی وہی کھڑا تھا۔ میرو نے جُھکا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ اس کی رونے کے باعث سُرخ ہوتی آنکھوں کو دیکھ تڑپ اُٹھا تھا۔ مگر بولا کچھ نہیں کیونکہ وہ اتنی سخت ناراض تھی اگر وہ اس کی بات مان کر کھانا کھا لیتی تو یہ بھی غنیمت تھی۔ 

"اگر تم میرے سامنے نہیں کھانا چاہتی تو میں کھانا رکھ کے جارہا ہوں۔ پلیز کھا لینا۔ " اس نے کھانا ٹیبل پر جماۓ قدم باہر کی جانب بڑھاۓ۔ 

"رُکیے۔ " یزدان کے جاتے قدم تھم گۓ تھے۔اس نے حیرانی بھری نظروں سے مُڑ کر اس کی جانب دیکھا۔

"آئندہ مجھے میرو کہہ کر مخاطب مت کیجئے گا۔ یہ حق صرف میرے اپنوں کا ہے۔ اور آپ مزید میرے اپنے نہیں ہیں۔اور نہ ہی کبھی ہوسکتے ہیں۔"وہ سفاکی سے اسے دیکھے بغیر بولی۔

"میرو" اس نے احتجاجی انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ جو اتنی سنگدل ہوگئ تھی۔میرو نے جیسے اس کی بات سُنی ہی نہیں تھی۔

"اب آپ جاسکتے ہیں۔" وہ بستر سے اُٹھتی منہ موڑ کر کھڑی ہوگئ۔

یزدان نے تھکی تھکی  نگاہ اس کی پُشت پر ڈالی اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔

اس کے جاتے ہی کب سے رُکے آنسو لڑیوں کی صورت بہنے لگے۔وہ سزا تو یزدان کو دے رہی تھی مگر تکلیف خود کو بھی ہورہی تھی۔اُس نے گال پر بہتے آنسوؤں کو بے دردی سے رگڑا۔پھر واش روم کی طرف بڑھتی منہ دھونے چلی گئ۔پانچ منٹ بعد وہ باہر آتی صوفے کی طرف بڑھی جہاں یزدان کچھ دیر پہلے کھانا رکھ کر گیا تھا۔ وہ صوفے پر بیٹھتی بے دلی سے کھانا زہر مار کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم لان میں رکھی کُرسی پر بیٹھا لامعنی سوچوں میں گُم تھا۔وہ واپس جانا چاہتا تھا مگر کسی نے بھی اسے جانے ہی نہ دیا۔طبیعت پر ایسی سُستی چھائی تھی کہ اس کا کچھ بھی کرنے کو دل نہ چاہ رہا تھا۔

ماہا تھوڑی دیر تازہ ہوا کھانے باہر آئی تھی۔جب اسے لان میں صارم بیٹھا نظر آیا۔ کچھ سوچتی ہوئی وہ اس کی جانب قدم بڑھا گئ۔

"صارم! کیسی طبیعت ہے اب آپ کی؟" وہ اس کے نزدیک آتی ہوئی بولی۔

صارم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

"ٹھیک ہوں۔آؤ بیٹھو نا۔" وہ مختصر جواب دیتا قریب ہی پڑی ایک کُرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔

"نہیں میں تو بس ایسے۔۔۔۔۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی  جب صارم اس کی بات کاٹتا ہوا بولا۔

"کیا اب اتنا بےاعتبار ہوں کہ تم۔دو گھڑی میرے قریب نہیں بیٹھ سکتی۔" وہ شکوہ زبان پر لاتا ہوا بولا۔

ماہا کو سمجھ نہ آئی کیا جواب دے اس لیے بس خاموشی سے اس  کے نزدیک رکھی کُرسی پر بیٹھ گئ۔

"کیسا عجیب اتفاق ہے نا۔ میں جس کی یادوں سے بھاگ کر آیا ہوں۔ نصیب نے مجھے ایک بار پھر اس کے رُوبرو لا کھڑا کیا ہے۔" وہ اس کے حسین چہرے  کو دیکھتا ہوا بولا۔ 

اس کی بات پر ماہا کے چہرے پر سایہ سا لہرایا۔

اس کا سفید پڑھتا چہرہ دیکھ کر وہ گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

"خیر چھوڑوں ان سب باتوں کو یہ بتاؤ کیا تم خوش ہو اس شادی سے۔" وہ بات بدلتا ہوا بولا۔

"میرے خوش ہونے یا نہ ہونے سے بھلا کسی کو کیا فرق پڑتا ہے۔ بس میرے گھر والے خوش ہیں تو میں خوش ہوں۔" وہ اس پر سے نظر ہٹاتی نگاہیں سامنے پھولوں پر ٹکا گئ۔

"مجھے فرق پڑتا تمہاری خوشی سے۔ بےشک تم میرے نصیب میں نہ ہو مگر جہاں بھی رہو خوش رہو۔ ہشام بھائی جیسے سخت دِکھتے ہیں ویسے وہ ہیں نہیں۔بس وہ خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں۔ دراصل وہ بابا کے نقش و قدم پر چلتے ہیں۔ اگر کبھی وہ ان کی راہوں سے ہٹتے ہیں تو پھر انہیں اُسی راستے پر لے آتے ہیں۔ مگر مجھے پورا یقین ہے تم انہیں بدل دو گی۔" وہ بمشکل مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتا ہوا بولا۔ ورنہ یہ اس کا دل ہی جانتا تھا کہ ماہا کا نام کسی اور سے جوڑ کے اسے کسی اور کے ساتھ تصّوُر کرکے اس کا سانس گُھٹ رہا تھا۔

"پتہ نہیں۔ بس میں یہ چاہتی ہوں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا آۓ جو مجھے سمجھے۔ صرف سُکھ میں نہیں بلکہ دُکھ میں بھی ساتھ کھڑا ہو۔" وہ جانے کن سوچوں میں کھوئی کھوئی بول رہی تھی۔

"ان شاء اللّہ ! ایسا ہی ہوگا۔ تمہاری ساری دُعائیں قبول ہونگی۔" وہ دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔

"میں چلتی ہوں۔تم انجواۓ کرو۔" وہ اس کے قریب سے اُٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئ۔

صارم ایک بار پھر اکیلا رہ گیا۔یہ تنہائی تو ساری عُمر اب اس کا نصیب تھی۔

رات کا ناجانے کونسا پہر تھا۔ وہ شام کو کھانا کھانے کے بعد بغیر نیند کی گولیاں کھاۓ ایسے سوئی جیسے بُرسوں بعد پُرسکون نیند آئی ہو۔اپنی کیفیت میں اس نے یہ بھی نہ نوٹ کیا تھا کہ اسے سونے کے لیے نیند کی گولیاں نہیں کھانی پڑی ۔ شاید کہی نا کہی اس کا دل یزدان کے لوٹ آنے پرمطمئن تھا۔  مگر اس کی دوسری شادی کی پھانس دل میں ایسی کُھبی تھی کہ وہ اور کچھ دیکھ ہی نہ پارہی تھی۔ وہ چاہ کر بھی اُس کو معاف نہیں کرپارہی تھی۔

وہ ہر چیز سے بے نیاز گہری نیند میں گُم تھی۔ جب کوئی دروازہ کھول کے اندر آیا تھا۔اس نے نہایت احتیاط کے ساتھ دروازہ بند کرکے قدم اس کی جانب بڑھاۓ۔وہ اس کے نزدیک آکر رُکتا بیڈ کے پاس ہی گھٹنوں کے پل بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں کا مرکز اس سے لاتعلقی برتے وہ سویا ہوا وجود تھا۔کمرے میں جلتے مدھن بلب کی روشنی میں اس کا نازک وجود نظر آرہا تھا۔

"ایک بار معاف کردوں نا میری جان۔میں جانتا ہوں میری غلطی ہے جو میں نے اپنی میرو کے ساتھ غلط کیا۔ مگر میری میرو تو بہت نرم دل تھی۔ وہ ایسی سفاک کیسے ہوگئ۔" یزدان نے میرو کا ہاتھ تھامتے ہونٹوں سے لگایا۔

"شاید تمہیں لگ رہا ہو یزدان آفندی تمہیں قید کررہا ہے مگر ایسا نہیں ہے میری جان۔ میں تو بس تمہیں اپنے آس پاس دیکھنا چاہتا ہوں۔تمہاری زندگی میں ڈھیروں رنگ بکھیرنا چاہتا ہوں۔بس ایک بار میرے ان ہاتھوں کو تھام لو۔میں تمہاری ساری رنجشیں،سارے دُکھ دُور کردوں گا۔" وہ جانے کتنی دیر بیٹھا اس سے راز و نیاز کرتا رہا۔جس میں زیادہ الفاظ معافی کے ہی تھے۔

پھر وہ جیسے آیا تھا ویسے ہی اُٹھتا نیچے کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبُح چار بجے اس کی آنکھ پیاس کی شدت سے کُھلی۔اس نے سائیڈ ٹیبل پر دیکھا جہاں سِرے سے پانی موجود ہی نہ تھا۔وہ جب سے یہاں آئی تھی وہ ایک بار بھی باہر نہ گئ تھی۔پانی اُس نے اُسی وقت پیا تھا جب وہ اسے کھانا دے کر گیا تھا۔ساری سوچوں کو جھٹکتی وہ بستر سے اُترتی نیچے کی جانب بڑھ گئ۔سیڑھیاں اُترتے نیچے لاؤنج میں آکر چاروں اور نظر دوڑائی۔جہاں وہ ایک کونے میں جاۓ نماز بچھاۓ تہجت کی نماز پڑھنے میں مصروف تھا۔اس کا چہرہ آنسو سے تر تھا۔میرو کی نگاہیں اِس منظر پر جم کے رہ گئ۔اس کی دل کی حالت عجیب ہونے لگی۔ وہ اتنا گِڑگِڑا کے خدا سے کیا مانگ رہا تھا۔ فی الحال وہ یہ بھی بھول گئ کہ وہ کیا لینے آئی ہے۔

وہ سلام پھیرتا دُعا کے لیے ہاتھ اُٹھا چکا مگر میرو کی پوزیشن میں کوئی فرق نہ آیا وہ ویسے ہی ٹکٹکی باندھتے اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔وہ دُعا مانگتا اُٹھ کھڑا ہوا۔ میری کی محویت ٹوٹی۔اس سے پہلے کے وہ واپس جاتی یزدان کی نظر پڑ چکی تھی۔

"کیا ہوا میرو؟ کچھ چاہیے تھا۔" وہ جاۓ نماز سمیٹتا سائیڈ پر رکھتا اس کی طرف قدم بڑھاتا ہوا بولا۔

"کمرے میں پانی نہیں ہے مجھے پیاس لگی ہے۔" وہ دھیمی سی آواز میں بولی دل کی حالت عجیب سی ہورہی تھی۔

"سوری یار مجھے یاد ہی نہیں رہا تمہارے کمرے میں پانی رکھنے کا۔" وہ اوپن کچن کی طرف بڑھتا جگ میں پانی بھرتا اسے تھما گیا۔جسے میرو نے فوراً  تھام لیا۔

وہ جانے اس کی چہرے پر کیا تلاش کررہی تھی۔

"آپ نے دُعا میں کیا مانگا؟" وہ اس پُرسکون چہرہ دیکھ کر بولی۔

وہ یہ پوچھنا نہیں چاہتی تھی مگر جانے کیسے پوچھ بیٹھی۔

"میرے پاس سب کچھ ہے مگر سب سے اہم چیز تو میں نے گنوا دی۔"وہ ایک قدم اس کے نزدیک آتا ہوا بولا۔

وہ لحظہ بھر خاموش ہوا۔ پھر اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر بولا۔

"مجھے میری زندگی کا اثاثہ ، میرا سکون میری میرو واپس چاہیے بس وہی مانگ رہا تھا۔مجھے یقین نے میرا رب میری فریاد ضُرور سُنے گا۔" یزدان نے آگے بڑھ کر اس کا ماتھا شدت سے چُوما تھا۔

وہ اپنی جگہ فریز ہوکر رہ گئ۔ اس نے فریاد ہی اُس رب سے لگائی تھی جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔وہ کیسے اس کی فریاد قبول نہ کرتا۔یکدم ہی میرو کا دل گھبرانے لگا۔

اس کا سپید پڑھتا چہرہ دیکھ یزدان گھبرا سا گیا۔

"میرو کیا ہوا ؟ " وہ اس کے ہاتھ سے جگ تھامتا پانی گلاس میں انڈیلتا جگ ٹیبل پر رکھ کے گلاس اس کے منہ کو لگا چُکا تھا۔جسے میرو نے تھام کے ایک ہی سانس میں اندر انڈیل لیا۔

پھرمزید وہاں ایک منٹ رُکے بغیر اپے دل کی حالت پر گھبراتی اوپر رُوم کی جانب بڑھ گئ۔

یزدان اس کے عجیب و غریب روّیے کو پُرسوچ نظروں سے دیکھ کے رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صُبح کا سویرا ہر سُو پھیلنے لگا تھا۔اس نے خود پر بوجھ محسوس کر آنکھیں کھولیں تو پہلی ہی نظر اپنے سینے پر سر رکھ کے سوتی اپنی متاعِ جان پر پڑی۔اس نے احتیاط سے ازوہ کا سر تکیے پر مُنتقل کیا۔پھر اس پر سایہ فگن ہوتا اس کا ماتھا نرمی سے چُوم گیا۔مگر وہ ہلی بھی نہیں۔اب کے عرید نے شدت سے اس کے گال پر ہونٹ ٹکاۓ وہ ذرا سا کسمسا کر پھر سو گئ۔ اس کی مونچھوں کی چُھبن محسوس کرتے ازوہ ہڑبڑا کا اُٹھی۔ مگر اس کی حرکت پر چہرہ سُرخ اناری ہوا رات کا ایک ایک لمحہ یاد آیا تو اس نے عرید کے سینے پر دباؤ ڈال کر اسے  خُود سے دُور کیا۔ 

عرید اس سے دُور ہوتا بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔اسے بھی کھینچ کر اُٹھاتے اپنے سینے سے لگایا۔

"زندگی کی حسین صُبح مبارک ہو جان۔" وہ اس کی کنپٹی کو ہونٹوں سے چھوتا ہوا بولا۔

"عرید آپ نے رات کو میری بات نہیں سُنی اب آپ کو سُننی پڑے گی۔" وہ اس کے روبرو ہوتی ہوئی بولی۔

"اوکے بولے ۔ اب میں نہیں بولوں گا۔آپ کی ساری بات سُنوں گا۔" وہ اس کا گال سہلاتا ہوا بولا۔

"میں آپ کو اپنے ماضی کے بارے میں سب بتانا چاہتی ہوں۔" اپنے ماضی کا ذکر کرتے اس کی آنکھیں جھلملا سی گئ تھیں۔

"مگر ازوہ ! مجھے آپ کے ماضی کے بارے میں کچھ نہیں جاننا۔" وہ اب بھی اپنی رات والی بات پر قائم تھا۔

"پلیز عرید۔" ازوہ نے اس کے ہونٹوں پر اپنا ہاتھ جمایا۔

"اوکے بولیے۔" وہ اس کی وہی ہتھیلی چومتے اپنے ہاتھوں میں تھام گیا۔

پھر وہ ایک ایک بات اُسے بتاتی چلی گئ۔زبیر سے شادی پھر اُس کے مکروہ عزائم سے بچ کر بھاگنا۔پھر اپنے باپ اور بھائی کی موت کا بتاتے وہ آبدیدہ سی ہوگی۔ پھر اپنا گھر چھوڑنا اور یہاں تک پہنچنے کا سفر کتنا اذیت ناک تھا۔ 

"میں نے سب نقصان برداشت کرلیے عرید مگر میرے بابا اور بھائی کا جانا شاید میں ساری زندگی نہ برداشت کرسکوں۔ " وہ ہچکیوں کے درمیان روتے ہوۓ بولی۔ اس کا ماضی اتنا درد ناک تھا اگر اسے ذرا بھی اندازہ ہوتا تو وہ اس کی لاکھ منتوں کے بعد بھی اسے بتانے نہ دیتا۔ اس نے کھینچ کر اسے شدت سے خود میں بھینچا تھا۔ 

"میں ہوں نا میری جان۔ کسی کو بھی تمہارے قریب تک نہیں آنے دوں گا وعدہ ہے میرا۔  ہر پریشانی کو تم تک آنے سے پہلے عرید آفندی کا سامنا کرنا پڑے گا  کیونکہ عرید آفندی تمہاری طرف آنے والی تکلیفوں ، مشکلوں  اور پریشانیوں کے درمیان دیوار کی طرح حائل رہے گا۔” وہ بار بار اس کا ماتھا چومتا اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا تھا۔ وہ سب کچھ اُسے بتا کر ہلکی پُلکی سی ہوگئ تھی۔  

اُس زبیر کو سوچ سوچ کے اس کی رگیں تن رہی تھی۔ وہ بزدل انسان ، انسان کہلانے کے بھی لائق نہ تھا۔ زبیر ازوہ کی پاپا کی موت کے بعد جیل سے چھوٹ گیا تھا یعنی اسے اپنے کیے کی سزا تک نہیں ملی۔  اس کی لالچی طبیعت کے باعث ایک ہنستا مسکراتا خاندان برباد ہوگیا تھا۔ اس نے سوچ لیا وہ زبیر اور کالی دونوں کو نہیں چھوڑے گا۔  انہوں نے اس کی ازوہ کو تکلیف پہنچائی تھی۔ اب ایک ایک کو حساب چُکانا تھا۔

وہ اسے سینے سے لگاۓ ان سب کو انجام تک پہنچانے  ۔ کا سوچ چُکا تھا۔ 

کافی دیر بعد اِس نے سر اُٹھاکر عرید کی طرف دیکھا تھا۔ عرید نے محبت اس کی آنکھوں سے بہتے موتی اپنی پوروں پر چُنے۔

"بس کریں اپنی آنکھوں پر ظُلم کیوں کررہی ہیں۔" وہ اس کی آنکھوں پر باری باری ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

"عرید بےحد شکریہ میری زندگی میں آنے کے لیے۔میری ہمیشہ سے خواہش رہی تھی کہ میرا شوہر میرے پاپا کی طرح اس ملک کا محافظ ہو اور دیکھیے میری خواہش پوری ہوگئ۔  آپ بالکل ہمارے پاپا جیسے ہیں بہادر اور غلط کے خلاف آواز اُٹھانے والے۔ " وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔ 

وہ اپنے رب کی کیسے شُکر گزار نہ ہوتی جس نے بن مانگے کی اتنا پیارا شخص اس کی زندگی میں شامل کردیا ہے۔ 

"ایک بات تو بتائیں عرید۔ " وہ اس کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔ 

عرید نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ 

"کیا جب آپ نے مجھے پہلی بار دیکھا تو آپ مجھے پہچان گۓ تھے کہ نہیں۔ " وہ پُرتجسُس نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکا کر بولی۔

"میں سمجھا نہیں۔" اس کی آنکھوں میں اُلجھن تھی۔

"کیا آپ کو واقعی یاد نہیں ہم دونوں پہلے بھی مل چُکے ہیں۔" وہ اب دھیما سا مسکرا رہی تھی۔

"کب۔ مجھے ایسا کوئی لمحہ یاد نہیں آرہا جب میں آپ سے ملا ہوں۔" وہ ابھی بھی اُسی انداز میں بولا۔

"میں سمجھ گیا۔ میں ضرور آپ کے خوابوں میں آتا ہونگا۔ اور پھر تم مجھ سے محبت کر بیٹھی۔  مگر جب تم نے مجھے سامنے دیکھا تو یقین نہ آیا۔  اور جب میں نے شادی کا پرپوزل رکھا آپ ایسے ہی جھوٹا موٹا دکھا رہی تھی کہ آپ اس رشتے پر راضی نہیں ورنہ آپ کے دل میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ " وہ مسکراہٹ دباتا اس کا حیرانگی کے باعث کُھلا منہ دیکھ کر بولا۔ 

"عر۔ ۔ید۔ " اس کی بات سمجھ آنے پر وہ اس کے کندھے پر تھپڑ مارتی ہوئی بولی۔ 

عرید کا زور دار قہقہہ کمرے میں گونجا۔ رفتہ رفتہ ازوہ کی ہنسی بھی اس میں شامل ہوتی جلی گئ۔

"خوش فہمی ہے آپ کی ۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔" وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔

"میں جب زبیر سے بچ کر بھاگی تھی تب راستے میں آپ نے میری مدد کی تھی۔ آپ کو لگا شاید میں شادی سے بھاگ کر آئی ہوں۔اس لیے آپ نے مجھے اپنے مفید مشوروں سے بھی نوازا۔ مگر آپ جانتے ہیں مجھے اُس وقت آپ کی کوئی بھی بات بُری نہیں لگی تھی۔ کیونکہ میرے لیے تو آپ میرے محافظ تھے۔ کیونکہ اتنی رات میں بیچ سڑک پر رہنا خطرے سے خالی تھوڑی تھا۔آپ کو بتا محبت تو مجھے آپ سے بعد میں ہوئی بلکہ بہت پہلے سے آپ کے لیے اس دل میں ڈھیر ساری عزت ہے۔ اور آپ واقعی اس کے حقدار ہیں۔ میں ساری عُمر آپ کی مشکُور رہوں گی۔" وہ اس کی مزید نزدیک آتی اس کے گال پر ہاتھ ٹکا کر بولی۔

" ہہمم! آپ میرا شکریہ ادا کرسکتی ہیں۔ میں نے آپ کی اتنی مدد جو کی ہے۔" وہ اس کے اداس چہرہ دیکھ اس خود سے لگاتا شرارت سے بولا۔

ازوہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔

"زیادہ کچھ نہیں بس ایک کِس۔" وہ چہرے پر پُرشوخ نظریں گاڑھتا ہوا بولا۔

ازوہ نے اس کے سینے پر دباؤ ڈالا اور اسے پیچھے دھکیلتی واش روم میں بھاگ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے آج اپنے دل کی بات نشوہ کو بتانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ جانے وہ کیسا ریئکشن دے۔ یہ سوچ سوچ کر دل بھی گھبرا رہا تھا۔

وہ نشوہ کی کلاس کے باہر کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد وہ کمرے سے باہر آئی۔احان جانتا تھا اس کا یہ پیریڈ فری ہوتا ہے۔ 

"نشوہ ! مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ " وہ اسے آگے کی طرف بڑھتا دیکھ اس کے پیچھے آیا۔ 

نشوہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی کل والی زارا کے سامنے کہی بات نہیں بُھولی تھی۔ 

"کیا تم میرے ساتھ کچھ دیر باہر چلو گی۔ بہت ضروری بات کرنی ہے۔" وہ اُمید بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولا۔

"یونیورسٹی سے باہر۔۔" وہ جھجھکتی ہوئی بولی۔

"ہاں بس تھوڑی دیر کے لیے پلیز۔" وہ التجائیہ انداز میں بولا۔

"میں اکیلی کیسے۔مجھے ٹھیک نہیں لگ رہا۔" وہ دل میں آیا خدشہ زبان پر لے آئی۔

"یار بس تھوڑی دیر کی بات ہے پلیز۔" وہ ہر حال میں اسے ساتھ لیکر جانا چاہتا تھا۔

"اوکے۔" وہ بےشمار خدشوں کے باوجود ہاں میں سر ہلا گئ۔

وہ سرشار سا ہوتا اسے لیے یونیورسٹی سے باہر کی طرف بڑھ گیا۔

وہ اس کے ساتھ آتو گئ تھی مگر دل گھبرا بھی رہا تھا۔وہ اس کے ساتھ جھجھکتی ہوئی اس کی گاڑی میں بیٹھ چُکی تھی۔گاڑی اپنے سفر پر رواں دواں تھی۔ تقریبا بیس منٹ بعد گاڑی ایک خوبصورت سے اوپن ریسٹورنٹ کے سامنے رُکی جو شاید رات کے وقت کُھلتا تھا اس وقت سُنسان سا تھا۔

وہ احان کے ایک دوست کا ریسٹورنٹ تھا جو اس کے ایک بار کہنے پر سب انتظام کروا چکا تھا۔

نشوہ نے اس کے ہمراہ اندر قدم رکھا جو نہایت خوبصورتی  سے پھولوں اور سفید پردوں  سے سجا ہوا تھا۔نشوہ نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا۔جو اسے لیے ایک ٹیبل کی طرف آگیا۔ کُرسی گھسیٹ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

وہ دونوں اب ایک دوسرے کے آمنے سامنے موجود تھے۔ نشوہ کا دل بےتحاشا دھڑک رہا تھا اسے کچھ کچھ معاملات کا اندازہ ہوچکا تھا۔اس کا دل کر رہا تھا اس کی بولتی آنکھوں سے کہی فرار پالے۔

"نشوہ ! تم جانتی ہو جب میں تم سے پہلی بار ملا تھا تم مجھے بالکل اچھی نہیں لگی تھی۔ بےتحاشا بولتی سب سے لڑتی جھگڑتی۔ مگر جب پہلی بار گراؤنڈ میں پیٹھے کسی بات پر روتے ہوۓ دیکھا۔ تو جانتی ہو میرا دل کیا کیا تھا کہ جو لڑکے تمہاری طرف متوجہ ہورہے ہیں اُن سب کا منہ توڑ دُوں یا تمہیں وہاں سے غائب کردوں۔" وہ اپنی بات مکمل کرتا لحظہ بھر رُکا۔

نشوہ اپنی سانسیں روکے اس کی طرف متوجہ تھی۔

جب وہ ایک بار پھر سے بولنا شروع ہوا۔

"اور پھر جب تمہیں ویلکم پارٹی پر پارکنگ میں دیکھا تو مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ جتنا خود کو بہادر دکھانے کی کوشش کرتی ہو اتنی تم ہو نہیں بلکہ تم اتنی معصوم ہو۔پھر رفتہ تمہاری ہر بات دل میں گھر کرتی گئ۔" وہ بات کے اختتام پر اس کا ہاتھ تھام گیا۔

نشوہ نے گھبرا کر ہاتھ چھوڑوانا چاہا جو اس کی مضبوط گرفت میں قید تھا۔وہ کرسی سے اُٹھتا اس کے رُوبرو آتا اس کے نزدیک گُھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔

جیب میں سے ایک خوبصورت سی انگھوٹھی اس کے سامنے کرگیا۔

"مس پٹاخہ کیا تم مسز بدتمیز بننا پسند کرو گی۔" وہ سوالیہ نظریں اس پر ٹکاۓ بیٹھا تھا۔ شاید ہی ایسا عجیب و غریب پرپوزل کسی نے دیا ہو۔

"کچھ تو بولو یار۔" وہ اسے منہ سیے دیکھ کر بول اُٹھا۔

"میں اپنے گھر والوں کے بغیر کیسے۔۔۔۔" اُسے سمجھ نہ آئی اپنی بات اس تک کیسے پہنچاۓ۔

احان اس کی بات پر دھیما سا مسکرایا تھا۔

"یار تم تو ہاں کردو تمہارے سارے گھر والوں کو منا لوں گا۔" وہ اس کی بات کے جواب میں بولا۔

"اگر میرے گھر والوں کی طرف سے ہاں ہوگی تو پھر میری طرف سے بھی اقرار ہوگا۔" وہ جیسے سارا قصّہ پل میں سمیٹ گئ۔

احان اُٹھ کھڑا ہوا۔

"یہ کیسا اقرار ہوا بندہ سیدھا سا ہاں بھی تو بول سکتا ہے۔" وہ اس کی بات پر منہ بنا کر رہ گیا۔

"اچھا اب یہ انگوٹھی تو پہن لو۔" وہ دانت کچکچا کر بولا۔

"میں اکیلے میں بالکل بھی نہیں پہنوں گی بلکہ جب تمہیں سب کی طرف سے رضا مندی مل جاۓ گی تو اپنے گھر والوں کی موجودگی میں پہنوں گی۔" اس کا اطمینان قابلِ دید تھا۔

"اب مجھے گھورنا بند کرو اور یونیورسٹی واپس چھوڑ کر آؤں۔" وہ لاپرواہی سے کہتی باہر کی طرف بڑھ گئ۔

احان نے اس کی پیٹھ کو زبردست گھوری سے نوازا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے وہ ہسپتال سے آیا تھا مضطرب ہی تھا فاریہ کو وہاں دیکھ کر اس کی دل مچل رہا تھا ایک بار اُسے دیکھنے کو۔ اس کی طبیعت خراب تھی مگر اسے بتایا بھی نہ گیا جتنا بھی وہ خود کو بہلا لیتا مگر یہ اٹل حقیقت تھی کہ وہ لڑکی پہلے دن سے اس کی دل میں بڑی شان سے براجمان تھی۔ 

وہ جو کسی لڑکی کو منہ لگانا گوارہ نہیں کرتا تھا ایک عام سی لڑکی پر دل ہار بیٹھا تھا۔ اپنی دل کی سنتے ہوۓ تو اس نے فاریہ کو اپنے نکاح میں لیا تھا۔آج بھی ماضی میں فاریہ کے ساتھ گزارا ایک ایک لمحہ اسے حفظ تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

فاریہ کی طرف سے رضامندی ملتے ہی وہ بغیر کسی دیری کے اسے اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا تھا۔اس کی عزت پر کوئی حرف نہ آۓ اس لیے وہ اس کی ہاسٹل کی وارڈن سے بھی اس سلسلے میں بات کرچکا تھا۔ جن کو فاریہ کی لیے خوشی ہوئی تھی۔ فاریہ کی طرف سے سارے انتظام انہوں نے خود کیے تھے۔ اس طرح بغیر کسی رکاوٹ کے وہ اس کی زندگی میں لکھ دی گئ تھی۔

وہ اس وقت سفید شرارے میں ملبوس تھی جو ہشام نے اسے لیکر دیا تھا۔ سارے مہمان آہستہ آہستہ کرکے فلیٹ سے جا چُکے تھے۔ یہ فلیٹ ہشام کے دوست کا تھا جسے وہ ایک دن کے لیے اس کی چابی لایا تھا۔

وہ سب کو رُخصت کرکے اس کی طرف آیا تھا۔ جو سر جُھکاۓ بیٹھی اپنے ہاتھوں کو گُھور رہی تھی۔ہشام نے اس کے قریب بیٹھتے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ اس کے سجے سنورے رُوپ پر ایک بھرپور نظر ڈالی تھی۔

اس نے ماتھے کو محبت سے چُوما تھا۔

"نکاح مبارک فری۔" وہ اس کی ٹھوڑی پکڑ کر چہرہ اوپر اُٹھاتا ہوا بولا۔

"تم کچھ نہیں کہوں گی۔"وہ اسے ویسے  ہی خاموش دیکھ کر بولا۔

" میں بس اتنا ہی کہوں گی۔ کہ مجھے بےشمار دولت ، گاڑی ، بنگلہ نہیں چاہیے بس آپ کا ساتھ چاہیے ساری زندگی کے لیے۔" وہ جُھکی نظریں ذرا سی ذرا اُٹھا کر بولی۔

اس کی بات پر ہشام نے اس کے ہاتھوں پر بوسہ دیا تھا۔

"میں وعدہ کرتا ہوا پوری کوشش کروں گا۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔

"کپڑے بدل لو تھک گئ ہوگی۔" وہ اس کی تھکن کے خیال سے بولا۔

وہ اسے لیتے ہوۓ اندر کمرے کی جانب بڑھ گیا۔وہ ڈریسنگ کے سامنے اسے بیٹھاۓ اس کے ڈوپٹے پر لگی پن ہٹانے لگا۔ڈوپٹے کے پنوں سے آزاد کرکے وہ صوفے پر ڈال چکا تھا۔فاریہ اس کی حرکت پر سُرخ انگارہ ہوئی۔

اس کے سُرخ چہرے کو دیکھ ہشام نے اس کا ماتھا چوما۔

الماری میں سے ایک آرام دہ سوٹ جو وہ اسی کے لیے لیکر آیا تھا اس کی طرف بڑھا گیا۔ فاریہ نے جھجھکتے ہوۓ تھام لیا۔

کچھ دیر بعد وہ کپڑے بدل کر آرام دہ سوٹ میں ملبوس فریش فریش سے واپس آئی۔ہشام بھی دوسرے روم سے فریش ہوکر کپڑے تبدیل کرچکا تھا۔اب وہ بستر پر لیٹا اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگا۔وہ باہر مگر جھجھک کر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھی۔ ہشام نے ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔وہ سُست قدموں سے چلتی اس کی طرف آتی اس کا ہاتھ تھام چُکی تھی۔

وہ اسے اپنے حصار میں لیے بستر پر براجمان ہوچکا تھا۔

"سب سے پہلے تمہاری ان خوبصورت آنکھوں نے مجھ پر جادو کیا تھا۔" وہ اس کی آنکھوں پر باری باری لب رکھتا ہوا ہوا بولا۔

وہ اس کے لمس پر آنکھیں بند کر گئ۔

"سوجاؤ۔ تمہاری پڑھائی مکمل ہونے تک تمہارا انتظار کرسکتا ہوں۔" وہ اسکا گال چومتا آنکھیں موند چکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کے نکاح کو پندرہ دن سے زیادہ گُزر چکے تھے۔ اس دوران وہ باقاعدگی سے اس سے ملنے جاتا تھا۔ وہ فاریہ کی ایک تصویر موبائل پر کھولے اس کے ایک ایک نقش کو نہارنے میں مصروف تھا۔  وہ لڑکی رفتہ رفتہ اسے بدل رہی تھی۔ مگر اب تک اس نے کُھل کر اپنی محبت کا اقرار نہیں کیا تھا۔ اب  بھی وہ تصویر کو دیکھنے میں اس قدر مصروف تھا کہ اسے اپنے باپ کے آنے کا اندازہ بھی نہ ہوسکا۔ حارث صاحب نے اس کے موبائل پر موجود کسی لڑکی کی تصویر کو گھورا۔

"بہت خوب۔یعنی ہشام لاشاری سارے ضروری کام چھوڑ ایک لڑکی کی تصویر کو نہارنے میں مصروف ہے۔  بہت جلد اس لڑکی کی غُلامی بھی شروع کردینا۔  کیا فائدہ تمہیں بچپن سے سمجھانے کا کہ عورت ذات دل میں رکھنے کے لیے نہیں بلکہ حُکمرانی کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔  جتنا تم اُس کو اہمیت دو اُتنا ہی وہ تمہارے سر کو آتی ہے۔  اسی ڈھیل کا فائدہ اُٹھا کر جلد بےوفائی بھی کرجاتی ہے۔ " وہ سخت نظروں سے اسے گھورتے ہوۓ بولے۔ 

"سوری ڈیڈ۔ " وہ ان کی باتوں پر کچھ کہہ ہی نہ سکا۔ 

"ہہمم ! اچھی بات ہے اور اس لڑکی سے دُور رہو۔ اگر تم۔بھول گۓ ہو تو یاد کروا دوں تمہاری ایک عدد منگیتر بھی موجود ہے۔ اس لیے اپنی حدود میں رہو۔" وہ اسے اچھے سے تنبیہ کرتے ہوۓ بولتے کمرے سے باہر نکل گۓ۔

عالم آفندی اور یوسف آفندی دونوں بھائیوں میں مثالی محبت تھی۔دونوں ایک دوسرے پر جان وارتے تھے۔عالم آفندی کے تین بیٹے شہیر ،کبیر اور شاہ ویز تھے جبکہ یوسف  اور روبینہ کی محض دو بیٹیاں تھی۔شیریں اور ماہ نور۔

شہیر کی پسند پر شیریں کو ان سے منسوب کردیا گیا۔ شیریں سُلجھے ہوۓ مزاج کی لڑکی تھی اس کے برعکس ماہ نور شوخ چنچل طبیعت کی مالک تھی۔زندگی بہت ہی پُرسکون تھی۔ جب روبینہ بیگم اپنی بہن کی موت کے بعد اُن کے دونوں بچوں عائشہ اور حماد کو اپنے ہمراہ لے آئی۔اُن کا باپ اچھی طبیعت کا مالک نہیں تھا۔ ان کی بہن نے سسک سسک کر زندگی گُزاری تھی روبینہ بیگم نے بہت بار انہیں علیحدگی کا مشورہ دیا تھا مگر اُن کی کہنا تھا یہ عذاب انہوں نے خود اپنے گلے ڈالا ہے وہ ساری زندگی خود کو سزا دینا چاہتی تھی۔  انہوں نے اپنے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی۔ شادی کے بعد انہہیں اچھے سے اُس انسان کی خصلت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ 

اس طرح ان کے دونوں بچے روبینہ بیگم اپنے پاس لے آئیں تھی کیونکہ اُن کے باپ کو اُن سے بھی کوئی لگاؤ نہیں تھا انہیں پیسہ چاہیے تھا جو اُنہیں مل چکا تھا۔ 

ان کی زندگی میں بھونچال تو تب آیا جب عائشہ کی پسندیدگی شہیر کی طرف بڑھنے لگی۔جو ناجانے کتنی زندگیوں کو تباہ کرنے والی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہیر اور شیریں کی منگنی کو پانچ سال ہونے والے تھے۔شہیر نے یوسف کے گھر میں قدم رکھا۔ جب پہلی ہی نظر صوفے پر بیٹھی شیریں پر پڑی ان کے ہونٹوں کو مسکان نے چھوا۔ 

وہ قدم بہ قدم چلتے اس کے نزدیک آگۓ۔ جو رجسٹر کھولے کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ وہ اِن کا آنا نہ نوٹ کرسکی۔ 

"ہے پریٹی گرل ! کیا کررہی ہو؟  " وہ بالکل ان کے قریب جُھک کر بولے۔  وہ اپنی جگہ سٹپٹا کر رہ گئ۔ 

"کیا کرتے ہیں شہیر ہمیں ڈرا کر رکھ دیا۔ " وہ جُھکی پلکوں سمیت بولتی ان کے دل میں اُتر رہی تھی۔ 

"تم سے بات کرنے آیا ہوں۔ " وہ اس کے جُھکے سر کو دیکھتے اصل مُدعے کی طرف آۓ۔ 

شیریں نے جُھکا سر اُٹھا کر ان کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ 

"بھئ اب تم اچھی خاصی بڑی ہوچکی ہو۔ اب میں اور انتظار نہیں کرسکتا اس لیے بابا جان سے ہماری شادی کی بات کرنے والا ہوں۔" وہ انہیں اوپر سے نیچے تک دیکھتے معنی خیزی سے بولے۔

شیریں نے لجا کر ہاتھ میں پکڑا رجسٹر ان کے کندھے پر مارا۔

"کتنے بےشرم ہیں آپ ؟" وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"شکریہ مائی لیڈی۔ یہ اعزاز بخشنے کے لیے۔" وہ سر کو جُھکا کر بولے۔

"اوکے چچی سے مل کر آتا ہوں۔" انہوں نے کھڑے ہوتے فلائنگ کس ان کی جانب اُچھالی۔

شیریں نے سٹپٹا کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں کوئی اردگرد موجود تو نہیں۔

شہیر ان کی انداز پرمسکراتے ہوۓ اوپر کی جانب بڑھ گۓ۔

شیریں نے شرما کر ہاتھوں میں چہرہ چُھپا لیا۔

شہیر روبینہ بیگم سے مل کر نکلا تو اس کی نظر عائشہ پر پڑی۔

"کیسے ہو بچے؟ پڑھائی کیسی جارہی ہے؟" وہ دھیمی آواز میں ان سے مخاطب ہوتے ہوۓ بولے۔

"میں ٹھیک ہوں شہیر ۔ آپ کیسے ہیں؟" وہ ٹکٹکی باندھے انہیں دیکھتی ہوئی بولی۔

انہوں نے اس کے سر پر چِپت لگائی وہ کئ بار اسے ٹوک چکے تھے کہ وہ اسے بھائی بُلاۓ۔ مگر شاید وہ سُنتی ہی نہیں تھی۔

شہیر کو اس سے ہمدردی تھی اس لیے وہ اکثر اس سے پیار سے مخاطب کرلیتے تھے۔ مگر ان کی باتوں میں بھائیوں والا مان ہوتا تھا جسے وہ سِرے سے دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔یہ بات جاننے کے باوجود کے شیریں اِن سے منسوب ہے اُسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ زندگی میں اتنی تلخیاں دیکھی تھی کہ اب وہ ہر حال میں خوشیاں چاہتی تھی چاہے وہ کسی کی مسکراہٹ چھین کر ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹھیک دو دنوں بعد عالم اور صدف شہیر کے اسرار پر شادی کی تاریخ رکھنے یوسف کے گھر پر موجود تھے۔ انہیں کیا اعتراض ہونا تھا یوں ایک مہینے بعد کی تاریخ طے پاگئ۔

یہ خبر سُنتے ہی عائشہ انگاروں پر لوٹ گئ۔ اب وہ کچھ سوچتی ہوئی روبینہ بیگم کے کمرے میں موجود تھی۔

"خالہ" اس نے آنسو بھری آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔

روبینہ بیگم نے تڑپ کر اسے گلے سے لگایا تھا اپنی بہن سے کیا وعدہ وہ کبھی بھول ہی نہیں سکتی تھی۔ انہوں نے بچوں کی طرح انہیں پالا تھا۔

"کیا ہوا میرا بچہ؟ کسی نے کچھ کہا ہے۔؟" وہ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتی ہوئیں بولی۔

"خالہ پلیز شیریں کی شادی روک دیں۔"وہ  ان کے سینے سے لگی روتی ہوئی بولے.  

"کیسی باتیں کررہی ہو عائشہ ایسا نہیں کہتے۔" انہوں نے انہین رُوبرو کر سخت تنبیہ کی۔

"خالہ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں آپ میری بات مان جائیں کیونکہ میں شہیر کو پسند کرتی ہوں۔ پلیز خالہ میری خوشیاں میری جھولی میں ڈال دیں۔"ان کے ڈانٹنے پر بھی ان کے انداز میں رتی برابر فرق نہ آیا۔

"عائشہ یہ فتور کس نے تمہارے دماغ میں ڈالا۔ کیا تم نہیں جانتی کہ شیریں پچھلے پانچ سال سے شہیر کے ساتھ منسوب ہے۔ پورا خاندان جانتا ہے یہ بات۔  تم کیا چاہتی ہو کہ لوگ میری معصوم بچی کے کردار کو نشانہ بنائیں۔  ہم نے آج تو آپ کے منہ سے یہ بات سُن لی آئندہ نہیں سنوں گی۔  جائیے اپنے کمرے میں۔ " وہ اسے سخت غُصّے سے گھورتی جانے کا اشارہ کرچکی تھی۔ 

عائشہ روتے ہوۓ وہاں سے جاچُکی تھی۔ مگر وہ سمجھی بالکل نہ تھی۔  جس کا نتیجہ انہیں شام تک مل گیا وہ نیند کی گولیاں کھا کر خود کُشی کی کوشش کرچکی تھی۔ سارے گھر والے پل میں پریشان ہوچکے تھے۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے جیسے ہی ہوش آیا اسنے روبینہ بیگم سے ہی ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ 

روبینہ بیگم تھکے سے انداز میں اندر آئیں تھیں۔ 

"مجھے شہیر دے دیں خالہ۔ " وہ ان کے قریب آنے پر دونوں ہاتھوں کو بمشکل جوڑ کر بولی۔ کیونکہ ایک ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ یہاں آکر وہ ہار گئ تھیں اپنی بہن سے کیا وعدہ یاد آنے لگا۔ وہ بہت کچھ سوچ چکی تھی اور اپنی سوچ کو وہ جلد ہی عملی جامہ پہنانے والی تھیں۔ 

یہ اُس دن سے اگلے دن کی بات تھی۔  روبینہ نے شیریں کو اپنے پاس بُلایا۔وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھامتی اپنے نزدیک بٹھا گئ۔ انہوں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا۔  اس کی اور عائشہ کی عُمر میں محض ایک سال کا فرق تھامگر وہ جانتی تھی کہ شیریں ،عائشہ سے کہی زیادہ سُلجھی ہوئی طبیعت کی مالک ہیں۔ 

"شیریں میری گڑیا میری بات دھیان سے سننا۔  اور اپنی ماما کو غلط مت سمجھنا۔ " انہوں نے بولنے سے پہلے تمہید باندھی۔ 

شیریں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ 

"میں نہیں جانتی کب اور کیسے عائشہ کے دل میں شہیر کی محبت جاگی۔ تم دیکھ چُکی ہو اُس کی انتہائی حرکت۔  اگر اُس کی شادی شہیر سے نہ ہوئی وہ دوبارہ بھی ایسی کوشش کرسکتی ہے۔ مجھے پتہ ہے میری شیریں بہت سمجھدار ہے وہ ضرور سمجھے گی۔ ہم جلد ہی سب سے عائشہ اور شہیر کے بارے میں بات کرنے والے ہیں مگر اُس سے پہلے آپ کو آگاہ کررہے ہیں۔ اگر تم چاہو تو ہم تمہارے آگے ہاتھ بھی جوڑ سکتے ہیں۔" انہوں نے اس کے چہرے سے نظر چُرائی۔

شیریں کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید پڑھنے لگا یوں کے جیسے کسے نے سارے خون نچوڑ لیا ہو۔ اُس یقین نہ آیا واقعی ہی اس کی ماں یہ بات کررہی ہے۔

انہوں نے شکایتی نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔روبینہ بیگم اس کے بولنے کی منتظر تھی۔ وہ بولی بھی تو کیا۔

"آپ پہلی ماں ہوگی جس نے اپنی بیٹی کا گھر اپنے ہاتھ سے اُجھاڑا ہے۔" وہ روتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔

پیچھے وہ بےتحاشا آنسوؤں سمیت بیٹھی رہ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

روبینہ بیگم نے یوسف  اور باقی سب کے سامنے ہاتھ جوڑ جوڑ کر راضی کیا تھا۔ مگر شہیر یہ بات سُنتے ہتھے سے اُکھڑ گیا۔

وہ تن فن کرتا عائشہ کے سر پر جاپہنچا۔

"کب تمہیں ایسا محسوس ہوا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔ کب میں نے تمہیں یقین دلایا جو تم اس راستے پر نکل آئی۔مجھے تم میں رتی برابر بھی دلچسپی نہیں۔" وہ دھاڑتے ہوۓ بولے۔

عائشہ کے اطمینان میں رتی برابر بھی فرق نہیں آیا تھا۔

"شہیر آپ کیوں نہیں سمجھتے میں آپ سے محبت کرتی ہوں۔ اگر آپ میرے نہ ہوۓ تو میں اپنی جان دے دوں گی ۔ کیا ہوا اگر ایک بار کامیاب نہیں ہوسکی دوسری بار ہوجاؤں گی۔" وہ ہر حال میں انہیں زیر کرنا چاہتی تھی اس لیے آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لا کر بولی۔

وہ بغیر کچھ بولے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔

پھر اس طرح جلد ہی وہ ان کی زندگی میں داخل ہوگئ۔

شادی کے بعد جب شہیر کے مزاج میں ذرا بھی نرمی نہ آئی تو داجان نے انہیں بُلا کر پیار سے سمجھایا کہ اگر وہ سب کی خوشی کی خاطر مان گۓ ہیں تو اس رشتے کو نبھاۓ بھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حماد صاحب جو کب سے شیریں سے شادی کے خواہشمند تھے انہوں نے اپنی خواہش سامنے رکھی مگر یوسف سے پہلے خود روبینہ بیگم نے اس کی خواہش رد کردی۔ کیونکہ ان کے اندر باپ والی عادتیں آنے لگی تھی۔ جُوّا کھیلنا رات رات بھر پارٹیوں میں گزارنا یوسف صاحب کئ بار انہیں وارن بھی کرچکے تھے کہ اگر وہ اس گھر میں رہنا چاہتا ہے تو اپنی عادتیں بدل لیں۔ پھر وہ لوگ کیسے آنکھوں دیکھی مکھی نگل لیتے۔

شیریں کا رشتہ یوسف نے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے کیا پھر ناجانے کیا ہوا کہ ایک ماہ کے اندر اندر وہ انگوٹھی واپس کرکے رشتے سے انکار کرگۓ۔ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ آستین کا سانپ پال رہے ہیں۔ حماد نے ناجانے اُن لوگوں سے کیسی کیسی باتیں کی وہ فوراً رشتہ توڑ گۓ۔ ایسے ہی ایک دو اور جگہوں پر رشتہ ہوا مگر حماد نے کسی بھی رشتے کو سِرے نہ چڑھنے دیا۔ وہ ان کے انکار کو انّا کا مسئلہ بنا چکے تھے۔

یہ ایک عام سا دن تھا۔جب حماد اپنے کمرے میں کھڑے کسی سے بات کررہے تھے۔

"پاپا میں جانتا ہوں آپ مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہتے تھے مگر اِس عورت نے یہ ہونے نہ دیا۔ آپ فکر مت کریں یہ ساری دولت ہماری ہی ہوگی۔عائشہ اپنے گھر میں کافی خوش ہے میرا مشورہ کام آگیا میں نے ہی اُسے خود کشی کرنے کا مشورہ دیا تھا اُس نے صرف چند گولیاں کھائی تھی جو طبیعت خرابی کا مسئلہ بنتی مرنے کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا تھا۔مگر یہ سیدھے سادھے لوگ فوراً ہی گھبرا گۓ۔ اور عائشہ کی بات مان گۓ۔وہ یوسف اپنے آپ کو جانے کیا سمجھتا ہے سیدھے طریقے سے اُس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تھا مگر نہیں اُس نے انکار کردیا۔ کر کے دکھاۓ مجھے اب اپنی بیٹی کی شادی بیچارہ مسلسل رشتوں کے انکار سے پریشان ہوگیا۔ مگر آپ فکر مت کریے میں جلد ہی اُن کی پریشانی دُور کرنے والا۔ اگر جاتے جاتے اُن کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوجاۓ تو کسی کو کیا پتہ چلے گا پھر یہ ساری دولت بھی میری اور اُن کی بیٹی بھی۔" وہ اپنے مکروہ عزائم سے اپنے نام نہاد باپ کو آگاہ کررہا تھا جنھیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی انہیں صرف پیسہ چاہیے تھا وہ دو جھوٹے بول سے اپنے بیٹے کو اپنی طرف کرچکے تھے۔ جو یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کا باپ ان سے محبت کرتا ہے۔ 

روبینہ بیگم  جو اسے تین دن بعد گھر آتا دیکھ چُکی تھی اس کے سمجھانے کی غرض سے ان کے کمرے کی طرف آئی مگر اندر ہونے والی باتوں پر چکرا کر رہ گئ۔ وہ غُصّے سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولے جارحانہ تیوروں سے اس کی طرف بڑھتی اسے تھپڑ جڑ چکی تھی۔ 

حماد ان کی یوں اچانک آمد سے گڑبڑا کر رہ گۓ۔ 

"تم سچ میں آستین کے سانپ نکلے تمہیں شرم نہیں آتی جس انسان نے تم لوگوں کے سر پر دستِ شفقت رکھا تم انہی کی زندگی ختم کرنا چاہتے ہو۔  ارے تم دونوں بہن بھائی میری بچی کی خوشیاں اُجاڑ گۓ۔  میری بہن سے کیے میرے وعدے کے چکر میں میری شیریں تو بےموت ماری گئ۔ بار بار تمہاری غلطیوں کو درگزر کیا۔  پر اب میں بالکل چُپ نہیں بیٹھوں گی۔  ابھی یوسف کو تمہارے کرتوت سے آگاہ کرتی ہوں۔ " وہ سخت غُصّے میں تنبیہ کرتی باہر کی جانب جانے لگی جب حماد نے انہیں گردن سے دبوچ لیا۔ 

"کیا دیا تم لوگوں نے روپے روپے کے لیے تمہارے اس شوہر کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔" اس نے انہیں بیڈ پر دھکا دے کر ان کے منہ پر تکیہ رکھ دیا۔ روبینہ بیگم کا سانس بند ہونے لگا۔ان کے ہاتھ پیر بُری طرح ہل رہے تھے رفتہ رفتہ سانس بند ہونے سے ان کے گردن ایک جانب ڈھلک گئ۔

"میں اپنے راستے میں کسی کو آنے نہیں دوں گا۔" وہ خاموشی سے وہاں نکل گۓ۔ آفندی خاندان پر ایک عذاب أکر گُزر چکا تھا۔یوسف کی اتنی بُری حالت تھی کہ انہیں کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔

وقت کا صفحہ آگے پلٹا۔اس واقعہ کو گزرے ایک سال ہوچکے تھے۔ شیریں کے اصرار پر انہوں نے ماہ نور کی شادی بغیر شور شرابے کے سادگی سے شاہ ویز سے کردی۔شیریں اور یوسف اس جگہ کو چھوڑ کر اس شہر سے دُور جا بسے۔ یوسف لوگوں کی شیریں پر اُٹھتی انگلیاں تھام نہیں سکتے تھے اس لیے کچھ عرصہ ان سب سے دُور چلے گۓ۔ ان کی زندگیوں میں جیسے سکون ختم ہوچکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید چار سال آگے گزرے جب یزدان اور عرید پانچ سال کے ہوچکے تھے۔ جب کے ماہ نور کی گود خالی تھی۔ ایک طرف بہن کا غم دوسری طرف باپ اور بہن سے دوری اور اس کے اوپر بے اولادی کا دُکھ ۔ وہ چاروں طرف سے دُکھوں سے گِھر کر رہ گئ۔ وہ جب جب عائشہ کو سامنے دیکھتی تو ان کے سامنے شیریں کا مُرجھایا سا چہرہ لہرا جاتا۔ جو پانچ سال کے عرصے تک شہیر سے منسوب تھی۔ وہ بہن کا شہیر کی طرف دلی لگاؤ بھی جانتی تھی۔ شہیر بھی تو اُن سے بےتحاشا محبت کرتے تھے مگر ہوا کیا تھا بالکل اس کی سوچ کے برعکس۔  ان سب میں شاہ ویز کی محبت اس کی ہمراہ رہی ۔ اس نے ایک بار بھی اسے بے اولادی کا طعنہ نہیں دیا تھا بلکہ وہ سب کے منہ اس کی خاطر بند کروادیتا تھا۔

اچانک آجانے والی فون کال نے ایک بار پھر ان کی زندگیوں میں ہلچل مچا دی۔  داجان ،ماہ نور ،شاہ ویز  اور شہیر ان کی ایک پکار پر دوڑتے ہوۓ وہاں پہنچے تھے۔  مگر یہاں آکر جو حالت انہیں یوسف کی نظر آئی اُس نے اندر ہی اندر داجان کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کا چھوٹا بھائی اس قدر تکلیف میں تھا۔  چھ ماہ پہلے ہی تو وہ ان کی طرف آۓ تھے تب تو وہ ٹھیک تھا۔ ان چھ ماہ میں ۔ کیسے ان کی حالت گِر کر رہ گئ۔ 

وہ سب اس وقت ہسپتال میں موجود تھے۔  شیریں کا دُکھ انہیں آدھا کر کے رکھ گیا تھا۔  بیٹی اگر باپ کی دہلیز پر بیٹھی رہے تو ہر طرف سے سوال ہی اُٹھتے ہیں۔  دوسرا ان کی بیگم کا غم آج بھی ان کے دل میں تازہ تھا۔ 

یوسف نے عالم صاحب کو اندر بُلایا تھا۔ عالم صاحب ان کی حالت دیکھ کر آنسو ضبط کر کے رہ گۓ۔ انہیں دل کا دورہ پڑا تھا۔ 

"بھائی جان ! مجھے اپنے لیے کچھ نہیں چاہیے بس میری شیریں کو سنبھال لینا میرے جانے کے بعد۔" وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑ کر رہ گۓ۔ انہوں نے فوراً بھائی کے جُڑے ہوۓ ہاتھوں کو تھام لیا۔ 

"میری بیٹی میرے اوپر بوجھ نہیں ہے بہت سے رشتے آۓ لیکن میں اپنی بیٹی کے لیے ایک مخلص شخص کی تلاش میں تھا۔" وہ تکلیف سے بول رہے تھے۔  عالم صاحب انہیں بولنےسے منع کرتے باہر آگۓ۔ 

ماہ نور کے بےحد اصرار پر عالم صاحب شہیر کو شیریں سے جوڑنے کے لیے راضی ہوگۓ تھے۔  ان کے دل میں ہزار خدشے تھے وہ کسی کے ساتھ بھی ناانصافی کے قائل نہیں تھے جو بھی تھا عائشہ شہیر کی بیوی تھی وہ یہ سب مر کر بھی سوچ نہیں سکتے تھے۔  مگر حالات نے اُنہیں بےبس کردیا تھا۔  

جب شیریں کو ان سب کی خواہش پتہ چلی وہ ہتھے سے اُکھڑ گئ وہ کسی کی زندگی میں دوسری بیوی بن کر ہرگز شامل نہیں ہونا چاہتی تھی۔  چاہے عائشہ نے جو بھی اس کے ساتھ کیا ہو مگر وہ اُس کے ساتھ غلط نہیں کرنا چاہتی تھی۔  مگر باپ کی التجا کے آگے وہ ہار گئ تھی۔  یوں شیریں شہیر کی دوسری بیوی بن کر ان کی زندگی میں شامل ہوگئیں۔ 

یوسف شاید بس شیریں کو کسی محفوظ ہاتھوں میں سونپنے کا انتظار کررہے تھے یہ انتظار تمام ہوا تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند گۓ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس واقعے کو گُزرے چھ ماہ ہوچکے تھے۔  سب ہی شیریں کی حالت دیکھ کر کڑھ رہے تھے۔ جو بالکل ہی گُم سُم ہوکر رہ گئ تھی۔ 

شہیر صاحب ان سے بات کرنے کا سوچتے ان کے کمرے کی جانب بڑھے۔ شیریں بیڈ پر بیٹھی تھی۔  نیلے رنگ کے سادے سے سوٹ میں سر گھٹنوں پر ٹکاۓہر چیز سے بے نیاز۔ 

"شیریں۔  کب تک یونہی رہو گی یار ۔ ہم سب نے ہی ایک نا ایک دن رُخصت ہونا ہے صبر کرو میری جان۔ " وہ ان کے قریب بیٹھتے ان کا چہرہ روبرو کرتے ہوۓ بولے۔ 

ان کی آنکھوں پر میں ویرانیاں سی دیکھ شہیر اپنی جگہ تڑپ کے رہ گۓ۔ 

"شیریں میری جان یوں مت کرو میرے ساتھ میرا دل بند ہوجاۓ گا۔ " وہ اسے سینے سے لگاتے ہوۓ ان کے بالوں پر ہونٹ ٹکا گۓ۔ کسی مہربان کا ساتھ پاتے ہی وہ بکھرتی چلی گئ۔  شہیر کے لیے ان کو سمیٹنا مشکل ہوگیا۔ وہ اس کی کمر سہلاتے بار بار اس کا ماتھا چوم رہے تھے۔ ڈھیر سارا رونے کے بعد شیریں نے خود کو ان کی گرفت سے آزاد کروایا تھا۔ 

"جائیے یہاں سے آئندہ میرے قریب مت آئیے گا۔یہ نکاح بابا کی خواہش تھی ہوگیا اس کے علاوہ مجھے آپ سے کچھ بھی نہیں چاہیے۔ آپ کا ساتھ بھی نہیں۔ " وہ ان کی گرفت سے آزادی پاتے بستر سے اُتر کر کھڑی ہوگئ۔ 

"شیریں ۔یہ تم کیا کہہ رہی ہوں۔  دماغ ٹھیک ہے۔ میرے ساتھ ساتھ  بابا جان بھی یہی چاہتے ہیں کہ تمہیں جلد سے جلد حویلی لے کر چلیں ۔ بس ایک بار عائشہ کو حالات سےآگاہ کردیں۔" وہ اس کے ہاتھ جھٹکنے کا بُرا مناۓ بغیر بولے۔

"مجھے کہیں نہیں جانا۔ پہلے کیا میری زندگی میں کم دُکھ ہیں جو کسی کی آہیں سسکیاں اور بددُعائیں بھی سمیٹ لوں۔" وہ روتی ہوئی چلائی۔

شہیر کو ٹوٹی بکھری ہوئی لگی۔ کتنا پیارا رشتہ تھا ان کا شیریں سے ناجانے کن کی نظر لگ گئ تھی۔

انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس کا بلکتا وجود اپنی پناہوں میں سمیٹا۔

"کیوں دی تھی ہمیں اپنی قسم۔ کیوں خود سے دُور کیا۔ سب سمجھتے ہیں کہ ہم بڑوں کے فیصلے کے آگے مجبور ہوگۓ۔مگر انہیں کیا معلوم کہ اگر کسی چیز نے ہمیں مجبور کیا تھا تو وہ آپ کی قسم نے۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیکر بڑبڑاۓ تھے۔

" میں بھی تو مجبور تھی اپنی ماں کے جُڑے ہاتھوں کے آگے۔" وہ سسکتی ہوئی ان کے سینے پر سر ٹکا گئ۔ وہ واقعی ہی لوگوں کی باتوں اور اُن کے رویوں سے تھکنے لگی تھی۔ 

شہیر نے ان کے وجود کو خود میں سمیٹ لیا تھا۔شہیر نے محبت سے اس کے ایک ایک نقوش کو چُوما۔ ایک عُمر گُزاری تھی ان سے محبت کرتے ہوۓ۔ ان کے لڑکپن کا خواب تھی وہ لڑکی کیسے نا انہیں پیاری ہوتی۔ اس کے بہتے آنسوؤں کو اپنے لبوں سے چُنتے گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کِھلی کِھلی سی ان کے سامنے کھڑی تھی۔ 

آج پورا ہفتہ ان کے ساتھ گُزار کر وہ واپس حویلی جا رہے تھے۔

"شہیر۔میرا دل پتہ نہیں کیوں گھبرا رہا ہے۔ " وہ آنکھوں میں پانی بھرتی ہوئی بولی۔

"میری جان بس کچھ دنوں کی بات ہے ایک دفعہ سارے معاملات حل ہوجائیں ہمیشہ کے لیے اپنے پاس لے جاؤں گا۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتے اس کا ماتھا چومتے ہوۓ بولے۔

"جلدی أئیے گا ۔ اب یہ دل ذرا ذرا سی بات پر گھبرا جاتا ہے۔ شہیر جانے عائشہ کا کیا ریئکشن ہو۔وہ ہمیں غلط نہ سمجھ لیں۔" وہ دل میں آیا خدشہ زبان پر لاتی ہوئی بولیں۔

"میں سب سنبھال لوں گا۔ بس تم اپنی تیاری رکھنا میں جلد ہی تمہیں لینے آؤں گا۔ آپا صُغراں کو تمہارے پاس چھوڑ کر جارہا ہوں۔تاکہ تم اکیلا محسوس نہ کرو جلد ہی تمہیں لے جاؤں گا۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔

اب شیریں نے ایک ایک دن گِن کر گزارنا تھا۔

جیسے ہی یہ حقیقت عائشہ کو پتہ چلی وہ ہتھے سے اُکھڑ گئ۔ اُن کا کہنا تھا کہ یوسف کی بیماری کا تو بہانا تھا ورنہ وہ سب یہی چاہتے تھے۔ اور جب شہیر نے شیریں کو حویلی لانے کے بات کی تو انہوں نے دھمکی لگائی کہ وہ یزدان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے لیکر چلی جائیں گی۔ ان کی ایک ہی گردان تھی کہ شیریں کو طلاق دیں اگر وہ ان کے نکاح میں نہ آتی تو شاید وہ اپنی مُحبت کو ایک کونے میں دفن کر دیتے مگر اب تو وہ پُور پُور ان کی دسترس میں  آچکی تھی۔ تو کیسے اس سے دستبردار ہوتے۔

عائشہ کی ضد کے آگے بےبس ہوکر وہ شیریں کو حویلی نہ لا پاۓ سب ان کی ضد کے آگے بےبس ہوگۓ۔

وہ تقریباً ایک ماہ بعد شیریں کی طرف چکر لگاتے اور ہر دفعہ جب وہ واپس آتے تو اس کی اُمید بھری نظروں سے نگاہیں چُرا جاتے۔ بےشک وہ ان کی محبت تھی مگر یزدان میں ان کی جان بستی تھی۔

ایسے میں ہی انہیں شیریں کی طرف سے ننھے مہمان کی آمد ملی اس دوران وہ مہینے میں دو سے تین چکر لگا لیتے مگر وہ ان کو اپنے پاس روکنے پر بضد تھی۔ جس کے چلتے انہوں نے اپنے ہی شہر میں انہیں گھر لے دیا۔ تاکہ انہیں آنے جانے میں پریشانی نہ ہو۔ احان کی پیدائش کے دن بھی وہ ان کے ساتھ نہیں تھے وجہ تھا یزدان جس کی طبیعت کافی دنوں سے خراب تھی۔ 

شیریں نے ان سے اُمید لگانا چھوڑ دی تھی۔  

ان کی ذات کا محور احان کے گرد گھومنے لگا۔ وہ خود کو ان میں اُلجھا چکی تھی۔  وہ تو ان سب پر صبر کرچکی تھیں۔  مگر احان چھوٹی چھوٹی بات نوٹ کرتا تھا اس کا مسلسل سوال ہوتا تھا کہ پاپا ہمارے ساتھ کیوں نہیں رہتے جسے وہ یہ کہہ کر تسلی دیتی کہ وہ کام کے سلسلے میں باہر رہتے ہیں۔ مگر جیسے بڑا ہورہا تھا وہ شہیر صاحب سے دُور ہوچکا تھا۔ وہ اس بار واقعی غلطی کرچکے تھے یزدان کو کھونے کے ڈر سے وہ شیریں اور احان دونوں کو کھو چکے تھے۔ شیریں نے خُود کو ایسے خول میں سمیٹا تھا کہ شہیر چاہ کر بھی اس تک پہنچ نہیں پارہے تھے۔

یہ ایک معمول کے دن کی طرح دن تھا شہیر مسلسل انہیں سمجھانے کی کوشش کررہے تھے جسے وہ بس معمول کی طرح سر جُھکاۓ سُن رہی تھی ان کی باتوں کا مرکز تھا کہ وہ یزدان سے بہت محبت کرتے ہیں اور وہ اُس سے دُور نہیں رہ سکتے۔بس اس لیے عائشہ کی بات ماننے پر راضی ہوجاتے ہیں۔شیریں کی آنکھیں پانی سے بھرنے لگی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ وہ کبھی اُن سے فرمائشیں کیوں نہیں کرتی مگر شاید انہوں نے کبھی اپنی باتوں پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ یہاں آکر بھی ان کی باتوں کا مرکز یزدان ہی ہوتا تھا۔ انہیں ڈر تھا کہ عائشہ کی وجہ سے وہ اسے کھو نہ دیں۔ان کی باتوں میں وہ اور احان کہی نہ تھے۔ جانے کیوں ان کو ایک دم غُصّہ آنے لگا۔

"بس کریے شہیر ۔اور خدا کا واسطہ ہے آپ کو دوبارہ یہاں آنے کی بھی ضرورت نہیں۔میں کافی ہوں اپنے احان کے لیے۔جائیے آپ جاکر یزدان کو سنبھالیے۔ آپ کو میری اور میرے بیٹے کی کوئی ضرورت نہیں۔کتنے سالوں سے برداشت کرتی آرہی ہوں۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ احان کو بھی آپ کی یہی محبت چاہیے۔ وہ بھی اپنے باپ کا والہانہ پیار چاہتا ہے۔مگر آپ یزدان کی خاطر ہر چیز کو اگنور کرتے آرہے ہیں۔ چلے جائیے یہاں سے دوبارہ مت آئیے گا۔" وہ ہذیانی آواز میں چلاتی ہوئی بولی۔ شہیر اپنی جگہ جم کر رہ گۓ۔

"شیریں میری بات سُنو یار۔" وہ ان کو تھامنے کے لیے ان کی طرف بڑھے ۔ جب دروازے کے باہر کھڑے احان کو دیکھ کر دونوں چونک گۓ۔ وہ چودہ سالہ بچہ اپنے باپ کو آنسو بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔

"احان میری جان میری بات سُنو۔" انہوں نے احان کی طرف بڑھنا چاہا جب وہ ان کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک کر اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔شیریں بھی انہیں دیکھے بغیر کمرے میں بند ہوگئ۔

واقعی ہی وہ ان دونوں کو فراموش کرچکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دن بعد وہ واپس آتے منا چُکے تھے۔ شیریں کا کہنا تھا کہ اب انہیں اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں چاہیے۔بس اُس کے بیٹے کو اُس کا حق دیا جاۓ۔ انہوں نے ہفتے بعد انہیں حویلی کی جانب لے جانے کی حامی بھری۔احان خاصا خوش تھا۔

انہی دنوں عائشہ حماد سے ملنے اُن کے گھر گئ اندر حماد اور وردہ باتوں میں مصروف تھے وہ اندر جانا چاہتی تھی مگر وہ اپنے نام کی پُکار پر وہی تھم گئیں۔ وہ اندر اسی کے خلاف بات کررہے تھے۔ اُس کا بھائی اُسے بےوقوف کہہ رہا تھا۔ مزید یہ انہیں نہ ہی عائشہ سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی یزدان سے وہ ان کے خلاف جانے کیا کیا بکواس کررہے تھے۔ وہی باتوں باتوں میں وہ روبینہ بیگم کے قتل کا اعتراف بھی کر چکے تھے عائشہ سے مزید وہاں کھڑا رہنا محال لگا وہ جس خاموشی سی آئیں تھی اُس خاموشی سے نکل گئ۔ وہ جتنی بھی خود غرض سہی مگر روبینہ بیگم تو ان کی ہمدرد تھی کیسے وہ ان کی جان لے سکتے تھے انہیں یقین ہی نہیں آرہا تھا۔کہ جس ہستی نے انہیں دربدری کی ٹھوکروں سے بچایا اُس کا بھائی اُنہی کی جان لے چُکا تھا۔  جس بھتیجی کو وہ بیٹیوں کی طرح چاہتی تھی اُسے اپنی بہو بنانا چاہتی تھی انہیں ان کے بیٹے سے یا اُن سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ اُسے بھی دولت کی چاہ تھی۔ 

وہ اسے تکلیف میں گھر کے اندر داخل ہوئیں ان کی نظر صوفے پر بیٹھی میرو پر پڑی جس میں ان کے بیٹے کی زندگی بستی تھی۔  میرو انہیں وہاں آتا دیکھ کر وہاں سے جانے لگی کیونکہ وہ اکثر بنا بات ہی اسے ذلیل کرکے رکھ دیتی تھی۔  مگر وہ اس کے جانے سے پہلے ہی اسے خود میں بھینچ چُکی تھیں میرو اس اچانک پڑنے والی افتاد پر حیران ہوکر رہ گئ۔ 

انہوں نے اس کا ہونک چہرہ دیکھا تو انہیں اس پر ڈھیروں پیار آیا وہ لڑکی واقعی ہی معصوم تھی جو ان کا ڈانٹنے کا کبھی کسی کو نہ بتاتی تھی بلکہ بغیر کسی غلطی کے بھی چُپ چاپ  ان کی باتیں سُن لیتی تھی انہوں نے بنا جواز کے اس معصوم سے اتنے سال نفرت میں گُزارے تھے۔ 

انہوں نے اس کے ماتھے پر پیار کرکے اس کا گال تھپتھپایا۔ 

"میرا یزدان واقعی ہی خوش قسمت ہے جو تم اس کی زندگی میں شامل ہوئی۔ " وہ اس کا گال تھپتھپاتے اوپر کی طرف بڑھ گئیں۔  انہوں نے سوچ لیا تھا کہ وہ سب ٹھیک کردیں گی شیریں کو بھی اس گھر میں آنے کی اجازت دے دیں گی۔ جتنا اس گھر پر اُن کا حق تھا اُتنا شیریں کا بھی وہ اپنی خود غرضی میں سب سے زیادہ انہی کا نقصان کرچکی تھی۔ مگر وقت نے انہیں مہلت ہی نہ دی وہ ایسا سوئی کہ دوبارہ اُٹھ نہ سکیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان شدت سے شہیر کے آنے کا انتظار کرتا رہا۔ شیریں اسے ساری حقیقت بتا چکی تھی وہ اپنی ماں ہی کا پرتُو تھا ہر کسی سے بےلوث محبت کرنے والا۔وہ ہر چیز بُھلاۓ شہیر کو معاف کرنے پر تیار تھا۔ شیریں اسے دیکھ کر دل ہی دل میں دُعا کررہی تھیں کہ یہ انتظار اُس انتظار کے جیسا ہر گز نہ ہو جو انہوں نے کبھی شہیر کا کیا تھا مگر یہ انتظار واقعی ہی لاحاصل رہا۔ 

عائشہ کی موت میں وہ اس بات کو بھی فراموش کر گۓ تھے کہ وہ کسی کو انتظار کی سولی پر لٹکا کر آۓ ہیں۔

احان ان کے نہ آنے پر ایک بار ٹوٹ گیا تھا وہ خاموشی سے اُٹھتا کمرے میں بند ہوگیا اب ہر طرف جامد خاموشی تھی۔اس دفعہ یہ انتظار شہیر کو واقعی مہنگا پڑنے والا تھا۔ 

وہ ریوالونگ چیئر پر بیٹھے گہری سوچ میں مگن تھے اُن کی سوچ کا محور صرف اور صرف شیریں تھی۔ انہوں نے اسے کبھی اگنور نہیں کیا تھا۔ وہ اس وقت شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔  جب عائشہ کی باتوں کا مرکز  صرف اور صرف شیریں کی ذات ہوتی۔ وہ انہیں آتی جاتی انہیں طلاق دینے کا کہتی۔ انہوں نے شیریں کے ساتھ حسین پل بھی گُزارے تھے۔ وہ عائشہ کا دھیان بٹانے کے لیے محض کچھ وقت ان۔ کی ذات کو فراموش کرگۓ مگر وہ کبھی بھی ان کی تکلیف کا باعث نہیں بننا چاہتے تھے۔ مگر شاید وہ عائشہ کو شیریں سے دُور رکھنے کے لیے یہ بات فراموش کرگۓ تھے کہ انہوں نے کتنی تکلیفیں دیکھی ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی بات گہرائی سی نوٹ کرتی تھیں۔احان انہیں یزدان کی طرح ہی عزیز تھا آخر اُن کے وجود کا حصّہ تھا۔ وہ جب جب وہاں جاتے تھے اُس کے ساتھ بھرپور وقت گُزارتے تھے۔ 

عائشہ کی باتوں اور مسلسل شیریں کو طلاق کی گردان اور یزدان کو یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ لیکر جانے  نے ان کا دماغ اس قدر سُن کر دیا تھا کہ وہ اپنا دل شیریں کے سامنے کھول کر رکھنے لگے۔ ان سالوں میں وہ اتنی حساس ہوچکی تھی انہیں یہ لگنے لگا کہ وہ شاید ان کو اور احان کو فراموش کررہے تھے۔  وہ حویلی میں انہیں اس لیے نہیں لے کر آنا چاہتے تھے کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عائشہ انہیں تکلیف پہنچاۓ اور ان کی ذات مزید دُکھوں میں گِھرے۔

وہ عائشہ کی موت کے کچھ دنوں بعد ان۔دونوں کو لینے گۓ تھے مگر احان نے آنے سے صاف انکار کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے سے نکلتی سیڑھیاں اُترتی لاؤنج میں آئی تھی۔وہ یزدان کو ایک موقع دینے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

اسے اپنی ماں کی باتیں اکثر تنہائی میں یاد آتی تھی۔ ماہ نور اسے اکثر اپنے پاس بٹھا کر پیار سے مختلف چیزیں سمجھاتی تھی ماں کی سمجھائی ایک ایک بات اِس کے دماغ پر نقش کرجاتی تھی۔

"میری جان معاف کرنا سیکھو۔ یہ زندگی پھولوں کا بستر بالکل نہیں ہوتی۔ اپنی زندگی کو خود ہی سہل کرنا پڑتا ہے۔ کبھی خُود جُھک کر کبھی سامنے والے کو جُھکا کر۔ ہاں جہاں آپ کو لگے کہ سامنے والا مسلسل غلطی پر ہے تو خود ہی کنارہ کشی کر لو۔ اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب انہیں غلطیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔آپ کی سہی آزمائش تو تب ہی شروع ہوتی ہے۔انسان اتنا اعلیٰ ظرف نہیں ہوتا جو پلک جھپکتے کسی کی بھی غلطیوں کو معاف کردے۔ کیونکہ جو دُکھ ہم  نے جھیلے ہوتے ہیں وہ ہم ہی جانتے ہیں۔کبھی سوچا وہ رب تو ہمیں ہماری غلطیوں پر بار بار درگُزر کردیتا ہے۔ 

مگر انسان کسی کو ایک بار بھی معاف نہیں کرپاتا۔  اپنی اندر اتنی استطاعت لاؤ کہ دوسروں کو درگُزر کر سکو۔ غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں اس لیے کبھی کبھی سامنے والے کو معاف کرکے بھی دیکھ لینا چاہیے۔ کیا پتا وہ واقعی ہی تمہارے ہی مقدر کا ستارہ ہو۔ کیا پتا اُس ایک معافی کے بدلے تمہاری زندگی سنور جاۓ۔پر ہاں اگر کوئی شخص اپنی غلطی بار بار دہراۓ تو سمجھ جاؤ وہ انسان معافی کے قابل ہی نہیں۔پھر اُس سے اتنی دُور چلے جاؤ کہ وہ آپ کو دیکھ بھی نہ سکے۔" ماں کی باتیں اب بھی کانوں میں لہرا رہی تھی۔

وہ ایک قدم یزدان کی طرف بڑھانے کے بارے میں سوچ چکی تھیں۔وہ فون پر شاید کسی سے محوِ گفتگو تھا۔وہ خاموشی سے کھڑی اس کی کال کے ختم ہونے انتظار کرنے لگی۔

"بیوقوف انسان تم نے اُسے ابھی تک بتایا نہیں کہ تمہاری مجھ سے کوئی شادی نہیں ہوئی۔" دوسری طرف سے نیہا کی جھنجھلاتی ہوئی آواز گونجی۔

"نہ ہی تم اور نہ ہی میری جعلی نکاح دونوں ہی میرے لیے اہم ہے۔ میں شاید ایسا مر کر بھی نہیں سوچ سکتا۔ میں جانتا ہوں میرے اِس جھوٹ سے میرو کو تکلیف پہنچی ہے۔" وہ جھنجھلاتا ہوا بولا۔

"مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے تمہارے لیے اہم بننے کا مگر ایک لڑکی ہونے کے ناطے مجھے احساس ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات اُس کے لیے تمہاری بےوفائی ہے۔" وہ پہلا جُملہ دانت پیستی باقی الفاظ سمجھانے والے انداز میں بولی۔

"مگر ہمارے درمیان ایسا کچھ بھی نہیں ہے پھر۔" وہ جھنجھلایا سا بولا۔

"تمہاری نظروں میں یہ بس ایک دکھاوا تھا مگر اُس کی نظروں میں تمہاری بےوفائی۔جلد سے جلد اُسے سب بتادو۔" وہ اسے سمجھاتی ہوئی فون بند کرگئ۔

میرو اپنی جگہ سُن کھڑی رہ گئ تو کیا واقعی یزدان نے دوسری شادی نہیں کی تھی۔ کیا سچ میں میرے علاوہ کوئی وجود اِن کی زندگی میں شامل نہیں۔ اس کے دل میں گھڑی آخری پھانس بھی جیسے نکلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات سنجیدہ تھے وہ چاہتی کہ یزدان خود اس حقیقت سے اسے آگاہ کرے اسے یقین دلاۓ کہ وہ کبھی کسی کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرسکتا۔

وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ وہی کھڑی تھی جب یزدان نے کال کٹ کرکے پیچھے مُڑ کر دیکھا۔ جہاں میرو سنجیدہ چہرے کے ساتھ کھڑی ہوئی نظر آئی۔ وہ اسے وہاں دیکھ کر ایک پل کے لیے ٹھٹھکا۔مگر وہ اس کے چہرے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کرپایا کہ وہ کچھ سُن چکی ہیں یا نہیں۔

میرو نے دُور کھڑے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔جسے دیکھ ایک پل یزدان سُن سا ہوگیا۔مگر وہ اپنی کیفیت پر قابو پاتا فوراً اس کے بڑھے ہاتھ کو تھام گیا۔یزدان نے اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگایا تھا۔

"یزدان۔۔آپ کو ایک موقع دے رہی ہوں پلیز مجھے دوبارہ رسوا مت کیجئیے گا کیونکہ اگر اب کی بار میں ٹوٹی تو خود کو جوڑ نہیں پاؤں گی۔"وہ تکلیف دہ انداز میں بولی۔

یزدان پر شادی مرگ سی کیفیت طاری ہوگی۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیسے ریئکٹ کرے۔اس نے میرو کو شدت سے اپنے بازوؤں میں بھینچا۔

"کبھی نہیں میری جان۔ کبھی خود سے دور نہیں کروں گا۔میں تمہارا مشکور ہوں جو تم نے مجھے ایک موقع دیا۔" وہ اس کے بالوں پر لب ٹکاتا ہوا بولا۔

وہ کتنی ہی دیر اسے خود میں بھینچے کھڑا رہا۔جیسے اس کے ہونے کا یقین خود کو دلا رہا ہو۔اس کے نقش نقش کو اپنے لمس سے دہکا رہا تھا۔دو سال بعد یہ لمس محسوس ہوا تھا۔ دونوں کے دل کی دھڑکن سو کی سپیڈ سے بھاگ رہی تھی۔میرو کا چہرہ سُرخ ہوچکا تھا۔وہ ایک بار پھر اسے سینے میں بھینچ چُکا تھا۔

"یزدان۔۔" وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاتی ہوئی بولی۔

"جی میری جان۔کیا ہوا؟ " وہ اسے روبرو کرتاہوا بولا۔

"بھوک لگی ہے۔" وہ معصوم سا منہ بنا کر بولی۔

"اوہ۔سوری میں تو بھول ہی گیا تھا۔میں ناشتہ بناتا ہوں۔تم اس کُرسی پر آرام سے  بیٹھ جاؤ۔"وہ اس کی آنکھوں کو چومتا اسے کچن کے نزدیک ایک کُرسی پر بٹھا چُکا تھا۔

شدید سردی کو دیکھتے ہوۓ اس نے پہلے انڈے اُبالنے کے لیے رکھیں۔پھر مہارت سے چلتے ہاتھ اس کے لیے ناشتہ بنانے میں مصروف تھے۔

کچھ سال پہلے تک وہ اِن سب کام میں پھوہڑ تھی مگر اب وہ کچھ کچھ کوکنگ سیکھ چُکی تھی۔وہ یزدان کے مہارت سے چلتے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی۔مگر مجال تھی جو اس نے منہ سے مدد کرنے کی حامی بھری ہو۔

بیس منٹ بعد یزدان نے ناشتہ لا کر ٹیبل پر رکھا۔پھر محبت سے اسے دیکھتے پہلا نوالہ اس کے منہ میں ڈالا تھا۔اب وہ مزے سے اس کے ہاتھوں سےناشتہ کررہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیریں صوفے پر بیٹھی گزرے دنوں کو سوچنے میں مصروف تھی۔وہ عائشہ کی موت کے تین دن بعد وہاں آۓ تھے۔رفتہ رفتہ وہ ماضی کی یادوں میں گُم ہوتی چلی گئ۔

شیریں اس وقت اکیلی گھر پر موجود تھی۔وہ شہیر سے شدید ناراض تھی کہ وہ مقررہ وقت پر کیوں نہیں آۓ۔وہ اکیلے میں بیٹھی اپنے اُس دن کے رویّے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ اس وقت شدید غُصّے میں تھی اس لیے ایسا ریئکٹ کرگئیں۔ ورنہ وہ بھی جانتی تھی کہ شہیر ہمیشہ ان کے لیے وقت نکال کر آتا تھا۔ان کی ضرورتوں کو پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کی محبت پر وہ شک نہیں کرسکتی تھی وہ ان سے اور احان سے محبت کرتے تھے۔مگر جن حالات سے وہ گُزری تھی چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں کُھب جاتی تھی۔

وہ اپنی سوچوں میں مصروف تھی جب شہیر دروازہ کھول کر اندر آۓ۔ان کے پاس گھر کی چابی موجود تھی اس لیے آنے جانے میں کوئی پریشانی نہ ہوتی تھی۔

"شیریں۔" انہوں نے پُکار کر اپنی طرف متوجہ کیا۔

شیریں نے بنا جواب دیے رُخ موڑ لیا۔

"اتنی ناراض ہیں آپ میری جان۔" وہ تڑپ کر ان کی طرف بڑھتے ان کا رُخ اپنی طرف موڑ گۓ۔

وہ پھر بھی خاموش کھڑی رہیں۔

"شیریں یوں چُپ مت رہو۔ کچھ تو بولو۔آپ کی ناراضگی میری جان لے لے گی۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکا کر بولے۔

"آپ اب کیوں آۓ ہیں  کیا آپ کو نہیں پتہ تھا کہ احان آپ کا بےصبری سے انتظار کررہا تھا۔" وہ روٹھی روٹھی بولی۔

شہیر نے انہیں عائشہ کی موت کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔

"شیریں یقین مانو میں آنا چاہ رہا تھا مگر عائشہ کی اچانک موت کی وجہ سے نہیں آسکا۔" وہ ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ بھر کر بولے۔

"عائشہ ۔۔ کو کیا ہوا؟" وہ بےیقینی کی کیفیت میں بولی۔انہیں کسی نے بتانا بھی ضروری نہ سمجھا۔

"شاید اُن کی زندگی ہی اتنی تھی۔" وہ بات کو مزید بڑھاتے ہوۓ گویا ہوۓ۔

"مجھے افسوس ہوا سُن کر۔" وہ لبالب آنکھوں میں پانی بھر کر بولی۔

شہیر نے ان کے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا تھا۔

"مگر احان تو بہت ناراض ہے۔" اُن کا لہجہ ابھی بھی آنسوؤں بھرا تھا۔

"اپنے چھوٹے شیر کو ہم خود ہی منا لیں گے۔ آپ ٹینشن مت لیں۔" وہ ان کا ماتھا چومتے ہوۓ بولے۔

"آؤ وہاں صوفے پر بیٹھتے ہیں کھڑی کھڑی تھک جاؤ گی۔" وہ اسے لیے  صوفے پر بیٹھ چکے تھے۔

"تم سے کچھ باتیں کلیئر کرنا چاہتا ہوں۔ یار تمہیں کب لگا میں تمہاری ذات کو اگنور کررہا ہوں۔ہاں جانتا ہوں پچھلے کچھ دنوں سے یہاں نہیں آسکا۔کیونکہ جب جب میں آپ دونوں کے پاس آتا تھا تب تب عائشہ کا دھیاں آپ کی طرف ہوجاتا تھا۔ وہ مسلسل ایک ہی بات کی گردان کرتی تھی کہ شیریں کو طلاق دو۔میں بس اس لیے نہیں چاہتا تھا کہ وہ اپنی فطرت کے باعث آپ کو کوئی نقصان پہنچاۓ۔" وہ ان کی آنکھیں براہ راست اپنی آنکھیں گاڑھے بولے۔

"میں جانتی ہوں آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ مگر یکدم ہی آپ ہم دونوں سے لاپرواہ ہوۓ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا۔" وہ اپنی دل کی بات ان کے سامنے رکھتے ہوئیں بولی۔

"سوری اگر آپ کو ایسا لگا مگر ایسا نہیں ہے میری جان میں آپ دونوں سے دُور ضرور تھا مگر لاپرواہ ہرگز نہیں ہوا تھا۔اور آپ ہمیشہ جاننا چاہتی تھی کہ میں آپ کو اپنے ساتھ حویلی کیوں نہیں لے کر جارہا۔ یار یہ میرے لیے مشکل تھوڑی تھا آپ کا ہاتھ پکڑتا اور وہاں لے جاتا ۔ مگر آپ بھی عائشہ کی جنونی طبیعت سے واقف ہیں کہ اگر وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچا دیتی پھر۔ اتنے سال اُن کے ساتھ رہ کر اتنا سا اندازہ تو ہوگیا تھا کہ انہیں اپنی خواہشات کے آگے کچھ نہیں دِکھتا۔میری بات سمجھ رہی ہیں نا آپ۔" وہ لحظہ بھر کو رُکتے ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولے۔

شیریں نے کبھی اس لحاظ سے سوچا ہی نہیں تھا وہ پس یہی سوچتی تھی کہ وہ ان کو لے جانا ہی نہیں چاہتے تھے۔

"شہیر ، یزدان ہمارے آنے پر غُصّہ ہوگا۔" وہ ڈرتی ڈرتی ایک اور خدشہ بیان کرگئ۔

"جانتا ہوں کہ وہ غُصّہ ہوگا مگر مجھے یقین ہے وہ میری بات سمجھ جاۓ گا۔ اور ویسے بھی جتنا وہ گھر  یزدان کا ہے اُتنا احان کا بھی ہے۔ مجھے یزدان اور احان برابر ہیں۔ مجھے پتہ ہے آپ کو لگتا ہوگا کہ میں یزدان سے زیادہ محبت کرتا ہوں ایسا بالکل پھی نہیں ہے احان بھی تو میرا ہی خون ہے آپ کے وجود کا حصّہ ہے بلا آپ سے جُڑی کوئی چیز مجھے عزیز نہ ہو ایسا ہوسکتا ہے۔ وہ تو پھر ہمارا بیٹا ہے۔" وہ جیسے ان کے دل سے ہر خلش دور کردینا چاہتے تھے۔

"اور احان کی تم فکر مت کرو انہیں ہم منا لیں گے۔" وہ پُر یقین لہجے میں بولے مگر جانتے نہیں تھے اس بار ان کا اتظار لمبا ہونے والا تھا۔وہ ان سے میلوں کی مسافت پر کھڑا تھا۔

شیریں ایسے ہی مختلف سوچوں میں گُم رہتی کہ موبائل فون کی آواز نے ان کا سکتہ توڑا۔ وہ لاؤنج میں اکیلی موجود تھی۔ احان ان سے اس قدر ناراض تھا کہ سالوں گزرنے کے باوجود اُس کا غُصّہ جُوں کا تُوں قائم تھا۔وہ اس بارے میں کسی کی بات ہی نہ سنتا تھا۔ شہیر اسے منانے آتے تو وہ انہیں اپنے قریب بھی نہیں آنے دیتا تھا۔وہ آج بھی اُسی دن میں اٹک کر رہ گیا تھا جب شہیر نے اسے اپنے ساتھ لے کر جانے کا وعدہ کیا تھا مگر وہ انتظار کرتا کرتا سویا گیا۔ پھر اُس نے خود پر ایسا خول چڑھایا تھا کہ وہ چاہ کر بھی اُسے توڑ نہیں پارہے تھے۔

شیریں نے گہری سانس بھر کر کال اُٹھائی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں اب باہر جانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔یزدان نیچے لاؤنج میں بیٹھا اب اس کا انتظار کررہا تھا۔  جب وہ اسے سیڑھیوں سے اُترتی اپنی طرف آتی دکھائی دی۔ سفید  گھٹنوں تک آتی شرٹ کے ساتھ سفید ہی جینز پہن رکھی تھی۔ سردی سے بچنے کے لیے محض ایک جرسی پہنی تھی۔ اور پیروں میں فلیٹ شوز پہنے وہ اس کے سامنے آرُکی۔ 

"چلیں۔ " وہ اس کے قریب آتی  ہوئی بولی۔

وہ جو اسے دیکھ کم گھور زیادہ رہا تھا۔

"یار ہم اپنے شہر میں نہیں مری میں ہیں باہر بہت ٹھنڈ ہے۔ گھر کے اندر تمہیں محسوس نہیں ہورہا مگر جب ہم باہر جائیں گے تو تمہیں اندازہ ہوجاۓ گا۔قلفی جم جاۓ گی تمہاری۔" وہ اس کا لاپرواہ انداز دیکھ کر جھنجھلا سا گیا تھا۔

"مگر میں کمفرٹیبل ہوں اس ڈریس میں۔" وہ منمنانے والے انداز میں بولی۔

"بالکل بھی نہیں۔ " وہ اس کا ہاتھ پکڑ واپس اوپر کی جانب بڑھا۔الماری سے لونگ کوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا۔

"میں ہرگز بھی یہ نہیں پہنوں گی۔ " وہ بھاری سا کوٹ دیکھ کر منہ بنا گئ۔

"اچھا پہن لو اگر تمہیں باہر جاکر لگا کہ اس کی ضرورت نہیں تو اُتار دینا۔ ٹھیک ہے۔" وہ اس منانے والے انداز میں بولا۔

میرو نے منہ بناتے پہن لیا۔اب وہ شوز ریک میں سے جاگرز نکال کر اس کے پیروں میں بیٹھا تھا۔

اس نے میرو کے پیر تھامنے چاہے جب اُس نے گھبرا کر پاؤں پیچھے کھینچے۔

"میں خود ہی پہن لوں گی یزدان ایسے اچھا نہیں لگتا۔" وہ مسلسل اپنے پیر پیچھے کھینچ رہی تھی مگر وہ اس کا پاؤں پکڑے شوز پہنانے لگا۔

"مجھے اچھا نہیں لگا۔ میں کبھی بھی اپنے پیروں میں آپ کو جُھکانا نہیں چاہتی۔" وہ دھیمی سی آوازمیں بولی۔

"یار اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے تم مجھے جُھکا رہی ہو۔میں نے اپنی مرضی سے سے تمہارے پیروں کا تھاما ہے۔" وہ اس کے روبرو ہوتا ہوا بولا۔

اب یزدان نے غور سے اسے دیکھا وہ اس لانگ کوٹ میں چُھپی بچی لگ رہی تھی جسے زبردستی یہ سب پہنایا ہو۔اس کا پُھولا پُھولا منہ دیکھ اکے ڈھیر سارا پیار آیا وہ واقعی ہی یہ سب نہیں پہننا چاہتی تھی۔

یزدان نے الماری سے مفلر نکالے اچھے سے اس کی گردن کے گرد لپیٹا تھا۔

"حد ہے اب میں چلوں گی کیسے یہ ڈھائی کلو کا کوٹ اور یہ اتنے بھاری شوز اور اوپر سے یہ مفلر بھی میں نے حجاب اوڑھا ہوا ہے میرے نہیں خیال اس مفلر کی ضرورت ہے۔ لوگ مجھے دیکھ کر ہنسیں گے۔بھالو لگ رہی ہوں۔" اس نے جھنجھلاتے ہوۓ اسے نکالنا چاہا۔

"یار اس کی ضرورت ہے تبھی پہنایا ہے۔اور دیکھو میں نے بھی یہ سب پہن رکھا ہے۔" اس نے اپنے کوٹ اور شوز کی طرف اشارہ کیا تھا۔

"ہاں تو آپ اتنے ہٹے کٹے ہیں اتنے سے وزن سے آپ کا کیا ہوگا۔جن کہی کہ ۔" وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔

یزدان مسکراہٹ دباتا اسے اپنے حصار میں قید کرچُکا تھا۔

"اگر یہ جن تمہیں کھا جاۓ پھر۔" وہ اس کی سُرخ ناک پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

میرو کی پلکیں شرم سے جُھکتی چلی گئ۔وہ اس کے جُھکے عارضوں کو اپنے لمس سے دہکا گیا۔ آخری لمس اس کی ٹھوڑی پر چھوڑتا اس کی کمر پر مضبوط گرفت قائم کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

باہر آکر سرد ہوا کے جھونکے نے ان کا استقبال کیا۔ ہر طرف پھیلی برف سے میرو سردی کی شدت کا اچھے سے اندازہ لگا چکی تھی۔ اب وہ اس کی احتیاط بھی سمجھ چکی تھی۔اسے واقعی ہی سردی محسوس ہوئی اس نے مزید یزدان کے سینے میں گُھستے پناہ لی۔

"ابھی کوئی کہہ رہا تھا کہ یہ سب نہیں پہننا۔" وہ اس کے سردی سے بجتے دانتوں کو دیکھ کر افسوس سے بولا۔

"زیادہ ہیرو مت بنیے۔" وہ اس کی گرفت سے نکل کر آگے کی طرف چلنے لگی۔جب یزدان اسے کھینچ کر دوبارہ اپنی گرفت میں لے چُکا تھا۔

"اب تم میری پناہوں سے ہر گز نہیں نکل سکتی۔" وہ اس پر مزید گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کینٹین میں ایک کونے والے ٹیبل پر اس کے سامنے بیٹھا جانے اس کے چہرہ پر کیا تلاش رہا تھا۔

"میں کیا سوچ رہا تھا بھلا؟" وہ اس کے چہرے پر نظریں ہٹاۓ بغیر بولا۔

"مجھے کیا پتہ آپ کیا سوچ رہے تھے۔" نشوہ نے لاپرواہی سے ناک سے مکھی اُڑائی۔

احان نے دانت پیس کر اس آفت کی پرکالہ کو دیکھا۔ مجال تھا جو وہ کوئی جواب سیدھا دے دے۔

"میں سوچ رہا تھا کیوں نا ہم شادی کرلیں ایک ساتھ ہی یونی آجایا کریں گے۔" وہ ہنستا ہوا نیا شوشا چھوڑ چُکا تھا۔

نشوہ نے گُھور کر اسے دیکھا ابھی وہ خود پڑھ رہا تھا اسے شادی کی زیادہ ہی جلدی تھی۔

"تمہیں کوئی کام نہیں ہے جیسے ہی مجھے فری دیکھتے ہو فوراً ہی ٹپک پڑتے ہو۔اور تمہاری وہ زارا تمہیں کچھ دیر پہلے ڈھونڈ رہی تھی جاؤ اُسے جاکر مل لو۔"وہ اِس کے سارے ارادوں پر پانی پھیرتی ہوئی بولی۔زارا کے ذکر پر اس نے بُرا سا منہ بنایا۔

"اچھا یار چلو مجھے یہ تو بتاؤ تمہارے گھر میں کون کون ہوتا ہے۔ ذرا اندازہ کرنے دو کتنے لوگوں کومنانا پڑے گا۔" وہ تجسُس بھرے انداز میں ٹیبل پر ہاتھ ٹکاتے ہوۓ بولا۔

"میری فیملی خاصی بڑی ہے۔ شاید انہیں مناپے مناتے تم پُھس ہوجاؤ۔سب سے پہلے میرے داجان،بابا چاچو ،بڑے پاپا اور سب سے بڑھ کر میرے بھائی پولیس والے ہیں۔منٹوں میں سب کی ہوا نکال دیتے ہیں۔" وہ اسے ڈرانے والے انداز میں بولی۔وہ جو اتنی بڑی فیملی کا سُن کر آنکھیں کھولے بیٹا تھا آخری بات پر گڑبڑا کر رہ گیا۔ 

"تم نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ تمہارا کوئی بھائی پولیس میں ہیں۔ " وہ جھنجھلاتے ہوۓ انداز میں بولا۔ اس نے سُن رکھا تھا کہ پولیس والے سخت طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ پتہ نہیں وہ اس کے رشتے پر حامی بھرے گا یا نہیں۔

"اب بتا دیا نا۔ " وہ لاپرواہی سے کندھے اچکا کر بولی۔ 

احان محض اسے گھور کر رہ گیا۔ اس کی پتلی ہوئی حالت دیکھ نشوہ کو ہنسی آئی تھی۔

"اچھا بھئ تم بھی تو بتاؤ تمہاری فیملی میں کون کون ہوتا ۔" وہ اب پُرتجسُس نظریں  اس پر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔ 

"بس میں اور میری ماما ۔ میری کُل کائنات۔ ورلڈ کی بیسٹ موم ہے میری ماما۔ " ماں کے ذکر پر اس کے چہرے پر خوبصورت سی مسکان  کِھل گئ۔

"اگر میں کہوں کے شادی کے بعد تمہیں بہت زیادہ آسائشیں نہ دے پاؤں تو تم کیا کہو گی۔ " حالانکہ ان کے کھر کسی چیز کی بھی کمی نہ تھی۔  شہیر نے کبھی کوئی کمی ہونے ہی نہ دی تھی۔  مگر پھر بھی جانے وہ کیا جاننا چاہتا تھا۔  اب وہ خاموشی سے اس کے جواب کا منتظر تھا۔ 

"تو میں کہوں گی کی مجھے دولت عیش و آرام سے  سادہ ایک محبت بھرا آشیانہ چاہیے بس۔ " وہ سادہ سے جواب سے بھی اسے پُرسکون کر گئ تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم آج اس کے ساتھ ڈیرے پر آیا تھا بلکہ وہ خود اسے کھینچ کر لایا تھا۔ اب وہ پُرسکون سے بیٹھے باتیں کررہے تھے۔جب دفعتاً صارم کا موبائل بجا۔ موبائل پر آتی احان کی کال دیکھ کر اس کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے۔ 

"بھائی میں کال سُن کر آتا ہوں۔" وہ کمرے کے ایک کونے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ دونوں اِدھر اُدھر کی باتوں میں مصروف ہوچکے تھے۔

دفعتاً کوئی تیز تیز قدم اُٹھاتا اندر کی جانب آیا۔ اس نے سامنے بیٹھے ہشام کو دیکھ کر سلام کیا۔اس کا دھیان صارم کی طرف بالکل نہیں گیا تھا۔

وہ ہشام کا کوئی خاص بندہ تھا۔ جو اردگرد کا خیال کیے  بنا شروع ہوچکا تھا۔ 

" سردار ! وہ بی بی جی کی طبعیت پچھلے ایک ہفتے سے خراب ہے وہ لگاتار ڈاکٹر کے پاس جارہی ہیں۔ اور ڈاکٹر بھی۔۔" وہ بغیر رُکے کسی ٹرین کی طرف بولنا شروع ہوچکا تھا۔

"رشید۔۔"  وہ مزید اسے کچھ اور بھی بتانا چاہتا تھا جب ہشام کی تنبیہ آواز پر اس کی  چلتے زبان کو بریک لگی۔

معاً اس کا دھیان کونے میں کھڑے صارم کی طرف گیا جو موبائل ہاتھ میں پکڑے پُرسوچ نظریں انہیں پر ٹکاۓ کھڑا تھا۔ہشام کے چُپ کروانے کا مقصد وہ سمجھ چُکا تھا۔ 

اس نے ڈرتے ڈرتے ایک نظر ہشام پر ڈالی جو کھا جانے والی نظروں سے اسی کو گھور رہا تھا۔ رشید نے تھوک نگل کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے باہر نکلنے کا اشارہ کررہا تھا۔  وہ فوراً گدھے کے سینگ کی طرح غائب ہوا۔ 

صارم۔ کی پُر سوچ نظریں ابھی بھی باہر جاتے رشید کی پُشت پر ٹکی تھی۔اس کے چہرے سے کوئی بھی یہ اخذ نہیں کرسکتا تھا کہ وہ سوچ کیا رہا ہے۔

صارم کال سُنتا خاموشی سے آکر بیٹھ گیا۔  اس نے ایک بار بھی اس بارے میں سوال نہیں پوچھا تھا جس سے ہشام بھی مطمئن ہوگیا تھا۔ وہ ابھی اس کے قریب سے اُٹھ کر کسی ضروری کام کے لیے باہر کی طرف گیا تھا۔ ہشام کے جاتے ہی اس کے ماتھے پر لکیروں کا جال بکھرا۔ اس نے قدم باہر کی جانب بڑھاۓ۔ جہاں کچھ دُور ہی اسے رشید کام کرتا نظر آیا۔  صارم کے قدم خود بخود اس کی طرف بڑھ گۓ۔ 

رشید نے جب صارم کو اپنی جانب آتے دیکھا اس کے چہرے کی ہوائیاں اُڑ گئ۔ اگر ان سب کے ذرا سی بھی بھنک صارم کو لگ جاتی تو ہشام اسے قتل کرنے میں منٹ بھی نہ لگاتا۔  اس نے بےاختیار نظر چُراتے تھوک نگلا۔ 

"ہاں رشید کیسے ہو؟  کام سب ٹھیک چل رہا۔  کھیتوں میں کوئی مسئلہ تو نہیں۔ " وہ اس کے قریب آتا اس کے کندھے پر ہاتھ ٹکا گیا۔ رشید نے ماتھے پر آیا پسینہ رومال سے صاف کیا۔  اور چہرے پر بشاشت لاتے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ 

"جی چھوٹے صاحب سب بالکل ٹھیک چل رہا ہے۔  کہی کوئی مسئلہ نہیں۔ " رشید تابعداری سے اسے دیکھتے ہوا بولا۔ 

صارم کو بھلا ان کاموں کی کیا سمجھ وہ مہینوں بعد گاؤں کا ایک چکر لگاتا تھا۔ وہ رشید سے پوچھنا کچھ اور ہی چاہ رہا تھا۔وہ گہرا سانس بھرتا مُدعے کی بات پر آیا۔

"رشید اندر تم کیا کہہ رہے تھے؟" اس نے کھوجتی نظریں اس کے چہرے پر ٹکائیں۔

"چھوٹے صاحب!  آپ کے کام کی بات نہیں تھی۔  میں تو بس  ایسے ہی۔ ۔۔"  صارم نے اس کی بات بیچ میں ہی کاٹ دی۔ 

"مگر مجھے پھر بھی جاننا ہے جلدی جلدی سب بتاؤ۔ " اس دفعہ اس کے لہجے میں سختی تھی۔ 

"چھوٹے صاحب میں نہیں بتا سکتا نہیں تو سردار مجھے جان سے مار دیں گے۔" وہ بیچارہ منمنا کر رہ گیا۔

صارم نے اسے دیکھ کر آنکھیں گُھمائی تھی۔

"اگر تم نے مجھے ابھی سارا سچ نہ بتایا تو تمہارا قتل میرے ہاتھوں بھی واجب ہے۔" اب واقعی ہی اسے تجسُس ہونے لگا تھا کوئی تو ایسی بات تھی جو ضروری تھی۔

جہاں تک وہ اس کی باتوں کو سمجھ پایا تھا کہ کسی لڑکی کی بات تھی۔ وہ واقعی ہی جاننا چاہتا تھا کیونکہ اس کا بھائی لڑکیوں سے کوسوں دُور رہنے والا انسان تھا۔ 

کچھ تو تھا ایسا جو اسے کھٹک رہا تھا۔ 

صارم اب بھی اس کی چہرے پر نگاہیں ٹکاۓ اس کے بولنے کا منتظر تھا۔ 

رشید نے اسے ایسی نظروں سے دیکھا کہ شاید اسے ترس آجاۓ۔ مگر بےسُود۔

"چھوٹے صاحب مجھے زیادہ نہیں پتہ بس اتنا جانتا ہوں کہ گاؤں کے باہر ہشام سر نے ایک گھر خریدا ہے وہاں انہوں نے کسی لڑکی کو رکھا ہے۔  مجھے بس اُس پر نظر رکھنے کو کہا ہے۔میں زیادہ نہیں جانتا۔ کیونکہ سردار کسی کو بھی اپنے معاملوں سے آگاہ نہیں کرتے۔ بس میں اُن کو بی بی کے آجانے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ " وہ ایک ہی سانس میں بولتا چلا گیا۔ صارم نے کھوجتی نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھا وہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا وہ واقعی ہی سچ کہہ رہا تھا۔ وہ سادہ سا بندہ تھا اس کی تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ جتنا جانتا تھا وہ بتا چُکا ہے۔ 

وہ واقعی ہی سچ کہہ رہا تھا اُس کو اتنی ہی معلومات تھی۔ کیونکہ ہشام بہت کم کسی کو اپنے راز میں شامل کرتا تھا۔  

صارم کو سُن کر دھچکا لگا تھا کہ ہشام نے واقعی ہی کسی لڑکی کو رکھا ہوا تھا۔  اب تو اسے ساری حقیقت جاننے کی بےچینی ہورہی تھی۔

"فوراً اڈریس دو مجھے اُس گھر کا۔" وہ سنجیدہ تاثرات دیکھ اسے گھر کا پتہ دے چُکا تھا۔

وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

اب یقیناً ہشام اس کو چھوڑنے والا نہیں تھا۔رشید کے سوچ سوچ کے پسینے چھوٹ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ بستر پر براجمان اسے اپنے حصّار میں لیے بیٹھا تھا۔ سامنے لیپ ٹاپ کُھلا تھا۔ میرو اس کا حصّار توڑتی اس کے روبرو آئی۔

"ہم میرے پسند کی مووّی دیکھیں گے۔" وہ اسے گھورتی ہوئی انگلی اُٹھا کر بولی۔

"یار آج میرے پسند کی دیکھ لو کل بھی تمہاری ہی پسند کی دیکھی تھی۔ یار کون دیکھتا ہے ایسی فضول سی بکواسیات۔ " وہ اس کی انگلی میں اپنی انگلی پھنساتا ہوا بولا۔ 

"میں دیکھتی ہوں ایسی بکواسیات ۔اور آپ کو بھی دیکھنی پڑے گی۔ " وہ اب بھی دھونس بھرے لہجے میں بولے۔ 

وہ تو ایسے ہی بات کو طوالت دے رہا تھا۔  دو سال ان حسین لمحوں کے بغیر گزارے تھے۔  اب دل چاہتا تھا کہ وہ بولتی رہے۔ اس کا بولا ایک ایک لفظ یزدان بڑی غور سے سُن رہا تھا۔

دفعتاً اس کی جیب میں پڑا موبائل فون تھرا اُٹھا۔ وہ سیدھا ہوکر بیٹھتا فون پر آنے والی  کال کو دیکھ رہا تھا۔ آنے والی کال عرید کی تھی۔  وہ پچھلے ایک ہفتے سے اسے کال کررہا تھا۔  جسے یزدان بالکل بھی پِک نہیں کررہا تھا۔ جب سے وہ میرو کو وہاں سے لایا تھا مسلسل اس کی کالز آرہی تھیں۔  

آج اس کا موڈ خوشگوار تھا۔ وجہ تھی وہ لڑکی جو سامنے بیٹھی تھی۔

اس نے کال اُٹھا کر فون کال سے لگایا۔

"ہاں ایس پی بول۔" وہ عرید کو تپانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا تھا۔

"میرو کہاں ہیں؟" دوسری طرف سے چھوٹتے ہی پوچھا گیا۔

"اچھا اُسے میرا ساتھ بھیجا تھا۔" وہ لاعلمی کا مظاہرہ کرتا ہوا بولا۔

"بکواس بند کر مجھے پتہ ہے تو ہی اُسے وہاں سے لایا ہے۔بات کروا میری اُس سے۔" وہ دبّے دبّے غُصّے سے چلایا۔

"میں تو یہاں ہنی مون پر آیا ہوں اپنی بیوی کے ساتھ۔" وہ مزے سے مسکراہٹ دباتے ہوۓ بولا۔

میرو نے گھور کر اس بےشرم انسان کو دیکھا۔

"کیا بکواس کررہا ہے؟ میں تجھ سے پوچھ رہا ہوں میرو کدھر ہے۔" وہ جھنجھلایا سا چلایا۔ 

میرو کو اندازہ ہوگیا تھا کہ دوسری طرف عرید ہے وہ اس کے ہاتھ سے فون کھینچتے کان کو لگا چکی تھی۔ یزدان اس اچانک ہونے والی افتاد پر حیران سا رہ گیا۔

ایک نظر میرو پر ڈالی جو سکون سے فون کان کو لگاۓ بیٹھی تھی۔

"عرید بھائی! میں میرو بول رہی ہوں۔" وہ عرید کی آواز سنتے جھٹ سے بولی۔

"میرو گڑیا۔ تم ٹھیک تو ہو۔ یزدان تمہیں زبردستی لے کر گیا ہے۔" وہ فکرمندی بھرے لہجے میں بول رہا تھا۔

"عرید بھائی میں بالکل ٹھیک ہوں آپ فکر مت کریں۔ اور یزدان کی آپ فکر مت کریں انہیں ہینڈل کرنا میرا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ میں نے انہیں تیر کی طرح سیدھا نہ کردیا تو کہیے گا۔ " اس کی گوہر افشانیوں پر یزدان کا دل عش عش کر اُٹھا۔ 

دوسری طرف اس کے انداز دیکھ عرید کے چہرے پر مسکراہٹ لہرائی۔ 

"آپ فکر مت کریں اور گھر والوں کو انفارم بھی کردینا کہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ " وہ اسے تسلی دینے والے انداز میں بولتی ایک دو مزید باتوں کے بعد فون بند کرچکی تھی۔ 

اس نے فون بند کرکے یزدان کی طرف بڑھایا۔ 

یزدان نے فون کو اگنور کرتے اسے اپنی گرفت میں لیا۔

"کیا کررہے ہیں یزدان۔چھوڑیں مجھے۔" وہ اس کی گرفت پر کسمسا کر رہ گئ۔

"ابھی تم نے کہا کہ مجھے ہینڈل کرنا تمہارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں یہ کھیل۔" وہ انتہائی معصومیت سے کہتا اس کے گال کو چومتا ہوا بولا۔

میرو نے بوکھلا کر اسے دیکھا۔زبان تالو سے جا لگی۔

یزدان اس کے معصوم چہرے کے اُڑے رنگ دیکھ کر محظوظ ہوا۔

گال سے ہوتے اس کے لب ٹھوڑی پر ٹکے۔میرو کی ساری تیز طراری پل میں ہوا ہوئی۔وہ گھبراہٹ کے مارے آنکھیں بند کر گئ۔یزدان کا ایک ہاتھ اس کی کمر کےگرد لپٹا گُستاخیاں کررہا تھا۔

اس کے بند آنکھوں کو دیکھ وہ اس پر جُھکتا ان پر ہونٹ ٹکا گیا۔اس کے لمس پر اُس کی پلکیں تھرا اُٹھی۔اس کی کپکپاتی پلکوں کے رقص نے اس کے دل کو بےچین کیا تھا۔

اپنے چہرے پر پڑتی اس کی گرم سانسیں میرو شدت سےمحسوس کرسکتی تھی۔اس کی سانسیں سینے میں اٹکنے لگیں۔چہرہ انتہائی قربت پر دہک اُٹھا۔ 

وہ  خود پر ضبط کھوتا اس حسین منظر کا شکار ہوتا اس کے ایک ایک نقش کو اپنے لمس سے متعبر کرنے لگا۔ اس کے ہونٹ میرو کے گال ،ٹھوڑی ,لب ،آنکھوں پر سرک رہے تھے۔ وہ دیوانہ وار ایک ایک نقش کو چومتا چلا گیا۔اس نے الگ ہوکر اس کی طرف دیکھا۔جو گہرے گہرے سانس لیتی خود کو نارمل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ چہرے خون چھلکانے لگا تھا۔  یزدان نے اسے تھام کر سینے سے لگایا تھا۔ وہ اس کے سینے سے لگی آنکھیں موند گئ۔

یزدان نے ایک عقیدت بھرا بوسہ اس کے ماتھے پر چھوڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ وہاں سے نکلتا اس پتے کی طرف بڑھا جو رشید نے اسے دیا تھا کون تھی وہ لڑکی اور اس کے بھائی کا اُس سے کیا رشتہ تھا۔ جیسے جیسے وہ سوچ رہا تھا اس کا دماغ اُلجھتا جارہا تھا۔ آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد وہ اس گھر کے باہر پہنچا۔ اس نے جیسے ہی قدم گیٹ کے اندر کی جانب بڑھاۓ گارڈ نے اسے وہی روک لیا۔ 

"کون ہو تم؟  اور یوں منہ اُٹھاۓ اندر گُھسے آرہے ہو۔ " گارڈ غُصّے سے اِس کی طرف دیکھ کر بولا۔ 

"مجھے اندر جانے دو ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔ میں سردار ہشام کا بھائی ہوں۔ " صارم کے دماغ نے تیزی سے کام کیا تھا۔

"کوئی بھی یوں منہ اُٹھا کر بول دے گا کہ میں سردار کا بھائی ہوں اور ہم جانے دیں گے۔جاؤ بھئ کام کرو اپنا جاکر۔ سردار نے ہمیں سختی سے منع کیا ہے  کسی کو بھی اندر  نہ جانے دیں۔  " گارڈ ابھی بھی اُسی غُصّے بھرے انداز میں اسے جانے کا بول چُکا تھا۔

"مجھے اندر جانے دو میں واقعی ہشام کا بھائی ہوں انہوں نے ہی مجھے بھیجا ہے۔ کیونکہ اُنہیں پتہ چلا ہے کہ وہ بیمار ہیں۔ وہ خود نہیں آسکتے تو مجھے بھیج دیا۔اگر ہشام بھائی کو پتہ لگا کہ تم نے مجھے روکا ہے تو اچھا نہیں ہوگا۔" اس کا لہجہ وارننگ بھرا تھا۔

گارڈ ایک منٹ کے لیے گڑبڑا سا گیا تھا۔ جانتا تھا اُس لڑکی کے لیے اپنے سردار کی جنونیت۔ کیسے اُس کے نہ ملنے پر اس نے سب کا خون خُشک کردیا تھا۔

"صاحب جی میری نوکری کا سوال ہے۔" وہ کچھ کچھ راضی نظر آیا تھا۔

"ہاں ٹھیک ہے اب جانے دو مجھے اندر۔" وہ اسے نیم رضامند دیکھ فوراً بولا۔ گارڈ ایک سائیڈ پر ہوتا اسے اندر جانے کا راستہ دے چُکا تھا۔ 

اپنے پلان کے کامیاب ہونے پر وہ فتح مندی سے مُسکرایا۔  تیز تیز قدم اُٹھاتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔ اس نے جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھا گہرے سناٹے نے اس کا استقبال کیا۔ گھر خاصا بڑا تھا اسے سمجھ نہ آئی کہ پہلے کس طرف چیک کرے۔ 

"کوئی ہے کیا اندر؟ " وہ وہی سے کھڑا اونچی آواز میں چلایا۔ 

فاریہ جو اپنے کمرے میں موجود تھی کسی کے چیخنے پر باہر آچکی تھی۔ کچن میں کام کرتی فی الوقت ملازمہ بھی باہر آگئ تھی۔فاریہ نے لاؤنج میں کسی لڑکے کو موجود پایا تو وہ گھبرا سی گئ تھی کون تھا وہ اور گارڈ نے اسے اندر کیسے آنے دیا۔

صارم کا سارا دھیان سامنے سے آتی فاریہ کی طرف تھا۔

"کون ہو تم ؟ اور کیا کررہے ہو یہاں؟ آپا فوراً گارڈ کو بلائیے۔" وہ ایک نظر صارم پر ڈالے ملازمہ کو بھی گارڈ کے بلانے کا اشارہ کرچکی تھی۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گارڈ کو پتہ ہے کہ میں اندر ہوں۔اور آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے ہشام کا بھائی ہوں میں۔" صارم ملازمہ کو رُکنے کا اشارہ کرتا فاریہ پر ایک نظر ڈال کر بولا۔جس کا رنگ ہشام کے نام پر متغیر ہوچکا تھا۔مگر وہ خود کو جلد ہی سنبھال گئ۔

"کیا کرنے آۓ ہو یہاں۔ہشام کو پتہ لگا تو غُصّہ کریں گے۔" وہ سختی سے بولتی جانے کے لیے پلٹی۔

"رُک جائیے کیا میں آپ سے کچھ دیر بات کرسکتا ہوں۔" فاریہ نے پلٹ کر ایک نظر اسے دیکھا تھا۔

"کیا بات کرنی ہے جلدی بولو۔" وہ عجلت بھرے انداز میں وہی سے بولی۔

صارم نے ملازمہ کی طرف دیکھا۔ فاریہ نے اُسے جانے کا اشارہ کیا وہ خاموشی سے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔

اب وہ خاموشی سے کھڑی اس کے بولنے کی منتظر تھی۔

"آپ کا ہشام بھائی سے کیا رشتہ ہے؟ آپ کس حق سے یہاں اس گھر میں موجود ہیں۔" وہ بنا تمہید باندھے فوراً مُدعے کی بات پرآیا۔وہ جانے کیا جاننا چاہتا تھا۔

"اس سوال کا جواب جا کر اپنے بھائی سے پوچھیے۔" وہ بغیر لگی لپٹی بولی۔

"اگر انہی سے پوچھنا ہوتا تو یہاں کیوں موجود ہوتا۔" وہ اسے جتاتا ہوا بولا۔

"آپ کو جاننے میں کیوں اتنی دلچسپی ہے۔" وہ سوالیہ نظر اس پر ٹکاتی ہوئی بولی۔

صارم اسے کیا بتاتا کہ اگر وہ جو سوچ رہا تھا اگر وہ سچ تھا پھر اس کی بہت سے مشکلیں آسان ہوسکتیں تھیں۔

اسے ماہا تک پہنچنے کا دُھندلا سا راستہ نظر آیا تھا وہ پوری جان لگا کر اس راستے کو پار کر لینا چاہتا تھا۔

"میں جاننا چاہتا ہوں آخر آپ کیوں یہاں موجود ہیں۔" اس کا سوال اب بھی جُوں کا تُوں تھا۔

فاریہ نے گہری سانس لیتے اپنے اور ہشام کے رشتے سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا۔کیونکہ اس کے لیے یہ رشتہ اس کی زندگی کی سچائی تھا نہ کہ کوئی گناہ جسے وہ لوگوں سے چُھپاتی پھرتی۔

"ہشام کی بیوی ہوں میں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔

صارم اپنی جگہ سُن ہوگیا یعنی جو وہ سوچ رہا تھا وہ صحیح تھا۔

"کب سے ؟" اس کے لبوں سے دو لفظی سوال آیا۔

"دو سالوں سے ان کے نکاح میں ہوں۔" وہ بغیر جھجھکے بولی۔

"آپ کے گھر والے۔" صارم نے ایک نیا سوال کیا۔

"یتیم ہوں میں ۔ کوئی نہیں ہے میرا اس دنیا میں۔"یہ بولتے ہوۓ اس کے لہجے میں گہری یاسیت تھی۔

"کیا آپ جانتی ہیں کہ ہشام بھائی کی شادی ہورہی ہے؟" اس کے دل میں جیسے اطمینان سا اُتر رہا تھا۔ ان سب کے بعد وہ ہشام کو ماہا سے شادی تو ہر گز نہیں کرنے دے گا۔

" جانتی ہوں۔" اس کے جواب پر صارم کو جھٹکا لگا تھا۔ اگر وہ سب جانتی تھی تو چُپ کیوں بیٹھی تھی۔

"تو آپ خاموش کیوں بیٹھی ہیں۔" صارم کی حیرانگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

"کیونکہ ہشام کے لیے یہ رشتہ شاید معنی نہیں رکھتا یا شاید وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں یتیم ہوں میں اُن کا کیا بگاڑ لوں گی۔بس اس لیے میں خاموش ہوں۔ کیونکہ میں واقعی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اس جگہ کے علاوہ کوئی ٹھکانا نہیں ہے میرے پاس۔ ہاسٹل واپس جاؤں گی تو سب باتیں کریں گے۔ تو بس جتنا مل رہا ہے اُس پر خاموش ہوں۔" وہ بول رہی تھی صارم کو یوں لگا کہ اس کا لفظ لفظ بین کررہا ہو۔ اس کے لفظوں میں گہرے دُکھوں کی رمق تھی۔

وہ لڑکی ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھی۔ گوری رنگت پر تیکھے نین نقوش۔ہیزل براؤں آنکھوں میں گہری ویرانگی اس کی ذات کی کمی شدت سے بتا رہی تھی۔

"مجھے یقین نہیں آرہا ہشام بھائی کسی کے ساتھ ایسا بھی کرسکتے ہیں۔کسے کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔" وہ بےیقینی بھرے انداز میں بول رہا تھا۔ابھی تک وہ صرف اپنے اور ماہا کے بارے میں سوچ رہا تھا مگر اب اسے اس لڑکی سے شدید ہمدردی ہورہی تھی۔

"تمہارے بھائی ہے تمہیں یقین آۓ گا بھی نہیں۔" وہ لفظوں سے گہرا وار کرتی ہوئی بولی۔ مگر صارم نے اس کی بات کا بُرا نہ منایا۔

"آپ حویلی کیوں نہیں آئیں۔ اگر ہشام بھائی آپ کو نہیں لانا چاہتے تو آپ خود بھی تو آسکتی تھی أکر سب کو حقیقت سے آگاہ کرتیں۔"صارم کو اس کا خاموش رہنا بالکل پسند نہ آیا تھا۔

"اور اگر ہشام مجھے جُھٹلا دیتے۔ ہمارے نکاح کو جُھٹلا دیتے۔ تو کیا تم لوگ یقین کرتے کہ میں سچ کہہ رہی ہوں۔ بلکہ تم سب مجھے یہ کہہ کر دُھتکار دیتے کہ کوئی عام سی لڑکی سردارنی بننے کی چاہ میں گاؤں کے سردار میں الزام لگا رہی ہے۔مجھے روپے پیسے کی نہیں صرف ہشام کے ساتھ کی چاہ ہے جو آہستہ آہستہ مرنے لگی ہے۔ہشام کی لاتعلقی میرے محبت کا بڑی بے دردی سے گھلا گھونٹ رہی ہے۔" وہ اپنی باتوں سے صارم لاشاری کو لاجواب کررہی تھی۔

صارم کچھ پل بول ہی نہ پایا تھا۔

"آپ میرے ساتھ چلیے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔" وہ اسے جیسے نئ راہ دکھا رہا تھا۔

"میں نہیں جاؤں گی۔" وہ سپاٹ سے انداز میں بولی۔

"پلیز! کیا آپ چاہیں گی کہ کسی اور معصوم کی زندگی بھی برباد ہوجاۓ جو جانے کتنے خواب سجاۓ بیٹھی ہے۔" وہ اُمید بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولا۔

"پلیز بھابھی آپ میرے ساتھ چلیے۔ میں ماہا سے محبت کرتا ہوں اُس کی زندگی برباد ہوتے نہیں دے سکتا۔ آپ سے التجا کرسکتا ہوں۔ آپ میرے لیے قابلِ محترم ہیں۔ اس دفعہ آپ کے ساتھ آپ کا بھائی کھڑا ہے کوئی آپ پر انگلی اُٹھا ہی نہیں سکتا۔" وہ دو قدم آگے آتا ہوا بولا۔

اس کے اتنے عزت دینے پر اس کی آنکھیں بھر آئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے گیارہ بجے کا وقت تھا جب وہ دروازہ کھولے اندر آۓ تھے۔شیریں لاؤنج میں رکھے صوفے پر بیٹھی تھی وہ اس کی طرف آتے انہیں سلام کر کے اس کا ماتھا چوم گۓ تھے۔شیریں کچھ نہ بولی خاموش سی بیٹھی رہی پھر گہری سانس بھر کا اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں چاۓ لاتی ہوں۔" وہ چاۓ بنانے کچن کی طرف بڑھ گئیں۔جبکہ ان کا رُخ احان کے کمرے کی جانب تھا۔وہ آہستہ سے دروازہ کھولتے اندر آۓ تھے۔ پہلی ہی نظر بستر پر لیٹے احان پر پڑی تھی جو چِت لیٹا خواب خروش کے مزے لے رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گہرا سکون تھا۔شہیر نے حسرت سے اس کے پُرسکون چہرے کو دیکھا۔ اس کے چہرے پر بلا کا اطمینان تھا۔ شاید جو کسی کا دل نہیں دُکھاتے اُن کے چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں پُرسکون۔

وہ اس کے نزدیک بیڈ پر موجود خالی جگہ پر بیٹھ گۓ۔

انہوں نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا وہ واقعی ہی ایک اچھے باپ ہر گز نہیں تھے۔ انہیں اپنے نزدیک لیٹا اپنا بیٹا سالوں کی مسافت پر نظر آیا۔

وہ اپنی پریشانیوں میں اس کے وجود کو یکسر فراموش کرگۓ تھے.  وہ کیسے یہ بات بُھول سکتے تھے یہ وہ بچہ تھا اس کی ذرا ذرا سی بات کو نوٹ کرتا تھا۔اب یہ ذرا ذرا سی باتیں مل کر اس کے دل میں تناور درخت بن چُکی تھی۔ جو ان سے ناراض ہوتا تھا وہ معصوم سا احان تھا اب تو وہ بھرپور نوجوان تھا۔وہ ان کا چہرہ دیکھنا تک پسند نہیں کرتا تھا۔جب کبھی بھی وہ آتے تھے وہ اسے دیکھ کر گھر سے باہر نکل جاتا تھا ۔وہ کتنی دیر بیٹھے اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔ جو جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چُکا تھا۔ اس کے نقش شیریں اور شہیر دونوں سے کچھ کچھ ملتے تھے۔انہوں نے ماتھے پر بکھرے اس کے بال سنوارے تھے۔ اس کے ماتھے پر شفقت سے بھرپور بوسا دیا۔پھر اُٹھ کر کمرے سے باہر نکل گۓ۔ یہ تو اِن کے روز کا معمول تھا وہ اس کےسونے کے بعد اس کے قریب کتنی ہی بیٹھے رہتے۔کیونکہ صُبح کے وقت وہ اِن کو اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیتا تھا۔وہ تھکی سی سانس خارج کرتے جیسے آۓ تھے ویسے ہی کمرے سے نکل گۓ۔ وہ شیریں کو تلاشتے باہر لان میں آۓ تھے جو اپنے گرد شال لپیٹے کھڑی تھی۔رات کے پہر گُم صُم سی ہر چیز سے لاتعلق۔

"شیریں !میری سزا کب ختم ہوگی کب تم دونوں میرے ساتھ چلوگے۔" وہ ان کے قریب آتے ان کے رُوبرو جاکھڑے ہوۓ۔

"جب تک آپ سب میرے بیٹے کو نہیں منا لیتے۔ میرے بچے کا بھی اُن خوشیوں پر اُتنا ہی حق ہے۔کہی نا کہی تم لوگوں سے زیادتی تو ہوئی ہے۔ اور ایک بات شہیر میں تب تک آپ کے ساتھ نہیں آؤں گی جب تک احان آپ لوگوں کو معاف نہیں کرتا بےشک اُسے مناتے مناتے آپ کو ساری عُمر لگ جاۓ۔تو یقین مانیے میں ساری عُمر آپ کے ساتھ نہیں آؤں گی۔ کیونکہ احان ہی میری زندگی کا کُل اثاثہ ہے۔ اور میں سب سے زیادہ مُحبت اپنے احان سے کرتی ہوں۔ جانے آپ کی محبت اتنی زور آور کیوں نہیں ہے جو سالوں گُزرنے کے باوجود آپ اُسے نہیں منا سکے۔" وہ سامنے دیکھے بولتی چلی گئ۔ شہیر انہیں سُنتے اپنی سانس تک روک گۓ تھے۔ ان کی باتوں پر تڑپ اُٹھے تھے۔

"شیریں ایسا نہیں ہے یار میں احان سے بہت محبت کرتا ہوں۔" وہ یاسیت بھرے لہجے میں بولے۔ 

"جس دن آپ اُسے منانے میں کامیاب ہوگے اُس دن یقین کرلوں گی۔ " وہ ان پر ایک نظر ڈالتی اندر کی طرف بڑھ گئ۔  وہ انہیں خود سے دُور ہوتا ہوا دیکھتے رہ گۓ۔ 

یہ دوپہر کا وقت تھا جب داجان لاؤنج میں بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ چاۓ پینے میں مصروف تھے۔ جب پولیس یونیفارم میں ملبوس عرید نے لاؤنج میں قدم رکھا۔ 

"السلام علیکم داجان!  کیسے ہیں؟  آج یہاں لاؤنج میں خیر ہے۔ " وہ ان کے قریب صوفے پر بیٹھتا سر پر پہنی کیپ اُتار کر ٹیبل پر رکھ گیا۔ 

"وعلیکم السلام بچے ہم ٹھیک ہیں۔ مگر تم آج اس وقت گھر خیریت۔ " وہ ناک پر ٹکی عینک اُتار کر بولے۔ کتاب بند کرکے وہ سامنے ٹیبل پر رکھ چکے تھے۔ 

"جی داجان خیریت ہی سمجھیں۔ دراصل ایک بہت اہم کیس کے سلسلے میں ہمیں صُبح سوات کے لیے نکلنا ہے۔اس لیے اب گھر آگیا۔ جانے سے پہلے کچھ ضروری کام۔نپٹانے ہیں۔" وہ اپنے نۓ کیس کے بارے میں بتاتا ہوا  بولا۔

"یہ تو اچھی بات ہے۔ کہ تم سوات جارہے ہو ازوہ کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ نئ نئ شادی ہوئی ہے۔  یہی تو دن ہیں گھومنے پھرنے کے۔" وہ اسے ازوہ کو ساتھ لے کر جانے کا مشورہ دیتے ہوۓ بولے۔ 

"داجان ازوہ وہاں جاکر کیا کرے گی۔  میں وہاں کیس کے سلسلے میں جارہا ہوں گھومنے پھرنے نہیں۔میں اُسے ٹائم ہی نہیں دے پاؤں گا۔" وہ داجان کی بات پر نفی میں سر ہلاتا ہوا بولا۔ لاؤنج میں آتی ازوہ نے اس کی بات بخوبی سُنی تھی۔وہ اسے اگنور کرتی داجان کے پاس جاکر بیٹھ گئ۔

"یہ کیابات ہوئی۔ اب ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کہ تم سارا دن کیس ہی حل کرتے رہو گے۔ کچھ وقت نکال لینا بچی کے لیے۔گھر میں بند ہوکر رہ گئ ہے بیچاری۔" عرید نے بیچارگی سے ان کی طرف دیکھا۔ جن کے چہرے پر لکھا تھا کہ وہ انکار ہر گز نہیں کرسکتا۔ یعنی اسے ہر حال میں اُن کی یہ بات ماننی تھی۔

ازوہ نے اسی کی طرف دیکھا بھی نہیں تھا۔ عرید کو اس کے خراب موڈ کا اندازہ ہوچکا تھا۔وجہ بھی وہ بخوبی جان گیا تھا۔ وہ اسے ساتھ نہ لیکر جانے والی بات پر غُصّہ تھی۔

"داجان!  میں آتی ہوں کچھ کام ہے۔ " وہ ان کے قریب سے اُٹھتی سیڑھیاں چڑھتے ابنے کمرے میں گُم ہوگئ۔ 

عرید نے گہرا سانس بھر کر اپنی روٹھی زندگی کو جاتے دیکھا تھا۔ اس نے ایک نظر کلائی پر بندھی گھڑی پر ڈالی۔نشوہ کی واپسی کا ٹائم ہوچکا تھا۔اس نے آکر ازوہ کو منانے کا سوچا۔ 

"داجان ! میں ذرا نشوہ کو یونی سے پِک کرلوں۔ محترمہ کو خاصی شکایت ہے اپنے بھائی سے کہ آج کل میں اُنہیں وقت نہیں دے رہا۔  اس لیے آج میں خود اُسے لینے جاؤں گا۔ " وہ داجان کو بتاتا ایک آخری نظر اوپر کی طرف اُٹھاتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ کو اب اس کی عادت ہونے لگی تھی۔ وہ جو کسی سے سیدھے طریقے سے بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے سامنے کوئی اور ہی احان بن جاتا تھا۔ 

"نشوہ ماما تم سے ملنا چاہتی ہیں۔چلو نا کسی دن میرے ساتھ ماما سے ملنے۔" احان اس کا خوبصورت چہرہ نگاہوں میں بساتا ہوا بولا۔ 

"میں کیسے احان۔ ۔۔؟ میرا مطلب ہے تم نے اپنی ماما کو میرے بارے بتادیا۔ وہ کیا سوچ رہی ہوں گی میرے بارے۔ " وہ اس کی بات پر جواباً جھنجھلاتی ہوئی بولی۔ 

"وہ کچھ نہیں سوچ رہی ہوں گی۔  اگر سوچ بھی رہی ہوں گی تو اچھا اچھا۔ بلکہ انہیں اپنے بیٹے کی پسند دیکھنے کا اشتیاق ہے۔ " وہ اس کی پریشانی دُور کرتا نرمی سے بولا۔ 

نشوہ اب کچھ کچھ مطمئن نظر آرہی تھی۔

"بولو چلو گی نا اُن سے ملنے۔ " وہ اُمید بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولا۔ 

نشوہ نے محض اثبات میں سر ہلایا۔ 

"میں جلد سے جلد تمہارے گھر اپنی ماما کو بھیجنا چاہتا ہوں۔ کیا تم اجازت دیتی ہو؟ میں چاہتا ہمارے گھر والے ہمارے رشتے سے راضی ہو۔میں پورے حق سے تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔تمہیں دیکھتے ہوۓ یہ جھجھک نہ ہو کہ میں غلط کررہا ہوں۔" وہ چاہت سے بھرپور نظریں اس پر ٹکائیں۔ 

"اوکے ! تم بھیج دینا اپنی ماما کو۔ " وہ سر جُھکاتی جھجھکتی ہوئی بولی۔ جانے کیوں اس پل اس سے نظر ملانا دنیا کا مشکل ترین عمل تھا۔

"میں چلتی ہوں ڈرائیور آگیا ہوگا لینے۔" وہ کہتی ہوئی باہر کی جانب چل دی۔

احان بھی اس سے چند قدم کے فاصلے پر باہر کی جانب بڑھا۔

اس کی نظر نشوہ کی پُشت پر ہی ٹکی تھی۔جب کار سے نکل کر کوئی پولیس یونیفارم میں باہر آیا۔باہر آکر اس نے نشوہ کو سینے سے لگا کر ماتھے پر بوسہ دیا۔

پھر اسے کے لیے کار کا دروازہ کھول اسے بٹھاتا گاڑی بھگا کر لے گیا۔ 

پیچھے احان سُن کھڑا رہ گیا۔ 

"عرید آفندی۔ " اس کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ۔ اسے کون نہیں جانتا تھا آۓ دن اپنے کیسز کی کامیابی کے سلسلے میں سُرخیوں میں رہتا تھا۔ نشوہ کا تعلق آفندی خاندان سے تھا اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ملا تو وہ کبھی عرید سے بھی نہیں تھا۔مگر وہ اس سے تھوڑا بہت جانتا تھا۔

ان کی کار نظروں سے اوجھل ہوگئ تھی مگر وہ ابھی بھی نظریں اُسی جگہ پر ٹکاۓ کھڑا تھا۔

اسے  لگا ایک دفعہ پھر وہ تہی داماں رہ گیا ہے۔کیا زندگی کی خوشیوں پر اس کا حق نہیں تھا۔

وہ یونی سے نکلتا سیدھا گھر آیا تھا۔گھر پر موجود شہیر کو دیکھ اس کا غُصّہ سوا نیزے پر جا پہنچا۔

وہ شاید اسی کے منتظر تھے۔ اسے اندر آتا دیکھ صوفے سے اُٹھ کھڑے ہوۓ۔وہ اس وقت کسی سے بھی بات وہیں کرنا چاہتا تھا۔

"احان ۔۔۔۔۔" وہ اس کی طرف بڑھتے کچھ کہنا چاہتے تھے۔ مگر وہ ہاتھ اُٹھا کر انہیں اپنی طرف بڑھنے سے روک چُکا تھا۔

"کیا لینے آۓ ہیں یہاں؟ " وہ ان کی بات کاٹ کر اونچی آواز میں دھاڑا۔

اس کی اتنی اُونچی آواز سُن کر کچن میں کام کرتی شیریں باہر آچُکی تھی۔ 

شیریں نے باہر آکر پریشانی سے اس کا چہرہ دیکھا۔  جس کا سُرخ چہرہ غُصّے کی انتہا کی گواہی دے رہا تھا۔  آج سے پہلے  انہیں دیکھ کر اس نے ایسا ریئکٹ نہیں کیا تھا۔  وہ تو ان سے بات کیے بنا یا تو گھر سے چلا جاتا یا کمرے میں بند ہوجاتا تھا۔ 

"کیوں آپ سے میری خوشیاں ہضم نہیں ہوتی۔  آجاتے ہیں اُنہیں اُجاڑنے۔ " وہ مٹھیاں بھینچے غُصّے کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کررہا تھا۔

"احان ! میرے چاند کیا ہوا ہے؟ اتنا غُصّہ کیوں کررہے ہو۔" وہ اس کے نزدیک آتی اس کا کندھا سہلاتی ہوئی بولیں۔

احان نے ماں کا پریشان چہرہ دیکھا تو آنکھیں بند کرکے  خُود کو پُرسکون کرنے کے کوشش کی۔

"ماما ان سے بولیں یہاں سے چلے جائیں انہیں سامنے دیکھ کر مجھے اپنے سارے نقصان یاد آجاتے ہیں۔ " وہ چہرہ موڑتا ہوا بولا۔

شہیر شیریں کے کہنے سے پہلے ہی لمبے لمبے ڈگ بھرتے نکلتے چلے گۓ۔ان کے جاتے ہی احان بھی اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔شیریں پریشانی سے اس کے بند دروازے کو تکتی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پچھلے دس منٹ سے اس کا انتظار کررہا تھا۔ اسے  دیکھ عرید کے چہرے پر بھرپور مسکراہٹ کھلی۔

وہ کار سے نکلتا اس کی جانب آیا۔

"اب تو بھائی سے شکوہ نہیں ہے کہ آپ کو ٹائم نہیں دیتا۔ ہر کام پسِ پُشت ڈال کر تمہیں  لینے آیا ہوں۔" وہ نزدیک آتے اس کاماتھا چومتا ہوا بولا۔

"شکریہ بھائی۔آپ سچ میں دنیا کے بیسٹ بھائی ہیں۔ " وہ اسے دیکھ کر نہال ہوگئ تھی۔ 

پھر وہ گاڑی میں بیٹھتے یونیورسٹی سے نکلتے آئس کریم پارلر کی طرف بڑھے۔ بھرپور ٹائم وہ نشوہ کے ساتھ گُزارتا واپس آیا تھا۔ 

نشوہ کی مسکراہٹ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ ہرمعاملے میں اتنی خوش قسمت ہوگی۔ گھر بھر میں سب ہی اس سے بےحد پیار کرتے تھے۔  اور اب احان اس کی زندگی میں داخل ہوا تھا۔  وہ بھی تو اس کا بھرپور خیال رکھتا تھا۔ 

"احان میں آپ  کا انتظار کررہی ہوں آپ کب مجھے اپنے نام لکھواتے ہیں۔" اس کے کانوں میں احان کا جملہ بار بار گونج رہا تھا کہ وہ پورے حق سے اسے دیکھنا چاہتا تھا۔

وہ بھی احان کے علاوہ کسی اور کے ساتھ زندگی گُزارنے کا تصّوُر بھی نہیں کرسکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حویلی کے اندر آتے ہی عرید کا رُخ اپنے کمرے کی جانب تھا جہاں اس کی بیوی روٹھی روٹھی سی گئ تھی۔یقیناً وہ اس کا انتظار کر رہی ہو گی کہ وہ کب آکر اسے مناۓ گا۔

عرید نے جیسے ہی اندر قدم رکھا پہلی نظر بستر پر ڈالی مگر وہ خالی تھا پھر ایک نظر کمرے میں دوڑائی مگر وہ کمرے میں موجود نہیں تھی۔باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی یعنی وہ اندر تھی۔وہ صوفے پر بیٹھ اس کے باہر نکلنے کا منتظر تھا۔کچھ دیر بعد وہ واش روم سے نکلتی اسے مکمل اگنور کرتی ڈریسنگ کے نزدیک چلی گئ۔عرید نے غور سے اس کا جائزہ لیا جو لال رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس تھی۔ وہ نکھری نکھری سی اسے اپنے دل میں اُترتی محسوس ہوئی۔

عرید نے مسکراہٹ دباتے اس کا انداز ملاحظہ کیا پھر اس کے نزدیک جاتے پیچھے سے اپنے حصار میں قید کیا۔

اس کے بالوں سے اُٹھتی شیمپو کی بھینی بھینی خوشبو نے اس کے حواس پر جادہ کیا۔

"ناراض ہو۔" وہ اس کے نم بالوں کے نزدیک چہرہ لے جاتا ہوا بولا۔

ایک پل وہ اس کی قُربت پر کپکپا سی گئ تھی۔ مگر اس نے عرید کے سوال کا جواب نہیں دیا۔

"جواب نہیں دیا تم نے یار۔" وہ سارے بال ایک کندھے پر سمیٹتا  اس کی گردن پر ناک سہلاتا ہوا بولا۔

"ہاں۔" دوسری جانب  سے یک لفظی جواب آیا۔

"میں منا لوں گا۔" وہ اس کی گردن پر ہونٹ رکھتا ہوا بولا۔

ازوہ کی بولتی اتنے میں ہی بند ہوگئ۔

عرید نے اسے کندھوں سے تھامے رُوبرو کیا۔اس کی شرم سے اُٹھتی گرتی پلکیں عرید کے حواس پر جادو کررہی تھیں۔وہ اس جادُو کی زیر اثر آیا۔

عرید نے اس کے نم بالوں میں چہرہ چُھپایا تھا۔وہ گرنے کے خوف سے اس کے کندھے پر ہاتھ جما گئ۔عرید نے اس کی کمر کے گرد حصار باندھے اسے مزید نزدیک کیا۔

"عرید۔۔۔" وہ کپکپاتے لبوں سے اسے دُور ہٹانے کی غرض سے بولی۔

 "میں تو تمہیں منا رہا ہوں میری جان۔" عرید نے چہرہ اُٹھاتے اس کی ٹھوڑی کو چُوما تھا۔

"عرید ۔۔۔ میں ناراض۔ ۔۔ نہیں ہوں۔ " وہ اس کی کندھے پر دباؤ ڈالتی ہوئی بولی۔ 

"نہیں یار ایسے کیسے ۔ میں تو اچھے سے تمہیں منانا چاہتا ہوں۔ " وہ دیوانہ وار اس کے چہرے پر لمس چھوڑتا معصومیت سے بولا۔

وہ آنکھیں موندے اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔ 

"میں چینج کر آؤں پھر یہی سے کنٹینیو کرتے ہیں۔ " وہ اس کا ماتھا چومتا آنکھ دباتا پیچھے ہٹا تھا ۔  اس کے چہرے پر شرارتی سی مسکراہٹ تھی۔ ازوہ نے گُھور کر اسے دیکھا۔ مگر زیادہ دیر اس کی خمار زدہ آنکھوں میں نہ دیکھ پائی۔ اس لیے فوراً چہرہ جُھکا گئ۔

وہ نفی میں سر ہلاتا واش روم میں بند ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ  سامنے کھڑی عمارت کو دیکھتا ذرا سائیڈ پر آیا تھا۔ وہ گاؤں میں ایک کالج بنوا رہا تھا۔ یہ اس کے دادا کی خواہش تھی۔  وہ خود بھی یہی چاہتا تھا۔ 

اب وہ کام سے مطمئن ہوتا واپس ڈیرے کی جانب بڑھا۔ ڈیرے پر پہنچ کر اس نے سب سے پہلے رشید کو اپنے پاس بلوایا تھا۔ اس کا اچھے سے اُس کی کلاس لینا کا ارادہ تھا۔ 

رشید اس کے بُلاوے پر سر جُھکاۓ اس کے سامنے کھڑا تھا۔

"ہاں رشید مجھے لگتا ہے تمہاری آنکھیں کام کرنا بند ہوچکی ہیں۔ تمہیں گھر بیٹھ جانا چاہیے۔" ہشام اس کے جُھکے سر پر طنزیہ نگاہیں ٹکاتا ہوا بولا۔

"معاف کردیں سردار ۔ آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔" وہ جُھکے سر  کو اُٹھاتے منمنانے والے انداز میں بولا۔

"تم میرے خاص بندے نہ ہوتے تو ابھی تمہیں کام سے فارغ کردیتا۔ اب بتاؤ کیا بتانے آۓ تھے۔" وہ اس کے معافی مانگنے پر گہرا سانس لیتا ہوا بولا۔

"سردار وہ فاریہ بی بی پچھلے ہفتے سے دو تین دفعہ ہسپتال جا چُکی ہے۔اور وہ۔۔۔" وہ بتاتے بتاتے جھجھک سا گیا۔

اس کے اٹکنے پر ہشام ماتھے پر بل سجاتے ہوۓ بولا۔

"رشید ۔اور وہ ۔۔کیا۔ جلدی بولو نہیں تو تمہاری خیر نہیں۔" وہ غُصّے بھرے انداز میں بولا۔

"سردار فاریہ بی بی گائناکالوجسٹ کے پاس گئ تھی۔ ہسپتال سے پتہ کروایا ہے۔" وہ بولتے ہوۓ سر جُھکا گیا۔

ہشام نے بےیقین نظروں سے اسے دیکھا۔

"کیا بکواس کررہے ہو۔اگر یہ بات غلط نکلی تو چھوڑوں کا نہیں تمہیں۔" اس کے لہجے میں وارننگ تھی۔

اتنی بڑی بات سے فاریہ اسے کیسے انجان رکھ سکتی تھی۔مگر اپنے رویّے کو یاد کرکے آنکھیں موند گیا۔

وہ فوراً لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر کی جانب بڑھا۔ وہ بے وقوف لڑکی جانے اپنا خیال رکھ رہی ہوگی یا نہیں۔وہ تو پہلے ہی خود کے معاملے میں لاپرواہ سی تھی۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اُڑ کر پہنچ جاۓ فاریہ کے پاس۔ اس کی گاڑی ہواؤں سے باتیں کررہی تھی۔پندرہ منٹ کی انتہائی ریش ڈرائیونگ کے بعد وہ فاریہ کے گھر کے باہر تھا۔ اس کی گاڑی دیکھ کر گارڈ نہ دروازہ کھولا۔

وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جب گارڈ کے بولے گۓ لفظوں پر اس کے چلتے قدم رُکے۔

"سردار جی اندر تو کوئی نہیں ہے۔" وہ اس کے ماتھے پر بچھے جال کو دیکھ کر پریشانی سے بولا۔

اس کا دل شدت سے کچھ غلط ہونے کی گواہی دے رہا تھا۔

"اس بکواس کا مطلب ۔کہاں ہے فاریہ؟"وہ عُصّے بھرے انداز میں بولا۔

"سردار انہیں تو آپ کے بھائی اپنے ساتھ لے گۓ۔" ہشام نے قہر بھری نظروں سے اسے دیکھا۔

"کیا بکواس کررہے ہو۔ کون لے کر گیا ہے فاریہ کو۔جلدی جلدی ایک ایک حرف بتاؤں ۔ نہیں تو ابھی تمہاری گردن اُڑا دوں گا۔" اس کے بس نہیں چل رہا تھا کیا کر گُزرے۔

"سردار آپ کے بھائی تھوڑی دیر پہلے آۓ تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے اُسے بھیجا ہے کیونکہ بی بی جی کی طبیعت خراب ہے۔ پھر کچھ دیر بعد بی بی جی انہی کے ساتھ بیٹھ کر چلی گئ۔ اور ملازمہ کو بھی وہ چُھٹی دے گۓ ہیں یہ کہہ کر کہ اب ان کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ بی بی اپنے گھر جارہی ہیں ۔" وہ جیسے جیسے بتاتا جارہا تھا اس کے جبڑے بھینچے جارہے تھے۔

" کیا بکواس کر کے گیا تھا کہ میری غیر موجودگی میں کوئی اندر نہ جاۓ۔ میری بات کی اہمیت ہے تم لوگوں کی نظر میں۔تم سے تو آکر اچھے سے نپٹتا ہوں۔" وہ تیزی سے گاڑی کی طرف بڑھا اب اس کا رُخ حویلی کی جانب تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ دیر قبل

فاریہ گُم سُم سی زمین پر نظریں ٹکاۓ کھڑی تھی۔

"بھابی پلیز کچھ تو کہیے۔ " صارم اس کے جُھکے سر کو دیکھ کر پریشان ہورہا تھا۔وہ بےچینی سے اس کے بولنے کا منتظر تھا۔

"ہشام غُصّہ کریں گے۔ کہیں مجھے وہ وہاں دیکھ کر کچھ غلط نہ کردیں۔" وہ اس کے ساتھ جانا چاہتی تھی لیکن ہشام کے الفاظ اس کے قدم روک رہے تھے۔

اُسے وہاں دیکھ کر اگر غُصّے میں اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔ تو وہ کہاں جاۓ گی۔

"بھابھی مجھ پر یقین رکھیے۔آپ کو بہن صرف کہا نہیں ہے سمجھا بھی ہے۔میں آپ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہونے دوں گا۔آپ ایک بار مجھ پر بھروسہ کرکے میرے ساتھ چلیے۔" وہ اسے ہر حال میں قائل کر لینا چاہتا تھا۔

اب وہ سوالیہ نظریں اس پر ٹکاۓ کھڑا تھا۔ 

فاریہ نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اثبات میں سر ہلایا۔اس کی رضامندی جان کر صارم اسے لیکر حویلی کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پچھلے دو گھنٹوں سے کمرے میں بند تھا۔سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹا جارہا تھا۔ کمرے کی حالت بگڑ چکی تھی۔جانے خوشیاں کیوں اس کی زندگی میں آنے کا راستہ بھول چُکی تھی۔

اسے پتا تھا کہ آفندی کبھی اس کی خوشیوں کی وجہ نہیں بن سکتے تھے۔ جتنا وہ ان لوگوں سے دُور ہونے کی کوشش کررہا تھا قسمت اسے اُتنا ہی ان کے پاس دھکیل رہی تھی۔

اسے پتا تھا وہ کبھی نشوہ کو اس کے حق میں نہیں دیں گے۔یہ جاننے کے باوجود کے نشوہ بھی اُسی خاندان کا حصّہ ہے اسے ایک پل بھی اسے نفرت نہیں محسوس ہوئی تھی۔ بلکہ اُسے کھونے کا خیال ہر چیز پر حاوی تھا۔ اسے وہ لڑکی چاہیے تھی اپنی زندگی میں کسی بھی طرح ۔ اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کہ نشوہ کون ہے۔بس وہ یہ جانتا تھا کہ وہ لڑکی اس کی محبت ہے  اس   کی زندگی میں خوشیوں کی وجہ ہے وہ ہر حال میں اسے اپنی زندگی میں چاہیے تھی۔

وہ اٹل فیصلہ کرچکا تھا وہ اس کی ہے اور ہر حال میں اُسی کی رہے گی۔ وہ اسے کسی چیز کا انتقام نہیں لے سکتا تھا۔ وہ تو اسے اپنی محرومیوں کا ازالہ لگتی تھی۔ 

"بس ایک بار میری زندگی میں آجاؤ۔ بہت خوش رکھوں گا تمہیں۔ " وہ الماری سے کپڑے نکالتے واش روم کی جانب پڑھ گیا۔ٹھنڈے پانی سے شاور لے کر ہی اس کے اعصاب پُرسکون ہوسکتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے نو بجے کا وقت تھا۔ وہ دونوں ابھی ڈنر کرکے کمرے میں آکر بیٹھے تھے۔ عرید کے سینے پر سر رکھے لیٹی تھی۔ 

"عرید ! مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے۔" وہ اس کی شرٹ کے بٹنوں سے کھیلتی ہوئی بولی۔ 

"کہاں ؟ پولیس اسٹیشن۔ " وہ اس کی بات کا مطلب تو سمجھ چُکا تھا مگر جانے کیوں اسے تنگ کرنے میں اسے بےحد مزہ آتا تھا۔ 

"میں کیوں جاؤں گی پولیس اسٹیشن؟  میں کوئی مجرم تھوڑی ہوں۔ " وہ سر اُٹھاتی اس کے رُوبرو آتی اسے گھورتے ہوۓ بولی۔ 

"مجرم ہی تو ہوں۔ ایس پی عرید آفندی کا دل چرانے کا اتنا بڑا جُرم کیا ہے۔ابھی بھی پوچھ رہی ہو میں مجرم تھوڑی ہوں۔" وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتا مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔

"عرید بات مت بدلیے۔ مجھے آپ کے ساتھ جانا ہے۔تو بس جانا ہے۔" وہ دھونس بھرے انداز میں بولی۔

"یار وہاں جاکر کیا کرو گی۔میں وہاں کام کے سلسلے میں جارہا ہوں۔میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکاتا پُچکارنے والے انداز میں بولا۔

"سیدھا سیدھا کہیے آپ مجھے لیکر نہیں جاناچاہتے۔" وہ رُخ موڑتی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتی ہوئی بولی۔عرید نے اسے پیچھے سے اپنے حصار میں لیا تھا۔وہ سمجھ رہا تھا وہ اسے لیکر حساس تھی۔ اتنے ٹائم بعد کسی کی محبت نصیب ہوئی تھی وہ ڈر رہی تھی۔

"اچھا! یار لے جاؤں گا پر مجھے کچھ رشوت دو۔پولیس والا ہوں رشوت کے بغیر کام نہیں کرتا۔" وہ اسے رُوبرو کرتا آنکھوں میں آئی نمی اپنی پوروں پر چُنتا ہوا بولا۔

"آپ کو شرم نہیں آتی۔ آپ رشوت لیں گے۔" وہ اس گھورتی ہوئی بولی۔

"بیوی سے حلال رشوت لینا جائز ہے۔" وہ اس کی اُٹھی ہوئی انگلی چومتا ہوا بولا۔

اس کی بات کا مطلب سمجھ آنے پر وہ گلنار ہوتی نظریں جُھکا گئ۔

وہ اس کے گرد لپٹا ڈوپٹہ دُور اچھالتا اسے اپنی آغوش میں قید کرگیا۔ عرید نے محبت سے اس کے ماتھے پر اپنے لبوں کا لمس چھوڑا۔اس کے لمس کو محسوس کرتے وہ  آنکھیں موند گئ۔اس کی جُھکی آنکھوں کو اس نے باری باری چوما۔

رفتہ رفتہ اس کی نرماہٹوں کو محسوس کرتا وہ اسے سمٹنے پر مجبور کرگیا۔

سورج کی روشنی ہر سُو پھیلتی ماحول کو نکھراہٹ بخش گئ۔ ناشتہ کرنے کے بعد اب سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوچکے تھے۔عرید آفندی داجان کے کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوا۔وہ ان کی طرف قدم بڑھاتا ان کے قریب ہی صوفے پر براجمان ہوچکا تھا۔

"داجان بات کرنی تھی آپ سے میرو کے بارے میں۔" داجان جی جان سے متوجہ ہوۓ۔

"ویسے ہمیں پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ وہ گدھا ہی اسے اپنے ساتھ لے کر گیا ہے۔" عرید کے کچھ بتانے سے قبل وہ دانت پیستے ہوۓ بولے۔ جیسے ان کے دانت کے بیچ یزدان کی گردن ہو۔

یزدان کو گدھا کہنے پر عرید کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مچلی مگر وہ ضبط کرگیا۔کیا پتا اس کے ہنسنے پر داجان کا اگلا ٹارگٹ وہی ہوتا۔ اس لیے احتیاط میں ہی بھلائی تھی۔

"جی داجان کل رات ہی میں نے اُسے فون کیا تھا تب ہی میری میرو سے بات ہوئی تھی۔ وہ بالکل ٹھیک ہے" وہ ان کو مطمئن کرنے کی غرض سے بولا۔ پچھلے کچھ دنوں سے وہ میرو کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے۔

"ویسے داجان ! آپ کا پوتا نا آدھا دماغ سے فارغ ہے۔اسے خود نہیں پتا ہوتا وہ چاہتا کیا ہے۔" عرید نے بڑے افسوس سے سر نفی میں ہلا کر یزدان کی عقل پر ماتم کیا تھا۔

داجان نے اسے گھورا پھر خود ہی مسکرا دیے۔

"اُسے فوراً کال کرو اور اُسے بولو میرو کو واپس لے کر آۓ۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے میرو کو لے جانا کا۔یہاں واپس آۓ اپنے کیے کی معافی مانگے اور وعدہ کرے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہوگا۔پھر ہم میرو کو اُس کے ساتھ رخصت کریں گے۔" داجان انتہائی سنجیدگی میں اسے دیکھتے ہوۓ بولے۔عرید نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی عرید کو معلوم ہوا تھا کہ یزدان نے دوسری شادی نہیں کی وہ بس سب کو تکلیف پہنچانے کے لیے وہ بکواس کر کے گیا تھا۔عرید نے سب سے پہلے یہ خبر داجان کو دی تھی۔وہ کچھ پُرسکون ہوۓ تھے مگر ان کا غُصّہ بالکل ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام سے تقریباً دس منٹ پہلے فاریہ اور صارم وہاں سے نکلے تھے۔فاریہ گُم سُم سی بیٹھی کار سے باہر دیکھنے میں مصروف تھی۔دل و دماغ کو ناجانے کن کن وسوسوں نے گھیر رکھا تھا۔جانے وہ صحیح کررہی تھی یا غلط اسے خود نہیں علم تھا۔دل بار بار گواہی دے رہا تھا کہ وہ صحیح ہے۔ اپنے بچے کو اگر مضبوط پہچان دینی تھی تو وہ بالکل صحیح تھی۔اس نے گہرا سانس بھر کے ایک نظر صارم کو دیکھا جو خود بھی کچھ کچھ مضطرب نظر آرہا تھا۔

گاڑی ایک جھٹکے سے ایک وسیع عریض حویلی کے آگے رُکی۔صارم گاڑی اندر کھڑی کرتا باہر نکلا۔  فاریہ بھی اس کی تقلید میں باہر آئی۔  اس نے ایک نظر اُٹھا کر حویلی کو دیکھا جو وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تھی۔حویلی کے باہر کیا گیا سفید رنگ اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہا تھا۔

"آئیے بھابھی۔" صارم اسے وہی کھڑا دیکھ بولا۔وہ اس کی آواز پر خاموشی سے اس کے پیچھے سر جُھکا کر چلنے لگی۔اسے نہیں پتا تھا کہ سب کا اسے دیکھ کر کیا ریئکشن ہوگا۔ وہ ہر طرح کے حالات کے لیے خود کو تیار کرکے آئی تھی۔ 

جیسے ہی ان دونوں  نے لاؤنج میں قدم رکھا پورا  لاؤنج خالی ملا۔  یہ دوپہر کا وقت تھا غالباً سب اپنے کمروں میں آرام کررہے تھے۔

فاریہ نے ہر چیز کا بغور جائزہ لیا تھا۔ اردگرد موجود سامان اپنی انتہائی قمیتی ہونے  کا چیخ چیخ کر اعلان کررہا تھا۔ کیا پیسے والوں کے دل اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ اتنے بڑے محل میں ایک یتیم لڑکی کو جگہ نہ دی جاسکے۔ 

"دادا جان، چاچو، ماما"  صارم نے لاؤنج کے درمیان آتے سب کو آواز لگائی تھی۔اس کی آواز پر سب سے پہلے ماہا باہر آئی۔نیلے رنگ کے خوبصورت سے سوٹ میں بالوں کو کیچر میں جھکڑے وہ پریشانی سے صارم کو دیکھتی ان کی طرف آ گئ۔

فاریہ نے غور سے اس لڑکی کا جائزہ لیا تھا۔ کیا یہی تھی ہشام کی منگیتر، اس کی رقیب۔ کیونکہ جہاں تک وہ جانتی تھی ہشام کی کوئی بہن نہیں تھی۔فاریہ نے ایک ہی نظر میں اس کا تفصیلی جائزہ لے لیا۔وہ واقعی ہی اس قابل تھی کہ کوئی بھی اس کا دیوانہ ہوجاۓ۔ اس کی آنکھیں بلا کی حسین تھی۔ اسے اب سمجھ آئی تھی کہ ہشام کیوں اس لڑکی کو چھوڑنے پر راضی نہ تھا۔فاریہ ایک پل کے لیے احساسِ کمتری کا شکار ہوئی۔ وہ لاشعوری طور پر اپنا موازنہ ماہا سے کررہی تھی۔ جس کے  پاس خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ خاندانی ہونے کا ٹیگ تھا۔  اس کا پلس پوائنٹ تھا کہ وہ کئ سالوں سے ہشام کی منگیتر تھی۔ فاریہ کے اس کی زندگی  آنے سے کئ سال پہلے۔ 

اس کے پاس کیا تھا فقط خوبصورت چہرہ۔ روپیہ پیسہ، دولت و جائیداد ،شان و شوکت کچھ بھی نہیں تھا اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ دیکھا جاتا تو ہر لحاظ سا ماہا کا پلڑا اس سے بھاری تھا۔

اگر وہ سوچتی جو مضبوط رشتہ اس کا ہشام کے ساتھ تھا۔ اُس نے باقی ساری چیزوں کو بہت پیچھے دھکیل دیا تھ اس کا پلڑا ماہا سے کئ زیادہ بھاری تھا اگر وہ سوچتی تو نا۔اگر وہ یہ حقیقت جان جاتی کہ ہشام کے دل پر بھی اس کی حُکمرانی ہے تو باقی ساری چیزیں مانند پڑھ جاتیں۔ 

رفتہ رفتہ سب ہی لاؤنج میں جمع ہوچکے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کو ایک ساتھ دیکھ کر فاریہ گھبرا گئ تھی۔ جانے اب کیا ہونے والا تھا۔  جانے وہ اس کے بارے میں کیا کیا سوچیں۔اب جانے کیا کیا الزام اس کے حصّے آنے والے تھے۔

صارم کے ساتھ کسی لڑکی کو دیکھ دادا جان کے ماتھے پر بل پڑے۔ وہی دوسی طرف ماہا سانس روکے اُس کو دیکھ رہی تھی۔ جو اپنی بےتحاشا معصومیت کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھی۔ 

"کون ہے یہ صارم؟ اور تم اسے یہاں کیوں لاۓ ہو؟ " دادا جان کی رُعب دار آواز نے لاؤنج میں پھیلے  سکوت کو توڑا۔

سب لوگوں کی نظروں کا مرکز صارم تھا۔ سب اس کے بولنے کے منتظر تھے۔

"اس گھر کی بہو۔" اس کی آواز پر سب ساکت ہوۓ اس کی طرف نظریں ٹکا گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام وہاں سے نکلتا فوراً حویلی کی جانب بڑھا۔آنکھیں میں شدید غُصّہ لیے وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ گاڑی چلا رہا تھا۔اسے صارم کا اپنے معاملے میں دخل اندازی کرنا ذرا برابر بھی پسند نہ آیا تھا۔

وہ تیز ڈرائیونگ کرتا جلد ہی حویلی کے سامنے موجود تھا۔ایک جھٹکے سے گاڑی سے باہر نکلتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر کی جانب بڑھا۔

لاؤنج میں قدم رکھتے اس کی پہلی نظر فاریہ پر پڑی تھی۔ باقی کسی طرف اس نے دیکھنے کی زحمت محسوس نہ کی تھی۔ آج کتنے دنوں بعد اُسے دیکھا تھا۔وہ مُرجھائی مُرجھائی سی کھڑی تھی۔وہ تیز تیز قدم اُٹھاتا فاریہ تک پہنچا۔

"تمہیں میری بات سمجھ نہیں آتی۔ کیا بکواس کر کے گیا تھا ۔ مجھ سے پوچھے بغیر گھر سے مت نکلنا۔چلومیرے ساتھ۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا سب کو اگنور کرتا باہر کی جانب بڑھا۔

وہ جو ابھی تک صارم کی بات پر اُلجھے تھے ہشام کے ریئکشن پر مزید اُلجھے۔

"ہشام وہی رُک جائیے۔" دادا جان کی گرج دار آواز پر اس کے بڑھتے قدم رُکے۔

اس نے مُڑ کر سب کی طرف دیکھا۔

"یہ میرا معاملہ ہے میں خود ہی حل کر لوں گا۔" وہ سپاٹ انداز میں صارم کی طرف دیکھتا جتانے والے انداز میں بولا۔

"ہشام ہمیں ایک ایک حرف جاننا ہے۔ کون ہے یہ لڑکی اور کیا تعلق ہے تمہارا اس سے؟  اور صارم کیا کہہ رہا ہے؟" سب خاموش تماشائی بنے ہشام کے بولنے کے منتظر تھے۔ 

"دادا جان!  میں بتاتا ہوں۔  یہ ہشام بھائی کی بیوی ہیں۔ فاریہ ہشام لاشاری۔ جسے آپ کا یہ پوتا  قید کر کے رکھنا چاہتا ہے۔پچھلے دو سالوں سے یہ ہشام بھائی کے نکاح میں ہیں۔" صارم کے انکشاف پر جو جہاں تھا وہی رہ گیا۔

حارث صاحب نے قہر بھری نظروں سے ہشام کے ساتھ کھڑے اس وجود کو دیکھا تھا۔

"کیا بکواس ہے یہ؟" حارث صاحب کو جیسے یہ بات ہضم نہیں ہوئی تھی۔انہوں نے پہلے بھی اس لڑکی سے دُور رہنے کے لیے کہا تھا۔تو کیا ان کے بیٹے نے ان کی بات نہیں مانی تھی۔

"بکواس نہیں حقیقت ہے آپ کے لاڈلے بیٹے کی۔" صارم طنزیہ نظر ان پر ڈال کر بولا۔

"تم اپنی بکواس بند رکھو۔" حارث صاحب وارن کرنے والے انداز میں بولے۔

"خاموش۔ اب ہمیں کسی کی آواز نہ آۓ۔ہم سارا سچ اس لڑکی سے جاننا چاہتے ہیں۔ سب میں آپ بھی شامل ہیں ہشام۔" داجان انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں بولے کہ اب کسی کو بولنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔ان کی گرج دار آواز پورے لاؤنج میں گونج رہی تھی۔شدید اشتعال سے ان کا چہرہ سُرخ ہورہا تھا۔ماہا اس لڑکی کو حیرانگی سے دیکھ رہی تھی۔

دادا جان فاریہ کو بولنے کا اشارہ کررہے تھے۔

فاریہ نے ایک نظر اپنے ہاتھ پر ڈالی جو ہشام کے ہاتھ میں قید تھا۔ اس نے نرمی سے اپنا ہاتھ چھوڑوایا اور دو قدم آگے آئی۔

"میرا نام فاریہ ہے۔ میری ملاقات ہشام سے یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔انہوں نے مجھے نکاح کی پیشکش کی۔مجھے واقعی ہی اس وقت مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔پچھلے پانچ سالوں سے یتیمی کے زندگی گزار رہی تھی۔اس لیے میں نے اقرار کردیا۔ میرے اقرار کے بعد ہمارا نکاح ہوگیا۔مگر مجھے کیا پتا تھا کہ میرا یہ فیصلہ اتنا غلط ثابت ہوگا۔ وہ بس مجھ پر حکمرانی جمانا چاہتے تھے جو نکاح کے بغیر ممکن نہیں تھی۔پچھلے دو سال سے ایک نارمل زندگی گزارنے کے لیے ترس گئ ہوں۔" ہشام نے حیرت سے اپنے خالی ہاتھ کو دیکھا۔ 

" انہوں نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اُٹھایا مگر کئ بار زبان سے نکلے الفاظ ہاتھ کی مار سے زیادہ تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ایک لڑکی سب برداشت کرلیتی ہے مگر شراکت نہیں۔اور ہشام مجھے اکیلے چھوڑنے پر تو راضی ہیں مگر اپنی منگیتر کو نہیں۔ اگر وہ واقعی ہی اس رشتے کو لے کر اتنے سیریس تھے تو میری طرف قدم کیوں بڑھایا۔ نکاح کے بعد انہیں یاد آیا کہ میں بس  ان کی پسند ہوں مجھ سے محبت نہیں کرتے۔ اور نہ ہی وہ اپنی منگیتر کو چھوڑ سکتے ہیں۔میری یتیمی کا خوب اچھے سے فائدہ اُٹھایا ہے۔  اب یہ مجھے چھوڑ رہے ہیں۔کیونکہ میرے پیچھے کوئی ہے ہی نہیں ان سے سوال جواب کرنے والا۔مجھے آپ کے روپے پیسے کا کوئی لالچ نہیں اور نہ ہی میں یہاں رہنے کے لیے آئی ہوں۔ بس اس حقیقت سے آگاہ کرنے آئی ہوں۔" وہ آنکھوں میں آئی نمی کو پیچھے دھکیلتی ہوئی ہوئی بولی۔

کوئی اس کی تکلیف سمجھ ہی نہیں سکتا تھا۔ کیسے وہ تنہائی کے احساس سے گُھٹ گُھٹ کر مر رہی تھی۔

"اے لڑکی بہت سُن لی تمہاری بکواس۔ جانتا ہوں تم جیسی لڑکیوں کو بہت اچھے سے میرے بیٹے کو اپنے جال میں پھنسایا ہے۔مگر تمہاری اس چال کو میں کامیاب ہر گز نہیں ہونے دُوں گا۔" حارث فاریہ کو دیکھ کر غُصّے میں بولے۔

فائزہ (ہشام کی ماں) سُن کھڑی رہ گئ۔انہیں یقین نہ آیا اس کا بیٹا کسی لڑکی کی زندگی برباد کرسکتا ہے۔وہ فاریہ کو نکاح میں رکھنے کے باوجود ماہا سے شادی کررہا تھا۔ان کی تربیت میں کہاں کمی رہ گئ تھی جو وہ اس نہج پر پہنچ گیا تھا ان کے تن بدن میں یکدم شعلے سے جلنے لگے۔انہوں نے آگے بڑھ کر زناٹے دار تھپڑ ہشام کے منہ پر مارا۔

"شرم نہیں آئی تمہیں یہ سب کرتے ہوۓ۔ میری تربیت کو بلاۓ تم نے باپ کی  نصیحتوں  پر بخوبی عمل کیا ہے۔انہوں نے اپنی طرح تمہیں بھی بےحس بنا دیا ہے۔وہ ساری عُمر مجھے اپنا زرخرید غلام سمجھتے رہے اور تم بھی انہی کا پرتو ہو۔" ان کی آواز غُصّے کی شدت سے کانپ رہی تھی۔

فائزہ بیگم کا یوں سب کے سامنے ان کی  ذات کو نشانہ  بنانا  انہیں شدید گراں گزرا۔حارث صاحب کا چہرہ غُصّے کی شدت سے سُرخ ہوا۔ انہوں نے جیسے ہی انہیں مارنے کے لیے ہاتھ اُٹھایا۔  وحید لاشاری ان کا ہاتھ جھٹک چکے تھے۔ 

" کیا حرکت ہے یہ؟ عورت پر ہاتھ اُٹھا کر اپنی جاہلیت کا ثبوت مت دیں۔ہم ساری عُمر تمہاری حرکتوں کو اگنور کرتے رہے۔ کہ شاید تم سنبھل جاؤ مگر افسوس ہم غلط تھے اُلٹا خود میں پنپتا زہر آپ ہشام میں بھی بخوبی انڈیل چُکے ہیں۔یہاں ہشام سے زیادہ آپ کی غلطی ہے۔ آپ نے اپنی ناکامیوں کا بدلہ اپنے بیوی بچوں سے لیا ہے۔ " ان کی بات پر حارث صاحب حیرانی سے باپ کو دیکھ رہے تھے۔

کیا جو وہ کہہ رہے تھے وہ سچ تھا۔حارث صاحب کی منگنی فائزہ سے پہلی کہی اور طے پائی تھی۔جو ان کی غُصیلی طبیعت کی بنا پر ٹوٹ چکی تھی۔پھر بڑے سوچ بچار کر وحید لاشاری نے ان کے لیے فائزہ کا انتخاب کیا تھا جو ہر لحاظ سے اچھی ثابت ہوئی تھی۔  وحید لاشاری اپنی عُمر کے تقاضے کو دیکھتے سرداری حارث صاحب کو سونپ چکے تھے۔جسے وہ سنبھال نہیں پاۓ تھے۔اپنی ناقص ذمہ داریوں سے وہ یہ عہدہ فقط دو ماہ میں ہی کھو چکے تھے۔گاؤں والوں کے مشورے پر دوبارہ سرداری وحید لاشاری کو ہی سونپ دی گئ۔ حارث صاحب کو یہ فیصلہ ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔کتنے سال انہوں نے اس پل کا انتظار کیا تھا۔مگر وہ ہاتھ میں آیا مقام گنوا چکے تھے۔پنچایت میں طے یہ پایا تھا کہ وحید لاشاری کا کوئی پوتا ہی اِس عہدے کو سنبھالے گا۔

اپنی ناکامی پر وہ اتنے بےحس ہوچکے تھے۔پہلے محبت ہاتھ سے جانے کی ناکامی پھر سرداری سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔وہ ہر لحاظ سے اپنے بچوں کو پرفیکٹ بنانا چاہتے تھے۔پرفیکٹ بنانے کے چکر میں وہ ہشام کو بےحس بنا چکے تھے۔وہ صارم کو بھی اپنی پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ شروع سے ہی ماں کا لاڈلا تھا۔  ان کے جیسے ہی نرم انداز کا مالک۔  اس لیے وہ صارم سے متنفر رہنے لگے۔  اور اسی طرح صارم ان سے دُور ہوتا  گیا۔

لاؤنج میں گہرا سناٹا چھایا ہوا تھا۔جب ایک بار پھر وحید لاشاری کی آواز گونجی۔

"ہشام ہمیں تم سے ایسی غلطی کی اُمید ہرگز نہیں تھی۔گاؤں کے سارے معاملات اتنے احسن طریقے سے انجام دینے والا سردار جس کے فیصلے ہمیشہ انصاف پر مبنی ہوتے ہیں وہ اپنی ہی بیوی کے ساتھ ناانصافی کرگیا۔" ان کی بات پر ہشام کا سر جُھک چُکا تھا۔ 

فاریہ  اس وقت خود کو یہاں ان فٹ محسوس کررہی تھی۔  اس کا بس نہیں چل رہا تھا یہاں سے غائب ہوجاۓ۔ اس نے واپس جانے کے لیے قدم پیچھے کی جانب بڑھاۓ تھے۔ 

"رُک جاؤ بچے۔  اگر یہاں سے جانے کی کسی کو ضرورت ہے وہ ہشام ہے تم نہیں۔ " وہ فاریہ کے بڑھتے قدموں کو دیکھ کر بولے۔ فاریہ نے ایک نظر اسے دیکھا تھا جو سپاٹ چہرہ لیا کھڑا تھا۔

"بہو!  بچی کو اندر لیکر جاؤ۔  " وہ فائزہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوۓ بولے۔ وہ فاریہ کو لیے  اندر کی طرف بڑھ گئیں۔

ہشام لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

صارم نے ایک نظر اُٹھا کر خاموش کھڑی ماہا کو دیکھا تھا۔جو حیران پریشان سی کھڑی تھی۔ اس کے خود کے اعصاب اس وقت تھکن کا شکار تھے وہ گہرا سانس بھرتے اپنے کمرے میں گُم ہوگیا ۔

ایک ایک کرکے سب اپنے کمروں میں بند ہوگۓ۔حارث صاحب تن تنہا کھڑے رہ گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو اور یزدان دونوں تھوڑی دیر پہلے ہی کھانا وغیرہ کھا کر فارغ ہوۓ تھے۔ 

"یار میرو یہ ناانصافی ہے میرے ساتھ۔ جب سے ہم یہاں آئیں ہیں۔ روز کھانا میں ہی بنا رہا ہوں۔مجال ہے جو تم اُٹھ کر مدد کروا دو۔" جہاں ایک طرف یزدان کی دہائیاں عروج پر تھی وہی دوسری طرف میرو کی کھلکھلاہٹیں۔

"ہاں تو آپ کو ہی شوق چڑھا تھا مجھے یہاں لانے کا۔ اور بھولیے مت آپ مجھے زبردستی یہاں لاۓ ہیں۔" وہ ناک چڑھاتی چڑانے والے انداز میں بولی۔

وہ خاموش ہوتا سارے برتن اُٹھاتا سِنک میں رکھ رہا تھا۔اب یقیناً ان کو دھونے کا کام بھی اسی کا تھا۔

اس کے خاموش ہونے پر میرو نے پریشانی سے اس کی طرف دیکھا کیا وہ ناراض ہوگیا تھا۔وہ صوفے سے اُٹھتے اس کے نزدیک آئی تھی۔

"یزدان آپ ناراض ہوں گے۔اچھا نا میں آپ کی مدد کر دیتی ہوں۔ برتن میں دھو دیتی ہوں۔" وہ اس کے سنجیدہ چہرے کو دیکھ کر بولی۔

"ہاں ضرور۔" وہ فورا چہکتا ہوا پیچھے ہٹا۔

"آپ ناٹک کررہے تھے۔" وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"یار ذرا سا کام ہے۔ فارغ بیٹھ بیٹھ کر موٹی ہوجاؤ گی۔" وہ اسے چڑاتا کُرسی پر جاکر بیٹھ گیا۔ 

"خود اتنے موٹے ہیں۔ اتنے کام کرنے کے بعد بھی مجال ہے جو ذرا فرق پڑا ہو۔ " وہ مصنوعی افسوس سے سر ہلاتی ساتھ ساتھ برتن دھونے میں مصروف تھی۔ 

"تم کیا جانو اس باڈی پر ہی تو لڑکیاں مرتی ہیں۔ " وہ اس کی کم عقلی پر افسوس کرتا ہوا بولا۔ 

لڑکیوں کے نام پر میرو نے ایک زبردست گھوری سے اسے نوازا۔وہ فوراً سیدھا ہوا۔ 

چند ہی برتن تھے جو جلد ہی دُھل گۓ تھے۔ اب وہ اسے اگنور کرتی لاپرواہی سے آگے بڑھ گئ۔ 

"ریڈ روز ! کدھر جارہی ہو؟" وہ سُرخ کپڑوں میں ملبوس اسے دیکھ کر بولا۔ جو خود بھی کِھلتا ہوا گلاب لگ رہی تھی۔

"اچھا یار ناراض نہ ہو۔ اب نہیں کرواتا کوئی بھی کام۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا۔

"میں اس وجہ سے نہیں ناراض۔" وہ پھولے منہ کے ساتھ بولی۔اسے بےحد اچھا لگتا تھا جب یزدان اسے مناتا تھا۔ اسے احساس دلاتا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنی اہم ہے۔

"ناراض مت ہوا کرو۔ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا۔میں تو مزاق کررہا تھا۔میری  میرو بالکل بھی موٹی نہیں ہے۔تم تو میری پیاری سی گڑیا ہو۔" وہ اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔اس نے نرمی سے اس کا گال سہلایا تھا۔

دفعتاً اس کا موبائل فون رِنگ ہوا۔ عرید کی کال تھی وہ آنکھیں گُھوما کر رہ گیا۔

"ایک تو اس بندے کو چین نہیں۔" وہ افسوس موبائل فون کو دیکھ کر بولا۔میرو نے بھی فون پر نظر ڈالی تھی۔

"کوئی ضروری کام بھی ہوسکتا ہے اُٹھالیں۔" وہ اسے دیکھ کر بولی۔وہ اسے حصار میں لیکر صوفے پر بیٹھتا کال اُٹھاتا سپیکر پر ڈال چکا تھا۔

"ہاں بولو ایس پی عرید آفندی۔ دو گھڑی سکون کے گزارنے نہ دینا۔" وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

"ناہنجار! کہاں لے کر گۓ ہو ہماری پوتی کو۔ اور یہ کونسا طریقہ ہے لے کر جانے کا۔" دوسری جانب سے داجان گرج دار آواز گونجی۔

دا جان کی آواز سُن کر اس کی بولتی بند ہوگئ تھی۔

"میری بیوی ناراض تھی بس اُسی کو منانے کے لیے لایا ہوں۔" میرو کی بتیسی دیکھ کر اس نے گھورا۔وہ داجان کے ہاتھوں اس کی متوقع بےعزتی پر دانت نکال رہی تھی۔

"گدھے! تصیح کرلے بیوی نہیں منکوحہ۔رُخصتی نہیں ہوئی ابھی تک اور نہ میرا ارادہ اپنی بچی تم جیسے بےحس انسان کے ساتھ رُخصت کرنے کا۔فوراً واپس  لیکر آؤں ورنہ ہم خود بھی آسکتے ہیں۔" داجان کی دھمکی سُن کر وہ فوراً سیدھا ہوا۔

"داجان رُخصتی آپ سمجھیے ہوگئ۔ اور دوسرا جب میری میرو مجھے ایک موقع دے رہی ہے تو آپ بھی دیں دے۔" وہ بڑی ڈھیٹائی سے میرو کی طرف دیکھ کر بولا۔

"ہمارا ہاں رُخصتی ایسے نہیں ہوتی بیوقوف انسان۔اور ابھی تمہاری طرف کچھ حساب باقی ہیں۔فوراً واپس لیکر آؤ میرو پھر بات کرتے ہیں اس بارے میں۔" وہ ابھی بھی اپنے اُسی جلالی انداز میں بولے۔

"اچھا تین چار دن لگ جائیں گے داجان۔ ہم ذرا دُور آئیں ہیں۔" وہ منہ بناتا ہوا جھوٹ بول گیا۔ میرو اس کی چالاکی پر عش عش کر اُٹھی۔

"کل کے کل گھر پہنچو۔ ہم اچھے سے جانتے ہیں تم کہاں ہو؟" وہ اسے دھمکی دیتے ہوۓ بولے۔

"اچھا دا جان دو دن بعد ملتے ہیں۔ اس سے جلدی آنا ناممکن ہے۔" وہ کہتے ہوۓ جلدی سے فون بند کر گیا۔

فون بند کرکے اس نے میرو کو دیکھا جو اسے گھورنے میں مصروف تھی۔

"کیا اب یار اتنی محنت کی ہے۔ ابھی تو سب ٹھیک ہوا ہے تمہارے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔ جانتا ہوں گھر پر سب ناراض ہونگے۔ میں اپنی میرو کی خاطر سب کو منا لوں گا۔ " وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"آئی ایم ریئلی سوری میری جان۔ یہ سب میری وجہ سے ہی ہوا ہے۔ اگر میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاتا تو آج ہم ایک دوسرے کے ساتھ خوش ہوتے۔پر تم یقین مانو تمہیں تکلیف پہنچا کر میں بھی کبھی خوش نہیں رہا۔مگر اب رہنا چاہتا ہوں ساری پچھلی باتیں بُھلا کر۔ یہ سب خراب میں نے کیا ہے ٹھیک بھی میں ہی کروں گا۔" وہ اس کا ماتھا چومتا اسے سینے سے لگا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ یوں ہی کسلمندی سے پورا دن گھر ہی رہا اس کا دل ہی نہ کیا یونی جانے کا۔اسے بول تو آیا تھا کہ وہ جلد ہی اس کے گھر اپنی ماما کو رشتے کے لیے بھیجے گا۔ مگر اب جتنا سوچ رہا تھا اتنا دماغ پھٹ رہا تھا۔ وہ اپنے باپ اور باقی سب سے اتنا بدگمان تھا اسے یقین تھا اگر وہ نشوہ کے لیے رشتہ بھیجے گا وہ انکار کردیں گے۔ اور اسی انکار سے اسے خوف آرہا تھا۔

شیریں اس سے بار بار پوچھ رہی تھیں آخر مسئلہ کیا ہے۔مگر وہ بار بار یہی کہہ کر ٹال گیا کہ طبیعت کچھ خراب ہے۔وہ مطمئن تو نہ ہوئیں مگر خاموش ہوگئیں تھی۔صارم بھی یہاں نہیں تھا جسے وہ اپنا مسئلہ بتا کر کوئی حل پوچھتا۔دوسرا وہ اُس کو وہاں اپنی وجہ سے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے کال بھی نہ کی۔یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا وہ خود ہی حل کرنا چاہتا تھا۔

اسی کیفیت میں پورا دن گُزر گیا۔ہر سُو اندھیرے  نے اپنے پر پھیلا دیے تھے۔ماں کی تسلی کے لیے بڑی مشکل سے چند نوالے زہر مار کیے تھے۔ تب سے وہ یونہی چت لیٹا چھت کو گُھور رہا تھا۔گھڑی کی سوئیاں گیارہ کا ہندسہ پار کرچکی تھیں۔ عموماً اس وقت تک وہ سو جاتا تھا۔ مگر آج تو نیند بھی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔ پہلے زندگی کی خوشیاں روٹھی ہوئیں تھیں اب نیند بھی روٹھ گئ تھیں۔وہ بار بار کروٹ بدلتا سونے کی کوشش کررہا تھا۔وہ دماغ کو کچھ دیر پُر سکون کرنا چاہتا تھا۔

کمرے کا دروازہ ہلکا سا دھکیلا گیا۔ کوئی نہایت دھیمے قدموں سے چلتا اس کے قریب آیا۔

دروازہ کُھلنے کی آواز پر وہ فوراً آنکھیں موند چکا تھا۔ اسے یہی لگا شیریں ہیں۔ جو اس کے لیے حد سے زیادہ پوزیسسو تھی۔

 شہیر قدم بہ قدم چلتے اس کے نزدیک بیٹھ گۓ۔روز کے معمول کی طرح وہ آتے ہی اس کا ہاتھ تھام چُکے تھے۔اپنے ہاتھوں پر کھردرا سا لمس محسوس کرکے وہ چونکا۔جب شہیر نے اس کے ماتھے پر بکھرے بال سنواریں۔احان اس کاروائی پر سانس تک روک گیا۔ دفعتاً وہ جھکتے اس کا ماتھا چومتے اس کے نزدیک کتنی دیر بیٹھے رہے۔پھر جیسے آۓ تھے ویسے ہی اُٹھ کر دروازے کی طرف بڑھے۔ان کے بڑھتے قدموں کی آواز پر اس نے آنکھیں کھول کر آنے والے کو دیکھا۔شہیر کی پُشت اس کی طرف ہونے کے باوجود وہ انہیں پہچان گیا تھا۔

یہ نیا انکشاف اسے ہضم نہیں ہورہا تھا۔وہ یہاں کیا کررہے تھے۔جتنا حیران ہوتا اتنا کم تھا۔ ان کا شفقت سے پُر انداز دیکھ وہ بےیقین سا تھا۔ کیا یہ خواب تھا۔ہاں یہ خواب ہی تھا جو وہ کُھلی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فائزہ بیگم اسے سنبھالتی ہوئی اپنے کمرے میں لے آئی۔اس کا زرد سا چہرہ دیکھ کر انہیں تشویش ہونے لگی۔

انہیں بیک وقت اس سے ہمدردی اور محبت دونوں محسوس ہوئی۔ انہوں نے بےساختہ جُھک کر اس کی پیشانی چوم ڈالی۔ ان کی کوئی بیٹی نہیں تھی مگر وہ اس لڑکی کا دُکھ اچھے سے محسوس کر پارہی تھیں۔انہوں نے اسے  تھام کر بستر پر بٹھا دیا۔فاریہ اتنے والہانہ انداز پر سُن سی ہوگئ۔ اُسے تو یہی لگا تھا کہ وہ لوگ ضرور اسے بُرا بھلا کہیں گے۔ مگر یہاں تو بالکل اُلٹ ہوا تھا۔ سب نے دل بڑا کرکے اپنے بیٹے کی غلطی کو مانا تھا۔

"شکریہ" وہ نمی بھری آنکھوں سے انہیں دیکھ کر بولی۔

"شکریہ کی کیا بات ہے بچے!!" وہ اس کے طرف دیکھ ذرا سا مسکرائیں تھیں۔

اس وقت فائزہ بیگم کو ہشام پر شدید غُصٌہ آیا تھا۔ 

"تم آرام کرو مجھے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔ کچھ دیر آرام کرلو۔کیا کھانا بھجواؤں؟" وہ اس کا کملایا چہرہ دیکھ کر بولیں۔

"نہیں کچھ نہیں چاہیے بہت تھک گئ ہوں۔ جیسے بہت لمبی مسافت طے کرلی ہو۔ کچھ دیر آرام کروں گی۔" وہ انہیں بولتے ہی بستر پر ڈھیر ہوگئ اعصاب اس قدر تھکاوٹ کا شکار تھے۔

"سو جاؤ کچھ دیر بہتر محسوس کرو گی۔ کسی چیز کی ضرورت محسوس ہو تو مجھے بتا دینا۔" انہوں نے پیار سے اس کا گال تھپتھپایا۔پھر وہ اِس کے نزدیک سے اُٹھ کر باہر کی طرف بڑھ گئ۔

ان کے باہر کی طرف جاتے ہی فاریہ اپنی آنکھیں موند گئ۔ ایک بُھولا بسرا آنسو اس کی آنکھوں سے ہوتا گال پر بہہ نکلا۔پھر یہ سلسلا جیسے چل نکلا۔روتے روتے جانے وہ کب نیند کی وادیوں میں اُتر گئ۔اسے خود بھی خبر نہ ہوئی۔خود کو اپنا مقام دلوانے کے بعد تھکے اعصاب جیسے پُرسکون ہوتے چلے گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ گھر سے نکلتا گاڑی بےمقصد دوڑاتا رہا۔تین گھنٹے بے مقصد خوار ہونے کے بعد وہ ڈیرے پر آگیا۔سوچیں جانے کہا کہا پرواز کررہی تھیں۔اس نے پُرسکون ہونے کے لیے آنکھیں بند کی اُس پری پیکر کا چہرہ پورے آب و تاب سے آنکھوں کے پردے پر لہرایا۔اس نے فوراً آنکھیں کھولیں۔کنپٹی کو دو انگلیوں سے دبا کر دُکھتے سر کو آرام دینے کی کوشش کی۔

کبھی فاریہ کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی اسے بےبس کررہی تھی۔ اور کبھی دادا جان کے الفاظ اسے شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل رہے تھے۔

اس نے تو سوچا تھا وہ جو کررہا تھا بالکل صحیح  ہے مگر اب کیوں اسے اپنے کیے ایک ایک فعل کی شرمندگی تھی۔وہ فاریہ سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا تھا۔آنکھوں کے سامنے بار بار اُس کی سوال پوچھتی آنکھیں آتی۔ جن میں اس کے لیے کئ سوال تھے کیوں کیا میرے ساتھ یہ سب؟ کیوں مجھے اکیلا چھوڑا؟

ہشام کے پاس اس کی کسی سوال کا جواب نہیں تھا اس لیے وہ نظریں چُراتے وہاں سے نکل آیا تھا۔

ہشام لاشاری اپنی انا میں ڈوبا ہوا شخص۔جس کے لیے اس کا باپ اس کا آئیڈیل تھا۔اُن کی سب باتوں پر عمل کرنا وہ اپنا فرض سمجھتا تھا۔

فاریہ جب سے اس کی زندگی میں آئی تھی۔ وہ بدلنے لگا تھا۔اس انا پرست شخص کے دل پر قطرہ قطرہ گرتی فاریہ کی محبت کی بوندیں مسلسل شگاف ڈال رہی تھیں۔وہ بدل بھی جاتا اگر اس کے باپ کہ کہے وہ الفاظ بھول جاتا۔

(کبھی بھی زندگی میں اپنے سے جُڑی عورت کو نہ چھوڑو۔) ماہا بھی تو کئ سالوں سے اس سے جُڑی تھی۔ بس وہ اپنی انا کے ہاتھوں مجبور اُسے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ ورنہ اس کے دل میں اس کے لیے کچھ نہیں تھا۔

اب اسے اچھے سے معلوم ہورہا تھا اپنی اس انا پرستی کے ہاتھوں وہ فاریہ کو گنوا چُکا تھا۔وہ محبتوں سے گُندھی لڑکی بکھر سے گئ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ کی بےچین نظریں کب سے اُسے ڈھونڈ رہی تھی۔وہ کل بھی نہیں آیا تھا۔فری پیریڈ میں اکثر وہ بےچینی سے اس کا انتظار کرتا تھا۔کل وہ جب نہ آیا تھا نشوہ کتنی ہی دیر اس کا انتظار کرتی رہی۔ آج بھی وہ بےچینی سے کینٹین میں بیٹھی کب سے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑا رہی تھی۔اسے احان کی عادت ہونے لگی تھی۔جب وہ اس کے آگے پیچھے گھومتا اس کی اہمیت کا احساس دلاتا تھا۔تو وہ اسے بےحد اچھا لگتا تھا اپنا اپنا سا۔

اس نے ایک نظر گھڑی پر ڈال کر نگاہ اُٹھائی جب وہ اسے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ گرے شرٹ کے ساتھ نیلی جینز پہنے ماتھے پر لاپرواہی سے بکھرے بالوں میں رف سے حُلیے میں بھی وہ بےتحاشا اچھا لگ رہا تھا۔ 

وہ سلام کرتا کُرسی گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھ چکا تھا۔چہرے حد درجہ سنجیدہ تھا۔اس کو اتنا سیریس دیکھ کر نشوہ کو تشویش ہوئی۔سُرخ آنکھیں رات بھر جاگنے کی خُمازی کررہی تھی۔نشوہ اس کی سُرخ آنکھوں کو دیکھ کر گھبرا سی گئ تھی۔

"احان ! تم ٹھیک ہو؟ " وہ فکرمندی سے اس کا چہرہ دیکھتی ہوئی بولی۔

احان خاموش سا نظریں جُھکاۓ بیٹھا رہا تھا۔اس کو یوں خاموش سا دیکھ کر نشوہ کو اب اس کی فکر ہونے لگی۔ وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی۔ جب وہ آخری دفعہ اس سے ملی تھی تب تو وہ بالکل ٹھیک تھا خوش اور مطمئن۔یکدم ہی اسے کیا ہوگیا۔

"میں ٹھیک نہیں ہوں۔" وہ جُھکا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا۔

"کیا ہوا ہے احان ؟ اب تم مجھے پریشان کررہے ہو۔ کیا گھر میں کوئی مسئلہ ہے۔ " وہ اس کی باتوں کے جواب میں پریشانی سے بولی۔

احان کو سمجھ نہیں آرہی تھی بات کہاں سے شروع کرے۔ اگر اس کے بارے میں جاننے کے بعد اس نے انکار کردیا پھر۔

"نشوہ مجھ سے شادی کرلو۔" وہ بولا بھی تو کیا۔

نشوہ نے گھور کر اسے دیکھا۔

"شاید تمہارا دماغ کمزور ہے۔میں تمہارے پرپوزل پر ہاں کرچکی ہوں۔اور مجھے یقین ہے میرے گھر والے بھی ہاں کردیں گے۔" وہ اس کی عقل پر ماتم کرتی ہوئی بولی۔

"میں کہہ رہا ہوں مجھ سے ابھی اسی وقت شادی کرلو آج ہی۔ میرے ساتھ چلو۔مجھے پتا ہے میرے بارے میں جاننے کے بعد شاید تمہارے گھر والے انکار کردیں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا اٹل انداز میں بولا۔

"کیسا مزاق ہے احان؟ " وہ اس کی آج ہی شادی والی بات پر گھبرا کر بولی۔اور دوسری بات اسے سمجھ نہیں آئی۔

"مزاق نہیں سچ کہہ رہا ہوں۔ بہت محبت کرتا ہوں تم سے نشوہ۔ تمہیں کھونا نہیں چاہتا۔مجھے کبھی کوئی خوشی پوری نہیں ملی۔مگر میں تمہیں کھو نہیں سکتا۔ کیونکہ میری سانسوں کی ڈور تمہارے ساتھ بندھ گئ ہے۔پلیز میری بات مان لو۔ " وہ اس کرب سے بولتا اس کا ہاتھ تھام گیا۔

"کیسی باتیں کررہے ہو احان ۔ میں مر کر بھی ایسا نہیں سوچ سکتی۔ اپنے گھر والوں کے خلاف جاکر اتنا بڑا قدم اُٹھانا۔تم نے مجھے سمجھ کیا رکھا ہے۔ ابھی تک تو سب ٹھیک تھا اچانک تمہیں کیا ہوگیا۔ تم تو اپنی ماما کو میرے گھر بھیجنے والے تھا۔ میں کل پورا دن تمہارا اور تمہاری ماما کا انتظار کرتی رہی.  مگر تم نہیں آۓ۔اور آج آگۓ ہو تو ایسی بہکی بہکی باتیں کیوں کررہے ہو؟ ہوا کیا ہے؟ کچھ بتاؤں گے تو پتا چلے گا۔ اور کس سچ کی بات کررہے ہو جسے جان کر میرے گھر والے انکار کردیں گے۔ یا تم مجھ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ اب تک تم  بس مجھے بہلا رہے تھے۔ "

وہ اس کی گرفت سے اپنا ہاتھ چھوڑاتی ہوئی بولی۔

"نشوہ ! پلیز ایسا مت کہو میں تمہارے ساتھ کوئی کھیل نہیں کھیل رہا سچ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔تمہیں کھونے کے ڈر سے ہی تو یہ سب کرنا چاہتا ہوں۔" وہ بےبسی سے اپنے خالی ہاتھ کو دیکھ کر بولا۔

"میں بھی جاننا چاہتی وہ کیا چیز ہے جو تمہیں خوف میں مبتلا کررہی ہے۔ کیوں تم یہ سب کہہ رہے ہو۔آخر کیا وجہ ہے تمہارے اس بدلاؤ کی۔ کل تک تو تم خوشی خوشی میرے گھر رشتہ بھیجنے پر راضی تھے۔ اب یکدم سے ایسا کیا ہوگیا۔" وہ جیسے جاننے پر بضد تھی۔

احان نے اس کی طرف دیکھ کر گہرا سانس بھرا۔

" میں احان آفندی ہوں۔" اس نے آفندی پر زور دے کر کہا۔اس نے آج سے پہلے اپنے نام کے ساتھ آفندی لگانے کی زحمت ہی نہ کی تھی۔

نشوہ کچھ کچھ اُلجھ سی چکی تھی۔

"میں احان شہیر آفندی ہوں۔ تمہارے تایا جان کا بیٹا۔شیریں آفندی اور شہیر آفندی کا بیٹا۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا اسے لاجواب کرگیا۔

نشوہ کو یزدان آفندی کے بولے ہوۓ جملے یاد آنے لگے۔جب وہ میرو کو چھوڑ کر گیا تھا۔

 اس بات کا اسے کچھ کچھ اندازہ تو تھا مگر اسے یقین  نہ آیا سامنے بیٹھا وجود سچ کہہ رہا تھا۔ اسے اس معاملے کسی نے بھی زیادہ انولو نہیں کیا تھا۔

کتنی ہی دیر وہ گہرے سناٹے میں گِھری وہی بیٹھی رہی۔ پھر حواس میں آتی اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا یہ سب؟ اب تک مجھے لاعلم رکھنے کا تمہارا کیا مقصد تھا؟" وہ دبے دبے انداز میں احتجاجاً بولی۔

"میں خود نہیں جانتا تھا کہ تمہارا تعلق آفندی خاندان سے ہے۔ اگر جانتا ہوتا تو شاید بہت پہلے ہی اپنے قدم تمہاری طرف بڑھنے سے روک لیتا۔یقین مانو اب میں اتنی دُور نکل آیا ہوں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔" وہ اس کے برابر آتا یقین دلانے والے انداز میں بولا۔

"مجھے یقین نہیں۔ کیا پتا ان سب میں تمہاری کوئی سازش ہو۔ تم مجھے پھنسانا چاہتے ہو۔ مجھے میرے گھر والوں سے دُور کرنا چاہتے ہو۔ " وہ ذرا سختی سے بولتی دو قدم پیچھے ہٹی۔

"نشوہ ایسا کچھ بھی نہیں تم میرے لیے بہت خاص ہو یار۔" وہ  اس کا غُصّے سے سُرخ  پڑتا چہرہ دیکھ کر بولا۔

"مجھ سے دُور رہو۔ میں ایسا کوئی بھی قدم نہیں اُٹھاؤں گی جس سے میرے گھر والوں کو شرمندگی ہو۔" وہ وارن کرنے والے انداز میں بولی۔

"نشوہ تم ایسا نہیں کرسکتی میرے ساتھ۔" اس نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھامنا چاہا جب نشوہ اِردگرد کا لحاظ کرتی اسے وہی روک گئ۔

"دُور رہو مجھ سے۔" وہ سختی سے کہتی اس سے دُور ہوتی چلی گئ۔

وہ اسے خود سے دُور ہوتا دیکھتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان کی گاڑی مسلسل کئ گھنٹوں سے اپنے سفر کی طرف رواں دواں تھی۔ ازوہ خوش ہونے کے ساتھ ساتھ کافی  پُرجوش بھی نظر آرہی تھی۔عرید تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کے چاند چہرے پر ایک بھرپور نظر ڈال لیتا۔جو آج کچھ زیادہ ہی دھمک رہا تھا۔

اس نے کالی کے بارے میں جتنی معلومات اکٹھی کی تھی  اُس کے مطابق اس کا تعلق ایک بہت بڑے گینگ سے تھا۔ وہ بس اپنے باس کا ایک مہرہ تھا۔ وہ کالی کے ساتھ ساتھ پورے گینگ کو صفاہستی سے مٹانے کا اٹل ارادہ کرچکا تھا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے مطابق وہ لوگ اب سوات میں اپنا کام گھناؤنا کام جاری رکھے ہوۓ تھے۔ اسی لیے وہ اسے نہیں لانا چاہتا تھا اس کی جان کو خطرہ بھی ہوسکتا تھا۔ مگر وہ ضدی لڑکی ضد کرکے اس کے ساتھ آگئ تھی۔

مسلسل ڈرائیونگ کرتے کرتے وہ تھک چُکا تھا۔اب اس کا ارادہ کچھ دیر آرام کا تھا۔ اس نے گاڑی نزدیک ہی ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے روکی۔ ابھی وہ بامشکل آدھا راستہ بھی طے نہیں کرپاۓ تھے۔اس کے ارادہ صبح آگے کا سفر طے کرنے کا تھا۔

"گاڑی کیوں روک دی۔".  وہ جو باہر دیکھنے میں مصروف تھی ۔ گاڑی رُکنے پر اس کی طرف متوجہ ہوئی۔

"محترمہ آپ کا شوہر بھی ایک ادنیٰ سا انسان ہے۔ مسلسل ڈرائیونگ کرکے تھک گیا ہوں۔ اگر آپ کا حکم ہو ملکہ عالیہ تو ہم کچھ دیر آرام فرما لیں۔" اس کے پہلے جملے پر وہ کچھ شرمندہ ہوئی مگر اس کی باقی بات سُن کر اس نے گُھور کر اسے دیکھا۔

وہ دونوں گاڑی سے اُترتے اندر کی جانب بڑھے۔ہوٹل چھوٹا ضرور تھا مگر کافی صاف سُتھرا تھا۔ رات کے باعث اس علاقے میں سردی کی شدت کافی بڑھ گئ تھی۔

وہ اپنا کمرہ بُک کروا کر جلد ہی کمرے میں بڑھ گۓ۔ اسے سردی سے کپکپاتے دیکھ وہ اس کے گرد باہوں کا گرم حصار قائم کرگیا۔

چھوٹا سا کمرا مگر ہر چیز نہایت سلیقے سے سیٹ تھی۔عرید نے ہاتھ میں تھاما بیگ ٹیبل پر رکھا۔اس میں سے کپڑے نکالتا فوراً واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ گرم پانی سے شاور لیا تو اعصاب کچھ پُرسکون ہوۓ۔

اس نے کمرے میں آکر نگاہیں اردگرد دوڑائی مگر ازوہ کہیں نہیں تھی۔ روم کے ساتھ اٹیچ چھوٹی سی بالکنی سے کھلکھلانے کی آواز آرہی تھی۔باہر ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ عرید نے ماتھے پر بل ڈالے اس بےوقوف لڑکی کو دیکھا۔جو ابھی کچھ دیر پہلے سردی میں کپکپا رہی تھی اور اب اتنی سردی میں کھڑی تھی۔

"عرید آپ بھی آئیے نا دیکھیے کتنا مزہ آرہا ہے۔سب کچھ کتنا اچھا لگ رہا ہے۔" وہ اپنے پیچھے قدموں کی آواز سُنتی چہکتی ہوئی بولی۔

عرید نےآگے بڑھتے پیچھے سے اس کے گرد حصار باندھا تھا۔

"بیمار پڑ جاؤ گی ڈول۔ کیوں تنگ کرتی ہو۔اگر بیمار پڑ گئ تو میرا کیا ہوگا۔ خدمتیں کروانے کا ارادہ ہے۔" وہ جُھک کر اس کا گال چومتا ہوا بولا۔

عرید نے اپنی گرفت میں قید اس وجود کو دیکھا تھا جس کے ہاتھ برف کی طرح ٹھنڈے پڑے تھے۔اس نے نرمی سے اس کے ہاتھوں کو سہلا کر حدت پہنچانے کی کوشش کی۔

"جی نہیں وہ تو بس بارش مجھے بہت پسند ہے بس اس لیے اِدھر آگئ۔ ورنہ فکر مت کریے آپ سے خدمتیں ہر گز نہیں کرواؤں گی۔" اس کی باتوں کے جواب میں بولی۔

" چلو اندر چلو ۔بس بہت کرلی بارش انجواۓ۔" وہ اس کے گرد بندھا حصار ہٹاتا ہوا بولا۔بارش بھی اب تیز ہونے لگی تھی۔

"نہیں ابھی نہیں کچھ دیر اور۔ ابھی تو بارش تیز ہوئی ہے۔" وہ اندر جانے پر راضی نظر نہ آئی۔

"میری بےوقوف پرنسس۔ یہ بارش انجواۓ کرنے کے لیے نہیں ہوتی بس دیکھنے کے لیے ہوتی ہے۔" وہ اس کا بھیگا سراپا دیکھ کر بولا۔ جو اب تیز بارش میں بھیگنے لگا تھا۔ خود بھی وہ گیلا ہوچکا تھا۔

"پلیز! تھوڑا سا انجواۓ کرنے دیں۔" اب کی بار وہ منت بھرے انداز میں بولی۔

"ٹھیک ہے پھر میں بھی تمہارے ساتھ انجواۓ کروں گا۔" اس نے ازوہ کے بھیگے سراپے کو خُمار بھری نظروں سے دیکھا۔

ازوہ نے چہکتے ہوۓ کندھے اچکا دیے جیسے کہہ رہی ہو آپ کی مرضی۔

عرید نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے ساتھ لگایا تھا۔ازوہ نے بوکھلا کر اس کی طرف دیکھا۔اب وہ اس کی گردن سے چپکے بال ہٹاتا انگلی سے اس کی بھیگی گردن کو ٹریس کررہا تھا۔پھر جُھک کر اس جگہ اپنا شدت بھرا لمس چھوڑا۔اس کے ہونٹوں کا سلگتا لمس اپنی گردن پر محسوس کرتی وہ کپکپا کر رہ گئ۔

"یہ کیا کر ۔۔۔رہے۔۔ہیں؟" وہ کپکپاتے ہوۓ لہجے میں بمشکل بولی۔

"انجواۓ کررہا ہوں۔" وہ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔اس لڑکی کو کیسے ہینڈل کرنا ہے وہ اچھے سے جانتا تھا۔

"مجھے سردی لگ رہی ہے مجھے اندر جانا ہے۔" وہ اس کو دُور ہٹاتے ہوۓ بولی۔

"اتنی جلدی ۔ ابھی کچھ دیر اور انجواۓ کرلیتے ہیں۔" وہ اسے تپانے والے انداز میں بولا۔

"نہیں اندر جانا ہے۔" وہ اس کی مزید سُنے بغیر اندر بھاگ گئ۔عرید سرشاری سے مسکراتا اندر کی طرف بڑھا۔وہ کپڑے لیے واش روم میں بند ہوچکی تھی۔عرید نے بھی دوسرے کپڑے نکال تبدیل کیے تھے۔

کچھ دیر بعد عرید کے کہنے پر کھانا کمرے میں ہی پہنچا دیا گیا تھا۔ گرم گرم کھانا دیکھ دونوں کی بھوک جاگ اُٹھی تھی۔

کھانا کھانے کے فوراً بعد وہ بستر بر براجمان ہوچکی تھی۔عرید نے محبت سے اس کا نکھرا نکھرا وجود دیکھا تھا۔وہ اسے سینے سے لگاتا اپنی مضبوط گرفت میں قید کرتا آنکھیں موند گیا۔ازوہ بھی پُرسکون سی ہوتی آنکھیں موند گئ ۔اس محبت بھرے حصار کے بغیراسے بھی کہاں اب نیند آتی تھی۔

اگلا دن پوری آب وتاب سے چمک اُٹھا تھا اس نے دُکھتے سر کو سنبھال کر اُٹھنے کی کوشش کی۔اسے یقین نہیں أیا وہ اتنی دیر سوتی رہی۔رات فائزہ بیگم اس کے لیے کھانا لے کر أئیں تھی مگر اسے پُرسکون سا سوتا دیکھ دروازے سے ہی واپس چلی گئ۔

فاریہ کو شدید بھوک کا احساس ہوا۔اسے یاد آیا اس نے کل صُبح سے کچھ نہیں کھایا اب تو دوسرا دن بھی نمودار ہوچکا تھا۔اسے اپنی لاپرواہی پر غُصہ آیا تھا۔کم از کم اپنا نہیں تو اس ننھے وجود کا خیال تو رکھ کرسکتی تھی۔اب بھی آنکھوں کے سامنے بار بار اندھیرا چھا رہا تھا۔اس نے فریش ہوکر نیچے جانے کا سوچا۔اب ایک بھی منٹ مزید بھوکی رہتی تو شاید وہ گر جاتی۔نیچے جانے کے خیال سے وہ جھجھک رہی تھی۔مگر آج نہیں تو کل سب کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔  وہ ہمت مجتمع کرتی ڈوپٹہ اچھے سے اپنے گرد اوڑھتی نیچے کی طرف بڑھی۔

جہاں سب ہی کھانے کی میز کے گرد جمع تھے۔ماسواۓ ہشام اور حارث صاحب کے۔ اسے نیچے آتا دیکھ فائزہ نے خیر مقدم مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔اس نے جھجھکتے ہوۓ سب کو مشترکہ سلام کیا۔

"آؤ بچے! اچھا کیا آپ خود ہی آگئ۔آئیے ہمارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کریے۔" دادا جان شفیق سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھتے ہوۓ بولے۔

"فاریہ نے ٹیبل پر سجے ناشتے کو دیکھا تو یکدم اس کا دل گھبرانے لگا۔کچن سے آتی تیز خوشبو اور آئلی چیزوں کو دیکھ اسے جانے کیوں عجیب سا فیل ہوا۔

"کھڑی کیوں ہو فاریہ؟ بیٹا بیٹھ جاؤ۔" فائزہ بیگم اس کی حالت سے انجان اُسے وہی کھڑا دیکھ کر بولی۔

وہ جبراً مسکراتی بیٹھ گئ۔فائزہ بیگم نے اس کے آگے پراٹھا رکھا۔ اسے ہر چیز گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔دل اتنا گھبرا رہا تھا وہ فوراً کمرے میں واپس جانا چاہتی تھی بھوک بالکل مر چکی تھی۔

اس نے کرسی گھسیٹ کر اُٹھنا چاہا مگر اُٹھتے ہی اس کی آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا گیا۔چوبیس گھنٹے سے بھوکا رہنے اور شدید ٹینشن کے بعد اس کے اعصاب جواب دے گا۔اس نے آنکھیں جھپک جھپک کر آنکھوں کے گرد چھاۓ اندھیرے کو دُور کرنا چاہا مگر بے سُود۔

کرسی پر ہاتھ رکھ کر اس نے سنبھلنے کی کوشش کی. وہ زمین پر ڈھیر ہوتی اس سے پہلے فائزہ بیگم نے اس کے بےہوش وجود کو خود میں سمیٹا۔

یکدم اس ہونے والی افتاد پر سب پریشان ہو اُٹھے۔

"صارم بچی کو کمرے میں لیکر چلو۔" دادا جان کے حکم پر صارم اسے سنبھالتا کمرے میں لے آیا۔

"ڈاکٹر کو فون کرو صارم۔"دادا جان اس کا کملایا ہوا چہرہ دیکھ کر بولے۔

فائزہ بیگم اس کے نزدیک بیٹھی مسلسل اس کے ہاتھ سہلا رہی تھیں۔

ڈاکٹر نے چیک اپ کے بعد جو اطلاع انہیں دی وہ سب پر حیرتوں کے پہاڑ توڑ گئ۔اچانک ملنے والی اس خبر سے ماحول خوشگوار ہوگیا۔دادا جان کا غُصّہ ہشام پر مزید گہرا ہوا۔دادا جان فائزہ بیگم کو اس کا خیال رکھنے کا بولتے سب کو   جانے کا اشارہ کرچکے تھے۔فائزہ بیگم مسلسل محبت پاش نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جو ان کی نسل کو پروان چڑھانے والی تھی۔ڈاکٹر کی بات سُن کر انہیں احساس ہوا کہ اسے محبت اور توجہ کی ضرورت ہے۔  وہ لڑکی اپنے معاملے میں کتنی لاپرواہ تھی اس بات کا اندازہ اُنہیں اس بات سے ہوگیا تھا کہ وہ کل سے بھوکی پیاسی گھوم رہی تھی۔ وہ کتنی دیر بیٹھی اس کے بال سہلاتی رہیں۔

کچھ دیر بعد اس نے مندی مندی آنکھوں سے اردگرد دیکھا۔اپنی بائیں طرف ہی فائزہ بیگم کو بیٹھا دیکھ اُٹھ بیٹھی۔انہوں نے اسے اپنے ساتھ لگا کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ 

"بہت مبارک ہو میری جان۔اور تمہارا بےحد شکریہ ہمیں اتنی بڑی خوشی دینے کے لیے۔" فائزہ بیگم اسے والہانہ انداز میں اپنے ساتھ لپٹاتی ہوئیں بولی۔

فاریہ ان کی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ گئ تھی۔

"اب یہ لاپرواہی ہر گز نہیں چلے گی۔پہلے ہی اتنی سی جان ہے اور اوپر سے یہ لاپرواہی ہر گز نہیں چلے گی۔میں خود تمہارا خیال رکھوں گی۔" وہ اس کی لاپرواہی پر اسے ہلکا سا ڈانٹتی ہوئی بولی۔

فاریہ ان کے انداز پر مسکرا کر رہ گئ۔فائزہ بیگم نے اس کے لیے ناشتہ منگوایا۔ہر چیز اپنے سامنے بیٹھ کر اسے کھلائی تھی۔ورنہ اس کا کیا بھروسہ وہ پھر لاپرواہی برتتی۔

فاریہ نے پہلی بار یہ ممتا بھرا لمس محسوس کیا تھا۔اور یہ احساس اتنا پیارا تھا وہ لفظوں میں بیان ہرگز نہیں کرسکتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادا جان کا غُصّہ ہشام پر کئ گُنا بڑھ چکا تھا۔ انہوں نے آگے کا لائحہ عمل ترتیب دے دیا تھا۔انہوں نے کچھ سوچتے ہوۓ ملازم کے ہاتھ ہشام کو گھر واپس آنے کا پیغام بھیجا تھا۔جو پچھلے دو دنوں سے گھر نہیں آیا تھا۔

ہشام جو پچھلے دو دنوں سے یہی ڈیرے پر موجود تھا اس میں ہمت ہی نہیں ہورہی تھی کہ واپس جا کر فاریہ کا سامنا کر سکے۔اب دادا جان کے پیغام پر وہ حیران سا ہوگیا تھا کہ وہ آخر اسے کیوں بلا رہے تھے۔جتنا وہ اس سے خفا تھے  اسے یقین تھا وہ اسے منہ لگانا بھی ضروری نہ سمجھے گے۔مگر اب یہ بلاوا وہ حیران نہ ہوتا تو کیسے۔

وہ اب ان کے سامنے سر جُھکاۓ بیٹھا تھا جو اسے دیکھ کم گُھور زیادہ رہے تھے۔

"ہمیں واقعی آپ سے ایسی اُمید نہیں تھی۔ اُمید تو خیر تمہارے باپ سے بھی لگائی تھی مگر آپ دونوں ہی پورے نہ اُتر سکے۔افسوس کا مقام ہے ہمارے لیے۔خیر ان سب باتوں کو چھوڑیے ہم نے بہت ضروری بات کرنے کے لیے بلایا ہے آپ کو۔" دادا جان افسوس بھری نظریں اس پر ڈال کر بولے۔جو گہری سوچ میں گُم تھا۔

"آپ ہماری بات سُن رہے ہیں۔" انہوں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

ہشام نے انہیں دیکھ کر ہاں میں سر ہلایا۔

"ہہمم! آپ کو پتا تھا  آپ باپ بننے والے ہیں۔" ان کا بس نہیں چل رہا تھا دو تھپڑ اس کے منہ پر لگا دیتے۔

"جی اُسی دن پتا چلا تھا۔" وہ ان کا غُصّہ بھرا انداز دیکھ کر بولا۔

"بڑے کوئی شرم کی بات ہے آپ نے بہو کو اس حالت میں خوار کیا ۔ اب ہمیں آپ سے کوئی اُمید نہیں رہی۔ مگر ہم نہیں چاہتے آپ کی وجہ سے کوئی اُن کے کردار پر انگلی اُٹھائی۔ اس لیے ہم چاہتے کہ یہ بات حویلی سے نکلے اس سے پہلے ہم آپ لوگوں کا باقاعدہ نکاح کروا دیں۔تاکہ سب لوگ جان جائیں کہ گاؤں کی نئ سردارنی کون ہے۔ اور انہیں کوئی موقع نہ ملے الزام لگانے کا۔" وہ اس کی طرف دیکھے بغیر بولے۔

"ان سب کے باوجود ہم سب میں سے کوئی بہو پر دباؤ نہیں ڈالے کا آپ کو معاف کرنے کے لیے۔مگر ان کا تعارف جلد سے جلد گاؤں والوں سے ہوجانا چاہیے۔ ہمارا مقصد آپ کو اس بات سے آگاہ کرنا تھا  جو ہم کرچکے ہیں۔" وہ کھڑکی سے باہر نظریں ٹکاۓ بیٹھے تھے۔ وہ اپنی بات مکمل کرتے خاموش ہوگۓ تھے۔

ابھی وہ مزید کوئی بات کرتے دروازہ کٹکھٹاتے فارض صاحب اور صارم اندر آۓ جنھیں انہوں نے ہی بُلایا تھا۔ہشام کو وہاں موجود دیکھ وہ چونکے ضرور مگر کوئی رسپانس نہ دیا۔

"بابا جان ! آپ نے بلایا تھا۔" وہ اندر آتے ہشام کو سرے سے اگنور کر گۓ۔ 

"ہاں فارض ! ضروری بات کرنی ہے۔آؤ بیٹھو۔" وہ فارض کے ساتھ ساتھ صارم کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوۓ بولے۔ 

"جیسے کہ آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ حالات کیا ہوچکے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے بہو کو باضابطہ طور پر سب کے سامنے لانے کا۔اسی سلسلے میں ہم شادی کی تقریب رکھنا چاہ رہے ہیں۔تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں۔ اور ماہا کے لیے ہم تم سے معافی مانگتے ہیں۔یہ رشتہ ہمارے ہی کہنے پر جُڑا تھا ہم شرمندہ ہیں کہ ہم نے اتنا غلط فیصلہ کیا۔" وہ باقاعدہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوۓ بولے۔

فارض صاحب نے تڑپ کے ان کے ہاتھ کھولے۔

"بابا جان یہ آپ کیا کررہے ہیں۔  ماہا کہ نصیب میں یہی لکھا تھا اچھا ہے وقت رہتے سب کو حقیقت معلوم ہوگئ۔ اور ہم صارم کے بھی شکر گُزار ہیں جو ان کی وجہ سے سب کو حقیقت معلوم ہوئی۔" وہ صارم کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔

"ماہا کے بارے میں کیا سوچا اب آپ نے۔" دادا جان انہیں دیکھ کر بولے۔

"ہم جانتے ہیں کہ وہ بھی اس رشتے پر راضی نہیں تھی مگر ہماری خاطر راضی ہوگئ۔ کیونکہ ہمیں یہی لگتا تھا ہشام ماہا کے لیے پرفیکٹ ہے۔ مگر اب ہم کوئی بھی فیصلہ ان سے پوچھے بغیر نہیں کریں گے۔" فارض صاحب افسردہ ہوتے ہوۓ بولے۔

"ہمم! جو بھی ہے ناانصافی اُن کے ساتھ بھی ہوئی ہے ۔ گاؤں میں سب کو ہی ہشام اور ماہا کی منگنی کے بارے میں پتا ہے ہم نہیں چاہتے کوئی باتیں بناۓ۔ اس مسئلے کا بھی کوئی حل سوچیں۔" دادا جان اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہوۓ بولے۔

فارض اور صارم محض خاموشی سے ان کی باتیں سُن رہے تھے۔جب وہ مزید اپنی بات بڑھاتے ہوۓ بولے۔

"ہمیں اس مسئلے کا کوئی حل نظر آرہا ہے تو یہ ہے کہ ہشام اور فاریہ کے ساتھ ساتھ ماہا کا بھی نکاح کیا جاۓ۔" دادا جان پُر سوچ نظروں سے اسے انہیں دیکھ کر بولے۔

ماہا کے نکاح کے نام پر صارم کا دل زور سے دھڑکا۔

"مگر بابا جان!  ہم جلد بازی میں اب کوئی بھی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ " فارض صاحب کی بےبس سی آواز گونجی۔ 

وہ ان کی بات پر اتفاق رکھتے تھے مگر اب وہ جلد بازی میں کچھ نہیں کرنا چاہتے تھے۔

صارم کو لگا یہی ایک موقع ہے ماہا تک پہنچنے کا۔

"چاچو! ماہا کا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیں یقین مانیے بہت خوش رکھوں گا اُسے۔ بہت محبت کرتا ہوں۔ میں ماہا کو یونی سے جانتا ہوں تب سے ہی اُسے محبت کرتا ہوں مگر اس کے رشتے کے بارے میں جان کا پیچھے ہٹ گیا۔ مگر جب قدرت ایک موقع دے رہی ہے تو میں ایک آخری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔" وہ ان کے نزدیک گھٹنوں کے بل بیٹھتا ان کا ہاتھ تھام گیا۔

فارض صاحب کچھ دیر خاموشی سے اس کا چہرہ دیکھتے رہے۔

"مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں مگر آخری فیصلہ ماہا کا ہی ہوگا۔ اب وہ جو چاہے گی وہی ہوگا۔ " فارض صاحب نے اس کا گال تھپتھپایا۔ صارم کے چہرے پر سکون پھیلتا چلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ کسی سے بھی ملے بغیر یونی سے آکر کمرے میں بند ہوگئ۔ کسی نے نوٹ بھی نہیں کیا تھا کیونکہ ازوہ اور عرید بھی گھر سے نکل چکے تھے۔ مرد حضرات اپنے اپنے کام میں مصروف تھے۔ کسی کا دھیان ہی نہ گیا تھا۔

وہ کمرے میں آکر گُھٹ گُھٹ کر روئی تھی وہ جانتی تھی کہ اپنی باتوں سے احان کا دل دُکھا آئی تھی۔ یزدان کے سچائی جاننے کے بعد حالات جس نہج پر پہنچے تھے اس سے اس نے یہی اندازہ لگایا تھا کہ گھر پر کوئی بھی ان کے رشتے پر راضی نہیں ہوگا۔ پچھلے دو سالوں سے وہ میرو اور یزدان میں چلتی کشیدگی کو دیکھ رہی تھی۔

وہ احان کا دل تو دُکھا آئی تھی مگر اندر سے اپنا دل بھی تڑپ رہا تھا۔مگر وہ اپنے گھر والوں کے خلاف تو مر کر بھی نہیں جاسکتی تھی اور نہ ہی وہ احان کو جھوٹی اُمید ہرگز نہیں دلانا چاہتی تھی۔اس لیے اُس کا دل توڑ آئی تھی۔

"آئی ایم سوری احان۔ مجھے معاف کردو۔ مگر یہ ضروری تھا جب ہماری منزلیں ایک نہیں ہوسکتی تو ایک ہی راستہ پر چلنے کا کیا فائدہ۔ آج میں تم سے اپنا ہر راستہ جُدا کر آئی ہوں۔ مگر مجھے محسوس ہورہا ہے میرا  سکون بھی وہی رہ گیا ہے۔" بار بار احان کی شکوہ کُناں نظریں سامنے آتی تو اسے شرمندگی سی محسوس ہوتی مگر وہ خود کو اس معاملے میں بےبس پا رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ دادا جان کے کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔ پچھلے دو دنوں سے وہ اسی سوٹ میں ملبوس تھا لباس شکن زدہ تھا۔ سردار ہشام لاشاری جو اپنے کپڑوں پر ایک بھی شکن برداشت نہیں کرسکتا تھا آج اس شکن زدہ کپڑوں میں اِدھر اُدھر کملایا سا گھوم رہا تھا۔ اب اُسے اس لباس سے اُلجھن سی ہونے لگی تھی۔اسے بدلنے کے غرض سے وہ کمرے میں موجود تھا۔

وہ جیسے ہی داخل ہوا پہلی ہی نظر اپنے بستر پر براجمان اس پری پیکر پر گئ تھی۔ جو پورے حق سے اس  کے بستر پر لیٹی محو استراحت تھی۔ ہشام قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آیا۔ اس کا کملایا زرد چہرہ دیکھ کر اس کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔اسے یوں محسوس ہوا اس کا دل کسی نے پیروں تلے کچل ڈالا ہو۔ جس چہرہ پر ہمیشہ گلابیاں گُھلی رہتی تھی اس وقت زردیاں گُھلی ہوئی تھی۔ 

اسے یکدم یوں محسوس ہوا اردگرد آکسیجن کی کمی ہونے لگی ہے۔سانس جیسے سینے میں اٹکنے لگی ہے۔ اسے صحیح معنوں میں آج احساس ہوا کہ ہشام لاشاری کے سانسیں اس سامنے پڑے وجود میں قید ہیں۔

وہ لڑکی سادہ سے حُلیے میں بھی اس پر جادو کی طرح اثر کرتی تھی۔اسے اچھے کے ادراک ہورہا تھا وہ اس لڑکی کو رفتہ رفتہ اپنی انا کے ہاتھوں کھو چکا ہے۔ 

"نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میں اُسے خود سے دُور نہیں جانے دوں گا۔ وہ ہشام کی تھی ، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔" وہ دل کی بات پر نفی کرتا ہوا خود کو یقین دلا رہا تھا۔ اب یہ ضروری نہیں تھا کہ ہر بار محبت ہی اس کے سامنے جُھکے کبھی کبھی انا کے وجود کو بھی ریزہ ریزہ ہونا پڑتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا کے اقرار پر گھر میں شادی کی تیاریاں زوروں شوروں سے جاری تھی۔صارم کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔اس کا دل بار بار خُدا کے حضور سجدہ ریز ہورہا تھا۔ محبت کو محرم بنا لینے کی خوشی اس کے چہرے پر جھلک رہی تھی۔ 

احان کو فون کرکے وہ اپنی شادی کی اطلاع دے چکا تھا۔  مگر اس نے کہا تھا کہ وہ باقی تفصیلات اس کے آنے پر بتاۓ گا۔ مگر وہ اتنا بتا چکا تھا کہ اس کی شادی ماہا سے ہورہی ہے اور وہ بہت خوش ہے۔ اس کو اتنا خوش دیکھ احان کچھ پل کے لیے اپنی ٹینشن بھول ہی گیا تھا۔ صارم نے اسے جلد سے جلد آنے کا کہا تھا۔ جس پر اُس نے بھی حامی بھری تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ کا دل مطمئن تھا جو مقام وہ چاہتی تھی وہ ملنے جارہا تھا۔اسے ان لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں تھا اس کی سوچ سے بڑھ کر سب نے اسے پیار دیا۔ فائزہ بیگم اس کے کھانے پینے نیز ہر چیز کا خیال خود رکھ رہی تھیں۔

اگر کسی سے شکوے شکایات تھے تو وہ صرف اور صرف ہشام سے۔ وہ اس سے بےحد ناراض تھی۔ جس کی نظروں میں اس کے وجود کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔

"فاریہ بیٹا ! آپ کا سامان آگیا ہے دیکھ لو بچے کسی اور چیز کی ضرورت تو نہیں۔ ہم نے آپ سے کتنا کہا کہ صارم اور ماہا کے ساتھ جاکر اپنے پسند کی چیز لے لو مگر آپ نے انکار کردیا۔  ہمیں بالکل اچھا نہیں لگتا جب آپ یوں اُداس اُداس رہتی ہیں۔ " وہ سارا سامان  بیڈ پر رکھواتی ہوئی بولی۔

"ایسی کوئی بات نہیں آنٹی۔ مجھے واقعی ہی جس چیز کی ضرورت ہوگی میں مانگ لوں گی۔مگر یہاں تو سب کہے بغیر پورا ہورہا ہے۔مجھے کچھ مانگنے کی ضرورت ہی نہیں۔" وہ محبت سے ان کے ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔

اس کے اتنی عزت دینے پر فائزہ بیگم نہال ہوگی۔

"ہشام نے بہت غلط کیا آپ کے ساتھ۔ بالکل معاف نہ کرنا اُسے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام گئیں۔

"مجھے یقین نہیں آرہا آپ ہشام کی ماما ہوتے ہوۓ میرے ساتھ اور ان کے خلاف ہیں۔مجھے بالکل یقین نہیں آرہا میں اتنی خوش قسمت بھی ہوسکتی ہوں کہ کوئی مجھ سے بھی اتنی مخلص محبت بھی کرے گا۔" وہ آنکھیں میں آئی نمی کو بہنے سے روک رہی تھی۔

"جو صحیح ہے ہم اس کے ساتھ ہیں یہاں آپ صحیح اور ہشام غلط ہیں تو جُھکنا بھی اُنہی کہ ہوگا۔تب تک معاف نہ کرنا جب تک گھٹنوں کے بل جُھک کر تم سے معافی نہ مانگے۔"ان کی باتوں پر روتے ہوۓ ہنس دی ۔ اس دھوپ چھاؤں سے منظر کو دیکھ کر فائزہ بیگم نے من ہی من اس کی نظر اُتاری۔

"اُنہیں میں بالکل بھی معاف نہیں کروں گی کتنا رولایا انہوں نے مجھے۔" ہشام کے ذکر پر اس کا چہرہ خود بخود سپاٹ ہوگیا ہے۔

"تمہیں پتا ہے ہمیں شروع سے ایک بیٹی کی خواہش تھی۔ مگر تمہارے آنے سے یہ حسرت بھی حقیقت میں بدل گئ ہے۔" وہ اس کا ماتھا چومتی ہوئی بولی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم گھر والوں سے اجازت لیکر اس کے ساتھ شاپنگ کرنے آیا تھا۔ وہ وقفے وقفے سے ایک محبت بھری اس پر ڈال لیتا۔ اس کی نظروں کی گستاخیوں سے وہ مسلسل گھبرا رہی تھی۔

"صارم کیا ہے؟ تنگ مت کریں۔" وہ اس کا چہرہ سامنے کی طرف موڑتی ہوئی بولی۔چہرہ اس کے انداز پر سُرخ ہورہا تھا۔

"میں نے کیا کیا؟ " وہ معصوم سا منہ بناتا ہوا بولا۔

"آپ اپنی ان بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھور رہے ہیں۔" وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"کیا کروں یقین نہیں آرہا کہ بہت جلد تم میری بننے والی ہو۔" وہ آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے اس کا من موہنا مکھڑا نظروں کے ذریعے دل میں اُتار رہا تھا۔

"آپ کے اس یقین نہ آنے کے چکر میں ہم بےشک اوپر پہنچ جائیں۔ سامنے دیکھ کر گاڑی چلائیں۔" وہ جھنجھلاتی ہوئی اس کی نظروں سے پزل سی بولی۔

"اچھا اچھا بولو لڑکی۔ ابھی تو حسین خواب سجانا شروع کیے ہیں.  ابھی تو تمہارے سنگ ایک حسین زندگی گُزارنی ہے۔ ابھی تو تم سے کُھل کر اپنی محبت کا اظہار کرنا ہے۔ ابھی تو تمہیں اپنی بےقراریاں بتانی ہے۔ابھی تو تمہیں محرم بنا کر تمہارا یہ خوبصورت وجود اپنی پناہوں میں قید کرنا ہے۔" وہ مزید بولنا چاہتا تھا جب وہ اس کے لبوں پر ہاتھ جماتی اسے بولنے سے روک گئ۔

چہرہ حد درجہ سُرخ ہوچکا تھا۔ کہاں اُمید تھی اس کے ایسی بےباکی کی۔

اس کے خوبصورت چہرے پر پھیلے رنگوں کو دیکھ وہ اس کا مزید دیوانہ ہوا تھا۔

"لڑکی تم تو اپنے پیچھے پاگل کر رہی ہو مجھے۔" وہ اس کی اداؤں پر کُھل کر مسکرایا۔

"میں کچھ نہیں کررہی۔" وہ جھجھکتی ہوئی کہتی چہرہ کھڑکی کی سمت موڑ گئ۔

"مجھے یقین ہے میری محبت کی شدتوں کو جان کر خود پر رشک کرو گی۔" وہ اس کا طرف دیکھتا بڑبڑایا۔

ماہا نے اس کی بات بخوبی سُنی تھی۔ ماہا کو یقین نہ آیا قسمت ایسے بھی مہربان ہوسکتی ہے کہ چند پل میں کایا پلٹ گئ۔ اسے اس پل یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ ہشام کی خوفناک قید سے نکل کر صارم کی محبت کی دنیا میں قید ہوگئ ہو۔ اور اسے یہ قید بےحد عزیز تھی۔ وہ اس پیارے سے شخص کی پناہوں میں ہمیشہ کے لیے قید رہنا چاہتی تھی۔

واقعی ہی وہ انسان محبت نبھانا جانتا تھا۔ وہ اس کی خاطر اپنی محبت سے دستبردار ہوگیا تھا۔مگر شاید خُدا کو اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا تھا کہ اس کی محبت اس کی جھولی میں ڈال دی گئ تھی۔

احان اپنی پریشانی بُھلاۓ صارم کے گاؤں جانے کی تیاری کررہا تھا۔شیریں بیگم اس سے بات کرنے کی غرض سے اس کے کمرے میں موجود تھی۔

"احان ! میری جان کچھ بات کرنی تھی " وہ بیگ کی زپ بند کرتا ان کا ہاتھ تھامتا بستر پر بٹھا گیا۔

"جی ماما ! بولیے" وہ ان کے کندھے پر سر رکھتا ہوا بولا۔

"میں دیکھ رہی ہوں میرا چاند کچھ دنوں سے مُرجھا سا گیا ہے۔ اپنی ماما کو نہیں بتاؤں گے۔" وہ اس کے گھنے بالوں میں انگلیاں چلاتی ہوئی بولی۔

"ایسی بات نہیں ہے ماما ۔ آپ کو نہیں بتاؤں گا تو کسے بتاؤں گا۔ بس ابھی میں اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا۔صارم کی شادی سے آکر ایک ایک بات آپ کو تفصیل سے بتاؤں گا۔" وہ ان کا ہاتھ تھامتا لبوں سے لگاتا ہوا بولا۔

"آپ تو مجھے میری ہونے والی بہو سے ملوانے  والے تھے۔  ان سے بھی نہیں ملوایا۔" ان کی بات پر اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا ایک جارہا تھا۔

ان کی سوالیہ نظریں اب بھی اسی پر ٹکی تھیں۔

"ملوا دوں گا۔" وہ بستر سے اُٹھتا لاپرواہی سے چیزیں اِدھر اُدھر کرنے لگا۔شیریں اسے دیکھ کر رہ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو اور یزدان واپس گھر کے لیے نکل چُکے تھے۔یزدان کا دل تو بالکل نہیں کررہا تھا مگر دا جان کے بُلانے کی وجہ سے واپس جارہا تھا۔وہ خود بھی یہی چاہتا تھا کہ جلد سے جلد وہ مکمل طور پر اسے اپنی دسترس میں لے لے۔ اس دفعہ وہ کوئی غلطی نہیں کرے گا۔

آخر کار ایک طویل سفر کے بعد ان کی گاڑی حویلی کے آگے رُکی۔اس نے محبت بھری نظر اس پر ڈالی تھی جو سر سیٹ کی پُشت پر ٹکاۓ نیند کی وادیوں میں گُم تھی۔ اس کا دل ہی نہ کیا اسے جگانے کا۔ 

"میرو میری جان! اُٹھ جاؤ۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتے ہوۓ بولا۔

میرو نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ 

"ہم پہنچ گۓ۔" وہ نیند سے بھری آنکھیں اس پر ڈال کر بولی۔

"ہاں میری جان۔"یزدان نے ذرا سا جُھکتے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا تھا۔

میرو سیٹ بیلٹ کھولے اُترنے لگی جب اُسے وہی بیٹھے دیکھ کر پوچھ بیٹھی۔

"آپ اندر نہیں جائیں گے۔" وہ اس کی طرف مُڑتی ہوئی بولی۔

"میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔ کچھ کام ہے تم جاؤ شاباش۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتا ہوا بولا۔

"جلدی آئیے گا۔" وہ اس کے گال پر بوسہ دیتی دروازے کھول کر اندر گُم ہوگئ۔

یزدان نے حیرانگی سے اس کی حرکت کو دیکھا۔ پھر بڑی دلکشی سے مسکرا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا فون کو کان سے لگاۓ اس کے متوقع ریئکشن کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ دوسری طرف سے فوراً ہی کال پِک کرلی گئ۔

"السلام علیکم ! کیسی ہو نشوہ؟ " وہ کال پِک ہونے پر فوراً اس پر سلامتی بھیجتی ہوئی بولی۔

"وعلیکم السلام بےوفا عورت۔ مجال ہے جو تم نے ایک دفعہ بھی بُھول کر فون کیا ہو۔" دوسری طرف سے نشوہ کے شکوے شکایات شروع ہوچکے تھے۔

"ذرا اس تیز گام کو آرام دو اور مجھے بھی بولنے کا موقع دو۔" ماہا نے طنزیہ انداز میں اس کی چلتی زبان پر چوٹ کی۔ 

نشوہ اس کی بات پر منہ بنا کر چُپ ہوگئ۔ 

"جلد سے جلد پہنچ تجھے نہیں پتا تیری اکلوتی دوست کی شادی ہے بندہ ہفتہ دس دن پہلے آجاتا مگر نا مجال ہے جو تجھے ذرا بھی فکر ہو۔ " ماہا شکوہ کرتی ہوئی بولی۔ 

"تم بڑا چہک رہی ہو کیا اپنا وہ کزن پسند آگیا۔ یا اُس نے محبت کا اظہار کردیا۔" نشوہ اس کی کھنکھتی آواز کو سُنتی ہوئی بولی۔

"بس یہی سمجھ لو۔" ماہا کی لجائی سی آواز گونجی۔

"ویٹ ۔۔۔ ویٹ۔۔ کیا کہنا چاہتی ہو۔ چالاک لومڑی۔تمہارا  کزن تمہاری اس معصوم سی شکل پر فدا ہوگیا۔افسوس ہی کرسکتے ہیں اُس بیچارے کی قسمت پر۔جو تمہاری اس بھولی صورت کے جال میں اُلجھ گیا۔یہاں کیسے رو رہی تھی کہ شادی نہیں کرنی بلا بلا اور اب دیکھو کیسے چہک رہی ہو۔" نشوہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"تمہارے لیے سرپرائز ہے جلد سے جلد پہنچو۔" وہ اسے تجسُس میں ڈالتی ہوئی بولی۔

"نہیں میں انتظار نہیں کرسکتی ایک ایک بات ابھی جاننی ہے۔" نشوہ کی جھنجھلائی سی آواز گونجی۔

"بالکل بھی نہیں جب آؤ گی تبھی پتا چلے گا۔باۓ۔" ماہا کہتی ہوئی کال کاٹ گئ ۔نشوہ ہیلو ہیلو کرتی رہ گئ۔

نشوہ نے کان سے موبائل ہٹا کر سامنے کیا کال کاٹی جاچکی تھی اس کی حرکت پر وہ دانت پیس کر رہ گئ۔

یکدم سے اس کے چہرے پر بکھری مسکراہٹ سمٹ گئ۔ وہ ماہا کے سامنے خود کو ہشاش بشاش دکھانے کی پوری کوشش کررہی تھی۔وہ پُرسوچ نظریں موبائل پر ٹکا گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریباً دو گھنٹے کے بعد وہ واپس گھر آیا تھا۔  اس کا رُخ داجان کے کمرے کی طرف تھا۔  وہ سب سے پہلے یہی معاملہ سُلجھانا چاہتا تھا۔ 

داجان اسے سامنے دیکھ کر چہرہ موڑ گۓ۔اُن کی طرف سے ناراضگی کا بھرپور اظہار کیا گیا۔ یزدان نے گہرا سانس بھر کر ان کا یہ انداز ملاحظہ کیا۔

"داجان! بات کرنی تھی آپ سے۔اگر آپ فری ہیں تو۔" وہ ان کے نزدیک آتا صوفے پر براجمان ہوتا ہوا بولا۔

مگر دوسری طرف سے جواب نادار۔

"داجان ! میں آپ سے بات کررہا ہوں۔ آپ میری بات سُن رہے ہیں۔" اس دفعہ وہ ذرا اونچی آواز میں بولا۔

" سُن رہا ہوں برخودار۔چیخ کیوں رہے ہیں؟" وہ اس کی طرف رُخ کرتے غُصّے بھرے انداز میں بولے۔

"وہ آپ میری طرف دیکھ نہیں رہے تھے تو مجھے لگا شاید آپ کو میری آواز نہیں آئی۔" وہ ڈھیٹائی سے ان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

دا جان ہمم کرکے رہ گۓ۔

"وہ میرو کی بات کرنی تھی۔ آپ کے کہنے پر واپس آیا ہوں اب جلد کے جلد اسے میرے ساتھ رُخصت کردیں۔ پہلے ہی اچھا خاصا وقت ضائع ہوچکا ہے۔" وہ سیدھا مُدعے کی بات پر آیا۔

"وقت آپ نے خود اپنی بے وقوفی کے  ہاتھوں گنوایا ہے۔" وہ اسے گھورتے ہوۓ بھرپور طنزیہ انداز میں بولے۔

"میں جانتا ہوں غلطی میری ہے مگر میں  اپنی غلطی کو سُدھارنا بھی چاہتا ہوں۔اس لیے آپ مجھے ایک موقع دے دیں۔"وہ آج اپنی بات منوا کر ہی اُٹھنے والا تھا۔

"برخودار ذرا بریک پر پاؤں رکھو۔اتنی آسانی سے تو اب آپ کو معاف کرنے سے رہے۔ہمیں پہلے پرکھ تو لینے دو کہ آپ واقعی بدل گۓ ہیں۔ پھر اس بارے میں سوچیں گے۔" وہ لاپرواہی سے اس کا چہرہ دیکھ کر بولے۔

"داجان  میں سچ میں اپنی غلطی سُدھارنا چاہتا ہوں۔" وہ جھنجھلاۓ سے انداز میں بولا۔اسے سمجھ نہیں لگی کہ کس طرح ان کو اپنا یقین دلاۓ۔

"ہمیں وقت دو تاکہ ہم بھی تمہارے رویّے کو دیکھ کر یہ اندازہ لگا سکیں کہ واقعی تم میرو کو کوئی تکلیف نہیں دو گے۔" وہ سنجیدگی بھرے انداز میں بولے۔

یزدان نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔

"کبھی کبھی ہم جو دیکھتے ہیں جو سُنتے ہیں ضروری نہیں وہی صحیح ہو۔ کبھی کبھی آنکھوں دیکھا جھوٹ بھی ہوسکتا۔ سُنی سنائی باتوں پر اتنی آسانی سے یقین نہیں کرنا چاہیے۔" وہ سمجھانے والے انداز میں بول گۓ۔

"میں پُرانی ساری باتوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتا ہوں۔ میرے لیے اب پچھلی گُزری ہوئی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ میں سب بھول جانا چاہتا ہوں۔" وہ ان کی باتوں کے جواب میں بولا۔

داجان خاموش ہوکر رہ گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فارض صاحب نے داجان کو خود ماہا کی شادی کے دعوت دی تھی۔ اور نشوہ کو خاص طور پر ساتھ لانے کی ہدایت دی تھی۔یہ ماہا کی فرمائش تھی۔

داجان نے کچھ سوچتے ہوۓ نشوہ کے ساتھ میرو اور یزدان کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔میرو کو تو ماہا نے خود نشوہ کو ساتھ لانے کی ہدایت دی تھی۔

داجان نے اپنی طبیعت کے باعث معذرت کرلی تھی۔جس پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔مگر پھر ان کی صحت کا خیال کرتے ہوۓ مان گۓ تھے۔

اس طرح یہ چھوٹا سا کارواں ماہا کے گاؤں کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ یزدان جانا تو نہیں چاہتا تھا مگر وہ میرو اور نشوہ کو اکیلا بھیجنے پر بھی راضی نہ تھا اسی لیے ان کا خیال کرکے وہ ان کے ساتھ آگیا تھا۔ دوسرا اسے میرو کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا بھی موقع مل گیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان کی گاڑی صارم کی حویلی کے باہر ایک جھٹکے سے رُکی۔اس نے آنکھوں پر لگی سن گلاسسز ماتھے پر ٹکا کر حویلی کا تفصیلی جائزہ لیا تھا۔

صارم اسے دیکھتا ہوا اس کی طرف بڑھا اور خوشی سے اسے خود میں بھینچ لیا۔

"کیسا ہے میرا یار؟" وہ چہکتا ہوا احان کو دیکھ کر بولا۔

"میں تو ٹھیک ہوں مگر تو ضرورت سے زیادہ ٹھیک لگ رہا ہے۔ آیا بھائی کی شادی پر تھا اور اپنی کروا رہا ہے۔ اور چہک ایسے رہا ہے جیسے ہفت اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔" احان نے اس کا خوشی کا تمتماتا چہرہ دیکھا۔

"محبت سے بڑی دولت مل سکتی ہے اس دنیا میں۔" صارم بھی جواباً دوبدو بولا۔

"آتے ہوۓ جو بڑے بڑے ڈائیلوگ تو ماہا کی محبت میں بول کر آیا تھا اسے یاد کرکے مجھے یقین نہیں آرہا کہ تجھے دوبارہ اتنی جلدی محبت ہوسکتی ہے اور اتنی جلدی تو شادی پر بھی راضی ہوسکتا ہے۔کیسے اپنے ساتھ ساتھ میری سانسیں بھی خُشک کی تھی۔" وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

"تجھے لگتا ہے صارم لاشاری بار بار محبت کرسکتا ہے۔میری ذات کا محور پہلے بھی ایک ہی لڑکی تھی اور ہمیشہ وہی رہے گی۔کسی دوسری کے بارے میں سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا اٹل انداز میں بولا۔

احان آفندی لاجواب ہوا تھا۔ مگر جب اُسے بات کا مطلب سمجھ آیا وہ بےیقین ہوا تھا۔

"یعنی تیری شادی ماہا سے ہورہی ہے۔ یونیورسٹی والی ماہا سے۔وہ یہاں کیسے ؟ مطلب مجھے جلد سے جلد سب جاننا ہے۔ تو نے فون پر کہا تھا تیری کزن سے تیری شادی ہورہی ہے۔ مجھے لگا تو بکواس کررہا ہے۔" احان کو یکدم اس پر رشک آیا تھا۔خُدا ایسے بھی مہربان ہوسکتا ہے۔

"سانس تو لے لے۔ اندر تو چل کہ یہی کھڑا کھڑا سب پوچھ لے گا۔" وہ اس کے کندھے کے گرد ہاتھ جماتا ہوا بولا۔

پھر اس کی بےصبری کو دیکھتے ہوۓ صارم نے اسے سب کچھ بتا دیا۔ احان اس قدرت کے اتفاق پر جتنا  حیران ہوتا کم تھا۔

مگر جو بھی تھا وہ صارم کے لیے بےتحاشا خوش تھا چلو کوئی تو تھا جسے اُس کی محبت مل گئ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کافی تھکا دینے والے سفر کے بعد عرید اور ازوہ سوات پہنچ چکے تھے۔یہاں ان کے شہر کی نسبت ٹھنڈ زیادہ تھی۔ازوہ کو آرام کا بول کر وہ خود ضروری کام کا کہتا باہر نکل گیا۔

عرید ایک چھوٹے سے ٹی سٹال میں بیٹھا اپنے ساتھی کا انتظار کررہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کا ساتھی سلام کرتا کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

عرید نے اس کے سلام کا جواب دیا۔

"ہاں عاصم بولو کیا خبر ہے؟" وہ چاۓ پیتا اردگرد بھی محتاط انداز میں دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے کام کے وقت ایسے ہی چوکنا رہتا تھا۔

"سر میری معلومات کے مطابق ہمارا شک بالکل درست تھا۔ وہ کالی اور اس کے آدمی اِدھر ہی دیکھے گۓ ہیں۔اور ان کا تعاقب کرنے سے پتا چلا ہے کہ ان کے یہاں ایک سے زیادہ مقام ہیں۔" عرید نے اس کی ایک ایک بات غور سے سنی تھی۔

"اور ایک بات اس کا باس ابھی یہاں موجود نہیں ہے۔ مگر میرے ذرائع سے خبر ملی ہے وہ جلدی ہی ایک میٹنگ کی خاطر یہاں آنے والا ہے۔ 23 تاریخ کو ہتھیاروں کی پڑے پیمانے پر سمگلنگ کی جانے والی ہے۔ مگر ایک مشکل ہے ہم اُس جگہ کا پتا نہیں لگا پاۓ جہاں سے یہ گھناؤنا فعل انجام دیا جاۓ گا۔" عاصم اسے ساری معلومات سے آگاہ کرتا خاموش ہوا۔  

"گُڈ ورک عاصم! تم فکر مت کرو باقی کی معلومات میں نکلوانے کے کوشش کرتا ہوں تمہیں بھی اگر کوئی 

 انفارمیشن ملے گی تو مجھے ضرور اطلاع کرنا۔" عرید اس کے اچھے کام پر اسے سراہتا ہوا بولا۔

"جی سر ضرور جیسے ہی کچھ پتا چلتا ہے میں آپ کو بتاتا ہوں۔" وہ پُرجوش سے انداز میں بولا۔

"کل کہاں ملنا ہے جگہ میں میسج پر بتاؤں گا۔" وہ ٹیبل سے اُٹھتا ہوا بولا۔

عاصم بھی اس کی تقلید میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ دونوں نے اپنے قدم باہر کی جانا بڑھاۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدان اور میرو لوگ مہندی سے ایک دن پہلے ان کی حویلی پہنچے تھے۔میرو اور نشوہ کو ماہا اپنے ساتھ لے گئ ۔ جبکہ یزدان کو فارض صاحب اپنے ساتھ لے گۓ۔

"جلدی سے بتاؤ تمہارے اُس کزن نے تمہیں کب پرپوز کیا۔ " وہ عجلت بھرے انداز میں بولتی اس کا ہاتھ  تھام گئ۔ میرو نے اس کی جلد بازی پر سر افسوس میں ہلایا اس لڑکی کا کچھ نہیں ہوسکتا۔

"یونیورسٹی میں۔" ماہا نے کہتے ہوۓ مسکراہٹ دبائی۔ اب وہ مسکراہٹ روکے اس کے متوقع ردِ عمل کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اور اس کا ردِ عمل بالکل اس کی سوچ کے مطابق تھا۔

"اچھا۔۔۔" وہ نارمل سے انداز میں بولتی یکدم بات سمجھ آنے پر چیخ اُٹھی۔

"کیا۔۔۔؟؟ کب آیا وہ یونیورسٹی۔" وہ اسے مشکوک نظروں سے دیکھتی ہوئی بولی۔

"وہ تو روز آتا تھا۔" ماہا کی مسکراہٹ تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ اب میرو کو بھی تجسُس ہونے لگا تھا وہ پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوچکی تھی۔

"بےوفا عورت! تیرا منگیتر روز آتا تھا مگر تجھے رتی برابر بھی شرم نہ آئی کہ اپنی اکلوتی دوست سے اسے ملوا دے۔" نشوہ کا بس نہیں چل رہا تھا اس کے دانت توڑ دیتی جو مسلسل نکل رہے تھے۔

"میں نے کب کہا کہ وہ میرا منگیتر تھا؟" اب کی بار نشوہ کی بس ہوئی وہ اس کو مارنے کے لیے اس پر چڑھ دوڑی۔

"پاگل مت کر سیدھا سیدھا بتا۔" نشوہ نے اس کی بازو کو جھکڑ کر اب اسے دھمکی دی تھی۔

"اچھا یار بتاتی ہوئی۔میری شادی صارم سے ہورہی ہے۔" اپنی طرف سے تو اس نے سیدھے طریقے سے بتایا تھا۔مگر اس کی چیخ سُننے کے بعد مجبوراً اسے کانوں پر ہاتھ رکھنا پڑا۔

"تم صارم لاشاری کی بات کررہی ہو۔" وہ بےیقینی بھرے انداز میں بولی۔پھر ایک نظر اس کے خوشی سے تمتماتے چہرے پر ڈال کر اس کو زور سے گلے لگا گئ۔

یکدم کچھ یاد آنے پر وہ ایک جھٹکے سے اس سے دُور ہوئی۔

"ایک منٹ ایک منٹ۔پہلے مجھے یہ بتا کہ اُس صارم لاشاری نے تجھے پربوز کب کیا۔ چلو اُس نے پرپوز کیا مگر مجال ہے کہ تم نے مجھے بھنک بھی لگنے دی ہو۔آج تیرا قتل میرے ہاتھوں ہی واجب ہے۔ اب مجھ سے بچ کر کہاں جاؤ گی۔" وہ خونخوار تیور لیکر اس کی جانب بڑھی۔

"سوری یار ! غلطی ہوگئ۔" وہ اس کے ہاتھ بننے والی دُرگت سے بچتی ہوئی بولی۔

"نہ میری جان اب یا تو نہیں یا میں نہیں۔" کمرے میں مسلسل ماہا کی دُہائیاں ،نشوہ کی دھمکیاں اور میرو کی کھلکھلاہٹ گونج رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ اپنے کام نپٹا کر وہاں سے نکلتا اس گھر کی طرف بڑھا جہاں ان دنوں ان کا قیام تھا۔ وہ کافی ٹائم سے نکلا تھا.  اب وہ بےتحاشا تھکا ہوا تھا کچھ دیر گھر جا کر آرام کرنا چاہتا تھا۔وہ اس کے سوتے ہوۓ نکلا تھا۔ اس نے جیب سے چابی نکال کر گھر کا دروازہ کھولا۔پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا تھا یعنی لائٹ بند تھی۔ اس نے موبائل کی ٹارچ نکال کر قدم اندر کی جانب بڑھاۓ۔جب کمرے سے کسی کی رونے کی آواز آئی یہ اس کی ڈرپوک بیوی کے علاوہ کون ہوسکتا ہے۔ وہ فوراً دروازہ کھول کر اندر کی طرف بڑھا۔

"ازوہ کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں۔" اس نے موبائل کا رُخ بستر کی جانب کیا جب دفعتاً کوئی بھاگتا ہوا اس کے سینے میں سمایا۔ دونوں ہاتھ اس کی کمر کے گرد مضبوطی سے باندھے۔

"ازوہ ! اب آپ مجھے پریشان کررہی ہیں۔" وہ اس کے روتے وجود کے گرد بازوؤں کا محصور قائم کرتا ہوا بولا۔

"آپ مجھے چھوڑ کر کیوں گۓ تھے۔ لائٹ بھی بند ہوگئ  اور ہماری چھت پر کوئی تھا عرید۔ میں کتنا ڈر گئ تھی۔"وہ   اس کے سینے سے لگی روتی ہوئی بولی۔دفعتاً عرید نے گہرا سانس بھر کے اس کو لیے قدم بیڈ کی جانب بڑھاۓ۔

"میں نے بتایا تھا نا آپ کو کہ میں یہاں آپ کو ٹائم نہیں دے سکوں گا۔اور لائٹ میں دیکھ لیتا ہوں کیوں بند ہوئی۔" ازوہ نے فوراً نفی میں سر ہلایا کہ وہ اسے ہرگز جانے نہیں دے گی۔

"آپ میرے پاس بیٹھے رہیں۔ اور آپ رات کےوقت مجھے چھوڑ کر ہر گز نہیں جائیں گے۔میں آپ کو جانے  ہی نہیں دوں گی۔اور آپ کو مجھے ٹائم دینا ہوگا۔" وہ اس کی شرٹ مٹھیوں میں دبوچتی ہوئی بولی۔

"ویسے افسوس کی بات ہے ایک پولیس والے کی بیوی اتنی ڈرپوک۔" وہ اس کی مٹھی میں قید اپنی شرٹ آزاد کرواتا اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگا گیا۔

"جی نہیں میں اندھیرے سےنہیں ڈری۔ بلکہ عرید میں سچ کہہ رہی ہوں گھر میں کوئی تھا۔" وہ ایک بار پھر بھرائی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

عرید نے موبائل کی مدھم لائٹ میں اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں پر اپنے لب ٹکاۓ تھے۔وہ بار بار انہیں چومتا اپنے ہونے کا یقین دلا رہا تھا۔وہ اس کی بات پر ٹھٹھکا ضرور تھا مگر وہ اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔اس لیے اس کے متعلق کوئی بات نہ کی۔

"سوری میری جان۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا اپنے تشنہ لب اس کےنقش  نقش پر اُلجھاتا ہوا بولا۔وہ خود میں سمٹ کر رہ گئ۔

بتا نہیں وہ لڑکی کیسا جادو کرتی تھی وہ اس کے آگے بےقرار ہونے لگتا تھا۔عرید نے گہری سانس بھر کر اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکائی۔اس کی گرم سانسیں ازوہ کے چہرے پر پڑنے لگی۔پھر عرید آفندی تھا اور اس اپسرہ کا کومل وجود وہ گُستاخیاں کرتا اسے سب کچھ بُھلاتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب اپنی اپنی تیاریوں میں پےحد بیزی تھے۔ایسے میں ایک وجود ان سب سے بیزار اور ایک اپنی غلطیوں میں حد سے زیادہ نادم تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا اُڑ کر اس کے پاس پہنچ جاۓ اسے اپنے محبتوں پھری گرفت میں قید کرلے۔اس کے ایک ایک نقش کا دل دیوانہ ہونے لگا تھا۔ اس کی مسکراہٹ کتنی پیاری تھی اس کا دل گواہ تھا کہ وہ ہنستی تھی تو اسےاپنے اردگرد زندگی مسکراتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔مگر جب سے وہ اس کے نکاح میں آئی تھی وہ مسکرانا بھول گئ تھی۔اُس کی وہ مسکراہٹ اسی کی غلطیوں کی وجہ سے اس کے چہرے سے چھینی گئ تھی۔

یہ مہندی والی صُبح کی بات تھی جب سب اپنی اپنی تیاریوں میں مگن تھے ایسے میں وہ اپنے ہی کمرے کے باہر کھڑا اس کش مکش میں مبتلا تھا کہ اندر جاۓ یا نہ اِسے دیکھ کر جانے وہ کیا  ریئکشن دے۔ 

اس نے گہرا سانس بھر کر اندر قدم رکھا کمرہ خالی تھا واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ وہ گہرا سانس بھرتا اس کے انتظار میں وہی بیٹھ گیا۔

کچھ دیر بعد واش روم کا دروازہ کُھلا اور وہ نکھری نکھری سی باہر آئی تھی۔گیلے بال پُشت بر بکھرے ہوۓ تھے۔ اب وہ پہلے کی نسبت کچھ بہتر لگ رہی تھی۔

"فاریہ۔۔۔۔" وہ دھیمی سی آواز میں اس کی طرف دیکھ کر بولا تھا۔

آج شدت سے دل نے گواہی دی تھی وہ لڑکی اس کی سانسوں سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ 

فاریہ اس کی پُکار پر وہی جم کر رہ گئ۔ اس نے آنکھیں میچ کر اس حقیقت سے فرار ہونا چاہا۔اس کا دل گھبرانے لگا۔ وہ اس سے ضرور اس کی یہاں موجودگی کا سوال کرے گا۔ کیوں وہ یہاں آئی۔ یا پھر اپنے نقصان کا بدلہ لے گا اس کی وجہ سے اس کی منگیتر کی شادی اس کےچھوٹے بھائی سے ہورہی تھی۔ اب وہ ضرور اس بات کا قُصور وار بھی اسے ہی ٹھہراۓ گا۔

اسے ہشام کے غُصّے کا خوف نہیں تھا بلکہ اپنی عزت پر پڑنے والے اس وار سے خوف آرہا تھا۔وہ ضرور یہ سوچ رہا ہوگا کہ وہ اس لڑکی کو اُس کی اوقات بتا کر چھوڑ آیا تھا اور وہ پاگل اس کے پیچھے پیچھے یہاں تک آگئ۔

اسے وہی پتھر کا بُت بنا دیکھ ہشام ہمت مجتمع کرکے اس کی طرف بڑھا۔اس کی قدموں کی چاپ سُن کر فاریہ نے شدت سے آنکھیں میچی تھی۔

ہشام قدم بہ قدم چلتا اس کے رُوبرو آ کھڑا ہوا۔ جو آنکھیں میچیں کھڑی تھی۔ چہرے پر خوف کی پرچھائی تھی۔ ہشام کے دل پر ہاتھ پڑا تھا کیا وہ اس کے غُصے سے خوف کھا رہی تھی ایسا تو اس نے کبھی نہیں چاہا تھا۔

یکدم ہی اس کی بند آنکھوں سے موتی لڑیوں کی صورت ٹوٹ کر بہنے لگے۔

ہشام نے اس کے گال پر ہاتھ رکھا۔ فاریہ کو جیسے کرنٹ سا لگا تھا۔ وہ آنکھیں کھولے بدک کر دو قدم دُور ہوئی۔

کمرے کی جامد خاموشی میں محض دو نفوسوں کی سانسوں  کی آواز گونج رہی تھی۔وہ اس کے ہاتھ اپنے وجود کی طرف بڑھتے دیکھ بدک کر دُور ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں یکایک ہر خوف سمٹتا چلا گیا۔ اس کے وجود میں  میں غُصّے کی لہر دوڑ گئ۔اب وہ اس سے چار قدموں کے فاصلے پر کھڑی تھی۔ہشام نے اپنے ہاتھ کو دیکھا  جو ہوا میں معلق رہ گیا۔

"کیا لینے آۓ ہیں یہاں؟ اب بھی کوئی کسر باقی رہ گئ ہے جو اب پورا  کرنے آۓ ہیں۔" وہ غُصّے کی آمیزش سے ملے جُلے لہجے میں اسے دیکھ کر بولی۔

"میری بات سُن لو میں تم سے بات کرنے آیا ہوں۔" وہ اس کے لہجے کو مکمل طور پر اگنور کرتا نرمی سے بولا۔

"مجھے نہیں سُننی آپ کی کوئی بات چلے جائیے یہاں سے۔" وہ چہرہ موڑتی ہوئی بولی۔

"کیوں نہیں سُننی۔ سُننی پڑے گی۔ سمجھی۔" وہ اس کے قریب آتا دونوں بازوؤں سے تھامتا اس کا رُخ اپنی  جانب موڑ گیا۔

"آپ میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے ہیں۔ جب میں آپ کے سامنے بار بار جُھکتی رہی۔ تب آپ نے سُنی میری کوئی بھی بات۔ نہیں سُنی نا۔ تو میں کیوں سُنوں۔میں ہی کیوں ہر بار جُھکوں۔ہر گز نہیں۔ ضروری نہیں ہر بار جو آپ چاہیں گے وہی ہوگا۔  " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی مضبوط لہجے میں بولی۔

"فاریہ میں جانتا ہوں مجھے وہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا مجھے احساس ہے اس لیے تو تمہاری طرف لوٹا ہوں۔ " وہ اسے مزید قریب کرتا ہوا بولا۔ 

"آپ کو اب لگا کہ آپ نے غلط کیا تو فوری واپس آگۓ۔ اس میں  میں کہا ہوں میرے احساسات کہاں ہیں۔ میرا وجود تو آج بھی آپ کی نظروں میں بےمعنی ہے۔ آج بھی آپ کو صرف اپنے احساسات کی فکر ہے میرے بارے میں تو سوچا ہی نہیں۔"وہ روتی ہوئی اس کے ہاتھ مسلسل خود سے دُور جھٹک رہی تھی۔ جتنا وہ خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ اتنے ہی آنسو بےمول ہوتے جارہے تھے۔

"ایسا نہیں ہے فاریہ۔" اُسے سمجھ ہی نہ آیا وہ کیا بولے۔ کہہ تو وہ صحیح رہی تھی۔

"میں جانتی ہوں کہ آپ بس اپنے ضمیر کی آواز پر خود کو پُرسکون کرنے یہاں آۓ ہیں۔ ورنہ فاریہ جیے یا مرے آپ کو کیا پرواہ۔" وہ اس کی گرفت سے خود کو آزاد نہ کروا پائی تو چہرہ موڑ گئ۔

"کیوں بچوں کی طرح ضد کررہی ہو۔اب اپنے بارے چھوڑ کر ہماری بچے کے بارے میں سوچوں۔ اپنا بچپنا ختم کرو۔" وہ اسے ہر حال میں زیر کرنا چاہتا تھا مگر وہ یہ نہیں جانتا وہ اس طرح اُسے خود سے مزید بدظن کررہا ہے۔

"بہت خوب ہشام۔اب بھی میں ہی غلط ہوں۔ یہاں بھی.  آپ کو میری نہیں بلکہ اپنے بچے کی فکر ہے۔میں سمجھ گئ آپ میرے پاس واپس بھی صرف اپنی اولاد کی خاطر آۓ ہیں۔ ورنہ کوئی انسان اتنی جلدی خود کو بدل لے یہ ہو ہی نہیں سکتا۔" مسلسل غُصّے سے بولتے اس کی سانسیں پھولنے لگی تھیں۔ کیا تھا اگر وہ معافی کے دو بول بولتا اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کردیتا۔

"فاریہ! تم غلط سمجھ رہی ہو۔" وہ جانے کیوں جُھکنا نہیں چارہا تھا شاید اُس کی انا گوارہ نہیں کررہی تھی کہ وہ ایک لڑکی کے سامنے جُھک کر معافی مانگے۔ واقعی انسان کی فطرت اتنی جلدی نہیں بدلتی۔

"میں بالکل ٹھیک سمجھ رہی ہوں آپ کو ہشام۔ یہ جو آپ کی انا ہے نا یہ آپ کو کسی کے سامنے جُھکنے ہی نہیں دیتی۔ یا شاید آپ کی فطرت میں ہی نہیں ہے کہ اپنی غلطی کو تسلیم کرکے معافی مانگنا۔ آپ جانتے ہیں یہ انا لفظ کہنے کو تو بڑا چھوٹا سا ہے۔مگر یہ اپنے اندر اتنی تباہیاں سمیٹے ہوۓ ہے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔یہ تین حرفی لفظ اپنے اندر ایسے طوفان سمیٹے ہوۓ ہیں کہ یہ پورے خاندان کو تباہ کرسکتا ہے۔" وہ بولنے پر آئی تو بولتی چلی گئ۔ ہشام سانس تک روک گیا۔ صحیح تو کہہ رہی تھی اب بھی وہ اپنی انا کے پنجرے میں قید تھا اگر وہ چاہتا تو جُھک کر اس معافی بھی مانگ سکتا تھامگر نہیں اب بھی وہ اسے زبردستی دھونس جما کر قائل کرنا چاہتا تھا۔

ہشام کی گرفت اس پر ڈھیلی ہوتی چلی گئ جسے محسوس کرکے وہ مکمل طور پر اس کی قید سے آزاد ہوتی چلی گئ۔وہ اسے حیران پریشان چھوڑ کر باہر چلی گئی۔وہ مزید یہاں رُک کر خود کو کمزور ہرگز ثابت نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ وہ وہی کھڑا رہ گیا جیسے کوئی پتھر کا مجسمہ ہو۔

انا کی قید میں جھکڑا وہ مضبوط شخص۔ انا کا بُت پاش پاش ہوا تھا تو اس کا وجود بھی ریزہ ریزہ بکھرتا چلا گیا۔ وہ اکے حقیقت کا آئینہ دکھا کر گئ تھی۔ مگر اس حقیقت کا بوجھ اس کے کندھے سہن نہیں کرپارہے تھے۔ آج اُسے اچھے سے فاریہ کی تکلیف کا اندازہ ہوا تھا جو اس کی انا پرستی کے باوجود بار بار اس کے سامنے جُھکتی آئی تھی صرف اس لیے کہ وہ اس شخص کی محبت حاصل کرنا چاہتی تھی۔مگر وہ اس کی محبت کی چاہ میں اپنی عزت و نفس کا گلا گھونٹتی خود کا وجود ہی زخمی کرتی آئی تھی۔مگر شاید اب اس کی بس ہوگئ تھی۔ کیونکہ آج بھی وہ شخص معافی مانگنے کی بجاۓ اپنی حاکمیت جتانا چاہتا تھا۔ پہلے تو وہ اکیلی تھی وہ سب برداشت کرگئ مگر اب اتنے سارے لوگ اس کے ساتھ تھے۔ اب وہ اس شخص کی غلطیوں کا احساس اچھے سے کروانا چاہتی تھی۔ جو اس کے ان دو جملوں نے ایسا کروایا تھا کہ وہ ہلنے کے قابل نہ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہندی کا اتنظام بڑے پیمانے پر حویلی کے وسیع وعریض لان میں کیا گیا تھا۔برقی قمقموں ،پھولوں اور پیلے رنگ کے پردوں سے کی گئ سجاوٹ ماحول میں چار چاند لگا رہی تھی۔ خوبصورتی سی کیا گیا یہ انتظام اچھےسے واضح کررہا تھا کہ گاؤں کے سردار کی شادی ہے۔

ہر طرف رنگ برنگے آنچل لیے لڑکیاں ایک سے بڑھ کر ایک تیار  تھی۔  گاؤں کے سبھی گھروں کے کھانے کا انتظام حویلی والوں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ 

ماہا اور فاریہ ایک ڈیزائن کے لہنگے پہنے جن کے رنگ مختلف تھے ہر ایک آنکھ کو خیرہ کررہی تھی۔ 

ملٹی رنگ کے لہنگے کے ہمراہ سبز نگینوں والی کرتی پہنے فاریہ بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔ نقلی پھولوں کے زیورات پہنے وہ سب کو ٹھٹھکنے پر مجبور کررہی تھی۔ اس کے چہرے پر چھائی اداسی اس کے حُسن کو چار چاند لگا رہی تھی۔

وہی دوسری طرف ماہا ملٹی رنگ کے لہنگے کے ہمراہ نارنجی کرتی پہنے چہرے پر بےتحاشا چمک لیے ہر ایک کو نظریں  چُرانے پر مجبور کر رہی تھی۔سُرمئ آنکھیں آنے والے لمحات کا سوچے جُھکی جُھکی جارہی تھی۔

"ماشاء اللّٰہ تم دونوں بےحد پیاری لگ رہی ہو۔ اللّٰہ نظرِبد سے بچاۓ۔" میرو دونوں کی تعریف کرتی ہوئی بولی۔

نشوہ نے بھی اس کی تعریف پر اثبات میں سر ہلایا۔فاریہ کے بارے میں جان کر دونوں کو حقیقتاً افسوس ہوا تھا۔ میرو اور نشوہ نے اس کی طرف پیار سے قدم بڑھاۓ تھے تو دوسری طرف فاریہ بھی ان مخلص پیاری لڑکیوں سے مل کر بے انتہا خوش ہوئی تھی۔دونوں کل سے اسے خوش کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی۔ جس پر وہ بھی سب غم بُھلاۓ ان کی شرارتوں پر مسکرا دی۔

"تم تو ویسے ہی اتنی پیاری ہو تمہیں تو بناؤ سنگھار کی ضرورت ہی نہیں۔" فاریہ اس ہری آنکھوں والی گڑیا کو دیکھ کر بولی۔

اس کی تعریف پر میرو کے چہرے پر ڈھیروں رنگ بکھرے۔یزدان کا خیال آتے وہ مزید چہرہ جُھکا گئ وہ جانتی تھی کہ اِسے ایسے تیار دیکھ کر وہ مزید دیوانہ ہونے لگتا تھا۔

"بچ کے رہنا یہ نہ ہو کسی ہینڈسم کا دل آجاۓ تم پر۔اور وہ تمہیں قید کرلے۔" فاریہ اس کے چہرے پر کِھلتے رنگوں کو دیکھ کر بولی۔

"فاریہ آپی! ایسا ناممکن ہیں۔ کیونکہ  ایک عدد جن نے پہلے ہی انہیں قید کر رکھا ہے۔جو جن کسی کے قابو میں نہیں آتا وہ زومیرہ آفندی کے معصومیت کے جال میں بُری طرح پھنس چکا ہے۔" نشوہ اس کے کندھے پر اپنا کندھا مارتی شرارتی لہجے میں بولی۔

"کیا مطلب؟؟ میں سمجھی نہیں۔" وہ اُلجھی اُلجھی سے انہیں دیکھ کر بولی۔

"ارے محترمہ پہلے سے ہی کسی کے نکاح میں ہیں۔ اور انہیں اچھے سے اپنے قابو میں بھی کر رکھا ہے۔" ایک بار پھر نشوہ کی شرارتی آواز گونجی۔

"بدتمیز۔" نشوہ اسے گھورتی منہ بنا گئ۔

"ارے یہ تو بہت اچھی بات ہے۔اللّٰہ تمہارا دامن ڈھیروں ڈھیر خوشیوں سے بھر دے۔" فاریہ اس کے کھلتے چہرے کو دیکھ کر نظر چُرا گئ۔

ابھی سب باتوں میں مگن تھی جب میرو کا فون بجا۔سکرین پر چلتے نمبر کو دیکھ نشوہ نے معنی خیزی نظروں سےاس کی طرف دیکھا۔

"لو آگیا ان کے مسٹر پوزیسسو کا فون۔" نشوہ کی بات پر ان تینوں کے قہقہے کمرے میں گونجے۔ جبکہ میرو ان تینوں کے قہقہوں پر جھینپ کر رہ گئ۔

"ضروری کام بھی ہوسکتا ہے۔" وہ تینوں کو گھورتی سائیڈ پر چلی گئ۔

"کیا کرتے ہیں یزدان؟ ابھی کچھ دیر پہلے تو بات ہوئی تھی۔آپ کی وجہ سے  سب  مجھ پر ہنس رہی تھیں۔" وہ منہ بناتے ہوۓ بولی۔

"یار تم جلدی سے باہر آؤ۔ میں نے کب سے تمہیں دیکھا نہیں ہے مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ مجھے یہ لگا تھا کہ یہاں ہمیں ٹائم ملے گا ایک دوسرے کے ساتھ مگر تم جب سے آئی ہو مجھے نظر ہی نہیں آرہی۔" وہ جھنجھلائی سی آواز میں بولا۔

"یزدان ہم شادی پر آۓ ہیں۔ اور یہ مت بھولیں یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔ اور میں ابھی بالکل نہیں آرہی سب لڑکیوں سے ساتھ ہی آؤں گی۔ اب مجھےبالکل بھی تنگ مت کریے گا۔" وہ اپنی بات مکمل کرتی فون رکھ گئ۔

یزدان ہیلو ہیلو کرتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم سفید کرتا شلوار پر گہرے سبز رنگ کی واسکٹ پہنے ہوۓ تھا۔ بالوں کو جیل لگا کر اچھے سے سیٹ کیا گیا تھا۔ چہرے پر دنیا فتح کرنے والی مسکراہٹ تھی۔جو اس کی وجاہت میں مزید اضافہ کررہی تھی۔

"تو تو لڑکیوں کی طرح ٹائم لگا رہا ہے۔ اور میرے خیال سے تو دس بار خود کو شیشے میں دیکھ چکا ہے۔ بار بار دیکھنے سے تیرے چہرے پر چار چاند نہیں لگ جائیں گے۔ رہے گا تو وہی پھٹیچر۔ " احان اس کے چمکتے چہرے کو دیکھ تپانے والے انداز میں بولا۔ 

"کیا بکواس کررہا ہے ؟ میں تجھے کہاں سے پھٹیچر لگ رہا ہوں۔" اپنے لیے ایسا لفظ سُن کر صارم کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔  اپنی اچھی خاصی شکل اور نہایت ہی اچھے حُلیے پر یہ لفظ بالکل پسند نہ آۓ تھے۔ صارم نے گھور کر اسے دیکھے۔  جو ہلکے نیلے رنگ کے کرتا پاجامے میں ملبوس تھا۔ 

"ہننہ!  جلتا رہ تو لڑکیاں دیوانی ہیں تیرے یار کے پیچھے۔ " احان اپنی بات پر اس کا تڑپنا اچھے سے ملاحظہ کررہا تھا۔

"اچھے کدھر ہیں وہ لڑکیاں جو تجھ پر مرتی ہیں۔ مجھے کیوں نظر نہیں آرہی۔" احان دانتوں کی بھرپور نمائش کرتا ہوا بولا۔

صارم نے اس کی باتوں کو اگنور کرکے ایک بار پھر اپنا جائزہ لیا۔

"چل اب روٹھی محبوبہ نہ بن۔ آجا نیچے چلتے ہیں۔" احان اس کے گلے میں ہاتھ ڈالتا نیچے کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نیچے خوب ہی رونق لگی ہوئی تھی ناچ گانے کا نام و نشان نہ تھا۔ ہاں مگر وقفے وقفے سے ڈول پیٹے جارہے تھے۔ماحول میں الگ ہی سما باندھا ہوا تھا۔ 

صارم لاشاری دوستوں اور کزنز کے ہمراہ آتا اسٹیج پر براجمان ہوچکا تھا۔ 

احان اپنے موبائل کمرے میں بھول آیا تھا۔ جسے لینے وہ واپس کمرے میں پہنچا۔ سب لوگ اس وقت نیچے لان میں موجود تھے تو حویلی کے اس حصّے میں خاصی خاموشی تھی۔وہ موبائل لیتا باہر آیا جب اپنے پیچھے چوڑیوں کی جھنکار نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروائی۔ دفعتاً احان نے پلٹ کر دیکھا اس کی نظریں پلٹنا بھول گئ۔ وہ حسین منظر میں بُری طرح قید ہوا تھا اردگرد کا ہوش بُھلاۓ وہ اس پری وش کو دیکھنے میں مصروف تھا۔نشوہ نے کندھے پر سجا ڈوپٹہ اچھے سے سیٹ کیے سامنے دیکھا تھا جب سامنے کھڑے احان کو خود کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوۓ پایا۔

وہ اسے یہاں دیکھ کر حیران نہیں ہوئی تھی جب سے اسے پتا چلا تھا کہ ماہا کا نکاح صارم سے ہورہا تھا  اسے پختہ یقین ہوچلا تھا کہ وہ یہاں ضرور موجود ہوگا۔وہ صارم کا اکلوتا دوست تھا۔ مگر اسے یہاں دیکھ کر اس کے دل حالت بھی عجیب ہونے لگی تھی۔ 

احان نے آج تک اُسے عباۓ میں ملبوس دیکھا تھا۔ یہ پہلی بار تھا جو وہ یوں سج دھج کے کھڑی تھی۔ مگر آج بھی جو چیز اسے خوبصورت دکھا رہی تھی۔ وہ تھا اس کے سر پر سجا وہ حجاب

۔ 

وہ قدم بہ قدم بڑھتی اس کے نزدیک آئی تو وہ سانس تک روک گیا۔ جب نشوہ نے اس کے قریب سے گزر کر آگے بڑھنا چاہا تو احان کا سکتا ٹوٹا۔ اس نے آگے بڑھتے اس وجود کا بازوہ اپنے ہاتھ میں قید کرکے اسے رُوبرو کیا۔ 

"کیوں کر رہی ہو میرے ساتھ ایسا ؟ کیوں لے رہی ہو میرا امتحان۔  جانتی ہو نا احان آفندی تمہارے پیچھے پاگل ہے اسی لیے اپنے پیچھے مزید خوار کرنا چاہتی ہو۔ کیوں تڑپا رہی ہو۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔ 

"میں نے کچھ نہیں کیا بلکہ ایک ہونا ہمارے نصیب میں نہیں لکھا۔  مہربانی کرکےمیرا ہاتھ چھوڑیں کوئی دیکھ لے گا۔ " وہ اس کے ہاتھ میں موجود اپنی کلائی چھوڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔ لیکن اس کی گرفت مضبوط تھی وہ ایسا نہ کرپائی۔

"کیوں تم میری نہیں ہوسکتی؟ کیوں ہر بار میں ہی کمپرومائز کروں؟ میں اس دفعہ کسی کی خاطر اپنی محبت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ چاہے سامنے جو مرضی ہو۔" وہ اٹل لہجے بولتا اس  کی  زبان پر قفل لگا گیا۔

"احان ضروری نہیں جیسا ہم ہر بار سوچیں ویسا ہی ہو۔ کبھی کبھی حالات ہماری سوچ کے برعکس بھی چلے جاتے ہیں۔اپنی زندگی  میں آگے بڑھو۔ پھر تمہیں یاد بھی نہیں رہے گا کہ کوئی نشوہ آفندی بھی تمہاری زندگی میں أئی تھی۔" وہ اپنے جملوں سے اُس کی جان۔نکال گئ۔

"تمہیں لگتا ہے میں تمہیں بھول سکتا ہوں۔ کیا کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے بولو۔ اس سانسوں میں بستی ہو تم سمجھ آئی۔ اور آئندہ مجھے خود کو بھولنے کا مت کہنا۔ کیونکہ احان آفندی مر تو سکتا ہے مگر تم سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ میں تمہارا انتظار ساری زندگی کروں کا۔ اور دیکھنا تم مجھے اپنے فیصلے پر ثابت قدم پاؤ گی۔" وہ اتنے مضبوط لہجے میں بولا تھا کہ ایک پل کے لیے نشوہ سانس تک روک گئ تھی۔ اس کے لہجے کی مضبوطی اس بات کی گواہ تھی کہ وہ ایسا کر گُزرے گا۔

وہ اس کا بازوہ چھوڑ چار قدم پیچھے ہوا تھا۔اسے وہی حیران پریشان چھوڑ کر وہ وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان آفندی اسے دیکھ کر گُم سُم سا ہوگیا تھا۔وہ خاموشی سے ایک کونے والی ٹیبل پر بیٹھ گیا تھا۔ یکدم ہی ماحول میں آتش بازی شروع ہوگئ۔ ڈھول پیٹتے لوگ جو کچھ تھک ہار کر بیٹھے تھے ایک دفعہ پھر پورے جوش و خروش سے شروع ہوگۓ تھے۔

احان نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ہشام لاشاری  گاؤں کےکچھ لوگوں کے ہمراہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ کریم کلر کا سوٹ پہنے ساتھ کندھے پر بھاری  مردانہ شال ٹکاۓ وہ ایک رُعب سے چلتا آرہا تھا۔ وہ اپنی شاندار پرسنالٹی کے بنا پر ماحول میں چھایا تھا۔ وہ واقعی ہی گاؤں کا سردار لگ رہا تھا۔مگر اس کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔

احان نے سر جھٹک کر نظریں اس پر سے ہٹا لیں۔

ہشام۔چلتا ہوا اسٹیج پر چڑھتا صوفے پر براجمان ہوچکا تھا۔اسٹیج کافی کُھلا بنایا گیا تھا۔ ایک طرف صارم صوفے پر براجمان تھا اور دوسرے صوفے پر آکر وہ براجمان ہوچکا تھا۔

گاؤں کی رسم کے مطابق ان کا نکاح آج ہی ہونا تھا۔ اس مبارک فریضے کو انجام دینے کے لیے پہلے ہشام اور فاریہ کا نکاح پڑھوایا گیا۔ اُن کا نکاح پہلے سے ہوچکا تھا یہ تو بہت سے لوگوں کا منہ بند کروانے کیے لیے ضروری تھا.یہ ضروری تھا تاکہ کسی کو بھی باتوں کا موقع نہ ملے۔ان کےنکاح کے بعد صارم اور ماہا کا نکاح پڑھوایا گیا۔دونوں جوڑوں کا نکاح بخیر و عافیت انجام پایا تھا۔ 

کچھ ہی دیر میں دُلہنوں کے آنے کی اطلاع مل چُکی تھی۔ باری باری دونوں دُلہنوں کو لاکر ان کے ساتھ بٹھا دیا گیا۔صارم اُس پری وش کا چہرہ دیکھنے کے لیے بےقرار ہوچلا تھا۔ اب تو اُس کے پُور پُور صارم لاشاری کا حق تھا۔

یہ سوچ سوچ دل سرشار ہورہا تھا  کہ اس کی محبت اس کی ملکیت میں آچکی تھی۔

جیسے ہی ماہا کو اسٹیج پر بٹھایا گیا صارم مہمانوں کی  پرواہ کیے بغیر اس کی طرف جُھکا۔ 

"نکاح مبارک زندگی۔" وہ ڈوپٹے کے اوپر سے ہی اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔اس کے اس پہلے دل دھڑکا دینے والے لمس پر وہ گھونگھٹ کے اندر ہی آنکھیں جُھکا گئ۔ اُس کے لمس میں ماہا صارم لاشاری کے لیے مان ہی مان تھا جسے محسوس کرتے ہوۓ وہ سرشاری سے مسکرا دی۔

اس بات کا ماہا کو سوفیصد یقین تھا کہ اس کی زندگی بہت حسین گزرنے والی ہے۔

کسی سے محبت کرو تو, اُسے اتنا پاکیزہ رکھو

کہ___خدا بھی دیکھ کر کہے____کُن فیکُون

مہندی کی تقریب اپنے عُروج پر تھی جہاں ایک ایک طرف ماہا اور صارم بہت پُرسکون بیٹھے تھے۔  وہی دوسری طرف فاریہ اور ہشام کے چہرے حد درجہ سنجیدہ تھے۔  دونوں اپنی  اپنی سوچوں میں گُم تھے۔ ماہا اور صارم کو ایسے دیکھ فاریہ کے دل سے ہونک سی اُٹھی تھی۔ مگر وہ لاتعلق سی بیٹھی رہی۔ 

اسٹیج کے بائیں طرف کے ٹیبل پر نشوہ آفندی نہایت گُم سُم سی بیٹھی تھی۔ اس کے ذہن میں بار بار احان آفندی کے الفاظ گونجتے تو اس کا دل دھڑک دھڑک جاتا۔ارد گرد ہوتے شور کے باوجود اس کے کانوں میں محض اُس ستمگر کی ہی آواز گونج رہی تھی۔ جس سے وہ جتنا دُور جانے کی کوشش کررہی تھی۔ قسمت اُتنا ہی ان دونوں کو رُوبرو کررہی تھی۔

("تمہیں لگتا ہے میں تمہیں بھول سکتا ہوں۔ کیا کوئی سانس لینا بھول سکتا ہے بولو۔ اس سانسوں میں بستی ہو تم سمجھ آئی۔ اور آئندہ مجھے خود کو بھولنے کا مت کہنا۔ کیونکہ احان آفندی مر تو سکتا ہے مگر تم سے دستبردار نہیں ہوسکتا۔ میں تمہارا انتظار ساری زندگی کروں کا۔ اور دیکھنا تم مجھے اپنے فیصلے پر ثابت قدم پاؤ گی۔")

اس نے بند آنکھوں کو کھول کر دیکھا تو وہ کچھ فاصلے پر کھڑا نظریں اسی پر ٹکاۓ ہوۓ تھا۔ وہ بھی یک ٹک اسی کو دیکھنے میں مصروف ہوچکی تھی۔اس  کی محویت پر وہ ہلکا سا مسکرایا تھا۔نشوہ اس کی مسکراہٹ دیکھتی ہوش میں آتی نظریں چُرا گئ۔ اپنی بےاختیاری پر وہ خود کو کوس کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیریں کی کال آنے پر احان ایک سائیڈ پر کھڑا کال سُننے میں مصروف تھا۔ کچھ دیر بعد ان کی تسلی کردینے کے بعد وہ پلٹا جب میرو کو پیچھے کھڑا پایا۔

ان دو سالوں میں جب یزدان اسے چھوڑ کر گیا تھا تب اس نے ضد کرکے ماہ نور سے ساری حقیقت پوچھی تھی۔ جسے سُن کر وہ شاکڈ ہوگئ تھی۔ وہ اپنی خالہ سے ملنے کے لیے بےقرار تھی۔وہ دو سے تین دفعہ ان سے ملنے گئ تھی۔ اس کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ کاش اُس کا ایک بھائی ہوتا۔ احان کو دیکھ کر اسے یہی محسوس ہوا تھا جیسے اسے اس کا بھائی مل گیا ہو۔  مگر احان  نے اس کی طرف دیکھنا تک نہ گوارا کیا کیونکہ اس کا تعلق آفندی خاندان سے تھا  سب سے بڑھ کر یزدان آفندی سے۔

"احان۔" وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔

احان نے اس کی پُکار کا جواب دینا ضروری نہ سمجھا اور اس کے قریب سا ہوتا ہوا  آگے بڑھ گیا۔

"احان تم بالکل بھی اچھے بھائی نہیں ہو۔" میرو نے خفا خفا سی نظروں سے اس کی پیٹھ کو دیکھا۔جو اس کی پُکار پر بھی آگے کی طرف بڑھ گیا تھا۔

اس کے شکوے سے بھرپور جملے پر احان کے بڑھتے قدم منجمد ہوۓ۔مگر وہ چند سکینڈ میں ہی خود کو کمپوز کرگیا۔

"میں تمہارا بھائی نہیں ہوں۔ بلکہ میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں۔" وہ اس کی طرف مُڑتا سپاٹ سے انداز میں بولا۔

میرو کی آنسوؤں بھری آنکھوں نے اس سے شکوہ کیا۔ جسے دیکھ کر وہ نظریں چُرا گیا۔

یزدان نے میرو کو ایک لڑکے کے ساتھ کھڑا پایا وہ فوراً اس کی طرف بڑھا۔ وہ جو کوئی بھی تھا اس کی طرف پُشت کر کے کھڑا تھا۔وہ تھوڑا نزدیک پہنچا تو اسے اندازہ ہو کہ وہ رو رہی ہے۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی طرف پہنچا۔

"میرو ۔ میری جان رو کیوں رہی ہو؟" وہ اس انسان کو اگنور کرتا میرو کو اپنی گرفت میں قید کرچکا تھا۔

احان نے غور سے اس بھرپور مرد کو دیکھا تھا۔ جو اُسے لیکر حد سے زیادہ پوزیسسو تھا۔

یزدان نے مُڑ کر اس انسان کی طرف دیکھا وہ اسے بالکل بھی پہچان نہ پایا۔ شاید اُس نے پہلی بار اُسے دیکھا تھا۔دیکھا تو احان نے بھی اسے پہلی بار تھا مگر وہ اسے پہچان گیا تھا۔ زومیرو آفندی کے اتنے نزدیک آنے کا حق صرف اسی انسان کو تھا۔اسی انسان کی وجہ سے اس کے باپ نے زندگی کے ہر موڑ پر اس سے ناانصافی کی تھی۔

وہ اسے دیکھ تلخی سے مُسکرایا۔

"میرو یہ تمہیں تنگ کر رہا تھا۔میں ابھی اس کی عقل ٹھکانے لگا تا ہوں۔ آج کے بعد کبھی ہمت نہیں کریں گا تمہارے اردگرد بھٹکنے کی۔" وہ غُصّے سے اس کی طرف بڑھتا اس سے پہلے ہی میرو اس کا ہاتھ تھام گئ۔

"یزدان ! وہ مجھے تنگ نہیں کررہا تھا۔" وہ ایک نظر احان پر ڈال کر بولی۔

"پھر مجھے وجہ بتاؤ رو کیوں رہی تھی۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا ہوا بولا۔

"کچھ نہیں۔ سب کی یاد آرہی ہے۔" وہ نفی میں سر ہلا کر رہ گئ۔  یزدان اُسے لیے وہاں سے ہٹتا چلا گیا۔پیچھے احان انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید ازوہ کو آج اپنی مصروف روٹین سے وقت نکال کر باہر لے کر آیا تھا۔ ورنہ پچھلے پانچ دنوں سے وہ اس قدر مصروف تھا کہ اسے اپنا بھی ہوش نہ تھا۔وہ اپنے سارے کام صُبح کو نپٹاتا تھا کیونکہ اس کی معصوم بیوی کے مطابق وہ اسے رات کو اس بھوت بنگلے میں اکیلا نہیں چھوڑ کے جاسکتا تھا۔

جس پر اس نے فوراً عمل درآمد کیا تھا۔ وہ رات کے وقت خود بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔

وہ بار بار موبائل پر نظر ڈالتا اسے  عاصم کی کال کا انتظار تھا جو اسے کچھ ضروری بتانا چاہتا تھا۔

"عرید ! کیا فائدہ میرے ساتھ آنے کا۔آپ کی پہلی بیوی آپ کی جان چھوڑے گی تو ہی آپ مجھ پر توجہ دیں گے۔" وہ ایک زبردست گھوری اس کے موبائل پر ڈال کر چند قدم اس سے دُور ہوئی۔

"جانم ضروری کال آنی ہے۔" وہ اسے پُچکارنے والے انداز میں بولا۔ابھی وہ مزید کچھ کہتا جب اس کا فون رِنگ ہوا۔

ازوہ نے بھرپور گھوری سے اسے نوازا۔

"یہ کال بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد سارا ٹائم تمہارا۔" وہ عجلت میں اس کا گال چومتا تھوڑا سا آگے کی طرف بڑھ گیا۔

ازوہ نے ہلکی سے مسکراہٹ سے اس کی پیٹھ کو دیکھا تھا۔

ازوہ نے گردن سیدھی کرکے سامنے کے نظارے کو دیکھنا چاہا۔جب اپنے بائیں طرف کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ 

"سرپرائز۔ ۔۔" کسی کی بھاری آواز اپنے قریب سے گونجی ۔ ازوہ فوراً پہچان چکی تھی۔اس کے چہرے پر ڈر کی لکیر اُبھری۔

" کیسا لگا میرا سرپرائز بُلبُل ۔تمہیں تو مجھ سے سچی محبت نکلی۔ میرے پیچھے پیچھے چلی آئی۔ فکر مت کرو جلد ہی ہمارے درمیان کی اس رکاوٹ کو اچھے سے دُور کردوں گا۔بیچارہ یہ پولیس والا مفت میں مارا جاۓ گا۔تم نے بہت بُرا کیا میرے ساتھ۔ تم پر صرف میرا حق تھا اور یہ حق تم نے کسی اور کو دے کر اچھا نہیں کیا۔ سُود سمیت سب وصول کروں گا۔ اور اچھے سے تمہارے اس حُسن کو خراج پیش کروں گا۔" وہ کمینگی سے ایک آنکھ دباتا ہوا بولا۔

ازوہ کے حواس اسے دیکھ منجمد ہوچکے تھے۔اس نے خوف بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔اس نے پلٹ کر عرید کی طرف دیکھنا چاہا۔ جب وہ اس کا چہرہ دبوچ چکا تھا۔

"تم پر تمہارے سانس سانس پر صرف کالی کا حق ہے۔ اور کالی اپنا حق نہیں چھوڑا کرتا۔ بہت کرلی تونے عیش۔ اچھے سے تیرے پر کاٹوں گا۔تو نے کالی کی دھمکیوں کو مزاق میں لیا ہے۔بھول گئ اپنے باپ بھائی کی موت۔ ان کا کیا انجام ہوا تھا۔اب ایسے ہی تیرے اس شوہر کو تڑپا تڑپا کر ماروں گا۔" اس کی انگلیاں بُری طرح ازوہ کے رُخساروں میں دُھنس رہی تھی۔ اس کی سُرخ آنکھوں سے ازوہ کو خوف آرہا تھا۔اس نے جھٹپٹاتے ہوۓ اس کا ہاتھ گال سے ہٹانا چاہامگر وہ اس کی پکڑ میں پھڑپھڑا کر رہ گئ۔

"بہت جلد ملتے ہیں بُلبُل۔ تجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قید کرلوں گا۔ تو چاہ کر بھی بھاگ نہیں پاۓ گی۔بڑا چہک رہی ہے ایک بار اپنی چھاپ چھوڑ دوں تو ہنسنا بھی بھول جاۓ گی۔" وہ ہوس بھری نظریں اس کے خوبصورت چہرہ پر ٹکا کر بولا۔ازوہ نے نے کراہیت سے اس کی ہوس ٹپکتی نظروں کو دیکھا۔وہ فوراً یہاں سے غائب ہوجانا چاہتی تھی۔ اس کی وجود سے آر پار ہوتی نگاہیں اسے خوف میں مبتلا کررہی تھی۔ وہ اس کے گال کو دو انگلیوں سے چھوتا جیسے آیا تھا ویسا ہی جا چُکا تھا۔

اس نے آس پاس عرید کو تلاش کرنا چاہا جو بات کرتے کرتے دُور جا چُکا تھا۔  خوف اس قدر حاوی تھا کہ اس کا چہرہ پسینے سے تر ہوچکا تھا۔آنکھوں سے لبا لب آنسو جاری ہوتے چلے گۓ۔

وہ حواس باختہ سے اردگرد دیکھنے میں مصروف تھی جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ ڈر کر دو قدم دُور ہوئی۔ گلے سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔عرید اس کے ایسے ریئکشن پر حیران رہ گیا۔ اس کے چہرے کی طرف دیکھتا وہ ٹھٹھک کر رُک گیا۔چہرہ خوف کی باعث زرد ہو چکا تھا۔ ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے چمکتے نظر آرہے تھے۔چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔

"ازوہ کیا ہوا؟ " وہ اس کے نزدیک آتا ہوا بولا۔

اُس نے آنسو بھری نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا۔عرید کو شدت سے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔جو بول کچھ نہیں رہی تھی مسلسل رونے میں مصروف تھی۔

عرید نے اسےقیمتی متاع کی طرح سینے میں بھینچ لیا۔

"میری جان جب تک مجھے بتاؤ گی نہیں مجھے کیسے پتہ چلے گا۔وہ اس کے حجاب پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

"عر۔۔۔ید۔۔" وہ کپکپاتی آواز میں محض اُس کا نام پُکار سکی۔

عرید جی جان سے متوجہ ہوا۔اس  نے ازوہ  کا چہرہ اونچا کرکے رُوبرو کیا تھا۔

"پلیز کچھ بولو یار۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔" وہ اس کے بہتے آنسوؤں کو پوروں سے سمیٹتا ہوا بولا۔

"عرید مجھے واپس جانا ہے۔مجھے نہیں رہنا یہاں۔ وہ یہاں بھی آگیا۔ وہ مجھے لے جانے آیا ہے۔ عرید مجھے نہیں جانا۔ مجھے آپ کے پاس رہنا ہے۔" وہ اس کے سینے سے لگتی روتے ہوۓ ہچکیوں کے درمیان بولی۔

عرید اسے مزید شدت سے خود میں بھینچ چُکا تھا۔وہ اس کی پیٹھ سہلاتا پُرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ جو مزید بکھرتی جارہی تھی۔وہ اس کی ٹوٹی پھوٹی باتوں سے سمجھ چُکا تھا کہ وہ کس کی بات کررہی ہے۔اس کے یوں خوفزدہ ہونے پر اس نے شدت سے مُٹھیاں بھینچی تھی۔ اس نے خود سے عہد کیا تھا جب تک وہ اُس انسان کو صفا ہستی سے مٹا نہیں دے گا چین سے ہرگز نہیں بیٹھے گا۔

"میری جان کیوں گھبرا رہی ہو۔میں ہوں نا اِدھر۔ تمہیں کچھ نہیں ہونے دوں گا۔" وہ اس کے رخساروں پر بہتے موتیوں کو ہونٹوں سے چُنتا ہوا بولا۔وہ شدت بھرے انداز میں قطرہ قطرہ اپنا لمس اس کے چہرے پر بکھیر رہا تھا۔وہ اب رونا دھونا بھول کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی جودیوانہ سا ہورہا تھا۔پل میں چہرہ گُلال بکھیرنے لگا تھا۔اس نے اردگرد دیکھا کوئی ان کی طرف متوجہ نہ تھا۔اس نے عرید کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کے اس کے جذبوں کو لگام دی۔

وہ اس کی ہتھیلی شدت سے چومتا اس کا ہاتھ تھام گیا۔

"عرید ہم روڈ پر ہیں۔ کمرے میں نہیں۔" وہ اپنے لہجے کی کپکپاہٹ پر قابو پاتی ہوئی بولی۔

عرید ایک بار پھر اس کے چہرے پر جُھکتا اس کا ماتھا چوم گیا۔

"مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم کہاں ہیں۔ کیونکہ تم میری بیوی ہو۔" وہ اس کی بےباکیوں پر اس کے سینے میں منہ چُھپا گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ کب سے اس کی خاموشی ملاحظہ کررہی تھی۔جو اس کے ساتھ بیٹھا مسلسل اِدھر اُدھر دیکھنے میں مصروف تھا اس نے ایک بار بھی نظر اُٹھا کر اپنے ساتھ بیٹھے وجود کو نہیں دیکھا تھا۔فاریہ مسلسل بیٹھی بیٹھی اب تھک چُکی تھی۔ اس نے اشارے سے نشوہ کو اپنے پاس بُلا کر اسے اپنی تھکاوٹ کا بتا کر اندر لے کر جانے کا کہا تھا۔ وہ فائزہ بیگم سے کہتی اس کی طبیعت کے خیال سے اسے اندر لے گئ۔

ہشام اسے نہیں بلکہ خود کو سزا دینا چاہتا تھا۔ جب سے فاریہ نے اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا وہ اس سے نظریں تک نہیں ملا پارہا تھا۔ اس کے چہرے پر تھکاوٹ کے آثار وہ خود بھی نوٹ کرچکا تھا۔ مگر وہ خاموشی سے اردگرد دیکھتا رہا۔  جانے ان کی زندگی انہیں کس طرف لے کر جانے والی تھی۔ وہ فاریہ کو کچھ ٹائم دینا چاہتا تھا۔  تاکہ وہ خود کو سنبھال لے ۔ اس دفعہ وہ اُس کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں چاہتا تھا۔ وہ خود کو اُس پر زبردستی مسلط نہیں کرنا چاہتا تھا۔  محض اس لیے وہ کچھ وقت کے لیے اس سے دُور ہوجانا چاہتا تھا تاکہ وہ بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکے۔ اس کے جاتے ہی اس کا دل محفل سے اچاٹ ہوچکا تھا۔  اسے ہر چیز پھیکی پھیکی سی لگنے لگی تھی۔  وہ خود بھی وہاں سے اُٹھتا حویلی سے باہر نکلتا چلا گیا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اسے وہاں سے لیکر ایک تاریخ گوشے میں آچکا تھا۔ جس کا رونا تو کب کا تھم چکا تھا۔

"کیا کررہے ہیں یزدان؟ کوئی دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔" وہ اس کے ہاتھ سے اپنا بازوہ چھڑواتی ہوئی بولی۔

وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا اسے اپنے قریب کھینچ چُکا تھا۔اس کی نظریں مسلسل میرو کے چہرے کا طواف کررہی تھی۔بھٹک بھٹک کر نظریں اس کے لپ اسٹک سے سجے ہونٹوں پر ٹھہر رہی تھی۔

اس نے اپنی پیشانی اس کی پیشانی سے ٹکائی تھی۔اس کی قربت پر وہ آنکھیں بند کرچکی تھی۔ اپنے چہرے پر پڑتی مقابل کی گرم سانسوں کی تپش اسے سمٹنے پر مجبور کرگئ۔

یزدان نے اس کی بند آنکھوں پر پھونک ماری تھی۔میرو نے پٹ سے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا مگر اس کی آنکھوں میں جلتے محبت کے دیپ کی تپش وہ زیادہ دیر برداشت نہ کرپائی پلکوں کی چلمن خود بخود گرتی چلی گئ۔ یزدان نے اس کی اُٹھتی گرتی پلکوں کی چلمن کا یہ نظارہ مبہوت ہوکر دیکھا تھا۔ خود پر باندھا ہر بندھ توڑتا وہ اس کی آنکھوں کو شدت سے چوم گیا۔

"میں نے بُلایا تھا تمہیں آئی کیوں نہیں۔" اس نے اس کا جُھکا چہرہ ٹھوڑی سے تھام کر اوپر اُٹھایا تھا۔

وہ کچھ نہ بولی بس بند پلکوں کو کھول اس کی طرف دیکھا۔یزدان نے اس کی ٹھوڑی کو شدت کے چوما تھا۔

"یزدان آفندی اپنی میرو کا دیوانہ ہے۔میرے دل کی سلطنت پر صرف اور صرف تمہارا راج ہے۔" وہ مزید گستاخیاں کرتا شدت سے پُر لہجے میں بولا۔

میرو کا چہرہ اس کی گستاخیوں پر لہو چھلکانے لگا تھا۔

"اب بس زومیرو آفندی مجھے اپنی دسترس میں چاہیے۔  اب ایک پل انتظار نہیں ہوتا۔  بس یہاں سے جاتے ہی تم میری بننے کی تیاری کرلو۔ پھر پل پل تمہیں میری گستاخیاں اس نازک جان پر سہنی ہونگی۔" وہ اسے خود میں بھینچے اس کے کان میں رفتہ رفتہ بولتا اسے سمٹنے پر مجبور کرگیا۔

"یز۔۔۔دان۔" اس نے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں احتجاجاً اس کا نام لیا۔

"اب تمہارا احتجاج بھی کام نہیں آۓ گا۔" وہ اس کے کان میں مسلسل بولتا  گستاخیوں پر آمادہ تھا۔

میرو نے اس سے بچنے کے لیے اس کے سینے میں منہ چُھپایا تھا۔اس کی معصومیت پر یزدان کے لب مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔اس کے گرد بندھا بازوؤں کا حصار مزید مضبوط کرکے سینے میں بھینچ لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان ،یزدان کو یہاں دیکھ کر انگاروں پر لوٹ گیا تھا۔میرو سے اس کی بےرُخی کی ایک وجہ اُس کا اس انسان سے جُڑا وہ مضبوط رشتہ تھا۔ 

اگر وہ دیکھتا کہ نشوہ کا تعلق بھی اُسی خاندان سے تھا مگر وہ ہر حال میں اُس لڑکی کو اپنی زندگی میں چاہتا تھا۔اس نے چاروں اور نظر گُھومائی تھی مگر نشوہ اسے کہیں دکھائی نہ تھی شاید وہ اندر جاچکی تھی۔ مہندی کی تقریب اختتام ہونے کو تھی سب مہمان آہستہ آہستہ رُخصت ہوتے جارہے تھے۔کچھ جو حویلی میں ہی ٹھہرے تھے وہ بھی اندر کی طرف بڑھ گۓ۔ 

احان نے بھی قدم اندر کی طرف بڑھاۓ۔  اس کے اعصاب بھی اب تھکن کا شکار تھے۔  چاۓ کی شدید طلب تھی۔ 

اس نے قدم کچن کی جانب بڑھاۓ تاکہ کسی کو چاۓ کا کہہ سکے۔ 

اس نے جیسے ہی کچن میں قدم رکھا وہ وہی تھم گیا۔  اس کی ظالم حسینہ انہماک سے چولہے کے آگے کھڑی چاۓ بنانے میں ہی مصروف تھی۔ 

"ایک کپ میرے لیے بھی۔  فیوچر وائف۔ " وہ اس کے نزدیک آتا خوشگوار لہجے میں بولا۔  اس کے ذات پر چھائی افسردگی اُسے دیکھتے ہی دُور ہوتی چلی گئ۔ 

اس کے فیوچر وائف کہنے پر نشوہ نے گُھور کر اسے دیکھا تھا۔ پھر بنا کچھ کہے مزید دودھ پتیلی میں ڈالا۔ 

احان کے ہونٹوں پر بڑی دلکش مسکراہٹ پھیلی تھی۔ 

"کیا کیا بنا لیتی ہو؟  اپنے مستقبل کے بارے میں بھی کچھ سوچنا پڑے گا۔ " وہ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔ 

"بےوقوف بہت اچھا بنا لیتی ہوں۔  اور کچھ۔ " وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔ 

"وہ تو میں جانتا ہوں۔  تبھی تو تمہارے پیچھا خوار ہورہا ہوں۔ تمہاری اس قابلیت پر مجھے سو فیصد یقین ہے۔ " وہ اسے تپانے سے بعض نہ آیا۔ 

"احان ! منہ بند کرکے بیٹھو ورنہ تمہارا سر کھول دوں گی۔ " اس نے انگلی اُٹھا کر وارننگ دی۔ 

"استغفار لڑکی شرم کرو۔  تمہارا ہونے والا مجازی خُدا ہوں۔ ایک بار ذرا تم پر میرے نام کی مہر لگنے دو ایک ایک زیادتی کا گِن گِن کر بدلہ لوں گا۔ " وہ دہائی دینے والے انداز میں بولا۔ 

اس کی باتوں پر نشوہ کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ چھلکی جسے وہ نیچے منہ کرتی چُھپا گئ۔

مگر وہ احان کی تیز نظر سے مخفی نہ رہ سکی۔

"میسنی چڑیل ! یہ نیچے منہ کرکے کیوں مسکرا رہی ہو۔میں کونسا تمہاری مسکراہٹ چُرانے والا ہوں۔" وہ پہلی بات دانت دکھاتا جب کے دوسری بات بڑی معنی خیزی سے بولا۔

 نشوہ نے ناسمجھی سے  اس کی طرف دیکھا۔احان کو اس کی شکل دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ نہیں پائی۔ اس کی آنکھیں شرارت سے چمکی۔

اس نے دو انگلیاں اپنے ہونٹوں پر رکھ کر اس کے ہونٹوں کی طرف اشارہ کیا۔

اس کی بات کا مطلب سمجھ آنے پر  نشوہ سٹپٹا کر رہ گئ۔ چہرے پل میں سُرخ ہوا۔وہ اس کی طرف سے رُخ موڑ گئ۔

اس کی حرکتوں پر احان کا دلکش قہقہہ گونجا۔

"میری معصوم سی تیزگام۔" وہ اس کے پیچھے سے بڑبڑایا۔

وہ خاموشی سے چاۓ کپوں میں انڈیلنے لگی۔اس کی باتوں پر ذرا دھیان نہ دیا۔

ایک کپ وہی چھوڑ کر اپنا کپ اُٹھاۓ باہر کی طرف بڑھی۔

"بدتمیز انسان۔" جاتے جاتے وہ اونچی آواز میں اس کی حرکت پر دانت پیستی ہی بولتی باہر نکل گئ۔

احان نے مسکرا کر اس لقب کو وصول کیا۔ ہلکا سا مسکراتے چاۓ کا کپ اُٹھا کر لبوں سے لگایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کا سناٹا ہر سُو پھیل چُکا تھا۔ میرو اور نشوہ اس کے بستر پر مزے سے سورہی تھی۔ مگر ایک وہی تھی جسے نیند نہیں آرہی تھی۔ شاید اس نۓ نۓ بندھن نے ساری نیندیں اُڑا دی تھی۔صُبح وہ مکمل طور پر اس کی دسترس میں جانے والی تھی یہ سوچتے ہی شرمیلی سے مسکان نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا۔ وہی دوسری طرف یہ سوچ سوچ کر دل بھی گھبرا رہا تھا جانے آگے آنے والی زندگی کیسی ہوگی۔ 

وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی۔ جب سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل فون بجا۔ میرو اور نشوہ کی نیند کے خیال سے وہ موبائل اُٹھاتی بالکُنی میں بڑھ گئ۔ فون پر جگمگاتا صارم کا نمبر دیکھ کر اس کا دل سو کی سپیڈ سے بھاگا۔ اس نے جھجھکتے ہوۓ فون یس کرکے کان کو لگایا۔

"ماہا! باہر آؤ یار تمہارا انتظار کررہا ہوں۔" وہ بغیر اِدھر اُدھر کی باتیں کیے سیدھا مُدعے کی بات پر آیا۔

"صارم میں کیسے ؟ کوئی دیکھ لے گا۔" وہ اس کی فرمائش پر بوکھلاتی ہوئی بولی۔

"یار کوئی نہیں دیکھے گا۔  آجاؤ نا پلیز جان۔ " وہ اتنے پیار سے بولا کہ اس کے طرزِ مخاطب پر وہ پلکے جُھکا گئ جیسے وہ سامنے ہی موجود ہو۔ 

"شرما بعد میں لینا بہت موقعے  دوں گا شرمانے کے۔ " وہ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔  دوسری طرف ماہا کا منہ کُھل گیا تھا وہ کیسے جانتا تھا کہ شرما رہی ہے۔ 

"جلدی سے باہر آؤ میں انتظار کررہا ہوں۔ " وہ کہتا ہوا فون کاٹ چُکا تھا۔ 

ماہا نے دھڑکتے دل کے ساتھ کمرے میں قدم رکھا تھا۔ ان دونوں کے سونے کا یقین کرکے وہ کمرے سے باہر نکل آئی۔  احتیاط سے دروازہ بند کرکے اس نے چاروں اور نظریں دوڑائیں۔ 

ابھی وہ کچھ قدم ہی چلی تھی جب وہ اسے سامنے کونے میں کھڑا نظر آگیا۔ اس کے قدم مزید سُست ہوۓ۔  اس کی سُست رفتاری کو دیکھ صارم لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی طرف پہنچا۔ 

"یار تم تو ایسے ڈر رہی ہو جیسے تمہارا نامحرم ہوں۔  اگر آپ کو بھول چکا ہے محترمہ تو یاد کروا دوں ہمارا نکاح آج ہی ہوا ہے۔ " وہ اس کے قریب جُھکتا ہوا بولا۔اس کے لرزتے وجود کو دیکھ صارم نے افسوس سے سر ہلایا۔  پھر ایک ہی جُست میں اسے گود میں اُٹھاتا قدم چھت کی جانب بڑھاۓ۔ 

ماہا نے اس اچانک افتاد پر اپنی بےساختہ چیخ کا گلا گھونٹا۔ 

"صارم ! کیا کررہے ہیں؟  مجھے نیچے اُتاریں میں خود چل لوں گی۔ " وہ اس کے سینے پر ہاتھ مارتی احتجاجاً بولی۔ 

"ہاں جس رفتار پر تم چل رہی تھی۔ مجھے یقین تھا کہ صُبح تک تم مجھ تک پہنچ جاتی۔ "  وہ اس کی سُست رفتاری پر چوٹ کرتا ہوا بولا۔ 

"آپ مجھے چھت پر کیوں لیکر جارہے ہیں۔ " وہ اس کی بات پر ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔ 

"میں نے سوچا تم نے ابھی تک چھت نہیں دیکھی ذرا تمہیں دکھا لاؤ۔ " وہ اس کی ناک چڑھانے والے عمل کو دیکھتا  اس کی طرف جُھکتا اس کی ناک پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔ اس کے لہجے میں واضح شرارت کی رمق تھی۔ورنہ اس سے بہتر کون جانتا تھا کہ ماہا کا آدھا دن یا تو لان میں یا چھت پر گُزرتا تھا۔

ماہا کی بولتی اتنے میں ہی بند ہوچکی تھی۔  اس کی چلتی زبان پر قفل لگ چُکا تھا۔ اس نے چھت پر لاکر اسے گود سےاُتارا تھا۔ جہاں سامنے سجا خوبصورت سا نظارا دیکھ وہ منہ پر ہاتھ رکھ گئ۔

پوری چھت کو گلاب کے پھولوں اور لائٹنگ کرکے سجایا ہوا تھا۔ایک طرف چھوٹا سا ٹیبل لگا تھا جس کے گرد دو کرسیاں موجود تھی۔ اور ٹیبل پر انواع قسم کے کھانے موجود تھے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ جانتا تھا کہ اس کی بیوی نے کھانا نہیں کھایا۔چھت کے ایک سائیڈ پر میٹریس بچھا ہوا تھا جسے خوبصورتی سے گلاب کے پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔جسے دیکھ اس کا دل زور سے دھڑکا۔

اس نے جھجھکتے ہوۓ صارم کی طرف دیکھا وہ پُرشوق نظریں اسی پر سجاۓکھڑا تھا۔پھر اس کا ہاتھ تھامتا ٹیبل کی طرف بڑھا۔ ایک کُرسی گھسیٹ کر وہ اُسے بٹھا چکا تھا۔ دوسری کُرسی پر بیٹھتا وہ ماہا کی کُرسی قریب ترین کھینچ چُکا تھا۔ماہا پلکیں جُھکا چکی تھی۔

"ماہ ! " اس نے اتنے پیارے کے اس کا نام پُکارا تھا۔ اس کے ماہ کہنے پر ماہا نے جُھکی پلکیں اُٹھائی تھی۔اس کی گرے آنکھوں میں جھجھک سی تھی۔ وہ اس کی یہی جھجھک تو دُور کرنا چاہتا تھا۔وہ اس کے چہرے پر جُھکتا اس کے آنکھوں کو شدت سے چوم گیا۔

"ساری باتیں بعد میں پہلے تم کھانا کھاؤ۔ میں جانتا ہوں تم نے کھانا نہیں کھایا۔تمہاری یہ خود سے لاپرواہی میں بالکل برداشت نہیں کروں گا۔" اس نے نوالہ بنا کر اس کی جانب بڑھایا۔ جسے ماہا کھا چُکی تھی۔پھر  وہ ہلکی پُھلکی اِدھر اُدھر کی باتیں کرتا اسے کھانا کھلاتا رہا جسے وہ خاموشی سے کھاتی رہی۔

کھانا کھانے کے بعد وہ اسے لیے میٹریس کی جانب بڑھا اسے بٹھا کر وہ اس کے رُوبرو بیٹھا۔ پھر جیب سے ایک مخملی ڈبی سے ایک انگوٹھی نکال کر اس کی انگلی میں پہنائی۔پھر اس کے ہاتھ پر ہونٹ ٹکاۓ تھے۔

"جانتی ہو یہ انگوٹھی میں نے کب لی تھی جب تمہیں یونی میں پربوز کیا تھا میں نے سوچا تھا کہ اگر تم اقرار کر دو گی۔ تو تمہاری انگلی کی زینت بنا دوں گا۔ مگر تم نے انکار کردیا۔ یقین مانو ماہا مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ یہ سوچ کر ہی دل گھبرا رہا تھا کہ تم کسی اور کہ نام لکھ دی جاؤ گی۔بار بار خُدا سے تمہیں مانگا تھا۔بہت چاہا ہے تمہیں۔صارم لاشاری کی زندگی میں تمہارا مقام بہت اونچاہے۔" وہ بار بار اس کے ہاتھوں کو ہونٹوں سے لگا کر بولا۔

اس کی اتنی محبت پر ماہا کی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔صارم نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا۔

"ماہ ! میری جان کیا ہوا؟ رو کیوں رہی ہو؟ کیا میری کوئی بات بُری لگی۔" وہ اس کا جُھکا چہرہ اوپر اُٹھا کر بولا۔

"نہیں۔مجھے آپ کی کوئی بھی بات بُری نہیں لگی۔" اس نے نمی بھری آنکھوں سے سر نفی میں ہلایا۔

"پھر رو کیوں رہی ہو؟" وہ پریشانی سے اس کے بہتے آنسوؤں کو دیکھ کر بولا۔

"مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ خدا کا شکر کیسے ادا کروں۔ جب میں یہاں آئی تھی اتنی اداس تھی کیونکہ مجھے ہشام سے شادی نہیں کرنی تھی۔اللّٰہ نے میرے  دل کی بات سُن لی اور آپ کو میرا محرم بنا دیا۔" وہ ہلکا سا مُسکرا کر بولی۔

صارم اس کی مسکراہٹ دیکھ کر پُرسکون ہوگیا۔ اس نے جُھکتے ہوۓ اس کی پیشانی کو ہونٹوں سے چھوا تھا۔ پیشانی سے گالوں کا سفر اس نے منٹوں میں طے کیا تھا۔اس کی کمر میں ہاتھ ڈال وہ اسے ساتھ لگا چُکا تھا۔پھر نرمی سے جُھکتا ان گلاب پنکھڑیوں کو قید کرچکا تھا۔خود کو سیراب کرنے کے بعد وہ پیچھا ہٹا اور پیشانی اس کی پیشانی سے ٹکا دی۔

"صارم۔۔مجھے جانا دیں۔۔۔یہاں سردی بڑھ رہی ہے۔" وہ اسے خُود سے دُور کرتی ہوئی بولی۔

"بالکل بھی نہیں آج رات تمہارا ایک ایک پل میرے ساتھ گُزرے گا۔" وہ کمبل کھولتا اسے گود میں بٹھاتے دونوں کے گرد لپیٹ چکا تھا۔

"صارم۔۔۔ کل " وہ جھجھکتے ہوۓ کچھ بول ہی نہ پائی جملہ ادھورا چھوڑ گئ۔ صارم اس کی بات کا مطلب اچھے سے سمجھ چُکا تھا۔

"گھبراؤ نہیں۔ بس کچھ دیر تمہارے ساتھ گُزارنا چاہتا ہوں۔ورنہ صارم لاشاری کل تک کیا پوری زندگی تمہارا انتظار کرسکتا ہے۔" وہ اس کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاتا اس سے مختلف سوال کرنے لگا۔ جس کا وہ دھیرے دھیرے جواب دینے لگی تھی۔ آب و تاب سے چمکتا چاند ان کی محبت بھری  گفتگو سُنتا بادلوں کی اوٹ میں ہوگیا۔

کمرے کی جامد خاموشی میں دروازہ کُھلنے کی آواز آئی۔ وہ یہاں آنا تو نہیں چاہتا تھا مگر وہ جانے کیوں دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر آگیا تھا۔

فاریہ تھکاوٹ کے بعد دوائیاں کھا کر گہری نیند میں گُم ہوچکی تھی۔وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتا اس کے پاس چلا آیا۔ حویلی کے سارے کمرے مہمانوں سے بھرے ہوۓ تھے۔ اس لیے فائزہ بیگم نے اسے ہشام کے کمرے میں ہی ٹھہرایا تھا۔فاریہ کی جو حالت تھی وہ اسے مہمانوں کے درمیان ٹھہرانے کا ذرا سا بھی رِسک نہیں لے سکتی تھی۔ اگر اس بات کی ذرا سا بھی بھنک مہمانوں کو پڑھ جاتی انہیں باتیں کرنے کا موقع مل جاتا۔ پھر سو سوال اُٹھتے کہ آخر ہشام نے چُھپ کر شادی کیوں کی۔بس وہ انہی سوالوں سے فاریہ اور ہشام دونوں کو بچانا چاہتی تھی۔ دوسرا انہیں سو فیصد یقین تھا کہ ہشام گھر نہیں آۓ گا۔ اُن کا یقین صحیح  تھا وہ بالکل بھی یہاں آنا نہیں چاہتا تھا۔  مگر ناجانے کیسے وہ اس نازک سی لڑکی کی طرف کھچتا چلا آیا تھا۔

اس نے  کمرے میں موجود ہلکی سی روشنی میں اس کا خوبصورت وجود دیکھا تھا۔جو اس وقت مہندی والے کپڑوں سے چُھٹکارا پاۓ گہرے نیلے رنگ کے سادے سے سوٹ میں ملبوس تھی۔ بال تکیے پر جابجا بکھرے ہوۓ تھے۔چہرہ پر میک اپ کے مِٹے مِٹے اثرات تھے۔آنکھوں کی چلمن مضبوطی سے بند تھی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ گہری نیند میں سورہی تھی۔ وہ کبھی اتنی گہری نیند نہیں سوتی تھی۔ مگر جب سے وہ اس گھر میں آئی تھی اس کے چہرے پر گہرا سکون تھا۔

اس کی جادو کرتی آنکھیں اس وقت بند تھی جو مسلسل اسے بےچین کررہی تھی۔وہ اس کے قریب آتا گھٹنوں کے بل جُھکتا بیڈ کے قریب بیٹھ گیا۔انا کا خول رفتہ رفتہ چٹخنے لگا تھا۔وہ انا پسند شہزادہ جو کسی سے سیدھے منہ بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا وہ اس کے سامنے جُھک رہا تھا۔

"فاریہ ! میں گاؤں کا سردار ہوکر بھی عام ہوں اور تم عام سی لڑکی ہوکر بھی بہت خاص ہو۔تم اتنی اچھی اتنی پیاری نرم دل ہو کہ ہشام لاشاری تمہارے ساتھ ججتا ہی نہیں۔ تم کسی کو بھی اپنا اسیر کرسکتی ہو۔ تم بہت خوبصورت ہو مگر ہشام لاشاری کو تمہاری خوبصورتی نے نہیں بلکہ تمہاری خوب سیرتی نے اسیر کیا ہے۔ " وہ بولتا بولتا اس کا ہاتھ ہونٹوں سے لگا گیا۔

اس کے ماتھے پر جُھکتا وہ گہرا لمس چھوڑ گیا۔ماتھے کے رُخساروں کا سفر اس نے منٹوں میں طے کیا تھا۔کتنا ہی وقت گُزر چکا تھا اس کے وجود کی نرماہٹوں کو محسوس کیے۔ وہ اسے شدید ناراض تھی کہ وہ اسے قریب تک نہ آنے دیتی تھی۔

 وہ بار بار اس کے گلابی گالوں کو ہونٹوں سے چھوتا اس کی لالی چُرانے لگا تھا۔اس کی ٹھوڑی کو شدت سے چوم کر وہ اس کے تل پر جُھکا تھا۔ جو پوری آب وتاب سے اس کے دائیں گال پر چمک رہا تھا۔نرمی سے اس کی سانسوں کی مہک کو محسوس کرتا فوراً پیچھے ہوگیا۔ اس ڈر سے کہ کہی وہ اُٹھ ہی نہ جاۓ۔

"تمہارا عشق اتنا زور آور تھا میری جان کہ ہشام لاشاری تمہارے سامنے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا ہے۔" وہ اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاۓ  اس کے ایک ایک نقش کا دیدار کرنے میں مصروف تھا۔اس کے کُھلے بالوں کا تو وہ دیوانہ تھا۔ محبت تو بہت پہلے ہی اس کے دل پر قابض ہوچکی تھی۔مگر وہ اپنی ضد کے ہاتھوں سب برباد کر چُکا تھا۔

اس کی آنکھوں سے ندامت کا آنسو چہرے پر بہتا چلا گیا۔

"فاریہ میں سب کچھ ٹھیک کرنا چاہتا ہوں مگر یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے سب تباہ ہوگیا"وہ کتنی ہی دیر اس کے سرہانے بیٹھا اس کو نہارتا چلا گیا۔رات قطرہ قطرہ پگھلتی جارہی تھی۔ مگر اسے ارد گرد کا ہوش ہی نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صُبح سحر کا وقت تھاجب اس نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اپنے بازو سے چپکے اس وجود کو دیکھا تھا۔ جو اس کے سینے سے سر ٹکاۓ گہری نیند سورہی تھی۔ رات کو باتیں کرتے جانے کس پہر دونوں کی آنکھ لگی تھی۔ وہ بیٹھے بیٹھے ہی سو چکے تھے۔ صارم دیوار سے ٹیک لگاۓ بیٹھا تھا۔ اور اپنے وجود کا سارا وزن اس پر ڈالے محوِ استراحت تھی۔صارم نے ہنستے ہوۓ اس خوبصورت منظر کو دیکھا تھا۔ صارم لاشاری نے رات پہلی بار اسے کُھلے بالوں میں دیکھا تھا۔ 

صارم لاشاری کو ماہا کی ہر چیز سے عشق تھا۔ جانے کیسا سحر پھونکا تھا اس لڑکی نے وہ مزید اس کا دیوانہ ہوتا جارہا تھا۔

صارم نے مسکراتے ہوۓ اس کے بالوں پر ہونٹ ٹکاۓ تھے۔پھر سب کے اُٹھنے کے خیال سے وہ اسے لیے نیچے کی جانب بڑھا۔ وہ اس کے حصار میں کسمسا کر پھر سے سوگئ۔ صارم کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ ابھی کوئی بھی اپنے کمرے سے باہر نہ آیا تھا۔صارم نے ماہا کے کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر قدم رکھا۔ کمرے کا منظر کچھ یوں تھا جہاں ایک کونے میں میرو جاۓ نماز بچھاۓ نماز پڑھنے میں مصروف تھی وہی دوسری طرف نشوہ ابھی ابھی واش روم سے  وضو کرکے باہر نکلی تھی۔ پہلی ہی نظر صارم پر پڑی تھی جو ماہا کو گود میں لیے کھڑا تھا۔ وہ اسے اگنور کرتا قدم بیڈ کی جانب بڑھا گیا۔ اسے احتیاط سے بستر پر اُتار کر کمبل اس پر درست کرتا پیچھے کی طرف آیا۔

نشوہ اور میرو جب اُٹھی تو ماہا کو کمرے میں نہ پاکر انہیں یہی لگا تھا کہ وہ نیچے گئ ہوگی۔ مگر اب اسے صارم کے ساتھ دیکھ کر اس نے ایک گھوری بستر پر لیٹے وجود پر اور دوسری نظر صارم لاشاری پر ٹکائی تھی۔

"یہ تمہارے ساتھ کیا کررہی تھی؟" وہ کمر پر دونوں ہاتھ ٹکا کر کڑے تیور لیے اس سے مخاطب ہوئی۔

"اُسے تنگ مت کرنا آرام کرنے دینا۔ ویسے بھی آج اُس کا دن خاصا مصروف گُزرنے والا ہے۔ آرام کرنے دو  اُسے۔" 

سوال گندم جواب چنا۔ اس نے نشوہ کے سوال کو ایسے اگنور کیا جیسے سُنا ہی نہ ہو۔نشوہ اس کی حرکت پر دانت پیس کر رہ گئ۔

"تم دونوں دوست بےشرم ہو۔" وہ احان کی کل رات کی جانے والی بےباک گُفتگو یاد کرتی ہوئی بولی۔ یکدم ہی چہرہ سُرخ ہونے لگے۔

"شکریہ بھابھی جی۔وہ دراصل اپنی معصوم سی بیوی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارنا چاہتا تھا۔"  اس نے جان بوجھ کر اسے ایسے مخاطب کیا۔ ضرور اُس کی طرف سے کوئی تڑکتا بھڑکتا جواب آۓ گا۔احان کے حوالے سے وہ اسے بالکل چھوٹی بہن کی طرح عزیز تھی۔ وہ ماہا سے بالکل الگ نیچر کی تھی اس کے باوجود دونوں کی دوستی مثالی تھی۔

"ابھی جا کر تمہارے دادا جان کو بتاتی ہوں۔ تمہاری یہ تیز طراری تو منٹوں میں ہوا نہ کردی تو کہنا۔" وہ  اسے دھمکانے والے لہجے میں بولی۔

"یہ بھی کرکے دیکھ لیں۔" وہ دانت دکھاتا ہوا باہر کی طرف بڑھ گیا۔

پیچھے وہ کلس کر رہ گئ۔

ُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ کہا کسی کی سُننے والی تھی کچھ ہی دیر میں وہ اسکے سرہانے بیٹھی تھی۔

"ماہا! جلدی سے اُٹھو۔" وہ اس کو ہلاتے ہوۓ اُٹھانے کی کوشش کرنے لگی۔

"جلدی جلدی اُٹھ کر بتاؤ تم صارم کے پاس کیسے پہنچی۔" ماہا جو اس کے ہلانے پر جاگ گئ تھی اس نے آنکھیں کھولنی چاہی جب اس کے سوال پر دوبارہ سے موند لی۔

اس کی ہلتی ہوئی پلکوں کو دیکھ نشوہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ جاگ گئ ہے۔

"ماہا ڈرامے نہ کرو۔ مجھے پتا ہے تم جاگ رہی ہو۔" وہ اس کے انداز پر صبر کے گھونٹ پی کر رہ گئ۔

ماہا آنکھیں کھول کر اُٹھ بیٹھی۔ اس کو سرے سے اگنور کیے لاپرواہی سے بالوں کا جوڑا بنانے لگی۔

"ماہا۔۔۔۔۔" اس دفعہ اس نے تقریباً چیختے ہوۓ کہا۔

"کیا مسئلہ ہے ؟ میرے کان کے پردے پھاڑنے کا ارادہ ہے۔"وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"زیادہ معصوم بننے کی ایکٹنگ مت کرو جو پوچھا ہے وہ بتاؤ۔ تم اس صارم کے ساتھ کیا کررہی تھی؟" وہ دونوں ہاتھ کمر پر ٹکاتی ہوئی بولی۔

ماہا کواس کے انداز پر ہنسی آئی۔

"کب مجھے نہیں پتا؟" وہ انتہائی معصومیت سے دانتوں کی نمائش کرتے ہوۓ بولی۔

اس کے جواب پر نشوہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا۔ وہ اس پر چڑھ دوڑی۔

ماہا اس کے انداز پر کھلکھلا کر رہ گئ۔

"اچھا نا بتاتی ہوں۔دراصل وہ مجھ سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہے۔ کچھ وقت میرے ساتھ گزارنا چاہ رہے تھے۔نشوہ وہ بہت اچھے ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ مجھے خوش رکھیں گے۔" وہ شرماتی ہوئی ہاتھوں میں چہرہ چُھپا گئ۔

نشوہ نے دل ہی دل میں اس کی مسکراہٹوں کی نظر اُتاری۔

"اوہ! اچھے ہیں۔ اچھا کب سے ہوگیا وہ صارم۔" وہ اچھے ہیں پر خاصا زور دیتی اس کے کندھے سے کندھا مار کر بولی۔

"ہاں تو میرا مجازی خُدا  ہے۔عزت دینا توبنتا ہے۔وہ مجھے اتنا مان پیار اور عزت دے رہے ہیں۔ تو بدلے میں انہیں عزت سے نہیں پُکار سکتی۔" وہ چمکتی آنکھوں سے صارم کو سوچ کر بولی۔

"اچھی بات ہے میری جان۔یہ تو بےوقوف ہے اسے اگنور کرو۔" میرو جو کب سے دونوں کی گفتگو ملاحظہ کررہی تھی آخر کار مداخلت کر گئ۔ ماہا نے بھرپور اس کی تاکید کی۔نشوہ دونوں کو گھورتی رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا آخر کار بارات کا وقت بھی آپہنچا۔ماہا اور فاریہ کو فارض صاحب صُبح ہی شہر والے گھر  لے گۓ تھے۔ ویسے بھی بارات کا انتظام شہر کے ہی مشہور میرج ہال میں کیا گیا تھا۔

صارم اور ہشام تیار کھڑے تھے۔صارم اوف وائیٹ جبکہ ہشام کالے رنگ کی شیروانی میں ملبوس تھا۔ دونوں ہی ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہے تھے۔بارات میں اچھے خاصے لوگ شامل تھے۔ اس طرح یہ کارواں اپنی منزل کی جانب رواں ہوگیا۔

وہی دوسری طرف ماہا اور فاریہ پارلر کے تیار ہوکر آچکی تھی۔ فاریہ ریڈ جبکہ ماہا مہرون رنگ کے بھاری لہنگے میں ملبوس تھیں۔بھاری زیورات پہنے اور عمدگی سے کیے گۓ میک اپ کے ساتھ وہ دونوں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھیں۔

میرو اور نشوہ پرپل کلر کے ایک جیسے ڈریس میں ملبوس تھی۔وہ دونوں بھی اچھی لگ رہی تھی۔اب وہ سب لوگ ہال میں موجود بارات کا انتظار کررہے تھے۔

کچھ ہی دیر میں بارات آنے کا شور فضا میں بُلند ہوا۔

پورے جوش و خروش کے ساتھ بارات کا استقبال کیا گیا۔ ہر چیز بالکل پرفیکٹ تھی۔

صارم کب سے بیٹھا پہلو پہ پہلو بدل رہا تھا۔ اتنظار طویل ترین ہوتا جا رہا تھا۔

"حوصلہ رکھ میرے بھائی۔ تیری ہی ہے تجھے ہی ملے گی۔" احان اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا چڑانے والے انداز میں بولا۔

صارم نے ایک زبردست گھوری سے اسے نوازا۔

کچھ ہی دیر میں اس کی بےچینی کو راحت ملی جب اپنی متاعِ جان کو اپنے باپ کے ہمراہ اپنی طرف آتا دیکھا۔چہرہ ڈوپٹے کے پیچھے چُھپا رکھا تھا۔ اس کے باوجود صارم کو اپنی رگ رگ میں سکون دوڑتا محسوس ہوا۔ صارم نے آگے بڑھتے اسے قیمتی متاع کی طرح خود میں سمیٹ لیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ پرپل کلر کے شارٹ فراک میں ہلکے پُھلکے میک اپ کے ساتھ احان آفندی کا دل دھڑکا رہی تھی۔ وہ خود پر ضبط کیے بنا اس کے رُوبرو جا پہنچا۔

"تیز گام ! آج تو تم بھی اچھی لگ رہی ہو۔" احان اس سے دو قدموں کے فاصلے پر ٹھہرتا ہوا بولا۔ نظریں اس کے حسین سراپے میں اٹک کر رہ گئ۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا؟ کہ میں صرف آج اچھی لگ رہی ہوں۔ الحمدللّٰہ میں شروع سے ہی حسین ہوں۔" وہ ایک زبردست گھوری سے اسے نوازتی ہوئی بولی۔

"اچھا مجھے ایسا لگتا تو نہیں ہے تم کہتی ہو تو مان لیتا ہوں۔" وہ احسان کرنے والے انداز میں بولا۔

نشوہ آنکھیں گُھوما کر رہ گئ۔

"ویسے کیا خیال ہے؟" وہ اس کی آنکھوں میں اپنی گہری کالی آنکھیں ڈالتا ہوا بولا۔

"کس بارے میں ؟ میں سمجھی نہیں۔" وہ ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

"موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔ تو کیا کہتی ہو کرلیں نکاح۔" وہ مزید ایک قدم اس کے نزدیک آتا گھمبیر آواز میں بولا۔

نشوہ بھی اس کے سحر میں جیسے جھکڑتی چلی گئ۔ دونوں اردگرد کا ہوش بُھلاۓ ایک دوسرے کو دیکھنے میں محو تھے۔احان نے اس کا یہ انداز محبت سے ملاحظہ کیا تھا۔

"دیکھا میرا سحر تم پر چلنے لگا ہے۔ اب تو مان لو کہ تم بھی مجھ سے محبت کرتی ہو۔خود پر چڑھایا یہ زبردستی کا خول اُتار دو۔ " نشوہ اس کی باتوں پر ہوش میں آتی دو قدم دُور ہوئی۔ پھر اس سے نظریں چُراتی اس کے سامنے سے ہٹتی چلی گئ۔ وہ مزید اس کے سامنے رُک کے اپنے دل کا بھید اس پر عیاں نہیں کرنا چاہتی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا کے بعد فاریہ لڑکیوں کے ہمراہ سہج سہج کر قدم اُٹھاتی ہال میں آئی۔ کامدار دار ڈوپٹے کی پیچھے چُھپا اس کا حسین چہرہ دیکھنے کی شدت سے دل نے خواہش کی تھی۔

وہ لڑکی اس پر سحر پھونک رہی تھی اور ہشام لاشاری قید ہوتا چلا گیا۔اس کا اُٹھتا ایک ایک قدم ہشام۔کے دل پر پڑ رہا تھا۔ وہ اس سحر میں جھکڑا قدم بہ قدم چلتا اس کے قریب تر چلا آیا۔ اس کے قریب آنے پر ساری لڑکیاں سائیڈ پر ہوگئ۔ فاریہ نے جُھکا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ جو آنکھوں میں محبت کا جہاں لیے اس پر نظریں ٹکاۓ کھڑا تھا۔ فاریہ کے قدم لڑکھڑاۓ تھے۔ جب ہشام نے اپنے مضبوط گرفت میں اسے قید کرکے گرنے سے بچایا تھا۔ یکدم پورا ہال تالیوں  اور شور سے گونج اُٹھا۔

فاریہ نے ہوش میں آتے اس کی گرفت سے نکلنا چاہا جو مزید گرفت مضبوط کرگیا۔فاریہ تلملا کر رہ گئ۔ وہ کیسے اتنے نارمل تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ یہی چیز فاریہ کے تن بدن میں آگ لگا رہی تھی۔ وہ ہر گز اسے معاف نہیں کرنا چاہتی تھی۔ہشام نے ڈوپٹے کے اوپر سے ہی  اس کے ماتھے پر محبت بھرا لمس چھوڑا۔ تو فاریہ کے حرکت کرتے ہاتھ تھمے تھے۔ 

ہشام جانتا تھا کہ وہ اس سے ناراض ہے وہ اتنی جلدی اسے ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ مگر کل جب اس کی حسرت بھری نظریں ماہا اور صارم پر ٹکی تھی جانے کیوں ہشام کو اس کی آنکھیں اُداس لگی تھی۔ وہ سب کے سامنے اسے یہ مان دینا چاہتا تھا کہ وہ ہشام لاشاری کی زندگی میں اتنی اہم ہے۔ مگر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ وہ اتنی جلدی اس پر ہرگز یقین نہیں کرے گی۔

"ریلیکس میری جان۔" وہ اس کی آنسو بھری آنکھوں کو دیکھتا اسے پُرسکون کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر و عافیت سے تقریب کا اختتام ہوا۔ ماہا فارض صاحب کے گلے لگ کر خوب روئی۔ اس کی زندگی بدلنے والی تھی۔ اسے دیکھ کر فاریہ کی بھی ہچکیاں بندھ گئ۔ ماہا کو اپنے باپ کے ساتھ یوں لپٹ کر روتا دیکھ اسے اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوا۔ کاش اُس کا بھی باپ زندہ ہوتا جو اس کے شوہر سے اس کو خوش رکھنے کے  وعدے وعید کرتا۔اس کی آنکھوں میں حسد کہی نہ تھا بس حسرت تھی۔

ہشام اس کے نزدیک کھڑا اس کی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت کرتا وہ اسے اپنے ساتھ کا یقین دلا رہا تھا۔ اس وقت فاریہ کو اپنا بھی ہوش نہ تھا۔ اس نے ہشام کی گرفت پر کو ردِعمل نہ دیا۔بلکہ خاموشی میں کار میں بیٹھ گئ۔ ہشام۔دوسری طرف سے آتا کار میں سوار ہوگیا۔ اس کی ہچکیاں وقفے وقفے سے کار میں گونج رہی تھی۔ جو ہشام کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ اب تو وہ اس لڑکی کا ایک آنسو بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا کجا کہ اس کا یوں رونا۔

"فاریہ میری جان۔پلیز رونا بند کرو۔ میں  ہوں نا اپنی زندگی کے لیے۔" وہ اس کے ہچکیاں بھرتے وجود کو خود میں سمیٹ گیا۔ فاریہ نے احتجاج کرتے دُور جانا چاہا مگر وہ مزید گرفت مضبوط کرگیا۔ وہ مسلسل اس کے سینے پر اپنا ہاتھ مار رہی تھی۔

اس کا جھٹپٹانا بند ہوگیا تھا کچھ دیر بعد وہ اپنا وجود ڈھیلا چھوڑ گئ۔ ہشام مسلسل اس کی پیٹھ سہلاتا اسے  پُرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا۔وہ بار بار اس کا ماتھا چومتا اپنے ساتھ کا احساس دلا رہا تھا۔ جب وہ خود کو اس کی گرفت سے آزاد نہ کروا پائی تو آنکھیں موند گئ۔ اس کے پُرسکون ہونے پر ہشام بھی سکون میں آیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر کار تھکا دینے والے سفر کے بعد وہ لوگ حویلی واپس پہنچ چکے تھے۔سب کی تھکن کے خیال سے ماہا اور فاریہ کو جلد ہی روم میں پہنچا دیا گیا۔

ماہا کل رات بھی کتنا ہی وقت صارم کے ساتھ جاگتی رہی تھی اور صُبح بھی نشوہ نے اسے جلد ہی اُٹھایا دیا تھا۔ اب اس کے اعصاب بُری طرح تھکن کا شکار تھے۔ نیند سے خود بخود آنکھیں بند ہورہی تھی۔ وہ صارم کا انتظار کرتی کرتی بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاتی آنکھیں موند گئ۔ اسے احساس بھی نہ ہوا اور وہ رفتہ رفتہ گہری نیند میں گُم ہوتی چلی گئ۔

دو گھنٹوں بعد وہ کزن اور دوستوں کے نرغے سے جان چُھڑاتا کمرے میں آیا تھا۔ ایک نظر بستر پر ڈالی تھی جہاں ماہا محوِ استراحت تھی وہ دروازہ کُھلنے اور بند ہونے کی آواز پر بھی ذرا سا بھی نہ ہلی۔صارم نے شیروانی اُتار کر صوفے پر پھینکی اِس وقت وہ شیروانی کے نیچے پہنے کُرتے میں ملبوس تھا وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آیا۔ چہرے سے گھونگھٹ ہٹا دیا گیا تھا۔ کوئی اس وقت صارم لاشاری سے پوچھتا کہ دنیا کا حسین منظر کیا ہے تو وہ آنکھیں بند کرتے اپنے سامنے موجود اس ہستی کی طرف اشارہ کردیتا۔وہ گہری نیند میں گُم تھی۔اس کا سر ایک طرف ڈھلکا ہوا تھا۔ 

صارم نے سب سے پہلے اسے سیدھا کرکے لٹایا تھا۔ پھر اس کے ماتھے پر استحاق سے جُھکتا شدت بھرا لمس چھوڑ گیا۔وہ ہلی تک نہیں۔ صارم نے اس کی گہری نیند کو رشک سے دیکھا تھا۔ 

ہونٹوں کو چھوتا وہ نتھ کا موتی اس کی دھڑکن بڑھا رہا تھا۔صارم نے اُس موتی کو ہلکا سا لبوں سے چھوا تھا۔پھر اس کی بے آرامی کے خیال سے جیولری اُتار کر سائیڈ ٹیبل پر رکھی۔

لبوں پر لگی ریڈ لپ اسٹک کسی کو بھی اپنا دیوانہ کرسکتی تھی۔ وہ لڑکی مکمل خوبصورتی کا پیکر تھی۔

اس نے محبت سے جُھکتے اس کے چہرے پر سجے ان رنگوں کو سمیٹا تھا۔ اس کی شدتوں پر وہ بے آرام ہوتی کروٹ بدل گئ۔

صارم ایک حسرت بھری نظر اس کے وجود پر ڈالتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"لڑکی یہ اچھا نہیں کیا تم نے۔ کتنے وقت سے اس حسین پل کا انتظار کیا تھا۔" وہ اس کے لاتعلق وجود سے مخاطب ہوتا گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔وہ الماری سے نائٹ ڈریس نکالتا واش روم میں بند ہوا۔ کچھ دیر بعد وہ فریش  سا باہر آیا۔ روم کی لائٹ بند کرتا وہ اس کے ساتھ لیٹ گیا۔ یہ احساس ہی خوش کُن تھا کہ وہ لڑکی ہمیشہ ہمیشہ اس کی زندگی میں لکھی جا چکی تھی۔وہ ایک بار پھر جُھکتا اس کی بند آنکھوں کو چومتا خود میں قید کرگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اس کے سینے سے لگی نیند کی وادیوں میں اُتر چکی تھی۔ ہشام نے اس کے آرام کے خیال سے اسے گود میں اُٹھایا اور اندر کی طرف قدم بڑھاۓ۔ گاؤں کی عورتیں اپنے سردار کا یہ روپ دیکھ کر حیران رہ گئ۔ ایک پل انہیں اس کی گرفت میں قید اس وجود پر رشک آیا تھا۔

 وہ اسے لیے آگے بڑھ رہا تھا جب فاریہ نے مندی مندی آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھنا چاہا یکدم ہی اسے.  اپنی پوزیشن کا احساس ہوا۔ اتنے لوگوں میں وہ ہشام۔کی اس پے باکی پر شرم سے کڑھ کر رہ گئ۔

"ہشام ! یہ کیا بدتمیزی ہے مجھے نیچے اُتاریے ۔میں خود جل سکتی ہوں۔آپ کو نظر نہیں آرہا سب ہنس رہے ہیں۔" وہ دانت پیستی سب کی موجودگی کے خیال سے بولی۔مگر وہ کان لپیٹتا اس کو مزید قریب کیے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

اس نے کمرے میں لا کر اسے بستر پر اُتارا تھا۔

"سمجھتے کیا ہیں خود کو۔کیا ثابت کرنے چاہتے ہیں کہ آپ کو میری بڑی فکر ہے۔یا لوگوں پر اپنی اچھائی کی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں  یہ ثابت کرکے یہ ایک یتیم لڑکی کو اپنا کر آپ نے کتنا احسان کیا اُس پر۔" وہ یکدم اس کے ہاتھ جھٹک کر چلائی۔

"فاریہ ایسا کچھ نہیں ہے یار۔" وہ بےبسی سے اس کا شعلہ جوالا بنا رُوپ دیکھ کر بولا۔

"ایسا ہی ہے۔ اب میں آپ کو بہت اچھے سے سمجھ چکی ہوں۔بار بار لوگوں کے سامنے دکھاوا کرنے سے ہمارے رشتے کی حقیقت بدل نہیں جاۓ گی۔ یقین جانیے آپ بہت اچھا دکھاوا کر لیتے ہیں۔ مجال ہے کوئی جان پاۓ آپ کی فطرت کیا ہے۔" وہ بولتے بولتے ہانپ سی گئ تھی۔

ہشام اس کے بپھرے رُوپ کو دیکھتے سُن کھڑا رہ گیا۔

"چلے جائیے یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی۔" وہ بستر پر لیٹے شدتوں سے رونے لگی۔ ہشام بےبس سا کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔

کمرے میں پھیلی روشنی کے باعث اس کی آنکھ کُھلی۔اس نے مندی مندی أنکھیں کھول کر سامنے لگے وال کلاک کو دیکھا جہاں تقریباً بارہ بجنے والے تھے۔ اس کی آنکھیں حیرت سے کُھل گئ یعنی وہ اتنی دیر سوتی رہی۔ اس نے اُٹھنا چاہا تو خود کو کسی کے محصور میں قید پایا۔اس نے گردن موڑ کر دیکھا تو صارم اسے گرفت میں لیے سو رہا تھا۔اس کی سانسیں ماہا کی گردن جُھلسا رہی تھںں۔ماہا نے اسے خود سے دُور کرنا چاہا مگر وہ اس کے مزید نزدیک ہوگیا۔ ماہا سانسیں تک روک گئ۔رات  کو وہ اس کا انتظار کرتی کرتی جانے کب سو گئ۔اسے بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ رات کے کس پہر آیا تھا۔

"صارم ! پیچھے ہٹیں۔ " وہ اس کے کندھے پر دباؤ ڈالتی ہوئی بولی۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس نے زور سے اس کا کندھا ہلایا تھا۔

صارم نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا۔

"بالکل بھی نہیں ۔ رات اچھے سے تم میرے ارمانوں پر بالٹی بھر بھر کر پانی پھیر چکی ہو۔ مگر میں تمہیں اپنی صُبح ہر گز برباد نہیں کرنے دوں گا۔" وہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈالتا ساتھ لگاتا ہوا بولا۔

"آپ کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔آپ کو ہی شوق چڑھا تھا مہندی والی رات مجھ سے گپیں ہانکنے کا۔" وہ اسے گھورتی ہوئی۔

 صارم نے اس کی گرے آنکھوں کو چوما تھا۔ ماہا کی نظریں جُھکتی چلی گئ۔

"ہاں تو ساری غلطی تمہاری ہے۔ پتا نہیں کونسا منتر پھونکا ہے مجھ پر جو ہر پل تمہارے پاس رہنے کا دل کرتا ہے۔" وہ مخمور سی آواز میں بولا۔

ماہا اسے ٹھیک سے گھور بھی نہ سکی۔

"صارم ! بارہ بج گۓ ہیں۔ سب ہمارا ویٹ کر رہے ہونگے۔" وہ جُھکی پلکوں سے بولی۔

"ہر گز نہیں۔ " وہ ضدی انداز میں بولا۔

وہ مزید کچھ کہتا جب باہر سے دروازہ بجا کر انہیں اُٹھانے کی کوشش کی گئ۔ ماہا نے اس کے تاثُرات دیکھ کر بمشکل اپنی ہنسی روکی۔

اس نے ایک گھوری دروازے پر دوسری ماہا پر ڈالی۔

ماہا نے فوراً اپنی ہنسی ضبط کی۔

"بہت ہنسی آرہی ہے۔" وہ اس کی ہنسی کو دیکھ مصنوعی خُفی سے بولا۔

ماہا کھلکھلا کر ہنستی چلی گئ۔صارم نے محبت سے اس کا یہ رُوپ دیکھا۔اس کی مسکراہٹوں کو وہ خود میں قید کرتا چلا گیا۔

"آج رات کوئی بخشش نہیں ملے گی۔سارے فاصلے سمیٹ لوں گا۔" وہ اس کی کان کی لُو کو چومتا اس کے نزدیک سے اُٹھتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ماہا کا چہرہ گلاب کی مانند کِھلتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے کے تقریب کے لیے ماہا پستہ کلر کی میکسی میں ملبوس تھی۔ وہی دوسری طرف فاریہ پیچ کلر کی میکسی میں ملبوس تھی۔ دونوں ایک سے بڑھ کر ایک لگ رہی تھی۔ فاریہ کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ تھا۔اس کے چہرے پر مسکراہٹ ڈھونڈنے سے بھی نہ مل رہی تھی۔

وہی دوسری طرف ماہا کے چہرے پر اطمینان تھا۔ جب جب وہ صارم کی بےقراریوں کو سوچتی خود بخود شرمیلی سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کِھلتی چلی جاتی۔

ولیمے کا انتظام بھی بارات کی طرح شاندار تھا۔ماہا اور فاریہ تیار تھی ان کی گاڑی پارلر سے نکلتی ہال کے سامنے رُکی۔جہاں ہشام اور صارم انہی کا انتظار کررہے تھے۔گاڑی رُکنے پر صارم فوراً اس کی جانب بڑھا۔ اس کی سائیڈ کا دروازہ کھول کر اس نے اُسے اُترنے میں مدد کی۔چہرے پر پڑے ہلکے سے گھونگھٹ کو اُلٹ کر  اس کی طرف دیکھا۔ وہ مبہوت کھڑا رہ گیا۔ماہا اس کے انداز پر مسکرا کر رہ گئ۔ صارم نے جُھکتے ہوۓ اس کا ماتھا شدت سے چوما تھا۔

"یاد ہے نا میری صُبح والی بات۔" وہ اس کے نزدیک جُھکتے راز داری سے بولا۔

ماہا  نے پلکوں کے ساتھ ساتھ چہرہ تک جُھکا لیا تھا۔ چہرے پر ڈھیر سارے رنگ کھلتے چلے گۓ۔صارم دل پر ہاتھ رکھ کر رہ گیا۔اس نے گہری سانس بھرتے اس کے چہرے کو  واپس ڈھکا تھا۔ اس کا دل گوارہ ہی نہ کرتا تھا کوئی اور اِسے یوں سجا سنورا دیکھا۔

وہ اس کے بازو میں بازو ڈالتا اندر ہال کی جانب بڑھ گیا۔

فاریہ ابھی تک گاڑی میں سر جُھکاۓ بیٹھی تھی۔ اس کی حسرت بھری آنکھیں ان دونوں پر ٹکی ٹھی وہ نظر لگ جانے کے ڈر سے فوراً نظریں جُھکا گئ۔ہشام گہری سانس بھرتا اس کی طرف بڑھا یہ لڑکی اس کی سمجھ سے باہر ہوتی جارہی تھی۔ جب جب وہ سب ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا تو وہ اسے جھٹک دیتی تھی اور پھر خود ہی دوسروں کو یوں دیکھ کر اُداس ہوتی تھی۔ہشام نے اس کی طرف کا دروازہ کھولا اور اس کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ فاریہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا اور خود میکسی سنبھال کر کار سے نکل آئی۔

"فاریہ مجھے ایک موقع تو دو۔ یقین مانو سب ٹھیک کردوں گا۔" وہ اس کے ہاتھ جھٹکنے پر اپنے خالی ہاتھ کی مٹھی بناتا نیچے کر گیا۔

"جانے کتنے موقع آپ کی زندگی میں آۓ اور چلے گۓ تب تو آپ نے موقع سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ پہلے تو میں آپ کی محض پسند تھی اب آپ کو رات و رات ایسی کونسی طوفانی محبت ہوگئ مجھ سے۔ جو یوں میرے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ چھوڑ دیں میرے حال پر جیسے پہلے چھوڑ رکھا تھا۔" وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی ذرا سختی سے بولی۔

وہ مزید کچھ کہتا جب فائزہ بیگم کی موجودگی پر سختی سے لب بھینچ گیا۔

"تم دونوں ابھی تک یہی کھڑے ہو۔ چلو اندر۔ صارم اور ماہا کب کے اندر چلے گۓ۔" وہ ان کو وہی ٹھہرا دیکھ کر ان کے نزدیک چلی آئیں۔وہ ہشام سے سخت ناراض تھا۔ وہ کافی دنوں سے اس سے مخاطب تک نہیں ہورہی تھی۔مگر شادی کی وجہ مہمانوں کے خیال سے وہ ضرورت کی بنا پر اس سے تھوڑا بہت ہم کلام ہو رہی تھیں۔

فائزہ بیگم کی بات پر وہ خاموشی سےاندر کی طرف بڑھ گۓ۔ فائزہ نے پُرسوچ نظروں سے دونوں کی پُشت کو دیکھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خیر و عافیت سے ولیمے کی تقریب کا اختتام ہوا تھا۔کچھ لوگ وہی سے اپنے گھروں کی طرف رواں ہوگۓ تھے۔ کچھ جن کا دُور کا سفر تھا اُن کا صُبح سفر کا ارادہ تھا۔

فاریہ اور ہشام سیڑھیاں چڑھ کے اوپر کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ ہشام۔نے اس کے گرنے کے خیال سے اس کا بازو تھام رکھا تھا۔مہمانوں کی نظروں سے اوجھل ہوتے ہی فاریہ نے اپنا بازو اس کے ہاتھ سے چُھوڑایا اور تیز تیز قدم اُٹھاتی کمرے کی طرف بڑھنے لگی۔ اس کے بےاحتیاطی کے باعث اس کا پیر پھسلا۔ اس سے پہلے کے وہ منہ کے بل زمین پر گرتی ہشام نے فورا اسے تھام کر خود سے لگایا تھا۔

"کبھی کبھی اتنی ضد اور لاپرواہی اچھی نہیں ہوتی۔ ناراضگی اپنی جگہ مگر کبھی کبھار دوسروں کی بات مان لینی چاہیے کیا پتا وہ آپ کے اچھے کے لیے بول رہا ہو۔" وہ اسے لیے کمرے کی طرف بڑھا۔کمرے میں لاکر بھی اس نے فاریہ کو چھوڑا نہیں تھا۔ بلکہ مزید خود کے ساتھ لگایا۔

"میری فاریہ تو میٹھی میٹھی سی تھی۔ میٹھا بولنے والی۔مگر اب تو ضدی اور نخریلی بچی بن گئ ہے۔ مگر تمہارا ہر روپ پیاراہے۔ مجھے تو ضدی سی بچی بھی بہت اچھی لگی ہے۔"وہ انگوٹھے کی مدد سے اس کے دائیں گال پر موجود تل کو سہلاتا ہوا بولا۔

فاریہ حیران سی سانس روکے اس کی باتیں سُن رہی تھی۔

"پیچھے ہٹیں۔ مجھے چینج کرنا ہے۔" وہ جھجھکتی ہوئی بمشکل اپنا جملہ مکمل کرپائی تھی۔

"شش! تھوڑی دیر تو یہ حسین مُکھڑا دیکھنے دو تاکہ اس دل میں موجود ساری تشنگی مٹ جاۓ۔" وہ جھکتا ہوا اس کے ماتھے کو ہونٹوں سے معتبر کرگیا۔

فاریہ اس کے رحم و کرم پر کھڑی تھی۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹکنا چاہتی تھی۔ مگر جانے کیوں وہ یہ نہ کرپائی۔

" آپ نے ہی بدلہ ہی اُس فاریہ کو۔ اب آپ کو مجھ میں برائیاں ہی نظر آئیں گی۔" جانے کیوں وہ خود کو تلخ کہنے سے باز نہ رکھ پائی۔

ہشام نے اس کی بات کا ذرا بھی بُرا نہ منایا۔

"بالکل بھی نہیں۔ مجھے تو کوئی برائی نظر نہیں آئی۔ تمہارا ہر روپ انوکھا ہے اور دل و جان سے عزیز ہے۔" وہ اس کی ناک پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔ بائیں گال پر موجود وہ چھوٹا سا تل اسے شدت سے اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔دل کی آواز پر لبیک کہتے وہ اس تل پر جُھکتا اپنی شدتیں نچھاور کرنے لگا۔ فاریہ گھبراہٹ میں آنکھیں تک بند کر گئ۔ اس کے بدن میں ہلکی ہلکی لرزش محسوس کر کے ہشام نے انچ بھر کا فاصلہ بھی ختم کر کے اسے ساتھ لگایا تھا۔اس کی نظریں بھٹک بھٹک کر لپ اسٹک سے سجے اس کے ہونٹوں پر مرکوز ہورہی تھیں۔وہ چند پل میں ہی ان کی نرماہٹ محسوس کرتا فوراً پیچھے ہوا۔

فاریہ کی بند آنکھیں کُھل چکی تھی۔ ہشام نے اس کی تھکاوٹ کے خیال سے اسے اُٹھا کر بستر پر بٹھایا تھا۔ پھر اس کے قدموں میں جُھکتا ہیلز اُتارنے لگا۔ فاریہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف  دیکھا۔ کیا یہ کوئی خواب تھا؟ وہ کبھی تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ وہ مغرور شہزادہ کبھی جُھک بھی سکتا ہے۔

"میں کپڑے نکال دیتا ہوں۔ چینج کرکے پھر سو جانا۔ میں جانتا ہوں تم تھکی ہوئی ہو۔" وہ اس کی حیرانگی سے کُھلی  اس کی آنکھوں کو چوم کر بولا۔

پھر وارڈروب کی طرف بڑھتا اس کے لیے کپڑے نکالنے لگا۔ قدرے سادہ سا سوٹ نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا تھا۔

فاریہ خاموشی سے اس کے ہاتھ سے کپڑے لیتی واش روم میں گُھس گئ۔بیس منٹ بعد وہ اس بھاری میکسی سے جان چُھڑاتی کِھلی کِھلی سی باہر آئی تھی۔

وہ اسے بستر پر لٹاتا اس کے اوپر کمبل اوڑھتا اس کے بالوں میں انگلیاں چلانے لگا تھا۔ فاریہ کی آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئ۔ اس وقت اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسے جھٹک سکے۔ اس لیے خاموشی سے آنکھیں موند گئ۔ ہشام اس کے سونے کا یقین کرتا بالکُنی کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم اور ماہا نے ایک ساتھ ہی کمرے میں قدم رکھا تھا۔ ماہا کا سر جُھکا ہوا تھا۔ صارم پُر شوخ نظروں سے اسے دیکھنے میں مگن تھا۔ 

صارم کتنی ہی دیر اس کا بےداغ حُسن دیکھتا رہا۔ پھر اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔  جسے جھجکتے ہوۓ ماہا نے تھام لیا۔ کمرے کے جلتی مدھم لائٹ میں اس کے  خوبصورت نقوش واضح ہورہے تھے۔  ماہا نے جُھکا سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔  جو جیسے اس کے نقش نقش میں کھویا ہوا تھا۔ 

صارم نے پورے استحاق سے جُھکتے اس کے ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا۔ 

"ماہا صارم لاشاری ! کیا آپ کو اس معمولی سے بندے کا ساتھ ہمیشہ کے لیے قبول ہے۔" وہ اس کی آنکھیں میں اپنی آنکھیں گاڑھتا ہوا بولا۔

"کس نے کہا آپ عام ہیں؟ آپ تو بہت خاص ہیں۔ آپ کے علاوہ ماہا صارم لاشاری کے دل میں کوئی آ ہی نہیں سکتا۔ آپ کے علاوہ مجھے کسی اور کا ساتھ قبول ہی نہیں ہے۔آپ ہیں تو ماہا ہے۔" وہ اس کے گلے میں بازوہ ڈالے لاڈ سے بولی۔ صارم رُوح تک سرشار ہوا تھا۔

"کتنا پیارا بولتی ہو یار۔دل کرتا ہے تمہارا لفظ لفظ خود میں سمیٹ لوں۔" وہ بےباک سی نظروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔ ماہا خود میں سمٹ کر رہ گئ۔وہ اسے مزید نزدیک کرتا اس کے نقش نقش پر اپنا لمس چھوڑتا اپنے بےقرار دل کو سکون پہنچا رہا تھا۔اس کے ہونٹ ماہا کے نقش نقش پر گردش کررہے تھے۔اس کے ہاتھوں کی بےباکیوں اور اُس کے بےباک لمس پر ماہا شدت سے آنکھیں میچی۔ صارم نے اس کی میچی آنکھوؤں کو چوما تھا۔

اسے خود میں سمیٹے اس نے قدم بستر کی جانب بڑھاۓ۔اسے احتیاط سے بستر پر لٹاتے وہ اس پر جُھکتا چلا گیا۔ان کے بیچ کی ہر رکاوٹ ہٹتی چلی گئ۔ماہا نے بغیر کسی احتجاج کے خود کو اس کے سُپرد کیا۔ جسے محسوس کرکے صارم کی من مانیاں بڑھتی چلی گئ۔

بھیگی بھیگی سی وہ رات اس کی محبتوں کی شدت کی گواہ تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں اندھیرا تھا۔ داخلی دروازہ کُھلا کُھلا تھا جہاں سے ہلکی ہلکی روشنی اندر آرہی تھی۔

"کالی کے آج کل کہاں مصروفیت ہیں۔ پچھلی کافی دنوں سے مجھے وہ نظر نہیں آرہا۔اور اُس سے مجھے کافی شکایت ہیں۔اس کی لاپرواہی میں بالکل برداشت نہیں کروں گا۔" کمرے میں چار نفوس تھا۔ جن میں سے ایک نفس کُرسی پر بیٹھا تھا۔ باقی تینوں نفوس سر جُکھاۓ کھڑے اس کی بات کو سُن رہے تھے۔

"جی باس ! وہ آج کل ایک لڑکی کی پیچھے ہے۔وہ پاگل خبطی کسی کی بھی سنتا تھوڑی ہے۔ " سامنے کھڑا ایک وجود سر اُٹھاتا اس کی طرف  دیکھ کر بولا۔

"اس دفعہ میں اُس کی لاپرواہی بالکل برداشت نہیں کروں گا۔کیا پچھلی دفعہ والے واقعے سے اُسے سبق نہیں ملا۔ اس کو حوالات سے چُھوڑوانے کا کیا فائدہ؟" باس کی غُصّے سے بھرپور آواز در و دیوار میں گونجی۔

"باس یہ وہی لڑکی ہے۔کالی نے اس کا پیچھا چھوڑا ہی نہیں۔" باس کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں اُبھری۔

"ایسا بھی کیا ہے اُس لڑکی میں جو وہ بےغیرت کالی اُس کے پیچھے پاگل ہوا پڑا ہے۔" ان کے بس نہیں چل رہا تھا کہ کالی سامنے ہو اور اُسے کھڑے کھڑے بھون ڈالے۔ اس کی وجہ سے ان کے بہت سے کام ملتوی پڑے تھے۔

"باس ایک اور خبر ہے۔ حال ہی میں اُس لڑکی کی شادی ایک پولیس والے سے ہوئی ہے۔ اور بندہ خاصا سرپھرا ہے۔" اُس آدمی کو جتنی معلومات تھی وہ باس کو بتاتا ہوا بولا۔

"پھر پولیس کے پنگے میں پڑنا چاہتا ہے وہ ذلیل انسان۔ اس دفعہ میں اُسے کسی بھی معاملے سے نہیں چھوڑواؤں گا۔" کالی کی حرکتوں پر ان کے غُصے میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔

"باس وہ لڑکی آج کل اپنے شوہر کے ساتھ یہی آئی ہے۔اور مجھے ڈر ہے کہ کالی کی حرکتوں کی وجہ سے کہی ہم اُس پولیس والے کی نظر میں نہ آجائیں۔" سامنے کھڑے بندے نے اپنا ڈر باس کے سامنے واضح کیا۔

"نظر رکھو اُس لڑکی اور پولیس والے پر اور کالی کو اطلاع بھیجو ہم نے یاد کیا ہے۔" وہ ہاتھ سے ان لوگوں کو جانے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو ،نشوہ اور یزدان واپسی کے سفر پر گامزن تھے۔ میرو اور یزدان آگے جبکہ نشوہ پچھلی سیٹ پر براجمان تھی۔ یزدان نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ نشوہ اسے بالکل مخاطب نہیں کررہی۔ شاید وہ اس سے ناراض تھی۔

"نشوہ گُڑیا! کیا مجھ سے ناراض ہو؟" وہ مرر میں سے ایک نظر پیچھے ڈالتا ہوا بولا۔

"بالکل ناراض ہوں۔کیونکہ آپ نے میرو کو تکلیف پہنچائی تھی۔اور جو میری میرو کو تکلیف پہنچاۓ گا میرا بھی اُس سے کوئی واسطہ نہیں۔" یزدان اس کے انداز پر عش عش کر اُٹھا۔

"واہ میرو سے اتنی محبت اور میرا کوئی خیال ہی نہیں۔" وہ مصنوعی افسوس سے بولا۔

"آپ کی اپنی جگہ ہے مگر میرو کی جگہ میری زندگی میں کوئی نہیں لے سکتا۔ کیونکہ وہ میری بہن ہونے کے ساتھ ساتھ میری اچھی دوست بھی ہے۔ " وہ مسکراتی نظر میرو پر ٹکا کر بولی۔

میرو نے گردن اکڑا کر یزدان کی طرف دیکھا۔جیسے کہنا چاہتی ہو دیکھ لی میری اہمیت۔ اس کے انداز پر یزدان نے مسکراہٹ دبائی۔

"اچھا میری پیاری سی گڑیا۔ معافی مل سکتی ہے۔ میرو کو تکلیف پہنچانے کے بارے میں اب سوچ بھی نہیں سکتا۔ ساری دنیا کو چھوڑ سکتا ہوں پر اسے نہیں۔" وہ محبت بھری نگاہ میرو پر ٹکا کر بولا۔

"ہہمم! جائیے کیا یاد کریں گے معاف کیا۔" وہ احسان کرنے والے انداز میں بولی۔

یزدان نے سر خم کرنے والے انداز میں اس کا شکریہ ادا کیا۔

"ویسے میں صحیح کہتا ہوں میرو۔تم جادوگرنی ہو دیکھو کیسے سب کو اپنے تابع کیا ہے۔ چاہے وہ دا جان ہو نشوہ ہو عرید ہو باقی گھر والے ہو یا آپ کا یہ غلام ہو۔" آخر میں سینے پر ہاتھ رکھتا سر کو ہلکا سا جُھکاتا ہوا بولا۔

 میرو نے خُفی سے اسے دیکھا۔ جبکہ نشوہ نے کھلکھلا کر اس کی بات پر اقرار کی سند لگائی تھی۔

" آپ اور غلام ہو ہی نہ جائیں۔" وہ ناراض نظریں اس پر ٹکا کر بولی۔ نشوہ کی کھی کھی مسلسل جاری تھی۔ میرو نے ایک ناراض نظر اس پر بھی ڈالی اور کھڑکی کی طرف منہ موڑ کر بیٹھ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی جب اچانک شہیر کی طبیعت بگڑ گئ۔دو دن مسلسل ہسپتال میں گُزار کر واپس آۓ تھے۔ وہ ان دنوں شیریں سے ملنے بھی نہ جاسکے۔

ماہ نور  نے ان کی اُداسی نوٹ کی تھی اور یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ شیریں اس دوران نہ ہی ان سے ملنے آئی تھی اور نہ ہی کال کی تھی۔شاید انہیں ان کی طبیعت کا علم نہ تھا۔ ماہ نور  نے کچھ سوچ کر شیریں کو کال ملائی تھی۔

"السلام علیکم آپی ! کیسی ہیں؟" دوسری طرف سے کال اُٹھانے پر ماہ نور نے ان کا حال احوال پوچھا۔

"وعلیکم السلام! میں ٹھیک ہو تم سناؤ۔ باقی گھر میں سب ٹھیک ہیں۔" اس وقت میں ان کے دوران کافی فاصلہ آچُکا تھا۔ جسے مٹانے کی ماہ نور نے کوشش تو بہت کی تھی مگر کر نہیں پائیں۔

"آپی شہیر بھائی کی طبیعت پچھلے کچھ دنوں سے کافی خراب ہے۔ مجھے لگا آپ کو بتادوں۔ آپ کو پتا ہونا چاہیے۔" ماہ نور کے منہ سے شہیر کی طبیعت کا سُن کر وہ حقیقتاً پریشان ہوئیں تھی۔

"مجھے تو کسی نے انفارم ہی نہیں کیا۔" دوسری جانب سے شیریں کی شکوہ کرتی آواز اُبھری۔

"سوری آپی وہ سب اتنے پریشان تھے کہ کسی کو یاد ہی نہیں رہا۔ " ماہ نور شرمندہ سے لہجے میں بولی۔ 

"یہ کوئی نئ بات تھوڑی ہے تم لوگوں کو میں یاد کب رہی ہوں۔ ہمیشہ ہی بھول جاتی ہوں۔ " وہ تلخی سے بولیں۔ 

"آپی ایسی بات نہیں ہے۔ " ماہ نور سمجھ ہی نہ آئی وہ کیا کہے۔ 

"اب بتانے کا خیال کیسے آیا۔ " وہ انہیں بخشنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھی۔ 

"آپی ! پلیز ایسا تو مت کہیں۔ وہ شہیر بھائی آپ کا ہی انتظار کررہے ہیں۔ آپ ایک دفعہ اگر حویلی آجاتیں انہیں دیکھنے۔اُنہیں بھی اچھے لگے گا۔" وہ اصل  مُدعے کی بات پر آئیں۔

"میں نہیں آؤں گی ماہ نور۔" وہ صاف انکار کرتی ہوئیں بولیں۔ انہیں شہیر کی فکر تو تھی مگر وہ اس گھر میں نہیں جانا چاہتی تھی۔

"آپی پلیز ! ہماری خاطر نہیں تو شہیر بھائی کی خاطر أجائیے۔" ماہ نور اُسے قائل کرنے والے انداز میں بولی۔

دوسری طرف سے کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔

"میں سوچوں گی اس بارے میں۔" وہ اپنی بات  کہتی پھر سے خاموش ہوگئیں۔ ماہ نور کے لیے اتنا ہی کافی تھا کم از کم وہ اس بارے میں سوچ تو رہی تھیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہے تیز گام کیسی ہو؟" وہ دُھپ سے اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھتا ہوا بولا۔

نشوہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

"کس کے خیالوں میں کھوئی ہو؟ کہیں میری یاد تو نہیں ستارہی تھیں۔" وہ معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتا ہوا بولا۔

"خوش فہمی ہے تمہاری۔" وہ اسے بھرپور گھوری سے اسے نوازتی ہوئی بولی۔

"ویسے تمہاری دلی مراد پوری ہونے والی ہے۔" وہ اس پر اپنی نگاہیں ٹکاتے ہوۓ سنجیدگی سے بولا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا؟ کون سی دلی مراد پوری ہونے والی ہے میری۔" وہ ناسمجھی سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"تم جو چاہتی تھی وہ ہونے والا ہے۔ یہی چاہتی تھی نہ تم کہ میں تمہارا پیچھا چھوڑ دوں اور اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاؤں۔" وہ  اِس پر سے نظریں ہٹاۓ بغیر بولا۔

نشوہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے سانس روکے اسے دیکھا۔تو کیا وہ سچ میں اسے چھوڑنے والا تھا۔

"مجھے لگتا ہے شاید تم میری وجہ سے تنگ آگئ ہو۔میں نہیں چاہتا کہ تم یہ سوچوں کہ میری محبت تمہارے لیے قید ہے۔ایسا وقت آتا جب تم ان سب سے بیزار ہوتی میں ایسا وقت آنے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ گیا۔" وہ اس پر سے نظریں ہٹاتا ناک کی سیدھ میں دیکھتا ہوا بول رہا تھا۔

نشوہ کو اس کی بات ذرا بھی اچھی نہیں لگی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہے تھا وہ یہاں سے غائب ہوجاۓ۔ تاکہ اس کے دل کو بند کرتے الفاظ سنائی ہی نہ دیں 

"میں نے سوچ لیا ہے میں زارا کو ہاں کر دوں گا۔وہ بیچاری کتنے سالوں سے میرے پیچھے خوار ہورہی ہے۔ اس خواری کا مزہ میں بھی تو چکھ چُکا ہوں۔ اب واقعی ہی مجھے اُس سے ہمدردی ہورہی ہے۔ اس لیے سوچا ہے اس کی محبت کو اپنا کر اُسے ایک موقع دے دوں۔" وہ مسکراہٹ روکے اس کے دھواں دھواں چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ چہرہ اشتعال کے باعث سُرخ ہوچکا تھا۔ وہ لڑکی ٹیڑھی کھیر تھی سیدھے طریقے سے ہاتھ میں  آنے سے رہی۔

"جاؤ کیا کر رہے ہو یہاں بیٹھے۔ جاکر اپنی اُس زارا کے ساتھ محبتوں کی پینگیں بڑھاؤ۔" وہ سخت نظروں سے اسے گھورتی ہوئی بولی۔

احان کا دل کیا اس کے انداز پر قہقہے لگاۓ۔ 

جب سے کالی اسے دھمکا کر گیا تھا وہ خاموش سی ہوکر رہ گئ تھی۔ اس کی ایک ہی ضد تھی کہ واپس جانا ہے۔ عرید اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکا تھا۔ اس کی لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ اس کے ساتھ باہر جانے کے لیے راضی نہ تھی۔ اب بھی وہ کمرے میں گُم سُم بیٹھی تھی جب عرید اندر آیا تھا۔

"ازوہ ! جلدی سے ریڈی ہوجائیں۔ ہم باہر جارہے ہیں۔" وہ تحکُم بھرے انداز میں بولا۔ کیونکہ یہ لڑکی ویسے تو اس کی بات سُننے سے رہی۔

"عرید ! میرا من نہیں ہے میں نہیں جاؤں گی۔" وہ بیزاریت بھرے لہجے میں بولی۔

"باہر جائیں گی تو فریش فِیل کریں گی۔ اسی لیے تو لے کر جانا چاہتا ہوں۔" وہ بھی اسے لے کر جانے پر بضد نظر آیا۔

"میں یہی ٹھیک ہوں۔" وہ اس کی باتوں کو اگنور کرتی ہوئی بولی۔

اس کے ضدی انداز پر عرید کے ماتھے پر بل پڑے۔

"ازوہ۔۔۔۔" اس کے لہجے میں وارننگ تھی۔

"پلیز عرید! میری بات سمجھیے۔" وہ آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔ عرید گہری سانس بھر کر رہ گیا۔

وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔

"ازوہ ! میری جان میری بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ یوں کسی کی خاطر اپنی زندگی کو نہیں روکا جاتا۔ وہ انسان تمہیں مینٹلی ٹارچر کرنا چاہتا ہے۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا سمجھانے والے انداز میں بولا۔

"تبھی تو میں کہہ رہی ہوں ہم واپس چلتے ہیں۔" وہ اس کے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھتی منت کرنے والے انداز میں بولی۔

"کیا تمہیں اپنے شوہر کے زورِ بازوؤں پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ تمہاری حفاظت کرسکتا ہے۔ یا تم مجھے اتنا گیا گُزرا سمجھتی ہو کہ میں حالات کا مقابلہ کرنے کی بجاۓ بزدلوں کی طرح بھاگ جاؤں۔ تم جانتی ہو یہ میری جاب کا حصّہ ہے۔" وہ اپنا ہاتھ اس کے گال سے ہٹا چکا تھا۔

ازوہ نے اس کا خفا خفا انداز دیکھا۔ 

"عرید مجھے آپ پر پورا بھروسہ ہے۔  مگر میری زندگی میں آپ کے علاوہ کوئی رشتہ نہیں ہے۔  میری بات سمجھیے نا میں آپ کو کھو نہیں سکتی۔ وہ دھمکی دے کر گیا ہے اگر اُس نے آپ کو نقصان پہنچا دیا تو میں کیا کروں گی۔ " وہ اس کے رُوبرو آتی اس کا رُخ اپنی طرف موڑتی ہوئی بولی۔ 

"ازوہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کو ہم جُھٹلا نہیں سکتے۔ ہر ذی روح جو اس دنیا میں آیا ہے وہ اس کی امانت ہے اور ایک نا ایک دن سب نے واپس جانا ہے۔ تو آپ کیا چاہتی ہیں۔میں بزدلوں کی طرح برائی کے خلاف آواز اُٹھانے کی بجاۓ واپس لوٹ جاؤں اور اپنے پیشے سے غداری کر لوں۔ یقین مانیے ازوہ اگر میں آج واپس لوٹ گیا تو خود سے کبھی نظریں نہیں ملا پاؤں گا۔  اور یہاں سوال صرف تمہارا نہیں بہت سی معصوم جانوں کا ہے۔ " وہ سنجیدہ سی نظر اس پر ڈالتا گھر سے باہر نکل گیا۔ 

ازوہ اس کے یوں خفا ہونے پر پریشان سی ہو گئ۔اسے خود پر غُصّہ آنے لگا تھا آخر کیوں ایسی بات کرکے اُسے ناراض کردیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زارا کب سے کھڑی نشوہ اور احان کو ساتھ بیٹھے دیکھ رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا اُس لڑکی کو احان کی نظروں سے کہیں غائب کردیتی۔ پچھلے تین سالوں سے وہ احان کے ساتھ یونی میں تھی مگر مجال تھی جو اُس نے ایک بھی نظر التفات کی اس پر ڈالی ہو۔ پہلے اسے یہ سکون تھا کہ وہ نہیں تو کوئی بھی نہیں ہے احان کی زندگی میں۔ مگر اس لڑکی کے آنے سے یکدم کایا ایسی پلٹی کہ وہ لڑکی احان کی زندگی میں اس کی محبت بن کر داخل ہوچکی تھی۔ اسے لگا تھا آج نہیں تو کل وہ کسی نہ کسی طرح احان کو زیر کرلے گی مگر اب یہ اسے ناممکنات میں سے ایک لگ رہا تھا۔وہ ایک حسد بھری نظر ان پر ڈال کر پلٹ گئ۔

احان اور نشوہ بینچ پر ایک ساتھ بیٹھے تھے جہاں نشوہ خونخوار نظروں سے اسے گھور رہی تھی۔ جو کتنی آسانی سے اسے چھوڑنے کی بات کررہا تھا۔وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا بےشک اس نے خُود ہی اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔ مگر نشوہ کے خیال سے اسے کسی دوسری لڑکی کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہیے تھا۔

اس کا غُصّہ سے بھرپور انداز دیکھ احان کے دل پر ٹھنڈک سی پڑی تھی یعنی وہ اکیلا ان راہوں کا مسافر نہیں تھا وہ لڑکی بھی اس کی ہمراہ تھی۔

"اپنا ٹائم ضائع مت کرو۔ جا کر اُس چلتی پھرتی میک اپ کی دُکان کو پرپوز کردو۔ یہ نا ہو  وہ بھاگ جاۓ۔" وہ اس پر سے نظریں ہٹا چکی تھی۔

"صحیح کہہ رہی ہو تم۔" وہ اس کے نزدیک سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔ نشوہ کا منہ حیرت سے کُھلا تھا۔ اس کے غُصّے سے کہی بات کا وہ سیریس لے کر منہ اُٹھا کر چل پڑا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا پیچھے سے کوئی چیز اس کے سر میں دے مارے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس گُزرے ایک مہینے میں جہاں ماہا اور صارم ایک دوسرے کے قریب تر چلے آۓ تھے وہی دوسری طرف ہشام اور فاریہ کے درمیان ویسے ہی فاصلے تھے جو چاہ کر بھی سمٹ نہیں رہے تھے۔

فاریہ بالُکنی میں بغیر کسی شال کے کھڑی تھی۔ ٹانگیں جیسے بےجان ہونے لگی تھی مگر وہ تو شروع سے ہی اپنے معاملے میں لاپراہ تھی۔ پچھلے کچھ دنوں میں ہشام نے بھی خاموشی اختیار کرلی تھی شاید وہ اسے وقت دینا چاہ رہا تھا۔ وہ تین چار دن بعد ایک چکر گھر کا لگا لیتا۔وہ یہ سب فاریہ کے آرام کی خاطر ہی کررہا تھا کیونکہ اسے دیکھ کر وہ ہذیانی سی ہونے لگتی تھی معاملات سنبھلنے کی بجاۓ مزید خراب ہونے لگتے۔

وہ آج پورے ہفتے بعد حویلی أیا تھا۔ وہ اس عرصے میں فائزہ بیگم کو منانے کی بھرپور کوشش کر چُکا تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ جب تک فاریہ اسے معاف نہیں کردیتی وہ بھی نہیں کریں گیں۔

وہ تھکا ہارا سا کمرے میں آیا تھا کمرہ سائیں سائیں کررہا تھا۔ وہ بےچین سا ہو اُٹھا تھا۔ پچھلے کچھ دنوں وہ اتنا مصروف تھا کہ گھر کا چکر نہ لگا سکا ورنہ وہ روز رات فاریہ کے سونے کے بعد گھنٹوں اسے نہارتا رہتا تھا۔

بالکُنی  کا کُھلا دروازہ دیکھ کر وہ اسی طرف آگیا تھا۔وہ خود سے لاپرواہ سی غیر مرئی نقطے پر نظریں ٹکاۓ کھڑی تھی۔ہشام نے اپنے گرد اوڑھی شال اُتار کر اس کے گرد لپیٹی تھی۔

فاریہ نے چونک کر سر اُٹھایا۔ وہ اس کے پیچھے کھڑا اپنی شال اس کے گرد لپیٹ رہا تھا۔ یوں کہ فاریہ اس کے حصار میں آگئ تھی۔ یہ لمحوں کا کھیل تھا وہ اسے شال اوڑھا کر فوراً پیچھے ہوا تھا۔ اس کی نظر اس کے ہلکے ہلکے سُوجھے پاؤں پر پڑی تھی۔ اس کے ماتھے پر لاتعداد شکنیں اُبھری۔ 

"فاریہ پلیز یار! مجھے تمہاری ساری سزائیں منظور ہیں مگر خود کو یوں تکلیف پہنچا کر مجھے مزید ندامت میں مت گراؤ کہ میں سر ہی نہ اُٹھا سکوں۔ یار جو تم چاہتی ہو کر تو رہا ہوں۔پوری کوشش کرتا ہوں کہ کم سے کم تمہارے سامنے آؤں۔ مگر پھر بھی تم خود کو سزا دے رہی ہو۔کیوں؟" وہ جو پہلے خود ہی فاصلہ پر کھڑا ہوا تھا پل میں سارے فاصلے سمیٹ کر اس کے نزدیک آ گیا۔

وہ کھوئی کھوئی سی یک ٹک اسے دیکھنے میں مصروف تھی۔

ہشام نزدیک آتا اسے گود میں اُٹھاتا کمرے کی جانب بڑھا۔ ہشام کے لیے حیرت انگیز بات تھی کہ اُس نے کوئی بھی احتجاج نہ کیا تھا۔ بلکہ وہ خاموشی سے اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔ ہشام نے اس میں آئی مثبت تبدیلی کو شدت سے نوٹ کیا تھا۔ وہ اس تبدیلی کے پیچھے کی وجہ جاننا چاہتا تھا۔ ہشام نے اسے احتیاط سے بستر پر لٹایا تھا۔ وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ چکی تھی۔اب وہ خاموشی سے اس کی حرکتیں ملاحظہ کرری تھی جو کمرے میں گھومتا کچھ ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔۔ پھر وہ اسے کمرے سے جاتا ہوا دیکھتی آنکھیں موند گئ۔جب کھٹکے کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں تھی۔وہ اس کے پیروں میں بیٹھا تیل سے اس کے پیروں میں ہلکا ہلکا مساج کررہا تھا۔ اس کی اتنی محبت پر فاریہ کی آنکھیں بھر آئی۔ وہ اس کی محبت ہی تو چاہتی تھی سامنے بیٹھا وجود اسے پُور پُور اس کی محبت میں ڈوبا نظر آیا۔وہ اپنے کام سے فارغ ہوتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔ کچھ دیر بعد وہ ہاتھ دھوتا اس کے نزدیک آیا۔

"کھانا کھا لیا۔" وہ اس کے نزدیک جُھکتا اس سے پوچھ رہا تھا۔

فاریہ کا سر میکانکی انداز میں نہ میں ہلا تھا۔

"میں منگواتا ہوں۔ بنا کھاۓ سونا مت اوکے۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتا کمرے سے نکل گیا۔ایک آسودہ سی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں کا احاطہ کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تقریباً تین گھنٹوں کے بعد وہ گھر لوٹا تھا۔ ازوہ لاؤنج میں بیٹھی اس کا انتظار کررہی تھی۔ جب بیل بجی تھی۔ وہ ناراضگی کے باعث مین ڈور کی چابی لے کر جانا بھول گیا تھا۔ ازوہ  تیزی سے دروازے تک پہنچی اور بنا پوچھے ہی دروازہ کھول دیا۔سامنے کھڑے عرید کو دیکھ کر اس کا دل پُر سکون ہوا تھا۔

عرید کے ماتھے پر اس کی لاپرواہی پر بل پڑے تھے۔ ابھی تو بےشک وہ تھا۔ مگر اس لڑکی نے ایک بار بھی یہ پوچھنا گواراہ نہیں کیا کہ آیا کون دروازے پر

 موجود ہے اور بنا پوچھے ہی دروازہ کھول دیا تھا۔

وہ بنا اس کی طرف دیکھے سائیڈ سے نکلتا اندر کی جانب بڑھا۔

وہ اس کے انداز پر ہکّی بکّی رہ گئ ورنہ جب بھی وہ باہر  سے آتا تھا۔  ہمیشہ وہ اسے سینے سے لگا کر اس کا ماتھا چومتا تھا۔ مگر آج اس کا یوں لاتعلق ہوکر نکل جانا اس کی آنکھیں بھر گیا۔

وہ فوراً سامنے آتی اس کا بازو تھام گئ۔

"عرید ! آئی ایم سوری۔ آپ پلیز مجھ سے یوں خفا مت ہوں۔ " وہ اس کے بازو سر ٹکاتے روتے ہوۓ بولی۔

"وعدہ کرتی ہوں آئندہ ایسی کوئی بات نہیں کروں گی۔ میں واقعی ہی ڈر گئ تھی۔  آپ کے علاوہ میرا ہے ہی کون۔  اگر آپ کو کچھ ہوا تو ازوہ بھی مر جائیں گی۔" مسلسل اس کی ہچکیاں اردگرد گونج رہی تھیں۔عرید لب بھینچ کر رہ گیا۔

وہ خاموشی سے اسے تھامتا خود سے لگا گیا۔وہ اس کے احساسات کو سمجھ رہا تھامگر یہ بھی کہاں گوارہ تھا کہ وہ کسی کے خوف سے خود کو یوں محدود کریں۔

"آپ جو کہیں گے وہی کروں گی بس مجھ سے خفا مت ہوں۔ آپ کی یہ ناراضگی  میری جان لے لے گی۔" وہ اِس کے سینے میں سر چُھپاتی ہوئی بولی۔

"سچی جو میں کہوں گا وہ کریں گی۔" وہ اس کی اُداسی دُور کرنے کی غرض سے شرارتی چمک آنکھوں میں بھرتا ہوا بولا۔

ازوہ اس کے انداز پر غور نہ کر پائی۔اس کے سینے سے سر نکالتی زور و شور سے ہاں میں سر ہلا گئ۔

عرید نے بےباک سی نظروں سی نظروں سے اس کا حسین چہرہ دیکھا۔اس کی نگاہوں کا فوکس اپنے لبوں پر محسوس کرکے وہ شرم سے سر جُھکا گئ۔

"خود ہی تو کہہ رہی تھی کہ میری ناراضگی دُور کرنے کے لیے میری ساری بات مانو گی۔” وہ بڑی معنی خیزی سے اس کے سراپے پر نظریں گاڑھتے ہوۓ بولا۔

"جی نہیں آپ کی ناراضگی دُور ہوچکی ہے۔" وہ ناک چڑھاتی ایک قدم پیچھے کی جانب بڑھا گئ۔ اس سے پہلے کہ وہ اسے تھامتا وہ اس کی پہنچ سے دُور ہوتی پیچھے کی جانب بھاگی۔عرید ایک ہی جُست میں اس کی کلائی تھامتا اسے کا وجود قید کرچکا تھا۔

"نو بےبی! چیٹنک بالکل بھی نہیں۔ اپنی بات سے مُکر نہیں سکتی۔" وہ اپنی ناک اس کی گردن پر سہلاتا ہوا بولا۔

اپنے دل کی آواز پر وہ اس کے چہرے پر جُھکتا من مانیاں کرتا چلا گیا۔ازوہ خُود میں سمٹنے پر مجبور ہوگئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے ناراض ہوکر وہ لائبریری میں آگئ۔

"پتا نہیں سمجھتا کیا ہے  وہ احان بدتمیز خُود کو۔" وہ من ہی من میں احان کو سخت سُناتی ہوئی بولی۔

جانے کتنی ہی دیر وہ لائبریری میں بیٹھی اپنی اسائنمنٹ بناتی رہی۔ جو پہلے تو اس کا ارادہ احان کی مدد سے بنانے کا تھا مگر اب وہ اس سے ناراض تھی اُسے بتانا چاہتی تھی کہ وہ اُس کی مدد کے بغیر بھی بنا سکتی ہے۔

اسائنمنٹ مکمل کرکے اس  نے جُھکا سر اُٹھایا تھا جب اس نے ارد گردنظر ڈالی پوری لائبریری خالی تھی اس نے گھبرا کر اردگرد دیکھا کوئی بھی موجود نہ تھا۔ شام کے تقریبا چار بجے کا وقت تھا۔اس نے جلدی جلدی ساری چیزیں سمیٹی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی لائبریری سے باہر آئی تھی۔ جب  اسے رُکنا پڑا۔ کیونکہ سامنے ہی زارا خونخوار تیوروں کے ساتھ اسے گھورنے میں مصروف تھی۔ نشوہ نے اسے اگنور کر کے سائیڈ سے گزرنا چاہا جب وہ پھر ایک دفعہ اس کے سامنے آئی تھی۔حقارت بھری نظروں اس کے حجاب اور عباۓ میں چُھپے وجود کو دیکھا تھا۔ 

"میری تم سے کوئی دشمنی نہیں ہے مگر تم نے میرے اور احان کے درمیان آکر اچھا نہیں کیا۔ وہ میرا تھا اور میرا ہی رہے گا۔ تم جیسی بیسوں آئی اور گئیں مگر زارا صدیقی سے سامنے کوئی ٹک ہی نہ پایا۔اور تم کل کی آئی لڑکی خود کو بہت ہوشیار سمجھتی ہو۔" وہ کڑے تیور لیے اس سے استفسار کررہی تھی۔

نشوہ نے بھی بھرپور گھوری سے اسے نوازا۔وہ لڑکی مفت میں اس کے سر چڑھ رہی تھی۔

"میرے راستے سے ہٹوں میں  نے کسی سے کچھ نہیں چھینا۔" وہ وارن کرنے والے انداز میں بولی۔

"ہمم! تم مجھے پاگل نہیں بنا سکتی۔" وہ استہزایہ اندازمیں مسکراتی ہوئی بولی۔

نشوہ اس کی مسکراہٹ کے پیچھے چُھپی کمینگی سمجھ ہی نہ پائی۔ جب زارا نے اسے سمجھنے کا موقع دیا بنا اسے لائبریری کی جانب دھکیلا تھا۔نشوہ اس افتاد پر سنبھل ہی نہ پائی اور کہنیوں کے بل زمین پر اوندھے منہ گری تھی۔ اس کی کہنیاں بُری طرح چھیلی گئ تھی۔ وہ درد سے کراہ کر رہ گئ۔

زارا نے فوراً لائبریری کا دروازہ بند کیا تھا اور باہر سے کُنڈی لگائی تھی۔

نشوہ نے دروازہ بند ہونے کی آواز پر اپنی تکلیف کو اگنور کیا اور اُٹھ کر دروازے کی جانب بڑھی۔مگر دروازہ بند ہوچکا تھا۔

"دروازہ کھولو زارا۔ میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں۔" نشوہ نے دروازہ بجاتے غُصّے سے کہا۔

"بالکل بھی نہیں یہی سڑو گی تم۔" دروازے کے پار سے زارا کی آواز گونجی۔

لائبریری کے باہر لگے بورڈ کو دیکھ کر زارا کی شیطانی آنکھیں چمکی۔

اس نے سوئچ پر ہاتھ رکھ اسے اوپر کو اُٹھا دیا۔ دفعتاً لائبریری کے اندر اندھیرا سا چھا گیا۔ نشوہ کی بےساختہ چیخ گونجی مگر سُننے والا کوئی نہ تھا۔

اس نے گھبراہٹ سے دروازہ پیٹ ڈالا۔

"جب پوری رات یہی سڑو گی نا تب عقل ٹھکانے آۓ گی۔اور جب تمہارے گھر والے تمہیں رات باہر گُزارنے پر دھکے مار کر نکالیں گے۔بہت سکون ملے گا۔ اوکے تم انجواۓ کرو میں چلتی ہوں۔" وہ باہر سے اونچی آواز میں بولتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔ نشوہ نے اس کے قدموں کی آواز کو خود سے دُور جاتامحسوس کیا تو وہ چیخ کر رہ گئ۔

اتنے اندھیرے میں نشوہ کو لگا اس کا سانس ابھی بند ہوجاۓ گا۔وہ لگاتار کھڑی وہاں چیخ رہی تھی۔مگر کوئی ہوتا تو اس کی پُکار سُنتا۔

ہشام کے کمرے سے جاتے ہی فاریہ کل ہوۓ واقعے کے بارے میں سوچنے لگی۔

کل دوپہر شدید بھوک کے احساس سے اس نے قدم کچن کی جانب بڑھاۓ تھے مگر اپنے نام کی پُکار پر اس کے قدم باہر ہی رُک گۓ۔

"تو نے نوٹ کیا جب سے سردار کی شادی ہوئی ہے حویلی ٹکتے ہی نہیں ہیں۔مجھے تو لگتا ہے دادا جان نے زبردستی شادی کروائی ہوگی۔ ورنہ اتنی سوہنی دُلہن ہو کوئی پاگل ہی ہوگا جو دُور دُور بھاگے گا۔" دونوں بڑی راز داری سے مکالمہ بازی کررہی تھی یہ سوچے بغیر کے باہر کھڑے وجود پر ان کی باتوں کا کیا اثر ہورہا ہے۔

"بہن صحیح کہہ رہی ہو تم۔ اب تو خیر سے وہ اس حویلی کو وارث بھی دینے والی ہے۔مجھے بھی معاملہ یہی لگتا ہے۔" ان کی باتوں پر فاریہ کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑھ گیا۔کیا ان کے رشتے کی حقیقت اب باہر والوں پر بھی کُھلنے لگی تھی۔ 

"صحیح کہتے ہیں دُلہن وہی جو پیا من بھاۓ۔" دونوں اپنی باتوں میں مصروف تھی جب ایک ملازمہ کی نظر کچن کے دروازے پر کھڑی فاریہ بر پڑی۔دونوں کو سانپ سُونگھ گیا۔ فاریہ کے چہرے سے وہ اچھے سے اندازہ لگا سکتیں تھیں کہ وہ ان کی باتیں سُن چکی تھی۔

فاریہ ابھی بھی نظریں انہی کی طرف ٹکاۓ کھڑی تھی۔ آج محض دو لوگ ان کے رشتے کا اشتہار لگا رہے تھے کل پورا گاؤں لگاتا۔ وہ کس کس کو روکتی۔ یہاں اسے سراسر ساری غلطی اپنی نظر آئی۔ اگر ان کے رشتے میں کشیدگی تھی بھی تو وہ کمرے تک محدود رکھ سکتی تھی مگر اس نے ہشام کو مجبور کیا تھا کہ وہ اس سے دُور رہے۔

"کچھ چاہیے بی بی جی؟" وہ اپنی آنے والی شامت کا سوچتے ہوۓ نہایت دھیمی آواز میں منمناتے ہوۓ بولی۔

فاریہ کچھ کہے بغیر وہاں سے پلٹ آئی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسے لائبریری کا دروازہ کھٹکھٹاتے کافی دیر گُزر گئ مگر کوئی اس طرف نہ آیا۔ دفعتاً روتے ہوۓ اسے اپنے موبائل کا خیال آیا۔ اب یقیناً گھر والے بھی اس کے لیے پریشان ہو رہے ہونگے۔اس نے اندھیرے میں ٹٹول کر نیچے گِرا اپنا بیگ  اُٹھا کر موبائل باہر نکالا تھا۔اس نے سب سے پہلے موبائل کی ٹارچ لائٹ اون کی۔ یونیورسٹی کے اس حصّے میں پہلے بھی سگنلز کم آتے تھے۔ اب دروازہ اور کھڑکیاں وغیرہ بند ہونے کی وجہ سے ایک ہی سگنل آرہا تھا۔

اندھیرے سے وہ شروع سے گھبراتی تھی۔ اندھیرے میں اس کا سانس بند ہونے لگتا تھا۔ حواس کام کرنا چھوڑ دیتے تھے۔ مگر وہ اب تک خود کو سنبھالے ہوئی تھی۔اس نے موبائل ہاتھ میں پکڑے عرید کو نمبر ملانے کا سوچا مگر وہ یہاں تھا ہی نہیں۔ یزدان پھی پچھلے دو دنوں سے ایک میٹنگ کے سلسلے میں شہر سے باہر تھا۔اس کے ذہن میں ناجانے کیوں احان کا خیال آیا۔ اس نے فوراً احان کا نمبر ڈائل کیا۔ مگر دوسری طرف سے فون اُٹھایا نہ گیا۔دفعتاً سارے سگنل ہی گُم ہوگۓ۔وہ روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئ۔ ٹانگیں جیسے بےجان ہونے لگی تھی۔آنکھوں کے آگے اندھیرا چھارہا تھا۔

ایک اور کوشش کرتے وہ اُٹھی اور لائبریری میں چاروں اور گھوم کر سگنل تلاش کررہی تھی۔اس کے حواس گُم ہورہے تھے۔اس کی آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئ۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھول کر بغیر دیکھے پہلے نمبر پر کال ملادی تھی۔ بیل جارہی تھی اور دوسری طرف سے کال  اُٹھا لی گئ تھی۔دوسری طرف سے ماہا کی ہشاش بشاش آواز گونجی۔ماہا کی آواز سُنتی وہ روتے ہوۓ بولی۔

"ماہا! مجھے بچالیں۔ ۔۔۔ میں۔۔۔  لائبریری  میں پھنس گئ ہوں۔میرا ۔۔۔ سانس بند ہورہا ہے۔ ماہا یہاں بہت اندھیرا ہے۔ " وہ بند ہوتی آواز میں بمشکل بڑبڑائی تھی۔

دوسری طرف سے مسلسل ہیلو ہیلو کی آواز آرہی تھی۔ مگر نشوہ کی آنکھیں مکمل طور پر بند ہوچکی تھیں۔ وہ ہوش و حواس سے بیگانہ زمین پر لُڑھک گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہا صارم کا کل واپس جانے کا پلان تھا۔ مہینہ ہوگیا تھا ان کی شادی کو اور دو مہینے ہونے والے تھے اُسے یہاں آۓ۔

وہ اپنے روم میں بیٹھی تھی جب موبائل پر آتی نشوہ کی کال دیکھ کر وہ فوراً اُٹھا چکی تھی۔

"کیسی ہو نِشی ؟ آج خیر سے میری یاد آگئ۔" وہ چہکتی ہوئی بولی۔

وہ مزید کچھ کہنا چاہتی تھی جب نشوہ کی ٹوٹی پھوٹی  بےربط سی آواز موبائل فون سے گونجی۔پھر یکدم ہی خاموشی چھاگئ۔

"ہیلو  ۔۔۔ ہیلو نشوہ کچھ بول کیوں نہیں رہی۔" وہ مسلسل اسے پُکار رہی تھی مگر جواب نادارد۔

کال کٹ چکی تھی۔ ماہا گھبراتی ہوئی بستر سے اُتر کر باہر کی جانب بھاگی۔اس کا رُخ لان کی طرف تھا۔ کیونکہ صارم کچھ دیر پہلے ہی وہاں گیا تھا۔ وہ لان میں پہنچتی ہانپ سی گئ تھی۔

"صارم ! جلدی چلیں۔ نشوہ لائبریری میں پھنس گئ ہے۔ اُسے اندھیرا سے ڈر لگتا ہے۔ جلدی چلے میرے ساتھ۔ ہمیں اُسے بچانا ہوگا۔" جتنا وہ اس کی بےربط گفتگو سے سمجھی تھی وہ بتا گئ۔

"ریلکس یار! سانس تو لو پھر بتاؤ کیا ہوا ہے؟ نشوہ کہاں ہے؟" وہ اس کی باتیں سُن کر ٹھٹھکا تھا۔

وہ گہری سانس لیتی اسے کچھ دیر پہلے آنے والی نشوہ کی کال کے بارے میں بتانے لگی۔ جسے سُن کر وہ خود بھی پریشان ہوا۔

"جلدی چلیے صارم۔مجھے جلد سے جلد نشوہ کے پاس جانا ہے۔" وہ روتی ہوئی اسے لے کر جانے بر بضد تھی۔

"ماہا یار صبر کرو مجھے کچھ سوچنے تو دو۔ ہم ابھی بھی نکلے گے ہمیں کم از کم چار پانچ گھنٹے لگ جائیں گے۔" وہ اس کے بار بار جانے کی تان پر ٹوکتا ہوا بولا۔

کچھ سوچ کر اس نے موبائل نکالا اور احان کو کال ملانے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ شیریں بیگم کے کمرے سے اُٹھ کر اپنے کمرے میں آیا تھا۔ کمرے میں آکر اس نے موبائل چارجنگ سے اُتار کر چیک کیا بیس منٹ پہلے نشوہ کی کال آئی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوۓ اسے کال بیک کی۔ مگر دوسری طرف سے کال نہ اُٹھائی گئ۔

"لگتا ہے میرے کال نہ پِک کرنے پر ناراض ہوگئ ہے۔ بالکل پاگل ہے۔" وہ موبائل کو دیکھ کر گہرا مسکرایا تھا خیالوں میں اُس پری وش کا چہرہ تھا۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم تھا جب موبائل بج اُٹھا صارم کی کال تھی۔

اس نے فوراً پِک کی۔

"صارم۔۔۔۔۔۔" وہ حال احوال پوچھتا اس سے پہلے ہی صارم اسے ٹوک چُکا تھا۔

"احان میری بات غور سے سُن۔ابھی کچھ دیر پہلے ماہا کو نشوہ کی کال آئی تھی وہ لائبریری میں پھنس گئ ہے تو پلیز جا کر چیک کرلے۔" صارم اسے ٹوکتا بنا ٹائم ضائع کیے ایک ایک بات بتاتا ہوا بولا۔

"کیا بکواس کررہا ہے؟ وہ اس وقت یونی میں کیا کررہی ہے۔؟" وہ ماتھے پر بل ڈالے بولا۔

"احان سوال جواب بعد میں کرنا تو پہلے جاکر چیک کرلے۔ پلیز" صارم اپنی بات کہتا فون بند کرچُکا تھا۔

احان کال بند ہونے پر فوراً باہر کی جانب بھاگا تھا۔ اب اسے حقیقتاً نشوہ کی فکر ہونے لگی تھی۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ہاں بولو کیا خبر ہے؟" باس سامنے کھڑے بندے کو دیکھ کر بولا۔ جسے ازوہ اور عرید پر نظر رکھنے کا کہا تھا۔

"باس آخری دفعہ اُس لڑکی اور اُس کے شوہر کو دو دن پہلے دیکھا گیا تھا۔ اُس کے بعد وہ لڑکی نظر نہیں آئی ہاں وہ پولیس والا روزانہ کسی سے ملنے جاتا ہے۔دو دن پہلے کالی اُس لڑکی کو دھمکا کر آیا تھا شاید وہ لڑکی ڈر گئ ہے اسی لیے گھر سے باہر نہیں نکلی۔" باس نے اس کی بات پر سر ہلایا تھا۔

"اور یہ رہی اس لڑکی اور اس کے شوہر کی تصویر۔" وہ موبائل کی سکرین پر جگمگاتی ازوہ اور عرید کی تصویر سامنے کرتا بولا۔

باس نے پڑے غور سے دونوں کو دیکھا تھا پھر اس کی نظر ازوہ کے حسین مُکھڑے پر اٹک کر رہ گئ۔

"وہ کالی ایسے ہی نہیں دیوانہ ہوا۔ لڑکی تو واقعی ہی خوبصورت ہے۔ کالی سے پہلے وہ لڑکی مجھے میری دسترس میں چاہیے۔ میرا دل آگیا ہے اب اسے میری خواہشات پوری کرنی ہوگی اور اس کے شوہر کو ختم کردو۔ میں نہیں چاہتا کہ میرے کسی بھی کام میں وہ پولیس والا رکاوٹ بنے۔" وہ ہوس بھری نگاہ ازوہ کی تصویر پر ٹکاتا ہوا بولا۔

صاف شفاف بےداغ حُسن پوری طرح اپنی طرف اپیل کررہا تھا۔ 

"مگر باس کالی۔۔۔" وہ مزید کچھ کہتا اس سے پہلے ہی باس اُسے ہاتھ اُٹھا کر بولنے سے منع کرچُکا تھا۔

"اُس کالی کی کیا اوقات میرے سامنے۔ تم سب لوگ میرے ٹکڑوں پر پلتے ہو۔ میرے غلام ہو تم سب۔ اپنی حیثیت کوئی نہ بُھولے اور اُس کالی کی بھی اوقات نہیں مجھ سے سوال جواب کرے۔" باس غُصّے بھری نظریں اس پر ٹکا کر بولا۔

سامنے کھڑا انسان اپنے باس کی حیوانی خصلت سے اچھے سے آگاہ تھا۔ اس کی آنکھوں میں موجود وہ شیطانی چمک وہ اچھے سے دیکھ سکتا تھا۔ مگر اُسے ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ لڑکی اس کے باس کو چاہیے تھی اب وہ ہر حال میں اُسے ان تک پہنچاۓ گا۔

باس کا اصلی نام یہاں کوئی نہیں جانتا تھا سب اسے باس کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو اس تک رسائی حاصل تھی۔ خُرم بھی ان ہی میں سے ایک تھا اس کا خاص بندہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان ریش ڈرائیونگ کرکے یونی پہنچا تھا۔وہ داخلی دروازہ عبور کرتا اندر کی طرف بھاگا۔ اس کا رُخ لائبریری کی طرف تھا۔ شام کے ساۓ پر پھیلانے لگے تھے۔

وہ تیز رفتاری سے بھاگتا لائبریری تک پہنچا جس کے باہر کنڈی لگا کر دروازہ بند کیا گیا تھا۔ اس نے جلدی سے کُنڈی کھول کر دروازو دھکیلا۔ ہلکی سے آواز کے ساتھ دروازہ کُھلتا چلا گیا۔ اندر گُھپ اندھیرا تھا۔ اس نے لائبریری کے باہر موجود سوئچ پر ہاتھ مارا تو اندر روشنی پھیلتی چلی گئ۔ اس نے اندر داخل ہوکر چاروں اور نگاہ دوڑائی تھی اسے زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی ایک سائیڈ پر اسے نشوہ کا وجود نظر آگیا۔ احان کو اُس کا چہرہ نظر نہیں آیا تھا مگر وہ اس کے عباۓ سے اسے پہچان گیا تھا۔ وہ اوندھے منہ زمین پر لیٹی بےہوش پڑی تھی۔ احان کا دل اُچھل کر حلق میں آیا۔

وہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچتا اس کا پےہوش وجود سیدھا کرتا اپنی گود میں اس کا سر ٹکا گیا۔

نشوہ کا وجود پسینے سے شرابور تھا۔آنکھیں سختی سے بند تھی۔ بےہوشی اور مسلسل بند جگہ پر رہنے کی وجہ سے اس کا گلابی چہرہ کملایا پڑا تھا۔ احان کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔

"نشوہ میری جان! آنکھیں کھولو۔" وہ مسلسل اس کا گال تھتھپارہا تھا۔ مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ اس کی نبض دھیمی سی چل رہی تھی۔ احان فوراً اس کے بےہوش وجود کو اُٹھاتا باہر کی طرف بھاگا۔ بےہوش وہ لڑکی پڑی تھی مگر محسوس احان کو ہو رہا تھا جیسے اُسے سانس نہیں آرہا۔ یونیورسٹی سے باہر آکر اس نے قدم اپنی کار کی جانب بڑھاۓ تھے۔ احتیاط سے اسے پچھلی سیٹ پر لٹاتا فرنٹ سیٹ پر آکر بیٹھا۔ پھر اس کی گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی۔

تقریباً دس منٹ بعد اس کی گاڑی ایک چھوٹے سے پرائیویٹ ہسپتال کے سامنے رُکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ نیچے سے کھانا گرم کرواتا خود ہی لیے اوپر کی جانب آگیا۔کمرے میں قدم رکھتے اس نے پہلی ہی نظر فاریہ پر ڈالی تھی جو بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ آنکھیں موندیں بیٹھی تھی۔اس نے بیڈ پر بیٹھ کر ٹرے درمیان میں رکھی تھی۔

"فاریہ ! کھانا کھا لو پھر آرام کرلینا۔" وہ اس کی بند آنکھوں کو دیکھتا ہوا بولا۔

وہ آنکھیں کھولتی سیدھی ہوکر بیٹھی مگر کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھایا۔ہشام نے گہرا سانس بھر کے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھایا تھا دل میں یہ خدشہ بھی تھا کہ کہی وہ اس کا ہاتھ نہ جھٹک دے۔مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب وہ آرام سے اس کے ہاتھ سے کھا گئ۔

کھانے کھانے کے بعد وہ ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھتا اسے مخاطب کر گیا۔

"فاریہ ! میں اب یہ رشتہ تم پر زبردستی نہیں تھوپنا چاہتا۔  میں نہیں چاہتا ہمارے درمیان یہ خلا رہے۔ اس لیے میں نے سوچ لیا ہے کہ اگر تم مجھے معاف نہ کرسکی تو کچھ عرصے کے لیے سب سے دُور چلا جاؤں گا۔  تاکہ تمہیں میری طرف سے کوئی پریشانی نہ ہو ۔میرے خیال سے مجھے کچھ عرصے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔ " وہ اس کے نزدیک سے اُٹھتا الماری کھولتا اس میں سے بیگ نکال کر لے آیا۔ وہ آج آیا بھی اسی مقصد سے تھا۔

فاریہ کو جانے کیوں غُصّہ آنے لگا۔  وہ کیسے جاسکتا تھا اس کی ناراضگی دُور کرنے کی بجاۓ وہ خود حالات سے بھاگ رہا تھا۔  وہ جارحانہ تیور لیے بستر سے اُترتی اس کی جانب بڑھی اس کے ہاتھ میں تھاما بیگ کھینچ کر دُور پھینکا۔ 

"کیوں دُور جانا چاہتے تھے آپ مجھ سے۔میری ذرا سی لاتعلقی آپ سے برداشت نہ ہوئی اور میں جو دو سالوں سے آپ کی لاتعلقی سہتی آئی ہوں اُس کا کیا۔ اپنے پر آئی تو بھاگ نکلے۔ بہت خوب۔" وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی بولا۔

"فاریہ ایسا نہیں ہے یار۔ میں تو بس تمہاری خاطر___" اس نے شعلہ جوالا بنی فاریہ کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔

"ایسا ہی ہے ہشام لاشاری۔ آپ مجھے ایک دفعہ پھر چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔" وہ اس کی بات کاٹ کر چلاتی ہوئی بولی۔

"فاریہ میری جان ! میں نہیں بھاگ رہا یہی ہوں تمہارے پاس۔" ہشام نے اسے تھام کر سینے سے لگایا تھا۔جس حالت میں وہ تھی اتنا غصّہ کرنا اس کی صحت کے لیے اچھا نہیں تھا۔ اس لیے اسے پُرسکون کرنے کی پوری کوشش کررہا تھا۔ اس کے اتنے شدید ریئکشن کی توقع اسے ہر گز نہیں تھی۔

وہ مسلسل اپنا آپ اس کی پنا ہوں سے چھوڑوانا چاہ رہی تھی۔ہشام دھیرے دھیرے اس کا سر تھپکنے لگا۔کچھ دیر بعد اس کا جھٹپٹاتا وجود رُک گیا تھا۔

"ہشام!۔۔۔” فاریہ نے اپنا سر سینے سے اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔

"جی میری جان۔ میری زندگی۔" وہ اس کے آنسو اپنی پوروں سے چُن کر بولا۔

وہ بول کچھ نہیں رہی تھی بس اسے سُننا چاہتی تھی۔

وہ بےساختہ جُھک کر اس کی آنکھوں کو چُوم گیا۔اس کی آنکھوں میں پنپتی حسرتوں کو وہ پڑھ گیا تھا۔یہ وقت واقعی ہی اس لڑکی کو اپنی محبت پر یقین دلانے کا تھا۔وہ اسے اپنی محبت کا مان بخشنا چاہتا تھا۔

"ہشام لاشاری اب مرتے دم تک نہ ہی فاریہ ہشام لاشاری کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ ہی اس بات کو جُھٹلا سکتا ہے۔ کہ اسے عشق ہے اپنی فاریہ کی آنکھوں سے۔ اسے عشق ہے اس کے بولنے کے انداز سے۔ اسے عشق ہے اس کے رُوٹھنے سے۔ اسے عشق فاریہ کی پوری ذات سے۔" وہ بار بار اس کی ماتھے پر لب ٹکاتا اپنی تحفظ بھری آغوش میں قید کرتا ہوا بولا۔

فاریہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے زخموں پر کسی نے مرہم رکھ دیا ہو۔ دو سالوں کی مسافت کے بعد وہ ہشام لاشاری کے دل کی سلطنت پر اپنا قبضہ جما چکی تھی۔

"ہشام! آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ کیا آپ واقعی مجھ سے محبت کرتے ہیں؟"وہ بےیقین سی تھی۔

"بہت محبت کرتا ہوں۔ اب سے نہیں تب سے ہی جب سے تمہیں پہلی بار دیکھا تمہارا وہ گھبرایا سا وجود میرے دل میں نقش ہوکر رہ گیا تھا۔وہ چھوٹی سی ڈول مجھے میرے دل کے قریب لگی۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکاتا انکشافات کرتا اُسے پاگل کررہا تھا۔

"آپ مزاق کررہے ہیں۔" وہ اٹکتی ہوئی بمشکل بولی۔

"نہیں سچ کہہ رہا ہوں۔ فاریہ ہشام لاشاری اوّل روز سے اس دل کی مکین بن گئ تھی۔"وہ دائیں گال پر موجود تل پر نظریں ٹکاتا ہوا بولا۔

"پھر مجھے کیوں اتنا تڑپایا۔" وہ شکوہ کُن انداز میں اکے دیکھتی ہوئی بولی۔

"تب میرا انا بہت اُونچی تھی کسی کے سامنے جُھکنا گوارہ نہیں تھا مگر اب تمہاری خاطر ہمیشہ جُھکنے کو تیارہوں۔" وہ اس کے تل کر مسلسل انگوٹھے سے نرمی سے سہلا رہا تھا۔

"کیا تمہیں  میرا یہ ساتھ ہمیشہ کے لیے قبول ہے۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا ہوا بولا۔

فاریہ نے زوروں شوروں سے ہاں میں سر ہلایا۔

اس کے اقرار پر ہشام نے اس کے ایک ایک نقش کو معتبر کیا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہسپتال کے کاریڈور  میں مسلسل اِدھر سے اُدھر چکر لگا رہا تھا۔جب ڈاکٹر باہر آیا تو وہ فوراً اس کی جانب بڑھ گیا۔اس کے انگ انگ سے بےقراری جھلک رہی تھی۔

"ڈاکٹر کیسی ہے نشوہ وہ ٹھیک تو ہے۔" وہ بےچینی سے ہی ان کو دیکھ کر بولا۔

"جی اب وہ پہلے سے بہتر ہیں۔ مسلسل بند جگہ پر رہنے اور بی پی لو ہونے کی وجہ سے بےہوش ہوئی ہیں۔میرے خیال سے وہ ان سب سے زیادہ کسی ڈر کے زیرِ اثر تھی۔ خیر کچھ ہی دیر میں انہیں ہوش آجاۓ گا۔پھر آپ اُن سے مل سکتے ہیں۔" ڈاکٹر اسے تسلی بخش جواب دیتا آگے بڑھ گیا۔

احان نے  سکون کا سانس بھرا۔ بےساختہ اس کا دل اللّٰہ کے حضور سجدہ شُکر بجا لایا۔

ڈاکٹر کے نشوہ کے ہوش میں آنے کی اطلاع دینے پر وہ فوراً اندر کی جانب بڑھا تھا۔نشوہ اسے دیکھ کر اُٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔ احان نے اسے سہارا دے کر سیدھا بیٹھایا۔ خود وہ اس کے قریب ہی ایک سائیڈ پر بیٹھ گیا۔اسے سامنے دیکھ جانے کیوں نشوہ کی آنکھیں بھرنے لگی۔

احان نے اس کی بہتی آنکھوں کو دیکھ اس کے آنسو پوروں سے صاف کیے تھے۔اسے اپنا ہمدرد پاتے وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگی۔

"احان ! مجھے لگا تھا میں وہی پڑی پڑی مر جاؤں گی پر مجھے کوئی بھی بچانے نہیں آۓ گا۔ میں نے سب کو کتنی آوازیں دی مگر کوئی نہیں آیا۔ وہاں کتنا اندھیرا تھا۔" وہ سانس لینے کو رُکی۔ وہ ہچکیوں کے درمیان بولتی اس کا دل چیر رہی تھی۔ احان نے اس کا ایسا بےبس روپ کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ وہ خود رونے کی بجاۓ دوسروں کو رُولانے پر یقین رکھتی تھی۔

"شش ! کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں آگیا تھا نا اپنی جان کے لیے۔ " وہ اس کے بچوں جیسے انداز پر اسے چُپ کروانے کی غرض سے بولا۔ 

"نہیں تم نہیں آۓ تھے۔ میں نے تمہیں فون بھی کیا تھا۔ کیوں نہیں اُٹھایا میرا فون؟ " وہ آنسو بھری آنکھوں سے اس سے شکوہ کرتی ہوئی بولی۔

"سوری ۔۔۔" وہ اس کے شکوے کے جواب میں معذرت کرتا ہوا بولا جیسے ساری غلطی اسی کی ہو۔احان کا بس نہیں چل رہا تھا اس کے معصوم انداز پر اسے خُود میں بھینچ لے مگر وہ ایسا کوئی حق نہیں رکھتا تھا اس لیے خود پر جبر کرکے رہ گیا۔

"تم اُس زارا کو بالکل بھی اپنی بیوی نہیں بناؤں گے۔ وہ بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔" وہ آنسو پونچھتی تحکُم بھرے انداز میں بولی۔زارا کی حرکت کو یاد کرکے اسے غُصّہ آیا تھا۔

"بالکل بھی نہیں بناؤں گا۔" وہ اس کے مان بھرے انداز پر تحمل سے بولا۔

"ویسے اس کا یہاں کیا ذکر؟" وہ تعجب بھرے انداز میں بولا۔

" اُسی کا تو ذکر ہے۔ اُسی نے مجھے لائبریری میں بند کیا تھا۔ میں نے اُسے کتنا منع کیا۔ کتنا رُوکا مگر وہ لائٹ تک بند کرکے چلی گئ۔ اندھیرے میں میرا سانس بند ہوجاتا تو۔ مجھے اندھیرے سے بہت خوف آتا ہے۔سانس رُکنے لگتا ہے میرا۔اس نے مجھے کتنی بُری طرح دھکا دیا تھا میرے بازو پر چوٹ بھی لگ گئ۔" وہ اپنے بازوؤں پر لگی چوٹ اسے دکھاتی ہوئی بولی۔

"یہ سب زارا نے کیا ہے۔" وہ غُصّے بھرے انداز میں بولا۔

نشوہ نے زوروں شوروں سے سر ہلایا تھا۔

"میں چھوڑوں گا نہیں اُسے۔ اُس کی ہمت کیسے ہوئی تمہیں نقصان پہنچانے کی۔" اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زارا سامنے ہو اور وہ اس کا گلا دبا دے۔وہ احان کا اپنے لیے پوزیسسو روپ دیکھ کر پُرسکون ہوگئ تھی۔

"احان!  میرے بابا اور میرے گھر والے مجھے ڈھونڈ رہے ہونگے۔ عرید بھائی بھی یہاں نہیں ہیں ۔ بابا کو فون کردو۔ " اپنے گھر والوں کے خیال سے وہ پریشانی سے بولی۔ 

احان نے بنا کچھ کہے اثبات میں سر ہلا کر کبیر صاحب کا نمبر پوچھتے کال ملائی تھی۔  جو دو تین بیل کے بعد اُٹھا لی گئ تھی۔  احان نے کال ملاتے فون اس کی طرف بڑھایا تھا۔ جو وہ خاموشی سے تھام گئ۔ 

"بابا ! میں نشوہ۔۔۔۔۔" وہ بامشکل یہ الفاظ ادا کرتی خاموش ہوگئ۔  ایک بار رُکے ہوۓ آنسو پھر سے بہنے لگے تھے۔  احان نے خاموشی سے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر ہسپتال کا پتہ سمجھایا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید کے یہاں نہ ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کی ہی ڈیوٹی تھی نشوہ  کو یونیورسٹی چھوڑنے اور لانے کی۔  ڈرائیور وقت پر اسے لینے پہنچ چُکا تھا وہ ایک گھنٹے تک اس کا انتظار کرتا رہا۔  بار بار گارڈ سے پوچھنے پر بھی اُس نے انتظار  کا کہا تھا۔  جب اتنا ٹائم گُزرنے کے بعد بھی وہ نہ آئی تب انہیں حقیقتاً  پریشانی لاحق ہوئی۔ انہوں نے گھر کے نمبر پر فوراً اطلاع دی تھی۔

کبیر صاحب سُنتے ہی یونیورسٹی پہنچے تھے مگر وہ انہیں کہی نہ ملی۔ وہ کتنی دیر ہی اِدھر اُدھر خوار ہوتے رہے۔ شاہ ویز پھی ان کے ہمراہ تھے۔ حویلی میں الگ خواتین کا سانس خُشک تھا۔ داجان بھی پریشانی سے بار بار دروازے کو نہار رہے تھے۔ میرو نے رو رو کر الگ گھر سر پر اُٹھا لیا تھا۔

شاہ ویز اور کبیر آخر کار تھک ہار کر گھر آۓ تھے اب ان کا ارادہ عرید کو اطلاع دینے کا تھا اپنی سوچ پر عملی جامہ پہناتے اس سے پہلے ہی کبیر کا فون بج اُٹھا۔انجان نمبر سے آئی اس فون کال کو وہ اُٹھا چکے تھے۔ دوسری طرف سے آتی نشوہ کی روتی ہوئی آواز پر سب الرٹ ہوۓ تھے۔ مگر وہ کچھ بولنے کی بجاۓ مسلسل رو رہی تھی۔ پھر اس کے رونے کی آواز بند ہوئی اور کسی لڑکے نے اس کے ہسپتال میں ہونے کی اطلاع دی۔داجان ، کبیر اور شاہ ویز فوراً باہر کی جانب بھاگے تھے۔جلد ہی وہ اس کے بتاۓ ہوۓ ہسپتال کی باہر موجود تھے۔ 

ہسپتال چھوٹا سا تھا اس لیے انہیں نشوہ کو ڈھونڈنے میں زیادہ دقّت بالکل بھی پیش نہ آئی۔

جیسے ہی وہ ہسپتال کے کمرے میں داخل ہوۓ سامنے ہی نشوہ ہسپتال کے بیڈ پر ٹیک لگاۓ بیٹھی تھی۔ اور سامنے صوفے پر موجود اس وجود کو دیکھ کر سب اپنی جگہ تھمے تھے وہ احان کے یہاں ہونے کا تصّوُر بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کبیر ہر چیز کو اگنور کرکے اپنی لاڈلی کی جانب آۓ تھے۔

 انہوں نے فوراً آگے بڑھ کر نشوہ کو سینے سے لگایا تھا۔

"میرا بچہ! بابا کی جان نکال دی تھی آپ نے میری گڑیا۔" وہ اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوۓ بولے۔وہ بھی اپنے باپ کی مہربان ساۓ میں آتے رونے لگی۔

"کیا ہوا میرے بچے کو؟ آپ ہسپتال میں کیسے؟" وہ اسے رُوبرو کرتے ہوۓ بولے۔

"بابا ! میں لائبریری میں بند ہوگئ تھی۔وہاں اتنا اندھیرا تھا۔احان نے مجھے وہاں سے بچایا۔" وہ اپنی حالت کا بتاتی احان کا احسان بتانا نہیں بولی تھی۔

احان نے ایک نرم سی نظر اس پر ڈالی تھی۔

داجان نے بھی آگۓ بڑھ کر نشوہ کا ماتھا چوما تھا۔

کسی کو بھی سمجھ نہیں لگ رہی تھی کہ بات کا آغاز کہاں سے کرے۔جب کبیر صاحب کی شفقت سے بھرپور آواز گونجی۔

"شکریہ احان! میری گڑیا کو بچانے کے لیے۔میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہیں بھولوں گا۔ میری گڑیا میں ہی تو میری جان بستی ہے۔" وہ نشوہ کو اپنے گھیرے میں لیے احان کو دیکھتے ہوۓ بولے۔

"یہ تو میرا فرض تھا۔ نشوہ جتنی آپ کی زندگی میں اہم ہے اُس سے کئ زیادہ وہ میری زندگی میں اہمیت رکھتی ہے۔" وہ نرم نظروں سے اس کا من موہنا چہرہ دیکھ کر بولا۔

گھر والوں کی موجودگی میں اس کی یہ بےباکی نشوہ کا چہرہ گُلنار کر گئ۔وہ کبیر صاحب کے سینے میں منہ چُھپا گئ۔

اس کا اٹل سنجیدگی سے بھرپور انداز سب نے ملاحظہ کیا تھا۔اس کے لہجے میں نشوہ کے لیے موجود محبت کو وہ بخوبی نوٹ کرچکے تھے۔

"چلتا ہوا نشوہ۔ ماما میرا ویٹ کررہی ہوگی۔ یونی میں ملتے ہیں۔" وہ باقی سب کو اگنور کرتا داجان کے قریب سے ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔

داجان نے حسرت بھری نگاہ سے اس کی پُشت کو دیکھا تھا۔

جب وہ بچپن میں اس سے ملنے جاتے تھے تو وہ بڑے بھرپور طریقے سے اسے ملتا تھا مگر جب وہ شہیر صاحب سے خفا ہوا تھا اس کے بعد وہ سب سے ہی خفا ہوگیا تھا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ آئینے کے سامنے کھڑی حجاب سیٹ کررہی تھی۔ جب عرید نے جلدی جلدی کی رٹ لگائی ہوئی تھی۔مگر جانے کیوں اس کا دل گھبرا رہا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ نہ خود ہی کہی جانا چاہتی تھی اور نہ ہی عرید کو جانے دینا چاہتی تھی۔مگر وہ یہ سب کہہ کر عرید کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ 

وہ گہرا سانس بھر کر کمرے سے باہر کی طرف بڑھی۔ جہاں عرید لاؤنج میں بیٹھا اسی کا انتظار کررہا تھا۔ عرید بلیک ٹی شرٹ کے ساتھ بلیک ہی جینز پہنے کافی ہینڈسم لگ رہا تھا۔نیلی آنکھوں میں اس کے لیے خُفی تھی۔

"اتنی دیر لگا دیتی ہو۔ حد کرتی ہو لڑکی۔" وہ اسے لاؤنج میں آتا دیکھ کر بولا۔

 "جانے کیوں میرا دل گھبرا رہا ہے عرید۔" وہ اپنا دل میں آیا خدشہ زبان پر لے ہی آئی۔

"باہر نکلو گی تو ہی فریش فِیل کرو گی۔ خود کو ایسے قید کرو گی تو دل ہی گھبراۓ گا۔" وہ اسے ڈپٹے والے انداز میں بولا۔

ازوہ اس کو سمجھا ہی نہ پائی وہ کیاکہنا چاہتی ہے۔وہ بس اسے دیکھ کر رہ گئ۔

"چلیں۔" وہ اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوۓ بولا۔جسے بغیر تردُد کے وہ تھام چکی تھی۔ وہ اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"باس " خُرم بھاگتا ہوا باس کے کمرے میں آیا تھا۔

"کیا ہوگیا خُرم ؟ کیوں جاہلوں کی طرح کان کھا رہے ہو۔ اگر کوئی بُری خبر لاۓ ہو تو میں تمہاری جان لے لوں گا۔" باس اس کے حواس باختہ چہرے کو دیکھ کر بولا۔ 

باس کی بات پر اس کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگی۔

"بکو! کیا بتانے آۓ تھے۔؟" وہ ماتھے پر بل لاتے ہوا بولے۔

"باس ! کل رات ہمارے دو اڈّوں پر پولیس چھاپا مار چکی ہے۔ اور تو اور ہمارے سارے ہتھیار پکڑے جا چکےہیں۔ اور ہمارے  بہت سے بندے بھی ان کے قبضے میں ہیں۔" خُرم ڈرتے ڈرتے اسے اطلاع دیتا ہوا بولا۔

باس کا کیا بھروسہ غُصّے میں آکر وہ سچ میں ہی اس کی جان نہ لے لیتا۔

"کیا بکواس کررہے ہو؟ چھاپا کل مارا ہے مجھے اطلاع تم اب دے رہے ہو۔سارے کے سارے نکمے بھرے پڑے ہیں۔تم میں سے کوئی بھی کسی کام کا نہیں ہے۔چوڑیاں پہن لو سارے کے سارے بےوقوف۔" وہ اسے گردن سے دبوچ کر دھاڑا۔

خُرم کا چہرہ گردن پر پڑتے دباؤ کی وجہ سے سُرخ ہونے لگا تھا۔اس کا سُرخ چہرہ دیکھ کر باس نے اسے ایک جھٹکے سے چھوڑا۔وہ کھانستا ہوا نیچے جُھکتا گیا۔

"ایک ایک نامرد کو چُن چُن کے جہنم واصل نہ کیا تو کہنا۔ " وہ غُصّے کی شدت سے منہ سے جھاگ اُڑاتا ہوا بولا۔

خُرم نے خوف زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ جو اپنے نقصان پر یوں ہی آپے سے باہر ہوجاتا تھا۔

"کس کی ہمت ہوئی میرے آدمیوں پر ہاتھ ڈالنے کی۔ کون ہے جس میں اتنی ہمت آچکی ہے جو یوں تن کر میرے سامنے کھڑا ہے۔اُس انسان کو زمین میں نہ  گاڑ دیا تو کہنا۔" اس کے غُصّے کو دیکھ کر خُرم بھی گھبرا گیا تھا۔ اسے پتا تھا جب وہ اس انسان کا نام بتاۓ گا تو اس کا ریئکشن کیا ہوگا۔

"باس وہ ایس پی عرید آفندی۔ اُسی لڑکی کا شوہر۔" اس کی ادھوری بات کا مطلب بھی وہ سمجھ چُکا تھا۔اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب باس پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا۔

"بہت خوب ایس پی۔ اب تو میرے مقابل آۓ گا۔ پہلے شاید تجھے بخش دیتا مگر اب تیری موت اٹل ہے۔ " وہ ہنستے ہوۓ یکدم ہی سنجیدہ ہوا۔ آنکھیں غُصّے کے مارے سُرخ ہورہی تھیں۔

"باس میری معلومات کے مطابق وہ کالی کے ساتھ ساتھ ہماری گینگ کو پکڑنے آیا ہے۔" ڈرتے ڈرتے ایک اور معلومات فراہم کی۔

"اُس انسان کو آج کے آج ہی اوپر پہنچا دو۔ زیادہ ہوشیار سمجھتا ہے خود کو میرے سے پنگا لے گا۔ اسے مار کر اُس کی بیوی کو اُٹھا لاؤ۔کسی کو نہیں بخشوں گا۔" وہ حتمی فیصلہ کرتا اب کچھ پُرسکون تھا۔

"جو حکم باس۔" وہ تابعداری سے سر جُھکاتا ہوا بولا۔

"اور وہ کالی بےغیرت کہا رہ گیا میرا پیغام اُس تک نہیں پہنچایا تھا۔" وہ کالی کو سوچتا غُصّے سے دھاڑا۔

"باس آپ کا پیغام پہنچا دیا تھا۔ وہ پہنچنے والا ہے۔" خُرم  اسے کالی کے بارے اطلاع دیتا اب اس کے اگلے حکم کا منتظر تھا۔

"جیسے ہی وہ پہنچے اُسے فوراً میرے پاس بھیجو۔ تم سب کی لاپرواہیوں سے ہی وہ ایس پی میرے سر کو پہنچا ہے۔" وہ اسے ہاتھ کے اشارے سے جانے کا حُکم دیتا ہوا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیریں بیگم حتمی فیصلہ کرتے شہیر صاحب سے ملنے حویلی پہنچ گئ تھی۔ آج کتنے سالوں بعد وہ اس حویلی کے سامنے موجود تھی۔ شادی سے پہلے وہ اکثر یہاں آتی تھی۔ مگر وقت نے ایسی کایا پلٹی تھی کہ اس نے خود کا یہاں آنا خود ہی ممنوع کردیا تھا۔ اس نے آنکھوں میں آۓ موتیوں کو پیچھے دھکیلا تھا اور قدم اندر کی جانب بڑھاۓ تھے۔اس نے لاؤنج میں قدم رکھ کر نظریں چاروں اور گھومائی تھی پورا لاؤنج خالی پڑا تھا۔ اس نے حسرت سے حویلی کی درو دیوار کو دیکھا تھا۔وہ چلتی ہوئی لاؤنج کے وسط میں آگئ تھی۔

سیڑھیاں اُترتی میرو کی نظر اِن پر پڑی وہ بھاگتی ہوئی ان تک پہنچی۔

"شیریں خالہ! آپ یہاں ۔ آپ کو یہاں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی میں بتا نہیں سکتی۔" وہ ان کے گلے میں بازو ڈالتی ان کے سینے سے لگتی ہوئی بولی۔

"کیسی ہے میری گڑیا؟" وہ اس کی پیٹھ تھپکتی ہوئی بولیں۔

"میں بالکل ٹھیک۔ آپ کیسی ہیں؟" وہ لاڈ سے ان کا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی۔

میرو کو ان سے مل کر جو اُنسیت سے محسوس ہوتی تھی وہ لفظوں میں ان کو ہر گز بیان نہیں کرسکتی تھی۔

"کہاں ہیں باقی سب؟" وہ خالی لاؤنج کو دیکھ کر بولیں۔

"آپ بڑے پاپا سے ملنے آئی ہیں۔" وہ شرارتی نظریں ان پر ٹکاتی ہوئی بولی۔

انہوں نے اس کے  شرارتی انداز پر اس کے گال پر چِپت لگا کر اثبات میں سر ہلایا۔

میرو ان کا ہاتھ تھامے شہیر کے کمرے تک لے گئ۔

"یہ رہی آپ کی منزل۔ آپ بڑے پاپا سے ملیے میں تب تک ماما کو بتا کر آتی ہوں کہ آپ آئی ہیں۔" وہ انہیں شہیر کے کمرے کے باہر چھوڑتی ہوئی نیچے کی طرف بھاگ گئ۔

شیریں نے ہلکی سی دستک دے کر دروازہ دھکیلا تھا جو کُھلتا چلا گیا۔

شہیر بستر پر نیم دراز جانے کونسی سوچوں میں گُم تھے۔ ٹینشن لینے کی وجہ سے ان کا بی پی خطرناک حد تک شوٹ کرگیا تھا۔ مگر اب ان کی طبیعت پہلے سے بہتر تھی۔ کھٹکے کی آواز پر انہوں نے دروازے کے جانب دیکھا۔ شیریں کو وہاں دیکھ کر انہیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ 

"شیریں۔۔۔" ان کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ تھے۔

شیریں چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ان کے نزدیک آگئ۔ 

شہیر اب اُٹھ کر بیٹھ گۓ تھے۔

"شیریں ! مجھے یقین نہیں آرہا تم یہاں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتے انہیں اپنے نزدیک بٹھا چکے تھے۔

"پہت شکریہ میرے کہے بغیر یہاں آنے کا۔" وہ ان کا ہاتھ تھامتے ہونٹوں سے لگا گۓ۔

شیریں خاموش بیٹھی تھی بولی کچھ نہیں تھی۔آج جیسے وہ بولنا چاہتی ہی نہیں تھی بس انہیں سُننا چاہتی تھی۔

"شیریں ! تم بہت اچھی ہو۔ میں تمہارے قابل نہیں تھا۔ کاش ہمارے درمیان وہ وقت نہ آیا ہوتا۔تو سب کتنا اچھا ہوتا۔ " وہ اس کے ہاتھ پر سر ٹکا گۓ تھے۔

شیریں خاموش نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ان کے پاس شہیر کی تسلی کے لیے دو بول بھی نہ تھے۔

"شیریں! پلیز گھر لوٹ آؤ۔ میں بہت تھک گیا ہوں۔زندگی کے جو چند دن باقی ہیں انہیں تمہارے اور احان کے ساتھ گُزارنا چاہتا ہوں۔" وہ اُمید بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولے۔وہ ان کی بات پر تڑپی تھی۔

"شہیر پلیز! اس معاملے میں مجھے بےبس مت کریے اس بات کا فیصلہ احان کے ہاتھ چھوڑا ہوا ہے۔ مجھے پتا ہے کہ اگر میں یہاں آنا چاہوں تو وہ مجھے کبھی نہیں روکے گا۔ مگر میں اپنے بچے کو اتنا مان دینا چاہتی ہوں کہ اس کی ماں اس سے بہت محبت کرتی ہے۔" وہ بےبسی سے ان کی طرف دیکھ کر رہ گۓ۔

دونوں جیسے اپنی اپنی جگہ بےبس تھے۔

"ایک دفعہ پیار سے احان کو ڈیل کرکے دیکھیں یقین مانیے وہ آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔بس وہ آپ سے ناراض ہے۔ایک بار زبردستی اُسے گلے سے لگا کر تو دیکھیں۔ کبھی آپ کو نہیں جھٹکے گا۔بلکہ وہ تو خود آپ کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ " وہ ان کا اُداس چہرہ دیکھتی ہوئیں بولی۔

"ہاں میں منا لوں گا احان کو۔" وہ ان کے یقین پر ہاں کی مہر لگاتے ہوۓ بولے۔

شاید زندگی میں ان کے امتحان ختم ہوگۓ تھے۔ یہ تو اب آنے والا وقت بتانے والا تھا کہ واقعی ہی ان کے امتحان ختم ہوچکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدان پچھلے چار دنوں سے شہر سے باہر تھا۔ وہ سب کا بھروسہ پھر سے جیت کر میرو کو سب کی آمادگی کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرنا چاہتا ہوں۔ داجان نے بھی اسے خوشی کا سندیسہ سُنا دیا تھا۔ وہ اس کے واپس آتے ہی سب گھر والوں کے سامنے اپنا فیصلہ رکھنے والے تھے۔

اس نے کچھ سوچتے ہوۓ میرو کا نمبر ڈائل کرکے بلیو ٹوتھ کان میں لگا کر موبائل ساتھ والی سیٹ پر پھینکا تھا۔وہ احتیاط سے کار ڈرائیور کرتا اب میرو کے کال اُٹھانے کا منتظر تھا۔دوسری طرف سے کال اُٹھاٹے ہی وہ شروع ہوچکی تھی۔

"یزدان! کدھر ہیں آپ؟ ابھی تک واپس کیوں نہیں آۓ۔ میں ناراض ہوجاؤں گی۔" میرو کی شکوہ کرتی آواز پر وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔

"لڑکی ! بریک پر پاؤں رکھو۔نہ سلام نہ دُعا۔فوراً ہی گولہ باری شروع کردی۔" وہ مسکراہٹ دبانے کی خاطر ہونٹوں کا کونہ دانتوں تلے دبا گیا۔

"یہ کیا بات ہوئی۔ اب آپ مجھے بولنےسے بھی ٹوکے گے۔پہلے ہی آپ کی وجہ سے میرا بازو جل گیا۔" ایک بار پھر سے شکوہ کرتی آواز گونجی۔

"بازو کیسے جل گیا؟ اور بھئ میری وجہ سے کیسے۔ میں معصوم تو دو دنوں سے گھر ہی نہیں ہوں۔" وہ اس کے ہاتھ جلنے پر واقعی ہی پریشان ہوگیا تھا۔

"یہاں آپ کے حمایتی موجود ہیں۔ ماما کا کہنا ہے کہ وہ مجھے رُخصتی سے پہلے ایک اچھی گھر داری والی لڑکی بنانا چاہتی ہیں.  ہاتھ جلنے کے باوجود انہوں نے مجھ سے کھانا بنوایا ہے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ چھوٹی موٹی چوٹیں تو لگتی رہتی ہیں۔" وہ منہ بسورتی ہوئی بولی۔

"اچھا جانم!  بندہ ناچیز معذرت خواہ ہے۔میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے فون کیا ہے۔ کہ مجھے مزید دیری ہوجاۓ گی۔ شاید ایک ہفتہ مزید لگ جاۓ۔" وہ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔ وہ ابھی گھر کے راستے پر ہی گامزن تھا۔ مگر جانے کیوں اسے تنگ کرکے مزہ آتا تھا۔

"یزدان ! یہ کیا بات ہوئی۔رہیے اب وہاں ہی۔ میں اب آپ سے ناراض ہوچکی ہوں میری طرف سے مہینے بعد آئیں۔" وہ ناراضگی سے بولتی فون کاٹ چکی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید اور ازوہ بہت اچھا وقت ایک دوسرے کے ساٹھ گُزارنے کے بعد ایک ریستوران سے کھانا کھانے کے بعد اب واپس گھر کو جارہے تھے۔  شام کے ساۓ پھیلنے لگے تھے ہوا میں خنکی بھی بڑھ گئ تھی۔ 

"عرید ! آج میں نے بہت انجواۓ کیا۔بہت مزہ آیا۔" وہ عرید کے کندھے پر سر ٹکاتی ہوئی بولی۔

"تم فضول میں گھبرا رہی تھی۔ دیکھو کچھ بھی بُرا ہوا۔نہیں نا۔" وہ اس کو سمجھانے والے انداز میں بولا۔

وہ باہر آکر کافی فریش ہوچکی تھی۔ اس کا ڈر بھی کچھ حد تک کم ہوچکا تھا۔

وہ دونوں ناک کی سیدھ میں ہاتھ تھامے چلتے جارہے تھے۔

اس بات سے بےخبر کوئی ان کی خوشیوں کو نظر لگانے والا ہے۔ 

ان سے کچھ دُوری پر باس کے آدمی عرید کو ختم کرنے سے ارادے سے موجود تھے۔  اور ان کا دوسرا ٹارگٹ ازوہ کو باس کے پاس لے کر جانا تھا۔ 

وہ عرید کا نشانہ نہیں لے پارہے تھے کیونکہ وہ لوگ مسلسل حرکت کررہے تھے۔ 

"عرید ! آپ دنیا کے سب سے بیسٹ ہسبنڈ ہیں۔" وہ  شرارتی انداز میں اس کا گال کھینچ کر بولی۔ 

عرید نے مصنوعی گھوری سے اس کی طرف دیکھا۔

"مگر تم بالکل بھی اچھی بیوی نہیں ہو۔ مجال ہے جو کبھی شوہر کی محبت کی قدر کرلو۔" وہ اسے رُوبرو کرتا اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکا گیا۔

سنسان سے اس راستے پر وہ گہری شام کے وقت ایک دوسرے میں محو سڑک کے پیچ و بیچ کھڑے تھے۔

"میں بہت اچھی بیوی ہوں۔ آپ کے جذبات کی بھی قدر کرتی ہوں۔ " وہ اس سے ایک قدم دُور ہوتی ناک چڑھا کر بولی۔

"پہلی لڑکی دیکھی ہے جو زبردستی اپنی خوبیاں گنوانے کی کوشش کررہی ہے۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا اس کا قائم کردہ فاصلہ پھر سے مٹا چُکا تھا۔

"یہ آپ بار بار دُور جانے کے بہانے کیوں ڈھونڈتی ہیں۔آپ کا راستہ بھی میں ہوں اور آپ کی منزل بھی۔" وہ اس کی پیشانی پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

وہ مزید کچھ کہتی جب ایک گولی فضا میں سفر کرتی ان تک پہنچی تھی 

"عرید۔۔۔۔۔۔" ازوہ کی چیخ سنسان راستے پر گونجی۔پھر کچھ لمحوں کے لیے گہرا سناٹاچھا گیا۔

عرید کے جسم سے بہتا خون دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھی۔بروقت عرید کے پوزیشن بدل لینے پر نشانہ خطا ہونے پر گولی  سینے کی بجاۓ بازو میں پیوست ہوتی چلی گئ۔ ابھی کچھ دیر پہلے عرید نے جیکٹ اُتار کر ہاتھ میں پکڑی تھی۔ ہاف بازو ٹی شرٹ ہونے کی وجہ سے بازو پر بہتا خون صاف نظر آرہا تھا۔ اس کے بازو خون سے بھر چکا تھا۔

عرید نے درد کی شدت کو برداشت کرنے کے لیے سختی سے اپنے لب بھینچے تھے۔وہ فوراً چوکنا ہوتا ازوہ کو اپنی پُشٹ پر کر گیا۔ اس کا رُخ اُس طرف تھا جس طرف سے گولی چلی تھی۔ وہ لوگ بھی الرٹ ہوچکے تھے.  عرید نے اپنے پینٹ کے بیک سائیڈ پر چُھپائی گن باہر نکالی تھی۔ ان آدمیوں کا نشانہ لیتے گولی چلا چُکا تھا۔ پہلی گولی اس آدمی کے ماتھے پر پیوست ہوئی جس نے اس پر حملہ کیا تھا۔باقی آدمی اس کے اتنے اچھے نشانے پر حواس باختہ ہوتے اپنی جان بچانے کے غرض سے بھاگ نکلے۔

ان کے بھاگ جانے پر عرید فوراً اس آدمی کی طرف بڑھا جو زمین پر ڈھیر پڑا تھا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس کی جیب کی تلاشی لی مگر کچھ خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ اس نے موبائل نکال کر عاصم  اور اپنے بندوں کو اطلاع دیتے فوراً یہاں آنے کا کہا تھا۔ 

اسے پورا یقین تھا کہ ہو نا ہو یہ ضرور کالی اور اس کے گینگ کا کام ہوگا ۔ انہیں اپنے نقصان کے اطلاع مل چُکی ہوگی۔ اسی لیے وہ اسے مارنے کے ارادے سے آۓ تھے۔  عاصم کو ساری صورتحال سے آگاہ کرتا خود وہ ہسپتال کی جانب جانا چاہ رہا تھا۔ مگر اس کی آنکھیں بند ہورہی تھے۔ اس کی کنڈیشن کو دیکھتے اس کا ایک ساتھی اسے ہسپتال داخل کروا آیا تھا۔

ازوہ نے رو رہو کر الگ اسے پریشانی میں مبتلا کر رکھا تھا۔وہ اس حالت میں نہیں تھا کہ اسے تسلی دے سکتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر نے عرید کے زخم بر بینڈیج کردی تھی اب وہ نشہ آور ادویات کے باعث بےہوش پڑا تھا۔ازوہ اس کے قریب بغیر پلکیں جھپکاۓ بیٹھی تھی.  آنکھوں سے آنسو ایک منٹ کے لیے بھی خشک نہ ہوۓ تھے۔

جانے  کتنی ہی دیر ایسے ہی گُزر گئ۔جب عرید نے آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھا۔ اپنے بائیں طرف بیٹھے وجود کو دیکھ کر وہ دھیرے سے مسکرایا۔

ازوہ اس کے ہوش میں آنے پر بےتابی سے اس کے قریب آئی۔

"عرید آپ ٹھیک ہیں۔ درد تو نہیں ہورہا۔میں ڈاکٹر کو بلاؤں۔"وہ ہذیانی سے انداز میں  ایک گال اس کے ہاتھ پر ٹکاتی روتی ہوئی بولی۔

"ازوہ ! میری جان میں ٹھیک ہوں۔ ریلیکس رہو۔" وہ اس کی کیفیت سمجھتا نرمی بھرے انداز میں بولا۔

"عرید ! میں کہہ رہی تھی نا ۔ میرا دل گھبرا رہا ہے۔ آپ نے میری بات نہیں مانی۔ اگر آپ کو کچھ ہوجاتا۔ گولی کہیں اور لگ جاتی تو۔" ازوہ کا دل یہ سوچ کر ہی کانپ اُٹھتا اگر اُسے کچھ ہوجاتا۔ یہ سوچ ہی سوہانِ روح تھی۔

"ازوہ ! میں بالکل ٹھیک ہوں یار۔ رونا بند کریں۔" وہ اس کے بہتے آنسوؤں پر جھنجھلاتا ہوا بولا۔

عرید نے گہرا سانس لیتے اپنا بازو اس کے لیے پھیلایا تھا۔بنا وقت ضائع کیے ازوہ اس کے کُھلے بازوؤں میں سمائی تھی۔

اب وہ اس کے سینے پر سر ٹکاۓ بیٹھی اس کی شرٹ بھگو رہی تھی۔

"میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں عرید۔ آپ کو کچھ ہوگیا تو میں بھی مر جاؤں گی ۔ آپ کیوں نہیں سمجھتے آپ کی سانسوں کی ڈور کے ساتھ میری سانسیں میں بندھی ہیں۔" اس کے اظہار مُحبت پر عرید کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی۔ یہ پہلی بار تھا جب اُس نے کُھل کر اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔عرید نے محبت سے اس کے بالوں پر ہونٹ ٹکاۓ تھے۔ نرمی سے اس کی پیٹھ کو سہلایا تھا۔

اس نے عرید کے سینے سے سر نکال کر اس کا چہرہ دیکھا۔جہاں تکلیف کے تاثرات ہونے کے باوجود وہ اس کے لیے مسکرا رہا تھا۔

"عرید ! میں بہت خوش نصیب ہوں۔ اللّٰہ نے میری آزمائشوں کے بعد  مجھے اتنے پیارے انعام سے نوازا ہے۔ میری ساری تکلیفوں کا ازالہ ہوگیا۔ میں آپ کو کسی بھی حال میں نہیں کھونا چاہتی۔ زندگی میں ایک ہی تو اچھی چیز ہوئی ہے میرے ساتھ۔" وہ ذرا سا اُوپر اُٹھتی اس کے گال پر ہونٹ ٹکا گئ۔

اس کی پیش قدمی پر عرید نے حیرانی سے اسے دیکھا۔

"ہمیشہ میرے لیے یوں ہی موجود رہیے گا۔ کیونکہ مجھے ہمیشہ آپ کی ضرورت ہے۔ازوہ آفندی عرید آفندی کے بغیر نامکمل ہے۔" وہ اپنا ماتھا اس کی ٹھوڑی پر ٹکا گئ۔

"اور کیسے پاگل کریں گی مجھے۔ میں تو پتا نہیں کب سے أپ کا اسیر ہوچکا ہوں۔ اس دل میں آپ کی طلب کم ہونے کی بجاۓ رفتہ رفتہ بڑھتی جارہی ہے۔" وہ اس کا چہرہ ٹھوڑی سے اوپر اُٹھاتا ہوا بولا۔

ازوہ نے پلکیں اُٹھا کر اُسے دیکھا وہ محبت بھری نظروں سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ازوہ کی پلکیں خود بخود جُھکتی چلی گئ۔ 

رونے کے باعث اس کا گلابی ہوتا چہرہ عرید کو بےتحاشا حسین لگ رہا  تھا۔وہ لڑکی اپسرہ تھی جو اسے اپنا پابند کرگئ تھی۔

"آپ کا اظہار محبت اتنا خوبصورت تھا۔ مگر آپ کا جگہ کا انتخاب انتہائی غلط تھا۔" وہ افسوس بھری نظروں سے بولا۔

ازوہ نے گھبرانے ہوۓ انگلیاں مڑوڑی۔عرید مسلسل اپنی خُمار بھری نظروں سے اسے پزل کررہا تھا۔

عرید ہم ہسپتال میں ہیں۔ کچھ تو لحاظ کریے۔" وہ اسے شرم دلاتے ہوۓ بولی۔

"نہ میری جان ۔ میرا ماننا ہے جب موقع ملے فائدہ اُٹھا لو۔" وہ مسکراہٹ دباتا اسے سوچنے کا موقع دیے بنا اس کے بائیں گال پر ہونٹ ٹکا گیا۔بایاں بازو تو پٹی میں جھکڑا تھا۔ دایاں بازو اس کے گرد مضبوطی سے حمائل تھا۔ ازوہ خود کو اس کی پکڑ سے آزاد نہ کروا پائی۔

وہ گال سے ہوتا اب اس کی ٹھوڑی پر ہونٹ ٹکا چکا تھا۔گردن پر بالکل سامنے چمکتے اس تل پر نرمی سے اپنی انگلی پھیری تھی۔پھر جُھکتا ہوا  اس تل کو اپنی شدتوں سے مہکا گیا۔

ازوہ نے اس کے کندھے پر دباؤ بڑھاتے اسے جگہ کا احساس دلانا چاہا۔ جب وہ اس کے ہاتھوں کو قبضے میں لیتا مزید منمانیوں پر اُتر آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"یہ کیا ہوگیا مجھ سے؟ اب میں کیا کروں؟" وہ مسلسل کمرے میں اِدھر اُدھر چکر لگا رہی تھی۔ ساتھ ساتھ بڑبڑانا بھی جاری تھا۔

"مجھے فوراً زید کو اس بات سے آگاہ کرنا ہوگا۔" وہ بیگ سے موبائل نکالتی زید نامی شخض کو ملا رہی تھی۔ جو بار بار کوشش پر بھی دوسری طرف سے اُٹھایا نہیں رہا تھا۔

وردہ یزدان کی طرف سے نااُمید ہوتی زید نامی بندے کی طرف مائل ہوچکی تھی۔ زید اس کی دوست کا کزن تھا۔ جس کا دعوٰی تھا کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ وہ نہ تو اُس لڑکی کو اچھے سے جانتی تھی نہ اُس کے کزن کو۔ ان سے ملے اسے محض چند ماہ ہوۓ تھے۔ وردہ بُری طرح اس کی محبت کے جھوٹے بہکاوے میں آچکی تھی۔ زید ایک مڈل کلاس سوسائٹی سے تعلق رکھتا ایک بگڑا ہوا لڑکا تھا۔ جسے وردہ سے کوئی بھی ہمدردی نہ تھی۔ وہ وردہ  کے ذریعے ایک جھٹکے میں امیر ہونا چاہتا تھا۔ 

اس نے وردہ کے سامنے اپنا ایسا امیج بنایا تھا جیسے کہ وہ بہت امیر و کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہو۔ وردہ کو بھی یہی لگتا تھا کہ وہ کسی رئیس زادے کی اولاد ہے۔ وردہ کا حیثیت و مرتبہ اُس سے کئ درجے بہتر تھا۔ بس اسی لیے زید اس کے پیچھے پیچھے خوار ہورہا تھا۔

وردہ آفندی خاندان کو خاص طور پر یزدان کو یہ جتانا چاہتی تھی کہ وہ اس سے کئ گنا بہتر ڈیزرو کرتی ہے۔

مگر اپنی بچھائی اس بساط میں وہ خود ہی اوندھے منہ گری تھی۔ محبت اور ہوس کا فرق بُھلاۓ وہ ہر حد پار کرچکی تھی۔ 

اب اسے احساس ہورہا تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرچکی ہے۔ مگر اب کیا فائدہ جب وہ اپنا سب کچھ لُٹا چکی تھی۔وہ اپنی خواہشات پوری کرنے کے کی خاطر حرام ذریعے سے ایک وجود دنیا میں لانے والی تھی۔

"یہ زید میرا فون کیوں نہیں اُٹھا رہا۔ اگر اُس نے مجھے دھوکا دینے کا سوچا میں جان سے مار دوں گی اُسے۔" وہ بالوں میں ہاتھ پھنساتی ہذیانی سے انداز میں چلائی۔

وہ جلد سے جلد اپنی حالت کے بارے میں اسے آگاہ کرکے اس کی طرف سے رشتہ لانے کے پیشکش کرنے والی تھی۔اس نے یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ ایسا کچھ ہوجاۓ گا۔ مجھے جلد سے جلد اس عذاب سے چُھٹکارا پانا ہوگا۔اس فساد کی جڑ کو ہی ختم کر دوں گی۔

وہ حتمی فیصلہ کرتی اُٹھی تھی۔

حماد صاحب پیسے کی لالچ میں اس قدر آگے نکل چُکے تھے کہ انہیں احساس ہی نہ تھا کہ ان کی بیٹی بھی ان کے نقش و قدم پر چلتی گناہوں کی دلدل میں گرتی جلی جارہی تھی۔ جیسا رویہ حماد صاحب کا اپنی بیوی کے ساتھ تھا اُسے دیکھ وردہ بھی اپنی ماں کو کچھ نہیں سمجھتی تھی۔ وہ بیچاری ان کو سمجھا سمجھا کر تھک چکی تھی۔مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نظر نہیں آرہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صارم اور ماہا ابھی کچھ دیر قبل ہی صارم کے شہر والے فلیٹ میں پہنچے تھے۔ جو پچھلے ڈیڑھ ماہ سے بند تھا۔ہر طرف چھائی دھول مٹی کو دونوں نے کوفت سے دیکھا۔سب انہیں آنے تو نہیں دینا چاہتے تھے مگر صارم کا کہنا تھا بےشک اس کی پڑھائی مکمل ہونے والی ہے مگر ماہا کا ابھی یہ پہلا سال تھا۔ وہ بغیر کہے اس کی بات سمجھ چُکا تھا۔اور اُس کا خود کا بھی شہر میں اپنا بزنس کرنے پلان تھا۔ 

"صارم مجھے بھوک لگی ہے۔" وہ اردگرد جمی مٹی کو اگنور کرتی ہوئی اسے دیکھ کر بولی۔

"کھانا تو میں آرڈر کردوں گا۔مگر فلیٹ کی صفائی ہمیں ہی کرنی ہوگی۔" وہ اس کی منہ بسورتی شکل کو اگنور کرتا ہوا بولا۔ پھر تقریباً ایک  ڈیڑھ گھنٹہ لگا کر انہوں نے پورے فلیٹ کو چمکایا تھا۔اُس کے بعد کھانا کھاتے وہ دونوں رُوم میں آگۓ تھے۔دونوں خاصے تھک چُکے تھے۔

"میری سٹڈی اچھی خاصی اگنور ہوچکی ہے اگر میں فیل ہوگئ تو۔" وہ روتی شکل بناتی ہوئی بولی۔

اُسے تو یہی لگا تھا کہ ہشام شادی کےبعد اسے کہا پڑھنے دے گا۔مگر اسے کیا خبر تھی کہ اس کی شادی صارم سے ہوجاۓ گی۔

"فکر نہ کرو مجھے نالائق بیوی بھی منظور ہے۔" وہ مسکراہٹ دباتا اسے دیکھ کر بولا۔

"کیا مطلب ہے نالائق نہیں ہوں میں۔وہ تو بس مہینے سے اوپر گُزر گیا کوئی کلاس نہیں لی۔" وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی لڑاکا عورتوں کی طرح بولی۔

صارم نے اس کا ہاتھ کھینچتے اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔ 

"دُور سے آواز نہیں آرہی تھی ذرا پاس آکر بتاؤں کیا کہہ رہی تھی۔" وہ اسے بیڈ پر لٹاتا اس کے اردگرد ہاتھ رکھتا شرارتی انداز میں بولا۔

"میں تو آپ کو کتنا شریف سمجھتی تھی مگر آپ تو بےشرم نکلے۔ شادی سے پہلے آپ کتنے معصوم سے لگتے تھے مگر اب اندازہ ہورہا ہے کہ آپ انتہا سے زیادہ بےشرم ہیں ۔" وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی بولی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔

"بےوقوف لڑکی اسے پےشرمی نہیں اسے رومانس کہتے ہیں۔" وہ  اس کے ماتھے پر اپنے پیار کی مہر ثبت کرتا ہوا بولا۔

"ویسے کیا کہہ رہی  تھی تم۔ پڑھائی کا خاصا نقصان ہوگیا۔ چلو ایک ڈیل کرتے ہیں.  میں تمہیں پڑھا دوں گا لیکن۔" وہ لیکن پر آکر تھم گیا 

ماہا نے خوش ہوتے اسے دیکھا مگر اس کے لیکن پر وہ جھنجھلا گئ۔

"کیا لیکن۔لیکن ویکن کچھ نہیں آپ کہ پڑھانا ہی ہوگا۔آخر ہم دونوں الگ تھوڑی ہیں.  آپ پر میرا آپ سے زیادہ حق ہے۔تو بس طے ہوا میری پڑھائی آپ کے ذمے۔" وہ جیسے فیصلہ کرنے والے انداز میں بولی۔

صارم اس کےانداز پر عش عش کر اُٹھا۔

"بالکل صحیح کہا۔ ہم الگ الگ تھوڑی ہیں۔ میں پورا کا پورا تمہارا اور تم پوری کی پوری میری۔" وہ خمار آلود آواز میں کہتا اس کی ٹھوڑی کو اپنے لمس سے مہکا گیا۔

ماہا نے اس کا بہکا بہکا انداز دیکھ اپنے لفظوں کی سنگینی کا اچھے سے اندازہ لگایا وہ جوش جوش میں کچھ زیادہ ہی بول گئ۔

"صارم ۔۔۔ میرا مطلب۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر دوسری جانب سے صارم نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ اسے خاموش کروا دیا۔

"یار تم مجھے پاگل کررہی ہو۔ میں دیوانہ ہورہا ہوں تمہاری ہر ایک ادا کا۔" وہ بولتا بولتا جُھکتا اس کے نقوش کو اپنے لمس سے مہکانے لگا۔

ماہا نے پاگل ہوتی دھڑکنوں کا شور بخوبی سُنا تھا۔ 

"تمہاری پور پور پر صرف اور صرف میرا حق ہے۔" وہ شدت بھرے انداز میں بولا۔

ماہا کو اس کا انداز دیکھ کر حیرانی بالکل نہیں ہوئی تھی۔ ہر معاملے میں ٹھنڈا رہنے والا انسان اس کے معاملے میں شدت پسند تھا۔

وہ دن میں کئ دفعہ اپنے لفظوں سے اپنے عمل سے اسے یہ احساس دلاتا تھا کہ وہ اس کے لیے کتنی اہم ہے۔ اس کے شادی سے پہلے والی باتیں لفاظی ہر گز نہیں تھی وہ اپنے حرف حرف پر پورا اُترا تھا۔

کچھ لوگ واقعی ہی محبتوں کے معاملے میں خوش نصیب ہوتے ہیں اور ماہا صارم لاشاری انہی خوش نصیبوں میں سے تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے میں مکمل اندھیرا کیے کھڑی کے نزدیک کھڑا تھا۔ جب کالی کمرے میں  آتا اسے سلام کرتا اب اس کے بولنے کا منتظر تھا۔ وہ جو اب تک کسی سوچ میں گُم تھا اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"بہت خوب کالی۔اچھا صِلہ دے رہی ہو میری رحمدلی ہے۔اگر تم آج اس مقام پر پہنچے ہو تو اس سب کی وجہ میں ہو۔ یہ مت بولوں کہ اگر میں تمہیں عرش پر بٹھا سکتا ہوں تو زمین پر دوبارہ پٹک بھی سکتا ہوں تم میری دریا دلی کو میری کمزوری نہ سمجھو۔ ایک پل میں سانسیں چھین لوں گا تم سمجھ بھی نہ پاؤ گے گہ تمہارے ساتھ ہوا کیا ہے۔" وہ اس کی طرف مڑتا وارننگ دیتا ہوا بولا۔

"سوری باس! وہ کسی کام میں پھنس گیا تھا۔" وہ خوف زدہ نظروں سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔

"جانتا ہوں تمہارے کاموں کو۔ تم کیا سمجھتے ہو تمہاری حرکتوں سے آگاہ نہیں ہوں. مجھے تمہاری حرکتوں سے کوئی سروکار نہیں مگر اپنے نقصان کی بھرپائی اگر مجھے تمہارے حلق میں ہاتھ ڈال کر بھی پوری کرنی پڑی تو ضرور کروں گا۔" وہ اس کی ضروری کام والی بات پر تپتا ہوا بولا۔

"سوری باس آئندہ احتیاط رکھوں گا۔" وہ منمنانے والے انداز میں بولا۔

باس کے غُصے سے سب ہی ڈرتے تھے۔

"اُس لڑکی کا پیچھا چھوڑ دو۔" وہ ہنکار بھرتا نیا حُکم صادر کرتا ہوا بولا۔

"پر باس! میں وعدہ کرتا ہوں آئندہ احتیاط کروں گا۔ اُس لڑکی کے پیچھے خوار ہوتے مجھے دو سال سے بھی زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے۔ایسے کیسے بخش دوں اُسے۔پہلے تو وہ محض میری خواہش تھی مگر اب وہ میری ضد بن چُکی ہے۔اتنی آسانی سے اس کا پیچھا ہر گز نہیں چھوڑوں گا۔" وہ باس کی بات کے جواب میں اٹل انداز میں بولا۔

"تمہاری اتنی اوقات نہیں کے تم میرے آگے بکواس کر سکو۔ اُس لڑکی کو تو تمہیں چھوڑنا ہی پڑے گا. کیونکہ میری نظر اُس پر پڑ چکی ہیں۔ اور جو چیز میری نظروں کو بھا جاۓ اُسے ہر حال میں میرا ہونا پڑتا ہے۔" وہ اپنی باتوں سے اچھے سے اس کا حیثیت بتا چُکا تھا۔

"لیکن باس۔۔۔۔۔" باس نے ہاتھ اُٹھا کر اسے بولنے سے منع کیا۔ 

کالی غُصّے سے اپنے لب بھینچ گیا۔باس کے رُخ موڑنے پر وہ وہاں سے نکل آیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام بیڈ ریلنگ سے ٹیک لگاۓ بیٹھا اس کے ہاتھوں کے انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاۓ اسے سُن رہا تھا۔ جو کبھی اپنی ادھوری حسرتوں پر اُداس ہوجاتی اور کبھی  خود ہی ایکسائٹڈ ہوتی کوئی نئ بات چھیڑ لیتی۔

"ہشام ۔۔۔۔" جانے اب اُس کے من میں کیا سمائی وہ اس کے سینے سے چہرہ اُٹھاۓ اس کی طرف دیکھ کر اسے پُکار گئ۔

"ہممم! " وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں بولا۔

"ہشام! آپ مجھے سُن کیوں نہیں رہے۔ جائیے میں نہیں بولتی۔"وہ اس کے کھوۓ کھوۓ انداز پر چڑتی ہوئی اس سے دُور ہوتی ناراضگی سے بولی۔

"سوری جانم! جو بھی شکوے شکایات کرنی ہیں پاس ہوکر کریں. اور رہی آپ کو نہ سُننے کے بات تو میری مجال میں آپ کی کسی بھی بات کو اگنور کروں۔"وہ اس کا ہاتھ تھام واپس اسے نزدیک کرتا اپنے سینے سے لگا گیا۔

"جھوٹ مت بولیے۔ آپ مجھے نہیں سُن رہے تھے۔ آپ کسی اور سوچ میں گُم تھے۔" وہ شکوہ کُن انداز میں اس کی دل کے مقام پر انگلی گُھوماتی ہوئی بولی۔

"میں جب تمہارے پاس ہوتا ہوں کوئی اور سوچ مجھ پر حاوی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور اگر تم آس پاس نہ ہی بھی تب بھی یہ دل و دماغ محض تمہارے ہی گرد گھومتا ہے۔" وہ اس کی پیشانی پر ہونٹ ٹکاتا اس کے سارے خدشات دُور کرتا ہوا بولا۔

"میں اپنی بےوقوفی کے ہاتھوں ضائع ہوۓ پچھلے دنوں کو سوچ رہا ہوں۔ کتنی تکلیف دی ہے نہ تمہیں۔ کتنا ستایا ہے۔ کوشش کروں کا تمہاری ساری محرومیوں کا ازالہ کرسکوں۔" وہ اسے مزید نزدیک کرتا اس کی آنکھوں پر ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

فاریہ اس کی جسارت پر اپنی کُھلی آنکھوں کو بند کر گئ۔

آنکھوں کے بعد وہ اپنے ہونٹ اس کے بائیں گال پر موجود تل پر ٹکاتا ہوا بولا۔

یہ تل جیسے اس کے چہرے کو نظر لگنے سے محفوظ رکھتا تھا۔

"ہشام ! مجھے نیند آئی ہے۔" وہ اس کی گرفت سے خود کو چھوڑوانے کی کوشش کرتی ہوئی بولی۔

"آج کوئی بہانا نہیں چلے گا۔ اتنے دن میرے بغیر نیندیں ہی پوری کی ہیں۔ ابھی بھی نیند آرہی ہے۔" وہ اس کے گال کو نرمی سے سہلاتا ہوا بولا۔

وہ پلکیں جُھکا گئ۔ وہ اس کے اقرار پر نرمی سے جُھکتا اسے خود میں سمیٹنے لگا۔

فاریہ اس کی پناہوں میں قید ہوکر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا کسی اچھی خبر کا منتظر تھا جب خُرم دروازہ دھکیلتا اندر آیا۔وہ بغیردیکھے بھی اندازا لگا چُکا تھا کہ آنے والا کون ہے۔

"ہاں خُرم بولو۔ اچھی خبر لاۓ ہو۔ پہنچا دیا اُس پولیس والے کو اوپر۔ اور اُس لڑکی کو میرے کمرے میں پہنچا دیا۔"وہ مغروریت سے پُر لہجے میں بولتا اس کی طرف مُڑا۔

خرم کے چہرے کا اُڑا رنگ دیکھ کر اس کے چہرہ پل میں سپاٹ ہوا۔

"خُرم مجھے ناکام لوگوں سے سخت نفرت ہے۔ اگر کوئی بُری خبر لاۓ ہو تو یاد رکھنا تمہیں زندہ زمین میں گاڑھنے میں ایک پل نہیں لاؤں گا۔" وہ سائیڈ پر پڑا واس پوری قوت سے دیوار میں مارتے ہوۓ دھاڑا۔

خُرم واقعی ہی اس سے خوف زدہ ہوگیا تھا۔

اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی اسے کیسے بتاۓ۔مگر بتانا تو تھا۔

"باس ! وہ دراصل ہم نے اُسے مارنے کی پوری کوشش کی مگر عین وقت پر نشانہ چونک گیا۔ گولی اس کے سینے میں لگنے گے بجاۓ اُس کے بازو میں پیوست ہوگئ۔ اور_" خُرم نے اٹکتے اٹکتے اپنی بات مکمل کی۔

"اور کا کیا مطلب۔ ابھی بھی اپنی بزدلی کا کوئی قصّہ سنانا باقی ہے۔" اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ خُرم کے سر میں اپنی ساری پسٹل خالی کردے ۔

باس نے خونخوار نظروں سے اسے گھورا۔

"وہ ہمارا شارپ شوٹر اس پولیس والے کی گولی کا شکار ہوتے موت کا شکار ہوچکا ہے۔"اس کے کہنے کی دیر تھی کہ باس نے پسٹل نکال کر اس کا سر کا نشانہ لیا تھا۔

"کیا کہتے ہو اُتار دوں یہ ساری گولیاں تمہارے اندر۔ اب تم میرے کسی کام کے نہیں۔ کیا فائدہ تمہارا جب مجھے ایک سے ایک نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔" وہ اس کے ماتھے پر پسٹل تانے غُصّے کی کیفیت میں بولا۔

"آخری بار معاف کردیں باس۔میں وعدہ کرتا ہوں اس دفعہ پوری کوشش کروں کا۔ مگر ضرور کامیاب ہونگا۔ بےشک مجھے اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانی پڑے۔" وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑتا منمناتا ہوا بولا۔

وہ اسے چھوڑ کر کمرے کی ایک ایک چیز تہس نہس کرنے لگا۔ اسے یہ بات برداشت نہیں ہورہی تھی کہ وہ بار بار عرید کے ہاتھوں شکست کھا رہا ہے اُسے یہ ہار قطعی برداشت نہیں تھی۔ 

اس نے غُصّے میں آکر پسٹل کا رُخ خُرم  کی طرف کرکے اس کا نشانہ لیا تھا خُرم کی چیخ کمرے میں گونجی تھی۔

"اس دفعہ گولی محض بازو کو چھو کر گُزری ہے اگلی بار اگر تم اُس ایس پی کے دل میں گولی اُتار کر اُس کا سانس بند کرکے نہ آۓ تو اپنے پسٹل کی ساری گولیاں میں تمہارے سینے میں اُتار دوں گا۔" وہ اسے وارن کرنے والے لہجے میں بولا۔

خُرم کا چہرہ درد برداشت کرنے کے چکر میں سُرخ ہوگیا تھا۔وہ ایک ہاتھ زخم پر رکھے ہونٹ بھینچے اثبات میں سر ہلا گیا۔

سارے گھر والے اس وقت لاؤنج میں موجود تھے۔ شہیر بھی شیریں کی موجودگی کے باعث آج کتنے دنوں بعد کمرے سے باہر آتے سب کے ساتھ بیٹھے تھے۔گھر کے تمام افراد ماسواۓ یزدان ،شاہ ویز اور نشوہ سب ہی موجود تھے۔

شیریں بیگم سب سے لیے دیے انداز میں ملی تھی۔ وہ صرف شہیر کے لیے یہاں موجود تھی وہ جتنا بھی اس بات کو جھٹلاتی وہ ان کے شوہر تھے۔ ان کے اکلوتے بیٹے کے باپ۔ وہ کیسے خود غرض بن سکتی تھی۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ احان کی خوشیاں کہی نا کہی اُس کے باپ اور اس خاندان سے جُڑی تھی۔ وہ کہی نا کہی خود بھی یہی چاہتی تھی کہ احان کو اُس کا حق ملے وہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ گُھل مل کر رہے۔ وہ احان کی خاطر یہاں ان سب کے درمیان موجود تھی۔ 

"اب میں چلتی ہوں کافی وقت ہوگیا۔ احان یونی سے آنے والا ہوگا۔ اُسے میں گھر پر نہ ملی تو بےچین ہوجاتا ہے۔" وہ سب کی طرف دیکھتی صوفے سے اُٹھتی ہوئیں بولیں۔

شہیر ان کے جانے کی بات پر  کچھ ڈسٹرب ہوگۓ تھے۔وہ تو انہیں ہمیشہ سے اپنے اس آشیانے میں روکنے کے تمنائی تھے۔

کسی نے بھی انہیں رُکنے کے لیے نہیں کہا تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ احان کے بغیر یہاں پل بھی نہ ٹھہرے  گی اور احان ان سب کی شکل دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتا تھا۔ 

انہوں نے قدم دروازے کے جانے بڑھاۓ تھے جب دروازے کے بیچ و بیچ کھڑے وجود کو دیکھ کر ان کے قدم تھمے تھے۔ وہی دوسری طرف کھڑا وہ وجود بھی تھم سا گیا تھا۔شیریں بیگم کے چہرے کے خدو خال کافی حد تک ماہ نور اور میرو سے مشابہہ تھے۔ ان کے بال بالکل میرو جیسے تھے ہلکے ہلکے گُھنگھریالے اور ان کی آنکھیں بھی اُسی کی طرح ہری تھی۔وہ کیسے نہ پہچانتا۔ 

یزدان ان کی یہاں موجودگی پر جتنا حیران ہوتا اُتنا کم تھا۔ اس کا چہرہ خطرناک حد تک سنجیدہ ہوچکا تھا۔ مگر شیریں بیگم کے تاثرات میں ذرا برابر تبدیلی نہ آئی تھی وہ ابھی بھی ویسے ہی پُرسکون کھڑی تھی۔ جب اُن کی کوئی غلطی تھی ہی نہیں تو وہ کیوں پریشان ہوتیں۔

یزدان قدم بہ قدم چلتا ان کے نزدیک آچُکا تھا۔ 

"آپ کی ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کے۔"وہ غُصّے بھرے انداز میں چیخ کر بولا۔ان کی یہاں موجودگی اسے انگاروں پر گھسیٹ گئ۔

"مجھے یہاں آنے کے لیے تمہاری اجازت کی ضرورت بالکل بھی نہیں ہے۔" وہ کمال تحمُل سے بولی۔

"آپ یہاں نہیں آسکتیں یہ جگہ آپ کی نہیں میری ماں کی ہے۔ جو آپ اُن سے چھین چُکی ہیں۔ آپ کی وجہ سے میری ماں قبر میں پہنچ گئیں آپ کو ابھی سکون نہیں ہے۔" یزدان کو ان کا ٹھنڈا رویہ ہضم نہیں ہورہا تھا۔

"یزدان اب ہمیں تمہاری آواز نہ آۓ۔ ابھی ہم بیٹھے ہیں سارے مسئلوں کو سُلجھانے کے لیے۔" داجان کی گرجدار آواز میں تنبیہ تھی۔

"کیوں داجان میں کیوں چُپ کروں؟ آخر یہ عورت یہاں کر کیا رہی ہے؟پہلے کم زہر گھولا ہے ہماری زندگی میں جو ایک دفعہ پھر آگئ ہیں۔" وہ داجان کی تنبیہ پر دھیمی آواز میں بولا۔

"یزدان آفندی ! اتنا ہی بولو جتنا حقیقت جاننے پر سہن کرسکو۔ یہ گھر میرا ہے۔ میرے شوہر کا مگر میں اتنے سالوں سے خاموش ہوں تو صرف اپنے بیٹے کے خاطر۔ زہر ہماری زندگیوں میں میں نے نہیں تمہاری ماں نے گھولا ہے۔ جس دن اپنی ماں کے کارنامے جان جاؤ گے اتنا بڑا بڑا بولنے کے قابل نہیں رہو گے۔ سمجھے۔آئندہ مجھ سے بات کرتے ہوۓ اپنی زبان کو قابو میں رکھنا۔"اتنے سالوں کا بھرا غُبار باہر آیا تو شیریں بیگم پھٹ پڑی  تھی۔

"یزدان بس بہت ہوا۔ تمیز سے بات کرو شیریں سے۔ کیونکہ بہت جلد احان اور شیریں اس حویلی میں آنے والے ہیں۔ان کا بھی اتنا حق ہے جتنا باقی سب کا ہے۔"شہیر صاحب اس کا غُصّہ دیکھتے ہوۓ بولے۔

یزدان جانتا تھا کہ ان کی طبیعت پچھلے کچھ دنوں سے خراب ہے۔ اس لیے وہ خود پر ضبط کرکے رہ گیا۔

"ٹھیک ہے اگر یہ عورت اس گھر میں رہے گی تو میں ہر گز نہیں رہوں گا۔" وہ سب کو اگنور کرتا باپ کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"یزدان ! ایک بار پھر آپ سالوں پہلے کی ہوئی اپنی غلطی دوہرانے والے ہیں۔" داجان اس کا انداز دیکھتے تحمل سے بولے۔

"آپ لوگ مجبور کررہے ہیں ورنہ میں ساری رنجشیں پیچھے چھوڑ آیا تھا۔" وہ غُصّے سے پُر لہجے میں بولا۔ اس سے یہ برداشت ہی نہیں ہورہا تھا کہ شیریں بیگم اس کی ماں کی جگہ لیں گی۔ مگر اسے کون بتاتا کوئی کسی کی جگہ نہیں لے سکتا ہر انسان دوسروں کے دلوں میں اپنے رویّے سے اپنی جگہ بناتا ہے۔

میرو سانس روکے اسے دیکھ رہی تھی۔ کیا وہ ایک بار پھر اسے زمانے کی تپتی دُھوپ میں تنہا چھوڑ دے گا۔

آنکھیں خود بخود پانی سے بھرنے لگی۔ اس نے دُھندلائی آنکھوں سے سامنے کا منظر دیکھا تھا۔

یزدان مضبوط قدموں سے چلتا سب کو اگنور کرتا اس کے نزدیک ترین آگیا۔

میرو کی آنکھوں سے ایک موتی گال پر بہہ نکلا۔پھر یہ سلسلا جیسے چل نکلا۔

اس سے ایک قدم کے فاصلے پر رُکتے وہ اس کی گال پر بہتے آنسوؤں کا صاف کر گیا۔

میرو نے شکوہ کُناں نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ یزدان نے سب کو اگنور کرتے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ اس کے قدم داخلی دروازے کی طرف بڑھے۔

"یزدان ! زومیرہ کا ہاتھ چھوڑو وہ تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جاۓ گی۔" میرو کو ساتھ لے جاتا دیکھ داجان طیش میں آتے دھاڑے تھے۔

"یزدان آفندی پوری دنیا کو چھوڑ سکتا ہے مگر زومیرہ آفندی کو نہیں۔  بھلا کوئی سانسوں کی بغیر جی پایا ہے۔ تو آپ کیسے بھول گۓ کہ یزدان آفندی کی سانسیں زومیرو آفندی میں قید ہیں۔" وہ داجان کی آنکھوں میں دیکھتا اٹل انداز میں بولا۔

"آپ اس کے باپ کی اجازت کے بغیر اسے نہیں لے جاسکتے۔ " داجان نے شاہ ویز کا ذکر کرتے ہوۓ کہا جو اس وقت یہاں موجود نہیں تھے۔

"میرو پر میرا حق سب سے زیادہ ہے۔ وہ میرے  نام پر ازل سے لکھ دی گئ ہے۔ اب یزدان کو میرو سے موت ہی جُدا کرسکتی ہے۔ سانسوں کی ڈور ٹوٹے گی پھر ہی میرو یزدان سے الگ ہوسکتی ہے۔ چاہے تو کوشش کرکے دیکھ لیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا دروازہ عبور کرگیا۔ میرو نے اس کا انداز حیرانی پریشانی سے دیکھا تھا۔

"یزدان! میں ایسے نہیں جاؤں گی آپ کے ساتھ۔میرا ہاتھ چھوڑیے۔ ہم لوگ بیٹھ کر بھی تو بات کرسکتے ہیں۔" وہ اسے قائل کرنے والے انداز میں بولی۔

وہ مسلسل مزاحمت کرتی اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے چھوڑوانا چاہ رہی تھی۔

"ٹھیک ہے جاؤ۔ یقین مانو اگر آج تم واپس گئ تو سمجھنا یزدان مرگیا۔ اور یقین مانو یہ  میں صرف کہہ نہیں رہا یہ واقعی پھر میری زندگی کا آخری دن ہوگا۔" وہ اس کا ہاتھ اپنی گرفت سے آزاد کرچُکا تھا۔

میرو نے خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر حد سے زیادہ سنجیدگی تھی۔

"یزدان۔۔۔" اس نے تڑپ کر اس کا نام پُکارا تھا۔

یزدان اس کے انداز پر بالکل نرم نہ پڑا اُسے یقین تھا کہ اگر آج وہ نرم پڑ گیا تو ضرور اسے کھو دے گا۔

"چاہو تو میرا ہاتھ تھام لو چاہے تو ٹھکرا کر چلی جاؤ۔" وہ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ میرو نے بےبس نظروں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ مگر وہ ویسے ہی ہاتھ پھیلاۓ کھڑا تھا۔ میرو نے آنکھیں بند کر کے کھولی اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔

یزدان رُوح تک سرشار ہوا تھا جیسے ہفتِ اقلیم کی دولت مل گئ ہو۔ وہ اس کا ہاتھ تھامتا پورچ  کی جانب بڑھا۔ ڈرائیور سے کار کی چابی لیتا دروازہ کھولتا اسے بٹھا چُکا تھا۔دوسری طرف آتا خود وہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چُکا تھا۔پھر اس کی گاڑی وہاں سے نکلتی ہواؤں سے باتیں کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ عجلت بھرے انداز میں اِدھر اُدھر گھومتا اپنی تیاری کے ساتھ ساتھ فون کے دوسرے طرف موجود شخض کی بات بھی سُن رہا تھا۔

"جی سر! مجھے پکی خبر ملی ہے۔ آج ہی ان کے اڈے پر ہتھیاروں کی بہت بڑی ڈیلنگ ہونے والی ہے۔ جس میں کالی کے ساتھ ساتھ اس کا باس بھی شامل ہوگا۔ میرے خیال سے یہ اچھا موقع ہے اُن سب کو صفا ہستی سے مٹانے کا۔" کال پر دوسری جانب موجود عاصم اسےایک ایک بات کی اطلاع فراہم کرتا ہوا بولا۔

"میں بھی یہی چاہتا ہوں اُس انسان اور اس کے ساتھ موجود ہر انسان کا نام و نشان مٹا دوں۔ میں جلد سے جلد یہ قصّہ ختم کرنا چاہتا ہوں۔" عرید اٹل انداز میں بولتا ہوا فون کندھے اور کان کے درمیان اٹکاتا ہوا بولا۔

"اوکے سر! پھر جلد ہی ملتے ہیں۔ میں نے اپنی ٹیم تیار کرلی ہے۔بس اب ایکشن کا انتظار ہے۔" عاصم پُرجوش سے انداز میں بولا۔

عرید ایک دو باتیں کرتا کال بند کرتا جُھک کر شوز پہننے لگا۔بازو کا زخم ابھی تازہ تھا۔ مگر وہ قدرت کے فراہم کیےاس حسین موقعے سے ضرور فائدہ اُٹھانا چاہتا تھا۔

ازوہ کمرے میں اس کے لیے ناشتہ لیکر آئی تھی اسے تیار دیکھ کر وہ حیران ہوئی۔ ابھی دو دن ہی تو ہوۓ تھے اسے ہسپتال سے آۓ۔ اب پھر وہ نئ تیاریاں کرنے لگا تھا۔وہ پریشانی سے اس کے نزدیک آئی تھی۔

"عرید! آپ کہاں جارہے ہیں؟ ابھی تو آپ کے پچھلے زخم نہیں بھرے اور آپ پھر سے تیاری پکڑے بیٹھے ہیں۔میں آپ کو روک ہر گز نہیں رہی۔ میں جانتی ہوں یہ آپ کی ڈیوٹی ہے مگر کچھ دن آرام کر لیتے۔" وہ اس کے نزدیک آتی فکر مندی سے بولی۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں ازوہ۔ آپ فکر مت کریں بس میرے حق میں دُعا ضرور کیجئیے گا کہ خُدا میرے حق میں بہتری فرماۓ اور دشمنوں کا نام و نشان مٹا سکوں۔" وہ اس کا گال پیار سے تھپھپاتا ہوا بولا۔

"میرے دُعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اللّٰہ آپ کو ضرور کامیابی عطا کرے گا۔اور برائی کا نام و نشان ضرور مٹے گا۔"وہ دل سے تمام خدشات مٹاتی دھیمی سی مسکان سے بولی۔

"شکریہ میری جان۔" وہ جُھکتا ہوا اس کی پیشانی پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

"ناشتہ تو کریں گے آپ۔" وہ اس کےانداز پر مہربان سی مسکراہٹ سمیت بولی۔

"ہاں ضرور۔ میری پیاری سی بیوی نے بنایا ہے کیا کھاۓ بغیر جاسکتا ہوں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا صوفے پر بیٹھتا اسے بھی ساتھ بیٹھا چُکا تھا۔

پھر وہ خود بھی ساتھ ساتھ ناشتہ کرتا رہا اور اسے بھی کھلاتا رہا۔ 

ناشتہ کرتے وہ جانے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا۔

"رُکیے۔" اسے جانے کے پر تولتے دیکھ وہ اسے روک اس کے سامنے آگئ۔ پھر ڈوپٹہ سر پر درست کرتی منہ میں قرآنی آیات کا ورد کرتی اس پر پھونک مار گئ۔

عرید اس کے انداز پر مسکرایا تھا۔

"اللّٰہ آپ کو حفظ و ایمان میں رکھے اور ہم زندگی کی کتنی ہی حسین بہاریں ایک ساتھ سمیٹیں۔" وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھتی اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھ کر بولی۔

"آمین۔ ان شاء اللّٰہ ایسا ہی ہوگا۔" وہ ایک بار پھر اس کا ماتھا چومتا اسے احتیاط کا بولتا گھر سے باہر نکل گیا۔

ازوہ  کچھ دیر وہی کھڑی اس کو جاتا ہوا دیکھتی رہی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں وہ اکیلا نفوس گہری سوچ میں گُم تھا۔جب اس کا موبائل بج اُٹھا۔ اُسےاسے کال کا شدت سے انتظار تھا۔

"جی سر! جس کار کا آپ نے بولا تھا ابھی پانچ منٹ پہلے نکلی ہے۔ " دوسری طرف سے اطلاع دی گئ جب اس کے چہرے پر بےرحم سی مسکراہٹ پھیل گئ۔

"بہت اچھی خبر سُنائی۔بہت کرلیا انتظار اب اس کھیل کا اختتام ہوگا۔ اور جیت صرف اور صرف مجھے نصیب ہوگی۔" وہ پاگلوں کی طرح قہقہے لگاتا ہوا بولا۔

"جلد سے جلد مجھے اچھی خبر سُناؤ۔تم لوگوں کو تمہارا انعام مل جاۓ گا۔ اس پل کا میں نے بہت انتظار کیا ہے۔ بہت قربانیاں دی ہیں کیسے ہار مان لوں۔" وہ 

تحمُل بھرے انداز میں بولا۔

"جی سر! آپ انعام تیار رکھیے۔ میں جلد ہی آپ کو اچھی خبر سُناتا ہوں۔" دوسری طرف سے فون رکھ دیا گیا تھا۔وہ فون کو دیکھتا ایک بار پھر اپنی سوچوں میں گُم ہوچکا تھا۔

ضمیر چیخ چیخ کر اسے اس کی غلطی بتانا چاہ رہا تھا۔مگر اس نے اپنے ضمیر کا گھلا اتنے اطمینان سے گھوٹا تھا جیسے اسے کچھ فرق نہ پڑا ہو۔ ضروری تو نہیں ہر دفعہ جیت بُرائی کی ہو۔

خُدا نے اس کی رسی دراز کر رکھی تھی جو جلد ہی ایک جھٹکے میں کھینچی جانے والی تھی اور اس کو پچھتاوے کا موقع بھی نہیں ملنے والا تھا۔

وہ اوندھے منہ اپنے ہی کھودے ہوۓ گڑھے میں گرنے والا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زارا آج اُس واقعے کے تین دن بعد یونی آئی تھی وہ بھول بھی چُکی تھی کہ اُس نے کوئی کانڈ کیا ہے۔ 

"ہاۓ احان۔۔۔" وہ اسے اکیلے پاکر اس کے نزدیک آتی اس کے گلے کا ہار بن چُکی تھی۔ احان نے غُصّہ ضبط کرکے اس بلا کو دیکھا تھا مگر وہ اتنی آسانی سے اسے بخشنے والا نہیں تھا بلکہ نشوہ کہ ایک ایک آنسو کا حساب لینے والا تھا۔وہ کیسے اُس وقت کو بُھول سکتا تھا جب نشوہ کو بےسُدھ حالت میں پایا تھا۔ اگر وہ وقت پر نہ پہنچتا تو جانے کیا ہوتا۔ 

"کیسے ہو احان؟ میں نے تمہیں بہت مِس کیا۔ڈیڈ کے ساتھ ایک بزنس میٹننگ اٹینڈ کرنے گئ تھی۔ وہ چاہ رہے ہیں میں اُن کا بزنس سنبھالوں۔خیر ان سب باتوں کو چھوڑوں یہ بتاؤ تم نے مجھے یاد کیا۔میرے حسرت ہی رہ جانی کے کبھی تم مجھے یاد کرکے مجھے ایک کال ہی کر لو۔"وہ مصنوعی افسُردگی چہرے پر طاری کرتی ہوئی بولی۔

"تم یقین نہیں کرو گی۔ اس دفعہ میں نے بھی تمہیں بہت یاد کیا۔ ایک ایک دن گِن کر گُزارا ہے کہ جانے کب تم آؤ۔" وہ عجیب سے انداز میں اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"سچی تم نے مجھے یاد کیا۔ تم ایک فون کال بھی کرسکتے تھے۔" وہ اس کا خوشگوار انداز دیکھتی شکوہ کُناں لہجے میں بولی۔

"بھلا کال میں کیا مزہ جو آمنے سامنے بات کرنے میں ہے۔سوچوں ذرا آج جب میں اپنے دل میں موجود تمہارے لیے  اپنے احساسات کو بیان کروں گا کیا تم فون پر وہ سب محسوس کر پاتی۔" وہ  اس کے میک اپ سے لتھڑے چہرے کو کوفت.  سے دیکھتا ہوا بولا۔

"سچ احان کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ کیا تم سچ میں اپنے دل میں موجود ساری فیلنگز مجھ سے شیئر کرنے والے ہو۔"وہ ایکسائٹڈ ہوتی ایک بار پھر اس کے گلے میں بانہیں ڈال گئ۔

احان نے نامحسوس انداز میں اسے خود سے دُور کیا تھا اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ اسے ایک آنکھ نہ بھایا تھا۔ سبق تو اسے وہ سکھا کر رہے گا آئندہ وہ اس کی زندگی پر حملہ کرنے کے کوشش بھی نہ کرے۔ آج اسے اچھے سے یہ باور کروانا چاہتا تھا کہ نشوہ کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔

"میں نے تمہارا لیے بہت اچھا سرپرائز پلین کیا ہے چلو گی میرے ساتھ۔" وہ مصنوعی مسکراہٹ لبوں پر سجاتا اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔

وہ ہنستی مسکراتی اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔ وہ یونی کہ ایک سُنسان گوشے میں آچکے تھے جہاں اس وقت محض وہ دونوں ہی موجود تھے۔ 

زارا نے چاروں اور نظر دوڑا کر دیکھا۔ مگر اسے کچھ بھی خاص نظر نہ آیا۔ اس نے سوالیہ نظر اُٹھا کر احان کی طرف دیکھا۔

احان اسے صبر رکھنے کا کہتا اسے ایک کلاس روم کے باہر لے آیا تھا۔

"چونکہ تمہارے لیے سرپرائز ہے اس لیے تمہیں اپنی آنکھیں بند رکھ کے اندر داخل ہونا ہوگا۔" وہ اپنی شرط بتاتے اس کے اقرار کا منتظر تھا۔ زارا نے خوشی خوشی اثبات میں سر ہلایا۔ وہ آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کر چُکی تھی۔احان نے اس کے لیے کلاس رُوم کا دروازہ کھولا تھا۔زارا بند آنکھوں سے اندر  داخل ہوئی۔احان اس کے اندر داخل ہونے پر دروازہ بند کر چُکا تھا۔دروازہ بند ہونے کی آواز پر زارا کے لبوں پر تبسم بکھرا۔ مگر کافی ٹائم  اپنے اردگرد کوئی بھی حرکت نہ محسوس کرکے وہ احان کو پُکار گئ۔

"احان ! کیا میں آنکھیں کھول لوں؟" وہ اب دوسری طرف سے خاموشی محسوس کرکے جھنجھلاہٹ سے بولی۔مگر جواب ندارد۔

کوئی بھی حرکت نہ محسوس کرکے اس نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی۔

مگر یہ کیا۔ آنکھیں کُھلنے پر جو پہلا منظر اپنے گرد محسوس کیا تھا وہ گہرا اندھیرا تھا۔ اس نے گھبراہٹ کے مارے اردگرد دیکھا مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نصیب نہ ہوا۔ اتنا اندھیرا محسوس کرکے اس کا دل بند ہونے کے قریب تھا۔

"احان کدھر ہو؟ مجھے جواب دو۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔اگر یہ کوئی مزاق ہے پو نہایت بُرا مزاق ہے دروازہ کھولو۔"وہ خوف کے باعث آواز کی لرزش پر قابو نہ پاسکی۔

"ہاں بے بی مزہ آرہا ہے۔ انجواۓ کرو۔ یہ کلاس رُوم کم سٹور روم زیادہ ہے۔ چوہے بھی ہوسکتے ہیں۔ اب اتنی دیر اکیلے بیٹھ کر کیا کرو گی۔ ان سے ہی دوستی کرلو اچھا وقت گُزر جاۓ گا۔" وہ طنزیہ لہجے میں باہر سے بولا۔

وہ اندھیرے میں اندازے سے ہی دروازہ ڈھونڈتی  اس کے ساتھ چپک کر کھڑی ہوگئ۔

"احان ! یہ کوئی مزاق  ہے دروازہ  کھولو۔" وہ دبے دبے انداز میں چلاتی ہوئی بولی۔

"وہی تو تمہیں سمجھ آہی گئ کہ یہ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ تمھاری ہمت کیسے ہی نشوہ کو قید کرنے کی۔"وہ دروازے پر ہاتھ مارتا شدت سے دھاڑا تھا۔

"احان پلیز دروازہ کھولو میرا سانس بند ہورہا ہے۔" وہ ہچکیوں کے ساتھ روتی ہوئی التجائی انداز میں بولی۔

"ابھی تو تمہیں بند ہوۓ محض دو منٹ گُزرے ہیں اور تمہارا یہ حال ہے۔" وہ اچھے سے اسے اس کی غلطی کا احساس دلانا چاہتا تھا۔ 

"مجھے بچالو۔مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے۔میں مرجاؤں گی۔" وہ روتے ہوۓ مسلسل التجا کررہی تھی۔ 

صحیح  کہتے ہیں انسان کو دوسروں کی تکلیف کا اندازہ تپھی ہوتا جب وہی چیز خود پر محسوس کرے۔

"اگر تمہاری وجہ سے نشوہ کو کچھ ہوتا تو تمہاری سانسیں بند کر دیتا۔" وہ شدت سے پُر لہجے میں بولا۔

چاروں طرف بکھری تپتی دھوپ دوپہر کا پتا دے رہی تھی۔ایسے میں وہ ایک کلاس کے باہر کھڑا اندر سے آنے والی آوازوں کو اطمینان سے سُن رہا تھا۔یہ تقریباَ چُھٹی کا وقت تھا۔ 

ساتھ کھڑے وجود نے اسے دروازہ کھولنے کے التجا کی مگر وہ اگنور کر گیا۔

"بس کرو احان کھول دو دروازہ۔ بہت ہے اس کے لیے اتنا سبق اب کھول دو دروازہ۔" نشوہ اس کے غُصّے بھرے انداز کو دیکھ کر بولی۔

"کیوں تمہیں اس سے بڑی ہمدردی ہورہی ہے۔ بھول گئ یہی وہ لڑکی ہے جو تمہیں تن تنہا لائبریری میں قید کرکے چلی گئ تھی۔" وہ خاصا طنزیہ انداز اپناتا ہوا بولا۔

"تمہیں کیا مسئلہ ہے جب اُس نے بُرا میرے ساتھ کیا ہے۔ اور جب میں ہی اسے معاف کر رہی ہوں  تو کوئی جواز نہیں بنتا۔ اور میں یہاں پڑھنے آتی ہوں دشمنیاں پالنے نہیں۔" وہ اس کی طرف دیکھتی اٹل انداز میں بولی ۔

"کیا مطلب ہے یہ تمہارا معاملہ ہے۔ تم صرف اور صرف  میری ہو تو یہ معاملہ بھی میرا ہے۔ میں کسی کو بھی اتنی اجازت نہیں دوں گا کہ وہ تمہیں نقصان پہنچاۓ۔تم جانتی ہو تمہیں اس حالت میں دیکھ کر میری سانسیں رُک گئیں تھی۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے رُوبرو کرتا بےباک سے انداز میں بولا ۔

اس کے اتنے کُھلے انداز پر نشوہ سٹپٹا کر رہ گئ۔ وہ اس  سے محبت کے اظہار کے معاملے میں حد سے زیادہ بےباک تھا۔ابھی تو وہ گھر والوں کے سامنے اس کا انداز نہیں بھولی تھی۔

نشوہ نے اسے اگنور کرتے ہوۓ کلاس کا دروازہ کھولا۔جہاں زارا خراب ہوتی حالت کے ساتھ کھڑی تھی۔ رونے کے باعث کاجل پھیل چُکا تھا۔ وہ عجیب و غریب مخلوق لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ احان نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔نشوہ نے اسے گُھور کر دیکھا۔

زارا دروازہ کُھلتے ہی ان کی طرف آئی۔  شدید غُصّے کی حالت میں اس نے نشوہ کے چہرے پر تھپڑ مارنا چاہا جسے وہ بروقت تھام گئ۔  

"یہ غلطی  مت کرنا ہاتھ توڑ کر دوسرے ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔  اگر آج تم صحیح سلامت کھڑی ہو تو محض میری بدولت ورنہ مجھے منٹ نہیں لگے گا تمہیں جیل میں پہنچانے میں۔  کوئی چھوٹی سی بات نہیں ہے تم نے مجھے مارنے کی کوشش کی ہے۔  اگر میں تھوڑی دیر اور اس بند جگہ پر قید رہتی تو ضرور مر جاتی۔" وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر چلاتے ہوۓ بولی۔

"میں نے تمہیں کوئی مارنے کی کوشش نہیں کی وہ تو محض ایک چھوٹا سا مزاق تھا۔ " زارا اس کی باتوں پر گھبرائی تھی مگر وہ محض دو سکینڈ میں ہی اپنی حالت پر قابو پاگئ۔ 

"اچھا ! تمہارے لیے دوسروں کی زندگیاں مزاق ہوسکتی ہیں میرے لیے نہیں۔  شکر مناؤ میرے بھائی یہاں نہیں ہے انہیں تمہاری حرکت کا پتا نہیں چلا۔ نہیں تو یقین مانو وہ تمہاری سانسیں تنگ کر دیتے۔ " نشوہ اسے وارن کرنے والے انداز میں بولی۔ 

"تم مجھے دھمکا نہیں سکتی۔ " زارا ڈھیٹائی سے اپنی آواز اونچی کرکے بولی۔ وہ اپنی بلند آواز کے پیچھے اپنی حرکت چُھپانا چاہتی تھی۔ 

"تم میری دھمکی کو مزاق مت سمجھو۔  صحیح  کہتے ہیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔  تمہاری اطلاع کے لیے بتا دوں میرے بھائی پولیس میں ہیں تمہیں ایسے غائب کریں گے کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوگا۔ " اس کے ڈھیٹائی بھرے انداز میں نشوہ کو تاؤ آیا تھا۔  یعنی حد تھی وہ لڑکی اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھی

"میں تمہیں کہا تھا نا یہ لڑکی ہمدردی کے قابل نہیں تمہیں ہی اس سے ہمدردی ہورہی ہے۔ میری مانو فوراً ڈین آفس میں اس کی شکایت کریں تاکہ جلد سے جلد اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جا سکے۔  تاکہ آئندہ یہ کسی کو نقصان پہچانے سے گریز کریں۔" احان محویت سے اپنی شیرنی کا روپ ملاحظہ کر رہا تھا مگر اس لڑکی کی ایک ہی رٹ پر خاموش نہ رہ سکا۔

"مجھے لگتا ہے اب یہی کرنا پڑے گا۔" وہ احان کی بات پر اتفاق کرتی ہوئی بولی۔

"میں چھوڑوں گی نہیں تم دونوں کو۔" وہ غُصّے سے تن فن کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔احان نے سر جھٹک کر اسے جاتے دیکھا۔ اس کے جاتے ہی وہ نشوہ کی طرف متوجہ ہوا۔

"مجھے لگتا ہے میری اتنی اچھی کارگردگی پر کچھ تو انعام بنتا ہے۔ہے نا کیا کہتی ہو۔"وہ شرارتی انداز میں اس کا ہاتھ تھامتا ہوا بولا۔

"جی نہیں۔" وہ اس کے ہاتھ پر تھپڑ مارتی ہوئی آگے کی جانب قدم بڑھا گئ۔

"کیا کہتی ہو کل کے کل شادی کر لیں۔" وہ اس کے پیچھے آتا ہوا بولا۔

"کل کیوں وہ تو بہت لیٹ ہوجاۓ گا۔ آج ہی کرلیتے ہیں۔" وہ اس کی بات پر دانت پیستی ہوئی بولی۔

"سچی! مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔" وہ اس کے انداز پر مسکراہٹ دبا گیا۔

"جس سپیڈ سے تم میرے گھر والوں کو راضی کر رہے ہو مجھے لگتا ہے اگلی صدی تک بات بن جاۓ گی۔" نشوہ نے اس کی توجہ اپنے گھر والوں کی طرف مبذول کروائی۔

احان نے گھر والوں کے نام پر بُرا سا منہ بنایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انہیں حویلی سے نکلے بیس منٹ سے زیادہ کا وقت گُزر چُکا تھا۔ وقفے وقفے سے میرو کی سسکیاں گاڑی میں گونج رہی تھیں۔جسے سُنتے وہ بےچین ہو اُٹھا تھا۔ رفتہ رفتہ اس پر چھایا غُصّہ بھی چھٹتا گیا۔ غُصّہ ٹھنڈا ہوا تو دماغ نے کام کرنا شروع کیا اپنی حرکت پر خود کو جی بھر کے کوسا۔

"میرو! میری جان رونا بند کرو۔" وہ احتیاط سے گاڑی چلاتا نرمی سے پُچکارتا ہوا بولا ۔

میرو نے اس کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اس کا رونا ویسے ہی جاری و ساری تھا۔ 

"یار رونا بند کرو اور خود ہی اپنے آنسو صاف کرلو ورنہ میں صاف کرنے پر آیا پھر اپنے رونے پر پچھتاؤ گی۔ تم جانتی ہو پھر میرا انداز۔" وہ اس کی بہتے آنسوؤں کو دیکھتا جھنجھلاتا ہوا بولا۔اسے جب کچھ سمجھ نہ آیا تو دھمکی لگا گیا۔

"آپ ہمیشہ اپنی من مانی کرتے ہیں میری کبھی نہیں سُنتے۔" دوسری طرف سے بھرپور شکوہ آیا تھا۔

اسے اب واقعی ہی احساس ہوا اپنے ان سب اختلافات میں اگر وہ کسی کا نقصان کرتا تھا وہ ساتھ بیٹھا نازک وجود تھا۔

یزدان نے گہری سانس بھر کر گاڑی ایک سائیڈ پر روکی تھی۔اور پوری طرح اس کی طرح متوجہ ہوا تھا۔وہ سیٹ بیلٹ کھولتا اس کی طرف مُڑا تھا۔

"جانم! اِدھر میری طرف تو دیکھو۔" وہ اس کا ہچکیاں بھرتا وجود دیکھ رہا تھا جو اس کی نرمی پر بھی رونے سے باز نہ آئی۔

یزدان نے اس کے گرد بازو حمائل کرکے اس کا سر سینے پر ٹکایا تھا۔ وہ مسلسل اس کی پیٹھ سہلاتے اسے چُپ کروانے کی کوشش کررہا تھا۔

"آپ کی نظروں میں میری کوئی اہمیت ہی نہیں۔ ہمیشہ دھونس جماتے ہیں۔ آپ مجھ سے بالکل بھی محبت نہیں کرتے۔ بلکہ بس۔۔۔۔۔۔۔" وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاۓ بول رہی تھی۔ جب یزدان نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کروایا تھا۔ 

"میری زندگی میں تمہاری جو جگہ ہے وہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔ دل کی سب سے اونچی مسند پر براجمان ہو۔ ابھی بھی شکوے شکایت۔" وہ اس کے گالوں پر بہتے آنسو صاف کرتا اس کا ماتھا چوم گیا۔

"آپ جھوٹ کہہ رہے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ آپ  جانتے ہیں میں سب سے کتنی محبت کرتی ہوں۔ پھر بھی آپ مجھے سب سے دُور لے آۓ ہیں۔ اس کے لیے میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔" وہ شکوہ کرتی اس کی شرٹ سے اپنا چہرہ رگڑ گئ۔

یزدان نے اس کا گال تھپتھپاتے بنا اسے جواب دیے دوبارہ گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

وہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اسے واپس حویلی لے کر جانے کا سوچ چُکا تھا اسے یقین تھا جب رات کو وہ اسے واپس گھر لے کر جاۓ گا تو اس کے چہرے پر ڈھیروں رنگ بکھر جائیں۔ وہی خوشیوں کے رنگ وہ دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ گاڑی چلاتا مسلسل اس کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔ جب کے دوسری طرف وہ اس سے  منہ پھیرے گاڑی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اس کا رونا تھم چُکا تھا مگر وقفے وقفے سے اس کی ہچکیاں ضرور گونج رہی تھی۔یزدان نے سامنے سے آتے ٹرک کو راستہ دیتے گاڑی قدرے سائیڈ پر کی تھی مگر اس کی یہ کوشش بالکل ناکام ہوئی تھی جب وہ ٹرک ڈرائیور جان بوجھ کر ان کی کار کو ہِٹ کر چُکا تھا۔ یزدان نے گاڑی سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ کر نہیں پایا جب وہ ٹرک ڈرائیور گاڑی کو شدت سے اُچھالتے آگے کی طرف بڑھ گیا۔

یزدان کا سر پوری شدت سے سٹیئرنگ ویل سے ٹکرایا۔ سر سے بہتا خون اس کا چہرہ بگھو رہا تھا۔اس نے بمشکل مندی مندی آنکھیں کھول کر ساتھ بیٹھے وجود کو دیکھنا چاہا۔ میرو کا وجود گاڑی کے کُھلے دروازے کے باہر خون سے لت پت پڑا تھا۔ یزدان نے تڑپ کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ وہ بمشکل گاڑی کا دروازہ کھولتے گھومتے سر کے ساتھ اس کی طرف بڑھا اس کے اعصاب جواب دے رہے تھے۔ وہ اس کے وجود کے نزدیک بیٹھتا اس کا سر اپنی گود میں رکھ گیا۔

"میرو۔۔۔۔۔ آنکھیں۔۔۔۔۔ کھولو۔۔۔۔۔ میری ۔۔۔۔۔ طرف ۔۔۔۔۔۔ دیکھو۔" وہ اٹکتے ہوۓ لہجے میں مسلسل اس کے گال تھپتھپاتا ہوا بولا۔ وقت نے اسے مزید مہلت نہ دی  اس کی آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئیں۔وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوتا وہی ڈھیر ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ حویلی کے لاؤنج میں بیٹھی چاٹ کا باؤل ہاتھ میں لیے خوب انصاف کررہی تھی۔ ہشام صُبح سے ہی نکلا ہوا تھا۔ جب سے ان کے بیچ کی دوریاں مٹی تھی اس کا چہرہ ہر وقت گلاب کی مانند کھلتا رہتا تھا۔ 

حویلی میں موجود وہ اٹھارہ سالا ملازمہ شنو اس پر خوب ہی فدا تھی۔ وہ اپنی ماں کے ہمراہ اکثر یہاں آتی تھی۔فاریہ اپنی سُرخ و سفید رنگت کے سنگ اس کو خوب ہی بھاتی تھی۔

"بی بی جی ! آپ تو بہت سوہنے (خوبصورت) ہو دیکھنا آپ کا بچہ بھی آپ کا جیسا سوہنا ہی ہوگا۔" وہ معصومیت سے پُر لہجے میں بولی۔ اس کے لہجے میں ہلکی سی پنجابی کی آمیزش شامل تھی۔

"شکریہ شہر بانو! " وہ اس کی تعریف پر گلابی گالوں سمیت بولی۔وہ اسے ہمیشہ اس کے پورے نام سے پُکارتی تھی اسے اس شنو کہنا ہر گز پسند نہیں تھا۔

"بی بی جی ایک بات ہے بچہ آپ پر ہی جانا چاہیے۔ سردار پر نہیں۔آپ کتنی پیاری ہو۔" وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی بولی۔

"تو کیا تمہارے کہنے کا مطلب ہے کہ ہشام پیارے نہیں ہے۔" وہ مصنوعی غُصّہ چہرے پر سجاتی ہوئی بولی۔

"نہیں بی بی جی میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ سردار بھی پیارے ہیں مگر بےبی اگر اُن پر چلا گیا تو ان کے جیسا ہی ہوگا اکڑو اور کھڑوس۔" وہ ذرا سا جُھکتے راز داری کے انداز میں بولی۔

اس کے انداز پر فاریہ کھلکھلاتی چلی گئ۔

"ویسے بی بی جی میری خواہش آپ کی ایک نھنھی سے گلابی پری ہو۔ کتنا مزہ آۓ گا ۔ ہیں نا۔" فاریہ نے ہنستے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔

"کیا بکواس کررہی ہے؟ منہ سے اچھا اچھا نکال۔ سردار کی پہلی اولاد بیٹی ہو یہ تو انہیں دُعا دے رہی ہے۔تو نہیں جانتی کہ سردار کا ہر انداز اپنے باپ جیسا ہے۔ اور بڑے سرکار بیٹیوں کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے۔" شہربانو کی ماں اسے ٹوکتی ہوئی بولی۔

فاریہ کا چہرہ سنجیدہ ہوچکا تھا۔

"کیسی بات کر رہی ہو؟ اور بچی کو بھی وہی سکھارہی ہو۔" فاریہ اس کی طرف دیکھتی برہمی سے بولی۔

"بی بی جی میں تو سچ ہی کہہ رہی ہوں اگر آپ کو میری بات بُری لگی تو معذرت۔" وہ شنو کو اشارہ کرتی کچن کی جانب بڑھ گئ۔

فاریہ گہری سوچوں میں گُم ہوچکی تھی۔ چہرے پر تفکر کی پرچھائیاں تھیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ماہا ! ناشتہ لے آؤ یار لیٹ ہوجائیں گے۔" وہ میز کے گرد رکھی چیئر گھسیٹ کر بیٹھ چُکا تھا۔

"بس دو منٹ۔" اندر سے ماہا کی جھنجھلائی سی آواز آئی۔

پھر ٹھیک تین منٹ بعد وہ ناشتہ لا کر اس کے سامنے رکھ چُکی تھی۔ وہ اسے مکمل طور پر اگنور کیے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔صارم نے اس کا انداز پریشانی سے ملاحظہ کیا۔

ماہا جلدی جلدی کپڑے نکالتے واش روم میں گُھس چکی تھی۔ اسے صارم پر غُصّہ آرہا تھا اسے بھی تو دیر ہورہی تھی مگر صارم کو صرف اپنی پڑی تھی۔

تقریباً پانچ منٹ بعد وہ واش روم سے باہر آتی ڈریسنگ کے سامنے کھڑی بال سُلجھانے لگی۔بالوں کو کیچر میں اچھے سے جھکڑ کر وہ سر پر حجاب کرتی باہر کی جانب بڑھتی لاؤنج میں اس کے ناشتے سے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگی۔ اس نے صارم کو خاصا اگنور کیا۔ صارم نے ابھی تک ناشتہ شروع نہیں کیا تھا وہ اسی کا انتظار کررہا تھا مگر اب اس کا یہ انداز اسے پریشان کر گیا۔

"ماہا یار وہاں کیوں بیٹھی ہو؟ اِدھر آؤ یار ناشتہ کرتے ہیں۔" وہ وہی سے بیٹھے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"مجھے بھوک نہیں ہے۔" وہ وہی سے رُخ موڑے بیٹھی رہی۔ 

صارم گہری سانس بھرتا ناشتے کے پلیٹ اُٹھاتا اس کے نزدیک ہی صوفے پر بیٹھ گیا۔ پلیٹ سامنے موجود چھوٹے سے میز پر رکھ چُکا تھا۔

"ماہ ! یار کیا ہوا ہے؟ کیوں ناراض ہو رہی ہو۔" وہ اس کا رُخ اپنی طرف موڑتا ہوا بولا۔

ماہا نے نظریں اس کے اوپر نہیں اُٹھائیں تھی۔

"ایک بھی آنسو بہایا تو اچھا نہیں ہوگا ماہا لاشاری۔" وہ اسے رونے کی تیاری پکڑتے دیکھ کر بولا۔

"ماما صحیح  کہتی ہیں کہ مرد بہت جلد بدل جاتا ہے۔مگر مجھے اُمید نہیں تھی کہ آپ اتنی جلدی بدل جائیں گے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔

صارم نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔

"ایک منٹ ایک منٹ۔ ذرا یہ بتانا پسند کریں گی کہ میں کب بدلا۔" وہ جتنا سوچتا اتنا حیران ہورہا تھا۔

"آج ہی۔" وہ دو لفظی جواب دیتی چُپ ہوگئ۔

صارم نے گھور کر اسے دیکھا۔

"یہ دیکھئیے آپ ابھی بھی مجھے ڈرا رہے ہیں۔" وہ اس کے گھورنے پر آنکھوں کی طرف اشارہ کرتی ہوئی بولی۔

صارم نے گڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا۔ یعنی کہ اب وہ اس کی غلط بات پر اسے گھور بھی نہیں سکتا تھا۔

"اچھا اِدھر آؤ۔ بتاؤ مجھے کیا ہوا ہے۔" وہ اسے سینے سے لگاتا ہوا بولا۔

"آپ صبح سے مجھے تنگ کررہے ہیں۔کیا یونی صرف آپ نے جانا ہے؟ مجھے بھی تو دیر ہورہی ہے مگر آپ  کو صرف اپنی پڑی ہے۔کبھی ماہا کپڑے استری کردو۔ کبھی ناشتہ بنا دو۔ میں جانتی ہوں یہ سب میری ذمہ داریاں ہیں مگر مجھے تھوڑا ٹائم تو دے دیں۔" وہ شکوے کرنے والے انداز میں بولی۔

"ارے یار اتنی سی بات۔ سوری میرے نورِمن۔ مجھے دھیان رکھنا چاہیے تھا۔" وہ اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔

"اب ناشتہ کرلیں ملکہ عالیہ۔ یہ غریب بندہ گزارش کررہا ہے آئندہ ایسی غلطی نہیں ہوگی۔" وہ عاجزانہ انداز میں سر جُھکاتا ہوا بولا۔

"آپ پاس ہوگۓ۔" وہ خوشی سے اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

صارم نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔

" آپ میری محبتوں کے ہر امتحان میں پاس ہوگۓ۔ آپ بہت بہت اچھے ہیں۔" وہ اس کے نزدیک جُھکتی اس کے گلے میں باہیں ڈالتی اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔

"مجھے خوشی ہوگی اگر میں آپ کے کام کروں گی مگر شاید میں ابھی اچھے سے مینج نہ کر پاؤں۔ سوری۔ آپ کو پھوہڑ بیوی ملی ہے۔" وہ خود ہی اپنی بات پر شرمندہ ہوتی  سر جُھکا گئ۔

"کوئی بات نہیں میں بہت کُھلے دل کا مالک ہوں گزارا کر لوں گا۔" وہ شرارتی انداز میں اس کی ناک کھینچتا ہوا بولا۔

وہ اس کے انداز پر جھینپ کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سب لوگ پریشانی سے لاؤنج میں موجود تھے۔ یزدان کے حرکت کسی کو بھی ایک آنکھ نہ بھائی تھی۔

سب اپنی اپنی جگہ فکر مند تھے دفعتاً جب شہیر صاحب کا فون رِنگ ہوا۔ انہوں نے بغیر دیکھے کال اُٹھا لی مگر دوسری جانب سے  رُوح فرسا خبر وصول ہوئی  جسے سنتے وہ کچھ کہنے کے قابل نہ رہے ۔

کال کٹ چکی تھی مگر وہ اپنی جگہ پتھرائی آنکھوں سے ایک ہی نقطے کو دیکھتے رہ گۓ۔

"شہیر ! کس کا فون تھا۔" انہیں حیران و پریشان ایک ہی جگہ جما دیکھ کر بولے۔

"بابا جان! میرو اور یزدان کی کار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے وہ ہسپتال میں ہیں۔" شہیر صاحب نے بمشکل یہ خبر سب کو دی۔

"میری بچی! میری گڑیا۔ بھائی صاحب میرو ٹھیک تو ہے نا۔ " ماہ نور میرو کے بارے میں سوچتے ان کے نزدیک آتے ہوۓ بولی۔

"ماہ نور ! صبر رکھو ابھی ہم چلتے ہیں پھر ہی کچھ اطلاع ملے گی۔" داجان اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہوۓ بولے۔

افراتفری میں بھاگتے ہوۓ سب ہسپتال پہنچے۔ شاہ ویز کو بھی اس معاملے سے آگاہ کردیا گیا تھا۔ اس اچانک ہونے والے حادثے پر سب حیران و پریشان رہ گۓ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے سر سے اُٹھتی ٹیسوں کو اگنور کرکے بمشکل آنکھیں کھولی تھی۔آہستہ آہستہ آنکھیں کھولتے اس نے ارد گرد سے مانوس ہونا چاہا خود کو ہسپتال کے کمرے میں پاکر وہ ایک جھٹکے سے اُٹھ بیٹھا مگر پھر جسم سے اُٹھتی تکلیف نے اسے دوبارہ لیٹنے پر مجبور کر دیا۔

آہستہ آہستہ حواس ٹھکانے آۓ تو یکدم میرو کی ٹینشن اس پر حملہ آور ہوئی۔

میرو کا خون سے لت پت وجود آنکھوں کے سامنے گھوما تو وہ اپنی تکلیف بُھلاۓ اُٹھ بیٹھا۔

بیڈ سے نیچے قدم اُتارتے دروازے  کی جانب رُخ کیا۔کمرے کے اندر آتی نرس نے اسے یوں باہر آتے دیکھ کر روکا۔ 

"کیا کر رہے ہیں آپ؟ آپ کو ابھی آرام کی ضرورت ہے۔" نرس اسے واپس اندر بھیجنے کے پر تولتے ہوئی بولی۔

"میری وائف کہاں ہیں؟ وہ ٹھیک تو ہے۔" وہ بےچینی سے باہر کی طرف دیکھ کر بولا۔

"دیکھیے آپ ابھی سب باتوں کو اگنور کر کے اپنی صحت پر توجہ دیں۔" وہ رسانی سے اسے سمجھاتی ہوئی بولی۔

"کیا بکواس کر رہی ہو میری بیوی جانے کس حالت میں ہے۔ اور آپ مجھے آرام کا مشورہ دے رہی ہیں۔" وہ غُصّے کی کیفیت میں دبّا دبّا چلایا تھا۔

"آپ کی بیوی آئی سی یو میں ہیں۔ ابھی ڈاکٹرز انہیں چیک کر رہے ہیں۔" اس کے انداز پر وہ تحمل سے اسے سب بتاتی ہوئی بولی۔

یزدان اسے وہی چھوڑتا آئی سی یو میں بھاگا تھا۔ آئی سی یو کے دروازے پر کھڑے ہوکر اس نے اندر جھانکا تھا۔ جہاں دروازے کے پار اس کی زندگی مشینوں سے جھکڑی لیٹی تھی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بھیگنے لگی۔

وہ کتنی تکلیف میں تھی یہ بات ہی اسے انگاروں پر گھسیٹ رہی تھی۔

وہ شدید تکلیف کے باعث وہی بیٹھتا چلا گیا۔

وہ شام کے چھ بجے سارے کام نپٹاتا واپس حویلی آیا تھا۔سب کو سلام کرتے وہ کچھ دیر آرام کی غرض سے کمرے میں آگیا تھا۔ ابھی ابھی وہ فریش سا واش روم سے نکلا تھا۔ جب فاریہ اندر آئی۔اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔وہ جانے کن سوچوں میں  گُم تھی اس سے پہلے کہ وہ  سامنے رکھے ٹیبل سے ٹکراتی کہ ہشام نے بروقت اسے تھاما تھا۔

"فاریہ ! دھیان کہاں ہے تمہارا ابھی چوٹ لگ جاتی۔" وہ اسے تھام کر رُوبرو کرتا ہوا بولا۔

فاریہ نے سر اُٹھا کر اس کے طرف دیکھا پھر جانے دل میں کیا سمائی سر اس کے سینے پر ٹکا گئ۔

ہشام نے اس کے گرد بازو حمائل کیے۔ وہ اسے کچھ اُلجھی اُلجھی سی لگی۔

"کیا ہوا ہے فاریہ؟ کسی نے کچھ کہا ہے؟ مجھے نہیں بتاؤ گی کیا پریشانی ہے؟" وہ اسے رُوبرو کرتا اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں قید کرتا ہوا بولا۔

"کچھ نہیں بس ایسے ہی۔" وہ خود کو کمپوز کرتی پیچھے ہٹی۔

"کچھ تو بات ہے وہ الگ بات ہے تم بتانا نہیں چاہتی۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا اٹل انداز میں بولا۔

"ہشام! آپ کو بیٹا چاہیے یا بیٹی۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی۔کہی نا کہی یہ ڈر بھی تھا کہ وہ کہہ ہی نہ دے کہ ہاں مجھے بیٹا چاہیے۔

ہشام جیسے اس کی آنکھوں میں موجود ساری خدشے پڑھ چُکا تھا۔ اس کی آنکھوں پر جُھکتے جیسے اس نے سارے خدشے چُننے چاہے۔

"مجھے ایک پری چاہیے بالکل میری فاریہ کی طرح گلابی سی ۔" وہ اس کے گال پر ہونٹ ٹکاتا اپنی گرفت میں قید کر گیا۔

"سچ آپ کو بالکل فرق نہیں پڑے گا اگر آپ کی پہلی اولاد بیٹی ہوگئ تو۔" فاریہ اس کے منہ سے جانے کیا سُننے کی تمنائی تھی 

"بالکل بھی نہیں پڑے گا بلکہ خوشی ہوگی کہ خدا نے میری غلطیوں کو معاف کرکے مجھے پری عطا کر دی۔" وہ دھیمی سی آواز میں بولتا فاریہ کو ہلکا پُھلکا کر گیا۔

فاریہ نے تشکر آمیز انداز میں اس کی طرف دیکھا۔

"یار ایسی فضول سی بکواسیات تمہارے ذہن میں کون ڈال رہا ہے۔" اس دفعہ وہ تھوڑا برہم ہوا تھا۔

"کوئی بھی نہیں بس ایسے ہی میرے ذہن میں آیا تو بول دیا۔" وہ سٹپٹاتی ہوئی بولی۔

"اچھے سے جانتا ہوں یہ گھر کے ملازم تمہیں اُلٹی پٹی پڑھا رہے ہیں۔" وہ اس کے بات چُھپانے پر اسے گُھور کر رہ گیا۔

"فاریہ ! میری جان مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا اگر ہماری پہلی اولاد بیٹا ہو یا بیٹی دونوں ہی مجھے جان سے عزیز ہونگے۔ ان فضول سی سوچوں کو خود پر حاوی کرکے پریشان نہ ہوا کرو۔سمجھی۔ " وہ اس کا ماتھا ہونٹوں سے چھوتا ہوا بولا۔

"شکریہ مجھے سمجھنے کے لیے۔" وہ دوبارہ اس کے نزدیک آتی اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔

ہشام نے گرفت مضبوط کرکے اسے خود میں بھینچ لیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہسپتال کے کوریڈور  میں موت سا سناٹا تھا۔ ایسے میں وہ اپنی سُرخ آنکھیں اس بند دروازے پر ٹکاۓ جانے کن سوچوں میں گُم تھا۔ گھر کے کسی افراد نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اندر جا کر اس کی ساری تکلیفیں خود پر لے لیتا۔

اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا جس پر کچھ دیر پہلے اس کی متاعِ جان کا خون لگا ہوا تھا۔ اسے ابھی ایسا محسوس ہوا جیسے ابھی بھی اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوں۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مگن تھا کہ اُسے اردگرد کا بالکل بھی ہوش نہ تھا۔

اس کے کانوں میں اس کی کھلکھلاتی ہوئی آوازیں گونج رہی تھی۔ پھر یکدم اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا روتا ہوا چہرہ لہرایا اور ساتھ ہی اُس کی درد میں ڈوبی آواز اس کے کانوں میں گونجی۔

" میں آپ کو کبھی بھی معاف نہیں کروں گی آپ نے میری محبت میں شراکت کی ہے مجھے بغیر میرا قصور بتاۓ اتنی تکلیفیں دی ہیں آپ ایک دفعہ مجھے میری غلطی تو بتاۓ۔آپ خود میرے قریب آۓ خود اپنی عادت ڈالی اور اب اس مقام پر آکر مجھے تنہا کردیا جہاں میری واپسی کا کوئی دروازہ ہی نہیں اور یہ دروازے اپنے ہی تو میرے لیے بند کیے ہیں مجھے یقین 

دلا کر کے ہر مقام پر میرا ساتھ دیں گے۔پر آپ اپنے ایک بھی وعدے پر پورا نہیں اُترے۔ دیکھنا ایک دن آپ سے اتنی دُور چلی جاؤں گی کہ آپ چاہ کر بھی مجھے واپس نہیں لا سکیں گے۔ "

اس کی آنسوؤں سے بھری آنکھیں اس کے سامنے لہرا رہی تھی ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وقت کے پیچھے جا کر سب ٹھیک کردے۔۔

اپنی کس کس غلطی پر پچھتاتا۔ 

 وہ اس قدر خود میں مگن تھا کہ شہیر صاحب کا غصے سے اس کی طرف بڑھنا بھی محسوس نہ کر سکا۔

شہیر صاحب اس کے نزدیک آتے اسے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوۓ بولے ۔

"اب یہاں کیوں ہمارا تماشا لگانے کھڑے ہو یہی تو تم چاہتے تھے مجھے تکلیف دینا جو تم بہت اچھے سے دے چکے ہو صرف مجھے نہیں اپنے پورے گھر والوں کو اب تم جا سکتے ہو کوئی بھی تمہیں نہیں روکے گا۔ بہت اچھا کام کیا تم نے مجھے یہ سوچتے ہوۓ بھی شرم آرہی ہے کہ تم میرے بیٹے ہو۔ایک دفعہ اُس  باپ کی طرف بھی دیکھ لو جن کی زندگی کا کُل سرمایہ اندر لیٹا وہ معصوم وجود ہے جسے اس سب کے بارے میں رتی برابر بھی نہیں پتہ تو بتاؤ کیسا بدلہ اُس معصوم سے۔ غلطی میری تھی قصور وار میں تھا نا تمہاری نظروں میں پھر کیوں ہر بار تم اُسے سزا دیتے گۓ۔ضروری نہیں جو تم نے دیکھا جو تمہیں بتایا گیا وہی سہی ہو کبھی کبھی حقیقت کچھ اور بھی ہوسکتی ہے۔تم نے مجھے اس قدر مایوس کیا ہے میں تمہاری شکل بھی دیکھنا نہیں چاہتا۔"

یزدان نے ایک بے بس نظر اُٹھا کر سامنے اپنے چاچو کی طرف دیکھا۔ جن کے کندھے آج کچھ اور جُھکے ہوۓ لگ رہے تھے۔ پھر ایک نظر اپنے دا جان پر ڈالی جن کی تو جان بستی تھی اس معصوم میں۔

وہ کچھ بھی کہے بغیر وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید اور اس کی ٹیم بہت ہی احتیاط کے ساتھ ان کی اڈے پر داخل ہوچکے تھے۔ عرید سب سے آگے چلتا سب کو ہدایت دے رہا تھا۔

اندر داخل ہوتے اسے اندازہ ہوا جگہ کافی کشادہ ہے۔ 

"عاصم ! ہمیں دو گروہوں میں تقسیم ہونا پڑے گا۔ تم دائیں طرف جاؤ اور میں بائیں طرف جاؤں گا۔ اور باقی ٹیم ہمیں فولو کرے گی۔ انڈرسٹینڈ۔" وہ سب کی طرف دیکھتا عاصم کو سمجھاتا ہوا بولا۔ان کی ٹیم میں کُل سات لوگ تھے۔سب کو اچھے سے گائیڈ کرکے وہ ایک قدم پیچھے ہوا تھا۔

"یس سر۔۔۔۔" سب نے یک زبان ہوکر کہا تھا۔

"گُڈ! عاصم تم سمجھ گۓ ہو نا آگے کیا کرنا ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو مجھے فوراً اطلاع دینا۔" وہ عاصم کو ہر طرح سے گائیڈ کرتا اپنی ٹیم کو پیچھے آنا کا اشارہ کرچُکا تھا۔ عاصم بھی اپنی ٹیم کو لیتے دائیں جانب مُڑ چکا تھا۔وہ ساری ہر طرف پھیل چُکے تھے۔

پھر وہ راستے میں آۓ ہر بندے کو  بڑے ماہرانہ انداز میں ڈھیر کرتے جارہے تھے۔ 

عرید ہر کمرے کا دروازہ کھول بڑے احتیاط کے ساتھ چیک کررہا تھا۔

ایک کمرے کے نزدیک آکر وہ ٹھٹھکا اندر سے کسی کے چلانے کی آواز آرہی تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اندر جا پاتا کوئی اس کے سر کے پیچھے بندوق رکھتا اسے  روک چُکا تھا۔

عرید نے آنکھیں بند کرکے کھولی تھی۔ 

"خود کو بڑے چالاک سمجھ رہے ہو۔ میرے اتنے بندے موت کے گھاٹ اُتار دیے اب تجھ سے سُود سمیت بدلہ لوں گا۔چل آگے۔"وہ اسے دھکا دیتا آگے چلنے کا اشارہ دے چُکا تھا۔ وہ چلتے ہوۓ ایک ہال میں آگۓ تھے جہاں پہلے ہی کچھ لوگ موجود تھے۔ کالی بھی انہی میں سے ایک تھا۔ عرید نے شدت سے آنکھیں میچی تھی۔

عرید کے کچھ ساتھی بھی وہی کھڑے تھے یعنی وہ بھی پکڑے جاچُکے تھے۔

"بھئ شیر خود چل کر میرا جال میں پھنسا ہے۔ کچھ خاطر مدارت تو ہونی چاہیے۔ کیوں کیا کہتے ہو ساتھیوں؟" وہ مسخرے پن سے سب کی تائید چاہ رہا تھا۔اس کا چہرہ ماسک سے کور تھا وہ کم ہی لوگوں کو اپنی شکل دکھاتا تھا۔

"چلو بھئ اس کے لیے وہ خاص تحفہ لایا جاۓ جو آج ہی یہاں آیا ہے۔" وہ سائیڈ سمائل چہرے پر لاتا اپنے بندوں کو اشارہ کرچُکا تھا۔

"بزدل انسان پیٹھ پیچھے کیوں وار کررہا ہے۔ ہمت ہے تو سامنے سے مقابلہ کر۔" عرید غُصّے سے دانت بھینچتا جھٹپٹاتا ہوا بولا۔

باس نے اس کی بات کو سرے سے اگنور کیا۔

اس نے دو بندوں کو اشارہ کیا جو عرید کو تھامتے اس کے سر پر بندوق تان چُکے تھے۔

"سرپرائز۔۔۔" باس نے قہقہ لگاتے اس کی توجہ سامنے کی طرف مبذول کرائی۔

عرید نے نگاہیں اُٹھا کر اس سمت دیکھا جہاں وہ اشارہ کر رہا تھا۔ 

سامنے موجود ہستی کو دیکھ اس کی آنکھیں کُھل چُکی تھی۔

"ازوہ۔۔۔" اس کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ تھے۔ وہ یہاں کیا کر رہی تھی۔ ابھی چند گھنٹوں قبل ہی وہ اسے صحیح سلامت چھوڑ کر آیا تھا۔ اس کی حفاظت کی خاطر وہ اسے بتاۓ بغیر دو باڑی گارڈز کا بھی انتظام.کر کے آیا تھا۔

اسے یہاں دیکھ کر عرید کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہورہا تھا۔

"چھوڑو مجھے۔۔۔۔" وہ اپنے بازو پر پڑے اس انسان

کے ہاتھ کو جھٹک کر چلائی۔

"واہ! میں تو تمہیں کوئی بیچاری سی لڑکی سمجھ رہا تھا۔ مگر تم میں بڑا جگرا ہے۔ اطلاع مل چُکی ہے مجھے میرے ایک بندے کا سر تم پھاڑ چُکی ہو۔مجھے پسند آئی تمہاری یہ ادا۔" وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آتا اس کے گال پر دو انگلیاں مِس کرتا ہوا بولا۔

ازوہ نے تڑپ کا جُھکا سر اُٹھایا تھا جہاں عرید گہری سنجیدگی کے تحت اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سامنے چلنا والا یہ منظر اس کی آنکھوں میں چنگاریاں بھر رہا تھا۔

"کمینے انسان ! تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے کی۔ تجھے زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا۔ اپنے ہاتھ اس سے دُور رکھ۔" وہ ہاتھوں کو چھوڑوانے کی کوشش کرتا شدت سے دھاڑا تھا۔

"لیلا کو ہاتھ لگایا تو مجنوع تڑپ اُٹھا۔ اب تو تجھے ڈھیر کرنے میں اور بھی مزہ آۓ گا۔ویسے تیری بیوی اچھی خاصی حسین ہے۔کسی کا بھی ایمان ڈگمگا سکتی ہے۔ میرا دل آگیا ہے تیری بیوی پر۔" وہ کمینگی سے قہقہے لگاتا عرید کو انگاروں پر گھسیٹ رہا تھا۔ عرید کا بس نہیں چل رہا تھا اس انسان کو گولیوں سے بھون ڈالے۔

"بکواس بند کر اور اُس سے دُور رہ۔ اپنی موت کو تم خود ہی اپنے ہاتھوں سے درد ناک کرہے ہو۔" عرید کی دھاڑ پورے در و دیوار کو لرزا گئ۔

"نہ نہ ! تو غلط کہہ رہا ہے مرے گا تو تو میرے ہاتھوں مگر اپنی بیوی کی بربادی دیکھ کر۔تو نے میرا جتنا نقصان کیا ہے اس کا بھگتان تیری بیوی بُھگتے گی۔" وہ یکدم ہی بےانتہا سنجیدگی سے دھاڑا تھا۔

ازوہ آنسو بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی اسے اپنی بےوقوفی پر جی بھر کے تاؤ آرہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چند گھنٹے قبل

عرید کو گۓ دو گھنٹے سے زائد کا وقت گُزر چُکا تھا وہ مسلسل اللّٰہ سے اس کی حفاظت کی دُعا کررہی تھی۔

دفعتاً اس کا موبائل فون رِنگ ہوا۔ انجان نمبر سے آتی اس فون کال کو اس نے اگنور کیا۔ مگر کال کرنے والا ڈھیٹ تھا وہ مسلسل کال کرتا جا رہا تھا۔

ازوہ نے جھنجھلا کر کال اُٹھائی۔

وہ کال اُٹھاتے سامنے والے کے بولنے کی منتظر تھی۔

"حسینہ! کتنا وقت لگا دیا کال اُٹھانے میں۔" دوسری طرف سے دلبرانہ لہجے میں کہا گیا۔

"رانگ نمبر۔۔۔" ازوہ نے کوفت سے اس شخض کا فون کاٹنا چاہا جب دوسری طرف سے روک دیا گیا۔

"بالکل رائٹ نمبر لگایا ہے۔ اگر اپنے اُس پولیس والے شوہر کی ذرا بھی فکر ہے تو کال مت کاٹنا۔ یہاں تم کال کاٹو گی وہاں اُس کا پتا زندگی سے کٹے گا۔" وہ اپنے مکروہ عزائم سے اسے ڈراتا ہوا بولا۔

"کیا بکواس کررہے ہو؟ کہاں ہیں عرید؟" وہ ہذیانی سی ہوتی چلائی تھی۔

"صبر رکھو حسینہ۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ دراصل تیرا شوہر میرے قبضے میں ہے۔ اگر تو اس کی سلامتی چاہتی ہے تو چُپ چاپ گھر کے باہر کھڑی بلیک کار میں بیٹھ کر میرے پتے پر پہنچ جاؤ۔ سارے سوالوں کا جواب مل جاۓ گا۔" وہ اس کی حالت کا حِظ اُٹھاتے ہوۓ بولا۔

"میں کیوں تم پر یقین کرو؟ مجھے تم پر رتی برابر بھی بھروسہ نہیں ہے۔" وہ اٹل انداز میں بولتی سامنے والے کو دو پل کے لیے لاجواب کر گئ۔

"تمھیں یقین نہیں کرنا تو نہ کرو۔ مگر اتنا تو تم جانتی ہوگی کہ آج وہ مجھ پر حملہ کرنے میری جگہ پر پہنچا ہے۔ ٹھیک ہے تم یقین نہ کرو مگر جلد ہی تمہارے شوہر کی لاش تم.تک پہنچا دی جاۓ گی۔" وہ اس کے اٹل انداز پر غُصّے سے دانت کچکچا کر رہ گیا۔

ازوہ عرید کے مرنے والی بات پر خُود مرنے والی ہوچکی تھی۔

"تمہارے پاس محض آدھا گھنٹہ ہے فیصلہ کرنے کے لیے اور اس کے ٹھیک دس منٹ بعد تمہارے شوہر کی لاش پہنچ جاۓ گے۔" وہ اپنی بات مکمل کرتا فون رکھ چُکا تھا۔

ازوہ کتنی ہی دیر کشمکش میں وہی بیٹھی رہی۔اسے سمجھ ہی نہ لگی کہ وہ کیا کرے۔ اس نے عرید کا نمبر ڈائل  کیا جو بند آرہا تھا۔ اس کی پریشانی میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 

وہ جو فیصلہ کرنا مشکل تھا وہ منٹوں میں کرتی گھر سے باہر نکلی۔ گھر سے کچھ دُور کالے رنگ کی گاڑی کھڑی تھی۔

وہ گاڑی کی جانب قدم بڑھا گئ۔عرید کے ہائیر کیے ہوۓ گارڈ فوراً الرٹ ہوۓ وہ ازوہ کو ایک انجان گاڑی کی طرف بڑھتا دیکھ کر راستے میں حائل ہوۓ۔

"میم کہاں جارہی ہیں؟ عرید سر کا آرڈر ہے آپ کو کہی جانے نہ دیا جاۓ۔" دونوں گارڈ نظریں جُھکاۓ کھڑے تھے ان میں سے ایک اسے مخاطب کرتا ہوا بولا۔

وہ ان کے منہ سے عرید کا نام سُن کے کچھ کچھ سمجھ چُکی تھی ضرور عرید نے اس کی حفاظت کے لیے ان کو ہائیر کیا تھا۔

"عرید کی جان خطرے میں ہے۔مجھے جانے دو۔" وہ التجائی انداز میں انہیں دیکھ کر بولی۔

"میم آپ کو کیسے خبر کہ سر کی جان خطرے میں ہے۔" ان کا ماتھا ٹھٹھکا تھا۔

"مجھے ابھی فون کال آئی تھی اگر میں نہیں گئ وہ عرید کو مار دیں گے۔" وہ آنسو بھری نگاہوں سے بولی۔

"میم ! آپ کیوں نہیں سمجھ رہیں یہ ٹریپ ہے آپ کے لیے عرید سر سے میری کچھ دیر پہلے بات ہوئی ہے وہ بالکل صحیح سلامت ہیں۔ بالفرض اگر اُن کی جان کو خطرہ بھی ہے تو وہ کبھی گوارہ نہیں کریں گے کہ اُن کی بیوی ایسے لوگوں کے بیچ جاۓ۔" وہ اٹل انداز میں بولتا اسے کچھ کچھ اپنا قائل کر گیا۔

"عرید سچ میں ٹھیک ہیں۔" وہ معصومیت سے پُر لہجے میں بولی۔

"جی میم ! آپ اندر جائیں ہم یہاں سب سنبھال لیں گے۔" وہ ہمدردانہ لہجے میں اسے واپس اندر جانے کا کہتا ہوا بولا۔

ازوہ اس سے پہلے خاموشی سے اندر کی طرف قدم۔بڑھاتی۔ گاڑی سے ایک آدمی نکلتا ایک گارڈ کا نشانہ لیتا اس کی پیٹھ پر گولی چلا چُکا تھا۔

"میم! ۔۔۔ آپ۔۔۔۔ اندر ۔۔۔ جائیے۔" وہ درد سے چُور آواز میں بولا۔ ازوہ حواس باختہ سی ایک قدم بھی نہ بڑھا سکی۔

دوسرا گارڈ فوراً الرٹ ہوتا گرنے والے گارڈ کو تھام۔چُکا تھا۔

گاڑی میں موجود ایک آدمی ازوہ کو دبوچ چُکا تھا۔

گارڈ فوراً الرٹ ہوتا احتیاط سے حملہ کرگیا  کیونکہ اسے خدشہ تھا کہ کہیں گولی ازوہ کو ہی نہ لگ جاۓ اس کے حملے سے بچتا بچاتا گاڑی میں بیٹھتا ازوہ کو بھی اندر گھسیٹ چُکا تھا۔ 

ازوہ نے ہاتھ پاؤں چلاتے اس کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کی مگر بےسُود ۔وہ جھٹپٹاتی رہی مگر وہ بنا گاڑی روکے اسے وہاں لے کر جاچُکے تھے۔

گارڈ نے پہلے پریشانی سے اپنے ساتھی گارڈ کو دیکھا وہ عرید کے نمبر پر میسج چھوڑتا اسے لیے ہسپتال کی طرف روانہ ہوا۔ اس کی جان بچانا زیادہ ضروری تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عاصم عرید کے ساتھ اپنے کچھ ساتھیوں کو ان کی قید میں جھکڑا دیکھ سکتا تھا۔ اس نے اپنے سارے ساتھیوں کو اس کی پوزیشن بتاتے بہت ہی احتیاط کے ساتھ اس معاملے سو نپٹانے کا سوچا۔

باس اور اس کے چند خاص آدمی ہی یہاں موجود تھے۔وہ سمجھ رہا تھا جیسے ساری گیم ہی میرے ہاتھوں میں ہے مگر وہ بہت جلد شکست کھانے والا تھا۔

"کالی تو فکر مت تجھے بھی بھرپور موقع ملے گا۔ آخر اس لڑکی پر تونے دو سال خرچ کیے ہیں۔" وہ خباثت مسکراتا نظریں ازوہ کے خوبصورت چہرے پر ٹکاتا ہوا بولا۔

اس نے ازوہ کا بازو اپنی گرفت میں قید کیا تھا پھر اسے لیتے وہ ایک کمرے کی جانب بڑھنے لگا۔ اس سے پہلے کے وہ اپنے کسی مکرو عزائم میں کامیاب ہوتا۔عاصم اپنے پلان پر عمل درآمد کرتا ان پر حاوی ہوچکا تھا۔ اب گیم اُلٹ چُکی تھی۔

باس نے شدید ٹینشن سے اس نئ سچوئشن کو دیکھا۔دونوں طرف سے چلتی گولیوں کی بُوچھاڑ پر ازوہ خوف زدہ ہوچکی تھی۔ عرید نے قدم اس کی جانب بڑھاتے اسے اپنی پناہوں میں قید تکیا۔ وہ اسے قدرے ایک کونے میں پہنچا چُکا تھا۔

"اس میز کے پیچھے چُھپ جاؤ۔ میں یہی ہوں سب سنبھال لوں گا۔" وہ سپاٹ انداز کے ساتھ بولتا اس کا گال تھپتھپاتا باس کی جانب بڑھ گیا۔

باس سب کو مصروف دیکھ کر وہاں سے بھاگ رہا تھا اس سے پہلے ہی عرید نے اسے جالیا۔

عرید نے پوری شدت سے اس کی ناک پر مُکا مارا تھا جس سے خون رسنے لگا۔ دوسری طرف سے بھی بھرپور جوابی کاروائی کی گئ۔عرید فوراً سے سنبھلتا اس پر پے در پے وار کرتا چلا گیا۔ اس کا حملہ اتنا ماہرانہ تھا باس کو سنبھلتے کا موقع ہی نہ ملا۔

"تیری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی کو ہاتھ لگانے گی۔" وہ اس کے ہاتھ کو بھاری بوٹ تلے مسلتا ہوا بولا۔

"میری سانسیں بستی ہیں اُس میں۔ تو نے اپنی غلیظ نظریں اس پر ڈالی۔" وہ نیچے جُھکتا اس کے منہ پر ایک اور مُکّا جڑ چُکا تھا۔وہ اسے ٹھوکروں کی زد پر رکھتا اسے ادھ منوا کر چُکا تھا۔

"وہ صرف میری بیوی نے میری جنونیت ہے۔ اُس پر اُٹھنے والا ہر ہاتھ میں کاٹ کر پھینک دوں گا۔ اُس کی طرف اُٹھنے والی ہر گندی نظریں میں نوچ ڈالوں گا۔" وہ دیوانہ وار پے در پے وار کرتا چلا گیا۔

ازوہ سانس روکے اس کی جنونی انداز دیکھ رہی تھی۔

"شاید میں تجھے زندہ گرفتار کرتا مگر تو نے میری بیوی کو ان سب میں شامل کرکے میرے اندر سوۓ اس حیوان کو جگا دیا ہے۔ جو تجھ جیسے مجرموں کے لیے خود بخود جاگ اُٹھتا ہے۔" عرید کی مار سے وہ کب کا بےہوش ہوچکا تھا۔ 

عرید پر جانے کون سا جنون سوار تھا کہ وہ جو اُترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

ازوہ خوفزدہ نظروں سے کبھی عرید اور زمین پر گرے  اُس وجود کو دیکھ رہی تھی۔

وہ کمرے میں ٹہلتا کب سے کسی کی  کال کا انتظار کررہا تھا۔آخر تھک ہار کر اس نے خود کال ملائی تھی۔ جو کافی تردُدّ کے بعد اُٹھالی گئ تھی۔

"نکموں ! ابھی تک کوئی اطلاع نہیں دی۔ کام ہوا یا نہیں۔ پہنچا دیا نا اُس بڈھے کو اوپر۔" وہ غُصّے بھری آواز میں بولا تھا۔

"سر کام تو ہوگیا مگر۔۔۔۔" دوسری جانب  سے جملہ ادھورا چھوڑنے پر وہ جھنجھلا گیا۔

"مگر کیا۔ صاف صاف بات کرو۔" وہ سخت  آواز میں  چلایا۔

"سر ! گاڑی کا نمبر وہی تھا جو آپ نے بتایا تھا مگر اُس میں کوئی بزرگ نہیں بلکہ ایک لڑکا اور لڑکی تھے۔" وہ بات مکمل کرتے اس کے ریئکشن کا انتظار کررہا تھا۔

"کیا بکواس کررہے ہو؟ کون تھا گاڑی میں؟ تم لوگ آنکھیں بند کیے بیٹھے تھے۔" وہ دھاڑتے ہوۓ بولا۔

"سر ہم نے تو دھیان نہیں دیا۔ لڑکی خاصی زخمی تھی شاید مر گئ ہو۔" وہ اسے جھٹکے پر جھٹکا دیتا اس کے غصّے میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔

"تم لوگ انتہا کے نکمے ہو۔ ایک کام ڈھنگ سے نہیں کرسکتے۔ جانے کس کو مار دیا تم لوگوں۔" وہ اب تقریباً جھنجھلا سا گیا تھا۔ 

وہ تو کسی اچھی خبر کا منتظر تھا یہاں وہ  لوگ اسے دھچکے پر دھچکا دیے جارہے تھے۔

"ہم نے کام تو بالکل ٹھیک کیا تھا مگر جانے وہ لوگ گاڑی میں کہاں سے ٹپک پڑے۔" وہ منمنانے والے انداز میں بولا۔

"تم لوگ ملو مجھے ایک ایک کی خبر لیتا ہوں۔" وہ غُصّے سے کہتا کھٹاک سے فون بند کر چُکا تھا۔

"بہت اچھی قسمت ہے تمہاری عالم آفندی بار بار بچ نکلتے ہو۔" وہ عالم آفندی کو ذہن میں لاتے دانت کچکچا گیا۔

وہ عالم آفندی ہی تھا جس نے اس کی غلط روش پر یوسف کو کہتے اسے گھر سے نکلوایا تھا۔ جب اُن کے سمجھانے پر بھی حماد اپنی غلط حرکتوں سے باز نہ آیا تھا تو اس کا بینک اکاؤنٹ بلاک کردیا گیا تھا غرض کہ انہیں کوئی بھی مالی امداد فراہم نہ کی جاتی تھی۔ 

جب یوسف آفندی شیریں کو لیکر یہاں سے گۓ تھے وہ اپنی پراپرٹی کا کچھ حصّہ اسے دے گۓ تھے۔ مگر حماد صاحب کے سر پر عالم آفندی کو برباد کرنے کا بھوت سوار ہوگیا تھا۔جو آج تک اُتر نہ سکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

باس کا خون سے لت پت وجود ایک طرف پڑا تھا چہرے سے ماسک کب کا ہٹ چُکا تھا۔ وہ چالیس پینتالیس کے درمیان کی حاملیت کا شخص تھا۔اُس کا گناہوں میں لتھڑا وجود ایک سائیڈ پر پڑا تھا۔ کسی نے اسے دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا تھا۔ اپنے مشن میں کامیابی پر عرید اور عاصم دونوں ہی بےتحاشا خوش تھے۔

عرید ازوہ سے سخت خفا تھا اُس نے کیا سوچ کر اس باس کے  بہکاوے میں آکر گھر سے باہر قدم رکھا تھا۔ سارا معاملہ سیٹ ہونے پر وہ ازوہ کی طرف بڑھا تھا۔ جو خوفزدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کا یہ جنونی رُوپ اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔عرید سپاٹ چہرے کے ساتھ اس کے نزدیک آیا اور اس کے ہاتھ تھامتا اس عمارت سے باہر نکلتا چلا گیا۔

ازوہ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھ دیکھ کر گھبرا رہی تھی۔وہ اس سے کوئی بات نہیں کررہا تھا۔

عرید اسے باہر لاتا گاڑی میں بٹھا چُکا تھا۔ پھر گھوم کر خود دوسری طرف آکر ڈرائیونگ سیٹ پر جگہ سنبھال چُکا تھا۔

ازوہ نے ایک پل بھی اس پر سے نظریں نہ ہٹائی تھی۔اس کے بازو سے رستا خون اس کی شرٹ کا داغ دار کررہا تھا۔ اس کا غُصّے سے بھرپور انداز دیکھ کر اس میں بولنے کے ہمت ہی نہ تھی۔

"عرید!آپ کی چوٹ سے خون بہہ رہا ہے۔" وہ ڈرتے ڈرتے منمنائی۔

مگر دوسری جانب سے جواب ندارد۔

"عرید ! پلیز اگر غلطی میری ہے آپ مجھ سے خفا ہوں۔خود کو کیوں تکلیف دے رہے ہیں؟" وہ روتے ہوۓ بولی تھی۔

"ازوہ! کیا تم دو منٹ چُپ رہ سکتی ہو۔ مجھے خاموشی سے ڈرائیونگ کرنے دو۔" وہ ذرا سخت لہجے میں بولا۔

ازوہ کی زبان پر تالا لگ چُکا تھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ہسپتال سے نکلتا نزدیکی مسجد میں آیا تھا۔ رب سے اس کا تعلق ہمیشہ مضبوط رہا تھا اس نے کبھی خود کو کسی بھی حالات میں بھٹکنے نہ دیا تھا۔

سر کے زخم سے ٹیسیں اُٹھ رہی تھی۔ ایک بازو بھی پٹی میں جھکڑا تھا۔ جہاں ہلکا سا زخم آیا تھا۔ وہ اپنے زخم کی پرواہ کیے بنا وضو کرتا چلتا ہوا مسجد کے صحن میں بیٹھ گیا۔عصر کی نماز کا وقت ہونے والا تھا۔ رفتہ رفتہ نمازی جمع ہونے لگے تھے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال نمازیوں سے بھر چُکا تھا۔

امام  صاحب کی امامت میں اس نے نہایت خشوع و خضوع سے نماز ادا کی تھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد دُعا کے بعد لوگ آہستہ آہستہ اُٹھ اُٹھ کر جانے لگے۔مگر وہ وہی جم کر بیٹھا رہا۔

ہال میں موجود نمازیوں کا رش چھٹا تو مولوی صاحب کی نظر اس پر گئ تھی۔ جو زخمی حالت میں سر جُھکاۓ بیٹھا تھا۔وہ اس کے نزدیک آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھ گۓ۔

"کیا ہوا بچے ایسے کیوں بیٹھے ہو؟" وہ پُرشفقت مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوۓ بولے۔

"بہت قیمتی چیز داؤں پر لگی ہے۔رب سے بس وہی مانگنے بیٹھا ہوں۔ مجھے اُمید ہے میرا رب مجھے مایوس ہرگز نہیں کرے گا۔" وہ سر اُٹھاتا ان کی طرف دیکھ کر بولا۔

ان کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی تھی۔

"بہت خوب! جب اللّٰہ پر یقین ہے تو وہ تمہیں بےمُراد لوٹنے نہیں دے گا۔" ان کے چہرے پر ابھی بھی ویسی ہی شفیق سی مسکراہٹ تھی۔

"اپنی بےوقوفیوں میں بہت کچھ اُلٹ پُلٹ کرچُکا ہوں۔ کسی نے مجھے نہیں سمجھا۔ اور جس نے مجھے سمجھا میں نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے دُور کردیا۔ مگر اب جب سب کچھ ٹھیک ہونے لگا تھا پھر سے سب کچھ غلط ہوگیا۔"اس کی آنکھوں میں گہرا کرب تھا۔

"اللّٰہ پر یقین بھی ہے پھر بھی مایوس ہورہے ہو۔" وہ اس کی بات سُنتے جواباً بولے۔

"مایوس نہیں ہورہا۔ بس اُسے تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا۔دل چاہتا ہے اُس کی ساری تکلیفیں خود پر لے لوں۔" وہ اپنی تکلیف بُھلاۓ اگر کسی کو سوچ رہا تھا تو وہ صرف اور صرف زومیرہ آفندی تھی۔

"میرے بچے آزمائش کی گھڑی ہے۔ اگر تم اس آزمائش کی بھٹی سے نکلنے گے تو سونے کی طرح نکھر جاؤ گے۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں بولے۔

یزدان نے بڑی گھور سے ان کی بات کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کی۔

یزدان نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا تھا۔

"ایک اور بات کیا پتہ آزمائش کا یہ پُل پار کرتے کنارے پر تمہیں تمہاری من پسند چیز انعام کے طور پر مل جاۓ۔" وہ اس کی سر پر دستِ شفقت رکھتے اُٹھ کھڑے ہوۓ۔

ان کی باتوں نے جیسے اس کے بےجان جسم میں نئ رُوح پھونک دی تھی۔ اس کا اپنے رب پر یقین مزید پُختہ ہوا تھا۔ وہ ان کے نظروں سے اوجھل ہونے تک ان کی پیٹھ کو دیکھتا رہا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کا کچھ دن یہاں رُکنے کا پلان تھا مگر گھر سےملنے والی اطلاع پر وہ فوراً واپس جانے کا فیصلہ کر چُکا تھا۔ابھی کچھ دیر پہلے ہی کبیر صاحب نے یہاں درپیش آنے والے حالات سے آگاہ کیا تھا۔اس نے فون رکھتے گھر کا رُخ کیا تھا وہ زخمی گارڈ کی حالت دریافت کرنے اور اپنے  بازو کے زخم پر پٹی کروانے کے لیے ہسپتال میں موجود تھا۔ابھی وہ وہاں سے نکلتا جب اس کےموبائل پر کبیر صاحب کی کال آئی۔

"السلام علیکم ڈیڈ! کیسے ہیں آپ اور گھر میں سب ٹھیک ہیں؟" وہ ہشاش بشاش لہجے میں سلام دُعا کرتا ہوا گھر والوں کے حال چال کے متعلق پوچھنے لگا۔

مگر دوسری طرف سے دی جانے والی خبر نے اسے پریشان کردیا۔ عرید نے انہیں تسلی دیتے فوراً واپس آنے کی اطلاع دی تھی۔وہ پریشانی سے فوراً گھر کی جانب بڑھا تھا۔

وہ تقریباً پندرہ منٹ کے اندر گھر کے سامنے موجود تھا۔ وہ چابی سے دروازہ کھولتا اندر داخل ہوا تھا۔ لاؤنج سے ہوتا ہوا وہ کمرے میں آگیا۔ وہ اسی کے انتظار میں بیٹھی تھی اس کے اندر آنے پر وہ فوراً اس کےنزدیک آئی تھی۔

وہ بغیر اس کی طرف دیکھے الماری کی طرف بڑھتا اپنے بدلنے کے لیے کپڑے نکالنے لگا۔

ازوہ نے روئی روئی آنکھوں سے اس کی پُشت کو دیکھا۔

"عرید ! پلیز  ایسا مت کریں میرے ساتھ۔" وہ روندھی ہوئی آواز میں اسے دیکھ کر بولی۔

"ازوہ ! ابھی میں بحث کرنے کے موڈ میں ہر گز نہیں ہوں فوراً پیکنگ کریں ہم واپس جارہے ہیں۔" وہ حکم سُناتا واش روم میں بند ہوگیا۔

کچھ دیر بعد وہ فریش ہوتا واش روم سے باہر آیا

 تھا۔

عرید ! کیا آپ مجھ سے اتنا ناراض ہیں کہ میرے ساتھ وقت گُزارنا بھی پسند نہیں کررہے۔ آپ نے تو کہا تھا کہ اس مشن کے مکمل ہوتے ہی میرے ساتھ خوبصورت لمحے گُزارنا چاہتے ہیں مگر اب آپ مجھ سے ناراض ہوکر واپس جارہے ہیں۔" وہ شکوہ کُناں نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

"ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ میری ناراضگی اپنی جگہ مگر میں اس لیے بالکل واپس نہیں جارہا بلکہ میرو اور یزدان کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے اور وہ  آئی سی یو میں ہے۔" وہ وضاحت دیتا خاموش ہوگیا۔

"میرو آئی سی یو میں ہے؟ وہ ٹھیک تو ہے؟" وہ پریشانی سے مزید اس کے نزدیک آگئ۔

"ڈیڈ نے بتایا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اب باقی تفصیل جاکر پتہ چلے گی۔" وہ سپاٹ سے انداز میں بولتا فون نکالتا کسی کو کال کرنے کی غرض سے لاؤنج میں آگیا۔

ازوہ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی پیکنگ کرنے لگی۔ اب تو اسے بھی واپس جانے کی جلدی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ مسجد سے نکلتا واپس ہسپتال آچُکا تھا۔ اب کی بار کسی نے بھی اس کی موجودگی پر کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ داجان نے سب فی الحال اس معاملے میں خاموش رہنے کا کہا تھا۔

یزدان خاموشی سے چلتا  بینچ پر آکر بیٹھ گیا۔داجان نے اس کا کملایا چہرہ دیکھا تو خاموشی سے چلتے اس کے نزدیک آگۓ۔ وہ داجان کا کس قدر لاڈلا تھا سب ہی اس بات سے آگاہ تھے۔بےشک انہیں میرو سے بےتحاشا محبت تھی بلکہ اپنے سارے بچوں سے ہی تو وہ کیسے اسے تکلیف میں دیکھ سکتے تھے۔ اگر کوئی بچہ قدم لڑکھڑانے پر اُلٹی راہ پر چل نکلے تو اسے تھاما جاتا ہے نہ کہ مزید دھکا دیا جاتا ہے۔ ان سب میں اسے یزدان کہی غلط نہیں لگا تھا وہ تو خود حالات کا ستایا تھا انہیں یزدان سے ہمدردی تھی اُس محض  یہ غلطی تھی کہ وہ اپنے سے جُڑے ہر رشتے سے بےحد محبت کرتا تھا چاہے وہ اس کی ماں ہو یا میرو۔

"داجان ! کیا آپ کو بھی لگتا ہے میں نے میرو کو جان بوجھ کر تکلیف پہنچائی ہے۔" وہ سر اونچا کرکے ان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"نہیں مجھے ایسا ہر گز نہیں لگتا کہ تم میرو کو نقصان پہنچا سکتے ہو۔"وہ اس کے ساتھ ہی بینچ پر موجود خالی جگہ پر براجمان ہوچکے تھے۔

یزدان نے گردن موڑ کر ان کی طرف دیکھا تھا۔وہ اسی کی طرف متوجہ تھے۔کیونکہ میرو کے لیے تمہارے کھرے جذبوں سے میں واقف ہوں۔مگر تم اپنے غُصّے میں کہی نا کہی اُس کے ساتھ غلط کر چُکے ہو۔" وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ بولے۔

"میں جانتا ہوں۔ مگر ڈیڈ کو تو یہ لگتا ہے کہ میں میرو کو تکلیف میں دیکھ کر بہت خوش ہوں۔" وہ سنجیدہ تاثرات کے سنگ بولا تھا۔

"نہیں میری جان اُسے ایسا بالکل نہیں لگتا وہ غُصّے میں بول گیا وہ سب۔ تم بھی جانتے ہو میرو سب کو کتنی عزیز ہے.  بس اسی لیے وہ ہائپر ہوگۓ۔" وہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولے۔

"مگر انہیں میرے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا میں تو خود اس کی یہ حالت دیکھ کر مر رہا ہوں۔" وہ سُرخ آنکھوں سے انہیں دیکھ کر بولا۔

داجان نے محض اثبات میں سر ہلایا۔

"داجان! مجھے میرو سے ملنا ہے پلیز ڈاکٹرز سے کہے مجھے کچھ دیر  کے لیے اس کے پاس جانے دیں۔" اس کی بےچینی کو دیکھ کر داجان نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

ڈاکٹر  سے ضد کرکے یزدان آئی سی یو کی جانب بڑھا تھا۔داجان کے کہنے پر سب فی الحال خاموش تھے۔

اندر قدم رکھتے ہی پہلی نظر بستر پر لیٹے اس وجود پر گئ تھی جو زخموں سے چُور آنکھیں بند کیے ہوش و حواس سے بیگانہ لیٹی تھی۔

وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک تر آگیا۔ اس کے نزدیک ٹھہرتے یزدان نے اس کے چہرے کو کرب سے دیکھا۔

"میرو ! میری جان ایسا مت کرو میرے ساتھ۔آنکھیں کھولو یار۔تمہاری بند آنکھیں مجھے تڑپا رہی ہیں۔میری زندگی مجھ سے ناراض تھی ایک دفعہ آنکھیں کھولو تو سہی ساری ناراضگی سمیٹ لوں گا۔ تمہیں مجھ سے شکایت تھی نا کہ میں تمہاری نہیں سُنتا۔ یار اُٹھ کر جتنا چاہے مجھے سُناؤ میں تمہاری ساری  باتیں سُنوں گا۔" وہ اس کے ہاتھوں کو نرمی سے سہلاتا ہوا بول رہا تھا۔

"یار جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ پانچ سال کا عرصہ ہوگیا ہمارے نکاح کو یار ابھی تک مجھے انتظار کی سولی پر لٹکایا ہے.  کب کرو گی میری سزا ختم." وہ اس کے ہاتھوں پر سر ٹکاۓ بیٹھا تھا۔

مشینوں میں جھکڑا اس کا نازک وجود یزدان کو تکلیف دے رہا تھا۔ پھر وہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ کر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ازوہ اور عرید ابھی کچھ دیر پہلے حویلی پہنچے تھے۔

عرید اسے حویلی چھوڑ کر ہسپتال کے لیے نکل چُکا تھا۔ ازوہ بھی جانا چاہتی تھی عرید کا کہنا تھا وہ شام کو اسے لے کر جاۓ گا۔

وہ اور نشوہ اُداس سی بیٹھی تھی۔نشوہ کی آنکھیں کل سے رونے کی وجہ سے سُرخ ہورہی تھیں۔وہ وقفے وقفے سے میرو کو یاد کرتیں آنسو بہارہیں تھیں۔

"ازوہ بھابھی! میرو ٹھیک ہوجاۓ گی نا۔ مجھ سے تو اس کے بغیر کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ وہ میری بہن دوست رازدار سب ہی ہے۔"وہ اُمید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر بولی۔

"اُس کے ساتھ اتنے لوگوں کی دُعائیں ہیں دیکھنا وہ بالکل ٹھیک ہوجاۓ گی۔ ا۔سے ٹھیک ہونا ہی ہوگا۔ ایک بار اُسے ٹھیک ہونے دو خوب ناراض رہیں گے اُس سے کتنا ستا رہی ہے وہ ہمیں۔" وہ اس کے گال تھپتھپاتے ہوئی بولی۔

پھر وہ دونوں اُٹھتی وضو کرکے نفل ادا کرتیں میرو کی صحتیانی کے لیے دُعا کرنے لگی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید ہسپتال پہنچا تو آئی سی یو کے باہر سب کو موجود پایا۔ سب اپنی اپنی جگہ پر اُداس کھڑے تھے۔عرید کتنی دیر شاہ ویز کو تسلی دیتا رہا وہ جانتا تھا ان کی جان تو میرو میں اٹکی تھی۔ان کی اکلوتی لاڈلی تھی کیسے نا اُس کی حالت پر بےقرار ہوتے۔

ان سے ہٹتی اس کی نظر یزدان پر پڑی تھی جو گُم سُم سا نظریں جُھکاۓ بیٹھا تھا۔

عرید اس کے نزدیک آکر بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھنے پر بھی وہ ویسے ہی گُم سُم بیٹھا رہا۔

"کیسے ہوا ایکسیڈنٹ؟ " وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا گیا۔

یزدان نے چونک کر جُھکا سر اُٹھایا تھا۔

اس کی غائب دماغی پر عرید نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تھا۔

اس کی سوال پر یزدان کی آنکھوں میں ایکسیڈنٹ کا منظر گھوم گیا۔

"یہ ایکسیڈنٹ نہیں تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی وہ جو کوئی بھی تھا آیا ہی ہمیں مارنے کے ارادے سے تھا۔" وہ آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولتا ہوا بولا۔

"واٹ! کیا کہہ رہے ہو؟ کس نے کیا ہے یہ سب؟" عرید حیرانگی سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

"یہ میں نہیں جانتا مگر میں اُس انسان کو ڈھونڈ نکالوں گا۔ اور ایسی جگہ لے جا کر پھینکوں گا جہاں سانس سانس کا محتاج ہوجاۓ گا وہ۔ بات اگر میری ہوتی تو کب کا بھول جاتا مگر اس نے میری میرو کو تکلیف پہنچائی ہے جب تک اُس کے جسم سے آخری سانس نہ چھین لوں چین سے نہیں بیٹھوں گا۔" وہ احتیاط کرتا ہلکی آواز میں غرایا۔اردگرد سب ہی موجود تھے اس لیے وہ دونوں احتیاط سے بات کررہے تھے۔

"ہہم ! میں پتہ لگانے کی کوشش کرتا ہوں کون ہے ان سب کے پیچھے۔" عرید اس کے نزدیک سے اُٹھتا داجان کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان کو کمرے کی طرف بڑھتے دیکھ کر شیریں نے اسے روکا۔

"احان ! رُوکو بات کرنی ہے تم سے۔" وہ اس کے نزدیک آتی ہوئی بولی۔

"جی ماما! کیا بات کرنی ہے؟" وہ بھی اپنے بڑھتے قدموں کو روکتا ان کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔

"میرو ہسپتال میں ہے۔ میں چاہتی ہوں ہم دونوں جائیں وہاں۔" ان کی بات پر اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑا تھا مگر وہ جلد ہی خود کو سنبھال گیا۔

"میں نہیں جاؤں گا۔آپ چلی جانا۔" وہ سپاٹ انداز میں کہتا ہوا وہاں سے ہٹنا چاہتا تھا۔

"احان ! اگر میں تمہارے اور تمہارے باپ کے معاملے میں کچھ نہیں بولی تو اس لیے کہ کہی نا کہی شہیر سے غلطی ہوئی تھی مگر میرو کی ان سب میں کوئی غلطی نہیں۔ تمہارا پہلے بھی میں میرو سے بُرا روّیہ دیکھ چکی ہوں۔مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگا تمہارا انداز۔" وہ ذرا سختی سے بولیں۔

احان کو گہری چُپ لگ گئ۔ وہ کچھ بول ہی نہ سکا کہہ تو وہ ٹھیک ہی رہی تھیں۔

"بچی جب بھی یہاں آئی کتنے پیار سے ملی ہے تم سے مگر تم ہمیشہ اُسے ڈانٹتے آۓ ہو۔ اگر شہیر غلط تھے تو یہاں تم بھی غلط ہو۔ آئی سی یو میں ہے وہ پچھلےدو دنوں سے سے ہوش نہیں آیا اُسے اور یہاں تم اپنی انا کا پرچم بلند کرکے بیٹھے رہو۔ ٹھیک ہے تم مت جاؤ مگر میں تو ضرور جاؤں گی۔" وہ اسے باتیں سُناتی اپنے کمرے کے طرف بڑھ گئیں۔

ان کے جاتے ہی میرو کا معصوم سا چہرہ اس کی آنکھوں میں لہرایا اسے حقیقتاً اپنے رویّے پر افسوس ہوا۔ 

(تم بالکل اچھے بھائی نہیں ہو۔) اس کے کانوں میں میرو کا کہا یہ  جملہ گونجا۔

جس کے جواب میں اس نے کہا تھا کہ وہ اس کا بھائی نہیں ہے کتنا مایوس ہوگئ تھی وہ اس کی بات پر۔

کچھ دیر بعد شیریں چادر خود پر اوڑھتی باہر آئیں تھی جب احان انہیں لاؤنج میں ہی بیٹھا نظر آیا۔وہ اسے اگنور کرتیں دروازے کی طرف بڑھ گئیں۔

"ماما! میں بھی جاؤں گا میری بہن ہسپتال ہے اور میں یہاں آرام سے بیٹھا ہوں۔" وہ ان کے پیچھے آتا ہوا بولا۔

شیریں نے ہلکا سا مسکرا کر اس کا گال تھپتھپایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آخر تین دن کے انتظار کے بعد سب کی دُعائیں رنگ لے آئی تھیں۔ میرو کو ہوش آچکا تھا۔ سب گھر والوں نے سجدہ شکر ادا کیا۔ تین دن سے سب کی سانسیں سینے میں اٹکی تھی۔ سب کی جان میں جیسے جان آئی تھی۔

یزدان نے بےقراری کے سنگ اس سے ملنے کی خواہش کی تھی۔ ابھی سب کو رش لگانے سے منع کیا تھا۔داجان نے کچھ سوچتے ہوۓ شاہ ویز اور یزدان کو اندر بھیج دیا۔

شاہ ویز بیٹی کو اس حالت میں دیکھ آبدیدہ ہوگۓ۔

وہ اس کے نزدیک پہنچتے اس کے ماتھے پر بوسہ دے گۓ۔

"میرا بچہ ! بابا کی جان ۔ ٹھیک تو ہو۔ کہیں درد تو نہیں ہورہا۔" میرو نے محض ہلکا سا سر نفی میں ہلایا تھا۔

وہ اس کے نزدیک ایک کُرسی گھسیٹ کر بیٹھ گۓ۔

یزدان دروازے کے نزدیک کھڑا اسے محبت بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

یزدان چلتا ہوا اس کے نزدیک آکھڑا ہوا۔ میرو نے ناراضگے کے تحت رُخ موڑ لیا۔یزدان نے تڑپ کر اس کا یہ انداز دیکھا تھا۔

"میرو ! یہ مت کرو میرے ساتھ۔ پچھلے تین دنوں سے تڑپ رہا ہوں۔" وہ دوسری طرف آتا اس کا گال پر ہاتھ ٹکا گیا۔

"با۔۔با۔۔۔ ان ۔۔۔سے۔۔کہہ دیں۔۔۔مجھے ان ۔۔۔ سے بات ۔۔۔نہیں کرنی۔۔۔۔۔یہ کبھی میری ۔۔۔بات نہیں سُنتے۔۔۔ہمیشہ اپنی ۔۔۔من۔۔مانی کرتے ہیں۔" وہ باپ کی طرف دیکھتی دھیمی آواز میں اٹکتی ہوئی بولی۔

"سُن لیا یزدان۔ میری بیٹی آپ سے ناراض ہے وہ آپ سے بات نہیں کرنا چاہتی۔" وہ میرو کا پیغام ان تک پہنچا گۓ۔ یزدان ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔ 

اسے اندازہ تھا کہ میرو کا کچھ ایسا ہی ریئکشن ہونے والا ہے۔ اس کی ناراضگی بھی سر آنکھوں پر وہ تو ہزار دفعہ اسے منا سکتا تھا۔

میرو باپ کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوچکی تھی۔ شاہ ویز مسلسل اسے کچھ نہ کچھ بتاتے اس کی اُداسی دُور کرنے کی کوشش کررہے تھے۔

"میرو ! تمہاری ناراضگی سر آنکھوں پر۔ ایک بار گھر چلو ساری ناراضگی سمیٹ لوں گا۔" وہ اس پر جُھکتا اس کا ماتھا چُوم گیا۔

میرو نے دھڑکتے دل سے باپ کے سامنے اس کی حرکت کو دیکھا تھا۔

پھر وہ وہاں رُکا نہیں تھا بلکہ باہر کی طرف بڑھ گیا۔ اس کو صحیح سلامت دیکھ دل کو یک گونہ سکون محسوس ہوا تھا۔

چمکتا سورج اپنی روشنی ہر سُو بکھیرتا صُبح کا پتہ دے رہا تھا۔ یہ تقریباً صبح گیارہ بجے کا وقت تھا۔ احان اور شیریں ہسپتال کی راہداریوں سے گُزرتے میرو کے  روم کے باہر پہنچے تھے جہاں یزدان ،داجان اور شاہ ویز موجود تھے۔ ان کی یہاں موجودگی پر داجان حیران ہوۓ تھے۔ 

"تایا جان! ہم میرو سے ملنے آۓ ہیں اگر آپ کی اجازت ہو تو ہم مل لیں۔" شیریں ان کے قریب ٹھہرتی اجازت طلب لہجے میں بولی۔

داجان نے ان کے سر پر دستِ شفقت رکھا تھا۔

"ہاں میری بچی ضرور ملو۔ " داجان اجازت دیتے احان کی طرف دیکھ رہے تھے جو ان سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑا تھا۔

ان کی نظروں کا ارتکاز احان پر محسوس کرکے وہ احان کو مخاطب کیے نزدیک بُلا گئیں۔

"احان! اِدھر آؤ۔ اپنے داجان سے ملو۔" وہ حکم دینے والے انداز میں بولیں۔

احان ماں کی بات پر سر ہلاتا ان کے نزدیک آگیا۔

داجان نے اسے سینے سے لگا کر اس کا ماتھا چُوما تھا۔

احان نے خاموشی سے ان کے محبت بھرے انداز کو دیکھا تھا۔ 

"بہت ضدی ہو تم بالکل اپنے بھائی جیسے۔" داجان نے ایک نظر اس کو دیکھتے ایک نظر خاموش لاتعلق کھڑے یزدان پر ڈالی تھی جو ان سب سے رُخ موڑے کھڑا تھا۔

اُس نے نہ ہی شیریں کے آنے پر کوئی اعتراض کیا تھا اور نہ ہی کچھ کہا تھا۔

داجان سے اجازت لیتے احان اور شیریں اندر رُوم کی طرف بڑھ گۓ۔ 

میرو آرام دہ حالت میں لیٹی تھی۔اور ماہ نور اسے ڈانٹ کر سوپ پلانے کی کوشش کررہی تھی۔

"میرو! ایسی حالت میں بھی ماں کو تنگ کرنا نہ بُھولنا۔" ماہ نور کی جھنجھلائی سی آواز گونجی۔

"ماما یہ زیادتی ہے میں ہسپتال کے بیڈ پر موجود ہوں آپ پھر بھی اپنے ڈانٹنے والا سیشن پیچھے نہیں رکھ سکتی۔" وہ منہ بسورتی خفا خفا سی بولی۔

"میں کہاں ڈانٹ رہی ہوں۔ تم مجھے مجبور کررہی ہو۔ چُپ چاپ سُوپ پی لو۔" وہ ذرا سختی سے اسے آنکھیں دکھا کر بولیں۔

"کیا ماما! اس کا ذائقہ نہیں اچھا۔ مجھے نہیں پسند۔" وہ منہ بسورتی بولی۔ مگر پھر ماں کے آنکھیں دکھانے پر چُپ چاپ پینے لگی۔

شیریں اور احان نے مُسکرا کر یہ منظر دیکھا تھا۔

دفعتاً ماہ نور کی نظر ہی ان پر گئ تھی جو دروازے کے قریب کھڑے تھے۔

"آپی ! آپ لوگ وہاں کیوں کھڑے ہیں۔آئیے نا۔" وہ انہیں وہی دیکھ کر ہلکا سا مسکرا کر بولیں تھیں۔ انہیں اچھا لگا تھا میرو کی فکر میں ان کا یہاں آنا۔

وہ دونوں ان کے نزدیک آگۓ۔

"کیسی ہے میری بیٹی؟"وہ پیار بھرے انداز میں اس کے بال سنوارتے ہوۓ بولیں۔

"میں ٹھیک ہوں خالہ۔یہ ماما نہیں ٹھیک۔ "وہ ماہ نور کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

شیریں کو بےساختہ اس پر پیار آیا جو زخموں کے باوجود مسکرا رہی تھی۔

"میری بیٹی تو بڑی بہادر ہے۔ ماہ نور خبر دار اب اسے ڈانٹا تو اچھا نہیں ہوگا۔" شیریں نے محبت سے اس کا ماتھا چوما تھا۔

"خالہ ! آپ اس سڑو کو کیوں لائیں ہیں۔ یہ ماما کی ہی کاربن کاپی ہے۔ اب شروع ہوجاۓ گا یہ بھی ڈانٹنیں ۔" وہ  احان کو دیکھتی رازداری سے شیریں کے کان کے قریب بولی۔

"نہیں ڈانٹیں گا میں ہوں نا یہاں۔ اس کے کان کھینچوں گی۔"وہ احان کی طرف دیکھتیں بلند آواز میں بولی۔

احان نے اس کے نزدیک آکر اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔

"سوری! لٹل پرنسسز۔معاف کردو اپنے بھائی کو۔" وہ کان پکڑتا ہوا بولا۔

ان کے عمروں میں زیادہ گیپ نہیں تھا۔ وہ میرو سے محض دو سال بڑا تھا۔

میرو نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا تھا۔وہ جو پہلے سیدھے منہ اس سے بات کرنا پسند نہیں کرتا تھا آج اس سے اتنے پیار سے بات کررہا تھا۔

"میں جانتا ہوں تمہیں بہت تنگ کیا۔ کیا اپنے اس بھائی کو معاف نہیں کرسکتی؟ ایک موقع دو بالکل اچھا بھائی بن کے دکھاؤں گا۔" وہ شرمندگی سمیت بولا تھا۔

"سوچوں گی۔" وہ اترا کر بولی۔

احان نے مسکرا کر اس کی معصوم ادا کو دیکھا تھا۔

"میرا خیال میں میرو کو اب آرام کرنے دینا چاہیے۔ اتنی باتیں کرنا اس کے لیے ٹھیک نہیں۔" شیریں بیگم کے کہنے پر ماہ نور نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

میرو بھی خاموشی سے آنکھیں موند گئ۔ وہ خود بھی کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی۔

وہ تینوں آگے پیچھے باہر نکل گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آفندی خاندان کے لیے یہ خوشیوں سے چمکتا دن تھا۔ جب  زومیرہ آفندی ہسپتال سے ڈسچارج ہوئی تھی۔پچھلے ایک ہفتے سے وہ ہسپتال میں ہی تھی۔ آج ہی ڈاکٹرز نے اس کے قدرے بہتر ہونے کا عندیہ سُنایا تھا۔

شاہ ویز نے اسے گود میں اُٹھا کر احتیاط سے گاڑی میں بٹھایا تھا۔ماہ نور اس کے دائیں طرف بیٹھتی اس کا سر سینے سے لگا گئ۔

یزدان ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چُکا تھا۔ یزدان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر داجان براجمان ہوچکے تھے۔جبکہ پیچھے میرو کے بائیں طرف شاہ ویز بیٹھ گۓ۔

یزدان فرنٹ مرر سے بار بار اسے دیکھ رہا تھا جو ماہ نور کے سینے سے سر ٹکاۓ آنکھیں موندیں بیٹھی تھی۔

یزدان تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک نرم نظر اس پر ڈال لیتا۔

آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد ان کی گاڑی حویلی کے پورچ میں آکر رُکی تھی۔یزدان نے گاڑی سے اُترتے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا تھا۔

اس نے ہاتھ میرو کی طرف بڑھایا جس نے اسے اگنور کردیا۔ شاہ ویز نے آکر اس تھاما تھا۔یزدان نے ہاتھ پیچھے کرلیا وہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔میرو کے پاؤں پر  لگی چوٹ کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔

اگر کوئی چیز یزدان کو تکلیف دیتی تھی وہ تھی زومیرو آفندی کی ناراضگی۔

وہ ان کے پیچھے ہی اندر کی طرف بڑھا تھا۔جہاں شاہ ویز اسے احتیاط کے ساتھ اندر لایا تھا۔

"میرا خیال ہے میرو کو اوپر والے کمرے کی بجاۓ  نیچےہی کسی کمرے میں شفٹ کر دینا چاہیے۔" شاہ ویز نے اسے احتیاط سے صوفے پر لٹایا تھا۔

شاہ ویز کی بات پر سب نے ہی اتفاق کیا تھا۔

"نو بابا! مجھے میرے کمرے کے علاوہ کہی نیند نہیں آتی۔پہلے ہی اتنے دن ہسپتال کے بیڈ پر رہ کے کمر تختہ بن چُکی ہے۔ " وہ فوراً منہ بسور کر بولی۔

"بیٹا اپنے باپ کی بوڑھی ہڈیوں پر رحم کرو۔ اتنا وزن اُٹھا کر اوپر نیچے ہوتے میری تو کمر رہ جاۓ گی۔" وہ مسکراہٹ دباتے ہوۓ بولے۔

"بابا۔۔۔" وہ شکایتی انداز میں چلائی۔

سب کا مشترکہ قہقہہ گونجا۔

"میں کسی سے بھی بات نہیں کروں گی۔ بابا آپ سے تو پکی والی ناراضگی۔ اکلوتی بیٹی کے ساتھ کوئی ایسا کرتا ہے۔آپ کے کہنے کا مطلب میں موٹی ہوں۔" وہ غُصّے بھرے انداز میں بولی۔

"ارے میری پیاری سے بیٹی  مجھ سے ناراض ہوگئ۔ یار مزاق کررہا تھا۔ مگر میں اس بات پر قائم ہوں نیچے والے کمرے میں شفٹ ہوجاؤں۔ جب زخم بھر جائیں گے تو بےشک اوپر شفٹ ہوجانا۔" وہ لٹکے ہوۓ چہرے سے اثبات میں سر ہلا گئ۔

یزدان نے اس کا اُداس چہرہ دیکھا تو اس کی طرف قدم بڑھاتا اسے احتیاط سے اُٹھاتا اوپر کی جانب بڑھا۔

"میری بیوی کی ذمہ داری میں اُٹھا لوں گا آپ لوگ بےفکر ہوجائیں۔" وہ احتیاط سے قدم اُٹھاتا سیڑھیاں چڑھ گیا۔میرو نے اس کے بےباک انداز پر منہ چُھپایا تھا۔

یزدان نے اس کےکمرے میں آتے احتیاط سے اسے بیڈ پر لٹایا تھا۔

میرو نے گھور کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

"آرام کرو فی الحال تمام سوچیں جھٹک کر۔اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بُلا لینا۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتا باہر نکل گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید ، یزدان سے ایکسیڈنٹ کی لوکیشن پوچھتا اب اس جگہ موجود تھا۔ یہ ایک قدرے بہتر ایریا تھا جہاں اردگرد بڑی بڑی دُکانیں موجود تھی۔ اس نے کچھ لوگوں سے پوچھ تاچھ کی مگر کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا۔ کتنی ہی دیری خواری کے بعد بھی اسے کوئی سُراغ نہ ملا۔

آخر کار وہ مایوس ہوکر واپس لوٹنے والا تھا جب اس کی نظر قریب ہی ایک موبائل شاپ کے باہر لگے کیمرہ پر پڑی۔اس کی آنکھیں چمکی کہ شاید کوئی سرا ہی ہاتھ لگ جاۓ۔وہ فوراً موبائل شاپ کے اندر بڑھا تھا۔

عرید کو پولیس یونیفارم میں اندر آتے دیکھ وہ فوری الرٹ ہوۓ تھے۔

"یہاں کا اونر کون ہے۔؟" وہ ایک کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے کو مخاطب کرکے بولا۔

اُس لڑکے نے فوراً  اپنے مالک کی طرف اشارہ کیا۔

عرید اُس کے اشارے پر سر ہلاتا اُس انسان کے نزدیک آگیا۔

"باہر جو کیمرہ لگا ہے وہ صحیح  کام کررہا ہے۔" اس نے سنجیدہ تاثرات سمیت اس شخص سے پوچھا تھا۔

"جی سر ! صحیح  کام کررہا ہے۔" وہ اثبات میں سر ہلاتا ہوا بولا۔

مجھے اس کی آٹھ دن پہلے کی فوٹیج دیکھنی ہے۔ جب آپ کی دکان سے ذرا فاصلے پر ایک حادثہ ہوا  تھا۔منگل کے دن شام چار بجے کا وقت تھا تقریباً ۔" وہ یزدان سے جتنی انفارمیشن لایا تھا سب بتا گیا۔

"جی سر آئیے۔" عرید اس شخص کی تقلید میں چلتا ہوا اُس کمرے میں آگیا جہاں سامنے دو سکرین چل رہی تھیں۔ ایک پر دُکان کے اندر کا منظر چل رہا تھا اور ایک پر باہر کا۔

عرید نے باہر والی سکرین کی طرف اشارہ کیا۔اس شخص نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا اور وہ اس دن کی فوٹیج نکال گیا جس دن حادثہ ہوا تھا۔ ٹھیک چار بج کے چار منٹ پر یزدان کی گاڑی ان کی.  دُکان کے آگے سے گُزری۔ اور اسی وقت سامنے سے ایک ٹرک آیا۔یزدان کی گاڑی قدرے سائیڈ پر تھی مگر ٹرک ڈرائیور جان بوجھ کر اس کی گاڑی کو ٹکر مارتا ہوا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

"ٹرک کے نمبر پر زوم کرو۔" عرید کے کہنے پر وہ فوری  عمل کرگیا۔ عرید نے نمبر نوٹ کیا تھا۔ اس فوٹیج کو دیکھ کر اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یزدان ٹھیک کہہ رہا تھا کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی۔

وہ اس شخص کا شکریہ ادا کرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ اب جلد سے جلد اسے پتہ کروانا تھا کہ یہ ٹرک کس انسان کا تھا۔کیس کا سرا اس کے ہاتھ لگ گیا تھا اب اس کو پورا حل کیسے کرنا تھا یہ عرید پر تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"ماما آجاؤں؟" وہ ان کے کمرے کے دروازے کے نزدیک کھڑا اجازت طلب انداز میں بولا۔

شیریں نے اثبات میں سر ہلا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی۔

وہ چلتا ہوا صوفے پر جاکر بیٹھ گیا۔ شیریں بھی سارے کام چھوڑتی اس کے نزدیک جا بیٹھیں۔

احان بیٹھا سوچ رہا تھا وہ کیسے بات شروع کرے۔شیریں پُرسوچ نظروں سے اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھیں۔وہ اس کے بولنے کی منتظر تھی۔

"ماما ! آپ اُس لڑکی سے ملنا چاہتی تھی نا جسے مجھے محبت ہوئی ہے۔" وہ بات کرنے سے پہلے تمہید باندھ گیا۔

"ہاں مگر تم ٹالتے رہے۔" وہ بھی اسی انداز میں بولی۔

"اگرمیں کہوں آپ اسے مل چکی ہیں۔پھر۔۔۔" وہ اپنی بات مکمل کرتا ان کے چہرے پر چھاۓ تاثرات کو دیکھ کر بولا۔

"کون ہے بھئ جسے میں نے مل بھی لیا ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں۔" وہ بیٹے کی باتوں پر حیران پریشان سی بولی۔

"ماما! وہ نشوہ آفندی ہے جسے مجھے محبت ہوئی ہے۔ جسے دیکھ کر پہلی خواہش ہی دل نے نکاح کی تھی۔ جو جانے کیسے خود بخود اس دل پر حکمرانی کرتی چلی گئ۔ ماما میں بہت محبت کرتا ہوں اُس سے۔ مجھے اب ہر حال میں وہ اپنی زندگی میں چاہیے۔" وہ محبت سے نشوہ کا ذکر کرتا ہوا بولا۔

شیریں کی مسکراہٹ گہری ہوئی تھی انہیں ایک اور وجہ مل گئ تھی احان کو اپنی فیملی سے قریب کرنے کی۔ یقینا نشوہ ان دونوں گھروں کے درمیان پُل کا کام کرنے والی تھی۔

"مجھے پسند آئی آپ کی پسند۔" وہ مسکراتی ہوئی بولیں۔

"ماما پھر کب چل رہے ہیں ان کے گھر۔" وہ بےچینی سے بولا۔

"بہت جلد میری جان۔" وہ اس کو خوشی کی نوید سُنا گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج آخر کتنے دنوں کی کوشش کے بعد زید اس کی کال اُٹھا چُکا تھا۔ اس نے فوراً اسے ملنے کے لیے بُلایا تھا۔زید کو تو ابھی وہ سونے کے انڈے دینے والی مُرغی لگ رہی تھی۔ اس نے وردہ سے ملنے کے حامی بھر لی تھی۔

اب وردہ اور وہ ایک ہوٹل کے کیبن میں موجود تھے۔

"کتنے دنوں سے تمہیں کال کررہی ہوں مگر تم نے میری ایک کال بھی پِک کرنا ضروری نہ سمجھا۔کیا وجہ تھی؟بتانا پسند کرو گے۔" وہ اسے غُصّے بھری نظروں سے گھور کر بولی۔

"یار دراصل آج کل ڈیڈ چاہ رہے ہیں کہ میں اُن کا آفس سنبھالوں تو بس اس لیے کام کا بہت پریشر تھا۔ " وہ بروقت بہانا بناتا ہوا بولا۔

"جو بھی تھا کیا تم میری ایک کال پِک نہیں کرسکتے تھے۔" اس کا موڈ ابھی بھی خراب تھا۔

"سوری ! یار غلطی ہوگئ تم بتاؤ کیا ضروری بات تھی۔ آئندہ احتیاط کروں گا۔" وہ اس کے سوال جواب کے سیشن سے اُکتا گیا تھا اس کے باوجود وہ اپنے لہجے کو ہشاش بشاش بناتا ہوا بولا۔

"ہہمم! تم اپنے گھر والوں کو کب بھیج رہے ہو رشتے کے لیے۔" وہ فوراً مطلب کی بات پر آئی۔

"بہت جلد بھیجوں گا۔ وہ تمہیں بتایا نا کہ ورک لوڈ بہت ہے آج کل میں موم ڈیڈ سے بات کرتا ہوں۔" وہ کوفت سے اس کی باتوں کو سُن رہا تھا۔

"اب تم مزید جلدی کرنی ہوگی کیونکہ یہ بات زیادہ دیر کسی سے چُھپی نہ رہ سکے گی۔" وہ اس کی باتوں پر کچھ پُرسکون ضرور ہوئی تھی مگر مکمل مطمئن ہر گز نہیں۔

"کیا کہنا چاہتی ہو کُھل کے کہو۔میں سمجھا نہیں تمہاری بات۔" اس کی باتوں پر اب زید کا ماتھا ٹھنکا تھا۔

"اتنے بھی بچے نہیں ہو جو تم میری بات کا مطلب نہیں سمجھ پارہے۔ میں ایکسپکٹ کررہی ہوں۔" وہ اس کی اتنی معصومیت کی اداکاری پر دانت پیس کر بولی۔

"واٹ ! یہ کب ہوا؟ اور تم یہ سب اب مجھے بتا رہی ہو۔بےوقوف لڑکی۔" وہ دبی دبی آواز میں غُرایا۔ ایک نئ مصیبت اس کے گلے پڑنے والی تھی وہ جھٹپٹا کر رہ گیا۔

"میں اتنے دنوں سے تمہیں اسی لیے فون کررہی تھی۔ مگر تم اپنے کاموں میں اس قدر مصروف ہو۔مجھے اس مسئلے کا محض ایک ہی حل ملا ہے وہ ہے ہماری شادی۔" وہ پہلی بات غُصّے سے اور دوسری بات تحمُل سے بولی۔

"مجھے نہیں لگتا یہ حل ٹھیک ہے کیونکہ ابھی میں اتنی بڑی ذمہ داری اُٹھانے کے قابل نہیں ہوں۔ جلد سے جلد اس مصیبت کو ختم کرکے جان چھوڑواؤں میری۔" اس کا بس نہیں چل رہا تھا خود اپنے ہاتھوں سے اس لڑکی کا گلا گھونٹ دے۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا۔ میں ایسا کچھ نہیں کررہی۔ میں کیوں اپنی جان پر رسک لوں۔ تم میری باتوں پر عمل کرکے جلد سے جلد رشتہ بھیجو۔"وہ اس کی باتوں سے سمجھ چُکا تھا کہ وہ اس کی باتوں پر عمل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔

وہ غُصّے بھری نگاہوں سے اسے گھور کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ چاروں آج کافی دنوں بعد اکٹھے ہوۓ تھے۔ ماہا اور نشوہ اپنی باتوں میں مگن تھی وہی دوسری طرف احان اور صارم بھی محو گفتگو تھے۔

وہ گُزرے دنوں کا احوال ایک دوسرے کو سُنا رہے تھے۔

نشوہ شرارتی نظروں سے اس کی کِھلتی رنگت کو دیکھ رہی تھی۔ اور اُس پر متضاد صارم کا ہر تھوڑی دیر بعد محبت بھری نظروں سے دیکھنا کچھ بھی تو اس سے مخفی نہ تھا۔

"ویسے ماننا پڑے گا یار۔ اچھا خاصا لڑکا تمہارا پیچھا دیوانہ ہوا پڑا ہے۔ دیکھو ذرا ! ہاۓ کتنی محبت سے تم پر نظریں ڈال رہا ہے۔" وہ دانت دکھاتی ہوئی بولی۔

"منہ بند کرکے بیٹھ یہ نہ ہو یہ ساری کیچپ تیرے سر پر اُلٹ دوں۔" وہ دانت پیستی منمنائی۔

"تم دونوں کیا کُھسر پُھسر کررہی ہو۔" احان مشکوک نظروں سے انہیں دیکھ کر بولا۔

"کچھ نہیں۔" نشوہ نے ناک چڑھا کر اسے دیکھا تھا۔

"صارم اپنی معصوم بیوی کو اس سے بچا لے یہ تیز گام اسے بھی اپنے جیسا کر دے گی۔" وہ نشوہ کے ناک چڑھانے پر طنزیہ انداز میں بولا۔

"کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا کہ میں بہت بُری ہوں۔ جو ماہا کو بھی خراب کر دوں گی۔" وہ دانت پیستی ہوئی بولی۔

"تم۔پوچھ کیوں رہی ہو تمہیں بہتر اندازہ ہوگا۔" وہ دانت دکھاتا ہوا بولا۔

"احان چھوڑوں ان سب باتوں کو یہ بتاؤ شادی کب کر رہے ہو تم دونوں۔ بس کروں اب اس پیچلر لائف سے نکل کر میریڈ لائف میں داخل ہوجاؤ۔"صارم نے نشوہ کا غُصّے سے بھرپور انداز دیکھا تو احان کو گُھور کر بات بدلنے کے لیے بولا۔

"اس سے کوئی اندھی بھی شادی نہیں کرے گی۔ یہ کنوارا ہی مرے گا۔" اس سے پہلے کے احان کوئی جواب دیتا نشوہ بول پڑی۔وہ  اپنی بات کہتی غُصّے سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔

"اوہ! مجھے پتہ ہی نہیں تھا کہ تم اندھی ہو۔" وہ اس کی بات اسی کو لُٹا گیا۔

نشوہ پیر پٹکتی وہاں سے نکل گئ۔

"بےوقوف انسان ! ایوی بیچاری کو پریشان کرتا ہے۔" صارم نے اس کی عقل پر افسوس کرتے کہا۔

"یار جب وہ غُصّہ کرتی ہے اُس کا سُرخ چہرہ قرار لوٹ لیتا ہے۔ مزہ آتا ہے اسے تنگ کرنے میں۔" وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولا۔

"افسوس پاگل انسان۔ تجھ پر افسوس کے علاوہ کیا کرسکتا ہوں۔احتیاط کر یہ نہ ہو کسی دن غُصّے سے وہ تیری اپنی چپل سے پٹائی کردے۔" صارم اسے عقل دلانے والےانداز میں بولا۔

"اس پر بحث بعد میں کریں گے۔ابھی اپنی تیز گام کو منا لوں۔" وہ بھاگتا ہوا کینٹین سے نکلتا اسی راستے کی طرف گیا جہاں کچھ دیر پہلے نشوہ گئ تھی۔

وہ بھاگتا ہوا راہداری سے گزرتا اس کے نزدیک آگیا۔

"تیز گام ! روکو یار۔ کہاں بھاگی جارہی ہو۔" وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا بولا۔

"اب کیوں آرہے ہو پیچھے جاۓ یہاں سے۔" وہ خفا خفا سے انداز میں بولی۔

"یار روکو تو بھاگی جارہی ہو۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے روک گیا۔

"مجھے تمہاری بات نہیں سُننی تمہیں میں اندھی 

لگ رہی ہوں بعد میں ناجانے کیا کیا لگوں گی۔" وہ نروٹھے انداز میں بولی۔

"تم مجھے کچھ نہیں لگو گی بلکہ تم ہمیشہ مجھے اچھی ہی لگو گی۔" وہ اس کے ہاتھ پر گرفت مضبوط کرتا ہوا بولا۔

"بالکل جھوٹ ۔ تم ہمیشہ مجھے تنگ کرتے ہو۔ صارم کو دیکھا تھا کیسے محبت سے ماہا کو دیکھ رہا تھا اور ایک تم ہو جسے مجھ سے پنگے کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں۔" وہ غُصّے سے کہتی منہ موڑ گئ۔

"یار سچ میں تم غُصّہ کرتے ہوۓ اتنی کیوٹ لگتی ہو۔اچھا سوری اب تنگ نہیں کروں گا۔" وہ سنجیدہ چہرے کو دیکھتا فوراً ٹریک پہ آیا تھا۔

نشوہ نے بمشکل اپنی مسکراہٹ ضبط کی تھی۔

" اچھا سُنو نا میں اور ماما کل آرہے ہیں تمہاری طرف رشتہ لے کر۔ بس اب انتظار نہیں ہوتا تمہیں اپنے نام کرنا ہے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔تم سوچ بھی نہیں سکتی کتنی محبت کرتا ہوں تم سے۔ " وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے بولا۔

وہ زیادہ دیر ان جذبات چھلکاتی آنکھوں میں دیکھ نہ سکی پلکیں جُھکا گئ۔

"یار تم تو جادُوگرنی ہو  مجھے یقین ہے اگر میں کچھ دیر اور یہاں تمہارے پاس رہا تو کچھ غلط ضرور کر جاؤں گا۔" وہ محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

نشوہ کا چہرہ اس کی باتوں پر سُرخ ہوا۔احان اس کا ہاتھ چھوڑتا پیچھے ہوا۔

"تمہاری یہ ادائیں مجھے کبھی تمہاری قید سے نکلنے نہیں دیں گی۔ بہت کام آنے والی ہیں تمہارے فیوچر میں۔" وہ اس کے کان کے نزدیک جُھکتا ہوا بولا۔

"بہت جلد ملتے ہیں۔ " وہ اس کے نزدیک سے اُٹھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا پیچھے وہ اپنی دھڑکنوں کا شمار کرکے رہ گئ۔

عرید اس ٹرک کے نمبر سے پتہ لگوا چُکا تھا کہ وہ ٹرک کس کا ہے۔ ٹرک ڈرائیور کو وہ گرفتار کرچُکا ہے۔اُس سے تفتیش سے اسے پتہ چلا تھا کہ ٹرک ڈرائیور  بےقصور ہے۔ اُس نے کچھ دن پہلے اس کے ایک کزن کو ٹرک اُدھار دیا تھا۔

عرید اُس انسان کو جیل میں بند کرچُکا تھا جس نے کچھ دن پہلے وہ ٹرک اُدھار لیا تھا۔اب وہ فارغ ہوکر اس سے پوچھ تاچھ کرنے آیا تھا۔ وہ لاک اپ کا دروازہ  کھول کر اندر داخل ہوا۔وہ شخص کچھ گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔عرید چلتا ہوا اس کے نزدیک ٹھہر گیا۔

"خود ہی سب اُگل دو۔ اگر میں تمہارا منہ کھلوانے پر آیا تو اچھا نہیں ہوگا۔" وہ اس کے نزدیک آتا وارن کرنے والے انداز میں بولا۔

"میں نے کچھ نہیں کیا ۔ مجھے کچھ نہیں پتہ مجھے جانے دو۔" وہ گھبراہٹ کے مارے ہاتھ کی پُشت سے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کرگیا۔ 

وہ ابھی شاید نیا نیا ہی اس کام میں ملوث ہوا تھا۔ 

عرید نے ہاتھ گُھما کر بائیں ہاتھ کا تھپڑ اسے رسید کیا تھا۔

اس کا سر ایک سائیڈ پر ڈھلکا۔

"اب آیا کچھ یاد یا ابھی اور بھی ڈوز چاہیے۔" وہ غُصّے سے بھر بور انداز میں بولا۔ اس کے لہجے میں گہری سنجیدگی تھی۔

"میں نے کہا نا میں کچھ نہیں جانتا۔" وہ ابھی بھی اپنی اسی بات پر اڑا تھا۔

عرید نے اب کی بار ایک زور دار مُکا اس کے منہ پر مارا۔اُسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کا جبڑا ہل گیا ہو۔

"مجھے غُصّہ دلا کر میرا وحشی رُوپ مت جگاؤ۔ تمہارے لیے اچھا نہیں ہوگا۔" اس کی لہجے میں چُھپی وحشت محسوس کرکے وہ کانپ کے رہ گیا۔

اس کی خاموشی محسوس کرکے عرید نے کتنے ہی وار اس پر کیے تھے۔اس کے ہونٹ کا کنارہ پھٹ چُکا تھا۔

"میں بتاتا ہوں سب۔ پلیز مجھے مت ماریں۔" وہ اپنے بازو اپنے چہرے کے آگے کرتا دفاع کرنے والے انداز میں بولا۔

عرید کا ہوا میں اُٹھا ہاتھ وہی رُکا تھا۔

"جلدی بولو اور سچ سچ۔ اور لفظ بھی جھوٹ نہیں ورنہ اوپر پہنچا دوں گا۔ اسے وارننگ مت سمجھنا یہ میں کر گُزروں گا۔" اس کا لہجہ ہر درجہ سنجیدہ تھا۔

"صاحب جی! میں نے کچھ مہینوں پہلے ہی اُس گینگ کو جوائن کیا ہے وہ پیسے لے کر لوگوں کو مارتے ہیں۔ یہ میرا پہلا ٹاسک تھا جو کچھ دنوں پہلے ہی ہمارے باس کے پاس آیا تھا۔وہ مروانا تو کسی بوڑھے شخص کو چاہتے تھے مگر ناجانے کار میں وہ لڑکا لڑکی کیسے آگۓ۔" وہ جو جو اس کیس کے بارے میں جانتا تھا سب تفصیلات اسے دیتا چلا گیا۔

"صاحب جی مجھے جانے دیں میں آئندہ یہ کام نہیں کروں گا۔کہی نوکری نا لگنے کی باعث میں نے اپنا ضمیر مار کر  مجبوراً  اس گینگ کو جوائن کیا تھا۔" وہ شخص اس کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوا منمنایا۔

"ٹھیک ہے میں تمہاری سزا میں کمی کی درخواست کروں گا مگر تمہیں اپنی گینگ کی ایک ایک تفصیل کے ساتھ ساتھ اُس شخص کے خلاف گواہی بھی دینی ہوگی۔جو اس سب میں ملوث ہے۔" عرید اس کے درخواست کرنے پر جواباً  بولا۔

جیسے ہی اُس نے اُس شخص کا نام بتایا تھا جو اس حادثے کی وجہ تھا عرید کو سُن کر یقین نہ آیا۔ کیا وہ انسان سچ میں اس حد تک گر سکتا تھا۔

اس نے لاک اپ سے نکلتے اسے بند کرکے موبائل نکال کر کسی کا نمبر ڈائل کیا تھا۔

"ہیلو جلدی پہنچو جلد سے جلد ۔ بہت اہم خبر دینی ہے۔" وہ دو جملوں میں اپنی بات کا اختتام کرتا فون بند کر چُکا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی ایک جھٹکے سے ایک وسیع و عریض گھر کے آگے رُکی۔فرنٹ سیٹ کا دروازہ عجلت سے کھولتے کوئی باہر نکلا۔دوسری طرف کا دروازہ بھی کُھلا۔پولیس یونیفارم میں ملبوس عرید نے اس کی تقلید کی۔

اپنے پیچھے موجود گاڑی میں ملبوس حوالدار اور انسپکٹر کو رُکنے کا اشارہ کرتا وہ اندر کی جانب بڑھ گیا۔

"گیٹ کھولو۔" بند گیٹ کو دیکھ یزدان دھاڑا۔ پولیس یونیفارم میں ملبوس عرید کو دیکھ کر چوکیدار نے فٹ سے بیرونی گیٹ کھولا تھا۔ 

وہ بغیر رُکے اندر کی طرف بڑھ گۓ۔

"حماد قیصر باہر نکل۔" وہ لاؤنج میں آکر شدت سے دھاڑا تھا۔

اس کا اتنا غُصّہ دیکھ  کر عرید کو اسے اپنے ساتھ لانے والے فیصلے پر افسوس ہوا۔

وہ غُصّے سے لاؤنج میں اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔

حماد صاحب کسی کی دھاڑ نما آواز پر کمرے سے نکلتے نیچے کی طرف قدم بڑھا گۓ ۔

"واٹ آ سرپرائز یزدان۔تم یہاں! کیسے آنا ہوا؟ " وہ چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ لاتے ہوۓ بولے۔ 

"آستین کے سانپ" وہ ان کے نزدیک آتا ان کا گریبان تھام گیا۔

"یزدان! ہوش میں تو ہو۔ کیا کررہے ہو؟ تمیز نہیں رہی چھوٹے بڑے کی۔" وہ اس اچانک پڑنے والی افتاد پر گھبرا گۓ۔

"تمیز بہت ہے مگر ایک قاتل کے لیے ہر گز نہیں۔" وہ غُصّے سے دھاڑا تھا۔ 

"میری بیوی تیری وجہ سے ہسپتال میں تین دن بے سُدھ پڑی رہی۔ جب تک تیری سانس نہ نکال لوں چین نہیں آۓ گا۔ " حماد صاحب کے چہرے کی پل میں ہوائیاں اُڑی۔انہیں یقین نہ آیا ان کا کھیل ختم ہوچکا ہے۔

"تمہیں۔۔۔۔غلط فہمی۔۔۔۔ ہوئی ہے۔" انہوں نے اٹکتے ہوۓ بمشکل اپنا جملہ مکمل کیا۔

"غلط فہمی نہیں ہوئی مجھے بلکہ ابھی تو میری آنکھیں کُھلی ہیں۔ کتنا  مان دیا آپ کو مگر آپ اس کے قابل ہی نہیں ہیں۔ آپ کو عزت سے بلانے کا دل بھی نہیں کررہا۔" وہ ایک جھٹکے سے انہیں دھکا دیتا ان کا گریبان چھوڑ گیا۔

"یزدان میں نے تمہیں یہ حقیقت اس لیے نہیں بتائی تھی کہ تم آپے سے باہر ہو بلکہ اس لیے بتایا تھا تاکہ تم ان کی حقیقت جان سکو۔" عرید نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے اس پُرسکون کرنے کی کوشش کی۔جو مسلسل غُصّے سے گھور رہا تھا۔

"یزدان! بکواس کررہا ہے یہ پولیس والا یہ تمہیں میرے خلاف کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جیسا تمہیں دکھایا جارہا ہے۔" وہ اب بھی بولنے سے باز نہیں آۓ تھے۔وہ عرید کو غُصّے سے گھور کر بولے۔

ان کے شور کی آواز سُن کر وردہ اور اس کی ماں بھی باہر آچکی تھیں۔

"اب کے گناؤنے کاموں کا اعتراف اُس شخص نے کیا ہے جسے آپ نے داجان کو مارنے کے لیے بھیجا تھا۔ آپ کا شکار داجان تھے مگر بدقسمتی اس کار میرے ساتھ میرو بھی تھی۔اگر اُسے کچھ ہوجاتا تو آپ اس وقت زندہ نہیں ہوتے۔ مگر اتنی آسانی سے تو آپ کو ہرگز نہیں بخشوں گا۔ جانتے ہیں وہ تین دن ہم سب نے کیسے انگاروں پر جاگ کر کاٹے ہیں" وہ ان کے نزدیک آتا ان پر وار کرتا چلا گیا۔

عرید نے افسوس سے اسے دیکھا۔

"یزدان پیچھے ہٹو۔ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتے تم۔" عرید نے اسے تھام کر اسے دُور کیا تھا۔

"تم سب بےوقوف ہو۔ تم سے بھی زیادہ بےوقوف تمہاری ماں تھی۔جو میرے بہکاوے میں آگئ۔نفرت تھی مجھے اُس سے جو ہمیشہ میرے باپ کے خلاف مجھے بھڑکانے کی کوشش کرتی تھی۔وہ آفندی خاندان کے باتوں میں آسکتی تھی مگر میں ہر گز نہیں۔ میں جب تک اُس عالم آفندی کو اوپر نہیں پہنچا دیتا چین سے نہیں بیٹھوں گا۔ اس یوسف اور عالم دونوں نے میرے ساتھ کتنا بُرا کیا۔ یہ کبھی جاننے کی کوشش کی۔ کتنے احترام اور کتنے مان سے شیریں کا ہاتھ مانگا تھا مگر انہوں نے نہیں دیا ۔ میں نے صبر کرلیا۔مجھے گھر سے نکال دیا میں نے صبر کرلیا۔ مگر جب مجھے ایک ایک روپے کے لیے محتاج کردیا اُس وقت میں صبر نہیں کرپایا۔ میں ہی کیوں صبر کروں۔شیریں کی ماں نے مجھے میرے باپ سے الگ کیا تھا مجھے اپنی ذمہ داری بنا کر لائی تھی۔ مگر کیا کیا میری ذرا سی غلطی پر مجھے کٹھ گرے میں کھڑا دیا۔جوانی کی دہلیز پر چھوٹی موٹی غلطیاں ہر کسی سے ہوجاتی ہیں۔"وہ زیادہ دیر خود پر قابو نہ رکھ پایا شدت سے غُراتے ہوۓ بولا۔  وہ آنکھوں میں آفندی خاندان کے لیے نفرت لیے انہیں گھور رہا تھا۔

یزدان اور عرید نے اس شخص کی ڈھٹائی ملاحظہ  کی جو اپنی غلطی ماننے کے لیے تیار ہی نہ تھا۔اس کے منہ سے سب جان کر یزدان کو خود پر افسوس ہوا۔

"آپ کل بھی غلط تھے۔ آپ آج بھی غلط ہیں۔" عرید ان کے چہرے کو افسوس سے دیکھ کر بولا۔جو نفرت میں اس قدر آگے نکل چکا تھا شاید ان کا ضمیر بھی مر چکا تھا۔

"میں نہیں بلکہ تمہارے وہ داجان غلط ہیں۔ جن کی وجہ سے مجھے اتنی مشکلیں برداشت کرنی پڑی۔" وہ غُصّے سے پھنکار رہے تھے۔

وردہ کے نزدیک کھڑی ان کی بیوی ان کا بےحس انداز ملاحظہ کررہی تھی۔جو نہ کبھی اچھے شوہر بن سکے اور نہ ہی اچھے باپ۔ وردہ کو بھی انہوں نے بالکل اپنے جیسا بنا ڈالا تھا احساس سے عاری۔

آج ان پر ایک اور ادراک ہوا تھا کہ وہ اچھے انسان بھی نہ تھے۔

"اب جیل میں بیٹھ کر اپنے گناہوں کے بارے میں سوچیے گا۔ میں یزدان اور میرو پر قاتلانہ حملہ کرنے اور بزنس میں کی گئ ہیرا پھیریوں کی بنا پھر آپ کو گرفتار کرتا ہوں۔آپ کا یہ کھیل ختم ہوچکا ہے۔"وہ ان کے نزدیک آتا انہیں ہتھکڑی پہنا چکا تھا۔

"مسٹر عرید آفندی آپ میرے پاپا کو ایسے نہیں لے جاسکتے۔ اور یزدان تمہیں ذرا بھی شرم ہے اپنے ماموں کے خلاف کھڑے ہو۔ زندہ ہی ہے نہ زومیرہ آفندی مر تو نہیں گئ جو یوں ہنگامہ مچا رہے ہو۔"اپنے باپ کو یوں ہتھکڑی پہناتا دیکھ وہ آپے سے باہر ہوتی چلائی۔

"بکواس بند کرو اپنی۔ اگر میرو کو کچھ ہوتا نا تو تمہارے اس گھر کو تم سب سمیت آگ لگا دیتا۔ تم لوگوں کو جو اتنی مہلت ملی ہے نہ وہ صرف اور صرف میرو کی زندگی کی وجہ سے ملی ہے۔اس کی سانسوں کے صدقے تم لوگوں کو زندگی بخشی ہے۔" وہ اس کی بکواس پر دھاڑتا ہوا بولا۔

"چلو یزدان۔ابھی یہ جو بھی کہہ لے مگر یہ انسان جیل سے کبھی آزاد نہیں ہوپاۓ گا۔" عرید اسے چلنے کا اشارہ کرتا ہوا بولا۔

حماد صاحب مسلسل جھٹ پٹا رہے تھے مگر عرید انہیں کھینچتا ہوا باہر لے آیا تھا۔

اس کو حوالدار کے حوالے کرتے جس نے اسے فوراً پولیس جیپ میں  بٹھایا تھا۔اب وہ ہر گز جلدی رہا نہیں ہونے والا تھا۔

پھر وہ خود گاڑی میں سوار ہوتے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رات کے پہر وہ گارڈن میں گُم سُم سا بیٹھا خلاؤں میں گھور رہا تھا۔ جب عرید چلتا ہوا اس کے ساتھ بیٹھا۔ اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

"اتنی رات کو اِدھر کیوں بیٹھے ہو۔" عرید پوری طرح اس کی طرف متوجہ تھا۔ 

”یار سمجھ نہیں لگ رہی سب کیسے ٹھیک کروں ۔ اسے کیسے مناؤں" وہ بغیر اس کی طرف دیکھے خلاؤں میں گھورتا ہوا بولا۔

" تیسری شادی کر لیں کیا پتہ وہ مان جاۓ۔” عرید نے اس کی طرف دیکھتے بھرپور طنز کیا۔

"بکواس مت کر کمینے انسان میں سچ میں پریشان ہوں۔ تو جانتا ہے میں نہ ہی کبھی دوسری شادی کی تھی اور نہ ہی کر سکتا ہوں جو تو مجھے تیسری کا مشورہ دے رہا ہے۔" وہ اسے گھورتا ہوا بولا۔

"تو ایک کام کر۔” وہ بھرپور سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

یزدان  جی جان سے اس کی طرف متوجہ ہوا۔   

"تھوڑی سی فرصت نکال کر چُلو بھر پانی میں ڈوب کر مرجا۔  کیا پتہ سب ٹھیک ہوجاۓ۔ " وہ جیسے فرصت نکال کر اس پر طنز کرنے آیا تھا۔  

"اپنا بکواس سا منہ لیکر یہاں سے دفعہ ہوجا۔" یزدان اسے گھوری سے نوازتا سیدھا ہوا۔ 

"ہاں بھئ بھلائی کا زمانہ ہی نہیں۔ ویسے تو اپنے کرتوت ٹھیک رکھتا تو یہ سب نہ ہوتا۔" جاتے جاتے بھی وہ اسے سلگانا نہ بھولا۔

یزدان نے اس کی پیٹھ کو زبردست گھوری سے نوازا۔

یزدان دوبارہ سامنے نظریں ٹکا گیا۔

"ویسے ایک بات کہوں۔" عرید پھر سے اس کے نزدیک آگیا۔

"تو نہ ہی کہہ بھائی ۔ جا میری جان چھوڑ۔" یزدان بےبسی سے بولا بس ہاتھ جوڑنے کی کسر رہ گئ تھی۔

"وہ تجھ سے بس خفا ہے جا پیار سے اسے منا لے مان جاۓ گی۔ وہ بس ایسے ہی جھوٹی موٹی ناراضگی دکھا رہی ہے کیونکہ تو اسے تنگ جو کرتا ہے۔" وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتا ہوا بولا۔

"یہ آنکھیں مت دکھا۔ ٹھیک کہہ رہا ہوں۔جا اب جا کر منا لے تیرا انتظار کررہی ہے جانتا ہوں میں اسے۔ مگر تو صدا کا بےوقوف ہے۔" اس سے پہلے یزدان اس کی گردن پکڑتا وہ فوراً وہاں سے نو دو گیارہ ہوگیا۔ 

ان دونوں کا رشتہ ایسا ہی تھا دکھاوے سے پرے۔ وہ کبھی یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ مگر وہ ایک دوسرے کے تکلیف پر تڑپ جاتے تھے۔

اس کے انداز پر یزدان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مچلی۔پھر وہ اس کے کہے پر عمل کرتا میرو کے روم کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"مجھے بھوک نہیں ہے۔ مجھے نہیں کھانا کھانا۔ جاؤ یہاں سے۔" وہ تکیے میں سر دیے ہی بولی اسے لگا نشوہ ہوگی۔مگر سامنے یزدان کھڑا تھا۔ اس کی بات پر اسے افسوس ہوا تھا یعنی وہ اتنا لاپرواہ تھا اپنی بیوی کے حوالے سے۔

دروازہ بند ہونے اور کسی کے قدموں کی آواز پر میرو نے سر گُھما کر دروازے کی جانب دیکھا تھا جہاں یزدان کھڑا آنکھوں میں نرمی سمیٹے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔

اس نے خُفی سے منہ موڑ لیا وہ کل سے اب تک ایک بار بھی اس کا حال پوچھنے نہیں آیا تھا۔

"کیسی طبیعت ہے؟ " وہ اس کے نزدیک آتا اس کے قریب ہی بستر پر بیٹھ چکا تھا۔

"آپ کو کیا فکر میں ٹھیک ہوں یا نہیں۔" وہ خفا خفا سی بولی۔

"ایسا کیوں کہہ رہی ہو۔ تمہاری فکر نہیں ہوگی تو کس کی ہوگی۔" وہ اس کا ہاتھ اپنی مضبوط گرفت میں قید کرگیا۔میرو نے چھڑانے کی کوشش ہر گز نہیں کی تھی۔

وہ اس کی آنکھوں میں مخفی سوال پڑھ گیا تھا۔

"جانم! ایک بہت اہم مسئلے میں اُلجھا تھا۔ اسی کو سلجھا رہا تھا۔ میں نہیں چاہتا کہ آنے والی زندگی میں کوئی مسئلہ آۓ۔ بس اسی لیے تمہارے پاس نہ آسکا۔" وہ اس کے ہاتھ کو نرمی سے سہلاتا ہوا بولا۔

"آپ مجھے اپنی باتوں اُلجھا نہیں سکتے۔ میں آپ سے ناراض ہوں۔ آپ مجھے زبردستی دھمکی دے کر اپنے ساتھ لے کر گۓ تھے۔" وہ اسے گھورتی اس کی غلطی یاد کرواتی ہوئی بولی۔

"میں معذرت خواہ ہوں.  میں جانتا ہوں میں غلط تھا۔" وہ ایک ہاتھ سے کان پکڑتا ہوا بولا۔

میرو کے دل نے بیٹ مِس کی تھی۔ وہ اس کی خاطر کیا سے کیا بن جاتا تھا۔ 

"بالکل بھی نہیں آپ کی عرضی رد کر دی گئ ہے۔" وہ ناک چڑھاتی اترا کر بولی۔

"جی نہیں میں جانتا ہوں میری عرضی قبول ہوگئ ہے۔" وہ مزید نزدیک ہوتا اس کے چہرے کو ہاتھوں میں بھر کر اس کے ماتھے پر جُھکا تھا۔اپنے نرم لمس سے اسے روشناس کرواتے وہ سیدھا ہوکر بیٹھا۔

یزدان نے اس کے پٹی زدہ ماتھے پر نرمی سے انگوٹھا پھیرا تھا۔

"درد تو نہیں ہورہا۔" وہ انتہائی نرمی سے بولا۔

"نہیں مگر۔ اس پیر کی چوٹ کی وجہ سے چلا پھرا بھی نہیں جارہا۔ اپنے کاموں کے لیے بھی دوسروں کی محتاج ہوگئ ہوں۔ ایک ہی جگہ لیٹ لیٹ کر اب مجھے کوفت ہونے لگی۔" وہ اپنے پیر کو دیکھ کر بولی جس کو فی الحال وہ ہلانے سے قاصر تھی۔

"میں ہوں نہ۔ تم مجھے دس بار بھی بُلاؤں گی نا بغیر ماتھے پر بل لاۓ خوشی خوشی تمہارے کام انجام دوں گا۔اور اگر درد ہو تو فوراً بتانا میں ڈاکٹر کے لے جاؤں گا۔ اس معاملے میں کوئی لاپرواہی نہیں۔" وہ اس کی آنکھوں میں محبت بھری نگاہیں گاڑھتا ہوا بولا۔

"اب بتاؤں۔خفا تو نہیں ہو۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکاتا ہوا بولا۔

میرو نے نفی میں سر ہلایا تھا۔ یزدان جُھکتا ہوا اس کی ٹھوڑی کو چوم گیا۔

"شکریہ! مائی لیڈی۔" وہ سینے پر ہاتھ رکھتا ذرا سا جُھکا۔میرو اس کے انداز پر کھلکھلاتی چلی گئ۔

"میں ناراض تو نہیں ہوں مگر آپ کو میری ایک بات ماننی پڑے گی۔" وہ شرارتی چمک آنکھوں لیے بولی۔

"کونسی بات میرو۔" وہ جی جان سے متوجہ ہوا تھا۔

"میری الماری کے دائیں طرف ایک انویلپ پڑا ہے۔ لا دیں گے پلیز۔" وہ منت کرنے والے انداز میں بولی۔

"ہاں ضرور۔"وہ اُٹھتا ہوا اس کی الماری کی طرف بڑھا۔ بغیر کسی مشکل کے اسے آسانی سے وہ لفافہ مل گیا۔

اس وہ لفافہ لا کر میرو کو دیا تھا۔

"کیا ہے اس میں؟" وہ حیرانگی سے اس خاکی لفافے کو دیکھ کر بولا۔

"کچھ خاص نہیں بس اس میں ایک کنٹکریٹ اور جس میں کچھ رولز ہیں جنھیں آپ فولو کریں۔ جیسے آپ دوسری شادی کرنا تو دُور کی بات ہے سوچ بھی نہیں سکتے۔ مجھے زندگی کے کسی مقام پر تنہا نہیں کرسکتے اور ایسے ہی کچھ اور پوائنٹ۔ زیادہ کچھ نہیں بس آپ کو ان پر سائن کرنا ہے۔" اس کی آنکھیں مسکرا رہی تھی۔ 

یزدان نے سمجھتے ہوۓ اس کی معصوم تدبیر کو قبول کرتے فوراً سائن کیے تھے۔ 

میرو کے چہرے کی شرارتی چمک کچھ اور بڑھی وہ اس کنٹریکٹ کے ذریعے یزدان کو تگنی کا ناچ نچانے والی تھی۔ یزدان اپنی بیوی کی سوچ سے انجان مسکرا کر اسے دیکھ رہا تھا۔

"آپ مسکرا کیوں رہے ہیں؟" میرو نے اسے ہنستے دیکھ کر پوچھا۔ جو بےوجہ مسکرا رہا تھا۔

"کیونکہ تم جو مسکرا رہی ہو۔"وہ وہی مسکراہٹ ہونٹوں پر برقرار رکھتا ہوا بولا۔

اس کی خمار آلود آنکھوں کو دیکھ کر میرو نے نظریں چُرائیں تھی۔

"چلیے جائیے اب۔ میں ناراض نہیں ہوں۔" وہ اسے اپنے سامنے سے ہٹانے کی غرض سے بولی۔

"میں کہی نہیں جارہا۔ میں یہیں تمہارے پاس ٹھہروؤں گا۔" وہ اٹل انداز میں بولا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا۔ ابھی رخصتی نہیں ہوئی۔ جو آپ میرے ساتھ ٹھہریں گے۔"وہ اسے واپس ہواؤں سے نیچے لاتی بولی۔

"پانچ سال ہوگۓ نکاح کو ابھی بھی رخصتی نہیں ہوئی یہ میری نہیں گھر والوں کی غلطی ہے۔" وہ لاپرواہی سے بولتا اس کے بائیں طرف پھیل کر لیٹ گیا۔

میرو کا منہ صدمے سے کُھلا تھا۔

"جائیے یزدان۔" وہ اس کی طرف رُخ موڑتی بولی۔

"پیاری بیوی میری بات سمجھو۔ تمہارے پاؤں پر چوٹ لگی ہے۔ تمہیں دھیان رکھنے کے لیے کسی نا کسی کو تمہارے پاس ٹھہرنے کے ضرورت ہے۔"وہ اس کے گرد بازو حائل کرتا اسے اس کے گرد حصار بنا گیا۔زبردستی اس کا سر تھامے اپنے سینے پر ٹکا گیا۔

میرو نے سر اُٹھا کر کچھ کہنا چاہا۔ جب وہ شوخ سی جسارت کرتا اس کی بولتی بند کرگیا۔ وہ خود بخود جُھکتی اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔ جو اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے پُرسکون کررہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی تھکا ہارا ڈیرے سے گھر لوٹا تھا۔وہ فریش ہوتا آرام کی غرض سے بستر پر لیٹ گیا۔وہ آنکھیں موندے فاریہ کا انتظار کررہا تھا۔ اسے پتہ تھا وہ جتنا بھی تھکا ہوا ہو اس لڑکی کے بغیر اسے کبھی بھی نیند نہیں آۓ گی۔

اپنی طبیعت کے باوجود وہ لڑکی ٹک کر بیٹھتی ہی نہیں تھی۔ کمرے کا دروازہ کھولے وہ دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی بستر پر موجود خالی جگہ پر لیٹ گئ۔

ہشام نے آنکھیں کھول کر اس کا چہرہ دیکھا تھا جہاں گہری سنجیدگی تھی وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔ اس کی معصوم بیوی اب ضرور کوئی نئ ٹینشن اپنے سر لے کر بیٹھی تھی۔ وہ حد سے زیادہ سوچنے لگی تھی چیزوں کو خود پر سوار کرنے لگی تھی۔

"فاریہ! کیا سوچ رہی ہو یار؟" وہ اس کا رُخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔

وہ نفی میں سر ہلا کر چہرہ اس کے سینے میں چُھپا گئ۔

"کوئی بات تو ضرور چل رہی ہے۔ تمہارے اس ننھے دماغ میں مجھے نہیں بتاؤ گی۔" وہ اس کا چہرہ روبرو کرتا ہوا پیار سے بولا تھا۔اس نے آنسوؤں سے بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا تھا۔ 

وہ لیٹے سے اُٹھ بیٹھا۔

"فاریہ یار کیا ہوا ہے؟ یار تم چھوٹی چھوٹی باتوں کو سر پر سوار کرلیتی ہو۔ اپنے رونے کی وجہ بتاؤ۔ جانتی ہو نہ تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا۔ پھر بھی ہمیشہ اس دل پر وار کرتی ہو۔" وہ اس کے گال پر بہتے موتیوں کو انگلی کی پوروں سے چُنتا ہوا بولا۔

"ہشام ! آپ کو پتہ ہے۔ شہر بانو کی خالہ کی بیٹی کے بھی بےبی ہونے والا تھا مگر  ڈلیوری کے دُوران اُس کی ڈیتھ ہوگئ۔" وہ ہچکیوں سے روتی بولی۔

ہشام اس کی بات کا مفہوم سمجھ کر تڑپ کر رہ گیا۔

"فاریہ ایسی سوچ کیوں دل میں لاتی ہو۔اُس کی زندگی اتنی ہی لکھی تھی میری جان۔ اور خبردار ایسا ویسا کچھ سوچا۔ میری فاریہ کو کچھ نہیں ہوگا۔سمجھی۔ایسا سوچنا بھی نہیں۔" وہ اس کی بہتی آنکھوں کو چوم گیا۔

"ہشام! میری ماما بھی میری پیدائش پر وفات پاگئ تھیں۔ میرے سارے خاندان والے مجھے منحوس کہتے تھے مگر میرے بابا نے کبھی مجھے ایسا نہیں کہا بلکہ مجھے بہت پیار کیا۔میں نے ممتا کا آنچل کبھی محسوس نہیں کیا مگر میں ماں بننے کا احساس محسوس کرنا چاہتی ہوں۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔

"میری جان جو تمہیں منحوس کہتے تھے وہ پاگل ہیں کیا کبھی کسی کی موت کسی کے منحوس ساۓ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ لوگ ایسی باتیں کرکے اپنی جاہلیت کا ثبوت دیتے تھے۔میری فاریہ منحوس نہیں بلکہ میری زندگی کی خوش قسمتی ہے۔" وہ اپنے لفظوں سے اسے متعبر کر رہا تھا۔

"ہشام بالفرض اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو۔۔۔۔" وہ اب اپنے آپ کو سنبھال کر کچھ کہنا چاہتی تھی۔

"فاریہ! نہ ہی ایسی کوئی فضول سوچ تمہارے دماغ میں آۓ اور نہ زبان پر۔" وہ وارن کرنے والے انداز میں بولا۔کہا گوارہ تھی اس کے منہ سے ایسی باتیں۔

"پلیز ہشام میری بات سُن لیں۔ میں ہوں یا نہ ہوں آپ ہماری اولاد کا بےحد خیال رکھیں گے۔"وہ اس کی بات کاٹ کر اپنی بات مکمل کرگئ۔

"بالکل نہیں۔بلکہ یوں کروں گا دوسری شادی کرلوں گا۔" اسے معلوم تھا کیسے اس کے دماغ سے یہ خرافات نکالنی ہے۔

"ہر گز نہیں۔ دوسری شادی آپ کا خواب بن کر رہ جاۓ گی۔" وہ اسے گھورتے رُخ موڑ گئ۔ یہ ناراضگی جتانے کا انداز تھا۔

"اوہ! ناراض ہوگئ۔ کوئی بات نہیں میری جان تمہیں منانے کے لیے میں ہر دم تیار رہتا ہوں۔" وہ اس کا رُخ اپنی طرف موڑتا اس کے نقش نقش کو متعبر کرنے لگا۔اب فاریہ اپنے ناراض ہونے پر خود کو ڈپٹ کر رہ گئ۔ اس انسان سے جیتنا اس کے بس سے باہر تھا۔ اس کے ہونٹ فاریہ کے حسین نقوش پر گردش کرتے انہیں محسوس کررہے تھے۔  اس کے انداز میں جنونیت تھی۔ فاریہ نے گھبرا کر اسے دُور کرنا چاہا مگر کر نہ پائی۔ وہ اسے اپنی گرفت میں سمیٹتا اس کے وجود کی نرماہٹیں محسوس کرنے لگا۔ 

کمرے میں اندھیرا کیے وہ صوفے پر آرام دہ حالت میں بیٹھے تھے۔آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھی جب دروازہ کھول کر یزدان اندر آیا ۔وہ چلتا ہوا ان کے نزدیک آتا زمین پر بیٹھتا سر ان کی گود میں رکھ گیا۔شہیر نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جو سر اس کی گود میں ٹکاۓ بیٹھا تھا۔

شہیر نے اس کے بالوں میں انگلیاں چلائی تھی۔یزدان نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔

"آئی ایم رئیلی سوری ڈیڈ۔ ساری غلطی میری ہے۔ کاش میں ماموں کی بات پر یقین نہیں کرتا۔ تو یہ سب نہ ہوتا اور آپ نے مجھے کبھی حقیقت کیوں نہیں بتائی۔" وہ ان کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"غلطی تمہاری نہیں بلکہ میری ہے۔ میں ہی رشتوں میں انصاف قائم نہیں کر سکا۔ اور جہاں تک رہی تمہیں نہ بتانے والی بات تو میں جانتا ہوں ہر بچے کے لیے اس کی ماں کتنی اہمیت رکھتی ہیں۔ میں یہ سب بتا کر تمہیں تمہاری ماں سے بدظن نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں جانتا ہوں تمہیں یہ جان کر تکلیف ہوتی۔ " وہ نرمی سے بھرپور انداز میں بولے۔

"تکلیف تو اب بھی ہو رہی ہے تو پہلے کیوں نہیں؟ کم از کم جو طوفان ہماری زندگیوں میں آیا تھا وہی تھم جاتا۔ " اس کے لہجے میں کرب تھا جب سے اپنی ماں کی خود غرضی کے بارے میں پتہ چلا تھا کہی بھی چین نہیں آرہا تھا۔ 

"مجھے اندازاہ نہیں تھا ایسا کچھ ہو جاۓ گا ورنہ بہت پہلے یہ حقیقت بتا کر سارے طوفانوں کو روک لیتا۔" ان کی آنکھیں رات بھر جاگنے کے باعث ہلکی ہلکی سُرخی سمیٹے ہوئیں تھی۔

"ان سب میں اگر سب سے زیادہ کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ شیریں اور احان ہے۔ احان بھی یہ سب ڈیزرو کرتا اس خاندان کا پیار ،محبت،اپنائیت مگر بہت سے غلط فیصلوں نے اُن سے ان کی خوشیاں چھین لیں۔" وہ گہری سنجیدگی سے بولے۔

"ڈیڈ! انہیں لے آتے ہیں یہ گھر اُن کا ہے۔ ان کا بھی سب چیزوں پر حق ہے۔" وہ باپ کی اداسی دیکھتا ہوا بولا۔

"تمہیں لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی۔ احان مجھ سے اور اس گھر کے ہر افراد سے سخت خفا ہے۔وہ یہاں آنے پر راضی ہی نہیں ہے۔" وہ گہری سانس ہوا کے سُپرد کرتے ہوۓ بولے۔

"ہم منا لیں گے انہیں۔" وہ عزم سے بولا تھا۔

شہیر اس کے انداز پر ہلکا سا مسکراۓ تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گاڑی میں مسلسل اس کے سُوں سُوں کی آواز گونج رہی تھی۔صارم نے بےبس نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔وہ راستے میں کوئی بات نہیں چھیڑنا چاہتا تھا اس لیے خاموش تھا۔وہ گھر جاکر اس مسئلے پر بات کرنا چاہتا تھا۔

ان کی گاڑی ایک جھٹکے سے ان کی بلڈنگ کے آگے رُکی تھی۔وہ تیزی سے دروازہ کھولتی باہر نکلی اور انتہائی جارحانہ انداز میں کار کا دروازہ بند کرتی اندر کی طرف بڑھ گئ۔ صارم بھی کار پارک کرتا فورتھ فلور پر موجود اپنے فلیٹ کی جانب بڑھا۔

اس نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا کشن پوری زور سے اس کے سینے سے ٹکراتا زمین بوس ہوا۔

"ماہا! یار میری بات تو سنو۔تمہارا ایسا ریئکشن میری سمجھ سے باہر ہے۔" وہ اس کے نزدیک آتا نرمی سے بولا تھا۔

ماہا نے ایک زبردست گھوری سے اسے نوازا تھا۔

وہ بغیر جواب دیے ایک بار پھر اپنے مشغلے میں مصروف ہوچکی تھی۔

وہ اس کے نزدیک آتا بستر پر بیٹھ چکا تھا۔ 

"یار اتنی اچھی خبر پر کون روتا ہے۔" وہ اس کے بہتے آنسو صاف کرتا بولا۔

"آپ نہیں سمجھیں گے۔ میری پڑھائی میرے خواب سب رُک جاۓ گا۔" وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

"کس نے کہا سب رُک جاۓ گا۔"وہ سوالیہ نظریں اس پر ٹکا کر بولا۔

"مجھے پتہ ہے یہی ہوگا۔ جب سب گھر والوں کو پتہ چلے گا وہ مجھے فوراً واپس لے جائیں گے۔" وہ اپنے دل میں موجود خدشات زبان پر لاتی ہوئی بولی۔

"ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ تم صرف اپنی پڑھائی پر فوکس کرو باقی سب میں سنبھال لوں گا۔ تمہیں لگتا ہے میرے ہوتے ہوۓ کوئی ایسا کرسکتا ہے۔" وہ اس کے وجود کو اپنی پناہوں میں قید کرگیا۔

"سب اتنی جلدی میں ایکسپٹ نہیں کرپارہی۔سب آپ  کی وجہ سے ہوا ہے۔ مجھے پتہ ہے میں دھیان کسی بھی طرف نہیں لگا پاؤں گی۔سب آپ کی غلطی ہے۔" وہ اس کے سینے پر ہاتھ مارتی ہوئی بولی۔

"تم صرف اپنی پڑھائی پر دھیان لگاؤں۔تمہارا دھیان رکھنے کے لیے میں ہوں نا۔ میں کہہ رہا ہوں نا۔نہ ہی تمہاری پڑھائی رُکے گی اور نہ ہی تمہارے خواب ادھورے رہیں گے۔تم وہ سب کرو گی جو تم اپنی زندگی میں کرنا چاہتی تھی۔" وہ اس کا ماتھا چومتا بولا۔

"نشوہ اور باقی سب میرے بارے میں کیا سوچیں گے۔" وہ ایک اور وجہ سامنے رکھتی ہوئی بولی۔

"کچھ بھی نہیں بس یہ سوچیں گی کہ صارم اپنی ماہا سے بہت محبت کرتا ہے۔" وہ مسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔

"کوئی ایک بھی لڑکی نہیں ہے ہماری کلاس میں جس کی شادی ہوئی ہو۔"ایک اور نیا شکوہ سامنے رکھا گیا۔ یعنی کہ اب اس کی جلدی شادی کی وجہ بھی وہی تھا۔

"شکر کرو لڑکی اتنی محبت کرنے والا شوہر ملا ہے۔ کیا تم میری بات پر یقین کرو گی اگر میں کہوں کہ ماہا صارم لاشاری اُن سب میں سب زیادہ خوش قسمت ہے کیونکہ صارم لاشاری کی سانس سانس پر صرف ماہا کا حق ہے۔ " وہ محبت سے اس کے گال پر لب ٹکاتا ہوا بولا۔

"مگر۔۔۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا گیا۔

"شش! ساری اُلٹی سوچوں کو دماغ سے نکال دو۔ اگر میں نکالنے پر آیا تو خفا ہوجاؤ گی۔"وہ ٹھوڑی پکڑتے اس کا چہرہ اُوپر اُٹھاتا ہوا بولا۔

اس بات کا اعتراف تو وہ ہزار بار کرسکتی تھی کہ ماہا صارم لاشاری محبت کے معاملے میں واقعی ہی خوش نصیب ہے۔ 

اس کی نظروں کا ارتکاز اپنے ہونٹوں پر محسوس کر کے ماہا نے اپنا چہرہ اس کی پناہوں میں چُھپایا تھا۔صارم نے اس کے بالوں پر ہونٹ ٹکاتے اسے مزید خود میں بھینچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شہیر کے ساتھ ساتھ یزدان، عرید  اور داجان شیریں کے گھر کے سامنے موجود تھے۔شیریں انہیں ایک ساتھ دیکھ کر کچھ کنفیوز ہوگئ۔

احان جو پہلے سے لاؤنج میں موجود تھا انہیں یہاں دیکھ کر کچھ سنجیدہ ہوگیا۔

"کیسے ہو احان؟" سلام کرنے کے بعد عرید نے ہی اس کا حال چال پوچھا تھا۔ 

جس کا اس نے دھیرے سے جواب دیا تھا۔ وہ اور شیریں خود بھی ان کی طرف جانے والے تھے۔ نشوہ کا ہاتھ مانگنے۔

"آنٹی ! آئی ایم سوری۔میں یہاں آپ سے اپنی ہر غلطی کی معافی مانگنے آیا ہوں غلطی ہم سب کی ہے ہمیں معاف کردیں۔ میری ماں کی وجہ سے آپ کو اتنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔" وہ اپنی ماں کے ذکر پر شدت سے ہونٹ بھینچ گیا۔

شیریں نے اچھے سے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنی ماں کا ذکر انتہائی تکلیف میں کررہا تھا۔اسے بےساختہ اس سے ہمدردی محسوس ہوئی۔اگر دیکھا جاتا ان سب میں یزدان نے ان کے ساتھ کچھ بھی بُرا نہیں کیا تھا اگر غلطی تھی تو شہیر اور عائشہ کی یزدان کی نہیں۔ یزدان نے انہیں اپنے گھر دیکھ کر بدتمیزی ضرور کی تھی جس کا انہوں نے بھی بھرپور جواب دیا تھا۔اس دن کی اس کی بدتمیزی کو اگر اگنور کردیا جاتا تو اس کا کہیں بھی ان کی زندگی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔

شیریں نے گہری سانس بھر کر اس کے جُڑے ہوۓ ہاتھوں کو دیکھ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا تھا۔یزدان نے حیرانگی سے ان کی طرف دیکھا تھا۔

وہ اتنی جلدی ان سے اتنے اچھے رویے کی اُمید ہرگز نہیں کر رہا تھا۔

"تمہاری غلطی نہیں ان سب میں۔" وہ دھیمے سے لہجے میں بولیں۔

"تو آپ ہمارے ساتھ چلیں۔ آپ کا گھر ہے وہ۔" وہ ان کا

 ہاتھ تھامتے کچھ جھجھکتے ہوۓ بولا۔

شیریں نے کچھ بولے بغیر احان کی طرف اشارہ کیا۔

اس نے احان کی طرف دیکھا جو غُصّے سے اسے گھور رہا تھا۔

"کیا کرنے آۓ ہو تم سب یہاں؟ اب تم لوگوں کو کیسے یاد آگیا کہ شیریں اور احان بھی دنیا میں موجود ہیں۔بہلے جیسے فراموش کررکھا تھا ویسے ہی اب بھی ہمیں بُھلاۓ رکھیں۔" وہ غصّے سے سب کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"احان بچے ناراضگی چھوڑ کر گھر آجاؤ۔ ہمیں صرف آج نہیں بلکہ ہمیشہ سے یاد ہو تم۔ہم تو ہمیشہ سے چاہتے تھے کہ تم اپنے گھر آؤ۔مگر تم خود ہی نہیں آۓ۔ ہم تم پرکوئی الزام نہیں لگا رہے ہم جانتے ہیں تم ناراض ہو مگر ہمیں ایک موقع تو دو۔" داجان اس کا غُصّے سے بھرپور انداز دیکھ کر بولے۔

"میں کسی سے ناراض نہیں ہوں۔ میں نے سب کو معاف کردیا ہے مگر میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں چلوں گا۔" وہ ان پر ایک نظر ڈالتا اپنے کمرے میں بند ہوگیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اُس نے نہ  ہی صُبح سے کچھ کھایا تھا اور نہ ہی وہ باہر آیا تھا۔شیریں اس کے کمرے کی جانب بڑھی۔ تاکہ وہ اسے سمجھا سکے۔

وہ سب نااُمید ہوکر جا چکے تھے۔شیریں نے کمرے میں قدم رکھا جہاں وہ کمرے میں اندھیرا کیے گُم سُم سا لیٹا تھا۔

شیریں نے سوئچ بورڈ پر ہاتھ مار کر لائٹ جلا دی۔

وہ جو آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر لیٹا تھا۔ لائٹ اون ہونے پر اُٹھ بیٹھا۔

شیریں چلتی ہوئی اس کے نزدیک بیٹھ گئ۔

"کھانا کھا لو آکر۔" وہ سنجیدہ سے انداز میں بولی جیسے اس سے خفا ہوں۔

"ماما! آپ مجھ سے ناراض ہیں۔" وہ شیریں کا ہاتھ تھامتے پریشانی سے بولا۔

"آج کی تمہاری حرکت مجھے بالکل بھی اچھی نہیں لگی۔ کیا ہماری تربیت ایسی ہے؟ جانتے ہو سب کے سامنے مجھے کتنا شرمندہ ہونا پڑا۔" شیریں لتاڑنے والے انداز میں بولی۔

"میرا من نہیں تھا اس لیے میں وہاں سے آگیا۔ کیونکہ جو سامنے ہوں وہی پیچھے بھی ہوں۔ مجھ سے دکھاوا نہیں ہوتا۔ میں جھوٹ موٹ اُن کے سامنے اچھا بننے کا اظہار کرلیتا اور پیٹھ پیچھے  دل میں بُغض رکھتا پھر کیا فائدہ۔" وہ سنجیدہ لہجے میں اپنا توقف بیان کرتا ہوا بولا۔

"میں تمہیں کب کہہ رہی ہوں دکھاوا کرو۔ بلکہ اپنے دل میں تھوڑی سی وسعت پیدا کرکے ان کو معاف کردو۔شہیر کتنی دفعہ تم سے معافی مانگ چکے ہیں۔ تم سے محبت کرتے ہیں وہ لوگ تبھی تمہارے پیچھے آرہے ہیں۔ بےوقوفی مت کرو بلکہ اُن کی محبتوں کو سمیٹ لو۔ یہ نہ ہو کہ دیر ہوجاۓ اور تم پچھتاتے رہ جاؤ۔" وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی سمجھانے والے انداز میں بولی۔

وہ گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔

"ایک اور بات جہاں تک بات یزدان کی ہے۔ اُس کا ان سب میں کوئی قصور نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنی ماں کی غلطی پر شرمندہ ہے۔ میں نے  محسوس کیا ہے اُس کے لہجے میں چُھپا کرب ۔" وہ اسے سمجھاتے ہوۓ باہر نکل گئ اور اسے گہری سوچ میں چھوڑ گئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ خوشیوں سے چمکتا ایک دن تھا جب شیریں کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی وہی دوسری طرف احان صوفے پر آڑا ترچھا لیٹا تھا۔ جب ڈور بیل بجی تھی۔

"ماما! آپ رہنے دیں میں کھولتا ہوں۔" وہ شیریں کو کچن سے باہر آتا دیکھ کر بولا۔

شیریں اثبات میں سر ہلا کر واپس چلی گئیں۔احان دروازے کی طرف بڑھتا اسے کھول چکا تھا۔

دروازے پر یزدان اور شہیر کھڑے تھے۔

"کون ہے احان؟" شیریں نے کچن سے ہی آواز لگائی تھی۔

"آپ کے سوتیلے شوہر اور میرا سوتیلا بھائی۔" وہ زور سے بولا تاکہ آواز کچن تک چلی جاۓ۔

یزدان اور شہیر نے بیک وقت اسے گھور کر دیکھا تھا۔

"میں بھی ہوں احان۔ تمہارا سوتیلا کزن۔" گاڑی پارک کرتا عرید پیچھے سے آتا ہوا بولا۔

احان نے مسکراہت دبا کر اس کی طرف دیکھا۔وہ سامنے سے ہٹتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ان تینوں نے بھی اس کی تقلید کی تھی۔

وہ پچھلے ایک ہفتے سے یہاں آرہے تھے وہ احان کے انداز میں واضح تبدیلی محسوس کرسکتے تھے۔انہیں اُمید تھی کہ وہ جلد ہی اسے منا لیں گے۔

"ہم تم سے نہیں بلکہ شیریں خالہ سے ملنے آۓ ہیں۔" یزدان کہاں پیچھے رہنے والا تھا جھٹ سے بولا۔

"مجھے خواہش ہی نہیں ہے تم مجھے ملو۔ بابا آپ تو مجھ سے ملنے آۓ ہیں۔" وہ ایک گھوری یزدان پر ڈالتا شہیر کو دیکھ کر بولا۔

شہیر بےیقین سے ہوگۓ۔کیا وہ سچ میں اس سے مخاطب تھا۔وہ بےیقینی کی کیفیت سے نکلتے اثبات میں سر ہلا گۓ۔شہیر اس کے نزدیک آتے اسے گلے سے لگاتے اسے خود میں بھینچ گۓ۔  انہیں روح میں سکون اُترتا ہوا محسوس ہوا۔

شیریں کچن کے دروازے پر کھڑی محبت بھری نظریں ان ہی پر ٹکاۓ ہوۓ تھی۔

"میرا شہزداہ۔" وہ اس کا ماتھا چوم کر بولے۔

"کتنے سال لگا دیے یار۔اپنے باپ کو معاف کردو۔ کبھی مت سمجھنا کہ میں تم سے محبت نہیں کرتا۔ بہت محبت کرتا ہوں۔" وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑنے والے تھے جسے وہ بروقت تھام گیا۔

"کیا کررہے ہیں بابا؟ ایسے مت کریں مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔"وہ ان کے ہاتھوں کو تھام کر ہونٹوں سے لگا گیا۔

"آپ کو پتہ ہے میں نے آپ کا کتنا انتظار کیا تھا۔" وہ شکوہ کرنے والے انداز میں بولا۔

"سوری۔" وہ معذرت خوانہ لہجے میں بولے۔

یزدان اور عرید مسکرا کر انہیں دیکھ رہے تھے۔

"کیا اب گھر چلو گے ہمارے ساتھ۔ سب تمہارا انتظار کررہے ہیں۔"وہ دھڑکتے دل  سے بولے۔ کہی وہ پھر سے انکار نہ کر دے۔

"چلوں گا مگر میری ایک شرط ہے۔" اس کی شرط کی بات پر ان کی مسکراہٹ سمٹ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گھر میں افراتفری کا سماں تھا۔ہر کوئی اپنی اپنی تیاری میں مصروف تھا۔ حویلی کے لان میں چھوٹے سے فنکشن کا انعقاد کیا گیا تھا۔رنگ برنگے آنچل اِدھر اُدھر بکھرے ہوۓ تھے۔

وہ لائٹ پرپل کلر کے فراک میں ملبوس تھی۔بیوٹیشن ابھی اسے تیار کرکے گئ تھی۔ وہ اس اچانک ہونے والے نکاح پر حیران تھی۔دو دن کے اندر اندر احان نے جانے ایسا کیا کیا تھا کہ گھر والے ان کا نکاح کررہے تھے۔

ہلکے پُھلکے میک اپ میں وہ کوئی اپسرہ ہی لگ رہی تھی۔چہرے پر کھلتے رنگ اسے اور حسین بنا رہے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی محبت کے اظہار کے معاملے میں بےباک تھے جانے نکاح کے بعد اُس کا انداز کیا ہوگا۔اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ رہی تھی۔اس کے انداز پر ماہا اور میرو نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔

"ماہا ! کوئی آج بہت حسین لگ رہا ہے۔کہی احان کا ارادہ اسے دیکھ کر بدل ہی نہ جاۓ وہ نکاح کے ساتھ ساتھ رُخصتی نہ کروالے۔" میرو اس کی گھبراہٹ دیکھتی چھیڑنے والے انداز  میں بولی۔

میرو کی طبیعت پہلے سے بہتر  تھی مگر وہ اب بھی زیادہ چلنے پھرنے سے احتیاط برت رہی تھی۔

نشوہ نے اسے گھورنا چاہا مگر ان دونوں کو معنی خیزی سے خود کی طرف دیکھتا پا کر جھنجھلا کر رُخ موڑ گئ۔

"میرو! ویسے اچھے خاصے لڑکے کو خاصا دیوانہ کردیا جو اتنی جلد بازی میں نکاح کررہا ہے۔" ماہا میرو کو مخاطب کرتی ہوئی بولی۔وہ اسے بھی ایسے ہی تنگ کرتی تھی آج ماہا کو بھی موقع مل گیا تھا۔

"بھابھی! آپ ان کو کچھ بولتی کیوں نہیں۔ انہیں کہیے کہ مجھے تنگ نہ کرے۔" وہ ازوہ کے کندھے پر سر ٹکاتی ہوئی بولی۔جو تب سے خاموش تماشائی بنی ان کی چیھڑ چھاڑ سے محظوظ ہورہی تھی۔

"خبردار! اب کسی نے اسے تنگ کیا تو۔" ازوہ زرا رعب سے بولی۔

"اتنی چھوٹی سی بھابھی کے رعب میں ہم نہیں آنے والے۔"میرو مسکراہٹ دباتی ہوئی بولی۔

نشوہ منہ بسور کر رہ گئی۔پھر کچھ ہی دیر  میں نکاح کا شور اُٹھا۔

مولوی صاحب کے ساتھ کبیر ،عرید اور داجان اندر آۓ۔

لال ڈوپٹہ گھونگھٹ کی صورت میں اس پر اوڑھا دیا گیا تھا۔نکاح کی رسم شروع ہوئی تو نشوہ کا دل دھڑک اُٹھا تھا۔

"نشوہ کبیر ولد کبیر عالم آپ کا نکاح احان شہیر ولد شہیرعالم سکہ رائج الوقت بعوض دس لاکھ حق مہر کیا آپ نے قبول کیا" 

"قبول ہے۔" مولوی صاحب کی آواز پر وہ دھیمے سے بولی تھی۔

پھر اسی طرح تین بار قبول ہے کہتی وہ خود کو احان آفندی کی زوجیت میں دے گئ۔ اس سے سائن کرواتے مولوی صاحب باہر نکل گۓ۔

عرید وہی کھڑا محبت سے اپنی گڑیا کو دیکھ رہا تھا۔جو آج اتنی بڑی ہوگئ تھی۔

"میرا بچہ! نکاح مبارک گڑیا۔" وہ مولوی صاحب کے جاتے ہی اس کی طرف آتا اس کا ماتھا چوم کر بولا۔

"بھائی۔۔۔" وہ ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھ کر بولی۔

"بھائی کی جان۔میری گڑیا رو کیوں رہی ہے۔ ابھی تو محض نکاح ہے۔ رُخصتی نہیں۔ اور ویسے بھی رُخصتی کرکے آپ کو کہیں جانا ہی نہیں پڑے گا۔آپ یہی رہو گی ہمارے پاس۔" وہ اس کے ساتھ بیٹھتا اسے سینے سے لگا گیا۔

ہاجرہ اور کبیر بھی  چمکتی آنکھوں سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نشوہ سے اقرار کے بعد  وہ لوگ لان میں بنے اسٹیج کی طرف بڑھے تھے۔ جہاں احان آفندی چمکتے چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا۔ محبت کو محرم بنانے کا مزہ ہی الگ ہے۔ آج وہ لڑکی اس کی محرم بننے والی تھی جس کی خواہش دل نے بڑی شدت سے کی تھی۔

"احان شہیر ولد شہیر عالم آپ کا نکاح نشوہ کبیر ولد کبیر عالم سکہ رائج الوقت بعوض دس لاکھ حق مہر کیا آپ نے قبول کیا۔" 

"قبول ہے۔" وہ دل و جان سے اقرار کر گیا تھا۔جیسے جیسے وہ اقرار کرتا جارہا تھا اس کے چہرے کے چمک بڑھتی جارہی تھی۔

دونوں طرف سے اقرار کی سند ملتے چاروں اور مبارکباد کا شور اُٹھا۔سب سے پہلے داجان نے اسے گلے لگایا تھا۔

"مبارک ہو بچے۔" وہ اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوۓ بولے۔

اس کے  بعد شہیر نے اسے خود میں بھینچا تھا۔

"خوش ہو۔" وہ اس کا خوشی سے بھرپور انداز ملاحظہ کرکے بولے۔

"بہت۔" وہ یک لفظی جواب دیتا اپنی فیلنگز بتا گیا۔

"ہمیشہ خوش رہو۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتے ہوۓ پیچھے ہوگۓ۔

بہت ہی کم قریبی چند رشتے دار موجود تھے۔ اتنی جلدی میں زیادہ لوگوں کو بلانے کا وقت ہی نہیں ملا۔

کچھ ہی دیر میں نشوہ عرید کے ہمراہ چلتی ہوئی لان میں آئی تھی۔سر پر نکاح کا ڈوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔

احان اس کی طرف قدم بڑھاتا جُھکتا ہوا اس کے آگے ہاتھ پھیلا گیا۔عرید نے اس کا ہاتھ احان کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ جس نے مضبوطی سے اسے تھام لیا تھا ہمیشہ کے لیے۔

احان آفندی صرف اور صرف ایک لڑکی کے سامنے جُھکا تھا۔اور وہ  اس کے دل میں اتنا مقام رکھتی تھی کہ وہ بار بار اس کے سامنے جُھک سکتا تھا۔

وہ مضبوطی سے اس کا ہاتھ تھام کر اسے خود کے رُوبرو کرگیا۔اس کے سر پر موجود نکاح کا ڈوپٹہ ہٹایا تھا۔ اس کے خوبصورت نقوش کو دیکھ کر اس کا دل بےساختہ ماشاء اللّٰہ کہہ اُٹھا۔

پھر وہ پورے حق سے جُھکتا استحاق بھرا بوسہ اس کے  ماتھے پر دے گیا۔

"احان آفندی کا ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مبارک ہو۔” وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا بڑبڑایا۔

نشوہ نے ایک پل کے لیے جُھکی پلکیں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا جو آج پورے حق سے اس کے وجود پر نظریں ٹکاۓ بیٹھا تھا۔نشوہ کو آج وہ ہر دن سے بڑھ کر اچھا لگا۔

اس دوران ایک پل کے لیے بھی احان نے اس کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نکاح کی تقریب اچھے سے اختتام پذیر ہوئی جب وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر حویلی کی چھت کی طرف بڑھ گیا۔ اس کا کہنا تھا وہ اپنی بیوی کے ساتھ کچھ حسین پل گزارنا چاہتا تھا۔

سارے افسوس کرکے رہ گۓ اس گھر میں ایک اور بےشرم کا اضافہ ہوچکا تھا۔

حویلی کی چھت پر پہنچتے احان نے جی بھر کے اس کے حسین مُکھڑے کو دیکھا تھا۔

"بس کریں ۔آپ کب سے یوں دیکھتے جارہے ہیں۔" وہ اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتی لجا کر بولی۔

"ہیں! کیا میرے کان خراب ہوگۓ ہیں جو مجھے غلط سُن رہا ہے۔تم اور مجھے آپ کہو۔کہیں میں بےہوش ہی نہ ہوجاؤں۔" وہ شرارتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔ اپنی آنکھوں پر موجود اس کا ہاتھ وہ ہٹا کر اپنے ہاتھوں میں تھام چُکا تھا۔

"اچھا اب اتنی بھی بُری نہیں ہوں۔ جانتی ہوں شوہر کو کیسے بُلاتے ہیں؟" وہ اس پر ایک خفا نظر ڈال کر رُخ موڑ گئ۔

"اب تو اپنا چہرہ نہ ہی مجھ سے چُھپا سکتی ہو اور نہ ہی کبھی رُخ موڑ سکتی ہو۔" وہ اس کا رُخ اپنی طرف موڑتا ہوا بولا۔

نشوہ نے دھڑکتے دل سے اس کا پوزیسسو انداز دیکھا تھا۔

"کتنی شدت سے اس پل کا انتظار کیا تھا۔جب جب تمہیں کھونے کا خیال دل میں آیا دل نے مجھ سے ہی دغا کی ہے۔ تم سانسوں کی طرح ضروری ہو۔سمجھی۔" وہ اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکا کر بولا۔

نشوہ نے آنکھیں موند کر اس کا یہ انداز محسوس کیا تھا۔

احان نے اس کی کپکپاتی بند پلکوں کو دیکھا تھا تو دل نے شدت سے انہیں چھونے کی خواہش کی تھی وہ دل کی آواز پر لبیک کہتا باری باری اس کی دونوں آنکھوں کو چوم گیا۔

نشوہ نے پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا پھر دوبارہ پلکیں خود بخود جُھکتی گئیں۔

اس کی اُٹھتی گرتی پلکوں کا یہ نظارہ اس نے دل میں قید کیا تھا۔

"یقین ہی نہیں آرہا کہ تم میرے حصّے میں لکھ دی گئ ہو۔" وہ حسرت بھرے لہجے میں بولا۔

"تو یقین کرلیں میں آپ کے نام لکھ دی گئ ہوں۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکاتی ہوئی بولی۔

احان کو وہ اتنی پیاری لگی اُس نے بےساختہ جُھک کر اس کے لفظوں کو قید کیا تھا۔وہ دونوں ہاتھ اس کی کمر پر ٹکاۓ اسے خود میں بھینچے کھڑا تھا۔

اس کے گالوں پر پھلتی شفق کو اس نے ہونٹوں سے چُنا تھا۔وہ اس کے چہرے پر اپنا لمس بکھیرتا چلا گیا۔

گالوں سے ہوتا وہ اس کی ٹھوڑی کو محبت سے چوم گیا۔-

نشوہ نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلا تھا۔

وہ دو قدم پیچھے ہوتا اس کا گلنار ہوتا چہرہ دیکھ بالوں میں ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔

وہ اس کی طرف سے رُخ موڑے اپنی تیز ہوتی دھڑکنوں پر قابو پانے کے لیے دل پر ہاتھ رکھ گئ۔

احان اسے سنبھالتا چھت پر پڑے جھولے پر بٹھا گیا۔

کالی گہری رات میں دو وجود ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے آسمان پر نظریں ٹکاۓ بیٹھے تھے۔ اُفق پرچمکتا چاند بھی ان کے پاک بندھن کا گواہ تھا۔

"احان ! آپ کی ساری باتیں آپ کے سارے وعدے سچے تھے۔ دیکھیے تبھی تو ہماری محبت کو منزل مل گئ۔ جب آپ کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو تو منزل مل جاتی ہے۔" وہ اس کے چہرے پر نظریں ٹکاتی ہوئی بولی۔

"میرے دل میں بہت خاص مقام ہے تمہارا۔ میری زندگی میں آنے والی  پہلی اور آخری لڑکی ہو تم۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر لبوں سے لگا گیا۔

"ایک بات پوچھوں آپ سے۔" چاند کی روشنی اس کے حسین مکھڑے کو مزید روشن کررہی تھی۔

"تمہیں بھلا اجازت کی ضرورت ہے تم تو حکم کرو۔" وہ  سینے پر ہاتھ رکھتا جُھکتا ہوا بولا۔

اس کے انداز پر نشوہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مچلی۔

"آپ نے ایسا کیا کیا جو گھر والے دو دنوں کے اندر ہمارا نکاح کرنے پر راضی ہوگۓ۔" وہ پُرتجسس انداز میں بولی۔ اسے واقعی یہ جاننا تھا کہ آخر اس نے ایسا کیا کہا تھا جو سب کچھ سیٹ ہوگیا تھا۔

"کچھ خاص نہیں جانِ احان بس ایک شرط رکھی تھی۔" وہ اسے کمر سے تھامتے نزدیک کرتا اس کے گال پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو دن قبل

"میں گھر جانے کے لیے تیار ہوں مگر اُس سے پہلے میری ایک شرط ہے۔" وہ سنجیدگی  سے بولتا سب کی مسکراہٹ سمیٹ گیا۔

"کیسی شرط؟" شہیر صاحب سریس انداز میں بولے۔

"میں گھر تبھی جاؤں گا جب آپ لوگ میرا نکاح نشوہ سے کریں گے۔" وہ سکون سے بولتا عرید کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ کرگیا۔

"کیا بکواس ہے یہ؟ نشوہ کا یہاں کیا ذکر ؟ میری بہن تمہارے کسی کھیل کا حصہ نہیں بنے گی۔ اگر تو یہ مزاق تھا تو انتہائی بُرا تھا۔" وہ گہری سنجیدگی سے اسے لتاڑتا ہوا بولا۔

"نہ ہی یہ کوئی کھیل ہے اور نہ ہی وہ کسی کھیل کا حصّہ ہے۔بلکہ میری محبت،میری جنونیت، میری طلب ہے۔جو مجھے ہر حال میں اپنی زندگی میں چاہیے۔" وہ بھی دیوانگی بھرے انداز میں بولتا انہیں حیران کر گیا۔

"ابھی ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ تم گھر چلو پھر دیکھیں گے۔" عرید اس کا انداز دیکھ کر اب تحمل سے بولا تھا۔

"ایک بار یقین کرکے نشوہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھما دیں۔ یقین مانیے آپ کو کبھی پچھتانا نہیں پڑے گا۔"وہ عرید کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

"میں اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کروں گا۔ویسے بھی داجان اور ڈیڈ ہی اس کے متعلق فیصلہ کریں گے۔" وہ ٹالنے والے انداز میں بولا۔

"میں جانتا ہوں۔ نشوہ آپ کو بہت عزیز ہے۔ مگر آپ کو لگتا ہے کہ نشوہ کے لیے کوئی اور بہتر ہوسکتا ہے۔ بس ایک بار میری عرضی قبول کرلیں۔ میں اُس سے محبت کرتا ہوں اور میں چاہتا ہوں اُس گھر میں جانے سے پہلے اُسے اپنا محرم بنا کر اپنی محبت  کو پاک کرلوں۔" وہ اس کے نزدیک آتا اس کا ہاتھ تھام گیا۔

وہ اس کے لہجے میں پختگی دیکھ کر ذرا سا مسکرایا تھا۔ پھر مسکرا کر اس کی پیٹھ پر تھپکی دی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ جو پورے انہماک سے اسے سُن رہی تھی۔اس کی محویت کو محسوس کرتا وہ شرارتی مسکان سمیت جُھکتا اس کی ناک پر ہونٹ ٹکا گیا۔ نشوہ نے ہڑبڑا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔

"زیادہ پھیلو مت اور تم کتنے چالاک نکلے بچارے میرے معصوم گھر والوں کو اپنی شرط رکھ کر چکنی چُپڑی باتوں میں اُلجھا لیا۔" وہ ناک چڑھاتی ہوئی بولی۔

"مانتی ہو نا پھر احان آفندی کچھ بھی کرسکتا ہے۔گھر والوں کو منانا تو میرے دائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔" وہ فخریہ انداز میں کالر اُٹھاتا ہوا بولا۔

وہ اسے گھور کر رہ گئ۔

وہ اسے ساتھ لگاتا اس کا ماتھا چوم گیا۔نشوہ بھی آسودگی سے اس کے کندھے پر سر ٹکا گئ۔

"نشوہ ! تمہارے آنے سے میری زندگی میں بہار آئی ہے کبھی دُور مت جانا۔کبھی دھوکا مت دینا۔ بچپن سے ہر خوشی کے لیے ترسا ہوں۔مگر تمہاری محبت مجھے پوری کی پوری چاہیے۔" وہ اسے سینے میں بھینچتا ہوا بولا۔نشوہ نے بھی اپنے دونوں بازو اس کے گرد حائل کرکے اپنے ساتھ کا یقین دلایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان نشوہ کے نکاح سے فارغ ہوکر سب اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گۓ۔اس افراتفری کے نکاح میں سب ہی تیاریوں کے چکروں میں شدید تھک گۓ تھے۔

جہاں سب کمروں کی طرف بڑھ گۓ تھے وہی عرید فون کال آنے پر حویلی سے باہر چلا گیا تھا۔ازوہ مایوس ہوکر رہ گئ۔

ان کو وہاں سے آۓ ایک ماہ ہونے والے تھے وہ اتنا شدید ناراض تھا کہ وہ اس سے ٹھیک طریقے سے بات بھی نہیں کررہا تھا۔

سر بُری طرح سے گھوم رہا تھا۔وہ تھکے ہارے قدموں سے کمرے میں آئی تھی۔ اپنی جیولری اُتارتی ڈریسنگ پر رکھتی وہ ایک آرام دہ سوٹ نکالتی واش روم کی طرف بڑھ گئ۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ خود میں آئی تبدیلی کو محسوس کررہی تھی۔کچھ ٹھیک سے کھایا پیا نہیں جارہا تھا۔

وہ عرید کو بتانا چاہتی تھی مگر وہ ایسا خفا ہوا تھا کہ ٹھیک سے اسے بلا بھی نہیں رہا تھا۔وہ تھکی تھکی سی واش روم سے کپڑے تبدیل کرکے نکلی تھی۔اس سے پہلے کے وہ بستر پر ڈھیر ہوتی کمرے کا دروازہ کھول کر  عرید اندر آیا ۔اس نے ایک سرسری نظر اس پر ڈالی تھی۔پھر نظریں ہٹا کر الماری سے کپڑے نکالتا واش روم میں بند ہوگیا۔ازوہ اس کی پُشت کو تکتی رہ گئ۔

وہ مزید کھڑی نہیں رہ پا رہی تھی اس لیے دھیرے دھیرے قدم اُٹھاتی بستر پر بیٹھ گئ۔ آج وہ عرید سے بات کر کے اس کی ناراضگی دُور کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم تھی جب وہ واش رُوم سے نکلتا اس کے دوسری طرف آکر بستر پر لیٹ گیا۔ازوہ نے  بےبسی بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"عرید پلیز اپنا غُصّہ ختم کردیں۔مجھ سے غلطی ہوگئ مجھے معاف کردیں۔" وہ اس کے بازو پر ماتھا ٹکاتی ہوئی بولی۔

عرید نے گہرا سانس بھر کر آنکھوں سے بازو ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔

پچھلے ایک مہینے سے وہ اپنا رویہ اس کا ساتھ ایسے ہی رکھے ہوۓ تھا۔ وہ بتا نہیں سکتا تھا اُسے وہاں دیکھ کر اُسے کتنی تکلیف ہوئی تھی۔ یہ سوچ کر ہی دل گھبرا جاتا کہ اُسے کچھ ہوجاتا تو۔وہ اسے تھوڑی سی سزا دینا چاہتا تھا۔تاکہ آئندہ وہ یہ غلطی دہرانے سے پہلے ہزار دفعہ سوچے۔

"ازوہ ! صُبح  میری ڈیوٹی ہے پلیز مجھے سونے دو۔" وہ اس کا ہاتھ پیچھے کرتا کروٹ بدل گیا۔

ازوہ اس کی پُشت کو دیکھ کر رہ گئ۔یکدم ہی اس کا دل گھبرانے لگا۔ وہ بستر سے اُترتی بالکُنی کی طرف بڑھ گئ۔ بالکُنی میں آکر اس نے گہرے گہرے سانس بھرے۔آنکھیں اُس ستمگر کی بےاعتنائی پر بھیگ رہی تھی۔

کھلی ہوا میں سانس لیتے طبیعت پر چھایا بوجھل پن کچھ کم ہوا تھا۔وہ نیچے کی طرف جُھکتے ریلنگ پر سر ٹکا گئ۔

عرید نے اس کا بستر سے اُترنا محسوس کیا تو پیچھے مُڑ کر دیکھا وہ بالکُنی کی طرف بڑھ رہی تھی۔آج وہ اُسے کچھ بُجھی بُجھی سی لگی۔اسے یکدم ہی اُس کی فکر ہونے لگی وہ فوراً اُٹھتا بالکُنی کی بڑھ گیا۔جہاں وہ سر ریلنگ پر جُھکاۓ کھڑی تھی۔

"ازوہ! کیا ہوا ہے یار؟ طبیعت تو ٹھیک ہے۔"وہ اس کی طرف بڑھتا فکرمندی سے اس کا وجود اپنی پناہوں میں سمیٹ گیا۔

ازوہ نے حیرانگی سے سر اُٹھا کر اسے  دیکھا تھا جو اس کا سر سہلا رہا تھا۔ابھی تو وہ اس قدر ناراض تھا اور اب وہ فکر مندی سے بار بار اس کا ماتھا چوم رہا تھا۔

ازوہ نے اس کے سینے سے سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا۔ جس کے چہرے پر اس کے لیے فکرمندی،محبت ،مان سب کچھ تھا۔

"طبیعت خراب ہے۔" وہ اس کے چہرے پر ہاتھ ٹکاتا ہوا بولا۔

ازوہ نے ہاں میں سر ہلایا۔

"مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ڈاکٹر کے پاس چلیں۔" وہ فکر مندی بھرے لہجے میں بولا۔

ازوہ کی آنکھوں سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔

عرید نے نرمی سے اپنی پوروں پر اس کے آنسو سمیٹے۔وہ اس کی طبیعت کے خیال سے اسے اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔اسے لاکر بستر پر احتیاط سے لٹایا۔

"اب مجھے بتاؤ کہاں درد ہو رہا ہے؟" وہ اس کے نزدیک بیٹھ کر اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا گیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔ بس ایسے ہی دل گھبرا رہا تھا۔" وہ نظریں چُراتی سر جُھکا گئ۔

وہ سمجھتا ہوا اثبات میں سر ہلاتا دوسری طرف آکر لیٹتا اسے اپنے نزدیک ترین کر گیا۔

"عرید ! آپ مجھ سے ناراض تو نہیں ہیں اب۔" وہ اس کی طرف دیکھتی ہوئی اُداس آنکھوں سے بولی۔

"بہت ناراض تھا۔کیونکہ تمہاری غلطی چھوٹی ہر گز نہیں تھی۔ تم پوری کی پوری میری ہو۔ اس وجود پر تم سے زیادہ میرا حق ہے۔تمہاری جان، تمہاری عزت سب میری امانت ہے۔ اگر تم پر ایک ہلکی سی بھی کھروچ أتی تو کبھی معاف نہیں کرتا۔ آئندہ ایسی غلطی ہر گز نہیں کرنا۔ ورنہ مجھ سے بُرا کوئی نہیں ہوگا۔ اپنے شوہر کے زورِ بازوؤں پر یقین رکھو وہ اپنی حفاظت بھی کرسکتا ہے اور تمہاری بھی۔" وہ گہری سنجیدگی سے بول رہا تھا۔

"سوری۔مجھے معاف کردیں۔" وہ سر جُھکاتی منمنائی تھی۔

"اس کی ضرورت نہیں ہے میری جان۔تمہیں کبھی خود کے سامنے نہیں جُھکانا چاہتا۔تم بس حکم دیتی اچھی لگتی ہو۔" وہ اس کا چہرہ ٹھوڑی سے تھام کر رُوبرو کرتا اس کے گال پر ہونٹ ٹکا گیا۔وہ اس تھوڑی سی دیر میں جانے کتنے بوسے اس کے گال,ماتھے اور ٹھوڑی پر دے چُکا تھا۔

پھر اس کی طبیعت کے خیال سے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے پُرسکون کرنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کب سے کمرے میں ٹہلتی اُس کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔ جو آج آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔

ہشام نے جیسے ہی کمرے میں قدم رکھا اسے تیزی سے اِدھر اُدھر گھومتا دیکھ اس کے ماتھے پر بل پڑے۔

"فاریہ! کیا کررہی ہو؟" وہ اس کے نزدیک آتا اسے بستر پر بٹھا چُکا تھا۔

"مجھےآپ سے بات کرنی تھی مگر آپ آہی نہیں رہے تھے۔" وہ اسے گھورتے ہوئی بولی۔

"سوری میں تھوڑا سا لیٹ ہوگیا۔ تم بتاؤ کیا بات کرنی تھی۔" وہ معذرت خواہ لہجے میں بولا۔

"آپ کو پتہ ہے میرو کی شادی ہونے والی ہے۔ اور اس نے مجھے انوائٹ کیا ہے وہ چاہتی ہے میں ضرور آؤں میں بھی جانا چاہتی ہوں۔ میرا بھی من ہے۔ میری کوئی دوست نہیں پہلی بار کوئی میرا دوست بنا ہے۔ میں جانا چاہتی ہوں پلیز۔" وہ ایکسائٹڈ سی بولی۔

"یار تمہاری طبیعت کے چکر میں میں یزدان سے معذرت کر چکا ہوں۔" جب یزدان یہاں ان کی شادی پر آیا تھا دونوں کی اچھی خاصی دوستی ہوچکی تھی۔

"پلیز ہشام مان جائیں نہ۔"وہ اس کا ہاتھ تھام کر منت کرنے والے لہجے میں بولی۔

 یزدان نے اسے کافی اصرار کیا تھا جس پر اس نے فاریہ کی طبیعت کی وجہ سے معذرت کرلی تھی۔

مگر اب فاریہ کے اصرار پر وہ نہ نہیں کرپایا۔وہ مسکراتے چہرے سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ہشام نے دھیرے سے سر ہاں میں ہلایا تھا۔وہ خوشی سے اس کے سینے پر سر ٹکا گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو کے مکمل صحت یاب ہوتے ہی ان کی رُخصتی کے ڈیٹ فکس ہوگئ تھی جس کا یزدان کو جانے کب سے انتظار تھا۔اُس کا انتظار ختم ہوا تھا اور آخر وہ دن آپہنچا تھا۔

بارات نکلنے کا وقت ہوچکا تھا۔نیوی بلیو رنگ کی  شیروانی میں وہ خوب جچ رہا تھا۔ سب سے زیادہ جلدی اسی کو تھی۔ وہ بار بار جلدی جلدی کا شور مچاتا سب کو مسکرانے پر مجبور کررہا تھا۔شہر کے مشہور بینکویٹ میں بارات کا انتظام کیا گیا تھا۔

پھر پورے جوش و خروش کے ساتھ یہ قافلہ اپنی منزل کی طرف بڑھا۔

ماہ نور اور شاہ ویز پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔بہت ہی اچھے طریقے سے بارات کا استقبال کیا گیا۔

ہال کے اندر جاۓ تو برائیڈل روم میں بلڈ ریڈ لہنگے میں ملبوس زومیرہ آفندی پوری آب و تاب سے چمکتے چہرے کے ساتھ یزدان کی منتظر تھی۔بارات أنے کا شور اُٹھا تو اس کا دل زور و شورو سے دھڑکنے لگا۔

نکاح پہلے ہی ہوچکا تھا اس لیے بغیر وقت ضائع کیے میرو اپنے باپ کے ہمراہ باہر کی طرف بڑھی۔ شاو ویز کو وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی وہ بار بار اس کا ماتھا چوم رہے تھے۔

جیسے ہی اس نے ہال میں قدم رکھا یزدان اسے دیکھ کر تھم گیا تھا۔ جو اتنی حسین لگ رہی تھی وہ اردگرد کا ہوش بُھلاۓ اسے دیکھنے میں مگن تھا۔ وہ ٹرانس کی کیفیت میں چلتا ہوا اس کے نزدیک ترین آگیا۔ شاہ ویز نے میرو کا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔جسے وہ پورے حق سے تھامتا اپنے نزدیک ترین کرگیا۔اس سے نظریں ہٹ ہی نہیں رہی تھی وہ جو سادگی میں بھی اس کی توجہ اپنی طرف کھینچتی تھی۔وہ گہرا سانس بھرتا اس کے ماتھے پر جُھکا تھا۔ استحاق بھرا بوسہ دے کر وہ ذرا سا پیچھے ہوا۔

اس نے کسی کو اشارہ کیا جو مائک لا کر اس کے ہاتھ میں تھما چُکا تھا۔

"السلام علیکم! ایوری  ون، آپ کا کچھ وقت لینا چاہوں گا۔ مجھے پتہ ہے آپ سب کو اس بات کا بڑا تجسس تھا کہ میں دو سال پہلے میرو کو چھوڑ کر کیوں گیا تھا۔میں جانتا ہوں میرے جانے کے بعد میری میرو کو بہت باتیں سُننے کو ملی۔ پر ایک بات کہوں گا ضروری نہیں ہر دفعہ بارات واپس جانے اور بارات نہ آنے کی وجہ لڑکی کی کوئی برائی ہو۔ کبھی کبھی لڑکا اور لڑکے کے گھر والے بھی غلط ہوسکتے ہیں اور دو سال پر پہلے میں غلط تھا میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں اور شرمندہ بھی ہوں۔ میں نے اپنی غلط فہمی کی بنا پر بہت کچھ تباہ کردیا۔اس کے باوجود یہ میری میرو کی اعلٰی ظرفی ہے جس نے سب بُھلا کر مجھے معاف کردیا۔" میرو سانس روکے اسے سُن رہی تھی۔

"مجھے معاف کرنے کا میری زندگی میں شامل ہونے کا بہت شکریہ۔" وہ اس کے سامنے جُھکتا اپنا ہاتھ پھیلا گیا۔ جسے میرو نے بنا وقت ضائع کیے تھام لیا۔وہ اس کے ہاتھ پر ہونٹ ٹکاتا اسے سینے سے لگا چُکا تھا۔پھر وہ اسے لیتا اسٹیج کی طرف بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احان ایک سائیڈ پر نشوہ کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا۔

"احان! ہاتھ چھوڑ دیں ۔کب سے تھام رکھا ہے۔سب ہمیں گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں۔ ناجانے کیا سوچ رہے ہونگے ہمارے بارے میں۔" وہ جھنجھلا کر بولی جو مسلسل اس کا ہاتھ تھامے ہوۓ تھا۔

نشوہ کو اس کی یہ عادت پسند تھی جو باہر نکلتے ہمیشہ اس کا ہاتھ تھامے رکھتا تھا جب جب وہ اس کا ہاتھ ہجوم میں تھامتا تھا ایک تحفظ کا احساس اُجاگر ہوتا تھا مگر آج اس کی یہ عادت پر وہ جھنجھلا رہی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے سب انہیں ہی دیکھ رہے ہوں۔

"دیکھنے دو۔تم کیوں ٹینشن لیتی ہو۔ میں ہوں نا سب سنبھالنے کے لیے۔" وہ سامنے سے نظر ہٹاتا اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔

نشوہ بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔ جب سے نکاح ہوا تھا اُسے اچھے سے اندازہ ہوگیا تھا وہ اس کے معاملے میں حد سے زیادہ پوزیسسو ہے۔کبھی کبھی تو اس کا انداز نشوہ کو بےتحاشا اچھا لگتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام اور فاریہ میرو اور یزدان سے ملنے اسٹیج کی طرف بڑھے تھے۔ہشام نے یزدان کو گلے لگا کر اس کی پیٹھ تھپتھپائی تھی۔اب وہ دونوں باتوں میں مصروف ہوچکے تھے۔

"دونوں کو ایک جیسا کھڑوس دوست مل گیا۔ ویسے دونوں ایک جیسے ہی ہیں کھڑوس،بد دماغ۔" اسٹیج سے کچھ دُور کھڑے احان اور صارم ان دونوں پر تبصرہ کرتے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسے۔

"صحیح کہہ رہا ہے یار۔" صارم نے احان کی بھرپور تائید کی۔

"شرم تو نہیں آتی اپنے بھائیوں پر ایسے تبصرے کرتے ہوۓ۔ابھی بتاتا ہوں انہیں تاکہ وہ تم دونوں کو سبق سکھاۓ۔" پیچھے سے عرید کی کڑک سی آواز گونجی۔

احان اور صارم نے مُڑ کر اس کی طرف دیکھا جو دونوں کو گھور کر دیکھ رہا تھا۔

"ایسی بات نہیں ہے۔ ہم تو کچھ اور بات کررہے تھے۔" صائم نے خود کا دفاع کرنا چاہا۔ احان نے نے بھی زور و شور سے سر ہلایا۔

"ویسے کہہ تو تم دونوں ٹھیک ہی رہے ہو۔ دونوں حد سے زیادہ کھڑوس ہیں۔ اور ہاں بدماغ اور اڑیل بھی۔" عرید شرارتی مسکان چہرے پر سجاتا ہوا بولا۔

پھر ان تینوں کا مشترکہ قہقہ ہال میں گونجا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچھ ہی دیر بعد رُخصتی کا شور اُٹھا۔ میرو سب بڑوں کی دعاؤں کے حصار میں نئ زندگی کی راہ پر نکل گئ۔

"میرو! میری جان رو کیوں رہی ہو؟ میں کون سا تمہیں لیکر کہی دُور جا رہا ہوں۔" وہ اس کی سُوں سُوں کی آواز گونجتے دیکھ بولا۔

"پتہ نہیں جانے کیوں خود بخود رونا آرہا ہے۔" وہ انتہائی معصومیت سے ذرا سا سر اُٹھاتی ہوئی بولی۔

یزدان نے بنا کچھ کہے اس کے گرد ہاتھ پھیلاتے اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکایا تھا۔

"یزدان ! پتہ نہیں کیوں آج بھی میرا دل گھبرا رہا تھا کہ کہی پھر سے کچھ بُرا نہ ہوجاۓ مگر اس بار ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میرے خدشات بے بنیاد تھے۔" وہ اس کے سینے میں سر چُھپاتی ہوئی بولی۔

یزدان نے جُھکتے اس کے بالوں پر ہونٹ ٹکاۓ تھے۔

ایک گھنٹے کے سفر کے بعد ان کی گاڑی حویلی کے آگے رُکی تھی۔ جہاں پہلے سے ہی گھر والے ان کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔پھر تھوڑی دیر بعد کچھ رسموں کے بعد میرو کو یزدان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔

وہ بستر پر بیٹھی اس کے آنے کا انتظار کررہی تھی۔ آنے والے وقت کا سوچتے اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ رہی تھیں۔گھبراہٹ کے مارے پسینے کی ننھی ننھی بوندیں ماتھے پر چمک رہیں تھیں۔اسے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔جب کچھ ہی دیر بعد یزدان دروازہ کھولتا اندر آیا۔

یزدان اسے سامنے اپنے بستر پر موجود دیکھ جتنا خدا کا شکر کرتا اُتنا کم تھے۔جانے کب سے وہ لڑکی اس کے دل کی مکین تھی۔جانے کب سے دل نے یوں اسے اپنے کمرے میں دیکھنے کی خواہش کی تھی۔

وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک ترین آکر بیٹھ گیا۔

یزدان نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قید کیا جن میں ہلکی ہلکی کپکپاہٹ محسوس ہورہی تھی۔اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ سہلاتے اسے پُرسکون کرنے کی کوشش کی تھی۔

سائیڈ ڈرا سے ایک مخملی کیس نکال کر ان میں سے خوبصورت سے پایل نکال کر اس کے پاؤں میں پہنائی تھی۔ میرو نے اپنا پاؤں پیچھے کھنچنا چاہا اسے اچھا نہیں لگا تھا اس کا یوں اپنے پاؤں کو ہاتھ لگانا۔وہ اس کے پیروں کو مضبوطی سے تھامتا دونوں پیروں میں پایل کو زینت بنا چُکا تھا۔پھر ذرا سا جُھکتے پایل پر ہونٹ ٹکاۓ تھے۔میرو نے گھبرا کر پیر پیچھے کھینچا۔

پھر وہ الماری کی طرف بڑھتا اس میں سے ایک انویلپ لاتا وہ بھی اسے تھما چکا تھا۔ میرو نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا جیسے جاننا چاہا کہ اس میں کیا کہا۔

"تمہارے لیے چھوٹا سا سرپرائز ہے کھول کر دیکھ لو۔" وہ کندھے اچکاتا ہوا بولا۔

میرو نے جیسے ہی اس لفافے کو کھولا اس میں موجود ترکی کی ٹکٹ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمکی۔ اسے یاد تھا کہ اس نے ایک دفعہ یزدان سے تُرکی جانے کی خواہش کی تھی۔ وہ ابھی تک اس خواہش کو یاد رکھے ہوا تھا۔

"آپ کو یاد تھا یزدان۔"وہ خوشی سے بھرپور انداز اپناتے ہوۓ بولی۔

"تم سے جُڑی ہر چیز مجھے حفظ ہے۔" وہ مسکراتا ہوا بولا۔وہ مزید نزدیک ہوتا اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام چُکا تھا۔

"مجھے اس دن کا شدت سے انتظار تھا۔میری جان۔اب زندگی کا ہر پل تمہیں میرے سنگ گزارنا ہے۔ اب واقعی ہی زندگی حسین ہونے والی ہے۔ تم آگئ ہو تو یقیناً زندگی میں رنگ بھرنے والے ہیں۔"وہ اس کے ماتھے پر جُھکتا اپنے لب ٹکا گیا۔میرو کی پلکیں لرز کر رہ گئیں۔

"تمہیں پتہ ہے آج تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔میرا دل چاہ رہا ہے تم سامنے بیٹھی رہو اور میں ایک پل بھی تم پر سے نظریں نہ ہٹاؤ۔" اس نے ایک نظر اس کی نتھ کے موتی کو دیکھا تھا جو اس کے ہونٹوں کو چھورہا تھا۔یزدان نے استحاق سے جُھکتے اُس موتی پر اپنے لب ٹکاۓ تھے۔

اُس کی جُھکی پلکیں مزید جُھک گئ۔اس کے چہرے پر کتنے ہی رنگ بکھرتے چلے گۓ۔

"چینج کرلو۔ تم انکمفرٹیبل لگ رہی ہو۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے بستر سے اُترنے میں مدد دے چُکا تھا۔

میرو بھاری جیولری سے آزاد ہوتی ایک آرام دہ سوٹ لیے واش روم کی طرف بڑھ گئ۔ کچھ دیر بعد وہ فریش سی باہر آئی تھی۔ یزدان بھی اتنی دیر میں نائٹ ڈریس پہن چُکا تھا۔ کمرے میں نیم اندھیرا تھا۔خود وہ بستر پر براجمان ہوتا اسی کا انتظار کررہا تھا۔یزدان نے اپنا ہاتھ اس کی طرف پھیلایا تھا۔ وہ جھجھکتی ہوئی چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی بستر کے نزدیک آتی اس کا ہاتھ تھام گئ۔

یزدان نے اس کا ہاتھ کھینچتے اسے خود پر گرایا تھا۔میرو نے سٹپٹا کر اس کی حرکت کو دیکھا۔ اس نے دور ہونا چاہا جو کہ اب ناممکن تھا۔

وہ اسے بستر پر لیٹاتا اس پر سایہ کر گیا۔ میرو سختی سے آنکھیں میچ چکی تھی۔یزدان نے دھیرے سے اس کی بند آنکھوں کو چھوا تھا۔اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاۓ وہ مزید جُھکتا اس کے نقوش کو چھونے لگا۔اس کی سانسوں کی خوشبو خود میں بساتے جیسے وہ مسرور ہو رہا تھا۔وہ اس کی مزاحمتوں کو خود میں قید کرتا گہرائیوں میں اُترتا ساری دوریاں سمیٹ چکا تھا۔قطرہ قطرہ پگھلتی رات ان کے پاک ملن کی گواہ تھی۔

آج کا دن سب کے لیے خوشیوں کا باعث تھا۔حویلی کی لاڈلی بیٹی کو اپنے حصّے کے خوشیاں مل گئ تھی۔ کہی نا کہی داجان ، شہیر اور ماہ نور خود کو اس کا گنہگار سمجھتے تھے۔ ان کے لیے جیسے وقت اسی پل رُک گیا تھا جب ان کی میرو کی خوشیاں بکھر گئ تھی۔ آج سب کے چہروں پر گہرا سکون تھا۔

اگر ایک طرف وہ سب خود کا میرو کا گنہگار سمجھتے تھے تو وہی دوسری طرف شیریں کو تو بہت کم پل کی خوشیاں ملی تھی۔ سب کچھ ٹھیک ہونے کے باوجود بھی وہ ان سے نظریں نہیں ملا پاتے تھے۔ 

شیریں نے سچے دل سے انہیں معاف کردیا تھا۔بےشک وہ سب کو معاف کرچکی تھی مگر ان کے اور شہیر کے رشتے میں جو خلیج حائل ہوگیا تھا جسے چاہ کر بھی وہ پار نہیں کرپارہی تھی۔

شہیر پوری کوشش کررہے تھے اس کے اور خود کے درمیان موجود یہ دوریاں سمیٹ لیں۔انہیں اس بات کا احساس دلانے کی کہ وہ ان کے دل میں اور باقی گھر والوں کے دل میں بھی بہت مقام رکھتی تھی۔ پہلے احان کا نکاح اور اب یزدان ، میرو کی شادی کے وجہ سے وہ دونوں ہی اپنی اپنی جگہ بہت مصروف تھے۔

شہیر اپنے کمرے میں موجود کب سے ان کا انتظار کررہے تھے تاکہ اُن سے بات کر سکیں۔ ان کی جھجھک دُور کرسکیں۔ 

رات کے ساڑھے گیارہ کا وقت تھا جب شیریں نے کمرے میں قدم رکھا تھا۔ وہ ابھی تک بارات والے ڈریس میں ہی ملبوس تھی۔مونگیا رنگ کے بھاری کامدار ڈریس میں وہ واقعی ہی جاذبِ نظر لگ رہی تھی۔ انہیں دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وقت انہیں چھوۓ بغیر گُزر گیا ہو۔ گنگھریالے بال جوڑے میں قید تھے۔ان کی ہری آنکھوں کو کسی زیبائش کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ ہلکے پُھلکے میک اپ کے ساتھ آج بھی شہیر کے دل کی سلطنت پر اوّل دن کی طرح حق سے براجمان تھی۔

وہ ٹکٹکی باندھیں انہیں نہارنے میں مصروف تھے۔ شیریں نے ان کا انداز کو اچھے سے محسوس کیا تھا۔ جانے کیوں وہ اپنے اور شہیر کے درمیان اس فاصلے کو سمیٹ نہیں پارہی تھی۔

"شیریں یہاں آئیے۔" انہیں الماری کی طرف بڑھتا دیکھ کر شہیر نے صوفے پر بیٹھے ہی اپنا بازو ان کے لیے پھیلایا تھا۔ جسے وہ کچھ تردد کے بعد تھام چُکی تھی۔

شہیر نے انہیں اپنے ساتھ بیٹھاتے ان کے گرد بازو حائل کیا تھا۔

"جب سے آپ آئی ہیں ٹھیک سے بات ہی نہیں ہوپارہی۔ آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں ہم دونوں کے درمیان جو یہ فاصلے ہیں انہیں دُور کرنا چاہتا ہو۔بچے اپنی زندگی میں  آگے بڑھ چکے ہیں وہ اپنی زندگیوں میں خوش رہیں یہی دلی آرزو ہے۔" وہ اس کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لیے ہوۓ بولے۔

شیریں نے زیرِلب آمین کہا تھا۔وہ بھی تو سب کو ہنستا مسکراتا دیکھنا چاہتی تھیں۔

"چلیے یہ سب چھوڑیے۔ آپ اپنا بتائیے کوئی مشکل تو نہیں ہورہی۔ کوئی چیز پریشان تو نہیں کررہی کیونکہ کل سے میں آپ کی خاموشی نوٹ کررہا ہوں۔ کوئی مسئلہ ہے؟ تو آپ مجھ سے شیئر کرسکتی ہیں۔" وہ ان کا ہاتھ سہلاتے نرمی سے بولے۔

"نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بس لوگ  مجھے دیکھ کر باتیں بنا رہے تھے کہ اتنے سالوں بعد میں یہاں کیسے؟ اور مجھے سمجھ نہیں لگ رہی کیسے انہیں خاموش کرواؤں۔" وہ اپنی ازلی نرم لہجے میں بولی۔

"لوگوں کی باتوں کو کیوں دل پر لے رہی ہیں۔ میں ہوں نا آپ کے لیے یہاں۔ آپ کو کسی کو بھی کچھ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔"  وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتے اس کا سر سینے پر ٹکا گۓ۔

"میں جانتا ہوں۔ ہمارے درمیان جو اتنے فاصلے قائم ہوۓ ہیں ان کی وجہ میں ہوں۔کیا آپ ایک موقع ہمارے رشتے کو نہیں دے سکتی۔ ایک بار مجھ پر یقین نہیں کرسکتی۔ میں جانتا ہوں آپ مجھے معاف کرچکی ہیں مگر میں چاہتا ہوں آپ پہلے جیسی ہنستی مسکراتی شیریں بن جائیں۔ " وہ اُمید بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔

"میں آپ کو معاف کرچکی ہوں اور کوشش بھی کر رہی ہوں کہ سب کے ساتھ نارمل طریقے سے رہ سکوں۔" وہ ان کی باتوں کے جواب میں بولی۔

"بہت شکریہ میری جان۔ میں جانتا ہوں تم بہت اچھی ہو۔ اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہوں۔" وہ ان کے چہرے پر جُھکتے ان کا ماتھا چوم گۓ۔

شیریں اب اپنی زندگی میں مطمئن ہوچکی تھی۔ جو خلعش زندگی میں باقی تھی وہ بھی آہستہ آہستہ کم ہوجانی تھی۔ انہیں پورا یقین تھا۔

شہیر نے انہیں سوچوں میں ڈوبا دیکھ کر انہیں سینے سے لگایا تھا۔شیریں نے آنکھیں موندتے ساری سوچوں کو ذہن سے جھٹکا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج اس کی طبیعت کچھ زیادہ ہی عجیب ہورہی تھی۔ وہ بس شادی ختم ہونے کا انتظار کررہی تھی تاکہ عرید کو اس حقیقت سے آگاہ کرسکے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس نے کوشش نہیں کی تھی۔ اس نے کوشش کی تھی بتانے کی مگر وہ بتا نہ سکی اسے بتاتے ہوۓ شرم سی آرہی تھی۔

اس نے خود کو سنبھالتے بمشکل کمرے میں قدم رکھا تھا اور واش روم کی طرف بڑھ گئیں۔

صُبح سے ٹھیک سے کچھ کھایا ہی نہیں تھا۔عرید نے کمرے میں قدم رکھتے پہلی نظر ہی اس پر ڈالی تھی جو واش روم سے نڈھال سی حالت میں باہر آرہی تھی۔عرید نے نشویش سے اس کی طرف دیکھا۔وہ آگے بڑھتا اس کا سر سینے پر ٹکا گیا۔

"حد ہے ازوہ۔ اگر طبیعت خراب تھی تو بتانا چاہیے  تھا اپنی صحت پر بھی ذرا دھیان دے سکتی ہو کہ نہیں۔" وہ شدید برہمی سے بولا۔

"سوری شادی کی مصروفیت کی وجہ سے۔۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب وہ فوراً ٹوک گیا۔

"مجھے کچھ نہیں سُننا جلدی چینج کرکے آئیں ہم ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں۔" وہ الماری سے ایک سوٹ نکالتا اس کے ہاتھ میں تھما گیا۔

ازوہ اس کا سنجیدہ چہرہ دیکھتے بنا کسی چوں چراں کے سوٹ لیتی واش روم میں بند ہوگئ۔ تقریباً دس منٹ بعد وہ فریش ہوکر باہر آئی تھی۔

"جلدی سے چادر اوڑھ کر نیچے آئیے میں گاڑی نکالتا ہوں۔" وہ اسے ایک نظر دیکھتا نیچے کے طرف بڑھ گیا۔

ازوہ کو گھبراہٹ ہونے لگی۔ کہی وہ اس خبر کو چُھپانے پر اس سے ناراض نہ ہوجاۓ۔ وہ اسے کیسے سمجھاتی وہ اس سے چُھپانا نہیں چاہتی تھی مگر بتا بھی نہیں پارہی تھی۔

وہ مردہ قدم اُٹھاتی کمرہ سے باہر نکل گئ۔ گھر مہمانوں سے بھرا تھا وہ بنا کسی کو بتاۓ خاموشی سے وہاں سے نکل گۓ۔

تقریباً بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ ایک قریبی ہسپتال کے باہر موجود تھے۔ عرید کار سے اُترتا اس کی طرف کا دروازہ کھولتا اس کا ہاتھ تھام گیا۔ازوہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں اب نرمی ہی نرمی تھی تھوڑی دیر پہلے والی سختی کہی غائب ہو چکی تھی۔

وہ دونوں چلتے ہوۓ ہسپتال کی راہداریوں سے گزرتے ایک لیڈی ڈاکٹر کے کیبن میں موجود تھے۔ 

ڈاکٹر اس کا تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد اپنی کُرسی پر آکر براجمان ہوچکی تھی۔ 

"لگتا ہے آپ لوگوں کو بچہ نہیں چاہیے۔" ڈاکٹر نے اپنی عینک اُتارتے تیکھی نظروں سے انہیں گھورا تھا۔ 

ازوہ کا چہرہ پل میں سُرخ پڑا تھا۔ 

"کیا مطلب ڈاکٹر؟ میں سمجھا نہیں آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ " عرید حیرانگی سے ایک نظر ازوہ پر ڈال کر ان کی طرف متوجہ ہوا۔ 

"اس میں نہ سمجھنے والی کونسی بات ہے۔ایک سیدھی سی بات کہی ہے میں نے۔ یہی کہ شاید آپ لوگوں کو اپنا ہونے والا بچہ نہیں چاہیے تبھی اتنی لاپرواہی دکھائی جارہی ہے۔ نہ ہی ڈائٹ کا خیال رکھا جارہا ہے اور نہ ہی میرے خیال سے کوئی چیک اپ وغیرہ کروایا ہے آپ نے۔" ان کے لہجے میں ابھی بھی وہی سنجیدگی تھی۔

عرید نے بےیقینی بھری نظر سے اس کی طرف دیکھا جو شرمندگی سے سر جُھکا گئ۔

"سوری ڈاکٹر۔ میں اس بات سے لاعلم تھا مگر انشاء اللّٰہ پورا دھیان رکھوں گا۔" وہ دھیمی سی مسکراہٹ سمیت بولا تھا۔یہ خبر اسے جیسے بھی ملی تھی وہ خوش تھا اس کی اولاد اس دُنیا میں آنے والی تھی۔

"میں کچھ وٹامنز لکھ رہی ہوں۔اور یہ کچھ ٹیسٹ ہیں جو آپ کروالیں۔ باقی آپ ریگولرلی چیک اپ کرواتے رہے۔" اب کی بار وہ نرمی سے بولی۔انہیں واقعی ہی یقین ہوگیا تھا کہ عرید اس بات سے لاعلم تھا۔

وہ رسمی مسکراہٹ کے ساتھ اُٹھتا اس کا ہاتھ تھامتا باہر کی طرف بڑھ گیا۔ازوہ اس کے چہرے سے کچھ بھی اخذ نہ کرپائی۔

وہ اسے احتیاط سے گاڑی میں بٹھاتا خود بھی دوسری طرف سے آکر بیٹھ چکا تھا۔

"عرید پلیز مجھ سے ناراض مت ہوئیے گا۔ میں واقعی ہی بتانا چاہ رہی تھی پر بتا نہیں سکی۔" اس سے پہلے کہ وہ کار سٹارٹ کرتا وہ اس کا بازو تھامتی ہوئی بولی۔

"میری بےوقوف سی بیوی میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ تم کسی بھی ٹینشن کو خود پر سوار مت کرو۔ بلکہ اچھا اچھا سوچو۔ اور رہی میری بات تو میں اتنا خوش ہوں کہ تمہیں بتا نہیں سکتا۔بےحد شکریہ میری جان میری زندگی کو مکمل کرنے کے لیے۔ویسے میرا ارادہ تو یہ بات مجھے نہ بتانے پر آپ سے خفا ہونے کا تھا مگر پھر میں نے سوچا آپ اتنی سی ہیں کہیں ٹینشن میں طبیعت نہ خراب کر لیں۔" وہ اسے سینے سے لگاتا اس کا ماتھا چومتا ہوا بولا۔

"سچی آپ ناراض نہیں ہیں۔" وہ سر اُٹھاتی معصومیت سے بولی۔

"نہ میری جان۔" وہ جُھک کر اس کا دایاں گال شدت سے چومتا ہوا بولا۔

"عرید!۔۔" وہ سینے سے لگے ہی دھیمی آواز میں بڑبڑائی۔

"جی جانِ عرید۔" وہ اسی کے انداز میں بولا۔

"مجھے بھوک لگی ہے۔" وہ عرید کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔

عرید نے اس کا گال تھپتھپاتے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صُبح کا پُر نور اُجالا ان کے کمرے کو روشن کر چُکا تھا۔جہاں میرو اس کے بازو پر سر ٹکاۓ دنیا جہاں سے بیگانہ محو استراحت تھی وہی دوسری طرف یزدان آفندی جانے کب سے اسے نہارنے میں مصروف تھا۔وہ کب سے ویسے ہی پڑا اس کے نقش نقش کو نظروں کے ذریعے دل میں اُتار رہا تھا۔اُس کے ہرے کانچ پر اس وقت پلکوں کا گہرا سایہ تھا۔وہ تیکھے نین نقوش والی لڑکی جانے کب سے اس کے دل میں مقیم تھی۔

ان کی زندگی میں کتنی مشکلات آئی مگر اس کے باوجود آج وہ دونوں ایک ساتھ تھے۔وہ اپنی سوچوں میں گُم تھا جب وہ ذرا سا کسمسائی تھی مگر پھر اس کے سینے میں مزید سر گُھساتے سو گئ۔

یزدان کے ہونٹوں پر گہری مسکان بکھری۔یزدان نے اس پر جُھکتے اس کا ماتھا چوما تھا۔

"چلو یار اب آنکھیں کھول بھی دو۔ کب سے تمہارے جاگنے کا انتظار کررہا ہوں۔ تمہارے چہرے پر کھلتے وہ محبت کے رنگ دیکھنا چاہتا ہوں جو میری قربت کی وجہ سے بکھریں گے۔" وہ اس کے کان میں سرگوشی کرتا ہوا بولا۔

میرو اسے کا لمس محسوس کر کے جاگ گئ تھی مگر اس نے آنکھیں نہیں کھولی تھی۔

"میرا امتحان لے رہی ہو۔" وہ اس کی ہلتی پلکوں کو چومتا ہوا بولا۔میرو نے گھبرا کر آنکھیں کھولی تھی۔

اس نے ایک نظر ہی اس کی آنکھیں میں ڈالی تھی پھر خود بخود نظریں جُھکا گئ۔اس کی آنکھوں میں نظر آتے رنگوں کو دیکھ کر وہ خود میں سمٹتی چلی گئ۔چہرہ پل میں شرم و حیا سے گلنار ہوا تھا۔

وہ اس کے چہرے پر کھلتے رنگوں کو دیکھ کر مبہوت ہوا تھا پھر جُھکتا ہوا ہر رنگ چُراتا چلا گیا۔میرو نے اس کی بڑھتی جسارتوں کو دیکھ اسے خود سے دُور دھکیلا تھا۔

"ہماری زندگی کی خوشیوں بھری صُبح مبارک ہو۔" وہ اس کے ہاتھوں کو تھامتا ان پر لب ٹکاتا ہوا بولا۔

اس کی معصوم چہرہ دیکھ کر وہ اس کی ٹھوڑی چومتا اسے اپنی گرفت سے آزاد کر چکا تھا۔ میرو موقع غنیمت جانتی واش روم میں بند ہوگئ۔

یزدان پُرسکون سا آنکھیں موند گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شیریں اور شہیر سیڑھیاں اُترتے نیچے کی طرف آۓ تھے جہاں سب گھر والوں کے ساتھ ساتھ کچھ مہمان بھی موجود تھے۔

"شادی بچوں کی ہے لیٹ یہ لوگ آرہے ہیں۔ اس شیریں نے تو شرم بیچ کھائی ہے۔" شہیر کی خالہ نخوت سے سر جھٹکتی ہوئی بولی۔

سب گھر والوں نے شیریں کا سپید پڑھتا چہرہ دیکھا تھا۔

"خالہ کیسی بات کررہی ہیں؟  آپ کو پتہ ہے شادی کی وجہ سے سب ہی مصروف تھے کل ہی تو پُرسکون ہوۓ ہیں۔" شہیر نے ذرا سختی سے خالہ کو ٹوکا تھا۔

دادی جان نے بہن کو آنکھیں دکھائی تھی جن کی زبان بڑی تیز رفتاری سے چلتی تھی۔

"لو بھلا تم لوگوں نے ہی سر چڑھا رکھا ہے۔ اتنے سالوں سے ناراضگی کا راگ الاپتے گھر سے دُور تھی اب کیسے واپس آنے کا سوچا۔اور تم لوگ اچھے ہو اسے آسانی سے اس گھر میں آنے دیا۔ میں ہوتی نہ تمہاری جگہ صدف تو اسے اندر بھی نہ آنے دیتی۔" وہ نخوت سے بولی تھی۔

"خالہ جان آخری بار وارن کررہا ہوں۔ یہ گھر جتنا میرا ہے اُتنا ہی میری بیوی کا ہے۔ اُس کا جب دل چاہے گا آئیں گیں اور جب دل چاہے گا جائیں گیں۔ آپ کون ہوتی ہیں پوچھنے والی۔ جب میں ان سے جواب طلب نہیں کررہا تو کوئی اور بھی نہیں کرسکتا۔" وہ جو کب سے تحمل کا مظاہرہ کررہے تھے ان کی چلتی زبان کے جوہر دیکھ مزید خاموش نہ رہ سکے۔

"رضیہ ! اگر شادی پر آئی ہو تو بہت شکریہ اور اگر ہمارے گھر میں لڑائیاں ڈالنے تو بڑی مہربانی ہوگی واپس چلی جاؤ۔" داجان کڑک لہجے میں انہیں دیکھ کر بولے۔

"اور آئندہ احتیاط کرنا۔ یہ گھر شیریں کا ہے۔وہ اپنی مرضی کی مالک ہیں۔ اب مجھے شیریں کے خلاف کوئی بولتا نظر نہ آۓ۔" داجان دو ٹوک انداز میں سب کو خاموش کروا گۓ۔

"میں تو بس یونہی کہہ رہی تھی۔" وہ منمنانے والے انداز میں بولیں۔

میرو اور یزدان سیڑھیاں اُترتے ان کی ایک ایک بات سُن چکے تھے۔

"السلام علیکم! خیر سے کن کے پیٹ میں مڑوڑ اُٹھ رہے ہیں۔ جنھیں گھر میں سکون ہضم نہیں ہورہا۔"  وہ سیڑھیاں اُترتی ان کے قریب آتی ایک نظر رضیہ بیگم پر ڈال کر بولی۔یزدان نے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی۔

وہ باتیں تو سب سے کررہی  مگر سُنا انہیں ہی رہی تھی وہ ان کی باتیں سُن چکی تھی۔ کبھی کبھی تو اسے یہ حیرانگی ہوتی تھی کہ اس کی دادی تو اتنی  اچھی ہیں ناجانے ان کی یہ بہن کس پر چلی گئ تھی۔

وہ اکثر ایسے ہی دوسروں کی زندگی میں ٹانگ اڑاتی ہوئی ملتی تھی۔

"لڑکی اتنا پھیکا رنگ کیوں پہنا ہے وہ بھی شادی کے پہلے دن۔ حد ہوگئ۔ کیا شادی سے خوش نہیں تھی تو۔" رضیہ دادی کے نظر اب شیریں سے ہٹ کر میرو پر مرکوز ہوچکی تھیں۔

"نہیں دراصل وہ  چھوٹی دادی جان۔ دیکھئیے نا آپ اس عمر میں بھی سُرخ رنگ ،سُرخ چوڑیاں اور یہاں تک کے سُرخ لپ اسٹک لگاۓ بیٹھی ہیں۔ اگر میں گہرا رنگ پہن لہتی تو آپ کی چمک تو مدھم پڑھ جاتی۔ ویسے چھوٹی دادی کیا فائدہ اتنا بن سنورنے کا جب چھوٹے دادو آپ کو دیکھ ہی نہیں رہے۔ اتنی کوشش کے باوجود آپ اپنے شوہر کو متوجہ نہیں کرپا رہیں۔" وہ بڑے ہی مدھم لہجے میں آگ لگاتی ہوئی بولی۔

دُور صوفے پر بیٹھے ان کے شوہر نے ایک نظر میرو کو دیکھ کر مسکراہٹ دبائی تھی۔ انہیں واقعی  ہی اپنی بیوی کی اس تیز زبان کا انتہا سے زیادہ افسوس تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو اور یزدان کا ولیمہ خیر و عافیت سے انجام پایا تھا سب مہمان اپنے اپنے گھر واپس لوٹ گۓ تھے۔زندگی واپس اپنے ڈگر پر رواں دواں تھی۔

"خالہ ! میں نے سُنا ہے بڑے پاپا آپ کو ہنی مون پر لے کر جا رہے ہیں۔" میرو شرارتی مسکان چہرے پر سجاتی شیریں کے نزدیک صوفے پر آکر براجمان ہوچکی تھی۔یزدان نے ہی اسے بتایا تھا کہ ایک میٹنگ کے سلسلے میں شہیر مری جارہے ہیں اور ان کا ارادہ شیریں کو بھی ساتھ لے جانے کا ہے۔

"بدتمیز! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم کہیں نہیں جارہے۔" وہ اس کے سر پر چپت لگاتی ہوئی آنکھیں دکھاتی ہوئی بولی۔

"اوہ ! کہی بڑے پاپا آپ کو سرپرائز تو نہیں دینا چاہتے تھے میں نے سرپرائز خراب کردیا۔" وہ لب دانتوں تلے دبا گئ۔

شیریں بیگم اس کی بات پر اُٹھ کر اوپر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔ وہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ کیا واقعی میرو سچ کہہ رہی ہے۔

وہ دروازہ کھولتی بنا اِدھر اُدھر دیکھتی ان کے نزدیک آتی فوراً مدعے کی بات پر آئی تھی۔

"شہیر میرو کیا کہہ رہی ہے؟" وہ شہیر کے نزدیک آتی بستر پر بیٹھ گئ۔

"کیا کہہ دیا گڑیا نے۔" وہ پوری طرح سے ان کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔

"کیا ہم کہیں جارہے ہیں؟" وہ ان  کی طرف دیکھتی ہوئی  حیرانی سے بولی۔

"یہ یزدان بھی نہ ہر طرف پھیلا دیا۔حد ہے کوئی بات بچتی ہی نہیں اس کے پیٹ میں۔" وہ یزدان کو تصور میں لاتے دانت کچکچا گۓ۔

"ایسے اچھا نہیں لگتا میں نہیں جارہی آپ چلیں جائیں۔" وہ جانے سے انکار کرتی ہوئیں بولیں۔

"ہر گز نہیں آپ بھی ساتھ ہی جائیں گی۔میں آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔ کافی وقت ہم ضائع کرچکے ہیں۔"وہ دو ٹوک انداز میں بولے۔

"بچے کیا سوچیں گے؟" وہ پریشانی سے بولیں۔

"بچے کچھ نہیں سوچیں گے۔وہ جانتے ہیں کہ ہمارے رشتے میں جو اتنی دوریاں آگئ ہیں انہیں سمیٹنے کی ضرورت ہے۔ویسے بھی یہ یزدان کا ہی مشورہ ہے وہی چاہتا کہ میں آپ کو بھی ساتھ لے جاؤں۔" وہ مزے سے یزدان کی بابت بتاتے ہوۓ بولے۔

شیریں اس بار انکار نہیں کرپائیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ابھی کچھ دیر پہلے ہی وہ  دونوں مری کے اس خوبصورت سے کاٹیج میں پہنچے تھے۔اس کاٹیج کو دیکھ کر شیریں کی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں تھی۔ احان کی پیدائش سے پہلے وہ ایک بار یہاں آچکی تھیں۔

یہ کاٹیج کافی پہلے شہیر نے لیا تھا۔انہیں پہلی نظر میں ہی یہ جگہ پسند آگئ تھی۔ یہ شادی سے پہلے کی بات تھی وہ یہ شیریں کو منہ دکھائی میں تحفے کے طور پر دینا چاہتے تھے مگر جیسا انہوں نے سوچا تھا ویسا ہوا ہی نہیں تھا۔

احان کے ان کی زندگی میں آنے کی خبر انہیں یہاں آکر ہی ملی تھی۔تبھی یہ جگہ ان دونوں کی زندگی میں خاص مقام رکھتی تھی۔

وہ اردگرد دیکھتی ماضی میں ڈوبتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماضی

وہ  یہاں شیریں کے ساتھ وقت گزارنے آۓ تھے۔ شادی کے بعد شیریں کے ساتھ وقت گزارنے کا انہیں ٹائم مل ہی نہیں رہا تھا۔شیریں کی اچانک طبیعت بگڑ جانے کی وجہ سے اسے ایک نزدیکی کلینک لے گۓ تھے جہاں انہیں ایک نۓ مہمان کی آمد کی نوید سُنائی گئ تھی۔

ابھی ابھی وہ گھر لوٹے تھے۔دونوں اپنی اپنی جگہ گہری سوچ میں ڈوبے تھے۔شیریں خاموشی سے جاکر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوچکی تھی۔ان کی خاموشی محسوس کرکے شہیر ان کے پیچھے آۓ تھے۔

"کیا بات ہے شیریں؟ کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی؟" وہ ان کا سنجیدہ چہرے دیکھ کر بولے۔

"نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ مجھے لگا آپ خوش نہیں ہے۔" وہ دل میں آیا خدشہ زبان پر لاتی ہوئیں بولی۔

"آپ کو کس نے کہا کہ میں خوش نہیں ہوں۔ میں اتنا خوش ہوں کہ آپ کو بتا نہیں سکتا۔ میں مانتا ہوں یہ میری پہلی اولاد نہیں ہے مگر یہ ہم دونوں کے پاک بندھن کی نشانی ہے۔ آپ کی اور ہماری اولاد۔جانے اس دن کا کب سے سوچ رکھا تھا مگر سب غلط ہوگیا۔ مگر اب میں گزرے ٹائم کو نہیں دوہرانا چاہتا اب بس ہم آگے آنے والی زندگی کو خوبصورت بنائیں گے۔ تم میں اور ہماری اولاد۔" وہ اس کا ماتھا چومتے ہوۓ بولے۔

شیریں کا چہرہ اتنے میں ہی کھل اُٹھا تھا۔اس کی مسکراہٹ اتنی پیاری تھی شہیر نے بےساختہ جُھک کر اس مسکراہٹ کو چُنا تھا۔ شیریں نے شرماتے  ہوۓ ان کے سینے میں سر چُھپایا تھا۔شہیر نے ان کے گرد ہاتھ باندھتے انہیں خود میں بھینچا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حال

وہ ماضی سے نکلتی واپس حال میں قدم رکھ چکی تھی۔

"آپ کو یاد ہے شہیر احان کے ہماری زندگی میں آنے کی خبر ہمیں یہاں آکر ملی تھی۔" شیریں ماضی کی یادوں سے نکلتی ان کے رُوبرو ہوتی ہوئیں بولیں۔

"کیسے بھول سکتا ہوں ہماری گزرے ہوۓ خوبصورت لمحوں میں سے سب سے اسپیشل پل کو۔"وہ دھیمے سے مسکرا کر بولے۔

"آپ کو پتہ ہے یہ جگہ مجھے اسی لیے اتنی پیاری ہے کہ میری زندگی کی خوبصورت وجہ کے وجود کی آگاہی یہی ملی تھی۔" وہ مسکرا رہی تھی پورے دل سے مسکرا رہی تھیں۔ ان کی زندگی کے اندھیرے چھٹ گۓ تھے اور صرف مسکراہٹیں باقی رہ گئ تھیں ۔

یہی تو وہ چاہتے تھے ان مسکراہٹوں کو شیریں کی زندگی کا حصّہ بنانا۔کہی نا کہی وہ کامیاب بھی ہو رہے تھے۔

"آپ بہت اچھی ہیں شیریں۔ میری زندگی میں کسی دُعا کے سبب شامل ہوگئیں ہیں۔ ورنہ میں شاید آپ کے قابل نہیں تھا۔" وہ ان کی مسکراہٹ دیکھتے ان کا ہاتھ تھام کر انہیں قریب کرتے ان کا ماتھا چوم گۓ۔

شیریں نے آسودگی سے مسکراتے ان کے سینے پر سر ٹکایا تھا۔

میرو نے دبے قدموں کمرے میں قدم رکھا۔آج اتوار کا دن تھا۔اور یزدان کا ارادہ اپنی نیند پوری کرنے کا تھا۔مگر اس کی بیوی کے ہوتے ہوۓ ایسا ناممکن تھا۔

"یزدان جلدی سے اُٹھ جائیں۔" اس نے بستر کے قریب رُکتے اسے آواز لگائی مگر وہ ہلا تک نہیں تھا۔

میرو نے اس کے بازو کو ہلا کر اسے اُٹھانے کی کوشش کی مگر بےسُود۔ وہ گدھے گھوڑے بیچ کر سکون سے سویا تھا۔

"یزدان اُٹھ جائیں ورنہ اچھا نہیں ہوگا۔" وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی دھمکی دینے والے انداز میں بولی۔

جب یزدان کے اُٹھنے کے کوئی آثار نظر نہ آۓ تو میرو نے  سائیڈ ٹیبل پر پڑا پانی کا گلاس اس پر اُلٹ دیا۔

یزدان ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھا۔ ماتھے پر بلوں کا جال بچھا۔اس نے نظر اُٹھا کر سامنے دیکھا۔ سامنے اپنی آفت کی پُڑیا کو دیکھ کر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

"جانم! اب کیا غلطی ہوگئ مجھ غریب سے۔" وہ مسکین سی شکل بناتا ہوا بولا۔

"ہننہ! آپ جتنے معصوم بننے کے چاہ میں ہیں اُتنے ہیں نہیں۔اب باقی سب باتیں چھوڑیے جلدی سے اُٹھیے اور فریش ہوکر آئیے۔" وہ اس کا ہاتھ کھینچتی ہوئی بولی۔

"یار ابھی تو ساڑھے آٹھ ہوۓ ہیں۔ آج تو اتوار ہے۔آج تو سونے دو۔ بارہ بجے کے بعد جہاں بھی کہو گی وہاں لے چلوں گا۔" وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے نزدیک بٹھا چکا تھا۔

"مگر مجھے بھوک لگی ہے۔" وہ ماتھے پر دو بل ڈالتی ہوئی بولی۔

"اوکے تم ناشتہ کر لو میری جان۔" وہ اس کا گال سہلاتا ہوا پیار سے بولا تھا۔ آنکھیں نیند کی وجہ سے بند ہورہیں تھیں۔وہ اپنی بات مکمل کرتا واپس لیٹنے کی تیاری میں تھا میرو نے اس کا ارادہ ناکام کیا۔

"جی نہیں شاید آپ ایک دفعہ پھر بھول گۓ۔رُول نمبر چوبیس کے مطابق ہر اتوار آپ میرے لیے ناشتہ بنائیں گے۔" اس نے افسوس سے یزدان کی عقل پر ماتم کیا۔

"وٹ! نہیں ایک اور نہیں۔یار مزاق کر رہی ہو نہ تم۔" وہ روتی شکل بنا کر اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

"بالکل بھی مزاق نہیں کررہی  آپ نے میری شرائط کو قبول کیا تھا۔ اور بڑی خوشی خوشی اُن پر سائن کیے تھے۔" وہ دانت دکھاتی ہوئی بولی۔

"تم جاؤ میں آرہا ہوں۔" وہ اسے گھورتا واش روم میں بند ہوگیا۔

تھوڑی دیر بعد وہ فریش  ہوتا نیچے آیا تھا۔ جہاں عرید اور احان شرارتی مسکان سمیت اسے دیکھ رہے تھے۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کی بیوی اپنے کارنامے کے بارے میں سارے گھر میں پھیلا چکی تھی۔

"واہ ! آج تو بڑے بڑے لوگ ناشتہ بنانے کے لیے نیچے آگۓ۔" عرید قہقہ لگاتا احان کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنسا۔یزدان نے انہیں خشمگی نظروں سے گھورا۔

"آپ لوگوں کو تو یہ توفیق نہیں ہوتی بیوی کو ایک چاۓ کا کپ تک پلا سکیں۔ بڑے آئیں ہیں دوسروں کو طعنہ دینے۔" نشوہ نے ایک غصّے سے بھرپور نظر اپنے منکوح اور بھائی پر ڈالی۔

"بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو نشوہ۔میرو کتنی لکی ہے۔ یزدان بھائی کتنا خیال رکھتے ہیں میرو کا۔" ازوہ بھی فوراً میدان میں کودی تھی۔

یزدان نے ان دونوں کی ان کی بیویوں کی ہاتھوں بنی دُرگت کو دیکھ کر ایک جتاتی چڑانے والی نظر ان پر ڈالی اور کچن کی طرف بڑھ گیا۔

کچن میں آکر گہرا سانس بھرتا وہ تیزی سے ہاتھ چلانے لگا ابھی محض مشکل سے دس منٹ گزرے ہونگے جب میرو کچن کے دروازے پر نمودار ہوئی۔

"بہت اچھے یزدان۔آپ نا بہت اچھے ہیں۔" وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرتی دانت دکھاتی ہوئی بولی۔

"میرو۔۔" وہ دانت کچکچاتا ہوا بولا۔ ابھی وہ اپنی بات مزید جاری رکھتا جب میرو اس کی بات کاٹ گئ۔

"جی میرو کی جان۔" وہ اسی کے انداز میں کھلکھلاتی ہوئی بولی۔ جب وہ موڈ میں ہوتا تھا تو اس کو یونہی پکارتا تھا۔

وہ اسے اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر دوڑ لگا چکی تھی۔

"نو یزدان! آپ اپنا ٹاسک مکمل کریے آپ میرے پیچھے نہیں آسکتے میری شرائط میں ایسا کچھ نہیں تھا۔" وہ دوڑتی ہوئی لاؤنج میں رکھے صوفے کے پیچھے آگئ۔

"تمہاری شرائط کی تو ایسی کی تیسی۔" وہ دانت پیستا ہوا بولا۔

دا جان ان دونوں کو ایک ساتھ خوش دیکھ کر خود بھی مطمئن ہوگۓ تھے۔انہیں اور کیا چاہیے تھا ان کے سارے بچے اپنی زندگیوں میں خوش و خرم تھے۔ 

میرو بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ گئ۔

سیڑھیاں چڑھتے ہی پہلے کمرے کا دروازہ کُھلا دیکھ کر وہ اندر داخل ہوگئ اس پہلے کے وہ بالکنی کی طرف بڑھتی۔ یزدان کمرے میں داخل ہو کر ایک ہی جست میں اس کی طرف بڑھتا اسے دبوچ چکا تھا۔ 

"اب بتاؤ بڑی ہنسی آرہی تھی۔"وہ اس کی طرف دیکھتا دانت کچکچاتا ہوا بولا۔

"نہیں تو۔ میں پوچھنے آئی تھی کہ آپ کو میری مدد کی ضرورت تو نہیں۔" وہ اس کی گرفت میں قید ہلکی آواز میں منمنائی۔

یزدان کو خود پر چھائی کثافت چھٹتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کا کھلتا ہوا چہرہ دیکھ کر وہ دل ہی دل میں مسکرایا۔

"رئیلی جانم۔مجھے خوشی ہوئی۔ چلو پھر ٹھیک ہے ناشتہ تو میں بنالوں گا۔ دوپہر کا کھانا تم بنا لینا۔" یزدان نے مسکراتے ہوۓ اپنی تجویز پیش کی۔

اس کی بات سُن کر میرو کے چہرے کے ہوائیاں اُڑی۔کھانا بنانے سے تو اس کی جان جاتی تھی۔ ماہ نور اسے پکڑ پکڑ کر کام پر لگاتی تھی۔اتوار کو اس نے اپنی ماں کو یہ کہہ جان چھوڑائی تھی کہ ایک دن کی بریک ملنی چاہیے اب یزدان کیا کہہ رہا تھا۔

"بالکل نہیں۔ میں بالکل نہیں بنانے والی۔" وہ ناک چڑھاتی اٹل انداز میں بولی۔

"اچھا تمہاری بات پر سوچا جاسکتا ہے۔ بس میری ایک شرط مان لو۔" وہ شرارتی چمک آنکھوں میں سجاتا ہوا بولا۔

"کیسی شرط؟ مجھے منظور ہے مگر میں کھانا ہر گز نہیں بناؤں گی۔" وہ اس کی آنکھوں میں موجود شرارت کو دیکھے بغیر فوراً اثبات میں سر ہلا گئ۔

بس زیادہ کچھ نہیں ایک کِس اور تم آزاد۔" وہ اس کے ہونٹوں کو دیکھتا معنی خیزی سے بولا۔

میرو کا چہرہ پل میں سُرخ ہوا۔اس نے گھور کر اسے دیکھنا چاہا مگر اس کی نظروں کی تاب نہ لاتے نظریں جُھکا گئ۔

وہ اس کے چہرے پر جُھکتا اپنا لمس بکھیرنے لگا۔اس کی سانسوں کو آزادی بخشتا وہ اس کی آنکھوں کو چوم گیا۔آنکھوں سے ہوتے اس نے میرو کے گال پر بوسہ دیا۔اس کی کمر کے گرد گرفت مضبوط کرتا اسے مزید خود میں بھینچ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وردہ جلد سے جلد زید کو شادی کے لیے راضی کرنا چاہتی تھی۔  حالات جس نہج پر پہنچ چکے تھے اُسے جلد سے جلد کسی مضبوط سہارے کی ضرورت تھی۔ اتنی آسانی سے وہ آفندی خاندان کو معاف کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں رکھتی تھی۔بس ایک بار وہ ان حالات پر قابو پالیتی وہ ایک ایک سے بدلہ لینے کے بارے میں سوچ چکی تھی۔

اپنی ماں کو وہ رسمی سا زید کے متعلق بتا چکی تھی اور اب اسے انفارم کرکے گھر پر بُھلا چکی تھی۔ اب وہ بےصبری سے اس کا انتظار کررہی تھی۔

اس کا انتظار ختم ہوا جب وہ بڑی شان سے چلتا ہوا اندر داخل ہوا۔

"کیسی ہو وردہ؟" وہ بڑا پُرسکون سا تھا۔اس کے چہرے کا یہ سکون وردہ سے ہضم نہ ہوا۔ وہ خود اتنی بےچین تھی تو وہ کیسے اتنے سکون میں ہوسکتا تھا۔ آخر یہ ان دونوں کا ہی مسئلہ تھا۔پھر وہ اکیلی کیوں ٹینشن لیتی۔

"تم کس بات پر اتنا مسکرا رہے ہو۔یہاں میں اتنی ٹینشن میں ہوں۔ شدید پریشانی سے میری جان نکلی جارہی ہے۔" وہ اسے گھورتی ہوئی اپنی حالت کی بابت بھی بتا گئ۔

"ہاں تمہاری حالت ایسی ہونی بھی چاہیے۔ تمہارے باپ کے کرتوت سامنے آگۓ ہیں اب لوگ بھی کہاں چین لینے دیں گے۔آخر کس کس کو جواب دو گی تم۔" وہ ابھی بھی اتنا ہی پُرسکون تھا جیسے اسے اس کی حالت پر کوئی افسوس ہی نہ ہو۔

"بکواس بند کرو اپنی۔ میرے پاپا پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔اور میں بہت جلد انہیں جیل سے نکلوا لوں گی۔" وہ اپنے باپ کے خلاف ایسے الفاظ سُن کر شدید برہمی سے بولی۔

"اپنی آواز نیچی رکھو اور ذرا تمیز سے بات کرو مجھ سے۔ میں نے کسی کو اتنی اجازت نہیں دی جو یوں مجھ سے بات کرسکے۔" وہ انگلی اُٹھاتا درشتگی سے بولا۔

وردہ فی الحال اسے کسی بھی طرح کی دشمنی مول نہیں لے سکتی تھی۔ اس لیے اپنے غُصّے کو اندر ہی دبا گئ۔

"سوری مجھے ایسے نہیں بولنا چاہیے تھا مگر تمہیں بھی تو دھیان رکھنا چاہیے تم میرے فادر کے بارے میں ایسے کیسے بات کرسکتے ہو۔ خیر اس سب کو چھوڑو اور مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے اپنے گھر بات کی ہے کہ نہیں۔ میں اپنی ماما کو تمہارے بارے میں انفارم کرچکی ہوں۔ وہ بھی تم سے ملنا چاہتی ہیں۔ مجھے لگتا ہے اب ہمیں دیری نہیں کرنی چاہیے۔ ہم ایسا کرتے ہیں نکاح کرلیتے ہیں تم اپنے گھروالوں کو منا لینا۔" وہ ایک ہی سانس میں بنا رُکے بوگتی چلی گئ۔

"ویٹ ویٹ تم سے کس نے کہا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ شاید کرلیتا مگر تمہارے باپ کی بدنامی کے بعد تو ہر گز نہیں۔" وہ صفا چٹ انکار کرتا اسے حیران پریشان چھوڑ گیا۔

وردہ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوا۔

"کیسی باتیں کررہے ہو زید؟ میرے نہیں تو اپنے ہونے والے بچے کا کچھ سوچ لو۔" وہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی بولی۔ اندر سے دل ڈر بھی رہا تھا کہ وہ کیسے ان حالات سے نکلے گی۔

"ہہنہ! یہ میرا سر درد نہیں ہے۔میں کسی بھی حال میں تم جیسی لڑکی کو نہیں اپناؤں گا متضاد یہ کہ تمہارے باپ کی بدنامی کے بعد تو ہر گز نہیں۔ ایک مجرم کی بیٹی سے شادی کرلوں یہ ہوہی نہیں سکتا۔" اُس کا پہلے بھی اس سے شادی کا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر اب تو اسے وجہ مل گئ تھی دھڑلے سے انکار کی۔

"زید تم میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔" وقت نے ایسا تھپڑ مارا تھا کہ وہ بلبلا بھی نہ سکی۔ دوسروں کے بارے میں برا سوچنے والی آج خود بُری حالت میں تھی۔

"میں ایسا کرچکا ہوں۔ تمہارے لیے ایک اور بری خبر ہے۔ میں شادی کررہا ہوں۔تمہیں بھی دعوت نامہ پہنج جاۓ گا۔ ضرور شرکت کرنا۔" وہ سکون سے بولتا اس کے پیروں تلے سے زمین سرکا گیا۔

زید کے ہاتھ وردہ سے کئ گنا امیر آسامی لگ چکی تھی اب وہ ہر بُری چیز چھوڑ کر اس سے مخلص ہونے والا تھا۔ مگر شاید وہ بھول گیا تھا کئ مظلوم لڑکیوں کی آہ لیکر وہ کبھی بھی خوشحال زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔وردہ کے علاوہ کئ معصوم لڑکیوں کو وہ ورغلا چکا تھا۔ بےشک ان سب میں غلطی اُن لڑکیوں کی بھی تھی مگر اُن سے زیادہ گنہگار زید تھا۔ جو اب آسانی سے آگے بڑھ رہا تھا۔ کیا واقعی وہ آسانی سے نئ شروعات کرسکتا تھا۔ اب یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔

وہ اسے چیختا چلاتا چھوڑ کر وہاں سے نکلتا چلا تھا۔ پیچھے وردہ اپنے ہاتھوں کو بےبسی سے دیکھ کر رہ گئ۔ اسے ابھی بھی اپنی غلطی نظر نہیں آرہی تھی اس کے حساب سے آج بھی اس کی بربادی کے ذمہ دار  یزدان اور عرید تھے ۔نہ ہی وہ  اس کے باپ کو جیل پہنچاتے اور نہ ہی زید شادی سے انکار کرتا۔

وردہ کی ماں جو کب سے کچن کے دروازے کے پاس کھڑی تھی اس کے منہ سے بچے کا ذکر سُن کر وہ اپنی جگہ جم کر رہ گئ۔انہیں اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب ان کی بیٹی اس ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرگئ۔کیا غلطی تھی ان کی جو انہیں حماد کے ساتھ باندھ دیا گیا۔یہی کہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھی اور ایک بچی کی ماں تھی۔ان کے بھائیوں نے خود کے سر سے بوجھ اتارنے کے لیے ان کی شادی حماد سے کروا دی۔حماد کو اچھا خاصا جہیز دے کر وہ ہر معاملے سے آزاد ہوگۓ۔  ان کی بیٹی ان کے ساتھ ہی رہتی مگر جیسے جیسے وہ بڑی  ہونے لگی انہوں نے اسے واپس بھجوادیا۔جب سے انہیں خود حماد کی خصلت کا اندازہ ہوا تھا وہ خود بھی یہی چاہتی تھی کہ ان کی معصوم بیٹی یہاں نہ آۓ۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ کیوں وردہ ان سے دور دور رہتی تھی۔ شاید یہ حماد کی صحبت کا اثر تھا وہ اسے ہمیشہ ان کے خلاف بھڑکاتا آیا تھا۔اور آج انہیں یہ سوچتے ہی  شرم آرہی تھی کہ وردہ ان کی بیٹی ہے۔

ان کی آنکھوں میں غصّے کے شعلے لپکنے لگے وہ تیزی رفتاری سے اس کے نزدیک آئیں اور ایک زور دار تھپڑ اس کے گال پر جڑ چکی تھی۔

"مجھے شرم آرہی ہے یہ کہتے ہوۓ کہ تم میری بیٹی ہو۔ دوسروں کو نیچا دکھانے کے چکروں میں تم خود ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں گر چکی ہوں۔ " وہ شدت سے چلائی تھی۔

وردہ سر اُٹھانے کے قابل نہیں رہی تھی۔

"مجھے آج یہ کہتے ہوۓ شرم آرہی ہے تم میری بیٹی ہو۔ تم اچھی بیٹی نہیں ہو۔ تم نے اپنی ماں کو تکلیف پہنچائی ہے۔ پھر تم کیسے ہمیشہ خوش رہ سکتی ہو۔میں ہمیشہ تمہیں سمجھاتی رہی۔ تمہیں ان سب میں اُلجھتے ہوۓ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر تم اپنی خود ساختہ نفرت میں سب تباہ کرگئ۔میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔" وہ غصّے سے  رُخ موڑتی وہاں سے نکلتی چلی گئیں۔پیچھے وہ شرمندگی سے سر بھی نہ اُٹھا سکی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وہ نشوہ کا ہاتھ تھامتا گراؤنڈ کے اس حصّے میں آگیا جہاں اس کے گروپ کے سبھی لوگ بیٹھے تھے۔

"لوآگۓ لو برڈز۔" اس کا ایک دوست حمزہ ان کے دونوں کے ہاتھوں کی طرف دیکھ کر بولا۔

نشوہ جھینپ کر رہ گئ۔ اس نے اپنا ہاتھ چھوڑانا چاہا جو ناممکن تھا۔

"بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ ایک وقت تھا جب یہ دونوں ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے تھے۔ اب دیکھو کیسے ہاتھ ہی نہیں چھوٹتا۔" صارم ان دونوں کو دیکھتا معنی خیزی سے بولا۔

"تو تو چپ رہ تو کونسا کم ہے۔چُھپ کر شادی کروالی مجال ہے جو بھنک بھی لگنے دی ہو۔" وہ لوگ ماہا اور صارم کو آنکھیں دکھاتے بولے۔

صارم نظریں چُرا کر رہ گیا۔اس بار احان نے اپنی ہنسی دبائی۔ 

"ویسے تم بھی بتادو احان۔ اپنی شادی میں بلانے کا کوئی ارادہ ہے کہ نہیں۔کہی یہ نہ ہو کہ تم بھی اس صارم جیسے چُھپے رستم نکلو۔" اس کے دوست نے اُٹھ کر اپنا رونا رویا۔

احان بیٹھتا ہوا نشوہ کو بھی اپنے ساتھ بٹھا چکا تھا۔

"نہیں میرا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ نہ ہو کہ تم لوگوں کی شکل دیکھ کر بچے ڈر جائیں۔" احان نے صاف ہری جھنڈی دکھائی۔

"احان۔۔۔" سب یک زبان چلاۓ تھے۔

احان کا قہقہ بےساختہ تھا۔صارم نے اس کے ہنستے چہرے کو دیکھ کر دل سے اس کی دائمی خوشیوں کی دُعا مانگی۔کتنے سالوں بعد وہ اسے کُھل کر مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرو  چاۓ لیکر کمرے کی طرف بڑھی۔اس نے واقعی ہی اس کی شرط کو پورا کرکے اس کے لیے ناشتہ بنایا تھا۔ بدلے میں میرو نے اس کے لیے چاۓ بنا لائی تھی۔وہ اس کے لیے اتنا تو کرسکتی تھی۔

یزدان ڈنر کرنے کے بعد پچھلے دو گھنٹوں سے لیپ ٹاپ لے کر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی تھکاوٹ کی وجہ سے وہ چاۓ لائی تھی۔

"چاۓ۔" وہ اس کے نزدیک چاۓ رکھتی اس کی توجہ اس طرف کرواگئ۔وہ کپ وہی رکھ کر جانے کے لیے مُڑی تھی جب یزدان اس کا ہاتھ تھام چکا تھا۔

"چاۓ کی نہیں چاہ کی طلب ہورہی ہے۔" وہ لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتا اسے اپنی آغوش میں سمیٹ چکا تھا۔

"ابھی فی الحال چاۓ ہی مل سکتی ہے۔اسی پر گزارا کریں۔" وہ اس کا گال کھینچتی ہوئی بولی۔

"جی نہیں مجھے اپنی میرو کے ہاتھ کی بنی ہوئی چاۓ بھی چاہیے اور بیوی کی چاہ بھی۔" وہ اس کا گال چومتا اسے مزید نزدیک کھینچ چکا تھا۔

"نہیں آج میں بہت تھک چکی ہوں۔ اس لیے بس چاۓ پر گزارا کرلیں۔ویسے بھی میری رول نمبر انتیس کے مطابق جب جب میں تھکی ہونگی آپ مجھے ہر گز تنگ نہیں کریں گے۔" وہ شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ بولی۔

"بیوی مجھ پر ترس کھاؤ یار۔  ابھی تو میں تمہاری ولیمے والی چالاکی نہیں بھولا ہوں۔" وہ اسے آنکھیں دکھاتا ہوا ولیمے والی رات  کی اس کی کارستانی کو یاد کروا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ولیمے کا دن 

ولیمے کا دن نہایت اچھا گزرا تھا۔ سب نے دونوں کی جوڑی کو خوب سراہا تھا۔ وہ ساتھ بیٹھے واقعی پرفیکٹ کپل کی عکاسی کررہے تھے۔ پیچ کلر کی میکسی میں وہ ہر آنکھ کو خیرہ کررہی تھی۔وہی دوسری طرف ڈارک گرے تھری پیس میں یزدان بھی بےتحاشا ہینڈسم لگ رہا تھا۔

ولیمہ خیر و عافیت سے انجام پایا تو سب نے گھر کی راہ لی اسے تھکاوٹ کے باعث جلد ہی روم میں پہنچا دیا گیا تھا۔

وہ یزدان کا انتظار کیے بغیر جیولری اُتارنے میں مصروف ہوچکی تھی۔

یزدان جیسے ہی کمرے میں آیا اسے ڈریسنگ کے سامنے بیٹھے جیولری اُتارتے دیکھ اس کے سر پر پہنچا۔

"یار کیا کررہی ہو؟ ابھی کیوں چینج کرنے کی تیاریوں میں ہو۔ ابھی تو تمہیں ٹھیک سے دیکھا ہی نہیں۔ ابھی تو تمہارے عکس کو آنکھوں کے ذریعے دل میں بسانا ہے۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتا محبت بھرے لہجے میں بولا۔

"آج میں بہت تھک گئ ہوں بھئ۔ اور ویسے بھی اگر آپ کو یاد ہو میں نے رُخصتی کے پہلے آپ سے ایک پیپر سائن کرواۓ تھے۔ اگر آپ نے پڑھے ہو تو اس میں لکھے ایک رول کے مطابق جب میں تھکی ہونگی آپ مجھے پریشان  نہیں کریں گے۔" وہ مزے سے دانت دکھاتی کپڑے لیتی واش روم میں بند ہوگئ۔

یزدان۔اس کی چالاکی پر عش عش کر اُٹھا اسے تو یاد بھی نہیں تھا کہ اس نے کسی پیپر پر سائن کروائیں ہیں۔اور اس میں ایسی کوئی شرائط بھی ہوگی۔ وہ اس کے تیز دماغ کو سراہ کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ واپس حال میں لوٹا تھا۔ ولیمے کی رات وہ اچھے سے اس کے ارمانوں کا خون کر چکی تھی۔

"آج نہ میں تمہاری چالاکی نہیں چلنے دوں گا۔میری پیاری سی بیوی۔" وہ اس کا گال کھینچتا ہوا بولا۔

"آپ رولز کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔" وہ ناک چڑھا کر رہ گئ۔

"تمہارے ان رولز کا کچھ کرنا پڑے گا۔" وہ صوفے سے اُٹھتا الماری سے وہ پیپر لے آیا۔

"آج ان  فساد کی جڑ کو ہی مٹا دیتا ہوں۔" وہ اسے گھورتے ان پیپر کو پھاڑ کر پھینک چکا تھا۔

"خمس کم جہاں پاک۔" وہ ہاتھ جھاڑتا ہوا بولا۔

"اتنی آسانی سے نہیں جان چھوٹے گی۔ میں آپ کو اتنی بےوقوف لگتی ہوں۔بتائیے کتنی کاپیز چاہیے اس کی۔ میں نے بہت آگے تک کی پلاننگ کی ہے۔ اس کی ایک کاپی میرے موبائل میں ایک لیپ ٹاپ میں ایک کاپی ازوہ کے موبائل میں اور احتیاطی تدابیر کے طور پر ایک کاپی داجان کے موبائل میں بھی موجود ہے۔" وہ پُرسکون سی بولی۔

اس کی چالاکی پر یزدان کی آنکھیں کھل گئ اس کے انداز پر میرو قہقہ لگا کر رہ گئ۔

وردہ وہی لاؤنج میں بیٹھتی چلی گئ۔ اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ خالی ہاتھ رہ گئ ہو۔اس کی آنکھوں میں یزدان اور میرو کے لیے نفرت تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی خصلت نہیں بدلتی۔وردہ بھی انہیں لوگوں میں سے تھی جسے اپنی غلطی سے زیادہ دوسروں کا قصور نظر آتا ہے۔

اگر دیکھا جاتا تو اس معاملے میں یزدان اور میرو کی کہیں بھی غلطی نہیں تھی۔ نہ ہی یزدان نے اس سے کوئی وعدے وعید کیے تھے اور نہ ہی کوئی اُمید دلوائی تھی۔ پھر جانے کیسے وہ اس کی نظر میں قصور وار تھا۔ اور دوسرا وہ لوگ اسے اپنے باپ کے مجرم لگ رہے تھے مگر حقیقت اس کے برعکس تھی آج وہ جس جگہ پر تھے اپنی غلطیوں اور گناہوں کی وجہ سے تھے۔

"میں کسی کو بھی نہیں چھوڑوں گی۔یزدان آفندی مجھے ریجیکٹ کیا تھا نہ تم نے اُس زومیرہ آفندی کے خاطر اس کی جان نکال لوں گی پھر ہی مجھے سکون ملے گا۔ عرید آفندی میری تم سے کوئی دشمنی نہیں تھی مگر تم نے میرے باپ پر ہاتھ ڈال کر میری نفرت کو ہوا دی ہے۔" وہ غُصّے سے چیختی ہذیانی انداز میں چلائی تھی۔

اس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ سب کچھ تہس نہس کردیتی۔وہ لاؤنج میں بیٹھی ہذیانی انداز میں چیختی کوئی پاگل ہی لگ رہی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فاریہ کے ڈلیوری کے دن جیسے جیسے قریب آرہے تھے اتنا ہی وہ پریشان ہورہی تھی۔اس کا وزن بھی کافی بڑھ چکا تھا جو کہ نارمل بات تھی مگر فاریہ کو اس کی بھی ٹینشن تھی۔

ہشام فون پر کسی سے محوِ گفتگو تھا اور وہ اس کے فارغ ہونے کا انتظار کررہی تھی۔وہ بار بار بےچینی سے پہلو بدلتی کبھی اُٹھ کر کمرے میں چکر لگاتی اور کبھی وہ اس کے ساتھ آکر بیٹھ جاتی۔اس کی گفتگو لمبی ہوچکی تھی فاریہ کو غُصّہ آنے لگا تھا وہ کیوں اس کی طرف متوجہ نہیں ہورہا تھا۔وہ اس کے نزدیک سے اُٹھ کر جانے لگی جب وہ اس کا ہاتھ تھامتا اسے اپنے قریب بٹھاتا اپنا حصار قائم کر چُکا تھا۔

اس کا بےچین چہرہ دیکھ وہ اس کا ماتھا چومتا اسے سینے سے لگا گیا۔وہ ایک ہاتھ سے اس کا سر تھپک رہا تھا۔جب کے دوسرے ہاتھ سے فون تھام رکھا تھا۔ بالآخر طویل گفتگو کا اختتام ہوا۔ اور وہ فون رکھتا اس کی طرف متوجہ ہوا۔

"کیا ہوگیا فاریہ؟ کیوں خود کو تھکا رہی ہو یار؟ کوئی پریشانی ہے میری جان تو مجھ سے شیئر کرو۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں بھرتا ہوا بولا۔

"مجھے ڈاکٹر کے پاس لیکر جائیں میرا دل گھبرا رہا ہے۔اور دیکھئیے میں کتنی موٹی بھی ہورہی ہوں اور اگر بےبی ہونے کے بعد بھی ایسا ہی رہا تو پھر کیا ہوگا۔" وہ پریشانی سے اس کے طرف دیکھ کر بولی۔

"کیا ہوگا میری جان؟" وہ ابھی بھی اسی پیار بھرے انداز میں بولا۔

"شہربانو کی ماں کہتی ہے اگر میں  خود پر دھیان نہیں دوں گی تو آپ کا دھیان مجھ سے ہٹ جاۓ گا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں خود پر بہت دھیان دوں گی۔بڑی مشکل سے تو آپ کی توجہ مجھ پر گئ ہے میں نہیں چاہتی آپ کی کی ذرا بھی توجہ مجھ سے ہٹے۔" وہ دل میں آیا خدشہ زبان پر لاتی ہوئی بولی۔

"یار واقعی ہی تم تو اچھی خاصی موٹی ہوگئ ہو۔" وہ افسوس سے اس کو دیکھتا سر دائیں بائیں ہلا گیا۔

فاریہ کے چہرے کا رنگ بدلہ۔یعنی شہربانو کی ماں صحیح کہہ رہی تھی۔مرد کی توجہ ہٹتے دیر نہیں لگتی۔

وہ رُخ موڑے اب سامنے دیکھنے لگا۔فاریہ نے اڑی رنگت کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔

وہ اس کے چہرے کا رُخ اپنی طرف موڑ گئ۔

ہشام کو یقین ہی نہیں ہوتا تھا کہ وہ اس حد تک حساس ہے کہ کسی کی بھی ذرا ذرا سی بات کو سر پر سوار کرلیتی تھی۔

"ہشام!جیسی آپ کی پسند ہے میں اُس رنگ میں بھی ڈھل جاؤں گی بس آپ کبھی کسی اور کا خیال دل میں مت لائیے گا۔" اس کی چہرے پر تفکر کا جال بچھا ہوا تھا۔لہجے میں التجا تھی۔

"سب سے پہلے تو اس شہربانو کی ماں کو نکالتا ہوں نا کام سے۔ جو ہر دوسرے دن ایک نیا خناس تمہارے دماغ  میں بھر دیتی ہے۔" وہ شہربانو کی ماں کی بارے میں سوچتا دانت کچکچا گیا۔

فاریہ نی خُفی سے اس کی طرف دیکھا۔

"لڑکی تم ایسے گھورنا بند کرو صحیح کہہ رہا ہوں۔ اور تم میری بےوقوف سی سردارنی ہر بات دماغ پر سوار کرلیتی ہو۔یار جب اتنے وقت سے تم ہی دل و دماغ پر سوار ہو تو تمہیں لگتا ہے کہ میں کبھی کسی دوسری کو ہمارے درمیان آنے دوں گا۔ آگے سے میں تمہیں ان چھوٹی چھوٹی بےبنیاد باتوں پر پریشان ہوتے نہ دیکھو۔" وہ اٹل لہجے میں بولتا اس کے سارے خدشات مٹاتا چلا گیا۔

وہ چمکتی آنکھوں سے اسے دیکھ کر رہ گئ۔

"میں جانتا ہوں کہ میں ایک عام سا انسان ہوں مگر پھر بھی میں کبھی خود کو تمہاری قید سے نکلنے ہی نہیں دوں گا۔ اور جس حساب سے تم اپنی اُلٹی سیدھی حرکتوں اور باتوں سے دل و دماغ پر سوار رہتی ہو۔ میں تنہائی میں بھی تمہاری یہ بےوقوفی بھری باتیں سوچ کر مسکرا پڑتا ہوں۔ میرا خود پر اتنا اختیار ہے میں کبھی خود کو بہکنے نہیں دوں گا۔اور مجھے پورا یقین ہے تمہاری یہ بےوقوفی بھری باتیں ہمیشہ مجھے تمہارا اسیر رکھیں گی۔" وہ اس کے کندھے کے پیچھے سے ہاتھ گزارتا اسے ساتھ لگا گیا۔

فاریہ نے اس کے دل کے مقام پر سر رکھتے اس کی دھڑکنوں کی ارتعاش کو سُنا تھا۔جس پر صرف اور صرف اس کا حق تھا۔

"سمجھی میری چھوٹی سی دُنیا۔" وہ اسے روبرو کرتا اس کا چہرہ ٹھوڑی سے تھام کر اوپر اُٹھاتا ہوا بولا۔

وہ بےساختہ سر اثبات میں ہلا گئ۔

ہشام نے دھیرے سے مسکرا کر اس کی ماتھے پر اپنا لمس چھوڑا تھا۔فاریہ نے آنکھیں بند کرتے اس کے استحاق بھرے لمس کو محسوس کیا تھا۔

ہشام نے محبت سے اس کی بند آنکھوں کو چوما تھا۔

"ویسے ایک اور طریقہ ہے شوہر کو قابو میں رکھنے کا۔" فاریہ نے آنکھیں کھولتے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

وہ اس کی نظروں میں موجود سوال کو پڑھتا عملی طور پر اس کا اظہار کرنے لگا۔فاریہ کی آنکھیں مزید کُھل چکی تھیں۔ہشام نے جُھکتے ہوۓ ایک بار پھر اس کی کُھلی آنکھوں پر لب رکھے تھے۔

"آپ بہت بےشرم ہیں۔" وہ شرم سے سُرخ ہوتی اُٹھنے کو تھی۔ جب وہ اس کی کلائی تھامتے اسے نزدیک کھینچ گیا۔اس کی کمرے میں ہاتھ ڈالتا وہ  خود بستر پر گرنے والے انداز میں لیٹ چکا تھا۔

فاریہ نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر بےسود ۔ وہ گرفت مزید مضبوط کرتا اس خود میں بھینچ گیا۔

تیرا جنت میں ساتھ مانگا ہے

یہ دنیا تو محض فانی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدان شوکڈ انداز میں منہ کھولے اسے دیکھ رہا تھا۔یزدان کو سمجھ نہ آئی کہ وہ اس کی عقل مندی پر اسے سراہے یا اُس کنٹریکٹ پیپر کو نہ پڑھنے پر خود کو ملامت کریں۔

"میں تو تمہیں بہت معصوم سمجھتا تھا تم تو بہت تیز نکلی۔" وہ اس کی ہنستے چہرے کو دیکھ کر بولا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا؟ میں معصوم ہی ہوں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ آپ بےوقوف نکلے۔" وہ افسوس سے سر دائیں بائیں ہلاتی ہوئی بولی۔

"ابھی بتاتا ہوں کون بےوقوف ہے اور کون ہوشیار۔" وہ سنجیدہ چہرے سے اس کی طرف بڑھا۔

میرو اس کی پہنچ سے دُور ہوتی کھلکھلا کر ہنسی تھی۔

یزدان نے دل ہی دل میں اس کی مسکراہٹ کی نظر اُتاری۔وہ چاہتا تھا تو اس باتوں کو نہ مانتا وہ کنٹریکٹ کے کسی بھی رول کو نہ مانتا تو کوئی اس کا کیا بگاڑ لیتا کچھ بھی نہیں۔ اگر وہ یہ سب کر رہا تھا تو محض اس کی مسکراہٹ کی وجہ سے۔

میرو کو اس پر مان تھا کہ وہ اس کی بات رد نہیں کرسکتا بس یہی مان وہ صدا قائم رکھنا چاہتا تھا۔

اس کے دُور جانے پر وہ خاموش سا باہر کی طرف بڑھنے لگا۔

"یزدان ! آپ کہاں جارہے ہیں؟ " وہ فکر مندی سے اسے باہر جاتا دیکھ کر ٹوک گئ۔

"تمہیں کیا فرق پڑتاہے۔ تم اپنی شرارتوں میں مگن رہو۔" وہ گردن موڑے بغیر سنجیدگی سے بولا۔

میرو کی رنگت متغیر ہوئی یعنی وہ اس کے مزاق کو سریس لے چُکا تھا۔

یزدان نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا اس کا ارادہ باہر جانے کا ہر گز نہیں تھا وہ تو بس اسے تنگ کررہا تھا۔ صُبح سے اس آفت کی پُڑیا نے اسے تنگ کرکے رکھا تھا اب تھوڑا اس کا بھی حق بنتا تھا۔

"نہیں یزدان! آئی ایم سوری۔پلیز آپ ناراض مت ہوں۔میں آپ کو ہر گز نہیں جانے دوں گی۔" وہ اس کی پُشت پر سر ٹکاتی  اس کے گرد ہاتھ باندھتی معصومیت سی بولی۔

یزدان نے مسکراہٹ دبا کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ جتنا اس نے تنگ کیا تھا اب اس کا بھی تو حق بنتا تھا۔

وہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھے اس کا ہاتھ تھامے اس کی طرف پلٹا۔

"سوری۔" وہ اتنی معصومیت سے بولی تھی یزدان کا دل بےساختہ دھڑک اُٹھا تھا۔

"بالکل بھی نہیں۔" وہ مصنوعی غصّے سے بولا۔ 

میرو پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔جب اسے منانے کی کوئی ترکیب ہاتھ نہ لگی تو وہ دل کی مانتی ایڑھیاں اونچی کرتی اس کے گال پر لب ٹکا گئ۔

یزدان نے خوشگوار حیرت سے اسے دیکھا۔

اس کے منانے کا انداز اتنا پیارا تھا کہ یزدان اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا۔وہ لڑکی اس کا دھیان خود سے ہٹنے دیتی ہی نہیں تھی وہ خود بھی تو یہی چاہتا تھا کہ اس کا دھیان کبھی اس سے ہٹے ہی نہ۔

"تمہارے منانے کا انداز بےحد پیارا تھا کیا ہی اچھا تھا کہ یہ کس تم صحیح جگہ پر دیتی۔" وہ لو دیتی نظروں سے اسے دیکھ کر بولا۔

میرو اس کی بات کا مطلب سمجھتی نظریں جُھکا کر رہ گئ۔

"اب آپ ناراض تو نہیں ہیں۔" وہ فکرمندی سے نظریں جُھکاۓ ہی بولی تھی۔

یزدان جو کب سے اپنی مسکراہٹ ضبط کیے تھا قہقہ  لگا کر ہنستا چلا گیا۔

میرو نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا پھر معاملہ سمجھ آنے پر اور اپنے بےوقوف بناۓ جانے پر خفی بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"یزدان کتنے برے ہیں آپ۔ شرم نہیں آتی بیوی کو بےوقوف بناتے ہوۓ۔" وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی ہوئی بولی۔

"تمہیں ذرا ترس آتا ہے معصوم شوہر کو صبح شام تنگ کرتے ہوۓ۔" وہ بھی دوبدو اسی انداز میں بولا۔

"یہ حق ہوتا ہے بیویوں کا۔" اس کی اپنی ہی منطق تھی۔یزدان منہ کھولے اسے دیکھتا رہ گیا۔

"یعنی اب یہ تمہارا حق ہے کہ تم ساری زندگی مجھے ایسے ہی ستاؤ گی۔" وہ مصنوعی سنجیدگی سے بولا۔

"بالکل! فی الحال آپ نے مجھے بےوقوف بنایا ہے تو آپ کی پنیلٹی ہے کہ آپ میرے لیے آئس کریم لیکر آئیں۔جلدی سے ورنہ میں ناراض ہوجاؤں گی۔" وہ ایک نظر اس پر ڈالتی شان بےنیازی سے چلتی بستر پر بیٹھ گئ۔

"سچ میں اگر تم ناراض ہوجاؤں  گی تو یہ بتاؤں خاموش رہو گی۔" وہ بڑی غور سے اسے دیکھ کر بولا۔

"یعنی اب آپ کو میرے بولنے سے بھی مسئلہ ہے۔" وہ اسے گھور کر رہ گئ۔

"بالکل یار جب تم خاموش ہوتی ہو تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چاروں طرف سکون چھا گیا ہو۔اور دوسری بات یہ وقت آئس کریم کھانے کا نہیں بلکہ سونے کا چُپ چاپ سو جاؤ۔" وہ اطمینان سے اسے دیکھتا ہوا بولا۔

میرو نے منہ پُھلا کر اس کی طرف دیکھا۔ اور بستر سے اُترتی اس کے قریب سے گزرتی باہر کی جانب بڑھنے کو تھی۔جب یزدان نے اس کا ہاتھ کھینچتے خود کے قریب کیا۔

"کدھر میری نان سٹاپ ٹرین۔" وہ مسلسل اسے زچ کرنے میں مصروف تھا۔

"آپ ہی تو کہہ رہے ہیں کہ آپ کو خاموشی چاہیے۔ اس لیے کمرے سے جارہی تھی تاکہ میری آواز آپ کو ڈسٹرب نہ کریں اور آپ سکون سے رہ سکیں۔" وہ اسے دیکھے بغیر بولی لہجہ سخت ناراضگی لیے تھا۔

"اچھا۔۔۔ بہت شکریہ میرے بارے میں سوچنے کے لیے مائی لارڈ۔ نوازش۔" وہ اس کے انداز پر مسکراہٹ دبا گیا۔

"ابھی چند دن ہوۓ ہیں رُخصتی کو اور آپ مجھ سے بیزار بھی ہونے لگے۔ شادی سے پہلے تو بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔ابھی تو آپ کو میرے بولنے سے اعتراض ہوا ہے۔ پھر میرے کھانے پینے،چلنے پھرنے ہر چیز پر ہوگا۔" وہ سخت خفا تھی اس کا لہجہ بتا رہا تھا وہ اس کی باتوں کو سیریس لے چکی ہے۔

"ارے تم تو میری زندگی ہو۔ اور بھلا اپنی زندگی کے کسی فعل سے میں اُکتا سکتا ہو۔ اور تمہیں لگتا تمہاری ان باتوں کے بغیر میں رہ لوں گا۔ یار میں جانتا ہوں یہ دو سال میں نے کیسے تمہاری باتوں تمہاری شرارتوں کے بغیر گزارے ہیں۔میں ساری زندگی تمہیں بیٹھ کر سُن سکتا ہوں۔یہ صرف کہنے کو نہیں کہہ رہا بالکل سچ بات ہے۔ جب جب تم ناراض ہوکر خاموش ہوتی ہو تو زندگی کے رنگ پھیکے پڑنے لگتے ہیں۔ تمہارے وجود سے تو زندگی میں خوشیاں ہیں۔" وہ اس کی کمر کے گرد ہاتھ باندھتا اسے نزدیک ترین کھینچ گیا مگر دوسری طرف اب بھی نو لفٹ کا بورڈ تھا۔

میرو فی الحال شاید نخرہ دکھانے کے موڈ میں تھی۔ جانتی جو تھی کہ اس کے نخرے اُٹھاۓ جائیں گے۔

"بیوی اتنی ناراضگی کے میری طرف دیکھو گی بھی نہیں۔" وہ اس کے چہرے کا رُخ خود کی طرف موڑتا ہوا بولا۔

"بالکل نہیں دیکھوں گی۔" وہ ابھی بھی اسی انداز میں بولی۔

"اب بھی نہیں۔" وہ اس کا ماتھا چوم کر بولا۔

"نہیں۔" میرو کا دل اس کے محبت بھرے لمس پر دھڑکا ضرور تھا مگر وہ پھر بھی لاپرواہی سے بولی۔

"اب میری جان۔"وہ اس کی آنکھوں پر نرمی سے لب ٹکاتا ہوا بولا۔

"نہیں۔" اس بار لہجہ پہلے کی نسبت نرم تھا۔

"اب تو تمہیں مان جانا چاہیے۔" وہ اس کی گال پر بوسہ دیتا ہوا بولا۔

"یہ آپ کو ٹھرک جھاڑنے کا کس نے کہا ہے۔" میرو نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اسے پیچھے کیا۔

"جانم اسے ٹھرک نہیں محبت کہتے ہیں۔" وہ اس کی معلومات میں اضافہ کرتا ہوا بولا۔

"آپ رہنے دیں مجھے بات ہی نہیں کرنی۔" وہ اس کے سینے پر دباؤ ڈالے مسلسل اسے پیچھے دھکیل رہی تھی جو ناممکن سی بات تھی۔

"بیوی یہ ناانصافی ہے یار میں تو تمہاری ایک کس پر ہی مان گیا تھا۔" وہ اسے جتانے والے انداز میں بولا۔

"آپ ناراض نہیں تھے بلکہ جان بوجھ کر مجھے تنگ کررہے تھے مگر میں ناراض ہوں اصل والا۔" وہ اسے گھورتی ہوئی اس کی توجہ اپنی ناراضگی کی طرف دلاتی ہوئی بولی۔

"اوہ میں سمجھ گیا جو کِس پہلے ادھوری رہ گئ تم چاہ رہی ہو میں اسے پورا کروں۔ ہے نا۔" وہ اس کی طرف جُھکتا ہوا بولا۔آنکھوں میں واضح شرارت کی رمق تھی۔

"جی نہیں۔ میں آپ کے جیسی بےشرم نہیں ہوں۔" وہ خفت سے سُرخ پڑتی ہوئی بولی۔

"اچھا پھر جلدی سے ناراضگی دُور کرو۔ پھر ہی مانوں گا کہ ایسا نہیں ہے۔" وہ مزے سے بولا تھا۔

"نو یہ چیٹنگ ہے۔ آپ مجھے بلیک میل کرکے میری ناراضگی نہیں دُور کرسکتے۔" وہ احتجاجاً چلائی تھی۔

"اچھا جانم تم ہی بتادو کیسے دُور کروں تمہاری ناراضگی۔ " وہ اس کے گالوں کو نرمی سے سہلاتا ہوا بولا۔ 

میرو کچھ نہ بولی۔

"اوکے میں سمجھ گیا۔تم بیٹھو میں ابھی آیا۔" وہ اس کا ماتھا چومتا اسے انتظار کرنے کا کہتا خود باہر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ڈنر کرنے کے بعد اس کے ساتھ لان میں ہلکی پُھلکی واک کے لیے موجود تھا۔

"کیسا گزرا آج کا دن۔کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا ہوا سامنے دیکھ کر بولا۔

"کیا مجھے آپ کے ہوتے کوئی مسئلہ ہوسکتا ہے۔جس کا شوہر آپ کا جیسا خیال رکھنے والا ہو وہ لڑکیاں خوش نصیب ہوتی ہیں۔ اور مجھے لگتا ان کی فہرست میں میرا نام سب سے اوپر ہے۔" وہ اس کے ہمراہ قدم اُٹھاتی ذرا سی گردن اس کی طرف موڑ کر بولی۔

عرید نے مسکراتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔اپنے ہاتھ میں تھاما اس کا ہاتھ پکڑ کے ہونٹوں سے لگایا ہے۔

"بہت شکریہ میری جان۔ میرے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ تم میری موجودگی میں خود کو پُرسکون پاتی ہو۔تمہارا سکون تمہاری حفاظت ہی تو میری سب سے پہلی ترجیح ہے۔" وہ اس کے سامنے آتا اس کی آنکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھ کر بولا۔

"آپ کی محبت میرے لیے ہمیشہ ایسی ہی رہنی چاہیے۔ آپ کی محبت میں ذرا بھی کمی نہیں آنی چاہیے۔" ازوہ آگے بڑھتی سر اس کے سینے پر ٹکا گئ۔

"کبھی کم نہیں ہوگی میری جان۔ تم میری محرم میری بیوی ہو۔ اور اب تو میری ہونے والے بچے کی ماں بھی۔ کیا تمہاری اہمیت کم ہوسکتی ہے۔ بلکہ بڑھتی جارہی ہے۔کیونکہ اب تو تم میری اولاد کو اس دنیا میں لارہی ہو۔ تم تو پہلے سے بڑھ کر کئ گنا خاص ہوگئ۔تم تو ہمیشہ سے مجھے اپنی اپنی لگتی ہو۔ اور مجھے یقین ہے میں تمہاری ہر غلطی معاف کرسکتا ہوں۔" وہ اسے نزدیک ترین کرتا شدت سے اس کا ماتھا چوم گیا۔

وہ کتنی ہی دیر اسے سینے سے لگاۓ کھڑا رہا۔

"میں تھک گئ ہوں عرید ۔ روم میں چلیں۔" وہ اس کے سینے سے لگی ہی بولی۔

وہ بغیر کچھ کہے اسے گود میں اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھ گیا۔

"مجھے نیچے اُتارے عرید۔ اب اتنی بھی نہیں تھکی کے چل ہی نہ سکوں۔" وہ اس کے سینے پر دباؤ ڈالتی ہوئی بولی۔

عرید نے اسے اونچا کرتے اس کی ناک کو چوما تھا اس کی چلتی زبان کو خود بخود بریک لگ گیا۔

کمرے میں آتے اس نے ازوہ کو احتیاط سے بیڈ پر لٹایا تھا۔وہ تو پہلے ہی اس کے معاملے میں بےحد پوزیسسو تھا اب تو اور ہوگیا تھا۔ ازوہ اس کے انداز پر جتنا خدا کا شکر کرتی کم تھا وہ صرف اس سے محبت نہیں کرتا تھا بلکہ اس کی عزت اور اس کی کیئر بھی کرتا تھا۔

ازوہ محبت سے اسے دیکھ رہی تھی جو  اب کمرے میں بکھرا سامان اُٹھا کر ان کی جگہ پر رکھ رہا تھا۔دس منٹ میں وہ ساری چیزوں کو ان کی جگہ پر رکھتا بستر پر آکر بیٹھ گیا۔

ازوہ کو اس پر ڈھیروں پیار آیا۔وہ اس کے نزدیک آتی اس کے گلے میں بازو ڈالتی اس کی گال کو چوم گئ۔ عرید نے مسکراتی نظریں اس پر ڈالی تھی جو اب اس کے سینے سے سر ٹکاۓ بیٹھی تھی۔

"سکونِ دل ! یہ اچھا ہے اب میں کچھ کروں گا تو تمہیں بےشرم لگوں گا۔ اب خود ہی تم نے مجھے موقع فراہم کیا ہے اب کوئی بےوقوف ہی ہوگا جو فائدہ نہ اُٹھاۓ۔" وہ اس کی ٹھوڑی چومتا مسکراتا ہوا بولا۔

ازوہ اس کے سینے میں سر چُھپا کر رہ گئ۔

"نہیں پہلے آپ مجھے کچھ چٹ پٹا سے کھانے کو لا کر دیں بہت دل کررہا ہے۔" وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاتی ہوئی معصومیت سے بولی۔

عرید نے ایک نظر سامنے وال کلاک پر ڈالی اور گہرا سانس لیتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

"ابھی لاتا ہوں سو مت جانا۔" وہ اس کا گال تھپتھپاتا باہر نکل گیا۔

رات کے گہرے سناٹے میں وہ ایک ساتھ بیٹھے ایک دوسرے کا عکس معلوم ہورہے تھے۔نشوہ نے آخری سوال حل کرنے کے بعد رجسٹر اور کتاب ایک سائیڈ پر رکھنے کے بعد ایک بھرپور انگڑائی لی اور سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔

"آخر کار سارے سوال حل ہوگۓ۔" وہ خوشی سے بھرپور آواز میں بولی۔

"نہیں جانم اتنا اہم سوال تو تم حل کرنا بھول گئ۔"وہ اس کے گرد ہاتھ باندھتا ہوا بولا۔

"کونسا؟ ابھی آپ کے سامنے ہی تو سارے حل کیے ہیں۔" وہ جھٹکے سے سر اُٹھاتی پریشانی سے بولی۔

ابھی اتنی محنت لگا کر اس نے کل ہونے والے ٹیسٹ کی تیاری کی تھی۔اب وہ کہہ رہا تھا کہ کچھ چھوٹ گیا۔

"ہماری رُخصتی کا اتنا اہم مسئلہ ابھی بھی اُلجھا ہے۔ہماری زندگی کا اتنا اہم سوال ابھی تک ناحل پذیر ہے۔ اس ٹیسٹ میں پاس ہونے کا ارادہ ہے کہ نہیں۔" وہ اس کے سر پر وہ دو انگلیاں مارتا ہوا بولا۔

نشوہ نے گھور کر اسے دیکھا۔

"میں تو ڈر ہی گئ تھی کہ میرا کونسا سوال رہ گیا۔ " وہ اس کے کندھے پر ہلکا سا تھپڑ جھڑتی ہوئی بولی۔

"تم نہیں سمجھو گی کتنا مشکل ہے تمہارے اتنا قریب رہ کر بھی تم سے دور رہنا۔" وہ اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکاتا ہوا گھمبیر آواز میں بولا۔

اس کی سانسوں کی تپش نشوہ کا چہرہ جھلسا رہی تھی۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں بند کیں۔

"دل چاہتا ہے تمہاری نقش نقش پر اپنی چھاپ چھوڑ دوں۔ اس قدر تمہارے نزدیک آجاؤں کہ کسی دوسری سوچ کا سایہ بھی ہم دونوں کے درمیان نہ ہو۔تمہاری سانس سانس سے میری خوشبو آۓ۔" وہ سرگوشی میں بولتا اس کا دل دھڑکا گیا۔

نشوہ نے پاگل ہوتی دھڑکنوں کو سنبھالنے کے لیے سینے پر   ہاتھ رکھا تھا۔اس کی دھڑکنوں کی آواز سُن کر احان گہرا مسکرایا تھا۔اس نے جُھکتے ہوۓ اس کے سینے پر موجود ہاتھ پر اپنے لب رکھے تھے۔

نشوہ کانوں کی لُو تک سُرخ پڑی۔اس نے احان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے دُور دھکیلنا چاہا۔مگر وہ اس کی کوششوں کو ناکام بناتا اسے مزید نزدیک کر گیا۔

"اس وقت سب سے گھمبیر مسئلہ جو در پیش ہے وہ تمہاری دوری ہے اور میں تمہارے قریب آکر شدت سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہوں۔" وہ جُھک کر اس کے گالوں پر اپنا شدت بھرا لمس بکھیرتا عملی ثبوت دینے لگا۔وہ کتنے ہی بوسے اس کے گالوں پر ثبت کرتا چلا گیا۔گالوں سے ہوتے ہوۓ وہ اس کی ٹھوڑی کو چوم گیا۔وہ خود پر اختیار کھوتا دیوانہ وار اس کے نقش نقش پر اپنا لمس بکھیرنے لگا۔

جب اُس کا لمس حدود پھلانگنے لگا نشوہ نے اسے پورا زور لگا کر پیچھے دھکیلا تھا۔ وہ اس کے نزدیک سے اُٹھتی دُور جا کھڑی ہوئی۔چہرہ حد درجہ سُرخ تھا جیسے ابھی لہو چھلکا دے گا۔

احان نے بالوں میں ہاتھ پھیر کر دُور کھڑی اپنی زندگی کو دیکھا تھا۔نشوہ نے دھڑکنوں کو سنبھالتے ایک ناراض نظر اس پر ڈالی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئ۔

"نشوہ! میری بات تو سنو یار۔" وہ اسے پُکارتا رہ گیا جب وہ سیڑھیاں اُترتی اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئ۔

احان جانتا تھا اس کی ناراضگی وقتی تھی بلکہ وہ ناراض نہیں تھی بلکہ اس سے جھجھک رہی تھی۔وہ بھی گہری سانس بھرتا سیڑھیاں پھلانگتا نیچے کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید اور یزدان اپنے اپنے دھیان میں اپنے کمرے سے باہر آۓ۔کمرے سے نکلتے دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے پر ڈالی۔

"تم کدھر اتنی رات کو؟" عرید اس کے نزدیک آتا ہوا بولا۔

"میری چھوڑوں تم اپنی بتاؤ۔" یزدان بات گول مول کرتا ہوا بولا۔

"اچھے سے جانتا ہوں میرو کی  کوئی فرمائش پوری کرنی ہوگی ضرور۔" عرید آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورتا ہوا بولا۔

"اور ازوہ کو تو فرمائش کرنے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی کیونکہ تو حد سے زیادہ زن مرید ہے۔" یزدان اسی کے انداز میں بولا۔

یکدم دونوں کی نظر بیک وقت وہاں آتے احان پر پڑی۔ دونوں کی آنکھیں ایک ساتھ چمکی۔دونوں فوراً بھاگتے ہوۓ اس کے قریب پہنچے۔

"عرید پیچھے ہٹ۔ یہ میرا بھائی ہے۔"یزدان اسے گلے لگاتا ہوا بولا۔

"میرا اور اس کا تو دوہرا رشتہ ہے۔میرا بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ میرا بہنوئی بھی ہے۔" عرید اسے پیچھے دھکیلتا خود احان کو گلے سے لگا گیا۔

احان نے حیرانگی سے دونوں کی طرف دیکھا۔آخر ماجرا کیا تھا جو یوں اتنا پیار جتایا جارہا تھا۔

"کوئی مجھے بھی بتاۓ  گا یہ چل کیا رہا ہے ''احان کو ان دونوں کا انداز ہضم نہیں ہورہا تھا۔

"کچھ نہیں تو میرے ساتھ چل۔" یزدان نے اسے اپنی طرف کھینچا۔

"یہ آپ لوگ مجھے اپنی اپنی طرف کھیچنا بند کریں گے۔میں کوئی آپ لوگوں کی محبوبہ ہوں جو آپ میری خاطر لڑ رہے ہیں۔" اس سے پہلے کے عرید کچھ کہتا وہ دونوں کو ایک زبردست گھوری سے نواز چکا تھا۔

"کچھ نہیں تو میرا بھائی ہے تو میری بات سُنے گا۔ اسے اگنور کر۔" یزدان بھرپور دانتوں کی نمائش کرتا اسے قائل کرنے والے انداز میں بولا۔

"احان تو اسے اگنور کر۔ یاد رکھ میں نشوہ کا بھائی بھی ہوں۔" عرید بھی دوبدو بولا۔

"بھئ کوئی مجھے بتاۓ گا میرا کیا قصور ہے؟" احان دہائی دینے والے انداز میں بولا۔

"کچھ نہیں بس تجھے کرنا کچھ نہیں ہے ازوہ کا دل کچھ چٹ پٹا کھانے کا کر رہا تو ایسا کر ذرا بس ذرا باہر جاکر چاٹ لے آ۔ میں لے تو آتا مگر تو تو جانتا ہے پولیس کی جاب کتنی ٹف ہے۔ بہت تھک گیا ہوں۔" عرید اس کے پوچھنے پر جواباً بولا۔

"وہ تیری بات کیوں مانے میری مانے گا۔ اسے اگنور کر اور مجھے سُن۔میرو کے لیے ذرا آئس کریم لا دے۔ آخر تیری بہن ہے تیرا بھی تو کچھ فرض بنتا ہے۔" یزدان ایک کھا جانے والی نظر عرید پر ڈالتا احان کی طرف دیکھتا پچکارنے والے انداز میں بولا۔

"میں آپ کو پاگل لگتا ہے۔آدھی رات کو خوار ہوکر ان کی من پسند چیزیں میں لاؤں اور نمبر آپ بنالیں۔ویسے بھی بیویاں آپ کی ہیں تو آپ ہی نخرے اُٹھائیں۔ میری اپنی والی کے نخرے ختم نہیں ہوتے۔" وہ ان دونوں کو ہری جھنڈی دکھاتا دو قدم پیچھے ہوا۔

"تو اتنا احسان فراموش ہوسکتا ہے میں نے سوچا نہیں تھا۔" یزدان نے اس کے دُور جانے پر دانت پیستے ہوۓ کہا۔ 

"بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ ہی نہیں رہا۔" عرید نے فوراً اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔

احان ان دونوں کو منہ کھولتا دیکھتا رہ گیا۔ جو ابھی ایک دوسرے کو ایسے گھور رہے تھے جیسے کچا چبا جائیں گے۔اور اب ایسی کایا پلٹی اور دونوں ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ایسے ملا رہے تھے جیسے ایک دوسرے سے زیادہ ان کا کوئی ہمدرد نہیں۔

"گرگٹ بھی اتنی تیزی سے رنگ نہیں بدلتا جتنی تیزی سے آپ لوگ بدل رہے ہیں۔" وہ افسوس سے بولا۔

"شرم نہیں آتی بڑے بھائیوں کو بارے میں ایسا کہتے ہوۓ۔" عرید اسے شرم دلانے والے انداز میں بولا۔

"ویسے اگر آپ چاہیں آپ دونوں کی بات مان سکتا ہوں۔" وہ آنکھوں میں چمک لیے دو قدم مزید نزدیک آیا۔

"اتنا اچھا تُو ہونہیں سکتا۔ جلدی بتاؤ بدلے میں کیا چاہیے۔" عرید اسے تیکھے چتونوں سے گھورتا ہوا بولا۔وہ لوگ جیسے ایک دوسرے کی رگ رگ سے واقف تھے۔

"زیادہ کچھ نہیں بس جو رخصتی نشوہ کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہونی ہے وہ جلد سے جلد کروادیں۔" وہ سکون سے بولا تھا۔

"سوچنا بھی مت۔" عرید نشوہ کے نام پر اسے گھور کر رہ گیا۔

"بہت اچھے خود کروا کر بیٹھ گۓ ہیں اور میری باری پر سوچنا بھی مت۔" وہ طنزیہ انداز اپناتا ہوا بولا۔

"اب بچے بھی شادی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔" یزدان بھی جواباً طنزیہ بولا۔

"کہاں سے بچہ لگتا ہوں۔" وہ یزدان کے بچہ کہنے پر تڑپ اُٹھا تھا۔

"ویسے میں کیسے یقین کروں کہ تم اسے خوش رکھو گے۔" اب کی بار وہ سنجیدگی سے بولا۔

"اور کتنا پرووف چاہیے میرے بھائی کی ہی مثال لے لو۔اس سے بڑا زن مرید کہیں نہیں ملے گا۔ میرو کتنی خوش ہے اس کے ساتھ بس اسی سے حساب لگا لیں کہ یہ میرا ہی بھائی ہے۔" احان اسے درمیان میں گھسیٹتا ہوا بولا۔

"بکواس بند کر۔" یزدان اسے گردن سے پکڑتا ہوا بولا۔

اس کے انداز پر عرید کا قہقہ لاؤنج میں گونجا پھر وہ کتنی ہی دیر ہنستا چلا گیا۔کچھ دیر بعد ان دونوں کے قہقہے بھی ان میں شامل ہوچکے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کل سے میں یونی نہیں جاؤں گی۔" اس نے کمرے میں آتے جیسے اطلاع دی تھی۔

صارم نے ایسے اگنور کیا جیسے سُنا ہی نہ ہو۔

"آپ کو سُن رہا ہے۔میں کیا کہہ رہی ہوں۔" وہ اس کے نزدیک بیٹھتی اونچی آواز میں چلائی تھی۔

"سُن رہا ہوں۔" وہ اس کے چیخنے پر کانوں پر ہاتھ رکھ کر رہ گیا۔

"سن رہے ہیں تو جواب کیوں نہیں دے رہے۔" وہ اس کے کندھے پر مُکّا جڑتی ہوئی بولی۔

"کیونکہ مجھے یہ بات انتہائی فضول لگی اس لیے سُنا مگر اگنور کردیا۔" وہ سنجیدہ انداز میں اسے دیکھ کر بولا۔

"آپ کو پتہ بھی ہے سب کیسے مجھے گھور گھور کر دیکھتے ہیں۔" وہ ناراض نظروں سے اسے دیکھ کر بولی۔

"یہ تمہارا وہم ہے۔ تم نے اس چیز کو سر پر سوار کر لیا ہے اس لیے تمہیں ایسا لگ رہا ہے۔ ورنہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ابھی تو محض ایک ماہ گزرا ہے۔" وہ اسے سمجھانے والے انداز میں پیار سے بولا۔

"آپ میری بات مان جائیں میں سمسٹر فریز کروالیتی ہوں بعدمیں کنٹینیو کر لوں گی۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتی منت کرنے والے انداز میں بولی۔

"اچھا سوچتے ہیں اس بارے میں۔" وہ اسے ٹالنے والے انداز میں بولا۔

"نہیں ابھی سوچیے۔ بلکہ سوچنا کیا ہے ابھی عمل کریں۔بس میں نے کہہ دیا۔" وہ ضدی انداز میں بولی۔

"ارے تم تو ان نالائق بچوں جیسا برتاؤ کررہی ہو جو روز صبح بہانا بنا کر سکول سے چھٹی کی کوشش کرتے ہیں۔" وہ اس کے انداز پرمسکراہٹ دباتا ہوا بولا۔ماہا شرمندہ ہوکر رہ گئ۔

" یار یہ سب نارمل بات ہے۔لوگوں کو اگنور کرکے اپنی پڑھائی اور اپنی زندگی پر توجہ دو۔ان سب میں اگر کوئی چیز ڈسٹرب ہورہی ہے تو وہ یہی دو چیزیں ہیں۔ ہر چیز کو پسِ پشت ڈال دو۔ اور اپنے فیوچر پر فوکس کرو۔یہ پل بہت قیمتی ہیں۔سمجھی میری جان۔"وہ جھکتے ہوۓ اس کی گال پر بوسہ دیتا بولا۔

"مگر۔۔۔" وہ کچھ کہنا چاہتی تھی جب وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کے اسے خاموش کروا گیا۔

"اگر مگر کچھ نہیں جو کہا بس اس پر دھیان دو۔ باقی سب کچھ میں سنبھال لوں گا۔"صارم نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر اس کا سر تھپکا تھا۔

ماہا اس کے اصرار پر خاموش ہوگئ۔

"تم نا بالکل بچی ہو۔مجھے تو ابھی سے ٹینشن ہورہی ہے تم ہمارا بےبی کیسے سنبھالو گی۔" وہ مصنوعی افسوس سے بولا۔

"کیا مطلب ہے اس بات کا۔پیچھے ہٹیے۔مجھے نہیں ضرورت آپ کی ہمدردی کی۔کیا فائدہ بعد میں آپ جتائیں گے۔" وہ ناراضگی سے اس سے دُور ہوکر بیٹھ گئ۔

"ارے اتنا غصّہ ماہ۔صحیح تو کہہ رہا ہوں بالکل چھوٹے بچوں کی طرح برتاؤ کررہی ہو۔" وہ دوبارہ اسے نزدیک کرتا ہوا بولا۔

"اسے چھوٹے بچوں جیسا برتاؤ کرنا نہیں بلکہ نخرے دکھانا کہتے ہیں۔اور آپ کو اُٹھانے بھی ہونگیں میرے سارے نخرے۔" وہ دھونس بھرے انداز میں کہتی اس کے کندھے پر سر ٹکا گئ۔

"جو حکم جانِ صارم۔" وہ محبت سے اسے دیکھتا اس کی ٹھوڑی پر ہونٹ ٹکا گیا۔

ماہا کے چہرے کے زاویے ڈھیلے پڑے۔وہ اس کے لمس پر سُرخ پڑتے آنکھیں بند کرگئ۔جو اسے اب اپنے شدت بھرے لمس سے روشناس کروا رہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

داجان کو منانے کا کام پھر خود یزدان اور عرید نے کیا تھا ان دونوں کے بےحد اصرار پر داجان چار ماہ کے اندر ہی رخصتی کے لیے راضی ہوچکے تھے۔

ہر طرف گہما گہمی تھی مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔وہ سارے انتظام دیکھتا کمرے میں آیا تھا جہاں وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑی اپنی تیاری کو آخری ٹچ دے رہی تھی۔ہلکے گلابی رنگ کے لہنگے میں ملبوس وہ خود بھی کھلتا گلاب ہی لگ رہی تھی۔ڈوپٹہ خوبصورتی سے سر پر اچھے سے سجایا تھا۔وہ ٹرانس کی کیفیت میں چلتا اس کے نزدیک آیا۔

"ماشاء اللّٰہ" وہ اس کے نزدیک ٹھہرتا ہلکی آواز میں بڑبڑایا۔میرو نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔

"آپ کے کپڑے رکھ دیے ہیں جلدی سے ریڈی ہوجائیں۔" وہ جلدی جلدی ڈریسنگ پر بکھری چیزیں سمیٹتی ہوئی اس کی کیفیت سے انجان بولتی چلی گئ ۔

یزدان نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے روبرو کیا تھا۔میرو نے جُھکی پلکیں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔جو محبت بھری نظریں اس کے چہرے پر ٹکاۓ بیٹھا تھا۔

"یزدان۔دیر۔۔۔۔۔۔" وہ اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اسے خاموش کروایا گیا ۔

"شش۔۔ رُول نمبر نامعلوم کے مطابق جب بیوی خوبصورت لگے تو اس کی نظر اُتارنا شوہر پر واجب ہوتا ہے۔" وہ جُھک کر اس کے ماتھے کو چوم کر بولا اور جیب سے کئ نوٹ نکال کر اس کے اوپر وار دیے۔

"مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہی میری نظر نہ لگ جاۓ۔" وہ اس کے رخسار پر ہاتھ جماتا ہوا بولا۔

"نہیں لگے گی محبت کرنے والوں کی نظر نہیں لگا کرتی۔" وہ اپنی گال پر موجود اس کے ہاتھ پر ہاتھ جماتی ہوئی چمکتی آنکھوں سے بولی۔

یزدان کے چہرے پر کھلتی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئ۔وہ اس کے گال پر بوسہ دیتا واشروم کی طرف بڑھ گیا۔پیچھے وہ مسکراتی نظروں سے اس کی پُشت کو دیکھ کر رہ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مہندی کی مناسبت سے نشوہ خوبصورت کامدار بھاری لہنگے میں ملبوس تھی۔کانوں میں مصنوعی پھولوں کے ائیر رنگ پہنے ماتھے پر اسی کے ساتھ کا ٹیکا سجا رکھا تھا۔بیوٹیشن ابھی اسے تیار کر کے گئ تھی۔ ہلکے پھلکے میک اپ میں وہ بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔یہ اس گھر کی آخری شادی تھی۔ اس لیے سب ہی اپنے ارمان پورے کرنا چاہتے تھے۔ہر کوئی بڑھ چڑھ کر شادی کی تیاریوں میں حصّہ لے رہا تھا۔

احان بھی مہندی کی مناسبت سے سفید رنگ کے کُرتے پر نیلے رنگ کی واسکٹ میں ملبوس تھا۔اس کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہا تھا۔آخر وہ خوش کیوں نہ ہوتا اس کی محبت کو منزل ملنے والی تھی۔

جلد ہی وہ اپنے بھائیوں کے ہمراہ چلتا ہوا وہ اسٹیج پر آیا۔ کچھ ہی مہینوں میں یزدان کو وہ بےحد عزیز ہوگیا تھا۔سارے شکوے شکایات، مٹ چکی تھیں۔کچھ دیر بعد نشوہ کو بھی اسٹیج پر پہنچا دیا گیا تھا۔اگر وہ کچھ مہینے پیچھے جاتا تو اسے یہ ایک خواب ہی لگ رہا تھا مگر اب وہ خواب حقیقت میں بدلنے جارہا تھا۔اس کے خوابوں کو تعبیر مل گئ تھی۔

لان میں سجا مہندی کا فنکشن اپنے عروج پر تھا۔خوب ہلے گلے کے بعد مہندی کا فنکشن اختتام پذیر ہوا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح کا سویرا ہر سُو پھیل چکا تھا۔ہر طرف افراتفری کا سماں تھا ہر کوئی اپنی اپنی تیاری میں مصروف تھا۔جلد ہی سارے اپنے تیاریوں کو سمیٹتے بارات میں شامل ہونے کے لیے تیار تھے۔

سکن رنگ کی شیروانی میں ملبوس احان بےتحاشا ہینڈسم لگ رہا تھا۔

دوسری طرف نشوہ گولڈن اور سُرخ امتزاج کے لہنگے میں ملبوس تھی۔بھاری جیولری اور میک اپ کے سنگ وہ بےتحاشا حسین لگ رہی تھی۔

جلد ہی بارات آنے کا شور اُٹھا تھا۔اس کی ہتھیلیاں پسینے سے بھیگ گئ تھی۔آنے والے وقت کا سوچ دل عجیب لے پر دھڑک رہا تھا۔

نکاح پہلے سے ہی ہوچکا تھا۔ اس لیے جلد ہی اسے باہر ہال میں لے جایا جا چکا تھا۔احان نے خوشی سے بھرپور چمکتی آنکھوں سے کھڑے ہوکر اس کے لیے ہاتھ بڑھایا تھا۔ جسے تھام کر وہ اسٹیج پر چڑھ چکی تھی۔

وہ احتیاط سے اسے صوفے پر بٹھاتا خود بھی ساتھ ہی براجمان ہوچکا تھا۔

وہ مسلسل اس کے کان میں محبت بھری سرگوشیاں کررہا تھا۔جس کے باعث نشوہ کا جھکا سر مزید جھکتا چلا گیا۔

داجان نے ایک نظر یزدان اور میرو پر ڈالی جہاں یزدان کھڑا محبت سے اس کی بات سُن رہا تھا۔اور میرو نان سٹاپ بولتی چلی جارہی تھی۔ان پر سے نظر ہٹا کر انہوں نے اپنی نگاہ عرید اور ازوہ پر ڈالی جہاں عرید بار بار اس کی حالت کے پیشِ نظر اس کا خیال رکھنے میں مصروف تھا۔اور پھر ایک مطمئن نگاہ اسٹیج پر موجود احان اور نشوہ پر ڈالی۔وہ پُرسکون سے آنکھیں موند گۓ ان کے بچے اپنی اپنی زندگیوں میں خوش تھے۔انہوں نے سچے دل سے خدا کا شکر ادا کیا۔

آنکھیں کھولتے ہی ان کی نظریں شیریں اور شہیر کو ڈھونڈنے لگی سب سے زیادہ تو وہ ان کی خوشی چاہتے تھے۔ان کو جلد ہی دوسرے ٹیبل پر موجود شہیر اور شیریں مل گۓ تھے۔شیریں کی نظریں اسٹیج پر ٹکی تھی وہ مسکرا کر احان کے خوشی سے چمکتے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔اور شہیر , شیریں  کے مسکراتے چہرے کو دیکھ کر مطمئن تھے۔

پھر کھانے کے بعد جلد ہی رُخصتی کا شور اُٹھا تھا۔نشوہ سب بڑوں کے محبت بھرے ساۓ میں رُخصت ہوگئ ۔

حویلی میں چند ایک رسومات کے بعد اسے احان کے کمرے میں پہنچا دیا گیا تھا۔وہ دھڑکتے دل سے اس کا انتظار کررہی تھی۔اس کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا وہ جلد ہی سب سے جان چھوڑواتا کمرے میں آگیا۔اس نے ایک محبت بھری نگاہ سے بستر پر استحاق سے موجود اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔وہ قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک ترین آگیا۔

"السلام علیکم!" وہ اس کے قریب بستر پر بیٹھتا سلام کر گیا۔

نشوہ نے ہلکی سی آواز میں اس کا جواب دیا۔

احان نے اس کے چہرے پر موجود گھونگھٹ کو اُلٹ دیا۔وہ پل بھر کے لیے مبہوت ہوکر رہ گیا۔ نگاہ اس کے حسین چہرے پر اٹک کر رہ گئ۔وہ نظریں نہ ہٹا سکا۔نشوہ نے اپنے چہرے پر موجود اس کی نگاہوں کو محسوس کر کے سر جُھکا لیا۔

"یار حیرانگی ہورہی ہے کہ تم آج اتنی چُپ کیوں ہو ورنہ تم کسی کو اپنے سامنے بولنے ہی نہیں دیتی۔" وہ شرارتی نگاہوں سے اس کا جُھکا سر ٹھوڑی سے اوپر اُٹھاتا ہوا بولا۔

نشوہ نے ایک پل کے لیے جُھکی پلکیں اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ جو محبت بھری نظروں سے اس کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔

"میری زندگی میں خوش آمدید۔" وہ اس کے ماتھے پر استحاق بھرا لمس چھوڑتا ہوا بولا۔

"کتنی بےصبری سے مجھے اس دن کا انتظار تھا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تم میرے لیے کتنی اہم ہو۔ بالکل سانسوں کی طرح۔" وہ اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتا ہوا بولا۔

وہ اس کی پیشانی سے پیشانی ٹکاتا آنکھیں موند گیا۔ یہ لمحے اس کے لیے زندگی کے خوبصورت لمحے تھے۔اس کی سانسوں کی تپش نشوہ کے چہرے پر پڑتی اسے سمٹنے پر مجبور کررہی تھی۔

وہ آنکھیں کھولتا اس کے حسین نقوش کو آنکھوں کے ذریعے دل میں محفوظ کررہا تھا۔

آج احان بول رہا تھا اور اس کی چابی والی گڑیا خاموشی سے سُن رہی تھی۔

احان نے خمار آلود نظروں سے اس کے ہونٹوں پر سجے اس لال رنگ کو دیکھا تھا جو اس کے چہرے پر بےتحاشا اچھا لگ رہا تھا۔اس نے بہکے بہکے انداز میں ان پر انگوٹھا پھیرا۔نشوہ نے جھجھک کر پیچھے ہونا چاہا مگر وہ اس کی کوششوں کو ناکام بناتا اس کے گرد اپنی گرفت کرگیا۔وہ اس کی مضبوط گرفت میں قید ہوکر رہ گئ۔

"یہ تو ناانصافی ہے بیوی۔پچھلے چار مہینوں سے تمہاری ناراضگی کی وجہ تم سے دُور ہوں۔ اب بھی مجھ سے دُور جانے کے بہانے ڈھونڈ رہی ہو۔آج یہ سب مزاحمتیں بیکار ہیں۔آج تمہاری ساری راہیں مجھ تک ہی محدود رہے گی بلکہ آنے والے ہر دن ہمارے درمیان ان دوریوں کو مٹاتا ہمیں مزید ایک دوسرے کے قریب کر دے گا۔کیونکہ اب احان آفندی کبھی تمہیں اپنی گرفت سے آزاد نہیں کرے گا۔بلکہ اپنے دل کے نزدیک ترین کرلے گا۔" وہ شدت سے کہتا جُھکتے ہوۓ اس کے نقوش کو چھونے لگا۔وہ اس کی کالر کو مٹھی میں دبوچتی آنکھیں بند کرگئ۔وہ بار بار اس کی بند آنکھوں پر ہونٹ ٹکاتا اسے پاگل کر رہا تھا۔اس کی ٹھوڑی پر موجود وہ چھوٹا سا تل جو اسے بے تحاشا اچھا لگتا تھا احان کے خیال میں یہ تل اسے نظرِ بد سے بچانے کے لیے تھا۔

چہرے سے ہوتے وہ اس کی گردن پر جُھکتا گہرے نشان چھوڑنے لگا۔وہ اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنساتا اس پر جُھکتا چلا گیا۔نشوہ کی مزاحمتیں اس کی منمانیوں کے آگے پھیکی پڑتی چلی گئیں۔قطرہ قطرہ پگھلتی رات انہیں ایک دوسرے کے مزید نزدیک کرتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عرید ابھی ابھی سارے کاموں سے فارغ ہوکر کمرے میں آیا تھا۔ازوہ آتے ہی اس بھاری سوٹ سے جان چھوڑواتے واشروم میں گُھس گئ۔کچھ وقت بعد وہ دُھلے ہوۓ چہرے کے ساتھ باہر آئی تھی۔عرید فوراً اُٹھتا اسے تھام کر بستر پر بٹھا گیا۔

"طبیعت ٹھیک ہے۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ ٹکاتا محبت سے بولا۔

"جی ! بس تھوڑی سی تھکاوٹ ہے آرام کروں گی تو بہتر ہوجاؤں گی۔" وہ اس کے محبت بھرے انداز کو دیکھ کر بولی۔

"اپنا خیال رکھا کرو۔ویسے تو میں خود بھی موجود ہوں تمہارے لیے مگر میری جاب بھی میرے لیے بہت اہم ہے جب میں موجود نہ ہوں تو تم پر فرض ہے اپنا خیال رکھنا کیونکہ تم پر تم سے زیادہ میرا حق ہے۔" وہ استحاق سے بولتا اس کا ماتھا چوم گیا۔

وہ مسکراتے ہوۓ اثبات میں سر ہلاگئ۔اسے کہاں یقین تھا کہ اتنے امتحانوں کے بعد اس کی زندگی اتنی پُرسکون بھی ہوسکتی ہے۔اس کے سارے غموں کا ازالہ تھا عرید آفندی۔وہ اس کے بارے میں سوچ سوچ کر مسکرا رہی تھی۔

"ذرا مجھ سے بھی شیئر کرو۔اتنا کیوں مسکرایا جارہا ہے۔" وہ اسے نزدیک کرتا اسے خود سے لگا گیا۔

"میں سوچ رہی تھی کہ سب کتنا اچھا ہوگیا۔ہماری زندگی بھی ایکدم پُرسکون ہوگئ۔بس اب کچھ مانگنے کے لیے بچا ہی نہیں اب تو ساری زندگی خدا کا شکر ہی ادا کرنا ہے۔" وہ کھوۓ کھوۓ انداز میں بولی۔

عرید اس کی باتیں سُنتا مسکرا رہا تھا۔

ابھی وہ کچھ کہتا جب اس کی پاکٹ میں موجود موبائل وائبریٹ ہوا۔اس نے کال اُٹھاتے فون کان سے لگایا تھا۔

"کیا سچ میں۔میں آرہا ہوں۔بس کچھ دیر تک۔" وہ کال اُٹھاتا دوسری طرف کی بات سنتا خوشی سے بھرپور انداز  میں بولا۔

ازوہ نے حیرانگی بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"کس کا فون تھا؟" وہ اس کے فون رکھتے ہی اس کے خوشی سے بھرپور چہرے کو دیکھتی ہوئی بولی۔

"تمہارے لیے سرپرائز ہے جان۔مجھے پورا یقین ہے اس سرپرائز کے بعد تم خوشی سے میرا منہ ہی چوم لو گی۔" وہ شرارتی انداز میں اسے دیکھ کر بولا۔

ازوہ نے جھینپ کر اس کے چپت لگائی تھی۔

"میرا جانا بےحد ضروری ہے میری جان۔ تم سوجاؤ میرا انتظار کرنے کی ہرگز ضرورت نہیں۔" وہ اس کا گال چومتا بستر سے اُترتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اتنی رات ہونے والی تھی اور ابھی  تک وہ گھر نہیں لوٹا تھا وہ پریشانی سے اس کا انتظار کررہی تھی۔اس کا فون بھی بند جارہا تھا۔وہ بار بار نمبر ڈائل کررہی تھی۔

ابھی وہ اپنی سوچوں میں ہی گُم تھی جب نیچے سے اُٹھتے شور پر وہ پریشانی سے نیچے کی جانب بڑھی۔

وہ سنبھل سنبھل کر سیڑھیاں اُترتی نیچے آگئ۔جہاں لاؤنج میں سب ہی جمع تھے۔فاریہ نے حیرانی سے سب کو دیکھا جو اس وقت جانے کیوں یہاں جمع تھے۔

سب کے لاؤنج میں موجودگی کی وجہ ہشام اور ساتھ والے گاؤں کے کچھ بندوں کے درمیان ہونے والا جھگڑا تھا۔

وہ اپنی سوچوں میں گُم چلتی ہوئی ان کے نزدیک آگئ۔جب ایک ملازم بھاگتا ہوا آیا۔وہ پھولی سانسوں کو درست کرتا روح فرسا خبر سُنا گیا۔

"بڑے سردار۔مجھے خبر ملی ہے کہ سردار کے گولی لگی ہے ہمارے کچھ آدمی ان کے پاس ہیں میں آپ کو اس خبر کی اطلاع دینے آیا ہوں۔" وہ ملازم جسے ابھی یہ خبر ملی تھی سب کو اطلاع دیتا ہوا بولا۔

فاریہ نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔اسے یکدم سب کچھ اپنے اردگرد گھومتا ہوا محسوس ہوا۔آنکھیں خود بخود بند ہوتی چلی گئ أخری خیال جو من میں آیا تھا وہ ہشام کا تھا۔

"ہشام۔" اس نے پوری قوت سے اسے پکارنا چاہا مگر وقت نے مہلت ہی نہ دی۔وہ زمین پر ڈھیر ہوتی چلی گئ۔جہاں سب ہشام کے لیے فکرمند تھے وہی گرنے کی آواز پر سب اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔

"فاریہ۔" سب فکر مندی سے چلاتے ہوۓ اس کی طرف بڑھے۔ پھر افراتفری کے عالم میں سب اسے لیتے ہسپتال کی جانب بڑھے۔ اب دوہری پریشانی ان پر حاوی ہوچکی تھی۔

رات کا اندھیرا ہر سُو پھیلا ہوا تھا۔ ایسے میں اس کی گاڑی ایک جھٹکے سے ہسپتال کے آگے رُکی۔وہ گاڑی سے اُترتا تیز تیز قدم اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھا۔وہ عجلت میں ہسپتال کی راہداریاں عبور کرتا مطلوبہ کیبن کے باہر کھڑا تھا۔

"السلام علیکم ! ڈاکٹر کیسی طبیعت ہے ان کی اب۔ ابھی کچھ دیر پہلے مجھے کال آئی تھی۔" وہ ڈاکٹر کے نزدیک آتا مصافحہ کرتا عجلت بھرے انداز میں بولا۔

"بیٹھیے عرید۔جی ہم نے ہی آپ کو فون کیا ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ان کی حالت میں کافی بہتری آئی ہے۔اب تو وہ پہلے سے کافی بہتر ہیں۔آئیے میں آپ کو ان سے ملوانے لے چلتا ہوں۔" ڈاکٹر اسے لیے ازوہ کے دادا جان کے روم کی طرف بڑھا۔ جنھیں دو دن پہلے ہی ہوش آیا تھا مگر تب ان کی حالت کچھ خراب تھی مگر اب ان کی حالت کافی بہتر تھی۔

ازوہ ہر ہفتے ان سے ملنے ضرور آتی تھی اگر اس کی زندگی میں کوئی خلا تھا وہ یہی تھا۔عرید جانتا تھا کہ ازوہ کا یہ آخری رشتہ اسے بہت عزیز ہے۔اس لیے عرید نے ان کا اچھے سے اچھا علاج کروایا تھا۔ وہ پہلے سے کافی بہتر تھے ڈاکٹر بھی ان کے معاملے میں پُر امید ہوگۓ تھے۔عرید انہیں صحیح سلامت واپس لے جاکر ازوہ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔وہ اسے بتانا چاہتا تھا صرف کہنے کو نہیں بلکہ وہ واقعی  ہی اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی تھی۔ جس کی خوشی کی خاطر وہ کچھ بھی کرسکتا تھا۔

وہ ڈاکٹر کے ہمراہ ان کے روم میں آیا تھا۔

"کیسی طبیعت ہے دادا جان۔" وہ ان کے نزدیک بیٹھتا ہوا بولا۔

انہوں نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔سب سے زیادہ جو انہیں یہاں ملنے آتا تھا وہ وہی تھا۔جب سے انہیں یہ معلوم ہوا تھا کہ وہ ان کی ازوہ کا شوہر ہے وہ انہیں اور بھی عزیز ہوگیا تھا۔اسے پولیس یونیفارم میں دیکھ کر اپنے بیٹے کا عکس اس میں نظر آتا تھا۔ وہ ان کا ایسے خیال رکھتا ہے جیسے وہ واقعی ہی اس کا قریبی ہو۔

عرید کتنی دیر ان کے پاس بیٹھا رہا پھر وہ دوائیوں کے زیرِ اثر دوبارہ غنودگی میں چلے گۓ تو عرید ان کے نزدیک سے اُٹھ کر باہر آگیا۔

عرید نے ان کے ڈسچارج کے متعلق ڈاکٹر سے بات کی تھی جنہوں نے دو تین دن مزید یہاں ٹھہرنے کا مشورہ دیا تھا۔ عرید نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام اپنے ایک ساتھی کے ساتھ واپس گاؤں آرہا تھا آج صبح ہی کسی کام کے سلسلے میں وہ شہر گۓ تھے۔ واپسی پر شام کے ساۓ نے چاروں طرف پر پھیلا دیے تھے۔ارد گرد کے کئ گاؤں ہشام لاشاری کی سرداری میں آتے تھے۔جیسے پہلے سب لوگ وحید لاشاری کے فیصلے ماننے پر پابند تھے اب ہشام لاشاری کے فیصلوں پر بھی سر جُھکا دیتے تھے۔

کچھ دن پہلے ہی ساتھ والے گاؤں سے حویلی والوں کا تنازعہ پنچائیت میں آیا تھا جس کے مطابق ایک گاؤں والے کی زمین پر حویلی والوں نے ناحق قبضہ جمایا تھا۔ہشام نے انصاف کے تقاضوں کو بخوبی پورا کرتے وہ زمین واپس اس گاؤں کے غریب بندے کو سونپ دی تھی۔ جس پر حویلی والوں کا اشتعال آسمان کو چھو رہا تھا۔مگر ہشام کو ان سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا جو اسے صحیح لگا تھا وہ اس نے کیا تھا۔

حویلی والوں کو اطلاع ملی تھی کہ ہشام آج رات شہر سے واپس آرہا ہے اسی موقعے کا فائدہ اُٹھاتے وہ اس کے راستے میں اسے ختم کرنے کے لیے حائل ہوچکا تھا۔

ہشام کی گاڑی کے راستے میں کسی کی گاڑی حائل ہوئی تو مجبوراً اُسے گاڑی کو بریک لگانی پڑی۔

"یہ کون بدتمیز ہے جسے یہ بھی نہیں معلوم گاڑی کیسے چلاتے ہیں۔" وہ غصّے سے کہتا ہارن پر ہاتھ رکھ چکا تھا۔مگر سامنے والے ڈھیٹ مزاج تھا جو ٹس سے مس نہ ہوا۔

"سردار آپ بیٹھے میں دیکھتا ہوں۔" اس کا ساتھی اسے گاڑی سے اُترتے دیکھ کر بولا۔

"نہیں ساتھ ہی چلتے ہیں کوئی خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔" ہشام اس کی بات کی نفی کرتا خود بھی نیچے اُتر چکا تھا۔

دوسری جانب سے بھی کوئی گاڑی سے باہر آچکا تھا۔رات کے اندھیرے میں وہ لوگ اسے پہچان نہیں پاۓ تھے۔ہشام اور اس کے ساتھی  نے اس شخص کی طرف قدم بڑھاۓ تھے۔ اس شخص نے ہشام کو قریب آتا دیکھ کر اس پر گولی چلائی تھی جو اندھیرے کے باعث اسے پتہ  نہ چلا کہ گولی ہشام کے بجاۓ اس کے ساتھی کے لگ گئ تھی۔ اپنے ساتھی کے کندھے پر گولی پیوست ہوتے دیکھ ہشام نے لب بھینچتے اسے تھاما تھا۔ وہ فوراً اپنے ساتھی کی طرف بڑھا تھا جو زمین پر ڈھیر ہوچکا تھا۔ کندھے پر لگی گولی اس کی شرٹ کو رنگنے کا سبب بن رہی تھی۔ ہشام نے شدید اشتعال سے آنکھیں بند کر کے کھولی تھی۔اس نے غصّے سے پیچھے مُڑ کر اس انسان کو دیکھنا چاہا مگر وہ گاڑی میں سوار وہاں سے نکلتا چلا گیا۔

"ڈرپوک انسان !یوں بزدلوں کی طرح پیچھے سے وار کرکے بھاگ کیوں رہا ہے۔" ہشام چلاتا رہ گیا مگر اس کی گاڑی نظروں سے اوجھل ہوگئ۔

ہشام فوراً اپنے ساتھی کی طرف مڑا تھا وہ اسے گاڑی میں لٹاتے ہسپتال کی طرف بڑھا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نے گاڑی اپنے فارم ہاؤس کے سامنے روکی تھی۔وہ غصّے سے گاڑی کا دروازہ کھولتا باہر نکلا تھا۔دوسری طرف موجود انسان بھی اس کی تقلید میں باہر آیا۔ 

"مجھے تجھ سے ایسی بےوقوفی کی اُمید نہیں تھی۔یہ سکھایا ہے بابا نے ہمیں تو غلطی پر غلطی کیے جارہا ہے اور تو جانتا ہے تو کسی کا قتل کرنے جارہا تھا مجھے یقین نہیں آرہا میرا بھائی اتنا بےحس ہوچکا ہے۔" وہ شدید غُصّے میں اسے دیکھ کر بولے۔

وہ آج صحیح وقت پر وہاں پہنچ کر اسے واپس لے آۓ تھے ورنہ وہ اس کے ارادوں سے واقف تھا وہ ضرور ہشام سے اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔مگر انہیں ہشام کہیں سے بھی غلط نہیں لگا تھا بلکہ یہاں غلطی اس کے بھائی کی تھی اس نے ایک غریب انسان کی زمین پر قبضہ جما کر غلطی کی تھی اور اب وہ دوسری غلطی ہشام کو قتل کرکے کرنے جارہا تھا۔

"آپ کو میری غلطی نظر آرہی ہے مگر اس سردار کی نہیں جس کی وجہ سے بھری پنچایت  میں مجھے شرمندہ ہونا پڑا۔" وہ چیخ کر اپنے بڑے بھائی کی طرف دیکھ کر بولا۔

"وہ سب تمہاری اپنی غلطی تھی۔میں تمہیں وارن کررہا ہوں اگر تم اپنی غلط روش سے باز نہ آۓ تو بابا جان کو تمہاری ایک ایک کرتوت بتادوں گا۔" وہ انگلی اُٹھا کر اسے وارن کرتے وہاں سے نکلتے چلے گۓ۔

پیچھے وہ غُصّے سے ان کی پُشت کو گُھور کر رہ گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام اسے بروقت ہسپتال پہنچا چکا تھا اس لیے زیادہ نقصان نہیں ہوا تھا۔ہشام نے پُرسکون سانس خارج کی۔اگر اسے کچھ ہوجاتا تو شاید وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرپاتا۔

پچھلے دو گھنٹوں سے وہ پریشانی سے یہاں وہاں خوار ہورہا تھا۔اس کے کپڑوں بھی خون آلود ہوچکے تھے وہ اپنے آدمیوں کو اس کا خیال رکھنے کا کہتا خود حویلی کی جانب بڑھ گیا۔اس کے اعصاب بُری طرح تھکن کا شکار تھے۔

وہ آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد حویلی پہنچا تھا حویلی میں ہر طرف گہرا سناٹا تھا۔سب سے پہلے کمرے کی جانب بڑھا تاکہ ان کپڑوں سے چھٹکارا پاسکے۔وہ جانتا تھا کہ فاریہ اسے ایسے دیکھتی تو ضرور پریشان ہوجاتی مگر وہ کمرے میں موجود نہ تھی۔ ہشام نے موقع غنیمت جانتے کپڑے تبدیل کیے۔ وہ فریش ہوکر باہر آچکا تھا مگر وہ ابھی تک کمرے میں نہ آئی تھی۔وہ تفکر سے نیچے کے طرف بڑھا۔ مگر لاؤنج میں کوئی بھی موجود نہ تھا۔ کچھ سوچتے ہوۓ وہ اپنے ماں کے کمرے کی طرف بڑھا مگر وہ بھی خالی تھا اب اس کی تشویش میں اضافہ ہوا۔

"فاریہ،ماما کہاں ہیں سب؟" وہ اونچی آواز میں چلایا۔جب ملازم جو سرونٹ کوارٹر میں جاچکے تھے۔اس کی پکار سُن کر باہر آگۓ تھے۔

"سردار ! آپ تو بالکل ٹھیک ہیں۔" ایک عمر رسیدہ ملازمہ اسے صحیح سلامت دیکھ کر اس کی طرف بڑھی۔

"ہاں مجھے کیا ہونا تھا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ ان سب باتوں کو چھوڑیں یہ بتائیں گھر میں کوئی بھی نظر نہیں آرہا۔ کہاں ہیں سارے؟" وہ سوالیہ نظریں ان پر ٹکا کر بولا۔

"سردار سائیں ! کچھ دیر پہلے آپ کو گولی لگنے کی اطلاع ملی تھی جسے سنتے فاریہ بی بی کی طبیعت بگڑ گئ۔ انہیں لیکر سب ہسپتال گۓ ہیں۔" وہ ملازمہ سر جھکاتی ہوئی اسے فاریہ کی طبیعت کے بارے میں اطلاع دیتی ہوئی بولی۔

"کیا ہوا فاریہ کو اور کسی نے مجھے اطلاع بھی نہیں دی۔ کس ہسپتال میں ہے۔" وہ جلدی جلدی تفصیل لیتا باہر کی جانب بھاگا۔

وہ فل سپیڈ میں گاڑی بگاتا جلد سے جلد فاریہ کے پاس پہنچ جانا چاہتا تھا۔اس کے خدشات یاد کرکے ہشام کا دل کانپا تھا۔

گاڑی دوڑاتے اسے کسی چیز کا بھی ہوش نہ تھا بلکہ وہ جلد سے جلد وہاں پہنچ کر فاریہ کو اپنے سینے سے لگا لینا چاہتا تھا۔گاؤں کا سردار ایک مضبوط مرد ہونے کے باوجود اس کے ماتھے پر پسینے کے بوندیں چمک رہیں تھی۔قیمتی متاع کو کھنے کا ڈر ہر چیز پر حاوی تھا۔اس کی گاڑی ایک جھٹکے سے ہسپتال کی بلند و بالا بلنڈنگ کے آگے رُکی۔

وہ خود کی کیفیت پر قابو پاتا چہرے پر ہاتھ پھیرتا شکستہ قدموں سے اندر کی طرف بڑھا۔

ریسیپشن سے ساری معلومات لیتا وہ ایمرجنسی کی جانب بڑھا۔جہاں ایمرجنسی کے باہر ہی دادا جان اس کی ماں اور اس کا باپ کھڑے تھے ۔ صارم اور ماہا کو بھی اطلاع دے دی گئ تھی وہ بھی جلد ہی پہنچنے والے تھے۔

سب سے پہلے دادا جان کی نظر اس پر پڑی تھی۔

"ہشام!" وہ تعجب سے اس کی طرف دیکھ کر بولے۔ ان کی نگاہوں کے تعاقب میں دیکھتے سب ہی اس کی طرف متوجہ ہوچکے تھے۔

ہشام تیز تیز قدم اُٹھاتا ان کے نزدیک آگیا۔

"فاریہ کیسی ہے؟ ڈاکٹر نے کیا کہا۔" وہ پریشانی سے ان کی طرف دیکھ کر بولا۔

"ڈاکٹر نے ابھی کچھ خاص نہیں بتایا۔ تم بتاؤ تم ٹھیک ہو اگر تم ٹھیک ہو پھر وہ گولی کسے لگی ہے ۔" دادا جان کے سوال کا جواب سب ہی جاننا چاہتے تھے۔

ہشام نے انہیں ساری روداد سنائی تھی۔اندھیرے کی وجہ سے غلط اطلاع ان تک پہنچا دی گئ تھی کہ  گولی ہشام کو لگی ہے۔

سب نے اس کی طرف سے چین کا سانس لیا تھا۔مگر فاریہ کی ٹینشن اب بھی ان پر حاوی تھی۔

ڈاکٹر کے باہر آتے ہی ہشام ان کے ساتھ سارے گھر والے ان کی طرف بڑھے تھے۔

"ڈاکٹر میری وائف کیسی ہے؟" وہ بےبسی سے گویا ہوا۔

"ان کا بی پی بہت ہائی ہو چکا ہے ایسے میں ہم آپریٹ نہیں کرسکتے۔اس لیے کوشش کررہے ہیں ان کا بی پی نارمل ہوجاۓ۔" ڈاکٹر اس کی تفکر بھری آواز سن کر پیشہ وارانہ انداز میں بولا۔

"ڈاکٹر میں ایک دفعہ اس سے مل سکتا ہوں۔ پلیز ڈاکٹر۔" وہ التجائیہ انداز میں بولا۔ کچھ سوچتے ہوۓ ڈاکٹر نے اسے ملنے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ بنا ٹائم ضائع کیے اندر کی طرف بڑھا تھا۔

وہ آنکھیں بند کیے بستر پر لیٹی تھی۔ چہرے کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی۔ہشام افسوس سے اسے دیکھ کر رہ گیا۔اس کی ہر بات کو دماغ پر سوار کرنے والی عادت سے اسے چڑ تھی۔یہ عادت اس کے لیے نقصان کا باعث بھی بن سکتی تھی۔

"فاریہ ! میری جان آنکھیں کھولو۔دیکھو میں آگیا ہوں۔" وہ اس کے گال پر ہاتھ رکھتا محبت سے بولا تھا۔

فاریہ نے اپنی تھکن زدہ آنکھیں دھیرے سے کھولی ہشام کو اپنے پاس محسوس کرکے وہ دھیرے سے مسکرائی تھی۔

" میں تھوڑی دیر تم سے دُور کیا گیا کیا حال کرلیا اپنا؟

تم اپنا بالکل بھی خیال نہیں رکھتی۔جانتی ہو نہ تم پر ایک کھروچ بھی آتی ہے تو ہشام لاشاری  تڑپ اُٹھتا ہے۔ اس لیے ستاتی ہو۔" وہ اس کا ہاتھ تھامتا شکوہ کرتا ہوا بولا۔

"جب آپ پر حملے کی خبر ملی تو میں اتنا گھبرا گئ تھی کہ کچھ بھی سمجھ نہ آئی۔آپ سے بہت محبت کرتی ہوں ہشام آپ کو کچھ ہوجاتا نا تو فاریہ بھی مر جاتی۔" وہ آنکھوں میں آنسو بھرتی ہوئی بولی۔

"فاریہ!" اس کے مرنے والی بات پر وہ وارننگ بھرے لہجے میں بولا۔جیسے بتانا چاہتا ہو کہ اسے فاریہ کی یہ بات پسند نہیں آئی۔

اس کی ناراضگی بھری نظروں کو دیکھ کر وہ تکلیف کے باوجود معصوم سی شکل بنا گئ۔

ہشام کو اس پر بےتحاشا پیار آیا جس کا عملی اظہار کرتا وہ اس کی پیشانی چوم گیا۔

اس کے چہرے پر درد کے اثرات دیکھ کر ہشام کے ہاتھ پاؤں پھولے تھے۔

اس کی زرد پڑتی رنگت دیکھ وہ بوکھلاتا ہوا باہر کی جانب بڑھتا ڈاکٹر کو بُلا گیا۔ڈاکٹرز نے فاریہ کی حالت دیکھ کر اسے باہر رُکنے کی تاکید کی تھی۔

ہشام شدید بےچینی سے مسلسل اِدھر سے اُدھر ٹہل رہا تھا۔صارم اور ماہا بھی پہنچ چکے تھے سب ہی فاریہ کے لیے فکر مند تھے سب کے لبوں پر اس کی صحت یابی کی دُعا تھا۔

آخر کار طویل انتظار کے بعد ڈاکٹر باہر آئی تھی۔سب ہی پریشانی سے ان کے نزدیک بڑھے تھے۔

"مبارک ہو بیٹا ہوا ہے۔" وہ دھیمی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولیں۔

"ڈاکٹر فاریہ کیسی ہے؟" ہشام شدید بےچینی سے بولا۔

"ینگ مین آپ کی بیوی بالکل ٹھیک ہے۔" وہ چہرے پر مسکراہٹ سجاتی ہوئی بولی۔اس کا انداز دیکھ کر ڈاکٹر کو فاریہ کی قسمت پر رشک آیا۔وہ جب سے آیا تھا بوکھلایا سا یہاں وہاں گھوم رہا تھا۔

"ڈاکٹر ہم کب مل سکتے ہیں فاریہ سے۔" وہ کچھ پُرسکون ضرور ہوا تھا مگر اب بھی اس کے انداز میں بےچینی سی تھی۔

"کچھ دیر تک ہم انہیں روم میں شفٹ کردے گے پھر آپ لوگ مل سکتے ہیں۔" وہ خوش اخلاقی سے کہتی اپنے کیبن کی جانب بڑھ گئ۔

نرس نے لاکر کمبل میں لپٹا ننھا سا وجود اس کی طرف بڑھایا تھا۔ ہشام نے آگے بڑھ کر اسے قیمتی متاع کی طرح تھام لیا تھا۔ اپنے اور فاریہ کے وجود کے اس ننھے سے انش کو دیکھ کر ہشام آسمان کی جانب دیکھ کر شکر کرنے والے انداز میں مسکرایا تھا۔اس نے بچے کا ننھا سا ہاتھ تھام کر چوما تھا۔

"میرا شیر۔" وہ اس کی ننھی سی پیشانی چومتا ہوا بولا۔سب ہی باپ بیٹے کی محبت دیکھ کر آسودگی سے مسکرا دیے۔

 "بھائی! ہمیں بھی دیکھنے دیں یا خود ہی دیکھتے رہیں گے۔" صارم کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر جب رہا نہیں گیا تو بول اُٹھا۔

ہشام نے ہنستے ہوۓ بچہ اسے پکڑا دیا۔

"ماما دیکھیے نا یہ کتنا پیارا ہے۔" وہ اپنی ماں کی طرف اس کا رُخ کرتا ہوا بولا۔

انہوں نے مسکراتے ہوۓ اس کے سر پر چپت لگائی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہشام فاریہ کے روم کی طرف بڑھا۔دروازہ کُھلنے کی آواز پر فاریہ نے بند آنکھوں کو دھیرے سے کھولا تھا۔وہ نزدیک آتا ایک سائیڈ پر بیٹھ چکا تھا۔

"فاریہ میری زندگی۔طبیعت کیسی ہے؟  اگر کہیں درد ہو رہا ہے تو بتاؤ  ڈاکٹر کو بلا لیتا ہوں۔"وہ اس کا نقاہت زدہ چہرہ دیکھ کر بولا۔

"میں ٹھیک ہوں۔" فاریہ دھیمی سی أواز میں بولا۔

وہ اس کے نزدیک  ہوتا اس کی پیشانی چوم گیا۔

"شکریہ میری جان اتنا پیارا تحفہ دینے کے لیے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر ہونٹوں سے لگا گیا۔

فاریہ بس مسکرا کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

"تم سے بس ایک شکایت ہے جانِ ہشام۔" وہ اس کے گال کو نرمی سے سہلاتا ہوا بولا۔

فاریہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔

"تم اپنا خیال نہیں رکھتی۔ اپنی طرف سے اتنی لاپرواہ کیوں ہو؟" وہ نرم نگاہیں اس کے چہرے پر ٹکاۓ ہوۓ تھا۔

"سوری۔" وہ معصومیت سے بولی۔

"دیکھو تمہارا سارا ڈر غلط تھا اور میری محبت سچی تبھی تو اللّٰہ نے تمہارے سارے ڈر کو غلط ثابت کردیا۔" 

وہ نرمی سے بولتا اس کے سارے خدشات دور کررہا تھا۔

"ہمارا بیٹا نہیں دیکھو گی۔" وہ اس کا دھیان اس ننھے وجود کی طرف دلواتا ہوا بولا جو ان کی زندگی میں ان کے رشتے کو مزید مضبوط کرنے آیا تھا۔

"ہاں مجھے دیکھنا ہے۔" وہ بےچینی سے بولی۔

ہشام نے اسے تھام کر احتیاط سے بٹھایا تھا۔

وہ اس کے نزدیک سے اُٹھتا اس ننھے وجود کو اندر لے آیا تھا۔

اس نے فاریہ کی گود میں لاکر اس بچے کو ڈالا۔فاریہ کے چہرے پر ایک ساتھ کئ رنک بکھر گۓ تھے۔

أنکھوں میں نمی سی چمکنے لگی۔اسے یقین ہی نہیں آرہا ہے تھا اب اس کی بھی فیملی ہوگی۔اپنے بیٹے کو سینے سے لگا کر وہ رو پڑی۔

"میرا بیٹا۔" وہ اس کے روئی جیسے گال کو چومتی ہوئی بولی۔

"رو کیوں رہی ہو میری جان۔یہ تو خوشی کا موقع ہے۔" وہ اس کے ساتھ بیٹھتا اس کے آنسو صاف کرتا اس کا سر اپنے کندھے پر ٹکا گیا۔

صارم اور باقی گھر والے بھی اس سے ملنے کے لیے اندر داخل ہوچکے تھے۔صارم نے آنکھوں میں چمک لیے اس خوبصورت لمحے کو کیمرے میں قید کیا تھا۔

حارث صاحب شرمندگی سے اندر ہی نہ آپاۓ تھے۔ وہ وہی دروازے کے پار سے حسرت بھری نظروں سے ان لوگوں کو ہنستے مسکراتے دیکھ رہے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یزدان میرو کی فرمائش پر اسے شاپنگ کے لیے لایا تھا۔جو شاپنگ کم کررہی تھی اور نخرے زیادہ دکھا رہی تھی۔یزدان نے جھنجھلا کر اسے کئ بار ٹوکا تھا۔

"میرو ! میری جان دو گھنٹے خوار ہوکر تم نے صرف دو سوٹ خریدیں ہیں۔ہر سوٹ کو ریجیکٹ کرتی جارہی ہو۔ مجھے لگتا ہے تمہیں مزید شاپنگ نہیں کرنی اس لیے ہم لنچ کرکے گھر واپس جارہے ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھامت فوڈ کارٹ کی طرف بڑھا۔

"نہیں مجھے ابھی اور شاپنگ کرنی ہے۔" وہ اس کے ساتھ چلتی ہوئی احتجاجاً بولی۔

اسے ایک ہی جگہ ٹھہرتے دیکھ یزدان نے اسے گھورنا چاہا مگر اس کا معصوم چہرہ دیکھ کر وہ یہ بھی نہ کر سکا۔

"اچھا میری جان کیا لینا ہے جلدی بتاؤ۔" وہ اس کی طرف مڑتا اس کے چہرے پر ہاتھ ٹکاتا ہوا بولا۔

"مجھے جیولری لینی ہے" وہ  اس کے پوچھنے پر جھٹ سے بولی۔

"اوکے آؤ میرے ساتھ۔" وہ اسے لیتا ایک جیولری شاپ کی طرف بڑھ گیا۔

وہ اس کے کچھ بھی بولنے سے پہلے سیلز مین کو پینڈیٹ دکھانے کا بول چکا تھا۔کافی دیر بعد جاکر اسے ایک نازک سا ہارٹ شیپ پینڈنٹ پسند آگیا۔ وہ بنا دیر کیا اس کے ساتھ کا بریسلیٹ بھی پیک کروا چکا تھا۔

میرو خاموشی سے اس کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔

اب وہ اسے لیے فوڈ کارٹ کی جانب بڑھا۔اب کی بار وہ خاموشی سے اس کے ساتھ چل دی۔

وہ اسے ایک ٹیبل پر بٹھاتا خود آرڈر دینے چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد وہ اس کے ساتھ آکر بیٹھ چکا تھا۔

اب وہ فرصت سے اپنی بیوی کو نہارنے میں مصروف تھا۔

میرو اسے نظر انداز کرتی اردگرد دیکھ رہی تھی۔

"جان اب کیا غلطی ہوگئ مجھ سے۔" وہ ٹیبل پر موجود اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں قید کرچکا تھا۔مگر دوسری جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔

"میرو یار جب تک بتاؤ گی نہیں کیسے پتہ لگے گا۔"وہ محبت سے اس کا بےداغ چہرہ دیکھ کر بولا۔

"اب آپ بدل گۓ ہیں۔" وہ منہ بسورتے ہوۓ بولی۔

یزدان۔گہری سانس بھر کر رہ گیا۔آج کل اس کی یہی شکایت تھی۔بزنس میں کچھ مصروفیت کے باعث وہ اسے ٹائم نہیں دے پارہا تھا۔ آج وہ اسپیشل اس کے لیے وقت نکالتا اسے شاپنگ پر لایا تھا ۔ وہ جانتا تھا وہ اس کی توجہ کی عادی تھی۔ وہ اس کی ذرا ذرا سی بات محسوس کرتی تھی۔ 

"سوری میری جان۔" وہ اس کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگاتا ہوا بولا۔

اس کی حرکت پر میرو نے بوکھلاتے ہوۓ سُرخ چہرے سے اپنا ہاپھ کھینچا۔

"آپ کو شرم نہیں آتی ہم پبلک پلیس میں بیٹھے ہیں۔" وہ اسے گھورتی دانت پیستی بولی۔

"نہیں آتی جانم۔" وہ اس کا ہاتھ کھینچتا اسے نزدیک کرتا اُٹھ کر اس کا گال چوم گیا۔

میرو نے بوکھلا کر چاروں اور دیکھا تھا۔

اس کےانداز پر یزدان نے اپنی ہنسی دبائی تھی۔وہ اسے گھور بھی نہ سکا۔

یزدان اسےتنگ کرنے کا ارادہ ترک کرتا خاموشی سے کھانے کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔دونوں نے اچھے سے لنچ کیا۔ وہ بل پے کرتے باہر کی جانب بڑھے۔مختلف شاپ سے گزرتے میرو کی نگاہ ایک ساڑھی پر اٹک چکی تھی بلیک کلر کی انتہائی خوبصورت ساڑھی اسے پہلی نظر میں ہی بےتحاشا پسند آئی تھی۔

یزدان اس سے چند قدم آگے نکل آیا اپنے ساتھ میرو کو نہ پاکر اس نے مڑ کر پیچھے کی طرف دیکھا جہاں میرو نظریں سامنے والی شاپ میں موجود ڈمی پر لگی ساڑھی پر ٹکاۓ کھڑی تھی۔

اس سے پہلے وہ اس کی طرف بڑھتا جب اپنے نام کی پکار پر وہ سامنے متوجہ ہوچکا تھا۔

"یزدان تم یہاں ۔وٹ آ پلیزنٹ سرپرائز ۔" نیہا جو کافی ٹائم سے انگلینڈ گئ تھی کچھ دنوں پہلے ہی واپس آئی تھی۔ یزدان کو سامنے دیکھ کر وہ خوش ہوگئ۔

"نیہا تم کب واپس آئی؟" وہ رسمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوۓ بولا۔

میرو نے یزدان کے نام کی پکار پر سامنے دیکھا تھا جہاں یزدان ہنس ہنس کر کسی سے باتوں میں مصروف تھا اس کے سر پر لگی تلوں بجھی۔

وہ تیز تیز قدم اُٹھاتی ان کے درمیان حائل ہوچکی تھی۔

سامنے کھڑی لڑکی کو وہ اچھے سے پہچان گئ تھی۔ یہ وہی لڑکی تھی جس کے ساتھ یزدان نے نکاح کا ڈرامہ رچایا تھا۔بےشک وہ سب جھوٹ تھا مگر پھر بھی میرو کو وہ لڑکی زہر سے بھی بُری لگی تھی۔

"دُور رہو میرے شوہر سے۔" وہ انگلی اُٹھاتی ہوئی وارن کرنے والے انداز میں بولی۔

"میرو میری جان وہ میری دوست ہے بس۔میری بات سنو شاباش۔" وہ اس کو پچکارتے نرمی سے بولا۔

"مجھے نہیں سننی اور تم ابھی تک یہاں کیوں کھڑی ہو جاؤ یہاں سے۔جتنا ہوسکے ہم لوگوں سے دُور رہو۔" وہ غصّے سے اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"میرو۔۔۔یہ کونسا طریقہ ہے بات کرنے کا۔تم کچھ جانتی نہیں ہو تو خاموش رہو۔" وہ وارننگ دیتے لہجے میں بولا۔ اس کے لہجے میں گہری سنجیدگی تھی۔

"لٹل گرل میری بات سنو۔جیسا تم سوچ رہی ہو ویسا کچھ بھی نہیں ہے۔" نیہا نے اس کا غصّے سے بھرپور انداز دیکھ کر اسے سمجھانا چاہا۔

"میں تم سے بات نہیں کررہی تم چپ رہو ۔ جانتی ہو تم جیسی لڑکیوں کو دوسروں کا گھر خراب کرنے آجاتی ہو۔" وہ آنکھیں گھوما کر رہ گئ۔میرو کی بدتمیزی پر اب یزدان کو غُصّہ آرہا تھا۔

"میرو بچی نہیں ہو تم یہ بات کرنے کا کونسا طریقہ ہے۔ کب سے نیہا تمہارا رویہ اگنور کر رہی ہے۔معافی مانگو فوراً۔کتنی شرمندگی ہو رہی تمہاری وجہ سے مجھے۔" وہ اس کی انداز پر چِڑ سا گیا تھا۔

"میں معافی نہیں مانگوں گی۔میں کچھ بھی نہیں بھولی ہوں جانتی ہوں یہ کون ہے۔" وہ اس کے سختی سے ڈانٹنے پر آنسو پیتی ضدی انداز میں بولی۔

"میرو مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو۔فوراً معافی مانگو۔" وہ ابھی بھی اسی سختی سے بولا۔

"میں نے کہہ دیا نا میں معافی نہیں مانگو۔آپ کو زیادہ شوق ہے تو آپ آرام سے ان کے ساتھ ٹائم گزار کر آسکتے ہیں میں گاڑی میں بیٹھی ہوں جب آپ اچھے سے اپنی دوست سے مل لیں تو آجائیے گا۔" وہ انتہائی ناراضگی سے اسے دیکھتی باہر کی جانب بڑھ گئ۔

یزدان نے غُصّے سے اس کی پُشت کو دیکھا۔

"یزدان ! کیا حرکت ہے یہ؟ تم یہ مت بھولوں تم کس حیثیت سے مجھے اس کے سامنے لے کر گۓ تھے وہ شاید ابھی مجھے اسی نظر سے دیکھ رہی ہے جیسے میں تمہیں اُس سے چھین لوں گی۔تم اسے سمجھانے کی بجاۓ اُلٹا اس سے سختی کر رہے ہو۔" نیہا اسے اس کی غلطی کا احساس دلاتی ہوئی بولی۔

یزدان کے تنے اعصاب ڈھیلے پڑے۔

"یار مجھے وہ بہت عزیز ہے مگر اس کا بدتمیزی بھرا انداز مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔" وہ میرو کی شکوہ کناں نظروں کو ذہن میں لاتا ہوا بولا۔

"اچھا مجھے یہ بتاؤ۔کیا اس کا انداز ہر کسی سے ایسا ہے۔" نیہا کے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔

"تو تم کیسے پھر اُس سے ایسے بات کرسکتے ہو۔وہ اگر ان سکیور فِیل کر رہی ہے تو تمہارا حق بنتا ہے پیار سے سمجھاؤ نہ کہ ایسے غُصّے سے۔اب جاؤ اُسے پیار سے ڈیل کرو۔"وہ اسے سمجھاتی آگے کی طرف بڑھ گئ۔

یزدان کو اس کی ایک ایک بات صحیح لگی تھی۔

اس نے سامنے شاپ میں لگی اس بلیک ساڑھی کو دیکھا پھر کچھ سوچتے ہوۓ اس شاپ کی طرف قدم بڑھا دیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ روتی ہوئی اس کے نزدیک سے ہوتی کار میں آکر پیٹھ چکی تھی۔یزدان کا روّیہ اسے بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔وہ لڑکی تو کبھی اس کے ذہن سے محو ہوہی نہیں سکتی تھی۔کیسے بھول سکتی تھی اُسے جس کو یزدان نے لا کر اس کے مقابل کھڑا کیا تھا۔

وہ سوچ چکی تھی وہ یزدان سے بات تک نہیں کریں گی۔ وہ اپنی سوچوں میں گُم بار بار گال پر بہتا آنسو صاف کر رہی تھی۔جو بار بار اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔

یزدان نے گاڑی میں بیٹھتے سارے شاپنگ بیگ پچھلی سیٹ پر رکھے تھے۔خود سیدھا ہوکر فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ایک نظر اپنے ساتھ موجود اس وجود کو دیکھا تھا جس میں اس کی جان بستی تھی۔

اس نے گاڑی پارکنگ سے نکالی اور حویلی کے راستے پر ڈال دی۔

"میرو! پلیز یار رونا تو بند کرو۔" وہ اس کی سسکیوں کو سنتے جھنجھلا کر بولا تھا۔

میرو نے اس کی طرف پلٹ کر بھی نہ دیکھا بس اس سے رُخ موڑے اپنے کام میں مصروف رہی۔

"اچھا یار میں معافی مانگتا ہوں اب تو اس طرف دیکھو۔" وہ نرمی سے اس کی طرف دیکھتا  ہوا بولا۔

مگر دوسری طرف سے جواب نہ آنے پر وہ گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔اس نے گھر جا کر اسے منانے کا سوچا۔

ابھی اس نے اپنا دھیان سامنے سڑک پر لگایا۔آدھے گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد ان کی گاڑی حویلی کے آگے رُکی۔

میرو بغیر اس کی طرف دیکھے اندر کی طرف بڑھ گئ۔ اس کی جلد بازی پر یزدان گہرا سانس بھر کر رہ گیا۔

وہ پچھلی سیٹ سے بیگ اُٹھاتا اندر کی طرف بڑھا۔اسے میرو لاؤنج میں کہیں نظر نہ آئی یعنی وہ کمرے میں بند ہوچکی تھی۔اس نے کمرے کی طرف قدم بڑھانے چاہے جب شہیر اسے دیکھ کر بولے۔

"یزدان تم ابھی تک آفس نہیں گۓ جانتے ہو تمہاری میٹنگ ہے آج۔" شہیر اسے ابھی تک گھر میں دیکھتے حیرانی سے بولے۔

"جی ڈیڈ وہ پانچ بجے تک ہے۔ابھی ٹائم ہے۔" وہ لاپرواہی سے بولا۔

"برخودار ایک دفعہ وقت دیکھ لو سوا چار ہوچکے ہیں۔" شہیر اس کا مطمئن انداز دیکھ کر طنزیہ بولے۔

"کیا! اتنا وقت کیسے ہوگیا۔" وہ گھڑی پر ٹائم دیکھتا پریشانی سے بولا۔

"نشوہ گڑیا ! بات سنو یہ سامان ہمارے کمرے میں رکھوا دینا میری بہت ضروری میٹنگ ہے۔ مجھے ابھی نکلنا ہوگا ورنہ لیٹ ہوجاؤں گا۔" وہ عجلت میں بیگ اسے تھماتا باہر کی جانب بڑھ گیا۔

نشوہ بیگ لیتی اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ کب سے کمرے میں لیٹی اس کا انتظار کر رہی تھی اسے پورا یقین تھا کہ یزدان اسے منانے ضرور آۓ گا۔ مگر وہ نہیں آیا بلکہ نشوہ شاپنگ بیگ رکھ کر جا چکی تھی۔ ایک گھنٹے دو گھنٹے  کئ گھنٹے گزر گۓ مگر اسے نہیں آنا تھا وہ نہیں آیا۔

پہلے ہی من اس کے رویے پر بھرا ہوا تھا اب تو اور بھرا جا رہا تھا۔اسے یقین نہیں آرہا تھا یزدان اس کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔وہ تو اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اُٹھتا تھا۔ اب وہ اس سے ناراض تھی وہ اسے منانے کی بجاۓ جانے کہاں نکل گیا تھا۔نشوہ کے جاتے ہی وہ دروازے بند کرتی ہوئی بستر پر لیٹ چکی تھی۔ روتے روتے کب اس کی آنکھ لگی اسے خود بھی معلوم نہ ہوا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جتنا جلدی جلدی اس نے کام نپٹانے کی کوشش کے مگر پھر بھی اسے آتے آتے نو بج گۓ تھے۔ سب گھر والے ابھی کچھ دیر پہلے ہی ڈنر کرکے اپنے اپنے کمروں میں گۓ تھے۔

اس نے ساری چیزیں پسِ پشت ڈال کر کمرے کی طرف بڑھنا چاہا۔جب نشوہ کمر پر ہاتھ ٹکاتے اس کے راستے میں حائل ہوئی۔

"گڑیا ابھی نہیں ابھی پیچھے ہوجاؤ۔ بعد میں تمہاری بات سنوں گا۔" وہ نشوہ کا انداز دیکھ کر بےبسی سے بولا۔

کچھ دور کھڑے احان نے اپنی مسکراہٹ دبائی۔ اس کی جنگلی بلی کسی کو بھی نہیں بخشتی تھی۔ اب ضرور یزدان کی باری تھی۔

"میں بالکل بھی نہیں ہٹوں گی۔ بلکہ پہلے آپ میرے سوالوں کے جواب دیں گے پھر جائیں گے۔" وہ ہاتھ کو مزید پھیلاتی اس کا جانے کا راستہ مکمل روک چکی تھی۔

"اچھا یار بولو۔" وہ ٹھنڈی سانس بھرتا ہوا بولا۔

"آپ نے میرو سے کیا کہا ہے جب سے آئی ہے دروازہ بند کرکے بیٹھی ہے ڈنر کرنے کے لیے بھی باہر نہیں آئی۔اور میں جب شاپنگ بیگ رکھنے گئ تھی تب بھی وہ منہ چُھپاۓ لیٹی تھی۔جلدی بتائیں کیا کہا ہے اُسے۔جو میری میرو کو تکلیف پہنچاۓ گا وہ میرے ہاتھوں سے بچ نہیں سکتا۔" وہ کمر پر ہاتھ ٹکاتی سیانی عورتوں کی طرح بولی۔

اس کا انداز یزدان اور احان دونوں کو اچھا لگا تھا وہ واقعی ہی میرو سے بےغرض محبت کرتی تھی۔

احان نے دل ہی دل میں اپنی پٹاخہ کی نظر اُتاری تھی۔اور دو قدم چلتا ان کے نزدیک آگیا۔

"یار تم جانے دو گی تو ہی مناؤں گا۔" وہ پچکارنے والے انداز میں پیار سے بولا۔

"مجھے تو پہلے ہی پتہ تھا آپ نے ہی کچھ کہا ہے۔آپ نے اچھے شوہر بالکل بھی نہیں ہیں۔ ایسے کام کرتےہی کیوں ہیں جو منانے کی نوبت آۓ۔" وہ اسے گھورتی ہوئی بولی۔

"گڑیا ! جانے دو یار بہت تھکا ہوں۔" وہ بےبسی سے اسے دیکھتا احان کو اشارہ کرتا ہوا بولا۔

احان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے ریلکس رہنے کا اشارہ کیا تھا۔

یزدان نے اسے سمجھتے اثبات میں سر ہلایا۔

"یہ آپ دونوں آنکھوں سے کونسی باتیں کررہے ہیں۔" نشوہ ان دونوں کو گھورتی ہوئی بولی۔

"کچھ خاص نہیں مسز احان۔" وہ مسکراہٹ سجاتا اس کے نزدیک آگیا۔نشوہ نے نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا جب وہ اسے سمجھنے کا موقع دیے بغیر گود میں اُٹھاتا کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

"چھوڑیے احان مجھے یزدان بھائی سے بات کرنی ہے۔" وہ اس کی گرفت میں جھٹپٹاتی ہوئی بولی۔

"میری جان تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بھائی سنبھال لیں گے۔" وہ اس کا گال چومتا ہوا بولا۔

"شکریہ احان۔" یزدان پیچھے سے بولا تھا۔احان نے مسکراتے ہوۓ اس کا شکریہ قبول کیا تھا۔

یزدان نے ان دونوں سے نظریں ہٹا کر اپنے رُخ کمرے کے جانب کیا تھا۔نیچے ملازمہ کو وہ کھانا گرم کرکے کمرے میں پہنچانے کا کہہ چکا تھا۔

پاکٹ سے کمرے کی چابی نکال کر اس نے دروازہ کھول کر اندر قدم رکھا تھا۔کمرے میں پھیلے اندھیرے کو دُور کرنے کے لیے اس نے لائٹ جلا دی تھی۔

کوٹ صوفے پر ڈالتا قدم بہ قدم چلتا اس کے نزدیک آیا تھا بستر پر موجود خالی جگہ پر براجمان ہوتے اس نے جُھک کر اس کی چہرے کو دیکھا تھا۔ہلتی پلکوں کو دیکھ کر وہ اندازہ لگا چُکا تھا وہ جاگ رہی تھی۔جس چیز نے اسے تکلیف پہنچائی تھی وہ اس کے چہرے پر موجود آنسوؤں کے مٹے نشان تھے۔بےاختیار اس کے دل پر ہاتھ پڑا تھا۔وہ زبردستی اس کا رُخ اپنی جانب موڑتا اپنے سینے سے لگا گیا۔

میرو جو کب سے جاگ رہی تھی۔اسے شدید بھوک لگی تھی دوپہر میں بھی اس نے یزدان کےساتھ ہی لنچ کیا تھا۔جب جب یزدان کا سخت روّیہ یاد آتا آنکھوں سے خود بخود آنسو بہنے لگتے۔اس کے نرم روّیے کی اس قدر عادت ہوچکی تھی کہ اب ذرا سی سختی بھی اس کا دل دُکھاتی تھی۔

یزدان نے جب لائٹ جلائی تھی اس نے آنکھیں سختی سے میچ لیں تھیں۔اسے اندازہ تھا کہ آنا والا یزدان ہی ہے کیونکہ اُسی کے پاس کمرے کی چابی تھی۔

جب وہ اس کے نزدیک آکر اس کی طرف جُھکا تھا وہ سانس تک روک گئ تھی۔

میرو نے جھٹ پٹا کر اس کی گرفت سے آزاد ہونا چاہا مگر وہ ایسا نہ کرسکی۔

اسے شدید غُصّہ تھا کہ وہ اسے منانے کی بجاۓ آفس چلا گیا تھا اور اب آکر حق جتا رہا تھا۔

"میری شہزادی اتنی ناراض ہے۔" وہ بستر پر نیم دراز انداز میں ٹیک لگا کر بیٹھتا اسے بھی ساتھ بٹھا چکا تھا۔

"چھوڑیں مجھے۔" وہ اس کے سینے پر زور ڈالتی احتجاجاً چلائی تھی۔

"ارے میری جان اتنی ناراض ہے ایسے کیسے چھوڑ دوں اسے منانا بھی تو ہے۔میری جان آئی ایم سوری۔" وہ اس کے بالوں پر نرمی سے ہونٹ ٹکاتا ہوا بولا۔

"ہر گز نہیں آپ نے مجھے ڈانٹا تھا اور مجھ سے سختی سے بات بھی کی تھی۔" وہ اس کے سینے سے لگی آنسو بہاتی ہوئی بولی۔

"میں مانتا ہوں میری غلطی ہے مجھے ایسے بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔"وہ اس کا چہرہ روبرو کرتا اس کی بہتی آنکھوں کو چومتا ہوا بولا۔

"آپ نے مجھے معافی مانگنے کے لیے کہا تھا میری غلطی نہیں تھی۔" وہ ابھی بھی اسی انداز میں بولی۔

"میں اپنی جان سے معافی مانگ لیتا ہوں۔ مگر ان آنکھوں پر مزید ستم مت ڈھاؤں۔" وہ اس کی آنکھوں کو بار بار چومتا ہوا بولا۔

میرو نے پورا زور لگا کر اسے خود سے دُور کیا تھا۔

"نہیں میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔ آپ مجھے بتائیں کیا آپ نے ایک بار بھی مجھے بتایا کہ آپ نے اُس لڑکی سے نکاح نہیں کیا۔وہ تو میں نے آپ کی باتیں سُنی نہ ہوتی تو جانے کب تک تکلیف میں رہتی۔آپ جو بھی کہیں آپ نے اُس لڑکی کو لا کر میرے مقابل کھڑا کیا تھا۔ اُسے دیکھ کر میرے سارے زخم تازہ ہوگۓ مگر آپ نے مجھے سمجھنے کی بجاۓ مجھ سے اتنی بری طرح بات کی۔" وہ اس کے نزدیک سے اُٹھتی بستر سے اُترتی ہوئی بولی۔

"میرو میری جان مجھے سمجھنا چاہیے تھا۔مگر تمہارے یہ بات بالکل غلط ہے کوئی تمہارے مقابل تو کیا تمہارے آس پاس بھی نہیں آسکتا۔جو تمہاری جگہ ہے میری زندگی میں وہ کسی اور کی ہو ہی نہیں سکتی۔" وہ بھی بستر سے اُترتا ایک دفعہ پھر اسے اپنی گرفت میں قید کرچکا تھا۔ اس دفعہ میرو نے اسے جھٹکا نہیں تھا بلکہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی۔

وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا اسے پُرسکون کرنے کی کوشش کررہا تھا۔

یزدان کو خود پر غُصّہ آرہا تھا وہ کیسے اس کے ساتھ ایسا کرسکتا تھا۔پچھلے کچھ مہینوں سے وہ کتنی چہک رہی تھی۔اس کی پہلے والی میرو اسے واپس مل گئ تھی۔

"میری میری لٹل ڈول یار رونا بند کرو۔ پلیز تم روتی ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔" وہ اس کے بال ٹھیک کرتا ہوا نرمی سے بولا۔

"آپ بدل گۓ ہیں اب آپ کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہوتا۔آپ کو پتہ تھا میں ناراض تھی پھر بھی آپ مجھے چھوڑ کر چلے گۓ۔آپ کہ پتہ ہے میں کتنا روئی ہوں۔" وہ شکوہ کرتی معصومیت سے بولی تھی۔

"تو تم کیوں روئی ہو بلکہ مجھ سے جھگڑتی مجھے سزا دیتی خود پر کیوں ظلم کیا اور اگر مجھے معلوم ہوتا میری معصوم سی جان اپنی آنکھوں پر اتنا ظلم کرے گی تو سارے ضروری کام بھاڑ میں جھونک کر آجاتا۔" وہ نرمی سے اس کا گال سہلاتا ہوا بولا۔اس کی ہری آنکھوں کا تو وہ دیوانہ تھا۔اس نے کیسے اس پر ظلم کیا تھا۔اس کی چھوٹی سے ناک بھی رونے کی وجہ سے سُرخ ہورہی تھی۔

"میں نہیں روئی آپ نے رُلایا ہے۔" اس کے شکوے ابھی بھی جاری تھے۔یزدان اس کا ایک ایک شکوہ محبت سے سُن رہا تھا۔

میں شرمندہ ہوں جان۔" وہ اس کی کمر کے گرد گرفت مضبوط کرتا اسے سینے سے لگا چکا تھا۔

"نہیں پہلے وعدہ کریں مجھے نہیں ڈانٹیں گے۔"وہ اس کے سینے سے سر اُٹھاتی ہوئی بولی۔ اس کا رونا اب تھم چکا تھا۔

"میری مجال  میں ایسا کروں۔" وہ اس کے ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاتا ہوا بولا۔

وہ بس خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھی مگر چہرے پر اب بھی سنجیدگی تھی۔یزدان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہی سے لا کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دے۔

وہ اس کو بستر پر بٹھاتا خود اس کے قدموں میں بیٹھ چکا تھا۔

"میری جان ذرا سا مسکرا دو۔میرا دل تمہیں ایسے اُداس دیکھ کر گھبرا رہا ہے۔" وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا ہوا بولا۔

"میرا دل نہیں ہے مسکرانے کو۔ آپ فکر مت کریں میں بالکل ٹھیک ہوں۔صبح تک موڈ بہتر ہوجاۓ گا۔" وہ دھیمی آواز میں نظریں جُھکاۓ بولی۔

"تمہارے چہرے پر یہ اداسی بالکل بھی اچھی نہیں لگتی بلکہ میری زندگی تو مسکراتے ہوۓ اچھی لگتی ہے۔" وہ اس کے جُھکے چہرے کو ٹھوڑی سے اُٹھاتا ہوا بولا۔

میرو بمشکل ذرا سا مسکرائی تھی۔ یزدان کے اتنا بھی بہت تھا کہ وہ اس کے لیے مسکرا رہی تھی۔

"دیٹس لائک آ گُڈ کرل۔" وہ اس کی پیشانی چومتا اُٹھ کھڑا ہوا۔

دروازے پر ہوتی دستک نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔یزدان فوراً سے دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ دروازے کھولتے ہی اس نے ملازمہ سے کھانا کی ٹرے تھامی اور دروازہ واپس بند کردیا۔اس نے ٹرے لاکر بستر پر رکھی۔

"جاؤ شاباش جلدی سے فریش ہوکر آؤ پھر ساتھ میں ڈنر کرتے ہیں۔" وہ اسے دیکھتا نرمی سے بولا۔میرو اثبات میں سر ہلاتی واش روم کی جانب بڑھ گئ۔اچھے سے فیس واش کرنے کے بعد وہ فریش سی  باہر آئی تھی۔اسے بستر پر بٹھاتا ٹرے درمیان میں رکھ چکا تھا۔ اب وہ نوالہ بنا کر اسے اپنے ہاتھوں سے کھلا رہا تھا۔ جسے وہ خاموشی سے کھا رہی تھی۔ڈنر کرنے کے  بعد اس نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھی تھی۔

وہ بیڈ سے اُٹھتا صوفے کی طرف بڑھا جہاں سارے شاپنگ بیگ جوں کے توں پڑے تھے انہیں اُٹھانے کی یا کھولنے کی بھی زحمت نہیں کی گئ تھی۔وہ ان بیگ میں سے وہ ساڑھی والا بیگ اُٹھا لایا۔

"یہ میری سنو وائیٹ کے لیے۔" وہ بیگ اس کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔میرو نے ناسمجھی سے اس کی طرف دیکھا۔انہوں نے ساتھ ہی تو ساری شاپنگ کی تھی۔پھر اس میں ایسا کیا تھا۔ میرو نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس شاپنگ  بیگ کو تھام لیا۔اس نے کھول کر دیکھا تو اس میں وہی بلیک ساڑھی تھی جو اسے پسند آئی تھی۔ اس کی آنکھیں خوشی سے چمکی تھی۔

"آپ کو کیسے پتہ کہ مجھے یہ ساڑھی اچھی لگی ہے۔" وہ حیرانگی سے اسے دیکھ کر بولی۔

"میری میرو کو کوئی چیز پسند آجاۓ اور مجھے پتہ نہ چلے ایسا ہوسکتا ہے۔" وہ اس کی حیرانگی بھرے انداز کو دیکھ کر ذرا سا مسکرایا تھا۔

وہ خوشی سے بھرپور انداز میں اس کے گلے میں جھول گئ۔یزدان نے اس کے گرد بازو حائل کرتے اسے خود میں بھینچا تھا۔

"تھینک یو سو مچ۔" وہ گیلی سے آواز میں بولی۔

"ایک آنسو بھی نہیں۔ آج ویسے بھی تم بہت رو چکی ہو۔مجھے لگا تھا میری میرو بڑی ہوگئ ہے مگر تم تو ابھی بھی میری لٹل سی سنو وائیٹ ہو۔" اس کو پھر سے رونے کی تیاری پکڑتا دیکھ یزدان نرمی سے اس کی ٹھوڑی چوم کر بولا۔

"آپ کے لیے میں ہمیشہ وہی میرو رہوں گی جو آپ کی چھوٹی سے چھوٹی بات بھی دل پر لے لیتی ہے۔ جسے آپ کی بےتحاشا محبت کی عادت ہوگئ ہے۔جو آپ کے نرم رویے کی اس قدر عادی ہے کہ أپ کی ذرا سی سختی بھی اس کے اندر ٹوٹ پھوٹ لے آتی ہے۔"وہ اس کے چہرے پر نظریں ٹکاۓ بولتی چلی گئ۔

"اب یہ سیڈ سیڈ باتیں چھوڑو اور یہ ساڑھی پہن کر آؤ میں بھی تو دیکھو یہ تم پر کتنا جچتی ہے۔" وہ خمار آلود انداز میں بہکے بہکے لہجے میں بولا تھا۔اس نے جُھکتے ہوۓ اس کے گال کا نرمی سے بوسہ لیا تھا۔اس کے انداز پر میرو سٹپٹائی تھی۔

"میں چینج کر کے آتی ہوں۔" وہ جو منع کرنے والی تھی اس کی محبوبانہ گرفت سے خود کو چھڑواتی ہوئی بولی۔یزدان نے خاموشی سے اسے چھوڑ دیا۔ اس کا مقصد میرو کی اُداسی دُور کرنا تھا جس میں کافی حد تک وہ کامیاب ٹھہرا تھا۔

دس منٹ گزرنے کے بعد وہ ڈریسنگ رُوم سے باہر آئی تھی۔

"یزدان دیکھیے نا یہ ساڑھی کتنی عجیب ہے پھسلتی ہی جارہی ہے۔وہاں پر لگی اتنی اچھی لگ رہی تھی اب جب پہنی ہے تو اندازہ ہوا ہے کہ یہ بالکل بھی اچھی نہیں ہے۔ میں نے پہلی بار ساڑھی پہنی ہے مگر مجھے اندازہ ہوگیا ہے کہ یہ پہلی بار کے ساتھ ساتھ آخری بار بھی ہے۔" وہ ڈریسنگ سے باہر آتی جھنجھلاتی ہوئی بولی۔ ساڑھی کا ریشمی پلو اس سے سنبھل ہی نہیں رہا تھا۔

یزدان نے نظریں اس کے حسین سراپے پر ٹکائی تھی۔ بلیک کلر کی وہ ساڑھی اس پر بے حد جچ رہی تھی۔ کالے رنگ میں اس کی رنگت چاندی کی طرح دمک رہی تھی۔

یزدان کی نظروں کا ارتکاز خود پر محسوس کر کے وہ گڑ بڑا کر واپس مڑنے کو تھی جب یزدان ایک ہی جست میں اس تک پہنچتا اسے اپنی گرفت میں قید کر گیا۔

"ایسے کیسے میری جان میرے لیے پہنی ہے تو مجھے دیکھنے بھی دو  تم لگ کیسی رہی ہو۔کیا اپنی تعریف نہیں سُننا چاہتی۔" وہ اسے قریب کرتا محبت سے بولا۔

میرو نے محض سر نفی میں ہلایا تھا۔

"تم پہلی بیوی ہوگی جسے اپنی تعریف نہیں سُننی میری ڈول۔ورنہ بیویوں کی کوشش ہوتی ہے اپنے شوہر کی نظریں اپنی طرف مبذول کروانے کی۔ یہاں تو تمہارے شوہر کی نظریں ہمیشہ تمہاری طرف رہتی ہیں۔" وہ اس کےکیچر میں جھکڑے بال کمر پر بکھیرتا ہوا بولا۔

وہ جو پہلے ہی خود میں سمٹی سی کھڑی تھی مزید سمٹ کر رہ گئ۔ وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی مگر اس کے باوجود وہ یہ جانتی تھی کہ وہ اپنی بےباک نگاہیں اسی پر ٹکاۓ کھڑا تھا۔اس کی بےباک نظروں سے چھپنے کے لیے وہ اپنا سر اس کے سینے میں چُھپا گئ۔یزدان نے ہنستے ہوۓ اس کا شرمیلا سا رُوپ دیکھا تھا۔

"مجھے چینج کرنا ہے۔" وہ اس کے سینے پر دباؤ ڈالتی منمنائی تھی۔

"میری شرمیلی سی گڑیا۔" وہ اسے گود میں اُٹھاتا بستر پر لٹاتا خود ساتھ میں لیٹتا اس کا سر اپنے سینے پر منتقل کر چکا تھا۔

"میں جانتا ہوں پچھلے کچھ دنوں سے تمہیں وقت نہیں دے پایا اپنے کام میں اتنا بزی ہوگیا۔ آج کا پلان اسی لیے بنایا تھا تاکہ تمہاری ساری شکایات دُور کرسکوں مگر سب اُلٹ ہوگیا۔مگر پھر بھی ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ اپنا مقام دیکھ لو میری زندگی جو سب اونچا ہے۔میری زندگی میں میرے دل میں داخل ہونے والی پہلی لڑکی ہو اور آخری بھی تم ہی رہو گی۔ تم سے خیانت کبھی کر ہی نہیں سکتا یہ دل کرنے ہی نہیں دے گا۔تم جب چاہو مجھ سے سوال جواب کر سکتی ہوں۔ جب میں نیہا کو اس گھر میں لایا تھا تم نے جواب کیوں نہیں طلب کیا۔ آکر مجھ سے لڑتی اپنا حق طلب کرتی۔تم بیوی ہو میری تمہارا مقام دل کے قریب تر ہے۔" وہ جیسے آج اسے اس بات کا احساس دلانا چاہتا تھا کہ اس کا مقام یزدان آفندی کی زندگی میں کیا ہے۔

یزدان نے ذرا سا اوپر اُٹھتے اس کے گرد ہاتھ ٹکاۓ تھے وہ پوری طرح اس کی گرفت میں قید ہو کر رہ گئ۔

یزدان نے ہر بند توڑتے اس کے چہرے کے خوبصورت نقوش کو چوما۔اس کی سانسوں پر قبضہ جماتے وہ اس کی خوشبو کو خود میں انڈیلنے لگا۔سانسوں کو آزادی بخشتے یزدان نے اس کی ٹھوڑی کو چوما تھا۔اس کی گردن پر جگمگاتا وہ سیاہ تل اس کی توجہ مسلسل اپنی طرف مبذول کروا رہا تھا۔یزدان نے جُھکتے کئ بوسے لے ڈالے۔

اس نے سر اوپر اُٹھاتے اس کی بند پلکوں کو چوما تھا۔میرو نے فوراً سے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تھا۔جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔یزدان نے کندھے پر موجود ساڑھی کے پلّوں پر اپنا ہاتھ رکھا تھا۔وہ اپنے اور اس کے درمیان موجود تمام پردے گراتا اس پر جُھکتا اپنی محبت کی بارش میں بھگونے لگا۔ اس کی گرفت نہایت نرم تھی جیسے وہ کوئی نازک آبگینہ ہو جو اس کے چھونے سے ٹوٹ جاۓ گا۔وہ اپنے لمس سے اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔جس پر وہ یقین لے آئی تھی۔

"احان چھوڑیں مجھے۔ مجھے یزدان بھائی سے بات کرنی ہے۔" وہ اس کی گرفت میں جھٹپٹاتی ہوئی بولی۔جواسے کمرے میں لاتے احتیاط سے بیڈ پر لٹا چکا تھا۔

"میری پٹاخہ سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ شادی شُدہ ہیں ان دونوں کو خود ان کی جھگڑے سُلجھانے دو۔" احان سمجھانے والے انداز میں اس کے بال سنوارتا ہوا بولا۔

"مگر میرو اُداس تھی جب وہ پریشان ہوتی ہے ایسے ہی خود کو کمرے میں بند کر لیتی ہے۔" وہ پریشانی سے بولی اس کے لہجے میں بولتا تفکر میرو کے لیے اس کی محبت کو ظاہر کررہا تھا۔

"میری بےوقوف حسینہ۔یزدان بھائی میرو سے محبت کرتے ہیں ایسے چھوٹے موٹے جھگڑے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر زیادہ بہتر یہ ہے کہ دوسروں کو شامل کرنے کی بجاۓ ایسے معاملات خود سُلجھاۓ جائیں۔اگر ایسے معاملات میں دوسروں کو شامل کیا جاۓ تو معاملات بگڑ سکتے ہیں اس لیے وہ لوگ بہتر جانتے ہیں سمجھی۔" وہ اس کی سر پر ہلکی سی چپت لگاتا ہوا بولا 

نشوہ نے سمجھتے ہوۓ اثبات میں سر ہلایا تھا۔

"تم انہیں موقع دو گی تو ہی وہ ہمیں چاچو چاچی بنائیں گے۔ " وہ شرارت سے اس کا ناک کھینچتا ہوا بولا۔

" تم کتنے بےشرم ہو۔" نشوہ نے جھینپ کر سر جُھکا لیا۔

"ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں۔" وہ اس کے ہونٹوں پر نظر ڈالتا ہوا بولا۔

نشوہ نے سٹپٹا کر اسے پیچھے دھکیلا تھا۔

"خیر وہ تو مجھے چاچو بنا دیں گے تم مجھے پاپا کب بناؤ گی۔" اس کی بات پر نشوہ کا چہرہ حد درجہ سُرخ پڑا۔وہ اس کے سینے میں سر چُھپا گئ۔

ایسے چھپنے چھپانے سے کچھ نہیں ہوگا۔" وہ بات ادھوری چھوڑتا ہوا معنی خیزی سے اسے دیکھ کر بولا۔

احان نے اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں اُلجھاتے اس کی فرار کے سارے راستے مسدود کیے تھے۔

وہ جُھکتا اس کے چہرے کو جابجا چُوم رہا تھا۔اس کی رنگت لہو چھلکانے لگی۔

چہرے سے ہوتا وہ اس کے کندھے پر ہونٹ ٹکا گیا۔وہ اسے مزید نزدیک کرتا باقی رہا سہا فاصلہ بھی مٹا گیا۔

رفتہ رفتہ اس کی مزاحمتیں اس کی باہوں میں دم توڑنے لگیں۔وہ اسے مزید خود میں سمیٹنے لگا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس کی گاڑی حویلی کے آگے رُکی۔اس نے گاڑی سے اُترتے دوسری طرف کا دروازہ کھولا۔انہیں سہارا دے کر اس نے کار سے اُترنے میں مدد دی۔ وہ انہیں احتیاط سے تھامے اندر کی طرف بڑھ گیا۔

وہ ازوہ کو سرپرائز دینا چاہتا تھا۔5r4 اس کے دادا جان کو وہ اپنے ساتھ حویلی لے آیا تھا۔ ان کی طبیعت اب پہلے سے کافی بہتر تھی۔

اندر لاکر اس نے انہیں لاؤنج میں پڑے صوفے پر بٹھا دیا۔وہ وہی کھڑے ازوہ کو آوازیں دینے لگا۔

"ازوہ! جلدی سے نیچے آؤ۔" وہ اونچی آواز میں بولا۔ازوہ اس کی آواز پر ناسمجھی سے نیچے کی جانب آئی۔

"کیا ہو گیا عرید۔۔۔۔۔" صوفے پر موجود ہستی کو دیکھ کر اس کے باقی آواز منہ میں ہی رہ گۓ۔ اس نے بےیقینی سے عرید کی طرف دیکھا۔

آنکھوں میں خود بخود آنسو جھلملانے لگے۔ اتنی دیر بعد کسی اپنے کو صحیح سلامت اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا اس کے لیے معجزے سے کم نہ تھا۔اس کے قدم من من بھر کے ہونے لگے۔

"دادا جان۔۔۔۔۔" اس کے لب بے آواز پھڑپھڑاۓ۔

وہ چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتی ان کے نزدیک تر آگئ۔ دادا جان نے اسے دیکھ کر اپنی بانہیں پھیلا دی تھی۔

"میری گڑیا۔۔۔۔۔۔" وہ اسے سینے میں بھینچے بے آواز رونے لگے۔

عرید کی آواز پر تقریباً سب ہی لاؤنج میں آگۓ تھے۔

وہ ان دونوں کے دیکھ کر آبدیدہ سے ہو گۓ۔سب ہی ازوہ کے لیے خوش تھے اسے اپنا بہت قریبی رشتہ مل گیا تھا۔

ازوہ نے ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی رہی۔

""ازوہ ابھی ان کی طبیعت مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہے انہیں لے کر کمرے میں چلتے ہیں۔" وہ ان کی تھکاوٹ کو دیکھتا ہوا بولا۔

ازوہ نے بھی سمجھتے ہوۓ ہاں میں سر ہلایا۔ عرید انہیں احتیاط سے تھامتا ایک کمرے کے طرف لے گیا۔

دا جان بھی اپنے دوست کی واپسی پر بےتحاشا خوش تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی فریش ہوکر واش روم سے نکلا تھا۔اب وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا اپنے بال سنوار رہا تھا۔

ازوہ نے دروازے کھول کر پہلی نظر ہی اس پر ڈالی تھی۔وہ کس کس طرح اس کا شکر ادا کرتی جو ہر لحاظ سے ایک پرفیکٹ ہزبینڈ تھا۔وہ قدم بہ قدم اُٹھاتی اس کی نزدیک آتی اس کی گلے میں باہیں ڈالتی سر اس کے سینے پر ٹکا گئ۔

عرید نے حیرانی سے اس کا انداز دیکھا۔

"تھینک یو سو مچ۔آپ دنیا کے سب سے بہترین شوہر ہیں۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں۔کوئی اتنا اچھا کیسے ہوسکتا ہے۔" وہ ایڑھیاں اُٹھاتے اس کی گال پر بوسہ دیتی بولی۔

"تم پر اپنی جان بھی لٹا دوں تو وہ بھی کم ہوگی۔تم تو اتنی پیاری ہو جان کہ دل خود بخود تمہاری حمایت کرتا ہے۔" وہ اس کی پیشانی چومتا نرمی سے بولا۔

ازوہ نے چہرے پر مسکراہٹ لاتے اس کا شکریہ ادا کیا۔

"ویسے اگر تم چاہو تو ایک طریقہ ہے شکریہ کرنے کا۔زیادہ کچھ نہیں بس" اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر اس طرف اشارہ کیا۔وہ اس کے گرد گرفت مضبوط کرتا اسے نزدیک کھینچ گیا۔

ازوہ سٹپٹا کر رہ گئ مگر وہ اس کی مزاحمتیں اگنور کرتا اسے اُٹھاتا بستر کی جانب بڑھا۔

بستر پر احتیاط سے لُٹاتے اس وہ اس کے اوپر جُھکتا چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فاریہ کو ہسپتال سے گھر لایا جا چُکا تھا ہر کوئی بےحد خوش تھا۔گھر میں اتنے سالوں بعد خوشیاں آئی تھی داداجان صدقہ و خیرات  دیتے نہیں تھک رہے تھے۔

"صارم ! فاریہ بھابھی کا بےبی کتنا پیارا ہے۔ چھوٹا سا۔" وہ اس کی طرف دیکھتی بچوں سے انداز میں بولی۔

صارم نے اس کا ماتھا چومتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔

"بالکل ہمارا بےبی بھی ایسا ہی ہوگا جان چھوٹا سا بھی اور پیارا بھی۔" وہ مسکراتے ہوۓ پول رہا تھا۔

"صارم وہ تو بالکل چھوٹا سا ہے اگر ہم سے گر گیا پھر۔" وہ پریشانی کے تحت بولی۔

"نہیں گرے گا میری جان بلکہ دیکھنا تم اسے سینے سے لگا کر رکھو گی۔" وہ اسے نزدیک کرتا اس کا سر سینے سے ٹکا گیا۔

"صارم آپ بھی میری مدد کریں گےنا اُسے سنبھالنے میں۔" وہ ایک نیا خدشہ اُٹھاتی ہوئی بولی۔

"بالکل نہیں یار یہ تو عورتوں کا کام ہے بچے سنبھالنا۔" وہ مسکراہٹ دباتا سنجیدہ چہرہ بنا کر بولا۔

"یہ کیا بات ہوئی  وہ آپ کا بھی تو بچہ ہوگا۔" وہ منہ بناتی ہوئی بولی۔

"ہاں مگر میں تو روز کام پر چلا جاؤں گا۔اور آکر اتنی تھکن کے بعد تھوڑی نہ بچے سنبھالوں گا۔ بلکہ آرام کروں کا۔" وہ اس کے چہرے پر چمکتی شرارت کو نہ دیکھ سکی۔ 

"میں پھر آپ سے بات نہیں کروں گی۔" وہ اسے گھورتے ہوۓ بولی۔

"ایسے کیسے بات نہیں کرو گی۔" وہ ایک قدم نزدیک آتا اسے گرفت میں لیتا اسے گُدگُدانے لگا۔

"نہیں صارم نہیں پلیز۔" وہ کھلکھلاتی ہوئی مسلسل اس کی گرفت میں جھٹپٹا کر بولی۔

"جب جب تم مجھ سے بات نہیں کرو گی ایسے ہی تمہیں تنگ کروں گا۔" وہ مسلسل اسے تنگ کرتا ہوا بولا۔

ماہا کی کھلکھلاہٹیں مسلسل کمرے میں گونج رہی تھی۔

"اچھا اچھا بس کریں میں کروں گی آپ سے بات۔" وہ گہرے گہرے سانس لیتی اس کے سینے پر سر رکھتی ہوئی بولی۔

"میں مزاق کررہا تھا میری جان۔ایسا ہوسکتا ہے کہ زندگی کے کسی معاملے میں تمہیں اکیلا چھوڑ دوں۔ یہ بچہ تو ہم دونوں کی ذمہ داری ہوگا۔میری اولاد کو اس دنیا میں لا رہی ہو یہ بہت بڑی بات ہے۔خود سے زیادہ خیال رکھوں گا تم دونوں کا۔" وہ اسے نزدیک کرتا محبت سے اس کی پیشانی چُوم کر بولا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فائزہ بیگم لان کےایک کونے میں گُم سُم کھڑی تھی حارث صاحب کو سمجھ نہ لگی وہ وہی کھڑے رہیں یا ان کے پاس چلے جائیں۔ان کے سامنے جاتے انہیں بےتحاشا شرمندگی ہورہی تھی۔

سمجھ ہی نہیں لگ رہی تھی کس منہ سے معافی مانگیں۔وہ خود میں ہمت جٹاتے چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ان کے نزدیک کھڑے ہوچکے تھے۔

فائزہ بیگم نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور جلدی سے گالوں پر بہتے آنسو صاف کیے۔

"جی کچھ چاہیے تھا۔" وہ سنجیدگی سے سر جُھکا کر بولیں۔ان کا سُرخ چہرہ اس بات کا گواہ تھا کہ وہ کافی دیر روتی رہیں ہیں۔

"فائزہ ! مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔" وہ ہمت مجتمع کرتے بول اُٹھے۔

فائزہ بیگم نے جُھکا سر اُٹھا کر سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔

"میں تم سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ جانتا ہوں میرے گناہ اس قابل نہیں کے معاف کیے جائیں مگر میں پھر بھی ایک کوشش کرنا چاہتا ہوں۔اگر کسی کے ساتھ ناانصافی کی ہے تو وہ تمہاری ذات ہے۔ اپنی ناکامیوں کا بدلہ تم سے اور اپنی ہی اولاد سے لیتا رہا۔ اب سوچتا ہوں تو شرم أتی ہے۔" وہ بولتے بولتے نظریں جُھکا گۓ۔

فائزہ بیگم کا چہرہ اب بھی سپاٹ تھا۔

"بہت خوب ایک عُمر گزار دی اب آپ کو یاد آیا کہ آپ نے میرے ساتھ غلط کیا۔ میری ساری زندگی آنسوؤں میں گزر گئ اب آپ کی معافی کا کیا کروں گی۔"وہ طنزیہ نظریں ان پر ٹکا کر بولی۔

"جانتا ہوں کہ معافی کہ قابل نہیں ہوں۔" ابھی وہ بول ہی رہے تھے جب وہ ان کی بات درمیان میں کاٹ چکی تھی۔

"نہیں جانتے آپ کچھ نہیں جانتے۔ کس تکلیفوں میں زندگی گزاری ہے۔میرا بچہ صرف آپ کی وجہ سے مجھ سے دُور رہا کس کس بات کی معافی مانگیں گے۔" وہ ان کی بات کاٹتی چلاتی ہوئی بولی۔

"پلیز فائزہ مجھے معاف کردو۔ میں بہت تکلیف میں ہوں تم اگر کہہ دو گی تو شاید کچھ سکون آجاۓ۔ میرا ضمیر مجھے مسلسل کچوکے لگا رہا ہے۔" وہ بےبسی سے ہاتھ جوڑ کر بولے۔

"ایک بات بتائیں۔آپ کے ساتھ گزرے ہوۓ لمحوں میں سے کوئی ایک ایسا لمحہ بتا دیں جو اچھا گزرا ہو۔ جسے میں ہنستے ہوۓ گزارا ہو شاید اس ایک لمحے کے صدقے آپ کو معاف کردوں۔ یاد آیا کوئی پل کوئی لمحہ۔ نہیں نا أۓ گا بھی کیسا کوئی اچھا پل گزرا ہوگا تو یاد أۓ گا۔ میں اب تک یہاں ہوں تو صرف اپنے بچوں کی خاطر۔اب آپ معافی کی بات کر رہے ہیں۔ میرا دل میں آپ کے لیے رتی برابر بھی گنجائش نہیں ہے۔ تو بولیے کیسے معاف کردوں۔اگر آپ چاہتے ہیں تو منہ سے اقرار کرلوں تو ٹھیک ہے میں کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میں نے أپ کو معاف کیا مگر میں دل سے آپ کو کبھی معاف نہیں کرپاؤں گی۔ شاید چند سالوں بعد یہ گنجائش نکل آۓ مگر ابھی بالکل نہیں۔" وہ انہیں

 وہی چھوڑ کر اندر کی طرف بڑھ گئ۔

پیچھے وہ اپنے خالی ہاتھ کو دیکھ کر رہ گۓ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے کچھ دنوں سے اس کی طبیعت گری گری تھی مگر اس نے اگنور کیا۔ مگر آج ماہ نور کے اصرار پر وہ یزدان کے ساتھ قریبی ہسپتال میں چیک اپ کروانے آئی تھی۔

ہسپتال کے باہر گاڑی رُوکتے وہ اس کاہاتھ تھامتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔

وہ اسے ایک بینچ پر بٹھاتا خود ریسیپشن کی طرف بڑھ گیا۔وہ اپنی اپائنٹمنٹ کے بارے میں بتا رہا تھا جو أج صُبح ہی ماہ نور نے فائنل کی تھی۔

میرو سر جُھکاۓ بیٹھی تھی جب کسی کی نظریں اس کے حسین چہرے سے ٹکراۓ تھی۔ ان نظروں میں اس کے لیے حسد، غصّہ نفرت اور ناجانے کیا کیا تھا۔

یزدان نے اس کے نزدیک آتے اس کا ہاتھ ایک بار پھر تھاما تھا۔اسے لیے وہ سامنے والے کیبن میں گُم ہوگیا۔

اس نے نفرت سے ان کی پُشت کو دیکھا تھا۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں باہر آۓ تھے یزدان کے چہرے پر زندگی سے بھرپور مسکراہٹ تھی اور میرو کے چہرے پر شرمیلی سے مسکان۔جسے دیکھ کر کچھ دُور کھڑے وجود کی آنکھوں میں شعلیں سے لپکنے لگے۔ ان کے چہروں کی مسکان نے اچھے سے اسے سارا معاملہ سمجھا دیا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان کے چہروں سے وہ مسکان نوچ ڈالے۔

وہ وجود اور کسی کا نہیں وردہ کا تھا جو اپنا چیک اپ کروانے ہسپتال آئی تھی مگر انہیں یہاں دیکھ اس کے غُصّے میں اضافے ہونے لگا تھا۔ وہ اپنی زندگی میں اکیلی رہ گئ تھی۔پھر کیسے کسی اور کو خوش دیکھ سکتی تھی۔

میرو اور یزدان ہسپتال سے نکل کر باہر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گۓ۔

"شکریہ میری جان اتنی اچھی خبر دینے کے لیے۔میری زندگی کو مکمل کرنے کے لیے۔" وہ اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں قید کرتا محبت سے بولا۔

میرو نے آسودگی سے مسکراتے اس کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وردہ ہسپتال سے نکلتی اپنے گھر آگئ تھی۔ غُصّہ اس کے انگ انگ سے ظاہر تھا۔

"سامان پیک کرلو بہت جلد ہم یہاں سے شفٹ ہورہے ہیں۔" اس کو سیڑھیوں کی طرف بڑھتا دیکھ اس کی ماں اسے پیچھے سے ٹوک گئیں۔

"آپ کو جہاں جانا ہے جائیں مگر میں کہیں نہیں جاؤں گی۔" وہ مڑتے ہوۓ غُصّے سے بولیں۔

"تم سے پوچھا نہیں بتایا ہے۔اپنی بکواس بند کرکے جو کہا ہے وہ کرو پہلے ہی تمہیں کافی ڈھیل دے چکی ہوں اگر ٹائم پر ہی تمہاری لگام کسی ہوتی تو اس بدتمیزی کا خیال کبھی بھی تمہارے دل میں نہ آتا۔" وہ غُصْے سے انگلی اُٹھاتی وارن کرنے والے انداز میں بولی۔

"جلدی سے سامان پیک کرلو۔اب میں کچھ نہیں سنوں گی پہلے ہی تم مجھے اچھا خاصا شرمندہ کر چکی ہو۔ تمہاری بےشرمی نے کہی منہ دکھانے کے قابل نہیں چھوڑا۔لوگوں سے  نظر ملانے کی ہمت نہیں ہے۔ اس سے پہلے کے بات سارے محلے میں پھیل جاۓ۔ ہمارے لیے یہی اچھا ہے کہ ہم یہاں سے چلے جائیں۔میں فیصلہ کر چکی ہوں مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔" وہ سختی سے اسے تنبیہ کرتی وہاں سے نکلتی چلی گئ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ اپنے ڈیڑھ ماہ کے شہزادے کو اُٹھاۓ اِدھر سے اُدھر ٹہل رہی تھی جو چُپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا مسلسل یہاں وہاں ٹہلتے اب اس کی ٹانگیں شل ہونے لگی تھی۔

"چُپ کر جاؤ میرے چاند۔پلیز مما کو تنگ مت کرو میں بہت تھک گئ ہوں۔" وہ اسے تھپکتی چُپ کروانے کی کوشش کررہی تھی۔ اندر آتے ہشام نے اس کا جملہ سُنا تو وہ بھرپور انداز میں مسکرایا۔

"شرارتی اپنی ماں کو تنگ کرتے ہو۔" وہ نزدیک آتا اس کا ہاتھ سے اپنا بیٹا تھام چُکا تھا۔

اس نے جُھکتے ہوۓ فاریہ کا ماتھا چوما۔

" تھوڑی دیر بیٹھ جاؤ۔کب سےاسے سنبھال رہی ہو تھک گئ ہوگی۔" وہ نرمی سے کہتا فاریہ کو بےتحاشا اچھا لگا۔

"آپ بھی تو تھکے ہوۓ آۓ ہیں لائیں مجھے دیں آپ فریش ہوجائیں اور کچھ دیر آرام کرلیں۔" وہ اس کی ٹھکاوٹ کے خیال سے بولی۔

"نہیں میں ٹھیک ہوں یہ صرف تمہاری ذمہ داری نہیں بلکہ میری بھی ذمہ داری ہے۔" وہ مسکراتا ہوا بولا۔

فاریہ سر ہلاتی جاکر بیڈ پر بیڈ گئ۔

اب وہ مسکراتی ہوئی ان باپ بیٹوں کے محبت بھرے مظاہرے ملاحظہ کر رہی تھی۔وہ اِدھر اُدھر ٹہلتا اسے بہلاتا اسے چُپ کروانے کی کوشش کررہا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہسپتال پر بستر پر وہ بے سُدھ پڑی تھی۔دیوائیوں کا اثر کم ہونے لگا تو اس نے آنکھیں کھول کر اِدھر اُدھر دیکھنا چاہا۔

اس نے مندی مندی آنکھوں سے اردگرد کا جائزہ لیا وہ ہسپتال میں موجود تھی۔یکدم ہی اسے اپنے اندر خالی پن کا احساس محسوس ہوا۔

اس کا دل کسی انہونی کے خیال سے دھڑکنے لگا۔ابھی وہ اسی پریشانی میں مصروف تھی جب اس کا شوہر دروازہ دھکیلتا اندر کی طرف آیا۔

"سُنیے۔میرا بچہ۔" اس کےلبوں سے یہ چند الفاظ بمشکل ادا ہوۓ۔

"مار دیا تم نے قاتل ہو تم ہماری اولاد کی۔اب خوش ہو اس کانٹے کو نکال کر۔تمہارے لیے کانٹا ہی تھا نا۔" وہ بول نہیں رہا تھا بلکہ طنز کے تیر پھینک رہا تھا۔

اس نے بےبسی کے احساس سے نفی میں سر ہلانا چاہا۔ اسے معلوم تھا ساری غلطی اسی کی ہے یہ سارا کچھ اسی کی وجہ سے ہوا تھا۔

"تم نے کفرانِ نعمت کی تھی تو خدا نے تم سے وہ نعمت چھین لی۔" وہ اپنی بات مکمل کرتا خاموش ہوچکا تھا۔

ہسپتال کے کمرے میں اس کی دبی دبی سسکیاں گونج رہی تھیں۔مگر اسے خاموش کروانے والا ایک سائیڈ پر لاپرواہ سا کھڑا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج وہ سارے ایک گیٹ ٹو گیدر کر رہے تھے کافی وقت ہوگیا تھا سب کو ملے اسی لیے سب نے اس چھوٹی سی تقریب کا انعقاد کیا۔

فاریہ کا بیٹا چار ماہ کا ہو گیا تھا۔میرو اور یزدان نے انہیں بھی ڈنر پر انوائٹ کیا تھا۔وہ دونوں تیار ہوتے آفندیوں کے حویلی کی جانب بڑھ گۓ۔

صارم اور ماہا نے اپنے فلیٹ سے ہی وہاں پہنچنا تھا۔

ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حویلی کے باہر موجود تھے۔

صارم اور ماہا پہلے سے وہاں موجود تھے۔وہ سب سے ملتے ان کے درمیان بیٹھ چکےتھے۔

صارم ماہا کے ساتھ ساتھ میرو اور نشوہ بھی اس چھوٹے سے گُل گھوتھنے کو اُٹھانے کے لیے بےقرار تھے۔لاؤنج میں مختلف آوازیں گونج رہی تھی۔ ایک طرف مرد حضرات اپنی گفتگو میں مصروف تھے تو دوسری جانب عورتیں اپنی گفتگو میں مگن تھی۔ 

یر کسی نے اپنے اپنے حصّے کے غم کاٹے تھے بالآخر سب کو ان کی خوشیاں نصیب ہوچکی تھیں۔

شیریں نے اپنی زندگی میں بےتحاشا تکلیفیں برداشت کیں ان کا صبر خدا کو پسند آگیا اور انہیں اپنوں کا ساتھ نصیب ہوگیا۔

شہیر اور شیریں نے بہت سی آزمائشوں کا مقابلہ کیا تھا۔مگر اب وہ دونوں اپنی زندگی میں مطمئن تھے ان کے بچے اپنی اپنی زندگی میں خوش تھے اور بھلا انہیں کیا چاہیے تھا۔

زومیرہ آفندی نے اپنی زندگی میں تکلیفوں کو سہنے کے باوجود بڑے صبر کا مظاہرہ کرکے اپنے گنہگار کو معاف کردیا۔اس کی ایک معافی ان دونوں کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر گئ تھی۔

یزدان آفندی چھوٹی چھوٹی بات پر غُصّے کرنے والا اپنے غُصے میں وہ اپنی زندگی کا بہت غلط فیصلہ کر گیا تھا۔ اسی لیے تو غُصّے کو اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔اسے زندگی نے سب کچھ سُدھارنے کے لیے دوسرا موقع دیا تھا اس موقعے کا فائدہ اُٹھاتے اس نے اپنی زندگی کو سُدھار لیا تھا۔

فاریہ لاشاری مسلسل دُکھوں کی چکی میں پِستی رہی مگر کسی ایک پل بھی اس کا ایمان نہیں ڈگمگایا جس نے اپنے شوہر سے سچی محبت کی اور اسے ثابت بھی کیا۔

ہشام لاشاری انا کی قید میں بند مغرور شہزادہ جسے زندگی نے بڑی زور کے تھپڑ مارا کہ اس کی ساری انا ساری اکڑ بہتی چلی گئ۔انسان مٹی کا پُتلا یہ غرور تکبر اس کے لیے بنا ہی نہیں ہے۔اس نے اپنی زندگی میں ایک بات سیکھ لی تھی کہ جُھکنا سیکھ لو جتنا انسان اس غرور تکبر کو چھوڑک کر جُھکتا ہے اُتنا ہی اس خدا کی ذات کے قریب تر چلا جاتا ہے۔

ازوہ آفندی جسے اس کی محرم رشتے نے ہی بیچ چوراہے میں لا پھینکا۔جس کا نکاح جیسے خوبصورت بندھن سے یقین سا اُٹھ گیا مگر اسے کیا معلوم تھا خدا اسے آزمانا چاہتا تھا۔ اس آزمائش میں وہ پوری اُتری تو خدا نے اسے اپنے انعام سے نوازا تھا ایک مخلص ہمسفر کے طور پر ملنا والا یہ انعام ازوہ کو خود بھی بہت پسند تھا۔

عرید آفندی عاجزی اور مخلصی کا پیکر جو اپنے سے جڑے ہر ڑشتے کو نبھانا جانتا تھا۔اپنے سے جُڑے ہر رشتے کو تحفظ دینا اس کی اولین ترجیح تھی۔اپنے ملک و قوم پر جان نچھاور کرنے والا سچا سپاہی۔

احان آفندی جس نے بچپن سے محرومیاں دیکھی تھی۔جسے کسی کی مخلص محبت نصیب ہی نہ ہوئی۔ لیکن جب یہ معافی کے مخلص جذبے سے جڑا تو اس کی زندگی سنور گئ۔

نشوہ آفندی ایک چُلبلی مگر مضبوط کردار لڑکی اپنے حجاب سے محبت کرنے والی۔حسد سے کوسوں دُور نرم دل سچا سا کردار۔

صارم لاشاری اپنے غم اپنے تک رکھنے والا۔اس کا صبر اتنا لاجواب تھا کہ اس کی زندگی میں معجزے کی صورت اس کی محبت اسے مل گئ۔اپنی محبت کو رسوا کرنے کی بجاۓ اس نے رب کے حضور اپنی عرضی خاموشی سے رکھ دی۔

ماہا لاشاری چُپ چاپ باپ کے سامنے سُر جُھکانے والی مشرقی لڑکی۔اسے آزادی نہیں مخلصی چاہیے تھی۔ اپنے ہمسفر کے لیے اپنے دل میں سچی محبت رکھنے والی۔ سیدھی سادی۔ دنیا کے چالاکیوں سے پاک معصوم سا وجود۔

ہر کردار اپنے اندر ایک کہانی سمیٹے ہوا تھا۔ جیسے ہی سب نے عاجزی اختیار کرلی ان کی محبت ان کی محرم بنا دی گئ.سب کو اپنی اپنی منزل مل گئ تھی۔

ختم شُد۔۔۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Khumar E Junoon Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel  Khumar E Junoon written by Minal Mehar . Khumar E Junoon by Minal Mehar  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages