Qurbaton Se Aagy By Raqas E Bismal Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Qurbaton Se Aagy By Raqas E Bismal Complete Romantic Novel |
Novel Name: Qurbaton Se Aagy
Writer Name Raqas E Bismal
Category: Complete Novel
یہ سہپر کا وقت تھا جب وہ اپنے ھاسٹل کے روم میں کرسی پہ ٹیک لگائے اداس سی بیٹھی تھی۔
رات والے ہوئے واقعے کو سوچ سوچ کر اداس ہورہی تھی۔کاش وہ ولا میں ٹیوشن پڑھانے پر راضی نہ ہوتی۔تو نہ اس مغرور شخص کو دیکھتی نہ اس سے ملتی۔۔۔اس کی زندگی نے تب سے پلٹا کھایا تھا۔ جب سے وہ شخص ٹکرایا تھا۔وہ جتنا اس سے دور بھاگنا چاھتی تھی۔ھر موڑ پر وہ اس سے آ ملتا تھا۔
ٹون۔۔۔ٹون۔۔۔سیل کی وائبریشن پر وہ چونکی۔فون پر اس کی یونی کے پرنسپل نے اسے آفیس آنے کو کہا تھا۔ وہ اٹھی۔اور ویسے ہی آفیس جانے کو باہر نکل آئی۔کچھ دیر میں ہی وہ ناگواری کے تاثرات کے ساتھ پرنسپل کی آفیس میں داخل ہوئی، پرنسپل بلال اخوند اپنے شاندار آفیس میں گھومتی کرسی پر بیٹھا آن عصمت کے دلکش چہرے کو گھورتے، چشمے کے پیچھے طنزیہ نظروں سے خیر مقدم کیا ۔
"آنیہ عصمت،میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم ایک نہایت قابل اسٹوڈنٹ ہو۔تمہاری سالانہ کارکردگی کا متعرف ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی مانتا ہوں کہ تم ایک خوبصورت لڑکی ہو، لیکن افسوس ۔۔۔کہ میرا خاندان ایک "یتیم اور بے سہارا لڑکی" کو اپنی بہو بنانے میں دلچسپی قطعی نہیں رکھتا،
سو ۔۔" کچھ پل رک کر اسے جانچتی نظروں سے گھورا "میں تمہارے آگے دو آپشن رکھتا ہوں،پہلے نمبر پر اسٹیڈی کے بعد یہاں جاب کرنے کی آفر دیتا ہوں۔ یا۔۔۔۔۔ پھر میرے بیٹے "حان حارث" کا پیچھا چھوڑ دو۔"
آن کی نیلی آنکھوں میں کوئی بھی تاثر نہیں تھا۔ وہ بنا تاثر کے اس کی بات سنے گئی۔جب پرنسپل نے بات ختم کی تو آن نے سرد لہجے میں زور دے کر کہا ۔ "میں یتیم نہیں ہوں سر۔"
"لیکن میرے لئے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔"۔وہ نخوت سے اسے دیکھ کر جلدی میں بولا تھا ۔
اس کے بے حس جملے پر آن نے اپنی مٹھیوں کو بھینچ لیا۔ ویسے بھی اسے اس جاب کی شدت سے ضرورت تھی، اور یتیم ہونا بحرحال کسی کی ناجائز بیٹی ہونے سے کہیں بہتر تھا، کیا ایسا نہیں ہے؟اس نے خود سے پوچھا۔۔فیصلہ لمحے میں ھوگیا۔
تبھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مضبوط لہجے میں بولی۔
"میں یہاں جاب کرنے کا انتخاب کرتی ہوں سر ۔"
بلا اخوند اس کا جواب سن کر کافی حیران ہوا۔ وہ واقعی اس جواب کی توقع نہیں رکھتا تھا۔وہ سمجھ رہا تھا یہ لڑکی اس کے بیٹے کے پیچھے ہے۔تو اس کا انتخاب ہی کرے گی۔لیکن۔۔۔
"اور ایک بات۔۔۔ملازمت ملنے کے بعد تم اپنے فیصلے پر پچھتاؤ گی نہیں ۔نہ ہی اپنی بات سے پھرو گی۔"بلال اخوند نے جیسے اس کا گلٹ جاننا چاہا۔
"اگر آپ کو یہ ڈر ہے کہ مجھے پچھتاوا ہو گا۔یا اپنی بات سے مکر جاؤں گی تو ، میں ابھی آپ کو ایک اسٹمپ پیپر لکھ کر دے سکتی ہوں ،کہ میرا آپ کے بیٹے حان حارث سے آج سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔"آن کا لہجہ بحرحال فیصلہ کن اور مضبوط تھا۔
"خوب ، بہت خوب۔ پچھلے دو سالوں کے دوران ، میں نے تمہیں کافی اہمیت دی تھی۔ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھا تھا، اب جب کہ تم فارغ التحصیل ہونے والی ہو ، اور میرے بیٹے کے آگے بھی روشن مستقبل ہے۔ اسی لیئے، میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنے الفاظ کا پاس رکھو گی لڑکی۔ "بلال اخوند نے اس سے لگے ہاتھوں وعدہ لیا تھا۔شاید اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کی خوبصورتی کے آگے اس کا بیٹا پھر سے نہ مرمٹے۔
"اور میں۔۔۔یقیناََ اپنے الفاظ کا پاس رکھوں گی۔"
آن نے کافی برداشت سے کہہ کر اس کے سارے وہم اپنے جملے سے ختم کردئے۔
جب وہ آفیس بلڈنگ سے باہر نکلی تو باہر کافی بارش ہورہی تھی۔۔ موسم تو کئی دن سے مون سون کی بارش آنے کی نوید دے رہا تھا اور آج صبح سے بھرے ہوئے بادل زور سے گرج کر برس رہے تھے۔آن نے بے اختیار منہ اوپر اٹھا کر تیز برستی بوندوں کو اپنے چہرے پر محسوس کیا،
ایک بارش اس کے اندر ہورہی تھی، اور۔۔۔ ایک بارش باہر ہورہی تھی، بس فرق صرف اتنا تھا، کہ اندر کی بارش نظر نہیں آرہی تھی۔۔
وہ بارش میں تیزی سے بھاگنے لگی ۔۔جیسے اپنے اندر کی تکلیفوں سے پیچھا چھڑانا چاہ رہی ھو۔۔
اس کا منگیتر بھی چلا گیا۔اور شاہ فیملی کی ٹیوشن بھی اس نے ڈر سے چھوڑ دی تھی، سو اب اس کے پاس باقی کھونے کو کچھ نہیں رہا تھا۔کیسے سروائیو کرے گی وہ؟
جب وہ یونی کے گیٹ کے پاس پہنچی، تو ایک جانی پہچانی سی کار اس کے تقریبا قریب آکر رک گئی۔
کار کا دروازہ کھلا اور ایک جوڑا باہر نکلا۔
مرد نے عورت کے اوپر چھتری تانی ہوئی تھی۔
وہ رک گئی اور تقریبا مڑ کر انہیں دیکھنے لگی، لڑکی تیز آواز سے پکارتی ہوئی اس کے طرف بڑھی۔
"آن۔۔۔آنیہ رکو۔"
لڑکی اس کے طرف بھاگتی آئی تھی، اس کی آنکھیں نم تھیں۔اور اس کے دونوں ھاتھ زبردستی گرفت میں لئیے۔
"آن ، آئی ایم سوری، یہ ساری میری غلطی ہے، تم اس کے لئے مجھے مارو، ڈانٹو۔"
پاس کھڑا مرد جلدی سے آگے بڑھ آیا اور چھتری دونوں لڑکیوں کے اوپر تان کر بارش سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔وہ بھی آن کو شرمندگی سے دیکھنے لگا۔
"آن ، مجھے بلکل نہیں پتا کہ کل سب کیسے ہوا تھا؟ میں۔۔۔۔۔"وہ جھجھک کر رک گئی۔سچ کہنے سے ہچکچاہٹ ہوئی۔
"آنیہ ۔۔۔ آئی ایم سوری ۔۔یہ میری غلطی ہے ۔۔۔تم مجھے ڈانٹو۔۔۔بھلی مجھے مارو۔۔۔"اس نے آنیہ کے ہاتھوں پر گرفت مضبوط کرلی۔۔بارش اب بھی مسلسل ہورہی تھی۔لیکن۔۔اس میں تیزی کم ہوگئی تھی۔آنیہ مکمل بھیگ گئی تھی۔ہلکی ہلکی سرد لہروں سے کپکپا رہی تھی۔
وہ مرد آنیہ کو ہی دیکھے جارہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خاموش شرمساری صاف دیکھی جاسکتی تھی۔جیسے اسے پچھتاوہ سا ہو۔
" آن۔۔۔، مجھے واقعی میں نہیں معلوم تھا کہ کل رات سب کیا ہوا تھا ؟"لڑکی نے پھر سے دہرایا۔
ان دونوں کی طرف دیکھ کر آن کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ "روئے یا ھنس دے"
کہانی کا پلاٹ بہت ہی غیر افسانوی تھا۔ اس نے سوچا کہ ایسا صرف کہانیوں یا افسانوں میں ہوتا ہوگا۔
ایک طرف اس کا سو کالڈ منگیتر تھا۔ تو دوسری طرف اس کی دوست اور روم میٹ تھی ۔
افسوس کی بات یہ کہ دونوں ہی نے آنیہ کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔وہ بھی آنیہ عصمت کی پیٹھ پیچھے۔۔۔۔۔کمال ہے۔(اس نے سوچا)
اور جب اسے یہ بات پتا چلی تب اس نے غصے میں حان سے جھگڑا کیا تھا۔اس میں غلطی پتا نہیں کس کی تھی ؟؟ اس کی جذباتیت کی ؟ جو وہ برداشت نہ کرسکی ۔۔یا۔۔۔اس کی قسمت کی؟؟جو جس سے بھی وہ محبت کرتی تھی وہ اسے چھوڑ جاتا تھا۔پہلے اس کی ماں۔۔۔۔پھر منگیتر۔
آن نے اس کو نظرانداز کردیا ۔۔۔اور حان کے طرف سرد نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"حان حارث کیا تم جانتے ہو۔۔۔ میں نے ساری دنیا کے لوگوں میں سے صرف تم کو کیوں پسند کیا تھا؟"
حان حارث کی شرمندگی سے نظریں جھک گئیں اور کچھ بھی نہ کہہ سکا ۔۔اسکے پاس الفاظ ہوتے تو وہ بولتا نا۔۔سوائے ندامت سے نظریں جھکائے رکھنے کے بچا ہی کیا تھا حان حارث کے پاس۔۔
اسے سر جھکائے دیکھ کر آن ہلکا سا مسکرائی " کیونکہ تم کو میں نے سب سے مختلف پایا تھا۔تم نے بھی کہا تھا میں دنیا کی ھر عورت سے مختلف ہوں۔اور میں ایمان لے آئی ۔" وہ طنزیہ ھنسی۔"تم نے کہا مجھے دیکھ کر تمہیں زندگی کا احساس ہوا ہے۔۔۔ہاں۔۔اس پر بھی میں نے یقین کرلیا۔اور اس یقین کے راستے پر آنکھ بند کرکے قدم رکھ دیئے تھے۔۔۔" اس نے اسے تاسف سے دیکھا۔حان شرمندہ سا ہوا۔۔ یہ سچ تھا۔۔۔
حنیم جلدی سے آگے بڑھ آئی ایسے کہ ان دونوں کے بیچ حائل ہوگئی ۔ تاکہ دونوں ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں۔
"آن یہ میری غلطی سے ہوا ہے میں نے ہی حان حارث کو اپنے طرف مائل کیا تھا۔۔۔ حان کا اس میں کوئی قصور نہیں ۔۔یہ بے قصور ہے، اسے۔۔۔اسے الزام مت دو۔ "
اس کی بات پر آن نے خود کو بمشکل پرسکون رکھا۔
"ہر ایک کو اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔"
اس نے سرد نظروں سے حان کو دیکھا۔
"اور تم کو اس کی قیمت۔۔۔ضرور ادا کرنی پڑے گی۔
تمہارا شکریہ۔۔۔۔جو تم نے مجھے یہ بتادیا دیا۔۔۔ کہ ہر آدمی ایک ویسا نہیں ھوتا۔۔۔ جیسا ظاہر کرتا ہے۔۔۔۔ہے نا؟ "اس نے دونوں کو ساتھ کھڑے دیکھ کر کچھ پل تکلیف سے آنکھیں بند کرلی۔دونوں کو ساتھ تصور کرنا اب مشکل تھا آنکھوں میں جلن سی ہوئی۔
"تمہارا شکریہ ۔۔اب شاید ہی میں کسی مرد پر اعتبار کرسکوں۔ " اس کا لہجہ افسردگی لیئے ہوئے تھا۔
"م۔۔۔مجھے معاف کردو آن۔۔۔"
حان کا لہجہ معافی تلافی لیئے ہوئے تھا۔
اس کی بات پر آن نے ایک ٹھنڈی سانس بھری ۔ اور نفی میں گردن ہلائی۔
اور پھر۔۔ہلکا سا مسکرائی۔" حان حارث۔۔۔،تمہیں بلکل بھی اب مجھ سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اب تم میرے لیئے ایک اجنبی شخص ہو۔ سڑک پر چلنے والا غیر اہم اور اجنبی۔۔۔ جس کی اوقات یہ ہوتی ہے کہ بنا دیکھے بس گذر جاؤ۔
اور تم۔۔۔۔۔"
اب وہ حنیم کی طرف مڑی۔
" اس لمحے سے۔۔۔۔جس لمحے تم حان کی جانب بڑھی۔۔۔اس لمحے سے تمہاری میری دوستی کا خاتمہ ہوچکا۔۔۔ اب مجھے تم جیسی مفاد پرست لڑکی کی ضرورت نہیں۔۔۔ میں تم سے بات کرنا تو درکنار۔۔۔ دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی۔"اس کا لہجہ سخت اور آواز پست تھی۔
"جاؤ حنیم ۔۔۔میں نے اسے تم کو بخش دیا۔۔۔اب آخری گذارش ہے۔۔ براہ مہربانی آئیندہ یہ دکھاوا مت کرنا کہ تم مجھے جانتی ہو۔۔۔
میں اپنا قیمتی وقت۔۔۔۔ تم جیسیوں سے دوستی میں برباد نہیں کرسکتی۔"وہ ان دونوں کے شرمسار چہرے دیکھنا نہیں چاھتی تھی۔سو دوسری طرف دیکھنے لگی۔
"میرا خیال ہے۔۔۔اب ہمیں واپس جانا چاہئے۔۔۔ وقت سب کا قیمتی ہے۔" یہ کہتے وہ حنیم کے کان کے قریب جُھکی اور سرگوشی میں کہا۔" یہ بارش اور حان حارث کا ساتھ مبارک ہو۔۔۔ ھیو اے فن ود حان۔" تلخ لہجے میں کہا۔
اور تیزی سے گیٹ سے باہر نکلی تھی۔بارش کی تیزی سے برستی بوندوں نے اسے مکمل بھگو دیا تھا وہ بھت کنفیوز ھوگئی تھی۔ اس لیئے اس بلیک کار کو بلکل بھی نہ دیکھ سکی جو سامنے تیزی سے آئی تھی۔اس نے اسے بارش کی بوچھاڑ میں بلکل بھی نہیں دیکھا۔
تبھی سیدھی گاڑی سے تقریباً لگ ہی چکی تھی۔
پھر فضا میں بارش کی تیز بوچھاڑ کے ساتھ نسوانی چینخ بھی ابھری تھی۔وہ ایک ہی جھٹکے سے نیچے فرش پر آرہی تھی۔
آن کو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ لنچ جس شخص کے ساتھ تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ایک خوبصورت طرح دار خاتون تھیں۔۔
وہ عورت یہ دیکھ کر، کہ علیدان شاہ اپنے ساتھ ایک پیاری سی ،نازک سی لڑکی کو تقریبا اپنے بغل سے لگائے آرہا ہے۔ بری طرح چونک گئی۔۔پھر یکدم ہی اس کے ہونٹ زبردستی کی مسکراہٹ میں ڈھلے(بلاشبہ وہ ایک بھترین اداکارہ تھی جو اپنے تاثرات کو مسکراہٹ کے مصنوعی پردے میں چھپانا جانتی تھی) لیکن عجیب بات کہ اس کی آنکھیں۔۔ اس کی مسکراہٹ کا ساتھ دینے میں بری طرح ناکام رہیں۔
"علیدان یہ۔۔۔۔؟"جلد ہی اس نے حیرت پر قابو پالیا تھا۔۔
علیدان شاہ نے لاشعوری عادت کے مطابق اپنے لب بھینچے۔۔"یہ مدھان کی ھوم ٹیوٹر مس آن ہیں۔۔ پلیز کال ہر مس آن۔"
یہ سن کر وہ خوبصورت عورت ہلکا سا مسکرائی۔"اوھ تو یہ مس آن ہیں ۔۔؟ ھیلو مس آن ۔۔۔آئی ایم نکھت۔۔"۔
آن نے سر کو ھلکی سی جنبش دی "ھیلو مس نکھت۔"
"پلیز ھیو اے سیٹ "۔۔ علیدان نے کرسی کھینچ کر پہلے آن کو بٹھایا۔۔ پھر خود بھی تقریبا لگ کر ساتھ بیٹھ گیا۔
یہ سب نکھت نے سرد نظروں سے دیکھا۔
نکھت نے علیدان کو دیکھا اور پھر آن کو ۔۔ پھر دھیمے سے گویا ہوئی۔۔
"مجھے یہ ہی پریشانی کھا رہی تھی کہ آپ کو لنچ کے لئے مدعو کرنے سے کہیں آپ کا کام نہ متاثر ہوجائے۔"
"نو پروبلم۔۔۔ ، لیکن میں یہاں مس آن کو لے کر آیا ہوں ، امید ہے آپ کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ آل رائیٹ؟؟ کہ میں پہلے مس آن سے ملا۔۔"
نکھت نے سر ہلایا۔ اور ہلکا ھنس دی۔
" نہیں ھوگا۔۔"شانے اچکا کر مصنوعی مسکراہٹ سجالی۔
"اگر مس آن کو برا نہ لگے تو اپنی پسند کا آرڈر دے میں بیرے کو مینو لانے کے لیئے بھیج دیتی ہوں،اصل میں ،میں نے سارا کھانا ہی علیدان کی پسند کا آرڈر کیا ہے ہوسکتا ہے۔ وہ مس آن کو پسند نہ آئے۔" یقینا وہ خوبصورت عورت تفصیل سے بات کرنے کی عادی تھی۔۔ یا آن کو لگا۔۔
" نہیں میں کھانے پہ نکتہ چینی نہیں کرتی۔۔جو بھی ہو کھالیتی ہوں۔" آن نے فورا صفائی دی۔
علیدان کا ہاتھ آن کے سر پر ٹہر گیا اور اس کے بال سہلانے لگا۔۔۔ساتھ ہی اس کے بالوں میں سرسرانے لگا۔۔ آنکھوں میں محبت کا جہان بھرے وہ آن کو ایسے تک رہا تھا جیسے اس سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہو۔۔
" نہیں مس آن کو کھانے میں عیب نکالنے کی عادت بلکل نہیں ہے،
اسے ہر وہ چیز پسند ہے جو مجھے پسند ہے۔"علیدان بھاری اور مغرور آواز میں بولا۔۔
آن کو اس کی انگلیوں کا ٹچ بالوں میں سرسرانا ایک عجیب سے خوف میں ڈال رہا تھا ۔۔کچھ غلط ہونے کا سائرن ۔۔ لیکن وہ "غلط" کیا تھا ؟؟ ابھی وہ سمجھنے کی "کوشش" میں تھی ۔
نکھت کی مسکراہٹ سمٹ گئی۔علیدان کی آن کے ساتھ کی گئی حرکت پر۔۔دنگ تو آن بھی اپنی جگہ پر تھی۔
"پھر تو بہت اچھی بات ہے۔۔۔ مس آن آپ کو اور کھانا چاھیئے۔" اس کی مسکراہٹ نے اس کی آنکھوں کا ساتھ نہیں دیا۔ آنکھیں جو بلکل ساکت تھی جامد ۔۔۔ٹہری ہوئی۔
دوران لنچ گاہے بہ گاہے علیدان آن کو مختلف ڈشز پیش کرتا رہا ، اس کی پلیٹ میں ڈالتا رہا۔۔ اس کو پیار سے نہارتا رہا۔۔
نکھت پھر پورے لنچ کے دوران بلکل نہیں بولی بلکہ خاموشی کے ساتھ کھاتی رہی۔۔ یہ اور بات کہ وقفے وقفے سے اس کی سرد نظریں آن پر اٹھتی رہیں۔
لنچ کے بعد وہ باہر آگئے ۔۔علیدان شاہ آن کے کندھوں کے گرد بازوؤں کا گھیرا ڈال کر اسے نکھت کے سامنے سے گذار کر باھر لایا۔۔
"اگر مس آن مائینڈ نہ کرے تو کیا میں علیدان سے تنہائی میں بات کرسکتی ہوں ؟؟"
نکھت آن کو دیکھ کر گویا ہوئی۔۔
"وائے ناٹ۔۔" میں گاڑی تک جاتی ہوں" آن نے خوشدلی سے شانے اچکا کر کہا اور گاڑی کے طرف مڑ گئی ۔۔
آن کے مڑتے ہی نکھت نے برداشت سے سرخ پڑتی آنکھوں سے علیدان کو دیکھا۔
" اب آپ کیسا محسوس کررہے ہیں؟"
" پریٹی گڈ" علیدان نے آرام سے جواب دے کر مقابل کو گویا آگ کے گولے پر بٹھادیا۔
"آئندہ مجھے چڑانے کے لئے یہ طریقہ مت استعمال کرنا علیدان ۔۔ورنہ میں نہیں چاہوں گی کہ تم کو تکلیف دوں "۔۔اس نے سرخ آنکھوں سے علیدان کو گھورا۔۔
علیدان نے اسکے طرف بلکل نہیں دیکھا بلکہ دوسری طرف نہارتا رہا۔۔
"میرا ارادہ بلکل بھی تم کو چڑانے کا نہیں تھا نہ ہی کبھی ھوگا۔۔ میں پوری سچائی کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہوں کہ ۔۔۔۔ وہ لمحہ بھر رکا۔۔۔"آن کا ساتھ برا نہیں۔۔۔ کیا تم کو ایسا نہیں لگتا؟" جیسے اس کو جتایا۔۔
"علیدان ۔۔۔ میں سمجھ رہی ہوں یہ تم نے میری وجہ سے کیا ہے ۔" وہ بے اختیار ہوئی لہجہ میں ایک آس تھی جیسے ابھی علیدان اس کے شک پر یقین کی مہر لگادے گا کہ "ہاں یہ سب تمہاری بے وفائی کی وجہ سے ہے"
وہ ابھی تک اوپر دیکھتا رہا ایک غلط نظر بھی نکھت پر نہیں ڈالی۔۔
"تم اب گھر جاسکتی ہو۔ مجھے ابھی آن کو اس کے ٹیوشن سینٹر چھوڑنا ہے، بعد میں اپنی میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔ "
علیدان نے اس کی گاڑی دروازہ اس کے لیئے کھول کر اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
نکھت نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خود کو رلیکس کیا اس کی نظریں جھک گئیں۔
" آئی ایم سوری" یہ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔اور گاڑی اسٹارٹ ھوکر ھوٹل لابی سے نکلتی چلی گئی۔۔
تبھی وہ مڑا اور اپنی گاڑی میں آکر بیٹھ گیا۔
آن پر نظر کی تو اسے شرارت سے دونوں بازو سینے پر باندھے مسکراتے دیکھا۔
علیدان نے اسے گھورا
"کیا ہے یہ؟؟مسکرا کیوں رہی ہیں آپ ؟" اشارہ اس کی شرارتی مسکراہٹ کی جانب تھا۔
"آپ اسے پسند کرتے ہیں ؟" رائیٹ نا ؟ وہ کھلکھلائی۔۔
علیدان نے اس کو دیکھا اس کی آنکھوں میں سرد پن ابھر آیا۔۔
آن نے اپنے ہونٹ بھینچے
"ییس۔۔ ییس۔۔ آپ مجھے یہاں لائے تاکہ ۔۔۔ مس نکھت کو زچ کرسکیں" لیکن۔۔۔" وہ رکی ۔۔
"آپ کو یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ تو پہلے ہی سے آپ کو پسند کرتی ہیں۔۔۔ہے نا۔۔ ؟"آن نے اس کے چہرے کو جانچا۔۔
"آپ جانتی ہی کیا ہیں؟ "وہ دھاڑا۔۔ "کچھ بھی نہیں۔۔۔اسی لیئے
زیادہ بکواس کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔۔"
اس نے سختی سے وارن کیا۔ اور غصہ سے گاڑی اسٹارٹ کردی۔
آن کا منہ بن گیا ۔۔ "ہونہہ"
آن نے اس کی دھاڑ پر غصہ اور ناراضگی سے سوچا ( اب آئندہ وہ کبھی اس سے نہیں ملے گی۔۔
وہ کبھی نہیں چاہے گی اس جیسے بدمزاج اکڑو امیر زادے سے کنٹیکٹ میں رہے۔)
آن کی ماں اسے ہمیشہ کہتی تھی "یہ امیر لوگ بلکل بھی اعتبار کے قابل نہیں ھوتے "۔
اس کی ماں نے بھی تو ایک امیر زادے سے دل لگایا تھا۔۔ پھر اس دل لگی میں جان سے گذر گئی تھیں۔۔
وہ خود بھی دوبارہ سے یہ تجربہ نہیں کرنا چاھتی تھی۔۔ ایک بار کا تجربہ اسے کافی سبق دے گیا تھا۔۔ حان حارث کے وقتی رلیشن نے اسے کیا دیا؟؟ فقط بے اعتباری۔۔اور بے وفائی۔!!
آن کواپنی ماں کی تاکید یاد آنے لگی۔
"اگر وہ زندگی میں کبھی کسی امیر آدمی سے ملے تو اس سے چھپ جائے ۔۔ اگر ممکن ھو تو کہیں دور چلی جائے جہاں اس کی گرد کو بھی کوئی نہ چھو پائے"۔۔
آن بلکل بھی ماں جیسی غلطی دہرانا نہیں چاھتی تھی۔۔ایک غلطی نے اسے کافی سبق پڑھادیا۔۔
آن یہ سوچ کر بھی بھت رلیکس محسوس کرنے لگی تھی کہ "علیدان کی چوائس کم از کم وہ نہیں ہے وہ آلریڈی کسی اور کی چاہ ہے۔ وہ خامخواھ یہ سمجھ کر ڈر رہی تھی کہ "یہ امیر زادہ اس سے فلرٹ کرنا چاھتا۔۔۔ہہہہہ۔
" لیکن آن یہاں غلط تھی "
تو کیا آن مستقبل میں بھی غلط ثابت ہوگی؟؟؟
☆☆☆☆☆
آن سمجھی تھی کہ کار دھلوانا شاہ کا ایک بہانہ ہے تاکہ وہ اسے لنچ پر راضی کرسکے۔۔
لیکن ڈنر کے بعد جب اس نے اسے کار دھونے کو کہا تو وہ کچھ پل دنگ ہوگئی۔۔
مزید یہ کہ کار دھلنے کے پورے عمل کے دوران اس نے اس کی بلکل کوئی مدد نہیں کی بلکہ پورا کام چیک کرتا رہا۔اور نقص نکال کر بار بار سیم جگہ دھلوائی۔
یہ حالت دیکھ کر آن کے ذہن میں زمیدار اور اس کی نوکرانی کا تصور ابھرا ۔۔جو اپنے مالک کا ہر حکم سر جھکائے مانتی ہے۔اسے بھی اس وقت یہی فیلنگز ھورہی تھیں۔
آخر گاڑی صاف ہونے کے بعد جب علیدان شاہ مطمئین ھوا ۔۔۔
تو اس کے مطمئین ہونے کے بعد آن نے ایک گہری سانس شکرگذاری کی لی ۔۔ اور گلوز اتار کر سائیڈ میں رکھے۔
"مسٹر شاہ اب میں جاسکتی ہوں؟ "
شاہ مسکرایا۔۔" ضرور کیوں نہیں گاڑی میں بیٹھیں میں آپ کو اسکول ٹیوشن پر چھوڑ آتا ہوں۔"
وہ نا چاھتے ہوئے بھی طنز سے گویا ہوئی۔ "میں ڈرتی ہوں پھر نہ آپ کی قیمتی گاڑی گندی ھوجائے ۔۔ ابھی کار صاف کرکے نکلی ہوں۔۔"
علیدان نے اب کے کچھ نہ کہا بلکہ جانے دیا۔
وہ مڑی اور کار واش سے باھر نکل آئی۔۔
وہ واقعی اس کے ساتھ حد سے تجاوز کرگیا تھا اس نے دیکھا تھا اسے مکےاور لاتیں مارتے۔۔جدھر جدھر وہ گیا۔۔پیچھے سے وہ لاتیں مکے چلا کر اپنا غصہ نکالتی رہی۔ یہ سب علیدان اچانک اس کے طرف مڑنے سے دیکھ پایا تھا۔اور سر جھکائے مسکراتا رہا۔
"بچکانہ" وہ اسے کوئی معصوم سی بچی لگی ۔۔
☆☆☆☆
دو موڑ گذرنے کے بعد اسے ایک انجانی سی رنگ ٹون سننے میں آئی اس نے گردن گھماکر سائیڈ پہ دیکھا تو ایک زنانہ شولڈر بیگ پسینجر سیٹ پر پڑا تھا۔ اور یہ رنگ یقینا وہی سے آرہی تھی۔۔
علیدان شاہ نے گاڑی پارک کی اور فون بیگ سے باہر نکالا۔۔اور کان سے لگایا۔۔
"ھیلو؟؟"
☆☆☆☆☆
آن بس اسٹاپ کے طرف پیدل چلی جارہی تھی۔جب وہاں پہنچی تو اسے پتا لگا کہ اس کا پرس تو اس بدمزاج باس کی کار میں رہ گیا ہے ۔سو اب نہ اس کے پاس پیسے تھے ۔۔ نہ بس کا پاس تھا نہ ہی فون۔۔
وقت گذرتا جارہا تھا ۔۔وہ واپس سینٹر کیسے پہنچتی ؟؟ کیا پیدل؟؟"آن نے سوچا۔۔
یہاں کچھ بھی ایسا نہ تھا۔جو وہ کچھ کرتی۔
اس نے نہ ختم ہونے والے لمبی مسافت کے روڈ پر نظر بھری۔۔ "وہ اگر چلتی بھی رھتی تو اندھیرا پھیلنے سے پہلے یقینا سینٹر پہنچ جاتی ۔آن نے سوچا ۔۔
وہ افسردہ تھی۔کہ "جب سے وہ علیدان سے ملی ہے کچھ بھی اچھا نہیں ھورہا " آن نے افسردگی سے سوچا۔اور منہ بنالیا۔
وہ کچھ قدم آگے بڑھی اور دوڑ لگانی چاھی۔
۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسو میٹر تک بھاگ کر پہنچتی۔۔ ایک کار اس کے پاس رک گئی۔۔
آن نے چونک کر اسے کے قریب آکر اسے دھیان سے جانچا ۔کیا یہ وہی کار نہیں ؟؟ جسے وہ ابھی ابھی صاف کرآئی تھی۔
پسنجر سیٹ کی ونڈو سائیڈ کا شیشہ نیچے ہوا اور علیدان کی جھلک نظر آئی "بیٹھ جائیں۔" حکم نامہ تھا بس ۔۔ وہ شخص بس آرڈر دینا جانتا تھا۔۔
لیکن وہ نظر انداز کیئے آگے بڑھتی رہی لیکن کار میں بیٹھنے پر توجہ نہیں دی "میرا بیگ مجھے واپس کریں"
ناراضگی سے منہ بنا کر بیگ مانگا۔۔
" آپ کو سینٹر پہنچنے میں ۔۔۔بس میں جانے پر بھی ڈیڑھ گھنٹے کی ضرورت ہے۔۔کیا آپ کو یقین ہے آپ کلاسز شروع ہونے سے پہلے پہنچ جائیں گیں ؟" علیدان نے پوچھا ہی نہیں ڈرایا بھی ۔۔
آن نے کلائی اٹھا کر وقت دیکھا۔
اور پھر جھٹ سے دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔۔ علیدان نے اس کی جلدبازی اور چہرے پہ پھیلے ڈر کے تاثرات کو دلچسپی سے دیکھا۔۔
اور ہولے سے مسکرا کر گاڑی آگے بڑھادی۔۔۔
آن نے اپنا سیل اٹھا کر چیک کیا ۔۔
"کوئی کال کر رہا تھا۔" علیدان نے فون کال کی آگاہی دی۔
"آپ نے کال اٹھائی؟" آن نے ناک چڑھا کر کہا۔
"کوئی ایمرجنسی صورتحال تھی۔ "علیدان نے کندھے اچکا کر بتایا۔
"کیا کہہ رہا تھا؟" آن نے اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹا۔۔
"صرف یہ کہ "میں کون ہوں؟؟" اور آن کہاں ہے؟؟"
"تو۔۔۔۔؟
تو پھر آپ نے کیا کہا؟؟" آن متجس ہوئی
"کیا یہ بتانا اہم ہے"؟
"یہ میرا فون ہے ۔آپ نے خود سے ہی کال اٹھا کر جواب دیا۔۔یہ آپ کے لیئے بلکل بھی مناسب نہ تھا کہ میرے کسی کنٹیکٹ سے بات کریں" آن نے ناگواری سے کہا۔جس پر علیدان کو بادل نخواستہ بتانا پڑا۔
"میں نے کہا" میں وکٹم ہوں آپ اپنا بیگ میری گاڑی میں چھوڑ گئی ہیں "
آن نے یہ سن کر پرسکون ھوکر ایک لمبی سانس کھینچی ۔۔ اور مطمئن ہوکر سیدھی بیٹھ گئی ۔۔
علیدان نے ابرو چڑھا کر اسے گھورا
"کیا وہ آپ کا منگیتر تھا؟؟" آپ دونوں میں جھگڑا ہوا ہے؟؟"
آن نے اسے دیکھا اور کہا۔۔
" اس سے میرا اب لینا دینا نہیں ہے " آن یہ کہہ کر شیشے کے باھر دیکھنے لگی۔۔
علیدان نے اپنے ھونٹ بھینچ لیئے
"یہ لڑکی اسے اپنے معیار کے مطابق لگی۔۔ اس کے دل نے خواھش کی کہ "کاش!! وہ اس کے دل کو فتح کرسکے""
گاڑی شمال کے طرف بھاگنے لگی آخر منزل پر پہنچ کر رک گئی ۔۔ آن نے دروازہ کھولا اور باھر نکل کر علیدان کے طرف نہارا۔۔
"مسٹر علیدان حیدر شاہ " ایک بار پھر مجھے یہاں واپس چھوڑنے کے لیئے آپ کا شکریہ"
"GOOD BYE"
پھر بنا کچھ اور کہے وہ مڑی تھی اور سینٹر کے اندر داخل ھوگئی۔۔
ابھی وہ اتنا دور نہ چلی تھی،
کہ اس نے ایک آواز سنی جو زیادہ دور نہیں تھی ۔
کوئی اسے اس کے نام سے پکارا۔
"آن۔۔۔۔"
آن نے آواز پر گیٹ کے باھر نہارا
جہاں روڈ سائیڈ پر ایک پراڈو پارک تھی۔ گاڑی کے دروازے کے ساتھ ٹیک لگائے ،دونوں بازو سینے پر باندھے ایک دراز قد اور ھینڈسم آدمی اسے دیکھ کر ہاتھ ہلا کر مسکرایا۔
جب آن نے اسے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑی اور پھر بھاگتی ہوئی اس کے گلے لگ گئی۔
یہ منظر تھوڑی دور کھڑی بلیک کار میں بیٹھے علیدان شاہ نے بھویں سیکڑ کر بغور دیکھا۔۔
"کیا اسے اس عورت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے؟"دل میں غصے کی لہریں اٹھی تھیں۔
آن نے زایان اعوان کو خوشی و حیرت ملے تاثرات سے دیکھا۔"بھائی آپ نے تو کہا تھا آپ دو ماہ بعد آئیں گے پھر یہ اچانک ۔۔۔؟؟ "
"ڈیڈ کی سیڑھیوں سے گر کر ایک ٹانگ ٹوٹ چکی ہے تبھی ایمرجنسی میں سب کام چھوڑ آیا ہوں۔"
آن یہ سن کر چپ ہوگئی۔۔مسکراہٹ سکڑ گئی۔تاثرات سرد ھوگئے۔۔ "اچھا۔۔۔پھر ٹھیک ہے۔"بنا تبصرے کے چپ رہی۔
"کیا تم ڈیڈ کو دیکھنے نہیں چلو گی " زایان نے جھک کر اس کے چہرے کو دیکھ کر بھنویں اٹھائیں۔
"آن نے لب بھینچ کر ہلکا سا نفی میں سر ہلایا۔ " نہیں۔۔۔ میرا ان سے ملنے کا کوئی ارادہ نہیں. "
"آن ۔۔ تم نے ابھی تک ڈیڈ کو معاف نہیں کیا؟" وہ شفقت سے پوچھنے لگا۔
آن نے سرد سانس کھینچی " میں کیسے کسی کو معاف کرسکتی؟ زایان بھائی؟۔ ہر ایک کی اپنی الگ حیثیت اور جگہ ہوتی ہے۔اور مجھے اپنی حیثیت کا اچھے سے پتا ہے۔"
"ایسا مت کہو آن۔ ۔۔۔میں نے تو کبھی تم کو اپنے سے الگ نہیں سمجھا۔"زایان اعوان نے محبت سے کہا۔
سر ہلا کر اس نے آھستہ سے کہا" جانتی ہوں۔زایان بھائی۔"
زایان اعوان نے گردن موڑ کر اس جانب دیکھا جہاں کچھ دیر پہلے بلیک کار کھڑی تھی اور آن سے پوچھا۔
" ابھی کچھ دیر پہلے جو گاڑی کھڑی تھی وہ علیدان شاہ کی تھی ؟"
" ہمممم۔۔" آن نے سر ہلایا۔
"تم اسے کیسے جانتی ہو؟" اس نے صرف تجسس سے پوچھا تھا۔لیکن
زایان اعوان کے لہجے سے آن کو لگا جیسے کچھ تھا۔۔ جو اس کے علم میں نہیں تھا۔۔ لیکن جب چونک کر زایان اعوان کے چہرے پہ نظر کی تو وہاں وہی ازلی شفقت بھری نظریں تھی۔۔ اور فکرمندانہ انداز لیئے ہوئے ۔۔ آن نے سر جھٹک کر اپنے خیالات کی نفی کی۔
"ایکچوئلی میں ان کے چھوٹے بھائی کی ہوم ٹیوٹر ہوں زایان بھائی۔"
یہ سن کر زایان اعوان کچھ پل تھم گیا۔۔۔
"آن تم ابھی تک ٹیوشنز پڑھاتی ہو؟" حیرت ہی تو ہوئی تھی ۔۔آن چھوٹی بہن ہوکر بھی غیریت برت رہ رہی تھی۔۔
"کیا تم وہ کارڈ استعمال میں نہیں لائی جو میں نے دیا تھا؟"
وہ چپ رہی بس سر جھکائے ہونٹ کاٹتی رہی۔
زایان نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر ہوا کے سپرد کی۔
"یہ اعوان فیملی کی دولت نہیں تھی۔آنیہ۔۔۔ یہ ایک بھائی کا اپنی بہن کے لیئے فرض تھا۔"
"لیکن آپ کا تعلق بھی تو اعوان فیملی سے ہے نا" اسے یاد دلایا۔۔ کہ وہ ان کی فیملی کی نہیں ۔
زایان نے دکھ سے اپنی ضدی چھوٹی بہن کو دیکھا اسے واقعی بہت دکھ ھوا تھا۔
" آن اتنی ضدی مت بنو۔۔ مجھے دلی تکلیف ہوتی ہے " وہ جیسے تکلیف میں تھا۔
"آپ دکھ مت کریں میں اپنی زندگی سے خوش ہوں۔ مطمئین ہوں" آن نے اسے نہیں خود کو مطمئین کیا۔
"پھر مجھ سے وعدہ کرو آن کہ "علیدان شاہ " سے دور رہو گی۔۔ وہ شخص کوئی عام شخص نہیں آن، بہت ہی خطرناک شخص ہے سمجھ گئی نا ۔؟"
آخر میں تاکید کی۔
اس نے سر ہلا کر جیسے انہیں مطمئین کیا کہ "وہ سمجھ گئی ہے ۔" ہاں میں سمجھ گئی زایان بھائی کوئی بچی تھوڑی ہوں" ہولے سے مسکائی ۔۔
زایان نے لب بھینچ کر مسکرا کر شفقت سے اس کا سر تھپتھپایا ۔
" اس خوشی میں آج کا ڈنر ڈن؟" اس نے اسے خوش کرنا چاھا
آن خوشی سے مسکرائی۔۔
"ہممم ڈن " ۔۔ لیکن میں ھر چیز اپنی پسند کی کھاؤں گی " اس نے فرمائش کردی۔ورنہ وہ فرمائش نہیں کرتی تھی۔لیکن آج وہ ایسے ہی بے ارادہ حق سے کہہ گئی۔پھر دل میں خود کو کوسا۔۔ کیوںکہ اندر سے وہ اب بھی رشتوں کی محبت کی پیاسی تھی۔
" ڈن" وہ بھی مسکرایا۔۔" جو چاھے کھالینا ۔۔
"میں شام کو تمہیں لینے آؤں گا تیار رہنا" زایان اعوان نے کلائی پر نظر کی وقت دیکھا پھر جیسے اجازت چاہی ۔
"نہیں میں خود آجاؤں گی اپنی پسند کی جگہ پر۔"وہ دونوں جب بھی ملتے تھے ان کا ایک ہی پسند کا ریسٹورانٹ ھوتا تھا۔جہاں وہ اکثر آن کو کھانا کھلانے لے جایا کرتا تھا۔
آن نے کلائی اٹھا کر وقت دیکھا۔
" اوھ۔۔" وہ جیسے پریشانی سے چینخی "میری کلاس ہے بھائی میں چلتی ہوں۔ "
آپ مجھے میسیج کردینا۔۔ ۔ اوکے ۔۔ گڈ بائے۔"وہ بھاگتی اندر گم ھوگئی۔
پیچھے زایان اس جھلی کے انداز پر ھلکا ھنس کر سر ہلایا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو " اس کا کچھ نہیں ھوسکتا ۔۔ "۔ پھر اس کی ھنستے ہونٹ تھم گئے چہرے اور آنکھوں میں سرد مہری کے ساتھ سختی آگئی ۔
اس جگہ کو گردن موڑ کر دیکھا ۔ جہاں کچھ دیر پہلے علیدان شاہ کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی ۔
وہ پریشان ہوا تھا، فکرمند بھی۔۔
" علیدان شاہ کوئی عام شخص نہیں جو ایک لڑکی کو اپنا قیمتی وقت نکال کر اس کے سینٹر چھوڑنے آئے۔"
"کیا چاھتا ہے یہ ؟ کیا مقصد تھا اس کا؟
وہ واقعی پریشان ھوگیا۔۔
☆☆☆☆
دوسرے دن کلاسز کے بعد شام کے 4 کے قریب وہ "شاہ ولا" کی طرف "شاہ " ولا کے چھوٹے سپوت"مدھان شاہ" کو سپلیمنٹری کلاسز کی تیاری کروانے کے لیئے آئی۔
" شاہ ولا "پہاڑ کے اوپر آدھے راستے پر واقع تھا ۔ دیکھنے میں کافی بڑا۔۔ یہ چار حصوں میں دو دو منزلہ بنا ھوا تھا۔
سامنے کی جو دو منزلہ عمارت تھی وہ شاہ فیملی کے چھوٹے چوتھے نمبر کے سپوت "مدھان شاہ " اور پانچویں نمبر پر ان کی چھوٹی بیٹی "ایمان شاہ" کی رھائش تھی۔
ولا کے پچھلے طرف جاو تو وہاں بھی ایک بڑا سا دو منزلہ بنگلہ سر اٹھائے نظر آئے گا۔۔ یہ شاہ فیملی کے بڑے سپوت "علیحان شاہ " علیدان شاہ کے بڑے بھائی کی رھائش تھی جو بلکل الگ تھلگ سی تھی بی کاز آف ۔۔ علیحان شاہ کو تنہائی پسند تھی۔ شادی کے بعد ہی وہ تقریبا سب سے الگ تھلگ پچھلے طرف بنگلہ بنوا کر شفٹ ھوگیا۔
دوسری عمارت "شاہ خاندان کے "ولا کی "مرکزی " عمارت تھی جو خوبصورتی میں اپنے مثال آپ دکھتی تھی۔ یہ پوری عمارت"علیدان شاہ "بزنس ایمپائر " شاہ فیملی کے دوسرے سرد مزاج سپوت کے تصرف میں تھی۔۔ دیکھنے میں جتنی شاندار تھی اتنی پرسکون بھی ۔۔
کیونکہ یہ سب ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہتے تھے تو ٹیوٹرنگ کے ان تین ماھ کے دوران وہ"علیدان حیدر شاہ " سے فقط دو بار مل سکی۔
پہلی دفعہ انٹرویو کے دوران جب اس نے اس سے مشکل مشکل سوالات پوچھے تھے۔۔اور آن نے بنا ہچکچائے کانفیڈنس سے سب جوابات دیئے تھے۔
دوسری دفعہ جب مدھان شاھ کے فرضی امتحانات میں رزلٹ اس کے تصور سے زیادہ شاندار آیا۔۔تب علیدان شاہ جیسے بزنس مین نے خوش ہوکر اسے"قیمتی نیکلس" انعام میں دینا چاہا۔ جو اس نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ" وہ اتنے قیمتی انعام کی اہل نہیں ہے۔"
آن نے یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ان کچھ دنوں میں "علیدان شاہ "سے بار بار ملے گی ۔۔۔
یہ سب ایک بار بار کا اتفاق تھا یا قدرت کا کوئی اشارہ۔۔ وہ ابھی سمجھنے سے قاصر تھی۔۔
وہ مرکزی عمارت کو نظر انداز کرتی سیدھی مدھان شاہ کی رھائش کے طرف چلتی گئی بنا ادھر یا ادھر دیکھے۔۔
مدھان شاہ کے اسٹیڈی روم کے باھر پہنچ کر اس نے ایک لمبی سانس اندر کھینچ کر خود کو پرسکون کیا۔۔
پھر دروازہ ناک کیا۔۔
"come in" ایک بھاری مردانہ آواز ابھری ۔۔
ادھر دروازے کے دوسری جانب آن کو سانپ سونگھ گیا۔۔کیا کچھ غلط تھا؟ "یہ آواز تو علیدان شاہ کی تھی"
وہ یقین دہانی کرنے کے لیئے کہ "اس کے کانوں نے واقعی اس شخص کی آواز مدھان کے کمرے سے سنی یا اس کو ابھام ھوا ہے؟"
آن نے جیسے ہی دروازہ دھکیلا۔۔
ساکت رہ گئی۔۔۔
"اسے کوئی ابہام نہیں ہوا تھا، اندر اسٹیڈی روم کی رائٹنگ ٹیبل کے پاس کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے بیٹھا وہ مغرور شخص واقعی "علیدان شاہ " تھا۔
مسٹر شاہ" آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟، " وہ واقعی شاکڈ ہوئی ۔
علیدان شاہ نے تحمل سے کہا " مت بھولیں ۔۔یہ میرا گھر ہے ۔۔ اور میں آپ کا ہی انتظار کررہا ہوں "
"میرا انتظار؟ وہ دنگ ہوئی۔۔ "کیا آپ کو مجھ سے کام ہے؟"
بلکل" ۔۔۔۔" آپ آج سے یہاں رہیں گی۔۔ تاکہ توجہ سے پڑھا سکیں "
" یہاں رہوں گی"؟؟
وہ دنگ ہوگئی۔
"یہ سچ ہے کہ مدھان کا ایس اے ٹی لینے میں ابھی ایک ماہ رہتا ہے۔۔ اور یہ اسٹیج اس کے لیئے بھت اہم ہے۔۔، اسی لیئے میں امید کرتا ہوں۔۔کہ آپ اس کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں گیں ۔۔ اسکے لیئے یہاں رہنا آپ کے لیئے کافی رلیکس ایبل رہے گا۔"
علیدان تو یہ کہہ کر پرسکون تھا۔ لیکن آن کا سکون اس کی بات سن کر واقعی اڑ گیا ۔
" دیکھیں۔۔ مسٹر شاہ۔۔۔میں بھی ایک اسٹوڈنٹ ہوں اور خود ایک ھاسٹل میں رہتی ہوں ۔۔ مزید یہ کہ میری یونی یہاں سے کافی دور پڑتی ہے ۔۔ سو یہ میرے لیئے بھت مشکل ہوگا۔"اس نے اس کی آفر مسترد کرنی چاہی۔
"میں آپ کی رہائش کے مسئلے کو آپ کی ھاسٹل والوں سے مل کر حل کردیتا ہوں۔ اگر آپ یہ سوچ کر پریشان ہورہی ہیں کہ آپ کی یونی یہاں سے دور پڑے گی ۔تو اس کا بھی آسان حل میرے پاس موجود ہے ۔۔ آپ کو یہاں سے " پک اینڈ ڈراپ" مل جائے گی۔ پھر تو مسئلہ نہیں رہے گا ؟" اس بے کندھے اچکا کر اسے دیکھا ۔جو بت بنی کھڑی تھی۔علیدان نے جیسے اس کے ہر مسئلے کا حل سوچ رکھا تھا ۔ جسے سن کر وہ واقعی لاجواب ھوئی۔۔ ۔۔جب کوئی اور بہانا نہ سمجھ آیا تو۔۔ پھر ایک دوسرا بہانا گھڑ لیا۔۔
"لیکن یہ نامناسب ہے ایک مرد کا ایک عورت کے ساتھ تنہا رہنا۔۔ جو کہ قانونی نہیں ہے۔" اب کہ وہ بلکل نامناسب بول گئی۔
یہ سن کر علیدان شاہ کے منہ سے ہنسی کا فوارہ نکل گیا ۔ وہ واقعی اس کی بیوقوفانہ اور معصومانہ عذر تراشیوں۔۔ بہانوں کو سن کر تنگ نہیں ہوا بلکہ ہنس پڑا۔
" ہا ہا ہا ہا۔۔۔۔ مجھے یہ خیال ہی نہیں تھا کہ مس آن کی سوچیں اتنی الجھی ہوئی ہونگیں۔۔ کیا مس آن آپ میرے بھائی کو پسند کرتی ہیں؟"
آن کو اس کا جملہ سخت چھبا۔۔ ایک غصہ اور ناراضگی بھری گھوری سے اسے دیکھا ۔
"مسٹر شاہ مدھان صرف میرا اسٹوڈنٹ ہے۔پلیز سوچ سمجھ کر بولیں۔"وارن کرگئی۔لیکن علیدان کو برا نہیں لگا۔پھر سے چھبتا جملہ پھینکا
"تو پھر ۔۔۔یقینا آپ مجھے پسند کرتی ہونگیں؟"
اس نے دوسرا سوال پوچھ کر جیسے اسے چھیڑا۔
لیکن آن نے بنا سوچے سیدھا جواب دیا۔
"آف کورس بلکل نہیں"شانے اچکا کر بنا اس کے لہجے پر غور کیئے وہ بول گئی ۔
"جب آپ ہم دونوں کو ہی پسند نہیں کرتیں۔۔۔تو پھر آپ کو ڈر کس بات کا ہے ؟" وہ جیسے جاننا چاہ رہا تھا کہ آن کس بات کو لے کر یہاں رہنے سے اوائیڈ کررہی۔
وہ خاموش سر جھکائے سنتی رہی لب کاٹتی رہی۔اس بات کا جواب وہ کیا دیتی۔اسے اس کا سامنا کرنا ہی عجیب سے دوراہے پر لاکھڑا کردیتا تھا۔جتنا وہ علیدان سے کترا رہی تھی۔اتنا ہی سامنا کرنے کے اسباب پیدا ہورہے تھے۔
علیدان کی اب کے نظر آن کے ھونٹوں کے قاتل کٹاو پر پل بھر واقعی ٹھر گئیں ۔۔ لیکن جلدی ہی نظر پھیر گیا اور بات جاری رکھی۔
"مس آن مجھے لگتا ہے آپ کو اب بھی یاد دلانا پڑے گا ۔۔ وہ آپ ہی تھی جو خود میری کار کے سامنے آگئی تھیں۔۔۔میں نے تو فقط آپ کی مدد کی تھی۔اس رات۔۔۔۔۔"وہ کہتے کہتے جملہ ادھورا چھوڑ گیا۔
پل بھر میں آن کا چہرہ خفت سے لال ھوگیا۔
"مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ آپ نے اس بات کا بدلہ نہیں لیا۔"
علیدان نے اسے کچھ پل دیکھا پھر بولا تو طنزیہ
"ہممم مس آن آپ غالبا مردوں کو نہیں سمجھی ہیں۔۔اسی لیئے آپ یہ بات نہیں جانتیں کہ زیادہ تر مرد اس عورت کو رجیکٹ نہیں کرتے جو خود پہل کرتی ہیں جب تک انہیں کوئی پروبلم نہ ہو"
اس شخص کے ھاتھ میں آئینہ تھا۔۔ جس میں وہ خود کا عکس گڈ مڈ ہوتے دیکھ رہی تھی بس نہیں چلا کہ ابھی کہ ابھی زمین میں دھنس جائے ۔۔ ہاں وہ علیدان کے آئینہ دکھانے پر زمین میں شرم غصہ اور خفت سے دھنسی ہی تو جارہی تھی۔
آن کا چہرہ اس کے الفاظ سن کر مکمل سرخ ھوگیا۔یہ کہنا مشکل تھا کہ یہ شرم،خفت سے تھا یا غصہ کی وجہ سے ۔بات کچھ بھی ہو۔۔بحرحال وہ اس رات علیدان کے کمرے میں پائی گئی تھی۔
علیدان شاہ نےاس کی شرمساری کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔۔" وہ ایک امیر آدمی تھا۔ عورت کا حصول اس کے لیئے مشکل نہیں تھا۔۔ نہ ہی یہ اس جیسے بلینئر کے لیئے نئی بات تھی ۔"
بلکہ اپنی بات جاری رکھی۔۔
"اس سے پہلے کہ ہم اس ایشو پر آگے بات کریں، مجھے ایک بات نے متجسس کیا ہے ۔۔ زایان اعوان اور حان حارث کے ساتھ آپ کا کیا رلیشن ہے؟"اس کے لہجے میں چھبن تھی۔
" یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ؟"وہ واقعی حیرت اور غصہ سے چلا پڑی ۔
وہ حان حارث کے متعلق کیسے جانتا ہے؟ اور اسے اس کے بھائی زایان کے بارے میں ایسا کہنے کی ہمت کیسے ہوئی ؟
"کیا آپ مجھ پر تفتیش کررہے ہیں ؟ کیوں ؟"
آن نے سرخ اور نم آنکھوں سے اسے گھورا۔
"اس دن صبح میں نے آپ کو بارش میں حان حارث کے ساتھ فلرٹ کرتے دیکھا۔۔ اور شام تک آپ زایان اعوان کو گلے لگائے کھڑی تھیں۔"وہ رکا۔۔ آن کی سانس بھی یہ سن کر تھم گئی۔
"یہ دیکھ کر مجھے لگتا ہے میں نے آپ کو سمجھنے میں غلطی کردی ہے۔آپ وہ نہیں ہیں۔۔ جو بظایر نظر آتی ہیں۔مطلب آپ بھت ہی کوئی"قابل عورت" ہیں ۔"اس کا طنز میں ڈوبا جملہ "بھت ہی کوئی قابل عورت ہیں۔"سن کر آن کا دل کیا زمین کھلے اور وہ اس میں دھنس جائے۔اتنی زلت؟
اتنی تحقیر۔۔ آن کی آنکھیں آنسو سے بھر گئی اتنی کہ سب کچھ دھندھلا گیا۔۔
آن علیدان کو گھور کر دیکھنے لگی ۔ضبط سے اس کی آنکھیں سرخ ھورہی تھیں۔
علیدان کو آن کی آنکھوں میں کچھ نظر آیا تھا ۔۔ کیا حقیقت کچھ اور تھی؟ وہ اسے غلط سمجھا؟
علیدان کی زندگی میں یہ پہلی بار تھا کہ وہ ایک ایسی عورت سے ملا جو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی تھی بلکل بھی نہیں گھبرائی نہ ہی ڈری تھی۔
وہ اس وقت جنگلی بلی کی طرح خونخوار نظر آرہی تھی جو کسی بھی وقت حملہ کردیتی ہے۔
" کیا اب کچھ کہنے کو نہیں رہا؟"جب وہ کچھ نہیں بولی صرف گھورتی رہی۔تب علیدان کو اس کی چپ پر حیرت ہوئی۔۔ وہ چاہتا تھا وہ کچھ صفائی میں بولے ۔۔ کہے کہ "مسٹر شاہ آپ غلط ہیں"
جب بولی تو آواز کے ساتھ لہجہ تک ٹہرا ہوا تھا اتنا سرد کہ علیدان تک پل کو تھم سا گیا۔
"ہم ایک دوسرے کو جانتے ہی کتنا ہیں مسٹر علیدان شاہ؟ اور میں اپنے کردار کی وضاحت آپ کو کیوں دوں گی؟اسی لیئے آپ کو میرے کردار کے متعلق پریشان ہونے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ۔۔ اپنے ہر تجسس کو اپنے تک ہی رکھئے تو بھتر ہوگا۔" آن نے جتاتی سرخ آنکھوں سے اس کو گھور کر اسے جیسے یاد دلایا۔کہ وہ یہ نہ بھولے کہ صرف ایک ملازم تھی۔اور باس کو زیب نہیں دیتا کہ ایک حقیر ملازمہ کی پرسنل زندگی میں تانک جھانک کرتا پھرے۔
"آف کورس۔۔۔" اس نے کندھے اچکائے ۔"میں آئندہ اپنے کام سے کام رکھوں گا۔ایز یو وش۔۔۔"وہ پھر چپ کرگیا۔
آن نے ایک گہری سانس لے کر خود کو آرام پہنچایا۔۔اور خود کو یہ یاد دلایا کہ کتنا بھی مشکل وقت ہو ھائپر نہیں ھونا بلکہ کول رہنا ہے۔۔کیوں کہ "وہ ایک استاد ہے۔"
"تو پھر آپ کا کیا مطلب تھا ان ساری باتوں کا ذکر کرنے کا؟" آن نے نرمی سے استفسار کیا۔
"میں نے صرف آپ کی غلط بیانی کو رد کیا تھا، صرف آپ ہی غیر نہیں ہیں ، جو اس چھت تلے رہیں گیں، "غیرقانونی رہائش " کی اصلاح یہاں استعمال کرنا بلکل بھی درست نہیں تھی، آپ یہاں کے ہر اس فرد جیسی حیثیت رکھیں گیں، جنہیں میں نے ھائیر کیا ہوا، میں آپ کو رہائش کے ساتھ کھانا بھی مھیا کروں گا،...
"اور آپ یہاں میرے بھائی کو تعلیم دینے کی ذمہ دار ہوں گیں، بس اتنا ہی"۔ کندھے اچکا کر اسے دیکھا جیسے پوچھا کہ " ٹھیک ہے؟"
اتنے میں مدھان شاہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔
علیدان شاہ کھڑا ہوگیا دروازے تک پہنچ کر اس نے کہا " مس آن کا یہاں رہائش کا مسئلا تو حل ہوگیا ، اب آپ لوگ اپنی کلاس شروع کریں اوکے۔بیسٹ وشز۔سی یو ۔"
آن نے کچھ بھی نہیں کہا ۔ ان دونوں میں کیا بحث ہوئی ؟ وہ صرف اپنا فیصلہ سنا کر چلا گیا۔
البتہ آن نے کافی سوچنے کے بعد یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ یہ آفر قبول کرلے گی ۔کیونکہ ویسے بھی اس نے ہاسٹل چھوڑ کر کہیں اور رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔تو جب تک مدھان کے ایگزیم نہیں ھوتے۔وہ یہاں رہ سکتی ہے۔اور یہ فیصلہ برا یقینا نہیں تھا
علیدان شاہ نے اس سے حد سے زیادہ شک کا اظہار کیا تھا سو اسے بلکل بھی علیدان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں تھی۔
یہ اس کے لیئے ایک مہینہ تک رہنے کا اچھا موقعہ تھا جب تک وہ کہیں اور جگہ نہیں دیکھ لیتی۔۔
اس نے خود کو مطمئین کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆
دوسرے دن زایان نے اسے فون پر اپنے ساتھ لنچ پر مدعو کیا۔۔
وہ کلاس لینے کے بعد جلدی جلدی بتائے گئے ریسٹورانٹ میں پہنچی۔
یہ شہر کا سب سے بڑا ریسٹورانٹ تھا۔۔
زایان اس کے آنے سے پہلے ہی آن کی پسندیدہ ڈشز کا آرڈر کرچکا تھا ۔
وہ جیسے ہی بیٹھی،
"کیا تم تھک گئی ہو؟" زایان نے اس کے تھکے تھکے چہرے کو دیکھتے پوچھا۔
اس نے دو گلاس بھر کر پانی کے پیئے۔
" نہیں۔۔۔۔میں نے صرف وہاں بیٹھ کر وہ سیکھا جو پہلے سے ہی میرے ذہن میں تھا۔ تو پھر کیسے تھک سکتی ہوں ؟" وہ مسکرائی ۔
"پیاری لڑکی ۔۔۔تم ھمیشہ سے ذہین رہی ہو" زایان نے چھیڑا۔۔
"یہ سچ ہے۔میں پڑھائی میں کبھی بری نہیں رہی ہوں۔۔ کبھی یہ مت سوچئے گا۔ آئی ایم پریٹی گڈ."
مسکراہٹ اس کے چہرے پر کھل رہی تھی اور بڑی رغبت سے کھانے میں مگن ھوئی۔
"کھانا آرام سے کھاو آن۔۔ کوئی تم سے چھین کر نہیں لے رہا." زایان نے چھیڑا
وہ ہنس پڑی کھلکھلا کر "آپ مجھ سے جیت نہیں پائیں گے زایان بھائی ،میں یہ سارا ختم کروں گی۔"
"اوکے ، تو پھر یہ سارا ختم کرو۔۔۔اگر یہ پورا نہ پڑے تو مینو میں اور دیکھ لیں گے۔۔ خود کو دیکھو کتنی کمزور ھہورہی ہو۔ اگر آنٹی زندہ ہوتیں تو کتنا دکھ کرتیں؟"
جب زایان نے اس کی ماں کا ذکر کیا تو آن نے ایک سرد آہ کھینچی۔۔کھانے سے ہاتھ روک دیا " بھائی نہ کریں۔۔!"
"آل رائیٹ، آل رائیٹ، میں اور کچھ نہیں کہوں گا۔۔تم بس کھانا کھاؤ۔ " زایان کو بلکل اچھا نہیں لگا کہ آن اداس ہو۔۔ وہ اسے یقینا خوش کرنا چاہ رہا تھا تبھی ہلکی پھلکی باتیں کرکے اس کا دھیان بٹاتا رہا۔۔
اسی لمحہ کوئی آن کی نظروں کی زد میں آیا، آن نے اسے دیکھا تو وہیں ساکت رہ گئی کھانے کی خواھش وہیں دم توڑ گئی۔ زایان نے آن کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا تو دنگ رہ گیا۔۔
زایان حیرت سے کھڑا ہوگیا " بینش ،تم۔۔۔۔یہاں کیسے آئی ؟"
"بھائی، آپ باھر سے آگئے اور سب سے پہلے اس گھٹیا لڑکی سے ملے بجائے اپنی بہن کا خیال کرنے کے ، آپ ایسا کیسے کرسکتے بھائی؟"
"فضول مت بولا کرو " زایان نے تنبیہ کی
" کیا میں غلط ہوں؟ یہ۔۔۔یہ ایک گھٹیا ہے ، یہ ہمارے لیئے باعث شرم ہے۔ اور آپ ہیں کہ اس سے اچھا سلوک کررہے؟"
" بینش عزت سے بات کرو"
" زایان نے سختی سے ٹوکا۔۔
"عزت؟" وہ طنزیہ ھنسی ۔۔" یہ گھٹیا لڑکی اس قابل ہے کہ اس سے عزت سے بات کی جائے۔۔۔ ہاں؟"
"بینش۔۔۔"زایان تنبیہیی انداز میں دھاڑا۔
جواباً بینش تقریبا چلائی ۔" زایان بھائی ،چلو میرے ساتھ آپ کی بہن میں ہوں، آپ ایک غیر اور گھٹیا لڑکی کے خاطر اپنی بہن پر چلا رہے ہیں؟"
"تم بھت سخت الفاظ بول رہی ہو۔۔ اپنے جاہلانہ بولنے کے طریقہ کو دیکھو ذرا!" زایان نے پھر سے اسے ٹوکا۔
"جاہلانہ؟" اس نے حیرت سے آنکھیں بڑی کیں۔
"میں تو اسے ماردینا چاھتی ہوں کیونکہ ڈیڈ کو اس کی وجہ سے لوگوں کی باتیں برداشت کرنی پڑیں۔ لیکن میں ایسا نہیں کروں گی کیوں کہ میں اپنے ڈیڈ کی طرح بھت ہی نرم دل کی ہوں۔" کیا نہیں تھا بینش اعوان کے لفظوں کے ساتھ لہجے میں ؟؟ نفرت، حقارت ، حد سے زیادہ دھتکار۔
آن کی مٹھیاں سختی سے بھینچ گئیں۔ وہ مسلسل ہوئی تذلیل کے احساس سے کھڑی ہوگئی اور گھورکر سرخ ہوتی آنکھوں کے ساتھ بینش کو دیکھا۔
"بینش اعوان تمیز سے بات کرو۔ پہلی بات یہ کہ۔۔۔ میرا کوئی باپ نہیں ہے، سو اپنے باپ کی بات مت کرو، آئی ڈونٹ کیئر ۔۔مزید یہ کہ میں نے اعوان فیملی کا ایک روپیہ تک خود پر خرچ نہیں کیا، نہ ہی تمہارے پیسوں سے کوئی لقمہ کھایا ہے، یہاں تک کہ میری ماں جب سخت بیمار تھی اور اسکی زندگی بچانے کو پیسوں کی ضرورت تھی، تب بھی میں نے تم لوگوں کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔"
اس کے الفاظ کی وجہ سے بینش اعوان کے چہرے پر پل بھر شرمندگی کے تاثرات ضرور ظاہر ہوئے ۔۔لیکن جلدی ہی قابو پاکر حقارت سے بولی " تمہارا وجود سوائے زلت کے کچھ نہیں"
پھر بھی حقارت۔۔
"یہ صرف تمہارا خیال ہے، میرا نہیں " مجھے اپنی "ماں کی بیٹی" ہونے پر فخر ہے۔"
آن نے گہری سانس کھینچی اور اپنا بیگ کھینچ کر اٹھایا ایک ھزار کے پانچ نوٹ نکال کر ٹیبل پر تقریبا پھٹکے۔ جو وہ ہمیشہ کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے رکھتی تھی، اور غصہ سے بولی " بل ادا کردینا" یہ کہہ کر رکی نہیں باھر نکلتی چلی گئی۔۔
زایان اس کے پیچھےباہر تک آیا
اور اس کی کلائی تھام کر روکا۔
"آن۔۔۔ آن میری بات بات سنو۔۔ بینش۔۔۔۔"
"پلیز زایان بھائی آگے کچھ مت کہئے گا۔۔۔میں اور اپنی تذلیل نہیں سہہ سکتی۔۔اتنا کافی تھا۔۔ میں گھر جارہی ہوں۔۔آپ کو بعد میں کال کروں گی۔۔ "یہ کہہ کر وہ تکلیف سے لب بھینچ کر مسکرائی۔۔
اس کی آنکھیں تزلیل کے احساس سے دھندھلا رہی تھیں۔ خود پر قابو پا کر نکلتی چلی گئی ۔
اس کے جاتے ہی زایان غصہ سے بینش کے طرف آیا اور تقریبا چلایا۔ " اب تو خوش ہو تم" شیم لیس گرل ۔ "
☆☆☆☆☆☆
آن روڈ پر کافی دیر یونہی بلا ارادہ خاموش بنا کہیں دیکھے چلتی رہی آخر تھک کر کنارے پر ٹک گئی ۔۔
چہرہ ھاتھوں میں چھپائے وہ کراہی " مام آئی مس یو ، مس یو مام ۔۔کیوں چھوڑ گئیں مجھے ۔۔کیوں مام۔۔؟؟" وہ بے آواز رونے لگی۔۔
اتنی بھاری ٹریفک کی بھیڑ میں علیدان شاہ نے آن کو دور سے ہی چہرہ چھپائے روڈ کنارے پہ بیٹھے دیکھا۔
کار رش میں دس منٹ تک پھنسی رہی اور وہ دس منٹ تک آن کو گھورتا رہا۔اسے یوں روتے دیکھ کر حیران ھوتا رہا۔
۔وہ اسے ایک اسٹیچو کی طرح لگی جو گردن جھکائے چہرہ چھپائے ساکت بیٹھی تھی۔
اس نے دروازہ کھول کر قدم باھر نکالے اور آن کے جانب بڑھنے لگا،
کالے لیدر کے جوتوں والے پاؤں اس کی آنکھوں کے آگے ظاہر ہوئے ۔
آن نے آنسو بھرے چہرے کے ساتھ سر اٹھایا اور دنگ رہ گئی۔
دونوں کی نظریں ملی اور وہیں کچھ پل کو تھم گئیں۔
آن نے جلدی سے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ جلدی سے اپنے گالوں پر پھیلے آنسو ایک ہاتھ سے صاف کیئے۔
وہ نہیں چاہتی تھی کہ تکلیف کے موقع پر بہے کچھ آنسو اس کا بھرم توڑ دیں۔۔ جسے قائم بہت مشکل سے کیا ہے۔۔
اور کھڑی ہوگئی۔
"مسٹر علیدان شاہ، آپ یہاں کیسے؟"
آن نے خود کو بھت پرسکون ظاہر کیا۔ جب علیدان شاہ کے طرف دیکھا ۔
"کیا یہ آپ کا تکیہ کلام ہے؟" علیدان نے اسے گھورا۔۔نظریں اس کی بھیگی بڑی بڑی آنکھوں سے ہٹنے کو تیار نہ ہوئیں۔۔ کیا سحر تھا ان بھیگی نیلی آنکھوں میں؟ وہ آج سے پہلے جانتا ہی نہ تھا۔
کچھ وقت تک تو واقعی اسے سمجھ نہیں آیا۔۔کنفیوز سی ہوکر اسے ناسمجھی سے تکے گئی۔۔پھر اسے یاد آیا کہ ہر بار جب جب وہ علیدان کو دیکھتی ہے تو یہی سوال پوچھتی ہے۔
"ویل ۔۔۔۔مجھے صرف ۔۔۔مسٹر علیدان شاہ کا یوں سامنے آنے پر حیرت ہے،
جو پورے شہر کی خیریت پوچھتا ہے ،وہ بھی روڈ پر کھڑے ہوکر۔" ٹھنڈا کرکے مارتی تھی یہ لڑکی۔ علیدان نے پل بھر ضرور سوچا۔۔اور متاثر ھوا۔
"ہمممم، آپ بھی تو بھت میٹھا بولتی ہیں۔(مطلب طنز اچھا کرتی ہیں۔)
یہاں بیٹھ کر کیا کررہی ہیں ؟"
"لیکن۔۔۔۔مجھے تو یہاں بیٹھنا غیر قانونی نہیں لگا۔" شانے اچکا کر پھر سے طنز کرگئی۔
"بھت ہی افسوس کی بات" اسے واقعی تاسف ہوا۔
"کیوں یہ تو پبلک روڈ ہے۔کیا پبلک روڈ پر بیٹھنے میں کوئی قباحت ہے؟" وہ اب کے واقعی حیران رہ گئی۔
"جب میں نے کار کی کھڑکی سے دیکھا تو آپ مجھے روڈ کنارے بیٹھی گھر سے نکالی گئی پالتو بلی لگیں"
یہ سن کر آن نے تصور کیا ۔۔ "جیسے واقعی اس کی زندگی ایک گھر سے نکال دی گئی بلی سے مختلف نہیں "اس کی کوئی فیملی نہیں تھی ، اسے ہر جگہ سے دھتکارا گیا تھا۔اور ۔۔۔۔۔اور تو ۔۔۔۔اس کے پیچھے کوئی اس کا انتظار کرنے والا بھی نہیں تھا۔
اس کی آنکھوں میں ہلکی سی ویرانی چھاگئی۔
" تو پھر میں پریشانی کا باعث واقعی بھی نہیں بننا چاہوں گی مسٹر علیدان شاہ ۔۔۔ میں چلتی ہوں۔"
مایوسی سے اس نے جیسے ہی ایک قدم بڑھانے کو اٹھایا علیدان کی سرد آواز نے اسے وہی منجمد کردیا۔ " آن میڈم ۔۔۔کہاں جارہی ہیں آپ ؟ چلیں میرے ساتھ ۔۔ میں گھر ہی جارہا ہوں"۔۔
یہ کہتے ہی وہ بنا اسے دیکھے مڑا اور کچھ قدم ہی چلا تبھی اسے محسوس ہوا کہ وہ اس کے ساتھ نہیں آئی اس نے ازلی سرد لہجے میں پوچھا۔
"کیا آپ یہیں ڈیرا ڈالنے کا ارادہ رکھتی ہیں ؟" اب کے تپی تپی سی نظر اس پر ڈالی۔
"میرا لگیج ابھی تک ھاسٹل میں ہے" منہ بنا کر وہ منمنائی ۔
"شاہ ولا میں آپ کو کسی چیز کی کمی نہیں ہوگی ۔ آپ کل جاکر اپنا لیگیج لے آنا ،گاڑی میں بیٹھیں"
اس نے ڈرائیور کو حکم دیا "ابھی گھر چلو۔"
"آل رائیٹ سر"
ڈرائیور نے چونک کر ریئرویو سے انہیں دیکھا۔کیا علیدان نے اسے کچھ دیر پہلے یہ نہیں کہا تھا کہ "کلب چلو۔"
علیدان نے گھور کر شیشے میں اسے دیکھا تو ڈرائیور نے ھڑبڑا کر نظریں ھٹادیں بنا کچھ کہے گاڑی "ولا " کی جانب موڑلی۔
آن نے اس کی طرف نظر کی پھر سوالیہ ہوئی " لگتا ہے آپ کہیں اور جارہے تھے۔ اگر آپ مصروف ہیں تو پلیز مجھے یہیں ڈراپ کردیں میں خود سے گھر چلی جاوں گی۔"
" میں ویسے بھی گھر ہی جارہا تھا" علیدان نے جیسے اسے مطمئن کیا۔
کچھ لمحے خاموش سرکنے کے بعد علیدان بے اس کے اداس چہرے کو دیکھا جو گم سم سی ایسے بیٹھی تھی۔ جیسے اس کے سوا کوئی نہ ہو۔
" کیا کچھ ہوا ہے؟" علیدان شاہ نے جانچتے ہوئے خود ہی خاموشی کو توڑا ۔
سوچ انسان کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے۔
وہ چاہے تو سوچ سات آسمانوں تک لے جا سکتا ہے۔
اور چاہے تو قدموں کے نیچے تک گرا سکتا ہے۔ آن نے بھی علیدان کے سوال پر یہ دل میں ضرور سوچا تھا۔۔
اپنے پانچ ہزار کے کھودینے کا غم اسے بری طرح کھائے جارہا تھا ، وہ بھت افسردہ تھی ۔ اب وہ کبھی زایان بھائی کے ساتھ کھانا کھانے نہیں جائے گی۔
"کچھ خاص نہیں ۔۔۔ روڈ پرچلتی ساری قیمتی کاروں کو دیکھ کر میں صرف یہ سوچ رہی تھی،کہ یہ سب بھی رش میں عام گاڑیوں کی طرح پھنس جاتی ہیں" " it was funny" "آپ نے دیکھا؟ پیسہ سب کچھ نہیں کرسکتا۔"
بات گہری تھی اتنی ہی گہری جتنی اس وقت علیدان کو وہ لگ رہی تھی ۔
علیدان سمجھ گیا ۔ وہ اصل بات چھپا گئی ہے بلاشبہ اس کا چہرہ سپاٹ تھا اس کے اندر کی بات کو وہ نہیں جان پارہا تھا اور یہی بات علیدان شاہ کو الجھا رہی تھی۔۔ اس کے صاف طور پر۔۔۔بات گھما کر ٹالنے والے انداز پر علیدان کو برا لگا ۔۔ کیا وہ اسے تین سال کا بچہ سمجھ رہی تھی ؟
" تو پھر آپ رو کیوں رہی تھی؟"
اب علیدان کا اشارہ اس کے تھوڑی دیر پہلے والے عمل کے طرف تھا۔
" میں رورہی تھی کیوں کہ میں "غریب" ہوں، مجھے کوئی حق نہیں کہ اتنی بڑی کار میں بیٹھوں، اور ٹریفک جام ہوجائے تو اسے بددعائیں دوں۔۔۔اچھا ہے ۔۔۔میرے پاس کار نہیں۔"
وہ اب بھی ساکت سی سامنے یک ٹک دیکھتے کہیں گم ٹرانس میں بولے جارہی تھی۔یہ سچ ہی تھا جو بے ساختہ نکلتا رہا۔۔
"آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں۔۔۔ جیسے آپ ڈرائیو کرنا جانتی ہیں، اگر آپ کے پاس کار ہوتی۔۔"
علیدان نے جاننا چاہا۔۔
آن نے گردن گھما کر اسے گھورا۔ یہ آدمی ۔۔۔ کیا اس کا "ہونا " بھت ضروری تھا؟ کیا ہوتا اگر یہ نہ ھوتا!!
"ڈرائیور ، کیا آپ جب پیدا ہوئے تب سے ہی ڈرائیو کرنا جانتے ہیں؟" وہ کریم کے طرف مڑی ۔
کریم ڈرائیو کرتے ھنسا"میم آپ مذاق کررہی ہیں ؟"
اس نے اب کہ مڑ کر طنزیہ نظروں سے علیدان کو نہارا"اس کا مطلب ہے۔۔۔مسٹر علیدان شاہ ۔۔۔ یہ قابلیت پیدا ہوتے ہی ساتھ لائے ہیں۔"
علیدان شاہ کے ردعمل کا سوچ کر کریم نے تھوک نگلا ۔۔
آن کی ہمت کیسے ہوئی ؟ کہ علیدان شاہ کی مخالفت کرے ۔
"کریم گاڑی روکو اور باھر نکلو۔ علیدان نے سپاٹ لہجے میں کریم سےکہا۔
کریم نے گاڑی روک دی لیکن الجھا سا پھر بھی بیٹھا رہا۔۔
" آئی آرڈرڈ یو۔۔ گیٹ آوٹ دا کار" وہ دھاڑا۔۔
کریم نے ہڑبڑا کر جلدی سے سیٹ بیلٹ کھولی اور دروازہ کھول کر باھر نکلتے ایک نظر آن پر ترحم بھری ڈالی جیسے کہہ رھا ہو۔۔
"مس آن اب اپنے لئے خیر مانگ لیں "
آن نے گھبرا کر علیدان کو دیکھا ۔
" آپ مذاق کررہے ہیں؟"
وہ جیسے بے یقین ہوئی ۔
"میں آپ کو ایک موقع دے رہا ہوں خود کو ثابت کریں۔"
" لیکن میں یہ موقع رد کرتی ہوں"
" تو پھر پوری رات اس گاڑی میں گذار لیں" کیونکہ شرمندہ تو آپ نے ہی ہونا ہے ، میں نے کم ازکم ڈینگیں نہیں ماری"
اب کہ وہ ریلیکس ہوا۔۔
" میں تو یہ آپ کے فائدے کے خیال سے کہہ رہی ہوں "
" کیا آپ کی گاڑی قیمتی نہیں ؟" مزید یہ کہ آ۔۔آ پ بھی اس گاڑی میں موجود ہیں۔۔ اگر ۔۔ اگر کچھ غلط ہوگیا۔۔ تو کتنا برا ھوگا؟ ہے نا۔۔؟ "
لیکن اس کی چکنی چپڑی باتیں بلکل بھی اس کے کام نہیں آرہی تھیں ۔
"پھر تو کوئی مسئلہ نہیں آپ بھی میرے ساتھ جہنم میں جائیں گیں۔۔۔۔
اور شاید آپ میرے وجود سے دوسری زندگی میں بھی فائدہ اٹھا سکیں۔"
آن کے ہونٹ بھینچ گئے۔
"کیا یہ شخص اتنا ہی تنگ نظر ہے؟،"
وہ خود بھی بچوں کی طرح ضد نہیں کرنا چاھتا تھا لیکن اسے یہ برا لگا جب آن نے اس کے کہے کی مخالفت کی، ورنہ پورے شہر میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ علیدان شاہ کی مخالفت کرسکے۔۔
"Are you serious ?.
آن نے منہ بنالیا۔
ایک امید تھی اسے کہ وہ اپنی ضد سے ہٹ جائے ۔۔ بات ٹل جائے ۔۔لیکن۔۔۔۔
"ہری اپ " آگے بیٹھیں۔۔وہ دروازہ کھول کر خود بھی پسنجر سیٹ پر بیٹھ گیا۔
آن " مرتا کیا نہ کرتا" کے مصداق کانپتی ٹانگوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ آگے جاکر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
آن نے ایکسیلیٹر کو دبا کر کانپتے پاوں اور تھر تھر کانپتے ہاتھوں کے ساتھ گاڑی چلادی۔۔تبھی سرد آواز نے جیسے کانوں میں "صور اسرافیل پھونکا۔
"یہ کار دس ملین سے کم نہیں اگر آپ کی وجہ سے اسکی ٹوٹ پھوٹ ہوئی، تو آپ اس کا نقصان بھریں گی۔لیکن۔۔ میں آپ کو 50% فیصد رعایت دیتا ہوں۔۔اسی لئے بے فکر ہوکر چلائیں"
وہ اسے ڈرا کر بھی دلاسا دے رہا تھا۔
آن تڑپ ہی تو اٹھی آنکھیں نم ہوگئیں " آپ مجھے ڈرا رہے ہیں ؟"
"میں نہیں چلا رہی ۔اس سے اچھا ہے ساری رات گاڑی میں گذار دوں " وہ رونے کو ہوئی۔
"کوئی بات نہیں ۔اگر ساری رات یہ قیمتی گاڑی روڈ پر کھڑی رہے گی تو مشکل آپ ہی کو ہوگی۔جب لوگ اتنی دیر تک ایک گاڑی کھڑی دیکھ کر اس کی تصویریں کھینچ کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیں گے ۔ تو پورے شہر میں مشہور تو آپ ہوجائیں گیں" اس نے ڈرایا۔۔
یہ سن کر آن بیچاری واقعی ڈر گئی ۔۔
" کیا یہ شخص اس کا سب سے بڑا حریف ہے؟" آن نے تقریبا دانت پیسے اور گاڑی کو چلا کر روڈ پر لائی۔
علیدان کے ہونٹ ہلکا سا مسکرائے اور سینے پر ھاتھ باندھ کر اسے دیکھا
"ڈریں مت ۔اگر گاڑی کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی بھی تو میں آپ سے سود سمیت وصولوں گا۔۔"
اور یہ وصولی پیسے کی شکل میں نہیں ہوگی ۔۔بلکہ۔۔ "وہ رکا" نظریں آن کے وجود کا طواف کرنے لگی، آن کا دل اچھل کر جیسے حلق تک آیا۔
"یہ وصولی آپ کے وجود کی صورت میں ہوگی ، گھاٹے کا سودا تو یہ بھی نہیں ہے۔۔ "
وہ اب واقعی علیدان کے الفاظ سن کر دل میں سہم گئی ۔۔ گھور کر نم آنکھوں سے دیکھا ۔۔جس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی۔۔
ابھی کچھ دور ہی چلی کہ سامنے آتی گاڑی سے مس ھوگئی آن نے جلدی سے بریک ماری۔۔
لیکن گاڑی لگ ہی چکی تھی۔۔
" اوھ " یہ کیا کردیا میں نے ؟، وہ سخت ڈری تھی جسم سے جیسے روح کھینچ لی ہو کسی نے ۔۔ " مجھے بریک مارنی چاھئے تھی۔" آن نے جیسے خود کو کوسا ۔۔
" تو ابھی کس نے بریک لگائی؟" علیدان کو اس کی دماغی حالت پر تشویش ہوئی۔۔
"میں دیکھتا ہوں۔" یہ کہہ کر وہ گاڑی سے نکل آیا۔۔
غلطی بحرحال اس آدمی کی تھی۔۔ علیدان نے والٹ سے پیسے نکال کر معاملہ ختم کردیا۔۔ تین منٹ کے اندر وہ واپس آکر پسنجر پر ساتھ بیٹھا۔۔
" چلائیں ۔۔ آپ تو پیدا ہوتے ہی ڈرائیونگ سیکھ کر آئی ہیں۔" میٹھا طنز کرنے سے یہ شخص باز نہ آیا۔۔
" آپ اب بھی مجھے گاڑی چلانے کا کہہ رہے ہیں؟ میں نے نہیں چلانی۔" وہ انکاری ہوئی۔۔" اگر آگے بھی کہیں لگادی ت۔۔تو؟" وہ ڈری۔۔
"تو۔۔ کیا ہوا؟؟" ویسے بھی آپ نے گاڑی پر چند خراشیں تو ڈال دی ہیں ۔۔ حساب تو میں آپ سے وصول کرلوں گا وہ بھی آپ کے۔۔۔۔" اس نے آن کے وجود کو تپی تپی معنی خیز نظروں سے دیکھ کر کہا۔"تو کچھ خراشیں اور سہی۔" اس نے کندھے اچکالیئے۔
وہ سر تا پیر کانپ گئی ۔
اور کانپتے ہاتھوں سے گاڑی ولا کے راستے پر ڈال دی۔
ولا پہنچ کر وہ باھر نکلا۔۔ آن بھی کانپتے پیروں سے باھر نکلی ٹانگیں اس کا وزن سہار نہ پارہی تھیں۔
علیدان مسکراہٹ پاس کرتا اسے لیئے رہائش کے طرف بڑھا ۔
جیسے ہی اندر داخل ہوئے ۔۔ خادمہ انہیں دیکھ کر آگے بڑھی
" صاحب جی میں نے آن میم کا کمرہ چھوٹے صاحب کی رہائش میں تیار کروایا ہے۔۔ اور کوئی حکم ؟" وہ مودب ہوئی۔
علیدان نے گھور کر خادمہ کو دیکھا
" مدھان کی پرائیویسی کا حرج ہوگا ،اگر کوئی دوسرا فرد اس کی رہائش میں رہا۔۔
آپ میرے ساتھ والا کمرہ آن میم کے لئے تیار کروائیں۔ دوبارہ نہ کہنا پڑے۔" خادمہ پر سخت نظر ڈالی۔
" جو حکم صاحب جی ۔۔میں ابھی کسی کو بھیج کر کروا دیتی ہوں"
علیدان ایک نگاہ غلط آن پر ڈال کر کوٹ جھٹک کر سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کے جانب بڑھتا گیا۔۔
اس کے جاتے ہی آن نے ڈرائینگ روم پر نظر کی کشادہ اور سجاوٹ سے پر جو رہنے والوں کے ذوق کا آئینہ تھی آن نے ایک گہری سانس لے کر خود کو پرسکون کیا۔۔
" آئیے میم۔۔۔ آپ کا روم تیار ہے" وہی خادمہ ادب سے جھکی ۔۔
"ہممم ۔۔ تھینک یو۔۔ وہ اس کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر دائیں جانب بڑھی۔۔
کمرہ خوب کشادہ تھا۔۔ ہر چیز قیمتی سے قیمتی۔۔ نرم بڑا بیڈ جسے دیکھ کر ہی آن نے اس کی نرمی محسوس کرلی ۔۔
خادمہ اسے کمرے میں چھوڑ کر واپس چلی گئی۔
آن نے گھوم کر پورے کمرے کا جائزہ لیا۔۔ سامنے لٹکے نرم اور خوبصورت پردوں کو ہٹا کر بڑی سے وال سائیز ونڈو کے پار دیکھا جہاں سے باھر بڑا سا ولا کا لان نظر آرہا تھا ۔۔ مصنوئی پول ۔۔ اور گرینری۔۔ جو نظروں کو بھلی لگی۔۔۔ آن پرسکون ہوئی ۔
کچھ دیر بعد خادمہ کپڑوں کے جوڑے لے آئی۔ " صاحب جی نے یہ ابھی کے لئے بھیجے ہیں کل تک آپ کا سامان آجائے گا۔ " اور کوئی حکم میم؟"
"نہیں اٹز اوکے "۔۔ خادمہ یہ سن کر واپس دروازہ بند کرکے چلی گئی۔۔
آن نے کپڑے دیکھے سب نئے تھے جیسے ابھی خریدا گیا ہو۔
اس نے ایک جوڑا الگ کیا۔۔ اور جاکر چینج کیا۔۔
آن سمجھی نئی جگہ پر اسے نیند نہیں آئے گی۔ لیکن وہ جب نرم بستر پر گری تو ایسے سوئی کہ صبح 7:00 کے الارم پر آنکھ کھل سکی ۔۔
آن نے مزے کی انگڑائی لی اور اٹھ کر فریش ہوئی ۔۔
جیسے ہی کمرےسے باہر آئی سیڑھیوں کی طرف نیچے جانے لگی کسی کے سخت وجود سے زور سے جا ٹکرائی
"اوپس۔۔" آن نے بے اختیار اپنی پیشانی سہلائی ۔
علیدان کا کمرہ سیڑھیوں کے بلکل ساتھ تھا ۔۔ تو دونوں ہی تقریبا ٹکرا گئے تھے۔
"مسٹر علیدان شاہ ۔۔۔ گڈ مارن" اسے کچھ نہ سوجھا تو سلام کرلیا۔
"ہمممم ، آپ کے اس خوبصورت ٹکراو نے تو میری بھوک بڑھا دی" اس نے معنی خیزی سے کہتے آن کو گھورا۔
اس کے معنی خیزی لیئے جملے آن کو بلکل سمجھ میں نہ آئے۔
آن کی ناسمجھی سے دیکھنے پر "میرا مطلب ہے آپ اس آئوٹ فٹ میں کافی سیکسی لگ رہی ہیں" بات بدل دی۔
آن نے خود کو دیکھا جو ہر جگہ سے ڈھکے ہوئے تھے۔۔کہاں سے sexy؟؟ وہ بلکل بھی سمجھ نہ سکی۔۔
وہ یہ کہتے آگے بڑھ گیا۔
۔آن جیسے ہی ڈائننگ ھال میں آئی علیدان نے اسے پکار لیا
" آئیے مس آن ساتھ ناشتہ کریں "
" آن ہچکچکائی۔ " نہیں۔۔۔شکریہ، میں اسکول کیفی ٹیریا سے کرلوں گی۔" اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔۔ وہ بحرحال یہاں ایک الگ حیثیت سے آئی تھی گھر کی فرد نہ تھی۔۔ اس نے خود کو اس قابل نہ سمجھا کہ ٹیبل پر ساتھ بیٹھ جائے۔۔
"مدھان بھی یہاں ناشتہ کرے گا۔۔۔ آپ اسی خیال سے ہی بیٹھ جائیں آپ تنہا بلکل نہیں۔"
یہ سن کر وہ بیٹھ گئی۔۔ ملازمہ نے ناشتہ چنا۔ وہ خاموشی سے کرنے لگی۔۔ کافی دیر گذر گئی لیکن مدھان شاہ نہیں آیا۔۔
آن کو علیدان کی نظریں خائف کررہی تھی۔۔ جو مسلسل اسے گھور رہا تھا۔۔ بنا ادھر ادھر دیکھے۔۔
"میں چلتی ہوں۔ " ناشتے کے بعد آن نے اپنا پرس اٹھایا۔۔
ساتھ ہی علیدان بھی منہ پونچھتا نیپکن پلیٹ میں نفاست سے رکھتا ۔۔اٹھ کھڑا ہوا۔
" آئیے۔" وہ ساتھ ھوا۔
" لیکن۔۔۔ میں چلی جاؤں گی" آن نے انکار کرنا چاھا۔۔
"آپ کی یونی اور میرا راستہ ایک ہے۔۔ میرے خیال سے آپ کم وقت میں میرے ساتھ پہنچ جائیں گی۔"
وہ خاموشی سے بیٹھ گئی کریم نے گاڑی چلا کر یونی کے راستے پر ڈال دی۔۔
" واپسی پر کریم آپ کو پک کرلے گا۔"
علیدان نے جیسے وارن کیا۔
"لیکن۔۔۔۔۔" آن نے چاہا کہ اسے روک دے وہ غریب ہے۔ اتنی کرم فرمائیاں افورڈ نہیں کرسکے گی۔۔ وہ ملازم ہے اور بس سے بھی جاسکتی یے۔۔
علیدان نے کریم کو گاڑی آگے بڑھانے کا اشارہ کیا۔ اور گاڑی زن سے نکلتی چلی گئی۔۔
کلاسز دوپہر تک ختم ہوئی تو وہ بھاگتی ہوئی ہاسٹل روم پہنچی جلدی جلدی اپنی چیزیں پیک کیں۔ اور باہر نکل آئی۔
گیٹ کے طرف جاتے راستے پر اتفاقاً اسے حان حارث ٹکراگیا۔۔وہ اسے دیکھ کر نظرانداز کرکے اپنے قدم آگے بڑھاتی رہی۔۔ حان حارث اسے جل کر غصے سے دیکھا۔۔ اس کے راستے پر پھیل کر کھڑا ہوگیا۔ آن نے جب دیکھا کہ وہ ہٹ نہیں رہا۔۔۔تب دوسری طرف سے نکلنے لگی ۔۔
حان نے یہ دیکھ کر آن کو کلائی سے کھینچ کر روکا۔
آن نے ایک گہری سانس لی اور لب بھینچ لیئے۔۔۔بمشکل خود کو ہائپر ہونے سے روکا ۔۔لیکن کہا کچھ نہیں۔
"آن کیا تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے؟"
" نہیں"
ایک لفظی جواب دے کر کلائی چھڑوانا چاہی لیکن حان نے زبردست جھٹکا دے کر اس کی یہ کوشش ناکام کردی۔۔
" فائین ۔۔۔۔۔نہیں؟"
اس نے سر ہلاکر تائید چاہی۔اور بات جاری رکھی ۔
"میں نے اپنے ڈیڈ سے سنا ہے کہ تم نے اپنی نوکری بچانے کے لئے میرا استعمال کیا ہے۔ بولو۔۔کیا یہ سچ ہے؟"
آن نے بنھویں اچکا کر اسے گھورا۔
"تم نے صرف ایک مقصد کے لئے میرا ساتھ چاہا ، am i right؟ تم مجھے پسند نہیں کرتی تھی صرف مجھ سے بدلہ لینا چاہا "am i righ "وہ کچھ نہ بولی فقط ایک لمبی سانس ہوا کے سپرد کرکے خود کو پرسکون کیا ۔
اور اپنی کلائی چھڑانے کی جستجو کی ۔لیکن حان نے اسے بلکل نہیں چھوڑا بلکہ سختی سے جکڑے رہا۔
"مجھے جانے دو" آن کا لہجہ سپاٹ رہا ، جیسے کوئی لینا دینا نہ ہو۔
"کیا تم کو شرم آرہی کہ مجھے تمہاری حرکت معلوم ہوچکی ہے ، میں جان چکا ہوں کہ جس شخص نے تم کو نوکری کا موقعہ دیا ہے وہ میرے ڈیڈ ہیں"
حان غصے سے چینخا ۔۔
آن نے اسےغصے اور جارحانہ تیور سے دیکھا۔
"تمہارے ڈیڈ یہ بار بار مجھے کہتے رہے کہ میں اگر تمہارا پیچھا چھوڑ دوں تو یہاں نوکری جاری رکھ سکتی ہوں۔"
اس کی آواز بلکل تیز نہیں تھی ۔۔وہ بمشکل اسے سن پارہا تھا۔
"مجھے خود پر یقین تھا کیونکہ میں سخت محنتی ہوں۔ اپنی قابلیت کے بدولت مجھے ویسے بھی یہ جاب مل جانی تھی۔ "
"اگرچہ میں جانتی ہوں کچھ طاقتور لوگ مجھے پسند نہیں کرتے"اشارہ حنیم اور حان کے ڈیڈ کے طرف تھا۔۔
"حان حارث کیا تم جانتے ہو ؟،میں نے تم سے شادی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا تھا۔مخلص تھی میں، اگر تمہارے گھر والے مجھے باھر بھی پھینک دیتے۔۔ تب بھی میں تم کو نہ چھوڑتی بلکہ کہیں اور نوکری کرلیتی ۔۔لیکن۔۔۔' وہ ٹہری " لیکن تم نے مجھے بھت زبردست طمانچہ مارا ہے۔"
"میں نے دیکھا ہے وہ لمحہ، میں نے دیکھا ہے وہ منظر، اور گیس کرو کہ وہ منظر کیا تھا؟" اب کے اشارہ اس کے اور حنیم کے خفیہ رلیشن کے طرف تھا۔
آن نے اسے شرمندہ کرنے کی واقعی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
حان نے تکلیف سے اسے دیکھا۔
"میں سمجھ رہی تھی ، تم نے مجھے برباد کردیا ہے۔ اگر میں تمہاری خواہش نہ کرتی۔۔تمہارا ساتھ نہ چاہتی ۔۔۔تم سے کوئی تعلق رکھنے کا نہ سوچتی ۔۔یہ جاب حاصل کرنے کے لئے اپنی ایبلٹی پر انحصار کرتی ۔۔"وہ رکی۔
"اگر اب میں یہاں اور ٹھری تو تمہاری اور حنیم کی وجہ سے خود کی تذلیل کرواتی رھوں گی ،
اور مجھے بے عزت ہوکر تکلیف ہوئی ہے۔جو اب مجھ سے برداشت نہیں ۔ تمہارے فادر نے کہا ۔۔۔ میں ایک یتیم ہوں اور بلکل بھی ان کے خاندان کو قبول نہیں۔ تم سمجھ سکتے ہو مجھے کتنی تکلیف دی ان الفاظ نے؟ میں یتیم نہیں ہوں۔۔ میری ایک ماں ہے" کیسے ہوں میں یتیم ؟" حان یہ سب سن کر شرمندہ نظر آیا۔
آن کی آنکھیں شدید دکھ سے بوجھل ہوکر سرخی مائل ہوگئیں ۔۔ آنسو بہنے کی جسارت پھر بھی نہ کرسکے آن نے شدت سے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔
"مجھے بھت افسوس ہے آن مجھے یہ سب واقعی نہیں معلوم تھا۔۔ میں اپنے ڈیڈ کی طرف سے دی گئی تکلیف کا مداوا نہیں کرسکتا لیکن ان کی طرف سے کہے گئے الفاظ کی معافی مانگتا ہوں" وہ ھاتھ جوڑنے لگا۔
" تم نے یہ سب مجھے پہلے بتادیا ھوتا تو۔۔۔"
" پہلے بتاتی ؟" آن نے سرخ آنکھوں سے اسے گھورا ۔
"پہلے بتادیتی تو تم کیا کرتے حان؟ اپنے فادر کے خلاف کھڑے ھوجاتے؟ اپنے خاندان سے جا کر لڑتے جھگڑتے؟
تم کو تمہاری فیملی سے توڑ کر الگ کرتی؟
بولو۔۔۔۔۔اور بدلے میں کیا ہوتا؟ یہی نا کہ سب کی نظر میں، ایک میں بُری بن جاتی۔۔۔ ہے نا؟ "
"اور۔۔۔ اگر میں یہ سب بتادیتی تو کیا تم حنیم سے رلیشن نہ رکھتے ؟"
"یہاں بیچ میں ایک مس انڈراسٹنڈنگ تھی بس۔ " وہ شرمندہ نظر آیا ۔۔
"میں حقائق نہیں جانتا تھا
۔۔۔مجھے نہیں پتا یہ سب کیسے ہوگیا؟ میں تم سے اس کی معافی مانگتا ہوں۔ آن پلیزززز ۔۔" یہ کہتے ہی ساتھ اس کی نظریں دور راستے پر بھاگتے آتی حنیم پر ٹھر گئیں۔۔ وہ ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر قریب آگئی۔
"آن پلیز حان کو برا بھلا مت کہو ۔ ساری غلطی میری ہے۔اسے الزام مت دو آن "
اس نے آن کے ہاتھ پکڑ لیئے ۔۔۔ ڈرامہ کوئین تھی یہ لڑکی آن نے دل میں اس کی اداکاری کو واقعی کھل کر داد دی۔
تبھی حان غم و غصہ سے حنیم پر دھاڑا " اسٹاپ اٹ ۔۔۔ حنیم مسئلہ مت بڑھاو"
لیکن وہ اداکارہ تھی یکدم آن کے پیروں پر جھک گئی۔ھاتھ باندھ لیئے "میں ہی گھٹیا ہوں، یہ میں ہی ہوں جو حان سے پیار کیا، تم کو لیٹ ڈائون کیا ۔۔ مگر۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔
" بند کرو یہ میلوڈی ڈرامہ حنیم "
بند کرو یہ میلوڈی ڈرامہ
تم نے نہیں کہا تھا کہ حان کو مجھ سے کوئی انسیت نہیں سوائے میرے وجود کی چاھ کے، اور میں نے اسے اپنا وجود پیش نہیں کیا ۔"
وہ سوالیہ ہوکر اس کی آنکھوں آنکھیں ڈال کر جیسے تصدیق چاہنے لگی ۔۔ حان تو حیران سا کبھی اسے کبھی حنیم کو دیکھے جارہا ۔ اسے واقعی حقیقت سمجھنے میں دقت ہورہی تھی۔
حنیم تو مانو جیسے فریز ہوگئی۔۔ہاں کرتی ہے تو حان کی نظر میں بری بنتی۔۔ نفی کرتی تو آن کی نظر میں "آگے کنواں پیچھے کھائی" کے مصداق وہ واقعی پھنس چکی تھی۔
"نہیں یہ جھوٹ ہے " اس نے نفی کردی اس نے آن کے کہے کو جھٹلادیا۔
"میں جانتی ہوں تم مجھ سے نفرت کرتی ہو۔ لیکن مجھ پر ایسے الزام بھی لگاو گی یہ پتا نہیں تھا"
"معاف کرنا حنیم "، وہ طنزیہ مسکرائی ۔
"تم یہ بات مانو یا۔۔ نا مانو،میں تم کو یہ بتادوں کہ حان حارث ایسا شخص نہیں ہوسکتا۔۔۔ کسی کے ساتھ محبت میں وہ گر تو سکتا ہے " ، "لیکن کسی کے جسم کی محبت میں گر نہیں سکتا"۔
"stop acting
میں قطعا رحمدل نہیں ہوں کہ تم میرے آگے جھکنے کی اداکاری کرتی رہو اور میں تمہارے
ساتھ تعاون کرتی رہوں"ہنھھ
"اگر تم کو جھکنا اتنا ہی پسند آرہا ہے تو لگی رہو۔۔۔"
یہ کہہ کر وہ رکی نہیں اپنا لگیج گھسیٹتی نکلتی گئی۔
پیچھے سے حنیم غصہ اور تزلیل سے سرخ چہرہ لیئے مٹھیاں بھینچ گئی۔
پیر پٹخ کر "damn it
یہ لڑکی پوری پلاننگ کے ساتھ اسے لفظوں کی مار، مار گئی تھی۔
حان آن کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگنے لگا آنسو اس کی آنکھوں سے بہے جارہے تھے ۔۔ حنیم یہ دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگی اور اس کو ھاتھ سے پکڑ کر روکا
اور جھوٹے آنسو بہاتے ہوئے بولی
"حان۔۔ وہ جھوٹی ہے ۔۔ میں نے یہ نہیں کہا یقین کرو حان۔۔ "
جسٹ شٹ اپ یو بچ "وہ شدید غم سے چلایا ۔۔ اتنا کہ حلق پھٹ گیا ہو جیسے ۔۔
"یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے ۔۔۔ساری غلط فہمی تمہاری پیدا کی گئی ہے۔۔ یو آر رئیلی لائیک اے بچ۔۔شدت نفرت سے کرلایا۔۔
"میں نے تم سے کبھی محبت نہیں کی ۔۔۔نہ کبھی کرسکتا ہوں۔
وہ چینخ چینخ کر بولا۔۔ اور سر کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کر روتے روتے نیچے روڈ پر بیٹھ گیا ۔۔ پھر شدت سے سر اٹھا کر چینخا۔۔۔ آ آ ن ن ۔۔
" ہاں میں تم سے پیار کرتا ہوں آ آ آن۔۔ میں تم سے پیار کرتا رہوں گا آخری سانس تک ۔۔۔ ۔۔
روتے روتے ہچکی بندھ گئی ۔
یہ سب دیکھتی حنیم کی جیسے سانس رک گئی ۔۔ پھر سختی سے اپنے آنسو پونچھ لیئے اور اس راستے پر آن کے جاتے قدموں کے نشانات کو دیکھ کر خود کلامی کی۔
"آن دیکھ لوں گی تم کو ۔۔ چھوڑوں گی نہیں "
سنڈے کے دن آن نے مدھان شاہ کو اس کی ٹیوشن دی۔ پھر اپنے اسٹوڈنٹس کو پڑھانے نکل گئی۔۔
سہپر کے وقت وہاں سے جیسے ہی فارغ ہوئی،اس کے فون کی بیل ہوئی نکال کر دیکھا تو ولا کا نمبر شو ہورہا تھا
" آن میڈم۔۔۔ سر پوچھ رہے آپ کب تک آئیں گی؟"
"آئی ایم سوری، میں آج مصروف رہوں گی نہیں آسکوں گی۔"
ادھر ولا میں خادمہ نے فون پر ہاتھ رکھ کر علیدان شاہ کو دیکھا جو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا آن کا کھانے پر انتظار کررہا تھا۔ " تو پھر آپ کب تک آئیں گی میں گاڑی بھیج دیتی ہوں۔ "
"نہیں میں خود آجاوں گی آپ زحمت نہیں کرئے پلیز" ٹیک کیئر" فون آف کرکے اس نے بیگ میں ڈالا ۔
۔
علیدان نے کریم کو دیکھا جو قریب ہی کھڑا تھا " کریم پتا کرو آن میم کہاں جاتی ہیں ؟" ایک ایک چیز مجھے معلوم ہونی چاھئے انڈراسٹنڈ؟؟
" اوکے سر"
علیدان کو یقین تھا " آن اسے نظر انداز کررہی ہے "
یہ ایک کلب کا منظر ہے ،لڑکیاں لڑکے آپس میں مگن ھنس بول رہے تھے اور ساتھ ہی ڈرنک بھی انجوائے کررہے تھے ماحول کافی بے باک تھا کچھ افراد کھڑے دھیمے میوزک پر جھوم رہے تھے ۔۔آن کلب یونیفارم پہنے ، براون بالوں کی اونچی پونی بنائے اپنے کیوٹ سے گلابی فیس اور نیلی چمکتی آنکھوں کے ساتھ مسکراتی ہوئی ڈرنک سرو کررہی تھی۔ آن کو کافی دیر سے کسی اجنبی کی تپتی نظریں خود پر محسوس ہورہی تھیں۔۔ وہ کبھی ادھر ،کبھی ادھر آرڈر سرو کرتی رہی ۔۔ جب کافی دیر بعد بھی اسے تپش محسوس ہوتی رہی تب آن نے نظر پھیرا کر جانچنا چاھا، ایک ٹیبل پر سرو کے بعد آن جیسے ہی مڑی انجان ھاتھوں نے اس کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کردی۔
" ایک رات کے کتنے لیتی ہو"
وہ شخص اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر مرمٹا یقینا نہیں تھا۔ یہ اس کلب کی روایت نہیں تھی یہاں کی ھر ویٹریس کی عزت تھی۔
" آئی ایم سوری سر میں یہاں پر صرف ڈرنک سرو کرتی ہوں "
" خود کو معصوم ظاہر مت کرو ، مجھے ایک رات کا ساتھ چاھئے"
"تو پھر آپ کو اپنا "سیکس چینج" آپیریشن کروانا چاھئے"
" کیا مطلب ہے ؟؟" وہ دھاڑا
" کیوں کہ مجھے گرلز پسند ہیں"
یہ مشکل تھا آن کے لیئے کہنا لیکن خود کو بچانے کے لیئے وہ اب اکثر یہی کہتی تھی۔ جس وجہ سے لوگ اس سے کنارہ کرلیتے تھے وہ سمجھی تھی اب بھی یہی طریقہ اس بھیڑئے سے اسے بچالے گا"
اس نے آن کا بازو کھینچا۔ ۔آن صوفے پر گر گئی۔۔
یہ میرے لیئے بھت دلچسپ ھوگا ایک لیسبن کے ساتھ رات گذارنا ، میں نے آج تک کسی لیسبن کے ساتھ رات نہیں گذاری"
یہ دیکھ کر کہ "وہ شخص تقریبا اس کے ہونٹوں پر جھکا کس کرنے والا ہے ، آن کا ھاتھ " چٹاخ " کی آواز کے ساتھ اس کے گال پر نشان بنا گیا۔
آدمی کی آنکھوں میں جیسے خون بھر آیا " یو۔۔ یو ۔۔ بلڈی بچ ۔۔ تم کو تو میں سبق سکھاتا ہوں" یہ کہتے ہی وہ آن پر جھپٹا ۔ ۔مرد کا ھاتھ جیسے ہی آن پر اٹھا تو کسی رکاوٹ کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکا
مرد تقریبا غرایا ۔
"
کسی کی ہمت ہوئی مجھے روکنے کی؟"
الفاظ ابھی منہ میں تھے ،کہ ایک زبردست " مکا " اس کا جبڑا ہلا گیا ۔
پھر تابڑ توڑ مکوں نے اسے زمیں پر گرادیا ۔۔
آن صوفہ پہ گری خوفزدہ روئی آنکھوں کے ساتھ علیدان شاہ کا درندگی والا روپ دیکھ رہی تھی جو مکوں سے اس شخص کی دھلائی کیئے جارہا تھا۔
یہاں تک کہ وہ شخص ہوش سے بے گانہ ہوکر ایک طرف لڑھک گیا۔
"کیا آپ پوچھنا نہیں چاہیں گیں ۔ کہ میں یہاں کیوں ہوں؟"
علیدان نے اس کے قریب آکر اسے اٹھایا اور شانوں سے تھام کر اس سے سخت لہجے میں استفسار کیا۔۔
آن بھیگی آنکھوں کے ساتھ اس مضبوط مرد کو دیکھتی رہی جس نے اسے مشکل وقت میں بچالیا تھا کیا ہوتا ۔۔۔ اگر وہ نہ آتا ؟ آن کو یہ سوچ کر ہی ہول آرہے تھے ۔۔ آنسو گالوں پر نالے کی طرح بہہ رہے تھے ۔آنکھیں۔۔ ضبط سے جل رہی تھیں، وہ سر جھکائے سامنے کھڑی رہی۔
وہ اس کے قریب ہوا لیکن آنسو پونچھنے کی زحمت بلکل نہ کی ۔
" دو انگلیاں اس کی پیشانی پر کلک کرکے وہ بولا تو آواز خرکت اور غراتی ہوئی تھی جیسے غصہ ضبط کررہا ہو۔
" مجھے آج صرف ۔۔۔یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ آپ۔۔۔۔۔۔ ایک ایسا وجود ہو۔۔۔ جو سمجھ سے باھر ہوتا ہے۔ "
یہ کہتے ہی وہ غصہ سے اس شخص کو گردن سے اٹھاتا۔۔تقریبا گھسیٹتا مینجر کے آفیس کے طرف بڑھا " کلب کی شہرت اچھی تھی پھر آخر اس شخص کی ہمت کیسے ہوئی؟ آن پر ہاتھ ڈالنے کی ؟ وہ مینجر کی طبعیت صاف کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔آخر وہ پورے شہر کا امیر ترین شخص تھا۔۔لوگ اس کے نام سے ہی کانپ جاتے تھے۔چاہتا تو پل میں کلب بند کروادیتا ۔
آن آنسو پونچھتی اس کے پیچھے پیچھے بھاگتی آئی۔۔
جہاں وہ تقریبا دھاڑ رہا تھا۔ ان کا کلب بند کرنے کی وارننگ دے رہا تھا مینیجر ھاتھ باندھ کر معافی مانگ رہا تھا ، وہ مڑا اس شخص کو کالر سے پکڑ کر جھٹکا دیا ۔
" کس کے کہنے پر ہمت کی تم نے بولو ؟"
اس شخص کی آنکھوں میں ڈر واضع تھا اس نے خوف سے کھڑے اس شخص کو دیکھا اور تھوک نگلتا اس کے پیچھے کھڑی آن کو دیکھا ۔
"وہ ایک عورت تھی چہرے کو ڈھانپے ہوئے اس نےمجھے ان کی تصویر دی اور پیسے دیئے مجھے کہ ۔۔ اس۔۔۔۔ "آن کے طرف اشارہ کیا۔" کے ساتھ کچھ برا کروں اور اگر میں کامیاب ہوا تو مجھے پیسے بڑھا کر دے گی "
آن یہ سن کر حیرانگی سے قریب آئی ۔
"کیا وہ میرے جیسی دکھتی تھی ؟ اس کی آواز میرے جیسی تھی؟ کیا اندازہ لگاسکتے ہو تم ؟کیا نام تھا"آن نے پوچھا۔۔
"میں نہیں جانتا "وہ تھوک نگلتے نفی میں سر ہلاگیا۔
آن نے سیل نکال کر گیلری سرچ کی اور ایک تصویر نکال کر دکھائی۔ " غور سے دیکھو کیا وہ یہ تھی؟"
"اس نے اپناچہرہ نقاب سے ڈھکا ھوا تھا صرف آنکھیں دکھتی تھی جو بلکل اس جیسی تھیں" آدمی نے بغور تصویر دیکھ کر بتایا۔۔
کیا اس کا قد میرے جتنا تھا؟ اس کی آواز میری طرح باریک تھی؟
" ہاں" آدمی نے سر ہلایا " اس کا قد آپ کے جتنا تھا آواز نرم تھی "
آن نے غصہ اور غم سے مٹھیاں بھینچ لیں۔
"دیکھو مجھے اب جانے دو مجھے جو معلوم تھا بتادیا "
علیدان آن کی طرف گھوما " کیا کہتی ہیں؟"
آن نے سر ہلادیا
علیدان نے جھٹکے سے اس شخص کو چھوڑا تو وہ اس کی سخت گرفت سے نکل کر بھاگتا اندھیرے میں ہی غائب ھوگیا جیسے " قید سے رہائی پاکر ملزم بھاگتا ہے"
" ایسا لگتا ہے آپ جان گئی ہیں کہ اس سین کے پیچھے کون ہے؟"
علیدان نے آن کودیکھا جو پرسوچ نظروں سے سامنے ساکت دیکھتی جارہی تھی۔ اس طرف ۔۔جہاں آدمی بھاگا تھا۔
"آن کچھ نہ بولی فقط ہاں میں سر ہلادیا ۔
"تو پھر آپ چاہیں گیں کہ یہ مسئلہ میں حل کروں؟"
اس نے پوچھا۔
"نہیں " یہ میں خود حل کروں گی " آن عزم سے بولی تھی۔
"اوکے۔۔۔ تو پھر گھر چلیں۔ "
یہ کہہ کر آگے بڑھنے لگا۔۔
" چلیں" حکم سناتا آگے بڑھا
لیکن ٹہر گیا پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ ابھی تک بھیگی آنکھوں کے ساتھ نظر جھکائے لب بھینچے ساکت کھڑی تھی ۔
"آپ کا بھت شکریہ علیدان سر"
"میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں مجھے لفظی شکریہ کی ضرورت نہیں ہے عمل سے ثابت کریں۔" وہ قریب ہوکر اس کے کان میں غرایا۔۔
آن کی دھڑکنیں علیدان کی سانسوں کی تپش میں گھل کر نئی لے میں دھڑکنے لگیں۔آن نے بمشکل خود کو رلیکس کیا۔
" تو پھر شکریہ کے طور پر ایک کپ کافی کیسی رہے گی ؟" آن ہولے سے بمشکل بول سکی وجہ اس کا اس قدر قریب ھونا ،
ہونٹ کپکپائے ۔۔
"اگر آپ اتنا ہی زور بھر رہی ہیں۔۔ تو آپ کے ساتھ یہ قبول ہے۔" اب کے نزدیکی سے ہٹ کر دوری بنالی۔
"تو پھر دو منٹ ٹھرئے میں چینج کر آتی ہوں "وہ سنبھل کر بولی ، اشارہ اپنے ویٹریس والے ڈریس کی طرف تھا ،
وہ کچھ نہ بولا فقط ایک " ہممممم " کہہ کر ہاتھ سے اشارہ کیا کہ جلدی آو۔۔
۔
دونوں گاڑی میں بیٹھے " کریم گاڑی چلاو"
یہ کریم ہی تھا جس نے انویسٹیگیٹ کرکے علیدان شاہ کو بتایا کہ آن میم رات کو کلب میں ویٹرس کی جاب کرتی ہیں ۔
"میم کہاں جانا ہے ؟"
آن نے فون نکال کر اڈریس سرچ کیا اور کریم کو تھمادیا ۔
"بیچ پر چلنا ہے " پھر مڑ کر علیدان کے سپاٹ چہرے کو نہارا ۔
"آج میں آپ کو ایسی جگہ لے چلتی ھوں ۔جہاں آپ کبھی نہیں گئے ہیں"
"ہممم " علیدان نے کچھ کہنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔۔ بلکہ سرد نظروں سے گھورا۔۔
کافی دیر کے بعد گاڑی بیچ پر رکی۔
دروازہ کھول کر آن کے ساتھ علیدان شاہ بھی باھر نکلا۔۔
سمندر کی لہروں سے ٹکرا کر ٹھنڈی ہوائیں آن کے چہرے سے ٹکرائیں تو آن نے سکون سے آنکھیں موند کر اس پل کو دل سے محسوس کیا ۔۔ دونوں بازوں کھول کر ۔۔ جیسے اس ماحول کے سکون میں رچ بس جانا چاہا ۔۔ ایک گہری سانس لے کر فضا میں پھیلی خوشبو کو اندر اتارا۔۔
اس وقت وہ بھول گئی کہ ساتھ میں ایک شخص ہے جو اس کی ایک ایک حرکت کو دھیان میں رکھے ہوئے ہے ۔
" یہاں تو کوئی کافی شاپ نہیں "
علیدان نے فسوں خیز ماحول کے سحر سے خود کو نکالا۔
"علیدان شاہ پلیز اس طرف، " التجا آمیز لہجے میں بول کر ایک طرف اشارہ کیا ۔
" آپ نے ایسی جگہ کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔" وہ دونوں ایک بڑے سے ملائم پتھر کے قریب آئے تب علیدان نے جانا، وہاں تین اسی طرح کی شاھکار پتھر اسٹول کی شکل میں گڑے ہوئے تھے ایسے لگ رہا تھا کسی ماہر نے تراشے ہوں لیکن وہ بلکل قدرتی تھے۔۔
ٹھنڈی ہوائیں آن کے کھلے بالوں سے اٹھکلیاں کرتی گذرتی گئیں۔
آن نے بال سمیٹ کر ایک کندھے پر ڈالے اور لمبی سی فراک سمیٹ کر ایک گھسے ہوئے پتھر پربیٹھ گئی ۔۔
بیچ کے پتھر پر موبائل ٹارچ جلا کر رکھا۔
اس کے بعد بیگ سے تھرموس نکالا اور انسٹینٹ کافی کے دو بیگ
اور دو ڈسپوزایبل کپ۔۔
علیدان ابھی تک کھڑا اس کی ایک ایک حرکت دیکھ رہا تھا۔
" کیا یہی وہ جگہ ہے ؟ جہاں آپ مجھے کافی پلارہی ہیں؟"
"جی ہاں ۔۔۔کیا آپ کو نہیں لگ رہا کہ یہ جگہ بھت پرسکون ہے؟"
اس نے اچھنبے سے علیدان پر نظر کی۔
علیدان نے بھنویں کھینچیں ۔ وہ واقعی اس جگہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا۔
"یہ میری سیکیریٹ جگہ ہے ۔ یہ پہلی بار ہے کہ میں کسی دوسرے کو اپنے ساتھ یہاں لائی ہوں ورنہ ۔۔۔۔ " آن کا لہجہ مدھم ہوا۔۔ وہ رک گئی ۔۔ شاید جو کہنا چاھتی تھی وہ نہ کہہ پارہی تھی یا کہنا ہی اسے اچھا نہ لگا تھا ۔
علیدان نے خاموشی سے کافی کا کپ اٹھایا اور ایک گھسے ہوئے ملائم اسٹول نما پتھر پر بیٹھ گیا۔۔
بیچ میں موبائل ٹارچ روشن تھی ، حلانکہ اتنا اندھیرا نہیں تھا پورے چاند کی رات تھی چاند کی من موہنی سی روشنی نے ماحول کو فسوں خیز بنا ڈالا تھا، اس فسوں خیزی کے اثر سے دونوں ہی انجان اپنی سوچوں میں مگن تھے۔
بالآخر اس فسوں خیزی کو علیدان نے توڑا ۔
" آپ نے کہا یہ آپ کی سیکیریٹ جگہ ہے ؟"
وہ جاننا چاہ رہا تھا کہ ایسا کیا بھید چھپا تھا اس جگہ میں؟، کیا راز تھا آن کی اس بات کے پیچھے۔
"well۔۔۔۔
میری مام مجھے یہاں اپنے ساتھ لاتی تھیں ، یہ جگہ کافی گمنام سی ہے۔ کوئی بھی اس جگہ کے بارے میں نہیں جانتا، اسی لیئے کوئی بھی ادھر کا رخ نہیں کرتا ۔۔۔میں جب جب اداس ہوتی ہوں۔۔ادھر چلی آتی ہوں کچھ دیر یہاں بیٹھ جاتی ہوں ،۔۔ یہ جگہ بہت خوبصورت اور کافی پرسکون ہے " اوپر اشارہ کیا۔۔
علیدان نے اس کے ھاتھ کے اشارے پر اوپر دیکھا جہاں چاند کی روشنی منور تھی ہلکی ہلکی لہروں کو چھوتی ہوائیں نرم نرم ٹھنڈی روشنی ماحول کو واقعی بہت پرسکون بنارہی تھی ۔
علیدان کو ماحول کے فسوں نے جیسے جکڑ لیا۔
"بقول آپ کے آپ کافی وقت سے یہاں آتی رہی ہیں۔۔ اور تنہا بیٹھ کر سمندر کی لہروں کو چھو کر آتی ہوائوں کی سرگوشیاں سنتی ہیں تو مجھے بھی لگتا ہے یہ جگہ مستقبل میں میرے لئے بھی خوبصورت رہے گی " ۔کیا وہ شخص اس فسوں خیز ماحول کے اثر میں تھا ؟ لہجہ گھمبیر سا خمار زدہ ہلکی ہلکی میٹھی آواز واقعی آن کی سماعت کو اس وقت بھلی لگی ۔
آن نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو علیدان نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
" کیا نہیں ؟"
آن نے کندھے اچکا کر لاعلمی کا اظہار کیا ۔۔" اس کا مطلب ہے ہر سرمایہ دار اس زاویہ سے نہیں سوچ سکتا جس زاویے سے ایک غریب سوچتا ہے ۔۔ آن نے جیسے اس پر طنز کیا۔۔
یہ سن کر علیدان کا بے اختیار قہقہہ نکل گیا۔۔۔وہ ہنستا گیا وہ بھت کم ہنستا تھا۔
آن نے منہ بنالیا ۔
"مسٹر علیدان اس کا مطلب آپ ھنس بھی سکتے ہیں ؟"
" کیا آپ مجھے زیادہ جانتی ہیں؟"
علیدان نے سوالیہ نگاہ ڈال کر ھنسی کو مسکراہٹ میں ڈھالا۔
سر نفی میں ہلا کر " نہیں ۔۔ بلکل بھی نہیں " پھر کندھے اچکا لیئے جیسے وہ بور ہوگئی ہو۔۔
پھر کافی کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا۔۔ اور آسمان کو دیکھنے لگی جہاں سکون ہی سکون تھا۔۔
علیدان نے کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا اور منہ بنالیا۔ " یہ کیا ہے ؟ بھت مشکل ہے پینا"
وہ مسکرادی " اوھ سوری ۔۔ میں بھول گئی کہ آپ امیر شخص ہیں ایسی چیزوں سے آپ کا کبھی واسطہ نہیں پڑا ہوگا۔۔ تو آئندہ ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔ بلکہ آج سے ۔۔ابھی سے میں آپ کو کبھی کوئی ایسی چیز پیش نہیں کروں گی، جو آپ کے معیار کی نہ ہو۔ کیونکہ بحرحال ہم دو الگ دنیاوں کے لوگ ہیں ہمارا معیار ایک سا نہیں۔۔ میں آئندہ ایسا نہیں کروں گی "۔
یہ کہہ کر اس کے سامنے سے کپ اپنے طرف کھسکا لیا۔
" یہ میں پی لیتی ہوں۔"
علیدان کو غصہ تو بھت آیا ۔۔ جھٹکے سے وہ کپ جھپٹ لیا۔۔
" میں نے صرف یہ کہا کہ عجیب ہے، پینے سے انکار نہیں کیا۔"
سخت گھوری سے نواز کر کافی منہ سے لگا لی اور ایک ہی گھونٹ میں ختم کرلی۔
" آن نے حیرت بھری نگاہ کی " اس شخص کو غصہ کس بات پر آیا ابھی؟"
" کیا سارے سرمایہ دار ایسے ہی ھائپر ھوتے ہیں"
آن کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔۔
" اب بتائیں۔۔ آپ نے کیسے جانا کہ اس شخص کے پیچھے کوئی عورت ہوگی؟" علیدان نے کلب میں پیش آئے واقعے کے متعلق جاننا چاہا۔
"پہلی بات جو میں خود کو بچانے کے لئے کرتی تھی اسکے آگے ایسے درندے بلکل بیکار تھے ۔۔دوسری بات ۔۔۔ وہ رکی
میرے پاس کسی بھی درندے سے خود کو بچانے کی صلاحیت ہے۔۔"
"وہ کیسے؟ مجھے بھی یہ راز بتائیں"وہ اب کہ حیران ھوا۔
"میں کیوں آپ کو اپنا راز بتاوں؟ وہ انکار کر گئی ۔۔معصومیت سے منہ بنالیا۔۔
"کیا میں نے آپ کی عزت نہیں بچائی؟ بدلے میں مجھے یہ بری کافی پینے کو ملی ۔۔۔ مجھے بھی تو یہ جاننے کا حق ہے ۔۔ ہے کہ نہیں؟"
علیدان نے جتاتی نظروں سے آن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں
۔ آن نے ہونٹ کاٹے۔۔ اور شرمندہ نظر اس پر ڈالی ۔ اور ہچکچکاتے ہوئے منمنائی ۔۔
"میں کہتی تھی " مجھے عورتیں پسند ہیں" آن نے شرم سے نظر جھکالی ۔۔
"کف۔۔ کف۔۔ کف ۔۔" علیدان کو زور کی کھانسی لگ گئی ۔
اس نے کپ منہ سے لگانا چاہا مگر۔۔۔
آن گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" پریشانی سے پوچھا
" یہ آپ کا بھیڑیوں سے بچنے کا حربہ تھا ؟ " علیدان سوالیہ ھوا۔
کیا آپ کو اپنی ریپوٹیشن کا خیال نہیں آیا کہ خراب ہوسکتی ہے؟" علیدان کو حیرت ہوئی۔۔
"نہیں۔۔کیونکہ معصومیت میرے لیئے اہم ہے بجائے ریپوٹیشن کے۔۔" آن نے اپنے ہاتھوں کو گھورا۔۔ جو خالی تھے۔۔ اس کی قسمت کی طرح۔۔
"بیوٹیفل۔۔۔" علیدان کے لبوں سے ایک لفظ اس کے لیئے نکلا تھا ۔ وہ واقعی بیوٹیفل تھی ۔۔ اسے وہ رات نظروں میں پھر گئی۔۔ منظر نے جیسے وجود میں میٹھی میٹھی سی چھبن بڑھائی۔
آن نے چونک کر اس کی مدھوشی بھری نظروں کو دیکھا جو گہرائی سے اس کے وجود کا احاطہ کیئے ہوئے تھیں ۔
آن کو جھر جھری آگئی وہ اس رات کو سوچ کر علیدان کے لفظ "بیوٹیفل" کا مطلب سمجھ آنے پر کانوں تک سرخ پڑ گئی۔
"اس رات آپ کو نشہ کس نے دیا تھا۔۔۔ حان حارث نے ؟یا کسی اور شخص نے؟ "
اب تفصیل سے اس نے آن کو جاننے کی ٹھان لی تھی۔
"کیا آپ کو نہیں لگتا آپ دوسروں کی پرائیویسی میں دخل اندازی کررہے۔" آن نے بتانا نہیں چاہا۔۔
"تو کیا آپ کو یہ زیبا ہے کہ ایک استاد ہوکر کسی کلب میں جاب کرتی پھریں؟"
وہ تو جیسے تپ گیا۔ اس کی غیرت کو یہ گوارہ نہیں تھا۔
" آپ کو نہیں لگتا آن کہ آپ ٹوٹتی جارہی ہیں؟" اس نے اس کے ویک پوائنٹ پر ھاتھ ڈالا۔
"پلیز۔۔۔" وہ تکلیف سے کراہی سچ کڑوا تھا۔۔ اور وہ سچ ہی کو نظر انداز کررہی تھی ۔۔
وہ اٹھا۔۔ آن اس کے بڑھتے قدم دیکھ کر بے اختیار دو قدم پیچھے ھٹی تھی ۔۔
اور پیچھے بڑے سے پتھر نے اسے وہی اسٹاپ کردیا۔۔
وہ قریب آیا اور تھوڑی دوری پر رک کر ھاتھ آگے بڑھایا ۔۔
"مجھ سے شادی کریں گیں ؟"
آن نے زور سےآنکھیں میچ لیں۔
وہ ابھی کلاس لے کر اسٹاف روم میں آئی تبھی اس کی کولیگ نے اسے بتایا کہ حان حارث آپ کا پوچھ رہا ہے۔
ابھی وہ اسکی بات سن ہی رہی تھی کہ اسٹاف روم کی ڈور ناک ہوئی۔
چونک کر وہ مڑی تو حان حارث کھڑا تھا۔۔
آن نے ایک گہری سانس ھوا کے سپرد کرکے خود کو پرسکون کیا۔اور اسے سوالیہ نظروں سے گھورا یہ اب کیا کرنے آیا ہے ؟دل میں سوچا۔
"مس ۔۔۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو پلیز کچھ دیر۔۔۔۔( اس نے انگوٹھے کو انگلی سے ملایا)
ٹیچر نے حان کو چھبتی نظروں سے دیکھا اور بنا کہے باھر نکلتی چلی گئی۔
"میں نے سنا ہے تم علیدان شاہ کے ساتھ رہ رہی ہو؟"
لہجہ ایسا تھا جیسے آن اس کی پراپرٹی ہو ۔حان کو جیسے آن پر مکمل اختیار ہو۔ساتھ ہی اسے یہ امید بلکل نہیں تھی کہ آن علیدان شاہ جیسے بلینئر کے ساتھ بھی مل سکتی ہے ۔ کیا آن لالچی عورت تھی؟
آن نے بازو سینے پر باندھ کر اسے گھورا۔
" تمہیں یہ حق میں نہیں دیتی کہ انویسٹیگیٹ کرتے رہو۔"
"وہ تمہارے قابل نہیں آن "
" تو کیا تم خود کو میرے قابل سمجھتے ہو ؟۔۔۔۔۔اب بھی۔۔۔۔؟ حیرت ہے۔۔" آن طنزیہ ھنسی۔۔
"خود کو غلط سمت میں جانے سے روک لو آن ،ورنہ کسی چیونٹی کی طرح مسل دی جاو گی، ایسے کہ تمہارا نام و نشان تک نہیں مل سکے گا ۔۔تم نہیں جانتی آن ۔۔علیدان شاہ کسی بھی طرح سے قابل نہیں ہے۔ میں یہ سب تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں ۔ میں نہیں چاہوں گا تم جانتے بوجھتے کھائی میں جاگرو۔" وہ ملتجی ہوا۔۔
" آن اب کے دھیمے مگر چھبتے ہوئے لہجے میں بولی۔
" اچھاا۔۔! تو پھر میرے بھلے کے لئے تم نے کون سا پہاڑ اٹھایا ہے؟ یہی کہ ۔۔ حنیم کے کہنے پر رعب ڈالنے آگئے ۔۔ہنہہہ۔، تم ہر وہ کام کرسکتے ہو حان حارث ،جو حنیم حیدر کہتی ہے۔۔۔ ہے نا؟" اس کی آنکھیں سرخ ہوئی۔۔
"میں۔۔ مجھے۔۔" وہ ہکلایا۔ " مجھے حنیم نے نہیں بتایا۔" جیسے صفائی دی گئی۔
یہ سن کر آن نے جھٹکے سے اپنا بیگ کھول کر اس میں سے تصویریں نکال کر حان کے طرف اچھالیں۔۔
" یہ یہ۔۔ کیا ہے۔۔؟" حان نے تصویریں دیکھی تو جیسے کچھ سمجھ میں نہ آیا۔
" یہ ہے وہ ثبوت۔۔ حنیم نے گذشتہ شب کلب میں مجھ پر اٹیک کروایا اس آدمی کو پیسے دیئے ۔۔ اپنا چہرہ نقاب سے ڈھانپ کر۔ لیکن سچائی تو صاف ظاہر ہے کہ وہ حنیم تھی۔۔
غور سے دیکھو ۔۔ وہ ھلکا سا چلائی۔۔
جیسے اب اس کی برداشت سے باھر ہوگیا۔۔ یہ سب ڈرامہ باز تھے۔۔ یہ دنیا ایک ناٹک تھی۔۔ ہر ایک ناٹکی ۔۔ ہر ایک کے سینکڑوں چہرے تھے اس کا اصل کس روپ میں چھپا ہے ؟، یہ پتا ہی نہیں چلتا!! لوگ کھلتے جاتے پیاز کے چھلکوں کی طرح پرت در پرت ۔۔۔ ہر رنگ مختلف ہر روپ الگ۔۔ کس روپ پر اعتبار کرتی وہ؟؟
اندر سے روتی وہ باھر سے بظاہر مضبوط لڑکی ۔۔
اندر سے ٹوٹ کر بکھر جاتی تھی، لیکن باھر سے ساکت جیسے سمندر کی سطح ساکت نظر آئے اور اندر طلاطم برپا ہو۔
آن بھی تو ایسی ہی تھی۔۔
اپنے اندر سمندر جیسی۔۔
☆☆☆☆☆☆
ولا پہنچ کر اس نے سوچا مدھان شاہ کو اس کی سیپلیمنٹری کی تیاری کروادے۔۔ ابھی وہ سیڑھیوں سے اتر کردو قدم ہی بڑھی ہوگی کہ علیدان کی آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔
" میں آج آپ کے پرنسپل سے ملا تھا۔"
وہ مڑی اور نگاہیں سوالیہ ہوئی جیسے پوچھ رہی ہوں " تو پھر؟ "
"مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ جیسی ذہین اور پرانی اسٹوڈنٹ سے وہ کس وجہ سے خار کھائے ہوئے ہے ؟"
وہ جاننا چاہ رہا تھا۔۔
آج آفیس سے وقت نکال کر وہ پرنسپل بلال آخوند سےملنےگیا تھا۔ان سے بزنس رلیشن تھے۔اس ملاقات کےبعد وہ ابھی ابھی، الجھا سا واپس ولا پہنچا تھا۔
"یہ تو مجھے بھی نہیں پتا مسٹر شاہ" آن نے کندھےاچکا لیئے لب بھینچے۔
تو پھر کسے پتا ہے " یہ لڑکی بہت گہری تھی۔۔
"ہوسکتا ہے وہ میری خوبصورتی سے جلتے ہوں" آن نے بات گھما دی
"آپ کے گریڈ بھی اچھے ہیں ،قابلیت بھی کم نہیں آپ یقینا ٹاپ ھنڈریڈ کاروباری ادارے میں شامل ہوکر کوئی بھی بڑی جاب حاصل کرسکتی تھیں۔۔ پھر آپ نے ایک عام ٹیچر کی نوکری کو ہی ترجیح کیوں دی ؟ کیا سبب ہے آن؟"
آن بس دیکھتی رہ گئی ۔۔
"کیا آپ کو اب بھی وجہ جاننے کی ضرورت ہے؟"
آن نے اسےدیکھا، نیلی آنکھیں گہری بھوری آنکھوں سے ملیں۔۔ گہری بھوری آنکھوں میں ھزاروں سوالات جاننے کی جستجو دیکھ کر نیلی آنکھیں خودبخود جھک گئیں،
"لوگ ہر کام کسی نہ کسی وجہ سے ہی کرتے ہیں ؟"
اسی لئے میں کوئی "خواھش نہیں رکھتی ۔۔۔ بنا کسی خواھش کے میں ایک عام آدمی جیسی زندگی گذارناچاھتی ہوں۔" آن نے آنکھیں میچ لیں۔ ہونٹ بھینچ لیئے ۔۔
"جتنے بڑے کام ہونگے اتنے ہی سازشوں کے جال میں پھنسے رہیں گے ، مجھے سازشیں پسند نہیں ۔"
" کس نے کہاہے یہ؟" علیدان کو گفتگو دلچسپ لگی آن کے بولتے ہونٹ اسے مائل کرنے لگے۔۔بھت اچھا بولتی تھی وہ۔
وہ اسے مخمور نظروں سے دیکھنے لگا۔۔ کیا اس شخص کا دل پلٹ رہا تھا۔۔ جس سے وہ خود بھی انجان تھا۔۔
"یہ میں نے ٹی وی شو میں دیکھا تھا۔" آن نے جیسے معصومیت سےمعلومات دی۔
علیدان کے ہونٹ "اوھ" میں ڈھلے۔
"اب میں چلتی ہوں مدھان کو تیاری کروادوں۔ "
وہ مڑی ہی تھی کہ علیدان نے کلائی سے کھینچا۔۔ ایسے کہ وہ کھینچتی قریب آگئی ۔۔
دونوں ھاتھ اس کے سینے پر رکھ کر تقریبا خود کو اس سے لگنے سے بچایا۔
علیدان کے ہونٹ خوبصورت مسکراہٹ میں ڈھلے ۔۔
" کل تیار رہئے گا۔۔۔میں آپ کو ٹیوشن سینٹر سے لینے آوں گا ۔۔" کان کے قریب ہوا
"کہاں ؟" وہ دنگ ہوئی
" یہ کل بتاوں گا۔"
اس کے گال تھپتھپا کر ۔۔ رخ سیڑھیوں کے طرف بڑھا گیا۔۔
پیچھے آن اپنے گال پر اس کے ٹچ کو سوچتی رہ گئی۔۔
☆☆☆☆☆☆
دوسرے دن علیدان نے اسے ٹیوشن سینٹر سے پک کیا ۔
"آج رات کو میرے ساتھ بزنس پارٹی پر چلنا ہے " 8 بجے تک تیار رہنا ۔
میری سیکرٹری آپ کو تیار کروادے گی۔"
"لیکن مجھے بھت سے کام ہیں۔ " آن نے بہانا تراشنا چاہا۔
"آج کے لئے کینسل کردیں" فورا جواب ملا تھا۔۔
آن منہ بناگئی ۔۔
"مگر ۔۔۔؟"
"کوئی اگر ۔۔مگر نہیں چلنی۔۔ میں نے آپ کی مدد کی تھی آپ پر بھی واجب ہے کہ میری مدد کریں۔مجھے آج شام کی پارٹی کے لئے پارٹنر چاھئے۔" وہ جتلا گیا۔
"لیکن میں آپ کو آپ کے احسان کا بدلہ دے چکی ہوں۔
شکریہ کہہ چکی ہوں " وہ حیران ھوئی ۔۔ آنکھیں پھٹ گئیں ۔۔ علیدان نے اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکتے اپنے عکس سے نظر چرالی ۔۔
"جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ شکریہ نہیں تھا، یہ تو ایک قسم کا ٹارچر تھا جس نے مجھے کمفرٹ کیا ایسے شکریہ اور ہونے چاھئیے" وہ اب کے جیسے سوچ کر ہی مخمور ہوا۔
آن نے لب کاٹے ،
"کیا سارے سرمایہ دار ایسے اعداد شمار کرتے ہیں؟"
"میں پہلے بھی واضع کرچکی ہوں کہ میں نے کوئی ڈرنک نہیں کی تھی اور نہ ہی آپ کو مائل کیا تھا۔"وہ منمنائی ۔۔
"اپنے طرف سے کمی بیشی مت کریں۔" وہ سرد ہوا
"آپ میں یہ قابلیت نہیں ہے۔"
آن نے بھنویں اچکالیں منہ دوسری طرف کرلیا۔۔
سب سرمایہ دار عام سے ہوتے ہیں ۔ وہ سوچنے لگی ۔۔
اس کے ناراض ناراض نقوش کو نظروں کی زد میں رکھ کر علیدان جھکا، ہولے سے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
کیا آپ کو پتا ہے آپ میں کون سی قابلیت نہیں؟ " لب بھینچ کر مسکان چھپائی۔۔
وہ اب واقعی پزل ھوگئی۔
وہ اس کے اور قریب ہوا
یہاں تک کہ سانسوں کی آواز ایک دوسرے میں مدگم ہونے لگی ۔ آن کے ہونٹ کپکپائے
جسم نے اتنی سی قربت پر جھرجھری سی لی۔۔ اس نے کانپتے دل اور وجود کے ساتھ دوری بنانی چاہی پلکیں عارض پر جھک گئیں۔۔ عارض شرم و حیا سے سرخ ھوگئے ۔۔
"علیدان نے اس کے گلابی پن کو مخمور نظروں سے دیکھا۔۔
اور انگلیوں سے اس کے عارض سہلاتے بولا۔"بیڈ روم میں آپ کی قابلیت اتنی اچھی نہیں ہے" یہ کہتے اس کے ہونٹ تقریبا اس کے عارض سے مس ہوئے۔
اب تو مانو آن کے جسم نے طاقت چھوڑدی۔۔ علیدان نے بڑھ کر ھلکا سا سنبھالا دیا۔
وہ شرم سے سرخ ہوگئی ۔۔ کیا یہ شخص بلکل بے شرم ہے ؟
آن نے ھلکا سا دھکادے کر اسے خود سے دور کیا۔
اور علیدان دور ھو بھی گیا۔ اب کہ وہ کچھ نہ بولی کھڑکی سے لگ کر بیٹھ گئی ۔۔
علیدان اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا رہا۔۔
آگے ڈرائیور یہ سب ریئرویو میں دیکھ کر حیران ہوا "اس کے صاحب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلی تھی صرف ایک عورت کی وجہ سے۔۔ تو مطلب وہ عورت اسکے لیئے خاص ہے ۔۔
☆☆☆☆☆
شام کو ڈرائیور نے پارلر پر چھوڑا جہاں پہلے ہی سے علیدان کی سیکرٹری اس کی مدد کو موجود رہی۔ہر چیز سیکرٹری نے خریدی تھی، تیار ہونے کے بعد وہ خود کو واقعی پہچان نہ سکی ہمیشہ عام سے حلیے میں رہنے والی آن اس وقت آسمان سے اتری کوئی حور لگ رہی تھی,نیلی آنکھوں کے پپوٹوں پر گولڈن ہلکا ہلکا شیڈو تھا جو بہت ہی خوبصورت لک دے رہا تھا۔فالس آئی لئیش اور مسکارے سے مزیں پلکیں لامبی ہوکر آنکھوں کے حسن کو مزید بڑھا گئیں تھیں، اسکن شائینر سے اسکن گلو ہوکر ملائمت کا عنصر پیدا کررہی تھی ،پنک لپ گلو جو ہونٹوں کے خوبصورت کٹاو کو واضع کرکے کافی اٹریکٹ کررہا تھا، کانوں میں ڈائمنڈ جڑے چھوٹے سے ٹاپس تھے گلے میں ایسا ہی نازک سا نیکلس۔خوبصورت ملائیم براون بال ہلکے سے کرل کیئے گئے تھے جو آدھے کمر تک اور آدھے آگے سینے پر پھیلے ہوئے تھے، گاون کا گلا اگرچہ گہرا نہیں تھا لیکن اس کے بازو پر باریک کپڑے کی ڈیزائننگ کی وجہ سے دودھیا بازو دکھائی دے رہے تھے۔، وہ کنفیوز ہوئی سخت کوفت زدہ بھی۔۔اس ڈریس کے ساتھ کوئی اسکارف نہیں تھا۔،اس نے کبھی اس طرح کی ڈریسنگ نہیں کی تھی کیا یہ علیدان کی چوائس تھی؟؟ وہ بے یقین ہوئی۔۔
◇◇◇◇◇◇◇◇◇
گاڑی میں مسلسل خاموشی کی دبیز چادر پھیلی تھی۔۔ علیدان نے اسکے چہرے کو دیکھا۔ جہاں آنسوؤں نے سوکھ کر واضع نشانات بنادیئے تھے ۔۔ اس نے تاسف سے اسے دیکھا ۔
ھاتھ آگے بڑھایا۔ تاکہ آنسو پونچھ سکے۔ لیکن آن نے سختی سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
"کیا ہوا آن۔۔۔ ؟ آپ کے ساتھ کیا غلط ہوا ؟ اور ۔۔۔یہ پیر کو کیا ہوا؟ چوٹ کیسے آئی؟" فکرمندی اس کے چہرے سے ہی نہیں۔۔بلکہ اس کے ایک ایک لفظ اور تاثر سے ظاہر تھی۔
آن نے اسےناراض نظروں اور غصہ سے سرخ پڑتے چہرے کے ساتھ گھورا۔ اور پھر زور سے چینخی تھی ۔۔
"مسٹر شاہ کیا میں نےآپ کو کسی بات پر اکسایا ہے؟کیا آپ کی میرے سے پچھلے جنم میں کوئی دشمنی تھی۔؟آپ نے میرے سے ایسا برتاو کیوں کیا؟ کیوں مجھے سب کے سامنے کس دی؟
آپ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ آپ بزنس مین ہیں تو دنیا کی ہر عورت آپ کی غلام ہوگی ،اور آپ اس کےساتھ جو مرضی کرسکتے ہیں۔۔۔کوئی روکنے والا بھی نہیں؟ "وہ چینخ چینخ کر ہانپنے لگی۔وہ حیرت سے اس کو سن رہا تھا اور زایان پر غصہ ہورہا تھا۔
"میں آپ کو بتارہی ہوں ۔۔۔اتنا غرور مت کریں ،میں سخت نفرت کرتی ہوں آپ سے ۔۔۔ سخت ۔۔ ن نفرت۔۔" آخر میں شدت گریہ اور چینخنے سے حواس تقریبا ساتھ چھوڑنے لگے ۔۔علیدان خاموشی سے اس کا غصہ کم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔وہ بھی چاہ رہا تھا آن اپنی بھڑاس نکال کر ہلکی پھلکی ہوجائے۔
تھوڑی دیر بعد اس کی آواز ہلکی ہوئی۔ "میں امید کرتی ہوں آئندہ۔۔آپ اپنی حد سے آگے نہیں بڑھیں گے۔ ایک حد قائم رکھیں گے۔۔ اٹز انف ۔"
اس نے اوڑھا ہوا علیدان کا کوٹ سخت نفرت اور حقارت سے کھینچ کر اس کی جانب پھینکا جیسے کوٹ نہ ہو "اچھوت" ہو۔۔"علیدان جیسا سخت مزاج شخص کے سامنے اگر اس وقت کوئی اور ہوتی تو وہ اسے اس بدتمیزی کا سبق سکھادیتا۔لیکن یہاں سامنے آنیہ تھی۔
علیدان نے خاموشی سے سب سنا ۔
اس کا نفرت سے مسٹر شاہ پکارنا ۔ علیدان شاہ کو اپنی انسلٹ لگی،
گاڑی ایک جھٹکے سے سائیڈ پر رک گئی۔آن اس جھٹکے پر سنبھل نہیں سکی بے اختیار جھٹکا کھاگئی۔علیدان اس کی طرف مڑا۔۔۔ جھپٹ کر گرفت میں لے کر اسے جھکایا۔اور اس کی سانسوں کو قید کرلیا۔۔۔ وہ تڑپتی رہی ۔۔ اسے مکے مارتی رہی لیکن۔۔ علیدان نے اسے سزا دینی تھی سخت سے سخت سزا۔۔۔ آن کی ہمت کیسے ہوئی اس پرچینخنے چلانے کی ؟ اس کی محبت کا مذاق اڑانے کی اس کی محبت کو حوس کا نام دینے والی کون تھی وہ؟ اسے خود سے دور کرنے والی؟ ۔۔ وہ ایک بلینئر تھا۔ ایک امیر زادہ ۔۔جس کے آگے ایک دنیا جھکتی تھی۔اگر وہ چاہتا تو اس کے ایک اشارے پر کوئی بھی عورت اس کا ساتھ پاکر، خود کو خوش قسمت تصور کرتی۔آج تک کسی کی ہمت نہیں ہوئی تھی کہ علیدان کے طرف آنکھ اٹھا کر بات کر سکے ۔۔ وہ بھلا کیسے برداشت کرتا کہ آن اس کے ساتھ ایسا کرے؟؟ how dare she was
آخر کافی دیر کے بعد علیدان ایک جھٹکے سے اس پر سے اٹھا ، اس کے ہونٹوں پرانگلی رکھ کر سرگوشیانہ انداز میں غرا کر وارن کیا۔
" اگر پھر کبھی اس طرح کی حرکت کی ۔۔۔۔مجھے اس طرح بدتمیزی سے بلانے کی،یا مجھ پر چینخنے کی۔تو اچھا نہیں ہوگا۔۔۔ اس سے زیادہ سخت سزا دوں گا۔۔۔یاد رکھنا یہ بات"اس کی کھوپڑی پر انگشت شھادت سے کھٹکاتے کہا۔
"ہاں باقی تنہائی میں آپ کو اجازت ہوگی، جیسے چاہیں بلالیا کرنا۔"
لہجہ تنبہی تھا۔۔ جس نے ایک لمحہ تو آن کو چپکی لگادی۔ وہ سیٹ سے اٹھی ، اس کی بکھری بکھری سی حالت کو علیدان کسی خاطر میں نہ لایا۔ اور گاڑی راستے پر ڈال دی اب اس کے چہرے کے تاثرات سخت تھے۔لب بھینچے وہ تیز رفتاری سے گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔
آن تو بس حیران ساکت سی بیٹھی رہ گئی۔ہونٹ کا پھٹا کنارہ علیدان کی شدت انگیزی کا گواھ تھا۔ ہونٹ سوجن کا شکار ہوچکے تھے،
کچھ دیر بعد ہی گاڑی ولا کے بجائے کورٹ کے احاطے میں رک چکی تھی۔
کورٹ پہنچ کر وہ اسکی کمر میں بازو ڈالے خود سے لگاتا اندر لایا۔۔
اس کا وکیل پہلے ہی سے "نکاح نامہ" تیارکر کے رکھ چکا تھا۔۔
یہ کام اس نے تب کیا جب "آن نے اسے ریکوئسٹ کی کہ کچھ دیر زایان سے بات کرنا چاھتی ہے۔ وہ زایان کے سامنے صرف اسے چڑانے کے لئے آن کو "اپنی بیوی" ظاہر کرچکا تھا، وہ یہ دیکھ چکا تھا کہ زایان یہ بات جان کر شدید صدمے میں جاچکا ہے، اسے زایان کو نیچا دکھانے کا بھتر موقع یقینا زندگی میں پھر نہ ملتا۔۔
تو کیوں نہ وہ فائدہ اٹھاتا؟؟یہ سچ تھا کہ آن کے لئے اس کے دل میں پنپتے جذبات خالص تھے ،لیکن آن سے نکاح کرنے سے اسے دو فائدے ہوتے۔۔
ایک تو آن ھمیشہ کے لئے اس کی دسترس میں آجاتی ۔۔ جس کے لئے یہ موقع قسمت سے اسے مل رہا تھا۔۔
دوسرا اپنے حریف زایان اعوان کو عمر بھر کی چوٹ مل جاتی ۔
وہیں کار میں بیٹھے بیٹھے اپنے وکیل کو فون پر نکاح نامے کا سرٹیفیکٹ بنانے کا کہہ کر خود آنکھوں میں ڈھیروں سہانے روپہلے خواب سجا کر پرسکون ہوکر آن کا انتظار کرنے لگا،
" خاموشی سے سائن کرنا ہے ورنہ ویسے بھی تم میری دسترس میں سے نہیں نکل سکتی ۔۔
"اگر یونہی میرے ساتھ بنا نکاح کے گذارنے میں تم کو اعتراض نہیں ۔۔تو۔۔۔۔۔اٹز اوکے ۔۔ ادروائیس۔۔!!
مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔میرے کمرے میں تو ویسے بھی تم آج سے ابھی سے رہو گی۔پھر چاہے قانونی طور پر رہو۔یا غیر قانونی۔یہ آپ پر ہے۔"
۔ آھستگی سے کان میں دھکی دی گئی۔جسے صرف وہ سن پائی تھی ۔دل یکدم کانپا۔وہ اس کے ساتھ مر کر بھی غیر قانوناً نہیں رہ سکتی تھی۔نا ہی وہ اس سے شادی کرنا چاھتی تھی۔یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ آج کا دن بھی اس کی زندگی میں یوں حادثاتی طور پر آئے گا۔وہ بھی اس طرح کہ وہ مجبور کردی جائے گی۔وہ علیدان سے اس کی توقع نہیں کرپارہی تھی۔
علیدان شاہ کو کسی بھی طرح آن سے یہ بات منوانی تھی۔۔ چاہے زور و زبردستی سے منواتا یا پیار سے۔۔
آن کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے ؟؟ اگر وہ اس سے یہ نکاح کرلیتی ہے، تو زایان اعوان کا الزام درست ثابت ہوتا کہ آن علیدان شاہ کو مائل کرتی رہی ہے۔اگر نہیں کرتی تو علیدان نے نہیں چھوڑنا۔۔ آگے پیچھے ہر طرف سے وہ شخص اسے بری طرح گھیر چکا تھا۔۔
آن نے کپکپاتے ہاتھوں سے پین تھاما ۔
اور پھر جہاں جہاں وکیل اسے بتاتا رہا اس نے سائن کرکے خود کو جیسے ہمیشہ کے لئے بقول زایان کے " بھیڑئے " کے سپرد کردیا۔
آن کی سائن کے بعد علیدان نے سپاٹ لہجے میں سائن کرکے وکیل سے ھاتھ ملایا۔۔ اور باقی کی فارملیٹی کے بعد "نکاح نامہ" کی فائل اٹھا کر
اسے ساتھ باھر لے آیا۔۔ اور آگے ڈرائیونگ سیٹ پر بٹھایا ۔۔خود گھوم کر پسنجر پر بیٹھ گیا۔۔
" گھر چلیں۔" علیدان نے اسے دیکھا۔
لفظ " گھر" نے آن کے دل میں جیسے چیر ڈال دیئے ۔ایک وقت تھا وہ خواہش کرتی تھی کہ " اس کا اپنا گھر " ہو۔۔ اور اب جب کہ علیدان کا گھر "قانونی طور" پر "اس کا بھی گھر" بن چکا تھا۔۔۔تو وہ خوش نہیں تھی۔
علیدان نے اسے آرڈر کیا اور خود بازو سینے پر باندھ کر آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ بھت مسرور نظر آرہا تھا جیسے کوئی محاظ سر کر آیا ہو ۔اور آن ایسے تھی جیسے کوئی " بازی ہار آئی ہو"۔
اس کے کندھے بلکل ڈھلکے ہوئے تھے۔۔ وہ ساکت سی بس سامنے گھورے جارہی تھی۔۔
اب وہ علیدان کی ملکیت میں جاچکی تھی اور یہ" احساس ملکیت" کہ اب "وہ خود کی بھی نہیں رہی" اس کے وجود سے جیسے ساری توانائیاں چرا چکا تھا۔۔
علیدان نے اسے ساکت دیکھ کر گھورا " کیا چاھتی ہیں آپ آن ۔۔۔کیا چاھتی ہیں کہ ۔۔۔میں دوبارہ سے تمہارے ساتھ۔۔۔" ابھی جملہ باقی تھا۔۔ کہ آن کا ساکت مجسما بول پڑا۔
"میں ڈرائیو نہیں کرپاوں گی پ پلیزز۔۔"
علیدان نے اس کی حالت کے پیش نظر زیادہ بحث سے اس وقت احتراز کیا ۔
اور فون نکال کر۔۔اپنے ڈرائیور کریم کو کال ملائی اور اسے واپس بلایا۔۔ خود اٹھ کر اسے گود میں اٹھایا اور پچھلا دروازہ کھول کر آرام سے بٹھادیا۔ آن اسے کے چہرے کو خاموشی سے تکنے لگی۔اسے علیدان کے اس روپ پر حیرت تھی۔
علیدان نےآن کے ننگے پیروں کی سوجن دیکھ کر جیسے تنبیہ کی " ایک عورت ہوکر بھی آپ کو یہ نہیں پتا کہ اپنا خیال کیسے رکھا جاتا ہے؟ "
وہ بھی اس کی آنکھوں میں دیکھتے چھبتے لہجے میں بولی۔
" اور ایک مرد ہوکر بھی آپ کو یہ نہیں پتا کہ ایک غیر عورت کو اس طرح پبلک میں کس نہیں کرتے۔ کیا درست تھا؟"
علیدان کے نرم تیور بدل کر سخت ہوگئے اسے گھور کر بولا ۔ "کیا اب بھی ہم "غیر ہیں؟۔۔۔ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں"
آن کو یاد آیا کہ "وہ اس کے ساتھ کار میں تنہا ہے" وہ کچھ بھی کرسکتا تھا، اس خیال نے اسے بزدل بنادیا۔
" آپ کے باپ کے علاوہ ،اس دنیا کے تمام انسانوں کی بھیڑ میں۔۔۔ کیا میرے علاوہ کوئی اور ہے جو تمہارا محرم ہو؟اپنا ہو۔۔۔بتائیں؟میں وہ پہلا مرد ہوں۔۔۔جو آپ کے وجود پر دسترس رکھتا ہے۔بنا کسی شک و شبھے کے۔"
ابھی اس کی بات آدھے میں تھی کہ ان نے اپنا ایک ھاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا۔۔ ایسا کرنے پر اسے افسوس بھی ہوا اور شرمساری بھی محسوس ہوئی ۔" آپ نے وعدہ کیا تھا آپ پچھلے واقعے کا کوئی ذکر نہیں کریں گے۔" اس نے ھاتھ یکدم ھٹایا ۔
" کسی کی بھی اتنی ہمت نہیں کہ وہ واقعہ دہرائے میں صرف آپ کو یاد دلا رہا ہوں،کہ مجھ سے زیادہ آپ کو کوئی نہیں جانتا آن۔"
" ایک ایسی عورت جس کا آپ مکمل نام بھی نہیں جانتے اسے جاننے کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں؟" آن نے سوالیہ نظروں سے علیدان کو دیکھا لیکن زیادہ دیر نظر نہ ٹھرسکی۔۔ جھکا لی
"آنیہ عصمت کاظم" علیدان پکارا ۔
" جی۔۔۔؟" آن نے بے اختیار اس کے بلاوے پر " جی" کہا پھر
آن حیران ہوگئی دنگ نظروں سے دیکھا وہ کیسے جانتا ہے؟؟
علیدان نے اس کی نظروں کا اشارہ سمجھ لیا۔
" اپنی کانفیڈنس کہاں سے لائی ہیں آن؟ کیا سمجھتی ہیں مجھے کچھ نہیں معلوم؟"
" لل۔۔ لیکن آپ نے کبھی مجھے مکمل نام سے نہیں بلایا۔" وہ دنگ ہوئی۔
"مس آن" آپ کا "خطاب" تھا، جو میں نے آپ کی "عزت کے لئے" آپ کو دیا تھا ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں آپ سے غافل تھا؟"
آن نے دانتوں سے اپنے ہونٹ کاٹے۔۔ علیدان نے ہاتھ بڑھا کر اس کے دانتوں میں دبے ہونٹ آزاد کروائے اور آنکھوں سے " Don't " کا اشارہ دیا۔۔
وہ نظر جھکا گئی
اتنے میں دروازہ کھول کر کریم بیٹھ گیا ۔
" پہلے گاڑی ھاسپٹل کے طرف موڑو۔"
"Yes , Alidan sir" کریم نے سر ہلایا۔
"زایان نے ایسا کیا کہا آپ کو جو آپ نیچے آتے ہی ناراض ہوگئیں؟" گاڑی چلتے ہی علیدان نے جاننا چاھا۔
آن چپ رہی۔
"بولتی کیوں نہیں آپ؟ کیا وہ اسی لئے ناراض ہوگیا کہ میں نے آپ کو پبلکلی چوما؟"
آن یہ سن کر کریم کی موجودگی کی وجہ سے بلکل فریز ہوگئی۔ اور شرمندگی سے لب بھینچ کر اسے ترچھی نظروں سے گھورا۔
ہاسپٹل پہنچ کر وہ اسے اٹھا کر سب کے سامنے کسی کی بھی نظروں کی پرواھ نہ کرتا اسے ڈاکٹر کے روم میں لاکر بیڈ پر بٹھایا۔
ڈاکٹر نے چیک کیا بتایا کہ " ایڑی میں کھچاو کی وجہ سے سوجن ہے ،حرکت سے بچنا ضروری ہے ورنہ سولین کا اندیشہ ہے۔"
پھر دوا لگا کر پٹی کردی ۔پھر سے یاد دہانی کروائی ،
زمین پر پیر رکھنے سے منع کیا کہ اس طرح سوجن بڑھ سکتی ہے۔ کچھ دوائیں لکھ کر دے دی اور درد کا انجیکشن بھی لگادیا۔۔
وہ اس کی ہاسپٹل سے گرم بینڈیج کرواکر واپس ایسے ہی بازو میں بھر کر گاڑی تک لایا ،لوگوں کی نظریں آن کو شرمندہ کررہی تھیں، حیا سے وہ علیدان کے سینے میں چہرہ چھپا گئی،
واپس "ولا" پہنچ کر وہ ایسے ہی اسے گود میں اٹھا کر سب ملازموں کے درمیان سے گذر کر روم تک لایا، آرام سے بستر پر نرمی سے بٹھایا۔ اس کے پیچھے سے تکیہ درست کرکے اسے لٹایا ۔
اور خود بھی رلیکس سا ساتھ پڑے ٹوسٹر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
دونوں ہاتھوں سے بالوں میں انگلیاں ڈال کر جیسے سر دبایا ہو۔۔ آج کا دن بھت ہی تھکا دینے والا تھا اس کا سر درد کررہا تھا۔۔ آن نے اسے تذبذب سے دیکھا۔
"مسٹر علیدان ۔۔ جیسے ہی مدھان کے امتحان ھونگے میں یہاں سے جانا چاہوں گی، میں بلکل بھی آپ سے اور تعلق نہیں رکھ سکتی امید ہے مجھے اور مجبور نہیں کریں آپ نے میرے ساتھ جو کیا میں بھول جانا چاہتی ہوں۔" وہ کچھ ٹھر کر جیسے زہر بھرے جملے بولی ۔
یہ جملے سن کر علیدان کا خوشگوار موڈ جو اس کا ساتھ پانے کی وجہ سے تھا اسے اپنی زندگی میں شامل کرکے اس کےدل میں خواھشات کا طوفان پل رہا تھا وہ زندگی میں پہلی بار اپنے اندر مسرت ،لذت خوشگواریت محسوس کررہا تھا۔۔آن کے جملوں نے جیسے آسمان سے زمین کی گہرائی میں لا پھٹکا۔
یہ عورت زایان اور اس کے درمیان میں آگئی تھی ، آخر میں پھر بھی زایان کو اس پر ترجیح دے رہی تھی ،
لیکن وہ اتنی آسانی سے تو آن کو زایان کے طرف جانے نہیں دے گا،وہ عرصہ سے زایان کو کوئی چوٹ پہنچانے کا موقع تلاشتا رہا تھا۔ جو اب قسمت سے اسے مل چکا تھا۔
"بھت خوب آن ۔۔ بھت خوب وہ دل میں ھنسا۔۔ ایک دن آئے گا جب تمہاری ترجیحات میں اول حیثیت صرف اور صرف "علیدان شاہ" کی ہوگی۔۔
صبح ناشتے کی ٹیبل پر آن خاموشی سے بیٹھ کر ناشتہ کرتی رہی ۔علیدان نے اس کی چپ کو بغور دیکھا، لیکن کہا کچھ نہیں۔
ناشتے کے بعد وہ اسکول جانے کو تیار تھی ، علیدان نے اس کے لئے الگ سے ڈرائیور مخصوص کیا تھا۔ جو صرف آن کو پک اور ڈراپ کا پابند تھا۔۔ ملازمہ کو تاکید کی کہ "آن میڈم" کا لنچ یاد سے ان کے ساتھ کرے ۔
آن نے اتنی نوازشات پر اسے روکا ،
"میں بلکل ٹھیک ہوں "علیدان سر" میں خود سے چلی جاؤں گی۔"اس کے انکار پر علیدان نے اسے گھورا ۔
"آپ کو پیر کی موچ میری وجہ سے آئی ہے نا۔۔۔ نہ میں آپ کو زبردستی اپنے ساتھ لے جاتا۔۔ نہ آپ کے ساتھ یہ حادثہ ہوتا۔۔۔ اسی لیئے آپ کا خیال رکھنا میرا فرض ہے ۔"
اب آن نے خاموشی ہی بھتر جانی ، ڈرائیور اسے یونی تک چھوڑنے آیا ۔۔ آن کے لئے دروازہ کھول کر باھر نکلنے کا انتظار کیا اس کا لنچ باکس لئے، آن کو اپنے صاحب کے حکم پر گیٹ تک چھوڑنے کے لئے کھڑا ہو گیا۔ آن نے اس سے لنچ باکس لیا۔
"آپ واپس چلے جائیں۔۔۔ میں آگے خود سے چلی جاوں گی ،بس مجھے لینے ٹائیم پر پہنچ جائیے گا۔"
یہ کہہ کر وہ اسٹک کے سہارے گیٹ کے اندر بڑھی،
گیٹ کے پاس ہی زایان اعوان اپنی آڈی کار کے پاس کھڑا تھا ۔۔ آن کے پیر پر بینڈیج دیکھ کر زایان کا دل تکلیف سے بھر گیا ۔ وہ اس کی بہن تھی۔ بھلا وہ اس کے ساتھ کتنا ناراض رہتا؟؟ دل کے رشتے بھی بھلا زیادہ دیر تک ناراض رہ سکتے ہیں؟ لاکھ رنجش ہو، لاکھ ناراضگی ہو۔۔ لاکھ لڑائی جھگڑے ہوں۔۔ خون کے رشتے پلٹ پلٹ کر پھر سے اپنے اصل کے جانب بڑھتے ہیں ،یہی حقیقت ہے باقی فسانہ ہے۔
"آن " زایان نے اسے پکارا۔
آن نے زایان کو دیکھا تو سپاٹ تاثرات کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔
"یہ تمہارے پیر کے ساتھ کیا ہوا ہے؟؟ "وہ تفکر اور پریشانی آنکھوں میں لئے آگے بڑھا۔۔ نیچے جھک کر آن کے پیر کو ھاتھ لگا کر چیک کرنا چاھا۔ آن نے لاشعوری طور پر پیر پرے کردیا۔
"میں اتفاقاً گر گئی تھی۔" اس کے تاثرات بلکل سپاٹ تھے۔
"درد ہورہا ہے؟ " زایان کے لہجے میں برادرانہ شفقت اور فکر ساتھ ساتھ تھی۔
"نہیں اب درد نہیں ہے۔" اس کا انداز سرد رہا۔
آن کی مسلسل سرد مہری دیکھ کر زایان تاسف سے بولا۔
"کیا ابھی تک اپنے بھائی سے ناراض ہو؟ "
" کیا ایسی کوئی خاص بات تھی جس پر میں ناراض ہوتی ؟" آن نظریں جھکائے بولی تھی۔
"مجھے افسوس ہے آن۔۔۔ مانتا ہوں میں تمہارے ساتھ سخت بولا ہوں۔۔ لیکن تمہارے جانے کے بعد مجھے احساس ہوا۔۔۔ تم میری بہن ہو۔۔اور مجھے بے انتہا عزیز ہو۔"
زایان کے دکھی تاثرات دیکھ کر آن اپنے بھائی کے لئے دل میں تکلیف محسوس کرنے لگی۔
حقیقت میں اعوان فیملی نے اسے بری طرح دھتکارا تھا صرف زایان ہی تھا جو اپنی سوتیلی بہن کی عزت کرتا تھا۔
اس وقت آن کا سیل فون رنگ ہوا۔ ،
"ھیلو۔۔۔؟"اس نے کال اٹھالی۔۔
"آج مجھے کس وقت مل سکتی ہو ؟"
جانا پہچانا سا نمبر بلنک ہورہا تھا۔لیکن سیوڈ نہیں تھا ۔شاید آن نے ضرورت نہیں سمجھی تھی کہ انجان لوگوں کے نمبر محفوظ رکھتی۔
آن نے خود کو اس اچانک جھٹکے سے سنبھال لیا۔
"تم نے غلط نمبر پر کال ملائی ہے۔ میں تم کو نہیں جانتی ۔"سکون سے بول کر جیسے دوسری طرف بیٹھے شخص کی چڑچڑاہٹ اور غصہ کا مزا لیا۔
"آن اعوان۔۔۔۔۔" جواباً دوسری جانب دھاڑ کر اسے ڈانٹ پلائی گئی،
"تم کو کوئی تمیز ہے ؟تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے اس قدر بدتمیزی سے جواب دینے کی؟"وہ آدمی چینخا۔
آن کا ایک ہاتھ اسٹک پر سختی سے جم گیا۔ دوسرے ہاتھ میں تھامی موبائل پر گرفت سخت ہوگئی۔
" یہاں پر تم غلط ہو۔۔۔ میرا نام آنیہ عصمت کاظم ہے۔۔۔، زرا پیچھے جاو، اور یاد کرو۔۔۔ جب میری ماں نے تم سے منت کی میرے اسکول سرٹیفیکٹ پر باپ کے خانے میں "سکندر اعوان" لگانے کی، تب۔۔ تب تم ہی تھے نا۔۔۔؟ جس نے میری ماں پر تہمت لگائی تھی۔تم اپنے شک میں اتنے گر گئے۔کہ اپنی ہی اولاد کو "ناجائز " کہہ کر دھتکارا۔"آن کا لہجہ حت الامکان سپاٹ تھا۔
"مھربانی فرما کر آئندہ مجھے کال مت کرنا یہ میری ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔"
یہ کہہ کا سیل " پاور آف" کردی۔
زایان یہ سب سن کر بول اٹھا۔" ڈیڈی تھے؟" سوالیہ ہوا۔
"میرا کوئی باپ نہیں ہے ، آپ یہ کہنا بند کریں کہ میں آپ کی " چھوٹی بہن" ہوں ۔یہاں آنا بند کردیں ، میں آپ کے خاندان کے ساتھ کوئی بھی واسطہ نہیں رکھنا چاھتی۔ فار گاڈ سیک ،جان چھوڑیں میری"۔ آن نے سختی سے کہہ کر ساتھ ہی ھاتھ جوڑے ۔
اور لنگڑاتی ہوئی بمشکل چلتی اندر بڑھتی گئی ۔۔
دوپہر کو اپنی کلاسز لے کر جیسے ہی وہ باھر آئی ۔۔۔اسے کچھ دور ہی اپنا ڈرائیور نظر آگیا۔ وہ جیسے ہی آگے بڑھی اس کے راستے میں ایک بڑی سی گاڑی آکر رک گئی یہ بہت اچانک تھا ۔۔ وہ جب تک کچھ سمجھتی۔۔۔ دو آدمیوں نے نکل کر آن کو دونوں طرف سے جکڑ کر بے دردی سے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر پھٹکا۔۔
" کیا وہ اغوا ہوچکی تھی۔۔۔؟" آن کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا۔۔
دو آدمیوں نے اعوان ولا کے احاطے میں پہنچ کر سکندر اعوان کے سمت آن کو دھکیلا۔ وھیل چیئر پر بیٹھے سکندر اعوان کے قدموں کے پاس وہ لڑکھڑا کر گر گئی،
یہ دیکھ کر کہ"اسے اغوا کروانے والا کوئی اور نہیں "سکندر اعوان " ہے۔آن کو غصے کے ساتھ افسوس ہوا،
" مسٹر سکندراعوان تم ہی اس قابل ہوسکتے ہو۔۔۔کہ دن دھاڑے ایک لڑکی کو اغوا کرواؤ۔"
شدید غصے اور نفرت سے آواز لرزنے لگی ۔۔
دو آدمی اسے چھوڑ کر چلے گئے۔ نیچے دھکا لگ کر گرنے سے آن کا پیر تکلیف کی شدت سے درد کرنے لگا۔۔ لیکن وہ اس تکلیف کے باوجود بھی لرزتے وجود کے ساتھ، زمین پر ھاتھ ٹیک کر اٹھ کھڑی ہوئی، اور سکندر اعوان کے طرف نفرت سے گھورنے لگی،
سکندر اعوان نے پاس کھڑے محافظوں کو ھاتھ سے جانے کا اشارہ دیا۔۔ جب سب نکل گئے تو سرد لہجے میں بولا۔
" کرسی پر بیٹھ جاو۔" انداز میں حکم تھا۔۔
" اعوان خاندان کی کرسی بھت پاک ہے۔۔۔مجھ جیسی لڑکی۔۔۔ بیٹھنے کے قابل نہیں ہوسکتی۔"
سیدھا اور صاف جواب آیا ۔
سکندر اعوان نے غصے سے ابرو چڑھا کر اس ضدی لڑکی کو گھورا۔
" تم مجھ پر تھوک رہی ہو۔۔۔آن اعوان؟" وہ دھاڑا۔
آن کی نظروں میں ناگواری ابھری۔
" پہلی بات میں۔۔۔آنیہ عصمت کاظم ہوں ۔۔۔عصمت کاظم کی بیٹی ۔۔ اسی لئے جملہ درست کرو۔ "وہ جتا گئی۔
" تمہاری بکواس سے حقیقت نہیں بدل جائے گی۔تم رہو گی اعوان خاندان کا خون ہی۔"
"اس گندے خون کی ملاوٹ نے ہی شرمسار کیا ہے مجھے ۔" کیا نہیں تھا اس کے لہجے میں۔۔دکھ اور ملال۔
"آن۔۔۔۔۔۔۔" وہ وھیل چیئر چلاتا اس کے قریب دھاڑا۔۔
آن نے اسے ناگواری سے گھورا " کیوں اٹھوا کر لائے ہو یہاں ؟" سوالیہ ہوکر اصل بات پر آئی۔
"اصل مدع پر آؤ۔۔۔جس مقصد کے تحت "سکندراعوان " جیسے "معزز" کو آن جیسی "گھٹیا لڑکی" کو "اغوا" جیسا چیپ کام کرنا پڑا۔"
"تم علیدان کے ساتھ کیوں رہ رہی ہو؟" وہ تپ کر اصل بات پر آتے بولا۔۔
"اٹز نان آف یوئر بزنس"
وہ سکون سے بازو سینے پر باندھ کر بولی۔
"کتنے پیسے چاھئیے تمہیں۔۔۔ بولو؟"
کیا وہ اسے لالچی عورت سمجھ رہا تھا؟ جو پیسے کی وجہ سے امیر آدمی کے پاس رہتی ہو؟
آن کو اپنے باپ کی گھٹیا سوچ پر تاسف ہوا۔
افسوس کے ساتھ اسے ھنسی آئی یہ ھنسنے جوگی بات تھی بھلا ؟ ھاں ؟یقینا۔۔۔
" تم نے اپنی ماں سے ایک بھی اچھی عادت نہیں سیکھی ۔۔۔ضدی لڑکی ۔۔۔صرف اس جیسی کچھ "شرم سے عاری "عادتیں سیکھی ہیں"وہ صاف چوٹ کرگیا۔
آن کی آنکھوں میں جیسے کسی نے مرچیں بھردی تھیں۔دل میں اتھاہ درد کی لہروں نے سر اٹھایا۔اب بات اس کی ماں کے کردار تک آگئی تھی،
" شرم سے عاری " سے آپ کی کیا مراد ہے ؟"وہ تپی تپی سی آواز میں بولی۔
"مردوں کو لبھانے کی گھٹیا عادت۔ " اس نے زبردست وار کیا تھا آن کے نازک دل پر۔۔
" اپنی اس شناخت کے ساتھ کہ " تم میری ناجائز بیٹی ہو۔ کیا تم ایسی کوئی خواھش کرنے کے قابل ہو کہ امیر خاندان میں بیاہ کرسکو؟" تمانچوں پر تمانچے ماررہا تھا یہ سطحی سوچ کا حامل شخص ،اور اسے زلالت کی گہری کھائی میں دھکے دیئے جارہا تھا ۔۔ وہ اس قدر بے عزتی کے خیال سے جیسے سن سی کھڑی تھی ، وجود جیسے نہ زمین پر تھا نہ آسمان پر۔۔ بس ھوا میں معلق جس کی نہ کوئی منزل نہ راستہ ۔۔کیا تھی آن؟
وہ پورے وجود سے کانپ رہی تھی۔۔
شدت سے مٹھیاں بھینچ لیں، اتنی کہ ناخن ھتھیلیوں میں کھب سے گئے اور ھتھیلی زخمی ھوگئی ۔۔ وہ غصہ سے سامنے پڑی ٹی ٹیبل کے طرف بڑھی اور اپنا غصہ پوری قوت سے مکے مار کر نکالا ۔۔ ساری چیزیں آواز کے ساتھ زمین بوس ہوگئیں ۔لیپ ٹاپ،۔۔۔ چائے کی کٹیل۔۔۔، اور کپس سب نیچے گر کر۔۔ کچھ آن کے وجود کی طرح بکھر گئے۔۔۔ کچھ ٹوٹ گئے۔
سکندر اعوان تو بنا پلک جھپکے اس کے تیور دیکھ رہا تھا۔
وہ تن فن کرتی اس کی چیئر کے پاس آئی جھک کر اسے گھورتے بولی۔
" تم جیسا آدمی ۔۔ نا۔۔ ،بلکل بھی اس قابل نہیں ہے کہ میری ماں کا ذکر اپنی گندی زبان سے کرے۔۔ ۔ تم انتہا کی گندی سوچ اور بیمار زھنیت کے حامل شخص ہو، لہاذا ۔۔۔۔۔ آئندہ مجھے اپنی جیسی اس گندی جگہ پر بلانے کی کوشش مت کرنا۔۔۔،
مجھے لگتا ہے میں یہاں کی گندگی خود پر سے کبھی صاف نہ کر پائوں گی۔" نم دھندھلی ہوتی آنکھوں کے ساتھ یہ کہتے ہی بنا ادھر ادھر نگاہ ڈالے ۔وہ لنگڑاتی باھر جانے لگی، وہیں پیچھے سے آتی دھاڑ نے اسے رک جانے پر مجبور کردیا،
" اپنے اور علیدان کے بیچ فاصلہ رکھو لڑکی اور ۔۔۔مجھے سختی پر مجبور مت کرو۔۔۔۔ورنہ ۔۔۔۔ایک باپ کی حیثیت سے میں جو کروں گا۔۔۔ اس کی زمہ وار تم خود ہوگی ۔"
آن کے قدم رک گئے طنزیہ مسکراکر پیچھے مڑ کر اسے دیکھا ۔
" کیا اب ۔۔۔۔ بھی کچھ باقی ہے؟ میں نے خود کو خود ہی سنبھالا ہے ، اسی لئے میں دھمکی دینے والوں کو پسند نہیں کرتی، جتنا مجھے دھمکی دو گے۔ ۔۔اتنا ہی میں ضد پر آوں گی۔۔۔ میں بھی دیکھتی ہوں۔۔۔ تم مجھ پر کتنی سختی کرتے ہو ؟"
یہ کہتے ہی بنا اس کی سخت نظروں اور گھوری کی پرواھ کیئے باھر نکلتی چلی گئی ۔
باھر کھڑے گارڈز نے اسے روکنے کی ہمت نہیں کی۔۔
روڈ پر تھکے تھکے لڑکھڑاتے قدموں سے چلتی بالآخر سائیڈ پر تھک کر بیٹھ گئی ۔۔۔ایڑی کے شدید درد کی وجہ سے اسے چلنے میں مشکل ہورہی تھی،
وہ جیسے جیسے اس بارے میں سوچتی جارہی تھی ویسے ویسے اسے زیادہ حیرت ہورہی تھی،
اس طرف اس کا جائیز باپ تھا ۔۔ جس نے اسے قیدی بنا کر پاس بلایا۔ یہ دیکھ کر بھی کہ اس کا پیر زخمی ہے، لیکن شروع سے آخر تک اس نے غلطی سے بھی نہیں پوچھا کہ " تم کو درد تو نہیں؟ "
آنکھوں کی زمین یہ سوچ کر گیلی ہوئی، وہ جتنا سوچتی جارہی تھی اتنا ہی اسے تعجب ہورہا تھا ۔۔ اس نے اپنے بازو کا اپنی ٹانگوں کے گرد حصار کھینچ لیا ، اور اپنا سر اس میں چھپا کر خوب رونے لگی۔ آنسو بے دردی سے اسے بھگوتے رہے۔۔ وجود ھلکا ھلکا کانپ رہا تھا۔۔
" کیوں تھا ؟۔۔۔ ایسا کیوں تھا۔۔۔؟؟ جہاں دوسرے لوگوں کے باپ نہایت ہی شفیق اور ملنسار تھے۔۔ بیٹیاں ان سے لاڈ کرتی تھیں۔۔ایک اس کا باپ تھا جو اسے دشمن کی طرح دیکھتا رہا۔ وہ سسکیاں بھرتی گئی ۔۔
وہ اتنی چھوٹی سی خوشی سے بھی کیوں محروم تھی؟
کیا غلطی تھی اس کی ؟ کیا ناجائیز اولاد ھونا اس کا گناھ تھا؟ جس کی وہ قیمت چکارہی تھی۔
اس کی سوچیں بھٹک رہی تھیں۔۔
تبھی کسی بھاری ھاتھ نے اس کے سر پر ھاتھ رکھ کر ھلکا سا سہلایا۔۔
آن نے چونک کر سر اٹھایا ۔
وہیں علیدان اس کی روئی ہوئی ابتر حالت دیکھ کر سخت پریشان ہوا۔اس کے آنسو۔۔۔ گریہ سے ہوئی سرخ نیلی آنکھیں جو شدید رونے کی وجہ سے سوجن کا شکار ہوگئی تھیں۔۔
وہ ہر بار اس جگہ کیوں ہوتا تھا جب جب وہ تکلیف میں ہوتی تھی۔ وہ حیران ہوئی۔۔
علیدان اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی دھار کی طرح بہہ رہے تھے۔۔ رکنے سے قاصر تھے۔
آن نے سر جھکا لیا۔ اور جلدی جلدی سے آنسو پونچھنے لگی۔۔ لیکن بار بار ۔۔۔ بار بار پونچھنے کے بعد بھی آنسو رکنے سے انکاری تھے۔۔
علیدان نے رومال نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔آن نے رومال جلدی سے تھام کر آنکھوں پر رکھا اور سیکنے لگی۔
"آج ہوا اتنی کیوں لگ رہی ہے؟ میری آنکھیں تو خشک ہوگئی ہیں۔۔ اس ھوا کے جھکڑ کی وجہ سے۔" وہ جلدی سے بے سروپا بولتی گئی۔
" ییس۔۔۔ ھوا واقعی بھت لگ رہی ہے اتنی کہ ۔۔ پتے تک حرکت نہیں کررہے" علیدان نے درختوں کو ساکت دیکھ کر طنز کیا۔
وہ شرمندہ ہوگئی۔جیسے اس کے بہانے نے کام نہیں کیا۔ کیا یہ شخص جادوگر تھا؟
"آپ اتنی ناانصافی کیسے کرسکتے ہیں ایسی سچویشن میں کیا آپ کو یہ نہیں کہنا چاھئے تھا؟ کہ ہاں۔۔ ھوا بھت تیز ہے۔" منہ بنا کر جیسے علیدان کو اس کی غلطی بتائی۔مطلب علیدان کو اس کی ہاں میں ملانی چاھئے تھی۔اس کا مان رلھنا چاھئیے تھا۔
"اسی لئے میں نے پہلے ہی سے کہاکہ " windblast"
" علیدان۔۔ آپ۔۔ ۔وہ چینخی۔۔۔
کب سے آپ مجھے گھورے جارہے۔ کیا آپ سے اتنا نہیں ہوا کہ ایسی حالت میں اپنا شانہ ہی مجھے دیتے اور پھر دوسرے طرف چہرہ موڑ لیتے۔ " مطلب مجھے روتا نہ دیکھتے۔
"میں اپنا شانہ ادھار نہیں دیتا، کیا آپ کو گلے لگالوں؟" ھنس کر آفر کی گئی۔
آن سوچ میں پڑگئی۔ ہاں ؟ یا نا۔۔۔۔۔۔؟
اس کے زیادہ سوچنے سے پہلے ہی علیدان نے اسے قریب کیا۔اور اپنے سینے میں بھینچ لیا۔
"اپنی آغوش میں بلکل بھی میں یہ نہیں چاہوں گا کہ آپ رونا جاری رکھیں۔"
وہ کچھ بھی کہہ نہ سکی۔
علیدان نے کبھی کوئی بھی بازی قواعد کے بنا نہیں کھیلی تھی۔
علیدان کا حصار بھت مضبوط تھا اس کی گرمائش میں آن کا سرد۔۔۔اور "مردہ ہوتا دل" بھی جیسے سانس لینے لگا۔۔
اسی وقت ایک ریڈ کار گذری اور گاڑی میں سوار کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئیں۔۔
"یہ گھٹیا لڑکی علیدان کے حصار میں کیا کررہی ہے " گاڑی میں بیٹھی شخصیت نے دانت پیسے اور گاڑی اعوان ولا کے گیٹ سے گذر کر بڑھ گئی۔۔
ریڈ کار اعوان ولا کے احاطے میں جھٹکے سے جاکر رکی ،بینیش اعوان غصے اور نفرت سے ملے جذبات سے بھری کار سے تیزی سے نکلی، اور تیز تیز قدم بڑھاتی اپنے باپ کے پاس جاکر زور سے چلائی۔"
"ڈیڈ۔۔۔۔ میں نے ابھی ابھی، اس گھٹیا عورت کی گھٹیا بیٹی کو باھر دیکھا ہے، ۔۔آپ کو پتا ہے وہ گھٹیا لڑکی کس کے ساتھ کھڑی تھی؟"
سکندر اعوان نے اپنی مغرور نک چڑھی بڑی بیٹی کو ناگواری سے گھورا، اور تنبیہ کی۔
"بینیش کتنی بار تم کو سمجھایا ہے، کہ تمیز سے بلاؤ۔۔ وہ تمہاری چھوٹی بہن ہے۔"
"میری کوئی چھوٹی بہن نہیں ہے ۔۔۔۔۔ نہ ہی میں اسے اپنی زندگی میں بہن کی جگہ دے سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے بہن کی شکل میں بلکل قبول نہیں ہے۔۔۔ اگر آپ نے زبردستی ایسا کیا تو میں آپ کو پہچاننے سے بھی انکار کردوں گی۔"
وہ انگلی اٹھا کر ،چینختے ہوئے یقینا طوفان لانے والی تھی ۔۔ کون جانے۔۔۔
"آل رائیٹ۔۔۔ بس کرو اب۔"
وہ پہلے ہی آن کی وجہ سے ناراض تھا۔
" کون تھا اس کے ساتھ؟" آھستگی سے پوچھا۔
" علیدان شاہ۔۔۔ یہ دونوں ایک دوسرے کو گلے لگائے روڈ سائیڈ پر کھڑے تھے۔۔اور وہ گھٹیا لڑکی۔۔۔۔۔،علیدان سے چپکی جارہی تھی۔۔۔ پاگل۔۔۔۔ کتیا کی طرح۔" نفرت سے بھرا لہجہ ۔۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا ۔۔۔ ورنہ وہ شاید۔۔ آن کو گلا دبا کر ماردیتی ۔۔
بینیش اعوان سچ میں سخت ناخوش تھی اس پورے شہر میں علیدان شاہ کو صرف وہی ایک لڑکی نظر آئی کیا؟
سکندر اعوان کی نظروں میں بینیش اعوان کی بات سن کر گہری سوچ کے سائے لہرائے۔۔
" آخر اسے کیا حق ہے ۔۔۔ کہ " آن " جیسی کمتر درجہ لڑکی کے طرف مائل ہوا" ۔۔۔۔بینیش کا سوچ کر برا حال ہورہا تھا۔
وہ یہ قبول ہی نہیں کرپارہی تھی۔۔۔۔کیونکہ۔۔ یہ مشکل تھا۔۔۔
" یہ لڑکی آن اعوان پورے منصوبے کے ساتھ ان کے خلاف کھڑی ہوئی ہے ۔۔۔ کیا تم کو نہیں لگتا ؟" سکندر اعوان کی پرسوچ آواز احاطے میں ابھری۔
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اتنی چھوٹی لڑکی کو قابو نہیں کرپارہا حیرانگی تو بنتی تھی نا۔۔۔
کچھ تو تھا۔۔۔۔۔ جو اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔۔۔ لیکن کیا تھا؟
یہ وقت نے بتانا تھا۔۔ اور ابھی وقت آنے میں وقت تھا۔۔ کون جانے۔۔۔؟؟
☆☆☆☆☆
علیدان شاہ آن کو ولا لے آیا۔۔
لیونگ روم میں مدھان شاہ پہلے ہی سے منتظر بیٹھا تھا،
اپنے بڑے بھائی کو دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے باھر نکل آئیں، جو اس کی ٹیچر آن کو دونوں بازو میں اٹھائے اندر آیا تھا۔۔ مدھان کا منہ بھی کھل گیا اور آنکھیں بھی پھٹی پھٹی سی رہ گئیں۔۔۔
آہ۔ہ۔۔ یہ وہ کیا دیکھ رہا تھا ؟ کیا یہ خواب تھا؟ آنکھیں مسل کر دوبارہ دیکھا۔۔
علیدان اس کی شرارتی حرکتیں ملاحظہ کر رہا تھا۔۔ اس کی طبعیت صاف کرنے کا ارادہ پھر کبھی کرنے کا سوچا ۔۔۔ ابھی اسے آن کو اس کے کمرے میں چھوڑ آنے کی جلدی تھی۔۔ تبھی نظر انداز کرکے اسے اٹھائے نیچے کے کمرے میں لے گیا۔۔
مدھان منہ بناتا اسکے پیچھے آگیا تھا۔۔
وہ آن کو بستر پر سہولت سے بٹھا کر مدھان کی طرف مڑا۔۔
" تمہیں جو بھی پوچھنا ہے جلدی پوچھ لو۔۔۔۔۔اور جتنی جلدی ممکن ہو۔۔۔ اپنے کمرے میں واپس جاو ۔۔
پھر ملازمہ سے بولا "آپ آن کا خیال رکھئے گا۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔"
علیدان نے مدھان کو نرمی سے کہا۔۔ اور آن کو گہری گہری نظروں کے حصار میں رکھتا مڑ کر ملازمہ کو ھدایات دیتا کمرے سے نکلتا چلا گیا۔۔
اس کے جاتے ہی مدھان شاہ آگے بڑھا۔۔۔۔
" میم آن ۔۔ آپ کی آنکھیں اتنی سرخ کیوں ہیں؟ کیا بھائی نے کچھ کہا ہے؟"
مدھان کو آن کی روئی روئی سوجی سرخ آنکھیں پریشان کرگئیں۔۔پہلا خیال بیچارے کو اپنے کھڑوس بھائی کا ہی آنا تھا۔۔ سو وہی پوچھا۔
آن جانتی تھی " مدھان " کچھ زیادہ ہی دور کی سوچتا ہے، وہ شرمساری سے بولی " زیادہ بیکار مت سوچو، تمہارے بھائی نے صرف میری مشکل میں مدد کی ہے۔ ۔۔۔جلدی سے ٹیکسٹ بکس نکالو۔۔ ہم نے سپلیمینٹری سبق پڑھنا ہے"۔
آن نے اس کی توجہ اسٹیڈی پر کی۔۔
مدھان کے ہونٹوں پر ایک شرارتی سی مسکان پھیلی ۔۔ یہ بڑے بھائی نے دوسروں کی مدد کرنے کا کام کب شروع کردیا؟ وہ کیسے یقین کرتا کہ کوئی بات نہیں۔۔ نفی میں سر ہلا کر اپنے سر کے پچھلے طرف تھپکی ماری۔۔۔ اس کے ھاتھ میں اب علیدان کی کمزوری آگئی تھی نا۔۔ اسی لئے وہ حد درجہ خوش تھا۔۔
دوسرے فلور پر علیدان نے اپنے سیکرٹری کو کال ملائی۔
" اعوان فیملی کی تازہ کارکردگی پتا کرو ۔ساتھ ہی آنیہ عصمت کاظم کے بارے میں مکمل معلومات کل صبح آفیس ٹیبل پر چاھئے۔ انڈراسٹینڈ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے 11 بج کر 30 منٹ پر علیدان نے اپنا آفیس ورک ختم کیا تو اٹھ کر گیلری کا دروازہ کھول کر باھر فریش ہوا میں آگیا۔ جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر اس میں سے ایک سگریٹ نکال کر شعلہ دکھایا۔ اسموکنگ کرتے کرتے یونہی اس کی نظر لان سے گذرتی، دائیں طرف آکر ایک کھڑکی تک رک گئی۔
یہ نیچے والا آن کا کمرہ تھا اور اس کمرے کی لائیٹ ابھی تک جل رہی تھی ۔
" کیا ابھی تک مدھان نہیں گیا؟"
علیدان کی پیشانی پر تفکر کے نشان ابھرے ،وہ وقت کا بہت پابند بندہ تھا، اور دوسروں سے بھی یہی امید رکھتا تھا، اسے اپنے سے جڑے ہر انسان کا خیال رہتا تھا، اسے آن کی فکر ہوئی کہ ابھی تک لائیٹ کیوں جل رہی ؟ کیا وہ نہیں سوئی؟
سوچ میں ڈوبا ہوا وہ دروازہ کھول کر سیڑھیاں اترتا ۔۔دائیں جانب آن کے روم کے پاس آکر رک گیا ۔۔ ہاتھ بڑھا کر ناک کیا۔۔ کچھ دیر انتظار کرتا رہا کہ آن کی طرف سے جواب آئے۔۔ لیکن جب کوئی رسپونس نہیں ملا تو دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔۔ جہاں وہ بیڈ پر کانوں میں ہیڈ فون ڈالے ۔۔ہاتھ میں میتھامیٹکس کی کتاب تھامے، پیچھے تکیہ سے ٹیک لگائے، پڑھائی میں مگن تھی ایک ہاتھ میں پین تھا جس کا کونا منہ میں ڈالے دانتوں سے چبانے کا کام بھی تسلسل کے ساتھ جاری تھا، وہ بھت خوبصورت نقوش کی حامل گورے رنگ کی پیاری سی لڑکی تھی، چھوٹی سی ناک ، راغب کرتے بھرے بھرے گلابی ہونٹ۔اٹھتی گرتی لانبی پلکیں ۔۔نیلی سمندر جیسی آنکھیں ۔۔تھوڑے سے کرلی ہلکے برائون بال جو اس وقت اس کے چہرے کے اطراف پھیلے اسے کیوٹ بنا رہے تھے۔ سامنے کے بالوں کی جھالر پیشانی پر بکھری تھی ، جو اسے معصوم بنا رہی تھی۔ وہ سوچتی ہوئی شاید کوئی پروبلم سولو کررہی تھی ۔ علیدان کی آمد کا نوٹس بلکل نہیں لیا۔
علیدان چلتا ہوا اس کے بلکل پاس آکر کھڑا ہوگیا۔۔ کتاب میں جھانک کر دیکھا جہاں وہ میتھس کا ایک مشکل سوال حل کررہی تھی۔ وہ وہاں دو منٹ تک کھڑا رہا۔۔جب آن نے وہ سوال حل کرلیا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک پُرسکون مسکراہٹ آئی۔ ایک گہری سانس بھر کر جیسے ہی سیدھی ہوئی نظر قریب کھڑے ایک ہیولے پر پڑی اس سے پہلے کہ اسے پہچان پاتی۔۔۔ رات کے وقت کسی کو کمرے میں پا کر ۔۔ وہ ڈر کے مارے اچھل پڑی ۔۔۔کتاب ہاتھ سے گر گئی، وہ بیڈ پر لیٹے ہی دوسری سائیڈ رول ہوکر جانے لگی جلدی میں تقریبا بیڈ سے گرنے ہی لگی تھی کہ علیدان نے جھٹکے سے بڑھ کر ھاتھ پکڑ کر کھینچا۔۔آن نے ڈر کر اپنا چہرہ اپنے بازو میں چھپایا ۔پھر تھوڑا سا نکال کربازو کی اوٹ میں سے چپکے سے دیکھا ،جہاں کوئی اور نہیں بلکہ علیدان شاہ کو دیکھ کر شکرگذاری کی سانس بھری۔
" آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟"وہی بے تکا سوال دہرایا گیا۔
علیدان مسکرایا اور ہاتھ سے آن کا آدھا باھر نکلا سر دبا کر اس کے بازو میں پھر سے جھکا دیا۔۔
" یہ آپ کا تکیہ کلام ہے؟"
علیدان کی خوبصورت بھوری آنکھیں اور پیاری سی مسکراہٹ دیکھ کر آن کا دل کچھ پل کے لئے تھم گیا،
"آخری دفعہ جب وہ اس کی کار سے ٹکرا کر گری تھی۔ تو وہ نشہ میں تھی ، لیکن اس ٹکر نے اسے نقصان بحرحال نہیں دیا۔۔
آن کو محسوس ہوا آخری دفعہ بھی جو وہ اس کی طرف جھکی تھی، تو وجہ اس کا امیر ہونا نہیں بلکہ یہ خوبصورت مسکراہٹ تھی۔جس نے آن کو اپنے طرف جھکادیا تھا۔اور وہ دل سے جھک گئی تھی۔
"کیا میں نے ڈرادیا؟"
علیدان سوالیہ ہوا۔
آن سیدھی ہوکر بیٹھی۔ اور کانوں سے ہیڈ فون نکال کر قریب رکھے،
"ظاہر ہے اگر کوئی رات کے 12 بجے آپ کے کمرے میں چپکے سے آئے گا تو ڈر کے مارے جان تو جائے گی"
پھر وہ علیدان کے جانب مڑی ،اپنی ننھی سی ناک سکڑ کر بولی " آپ کو نہیں پتا جب کسی کے کمرے میں جاتے ہیں تو "ڈور ناک" کرتے ہیں ؟"
" میں نے دروازہ ناک کیا تھا لیکن آپ نے نہیں سنا۔" علیدان نے اشارے سے کان کے طرف انگلی کی ۔
آن نے ھیڈ فون اٹھا کر اسے ہلایا "میں یہ ڈالے " انگلش اسپوکن" سن رہی تھی ،تبھی کچھ سنا نہیں"
علیدان نے حیرت سے بنھویں چڑھائیں،
" انگلش سنتے ہوئے میتھ کے سوال حل کرنا۔۔ آپ واقعی عجیب ہیں،بھلا ایک وقت میں دو مختلف کام کون کرتا ہے؟"
علیدان کے چہرے پر تعجب تھا۔" کیا آپ کو نہیں لگا کہ "اس طرح سے آپ کی توجہ بٹ رہی؟"
"یہ تو ہے۔۔ ۔۔لیکن ۔۔اصل زندگی میں بھی تو لوگ ایک وقت میں دو دو چیزوں پر دھیان رکھتے ہیں نا"
یہ سن کر وہ ہلکا سا مسکرادیا ، اس کی مسکراہٹ بھت دلفریب تھی آن ایک لمحہ مسمریز ہوگئی ۔
" اس کا مطلب آپ خود کو ٹرین کررہی تھیں۔ دو کام ایک وقت میں کرنے کے لئے۔۔۔ لاجواب۔۔ "علیدان متاثر ہوا۔
وہ کچھ نہ بولی، بجائے اس کے۔
" آپ کو کچھ کام تھا مجھ سے؟ "
"پریشان مت ہوں۔ آپ کے کمرے کی لائیٹ ابھی تک جل رہی تھی ،میں نے سوچا آپ ابھی تک جاگ رہی ہیں اور مدھان بھی شاید ابھی تک آپ کے پاس پڑھ رہا ہے۔۔۔ بس یہی سوچ کر ادھر چلا آیا۔"
تفصیل سے جواب دے کر اسے مطمئن کیا کہ وہ کسی غلط ارادے سے نہیں آیا ہے۔
" مدھان تو 9:00بجے ہی چلا گیا تھا۔"
علیدان نے یہ سن کر اس کی کتاب اٹھا لی اور اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔
وہ یہ دیکھ کر شرم سے سرخ ہوئی کہ وہ دونوں ایک ہی بیڈ پر ساتھ بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
ابھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ کس طرح سے اٹھ جائے اور کس طرح اسے جانے کا کہے یہ بہانہ بنا کر کہ " اسے نیند آرہی ہے "ابھی اس نے کہنے کو منہ کھولا ہی تھا کہ۔۔ ۔۔
" شاید آج سے پہلے کسی نے آپ کو نہیں بتایا ہوگا کہ آپ بھت دل کش لگتی ہیں۔۔۔۔ جب اسٹیڈی کررہی ہوتی ہیں۔"
آن کا چہرہ شرم کی لالی سے سرخ ہوگیا یوں اچانک اپنی تعریف سن کر کچھ پل اوپر کی سانس اوپر رہ گئی، " یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا تھا۔" ۔۔ اسے تعریف ھضم کرنا مشکل لگا۔
بمشکل جھکے سر کو نفی میں ہلایا " نہیں "
" اس کا مطلب میں پہلا شخص ہوں ؟ ۔۔۔کیا آپ کو میتھس پسند ہے؟" اس نے ورق پلٹا اور آن کے قدرے جھکے سر کو دیکھا۔
آن نے پھر سے سر ہلایا " ہاں "
" یہ کتاب پچھلے سال کے بڑے نمبروں کا خلاصہ ہے۔اس میں کچھ سوال تو ایسے ہیں۔۔۔۔جو آپ کی ٹیچرز کو بھی الجھا دیں گے۔"
آن نے اپنی پیشانی پریشانی سے کھرچی۔۔ وہ اس کی اتنی تفصیل سے بات کرنے پر دل میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ "اسے یہاں سے کیسے جانے کا کہے ؟ اتنی رات گئے وہ اس کو اپنے روم میں برداشت نہیں کرپارہی تھی۔۔ اس کی موجودگی واقعی آن کو ڈسٹرب کررہی تھی۔ لیکن سامنے والے کی سوچ بھی وہاں پر نہیں مارسکتی تھی جہاں آن کی سوچ نے اڑان بھری تھی۔
" علیدان شاہ۔۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔ وقت ۔۔۔۔" وہ ابھی آگے کہنے جارہی تھی کہ یہ وقت مناسب نہیں لیکن۔۔۔ دوسری طرف سے اگلا سوال پوچھا جارہا تھا ۔
"آپ نے یہ سوالات حل کیوں نہیں کیئے؟ یہ خالی کیوں چھوڑ دیئے ہیں؟ "
اسنے ان سوالوں کے طرف اشارہ کیا جس کو آن نے بنا حل کیئے چھوڑا تھا۔
آن نے آگے ہوکر کتاب میں جھانکا اور کندھے اچکا دیئے۔
" میں یہ حل نہیں کرسکتی۔۔مشکل تھے۔"
"میں کرسکتا ہوں، کیا آپ مجھ سے سیکھیں گیں؟" اس نے آن کو دیکھا۔
اس نے مجبورن سر ہلادیا۔ دل میں سوچا بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے ؟
علیدان نے اپنے قریب کی جگہ پر تھپکا۔" یہاں آجائیں۔"
آن بیڈ پر سرک کر آگے آئی اور اس کے قریب تھوڑا فاصلہ رکھ کر بیٹھ گئی،اب تو ان دونوں کے بیچ میں ایک خوبصورت جائز رشتہ موجود تھا ، لیکن آن کی جھجھک کا کیا جائے ؟ وہ علیدان سے اب بے حد جھجھک محسوس کررہی تھی،
علیدان اسی پین کو جسے آن نے کچھ دیر پہلے چبایا تھا۔۔ہاتھ میں لئے اسے ایک ایک سولوشن سمجھا رہا تھا ۔۔ اور واقعی آن کے ذہن کا زنگ کھل رھا تھا اسے لگا اب وہ یہ حل کرلے گی۔
" اب کرلیں گیں؟" اسے دیکھا۔
" ہممم ۔۔ "ہاں میں سر ہلایا اور اس سے پین لے کر خود حل کرنے لگی۔ آن سوال پر سوال حل کرتی رہی دلچسپی کے ساتھ ۔۔
" آئی ھیو ڈن۔۔۔" جیسے ہی سر اٹھا کر اسے دیکھا حیران رہ گئی۔۔۔
وہ وہیں بیڈ پر تکیہ کے سہارے بیٹھے بیٹھے سوگیا تھا۔ آنکھیں بند، لب بھینچے ہوئے اور بازو سینے پر باندھے وہ آن کو اس وقت کوئی اپالو دیوتا لگا۔۔
اسے دیکھتے دیکھتے آن کی آنکھیں بھی کب بند ہوئیں اسے معلوم نہ ہوسکا۔۔
☆☆☆☆☆
دوسری صبح بھت روشن تھی الارم کی آواز پر آن کی آنکھ کھلی آن نے سیل فون اٹھانا چاہا تاکہ الارم اسٹاپ کرسکے لیکن وہ حرکت بھی نہ کرسکی علیدان شاہ نے اسے پیچھے سے اپنے مضبوط حصار میں جکڑا ھوا تھا۔۔
آن کا دماغ تو بھک سے اڑ گیا ، ابھی وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کررہی تھی کہ علیدان کی نیند سے بوجھل آواز نے اس کے کانوں سے گذر کر اس کے وجود میں بھی گھنٹیاں بجائیں
" آپ نے الارم بند نہیں کیا تھا۔۔۔۔ بھت شور کرتا ہے۔"
اب کہ علیدان سستی سے اٹھ بیٹھا
آن رہائی پاتے ہی اچھل کر بیڈ سے اتری۔۔علیدان نے بغور یہ حرکت دیکھی۔۔
علیدان کی نظروں سے وہ حیا سے سرخ ہوئی جارہی تھی ۔
علیدان نے اسے دیکھ کر اشارے سے بجتے الارم پر توجہ دلائی۔
آن نے ہڑبڑا کر جلدی سے سیل اٹھا کر الارم بند کیا ۔ وہی سکون کی سانس بھی کھینچی ۔
" گڈ مارننگ وائفی۔" علیدان کی سست گھمبیر آواز اور جملے نے اسے واقعی کنفیوزکیا۔
"گ۔۔ گڈ ۔۔مارننگ سر" ہکلاتے گڈ مارننگ بول دیا۔۔
علیدان نے بازو اوپر اٹھا کر آرس توڑ کر جیسے سستی بھگائی۔
"رات میں آپ کو پڑھاتے یہیں سوگیا، آپ میں پڑھنے کا بھت شوق ہے۔۔۔۔۔ اچھا لگا۔" ۔۔ یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا ۔
" آپ کا شکریہ " پیشانی سہلاتے
آن نے پڑھائی کے حوالے سے تھینکس بولا ۔
وہ دروازے کے پاس آکر بولا ۔
اگر میں نہ ہوتا تو آپ بستر سے نیچے گری ہوتیں۔۔۔اسی لئے شکریہ قبول کرتا ہوں۔" مسکرایا۔۔ اور باھر نکل گیا۔
ملازموں نے اسے آن کے روم سے اتنی صبح نکلتے معنی خیزی سے دیکھا۔
علیدان ان سب کے چہرے پر معنی خیز سی دبی دبی ہنسی دباتے چہروں کو دیکھا۔تو تاثرات کھینچ گئے۔ ہولے سے بولا ۔
" جائیں۔۔ سب اپنے اپنے کام سے لگ جائیں۔"
یہ کہہ کر اپنے روم کے طرف بڑھ گیا۔
☆☆☆☆☆
علیدان کی آنکھ آدھی رات میں کھلی تو دیکھا وہ کنارے پر ہی سوگئی ہے۔ اس نے چاہا کہ اسے اٹھا کر سیدھا لٹادے تبھی وہ سرکتی ہوئی گرنے والی ہوگئی۔ کہ علیدان نے اچانک سے ہی اس کی سائیڈ پر آکر اسے گرنے سے روک لیا۔
علیدان نے چاھا کہ اسے سیدھا لٹائے اور خود اپنے روم میں چلاجائے ۔۔ تبھی آن اس کی طرف اور سرکتی اس کے آغوش میں سوگئی۔۔
علیدان نے ایک بازو اس کے گرد کرکے محبت سے حصار کھینچا۔۔ ہولے ہولے اس کی مضبوط انگلیاں آن کے نرم بال سہلاتی رہی تھیں۔
آج وہ کسی بھی طرح سے یہاں سے نہیں جاسکتا تھا وجہ پاس سویا اس کے آغوش میں نازک سا وجود تھا، جو اسے مضبوطی سے جکڑے ہوئے تھا۔۔اور پہلی بار ۔۔وہی عورت۔۔اسکے لئے سکون کا باعث بنی تھی، یہی سوچتے اسے دیکھتے اس کی کب آنکھ لگی پتا نہیں چلا۔
اپنے کمرے میں تیار ہوتا آئینے میں دیکھتا رہا۔ تصور میں رات والا واقعہ پورے جزئیات کے ساتھ نظروں کے آگے آرہا تھا۔ وہ ہلکا سا سر ہلاتا مسکرا دیا۔۔
تیار ہوکر ڈائننگ ھال میں آکر اس کی نظریں آن کی متلاشی رہیں۔ " عزیزہ جائیے مس ان کو بلائیے" اس نے کھانا چنتی ملازمہ کو کہا۔
"سر میم تو سویر ہی بنا ناشتہ کے یونی چلی گئیں۔ کہتی ہیں "ضروری کام ہے" خادمہ نے آگاہ کیا۔
"کون سا ضروری کام؟" وہ دنگ ھوا۔۔ وہ سمجھ گیا وہ اس سے چھپ رہی ہے شرمارہی ہے،
وہ ہولے سے سر نفی میں ہلا کر لب بھینچ کر خادمہ کو دوسرا حکم دیا ۔۔" ڈرائیور کو فون کرو کہ راستے سے میم کے لئے کھانا پیک کروا کر ساتھ دے، انڈراسٹینڈ؟؟ یہ کہہ کر ناشتے کے طرف متوجہ ہوا۔۔ خادمہ نے "ییس سر۔۔۔ ابھی کرتی ہوں" جلدی سے اپنا فون اٹھا کر کال ملائی۔۔
☆☆☆
ادھر آن کھوئی کھوئی سی یونی میں داخل ہوئی ، چہرے پر حیا کے ساتھ شرمائی شرمائی سی مسکان پھول کھلا رہی تھی ،رات کا واقعہ پورے جزئیات کے ساتھ نظروں میں پھررہا تھا، علیدان کا کمرے میں آنا۔۔ چپکے سے پاس کھڑا ہونا۔۔۔ اس کا ڈرجانا۔۔ علیدان کا اس کی خوبصورتی کی اچانک سے تعریف کرنا۔۔۔ میتھس کے سوال سمجھانا۔ ۔۔۔ اسی کے بیڈ پر سوجانا ۔۔ پھر آنکھ کھلتے ہی خود کو علیدان کے حصار میں قید پانا۔۔ یہ سب اس کے وجود کو ہلکا ہلکا کپکپانے پر اور لڑکھڑانے پر مجبور کررہے تھے۔۔
اس نے یکدم سے اپنے ھاتھوں سے گال تھپک کر سرزنش کی۔۔۔
" یہ کسی بھی طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔۔ آن عصمت جلدی سے خواب غفلت سے جاگ جاو ورنہ ایسا کچھ ہوگا کہ تم وہ سب بھی کھودو گی۔ جو ان بیس سالوں میں کمایا ہے ۔۔ اور عزت سے زیادہ قیمتی کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔
وہ خواب دیکھنے کا حق نہیں رکھتی ۔۔بھلی اب وہ علیدان کے ساتھ نکاح کے رشتے میں بندھ گئی تھی۔۔ لیکن اس کو یہ رشتہ مجبوری سے بڑھ کر نہیں لگا تھا۔۔اور مجبوریوں کے رشتوں میں خوابوں کا گذر ناممکن ہوتا ہے۔۔ ہے نا۔۔
وہ سر جھٹکتی اندر بڑھ گئی۔
☆☆☆☆
علیدان میٹنگ روم سے باھر آیا تو اس کا سیکرٹری دانیال اس کے پیچھے آفیس میں داخل ہوا۔
" سر آپ نے جو انفارمیشن کلیکٹ کرنے کا آرڈر دیا تھا۔ وہ سب تفصیل کے ساتھ اس فائل میں موجود ہے ۔" اس نے فائل ٹیبل پر رکھی۔
خود موودب کھڑا ہوگیا۔
علیدان نے فائل اٹھا کر اوراق پلٹے ۔۔ پہلے صفحے پر آن کی ماں کی پوری تفصیل موجود تھی۔ اس کے موت کا سبب بھی موجود تھا۔اسے قتل کیا گیا تھا۔
دوسرے صفحے پر آن کی باپ کی معلومات ہونی چاہئے تھی۔لیکن باپ کے نام کی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالی تھی۔
"کیا یہ مکمل انفارمیشن ہے؟ "وہ غصے سے گویا ہوا۔ "باپ کا نام کیوں نہیں لکھا؟"
"علیدان سر۔۔۔ آن میم کی رجسٹریشن پر صرف ان کی ماں کا نام ہے،۔۔۔میں نے اپنے طور پر انویسٹیگیٹ کروائی تو پتا چلا میم کا اعوان خاندان سے تعلق ہے۔
"سکندر اعوان سے؟" وہ سوالیہ ہوا۔ "جی سر۔۔ وہ سکندر صاحب کی ناجائیز بیٹی ہیں۔ لیکن عجیب بات یہ کہ اعوان خاندان نے اس خبر کو لیک نہیں کیا۔۔ نا ہی میم کو ان کے کسی فرد کے ساتھ ملتے دیکھا گیا ہے۔۔ میں نے میم کا اکاونٹ اپنے طور پر چیک کروایا۔۔۔۔جس میں تین سالوں کے دوران کوئی بھی بینک ٹرانسفر اعوان خاندان کی طرف سے نہیں بھیجا گیا ۔جس سے یہ لگے کہ خبر سچی ہے۔"
" ہممم ۔۔ جاری رکھو۔" علیدان خاموش سنتا رہا۔
"میم اپنی آج تک کی لائیف میں، اسکول سے یونی تک ۔۔ مختلف جگہوں پر نوکری کرچکی ہیں ۔۔جن میں سے میں صرف دس جگہوں کی تفصیل اکٹھی کر پایا ہوں۔"
علیدان کے تاثرات یہ سن کہ آن نے مختلف نوکریاں کی ہیں۔ سپاٹ ہوگئے۔
"کون سی جابز؟ مجھے بتاؤ۔"
"سر میم کے ایف سی ، بار ،ھوٹل اور کافی شاپ پر ویٹریس رہ چکی ہیں۔۔
ایک ریسٹورانٹ پر پیانو بھی بجایا۔۔ آرٹسٹ اور ماڈل بھی رہی ہیں۔۔ سپر مارکیٹ میں دودھ بھی بیچا ہے۔۔ٹیکسی بھی ڈرائیو کی ہے۔۔ایک کپڑوں کی فیکٹری میں بھی جاب کی، اور اب ٹیوشنز پڑھا کر گذارا کررہی ہیں۔۔
" انف۔۔۔ انف۔۔ " علیدان جیسے تکلیف سے کراہ کر دھاڑا
"یہ ڈاکیومنٹس ادھر ہی چھوڑ جاو۔۔ تم جاسکتے ہو"
"جو حکم سر۔" دانیال اس کے ری ایکشن دیکھ کر اندر سے ڈر گیا۔۔
اور دروازہ کھول کر باھر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی علیدان تھکا تھکا سا کرسی پہ ڈھے گیا۔ ایک ھاتھ چہرے پر پھیر کر جیسے اپنے ری ایکشن کو پرسکون کیا ۔
اس نے ھاتھ بڑھا کر فائل کھسکا کر قریب کی اور ورق گردانی کرنے لگا۔ جہاں تازہ تازہ حاصل ہوئی تفصیلات موجود تھیں ۔
اس کا دل یہ سن کر دکھ سے جیسے ابل کر باھر نکلنے کو تھا۔ کہ ایک بیس سالہ لڑکی نے اپنے جینے کے لئے اتنے سارے کام کیئے۔۔۔۔ ۔ اس کا دل تکلیف سے جیسے سکڑا تھا۔ اس کا ذہن اعوان سکندر کے بارے میں سوچے جارہا تھا۔ " اس کا مطلب ہے۔سکندر اعوان کی زندگی میں آن کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ "
" اعوان صاحب۔۔۔ اب وقت آئے گا ۔۔ کہ بازی پلٹے گی۔۔جسٹ ویٹ اینڈ واچ" یہ کہہ کر فائل بند کی اور کرسی سے ٹیک لگا لی۔۔
اب وقت تھا۔۔ اعوانزکو نیچادکھانے کا، علیدان چھوڑنے والا تو بلکل نہیں تھا۔
☆☆☆☆
دوپہر کی کلاسز کے بعد وہ "برگر شاپ " پر اپنی ڈیوٹی کرنے آگئی۔۔ ابھی تک اپنی اسٹیڈی کا خرچ نکالنے کے لئے اس نے یہ جاب بھی نہیں چھوڑی تھی ۔دن کو 12 کے بعد برگر شاپ۔۔ شام کو ٹیوشنز۔۔ اس کے بعد مدھان کی ٹیوشن شروع ھوجاتی تھی۔۔
شاپ مالک نے اتنی رعائیت دی تھی کہ پیر کے فریکچر کی وجہ سے اسے کائونٹر پر ڈیوٹی دی تھی۔۔
وہ اس وقت آرڈرز کے بل بنارہی تھی
تین کے قریب زایان شاپ میں داخل ہوا آن کو کائونٹر پر ڈیوٹی دیتے دیکھ کر آن کے طرف بڑھا۔۔ آن نے جب زایان کو دیکھا۔۔چہرہ پر تاثرات سرد ھوگئے۔۔ وہ اس وقت بلکل بھی زایان یا کسی سے بھی بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
" میں "ھمبرگر "کا آرڈر دینا چاھتا ہوں " زایان نے فرینکلی کہا ۔۔ لہجہ ایسا تھا جیسے ان دونوں کے بیچ میں بھت اچھا تعلق ہو۔۔
"کیا آپ فون پر پے کریں گے یا کیش؟ آن فارمل ہوئی ۔۔
"میں تو فون گھر بھول آیا ہوں اور والٹ بھی۔۔ تو کیا تم بل پے نہیں کرو گی۔۔" کیامعصومیت تھی زایان اعوان کی ۔۔
آن تین سیکنڈ اسے دیکھتی رہی پھر بل کمپیوٹر میں فیڈ کردیا۔۔
"سر آپ سائیڈ ٹیبل پر بیٹھ کر انتظار کریں آپ کا آرڈر نوٹ کرلیا گیا ہے" مصروف ریکوئسٹ آئی۔
لیکن وہ بلکل بھی وہاں سے نہیں ھٹا۔۔
" تم کب فارغ ھوگی؟ ڈنر آج میری طرف سے کرنے کا کیا خیال ہے؟" کائونٹر پر دونوں بازو رکھ کر اس کے جھکے سر کو دیکھا۔
"کوئی ضرورت نہیں۔۔۔۔شکریہ، مجھے رات کو بھی ٹیوشن ہے ۔ "انداز مصروف تھا۔
زایان کائونٹر سے ٹیک لگا کر کھڑا ھوگیا" تم ابھی تک ناراض ہو آن ؟ ایک مہینہ گذر چکا ہے،اس بات کو تم ابھی تک بھائی سے ناراض ہو؟"
"زایان سر ۔ یہ میرے ڈیوٹی آورز ہیں سو پلیز ایک طرف ہوجائیں ۔۔آپ کا آرڈر پلیس ھوجائے گا ۔" بے رخی سے کہتی وہ اندر آفیس مڑ گئی تاکہ اپنی ڈیوٹی کا وقت بدلواسکے۔۔ ٹائیم چینج کروا کر وہ شاپ سے باھر نکلی۔ تو باھر کار میں زایان اس کا انتظار کررہا تھا۔
آن کو باھر نکل کر سائیڈ روڈ پر آتے دیکھا تو جلدی سے نکل کر آن کو کلائی سے پکڑ کر روکا۔۔
آن کو غصہ تو بہت آیا لیکن وہ تماشا بحرحال نہیں چاھتی تھی ۔
"آن۔۔۔۔۔"وہ پکارا۔
"آپ جاسکتے ہیں ۔۔۔ میری ابھی تک ٹیوشنز رہتی ہیں۔" سخت بیھیو کے ساتھ جواب دے کر ۔۔ مڑنا چاھا۔۔
"ناراضگی ختم کرو آن" زایان کا لہجہ ملتجیانہ ہوا۔۔ اسے گوارا ہی نہیں تھا کہ آن اس سے ناراض ھوکر بات کرنا ہی چھوڑ دے۔۔
"میں سمجھ رہی تھی ۔۔مجھے تم لوگوں سے ایک حد فاضل رکھنی چاھئے۔ آفٹر آل۔۔۔ میں علیدان شاہ کے بھائی کی ہوم ٹیوٹر ہوں۔۔ آپ سب لوگوں کی اپنی الگ حیثیت ہے، اور میری اپنی الگ ۔۔۔۔ ہر ایک اپنی اپنی "رائے " رکھنے میں آزاد ہے ۔ سو۔۔۔غلط نہیں ھوگا۔۔۔اگر۔۔۔۔ میں بھی ایسا ہی کروں۔"
وہ یک ٹک ایک جانب دیکھتی آھستہ آھستہ بولتی گئی۔۔ ایک بار بھی آنکھ نہ چھپکی۔۔ ایک بار بھی زایان کو نہیں دیکھا۔۔۔۔
"کیا تم واقعی سمجھتی ہو ؟ علیدان تمہیں صرف "ہوم ٹیوٹر " ہی سمجھتا ہے؟ آن میرا تم سے ایک رشتہ ہے۔۔ جب کہ وہ غیر ہے۔۔ کیا تم یہ بات نہیں سمجھتی ؟۔میں یہ سب تمہارے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں۔۔کیا تم کو یقین نہیں؟"
"میں کوئی حساب دان نہیں ھوں۔اسی لئے تم لوگ یہ حساب کرنا بند کرو۔۔۔ کہ " کون جیتے گا اور۔۔۔۔ کس کی ہار ہوگی۔۔دوسری بات اس کو یہ نہیں پتا کہ میں سکندر کی ناجائز بیٹی ہوں ۔۔اس کی نظر میں، میں کیا ہوں؟ صرف ۔۔آن عصمت کاظم۔۔ اور کوئی میری پہچان اس کی نظر میں نہیں ہے ۔۔ سر سے پیر تک وہ مجھے میری قابلیت سے جانتا ہے ۔ اسٹیٹس سے نہیں"
وہ چپ ہوئی۔۔ پھر ایک گہری سانس بھر کر زایان کو دیکھا جو دنگ اسے دیکھ رہا تھا۔
" مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سب لوگوں کو ایسا کیوں لگتا ہے ؟ کہ میرا اس سے کوئی "غلط" تعلق ۔۔ ہے ۔زایان بھائی تم اپنے باپ کی طرح کی سوچ رکھتے ہو۔یہ سمجھتے ہو کہ میں پورے دل سے علیدان جیسے دولت مند سے شادی کروں گی ۔۔ہمممم ۔۔"( گہری سانس۔۔)
" میری ماں تمہارے باپ کی وجہ سے تباہ ہوئی، تو کیا تم سمجھتے ہو کہ دولت مند لوگ مجھے متاثر کرتے ہونگے ۔ ؟"
آن کا چہرہ یاسیت سے بھرا ہوا تھا۔۔ آنکھیں تکلیف سے بوجھل۔۔ نمی تھی۔۔ لیکن۔۔۔۔ آنسو نہیں۔۔
وہ مڑی اور ھاتھ چھڑا کر ۔
جانے لگی ۔ کہ زایان نے پھر سے کلائی پکڑ کر روکا تھا۔۔
کچھ دور نہیں۔۔یہیں برگر شاپ کے باھر ایک بلیک گاڑی رکی تھی۔۔ علیدان ایک جھٹکے سے کار کا دروازہ کھول کر باھر نکلا۔اور ان دونوں کو گھورتے قریب آکر رک گیا۔
اور زایان کے ہاتھ کو غصہ سے گھورا۔۔ یہ دیکھ کر زایان بھی گھورنے لگا۔۔ دونوں شیر تھے، بیچ میں جیسے شکار تھا ۔۔ ایک دوسرے کو آنکھیں چھوٹی کیئے گھورے جارہے تھے۔۔
" ہاتھ چھوڑو" علیدان غرایا نہیں دھاڑا تھا۔ جس کی گرج سے آن تک دہل گئی۔ اور ھاتھ چھڑانے لگی۔۔
علیدان نے ھاتھ جھٹکے سے آگے بڑھ کر زایان کی گرفت سے نکالا اور اسے ویسے ہی پکڑے کھینچتا ہوا گاڑی تک لایا۔۔ اور پیچھے دروازہ کھول کر بٹھایا۔ اور خود بھی بیٹھ کر دروازہ بند کیا۔ نظر اٹھا کر دور کھڑے زایان کو کینہ توز نظروں سے گھورا۔۔
گاڑی جھٹکے سے آگے بڑھ گئی۔۔
پیچھے زایان ہاتھ ملتا رہ گیا "کیا آن اس کے ھاتھ سے نکل گئی؟"
ادھر گاڑی میں بیٹھے علیدان نے آن کو گھوری دکھائی۔
" کیا کہہ رہا تھا؟"
"مسٹر شاہ آپ کو کچھ زیادہ ہی شوق ہے دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا۔"
"میرے خیال کے مطابق تو ہم میں گہرا رشتہ ہے۔ اس سے بڑھ کر ہم دوست بھی تو ہیں ۔ ہم اس معاملے پر بات کرسکتے ہیں۔"
"سوری۔۔ میں اس معاملے کو آپ سے ڈسکس نہیں کرسکتی ۔۔ میں بہت عام سی لڑکی ہوں۔ میں علیدان شاہ جیسے دولت مند آدمی کی دوست بننے کے لائق نہیں ۔ " وہ اندر سے جیسے چٹخ رہی تھی ۔ خود پر خود ہی طنز کررہی تھی۔۔ وجہ زایان سے گفتگو تھی۔
علیدان نے بنھویں چڑھالیں۔۔ اسے یہ سن کر ناگوار لگا کہ آن اسے ناپسند کرتی ہے۔
کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اس کے "حق" کو چیلینج کرسکے۔۔
وہ حق رکھتا تھا چاھتا تو جتا بھی سکتا تھا ۔۔لیکن علیدان شاہ جیسے بردبار شخص کو یہ منظور نہ تھا۔
"گڈ۔۔۔ ویری گڈ۔"اب اس کی آن کو فتح کرنے کی خواھش زور پکڑتی جارہی تھی۔
☆☆☆☆☆
مدھان کا سیپلیمنٹری پیپر تھا ۔اس دن اس سے زیادہ وہ خود نروس تھی۔۔ لیکن پھر بھی بار بار جاکر مدھان کو چیک کرتی رہی۔
اسے سمجھاتی رہی۔۔ اس کا بیگ چیک کرتی رہی کہ ہر چیز موجود ہے۔۔ جیسے پینسل پین اسکل وغیرہ
گاڑی تک پہنچ کر وہ اسے ہی سمجھا رہی تھی۔۔
" دیکھو نروس مت ہونا ۔ یہ پیپرز دے کر تم کالیج کی ٹیسٹ بھی پاس کرلو گے۔۔
مدھان نے اپنی ٹیچر کی پیشانی پر پسینہ کی بوندیں چمکتی دیکھیں تو مسکرایا۔
"مجھ سے زیادہ تو آپ نروس ہیں ۔ جس کی گواہی یہ پسینہ ہے۔"
"اچھااا۔۔۔کیا یہاں؟ "آن نے پیشانی پر ھاتھ پھیر کر ہڑبڑی میں الٹا سوال پوچھ لیا۔
مدھان نے اس کے پیچھے کھڑے اپنے بھائی کو دیکھا تو شرارتی مسکراہٹ چہرے پر سج گئی۔۔
" بھائی مس کو تھام لیجئے ورنہ یہ نروس ہوکر یہیں گر ہی نہ جائیں"
یہ سن کر آن نے واقعی مڑ کر دیکھا تو واقعی علیدان شاہ ٹپ ٹاپ آفیس کے لئے تیار کھڑا ان دونوں کی باتیں انجوائے کررہا تھا۔
وہ مسکرا کر گاڑی میں بیٹھا اور ھاتھ ہلاتا نکلتا چلا گیا۔۔
پیچھے وہ دنگ رہ گئی جلدی سے پیشانی کو ھاتھ لگا کر اپنا بھیگا ھاتھ دیکھا۔۔ پھر خود پر جھنجھلا کر ۔"تف ہے آن تم پر۔۔۔۔" سر پر تھپکی ماری۔
علیدان یہ سب دیکھ کر بس مسکرائے جارہا تھا۔
"آل رائیٹ آپ پریشان مت ہوں۔۔وہ اچھے سے ہی پیپر دے گا۔ آپ آئیں میرے ساتھ ۔۔۔میں آپ کو یونی چھوڑ دوں" وہ کہہ کر آگے بڑھا۔۔
پیچھے سے آئی آواز نے اس کے قدم روکے۔۔
"مسٹر شاہ۔۔۔۔"
"کیا ابھی کچھ اور بھی کہنا ہے؟"
"آج مدھان کے پیپر ہونے کے ساتھ ہی میری ٹیوٹرنگ کی مدت بھی ختم ہوتی ہے۔۔میں اپنا لگیج لاتی ہوں۔"آن سے گہری سانس چھوڑی ۔
مڑنے ہی لگی کہ علیدان کی آواز نے روکا " گریجویشن کے بعد یونی سے نکل کر کہاں جائیں گیں۔؟ "
" کوئی مسئلہ نہیں۔"وہ پرسکون تھی۔
وہ پہلے سے ہی کرایہ پر کمرہ لے چکی تھی،
"ہمممم ۔۔" علیدان کے پاس کچھ کہنے کو نہیں رہا۔۔ اس کے پاس حق بھی نہیں تھا جو اسے روکتا۔۔ کس حق سے روکتا۔۔ ؟
جو کاغذی رشتہ تھا فقط اعوان کو نیچا دکھانے کو تھا۔۔
وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔
یہ دیکھ کر کہ وہ کچھ نہیں کہہ رہا ۔۔
"میں لیگیج لے آتی ہوں "کہہ کر اندر چلی گئی۔۔
علیدان نے اسے بنا کہے خاموشی سے یونی کے گیٹ تک چھوڑا۔
آن نے اپنا لیگیج اٹھایا ۔۔ اور علیدان کے طرف آخری بار نظر کی،
" آپ کے ساتھ اچھا وقت گذرا۔ امید یے ہم آئندہ کبھی نہیں ملیں گے۔ دعا کرتی ہوں آپ کی زندگی میں ہر چیز بہتر ہو"
کہہ کر آگے بڑھی۔۔
اور گیٹ تک پہنچ کر مڑ کر دیکھا۔۔
علیدان کی گاڑی کہیں نہیں تھی ،
یہ دیکھ کر آن کو تھوڑا سا دکھ ھوا۔ لیکن ۔۔۔۔۔ سر جھٹک کر۔۔۔
وہ روڈ پر آئی اور ایک ٹیکسی رکواکر بیٹھ گئی۔۔ اب اس کا رخ اپنے کرایہ کے گھر کی طرف تھا۔
وہ روڈ سائیڈ پر ٹیکسی کا انتظار کررہی تھی اس وقت اس کی برگر شاپ پر ڈیوٹی ہوتی تھی۔ سہپر کے دو بجے تھے۔
جب اس کی نظر دوسری سائیڈ پر حان حارث اور حنیم پر پڑی ،آن نے جیسے دیکھا ہی نہیں۔ خود کو لاپرواھ ظاہر کرتی کھڑی رہی۔۔
حنیم کی اس وقت آن پر نظر پڑی تو اس کی طرف بڑھنا چاھا۔ تبھی حان نے اس کی کلائی مضبوطی سے جکڑ کر روکا۔ نظروں میں تنبیہہ صاف تھی۔
"میں صرف ہائے ہیلو کرنا چاہ رہی تھی۔" حنیم نے منہ بنالیا۔۔ حسد کی آگ سے جلنے لگی۔۔یہ سوچ کر کہ اب بھی ۔۔ حان کو آن کا خیال ہے۔
"کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم اس قابل نہیں ہو کہ ہائے ہیلو کرسکو۔" غصہ سے اسے بری طرح ڈانٹا۔
آن جلدی سے ٹیکسی میں بیٹھ کر چلی گئی۔
شام کو 5 بجے ڈیوٹی آف ہونے کے بعد وہ جیسے ہی شاپ سے نکلی ۔۔
زایان اعوان کو کھڑا پایا۔۔
آن نے چاہا کہ نظر انداز کردے لیکن۔۔۔۔
اسے بڑھتے دیکھ کر کھڑی ہوگئی۔
"آپ پھر سے کیوں آئے ہیں؟"
وہ مسکرایا۔۔ " پیسے واپس دینے آیا ہوں " والٹ سے ہزار کا نوٹ نکال کر اس کا ھاتھ تھاما اور اس کی ہتھیلی کھول کر اس پر رکھا۔
"آپ یہ پیسے ٹرانسفر بھی کرسکتے تھے۔"
"مجھے اپنی چھوٹی بہن کو دیکھنا بھی تو تھا۔" زایان مسکرایا۔
"جو مجھ سے ناراض ہے ۔۔ بھلا کون ہوگا ایسا بھائی ۔۔جو اپنی بہن کی ناراضگی سہہ سکے۔۔۔ تم نے اپنے روئیے سے واقعی اپنے بھائی کو بہت ذہنی و دلی تکلیف دی ہے آنیہ"
لہجے میں تکلیف در آئی۔۔
آن نے ایک گہری سانس فضا کے سپرد کی ۔۔
زایان نے پیسے اٹھا کر اس کے بیگ میں ڈال دیئے جو وہ اسٹل تھامے کھڑی تھی۔اور کلائی سے تھام کر اسے گاڑی تک لایا۔۔ دروازہ کھول کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
" کہاں لے کر جانا چاہتے آپ؟" وہ حیرانگی آنکھیں جھپکا کر بولی۔لیکن بیٹھی نہیں۔
" تم بیٹھو تو سہی۔۔۔ سوال کا جواب راستے میں دیتا ہوں۔"
" لیکن ۔۔۔"
آن نے کچھ اور کہنا چاہا ۔۔
اس کی ہچکچاہٹ سمجھ کر زایان کو کہنا پڑا۔
" میں تم کو ایک اچھی سی جگہ پر لے چلتا ہوں جہاں میں روز جاتا ہوں۔ "
آن مجبورا بیٹھ گئی۔
لیکن راستے میں پھر سے پریشانی سے بولی ۔" مجھے اپنا تھیسز لکھنا ہے ۔۔اور مجھے۔۔۔۔"
تبھی زایان نے اس کی بات آدھے میں کاٹ دی ۔
" تم آدھے گھنٹے میں واپس آجاو گی۔صرف خود کو رلیکس ہونے کا موقع دو۔"
زایان نے گاڑی موڑلی۔۔ آن نے گہری سانس بھر کر چپ اوڑھ لی۔۔
وہ اسے ایک کھلی ہوادار سرسبز جگہ پر لے آیا۔۔ جہاں ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔
شام کے 5 بج رہے تھے اور آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ٹھنڈی نرم ہوا نے آن کے چہرے کو چھوا۔۔۔ تو آن کو بھت اچھا لگا ۔
"یہ جگہ واقعی پرسکون ہے۔"
آن نے چند گہری سانسیں لے کر فضا میں پھیلی پھولوں۔۔پتوں۔۔اور کہیں قریب ہی آبشار کے پانی سے ٹکرا کر آتی سوندھی سوندھی سی خوشبو کو کھینچ کر اندر اتارا۔۔
" جسٹ ویٹ "
زایان نے فون نکال کر کسی کو کال ملائی۔"ہاں۔۔۔ اب شروع کرو"
کال بند کرکے آن کو مسکرا کر دیکھا۔
"اوپر آسمان پر نظر کرو ۔"توجہ اوپر دلائی۔
اچانک ہی دزز کی آواز کے ساتھ کہیں سے فائر ورک نے آسمان پر روشنی بکھیر دی۔
آن چونکی اور دنگ رہ گئی۔
مسلسل فائر ورک کے بیچ انگریزی کے تین لفظ ظاہر ہوئے۔"I am sorry"
" زایان بھائی یہ۔۔۔۔" وہ حیران ہوکر مڑی۔
" میں نے سوچا ہے ۔۔کہ آئیندہ مجھے خیال رکھنا ہے۔"زایان نے آن کی بات کاٹی۔
"اس دن تم اپنی جگہ پر۔۔ اپنی سوچ میں بلکل۔۔۔ درست تھیں۔
ہم اس وقت مختلف جگہ پر تھے۔ اور عجیب سچویشن بھی ہوگئی تھی۔۔ مجھے ایک دوست کی حیثیت سے بلکل بھی بیڈ ٹیمپر نہیں ہونا چاھئے تھا۔" آن نے سر ہلایا۔
" مجھے ایک ماھ میں بلکل بھی ذہنی سکون میسر نہیں تھا۔۔ کیوں کہ میری وجہ سے میری چھوٹی بہن ناراض تھی۔ جبکہ۔۔۔ یہ سب میں نے تمہارے بھلے کے لئے کہا تھا۔۔۔۔خیر۔۔۔"اس نے ھلکا سا ہنکارا بھرا۔۔"کیا اب بھی ناراض ہو؟"
اسے دیکھ کر پوچھا۔۔
آن نے ۔۔ سر نفی میں ہلایا اور لب بھینچے۔
" یہ میں نے بعد میں سوچا کہ۔۔۔ "تمہارے اور اعوان خاندان کے تعلقات اچھے بلکل بھی نہیں ۔۔نہ تم۔۔۔ ان سے جڑے کسی فرد کی پابند ہو کہ ان کا حکم مانو۔۔۔۔تو اب میں کبھی تم کو مجبور نہیں کروں گا۔۔۔۔۔کیا تم مجھے اب معاف کرسکتی ہو؟" کیا نہیں تھا ۔۔ زایان کی آنکھوں میں۔۔ کچھ الگ رنگ۔۔ الگ چمک ۔۔ الگ احساسات۔۔ جو بلکل بھی ایک بھائی کے تو نہیں ہوسکتے تھے۔۔ لیکن آن کی معصومیت ہی تھی جو وہ اپنے سوتیلے بھائی کی آنکھوں میں ایسے رنگ دیکھ کر بھی۔ اپنے منفی خیالات کی سر جھٹک کر نفی کردیتی تھی کہ ۔۔۔ نہیں "رشتہ بھلی خون کا نہ ہو ۔۔ لیکن باپ کے رشتے سےوہ کوئی غلط خیال نہیں لاسکتی تھی۔"
زایان اس کے چہرے کو تکے جارہا تھا۔۔ یہ لڑکی بھت خوبصورت تھی اسے دیکھنا اور نظر انداز کرنا بہت مشکل تھا۔
☆☆☆☆☆
آن کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا یہ دیکھ کر کہ کال کرنے والا " علیدان" ہے۔ دل میں حیرانی کے باوجود بھی اگنور کرکے سیل کو میوٹ کردیا۔۔
ادھر علیدان کو حیرت کے ساتھ غصہ بھی آرہا تھا۔۔ آن اس کی کال مسلسل نظر انداز کررہی تھی۔۔بالاآخر اس کی برداشت ختم ہوگئی۔۔
یہ لڑکی اس کی برداشت کو اچھا آزما رہی ہے۔ غصہ میں اندر کی بھڑاس ایش ٹرےاٹھا کر دیوار پر مار کر نکالی۔
ان دونوں میں "ملازم" اور "مالک " کے رشتے کا اختتام ہوتے ہی وہ اس کا فون بھی اٹھانے کی روادار نہیں تھی۔
" ہممممم۔۔۔ بھت ہی کوئی سنگ دل لڑکی ہو آنیہ عصمت"
وہ خود سے بڑبڑایا۔
اس نے آج تک اپنی زندگی میں ایسی عورت نہیں دیکھی تھی۔یہ واقعی اس کی زندگی کا پہلا موقع تھا جب کوئی عورت اس سے چھٹکارا پانے کے لئے بے چین ہو۔
کیا وہ بگھڑ تھا۔۔۔۔؟ گیدڑ تھا۔۔۔۔یا شیر تھا؟۔۔۔ یا کوئی چیتا تھا۔۔۔ جو اسے ہڑپ کرجاتا۔۔
یا وہ اس سے بظاہر "انکار"۔۔ "اقرار " کا کھیل، کھیل رہی تھی۔؟"
Good... very good Ania..
اس نے غصہ سے جل بھن کر دانیال کو کال ملائی۔۔
"پتا کرو آن میم اس وقت کہاں ہیں؟"
☆☆☆☆☆
ابھی ادھا گھنٹہ پہلے ہی زایان نے اسے اس کے رہائشی ایریا تک چھوڑا تھا۔ اس نے زایان کو ایریا کے اندر بلکل بھی آنے کو نہیں کہا۔
" اندر نہیں بلاؤ گی آن؟" زایان نے اسے دیکھتے ہوئے مسکرا کر چھیڑا۔۔
" نہیں ۔۔" صاف انکار کیا۔۔
"کیوں ؟ "وہ حیران ہوا۔
"کیوں کہ میں نہیں چاھتی آپ روز روز میرے گھر تک چلے آئیں۔" سچ بولا تھا۔۔لیکن مقابل کا دل دکھا ۔۔
" اچھا۔۔ کوئی بات نہیں جیسا تم کو اچھا لگے۔۔ اپنا خیال رکھنا۔۔مجھے کسی بھی ضرورت پر کال کرنا ۔"
زایان نے گاڑی اسٹارٹ کردی۔
"میں بھی چلتی ہوں مجھے اپنا تھیسز مکمل کرنا ہے۔۔ گڈ بائے۔" ہاتھ ہلا کر ۔۔ آگے بڑھ گئی۔۔
جب اپنی بلڈنگ کے قریب آئی تو ایک جانی پہچانی سی بلیک کار بلڈنگ کے سامنے پارک ہوئی تھی۔
آن نے اپنا وہم سمجھ کر کہ بھت سے لوگوں کے پاس سیم گاڑی ہوتی ہے۔ اس کے پاس سے گذرتی ۔۔سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم کے دروازے تک آئی ۔
جیسے ہی چابی نکال کر لاک کھولنا چاھا۔ اس کے کان میں پیچھے کھڑی
کار کا دروازہ کھلنے کے آواز آئی۔۔ آن نے ڈرتے ڈرتے مڑ کر پیچھے دیکھا ۔۔ اور ۔۔۔ دنگ رہ گئی ۔۔
علیدان کو کار کے ساتھ بازو سینے پر باندھے ۔۔ آنکھیں غصیلی کیئے خود کو گھورتے پایا۔ ایک پل کو اسے خوف ہوا۔۔
وہ جہاں بھی جاتی ہے یہ شخص اس کے پیچھے آجاتا ہے۔ کیسے پتا چلتا ہے اسے۔۔؟
یہ شک نہیں تھا کہ وہ بلینئر تھا۔۔ اس کی سورس اس کی طرح ہی پاور فل ہوسکتی تھی۔۔ سب ممکن تھا۔۔
لیکن آج وہ اس کے پیچھے۔۔۔ کس مقصد سے آیا تھا؟ جب کہ ٹیوشنز تک وہ چھوڑ آئی تھی۔
کیا کاغذی رشتے کا حق جمانے ؟ وہ اس سے آگے سوچ بھی نہیں پارہی تھی۔
"تو اسی لئے آپ کا مقصد یہاں تنہا رہنا تھا ؟"
اس کی سرد آواز اور اس میں غصہ کی آمیزش آن کو صاف محسوس ہوئی تھی۔۔ وہ اب ڈررہی تھی۔۔
" آ۔آ۔۔ آپ ۔۔یہاں کیسے پہنچے ہیں ؟" اسے بری طرح کرنٹ لگا اسے دیکھ کر۔
" ایسا لگتا ہے ۔۔ہر بار میں جب بھی آپ کے سامنے ظاہر ہوں گا۔۔آپ کو ایسے ہی شاک لگتے رہیں گے؟" بنھویں اٹھا کر اس کی نروس نیس کو تعجب سے دیکھا۔
اسے غصہ تھا ۔۔آن نے ولا چھوڑ کر اس عام سے ایریا میں رہنے کو ترجیح دی ۔۔
آن کو حیرت اس بات پر تھی کہ اس نے اپنی رہائش کا کسی فرینڈ تک کو نہیں بتایا لیکن علیدان۔۔۔۔ پہنچ چکا تھا۔۔
" یہ شمالی علائقہ ہے ۔۔اگر آپ چوہے کے بل میں بھی گھس جاتی۔۔۔ میں وہاں بھی آپ کو ڈھونڈھ لیتا۔"
طنزیہ جتاتا ہوا لہجہ ۔۔ آنکھیں گھورتی ہوئی تھیں۔ایک لمحہ بھی آن سے نظر نہیں ھٹائی تھی۔
" آ۔۔ آپ مجھے ۔۔ ڈھونڈھ رہے تھے۔۔ خیریت۔۔؟ مسئلہ کیا ہے؟"
وہ تو آن کی اس قدر اجنبیت برداشت نہیں کرپارہا تھا۔۔ دنگ ہکا بکا اسے دیکھتا رہا۔۔ جملہ " کیا مسئلہ تھا؟" علیدان کو سخت ناگوار لگا۔
کیا وہ اس کے سامنے صرف کسی مسئلہ ہونے پر ہی آسکتا تھا؟
" آپ نے میرا فون کیوں نہیں اٹھایا تھا؟"
اگر مسئلہ سمجھتی ہیں آن تو یونہی سہی، ۔۔یہ بھی مسئلہ ہی ہے۔۔۔ جو فون نہیں اٹھایا۔۔ اورعلیدان صاحب انکوائری کرنے آگئے۔۔
" کیا ۔۔۔۔؟ آپ نے مجھے کال کی ۔۔۔کب۔۔؟" وہ معصوم بنی پوچھ رہی تھی۔
علیدان نے اس کی معصومیت بھرے ری ایکشن کو بھنویں اٹھا کر بے یقینی سے دیکھا۔
" ہممممم ۔۔ آپ انجان بن کر یہ ظاہر کرنا چاھتی ہیں کہ آپ کچھ نہیں جانتی؟" وہ تو اس کی معصوم بہانے ہر غش کھاگیا۔۔ کیا تھی یہ لڑکی ۔۔۔؟
" میں واقعی نہیں جانتی۔۔ کام میں مصروف تھی۔۔ فون میوٹ تھا۔" نہ چاہتے بھی صفائی دینے لگی۔
یہ سن کر علیدان نے اپنا فون نکالا اور آن کے نمبر پر کال ملادی۔۔ دوسری طرف ۔۔آن کے کندھے سے لٹکے پرس میں سے فون نے زوردار بیل کی۔۔
آن نے اچھل کر پرس کو دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر زبان دانتوں تلے دبا کر کن انکھیوں سے علیدان کو ۔
علیدان اس کی اس طرح معصوم حرکت پر مسکرادیا۔۔اور بنھویں اوپر کھینچ کر اسے جیسے اشارہ کیا کہ "فون اٹھائیں۔"
آن نے فون نکال کر دیکھا جہاں علیدان کی 5 کالز تھیں وہیں ثنا حمزہ کی 4 کالز تھیں۔
ابھی فون ہاتھ میں تھا کہ پھر سے بج اٹھا ۔۔ یہ کال ثنا حمزہ کی تھی۔۔
آن نے جلدی سے کال اٹھالی۔۔
"یار کہاں ہو تم۔۔ میں کب سے کال پر کال ملارہی ہوں۔۔۔ سب خیریت ہے نا۔۔؟ دوسری طرف سے ثنا حمزہ کی پریشان اور فکرمندانہ آواز نے اسے کچھ پل تعجب میں ڈال دیا۔ آخر ایسی کیا بات تھی؟
"ہاں ۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔ کیا ہوا۔۔ کوئی پریشانی کی بات ہے کیا۔ ؟
ہاں میرا فون۔۔ "میوٹ "تھا۔۔۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا ۔۔۔ ہاں۔۔ بتاو ۔۔ کیا بات ہے۔۔ " وہ حیرانی کے ساتھ سوالیہ ہوئی۔۔
" میں آج اپنے ڈورم میں بیٹھی تھی ۔۔ کہ دروازے پر ناک ہوا۔۔ میں نے کھولا تو تین عورتیں دندناتی ہوئی اندر گھس آئیں۔۔ اور تمہارا پوچھنے لگیں کہ آن کہاں ہے؟ مجھے خود تمہارا اڈریس نہیں پتا تھا۔۔ تو انہیں کیا بتاتی ۔؟
کیا تمہاری کسی دشمنی چل رہی ہے؟ "
"نہیں تو۔۔" آن دنگ تھی۔
"ان میں سے ایک خود کو تمہاری بڑی بہن بتارہی تھی۔۔اور کافی اشتعال میں تھی۔۔ "
ثنا حمزہ کی بات سن کر وہ حیران رہ گئی۔۔" بڑی بہن " گو کہ یہ اس نے آھستہ بولا۔۔ لیکن علیدان کے کان سن کر کھڑے ہوگئے۔۔
" اس کا مطلب " آن نے اس سے کوئی گیم نہیں کھیلی۔۔ واقعی اس کا فون میوٹ تھا۔۔ یہ اس کی باتوں سے ظاہر ہورہا تھا۔۔ کہ اس نے علیدان کو فون نہ اٹھا کر۔۔ نظر انداز نہیں کیا۔۔۔۔
تو پھر۔۔۔اس کے دل میں آن کے لئے کچھ نہ سمجھ میں آنے والے احساسات ابھر رہے تھے۔۔جو وہ خود بھی سمجھ نہیں پارہا تھا۔۔ کہ وہ اس کے لئے اتنا پوزیسو کیوں ھورہا ہے؟ اس کے لیئے اتنا ٹچی ہونا ۔۔ اس کی کیئر کرنا۔۔ اس کے پیچھے آنا۔۔ اور اپنی نظروں میں رکھنا ۔۔ اسے دیکھ کر دلی سکون محسوس کرنا۔۔ وہ سمجھ نہیں پارہا تھا۔ ساتھ ہی ۔۔۔ وہ متجسس تھا۔۔کہ آن نے حان حارث کو چوز کیوں کیا تھا ۔؟
جب اس کے سیکرٹری نے اسے انفارمیشن دی تھی تب یہ بتایا تھا کہ دونوں کا کیمپس میں رلیشن رہا ہے۔لیکن حان حارث نے جب آن کی دوست سے تعلق بنالیا تو آن نے اس سے خود تعلق ختم کر دیا ۔
اسے وہ رات یاد آئی ۔۔جب راستے میں آن کو نشے میں دیکھا ۔۔وہ مدہوش ہوکر علیدان پر گر گئی تھی۔۔ اور بیھوش ہوگئی۔۔ علیدان نے اس کے بیھوش وجود کو آرام سے اٹھایا اور ولا لاکر ۔۔ روم میں لٹادیا۔،ڈاکٹر کو بلا کر چیک بھی کروایا۔۔ پھر سکون سے اس کے پاس بیٹھے بیٹھے اس کی فکر میں ،اس کی کب آنکھ لگی تھی؟ اسے پتا ہی نہیں چلا ۔۔اورصبح اٹھ کر معمول کے مطابق ہی اپنے واش روم میں نہانے گیا تھا۔۔ اس سے زیادہ علیدان نے اس سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ نہ وہ ایسا ارادہ رکھتا تھا۔۔ اس کی ایک حد تھی۔۔ لیکن بعد میں اسے "اسی رات کے حوالے سے شرمسار کرتا رہا۔۔ مقصد صرف اسے زچ کرنا تھا اور کچھ اپنے مقصد کے لئے اس نے آن کو استعمال بھی کیا۔
آن نے اسے کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا جس نظر سے اس نے حان حارث کو سوچا تھا۔۔ کیا اسی لئے کہ " اس کی نظر میں علیدان صرف اور صرف "ایک بلینئر" ۔۔ایک "خوبصورت امیر زادہ"۔ ایک" سرمایہ دار" اور ساتھ ہی " شاہ انڈسٹریز کا چیف ایگزیکٹو آفیسر تھا ۔۔ وہ اس کا موازنہ حان حارث یا کسی بھی عام شخص کے ساتھ نہیں کرسکتی تھی۔۔ یہ اس کی شخصیت کا رعب تھا۔۔ یا کچھ اور۔۔۔ جو علیدان کو آن کی نظر میں معزز بناتا تھا۔۔
" ادھر فون پر ۔۔ثنا حمزہ نے واویلہ مچادیا تھا ۔۔"تم کہیں چھپ جاو آن۔"وہ واقعی ڈرارہی تھی۔
آن نے یہ عجیب و غریب بات سن کر حیرت سے فون کو دیکھا۔ " تم پریشان مت ہو۔۔میں اپنا خیال رکھوں گی۔۔ اوکے۔۔ ٹیک کیئر" اسے بھی اپنا خیال رکھنے کا بولتی فون بند کیا۔ علیدان جو کب سے خانوش کھڑا دنگ سا یہ سب باتیں سن کر ۔۔ گھتیاں سلجھا رہا تھا۔۔
" اگر آپ نے کچھ نہیں کہنا تو مجھے اجازت دیجئے ۔۔ مجھے اپنا تھیسز بھی لکھنا ہے۔۔" آن نےاسے دیکھا۔۔
" آپ ابھی اپنی بڑی بہن کے متعلق بات کررہی تھی؟" علیدان کی الجھی الجھی پرسوچ نظریں آن پر ٹکی تھیں۔۔
"سر ہلا کر بولی۔" پتا نہیں۔۔ میں نہیں جانتی۔۔ کچھ عورتیں ڈورم میں آئیں اور میرا پوچھنے لگیں۔۔"
"اس کا مطلب ہے۔۔ آپ کی کسی سے دشمنی چل رہی ہے۔آپ نے کسی فرد کو تکلیف پہنچائی ھوگی۔"
بھنویں اوپر کھینچیں۔۔
"میں نہیں جانتی" آن نے لاعلمی ظاہر کی۔۔
"دروازہ کھولیں۔"
ایلیوٹر کے دروازے کے طرف اشارہ کیا۔
آن نے بنا اس کی بات کا مفہوم سمجھے۔۔ دروازہ کھولا اور اسے " ٹیک کیئر "کہا۔
لیکن علیدان نظر انداز کرتا۔۔ اس کے قریب سے گذرتا۔ دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔۔ پیچھے وہ دنگ نظروں سے اس کی پیٹھ گھورتی رہ گئی۔۔
"یہ اندر کیوں آیا ہے؟"
علیدان کچھ قدم آگے بڑھ کر رک گیا پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو وہیں جم گئی تھی۔۔
"کیا آپ اندر نہیں آئیں گیں ؟"
انداز ایسا تھا جیسے دونوں میں بھت ہی خوشگوار تعلقات ہوں۔
"مسٹر شاہ " آ۔آپ۔۔ اب آپ میرے گھر تک بھی پیچھے آئیں گے؟"
وہ رکی ۔۔پھر بولی " میرا بلکل بھی کوئی ارادہ نہیں ہے کسی مرد کو اپنے گھر میں مہمان کے طور پر داخل ہونے دوں۔۔۔" وہ زچ ہوئی تھی۔۔
" کوئی بھی آپ کے اس ڈربے میں مہمان بن کر آنا پسند بھی نہیں کرے گا۔۔۔ میں تو صرف آپ کی مدد کرنا چاھتا ہوں ، یہ دیکھنا چاھتا ہوں ۔۔کہ ۔۔سیڑھیوں سے اوپر آپ کے کمرے میں کوئی خطرہ تو نہیں ۔ ؟"
آن نے اسے اوپر کمرے میں جانے سے بازو آگے کرکے روکا۔۔
" کوئی خطرہ نہیں ہے ۔۔یہاں سب محفوظ ہے۔"
علیدان نے اس کی یہ حرکت ناگواری سے دیکھی۔
" اپنی یہ ہمت کہاں سے لائی ہیں آنیہ ؟"
" یہ پہلی دفعہ ہے ۔۔ میں یہاں شفٹ ہوئی ہوں ۔۔اور کوئی انسان اس جگہ کے بارے میں نہیں جانتا۔۔ کہ میں یہاں رہتی ہوں۔"
"تو آپ کا مطلب ہے میں "انسان " نہیں ہوں ؟" اب کے اس نے تیز نظروں سے آن کو گھورا۔
آن نے اس کے غیض پر شرمندہ ہوکر نظر جھکا لی۔
"آپ ایک طاقتور شخص ہیں "
"تو پھر آپ اس بات کی کیا گارنٹی دیں گیں ۔۔ جو لوگ آپ کے ڈورم تک آپ کو ڈھونڈھنے آسکتے وہ "طاقتور " نہیں ہوسکتے؟"
علیدان نے بازو سینے پر باندھے اور اسے گھورا۔
وہ لوگ جو آن کو ڈھونڈھتے ہوئے اس کے ڈورم میں گھسے تھے ۔۔ اسے یقین تھا کہ " طاقتور ہونگے"
جس کا مطلب یہی تھا کہ آن مسلسل کسی کی نظروں میں تھی کچھ لوگ لگائے گئے تھے۔ اس کے پیچھے جو اس کی ہر نقل و حرکت کو نوٹ کرتے تھے۔ اسی لئے علیدان نے اس کے کمرے پر بھی چیک رکھناچاھا۔۔ کہیں کوئی آن کو اس کی غیر موجودگی میں نقصان نہ پہنچائے۔۔ اور آن معصومیت میں یہ بات ابھی نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔
" چلیں ۔۔۔ اوپر دیکھتے ہیں" وہ آگے بڑھا۔ پیچھے آن نے اس کی پیٹھ دیکھ کر سوچا۔
" تو پھر آپ کو کیا فرق پڑنا۔۔؟ اگر مجھے خطرہ ہوتا بھی ۔۔؟"
علیدان نے اس کو بت بنا دیکھ کر مایوسی سے سر ہلایا۔
"لگتا ہے۔۔۔حان حارث ڈاکو تھا۔۔ڈورم کی دو لڑکیوں میں سے ایک پر ہاتھ صاف کر گیا۔۔۔ڈورم میں سے اس لڑکی کو نکالنے کے بجائے ۔۔ صرف آپ کو باھر نکال دیا گیا کیوں؟"
آن نے ناراض نظروں سے اسے گھورا۔ "کیا آپ مجھ پر تفتیش کررہے ہیں؟"
"ابھی اتنا فارغ نہیں ہوا"
جواب صاف تھا۔
"تو پھر آپ اتنا کیسے جانتے ہیں ؟"
اس نے سنجیدگی سے آن کو دیکھا ۔ "میں نے یہ تب جانا جب آپ بارش کے دن میری گاڑی سے ٹکراگئی تھیں۔"
"تو آپ نے یہ کیسے جانا کہ "جو لڑکی میرے ساتھ ڈورم میں تھی وہ دوست ہی تھی؟ جب کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں بتایا۔"
آن نے آنکھیں چھوٹی کرکےعلیدان کو دیکھا۔ یہ اچھا ھوتا اگر وہ اسے ایسا کچھ نہ بتاتا جس کا حساب اسے انگلیوں کے پوروں پر کرنا پڑتا ۔ دوسری صورت میں۔۔۔
اس نے ہونٹ سکوڑے۔۔
" یہ آپ کے پرنسپل نے بتایا تھا۔ بقول ان کے۔۔۔ اس دنیا میں اتنی ساری خوبصورت لڑکیاں موجود ہیں۔ لیکن۔۔۔ حان حارث کی نظر صرف ایک ہی لڑکی پر کیوں ہے۔۔ ۔۔ آخر ایسا کیا ہے اس میں؟ جو ساری دنیا کی لڑکیوں کو چھوڑ کر اس کی نظر جس لڑکی پر پڑی وہ کسی طرح بھی اس کے لائق نہیں۔"
ہمم۔۔۔۔سو وہ پرنسپل تھا۔ جس نے ان کوبتایا؟
آن نے دل میں سوچا۔۔ علیدان کے ہونٹ اسے سوچ میں گم دیکھ کر شریر مسکراہٹ میں ڈھلے۔۔
اوپر پہنچ کر ۔۔ وہ آگے بڑھ گئی تھی۔۔۔ پیچھے سے علیدان اس کی بیک کو دیکھتے مسکرایا۔ یہ عورت واقعی بہت بھولی تھی۔۔۔کہ آسانی سے بیوقوف بن جاتی؟۔ اس نے واقعی علیدان کی باتوں پر یقین کیا تھا۔۔انوسنٹ گرل
"آپ نے ابھی تک مجھے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔۔۔ آپ کو ڈورم سے کیوں دھکیل کر نکالا گیا؟" علیدان مڑا تھا۔۔
"مجھے کسی نے نہیں نکالا تھا۔۔
میں خود اپنی مرضی سے چھوڑ آئی تھی۔۔۔۔۔۔ کیونکہ۔۔۔ میں ان جیسے لوگوں کے ساتھ ایک ڈورم میں نہیں رہ سکتی تھی۔۔۔۔ اس لئے میں نے خود ہی وہ جگہ چھوڑ دی"سنجیدگی سے وضاحت دی۔
"مجھے تو ایسا لگتا ہے ۔۔ جیسے آپ اچھال کر دور پھینک دی گئی ہیں۔"۔پرسوچ انداز اور بھت ہی اچھا تجزیہ تھا علیدان کا۔۔ واقعی وہ بلینئر ہی نہیں ذہین آدمی بھی تھا۔۔ اس کے سب مفروضے سچے تھے۔۔ لیکن آن نے یہ بات مان کر نہیں دینی۔۔
"یہ محض آپ کی سوچ ہے۔۔ ورنہ ۔۔ مجھے تو وہ جگہ چھوڑ کر۔۔ فائدہ ہی ہوا ہے۔"
آن اندر سے جھنجھلاتی بیزار ہوتی پھر سے جھٹلا گئی۔
"جہاں تک میرا سابقہ منگیتر آپ کی نظر میں ڈاکو، چور اور لٹیرا ہے۔۔ تب بھی میرا تو کچھ نہیں گیا۔۔۔ اس کے برعکس مجھے لگتا ہے۔۔۔ ۔۔"وہ رکی تھی۔۔
" میں جیت کر آئی ہوں"
انداز میں سکون اور اطمینان تھا۔
"آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ خود کو کیسے مطمئین کیا جائے ۔۔۔آپ کیا جیت آئی ہیں۔۔۔مثال طور بتاسکتی ہیں؟" علیدان نے ناگوار نظروں سے اسے گھورا۔۔ ۔جس کے چہرے کا اطمینان اس کی آنکھوں کے رنگ سے میچ نہیں کرتا تھا۔۔ بظاہر پرسکون لیکن حقیقت میں بے چین ۔۔
وہ ٹھٹک کر رکی تھی۔۔ نظریں نظروں سے ملی تھیں ۔۔ بھوری آنکھوں میں سب کچھ جاننے کی لگن تھی تو نیلی آنکھوں میں سب کچھ چھپانے کی ۔۔ دونوں ہی اپنے دل میں ایک دوسرے کے مخالف سوچ رہے تھے۔
"میں نے اپنی آزادی جیتی ہے۔ "
وہ یہ کہہ کر جیسے علیدان کو لاجواب کرگئی۔۔ وہ واقعی دنگ سا اسے سنے گیا۔۔نظریں اس کے ہلتے ہونٹوں کے اتار چڑھاو پر ٹکائے۔۔
" اپنا وقار جیت آئی ہوں۔۔ ۔۔ یہ دھوکہ کھانے سے ھزار درجہ بہتر تھا۔۔۔کہ کچھ کھو دینا۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ دل ٹوٹ جاتا۔۔۔میں اگر اس سے شادی کرتی اور یہ سب بعد میں ہوتا۔۔پھر میری ہار یقینی تھی۔۔۔اسی لئے میرے لئے یہ سب "بہتر" ہے۔"
وہ پرسکون نظر آٰئی۔۔
پھر وہ گھوم کر مڑی اور دروازہ کھول دیا۔
علیدان بس مسکراتا رہا۔۔ جب اس نے اس کے آخری الفاظ سنے ۔۔۔۔
"اس عورت کا "انداز و فکر" اسے ہر بار چونکا دیتا تھا۔۔ اور متاثر کردیتا تھا۔
آنیہ عصمت کو لوگوں نے بار بار ۔۔اور بار بار توڑنے کی کوشش کی تھی۔ اپنی باتوں سے، اپنے رویوں سے۔۔اور اپنے عمل سے۔۔لیکن وہ بنا کسی احتجاج کے۔۔ بنا کوئی واویلا کیئے بہت خاموشی کے ساتھ ان کی زندگی سے نکل گئی تھی۔۔
حان حارث سے تعلق ختم ہونے کے بعد بھی اس کے لئے "تکلیف دہ "تھا۔
آن جیسی لڑکی یقینا اپنی خوبیوں میں منفرد تھی ۔
علیدان شاہ نہیں جانتا تھا کہ آن نے ایسا "دانستہ" کیا ہے۔ اگر وہ یہ سب کسی ارادے یا منصوبہ بندی یا کسی سازش کے تحت کررہی تو پھر۔۔ اس کے منصوبے خطرناک تھے۔
وہ اس کی تقلید میں دروازہ سے داخل ہوکر روم میں آیا۔۔ پورا گھر چھوٹا سا تھا۔۔۔ جس میں فقط ایک ہی روم تھا۔۔ وہ بھی کافی چھوٹا تھا۔
علیدان نے تنقیدی نظروں سے پورے کمرے میں گھمائیں ۔" لوگ کیسے رہتے ہونگے اتنے چھوٹے گھر میں؟"
"اس دنیا میں ہر انسان تو سرمایہ دار نہیں ہوتا۔۔" آن نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا۔
"مجھے تو لگتا ہے ۔۔ اس سے اچھی جگہ میری لئے کوئی نہیں"
"یہاں ۔۔کیا اچھا ہے؟"
وہ کھڑکی تک گیا اور پردہ سرکا کر اسے کھول کر باھر جھانکا۔۔
"ماحول بھی عام سا ہے۔۔۔روشنی بھی معمولی ہے ۔۔۔اور جگہ بھی کافی کم ہے۔ یہاں رہنا بھت افسوس کی بات ہوگی ۔"
"یہ میرے لئے بلکل مناسب ہے ۔۔میرے لئے یہ جگہ ۔۔اچھے سے بھی ۔۔۔"اچھی " ہے ۔اور بھترین ہے۔"
آن نے علیدان کے خیال کی مکمل تردید کردی۔۔ واقعی اس کے لئے یہ جگہ بھت اچھی تھی۔۔ جہاں وہ کسی کی "ملازم" نہیں تھی۔
علیدان نے بھنویں اوپر اٹھا ئیں۔۔ اور نظروں کے حصار کو بلکل نہیں توڑا۔۔
" سب کچھ ہی آپ کے لئے اچھا ہے" بڑبڑا کر لب بھینچے۔۔
"کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ شاہ ولا میں رہنا بنسبت یہاں رہنے کے کافی آرام دہ ہے۔۔ جہاں سہولیات یہاں سے بہت حد تک بھتر ہیں ۔کیا وہاں سے بھی زیادہ موزوں آپ کو یہاں رہنا لگتا ہے؟"
وہ سوالیہ ہوا ۔۔
" آپ کے محل میں عارضی طور پر رہوں ؟ لیکن کس بنیاد پر؟ کس رشتے سے ؟"
وہ چلتی ہوئی سائیڈ پر پڑی چھوٹی سی ٹیبل کے پاس آئی اور اپنا پرس کندھے سے اتار کر وہاں رکھا۔۔ اور ہلکے ہاتھوں سے اپنے کندھوں کو سہلانے لگی۔۔ زیادہ دیر تک پرس اٹھائے رکھنے سے کندھے "اکڑ" گئے تھے۔
" یہ کرائے کا گھر جہاں میں رہوں گی۔۔۔ میرے اپنے محنت سے کمائے پیسوں کا ہے۔۔ جہاں میں آزادی کے ساتھ رہوں گی۔"
وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔۔ علیدان کھڑا اسے ناگواری سے دیکھ رہا تھا۔۔ جتنا وہ اسے مختلف طریقوں سے راضی کرنے کی کوشش کررہا تھا۔۔ اتنا ہی وہ اڑیل گھوڑی کی طرح اکڑ دکھائے جارہی تھی۔۔
یا شاید علیدان کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں آتا تھا۔
بھلا ایک بلینئر۔۔ایک سرمایہ دار ۔ جس کو صرف " آرڈر " کرنا آتا ہو۔۔ وہ ایسی سچویشن سے دوچار ہی کب ہوا تھا۔۔ آن جیسی لڑکی سے اس کا ٹکراو ہی پہلی بار ہوا تھا۔۔ زندگی میں پہلی بار وہ بے بس ہوا تھا۔۔ وہ بھی سامنے کھڑی چھوٹی سی لڑکی کے ھاتھوں۔۔۔
" دیکھیں۔۔۔۔" علیدان نے بات سنبھالنا چاہی۔۔ " آپ وہاں کافی آرام محسوس کریں گیں۔۔ آخر آپ مدھان کی "ٹیوٹر " جو ہیں۔ " آخری حربہ ٹیوٹر والا آزمایا۔
"لیکن۔۔۔میں اب نہیں ہوں۔۔۔آپ کا خیال کرنے کا بہت شکریہ مسٹر علیدان شاہ۔۔۔ یہ جگہ ہر طرح سے محفوظ ہے۔
اب آپ جاسکتے ہیں ۔۔۔مجھے اپنا تھیسز لکھنا ہے۔" وہ رف لہجے میں بولتی اسے بری طرح تپا گئی۔
یہ لڑکی اسے مسلسل دھتکار پہ دھتکار ماررہی تھی، وہ دھتکار جو اسے 20 سالوں سے دوسروں سے ملی تھی۔ وہی دھتکار اب وہ خود دے رہی تھی لیکن وہ یہ نہیں سمجھتی تھی کہ اس کے سامنے بندہ مناسب نہیں تھا ۔
آنیہ عصمت اس کہاوت کے بارے میں نہیں جانتی تھی کہ
جان لینا بھت آسان ہوتا ہے ، لیکن جان دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔ناراض ہوکر وہ جانے کے لئے مڑا۔۔
لیکن ۔۔پھر کچھ سوچ کر واپس جاکر صوفہ پر آرام سے بیٹھ گیا۔ اتنے اطمینان کے ساتھ جیسے اپنے بیڈروم کے صوفہ پر بیٹھا ہو۔
آن کو اس کا یہ اطمینان ایک آنکھ نہیں بھا رہا تھا۔ وہ تو اسے نکالنے کی جلدی میں تھی اور وہ تھا کہ پھیلتا ہی جارہا تھا ۔۔ آن اسے لب بھینچے گھورتی رہی ۔
علیدان کی نظریں چاروں طرف گھوم رہی تھیں اور کافی چوکس بھی ۔
اس وقت واقعی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن۔۔۔ اس کامطلب یہ بھی نہیں تھا کہ خطرہ ہو نہیں سکتا؟ وہ آن کے لئے کوئی خطرہ مول نہیں سکتا تھا۔۔ نہ آن اس پر یقین کرتی۔۔ لیکن علیدان کی چھٹی حس چوکس تھی۔
(کیا یہ نہیں جارہا؟)وہ اسے دانت پیسے گھورتی سوچتی رہی ۔۔
"میرے لیئے کافی بنائیں۔۔ اگر کافی پینے تک کوئی خطرہ پیش نہ آیا تو میں چلا جاؤں گا۔"
وہ اس کے ہلدی کی طرح ہوئے پیلے چہرے کو دیکھتے بولا۔۔
"نہیں ۔۔" وہ بڑبڑائی۔
"تو پھر چائے چل جائے گی؟"
"نو ۔۔۔۔۔"اس نے پھر انکار کیا۔
"اچھاا۔۔۔ تو پھر۔۔ یقینا یہاں پینے کا پانی تو ضرور ہوگا؟"
علیدان بلکل بھی زچ نہیں ہوا وہ مسلسل ہر بات پہ انکار کررہی تھی۔
"Nope"
اب بھی گردن نفی میں ہلادی ۔۔
" ھا ھا ۔۔۔۔" وہ دل کھول کر اب ھنسا تھا۔۔ وہ اسے دنگ سی دیکھے گئی۔۔ کیونکہ وہ پہلی بار اس قدر ھنسا تھا۔
" آپ کے مہمانوں کے ساتھ اس طرح کے سلوک نے مجھے آپ کے عزت دینے کے معیار بتادیئے ہیں۔"
علیدان نے اسے جی بھر کر شرمندہ کیا۔ وہ اسے پانی بھی دینے سے انکاری کر رھی تھی۔
"اصل میں۔۔۔میں آج ہی یہاں شفٹ ہوئی ہوں۔۔تو۔۔ " اب وہ شرمندہ ہوکر صفائی دینے لگی۔
" ابھی تک " الیکٹرک کیٹل " بھی نہیں کھولا۔اور یقینا پانی بھی نہیں ھوگا۔" وہ انگلیاں مروڑتی اب اپنے انکار کی وجہ بتانے لگی تھی۔
علیدان نے بازو سینے پر باندھ کر آرام سے اسے دیکھا۔
" تو پھر اب کھولیںمیں انتظار کرلیتا ہو۔۔ "
"ہمممم ۔۔ کیا یہ جائیز ہے۔۔ کہ ایک اسٹوڈنٹ کو اس کے آسان دفاع سے بھی روکا جائے۔"اشارہ اب ۔۔ اپنے بہانوں کے طرف تھا۔۔ جو وہ اسے نکالنے کے لئے مسلسل گھنٹہ بھر سے کیئے جارہی تھی۔۔
" میں آپ کی حفاظت کے لئے سوچ رہا ہوں ۔۔اگر آپ کو امتحان دینے میں مشکل پیش آئے تو۔۔آپ مجھ سے بنا جھجھکے مدد لے سکتی ہیں۔" اس کی آنکھوں میں اب شرارتی چمک ابھری۔۔ وہ اٹھا اور ۔۔۔
آھستہ آھستہ قدم بڑھاتا اس کے قریب آکر رکا۔۔ دوری برقرار رکھی ۔۔پھر کان کے قریب ھوا۔۔ آن سانس روکے ۔۔دنگ کھڑی بس سنتی جارہی تھی۔۔
" میں صرف آپ کے ساتھ محبت نہیں کر سکتا ۔۔باقی ھر قسم کی مدد کرسکتا ہوں۔ " اس کی سانسوں کی تپش اب آن کے کان سے گذر کر دل پر دستک دینے لگیں ۔
"میں یہی ایک کام مفت میں کرسکتا ہوں۔ "
آن نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔۔ بس اس کی گھمبیر آواز تھی۔
ساتھ میں آن کی دھڑکنوں کی دھک دھک ۔۔
" آ آ پ۔۔۔۔ ۔" وہ کہتے کہتے رکی۔۔
وہ واقعی اس جیسے خالص آدمی سے کبھی نہیں ملی۔
اس نے ایک گہری سانس لی اور خود کو یاد دلایا کہ " غصہ نہیں کرنا"
" اگر آپ ایک گلاس پانی کا نہیں پیئیں گے تو ۔۔۔ نہیں جائیں گے؟" آن نے جھنجھلا کر نظریں اٹھا کر پوچھا۔
" مجھے بلکل بھی یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی مجھے عام انداز میں ٹریٹ کرے۔"انداز تنبیہانہ ۔۔۔لیکن نرم۔۔ جو اس کے مزاج کا خاصہ نہ تھی۔
"بحیثیت ایک فرد کے۔۔۔۔ مجھے عزت کروانا پسند ہے۔ میں جب سے آپ کے گھر آیا ہوں ۔۔۔بجائے ایک گلاس پانی پوچھنے کے ۔۔۔آپ مسلسل مجھے دھتکار رہی ہیں۔"
علیدان نے اسے چھیڑا۔۔
آن اب واقعی اپنے روئے پر شرمسار تھی ۔
تبھی ناچاہتے ہوئے بھی۔۔ کچن تک گئی۔
الیکٹرک کیٹل نکال کر دھویا۔۔اور پانی بوائل کرنے کے لئے رکھا۔۔ کافی کا سامان نکالا اور کپ دھو کر اس میں کافی پھینٹنے لگی۔ ذہن مسلسل علیدان کی باتوں پر شرمساری محسوس کررہا رھا تھا۔۔ اسے واقعی اس طرح کا برتاو زیبا نہیں تھا۔۔اس نے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔
وہ کپ بنا کر باہر آئی۔۔اور چھوٹی سی ٹیبل کے قریب آئی۔۔
" آئے ایم سوری۔۔۔ میرے پاس صرف یہی ایک کپ ہے۔ کیا آپ نے مائینڈ کیا؟" اس نے کپ لہرایا تھا۔۔ اگر وہ چھلک پڑتا تو؟
علیدان نے ابرو اٹھا کر اسے گھورا تھا۔
وہ اکیلی رہی ہے۔۔ تو "ایک کپ " کا ہونا ۔۔ ممکن تھا۔اور یہ غلط بھی نہیں تھا۔۔
وہ اسے گھور کر بولی۔
آپ کافی پیئیں ۔۔اور جائیے۔۔"
علیدان نے نگاہ پھیر کر اسے دیکھا۔
"میرا آپ سے کوئی عناد نہیں ہے۔۔ کیا آپ کو مجھ سے ہے؟ کیا جلا کر مارنا چاھتی ہیں؟" اب کے مسکرا کر اور زیادہ زچ کیا۔۔اشارہ کپ لہرانے کے طرف تھا۔
اسے آن کا جھنجھلانا۔۔ بار بار اسے جانے کو کہنا۔۔ اس کے چہرے پر "مارے باندھے" کے تاثرات ۔۔مزا دے رہے تھے۔۔ زندگی میں کیا کبھی علیدان نے اس طرح مزا لیا ہوگا؟
شاید کبھی نہیں ۔۔ وہ اس کی ایک ایک ادا کو انجوائے کررہا تھا۔۔
اب آن نے خفگی سے گرم گرم بھاپ اڑاتی کافی کے مگ پر نظر کی۔اسے ٹیبل پر رکھ دیا۔ اور خود جاکر۔۔ کرسی پر بیٹھ گئی۔۔انداز اب خفا خفا سا تھا۔۔۔جیسے کہہ رہی ہو۔۔) چلو کرلو۔۔جو کرنا ہے)
" اب آرام آرام سے چسکے بھر بھر کر پیئیں ۔۔ اور چلے جائیں ۔۔ میں اپنا کام کررہی ہوں۔مجھے ڈسٹرب مت کیجئے گا ۔" انداز وارن کرنے کا سا تھا۔۔ برا سا منہ بناگئی اپنا لیپ ٹاپ کھولا۔
" مصرووووف۔۔؟"علیدان اس کی بدتمیزی کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
آن نے ھیڈ فون اٹیچ کرکے اپنے کانوں میں ڈالا اور اپنا تھیسز لکھنے میں مصروف ھوگئی۔۔ اب جتنا چاھے یہ آدمی بیٹھا رھے۔۔ پرواھ کسے تھی؟
وہ کافی دیر تک اپنا کام کرتی رہی۔۔ جب لیپ ٹاپ کے کلاک نے 12 بجائے تب وہ چونکی۔۔ اور مڑ کر دیکھا ۔ ابھی تک گیا نہیں ؟ اور کچھ کہنے کو ہونٹوں کو جنبش دی ۔۔ لیکن ۔۔۔۔ رک گئی۔۔ وہ کہیں نہیں تھا۔۔ اسے کچھ پل کو اس کی غیرموجودگی بری طرح سے چھبی تھی۔۔پھر سرجھٹک کر اٹھ گئی اور چلتی ہوئی۔۔ ٹیبل کے قریب آئی۔۔۔ وہاں کافی کے کپ کے نیچے ایک نوٹ دبا ہوا تھا آن نے وہ اٹھا کر پڑھا۔جہاں لکھا تھا۔۔
" میں جارہا ہوں۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔اور سویر سوجانا۔۔ کل رات کو مدھان کے "ھائی اسکول کریئر" کے ختم ہونے کی سیلیبریشن ہے ۔ڈنر "گھر" میں ہوگا۔۔۔زبردستی کی کافی پلانے کا شکریہ۔ "
وہ مسکرادی۔۔ اور نوٹ کو ہاتھ میں مسل کر ڈسٹ بن میں پھینکنے کے لئے بازو اٹھایا۔۔ پھر رک گئی ایک سوچ نے اس کے ذہن کی بتی جلادی دی ۔۔ صرف ایک لفظ "گھر" پر وہ ٹھٹھک گئی تھی۔۔
آن نے دوبارہ سے نوٹ کھولا جو چرمرا گیا تھا۔۔ جہاں واضع لفظ "گھر" لکھا تھا۔۔
وہ اس جگہ پر بیٹھ گئی جہاں علیدان بیٹھا تھا۔۔ اور نوٹ کو ٹیبل پر رکھ کر ھاتھ سے پریس کرکے نرم کرنے لگی ۔۔ "گھر۔۔۔ میرے پاس کوئی گھر نہیں ہے۔
دوسرے دن وہ جیسے ہی یونی آئی ثنا حمزہ نے اسے راستے میں ہی جا لیا۔۔ بازو سے پکڑا اور ایک طرف لے جاکر پراسرار انداز میں بولی۔
"کیا تم نے اس کا سنا ہے؟"
"کس کا۔۔۔۔۔؟ آن نے بری طرح کنفیوژ ہوکر ثنا حمزہ کو دیکھا ۔۔
"کبھی ایک نظر اسکول فورم پر ڈال لیا کرو"سفید کنول" پریگننٹ ہے"
ثنا حمزہ نے آن کے تجسس کو ہوا دی۔
" کون؟۔۔تت۔۔۔ تمہارا مطلب ہے کہ حنیم ؟" وہ حیران رہ گئی "نہیں۔۔۔" اس کی آنکھیں پھٹ گئی۔
وہ ساکت اسے دیکھے گئی۔
ایسا کیسے۔۔۔؟
لیکن یہ سچ تھا۔۔۔ جب فورم سے معلومات کی تو حنیم کی پریگننٹ ہونے کی خبر کی تصدیق ہوگئی۔۔
پوری یونی کو حنیم اور حان حارث کے متعلق جیسے ایک چٹ پٹی سی خبر مل گئی ہو۔۔ اسٹوڈنٹس مرچ مصالحہ ڈال کر ۔۔ بات پھیلا رھے تھے۔۔
یہ واقعی ایک شاک کی خبر تھی۔۔ آن جتنا حیران ہوتی کم تھا۔۔بھلی وہ یہ سمجھتی ہو کہ اسے "پرواھ نہیں " لیکن۔۔۔۔ کہیں نہ کہیں۔۔۔۔۔
دونوں کینٹین میں جاکر بیٹھ گئیں۔۔ کافی اسٹوڈنٹس آن کو دیکھ رہے تھے۔
"کچھ دیر پہلے "سفید کنول " کو "بوڑھی چڑیل " نے آفیس میں طلب کیا تھا۔۔۔۔ یہ جاننے کے لئے کہ " یہ بچہ حان کا ہی ہے یا۔۔۔؟"
ثنا حمزہ نے کرسی کھینچ کر اس پر بیٹھ کر اسے آگے بتایا۔
آن کو اتنی ٹھنڈ میں بھی پسینہ آگیا بے اختیاری میں چہرے کو تھپکا۔۔ "اگر حنیم کی جگہ وہ ہوتی تو۔۔۔۔۔؟ اور اس سے آگے کے تصور نے شدید سردی میں بھی اس کی ھتھیلیاں بھگو دی تھیں۔۔ (افف۔۔شکر ہے اللہ۔۔تو نے مجھے بچا لیا۔)
" جب حان حارث اسے اچھی طرح جانتا ہے تو پھر بات ختم ۔"آن نے اپنے لہجے کی کپکپاہٹ پر قابو پالیا۔۔۔اور سپاٹ لہجے میں کہا۔
"بلکل ۔۔۔۔حان حارث کا خاندان ایک امیر گھرانہ ہے ۔۔اگر حنیم اس کے بچے کی ماں بن جاتی ہے۔۔۔ تو اپنے بچے کے ساتھ ایک امیر گھرانے میں رہنے کے قابل ہوجائے گی۔۔ عمر بھر کے لئے۔۔۔ٹسک۔۔۔۔ میں جتنا سوچتی ہوں اتنا ہی مجھے غصہ آئے رہا۔۔
لوگ کہتے ہیں نا ۔۔۔۔کہ " کتیا اور کتا ہمیشہ ساتھ ہی رہتے ہیں۔
اب مجھے یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ "یہ سچ ہے" حنیم پریگیننٹ ہوئی ہے اب یہ مستقبل میں مغرور بھی ہوجائے گی۔۔ اس سے بچ کر رہنا آن۔۔ کیا تم سمجھ رہی ہو؟"
ثنا حمزہ نے اس کے چہرے کے سرد تاثرات کو گھورا۔۔ آن کی پرسوچ نظریں بس سامنے دیکھے جارہی تھی لیکن ذہن ثنا کی باتوں پر گھوم رہا تھا۔۔
آن کو ثنا کے فکر مندانہ انداز پر پیار آیا۔۔ مسکرا کر دیکھا۔ پریشان مت ہو۔۔ میں ان دونوں کے مسئلے میں نہیں پڑوں گی۔ہمارا کیا جائے؟"
☆☆☆☆
ادھر حنیم پرنسپل کی آفیس سے روتے ہوئے باھر نکلی تھی۔۔ باہر آکر دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی سسکیاں بھرتی رہی۔
ذہن میں پرنسپل تقی کی ترش آواز گونج رہی تھی۔
"اگر تم اس بچے کو ختم نہیں کررہی۔۔۔ تو اپنے خوابوں کے حصول کے لئے اسے حان کے سر مت منڈھنا۔
اگر تم بچہ پیدا کرنے پر بضد ہو۔۔۔ تو اپنے بچے کو اپنی زمیواری پر پالنا۔ ہمارا عزت دار گھرانہ اس گندے خون کو نہیں اپنائے گا۔۔۔۔ہمارے خاندان کے اصولوں کے مطابق جو خون ہمارے خاندان کا نہ ہو۔ ہم اسے کبھی نہیں اپناتے۔۔۔ہاں باقی۔۔۔اس بچے کو ختم کروانا چاہو تو ہم تمہاری ہر طرح سے مدد کریں گے ۔۔تم کو اتنی دولت دیں گے کہ تم آرام سے کہیں بھی رہ سکتی ہو۔۔"
حقارت سے بھری نظریں حنیم کے وجود کے پار اتر رہی تھیں ۔ زہر میں بجھے الفاظ حنیم کے سینے کو چیر کر دوپاٹوں میں تقسیم کرگئے تھے۔۔اگر زلت کی انتہا کو دیکھنا ہو تو اس وقت کوئی حنیم کی حالت دیکھتا۔۔اور واقعی افسوس کرتا۔۔
وہ روتی رہی۔۔ روتی رہی۔۔ پھر فون اٹھا کر ۔۔ حان حارث کا نمبر ملایا۔۔
حان نے فون نہیں اٹھایا۔۔ حنیم جانتی تھی حان آج یونی آیا ہے ۔۔ اپنے آنسو پونچھتی وہ کینٹین کے طرف بڑھنے لگی ۔۔۔
آخر کار اس نے کینیٹین میں حان کو بیٹھے دیکھ لیا جو کچھ دور بیٹھی آن کو ۔۔ ثنا حمزہ کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر اسے اپنے دل کی گہرائی میں سخت تکلیف محسوس ہوئی۔۔ آنکھوں میں مرچیں چھبنے لگی تھیں۔اس نے زور سے آنکھیں میچ کر اپنی تکلیف کو کم کرنا چاہا۔۔
دل کی تکلیف نے چہرے کے رنگ کے ساتھ نقوش کو بھی بدل دیا۔۔
ادھر حان حارث بیوقوفوں کی طرح ۔۔ آن کے طرف نہارے جارہا تھا۔۔ بنا پلک جھپکے۔
(یہ عورت ابھی تک حان کے دل پر قابض ہے)
حنیم نے مٹھیاں بھینچ لیں ۔
جس دن سے وہ یونیورسٹی میں آئی تھی۔۔اس نے ہر ایک پر آن کا سحر طاری دیکھا تھا۔ ہر ایک کو "آن" نام کی "تسبیح" کرتے دیکھا۔۔
وجہ اس کی خوبصورتی کے ساتھ اعلی پائے کے گریڈز تھے ۔پوری یونی سمجھتی تھی کہ "آن عصمت کاظم" سب سے منفرد ،الگ تھگ اور ممتاز ہے۔
وہ یہ بھی کہتے تھے کہ آج تک کی یونیورسٹی کی تاریخ میں وہ یونیورسٹی کی حسین ترین لڑکی ہے۔۔
اور خود وہ ۔۔۔۔۔؟وہ خود کہاں تھی؟
جیلسی کی انتہا پر پہنچی ہوئی لڑکی ۔۔ جس نے آن کو پیچھے دھکیلنے کی لالچ میں خود اپنی عزت کا خیال نہ رکھا تھا۔۔
یونیورسٹی کے وقت سے اسکے حسن سے، اس کے گریڈز اور اس کی ذہانت سے حسد کی آگ میں جلتے جلتے وہ آج اس مقام تک پہنچی تھی کہ خود اپنے ھاتھوں سے بربادی کی اتھاہ کھائی میں منہ کے بل گری تھی۔۔ لیکن۔۔۔۔۔ حسد کی بھڑ بھڑ آگ۔۔۔نے اس کی جان نہیں چھوڑی تھی۔۔کیونکہ ۔۔وہ یہ بات ماننے سے ہی انکاری تھی۔۔ کہ آن اس سے سو قدم آگے ہے۔وہ اسے کوشش کے باوجود بھی ۔۔ ایک انچ پیچھے نہیں دھکیل سکتی۔۔ لیکن۔۔۔۔
حنیم کے ھاتھ ۔۔ بے اختیار اپنے پیٹ کے نچلے حصے تک آئے۔۔ دونوں ھاتھوں سے اسے سہلاتی انہیں گھورتی رہی۔۔۔ ایک سختی اس کی آنکھوں میں واضع تھی۔۔۔۔اس کے ھاتھ میں "ترپ کا پتہ" آگیا تھا جس سے وہ آن کو ہرطرف سے ہرا سکتی تھی۔۔۔۔۔ہاں۔۔
" بیبی ۔۔۔ ممی نے آپ کو نہیں بھلایا۔۔۔۔ سو ممی کو الزام مت دینا" ایک نفرت انگیز گھوری آن اور حارث پر ڈالتی حقارت سے دیکھتی رہی۔۔
☆☆☆☆☆
واپسی پر گیٹ کے باہر علیدان شاہ کا ڈرائیور اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔
آن کا ارادہ بلکل بھی جانے کا نہیں تھا۔ لیکن۔۔۔ کچھ دیر پہلے ہی مدھان نے اسے فون پر خلوص سے تاکید کی تھی ۔
کہ اس نے پیپرز بھت اچھے دیئے ہیں۔۔ اور اس خوشی کو منانے کے لئے وہ اس کے ساتھ کھانا ضرور کھانے آئے ورنہ۔۔۔ وہ ناراض ہوجائے گا۔۔ آن اس کی خوشی کے خاطر جانے پر راضی ہوگئی۔۔
جب وہاں پہنچی تو دونوں بھائی احاطے میں پہلے ہی سے کھڑے ایک دوسرے کے ساتھ کسی بات پر بحث کررہے تھے۔۔
آن کو دیکھ کر علیدان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک جھلک دکھلا کر غائب ہوئی
" تو آپ آگئی؟" نظروں میں رکھ کر پوچھا۔
آن نے نگاہ جھکالی۔۔ محض سر ہلادیا۔۔ اور آگے بڑھی۔
مدھان اسے مسکراتے ملا۔
"سوالات آسان تھے؟" آن نے مدھان سے پوچھا۔
"مجھے پتا نہیں دوسرے کیا سوچتے ہیں؟ لیکن میرے لئے تو سارے سوالات بہت ہی آسان تھے ۔۔ آپ نے 80% تو تیاری کروادی تھی ،تو باقی کے سوالات بلکل مشکل نہیں لگے۔" وہ مسکرا کر تفصیل بتاتا رھا۔
آن نے مسکرا کر اسے دیکھا۔ یہ سچ تھا کہ سوالات کی کافی تیاری وہ کرواچکی تھی۔
دونوں باتیں کرتے اندر لائونج میں آئے۔
مدھان نے ایک پیک شدہ ڈبیا نکال کر آن کے طرف بڑھائی۔
"مس آن ۔۔۔یہ آپ کا تحفہ میری طرف سے۔"
آن مسکرادی اور نفی میں سر ہلایا۔
"یہ کافی ہے میرے لئے کہ آپ نے کامیابی سے امتحان ختم کیا۔۔ میں یہ تحفہ نہیں لے سکتی۔"
"میں اس کے لئے آپ کا شکرگذار ہوں۔" مدھان نے اس کو شکریہ بولا۔۔ آن نے واقعی اس پر محنت کی تھی ورنہ اس کی تیاری اچھی نہ ہوتی۔۔
"تمہاری ٹیچر آج رات کی دعوت پر مان جائے گی۔میری طرف سے ۔۔۔۔تمہارے تھینکس کو"علیدان نے آن کو گھور کر دیکھا۔ آن نے چونک کر اسے دیکھا۔
تو اس نے ایک آنکھ ونک کردی۔جیسے کہہ رہا ہو۔(انکار کرسکتی ہہیں تو کرلیں۔میں بھی دیکھ رہا ہوں) اور جواب مدھان کو دیا۔۔
مدھان کو آن کی بات پر دل میں برا محسوس ہوا تو بول پڑا ۔
"مس آن ۔۔۔ آپ نے میرے تحفے کو یقینا کمتر سمجھا ہے۔" منہ بناکر ناراضگی کا سائن دیا گیا۔
"ہم سب ہی پیسے سے محبت کرتے ہیں ۔۔۔اور کسی وجہ سے ہی اسے حاصل کرتے ہیں۔۔میں کبھی ایسا تحفہ قبول نہی کرسکتی جو آسمان سے گرادے۔۔۔مدھان۔۔ میں نے آپ کی "شکرگذاری " وصول کرلی۔۔ اب یہ تحفہ اپنی جیب میں رکھو ۔۔ ورنہ میں واپس چلی جاوں گی۔" اب کے آن نے پیار سے دھمکایا۔
اور وہ ڈر بھی گیا ۔۔بھلا وہ اپنی پیاری سی ٹیچر کو ناراض کرکے کیسے جانے دیتا۔۔؟
"نہیں نہیں۔۔ پلیز۔۔ آپ مت جائیں۔۔ میں یہ تحفہ واپس لیتا ہوں۔ آپ پلیز بیٹھ جائیں۔"
مدھان نے تحفہ واپس ٹیبل پر رکھ دیا۔۔ اور آن بھی مسکرا کر بیٹھ گئی۔۔ علیدان دونوں کی باتیں مسکرا کر سن رہا تھا۔۔
"اب میں آپ کو "مس آن "نہیں بلاسکتا۔۔۔ کیونکہ آپ میری ٹیچر نہیں رہیں۔۔ کیا میں آپ کو " آپی " بلاسکتا ہوں؟"
مدھان واقعی رشتے بنانے میں تیز تھا۔ یہ اس وقت علیدان نے سوچا۔
آن کے ہونٹ اس کی بات سن کر مسکرا کر پھیلے۔
"بھلی کہیں ۔۔۔ویلکم۔۔۔"
علیدان نے مدھان کو دیکھ کر پوچھا۔
"کیا تم نے علیحان بھائی کو کال نہیں کی؟ "
"نہیں۔۔۔ ابھی تک نہیں " مدھان نے نفی میں سر ھلایا۔۔
"جاو جاکر کال کرو" علیدان نے ٹوکا۔۔
"میں بعد میں کرتا ہوں"
"نہیں۔۔۔ ابھی۔۔۔" علیدان نے اسے گھورا تھا۔۔یہ حکم تھا۔۔بحث نہیں کرنا۔مقصد اسے یہاں سے بھیجنا تھا۔۔
مدھان نے بھائی کے تیور دیکھے تو آن سے معذرت کرکے اٹھا: " آپی ۔۔آپ کچھ دیر بیٹھیں میں کال کرکے آتا ہوں" اجازت طلب کی۔۔
آن نے مسکرا کر سر ہلایا۔۔
"ضرور۔۔۔۔"
مدھان کو کامیابی کے ساتھ وہاں سے بھیجنے کے بعد علیدان کو خلوت میسر آئی تو سکون کی سانس بھر کر آن کو نظروں میں بھرا۔۔
"کل رات میرے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک مصروف رہی آپ ؟"
آن نے ہاں میں سرہلایا اور سنبھل کر بیٹھ گئی۔
" کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟ "
وہ واقعی اس کے لئے فکرمند تھا۔ اور کیوں تھا؟ یہ ماننے میں شاید اب دیر نہیں لگنی تھی جلد ہی اسے ماننا پڑے گا کہ "علیدان شاہ "جیسے مغرور بلینئر کو "آن عصمت کاظم "سے دھیرے دھیرے محبت نہیں۔۔ بلکہ "عشق ہوا ہے۔۔
"نہیں ۔۔ کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔" وہ دل میں دنگ ہوئی تھی۔۔
"تھیسز کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟"
اب سوال تھا اگر اسے کوئی پڑھائی میں مدد چاھئے ہو تو وہ حاضر تھا ۔۔وہ بھی سر کے بل ۔کیا فکرمندی تھی آن کے لئے ۔۔ حیرت ہی تھی۔۔
"بھت ہی اچھی چل رہی ہے "
اندر سے حیران ھوتی آن عصمت سے کوئی اس وقت پوچھتا کہ شاک کیسا ہوتا ہے؟ تو وہ جھٹ سے کہتی"علیدان کا اس کے لئے فکرمندانہ انداز اور محبوبانہ نظر ۔۔
دونوں چپ چاپ ۔۔ ایک دوسرے کو تکتے رہے۔۔
علیدان شاہ آن سے ملنے سے پہلے فقط کچھ لفظوں پر مشتمل ایک مرد تھا۔۔ لیکن آن سے ملنے کے بعد وہ ایک "مکمل مرد "بن رہا رھا تھا۔۔ایسا لگتا تھا ۔۔۔اس میں زیادہ پہل علیدان کے طرف سے ہے۔۔
"آپ نے حان حارث کی طبعیت کیوں نہ صاف کی ۔۔؟"
یہ کیسا سوال ہے ؟ آن نے ناگواری سے اسے دیکھا۔۔ علیدان اس بات کے پیچھے کیوں پڑا ہے آخر؟ وہ ابھی نہیں سمجھ پارہی تھی۔۔
"میں نے صرف یہ پوچھا ہے کہ "ماضی میں حان حارث نے جو کچھ کیا آپ نے اس کی طبعیت صاف کیوں نہیں کی؟ بولیں۔۔۔؟ "
"یہ بات کافی عرصہ پہلے ختم ہوچکی ہے۔"وہ جنجھلائی
"تو پھر آپ صرف سوالوں کے جواب کیوں دیتی ہیں۔۔جب آپ حان کے ساتھ بات کرسکتی ہیں۔تو میرے سامنے فارمل کیوں بولتی ہیں۔"
"ہمممم ۔۔۔ کیونکہ وہ میرا منگیتر رہا تھا۔۔" آن نے سکون سے ہممم کی۔۔ اور سانت سے جواب دیا تھا۔
دیکھنا چاھئے کہ یہ ایسی معیوب بات نہیں تھی لیکن علیدان کو یہ برا لگ رہا تھا کہ وہ حان سے تو اچھے سے بات کرتی تھی۔خود اس کے ساتھ فارمل رویہ رکھتی ہے۔وہ آن کے لئے بھت زیادہ خود کو پوزیسو محسوس کررہا تھا۔ اس کا بس نہ چلتا وہ آن کو حان کی نظروں سے کہیں چھپالیتا۔ ۔۔۔
وہ اس عورت کو صرف بدلنا چاھ رہا تھا ، نہ کے "زیر کرنا"۔۔
اسے زیر کرنے کے بعد ان دونوں خاندانوں کے بیچ کافی دلچسپ حقیقتیں سامنے آجاتیں۔۔
مدھان تقریبا دوڑتے اندر آیا ۔
"بڑے بھائی اور بھابھی ابھی واپس آئے ہیں۔۔۔اور اب ادھر آرہے ہیں ۔۔ "
علیدان یہ سن کر دنگ ہوا۔۔ جب اس نے آن کے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات ابھرتے دیکھے۔۔
" انہوں نے ہم کو ایڈوانس مبارک کیوں نہیں دی؟ اگر وہ ادھر آرہے تھے ؟"
"بھابھی نے بتایا کہ بھائی میرے امتحان کی وجہ سے پریشان تھے تبھی جلدی واپس آگئے۔۔"
"بڑے بھائی ابھی واپس آئے ہیں ؟؟
علیدان شاہ کے اپنے بھائی علیحان شاہ کے ساتھ خوشگوار تعلقات نہیں رہے تھے۔۔
کہا جاتا تھا کہ شاہ خاندان کے علیحان شاہ کا ایک بار کار
حادثہ ہوا تھا۔۔۔ جس میں ان کی دونوں ٹانگیں معذور ہوگئی تھیں۔۔ اور یہ کار حادثہ علیدان کی سوچی سمجھی سازش ہے جو اس نے علیحان شاہ کے حصے کی ملکیت حاصل کرنے کے لئے ترتیب دی تھی۔۔ لیکن وہ اپنے منصوبے میں ناکام ہوا تھا۔۔ علیحان شاہ معجزانہ طور پر بچ گیا تھا لیکن ٹانگیں نہ بچ سکی تھیں۔۔ وہ ہمیشہ کے لئے وہیل چیئر پر آگیا۔
اب یہ دونوں افسانوی کردار ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے والے تھے۔۔ کیا آن کو ان سے ملنا چاھئے تھا؟
وہ کھڑی ہوگئی۔
"مسٹر علیدان شاہ اور مدھان شاہ۔۔ میں سمجھتی ہوں۔۔۔اب مجھے یہاں سے جانا چاھئیے"
علیدان البتہ پرسکون رہا ۔" بیٹھ جائیں۔"
"مسٹر شاہ۔۔۔شاید آپ کے مہمانوں کو آنا ہے ۔۔تو مجھے اچھا نہیں لگتا یہاں ٹہروں"
"آپ بھی یہاں مہمان ہیں۔۔۔ جسے دعوت دے کر بلایا گیا ہے۔۔۔۔آپ کو بلکل بھی کسی دوسرے کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔اٹز اوکے ۔"
علیدان کو آن کا یوں اٹھ کھڑا ہونا کافی ناگوار لگا۔۔
مدھان نے بھی سر اثبات میں ہلایا۔ "ہاں جی۔۔۔ آن آپی۔۔۔ بڑے بھیا زیادہ دیر قیام نہیں کرتے ۔۔اس سے پہلے کہ وہ ملنے آئے میں ہی جاکر مل کر واپس آجاتا ہوں"
"تو پھر مجھے پہلے واپس جانا۔۔۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ وہ بات پوری کرتی۔۔۔۔ پیچھے سے کسی کے آنے کی آواز پر اسے رک جانا پڑا۔۔
مڑ کر دیکھا۔۔۔ جہاں گھر کا ملازم ایک رعب دار سنجیدہ سے شخص کی وھیل چیئر دھکیلتا اندر لارہا تھا۔۔
اس شخص نے سفید سادہ سے کپڑے پہنے ہوئے تھے ، اس کا چہرہ بلکل پیلاہٹ مائل تھا ۔۔ جب کہ وہ بلکل مدھان اور علیدان کے جیسا لگتا تھا۔۔
شاہ فیملی کے تینوں بھائی شک نہیں کہ بھت وجیہہ اور خوبصورت تھے۔
وہ ابھی علیحان شاہ کو حیرت سے دیکھ ہی رہی تھی۔۔کہ ان کے پیچھے ایک دراز قد عورت کے قدم بھی ابھرے۔
آن کو شدید جھٹکے نے علیدان کے طرف دیکھنے پر مجبور کیا۔۔ اب وہ واقعی حیران ھوئی تھی۔۔جب عورت کا چہرہ دیکھ کر اس کی نظروں میں پہچان کا واضع تاثر ابھرا۔۔
کیونکہ یہ عورت کوئی اور نہیں ۔۔بلکہ۔۔۔۔ نکہت شاہ تھیں۔
(کیا یہ مس نکہت ہے۔؟)
مدھان شاہ علیحان کے طرف بڑھا
"بڑے بھیا اور بھابھی آپ تو جلدی پہنچ گئے۔" اس کی بات ہر نکہت مسکرائی۔
"ابھی جس وقت تم نے فون کیا ہم آدھے راستے میں تھے۔" بنا کسی تاثر کے علیحان نے مدھان کو جواب دیا تھا۔ان کا چہرہ کسی بھی تاثر سے پاک تھا۔۔ ساکت و جامد۔۔ جیسے ڈمی۔۔
(بھابھی ؟؟)
آن تو جیسے چکرا کر رہ گئی تھی۔
(یہ عورت علیدان کی بھابھی ہے؟؟
سو علیدان جس کو چاہتا رہا تھا۔۔۔وہ اس کی بھابھی۔۔۔۔؟)
جب کہ پچھلی ملاقات میں اسنے صاف صاف یہ محسوس کیا تھا کہ نکہت علیدان پر بری طرح گھایل ہے۔
(یہ کیا چل رہا ہے؟۔۔۔۔کیا یہ عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اپنے دیور سے محبت کا ناٹک کھیل رہی ہے؟
اگر ان دونوں کی محبت بنا کسی مفاد کی تھی تو ۔۔۔ علیدان نے اسے کیوں چھوڑا؟۔۔۔۔۔اونچے خاندان کے یہ لوگ واقعی اچھی طرح جانتے ہیں کہ "کھیل کیسے کھیلا جائے؟"
یہ ایک ایسا رشتہ تھا کہ آن کی ہمت ہی نہ ہوئی کہ کچھ آگے سوچے ۔وہ واقعی دنگ ہوگئی تھی۔۔
نکہت کی نظریں سب سے پہلے علیدان پر گئی تھیں۔پھر گھوم کر آن پر ٹک گئیں۔
اپنے طرف دیکھتا پاکر آن نے سر کی جنبش سے "ھیلو" کہا۔
حیران حیران سی نکہت کے ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھل گئے ۔
"مس آن۔۔ آپ بھی یہاں موجود ہیں؟"
"ہیلو میم نکہت" آن نے اپنے ہونٹوں پر فارمل مسکراہٹ ایڈ کرلی ۔
علیحان شاہ نے سپاٹ نظروں سے آن کو دیکھا پھر اپنی بیوی کو۔
" تم دونوں ایک دوسرے کو جانتی ہو؟"
نکہت نے مسکرا کر اسے ہاں میں سر ہلادیا ۔"یہ مدھان کی ھوم ٹیوٹر ہیں۔ لاسٹ ٹائیم علیدان اسے گھر لایا تھا میرے ساتھ۔۔۔۔ لنچ کے لئے۔۔۔" اس نے بات بنالی۔
علیحان شاہ نے آن کے چہرے کو بغور دیکھا ۔۔ اس کی نظر خود پر مرکوز پاکر ۔۔ آن نے ہولے سے اثبات میں سر ہلایا ۔۔ ھائے مسٹر شاہ "
آن کا علیحان کو " مسٹر شاہ" کہنا علیدان کو بری طرح سلگا گیا۔
یہ ایک لقب تھا جو اس نے علیدان کو دیا تھا۔۔ اور علیدان کو اس کے منہ سے سننا اچھا لگتا تھا۔
لیکن اب علیحان کو بھی اس نے اس لقب میں شامل کرلیا تھا۔۔ جو کسی طور علیدان کو منظور نہیں تھا۔
کیا وہ سب کو اس کے القابات سے بلاتی ہے ؟
اس قدر پیچیدہ توجیہات پر وہ اس القاب سے بیزار ہوگیا ۔
علیحان شاہ مسلسل آن عصمت کو دیکھ رہا تھا۔
اس کی نظروں کے ارتکاز نے علیدان کا موڈ بری طرح خراب کردیا۔۔
وہ چلتا ہوا علیحان کی نظروں کے آگے آن کے لئے" آڑ "بن کر کھڑا ہوگیا۔ یوں کہ آن اس کی چوڑی پیٹھ کے پیچھے چھپ گئی۔۔
"اگر آپ کو واپس ہی آنا تھا تو پہلے سے انفارم کیوں نہیں کیا؟"علیدان نے سرد لہجے میں اپنے بھائی کو دیکھا۔
" میں اپنے گھر ہی آیا ہوں۔کیا انفارم کرتا؟" ترش لہجے میں کہا گیا۔
علیحان شاہ کا سرد انداز واقعی ماحول کو بھی سناٹے کی زد میں لے آیا تھا۔ " کیا مجھے پہلے تم کو سلام کرنے کی ضرورت تھی؟ یا تم مجھے اجنبی لوگوں کی طرح لے رہے ہو؟"طنزیہ پوچھا گیا۔
اب آن عصمت کے زاویہ نگاہ سے دیکھو تو آن کو وہ سب افواہیں سچ لگیں ( یہ دونوں سچ میں بھائی تھے لیکن۔۔دونوں ساتھ نہیں رہتے تھے۔ابھی ان دونوں کے جملوں کے تبادلے سے ان دونوں کے بیچ تلخی کا واضع پتا چل رہا تھا۔)
یہاں تک کہ آن عصمت نے بھی علیدان کے لیئے سخت شرمندگی محسوس کی ۔جب یہ الفاظ علیحان شاہ نے کہے۔۔۔۔ لیکن وہ خود کو اتنا پرسکون ظاہر کرے گا ؟
وہ یہ امید نہیں کر سکتی تھی۔۔
" یہ آپ ہی تھے جس نے ہم دونوں بھائیوں کو تنہا چھوڑا تھا۔ اور چلے گئے تھے۔۔ جس جس وقت مدھان کو بڑے بھائی کی ضرورت محسوس ہوئی آپ نے کنارہ کر رکھا۔تو اب بھی آنے کی کیا ضرورت تھی علیحان بھائی۔"
سب خاموش تھے۔۔ اور یہ خاموشی بھت ہی معنی خیز تھی۔
آن عصمت کی اس وقت ہمت ہی نہیں ہوئی کہ اپنا بیگ اٹھائے اور کہہ سکے کہ " مجھے یہاں سے جانا چاھئیے"
اس سے پہلے کہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہناتی۔۔۔ نکہت شاہ مسکراتی آگے بڑھی تھیں۔
"علیدان۔۔۔۔تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔انہوں نے بھت بار مجھے کہا تھا کہ مدھان کو فون کروں۔لیکن ان کی طبعیت مسلسل خراب رہی تھی سو میں بھی فون کرکے خیریت معلوم نہیں کرپائی۔ورنہ ہمیں مدھان کی پڑھائی کو لے کر ٹینشن تھی۔ ہم اسے دیکھنے کے لئے آنا چاہ رہے تھے۔لیکن علیحان بلکل بھی سفر کے قابل نہیں تھے۔"
دیکھنا چاھئیے کہ نکہت نے ماحول میں پھیلی تلخی کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔
مدھان نے جب یہ صورت حال دیکھی تو جلدی سے بول پڑا۔"بڑی بھابھی۔۔۔ان سب باتوں کے لئے مس آن کا شکریہ میں نے ان کی مدد سے کافی اچھا ایگزام دیا ہے۔"
نکہت نے پھر سے آن پر نظر ڈالی " مس آن عصمت " آپ نے واقعی ہمارے گھرانے کو بھت فائدہ پہنچایا ہے۔"
"اسی لئے تو میں نے آج مس آن کو ڈنر پر انوائیٹ کیا ہے " مدھان نے مسکراتے نکہت شاہ کو بتایا۔۔
یہ ضیافت ایک طرح سے "ان کا شکریہ" ہے ۔۔کیوں نہ آپ دونوں بھی ہمارے ساتھ ڈنر کریں؟"
"اوھ ۔۔۔یہ ہم کیسے بھول گئے ؟ نکہت شاہ نے علیحان کو نظروں ہی نظروں میں کچھ کہا،
"تم نے بتایا کہ "مس آن ہمارے خاندان کی باصلاحیت ٹیوٹر ہے، تو یہ بدتہذیبی ہوگی اگر۔۔۔ ہم انہیں چھوڑ کر چلے جائیں، علیحان نے اپنی بیوی کو نظروں ہی نظروں میں اشارہ کیا۔
آن ڈھنگ سے مسکرا بھی نہ سکی۔ اسے اپنا وجود مس فٹ لگ رہا تھا ۔
علیدان سبک رو سے چلتا آن کے قریب آیا اور اپنا ایک بازو آن کے شانوں پر پھیلایا۔
"آئیں۔۔میں آپ کا ان دونوں سے تعارف کرواؤں۔۔۔یہ میں ہوں۔۔ علیحان شاہ کا دوسرا بھائی ۔
آئندہ سے آپ بھی انہیں میری طرح "بڑا بھائی" کہہ کر بلاسکتی ہیں۔
چیوںکہ آپ ایک دوسرے کو جانتی ہو اسی لئے "کسی اور سے" آپ کا تعارف کروانے کی مجھے ضرورت نہیں ہے۔"
کافی چھبتے ہوئے الفاظ تھے۔۔ جو معنی رکھتے تھے ،مفہوم رکھتے تھے اور خلاصہ رکھتے تھے۔۔۔جن کو سمجھنے والوں نے سمجھ لیا تھا۔۔
علیدان نے مسکرا کر دوسرے ھاتھ سے آن کے بکھرے بال سنوارے تھے جو ہوا کے جھونکوں سے بکھرے تھے۔۔
آن تو اس کی پھر سے ایسی حرکت پر دنگ ہوئی تھی ۔یہ پھر سے۔۔۔۔؟
علیدان کا ایسا ہی رویہ ریسٹورانٹ میں نکہت کے سامنے برت چکی تھی۔۔ اور اب اسے یہی لگا کہ "علیدان اسے "استعمال کررہا ہے"۔
جب علیدان نے دیکھا کہ آن کوئی "ردعمل" نہیں دے رہی، تو اپنی گرفت اس کے شانوں پر سخت کرکے ہلکے سے شانہ جھنجھوڑا، جیسے کہہ رہا ہو "جواب دیں"
آن نے سمجھ کر ان دونوں کو سر ہلا کر "ھیلو" کہا۔
علیحان نے اپنی ابرو کھینچ لیں۔
" تو مس آن عصمت ابھی تک اسٹوڈنٹ ہیں؟ ۔۔۔کیا میں نے صحیح کہا؟"
"ییس ۔۔"آن نے لب بھینچ کر سر اثبات میں ہلا کر، ہلکے سے تبسم سے کہا۔ " میں یونیورسٹی کی سینئر اسٹوڈنٹ ہوں ۔کچھ ہی دنوں میں گریجویٹ ہوجاؤں گی۔"
"ہممم۔۔۔تو تم ابھی یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ ہو ۔۔کوئی تعجب نہیں کہ تم نے مدھان پر کافی محنت کی ہے۔۔یہ دیکھ کر لگتا ہے ۔ علیدان کی نگاہ انتخاب اچھی ہے۔"
"بڑے بھائی۔۔۔ آپ کو یہ کہنا چاھئے تھا کہ میرے پاس ایک عورت کو پہچاننے کی ایبلٹی ہے ۔"
علیدان نے یہ کہتے ہی آن کو شانوں سے تھام کر ڈائننگ روم کے طرف موڑا " چلیں ۔۔ چل کر کھانا کھائیں ۔"
مدھان نے بھی تقلید کی اور علیحان شاہ کی چیئر دھکیل کر اندر بڑھنے لگا۔۔ علیحان کی تیز نظریں نکہت شاہ کو گھور رہی تھیں۔ جو علیدان اور آن عصمت کو گھورے جارہی تھی۔۔ بغیر جگہ اور لوگوں کا خیال کیئے۔۔
جیسے ہی چیئر نکہت شاہ کے قریب سے گذری ۔۔وہ چونکی تھی۔۔ اور جلدی سے مدھان کے ھاتھ پر ھاتھ رکھ کر روکا، مسکراتے بولی۔" میں لے چلتی ہوں۔"
"نہیں۔۔۔۔بڑی بھابھی۔۔۔ میں عرصہ بعد بھائی سے ملا ہوں۔۔ مجھے خوشی ہوگی اگر میں لے جاؤں۔"
نکہت نے مسکرا کر کندھے اچکائے جیسے کہا ہو "اٹز اوکے ۔۔"
ادھر علیدان تقریبا آن کو اپنی حصار میں لے کر ٹیبل تک لایا تھا ۔۔ اس کے کان میں دھیمی سرگوشی۔ "آپ کو آج میری مدد کرنی پڑے گی۔۔۔۔ایکٹنگ کریں۔۔۔ جیسے ہم لوونگ کپل ہیں ۔۔"
"لیکن میں ایسا کیوں کروں گی۔؟" آن نے سمٹ کر خود کو اس سے دور کیا۔۔۔ وہ تپ ہی تو گئی تھی۔۔ کیا وہ کھلونا تھی ؟
"میں اس معاملے میں شامل ہی نہیں ہوناچاھتی۔"اس کے لہجے میں ناگواری ہی ناگواری تھی ۔
آن عصمت آپ کے پاس اس کے سوا کوئی چوائس نہیں ہے۔۔۔اگر میرے ساتھ تعاون نہیں کریں گیں۔ تو میں بھی زمیوار نہیں کہ ۔۔۔ بات چھپائے رکھوں۔۔" کانوں میں جیسے صور پھونکا ہو۔۔ اب اس نے دھمکی سے بات منوانی چاہی۔۔
"ٹھیک ہے جو مرضی ہو کریں "
اب آن ضدی بنی۔بازو سینے پر باندھ کر علیدان کو گھورنے لگی۔
"میں اس رات کے متعلق بتاوں گا ۔۔کہ تم ۔۔ اور میں۔۔۔۔"
اپنی بات آدھی چھوڑ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔۔ وہ دنگ ہوئی
"علیدان شاہ ۔ آپ بھت ہی گھٹیا ہو۔۔"
حلانکہ آواز تیز نہیں تھی لیکن شدید غصہ سے بھاری ہورہی تھی۔۔ آنکھیں شدت سے گلابی ہوگئیں۔ علیدان زیادہ دیر ان آنکھوں کی شکایت نہ سہہ سکا۔۔نظر ہٹا لی تھی۔۔۔وہ کچھ زیادہ ہی زچ کررہا تھا۔۔
علیدان نے مسکرا کر آن کے گال پر چٹکی کاٹی۔۔
"میں گھٹیا ہوں اسی لئے آپ کو آپیریٹ کریں یا نہ کریں۔ اٹ از اپ ٹو یو۔۔ میں ایک منٹ میں "ہم دونوں" کے مابین تعلق کا بتا سکتا ہوں ۔"
آن نے سر جھٹک کر اس کے ہاتھ کی چٹکی سے گال آزاد کروایا۔
اسی وقت نکہت شاہ نے اندر قدم رکھا۔ ٹھیک اسی وقت علیدان کے ہاتھوں نے آن کے سر کو دونوں طرف سے تھاما۔
آن نے نظر ترچھی کرکے نکہت شاہ کو آتے دیکھا۔ اور پھر علیدان کو ۔ سخت شرمساری سے بولی ۔"آپ مجھے تکلیف پہنچارہے ہیں ۔"گال پر کاٹی گئی چٹکی کے طرف دھیان دلایا۔۔ اور اپنے ھاتھ علیدان کے ھاتھ پر رکھے تاکہ اس کے ھاتھ ھٹاسکے۔۔لیکن ۔۔۔
وہ اس کے چہرے پر جھکا اور گال پر کس کردی۔ پھر کہا۔
"اب تکلیف نہیں ہوگی۔"
آن تو گلے تک لال ہوگئی ۔۔اس کی اچانک حرکت سے غصہ ،شرم اور خفت ۔۔ماحول کا احساس ۔۔ سب نے مل کر آن کو بری طرح شرمساری میں گھیرا۔
"آپ بھت فضول ہیں۔آپ کو بلکل بھی ماحول کا خیال نہی"۔۔آن نے اسے شرم دلانی چاہی اور اشارہ اس کے "کس " دینے کے طرف تھا۔
علیدان شاہ نے اسکے شرمیلے نین اور حیا سے سرخ پڑتے عارض پر مسکرا کر نظر ڈالی۔
"اس میں شرمانے والی تو کوئی بات نہیں۔۔۔۔سب فیملی میمبرز ہی ہیں۔۔۔"وہ چہکا تھا۔
آن کے پیچھے نکہت شاہ کے قدم وہیں جم گئے۔
کافی عرصہ کے بعد وہ علیدان شاہ کے ہونٹوں پر جاندار مسکراہٹ دیکھ رہی تھی۔
(کیا اسی لئے کہ آن عصمت اس سے قطعی مختلف تھی؟)
مدھان شاہ، علیحان شاھ کی چیئر دھکیلتا ٹیبل کے پاس لایا۔۔ سب نے اپنی اپنی کرسی سنبھال لی۔
علیدان نے خادمہ سے مسکرا کر کہا۔ جائیں وائن کی بوتل کھول کر لائیں۔ ہم سب آج بھت خوش ہیں اور اس خوشی کے موقع پر سب مل کر " وائن" پئیں گے۔۔ پھر سب پر نظر ڈالی۔
"آل رائیٹ چھوٹےصاحب " خادمہ نے وائن لاکر سب کے گلاس میں بھری۔۔
جب آن عصمت کے گلاس میں ڈالنے لگی تب آن نے گلاس کو ہلکا سا سائیڈ پر کرتے نہایت سنجیدگی سے کہا۔
" شکریہ۔۔ میں نہیں یہ نہیں پیتی۔۔"
علیدان نے بازو سینے پر باندھ کر معنی خیز شرارت سے مسکرا کر اسے دیکھا پھر سب کو ۔ "ہاں۔۔۔۔بھئی۔۔ آن عصمت یہ نہیں پیتی۔ کیوں کہ جب یہ زیادہ پی لے ۔۔۔ تو "آوٹ آف کنٹرول" ہوجاتی ہیں ۔۔ ھا ھا ۔۔" شرارت ہی شرارت تھی علیدان کی آنکھوں میں، چہرہ پر ۔۔ وہ سب کو بھلائے صرف آن پر متوجہ تھا۔
آن تو اس کی باتوں پر غش کھارہی تھی۔۔ گھور کر اسے دیکھا۔۔۔ علیدان ھنسا۔۔۔ گلاس اٹھا کر ایک سپ بھری۔۔ پھر ایک آنکھ سے آن کو ونک کی اور ابرو اٹھا کر گلاس لہرایا۔۔
مدھان یہ سن کر دنگ ہوا۔۔ کہ بھائی کو کیسے پتا؟
"بھائی آپ کو کیسے پتا کہ جب آن آپی ڈرنک کرتی ہیں تو "آوٹ آف کنٹرول" ہوجاتی ہیں ؟ کیا آپ نے پہلے کبھی دیکھا ہے کیا؟"
علیدان نے مدھان کے چہرے پر سوالیہ نگاہ کی۔۔لیکن آنکھوں میں چمک صاف نظر آرہی تھی۔۔
"تمہارا کیا خیال ہے؟"
"آن آپی ۔۔آپ بھائی کے ساتھ پئیں گیں؟"
آن کی شرمندگی سے گردن جھک گئی۔۔ سر نفی میں ہلادیا "نو"
علیدان کو ھنسی تو بھت آئی آن کے تاثرات دیکھ کر ۔۔ وہ وائن پینے سے انکاری تھی۔۔ اور لاسٹ ٹائم وہ اسے بارکے پاس روڈ پر مدھوش ملی تھی۔۔۔ جب کہ وہ کہہ رہی تھی "نہیں پیتی۔"
اس کا انکار علیدان کو بکواس لگا تھا۔۔ اور ھنسی بھی آرہی تھی۔۔
"مجھے کچھ عجیب سی بو آرہی ہے ۔۔ ایسا کیوں لگ رہا کہ آپ دونوں کے بیچ میں کچھ ایسا ہے جو خفیہ ہے"۔ مدھان ان دونوں کے تاثرات نظروں ہی نظروں میں گفتگو کرنا۔۔ بیچ میں موجود معنی خیزی مدھان کو ہوشیار کررہی تھی۔
" تم کچھ زیادہ نہیں سوچتے؟" آن کو سخت شرمندگی نے گھیرا ہوا تھا۔ مدھان کو ٹوک گئی ۔
"لیکن آپ واضع طور۔۔۔۔" ابھی وہ بات پوری کرتا کہ علیدان نے ٹوکا۔۔
" مدھان ۔۔۔ سو کالڈ سیکریٹس ہر ایک کو نہیں بتائے جاتے۔۔ مت پوچھو۔۔۔"
"مجھے بس تجسس تھا۔۔" مدھان نے سچائی سے کہا۔
"ایک مرد کسی عورت کے بارے میں تجسس کرے۔۔ہمممم یہ اچھی بات ہے ۔۔۔ہمارا مدھان اب بڑا ہوگیا ہے " علیحان شاہ نے گلاس اٹھا کر آھستگی سے ہلایا۔۔
مدھان بچہ نہیں تھا جو بات کو نہ سمجھتا۔۔جلدی سے بولا۔ "بڑے بھیا۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ آن آپی میری استاد ہیں۔
مجھے صرف ان دونوں کے بیچ کے سیکریٹ جاننے کا تجسس تھا۔"
"میرے خیال سے آن عصمت تم سے صرف کچھ سال ہی بڑی ہیں تو کیوں نہ یہ تمہاری بھابھی بن جائے ؟"
علیدان کی بات پر سب کے سب وہیں ساکت ھہوگئے تھے۔۔ نکہت کا چہرہ ایسے ہوا جیسے خون نچوڑ لیا گیا ہو۔۔
یہ وہ کیا سن رہی تھی؟
آن نے دنگ نظروں سے علیدان کو دیکھا پھر گھبرا کر باقی سب کے چہروں پر نظر ڈالی۔۔
"مسٹر شاہ ۔۔ آپ بہت آگے جارہے ہیں۔۔۔مجھے بلکل بھی اس رشتے میں دلچسپی نہیں ہے۔۔ پلیز ایسی بے سروپا بات مت کیجئے۔۔ مجھے یہ پسند نہیں آیا۔" اب کے ہلکے ہلکے کانپتے اس کے قریب ہوکر سرگوشی میں بولی تھی۔
نکہت ان دونوں کے چہروں کے اتار چڑھاو ۔۔ کو کب سے گھور گھور کر دیکھ رہی تھی۔۔ وہ کب سے آن پر نگاہ گاڑے بیٹھی تھی۔
اور یہ سب آن کے لئے سہنا بھت مشکل تھا وہ نکہت کی مسلسل نگاہوں سے سخت خائف ہورہی تھی۔
"میں صرف یہ دیکھ کر کہ مدھان اور آن کی اچھی انڈراسٹینگ ہے تو کیوں نہ آن عصمت کے ساتھ ایک رشتہ بنالیا جائے۔۔اسی لئے ۔۔ میں نے آن عصمت سے "نکاح "کا فیصلہ کیا ہے۔" اس نے نکہت کو جیسے آگ دُکھائی۔
مدھان تو یہ سن کر ۔۔ خوشی و حیرت سے اچھل پڑا۔۔
جیسے ہی علیدان نے جملہ پورا کیا۔۔۔۔آن عصمت نے تھوک نگلا اور ایسے بیٹھی رہی جیسے بھرے مجمع میں کسی کو دار پہ لٹکا دیا گیا ہو، اسے سب کے سامنے، سخت خفت محسوس ہورہی تھی۔۔ بس نہیں چل رہا تھا وہ کس طرح علیدان کو ایسا کہنے سے روک دے۔۔ وہ رشتہ جو صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا ،اس کی اہمیت کو وہ نہیں مانتی تھی۔۔۔وہ خود کو صرف ایک "کھلونے" سے تشبیہہ دے رہی تھی۔جسے جب چاہے علیدان نے اپنے مطلب کے لئے استعمال کیا ہو۔جہاں جہاں علیدان کو ضرورت پڑتی تھی وہ اسے کردار میں "فٹ " کردیتا تھا۔۔اس نے علیدان کی مدد کرنے کی حامی صرف اسی لئے بھری تھی تاکہ وہ اس رات والی بات راز رکھے۔۔لیکن۔۔۔اب؟۔۔۔اس نے اسے ہمیشہ کے لئے اپنی قید میں رکھنے کا فیصلہ سنادیا تھا، اسنے آن عصمت کی مرضی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔۔ یا وہ دینا ہی نہیں چاہتا تھا؟
آخر اسے کیا ضرورت تھی؟ اس نام نہاد رشتے کو ظاہر کرنے کی؟ اب کیا کھیل کھیلنا چاھتا تھا؟ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی حقیقت میں وہ اس کھیل کا حصہ ہی نہیں بننا چاہتی تھی۔۔ یہ لوگ اس سے مطابقت کسی طور بھی نہیں رکھتے تھے، وہ ان کے طبقہ کی نہیں تھی جہاں سازشوں اور منصوبوں کے محل بنائے جائیں ، وہ ایک سادہ سی لڑکی تھی۔۔ اپنی ایک پرسکون دنیا بنانا چاہتی تھی ،جہاں وہ سکون سے رہتی،۔۔ اسے لگا علیدان نے اسے ایک اندھیر کھائی میں جا گھسیٹا ہو۔
کیا زندگی تھی آن کی ایک مسئلے سے ابھی ٹھیک طرح سے آزادی ملتی نہیں تھی کہ دوسرے میں جا پڑتی ہے۔۔اس نے سوچ لیا ۔۔وہ اب اور نہیں استعمال ہوگی۔۔جس نے اسے ایک مسئلے سے نکال کر دوسرے میں ڈالنے کی تیاری پکڑی ہوئی تھی، وہ علیدان کو صاف انکار کردینا چاہتی تھی۔۔
۔
مدھان تو یہ سن کر جوش و خروش سے اچھل ہی پڑا۔۔ وہیں اٹھ کر ٹیبل بجانے لگا، باچھیں پھیل گئیں۔۔"آہاں ۔۔۔ میں نے نہیں کہا تھا ۔۔؟ آپ دونوں کے بیچ میں کچھ کچھ ہے ۔۔"
علیدان نے اسے گھورا اور ہلکا سا ڈانٹ پلائی تھی۔
" تم کیوں اتنے ایکسائٹڈ ہورہے ہو۔۔ ؟ بیٹھ جاؤ ۔"
علیدان کے تیور دیکھ کر وہ چپکے سے بیٹھ گیا۔ لیکن شریر نظروں سے دونوں کو دیکھے رہا۔۔ کبھی آن کو کبھی علیدان کو ۔۔علیدان کو کوئی فرق نہیں پڑرہا تھا لیکن۔۔ آن اس کی شریر نظروں سے پزل ھورہی رھی تھی۔۔
" میں بھت بھت خوش ہوں بھیا۔۔ بھت زیادہ ۔۔ وہ واقعی خوش تھا۔۔
"کوئی شک نہیں کہ ۔۔۔آپ دو ماہ پہلے صرف میری ٹیچر بن کر آئیں تھیں اور میری پڑھائی میں بہت مدد کی، اور اب آپ کا میرا نیا مضبوط رشتہ بننے جارہا ہے۔ میں بھت خوش ہوں۔۔"
علیدان مسکرایا ۔۔لیکن کہا کچھ نہیں ۔۔
آن کو تو جیسے منہ چھپانے کی کوئی جگہ ہی نہیں ملی تھی۔۔
وہ یکدم اٹھ کھڑی ہوئی، پرس اٹھا کر " مجھے اب چلنا چاھئیے میں اگر زیادہ ٹہری تو لیٹ ہوجاوں گی، آپ سب اپنا ڈنر انجوائے کریں۔۔میں چلتی ہوں ۔
جیسے ہی جانے کو مڑی ۔۔علیدان نے اس کی کلائی پکڑ کر پیچھے کے طرف کھینچا تھا۔۔اس طرح کھینچے جانے سے وہ گھوم کر اس کی گود میں گری۔
سخت حیا اور شرم سے آن کا دل کیا کہیں غائب ہوجائے۔۔ یہ شخص واقعی بے شرموں کا سردار تھا۔۔ اسے بلکل شرم نہیں آئی تھی کہ باقی بھائی سامنے بیٹھے ہیں ۔۔یا یہ امیر لوگ ایسی باتوں کو فیشن سمجھتے ہیں ۔۔
آن نے یکدم اس کے کندھوں کا سہارا لے کر خود کو اور قریب جانے سے روک دیا ۔۔۔اور جلدی سے اٹھنا چاہا۔۔ لیکن علیدان نے اس کی کمر کے گرد حصار باندھ دیا۔۔"آپ کھانے کے بعد جاسکتی ہیں۔ میں چھوڑ آؤں گا"
"مجھے بھوک نہیں۔۔میرا وزن بڑھ جائے گا۔" آن کا بہانہ بھی اس کی طرح بیوقوفانہ اور بودا تھا۔۔
"میں تو نہیں مانتا۔۔۔۔ آپ پہلے ہی سے کافی اسمارٹ ہیں۔ "مسکرا کر محبت سے اس کے چہرے پہ حیا و شرم رنگ دیکھ کر دنگ ہوا تھا۔۔وہ اسے پہلے سے زیادہ پیاری لگی۔۔ یا اسے ہر بار پیاری لگتی جب جب اسے دیکھتا تھا۔
"کیا آپ چاہتی ہیں۔ میں اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں؟ "
نہ۔۔ نہیں۔۔ م۔۔ میں۔۔خ۔۔۔ خود ہی۔۔۔۔۔" وہ شرمندگی سے سرخ پڑی۔
"اٹز گڈ آن۔۔ ورنہ مجھے کھلاتے ہوئے خوشی ہوگی۔۔" علیدان نے پھر سے زچ کیا۔۔
نکہت ان دونوں سے نظر ہی نہیں ہٹا پارہی تھی۔۔ علیحان یہ سب سپاٹ چہرے کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ بظاہر سب کھا پی رہے تھے۔۔ لیکن نکہت کی نظریں آن کو گھورے جارہی تھیں۔۔
"علیدان۔۔۔ تمہاری نظر انتخاب واقعی بھت اچھی ہے، مس آن واقعی بھت خوبصورت ہے۔"
وہ مسکرائی ۔۔۔اس کی مسکراہٹ اس کے چہرے اور آنکھوں سے میچ نہیں کر رہی تھی۔۔ ایسا لگ رہا تھا وہ زبردستی کا مسکرا رہی ہو۔۔
"یہ بھت بھت خوبصورت ہے، اور کئی سالوں سے اپنے اسکول کی سب سے خوبصورت لڑکی رہی ہیں ۔ مزید یہ کہ "کتابی کیڑا" بھی ہیں ۔
سب سے اہم بات کہ اس کی شخصیت بھی اس کی طرح خوبصورت ہے یہ میری خواہش پر بلکل پوری اترتی ہیں۔ "
حیرت انگیز طور پر آن کا موڈ خوشگوار ہوگیا وہ رلیکس ھوگئی تھی علیدان کی تعریف سن کر۔۔
علیحان نے یہ سن کر ہاتھ بڑھا کر نیپکن سے منہ پونچھا۔ اور علیدان کو دیکھ کر کہا ۔"تو پھر آپ کی اس شادی کی خوشی میں کیوں نہ تیسرا گلاس وائن کا ہوجائے۔۔جو کہ عنقریب متوقع ہوگی۔"
"کیا؟"۔۔۔مدھان حیرت سے چینخا۔۔
اس کی غیر متوقع چینخ پر سب نے اسے گھورا۔
"میرا مطلب۔۔۔ کہ کب؟" مدھان گڑبڑایا۔
"میں تو آج اور ابھی ہی راضی ہوں۔ اپنی مس آن سے پوچھو۔۔ یہ کیا کہتی ہیں؟"علیدان نے گیند آن کے کورٹ میں ڈالی ۔
سب کی نظریں اب آن کے چہرے پہ ٹکی تھیں کہ وہ کیا کہتی ہے۔
آن تو علیدان کے الفاظ سن کر سٹپٹا گئی تھی۔۔ نوالہ حلق میں اٹکا اور بری طرح کھانسنے لگی۔
علیدان نے پریشان ہوکر پانی کا گلاس اس کے طرف بڑھایا۔۔ اور منہ سے لگایا۔
آن نے کھانستے ہوئے دو گھونٹ بھرے۔۔ گلے میں پھنسے کھانے کے ذرات نیچے گئے تو اسے کچھ سکون ملا۔۔ لیکن آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔
"آپ ٹھیک ہیں؟" علیدان نے اس کی پیٹھ سہلائی تھی۔اس حرکت پر آن سمٹ گئی۔ کچھ بول نہیں سکی صرف سر ہلادیا۔
یہ صاف ظاہر تھا کہ آن نے علیدان کے سوال کو نظرانداز کیا ہے۔
لیکن وہ کتنا اگنور کرسکتی تھی؟ جتنا کرتی وہ اتنی بار ہی وہی بات کرتا۔ وہ کنفیوز تھی۔۔ آفٹر آل وہ اپنی فیملی کے ساتھ تھا۔۔ لیکن یہ آن کی فیملی نہیں تھی ۔
"اچھا ہوگا۔۔۔اگر میری گریجویشن کے بعد ایسا ہو۔"
آن نے بات سنبھالی۔
"ابھی میرے پیپرز کی تیاری رہتی ہے۔۔ ہم نکاح کسی اور وقت بھی کرسکتے ہیں۔"
علیدان کو غصہ تو بھت آیا ۔۔ آن کے ٹالنے پر۔۔ نکاح تو ہوچکا تھا ۔۔ بس اپنی فیملی کے سامنے بات سنبھالنا اس کی مجبوری تھی۔۔اب جتنا جلد ہوتا اچھا ہوتا۔۔ آج نہیں تو کل ۔۔وہ اب آن کو اپنے قریب چاھتا تھا۔۔۔۔ یہی حل تھا کسی کو اپنے طرف روکنے کا۔۔
"کل کا دن بھترین ہے ۔۔ میں کل صبح 8 بجے آپ کو گھر سے پک کروں گا۔" علیدان نے ابرو اچکا کر اس کے اعتراض کو رد کیا۔
آن تو جیسے فریز ہو گئی۔۔تو کیا وہ اس کے بہانے کو جان گیا تھا ؟ دوسری صورت میں وہ اسے بری طرح سے پھنساگیا تھا۔
"آپکو کیسے پتا کہ کل کا دن لکی ہے؟"
علیدان شاہ نے ایک کباب اٹھا کر اس کی پلیٹ میں رکھا۔" ہر وہ دن جو " علیدان شاہ " ڈیسائڈ کرلے وہ "لکی ڈے " ہوجاتا ہے ۔۔۔ اور کھائیں۔۔ میں اپنی ہونے والی بیوی کے گال بھرے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں۔"
وہ تو حیا و شرم سے نظر ہی اٹھا پائی۔
آن کو اب لگا جیسے واقعی بھی دبلی پتلی ہے۔
وہ پہلے کبھی کسی مرد سے اس طرح خوفزدہ نہیں ہوئی لیکن جب سے علیدان اس کے ساتھ سنجیدہ ہوا تھا وہ سچ میں اس سے خوفزدہ تھی۔
دوسری طرف دیکھو تو نکہت شاہ کے چہرے کے نقوش مکمل طور بگڑ چکے تھے۔
وہ اپنے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ بھی نہیں لا پارہی تھی۔ جب اس نے ان دونوں کے "نکاح " کرنے کا فیصلہ سنا۔
علیحان جو اس کے قریب بیٹھا تھا۔ اچانک ہی اس کے طرف مڑا۔
یہ دیکھ کر کہ وہ صدمہ سے علیدان کو گھور رہی ہے ۔۔اس نے اس کے اس ہاتھ (جس میں گلاس تھا)سے اپنا گلاس ہولے سے ٹکراکر اسے متوجہ کیا۔
" آن عصمت اور علیدان شاہ
بھت بھت مبارک ہو۔"
علیدان نے بھی لب بھینچ کر ہولے سے سر خم کرکے مسکرا کر گلاس اوپر کیا ۔
"آن وائن نہیں پیتی ۔۔چلو اس کی طرف سے میں پیتا ہوں ۔"
دونوں بھائیوں نے گلاس بلند کرکے ھلکا سا ایک دوسرے سے ٹکرائے۔۔ یہ دیکھ کر مدھان کیوں پیچھے رہتا وہ بھی اپنا جوس کا گلاس اٹھا کر دونوں بھائیوں کے گلاس سے ٹکرا کر جوش سے بولا۔" مبارک ہو ۔۔۔دولہا بھائی ۔"
"شکریہ بھت بھت ۔" جب اس نے گلاس منہ سے لگایا ۔تو سر ھلکا سا اٹھایا۔ تب اس کی نظر صدمہ سے تقریبا مرنے والی جیسی حالت میں ساکت بیٹھی نکہت پر پڑی تھی۔
وہ اسے یک ٹک صدمہ اور مایوسی سے دیکھے جارہی تھی۔ اس کی آنکھیں ہلکی ہلکی نم تھی۔
آفٹر آل ۔۔علیدان کو کئی سالوں سے مختلف عورتوں کے ساتھ دیکھتی آرہی تھی۔۔۔لیکن آن وہ پہلی عورت تھی۔۔ جس سے علیدان نے شادی کا فیصلہ کیا تھا۔
جب کہ۔۔۔وہ خود بھی یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ فیصلہ اس کے لئے اچھا ہے یا برا؟
آن کا وجود اگر علیحان شاہ اور علیدان کے بیچ سرد مہری کی یہ جنگ ختم کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے تو یہ اچھی بات تھی۔
" کیا ہوا؟ آپ نے ھاتھ کیوں روک دیا؟" علیدان نے آن کو چمچ پلیٹ میں رکھتے دیکھ کر نرمی سے پوچھا۔۔
آن نے فقط سر ہلا کر کہا "میری بس ہوگئی۔"
علیدان نے اپنا نیپکین پلیٹ میں رکھا اور اٹھتے ہوئے بولا ۔ " ٹھیک ہے۔۔۔ چلیں میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں۔"
آن جلدی سے کرسی کھینچ کر اٹھ کھڑی ہوئی اسے ایسا لگا جیسے قید سے رہائی مل گئی ہو۔
وہ پرس اٹھا کر باقی سب کو دیکھ کر بولی "مسٹر شاہ۔ مدھان ،اور میم نکہت۔۔ آپ کنٹینیو رکھیں میں اب چلتی ہوں۔"
" اپنا کھانا ختم کرتے ہی اپنے پورشن میں جانا اور آرام کرنا۔۔ میں آج آن کے طرف ہوں رات نہیں آسکوں گا۔" علیدان نے مدھان کو اپنا خیال رکھنے کو کہا تھا۔
آن یہ الفاظ سن کر ایک پل تو شاک سے سن کھڑی رہ گئی۔جتنا وہ اس سے دوری بنارہی تھی۔ اتنا وہ اس کے قریب آرہا تھا۔۔ آن ایک قدم دور ھوتی وہ دو قدم آگے بڑھاتا تھا ۔۔اب اس کے یہ الفاظ کہ ( آن کے پاس ٹہروں گا۔۔)اس کی آدھی جان یہی کھڑے کھڑے نکال لے گئے تھے۔ دل نے ایسی اسپیڈ پکڑی تھی۔کہ مانو سینے سے باھر آجائے گا۔اس کے قدم اس کا وجود سنبھالنے سے انکاری ہوگئے تھے۔۔ ہاتھ ہلکے سے کپکپانے لگ گئے۔
آن نے دل ہی دل میں دانت پیسے ڈیم اٹ۔ وہ اس سے پھر سے شکست کھاگئی۔
سب کو "گڈ بائے" کہہ کر وہ اسے کمر کے گرد حصار باندھے باھر بڑھ گیا۔ وہ اسے دیکھ بھی نہیں پارہی تھی۔۔
ان کے نکلتے ہی مدھان نے کچھ دیر کو سوچا۔۔ پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا " بڑے بھائی ۔۔بڑی بھابھی۔۔ میں ابھی آیا۔۔ مجھے آن آپی سے کام یاد آگیا ہے۔"
یہ کہہ کر وہ باھر بھاگا۔
اس کے جاتے ہی کمرے میں صرف دو نفوس رہ گئے ۔۔جو بنا کچھ کہے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے۔
نکہت شاہ نے گلاس اونچا کرکے ایک گھونٹ بھرا۔
علیحان اسے سرد نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
وہ جھوٹا سا مسکرائی" آپ کو اب آرام کرنا چاھئے۔"
علیحان نے سپاٹ لہجے طنز کیا۔
"مجھے آرام ہے۔۔۔ کیونکہ مجھے اپنے بھائی کی شادی سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔"
پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا۔
"اور۔۔۔ میں سمجھتا ہوں اس بار وہ واقعی اس رشتے سے سنجیدہ ہے۔۔۔
میں نے پہلے کبھی اسے کسی کے اس طرح لاڈ اٹھاتے نہیں دیکھا۔
کیا تم نے اس کی آنکھوں میں چمک نہیں دیکھی جب وہ آن عصمت سے بات کررہا تھا؟"
یہ سن کر نکہت کا نچلا ہونٹ دانتوں تلے آکر کچلا گیا۔ بیزاری سے بولی۔
"میں گھر جانا چاھتی ہوں۔"
وہ مسکرایا۔" آل رائیٹ چلو۔"
ادھر مدھان ان دونوں کے پیچھے بھاگتا ہوا باھر آیا تھا۔ جو گاڑی میں تقریبا بیٹھ چکے تھے۔ اور ابھی دروازہ بند ہی کیا تھا کہ مدھان کی پکار سن کر رک کر اسے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
مدھان نے ان کے قریب آکر اپنی سانس درست کی۔ پھر شرارت سے مسکراتے بولا۔ "چھوٹےبھائی چھوٹی بھابھی۔"
آن تو دنگ رہ گئی۔ ادھر علیدان اپنی مسکراہٹ نہ چھپا سکا۔ ۔۔ اسے مدھان سے شرارت کی توقع ضرور رہتی تھی۔۔ لیکن اس قدر جلدی وہ اس کی نسبت سے آن کو پکارے گا۔ اسے توقع نہیں تھی۔۔ان فیکٹ یہ سن کر اسے بھت اچھا لگا تھا۔۔ لیکن آن دنگ ہوئی تھی۔
" مدھاااان۔۔ ابھی ہماری شادی نہیں ہوئی۔۔۔ اسی لئے پلیز ایسے مت بلائیں۔"
"کیا کہہ رہی ہیں چھوٹی بھابھی؟ آپ دونوں کل ہی آفیشلی "میاں بیوی" بن جائیں گے۔۔تو میں چھوٹی بھابھی بلاسکتا ہوں نا" وہ شریر ہوا تھا۔
علیدان اس کی بات سن کر مسکرایا تھا ۔
اس نے اس کے سر پر پیار سے تھپکی ماری۔
"شریر۔۔۔اس خوشی میں تم کہیں گھومنے جاسکتے ہو،تمہارے امتحان ویسے بھی ختم ہوئے ہیں۔ تم کہیں بھی گھومنے جاسکتے ہو۔" علیدان نے اسے گھومنے کی اجازت دی۔
"تو کیا میں اکیلے اپنے دوستوں کے ساتھ جاسکتا ہوں چھوٹے بھائی؟"وہ خوشی سے دنگ ہوا تھا ۔
"آف کورس۔۔۔ لیکن تمہیں اپنی حفاظت کی گارنٹی دینی ہوگی۔کیونکہ ابھی تم چھوٹے ہو۔"
مدھان تو علیدان کے مسلسل مسکراہٹ کو دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ یہ تو کوئی اور ہی علیدان تھا۔ اس علیدان کے الٹ جو ہر وقت ایک سرد تاثر کے ساتھ کلف لگی ہوئی گردن کے ساتھ رھتا تھا۔ کہ اس سے بات کرتے بھی مدھان کو سو بار سوچنا پڑتا تھا۔۔ اور کہاں یہ علیدان تھا جس کی ھر بات پر مسکراہٹ ہونٹوں سے جدا ہی نہیں ہورہی تھی، یہ عجیب تھا۔ لیکن بھت اچھا بھی۔۔
مدھان نے مسکرا کر آن کو دیکھا اور دل کی گہرائی سے خوشی محسوس کی (چھوٹی بھابھی اس کے لئے واقعی "خوشقسمتی " کا ستارہ ثابت ہوئی تھی)
جب کہ ابھی وہ ان کے خاندان میں آفیشلی داخل بھی نہیں ہوئی تھی پھر بھی اس کے قدم بھت بھاگوان ثابت ہوئے تھے۔
"اب تم جاسکتے ہو" علیدان نے مدھان کو ہٹتے نہ دیکھ کر ٹوکا تھا۔
" اوکے چھوٹی بھابھی اور بھیا ہیو اے گڈ نائیٹ۔ "
آن کچھ نہ بولی بس دنگ بیٹھی اس "چھوٹے پیکیٹ" کو حیرانی سے سن رہی تھی۔
علیدان نے سر خم کیا اور مسکرا کر کار کا دروازہ بند کیا۔۔ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔
°
جیسے ہی گاڑی روڈ پر آئی
آن نے افسردگی سے ایک آہ بھری۔ اور دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا۔
" کیا ہوا؟ آن سب ٹھیک تو ہے؟" علیدان نے فکرمندی سے اسے دیکھا۔ اور ہاتھ اس کے چہرے سے ہٹانے لگا۔
آن نے غصہ سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ دنگ رہ گیا۔۔آن کے تیور ہی کچھ اور تھے۔
آن نے جھٹکے سے ہاتھ نیچے کیے ۔۔مٹھیاں بھینچی۔ اور زور زور سے سانس بھر کر خود کو calm کیا۔
Calm down.. Ann calm down. وہ جیسے خود کو دلاسا دیئے جارہی تھی۔۔ کہ غصہ اس پر سوٹ نہیں کرتا ۔۔اسی لئے کام ڈائون ہونا ہے۔
آن کو اس وقت خود کے غصہ سے ڈر لگا۔
آن نے علیدان کے ہاتھ جھٹکے تھے۔ اور ڈرائیور کو چینخ کر گاڑی روکنے کا کہا۔
" مسٹر کریم گاڑی سائیڈ پر روک دیں۔"
آن کی سانس تک ہموار نہیں تھی۔ وہ بری طرح ہانپ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا ۔۔وہ میلوں بھاگ کر آئی ہو۔۔ اسے گاڑی میں شدید گھٹن ہورہی تھی۔۔ وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہ رہی تھی۔اندر کی گھٹن کو چینخ کر نکالنا چاھتی تھی۔
علیدان کی آنکھوں کے اشارے پر کریم نے گاڑی سائیڈ پر لے جاکر روک دی۔ آن ایک جھٹکے سے دروازہ کھول کر نکلی۔۔ بھاگتے ہوئے روڈ کنارے پر کھڑی ہوگئی اور منہ اوپر اٹھا کر زور زور سے مٹھیاں بھینچ کر چینخنے لگی۔آ۔۔آ۔۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔۔۔آ۔۔
یوں لگ رہا تھا وہ برداشت کرکے تھک گئی ہو۔ خود پر سے کنٹرول کھودیا ہو۔۔
جب چینخ چینخ کر تھک گئی تو۔۔ مڑی اور ڈرائیور کے طرف آئی۔
مسٹر کریم ۔۔مجھے گاڑی ڈرائیو کرنی ہے۔" وہ اب بھی ہانپ رہی تھی۔
کریم نے علیدان کے طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا۔۔
علیدان نے آنکھ کے اشارے سے " ہاں کری تھی۔ "مسٹر کریم آپ جاسکتے ہیں "
آن ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی اور جھٹکے سے گاڑی چلا دی
وہ اتنی تیز گاڑی چلا رہی تھی جیسے آج یا تو مرجائے گی یا ماردے گی۔
علیدان کو اس کے غصہ کا اندازہ ہورہا تھا۔۔ اور اسے یہ بھی پتا تھا کہ وہ کیوں غصہ کررہی ۔ انفیکٹ آن کی زندگی میں ایسی باتیں شامل ہورہی تھی جس کی وہ توقع نہیں کرپارہی تھی۔ وہ جتنا علیدان سے کنارہ کررہی تھی اتنا وہ اس کے جال میں پھنس رہی تھی۔۔اب یہ شادی کا اعلان ہونا۔۔ اس کے لئے ایک بڑا سانحہ تھا جیسے۔۔ وہ ان سب سے رشتہ جوڑنا نہیں چاھتی تھی۔
اور علیدان اس کی یہ کوشش مکمل ناکام بنا گیا تھا۔۔ اب اس کی مرضی کے خلاف اس کے ساتھ اس کے گھر چل رہا تھا۔ یہ بھت زیادہ تھا۔۔۔ وہ مانتی تھی وہ اس کے نکاح میں ہے لیکن۔۔۔ آن کے نزدیک وہ صرف ایک کاغذ کا عام سا ٹکڑا تھا۔۔ جس کو وہ کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں تھی۔۔۔ وہ سمجھ رہی تھی علیدان اسے ایک کھلونا سمجھ کر اپنے مطلب کے لئے جہاں چاھتا ہے استعمال کرتا ہے۔۔
لیکن کیا وہ واقعی درست تھی؟
وہ خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اور آن کو اس کی خاموشی تپا رہی تھی۔۔
" کب سے۔۔ کب تک آپ مجھے اس رات کو لے کر بلیک میل کرتے رہیں گے ؟"
کندھے اچکا کر وہ آرام سے بازو سینے پر باندھ کر گویا ہوا۔۔" کچھ پتا نہیں۔ "
آن کو اس کے اس قدر ٹھنڈے لہجے پر چڑ آئی۔
"میں نے آپ کو کوئی تکلیف نہیں دی پھر ۔۔پھر آپ مجھے اس قدر پریشان کیوں کررہے؟ کیا بگاڑا ہے میں نے ۔۔ بولیئے ۔۔ ؟" وہ چینخ رہی تھی۔ ساتھ ہی آواز بھاری ہوچکی تھی۔۔ پلکیں بھیگ گئی تھیں۔
"آپ کو کس نے کہا تھا آن کہ اتنی لاپرواھ بنیں کہ ہر بار جب جب آپ گرنے لگتی ہیں۔۔ آپ کو تھامنے کے لئے مجھے بڑھنا پڑتا ہے۔"وہ سکون سے بولا تھا۔ " آپ الزام نہیں لگاسکتی مجھ پر۔"
آن اس کی یہ بات سن کر ۔۔ کچھ پل تو تھم گئی ۔۔ ریئر ویو میں سے اسے گھورا ۔۔یہ سچ تھا۔۔جب جب وہ تکلیف میں ہوتی تھی سامنے وہ ہوتا تھا۔
"آپ کی زندگی میرے ہاتھوں میں ہے اب۔۔۔ میں چاہوں تو ابھی کے ابھی گاڑی کہیں بھی کسی کھائی میں گرادوں ۔" آن نے دھمکی دی۔ "اسی لئے وعدہ کریں۔۔۔آئندہ سے میری زندگی میں کوئی انٹرفیئر نہیں کریں گے۔"
" اگر میں ایسا نہ کروں تو۔۔؟" علیدان نے اب بھی سکون سے اسے دیکھا تھا۔
"اگر۔۔ اگر آپ نہیں مانیں گے تو میں گاڑی کھائی میں گرادوں گی۔۔ پھ پھر ہم دونوں ساتھ ہی مریں گے۔ " آن نے دھمکایا
" میرے ساتھ مرنے کی آپ کو اگر۔۔ اتنی ہی خواہش ہے تو ویلکم۔۔۔میں آپ کو بخوشی اجازت دیتا ہوں۔
موت کی اس راہ میں آپ کے ساتھ ہوںگا۔۔اکیلے جانے نہیں دے سکتا۔" علیدان نے سر نفی میں ہلایا۔۔جیسے آن کی بچکانہ بات پر افسوس کیا ہو۔
"آپ۔۔۔؟" آن نے اسے سرخ آنکھوں سے گھورا۔
علیدان تو اس کے تیور دیکھ کر لاجواب ھوا۔
" آپ وہ پہلی عورت ہو آن عصمت جس نے علیدان کو دھمکی دینے کی ہمت کی " مبارک ہو آن عصمت" آپ واقعی میری توجہ مبذول کروانے میں کامیاب ٹہری ہیں۔"
وہ ہولے سے مسکرایا۔۔
آن کو ناگواری نے گھیرا۔
منہ بنا کر بولی۔" مجھے کوئی شوق نہیں چڑھا آپ کی توجہ پانے کا۔۔ نہ آج نہ پہلے۔۔ان فیکٹ۔۔۔ میں تو آپ سے رابطہ بھی نہیں رکھنا چاہتی۔۔ سو مسٹر شاہ ۔۔ آئندہ پلیز۔۔۔۔"
بات اس کے منہ میں رہ گئی ۔
جب علیدان کی تنبیہ بھری آواز آئی۔
"آئیندہ " مسٹر شاہ " کہہ کر مت بلائیے گا۔۔یہ ایسا لگتا ہے جیسے راہ چلتے کتوں کو بلایا جارہا ہو۔"
آن تو دنگ ہوئی یہ سن کر۔۔ کیا یہ شخص پاگل تھا؟
علیدان آگے جھکا اور سیٹوں کے درمیانی خلا کو پاٹ کر آگے آکر بیٹھا۔
آن حیرانی کے ساتھ خوفزدہ بھی ہوئی۔۔کپکپا کر بولی۔ "اب آپ کیا کرنا چاھتے ہیں؟"
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔
"آپ نے بڑے بھائی کو " مسٹر شاہ " کہہ کر بلایا ہے ۔۔کیا آپ سب کو ہی اس کے ٹائٹل سے بلاتی ہیں؟ میں یہ ٹائٹل صرف اور صرف اپنے لئے مخصوص چاھتا ہوں ۔"
" لیکن آپ دونوں کے ہی سر نیم "شاہ ہیں۔ "آن نے بات سنبھالنا چاھی۔
"مختصر بات۔۔۔ جب میں نے منع کیا ہے تو سمجھ جائیں کہ نہیں۔"
وہ واقعی جادوگر تھا۔۔ آن کا ذہن ٹاپک بدل کر چینج کردیا۔
وہ واقعی اب دوسری نہج پر سوچ رہی تھی۔
"تو آج سے میں آپ کو ٹھرکی بڈھا کہتی ہوں" اس کی عمر پر چوٹ کرتی چڑ کر بولی ۔۔آن علیدان کو مشتعل کررہی تھی۔ یہ نہیں جانتی تھی کہ شیر کے کھچار میں بیٹھی ہے ۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ جو الفاظ وہ کہہ چکی ہے وہ واپس نہیں آئیں گے۔
وہ اسے گھورتا رہا ۔۔وہ اسے پہلے بھی کہہ چکا تھا کہ اسے کسی کا بھی اسے " عام لوگوں کی طرح ٹریٹ کرنا" پسند نہیں تھا لیکن آن مستقل اسے عام لوگوں کی طرح لے رہی تھی۔
علیدان نے ہاتھ بڑھا کر اسٹیرنگ وھیل پر رکھے اور اسے ایک سائیڈ پر کیا۔۔ آن نے یکدم گاڑی کے بریک پر پیر رکھ کر گاڑی روک دی۔۔
" یہ یہ آپ کیا کررہے اگر گاڑی لگ جاتی تو۔۔۔؟"
"تو۔۔ آپ کو ڈر کس بات کا؟؟۔۔ ابھی آپ نے ہی خواھش کی تھی میرے ساتھ جینے مرنے کی۔" علیدان نے جیسے یاد دلایا۔
" لیکن میں آپ کے ساتھ ساتھ مرنا جینا نہیں چاھتی ۔ " آن واقعی بھت ضدی تھی۔
علیدان نے ھینڈ بریک کھینچا۔۔ اور اسے غصہ سے گھورا۔
"اب آئیندہ ھمت کریں گیں مجھے اس طرح پکارنے کی ؟ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر سخت لہجے میں بولا۔
"چھوٹے شا۔۔۔۔۔۔"
۔لیکن اس کے الفاظ منہ میں روک لیئے گئے ۔
علیدان نے مکمل اسے اپنے بس میں کرلیا۔۔ وہ تقریبا سیٹ پر پیچھے گر سی گئی تھی۔ اور علیدان اس پر جھکا۔۔ اس کے ہونٹوں کو سزا دے رہا تھا۔
آن نے جدوجھد کی ۔۔ اس کو دونوں ہاتھوں سے پیچھے دھکیلنے کے لئے مکے مارے ۔۔ لیکن علیدان نے سیٹ کو پیچھے دھکیل کر بلکل سیدھا کردیا ۔۔
افففف۔۔ آخر کافی دیر بعد اسے چہرہ پیچھے کرنے کا موقع مل گیا۔۔ جیسے ہی آن نے چہرہ دوسرے طرف کیا علیدان کے ہونٹ جاکر اس کے کان کی لوب کو چھوگئے۔۔
آن کا تو مانو جسم سے جان کیسے نکلتی ہے وہی حالت تھی۔۔ کانپتے ہوئے سرخ چہرے کے ساتھ وہ ناراضگی سے چینخ پڑی۔۔ " آ۔۔آپ سچ میں پاگل ہو۔دور رہیں۔۔ مجھ سے۔۔ ورنہ ۔۔"
"ورنہ کیا۔۔ ہاں۔۔ بولیں آن۔۔ ورنہ کیا کرلیں گیں ۔۔؟" علیدان نے غصہ سے اسے جھنجھوڑا۔
"آپ نے پوچھا تھا میں اس رات کے ہوئے واقعے کو لے کر آپ کو کب تک استعمال کرتا رہا ہوں گا ۔۔آج میں نے سوچا ہے آپ کو رہائی دے دوں "
آن نے یہ سن کر بے یقینی سے اسے دیکھا۔۔
اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر آن کو لگا اس کے کانوں نے سننے میں غلطی کی ہے۔"
"اس رات آپ نے میرا استعمال کیا۔۔ اور آج رات میں کروں گا۔۔۔بات ختم۔"
علیدان کی بات پر آن کے پورے وجود پر مانو چیونٹیاں سی چلنے لگی تھیں۔۔
"مرد اس عورت کو کبھی نہیں ٹھکراتا جو خود اس کی جھولی میں گرتی ہے۔" وہ اس کے کانوں میں گھمبیر لہجے میں بولا۔
آن نے دانت پیسے۔
" آپ آپ۔۔۔" آن کو کچھ نہیں سوجھ رہا تھا وہ اس بلیک میلر کو کیا جواب دے۔۔
"سو آپ مان لیں۔۔ کہ وہ آپ ہی تھی جس نے پہل کی ہے ۔"
علیدان کی نظریں مستقل آن کی آنکھوں اور چہرے کی رنگت اتار چڑھاو ملاحظہ کررہی تھیں۔ اس نے مانا تھا وہ بھت خوبصورت ہے۔۔ حد سے زیادہ۔۔
آن کو یاد نہیں تھا کچھ بھی ۔۔حان حارث اور حنیم کو ایک ساتھ دیکھ کر آن نے اس دن غصہ میں کافی ڈرنک کرلی تھی۔ اسے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا۔۔اور اسی بات کا علیدان فائدہ اٹھا رہا تھا۔۔
"اسی لئے آپ اب تک میری قرض دار ہیں۔"
علیدان نے دلچسپی سے آن کے دھواں دھواں ہوئے چہرے کو دیکھا اور پھر ۔۔ اس کے ہونٹوں پر جھک آیا۔۔ اس بار آن کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی ۔۔ وہ جیسے ساکت تھی جیسے ڈمی ہو۔۔
اس رات کو سوچتے اس نے علیدان کو دونوں ھاتھوں سے پیچھے دھکیلا جو اس کی گردن میں چہرہ چھپائے ہوئے مدھوش سا ہوش بھلائے ہوئے تھا۔۔
آن نے چہرہ ایک طرف کرکے ایک گہری سانس لی۔
"علیدان شاہ یہاں کتنے لوگ آپ جیسے ہونگے جو منصوبہ ساز ہوتے ہیں؟"
"اوھ ھ ھ۔۔" علیدان نے ابرو اٹھا کر اس کے شرم سے سرخ پڑتے چہرے کو دلچسپی سے تکا۔۔ علیدان کی آنکھوں میں ایک جوش و مسرت کا جہان آباد تھا۔۔ لیکن وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتی تو پتا چلتا نا۔۔۔۔ کہ وہ جس شخص کو صرف "ڈرامہ باز " سمجھتی ہے وہ تو اصل میں اس کی محبت کے سمندر میں گوڈوں گوڈوں غرق ہوچکا ہے۔۔ لیکن آن وہ "نظر " کہاں سے لاتی ؟
کیونکہ جو بھی تھا بحرحال ۔۔ یکطرفہ تھا۔۔ علیدان منہ سے اعتراف نہیں کررہا تھا ۔۔ لیکن اس کا عمل اس کی آنکھوں سے اجاگر ھوتی محبت کی تپش ابھی آن محسوس کرنے سے میلوں دوری پر تھی۔۔
"مجھے چھوڑیں۔" اس نے اس کے حصار سے خود کو نکالنے کی پھر سے سعی کی۔ دانت پیسے ۔
"لیکن۔۔۔۔۔آپ اب بھی میری مقروض ہیں۔" یاد دلایا گیا۔
"آپ اتنا تو مجھے مقروض بنا چکے ہیں۔اب اور کتنا بنائیں گے۔یہ آپ پہلے بھی جتا چکے ہیں ، لیکن ۔۔۔ اس رات میں نے آپ سے کوئی ریکوئسٹ نہیں کی تھی۔ سو میں نہیں آپ میرے مقروض ہیں "
علیدان دل کھول کر اس بات پر ھنسا تھا ) یہ لڑکی واقعی بیوقوف نہیں تھی جتنا وہ سمجھا تھا) "ھاھا ھاھا۔" وہ ہنسنے لگا۔ اور آن دنگ سی اسے ھنستے دیکھتی رہی ۔۔ کیا کوئی ہنستے ہوئے اتنا دلفریب بھی لگ سکتا ہے؟ لیکن پھر جلدی اپنی نظر ہٹا لی۔اپنی سوچ پر لعنت بھیجی۔۔ وہ کیوں اس کے سحر میں جکڑی جارہی ہے۔۔
اس کے عارضوں پر حیا سے سرخی گھلی ہوئی تھی۔ اس کے ھنسنے پر اس نے ناراضگی سے اسے گھورا۔
" جلدی سے دور ہوں ،آپ بھت وزنی ہیں۔" وہ سمٹی۔
علیدان نے سیٹ کو کھینچ کر سیدھا کیا۔۔ آخر کار وہ اسے ہرانے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔
وہ جھٹکے سے سیدھی ہوکر بیٹھی۔۔ اور جیسے ہی گردن جھکائی یہ دیکھ کر شرم سے پانی پانی ھوگئی کہ اس کی شرٹ کے دو بٹن کھل چکے تھے۔
آن نے ڈرتے ڈرتے جھجھک کر نظر پھیر کر علیدان کو دیکھا۔ جو مسکراتی آنکھوں سے اس کی ہر حرکت کو نوٹ کررہا تھا۔ ایک شریر سی معنی خیز مسکان تھی جو اس کے لبوں کا احاطہ کیئے ہوئے تھی،
نظر ملتے ہی علیدان نے ایک آنکھ ونک کی تھی۔۔ آن نے گھبرا کر شرٹ کے بٹن لگائے ۔۔ لیکن ھاتھوں کی کپکپاہٹ پر قابو نہ پاسکی۔۔
بٹن لگا کر دل میں سوچا۔
(ڈیم اٹ میں اب کبھی اسے نہیں دیکھوں گی ۔۔ کتنا پاگل کرنے والا شخص ہے ) آن نے گاڑی چلادی۔۔
اپنی رہائش پر پہنچ کر وہ باھر نکلی ،ناراض نظروں سے اسےدیکھ کر رخائی سے کہا۔ ۔۔ thank you for sending me back.. good bye
وہ مڑی اور دروازے کے پاس پہنچی تبھی پیچھے سے علیدان نے پکارا " تو آپ پھر سے مجھے نکال رہی ہیں؟میں نے کہا تھا۔۔۔میں واپس نہیں جاوں گا"۔
وہ مڑی اور غصہ سے گھورا "مسٹر شاہ مجھے امید ہے آپ دوسرے کو مجبور نہیں کریں گے، میرے صبر کی حد بس یہیں تک ہے ۔ پلیززز۔۔۔"
"میرا ڈرائیور تو آپ کیوجہ سےواپس چلا گیا ۔۔اب کیا ایسی حالت میں، میں ڈرائیو کرسکوں گا؟ " وہ جھنجھلا گیا۔
آن نےسوچا کس طرح علیدان نے ڈرنک کی ہوئی اور کس طرح اس نے ڈرائیور کو واپس بھیجا۔۔یہ سوچتے ہی آن کے سنجیدہ چہرے پر سختی آگئی ۔۔
"تو پھر میں ڈرائیور کو کال کرتی ہوں"۔ وہ فون نکالنے لگی۔
"وہ اتنی رات کو کیسے آسکتا ہے۔اور میں گاڑی چلاؤں گا تو یقینا سے حادثہ ہوجائےگا۔"
"یہ اچھا ہی ہوگا اگر۔۔۔۔ "آن نے سنگ دلی سے کہا۔
" ویسے ابھی کچھ دیر پہلے ہی سنگ دل لوگ میرے ساتھ جینا مرنا چاہ رہے تھے" علیدان نے اس پر میٹھا طنز کیا۔۔
وہ اب اسپیچ لیس ھوگئی ۔۔ "تو آپ کی ضد ہے کہ یہاں ٹہریں" گے ؟
علیدان نے بھنویں اچکا کر اسے گھورا ۔۔ اگر آپ چاہتی ہیں۔۔ کہ میں یہاں سے چلا جاوں تو ایسا کوئی نام میرے لئے سوچیں۔۔جو مجھے مطمئین کرسکے۔" وہ مسکرایا۔۔
"وہ مایوسی سے مڑی "میں کیسے ایسا سوچ سکتی ہوں اور مجھے کیا پتا کہ آپ کو کیا کہلوانا پسند ہے ؟"
"تو پھر میں یہی سمجھوں گا آپ مجھے یہاں روک رہی ہیں۔"
" مسٹر شاہ" وہ جلدی سے بول پڑی۔۔میں آپ کو "مسٹر شاہ" بلاتی ہوں۔"
"نو۔۔، آپ مجھے یہ نہیں پکارسکتی ۔۔" علیدان نے منہ بنا کر یہ رجیکٹ کیا۔۔
"میں پہلے بھی بتاچکا ہوں کہ یہ وہ نام ہے جو کسی کے پیچھے پکارا جائے" ۔
"آخر آپ اتنا کیوں ضد کرتے ہیں؟"
جب کچھ سمجھ نہ آیا تو وہ زچ ہوئی ۔
"کیا آپ سمجھتی ہیں۔میں عام لوگوں جیسا ہوں؟ یہ تو آپ کے لئے آنر ہے۔"
لیکن وہ ایسی کوئی عزت نہیں چاھتی تھی۔
علیدان نے ابرو چڑھالی ۔
"ڈیئر، علیدان شاہ ۔۔ ان دو میں سے ایک چوز کریں۔"
وہ تو دنگ ہوئی ۔۔ کیا یہی مسٹر شاہ ہے ؟ اس کی پسند ایسی بچکانہ ہوسکتی؟
وہ فیصلہ نہیں کرپائی کہ کون سا نام پکارے ۔۔دونوں ہی مشکل تھے
"اگر آپ سے نہیں ہوتا تو دروازہ کھولیں۔ آن ۔۔"
" علیدان شاہ " وہ جلدی سے بولی
علیدان مطمئین سا مسکرایا۔
" اب آپ کیوں کھڑی ہیں؟ جائیں۔۔جلدی سے ڈرائیور کو فون کریں۔"
آن نے فوراً سے پیشتر ڈرائیور کو کال ملائی۔۔آدھے گھنٹے بعد ڈرائیور نے آکر گاڑی اسٹارٹ کردی۔۔
جاتے جاتے وہ نصیحت کرنا نہیں بھولا " جلدی سوجائیے گا۔ اپنا خیال رکھئے گا۔۔کل ملیں گے۔"
گاڑی جیسے ہی نظروں سے اوجھل ہوئی وہ اسپیچ لیس کھڑی رہی ۔۔(کون چاھتا ہے کل آپ سے ملنا؟
کبھی نہیں دیکھیں گے۔۔ کبھی نہیں ملیں گے۔۔ نیور۔۔ نیور۔۔ ھھنھھھ ۔۔)
☆☆☆☆☆
اگلے صبح وہ ابھی ناشتہ سے فارغ ہوئی تھی، اور اسکول جانے کے لئے بلکل تیار تھی۔۔جیسے ہی سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی ۔۔ علیدان پہلے ہی سے وہاں کار سے ٹیک لگائے ھاتھوں میں پھولوں کا بکے تھامے، چہرے پر مسکراہٹ سجائے محو انتظار کھڑا تھا۔۔ آن یہ دیکھ کر دنگ ہوئی ۔۔
(اس شخص کی مسکراہٹ واقعی دلفریب ہےلیکن یہ وقت اس کی خوبصورتی سے متاثر ہونے کا نہیں تھا۔)
آن نے ایک لمحہ یہ ضرور سوچا تھا۔۔
اسے بلکل بھی توقع نہیں تھی کہ اتنے سویر وہ پھر سے بلائے ناگہانی کی مانند نازل ہوجائے گا۔۔
آن کو اپنی طرف حیران و پریشان ایک ہی جگہ پر ساکت کھڑا دیکھ کر وہ مسکراکر آگے بڑھا۔ اور بڑھ کر اس کے ہاتھوں میں پھول تھمائے ۔
"یہ میں نے آج آپ کے لئے اپنے باغ سے چنے ہیں۔" دلفریبی سے مسکرایا۔
" آپ ۔۔ آپ یہاں پھر آگئے؟" دانت پیسے۔
سر خم کرکے مسکرایا۔۔
"بلکل ۔۔۔آج ہم نے آفیشلی نکاح کرنا ہے۔۔ یاد نہیں؟ "
"آپ کی واقعی کوئی حد نہیں " آن نے تاسف سے کہا۔۔
اور آگے بڑھ کر کار کا دروازہ کھولا اندر پھول ڈال کر دروازہ اسی انداز میں بند کردیا۔۔
اور ھاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہوگئی۔۔علیدان کو اپنے تحفے کی اس قدر ناقدری پر غصہ تو بھت آیا لیکن یہ وقت غصہ کرنے کا بلکل نہیں تھا نہ ہی وہ اسی مقصد سے آیا تھا۔۔
وہ بس ناسمجھی سے اسے دیکھے گیا جو بلکل سنجیدہ تھی۔۔
"سب سے پہلی بات میں کہنا چاہوں گی مسٹر شاہ۔۔۔۔"
ابھی اس کے الفاظ مکمل بھی نہیں ہوئے تھے کہ علیدان غصہ سے آگے بڑھا اور اسے دونوں بازوں سے گرفت میں لے کر جھٹکے سے قریب کیا۔۔اور اپنے ہونٹوں سے قفل لگادیا۔۔
کافی دیر تک آن کی سانسیں بے ترتیب کرنے کے بعد جھٹکے سے چھوڑا۔۔
"میں نے پہلے بھی وارن کیا تھا کہ یہ "مسٹر شاہ " کا لاحقہ لگانے سے پرھیز کریں۔ ورنہ ۔۔ اس سے بڑھ کر سزا کی مستحق ٹہریں گیں۔
کال می علیدان شاہ ورنہ دوسری سزا کے لئے تیار رہیں۔"
آن تو اس کے تیور دیکھ کر دنگ کھڑی رہ گئی۔۔ بے اختیار تھوک نگلا۔۔
"م م ۔۔۔۔ع علیدان شاہ "۔ وہ لمحہ بھر وہ ڈری تھی۔۔
یہ شخص واقعی اس کی سمجھ سے باہر تھا۔۔
آن کی ہچکچاہٹ دیکھ کر وہ نرمی سے بولا۔ "جاری رکھیں۔۔۔"
آن نے مٹھیاں بھینچ لی اور بے اختیار دو قدم کی دوری بنائی۔۔ جسے علیدان نے خفگی سے دیکھا لیکن کہا کچھ نہیں۔۔
"ع علیدان شاہ۔۔ میں امید کرتی ہوں آپ اپنا رویہ اپنے وقار کے مطابق رکھیں گے۔" آن نے لب بھینچے۔
"جہاں تک کہ ہمارے بیچ کیئے وعدے کی بات ہے تو میں اپنے وقار کے مطابق ہی عمل کرتا آیا ہوں۔۔جبکہ آپ۔۔۔ گذری شب کے کئے وعدے سے ہی پھر گئی۔۔ مجھے جو بات پسند نہیں آپ نے وہی بات پھر سے کی ہے ۔۔بلکہ بار بار کی ہے ۔جب جب آپ اپنے وعدے کے خلاف جائیں گیں۔ تب تب آپ سزا کی حقدار ٹہریں گیں۔ "وہ سپاٹ انداز میں بولا ۔
وہ اس سے بحث نہیں چاھتی تھی بلکہ وہ اس سے دور چلی جانا چاھتی تھی۔
آن نے ایک ٹھنڈی سانس ھوا کے سپرد کی ۔ جیسے خود کو کام کیا۔۔
"میں اپنی بات پھر سے دہراتی ہوں ۔۔۔ کہ ہم دونوں کے بیچ "ملازم اور مالک" والا رشتہ کب کا ختم ہوچکا ہے ۔۔ اب میں نہ آپ کی ملازم ہوں نہ آپ میرے آقا۔۔
سو ہم میں اب کوئی بھی "تعلق" نہیں ہے ۔۔
نہ اب ہم کو ایسا کرنا ہے۔۔
نہ میں ایک امیر آدمی سے دولت کی لالچ میں کوئی رشتہ چاھتی ہوں۔جو مجھے مسائل کے انبار میں کھڑا کردے۔۔۔۔دوسری بات۔۔۔ مجھے آپ سے شادی کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ گذری شب میں نے صرف آپ کے دھمکانے پر آپ کا ساتھ دیا۔۔میں امید کرتی ہوں مسٹر شاہ ۔۔۔نہیں۔۔ علیدان شاہ کہ آپ میرے سے کوئی رابطہ نہیں رکھیں گے نہ ہی میرے پیچھے آئیں گے ۔۔میں اپنی پرانی زندگی واپس چاھتی ہوں"
" مانتا ہوں ۔۔ میں نے آپ سے اپنے مسئلے سے باھر نکلنے میں مدد چاہی تھی۔۔لیکن آپ نے میری فیملی کے سامنے مجھ سے شادی کرنے کا اقرار کیا ہے۔۔ اب مجھے انکار کا کیا مطلب ہوا؟ یہی کہ آپ مجھے ہر ایک کے سامنے زلیل کرنا چاہتی ہو۔؟کچھ سوچا آپ نے ؟ کیا یہ درست فیصلہ ہے؟
میں یہ سب براہ راست آپ سے کہہ رہا ہوں۔۔اب میرے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے کہ آپ کو اپنی بیوی کے رتبے پر فائز کروں۔،دوسری صورت میں ،میں اپنے خاندان کو کیا منہ دکھاوں گا؟ یہ سوچا آپ نے؟"
وہ اسے چپ کھڑا دیکھ کر ہلکا سا خفگی سے بولا تھا۔۔ "میری جگ ہنسائی ہوجائے گی۔اور اس سب کی وجہ آپ ہوگی۔۔ صرف آپ ۔۔۔"
" تو کیا صرف اسی وجہ سے آپ مجھے اپنے ساتھ گھسیٹنا چاھتے ہیں ؟"
" آپ یہ کیوں نہیں سوچتیں کہ یہ آپ کے لئے "آنر" ہے۔۔" وہ مسکرایا۔۔
"مجھے افسوس ہے ۔۔۔ میں اس آنر کی مستحق خود کو نہیں سمجھتی نا ہی آپ کے اس کھیل میں آپ کا ساتھ دے سکتی ہوں۔۔ " آن واقعی سنگدلی کی انتہا پر تھی۔۔ یا شاید زمانے کی سختی اور دھوکوں نے اسے ایسا بننے پر مجبور کیا تھا وہ کسی پر اعتبار نہیں کرسکتی تھی۔ نیور۔۔
آن نے کلائی اٹھا کر وقت دیکھا ۔۔اور ایک نظر دنگ کھڑے ھارے ہوئے علیدان پر ڈالی ۔۔اس کے دل میں کچھ دیر ملال ضرور جاگا تھا۔۔لیکن ۔ اس نے دل کی آواز کو تھپکی دے کر سلادیا۔
"مجھے جو کہنا تھا ،وہ میں کہہ چکیی ہوں۔۔ مجھے اب جانا ہے ۔۔ گڈ بائے۔
یہ کہہ کر وہ بنا اسے دیکھے نکلتی چلی گئی۔
علیدان اس کے پیچھے نہیں گیا۔۔ نہ ہی اسے پکارنے کی ہمت کی بس خاموشی سے ان پھولوں کو دیکھے گیا۔۔
وہ اس پر اپنی ساری فرسٹریشن انڈیل گئی تھی۔
پھر وہ ہلکا سا مسکرایا
" آن عصمت آج بھلی مجھے رد کردیں لیکن ایک وقت ضرور آئے گا جب آپ میرے پاس ہونگی ۔۔
جسٹ ویٹ اینڈ واچ
☆☆☆☆
"اب تو تم کو اسکول سے نجات مل جائے گی ۔کیسا محسوس کرتی ہو؟" آن نے مسکرا کر ثنا حمزہ کو دیکھا۔۔
اوھ۔۔۔ ھاں۔۔۔یاد آیا۔۔۔ اس ماہ کے آخر تک میں اپنے گھر چلی جاوں گی "۔۔ثنا حمزہ کو جیسے یاد آگیا۔
"بھت جلدی نہیں ؟"
آن نے اسے اچھنبے سے دیکھا۔
یہ تو ہے۔۔ لیکن یہ منصوبہ سازی میرے والد محترم کی ہے ، مجھے کہا۔ میری طبعیت ٹھیک نہیں رہتی آکر ان کے بزنس میں مدد کرواوں۔۔ "
دونوں اس وقت کینٹین میں بیٹھی چائے اور برگر سے لطف اندوز ہورہی تھیں۔۔ ارد گرد کافی اسٹوڈنٹس کی چہل پہل تھی۔۔ لیکن ایک بات جو آن نے نوٹ کی وہ تھی اسٹوڈنٹس کا اس کے طرف اشارہ کرکے آپس میں بات کرنا۔۔ یہ سب اسے عجیب لگا لیکن بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔
"اوھ ۔۔ میں تو بھول ہی گئی ۔۔ ہماری ثنا حمزہ ایک بڑے بزنس مین کی اکلوتی بیٹی ہیں"۔۔
آن نے چھیڑا۔
اب تم مجھے چڑا رہی ۔۔ کون سا بزنس یار۔۔ میرے والد کی صرف ایک لیدر پرس بنانے کی کمپنی ہے"
ثنا ھنسی تھی ۔
"حقیقت میں ۔۔ ایمانداری سے بتاوں مجھے ویسے بھی بڑی کمپنیوں میں جاب کا شوق رہا ہے ۔۔اس سے تجربہ وسیع ہوجاتا ہے۔۔ کیا تم کو نہیں؟"
"نو۔۔۔۔ بلکل نہیں اس کے برعکس مجھے یونی کی جاب پسند ہے۔"آن نے اپنا نقطہ ء نظر بیان کردیا۔۔
آن اگر تم ضد نہ کرو تو میں تم کو مشورہ دوں گی کہ ٹیچر کے علاوہ کوئی اور پیشہ ڈھونڈھو"
" لیکن کیوں ؟" آن حیران ہوئی۔۔
" ایکچوئلی۔۔۔" وہ کچھ کہتے ہچکچائی تھی۔
'کیا بات ہے۔۔ ٹھیک سے بتاو ۔۔۔" وہ الجھی۔۔ثنا حمزہ اور ہچکچائے۔۔۔یہ اس کی فطرت نہیں۔۔
" ایکچوئلی یہ جو آج تم اپنی طرف اٹھی ہوئی انگلیاں دیکھ رہی ہو ۔۔اس کی وجہ ہے۔۔"
" کون سی وجہ ۔۔؟" وہ الجھن سے اسے دیکھنے لگی۔۔
" اس یونی میں بطور استاد تمہاری قابلیت چھین لی گئی ہے۔"
ثنا نے ھچکچا کر جملہ پورا کیا۔۔
کس کے ذریعے؟ "وہ حیران ہی تو ہوئی تھی۔
"حنیم حیدر کے ساتھ تمہاری جگہ اسے دی گئی ہے ۔
ناموں کی فہرست تو پہلے ہی سے تیار کرلی گئی تھی۔۔لیکن دو جگہیں بدلی گئی ہیں۔ تمہاری جگہ حنیم کو دی گئی ہے ۔۔۔لڑکی تم بھت آسانی سے اس بڈھے راکاس اور حان حارث کے ہاتھوں مات کھاگئی ہو۔"
آن نے اتنا سننا تھا کہ اٹھ کر پرنسپل کی آفیس کے جانب بڑھی۔۔
ثنا نے بیچ سے ہی روک لیا۔
" یہ تم کہاں جارہی ہو؟" وہ دل ہی دل میں خوفزدہ ہوئی تھی۔۔
" پرنسپل کے پاس۔ " وہ سکون سے بولی تھی۔
"کام ڈائون ۔۔کام ڈائون آن ۔۔۔اس بڈھے راکاس نے تمہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا ہے۔۔تاکہ تم غصہ میں کچھ ایسا ردعمل دکھاو جس کو وجہ بنا کر وہ آسانی سے تمہیں نکال سکے۔۔"
ثنا نے اسے پرسکون کرنے کی کوشش کی وہ سمجھی ۔۔اب جھگڑا نہ شروع ھوجائے۔
آن لب بھینچ کر مسکرادی۔۔
"پریشان نہ ہو۔۔ میں آج جتنی کام ہوں اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔۔ لڑنا جھگڑنا میرا انداز نہیں ہے"
اسے جواب دے کر پرنسپل آفیس کے جانب بڑھ گئی۔
پرنسپل کی آفیس میں داخل ہوئی تو نہ وہ مشتعل ہوئی تھی، نہ ہی اس کا دل رویا تھا۔۔صرف سکون کے ساتھ پرنسپل کو دیکھے گئی۔
پرنسل نے اسے دیکھا اور عینک اتار کر ٹیبل پر رکھی۔
" میں جانتا تھا جلد یا بدیر تم مجھے ڈھونڈتی یہاں ضرور آو گی"
آن نے بازو سینے پر باندھے۔
"میں جاننا چاھتی ہوں مجھے ری پلیس کیوں گیا ہے؟"
"ری پلیس؟۔۔ تمہارے نام والی لسٹ تو ابھی نہیں لگی ہے۔۔ابھی اس پر غور و فکر کیا جارہا ہے۔۔سو تم یہ مت سمجھو کہ تمہیں ریپلیس کیا گیا ہے"
آن کے لب سل سے گئے۔ بس مسکرا کر سر ھلا کر رہ گئی۔۔اس نے جیسی توقع کی تھی۔۔ایسا کچھ بھی نہ تھا وہ ابھی تک اناڑی تھی۔۔لوگوں کے چہرے پڑھنے سے قاصر۔۔ پرنسپل اسے آسانی سے اپنی باتوں میں لے آیا تھا اور آن نے یقین کرلیا۔
" ایک وعدہ۔۔۔۔ ھااااہ۔۔ یقینا اس وقت بلکل درست تھا۔ آفٹر آل میرے خاندان کا واحد وارث تم سے وقتی طور پر متاثر ضرور ہوگیا تھا۔۔۔میں اسے کس طرح غلط روش پر چلنے دے سکتا تھا؟۔۔تبھی میں نے اپنی پوری صلاحیتیں اس پوزیشن پر رہنے پر صرف کردیں ۔۔اور ٹھیک میری منشا کے مطابق وہ تم سے دور ہوگیا ہے۔۔اب وہ تمہیں پسند نہیں کرتا۔اب اس کی توجہ کسی دوسری عورت پر ہے۔۔ اور مجھے تم سے کوئی " خطرہ" لاحق نہیں۔۔تو پھر میں اپنے وعدے کی پاسداری بھی کیوں کروں؟" پرنسپل نے آن کے طنزیہ مسکراتے چہرے کو دیکھا۔۔ اس کی طنزیہ مسکراہٹ اسے اندر ہی اندر غصہ دلارہی تھی۔۔لیکن وہ ضبط کررہا تھا۔۔یہ وقت غصہ نکالنے کا نہیں تھا۔۔
" مجھے تم کو یہ بتانے میں عار نہیں کہ تم ایک اسٹوڈنٹ کی حیثیت سے حنیم سے زیادہ قابل ہو ۔۔لیکن تمہاری طرح حنیم حیدر کو بھی اپنے بل بوتے پر یہاں رہنے کا حق حاصل ہے۔۔"
آن نے حنیم کے نام پر ایسے منہ بنالیا جیسے کڑوا بادام منہ میں آگیا ہو۔۔ اس کی آنکھیں البتہ کسی بھی تاثر سے پاک تھیں۔نہ وہ غصہ ہوئی نا وہ غصہ کرنے کے ارادے سے آئی تھی۔۔وہ خاموشی سے نکلتی چلی گئی۔۔
پیچھے پرنسپل اس کا پرسکون ردعمل دیکھ کر دنگ تھا۔۔۔وہ بلکل بھی آن عصمت سے اس قدر پرسکون ردعمل کی توقع نہیں کررہا تھا۔۔وہ سمجھا تھا ۔ آن چینخے چلائے گی۔۔غصہ میں کچھ الٹا سیدھا کہے گی۔۔تو اسے بے عزت کرکے نکالنے کی اچھی وجہ ان کو مل جائے گی۔۔ لیکن۔۔۔ سب اس کی سوچ کے بلکل الٹ ہوا۔۔
کچھ سیکنڈ بعد آن نے دروازے سے جھانکا۔۔ اور اپنی ازلی شائستگی سے بولی۔
" کیوںکہ محترم پرنسپل صاحب نے معاہدہ کو خود ہی توڑا ہے تو مندرجہ ذیل باتوں پر مجھے الزام نہیں دے سکتے۔۔لیکن ۔۔۔ پرنسپل صاحب یہ نہیں جان سکتےکہ " حان حارث اب بھی میرے دل میں موجود ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟بحرحال۔۔۔۔ اب جو ہوگا اس پر آپ مجھے مورد الزام نہیں ٹہرا سکیں گیں۔۔" وہ مسکرائی۔۔اور دروازہ بند کرگئی
پیچھے پرنسپل تقی غصہ سے مٹھیاں بھینچ گیا۔۔
" اس لعنتی لڑکی کی اتنی ہمت کہ دھمکی دے گئی"۔۔
آفیس سے باھر نکلتے ہی آن نے گھری سانس لی ۔۔ ثنا جو اس کے انتظار میں باھر کھڑی تھی۔ اسےدیکھتے ہی اس کے قریب آئی ۔۔
"کیا ہوا آن؟ "
"کچھ نہیں ہوا۔۔ سب ٹھیک ہے ۔۔ تم پریشان مت ہو۔"
وہ ہلکا سا مسکرائی ۔۔جیسے اس کو نہیں خود کو دلاسا دے رہی ہو ۔
"لیکن مجھے تم ٹھیک نہیں لگتی آن۔" ثنا نے اس کے پھیکے پڑتے چہرے کو دیکھ کرفکرمندی سے کہا ۔۔
آن نے خودکو کمپوز کیا۔۔
"میں ٹھیک ہوں۔۔ بس تنہائی چاھتی ہوں۔۔ مجھے گھر جانا چاھئے۔۔ امید ہے تم برا نہیں مناو گی رسانیت سے کہتے۔۔ بنا اس کے جواب کا انتظار کیئےوہ اسکول سے نکلتی چلی گئی ۔۔
پیچھے ثنا حمزہ نے غصہ سے اپنا فون اٹھا کر حان کا نمبر ڈائل کیا اس کا ارادہ اس کی اچھے سے طبعیت صاف کرنے کا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی ماں آن کی دشمن ہورہی تھی۔۔
☆☆☆☆
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے گھر کے راستے پر چلی جارہی تھی۔۔ ذہن مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ھوا تھا۔۔
اس کی کوئی فیملی ہی نہیں تھی تو وہ کس بیس پر بحث کرتی؟
یہ تکلیف اس کے لئے ھضم کرنا بھت مشکل تھی۔۔لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔۔
بلڈنگ کے پاس پہنچتے ہی اسکے سامنے جانی پہچانی سی گاڑی آگئی۔۔ دروازہ کھول کر علیدان نے باھر قدم نکالا ۔۔ وہ اسے ایک ھفتے بعد دیکھ رہی تھی ۔۔ جس کے ایک ھاتھ میں پھولوں کا بکے تھا اور چہرے پر وہی ازلی دلفریب مسکراہٹ تھی۔۔ آن نے نظر چرالی ۔۔ اس کی مسکراہٹ آن کادل کھینچتی تھی لیکن۔۔
وہ قریب آیا اور پھولوں کا بکے بڑھایا۔۔
ھیلو کیسی ہیں۔؟ یہ پھول میں آپ کے لئے لایا ہوں۔" مسکرا کر اس کے تاثرات جانچے۔۔
وہ مسکرا بھی نہیں سکی تھی ۔۔ بس خاموشی سے پھول تھام لئے ۔
"تھینک یو "
" کیا ہوا ہے ؟ آپ آج اتنی افسردہ کیوں لگ رہی ہیں؟ورنہ آپ اس طرح سے تو جواب نہیں دیتی۔۔ میرے خیال سے آپ ان لوگوں میں سے ہیں۔ جو کبھی غلط نہیں جاتے۔"
آن نے بھت کوشش کی کہ اپنے جذبات پر قابو رکھے ۔۔ سو بمشکل مسکرا دی۔ لیکن کہا کچھ بھی نہیں۔۔ بس لب بھینچے کھڑی رہی۔۔
علیدان تودنگ ہوا ۔۔ ابرو کھینچ کر اسے حیرانی سے دیکھا۔
"کیا ہوا ہے آن۔۔ کچھ بتاتی کیوں نہیں۔۔ آپ کے دماغ میں کیا چل رہاہے ؟"
وہ حیران ہی تو تھا۔۔ کہاں تابڑ توڑ جواب دینے والی ۔۔کہاں یہ خاموش۔۔ کھڑی لڑکی ۔۔ جو شاید برداشت کی آخری سرحدوں ہر کھڑی تھی۔۔
آن حیران ہوئی یہ پہلا شخص تھا جو اس کے چہرے کےتاثرات سے یہ بتاسکتا تھا کہ آن کے ذہن میں کیا چل رہاہے ؟
وہ جتنا خود کو چھپاتی تھی اتنا علیدان پر ظاہر ہوتی جارہی تھی ۔۔اس میں اور ایک عام آدمی میں فرق نہیں رہا تھا۔۔ اسے یاد تھا
۔اس کی ماں کہتی تھی۔
" اس دنیا کی مضبوط میں مضبوط چیز جو ہے وہ فولاد نہیں ایک انسان کا دل ہوتاہے۔جتنا تمہارا دل مضبوط ہوگا تمہاری دنیا بھی اتنی ہی مضبوط ھوگی۔
اس کی ماں یہ بھی کہتی تھی۔
" لوگوں کو اتنی اجازت مت دو کہ وہ تمہاری کمزوریاں آسانی سے جان لیں۔"
اس کی سوچوں کو بریک تب لگی جب آن کی سیل فون کی بیل بجنے لگی۔۔ آن نے سیل اٹھا کر دیکھا۔ حان حارث کا فون تھا۔ آن نے غصہ میں کال کاٹ دی اور فون واپس پرس میں پھینکا۔۔
علیدان اس کے چہرے کو مسلسل دیکھے جارہا تھا۔
ابرو اٹھاکر اس کی حرکت نوٹ کی۔۔
"آپ فون کا جواب کیوں نہیں دے رہی آن؟"
"میں دینا نہیں چاھتی۔" آن نے آھستگی سے کہا۔
اس نے گہری سانس بھری۔۔
" پھولوں کے لئے شکریہ۔۔ مجھے اب چلنا ہے"
یہ کہہ کر مڑی ۔۔لیکن علیدان نے بازو سے پکڑ کر روکا۔
"کیا ہوا ہے ؟ کون ہے وہ جو آپ کو پریشان کررہا ؟ "
علیدان کے لہجے میں حق جتانے کا احساس واضع محسوس کرکے آن چونک کر مڑی۔۔ اور اسے دیکھا۔۔
جو بڑے حق سے دیکھ رہا تھا۔۔
آن کی آنکھوں میں نمی سی چھلک رہی تھی ۔ ضبط کی انتہا کو پہنچی ہوئی لڑکی ۔۔ اب بھی بنا کچھ کہے بس نظر جھکا کر رہ گئی ۔۔
علیدان نے اسے کے بازو سے تھاما۔۔
"بولیں۔۔۔ بولیں آن ۔۔ بولیں گیں نہیں تو کسی کو کیسے پتا چلے گا ۔۔؟"
آن نے اپنی بڑی اورخوبصورت
آنکھیں اٹھائیں۔۔
"کیا میں ابھی آپ کے گلے لگ سکتی ہوں ؟ "
علیدان نے سر ہلایا۔۔اور بازو پھیلا دیئے ۔
آن بڑھی اور ایک بازو سے اس کی کمر کے گرد حصار ڈالا دوسرے ھاتھ میں بکے تھامے اس کے بازو کو تھام کر اپنا چہرہ اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔۔
علیدان کے بازو سے لگ کر آن کو ایک عجیب سا تحفظ محسوس ہوا۔۔ ایک سکون کی لہر نے اس کے دل کے دروازے پر بنا دستک دینے کی زحمت کئے دھیرے سے مسکراتی ہوئی بڑے حق سے داخل ہوکر اندر بسیرا کرگئی۔۔ ۔۔آن نے سوچا اگر وہ اس طرح اکیلی رہی تو پاگل ہوجائے گی ۔۔
وہ اس کے بازو میں خود کو پرسکون محسوس کرنے لگی اس کے بازو میں تحفظ کی گرمائش تھی۔۔ ایک اپنائیت کا احساس تھا۔۔
پھر آن نے آھستہ سے عجیب فرمائش کی ۔ علیدان کیا آپ میرےسر کو چھو کر مجھے بتا سکتے کہ میں ٹھیک ہوں ؟"
علیدان نے سر جھکا کر اس کے کندھے سے سر ٹکائے ایک بازو سے اس کی کمر کو جکڑے کھڑی آن کو دیکھا۔۔وہ اس کی تکلیف کو اپنے دل میں محسوس کرسکتا تھا۔۔ بھلی وہ منہ سے نہ کہتی ۔۔لیکن اس کے چہرے کے تاثرات بولتے تھے۔۔اس کے دل کی عکاس کرتے تھے۔
علیدان نے ایک ھاتھ اس کی کمر کے گرد رکھا، اور دوسرے سےاس کے بالوں کو نرمی سے سہلانے لگا۔۔ جیسے اسے رلیکس کررہا ہو۔۔
"میں آپ کے پاس ہوں۔۔ آپ کے ساتھ ہوں۔۔ آپتنہا نہیں ہیں ۔ " محبت سے کہا گیا۔
آن کا دل سکڑا اور سمٹا۔۔ پھر اسے اپنے آنسو پر اختیار نہ رھا۔۔ آنسو بری طرح اس کی آنکھوں کے سارے بند توڑ گئے۔۔ وہ اس کے کندھے سے سر ٹکائے خاموشی سے روئے گئی۔۔
اگر اس کی ماں زندہ ہوتی تو اسے تسلی دیتی۔۔ اور اگر اس کا باپ ایک عام شخصیت ھوتا تو اس سے پیار کرتا اور اس وقت وہ اسے ہر بات بتادیتی بنا کسی ڈر کے۔۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ کہ باپ ھوتے ہوئے بھی وہ اس سایہ سے محروم کردی گئی تھی۔۔
لیکن اٹز اوکے۔۔۔ آن نے اپنا منہ پھیر کر آنسو بے دردی سے صاف کئے ۔۔
وہ نہیں چاھتی تھی کوئی اس کے آنسو دیکھ کر اسے کمزور سمجھے۔۔
لیکن علیدان وہ شخص تھا جس کے سامنے وہ کنٹرول نہ کرسکی تھی۔۔
فون پھر سے بجا۔۔
لیکن آن نے نظرانداز کردیا۔۔
علیدان نے ابرو اچکا کر اسے دیکھا۔
" کیا حان حارث آپ کو پریشان کررہا ہے؟"
"کیا آپ جانتے ہیں۔۔؟" اسی کے کندھے سےسر ٹکائے وہ کسی معمول کی طرح آھستگی سے بولنا شروع ہوئی ۔" میں نے انتھک محنت کی ہے ۔۔ ہر ایک کا کہنا تھا میں ذہین ہوں۔قابل ہوں۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔ فقط میں جانتی تھی۔۔۔ کہ یہ قابلیت کہاں سے آتی ہے؟۔۔ ۔۔میں نے اس کے لئے پاگلوں کیطرح محنت کی ہے۔۔" وہ خاموش ہوئی۔۔
علیدان چپ چپ اسے سنتا گیا۔۔ جیسے اس کا درد محسوس کررہا ہو۔
"جب لوگ کھیل کود کررہے ہوتے۔۔ میں کام کرتی تھی۔"
آن نے گھری سانس بھری ۔
"جب لوگ آرام۔کررہے ہوتے۔ میں۔۔۔۔ میں سیکھ رہی ہوتی تھی۔۔کس وجہ سے میں اتنی سخت محنت کرتی تھی؟ صرف اسی لئے کہ مجھے امید تھی ایک دن میں اپنے خواب پالوں گی۔۔لیکن آج ۔۔۔۔ آج ان لوگوں نے میرے سارے خواب اپنے پیروں تلے روند دیئے۔" آخری جملے کے ساتھ وہ سسک پڑی۔
علیدان نے اسے زور سے بھینچا۔۔ جیسے اپنائیت اور محبت کا احساس اور شدت سے دینا چاھتا ہو۔
" کون تھے؟ کون تھے وہ؟" اس نے اپنے اندر کے غصہ پر بمشکل قابو پایا۔۔ کون تھے وہ لوگ جس نے اس کی آن کو پریشان کیا تھا؟
"پرنسپل ۔۔۔پرنسپل نے اس عورت کو میری جگہ پر رکھا ہے۔۔ جس عورت نے پہلے مجھ سے حان حارث چھین لیا تھا ۔"
علیدان یہ سن کر حیران ھوگیا کہ جس شخص نے اس کی آن کو پریشان کرنے کی ہمت کی وہ کوئی اور نہیں بلکہ پرنسپل بلال تقی تھا۔۔
"اگر مجھے صرف اسی لئے ری پلیس کیا جاتا کہ میرے گریڈز کم ہوتے یا مجھ میں قابلیت ناکافی ہوتی تو۔۔۔ میں ۔۔ میں مان لیتی ۔۔۔ م م مگر۔۔۔ موجودہ صورتحال میں ۔۔ مجھے یہ قبول کرنا بب۔۔ بھت ۔۔۔ مشکل لگتا ہے۔۔ کیوں۔۔۔؟ ۔۔کیوں امیر اور طاقت کے نشے میں چور لوگ دوسروں کے خواب اپنے پیروں تلے روند لیتے ہیں؟"
بات پوری ہوتے ہی جیسے وہ ھوش میں آئی ۔۔اسے لگا وہ کتنی ہی دیر علیدان کے کندھے سے لگی اپنے دکھڑے سنائے جارہی ہے۔۔ وہ جلدی سے اس کی آغوش کے گرم حصار سے دور ھوئی۔۔ دو قدم کی دوری بنا کر کھڑی ھوگئی۔۔
علیدان نے اس کی یہ حرکت دیکھ کر حیرانی سے پوچھا۔
" کیا ہوا؟"
آن نے ایک گہری سانس لی۔۔ " میں یہ بھول گئی تھی علیدان شاہ ۔۔کہ آپ بھی ایک سرمایہ دار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔۔ اگر آپ کبھی کبھار اس پرنسپل سے ملتے ہیں تو مطلب آپ کے ان سے تعلقات بھت اچھے ہونگے۔۔"
آن نے سر ہلایا۔۔۔" میں نے آپ کو اس کے بارے میں بتایا ہے ۔۔ تو کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ میں مضحکہ خیز چیز ہوں؟"
علیدان نے ابرو چڑھا کر اسے گھورا
" بس۔۔۔آپ کہہ چکی ۔۔۔؟ کیا آپ دریا پار کرنے سے پہلے ہی پل کو برباد کردینا چاھتی ہیں؟ جو بھی سب سے پہلے آپ کو تسلی دے گا آپ اس کو ہی شک کی نگاہ سے دیکھیں گیں۔؟"
"سوری۔۔۔یہ میرا مسئلہ ہے ۔۔ میں آپ کے لئے ایسا نہیں سمجھتی ۔۔ میں صرف۔۔۔ میں تو۔۔ صرف۔"آن نے لمحہ بھر سانس لی۔۔ " بھول جائیں۔۔۔ بھول جائیں۔۔۔ میں ابھی کسی موڈ میں نہیں۔۔ میں بات نہیں کرسکتی۔۔۔ علیدان شاہ۔۔۔۔آپ۔۔۔ آپ ۔۔ جاسکتے ہیں۔۔ وہ مڑ کر اپنے گھر جانے لگی۔
علیدان نے بڑھ کر پھر سے گلے لگالیا۔۔
"آن۔۔ میں ھمیشہ سمجھتا تھا ۔۔ آپ بھت ذہین ہیں۔۔ لیکن آج مجھے لگا۔۔ کہ نہیں ۔۔ آپ نہیں ہیں۔" وہ ہولے سے بولا۔
"یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے موجود موقع سے فائدہ اٹھانا بھی نہیں جانتیں۔ "
آن نے ماتھے پر بل ڈال کر اسے ناسمجھی سے دیکھا۔(کیا مطلب؟ )
علیدان شاہ اسے بغور تکنے لگا۔۔ (اگر اس کی جگہ کوئی عام عورت ہوتی تو اس وقت اس سے مدد مانگ رہی ہوتی۔۔)
لیکن وہ اس سے اب بھی ایسے برتاو کررہی تھی جیسے وہ بھی اس کے دشمنوں کے ساتھ ہو۔
وہ اس کے ذہن کو اندر سے جاننا چاھتا تھا کہ اس میں کیا ہے؟
" میرے خیال سے آپ پڑھائی کو لے کر اعصابی ہوچکی ہیں۔۔یہ کیوں نہیں سوچا ۔۔کہ میں آپ کی مدد بھی تو کرسکتا ہوں؟ یہ مت بھولیں۔۔ کہ میں اب بھی بطور قرض "احسان"کرسکتا ہوں"
آن کو ایسا لگا جیسے یہ الفاظ بھت دلکش ہوں ۔۔
جب کہ وہ اپنے دل میں یہ سمجھ رہی تھی کہ ان دونوں کے مابین سارے رشتے ختم ہوچکے ہیں۔
Then you love me??
آن کا یہ پوچھنا کہ کیا آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں؟
علیدان کو مسرت سے ہمکنار کرگیا تھا۔۔
" میں آپ کو پسند ضرور کرتا ہوں۔لیکن ۔۔مجھے اپنے احساسات محبت کے لئے ابھی نامکمل سے لگتے ہیں۔؟"
ایک گھری سانس بھر کر سرگوشی کی۔
" مجھے ابھی سخت محنت کی ضرورت ہے ۔"
"آپ مجھ سے شادی کے خواھشمند ہیں بنا کسی محبت کے۔" آن نے جاننا چاھا۔
" اگر آپ کی جگہ کوئی دوسری عورت ہوتی تو نیچرلی یہ ناممکن ھوتا ۔"
وہ اس کے قریب جھکا۔ گھمبیر لہجے میں اس کے کانوں میں فسوں بکھیرنے لگا۔
"جب کہ ۔۔میں یہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ ۔۔۔ میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔
میرے لئے آپ کا وجود "میڈیسنل خوشبو کی طرح ہے۔ فرحت بخش "
اس کا لہجہ مدھوش ہونے لگا۔۔
" لیکن میں تو میڈسنل خوشبو نہیں لگاتی؟" آن معصومیت سے بولی۔۔ وہ اس کی " میڈیسنل خوشبو " کی معنی یہی اخذ کرپائی۔
جب کہ دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔جیسے پسلیاں توڑ کر ابھی باھر نکل آئے گا۔
یہ شخص بلاشبہ ساحر تھا۔۔ سحر پھونکتا تھا۔۔ وہ نہ چاھتے بھی ان لمحوں کے حصار میں قید ہورہی تھی۔
" بھار کی خوشبو کی مانند ہیں آپ۔"
علیدان نے اس کی چہرے کو قریب سے چھونا چاہا۔۔ جس پر آن نے بھوکلا کر چہرہ دوسری طرف کردیا۔۔
اگر وہ اس کو نہ جانتی ہوتی تو اس کی ایسی گفتگو پر وہ پولیس کو کال کرتی۔۔ لیکن۔۔ یہاں وہ بے بس ھوئی تھی۔
آن نے خود کو بمشکل سنبھالا۔۔لیکن بولی تو آواز میں لرزش صاف دکھتی تھی۔
" علیدان میں نے اپنی آنکھوں سے اپنی ماں کو اسٹرگل کرتے دیکھا ہے۔ان کی زندگی کو سامنے رکھتے میں اپنی فیلنگس اس شخص پر ضائع نہیں کرسکتی جو مجھ سے محبت نہ کرتا ہو۔ میں امید کرتی ہوں آپ خود کو واپس موڑ لیں گے۔میں اپنے لفظوں سے آپ کا دل نہیں دکھانا چاھتی۔"
علیدان نے لب بھینچے۔۔" یہ آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ آپ میری طرف بڑھیں گیں۔ تو آپ کو دکھ ہی ملے گا۔۔۔۔ہوسکتا ہے۔۔۔۔ میں ہی زندگی کی آخری سانس تک آپ کے قابل ہوں۔" گھمبیر سا لہجہ۔۔اپنائیت اور محبت سے بھرا ہوا۔۔ وہ دنگ ہوئی۔پھر سنبھل کر۔۔ زخمی سا مسکرائی۔
" لیکن میں آپ کے قابل نہیں ہوں" وہ بے بس ہوئی۔
" کچھ بھی تو غیر مشروط نہیں ہوتا۔" علیدان اس کے انکار کو خاطر میں نہیں لایا۔
لیکن آن اب کے کچھ نہ بولی۔۔ بس خاموشی سے اسے دیکھے گئی۔۔ پھر گھری سانس لے کر۔۔ تھوڑی دوری بنائی۔ اور بیگ سے ایک لپیٹا ہوا گفٹ نکال کر ٹیبل پر رکھا۔
" یہ کیا ہے؟" وہ دنگ ہوا تھا۔
" اپنا تشکر ظاہر کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے۔۔ یہ گفٹ میں نے کل آپ کے لئے خریدا تھا۔ جانتی ہوں۔۔ یہ آپ کے قابل نہیں ہے۔۔ لیکن میں نے پھر بھی خریدلیا۔۔صرف اپنی دل کی تسلی کے لئے۔۔
اگر آپ کو پسند نہ آئے تو جاتے ہوئے اسے کہیں پھینک دیجئے گا۔۔ جہاں سے میں نہ دیکھ سکوں " وہ آھستہ آھستہ نظر جھکائے بولتی گئی۔
یہ سن کر علیدان نے ابرو اٹھائیں۔۔
"گفٹ"؟
یہ اس کی زندگی میں پہلا موقع تھا کہ ایک عورت کی طرف سے اسے گفٹ مل رہا تھا۔حیرت کی بات ہی تھی علیدان جیسے سرمایہ دار کے لئے۔
علیدان پیارا سا مسکرایا۔۔ اور ہاتھ بڑھا کر چاھا کہ گفٹ کھول کر دیکھے۔
مگر آن نے اسے کے یاتھ پر ہاتھ رکھ کر روکا۔ علیدان نے اس کا سفید مومی انگلیوں والا بنا کسی آرائش سے پاک ھاتھ دیکھا ۔۔پھر آن کو۔۔
آن کو شرم محسوس ہوئی اور اپنی بے اختیاری پر جی بھر کر خود کو لعن طعن کی ۔جلدی سے ہاتھ اٹھالیا۔۔
"آپ یہ یہاں نہیں کھول سکتے۔ پلیز۔۔۔۔"
علیدان نے آنکھیں سیکڑ کر اسے گھورا۔
" کیا پراسراریت ہے؟"
" میں صرف اسی لئے روک رہی ہوں کہ اس کمتر تحفے کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں اگر ناپسندیدگی نظر آئی تو مجھے سخت دکھ ہوگا۔"
علیدان نے پھر بھی باکس اٹھا کر کھولا ۔۔جس میں ایک اسٹیل کا بلیو پین چمک رہا تھا۔ علیدان نے پین اٹھا کر دیکھا۔ جس پر اس کا نام " کندہ" کیا گیا تھا۔وہ حیران ہوا۔
" یہ نام آپ نے کندہ کیا ہے؟"
آن شرمسار ہوئی۔۔
" نہیں یہ نام میں نے کاریگر سے کہہ کر کندہ کروایا ہے ۔"
علیدان نے شوق سے پین اٹھا کر بغور دیکھا جہاں لکھا تھا ۔
" شکریہ علیدان شاہ "
علیدان مسکرایا۔ اور پین اٹھا کر سامنے کی جیب میں اٹکالیا۔
"کیسا لگ رہا ہے۔؟" علیدان نے توصیف چاہی۔
" بھت پیارا لگ رہا ۔۔لیکن آپ کے ٹیسٹ کا نہیں ۔"آن شرمندہ ہوئی تھی۔
"نہیں۔۔ یہ بھت بھت پیارا ہے۔۔ میں اس کو مکمل استعمال کروں گا۔"
آن کو اندر ہی اندر خوشی ہوئی اس کا مطلب اس نے آن کا دیا حقیر سا تحفہ قبول کرلیا۔
لیکن وہ نہیں جانتی تھی۔۔ جس تحفے کو وہ حقیر جان کر شرمسار تھی۔۔ اس شخص کے لئے وہ تحفا مہنگے سے مہنگے تحفوں کے مقابل کچھ بھی نہ تھا۔
علیدان کرسی پر بیٹھا یہ سوچ کر پیارا سا مسکرایا۔۔پین اٹھا کر سامنے رکھا۔۔
☆☆☆☆☆
دوسرے دن وعدے کے مطابق آن "شاہ انڈسٹری "میں موجود تھی۔کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ علیدان شاہ کے سپورٹ پر آئی ہے ۔ آن نے پہلے ہی علیدان سے کہدیا تھا کہ کمپنی میں وہ ایسا ظاہر کریں گے جیسے ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔
وہ ایک نئی ایمپلائی کے طور پر آئی تھی۔اپنے کام میں مصروف ۔
اس کا کام بزنس ڈپارٹمنٹ میں نئی پروڈکٹس کے بارے میں اسٹاف کو سمجھانا تھا۔
کمپنی نے ٹوٹل چار لیکچرار بھرتی کیئے تھے۔
ہر ایک صرف ایک پروڈکٹ کو سمجھانے کا زمیوار تھا۔
دوسرے ھفتے تک اس نے اپنا ھوم ورک اچھے سے کرلیا تھا۔ خرید و فروخت کی خصوصیات اچھے سے سیکھ لیں تھیں ۔
دن کو اسے علیدان نے کال کی۔
"کیا آپ کام سے فری ہوگئی؟"
آن نے احتیاط سے "ٹی روم " کے طرف نظر کی اور سرگوشی میں جواب دیا۔
"ابھی تک تو نہیں۔"
" کیوں؟ ابھی تک کام ختم نہیں ھوا؟" علیدان نے ناگواری سے پوچھا۔
"ابھی ہر ایک اپنا کام کررہا ہے۔" آن نے دھیمے سے کہا۔
"بس۔۔ اب آپ کو ضرورت نہیں ہے۔۔ اوپر آجائیں۔" علیدان نے حکم دیا۔
"ایسے کیسے؟" آن دنگ ہوئی۔ "کوئی دیکھ لے گا۔"
"مجھے بھوک لگی ہے۔آپ نے یقینا اپنا وعدہ پورا کیا ہوگا۔ " وجہ بتائی گئی۔
آن مسکرائی۔
"ایسا ہے کہ میں نے لنچ باکس فرنٹ ڈیسک پر رکھا ہوا۔ آپ اپنے سیکرٹری کو بھیج کر منگوالیں۔"مشورہ دیا۔
"نہیں۔وہ اس کام کے لئے مخصوص نہیں"
"تو۔۔ پھر؟ میں یہاں سے کہیں نہیں جاسکتی۔"
آن نے مسئلہ بتایا۔
"ہمممم۔۔۔۔ تو پھر جب کام مکمل کرلیں۔ تب آجانا۔۔ پینٹ ھاوس میں تنہا ہوں گا۔ کوئی نہیں آتا۔ بے فکر رہیں۔"
" لیکن ۔۔۔"آن منمنائی۔۔ "ہمارے ٹیم لیڈر نے کہا ہے کہ ہم چاروں ساتھ لنچ کریں گے۔ اب میں انہیں کیا جواب دوں؟ کہ پہلے دن ہی میں ان کے ساتھ نہیں جا سکتی؟"
"دین کم اینڈ فائینڈ می آفٹر فنش ایٹنگ " علیدان نے برا منایا ۔
"لیکن ۔۔ "آن نے کچھ کہنا چاھا ۔۔لیکن علیدان نے یہ کہہ کر بات ختم کردی
"جائیں۔۔ جاکر کام کریں۔اٹ از سٹیلڈ دین" فون رکھ دیا۔ آن بس فون کو گھورتی رہی۔۔
علیدان نے سیکرٹری کو فون کیا
"عارضی طور پر باقی لیکچرار کو ٹریننگ ڈپارٹمنٹ میں کون لایا تھا؟ جو بھی لایا ہے اسے بزنس ڈپارٹمنٹ کے طرف ٹرانسفر کردو۔ "
سیکرٹری دنگ ہوا
"ابھی؟"
"ہاں فورا۔۔۔صرف دس منٹ کے اندر۔۔ اور اس کال کے بعد۔ تم بھی آفف چلے جانا۔اور آدھے گھنٹے بعد واپس آنا۔"
آدھے گھنٹے بعد آن ایلیوٹر کے طرف آئی۔
36 فلور پر آکر اس نے ارد گرد کسی کی موجودگی کی تسلی کی پھر کوریڈر میں آگے جانے لگی۔۔ جب ایک دروازے پر سی۔ای۔او آفیس لکھا تھا۔
آن نے ناک کیا۔
اندر سے علیدان کی گھمبیر آواز آئی
"ییس۔۔ کم ان "
آن نے گھری سانس بھر کر خود کو رلیکس کیا۔اور دروازہ دھکیل کر اندر آئی۔ جہاں علیدان آفیس چیئر پر بیٹھا ھوا تھا۔۔
آن نے گھورا۔۔
"آپ نے آج مجھے مرنے جیسا کردیا۔"وہ سینے پر ھاتھ رکھ کر اپنا سانس درست کرنے لگی۔
"کیا ہوا؟" وہ اس کی حالت دیکھ کر قریب آیا ۔
"کیا ہوا؟ آن نے دھرایا۔۔ "یہ ہوچھیں کیا نہیں ہوا۔میں تو ڈر ہی گئی تھی۔ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔؟ میں نے پہلے 35 فلور کا بٹن دبایا تھا۔۔ ایلیوٹر سے نکلنے کے بعد اچھے سے تسلی کی کہ کوئی نہیں۔ تب اوپر آئی ہوں۔" آن نے سانس بھری۔
"کیا ہوتا ۔۔اگر کوئی دیکھ لیتا تو۔۔ ؟"علیدان نے اس کی پریشان سورت کو دلچسپی سے دیکھا۔
"تو ۔۔میں واپس چلی جاتی ۔۔یہ کہہ کر کہ غلطی سے ادھر آگئی ہوں۔"آن مسکرائی۔
"آپ کو دیکھ کر لوگ یہی سمجھتے کہ آپ کا مجھ سے خفیہ رلیشن ہے۔"یہ کہتے وہ آن کے قریب آیا۔ چہرے کے طرف جھکا۔۔آن کی سانس تھم گئی۔۔اور چہرہ سرخ ہوا۔
علیدان کان کے قریب ہونٹ کیئے مبھم سا سرگوشیانہ بولا۔ "کیوں نہ اس بات کو سچ کردیں۔" آن کے ھاتھ اس کی قربت سے کپکانے لگے۔ دھڑکنوں نے جیسے مسحور کن راگ الاپا۔
آن چونکی اور دوری بنائی۔اور قدرے خفگی سے بولی۔
"علیدان شاہ اگر آپ نے ایسا ہی کرنا ہے۔ تو پھر میں نہیں آوں گی"
لنچ باکس ٹیبل پر رکھتی ،پیاری سی دھمکی دے گئی۔
علیدان نے زیادہ پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔ مسکرا کر سرہلاتا جاکر واپس کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ لنچ باکس کھول کر جھانکا۔
چکن ونگس، اسٹیمڈ فش ،اور چاول کے ساتھ روٹی اور سلاد۔
علیدان حیران ھوا۔ "آپ نے زیادہ ہی کرلیا۔"
"آف کورس۔۔ کیوں کہ میں آپ کی قرض دار ہوں۔۔تو کچھ تو ادائیگی لازم ہے نا۔" مسکرا کر جیسے لاجواب کیا۔
کل رات ریسٹورانٹ میں کھانے کے بعد جب آن نے بل پے کرنا چاھا تھا۔تب ویٹر نے اسے بتایا کہ علیدان شاہ اس ریسٹورانٹ کا شیئر ھولڈر ہے ۔اسی لئے کھانے کا بل نہیں بنے گا ۔
جب اس نے علیدان سے ناراضگی سے پوچھا۔
"آپ نے پہلے بتایا کیوں نہیں؟"
اگر پہلے سے بتادیتا تو آپ کے خلوص کا پتا کیسے چلتا؟ "
☆☆☆☆☆
وہ گھر پہنچی تو زایان اعوان باھر کھڑا اس کا انتظار کررہا تھا۔
"زایان بھائی۔ آپ یہاں کیا کررہے ہیں ؟"
"ملنے کو دل کررہا تھا۔ سوچا آن کے ساتھ ڈنر کیا جائے۔"وہ مسکرایا۔ اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کا کہہ کر خود دوسری طرف آگیا۔
دونوں اس ریسٹورانٹ میں آئے جہاں اکثر آتے تھے۔
زایان نے آرڈر کیا۔
"آن کیسا رہے گا اگر تم اپنی ہی کمپنی میں آجاو۔
میں نے تمہارے لئے ایک عہدہ چھوڑا ہے۔ہم ساتھ ہی رہیں گے اور میں تمہارا خیال بھی رکھ سکوں گا۔"
اس کی بات پر آن حیران ہوئی۔
"ڈیڈی۔۔ اور میری ماں کے لئے۔۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ میں یہ خود دیکھ لوں گا۔ ۔۔ڈیڈی خود بھی چاھتے ہیں ۔"
"زایان بھائی۔۔۔۔ یہ اچھا ہو۔۔۔ اگر آپ مجھے ان سب سے دور ہی رہنے دیں۔۔۔۔اعوان فیملی۔۔ میرے لئے موافق۔۔ نہیں ہے۔"
"لیکن۔۔۔ ڈیڈ تو تمہارے باپ ہیں۔۔ اور "باپ "۔۔ہی رہیں گے۔"
"میرا کوئی باپ نہیں ہے۔"آن نے سرد تاثر سے لفظ "باپ" پر زور دے کر سختی سے کہا۔ "اچھا ھوگا۔۔۔اگر آپ اس ٹاپک پر بات نہ کریں۔۔ ورنہ میں چلی جاوں گی۔"
آن نے پرس ٹیبل سے اٹھایا۔خفگی صاف اس کے چہرے سے دکھتی تھی۔جیسے اسے یہ بلکل پسند نہ آیا ہو۔۔اسے لگا ۔زایان اسی مقصد سے اسے لایا ہے۔
زایان نے ٹھنڈی سانس بھری۔۔
اس وقت سکندر اعوان کی وھیل چیئر ویٹر چلاتا آرہا تھا۔ ساتھ زایان کی ماں "مائرہ اعوان "بھی تھیں۔
زایاں اٹھ کھڑا ہوا۔
"ڈیڈ۔ مام ۔۔آپ یہاں ؟"
"میں نے تمہاری سیکرٹری کو فون کیا تھا۔۔جس نے بتایا کہ تم ڈنر کے لئے اپنی بہن کے ساتھ گئے ہو۔ بینش تو اپنے روم میں سورہی پھر یہ کون سی بہن ہے۔ جس کے ساتھ تم کھانے کے لئے آئے ہو؟"
"مام۔۔۔"
"انف۔۔۔ کمپنی کا سی ای او اس عورت کے ساتھ مصروف ہے۔جس کی وجہ سے کمپنی کو نقصان ہوا۔۔اور تم اب بھی اس کے ساتھ کھانے کا موڈ بنائے ہو؟۔زایان آخر تمہارا دماغ کدھر ہے۔کچھ ہوش ہے تمہیں؟"
"کمپنی میں کیا ہوا؟ اس کا آن سے کوئی واسطہ نہیں ہے مام۔
آن پر الزام مت دیں۔"
"کیا میں غلط ہوں؟۔۔۔کیا اس عورت نے علیدان شاہ کو نہیں بھڑکایا۔شاہ انڈسٹری اب اعوان انڈسٹری کو ٹارگیٹ کررہی صرف اس عورت کے بھڑکانے کی وجہ سے۔ ورنہ اتنے سال ہوگئے دونوں خاندان ایک دوسرے کے لئے اجنبی ہی تھے ۔ یہ آگ اس عورت کی بھڑکائی ہوئی ہے۔" وہ شدید غصہ میں چلارہی تھیں
"انفف۔۔۔ زایان اسے باھر لے جاو۔"سکندر اعوان نے زایان کو کہا۔
زایان ماں کو کھینچ کر باھر لے گیا۔
تب سکندر آن کے طرف مڑا۔۔
"گریجویشن کیسی چل رہی ہے ؟"
آن نے طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا کیا ان کو اس سے کوئی فرق پڑتا؟
مسٹر اعوان ڈونٹ بیٹ ارائونڈ دے بش۔ ۔۔ہم میں ایسا کوئی تعلق نہیں ۔۔اصل مدع کے طرف آئیں۔"
سکندر اعوان نے خود کو غصہ کرنے سے روکا۔۔ یہ سچ تھا کہ اس کی یہ بیٹی حد سے زیادہ ضدی تھی۔
"تمہارے اور علیدان شاہ کے بیچ میں در حقیقت کیا چل رہا ہے ؟"
آن نے لب بھینچے "اٹز اونلی مائے پرسنل بزنس۔"
"وہ اعوان انڈسٹریز کو ٹارگیٹ کررہا ہے۔اس کے لئے تم نے اسے آمادہ کیا ہے؟"
آن نے لب بھینچے ۔
"کون جانتا ہے ؟ ھوسکتا ہے ایسا ہو۔۔" آن نے اس کے شک کو رہنے دیا۔
"اگر تم کو ہم سے شکایات ہیں تو ہمارے پاس آو ۔۔یوں چھپ کر علیدان کے ساتھ چال مت کھیلو،اگر تمہاری ماں زندہ ہوتی تو کتنی دکھی ہوتی "
"میں نے پہلے بھی کہا ہے میری ماں کا ذکر مت کریں" آن نے ہونٹ کاٹے۔
"تمہاری ماں بری عورت نہیں تھی"
" آف کورس۔" آن کا چہرہ برداشت سے سرخ ھوا۔
"وہ ایک ایسی نابینا بصارت کی مالک تھی جس کی آپ نے پوری زندگی برباد کردی۔"
وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔"مجھے جانا چاھئے ۔"
"علیدان کو چھوڑو۔۔میں نے تمہارے لئے اس سے اچھا آدمی منتخب کیا ہے ۔۔ٹائیم نکال کر اس سے ملنا۔"
سکندر اعوان نے سرد لہجے میں کہا۔
آن نے سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا۔ "اگر میں انکار کردوں تو؟" آن نے جاننا چاہا کہ پھر وہ کیا کرے گا؟
" علیدان شاہ کے ساتھ یہ ناممکن ہے"
آن مسکرائی۔"یہ میرا مسئلہ ہے ۔ آپ کے لئے تکلیف کا باعث بحرحال نہیں بنوں گی"
یہ کہتے ہی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔
باھر زایان نے اسے جاتے دیکھ کر پکارا "آن رکو تو۔۔" لیکن وہ ان سنی کرتی گیٹ سے باھر نکل گئی۔۔ پیچھے زایان نے پریشانی سے سر تھام لیا۔۔ ڈیم اٹ۔۔ڈیم اٹ۔۔" اسے آن اپنے ھاتھوں سے نکلتی محسوس ہوئی تھی۔
☆☆☆☆☆☆
ٹیکسی کافی دیر سے مختلف راستوں پر چلی جارہی تھی لیکن آن اپنے ہی پریشان کن خیالوں میں کھوئی رہی۔
آخر تنگ آکر ٹیکسی ڈرائیور نے پوچھ لیا۔
"میم کہاں چلوں؟"
آن اپنے خیالوں سے چونکی۔ " یونہی چلتے رہو۔۔"
آن نے خود کو پرسکون کیا پھر علیدان کو کال ملائی۔ اسے یقین تھا علیدان نے بلکل بھی اعوان فیملی کو ٹارگیٹ نہیں بنایا۔
علیدان کو کال جارہی تھی لیکن اس نے فون نہیں اٹھایا۔
چڑ کر اس نے ڈرائیور سے گاڑی یونیورسٹی موڑنے کا کہا۔
اور ثنا حمزہ کو کال کی۔
"ھیلو۔ کیا تم مصروف ہو؟"
"ایک پروگرام دیکھنے میں مصروف ہوں ۔ خیریت؟"
"ہممم ۔۔میں تمہارے پاس آرہی ہوں ساتھ ڈنر کرنے چلتے ہیں۔"
"اوھ۔۔ تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا؟" وہ حیران ہوئی۔
"کئا تم نے صرف اسی لئے کال کی ۔۔کیا کھانا چاھتی ہو؟"ثنا نے پوچھا۔
"وہاں چلتے ہیں جہاں وائن ملتی ہو"
"کیا۔۔۔۔!! تم واقعی میرے ساتھ ڈرنک کرنا چاھتی ہو؟ سچ میں ۔۔۔؟" وہ حیران ہوکر چینخی ۔
"ہممم میں تم کو پک کرنے آرہی ۔"
"شیور۔۔پھر تو ہم تب تک نہیں چھوڑیں گے جب تک فل نہ ہوجائیں۔ " ثنا نے ایکسائٹڈ ہوکر مزے سے کہا۔۔
دونوں ایک ریسٹورانٹ میں آگئیں۔
آن نے اسپیشل روم مانگا اور بیرے کو درجن بھر بیئر لانے کا آرڈر دیا۔۔ جس پر ثنا حمزہ کو لگا۔۔ کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور ہوا ہے۔ ورنہ آن اس طرح درجن بیئرز نہ منگواتی۔۔
"آن سب ٹھیک ہے؟" وہ پریشان ہوئی ۔
آن دھیما سا مسکرائی ۔
"ھاں سب ٹھیک ہے ۔بس ڈپلوما حاصل کرنے سے پہلے یہ ہماری آخری احمقانہ حرکت ہوگی "
☆☆☆☆
آدھے گھنٹے کے بعد علیدان میٹنگ روم سے فارغ ہوکر جیسے ہی آفیس پہنچا۔ ٹیبل پر اس کے سیل فون کی اسکرین روشن تھی۔
علیدان نے جھٹ سے فون اٹھایا ۔جہاں آن عصمت کی مس کال تھی۔
علیدان مسکرایا۔۔اور جلدی سے کال بیک کی ۔۔ لیکن کوئی جواب نہیں آیا۔۔
علیدان نے ابرو چڑھائیں۔ "آپ پھر سے ناراض ہوگئی"
اور بے صبری سے دوبارہ کال کی ۔۔اس بار کال اٹھالی گئی لیکن آن کے بجائے کسی اجنبی عورت کی آواز تھی۔
"ھیلو ۔۔ھیلو۔۔ پتا نہیں آپ کو کیا کام ہے ؟ پلیز کل صبح کال کیجئے گا۔فون کا مالک یہاں موجود نہیں ہے ۔سو میں آپ کے فون کا جواب نہیں دے سکتی۔" لیکن علیدان کو لوکیشن موصول ھوچکی تھی۔
پچاس منٹ بعد علیدان ریسٹورانٹ کے پرائیویٹ روم میں داخل ہوا۔
جہاں ایک کرسی پر چڑھی آن نشے میں جھول رہی تھی۔
اس کے گرد چار ویٹریس کھڑی تھی۔۔اور ایک اسٹائلش سی لڑکی بھی ۔
آن عصمت چھت پر لگے اسٹائلش سے شیشے کے فانوس کے طرف اشارہ کرکے نشے میں مدھوش بچوں کی مانند ضد کیئے جارہی تھی۔" م م جھ ھےے ے۔۔ یہ۔۔۔ چچ ۔۔۔چاااھئے ۔۔ م م۔۔ میں ں۔۔ کک کچھ ۔۔۔ ن نہی ی ں ۔۔۔ ج ج ااا نت یی۔۔ " ب بسسس یہی ی۔۔ چ چ ااا ھئے۔۔ "
ثنا حمزہ کی نظر دروازے پر کھڑے ۔۔ شاندار سی شخصیت پر پڑی تو وہ چونکی۔ (کیا یہ مسٹر علیدان شاہ نہیں۔۔ جو خبروں میں نظر آتا ہے اور کافی سرد مزاج سا لگتا ہے ۔۔ لیکن خبروں کے الٹ، حقیقت میں تو یہ بھت ھینڈسم لگ رہا ہے۔۔
لیکن ۔۔ یہ یہاں کیوں نظر آرہا ؟ کیا یہ غلطی سے آیا ہے ؟)
"مس ۔۔پلیز نیچے آئیں ۔اگر یہ فانوس ٹوٹ گیا تو ہمارا نقصان ھوگا۔" ویٹریس پریشان سی کہہ رہی تھیں۔
ثنا حمزہ جلدی سے اپنے حواسوں میں واپس آئی اور آن کو سنبھال کر نیچے اتارنے لگی۔"آن نیچے آو۔۔ میں تم کو اس سے بھی بڑا۔۔ اور بھت بڑا لے کر دوں گی۔۔۔ اوکے ۔۔"
"نو۔۔۔۔ آئی۔۔واااانٹ ۔۔۔دس۔۔۔" آن نے بھولپن سے منہ بنایا۔
"میں یہ خریدتا ہوں۔۔ آپ یہ لیمپ انہیں دیں۔۔اور جو بھی کہتی ہیں ۔۔دیں" علیدان کی سرد آواز گونجی۔۔
سب نے مڑ کر علیدان کو دیکھا ۔۔اور وہیں حیرانگی سے اپنی جگہ پر تھم گئے ۔۔
علیدان نے والٹ سے کارڈ نکالا اور ویٹرس کو دیا۔ " تم کچھ بھی خرید سکتی ہو جو چاہو۔"
ادھر ثنا حمزہ یہ سن کر شاک میں چلی گئی۔ (واٹ۔۔۔ واٹ۔۔۔ یہ کیا چل رہا ہے ؟؟)
آن نے آوازپر مڑ کر اسے دیکھا۔۔ اور معصومیت سے بازو اس کی طرف پھیلا کر مسکرائی ۔۔علی۔۔۔داااان ۔۔۔شاااہ" ۔اور اس کے طرف ھاتھ بڑھایا۔۔ تو اس کا وجود ڈھیلا ہوا۔۔تقریبا گرنے والی ھوئی۔۔لیکن علیدان نے بڑھ کر اسے تھاما۔۔اور اپنے حصار میں لے کر حفاظت سے نیچے اتارا۔
آن نے اسے خفگی سے دیکھا۔۔ اور ناراضگی سے اس کے بازو جھٹکے ۔۔ بچوں کی طرح منہ بناکر فانوس کے طرف انگلی کری " م م۔۔ مجھے یہ چاااھئے۔۔۔ علی ۔۔۔دااان۔۔شااہ۔۔بسسس یہی کرسٹل بال چاھئے ۔۔"
علیدان بنا کچھ کہے کرسی کھسکا کر اس پر چڑھا۔۔اور کرسٹل بال کو کھینچ کر اتارا جس سے اس کا کنارا ٹوٹ کر الگ ھوگیا۔ پھر نیچے اتر کر آن کے ھاتھوں میں دیا۔۔ جو اسنے اپنے دونوں بازوں میں چھپالیا۔۔ اور اسے دیکھ کر بچوں کی طرح آنکھیں پھاڑے خوش ھورہی تھی۔
" یہ میں کسی کو نہیں دوں گی۔۔ یہ میرا ہے۔۔ یہ میرا ہے۔۔" وہاں کھڑے لوگوں سے بے خبر وہ دہرائے جارہی تھی۔
ھر ایک دنگ تھا ( کیا یہ بھی کوئی چیز تھی؟)
علیدان نے سب کو گھورا" آپ سب جاسکتے ہیں"
پھر ثنا حمزہ کے طرف گھوما ۔ جو حیران سی یہ سب دیکھ رہی تھی خود بھی دنگ تھی۔
" کیا آپ آن کی دوست ہیں ؟" علیدان نے نرمی سے پوچھا۔
علیدان نے آن کو اپنے حصار میں لیا ۔
"آپ جاسکتی ہیں۔۔ میں ان کو گھر لے جاتا ہوں۔۔آپ بھی جاکر آرام کریں"
یہ کہتے ہی آن کو اپنے دونوں بازووں میں اٹھالیا۔۔ آن کی توجہ اپنے حصار میں کرسٹل بال پر تھی۔۔ وہ علیدان کے یوں اٹھانے پر کچھ نہ بولی تھی۔نہ ہی احتجاج کیا۔
پیچھے ثنا حمزہ تو ساکت کھڑی رہ گئی۔۔ جب علیدان دروازے سے اوجھل ہوا تب جاکر اسے ھوش آیا اور وہ پیچھے بھاگی ۔
" سنئے سر، میں آپ کو نہیں جانتی ۔۔ میں اپنی دوست کو ایسے نہیں جانے دے سکتی"
علیدان نے سرد نظروں سے اسے دیکھا۔۔
"بقول آپ کے ہم ایک دوسرے کو نہیں جانتے تو میں اسے آپ کو بھی نہیں دے سکتا۔"
"لیکن میں تو اس کی دوست ھوں۔" ثنا حمزہ نے اسے روکا۔
" تب تو میرا "رشتہ اس سے زیادہ قریب" ہے۔"
علیدان نے نرمی سے کہہ کر آن کو گاڑی میں بٹھایا۔
ثبا حمزہ دنگ رہ گئی۔ جب علیدان کی فرنٹ جیب میں اٹکا "پین " دیکھا۔
"آپ آن کے بھائی ہیں ؟"
علیدان نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔
" تم جانتی ہو کہ اس کا بھائی بھی ہے؟"
"آپ کی جیب میں موجود پین کی وجہ سے پہچانا۔۔ آن نے یہ اپنے بھائی کو تحفہ دینے کے لئے خریدا تھا"
علیدان نے لب بھینچ کر جیب میں موجود پین کو دیکھا ۔ اور سر ہلایا۔
" کیا اب ہم جاسکتے ہیں؟"
علیدان نے نرمی سے پوچھا۔
ثنا نے فقط سر ھلادیا۔۔
آن گاڑی میں ہی علیدان کے شانے سے سر ٹکائے ۔۔ بازوں کے حصار میں کرسٹل بال کو مضبوطی سے پکڑے بے سدھ سوئی ہوئی تھی ۔۔ گاڑی نے جیسے ہی موڑ کاٹا ۔۔ آن کی جھٹکا لگنے سے آنکھ کھل گئی ، ساتھ ہی وہ بری طرح کھانسنے لگی تھی ۔" گاڑی روکو ۔۔ " آن چلائی ۔کریم نے جلدی سے گاڑی روک دی ۔ آن کا گاڑی میں بری طرح جی گھٹنے لگا ۔ فوری طور پر گاڑی کا دروازہ کھول کر باھر بھاگی ۔۔ علیدان بھی پریشان سا اس کے پیچھے نکلا ۔ آن بری طرح کھانس رہی تھی ۔۔ علیدان اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔"آپ کو یہ بھی نہیں پتا کہ کیسے پی جاتی ہے ۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا۔۔آپ نے اتنی کیوں پی ؟"
علیدان پریشانی سے اس کی پیٹھ سہلاتے مسلسل اسے ڈانٹ رہا تھا ۔ علیدان شاه ۔۔۔ آآہہ ۔۔۔" متلی ہوتے ہی وہ پھر نیچے جھکی ۔۔ "تت تم علیدان شاه ۔۔۔؟"
سر اٹھا کر علیدان کو دیکھا۔ آن کی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی ۔ "تم عليدان شاه ہو۔ ؟" وہ سوالیہ ہوئی ۔ "ییس ۔۔ میں ہی علیدان ہوں ۔" نرمی سے اقرار کیا ۔ Hummm..naah ... we can't be" friend with Ali ... daan ... shah.it's right ... we can't ..
"نیور ۔۔۔ نہیں بن سکتے علیدان کے دوست ۔۔۔ نووو ۔۔اس نے نفی میں انگلی ہلائی،اور نفی میں مسلسل سر بھی هلاتی رہی ۔۔" وہ مصیبت ہے۔"
"اچھاااا۔۔۔میں کیوں مصیبت ہوں ؟" عليدان نے جاننا چاہا ۔ کہ وہ کیوں کہہ رہی ؟ کس نے اسے علیدان کی وجہ سے حراسان کیا ہے ۔
" عليدان شاااه۔۔۔ هر بات اعوان خاندان سے جڑی ہے ۔۔ ہر چیز اعوان ۔۔۔ خاندان کے متعلق ہے ۔ میں ۔۔ ان سب سے ۔ ان سب سے ۔۔۔ دوووور ۔۔۔ چلی جانا چاهتی ۔۔۔ دووور ۔۔۔ سب مصیبت ہیں ۔۔ سب ۔۔"
اور علیدان کو اس کا جواب مل گیا ۔ ایک غصہ کی شدید لہر اس کے دل میں ابھری ۔۔ " چھوڑوں گا نہیں میں سکندر اعوان ۔۔" وہ نیچے گھٹنے موڑ کر درخت کے سامنے بیٹھ گئی ۔ اور اسے گلے لگالیا ۔۔ "مسٹر ٹري۔۔۔ آج میں تم سے برادرانہ حلف لیتی ہوں ۔۔ آج سے ۔۔ تم ہی میرے رشتے دار هو۔۔۔ ٹھیک ہے نا؟ "
بات پوری ہوتے ہی اس نے ایک ھاتھ سے علیدان کے کالر کو تھاما ۔۔ " عليدان ۔۔۔ اب میری بھی ایک فیملی ہے۔"آن کو اس طرح بات ختم کرنے کے بعد هنستے دیکھ کر علیدان کے دل میں ناقابل بیان تکلیف ہوئی ۔ وہ کسی بھی طرح سے اس کو ایسے نہیں دیکھ پارہا تھا ۔۔ یہ مشکل تھا ۔۔ بھت مشکل ۔
عليدان نے گھری سانس بھر کر خود کو سنبھالا ۔ اور دونوں ہاتھوں سے آن کے شانے تھام کر اٹھاتے بولا - چلیں ۔۔ میں آپ کو واپس لے کر چلوں ۔ "
"نہیں۔۔۔میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔ سنا۔۔! میں اپنی فیملی کے ساتھ ہوں ۔ " آن ضد کرنے لگی ۔ " اپنی فیملی چھوڑ کر میں کہیں نہیں جاوں گی میں۔۔۔ میں ان کے ساتھ رہوں گی ۔"
عليدان نے اس کے کان میں جھک کر سرگوشی کی ۔"میں کسی کو بھیج کر آپ کی فیملی کو گھر لے آوں گا ۔ ٹھیک ہے ؟"
"کیا واقعی ۔۔۔۔ " وہ بے یقین تھی ۔ " کبھی جھوٹ نہیں بولا۔" عليدان نے یقین دلایا ۔۔ آن نے ایک هاتھ سے کرسٹل بال سنبھالا اور دوسرے سے زمین پر سہارا لے کر اٹھنے لگی ۔۔ جیسے ہی اٹھی سر چکرایا ۔۔ زبردست متلی ہوئی اور جھٹکے سے سب کچھ علیدان پر اگل دیا ۔۔
علیدان تو جیسے شاک میں چلا گیا ۔ وہ اس کی جیکٹ گندی کرچکی تھی ۔ اور اسے دیکھ کر بچوں کی طرح قہقہے لگائے جارہی تھی ۔ علیدان کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جو وہ چاهتے ہوئے بھی غصہ نہیں کرپارہا تھا ۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اسے دو حصوں میں کاٹ کر رکھ دیتا ۔ مگر یہاں سامنے آن تھی ۔۔ اور اس کی حالت بھی ایسی نہ تھی کہ اس پر غصہ کرتا ۔ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتا ۔۔ ایک ہی جھٹکے سے اس نے گندی جیکٹ اتار کر دور پھینک دی ۔۔۔ اور آن کو زبردستی ساتھ لیتا ۔ جاکر گاڑی میں پھینکنے کے سے انداز میں بٹھایا ۔۔ آن نے کرسٹل بال کو بری طرح دبوچا ہوا تھا ۔جیسے کوئی چھین لے گا ۔۔ عليدان نے کریم کو گاڑی چلانے کا اشارہ دیا ۔ اور تھوڑی دیر خود کو پرسکون کرکے ۔۔ اسے دیکھا جو کرسٹل بال کو ہی دیکھے جارہی تھی ۔ وہ دنگ ہوا " آپ کو کرسٹل بال زیادہ پسند ہے ؟"
" شی ی ی ی چُپ۔۔پ ۔۔" وہ منہ پر انگلی رکھ کر اسے چپ رہنے کا اشارہ کررہی تھی ۔۔ پھر ادھر ادھر دیکھ کر کسی کے نہ ہونے کی تسلی کی ۔۔ اور جھک کر اس کے قریب آئی ۔۔ " یہ میجک بال ہے ۔ اس جادوئی بال سے میں اپنی ماں کو واپس لاؤں گی ۔۔ ھا ھا ھا ھا "وه پاگلوں کی طرح قہقہے لگانے لگی۔
یونہی هنستے هنستے وہ غنودگی میں چلی گئی ۔ گاڑی ولا پہنچی تو آن مکمل بے ہوش تھی ۔ ۔ علیدان اسے اٹھا کر اندر لایا ۔۔ ملازمہ اسے دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھی اپنے مالک کی شرٹ پر گندگی دیکھ کر وہ تو دنگ رہ گئی۔ جھجھکتے ہوئے کہا "مالک، آپ چینج کرلیں۔میں آن میم کا خیال رکھتی ہوں ۔ آپ واش کرلیں ۔" عليدان نے بنا جواب دیئے آن کو ایسے ہی اٹھائے اپنے روم میں آکر بیڈ پر لٹایا ۔۔ اور جیسے ہی اٹھنا چاہا ۔ آن نے دونوں بازو اس کے گلے میں حمائل کرکے اس کے دور ہونے کی ہونے کی کوشش ناکام بنادی تھی ۔۔ ایسے جیسے آن کو کسی اپنے کے کھونے کا ڈر ہو ۔ بڑ بڑا ہٹ جاری تھی ۔۔ علیدان نے غور سے سننے کوشش کی ۔ "مت جاو ۔۔ مت جاؤ ۔ مجھے چھوڑ کر مجھے ڈر لگتا ہے ماں۔ " عليدان نے پھر سے اسے بازو میں اٹھایا ۔ اور خادمہ جو اس کی مدد کو آئی تھی ۔ اسے جانے کو بولا ۔ " جاکر آرام کریں۔ میں خود دیکھ لیتا ہوں ۔" خادمہ خاموشی سے سر ہلا کر واپس چلی گئی ۔ البتہ اس کے چہرے پر حیرت ضرور نمودار ہوئی تھی ۔
علیدان اسے اٹھا کر واش روم میں لایا ۔۔ اور شاور کے نیچے کھڑا کرکے شاور چلادیا ۔۔ پانی کی دھار سے اپنی شرٹ سے بھی گندگی دور کی ۔۔ اور آن کو بھی واش کرنے لگا ۔۔ دونوں مکمل بھیگ رہے تھے ۔۔ علیدان اسے بمشکل تھامے هوئے تھا ۔ کیونکہ آن مکمل اس کے بازوؤں کے سہارے کھڑی تھی ۔۔ ایسے۔۔۔۔جیسے جسم میں کوئی هڈی ہی نہ ہو ۔
عليدان نے بمشکل شمپو سے اس کے بال دھوئے ۔۔ پھر خود کو واش کیا ۔۔ اور بتی آف کرکے آن کے کپڑے اتار کر باتھ روب سے اسے ڈھانپا ۔۔ اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا ۔ پھر گھری سانس بھر کر خود بھی بھیگے کپڑے چینج کئے ۔ اس سارے عمل نے اسے بری طرح تھکا دیا تھا ۔
باهر آکر اسے پھر سے اٹھا کر اپنے سینے کے سہارے بٹھایا ۔۔ اور هیئر ڈرائیر سے اس کے بھیگے بال سکھائے ۔۔ آن وہیں اس کے سینے پر سر رکھے دونوں بازو اس کے گرد کیئے سوئی هوئی تھی ۔ بال ڈرائی کرکے آن کو لٹایا ۔۔ اور خود بھی تھکا تھکا سا لیٹ گیا ۔۔ پاس لیٹا وجود واقعی ۔۔ اس کے صبر کو آزما رہا تھا ۔۔ بڑی مشکل سے دل میں اٹھتی خواهشات کو تھپک کر سلایا۔۔۔ اور یہ بہت مشکل تھا ۔۔ علیدان رخ موڑ کر اس پر جھکا ۔ آن کے دلفریب نقوش اسے اپنے طرف مائل کررہے تھے ۔۔ اسے اپنے حصار میں لیا، اور هاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی سے بال هٹا کر سنوارے ۔۔ پھر هاتھ سرکتا ہوا ۔ اس کے چہرے کے دلفریب نقوش کو چھوتا ۔۔ اس کے هونٹوں پر ٹھر گیا ۔ اب کے وہ خود کو روک نہ پایا اور اس کے دلفریب ہونٹوں پر جھکا ۔۔ آن کو مدهوشی میں اپنے هونٹوں پر کھچاؤ سا محسوس ہوا۔ اسے لگا کسی نے اس کی سانسیں روک لی ہوں ۔۔ کیا یہ حقیقت تھی یا کوئی خواب تھا ؟
عليدان نے چاہا کہ کچھ اور آگے بڑھے لیکن ۔۔۔ آن بے اختيار احتجاج کرتے خود کو چھڑانے لگی ۔ آنکھوں پر ھاتھ رکھ دیا ۔ اور چینخ چینخ کر رونے لگی ۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر، علیدان کو تکلیف ہورہی تھی۔ اس نے بڑھ کر اسے اپنے حصار میں لیا۔ اس کے بالوں میں انگلیاں ڈال کر سہلا کر اسے پرسکون کرنے لگا ۔ آن اس کے سینے میں منہ چھپائے مسلسل بڑ بڑا رہی تھی ۔۔ " ماں ۔۔ آئی هیٹ یو۔۔۔۔ اخخخ آئی هیٹ یو ۔۔ مجھے یہاں کیوں چھوڑ گئیں ۔۔ اپنے ساتھ کیوں نہ لے گئیں؟ ۔۔ مجھے یہ دنیا پسند نہیں۔۔
مجھے یہ لوگ پسند نہیں ۔ مجھے اپنے ساتھ کیوں نہ لے گئیں ۔۔ کیوں ۔۔ ؟ سب کے پاس باپ ہے ۔۔ میرے پاس نہیں ۔۔ !! کیوں ۔۔ ؟"
پھر غنودگی میں علیدان کے گرد مضبوطی سے بازو کا گھیر بنالیا ۔
"مجھے یہاں سے دووررر ۔۔۔ لے چلو ۔۔ میں دوبارہ نہیں چاهتی ۔۔۔ میں ان سب کو دیکھنا نہیں چاهتی ۔۔"
علیدان اس کی باتیں سمجھنے کی کوشش کررہا تھا ۔ پزل کے ٹکڑے ٹکڑے تھے ۔۔ جو بکھرے ہوئے تھے ۔۔ آن کی ادھوری باتیں -- سن کر عليدان نے کنفرم کیا کہ
آن عصمت کو اعوان فیملی نے سخت پریشان کیا ہے ۔ اسی وجہ سے آن نے ڈرنک کی ۔ وہ جو بھی بول رہی تھی ۔ اس کے لاشعور کا دبا وہ خوف تھا ۔۔ بظاہر وہ دنیا کے آگے مضبوط دکھتی تھی۔ لیکن اندر سے وہی ڈری سہمی سی لڑکی تھی ۔۔ جسے سہارے کی ضرورت تھی ۔۔
اور عليدان نے فیصلہ کرلیا ۔ وہ آن کو کبھی نہیں چھوڑے گا ۔۔ کبھی نہیں ۔۔
اس کے بالوں کو سہلاتے سہلاتے ۔۔ اس کو حصار میں لیئے وہ خود بھی تھکا تھکا سا سوگیا تھا ۔
☆☆☆☆☆
صبح آن کی آنکھ کھلی تو ذہن ابھی تک دھند میں لپیٹا ہوا تھا ۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں ہے ؟
ایک اجنبی کمرہ دیکھ کر وہ بری طرح ڈر گئی،اور اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ اپنے لباس پر نظر کی، تو اس کے کپڑے کہیں بھی نہیں تھے اس کے بجائے وہ ایک مردانہ ڈھیلی ڈھالی شرٹ اور مردانہ ہی لمبا سا ٹرائوزر پہنے ہوئے تھی ۔
یہ دیکھ کر وہ بری طرح سہم گئی حلانکہ اسے رات کی ڈرنک کی وجہ سے کچھ بھی یاد نہیں رہا تھا ۔۔ لاسٹ ٹائیم جب حان کی وجہ سے ڈرنک کی تھی تو نشے میں علیدان ٹکرائی تھی ۔
صبح اس کی آنکھ اس کے ولا کے روم میں کھلی تھی ۔۔ اور رات کی ڈرنک کی وجہ سے وہ یہ سوچ کر سہم گئی ۔۔۔کہ ۔۔۔کہیں ۔۔۔
کہیں وہ کسی دوسرے مرد کے پاس نہ چلی گئی ہو ۔۔ یہ اس کے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا ۔۔ بے اختیار اپنی چینخ کو دونوں ھاتھوں سے روکا ۔۔
وہ تو رات ثنا حمزہ کے ساتھ تھی ۔ پھر ۔۔۔ ؟؟ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ اور تکلیف سے اپنے ہونٹ دانتوں سے کاٹنے لگی ۔ اسی وقت دروازه دھکیل کر علیدان اندر داخل هوا ۔۔وہ چونکی۔لیکن علیدان کو دیکھ کر آن کے اندر جیسے سکون آگیا ۔
وہ سمجھی نہیں کہ ایسا کیوں ؟ لیکن علیدان کو دیکھ کر اس کے سارے ڈر و خوف اور وهم کہیں دور بھاگ گئے ۔۔ وہ پرسکون ہوكر نظریں جھکا گئی ۔ عليدان نے اس کے معصوم چہرے کو پیار سے دیکھا ۔۔ اور بے اختیار مسکرادیا۔
" آپ ابھی تک اٹھی نہیں ؟ " علیدان نے نرم لہجے میں پوچھا۔
"میں یہاں کیسے آئی۔؟" آن نے اپنی پیشانی مسلی ۔
" میں خود بھی متجسس ہوں۔" عليدان نے پرسوچ انداز میں اسے دیکھ کر شانے اچکائے ۔
" آپ نے رات مجھے کال کی۔ بنا کوئی وجہ بتائے ۔ اور مجھے گھر لے چلنے کو کہا ۔۔۔ آپ روئی تھیں۔۔۔ میرے آگے ہاتھ جوڑے۔۔ کہ میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلوں ۔"
وہ سنجیدہ تھا ۔۔ لیکن انداز شرير۔ "کیا کچھ ہوا تھا ؟"
"ہہہہ۔۔" آن نے دانتوں سے لب کاٹے۔ اور غیر ارادہ اپنے ھاتھ کمبل کے اندر کرکے خود کو چھپایا۔
"کیا یہ میں ہوں؟" اس کا ذہن ابھی تک کچھ سمجھ نہیں پایا تھا۔انگلی اپنے طرف کرتے پوچھا۔
"بلکل۔۔۔ورنہ میرے سامنے کون بیٹھا ہے؟" علیدان مسکرا کر سوالیہ ہوا۔
"نہیں ۔۔ ناممکن ۔۔" آن کا ذہن کام نہیں کررہا تھا۔
"کل رات میں اپنی دوست کے ساتھ تھی۔ آپ کو کیسے کال کی؟"
"یہ تو میں بھی نہیں جانتا۔" علیدان نے منہ بنا کر لاعلمی ظاہر کی ۔"میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ "آپ میرے گلے لگ گئی تھیں ۔۔اور مجھے رات کو جانے ہی نہیں دے رہی تھیں۔۔۔ اوھ ہاں۔۔۔آپ نے مجھ پر الٹی بھی کردی تھی۔"
آن کی تو یہ سن کر سانس ہی رک گئی۔اس نے اچانک ہی اپنے منہ پر دونوں ھاتھ رکھ دیئے ۔علیدان کو آنکھیں چھپک چھپک کر دیکھا۔
"یقین کریں۔۔مجھے الٹی کا بلکل بھی یاد نہیں۔"
"مجھے یہی ڈر تھا۔۔۔ کہ آپ جب ھوش میں آئیں گیں۔تو سب بھول جائیں گیں۔ اسی لئے میں نے وہ جیکٹ سنبھال کر باھر رکھوائی ہے۔ ابھی تک واش نہیں کروائی۔کیا آپ دیکھنا چاہیں گیں؟"
آن کا چہرہ خفت سے سرخ ھوا۔ شرمساری سے ھاتھ منہ پر رکھے وہ دہرائے گئی"آئی ایم سوری۔۔ آئی ایم سوری۔۔ "
"اب یہ کمبل ایک سائیڈ پر کرلیں۔۔کیا آپ اب بھی نہیں اٹھیں گیں؟ آج ہماری ریسیپشن ہے۔"
(کیا۔۔۔۔ ریسیپشن؟؟ وہ کیا کرنا چاھتا ہے؟)
آن علیدان کے منہ سے آگے کا پلان سن کر فریز ھوگئی تھی۔ وہ بلکل بھی خود کو علیدان جیسے امیر شخص کے قابل نہیں سمجھ رہی تھی۔ اس کے نزدیک دونوں کے بیچ نکاح صرف کاغذی کارروائی تھی۔۔جو رشتہ علیدان نے اس کو دھمکا کر قائم کیا تھا۔ جب کہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ نکہت علیدان کو پسند کرتی ہے۔۔یہ سوچ کہ وہ پہلے سے ہی کسی کو پسند کرچکا ہے ۔وہ اس کی پہلی چوائس نہیں ۔وہ اس کو صرف اپنے کسی مفاد کے لئے استعمال کررہا ہے۔۔ وہ یہ بات اچھے سے جانتی تھی۔کہ اس جیسے سرمایہ دار آدمی کی زندگی میں آفیشلی داخل ہوکر آن کے لئے مسئلوں کے انبار شروع ہوجائیں گے ۔اعوانز اور شاہ کے بیچ کی یہ سرد جنگ صرف اس کی وجہ سے شدید جنگ میں بدل جائے گی۔ اور سارا الزام اعوانز آن کی جھولی میں ڈال دیں گے۔۔۔یہ وہ کسی طرح بھی نہیں چاھتی تھی کہ اعوانز کے خدشے اور الزامات سچ ثابت ہوں۔۔کسی طرح بھی شاہ کو روکنا تھا۔۔ بھلی کچھ بھی ہو جائے ۔۔اسے علیدان کی زندگی سے نکلنا تھا۔
" رات آپ نے ہی تو کہا تھا۔ مجھ سے شادی کریں۔۔مجھے اپنی زندگی میں شامل کریں۔" علیدان کی آنکھیں دھیمی دھیمی لو دے رہی تھیں۔
"میں نے۔۔۔۔؟"آن سخت حیران تھی۔ اس کا ذہن بلکل بھی کچھ یاد کرنے سے عاجز تھا۔۔
"یہ سچ ہے۔۔شک کرنا بند کریں۔آپ ہی آدھی رات کو میرے پاس آئی تھیں۔اور کہا کہ مجھ سے شادی کریں۔۔ اور شیطان صفت لوگوں سے لڑنے میں میری مدد کریں۔ اعوان فیملی شیطانوں کا ٹولہ ہے ۔انہوں نے کل آپ کو پریشان کیا تھا۔۔ چلیں۔ مل کر ان سے لڑتے ہیں۔اٹھیں۔۔ اب جلدی سے تیار ہوجائیں۔۔ میں آپ کی ان شیطان لوگوں سے لڑنے میں مدد کروں گا۔ "
علیدان مسکرا کر اسے اور زیادہ سہمائے جارہا تھا۔ ( کیا وہ سچ کہہ رہا۔۔۔کیا واقعی بھی آن نے اسے یہی سب کہا تھا۔۔۔؟ نہیں نہیں ۔۔ وہ یہ ماننے میں تامل تھی۔)
" علیدان۔۔۔ علیدان شاہ۔۔ یہ یہ۔۔۔ ایکچوئلی ۔۔" اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔۔وہ اپنی صفائی کس طرح دے۔۔ جب کہ یہ سب واقعی میں وہ کہہ چکی تھی۔۔ اب اس سے مکرنا کس طرح ممکن تھا؟ اسے کوئی بہانا ہی نہیں سوجھ رہا تھا۔۔
" دراصل۔۔۔میں نے رات ڈرنک کی تھی۔ مجھے رئلی میں کچھ بھی یاد نہیں۔۔"
وہ بری طرح بے بس ھوئی۔ سر ھاتھوں میں گرالیا۔
اس وقت اس کے جی نے شدت سے تمنا کی کہ کہیں واقعی چوہے کا بل ہوتا اور وہ اس میں گھس کر چھپ جاتی۔۔
علیدان نے اس کا شرمندہ شرمندہ اور لجاہٹ سے سرخ چہرہ دلچسپی سے دیکھا۔۔ وہ واقعی آن کے چہرے کی بھولپن۔۔ شرمساری۔۔ لجاہٹ۔ پلکوں کا جھپک جھپک کر اٹھنا گرانا۔۔ پھر دانتوں سے لب کاٹنا۔۔ دلچسپی اور محویت سے تک رہا تھا۔۔ اس کے چہرے اور ہونٹوں سے مسکراہٹ ہٹ ہی نہیں رہی تھی۔۔ وہ واقعی اسے لبھا رہی تھی۔۔ مائل کررہی تھی۔۔ اور وہ مائل ہونے کے ساتھ گھایل بھی ہورہا تھا۔
"اب کیا سوچ رہی ہیں؟"
علیدان نے اسے یوں گم سم نظریں جھکائے دیکھ کر کہا۔۔
" میں کب سے یہ سوچ رہی کہ آپ کا ولا کافی بڑا ہے ۔۔یہاں پر کوئی چوہے کا بل یقینا نہیں ہوگا؟ "
علیدان یہ بے تکی بات سن کر۔۔ ھنسی پر کنٹرول نہ کرپایا۔۔ اور پھر۔۔ ھنستا ہی چلا گیا۔ "ھا ھا۔۔ ھا ھا۔ "وہ سمجھ گیا تھا وہ شرمساری سے کہہ رہی ہے۔پھر سر ھلاتا ۔۔ باھر نکل گیا۔
پیچھے آن حیران اسے یوں ھنستا دیکھ کر شرم سے لال گلال ہوگئی۔۔ بے اختیار چہرہ چھپا کر۔۔ سر تکیہ پر گرا دیا۔۔ اور دو بار سر تکیہ پر مار کر۔۔ پھر اپنے سر پر بھی دو ھتھڑ مارے۔۔ پھر دونوں ھاتھوں میں تکیہ دبا کر منہ اس میں چھپا لیا۔۔
ابھی وہ اچھی طرح سے اپنی شرمندگی مٹا بھی نہیں پائی تھی کہ علیدان پھر سے داخل ھوا۔۔ اب اس کے ہاتھ میں نیا برانڈڈ ڈریس تھا۔ لانگ فراک ۔۔
وہ اس کو میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھ کر اور شریر ھوا۔۔ حلانکہ آن نے اسے ساری رات بے طرح سے تنگ کیا تھا۔۔ اب اس کا تھوڑا سا بدلہ لینا تو بنتا ہی تھا نا۔۔
" آن ۔۔ آپ کی ڈریس اس قابل نہیں تھی کہ دوبارہ پہنی جاسکتی۔۔ یہ میں نے نیا ڈریس منگوادیا ہے۔۔ جلدی سے شاور لے کر تیار ھوجائیں۔۔ ھری اپ۔ ورنہ کمپنی جانے کے لئے ھم لیٹ ہوجائیں گے۔"
علیدان نے اسے شرمساری سے نکالنے کے لئے جلدی جلدی آرڈر دیا۔۔ اور خود بھی تیار ہونے چلاگیا۔۔ تاکہ آن اٹھ کر آرام سے تیار ھوجائے۔۔
اس کے نکلتے ہی آن اٹھی۔۔ اور جلدی سے واش روم میں بھاگی تھی۔۔ پھر شاور لے کر تیار ھوکر نیچے آئی۔
علیدان ناشتے کی بڑی سی ٹیبل پر اس کا ہی انتظار کررہا تھا۔۔ اسے دیکھ کر بولا۔
" آئیں۔۔ جلدی سے ناشتہ کرلیں۔ ورنہ ہمیں دیر ھوجائے گی۔" آن نے نفی میں سرہلایا۔۔
" نہیں مجھے بھوک نہیں۔۔ "
وہ شرمندگی سے نظریں جھکائے بولی۔۔اس کی ہمت ہی نہیں تھی کہ علیدان کی نظروں کا سامنا کرسکے۔
" ٹھیک ہے پھر میں بھی نہیں کرتا۔"
علیدان اٹھنے لگا۔
یہ دیکھ کر وہ چپکے سے طوہاً و کرہاً کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
علیدان نے مسکرا کر سر ھلایا۔۔ خادمہ نے آن کو ناشتہ سرو کیا۔۔
" مجھے آپ سے۔۔ تنہائی میں کچھ کہنا ہے۔۔" آن ہچکچا کر آھستہ سے بولی۔
" ہممم بولیں میں سن رہا۔"وہ ہم تن گوش ہوا۔
علیدان نے باورچی اور خادمہ کو جانے کا اشارہ کیا۔
" مجھے یہ آفر قبول نہیں ۔۔میں ابھی اس رشتے کو قبول نہیں کرسکتی۔۔ "
علیدان کی یہ سن کر مسکراہٹ تھم گئی ۔
" مجھے نہیں یاد کہ رات مدھوشی میں میں نے کیا کہا؟ لیکن اب میں مکمل اپنے حواسوں میں ھوں ۔اور میرا آپ سے رشتہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔۔ "
آن نے بری طرح اپنے ہونٹ کاٹے۔۔ یہ کہنا ۔۔اور فیصلہ کرنا مشکل تھا۔لیکن ۔۔اس فیصلے سے ، مستقبل میں پیش آنے والی کئی پریشانیوں سے بچا جاسکتا تھا۔۔ یہ صرف آن ہی جانتی تھی۔
"ہمممم علیدان نے ہنکارا بھرا۔۔
" آپ واقعی دوہرے چہرے رکھتی ہیں آن۔۔ لیکن میں آپ کو مجبور نہیں کرسکتا۔۔ رات کا فیصلہ بھی آپ کا اپنا تھا۔۔ اور ابھی کا بھی آپ کا اپنا۔۔۔۔ جائز ہے۔۔۔۔ اٹز اوکے۔۔۔۔ بھول جائیں۔۔ ۔۔۔کھانا کھائیں ۔۔ ہمیں وقت پر نکلنا ہے۔"
علیدان نے واقعی اسے پریشانی سے نکال لیا۔ وہ نہیں چاھتا تھا آن اپنے ذہن پر کوئی بوجھ ڈالے۔۔
آج نہیں تو پھر کبھی سہی۔۔ وہ یہ سوچ کر سر ہلا گیا۔۔
دونوں نے خاموشی سے ناشتہ کیا۔
پھر آفیس جانے کو نکلنے لگے۔۔
اٹھتے ہوئے علیدان نے اس کی توجہ ٹیبل پر پڑے "میجک بال" پر دلوائی۔۔
" کیا آپ اپنا میجک بال نہیں اٹھائیں گیں؟"
آن بری طرح چونکی ۔
"کیا مطلب۔۔؟میجک بال؟ یہ کیا ہے؟"
حیرانی ہی حیرانی تھی آن کے چہرے اور آنکھوں میں ۔
علیدان اب زیادہ دیر خود کی ھنسی نہ روک پایا۔۔ بلکہ آن کو حیران چھوڑ کر سر ھلاتا۔۔ھنستا ہوا آگے بڑھ گیا۔۔
پیچھے آن بھی حیران پریشان سی ٹیبل پر پڑے کرسٹل کے فانوس کو دیکھتی ذہن پر زور دیتی ۔۔۔پیشانی مسلتی ،علیدان کے پیچھے بڑھ گئی۔۔
جب گاڑی کورٹ یارڈ سے گذری تو آن کی نظر "چیری بلاسم "کے پودے پر گئی۔ایک ہلکی سی دھندلی یاد اس کے ذہن کے پردے پر روشنی کی طرح جھلملائی تھی۔
آنکھ کے پردے پر شناسائی کی ہلکی سی لہر آکر گذری۔
" یہ درخت؟۔۔آپ کے کورٹ یارڈ میں ؟؟پہلے تو نہیں تھا۔ ایسا لگتا میں نے کہیں دیکھ رکھا ہے۔"
آن نے ذہن پر دھندھلی سی یاد کو منظر پر لہراتے دیکھ کر علیدان سے پوچھا ۔
علیدان ھنس دیا۔
"میں نے آپ کی فیملی کو یہاں بویا ہے۔جب بھی اپنی فیملی کی یاد آئے۔یہاں آجانا۔"
وہ مسکراہٹ بمشکل دباتا بولا۔۔آن کا چہرہ لمحوں میں سرخ ہوا۔ کیا یہ اس کا مذاق اڑارہا ۔۔ دل ہی دل میں علیدان کو خوب کوسا ۔
" آپ کو تو یہ بھی یاد نہیں آنیہ۔۔لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے، آپ نے درخت کو گلے سے لگالیا تھا۔ اسے چھوڑ ہی نہیں رہی تھیں۔اور اس سے حلف بھی لیا ۔میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کی فیملی کو آپ کے پاس ضرور لاؤں گا۔۔ اور دیکھ لیں۔۔۔ صبح ہوتے ہی میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے۔"
آن تو بس گم سم سی ۔۔جیسے اپنے حواسوں میں ہی نہیں تھی۔علیدان کی باتیں سچی تھیں۔۔یہ وہ دل میں مانتی تھی۔ لیکن ۔۔علیدان کے سامنے اس بات کو ماننا اس کے لئے مشکل تھا۔
اسے رات کی کوئی بھی بات ٹھیک سے یاد نہیں تھی۔بس تصور کے پردے پر دھندھلا سا عکس تھا۔
جیسے کوئی پرانی فلم چل رہی ہو۔ذہن کی اسکرین واضع تصویر کشید کرنے سے مکمل محروم تھی۔۔
" میں نہیں جانتا۔۔" علیدان نے اسے خاموش دیکھ کر بات جاری رکھی۔
" یہ درخت بڑا ہوکر آپ کیبچھوٹی بہن بنے گی یا چھوٹا بھائی؟" مسکرا کر لب بھینچے۔"یہ تو درخت کی عمر ہی بتاسکتی ہے۔وہ کیا بنتا؟"
یہ سن کر آن نے بے اختیار شرمساری سے ھاتھوں میں چہرہ ڈھانپا۔۔ وہ اس سے نظر نہیں ملا پارہی تھی۔
علیدان کو وہ پہلے سے زیادہ اپنی ۔۔بھت اپنی ۔۔۔دل کے قریب لگی۔۔ اس کا چھینبنا۔ منہ چھپانا۔ اسے بری طرح راغب کررہا تھا ۔۔وہ چاھتا تو اس کے قریب بیٹھا تھا۔۔ اس کی قربت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔۔
لیکن ۔۔ وہ بھت ہی با اصول شخص تھا۔۔۔۔آن کو دل کی پوری رضامندی سے اپنانا چاھ رہا تھا۔۔ اور اسے یقین تھا۔۔ یہ وقت دور نہیں ھے۔
" لوگ ایک کتے کو بھی پال کر اپنا بیٹا بتاتے ہیں۔۔ آپ بھی درخت پال کر اسے اپنی بیٹی یا بیٹا بنالینا۔" وہ مسکرایا۔
آن نے بری طرح دانت پیسے۔(یہ شخص واقعی بہت ہی بے شرم تھا۔)
"آپ چپ نہیں رہ سکتے؟"
آن نے خفا خفا سی نظر اس ہر ڈالی اور اسے گھورا۔۔
علیدان ھنسی دبا کر چپ بھی ھوگیا۔
" آل رائیٹ۔۔۔کیوں نہیں۔۔"
وہ نہ صرف چپ ہوا ۔بلکہ ۔۔سر بھی گھما کر کھڑکی کے طرف کرلیا۔۔ اسے آن کا جھنجھلانا ۔۔ دانت پیسنا۔۔ ھونٹ کاٹنا۔۔ شرم سے پلکیں چھپکانا اور اس کے گالوں پر وقفے وقفے سے اترتی شفق کی لالی۔۔ یہ سب بری طرح اٹریکٹ کررہا تھا۔۔ لیکن وہ خود کو سنبھال کر۔۔ بیٹھا تھا ۔۔۔کیونکہ ابھی اس کو انتظار کرنا تھا۔۔ جب آن اسے اپنا سمجھ کر خود اس کے پاس آتی۔۔
☆☆☆☆☆
" تم نے اس کا برانڈڈ ڈریس دیکھا؟۔جو آج پہنے ہے۔یہ آج کل کی ٹاپ برانڈڈ ڈریس ہے۔جو صرف ایک ھفتہ پہلے ہی مارکیٹ میں متعارف ہوئی ہے۔۔ دس ھزار روپے۔۔ میں تو اس برینڈ کی "فین" ہوں۔""ایک نامانوس سی آواز اندر tea house سے آرہی تھی۔ آنیہ عصمت اس وقت اپنے لئے پانی لینے جارہی تھی۔کہ اندر ٹی ھاوس سے آتی کسی کے بارے میں باتیں کرنے کی آوازیں آئیں۔
" پتا نہیں آج کل کی یونیورسٹی گریجویٹ اسٹوڈنٹس کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے۔کہ برینڈڈ ڈریس افورڈ کرسکتی۔ "
یہ دوسری اچھنبے سے بھری آواز تھی۔
" دیٹز رائیٹ ۔۔۔ یونیورسٹی میں ہی معاشقے چلا کر ایسی لڑکیاں ۔۔اصل میں تو اپنے خاندان کی ناک ڈبوتی ہیں۔"
پہلی آواز نے کہا۔
آن دروازہ کھول کر اندر آئی۔ اندر بیٹھے دو نفوس اس کی اچانک آمد پر بوکھلا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو چپ کروانے لگے۔۔۔اور چپکی ہوگئیں۔
آن نے ایسا ظاہر کیا۔جیسے کچھ نہ سنا ہو ۔بلکہ ایک اسمائل پاس کرتی اپنے لئے پانی لینے لگی۔اور بنا ان کے شرمندہ چہروں پر نظر کیئے۔۔ واپس آکر اپنی سیٹ پر بیٹھی۔۔ اور اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔
یہ آفیس تھا۔۔جہاں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو لازمی دوسروں پر انگلیاں بھی اٹھاتے ہیں۔آپس میں غیبت بھی کرتے ہیں۔ جو کہ انسان کی ایک اضافی خوبی ہوتی ہے۔۔ دوسروں کے بارے میں متجسس ھونا۔۔اور پھر مل بیٹھ کر اس کے کردار کی دھجیاں بکھیرنا۔۔
کچھ دیر ہی گذری تھی کہ آنیہ عصمت کا سیل فون رنگ کرنے لگا۔۔ آن نے نمبر دیکھا ۔۔ زایان اعوان کی کال تھی۔۔ آن کا بلکل بھی موڈ زایان سے بات کرنے کا نہیں تھا۔ تبھی کال کاٹ دی۔۔
دوپہر کو جب کام تقریبا ختم ہونے کو ہوا۔۔
"آن کیا تم میرے ساتھ لنچ کے لئے کیفیٹیریا چل سکتی ہو؟"
اس کی کولیگ سیماز اس کی ڈیسک کے پاس آئی اور ساتھ لنچ کے لئے آفر کی۔
آن نے سر اثبات میں ہلادیا۔۔
" آل رائیٹ" آن نے ڈاکیومنٹس سنبھال کر ڈیسک کے کبرڈ میں رکھے۔اسے لاک کیا۔اور اس کے ساتھ سیڑھیوں سے نیچے کمپنی کے کیفی ٹیریا میں آئی۔
دونوں نے لنچ باکس کا آرڈر دیا۔
اس وقت علیدان نے آن کو فون کیا۔
آن سیماز سے معذرت کرتی۔۔ایک سائیڈ پر جاکر کھڑی ہوئی اور فون پک کیا۔
"ہیلو" آن نے ہلکی آواز میں کہا۔
"آپ کب تک فارغ ہوںگیں؟" دوسری طرف سے گھمبیر آواز آن کی سماعتوں میں گھل کر دل کی دھڑکنوں کے تال سے میل کرنے لگی۔۔ یہ دھڑکنوں کا سرگم ۔۔اور نغمگی آن کے وجود میں جیسے برق دوڑانے لگا تھا ۔
آن نے ایک لمحہ کو آنکھیں بند کرکے ۔۔اسے محسوس کیا۔۔ صرف ایک لمحہ ۔۔ پھر سے اس نے خود کو سرزش کری۔۔ (نہیں آن ۔۔یہ سب سراب ہے۔۔اس نے خود کو کافی حد تک سنبھال لیا۔۔)
"میں تو آلریڈی فری ہوگئی ہوں۔ابھی لنچ کے لئے آپ کی کمپنی کے کیفی_ٹیریا میں آئی ہوں۔" آن نے ہلکی آواز میں اطلاع کری۔
"اور ۔۔میرے لنچ کا کیا ہوگا؟"دوسری طرف وہ حیرانگی سے سوالیہ ہوا۔
آن نے بے اختیار لب کاٹے۔
" مجھے آج صبح وقت ہی نہیں ملا تھا کہ کچھ بنا کر لے آتی۔آپ کو پتا نہیں ؟"
"تو آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ آپ کو میرا خیال نہیں آیا۔؟"
علیدان کی خفا خفا سی آواز ابھری۔۔
"ایکچوئلی۔۔۔میں نے کچھ پکایا ہی نہیں۔تو آپ کا خیال کیسے کرتی؟؟ "
"اوپر آجائیں۔۔میرا سیکرٹری لنچ ارینج کرلے گا۔۔ آکر بس مجھے کمپنی دیں۔
"It's boring to eat alone۔"
"لیکن ۔۔۔؟" آن پریشان ہوئی کہ اب کیا کرے؟
" میں اپنی کولیگ کے ساتھ آئی ہوں ۔اور آرڈر بھی دے چکی ہوں۔۔یہ سخت برا لگتا اگر میں اس کو انکار کردوں۔"
آنیہ عصمت نے جیسے ہی بات ختم کی۔اس کا لنچ باکس بھی آگیا۔
حلانکہ علیدان کو اس کا بات نہ ماننا سخت برا لگا تھا۔۔لیکن وہ اس پر کوئی غصہ نہیں کرسکتا تھا۔وہ بھت سوبر سا شخص تھا۔۔اس نے خاموشی سے کال بند کردی تھی۔۔آن نے حیرت سے فون کو دیکھا۔۔ پھر کندھے اچکا کر ۔۔ اپنی ٹیبل پر آکر بیٹھی۔
سیماز اسے دیکھ کر ھنسی۔
" میں پہلی بار دیکھ رہی ہوں ۔کسی امیر زادی کو ایک کیفی ٹیریا میں لنچ باکس سے لنچ کرتے ہوئے۔
میں نے پہلے سوچا۔تم جیسے "امیر لوگ" کہاں کمپنی کے کیفیٹیریا میں لنچ کرتے ہونگے۔میں پریشان تھی۔کہیں تم میری پیشکش مسترد نہ کردو" ۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی آسانی سے مان لو گی ۔ ھاو اسٹرینج۔۔ "
"امیر لوگ۔۔۔" آن حیران ہوئی۔
"کیا تمہارا اشارہ میری طرف ہے؟" اب کے آن سنبھل کر بولی۔۔
"Yup۔۔"
سیمیاز مسکرائی لیکن آن کی حیرانگی پر کچھ عجیب کیفیت میں آگئی۔
"میں بلکل بھی "امیر زادی " نہیں ہوں ۔ پیسے کے لحاظ سے بھت کم ہوں۔"
"تم مذاق کررہی ہوں؟" وہ تعجب سے بولی۔۔
"میں مذاق بلکل بھی نہیں کررہی۔۔میں بھت غریب لڑکی ہوں۔۔ تم کو یہ غلط فھمی کس وجہ سے ہوئی ہے۔۔؟" آن سکون سے بولی۔
"ایک غریب شخص کبھی بھی اس قدر برانڈڈ ڈریس افورڈ نہیں کرسکتا۔" اس نے آن کے پہنے ڈریس کے طرف اشارہ کیا۔۔
"برینڈڈ۔۔۔؟" آن یہ لفظ دوسری بار سن رہی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے ڈریس پر کی۔۔جو صبح علیدان نے اس کے لئے مھیا کی تھی۔بی کاز آن کا ڈریس اس قابل نہیں تھا کہ آفیس پہنا جاسکے۔وہ واقعی کسی برینڈ کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔صبح جو لوگ کسی کو معشوق بنا رہے تھے ۔۔وہ یقینا اس کے بارے میں ہی بات کررہے تھے۔۔
آن نے افسوس سے ایک گہری سانس ھوا کے سپرد کی۔
"یہ ڈریس کاپیڈ ہے۔"
"ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟؟"
وہ سخت متعجب ہوئی۔۔
"ہمارے ڈپارٹمنٹ کی ایک پرانی ساتھی ہے۔ جو اس برانڈ کی زبردست "فین" ہے۔وہ کہہ رہی تھی۔۔یہ 100% پرسنٹ اصلی ہے"۔
"ڈیئر۔۔اگر میرے پاس اتنے پیسے ہوئے تو اس برینڈ کو ضرور خریدوں گی۔"
آن نے سکون سے اسے جواب دیا۔
"کیا واقعی ی ی۔۔۔۔؟" سیمیاز کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے کو تھیں۔آن ٹھنڈی سانس بھر کر اپنا لنچ کرنے لگی۔
کیفی ٹیریا سے واپس آکر اس نے ثنا حمزہ کا نمبر ڈائل کیا۔
"اب تم ٹھیک ہو؟"
دوسری طرف سے ثنا حمزہ کی سست سست سی آواز سنائی دی۔
"ہممم تم بتاو۔۔رات کیا ھوا تھا میرے ساتھ؟؟"
"میں کیسے جان سکتی ہوں؟ یار۔۔تم نے تو ڈرنک کی وجہ سے اپنی جان ہی خطرے میں ڈال دی تھی۔۔"
"ویٹ ۔۔۔۔ہم اس پر بعد میں بات کرتے۔۔پہلے یہ تو بتاؤ۔۔تمہارا بھائی تو بھت زیادہ ہی خوبرو تھا یار۔۔کہیں وہ انگیج تو نہیں ؟ اگر نہیں ہے تو پھر پکا سے میرا چانس بن سکتا ۔۔تم نے پہلے کبھی تعارف ہی نہیں کروایا۔قسم سے یار اگر تو میری اس سے شادی ہوئی تو میں نے پکا سے تیری بھابھی بن جانا۔۔ "ثنا حمزہ اپنی ہی ھانکے جارہی تھی۔وہ بری طرح علیدان پر فلیٹ ہوگئی تھی ۔۔
"میرا بھائی؟" آن کی حیرت کی زیادتی سے آواز حلق میں پھنس گئی۔
کیا اس کا بھائی اسے ڈھونڈھتے وہاں پہنچا تھا؟
"ویٹ۔۔رک جاو لڑکی۔۔نان اسٹاپ شروع ہوتی ہو تو فل اسٹاپ بھول ہی جاتی ہو۔"آن جھنجھلا گئی ۔
"پہلے یہ بات تو کلئر کرو۔کہ کون سا بھائی؟"
"آ اااا۔۔۔ کیا تم کو بلکل بھی اندازہ نہیں کہ رات تم۔کس کے ساتھ گھر گئی تھی؟" ثنا تو مانو حیرت سے مرنے کو ھوئی۔
"کون۔۔؟" آن متجسس تھی۔
بی کاز اسے بلکل بھی کچھ یاد نہیں آرہا تھا۔
"ڈیم اٹ۔۔ یار ۔۔کیا تمہیں بلکل یاد نہیں کیا۔ تمہارا بھائی تمہیں گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا ؟"
"کون سا بھائی؟" آن اور زیادہ کنفیوز ہوئی۔
علیدان اسے اپنے گھر لے گیا تھا۔اس کا بھائی نہیں ۔
"ارے یار اس پین کا مالک ۔۔پورے شہر کی مشہور شخصیت"علیدان شاہ"
"کک۔۔۔۔کیا۔۔۔۔؟ وہ۔۔۔؟"
آن کے منہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوکر الفاظ بمشکل پھسلے۔
"آل رائیٹ۔۔اب چھپانا بند کرو۔۔۔
۔میں نے اسے کل دیکھا۔۔ وہ اس ریسٹورانٹ میں پہلا شخص تھا۔ جو تمہیں لینے آیا تھا۔مجھے تو بلکل بھی امید نہیں تھی کہ تم چھپی ہوئی کوئی شہزادی ہوگی۔تمہارے بھائی نے تمیں لاڈ میں بگاڑ دیا ہے۔" ثنا حمزہ چہکی۔
"اس نے مجھے بگاڑا ہے؟"
جو کچھ ثنا کہہ رہی تھی۔۔حیرت تھی کہ اسے ہی کچھ نہیں پتا تھا۔۔ بقول شاعر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے ۔باغ تو سارا جانے ہے۔
"ڈیم اٹ۔۔ تم کو یاد نہیں جب تم مدھوش سی شیشے کے فانوس کے لئے ضد کررہی تھی؟"
آن کے ذہن میں صبح ٹیبل پر پڑا کرسٹل بال آیا۔ اور علیدان کا ھنسنا۔۔
آن بلش ہوئی۔" کیا واقعی ایسا تھا؟"
بے یقینی ہی تھی۔۔
"ییس ۔۔"
ثنا نے اقرار نامہ تھما کر گویا اس کے سارے شکوک پر یقین کی مہر لگادی تھی۔
"پھر کیا ہوا؟" آن نے جاننا چاھا۔
"تمہارے بھائی نے اپنا بینک کارڈ ویٹریس کو تھمایا۔۔اور کود کر کرسی پر چڑھا۔ ھاتھ بڑھا کر کرسٹل بال اتار لیا۔ اور تمہارے ھاتھوں میں تھما کر کہا" اٹز گفٹ فار یو۔ "
آن کو سب منظر اب فلم کی طرح یاد آنے لگے۔
اس کی آنکھ ایک اجنبی کمرے میں کھلنے سے اس کا بے طرح پریشان ہونا۔۔
پھر منظر بدلا۔ علیدان کا اس کے کمرے میں داخل ھونا۔۔ آن کا اسے دیکھ کر سکون کہ سانس بھرنا۔
پھر منظر بدلا۔ " علیدان کا اسے شادی کے لئے انسیسٹ کرنا۔
دوسرے منظر میں وہ اس پر بری طرح ھنس رہا تھا۔
اور تیسرے منظر میں وہ اس کے لئے نیا جوڑا لاکر بیڈ پر رکھتا نظر آیا ۔۔۔
پھر منظر بدلا۔۔
علیدان ٹیبل پر بیٹھا اسے ناشتے کے لئے بلا رہا۔ پھر منظر بدلا۔۔
اس کا کرسٹل بال کو لے کر ھنسنا۔۔
منظر اب پلٹا۔۔ وہ گاڑی میں اس کے ساتھ بیٹھی کورٹ یارڈ میں چیری بلوسم کو دیکھ کر حیران ھورہی تھی۔۔ علیدان سے پوچھنے پر علیدان کا ھنسی سے بھرا چہرا ۔۔ اور اسے چیری بلوسم کو اس کا رشتیدار بتانا۔۔
ایک ایک کرکے سارے منظر واضع ہوئے تھے۔۔ اور آن منہ پر ھاتھ رکھ کر کافی ھاوس میں نیچے بیٹھتی چلی گئی۔۔ کافی دیر بعد ۔۔ خود پر قابو پایا۔ اور جیسے ہی اٹھ کر نکلنا چاھا۔۔ دوسری طرف آفیس کی ایمپلائی بھی اسی وقت مڑی ۔۔ اس سے پہلے کہ دونوں آپس میں ٹکراتی ۔۔دوسری ایمپلائی نے گرم گرم کافی اس پر انڈیل دی۔
"اوھ مائی گاڈ۔۔ یہ تو نیو انٹرن ہے۔آئی ایم سوری۔۔ ویری سوری۔۔ میرا مقصد تم کو تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔"
دوسری سینئر ایمپلائی تھی۔
آن نے کچھ نہیں کہا۔جلدی سے ٹھنڈے پانی کے کولر سے ٹھنڈا پانی ڈال کر پیٹ کی جلن کو کم کیا۔ تکلیف کی شدت سے اس کے لب بھینچ گئے تھے۔ ڈریس پر کافی نے گہرا داغ چھوڑ دیا تھا۔اور چپچپا سی گئی تھی۔
"اگر یہ تم نے جان کر نہیں کیا تو پھر ٹھیک ہے ۔" آن نے اسے نم نظروں سے دیکھا۔"حلانکہ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو چھوا تک نہیں پھر تم نے کافی کیوں پھینک دی؟ "آن نے تکلیف برداشت کرتے اس سے پوچھا۔
"کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟" وہ تو جیسے لڑنے مرنے کو تیار بیٹھی تھی آنکھیں نکالتے چینخی۔
"تم یہ کہنا چاھتی ہو کہ میں نے دانستہ تم پر کافی گرائی ہے۔؟ میری تم سے کیا دشمنی تھی؟"اس ایمپلائی نے آنکھیں ماتھے پر ہی رکھ لیں۔
پورا اسٹاف اس کی تیز آواز سن کر اکھٹا ھوگیا۔ کافی ھاوس ڈپارٹمنٹ کی ھیڈ اس کو جلدی سے واش روم لے گئیں ۔۔ آن نے کپڑے اٹھا کر پیٹ چیک کیا۔۔ پیٹ پر آبلے پڑ چکے تھے۔۔ ھیڈ اس کے پاس آئی ۔"یہ تو کافی جل گیا ہے۔ چلیں میں آپ کو ھاسپٹل لے چلتی ہوں۔"
جب اس پہلی ایمپلائی نے یہ سنا کہ آن عصمت ھاسپٹل جارہی ہے۔ تو اس نے تمسخرانہ کہا۔
"او ھو ۔۔اتنی سی بات پر ھاسپٹل جارہی ہے۔ صرف پانی ہی تو تھا۔" بھنویں سیکڑ کر ساتھ ہی ناک چڑھائی۔
اس کے ساتھ کھڑی زینیہ نے کہا۔
"عنیزے اسٹاپ اٹ ۔۔یہ بری طرح جل چکی ہے۔ پیٹ پر آبلے پڑ چکے ہیں۔ اس کی زمہ وار صرف تم ہو۔"
"تم اس معاملے میں نہ بولو زینیہ۔ میں جانتی ہوں تم مجھے پسند نہیں کرتی ۔لیکن۔۔۔یار اس قدر مبالغہ آرائی مت کرو ۔" اس نے یوں ھاتھ لہرایا جیسے مکھی اڑا رہی ہو۔
"کیا مطلب؟ میں مبالغہ آرائی کررہی ہوں۔؟ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔اس لڑکی کا پیٹ تمہاری وجہ سے جلا ہے۔تم کو احساس ہے کچھ ؟" زینیہ نے بھی اسے گھورا۔
اس وقت مینجر باھر شور سن کر باھر نکلا۔
" کیا ہورہا؟ آفیس ٹائیم میں اس قدر شور کیوں مچایا ھوا ؟خاموش رھو ۔ورنہ تم لوگوں کو نوکری سے نکال دیا جائے گا۔"
زینیہ نے مینیجر صاحب کو ساری بات بتائی اور آن عصمت کو اجازت دلوائی ۔
"مس آپ جاکر ہاسپٹل چیک کروائیں کہیں سریس زخم نہ ہو؟"
اس کے جاتے ہی آن عنیزے کے قریب آئی ۔
"اللہ ہی جانتا ہے کہ کس نے غلط کیا " سرد نظروں سے اسے دیکھ کر وہ مڑی۔
اور ۔باھر نکلتی گئی ۔
چیکنگ اور زخم کی ڈریسنگ کے بعد ڈاکٹر نے چند احتیاطی تدابیر بتائیں ۔آن نے بل پے کیا ۔اور ایمرجنسی وارڈ سے باھر نکل آئی۔علیدان وہیں دروازے پر کھڑا اسے ڈھونڈھ رہا تھا۔۔ آن کو دیکھ کر جلدی سے اس کے پاس آیا۔ فکر اور پریشانی اس کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی۔
"کیسی ہیں آپ ؟ کیا کہا ڈاکٹر نے؟" علیدان نے اسکے قریب آیا۔
"آپ یہاں کیسے ؟" ہمیشہ کی طرح آن نے وہی بیوقوفانہ سوال کیا تھا۔ جس پر علیدان نے اسے ناگواری سے گھورا۔
"میں آپ سے کیا پوچھ رہا آن کہ آپ کا زخم کیسا ہے؟"
"کچھ خاص نہیں ۔ڈاکٹر نے ڈریسنگ کردی ہے " اس نے پرچی علیدان کو دکھائی۔ جس پر میڈیسن لکھی تھیں ۔۔علیدان نے وہ اس کے ھاتھ سے لے کر دیکھیں۔
"کون سا ڈاکٹر ؟؟" علیدان نے پوچھا۔
"ایمرجنسی سرجری۔" آن کے مختصر بتانے پر علیدان ادھر بڑھ گیا تاکہ ڈاکٹر سے کنفرم کرسکے۔جب ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ" زخم گھرے نہیں ہیں۔ جلدی ٹھیک ہوجائیں گے ۔بس احتیاط ضروری ھے۔ " علیدان نے یہ سن کر سکون کی سانس لی۔۔ اور باھر آکر۔۔ اسے ساتھ لیا۔۔ اور گاڑی میں بٹھایا۔
سیٹ بیٹ باندھتے آن کراہی۔
" کیا ہوا۔"علیدان نے پریشانی سے پوچھا۔
" یہ سیٹ بیلٹ تکلیف دے رہی۔۔ میرا پیٹ۔۔۔ آھ۔۔ "وہ کراہی۔۔
علیدان نے اسے اٹھا کر پیچھے سیٹ پر بٹھایا۔۔
اور خود آگے بیٹھ کر گاڑی چلادی۔۔ لیکن اس کی فکرمندانہ نظریں پیچھے بیٹھی آن کے چہرے کا مسلسل طواف کررہی تھیں۔
"آپ نے مجھے کال کیوں نہیں کی آن ؟"
علیدان نے اسے ٹوکا۔
"کیا آپ ڈاکٹر ہیں؟"۔آن نے ھلکے پھلکے انداز میں جیسے اس کی پریشانی کو ھوا میں اڑانا چاھا۔۔ لیکن علیدان نے اسے گھور کر دیکھا۔
"میں آپ کا باس ہوں۔ "
وہ ھنسی۔ " تو پھر میں اپنے باس کو کہوں گی کہ میں جلنے کی وجہ سے زخمی ہوئی ہوں ۔میری انشورنس ہوسکتی ہے؟"
علیدان کو اس کا بے وقت کا مذاق بلکل نہیں بھایا تھا۔ بے اختیار گھری سانس بھر کر اسے دیکھا ۔
"اصل بات بتائیں۔"علیدان نے لب بھینچ کر اب کچھ خفگی سے اسے دیکھا۔
"وہ سینیئر ایمپلائی تھی۔"وہ منمنائی۔
"کیا وہ ایمپلائی اندھی تھی؟"وہ ناگواری سے بولا۔
"وہ مجھے کہہ چکی ہے کہ اس نے جان کر نہیں کیا۔"
"آپ کا مطلب ہے۔ یہ
سچ ہوسکتا ہے؟ ہوسکتا ہے اس نے کسی ارادے سے کیا ہو۔"علیدان نے ریئر ویو سے اسے دیکھا۔
اس کے دیکھنے پر آن ایک لمحے کے لئے ھچکچائی۔" یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اس نے یہ صرف ارادے سے کیا ہو؟ علیدان۔۔میں تو اسے جانتی تک نہیں۔۔میرے سے کیا دشمنی ہوسکتی۔؟"
علیدان نے اسے گہری نظروں سے دیکھا۔ اور اس کی آواز غیر محسوس انداز میں بلند ہوئی۔ "اس نے یہ جان بوجھ کر کیا ہوگا۔"
" آپ باس ہیں "۔آن نے ایک پرجوش مسکراہٹ سے کہا۔ "میں آپ کو یہ کہرہی ہوں۔اس کی ایک چھوٹی سی پولیس رپورٹ بنتی ہے۔"
"بکواس کم کیا کریں آن۔"۔علیدان خفا ہوا۔"اصل بات بتائیں ۔کیا ہوا تھا۔؟"
" مجھے واقعی سمجھ میں نہیں آرہا۔کہ کیا ہوا۔ ہم ٹی ہاوس میں کافی لینے آئے تھے۔ اور ایک ہی وقت میں مڑے اور باھر نکلنے لگے ۔ فاصلہ اتنا کم بحرحال نہیں تھا کہ ہم میں ٹکراو ہوتا لیکن اس کی کافی میرے اوپر گری۔آئی تھنک یہ صرف ۔۔۔۔اس کی بے احتیاطی کی وجہ سے ہوا ہے۔"
علیدان نے اسٹرئنگ وھیل کو زور زور سے ھاتھ سے مکا مارا۔۔یہ اس کے غصہ اور آن سے ناراضگی کا کھلا اظہار تھا۔ " ضدی لڑکی، آپ نے مجھے کال کیوں نہیں کی ؟" وہ سخت خفا تھا۔
"آپ۔۔۔۔کیا کرتے؟۔۔۔میں فون پر۔۔ ایک پرائمری اسکول کے اسٹوڈنٹ کی طرح شکایت لگاتی ؟ کہ میرے ماں باپ کو بھیجو میری مدد کریں ؟ ہم نے ایک دوسرے کو مارا پیٹا ہے۔ پیچھے اگر آپ وہاں آتے ۔میں کسی کو منہ نہ دکھا پاتی۔ اگر آپ نیچے آتے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ میری انٹری کس کی توسط سے ہوئی ہے؟ ویسے بھی ۔۔۔میں بلکل نہیں چاہتی تھی۔۔ کہ لوگ مجھ پر پورا ایک مھینہ کام کے دوران انگلیاں اٹھائیں۔ "آن نہیں چاھتی تھی جسٹ ایک مھینہ کے انٹرن شپ پر کام کے دوران وہ علیدان کے لئے مسئلا بنائے۔
"تو ۔۔۔ یہ تکلیف کسی وجہ سے برداشت کرنے کا ارادہ ہے؟"وہ سخت خفا تھا۔
"اس کے بارے میں آرام سے سوچیں۔ مجھے پتہ چل جائے گا کہ وہ کیوں مجھے نشانہ بنارہی ہے اور لڑی ہے۔"
"ٹھیک ہے ، یہ اچھی بات کہی ہے۔" علیدان کو اس کی بات دل سے لگی تھی۔
"اگر آپ مجھ پر یقین کریں تو۔۔۔ میں یہی کرنے کا ارادہ رکھتی ہوں۔"وہ علیدان کی ریئر ویو میں سے نظر آتی گھری نظروں پر پلکیں جھکا کر بولی۔
علیدان ھلکا سا مسکرایا۔ "ذہین ہیں۔"
آن ہلکا سا مسکرائی۔پھر جیسے کچھ یاد آیا، "ویسے ۔۔۔ سوچنے کی بات آپ اسپتال کیسے پہنچے؟"
"میں نے آپ کو کال کی تھی۔آپ کے ہی ڈپارٹمنٹ کی خاتون زینیہ نے جواب دیا۔ کہ آپ فون ٹی ھاوس میں چھوڑ گئی ہیں۔اور آپ جل جانے کی وجہ سے ھاسپٹل گئی ہیں۔"
"لیکن میں نے اسے بلکل نہیں بتایا کہ کون سے ہاسپٹل گئی ہوں۔"وہ حیران ھوئی۔
"کیا ایک نارمل آدمی قریبی ھاسپٹل نہیں جائے گا ؟"وہ اس کے معصومانہ سوال پر مسکرادیا۔اور اسے گھری نظروں سے گھورا ۔
وہ بھی مسکرادی ۔یہ سچ ہی تھا ۔
علیدان نے اسے واپس کمپنی نہیں چھوڑا بلکہ شاہ ولا لے کر آیا ۔
ولا پہنچ کر وہ کار سے بلکل نہیں اتری بلکہ سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھی رہی۔
جب علیدان نے اسے تیسری بار اترنے کو کہا ۔تب ضدی انداز مین بولی۔" یا تو مجھے واپس کمپنی چھوڑ آئیں ۔یا مجھے میرے گھر پر چھوڑ کر آئیں۔ میں یہاں بلکل نہیں رہوں گی۔"وہ بلکل بچوں کی طرح ضدی ہوئی۔
"آپ کی فیملی بھی تو یہاں ہے۔"علیدان شریر ہوا۔مسکراہٹ دبائی گئی۔
"تو کیا آپ نے اسی لئے انہیں یہاں بویا ہے ۔کہ ہر وقت مجھ پر ہنسی کرتے رہیں؟"اب کے واقعی آن چڑ گئی۔
"ہاں۔۔ آپ پر ساری زندگی ھنسنا چاہوں گا۔۔۔آخری سانس تک۔۔"علیدان کا لہجہ گھمبیر ہوا۔۔۔"پوری زندگی ۔"
آن نے اسے دیکھا۔(کیا وہ جانتا ہے بھلا کہ وہ ساری زندگی اس کے ساتھ رہے گی۔؟)
آن کے مستقبل کے منصوبے میں کسی بھی مخالف جنس کا دور دور تک تصور نہیں تھا۔ وہ اپنی زندگی کو تنہا اپنے بل بوتے پر جینا چاھتی تھی۔نا کے کسی اور کے سہارے پر۔
"یا تو میں کمپنی جاوں گی۔ یا پھر اپنے گھر جاوں گی۔" وہ ضدی بنی۔
علیدان نے اس کے ضدی انداز کو پیچھے مڑ کر بڑے سکون سے دیکھا۔
بالآخر دس منٹ تک بحث کے بعد علیدان اس کی ضد کے آگے ہار گیا۔ اور اس کے فلیٹ تک اسے چھوڑا ۔
"اس وقت شام کے چار بج چکے ہیں آپ اب کمپنی تو واپس نہیں جاسکتی اسی لئے بھتر ہے آرام کریں۔"
"تھینک یو۔"آن مشکور ہوئی۔
اس نے آن کو سیڑھیوں سےچڑھنے پر مدد کی ۔
اپنے کمرے میں پہنچ کر علیدان نے اسے بیڈ پر لٹایا۔تب آن نے اس سے پوچھا۔
"میں نے سنا ہے کہ یہ ڈریس بھت مہنگا اور برینڈڈ ہے۔۔۔کیا یہاں کوئی مقامی اسٹال بھی ہے۔۔؟ جہاں سے میں خرید سکوں؟"
علیدان نے کچھ نہ کہا۔ بلکہ چپ رہا۔۔اس کی خاموشی دیکھ کر آن معصومیت سے بولی تھی۔
"یہ ٹھیک ہے کہ ، میں آپ کو یہ ڈریس واپس نہیں کرسکتی۔ یہ کافی سے رنگ چکا ہے۔ اور اب صاف بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر آپ کو اس کی قیمت چاھئے تو۔۔۔۔؟" وہ ہچکچائی۔
علیدان نے اس کا سر ہولے سے تھپکا۔"اچھی لڑکی ۔اس بات کو لے کر پریشان مت ہوں۔۔کپڑے بدل کر آرام کریں۔میں آفیس سے واپسی پر آپ کو دیکھنے آوں گا۔"
اس کے ساتھ ہی وہ جانے کو مڑا ۔تبھی آن کی آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔
"لیکن۔۔۔آپ کو واپسی پر ۔۔ آنے کی ضرورت نہیں ۔میں اب آرام کرنا چاہتی ہوں "وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔علیدان کو اس کا لہجہ چھبا ضرور تھا۔لیکن پھر بھی علیدان نے اس کی بات کو نظر انداز کردیا۔اور نکلتا چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی آن کو یاد آیا۔کہ اس نے کیا کہہ دیا ہے؟ " کیا تم کو دماغ نہیں ہے؟" آن نے خود کو ڈانٹا۔
واقعی آن کو دماغ نہیں تھا۔ جب وہ سامنے ہوتا تھا ۔تو اپنے لفظوں سے اس کا دل دکھادیتی تھی۔اور جب وہ چلا جاتا تو ۔۔اس کو ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بھت پیارا ناراض ہوگیا ہو۔یہ سچ تھا علیدان کی موجودگی میں خود کو تنہا نہیں محسوس کرتی تھی۔۔یہ بھت بار آن نے انالائیز کیا تھا۔لیکن سچ ماننے میں اسے اب بھی تامل تھا۔۔ وجہ وہ جانتی تھی ۔۔ کہ ایسا کیوں کرتی ہے۔
☆☆☆☆☆☆
جب علیدان آفیس واپس آیا تو فون پر دانیال سے کہہ کر محکمہ ٹریننگ کی ھیڈ کو بھیجنے کا کہا۔
"آن عصمت کو محکمہ ٹریننگ کی طرف سے "معافی نامہ" پیش کریں ۔اور ھیڈ کو کچھ بتائے بغیر میرے دفتر لائیں ۔ "
دانیال حیران تھا کہ باس کو محکمہ ٹریننگ میں کیا دلچسپی پیدا ھوگئی؟ وہ بھی کچھ دنوں سے۔
زینیہ ڈرتی ڈرتی آفیس آئی۔
"مے آئی کم ان سر۔"
"ییس ۔۔کم ان ۔"
"ھیلو سر میں زینیہ ہوں محکمہ ٹریننگ ڈپارٹمنٹ کی ھیڈ۔"
"کیا آپ جانتی ہیں۔ کہ میں نے آپ کو کیوں بلایا ہے؟ "
زینی کافی نروس ہوگئی۔
اسے واقعی نہیں معلوم تھا کہ اسے کیوں بلایا گیا ہے۔
یقینا اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ھوگا کہ کبھی زندگی میں باس کو سامنے دیکھ سکے گی۔؟
"آئی ایم سوری سر ۔مجھے صاف نہیں معلوم؟"
"کیا آج آپ اپنے ڈپارٹمنٹ میں انٹرن شپ پر آئی ہوئی ایمپلائی پر کافی چھڑکنے کا عمل جانتی ہیں؟"
زینیہ دنگ ھوئی ۔(تو کیا باس اس بات کو جانتے ہیں؟)
"جی " وہ انکار نہ کرسکی۔
"پوری بات بتائیں مجھے۔"
زینیہ نے سانس بھر کر خود کو سنبھالا اور ساری بات بتادی۔
علیدان نے بھویں اچکائیں۔ " تو آپ کو یقین ہے کہ۔۔۔"بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھا۔
"میں نے یہ خود اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت ٹی ھاوس میں ان دونوں کے سوا کوئی نہیں تھا۔"
"اوھ ۔۔ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ اس نے آن پر کافی انڈیل دی ؟"
زینیہ کچھ لمحہ ھچکچائی۔" سر میں پُر یقین نہیں ہوں۔"
"اٹز اوکے۔۔ میں آپ کا تجزیہ جاننا چاھتا ہوں۔ کہ ان دونوں کے بیچ میں لڑائی کی کیا وجہ ہوسکتی۔"
علیدان کی یہ بات سن کر زینیہ کو یہ بات سمجھ میں آگئی کہ باس یہ بات پہلے سے جانتے ہیں۔
زینیہ ایک لمحہ ہچکچائی۔"ان دنوں آفیس میں یہ افواھ تھی کہ مینجر صاحب اپنی محبوبہ کو کمپنی میں عارضی ٹریننگ انسٹرکٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے لائے ہیں۔ ہر کوئی اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ کون ہوسکتی ہے؟۔
زینیہ نے کہنا شروع کیا۔"سر ۔عنیزے مینجر سر کی لوور ہیں۔میں ہی نہیں بلکہ آفیس میں ہر ایمپلائی یہ بات جانتا ہے ۔اس بات کا فائدہ اٹھا کر عنیزے سب پر دھونس بھی جماتی ہے ۔ "
زینی ھچکچائی۔
علیدان نے اس کی ھچکچاہٹ دیکھ کر کہا۔ "آپ بات جاری رکھیں۔۔ڈریں مت۔"
"آن عصمت میرے خیال سے ٹارگیٹ بنائی گئی ہیں"
علیدان کی آنکھیں یہ بات سن کر سرد ہوئیں۔۔ بھنویں اچکا کر اسے دیکھا۔
"آپ کا سیلف انالائیز کیا کہتا؟ کہ کس نے نشانہ بنایا ھوگا؟۔
"کچھ دن پہلے کی بات ہے میں مارکیٹ گئی تھی۔جہاں ایک مال میں مینجر کے ساتھ سیماز کو دیکھا تھا۔ مینجر اسے شاپنگ کروارہے تھے۔یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں ۔"
مجھے شک ہے کہ سیماز نے آن عصمت کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلائی ہے۔ عنیزے کو شک میں ڈالا ہے کہ آن عصمت ہی مینجر کی خفیہ لوور ہیں"۔ وہ ڈر ڈر کر بتانے لگی۔
علیدان کو آن کے لئے یہ سن کر غصہ تو بھت آیا۔ لیکن کنٹرول کرلیا۔ ورنہ وہ چاھتا تو ابھی اور اسی وقت مینجر کے ساتھ ان دو عورتوں کو بھی کمپنی سے آوٹ کرسکتا تھا۔
"آپ کا کام ہے اب یہ انویسٹیگیٹ کریں ۔اور مکمل انفارمیشن کل مجھے آفیس میں سامنے پیش کریں۔
آپ کا پروموشن "سپروائیزر "کے طور پر کیا جاتا ہے۔ تقرری لیٹر ۔۔میرا سیکرٹری آپ تک پہنچادے گا۔"
وہ حیران ہوگئی کہ سر نے اسے پروموٹ کیا ہے ۔
"شکریہ سر ۔"
"جاکر اس افیئر کا ثبوت ڈھونڈھیں ۔اور سیدھا مجھے بتائیں۔ آن عصمت کے قریب کسی کو مت جانے دینا۔ بی کیئرفل ۔اب آپ جاسکتی ہیں۔" وہ پھر سے کام میں مصروف ہوگیا۔یہ اشارہ تھا کہ وہ جاسکتی ہے۔
زینیہ سرپرائزڈ ہوگئی۔ وہ سمجھ گئی کہ باس چاھتا ہے ۔کہ وہ آن کی حفاظت کرے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ اب وہ عنیزے کو نکال سکتی ہے۔ عنیزے اسے شروع سے ہی ناپسند تھی۔ وجہ اس کا مینجر کے بل پر سب پر دھونس جمانا تھا۔حلانکہ زینیہ اس کی استاد بھی رہی تھی۔لیکن وہ اس سے ایسے پیش آتی تھی۔ جیسے وہی باس ہو۔اور باقی سب اس کے ماتحت ۔زینی بھت خوش ہوئی۔
"ییس۔"
"کم آن ۔اب آپ جاسکتی ہیں۔ جاکر آن کا موبائل فون مجھے دے جائیں۔"علیدان نے سرد لہجے میں کہہ کر اسے جانے کی اجازت دی۔
زینیہ نے دروازے کے طرف قدم بڑھائے ۔پھر کچھ سوچ کر رک گئی۔"سر۔۔۔ کیا دوپہر کو آن کی سیل پر آپ نے فون کیا تھا؟"
"کیوں؟ جب آپ فون پر جواب دے رہی تھی۔ تو کالر آئی ڈی نہیں دیکھی تھی؟"اس نے سنجیدگی سے اسے دیکھا۔
زینیہ شرمسار ہوگئی۔"کالر آئی ڈی پر آپ کا نام نہیں تھا۔"
"کیا شو ہورہا تھا؟" وہ متجسس ہوا۔
"شاہ فیملی کا تیسرا لینڈ لارڈ سپوت "
علیدان تو شاکڈ ہوگیا ۔ (شاہ فیملی کا تیسرا لینڈ لارڈ سپوت؟)دھت تیرے کی۔۔۔
آن نے لنچ باکس اٹھایا۔اس کا ارادہ آج علیدان کے ساتھ لنچ کرنے کا تھا۔
اس سے پہلے کہ وہ اٹھ پاتی۔سیماز اس کے پاس آئی۔
"آن آو مل کر لنچ کریں۔" آن نے جلدی سے لنچ باکس نیچے رکھ کر سیماز سے چھپا دیا۔
"اممم ۔۔ مجھے ابھی کچھ ۔۔کااام ہے۔۔کچھ ضروری ۔۔ڈاکیومنٹس ریڈ کرنے ہیں ۔۔سو۔۔ " وہ رکی۔
پھر کچھ سوچ کر بولی۔" ہاں۔۔ تم کیوں نہیں چلی جاتی۔؟"
"کوئی بات نہیں۔۔"سیماز نے کندھے اچکائے۔"میں انتظار کرلیتی ہوں۔"
یہ دیکھ کر کہ سیماز اسے لئے بغیر نہیں جائے گی۔آن جلدی سے کھڑی ہوگئی۔" تو پھر ہم پہلے لنچ کے لئے چلتے ہیں۔ میں بعد میں آکر اپنا کام کنٹینیو کروں گی۔"
"شیور۔" سیماز نے لاشعوری طور آن کا بازو تھاما۔
جب یہ دونوں آفیس کے دروازے پر پہنچیں۔ تو آن نے پیچھے مڑ کر ٹیبل کے نیچے پڑے لنچ باکس کو بیچارگی سے دیکھا۔
جب دونوں کیفی پہنچیں تو دونوں نے آرڈر دیا۔ آرڈر پلیس ھوتے ہی آن کی جلدی دیکھنے والی تھی۔وہ جلدی جلدی کھانے لگی تھی۔ جیسے ٹرین چھوٹ جائے گی۔درحقیقت اسے علیدان تک لنچ پہنچانے کی پریشانی تھی۔کہ وہ انتظار کررہا ھوگا کہ کب آن اپنے ھاتھوں کا پکا لائے ۔اور کب دونوں ساتھ بیٹھ کر کھائیں۔
اسے اتنی جلدی جلدی کھاتے دیکھ کر سیمی ھنسی۔" اررے یار ۔۔ آھستہ کھاو۔کوئی نہیں چھینتا۔۔" وہ ھنسی۔
لیکن آن نے ان سنی کرکے اپنا کھانا ختم کیا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔ "معاف کرنا سیماز مجھے اپنا کام جلدی پورا کرنا ہے۔" یہ کہتے ساتھ ہی جلدی جلدی قدم اٹھاتی ۔۔ کیفی سے نکلتی اوجھل ہو گئی۔
آن نے جلدی سے لنچ باکس اٹھایا۔اور ایلیویٹر کے طرف بھاگی۔اور 36 فلور کا بٹن پریس کردیا۔
36 فلور پر پہنچ کر اس نے کوریڈر میں احتیاط سے کسی کی موجودگی کی یقین دہانی کی۔ اس کے چہرے پر پریشانی صاف نظر آرہی تھی۔۔ اور کسی کے دیکھ لیئے جانے کے ڈر سے پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔
علیدان کی آفیس کے باھر پہنچ کر آن نے اپنی سانس درست کی اور ناک کیا۔
اندر سے علیدان کی بھاری آواز آئی۔
" yes۔۔come in۔۔"
آن ڈرتے ڈرتے اندر داخل ہوئی۔
علیدان نے سرد تاثرات کے ساتھ اسے گھورا اور پھر۔۔گھڑی پر نگاہ کی۔۔
جس پر آن نے دانتوں تلےزبان دبائی۔ اسے دیکھ کر منہ میں "سوری " کی۔
"میں نے سوچا۔آج پھر آپ مجھے کھانا کھلانے نہیں آئیں گیں۔"
آن کو شرمساری نے گھیر لیا۔ "آئی ایم سوری۔۔ میری کولیگ مجھے زبردستی لنچ پر لے گئی تھی۔اور میرے پاس اسے رد کرنے کا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔"
"تو۔۔۔ آپ کی نظر میں۔۔میری اتنی بھی اہمیت نہیں ۔۔کہ میرا کوئی خیال آسکے؟"
آن نے ٹھنڈی سانس بھری اور ٹیبل پر لنچ باکس رکھ کر موضوع بدلنے کے غرض سے بولی۔ "آج میں آپ کے لئے اسپائسی فوڈ بنالائی ہوں۔۔ لیکن۔۔۔ میں آپ سے پوچھنا تو بھول ہی گئی۔کہ آپ کو "اسپائسی فوڈ" پسند ہے یا نہیں؟"
علیدان نے اس کے ٹاپک بدلنے پر اسے گھورا۔
"Don’t worry."
"اوھ۔۔۔آن نے پرجوش ہوکر تالی بجائی۔
"That's great. Come over and have a taste. This is my specialty."
علیدان کرسی سے اٹھ کر سرد تاثر کے ساتھ صوفہ کے پاس آیا۔
"آج آپ کا زخم کیسا ہے؟"
"یہ درد نہیں کرتا ۔اگر میں ٹچ نہ کروں۔ یہ کوئی سریس بات نہیں۔" آن نے اسے تسلی دے کر مطمئین کیا۔
"جلد ہی ٹھیک ھوجائے گا۔"
"ایسی بات مت کریں۔آپ بحرحال ڈاکٹر نہیں ہیں۔اپنی کیئر کرنے میں آپ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔" علیدان نے جیسے اسے جھاڑ پلائی۔
"پھر یہ ایسی جگہ پر ہے جہاں پر نظر بھی نہیں جاسکتی۔اگر کوئی آبلہ پھوٹ گیا ۔تو نقصان آپ کو اٹھانا پڑےگا۔ سو بی کیئر فل ڈیئر۔"
یہ کہتے ہی آن کی بڑھائی پلیٹ تھامی۔
"Got it," آن نے مسکرا کر اسے نہارا۔
ایک عرصہ کے بعد کوئی ایسا ملا تھا ۔۔جو اس کا خیال رکھ رہا تھا۔جب سے اس کی ماں کی وفات ہوئی تھی۔کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے آن کی کیئر کی ہو۔۔ علیدان پہلا شخص تھا جسے آن کی پرواھ تھی۔۔اور یہ احساس کہ کوئی ہے ۔۔جو اس کی کیئر کرتا ہے۔ بھت ہی سکون بخش تھا۔۔ بھت زیادہ۔
ابھی وہ دونوں کھانے ہی لگے تھے کہ ۔۔ دروازے پر ہلکی سی "ناک " ہوئی۔
آن بری طرح چونکی ۔ایک ڈر کا واضع احساس اس کے دل کے دروازے کو چھو کر گذرا۔
وہ یکدم ڈر کر کھڑی ہوگئی۔اور ڈر کر دروازے کے طرف دیکھنے لگی ۔
علیدان نے اس کے خوف سے سفید پڑتے چہرے پر نگاہ کی۔اور لب بھینچ لئے ۔اور سر نفی میں ہلایا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو ۔آن آپ کا کچھ نہیں ھوسکتا۔
"Who?"
علیدان نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
"علیدان سر ۔۔میں ہوں دانیال ۔" دروازے کے دوسری طرف سے ہلکی سی منمناتی آواز آئی۔
آن نے سرگوشی کی۔
"اب ہم کیا کریں؟"
علیدان نے اس کے نروس نیس کو دیکھ کر مسکرا کر اسی کے انداز میں کہا۔ " اب ہم کیا کریں؟"
"گیو می اے کس ،آئی ول تھنک آف اے وے فار یو۔" اس نے سنجیدگی سے چھیڑا۔
"ھااائے۔۔" وہ تو شاک میں چلی گئی۔اور اسے گھورا۔بھت ہی کوئی بے شرم انسان ہے یہ علیدان ۔
"ادر وائیس، میں اسے اندر بلالیتا ہوں ۔" علیدان نے اسے اور سہمادیا۔
"جب وہ باھر جاکر سب کو بتائے گا۔ کہ آپ بھی یہاں تھیں۔ میرے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں بنے گا۔" علیدان نے کندھے اچکا لیئے۔
"آپ۔۔ آپ۔۔" آن کا دل چاھا دیوار سے سر ٹکرا دے۔
"You۔۔۔۔"
علیدان نے اس کے لہجے کی نقل اتار کر۔۔اس کا چہرہ تھپکا۔
" میں آپ کے لئے مشکلات نہیں پیدا کرنا چاھتا ۔آپ اس مشکل سے نکل سکتی ہیں۔ اگر مجھے یہاں ۔۔"اپنے گال کے طرف انگلی سے اشارہ کرکے ۔۔کس کریں۔"
"آپ ۔۔ پاگل تو نہیں؟" وہ خوفزدہ سی دروازے کو گھورنے لگی۔جیسے ابھی دروازہ کھول کر سیکرٹری اندر داخل ہوجائے گا اور اسے علیدان کے ساتھ تنہا دیکھ کر پوری آفیس کو جاکر بتائے گا ۔۔۔اور وہ۔۔۔ کسی کو منہ نہ دکھا سکے گی۔۔یہ سوچ کر ہی وہ اندر تک کانپ گئی تھی۔
"دانیال۔۔۔۔"ابھی علیدان کے منہ میں یہ لفظ تھا کہ آن جھٹکے سے اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی اور دونوں ھاتھوں سے اس کا منہ بند کردیا۔ اور خوف سے دروازے کو گھورتی جلدی سی علیدان کے گال کو چوما۔
علیدان تو جیسے خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔۔اس کے پورے وجود پر جیسے مدھوشی چھاگئی تھی۔ساکت و جامد آنکھیں بند کرکے اس نے آن کے دلفریب ہونٹوں کا چھونا ایسے محسوس کیا ۔جیسے کوئی نشہ ۔۔اور اس نشے سے آنکھیں مکمل بند ھوگئیں۔
آن تو اپنا شرم سے لال چہرہ لئے بے اختیار اپنے ہونٹوں کو چھپایا تھا۔
علیدان نے بمشکل خود پر کنٹرول کیا اور مدھوش سی۔۔ سرخ ڈورے لئے آنکھوں کے ساتھ اسے دیکھا۔پھر ھونٹ بھینچ کر۔ خود کو بمشکل کنٹرول کیا۔اور ھاتھ کے اشارے سے سامنے بنے ریسٹ روم کے طرف اشارہ کردیا۔
اپنا شرم سے سرخ چہرہ لئے آن بے اختیار ساتھ کے ریسٹ روم میں بھاگی تھی۔
پیچھے علیدان دل کو سنبھالتا۔۔۔ھولے سے مسکرایا۔
"کم ان" علیدان کی سپاٹ اور بردبار آواز آفیس میں گونجی۔
دانیال اجازت ملتے ہی ھچکچاتے اندر داخل ہوا۔
اور علیدان کے سامنے ٹیبل پر کھانا دیکھ کر حیران ھوا۔حلانکہ یہ ایک عام بات تھی۔
"کام کی بات کرو۔" علیدان نے سرد انداز میں کہا۔ اور فورک واپس پلیٹ میں رکھ کر سیدھا ہوکر ٹانگ پر ٹانگ جمالی۔وہ اب خود کو سنبھال چکا تھا۔
" سر ۔۔فنناس منسٹر نے سائن کے لئے یہ ڈاکیومنٹس بھیجے ہیں ۔"یہ کہتے ہی فائل آگے بڑھائی۔
علیدان نے اس کے ھاتھ سے فائل لے کر پوری احتیاط سے پڑھی۔پھر ٹیبل پر رکھ کر جیب سے آن کی گفٹ کی ہوئی پین سے اپنی سائن ڈالی۔پھر فائل دانیال کو تھمادی۔
"اب تم جاسکتے ہو"
ساتھ ہی آرڈر بھی جاری کردیا۔
"Yes sir." یہ کہتے ہی وہ جیسے ہی دروازے کے طرف مڑا۔ریسٹ روم سے فون کی بیل زور زور سے بجنے لگی۔دانیال نے چونک کر اس طرف نگاہ کی۔پھر حیرانگی سے اپنے باس کو دیکھا۔
جب اچانک سے ہی بیل کاٹ دی گئی۔اب وہ تذبذب کا شکار ہوگیا۔ علیدان نے اسے گھورا۔اور آنکھ سے جانے کا اشارہ کیا۔ دانیال ھڑبڑا کر باھر بھاگا۔جیسے بھوت دیکھ لیا ہو۔
علیدان کے ہونٹ ہلکے سے مسکان میں ڈھلے تھے۔وہ اس وقت تصور میں آن عصمت کے چہرے کی بوکھلاہٹ سے محفوظ ھورہا تھا۔
ٹھیک اسی وقت اندر آن کا دل چاہا زمین کھود کر اندر چھپ جائے۔اس کمینی ثنا حمزہ کو بھی یہی وقت ملا تھا کال کرنے کو۔وہ اسے کوسنے دینے میں لگی تھی۔
دانیال کے نکلتے ہی علیدان نے ریسٹ روم کے طرف قدم بڑھائے۔دروازہ کھول کر اندر داخل ھوا۔ جہاں آن افسردہ سا چہرہ لئے اس کے بیڈ پر بیٹھی سیل فون کو مسلسل گھورے جارہی تھی۔
علیدان اس کے کیوٹ ایکسپریشن دیکھ کر مسکرایا۔ وہ اچھی طرح اس کی کیفیت سمجھ رہا تھا۔کہ اس وقت آن کا جی چاھ رہا ھوگا کہ زمین کھود کر اس میں چھپ جائے۔
وہ دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑا ھوگیا۔ اور آن کے دلفریب نقوش کو تکنے لگا۔۔
"یہ ۔۔۔یہ۔۔آپ کا سیکرٹری اب جان گیا ہوگا کہ کوئی پہلے سے ہی ریسٹ روم میں موجود ہے۔"وہ تو جیسے یہ سوچ سوچ کر پاگل ہورہی تھی۔
(اففففف۔۔۔۔ اسی وقت ہی ثنا نے کال کیوں کی ؟ اگر کوئی جان جاتا تو علیدان تو اس کی وجہ سے کسی کو منہ نہ دکھا پاتا۔یا شاید یہ اس کے لئے یہ عام سا واقعہ ہو۔۔ لیکن آن کا یہ سوچ سوچ کر ہی دماغ کی دہی کے ساتھ ۔۔لسی بھی بن رہی تھی۔)
"اگر آپ کال بند نہ کرتیں تو بھتر رہتا۔لیکن ۔۔آپ نے اس کے الٹ کیا۔"وہ دلفریبی سے ہنسا۔۔اور اس کی غلطی بتائی۔جو وہ انجانے میں کرچکی تھی۔
"آئیندہ سے میں یہاں نہیں آوں گی ۔نا ہی کھانا لاوں گی۔"وہ افسردگی سے اسے دیکھ کر بولی۔
"یہ دوسری بار تھا کہ میں یہاں آکر سخت شرمسار ہوئی ہوں۔"
"بھلی سے وہ یہ جان گیا ہو۔ کہ کوئی یہاں موجود ہے اور کھانا لایا ہے۔پھر بھی کسی کو بتانے کی ہمت نہیں کرے گا۔"علیدان نے اسے پرسکون کرنا چاھا۔
"لیکن ابھی کچھ دیر پہلے تو آپ نے کچھ اور کہا تھا کہ۔۔۔۔"آن نے ڈرتے ڈرتے اسے دیکھا۔وہ اندر سے بری طرح کنفیوز ھورہی تھی۔وجہ علیدان کے ساتھ تنہا ہونا۔اور علیدان کی گہری کچھ کچھ کہتی سرخ ڈوروں والی مخمور نگاہیں تھیں۔جو مسلسل آن پر مرکوز تھیں۔
"میں نے مذاق کیا تھا۔سوچیں۔۔۔وہ میرا سیکرٹری ہے۔وہ اپنا منہ بند ہی رکھے گا۔"
علیدان کو اس کی جھنجھلاہٹ مزا دے رہی تھی۔
آن نے اسے گھورا۔۔"یہ آدمی۔۔۔۔
وہ اپنے شرم اور ڈر پر قابو پاتے ہی اٹھی اور اس کے قریب آکر اس کے سینے پر مکے مارنے لگی ۔
"آپ نے مجھے بہت تنگ کیا۔ یو آر چیٹر۔۔علیدان ۔۔کیوں جھوٹ بولا۔۔ ؟کتنی پریشان ھوئی ہوں۔۔"
آن کا منہ رونے والا بن گیا تھا ۔
علیدان نے اس کے دونوں ھاتھ پکڑ کر نرمی سے اپنے دونوں مضبوط ھاتھوں میں قابو کر لئے ۔اور اسے محبت سے تکنے لگا۔
پھر اس کے قریب جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔
"پگلی۔۔ صرف تنگ کررہا تھا۔"
وہ شرم سے کانوں تک لال ہوئی۔بے اختیار نظریں جھک گئیں۔۔اور علیدان سے اپنے ھاتھ چھڑوانے لگی ۔جو اس نے اپنے مضبوط گرفت میں قابو کیئے ہوئے تھے۔
آن نے چاہا کہ زور لگا کر ھاتھ اس کی گرفت سے نکالے مگر۔۔ علیدان نے کھینچ کر جھٹکے سے قریب کیا اور اسکے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے ۔۔اس کے ھونٹوں پر اختیار حاصل کرلیا۔۔ آن تو اس اچانک جھٹکے سے خود کو سنبھال ہی نہ پائی ۔۔حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں۔
آن نے بے اختیار اس کو مکے مارے۔۔ حلانکہ اس کے یہ مکے علیدان کے مضبوط جسم پر کسی پھولوں کی چھڑی کی طرح برس رہے تھے۔لیکن اس نے آن کو چھوڑنے کی غلطی پھر بھی نہیں کی۔۔بلکہ اسے کمر سے پکڑ کر اپنے اور نزدیک کرلیا۔جیسے ہی آن کے وجود نے علیدان کے وجود کو چھوا ۔وہ تکلیف سے کراہی تھی۔بی کاز اس کے پیٹ کے زخم درد کرنے لگے تھے۔
علیدان نے اسے اچانک ہی چھوڑا۔
"آن کیا آپ کو تکلیف ہوئی؟"
"آپ کو کیا؟" وہ شرم سے سرخ چہرہ لیئے ناراضگی سے ہونٹ کاٹتے بولی۔
علیدان نے آن کے بالوں میں انگلیاں پھنسالیں اور مسکرا کر انہیں سہلاتے بولا۔
"یہ دیکھ کر کہ آپ میں مجھ پر چینخنے چلانے کی اب بھی "طاقت" ہے۔
اس کا مطلب آپ بلکل ٹھیک ہو۔"
اب آپ مجھ پر اس کا الزام نہیں رکھ سکتی۔"اشارہ اب کے اپنی کی گئی حرکت کے طرف تھا۔
"آپ نے خوب مجھے مائل کیا ہے ۔"علیدان کی آواز اب بھی مدھوش اور گھمبیر تھی۔
آن کی پلکیں حیا سے جھک گئیں۔ اور عارضوں پر جیسے خون چھلکنے لگا۔
"میں نے آپ سے بات نہیں کرنی۔ " وہ خفگی سے بولی۔لیکن اس آواز بلکل ھلکی تھی۔
آن نے دانتوں سے ہونٹ کا کنارہ کاٹ لیا۔یہ بھول کر کہ
اس کی یہ حرکت علیدان کو پھر سے کچھ کرنے کو مائل کرنے لگی ہے۔ لیکن ۔۔ اس سے پہلے کہ ۔ وہ کچھ اور کرتا۔
آن اپنا سرخ چہرہ چھپاتی چھپاک سے باھر نکلتی چلی گئی ۔دل میں یہ اٹل ارادہ باندھ کر کہ آئیندہ وہ ادھر نہیں آئے گی۔۔ نیور۔۔
☆☆☆☆☆
کام کے بعد سب زینیہ کے گرد اکٹھے ہوگئے تھےاور اس سے ٹریٹ کا مطالبہ کرنے لگے۔زینیہ جس کی نئی نئی پروموشن ایز اے سپروائیزر کے طور پر ہوئی تھی۔
زینیہ بھی بہت ہی اچھے موڈ میں تھی۔اور خوشی خوشی سب کی ریکوئسٹ پر راضی ہوگئی۔
اور اس نے ان چار عارضی طور "انٹرن شپ" پر آئے ورکرز کو بھی انوائیٹ کیا تھا۔
تیس سے اوپر اسٹاف کے لوگ تھے۔ہر ایک اپنی اپنی سیٹ دیکھ کر بیٹھ چکا تھا۔ تقریبا آدھا ریسٹورانٹ تو ان سب سے بھرچکا تھا۔
آن بھی اپنی پلیٹ لے کر ایک خالی ٹیبل پر بیٹھ گئی۔
زینیہ بھی اسے تنہا دیکھ کر اس کے پاس آئی۔
"آن عصمت اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو ساتھ بیٹھ سکتی ہوں؟"
آن اسے دیکھ کر گرمجوشی سے مسکرادی۔
"آف کورس ۔۔وائے ناٹ۔"
خوشدلی سے کہہ کر اسے بیٹھنے کو کہا۔
"آپ کے ساتھ بیٹھ کر شاید میری اور بھی پروموشن ہوجائے۔"زینیہ ہلکے پھلکے مزاح میں بولی۔
"آپ مذاق کررہی ہیں؟"
آن مسکرائی۔
"نہیں۔۔۔۔میرا مطلب تھا۔" وہ ھنسی۔۔"آپ میرا "لکی اسٹار" ہیں۔ آپ کو تو اور کھانا چاھئے۔"
"میں؟" آن کنفیوز ھوگئی۔
زینی نے سر اثبات میں ھلایا۔ اور اس کے طرف دیکھ کر مسکرائی۔
"میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ سیماز سے کافی قریب ہیں۔کیا آپ دونوں میں دوستی ہے؟"
آن نے نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں ۔۔بلکل بھی نہیں۔۔ہم نے صرف دو بار ہی کیفی ٹیریا میں ساتھ لنچ کیا ہے"
"ہمممم۔۔۔تب تو آپ کے لئے یہی بہتر ہے کہ اس سے فاصلے پر رہیں۔"زینیہ نے نرمی سے وارن کیا۔
"کیوں؟؟" وہ ناسمجھی سے بولی۔
"کیونکہ ۔۔۔ وہ یہ اچھی طرح سمجھتی ہے کہ۔۔۔آپ پر الزام اس نے لگایا ہے۔ وہ آپ کے سامنے ابھی تک خود کو "معصوم" ظاہر کررہی ہے۔اس جیسی عورت کی ظاہری مسکراہٹ پر مت جائیں ۔یہ ان لوگوں میں سے ہے ۔جو دوستی کی آڑ میں ۔۔پیٹھ پیچھے "چھرا" گھونپتے ہیں"۔
"کیا مجھ پر الزام اس کی وجہ سے لگا ہے؟" آن نے تذبذب سے پوچھا۔
"آپ حقیقت سے بلکل بھی واقف نہیں ہیں آن عصمت۔۔کہ ۔۔عنیزے نے آپ کو ہی نشانہ کیوں بنایا؟جب کہ تم اس کے لئے بلکل نئی اور انجان تھی۔"
آن نے حیران ہوکر نفی میں سر ہلایا۔۔ وہ واقعی کچھ نہیں جانتی تھی۔کیونکہ بحرحال وہ کمپنی میں نئی تھی۔
"کیا آپ جانتی ہیں ؟" آن نے زینیہ سے جاننا چاھا۔
"کیونکہ۔۔عنیزے مینجر توصیف صاحب کی محبت ہے ۔اور یہ بات یہاں سب ہی جانتے ہیں۔
اور ایک نئی انٹرن شپ پر آئی لڑکی بھی مینیجر سے خفیہ طور پر ملی ہوئی ہے۔عنیزے کو یہ پتا چل گیا تھا کہ مینیجر اسے ڈبل کراس کررہا۔ایک طرف تو اس سے محبت کی پینگیں بڑھائی ہوئی۔دوسری طرف خفیہ طور پر کسی نئی لڑکی سے معاشقہ چل رہا۔اب وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ تم چار نئی آنے والیوں میں سے وہ لڑکی کون سی ہے؟"۔
آن تو اس کی باتیں سن کر دنگ ہوئی تھی۔۔یہ وہ کیا سن رہی تھی۔۔ اوھ مائے گاڈ۔۔
زینیہ اس کے حیران تاثرات دیکھ کر مسکرائی۔۔اور اپنی بات جاری رکھی۔
"جب اس نے آپ کو نیا برنڈیڈ ڈریس پہنے دیکھا تو قدرتی طور پر اسے یہ شک ہوا کہ وہ لڑکی آپ ہی ہوسکتی ہو۔اور اس کے شک کو ھوا سیماز نے دی۔ اور آپ نشانہ بن گئی ۔۔۔"
"اس کا مطلب ۔۔۔ سیماز ہی مینیجر کی لوور ہے؟"
آن نے کنفرم کیا۔اور زینیہ نے فقط اثبات میں سر ہلا کر اس کے شک پر یقین کی مہر لگائی۔
"ییس۔۔۔ میں یہ ذاتی طور پر جانتی ہوں۔کیونکہ میں نے دونوں کو شاپنگ کرتے ہوئے بہت بار دیکھا ہے۔"
"سپروائیزر، مجھے آپ سے ایک اور سوال بھی پوچھنا ہے ۔جس کے لئے مجھے کافی تجسس ہے۔ آپ مجھ سے اتنا اچھا برتاو کس وجہ سے کررہی ہیں؟"
زینیہ نے ھونٹ بھینچے اور مسکرا کر اسے دیکھا۔
"کیا میں نے ابھی کچھ دیر پہلے آپ سے نہیں کہا تھا کہ ۔۔ آپ میرے لئے "خوشبختی کا ستارہ" ہیں۔؟
"ھاں۔۔۔"اس نے ناسمجھی سے سر ہلایا۔
" مجھے یہ پروموشن آپ کی وجہ سے ہی ملا ہے ۔"
آن اس کی بات پر ھنسی تھی۔اسے یہ مذاق لگا تھا۔
"کیا میں بھت زیادہ بیوقوف ہوں؟۔۔اب آپ نے اس کا تذکرہ دوبارہ سے کیا ہے تو میں اور زیادہ کنفیوشن کا شکار ہوں۔"وہ بے یقینی سے بولی۔
"حلانکہ ۔۔۔ میں نہیں جانتی۔۔ کہ آپ کا اور باس کا آپس میں کیا رلیشن ہے؟۔لیکن سر نے مجھے پروموٹ کیا ۔کیونکہ میں آپ کے طرف کھڑی تھی۔عنیزے سے بحث کے دوران میں نے آپ کی سائیڈ لی۔۔۔ بس سر نے مجھے یہ چانس دے دیا۔"
آن یہ تفصیل سن کر اپنی حیرانگی پر کنٹرول نہ رکھ سکی۔اس کا منہ حیرت کی زیادتی سے کھل گیا۔
"آپ۔۔۔ آپ ۔۔ کا مطلب ۔۔۔ علیدان ۔۔ اوپس۔۔۔سر نے ۔۔آپ سے۔۔ میرے متعلق بات۔۔کی۔۔؟ اوھ۔۔ مائے گاڈ۔۔" آن کو بری طرح سے شاک نے جھنجھوڑ دیا تھا۔
"بلکل ۔۔درست۔۔۔۔میں اور زیادہ تفصیل نہیں بتاسکتی۔۔صرف اتنا کہوں گی۔۔اگر آئیندہ سے آپ کو کوئی کچھ بھی کہے۔۔تو فورا میرے پاس آنا۔ "
اس نے آن کے ھاتھ پر تھپکا۔۔
آن اپنی حیرت پر قابو نہ رکھ سکی۔اس کا دل علیدان کے اس طرز عمل پر سخت حیران تھا۔وہ شخص اتنی خاموشی کے ساتھ اس کا بھلا چاھتا آرہا تھا۔۔کون کہتا ہے؟ کہ علیدان شاہ سرد مزاج ہے؟ کوئی اس وقت آن عصمت سے پوچھتا۔۔کہ علیدان شاہ کیا ہے؟ وہ ایک زندہ دل شخص تھا۔۔۔اور ایک پیارا سا شخص۔۔آخر کار آن نے دل سے مان لیا۔۔کہ علیدان شاہ ایک پیارا انسان ہے ۔۔سخت خول میں چھپا ایک نرم انسان۔۔
ٹریٹ سے واپسی پر کافی دیر ہوچکی تھی۔آن پریشان سی کنوینس کے لئے کھڑی تھیں۔زینیہ اس کے ساتھ ہی تھی۔جب ہی ان کی آفیس کا سینئر جمشید گاڑی اس کے قریب لے آیا۔
" اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں چھوڑ آوں۔؟ زینیہ نے آن کو کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلی جائے۔ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔۔ آن اس پر اعتبار کرکے جمشید سے لفٹ لینے کو راضی ہوگئی۔ جمشید نے اسے اس کے ایریا تک چھوڑا۔آن نے اس کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔اس کی مسکراہٹ دور گاڑی میں بیٹھے علیدان شاہ کو بہت بری طرح چھبی تھی۔اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ آن کی مسکراہٹ کسی اور کے لئے ہو۔اس نے جمشید پر ایک غصے بھری گھوری ڈالی۔۔ آن آھستہ قدموں سے گھر کے طرف چلنے لگی۔اسے یقینا کافی دیر ھوگئی تھی۔ بلڈنگ کے قریب پہنچی تو اسے پیچھے سے کار کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ اور ساتھ ہی علیدان کی جانی پہچانی آواز سنائی دی۔
"کہاں گئی تھی آپ۔۔۔اتنی رات کو کہاں سے آرہی ہیں؟ "علیدان کی گھمبیر آواز نے فضا کی خاموشی کو جیسے منتشر کردیا ہو۔
آن بے اختیار ڈر کر پیچھے مڑی تھی۔اسے دیکھ کر واقعی سرپرائیز ھوگئی۔
"آپ۔۔ اس وقت یہاں کیا کررہے ہیں؟" آن حیرانگی سے اسے دیکھتے ھوئے بولی۔
"کیوں ۔۔کیا آپ کو اچھا نہیں لگا ؟"اسے آن کا اس طرح پوچھنا اچھا نہیں لگا تھا۔
"یہ جگہ بلکل بھی علیدان شاہ کے قابل نہیں ہے۔"آن نے بے اختیار کہہ دیا۔
علیدان نے ایسے سر ہلایا۔۔جیسے اس کی بات پر متفق ہو۔۔پھر لنچ باکس نکال کر اس کے ھاتھ میں دیا۔
"آپ سمجھ ہی نہیں سکتیں۔۔۔ آن کہ میں آج کتنا خوش ہوا۔ صرف۔۔۔آپ کا لنچ باکس اپنی آفیس میں دیکھ کر ۔حلانکہ میرا یہاں آنے کا مقصد کچھ اور تھا۔ لیکن آپ کا رویہ بہت تکلیف دہ ہے۔" وہ اب بھی دن کا تذکرہ کررہا تھا۔
وہ رات کے وقت اس کے آنے کی توقع نہیں کررہی تھی۔وہ تھکی ہوئی تھی اور اس کا ارادہ مکمل آرام کرنے کا تھا۔
آن کو اچانک سے اپنا نازیبا رویہ کھٹکا تھا۔(اسے ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا )
لیکن پھر بھی خاموشی سے اندر بڑھ گئی۔ علیدان نے بھی خاموشی سے پینٹ کی جیبوں میں دونوں ہاتھ ڈالے اس کی تقلید کی۔
"آپ نے مجھے اب بھی نہیں بتایا کہ آپ کہاں گئی تھی؟۔"اس نے پھر سے سوال دہرایا۔
یہ سوچ کر کہ ابھی زینیہ نے اسے کیا بتایا تھا؟آن نے اسے دیکھا۔"آپ کا شکریہ۔آج زینیہ پروموٹ ہوگئی تھی، ایز اے سپروائیزر ۔اس خوشی میں، اس نے سب کو ٹریٹ دی تھی۔ "
علیدان یہ سن کر ھنسا۔
"لگ رہا آپ کو پتا چل گیا؟"
"کیا ہم میں یہ طئے نہیں ہوا تھا کہ ہم اپنا رلیشن خفیہ رکھیں گے۔؟لیکن زینیہ کو آپ نے بتا دیا۔میں نے آپ کو ایسی اجازت نہیں دی تھی۔" آن کو یہ برا لگا تھا شاید کہ زینیہ اس کے اور علیدان کے رلیشن کے متعلق جان چکی ہے۔
اس کا فضول شک سن کر علیدان کچھ نہ بولا ۔۔بلکہ مسکرا کر بات بدل دی۔
" میں نے ابھی تک کچھ نہیں کھایا۔کچھ بناسکتی میرے لئے۔"
بات بدلنے پر آن نے اسے گھورا یہ اور بات کہ اس کی آنکھوں میں علیدان کے لئے ایک خاص رنگ ضرور دکھتا تھا۔
"لگتا ہے۔۔آپ کو میری کوکنگ پسند آگئی ہے ؟"آن نے ہلکا سا طنز کیا۔
"آپ کی کوکنگ کافی خطرناک ہے " علیدان نے شرارت سے اسے چھیڑا۔اور خود صوفہ پر بیٹھ گیا۔ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کوٹ اتار کر پاس رکھا۔
"آپ نے ابھی تک مجھ سے اپنی سیلری کا نہیں پوچھا؟ کیا آپ ۔۔۔۔؟ علیدان نے بات ادھوری چھوڑ کر اسے دیکھا جو کچن کے طرف جارہی تھی۔
اس کی بات پر وہ مڑی اور لاپرواہی سے کندھے اچکا کر ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے اسے نوازا۔
"پرواہ نہیں۔۔۔۔"
اس کی یہ پیاری سی ہلکی سی مسکراہٹ دیکھ کر علیدان دنگ ھوا۔
انگلی اٹھا کر اسے پیار بھری دھمکی دے گیا تھا۔" آج کے بعد آپ کو میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ آپ کی مسکراہٹ کوئی دوسرا بھی انجوائے کرے۔ ورنہ۔۔۔"وہ صوفے سے اٹھ کر اس کے طرف بڑھتے بولا۔
آن نے اسے ابرو چڑھا کر دیکھا۔(ورنہ کیا؟ )
وہ اس کے قریب ہوا۔اور ھاتھ بڑھا کر اس کے چہرے کو تھاما۔
"جس طرح سے آپ مجھے دیکھتی ہیں۔اس طرح کبھی کسی اور کو مت دیکھئے گا۔آپ کی یہ خوبصورتی سراہنے کا حقدار صرف علیدان شاہ ہے۔" خوبصورت الفاظ آن کا سچ میں دل دھڑکا گئے۔(ابھی کچھ دیر پہلے وہ دیکھ چکا تھا۔آن نے جمشید کا مسکرا کر شکریہ ادا کیا تھا۔)
یہ کہتے ہی وہ جھکنے لگا۔ لیکن آن نے چہرا اس کی ہلکی گرفت سے چھڑالیا۔ اور دھڑکتے دل کے ساتھ ۔کچن کے طرف بھاگی ۔
آن نے سوچا اگر وہ اس کے لئے نہیں پکائے گی تو وہ یہاں سے نہیں جائے گا۔اور رات کو یہی ٹہرے گا۔سو اس نے کھانا بنایا۔
ابھی جب وہ اپنا ڈنر انجوائے کررہا تھا۔وہ سائیڈ میں بیٹھی اسے نہار رہی تھی۔
"آئیندہ آپ ایسا مت کیجئے گا"
علیدان نے بھنویں چڑھا کر آن کو دیکھا۔یہ کہنا اسے برا لگا تھا۔
"واٹ؟"
"یہ بلکل بھی مناسب نہیں کہ آپ رات کو ادھر صرف کھانے کے لئے آئیں۔جب کہ ہم میں صرف لنچ کی ڈیل ہوئی تھی۔"
"ہمممم، کیا آپ یہ شکایت کرنا چاہ رہی ہیں کہ آپ کا خرچہ زیادہ ہورہا ہے؟" اس کے ساتھ ہی اس نے والٹ سے اپنا بینک کارڈ نکال کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
"آئیندہ سے اپنے کھانے کا خرچہ میں خود اٹھاؤں گا،یہ کارڈ میں آپ کو دے رہا ہوں،رکھ لیں۔جو چاھے خرید لائیے ۔سبزی،۔گوشت ۔۔ اس کا پاس ورڈ ہے۔۔۔۔۔ "
وہ سخت ناخوش ہوئی۔اس کی بات کاٹی۔
"اگر آگے سے ایک لفظ بھی اضافی بولے نا تو پھر آپ یہاں سے جاسکتے ہیں ، میں کسی امیر زادے کو یہاں ویلکم کرنا پسند نہیں کرسکتی" اس کے الفاظ بھت سخت تھے۔
علیدان کو دلی تکلیف ہوئی تھی۔اس نے ہاتھ روک کر اسے افسوس سے دیکھا۔کیا یہ وہی آن تھی؟
"لوگ کہتے ہیں۔ "عورت کا دل سمندر میں گری سوئی کی طرح ھوتا ہے، جسے کبھی ڈھونڈھا نہیں جاسکتا۔ اور آج مجھے تجربہ بھی ہوگیا۔"اس نے غصہ اور دکھ کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ چمچہ ٹیبل پر رکھ دیا اور ھاتھ آپس میں ملائے۔
"تو اب مجھے اصل بات بتائیں۔ کہ میں یہاں ڈنر کرنے کیوں نہیں آسکتا؟"علیدان نے وجہ جاننا چاہی۔کہ کون سی بات آن کو پریشان کررہی۔
"ہم ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، نا تو ایک لیول کے ہیں۔ نا ہی ایک دوسرے کو سوٹ کرتے ہیں۔" آن نے سنجیدگی سے اس کی توجہ پھر سے لیول کٹیگری کے طرف دلائی تھی۔
اور یہ تقسیم علیدان جیسا شخص نہیں مانتا۔
"کوئی یہ تصور بھی نہیں کرسکتا کہ ایک اونچے طبقے کا امیر شخص ایک چھوٹے سے غریب گھر میں بھی جاسکتا ہے؟۔۔۔۔ایک عام انسان کی طرح کا کھانا جو میری جیسی عام سی لڑکی بناتی ہو۔کھاسکتا ہے؟ ھم بلکل بھی ایک لیول کے نہیں ھوسکتے علیدان۔"اس نے جیسے زور دے کر اسے سمجھانا چاہا۔
"کیا اونچے طبقے کا امیر شخص انسان نہیں ہوتا؟ بولیں۔۔؟"
علیدان نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا۔
"آن مجھے دوسروں کی طرح مختلف انداز میں ٹریٹ مت کریں۔۔۔۔ میں دوسروں سے زیادہ "محبت" اور "کیئر" کی خواہش رکھتا ہوں۔میں نے ہمیشہ یہ سوچا کہ آپ مجھے اچھی طرح سمجھتی ہیں۔۔۔لیکن آج۔۔۔۔"
اس کی بھنووں کے بیچ کی چوڑائی کم ہوکر آپس میں مل گئی۔افسردگی سے اسے دیکھا۔
آن کو اس کے جملے سن کر دلی تکلیف ہوئی۔یہ وہ کیا کہہ گئی تھی اس سے ؟
بے ارادہ ہی اس پیارے شخص کا دل دکھا گئی۔اسے پچھتاوا ہونے لگا۔
علیدان نے اسے خاموشی سے دیکھا۔۔ پھر اٹھ کر دروازے کے طرف بڑھا۔
آن پریشان ھوکر اس کے پیچھے بھاگی۔
"آپ کہاں جارھے رہے ہیں؟"
"آپ نے ہی تو کہا تھا کہ "آپ نے مجھے ویلکم نہیں کہا، تو میرے لئے بھتر ہے چلا جاوں۔"
یہ کہتے ہی بنا اسے دیکھے دروازہ کھول کر نکلتا گیا۔ کچھ دیر بعد گاڑی اسٹارٹ ھونے کی آواز سنائی دی۔ پھر آھستہ ۔۔آھستہ ۔۔ خاموشی چھاگئی۔۔ اور ویسی ہی خاموشی آن نے اپنے اندر محسوس کی تھی۔
آن وہیں کرسی پر تھکی تھکی سی گھری سانس لے کر بیٹھ گئی۔
(کیا وہ اتنا حساس تھا؟ وہ ناراض بھی ہوسکتا تھا ؟ کیا آن کے الفاظ نے اس کا دل بری طرح سے دکھایا تھا؟
آن اپنی جگہ سمجھتی رہی اس نے کچھ بھی غلط نہیں کہا ، وہ اس کی دنیا سے مختلف تھا۔)
آن نے ٹیبل سے کھانا سمیٹا۔ اس کے دل کو تکلیف ہوئی یہ دیکھ کر کہ وہ بنا کھائے ناراض ھوکر چلا گیا۔۔
"بھول جاو۔۔پرواھ مت کرو۔۔۔جانے دو۔۔۔"خود کو سمجھاتی رہی۔ لیکن پھر بھی اس کے ذہن سے علیدان کا یوں ناراض ہوکر چلے جانا نہیں گیا۔
( آن تم نے بھت غلط کیا اس کے ساتھ ۔۔کبھی اس کے ساتھ اچھا پیش نہیں آئی۔۔ ہمیشہ اس نے تمہاری مدد کی ہے۔ سب سے بڑھ کر محبت ۔"ضمیر کرلایا" ۔۔۔وہ محبت ۔۔ جس کو آن دل سے مان کر بھی انکاری تھی۔)
(کتنا تنہا ہے وہ۔۔۔اور یہاں وہ صرف اس کی تنہائی کے خیال سے آتا ہے۔کھانے کی وجہ بنا کر ۔۔صرف آن کے لئے۔ "ضمیر تڑپا۔")
وہ وہیں بیٹھتی چلی گئی۔
اسے یاد آرہے تھے مدھان کے وہ الفاظ ۔۔ جب وہ مدھان کو سیپلیمینٹری کی تیاری کروارہی تھی۔
وہ اس وقت خراب موڈ میں لگ رہا تھا۔۔ سوال کو حل کرتے ہوئے مسلسل اس کی توجہ بٹنے لگی تھی۔
جب آن نے پوچھا "آپ کا موڈ اچھا نہیں لگ رہا۔۔کیا بات ہوئی ہے ؟"
"مس آن ۔۔ کیا دوسروں کی وجہ سے آپ کبھی الگ تھلگ رہی ہیں؟"
"کیا۔۔آپ دوسروں کی وجہ سے الگ تھلگ رہ رہے ہیں ؟"
آن نے یہ اضطراب سے پوچھا۔۔
" کیا پہلے میں نے نہیں پوچھا؟" مدھان نے بجائے اس کو جواب دینے کے آن کو لاجواب کیا۔
آن نے ہلکا سا سر ہلایا۔" ہاں میں اکثر الگ تھلگ ہی رہی ہوں"
" لیکن کیوں؟ آپ دیکھنے میں بھی اچھی ہیں۔پرسنالٹی بھی اچھی ہے ۔
آپ کی اسٹیڈی بھی سب سے بھتر ہے۔ آپ کا بیک گرائونڈ بھی دوسرے عام لوگوں جیسا ہے۔وائے یو آر اسٹل آئسولیٹ؟ "وہ تھوڑا متجسس تھا۔
اس کی پیشانی پر حیرت کی لکیریں دیکھ کر آن تھوڑا سا مزاح میں بولی تھی۔
" مجھ جیسی لڑکی اسی لئے الگ تھلگ رہتی ہے۔ کہ وہ خوبصورت بھت ہے۔اور پڑھائی میں بھی شاندار ہے" وہ مسکرائی۔انداز میں شرارت تھی جو صرف ایک بچے کو زیادہ ٹینشن سے بچانے کے لئے تھی۔
" دوسری بات لوگ مجھ سے کیوں الگ تھلگ رہتے ہیں؟ بی کاز وہ جانتے ہیں کہ میں آسانی سے ان کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
آفٹر آل۔۔۔، جب میرا لوگوں سے سامنا ہوتا ہے ۔۔تو میں ان کو اپنا بدصورت رویہ دکھاتی ہوں"
.
"تو آپ ایسا کیوں کرتی ہیں؟" معصومیت سے اگلا سوال نازل ہوا۔
"کیوں کہ میں زندگی میں مشکلات نہیں چاہتی۔"آن نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اسے پیار سے سمجھایا۔
" آپ نے بھی یہی کہا" کہ میں خوبصورت ہوں۔درست؟ لوگ مجھے پسند کرسکتے۔اگر میں کسی سے قریب ہوئی تو۔لوگ اس کا فائدہ اٹھائیں گے۔
شاید ۔۔ میری نرم دلی دیکھ کر کوئی یہ سمجھے کہ میں اسے لائیک کرتی ہوں ۔
ایک سادہ سے رلیشن میں بھی ۔۔صرف سوچوں کے اختلاف کی وجہ سے، بیچ میں غلط فہمیاں پیدا ھوجاتی ہیں ۔ "
آن رکی اور اسے سوچ میں گم دیکھ کر بات آگے بڑھائی۔
"مجھے "سادہ لوگ" پسند ہیں۔ سو لوگ مجھے سنگ دل کہتے ہیں۔اور
"سنگ دل ہونا" نرم دل ہونے سے بھتر ہے ،تاکہ کوئی آپ کی زندگی کو مشکل نہ بناسکے۔"وہ ہلکا سا مسکرائی۔
"اور آپ ۔۔۔ شریر۔۔ کس کی ہمت ہوئی، جو آپ کو سب سے الگ تھلگ کردے؟ آپ تو شاہ خاندان کے چھوٹے لاڈلے سپوت ہیں۔۔جو چاہے کرسکتے ہیں۔"
" مس آن ۔۔ دیکھیں۔۔اب آپ نے لاعلمی میں میرے لئے بھی اپنے دل میں کٹیگری بنالی ہے۔ آپ یہ سوچتی ہیں کہ میں "شاہ خاندان کا سپوت" ہوں ۔صحیح؟"
آن نے بھنویں سیکڑ لیں ۔اور گھور کر اسے پیار سے بولی ۔" کیا آپ نہیں ہیں؟"
" لیکن ۔۔۔ میں ایک ۔۔عام انسان بھی تو ہوں ۔۔
یہ الگ تھلگ رہنا جو بظاہر آپ کو "الگ تھلگ " نہیں لگتا"یہ تنہائی کی ایک قسم ہے۔۔کہ آپ جہاں پیدا ہوئے ہیں۔دوسروں کی وجہ سے آپ خود بخود ہی منقسم ہوگئے۔ دوسروں کی نظر میں ، میں ایک اسپیشل طبقہ سے تعلق رکھتا ہوں۔
میں دوسروں سے طبعیت میں بھی مختلف ہوں گا۔جب کہ "میں خود یہ نہیں جانتا کہ ۔۔"ڈفرینس" ہے کیا؟
میں بھی دوست بنانا چاھتا ہوں، میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا چاھتا ہوں۔اور عام اسٹوڈنٹس کی طرح زندگی گذارنا چاھتا ہوں۔ مجھے سمجھ میں ہی نہیں آتا۔۔کہ میں اوروں سے کس طرح "مختلف" ہوں۔؟"اس کے لہجے میں افسردگی تھی۔
"کیا اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں "شاہ خاندان" میں پیدا ہوا؟"۔
آن کی سوچوں کو بریک لگا۔
مدھان کا مایوس چہرہ اور تکلیف دہ الفاظ اس کے ذہن میں پھرنے لگے۔
(کیا یہ فقط اسی لئے کہ میں شاہ خاندان میں پیدا ہوا ہوں؟) کوئی اس کے دل میں بولا تھا۔
تکلیف کی شدت سے آن نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ دل کو جیسے ضمیر کوڑے مار رہا تھا۔۔
وہ کچن سے باہر نکلی۔اور علیدان کی تکلیف کو دل میں شدت سے محسوس کرکے اور زیادہ خود کو مجرم سمجھا۔
(کیا اس کی وجہ سے کہ میں شاہ خاندان میں پیدا ہوا ہوں؟) کوئی کرلایا تھا۔
کیا قصور تھا؟؟ ان کا جو اگر وہ امیر تھے۔۔عالی شان رھائش رکھتے تھے۔کیا وہ انسان نہیں تھے؟ کیا ان کی فیلنگس عام انسانوں جیسی نہیں تھیں؟ کیا ان پر اچھا یا برا رویہ افیکٹ نہیں کرسکتا تھا؟ یا ان لوگوں کو عام انسانوں کی طرح محبت یا نفرت کرنے کا حق نہیں؟؟ کیوں آن۔۔ ؟ کیوں تم ان کو عام انسان سے مختلف سمجھتی رہی۔
("Is it just because I was born in shah family)"
جملوں کی بازگشت تھی۔۔ آن نے بے اختیار کانوں پر ھاتھ رکھ دیئے۔
اسے علیدان سے اپنی آخری بار کی بات یاد آئی ۔جب اس نے آن کو اپنی کمپنی میں "انٹرن شپ " کی آفر دی تھی۔
اس شرط پر کہ "آن اس کے لئے روز کھانا بنا کر آئے گی"
اس وقت آن نے صرف منفی سوچا تھا ۔کہ وہ اسے استعمال کر رہا ہے۔
حلانکہ ،اسے علیدان سے ان الفاظ کی توقع نہیں تھی۔اس کے لفظوں نے آن کے دل میں بے چینی کی لہر دوڑادی تھی۔اس نے صرف یہی کہا تھا۔"وہ بھی ایک انسان ہی ہے،میرے ساتھ الگ تھلگ اور مختلف لوگوں کی طرح برتاو مت کرو۔"
وہ محبت اور کیئر کی ،دوسروں کی نسبت زیادہ آرزو رکھتا ہے۔جب وہ یہ الفاظ بول رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں عجیب سپاٹ رنگ واضع تھا۔جیسے وہ لوگ تنہا رہ رہ کر عادی ہوچکے ہوں۔لیکن دل میں کہیں نہ کہیں عام انسانوں جیسی لائیف گذارنے کی خواہش ضرور ہمکتی تھی۔
آن نے گھری سانس لی ۔
اور اپنے روم میں آکر سیل فون اٹھایا۔
اور جلدی سے دروازے سے باھر نکل آئی۔سیڑھیاں اتر کر نیچے آئی۔
تو اندھیرے میں چمکتی علیدان کی گاڑی ابھی تک سامنے پارک تھی۔
آن نے لب بھینچ کر جھک کر اسے گاڑی کے اندر بیٹھے دیکھا۔
اسے دیکھ کر آن کو اپنے اندر ناقابل بیان سکون محسوس ہوا۔
وہ دوسری سائیڈ پر گئی ،اور دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔اور لب بھینچ کر اسے دیکھنے لگی۔۔جو خاموش سا سامنے ہی دیکھے جارہا تھا۔
"کیا کررہے ہیں آپ ؟"آن نے لب بھینچ کر ۔اپنی پیشانی سہلاتے ۔۔کچھ جھجھکتے پوچھا تھا۔
جب وہ کچھ نہیں بولا تو وہ ہچکچائی۔"وہ ۔۔۔"اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے؟
آن نے سوچا تھا۔ اس کی دھتکار سے وہ چلا گیا ہوگا۔
" ھمممم۔۔تو بالآخر آپ کے پاس "ضمیر"نام کی شے ہے ۔آپ کو احساس ہوگیا، اور مجھے ڈھونڈھنے باہر نکل آئیں۔جس کا مطلب ہے۔آپ کے دل میں،میرے لئےفیلنگس ہیں۔"
آن نے چونک کر اسے اچھنبے سے دیکھا۔"آپ نے وہ جان بوجھ کر کیا؟"
"کس نے کہا ہے یہ؟" میں تو آپ سے واقعی میں ناراض ہوں۔"وہ معصومیت سے بولا۔
یہ دیکھ کر کہ وہ اب بھی افسردہ سی ہے۔ علیدان نے محبت سے اس کا سر سہلایا۔
"It's fine
"میں نے آپ سے بنالی پاگل لڑکی۔"
آن نے اپنا چہرہ اس کی طرف موڑا۔"پھر آپ ابھی تک گئے کیوں نہیں۔؟"
"میں آپ کا انتظار کررہا تھا۔ کب آپ نیچے آئیں ، اور میرے سے معافی مانگیں۔" علیدان نے ٹھنڈی سانس بھر کر پھونک اس کے چہرے پر ماری تھی۔آن دنگ ھوئی۔
آن نے آنکھیں گھما کر اسے دیکھا تھا۔
"بچپنا۔۔۔۔آپ میں بہت بچپنا ہے۔اسی لئے آپ نے مجھے باھر نکال دیا۔اور بعد میں پچھتاتی رہی۔میں بالغ مرد ہوں۔اسی لئے میرا اب تک "فخر"قائم ہے۔"اسے محبت سے دیکھا۔
آن نے بے ساختہ نظریں جھکالیں ۔اور نرمی سے مسکرائی۔
"آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی۔؟"علیدان نے اس کی آنکھوں میں نہار کر پوچھا۔
"میرے پاس کچھ بھی پوچھنے کو نہیں ۔" آن نے انکار کیا۔
"ایسا ہے تو۔۔۔۔" علیدان نے اچانک ہی گاڑی اسٹارٹ کردی۔
آن دنگ رہ گئی۔
"مجھے باھر نکلنا تھا علیدااان۔" آن چینخی ۔
"کیا آپ سمجھتی ہیں۔آپ اپنی مرضی سے میری گاڑی میں داخل ہوںگی۔اور اپنی مرضی سے باھر نکل جائیں گیں۔۔۔نو۔۔نیور۔؟" وہ شرارت سے مسکرایا تھا۔
"اب جب کہ ۔۔آپ کے پاس مجھے کہنے کو کچھ نہیں ۔تو چلیں میرے ساتھ ایک رائڈ لیں۔"
"نہیں ۔۔یہ ایک فضول کام ہے۔" آن نے انکار کیا۔لیکن گاڑی کی رفتار بڑھ چکی تھی۔
اس کی آواز سحرانگیز تھی۔وہ اس کے ساتھ نہیں جانا چاہ رہی تھی،لیکن وہ گاڑی سے کود بھی نہیں سکتی تھی۔
وہ اسے سمندر کے کنارے لایا ۔جہاں آن نے اسے کافی کی آفر دی تھی۔
آن شاکڈ سی کبھی اسے اور کبھی بیچ کو دیکھتی رہی۔وہ اپنی فیلنگس کو سمجھ نہیں پارہی تھی۔۔اسے علیدان مسلسل حیران کرتا آیا تھا۔۔ہر وہ بات ۔۔جس کی توقع وہ نہیں رکھتی تھی۔علیدان وہ کردیتا تھا۔بنا کہے۔۔بنا پوچھے۔۔کیا وہ جادوگر تھا؟۔
کھلی ونڈو سے ،سمندر کی لہروں سے چھو کر آتی ٹھنڈی ھواوں کے جھونکے جب اس کے نرم چہرے سے ٹکرائے ۔آن نے ایک گہری۔۔لمبی سانس بھری۔اور دلفریبی سے مسکرادی ۔یو شیپ کی پتھریلی قدرتی کرسیاں اور ٹیبل دور نہیں تھیں۔
یہ کنورٹیبل کار تھی۔علیدان نے اس کی چھت کھول دی۔ ٹھنڈی ھوا کے جھونکے اوپر سے لگ کر دونوں کو لبھا رہے تھے۔
علیدان نے اسے آنکھیں موندے ٹیک لگائے بیٹھے دیکھا۔ " آپ نے کہا تھا۔۔۔ آپ کا موڈ یہاں آکر بھتر ھوجاتا ہے ۔۔"
"ییس۔۔کہا تھا۔۔اور۔۔۔میرا موڈ اب بھتر ہو بھی گیا ہے۔" آن نے ھونٹ بھینچے تھے۔پھر مسکرادی۔
"جیسے کہ میں نے کہا تھا،"یہ جادوئی جگہ ہے۔"
"لیکن اس کی دوسری وجہ جس سے میرا موڈ بھتر ہوا ہے وہ ہے میرے ساتھ آپ کا ہونا۔۔" علیدان نے اس جادوئی رات کو گواہ بنا کر اپنے دل کی بات کہہ دی۔
آن نے چونک کر علیدان کو نہارا۔علیدان کے ہونٹ مسکرا رہے تھے۔
"صرف آج۔۔۔ میں آپ کو بتانا چاھتا ہوں۔۔۔۔۔کہ مجھے کسی کے "کیئر" کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔جب میں ناراض ھوگیا۔ اور چلاگیا۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔آپ نے مجھے بھلی نہ روکا۔۔۔۔میں چلا گیا تھا۔ یہ کوئی مسئلہ بھی نہ بنتا۔۔۔۔اگر۔۔آپ فورن ہی میرے پیچھے نہ آتی۔"علیدان نے اوپر چاند کو دیکھ کر ٹھنڈی سانس بھری۔
"لیکن اس سے پہلے کہ میں گاڑی اسٹارٹ کرتا۔۔۔آپ مجھے ڈھونڈھتی ہوئی باہر آگئی۔"
علیدان کے یہ الفاظ سن کر آن کی آنکھوں میں اپنا قصور اور زیادہ بڑھا۔
یہ وہ علیدان نہیں تھا۔۔جسے لوگ سنگ دل ظاہر کرتے تھے۔وہ اب سو فیصد پریقین تھی کہ علیدان ایک اچھا اور حد سے زیادہ رحم دل اور حساس شخص ہے۔
آن کی نظر میں وہ ایک "ایسا معصوم انسان" تھا، جسے محبت کی ضرورت تھی۔
لیکن۔۔۔۔۔ وہ اسے محبت نہیں دے سکتی تھی۔یہ اس کے لئے مشکل تھا۔
مینیجر نے زینیہ کو چڑ کر دیکھا۔ پھر ناگواری سے کہا۔
" آپ یہاں کی سپروائیزر بن تو گئی ہیں ،لیکن آپ میں ورکرز سے برتاو کرنے کی کوئی صلاحیت نہیں ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ آپ اپنی یہ پوزیشن آگے بھی سنبھالنے کی اہل ہیں۔عنیزے یہاں صرف جاب کرتی ہے کسی کو پریشان نہیں کرتی۔ آپ کیوں اس کے پیچھے پڑی ہیں؟"
"معاف کیجئے گا توصیف صاحب۔۔۔یہاں ہر ورکر اچھی طرح سے جانتا ہے۔ کہ عنیزے اپنی نوکری سے کتنی مخلص ہے ۔" زینیہ سکون سے بازو سینے پر باندھ کر بولی تھی۔
"اس کی پُور ورکنگ ایبلیٹی کے ساتھ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ اب ٹیم لیڈر رہنے کی اہل ہے؟"
"ٹھیک ہے۔۔اس بات سے آپ کا مطلب کیا ہے آخر ؟ یو ٹالک ٹو مچ نان سینس۔"یہ کہتے ہی وہ ناگواری سے پیشانی پر سلوٹ ڈالے اپنی آفیس کے طرف جانے لگا۔ ۔۔تبھی عنیزے روتی ہوئی جلدی سے اس کے پیچھے آئی۔
"توصیف میں آج کیفی ٹیریا لنچ کے لئے گئی تھی۔جب میں نے آن اور سیماز کو اپنے پیچھے کی سیٹ پر بیٹھ کر اپنے بارے میں برائی کرتے سنا۔۔۔۔۔
میں نے تو صرف ان سے سوال کیا تھا۔ کیونکہ جمشید آن کو پسند کرتا ہے ۔ اس لئے اس نے آن کی سائیڈ لی۔اور مجھ پر چلایا۔۔۔۔۔اور یہ زینیہ۔۔۔۔ اس نے مجھے دھمکیاں دی کیونکہ یہ یہاں کی سپروائیزر ہے۔ مجھے دھمکیاں دی گئی ہیں پھر یہ سب کیوں ان کی سائیڈ لے رہے ہیں۔؟"وہ رونے لگی تھی۔
توصیف نے آن کو ناگواری سے پیشانی پر بل ڈال کر گھورا۔
"مس۔۔۔آپ نے پھر سے مسئلہ کیوں کری ایٹ کیا ہے؟"
"مینیجر صاحب ، آپ نے مجھے غلط سمجھا ہے۔۔۔۔ میں۔۔۔"آن نے کہنا چاہا۔لیکن نغار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے؟
"کیفی ٹیریا میں سیماز بھی ہمارے ساتھ تھی۔"عنیزے نے سیماز کو ثبوت کے طور پر آگے کیا۔
توصیف نے سیماز کو دیکھا ۔ "کیا تم نے عنیزے کے پیچھے کچھ غلط بولا تھا؟"
سیماز جلدی سے کھڑی ہوئی ۔اور سر نفی میں ہلایا ۔"میں نے نہیں ،آن نے کچھ شکایات کی تھیں۔دیٹس آل۔میں تو بس ایک طرف بیٹھی سن رہی تھی۔" سیماز نے فخریہ مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاکر کہا۔
سیماز نے جو کچھ کہا، کیا عنیزے کی بات اب سچی نہیں ؟" مینیجر ناراضگی سے بولا۔
آن نے اسےسپاٹ نظروں سے دیکھا۔
"میں نہیں مانتی۔"
"مجھے کسی دوسرے کی پرواھ نہیں ہے۔میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ تم نے میری برائی کی ہے۔"عنیزے نے مٹھیاں بھینچیں۔
اس وقت وہاں کوئی بھی گواہ نہیں تھا ۔وہاں کوئی ثبوت نہیں تھا۔اگر وہ کسی دریا میں بھی کود جاتی تب بھی اپنے آپ کو سچا ثابت نہیں کرسکتی تھی۔
وہ برطرف نہیں ہونا چاہتی تھی۔وگرنہ علیدان شاہ سخت مایوس ہوجاتا ۔
مینیجر سخت ناخوش تھا ۔
"آل رائیٹ۔اب اس مسئلے پر زیادہ بات نہ ہو۔آن جب سے آپ کمپنی میں آئی ہیں مسئلے کا سبب بنی ہوئی ہیں۔میں سمجھتا ہوں آپ کو بہت پہلے سے اپنا کام روک دینا چاھئے تھا۔کچھ ہی دیر میں ،میں فنانس ڈپارٹمنٹ کو کال کرکے آپ کا حساب کلیئر کرتا ہوں آپ جاکر اپنی سیلری طئے کیجئے۔"
آن نے سر اٹھا کر اسے حیرت سے دیکھا۔اگر وہ اس طریقے سے نکال دی گئی تو وہ علیدان شاہ کے سامنے اپنا سر نہ اٹھا سکے گی۔آفٹر آل ۔علیدان شاہ نے کسی کے لئے پہلی بار اپنے وسائل استعمال کئے تھے۔
"میں یہ مان ہی نہیں سکتی۔میں کیوں جاب چھوڑوں؟"
زینیہ نے بھی اس کی سائیڈ لی۔" آن نے کچھ بھی غلط نہیں کیا۔توصیف صاحب آپ کو سب کے ساتھ برابری کا برتاو کرنا چاھئے۔"
"یہ ٹریننگ ڈپارٹمنٹ میری زمیواری پر ہے تو فیصلہ بھی میرا ہونا چاھئے۔نا کہ آپ کی زمیواری پر ،جو آپ فیصلہ کریں گیں۔"
جیسے ہی مینیجر نے بات پوری کی۔ایک سرد اور دلفریب آواز پیچھے دروازے سے آئی۔
"مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میری کمپنی کا کنٹرول ڈپارٹمنٹ کے مینیجر کے ہاتھوں میں ہے؟"
جیسے ہی اس نے یہ بات کہی ،ہر ایک نے مڑ کر دروازے کے طرف دیکھا اور سب وہیں پر ساکت رہ گئے۔جب علیدان شاہ ظاہر ہوا۔پوری آفیس میں موت جیسی سرد خاموشی چھاگئی۔سب ہی علیدان شاہ کمپنی کے اونر کو پہلی بار نیچے اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔
آن نے اپنی نظر علیدان سے جلدی ہی ھٹا کر زینیہ کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔وہ سمجھی زینیہ نے علیدان شاہ کو فون کرکے، آنیہ عصمت کی مدد کے لئے بلایا ہوگا۔۔۔اس نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا۔۔۔ کہ علیدان شاہ کبھی پرسنلی نیچے آسکتا ہے۔اگر اس نے آن سے کوئی ربط ظاہر کیا تو ؟ وہ ڈر گئی ۔۔اگر سب کو یہ معلوم ہوا کہ وہ علیدان شاہ سے ملی ہوئی ہے تو ۔۔۔اس سے آگے ڈر ہی ڈر تھا۔
"کس بات پر انہیں پوائنٹ آئوٹ کیا جارہا ہے ؟"
علیدان کی سرد آواز آفیس میں گونجی تھی۔اس نے سب پر سرسری سی نظر پھیری تھی۔ لیکن اس کی سرسری نظر سے بھی آن کے چہرے کا پھیکا پن مخفی نہ رہا تھا۔
مینیجر اسے دیکھ کر ھڑبڑا کر جلدی سے آگے بڑھا۔
"سر آپ پرسنلی یہاں کیوں آگئے۔مجھے حکم کیا ہوتا۔"
"تمہارا کیا خیال ہے؟میں ادھر کیوں آیا ہوں؟"
ھر ایک اس وقت آن کی ٹیبل کے گرد کھڑا تھا۔ علیدان اس طرف بڑھا اور آن کی کرسی کھینچ کر اس پر آرام سے بیٹھ گیا اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر سب کو گھورنے لگا۔
آن جلدی سے کچھ قدم پیچھے کو ہوئی۔اور علیدان کی کرسی سے ایک فاصلہ رکھ لیا۔لیکن پہلے کی نسبت اب وہ پرسکون تھی۔وجہ سامنے موجود علیدان کا وجود تھا۔کچھ دیر پہلے کے ڈر اور اوہام کہیں دور بھاگ گئےتھے۔اب وہ ایک حفاظتی گھیرے میں تھی۔
مینیجر نے عینی کو خفیہ آنکھ ماری اور اشارہ کیا ۔
"جاکر سر شاہ کے لئے چائے لاو "
عنیزے جلدی سے مڑ کر جانے ہی لگی تھی جب علیدان شاہ نے سرد آواز میں روکا۔" میں یہاں چائے پینے نہیں آیا۔"
اس نے زینیہ کو دیکھا۔"جس سچویشن کی بنیاد پر آپ نے مجھے رپورٹ کی ہے،اس کے بارے میں تفصیل دیجئے۔"
توصیف زینیہ کو حیرانی سے گھورنے لگا۔(کیا زینی نے سر شاہ کو رپورٹ دی ہے جب کہ وہ ایک عام سی ٹیم لیڈر ہے۔یہ سر شاہ کو کیسے جانتی ہے؟ کیا یہ دونوں پہلے سے ہی واقف کار ہیں؟)
پورے اسٹاف کی نظریں زینیہ پر ٹک گئی تھیں۔کوئی بھی زینیہ اور سر شاہ کے تعلق کا بیک گرائونڈ نہیں جانتا تھا۔عنیزے خود بھی دنگ رہ گئی۔
زینیہ نے آنکھ ترچھی کرکے عنیزے کو دیکھا۔" سر ،میں نہیں جانتی اگر آنیہ نے عنیزے کی پیچھے کچھ برا کہا ہو۔"میں نے خود نہیں سنا آفٹر آل، میں اس وقت وہاں موجود نہیں تھی۔"اس نے صاف اور سیدھی بات کہی۔
"لیکن کسی کے پیچھے بری باتیں عنیزے نے بہت سی کردی ہیں۔
اس آفیس میں۔۔کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کو پیٹھ پیچھے یا سامنے برا بھلا نہ کہا گیا ہو۔ یا دھمکیاں نہ دی گئی ہوں "اس نے سب لوگوں کو دیکھا۔" یہاں آئیں وہ لوگ جنہیں عنیزے نے ڈرایا یا دھمکایا نہ ہو۔"
لیکن کوئی بھی آگے نہیں بڑھا۔
عنیزے سخت پریشان ہوئی۔
"میں نے کب تم لوگوں کو ڈرایا یا دھمکایا ہے ؟ یہ مت سمجھنا کہ سر کے سامنے تم لوگ مجھ پر الزام تراشی کروگے۔میں وہ بات مان ہی نہیں سکتی جو میں نے نہیں کی۔" عنیزے زرد پڑگئی۔
ایک طرف جمشید کھڑا یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا بول اٹھا۔
"عنیزے یہ مسئلہ تو کچھ بھی نہیں کہ تم ہم سب کو اذیت دیتی آئی ہو۔بھلی یہ مت مانو۔لیکن ایک ماھ پہلے تم کمپنی کی گاڑی یہ کہہ کر لے گئی تھیں کہ تم کو دوسرے سٹی مینیجر کے ساتھ لنچ کے لئے جانا ہے ۔ کمپنی کی گاڑی تم لے گئی تھیں۔"
"جمشید ، کیا بکواس کررہے ہو؟مینیجر ناگواری سے ھلکی آواز میں غرایا تھا۔"میں عنیزے کے ساتھ لنچ پر کبھی نہیں گیا۔" وہ باس کے سامنے اس الزام پر آگ بگولا ہوا۔
"پتا نہیں سر۔۔۔عنیزے کس شخص کے ساتھ گئی تھی۔ لیکن۔۔یہ بلکل سچ ہے جمشید اور مجھے کمپنی کے کام سے جانا تھا ۔ہمیں کمپنی کی گاڑی لینی تھی۔لیکن ہمیں ٹیکسی کرنی پڑی۔لیکن ہم نے تب شکایت کا اندراج نہیں کروایا۔" یہ دوسرا ھیڈ تھا جس نے مانا کہ جمشید کی بات 100 پرسنٹ سچ ہے ۔
دوسری طرف سے عنیزے جمشید پر چلاپڑی۔بنا اپنے باس کا خیال کیئے۔
"جمشید الزام مت لگاؤ۔ہر کوئی جانتا ہے کہ تم نے آن کی سائیڈ اسی لئے لی ۔۔۔۔کیونکہ تم اسے پسند کرتے ہو۔"
یہ الزام تراشی سن کر علیدان کو سخت غصہ آیا اس کے ھاتھ کی گرفت کرسی کے ھتھے پر سخت ہوئی جیسے برداشت کرنا مشکل ہو ۔
جمشید نے ناگواری سے لب بھینچے ۔اور ہلکا سا غصہ ہوا۔
"یہ تمہارا مسئلہ نہیں عنیزے ۔تم مجھے اس طرح الزام لگا کر لیٹ ڈاؤن نہیں کر سکتی بی کاز آئی ایم آنیسٹ۔"وہ بھی تیز ہوا۔
علیدان شاہ نے ابرو اچکا کر جمشید کو بغور دیکھا جو بھیڑ میں کھڑا تھا۔
اسی وقت زینیہ بھی سر کو دیکھ رہی تھی ۔علیدان شاہ نے اپنی نظر ھٹا لی ۔ مگر آن عصمت کے طرف دیکھنے کی غلطی بلکل نہیں کی۔ جو اس کے پیچھے کھڑی تھی۔
آن خود کو اس وقت قصور وار سمجھنے لگی۔سارا مسئلہ اس کے آنے کے بعد شروع ھوا تھا۔نہ وہ یہ جاب کرتی نہ ایسا کچھ ہوتا۔
"تو تمہارے کہنے کے مطابق اس عورت نے کمپنی کے وسائل کا غلط جگہ پر استعمال کیا ہے ۔صرف اپنے ذاتی کام کے لئے؟"
"ییس "جمشید نے سر اثبات میں ہلا کر کہا۔
زینیہ نے کچھ پل کو سوچا اور اپنے ڈیسک کے طرف بڑھ گئی۔اپنی ٹیبل کے ڈراور سے ڈاکیومنٹس نکالے اور علیدان شاہ کے قریب آکر وہ ڈاکیومنٹس باس کے طرف بڑھائے۔
"سر ، یہ وہ ثبوت ہیں جو میں نے اکٹھے کیئے ہیں کہ عنیزے نے کمپنی کے وسائل کا غلط استعمال کیا ہے۔"
علیدان شاہ نے وہ ڈاکیومنٹس زینیہ سے لے کر اس کی ورق گردانی کی۔
عنیزے نے نروس ہوکر تھوک نگلا اور مینیجر توصیف کے طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا۔ کہ اگر وہ اس کی مدد کرسکے تو۔۔۔
مینیجر توصیف اس کی نظروں کا مفھوم سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا کر اسے دیکھا۔۔ جیسے کہہ رہا ہو ( فکرمند مت ہو)
علیدان شاہ سرد انداز میں ھلکا سا مسکرایا۔اور ڈاکیومنٹس مینیجر کے طرف پھینک دیئے۔
"دیکھ لو۔۔ تمہاری ایمپلائی نے بھت اچھا کام کیا ہے ، اب بتاو، تم کیا کرو گے؟"
مینیجر توصیف نے کانپتے ہاتھوں سے ڈاکیومنٹس اٹھائے۔۔۔اور جب اسے پڑھا تو سخت برہم ہوا۔
(اس زینی نے اس کے پیچھے کافی ساری چھوٹی چھوٹی حرکات کردی تھیں، اور اب وہ کسی طرح سے بھی محفوظ نہیں رہا تھا۔ )
"سر ، یہ حرکت سچ میں کافی گھٹیا ہے۔۔۔ عنیزے کی حرکت سریسلی کمپنی کے اصولوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ سو۔۔ میں اس کی تین ماھ کی سیلری کاٹ لیتا ہوں۔۔۔از دیٹ اوکے؟"مینیجر نے چاپلوسی کرنا چاہی۔
لیکن علیدان شاہ کی آنکھیں سپاٹ ہوگئیں۔بلکل بے تاثر۔۔
"توصیف، میں سمجھتا ہوں تم کو اب یہاں کام جاری رکھنے کی ضرورت نہیں۔"
توصیف نے جلدی سے کہا۔
" مجھے سخت افسوس ہے، سر،
میں نے کافی حد تک لاپرواہی برتی ہے۔ میں "ہیومین ریسورس " والوں کو ذاتی طور پر کال کرتا ہوں تاکہ وہ عنیزے کو نوکری سے ہمیشہ کے لئے برطرفی کا نوٹیس بھیج دیں۔"
عنیزے کی ٹانگوں نے اس کے وجود کا بوجھ سہارنے سے مکمل انکار کردیا وہ لڑکھڑا کر سخت حیرت سے دو قدم پیچھے ہوئی۔ "تت۔۔۔ توصییف ف۔۔۔؟"
"شٹ اپ، تم نے کمپنی کی ساکھ کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ اب تم یہاں کس طرح رہ سکتی ہو؟"
عنیزے اس کی زبردست جھاڑ پلانے پر سخت گھبرا گئی۔ اور کانپ اٹھی۔۔اس نے نم آنکھوں سے زینیہ کے طرف دیکھا۔۔اور کپکپاتے قدموں کے ساتھ اپنی ڈیسک پر جاکر اپنی چیزیں سمیٹنے لگی۔
علیدان حیدر شاہ کرسی سے اٹھا اور دونوں ھاتھ اپنی پینٹ کی جیب میں ڈالے۔اور توصیف کے طرف سرد نظروں سے گھورا۔
"عنیزے کو کمپنی سے برطرف کیا گیا ہے ۔اور تمہارے لئے۔۔ہم نے تین ماہ کی سیلری کی کٹوتی کردی ہے۔اگر اس پر راضی ہو تو کمپنی میں رہ سکتے ہو، ورنہ ریزائن کردو۔
زینیہ آپ میری آفیس آئیں ۔" اسے حکم دیتا آگے بڑھ گیا۔
"آل رائیٹ ، سر ۔"
شروع سے لے کر آخر تک علیدان شاہ نے ایک غلط نظر بھی آن پر نہ ڈالی۔۔
آن نے سکون کی ایک گہری سانس بھر کر جیسے ساری پریشانی کو باھر نکال دیا ہو۔اب وہ پرسکون تھی۔
زینیہ نے مڑ کر آن کو ضرور دیکھا ۔پھر علیدان شاہ کی تقلید میں قدم بڑھاتی چلی گئی۔
جیسے ہی یہ لوگ گئے ،پوری آفیس میں یہ بات پھیل گئی۔ہر ایک یہی کہہ رہا تھا کہ عنیزے نے زینیہ سے پنگا لیا تھا۔تبھی عنیزے کے ساتھ برا ہوا۔
اور آن عصمت بھی اچانک سے یہ بات سمجھ گئی کہ زینیہ کو علیدان شاہ نے کس وجہ سے پروموٹ کیا تھا۔اس کی یہ غلط فہمی پانی پر بنی لکیر ثابت ہوئی تھی کہ علیدان نے زینیہ کو اپنے رلیشن کا بتایا ہے۔جب کہ حقیقت اب آئینے کی طرح شفاف تھی۔
آفٹر آل نہ فقط اس نے اسکی مدد کی تھی۔بلکہ کسی کو ان کے رلیشن کا بھی معلوم نہ ہوسکا۔علیدان شاہ واقعی بہت قابل فہم شخص تھا۔
توصیف سخت ناراضگی کے ساتھ پاوں پٹختا آفیس میں گھس گیا۔عنیزے اپنا سامان سمیٹ کر توصیف کی آفیس میں گئی۔تھوڑی دیر میں ہی پوری آفیس نے ان دونوں کے بیچ جھگڑا۔۔ بڑی دلچسپی اور مزے لے کر اپنے کانوں سے سنا ۔کچھ نے طنزیہ ھنسی بنالی کچھ نے بظاہر افسوس بھی کیا۔ کچھ نے کہا۔(یار۔۔ عنیزے یہ ڈیزرو کرتی تھی۔)
توصیف اس پر دھاڑ رھا تھا۔ کہ صرف اس کی وجہ سے اس کی ریپوٹیشن بھی تباھ ھوگئی ہے۔۔کچھ دیر بعد عنیزے کو روتے ہوئے آفیس سے باھر نکلتے سب نے دیکھا۔
عنیزے روتی ہوئی باھر نکل کر ایلیویٹر کے پاس آئی۔ آن عصمت کو وہاں کھڑا دیکھ کر اس نے اپنے آنسو پونچھے آن نے فرسٹ فلور کا بٹن دبایا۔ دونوں اندر کھڑی ہوگئیں۔عنیزے اسے شعلہ بار نظروں سے گھورنے لگی۔۔
"کیا سمجھتی ہو تم۔۔۔۔ کہ تم اس طرح جیت گئی ہو۔"وہ حسد سے بے قابو ہورہی تھی۔
" فرسٹ آف آل ، تم نے نشانہ ہی غلط انسان کو بنایا۔۔" وہ سپاٹ انداز میں بولی تھی۔۔۔۔"توصیف صاحب کی جوان معشوقہ ۔۔۔۔۔میں نہیں بلکہ سیماز تھی۔"
عنیزے اس کی بات سن کر مارے حیرت سے سن ہوگئی۔(یہ وہ کیا سن رہی تھی۔)
"دوسری بات آج ۔۔۔۔۔ڈائننگ ھال میں، میں نے تمہارے متعلق ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ کیئرفلی۔۔جو الفاظ تم نے دہرائے تھے، کہ یہ تم نے خود سنے ہیں ۔۔جو تمہارے کہے کے مطابق میں نے کہے تھے ۔۔ کیا واقعی تم نے خود سنے؟"آن نے سنجیدگی سے پوچھا اس کا انداز ایک استاد جیسا تھا۔ جو اپنے اسٹوڈنٹ کی غلطیوں کے مختلف زاوئیے اسے روشن کرکے دکھاتا ہے۔۔جو اندھیرے میں ہوتی ہیں۔
آن نے نرمی سے اس کے ذہن کا زنگ صاف کرنے کی کوشش کی تھی ۔
عنیزے نے رخ موڑ کر حیرت سے آن کی بات سنی ۔
"تم ۔۔۔تم نے کہا ۔۔کہ وہ کتیا سیماز ہے؟"
آن نے کوئی آواز پیدا نہیں کی ۔خاموشی سے اسے دیکھا۔
عنیزے کافی مایوس ہوئی۔
"تو پھر تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا؟"
"پہلی بات کہ تم نے کبھی سب کے سامنے نہیں کہا کہ تم میرے خلاف ہو۔کیونکہ تم کو جس نے میرے بارے میں مشکوک کیا تھا وہ تھی کسی اور کی معشوقہ۔"
آن نے کندھے اچکا کر بات ختم کی۔
"تم نے صرف مجھ کو تکلیف دینے کے لئے ہر طرح کی وجوہات استعمال کیں،
دوسری بات میں یہاں صرف ایک ماھ کے انٹرن شپ پر آئی تھی، میں بلکل بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاھتی تھی۔
لیکن میری کسی مسئلے پر خاموشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میں تم سے ڈرتی تھی۔" آن نے ٹھنڈی سانس بھری اور خاموش ھوئی۔
لیول 12 سے لیول 1 لفٹ تیزی سے نیچے آئی اور دروازہ کھلا۔
عنیزے نے باھر نکلنا نہیں چاہا۔
"کیا تم نہیں جارہی؟"
آن نے گرمجوشی سے پوچھا۔عنیزے بلکل خاموش رہ گئی تھی۔پھر آھستہ سے باھر قدم بڑھا دیئے
" ویٹ اے مومینٹ۔" عنیزے نے مڑ کر اسے دیکھا ۔ تب آن نے کہا۔
"جب کہ سارا مسئلہ میری وجہ سے اٹھا تھا، مجھے تمہارے لئے بھت افسوس ہے ،آفٹر آل میں تم کو جھکانا نہیں چاھتی تھی۔"
عنیزے مڑ کر بنا کچھ کہے نکلتی چلی گئی۔
ادھر آفیس میں آو تو علیدان اپنی چیئر پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا۔ زینیہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔علیدان نے سرد لہجے میں پوچھا۔
"مجھے بتائیں۔ اس میل ایمپلائی اور آن عصمت کے بیچ میں کون سی بات ہوئی ہے۔ ؟"علیدان کا اشارہ جمشید کے طرف تھا۔
"آپ کا مطلب ہے جمشید؟" زینیہ دنگ ہوئی۔
"یہ وہ ہی تھا۔"
علیدان نے سمجھ کر سر ہلایا۔
زینیہ نے سوچا۔(جمشید اب کام سے گیا۔)
"سر آن عصمت بھت خوبصورت لڑکی ہے اس کی سنجیدہ پرسنالٹی پسند کرنے کے قابل ہے۔
سو جس وقت سے وہ آفیس میں آئی ہے۔۔۔اچانک سے ہی سب کی نظروں کا مرکز بن چکی ہے۔
آفیس میں کتنے ہی لوگ اسے پسند کرتے ہیں،اور صرف ایک جمشید واحد شخص ہے جو خود کو ایکسپوز کرچکا ہے۔"
"لاٹ آف پیپلز آف یوئر ڈپارٹمنٹ لائیک ہر؟" علیدان کو سخت برا لگا۔۔سخت برا۔
"نہیں صرف ٹریننگ ڈپارٹمنٹ کے افراد" میں نے کچھ گوسپ اس کے بارے میں سنی ہے۔اس کے کیفیٹیریا سے جانے کے کچھ لمحوں بعد کتنے ہی لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے رہے کہ "یہ کون سے ڈپارٹمنٹ سے آتی ہے؟ اور کتنے ہی لوگ تو صرف اسی لئے لنچ کرنے آتے ہیں کہ اس کو دیکھ سکیں" زینیہ تو باس کے تاثرات دیکھ کر دل میں حیران ھورہی تھی۔
یہ سن کر علیدان شاہ سخت ناخوش ہوا۔(یہ عورت ہمیشہ کیوں اتنی اٹرئکٹ کرتی ہے جہاں بھی جاتی ہے ؟ اسکول میں، اس کے چہرے کی وجہ سے "اسکول بیوٹی" سلیکٹ کیا گیا۔ ایک ہی سچویشن پھر سے کیوں ہوتی ہے؟)
" اب سے آپ اس کے گرد مردوں پر دھیان رکھنا اور مجھے صورتحال سے آگاہ کرتی رہنا۔"اسے تاکید کی گئی۔
" آل رائیٹ سر۔" زینیہ کو تو سردرد ہوگیا تھا۔۔یہ ایک بھت بڑا پروجیکٹ تھا۔لیکن۔۔۔خوش قسمتی سے یہ "ٹینڈر لوو "فقط ایک مھینہ یہاں رہنا تھا۔
☆☆☆☆☆
ثنا حمزہ کی آج فلائیٹ تھی۔دونوں نے پورا دن ساتھ گذارا۔۔کھانا ساتھ کھایا۔۔چار سال کے دوران کی باتیں یاد کرکے کبھی ھنسی تھیں کبھی افسردہ ہوئی تھی۔8 بجے کی فلائیٹ سے ثنا چلی گئی، آن نے اسے افسردگی سے "سی آف" کیا تھا۔اسے یہ ڈر نہیں تھا کہ ثنا اس سے بچھڑتے روپڑے گی۔بلکہ وہ خود سے خوفزدہ تھی کہ وہ اسے الوداع کرتے اپنے آپ کو رونے سے روک نہ پائے گی۔
حسب معمول جب علیدان اس کے پاس ڈنر کے لئے آیا ۔
وہ دروازے کی سیڑھیوں پر بیٹھی آسمان کو تکے جارہی تھی۔
وہ گاڑی سے اتر کر حیران ہوتا اس کے پاس آیا۔
"یہ آپ اس طرح اوپر کیا دیکھ رہی ہیں؟"وہ حیران تھا۔
آن نے آسمان پر اشارہ کرتے کہا۔" اٹز این ایئرو پلین ۔"
"تو اس ایئرو پلین میں اچھا کیا ہے ؟"علیدان نے جیسے جاننا چاہا کہ آن کے ذہن میں کیا ہے؟
"کیا آپ کو تجسس نہیں ہوتا کہ کس قسم کے لوگ اس میں بیٹھے ہیں۔۔۔کہاں جارہے ہیں۔۔۔۔ ان کے دل میں کیا راز ہیں۔۔۔۔ اور کس خاندان کے ہیں؟"وہ بچوں کی سی حیرانی سے پوچھ رہی تھی۔
"ثنا اس وقت پلین میں ہے؟"
علیدان یہ پوچھنے کے ساتھ ہی سیڑھیوں پر بنا اپنے لباس کا خیال کیئے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
آن نے اثبات میں سر ہلایا۔"ہمممم۔
وہ کافی تیز رفتاری سے گذرگیا ہے۔" وہ جیسے خود سے ہم کلام تھی۔
"تو پھر آپ ابھی تک اوپر کیوں نہار رہی ہیں؟"وہ سوالیہ ہوا۔
"مجھے ان سے حسد ہورہا ہے ۔" آن نے بجھے دل سے سے کہا۔
"ہر سال چھٹیوں کے دوران
جب سب اسٹوڈنٹس ایک ایک کرے اپنے گھر چلے جاتے تھے۔
مجھے خاص طور پر ان سب سے جلن ہوتی تھی۔ کہ ان کے پاس واپس جانے کے لئے ایک ٹھکانہ ہے۔"وہ بجھی بجھی سی بول رہی تھی۔
"اور جب اسکول شروع ہوتا یہ سب بہت ساری خاص خاص چیزیں لاتے ،یہ کہہ کر کہ یہ ہمارے فادر نے ہمارے لئے تیار کروائی ہے ۔ اور یہ چیز ہماری ماں نے بنائی ہے۔
اب جب کہ میں گریجویٹ ہوگئی ہوں ،ہر ایک اپنے اپنے راستے پر چلا گیا ہے۔"
آن نے اپنی خالی ھتھیلیوں کو گھورا۔البتہ اس کی آواز جذبات سے بوجھل ضرور تھی۔
" صرف ایک میں ہوں جو اسی جگہ پر کھڑی ہوں، بنا کسی گھر کے، بنا کسی فیملی کے، بنا کسی خواھش یا خواب کے۔۔۔یہ محسوس ہوتا ہے ۔۔۔۔جیسے یہی زندگی ہے۔۔ بس ۔"
آن نے اسے اپنے طرف محویت سے دیکھتا پاکر نظر چرائی۔
"آپ کو مجھ پر ترس کھانے کی ضرورت نہیں، میں نے یہ سب اسی لئے نہیں بتایا کہ لوگ مجھ سے ہمدردی کریں، مجھے صرف ان سے حسد اور جلن محسوس ہوتا ہے۔"اس کے لہجے میں نمی سی تھی۔
علیدان اس کے قریب کھسکا اور لاشعوری طور پر اپنا بازو اس کے شانوں پر پھیلادیا۔
"کوئی بھی آپ پر ترس نہیں کھاسکتا۔ بھلا آپ کس طرح قابل رحم ہیں؟ کیا آپ یہ سمجھتی ہیں کہ جن لوگوں کے پاس بھت سارے رشتے موجود ہوتے ہیں وہ بھت خوش ہوتے ہیں؟" آن نے ناسمجھی سے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔
"یہ ضروری نہیں ہے آن ۔۔۔ ان کے ساتھ بھی کافی سارے مسئلے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ دوسری بات ۔۔۔۔کس نے کہا۔۔؟ آپ کے پاس اب کوئی رشتہ نہیں؟
کیا آپ کے پاس میں نہیں ہوں؟ میں آپ کے لئے یہاں موجود ہوں۔"اس نے اپنے حصار میں مقید گم سم سی آن کے خوبصورت چہرے کو پیار سے دیکھا۔
نرم گرم احساسات نے دل کو چھوا تو آن کی آنکھیں نم ہوگئیں۔
اس شخص کے لئے جو کافی عرصہ تنہا رہا ہو۔ ایک ہی جملہ سننا پسند کرتا ہے وہ ہوتا ہے۔ (میں آپ کے ساتھ ہوں۔آپ تنہا نہیں ہو۔)
علیدان شاھ نے اسے مسکرا کر دیکھا۔
"مجھے امید ہے آن، اور یقین بھی ۔۔کہ ایک دن آپ اپنی یہ خود ساختہ "انا " میرے سامنے چھوڑ دیں گیں۔اپنا یہ مصنوعی رنگ اتار پھینکیں گیں ،اور میرے رنگ میں ڈھل جائیں گیں، اس وقت ہم زیادہ وقت ، تنہا نہیں رہیں گے۔"
وہ بھی تو تنہا تھا ۔۔اکیلا تھا آن یہ بات کیوں بھول گئی تھی؟
☆☆☆☆
سینچر کی صبح اس کی نیند مسلسل ہوتی بیل کی وجہ سخت ڈسٹرب ہوئی۔یہ چھٹی کا دن تھا وہ اپنا آدھا دن سو کر ہی گذارتی تھی۔
اس نے سوچا یہ الارم ہوگا۔ سو اس نے الارم کلاک سوئچ آفف کردیا۔لیکن کچھ دیر بعد ہی رنگ ہونے سے وہ ڈر کر اچھل پڑی ۔(کیا اس نے الارم بند نہیں کیا ؟؟ پھر۔۔۔۔؟ )
اس نے سیل اٹھا کر دیکھا تو وہاں مدھان کا نمبر بلنک ھورہا تھا۔
"یہ شریر لڑکا، آج چھٹی کا دن ہے ،یہ کیوں کال کررہا ہے اسے؟ آن نے سستی سے کال اٹھائی اور بند ہوتی پلکوں سے بمشکل "ھیلو۔" کہا۔
"بھابھی ،آپ میری کال کیوں نہیں اٹھا رہی ؟" مدھان کی بے چین آواز اس کے کانوں میں پڑی۔
(بھابھی؟)یہ خطاب سن کر آن کی تو ساری سستی اڑن چھو ھوگئی۔
"مدھااان" آن نے ٹوکا۔۔۔" تمہارے بھائی سے ابھی شادی نہیں کی ۔"
"تو کیا ہوا ، آپ دونوں ہی ایک دوسرے سے انگیج ہیں ،شادی بھی ہونے والی ہے۔تو میں آپ کو بلکل "بھابھی " بلا سکتا ہوں، آپ کب آرہی ہیں ؟" وہ مان کے ہی نہیں دیا۔۔۔ بلکہ پوچھا کب آو گی؟
آن دنگ ھوئی
"کہاں آوں؟ کہاں جانا ہے؟ "
"کیا آپ ابھی تک سورہی ہیں؟ بھائی نے آپ کو نہیں بتایا تھا کہ ہم آج ویک اینڈ منانے چلیں گے۔۔۔۔ اپنے فارم ہاوس پر۔۔۔۔آپ بھول گئیں؟" مدھان نے برا منایا تھا۔تبھی ناراض سا بولا۔
وہ واقعی اس بات کو بھول گئی تھی۔ اور دستور کے مطابق ہی اپنی نیند پوری کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
"میرے لئے بھتر ہے میں نہ چلوں۔مجھے آج دوسرے کام ہیں۔"آن سستی سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔
"آپ وہ سب منسوخ کردیں۔میں اور بھائی آپ کو پک کرنے آرہے ۔آپ تیار ہوکر ہمارا گھر پر انتظار کریں۔"
مدھان نے یہ کہتے ہی فون بھی رکھ دیا۔اور آن دنگ سی اس کا حکم نامہ سن کر سیل کو گھور کر رہ گئی۔
ھمیشہ ہی اس کی مرضی پوچھے بنا علیدان ہر فیصلہ کردیتا تھا۔وہ چپکی رہ گئی۔
آن نے اپنے لمبے براون بال سمیٹ کر جوڑا بنایا اور اٹھ گئی۔ نہا کر تازہ دم ہوئی۔ جیسے ہی ناشتہ کرکے فارغ ہوئی، اس کا فون پھر سے بجنے لگا۔
اب کے فون پر علیدان شاہ تھا۔۔آن نے منہ بنا کر فون کان سے لگایا۔
"سیڑھیوں تک آئیں ، میں باہر انتظار کررہا ہوں" گھمبیر آواز سن کر بے ساختہ دل دھڑکا تھا۔آن نے لب کاٹے۔
"کیا میں انکار کرسکتی ہوں؟"وہ ہچکچائی۔
"آپ کا کیا خیال ہے؟" علیدان کی آواز پرسکون تھی۔
"کیا آپ خود سے نیچے آرہی ہیں،یا میں اوپر آکر آپ کو اٹھا لاوں؟"
گھمبیر لہجہ سن کر آن کے دل کی دھڑک دھڑک نے اسپیڈ پکڑ لی۔۔ اس نے ڈر کر سیل کان سے ھٹا لیا ۔۔اور اپنا چھوٹا سا بیگ پیک اٹھا کر سیڑھیاں اتر کر نیچے آگئی۔ اور کار میں جاکر بیٹھ گئی۔ بنا دیکھے کہ ڈرائیونگ سیٹ پر علیدان ہی بیٹھا ہے ۔اسے دیکھ کر وہ سرپرائیزڈ ہوئی۔
"آپ تنہا ہیں؟ "وہ ادھر ادھر دیکھ کر بولی۔مدھان کہیں نہیں تھا۔
"میں آپ کو لینے آیا ہوں۔ کیا آپ چاہ رہی تھیں کہ بارات کے ساتھ آپ کو لینے آتا ؟" 🤭
"یہ مطلب نہیں تھا۔۔ "
آن نے بے ساختہ تھوک نگلا۔
"میں تو ۔۔۔یہ کہہ رہی تھی ۔۔کہ ۔۔مدھان نے کہا تھا۔۔وہ لینے آرہا ہے۔"
علیدان نے اس کی بات سن کر سر ھلایا اور گاڑی چلادی۔۔
سفر کے دوران راستے میں آن نے اسے خاموش ڈرائیو کرتے دیکھا۔۔ تو بول پڑی۔
"کیا ہم شام تک واپس آجائیں گے؟ "وہ پریشان ہوئی۔
"ہم شام کو واپس نہیں آسکتے۔" علیدان نے ڈرائیو پر توجہ کرتے مصروف جواب دیا۔
"کیااااا؟ "آن تو وہیں کچھ پل سن رہ گئی۔
"کیا مطلب ہے آپ کا؟" وہ چینخی ۔۔۔"ھم آج رات واپس نہیں آئیں گے؟" وہ اس کے طرف مڑی اور اس کے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگی ۔جو سپاٹ تھا۔۔
"ہمارا یہ ٹرپ دو دن اور ایک رات پر مشتمل ہے۔" علیدان نے اسے نرمی سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔
" تو پھر آپ نے یہ بات سویر کیوں نہیں بتائی ؟" آن اب صحیح سے زچ ہوئی تھی۔
"میں نے آپ کو کہا تھا کہ ویک اینڈ کے دو دن بچا کر رکھنا۔" نہیں کہا تھا؟"علیدان نے اسکے حیرت زدہ نقوش کو گھورا۔
"مم۔۔۔مگر ۔۔۔۔آپ نے یہ بھی تو نہیں کہا تھا کہ دو دن کے لئے چلیں گے۔" آن پریشان ھوگئی۔
"میرے خیال میں آپ کو تاریخ کا ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوسکا۔" علیدان نے لب بھینچے۔
آن کافی ڈپریس نظر آرہی تھی۔"جلدی سے گاڑی موڑیں، میں گھر جاوں گی"آن نے اس کے بازو پر ھاتھ رکھا۔۔
"اب کافی دیر ھوچکی ہے آن ۔ھم کافی آگے آچکے ہیں۔" علیدان نے اس کے بچپنے پر اسے سمجھایا۔۔
"لیکن ۔۔۔ آن منمنائی ۔۔"میں اپنا لگیج ساتھ نہیں لائی ، صرف ایک چھوٹا سا بیگ لیا ہے" وہ تو پریشانی سے رودینے کو ہوئی ۔
"تو آپ اپنے ساتھ اور کیا لے جانا چاہ رہی تھی۔؟" علیدان تو اس کی بات سن کر ششدر رہ گیا۔"یہ صرف دو دن اور ایک رات رہنے کی بات ہے ،نا کے پوری زندگی کے لئے جارہے جو آپ اپنی ساری چیزیں ساتھ لے چلتی ۔"
" اس کی بات پر آن نے معصوم سا فیس بنالیا۔۔۔اور نظر جھکا کر منمنائی۔ "میرے پاس رات کو پہننے کے لئے "نائیٹ ڈریس" نہیں ہے ۔"
"تو کیا ہوا۔۔؟ میرا پہن لیجئے گا۔۔" وہ شریر مسکراہٹ کے ساتھ معنی خیز ہوا،
"آپ ۔۔۔۔۔کا؟آن کی آنکھیں تو شاک سے پھٹی رہ گئیں۔
آن نے محسوس کیا جیسے وہ زبردستی جارہی ہو۔۔۔پھر پورے راستے اس کا منہ بنا رہا۔۔ علیدان دل ہی دل میں اس کی بری بری شکلیں بناتا معصوم مکھڑا دیکھتے۔۔ مسکراتا رہا۔۔ لیکن پھر پورا راستہ کچھ نہیں کہا۔۔
ایک گھنٹے کے خاموش سفر کے بعد دونوں شاہ فیملی کے کافی بڑے ایریا پر مشتمل "فارم ھاوس" پہنچ چکے تھے۔
جیسے ہی گاڑی بڑے سے احاطے میں رکی۔دونوں طرف سے قطار میں مودب کھڑے ملازموں نے انہیں جھک کر ادب سے سلام کیا۔
"سر شاہ ، بڑے شاہ صاحب اور بڑی بیگم صاحبہ کے ساتھ چھوٹے شاہ بھی پہنچ چکے ہیں۔"
"ٹھیک ہے۔" علیدان شاہ نے سپاٹ انداز میں جواب دیا اور آن کے طرف آیا۔
اس کی طرف کا دروازہ کھول کر اس کا ھاتھ پکڑا اور باھر نکالا۔
سب کی حیرت زدہ نظروں کے درمیان وہ دونوں سب سے الگ تھلگ جھیل کے کنارے پر قائم "ولا " کے اندر بڑھے۔
آن نے اپنا سر گھما کر علیدان کو دیکھا اور اس کے قریب ہوکر سرگوشی کی، " کیا ہم یہاں ووکیشن انجوائے کرنے آئے ہیں۔؟"
علیدان کے محض سر ہلانے پر ۔۔ آن نان اسٹاپ شروع ہوگئی۔۔ اب علیدان کو اس کی معصوم باتیں سننی تھیں۔
آپ نے بھت "زیادتی" نہیں کردی؟"
"زیادتی" سے آپ کی کیا مراد ہے ؟" علیدان کو سمجھ میں نہیں آیا کہ آن کی بات کا کیا مطلب ہے؟
"کیا یہ "زیادتی" نہیں ۔۔۔اتنے سارے ۔۔۔لوگوں کا ہم کو "ویلکم "کرنے کے لئے کھڑا ہونا" وہ حیران تھی۔۔ بی کاز اس کے لئے یہ لگژری طرز کا ویلکم عجیب تھا۔۔ جس کا اس نے کبھی تصور تک نہیں کیا، نا کبھی دیکھا تھا۔
"یا پھر آپ اپنے آس پاس یہ "احساس " پسند کرتے ہیں؟ "
علیدان کے ہونٹ اس کی معصوم بات سن کر، ہلکے سے مسکراہٹ میں ڈھلے تھے۔
آپ کیا سمجھی ہیں۔ایک کسٹمر کا صرف ایک رات کے اسٹے کرنے کے لئے حد سے زیادہ پیسہ خرچ کرنے کا کیا مقصد ہوتا ہے؟
میں یہاں کا ماحول انجوائے کرتا ہوں،اور ان کی خدمت گذاری بھی انجوائے کرتا ہوں۔جو کہ ان کی ملازمت کا حصہ ہے۔"
علیدان نے نرمی سے وضاحت دی تھی۔
"اسی لئے تو ہم جیسے، امیر لوگوں کی دنیا کو سمجھ نہیں سکتے، میرے جیسے لوگوں کے لئے ووکیشن پر جانا ایسا ہے ، جیسے سفر کرنے کے لئے کسی نئے شہر کو دریافت کرنے جانا، راستوں میں اسٹالوں پر سے عام کھانا، کھانا۔جیسے عام لوگ کرتے ہیں ویسے ہی کرنا۔۔مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ آپ کو ضرورت کیا ہے کسی خدمت گذار کی؟" وہ معصومیت سے اپنے ذہن میں آئے سب خیالوں کو علیدان کے آگے پیش کرتی جارہی تھی ۔۔بنارکے۔۔ بنا ڈرے۔۔
علیدان شاہ، نے اس کے معصوم اور دلفریب چہرے کو دیکھا ، پھر مسکرا کر کہا۔
"تو پھر آج سے آپ بھی میرے جیسا "لائیف اسٹائیل" گذاریں گی۔"اس کی آفر پر وہ حیران ہوئی۔
جیسے یہ دونوں باتیں کرتے جارہے تھے، بات مکمل ھونے سے پہلے ہی دونوں ولا کے ساتھ بہتی جھیل تک پہنچ چکے تھے۔ یہ جھیل ولا کے ساتھ ساتھ بہتی تھی۔
وہاں پر مدھان اور علیحان شاہ دونوں بھائی فشنگ انجوائے کررہے تھے۔ نکہت ان دونوں کے بیچ میں بیٹھی ہوئی تھی۔
اپنے پیچھے قدموں کی آواز سن کر تینوں ہی نے گردن موڑ کر ان کو دیکھا تھا۔
مدھان نے دونوں کو مسکرا کر ھاتھ ھلایا۔اور چینخا۔۔
"علیدان بھیا، بھابھی ،جلدی سے ادھر آجاو، ۔۔بڑے بھائی اور مجھ میں فشنگ کا مقابلہ ہورہا ہے ۔"
علیدان نے آن کا ھاتھ کھینچا اور آگے چلنے لگا۔
یہ دیکھ کر کہ دونوں ایک دوسرے کے ھاتھ میں ھاتھ ڈال کر چلے آرہے ہیں، نکہت زیادہ دیر نہ دیکھ پائی،اور اپنی نظریں دوسری طرف کردیں۔
آن ان کے قریب آئی تو سر ہلا کر ان سب کو "ھائے "بولی۔
نکہت مارے باندھے مصنوعی مسکراہٹ سجا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"مس آنیہ ، ہائے۔ آپ کو یہاں دیکھ کر بھت اچھا لگا ہے"۔
" سوری آپ کو زحمت ہوئی۔"آن نے کچھ جھجھک کر کہا۔
"ایسا مت کہیں، کیا اب ہم ایک فیملی نہیں ہیں؟" نکہت نے ہلکی مسکراہٹ سے کہا پھر علیدان کے طرف متوجہ ہوئی۔
"علیدان، کیا تم کو فش چاھئے؟"
نکہت نے ادا سے پوچھا تھا۔
"نو نیڈ ۔۔یہ تو کہہ رہے "مقابلہ " ہورہا ہے۔"
"کیا انعام ملے گا۔ اگر ہم جیت گئے؟"
مدھان نے شرارت سے پوچھا۔
"جو جیت جائے گا اس کو یہ اختیار ملے گا کہ " پہلے" کمرہ پسند کرے"۔
علیدان کے کہنے پر ،مدھان دل کھول کر ھنسا۔
"علیدان بھائی، میں آپ سے ٹورنامنٹ جیت چکا ہوں، ہر طرح کے حالات میں اکیلا رہ چکا ہوں، اسی لئے یہ مسئلہ نہیں کہ "میں کس کمرے میں رہوں گا؟"
علیدان نے ناگواری سے اسے دیکھ کر کہا۔" کوئی ضرورت نہیں ، میں یہ خود ہی کرلوں گا۔"
نکہت نے آن کو چپ چاپ سب کی باتیں خاموشی سے سنتے دیکھ کر اپنے پاس بلایا۔ مس آنیہ ، آئیے۔۔۔ کچھ وقت میرے پاس بیٹھ جائیے۔"
علیدان نے آن کے بازو میں اپنا بازو اٹکا کر اسے قریب کرکے نگہت کو بنا دیکھے روکھا سا جواب دیا۔
" یہ کہیں نہیں جاسکتی، یہ میرے پاس بیٹھے گی، یہ میرا "خوش قسمتی" کا ستارہ ہے۔"
علیدان کے جملے سن کر مدھان شرارت سے وہیں آکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا، "واو۔"
آن یہ سن کر شرم سے سرخ چہرہ لے کر اس کے سر پر تھپکی ماری،
"شریر ، بات کو گھمانا بند کرو"
یہ سن کر مدھان کھلکھلا کر ھنسا۔۔
"بھابھی ، میں واقعی بات نہیں گھما رہا۔ مجھے لگا کہ یہ دلچسپ ہے ۔"وہ اب تھوڑا سریس ہوا۔
" میں نے پہلے کبھی بھی علیدان بھائی کو کسی عورت کو اتنا اچھا مقام دیتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے؟ بڑے بھائی؟ "بڑے بھائی؟؟ مدھان پکارا ، علیحان جو سائیڈ پر وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔۔ اور اس وقت تک کوئی آواز نہیں کی تھی ، اسے دیکھ کر ہلکے سے مسکرایا اور کہا ،" نہیں۔ "
نکہت نے یہ سن کر دکھ سے اپنے ہونٹ کا کنارہ کاٹ ڈالا، بے اختیار دو قدم پیچھے ہوئی ۔۔اور بے دم سی کرسی پر گر گئی۔اس کے لیئے یہ سب برداشت کرنا مشکل تھا بہت مشکل۔
علیدان شاہ بھی کرسی کھینچ کر سیدھا ہو بیٹھا۔۔ آن کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔۔ آن تو شرم سے سب کے سامنے ۔۔ سر جھکا کر آنکھیں میچ گئی تھی۔
اس شرارتی مدھان کے مسلسل زچ کرنے کی وجہ سے آن کو سخت بے عزتی فیل ہورہی تھی۔شرم الگ سے کہ علیدان شاہ نے اپنے پورے خاندان کےسامنے اسے "لکی اسٹار" کہہ دیا تھا۔۔ اور خود اس سے لاپرواھ ہوکر ایسے بیٹھا فشنگ مقابلہ کی تیاری کررہا تھا جیسے وہ ہی جیتے گا بی کاز آف ہز "لکی اسٹار" آن جو اس کے بغل میں بیٹھی تھی ۔۔ آن نے دانت پیس کر یہ سوچا ۔۔ وہ سمجھی
علیدان یہ مقابلہ نہیں جیت پائے گا کیونکہ وہ گیم میں سب سے آخر میں شامل ہوا ہے ۔۔۔، اگر وہ جیت نہ پایا تو۔۔۔؟ وہ کسی کو کیا منہ دکھاسکے گی!۔۔۔ ھااائے۔۔ مختلف سوچوں میں گھری تھی جب اچانک علیدان نے مچھلی پکڑ لی، اور مقابلہ جیت لیا۔۔
مدھان کا تو منہ ہی لٹک گیا تھا۔۔
"علیدان بھائی ، آپ فشنگ میں اتنے اچھے کیوں ہیں؟ "
علیحان شاہ نے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی ،وہ ہار گیا تھا۔اور علیدان جیت گیا تھا۔۔ وہ مدھان کی بات پر ہنس پڑا۔
"کیونکہ علیدان کے پاس اس کا "لکی اسٹار" موجود ہے"۔ اس نے آن کے طرف اشارہ کیا تھا ۔
"بھابھی ، آئیے میرے ساتھ بیٹھ کر میرا "لکی اسٹار " بن جائیں"
مدھان نے اسے بلایا۔
علیدان کا چہرہ ناگواری سے بھر گیا ۔۔آنکھیں چھوٹی کرکے مدھان کو گھورا ۔
"خواب دیکھنا چھوڑ دو ننھے چوزے ، یہ صرف میرا "لکی اسٹار" ہے۔"
وہ جوش سے اٹھ کھڑا ہوا
" کم آن ، لیٹس پک دا روم۔"
مدھان نے آن کا ھاتھ ہلایا۔"بھابھی، جلدی سے بھائی کے ساتھ جائیں"۔وہ سچ میں یہ لفظ "بھابھی " نہیں سننا چاھ رہی تھی۔
آن نے لب بھینچ کر علیحان شاہ اور نکہت کو دیکھ کر سر ہلایا اور علیدان شاہ کی تقلید میں "ولا" کے طرف بڑھی،
دونوں اپنے لیئے کمرہ پسند کرنے لگے تھے، دونوں نے پہلے فرسٹ فلور پر کمرے دیکھے ۔۔ وہاں کوئی پسند نہ آیا، تو تھرڈ فلور پر جاکر چیک کرنے لگے۔
"کیا آپ نے کچھ ڈسائیڈ کیا ہے کہ کون سے کمرے میں رہنا پسند کریں گیں؟"آن سے رائے لینا چاہی ۔
آن نے پریشان تاثرات کے ساتھ علیدان کے طرف دیکھا۔" کیا آپ مدھان کو روک نہیں سکتے کہ مجھے "بھابھی " نہ کہے، عجیب سا لگتا ہے۔"
"تو پھر کیا کہے؟" اس کی نظر سوالیہ ہوئی۔ ٹیچر؟۔۔ لیکن یہ آپ خود بھی مانتی ہیں، کہ آپ اب اس کی ٹیچر نہیں رہی ۔۔ سب کی نظر میں آپ میرے رلیشن میں ہیں،اس رشتے سے آپ کو"بھابھی" ہی پکار سکتا ہے ۔۔ چاہے آپ مانیں یا نہ مانیں، آئی تھنک ،ھی از رائیٹ، "ساتھ ہی ایک روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ھوا۔۔ آن بھی پیر پٹختی پیچھے آئی۔
کمرے میں بڑی سی شیشے کی ونڈو کے سامنے کھڑے ہوکر اس نے آن کو دیکھ کر پوچھا۔" یہ کمرہ کیسا رہے گا؟" ونڈو سے نظر آتی جھیل میں بہتا پانی،جو دور پہاڑیوں کے آبشار سے سے بہتا آتا تھا ،اونچی اونچی پہاڑیاں۔۔،اس کے ساتھ قطار در قطار اونچے اونچے شجر تھے،ولا کے ساتھ ایک بڑے سے ایریا پر مشتمل پھلوں اور پھولوں کا باغ تھا۔۔۔فضا میں پھلوں اور پھولوں کی مہک کے ساتھ آبشار سے ٹکرا کر آتی ٹھنڈی ہوائیں ،ٹیرس کا بڑا سا شیشے کا دروازہ کھول دو۔۔۔ تو پورے کمرے میں گردش کرتی تھیں۔۔جس سے کمرے میں ٹھنڈک کا احساس بڑھ جاتا تھا، نیلے آسمان پر ھلکے ہلکے بادل دکھائی دے رہے تھے۔۔
"منظر کافی حسین اور مکمل ہے۔۔ اور آپ کی پسند کے عین مطابق بھی، سب سے اہم بات کہ۔۔۔۔بیڈ بھی کافی بڑا ہے۔ " وہ اسے بتاتا جارہا تھا، آخری جملے پر آن نے دانت پیسے، پھر اسے نظر انداز کرکے، آگے بڑھی،۔۔اور ونڈو کے شیشے پر ہاتھ رکھ کر باہر نظر آتے کول منظر کو دیکھ کر وہیں مسمرائیز ہوگئی۔۔ ونڈو سے نظر آتے منظر کی خوبصورتی نے اس کے ذہن و دل سے پل بھر میں ہی سب پچھلی باتیں بھلادیں۔وہ بے اختیار منظر کے فسوں میں سن سی کھڑی رہ گئی تھی۔منہ سے بے اختیار "واو۔۔۔ "نکلا تھا۔
(ایٹ لیسٹ، آئی انڈراسٹنڈ، ھر ایک آدمی امیر و کبیر کیوں بننا چاھتا ہے؟۔۔۔)آن نے بے اختیار یہ سوچا تھا۔
"بہت ہی پیارا منظر ہے، دیکھیں ۔۔"
آن نے بچوں کی طرح خوش ھوکر اسے بتایا۔۔۔ نظریں باھر کے حسین قدرتی مناظر سے ھٹ ہی نہیں رہی تھیں۔۔ وہ واقعی مسمرائیز ھوچکی تھی۔۔ اور علیدان وہ تو بس آن کے معصوم ایکسپریشن انجوائے کررہا تھا۔
" یوں لگتا ہے آپ کو یہ سب خوووب پسند آیا ہے؟ بھت خووب۔۔ بھت خوووب بس ہم یہی ٹہریں گے۔ڈن۔"علیدان نے جیسے فیصلہ سنادیا۔
"ہم۔۔۔ ؟" آن نے گھوم کر علیدان کو حیرت سے دیکھ کر اپنے سینے پر انگلی رکھی پھر اس کے طرف انگلی کی۔" کیا مطلب ہے؟"
"یہ سچ ہے کہ ہم۔۔ ۔" اس نے بھی آن کے سے انداز میں ابرو چڑھا کر انگلی سے اشارہ کیا۔
" لیکن یہاں اتنے سارے رومز ہیں ، اس کے باوجود بھی، آپ نے کہا کہ ہم دونوں یہاں رہیں گے ایک ہی روم میں ؟؟ وہ سٹپٹائی۔۔
"درست۔۔۔یہی مطلب تھا۔" علیدان نے اثبات میں سر ہلایا۔
"درست؟"وہ تو حیران ھوگئی۔۔
"آپ کی ہمت بھی کیسے ہوئی یہ کہنے کی؟" آن کو سخت غصہ آیا ۔
"سب کی نظروں میں ہم رلیشن میں ہیں۔" علیدان نے جتلایا۔
"سو واٹ؟ کیوں ہم ساتھ رہیں ؟" آن نے سینے پر بازو باندھ کر اسے دیکھا۔
"تو کیا آپ حقیقت سے آنکھ چرارہی ہیں۔آن ؟ کہ ہم حقیقت میں "میاں بیوی" ہیں۔"
آن اس کی بات سن کر نظر چرا گئی۔
"لیکن میں یہ رشتہ نہیں مانتی۔۔دوسروں کی نظر میں ہم میں کوئی رشتہ نہیں" ۔
" بڑے بھائی اور نکہت کو پتا ہے کہ " آپ آلریٍڈی میرے نکاح میں ہیں، اب صرف آفیشلی اناونسمنٹ رہتی ہے۔میں چاھتا تو اسی دن آفیشلی اناونسمٹ کردیتا۔ لیکن میں نے آپ کی مرضی کو ترجیح دی۔اب میں علیدان شاہ، اپنے بھائی کے سامنے کیا منہ لے جاوں گا۔۔؟ الگ تھلگ کمروں میں رہ کر میں ان کو کیا ریزن دوں گا ؟کہ میں اپنی عورت کو سنبھال نہیں سکتا۔ اور میں اپنی ہی عورت سے ٹرپ کے دوران الگ رہوں گا؟؟۔۔یہ بھول ہے آپ کی آنیہ علیدان شاہ ۔" علیدان کی آواز نرم ضرور تھی لیکن لہجہ برہم تھا۔
"میں آپ کی عورت نہیں ہوں۔"آن نے اپنے بازو باندھ کر سخت ناگواری سے کہا۔۔" جب میں نے کہا کہ میں یہ رشتہ نہیں مانتی۔۔تو آپ کیوں بار بار تذکرہ لے آتے ہیں ؟"
"واقعی۔۔۔۔؟ آپ میری عورت نہیں ہیں؟ آپ یہ نہیں بھول سکتی آن کہ آپ کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد کون ہے؟"
آن غصہ سے پیر پٹخ کر رہ گئی ۔
"آپ پھر سے اسی بات کا تذکرہ کررہے؟"
اس کی شرمندگی اور ناراض تاثرات دیکھ کر علیدان نرمی سے مسکرایا۔
"دس از سیٹلڈ۔"
"آئی ڈونٹ ایگری"وہ بضد تھی۔علیدان مسکرادیا۔
"ہم ایک ہی کمرے میں رہیں گے۔۔میں آپ کو ھاتھ بھی نہیں لگاوں گا۔۔۔اب خوش۔۔"
وہ کچھ کہنا چاھتی تھی لیکن ۔۔ خاموش رہ گئی۔
علیدان نے بات پلٹی۔۔
"چلیں۔۔ سیڑھیوں سے نیچے چلتے ہیں، میں آپ کو گولف پلے گرائونڈ دکھاتا ہوں ۔"
جب یہ دونوں نیچے آئے تو نکہت انہیں دیکھ کر مسکراتی قریب آئی۔ "کیا تم دونوں نے کمرہ دیکھ لیا؟ "
میں نے ابھی کمرہ پسند نہیں کیا "
"ہم نے کرلیا۔۔۔ جاو ۔۔اور جاکر پسند کرو۔" یہ کہتے ہی اس نے آن کو کھینچ کر اپنے قریب کرلیا، اور باہر کے طرف مڑ گئے۔
نکہت نے عجیب نظروں سے یہ منظر دیکھا۔۔
"کیا میں تم سے کچھ گھڑی بات کرسکتی ہوں؟" دونوں ہی کے قدم اس کی آواز پر رک گئے۔اور دونوں ہی نے مڑ کر ایک ساتھ قدرے حیرت سے نکہت کو دیکھا۔۔ دونوں کے ایک جیسے ری ایکشن دیکھ کر نکہت امپریس ہوکر ہنس پڑی۔۔ مطلب دونوں کی کیمسٹری کافی میچ کرتی ہے۔ اس نے دل میں بے اختیار سراہا۔
"کیا میں علیدان سے اکیلے میں کچھ دیر بات کرسکتی ہوں ؟" دوبارہ سے سوال دہرایا گیا۔
"ابھی؟؟" آن نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔
نکہت نے سر ہلا دیا۔۔
آن نے بہت صفائی سے علیدان کی گرفت سے اپنا ھاتھ باہر نکال دیا،
"تو پھر میں باھر چلی جاتی ہوں ،اور آپ دونوں آرام سے بات کرلیں۔"
اس کے جانے کے بعد وہ علیدان کے قریب ہوئی ۔" کیا واقعی تم آن کے ساتھ سنجیدہ ہو علیدان؟"
"تمہارے خیال میں ، کیا میں اس کے ساتھ غیر سنجیدہ ہوں؟"
یہ سن کر نکہت نے تکلیف سے ہونٹ کاٹا۔اسے افسردگی سے دیکھنے لگی۔
اس میں شک نہیں کہ وہ اس رشتے میں اسے زیادہ سنجیدہ نہیں لگا تھا، وہ اب بھی خوش فہم تھی کہ علیدان کی زندگی میں اس کے سوا کوئی دوسری عورت اہم نہیں ہوسکتی اور وہ یہاں پر یقینا غلط ثابت ہونے والی تھی۔
"میں جانتی ہوں ،میں نے تمہیں بھت مایوس کیا تھا ، کچھ چیزیں جو گذر چکی ہیں ،مجھے واقعی ان کو دوبارہ سے نہیں دہرانا چاھئے، بٹ ڈیپلی علیدان کیا تم ۔۔۔۔؟؟"
اس نے بیچ میں مداخلت کی،
" اب تم بھی بھول جاو، ہم نے بھی سب بھلادیا ہے۔جب سب کچھ پیچھے "سائلینٹ " رہ گیا ہے ، تو اس کا تذکرہ کرنے کا بھی فائدہ نہیں ہے، اور اب یہی ہم سب کے لئے مناسب ہے ۔"
"علیدان تم کو اس طرح دیکھ کر، میں خود کو بے چین سا محسوس کرتی ہوں، میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش تمہارا خوش رہنا ہے۔۔۔۔کیا تم یہ بات سمجھ رہے ہو علیدان؟ اس کی آنکھوں کی سطح نم ہورہی تھی۔
"میں اب بہت خوش ہوں،"یہ کہتے ہی اسے دیکھ کر اپنا جملہ پھر دہرایا۔۔جیسے اسے جتا رہا ہو کہ اسے غلط فہمی ہے ،وہ خوش ہے۔ "نکہت شاہ میں اب بھت خوش ہوں، سو میرے لئے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ، اس نے نکہت کے شانے پر ہلکی سی تسلی دینے کو تھپکی دی۔
"جاکر اپنے لئے کمرہ دیکھو، اگر ہم کو اس طرح باتیں کرتے علیحان شاہ نے دیکھ لیا تو دکھی ہوجائے گا۔" سو بی کیئر فل۔" علیدان مسکرا کر پلٹ گیا۔
اس کے پیچھے نکہت کی آنکھوں سے آنسو نالے کی طرح بہتے گئے۔
☆☆☆☆☆☆
" میں تمہاری مدد کرتی ہوں آن۔" نکہت آن کو باربی کیو بناتے دیکھ کر قریب آئی۔
"نو تھینکس ، میں خود کرلوں گی، یہ کچھ مشکل نہیں ہے۔"
علیدان کہتا ہے ۔ اسے میرے پکے ہوئے کھانے پسند ہیں۔، بقول اس کے "وہ خوش قسمت ہے" آن شرم سے بتا رہی تھی۔
اور نکہت یہ سن کر جل بھن گئی تھی۔۔لیکن اوپری مسکراہٹ قائم رہی۔
سارا دن بھت اچھا گذرا تھا سب مردوں نے گولف کھیلی تھی ۔۔۔ہر بار علیدان ہی جیتا تھا کیونکہ وہ ہارنا نہیں جانتا تھا ۔کچھ وہ اپنی اسٹیڈی کے دوران ہر کھیل کا بھترین کھلاڑی رہا تھا ۔ بعد میں شرط لگا کر تاش کی بازی لگائی گئی تھی،
مدھان اور آنیہ ساتھی بنے تھے۔ جب کہ نکہت علیدان کی ساتھی بن کر ہواوں میں اڑ رہی تھی، گوکہ یہ وقتی تھا، لیکن اس کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ وہ چہک رہی تھی۔۔ یہ دیکھ کر آن کو دل میں سخت برا محسوس ہوا۔ پھر کھیل میں اس کی دلچسپی ختم ہوگئی۔۔ بےدلی سے کھیل کر وہ ہارگئی تھی۔۔ شرط کے مطابق ہارنے والے کو لنچ بنانا تھا۔
بیرے لان میں ہی بار بی کیو کا اہتمام کررہے تھے۔ آن بھی اٹھ کر کباب بنانے کھڑی ہوگئی تھی۔ نکہت بھی سب کو دکھانے کے لئے کمپنی دینے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔
اس سے کچھ ہی دور ٹیبل کے گرد دونوں بھائی بیٹھے تھے۔ علیحان نے آن کو دور سے دیکھ کر ، وہ بات کی جو اس کے ذہن کو پریشان کررہی رھی تھی۔
"علیدان میں نے سنا ہے تم اعوانز کو نشانہ بنا رہے ہو۔ ؟"
" یہ سچ ہے۔" وہ سنجیدہ تھا۔
"اچانک سے ہی یہ تم ان پر کیوں اٹیک کرنے لگے ؟ "
علیحان نے ناسمجھی سے اس کے سپاٹ چہرے کو دیکھا۔ "تم یہ سمجھ رہے ہو کہ یہ مناسب وقت ہے؟"
" کیا آپ ایسا نہیں سمجھتے؟
علیحان نے ہونٹ بھینچے۔
"وہ زندگی جس کے لئے اعوان خاندان ہمارا مقروض ہے، سچ میں ایسی چیز ہے جس کا اب ہمیں حساب لینا ہے۔۔۔" عیلدان کا لہجہ سرد تھا۔۔ بھت سرد۔۔
"اگر ان کو اپنی جانوں کی قیمت چکانی ہے۔ ۔ تو ابھی انھیں جو برداشت کرنا پڑے گا وہ زیادہ دور نہیں ہے۔"وہ سپاٹ سا بولا تھا۔
"ایسا لگ رہا ہے تمہارے زہن میں کوئی منصوبہ چل رہا ہے" علیحان نے ابرو اٹھا کر اسے جانچتی نظر سے دیکھا۔
"علیحان بھائی ،آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، میں یہ مسئلہ خود سے ہی حل کرلوں گا۔مجھ پر چھوڑ دیں۔"علیحان خاموش رہا۔
ادھر لان میں باربی کیو بناتی آن کو دیکھو تو آگ کی تپش سے اس کا چہرہ تپ کر سرخ ھورہا تھا۔
نکہت نے اس کی مدد کرنی چاہی لیکن آن نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ "وہ خود کرسکتی ہے"
"آج تاش کے کھیل نے بھت مزا دیا۔ہے نا؟"
نکہت نے جیسے بات بڑھائی۔
"ییس۔"جو لوگ اصل زندگی میں "ساتھی"نہیں بناسکتے وہ کھیل کے دوران آسانی سے "ساتھی "بن جاتے ہیں" آن نے سپاٹ لہجے میں طنز کیا تھا، لیکن نکہت اپنے ہی خیالوں میں گم اس کے طنز کو نہیں سمجھ پائی ،وہ خوش تھی کہ وہ "علیدان کی ساتھی ہے"۔۔چاہے کھیل میں وقتی ہی سہی۔۔ اور یہ بات آن کو کھلی تھی،
علیدان اٹھ کر ان کے پاس آیا۔
"علیدان ،تم کو آن کے لئے کسی پروفیشنل شیف کا بندوبست کرنا چاھئے تھا، دیکھو آگ کی تپش سے آن کی کیا حالت ہوئی ہے؟"
علیدان نے سینے پر بازو باندھ کر آن کی پرتپش اور ناراض ناراض تاثرات کو نظروں کے حصار میں قید کیا۔
لب ہلکے مسکرائے ۔
"کیا میں مدد کروں؟" گھمبیر سا لہجہ آن کو بھایا تھا، لیکن غصہ کی وجہ سے اگنور کیا۔
"کوئی ضرورت نہیں۔"آن نے بھینچی آواز میں ہولے سے کہا۔
"میں ہار جیت کے اصولوں کو سمجھتی ہوں، جب ایک اپنی شکست تسلیم کرے، اور دوسرا "جوا" جیت جائے۔"
اس کی گہری بات سن کر نکہت بنا سمجھے ھنس پڑی۔
"آن یہ دیکھو ، کس کے آگے ایسا کہہ رہی ہو؟"
اس کا مطلب تھا "علیدان کے آگے جو اس کھیل کا پرانا کھلاڑی رہا ہے۔۔ جیت تو جیسے اس کے آگے باندی بن کر کھڑی رہتی ہے، کہ آو ۔۔مجھے جیت لو میں تمہاری غلام۔"
لیکن اس کی گہری بات علیدان جیسا زیرک نظر شخص اچھے سے سمجھ گیا تھا۔کہ وہ جل رہی رہی ہے۔،اور اس کے تپے تپے لہجے کے پیچھے کی وجہ بھی جان گیا ۔۔ تبھی ہولے سے ھنس پڑا اسے آن کا جلن میں مبتلا ہونا مزا دے گیا تھا۔
"تم جاسکتی ہو۔۔ میں اس کے ساتھ ہوں" علیدان نے نکہت کو بنا دیکھے آن پر نظر ٹکائے کہا۔
"یہ تو بھول جاو۔۔ علیدان ، ہاں تم بھلی چلے جاو میں تو آن کے ساتھ ہوں"وہ چہک کر بولی ۔۔آن نے ان دونوں کی بے تکلفی پر اندر ہی اندر سے اٹھتی اشتعال کی لہر کو بمشکل قابو کیا۔اسے ان دونوں کے درمیان اپنا وجود غیر ضروری سا نظر آیا، وہ بیزار ہوکر یکدم سے کباب چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"اب جب کہ آپ دونوں یہاں ہیں تو مجھے جاکر آرام کرنا چاھئیے۔"
علیدان نے ایک جھٹکے سے اپنی کرسی اس کے قریب کھسکائی اور اس کے اٹھنے سے پہلے اس کا راستہ بلاک کردیا۔
"میری فیملی کی چھوٹی سی بلی غصہ ہوگئی ہے۔ چلیں آئیں ، میں آپ سے میٹھی میٹھی پیار بھری باتیں کرتا ہوں۔" آن کے تو "اس کے اتنے کھلے الفاظ سن کر رونگٹے کھڑے ہوگئے۔وہ ایک لمحہ تو حیا سےکانپ گئی۔
اسی وقت نکہت کو بھی عجیب احساس ہوا۔ وہ اٹھ کر جانے لگی۔ "تو پھر تم دونوں یہاں ٹہرو، میں ہی چلی جاتی ہوں"۔
اس کے جاتے ہی آن نے علیدان کو تیکھی نظروں سے گھورا۔
" آپ کو ڈر نہیں کہ جس سے آپ نے محبت کی وہ آپ کی وجہ سے دکھی ہوکر چلی گئی"۔
"نو میٹر، کہ میں نے کس کو دکھی کیا ہے۔۔۔۔بس میں آپ کے دل کو تکلیف نہیں دے سکتا۔"
آن نے نظریں گھمائیں، اس کے الفاظ کافی مبہم تھے، لوگوں کو دھوکہ دینے میں وہ دنیا کا نمبر ون شخص کہلائے جانے کا مستحق تھا۔ آن نے دل ہی دل میں اسے داد دی تھی۔
علیدان نے ٹانگیں ملالیں۔
"آئیندہ اگر آپ کسی کھیل میں اچھی نہیں تو کھیلنے کا ارادہ بھی نہ کرنا، اگر آپ آخر میں ہار گئیں، تو
آپ کچھ نہیں کرپائیں گیں سوائے خود کے لئے مسائل پیدا کرنے کے"
اس کے الفاظ بھی گہرے تھے دو معنی رکھتے تھے۔۔ وہ کیا سمجھانا چاھ رہا تھا؟ وہ سمجھ کر بھی انجان بن جانا چاھتی تھی، کیا وہ اس کے دل کے بدلاو کو جان گیا تھا؟؟ یہ سوچ کر اس کی پیشانی عرق آلود ھوئی تھی۔
اس کی غیر ہوتی حالت دیکھ کر علیدان ہلکا مسکرایا۔" کیا میں نے کچھ غلط کہا؟"
وہ کچھ نہ بولی ، ہنکارا بھر کر اسے نظر انداز کرنا ہی بھتر جانا، علیدان نے محبت سے اس کی کان کی لوب کو ھلکا سا کھینچا۔
"یہ تجویز بھی آپ کی تھی۔" اشارہ "تاش" کی بازی کے طرف تھا۔"اور جس نے ہارا وہ بھی آپ تھیں، کیا مجھے تبصرہ کرنے کی بھی اجازت نہیں؟" وہ اس کے خفا ہونے پر مسکرایا تھا۔
"آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا؟" آن نے خفگی سے گھورا
"میں کیوں جھوٹ بولوں گا؟"وہ ھنسا۔۔
"اگر آپ اس کھیل میں نئے تھے ، تو اتنا اچھا کیسے کھیلے؟"
اس کی معصوم شکایت سن کر وہ دل کھول کر ھنس پڑا۔
"کیونکہ میری نظر اور پلان اچھے تھے، کیا اب "ذہین" ہونا بھی میرا گناہ ہے؟"
"تو آپ کے کہنے کا مطلب ہے میں "کند ذہن" ہوں؟" وہ تو جیسے پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑی تھی۔اسے ہارنے کا شدید دکھ تھا جو کہ جا ہی نہیں رہا تھا۔
"میں آپ کو پھر سے یاد دلاتا ہوں ،مشکل کھیل "ذہین " لوگوں کے ساتھ مت کھیلنا چاھئے۔"
"تاش کے کھلاڑیوں کو ذہانت کی ضرورت نہیں ہوتی" وہ غصہ میں ناک چڑھا کر بولی۔
"آپ کوئی بھی کھیل اچھی طرح نہیں کھیل سکتی آنیہ جس کے لئے کسی "ذہانت" کی ضرورت بھی نہ پڑے،کیا آپ اتنی سیدھی سادی بات پر مجھ سے اپنی تعریف چاہتی ہیں؟" علیدان نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر جاننا چاہا۔
(یہ سرمایہ دار کالے دل کا شیطان ہے)وہ دل ہی دل میں اسے کوسنے دینے لگی۔
علیدان نے ھاتھ بڑھا کر اس کا سر تھاما، آن نے خفگی سے اس کے ھاتھ سر جھٹک کر ھٹادیئے۔۔
تھوڑی ہی دور علیحان ،مدھان اور نکہت ٹیبل کے گرد بیٹھے ،ان دونوں کو پیار سے لڑتے جھگڑتے، دیکھ رہے تھے، علیحان نے ابرو چڑھا کر کچھ سمجھنے کی کوشش کی،
مدھان نے مسکرا کر دونوں کو دیکھا پھر اپنے بھائی سے بولا۔
"بڑے بھائی، بڑی بھابھی کیا آپ نے محسوس کیا۔ آن آپی اور بھائی پرفیکٹ میچ لگ رہے ہیں؟"
علیحان نے نکہت کو دیکھا، جس کی آنکھوں میں سب کچھ ہار جانے کا تاثر تھا،اس نے سرد آہ بھر کر چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا۔اور ہونٹ بھینچ لیئے۔
"ہممم ، آن عصمت اور علیدان واقعی پیارے ہیں ، یہ پرفیکٹ میچ ہیں۔"
علیحان نے کپ اٹھاکر گھونٹ بھرا،
"میں بھی یہی سمجھتا ہوں"
لنچ کے بعد علیحان نے آرام کرنا چاہا۔نکہت اس کی وھیل چیئر دھکیلتی فرسٹ فلور پر روم میں چلی گئی، مدھان سیکنڈ فلور پر ٹہر گیا۔
علیدان آن کو بازووں کے حصار میں لے جر تھرڈ فلور پر اپنے کمرے میں لایا۔۔۔
آن سست روی سے چلتی ہوئی تھکی تھکی سی صوفہ پر بیٹھ گئی۔
علیدان نے اسے اس طرح تھکا تھکا سا آنکھیں موندے صوفہ کی بیک پر سر ٹکائے دیکھا تو پوچھا۔ " کیا آپ تھوڑی دیر آرام نہیں کریں گیں؟"
"ہممم ، میں صوفہ پر سوجاوں گی، آپ بیڈ پر لیٹ جائیے۔"وہ سستی سے بولی۔
"یہ صوفہ کافی نرم اور آرام دہ ہے۔" یہ کہتے ہی بے جان سی لیٹ گئی۔
علیدان آھستہ سے چلتا ہوا اس کے پاس آیا،
"دیکھیں میں اس صوفہ پر سووں گی ،اس لئے مجھ سے لڑنا مت، یہ بیڈ کافی بڑا ہے میں وہاں آرام دہ محسوس نہیں کروں گی" اسے پاس کھڑا دیکھ کر وہ گھبرا کر اٹھ گئی۔
"چلیں۔۔ ساتھ بیڈ پر سوئیں۔"وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ "میں آپ کو ٹچ بھی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔یا پھر ہوسکتا ہے ہم دونوں کو صوفہ پر سونا پڑجائے۔یہ ہم دونوں کے لئے کافی رہے گا۔ اور پھر ہوسکتا ہے۔میں نیند میں آپ سے لپیٹ جاؤں۔؟"وہ اسے ڈرا رہا تھا۔
"اب آپ کے پاس دو راستے ہیں، یا تو بیڈ پر آجائیں، یا پھر مجھے اپنے ساتھ صوفہ پر سونے دیں۔ "
"ان دونوں میں ڈفرینس کیا ہے؟" وہ زچ ہوئی۔علیدان شریر سا مسکرایا،
"میرے لئے صوفہ پر سونا کم آرام دہ رہے گا جب تک آپ کو گلے نہ لگالوں۔"وہ اس کے قریب بیٹھا گھمبیر لہجے میں بولا۔۔ اور آن مسلسل اس کی نظروں سے پزل ہورہی تھی۔
"بھتر ہوگا میں بیڈ پر ہی سوجاوں۔"وہ جھٹکے سے اٹھی اور بیڈ کے کنارے پر ٹک گئی۔لیٹ کر کمبل تان لیا۔
علیدان ہلکی مسکان کے ساتھ اٹھا اور گھری سانس بھر کر سر ہلایا۔۔"ناٹ بیڈ"۔۔ اور بیڈ کے قریب سکون سے بیٹھ گیا۔
وہ سمجھی وہ بیڈ پر نہیں سو پائے گی۔لیکن علیدان کی انگلیوں نے جب اس کے سر میں ھلکے ھلکے مساج کرنا شروع کیا۔ تو اس کی نرمی و گرمی سے آن کی آنکھیں خود بخود بند ہوگئیں۔۔
جب وہ سوکر اٹھی تو شام کے ساڑھے پانچ بج رہے تھے، علیدان کمرے میں کہیں نہیں تھا۔
وہ منہ ہاتھ دھو کر فریش ہوئی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے ھال میں آگئی۔۔ جہاں علیحان اور علیدان شاہ آمنے سامنے شطرنج کی بساط بچھائے پرسوچ نظریں مہروں پر ٹکائے بیٹھے تھے،
نکہت پاس بیٹھی ان کا کھیل دلچسپی دیکھ رہی تھی۔ یہ اور بات کہ اس کی نظریں مسلسل علیدان کا طواف کررہی تھیں۔مدھان کرسی پر بیٹھا وڈیوگیم کھیل رہا تھا، ان سب کو دیکھ کر وہ خود کو پھر سے الگ سمجھنے لگی۔اسے سب ایک مکمل "فیملی"لگے تھے۔
نکہت نے اسے خاموش کھڑے دیکھ کر ہاتھ ھلا کر پاس بلایا۔
"تم بھت لیٹ اٹھی ہو آنیہ۔"
آن سستی سے مسکرائی "یہ صحیح ہے۔بس تھکاوٹ سے نیند آگئی۔"
پھر علیدان کو خفگی سے دیکھ کر شکایت کی۔
"آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ؟"
علیدان نے محبت سے مسکرا کر اس کے کیوٹ کیوٹ معصوم فیس کو دیکھا۔" میں نے دیکھا آپ کافی تھکی ہوئی تھیں، اسی لئے نہیں اٹھایا۔"
اس کی بات ختم ہوتے ہی مدھان کے منہ سے بےاختیار قہقہہ نکلا۔
"علیدان بھائی ،آپ کو ایسا کچھ نہیں کہنا چاھئے جو بچوں کے لئے نامناسب ہو۔" وہ شرارت سے بولا۔ اس کی بات پر آن شرم سے سر جھکا گئی۔۔
ڈنر کے بعد نکہت اور علیحان واک کرنے چلے گئے تھے۔ان کے پیچھے یہ دونوں تنہا جھیل کنارے پہ واک کرنے لگے۔۔
"ہاو اسٹرینج۔"آن کا لہجہ تذبذب کا شکار تھا۔
"اس میں کیا عجیب ہے؟" علیدان نے اس کے تعجب پر اسے خاموش نظروں سے دیکھا۔
"میں سوچ رہی ، نکہت نے جس سے محبت کی،وہ تو آپ تھے،لیکن شادی علیحان بھائی کے ساتھ کی۔ تو اس میں کیا رمز تھی؟ شاید نکہت نے علیحان بھائی پر ترس کھا کر میریج کی۔۔۔کیا یہ سچ ہے؟"لب بھینچ کر اسے دیکھا ۔
لیکن علیدان نے اپنی نظر اس سے ہٹا کر رات کے سناٹے میں جھیل کے اس پار اندھیرے پر ٹکا دی، وہ اس نکہت نامے پر بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔ زندگی کی کتاب کا جو باب اس نے بند کردیا تھا۔اسے دوبارہ کھول کر دیکھنا پسند نہیں تھا۔
یہ جون کے درمیانی موسم کی رات تھی، فضا کے سناٹے کو جھینگروں اور مینڈکوں کے ٹرٹرانے کی آواز چیر رہی تھی،
آسمان پر چاند مکمل اور روشن تھا،جس کی روشنی سے جھیل کی لہریدار سطح چمک رہی تھی۔۔ دونوں ایک فاصلہ رکھ کر مکمل خاموش کھڑے جھیل کے اس پار اندھیرے پر نظر جمائے ساکت کسی مجسمے کی طرح لگ رہے تھے۔
علیدان کی خاموشی سے آن کی سانس جیسے رکی جارہی تھی۔۔ فضا میں اچانک ہی حبس بڑھ گیا تھا۔
☆☆☆☆☆
علیحان اور نکہت واک سے واپس آگئے تھے۔نکہت ان دونوں کو علیحان کا خیال رکھنے کا کہہ کر خود اپنے روم میں باتھ لینے چلی گئی۔
علیحان اور علیدان شاہ نے کچھ دیر گفت و شنید کی۔۔پھر علیحان نے اپنے روم میں جانے کا بولا۔ سب ہی نے ولا کے اندر قدم بڑھا دیئے۔۔
مدھان علیحان کی وھیل چیئر گھسیٹتا ولا کے اندر آگیا۔
"بھابھی آپ پہلے سے جاکر بڑی بھابھی کو آگاہ کردیں کہ میں بڑے بھائی کو لے کر آرہا ہوں۔"
آن نے اثبات میں سر ہلایا۔۔اور نکہت کے روم میں جانے لگی۔
دروازہ کھول کر اس نے پہلے آواز دی تھی۔۔ لیکن اندر سارا کمرہ خالی تھا۔۔ باتھ روم کا در بند تھا ۔۔مطلب نکہت اندر تھی۔۔لیکن نا پانی گرنے کی آواز آرہی تھی نا کسی موومینٹ کی۔۔
آن نے ہلکے سے آواز دی۔۔
باتھ روم کے دروازے پر ھلکے سے ناک کی،
"نکہت ؟"
لیکن کوئی جواب نہیں ملا تو وہ متجسس ہوگئی۔
اس نے آھستہ آھستہ دروازہ کھول کر اندر جھانکا۔
اور اندر داخل ہو گئی ۔کیوںکہ باتھ روم میں کسی قسم کی کوئی حرکت نہیں تھی، نہ ہی شاور آن تھا۔۔اسے باریک سے پردے کے پیچھے باتھ ٹب کے جھاگ میں نکہت نظر آرہی تھی۔
ٹب پانی سے بھرا ہوا تھا، سطح آب گلاب کی پتیوں کی موٹی سی تہہ سے ڈھکا ہوا تھا۔ایسا لگ رہا تھا خون بھرا ہو۔
ٹب کے کنارے پر ریڈ وائن کا گلاس بھرا پڑا تھا۔نکہت کے بھیگے بال ٹب سے باھر لٹک رہے تھے اور وہ آنکھیں بند کیئے بلکل ساکت ۔۔۔کسی مجسمے کی طرح آنکھیں بند کیئے لیٹی تھی۔
آن کو یہ سب دیکھ کر اپنی ٹانگوں سے جان نکلتی محسوس ہوئی۔بے اختیار کپکپاتے جسم کے ساتھ منہ پر ہاتھ رکھ کر دو قدم پیچھے ہٹتی جارہی تھی۔۔اور اپنی بے ساختہ چینخ کو روکے ہوئے تھی۔
اس کے ذہن کی اسکرین پر پانچ سال پہلے کی طوفانی رات کے منظر کا فلیش بیک چلنے لگا۔
"باتھ ٹب۔۔۔۔۔ خون کے دھبوں سے بھرا ہوا تھا،۔۔۔۔۔ اس کی ماں اس میں بے جان ۔۔۔۔۔سی پڑی ہوئی تھی، اور۔۔۔خون۔۔۔۔۔۔ندی کی طرح۔۔۔۔۔ فرش پر بہہ رہا تھا۔۔
آن نے بے اختیار یہ منظر ذہن کے پردوں پر لہراتے دیکھ کر کانوں پر ہاتھ رکھ لئے ، آنکھیں زور سے میچے وہ نیچے بیٹھتی چلی گئی۔
"آآآآآآ۔۔۔۔۔۔آآآآآآآ " پاگلوں کی طرح چینخنے لگی۔وہ بری طرح ہوش گنوا بیٹھی تھی۔۔
اس کی چینخیں سن کر نکہت کی آنکھ کھل گئی، یہ دیکھ کر کہ آن نیچے بیٹھی چینخ رہی ہے، وہ پریشانی سے جلدی سے باھر نکلی اور باتھ روب کھینچ کر جسم ڈھکا، جلدی سے اس کے پاس آئی۔
"آنیہ عصمت۔۔ کیا ہوا۔۔۔۔تم ٹھیک تو ہو؟"لیکن وہ کچھ بھی نہیں سن رہی تھی۔
اس وقت علیدان بھی علیحان کی کرسی دھکیلتا اندر لیونگ روم میں آگیا تھا۔چینخنے کی آواز سن کر چونکا (یہ تو آن کی آواز ہے۔)
جلدی سے علیحان کو وہیں چھوڑ کر روم میں داخل ہوا۔۔ باتھ روم کے کھلے دروازے سے اسے آن نیچے اکڑوں بیٹھی کانوں پر ہاتھ رکھے آنکھیں میچے چینختی اور روتی نظر آئی۔
ادھر نکہت بری طرح سے پریشان سی بمشکل اکڑوں بیٹھی اسے پکار رہی تھی "آن۔۔آنیہ۔۔ "
وہ پریشان سا آگے بڑھ کر اسے نرمی سے اپنے حصار میں لے گیا۔
اور نکہت کو دیکھ کر برہمی سے پوچھا۔ " کیا ہوا تھا؟"
نکہت نے اس کے برہم انداز پر اچرج سے اسے دیکھ کر سر نفی میں ہلایا۔
" میں تو نہیں جانتی۔۔۔۔ باتھ کے دوران میری آنکھ لگ گئی تھی۔۔۔۔آن کی چینخیں سن کر کھلی ہے۔"
علیدان نے کوئی جواب نہ دیا۔۔بلکہ آن کو اپنے حصار میں لے کر اٹھایا۔۔اور سینے سے لگا کر سر سہلانے لگا۔
" اٹز اوکے ھنی۔۔۔ اٹز اوکے میں آپ کے پاس ہوں۔"
علیدان کی آن کے لیئے نرمی، کیئر اور آن کے گرد محبت سے کھینچا گیا حصار، نکہت کو بری طرح چھبا تھا۔ وہ بے اختیار کھڑی ہو گئی۔۔ان دونوں کو اس قدر قریب دیکھ کر نکہت کو لگا اس کے دل میں کسی نے چھرا گھونپ دیا ہو۔ اسے آنیہ عصمت سے سخت حسد محسوس ہوا، اور جلن و حسد سے جیسے وہ پاگل ہورہی تھی۔
آن کو بلکل پتا نہیں تھا کہ وہ کیا کررہی ہے؟ نا اسے اس بات کا ہوش تھا کہ وہ چینخ رہی ہے یا کہاں کھڑی ہے۔
اس کا ذہن بس ایک ہی منظر کو ریورس کررہا تھا، خون۔۔۔۔۔اس کی ماں کا بے جان مردہ خون آلود وجود۔۔۔ "ریڈ وائن" کا گلاس۔۔۔۔جو فرش پر لڑکھا ہوا تھا۔
اس وقت یوں لگ رہا تھا،جیسے وقت پیچھے چلا گیا ہو۔وہ وہیں پر کھڑی ہے۔اچانک ہی اس کے ذہن میں وہی خوف واپس آگیا تھا۔ اور اس کے دل میں شدت سے داخل ہوکر قبضہ کرلیا تھا۔ وہ خوفزدہ تھی ، بھت زیادہ خوفزدہ تھی ، وہ ساری جان سے کانپ رہی تھی۔
اس کی چینخوں سے باھر سیڑھیاں چڑھتا مدھان بھی چونک کر پریشان سا پلٹا اور بھاگتا کمرے میں داخل ھوا تھا۔
جہاں علیحان بھی پریشان سا وھیل چیئر ھاتھ سے چلا کر روم میں جارہا تھا،
مدھان نے یہ حالت دیکھ کر بے اختیار پریشانی سے پوچھا۔
" کیا ہوا بھائی کیا بات ہوئی؟خیر تو ہے؟ "
نکہت باتھ روب میں ہی بھاگتی باھر آکر علیحان کی چیئر کے نزدیک بیٹھ گئی اور اس کا ھاتھ تھاما۔
"یقین کریں۔۔مجھے کچھ نہیں معلوم۔۔۔ میری ٹب میں ہی آنکھ لگ گئی تھی۔۔ اور آن کے چینخنے پر کھل گئی۔ میں کچھ نہیں جانتی ۔کہ کیا ہوا تھا؟ میں واقعی کچھ بھی نہیں جانتی علیحان یقین کرو۔" وہ پریشان ہوکر رونے لگی۔
علیحان نے اس کا ہاتھ تھپکا اور نرمی سے سر سہلاتے بولا۔" پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔، علیدان سب سنبھال لے گا۔"
نکہت نے بے اختیار آنکھیں بند کردیں۔آنسو بہے جا رہے تھے۔۔ وہ خود شاکڈ تھی اسے آن کے ڈرنے اور چینخنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی تھی،
"آن۔۔۔۔آنکھیں کھولیں مجھے دیکھیں۔"
یہ سنتے ہی آن کے ذہن کی اسکرین پر علیدان کا ہیولہ لہرایا ،منظر دو حصوں میں منقسم ہوا تو اسے علیدان صاف نظر آنے لگا، اس نے خود کو علیدان کے حوالے کردیا وہ اس وقت اسے سب سے بڑا محافظ لگا۔آن نے اپنے بازو اسکے گرد زور سے باندھے ،
"علیدان۔۔۔ علیدان۔۔" وہ روتی رہی۔۔سسکیاں بھرتی رہی۔ آنکھیں مسلسل خوف سے بند تھیں۔لیکن پورا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔علیدان نے شدت سے اس کا خوف محسوس کیا۔۔ جیسے کسی وجہ سے آنیہ ڈر گئی ہے۔ اس نے اس کی کمر کے گرد حصار کھینچ لیا۔اور اسے اپنی پناھوں میں لیتا ۔۔ کمرے سے باھر نکل آیا۔
" میں اسے کمرے میں لے جاتا ہوں ۔فکر کی بات نہیں۔آپ سب آرام کریں۔ "
کمرے میں بلکل خاموشی تھی، ہر ایک اپنی جگہ پر خاموش کھڑا آن کو ترحم سے دیکھ رہا تھا۔
وہ اسے تھرڈ فلور پر اپنے کمرے میں لے آیا اور لاکر بیڈ کے کنارے پر بٹھایا اور اسکی پیشانی کو نرمی سے ھاتھ سے چھوا۔"کیا مجھے بتانا پسند کریں گیں۔۔ھنی؟"
آن نے جھکی اور بھیگی نظروں کے ساتھ سسکتے ہوئے نفی میں سر ہلایا۔
"تو پھر آپ یقیناً یہ چاھیں گیں۔ کہ میں باھر چلا جاؤں اور آپ کو کچھ دیر کے لئے تنہا چھوڑدوں؟"
علیدان نے اس کے سر میں نرمی و محبت سے انگلیاں ڈال کر اس کے بال سہلاتے پوچھا۔
لیکن آن خاموش رہی بلکل ساکت مجسمے کی طرح بیٹھی یک ٹک ایک طرف دیکھے جارہی تھی، حلانکہ آنسو اب رک گئے تھے۔لیکن آنکھیں شدت کے ساتھ رونے ،چینخنے کی وجہ سے سوج گئی تھیں، وقفے وقفے سے ایک سسکی سے اس کا وجود جھٹک اٹھتا تھا،
علیدان نے اس کی خاموشی کو رضامندی سمجھ کر ۔۔ اس کا ہاتھ چھوڑ کر اس کے پاس سے جانے کے ارادے سے اٹھ کر مڑا۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔
آن نے پیچھے سے اس کا بازو تھام کر جانے سے روک دیا۔۔
وہ اس کی آنکھوں میں ڈر کا واضع احساس دیکھ رہا تھا،
حلانکہ وہ نہیں جان پایا کہ اسے کس بات نے اتنا خوفزدہ کردیا تھا ؟
لیکن وہ یہ سمجھ چکا تھا کہ وہ چاہتی ہے کہ "علیدان اس کے ساتھ رہے"۔
وہ اسے لٹا کر، خود بھی پاس لیٹ گیا اور اس کا سر اپنے سینے پر رکھ کر سر سہلاتے اسے پرسکون کرنے لگا، پھر نرمی سے کہا۔
"تو پھر میں آپ کے ساتھ ہی لیٹ جاتا ہوں،میں کہیں نہیں جارہا ۔ ڈریں مت ۔صرف کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کرکے آرام کریں"۔
اس کے نرم الفاظ سن کر آن نے اسکی شرٹ کو مضبوطی سے پکڑ کر، آھستگی سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
حلانکہ اس سانحے کو گزرے کافی وقت ہوچکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ اب بھی سب یاد کرکے، ڈر کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔
پیشانی پر پسینہ کے قطرے نمودار ہوگئے تھے۔
اس نے ھاتھ بڑھا کر آن کی پیشانی سے پسینہ نرمی سے صاف کیا،
اور اپنی بانہیں اس کے وجود کے گرد پھیلا دیں۔
زیادہ دیر نہیں گذری تھی ۔اس کی ناہموار سانسیں ہموار ہوگئیں، وہ علیدان کے گرم آغوش پاکر سوچکی تھی۔اس وقت دروازے پر ہلکی سی ناک کی آواز آئی۔
علیدان نے احتیاط سے آن کا سر اپنے سینے سے اٹھا کر۔۔۔،تکیے پر رکھا اور آھستہ سے اس کے پاس سے اٹھ کر بیڈ سے نیچے اتر آیا۔
دروازے کے طرف قدم بڑھائے اور آھستہ سے دروازہ کھولا۔
دروازے کے پاس نکہت شاہ کھڑی تھی۔
اس نے سر اٹھا کر علیدان کو دیکھا۔اس کی آنکھیں آنسووں سے بھری ہوئی تھیں ۔
"علیدان ،کیا آن اب ٹھیک ہے؟" اس کی آواز رونے کی وجہ سے بھاری ہورہی تھی۔
علیدان کو اس کی بھاری آواز سن کر ایسا لگا جیسے وہ سیڑھیوں کے نیچے کھڑی کچھ دیر رو کر آئی ہو۔
علیدان نے مڑ کر کمرے کے اندر جھانکا بیڈ پر آن آنکھیں بند کیئے سوئی ہوئی تھی۔اس نے دروازہ بند کیا اور باھر نکل آیا۔
"وہ سوگئی ہے۔۔۔ڈونٹ وری"۔
"مجھ پر یقین کرو، میں نے اس بار کچھ نہیں کیا۔" نکہت نے بڑھ کر علیدان کا بازو گرفت میں لیا۔
"مجھے وہ تمہاری طرح ہی پسند ہے ، وہ مجھے اچھی لگتی ہے"۔
اس نے اپنا دایاں ھاتھ اٹھایا اور اپنی آنکھیں پونچھیں۔
" ڈونٹ کرائے۔اٹ از اوور۔"
علیدان نے نرمی سے اسے رونے سے روکا۔
"کیا تمہیں مجھ پر یقین ہے؟" اس نے علیدان کا بازو چھوڑا۔ اور اپنی آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھا،
"علیدان کیا تم کو مجھ پر یقین ہے؟"
علیدان نے سر ہلایا۔
"مجھے یقین ہے۔"۔اس نے نکہت کے شانوں پر نرمی سے تھپک کر دلاسا دیا۔
"اٹز فائن۔گو ریسٹ ایئرلی ۔" آن اب ٹھیک ہے۔اس نے تسلی دی۔
"سچ میں ۔۔؟" نکھت نے پوچھا۔
۔علیدان نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ "ییس، میں اس کے پاس ہوں، میں اس کے ساتھ کچھ بھی برا ہونے نہیں دے سکتا"۔
اس کے الفاظ سن کر نکہت کو اور زیادہ تکلیف ہوئی۔
علیدان شاہ کے اس روپ کو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
جو اس کے سامنے دوسری عورت کی حفاظت کا وعدہ کررہا تھا۔
نکہت کو لگا جیسے اس کا دل کسی نے ٹکڑےٹکڑے کردیا ہو، اسے ناقابل بیان تکلیف ہوئی تھی ،ناقابل برداشت۔۔۔
اس کے جانے کے بعد علیدان واپس اپنے روم میں آکر بیڈ پر لیٹ گیا،اور نرمی سے اسے اپنے حصار میں لے کر خود بھی نیند کی وادی میں کھوگیا،
☆☆☆☆☆
صبح سورج کی ہلکی روشنی نے جہاں روم کو اندھیرے سے نکالا،وہیں آن کو بھی نیند سے بیدار کردیا،
اس نے اپنے وجود کو حرکت دینی چاہی تب اسے لگا وہ کسی کے حصار میں قید ہے،
آن نے پٹ سے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ علیدان کے سینے پر سر رکھے خود بھی اس کے گرد بازو اور ٹانگیں پھیلائے مزے سے سورہی تھی،
اس نے چہرہ اٹھا کر علیدان کے خوبصورت سوئے ہوئے چہرے کو دیکھا اور لب بھینچ لیئے۔
زندگی میں پہلی بار اسنے کسی مرد کو اتنے قریب سے سوتے ہوئے بغور دیکھا تھا،
اس وقت علیدان نے بھی آنکھیں کھول دیں، اور اسے اپنے طرف محویت سے دیکھتے پاکر ہلکے سے مسکرایا۔
"کیا بھت خوبصورت لگتا ہوں؟"
"ہممممم۔۔ واٹ؟"وہ خفت و شرم سے لال ہوئی ۔
"کیا میں دیکھنے میں خوبصورت ہوں؟"علیدان نے اب شریر نظروں سے اس کو دیکھ کر مسحور کن گھمبیر آواز میں پوچھا۔۔
اس کی دلفریب آواز نےآن کے سماعتوں سے گذر کر جیسے دل کے من مندر میں گھنٹیاں بجادی تھیں، وہ یہ سن کر بری طرح سٹپٹائی۔۔اور نظر چرانے لگی۔
پھر جلدی سے اس کے حصار سے نکل کر اٹھنے لگی تھی،
تاہم اس نے واپس اپنے حصار میں کھینچ لیا۔
"آپ دریا پار کرنے کے بعد ،پل تباہ کرنا چاھتی ہیں۔" معنی خیز الفاظ تھے ، جس کا مطلب تھا" کام نکل جانے کے بعد اس چیز کو ضیائع کردینا"۔ یا مطلب پرست،
آن یہ سن کر سٹپٹا گئی۔۔ "مجھے اٹھنا ہے پلیز "آن نے زور لگایا
لیکن علیدان کی گرفت مضبوط تھی،
"اب کیسا محسوس کررہی ہیں؟" اس کی گھمبیر اور نرم سرگوشی آن کے قریب ابھری دل کی دھڑکن نے جیسے ریس لگائی ہوئی تھی، چہرے نے شرم و حیا سے رنگ بدلے تھے۔۔
صرف ہلکے سے سر ہلا دیا۔ کہ "ٹھیک ہوں"۔
"رات کو کیا ہوا تھا؟ کیا آپ کے اور نکہت کے بیچ کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا؟"
ایک بار پھر اس کے ذہن میں رات والا خوفناک منظر لہرایا، وہ پھر سے ڈر کر کانپ اٹھی،اس نے بھولنے کی کوشش کی ۔ "نہیں کچھ نہیں ہوا تھا۔"
"تو پھر آپ اتنی خوفزدہ ہوکر کیوں چینخ رہی تھیں؟"علیدان نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ڈر کو کھوجنا چاہا۔
"یہ میرا مسئلہ ہے۔۔۔۔ چھوڑیں مجھے اٹھنا ہے۔"وہ بتانا نہیں چاہ رہی تھی، اس نے اٹھنے کی مزاحمت کی۔
حلانکہ، علیدان جیسے شخص کو ٹالنا آسان کام نہیں تھا،
اس نے گھوم کر آن کے وجود کے اوپر آکر اس کی مزاحمت کی کوشش ناکام کی ۔اور تحکم بھرے انداز میں کہا۔ "کیا اب بھی ہمارے درمیان کوئی "راز" رہنا چاھئیے؟"
"ہر کسے کے " راز" ہوتے ہیں۔" آن نے مزاحمت کی کوشش ترک کردی اور سکون سے بولی۔۔تاہم ،اس کے الفاظ دو معنی رکھتے تھے، جو سمجھنے والے سمجھ جائیں گے ،اگر واقعی بھی وہ شخص کوئی"راز " رکھتا ہو،
"اگر لوگ ایک دوسرے کے سامنے "سفید کاغذ کے ٹکڑے جیسے ہوں تو ایک دوجے کو "آئینے "کی طرح دیکھیں گے"۔گہری بات کا گہرا جواب دیا گیا۔مطلب تھا"وہ اس کے چہرے سے اس کے دل کی کیفیت جاننے کا ھنر رکھتا ہے"
کہتے ساتھ ہی اس کے چہرے پر جھک آیا اور نرمی و محبت سے بوسہ لیا،
آن حیرانگی سے اپنے ہونٹوں پر ھاتھ رکھے اسے دیکھ رہی تھی،
"آپ نے پھر سے۔۔۔۔۔؟"
"یہ میرا صلہ تھا، رات بھر آپ کی حفاظت کرنے کا۔"شرارت سے مسکرا کر اٹھ گیا۔
"آپ کو پہلے وقت سے کمپیئر کروں تو آپ میں بہت سا فرق آگیا ہے"۔وہ شرارت سے بولا
"کیا مطلب ہے آپ کی اس بات کا؟"آن کو تعجب ہوا۔
"آخری بار جب آپ کی آنکھ کھلی تھی،مجھے بستر پر دیکھ کر آپ کو شاک لگا تھا۔۔۔ آج میں کافی مطمئین ہوں، اس بار آپ کا رویہ بھت نارمل رہا ہے۔"
وہ تو یہ سن کر شرم سے دوہری ہوئی۔
جب یہ دونوں تیار ہوکر سیڑھیوں سے نیچے آئے ،سب ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ کررہے تھے، نکہت اسے دیکھ کر اٹھ کر اس کے پاس سیڑھیوں تک چلی آئی ،دونوں اس وقت آخری اسٹیپ پر تھے۔
"آن ،اب تم ٹھیک ہو؟کیسا محسوس کررہی ہو۔؟" وہ فکرمندی سے پوچھنے لگی،
آن نے سر اثبات میں ہلایا،
"مجھے افسوس ہے ،نکہت شاہ، میں نے آپ کو بھی ڈرادیا"۔آن تذبذب سے بولی،
وہ یہ سن کر مسکرائی،
"میں بلکل ٹھیک ہوں، مجھے صرف آپ کی پریشانی تھی،"
"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ میں نے جب آپ کو باتھ ٹب میں آنکھیں بند کیئے لیٹے دیکھا تو۔۔۔۔تو۔۔۔۔میں سمجھی۔۔آئی ایم سوری۔۔۔۔میں واقعی میں۔۔۔۔ڈر گئی تھی"۔وہ ہچکچائی۔اور اسے دیکھ کر بات آدھی روک دی ۔۔۔کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں ،جنہیں آپ بیان نہیں کرسکتے، چاہے وہ الفاظ ہوں ،یا احساسات
نکہت شاہ بے اختیار سمجھ آنے پر ہنستی چلی گئی،
"اوھ مائی گاڈ۔۔۔،تم یہ تو نہیں سمجھی تھی کہ ۔۔میں مرچکی ہوں"۔
آن کا چہرہ خفت سے سرخ ہوا،
"آئی ایم سوری ، میں نے یہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا"
نکہت نے اس کا ہاتھ تھام کر تشفی دی۔" اوھ مائی گاڈ، میں ٹھیک ہوں، مجھ سے معافی مت مانگو،ایکچوئلی میں بھت تھک گئی تھی، تبھی وہیں نیند آگئی تھی، مجھے توقع نہیں تھی کہ تم ڈر جاو گی، معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاھئیے،اگر تم ٹھیک ہو، تو میری خوش قسمتی ہوگی۔" آخر میں پھر سے دو معنی رکھتے الفاظ تھے۔
علیحان شاہ نے تینوں کو بلایا۔
"وہاں مت کھڑے ہو، آکر سب مل کر ناشتہ کرو"
سب ہی آگے بڑھے،
دوسرے لوگ آن کے الفاظ پر یقین کرسکتے تھے، لیکن وہ نہیں، اس کے زاوئیہ ء نگاہ سے دیکھو تو آنیہ عصمت کا خوف ایک ایسا "خوف"تھا ،جو اس کی روح کی گہراہی میں اتر چکا تھا، لاشعوری طور پر وہ اس خوف میں قید تھی۔
علیدان کی سوچ کا محور اب آنیہ عصمت تھی، جو اب آنیہ حیدر شاہ تھی، وہ یہ سوچ کر ذہنی اذیت میں مبتلا تھا کہ "وہ آنیہ عصمت "کے بارے میں "کچھ بھی" نہیں جانتا۔"
ناشتہ کے بعد۔۔ سب نے ہی واپسی کا سفر کرنا تھا۔
☆☆☆☆☆
رات کے ابھی آٹھ بجے تھے۔آن بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی جب اسے معدے میں سخت درد محسوس ہوا۔وہ درد سے دہری ہوگئی۔
یہ تکلیف لمحہ بہ لمحہ ناقابل برداشت ہورہی تھی،
اچانک دروازے پر بیل ہوئی آن نے سر گھما کر دروازے کو دیکھا۔
"اس وقت کون ہوسکتا ہے؟"
اس نے اگنور کردیا تب ہی فون کی بیل ہونے لگی۔
اس نے فون اٹھا کر دیکھا علیدان کی کال تھی، آن کے "ھیلو۔" کہنے پر علیدان کی پریشان آواز آئی۔
"دروازہ کھولیں"۔
"دروازے پر آپ ہیں؟"اس کی آواز تکلیف سے کانپ رہی تھی، دوسری طرف موجود فرد حیران ہونے کے ساتھ پریشان بھی ہوا تھا،
"اور نہیں تو ، کتنے لوگ اس جگہ کے بارے میں جانتے ہیں؟ جلدی کریں۔ دروازہ کھولیں"آواز میں پریشانی واضع تھی۔
"جلدی کریں، دروازہ کھولیں۔"
وہ آھستگی سے بمشکل درد کو برداشت کرتی اٹھی ،
دروازے کے پاس گئی، اور دروازے کو کھول دیا۔
دروازے کھلتے ہی علیدان کی نظر جب درد کو برداشت کرتی بے حال سی زرد چہرے کے ساتھ آن پر پڑی تو وہ پریشان ہوگیا،
"آپ کو کیا ہوا ہے آن؟ بے اختیار آگے بڑھ کر دونوں بازووں سے تھام لیا۔
"کیا کہیں تکلیف ہے؟ آپ کا چہرہ اتنا زرد کیوں ہے؟؟ کیا ہوا بولیں تو۔؟"
"مجھے معدے میں سخت درد ہے، الٹیوں کے ساتھ پیٹ بھی خراب ہوگیا ہے۔۔"
وہ درد کی شدت برداشت کرتے بلکل بے حال ہورہی تھی، علیدان نے اسے یکدم ہی اپنے بازووں میں اٹھالیا،
"چلیں۔۔۔ھاسپٹل چلتے ہیں"وہ اسے لے کر باھر نکلا۔
"میں نے دوائی لی ہے، ٹھیک ہوجاوں گی۔"آن نے احتجاج کیا۔
"آپ ڈاکٹر بحرحال نہیں ہیں۔آن جو خود سے دوائی لی تھی۔" علیدان نے گھورا۔ لیکن وہ کافی ضدی تھی۔ احتجاج کرتی رہی کہ اسے اتاردے ،وہ خود ہی ٹھیک ھوجائے گی، لیکن علیدان نے اسے نہیں چھوڑا بلکہ زبردستی اسے چیک اپ کے لئے ھاسپٹل لے آیا۔
ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور بتایا کہ "ناقص کھانے سے فوڈ پوائزن ہوگیا ہے ،۔" اس نے آن کو ڈرپ لگادی ۔
ساڑھے گیارہ بج چکے تھے، آن ڈرپ کی وجہ سے غنودگی میں جاچکی تھی،
علیدان پاس ہی بیٹھا اس کے سیل فون کو چیک کررہا تھا کہ آن نے آخری بار کھانا کہاں سے منگوایا تھا؟
اس اڈریس کو سرچ کرتے ہی اس نے دانیال کو کال ملائی، اور اڈریس دے کر کہا کہ تفتیش کرو،
پھر بڑھ کر آن کے سوئے ہوئے زرد پڑتے چہرے پر جھک کر نرمی سے بوسہ دیا،اور گال سہلا کر خود کلامی کرتے بولا۔ "جلدی سے ٹھیک ھوجائیں،پیاری لڑکی، آپ کو اس طرح دیکھنا میرے لئے بھت تکلیف دہ ہے "۔
پھر پیشانی پر بوسہ دیا۔" ھیو اے گڈ نائیٹ سلیپ، جب اٹھیں گیں تو آپ بلکل ٹھیک ہوچکی ہونگیں۔" ۔
آن کی آنکھ پیٹ میں مروڑ اٹھنے سے کھل گئی، علیدان دوسرے بیڈ پر سورہا تھا، وہ احتیاط سے اٹھ کر واش روم کے طرف جانے لگی، جب کھٹکے کی آواز سے علیدان کی آنکھ کچی نیند سے کھل گئی۔
"آپ کیوں اٹھی ہیں۔کچھ چاھئیے؟" پریشان سا ہوکر جلدی سے پاس آیا،
وہ بلش ہوگئی اب اسے کیا بتاتی کہ پیٹ میں مروڑ ہے؟
"مجھے واش روم تک جانا ہے"۔
ہچکچا کر بتایا۔
"میں لے چلتا ہوں"۔
وہ اسے تھامتا بولا۔
"نہ۔۔نہیں۔۔۔میں خود چلی جاوں گی"۔وہ شرم سے دانت کچکچا کر بولی ۔
"اس میں شرم کی کیا بات ہے آن؟"
وہ سمجھ نہ پایا۔۔ اس کے لئے یہ فقط ایک کیئر تھی۔
آن نے نظر گھما کر اسے گھورا۔
"کیا آپ چپ نہیں رہ سکتے؟"
یہ کہتے ہی وہ واش روم کے طرف بڑھی، علیدان بھی اسے تھامتا آھستہ آھستہ چلاتا ساتھ آیا۔۔ دروازے پر پہنچ کر رک گیا۔
"پریشان مت ہو، میں اندر نہیں چل رہا"
آن نے اسے گھورا۔۔اور اندر بڑھ کر دروازہ بند کردیا،
باھر علیدان ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔
واپس آکر وہ آرام سے دن چڑھے تک سوئی رہی۔
جب اٹھی تو علیدان کا باورچی اس کے لئے کچھڑی بنا کر لایا تھا،
"تھینک یو۔"
آن اس کی اس قدر فکر اور خیال رکھنے پر شکر گذاری سے بولی ،
"تھینکس می فار واٹ؟"
علیدان سخت برا لگا ۔
آن دل سے مسکرائی،
"شکریہ مجھے ہاسپٹل لانے کے لئے، اور شکریہ ساری رات جاگ کر میرا خیال رکھنے کے لئے،
اینڈ تھینکس فار ۔۔۔اپنے باورچی سے میرے لئے "کچھڑی" بنوانے کے لئیے۔"وہ جیسے انگلیوں پر شکریہ گنوا رہی تھی۔
"ہمممم ۔۔۔۔علیدان تو اس کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا نوٹس لینے پر حیران تھا،
"اس کا مطلب ہے میری حصیداری معمولی نہیں تھی، اس کا صلہ نہیں دیں گیں۔؟"۔وہ مسکرا کر صوفہ سے اٹھ کر آن کے بیڈ کے طرف بڑھا، اور جھک کر اس کے گال کا محبت سے بوسہ لیا۔
"مجھے لفظی "شکریہ"پسند نہیں ،سو آئیں۔۔ کچھ عملی طور پر کرتے ہیں۔"
وہ دنگ ہوئی تھی، لیکن اس بار غصہ نہیں کیا بلکہ اسے اس کی کیئر،محبت کا انداز اچھا لگا بھت اچھا۔۔۔ کوئی تو تھا اس کا خیال رکھنے والا، اس کے لئے پریشان ہونے والا ۔۔اس سے بنا کسی مفاد کے محبت کرنے والا۔
"علیدان کیا آپ واقعی بھی اپنی کمپنی کے سنجیدہ سے، چیف ایگزیٹو آفیسر ہیں؟"وہ دنگ تھی،
"چیف ایگزیٹو، سنجیدہ ہوسکتا ہے،مگر "علیدان شاہ"نہیں۔"وہ مسکرایا۔
"جلدی کریں ۔۔مجھے اس شکریہ کا عملی طور پر بدلہ دیں"وہ شریر ہوا، اور اس کے گال کا پھر سے بوسہ لیا۔
"جلدی کریں، یا پھر میں خود ہی کرلوں گا۔ اگر میں نے شروعات کرلی تو وہ صرف ایک ہلکی سی "kiss" ہوگی۔"وہ مسکرایا۔۔
جب آن کے تصور میں اس کی یہ "ہلکی کس" لہرائی،تو اس نے جیسے ہتھیار ڈال دیئے۔ اور سر اٹھا کر اس کے دائیں گال پر جھکی۔
اسی وقت علیدان کو آن کی گرم سانسیں اپنے چہرے کو جلاتی محسوس ہوئیں۔۔اور جذبات نے شدت سے کروٹ لی۔۔وہ قابو نہ پاسکا اور اسے تکیہ پر جھکاتا ،اس کے ہونٹوں پر جھک گیا۔۔۔
"علیدان ۔۔۔ "وہ چینخی۔۔ جیسے ہی اس نے اسے چھوڑا۔۔وہ جلدی سے اٹھ گئی۔
"آپ نے مجھ سے جھوٹ بولا؟" اسے غصہ سے گھورتی وہ چلائی۔ یہ شخص چیٹر ہے۔۔وہ دل ہی دل میں اس کی دھوکہ دہی پر اسے کوسنے دینے لگی۔۔
وہ شریر ہوا۔۔ مسکراتے بولا۔
"میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔جب ایک مرد عورت سے بدلہ لینا چاھے تو۔۔۔۔وہ "کچھ بھی" کرسکتا ہے۔"پیار سے اس کی ناک کی نوک کھینچی۔
" باورچی باھر آپ کا خیال رکھنے کو موجود ہے۔۔ آپ کھانا کھائیں،آرام کریں۔۔میں آفیس چلتا ہوں،"
"لیکن میں نے کمپنی میں "لیو" نہیں بھیجی"۔وہ فکرمندی سے بولی۔
"میں نے منظوری دے دی، کافی ہے۔" علیدان نے کہا۔
"آپ کی منظوری بیکار ہے، آپ میرے براہ راست باس تو نہیں ہیں نا۔"چھوٹی سی ناک چڑھائی۔
"لیکن آپ کا "باس" تو میرے تسلط میں ہے نا۔"علیدان ابرو چڑھا کر اسی کے انداز میں کہتے اسے رد کیا۔
وہ چڑ گئی ۔
"پھر بھی۔۔۔۔میرے لئے۔۔۔۔ آپ بیکار ہیں۔" اس نے اپنے فون کو اٹھا کر زینیہ کا نمبر ملایا ۔
"زینیہ۔۔۔یہ میں ہوں۔آنیہ عصمت۔۔میں معذرت خواہ ہوں ، میری طبعیت رات سے ناساز ہے۔میں ابھی اسپتال میں ہوں ، میں کام سے ایک دن کی چھٹی لینا چاہتی ہوں۔پلیز۔۔ " اس کا انداز ملتجانہ ہوا
"ٹھیک ہے ۔۔ بائے۔۔۔"
اس نے علیدان کو دیکھا جو ابھی تک کھڑا اسے بے یقینی سے دیکھ رہا تھا۔
"آپ گئے نہیں؟"آن نے آنکھیں بڑی کیں۔
"آپ نے میری بات پر توجہ کیوں نہیں دی آنیہ؟"اس کے بات نہ ماننے پر اس نے خفگی سے اسے دیکھا۔
"تو پھر جاکر اسے ڈھونڈھیں جو آپ کی ہر بات پر توجہ دے۔۔میرے سے توقع فضول ہے۔" آن کو سخت جلن ہوئی۔
اس کی جلن محسوس کرکے وہ دل کھول کر ھنس پڑا۔۔ اسے اچھا لگا۔۔ بھت اچھا لگا۔
"سب مردوں کی فطرت شکاریوں جیسی ہوتی ہے،جتنا کسی کو فتح کرنا ان کو مشکل لگتا ہے ،اتنا ہی وہ انجوائے کرتے ہیں۔"معنی خیز جملے کہے گئے۔
آن نے اس بات پر اسے بری طرح گھورا تھا۔
"آپ کا مطلب ہے ،میں آپ کا "شکار" ہوں؟"
اس کی بات سن کر وہ محبت و نرمی سے گھمبیر لہجے میں بولا۔
"نہیں۔۔آپ تو میری دولت ہو۔میری محبت ہو۔"
"آپ مجھے نہیں روک سکتے ،میں یونی کی طرف سے ٹریننگ پر ضرور جاؤں گی۔"آن نے اسے خفا نظر سے دیکھا۔
"مجھے صرف ایک بات پر حیرت ہے۔ " علیدان نے اسے دیکھ کر سر ہلایا۔
"آپ کے ٹیچر ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے؟"وہ سنجیدگی سے آن کو چھیڑتے ہوئے مبہم سا مسکرارہا تھا۔
"سیلری بھی زیادہ نہیں ہوتی،اور آپ کو پریشانیاں بھی ہوتی ہیں،سب سے اہم بات آپ میں اب سکھانے کے گُن نہیں رہے"۔
"علیدان۔۔۔پلیز میرے خوابوں کی عزت کریں۔"وہ واقعی زچ ہوئی تھی۔
"آپ کا خواب واقعی بھی ہے۔؟ "
آن نے اسے گھور کر خفگی سےمنہ موڑا۔۔۔۔علیدان اس کی ادا پر شریر سا مسکرایا۔
"آل رائیٹ ، میں آپ کے خوابوں کی عزت کرتا ہوں، آپ ایک اور خواب بھی بُننے کی ضرورت ہے۔"۔وہ رکا۔آن نے سوالیہ نگاہیں اٹھائیں۔(کون سا خواب؟ )
اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر وہ پیارا سا مسکرایا۔"چُنوں مُنوں بنانے کا خواب"وہ شریر ہوا۔آن تپ کر رہ گئی۔
"علیدان۔۔۔۔"وہ چینخی۔۔تو وہ ھاتھ اوپر کرگیا۔جیسے کہہ رہا ہو۔۔اوکے۔۔ اوکے سیز فائیر
"ایک بات اور۔۔۔۔۔۔، وہ رکی۔
"وہ بھی کہہ دیں ۔۔۔" وہ ہم تن گوش ہوا۔
"ہم میں طئے ہوا تھا، میں ایک ماہ آپ کی کمپنی میں کام کروں گی، اور کھانا بھی ایک ماھ بناوں گی، اب۔۔۔۔" وہ ہچکچائی۔
علیدان نے فورک پلیٹ میں واپس رکھا۔"سو آپ نے آج اسی لئے زیادہ پکایا ہے۔۔ یہ ایک طرح سے فیئر ویل ڈنر تھا؟"
آن نے سر ہلایا اور مبہم سا مسکرادی، علیدان تو اس کی مسکراہٹ پر فدا ہوگیا۔
"آپ بہت ہی نا سمجھ لڑکی ہیں۔"۔اس نے چمچ باول میں واپس رکھ دیا۔
"کیا آپ نے مجھ سے پوچھا کہ میں راضی بھی ہوں یا نہیں؟ اگر میں پھر بھی یہاں آنے اور کھانے پر اصرار کروں تو کیا ہوگا؟"
"تو پھر مجھے یہاں سے کہیں اور شفٹ ہونے کے لئے سوچنا پڑے گا"۔اس کی سنگدلانہ بات سن کر وہ خفگی سے اسے گھورنے لگا۔(اب بھی نہیں سدھری آن آپ)
"کیا آپ سمجھتی ہیں، میں آپ کو ڈھونڈھ نہیں سکتا۔۔۔کیا آپ نے مجھے اب بھی کم سمجھا ہوا ہے؟"
آن کے چہرے پر خطرناک مسکراہٹ آئی ۔"میں نہیں چاہتی آپ میرے لئے مسئلہ بنائیں،اس کے علاوہ میں ٹریننگ لینے جارہی ہوں، تو مصروف رہوں گی۔۔نا اور کھانا نہیں بنا سکوں گی۔سمجھا کریں۔"وہ اسے سمجھاتے بولی۔
وہ اس کے الفاظ بمشکل ھضم کرپایا۔۔۔دل میں سخت برہم ہوا تھا۔۔۔لیکن بولا تو لہجہ پرسکون تھا۔
"تو پھر ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ھفتے کا آخری دن آپ میرے ساتھ کھانا کھائیں گیں۔ڈن۔"
"وائے۔۔۔؟" وہ حیران ہی تو رہ گئی۔
"کیوں کہ مجھے ڈر ہے۔۔اگر آپ مجھے زیادہ دن نہ دیکھ سکی تو میری شکل بھی بھول جائیں گیں،
میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میں موجود ہوں ، لہذا اب اس معاملے کا فیصلہ ہو گیا ہے"۔وہ مطمئین انداز میں سر ہلا کر، سکون سے کھانا کھانے میں مصروف ہوگیا۔۔
آن نے کچھ کہنا چاہا تھا ۔۔لیکن چپ رہ گئی۔۔
-☆☆☆☆
تیسرے دن ٹریننگ کے بعد وہ ابھی ابھی اپنی بلڈنگ کے قریب پہنچی تھی ،جب اچانک ہی اس نے جانی پہچانی گاڑی دیکھی۔
گاڑی سے اتر کر وہ اسے دیکھ کر حیرانگی سے بولا تھا۔ "آپ اتنا لیٹ کیوں آئی ہیں؟"
آن آگے بڑھ کر اس کے پاس آئی۔
"تو آپ یہاں کیا کررہے ہیں؟"
"کیوں ؟ کیا میں نہیں آسکتا؟"
"نو۔۔۔ ہم میں ڈیسائیڈ ہوا تھا کہ ہم ویک اینڈ پر ملیں گے"۔
علیدان کے تاثرات یہ سن کر سپاٹ ہوئے۔۔"رولز آر ڈیڈ، پیپلز آر الائیو۔آئی مس یو۔۔"
وہ رک گیا،اور آن کو محبت سے تکنے لگا۔۔
(آن سرپرائیزڈ ہوئی،کیا اس نے یہی سنا۔کہ اسنے ۔۔۔یعنی آن کو مس کیا؟)
علیدان شاہ آگے بڑھا اور شدت سے اسے اپنی بانہوں میں بھرلیا۔
یہ ظالم عورت اسے بہت پیاری تھی، اسے وہ کیسے بددعا دیتا ؟صرف دو دن اسے نہیں دیکھ پایا۔ تو دل کی حالت ایسی تھی ،جیسے اسے دیکھنے کے لئے ،کوئی زبردستی کھینچ کر نکال رہا ہو۔
جب کہ وہ حد سے بڑھ کر ظالم تھی،نہ اسے کال کی،نہ بات کی تھی،جس کا مطلب وہ اس کے لئے "کچھ بھی" نہیں تھا۔یہ سب سوچتے اس کو اور زیادہ اپنے حصار میں بھینچ لیا۔
"علیدان چھوڑیں۔" وہ چھڑوانے کے لئے زور لگانے لگی۔۔لیکن وہ اسے اور زیادہ اپنے آپ میں جیسے جذب کرنا چاہ رہا تھا،آن تو جیسے اس کے وجود میں ہی دفن ہوگئی تھی،اس کا چہرہ اس کے سینے میں پیوست تھا۔وہ سانس بھی بمشکل لے پارہی تھی۔ "ع۔۔علیدان۔۔۔ش شاہ۔۔ میں م مر رہی ہوں۔۔س۔۔۔سانس ۔۔نہیں آرہی۔۔۔"رک رک کر بمشکل جملا پورا کرپائی تھی۔۔
علیدان شاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا حصار کچھ نرم کیا۔
" یہ ایک طرح سے اچھا ہوگا، اگر آپ کی یہ سانس ہی نہ رہے۔۔کیونکہ آپ میں "احساس " نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے آنیہ ۔"
"میں نے آپ کو کیا تکلیف پہنچائی ہے؟" وہ اس کی بددعا پر دنگ ہوئی۔
"آپ کیا سمجھتی ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ ان تین دونوں کے دوران میں نے آپ کو بلکل ڈسٹرب نہیں کیا، میں کیسے جان سکتی ہوں،کیسے میں آپ کے لئے تکلیف کا باعث بن گئی؟"وہ دنگ تھی۔۔سمجھ نہ سکی۔
"تو پھر کیوں نہیں مجھے ڈسٹرب کرتیں؟"علیدان کے چہرے پر خفگی چھاگئی، "کیوں آپ مجھسے کسی "سانپ" یا "بچھو" جیسا برتاو کرتی ہیں؟"
"ہیں۔۔۔۔۔؟کیا کہے جارہے ہیں؟ میں آپ کو ڈسٹرب نہیں کرتی تو میں غلط ہوں؟"وہ دنگ تھی اس کے الفاظ کی معنی خیزی پر۔
"یہ سچ ہے۔میں نے آپ کو اجازت دی ہے کہ مجھے ڈسٹرب کریں، لیکن آپ مجھے دیکھنا ہی نہیں چاھتی تھی، درست؟"وہ اس کے چہرے کو تھامتا بولا۔
"کیا آپ جانتی ہیں، میں نے ان گزرے دو دن کے دوران آپ کی کال کا کس قدر شدت سے انتظار کیا ہے؟"
"گذرے دو دن کے دوران کیا تاریخ تھی؟"آن نے اس بار سوچتے ہوئے پوچھا۔۔اور علیدان کو معصومیت سے دیکھا۔
اس کی معصومیت بھرے سوال پر۔۔ علیدان کچھ نہ کہہ پایا سوائے ٹھنڈی سانس بھرنے کے،
"کیا واقعی آن معصوم تھی ،یا اس سے "گونگی گیم" ،کھیل رہی تھی؟اب علیدان کو متجس تھا،
"اب آپ کچھ کہتے کیوں نہیں؟"
آن نے اس کی خاموشی پر تذبذب سے پوچھا؟"ان دو دنوں کی کیا تاریخ تھی؟"
"ہمممم۔۔"ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔"بس بھول جائیں۔۔۔"علیدان کو کہنے کے لئے الفاظ نہ ملے تو۔کہا "بھول جائیں۔۔۔آپ کے لئے یہی بھتر ہے کہ کچھ مت بولیں، جتنا آپ بولیں گی، اتنا مجھے غصہ آئے گا۔"وہ مڑ کر اس کے گھر کے طرف بڑھا، تبھی آن نے جلدی سے آگے آکر اس کی راہ روک دی،
"علیدان شاہ، میں اسٹوڈنٹس کے ساتھ کھا کر آئی ہوں،میں آج بھت تھک چکی ہوں ،اور آرام کرنا چاہتی ہوں ،میں کھانا نہیں پکاسکتی"۔
"تو۔۔۔۔؟"اس نے ابرو چڑھا کر آن کو بے یقینی سے دیکھا۔۔۔"آپ مجھے اندر جانے نہیں دیں گیں؟"
آن نے نظر پھیر دی، جس کا واضع مطلب تھا "نہیں"۔
"ٹھیک ہے آپ آرام کریں"وہ کچھ نہیں بولا۔۔ ایک ہنکارا بھرا اور پیچھے مڑ کر چلتا ہوا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
لیکن آن نے پرواھ نہ کی۔
لیکن جب گاڑی واقعی بھی اسٹارٹ ہوئی۔۔ آن نے حیرت سے مڑ کر دیکھا،
"کیا وہ واقعی ناراض ہوگیا؟"
آن نے بدحواسی سے انگوٹھے کا ناخن چبانا شروع کردیا۔۔وہ سمجھی ۔۔ علیدان حسب توقع بحث کرے گا۔۔ اور اس سے زبردستی حق کے ساتھ کھانا بنوائے گا۔۔ مگر ۔۔اب کہ وہ غلط تھی، مسلسل کسی کی تذلیل کرو تو انسان بے وقعت ہوجاتا ہے۔۔وہ سمجھی تھی۔ اس نے کچھ بھی غلط نہیں کہا۔۔لیکن وہ ہر بار کی طرح غلط تھی، بھت غلط۔۔۔
آن کو پھر ساری رات نیند نہ آسکی۔
جاگتے جاگتے صبح 5 بجے آن کی آنکھ لگی تھی۔ 7 بجے اس کی آنکھ الارم پر کھلی ، وہ سمجھی علیدان آج آئے گا۔۔ دستور کے مطابق پھولوں کا بکے لئے ۔۔۔پچھلی ساری باتیں بھلائے۔۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔
دوسرے دن دوپہر کے وقت ٹریننگ کے دوران مدھان اسے ٹریننگ روم میں ڈھونڈھتا ہوا آگیا۔
"بھابھی میری مدد کریں پلیز۔ بھائی کو میرے لئے کنوینس کریں پلیز۔۔" مدھان ایک گھنٹے سے اس کے پاس پریشان بیٹھا تھا،
علیدان اسے باھر پڑھنے کے لئے بھیجنا چاھ رہا تھا، اور اس کے حکم کے آگے کسی کی نہیں چلتی تھی،
علیحان نے بھی ھاتھ اوپر کرلئے تھے کہ کسی ایسے انسان کو ڈھونڈھو جس کی علیدان سنتا ہو، اور مدھان کی نظر میں اس وقت آن کے سوا کوئی نہیں تھا جو علیدان جیسے پتھر کو رام کر سکے۔۔وہ ہی اس پتھر کو منا سکتی تھی،
"میں یہاں ٹریننگ لے رہی ہوں،اس وقت بات کرنا مناسب نہیں لگتا مدھان"۔ آن نے اس سر پھرے کو سمجھایا۔۔
"تو پھر آپ دونوں کے لئے ریسٹورانٹ میں ٹیبل بک کروادیتا ہوں۔"میں علیدان بھائی کو انوائیٹ کرتا ہوں، آپ تیار رہیں۔۔ "
اس نے فون ملائی تھی۔
"تم آن کی سیل پر کیا کررہے ہو؟"
دوسری طرف سے برف جیسی سرد آواز نے اسے واقعی کپکپانے پر مجبور کیا تھا۔۔اس نے حلق تر کرکے ترحم بھری نظر سے آن کو دیکھا۔۔
علیدان بھائی، چلیں مل کر لنچ کرتے ہیں" ہچکچاتے ہوئے بمشکل بول پایا۔۔آخر رعب جو تھا۔۔
"میں فارغ نہیں۔"
سپاٹ انداز میں کہہ کر فون بند کردینا چاہا۔۔۔جب وہ جلدی سے بولا
" بھائی پلیز فون مت رکھنا،یہ م میں آپ کو انوائیٹ نہیں کررہا، بلکہ آن بھابھی آپ کا پوچھ رہی ہیں۔۔وہ کہہ رہی کہ ان کو آپ کی یاد ستارہی ہے"
آن اس کے پاس ہی کھڑی تھی اس کے سفید جھوٹ پر ایک ھلکا سا تھپڑ کندھے پر مارا۔اور آنکھیں دکھائی۔۔"شریر ۔۔ میں نے کب۔۔۔؟"آن نے اس سے فون چھین کر دور کرنا چاہا۔۔۔ مگر مدھان نے اس کی کوشش ناکام کردی اور اس سے دور بھاگ کر کونے میں کھڑا ہوگیا،
آن نے اسے کھاجانے والی نظروں سے گھورا تھا،
دوسری طرف علیدان شاہ پورے دس منٹ کی خاموشی کے بعد بولا۔
"اسے کہو مجھ سے خود بات کرے"۔
یہ کہتے ساتھ ہی فون رکھ دیا،
مدھان یہ سن کر آن کو دیکھ کر خوشی میں ہلکے سے چینخا۔
"بھابھی، جلدی۔۔۔ جلدی ، علیدان بھائی چاھتے ہیں آپ اسے کال کریں"۔
"وائے۔۔؟"وہ اس کی ناراضگی کا سوچ کر کانپ اٹھی۔دل دھڑ دھڑ کرنے لگا۔
"بھائی ایسے ہی شو آف کرتے ہیں، جلدی کریں ۔۔"
آن نے کال ملائی،
دوسری طرف دیکھو۔۔۔ تو علیدان فون پر چمکتے نمبر کو تک رہا تھا، اس کے تاثرات بے حد پرسکون ہوئے تھے۔
اس وقت میٹنگ روم میں کچھ ملازم بیٹھے ہوئے تھے، جن کے کان رنگ ٹون سن کر کھڑے ہوگئے،
اس نے فخر سے فون اٹھایا، جب رنگ ٹون ختم ھوگئی۔
کسی نے بات نہیں کی تو وہ پریشان ہوگئی۔
"کیا آپ نے کھانا کھالیا؟
"نوپ"۔ مختصراً کہا۔
"کیا ہم ساتھ کھانا کھاسکتے ہیں؟آن کے پوچھنے پر۔۔ بھی علیدان خاموش رہا۔
ادھر آن کو اس کے ایٹیٹیوڈ پر غصہ آنے لگا۔ خود ہی فون کرنے کے لئے کہا اور اب خود ہی جناب ایٹیٹیوڈ دکھارہے۔۔ (عجیب۔۔)وہ دانت پیس کر رہ گئی۔
" آپ کے پاس وقت ہوگا کیا؟ " آن اب جھنجھلا کر بولی۔۔
"اب جب کے آپ مجھے دعوت دے چکی ہیں ، تو انکار کرنا مینرز کے خلاف ہوگا۔"
آن نے اس کے غرور بھرے لہجے پر دانت پیسے۔(یہ شخص واقعی مکمل شرم سے عاری ہے۔)
"تو پھر میں مدھان کو کہتی ہوں آپ کو اڈریس بتادے"
اس کے فون بند کرنے کے بعد علیدان نے سب ملازموں کے حیرت سے کھلے منہ دیکھ کر سپاٹ انداز میں گھورا۔
"کیا تم سب کو یاد ہے، میں نے کیا بولا؟"
"یاد ہے ۔۔۔یاد ہے۔۔۔سب نے عجلت میں سر ہلادیا۔
"اگر یاد ہے تو پھر جلدی اٹھو،اور جاو۔میٹنگ ختم ہوچکی۔"
سب کے باہر نکلتے ہی وہ مسکرا کر اٹھا اور سیڑھیاں اتر کر نیچے آیا، گاڑی تیز رفتاری سے نکالتا گیا۔۔۔اسے اب پہنچنے کی جلدی تھی،
-☆☆☆☆
ڈائننگ ھال پہنچا تو ،مدھان پہلے ہی سے اس کے ساتھ بیٹھا پتا نہیں کون سے موضوع پر باتیں کررہا تھا۔
اس نے سخت جلن سے مدھان کو گھورا تھا۔
مدھان تو اسے سامنے دیکھ کر ہڑ بڑا کر کھڑا ہوگیا۔
اور اپنے بھائی کے لئے کرسی کھسکائی۔
"بھائی آپ نے بھت دیر کردی ،بھابھی کب سے آپ کے انتظار میں بھوکی بیٹھی ہیں"۔
آن نے علیدان کو نظر اٹھا کر دیکھا، لیکن علیدان نے اسے اگنور کیا۔
"تم لوگ کیا کھانا پسند کرو گے؟" علیدان کرسی کھینچ کر آن کے سامنے بیٹھ گیا، ابھی آگے کچھ اور بھی کہتا۔۔۔۔ تبھی مدھان نے دونوں ھاتھ تالی بجانے سے انداز میں ملائے۔
"اوھ ،میں بھول گیا، مجھے ابھی ایک ضروری کام سے جانا ہے،
علیدان بھائی اور بھابھی، سوری میں آپ کو کمپنی نہیں دے سکتا۔"
یہ کہتے ساتھ ہی وہ اٹھ کر جلدی سے باھر نکلتا گیا۔۔ اور آن تو حیرت سے اس کی پیچھے دیکھتی رہ گئی۔(یہ شریر اس طرح مجھے چھوڑ جائے گا اس نے سوچا تک نہ تھا،)
ویٹر مینو لے آیا تھا، علیدان شاہ نے کھول کر اس پر نظر کری،پھر سر اٹھا کر آن کو دیکھا۔
"کیا کھانا پسند کریں گیں؟"
"آپ ہی آرڈر کریں"آن اس کی نظروں سے پزل ہونے لگی ۔
علیدان نے آرڈر دیا۔۔مینو ٹیبل پر رکھ کر ٹھیک ہوکر بیٹھ گیا۔ اور آن پر نگاہ ٹکا لی۔۔
"آن اس کی نظروں کے ارتکاز سے سخت خائف ہوئی۔
."اس سے پہلے کہ مجھے مدھان کے مسئلے کے لئے کنوینس کریِں، کیا آپ مجھ سے کچھ اور کہنا چاہیں گیں؟
وہ تو یہ سن کر شاکڈ رہ گئی۔
"آپ کو کیسے پتا لگا کہ میں آپ کو مدھان کے لئے کنوینس کرنے لگی ہوں؟"
"ایک بار جب مدھان نے کال کی، اور کہا کہ آپ مجھے دیکھنا چاھتی ہیں، میں سمجھ گیا تھا"۔
"ان دو دنوں میں ، وہ میرے پیچھے بغیر سر کے مکھی کی طرح ، (مطلب اندھا دھندھ) بھاگ رہا ہے،
کوشش کررہا کہ کوئی مجھے قائل کرسکے،
لیکن کسی میں اتنے گٹس نہیں جو اس کا خیال کرسکے۔۔۔۔۔
میں سمجھا ،آپ میری مخالفت کریں گیں ، لیکن۔۔۔۔"
وہ شرمسار ہوگئی۔یہ جان کر کہ اس نے مدھان کے لئے حامی بھر کر اچھا نہیں کیا،اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی وہ اسے شرمندہ کرتا جارہا رھا تھا۔۔۔کہ وہ پہلے سے ہی سب جانتا ہے۔
"میں۔۔۔۔" آن نے بے اختیار پیشانی کھجائی تھی۔
(اس کے بارے میں ۔۔۔۔ اوھ مائی گاڈ۔۔ اس سے بات کرنا بھت مشکل ہے۔" وہ ہچکچا کر سوچے جارہی تھی کہ کس طرح بات کرے؟)
"اب بولتی کیوں بند ہے؟"
کل رات تو بھت تیز بول رہی تھی،اور مجھے گھر سے بھی نکال دیا تھا۔"
علیدان نے پانی کا گلاس اٹھا کر گھونٹ بھر کر اسے تیکھی نظر سے دیکھا تھا۔۔
آن نے غصہ سے گھورا۔" تو آپ یہاں اسی لئے آئے ہیں کہ مجھے طعنہ. ماریں ۔"
"مممممم۔۔،" علیدان نے ابرو چڑھا کر اسے دیکھا۔۔
"آپ واقعی اسٹوپڈ نہیں ہیں" گھمبیر لہجے میں وہ اس کے طرف جھک کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا اس کے چھکے چھڑا گیا۔
"علیدان شاہ۔" آن نے اسے گھورا وہ جان گئی کہ اس کے ارادے ٹھیک نہیں۔
"کیا آپ کو اپنے روئیے کے باعث ڈر نہیں لگا کہ مدھان کے مسئلے پر مجھے منانا "بے کار" بھی جاسکتا ہے؟"
"آپ نے نہیں کہا تھا؟، اگر میرا روئیہ اچھا رہا تو آپ اسے ابروڈ نہیں بھیجیں گے"۔اس نے ہنکارا بھر کر اپنا کپ اٹھایا اور چائے کا گھونٹ بھرا۔
"اور نہیں تو ، کیا آپ سمجھ رہی کہ میں یہاں آکر "خوبصورت عورت کے جال" میں پھنسوں گا،جب کہ میں جانتا بھی ہوں کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟"
جملہ "خوبصورت عورت کے جال" سن کر آن کے حلق میں چائے کا گھونٹ اٹک گیا اسے بری طرح کھانسی لگی۔۔
کھانستے ہوئے اسے دیکھا۔۔اس کی آنکھوں میں بے یقینی ہی بے یقینی سی تھی،
علیدان نے اپنا ھاتھ بڑھا کر اسکی پیٹھ سہلائی۔"آرام سے پئیں۔"
دونوں اس وقت بھت قریب تھے، آن نے بے اختیار اپنی پیٹھ سمیٹی،
"علیدان شاہ ،میں یہاں آپ سے کوئی چال چلنے نہیں آئی صرف آپ کو کنوینس کرنے آئی ہوں"۔
"ہممم، دوسرے لوگوں کی لوجک پھر بھی آپ سے بہتر ہوسکتی ہے، میں آپ کی کیوں سنوں؟"
"اگر آپ کے کہے کے مطابق ایسا ہے تو پھر یہاں آپ کیوں آئے؟"
علیدان نے اس کے پیٹھ سے ھاتھ ھٹایا۔۔اور پیچھے ہوکر ٹانگیں موڑ کر بیٹھ گیا، اور صاف آواز میں کہا۔
"اسی لئے کہ میں آپ کے ذریعے سے "پھانسا" گیا ہوں"۔
وہ بلش ہوگئی۔یہ شخص ہمیشہ ہی ایسے کرتا تھا۔وہ نہیں جانتی تھی کہ واقعی بھی یہ سچ ہے یا جھوٹ؟(کیا اسے زچ کرنے میں اسے مزا آتا ہے؟)
"اب بولیں، میں آپ کو سننے لگا ہوں، آپ کو اس شریر کے بارے میں کیا کہنا ہے؟"
"کیا آپ واقعی اسے اپنے ملک کی یونی میں پڑھنے نہیں دیتے؟"
"درست۔" اس نے سر ہلایا۔
"وائے؟"وہ حیران تھی۔
"میں چاہتا ہوں وہ بزنس مینیجمنٹ پڑھے، اور اسکے سیکھنے کے لئے بھتر جگہ ابراڈ ہے۔
حلانکہ ،میں جانتا ہوں۔۔۔۔حقیقی صلاحیتیوں کا تعلق باھر پڑھ کر آنے سے نہیں ہے،
کچھ لوگوں میں برتری کا احساس ان کی ھڈیوں میں سرایت کرجاتا ہے، اس کے مستقبل کو عام انسان سے کمپیئر کیا نہیں جاسکتا۔۔۔
ایک دن جب وہ اہم پوزیشن پر کھڑا ہو،اور ایک ایسا لیڈر ہو جس نے ایک عام یونیورسٹی سے گریجویٹ کیا ہو، اس کے ماتحت ھر ایلیٹ کلاس ہوگی،کیا آپ نے اس سے پہلے اس کی پوزیشن کا سوچا ہے؟؟"وہ حیرانی سے ان ایلیٹ کلاس کی سوچ سن رہی تھی۔
" اسکول کی حد تک وہ اپنی مرضی کرسکتا ہے۔لیکن کام کی جگہ پر یہ ناممکن ہے ۔کہ وہ اپنی خوشی سے کچھ بھی کرسکے،میں نہیں چاھتا ،میرے چھوٹے بھائی پر پیٹھ پیچھے کوئی انگلی اٹھائے۔"
بات ختم کرتے ہی ٹیک لگا کر سکون سے بیٹھ گیا، جیسے اپنا موقوف اچھی طرح بیان کردیا ہو، اور مقابل کے پاس اب کچھ کہنے کو رہا ہی نہ تھا، وہ خاموش بیٹھی سن رہی تھی۔
.
"اس وقت ویٹر کھانا لے آیا،اور ٹیبل پر سجاوٹ کری،اس کے جانے کے بعد آن نے فورک اٹھایا،اور پریشان کن تاثرات کے ساتھ کھانا شروع ہوئی،
علیدان نے یہ نوٹس کیا،اور اسے دیکھ کر پوچھا۔"کیا آپ کو کچھ اور بھی کہنا ہے؟"آن نے سر اٹھا کر اسے مایوسی سے دیکھا، جو اس کی طرف ہی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا،
"میں اس کے مستقبل کی زمہ دار نہیں بن سکتی، تو جو اس کی اس قدر کیئر کررہا ہو۔مجھے اس کی مخالفت کا بھی حق نہیں۔"
اس کے الفاظ سن کر علیدان مسکرادیا۔۔۔(یہ لڑکی بھت صاف گو تھی، اسی لئے تو وہ اس کی تعریف کرتا تھا۔)
"لیکن۔۔۔"اس نے کہنا چاہا،
آن نے اسے دیکھا۔" لیکن ۔۔۔کیا۔۔۔؟"
"اگر آپ اسے دو سال کے لئے باھر جانے پر راضی کرلیں،تو گریجوئیشن کی اجازت میں اسے اپنے ملک کی یونی میں دے سکتا ہوں"
"کیا سچ میں؟؟"
"اور نہیں تو کیا میں آپ سے مذاق میں وقت ضیائع کروں گا؟"
"یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔۔م میرا مطلب ہے۔۔۔آئی مین۔۔۔ مجھے آپ کے ہاں کرنے کی امید نہ تھی۔"وہ حیران ہوئی۔
علیدان نے اس کی طرف پیار سے دیکھا،اور مسکرا کر کہا۔
" چونکہ میں پہلے ہی جانتا ہوں کہ آپ نے اپنی خوبصورتی کا جال بچھایا ہے، اور میں بھی۔۔۔ خود سے خوشی خوشی پھنسنے آگیا ہوں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ میرے فیصلے کو بدلا جاسکتا ہے، لیکن آپ بالکل ذمہ دار نہیں ہو"۔
زیادہ دور نہیں۔۔۔۔بینش اعوان پیچھے کی ٹیبل پر بیٹھی ان دونوں کو ھنستے بولتے دیکھ رہی تھی،
وہ تب سے وہاں موجود تھی جب سے آن مدھان کے ساتھ ھال میں داخل ہوئی تھی،
خوش قسمتی سے ، اس وقت ، اس نے آس پاس نہیں دیکھا ، لہذا اسے آن کے وجود کا پتہ نہیں چل سکا۔ اس نے اصل میں یہ سوچا تھا کہ آنیہ عصمت شاہ خاندان کے چھوٹے سپوت کو صرف جھانسا دی رہی ہے۔
غیر متوقع طور پر، کافی دیر بعد علیدان شاہ وہاں آگیا تھا۔اس کے بھائی زایان اعوان نے اسے بتایا تھا کہ آن نے شاھ خاندان سے قطع تعلق کرلیا ہے۔وہ واپس جاکر اپنے بھائی کو سچ بتادینا چاھتی تھی،اگر ڈیڈ کو یہ پتا چلے گا تو وہ اس بدکار عورت کی بیٹی کو آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔
اس کے ہونٹ شیطانی مسکراہٹ میں ڈھلے،اور آن کے وجود کو نفرت سے گھورنے لگی۔
"آنیہ عصمت، تمہیں علیدان شاھ کے ساتھ کھڑے ہونے کا حق نہیں۔۔تم بلکل بھی قابل نہیں ہو۔"
☆☆☆☆☆
"شام کو کلاسز کے بعد وہ اپنے گھر کے راستے پر تھی، بس کے ذریعے اپنی رہائش کے پاس پہنچ کر آگے پیدل چلنا شروع ہوئی۔۔جب داخلی دروازے تک پہنچی تو دو آدمی اس کے قریب آگئے۔وہ جانی پہچانی سی گاڑی دیکھ کر آگے بڑھ گئی۔جب ایک نے اس کے پاس آکر ادب سے کہا۔
"مس اعوان، سر اعوان نے آپ کو بلایا ہے۔"
آن نے ایک ٹھنڈی سانس بھری۔۔اگر وہ انکار کرتی ہے تو بھی وہ اس کو پچھلی بار کی طرح زبردستی لے جاتے،اسی لئے وہ ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی۔
وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا ،زایان اور اس کی ماں موجود نہیں ہیں،پورے لیونگ روم میں صرف سکندر اعوان اور ایک اجنبی آدمی بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔
آن کو دیکھ کر دونوں خاموش ہوگئے اور اسے مڑ کر دیکھا، سکندر اعوان کے چہرے پر مارے باندھے کی مسکراہٹ آگئی۔
"آن آگئی ہے۔"۔ایک جوش سے اس نے کہا۔
"آپ کے پاس کیونکہ مہمان موجود ہے، اسی لئے میں واپس چلتی ہوں" آن نے تذبذب سے کہا۔
"دیٹز اوکے، آو۔۔۔اور یہاں بیٹھ جاو۔ یہ میرے بچپن کے دوست کا بیٹا ہے، فاران سمیع۔یہ اس وقت اپنے چچا کی کمپنی میں بطور "فنانشیل آفیسر" کام کررہا ہے"
"اور فاران سمیع ،یہ ہے میری بیٹی آنیہ ،جس کا میں ذکر کررہا تھا۔"
جب فاران نے آنیہ کو دیکھا تو اس کی آنکھوں میں پسندیدگی کی چمک آئی تھی،
فاران کے چہرے پر چمک دیکھ کر سکندر مطمئین ھوگیا۔۔وہ جانتا تھا ،اس کی بیٹی میں راغب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
فاران اٹھ کھڑا ہوا،اور آن کے سمت بڑھا، اور قریب آکر اپنا ھاتھ مصافحے کے ارادے سے آگے کیا،
"مس آنیہ، میرے چچا نے آپ کا ذکر کئی بار کیا تھا، مجھے آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔"
آن نے اسے تیکھی نظر سے گھورا،اور ایک قدم پیچھے ہوئی،
فاران سمیع نے خفت سے ھاتھ نیچے کرلیا۔۔۔اور ھنس دیا۔
"مس اعوان، چلیں ساتھ بیٹھ جائیں"۔
"مسٹر فاران، بائے دے وے،میرا سر نیم اعوان نہیں، کاظم ہے، اور۔۔۔۔۔"اس نے سکندر کو دیکھا۔۔۔اس کی نظروں کی چھبن سے سمجھ گئی، کہ سکندر اعوان نے اس آدمی کی آن سے ملاقات کس ارادے سے کروائی ہے۔
"اٹز ناٹ گڈ تھنگ ٹو نو می۔"فاران ھنسا۔"مس اعوان مذاق کررہی ہیں۔"
آن نے اسے سرد نظروں گھورا، بازو سینے پر باندھ کر سرد لہجے میں کہا۔"شاید آپ کو میری زبان سمجھ میں نہیں آئی۔۔میں نے کہا کہ میرا سر نیم "اعوان " نہیں ہے۔"
فاران سخت شرمندہ ہوا،اور وہیں اعوان سکندر بھی سخت ناخوش ہوا۔"آنیہ اعوان، یہ تم کس طرح سے بات کررہی ہو؟ وہ پہلی بار ہمارے گھر آیا ہے، تم جان بوجھ کر ایسا کررہی ہو؟فاران۔۔ مائینڈ مت کرنا۔۔۔
آنیہ تھوڑی سی ضدی ہے۔۔تم اسے مستقبل میں اچھی طرح جان جاؤ گے۔۔"
اس بات پر فاران ۔۔خوشی سے ھنسا۔
"آن اعواااا۔۔۔۔۔۔آنیہ کی شخصیت بھت خاص ہے،اور یہ اچھی چیز ہے"۔
آن نے یہ سن کر بمشکل اپنا غصہ قابو کیا۔۔۔
"مسٹر فاران،یہ بلکل بھی مناسب نہیں ایک عورت کو اس کے نام سے پکارنا، کال میں "مس عصمت "پلیز۔"
فاران پھر سے شرمسار ہوگیا۔
"آئی ایم سوری، آئی فالووڈ انکل۔۔۔"
"پلیز کال میں مس عصمت" آن نے ٹوکا۔۔اور اطمینان سے چلتی صوفہ پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گئی۔ اور ٹیبل سے سیب اٹھا کر کھانے لگی،
اعوان سکندر نے آن کو گھورا، اور فاران کو کہا۔
"فاران آؤ۔۔۔آکر بیٹھو۔۔۔"
فاران کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا تھا۔۔ اس نے اعوان کی بات پر سر ہلایا۔اور بے دلی سے مسکراتا جاکر صوفہ پر بیٹھ گیا، خوبصورت لوگ واقعی ڈیل کرنا مشکل ہوتے ہیں ۔
کچھ دیر پہلے انکل اعوان نے اسے بتایا تھا کہ اس کی بیٹی خوبصورت ہے، لیکن وہ اس قدر خوبصورت ہوگی اسے اندازہ نہیں تھا۔۔۔وہ کافی مطمئین تھا۔
"مس عصمت،میں نے انکل سے سنا ہے کہ آپ یونی میں استاد ہیں۔۔۔کیا پڑھاتی ہیں آپ؟"۔
"میں کالیج میں ہوں،لیکن میں ٹیچر نہیں ہوں۔میں صرف انڈر گریجویٹ ہوں۔"آن نے جھوٹ بولا
اس کی عجیب غریب بات سن کر اعوان سکندر نے دانت پیسے اور مٹھیاں بھینچ لیں۔اور اسے دیکھا
وہ سمجھ گیا یہ لعنتی لڑکی تاعبداری سے اس کے ساتھ تعاون نہیں کرے گی۔
"آنیہ ،اب تم ہمیشہ کی طرح چھوٹی بچی نہیں ہو، اپنے الفاظ کی سختی کم کرو"۔
"تو پھر کیا میں پوچھ سکتی ہوں، مجھے ادھر بلانے کا کیا مقصد ہے؟"
"میں صرف سوچ رہا تھا،اب تم بچی نہیں رہی، فاران بھت اچھا جوان ہے ۔اسی لئے میں نے اس سے تمہارا تعارف کروایا ہے۔"
"اوھ۔۔۔۔ بلائینڈ ڈیٹ۔"آن کی غصہ بھری نظریں فاران کے وجود کے جیسے پار ہورہی تھیں۔ فاران اس کی نظروں سے عجیب محسوس کررہا تھا۔
"ہممممم، آن بولی۔ "اس زاوئیے سے دیکھیں تو مسٹر فاران سمیع بلکل برے نہیں۔ دیکھنے میں اچھے ہیں، میں سوچ رہی ہوں ۔۔۔"آن نے سوچنے کی ایکٹنگ کی، "آپ کو اپنی بیٹی سے ان کو متعارف کروانا چاھئیے"۔
"آفٹر آل ، گاڑھا پانی، پرائی زمینوں پر نہیں بہتا"۔
آن نے جیسے ہی جملہ پورا کیا۔ سکندر اعوان کے چہرے کا رنگ بدل کر نیلا پیلا ہوگیا۔۔۔بمشکل غصہ کو روکتا ہلکے سے غرایا۔
"آن تم بلکل بھی نہیں جانتی ،تمہارے لئے کیا بھتر ہے؟"اس کی بات پر آن نے حیرت سے ابرو اچکائے۔
"زندگی میری اپنی ہے ،اور میں ہی نہیں سمجھ سکتی ،کہ میرے لئے کیا اچھا ہے، اور کیا برا؟۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ فاران سمیع جیسے اچھے شخص سے تعارف جہان میرے لئے فائدہ مند ہے تو وہاں تمہاری بیٹی کے لئے نقصاندہ کیسے ہوا؟"وہ طنزیہ سے بھنویں چڑھا کر چبا چبا کر بولی۔
"اسی لئے کہ بینیش اعوان تو تمہاری محبوب ھستی کے بطن سے ہے، اور میں ایک بدکردار عورت کے بطن سے ہوں۔
تم نے کہا تم کو مسٹر سمیع پسند آیا تھا،اسی لئے تم نے اس کا تعارف مجھ جیسی بدکردار لڑکی سے کروایا۔۔۔۔۔
کیا آپ سمجھتے ہیں۔۔۔ مسٹر سمیع جیسا اچھا انسان۔۔۔ میری جیسی "بدکردار" لڑکی کے لئے بھترین ہے۔تو آپ کی بیٹی کے لئے کیوں نہیں ؟"
آن کے الفاظ اعوان سکندر کو سخت ناگوار لگے،
دوسری طرف فاران سمیع خود ہکا بکا سا آن عصمت کو سن رہا تھا۔حقیقت سے وہ بلکل واقف نہیں تھا، اسی لئے حیران ہونا تو بنتا تھا۔اس کا ذہن لفظ بدکردار پر اٹک گیا تھا۔اس نے سکندر کو ناگواری سے دیکھا۔
"فاران، اس کی بکواس پر دھیان مت دو، یہ بچی ہے۔۔۔۔۔ابھی ذہنی طور پر تیار نہیں " فاران سمیع یہ سن کر بمشکل اپنے چہرے پر مسکراہٹ لا پایا۔
اسی وقت اچانک سے ہی اسٹیڈی روم کا دروازہ زور سے دھکیل کر بینیش اعوان غصہ میں بھری باہر آئی تھی، اور تیزی کے ساتھ ۔۔۔آن کے طرف ہی بڑھی،
"آن، بے شرم ۔۔۔۔بی حیا ۔۔۔، تم کو میرے معاملے میں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں؟
میرے ڈیڈ نے فاران کو تم سے متعارف کروایا ہے، اس نے تو تمہارے لئے بھلا سوچا ہے،
تم سمجھ ہی نہیں سکتی ،تمہارے لئے اچھا کیا ہے؟
کوئی تم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرے۔۔۔۔خود کو دیکھو ،کیا تم اس کی مستحق تھی؟" وہ غرور و نخوت سے اس کی مسلسل بے عزتی کررہی تھی۔
"چلو میں تو مستحق نہیں، تم تو ہو نا۔۔ تم ہی شادی کرلو۔۔۔۔میں تو ڈیزرو نہیں کرتی۔"آن نے سکون سے اسے جیسے تیلی دکھائی۔
لیکن جیسے ہی اس نے یہ کہہ کر ایک قدم پیچھے کیا۔۔بینیش نے غصہ سے بے قابو ہوتے اسے دھکا دیا۔۔ جس پر وہ سنبھل نہ سکی اور نیچے گر گئی،یہ دیکھ کر فاران بے اختیار اسے اٹھانے کو بڑھا۔۔ ٹھیک اسی وقت زایان اعوان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تھا۔۔ یہ دیکھ کر کہ " فاران " آن کو اٹھانے کے لئے جھکا ہے۔اس نے ایک سرد نظر اس پر ڈالی اور خود آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد دی۔۔
"یہاں کیا ہورہا ہے؟"وہ ناسمجھی سے برہم انداز میں بولا۔
"بھائی اس کے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔، یہ بیھودہ لڑکی نہیں جانتی کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے۔۔۔ڈیڈ نے مہربانی کرکے اس کو اپنے دوست کے بھتیجے سے متعارف کروایا،لیکن یہ نہیں جانتی کہ اس کے لئے بھتر کیا ہے؟"
زایان نے ایک تیکھی نظر وھیل چیئر پر بیٹھے اپنے باپ پر ڈالی، پھر فاران سمیع کے طرف دیکھ کر اس سے معذرت خواہانہ انداز میں بولا۔
"مسٹر فاران سمیع ،آج کے معاملے کے لئے معذرت خواھ ہوں، میں اپنے باپ کی طرف سے معافی چاہتا ہوں،آنیہ عصمت آپ کے بلکل بھی قابل نہیں ہے،آپ جاسکتے ہیں۔"
"زایان۔۔۔۔۔" سکندر اعوان غصہ سے وھیل چیئر پر ھاتھ مار کر دھاڑا۔۔
یہ دیکھ کر فاران سمیع ان کے طرف مڑا۔
"اعوان صاحب ، آئی تھنک ،آج واقعی کافی انتشار پھیل گیا ہے۔ میں چلتا ہوں۔۔آپ لوگ افہام تفہیم سے بات سنبھالیں"۔
یہ کہتے ہی وہ اپنا بریف کیس اٹھا کر نکلتا چلا گیا۔۔
سکندر اعوان نے سخت غصہ سے آنیہ عصمت کو دیکھا ۔۔ بس نہیں چل رہا تھا کیا کرجائے۔۔
"آنیہ اعوان تم کافی بدتمیزی کرچکی ہو، تم نے واقعی آج مجھ پر تھوک دیا ہے۔"
"یہ سچ ہے کہ میں تمہیں مرجانے کی حد تک غصہ دلانا چاہتی تھی،لیکن اس کی شروعات میں نے نہیں کی۔۔۔۔۔ ، وہ تم ہو، جس نے اپنے آدمیوں کو بھیج کر مجھے اغوا کروایا۔۔کیا یہ جھوٹ ہے ؟"آن نے سپاٹ انداز میں اسے گھورا۔
بینیش اعوان تیزی سے اپنے باپ کے پاس آئی۔
"ڈیڈ ،یہ عورت کافیبے شرم اور بے حیا ہے، یہ فاران سمیع کے لائق نہیں ہے،کیونکہ یہ سمجھتی ہے ،یہ بہت چالاکی کے ساتھ علیدان شاہ کو پھانس لے گی۔"
"بینیش ،بکواس بند کرو،"زایان نے اسے سختی سے ڈانٹا"اس آدمی کو اس کے ساتھ مت ملاو،"
"بھائی ، آپ نے ہی اسے شہہ دی ہے کہ آج یہ ہمارے سامنے بول سک رہی، ،لیکن یہ ہم سب کو بیوقوف بنا رہی ہے۔آپ بلکل نہیں جانتے کہ اس کا رابطہ علیدان شاہ کے ساتھ ہے۔"
"بکواس۔"زایان دھاڑا
"بکواس نہیں ، میں نے اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آج دن کو علیدان کے ساتھ لنچ کرتے ہوئے،میرے پاس ثبوت ہے۔"
اس نے یہ کہتے ساتھ ہی اپنا فون نکلا کر زایان کو وڈیو دکھائی۔
زایان نے ایک نظر میں ہی پہچان لیا تھا کہ مقابل کے سامنے بیٹھی لڑکی جس کی پیٹھ نظر آرہی تھی ،آن کے سوا کوئی نہیں۔۔ وہ اس کی ڈریس سے پہچان گیا تھا۔۔۔جو اب بھی پہنا ہوا تھا۔
اس نے غضب سے بینش کے ھاتھوں سے فون چھین کر زور سے زمین پر دے مارا۔
بینیش نے دکھ سے زایان کو دیکھا۔ "بھائی۔۔۔۔یہ آپ نے کیا کردیا۔؟"
زایان نے اپنی نظریں آن پر ٹکا دیں،سخت لہجے میں پوچھا۔
" آن بولو ۔۔۔اپنے بھائی کو بتاو۔۔۔۔کیا یہ سچ ہے تم اب بھی علیدان شاہ سے رابطے میں ہو؟۔"
آن نے اپنی نظریں جھکائیں۔
"ہاں۔"
" کیوں تم نے مجھ سے جھوٹ بولا ؟"وہ تکلیف سے چلایا۔
"زایان بھائی،میں نہیں سمجھتی کہ ، میرا دوسروں سے نارمل رابطہ رکھنا بھی غلط ہے۔"
اس بات پر بینیش اعوان غصہ سے ہنکارا بھر کر رہ گئی۔
"ایسے کون نارملی کسی کی پیٹھ سہلاتا ہے؟جس سے کوئی مطلب ہی نہ ہو، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم اسے بہکا رہی ہو، میں نے اپنی آنکھوں سے تمہیں اس کے ساتھ گلے لگتے دیکھا ہے۔ڈیڈ۔۔۔ وہ باپ کے طرف مڑی "میری مام نے جو کہا تھا وہ سچ ہے،چوہیا کے بچے صرف کاٹنا ہی جانتے ہیں۔
سو فطری طور پر یہ بدکار عورت کی بیٹی بھی۔۔۔۔"
بینیش، بکواس بند کرو!" وہ تکلیف و دکھ سے حلق کے بل چینخی ۔اس سے سب کچھ برداشت ھوسکتا تھا لیکن اپنی ماں کے نام پر کچھ بھی برداشت نہیں کرسکتی ۔۔
آن نے بینش سے اپنی شدت سے کرلاتی ، خون آلود نظریں ھٹا کر زایان کو دیکھا۔ پھر کانپتے وجود کے ساتھ بینش پر سخت گھوری ڈالی۔
" اگر تم سمجھتی ہو میں علیدان شاہ کو بہکا رہی ہوں۔۔۔تو اگر تم اسے بہکانے کے گر سے واقف ہو تو جاو۔۔۔جاکر اسے راغب کرو۔۔مجھے یقین ہے تم اس کے بال برابر بھی قریب نہیں جاسکو گی۔"
پھر اسنے شدت برداشت سے بھاری ہوتی آواز میں سکندر اعوان کو کہا۔
"اگر آئیندہ تم نے کسی کو مجھے لینے کے لئے بھیجا۔۔ تو میں تم پر اغوا کا مقدمہ کرلوں گی۔ ہمارے درمیان کوئی رلیشن نہیں ہے۔۔۔تو تم کو بھی مجھے اپنے دوست کے بھتیجے کے ہاتھوں بیچنے کا حق نہیں ۔زندگی میری ہے۔۔ مستقبل بھی میرا ہے، میں خود اپنا فیصلہ کرسکتی ہوں،تم کو میرے لئے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔"وہ سخت لہجے میں نفرت سے سب کو دیکھتی ۔۔ مڑ گئی۔
اس کی بات پر بینیش نے پیر پٹخے۔۔
"ڈیڈ،آپ نے اس کو اس لہجے میں بولنے کی اجازت کیسے دی؟"
سکندر اعوان نے سر موڑ کر اسے بے بسی سے دیکھا۔ "بچے، میں نے تم کو نہیں کہا تھا، جب تک فاران ادھر سے نہ جائے تم اندر نہ آنا،کیوں اتنی بے صبری ہو؟"
"اٹ از ناٹ لائیک ، کہ آپ نے کچھ نہیں سنا کہ اس کتیا نے کیا کہا ؟
اس نے آپ سے کہا کہ اس فاران کے ساتھ میری شادی کروادو اسے کیا حق ہے کہ میرے لئے فیصلہ کرتی پھرے،اس کی ہمت بھی کیسے ہوئی، مجھے فاران سمیع کے ساتھ جوڑنے کی؟"
بینیش نے دانت پیسے۔
"ڈیڈ جتنا میں اس بارے میں سوچتی ہوں،اتنا ہی غیر متفق ہوتی ہوں ۔۔یہ آن جو پیدا ہی کم حیثیت ہوئی ہے۔اسے کیا حق ہے جو علیدان شاہ کو اپنے طرف مائل کرے، کیا وہ کوئی "چیز" ہے جو آن کو آسانی سے حاصل ہوجائے؟ ۔۔۔۔لیکن سچ یہ ہے کہ اس پر آن کا اچھا تاثر ہے۔"
بینیش باپ کے پاس آئی اور سکندر کا بازو کھینچ ک کہا۔
"ڈیڈ، میں علیدان شاہ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔"
"کیااااا تم بھی پاگل ہوگئی ہو ؟"وہ محو حیرت تھا۔
"میں پاگل نہیں ہوئی،
وہ ایسا کرسکتی ہے۔۔۔تو میں اس سے زیادہ قابل ہوں،
میں اعوان خاندان کی جائیز وارث ہوں،لیکن وہ نہیں ہے۔علیدان شاہ کو نہیں معلوم کہ یہ آپ کی بیٹی ہے،لیکن اگر علیدان کو اصل بات پتا چلی تو وہ اسے دیکھے گا بھی نہیں۔"
"دونوں خاندان کے بچے ایک دوسرے سے شادی نہیں کرسکتے، یہ ناممکن ہے،دونوں قبیلوں کی نسلوں میں پہلے سے ہی بدگمانیاں موجود ہیں" ۔ اعوان اس کی بے سروپا سن تپ کر بولا۔
"یہ کیوں ممکن نہیں؟اگر ہماری نسل شادی کرے تو ہوسکتا ہے نسلی بدگمانیاں ختم ہوجائیں، اس کے علاوہ یہ بھی تو سوچیں،اگر میں۔۔۔۔اعوان خاندان کی بیٹی۔۔۔شاہ خاندان کی بہو بن جاوں۔۔۔۔۔تب دونوں خاندانوں میں امن ھوجائے گا۔کیا ہم بڑے فاتح نہیں بن جائیں گے؟ علیدان شاہ اعوان خاندان کا داماد بن جائے گا۔ڈیڈ۔۔۔۔ تھنک اباوٹ اٹ۔۔کیئرفلی۔۔۔۔"
جب بینش اعوان نے یہ کہا تب اعوان سکندر کے کچھ پل غور فکر میں ڈوب گیا۔
یہ معاملہ واقعی ایسے ہوا جیسے بینش کہہ رہی ہے، تو یہ زیادہ بھتر ھوسکتا ہے۔حلانکہ، اسے یہ ڈر بھی تھا۔۔۔اس نے اپنا سر ہلایا،
" علیدان شاہ کو ڈیل کرنا آسان نہیں ہے۔
اگر اس نے تم سے شادی کرنا چاہی تو یہ سب سے مشکل مرحلہ ہوگا"۔
"ڈیڈ ، مجھے پرواہ نہیں ہے۔ اگر آپ میری مدد نہیں کرتے ہیں تو میں خود ہی کرلوں گی۔ جب وقت آئے گا تو ۔۔۔۔ میں اعوان خاندان کو نیچا دکھانے کی پرواہ نہیں کروں گی۔"
وہ ضدی لہجے میں نخوت بھرے لہجے میں بولی۔
"آل رائیٹ، ابھی کچھ گڑ بڑ کرنے کی کوشش مت کرنا، نہ ہی جلدی مچانے کی ضرورت ہے، مجھے کچھ سوچنے کا وقت دو "۔اعوان نے اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
زایان نے اس کا مین انٹرنس تک پیچھا کیا۔
اور پھر گھوم کر اس کے سامنے آکر اس کی راہ روک دی،آن نے اسے برہم انداز میں دیکھ کر لب بھینچ کر خود کو بمشکل کچھ غلط کہنے سے روکا ۔
"اب آپ نے بھی کچھ کہنا ہے؟"انداز سرد تھا،
"اب میری باری ہے کہ تم سے کچھ پوچھوں۔ کیا تم مجھے کوئی وضاحت نہیں دو گی؟"زایان کا انداز کچھ کچھ برہم تھا۔
"مجھے آپ کو کوئی بھی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے۔"آن نے اسے بنا دیکھے سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
"آن کیا تم نے اپنی زندگی کو مذاق سمجھ رکھا ہے؟پہلے بھی کتنی بار۔۔میں تمہیں منع کرچکا ہوں؟علیدان شاہ کو اتنی اجازت مت دو، پھر کیوں تم نے میری بات نہیں مانی؟"وہ جیسے بے بس ہوا
"کیوں؟۔۔۔میں کیوں اس کے ساتھ نہیں ہوسکتی؟" آن نے اسے سوالیہ انداز سے دیکھا۔
"کم ازکم اس نے اور اس کی فیملی نے مجھے تکلیف تو نہیں پہنچائی۔۔۔۔وہ جیسا باہر سے دکھتا ہے اندر سے اتنا ہی سچا ہے۔ آپ اس جیسے نہیں بن سکتے۔۔۔کبھی نہیں۔۔"
"اس کا مطلب ہے تم اس سے پیار کرتی ہو؟"زایان کی آنکھوں میں اب جیسے شعلوں کی لپک تھی۔۔یہ جاننا اس کے لئے سوہان روح تھا جیسے۔۔
"کیوں ۔۔ کیا میں اس کی مِحبت کے قابل نہیں ھوسکتی؟"آن نے سر اٹھا کر سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا۔
"ہم سنگل ہیں ۔۔۔پھر کس وجہ سے میں اس کی محبت کے قابل نہیں ہوں" صرف اسی لئے کہ ۔۔۔ میں اعوان خاندان کی "ناجائیز"بیٹی ہوں؟ یہی وجہ ہے؟یا اس وجہ سے کہ آپ کے خاندان کی "شاہ"خاندان سے نسلی دشمنی ہے؟"وہ دکھ سے طنزیہ ھنسی۔
"مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ کی عداوت کس بات پر ہے۔ اور اس کا میرے سے کیا لینا دینا؟ نیز ۔۔ میں آپ کے خاندان کی فرد نہیں ہوں ، لہذا ان دونوں خاندانوں کے مابین نفرت کا مجھ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے"۔آن نے صاف صاف جتایا۔۔
"وہ تمہاری شناخت جانتا ہے،اس کا مقصد تمہارے قریب آنا ہے ۔۔۔سمپل،
کیا میں آج تک کبھی تمہارے لئے نقصان کی وجہ بنا ہوں؟
آن ،چاہے ساری دنیا کے لوگ تم کو تکلیف پہنچائیں، میں کبھی نہیں ۔۔۔ سمجھی تم؟"
زایان کے الفاظ نے کچھ پل آن کو خاموش کردیا۔وہ اچھی طرح جانتی تھی، اس کا بھائی اس کے لئے نقصان کی وجہ کبھی نہیں بن سکتا۔
تاہم ۔۔۔وہ کیا کرسکتی تھی؟
اس نے اسے بار بار مسترد کیا۔۔جتنا وہ کرسکتی تھی اس سے دوری بنانے کی کوشش کرتی تھی ،علیدان شاہ ایک اچھا انسان تھا۔۔کیا وہ اسے صرف آپس کی رنجش کی وجہ سے تکلیف پہنچاسکتی تھی ؟ جس بات کا آن سے کوئی لینا دینا ہی نہ تھا۔۔وہ اس شخص کو کیوں تکلیف پہنچاتی جو اس کے ساتھ اچھا تھا۔۔
"بھائی، میں اب علیدان شاہ کے ساتھ نہیں ملوں گی ، لہذا ، مزید نفرت کی باتیں نہ کہیں۔ اس کا میرے قریب آنے کا اگر کوئی مقصد ہے بھی۔۔۔۔، تب بھی اس نے مجھے کوئی ۔۔۔تکلیف نہیں پہنچائی، میں تھوڑی سی تھکی ہوئی ہوں ، مجھے واپس جانا چاہئے"۔
یہ کہہ کر وہ مڑی ہی تھی کہ زایان نے کلائی سے تھام لیا،
"میں تم کو چھوڑ آتا ہوں"۔
آن نے نفی میں سر ہلایا، "نہیں ،میں خود سے چلی جاوں گی"۔ یہ کہتے ساتھ ہی کلائی چھڑوالی۔۔اور گیٹ سے باہر نکل گئی۔
زایان نے ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خود کو رلیکس کیا اور گھر کے اندر داخل ہوا، بینش کب کی جاچکی تھی، وہ اعوان سکندر کے پاس آیا اور انداز میں برہمی کا تاثر لئے بولا۔
"آئیندہ ان ردی لوگوں کو آن سے متعارف مت کروائیے گا،ورنہ میں ایک ایک کرکے سب کو دیکھ لوں گا، ڈیڈ۔۔۔۔۔یہ میری آپ کو آخری وارننگ ہے،۔۔۔۔۔کسی کو بھی اجازت نہیں کہ آنیہ کو چھو بھی سکے"۔یہ کہتے ہی برہم انداز میں تیزی سے مڑ کر سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔
"ہاں۔۔ آنیہ صرف اس کی ہے،کوئی اسے چھو نہیں سکتا، نو ون ۔۔ "
☆☆☆☆
جب وہ اپنی بلڈنگ کے پاس پہنچی، تو اس جگہ کو دیکھ کر رک گئی۔جہاں علیدان شاہ ہمیشہ اس کے انتظار میں کھڑا ہوتا تھا۔
اوپر سیڑھیوں تک جانے سے پہلے وہ وہاں تین منٹ تک گم سم کھڑی رہی۔
وہ اب نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس کے سامنے آئے،
کیونکہ اب اس نے اس سے فاصلہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
لیکن ابھی اس وقت، وہ دکھ میں تھی۔لاشعوری طور پر وہ چاہ رہی تھی کہ اسے دیکھے۔
کیونکہ اس کی بانہوں کا حصار سچ میں اس کے مردہ ہوتے احساسات کے لئے زندگی تھا۔
وہ آھستہ آھستہ تھکی تھکی سی پسمردہ نیچے بیٹھتی چلی گئی اور اپنے بازووں کو اپنے گرد اوڑھ لیا، تصور کیا جیسے کوئی اسے گلے لگائے ہوئے ہے، اور اسے پرسکون کررہا ہو۔
تبھی بیگ میں سے فون گنگنایا۔۔ آن نے کندھے سے بیگ اتارا،اور فون نکال کر چمکتے نمبر کو دیکھا جہاں یہ الفاظ چمک رہے تھے،
"شاہ خاندان کا تیسرا ولی عہد"۔
یہ دیکھ کر آن کے ہونٹ لاشعوری طور پر بے ارادہ ہی تھوڑے سے مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔
اس نے بے چینی سے کال پک کری۔دوسرے طرف دیکھو تو جیسے فون اتنی جلدی سے اٹھالیئے جانے پر علیدان کو شدید حیرت ہوئی، اس نے بے یقینی سے فون کو دیکھا۔۔ "کیا یہ واقعی کنیکٹڈ ہوا ہے؟
علیدان شاہ نے کچھ نہ بولا، نہ ہی دوسری طرف زمین پر ایک بازو کو ٹانگوں کے گرد اوڑھے ،دیوار سے سر ٹکائے ،دوسرے ھاتھ سے فون کان سے لگائے۔۔ بیٹھے وجود نے ہی آواز کی،
دونوں کافی دیر تلک خاموش رہے۔۔۔تبھی علیدان نے ہی خاموشی کو توڑا اور پوچھا۔
" کہاں ہیں آپ؟"
"دروازے پہ"۔دھیمے سے مختصراً جواب دیا۔
" کیا ابھی گھر پہنچی ہیں؟"وہ اس کے بھاری لہجے پر چونک پڑا۔
" ہاں۔۔۔۔"آواز نم سی تھی۔
"کیا کوئی بات ہوئی ہے؟" وہ چونکنا تھا۔
اس پر آن نے تکلیف برداشت کرتے مٹھیاں بھینچتے لب بھینچ کر خود کو کچھ کہنے سے روکا۔۔صرف نفی میں سر ہلا کر ۔"نہیں۔۔۔۔"لیکن لہجہ صاف رونے کی چغلی کھارہا تھا۔
" لیکن۔۔۔۔۔" علیدان نے بیچ سے کاٹا "یہ مت کہئے گا کہ کچھ نہیں ہوا۔۔۔آپ اس وقت خراب موڈ میں لگ رہی ہیں مجھے" ۔
اس کی درست شناسی پر آن دنگ رہ گئی۔۔ بے اختیار اس نے فون کو دیکھا (کیا اس کی آنکھیں اسے دیکھ رہی ہیں؟) آن کا دل جیسے سکڑا۔۔اور اس کی آنکھیں جلنے لگیں،
"ع۔۔۔علیدان ۔۔شاہ۔۔۔،اس نے سسکی دبالی۔۔
"میں ادھر ہی ہوں۔۔آپ کے پاس۔۔۔"دل کو تھپکی دینے والی آواز اور روح کو سکون پہنچانے والے الفاظ فون کی تاروں سے نکل کر آن کی سماعتوں میں پہنچے تو آن کو لگا جیسے وہ اکیلی نہیں ہے۔۔ ایک سکون کی ٹھنڈی لہر اس کے وجود کو گھیرے میں لیئے ہولے ہولے تھپکنے لگی۔۔
آن نے ایک گہری سانس لی اور خود کو سنبھالا۔
"آئی ایم فائن، آئی ایم جسٹ لٹل ھنگری۔"
علیدان شاہ کچھ پل خاموش رہا پھر گھمبیرتا سے بولا۔"اچھے بچوں کی طرح سیڑھیوں سے اوپر جائیں،اور ایک طرف کھڑی ہوکر میرا انتظار کریں۔میں کچھ دیر میں ہی آپ کے پاس ہوں گا۔"
تبھی آن نے جلدی سے کہدیا۔"مت آئیے گا۔۔۔میں کھانا باہر کھانے جارہی ہوں،ڈنر کے بعد میں گھر جاکر آرام کروں گی،اسی لئے آپ کو شب بخیر پہلے سے ہی۔" آن نے یکدم کال کاٹ دی۔۔۔یہ سوچ کر کہ اس نے زایان سے کیا وعدہ کیا تھا۔۔آن نے اپنا سر ہلایا۔۔اور تکلیف سے آنکھیں بند کرلیں۔
وہ علیدان شاہ کی آنیہ بن کر اس سے فائدہ حاصل نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ وہ ہر طرح سے کمزور تھی، جب اسے ضرورت پڑے تو اس کے طرف ھاتھ بڑھادے،اور جب ضرورت نہ ہو تو اسے لات مار کر دور اچھال دے، یہ غلط تھا۔۔وہ اس کے ساتھ ایسا نہیں کرسکتی تھی،
وہ تیار ہوکر باھر آگئی،اسے بھوک لگی تھی، یہ سچ تھا۔اس کی رہائش کے ساتھ ہی گلی میں کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے اسٹال تھے، وہ وہاں دو بار آئی تھی، اور کھانا کھایا تھا، اس کا ذائقہ بہت لذیذ ہوتا تھا۔ وہاں پہنچ کر ایک ٹیبل پر کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔آج رات وہ اپنے دکھ کو بھوک کی آڑ میں مٹانے والی تھی،
کھانے کے کچھ پل ہی اسے اپنے قریب ایک آواز سنائی دی۔
" کیا میں نے نہیں کہا تھا کہ تعبداری سے گھر جاکر میرا انتظار کرنا۔"
یہ سنتے ہی اسے پھندہ لگ گیا۔ نوالہ حلق میں پھنس گیا ۔آن نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔ اس کے ہونٹوں کے کناروں سے سرخ کیچ اپ بہہ رہا تھا۔۔وہ حیرت سے اسے دیکھ کر بولی۔
" آپ کو اس جگہ کا کیسے پتا چلا؟"
"میں آپ کو بتاچکا ہوں، اگر آپ چوہے کے بل میں بھی چھپ جائیں گیں۔۔میں وہاں سے بھی کھینچ نکالوں گا"۔
ساتھ ہی ٹیبل پر پڑے ٹشو باکس سے ٹشوز نکال کر نرمی سے اس کے ہونٹوں کے قریب جھک کر کیچ اپ صاف کردیا۔ اور ٹشو سامنے کردیا۔
ٹشو پر سرخ نشان دیکھ کر وہ سخت شرمندہ ہوگئی، جلدی سے دوسرا ٹشو کھینچ کر خود کے ہونٹ صاف کرنے لگی، پھر شرمساری سے مسکرا کر کہنے لگی۔
"کیا آپ نے کھانا کھالیا؟" کیا آپ ساتھ کھائیں گے؟"
"آپ کا کیا خیال ہے ؟ میں یہ کھاوں گا؟"اس نے کوفتوں سے بھری پلیٹ کو دیکھا ۔جو کیچ اپ میں ڈپ تھے۔
"کیوں نہیں۔۔؟ میں یہاں دو بار آئی ہوں، یہاں کا ذائقہ بہترین ہے یہ کہتے ہی مچھلی کے فرائی کوفتے الگ سے پلیٹ میں ڈال کر اس کے طرف بڑھائے،
"لیکن یوں عام اسٹالوں کا کھانا کھانے کا بلکل بھی ارادہ نہیں رکھتا "۔
"ٹرائی کرلیں،اگر میری بات پر یقین نہیں تو۔۔۔"اس وقت علیدان کے سامنے وہ سب کچھ بھول گئی تھی۔۔اور یہ اس شخص کا کمال ہی تھا۔۔
علیدان شاہ نے فش کوفتوں کو ابرو چڑھا کر گھورا۔۔ لیکن کوئی حرکت نہیں کی۔۔۔یہ دیکھ کر آن نے لب بھینچ لیئے۔
"میرا معدہ یہ گند کچرا برداشت نہیں کرپائے گا"۔ علیدان نے کوفت سے کہا۔
وہ جب یہ بات کررہا تھا کچھ لوگوں نے مڑ کر اس جیسی شاندار شخص کو ایسی عام جگہ پر حیرت سے دیکھا ضرور، لیکن چونکے نہیں تھے۔۔کیوں کہ وہ عام لوگ تھے جن کا اخبار کی خبروں یا ٹی وی نیوز سے واسطہ نہیں ہوتا، ورنہ علیدان جیسی مشہور شخصیت کو دیکھ کر وہ اکٹھے ہوجاتے۔
آن نے یہ دیکھ کر کہ لوگ متوجہ ہیں اسے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور کان میں بھینچی بھینچی سی سرگوشی کی۔"کیا آپ خاموش نہیں رہ سکتے؟ اگر آپ یہ کھانا نہیں کھاسکتے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں بھی نہیں کھاسکتی؟یہ بحرحال کھانا ہے۔۔۔ کچرا نہیں۔۔"
اس نے ایک فش کوفتہ کیچ اپ میں ڈپ کیا اور منہ کے قریب لائی۔۔۔"ٹرائی کریں، اس کا ذائقہ بھی بھت اچھا ہے۔یہ تو قابل رحم بات ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی میں ایسا کھانا نہیں کھایا۔"وہ منہ بنا کر بولی۔
علیدان شاہ تو حیرت سے اسے پٹڑ پٹڑ بولتے ساتھ میں کھاتے دیکھ کر متعجب سا تھا۔
"اگر میں آپ کے ساتھ کھاؤں تو پھر ہم گھر واپس جاسکتے؟"
آن نے سر ہلایا۔۔ ظاہر ہے وہ کھانے کے بعد گھر جانے کا ہی سوچ رہی تھی،ساری رات تو ادھر بیٹھنے سے رہی، علیدان نے اس سے ایک کوفتہ لے کر برے برے منہ بنا کر بمشکل منہ میں ڈالا،اسے کھانا بہت مشکل تھا،آن نے اسے دوسرا دیا،علیدان شاہ نے ابرو اچکا کر ٹیسٹ فیل کیا۔۔۔"ہمممم۔ناٹ بیڈ"۔
تاہم اس نے صرف دو کھائے، یہ غیر معیاری کھانا تھا۔ بنا ھاتھ دھوئے پکا ہوا۔وہ رسک نہیں لینا چاھتا تھا۔
ادھر آن کو دیکھو تو جیسے بھوک سے پاگل ہورہی تھی، تھوڑی دیر میں ہی اس نے دو پلیٹ صاف کردیں، یہ دیکھ کر وہ اب بھی کھانا چاہتی ہے،۔۔۔علیدان نے اس سے پلیٹ چھین کر ٹیبل پر پٹخی،اور اسے بازوں سے پکڑ کر اٹھالیا۔۔۔
"آل رائیٹ۔۔بس کریں۔۔۔آپ بھت کھاچکی ہیں۔۔۔آپ کا معدہ کیسے اتنا برداشت کرے گا؟" اس نے اپنا والٹ نکال کر بل پے کیا،اور اسے ساتھ لے کر اس کی رہائش کے طرف چلنے لگا۔
"ٹھرئیے۔۔ آپ نے بقایا پیسے تو لئیے نہیں؟"وہ اسے روک کر واپس شاپ پر جانے لگی تھی۔
"کس چیز کا بقایا؟"علیدان نے اسے وہیں پر روک دیا۔"میرے والٹ میں ایسی گندی جگہ سے لیئے گئے پیسوں کے لئے جگہ نہیں۔۔"وہ ناگواری سے بول کر آگے بڑھ گیا۔
وہ بے ساختہ اس کی طرف دیکھتی رہی۔ واقعی وہ سچ میں ایک سرمایہ دار تھا،اس کے لئے یہ فضول خرچی عام بات تھی۔
علیدان شاہ اسے لئے کار تک آیا، اور دروازہ کھول کر ایک ڈیسرٹ باکس نکالا۔
"اوھ۔۔۔۔آپ کھانا خرید لائے ہیں؟"وہ ایکسائٹڈ ہوئی۔
" آپ نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو بھوک لگی ہے؟"
آن نے اسے حیرت سے دیکھا۔۔۔اس کا دل بے اختیار علیدان کے طرف جھکا تھا۔۔۔(تو کیا وہ یہاں اسے کھانا پہنچانے آیا تھا؟ )
"یہ لیں۔۔۔ تھامیں اسے۔" اس نے باکس آگے بڑھایا۔
آنیہ نے خوبصورت پیکڈ باکس کو دیکھا جو کھانا بحرحال نہیں تھا۔
"یہ۔۔۔۔۔یہ ۔۔ایسا لگتا ۔۔۔سنیکس ہیں۔"آن نے اندازہ لگایا۔ڈبے کو بغور دیکھتے بولی۔
"کیا۔۔آپ کو سنیکس پسند نہیں؟"وہ ہچکچایا۔کہ شاید وہ غلط چیز خرید لایا ہے۔
"اوھ، نو۔۔ میرا مطلب تھا، مجھے اب بھی بھوک ہے۔۔۔آپ نے سنیکس کے بجائے کھانا کیوں نہیں خریدا؟"
"میری رائے کے مطابق آپ کو بھوک نہیں لگی، بلکہ آپ خراب موڈ میں ہیں۔۔۔میں نے گوگل پر چیک کیا تھا۔ جب لڑکیاں خراب موڈ میں ہوتی ہیں تو وہ ہلکا پھلکا کھانا پسند کرتی ہیں، سنیکس کے بیچ میں جو چیز ان کو مرغوب ہوتی ہیں وہ ہوتی ہیں میٹھی چیزیں ۔۔۔صحیح کہا نا؟ "
آن اس کی تفصیلی بات سن کر نظر جھکا کر دھیمے سا مسکرائی۔اس کی مسکراہٹ دیکھ کر علیدان کچھ شرمندہ ہوا ۔۔۔
(کیا وہ کچھ غلط کہہ چکا ہے؟۔)
"آپ ہنس کیوں رہی ہیں؟"وہ خفا ہوا
آن نے مسکراہٹ دبا کر اس سے ڈبہ لیا۔
"ہاں۔۔۔مجھے پیسٹریز پسند ہیں اسپیشلی میٹھی۔۔"
یہ کہتے ہی وہ اپنے ایریا کے طرف چل پڑی۔۔اب اس کا موڈ کافی بہتر تھا۔۔
علیدان شاہ اسے دیکھتا رہ گیا۔"آن۔۔۔"وہ پکارا۔
وہ مڑی ۔۔۔اور نم آنکھوں سے اسے دیکھا۔
"ہممممم ۔۔؟"انداز سپاٹ تھا۔۔
وہ اس کے قریب پہنچ گیا۔
"آج کیا بات ہوئی تھی ؟" نرمی سے پوچھا۔
آن نظریں جھکا کر لب بھینچ کر کھڑی رہی۔
"اس کے بارے میں کچھ مت پوچھیں پلیز۔۔۔۔میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے۔۔"
"اٹز بی کاز سکندر اعوان نے پھر سے۔۔۔۔؟"
آن نے چونک کر اس کے چہرے کو دیکھا۔۔۔ جہاں فکر تھی ،خیال تھا۔۔ محبت تھی۔) تو وہ جان گیا تھا۔)
آن نے خاموشی سے فقط سر ہلایا۔
"میں آپ کا بدلہ لینے میں مدد کروں گا"۔اس کے لہجے میں اعتماد تھا۔کچھ بھی کرگذرنے کی لگن۔آن نے چونک کر اسے دیکھا۔اور نفی میں سر ہلایا۔
"نہیں۔۔۔حلانکہ میں ان کو پسند نہیں کرتی، لیکن میں خود کو زیادہ ان میں انوالو نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔اگر آپ نے ان کو اسی طرح نشانہ بنانا جاری رکھا تو وہ لوگ ہمیشہ کی طرح یہ الزام بھی مجھ پر لگا دیں گے"۔
اس کے بارے میں سوچتے ہوئے اس نے ان دو ماہ میں اعوان سکندر سے جتنی بار بھی سامنا کیا تھا،اسے گذرے تین سالوں میں بھی اتنا ظالم نہیں دیکھا تھا، وہ اب اس کی مکروہ شکل نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔
علیدان نے سر ہلادیا۔۔
"تو پھر آپ کب بدلہ لینا چاہیں گی، مجھے بتائیں، میں آپ کی خاطر کس بھی وقت ۔۔۔۔جنگ کرنے کا کوئی راستہ شروع کروں"۔
آن بس خاموش سی ۔۔۔ہونٹ بھینچے کھڑی رہی۔
"اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم آگ کا منہ کھول دیں۔۔۔۔"وہ الجھی تھی۔اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس دشمنی کی وجہ کیا ہے۔؟وہ لوگ اسے کیوں علیدان سے دور کرنا چاھتے۔
"شاہ خاندان اور اعوان خاندان کی یہ ایک خاموش جنگ ہے۔"وہ دھیمے سے گویا ہوا۔
"اوھ رائیٹ۔۔۔، آپ کی ان سے کیا دشمنی ہے؟۔۔۔کس لئے۔۔۔۔کس لئے آپ ان کے ہر فرد پر غصہ ہیں؟"وہ متجسس ہوئی۔جاننا چاھتی تھی آخر کیا بات تھی جس وجہ سے یہ دونوں بڑے خاندان آپس میں دشمن تھے۔
"ہمارا "شاہ" خاندان ان سے کبھی خوفزدہ نہیں رہا۔ جو خوفزدہ ہیں وہ اعوان فیملی والے ہیں۔ "
جہاں تک حقیقت کی بات کہ کیا ہوا تھا۔۔؟"علیدان نے ھاتھ بڑھا کر اس کا خوبصورت معصوم چہرہ تھاما،
"آپ کو کچھ بھی جاننے کی ضرورت نہیں ہے، میری نظر میں آپ اس فیملی کی فرد بلکل نہیں ہیں۔"
اور یہ سچ ہی تھا۔ علیدان نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ آنیہ عصمت اعوان فیملی سے تعلق رکھتی ہے۔۔
وہ اس کے قریب کیسے آیا۔۔۔اس کی وجہ کوئی اور تھی۔
اس کے لئے آنیہ خاص تھی۔ایسے خاص ۔۔جس کی کوئی قیمت نہیں تھی،
وہ اپنی مھربانی سے اس کے ساتھ مخلص رہا تھا۔
حلانکہ ۔۔۔وہ اسے محبت نہیں دیتی تھی۔لیکن۔۔۔۔وہ اس کی دوست ضرور بن رہی تھی۔ اور یہ بات بھی اس کے لئے کافی تھی۔باقی کا راستہ بھی دور نہیں تھا۔علیدان کو یقین تھا۔
آنیہ کو مسلسل خود کو تکتے اور کچھ سوچتے دیکھ کر علیدان نے اسے گھورا۔
" ایسے کیوں دیکھ رہی ہیں آن۔۔؟" وہ الجھا۔
آن نے لب بھینچے اور ذرا سا مسکرائی۔پیسٹریز کا ڈبہ اپنے بانہوں میں تھامے بولی۔
"علیدان شاہ، اگر ایسا کوئی دن آئے جس میں آپ کو میری کسی ھیلپ کی ضرورت پڑے، تو میں حتی الامکان آپ کے کام آنا چاہوں گی، چاہے کچھ بھی ہوجائے۔"اس کے لہجے میں پختگی تھی۔وہ علیدان کی بات پر خوشی سے بھر گئی تھی کہ وہ اسے اعوان سے رلیٹ نہیں سمجھتا۔اس کی نظر میں آنیہ ایک الگ حیثیت کی مالک تھی۔اور یہ بات اسے مطمئن کررہی تھی۔
علیدان شاہ ناگواری سے ھنس پڑا۔
"میں ایک عورت کو اس کی اجازت کبھی نہیں دیے سکتا کہ میری ھیلپ کرے"۔
"بات عام عورت کی نہیں علیدان۔اسپیشلی میری جیسی عورت۔۔۔۔میں جو کہتی ہوں وہی کرتی ہوں۔۔اگر آپ کو یقین نہیں۔۔ دین ۔۔۔ویٹ اینڈ واچ۔"
"سو آپ نے اپنے لفظ "شکریہ"کا متبادل تلاش کرلیا ہے ۔؟" دونوں ساتھ ساتھ چلنے لگے۔۔ آن نے اس بات پر اسے آنکھیں چھوٹی کرکے گھورا۔
"میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں ۔ میں اپنے لفظوں کا پاس رکھوں گی"۔آن نے لفظ "پاس"پر زور دیا۔
"تو پھر ابھی مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے،کیا کرنا چاہیں گیں مدد؟" علیدان رک گیا اور اسے بھی بازو سے تھام کر روکا۔
"کہئیے ۔" آن ایکسائیٹمنٹ سے بولی
"بی مائی وائف، میری می، میں آپ کو شاہ خاندان کی خاندانی بہو بنانا چاہتا ہوں"وہ ہلکے سے مسکراتا اپنی خواہش بیان کر گیا۔وہ دنگ ہوئی۔
"علیدان پلیز۔۔میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں، میں یہ نہیں چاہتی۔"
وہ جیسے زچ ہوئی۔
یہ سن کر علیدان کو ناگوار تو بہت لگا، وہ اس کے نکاح میں تھی، وہ چاہتا تو اسے ساتھ لے جاتا ،کون روک سکتا تھا؟ لیکن وہ اسے مسلسل ڈھیل دیئے جارہا تھا کہ آن اس کی محبت کو کبھی تو قبول کرلے گی، اور دل سے اس کے ساتھ رہنے پر تیار ھوجائے گی۔
"میں اگر چاہوں ،تو آپ کو ابھی اپنے ساتھ لے جاسکتا ہوں، مجھے روکنے کا حق آپ بھی نہیں رکھتیں آن۔۔لیکن یہ میری تربیت کے خلاف ہے زور و زبردستی سے یہ رشتہ نہیں چاہتا، لیکن ۔۔۔اگر میری برداشت ختم ہوئی تو مجھے آپ بھی روک نہیں پائیں گیں، بی کاز میں "حق" رکھتا ہوں۔" وہ اسے جتاگیا تھا آن تو دنگ رہ گئی۔۔ وہ کیسے یہ بھول گئی تھی کہ وہ اس پر حق رکھتا ہے۔
اس وقت واقعی اس کے پاس الفاظ نہیں تھے ،وہ اعوان فیملی کے ڈر کی وجہ سے اس سے دور بھاگ رہی تھی ،وہ ڈرتی تھی اگر اعوان فیملی کو پتا چلے گا تو الزامات کی بھرمار ہوجائے گی جس میں اس کی ذات دفن ہوجائے گی، لیکن وہ علیدان کو کتنا روک سکتی تھی؟ اور جو بات چھپی تھی تو علیدان کا کرم تھا،وہ چاھتا تو اسے ساتھ لے جاکر اپنے محل میں بیوی کی حیثیت سے رکھ لیتا۔۔کیا کرتی وہ؟؟ کیا کرتے اعوان فیملی والے؟؟ لیکن اپنے ڈر کا کیا کرتی؟ کیا وہ کمزور تھی؟؟کہ اعوان کی دھمکیوں سے ڈر کر خود اپنے ھاتھوں سے خوشیوں کی دستک دیتے ھاتھ بار بار ٹھکراتی رہتی؟؟
وہ ہنکارا بھر کر رہ گئی۔
"اس پر ہم پھر بھی بات کریں گے علیدان ابھی میں خود کو تیار نہیں پاتی"۔
بالاآخر اس نے تھکے تھکے سے انداز میں نظر جھکا کر ہلکی آواز میں کہا۔
"میں سنجیدہ ہوں آنیہ علیدان شاہ"
علیدان نے اپنے حوالے سے اسے مخاطب کرکے جتلایا تھا۔۔جس پر آن نے اسے چونک کر دیکھا تھا۔
"اپنے اور میرے مابین رشتے کو جتنا جلدی سمجھیں۔۔ آپ کے لئے بہتر ہے، میرے خیال سے میں نے آپ کو کافی وقت سنبھلنے کو دیا ہوا تھا"۔ علیدان نے گھمبیر لہجے میں کہہ کر ، اس کا چہرہ تھاما اور اس کی نیلی آنکھوں کی گہرائیوں میں جھانکتا جیسے اسے بے بس کرا ۔
آن کچھ نہ بولی دونوں بس کچھ پل یونہی مسمرائیز ہوئے،ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے تھے۔
"ہمممم،" کچھ کہتے وہ رک گیا ،لب بھینچ کر علیدان نے خود کو بمشکل آگے بڑھنے سے روکا تھا ورنہ دل تو چاہ رہا تھا اسے خود میں چھپالے، جہاں کوئی زایان، کوئی سکندر اور کوئی بینش اعوان کا خوف، اس کی آنیہ علیدان کو چھو کر بھی نہ گذرے۔۔ اور وہ جلد ہی آن پر اعوان فیملی کی حقیقت آشکارا کرنا چاہتا تھا۔۔ جلد ہی ۔۔بے اختیار ہی اسے ساتھ لگا گیا اور سکون کی ایک گہری سانس لی۔۔ ادھر آنیہ اس کے سینے میں منہ چھپائے جیسے خود کو ایک محفوظ پناہ گاہ میں محسوس کررہی تھی، یہی تو پناہ گاہ تھی جسے وہ کچھ دیر پہلے شدت سے مس کررہی تھی،
"اب آپ اوپر جاکر پیسٹریز انجوائے کریں۔ اور پھر فریش ہوکر آرام کرنا۔"۔
علیدان نے اسے خود سے بمشکل الگ کیا، اور اسکا ملیح ،خوبصورت چہرا ہولے سے دونوں ھاتھوں میں بھرا اور سلگتے ہونٹوں سے اس کی نرم ملائم پاکیزہ سی پیشانی پر نرمی سے بوسہ دیا، پھر اس کے گال تھپتھپائے۔
"آپ ۔۔ آپ اوپر نہیں آرہے؟" آن نے نظریں اٹھا کر اسے تجسس سے دیکھا، وہ سمجھی وہ بھی اس کے ساتھ آئے گا دونوں مل کر پیسٹریز انجوائے کریں گے۔
"اگر آپ بلائیں گیں تو میں سر کے بل آؤں گا آفٹر آل، میں آپ کے چھوٹے سے گھونسلے کے قریب ہی ہوں"۔ وہ اسے مسکرا کر چھیڑے گیا۔ جس پر آن نے گھوری سے نوازا، وہ واقعی چڑ گئی تھی۔
"اب تو میں آپ کو بلکل بھی دعوت نہیں دوں گی، میں یہ ساری پیسٹریز خود ہی کھاوں گی،بلکل بھی آپ سے شیئر نہیں کرنی۔"
آن نے ادائے دلبرانہ سے کہا۔۔ اب وہ کافی ہلکی پھلکی ہوچکی تھی اسی لئے اپنے پہلے والے موڈ میں آگئی تھی،
"ٹھیک، تو پھر جب یہ سب ختم کرلیں۔ تو ایک پکچر مجھے بھیج دینا، جس سے ثابت ہو کہ آپ نے واقعی ساری کھالی ہیں، تاکہ مجھے پتا چلے کہ جو میں نے خریدا ہے، آپ کو وہ پسند آیا ہے"۔ علیدان نے نرم لہجے میں تاکید کی تھی،
(تو کیا واقعی علیدان اس کے ساتھ نہیں آرہا ؟) آن دل میں مایوس ہوئی، وہ سمجھی مذاق کررہا ۔
لیکن وہ جھک کر اسے کی پیشانی پر پھر سے محبت بھرا بوسہ دے کر "ٹیک کیئر" کہتا گاڑی میں بیٹھ گیا۔
"آل رائیٹ، میں سمجھ گئی"۔ آن نے بے دلی سے کہا،"ڈرائیو کیئر فلی"۔
"آپ پہلے اوپر جائیں میں دیکھ رہا ہوں " علیدان نے نرمی سے کہا۔
"میں تب جاوں گا جب لائیٹ جلے گی"۔
آن اس کی کیئر اور محبت سوچ کر مسکرائی اور سر ہلا کر دروازہ کھول کر جلدی سے اوپر بھاگی۔ اور روم میں جاکر جلدی سے بتی جلادی اور کھڑکی کے پاس جاکر پردہ ھٹا دیا۔۔ اس کی سانس اس قدر جلدی کرنے پر بے ترتیب ہوگئی تھی وہ گہرے گہرے سانس لیتی کھڑکی سے دیکھنے لگی۔۔ جہاں وہ بھی اپنی تمام تر وجاہت اور اپنی شخصیت کا سحر لیئے اسے دیکھ کر مسکرا کر ھاتھ ھلاتا گاڑی نکال لے گیا۔۔
آن نے بے اختیار مسکرا کر دل پر ھاتھ رکھ دیا۔۔۔ اس کی دھڑکنوں کے راگ پر دل محو رقص تھا۔۔ دل میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں تھیں۔۔ علیدان کا اس کے سر پر بوسہ دینا یاد کرکے آن نے بے اختیار چہرہ دونوں ھاتھوں میں چھپالیا۔
کچھ دیر بعد آن مڑی اور ٹیبل پر رکھے ڈیسرٹ باکس کو دیکھا، قریب جاکر کرسی کھینچ کر گھری سانس لے کر بیٹھ گئی۔۔اس کے چہرے پر بہت پیاری سی مسکراہٹ تھی، کیا وہ اسے تین سال کی بچی سمجھ رہا تھا؟ ایکچوئلی علیدان نے اس کے لئے ہر قسم کے کیک خریدے تھے، اسے لگا جیسے وہ کسی شہزادی کی طرح ٹریٹ کی گئی ہو، اسے اپنا آپ زندگی میں پہلی بار ۔۔۔ہاں!، پہلی بار اہم لگا تھا۔۔ کیا وہ واقعی کسی کے لئے اہم تھی؟؟ وہ کیک دیکھ کر سوچے گئی مسکرائی گئی۔۔اسے یہ سب بہت پیارا لگا تھا۔
اس نے اپنی سیل فون اٹھائی اور پیسٹریز کھاتے اپنی سیلفی کھینچی، پھر کھاتی گئی،سیلفیز لیتی گئی۔۔اس نے دو کیک کھالئے دو پیسٹریز پر بھی ھاتھ صاف کرلیا، ابھی تیسرا کیک اٹھانے لگی ہی تھی کہ اس کی سیل فون وائبریٹ کرنے لگی، آن نے چونک کر ان نون نمبر دیکھا اور حیران ہوتی کال پک کری،وہ سمجھی علیدان شاہ ہوگا ، لیکن کسی اجنبی آواز نے اس اچھنبے میں ڈال دیا۔
"ییس؟"آن نے سوالیہ انداز میں ییس کہا۔
"ہیلو،آپ مس آنیہ عصمت ہیں ؟" دوسری طرف سے مردانہ آواز میں کسی نے پوچھ کر جیسے یقین کرنا چاہا کہ مطلوبہ فرد ہی سے گفتگو کررہا؟
آنیہ نے سر ہلایا "جی ہاں ،میں ہی آن ہوں۔ کیا میں جان سکتی ہوں کہ آپ کون ہیں؟"
" میم، میں سر علیدان شاہ کا سیکرٹری دانیال بول رہا ہوں، کیا سر ادھر ہیں؟" دوسری طرف سے کافی پریشانی میں پوچھا گیا۔
آن کو کافی شرمساری محسوس ہوئی ،نفی میں سر ہلا کر بولی ۔
"وہ ۔۔۔۔ابھی ابھی گئے ہیں"۔
"اوھ مائے گاڈ، یہ تو بھت مسئلہ ہوگیا۔"وہ سخت پریشان ہوا۔
آن اس کے الفاظ سن کر سخت پریشان ہوگئی۔
"کیا کچھ ہوا ہے؟"
"ہم یہاں غیر ملکی شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ سر کو ایک فون کال موصول ہوئی اور وہ اچانک ہی میٹنگ آدھے میں چھوڑ کر وہاں سے چلے گئے۔ قریب ایک گھنٹہ گزر چکا ہے اور سر ابھی تک واپس نہیں آئے، اگر وہ واپس نہیں آئے تو ، تعاون کے سیکڑوں لاکھوں ڈالر نالے میں چلے جائیں گے۔ "وہ پریشانی سے پیشانی دباتا بتاتا چلا گیا۔
یہ سن کر کہ علیدان صرف اس کی وجہ سے اپنی اہم میٹنگ چھوڑ کر آیا تھا۔ صرف اسے ڈیسرٹ دینے کے لئے، آن کے دل کو جیسے کچھ ہوا تھا۔
دانیال کے الفاظ سن کر آن کو دل کی گہرائی سے اپنا آپ قصوروار لگا۔
اسے بلکل بھی اندازہ نہیں تھا ،کہ اسے اسٹال پر کھانے کے لئے زور بھرنے کی دوسرے فرد کو اتنی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
اس نے پیسٹریز پر افسردگی سے نظر ڈالی ، اپنا جرم شدت سے محسوس کرتے اس کی آنکھیں سرخ پڑگئیں، ان میں نمی سی چھلکنے لگی، اسے احساس ہوا کہ علیدان نے اس کو اہمیت دینے کے لئے اپنے نفع و نقصان کی بھی پرواھ نہیں کی تھی، اہمیت۔۔۔۔ اسے اس اہمیت کا اس سے پہلے احساس کیوں نہیں ہوا ؟ کہ وہ کسی کے لئے اتنی اہمیت کی حامل ہے؟؟ اوھ۔۔
آن کی آنکھوں میں خوشی سے آنسو آگئے۔۔ بے آواز آنسو اس کے گال بھگونے لگے تھے۔۔ یہ احساس بھت خوش گوار تھا۔۔۔۔ بارش میں بھیگی کچی مٹی کی خوشبو کی طرح، کڑی دھوپ میں اچانک سے۔۔۔۔ بادل چھاجانے جیسا،۔۔۔۔ اچانک سے سخت حبس میں لگنے والی ٹھنڈی ہواوں جیسا۔اس کا دل جیسے ہواوں کے دوش پر مست محو سفر اڑان بھرے جارہا تھا۔
وہ چونکی۔جب ادھر سے پکارا گیا۔ "ھیلو میم ؟"
"دانیال ،ہمیں کیا کرنا چاھئے؟"
"میم، آپ پریشان مت ہوں،میں کچھ سوچتا ہوں،۔۔۔اوھ گاڈ، آپ واپس آگئے۔"وہ جیسے ہی بات کررہا تھا اچانک سے علیدان کا نام لے کر اس سے مخاطب ہونے لگا۔۔ادھر آن متجسس ھوگئی۔۔
علیدان شاہ کی سرد آواز اسے فون ریسیور سے سنائی دی گئی۔
"کیا میں نے کہا تھا کہ میں واپس نہیں آوں گا؟"
ادھر آن تو اس کا سرد لہجہ اور رعبدار آواز سن کر بے اختیار اپنے دل پر ھاتھ رکھ گئی۔
اپنے سامنے کے علیدان اور اس فون والے باس علیدان کو آپس میں کمپئر کرنے سے اسے وہ قطعی ایک مختلف شخص لگا۔۔ یہ وہ شخص تو نہیں تھا جو ابھی اس کے پاس سے گیا تھا یہ تو کوئی اور ہی علیدان تھا۔
دانیال کی آواز اسے سنائی دی۔
"نہیں ،میں نے دیکھا آپ اپنا فون بھی ساتھ نہیں لے گئے تبھی آپ سے رابطہ کرنا مشکل لگا۔
میں ڈر گیا الائیڈ ٹریڈ ایسوسائیشن والے چھوڑ نہ جائیں۔"
"اگر وہ چلے بھی جاتے تو کیا ہوتا؟ کیا ہماری کمپنی پیسہ نہیں کماسکتی؟"سپاٹ آواز میں کہا گیا۔
"جی ہاں، جی ہاں، کیوں نہیں سر۔۔آپ نے درست کہا۔"دانیال یہ کہتے ہی، فون کے طرف متوجہ ہوا۔
"میم، سر واپس آچکے ہیں۔تکلیف دینے کے لئے معذرت خواہ ہوں۔" یہ سن کر علیدان حیران ہوا۔اور اسے گھورنے لگا۔
"کیا تم آن سے بات کررہے تھے؟" علیدان کی نظروں کی سخت تپش خود پر محسوس کرکے دانیال کی تو مانو ھتھیلیاں ہی بھیگ گئیں۔
"آئی ایم سوری مالک، میرا آپ سے رابطہ نہیں ہورہا تھا تو میں نے میم آن کو کال کری، پر آخر میں۔۔۔۔۔"
"انفففف،" وہ ہلکے سے اس پر دھاڑا اور دانیال کے ھاتھ سے فون چھین لیا۔
" کیا آپ نے پیسٹریز کھائی؟"
علیدان کی پھر سے وہی نرم شفیق اور محبوب آواز سن کر آن نے ایک بار پھر فون کو حیرت سے دیکھا۔ کیا یہ وہی علیدان ہی ہے؟
بے اختیار پیر پٹخ کر روہانسی ہوئی۔
"علیدان ،آپ بہت ہی خوفناک ہیں،ڈرا کر رکھ دیا مجھے، کیوں کیا آپ نے میرے لئے اتنا؟اگر آپ کی کو_آپیریشن ناکام ہوجاتی تو میں خود کو زیادہ قصور وار سمجھتی۔"
دوسری طرف علیدان اس کی فکرمندانہ آواز میں شکایت سن کر ہولے سے مسکرایا۔
" یہ تو میرا بزنس ہے اگر ناکام ہوا تو میں اس کا الزام آپ پر کبھی نہیں رکھ سکتا۔آف کورس۔۔ اگر آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ میرے خسارے کی وجہ بنی ہیں تو۔۔۔اور اس کا بدل دینا چاہیں۔۔۔ تو میں اس خسارے کا بدل آپ کے وجود سے ری پلیس کرنا چاہوں گا۔ یہ فائدہ مجھے اچھا لگے گا۔"
پاس کھڑے دانیال کی تو یہ جملے سن کر سٹی ہی گم ہوگئی وہ بے اختیار حلق تر کرگیا، اور اسے ٹوکنا ہی مناسب خیال کیا۔
"سر پلیز، آپ کو میٹنگ کے لئے دیر ہورہی ہے۔"
علیدان ھنسا۔" مجھے تصویر بھیجنا مت بھولنا۔اگر نہیں بھیجی، تو میں آپ کو دیکھ لوں گا۔"ساتھ ہی مسکراتے فون بند کیا۔ اور پھر وہی سرد اور سپاٹ انداز میں دانیال پر چینخا جو اس وقت دروازے پر پہنچ چکا تھا۔ "اسٹاپ۔"
دانیال تھوک نگل کر آھستگی سے مڑا اور ادب سے بولا ۔
"جج۔۔ جی سر شاہ۔"
علیدان نے فون اس کے طرف اچھالا جسے دانیال نے جلدی سے کیچ کیا۔
"اگر تم نے آئندہ آن کو کال کرنے کی ہمت کی تو میں تم کو دیکھ لوں گا۔"
"جی، جی، جی۔ میں وعدہ کرتا ہوں،میں آئندہ کبھی میم کو کال نہیں کروں گا۔" اس نے دروازہ دھکیل کر کھولا اور دونوں ساتھ میٹنگ روم میں داخل ھوگئے۔
ادھر آن کے طرف آو تو وہ ٹیبل پر پڑی پیسٹریز کو دیکھے جارہی تھی، اس کی خواہش ہی مٹ گئی تھی،اس کا دل نہیں چاہا کہ اور کھائے۔
لیکن یہ سوچ کر کہ علیدان اس کی پکچر کے انتظار میں ہوگا۔
اس نے ایک پیس اٹھا کر کھانا شروع کیا۔اور پکچر کھینچ کر علیدان کو سینڈ کردی۔
ادھر علیدان نے میٹنگ کے دوران فون بجتے سنا، تو جلدی سے اٹھا کر پکچر اوپن کری،اور اسے دیکھا، جہاں وہ مسکراتی ہوئی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ پیسٹریز کے طرف اشارہ کرتی نظر آئی۔ اس کے رس بھرے ہونٹوں کے پاس کریم لگی ھوئی تھی،علیدان بے اختیار ھنس پڑا۔
مذاکرات کے دوران ہی اس نے آن کو میسیج ٹائپ کیا تھا۔
"آپ اس کیک سے زیادہ دلکش ہیں۔"
پہلو میں ، دانیال قدرے گھبرا گیا تھا، اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہوگئے تھے۔ واقعتا اس نے اسے پہلے کبھی ایسے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے یہ ضرور سوچا "مس آن خوش قسمت ہے۔"
☆☆☆☆
دوسرے دن صبح سے ہی آن سویر اٹھ کر علیدان کو سوچے جارہی تھی،
وہ مارکیٹ گئی،اور بھت ساری سبزیاں خرید لائی،
لیکن دن گذر گیا، علیدان نہ آنا تھا، نہیں آیا ، نا ہی اس کی کال آئی۔ پورا دن اس نے انتظار کیا، رات ھوگئی۔
رات کو کچن میں اداس کھڑی وہ سوپ بناتے ہوئے اسے بے اختیار سوچے جارہی تھی،
(بھول جاو، وہ آج نہیں آئے گا،) اس نے کرب سے آنکھیں بند کرلیں۔ پھر رات کا کھانا خود اکیلے ہی کھانے کا سوچا،
ٹیبل پر سوپ رکھ کر خود بھی بیٹھ گئی،
لب بھینچ کر پھر برا سا منہ بنایا اور خود سے ہی باتیں کرنے لگی۔
" آپ نے کہا تھا ہم دونوں ویک اینڈ پر ساتھ رات کا کھانا کھائیں گے،ابھی تک آپ نہیں آئے،نہ ہی مجھے بتایا ہے۔ ھاااھ ۔۔ واٹ اے جوک۔"
اس نے گہری سانس لی، اور چمچ اٹھا کر سوپ پینے لگی،
کچھ دیر بعد سوچنے لگی۔
"ہوسکتا ہے ،وہ مصروف ہو؟ وقت نہ ملا ہو، کیا وہ کل رات زیادہ مصروف نہیں تھا؟ ہمممم، یہ بھی ھوسکتا ہے۔ اچھا۔۔۔ بھتر ہے، اس کے بارے میں نہ ہی سوچوں، لیکن۔۔۔۔ یہ ٹھیک نہیں ، وہ اکثر ہی مصروف رہتے بھی رات کو آتا ہے، کیا وہ ناراض ہے؟" گذری شب کو اس کی ناراضگی کی وجہ تلاشتی رہ گئی،
آن نے سوچا اسے کال کرکے پوچھنا چاھئیے،
حلانکہ وہ فون کرتے ہچکچائی تھی، لیکن بالاآخر ہمت کرکے کانپتی انگلیوں سے کال ملائی تھی،
کیا ہوگا اگر وہ مصروف ہوا؟ یا اگر وہ آکر کھانا نہ کھائے؟ کیا اسے معلوم نہیں تھا، کہ وہ کتنی جذباتی ہے؟ لیکن اگر وہ خود سے فون نہیں کرتی تو ؟ اگر وہ اس کی کال کا انتظار کر رہی ہے تو ؟۔۔ وہ کچھ دیر بیٹھ گئ ، پھر جھنجھلا کر کھڑی ہوگئی ، بے یقینی ہی بے یقینی تھی،
لیکن آخر میں اس نے اپنا فون مایوسی سے نیچے رکھ دیا۔۔۔۔اٹھی، اور کھانے کے لئے واپس ٹیبل پر آگئی۔
چونکہ وہ اچھے موڈ میں نہیں تھی ، اس لئے وہ میز پر موجود تمام ڈشز کو ختم نہیں کرسکتی تھی، نا ہی آن کا دل چاہا کہ برتن دھوئے ۔ اس نے سب کھانا فرج میں رکھ دیا، اور خود سست روی سے اپنے بستر پر لوٹ آئی اور لیٹ گئی۔ اگرچہ ابھی آٹھ بجے ہی تھے ، اس نے سونے کا فیصلہ کیا۔
لیکن یہ سچ ہے کہ جب آپ پریشان ہوں ، تو نیند سے محروم ہونا آسان ہوتا ہے۔
وہ تھوڑی دیر لیٹ گئی ، اور پھر فورا ہی اٹھ گئی ، اور ایک بار پھر اپنا فون اٹھایا تاکہ براہ راست مدھان کو فون کرے۔ جب کال کنیکٹ ہوئی تو مدھان کی ایکسائٹمنٹ سے پر آواز سنائی دی:
"بھابھی، ہم دونوں کے دل کتنے ملتے ہیں، ابھی میں آپ کو ہی کال ملانے لگا تھا۔"
"اوھ،۔۔ تم مجھے کیوں کال کرنے لگے تھے؟ خیریت؟"
"میں آپ کو بتانا چاھ رہا تھا، علیدان بھائی کی طبعیت خراب ہے،آپ ابھی تک کیوں نہیں آئیں انہیں دیکھنے؟"
آن کا دل یہ سن کر سکڑ کا سمٹا۔
"علیدان بیمار ہیں؟ کیا ہوا ہے ان کو؟ کیا سریس بات ہے؟"
وہ سخت پریشان ہوگئی۔
"کیا آپ کو نہیں پتا؟"
مدھان کے پوچھنے پر وہ اپنی بے خبری پر سخت شرمسار ہوئی۔
"وہ شرمندگی سے بولی۔" میں نے اسے ابھی تک کال نہیں کی۔"
"واھ۔۔۔ بھابھی ، پھر تو میں آپ کو الزام دوں گا، بھائی نے گذری شب خراب کھانا کھالیا تھا، وہ سارا دن تکلیف میں تھے، آپ کتنی بے خبر رہی ہیں۔"
آن نے اچانک سے کل رات اسٹال کا کھانا یاد کیا، کیسے زبردستی اس نے علیدان کو کھلادیا تھا، وہ یہ سوچ کر خود کو علیدان کا مجرم سمجھنے لگی، اس کی وجہ سے ہی وہ بیمار ہوا تھا۔
"اب کیسا ہے ؟" آن نے ہچکچا کر ایک گلٹ سے پوچھا۔
"مجھے نہیں پتا۔۔اینے وے، میں ان کو دیکھنے ہی آیا تھا، جب میں ان کے پاس گیا تو وہ ملازموں پر ناراض ہورہے تھے، میں یہ آپ کو بتانے لگا تھا کہ آپ کا فون آگیا۔
انہوں مجھے بھی کہا کہ اس کے معاملے میں مداخلت نہ کروں، میں نے سوچا ،ہوسکتا ہے آپ دونوں میں لڑائی ہوگئی ہو۔"
"آل رائیٹ، مدھان، میں سمجھ گئی،
یہ کہتے ہی جلدی سے فون رکھ دیا، ادھر مدھان فون کو تکتا رہ گیا،
آن نے جلدی سے سوپ کو گرم کیا، اور پیک کرکے سیڑھیوں سے اتر کر نیچے آگئی۔
پہلے فارمیسی کی شاپ پر جاکر میڈیسن لی، پھر ٹیکسی کرکے "شاہ ولا" آگئی،
کچھ وقت ہچکچکاہٹ کے ساتھ آخر اس نے بیل بجائی۔
اسے دیکھ کر ملازم نے جلدی سے دروازہ کھول دیا۔
تین منٹ کی واک کےبعد وہ علیدان کی رہائش تک پہنچ گئی،
انٹرنس پر بٹلر اور خادمہ اس کا انتظار کررہے تھے۔ "مس آن، کیسی ہیں؟"
آن نے سر ہلا کر اسے جواب دیا۔" میں ٹھیک۔" اثبات میں مسکرا کر سر ہلایا ۔
"مجھے افسوس ہے، میں لیٹ ھوگئی،آپ کو انتظار کرنا پڑا۔"
"سوری مت کہئے، ہم سب بہت خوش ہوئے ہیں آپ کو دوبارہ یہاں دیکھ کر۔" خادمہ بھی خوش ہوکر بولی۔
"علیدان شاہ کہاں ہیں؟"
"صاحب اپنی اسٹیڈی روم میں ہیں"۔
آن نے گرم سوپ کا باکس بٹلر کے حوالے کیا۔
"کیا آپ اسے علیدان شاہ کو دے سکتے؟ میں نے ان کے لئے بنایا ہے۔"
"اوکے، میں اسے لاتا ہوں، آپ اوپر چلی جائیں۔"بٹلر تعظیم سے جھک کر بولا۔
آن نے سر ہلایا اور سیڑھیاں چڑھ کر ان کے اسٹیڈی روم کے باھر کھڑی ہوگئی، کیسے جائے؟
آخر جھجھک کر ناک کیا۔
"کم ان۔"
اندر سے بھاری دلفریب آواز گونجی تو جیسے آن کا دل سمجھو ھتھیلی میں دھڑکنے لگا ہو۔
وہ دروازہ دھکیل کر آھستگی سے دھڑکتے دل اور کانپتے قدموں سے اندر آگئی، علیدان اسٹیڈی ٹیبل کے پا بیٹھا تھا ۔شانوں کے گرد شال اوڑھی ہوئی تھی۔رنگت کافی زرد لگ رہی تھی۔اسے پچھتاوا سا ہوا۔
علیدان نے اس کو ابرو اچکا کر دیکھا، اور اسے مسکراتا دیکھ کر بولا۔
"نایاب مہمان کو کیا میں کچھ کہہ سکتا ہوں؟"
آن یہ سن کر ایک گلٹ کے ساتھ پرس سے میڈیسن نکال کر اگے بڑھی اور ٹیبل پر رکھ دیں۔
"یہ میڈیسن میں آپ کے لئے لائی ہوں۔"ہولے سے اسے بنا دیکھے بولی۔
علیدان نے میڈیسنز کو دیکھا اور مسکرادیا۔
"آپ نے تو مجھے ابھی تک کال نہیں کی، آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ میں بیمار ہوں؟"
"میں نے مدھان سے سنا، میں نے اسے کال کی تھی یہ جاننے کے لئے کہ وہ یونی جانے کے لئے ریڈی ہے؟" وہ اب بھی دل کی بات مدھان کی آڑ میں چھپاگئی۔
"سو آپ نے مدھان کو کال کی، لیکن مجھے نہیں کی؟" اس کی شکایت پر آن نے لب بھینچے، اور زیادہ خود کو قصوروار گردانا ۔
"ایکچوئلی۔۔۔۔" وہ اپنی بھنوؤں کے بیچ انگلی سےکھرچنے لگی۔
"کیا ، آپ کے پاس کچھ کہنے کو نہیں؟ مجرم محسوس کررہی ہو؟"علیدان نے چھیڑنے کے غرض سے پوچھا، اس کے لہجے کی شرارت واضع تھی، بی کاز ایک پیاری سی شریر مسکراہٹ آن کو دیکھ کر اس کے چہرے کو کھلا رہی تھی، وہ کافی فریش محسوس کررہا تھا خود کو۔
"یہ بات نہیں، میں نے اسی لئے کال نہیں کی ، کہ سوچا آپ کھانا کھانے آئیں گے۔"وہ لب بھینچ کر صفائی دینے لگ گئی۔
"اور۔۔۔آخر میں، جب میں نظر نہیں آیا، تو آپ نے بھی دیکھنے کی زحمت نہیں کی ۔"
علیدان کی سچی بات سن کر آن نے نظر جھکا لی کہ یہ سچ تھا، لیکن سوائے ہچکچاہٹ کے اور کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
"علیدان شاہ، میں خود آگئی ہوں کیا یہ فون کرنے سے زیادہ بھتر نہیں؟"آن نے اب کے نظر اٹھا کر اسے گھورا۔
"اگر میری بیماری کی بات نہ ہوتی ،تو مجھے ڈر تھا آپ کبھی نہ آتیں۔"پھر سے روٹھا سا لہجہ ، شکایتوں سے بھرا۔۔ اور یہ سچ بھی تھا۔
اس وقت بٹلر نے دروازہ ناک کرکے اجازت مانگی، علیدان کے طرف سے اجازت ملنے پر اندر آگیا اس کے ھاتھوں میں طشتری تھی جس میں ایک باول اور اسپون تھا ۔
" مالک، یہ میم آن خاص آپ کے لئے سوپ بناکر لائی ہیں، تھوڑا سا پی لیجئے۔"
اس نے ابرو چڑھا کر آن کو نہارا۔
"اچھا تو یہ وجہ ہے؟"
اس کے جملے پر آن کچھ نہ بولی تھی، لیکن بٹلر نے ضرور کہا۔
"میم آن نے سوپ بھت اچھا بنایا ہے، آپ ضرور پیجئے۔"
"اوکے آپ جاسکتے ہیں، اسے یہاں رکھ دیجئے۔" علیدان مسکرایا
اس کی سپاٹ آواز سن کر آن سمجھی وہ پھر سے ناراض ہوگیا ہے، وہ دل میں کافی مایوس ہوئی، وہ کیوں اسقدر ناراض ہوگیا ۔ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا؟
"دین ریمیمبر ٹو ٹیک میڈیسن، میں چلتی ہوں۔" وہ مڑی اور جانے لگی۔
تبھی علیدان کی سرد آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔
" یہیں کھڑی رہیں۔"
آن نے بے اختیار حیران ھوکر اسے دیکھا۔
"کیا کچھ اور بھی کہنا ہے؟"وہ دنگ ہوئی۔
تبھی علیدان نے لب بھینچ کر اسے گھورا۔ آپ کہاں جارہی ہیں؟"
اس پر آن پہلے تو حیران ہوئی پھر ہولے سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔ "ابھی آپ نے ہی تو کہا کہ ، جاو۔"
ان کی بات پر بٹلر کے دانت نکل آئے۔ "میم، سر نے مجھے جانے کو کہا تھا۔"
علیدان نے اسے ھاتھ سے جانے کا کہا۔ "اسے کچھ بتانے کی ضرورت نہیں یہ خود ہی کافی ذہین ہیں۔" میٹھی سی طنز کی ڈلی اس پر پھینکی،
بٹلر ھنس دیا ،اور ادب سے سر جھکاتا باھر نکل گیا۔
آن نے علیدان کو دانت پیس کر گھورا۔
"کیا آپ کو سکون نہیں آتا؟ جب تک مجھ پر ہر منٹ بعد طنز نہ کریں۔"
"کیا۔۔میں نے آپ پر طنز کیا؟ میں نے صرف سچ ہی بولا تھا۔" جواب بڑی معصومیت سے آیا تھا۔
"کیا میں بیوقوف ہوں؟ مجھے اپنے اسکول میں سب سے زیادہ جی پی ایوارڈز ملے ہیں۔" آن نے چڑ کر اسے گھورا تھا۔
"اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے سخت محنت کی ہے ۔"علیدان نے اس کی ذہانت کے مڈل کو مانا ہی نہیں۔
"آپ۔۔۔میں بس۔۔۔ میں اب آپ سے بات نہیں کروں گی" آن نے سخت برا مان لیا اور منہ سرخ ہوگیا۔
"میں بس گھر جارہی ہوں۔" وہ مڑی۔
اس وقت علیدان کو اس کا ہلکا مذاق مہنگا پڑنے لگا تھا، بے اختیار اسے پکار بیٹھا۔
"میں نے صرف کچھ الفاظ ہی کہے تھے، آپ کیوں اتنی ناخوش ہوگئیں؟"
اب آن نے اسے درشتی سے دیکھا۔
"کیا آپ کو اچھا لگے گا ؟ اگر کوئی آپ کو مسلسل اسٹوپڈ کہے۔"
"حقائق نے ثابت کردیا کہ آپ بے وقوف ہیں، میں سارا دن آپ کی ایک فون کال کا انتظار کرتا رہا۔اور آپ آخر کار میرے سامنے ظاہر ہوگئی،
تو بتائیں ؟ میں آپ کو کیسے جانے دوں؟"
وہ آھستہ سے گھمبیرتا لئے دلفریب آواز میں اس کے آگے پیار بھری شکایت درج کرتا گیا۔
"ادھر آجائیں" گھمبیر دلفریب آواز میں پکارا تھا، ایک جادو تھی اس کی آواز جس کے سحر نے اگر آن کو اس وقت گرفت میں نہیں لیا تو کہنا جھوٹ ہے۔۔
وہ سرخ چہرہ لئے ۔۔ ہولے سے سر ہلا کر بولی۔
" میں یہیں زیادہ کمفرٹ ہوں۔"
"مجھے ایک گلاس پانی دیں، میں دوائی کیسے نگلوں گا؟"
وہ سخت شرمسار ہوئی تھی، جلدی سے گلاس میں پانی بھرا اور سوچا۔ (یہ کیا ہورہا ہے؟ کیا وہ واقعی علیدان کے سامنے بیوقوف بن جاتی ہے؟ یا اس شخص کا آئی کیو لیول بھت اعلی ہے؟)
وہ کانپتے ھاتھوں سے پانی لے کر ٹیبل کے دوسرے طرف کھڑی ہوگئی۔
علیدان نے دوائی اٹھائی اور آن کو دیکھ کر ہلکی آواز میں بولا۔
"میرا سر کچھ چکرا رہا ہے ، یہ الفاظ پڑھ نہیں سکتا کیا آپ قریب آکر بتاسکتی ہیں۔کہ یہ کون سی دوائی ہے؟"
آن نے قریب آکر اس سے دوائی لی، اور اس سے پہلے کہ دوائی کا نام صاف دیکھ سکتی، علیدان نے اسے ہلکے سے جھٹکے سے اپنے حصار میں کرلیا۔
جھٹکا لگنے سے وہ سنبھل نہ پائی تھی، اور سیدھی اس کی بانہوں میں گری تھی،آن نےخود کو چھڑوانے کی کافی کوشش کی ،
لیکن علیدان کی گرفت اور مضبوط ھوگئی تھی،
"علیدان شاہ، وہ چینخی۔ "چھوڑیں مجھے۔"
"میں آپ کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟" علیدان نے نفی میں سر ہلا کر اسے رد کیا۔ "آپ خود ہی تو پاس آئی ہیں۔ اگر آپ کو چھوڑ دیا، تو مجھ سا بیوقوف شاید ہی کوئی ہوگا بہت حساب نکلتے ہیں آپ کے طرف۔" گھمبیر لہجہ فسوں بکھیرتا ماحول۔
آن اپنا سر گھما کر اس کو گھورنے والی تھی، لیکن علیدان نے اپنا ایک ہاتھ اس کے سر کے پچھلے حصے پر جمایا، اور اس کا چہرہ نیچے دبادیا ۔ اس کے خوبصورت ہونٹوں پر جھک گیا۔ علیدان نے اس کے ہونٹوں سے آتی خوشبو اپنے اندر محسوس کی تو جیسے خود پر قابو کھوبیٹھا، یہ بانہوں میں لرزتا نازک سا وجود اس کا ہی تو تھا، حق تھا اس پر وہ اس کی تھی، سر کے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک، پھر کیسے وہ خود پر بار بار بند باندھتا؟
وہ سچ میں اب اس کے وجود سے سکون چاھنے کی آس میں اس کی طرف بڑھا تھا، دوسری وجہ آن کو پروٹیکٹ کرنا، جو وہ اس سے الگ رہتے ٹھیک سے نہیں کرپارہا تھا، تبھی اس کا قریب ہونا لازمی ہوگیا تھا۔
آن کی آنکھیں خود سپردگی سے بند ہونے لگیں۔۔
کمرے میں ہلکی روشنی موجود تھی، رات باہر گہری ہونے لگی تھی،
علیدان اس کے نرم وجود کو لئے اسٹیڈی روم کے بیڈ پر لاکر آرام سے لٹادیا ،
اس وقت آن نے آنکھیں کھول دیں
وہ اس پر جھکا اس کے ملیح چہرے کو تکے جارہا تھا۔۔ اس کے ھاتھ آن کے بال سنوار رہے تھے ۔
"میں بہت خوش ہوں، آپ کو اپنے کمرے میں اپنے قریب دیکھ کر" علیدان نے اس کی کمر کے گرد گھیرا ڈال کر تھوڑا اوپر اٹھایا۔
"ع۔۔۔علیدان ۔۔م۔۔ میں۔۔"
اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش کروادیا۔
اب نہیں۔۔۔ ھنی ۔۔آن میری جان۔۔ بھت کرلیا صبر۔۔ رحم کریں مجھ پر"
تپا تپا سا التجا بھرا جملا۔۔ آن کو چپ کرواگیا۔۔
"کتنی دلکش ہیں آپ ، اور کتنا خوش قسمت ہوں میں" علیدان کی محبت و جذبات سے بھری انگلیاں آن کے چہرے کے نقوش کو چومنے لگیں ۔
باہر چاند نے شرما کر بدلی کی اوٹ میں منہ چھپا لیا تھا۔
دوسرا دن بہت خوبصورت، اور روشن تھا، یونی میں نئے طلبہ کی کلاسز جاری تھیں، وہ یونی طلبہ کی کائونسلر منتخب ہوئی تھی۔ اسٹوڈنس کو درپیش کوئی بھی مسئلہ ہو، اس کے حل کے لئے،اور ڈائریکٹ رابطے کے لئے واٹس ایپ گروپ بنایا تھا۔
اسٹوڈنٹس اس کے لئے تعریفی کلمات کہہ رہے تھے، اس کی خوبصورتی کا چرچا تھا۔
ابھی اس نے واٹس ایپ پر وائس پیغام چھوڑا تھا۔
"اس سے پہلے کہ میں سب کو ریپلائی دوں،ایک چھوٹی سی ریکوئسٹ کرنی ہے۔
آج کے بعد ،کوئی میری خوبصورتی، یا میری پرسنل لائیف کے متعلق کوئی کمنٹ نہیں کرے گا۔
یہاں بہت سارے لوگ موجود ہیں، اور کافی ساری معلومات بھی ۔۔ آپ مجھے پرائویٹ میسیج بھیج دیا کریں۔
جب بھی ضرورت پڑے،مجھے یاد کرلیجئے گا۔میں آپ کے سوالات کے جواب دینے کی کوشش کروں گی۔
اور جو جوان آج نیا آیا ہے ،میرے دوست کا بھائی ہے، میں اس کی ہوم ٹیوٹر بھی رہ چکی ہوں،اس کا نام مدھان شاہ ہے۔وہ بھی آپ کی چیٹ گروپ میں شامل ہے۔ اوکے اب اجازت، جب بھی ضرورت ہو مجھے بلاسکتے ہیں۔"
کچھ ہی دیر میں پورے گروپ میں مدھان شاہ ایک ٹاپک بن گیا۔
کچھ منٹس بعد مدھان کا چڑ چڑا سا مسیج آن کو موصول ہوا۔
"بھابھی، آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اب میرا واٹس ایپ لڑکیوں کے میسیجز سے پھٹنے لگا ہے"۔
وہ مسکرادی۔
"میں نے آپ سے دھوکا نہیں کیا۔ یہ آپ کا تعارف تھا۔آپ کو نہیں پتا کہ آپ کے لئے کیا بھتر ہے؟۔میں ابھی کافی مصروف ہوں،اگر آپ کو کوئی کام نہیں تو مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔"
آن نے فون بند کردیا۔
"لڑکے۔۔۔تمہاری ہروقت ایک آنکھ مجھ پر ہوتی ہے"۔آن مدھان سے دل میں بولی۔
چھٹی کے بعد وہ اپنے گھر ہی واپس جانے کے ارادے سے باہر نکلی تھی
اپنی رہائش تک پہنچی تو علیدان شاہ پہلے ہی سے گاڑی کھڑی کیئے اس کے انتظار میں سیڑھیوں کے پاس کھڑا تھا۔اس کی کار معمول کے مطابق اسی جگہ پارک تھی۔جہاں اکثر ھوتی تھی۔
"ایسا لگتا ہے۔ اس جگہ پر آپ کی گاڑی کا قبضہ ہو۔ اس جگہ پر کبھی دوسری گاڑی پارک نہیں ہوسکتی۔"
آن اسے دیکھ کر شرارت سے مسکرائی۔
"قبضہ ہی سمجھ لیں۔ کیا آپ نے کبھی دیکھا اگر یہ جگہ خالی بھی ہو تب بھی کوئی دوسرا اپنی گاڑی پارک نہیں کرسکتا۔کیونکہ ۔۔یہ جگہ میں نے خرید لی ہے۔" علیدان نے کندھے اچکا کر لاپرواہی سے کہا۔
آن کی آنکھیں یہ سن کر حیرت سے پھیل گئیں۔
"آپ کا مطلب؟ آپ نے رقم ادا کی ہے؟"
"بلکل۔" علیدان نے لب بھینچ کر سر اثبات میں ہلایا تھا۔
"یہ کب ہوا؟" آن نے چلتے ہوئے پوچھا۔
"اسی دن ، جب آپ یہاں شفٹ ہوئی تھیں، کسی نے مجھے کہا ،یہاں سے گاڑی ہٹاؤ۔ تب میں نے ایک لاکھ دے کر یہ جگہ اسی وقت تین ماہ کے لئے خریدلی تھی۔"
علیدان نے تفصیل بتا کر اسےحیران کردیا تھا۔
"تین ماہ کے لئے کیوں؟ آن نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
"کیوں کہ آپ کو یہاں صرف تین ماہ رہنا تھا، اس کے بعد میں آپ کو اپنے ساتھ لے جاتا۔"
آن نے اس کی بات پر اپنی آنکھیں گھمائیں تھیں۔
دونوں سیڑھیوں سے اوپر پہنچ چکے تھے۔ اور لفٹ کا انتظار کرنے لگے۔
تبھی علیدان نے اس کا بازو اپنی گرفت میں تھام کر اسے اپنے طرف گھمایا۔ ایک شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
"کیا۔ یہ ایسا نہیں ہے کہ آپ بھی میرے سے جدا ہونے کو تیار نہیں۔ "
اس کی بات پر، آن کی سانس وہیں تھم گئی تھی۔ کچھ پل تو وہ کچھ کہہ نہ پائی تھی۔ لیکن پھر سنبھل کر بولی۔
"آپ کو کچھ زیادہ ہی خوش فہمی نہیں ھوگئی؟"
"دنیا میں کسی کی ہمت نہیں کہ مجھے ایسا کہہ سکے۔ یہ صرف آپ ہی کہہ سکتی ہیں۔"علیدان نے برا منا کر غرور سے کہا تھا۔
"تو پھر مجھ سے بھی غیروں سا سلوک کرلیں۔" آن نے اس کے غرور پر چڑ کر کہا۔
اس کی بات پر وہ دلکشی سے مسکرا کر اس کے طرف جھکا۔
"آپ دل کو بھلی لگتی ہیں، اتنی کہ میری روح تک کو قابو کرچکی ہیں، میں اب بلکل بے بس ہوں۔"
آن کا دل پہلو میں دھک دھک کرنے لگا۔ اتنا کہ اس کی دھڑکن علیدان بھی صاف محسوس کرسکتا تھا۔ تبھی دلکشی سے مسکرا کر اس کے چہرے کے اترتے چڑھتے رنگ دیکھ کر دنگ ہوا تھا۔
اس وقت لفٹ کھلی۔
وہ دونوں اندر داخل ہوگئے۔ تبھی علیدان نے اسے ایک ہاتھ سے کھینچ کر لفٹ کی دیوار سے لگادیا۔ اور اس کے قریب ہوکر اس کے بالوں کی خوشبو سونگھتے جیسے مدھوش ہوا۔
"میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا۔کہ آپ کے وجود میں میڈیسنز کی سی خوشبو ہے ۔ افروڈیسیاک کی خوشبو ۔۔۔۔۔۔جو مجھے بری طرح لبھاتی ہے۔۔۔۔ناکارہ کردیتی ہے۔۔۔۔ مدھوش کرتی ہے۔۔۔۔۔میں خود کو روکنے کے قابل نہیں رہتا۔ آپ۔۔۔۔روح کھینچ لیتی ہیں۔"وہ اس کی خوشبو سے جیسے اپنے آپ میں نہیں رہا تھا۔ آنکھیں بند کیئے بس اسے سانسوں میں اتارے جارہا تھا۔
آن کی سانسیں تھم گئیں تھیں۔ ایک شرمیلی اور حیا سے پُر مسکان نے چہرے پہ پھول کھلادیئے تھے۔
اسی وقت لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ اور ایک آدمی ان دونوں کو دیکھ کر جھجھک کر وہیں کھڑا رہ گیا۔
آن نے شرما کر اسے دھکیلا اور لفٹ سے بھاگتی نکل گئی۔
پیچھے علیدان نے گھری سانس بھری اور بالوں کو ھاتھ سے سنوارتا باھر نکلا، اور دونوں ھاتھ پینٹ کی جیب میں ڈال کر آن کے روم کے طرف بڑھا۔ اسے آن کو اپنے ساتھ لے جانا تھا۔ حلانکہ یہ مشکل تھا۔ لیکن ناممکن نہیں تھا۔
☆☆☆
دونوں ولا ساتھ پہنچ چکے تھے۔ لیکن آن نے اپنے پہلے کمرے میں ہی رہنے کو ترجیح دی تھی۔ اور علیدان نے بھی اسے فورس نہیں کیا۔ بحرحال اس کی پروٹیکشن کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اس کی نظروں کے سامنے اس کے پاس تھی۔
اسے آن سے محبت تھی اس کی روح سے محبت تھی۔ اس کے وجود سے نہیں تھی۔ وہ اپنی انا، اپنی ضد، سمیت اسے عزیز تھی۔
آن نے آتے ہی پہلے کچن میں کھانا بنانا چاہا تھا۔ اسے دیکھ کر، شاہ ولا کے باورچی خانے میں جیسے خلل پڑ گیا تھا۔ وہ واقعی میں خود کو مجرم محسوس کرنے لگی، شرمندہ سی ہوگئی، بٹلر نے اسے دیکھ کر ادب سے کہا۔ "مالکن، آپ تکلیف مت کریں۔ آپ جاکر بیٹھئے، میں کھانا ریڈی ہوتے ہی لگاتا ہوں،
بہرحال، ابھی کھانا بننے میں کافی دیر تھی۔ سو وہ مسکراتی باہر آگئی۔ اور جاکر لائونج میں صوفہ پر بیٹھ گئی، دوسری طرف علیدان شاہ جو اس کے پہلو میں، گھریلو حلیے میں آرام دہ لباس پہنے اپنی ٹانگیں کراس کیئے ،صوفہ سے پشت لگائے، آرام دہ اور پرسکون انداز میں ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا۔
اس وقت ملازم دھلا ہوا فروٹ، جس میں، پائن ایپل ،اسٹرابیریز اور چیری تھیں، باول میں لے کر آیا،
علیدان نے اس سے باول لے کر آن کے ھاتھ میں دیا۔
" پہلے کچھ فروٹ کھائیں۔"
ملازم کے جانے کے بعد آن نے اسٹرا بیری اٹھالی اور آھستگی سے کھانے لگی،
علیدان شرارت سے اس کے طرف جھکا۔
"آن، آپ کو کون سا پھل زیادہ پسند ہے؟"
آن نے مزے سے بنا سوچے جواب دیا تھا۔
"بنانا۔"
علیدان دل کھول کر ھنسا۔۔۔
"ھاھا ھاھا۔"
اس کے ھنسنے پر آن سخت شرمندگی محسوس کرنے لگی،
اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ علیدان اس پر ھنسے گا۔
اس نے چڑ کر باؤل پٹخا تھا، جسے علیدان نے جلدی سے تھام لیا۔
"آپ۔۔۔آپ میں واقعی شرم نام کی چیز موجود نہیں۔"
علیدان نے بمشکل اپنے قہقہے کا گلا گھونٹا تھا۔
اسے ھاتھ سے پکڑ کر بٹھایا۔
"اچھا، کچھ نہیں کہتا۔" اس نے کان پکڑے۔
تب وہ اسے گھور کر واپس بیٹھ گئی۔
تبادلہ خیال کے طور پر ، میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مجھے چیری سب سے زیادہ پسند ہے۔"
اس نے آہستہ سے اس کے سرخ ہونٹوں کے طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا ۔"میں نے سوچا تھا۔ کہ آپ ڈورین(کڑوا پھل) سب سے زیادہ کھانا پسند کرتی ہوںگی۔"
" آپ مجھ پر طنز کررہے ہیں؟"ایک گھوری دی گئی۔
لیکن علیدان مسکراتا نفی میں سر ہلاتا فروٹ کھانے میں مگن رہا۔ آن نے اسے گھورا پھر سرد سانس کھینچ کر دوبارہ سے اسٹرا بیری کھانے لگی، دونوں نے تقریبا سارا پھل کھالیا تھا۔
اسی وقت بٹلر نے ٹیبل لگنے کی اطلاع دی۔
"مالک ،میم، کھانا تیار ہے۔"
علیدان نے اسے ہاتھ سے تھام کر اٹھایا۔۔ اور ساتھ لیتا۔۔ ٹیبل تک لے آیا۔۔
آن تو ٹیبل پر سجی اتنی ساری ڈشز دیکھ کر دنگ ہوئی۔
خادمہ اور بٹلر نے کم وقت میں دس سے زیادہ ڈشز تیار کرلی تھیں، آن نے بے اختیار حلق تر کر کے علیدان کو دیکھا تھا،
اس کی حیرت سے پھیلی آنکھوں کو دیکھ کر علیدان نے آنکھ ماری اور مسکرایا۔
"بیٹھ جائیں،اور کھانا کھائیں۔"
اس کی حرکت پر آن شرمندگی سے کرسی کھسکا کر بیٹھ گئی۔
تبھی بٹلر نے ڈشز سرو کرتے معذرت سے کہا۔ "مالکن، ہمیں نہیں معلوم تھا، آپ کو کیا پسند ہے، چھوٹے مالک نے کہا آپ کو بھوک لگی ہے سو ہم جلدی میں بس اتنا ہی بناسکے،آپ چیک کرلیں، اگر کچھ آپ کو پسند نہیں آیا تو ہم اسے ھٹادیں۔"
"نہیں، نہیں۔" آن شرمساری سے بول اٹھی۔ "سوری، آپ کو تکلیف ہوئی، اس سب کے لئے شکریہ۔"
"نو نیڈ تھینکس مالکن، ہمارا یہ فرض تھا۔"بٹلر ادب سے ھاتھ باندھ کر بولا۔
"ٹھیک ہے ، سب پہلے باہر جاؤ۔" علیدان کو معلوم تھا کہ جب وہ کھانا کھا رہی ہو تو اتنے سارے لوگوں کے گھیرے میں آنا پسند نہیں کرتی تھی ، لہذا اس نے سب کو پہلے باہر بھیج دیا۔
جب سب باہر چلے گئے تو آن نے کہا۔
"آپ نے انہیں اتنی ساری ڈشز تیار کرنے کے لئے کیوں کہا؟ ہم دونوں یہ سب ختم نہیں کرسکیں گے۔"
"جیسا کہ میں نے کہا،اگر اس کھانے کو بکریوں کے چارے سے کمپیئر کردیا جائے، تو یہ سب بھی آن کو پورا نہیں پڑے گا۔" شرارت سے اسے دیکھ کر اس کے کھانے پر میٹھی سی چوٹ کی تھی،
وہ خود کو بکری سے ملانے پر ناراض ہوگئی۔
"علیدان شاہ۔۔"وہ برہم ہوئی
علیدان اس کے ناراض کیوٹ سے فیس کو دیکھ کر دل کھول کر ھنسا۔
"ھاھا ۔۔ھاھا ھاھا۔۔۔ "آل رائیٹ، آل رائیٹ۔ میں اب اور تنگ نہیں کرتا، چلیں بیٹھیں۔۔۔ کھانا کھائیں۔" ساتھ ہی اس کی پلیٹ میں کھانا ڈالا۔
اس کی قہقہے کی آواز باہر کھڑے ملازم سن کر حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی تھے، کہ ان کا مالک اپنی زندگی میں پہلی بار ھنسا تھا، سب دل سے دعا کرنے لگے کہ دونوں کا ساتھ سلامت رہے۔
دونوں کھانا کھانے لگے،علیدان نے ابھی دو لقمے ہی لیئے تھے کہ اس کا فون بجنے لگا آفیشل کال تھی جسے سننے کے لئے وہ اسٹیڈی روم کے طرف بڑھ گیا۔
کچھ دیر بعد وہ واپس آیا تو آن اپنا کھانا کھاچکی تھی۔ علیدان نے اسے یوں دیکھا تو کہا۔
"کیا آپ نے کھالیا؟"
آن نے اثبات میں سر ہلادیا۔
"ہم ساتھ کھارہے تھے، اب جب کہ آپ نے کھالیا، میں نے ابھی نہیں کھایا میرا ساتھ دینے کے لئے کھائیں ۔"
وہ ساتھ بیٹھ گیا۔
"یہ آپ کا گھر ہے،آپ جب چاہے کھاسکتے ہیں، مجھے اپنے روم میں جانا چاھئے۔"وہ اٹھنے لگی۔
"کچھ دیر ٹھر جائیں، پھر ساتھ چلتے ہیں۔" علیدان نے اسے نرمی سے کہا۔
"کیا مطلب ہے آپ کا؟" آن اس کے ساتھ چلنے والی بات پر چونکی۔
"مطلب؟"علیدان ھنس پڑا
"آپ کیا سوچ رہی تھیں؟"پریشان مت ہوں، میں آپ کی مرضی کے سوا کچھ نہیں کرسکتا، میں چاہتا ہوں آپ میرے ساتھ ٹہریں، ابھی دانیال آفیس کا کام لے کر آئے گا۔ مجھے کام میں مدد کروائیں"۔
"مجھے کیا کرنا ہوگا؟" آن نے منہ بنالیا۔
"صرف اسسٹ کرنا ہوگا"۔
"آل رائیٹ دین۔" وہ بیٹھ گئی۔
علیدان اسے دیکھ کر مسکرایا۔
"آپ کو پتا ہے مجھے آپ کی کون سی خوبی پسند ہے؟"
آن نے اسے ناسمجھی سے استفہامیہ نظروں سے دیکھا۔
"آپ کا کردار ۔۔۔ جو کسی پتھر کی طرح مضبوط ہے، اور مجھے دن بدن اپنی گرفت میں جکڑتا ہے۔"
آن نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اور علیدان کو وہ اور زیادہ سخت لگی تھی۔
آدھے گھنٹے بعد دانیال فائلز کے بنڈل لئے حاضر تھا، تینوں اسٹیڈی روم میں چلے گئے، اور 4 بجے تک کام کرتے رہے۔۔۔ علیدان نے کام سمیٹا، اور آن کو دیکھا ۔۔ جو کرسی پر ہی نیند میں جھول رہی تھی،
علیدان نے فائلز اٹھا کر دانیال کو دیں، اور خود آھستگی سے آن کو اپنے بازو میں سنبھالا، دانیال نے اسٹیڈی کا دروازہ کھول دیا، علیدان اسے بازوں میں اٹھائے اپنے کمرے کے طرف بڑھا، اور اسے نرمی سے بستر پر لٹا کر کمبل اوڑھا دیا، وہ اب سکون سے سورہی تھی، علیدان نے نرمی سے اس کی پیشانی پر ہونٹ رکھ کر ہٹادیئے۔۔ اور تیزی سے دروازہ بند کرتا نکل گیا۔
صبح آن کی آنکھ علیدان کے کمرے میں کھلی تو حیران ہوئی ۔
"وہ کیسے پہنچی؟"
وہ ایک جھٹکے سے کمبل ھٹا کر کھڑی ہوگئی، سات بج کر پندرہ ہوئے تھے، وہ یونی سے لیٹ ھورہی تھی ، واش روم سے پانی گرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی، مطلب علیدان شاور لے رہا تھا۔
آن نے اپنا بیگ ڈھونڈھا جو روم میں کہیں نہیں تھا، وہ سمجھی ، اسٹیڈی روم میں ہوگا، جلدی سے بھاگتی اسٹیڈی روم میں گئی۔ اپنا بیگ اٹھایا۔وہیں پر فریش ہوکر، اور یونی جانے کے لئے نکل گئی۔
علیدان جیسے ہی شاور لے کر باھر آیا، اسے آن کہیں دکھائی نہیں دی، وہ سمجھا نیچے ہوگی، تبھی آرام سے تیار ہوکر نیچے ڈائننگ ھال میں آگیا۔
بٹلر اسے دیکھ کر ادب سے "سلام مالک" کیا۔
"تمہاری چھوٹی مالکن کہاں ہے؟ مجھے نظر نہیں آئی۔"
"چھوٹے مالک، چھوٹی مالکن ابھی ابھی یونی کے لئے نکلی ہیں، میں نے ناشتہ ان کے ساتھ کردیا ہے۔"
علیدان نے سر ھلادیا۔
"آل رائیٹ، میں سمجھ گیا، آپ جاکر گیسٹ روم سے دانیال کو اٹھا لائیں،"
"جو حکم ، چھوٹے مالک۔"
یہ کہتے ساتھ وہ گیسٹ روم کے طرف بڑھ گیا۔
پیچھے علیدان شاہ آن کا چہرہ تصور میں لاکر مسکرایا۔
☆☆☆☆☆
"مس آن، ابھی آپ کو مسٹر حارث نے بلوایا ہے،کہ جیسے ہی آپ آئیں تو آفیس پہنچیں۔"ٹیچر مایا نے اسے بتایا، اور خود کلاس لینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی،
اس کی اطلاع پر آن دنگ ہوئی۔
اس وقت حان حارث کیوں بلا رہا ہے؟"اوکے مایا، تھینک یو۔"
آن نے ایک گلاس پانی پیا، اور اسٹاف روم سے نکل کر پرنسپل آفیس کے طرف بڑھی،
دروازہ ناک کیا ،تو اندر سے حان حارث کی آواز آئی۔ "کم ان۔"
"مسٹر حارث آپ نے بلایا؟"
حان حارث نے نظر اٹھا کر اسے سر سے پیر تک دیکھا، اور سامنے کرسی کے طرف ھاتھ سے اشارہ کرکے بیٹھنے کو کہا۔
"ٹیک اے سیٹ"۔
دونوں ہی ایک دوسرے کو گھور رہے تھے، دونوں میں سے کسی نے بھی تصور نہیں کیا تھا کہ ایک دن اس طرح آمنے سامنے ہونگے۔
حان حارث نے ایک فارم اس کے طرف پھینکا۔
"یہ تمہارا اس ماہ کا ایوولیشن فارم ہے،میں نے اس سے دو نکات کٹوادیئے ہیں۔"
"کیوں کیا آپ نے ایسا؟" آن نے اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
"میں نے سنا ہے کہ کل تمہارے ایک اسٹوڈنٹ کی طبعیت خراب ھوگئی تھی، تم اسے ھاسپٹل لے گئی تھی۔"
"ییس ،"وہ بے تکلفی سے بولی۔
"میں نہیں سمجھتی کہ اس میں کوئی غلطی ہے۔"
"لیکن وہ اسٹوڈنٹ گذری شب کافی بے آرام رہا، تم اسے صبح کو ھاسپٹل کیوں لے گئی تھی؟"
"تمہیں پتا ہے تمہارے نمبر کیوں کٹ گئے ہیں؟ کیونکہ تمہاری اسٹوڈنٹ کے والدین صبح صبح اپنے کام پر جاتے ہوئے ڈسٹرب ھوکر ادھر آئے تھے، یہ بات نہ صرف ان کے کام پر اثر انداز ہوئی بلکہ یونی کے متعلق بھی وہ غیر مطمئن ہوئے،کہ ھم ان کے بچوں کا خیال نہیں رکھ پارہے، یہ سب صرف تمہاری لاپرواہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ سو تم کو سزا دی گئی ہے۔"
"آل رائیٹ،"وہ سرد انداز میں بولی۔
"تم وہ کرو جو کرسکتے ہو،تم کو اجازت ہے زیادہ نمبر بھی کاٹ سکتے ہو۔۔لیکن تم مجھے یہاں سے نکالنے کے اہل بحرحال نہیں ہوسکتے"۔ یہ کہتے ہی اس نے فارم اس کے طرف اسی کے انداز میں پھینک دیا۔اور اٹھ کر جانے لگی جب حان حارث کی سرد اور طنزیہ آواز نے اس کے قدم دروازے پر روک دیئے لیکن وہ مڑی نہیں تھی۔
"یقین دلاؤ کہ میں ایسا کیوں نہیں کرسکتا؟ اسی لئے کہ تم علیدان شاہ کی عورت ہو؟
جب تم اس کے ساتھ خفیہ تعلق رکھو گی، اس کے ساتھ سوؤ گی، تو وہ گھایل تو ھوگا، پھر وہ سب کچھ تمہارے لئے کرے گا جو تم کہو گی، کیا یہ سچ نہیں کہ یہ جاب تم کو اس کے بیس پر ملی ہے۔"
آن نے اپنے دانت تکلیف سے کاٹ لیئے ،آنکھوں میں نمی بھر گئی لیکن وہ جانتی تھی اسے رونا نہیں چاھئے، بی کاز وہ آدمی اس کے آنسووں کے قابل بھی نہیں تھا،
آن نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور مسکرا کر پلٹی
"تم صحیح کہتے ہو، جیسے کہ آج رات بھی میں علیدان کی خدمت کروں گی،آفٹر آل وہ ان لوگوں سے مختلف ہے،جو اپنے منہ سے صرف لفظ "محبت"ادا کرتے ہیں۔وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اپنے الفاظ کا پاس رکھتا ہے۔ تم اس کی جوتی کی دز کے قابل بھی نہیں ھوسکتے۔"
وہ طنزیہ کہتی، اسے اچھی خاصی ٹھنڈی مار لگا گئی تھی۔
پیچھے حان حارث نے آپے سے باہر ہوکر سارے ڈاکیومنٹس ٹیبل سے اٹھا کر زمین پر پھینک دیئے اور غرایا۔
☆☆☆
اس وقت ساڑھے سات بجے تھے،جب اس نے اپنا کام ختم کیا۔
آن نے وقت دیکھا اور سوچا کہ علیدان نے کہا تھا وہ ڈنر ساتھ کریں گے، اس نے جلدی سے ٹیبل کی درازیں لاک کیں، اور یونی آفیس سے باہر نکلی ، جب بس اسٹاپ پر پہنچی ،تو پیچھے سے کار کی ھارن سنائی دی، آن نے علیدان کی گاڑی دیکھی تو حیران رہ گئی، "کہ وہ اسے لینے آیا ہے"
وہ کافی خوش ہوئی کہ بس پر جانے کی مشقت سے بچ گئی ہے، جلدی سے دروازہ کھول کر آگے بیٹھ گئی۔
"آپ کیسے آئے؟"
"میں آپ کو پک کرنے آیا ہوں" اسے مسکرا کر دیکھا۔ جو کافی خوش لگ رہی تھی۔
"تو پھر آپ نے مجھے کال کیوں نہیں کی؟" آن نے ہلکی سی ناراضگی سے کیوٹ سا منہ بنایا۔
"کیا یہ زیادہ اچھا نہیں کہ فون کے بجائے میں خود لینے آیا ہوں، "
آن نے لب بھینچے، پھر دل سے مسکرائی،اور جلدی سے سیٹ بیلٹ باندھنے لگی۔
علیدان اس کی مسکراہٹ اور کھلا کھلا کیوٹ چہرہ دیکھ کر اسے چڑایا۔
"کافی خوش لگ رہی ہیں۔کہ میں آپ کو لینے آیا ہوں"۔
آن نے اسے دیکھا اور مسکرا کر آنکھیں گھمائیں۔
"میں کیوں خوش نہ ہوں، مجھے آپ نے بس پر جانے کی مشقت سے بچالیا ہے"
علیدان کی تو اس کی منطق سن کر ساری خوشی مانند پڑگئی۔
"جھوٹی"۔۔ یہ کہتے ہی منہ بنا کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔
"آج ہم گھر کے بجائے باہر کھانے کے لئے چل رہے ہیں۔"علیدان نے سنسی پھیلائی۔
"کہاں؟۔۔آن نے متجسس ہوکر پوچھا۔
"کیا آپ مجھے سسپنس میں نہیں رکھتیں؟ آج میں بھی آپ کو کو سسپنس میں رکھوں گا" علیدان نے کہہ کر توجہ سامنے مرکوز کردی۔
"تو کیا میں ایک بات کہہ سکتی ہوں؟"آن اس کے طرف مڑی
"بولیں۔"
"مجھے سخت بھوک لگی ہے، اور میں زیادہ دور نہیں جاسکتی پلیز کہیں قریب ہی کوئی جگہ دیکھیں۔"
"بھوک لگی ہے؟۔۔۔کیا آپ نے لنچ نہیں کیا تھا آن۔۔؟اس کی آنکھوں میں فکر تھی، پھر شرارت سے بولا۔
"کہیں ایسا تو نہیں مجھے دیکھ کر آپ کی بھوک بڑھتی ہے۔"
"مذاق مت کیا کریں۔ " آن نے سینے پر ھاتھ باندھ کر منہ بنایا۔"آپ کو کیا پتا میں سارا دن کتنا مصروف رہی،کہ مجھے کھانے کا وقت بھی نہیں ملا، بی کاز این ایکسیڈنٹ۔"
علیدان نے یہ سن کر سخت حیرانگی سے اسے دیکھا۔
"کوئی بھی بات چاہے کتنی بھی بڑی ہو، آپ کے وجود سے زیادہ اہم نہیں ھوسکتی۔"
"اگر آپ ایک وقت نہیں کھائیں گیں، تو مر نہیں جائیں گیں، لیکن بھوک اور زیادہ بڑھے گی۔"
اس کی بات پر آن نے اسے کھل کر مسکراہٹ سے نوازا۔
"آج رات۔۔۔ ہوسکتا ہے میں زیادہ کھاوں "۔
"تو پھر میں کسی کو کہہ کر ایک بکری کے کھانے کا اہتمام کرتا ہوں" علیدان نے اسے چڑایا۔۔
آن نے دل ہی دل میں اسے سو صلواتیں سنائیں " آپ ہوںگے بکرے، آپ کی ساری فیملی بکری۔ہونھہ ۔۔بھول جاؤ ۔۔۔ بس بھول جاؤ ۔۔"آن منہ بنا کر خود سے ہی بڑبڑائی لگی تھی۔
علیدان نے اس کے معصوم اور ناراض تاثرات کو دیکھ کر گاڑی ڈرائیو کرتے پوچھا۔ " کیا ہوا تھا آج؟"
"کچھ خاص نہیں ، میری ایک اسٹوڈنٹ کی رات طبعیت خراب ھوگئی تھی، میں آج صبح اس کے ساتھ ھاسپٹل گئی تھی،اور جب واپس آئے تو اس کے والدین بھی آئے بیٹھے تھے،میں تبھی زیادہ مصروفیت کے باعث لنچ نہیں کرسکی۔"
اس کی بات پر علیدان نے سانس کھینچی۔
اس پر آن نے اسے حیرت سے دیکھا۔
"فاقہ کشی میں نے سہی ہے آپ کس بات پر سانس بھر رہے؟"
"میرا دل دکھا ہے، کیا میں آہ بھی نہیں کرسکتا؟" وہ سریس لگتا تھا۔
آن نے اسے لب بھینچ کر دیکھا اور کہا۔
"اس طرح کے حالات میں ، جہاں آپ کا دل دکھتا ہے، وہیں میں بھوک محسوس کرتی ہوں۔ سو ڈونٹ وری اباوٹ می، جسٹ اسپیڈ اپ۔"
علیدان نے ھنس کر سر خم کیا، اور اسپیڈ تیز کردی۔
وہ اسے سیدھا شاہ ولا لے کر آیا تھا۔
☆☆☆
پھر اس دن کے بعد علیدان شاہ نے خادمہ سے کہا کہ آن کو لنچ بھیجا کریں،
ایک ماہ پلک جھپک میں گذر گیا تھا کہ پتا ہی نہیں چلا۔
ووکیشن سے پہلے آن نے اسٹوڈنٹس کے ساتھ میٹنگ کی،
ان کو چھٹیوں کے دوران اپنی حفاظت کے ایشو پر ھدایات دیں،
اور ان اسٹوڈنٹس کے نام رجسٹرڈ کیئے جو چھٹیوں پر نہیں جارہے تھے،
اس نے کچھ کلاس میٹس کا گروپ سیٹ کیا، انہیں کہا کہ اگر چھٹیوں کے دوران کوئی بھی مسئلہ ہو اسے کال کرلیں۔
جب وہ کلاس روم سے نکلی تو مدھان اسے ڈھونڈھتا ادھر آرہا تھا۔
"بھابھی۔۔۔؟"
آن نے اسے دیکھا۔
"اوھ مدھان، کیا بات ہے؟"
"ابھی گاڑی مجھے پک کرنےآرہی ہے۔ آپ میرے ساتھ چلیں۔" مدھان نے اس کے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔
"کہاں؟"آن رکی۔
"بھائی کے ساتھ کھانا کھانے۔بھائی نے کہا آپ کو ساتھ لیتا آؤں ۔" نرم لہجے میں بتایا۔
"آن نے نفی میں سر ہلایا۔ "میں نہیں چل رہی۔؟"
"ایسا نہیں ہوسکتا، بھائی نے کہا ہے ، میں بھلی نہ آؤں لیکن آپ ضرور ۔"
جب یہ دونوں باتیں کررہے تھے، کسی کی حسد اور غصے سے بھری نظریں ان دونوں کو گھور رہی تھیں۔
"چلیں جلدی کریں، علیدان بھائی انتظار کررہے ہونگے۔"
مدھان اس کے ساتھ آفیس تک آیا، تاکہ وہ اپنا بیگ اٹھا سکے۔
آفیس کے انٹرنس پر حان حارث کھڑا ان دونوں کو گھور رہا تھا۔
"میں نے سنا ہے کہ مس آن اپنے میل اسٹوڈنٹس میں بہت مشہور ہے،آج یہ دیکھ کر لگ رہا کہ یہ سچ ہے۔میں تم کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ تم یہاں استاد ہو، بہتر ہوگا اپنے گندے کردار کی بدبو سے معصوم اسٹوڈنٹس کے کردار کو تعفن زدہ کرنا بند کرو ۔ "
یہ سن کر مدھان سخت برہم ہوا۔
مدھان نے اسے غصہ سے دیکھا، اور اس کے اور آن کے بیچ میں کھڑا ہوگیا، حان کو گھورتا ہوا بولا۔
" کون ہو تم؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری ٹیچر سے اس طرح بات کرنے کی؟"
حان حارث نے اسے سرد انداز میں گھورا۔
" تمہاری اس مس آن کا سابقہ منگیتر، تم کو یاد دلادوں کہ تمہاری مس آن کوئی عام عورت نہیں ہے، اس کی دوستی سے دور رہو، مرد اس کا بیک گرائونڈ جانے بغیر اسے کنٹرول نہیں کرسکتے۔"
اس کی بات پر مدھان نے غصہ ہوکر ھاتھ اٹھا لیا۔جب آن نے اسے روکا۔۔اور کہا۔
"مدھان، بھول جاؤ، جاکر باہر گاڑی میں ویٹ کرو، میں جلدی آتی ہوں۔"
"میں ایسا نہیں کرسکتا، اگر میں آپ کو چھوڑ کر گیا تو یہ آپ کو نقصان پہنچائے گا۔"
مدھان اسے چھوڑ کر جانے کے حق میں نہیں تھا۔
"یہ آفیس بلڈنگ ہے،کوئی مجھ سے بدمعاشی نہیں کرسکتا۔ جاؤ شاباش۔"
مدھان حان کو گھورتا یہ کہتا باہر نکل گیا۔ "اسٹے اوے فرام مس آن، ورنہ میں چھوڑوں گا نہیں۔"
اس کے جانے کے بعد آن نے آفیس میں جانا چاہا جب حان نے اس کی کلائی گرفت میں قابو کرلی۔
"مجھے چھوڑو، مجھے دوسرے مرد کی بانہوں میں گرنے کی جلدی ہے۔"آن نے طنزیہ کہا۔
"تم۔۔۔۔۔" حان حارث کا چہرہ غصہ سے سرخ پڑگیا۔
آن سرد انداز میں ھنسی،
"وائے؟ کیا اسی لئے کہ تم اب بھی آس لگائے ہو، کہ میں۔۔۔ بے شرم عورت۔۔۔ واپس تم کو دیکھوں گی؟ خواب دیکھنے چھوڑو۔۔۔ تم میرے بلکل قابل نہیں ہو۔"
حان حارث نے یہ سن کر اس کی کلائی چھوڑ دی تھی۔ وہ اسے حقارت سے دیکھ کر آگے بڑھ گئی۔ جب اپنا بیگ لے کر واپس آئی تو وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا۔
آن جیسے ہی اس کے پاس سے ہوکر گذری۔ حان حارث کی سرد آواز نے اس کے پاوں جکڑ لئے۔
" ایک رات کے کتنے لو گی؟"
آن اپنی جگہ پر سن کھڑی رہ گئی، ابھی یہ زلت بھی سہنی تھی،
"کیا کہا تم نے؟"
"اگر وہ ایسا کرسکتے ہیں، تو میں کیوں نہیں؟ کتنے میں بیچو گی خود کو ایک رات کے لئے؟۔۔۔نہیں، میں تین گنا بڑھا کر قیمت دوں گا۔بولو؟ "
ابھی اس کے منہ میں الفاظ تھے جب آن کے ھاتھ کا ایک کرارا تھپڑ اس کا گال سرخ کرگیا۔
اس کے الفاظ سن کر غصہ، زلت اور شرم سے وہ پوری کانپ گئی تھی کہ بس نہیں چل رہا تھا اس کی کھال ادھیڑ کر رکھ دے۔
اس کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں۔
"شیم آن یو، حان شیم آن رئلی آج تم میری نظر میں کتے سے بھی گر چکے ہو۔"
"کیا، صرف ایک تم ہی میرے آگے معزز ہو؟ تم سمجھتی ہو، تم میری نظر میں پاک باز ہو؟تم صرف ایک ھائی کلاس طوائف زادی ہو۔" وہ چینخا۔۔
جس پر آن نے بے اختیار ہوکر اسے تابڑ توڑ تھپڑ مارے،
یہ پہلی بار تھا کہ وہ بے قابو ہوکر اس پر ھاتھ اٹھا چکی تھی،
"کیا میں سچ نہیں کہہ رہا؟" وہ اس کے ھاتھ پکڑ کر بولا۔ "کتنے آدمیوں کے ساتھ سوچکی ہو؟ وہ سوسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟" وہ جیسے پاگل ھورہا تھا۔ کہ اخلاقیات ہی بھول چکا تھا۔
آن کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے،اس نے اپنا سر اٹھا کر آنسو کو روکنے کی کوشش کی۔
" بی کاز یو آر ناٹ ورتھی، حان حارث ، بھلی تم کچھ بھی کرلو، میں تمہارے بستر پر نہیں آسکتی۔"
گاڑی میں مدھان کے ساتھ بیٹھنے سے پہلے وہ کافی حد تک اپنے اعصاب قابو پاچکی تھی۔ لیکن اس کی متورم آنکھیں صاف چغلی کھارہی تھیں کہ وہ روئی ہے۔
"بھابھی، یہ حان حارث آپ کا منگیتر تھا؟"
آن نے اسے نہیں دیکھا، بلکہ کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، اسے بنا دیکھے آھستہ مگر بھاری آواز میں بولی۔
"مدھان ، علیدان کو کچھ مت بتانا کہ آج کیا ہوا تھا؟"
یہ سن کر مدھان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
" کیا بھائی کو پتا نہیں کہ یہ شخص آپ کا منگیتر تھا؟"
اس کی بات پر آن کچھ نہیں بولی۔بس خاموشی سے باھر بڑھتے اندھیرے کو دیکھتی رہی، اس میں مدھان کو دیکھنے کی ہمت نہیں تھی، کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی، کہ مدھان اس کی روئی روئی آنکھوں کو دیکھ کر کوئی سوال پوچھے۔
"بھابھی ، آپ کے لئے بھتر ہے کہ بھائی کو بتادیں۔اگر آپ نے ان سے چھپایا،تو وہ ناراض ہوجائے گا، اگر وہ ناراض ہوگیا، تو اس کے نتائج بھت برے نکلیں گے۔"
آن نے باھر ہی دیکھتے ہلکی آواز میں اسے کہا۔
" وہ جانتا ہے مدھان۔ لیکن میں تم کو اجازت نہیں دیتی کہ اسے کچھ بتاؤ، ورنہ وہ میرے لئے پریشان ھوجائے گا۔"
"لیکن میں نے دیکھا وہ آدمی آپ کو حراساں کررہا تھا۔" مدھان کی بات پر وہ زخمی سا مسکرائی،اور کہا۔
" اگر علیدان کو معلوم ہوگیا۔تو وہ خود ہی معاملہ سنبھال لےگا، تم کو پریشان ھونے کی ضرورت نہیں،ایک ہی وقت میں سارے مسئلے حل نہیں ھوتے۔ جسٹ ڈونٹ ٹیل ہم۔"
جو کچھ ہوا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ اسے دلی تکلیف نہیں ہوئی تھی،یہ سچ ہے کہ ماضی میں اس نے حان حارث سے محبت کی تھی۔
لیکن حنیم کے طرف بڑھنے کے بعد ، اسے ہمت نہیں ہوئی تھی وہ اپنے احساسات اتنی آسانی سے اس شخص پر ضیائع کرتی۔جس کو اس کے احساسات کی قدر نہ ہوئی تھی۔اور اپنے نفس کی تسکین کے لئے، دوسری عورت کے طرف بڑھ گیا۔ آن نے اپنے احساسات چھپا لئے تھے۔ خود تک محدود کرلئے تھے۔ اپنے گرد سخت گیری کا خول چڑھا لیا تھا۔ایسی بے حس بن گئی جیسے اسے حان کے بدل جانے کی پرواھ نہ ہو۔ اور خود کو مضبوط کرلیا تھا۔
'لیکن ۔۔۔کِیا مَضبُوط لَوگ دِل نہیں رکھتے۔کیا اُن کو تَکلیف نہیں ھوتی؟ یا وہ تنہائی مَحسوس نہیں کرسَکتے۔کِیا وہ پتھر کے بنَے ھوتے ہیں؟وہ بھی اِنسان تھی۔۔ایک جیتی جاگتی گوشت پوست کی سَانس لیتی اِنسان۔۔۔کمزور اِنسان کے بِنسبَت ایک بظاہر مضبوط نظر آنے والا اِنسان اندَر سے اتنا ہی نازُک اور حسَاس ہوتا ہے،اور جتنا اُس کا نُقصان ہوتا ہے۔ اُتنا کِسی کَمزور اِنسان کا نہَیں ہوتا۔'
حان حارث نے اسے محبت کا مان دیا تھا۔ لیکن پھر اس نے خود ہی اس کی محبت کا وقار بُجھا دِیا تھا ، اور اب۔۔۔۔ اُسے لفظ مُحبت سے ڈر لگنے لَگا تھا۔اُسی ڈر کے بدولت ہی وہ عَلیدان جیسے محبت کرنے والے پیارے سے شخص کو محبت دینے سے ڈرتی تھی۔ آفٹر آآل اٹز اوکے۔۔۔'
آن کی سوچوں کے تار گاڑی رکنے کے جھٹکے پر ٹُوٹ گئے،اس نے چونک کر باہر نظر کری، کار کِلب ھاؤس پہُنچ چُکی تِھی،
علیدان وہاں پہلے سے ہی موجود تھا۔اپنی کار کے پاس کھڑا، ان دونوں کا داخلی دروازے پر انتظار کررہا تھا۔
ان دونوں کو آتا دیکھ کر جلدی سے آگے بڑھ آیا۔
"یہ تُم دونوں اتنے سَلو کُیوں آئے ہو؟"
اس کے پوچھنے پر مدھان نے آن کے طرف اشارہ کرکے کہا۔
" میں بھابھی کا انتظار کررہا تھا۔"
آن نے سر ہلا کر اس کی تائید کی۔
" میں اپنے کلاس میٹس کے ساتھ میٹنگ کررہی تھی۔"
"آپ ایک صفائی کرنے والے سے بھی کم کماتی ہیں،لیکن کام ان سے بھی زیادہ کرتی ہیں۔" علیدان نے شرارت سے اس کے کام پر چوٹ کی، جس پر آن فوراً چِڑ گئی، اُسے کچھ دیر پہلے کی ساری دلی تکلیف بھول گئی، یاد رہی تو بس علیدان کی طنزیہ بات ۔۔برہمی سے کہا۔
"اور۔۔۔۔آپ دوسروں کے کام پر تنقید کرنا نہیں چھوڑتے علیدان۔۔۔ یہاں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک صفائی کرنے والا ہو یا ایک استاد۔۔۔۔۔یہاں کوئی تفریق نہیں ہے کہ کون اعلی ہے کون کمتر۔۔۔۔۔ یہاں صرف لوگوں کی صلاحیتیوں میں تفریق ہے۔۔۔۔یہ محض حاسدانہ لوجک ہے اور کچھ نہیں،ورنہ کوئی کمتر یا اعلی نہیں ہوتا۔" وہ تو اچھی خاصی تقریر جھاڑ گئی۔
علیدان کے ساتھ مدھان بھی دنگ ھوگیا، مدھان حلق تر کرتے مخل ہوا۔
"کیا ہم یہاں کھانا کھانے نہیں آئے تھے؟ آپ دونوں تو دروازے پر ہی بحث کرنا شروع ہوگئے۔ مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے؟ جیسے میں آپ دونوں کے درمیاں پھنس گیا ہوں۔"
علیدان نے نظریں ترچھی کرکے اسے دیکھا۔
"اگر تم یہاں پھنس گئے ہو تو خود غائب بھی ہوسکتے ہو۔"
"علیدان بھائی، آپ نے ابھی خود فون کرکے دعوت دی ہے کہ آن بھابھی کو لے کر آؤں، درست نا؟"وہ اس کی بے وفائی پر رنجیدہ سا ہوا۔
علیدان اس کی بات پر بناوٹی انداز میں مسکرایا۔
"صرف ابھی۔۔۔۔ کیا تم جانتے ہو؟"
مدھان اس کی بات سن کر کافی ناخوش ہوا تھا، آنکھیں چھوٹی کرکے بولا ۔
" واھ بھائی، آپ کتنے جلدی بدل گئے۔ بھابھی، آپ کی وجہ سے،بھائی کافی ظالم بن گئے ہیں،جو اپنی فیملی کا خیال بھی نہیں کرتے، آپ کو اس قسم کے آدمی کے ساتھ احتیاط کرنے کی ضرورت ہے۔"اس نے آن کو جیسے نصیحت کی۔
اس بات پر علیدان نے اس کے سر پر ھلکے سے تھپڑ لگائی تھی
" شریر کہیں کے۔۔"
"ھااااہ ۔۔بھائی، آپ کے روئیے پر میں اس الیکٹرک بلب کی طرح جل رہا ہوں۔سچیییی۔۔۔" یہ کہتے ہی علیدان کے دوسرے تھپڑ سے بچنے کے لئے بھاگتا اندر کلب ھاؤس میں داخل ھوگیا۔
پیچھے علیدان اور آن بھی مسکراتے بڑھنے لگے۔
جب یہ تینوں ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آنے لگے،
اس وقت بینش اعوان ان کو دیکھ کر وہیں کھڑی رہ گئی ،جو ایک پرائیویٹ روم سے باہر آرہی تھی۔
بینیش نے خاموشی سےان کا پیچھا کیا۔
یہ دیکھ کر کہ آن علیدان شاہ اور ایک چھوٹے لڑکے کے ساتھ پرائیویٹ روم میں جارہی ہے، وہ شک میں پڑگئی،
اس نے ہونٹ سکوڑے، اور نظریں گھمائیں ،
جس کا مطلب تھا" موقعہ ملنے والا تھا آن پر حملہ کرنے کا۔وہ آج اپنے منصوبے پر عمل کرنے والی تھی۔
تینوں پرائیویٹ روم میں آئے تھے، اور ساتھ بیٹھ گئے۔ علیدان نے آرڈر پلیس کیا، تبھی دروازے پر ھلکی سی ناک ہوئی۔
تینوں نے کھٹکے پر صرف نظر پھیر کر دروازے کے طرف دیکھا تھا، جہاں سے بینیش اعوان نامکمل لباس ،جو کندھوں سے ڈھلکا ہوا تھا۔۔ سینہ چھلک رہا تھا، کندھے ننگے تھے، وہیں ٹانگیں بھی ننگی تھیں۔
آن تو اسے یہاں دیکھ کر شاکڈ رہ گئی، اسے حیران دیکھ کر بینیش کی آنکھوں میں کمینی سی چمک آئی تھی، لیکن ہونٹوں پر مصنوعی نرم سی مسکراہٹ سجا کر آگے بڑھی۔
"آن۔۔۔۔ اٹز رئیلی یوووو؟ میں نے ابھی تمہیں دروازے سے دیکھا تھا،اور ہچکچا رہی تھی، ڈر تھا کہیں غلط لڑکی کو تو نہیں پہچانا؟"
اس وقت علیدان اور مدھان نے بھی اس پر خیر مقدمی احساس کے ساتھ دیکھا۔ وہ سمجھے آن کی دوست ھوگی۔
آن سرد تاثرات کے ساتھ اسے دیکھ کر بولی۔ "تم یہاں کیا کررہی ہو؟"
"دیکھو تو۔۔۔ کیا کہہ رہی ہو؟ تمہاری بڑی بہن ہونے کے ناطے سے، کیا میں تم کو دیکھنے یا ملنے بھی نہیں آسکتی تھی؟"
وہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی اور اس کے ساتھ کی کرسی پر دھڑلے سے بیٹھ گئی۔
" ڈیڈ نے بتایا، تم ایک یونی میں استاد ہو، واھ۔۔۔کیا ہمارا خاندان اب ایک اسکالر خاندان کہلائے گا؟۔۔۔۔۔ اور یہ سب تمہاری مھربانی سے ہے۔"
آن نے تعجب اور ناسمجھی سے بینیش اعوان کو دیکھا۔ جیسے وہ کوئی پاگل ہو۔
"تم کیا کرنے کی کوشش کررہی؟"آن کا لہجہ سخت اور آواز طنز سے بھری ہوئی تھی۔
"اوھ۔۔۔۔ ہاں، آن۔۔۔ کیا تمہارے پاس خرچ کے پیسے ختم ہوگئے ہیں؟" ساتھ ہی پرس سے کارڈ نکالا۔ اور اس کے ھاتھ کو تھام کر اس میں زبردستی تھمایا۔
" میں یہ کارڈ اپنے ساتھ لے آئی تھی۔ یہ لو۔۔۔ اور اسے استعمال کرو، آئندہ میں تمہاری یونی آکر تمہیں ان لمیٹڈ کارڈ دے جاوں گی۔"
آن کی پیشانی پر سلوٹیں پڑگئیں۔
"جسٹ واٹ ڈو یو وانٹ؟"
آن نے اس کا مقصد جاننا چاہا، وہ اس کی ایکٹنگ کو کسی خاطر میں نہ لائی تھی، نا ہی کارڈ تھاما تھا۔
"آن اپنے گھر والوں سے اتنی نفرت مت کرو، ہم جانتے ہیں تم نے تنہائی سہی ہے، لیکن تم بہت ضدی ہو، ڈیڈ نے کتنی بار تمہیں گھر آنے کا کہا ہے۔ لیکن تم اپنے روئیے سے ڈیڈ کے ساتھ ساتھ زایان بھائی اور میرا بھی دل دکھادیتی ہو، میں مانتی ہوں۔۔۔۔میری ماں کی باتیں تمہیں تکلیف دیتی ہیں۔ لیکن۔۔ وہ دل کی اچھی ہے۔
میں،بھائی اور ڈیڈ تمہارے ساتھ ہیں، اور تم کو گھر واپس لانا چاہتے ہیں"۔
وہ کافی چالاکی سے پاس بیٹھے لوگوں کے ذہن کو تذبذب میں ڈال چکی تھی۔
مدھان کافی پزل تھا، اس نے علیدان کو ناسمجھی سے دیکھ کر پوچھا۔
" یہ کیا چل رہا ہے، علیدان بھائی ؟ مس آن کی فیملی ہے؟ وہ بھی اعوان فیملی۔۔؟ کیسے ہوسکتا ہے؟"
اس کے بنسبت علیدان سارا ڈرامہ سینے پر بازو باندھے دیکھ اور سن رہا تھا،آرام سے ھاتھ بڑھا کر ریڈ وائن کا گلاس تھاما۔ مدھان کے سوالات سن کر اس نے گلاس پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔
(بھاڑ میں جائے ان کی فیملی، آن عصمت بلکل بھی ان کا حصہ نہیں ہے) وہ دل ہی دل میں برہمی سے دانت پیس کر بولا۔
بینیش نے ان دونوں کو دیکھ کر ہچکچانے کی ایکٹنگ کی، اور پوچھا۔
"آپ شاہ خاندان کے بڑے اور چھوٹے مالک ہیں نا ؟"
اس کی بات پر مدھان نے حیرانگی سے اسے دیکھا۔
" تم ہمیں جانتی ہو؟"
بینیش مکاری سے مسکرائی۔
"میں نے صرف مسٹر شاہ کو نیوز میں دیکھا ہے، تم ان سے مشابہت رکھتے ہو، سو میں نے آسانی سے پہچان لیا تھا۔کہ تم ان کے بھائی ہو۔درست؟"
مدھان نے سینے پر بازو باندھے اور ابرو چڑھا کر پوچھا۔
"کون ہو تم ؟"
بینیش نے آن کا بازو تھام کر مکاری سے کہا۔
"میں آنیہ اعوان کی بڑی بہن ہوں 'بینیش اعوان' اعوان انڈسٹریز کے مالک کی بیٹی۔"
یہ سن کر مدھان شاک سے کھڑا ہوگیا۔
"تم ۔۔۔ اعوان گروپ سے تعلق رکھتی ہو؟"وہ حیران تھا۔
"بلکل درست، کیا تم نہیں جانتے تھے کہ آنیہ اعوان خاندان سے تعلق رکھتی ہے؟" بینیش کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔اب اسے مزا آرہا تھا۔ جس بات کو آن چھپارہی تھی۔ وہ یہ سامنے لے آئی تھی۔ مقصد محض آن کی پوزیشن ڈائون کرنا۔
مدھان نے بے یقینی سے علیدان کو دیکھا۔ آن اصل میں اعوان خاندان کی فرد تھی؟
علیدان کے پرسکون تاثرات دیکھ کر مدھان حیران تھا۔ (کیا بھائی جانتے تھے؟)اس نے حیرت سے سوچا۔
کیسے۔۔۔۔ وہ کیسے اعوان خاندان کے فرد سے ربط رکھ سکتے ہیں؟
کیا اسے دو خاندانوں کے درمیان ہونے والے جھگڑے کا نہیں پتا؟ وہ لوگ شاہ خاندان کی ایک زندگی کے قرضدار تھے۔
"علیدان بھائی ۔۔۔۔ آن۔۔۔۔ یہ ۔۔۔۔۔۔"وہ ابھی آگے کچھ کہتا۔۔علیدان کی آنکھ دکھانے سے چپ ھوگیا۔
"شٹ اپ،" علیدان نے اسے آنکھ دکھائی تھی۔ "تم ابھی گھر جاؤ" ۔
"لیکن۔۔۔؟" مدھان نے مداخلت کرنی چاہی۔
"میں نے کہا ہے نا۔۔۔۔ گھر جاؤ ۔" علیدان نے اسے نرمی سے ڈانٹا۔
مدھان نے جاتے جاتے آن پر ایک ناراض اور اپنے بھائی پر شکایتی نظر ڈال کر سرد ہنکارا بھرا تھا۔
جب آن نے مدھان کی نظروں میں ناراضگی کے ساتھ شکایت دیکھی۔ اسے بہت دکھ ھوا۔
وہ۔۔۔جان گیا تھا کہ آنیہ عصمت کاظم اصل میں ان کے دشمن اعوان خاندان کی فرد ہے۔
مدھان کے جاتے ہی بینیش بھی اپنی طرف سے جیسے آگ لگا کر چلی گئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد دونوں کافی دیر خاموش بیٹھے رہے تھے، آن کی بھوک بھی مرگئی تھی،وہ کب سے بس آج پے در پے ہونے والے حادثات کو سوچے جارہی تھی، حان حارث کی زلالت، بینیش کی مکاری، اور مدھان کی بے اعتباری ۔۔۔ان سب نے اسے اپنی زندگی سے ہی مایوس کردیا تھا۔
پہل علیدان نے کی تھی۔
" بھول جائیں، جو کچھ ہوا۔ میرے قریب آکر بیٹھیں۔ اور کھانا کھائیں۔"
جب آن نے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ سر جھکائے مسلسل ایک نقطے کو گھورتی رہی،آنکھیں پر نم تھیں۔اس کے چہرے پر کیا نہیں تھا؟ دکھ، تکلیف اور اپنی بے عزتی کا احساس۔
علیدان کو دل میں تکلیف ہوئی وہ اسے ایسے نہیں دیکھ پارہا تھا، تبھی اٹھ کر اسکے ساتھ بیٹھ گیا، اور ہولے سے اس کو تھام کر خود سے لگایا۔
آن کی برداشت بس یہیں تک تھی۔ اب وہ خود پر قابو نہ رکھ سکی، اندر میں ابلتے ابال کو علیدان کے سینے سے لگتے ہی جیسے آنکھوں کے ذریعے راستہ مل گیا تھا۔ وہ سسکنے لگی۔ آنسو علیدان کا سینہ بھگونے لگے تھے۔
علیدان لب بھینچ کر اس کی پیٹھ سہلانے لگا۔ جیسے پرسکون کررہا ہو۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ پرسکون ہوئی، تب اس سے الگ ھوکر بیٹھی، اب وہ پہلے سے بہتر تھی۔رو کر اس کے اندر کا غبار کچھ دھل گیا تھا۔
آن نے لب بھینچے اور پرسوچ انداز میں ایک طرف دیکھتے جیسے خود سے مخاطب ہوئی۔ " کیا سب لوگ ہی سطحی سوچ کے مالک ہوتے ہیں؟" آن کے ذہن میں اس وقت حان حارث کی مکروہ گفتگو کا اثر تھا۔
"سطحی سے آپ کی کیا مراد ہے؟"
علیدان نے اسے ناسمجھی سے دیکھا تھا۔
"اگر میں کالی ہوتی۔ بدصورت ہوتی، موٹی ہوتی، یا۔۔۔ کچھ بھی نہ ہوتی پھر بھی آپ مجھے پسند کرتے؟"وہ جیسے کہیں گم تھی۔
"یہ کہنا چاہیے کہ آپ کی خوبصورتی سب سے پہلے مردوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے۔ میں اس سے انکار نہیں کرتا کہ آپ کی ظاہری خوبصورتی نے پہلے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا ، لیکن اب۔۔۔ اگر آپ کے پاس یہ خوبصورتی نہ بھی ہو ، تب بھی میری پسند آپ ہی ہونگیں۔کیونکہ مجھے آپ کی سخت طبعیت، اور ضدی شخصیت پسند ہے ، اور اس لیے بھی کہ ہم ایک دوسرے کو جان گئے ہیں۔"
آن کو علیدان کے یہ الفاظ دل کو لگے تھے"ہم ایک دوسرے کو جان گئے ہیں۔"
علیدان حیدر شاہ نے اسے محبت سے مسکرا کر دیکھا۔ پھر ھاتھ بڑھا کر اس کے محبت سے بال سنوارے۔
"آپ نہیں جانتیں، جب جب میں آپ کو دیکھتا ہوں، یا آپ کو محبت سے بوسہ دیتا ہوں، میرے جذبات میرے کنٹرول میں نہیں رہتے، میری عقل میرے جذبات سے مات کھاجاتی ہے۔اگر یونہی رہا تو۔۔۔ میں تو آپ کے آگے ختم ہوجاوں گا۔"
گھمبیر لہجے میں دلفریبی سے وہ اپنے جذبات بیان کرتا گیا۔ جسے سن کر آن شرم سے سمٹ گئی تھی۔
زندگی میں پہلی بار آن نے کسی مرد کے منہ سے جذبات سے بھرے جملے سنے تھے۔ وہ کیسے نہ سمٹتی؟ اس وقت وہ دونوں ہی روم میں اکیلے تھے۔
کھانے کے بعد دونوں واپس ولا آئے۔ علیدان نے اسے اس کے کمرے میں آرام کرنے کو بھیجا۔اس کے پیچھے بلکل نہیں گیا۔
اس کے بعد اس نے بٹلر سے کہا کہ مدھان کو بلاکر لائے۔
لیکن مدھان اپنے پورشن میں نہیں تھا۔
علیدان نے ایک گہری سانس کھینچ کر فون نکالا، اور مدھان کو کال کری۔
کال ملتے ہی اس نے پوچھا۔
"کہاں گئے ہو تم ؟"
"ہوٹل۔" ایک لفظی جواب دیا گیا۔
"کسی سے اس بات کا تذکرہ مت کرنا۔نا ہی آن کو یہ بتانا کہ دونوں خاندانوں میں عداوت کی وجہ کیا ہے؟ وہ بے خبر ہے، اور معصوم ہے۔ ورنہ میں تم کو معاف نہیں کروں گا۔"وہ تنبیہی لہجے میں آھستہ اور نرمی سے بولا۔
"بڑے بھائی، آپ ایسے کیوں ہیں ؟ کیا آپ نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا؟"مدھان اس وقت سخت چڑچڑا ھورہا تھا۔اس سے آن کا اپنے دشمنوں کے خاندان سے رلیٹیڈ ہونا بڑی طرح ھرٹ کررہا تھا۔
"جسٹ شٹ اپ۔۔" علیدان کی آواز کافی سرد تھی۔ "مییں تم کو دوبارہ کہتا ہوں مدھان، آن کے لئے مشکلات مت پیدا کرو۔"
"اور۔۔۔ اگر میں آپ کی بات نہ مانوں تو۔۔۔؟"مدھان کی ضدی آواز فون ریسیور سے ابھری تھی، جسے سنتے ہی علیدان کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی۔
"تو پھر کرلو ۔۔۔ کرلو اپنی سی کوشش " علیدان کی آواز میں پہاڑ کی سی سختی تھی،
مدھان اس کی آواز کی سختی سن کر، دل میں کانپ گیا
☆☆☆
دوسرے دن ، آفٹر کلاسز ، اس نے مدھان کو کلاس کے باہر اس کا انتظار کرتے دیکھا۔ تو وہ حیران بلکل نہیں ہوئی تھی، جلد یا بدیر مدھان کا اس طرح سامنا کرنے کی اسے امید تھی۔
مدھان کے تاثرات سپاٹ تھے، وہ پہلے سا بلکل بھی نہیں دکھتا تھا، اس کے چہرے پر کافی سخت تاثرات تھے۔
وہ آھستہ سے چلتی اس کے پاس آئی، اور بمشکل مسکرائی۔
"مدھان شاہ، تم یہاں؟ کیا کچھ چاھئے؟"
مدھان نے اس کے طرف برہمی سے دیکھا تھا۔
"جی۔۔۔۔ہاں۔"
اس کا برہم رویہ آن کو سخت تکلیف دے گیا۔
"کہو۔"
"مس آن، آپ اعوان خاندان کی فرد ہیں، درست؟" مدھان نے اسے سرد انداز میں دیکھا۔ جس پر آن نے مٹھیاں بھینچیں، اور ھونٹ ایک دوسرے میں پیوست ہوگئے، جیسے یہ تعارف اس کے لئے باعث شرم ہو۔
"میں یہ بات کبھی نہیں مانتی مدھان شاہ۔۔۔ میرا سر نیم "عصمت کاظم" ہے۔"
مدھان نے اس بات پر اسے حیرت سے گھورا یہ سچ تھا کہ مس آنیہ کا سر نیم عصمت کاظم تھا، پھر ان کا تعلق اعوان خاندان سے کس طرح بنا؟
مزید یہ کہ اعوان خاندان نے صرف اپنی ایک بیٹی کا ذکر کیا تھا۔ کسے ہوسکتا ہے۔۔۔۔۔۔ ؟ کبھی نہیں۔۔۔
"تو۔۔۔۔آپ ان کی ناجائیز بیٹی ہو؟ عصمت کاظم آپ کی ماں کا نام ہے؟"
اس کی بات پر آن نے کوئی جواب نہیں دیا۔
"واھ۔۔۔ " مدھان نے بازو سینے پر باندھ کر تمسخر سے کہا۔
"میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مس آن کی شناخت اتنی دلچسپ ہوگی، بھلی آپ ناجائیز ہو، لیکن ہو تو اعوان سکندر کی بیٹی ہی، ان کی بیٹی ہونے کے ناطے سے، آپ کا یہ جاننا ضروری ہے، کہ آپ۔۔۔۔ اور ہمارا شاہ خاندان ناقابل تسخیر ہیں۔
ہمارا خاندان اعوان خاندان کی بیٹی کو اپنی بہو تسلم نہیں کرسکتا، آپ ناجائیز ہو، علیدان بھائی اور آپ کے رشتے سے لوگ ہم پر طعنہ زنی کریں گے، اسی لئے بہتر ہے علیدان بھائی کی زندگی سے نکل جائیں۔"مدھان کے الفاظ تھے یا کوئی زہر میں بجھے تیر تھے، جو سیدھا آن کے دل پر وار کررہے تھے۔اسی بات سے ڈرتی تھی وہ۔۔۔تبھی علیدان کے طرف اس کے قدم بڑھتے بڑھتے رک جاتے تھے۔لیکن اب۔۔۔۔۔۔، آن نے تکلیف سے آنکھیں بند کرلیں،اور ہلکی مگر سرد آواز میں چینخی۔
"مدھان ۔۔ آگے کچھ مت بولنا۔۔"
مدھان نے تو آخری حد ہی پار کرلی تھی، آن کتنا برداشت کرتی؟؟ کہاں کہاں صبر کرتی جاتی؟
کبھی کبھی انسان مسلسل صبر کرتے کرتے تھک جاتا ہے۔برداشت کھودیتا ہے۔یہی آنیہ کے ساتھ ہوا تھا۔
"میں نے کبھی بھی علیدان کی زندگی میں شامل ہونا نہیں چاہا تھا۔۔۔ سو پلیز، ڈونٹ ٹالک ٹو می لائیک دس۔"
"آپ نے علیدان بھائی کو پھانسا ہے۔اور اب بھی کہتی ہیں آپ نے خواہش نہیں کی؟ آپ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھائی کی زندگی میں شامل ہوئی تھیں۔۔ کیا میں غلط ہوں؟"
مدھان، علیدان کی وارننگ کے باوجود بھی اپنے دل کی بھڑاس آن پر نکالے گیا۔بنا سوچے کہ اس کے نتائج کیا ہونگے؟
آن نے اس کی بات پر ایک گہری سانس لے کر خود کو کچھ بھی کہنے سے باز رکھا۔
"مجھے تم کو ۔۔۔ بلکل بھی صفائی دینے کی ضرورت نہیں مدھان۔۔ تم جاسکتے ہو پلیز۔۔ دور ہوجاو میری نظروں سے۔۔"
یہ کہہ کر وہ اپنی آنکھوں کی نمی کو چھپاتی مڑی۔
پیچھے مدھان ہونٹ بھینچ کر مٹھی اپنی ھتھیلی پر مار کر ، سرد انداز میں کہا ۔ "کل تک آپ کا سابقہ منگیتر تقی خاندان کا بیٹا تھا، پرنسپل کا بیٹا ،حارث ۔ٹھیک ہے مس آنیہ ، آپ کا ساتھ چاہنے والے مردوں کی غیر معمولی شناخت ہے۔ کیا آپ اب بھی یہ کہنے کی جرأت کرتی ہیں؟ کہ آپ نے واقعی کسی امیر طبقے میں شادی کرنے کا نہیں سوچا؟"
اس کی بات پر آن کی آنکھیں تکلیف سے جلنے لگیں، ان میں آنسو جھلملانے لگے ،وہ اس کے طرف مڑی اور بھینچی آواز میں کہا۔
" مدھان ، میں تمہارے بھائی کی زندگی سے نکل جاوں گی۔ تم کو پریشان ھونے کی ضرورت نہیں ہے۔"
وہ واقعی ایک بچے سے بحث نہیں کر سکتی تھی۔ بھتر تھا وہ جگہ چھوڑ دی جائے جہاں اختلاف در اختلافات جنم لیں، جہاں آپ کو سمجھنے والا اور بات سننے والا ایک بھی نہ ہو۔ وہاں سے ھٹ جانا بہتر ھوتا ہے۔بجائے بحث کرنے کے۔ اور آن بھی اپنی وجہ سے دوسروں کی زندگی کو مشکل بنانا نہیں چاہتی تھی۔ سو بہتر تھا "چھوڑ دو۔اور جینے دو " کے مقولے پر عمل کیا جائے۔
مدھان کو پچھتاوا ضرور ہوا تھا آن کے چہرے پر تکلیف اور آنکھوں میں آنسو دیکھ کر ،وہ بحرحال آن کو تکلیف دینا نہیں چاھتا تھا۔
"مس آن ،میں آپ سے درخواست کرتا ہوں،میرے بھائی کی زندگی سے نکل جائیں۔"
آن نے اس پر ۔۔ فقط سر ہلایا۔ اور تقریبا بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلتی چلی گئی۔ اب وہ کبھی مڑ کر ان کو دیکھنے والی نہیں تھی۔۔۔ نیور۔۔۔۔
وہ ولا پہنچی، اور جلدی جلدی اپنا بیگ نکالا۔۔۔ روتے دل کے ساتھ وہاں سے نکل گئی۔ بنا کسی کی نظر میں آئے۔
اس کا رخ اسٹیشن کے طرف تھا۔ وہ بائے ٹرین ثنا حمزہ کے پاس جارہی تھی۔ شاید ہمیشہ کے لئے۔
وہ گاڑی میں تھی جب اس کا فون بجنے لگا۔
یہ دیکھ کر کہ بینیش اسے کال کررہی ہے۔ ایک شدید نفرت کی لہر اس کے دل میں اٹھی، یہ خاندان اس کی زندگی میں نہ ہوتے ہوئے بھی یہاں وہاں اسے ٹارچر کرنے کو، اس کی زندگی کو ہرطرف سے گھیر کر قابو کرنے کو موجود تھا۔ وہ کدھر بھاگتی؟
"آنیہ ، کہاں ہو ؟" بینیش کی مکاری سی بھری فکرمندانہ آواز تھی۔
"بننے کی کوشش مت کرو، جو بکواس کرنی ہے کرو۔" آن بھرائی آواز میں غرائی تھی۔
"ہاااہ۔۔۔، ایسا لگ رہا ہے۔ تمہارے ساتھ اب کوئی نہیں رہا۔۔ ھاھا۔۔۔ ھاھا۔
۔بہت خوب۔۔۔ تو پھر ادھر آجاؤ۔۔ تاکہ میں تم کو دیکھ سکوں، کہ آنیہ اکیلی ہوکر کیسی دکھتی ہے؟"
"میں اس قسم کی عورت نہیں بینیش اعوان ،جسے تم لوگ پاس بلاؤ، اور پھر اسے روندتے گذر جاؤ ۔" آن نے سختی سے کہا۔
"تم۔۔۔۔۔میں تم کو بتارہی ہوں، میں علیدان شاہ کو تم سے چھین کر رہوں گی۔" بینیش کا انداز حکمیہ تھا۔
"اوھ۔۔۔۔ تو بینیش اعوان مجھ سے ایک مرد مانگ رہی ہے۔مجھے افسوس ہے مس اعوان، میں مرد بیچنے کا کاروبار نہیں کرتی۔"آن نے تمسخرانہ کہا۔
"میرے ساتھ گونگا کھیل بند کرو آنیہ۔۔۔ علیدان شاہ اس وقت تمہارے ارد گرد گھوم رہا ہے ، تمہیں اپنی حیثیت کا پہلے سے پتہ ہے ،تم ایک ناجائیز ہو اور اس کے قابل بلکل نہیں ہو۔ لہذا۔۔۔ اسے میرے حوالے کرنا ہی تمہارے پاس واحد آپشن ہے۔ " بینیش نے کمینگی کی حد کراس کرلی۔
آن نے غصہ میں فون کاٹ دیا۔اور آنکھیں موند کر سر سیٹ کی پشت سے ٹکا دیا۔
ٹرین میں سفر کے دوران ہی اسے علیدان شاہ کی بار بار فون آئی تھی، جسے آن نے بلکل نہیں اٹھایا۔
ہچکچا کر میسیج بھیج دیا۔
"مجھسے آئندہ کنٹیکٹ کرنے کی کوشش مت کیجئے گا۔"
اس کے بعد فون سوئچ آف کرکے بیگ میں اچھال دیا۔
یہی بھتر تھا، علیدان کے لئے اور آن کے لئے۔ کہ وہ اس سے رابطہ نہ رکھے۔
وہ علیدان کی وجہ سے اور دکھ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ جس بات سے وہ ڈرتی تھی، بھاگتی تھی، وہی اس کے پیچھے پیچھے آسیب کی طرح چمٹ گئی تھی نہ چاہتے ہوئے بھی، لاکھ بچنے کی کوشش کے باوجود بھی، دکھ اس کے تعاقب میں تھے۔
جب علیدان شاہ نے یہ میسیج پڑھا۔ اس کا تو جیسے خون کھول اٹھا۔ سر جیسے پھٹنے کو تھا۔بے اختیار پیشانی کو مسلا۔ 'کیسے کرسکتی تھی آن اس کے ساتھ ایسا؟ کیسے؟'
رات تو وہ کمرے میں جانے تک نارمل تھی۔ اب ایسا کیا ہوا؟
کیوں وہ اس کے ساتھ سارے رشتے توڑ گئی تھی؟
وہ آفیس سے جلدی باہر آیا اور گاڑی اسپیڈ سے گھر کے طرف دوڑائی۔
کمرے میں آن کہیں نہیں تھی۔ نا اس کے وارڈروب میں اس کے ڈریسز تھے۔
وہ پریشانی سے آن کے کرائے کے گھر پہنچا۔ جہاں لگا لاک اس کے سارے وہموں کو،اور دل میں اٹھے ڈر کو سچ ثابت کرگیا، وہ اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
اس نے اپنا دل غصے میں پھٹتا محسوس کیا۔
علیدان نے غصہ ضبط کرتے پھٹتے سر کے ساتھ، دانیال کا نمبر ملایا۔
" میں تمہیں صرف ایک گھنٹہ دیتا ہوں، معلوم کرو، آنیہ کہاں گئی ہے؟
اور یہ بھی معلوم کرو کہ آنیہ کا یہ کرائے کا گھر کس کا ہے؟ میں یہ خریدنا چاہتا ہوں۔"
"دانیال حیران ہوتے ہوئے تذبذب سے سر ہلا کر بولا۔
"جو حکم مالک۔۔۔ ، میں ابھی ہی نکلتا ہوں۔"
علیدان نے فون کاٹا، اور دانت پیسے۔
" آنیہ علیدان شاہ، یہ ناممکن ہے۔۔کہ آپ مجھ سے چھٹکارا پاسکیں، کم از کم میری زندگی میں تو یہ ناممکن ہے۔"
آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں دانیال نے فون کرکے بتایا کہ "گھر کے مالک سے مل کر اس نے معاملہ نمٹا لیا ہے۔ چھٹیوں کے بعد وہ گھر کے کاغذات دے گا۔
اور مس آنیہ ،اس وقت ٹرین میں، اسکودر کے طرف سفر کررہی ہیں۔"
"اسکودر؟ علیدان شاہ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی۔
دوسرے طرف دانیال نے ہچکچا کر بات آگے بڑھائی۔
"مالک، میں نے اپنے آدمیوں کو مس آنیہ کی یونی بھی بھیجا تھا، جہاں ایک اہم بات پتا لگی ہے۔"
"کون سی بات؟ بولو؟"
علیدان نے بے صبری سے کہا۔
"مالک ،ان لوگوں نے پوچھ کر بتایا کہ صبح چھوٹے مالک مدھان شاہ کی مس آنیہ کے ساتھ گفتگو ہوئی تھی، جس کے بعد وہ وہاں سے بھاگتی نکلیں تھیں، بنا یونی انتظامیہ کو مطلع کیئے، کچھ اسٹوڈنٹس نے انہیں روتے ہوئے بھاگتے دیکھا تھا۔"
علیدان یہ سن کر کہ آن مدھان کی وجہ سے اسے چھوڑ گئی ہے، اس کے غصے کا گراف بڑھا گئی۔
مدھان کو اس نے جتنا روکا تھا، وہ ضدی لڑکا پھر بھی اپنی ہی کیئے گیا۔
"مالک، کیا میں کسی کو بھیج کر مس کو روک لوں؟"
دانیال نے تذبذب سے پوچھا۔
"نہیں، صرف پیچھا کرواؤ ۔ میرے حکم کا انتظار کرو۔"
وہ کار میں واپس بیٹھ گیا۔ اور مدھان کو فون ملائی۔ اس کا ارادہ مدھان کی اچھی خاصی کلاس لینے کا تھا۔ یہ لڑکا اتنا بڑا کب ہوا کہ اس کی زندگی کے معاملات میں ٹانگ اڑائے۔وہ اس کی اجازت اسے ہی کیا کسی کو بھی نہیں دیتا تھا۔
فون ملتے ہی علیدان نے برہم آواز میں اسے جھاڑ پلائی۔
"کیا میں نے تمہیں تنبیہہ نہیں کی تھی کہ آن کو تنگ مت کرنا؟ میرے الفاظ بھول گئے تھے تم ؟"
"ب۔۔۔بھائی میں ۔۔۔"وہ منمنایا تھا۔علیدان کے غصے سے وہ ویسے بھی ڈرتا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا ۔آن علیدان کو شکایت کرے گی۔
"جسٹ شٹ اپ۔ " علیدان دھاڑا۔
"میں تم کو بتارہا ہوں ،مدھان۔۔۔۔اگر تم نے آئیندہ ایسی حرکت کی تو پھر بھول جانا کہ میں تمہیں اس شہر میں رہنے دوں گا۔ اس سے پہلے کہ تم مجھے، میری پوزیشن سے گراؤ،تمہارے لئے بھتر کہ اپنا برتاؤ سدھارو،ورنہ مجھے الزام مت دینا ،اگر میں تمہیں پہچاننے سے ہی انکار کردوں۔"
" علیدان بھیا۔۔۔۔" مدھان تو جیسے چینخ پڑا۔
"آپ اپنی فیملی کو بھی نہیں پہچانیں گے؟صرف دشمن کے کسی فرد کے کے لئے؟ ان گذرے سالوں کے دوران آپ نے کبھی ایسے نہیں کیا۔"وہ تیز ھوا تھا۔
"جس کا مطلب ہے، آپ پہلے سوچ سمجھ کر کام کرتے تھے، اب آپ کوئی بھی فیصلہ سوچ سمجھ کر نہیں کرتے، یہ میں نے آپ کے بھلے کے لئے کیا ہے۔"
علیدان اس کی بات پر طنزیہ بولا۔
"اچھاااا، کتنی عمر ہے تمہاری؟کب میں نے اپنی زندگی کی ڈور ایک بچے کو تھمائی ہے؟کہ میری زندگی کے فیصلے کرتا پھرے۔"
"علیدان بھائی، وہ اعوان خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، اور اس کی بہن نے بھی اس کے لئے بُری باتیں بتائی ہیں، وہ آپ کے قابل کسی بھی طرح سے نہیں ، وہ مجھے کہہ چکی تھیں کہ آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاھتی۔ اور پیچھے سے آپ کو میری شکایت لگادی۔"
مدھان کو اس بات پر غصہ آیا ، اپنے روئیے پر وہ اس کے لئے صبح کی بات پر افسوس محسوس کرنے لگا تھا، لیکن اب وہ اس طرح شکایت کرے گی؟ یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔ شرمندگی کے احساسات زائل ھوچکے تھے۔
علیدان نے اس کی بات پر ایک گھری سانس کھینچی۔
"اگر وہ میرے پاس آتی ،تمہاری شکایت کرتی، تو میں تم پر غصہ نہ ہوتا مدھان۔"
جس پر مدھان حیرت سے اور طنزیہ بولا۔ "ناممکن۔۔۔! اگر انہوں نے شکایت نہیں کی؟ تو آپ کو کیسے پتا چلا؟"
"میں اسے ڈھونڈھنے گیا تھا،اگر میں کوئی بھی کام کرنا چاہوں تو پھر سوچتا نہیں، اس کی رہائش پر مانیٹرنگ سسٹم ہے، اگر میں اسے ڈھونڈھنا چاہوں تو اسے ایک منٹ میں ڈھونڈھ سکتا ہوں"۔
اس کی بات پر مدھان سخت پریشان ہوا،اور خاموش ہوگیا۔
ادھر علیدان نے کہا۔
" اپنے لئے اب خیر مانگو، اگر میں اسے ڈھونڈھ نہ سکا تو پھر دیکھنا میں تمہارے ساتھ کیا کرتا ہوں"
یہ سن کر کہ وہ شہر سے چلی گئی ہے، مدھان حیران رہ گیا۔
" کیا وہ جاچکی ہیں؟ لیکن کہاں گئی ہیں؟"
مدھان کی شاکڈ آواز پر علیدان نے برہم انداز میں کہا۔
"تم کیا سمجھتے ہو، کیا تم اس کے پیچھے نہیں گئے تھے؟ اب تو خوش ہو نا کہ وہ چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ یہی چاھتے تھے تم۔" علیدان سخت لہجے میں برسا تھا۔
"بھائی، میں نے انہیں شہر چھوڑنے کا نہیں کہا تھا، صرف آپ کو چھوڑنے کا کہا تھا۔"
مدھان نے اپنی صفائی پیش کی تھی، وہ خود بھی آن کے شہر چھوڑ کر جانے پر پریشان تھا۔
"کیا تم نے کوئی ایسی بات کہی جس پر میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ زبان بند رکھنا؟"علیدان نے پوچھا۔
علیدان کی بات پر مدھان نے نفی میں سر ہلایا۔
" نہیں ۔"
علیدان نے ہنکارا بھرا، اور فون کاٹ کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
☆☆☆
ثنا حمزہ نے آن کو اسٹیشن سے پک کیا ، دونوں گرم جوشی سے ایک دوسرے کے گلے لگ گئیں۔
"میں نے تمہیں بہت یاد کیا تھا۔"
آن نے اسے نم آواز میں کہا۔ اس کی آنکھیں نم تھیں، ثنا حمزہ کے گلے لگ کر جیسے اسے رونے کی وجہ مل گئی تھی،
"میں نے بھی تمہیں بھت سارا مس کیا تھا۔" ثنا حمزہ اسے گلے لگا کر دل سے بولی۔
"اب تم یہاں سے ایک ھفتہ تک نہیں جاسکتی ،سو تم یہاں میرے پاس رہنا،میں تمہیں اپنے شہر کی چھوٹی گلیوں کے ریسٹورانٹ گھماوں گی۔ ہم وہاں کھانا کھائیں گے۔"
اس کی بات پر آن نم آنکھوں سے مسکرادی ۔
"پھر تو تمہاری بات مان لینی چاھئیے، مجھے بھت زیادہ بھوک لگی ہے۔"
ثنا نے اسے ھنس کر دیکھا۔ "کیوں نہیں ، چلو پہلے ریسٹورانٹ چلتے ہیں ۔"
دونوں ریسٹورانٹ آگئیں۔
آن کی بھوک تو مرچکی تھی۔ لیکن وہ ثنا حمزہ کو یہ بات بتا کر اسے کوئی موقعہ نہیں دینا چاھتی تھی۔
یہ دیکھ کر کہ آن بہت خوشی سے کھارہی ہے، ثنا حمزہ نے خوشی سے کھنکھتی آواز میں کہا۔ " مجھے پتا تھا۔ تم کو یہاں کا کھانا پسند آئے گا۔ ہم دونوں کی پسند ایک جیسی ہے۔جب صبح تم نے مجھے فون کیا، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ دل چاہا، ھوا میں اڑنے لگ جاوں۔ حال ہی میں ، میں بہت افسردہ تھی۔"
اس کی بات پر آن مسکرائی ، پھر آخری بات پر اس کے ہونٹ سمٹ گئے۔
"کیا تم اپنے ڈیڈ کی کمپنی میں جاب نہیں کرتی؟کس بات پر افسردہ ہو؟"
"میں واقعی کام نہیں کرتی"۔ ثنا منہ بنا کر بتانے لگی۔
" یہ ٹائیٹل ہے میرے باپ کا دیا ہوا،کہ میں کچھ بھی صحیح نہیں کرتی، جو بھی کرتی ہوں ان کو گھبراہٹ شروع ہوجاتی ہے، یہ کہتے ہوئے کہ 'میں نے جو کیا وہ درست تو ہے؟'یا وہ کام غلط ہے۔ یار۔۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے۔ میں ایک "کوڑے کا ڈبہ"ہوں۔ ان کی نظر میں،میں کچھ بھی ٹھیک نہیں کرسکتی۔"
اس کے منہ بنا کر بتانے پر آن مسکرائی۔
"تم کچھ زیادہ ہی سوچ لیتی ہو۔ پہلے کی طرح لاپرواہی چھوڑدو۔ تمہارا کوئی بہن بھائی بھی تو ہے نہیں، تو ظاہر ہے کمپنی کی زمیواری تم کو ہی سنبھالنی ہے، اسی لئے سیکھو۔"
"اگر آپ مائینڈ نہ کریں میں آپ کے ساتھ بیٹھ جاوں؟"
جب یہ دونوں باتیں کرنے میں گُم تھیں، تبھی ایک دلفریب بھاری جانی پہچانی سی آواز قریب سے آئی۔
دونوں نے چونک کر آواز کے سمت دیکھا اور آن بری طرح حیرت سے اپنی جگہ پر گِڑ کر رہ گئی۔
ثنا حمزہ تو ایسے کرنٹ کھاگئی جیسے بھوت دیکھ لیا ہو،
"م۔۔مسٹر ، شاہ؟"یہ کہتے ہی حیرت سے ہونٹوں پر دونوں ھاتھ رکھ کر بے ساختہ خوشی سے چینخ کو روکا۔
علیدان نے ابرو اچکا کر اس کی حیرت کو دیکھا،
جبکہ آن بلکل ساکت بیٹھی تھی۔
پھر بے ساختہ اٹھ کر کھڑی ہوئی ۔
"آپ نے مجھے کیسے ڈھونڈھا؟"
"یہ کوئی چوہے کا بل یقیناً نہیں ہے، کہ آپ کو ڈھونڈھنا مشکل ہوجائے۔" علیدان نے یہ کہتے ہی اسے دونوں شانوں پر ھاتھ رکھ کر واپس ھلکے سے دبا کر کرسی پر بٹھادیا۔
آن کے چہرے پر افسردگی کے تاثرات گہرے ہوگئے۔
"مسٹر شاہ، آپ کی آمد نے تو اس ریسٹورانٹ کی شان بڑھادی ہے۔"
ثنا حمزہ تو ایسے ایکسائیٹڈ تھی۔ جیسے اسے خزانہ ھاتھ آگیا ہو۔ واقعی وہ ایک شاندار اور مشہور شخص تھا، اس کی آمد کہیں بھی اس جگہ کی شان بڑھادیتی تھی۔
اس کی بات پر علیدان شاہ نے ریسٹورانٹ پر نظر گھمائی، اور ہلکا مسکرایا۔
"آپ کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی کررہی ہیں۔"
"واقعی، ہمارے اسکودر میں آپ جیسا شاندار شخص کہیں نہیں ہوگا۔" وہ مسکرائی۔
"اس کا مطلب صرف یہی ہے کہ آپ نے "کچھ " ہی لوگ دیکھے ہیں۔"
وہ نرمی سے بولا۔
اس کی بات پر ثنا حمزہ نے سر ہلادیا یہ سچ ہی تھا۔
آن نے خاموشی سے فورک اٹھایا۔ اور کھانا شروع ہوئی۔جیسے وہاں وہ اکیلی ہی بیٹھی ہو۔ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ ثنا مسلسل علیدان سے باتیں کررہی تھی، اور وہ بھی مسکرا کر نرمی سے جواب دے رہا تھا۔ثنا نے اس کے لئے آرڈر کیا تھا، تینوں ساتھ بیٹھے کھا رہے تھے،لیکن ان دونوں کی باتوں میں آن خاموش تھی۔
علیدان نے آن کو نظر بھر کر دیکھا اس نظر میں کیا نہیں تھا؟ شکایات ہی شکایات تھیں، جس پر آن اندر تک کانپ گئی۔
"کہاں ٹہری ہیں آپ؟"
آن نے کانپتی اور ہلکی آواز میں اسے بنا دیکھے کہا۔
"میں ثنا حمزہ کے پاس رہوں گی"
"چوں کہ آپ اب کافی بڑی شخصیت ہیں ، اس لیے کسی اور کے گھر جا کر اسے پریشان کرنا مناسب نہیں ہے۔ "علیدان کی آواز گو کہ دھیمی تھی مگر برہمی سے بھری ہوئی۔جس کو صرف آن نے ہی محسوس کیا۔
اس کی بات پر ثنا اندر سے حیران ضرور ہوئی لیکن آن کی سائیڈ لی۔
"آل رائیٹ، میں اس دن کا بے صبری سے انتظار کررہی تھی، آن میرے ساتھ ایک ھفتہ رہے گی۔"
اس کی بات پر علیدان نے سنجیدگی سے ایک لفظی جواب دیا۔
"نو" جس میں تنبیہہ صاف تھی۔
اس کے صاف جواب پر ثنا حمزہ نے الجھ کر آن کو دیکھا ۔
آن نے ثنا کی الجھن کو سمجھ لیا اور بمشکل مسکرائی۔ "آل رائیٹ، میں ھوٹل میں ٹہروں گی،ہم کل ملیں گے۔"
" ٹھیک ہے ،پھر میں کل تمہارے طرف کھانا کھاؤں گی" ثنا حمزہ نے خوش دلی سے کہا۔
اس کی بات پر آن نے سر ہلایا۔
" آپ کا لگیج کہاں ہے؟" علیدان نے اٹھتے ہوئے کہا۔
"وہ میری گاڑی میں ہے ابھی۔"
آن کے بجائے ثنا حمزہ نے جواب دیا۔
تینوں باھر آئے، علیدان نے ثنا حمزہ کی گاڑی کی ڈکی سے آن کا لگیج نکالا اور اپنی کار کی ڈکی کھول کر اس میں پھینکا، جس سے اس کی برہمی کا پتا چل رہا رھا تھا کہ وہ کتنا خود پر قابو رکھے ہوئے ہے۔ آن تو اس کے تیور دیکھ کر سر سے پیر تک کانپ رہی تھی۔
پورا راستہ، آن خاموش بیٹھی رہی،نا ہی علیدان نے اسے مخاطب کیا نہ ہی دیکھنے کی ضرورت سمجھی۔
ھوٹل پہنچ کر علیدان نے رسیپشن پر کمرہ لیا ۔ چابی لے کر وہ آگے بڑھا تھا، تبھی پیچھے سے آن نے ریسیپشن پر اپنا شناختی کارڈ نکال کر رسیپشنز کو دیا۔ پلیز مجھے ایک الگ کمرہ دیں جو سستا ہو۔"
علیدان یہ سن کر برہمی سے مڑا، اور اس کے ھاتھ سے شناختی کارڈ کھینچا، پھر اس کا ھاتھ اپنی مضبوط گرفت میں لے کر دوسرے ھاتھ میں اس کا لگیج گھسیٹتا، لفٹ کے طرف بڑھا۔
پیچھے آن ہچکچاتی بس گھسیٹتی جارہی تھی، وہ جانتی تھی 'وہ سخت غصے میں ہے'۔
علیدان روم کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا، لگیج ایک طرف رکھا، اور مڑ کر اسے دیکھا جو ابھی تک دروازے میں کسی ضدی بچے کی طرح کھڑی نیچے فرش کو گھورے جارہی تھی۔
"اندر آئیں۔۔۔ کیا یہیں پر کھڑے ہوکر سارا دن گذار لیں گیں؟"
علیدان کی آواز پر وہ چونکی اور اندر آگئی۔
علیدان آگے بڑھا اور دروازہ بند کردیا۔آن نے لاک لگنے کی آواز سنی تو کانپ کر رہ گئی۔
ابھی وہ مڑ کر دیکھنا چاہتی تھی، جب علیدان نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لی اور کمرے میں آگے کھینچتا ہوا لاکر بیڈ پر پٹخا۔
وہ اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی، بیڈ چوںکہ نرم تھا، لہاذا اسے کوئی چوٹ نہیں آئی تھی، آن نے چہرہ موڑ کر علیدان کے غصہ سے بھرے تاثرات دیکھے اور ہلکی مگر ضدی آواز میں پوچھا۔ " آپ کیا کرنا چاھتے ہیں؟"
"آپ کیا سمجھتی ہیں آن؟ اتنی لاپرواھ کیسے ہوسکتی ہیں آپ؟"
علیدان کی آنکھیں اس کی بات پر شعلے اگلنے لگی تھیں۔وہ بھت کم غصہ کرتا تھا۔ "کیا مطلب تھا آپ کی اس بات کا۔۔۔ کہ میں آپ سے آئیندہ رابطہ نہ رکھوں؟ ہمممم۔۔۔ بولیں آنیہ علیدان شاہ؟ کیوں مجھے بنا بتائے چلی گئیں؟ کیا میں نے آپ کو ایک لفظ بھی کہا؟ کیا میں نے آپ کو شوھر کے حقوق پر مجبور کیا؟
آج آپ ایک بات چُن لیں، یا تو مُجھے میرا حق دیں گیں ۔۔۔۔۔یا۔۔۔ پھر مجھے مار کر چلی جائیں ۔اپنے جیتے جی میں آپ کو چھوڑ نہیں سکتا۔"
آن اسے گھور کر بھینچی مگر برہم انداز سے بولی۔"میں آپ کی زرخرید غلام نہیں ہوں جو اپنی مرضی سے کہیں نہیں جاسکتی۔ نا میں نے اپنا وجود آپ کو بیچ دیا ہے،کیوں میں کہیں نہیں جاسکتی؟ کون ہوتے ہیں آپ مجھے روکنے والے۔۔۔۔؟"
وہ آخر میں چینخ پڑی، آنکھیں سرخ اور نم ہوگئیں۔آنسو بہنے لگے تھے۔
علیدان نے اس کا برہم انداز دیکھ کر گھری سانس کھینچ کر خود کو رلیکس کیا، اور نرمی سے بولا۔
"میں کون ھوتا ہوں ؟آپ کو یاد دلادوں کہ میں آپ شوھر ہوں۔ اور آپ۔۔۔۔ میری زمیواری ہیں، کیا یہ پہچان کافی نہیں؟۔۔۔۔کیا ھوا تھا آج؟"
"مجھے آپ کی کوئی رسپونسبلٹی نہیں چاھئیے۔نا ہی ہم ایک دوسرے پر حق رکھتے ہیں۔میں امید کرتی ہوں، مجھ سے دور رہیں گے۔آج سے ۔۔۔ابھی سے۔۔ آپ "آپ" ہیں،۔۔ اور۔۔۔ میں صرف "میں "ہوں۔
میں آپ سے یا کسی سے بھی ربط نہیں چاھتی۔۔۔۔۔اگر آپ نے مجھے تنگ کیا ۔۔۔۔تو میں یہ شہر بھی چھوڑ جاؤں گی۔۔۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔" آخری جملے کہتے وہ سسک پڑی۔ضبط ٹوٹ گیا۔وہ بری طرح ھرٹ ہوئی تھی۔
اس کی بات سن کر علیدان کا تو مارے غصہ سے سر پھٹنے لگا تھا۔ اس کے بازو کو اپنی سخت گرفت میں لے کر ہلکے سے لب بھینچ کر غرایا تھا۔
"آل رائیٹ، اگر آپ اپنی وجہ سے ثنا حمزہ کی فیملی کو دیوالیہ دیکھنا چاھتی ہیں،تو کرلیں، جو مرضی آئے۔"
آن کا چہرہ اس کی یہ دھمکی سن کر غصہ سے سرخ ہوا۔
" آ۔۔آپ م۔۔۔۔مجھے دھمکی نہیں دے سکتے" ۔
"کیا پہلے آپ نے مجھے دھمکیاں نہیں دی ہیں؟ اور اینی کیس، ثنا حمزہ کے والد کی یہ چھوٹی سی کمپنی میرے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر غرایا۔
"دس دنوں سے بھی کم وقت میں ،میں ان کی کمپنی اسکودر سے مکمل غائب کرواسکتا ہوں۔"
"آ۔۔۔آپ بھت ہی گھٹیا ہیں علیدان شاہ" وہ بے بسی سے چینخی۔
علیدان کی آنکھوں میں سرد مہری بڑھتی جارہی تھی، جب کہ وہ اسے برا بھلا کہے جارہی تھی۔
" جب تک آپ اپنا رویہ اسی طرح روا رکھیں گیں، تب تک میں بھی ایسا ہی کروں گا، جب تک آپ کو سیدھا نہ کردوں،آپ کے نزدیک کون سا طریقہ قابل قدر ہے؟فیصلہ کرلیں۔"
اس کی بات پر آن نے لب کاٹتے مٹھیاں بھینچیں۔ رندھی آواز میں بولی۔
"کیوں مجھے مجبور کرتے ہیں آپ؟"
"اس کا جواب بھی آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں آنیہ علیدان شاہ، کیوں پوچھتی ہیں؟"علیدان نے ایک برہم نظر اس کے وجود پر ڈالی تھی۔
آن نے کچھ پل کے لئے آنکھیں بند کیں، اور ایک گہری سانس لے کر خود کو سنبھالا۔اور کچھ سوچتے ہوئے ہوئے اسے گھورا جیسے ایک فیصلہ کرچکی ہو۔
"اگر میں آپ کو آپ کا حق دوں تو آپ مجھے جانے دیں گے؟"
اس کی بات وہ دھک سا رہ گیا۔کافی دیر بعد جب سنبھلا تو بے اختیار شرارت سے قہقہہ لگا گیا ۔ "کیا؟۔۔۔۔آپ نے اپنی ہمیشہ کی آزادی کا بدل سوچ لیا ہے؟"
آن نے افسردگی سے سر ہلاتے کہا۔"یہ سچ ہے۔"
"تو پھر آپ کا منصوبہ مکمل ناکام ہوگا۔" علیدان نے اس کی پیشکش رد کردی۔
" کیا میں آپ کو بیوقوف لگتا ہوں؟"
علیدان نے اس کی ٹھوڑی اپنی گرفت میں لے کر اس کا چہرہ اونچا کیا۔ " یہ کون سے مسئلوں کا حل دریافت کرنے لگی ہیں ھنی؟ میں نے یہ کبھی نہیں کہا کہ آپ مجھے میرا حق ایک بار دے کر اس سے دستبردار ہوجائیں گیں، ایک بار میرے لئے کافی نہیں ہوسکتا۔"
"تو پھر کب تک؟ کب تک آپ میرا پیچھا چھوڑیں گے؟"آن کی آنکھوں میں نمی چھلکی تھی۔ اندر یہ کہتے کرلایا تھا۔ لیکن وہ مجبور تھی، سب کے اتنے الزامات سہہ سہہ کر اس کی بس ہوچکی تھی۔
"ٹھیک۔۔۔۔۔ یہ مشکل ہے کہنا، کہ کب میں آپ کے وجود سے تھکتا ہوں، یہ کہتے کہتے ختم ہوجاوں گا۔
یہ ایک ماہ بھی ہوسکتا ہے، ایک سال پر بھی محیط ھوسکتا ہے، یا پوری عمر بھی کم ہوگی۔لیکن ۔۔۔ میرا جوش، میری محبت، میرا شوق ختم نہیں ہوگا۔آپ۔۔۔۔ لازم ہو۔۔۔زندگی کی آخری سانس تک۔۔۔"
آن کا دل اس کی گھمبیر آواز اور محبت بھری سرگوشیوں پر سکڑ کر سمٹا، دل میں کہیں ہولے سے شدید درد ہوا۔۔وہ بے بسی سے ہونٹ کاٹتے بولی "آپ کا مطلب ہے آپ مجھے کبھی نہیں چھوڑیں گے؟۔۔۔بھلی معاملہ کچھ بھی ہو؟"
"جو بھی سمجھ لیں"۔ علیدان کے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ آگئی۔"یوں۔۔۔ تو پھر یوں ہی سہی۔"
آن کی آنکھیں دھند سے بھر گئی تھیں۔
"مجھے کیوں مجبور ہونا پڑتا ہے؟ آپ واضح طور پر سب کچھ جانتے ہیں کہ میں آپ کی دنیا سے مطابقت نہیں رکھتی ، آپ اب بھی اتنے ضدی کیوں ہیں؟ علیدان شاہ ، کیا آپ مجھے اس مقام پر مجبور کر رہے ہیں؟ جہاں میں موجود ہوں۔ کوئی دوسرا راستہ نہیں؟"وہ بے بس ہوئی۔
علیدان نے گھری سانس لے کر اس کے گال نرمی سے سہلاتے دلفریب آواز میں کہا ۔
"اگر آپ واقعی یہ سمجھتی ہیں کہ دوسرا راستہ نہیں ہے، تو وہ راستہ اختیار کریں، جو آپ کو مکمل میری طرف لے آئے۔۔۔۔۔آنیہ علیدان شاہ، میں کوئی ایسا مرد نہیں ہوں جو کسی بھی عورت سے شادی کرلے، میرے لئے آپ کو چھوڑنا آسان نہیں ہے، کیونکہ۔۔۔۔ کہ آپ میری پہلی ترجیح ہیں، آپ نے کہا۔۔'آپ آسانی سے اپنے دل میں،مجھے جگہ دینے کی ہمت نہیں رکھتیں' اٹز اوکے۔۔۔۔میں تب تک انتظار کروں گا جب تک آپ کا دل۔۔۔ مکمل میرے طرف نہیں پلٹتا۔ آپ نے کہا۔۔'آپ مجھ سے محبت نہیں کرسکتیں' یہاں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
میں آپ کو وقت دے سکتا ہوں جب تک آپ آھستہ آھستہ سے مجھ سے محبت نہ کرنے لگیں۔،آپ نے کہا۔۔۔ 'آپ کو امیر لوگوں پر یقین نہیں ہے۔ ' ٹھیک ہے۔۔ میں اپنے خلوص سے آپ کے خیالات کو اپنے طرف موڑ سکتا ہوں۔ لیکن۔۔۔۔ یوں بیچ راہ میں آپ کو چھوڑ نہیں سکتا۔"
آن خاموشی سے نظر جھکائے سنتی گئی۔ علیدان کے طرف جانے والا راستہ بھت خاردار تھا، تہمتوں کی جھاڑیاں تھیں، الزامات کے پہاڑ تھے، دھمکیوں کے جلتے الاؤ تھے۔ جنہیں پار کرکے علیدان تک پہنچنا تھا۔ اس کے لئے جو چیز ضروری تھی وہ تھی ثابت قدمی۔۔۔کیا وہ ثابت قدم رہ سکتی تھی؟
علیدان نے اپنی بات مکمل کی تو ساتھ ہی لہجہ بھی خودبخود نرم ہوگیا۔
"آپ ایک بیوقوف عورت ہیں، میں نے آپ کو پہلے بھی اتنی پیاری بھری باتیں کہی تھیں،آپ نے ایک بھی لفظ یاد نہیں رکھا۔ مدھان نے آپ کو صرف کچھ الفاظ کہے تھے اور آپ نے اس پر یقین کرلیا؟ "
آن اس کی بات پر حیران ہوئی۔ "آپکو کیسے پتا چلا ؟"
علیدان شاہ نے اس کے سر پر تھپکی ماری۔ "یقینا میں ساری بات جانتا ہوں۔ آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ اس نے تمہیں کچھ کہا ہے؟"
اس کی بات پر آن نے لب بھینچ کر سر نفی میں ہلایا۔
"کچھ بھی ہو۔۔ اس نے جو کہا وہ سچ ہے۔ چاہے میں یا آپ اسے تسلیم نہ کریں۔ میں "سکندر اعوان" کا خون اپنی رگوں سے نہیں نکال سکتی علیدان شاہ۔ آپ کے "شاہ" خاندان کی نظر میں ، میں اعوان خاندان میں سے ہی رہوں گی۔"
"آپ ۔۔۔نہیں ہیں ۔" اس کا دکھ محسوس کرکے علیدان ن کھینچ کر اسے ساتھ لگایا۔پھر اس کی پیشانی محبت سے چومی اور آگے کہنے لگا۔ "آئندہ سے ایسی کوئی بھی بات۔۔۔ چاہے بڑی ہو یا چھوٹی۔۔۔آپ سب سے پہلے مجھے بتائیں گیں،مجھے خود سے پتا نہ چلے۔۔ورنہ مجھے محسوس ہوگا کہ میں آپ کی نظر میں بےکار ہوں، کیا میری بات سمجھ رہی ہیں؟"
دونوں کی نظریں ایک لمحہ کو ملی تھیں،آن نے محسوس کیا کہ وہ کافی قریب تھے،بلکہ وہ ہی اس پر چھایا ہوا تھا۔ آن نے اسے ھاتھ سے دھکیلا۔ "دور ہوں، آپ بہت وزنی ہیں۔" اس کی بدحواسی پر وہ اسے چھوڑ کر مسکرا کر اٹھ گیا۔آن جلدی سے سرہانے کھسک گئی۔
علیدان نے لب بھینچ لئے پھر سر ہلاکر گویا ہوا۔
"میں آپ سے مدھان کے طرف سے معافی مانگتا ہوں۔"
اس کے معافی مانگنے پر آن شرمسار ہوگئی۔نفی میں سر ہلاکر بڑی مشکل سے الفاظ ادا کرسکی۔
"نو نیڈ۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے پاس آپ کے بھلے کے لئے آیا تھا۔"
"آپ جانتی ہیں، اس کی نرم دلی میرے لئے کیسے لینی ہے؟ اگر آپ یہ بات پہلے سے جان جاتیں تو آج ہم یہاں بیٹھے اپنے بچوں کی پلاننگ کررہے ھوتے۔" علیدان نے شرارت سے اس کے معصوم چہرے پر افسردگی دیکھ کر جیسے اپنی طرف سے اسے رلیکس کیا تھا۔ لیکن آن کا چہرہ اس کی بات پر شرم سے سرخ اناری ہوگیا۔ جس کو دیکھ کر علیدان کی بنھویں تن گئیں ۔
"ہم واپس کب جارہے؟ میں نے ثنا سے وعدہ کیا تھا کہ چھٹیاں اس کے ساتھ گذاروں گی۔"آن نے بات بدل کر جیسے خود کو اس کے سحر سے نکالا تھا۔
"نہیں۔۔۔"اس کی بات پر علیدان کے طرف سے سرد انداز میں ایک لفظی جواب آیا تھا۔
تیسرے دن وہ واپس آگئے تھے۔
لیونگ روم میں پہنچتے ہی، علیدان نے بٹلر کو بلایا۔
"جائیں۔۔۔جاکر مدھان کو بلا کر لائیں۔"
"حاضر۔۔۔ چھوٹے مالک۔"
وہ ادب سے جھکا اور مڑ کر باھر نکل گیا۔
آن نے علیدان کو پریشانی سے دیکھ کر کہا۔
"آپ اسے کیوں بلا رہے ہیں؟"
"میں پہلے ہی سے بتا چکا ہوں۔ میں چاہتا ہوں وہ آپ سے معافی مانگے"۔مستحکم بارعب لہجہ۔
"نہیں۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں۔وہ ابھی بچہ ہے۔ اس کے علاوہ۔۔۔اس نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔۔۔۔" اس نے جھجھک کر کندھے اچکائے۔۔جیسے مدھان کا دفاع کررہی ہو۔۔ کیونکہ وہ عمر میں چھوٹا اور اس کا اسٹوڈنٹ رہا تھا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ مدحان کی سیلف رسپکیٹ متاثر ہو۔یوں وہ اس کے اور خلاف ھوجاتا۔اسی لئے جلدی سے بول اٹھی۔"اس نے جو بھی بولا تھا۔ صرف سچ بولا تھا۔۔۔اگر آپ نے اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا۔۔۔تو۔۔۔مم۔۔ میرے لئے اور زیادہ مشکل بن جائے گی۔"وہ پریشان ہوگئی تھی۔کیوںکہ وہ بلکل نہیں چاہتی تھی کہ اس طرح مدھان کی خود داری مجروح ہو۔
"وہ 19 سال کا ہے۔ اور بالغ ہے۔ یہ کس قسم کا بچہ ہے؟" علیدان کو آن کی بات پر حیرت ہوئی۔
"مم مگر۔۔۔۔" آن ہچکچا کر رک گئی۔
"یہ وہی بچہ تھا۔ جس نے آپ سے سر عام غلط بات کہی۔ آپ کیوں اتنی نروس ہورہی ہیں؟" علیدان نے اسے ٹیبل کے طرف کھینچا اور کہا۔" چلیں چل کر کھانا کھائیں۔"
اس وقت دونوں ہی کے دل نرم گرم جذبات سے دھڑک رہے تھے۔ اس وقت کھانے کے موڈ میں بحرحال کوئی بھی نہیں تھا۔علیدان کا مقصد صرف اس کا دھیان بٹانا تھا۔
مدھان شاہ کو بٹلر ساتھ ہی لے آیا تھا۔ آن کو دیکھ کر مدھان شاہ نے تکبر و نخوت سے سر اٹھایا۔
آن نے اس کا ایسا ہی رویہ کالیج میں بھی دیکھا تھا۔جس غرور سے وہ اپنے کلاس میٹس سے بات کر رہا ہوتا تھا۔سرد ،مغرور،اور اجنبی ۔وہی رویہ اس وقت بھی آن کو دیکھ کر ہوا۔
"جی علیدان بھائی، آپ کو میری کیوں ضرورت پڑگئی۔؟" مدھان نے صرف اپنے بھائی کے طرف توجہ کی تھی۔آن کو بلکل نظر انداز کردیا تھا۔اور یہ بات دونوں نے محسوس کی۔علیدان کو اس کے ایٹیٹیوڈ پر غصہ تو بھت آیا مگر۔۔پی گیا۔
"آن کو میں واپس لے آیا ہوں۔ کیا تم کو نہیں لگتا کہ تمہیں اپنی بھابھی سے سوری کرنی چاھئیے؟"
اس کی بات پر ،مدھان کی شکایت کرتی نظریں آنیہ عصمت پر اٹھی تھیں۔
آن نے علیدان شاہ کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا۔لیکن مدھان کی شکایتی نظروں کے سامنے اسے اپنا آپ مجرم محسوس ہونے لگا۔ جو سر عام پکڑا گیا ہو۔
"مس آن۔۔ آپ کیا سمجھتی ہیں؟ مجھے آپ سے کیا کہنا چاھئے تھا؟کیا آپ ایک استاد نہیں؟ آپ نے کیوں نہیں مجھے سکھایا؟"مدھان ایسے بولا جیسے ساری غلطی آن کی ہو۔
اس کے جملوں نے علیدان کو سخت غصہ دلایا۔وہ بھڑک اٹھا۔
" مدھان شاہ۔۔۔تمیز سے۔"
اس کی دھاڑ پر مدھان کے آنکھوں کی چمک معدوم ہوئی۔اس نے ایک گھری سانس لے کر خود کو رلیکس کیا۔
" علیدان بھائی، میں غلط نہیں کہہ رہا۔۔ مجھے واقعی نہیں پتا کہ مجھے ان سے کیا کہنا چاھئیے تھا؟ ویسے بھی آپ کی نظر میں۔۔۔اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کہ یہ کون ہیں؟ آپ کو پچھتاوا نہیں ہوگا۔
حلانکہ، میں نے اپنی طرف سے درست کہا تھا۔۔۔۔۔آپ ابھی تک یہی سمجھ رہے ہیں کہ میں ہی غلط تھا۔
میں ان کے پاس گیا تھا۔ انہیں یہ کہنے کہ وہ آپ کو چھوڑ دیں، مگر یہ نہیں کہا تھا کہ شہر ہی چھوڑ جائیں۔۔۔۔۔۔انہیں معلوم تھا، آپ اسے ڈھونڈھ لیں گے۔۔۔پھر بھی یہ بھاگ گئیں۔۔۔۔اس بات نے میرے لئے مشکل کھڑی کردی۔۔۔۔اور میں واقعی نہیں سمجھ پارہا کہ مجھے کس بات کی معافی مانگنی چاھئیے؟
کیا اسی وجہ سے کہ آپ اپنے دشمن کی بیٹی سے محبت کربیٹھے ہیں؟ ۔۔۔تو کیا ان کی وجہ سے ہمیں دونوں خاندانوں کے بیچ نفرت بھول جانی چاھئیے؟"
علیدان نے اسے سرد نظروں سے گھورا۔ "بسسسس۔۔۔کل ہی میں دانیال سے کہہ کر تمہیں باہر بھجواتا ہوں۔دور ہوجاؤ میری نظروں سے ۔۔۔"
"علیدان بھائی۔۔۔۔۔"مدھان نے احتجاج کرنا چاہا لیکن علیدان نے اسے ھاتھ اٹھا کر خاموش کروادیا۔
"آپ دونوں کو ہی ایسا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"آن نے جلدی سے کہا۔
وہ آگے بڑھی تھی۔ اس کی وجہ سے ایک بھائی دوسرے بھائی کو اپنی نظروں سے دور کردے یہ اسے قطعاً منظور نہیں تھا۔
مدھان نے آن کو دیکھ کر طنزیہ کہا۔
"مجھے آپ جیسا منافق بننے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔"
اس کی بات پر علیدان غصہ سے باہر ہوگیا وہ آلموسٹ دھاڑا۔
"مدھان شاہ۔۔۔۔۔" وہ مدھان پر غصہ ہوا، لیکن وہ آن پر غصہ نہیں کرسکتا تھا۔۔۔اس بچے کو ایسا کہنے کا کیا حق تھا ؟۔
آن نے مڑ کر علیدان کے غصہ سے بھرے سرخ چہرے کو دیکھا جو برداشت کی انتہا سے گذر رہا تھا۔
وہ مدھان کے طرف ایک فیصلہ کن نتیجہ پر پہنچ کر چلتی ہوئی آئی اور پوچھا۔
"مدھان۔۔۔۔ کیا سزائے موت کا سامنا کرنے والے قیدی کو اپنی صفائی دینے کا ایک موقع مل سکتا ہے؟ میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ کیا تم میری بات سننا چاہو گے؟ "وہ نرمی سے آھستہ آھستہ بولنے لگی۔
مدھان نے اس کی بات پر حیرانی سے اسے دیکھا،ایمانداری کی بات تو یہی تھی کہ وہ اس سے ذاتی طور پر نفرت نہیں کرتا تھا۔وجہ صرف یہی تھی کہ وہ اعوان خاندان کی فرد تھی۔
"آپ کیا کہنا چاہتی ہیں؟"وہ ہولے سے بولا۔
"میں تم کو اپنے حالات بتانا چاھتی ہوں۔" علیدان نے اسے ہاتھ سے تھام کر روکنے کی کوشش کی کہ ۔۔آن کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن آن کے لئے ضروری تھا کہ اپنا آپ کھولے۔ وہ مدھان کی نفرت برداشت نہیں کرپارہی تھی۔ یہ مشکل تھا۔
"یہ سچ ہے کہ میں اعوان سکندر کی ناجائیز بیٹی ہوں۔۔۔ لیکن میں نے کبھی خود کو ان لوگوں کا حصہ نہیں سمجھا۔۔۔۔اگر میرے بس میں ہو۔۔۔،تو میں زندگی بھر ان سے بچنا چاہوں گی۔" وہ رکی۔۔۔۔سانس لے کر خود کو آگے بولنے کے لئے تیار کیا۔
"جب میں چھوٹی تھی۔ میں نے کبھی بھی ان کا ایک روپیہ تک خود پر خرچ نہیں کیا۔
نا کبھی سکندر اعوان کو "بابا" پکارا ہے۔۔۔۔۔۔ان کے خاندان میں مجھے ہمیشہ نفرت کا نشانہ بنایا گیا ۔۔۔۔جب جب میں ان کے گھر گئی، ان کا پورا گھر پریشان ہوجاتا تھا۔ میں فقط انہیں اپنے خاندان کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی تھی، لیکن ان لوگوں نے میرا وجود تک تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اور دھتکارا۔۔۔۔میں ان کے خاندان سے شدید نفرت کرتی ہوں، اسی لئے نہیں ۔۔۔ کہ میں ناجائیز ہوں۔۔۔بلکہ اسی لئے کہ۔۔۔۔سکندر اور ان کی بیوی نے میری ماں کو کافی تکلیف پہنچائی تھی۔ ان کی وائیف نے میری ماں کو پہلے ذہنی ٹارچر کیا پھر قتل کروادیا۔
میری ماں۔۔۔۔۔بھت اچھی خاتون تھی۔لیکن جب وہ جوان تھی تو سکندر کی محبت پر یقین کرکے ان سے شادی رچا بیٹھی۔ جو کہ پہلے سے ہی شادی شدہ اور بیٹی کا باپ تھا۔ان کی خاندانی بیوی کو یہ بات سخت بری لگی تھی۔
حقیقت میں۔۔وہ مجھے چھوڑ کر جاسکتی تھی، لیکن اس نے مجھے نہیں چھوڑا۔۔۔۔ اور آخری وقت تک میرے اور سکندر اعوان کے درمیان لٹکتی رہی۔"
آن نے ایک سرد سانس بھر کر لب بھینچے اور تکلیف سے مسکرائی، جب کہ آنکھیں نمی کی وجہ سے دھندھلا رہی تھیں۔اور آواز جذبات سے بھاری ،جیسے خود کو رونے سے روکے رکھا ہو۔
"اعوان خاندان کہتا ہے۔ میری ماں نے ڈپریشن سے خود کشی کی تھی۔لیکن۔۔۔ صرف میں جانتی ہوں۔۔۔ میری ماں کو موت پر مجبور کیا گیا ہے۔"
اس نے مدھان کو دیکھا اور خود کو رونے سے باز رکھا۔اور لب بھینچ کر ہلکا سا دکھ سے مسکرائی۔
"مدھان۔۔۔ کیا تم تصور کرسکتے ہو میرے جیسے بچے کا۔۔۔۔۔میں کسی چیز سے نہیں ڈرتی تھی۔ سوائے بادل گرجنے کے۔۔۔۔۔کیونکہ وہ بھی طوفانی رات تھی ۔۔۔۔ جب میں نیند سے اٹھی تھی۔۔۔۔،اور واش روم میں گئی۔۔۔۔م۔۔میں نے۔۔۔۔ دیکھا۔۔۔۔ م۔۔میری ماں ۔۔۔اس کی آواز گھٹ گئی۔۔"
"بس کریں۔۔۔۔"
پیچھے سے علیدان نے اسے کھینچ کر اپنے حصار میں لیا، وہ سسکنے لگی ۔۔ بری طرح ۔۔ سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے آگیا تھا، آج وہ مجبور ہوگئی تھی اپنی صفائی پیش کرنے میں اس نے خود کو تکلیف دی تھی۔۔ جس دکھ کو چھپا چھپا کر رکھا تھا وہ دکھ یوں اپنی زبان سے بیان کرکے وہ جیسے چاروں شانوں سے گری تھی، ڈھے سی گئی تھی۔بہت مشکل ہوتا ہے۔۔اپنا کوئی ویک پوائنٹ دنیا کے آگے وضاحت سے رکھنا۔
"بس کریں۔۔۔ آن ھنی بس کریں۔۔" علیدان اس کے سر پر تھپکنے لگا۔۔دوسرے ھاتھ سے پیٹھ سہلاتا رہا۔
علیدان نے مدھان کو تیز نظروں سے گھورا ، یہ پہلی بار تھا کہ مدھان اپنے بھائی کی آنکھوں میں سرد تاثرات دیکھ رہا تھا۔مدھان بری طرح شرمسار تھا۔
" کسی کو بھی میں یہ حق نہیں دیتا کہ آن کے دکھوں کو کھول کر اس کا تماشا بنائے۔ مدھان۔۔ تم کو یہیں رک جانا چاھئیے"۔
مدھان سر جھکائے خاموش کھڑا سب سن رہا تھا، اور اپنے آپ کو قصور وار سمجھ رہا تھا۔
آن علیدان کے بازووں کے حصار سے نکلی، اپنے آنسو پونچھے، اور مدھان کو سر جھکائے کھڑا دیکھ کر بھاری آواز میں بولی۔
" میں نے یہ سب اسی لئے نہیں بتایا کہ تم مجھ پر ترس کھاو۔۔۔۔میں امید کرتی ہوں۔۔۔ تم مجھ سے اعوان فیملی کی وجہ سے نفرت نہیں کرو گے۔۔۔ کیونکہ تمہاری طرح میں بھی ان سے سخت نفرت کرتی ہوں۔"
تمہارے سامنے۔۔۔اور علیدان کے سامنے۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔۔میں آپ سب کی زندگی سے نکل جاؤں گی۔کبھی کسی سے نہیں ملوں گی۔ وہ لوگ قاتل ہیں۔لیکن۔۔۔ میں وہ نفرت برداشت نہیں کرسکتی مدھان ۔۔۔۔ جو مجھ سے تعلق ہی نہیں رکھتی۔۔۔آفٹر آل۔۔۔میں بے قصور ہوں۔"
مدھان نے سر اٹھا کر اپنے بھائی کو دیکھا۔جس کی آنکھوں میں برہمی تھی۔ غصہ تھا۔۔اس نے پھر آن کو دیکھا۔۔۔اور بنا کچھ کہے مڑ کر باھر چلا گیا۔
جیسے ہی مدھان باہر گیا۔ علیدان نے بٹلر کو بھی باہر جانے کا کہا ۔پھر آن کو برہمی سے دیکھا۔ اور چھبتے لہجے میں کہا۔
" کیا آپ مجھسے بھی دوبارہ نہیں ملیں گیں؟"
آن نے اس کے لہجے پر اسے چونک کر دیکھا لیکن کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ کرسکی۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر 'ہاں'کہے گی تو، اگلی سزا جو ملے گی وہ پہلی سزا سے زیادہ سخت ہوسکتی تھی،
اس کو مسلسل سوچ میں دیکھ کر علیدان نے اس کو ٹھوڑی سے پکڑ کر سر اونچا کرکے اس کو نظر سے نظر ملانے پر مجبور کیا۔ "بولیں" ۔۔۔ہاں یا۔۔۔ناں۔اگر آپ جواب نہیں دیں گیں تو میں آپ کو اوپر روم میں لے جاوں گا۔"
اس کی بات پر آن تصور میں اپنی سزا دیکھ کر کانپ کر رہ گئی۔
"ع۔۔۔علی۔۔دا۔۔۔۔م۔۔۔۔میں۔۔ "
"ہاں، یا۔۔ نا۔ علیدان نے اس کی بات آدھی میں کاٹی۔
اور اچھی لڑکیاں جانتی ہیں کہ ایسی حالت میں کیا کرنا چاھئیے سو اس نے 'نہیں' کہا۔ "نہیں ۔۔میں نہیں کرسکتی۔"
علیدان کے ہونٹ ایک طرف مسکراہٹ میں ڈھل گئے۔ "میں نے سوچا تھا آپ آخر میں ضد کریں گیں۔"
اس کی بات پر آن نے چڑ کر اسے دیکھا۔اس کی روئی روئی گلابی آنکھوں میں اب چمک تھی۔کچھ دیر پہلے کی ساری تلخی جیسے آنسووں کے ساتھ دھل گئی تھی۔
"کیا اچھا ہوتا اگر میں آخر تک ضدی ہی رہتی؟ تو کیا آپ مجھے جانے دیتے؟"
علیدان نے ھاتھ بڑھا کر اس کے ہونٹوں کو نرمی سے چھوا۔پھر لب بھینچ کر اس کے چہرے کو تکنے لگا ۔پھر نفی میں سر ہلایا۔
"بلکل نہیں۔۔۔چلیں اب کھانا کھائیں"۔
"میں آج اپنے فلیٹ جاؤں گی،میں کافی تھک گئی ہوں اور آج وہاں رہنا چاھتی ہوں پلیزز"۔
علیدان نے ضد نہیں کی۔ بلکہ وہ چاھتا تھا آن خود کو پابند نہ محسوس کرے، جہاں اس کا دل کرے رہے۔ وہ اسے فورس نہیں کرسکتا تھا۔
"کھانے کے بعد ہم چلیں گے"۔
اس کی بات پر آن رلیکس ھوگئی اور اسے رلیکس دیکھ کر علیدان کو اچھا لگا۔
☆☆☆
جب وہ دونوں وہاں پہنچے تو آن نے غور نہیں کیا کہ دروازے کا لاک نیا ہے، ان لاک کرنے کی اس نے بہترا کوشش کی لیکن چابی نہیں لگی،وہ سخت تھکی ہوئی تھی۔ اس نے ھزار بار کوشش کی لیکن۔۔۔ لاک نہ کھلا۔
علیدان جو چپ چاپ اس کی تھکاوٹ اور چڑچڑاپن۔۔۔ سینے پر بازو باندھے دیکھ رہا تھا۔ سکون سے آگے بڑھا اور اپنی جیب سے دوسری چابی نکال کر اس کے سامنے لاک کھول دیا۔
آن کی آنکھیں حیرت سے مکمل کھل گئیں۔"یہ کیا ہورہا تھا؟۔
"آپ کی چابی۔۔۔۔۔آپ نے کیسے میرے فلیٹ کا لاک کھولا؟"
علیدان نے نرمی سے دروازہ کی ناب کو تھپتھپایا۔
"کیا آپ کو محسوس نہیں ہوا کہ یہ لاک نیا ہے؟"
آن نے غور کیا تو واقعی لاک چینج تھا۔۔"آپ نے میرے دروازے کا لاک بدلا ہے؟ کیا یہ میرا فلیٹ نہیں ہے جو میں نے کرائے پر لیا تھا؟ علیدان شاہ کیا آپ پاگل ہوگئے ہیں؟"
"پاگل ؟" علیدان شاہ کی آنکھیں کسی خیال سے چمکی تھیں۔ یہ لڑکی واقعی اس سے نہیں ڈرتی۔ کچھ بھی بڑے آرام سے کہہ جاتی ہے۔ علیدان کا چہرہ اس کے چہرے کے قریب تھا۔
"پھر کیا خیال ہے؟ کیا آپ جانتی ہیں، کہ پاگل تو قانون توڑتے ہیں ، اور ان کے جرائم میں بھی عام لوگوں سے ذرا مختلف ہوتے ہیں؟"
آن اس کی بات پر دنگ ہوئی۔ "آپ ۔۔۔۔کیا مطلب تھا اس بات کا؟"
"میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر میں آپ سے ابھی زبردستی کردوں۔۔۔۔تو آپ یہ ڈیزرو کریں گیں۔ کیوں کہ پاگل تو کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ان سے رحم کی امید فضول ہوتی ہے۔"
علیدان نے ایک ھاتھ سے دروازہ دھکیلا۔ دوسرا ھاتھ اس کے شانوں کے گرد پھیلایا اور اسے اندر لے آیا۔
اندر داخل ہوتے ہی وہ شاکڈ رہ گئی علیدان کے طرف گھومی۔
"میرا مطلب ہے ، آپ کو دوسروں کے گھروں کے تالے تبدیل کرنے کی اجازت مانگنی چاہیے تھی۔ "
"کیا آپ کوئی 'دوسری' ہیں؟ "آپ تو میری اپنی ہو۔"
اس کی دلفریب آواز میں یہ جادو بھرے الفاظ "آپ میری اپنی ہو" آن کے دل کی تار چھیڑ گئے تھے۔ لیکن جلدی ہی وہ قابو پاچکی تھی۔
اندر داخل ہوتے ہی وہ حیران رہ گئی کہ وہ اس کا کرائے کا فلیٹ ہی تھا ، لیکن مکمل تبدیلی کے ساتھ، فرنیچر ڈیکوریشن سب جدید طرز کے تھے۔
"یہ۔۔۔۔ یہ سب آپ کا کارنامہ ہے؟ہے نا۔" آن نے حیرت سے اسے دیکھا۔
"آپ کا پرانا صوفہ بھت سخت تھا۔۔ بیٹھنے میں بھت ہی غیر آرامدہ۔۔
اور کافی ٹیبل بہت چھوٹی تھی۔ جہاں پر برتن بھی پورے نہیں آتے تھے۔اور۔۔ آپ کا بیڈ اتنا چھوٹا تھا کہ انسان سوتے ہوئے کروٹ بھی بدل نہیں سکتا۔۔۔سو۔۔ میں نے سارا چینج کروادیا۔" وہ مزے سے اپنا کارنامہ بتانے لگا۔
یہ سنتے ہی وہ جلدی سے اپنے روم میں بھاگی تاکہ دیکھ سکے اور اندر داخل ہوتے ہی اسے لگا وہ کسی اور کے کمرے میں آگئی ہے۔ بے اختیار ہونٹ ڈھانپ لئے۔"ھاااھ ۔۔۔یہ تو کافی بڑا ہے"
وہ علیدان کے طرف مڑی۔
" آپ نے بتایا بھی نہیں، اور ساری چیزیں بدلوادیں، کیا یہ صحیح تھا؟"
"میں آپ کو بتانا چاھتا تھا۔ لیکن کیا آپ بھاگ نہیں گئی تھیں؟"
وہ یہ سن کر سخت ناخوش ہوئی۔
" کون بھاگا تھا؟ میں صرف چھٹیاں گذارنے ثنا حمزہ کے پاس گئی تھی"۔
آن کا منہ بن گیا اسے دکھ تھا کہ علیدان نے اسے ثنا کے پاس ایک دن بھی رہنے نہیں دیا۔
اس کی بات پر علیدان نے اسے گھورا۔ "لیکن۔۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے آپ نے یہ پیغام دیا تھا کہ یہاں سے جانے سے پہلے آپکے ساتھ تمام تعلقات ختم کرنا چاہتی ہوں۔"
"وہ۔۔۔میں۔۔۔۔۔"اس کی بات پر وہ کچھ بھی بولنے کے قابل نہ رہی کیوں کہ یہ سچ تھا۔
علیدان نے اسے وہیں جمے کھڑے دیکھا تو ہلکا سا دھکیل کر اندر بیڈ روم میں داخل ہوگیا۔
اور بیڈ پر چت لیٹ گیا۔ اپنے سائیڈ کی جگہ کو تھپتھپا کر اسے پاس بلایا۔
"آجائیں۔۔۔ یہاں میرے پاس"
لیکن وہ اس کی نظروں کا مفہوم سمجھتی ناراضگی سے مٹھیاں بھینچ کر باہر نکل گئی پیچھے علیدان تو اس کے تیور دیکھ کر رہ گیا۔
باہر آکر وہ صوفہ پر دھڑام سے بیٹھ گئی اور سر ھاتھوں میں دے دیا۔۔اسے آج کے پورے واقعے نے سر درد کردیا تھا۔وہ آج یہاں سکون سے گذارنے کی خواہشمند تھی۔لیکن۔۔۔
"یہ شخص ۔۔۔ آخر کب اس میں سے دلچسپی ختم کرے گا؟ وہ سمجھ نہیں پارہی تھی، وہ جتنا اس سے دور جانا چاھتی تھی اتنا وہ اس کے اور قریب آکر پاس کھینچ لیتا تھا۔
علیدان نے پورا دن اور پوری رات اس کے ساتھ گذاری تھی، اور یہ پہلی بار تھا کہ اسے لگا کہ ایک شخص کے ساتھ اکیلے رہنا کس قدر خطرناک ہے۔جب وہ شوہر کے رتبے پر فائز ہو۔
☆☆☆
علیدان اس وقت انکل عبداللہ کے پاس آیا تھا یہ اعوان سکندر اور چاچو کے قریبی دوست تھے اور ان کے گھر آنا جانا تھا، یہ شہر سے کچھ فاصلے پر سب سے الگ تھلگ رہتے تھے، علیدان کو کافی راز ان سے معلوم ہوئے تھے۔
اپنے چاچو کی موت کی وجہ ، اعوان کی سازشیں۔۔ اور کافی باتیں جو چھپی ہوئی تھیں۔۔انہیں ابھی جاننا تھا۔
اعوان سکندر اچھے سے جانتا تھا کہ عبداللہ واحد شخص ہے جو وٹنیس ہے۔لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ عبداللہ کہاں ہے؟
علیدان سے رابطہ بھی دانیال کے ذریعے ممکن ہوسکا تھا۔ آج بھی وہ اسی ارادے سے عبداللہ انکل کے پاس آیا تھا۔
اس وقت بھی دونوں لان میں ساتھ بیٹھے تھے۔
"ایسا نہیں کہ میں نہیں جانتا کہ سکندر اعوان کیوں مجھے ڈھونڈرہا؟ میں جانتا ہوں کس وجہ سے آنیہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے؟
اس کی ماں اور اس نے بہت زیادہ تکلیفیں اٹھائی تھیں، میں اس بات کا آنکھوں دیکھا گواہ ہوں، کبھی کبھی ان کی آنکھوں کی شکایت یاد آتی ہے تو لرز جاتا ہوں، لیکن میں کچھ نہیں کرپارہا تھا۔"
"انکل آپ کھل کر بتائیں ،آخر کیا ہوا تھا؟"
پھر آھستہ آھستہ راز سے پردہ اٹھتا گیا عبداللہ نے اسے سارے حقائق بتائے۔
اعوان سکندر اور مائرہ سکندر آپس میں چچازاد تھے، مائرہ کی ایک چھوٹی بہن تھی۔ آئرہ اعوان جو کافی ضدی لڑکی تھی۔ میرے ساتھ سکندر اعوان،عصمت کاظم اور محمت شاہ تینوں ساتھ پڑھے تھے۔ جب کہ آئرہ ہم سے جونئر تھی۔اور ہم سب کی آپس میں اچھی دوستی تھی۔ دونوں کی دوستی میں دراڑیں عصمت کی وجہ سے پڑگئیں۔سکندر یہ سمجھنے لگا کہ محمت شاہ عصمت سے محبت کرتا ہے۔جب کہ آئرہ محمت شاہ کی خوبصورتی کے ساتھ دولت پر مرمٹی تھی۔ محمت شاہ نے اسے ہر بار نظر انداز کیا۔وہ کافی ماڈرن لڑکی تھی۔لڑکوں سے دوستی اس کے لئے عام بات تھی۔وہیں اپنے کولیگ سے، جو حیثیت میں ان کے اسٹینڈرڈ کا نہیں تھا۔دوستی میں اتنی آگے بڑھ گئی۔کہ ماں بن گئی۔ مائرہ کو جب معلوم ہوا تو الزام محمت پر لگا دیا۔تاکہ وہ مجبور ہوکر آئرہ کو اپنا لے۔ جس کی وجہ سے دونوں خاندانوں میں ہمیشہ کے لئے عداوت پڑگئی۔ محمت خود پر یہ الزام برداشت نہیں کرپایا۔اور گوشہ نشین ھوگیا۔پھر ایک دن اس کی موت واقع ہوگئی۔کہنے والے کہتے رہے کہ یہ خود کشی ہے۔ میں جانتا ہوں وہ غیرت مند شخص خود پر یہ کیچڑ برداشت نہ کرپایا۔
"اہم بات تو یہ کہ خاندان اعوان کا سرپرست گوہر اعوان اپنی بیٹیوں کی تربیت نہ کرسکا۔
چھوٹی نے شاہ خاندان کے والی کو برباد کیا۔ تو بڑی نے سکندر اعوان کی زندگی میں شک کا بیج بُودیا۔
سکندر پہلے ہی سے عصمت کاظم سے محبت کرتے تھے۔ میں ان کی محبت کا گواہ ہوں۔ لیکن گوہر اعوان نے سکندر کو مجبور کردیا کہ اس کی بیٹی سے شادی کرے۔ورنہ گھر سے نکل جائے۔بس دولت کی لالچمیں سکندر نے مائرہ اعوان سے شادی کرلی۔گوہر اعوان کے مرنے کے بعد سکندر کو جیسے آزادی کا پروانہ مل گیا تھا۔ اس نے مائرہ کو بنا بتائے عصمت کاظم سے شادی کرلی۔میں نے شادی کے بعد دونوں کو بھت خوش دیکھا۔ لیکن یہ عورت۔۔۔۔ مائرہ نے بگاڑ پیدا کردیا۔۔پتا نہیں کس بات کا بدلہ لیا عصمت سے؟ آنیہ کی پیدائش پر سکندر کے کان بھرے کہ یہ تمہاری اولاد نہیں ہے۔بلکہ محمت کی اولاد ہے۔ بس کانوں کے کچے سکندر نے عصمت کے ساتھ ساتھ بیٹی کو بھی دربدر کردیا۔
سب سے بڑی بات جو تم کو معلوم نہیں ، وہ ہے مائرہ کا عصمت کو قتل کروانا۔ اور یہ بات وہ بچی آنیہ جانتی ہے۔ تبھی مائرہ کی نفرت کا نشانہ بن گئی۔تاکہ اصلی بات کبھی سکندر کو معلوم نہ ہوسکے"۔
علیدان شاہ جب انکل عبداللہ سے مل کر واپس آیا تو کافی الجھا ہوا تھا۔
ابھی یہ معلوم کرنا باقی تھا کہ مائرہ کی بہن آئرہ اعوان کہاں گئی؟ اور ان کے بیٹے کا کیا بنا؟ یہ ایک پزل تھا۔ جسے وہ سلجھانا چاھتا تھا۔
اس کے لئے اس نے دانیال کو فون کیا۔
" معلوم کرو، سکندر اعوان کی سالی آئرہ کہاں ہے؟ اور ان کا بیٹا اب کدھر ہے؟"
دانیال نے جوابا ۔"جو حکم مالک۔ "کل تک آپ کو انفارمیشن مل جائے گی۔
"اوکے۔"
علیدان نے فون رکھ دیا اور سوچ میں گم ہوگیا۔
زایان کا آن سے رویہ دیکھ کر اسے شک ہی نہیں یقین تھا کہ زایان ہی مائرہ کی بہن کا بیٹا ہے جسے گود لیا گیا تھا۔۔ لیکن گواہ کہاں ہے؟ وہ ہے اس کی ماں ۔۔ تو اب اسے انویسٹیگٹ کروانی تھی۔ کہ آئرہ اعوان کہاں گوشہ نشین ہوگئی تھیں؟۔
☆☆☆
مدھان شاہ نے اپنا بار کھولا تھا۔ جس کی اجازت اسے علیدان سے بہت مشکل سے ملی تھی۔
سینچر کی صبح مدھان شاہ نے علیدان شاہ اور آن کو اپنے بار کے افتتاح کے موقع پر مدعو کیا تھا۔
یہ ظاہر تھا کہ مدھان شاہ نے اس بار میں بہت زیادہ محنت کی ہے۔
دیواروں پر سجی مشروبات اور قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کے بڑوں کی قد آدم تصاویر پینٹ کروائی تھیں۔ چھت پر لگے روشنیوں کے فانوس بھت ہی دلفریب منظر پیش کررہے تھے، تصاویر کے نیچے سے روشنیاں افقی انداز میں روشن ہوکر تصاویر کو ایک رومانوی لک دے رہی تھیں، فرنیچر مکمل آبنوس کا بنا ہوا تھا۔ جس کی ٹیبلز کے بیچ میں گول شیشہ نصب کیا گیا تھا ،اس کے نیچے سے بلب لگائے گئے تھے۔جو بیچ میں روشنی بکھیر رہے تھے، اگر پورے بار کی لائٹس بند کردو تو یہ روشنیاں بہت ہی رومینٹک اور خواب آور منظر پیش کرتی تھیں۔
سجاوٹ کا یہ انداز کافی فنکارانہ تھا۔
آن نے بے اختیار سراہا تھا۔
وہ بار کی طرف بڑھے، اور مدھان سے کہا۔
"بار میں سجاوٹ عام طور پر کافی وائلڈ ہوتی ہے۔ کیا تم کو ڈر نہیں لگا کہ کوئی ایسا رومینٹک منظر تخلیق کرنے کے بعد نہیں آئے گا؟
"اوھ، آن بھابھی مجھے امید نہیں تھی،آپ کو اتنا علم ہوگا۔"
اس کے ساتھ کھڑا علیدان مسکرایا، اور سکون سے کہا۔"آن کس وقت ورکنگ کوئین رہی ہیں۔ تبھی جانتی ہیں۔"
"آآآ۔۔، ورکنگ کوئین؟" مدھان حیران ہوا۔ "بھابھی آپ پہلے بار میں کام کرچکی ہیں؟"
آن نے سر ہلایا " یہ سچ ہے۔"
" واھ۔۔۔پھر تو آپ بہت بھادر ہیں۔ میں واقعی نہیں جانتا تھا۔"
آن مسکرادی اور تصویروں کے سیشن کے طرف مڑگئی جو بار کے ایک طرف تھیں۔
آن نے بہت ساری تصویریں دیکھی تھیں، لیکن اس بار جیسی تصاویر کبھی نہیں دیکھی تھیں، اس کے علاوہ یہاں مختلف پرانی تصاویر بھی لگی ہوئی تھیں۔
اور عجیب بات کہ وہ سب تصاویر ایک شخص کے ہی مختلف وقتوں کی تھیں۔
آن کو وہ شخص کافی پہچانا سا لگا تھا۔ جیسے اس نے اسے کہیں دیکھا ہو۔لیکن کہاں ؟؟
مدھان اس کی دلچسپی دیکھ کر اس کے طرف بڑھا۔
" بھابھی۔۔۔ کیسی ہیں یہ تصاویر؟ یہ بھت وجیہہ ہیں نا؟"۔
آن مسکرادی اور اسے دیکھ کر کہا۔
" بھت کم لوگ ایسے حسین ہوتے ہیں۔ کون ہیں یہ ؟"
"یہ میرے دوسرے چچا محمت شاہ ہیں جو اس وقت استنبول کی معروف شخصیت تھے"مدھان نے تصویر کو دیکھتے بتایا۔
"یہ بھت خوبصورت ہیں ،" آن مسمرائیز تھی،
علیدان نے آن کو دیکھ کر پوچھا۔" بتائیں آن ،میں خوبصورت ہوں یا میرے چچا؟"
آن نے بنا ہچکچائے جواب دیا تھا۔" آپ کے انکل خوبصورت ہیں۔"
علیدان نے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔
" میں نے ہمیشہ یہ کہا کہ ایک عورت صرف اپنے عاشق کی ہی تعریف کرسکتی ہے۔ سو میں آپ کو ایک موقعہ اور دیتا ہوں۔"
مدھان اس کی بات پر چپکے سے مسکرایا اور شرارت سے کہا۔
"اس سچویشن میں کیا مجھے نظرانداز کردیا؟"
علیدان نے اسے گھورا "تم ابھی تک گئے نہیں؟"
آن ان کی بات سن کر ہلکا سا مسکرائی " آل رائیٹ، کیا آپ دونوں بات گھمانا بند کریں گے؟"
اس پر دونوں ھنس دیئے۔
آن نے مڑ کر ایک نظر پھر تصویر پر ڈالی تھی۔ اسے کیوں یہ انکل جانا پہچانا لگتا ہے؟" تبھی اس کےذہن میں کچھ کلک ہوا۔بچپن میں اس کی ماں کے پاس کبھی کبھی یہ مھربان چہرے والا شخص ملنے آتا تھا۔
☆☆☆
اتوار کی صبح علیدان شاہ کو اپنی آفیس کے ضروری کام سے جانا پڑگیا،سو وہ سویر ہی کمپنی چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد آن کافی بوریت محسوس کرنے لگی، کرنے کو کوئی کام تو تھا نہیں۔
علیدان نے جیسے ہی کمپنی کے معاملات حل کیئے تو جانے کے ارادے سے اٹھا۔ اس وقت دانیال دستک دے کر اندر آیا۔
" چھوٹے مالک ،آپ نے آئرہ اعوان کے بیٹے کے بارے میں جو انفارمیشن چاہی تھی وہ میں لے آیا ہوں"۔
وہ آگے بڑھا اور کچھ ڈاکیومنٹس علیدان شاہ کے آگے ٹیبل پر رکھ کر خود ایک طرف کھڑا ہوگیا۔
علیدان ڈاکیومنٹس کی ورق گردانی کے دوران دانیال کو بھی سن رہا تھا۔
"اگر آپ دیکھیں گے تو سرپرائیزڈ ہوجائیں گے۔"
علیدان نے ڈاکیومنٹس دیکھے اور سرپرائیز نہیں ہوا بلکہ ایک گھری سانس لی جیسے اس کے شک کو یقین مل گیا ہو۔
وہ سپاٹ سا مسکرایا۔اور ڈاکیومنٹس بند کرکے دانیال کو دیکھا۔
"یہ بات۔۔۔،صرف ہم دونوں کے درمیان رہنی چاھئیے۔۔۔۔میں نہیں چاہتا۔۔۔ کسی تیسرے فرد کو بھنک بھی پڑے۔"
"چھوٹے مالک، پریشان مت ہوں، سچ میں میرا منہ بند ہی رہے گا۔"
علیدان نے ہاتھ ہلا کر اسے کہا۔" اگر اور کوئی کام نہیں ہے تو تم کام سے چھٹی کرسکتے ہو۔"
"آل رائیٹ"۔ وہ مؤدب سا جھکا اور باھر نکل گیا۔
علیدان لنچ کے وقت واپس گھر پہنچ گیا تھا۔
خادمہ کو بلا کر کہا کہ آن مالکن کو نیچے بلا کر لائے۔
آن خادمہ کے ساتھ ہی آگئی یہ دیکھ کر کہ علیدان واپس آگیا ہے ،وہ اس کے طرف آھستہ آھستہ بڑھی، ڈائننگ ٹیبل کے پاس آکر حیرت سے بولی۔
" آپ واپس کب آئے؟"
"بس ابھی دو منٹ بھی نہیں ہوئے۔۔ آپ بیٹھیں۔ پہلے کھانا کھاتے ہیں۔"
دونوں کرسی پر بیٹھ گئے، کھانے کے کچھ دیر بعد ہی آن نے فورک رکھ دیا۔
علیدان نے اسے دیکھ کر کہا" آپ کیوں نہیں کھارہی؟"
آن اس کی فکر پر مسکرائی۔
" میں نے ابھی ابھی کافی فروٹ کھایا ہے۔ تو بس اب بھوک نہیں۔"
"علیدان نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
"آپ بچوں کی طرح کیوں ہیں؟ خود کو کھانے کے وقت کنٹرول نہیں کرسکتی، آئیندہ سے کھانے سے پہلے سنکس، اور فروٹ مت کھانا۔"
اس کی بات پر آن مسکرادی۔
"اگر آپ مستقبل میں باپ بن جاتے ہیں تو آپ اپنے بچوں کے لیے یقینی طور پر قابل فخر باپ ہوں گے۔ "
"تو اس میں غلط کیا ہے؟ میں یہ ان کے بھلے کے لئے کروں گا۔"علیدان نے بھی مسکرا کر اسے دیکھا۔
"لیکن ایک بچہ کیسے جان سکتا ہے کہ آپ یہ اس کے بھلے کے لئے کررہے؟"
آن کا سوال بھی اس کی طرح عجیب تھا، وہ واقعی علیدان کا دماغ گھما دیتی تھی۔
علیدان دل کھول کر ھنسا۔
" جیسے آپ جان جاتی ہیں میرے بچے بھی اپنے باپ کی بات سمجھ لیں گے۔"
آن اس کی بات پر شرم سے سرخ ہوئی۔
"آپ نے میری بات کو ہی گھما دیا ، کون آپ سے بچہ چاھتا ہے؟"
"آپ ۔۔۔اور میں۔۔۔" علیدان نے اس کے طرف اشارہ کیا پھر اپنے طرف ۔
"میں نہیں چاھتی۔" آن سرخ ہوگئی۔ علیدان سے اس قدر بےشرمی کی توقع وہ رکھتی تھی۔ وہ ایسا ہی تھا، آن کے سامنے بولنے پر آتا تو لگتا ہی نہیں تھا یہ شخص اپنی کمپنی کا سرد مزاج سا باس ہے۔
علیدان نے اس کے بلش ہوتے چہرے کو محبت سے تکا۔ پھر ھنس دیا، پھر کچھ یاد آتے ہی بولا۔
"اوھ۔۔۔ رائیٹ،۔۔۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا تھا۔"
آن نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ "ہاں پوچھئے، کیا مسئلہ ہے؟"
"آپ نے ہمیشہ کہا ہے کہ زایان اعوان آپ کے ساتھ بھت اچھا رہا ہے۔۔۔۔آپ کا اس کے ساتھ رلیشن کب بھتر ہوا تھا؟ کیا وہ شروع سے ہی آپ کے ساتھ اچھا تھا؟"
آن نے کچھ پل سوچا پھر نفی میں سر ہلایا۔ " نہیں" ۔
"تو پھر۔۔ کبھی اس نے آپ سے بدتمیزی کی؟"
"نہیں۔۔۔اسے بدتمیزی نہیں سمجھ سکتی، میری ماں مجھے بھت کم اعوان کے گھر لے جاتی تھی۔سو میں اپنے بھائی کے ساتھ زیادہ بات چیت نہیں کرتی تھی۔اس کی بڑی وجہ مائرہ اعوان تھی،۔جب میں چھوٹی تھی، وہ ہمیشہ میری ماں پر غصہ نکالنے آتی تھی۔
میری ماں ایک کافی شاپ پر کام کرتی تھی۔
ایک بار، جب میں اسکول سے سویر ان کے پاس گئی۔اسی وقت مائرہ اعوان بینیش اور زایان شاپنگ پر آئے تھے،
کافی شاپ کی گلاس وال سے اس نے مجھے بیٹھے اسکول ورک کرتے دیکھا،
تو بینش نے اپنی ماں کو اشارے سے بتایا، یہ تینوں کافی شاپ میں دندناتے آئے تھے۔
مائرہ نے میری ماں کو بالوں سے پکڑ کر دھمکیاں دی،اور کہا
" بے حیا عورت"
لوگوں کی بھیڑ جمع ہونے پر مائرہ نے چینخ چینخ کر لوگوں کو بتایا کہ میری ماں بدکردار ہے۔اور پھر اس نے ہم دونوں کو خوب مارا تھا، اس دن میرا بھائی زایان ایک طرف کھڑا بینیش کے ساتھ تماشا دیکھ رہا تھا۔
میری یادداشت کے خانے میں اعوان خاندان کا کوئی فرد بھی اچھا نہیں"۔اس نے افسردگی سے کہا۔
علیدان کا یہ سن کر خون کھولنے لگا جب جب وہ اعوان کے آن پر کیئے ستم سنتا تھا۔ دل چاہتا تھا سب کو ایک لائین میں کھڑا کرکے گولیوں سے بھون دے۔
وہ واقعتا پہلے کچھ نہیں جانتا تھا کہ آن اور اس کی ماں نے پچھلے کچھ سالوں میں کیا کچھ برداشت کیا تھا۔لیکن انکل عبداللہ سے ھوئی مختلف اوقات میں ملاقات کے دوران وہ کافی کچھ جان چکا تھا۔
"تو پھر ۔۔۔کب آپ اس کے قریب ہوئیں؟"علیدان نے وجہ جاننی چاہی تھی،
"میرے بھائی کے ابراڈ پڑھائی کے لئےجانے کے بعد۔۔ وہ چھٹیوں پر جب بھی آتے چھپ کر ہم سے ملتے، اور کافی تحائف لاتے تھے۔
اس نے میری ماں سے معافی بھی مانگی تھی، اور انہیں میرا خیال رکھنے کا بھی کہا تھا۔
اس کے بعد سے۔۔ بھائی چھٹیوں پر جب بھی آتے، ملتے ضرور تھے۔
آپ کیوں میرے بھائی کے لئے متجسس ہورہے ؟"
علیدان نے لب بھینچے اور سرد انداز میں کہا۔
"کیونکہ۔۔۔ میں اس سے نفرت کرتا ہوں۔"
آن نے حیرت سے اسے دیکھا اس کی نظروں میں ایک ہی سوال تھا "کیوں؟"
" اس دنیا میں سب سے زیادہ میں جس سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔ وہ زایان ہے۔"
علیدان نے فیصلہ کیا کہ آن کو حقیقت بتادے۔
آن اس کی نفرت پر تلخ سا مسکرائی۔
"آپ کی نفرت تو اعوان فیملی سے ہے اس میں بھائی کا تو قصور نہیں ہے"۔
"وہ آپ کا بھائی نہیں ہے" علیدان کی بات فیصلہ کن تھی۔
اسے سن کر آن پہلے چونکی پھر سمجھی علیدان نے مذاق کیا ہے۔۔ لیکن علیدان کے سرد تاثرات نے اسے بھت کچھ سوچنے پر مجبور کیا، لیکن ۔۔ وہ ان سب کو نظر انداز کررہی تھی۔
"نہیں۔۔۔ وہ میرا بھائی ہے۔" آن کو خود اپنی آواز بھی پرائی سی لگی۔اس نے جیسے خود کو یقین دلایا تھا ۔
"وہ آپ کا خونی بھائی نہیں ہے۔ بلکہ ۔۔ مائرہ کی بہن کا بیٹا ہے۔ سکندر کا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے ، اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو میں وٹنیس دکھا سکتا ہوں "۔علیدان کا ایک ایک لفظ اس کی سچائی کی گواہی دے رہا تھا۔
علیدان نے ٹیبل پر رکھی فائل جس میں ڈی این اے ٹیسٹ رپورٹ کے ساتھ تصویری ثبوت بھی موجود تھا۔آن کے آگے کیا۔آن نے ناسمجھی سے فائل لے کر بے یقینی اور حیرت سے ورق گردانی کی تھی۔
جیسے جیسے فائل پڑھتی جارہی تھی۔اس کی آنکھوں میں حیرت ابھرنے لگی۔اور چہرے کا رنگ فق ہوگیا۔
وہیں آن کے ذہن میں زایان کے روئیے بھی گھومنے لگے۔ جب جب آن نے زایان کے روئیے کو عجیب محسوس کیا لیکن دل میں آئے خیالات جھٹکتی رہی۔لیکن آج۔۔۔ آج وہ صحیح معنوں میں نیچے گری تھی۔اس کا سر چکرانے لگا۔
"تو۔۔۔۔ تو۔۔زایان اس کا خونی بھائی نہیں تھا؟
یہ سب اس کے لئے عجیب تھا۔۔۔ بھت عجیب۔۔ وہ فائل وہیں رکھ کر، آھستہ سے بنا کچھ کہے اٹھی اور کپکپاتے وجود کے ساتھ سیڑھیوں پر چڑھتی اوپر اپنے کمرے میں بند ھوگئی۔
پیچھے علیدان خاموشی سے بیٹھا رہ گیا۔
(ایک ماہ بعد)
وہ گہری نیند سورہی تھی۔ جب مسلسل ہوتی فون کی بیل نے اسے میٹھی نیند سے جگادیا۔
بوجھل ہوئی پلکوں کو بمشکل کھول کر اس نے تکیہ کی سائیڈ پر رکھا فون دیکھا۔جہاں پر ثنا حمزہ کالنگ بلنک ہورہا تھا۔
آن نے ییس کا بٹن ٹچ کرکے فون کان سے لگایا۔ سست اور بھاری ہوتی آواز میں "ھیلو" کہا۔
"دوسری طرف سےثنا حمزہ کی طنزیہ آواز آئی تھی۔
"میڈم، کیا تم ابھی تک سورہی ہو؟"
"ہمممم۔۔ اس کے طرف انداز تخاطب پر آن ہولے سے مسکرائی۔
"بس یار۔۔کل رات ایک کتاب پڑھتی رہی تو آنکھ دیر سے لگی تھی۔"
"میرا مطلب تھا۔۔۔ تم ان لوگوں میں سے تو نہیں ہو جو 8 بجے تک سورہے ہوتے ہیں۔میں تم کو ایک اہم بات بتانا چاہ رہی تھی۔ آج کی نیوز نہیں دیکھی ہے تم نے؟"
اس کے لفظ 'نیوز' سن کرآن کی نیند بھک سے اڑ گئی۔"کیا نیوز ہے؟"
"پہلے یہ بتاؤ ،کیا تمہارے مسٹر شاہ سنگاپور گئے ہیں؟" ثنا نے تصدیق چاہی۔
"تم کو کیسے پتا چلا؟" آن حیران ھوئی۔
"آف کورس، میں ہی نہیں۔۔۔ آدھا استنبول جانتا ہے۔"
ثنا کی بات پر آن پریشان ہوگئی۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کہے؟
"میں یہ کہہ رہی تھی۔کہ خبر پر دھیان دو۔" ثنا نے سسپنس رکھ کر تاکید کی۔
"ہوا کیا ہے؟" آن نے تجسس سے جھنجھلا کر پوچھا۔
" تمہارے دیوتا نُما شوہر نے ایک گرل فرینڈ رکھی ہوئی ہے۔ مسٹر شاہ اور بینیش اعوان ایک ہی طیارے میں سنگاپور گئے ہیں۔ اور رپورٹرز نے یہ خبر تصویر کے ساتھ کیپچر کی ہے۔
انٹرنیٹ پر سب ہی کہہ رہے ہیں۔ کہ دونوں خفیہ طور پر سفر کررہے۔"ثنا خود بھی حیران تھی۔
آن نے یہ سن کر دانت پیسے "یہ لڑکی بینش واقعی وہ کچھ کرسکتی ہے جو چاھتی ہے۔"
پھر گھری سانس لے کر خود کو رلیکس کیا۔کہ اسے بحرحال علیدان پر یقین تھا۔
"علیدان اپنے کام سے گیا ہے۔ کل رات میں نے اس سے فون پر خیریت پوچھی تھی۔میں اسے جانتی ہوں۔مجھے یقین ہے یہ سب بینیش کا پروپینگڈا ہے۔"
"تو ۔۔۔ مطلب تم کو ڈر نہیں ؟" ثنا حمزہ کی حیرت سے بھری آواز آئی ۔
"کیا تم نہیں سمجھتی کہ یہ معاملہ سریس ہوسکتا ہے؟"ثنا حمزہ نے حیرت سے پوچھا۔
"نہیں۔۔۔ انٹرنیٹ پر جو بھی خبر پھیلائی جاتی ہے وہ آدھی جھوٹی ہوتی ہے۔ سو مجھے علیدان پر یقین ہے۔" اس کے لہجے میں علیدان کی محبت کا یقین بول رہا تھا۔
"اگر مسٹر شاہ نے کچھ نہیں کیا۔ تو پھر یہ رپورٹر جھوٹی خبر کیوں پھیلائیں گے؟" ثنا حمزہ کو یقین نہیں آیا۔
"پھر بھی مسٹر شاہ کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے ۔مجھے اعوان خاندان کی یہ لڑکی کافی چالاک لگتی ہے" ۔ثنا اس کے لئے فکرمند ہورہی تھی۔
دونوں کچھ دیر تبادلہ خیال کرتی رہیں۔ آخر آن نے فون رکھ دیا۔ اب اس کا ارادہ علیدان کو فون کرنے کا تھا۔ لیکن پھر ہچکچاہٹ نے روک لیا۔
اگر وہ علیدان کو کال کرتی ہے۔ تو وہ سمجھے گا میں جیلیس ہورہی ہوں۔
ہوسکتا ہے وہ سمجھ لے کہ آن اس پر یقین نہیں کرتی !
آن نے گہری سانس لی۔ یہ ڈر اور خوف کے احساسات اچھے سائن نہیں تھے۔
آن نے اپنے سیل فون کو اسکرول کیا تبھی نیٹ پر نئی نیوز کا نوٹیفیکشن ظاہر ہوا۔
"شاہ گروپ کے صدر علیدان حیدر شاہ اور اعوان گروپ کے مالک کی بیٹی بینیش اعوان سنگاپور میں ایک ہی ھوٹل میں ٹھرے ہیں"
آن یہ خبر دیکھ کر کافی اپ سیٹ ھوئی ۔
حلانکہ وہ اچھے سے جانتی تھی کہ خبر جھوٹی ہے۔لیکن پھر بھی اس خبر نے اسے بے چین کردیا۔
وہ نہیں چاھتی تھی کہ علیدان کا بینیش کے ساتھ کوئی بھی تعلق ہو۔
آن نے فون رکھ دیا۔ اور گردن موڑ کر ٹیبل پر پڑی رات کی آدھی پڑھی کتاب اٹھالی۔
اسے علیدان پر مکمل یقین تھا۔ وہ کتاب پڑھ کر اپنے جزبات پرسکون کرنا چاہ رہی تھی۔لیکن در حقیقت وہ ایک لفظ بھی نہیں پڑھ پارہی تھی، جب کہ نظریں کتاب پر جمی ہوئی تھیں۔ لیکن ذہن مکمل علیدان کے طرف تھا۔
یونہی بیٹھے دن کے 2 بج گئے تھے۔ تبھی فون کی بیپ ہوئی اور نوٹیفیکشن ظاہر ہوا۔ آن فون اسکرول کیا دوسری نیوز چمک رہی تھی ۔
"علیدان شاہ ضروری بزنس میٹنگ اٹینڈ کرنے کے لئے بینش اعوان کے ساتھ گئے ہیں۔"
حلانکہ وہ ایک ساتھ نہیں تھے۔ لیکن ایک جگہ ضرور تھے۔
آن نے غصہ سے اپنے ہونٹ بھینچے،اور دانت پر دانت جما کر اپنے جذبات کو قابو میں کرنے کی کوشش کی۔ لیکن خود کو زیادہ دیر پرسکون نہ رکھ سکی۔
وہ کمرے سے نکل کر سیڑھیاں اترتی نیچے ھال میں آئی۔
ٹھیک اسی وقت مدھان شاہ لائونج میں داخل ہوا تھا۔
مدھان کو دیکھ کر وہ پریشانی سے اس کےطرف بھاگتی ہوئی آئی۔
آن نے سوچا کہ مدھان کو کہے کہ علیدان کو سمجھائے۔کہ اپنے آس پاس سے محتاط رہے۔
لیکن جب مدھان بولا۔۔ تب آن کو پتا چلا کہ وہ بھی نہیں جانتا کہ علیدان کیا کررہا ہے؟
"بھابھی ،آپ نے نیوز دیکھی؟کیا بھائی میٹنگ پر گئے ہیں؟اس کے ساتھ یہ نقلی چہرے والی چڑیل کیوں ہے؟"
آن نے لاعلمی سے کندھے اچکائے۔
" میں بھی کچھ نہیں جانتی، مجھے بھی علیدان نے کچھ نہیں بتایا۔"
"تو پھر آپ کو خود کال کرنی چاھئیے ، کیا وہ آپ کے شوھر نہیں ؟"
آن شرمندہ چہرہ لئے بولی۔ "وہ اپنے کام سے گیا ہے ،اگر میں کال کروں گی تو اس کے کام پر اثر ہوگا۔"
"اگر پہل آپ کریں گیں تو وہ خوش ھونگے، نو میٹر وہ کتنا بھی مصروف کیوں نہ ہوں ،جلدی کریں اسے کال کرکے پوچھیں۔"
مدھان کی بات پر ایگری کرتی آن نے سیل فون اٹھایا۔ اور کال کرنے لگی۔ تبھی اسی وقت اس کا فون بجنے لگا۔
مدھان نے بے صبری سے پوچھا۔ " کیا بھائی کا فون ہے؟" لیکن جب اس نے اسکرین پر چمکتے نام کودیکھا تو حیران ہونے کے ساتھ غصہ بھی ہوا۔دانت پیس کر بولا۔"یہ نقلی چہرے والی چڑیل کیوں کال کررہی ہے؟"
آن نے لاعلمی سے سر دائیں بائیں ہلایا۔ " آپ ہمیشہ مجھ سے ایسے سوال کیوں کرتے ہیں جس کے لئے مجھے بھی قیاس آرائی کی ضرورت پڑجاتی ہے۔"
"تو پھر اس کو جواب دیں۔ " یہ کہتے ہی مدھان نے اس سے فون لے کر کال پک کرلی، اور غصہ سے بولا۔
"نقلی چڑیل ،تم فون کرکے کیا ثابت کرنا چاہتی ہو؟"
دوسرے طرف بینیش دنگ ہوگئی ۔"اے۔۔۔تم کون ہو؟ آن کے فون پر کیا کررہے ہو؟"
"میں اس کا برادر ان لا مدھان شاہ، علیدان کا چھوٹا بھائی ۔"اس نے ایک ھاتھ سے اپنے کالر کھڑا کرکے فخریہ تعارف کروایا۔
اس کی بات پر بینیش طنزیہ ھنسی۔ "یہ انداز تخاطب بلکل بھی درست نہیں ہے، بی کاز ابھی تک دونوں نے شادی نہیں کی۔تو یہ تمہاری بھابھی کیسے ہوئی؟"
"دونوں کا نکاح ہوچکا ہے،دونوں ساتھ کھاتے پیتے اور رہتے ہیں ، اس حساب سے آن میری بھابھی ہے،باقی رہی انائونسمنٹ تو وہ بھی ہم جلد ہی کرلیں گے۔"
وہ اچھی خاصی اس کی طبعیت صاف کررہا تھا۔آن دنگ تھی۔جب کہ فون کے دوسری جانب بینیش کا رنگ نیلا پیلا ھورہا تھا۔
" جب کہ تم۔۔۔۔ نقلی چہرے والی چڑیل ، پہلے سے ہی کافی بدصورت ہو،اس کے باوجود بھی شو آف ایسے کرتی رہتی ہو۔جیسے کوئی مس ورلڈ ہو۔ ارے ہاں ۔۔۔میں تو یہ بھی جانتا ہوں کہ ۔۔۔۔تمہارا یہ چہرہ نقلی پلاسٹک کا چہرہ ہے۔۔۔۔افففف۔۔جسے دیکھ کر بچے بوڑھے ڈر جاتے ہیں۔ اسی لئے مشورہ ہے کہ باہر کم نکلا کرو۔۔۔۔۔ اور۔۔۔ہاں۔۔کبھی میک اپ کے بغیر آئینے میں شکل دیکھ لینا۔خود بھی ڈر جاؤ گی؟"
آن تو مدھان کو بولتے دیکھ کر متعجب ہورہی تھی، اور پھر اس کی دھمکیاں سن کر منہ پر ھاتھ رکھ کر ھنسی روکتی رہی۔ "یہ شریر لڑکا۔ بینیش کی طبعیت اچھے سے صاف کررہا تھا۔
دوسری طرف بینیش اس کی باتیں سن کر سخت حیران و پریشان تھی۔
" بکواس بند کرو، میں نے کوئی پلاسٹک سرجری نہیں کروائی،نہ ہی میں بدصورت ہوں ۔تمہاری ہی نظر خراب ہے۔اپنی نظر کا ٹیسٹ کرواؤ۔"وہ جل بھن گئی تھی۔
"سچ میں تم اعوان خاندان کی ہو نا؟ میں بتارہا ہوں۔۔ میرے لئے بھت آسان ہے اس ھاسپٹل کا پتا معلوم کرنا، جہاں سے تم نے پلاسٹک سرجری کروائی ہے۔۔۔۔میرے سامنے اداکاری کرنے کی کوشش مت کرو، اور تمہاری شاہ خاندان میں شادی کی خواہش تو میرے مرنے کے بعد بھی پوری نہیں ھوسکتی۔"
بینیش یہ سن کر غصہ سے پیر پٹخ کر رہ گئی۔
"یہ مت سمجھنا کہ تم علیدان شاہ کے چھوٹے بھائی ہو تو تمہیں میں کچھ کہہ نہیں سکتی ۔میں یہ تم کو بتارہی ہوں، اس بات سے قطع نظر کہ تم راضی ہوتے ہو یا نہیں ہوتے ،میں تمہاری بھابھی بن کر رہوں گی،پھر میں تمہیں دیکھ لوں گی۔"بینیش نے دھمکایا۔
مدھان سرد انداز میں ھنسا۔
"اسی لئے تو میں کہتا ہوں، تم نہیں جانتی کہ کس قابل ہو۔۔۔۔میں تم سے شرط لگاتا ہوں، اگر تم نے شاہ خاندان میں شادی کرلی، تو میں شاہ خاندان سے نکل جاؤں گا، اور اگر تم نہیں کرسکی تو کیا تم ایسی ہمت کرسکو گی کہ اعوان خاندان سے نکل سکو؟"
اس کی بات پر بینیش کو جیسے آگ لگ گئی تھی تپ کر دانت پیس کر بولی۔
" میں اپنا غصہ تم جیسے بچے پر ضیائع نہیں کرسکتی، اسی لئے فون آنیہ کو دو۔" بینیش اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکی۔غرائی تھی۔
اس کی بات پر مدھان طنزیہ ہنسا۔
" تم بھابھی سے بات کرنا چاھتی ہو؟ اچھاااا۔ لیکن۔۔۔۔لیٹ می نو ۔۔ تم کس حیثیت سے بات کرو گی؟ میں بتارہا ہوں، اگر تم نے بھابھی کے لئے کوئی مسئلہ بنایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں دیکھو گی، میں رپورٹرز کے سامنے تمہارے نقلی چہرے کی حقیقت ظاہر کردوں گا، اگر یقین نہیں آتا تو کوشش کر دیکھو۔ "
یہ کہتے ساتھ ہی فون بھی کاٹ دیا۔
دوسرے طرف دیکھو تو بینش اس کی دھمکیوں پر غصہ سے بل کھاکر رہ گئی، چینخ کر بولی۔
"مدھاااان شاہ، صرف انتظار کرو،ایک بار۔۔۔۔ اگر ایک بار میں علیدان کی بیوی بن گئی ،تو دیکھنا تمہیں شاہ خاندان سے باہر نہ نکال دیا تو میرا نام بھی بینش اعوان نہیں ہے۔"
ادھر مدھان نے آن کو فون واپس کرکے تسلی دی۔ "بھابھی ،آپ کو بلکل بھی ضرورت نہیں ہے اس نقلی چہرے والی چڑیل کا فون اٹھانے کی۔"
آن اس کی طرف دیکھ کر نرمی سے مسکرائی۔
" میں نے ہمیشہ سوچا تھا آپ بھت مخلص اور نرم فطرت کے ہیں۔ لیکن اتنی موٹی کھال کے بھی ہونگے پتا نہیں تھا۔"وہ مسکرائی۔
"میں موٹی کھال کا نہیں ہوں بھابھی،بس میں اعوان خاندان کے کسی بھی فرد کو پسند نہیں کرتا۔
مختصر یہ کہ آپ کو پریشان ہونے کی قطعا ضرورت نہیں ہے، مجھے ہمیشہ اپنے ساتھ پائیں گیں۔
اگر علیدان بھائی نے اس ڈائن سے شادی کی تو میں آپ کی سائیڈ پر ہوں گا۔ اور علیدان بھائی کو تو پہچاننے سے بھی انکار کردوں گا۔"
وہ اس کی بات پر مسکرائی" بس بس۔۔۔زیادہ اداکاری کرنا بند کردیں، میں ٹھیک ہوں، مجھے علیدان پر یقین ہے۔"
"بھابھی۔۔۔ آپ کے الفاظ نے میرا دل دکھادیا۔"وہ دل پر ھاتھ رکھ کر مظلوم بنا۔
" میں سچ میں آپ کا ساتھ دوں گا" وہ واقعی سریس تھا۔
آن نے اسے تھمب اپ کیا۔
" میں ٹھیک ہوں،میرے چھوٹے راجا۔ پریشان مت ہوں۔ اب آپ جائیے ،میں علیدان کو فون کرتی ہوں ۔"
مدھان مسکرادیا۔ "تو پھر میں اپنے بار جاتا ہوں، اسے کھلے ویسے بھی کچھ ہی ھفتے ہوئے ہیں۔"
"ٹھیک ہے۔۔ جائیے۔"آن نے سر ھلایا۔
اس کےجاتے ہی آن نے علیدان کو کال ملائی۔
دوسری طرف علیدان شاہ بھت خوش ہوا، جب آن کی کال آتے دیکھی۔
"کیا آپ جانتی ہیں؟ میں کب خوش ہوتا ہوں؟"
اور آن اچھی طرح جانتی تھی۔ جو وہ کہنا چاہ رہا تھا۔اسی لئے مسکرا کر فورا بولی تھی۔
"جب جب میں آپ کو کال کرتی ہوں۔"دھیمی سے مسکرائی۔
"ہا ہا ہاہا۔۔۔ مس آنیہ علیدان شاہ تو بہت کھلے دماغ کی ہوگئی ہیں۔"
اس کے ساتھ اتنا عرصہ رہتے ہوئے وہ اس کی ساری چالیں جان گئی تھی۔
"کیا آپ نے آج کی نیوز دیکھی؟"وہ فورا مدعا پر آگئی۔
"نہیں۔۔میں آج پورا دن مصروف رہا ہوں۔ کسی اور طرف دھیان ہی نہیں دیا، کیا کوئی اہم بات ہوئی ہے؟"
"امممم۔۔۔۔ میرا خیال ہے۔۔۔ آپ کو اپنے ارد گرد کا خیال رکھنا چاھئیے۔بینیش اعوان بھی سنگاپور آئی ہوئی ہے۔ آپ کے ساتھ کی فلائیٹ میں۔اور اسی ھوٹل میں ٹہری ہے۔ جہاں آپ ٹہرے ہیں۔ جب آپ کانفرنس میں گئے تھے، یہ بھی وہیں پائی گئی تھی،سب یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ اس کے ساتھ چھٹیوں پر ہیں۔"
علیدان کو اس کی فکرمندی پر پیار آیا۔ساتھ ہی بینیش کی حرکت سن کر غصہ آیا۔ طنزیہ بولا۔
"اعوان کی یہ لڑکی بہت ہی کوئی بے شرم دکھتی ہے، لگتا ہے۔۔ بے شرمی ان کو وراثت میں ملی ہے۔"
"اینی وے۔۔۔ جسٹ بی کیئر فل۔۔ میں اب جاکر کتاب پڑھتی ہوں۔"آن نے بات سمٹی کیونکہ علیدان ملک سے باہر تھا۔اس کا ایک ایک منٹ اہم تھا۔
"ویٹ اے منٹ۔" علیدان نے اسے روکا۔
"خبر پڑھ کر آپ اپنے دل میں کیا سمجھ رہی ہیں؟"علیدان نے اتنا دور ہوتے بھی اس کے خیالات جاننے چاہے تھے۔
"میں۔۔۔۔ " وہ رکی تھی۔ پھر بات بدل دی۔" بس ۔۔۔جلدی سے واپس آئیں مجھے اب تنگ مت کریں۔"
اس کی بات بدلنے پر علیدان مسکرایا۔
" کیا آپ جیلیس ہورہی تھیں۔؟ یا غصہ ہورہی تھیں۔؟" وہ اس کی طبعیت اچھے سے جان گیا تھا۔
"علیدان شاہ۔۔۔" آن جھنجھلا کر چینخ پڑی تھی۔بھلا وہ کیسے دل کا پتا دیتی،اور جتنا وہ چھپاتی تھی علیدان اتنا ہی اس کا بھید پالیتا تھا۔
"جب میں کل واپس آؤں گا تو آپ کو یونی سے ہی پک کروں گا۔"علیدان نے اپنے کل آنے کا پروگرام بتایا۔
"نہیں۔۔۔معاف کریں ۔ میں یونی میں مشہور نہیں ھونا چاھتی۔ مجھ اس سے الگ ہی رکھئے پلیز۔"وہ جلدی سے بول پڑی ۔
" کیا آپ کے لئے مشکل ہے اگر آپ میرے ساتھ مشہور ہوں گی تو؟"علیدان کو ناگوار لگا۔
"کون کہتا ہے میں آپ کے ساتھ ہوں؟" آن نے چڑایا۔
"کسی کو پتا نہیں ۔"
علیدان اس کی بات پر ھنس دیا دل کھول کر۔"اگر آپ میرے ساتھ نہیں ہوں گی۔تو کسی اور میں بھی ہمت نہیں کہ میری عورت کو آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے" ۔ علیدان کی آواز میں سختی اور لہجے میں پختگی تھی۔ جسے سن کر آن کے رونگٹھے کھڑے ہوئے تھے۔
☆☆☆
علیدان اس وقت نمائش میں مدعو تھا۔ اس نے لاشعوری طور پر ارد گرد اپنی تیز نظر پھیری تھی۔اور دانیال کو آواز دی۔
"دانیال، جلدی سے جاؤ، اور اس لڑکی بینیش کو ڈھونڈھو کہ کہاں ہے؟"
"بینیش اعوان؟" دانیال حیران ہوا۔
علیدان نے اس کی حیرت دیکھ کر اس کے آگے فون کی اسکرین کی۔ " پہلے اس خبر کو دیکھو"
"یسس ، مالک۔"
دانیال نے فون کھول کر انٹرنیٹ سے خبر سرچ کی۔ اور جلد ہی حرکت میں آیا۔آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس نے بینیش اعوان کو ڈھونڈھ لیا تھا، جو اسی نمائش میں موجود تھی، اور ایک طرف بیٹھی موبائیل اسکرول کررہی تھی۔
دانیال نے کسی کو بھیج کر بینیش اعوان کو بلایا کہ علیدان شاہ آپ سے ملنا چاھتے ہیں۔ بینیش تو یہ سن کر حیرت و خوشی سے بیھوش ہونے والی تھی۔ بھلا کب اس نے علیدان شاہ جیسے بلینیئر کے ساتھ آمنے سامنے ملاقات کا سوچا تھا؟ یہ اس کے تصور سے بھی آگے کی بات تھی۔
اچانک اسے اپنے سامنے دیکھ کر وہ شرم سے بلش کرنے لگی۔
"گڈ۔۔۔۔۔گڈ آفٹر نون، مسٹر شاہ۔" وہ اتنی نروس تھی کہ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے؟ الفاظ اٹک اٹک کر ادا ہوئے تھے۔
علیدان شاہ نے زیادہ بات کرنا غیر ضروری سمجھا اور سیدھا اصل مدع پر آیا۔
"پہلی بات،کسی کو کہہ کر انٹرنیٹ سے یہ افواہ ھٹادو،جو تم نے پھیلائی ہے، دوسری بات کہ جتنا جلد ھوسکے یہاں سے چلی جاؤ ۔
"میں سمجھی نہیں، آپ کس بارے میں بات کررہے؟ وہ معصوم بنی۔
علیدان اس کی مکاری پر سرد انداز میں مسکرایا۔
"تو پھر تم اس انتظار میں ہو کہ میں ثبوت پیش کروں؟"
اس کی بات پر وہ اندر سے ڈر گئی۔لیکن اپنی اصلی ڈھٹائی سے بن کر بولی۔ "میں یہاں صرف اپنی چھٹیاں گذارنے آئی ہوں، اور اتفاقا آپ سے ٹکراگئی ہوں۔"
اس کی بات پر وہ دانیال کے طرف مڑا۔ " دانیال انویسٹیگٹ کرو، دیکھو کہ کس اندھی میڈیا نے یہ جھوٹی خبر لگائی ہے؟"
اس کے بعد بینیش کو ایک سپاٹ نظر سے گھور کر وہاں سے جانے ہی لگا تھا کہ بینیش اس کے آگے آگئی۔
"مسٹر علیدان شاہ، کیا آپ سے تھوڑی دیر بات ہوسکتی ہے؟"
علیدان نے دانیال کو گھورا۔ دانیال اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ کر کانپ اٹھا۔جلدی سے آگے بڑھا۔
"مس اعوان ، خاموش رہیں، مالک کے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ بات کرے۔"
لیکن وہ بینیش اعوان تھی۔ ہار ماننا یا جھک جانا اس کی تربیت میں شامل نہیں تھا۔ وہ بے باک تھی۔ اس نے دانیال کی بات کو نظر انداز کردیا اور آگے بڑھی۔
" مسٹر شاہ ، کیا میں آن سے کسی طور بھی کم ہوں؟ ہم دونوں ایک باپ کی اولاد ہیں، آپ اسے ہی کیوں چاہتے ہیں؟"
علیدان اس کی بات پر رک گیا اور مڑ کر سرد اور طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"تم ایک مغرور، جابر،اور انسانیت سے گری ہوئی لڑکی ہو ۔اس کے باوجود بھی تم اپنا موازنہ آنیہ حیدر شاہ سے کرتی ہو؟ تم بلکل بھی اس کے قابل نہیں ہو۔"
اس نے سرد ہنکارا بھرا۔ اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا بنا کسی کو دیکھے آگے بڑھ گیا۔پیچھے دانیال نے بھی جلدی سے اس کی تقلید کی تھی۔
☆☆☆
دوسرے دن آن جس وقت کلاس لے کر باہر نکلی تھی، تب اسٹوڈنٹز کی ایک جگہ بھیڑ دیکھ کر رک گئی۔ آفیس سے دوسری ٹیچرز بھی نکل آئی تھیں، وہ بھی آن کے ساتھ متجسس تھیں،
ٹیچر مایا نے تذبذب سے اسے دیکھ کر پوچھا۔ " اب کیا ہوا ہے؟"
اس نے تجسس سے ادھر ادھر دیکھا۔
کچھ دیر بعد ، ایک پرتعیش گاڑی ان دونوں کے پاس آ کر رکی۔
ٹیچر مایا نے اپنے ساتھ کھڑے کولیگز کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ چلو۔ اور خود بھی ھنس کر یہ کہتی چلی گئی "چلو بھئی ہم کو چھپ جانا چاھئیے۔"
یہ سن کر آن کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا تھا۔
مایا کا اشارہ وہ سمجھ گئی تھی، ایک بار علیدان سب کے سامنے رومینٹک ہوا تھا، تبھی مایا نے میٹھی سی چوٹ کی۔
علیدان گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر آیا تھا۔سنجیدہ اور بردبار سا۔۔۔ سیاہ سن گلاسز آنکھوں پر لگائے۔خوشبو بکھیرتا آن کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ اور ٹیچر مایا کو دیکھ کر کہا۔ "کیا میں آن کو لے جاسکتا ہوں؟"
ٹیچر مایا مسکرائی ۔ "ضرور۔۔۔ ضرور۔ کیوں نہیں، میری دعا ہے آپ دونوں کا وقت اچھا گذرے۔"وہ مسکرائی۔
علیدان شاہ نے بے ساختہ ہی آن کو کمر کے گرد ھاتھ ڈال کر تھام لیا ، اور کھینچ کر اسے اپنے ساتھ لگاتا ہوا گاڑی میں بٹھایا۔ سب کے سامنے یوں حصار میں لینا آن کو شرمندہ کرگیا تھا۔
جس لمحے کار کا دروازہ بند ہوا آن بے چین ہو گئی۔ "آپ میری بات کیوں نہیں سنتے؟"
"آ تو گیا ہوں آپ کے پاس"۔ علیدان اس پر جھکا۔
"کم آن، یہ وقت نہیں کہ آپ اپنا رلیشن لوگوں پر عیاں کرتے پھریں، یہ یونی ہے۔ مجھے بلکل بھی اچھا نہیں لگتا آپ مجھے یوں سب کے سامنے پکڑ کر لے آئیں" ۔آن کافی شرمسار ہوئی تھی۔
علیدان نے اس کی پیشانی کو سہلایا۔ "میری چھوٹی آن۔۔ آپ کو خوش کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟"
آن جھجھلائی "میں نے تو نہیں کہا آپ کو"۔
"ٹھیک ہے۔۔۔ میں آپ کا مقروض ہوں۔ یہ میں ہوں جو آپ کو خوش رہنے پر مجبور کرتا ہوں ، درست؟ عبدل ، گاڑی ڈائننگ ہال کی طرف چلائیں۔ "
آن نے ایک گہری سانس بھر کر اسے دیکھا۔
علیدان نے ابرو چڑھا کر اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا" کیا ہوا؟"
لیکن وہ نظر انداز کرگئی۔ اسے غصہ تھا، کہ بینیش کے ساتھ علیدان کی خبر کیوں لگی۔
"اگر آپ مجھے دیکھنا چاھتی ہیں۔۔تو کُھل کر دیکھیں۔آپ کا ہی ھوں۔"۔آن بظاہر تو باہر دیکھ رہی تھی۔ لیکن چوری چوری نظروں سے اسے ضرور دیکھ رہی تھی۔ اس کی چوری پکڑی جانے پر منہ بنا کر رہ گئی۔
"میں آپ کو دیکھنا ہی نہیں چاھتی، مجھے صرف حیرت ہے"۔وہ آھستہ سے بولی۔
"کس بات پر حیرت ہے؟" علیدان نے جاننا چاہا۔
"دنیا کی نظر میں ،میرا آپ سے کوئی رلیشن نہیں ہے۔ پھر میں آپ کے ساتھ کار میں کیوں ہوں؟" یہ آن کی سوچ تھی۔
"ہممممم،۔۔سر سے پیر تک تو آپ میری ہیں، صرف یہ آپ کا منہ ہے۔۔جو ماننے سے انکاری ہے،تبھی تو میں کہتا ہوں، آپ کا منہ بے ایمان ہے۔" وہ اسے گہری نظروں سے سر تا پیر دیکھ کر بولا، اس کی نظروں سے آن کچھ پل کنفیوز ہوئی۔
"میرا منہ کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔افففف۔۔۔۔۔" وہ آگے کہنے ہی لگی تھی کہ علیدان نے جھک کر اس کے ہونٹ سی لئے۔
آن تو گاڑی میں ڈرائیور کے سامنے ایسی حرکت پر کانوں تک لال ہوگئی۔
آن نے اسے زور لگا کر پیچھے دھکیلا" آ۔۔آپ پاگل تو نہیں ھوگئے۔"وہ آواز دبا کر چینخی۔گال سرخ ہوگئے۔
"آپ کا اپنے بارے میں کیا خیال ہے؟" وہ شریر ہوا
"ہیں ں ں ۔۔ کیا مطلب ؟"آن حیران ہوئی۔"میں پاگل ہوں۔۔۔میں؟؟"اپنے طرف انگلی کرکے آنکھیں نکال کر دیکھا۔
"کیا آپ نے ایک جیسے مادوں کے ملاپ کا نہیں سنا ہوا؟ آپ نے کہا تھا۔۔۔ آپ تب ہی خوش ہوسکتی ہیں جب کوئی آپ کے جیسا پاگل مل جائے۔"
آن دنگ ہوئی وہ واقعی اس سے لفظوں میں نہیں جیت سکتی تھی ۔یہ اس نے کب کہا تھا؟
علیدان نے اس کا چہرہ تھام کر اپنے طرف گھمایا۔
" کیا سوچ رہی ہیں، میں کہہ رہا تھا۔۔۔ میں نے آپ کو بھت مس کیا۔"پیار بھری سرگوشیوں ابھری۔
آن نے بے ساختہ نظریں جھکائیں اور سرخ چہرے کے ساتھ بھینچی آواز میں کہا۔
"اور۔۔۔۔۔میں نے سن لی یہ بات۔"
علیدان اس کی بات پر چڑ گیا "تو کیا آپ کے پاس میرے لئے کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے؟"
وہ حیا سے سرخ پڑی، ہچکچا کر چپکی نظر ڈرائیور پر ڈالی۔
عبدل واقعی کافی نروس ہوتا تھا، لیکن اب اس کے لئے یہ عام بات تھی۔اس کے لئے بھتر تھا کہ اپنے مالک اور مالکن کے رومانس کو نظر انداز کردے جیسے دیکھا ہی نہیں۔
علیدان نے اس کا ھاتھ اپنے مضبوط ھاتھوں میں تھام کر سہلایا۔
" یہ آپ بار بار عبدل کو کیوں دیکھ رہی ہیں؟میری طرف دیکھیں،اور کہیں ۔۔۔کیا آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں۔۔؟"
"ہاں۔۔۔۔ وہ۔۔ وہ م ۔۔۔مجھے بھوک لگی ہے۔۔"آن نے گھبرا کر اس کی گرفت سے ھاتھ نکالنے کی کوشش کی۔
لیکن علیدان اسے کیسے کامیاب ھونے دیتا، "جب تک مجھے بتائیں گیں نہیں۔۔ تب تک مجھ سے کسی نرمی کی امید بھی مت رکھئے گا۔"
آن نے بے بسی سے لب بھینچ کر آنکھیں گھمائیں۔
"مجھے واقعی بھوک لگی ہے"۔
"آپ۔۔۔۔ اتنی بے ایمان کیوں ہیں آن؟میں نے کہا "میں نے آپ کو بھت سارا مس کیا۔ کیا آپ کو جواب میں کچھ نہیں کہنا چاھئے تھا؟۔۔۔۔۔مجھے لگتا ہے میں اس آس میں ختم ہوجاوں گا ۔" اس کا لہجہ کافی مایوسی اور شکایت سے پُر تھا۔
یہ دیکھ کر کہ آن نے تب بھی خاموش سر جھکائے بیٹھی ہے۔۔۔ علیدان نے ایک سرد سانس کھینچی۔اور نرمی سے اس کا ہاتھ چھوڑ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے رنگ تھے۔
اس کا ناراض ہونا تھا۔ اتنے دن بعد وہ آیا تھا۔ لیکن آن کی طرف سے اب بھی کوئی گرم جوشی ،کوئی نرم گرم احساس،اور نہ کوئی پیار بھرا جملہ تھا۔ ناراضگی تو بنتی تھی۔
آن نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر کچھ پل سوچا۔
علیدان ایسا تو نہیں تھا کہ چھوٹی چھوٹی سی بات پر ناراض ھوجائے ،اس کے نزدیک وہ مدھان کی طرح ہی موٹی کھال کا تھا۔جس پر آن کی کوئی بات اثر نہیں کرتی تھی۔ لیکن آج وہ کسی بچے کی طرح ناراض ھوا تھا۔
آن نے دو انگلیوں سے اپنی پیشانی مسلی، اور اسے دیکھا جو روٹھا روٹھا سا گاڑی سے باھر دیکھ رہا تھا ۔ پھر جھجھکتے ہوئے اس کا ایک ھاتھ جو زانوں پر رکھا ہوا تھا وہ اپنے ھاتھ میں لیا۔ یہ اور بات کہ آن کے ھاتھوں میں کپکپاہٹ واضع تھی۔
"آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟"
"علیدان نے بلکل نہیں دیکھا بلکہ سپاٹ انداز میں جواب دیا۔
"غصہ "۔
آن اس کی بات پر دل میں مسکرائی ۔
"لیکن ۔۔۔۔۔ مجھے تو غصہ کھانا پسند نہیں ہے"۔
"تو پھر مجھے کیوں دیا ہے کھانے کے لئے؟" علیدان نے سر گھما کر اسے گھورا۔
آن بھت پریشان ھوئی۔ یہ شخص کبھی کبھی بلکل تین سال کا بچہ لگتا تھا۔
"آپ اور بینش بیرون ملک سفر میں ساتھ تھے۔ کافی ساری افواہیں بن گئی تھیں۔ کیا میں نے غصہ نہیں کھایا؟"
اب کے بار شکایت ہی شکایت تھی آن کے لہجے میں۔ جسے سن کر علیدان کا دل باغ و بھار ہورہا تھا۔ مطلب آن کا دل اس کے طرف مڑ رہا تھا۔
"آج یونی میں سب نے عجیب نظروں سے دیکھا۔اور اس کی وجہ بھی آپ تھے۔ کیا میں نے غصہ نہیں کھایا؟"
تو وہ اس سے اتنی ساری باتوں پر ناراض تھی۔گن گن کر خفگی سے شکایت درج کروارہی تھی۔اسے سمجھارہی تھی کہ علیدان کی آن کی زندگی میں کیا اہمیت ہے۔
علیدان نے اس کے طرف چہرہ موڑا اور سپاٹ لہجہ بنا کر پوچھا۔"تو آپ مجھے یہ بتارہی ہیں کہ آپ نے مجھے مس کیا۔۔۔ہاں یا نا۔؟"وہ بن کر پوچھنے لگا۔۔حلانکہ دل میں لڈو پھوٹ رہے تھی۔پھلجھڑیاں پھٹ رہی تھی۔
آن نے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ سریس تھی۔جواب دینے کے بجائے نیچے دیکھتی رہی۔
علیدان عبدل کو کہا۔"عبدل گاڑی سائیڈ پر روک کر نکل جاو"
عبدل کی ہمت نہیں تھی کہ انکار کرتا اس نے گاڑی ایک طرف کرکے روک دی۔
عبدل کے لئے یہ نئی بات نہیں تھی۔ جب سے اس کا مالک مس آن سے ملا تھا، یہ عام واقعہ ہوگیا تھا
جیسے ہی عبدل گاڑی سے باھر نکلا، علیدان اس کے قریب آکر اسے سیٹ پر نرمی سے دھکیلا، اور اس پر جھک آیا۔
"ہاں اب بولیں ۔۔۔ میں سن رہا ہوں۔۔۔۔آپ نے مجھے مس کیا؟" گھمبیر اور دلفریب جادو بھری آواز دھرکنیں منتشر کرگئی تھی۔دل نے سرگم چھیڑ دیا۔لیکن اس کے الٹ بولی تو لہجہ تیکھا رکھا۔
"آپ۔۔۔۔آپ نا۔۔۔۔بھت ہی کوئی نامعقول شخص ہیں۔" وہ چڑ کر بولی۔
"اچھا۔۔۔۔کیا آپ نے مجھے صرف آج جانا ہے؟" گھمبیر دلفریب آواز اس کے کانوں میں گونجی۔
آن نے بے اختیار اپنا چہرہ دوسری سمت موڑا۔
یہ دیکھ کر علیدان نے اس کے گال دونوں طرف سے ، انگوٹھے اور انگلی کی مدد سے چٹکیوں میں اٹھا کر چہرہ اپنے سامنے کیا۔
وہ اس طرح گال کھینچے جانے سے درد سے "سی ی ی " کرکے رہ گئی۔
"تو آپ مجھے نہیں بتائیں گیں، کیا چاھتی ہیں۔۔۔ میں آپ کو پھر سے بوسہ دوں؟" علیدان نے اس کی نیلی آنکھوں میں جھانکا۔اور جھکنے لگا۔ تبھی
وہ جلدی سے بولی۔"آ۔۔۔۔آئی مسڈ یو۔۔۔"۔
کیونکہ وہ بحرحال اس کے قابو میں تھی،اس کے سامنے کوئی بھی حرکت نہیں کرپارہی تھی۔
"سچائی سے یا رسمی طور پر؟"ابرو اچکا کر چہرے کے رنگوں کو دھیان سے تکا۔
"سچی میں۔۔۔ "
پھر بے صبری سے بولی۔ "پلیز اب میرے سے اٹھ جائیں، اپ بھت وزنی ہیں۔"
وہی بارہا دہرایا جانے والا جملہ ۔
"ابھی ایک سوال اور بھی پوچھنا ہے۔" علیدان نے اسے سیٹ کی پشت سے دبا کر حاوی ہوا۔
"یہ آج ہی آپ کو سارے سوالات کیوں یاد آرہے ؟" آن جھنجھلائی۔ اور دونوں ھاتھ اس کے سینے پر رکھ کر اسے پیچھے دھکیلنے لگی لیکن یہ مشکل تھا۔
"کیوں کہ میں آپ کے منہ سے اپنی تعریف سننا چاھتا ہوں،اور آپ سے فائدہ اٹھانے کا موقع بھی چاہتا ہوں۔"لب دبا کر اسے آنکھ ونک کی۔جس پر آن نے دانت پیس کر دل ہی دل میں اسے 'بے شرم 'کہا۔
آن نے لب بھینچے۔
"سب کچھ ہی، سب کچھ ہی آپ کے فائدے کے لئے ہے؟"منمنائی۔ساتھ ہی اسے دور دھکیلنے لگی۔
"بلکل۔۔میں ہی ھر طرف سے فائدے میں ہوں۔آپ بھلی منہ سے نہ کہیں ۔ بھلی اپنا ضدی پن جاری رکھیں۔میں بھی دیکھتا ہوں آپ کب تک اپنی ضد برقرار رکھتی ہیں۔"
اس نے آن کی ٹھوڑی اٹھائی اور نرمی سے کہا۔ " میں آپ کے ساتھ نہیں تھا، کیا آپ کو نیند اچھے سے آئی؟"
آن نے اس کی آنکھوں میں جھانکنا چاہا لیکن نہ دیکھ پائی، اپنے ہونٹوں کا کونہ کاٹنے لگی۔علیدان نے اس کی ادا پر خود کو بے بس پایا اور اس کے ہونٹوں پر جھک کر نرمی سے محبت کی مہر لگانی چاہی۔آن نے اس کے ھونٹوں پر ھاتھ رکھ دیا۔
"میں نے یہ نہیں کہا کہ میرے پاس جواب نہیں ہے۔" آن نے جلدی سے کہا تھا۔ جس پر علیدان رکا۔
"اب آپ مجھے مائل کررہی ہیں"۔ علیدان نے گھمبیر لہجے میں سرگوشی کی۔ آن کا دل جیسے سینے سے باہر نکلنے کو تھا،
"م۔۔۔ میں نے کب؟؟" آن کو کچھ غلط لگا۔
علیدان نے اس کی ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اونچا کیا۔
"جس طریقے سے آپ اپنے ہونٹ کاٹتی ہو، یہ مجھے مائل کرتے ہیں۔" اس کے ہونٹوں پر انگلی پھیری، گھمبیر سا مدھوش جملہ جسے سن کر
آن کا چہرہ سرخ پڑا۔
"یہ شخص واقعی موقع سے فائدہ اٹھانا اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ کسی بھی لمحے میں کچھ بھی کہہ جاتا تھا۔
"اب آپ کچھ نہیں بولیں گیں؟" علیدان پھر سے اصل مدع پر آیا۔
آن نے اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھا اور سر نفی میں ہلاکر کہا "نہیں۔"
یہ اور بات تھی کہ اس کے انکار اور چہرے کے شرمیلے پن کے تاثرات میں مماثلت نہیں تھی۔ علیدان اس کے چہرے پر اترتے رنگوں اور نظریں جھکائے ، لب کاٹنے کی ادا پر جیسے قربان ھورہا تھا۔ اسے اپنا جواب اچھے سے مل گیا تھا۔ علیدان ایک گہری سانس لے کر اس کے اوپر سے اٹھ گیا،
"دیٹس گڈ"۔
آن جلدی سے سیدھی ہوکر بیٹھی۔ اور اپنے لباس کی شکنیں درست کرنے لگی۔ پھر خفگی سے بولی۔
"کیا آپ امید کرتے ہیں کہ میں آپ کے بنا اچھی طرح سے سوئی ہونگی۔"
"دیٹس رائیٹ۔ جس وجہ سے آپ ٹھیک سے نہیں سو سکیں۔اس کا مطلب۔۔۔ آپ نے مجھے بری طرح مس کیا تھا۔ اور آپ اب میرے وجود کی عادی ہوچکی ہیں۔ اب آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتیں، آپ اب ساری زندگی میری عادی رہیں گیں۔ کتنا زبردست ہے یہ خیال۔۔۔۔کہ میں اپنی شرط جیت چُکا ہوں۔آپ کے دل میں اتر کر اپنی جگہ بنا چکا ہوں۔"
وہ اس کے شرم سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کر شریر ہوا تھا۔
آن نے اسے شرمیلی نظر سےدیکھا۔ اس کی آنکھیں پیار کے جذبے سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اس کے آگے ختم ہوچکی ہے۔ہار چکی ہے۔لیکن یہ ہار کا احساس بھت خوبصورت تھا۔
حلانکہ وہ خود کو ھزار بار یاد دلاتی تھی۔
ھزار بار۔۔۔ کہ اسے اس کی محبت میں نہیں گرنا۔۔۔۔ اور بلکل نہیں گرنا۔ لیکن ھزار بار کے یاد دلانے کے باوجود بھی وہ مکمل ناکام ہوچکی تھی۔
علیدان شاہ جیسا پیارا شخص مسترد کرنے کے لائق نہیں تھا۔
بھلی وہ اپنی ساری توانائیاں صرف کرتی۔ لیکن وہ واقعی اب اس قابل نہیں رہی تھی کہ اس سے دور جاتی۔۔۔اب ناممکن تھا۔
☆☆☆
دونوں اس وقت ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے۔ علیدان نے مینو کارڈ اس کے ھاتھ میں دیا کہ اپنی پسند سے آرڈر کریں۔ لیکن مینو کی زبان زبان اسے سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ کافی زچ ہوئی۔ منہ بنا کر کہا۔
"یہ لوگ فارن زبان میں مینو کیوں دیتے ہیں،جس کی سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا لکھا ہے۔؟"
"اسی لئےکہ یہ ایک امریکی ریسٹورانٹ ہے۔ جو اس علاقے میں نیا کھولا گیا ہے۔" علیدان شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"اگر آپ ان سے انگریزی زبان میں مینو نہیں مانگیں گے تو ویٹر سوچے گا کہ آپ ان پڑھ ہیں۔ کیوں کہ یہاں جو بھی کھانے کے لیے آتا ہے اس کے پاس کچھ نہ کچھ تو ایبلیٹی ہوتی ہے ، اس کے لئے آپ کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔"مسکرا کر چوٹ کی۔
آن تو اس کے 'پڑھا لکھا' کہنے پر دیکھ کر رہ گئی۔ "کیا آپ کو بار بار میرا مذاق اڑانے میں مزہ آتا ہے؟"روہانسی ہوگئی۔
"آفٹر آل، آپ سائنس میں بھت اچھی ہیں۔۔۔ مانتا ہوں یہ اور بات ہے کہ آپ بس پڑھنا اور لکھنا نہیں جانتیں۔" علیدان شاہ مسلسل اسے چڑا رہا تھا۔
"آپ۔۔۔۔" آن نے دانت پیسے۔
"اوکے۔۔۔اوکے۔۔۔ بس اب تنگ نہیں کرتا۔ علیدان نے اسکے روتے چہرے کو دیکھ کر خود کو بمشکل قہقہ لگانے سے روکا تھا۔ ساتھ ہی اپنے بیگ سے گفٹ پیک نکال کر اس کے پاس ٹیبل پر رکھ دیا۔
"یہ کیا ہے؟ "آن نے اشتیاق سے آنکھیں بڑی کرکے پوچھا۔ یہ پہلی بار تھا کہ اس کے گفٹ پر وہ خوش اور حیران ھوئی تھی۔
"گفٹ ہے۔ کھول کر دیکھیں گیں نہیں؟"
آن نے اسے کھولا تو حیران رہ گئی یہ ایک ڈول تھی جسے موبائل فون پر ایک طرف لٹکاتے ہیں۔
آن نے اسے ڈبے سے باہر نکالا اور حیران ہوئی۔
علیدان نے اس کی توجہ ڈول کے چہرے کے طرف دلائی۔ " ذرا غور سے تو دیکھیں۔۔۔ اس کا چہرہ کس سے ملتا ہے؟"
اس کی بات پر، آن نے بغور دیکھا اور حیران رہ گئی۔
" یہ۔۔۔یہ تو آپ کے چہرے سے ملتا ہے"۔
"میں نے یہ آرڈر پر جوڑی بنوائی ہے۔ اور اپنا سیل فون نکال کر اسے دکھایا جس میں ویسی ہی ڈول تھی اس کا چہرہ آن جیسا تھا۔ علیدان نے ڈول کو پلٹا کر اس کے پیچھے کا حصہ دکھایا۔ جہاں لکھا تھا۔" مسز علیدان حیدر شاہ"
آن نے اپنی ڈول کو موڑ کر پیچھے دیکھ۔ جہاں ویسے ہی الفاظ کندہ تھے" مسٹر علیدان حیدر شاہ "
آن تو حیرانگی سے وہی جم گئی بے اختیار منہ پر ھاتھ رکھ کر چینخ روکی۔
علیدان شاہ دن بدن بلکل بچوں جیسا ہورہا تھا۔ یہی وہ شخص تھا جو سرد اور تند خُو مشہور تھا۔ مسکراہٹ کبھی چُھو کر بھی غلطی سے بھی اس کے ہونٹوں پر نہیں آتی تھی۔ اور یہ آن کے ساتھ کا معجزہ تھا۔ جس نے اس شخص کو ہنسنے۔ مسکرانے کے ساتھ محبت کرنا سکھادیا تھا۔ وہ وجہ تھی اس کی ہر خوشی کی۔ ہر دکھ کی۔۔۔اور جینے کی۔
آن نے پیار سے اسے گھورا اور مسکرائی "آپ ایک باوقار سے سی ای او ہیں ،کیاآپ کو نہیں لگتا۔۔۔۔ کہ اس طرح آپ کی سیل فون پر ڈول دیکھ کر لوگ باتیں بنائیں گے؟"
علیدان اس کی بات پر ھنس دیا۔" کیا آپ میرے الفاظ بھول گئیں؟"
آن نے سر ہلایا" یہ سچ ہے"
آن نے ڈول بیگ میں ڈال دیا۔ علیدان یہ دیکھ کر سخت ناخوش ہوا۔
"میں نے یہ تحفہ آپ کو بیگ میں رکھنے کے لئے نہیں دیا۔"
"میں اسے گھر جاکر فون میں لگاؤں گی۔"
"نہیں۔۔۔ابھی لگائیں ۔" علیدان نے زور بھرا۔
"میری سیل فون کا سوراخ چھوٹا ہے اور ڈول کا دھاگا کافی موٹا ہے۔ یہ اس میں سے نہیں گذر سکے گا۔"آن نے وجہ بتائی۔
علیدان نے اپنا ھاتھ آگے بڑھایا۔ "مجھے دیں"
پھر علیدان شاہ نے ویٹر کو بلا کر اوزار لانے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں اس نے دھاگا ڈال کر ڈول سیٹ کردیا۔ آن کو دے کر کہا۔
"اس کی حفاظت کیجئے گا۔یہ اہم ہے۔" تاکید کی گئی۔اس کے لہجے میں کچھ تھا۔لیکن آنیہ کو اس وقت سمجھ میں یہ بات نہیں آئی۔
آن نے ھاتھ بڑھا کر ڈول کے فیس کو تھپکا"پھر تو اسے فرمانبردار ہونا پڑے گا۔"
علیدان نے گہری سانس لی۔
"ھاھھھھ، چھوٹی آنی، آپ مجھے پھر سے بوسہ دینے پر مجبور کررہی ہیں۔"
اس کی بات پر آن بلش ھوئی۔
"ش۔۔۔ششس۔"ھونٹوں پر انگلی رکھ کر ساتھ ہی آنکھیں دکھائی۔
علیدان اس کے انداز پر دل سے مسکرایا۔ یہ لڑکی۔۔ وہ واقعی نہیں سمجھ پایا کہ اسے کیا کہے؟۔۔۔دن بدن اس کی کمزوری بنتی جارہی تھی۔ علیدان شاہ کو آن کے سوا کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ لازمی تھی۔۔۔ بھت لازمی۔
"اوھ ہاں۔۔۔ "آن نے کچھ یاد آتے ہی فون ٹیبل پر رکھا۔اور اسے دیکھا۔ جو اسی کے طرف متوجہ تھا۔
"کل آپ بینیش سے ملنے گئے تھے؟ درست؟"
"اس کا مطلب ہے آپ نے بھت تھوڑی خبریں پڑھی ہیں" علیدان نے اسے توجہ سے نہارا۔
آن نے پرسکون انداز میں کہا۔ "اس معاملے نے پورے شہر میں طوفان برپا کردیا ہے۔ میں نہ چاہنے کے باوجود بھی اسے نظرانداز نہیں کرسکتی۔"
"میں نے اسے دیکھا تھا، لیکن رپورٹس پر موجود تصاویر کو پرسنل سیکرٹری نے سنبھالا۔ میں نے اپنے لوگوں کو اسے اپنے سامنے پکڑنے کے لیے بھیجا۔۔۔۔ اس وقت میرے ساتھ دانیال تھا۔ اور اس کے پیچھے بھی کافی سارے لوگ موجود تھے۔ "علیدان نے اسے تفصیل بتائی،کہ وہ تنہا نہیں تھا۔تاکہ وہ کسی غلط فہمی میں نہ آجائے۔
" پھر بھی۔۔۔ آپ اسے دیکھنے بھی کیوں گئے۔؟" ان نے منہ بسورا۔یہ اس کے لئے کٹھن تھا۔ کہ علیدان اس کے پاس گیا۔
اس کی بات پر وہ پیارا سا مسکرایا۔
"میں اسے وارن کرنے گیا تھا۔اسے یہ پتا چلنا چاھئیے، کہ وہ اس قابل نہیں کہ آپ سے موازنہ کرسکے۔"
آن اس کی بات پر کھلکھلائی۔۔۔ یوں جیسے ویرانے میں جلترنگ سے بج اٹھے ہوں۔۔علیدان مبھوت دیکھتا رہ گیا۔بھت کم مسکراتی تھی وہ۔لیکن آج اس کے رنگ اور انداز ہی مختلف اور تقریباً گھایل کردیئے والے تھے۔اور علیدان تو پہلے ہی گھایل تھا۔
"میں آپ کی سنگدلانہ گفتگو سے واقف ہوں۔ اور اندازہ کرسکتی ہوں کہ وہ کس قدر غصہ ہوئی ہوگی۔" آن نے ھنسی روکی۔اسے مزا آگیا تھا۔ بینیش کی بے عزتی کا سوچ کر۔اس کے تصور میں وہ مرچیں چباتی ہوئی آئی تھی۔اور یہ تصور خوش کن تھا۔
علیدان نے اسے پرشوق نظروں سے دیکھا۔" کیا آپ کو مزا آرہا یہ سن کر؟"
"یپ۔۔۔ یو کین سی اٹ۔" وہ اب پرسکون تھی۔
علیدان نے سر ہلایا اور مسکرایا۔
"کیا آپ کو اب بھی نہیں لگتا کہ ہم دونوں پرفیکٹ ساتھی ہیں؟"
اگر وہ اس بارے میں ایمانداری سے تجزیہ کرتی تو اسے اب واقعی لگتا تھا کہ علیدان اس کے سامنے سب سے مختلف اور منفرد تھا۔
جب کہ اس کے سامنے وہ خود۔۔۔ ویسی ہی تھی۔یہ اس کی اپنی سوچ تھی۔اندر سے وہ خود کو اب بھی اس سے درجے میں کمتر سمجھ رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ ویٹر کھانا لاتا۔ ان دونوں نے نکہت شاہ کو آتے دیکھا۔
نکہت ایک طرف سے چلتی ہوئی آرہی تھی۔ جب ان دونوں کو دیکھا تو حیران ہوئی۔ اور ان کے طرف ہی بڑھ آئی۔
"اوھ۔۔۔، علیدان، اور مس آن، اٹز سرپرائیزڈ ٹو سی یو ھیئر۔"وہ حیرانی سے بولی۔
علیدان نے اسکے پیچھے نگاہ کی۔
"کیا تم یہاں تنہا آئی ہو؟"
"ہاں۔۔۔ کچھ دن سے میں بھی یہاں کی ڈشز کھانا چاہ رہی تھی، لیکن علیحان نہیں آنا چاہتا تھا۔ اسی لئے میں کئی دنوں سے اکیلی ہی آرہی ہوں۔ "
وہ جیسے یہ بات کہہ رہی تھی۔ آن کو ہی مسلسل دیکھ رہی تھی۔
"مس آن ، اگرآپ کو برا نہ لگے تو۔۔ میں آپ دونوں کے ساتھ بیٹھ جاوں؟"
آن نے نفی میں سر ہلایا کہ اسے اعتراض نہیں۔ " ہمارا کھانا ابھی نہیں آیا"۔
نکہت نے علیدان کو دیکھا اور اس کے ساتھ کی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
علیدان یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔
"تم یہاں بیٹھ جاؤ، میں آنی کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔"
یہ سن کر آن کا دل مسرت سے بھر گیا۔ ایک فخر تھا اس کی نظروں میں۔ وہ کافی پرسکون ھوگئی۔
نکہت یہ سن کر اپنی جگہ پر ساکت رہ گئی۔ لیکن۔۔ پھر خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گئی۔
جب ویٹر علیدان کا آرڈر لے آیا تو نکہت نے اپنا بھی آرڈر نوٹ کروایا۔ بنا مینو دیکھے۔
نکہت نے ان دونوں کے آرڈر کو دیکھ کر ھنس کر کہا۔
" علیدان۔ ہم دونوں کی پسند بھت ملتی ہے، میں نے بھی یہی آرڈر دیا ہے۔"
علیدان نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن آن کافی ناخوش دکھائی دی۔
آن نے علیدان کو کہا۔ "ہم بعد میں کھالیں گے۔ یہ کھانا نکہت بھابی کو دیجئے ،یہ پریگننٹ ہیں، ان کا زیادہ دیر بھوکا رہنا ٹھیک نہیں۔"
علیدان نے بھی زیادہ بحث نہیں کی خاموشی سے کھانا نکہت کے طرف کھسکادیا۔
نکہت نے بھی تُکلف سے کام نہیں لیا اور کھانا اپنے طرف کھسکایا۔ "پھر تو مجھے تُکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
پھر اس کی نظریں ٹیبل پر پڑے فون میں اٹیچڈ ڈول پر اٹھیں، اس کا دل جیسے گہرے اتھاہ سمندر میں ڈوب گیا وہ اچھے سے جان گئی تھی کہ یہ گفٹ علیدان کے طرف سے آن کے لئے ہے۔
ایک حسد کی چنگاری اس کی آنکھوں میں ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔
لیکن اوپر سے جلن چھپاتی مسکرائی۔
"مس آن ،یہ ڈول بھت خوبصورت ہے،علیدان نے دی ہے؟"
آن اس کی بات پر دھیمے سے مسکرائی اور اس ڈول کو پیار سے دیکھ کر بولی۔ "امممم، یہ ان کے طرف سے ہے"۔
"اٹز گریٹ ٹو بی ینگ، آپ دونوں کی محبت بہت رومینٹک ہے۔" وہ جلن چھپاتی اوپری دل سے تعریف کرگئی۔
"یہ علیدان کے طرف سے تحفہ ہے، علیدان اپنی عمر کے بنسبت ینگ سوچ رکھتے ہیں۔" آن مسکرا کر بولی تھی۔ انداز علیدان کے ساتھ چھیڑ خانی سا تھا۔
علیدان نے بھی اس کی بات دلچسپی سے سنی،" کیا واقعی ایسا ہے کہ میرا وجود بوڑھا دکھائی دیتا ہے؟"
"اگر میرے ساتھ کمپیئر کریں گے تو آپ بلکل بھی جوان نہیں ہیں"آن نے چھیڑا۔
علیدان نے مسکرا کر ہنکارا بھرا۔
"اچھا ۔۔ تو آپ یہ سمجھتی ہیں کہ میں بوڑھا ہوں؟"
"آپ بوڑھے نہیں ہیں، آپ کافی جوان ہیں، اور وجیہہ بھی ہیں۔۔۔۔اب خوش۔"آن نے مسکرا کر کہا۔
اس کی بات پر علیدان اس کے طرف جھکا۔"لیکن میں نے ابھی طنز سنا ہے"
"وہ اسی لئے کہ آپ کے کان سننے میں بلکل اچھے نہیں ہیں " آن نے مزے سے کہا۔
ان دونوں کو آپس میں ھنسی مذاق کرتے دیکھ کر نکہت کو زیادہ برا لگا۔
ماضی میں جب وہ اس کے ساتھ تھا، بہت کم بولتا تھا۔ وہ ہمیشہ سوچتی تھی کہ علیدان کو زیادہ بات کرنا پسند نہیں، لیکن اب وہ اس قدر بول رہا تھا۔ لگتا ہی نہیں تھا، یہ وہی علیدان ہے۔ اور بلاشبہ یہ آن کے ساتھ کا اعجاز تھا۔
یہ سوچ کر نکہت کے ھاتھ کی گرفت گلاس پر سخت ہوئی۔اس نے خود اپنے ھاتھوں سے اس پیارے سے شخص کودھتکارا تھا۔اور علیحان جیسے بردبار نظر آنے والے امیر شخص کو جیون ساتھی چُنا تھا۔اس کے تصور میں ماضی پھرنے لگا۔۔
جب وہ دونوں بیس سال کے تھے۔نکہت ان کی خالا زاد تھی۔باہر کی آزاد فضاوں میں پلنے والی آزاد سوچ کی مالک ۔دولت اور خوبصورتی پر مرمٹنے والی لڑکی۔
ان دونوں وہ اپنی خالا کے گھر رہنے آئی تھی۔اس کی ماں نے کہا تھا ۔اس نے اس کے لئے اپنی بہن کے بیٹے علیدان کو چنا ہے ۔وہ بہ خوشی اسے دیکھنے آگئی تھی۔دونوں میں کافی دوستی ھوگئی تھی۔ساتھ سارا دن گھومتے ھوٹلنگ کرتے۔لیکن اسے علیدان متاثر نہ کرسکا۔
علیحان شاہ بڑا تھا۔اور کافی سنجیدہ طبعیت کا بھی۔وہ اسے روز صبح جاگنگ کرتے، تیار ہوکر آفیس جاتے دیکھتی۔اور کئی کئی گھنٹوں تک گم سم رہتی۔اسے اس کی وجاہت کھینچتی تھی۔ایک سحر سا تھا علیحان کی پرسنالٹی میں۔اس نے اپنی ماں سے فون پر علیحان کے لئے پسند کا عندیہ دے دیا۔ دونوں گھرانوں میں شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی۔اس کی ماں ابراڈ سے اپنی بہن کے گھر استنبول آگئی۔تیاریاں زور شور سے چلنے لگیں۔علیحان کو بھی اس رشتے میں کوئی برائی نہیں لگی۔وہ ویسے بھی لیا دیا سا رہنے والا انسان تھا۔لیکن علیدان یہ سب دیکھ اور سن کر دل مسوس کر رہ گیا۔وہ اس سے عشق نہیں کرتا تھا نا ہی کوئی محبت بھرے جذبات تھے۔لیکن وہ خالازاد کی حیثیت سے اسے پسند ضرور آئی تھی۔
ایک عجیب دل دہلانے والا حادثہ شادی کے دن پیش آگیا۔دونوں ھنی مون کے لئے کار میں ھنسی خوشی جارہے تھے۔علیحان ہی گاڑی ڈرائیو کررہا تھا۔ جب گاڑی کے بریک اچانک سے فیل ھوگئے اور علیحان نے نکہت کو زبردستی باھر دھکا دیا۔جب کہ اس کی گاڑی سیدھی ایک درخت سے ٹکرائی تھی۔کار کا اگلا حصہ بری طرح ڈیمیج ہوکر چپچپا کر دھنس گیا علیحان کی دونوں ٹانگیں اس میں دب گئیں۔ حلانکہ بروقت اسپتال پہنچایا گیا تھا۔لیکن اس کی ٹانگیں ھمیشہ کے لئے متاثر ھوگئیں۔کہنے والے کہتے رہے کہ یہ حادثہ علیدان نے کروایا ھے۔نکہت بھی علیدان کو قصور وار سمجھتی رہی۔۔لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ یہ صرف ایک اتفاقی حادثہ تھا۔وقت گزرتے نکہت کا دل علیحان جیسے معذور شخص سے اکتا گیا۔یہ اس جیسی آزاد خیال تتلی کے لئے مشکل تھا ایک معذور شخص کے ساتھ عمر بھر معذوروں جیسی لائیف گذارنا۔ لیکن اب پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں تھا۔علیدان اس سے دور جاچکا تھا۔
وہ بیٹھے بیٹھے ماضی میں پہنچی گئی تھی۔ آن کی آواز پر بری طرح چونکی تھی۔وہ اس سے کچھ پوچھ رہی تھی۔
"مس نکہت آپ ان دونوں میں ٹھیک ہیں؟" اشارہ اس کی پریگننسی کے طرف تھا۔
"ہمممم۔۔۔ یہ عام دنوں سے بھت مختلف ہے۔
کس وقت میں زیادہ سونا چاھتی ہوں۔ تو پھر جاگ ہی نہیں سکتی۔ اس کے علاوہ میرا دل چاہتا ہے میں کچھ نہ کچھ چٹ پٹا سا کھاتی رہوں۔ بھوک مٹتی ہی نہیں ۔ علیدان۔۔۔تم کو یاد ہے میں زیادہ نہیں کھاتی تھی؟" آخری جملہ علیدان کو مخاطب کرکے کہا۔ شاید وہ اس کی توجہ چاہتی تھی۔
علیدان شاہ نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔ صرف عام لہجے میں اتنا کہا۔
"اگر تم کھانا چاہتی ہو تو کھاؤ، اگر سونے کو دل کرے تو سوجاؤ۔۔ اگر تم خود کی اچھی کیئر کرو گی تو علیحان بھائی کو اچھا لگے گا۔آفٹر آل علیحان بھائی بھی اس بچے کا ایک عرصے سے انتظار کررہے تھے۔"
اور ان کی باتیں بغور سنتی آن تذبذب میں پڑگئی۔وہ تو حاملہ نہیں تھی۔ پھر کیوں وہ اتنی سونے کی شوقین ھوگئی ہے،اور کوشش کے باوجود بھی خود کو روک نہیں پارہی تھی۔
آفٹر لنچ تینوں باہر آگئے۔
نکہت نے علیدان کو روکا۔
"علیدان، یہ ایک اتفاق تھا کہ ہم یہاں مل گئے۔ لیکن مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔"
آن کے ساتھ علیدان نے بھی دل میں ناگواری محسوس کی۔ لیکن کہا کچھ نہیں۔ علیدان نے اسے عام نظروں سے دیکھا۔ "کیا بھت ضروری بات ہے؟"
نکہت نے اپنے دونوں ھاتھ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ کے نیچے رکھے۔"معاملہ بچے سے متعلق ہے"
آن اسے دیکھ کر رسمی سا مسکرائی۔اور علیدان کو کہا۔" کوئی بات نہیں علیدان، میں گاڑی میں انتظار کرلیتی ہوں"۔
علیدان نے فقط سر ہلاکر پیار سے کہا تھا۔"میں کچھ ہی دیر میں آتا ہوں ھنی"اس کے 'ھنی' کہنے پر آن لجا گئی۔
آن کے جاتے ہی نکہت اس کے طرف مڑی۔" تم بھت بدل گئے ہو علیدان"۔
"ہمممم،میں نے بھی بات یہ نوٹ کی ہے"۔ علیدان نے عام لہجے میں کہا۔ "اصل مدعا پر آؤ، کیا کہنا چاھتی ہو؟" علیدان نے اسے اصل مدع بیان کرنے کو کہا۔
نکہت نے اپنی نظریں جھکائیں، اور کچھ دیر بعد افسردگی سے کہا۔
"علیدان۔۔۔ تم واقعی مجھے نہیں سمجھ رہے۔؟اس نے دکھ سے علیدان کو دیکھا۔
"میں واقعی نہیں چاہتی۔۔۔ میں بلکل نہیں چاھتی۔۔۔ میں اس بچے کو پیدا کرنا نہیں چاھتی۔۔۔۔جو اس آدمی سے تعلق رکھتا ہو جسے میں نہیں چاھتی۔"
"نکہت۔۔۔۔۔۔"علیدان نے سخت ناگواری سے اسے دیکھ کر تنبیہی انداز میں ٹوکا ۔
"تمہیں کس وقت کیا کہنا چاھئیے۔ اور۔۔۔۔ کیا نہیں کہنا چاھئیے؟تمہیں اس بات کا کوئی احساس نہیں۔ تمہیں یہ سب کہتے ہوئے علیحان بھائی کے احساسات کا کوئی خیال نہیں آیا؟ اتنی خود غرض کیسے ہوسکتی ہو تم؟" علیدان کے لہجے میں اس کے لئے سخت ناگواری اور حیرت تھی۔
نکہت اس کے جانب گھومی اور روتے ہوئے، اچانک ہی علیدان کے سینے سے لگ گئی۔
"میں بہت ۔۔۔ تکلیف میں ہوں۔۔علیدان بھت۔۔۔" وہ سسک پڑی۔ادھر علیدان تو جیسے برف کی سل کی طرح ایک جگہ پر بت بن گیا۔ اسے نکہت سے اس قدر بے باکی کی توقع نہیں تھی۔ وہ اس کی رشتے میں بھابھی تھی، اسے یوں کھلم کھلا اس کے گلے لگنا کیا ثابت کرتا تھا؟ وہ اس کی حالت کے پیش نظر اسے خود سے کھینچ کر دور بھی نہیں کرپارہا تھا۔
کچھ زیادہ دور نہیں آن کار میں بیٹھی، ان دونوں کو ہی دیکھ رہی تھی، یہ منظر دیکھ کر اس کا منہ کھل گیا۔ حیرت سے شاک سے، اور دکھ سے ۔۔ اس نے بے اختیار منہ پر ھاتھ رکھ کر اپنی بے ساختہ چینخ کا گلا گھونٹا۔ساتھ ہی اس کی آنکھوں کی زمین چپکے سے گیلی ہونے لگی تھی۔
☆☆☆
"آن کو حسب معمول آفیس میں ہی کرسی پر بیٹھے نیند کی خماری آگئی تھی۔ یہ مسلسل ایک ماہ سے ہورہا تھا۔ لیکن اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ اس وقت بھی ٹیچر مایا کلاس لیکر آئی تو آن کو کرسی پر اونگھتے پایا۔
"آن کیا تم رات کو ٹھیک سے نیند نہیں لیتی؟"وہ حیران ہوئی۔
وہ رات کو سویر سوئی تھی،صرف آدھی رات کو کچھ پل کے لئے اٹھی تھی۔
حلانکہ وہ اتنی نیند کی رسیا نہیں تھی، لیکن اب ایسا لگ رہا تھا جیسے نہ جانے کب سے نیند ہی نہیں کی ہو۔
حال ہی میں وہ کچھ زیادہ نیند لے رہی تھی۔ علیدان بھی کہتا تھا "ھنی، آپ بھت سوتی ہیں۔ یہ آپ کا انداز تو نہیں ہے۔"اور وہ سستی سے مسکرا کر رہ جاتی تھی۔
ابھی چھٹی میں کچھ وقت تھا۔ آن نے ٹائم دیکھا پھر مایا سے نیند بھری آنکھوں کے ساتھ بھاری آواز میں بولی۔
"یپ، ابھی چھٹی میں کافی ٹائم ہے ۔"آن نے سرہلایا۔ "سو ۔۔۔کیوں نہ میں کچھ دیر اور سولوں، گڈ آفٹر نون۔"
مایا نے کچھ نہیں کہا، بلکہ مسکرا کر اس کے پاس بیٹھ کر اپنی موبائیل فون پر بزی ھوگئی۔
حسب معمول چھٹی کے وقت علیدان نے اسے پک کیا تھا۔دونوں نے ولا پہنچ کر پہلے کھانا کھایا۔
"اس ویک اینڈ پر علیحان بھائی نے پروگرام بنایا ہے۔ گھومنے کا، نکہت کو پرسکون رکھنے کے لئے۔ انہوں نے ہمیں بھی دعوت دی ہے۔"
نکہت کی بات پر آن نے لب بھینچ کر اپنے غصے کو کنٹرول کیا، وہ نہ اس عورت کا ذکر سننا چاھتی تھی، نا اسے دیکھنا چاھتی تھی۔
اس دن کے بعد سے وہ اس کی نظروں سے گرچکی تھی۔ ایسی عورت جسے رشتے کا بھی پاس نہ ہو، وہ کیسے اسے دوبارہ دیکھے؟
"میں نہیں چل رہی۔"
آن نے پیشکش مسترد کردی۔
اس کی بات پر علیدان نے اسے حیرت سے دیکھا۔
" اور وجہ؟"
"ثنا حمزہ میرے پاس آرہی ہے، ہم نے پہلے سے طئے کرلیا ہے۔"اس نے آرام سے بنا اسے شک میں ڈالے وجہ بنالی۔
علیدان کو ناگوار تو بھت لگا۔" کیا واقعی۔۔۔۔؟ یا آپ جان بوجھ کر ہمارے ساتھ سے احتراز کررہی ہیں؟"
"آف کورس ناٹ۔۔" یہ کہہ کر وہ کسلمندی سے ٹیبل سے اٹھ گئی۔
وہ بلکل بھی نکہت کو دیکھنے کی روادار نہیں تھی۔
اسے علیدان پر بھی سخت غصہ آتا تھا۔۔ جب جب اسے یاد آتا تھا۔۔ کہ کس طرح وہ علیدان کے ساتھ فلرٹ کرتی رہی ہے۔ کس طرح اس دن اس کے سینے سے لگی کھڑی تھی۔
وہ اپنے کمرے میں آئی۔ گرم شاور لے کر خود کو رلیکس کیا۔ پھر حسب عادت بیڈ پہ آکر کتاب پڑھنے لگی۔اس کی عادت تھی جب تک کوئی اچھی کتاب نہ پڑھ لے ۔اسے سکون نہیں آتا تھا۔ آدھے گھنٹے کے بعد علیدان کمرے میں داخل ہوا۔
آن نے اسے دیکھ کر بھی نظر انداز کردیا۔
علیدان باتھ میں گیا۔ شاور لے کر واپس آکر بیڈ کے دوسرے طرف تکیہ ٹھیک کرکے اس سے ٹیک لگا کر لیٹ گیا۔
آن کی توجہ مسلسل کتاب پر تھی۔ اس نے نظر اٹھا کر بھی علیدان کو نہیں دیکھا تھا۔ جس پر علیدان کو سخت چڑ آئی۔
"اس کتاب میں اتنی کشش ہے کہ آپ میرے وجود کو بھی نظرانداز کررہی ہیں۔!"
علیدان نے ایک ہاتھ بڑھا کر اسے اپنے طرف کھینچا۔
اور دوسرے ھاتھ سے سائیڈ لیمپ آف کردیا۔
آن اس طرح کھینچے جانے سے چینخ پڑی تھی۔
"کیا کررہے ہیں آپ؟ آن نے اسے گھورا۔
لیکن علیدان نے جھک کر الفاظ اس کے منہ میں قابو کرلئے تھے۔
☆☆☆
سینچر کے دن وعدے کے مطابق ثنا حمزہ اس کے پاس آگئی تھی۔ آن نے علیدان کو بتادیا تھا کہ وہ آج سارا سن ثنا حمزہ کے ساتھ اپنے گھر پر گذارے گی۔
دونوں کافی دیر تک آپس میں کالیج اور یونی کے دنوں کی یادیں تازہ کرتی رہیں۔
لنچ کے بعد دونوں نے کچھ دیر بیٹھ کر گفت و شنید کی،وقت کا پتا ہی نہیں لگا۔ چونکی تب، جب اس کا سیل فون مسلسل وائبریٹ کرنے لگا۔
یہ دیکھ کر مدھان شاہ فون کررہا۔ آن نے بے دلی سے فون اٹھا کر "ہممم "کہا۔
"بھابھی۔۔۔کیا آپ مصروف تھیں؟"مدھان کی پریشان سی آواز آئی۔
"ہممم کیا ہوا ہے؟"
آن کو اس کی آواز میں پریشانی محسوس ہوئی۔تو چونک کر پوچھ بیٹھی۔
"دیٹ۔۔۔۔ مجھے آپ کو کچھ بتانا ہے آپ پلیز۔۔۔غصہ مت کرنا۔ "وہ واقعی پریشان تھا۔
اس کی بات پر آن متجسس ہوئی۔" کیا۔۔۔۔؟ کیا تم نے میرے ساتھ کچھ غلط کیا ہے؟"
جیسے ہی آن نے بات پوری کی۔اس کی سیل فون پر علیحان کا نمبر آنے لگا۔ وہ حیران ہوئی کہ علیحان بھائی اسے کال کیوں کررہے ہیں؟
آن نے حیران ہوکر مدھان سے کہا۔
"علیحان بھائی، کیوں مجھے کال کررہے ہیں مدھان۔۔۔خیریت تو ہے۔؟"وہ ناسمجھی سے پوچھنے لگی۔
مدھان نے بے صبری سے کہا۔
"بھابھی۔۔۔ پلیز ان کی کال مت اٹھانا۔"دوسری طرف مدھان چینخا۔
"جب ہم دونوں فشنگ کا مقابلہ کررہے تھے۔اتفاقی طور پر میرے منہ سے آپ کی بات نکل گئی۔ علیحان بھائی نے ڈھونڈھ نکالا کہ آپ سکندر اعوان کی بیٹی ہیں۔اور۔۔۔ وہ بھت غصہ میں ہیں۔"
آن کا دل یہ سن کر سکڑ کر سمٹا۔۔ وہ وہیں ساکت بیٹھی رہ گئی۔تو بالآخر جس بات سے وہ ڈرتی تھی ۔وہ ہوگئی۔اس کی زندگی کی کہانی کا ڈراپ سین ہونے والا تھا۔
"علیدان نے کیا کہا؟"
آن کو اپنی آواز ہی پرائی محسوس ھونے لگی۔
"علیدان بھائی نے میری کال کا جواب نہیں دیا۔"
"کیا وہ تم لوگوں کے ساتھ نہیں گیا تھا؟"
آن نے ایک امید سے پوچھا۔ اس کا ذہن جیسے گہرے سمندر میں غوطے کھارہا تھا۔ اب ایک نیا محاظ اس کے لئے کھل چکا تھا، ایک نئی جنگ اس کے لئے تیار کی جارہی تھی۔ ایک طرف وہ تنہا تھی۔ دوسری طرف ھزار لوگ تھے۔ جن میں آدھے اس کی اپنی فیملی کے اور آدھے شاہ خاندان کے ۔ وہ اس محاظ پر کب تک ڈٹی رہتی یا پسپائی اختیار کرتی ہے؟ یہ ابھی کچھ کہنا عبث تھا۔
"نہیں وہ ہمارے ساتھ نہیں آیا۔" مدھان کی یہ بات سن کر آن کے دل کو کچھ سکون محسوس ہوا۔۔اسے لگا جیسے تپتی دوپہر میں کوئی سائبان منتظر ہے۔ علیدان اس کے ساتھ تھا۔
کالر آئی ڈی دیکھ کر اس نے مدھان کو کہا۔"آل رائیٹ، میں سمجھ گئی۔تم کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔میں ھینڈل کرلوں گی۔"اس نے اسے تسلی دی۔
مدھان کی کال رکھ کر اس نے علیحان بھائی کی کال اٹھا لی۔
جیسے ہی کال ملی۔علیحان کی سرد اور سپاٹ آواز اس کے کانوں میں گونجی۔ بے اختیار دھڑکتے ڈر کو قابو کیا۔
"مس آنیہ عصمت۔۔ آپ کے پاس وقت ہے تو میں آپ سے آمنے سامنے بات کرنا چاہوں گا۔"
آن نے گہری سانس کے کر اپنے آپ کو مضبوط کیا اور ٹہرے لہجے میں بولی۔
" آل رائیٹ، میں آپ سے ملنے کہاں آوں؟"
"ایس کلب، تمہارا نام دروازے پر بتادیا گیا ہے۔ کوئی بھی تم کو میرے پاس لے آئے گا۔"
فون رکھنے کے بعد اس نے ثنا حمزہ کو دیکھا جو اسے ناسمجھی سے دیکھ رہی تھی۔
"ثنا میں کچھ معاملات سلجھانے جارہی ہوں ۔مجھے ڈر ہے کہ میں واپس نہیں آسکوں گی۔ تم گھر پر آرام کرنا۔ہم کل صبح ملیں گے،اوکے۔"
ثنا حمزہ نے فکرمندی سے پوچھا۔"لیکن ہوا کیا ہے؟کیا کچھ غلط ہوا ہے؟" اسے آن کے انداز عجیب لگے۔
آن بمشکل مسکرائی۔"کچھ معاملات الجھ گئے ہیں۔ جنہیں سلجھانے کے لئے جانا پڑے گا۔ تم پریشان مت ہو، اپنا خیال رکھنا۔"اس نے اس کا ھاتھ تھپک کر تسلی دی۔
ثنا حمزہ اس کے پیچھے دروازے تک آئی۔ " کیا کوئی سریس ایشو ہے؟تمہاری ظاہری حالت مجھے ڈرا رہی ہے۔"وہ فکرمندی سے بولی۔
آن نے اس کی فکرمندی پر اسے دیکھا۔ "سب ٹھیک ہے۔۔ پریشان مت ہو۔" حلانکہ وہ کوئی اتنی بڑی نہیں تھی، لیکن اتنی سی عمر میں بھت کچھ دیکھ لیا تھا۔ جس نے وقت سے پہلے اسے بڑا کردیا تھا۔
وہاں سے اس نے ٹیکسی لی اور ایس کلب آگئی۔
آن نے رسیپشن پر اپنا نام بتایا۔۔ تو ویٹر اسے ایک پرائیویٹ روم میں لے آیا۔
آدھا گھنٹا انتظار کروانے کے بعد علیحان کمرے میں داخل ہوا۔
وھیل چیئر کو دھکیل کر اندر لائے آدمی کو اس نے واپس بھیج دیا۔
علیحان نے اسے سرد نظروں سے دیکھا۔" مجھے سمجھ میں نہیں آرہا کہ تم کو مس آنیہ سکندر اعوان پکاروں یا مس آنیہ عصمت؟"
آن نے سکون سے کہا۔" علیحان بھائی، میرا سر نیم عصمت کاظم ہے۔ میرا نام آنیہ ہے، آپ مجھے آن عصمت بلاسکتے ہیں۔"
علیحان اس کی بات پر طنزیہ ھنسا۔
"مس آنیہ۔۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں۔۔۔درحقیقت آپ کا منصوبہ کیا ہے؟"
آن اوپر سے جتنی پرسکون نظر آرہی تھی۔ حقیقت میں وہ اندر سے اتنی ہی خوفزدہ تھی۔
"میں آپ کی بات کا مطلب واقعی نہیں سمجھی،کیا آپ وضاحت کرسکتے ہیں؟"آن نے ناسمجھی سے انہیں دیکھا۔
علیحان نے تمسخرانہ کہا۔
"سکندر اعوان کی ناجائیز بیٹی ہوکر تمہیں اچھی طرح معلوم ہوگا کہ ہم دونوں خاندانوں میں دشمنی کس وجہ سے ہے؟
اس کے باوجود بھی تم میرے بھائی کو اپنی محبت میں پھانسنا چاہتی ہو۔۔۔۔۔۔؟ کیا تم یہ ثابت کرنا چاہتی ہو، کہ اعوان خاندان کی عورتوں کے لئے شاہ خاندان کے مرد پرکشش ہیں؟"
آن اس کی بات پر تکلیف سے بول پڑی" علیحان بھائی۔۔۔ پلیز عزت سے بات کیجئے،میں نے کبھی آپ کے بھائی کو اپنے طرف مائل نہیں کیا۔"
"مس آنیہ۔۔ میں یہاں پر تمہارے ساتھ کوئی ھنسی مذاق کرنے نہیں آیا، میں صرف تم سے یہ کہنے آیا ہوں۔ کہ میرے بھائی کی زندگی سے نکل جانے کے لئے تمہاری کیا شرائط ہیں؟"
اس کی بات پر آن نے نظریں جھکالیں۔سر بھی جھک گیا۔ اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
"تم کیوں نہیں کچھ کہہ رہی؟
بولو؟۔۔۔۔تین کروڑ؟ پانچ کروڑ؟ دس کروڑ؟ ۔۔۔بولو کتنے چاھئیے تمہیں علیدان کی زندگی سے نکلنے کے لئے۔۔یا تم شاہ خاندان کے شیئرز چاھتی ہو؟"
آن نے نم آنکھوں سے لب بھینچ کر اسے دیکھا۔اور بھرائی آواز میں کہا۔ "مجھے کچھ بھی نہیں چاھئیے۔"
"تمہارا مطلب ہے۔۔ تم اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہو؟"وہ سپاٹ لہجے میں غرایا تھا۔
اگر یہ پہلے کی بات ہوتی۔ تو شاید وہ علیدان کو چھوڑ کر آرام سے چلی جاتی۔۔لیکن۔۔۔۔ اب وہ اس کے لئے لڑسکتی تھی۔
"اعوان خاندان نے کبھی میری شناخت نہیں پہچانی۔۔نہ میں نے ان کا ایک پیسہ خود پر خرچ کیا۔
سو علیحان بھائی، میں ان سے تعلق نہیں رکھتی۔"آن نے اپنے دکھ کو اندر ہی اندر سمیٹتے اوپر سے پرسکون ہوکر جواب دیا تھا۔
علیحان شاہ نے ناگواری سے کہا۔" میں کچھ نہیں جانتا۔۔ میں صرف اتنا پوچھتا ہوں کہ تم سکندر اعوان کی بیٹی ہو؟ ہو یا نہیں؟"
آن بلکل چپ رہی۔بالآخر سر ہلکے سے اثبات میں ہلایا۔یہ کڑوی حقیقت تھی۔
علیحان نے بات جاری رکھی۔" سکندر اعوان ، گوہر اعوان کا داماد ہے، اسی لئے وہ بھی اسی خاندان کا حصہ ہے۔
وہ لوگ ہماری ایک زندگی کے قرض دار ہیں۔۔۔سو تم۔۔۔ اور میرا بھائی، بلکل ساتھ نہیں رہ سکتے۔"
آن دنگ ہوئی"ایک زندگی۔۔۔۔؟"
وہ علیحان کو حیرت سے دیکھے گئی۔ کون سی زندگی کی بات ہورہی تھی؟ کس کی زندگی کا قرض دار ہے سکندر اعوان؟ کون سا راز تھا جو آن نہیں جانتی تھی؟ لیکن وہ کیسے جان سکتی تھی، وہ تو خود اس خاندان سے دھکیل کر نکال دی گئی تھی۔وہ تو خود سائبان کی تلاش میں سرگرداں تھی۔ کیسے جان سکتی تھی وہ؟ لیکن یہ بات وہ کس کس کو بتاتی؟ اور کون یقین کرتا؟ دنیا کی نظروں میں وہ سکندر اعوان کی ہی بیٹی تھی، چاھے وہ ھزار تاویلات پیش کرتی۔
"آپ کس کے متعلق بات کررہے ہیں؟"وہ حیرت سے گویا ہوئی۔
"کیا تم نہیں جانتی؟" علیحان نے سپاٹ سے انداز میں گھورا۔
آن نے صرف دونوں خاندان کے درمیان دشمنی کا سنا تھا،لیکن وہ بیچ کی عداوت کس بنیاد پر تھی؟ یہ کبھی اس نے کسی سے نہیں سنا تھا۔علیدان نے بھی ہر بار اس کے پوچھنے پر یہ کہہ کر اسے ٹال دیا تھا کہ 'جو بھی ہے آپ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔'
"میں نہیں جانتی۔"نفی میں سر ہلایا۔وہ واقعی لاعلم تھی۔
"اس وقت گوہر اعوان کی دوسری چھوٹی بیٹی آئرہ اعوان نے نہ صرف میرے دوسرے چچا کے جذبات کو چھیڑا۔۔ بلکہ اس نے اسے مار ڈالا۔میرے چچا نے خودکشی کرلی۔،اعوان خاندان ہمارے چچا محمت شاہ کی زندگی کے قرضدار ہیں،تو۔۔۔۔میں اب ساری دنیا کو بتاوں گا کہ تم سکندر اعوان کی ناجائیز بیٹی ہو اور حقیقت میں اپنے فائدے کے لئے تم نے شاہ خاندان کے فرد سے رشتہ جوڑا ہے۔"
اس کے الفاظ سن کر آن نے پریشان ہوکر اسے دیکھا۔
"نہیں۔۔۔پلیز ایسا مت کیجئے گا۔" آن نے نفی میں سر ہلایا۔ "میں علیدان شاہ کی زندگی سے نکل جاؤں گی۔"
یہ کہتے ہوئے اس کے اندر کتنے طوفان ابھرے تھے۔ کس قدر وہ پل پل مری تھی۔۔ یہ صرف وہ جانتی تھی۔
علیحان نے اسے سرد نظروں سے گھورا اور انگلی اٹھا کر وارن کیا۔
" تو پھر اپنا وعدہ نبھاؤ۔۔۔ مجھے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔۔میں صرف تم کو ایک آج کا دن دیتا ہوں۔۔۔کل صبح کا سورج نکلنے سے پہلے میں امید کرتا ہوں تم شاہ خاندان سے نکل چکی ھوگی۔اور کبھی بھی۔۔ علیدان کے ساتھ رابطہ نہیں رکھو گی۔"
یہ کہتے ہی اسے سپاٹ انداز میں گھورتا چیئر دھکیلتا باھر نکل گیا۔
اس کے جاتے ہی آن کا خود پر اختیار جیسے کھوگیا ہو۔وہ وہیں بے جان وجود کے ساتھ بیٹھتی چلی گئی۔
کافی دیر تک وہ ساکت سی فرش کو گھورتی رہی ۔تو بالآخر یہ دن آہی گیا تھا۔ اس کی زندگی میں، جس سے ڈر کر وہ علیدان کو ہر بار ٹھکراتی رہتی تھی۔
اس کا اور علیدان شاہ کا کوئی مستقبل نہیں تھا،آخر میں بحرحال علیحدگی اس کے مقدر میں لکھی گئی تھی۔
اس نے اپنے دونوں ھاتھوں سے اپنے دل کو تھام لیا۔ایک درد کی شدید لہر تھی۔ جو اس کی دل کی نسوں کو چیر رہی تھی۔
اگر وہ پہلے سے یہ جانتی!! نہیں۔۔وہ تو پہلے سے ہی جانتی تھی۔ کہ ایسا ہوگا۔لیکن اب۔۔۔۔۔اب وہ اپنے دل کو سنبھال نہیں پارہی تھی۔
"ایڈٹ۔۔۔ " اس نے اپنے دل کو ڈپٹا۔
وہ نہیں جانتی تھی۔۔۔ کہ کتنی دیر وہاں بیٹھے گذرگئی ہے۔
ہوش میں تب آئی جب اس کی سیل فون بجنے لگی، ایک ترنم کے ساتھ، اس کا دل بھی جیسے رورہا تھا۔
یہ دیکھ کر علیدان شاہ کال کررہا ہے۔اس نے فون اٹھا لیا۔
دوسری طرف سے علیدان پریشانی سے پوچھ رہا تھا۔" کہاں ہیں آپ ھنی؟"
"میں باہر ہوں۔" آن کی آواز کسی بھی جذبے سے عاری تھی۔ یقینا وہ خود کو سنبھال کر مضبوطی کا جھوٹا خول چڑھا چکی تھی۔
"اور علیحان بھائی۔۔۔وہ کہاں ہے؟ کیا آپ سے وہ ملا؟ اس کی باتوں پر توجہ مت دینا۔مجھے اڈریس بتائیں، میں آپ کے پاس آرہا ہوں " وہ پریشان تھا۔ فکرمند تھا۔۔اور خوفزدہ بھی۔
آن نے ایک گہری سانس لی، اور کوشش کہ خود کو پرسکون ظاہر کرے، ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا۔
"وہ جاچکا ہے، آپ مجھے لینے مت آئیے۔میں خود ہی آجاؤں گی۔مجھے آپ سے کچھ کہنا بھی ہے۔"
یہ کہتے ہی فون کاٹ دی۔
اس کے ھاتھ ایک دوسرے میں سختی سے پیوست تھے۔ اور اس کے دل کی ویرانی کا کیا عالم تھا؟ یہ وہ بتا نہیں سکتی تھی۔
جو ہورہا تھا، یا ہونے والا تھا، اسے وہ ٹال نہیں سکتی تھی۔اب صرف ہمت سے ہی اس کا سامنا ہی کرسکتی تھی۔ ،اس کے لئے ضروری تھا کہ پہلے کی طرح خود کو بے حس بنالے۔ورنہ یہ تکلیف۔۔یہ دکھ۔۔سہنا عذاب بن جاتا۔۔۔ساری عمر کے لئے دل کا روگ بن جاتا۔
☆☆☆
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ 'شاہ ولا' پہنچی تو ایک گھنٹے سے اوپر وقت ہوگیا تھا۔
علیدان شاہ سٹنگ روم میں ہی چہل قدمی کرتے اس کی راہ دیکھ رہا تھا۔
اسے اندر آتے دیکھ کر وہ جلدی سے بڑھ کر اس کے پاس آیا۔
"آپ اتنی دیر سے کیوں آئی ہیں ھنی؟ خیریت ہے نا؟"علیدان نے اسے دونوں بازووں سے گرفت میں لیا۔
"مجھے ٹیکسی نہیں مل رہی تھی۔ تو بس اس میں دیر ہوگئی۔"
علیدان نے اس کے تاثرات دیکھے، جو عام دنوں سے مختلف تھے۔ علیدان نے محسوس کرلیا کہ کچھ خاص بات ہوئی ہے۔ اس کی بھیگی پلکیں،سوجے ہوئے پپوٹے اور کانپتا وجود چینخ چینخ کر اپنی حالت بیان کررہا تھا۔
"علیحان نے آپ سے کیا کہا ہنی؟"علیدان نے اس کا چہرہ تھاما۔
آن نے خاموش سپاٹ نظروں سے اسے دیکھا ۔" میں آپ کے لئے رات کا کھانا بناتی ہوں۔"یہ کہہ کر کسی بت کی طرح کچن میں جانے لگی۔لیکن علیدان نے کھینچ لیا۔
"اور اس کے بعد۔۔۔؟ علیدان سے اس کی گم سم حالت برداشت کرنا باھر تھا
" اس کے بعد۔۔۔۔" وہ تکلیف سے مسکرائی۔" پھر بات کریں گے۔۔ کہ آگے کیا ہوگا۔"
اس کی گرفت سے خود کو چھڑا کر وہ کچن میں جانے لگی۔
تبھی علیدان نے اس کی کلائی تھام کر روکا " جھوٹی آن۔۔۔" علیدان اس کو پیار سے "چھوٹی آن "کہتا تھا۔آج "جھوٹی آن " پکارا۔کہ وہ اپنے دل کی حالت اپنے شوھر سے چھپارہی تھی۔
آن نے چونک کر اسے مڑ کر دیکھا اور مسکرائی۔ لیکن اس کی آنکھیں اس کی مسکراہٹ کا ساتھ دینے میں مکمل ناکام تھیں۔ہاں وہ جھوٹی ہی تھی۔
علیدان کو اس کی، نیلی چمکتی آنکھیں خوبصورت لگتی تھیں، اور آج یہ نیلی چمکتی آنکھیں،ٹہرے پانیوں کی طرح تھیں۔ساکت۔۔۔،ود آوٹ اینی ایموشنز۔
"ڈنر کے بعد بات کریں گے۔"وہ مڑی لیکن علیدان نے اسے کھینچ کر اپنے گلے لگا لیا۔ اور زور سے محبت سے بھینچا۔۔ وہ جان گیا تھا۔۔ وہ اس کی خاموشی سے جان گیا تھا، کہ آن اس وقت کس کرب سے گذر رہی ہے۔
"خود کو مسکرانے پر مجبور کرکے میرے جذبات کے ساتھ مت کھیلیں ھنی۔۔۔۔کس نے کہا ہے آپ کو۔۔۔۔کس نے کہا کہ میرے طرف دیکھ کر یوں زبردستی مسکرادیں؟ بولیں ۔۔۔ "وہ بھی دل سے تکلیف میں تھا۔
آن کا چہرہ علیدان کے سینے میں پیوست تھا۔اور وہ خود ھاتھ لٹکائے جیسے بے جان سی کھڑی تھی۔
ہمیشہ کی طرح علیدان کے حصار کی گرمائش نے اس کے وجود کے گرد سکون کا حصار کھینچ لیا تھا۔ جس میں وہ خود کو محفوظ محسوس کرتی تھی۔۔۔اس کی مردہ روح سانس لینے لگتی تھی ،تو کیا وہ اسے چھوڑ کر بنا روح وجود ہوجاتی؟ خود ہی اپنے جینے کی وجہ کو اپنے ھاتھوں سے برباد کرسکتی تھی؟اس سے الگ ہوکر اگر جیتی تو کیسے جیتی وہ؟ اس سے کنارہ کرتی تو کہاں جا چھپتی وہ؟ لیکن اب اسے اپنے ھاتھوں سے اپنےلئے قبر کھود کر اس میں دفن ہونے کا حکم سنا دیا گیا تھا۔ حکم نہ مانتی تب بھی زندہ سنگسار کردی جاتی ۔روئیوں سے۔۔۔ لفظوں سے۔۔۔ اور اگر حکم مانتی ہے تو بھی زندہ لاش بن جاتی۔ دونوں طرح سے خسارہ اس کے حصے میں آتا تھا۔
"اگر آپ اس بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں تو۔۔۔۔ سب کو پہلے باہر نکال دیں۔" آن کی مدھم آواز اس نے بمشکل سنی تھی ۔
علیدان نے بٹلر کو کہا۔ سب کو باہر لے جاؤ،میرے حکم کے بغیر کوئی بھی داخل نہ ہو۔
اس کی بات پر بٹلر نے سب ملازموں کو باھر نکلنے کا کہا۔
سب باہر نکل گئے۔
علیدان نے سر جھکا کر اپنے سینے سے لگی۔ خاموش سی آن کو دیکھا۔"اب بول دیں۔"
"اس وقت میں پہلے اوپر جاکر اپنی کچھ چیزیں پیک کروں گی۔ میں یہ جگہ چھوڑ رہی ہوں۔" آن ساکت سی کھڑی، جیسے اپنے آپ میں نہیں تھی، جیسے کوئی ڈمی ہو جسے جو کہا جائے بس وہ کہتی جائے۔۔ کسی بھی احساسات سے عاری۔
علیدان نے اپنی مٹھیاں بھینچیں۔
"یہ علیحان نے کہا ہے آپ کو؟"وہ ہلکی آواز میں دھاڑا تھا۔
"میں یہ بات خود بھی محسوس کرتی ہوں،کہ۔۔۔ ہم ہمیشہ ساتھ نہیں رہ سکتے۔"وہ تلخ ہوئی۔
علیدان نے اس کی بات پر دانت پیس کر اسے جھنجھوڑا۔"آنیہ۔۔۔۔ھوش میں آئیں۔"
"میں نے اس کے متعلق اچھے طرح سے سوچ لیا ہے۔۔ فیصلہ ہوچکا ہے۔" آن نے اس کی بات میں مداخلت کی۔
"میں نے اس بات کو کبھی اہم نہیں سمجھا کہ دوسرے آپ کے لئے کیا سوچتے ہیں۔ میری نظر میں۔۔۔ آپ بہت اچھے شخص ہیں۔۔۔گذرے عرصے کے دوران، میں یہی سوچ کر ڈرتی تھی۔۔کہ کہیں آپ سے محبت نہ کر بیٹھوں۔۔۔ تبھی خود کو ہر بار۔۔۔ یاد دلاتی رہتی تھی۔ کہ بس ۔ آپ کو دھتکارنا ہے۔لیکن ۔۔۔۔ آپ واقعی دلفریب ہیں۔۔۔یہ مشکل تھا کہ خود کے جذبات پر قابو پاسکوں۔تبھی۔۔۔ میں آپ کی محبت میں بری طرح گر گئی۔اور ایسی گری ہوں کہ اب شاید کبھی نہ اٹھ سکوں۔۔لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنی اس محبت میں گر کر، آپ کو چھوڑ نہیں سکتی؟ آپ کی محبت سے خود کی محبت کا موازنہ کرنے لگوں۔ تو مجھے لگتا ہے۔۔۔ میں اپنی ذات سے زیادہ محبت کرتی ہوں۔اسی لئے۔۔۔ میں نے فیصلہ کرلیا ہے۔کہ اس سے پہلے کہ میں مکمل گر کر فنا ہوجاؤں۔۔۔ مجھے یہ جگہ۔۔۔ اور آپ کا ساتھ ہمیشہ کے لئے۔۔۔ چھوڑ دینا چاھئے۔"وہ دھیرے دھیرے اپنے دل کی حالت بیان کرگئی۔کبھی اس سے محبت کا اعتراف نہ کرنے والی لڑکی نے اعتراف محبت کرلیا تھا۔
علیدان اسےخاموشی سے سن رہا تھا۔ اور اس کی باتوں سے اندازے لگا رہا تھا کہ علیحان نے اسے کیا کیا کہا ہوگا؟
تاہم۔۔ رزلٹ تو صاف ظاہر تھا کہ علیحان اپنے محاظ پر کامیاب ٹھرا تھا۔دونوں کی زندگی کا فیصلہ دوسروں نے کردیا تھا۔ اور آن ان کے جال میں پھنس گئی تھی۔
"کیا آپ نے ایک بار بھی میرے لئے نہیں سوچا۔۔۔ کہ میں کیا محسوس کروں گا؟"علیدان نے اسے دکھ اور تاسف سے دیکھا۔
اس نے سرد لہجے میں سر ہلایا۔ "آپ نے کبھی بھی میرے جذبات پر غور نہیں کیا۔ آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ جو بھی کیا ہے۔اپنی خواہش پر کیا ہے۔اپنی ضد پر کیا ہے۔اس میں میری مرضی کا عمل دخل کہاں ہے؟"وہ استفہامیہ نظروں سے اسے دیکھے گئی۔
"تو کیا آپ سمجھتی ہیں، یہاں سے جاکر مجھے نظر انداز کرسکیں گیں؟بھول پائیں گیں۔؟" علیدان کے لہجے میں کیا نہیں تھا۔۔ دکھ تھا، اس کے کھوجانے کا، چھن جانے کا۔۔۔اسے یوں چھوڑ کر جانے کا۔
"میں واپس آکر آپ سے بات کرتی ہوں، مجھے امید ہے آپ میرے سے پریشان نہیں ہونگے،ایگریمنٹ کی ڈیڈ لائین جس پر ہم راضی ہوئے تھے۔ وہ بھی گذر چکی ہے۔۔۔۔مجھے خود پر یقین تھا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکوں گی۔کیونکہ میری آپ سے محبت،آپ کی محبت کی مقدار سے کم ہے۔"
علیدان اپنے دل میں بھت غصہ تھا۔غصہ اسے علیحان پر تھا۔
لیکن آن نے کوئی توجہ نہیں دی۔
جب یہ دونوں ساتھ تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ ان میں سے ایک منصوبہ بندی کرتا رہا تھا۔ اور اب۔۔۔۔ جب یہ دونوں الگ ہورہے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دوسروں نے ان کی زندگی کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔
اسے لگا کہ وہ بیوقوف بنا ہے۔
اور آن وہ ظالم ہے جس نے اسے بیوقوف بنایا۔
"علیدان شاہ،آئی ایم ٹرولی، سوری، میں۔۔۔۔۔میں۔۔۔آپ کو اب کبھی نہیں دیکھ سکوں گی۔مجھے اپنا وعدہ نبھانا ہے۔"کتنی تکلیف تھی اس کے لہجے میں ، یہ علیدان کو صاف محسوس ہورہا تھا۔
وہ مڑی اور سیڑھیاں چڑھتی اوپر آگئی۔
اس کا سامان زیادہ نہیں تھا، لیکن اس کی کتابیں تھیں، اور کچھ پیپرز، اس نے سب اپنے لگیج میں ڈالے۔
وہ اب آئیندہ کبھی نہیں آئے گی۔
وہ جیسے ہی اپنا لگیج اٹھا کر دروازے تک آئی۔ علیدان کمرے میں داخل ہوا۔ اور سرد انداز میں دروازہ بند کرکے لاک لگادیا۔
جب آن نے اس کے تاثرات دیکھے تو وہ لاشعوری طور پر پریشان ہوکر دو قدم پیچھے ہوئی۔
آن دو قدم پیچھے ہوکر رک گئی۔اور خود کو پرسکون ظاہر کرنے کی کوشش کی۔لیکن علیدان کے خطرناک تیور دیکھ کر اندر تک کانپ گئی۔
"میں نے اپنی پیکنگ کردی ہے۔۔۔۔میں نے کہا۔۔۔۔۔مممم میں کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔ا۔۔۔۔اگر ۔۔آ۔۔آپ کے پاس کہنے ۔۔۔کو کچھ نہیں تو مجھے جانا چاہئے۔"جب آن نے اپنی بات اٹک اٹک کر ختم کی، تب بھی علیدان نے کوئی حرکت نہیں کی۔اور نا ہی آن کو ہمت ہوئی۔ وہ اس کے سامنے دروازے کے پاس کھڑا تھا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔" جاسکتی ہیں چھوڑ کر تو۔۔ جا کر دکھائیں"۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ آگے کیا ہوگا۔
علیدان نے ابرو اٹھائیں۔ "کتنی ھنسنے جوگی بات ہے ،صرف آج صبح تک۔۔۔۔۔میں نے یہ طئے کیا تھا کہ آپ کو خوش رکھوں گا۔
اور میں نے آج کا دن رومینٹک بنانے کا بھی ارادہ کیا تھا۔ اور آخر میں کیا ہوا؟؟ آج دوپہر کو آپ صرف اسی لئے مجھے چھوڑ کر جارہی ہیں کہ میرے بھائی کو آپ کی نام نہاد شناخت پتا چل گئی ہے۔
آخری بار جب مدھان کو آپ کی شناخت معلوم ہوئی تھی،اس نے بھی تو یہی الفاظ کہے تھے۔آن۔۔۔ھنی۔۔ تمہاری نظر میں، مجھے چھوڑ دینا اتنا آسان ہے؟
ہر وہ چیز جو میں آپ کی خوشی کے لئے کرتا رہا وہ کچھ نہیں ؟ بولیں۔۔۔جواب دیں مجھے؟"
آن نے اس کی بات پر اپنے ہونٹوں کا کنارہ کاٹا۔ اور نظر جھکائے کھڑی رہی۔
"بولیں؟"اب علیدان نے روکھے انداز میں کہا۔
آن نے ضدی انداز میں سر اٹھایا۔
" ییس، بی کاز آئی ھیو ناٹ فالن ان لو ود یو، اسی لئے۔۔آپ کو چھوڑنا میرے لئے آسان ہوگا۔"
"ہممممممم۔۔۔۔، آپ سچ میں بھت ظالم ہیں، اس دنیا میں صرف آپ ہی مجھے روندنے کی ہمت کرسکتی ہیں ۔"وہ دکھ سے جیسے بت بن گیا تھا۔
"سو، آئیندہ اپنی فیلنگس ان لوگوں پر ضیائع مت کیجئے گا۔۔۔ جو آپ کے قابل نہ ہوں۔کچھ لوگوں کے دل۔۔۔میری طرح، کافی بے رحم اور سرد ہوتے ہیں، اور وہ جینے کے قابل نہیں ہوتے،" آن نے مٹھیاں بھینچ لیں اور لگیج اٹھا کر دروازے کے طرف بڑھی۔
علیدان شاہ بلکل بھی نہیں ھٹا تھا بلکہ راہ روکے کھڑا تھا،آن میں سر اٹھا کر اسے دیکھنے کی ہمت نہیں تھی، صرف ہلکی آواز میں اتنا ہی کہہ سکی۔
"مجھے راستہ دیجئے علیدان شاہ،مجھے باہر جانا ہے۔"
علیدان نے اپنا ھاتھ اس کی ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر اس کا چہرہ اوپر اٹھاکر اس کی آنکھوں میں ابلتے دکھ دیکھے،اس کی پلکیں بھیگی سی تھیں اور آنکھوں کے کنارے پر نمی چھلکنے کو بےتاب تھی۔ وہ دیکھ سکتا تھا کہ آن اس وقت کس حالت سے گذر رہی ہے۔
" تب تک۔۔ جب تک علیدان شاہ زندہ ہے، میں لوگوں کو یہ اجازت کبھی نہیں دوں گا، کہ میرے جذبات سے کھیل کر انہیں روندتے گذرجائیں،
اور آپ۔۔ آپ کو مجھ سے محبت کرنی پڑے گی،جب تک میں جانے نہیں دیتا۔ آپ اس قابل کبھی نہیں کہ مجھے چھوڑ کر جاسکیں۔"
یہ کہتے ساتھ ہی،اس کے کندھے سے پرس نکال کر دور پھینکا۔ اور اسے کھینچتا ہوا بیڈ پر اچھالا۔
آن نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن ،وہ اس پر پہلے ہی سے جھک آیا تھا۔
آن خوف سے چینخی تھی، " آپ کیا کرنا چاھتے ہیں؟"
"کیا آپ نہیں جانتیں؟"علیدان کا لہجہ پتھر کی طرح سخت تھا۔
آن نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن علیدان کے ایک ہی دھکے سے بستر پر پیٹ کے بل گر گئی۔
آن نے کوشش کی۔۔۔کہ اس کے بازووں کی گرفت سے نکل سکے، لیکن وہ ایک طاقتور مرد تھا، وہ کہاں تک مقابلہ کرتی۔
وہ تکلیف سے کراہی تھی، اور پیٹ پر ھاتھ رکھ کر درد سے چینخنے لگی تھی، علیدان اس کی یہ حالت دیکھ کر کافی پریشان ہوا۔۔ وہ بلکل بھی اسے تکلیف دینا نہیں چاھتا تھا، آن نے درد کی شدت سے بے حال ہوکر اس کے بازو میں ناخن چھبودیئے تھے۔وہ کافی درد میں تھی۔
اس کی تکلیف پر علیدان نے دیکھا کہ وہ پوری خون ہی خون ہورہی ہے، علیدان شاہ نادان نہیں تھا، اسے اچھے سے علم تھا کہ ایسا کب ھوتا ہے۔ تو کیا۔۔۔۔ ؟ آن اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی؟؟
علیدان۔۔۔۔ ع۔۔علیدان مجھے بھت درد ہورہا۔۔۔ بھت۔۔
علیدان نے جلدی سے اسے اٹھایا۔۔ چادر اوڑھی، اور اسے جلدی سے نیچے لایا۔ ملازم سب حیران پریشان تھے کہ یہ مالکن کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔۔علیدان نے جلدی سے اسے گاڑی میں بٹھایا۔ عبدل کو چینخ کر جلدی سے گاڑی چلانے کا کہہ کر وہ آن کو سنبھالنے لگا۔۔ جو بیھوش ہورہی تھی۔
آنکھیں کھولیں ھنی،۔۔۔ آن۔۔ میری جان آپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گا۔"وہ بری طرح پریشان ھوا تھا اس کے جسم سے جیسے جان نکل رہی تھی۔بھت مشکل ھوتا ہے اپنی پیاری چیز کو اس طرح تکلیف میں دیکھنا۔
ہاسپٹل پہنچ کر آن کو جلدی سے ایمرجنسی روم میں لے جایا گیا۔
علیدان بھی ساتھ ہی تھا، کچھ دیر ٹریٹمنٹ کے بعد ڈاکٹر نے کہا کہ آن اب خطرے سے باہر ہے۔
"اب یہ ٹھیک ہیں"۔
آن ہوش میں تھی، اس نے پریشانی سے پوچھا۔" ڈاکٹر مجھے کیا ہوا تھا؟ میرے پیٹ میں درد کیوں ہوا؟"
ڈاکٹر نے بتانا چاہا۔۔ لیکن علیدان نے اسے منع کی۔
" آپ سب باھر جائیں ان کی بات کا جواب میں خود دوں گا"۔
ڈاکٹر ادب سے نظر جھکا کر ، نرسز کے ساتھ باھر نکل گیا۔
وہ علیدان سے بلکل بات نہیں کرنا چاھتی تھی، اسی لئے، لیٹے لیٹے ہی منہ دوسری طرف پھیر لیا۔
لیکن علیدان شاہ نے اس کی پرواھ نہیں کی، اور اب اسے کس طرح ڈیل کرنا تھا، وہ اچھے سے جان گیا تھا، اسے اس کی مرضی پر چھوڑنا اس کے اختیار میں نہیں تھا، بھلا کوئی اپنے وجود سے روح نکال سکتا ہے؟؟ اب تو وہ اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ اس کی زیادہ سے زیادہ کیئر علیدان پر فرض تھی۔
وہ آگے بڑھا، اور بیڈ پر اس کے پاس بیٹھ کر اس کا نرم ملائم ھاتھ اپنے مضبوط ھاتھوں کی گرفت میں تھام لیا۔۔ اور دوسرے ھاتھ سے اسے ھلکا ھلکا سہلانے لگا۔
آن نے اس کے ھاتھ سے اپنا ھاتھ کھینچ کر نکالا، اور اپنا چہرہ موڑ کر کمرے کی ونڈو سے باہر دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھیں نم اور شدید گریہ سے سوج گئی تھیں۔اس نے علیدان سے نظر ملانے سے مکمل پرھیز کی۔
علیدان نے بھی اسے کرنے دیا۔ وہ اسے زیادہ فورس کرکے اس کے وجود کو تکلیف پہنچانا نہیں چاھتا تھا۔
نرمی سے مسکرا کر بولا۔
"آپ بہت ہی کوئی پاگل لڑکی ہیں ھنی، آپ کو بلکل بھی پتا نہیں چل سکا کہ آپ پریگیننٹ ہیں؟" علیدان نے اس کے بال پیار سے سنوارتے نرمی سے جھاڑ پلائی۔
آن نے چونک کر اسے حیرت سے دیکھا۔
"پریگیننٹ۔۔۔۔۔؟ آن کا دل سکڑ کر سمٹا۔
وہ۔۔۔۔۔ پریگننٹ تھی؟
یہ بات سن کر اسے لگا بجلی زور سے کڑک کر اس کے وجود پر گری ہو، اس کے دل پر زبردست ضرب پڑی تھی۔
نہیں ۔۔۔۔ایسا کس طرح ہوسکتا ہے!!؟
علیدان کے ساتھ وہ صرف ایک سے دو بار بمشکل ملی ہوگی۔ اس کے بعد علیدان نے اسے بلکل مجبور نہیں کیا تھا۔آن بھی اس کے بعد کی ہر بات بھول گئی تھی۔
اس نے تکلیف سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
علیدان نے پیار سے اس کے طرف دیکھا۔" آپ اب ماں بننے جارہی ہیں، کیا میری بات سمجھ رہی ہیں؟"
"ماں۔۔۔۔" آن کے منہ سے بے اختیار سسکی کے ساتھ نکلا۔
اس نے اپنا سر بے بسی سے نفی میں ہلایا۔۔۔ اس کی آنکھیں جلنے لگی تھیں۔ جیسے ہی اس نے اپنے پیٹ پر ھاتھ رکھا۔
علیدان کی آواز نرم اور خوشی سے بھرپور تھی۔
" آنی اب اس شادی کی انائونسمنٹ ضروری ہے۔ہم اپنے بچوں کو ایک ساتھ ایک گھر دیں گے۔ہمممم؟"
اس کی بات سن کر آن نے اسے نم آنکھوں سے دیکھا۔
علیدان نے اس کی نم آنکھیں دیکھ کر لب بھینچ لئے اور اسے وہیں لیٹے لیٹے اپنے حصار میں لیا۔۔ آن اس کے وجود کے ساتھ لگتے ہی بری طرح رونے لگی۔
"چپ کریں پلیز۔۔اتنا مت روئیں۔۔ یہ آپ کی صحت کے ساتھ ہمارے بچے کے لئے ٹھیک نہیں ہے" علیدان محبت سے اسکا سر تھپکنے لگا۔
علیدان شاہ،حسب معمول آج بھی آفیس سے جلدی ولا آیا تھا۔آنیہ کی طبعیت کی وجہ سے وہ اب اسے زیادہ وقت دے رہا تھا۔اس کے کھانے پینے اور سونے جاگنے کے ساتھ، شام کو ولا کے وسیع و عریض لان میں چہل قدمی کو بھی اس نے آن کی روٹین بنالیا تھا۔اس قدر کیئر پر کبھی کبھی آن زچ ہوجاتی تھی۔لیکن علیدان شاہ بس مسکراتا رہ جاتا۔اس کی کیئر جیسے اس کے لئے عبادت کا درجہ رکھتی تھی۔دن بدن اس کی محبت میں اضافہ ہی ہورہا تھا۔
علیحان کو یہ بات مدھان سے معلوم ہوئی تھی۔وہ بس غصہ کھاکر رہ گیا تھا۔
آج بھی وہ جلدی آگیا تھا۔ملازم سے پوچھنے پر معلوم ھوا کہ آنیہ میم ابھی تک نہیں اٹھی ہیں۔تو وہ مسکراتا ہوا سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آیا۔ تو آن بیڈ پر پرسکون نیند سورہی تھی۔
کھڑکی سے آتی سورج کی بنفشی شعاعیں، آن کے سفید لباس پر پڑ کر اسکے بھرے بھرے وجود کو اور خوبصورت اور ماحول کو خوابناک بنارہی تھیں۔
وہ آھستہ آھستہ چلتا اس کے قریب گیا۔ اور بیڈ کے کنارے پر نہایت آھستگی سے بیٹھ گیا۔
اس کے احتیاط سے بیٹھنے کے باوجود بھی فوم کا نرم بیڈ اس کے بیٹھنے پر ہلکا سا ارتعاش میں آیا تھا۔ جس سےآن کی میٹھی نیند میں خلل واقع ہوا۔۔۔اور اس نے بمشکل اپنی مندی مندی آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
علیدان اس کے اٹھنے پر نرمی سے بولا۔
"کیسی طبعیت ہے ھنی۔ آپ کو نیند اچھی آئی؟"ساتھ ہی بستر پر پڑے آن کے مخروطی انگلیوں والا بنا کسی آرائش سے پاک ھاتھ کو اپنے دونوں مضبوط ھاتھوں میں اٹھا کر نرمی سے دبایا۔
"اممممم۔۔۔ بس ابھی جاگی ہوں۔؟" اس نے دانستہ اس کی خیریت پوچھنے والی بات گول کردی تھی۔
علیدان شاہ نے اس کا ھاتھ چھوڑ کر، پیار سے اس کے ناک کی سرخ چوٹی دبائی۔" میری چھوٹی سی آن، آپ کا غصہ دن بدن بہت بڑھ رہا ہے۔یہ ہمارے بچے کے لئے بلکل بھی بھتر نہیں۔"
جب سے آن کے ساتھ وہ واقعہ ہوا تھا۔ اس کے بعد علیدان کوشش کرتا تھا۔ کہ اسے ہر طرح سے خوش رکھے۔
آن نے ہنکارا بھرا،"میرے پَر بُھت سَخت ہیں۔اسی لئے میرا بچہ بھی میری طرح سخت جان ہوگا۔"
"ہہہہہم۔۔۔درست بات، آپ واقعی بھت سخت جان ہیں۔ آپ میں برداشت بھی بھت ہے۔اس بات کا تو میں بھی گواہ ھوں " علیدان نے شرارت سے اس کو ٹھوڑی سے پکڑ کر چہرہ اونچا کیا۔
اس کے الفاظ سے آن کے ذہن کی اسکرین پر کئی رُوپہلے اور مَن مُوہنے سے منظر لہرائے تھے۔ اور آن کو وہ سب یاد آتے ہی شرم سے سرخ ہوئی تھی۔ اس کے لئے یہ احساس ہی بھت انوکھا سا تھا۔ کہ وہ علیدان شاہ کے بچے کی ماں بننے والی ہے۔
"اس کا اپنا بچہ" آن کے ہونٹوں پر مامتا بھری پیاری مسکراہٹ آئی۔اور چہرہ مامتا کے رنگوں سے روشن ہوگیا۔
علیدان مبھوت سا اسے دیکھے گیا۔
☆ ☆ ☆
علیدان اسے گھر سے باہر آئوٹنگ پر لایا تھا۔ آن نے اس کے ساتھ ایک اچھا دن گذارا۔ علیدان اس کو ڈنر کروانے اس کے پسندیدہ ریسٹورنٹ لایا تھا۔ اگر وہ خوش نہیں تھی۔ تو اداس بھی نہیں تھی۔ پرسکون تھی۔۔۔،ممتا کے رنگوں میں نہائی ہوئی مطمئین سی، علیدان اس سے مسلسل ادھرادھر کی باتیں کرکے اس کا دھیان بٹانے کی کوشش کررہا تھا۔ جسے وہ سن کر بس سر ہلادیتی تھی۔ اب بھی علیدان نے اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔
"آپ اچھے لوگوں کی باتیں دھیان سے نہیں سنتی ھنی۔"۔علیدان نے خود کو "اچھے لوگ" کہہ کر شکوہ کیا۔
آن نے خاموش نظریں اٹھا کر اسے ناسمجھی سے دیکھا۔
"مثال کے طور پر۔۔؟"ھلکی آواز میں پوچھ کر نظریں جھکا گئی۔
"ھِنی ،مُجھے "ھُبی" کہہ کر بُلائیں"۔علیدان نے پھر سے اپنی بات دُہرائی تِھی۔شاید وہ کافی دیر سے اُسے مُتوجہ كررہا تھا۔لیکن آن کی توجہ اس پر نہیں تھی۔اُس کی بات سَمجھ کر آن کے گالوں پر سُرخی چھاگئی۔
اس کے خُوبصورت چَہرے پر بِکھرے حَیا کے رَنگ دیکھ کر علیدان شاہ نے اس کے ٹیبل پر رکھے خُوبصورت مُومی ھاتھ اپنے ھاتھوں میں بھر کر محبت سے انہیں ہونٹوں سے مس کیا۔
"ھبی کہہ کر بُلانے کی وجہ یہ ہے۔۔ کہ آپ اب اپنی نئی شناخت کو جتنی جلدی ہو۔۔۔ دل و ذہن سے مان لیں۔ یوں سمجھیں کہ۔۔۔یہ خود آپ کو ایک نئی شناخت کے مطابق ڈھالنے کا بہترین طریقہ ہے۔۔۔اسی لئے۔۔۔"وہ رکا۔اور اس کی ناک کو محبت سے کھینچ کر پیار سے کہا۔
"جتنا جلد ممکن ہو۔۔ اسے سمجھیں۔کیا آپ میرے بچے کے سامنے بھی مجھے میرے نام سے ہی پکاریں گیں؟"
علیدان اسے محبت و نرمی سے آھستہ آھستہ گائیڈ کررہا تھا۔
لیکن جب وہ اسے "ھبی" کہنے کا سوچتی تھی۔ تو اسے عجیب سی بے چینی ہوتی تھی۔
کیوں کہ وہ باپ کے رشتے کے سوا پلی بڑھی تھی۔
اس نے کبھی اپنی ماں کو لفظ "ھبی" یا "سنئے جی" کہتے نہیں سنا۔
سو 'ھبی' اور 'ڈیڈ ' جیسے الفاظ سے وہ انجان تھی،اس کے لئے یہ دونوں لفظ اجنبی سے تھے۔
تبھی وہ علیدان کو 'ھبی'کہہ کر بلانے سے ہچکچا رہی تھی۔
"میں خود کو سمجھانے کی کوشش کروں گی۔ ابھی یہ لفظ کہنا مجھے مشکل لگتا ہے۔" آن کے لہجے میں بے بسی تھی۔
علیدان نے ایک گہری سانس بھری۔
"میں بھی دیکھنا چاہوں گا۔ آپ خود کو کیسے سمجھاتی ہیں۔اچھا ہے جتنی جلدی اس رشتے کو سمجھ جائیں۔اسی طرح آپ خود کو مضبوط اور میرے حصار میں محفوظ محسوس کریں گیں۔آزما کر دیکھ لیں۔"
اس کی بات پر آنیہ نے بے ساختہ اثبات میں سر ہلایا تھا۔
"ہممم۔۔میں کوشش کروں گی علیدان۔"آن نے اسے مایوس نہیں کیا۔
پھر وہ اس کے ساتھ ہلکا پھلکا سا مزاح کرکے اس کا دل بہلاتا رہا۔
کیونکہ وہ جانتا تھا۔ اس کے لئے مشکل ہے۔ لیکن اسے یقین تھا۔ آن اب اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ وہ اپنی محبت سے، کیئر سے اس کا دل موڑنا چاہتا تھا۔
واپس ولا آکر علیدان شاہ نے اسے اوپر کمرے میں لاکر بیڈ پر بٹھایا۔
پھر یہ کہہ کر کہ اسے ابھی کچھ ضروری فون کرنی ہے۔ تھوڑی دیر میں آجائے گا۔ تب تک وہ جاکر گرم باتھ لے اور آرام کرے۔
آن نے بھی چپ کرکے اسکی بات مان لی۔
علیدان سیڑھیوں سے اتر کر نیچے اسٹیڈی روم میں آگیا۔صوفہ پر بیٹھ کر کف فولڈ کئے۔اور رلیکس انداز میں بیٹھ کر دانیال کو فون کیا۔
"دانیال۔۔۔ اعوان انڈسٹری کی حالیہ رپورٹ پیش کرو۔کیا بنا؟"
"مالک۔ آپ نے جیسا حکم دیا۔ہمارے بندوں نے وہی کیا۔ان کے شیئر ھولڈرز کو ہم اپنے ساتھ ملاچکے ہیں۔ اب اعوان گروپ والوں کے شیئرز راتوں رات گر چکے ہیں۔ کھربوں کا نقصان پہنچا ہے۔ اور جن جن سے کنٹریکٹ تھا۔ وہ سب ہم نے کینسل کروادئیے ہیں۔ اب شاید ہی وہ دوبارہ اٹھ کھڑے ہوسکیں۔"دانیال نے تفصیل سے بتایا۔
"اس پر مسلسل لگے رہو۔ اب کے بار۔۔۔ میں ان کو اچھا سبق سکھا کر رہوں گا۔کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔یا تو سڑکوں پر آکر بھیک مانگیں گے یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔" علیدان کے لہجے میں سختی اور آنکھوں میں سرد مہری سی آگئی۔
اس نے بدلے کی پہلی قسط چکا دی تھی۔
کچھ دیر بعد خود کو پرسکون کرتا فون رکھ کر وہ اوپر کمرے میں آگیا۔
آن ابھی تک شاور لے رہی تھی۔
واش روم میں پانی کے گرنے کی آواز سن کر اور چند مناظر سوچتے ہوئے علیدان شاہ نے بمشکل اپنا حلق تر کیا تھا۔
پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے اپنی توجہ ہٹالی۔ اور بڑھ کر بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔ اور سائیڈ ٹیبل پر رکھی آن کی بُک اٹھالی۔
یہ ایک ایکسرسائیز بک تھی۔
شروع سے آدھی کتاب وہ پڑھ چکی تھی۔
ورق گردانی کرتے ہوئے یونہی اس کی نظر ایک ورق پر سائیڈ پر بنے کارٹون پر گئی۔
نیلے رنگ کا بیبی ایلیفنٹ بنا ہوا تھا۔ معصوم سے چہرے والا،جو اپنے سامنے کھڑے شیر کو جھک کر سلام کررہا تھا۔
اس پر کیپشن تھا۔
"چھوٹا سا ھاتھی خاک کی طرح عاجز ہے۔ جب کہ شیر دراز قامت ۔۔۔۔اور طاقتور ہے۔"
علیدان کچھ کچھ نہیں بھت کچھ سمجھ گیا تھا، کہ آن کیا کہنا چاھتی ہے؟ بیبی ایلیفنٹ آنیہ تھی۔اور شیر علیدان کو کہا گیا تھا۔وہ مسکرادیا۔"میری چھوٹی آن"
اس نے ورق پلٹا۔
اب کہ خاکہ مختلف تھا۔
شیر۔۔۔ بیبی ایلیفنٹ کو گوشت آفر کررہا تھا۔
جب کے چھوٹا بیبی ایلیفنٹ چھینبی نظر سے کیلے کے درخت کو دیکھ رہا تھا۔
اس نے ورق پلٹا۔
یہاں کوئی ڈرائنگ نہیں تھی ،صرف علیدان شاہ لکھا ہوا تھا۔ اور اس کے آگے سوالیہ نشان۔(؟)لگا ہوا تھا۔
ھااااہ۔۔۔ وہ ان تصویروں کے وسیلے سے آن کے دل کی متضاد کیفیت دیکھ سکتا تھا۔
ابھی وہ آگے پڑھنا ہی چاہ رہا تھا۔ جب آن واش روم سے باہر آئی۔
اس نے اپنے بال تولیے سے باندھے ہوئے تھے۔ باہر آکر آن نے تولیہ نکالا اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر بال خشک کرنے لگی۔تبھی آئینے سے علیدان نظر آیا جو اس کی بک ھاتھ میں پکڑے اس کی طرف ہی اپنی روشن چمکتی نظروں کے ساتھ متوجہ تھا۔
کچھ سوچتے ہی وہ جلدی سے آگے بڑھی اور اس کے ھاتھ سے بک چھین لیا۔
اسے گھور کر خفگی سے بولی۔
" آپ دوسروں کی چیزیں ان کی اجازت کے سوا کیوں اٹھالیتے ہیں؟یہ عادت آپ کی مجھے بلکل پسند نہیں۔"وہ بک لے کر سائیڈ پر رکھتے بولی۔
اس کی بات پر علیدان متعجب ہوا،ابرو اچکا کر اسے اچھنبے سے گھورا۔
"ذرا درستگی کرلیں ھنی،یہاں دوسرا کون ہے؟"یہ کہتے ساتھ ہی ٹانگیں کراس کرکے سیدھا ہوکر لیٹا۔ " آپ بھی میری۔۔۔ یہ کتاب بھی میری۔اور۔۔۔۔۔یہ بیبی بھی میرا۔"اس نے ھاتھ بڑھا کر اسے تھام کر اپنے قریب کیا۔
آن اس کی بات پر لاجواب ہوئی تھی، لیکن پھر بھی منہ بنالیا۔
"لیکن یہ بک مکمل ل ل میری ہے۔"
"اچھااا تو آپ چھوٹی ایلیفینٹ ہو۔ اور میں۔۔۔ شیر ہوں۔؟" وہ شریر ہوا تھا۔ اسے واقعی مزا آرہا تھا۔
لیکن آن بنا کچھ کہے،سر نفی میں ہلا کر۔۔۔اس کی گرفت سے نکل کر اٹھ کر واپس جاکر آئینے کے طرف بڑھ گئی اور اسٹول پر بیٹھ کر اپنے بال سکھانے میں مصروف ہوگئی۔ جیسے اس کے سوا کوئی اور ضروری کام ہی نہ ہو۔
علیدان آرام سے اٹھا اور اس کے طرف پیش قدمی کی۔
اس نے ڈریسنگ ٹیبل کے ساتھ ٹیک لگائی،اور اسے تکنے لگا، اور ایک انگلی ھونٹو پر تھپکتے سوچنے کی ایکٹنگ کرتے بولا۔
"ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آپ چھوٹی سی ایلیفینٹ کیوں ہیں؟"
"یہ سیمبول ہے ۔ایلیفنٹ سبزی خور ہوتا ہے۔۔۔ جو دیکھنے میں تو طاقتور لگتا ہے۔لیکن درحقیقت کمزور ہے۔"
آن نے بنا سوچے سمجھے جھٹ سے جواب دیا۔
علیدان نے سر دھنا۔
" ہمممم، ییس۔۔ یہ آپ کے تصور سے بھت حد تک میل کھاتا ہے۔۔۔ آپ دیکھنے میں جتنی مضبوط ہو۔ آپ کا دل اتنا ہی کمزور ہے۔"
آن نے آئینے میں سے اس کے چہرے کے طرف دیکھا، اور دل میں سوچنے لگی۔۔اس کا مطلب تو یہ تھا۔ چھوٹا ہاتھی، اور شیر بظاہر تو ایک جتنے قد کے لگتے تھے لیکن۔۔۔ ان کی دنیا ایک دوسرے سے مختلف ہے، ان دونوں کے جیسی،
علیدان اس کے چہرے کے قریب جھکا،ان دونوں کے چہرے اتنے قریب تھے کہ آن کے گال علیدان کے سانسوں کی تپش سے جلنے لگے، اور دل نے جیسے اسپیڈ پکڑلی تھی۔دھڑکنوں نے مسحور کن راگ الاپا تھا۔ اسے اپنی دھڑکنیں سنبھالنی مشکل لگی تھیں۔ بے اختیار دل پر ھاتھ رکھ دیا۔اور غیر ارادی طور پر کچھ پیچھے ہوئی۔
علیدان نے اس کی حرکت پر، تھوڑی سی دوری بنا کر جیسے اسے رلیکس کیا تھا۔
اور گھمبیر لہجے میں سرگوشی کی۔
" میری نظر میں۔۔۔ آپ ایک بلی ہیں،اور میں۔۔۔ایک چیتا۔ ہم دونوں ایک ہی نسل کے ہیں، لیکن ہم میں سے ایک کمزور، اور دوسرا طاقتور ہے۔ مجھے فخر ہے،کہ میں اس قابل ہوں، کہ آپ کی حفاظت کرسکوں۔"اس نے اس کے چہرے کو تھاما اور پھر اس کے چہرے پر آئی نم لٹوں کو سنوارا۔
آن کا دل دھڑ دھڑ کرنے لگا۔
وہ واقعی ساحر تھا۔ اپنے الفاظ کا جادو بکھیر کر اسے مسحور کردیتا تھا۔ وہ واقعی جو بھی کہنا چاہتا تھا۔۔ہمیشہ خوبصورت پیرائے میں کہہ دیتا تھا۔
اور خود وہ۔۔۔ ایک طرف تو اپنے آپ کو یاد دلاتی رہتی تھی کہ۔۔۔ اس کی نہ سنو۔۔۔ اس کی نہ مانو۔۔۔ اس سے دور رہو۔۔۔کہیں بھاگ جاؤ۔
لیکن۔۔۔ اب۔۔۔۔اب وہ ایسا نہیں کر سکتی تھی۔اب ناممکن تھا۔وہ اس کی اسیر ھوچکی تھی۔زیر ھوچکی تھی۔
اس کے الفاظ ہمیشہ اس کے دل کو دھڑکاتے تھے۔
اسے اپنی سوچوں سے واقعی خوف محسوس ہوا۔ وہ بیوقوف نہیں تھی۔ خوب سمجھ رہی تھی۔یہ احساس۔۔۔۔ اگر یہ عشق نہیں تھا؟۔۔۔۔تو پھر کیا تھا؟ کیا وہ اسکی عادی ھورہی تھی؟اور کسی کا عادی ہوجانا کسی کے اسیر ہوجانے سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔
☆☆☆
وہ اپنے روم میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی۔ جب اس کی سیل فون پر سیماز کی کال آئی،سیماز کو اس نے زایان سے کہہ کر اعوان گروپ آف انڈسٹریز میں جاب دلوائی تھی۔ تب سے کبھی کبھار وہ اسے فون کرکے خیریت بتادیتی تھی۔
"آج بینیش نے مجھ سے آپ کے بارے میں بات کی تھی۔" سیماز نے اصل مدعا بیان کیا۔
"کیا کچھ غلط ہوا ہے؟" آن نے اس کی بات پر صرف اتنا پوچھا۔
"اعوان گروپ میں، یہ افواہ چل رہی ہے، کہ بینیش اعوان مسٹر علیدان شاہ سے شادی کرنے والی ہے۔
مجھے اس بات نے مجبور کیا کہ آپ کو یہ بتادوں۔"
آن اس کی بات پر حیران ہونے کے ساتھ متعجب ہوئی، بینیش یوں کھلم کھلا علیدان کا نام خود سے جوڑے گی، یہ اس نے نہیں سوچا تھا۔
"کیا اس کی تم سے آمنے سامنے بات ہوئی تھی؟" آن نے تجسس سے پوچھا۔
"وہ مجھ سے کل ملی تھی، اس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا آپ سے کس قسم کا تعلق ہے؟"
آن حیرت سے اس کی بات سن رہی تھی، اور سوچ رہی تھی، بینیش کو سیماز اور اس کے تعلق کا کیسے پتا چلا؟
"میں نے کہا،آن میری دوست ہے،جس پر اس نے کہا، وہ شاہ گروپ میں آپ کے ساتھ جھگڑے کی نوعیت جانتی ہے۔ اس زاویہ سے اس نے تفتیش کر رکھی ہے،اور وہ ہمارے تعلق کو برباد کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔" سیماز نے تفصیل سے بینیش کے منصوبے سے اسے آگاہ کیا۔
آن اس کی بات پر گہری سوچ میں پڑگئی۔
وہ سیماز سے کل ملی تھی۔ اور بینیش اعوان اس کے اگلے دن سیماز سے ملی تھی۔ اس کا مطلب یہی تھا۔۔۔ کہ بینیش اعوان نے اس کے پیچھے لوگ لگائے ہوئے ہیں۔ جو آنیہ کی نقل و حرکت کی اسے پل پل رپورٹ کرتے ہیں۔اسے کچھ عرصہ پہلے علیدان کے کہے جملے یاد آئے تھے۔جب وہ زبردستی اس کے فلیٹ میں آگیا تھا ۔تاکہ یہ دیکھ سکے کہ کوئی خطرہ تو نہیں؟ تب اس نے یہ جج کیا تھا کہ کوئی ایسا ہے جو آن کے نقل و حرکت کو مسلسل چیک کررہا ہے۔اس وقت آن نے اس کی بات کو مذاق سمجھ کر نظرانداز کردیا تھا۔
"کیا اس نے اس کے علاوہ بھی کچھ کہا ؟" آن نے جاننا چاہا۔
"اس نے یہ پوچھا کہ اگر میں چاہوں تو آن سے بدلہ لے سکتی ہوں، وہ اس معاملے میں میری مکمل مدد کرسکتی ہے" سیماز نے سچ بولا۔
"میں نے کہا، ماضی میں جو ہوا سو ہوا۔
لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نظر نہیں آرہی تھی۔ اس نے مجھے شاپنگ کروانے کی بھی آفر کی، جو میں نے ٹھکرادی ،مجھے ڈر ہے آن، کہ وہ مجھے تمہارے خلاف استعمال نہ کرے۔"
"ہممممم، آن نے گہری سانس ہوا کے سپرد کی۔ "تمہارا شکریہ سیم، کی تم نے مجھے ہر بات سے آگاہ کیا۔"
"مجھے شکریہ مت کہو، میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ میں تمہاری قرضدار ہوں،احسان ہے تمہارا مجھ پر میرے گھر والوں پر،مجھے خوشی ہوگی، اگر میں تمہارے کسی کام آسکوں۔"
سیماز نے ممنون لہجے میں کہا، وہ واقعی اس کی شکرگذار تھی۔
آن اس کی بات پر دھیرے سے مسکرائی۔
"لیکن اس طرح سے میری مدد کرنے پر۔۔۔تمہیں ڈر نہیں لگا کہ اگر تم بینیش کے خلاف جاؤ گی، تو۔۔۔ تمہاری جاب بھی جاسکتی ہے؟"
"تھوڑی سی پریشانی ضرور ہے، لیکن۔۔۔۔ موجودہ اعوان گروپ کی خستہ حالات میں، جس طرح وہ اپنا اسٹاف کم کرتے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے، مجھے بھی نکال دیں۔تو بجائے پریشان ہونے کے، مجھے تو انجوائے کرنا چاھئیے۔" سیماز کے لہجے سے اطمینان جھلک رہا تھا۔
"اگر وہ تمہارے لئے کوئی مشکل کھڑی کرے تو مجھے ضرور بتانا،میں علیدان سے کہہ کر تمہیں کہیں بھتر جاب دلاؤں گی۔" آن نے اسے تسلی دی۔
"اس معاملے میں، میں تمہارے ایک اور احسان کی مقروض ہوجاؤں گی۔"سیماز ہنسی۔
"کون سا احسان؟ کیا دوستی میں یہ فرض نہیں کہ میں تمہارے کسی کام آسکوں؟" آن کا لہجہ دوستانہ تھا۔
سیماز دل سے اس کی اچھائی کی معترف ہوئی۔
"تھینک یو۔۔۔ آنیہ۔۔۔تم بھت نرم مزاج اور بڑے دل کی ہو دوست۔"
فون رکھنے کے بعد، اس نے علیدان شاہ کو کال ملائی۔
جب کال ملی۔۔۔ تو علیدان شاہ بھت ہی خوشگوار موڈ میں تھا۔
"آں۔۔۔ہاں۔۔زہے نصیب،آج آپ نے خود سے فون کیا ہے۔۔ یقینا مجھے کھانے کے لئے تو نہیں پوچھنا ہوگا۔لگتا ہے کوئی خاص بات ہوئی ہے۔اینے وے۔۔کیا کچھ غلط ہوا ہے؟" اس کا انداز بھت ہی نرم اور دوستانہ سا تھا۔
"مجھے آپ سے پوچھنا ہے۔۔کہ آپ بینیش اعوان سے کب شادی کررہے ہیں؟ اس کے دوستانہ لہجے کے الٹ آن کا انداز قطعا دوستانہ نہیں تھا۔
"کون۔۔۔۔؟" علیدان تو حیران رہ گیا۔ ساتھ ہی آن کے اس قدر حق سے پوچھنے پر اس کا دل خوشی سے ناچنے کو کیا تھا، کیسے بھی سہی۔۔ آن نے اس پر توجہ کی تھی۔وہ دل تھام کر رہ گیا۔
"میں نے جو کہا وہ آپ آلریڈی سن چکے ہیں ، زیادہ بننے کی کوشش مت کریں۔" وہ غصہ ہوئی۔
علیدان شاہ نے کچھ پل سمجھنے کی کوشش کی، پھر پوچھا۔ " ھنی۔۔۔، کیا بینیش اعوان نے پھر سے آپ کے لئے مسئلہ بنایا ہے؟"
"اعوان خاندان ہر روز افواہیں پھیلا رہا ہے، کہ ان کی بیٹی، آپ سے شادی کر رہی ہے۔ لیکن آپ نے باہر آکر اس کی بلکل وضاحت نہیں کی۔ کیا۔۔۔ آپ اس سے شادی کی خواہش واقعی بھی رکھتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی طرف سے کوئی وضاحت نہیں آرہی۔آپ کو کوئی پرواھ ہی نہیں ہے۔ اور لوگ اسی بات کا فائدہ اٹھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ "آن بولنے پر آئی تو نان اسٹاپ شروع ہوگئی تھی۔
علیدان شاہ تو اس کی اس طرح ناراضگی پر قہقہہ لگا گیا تھا۔ وہ واقعی اس وقت تصور میں آنیہ میں ،اپنی اپنی سی آن دیکھ رہا تھا۔ اسے خوشی ہوئی تھی، کہ آن اپنے رشتے کے بارے میں کتنی پوزیسو ہے۔یہ بھی اس کی محبت کا انداز تھا، جسے وہ چھپا کر رکھتی تھی۔
وہ دل سے ھنسا۔
"ھاھا ھاھا۔۔ یپ۔۔۔ میری بیوی درست کہتی ہے۔یہ واقعی میری غلطی ہے۔چلیں آپ کے شوہر کے کان کھینچتے ہیں ۔آپ کا شوہر اب ضرور صفائی پیش کرے گا۔" وہ شرارت سے بولا۔
"اگر آپ واضح کرنا چاہتے ہیں یا نہیں تو اس کا میرے ساتھ کیا تعلق ہے؟" وہ تپ کر تیز لہجے میں بولی۔
اس کا جواب سننے سے پہلے ہی اس نے کال کاٹ کر فون بستر پر پٹخا۔
فون پھر سے زور سے بجنے لگا۔
دوسرے جانب جاؤ تو۔۔۔علیدان کے ہونٹ مسکرا رہے تھے، جب اس کے مسلسل فون کرنے پر بزی ٹون سنائی دی۔۔۔۔اس کے غصہ کا سوچ کر اسے مزا آنے لگا۔دل تھا کہ جیسے خوشی سے جھوم رہا تھا،ہواؤں میں اڑ رہا تھا۔ آخر کیوں نہ ہوتا؟ اس کی محبت کو آن کے دل نے، قبولیت کا اعزاز بخشا تھا۔
'اور محبت جب قبولیت کا معراج پالیتی ہے۔تو یہ خوش نصیبی ہوتی ہے۔ جو قسمت سے ہی ملتی ہے۔یہ علیدان کی وفاؤں کا انعام تھا۔جو اس کی جھولی میں چپکے سے آ گرا تھا۔وہ جھولی پھیلائے کب سے آن کے دل کے در پر دستک دیئے جارہا تھا۔۔بالآخر دروازہ کھل گیا تھا۔دستک سن لی گئی تھی۔ محبت کو اعزاز اور مان بخش دیا گیا تھا۔'
وہ رلیکس ہوا۔
اور پھر دانیال کو کال کری۔
"دانیال ، اسٹار اسکائی فنانشل گروپ کے صحافیوں سے کہو کہ وہ آج دوپہر میں مجھ سے ملیں۔"
☆☆☆
رپورٹر نے سب سے پہلے اس سے چند ذاتی اور کارپوریٹ سوالات پوچھے پھر ان سے کہا کہ وہ کالیج کے ان طلباء کو زندگی کے بارے میں مشورہ دے جو کہ شاہ گروپ آف انڈسٹری ہر سال کی طرح ،انٹرن شپ پر عارضی طور پر، نوکری پر لینے والے تھے۔
جب انٹرویو ختم ہونے والا تھا، رپورٹرز نے پوچھا۔
"مسٹر شاہ، آخر میں ہم خاص طور پر آپ سے اپنے ملک کی خواتین کی طرف سے سوال پوچھنا چاھتے ہیں؟"
علیدان نے سپاٹ انداز میں سر ہلایا۔
"گو اھیڈ۔"
"آپ اپنی لائیف پارٹنر کے لئے کس لڑکی کو پسند کرتے ہیں؟"
علیدان نے بنا کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا۔
"میں اپنی بیوی کو زیادہ پسند کرتا ہوں۔"
رپورٹرز اس کے جواب پر حیرانی سے ،ایک ہی جگہ پر ساکت رہ گئے۔
یہ ایک بڑی چونکادینے والی خبر تھی، جس پر لائیو دیکھنے والے تک دنگ رہ گئے تھے۔
"اس کا مطلب ہے، مسٹر علیدان شاہ شادی شدہ ہیں؟"
اس بات پر علیدان شاہ نے معنی خیز انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔ "میری بیوی نے کہا کہ وہ اپنی شادی کو خفیہ رکھنا چاہتی ہے ، اس لیے میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ نیز ، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میری بیوی کی کنیت 'اعوان' نہیں ہے۔ سو آج کا انٹرویو یہاں ختم ہو جانا چاھئیے۔"
ادھر آن کے طرف جاؤ، تو اس کے چہرے کا رنگ بدل کر نیلا پیلا ہوگیا تھا۔
یہ کس طرح کے جواب دے رہے ہیں؟یہ تو ایسا تھا کہ جیسے پوری دنیا کو بتانا تھا کہ وہ شادی کرچکا ہے۔
اور اب اعوان خاندان والے جان جائیں گے کہ علیدان شاہ نے کس کے ساتھ شادی کی ہے؟۔ایک خوف تھا جس نے آن کے دل پر اچانک سے دستک دی اور خاموشی سے اندر جاکر چپکے سے کونے میں بیٹھ گیا۔
"مس آن۔۔۔،تم نے یہ اتنی بڑی بات ہم سے کیوں چھپائی۔۔؟ آج بھی اگر ہم نیوز نہ سنتے تو تم ہمیں نہیں بتاتی۔۔اٹز ناٹ فاؤل۔"
ٹیچر صبور کافی نٹ کھٹ سی تھی۔ اور یہ سن کر کہ آن علیدان شاہ جیسے مشہور شخص کی بیوی ہے وہ خوشی سے کھلی جارہی تھی، اسے یہ بھت اچھا لگا تھا۔وہ ویسے بھی فینٹسی کی دیوانی تھی۔
ٹیچر مایا جو ساتھ کھڑی تھی، اس کی ایکسائٹمنٹ پر اس کے بازو پر ہلکی سی چٹکی کاٹی۔
"اتنی ایکسائٹڈ نہ ہوا کرو۔کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔صرف مجھے یہ بات پتا تھی۔"چٹکی کاٹنے پر وہ درد سے سی۔۔ ی۔۔ی۔کرکے رہ گئی۔بے اختیار اسی جگہ کو دوسرے ھاتھ سے سہلا کر منہ بنایا۔
آن نے لب بھینچ کر انہیں معصومیت سے دیکھا۔ "آئی ایم سوری دوستو، میں نے بس یہ سوچا تھا کہ۔۔۔۔یہ معاملہ وقتی طور پر خفیہ رکھا جائے۔۔مجھے معلوم نہیں تھا۔ علیدان شاہ اس طرح سے۔۔۔۔۔۔" اس نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
"کیوں؟ تم اسے خفیہ کیوں رکھنا چاھتی تھی؟ صبور تو دلہن سے بھی زیادہ خوش دکھائی دے رہی تھی اور ادھر دلہن تھی کہ شرمساری سے چھپنے کے لئے، جیسے کسی کونے کی تلاش میں تھی۔
"وہ ہمارے شہر کا سب سے بااثر شخص ہے۔ اس سے شادی کرنا شہر کی تمام کنواری لڑکیوں کا آئیڈل تھا۔ تم کو تو نکاح نامہ ملتے ہی ببانگ دہل پوری دنیا میں اعلان کرنا چاہیے تھا، کہ یہ آدمی میرا ہے۔۔۔ میرا ہے۔۔۔تم اتنے پرسکون کیسے ہو سکتی ہو؟ مس آن۔۔۔ میں واقعی تمہارے سر کو کھول کر دیکھنا چاہتی ہوں۔ کہیں۔۔دماغ کی جگہ بھوسا تو نہیں بھرا؟۔ "صبور نے یہ کہتے ہی شرارت سے اس کے سر پر جھکی تھی۔
اس کی حرکت پر آن نے بے اختیار دونوں ھاتھوں سے سر ڈھانپ کر اسے گھورا۔
" میں صرف کسی مسئلہ بننے سے ڈرتی تھی، دیکھ لو۔۔۔ اب خود ہی۔"
آن نے نیوز جس طرح پھیلی تھی اس طرف، پھر صبور کے ری ایکشن کے طرف اشارہ کیا تھا۔
" افففف ، آئی ایم سو ایکسائٹڈ ، "صبور نے بے چینی سے کہا۔" اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔۔ اب تم کو ہمیں اس خوشی کی ٹریٹ دینی پڑے گی۔ یہ تو ایک آسمانی خوشی کا موقع ہے ۔ ہے نا مایا؟" صبور نے مایا کو دیکھ کر اس کی تائید چاہی تھی۔
مایا اس کی بات پر ھنسی۔
" اچھااا۔۔۔اور وہ کون تھا؟ جس نے مسٹر شاہ کے ساتھ اسپیشل لنچ کے بعد دوسرے دن بد ھضمی کی شکایت کی تھی"۔مایا نے اسے یاد دلایا۔
کچھ دن پہلے ہی مروت میں علیدان شاہ نے آن کے ساتھ ان دونوں سہیلیوں کو بھی لنچ آفر کیا تھا۔ اور زندگی میں پہلی بار اس قدر مھنگا اور اچھا کھانا کھا کر، صبور رہ نہ سکی تھی۔ کچھ زیادہ ہی کھالیا۔ نتیجاً دوسرے دن بدھضمی کی وجہ سے چھٹی کرنی پڑی تھی۔
صبور کو یاد آتے ہی شرمندگی نے بری طرح گھیرا۔
" واقعی۔۔۔ زندگی میں اتنا مھنگا کھانا ہم نے پہلی بار کھایا تھا۔" وہ متاثر ہوئی تھی۔
مایا اس کی بات پر ھنسی ۔
"میں نے بھی۔"
اس وقت آن کی سیل فون بجنے لگی۔
آن نے کالر آئی ڈی دیکھی تو حیرت سے ابرو اچکا کر دیکھا، پھر ان دونوں سے معذرت کرتی آفیس سے باہر نکل آئی۔
چلتی ہوئی ایک کونے میں کھڑی ھوگئی، جہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے فون پک کرلی، اور سپاٹ انداز میں "ھیلو" کہا۔
"تو تم نے مسٹر شاہ سے شادی کرلی۔بدکردار لڑکی ۔تم نے ثابت کردیا کہ تم اپنی ماں کی طرح ہی چلتر ہو۔تمہاری ماں نے میری ماں کے حق پر ڈاکہ ڈالا اور اب تم نے بھی اس کی تقلید کرکے ثابت کردیا کہ طوائف کی اولاد طوائف ہی ھوتی ہے۔؟"دوسری طرف سے بینیش چینخ چینخ کر واہی تباہی بک رہی تھی۔
آن نے اس کی ساری بکواس پر صرف ناگواری سے بھویں اچکائیں۔
" تو۔۔۔۔ اس میں تمہارا کیا جائے؟"اس کا پرسکون انداز بینیش کو اور زیادہ کھولا رہا تھا۔
"آن۔۔ تم۔۔ تم گھٹیا لڑکی۔۔،صرف تم جیسی گھٹیا لڑکی ہی اس بدکردار عورت کے بطن سے جنم لے سکتی ہے۔کیا تم اس قابل ہو۔۔۔ کہ علیدان شاہ جیسے شخص سے شادی کرے؟۔۔ تم کو یہ حق کس نے دیا؟ گھٹیا لڑکی۔"وہ تو جیسے پاگل ہورہی تھی۔
"سب سے پہلی بات، زبان سنبھال کر بات کرو۔ منہ میں زبان میں بھی رکھتی ہوں، اور یقیناً استعمال بھی اچھے سے کرنی آتی ہے مجھے۔۔۔۔دوسری اہم بات۔۔۔۔مجھے یہ حق ہو یا نہ ہو۔۔۔ تم کون ہوتی ہو فیصلہ سنانے والی؟"
آن نے پرسکون انداز میں ڈپٹا۔اور یہ سکون ،اطمینان اور اعتماد اسے علیدان کی محبت اس کے یقین نے دیا تھا۔اب وہ ڈرے گی نہیں بلکہ ڈرا کر دکھائے گی۔
آن نے بات جاری رکھی۔
"میرے ھاتھ میں موجود نکاح نامہ دیکھ کر تمہیں سچ پتا چل جائے گا۔۔۔۔بینیش اعوان، کیا تم واقعی یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ اس طرح جھوٹی افواہیں پھیلا کر علیدان شاہ کو ھتھیا لو گی۔۔کیا اس طرح تم اپنی پوری لائیف بدل سکتی تھی؟ میں تم کو پہلے بھی کئی بار بتا چکی ہوں۔۔۔تم لاکھ کوشش کرو۔۔۔ علیدان شاہ کی دھول بھی نہیں پاسکتی۔اس کی نظروں میں آنا تو دور کی بات ہے۔"
وہ طنزیہ انداز میں ہنسی تھی۔
دوسری طرف بینیش یہ سن کر آپے سے باہر ہوگئی۔
"تم۔۔۔۔ تم صرف انتظار کرو۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔دیکھ لینا۔۔۔آن میں تمہیں اتنی آسانی سے نہیں چھوڑنے والی۔"اس نے دانت پیس کر دھمکایا۔
بینیش نے بات ختم کی، تو آن نے کال کاٹ دی۔
وہ چلتی ہوئی کھڑکی کے پاس آئی اور ھلکے سے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔
اب چیزیں اس مقام پر پہنچ چکی تھیں کہ وہ صرف صبر اور مسقل مزاجی سے ہی نمٹ سکتی تھی۔ورنہ سب اس کے سر پر چڑھ کر ناچنے لگتے۔ان سب سے نمٹنے کے لئے اس کو بھادر بننا تھا۔
☆☆☆
زایان بھائی۔۔۔۔آپ نے کہا تھا آپ میری مدد کریں گے لیکن وہ گھٹیا لڑکی علیدان شاہ کو لے اڑی ہے۔"
بینیش غصہ میں دندناتی ہوئی زایان کے آفیس آئی۔ اور غصہ سے چینخنے لگی۔
زایان نے ابھی نیوز نہیں سنی تھی۔ وہ اپنے بزنس میں مسلسل خسارے سے سخت پریشان تھا۔ مارکیٹ میں ان کی پروڈکٹس کی ویلیو مسلسل نیچے گررہی تھی۔ شیئرز ھولڈرز ساتھ چھوڑ رہے تھے۔راتوں رات کھربوں کا نقصان ہوچکا تھا۔اور مسلسل ھورہا تھا۔اس طرح چلتا رہا تو وہ جلد ہی سڑکوں پر آجائیں گے۔۔ہر طرف خسارہ ہی خسارہ تھا۔ اس وجہ سے کمپنی نے اپنے بھت سے ملازمین کو نکال دیا تھا۔ابھی سر دونوں ھاتھوں میں دیئے اسی نقصان کے متعلق ہی سوچ رہا تھا۔
آن کے متعلق اتنے برے ریمارکس سن کر زایان سیخ پا ہوگیا۔ " کیا بکواس کررہی ہو بینیش۔۔۔ آن کے متعلق اتنے گھٹیا الفاظ کہہ رہی ہو۔ شرم آنی چاھئیے تمہیں۔۔۔ وہ تمہاری بہن ہے ۔"
"دیکھا۔۔۔۔۔میں نے صرف کچھ الفاظ اس کی شان میں کہے، اور آپ کو برا لگ گیا۔وہ لومڑی کی طرح چالاک لڑکی ہے زایان بھائی ۔۔۔ وہ صرف مردوں کو لبھانا جانتی ہے۔ اس نے نا صرف علیدان شاہ کو ورغلا کر اس سے شادی کرلی ہے۔ بلکہ اس کمینی نے مجھ سے میرا بھائی بھی ھتھیا لیا ہے۔۔ میں اس سے سخت نفرت کرتی ہوں ۔۔ سنا آپ نے۔۔۔ شدید نفرت کرتی ہوں۔۔۔میری کوئی چھوٹی بہن نہیں ہے۔۔۔ وہ کتیا۔۔ کمینی۔۔ گھٹیا لڑکی ہے۔۔"
وہ چینخ چینخ کر بے حال تھی۔۔ حالت پاگلوں جیسی ہورہی تھی، زایان تو حیران پریشان اس کے انکشافات سن رہا تھا۔۔ اس کا دل سکڑا ۔۔یہ کیا۔۔؟ آن نے علیدان شاہ سے شادی کرلی؟؟ نہیں ۔۔۔ ایسا نہیں ھوسکتا۔
زایان نے اس ڈپٹ کر چپ کروایا۔
" جسٹ شٹ اپ ۔۔ بینیش۔"
لیکن وہ تو اپنے حواسوں میں نہیں تھی۔ علیدان شاہ جیسے شخص کا ھاتھ سے نکل جانا۔ اس کی زندگی کا ناقابل تلافی نقصان تھا۔ناقابل تلافی۔۔۔ جو اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ ہاں۔۔۔نہیں ہورہا تھا برداشت۔۔اب یا تو وہ ماردے گی۔یا مرجائے گی۔کے اصولوں پر عمل کرنے کا منصوبہ بنا رہی تھی۔ زایان کو یوں ساکت کھڑا دیکھ کر وہ نفرت سے اس پر نظر ڈال کر کافی اشتعال میں آفیس سے نکلی اور طوفانی رفتاری سے گاڑی نکال کر روڈ پر ڈال دی۔ وہاں کھڑے ورکرز تو اس کی اسپیڈ پر دل تھام کر رہ گئے۔
زایان ، جو پہلے ہی بزنس میں ہونے والے مسلسل خسارے پر پریشان تھا، اوپر سے یہ شاکڈ نیوز سن کر وہ وہیں کرسی پر بے جان سا بیٹھ گیا۔
پھر بنا کچھ کہے، ٹیبل سے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں، اور غصہ میں باہر نکلتا چلا گیا۔
☆ ☆ ☆
زایان اپنی گاڑی تیزی سے ڈرائیو کررہا تھا۔۔ اور پریشانی سے کبھی ماتھا مسلتا کبھی مٹھی بند کرکے اسٹرئنگ وھیل پر مکے مارتا۔
پندرہ منٹ سے بھی کم وقت میں وہ آن کی یونی کے باہر پہنچ چکا تھا۔ آن اس وقت چھٹی کے وقت کلاس سے باھر آئی تھی۔ اور رپورٹرز نے گرائونڈ میں اس کے گرد گھیرا کیا ہوا تھا۔ بی کاز رپورٹز علیدان شاہ کی ان کہی بات بھی سمجھ گئے تھے۔ رپورٹرز تو ویسے بھی مشہور شخصیات کے پیچھے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شک کی بنیاد پر یونی پہنچ گئے تھے، وہ پریشان سی کھڑی تھی۔
جب اس نے زایان کو دیکھا تو جلدی سے بنا سوچے سمجھے اس کے طرف آئی۔اور جلدی سے اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اور سکون کی سانس لی، اس نے زایان کے چہرے کے تاثرات پر بلکل غور نہیں کیا تھا۔جس کے تاثرات پتھر کی طرح تھے۔
آن نے اپنا رخ زایان کے طرف کیا، اور شکرگذاری سے کہا۔ تھینک یو زایان بھائی۔۔۔ابھی اگر آپ نہ آتے تو میں تو وہیں گر جاتی۔"
اس نے سکون کی سانس لی۔اس وقت وہ علیدان کی ھدایت بلکل بھول چکی تھی۔اور یہی اس کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہونے والی تھی۔
زایان نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس کے تاثرات کافی سرد تھے۔
جب آن نے اس کے تاثرات دیکھے تو سوچا۔ یہ تو برا ہوا۔۔وہ بلکل فراموش کرگئی تھی کہ علیدان نے اسے زایان کے ساتھ بات چیت کرنے اور ملنے سے بھی منع کیا ہے، اور وہ خود بھی وعدہ کرچکی تھی، کہ اعوان خاندان کے کسی فرد سے نہیں ملے گی۔ علیدان کے جملے کہ' زایان تمہارا بھائی نہیں ہے' وہ جلد بازی میں فراموش کرگئی تھی۔
"بھائی، میں۔۔۔۔
"ڈونٹ ٹالک، میں اس وقت کچھ بھی نہیں سننا چاھتا۔" وہ بھینچی بھینچی آواز میں غرایا۔
آن نے شاک سے اس کو دیکھا، یہ زایان کا کون سا روپ تھا؟ وہ سچ میں اندر سے کانپ گئی تھی یہ سوچ کر کہ 'آن پھر سے غلطی کرچکی ہے'۔
گاڑی تیزی سے سنسان روڈ پر بھاگتی جارہی تھی، یہ رستہ نہ تو شہر کے طرف جاتا تھا۔۔ نہ آن کے پرانے گھر کے طرف، اور نا ہی اعوان فیملی کے گھر کے طرف ۔۔ پھر۔۔۔؟
"زایان بھائی۔۔۔ یہ آپ کدھر جارہے ہیں؟"وہ چونکی۔
لیکن زایان اعوان نے کوئی جواب نہیں دیا ،بلکہ تیزی سے گاڑی دوڑانے لگا۔
آن کافی پریشان ہوئی، "بھائی، پلیز اس اسٹاپ پر روک دیں، میں چلی جاؤں گی۔"
جب آن نے ایک جگہ سروس ایریا دیکھا تو بے چینی سے بول پڑی۔
لیکن زایان اعوان سرد تاثرات کے ساتھ بنا جواب دیئے گاڑی اسپیڈ میں بھگاتا رہا۔
ابھی وہ پریشانی سے سوچ رہی تھی کہ کیا کرے؟ ،اس کا فون بجنے لگا۔
آن نے جلدی سے فون نکالا۔ علیدان شاہ کی کال دیکھ کر سکون کی سانس لی، اور جلدی سے کال پک کی۔
جیسے ہی آن نے "ھیلو" کہا، زایان نے اس سے فون چھین کر اس کی پہنچ سے دور کردیا۔
آن نے آگے ہوکر اس سے فون واپس لینا چاہا لیکن زایان نے جھٹکے سے فون پاور آف کرکے اپنی جیب میں ڈال دیا۔
وہ سخت حیران پریشان ہوئی۔
"بھائی یہ آپ کیا کررہے ہیں؟"وہ چینخی تھی۔
زایان دھاڑا۔ " اگر تم میرے ساتھ اس روڈ پر مرنا نہیں چاھتی تو اپنا منہ بند رکھو۔"
آن فوری طور پر ڈر کر چپ ہوگئی اور لاشعوری طور پر اپنے ھاتھ اپنے پیٹ کے نیچے رکھ دیئے۔
آف کورس، وہ مرنا نہیں چاہتی تھی،اپنے بچے کے لئے پریشانی کھڑی کرنا نہیں چاہتی تھی، اس نے خاموشی کے ساتھ پسنجر سیٹ سے ٹیک لگالی۔اور اس سے بات کرنا چھوڑ دی۔
دو گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد زایان نے گاڑی ایک ولا کے سامنے روک دی۔یہ ولا اعوان فیملی کی ملکیت تھا۔ اور شہر سے باہر ویران جگہ پر تھا۔جہاں پر کوئی بھی سواری نہیں مل سکتی تھی۔
وہ گاڑی سے اتر کر اس کی سائیڈ پر آیا اور اس کے طرف کا دروازہ جھٹکے سے کھول کر کھڑا ہوگیا۔
"باہر نکلو۔۔"درشتی سے حکم دیا۔
آن نے اپنا سر اٹھا کر ارد گرد نگاہ دوڑائی۔ چار سو ویرانی ہی ویرانی تھی، وہ پریشانی سے بولی۔
"زایان بھائی، یہ آپ مجھے کہاں لے کر آئے ہیں؟"
"باہر نکلو۔" زایان نے سرد لہجے میں دوبارہ سے کہا۔
بات ختم کرتے ہی وہ ولا کے اندر بڑھ گیا۔
کچھ لمحوں کی ہچکچاہٹ کے بعد وہ آھستہ سے باہر نکلی۔اور مجبورن اس کے پیچھے چلنے لگی۔
یہاں کوئی بھی نہیں تھا، لیکن پھر بھی گھر اندر سے صاف ستھرا تھا۔
زایان نے اپنی ٹائی کھینچ کر ڈھیلی کی اور نکال کر دروازے کے ساتھ بنے کیبنٹ پر پھینک دی، اور خود تھکا تھکا سا لیونگ روم کے صوفے پر بیٹھ گیا۔
آن چلتی ہوئی اس کے مخالف سائیڈ پر آئی، جہاں صرف ایک ٹیبل ان دونوں کے بیچ میں تھی۔
"زایان بھائی، میں جانتی ہوں، آپ بھت ناراض ہونگے جب آپ نے وہ نیوز دیکھی ہوگی۔میں جانتی ہوں۔۔۔۔۔اعوان خاندان اور شاہ خاندان ایک دوسرے کے دشمن ہیں، لیکن۔۔۔۔اس دشمنی میں میرا کوئی حصہ نہیں ہے۔ کیونکہ میں بحرحال اعوان خاندان سے تعلق نہیں رکھتی۔"
آن نے نرمی سے زایان کے سرد تاثرات کو دیکھ کر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کی۔
"تو تم اب بھی سمجھ رہی ہو کہ تم نے صحیح کیا ہے؟" زایان نے گہرے اور سرد انداز میں کہا۔
"جب تک وہ نہیں جانتا تھا اس نے تم پر توجہ بھی نہیں دی، اور جب اسے یہ پتا چلا کہ تم سکندر اعوان کی بیٹی ہو، اور میری بہن ہو، تو اس نے یہ چال چلی، اور تمہیں پھنسالیا۔ کیا یہ بات تم نہیں سمجھی تھی؟"اس نے چھبتے لہجے میں کہہ کر اسے دیکھا۔
زایان کے الفاظ سن کر وہ دل ہی دل میں ، اس کے الفاظ دہرا رہی تھی۔
اسے یاد آرہا تھا، کس طرح وہ نشے میں اس کے ساتھ ملی تھی۔
دوسرے دن علیدان شاہ نے اسے زایان اعوان کے ساتھ ملتے دیکھا تھا۔ تب علیدان نے اسکا غلط مطلب لیا تھا، کہ آن کے زایان کے ساتھ تعلقات ہیں، زایان اس کے معصوم ذہن کو الجھا رہا تھا، اور وہ الجھ رہی تھی۔سوچوں میں غرق تھی۔
اس کو سوچتا دیکھ کر زایان نے پھر سے بات جاری رکھی۔
"آن۔۔۔ میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا کہ علیدان شاہ کے ساتھ فاصلہ رکھو، تم نے مجھ سے وعدہ کیا ،پھر کیوں میری بات نہیں سنی؟ کیا تم جانتی ہو تم ایسی جگہ پر پہنچ چکی ہو جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔"
آن نے سر نفی میں ہلایا۔۔ اور اس کے منفی الفاظ نظر انداز کیئے۔
"زایان بھائی، یہ معاملہ اتنا بھی سریس نہیں، جتنا آپ نے بنالیا ہے۔"
اس کی بات پر زایان نے اسے سوالیہ نظروں سے گھورا، اور دانت پیسے۔
"کیوں نہیں ہے؟بتاؤ مجھے۔۔۔؟ اگر دوسرے لوگوں کو پتا چلے گا کہ تم سکندر اعوان کی ناجائیز بیٹی ہو۔۔۔تو وہ کیا کہیں گے؟ سوچا ہے اس بارے میں؟ علیدان شاہ نے اعوان خاندان کو نشانہ بنایا ہے۔۔ اور اسے بلکل برباد کرنا چاہ رہا ہے۔، ہر ایک یہ بات اچھے سے جانتا ہے۔ سکندر اعوان کی بیٹی ہوکر تمہارا اس کے ساتھ کسی طرح کا بھی میل کیسے ہوسکتا ہے؟ بولو۔۔۔؟"
"اس کے ارد گرد ہزاروں عورتیں موجود ہیں۔۔ لیکن اس نے تمہیں ہی کیوں چنا؟ کیا۔۔۔ تم واقعی یہ سمجھتی ہو۔۔۔ کہ وہ تمہارے ساتھ مخلص ہے۔۔؟"
زایان نے لب بھینچ کر کچھ دیر رک کر خود کو پرسکون کیا۔اور اپنی پیشانی مسلی۔ پھر اس کے طرف دیکھا۔
"آن۔۔۔۔اس دنیا کے سارے مردوں کے بیچ میں۔۔۔۔میرے سوا۔۔۔ کوئی بھی دوسرا تمہیں دل سے ٹریٹ نہیں کرسکے گا۔
کیوں تم اتنی سیدھی ہو۔۔؟ کیا تم حان حارث کو بھول گئی؟"
اس کی آخری بات آن کو تازیانے کی طرح لگی تھی۔ اس کی برداشت یہیں ختم ہوگئی وہ چینخ پڑی۔
"بس۔۔۔۔۔ زیادہ کچھ بھی مت کہئے گا۔۔۔زایان بھائی۔"
وہ اس کی طرف پیٹھ کرکے کھڑی ہوگئی۔
"زایان بھائی، معاف کیجئے گا۔۔۔ لیکن میری زندگی کا یہ فیصلہ میری اپنی چوائس ہے۔۔ بھلی میں آخر میں رنجیدہ ہوں۔۔۔یہ قطعا میرا اپنا فیصلہ ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مجھے خود بھگتنا ہے۔"
"تو۔۔۔تم اپنی ماں کی طرح ہر نتیجہ خود برداشت کرو گی؟آن کیوں تم میری بات نہیں سمجھتی؟۔وہ جیسے زچ ہوا۔
اس کی بات پر آن نے ہونٹ کا کنارہ کاٹا اور مٹھیاں بھینچ لیں۔
"زایان بھائی، آپ میرے بڑے بھائی ہیں۔۔ میں آپ کی عزت کرتی ہوں۔ آپ میرے ساتھ ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔۔ آپ کی شکرگذار ہوں۔لیکن۔۔۔صرف اسی وجہ سے کہ آپ میرے بھائی کے رتبے پر فائض ہیں۔ میری زندگی میں مداخلت نہیں کرسکتے۔۔۔مجھے یہ پسند نہیں کہ میری زندگی دوسروں کے اشاروں پر چلے۔"وہ تلخی سے کہہ گئی۔
زایان نے اس کو پیٹھ دیئے کھڑا دیکھا۔ اور اپنی مٹھیاں غصے میں سختی سے آپس میں بھینچ لیں۔
آن نے دیکھا۔۔ کہ وہ کچھ نہیں کہہ رہا۔تو کچھ سیکنڈ ہچکچا کر۔۔۔ اس کے طرف مڑی۔
اس سے پہلے کہ وہ ٹھیک سے سنبھل پاتی، زایاں اٹھ کر تیزی سے آگے بڑھا تھا۔۔ اور اسے سختی سے گلے لگالیا۔
آن تو وہیں ساکت رہ گئی۔" بب۔۔۔بھائی۔۔۔ نہ کریں۔۔۔۔"وہ اس کے شکنجے میں پھڑ پھڑا کر رہ گئی۔
"اس کے ساتھ مت ہونا۔۔۔ وہ میرا سب سے بڑا دشمن ہے۔۔۔۔ میں تمہیں اس کے ساتھ شادی نہیں کرنے دوں گا۔۔ تم کو اس سے الگ ہونا پڑے گا آن۔۔۔ سمجھی۔۔؟"
وہ سختی سے اسے بھینچے ہوا تھا۔ آن کی سانس رکنے لگی۔ اسے اس وقت زایان سے سخت نفرت اور کراہت محسوس ہوئی ۔
آن نے سانس لینے کی کوشش کی۔۔،اس نے اپنے ھاتھ اٹھائے اور زایان کو دھکیل کر خود سے دور کرنے کی کوشش کی۔
لیکن زایان نے اسے اور سختی سے بھینچا۔ آن کو اب اپنا بچنا مشکل لگا بمشکل آواز نکل سکی۔
"آپ میرا سانس گھونٹ رہے ہیں۔ مجھے سانس نہیں آرہی۔"وہ بے ساختہ چلائی تھی۔
لیکن۔۔۔زایان نے اس کی بات پر دھیان نہیں دیا۔
"آن مجھ سے وعدہ کرو۔۔۔"
"میں آپ سے کوئی وعدہ نہیں کرسکتی۔" یہ کہہ کر خود کو اس کی گرفت سے نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔۔ اور سختی سے بولی۔
"ہم دونوں بہت پہلے شادی کرچکے ہیں۔"
اس کے غصے سے کہنے پر زایان نے بے ساختہ اسے چھوڑا۔۔اس کی نظروں میں سخت حیرانی اور غصہ تھا۔
آن گھوم کر اس سے دو قدم پیچھے ہوئی، اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ کیا۔
پھر رک کر سانس بھری۔
"میں جانتی ہوں کہ آپ علیدان سے اور شاہ فیملی سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔ لیکن۔۔ اعوان فیملی اور شاہ فیملی کے معاملات کا مجھ سے کیا تعلق۔۔۔؟ میں تو عصمت کاظم کی بیٹی ہوں۔۔۔ اور میں۔۔۔۔تو ایک ایسی عورت ہوں جو اعوان فیملی سے سخت نفرت کرتی ہے۔۔۔۔ اعوان خاندان کے ساتھ کچھ برا کرنے کی میری شدید خواہش ہے۔۔ اور میری خواہش ہے۔۔۔ کہ سکندر اعوان اور اس کی بیوی مائرہ اعوان کے ساتھ بینیش اعوان سڑک پر آجائیں۔
میں اپنی ماں کا بدلہ لینا چاھتی ہوں۔۔۔ اور میں ان تینوں کو بے رحمی سے روند دینا چاہتی ہوں۔
اس کے لئے۔۔۔ علیدان شاہ ،اعوان خاندان سے نمٹنے کے لئے، میری بھترین چوائس ہے۔
اس لئے میں نے اس کے ساتھ کی خواہش کی۔۔۔اس کے ساتھ شادی میرے لئے مددگار و معاون ثابت ہوئی ہے۔"وہ چبا چبا کر اپنی نفرت کا اظہار کرگئی۔
اپنی بات ختم کرکے آن مڑی اور باہر جانے لگی۔۔ لیکن زایان نے یکدم آگے بڑھ کر اس کو کلائی سے تھام کر اندر گھسیٹا۔۔ اور سرد انداز میں ڈپٹا۔
" اپنی توانائیاں فضول میں ضائع کرنے کوشش مت کرنا۔۔ تم یہاں سے بلکل نہیں جاسکتی۔"
آن تو یہ سن کر وہیں جم گئی۔ حیرت سے اسے دیکھا:
"واٹ ڈو یو مین بائے دیٹ؟"
"یہاں پر کوئی بھی بس اسٹاپ موجود نہیں ہے،نہ کوئی ٹیکسی مل سکتی ہے۔ تمہارے پاس سیل فون بھی نہیں ہے۔۔۔تو تم کوئی گاڑی بھی نہیں منگواسکتی۔"
زایان نے سکون سے کہا، لیکن جیسے اس کا سکون منتشر کرگیا۔
"میں تب بھی جاوں گی۔" وہ ضدی مضبوطی سے بولی۔
اس کی بچکانہ بات پر زایان طنزیہ ھنسا:
"یہاں سے قریبی بس اسٹاپ بھی دس میل کےفاصلے پر ہے، یہاں پر کوئی اسٹریٹ لائٹس موجود نہیں، سو اگر تم اندھیرے میں کسی محفوظ مقام پر پہنچ بھی جاو، تب بھی 6 گھنٹے لگیں گے۔سو بھتر یہی ہے کہ یہاں پر سکون سے رہو، جب تک میں نہیں چاہتا، تم نہیں جاسکتی ۔"
آن نے لب بھینچ کر مضبوط لہجے میں کہا:
"لیکن مجھے یقین ہے، علیدان مجھے ڈھونڈھ لے گا۔"
اس کی بات پر زایان کے چہرے پر تمسخرانہ تاثرات ظاہر ہوئے:
"یہاں پر کوئی نگرانی نہیں ہوسکتی، سو۔۔ علیدان تم کو نہیں پاسکے گا۔اسی وجہ سے میں تمہیں یہاں دور لایا ہوں"۔
آن نے اس کی بات پر مٹھیاں بھینچیں، اور اسے گھور کر دیکھا: "آپ ۔۔۔۔ آپ مجھے اس گھر میں قید کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے۔"
اس کی بات کا زایان نے کوئی جواب نہیں دیا، اور مڑ کر کھڑکی کے طرف چلتا،کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا۔۔باہر اندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا۔
آن غصہ میں اس کے طرف بڑھی، اور بے یقینی سے اس کے انداز دیکھے:
" زایان بھائی، آپ ایسا کیوں کررہے ہیں؟"
"یہ ڈیڈ کی خواہش ہے"۔زایان نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا،بس سکون سے باہر دیکھتا ہوا بولا:
"ڈیڈ نے کہا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ اس کی بیٹی شاہ خاندان کے فرد سے تعلق رکھے، کچھ عرصہ پہلے ، انہوں نے مجھے حکم دیا تھا، کہ میں اس کی عزیز ترین بیٹی بینیش کا علیدان کے ساتھ جوڑ بناوں۔"
زایان کی بات پر، آن نے اسے تاسف سے دیکھا، اور طنزیہ کہا:
لیکن خفیہ طور پر وہ بلکل نہیں چاھتے تھے کہ اس کی ناجائیز بیٹی شاہ خاندان سے منسلک ہو۔۔ہے نا؟ کیا یہ الفاظ اپنے ہی منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف نہیں؟"
زایان نے اس کی بات پر گہری سانس لے کر اس کے طرف مڑا اور اسے گہری نظروں سے دیکھتے بولا:
"کیونکہ تم بینیش اعوان سے مختلف ہو۔ ہم نہیں چاھتے تھے کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔"
اس کی بات پر آن طنز سے بولی:
" مجھے نقصان نہیں پہنچانا چاھتے تھے؟۔۔۔ آپ کے الفاظ دوہری معنی رکھتے ہیں زایان بھائی۔ ایک بیٹی کے لئے تو وہ شخص فائدمند ہے، جب کہ دوسری کے لئے نقصاندہ؟ واھ " آن نے تمسخر اڑایا۔
اور چلتی ہوئی صوفہ پر بیٹھ گئی۔
حلانکہ ،وہ غصہ میں تھی،لیکن اپنے جذبات کو قابو کرنا اچھے سے جانتی تھی۔
وہ یہاں سے خود نہیں جاسکتی تھی۔۔۔آفٹر آل ،اسے اپنے بچے کا بھی خیال تھا، وہ خود تکلیف برداشت کرسکتی تھی، لیکن اپنے بچے کے لئے کوئی رسک نہیں لے سکتی تھی۔
"تو اگر میں آپ کی کسی بات پر اتفاق نہ کروں تو آپ مجھے یہاں ساری زندگی قید رکھیں گے؟"
آن نے کچھ دیر کی خاموشی کے بعد زایان کے طرف سرد انداز میں دیکھا، جو اب بھی کھڑکی کے طرف منہ کیئے کھڑا تھا۔
" ڈیڈ نے کہا ہے،اگر ضروری ہوا تو۔۔ وہ تم کو باہر بھجوادیں گے۔"
زایان نے بنا مڑے سرد انداز میں جواب دیا:
آن تو یہ سن کر تیش میں کھڑی ھوگئی، درشت لہجے میں بولی:
"ان کو ایسا کرنے کا حق کس نے دیا؟"
زایان نے اس کے غصہ پر مڑ کر اسے دیکھا۔ "تم یہ مانو یا نا مانو، تمہاری زندگی اس کی ہی دی ہوئی ہے، خون ہو تم اس کا۔اس حقیقت سے تم انکار نہیں کرسکتی...کیا میں نے غلط کہا؟"
آن اتنی غصہ میں تھی، تبھی اس کی بات پر ھنستی چلی گئی، مزاحیہ بات ہی تھی یہ اس کے لئے، اس باپ کو بیٹی کبھی یاد نہ آئی، اسے اپنا کہنے میں ہمیشہ شرم محسوس ہوئی، جس شخص نے صرف اپنی پہلی بیوی کے کہنے پر اپنی دوسری بیوی کو شک کی بنیاد پر زندہ درگور کردیا، اپنی ہی بیٹی کو ناجائیز کہہ کر دھتکارا،
جب وقت پڑا، جب مفاد بنا تو یہی بیٹی اسے یاد آئی، صرف اپنے مفاد کے لئے، صرف جگ ھنسائی کے خوف سے، کہ دنیا یہ جان کر اس پر تھوک نہ دے کہ سکندر اعوان کی ایک بیٹی ناجائیز ہے۔کیسا بے رحم شخص تھا یہ سکندر اعوان کہ اپنی ہی بیٹی کے منظر عام پر آنے سے ڈرتا تھا۔کہ کہیں سوشل بائکاٹ نہ ہوجائے۔
زایان نے اسے پاگلوں کی طرح ھنستے دیکھ کر ٹوکا:
"کیوں ھنس رہی ہو اس طرح ، کیا اس طرح تم خود کو تکلیف دو گی؟"
آن ھنستے ھنسے رک گئی، اور آنکھوں میں آئی نمی کو زبردستی روکا:
"جب مجھے باپ کی ضرورت تھی، اس شخص نے مجھ سے کہا، اس کی مجھ جیسی بیٹی نہیں ہے۔اور اب جب مجھے ضرورت نہیں ہے، وہ کھڑا ہوگیا اور کہتا ہے کہ اس میں میرا بھلا ہے۔ یہ کس قسم کا مزاق ہے؟ کیا وہ اس قابل ہے؟۔۔۔واپس اس کے پاس جاکر پوچھئے گا، کیا وہ بھول گیا کہ کس نے میری ماں کو موت کے منہ میں دھکیلا؟"
اس کی بات پر زایان نے اسے سمجھایا"آن۔۔ اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے غلطیاں نہ کی ہوں، کچھ بھی ہو، ڈیڈ تمہارے باپ ہیں۔وہ اس وقت مشکل میں ہیں، تم اس کے ساتھ نفرت مت کرو۔"
تو پھر۔۔۔۔۔؟؟ آن نے دانت پیسے
" کیا میں اسے معاف کردوں؟؟، اپنی ماں کا قتل بھول جاوں؟؟ اس شخص کو معاف کروں؟؟ جس نے کبھی باپ کی زمیواری نہیں نبھائی؟؟؟"
آن رک گئی اور کچھ دیر بعد گہری سانس لے کر اسے دیکھ کر تاسف سے کہنے لگی:
"ماضی میں، میں سمجھتی تھی،اس خاندان کے ہر فرد نے ہمیں دھتکارا ہے، لیکن ایک آپ ہمارے ساتھ ضرور کھڑے ہیں ۔لیکن اب۔۔۔۔ اب آپ میں ، اور ان میں کوئی تفریق نہیں سمجھتی۔"
اس کے دکھ سے کہنے پر زایان کا دل تکلیف کی شدت سے سکڑا،
"آن۔۔۔۔"
اس نے کچھ کہنا چاہا۔۔ لیکن ۔۔ آن نے ہاتھ اٹھا کر اسے خاموش کروادیا۔وہ اب کچھ بھی اس کے منہ سے سننے کی ہمت نہیں رکھتی تھی، بول بول کر وہ تھک چکی تھی،
زایان اس کی آنکھوں میں ثابت قدمی دیکھ کر جان گیا کہ وہ اسے باتوں سے قائل نہیں کرسکتا۔
وہ واقعی، بچپن سے ہی اپنے فیصلے خود سے کرنے کی عادی ہوچکی تھی۔
جب وہ کہتی ہے کہ 'اسے اپنے باپ سے نفرت ہے'تو وہ واقعی بھی کرتی تھی۔
"کل صبح ، میں یہاں سے ضرور جاوں گی،اگر آپ نے مجھے جانے نہیں دیا۔تو میں گارنٹی نہیں دیتی ،علیدان شاہ پتا نہیں آپ سب کے ساتھ کیا کرجائے ؟
اعوان خاندان کے ساتھ ، آپ بھی یہ ڈیزرو کرتے ہیں،
اسی لئے اچھا ہوگا کہ جو میں نے کہا ہے، اپنے باپ کو ابھی بتادیں، ادروائیس، صرف آپ ہی کو اس کے نتائج برداشت کرنے پڑیں گے۔"
یہ کہتے ساتھ وہ سیڑھیوں کے طرف بڑھی، "میں اوپر آرام کرنے جارہی ہوں۔"
زایان نے اسے زور سے پکارا "آنیہ۔۔۔۔۔۔"
آن آدھی سیڑھیوں پر رک گئی، اور بنا اسے دیکھے بولی: "اب بھی آپ کو کچھ کہنا ہے؟"
"اس کے باوجود بھی کہ تم یقین کرتی ہو یا نہیں،
میں نے پوری سچائی کے ساتھ یہ تمہارے بھلے کے لئے کیا ہے۔
میں کبھی نہیں چاہوں گا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔
بھلی تم مجھ سے نفرت کرو، میں پھر بھی یہ امید رکھوں گا کہ تم زندگی میں خوش رہو۔"
آن نے یہ سب خاموشی سے سنا، اور بنا جواب دیئے اوپر بڑھتی رہی۔
یہ ایک اخلاقیات کے دائرے کے اندر 'اغوا'تھا۔
دوسرے لوگوں کی نظر میں، بھلی یہ اس کی بھتری ہو، لیکن اس کے اپنے زاویہ سے یہ عمل زبردستی کے زمرے میں آتا تھا۔
وہ اوپر کمرے میں آئی، اور دروازہ لاک کردیا۔
چلتی ہوئی بیڈ تک آئی، اور بیٹھ گئی، لیکن اسے نیند بلکل محسوس نہیں ہوئی،
علیدان شاہ ضرور بھت پریشان ھوگا، وہ سوچتی ہوئی بیڈ پر ایک طرف منہ کرکے لیٹ گئی۔اس سے پہلے جب وہ اس کی سائیڈ پر سورہا ہوتا تھا، وہ اسکے بارے میں نہیں سوچتی تھی، لیکن اب اس طرح اچانک سے زبردستی اس سے الگ ہوجانے پر، وہ مسلسل علیدان کو سوچ رہی تھی۔آن نے اسے بری طرح مس کیا بری طرح سے وہ اسے یاد آیا، اس کی محبت، اس کا خیال رکھنا، اس کی گرم آغوش، اور علیدان کا زندگی سے بھرپور بازوں کا حصار وہ شدت سے مس کررہی تھی۔
انسان بھی کتنا عجیب ہے، جو چیز پاس ہوتی ہے تو قدر نہیں کرتا، اور جب وہ چیز دور چلی جاتی ہے تو اس کی قدر کرتا ہے۔
اچانک ہی سے اسے اپنے پیٹ سے آواز آئی۔ آن نے تکلیف سے سانس بھری، یہ بھوک کا احساس تھا۔
اس کا بیبی بھوکا تھا۔
"میرے بچے، مجھے معاف کرنا، صرف آج کی رات بھوک برداشت کرلو، یقین کرو، مام کل تمہیں ضرور فیڈ کرائے گی۔"
اس نے اپنے پیٹ کے گرد حصار کھینچ کر جیسے اپنے بچے کو گلے لگا کر تسلی دی تھی۔ اور آنکھیں بند کرکے علیدان کو تصور میں لاکر سونے کی کوشش کرنے لگی۔ اگر وہ سوجاتی تو اسے بھوک محسوس نہ ہوتی۔۔۔پتا نہیں کتنی دیر گذر چکی تھی۔۔اسے وقت کا اندازہ نہیں ہوپایا۔
اچانک ہی اسے باہر سے گاڑیوں کے رکنے کی آوازیں سنائی دیں۔پھر دروازے کھلنے اور بند ہونے کی۔
وہ چونک کر اٹھ بیٹھی،
اور غور سے سننے لگی،
اب، سیڑھیوں کے نیچے سے لڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔۔
یہ ایک خواب کی طرح تھا۔ اس نے سوچا۔۔۔اور باھر نکلنے کے لئے جیسے پاگل ہوئی۔وہ یقین کرنا چاھتی تھی کہ یہ خواب نہیں مدد پہنچ چکی تھی۔
آن نے اٹھ کر بے صبری سے دروازہ کھولا، نیچے سے واضع طور پر لڑائی کی آواز آرہی تھی،
اور زایان کی غصہ سے بھری ہوئی غراہٹ بھی، وہ کہہ رہا تھا:
" میں، کبھی اسے تمہارے ساتھ نہیں بھیج سکتا، بھلی وہ ساری زندگی ایسے بیٹھی رہے، میں تم کو اس کی زندگی برباد کرنے نہیں دوں گا۔"
"تم کون ہوتے ہو یہ سوچنے والے؟
میری بیوی کی زندگی کا فیصلہ کرنے والے تم کون ہوتے ہو؟ آج میں تم کو اچھی طرح سے بتاتا ہوں، کہ کس نے کس کی زندگی برباد کی ہے۔"
آن نے دونوں ھاتھوں سے ہونٹوں پر بے اختیار ھاتھ رکھا ، یہ علیدان کی آواز تھی۔۔۔ اس کے علیدان کی ۔۔ بالآخر وہ آگیا تھا، اس نے آن کو ڈھونڈھ لیا تھا۔
آن نے دروازے سے باھر قدم نکالے اور جلدی سے سیڑھیوں کے طرف بھاگی۔
اس وقت علیدان شاہ اور زایان اعوان دونوں ایک دوسرے سے گھتم گھتا تھے۔
آن نیچے آئی اور چینخ کر ان کو روکا:
"بند کرو یہ لڑنا ،تم دونوں الگ ہوجاو۔۔"
لیکن وہ دونوں تو جیسے سن ہی نہیں رہے تھے، لڑنے میں مصروف رھے۔
وہ آگے بڑھی، ایک ھاتھ سے علیدان کا بازو پکڑا، دوسرے سے زایان کا ، اور زور سے چینخی" آل آف یو اسٹااااپ۔"
علیدان نے زایان کو زور سے دھکا دے کر اس سے پرے کیا، اور پریشانی سے اس کے دونوں بازوں سے تھام کر پوچھا:
" آپ ٹھیک ہونا؟"
آن نے اس کی بات پر سر ہلایا اور مسکرائی، "میں بلکل ٹھیک ہوں"
اس کی مسکراہٹ دیکھ کر زایان کے دل کو سخت دھچکا سا لگا۔
"کچھ وقت ٹھریں ھنی، میں اس آدمی کو سبق تو سکھادوں۔"
لیکن آن نے اسے پیچھے سے پکڑ لیا "مت جائیں۔۔، مجھے یہاں سے جلدی لے چلیں، پلیززز۔"
علیدان اسکے چہرے کو کافی دیر تک تکتا رہا، جیسے کب سے نہ دیکھا ہو، آن نے اس کے بازو اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھے، علیدان نے اس کے چہرے کو دونوں ھاتھوں سے تھاما ھوا تھا،
"مجھے یہاں سے لے چلیں، علیدان شاہ ،ورنہ میرا دم گھٹ جائے گا۔ " آن نے جس طرح سے یہ مشکل وقت گذارا تھا، اب ایک منٹ بھی رہنا محال تھا۔
علیدان نے سر گھما کر زایان کو سرد نظروں سے گھورا، اور آن کو اپنے حصار میں لے کر باہر نکلنے لگا،
اندر اس وقت فورس بھی آگئی تھی، جنہوں نے علیدان کے حکم پر زایان کو دونوں ھاتھوں سے گرفت میں لیا ہوا تھا، علیدان پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا، ایسے تو وہ اسے چھوڑنے والا نہیں تھا۔
دروازے سے نکلنے سے پہلے آن علیدان کے حصار سے نکل کر اس کے طرف آئی سرد نظروں سے اسے دیکھا "میرا فون ؟؟ اور ھاتھ آگے بڑھایا۔۔
علیدان بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوا،
زایان نے دونوں کو ساتھ ساتھ دیکھ کر ، دل میں تکلیف محسوس کی،
زایان نے خاموشی سے ، چلتے ہوئے سائیڈ پر بنے ڈراور سے اس کا فون نکالا، اور اسکے طرف بڑھا دیا۔
آن اب پرسکون تھی، وہ مڑی اور علیدان کے حصار میں باھر نکل گئی۔
باہر کافی ساری گاڑیاں موجود تھیں، جن میں فورس کے ساتھ میڈیا بھی موجود تھی،
اور زایان کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام تھا، میڈیا کی کوریج کے بعد اعوان خاندان کا مستقبل مکمل تباہ ہونا تھا۔ اور یہ موقع زایان نے غلطی سے خود ہی علیدان شاہ کو فراہم کردیا تھا۔
بس ایک غلطی۔۔۔ ایک غلطی نے سب کچھ تباھ کردیا۔۔ سب کچھ۔
علیدان اسے کار تک لایا،
اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آرام سے بٹھا کر خود بھی ساتھ بیٹھ گیا، ان دونوں کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی، کچھ ہی دیر میں گاڑی اس خوفناک ولا سے دور نکلتی گئی۔
آن اسے دیکھتی رہی اور ایک پیاری سی مسکراہٹ نے اس کے ہونٹوں پر ڈیرا ڈال لیا تھا جیسے۔
علیدان سخت خفا تھا
" آپ نے مجھے روکا کیوں ؟ میں آج اسے اچھے سے سبق سکھاتا۔"
جاری ہے۔۔۔
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Qurbaton Se Aagy Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Qurbaton Se Aagy written by Raqas E Bismal. Qurbaton Se Aagy by Raqas E Bismal is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment