Inteqam E Laal Ishq By Parisha Mahnoor Khan New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Wednesday, 21 August 2024

Inteqam E Laal Ishq By Parisha Mahnoor Khan New Complete Romantic Novel

Inteqam E Laal Ishq By Parisha Mahnoor Khan New Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Inteqam E Laal Ishq By Parisha Mahnoor Khan Complete Romantic Novel 

Novel Name: Inteqam E Laal Ishq

Writer Name: Prisha Mahnoor Khan

Category: Complete Novel

او لڑکی بتا کدھر چھپایا ہے اپنے بھائ کو__پولیس کانسٹیبل عورت نے اسے دھکا دیا اور کمرے میں گھس گئ. .  وہ سیدھی صوفے پر جا گری .  کُہنی صوفے سے لگی تو درد کی ایک تیز لہر اس کے رگ و جاں میں سرائیت کر گئ. .  .  

نہیں ہے سعدی گھر پر. .   کُہنی کو دوسرے ہاتھ سے تھامے وہ پیچھے بھاگی. . . .  

او لڑکی ابھی ہم جا رہے ہیں مگر پھر آئیں گے تیرا بھائ آ گیا تو خود ہی بتا دینا. .  بچنے والا نہیں ہے وہ. . . .  پولیس والا انگلی اٹھا کر تنبیہ کرنے لگا. .  وہ ڈری سہمی سی پیچھے کو ہوئ.   بازوں ابھی تک درد کر رہا تھا. . .  

پولیس والے دروازہ دھڑام سے کھولتے چلے گۓ. . .  اس کی رکی سانس بحال ہوئ. . . .  

وہ گھٹنوں میں سر دے کر زمین پر بیٹھ گئ. . .  آنسؤ روانی سے اس گے گالوں سے ہوتے ہوۓ گردن کو بھگو رہے تھے. . .  

دانی. .  بیٹا دروازہ کیوں کھلا ہوا ہے. . . . .  اس کی ماں جو مارکیٹ گئ ہوئ تھی.  واپس آنے پر گیٹ کھلا دیکھ کر چونکی. . .  مگر دانی کو یوں روتے دیکھ کر تو ان کی جان ہوا ہوئ. .   

دانی میری بچی. . .  وہ بھاگتی ہوئ اس کے پاس آ بیٹھیں. .  

اماں. . .  ماں کو سامنے پا کر وہ ان کے لگے لگ گئ. .  ذیادہ رونے کی وجہ سے اس کی ہچکی بند گئ تھی. . .  ان کے گلے لگ کر اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی. . . .  

اماں وہ پولیس آئ تھی سعدی کو ڈھونڈ رہی تھی. . .  وہ ہچکیوں کے درمیان بولی. .   .  

پھر کیوں آئ تھی سعدی نہیں ہے یہاں. . . .  ان کے اپنے آنسو بہہ نکلے تھے. . . .  

بتایا تھا اماں وہ مان ہی نہیں رہے تھے. . .  وہ یوں ماں سے چپکی تھی کہ جیسے کوئ الگ کر دے گا ان دونوں کو. . . .  

بس تم چپ کر جاؤ میرا بیٹا. .  بس. .  وہ اسے تسلی دیتی تھیں چپ کرواتی تھیں مگر خود رو دیتی تھیں. . .  تین ماہ سے سعدی غائب تھا اوپر سے پولیس نے ناک میں دم کر رکھا تھا. . . .   

اماں سعدی نے کیوں مارا امان کو. . . . .  آنسوؤں سے لبریز سرخ چہرہ اٹھا ماں کو دیکھا. . . . . . . . . .  

اس نے نہیں مارا . .  میرا بچہ قتل نہیں کر سکتا اور امان تو دوست تھا اس کا وہ ایسا نہیں کر سکتا. . . .  وہ پریقین تھیں. .  ساری دنیا قصوروار ٹھہرا دے مگر ایک ماں کا دل کبھی اپنے بیٹے کو قصوروار تسلیم نہیں کرتا. . .   

اماں مجھے ڈرلگ رہا ہے . . .  واقعی وہ سہمی ہوئ تھی. .  جب جب پولیس گھر سے ہو کر جاتی تھی وہ ایسے ہی ڈری ڈری سی رہتی تھی. . . . .  

میں اساور سے بات کروں گی وہ میری بات نہیں ٹالے گا. . .  اس سے ذیادہ خود کو تسلی دی تھی انہوں نے. . . .  اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوۓ وہ سوچنے لگیں کہ اساور کو کیسے راضی کریں کیس ختم کرنے پر. . . . . . . .  

____________________________

چچی. .   ایک سولہ سترہ سالہ لڑکی بھاگتی ہوئ آ کر اس سے لپٹ گئ. . .  

کیا ہوا سومو. .  اس کے اس طرح لپٹنے پر وہ مسکرا اٹھی تھی. .  اک یہی تو تھی جس سے اس کا دھیان بٹ جاتا تھا اس گھر میں. .    ورنہ تو ہر کوئ اس کے خون کا پیاسا بنا پھرتا تھا . . .  

چچی جان. . .  میری دوستیں آ رہی ہیں کل تو وہی والا کیک بنا دیں گی جو بچھلے مہینے ہوسٹل جاتے ہوۓ بنا کر دیا تھا. . .  ٹیبل سے سیب اٹھا بائٹ لیتے ہوۓ بولی. . .  

کیوں نہیں ضرور. . .  وہ مسکرائ. . .  کٹی ہوئ مرچیں فرائ پین میں ڈھلتے ہیں شوں شوں کی آوازیں آنے لگیں. . .  

ہاۓ چکس. . .  سامنے سے آتے اساور کو دیکھ کر مسکراتے ہوۓ ہاتھ ہلایا. . .  . .  . .  

 میری گڑیا گئ نہیں. . .  وہ مسکراتے ہوۓ کچن میں ہی چلا آیا۔دانی نے رخ موڑ کر خود کو کام میں مصروف کر لیا. .  

کل شام میں جاؤں گی چکس. .  وہ چاچو کی جگہ چکس کہتی تھی. . . .  ۔۔دانی کے دل کی دھڑکن تیز ہوئ. .  

دانین چاۓ لاؤ میرے لیئے. . .  وہ  کچن سے چلا گیا. . .  

دانی کی تیز چلتی دھڑکنیں ٹھہری اور پھر معمول پر آئیں.  .  .  

اچھا چچی آپا نے بلایا تھا نہ گئ کچا چبا جائیں گی جانتی ہیں آپ ان کو. . .  سومو سیڑھیاں پھلانگتی ہوئ چلی گئ. . .  

دانین نے جلدی سے چاۓ کا پانی چڑھایا کچھ شک نہیں تھا لیٹ ہونے پر وہ شخص چاۓ اس کے اوپر ہی پھینک دیتا. . .  

________________________________________________________

چاۓ لے کر وہ روم میں داخل ہوئ تو وہ جینز اور ٹی شرٹ پہنے گاڑی کی چابی پکڑے کہیں جانے کو تیار تھا. .  اک نظر اسے دیکھا اور پھر ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال بنانے لگا. . . .  

آپ کی چاۓ. . .  وہ خوفزدہ سی چاۓ لے کر آئ. .  .  ڈریسنگ کے سامنے کھڑے کھڑے ہی اس نے چاۓ پکڑی. .  اور سپ لیا . . . . . . . . .  

اہ تھو. . .  چاۓ کا سپ لیتے ہی اسے اچھو لگے. .  

چاۓ بنانی نہیں آتی تو مت بنایا کرو. .خالہ لاڈ اٹھاتیں ہوں گی یہاں نہیں چلے گی یہ تباہی . .  وہ غصے سے اس کی طرف مڑا کپ ابھی بھی اس کے ہاتھ میں تھا. . .  وہ سہمی سی پیچھے کھسکی. .  

میں نے تو صیح بنائ تھی. . .  اس کا لہجہ کانپ رہا تھا. .  چہرہ سے خوف واضح تھا. . . .  

صیح بنائ ہے صیح ہاں یہ لو پیو پیو. . .  وہ چاۓ لے کر اس کی طرف بڑھا. .  زبردستی کپ اس کے منہ سے لگایا. .  چاۓ چھلک کر اس کی ٹھوری کو جلا گئ پیو ناں. .  . . .  پیو خود ہی. . .  وہ لمبے لمبے ڈگ بھڑتا کمرے سے نکل گیا. . . . .  

وہ سسکیوں میں رونے لگی. .  چاۓ کا کپ کارپٹ پر پڑا تھا. .   چاۓ چھلک کر اس کی ٹھوری کو جلا گئ تھی جاتے ہوۓ وہ کپ بھی اس کے ہاتھ پر گرا گیا تھا. . .  دائیں ہاتھ کا آدھا حصہ جل گیا تھا. . .  

وہ وہیں کارپٹ پر بیٹھتی چلی گئ. . .  ایسی زندگی تو اس نے نہیں سوچی تھی. .  اس کے پاس رونے کے علاوہ اب تھا بھی کیا. .  گھٹنوں میں سر دیئے وہ ہچکیوں میں رونے لگی. . . .  

________________________________________________________

ناستہ بنا کر دو. . . .  وہ جو ڈسٹنگ کر رہی تھی. .  آواز پر چونک کر مڑی. .   سامنے اساور کی بڑی بھتیجی سائرہ کھڑی تھی. .  جو شادی شدہ ہونے کے باوجود ذیادہ تر وہیں پائ جاتی تھی. .  شادی کو تین سال ہونے کے باوجود ابھی تک حالی گود تھی. . . .  

میں ڈسٹنگ کر لوں پھر بنا دیتی ہوں. . . .  اس کا لہجہ نرم تھا کچھ خوفذدہ سا بھی. .  اس کا سارا اعتماد یہاں آ کر ختم ہو گیا تھا. . . . .  

لڑکی کتنی بار سمجھایا ہے تجھے میرے آگے زبان مت چلایا کر . . .   سائرہ نے اس کی کلائ زور سے مڑوڑ کر اسے اپنی طرف گھمایا. .  دانین کے منہ سے سسکی نکلی. . .  اس کا ہاتھ پہلے ہی جلا ہوا تھا اسے مزید تکلیف ہونے لگی. . . .  

سائرہ میرا ہاتھ چھوڑیں . . .  وہ تکلیف سے بلبلا رہی تھی. . .  مگر اس گھر میں سفاک لوگ رہتے تھے کسی کے درد سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں تھا. . .  

جان پیاری ہوئ تو آئندہ اپنی زبان کو منہ کے اندر رکھنا. . .  جھٹکے سے اس کا ہاتھ چھوڑا وہ لڑکھڑا کر ٹیبل کے پاس گری پاؤں ٹیبل کی پائنتی سے ٹکرایا انگھوٹے کا ناخن اکھڑ چکا تھا اور خون نکل رہا تھا. . .  خون دیکھ کر وہ رو پڑی. . . . .  

نوٹنکی ختم ہو گئ ہو میڈم دانین تو ناشتہ بنا دو. . .  اس کے زخم کو نظرانداذ کر کے وہ ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ گئ. .  .  

درد کو برداشت کرتی آنسوؤں کو پیتی پاؤں گھسیٹتی وہ کچن میں گھس گئ. . .  

اساور کا وہ جملہ روز اس کے کانوں میں گونجتا تھا. . .  

"ونی میں آئ لڑکیوں کی یہی اوقات ہوتی ہے"اور اس کی تو کوئ اوقات رہی ہی نہیں تھی. . .  

اندر باہر سے وہ زحموں سے چور تھی کچھ دِکھتے تھے اور کچھ نہیں دِکھتے تھے۔اور یہ جو زخم دِکھتے نہیں ہے وہئ دُکھتے بہت ہیں. . . . . . .  

________________________________________________________

 صبح سے کام کر کر کے وہ ادھ موئ ہو گئ تھی مگر وہاں کس کو احساس تھا اس کا۔۔سب اپنا اپنا فرمائشی پروگرام لے کر چلے آتے تھے جیسے وہ تھکتی ہی نہ ہو جیسے وہ انسان ہی نہ ہو۔۔

وہ انکار کرتی تو دھمکیوں اور تشدد سے نوازا جاتا تھا۔۔۔

ابھی وہ اساور کی بھابھی فرمائش پر رات کے لیئے بریانی اور قورمہ سائرہ کی فرمائش پر اچار گوشت اور زائرہ کا فرمائشی کیک بنا رہی تھی۔۔۔

اس کا موبائل رِنگ کرنے لگا۔۔اس کی اماں کا فون تھا۔۔۔وہ مسکرائ تھی۔۔سارے دن کی تھکان لوگوں کی باتیں بس ماں کا فون دیکھ کر ختم ہو گئیں تھیں۔۔۔

اسلام علیکم اماں۔۔کال ریسیو کر کے کان سے لگاتی وہ وہیں ڈائنگ ٹیبل کی چیئر پر بیٹھ گئ۔۔۔

میں ٹھیک ہوں اماں جان۔۔آپ تو جا کر بھول گئیں مجھے۔۔۔وہ پرشکوہ انداذ میں بولی۔۔ایک بیٹی اپنی ماں سے ہی تو شکوہ شکایت ہر بات کہہ لیتی ہے ۔۔اور ماں سن لیتی ہے ورنہ دنیا تو بدلے میں ہنستی ہے تڑپاتی ہے مارتی ہے۔ ۔ 

نہیں میرا بچہ ایسی بات تو نہیں ہے پہلوٹی کے بچے میں تو والدین کی جان ہوتی ہے۔۔

اپیا کیسی ہیں اور چھٹکی مینا۔۔۔وہ بہن اور بھانجی کی حیریت دریافت کرنے لگی جو ترکی میں رہتے تھے۔۔۔۔۔۔اماں بھی اس کی شادی کے بعد وہیں چلی گئیں تھیں۔۔

وہ ٹھیک ہیں تم بتاؤ ٹھیک ہو اساور حیال رکھتا ہے تمہارا۔۔۔

جی اماں بہت ذیادہ۔۔۔آنسؤ آنکھوں سے بہنے کو تیار تھے مگر وہ پی گئ انہیں۔۔۔

بہت مشکل ہوتا ہے اس ہستی سے جھوٹ بولنا جو بِن کہے سب جان جاۓ۔۔اس سے بھی مشکل ہوتا ہے اذیتیں سہہ کر پھر بھی کہنا خوش ہوں میں۔۔۔ 

مجھے پتہ تھا وہ میرا مان نہیں توڑے گا بھانجا ہے میرا اتنا تو کر سکتا تھا وہ. . .  ان کے لہجے میں اساور کے لیئے محبت ہی محبت تھی۔۔۔۔

جی اماں واقعی مان توڑنے والوں میں سے نہیں ہے وہ۔۔۔اک تلخ مسکراہٹ نے ہونٹوں کو چھوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تو وعدوں سے پھر جانے والا حوابوں کو روند دینے والا انسان تھا۔۔اس نے سوچا مگر کہہ نہ پائ۔۔۔

وہ محبت بھی تو بہت کرتا ہے تجھ سے۔بس رخشندہ مزاج کی گرم ہے مگر بھابھی ہے تیری اس کی کسی بات کو دل پر نہ لینا۔اساور ہے نہ تیری ڈھال بس اس کی محبت میں برداشت کر جانا سب کچھ. . .  وہ اب ساری ماؤں کی طرخ اسے نصیحت کرنے لگی تھیں۔۔۔

اب وہ کیا بتاتی ان کو جس شخص کی حاطر وہ برداشت کرنے کی تلقین کر رہی ہیں وہی شخص تو بےرحم بنا بیٹھا ہے۔۔۔آنسؤ کا گولا اس کے خلق میں پھنسا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

اچھا اماں کھانا بنا رہی تھی جل نہ جاۓ کہیں۔۔اس نے بات ختم کر کے فون بند کر دینا چاہا مبادا اس کی ماں جان نہ جاۓ کہ کس کرب میں ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔

کیوں تو کیوں بناتی ہے کھانا ملازم کدھر ہیں۔۔۔اس کی ماں کا ماتھا ٹھنکا۔۔۔

اماں میری پیاری اماں اساور کو میرے ہاتھ کا کھانا بہت پسند ہے اس لیئے ان کے لیئے میں بناتی ہوں۔۔باقی ملازموں کے ذمے ہیں۔۔۔بڑی مشکل سے لہجے کو بھیگنے سے روکا اس نے۔۔پھر بھی ایک آنسو گال بر بہہ نکلا۔۔ادھراُدھر دیکھتے ہوۓ اسنے آنسوپونجا اگر کوئ دیکھ لیتا تو پھر شامت آتی اس کی۔۔۔۔

ہاں وہ پتر وہ تیرے ہاتھ کے ذائقوں کا تو شروع سے دیوانہ ہے۔۔۔۔اماں ہنسی۔۔دانین کو جان نکلتی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔

اچھا نہ اماں باتوں میں نہ لگائیں اللہ خافظ۔۔۔مسکرا کر کال کاٹ دی۔۔اتنی دیر سے رکے آنسو گالوں سے بہتے گردن پر پہنچ گۓ۔۔۔

چہرے کو دونوں ہاتھوں سے بےدردی سے رگڑ کر آنسو صاف کرتی وہ سالن چیک کرنے لگی۔۔

اماں کا حیال ہے یہاں ماہرانیوں کی طرح رکھا ہے مجھے کوئ انکو بتاۓ بدلے میں دی ہوئ ماہرانی بھی نوکرانی ہی ہوتی ہے۔۔۔

اس کے آنے کے بعد ملازموں کی چھٹی کر دی گئ تھی۔۔۔گھر کے سارے کام کولہو کے بیل کی طرح اس سے کراۓ جاتے تھے۔۔مارکیٹ سے کچھ لانا ہوتا اسے بیجھا جاتا تھا۔۔رات تک وہ تھکن سے چور ہو جاتی تھی۔۔

دن بھر سائرہ اور رخشندہ بھابھی اس کی جان کھا جاتیں۔۔رات کو اساور اس کی سانسیں روک دیتا۔۔۔اس کے طنز تشدد ختم ہی نہیں ہوتا تھا۔۔ایسے میں اس کے پاس پھوٹ پھوٹ کر رونے کے علاوہ اور کیا بچتا تھا۔۔۔۔۔۔

________________________________________________________

آج ہفتہ تھا۔دو دن کے لیئے کالج بند ہو گۓ تھے۔سب سٹوڈنٹس اپنا اپنا سامان پیک کر رہے تھے۔ان  چھٹیوں کا انتظار پورے ہاسٹل کو رہتا تھا۔ابھی بھی ہاسٹل سے سٹوڈنٹس ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے تھے ۔سب کے چہروں پر گھر والوں سے ملنی کے خوشی جھلک رہی تھی۔۔

وہ بھی اپنا سامان پیک کر کے تیار ہو گئ تھی۔۔۔اس کا موبائل رِنگ کرنے لگا۔۔۔

اچھا تو ندا میڈم اے۔کے مجھے لینے آ گیا ہے میں چلتی ہوں۔۔اپنی دوست ندا کے گلے لگتی ہوئ بولی۔۔۔۔

ایک اے۔کے ہے جو وقت سے پہلے پہنچ جاتا ہے اور ایک میرے موصوف ہیں جو شرم کے مارے ڈوب نہ مریں سب لڑکیوں کے سامنے کر لیں اگر مجھے پک۔۔۔ہمیشہ کی طرح اس نے اپنا دکھڑا رویا۔۔

میرے اے۔کے جیسا ہر کوئ ہو اٹس ناٹ پوسیبل۔۔اس کے گال پر چٹکی کاٹتی وہ مسکراتی ہوئ بیگ اٹھا کر ہاسٹل سے نکل آئ۔۔

سامنے ہی بلیک تھری پیس سوٹ میں اے۔کے اپنی گاڑی کے ساتھ ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔۔اسے دیکھ کر مسکرایا اور ہاتھ میں پکڑی گلاسس آنکھوں پر لگا دیں۔۔۔

ہاۓ۔۔وہ بھاگتی ہوئ اس کے پاس پہنچی ۔۔اے۔کے نے جلدی سے گاڑی کا دروازہ کھولا اس کی طرف کہ کہیں وہ آ کر گلے ہی نہ لگ جاتی اس کے۔۔۔منہ بناتے ہوۓ وہ گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔

یہ ہاۓ کیا ہوتا ہے کتنی دفعہ سمجھایا ہے اسلام علیکم کہتے ہیں۔۔۔اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔۔۔۔

اسلام علیکم جناب  اے۔کے صاحب۔۔وہ ہاتھ ماتھے پر لے جا کر جھک کر بولی تو اے۔کے کی ہنسی نکل گئ۔۔۔

کچھ نہیں۔۔۔اے۔کے نے اپنی ہنسی دبائ تھی۔۔۔

اے۔کے ایک سنجیدہ شخص تھا مگر اس لڑکی کا ساتھ اسے بہت ہنساتا تھا جو اس کی زندگی تھی۔۔۔

اے۔کے۔۔۔اس نے چہرہ اے۔کے  کے کندھے پر ٹِکا دیا۔۔۔

ہوں۔۔۔گاڑی چلاتے ایک سرسری سےنگاہ اس پر ڈال کر وہ پھر سے ونڈو سکرین کو دیکھنے لگا۔۔۔

تم شادی کے بعد مجھ سے گھر کے کام تو نہیں کرواؤ گے۔۔۔اس کا سوال اتنا معصومانہ تھا اور لہجہ بھی وہ مسکرا اٹھا۔۔۔

ہو سکتا ہے سوچوں گا۔۔۔اے۔کے کو شرارت سوجھی۔۔۔۔

واٹ۔۔۔اسےہزار والٹ کا جھٹکا لگا وہ ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھی۔۔میں تمہیں کچا کھا جاؤں گی پھر اے۔کے۔۔۔اسکا انداذ واقعی کسی ڈرائیکولا جیسا تھا۔۔۔۔

افف پاگل کرتی ہو تم ۔۔۔اے۔کے نے اس سے پنگا لے کر اپنا ماتھا پیٹا۔۔۔۔۔۔گاڑی سگنل پر رک گئ۔۔ٹریفک کا مسئلہ دن بدن طول پکڑ رہا ہے۔۔۔۔

ایک خواجہ سرا اس کی سائیڈ سے سامنے آیا۔۔وہ ایک دم بدک کر پیچھے ہوئ۔۔۔۔خواجہ سرا چونکا۔۔۔۔۔۔

کچھ دو باجی اللہ کے نام پر۔۔۔حواجہ سرا تالی بجا کر بولا۔۔وہ تو سہم کر پیچھے ہو گئ تھی۔۔اے۔کے نے والٹ سے پیسے نکال کر اسے تھماۓ۔۔خواجہ سرا جاتے جاتے پلٹا۔۔وہ جو سیدھی ہو کر بیٹھی تھی پھر سے حوفزدہ ہوئ۔۔۔

ڈر مت لڑکی خوف کو ختم کر اپنے اندر سے ابھی تو تم نے طوفانوں کے ایک جہاں کا سفر کرنا ہے۔۔حواجہ سرا شیشے پر جھکا ہوا تھا۔۔۔

آپ جائیں دیکھیں یہ ڈر رہی ہے۔۔۔اے۔کی تو جان ہوا ہوتی تھی وہ ڈر کر بھی تکلیف سہتی تو۔۔۔

ڈر مت بس یاد رکھ جو آپ کا درد برداشت نہیں کر پاتے وہی وہی پھر سارے دردوں کی وجہ ہوتے ہیں۔۔۔سگنل کھل چکا تھا۔۔گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔۔حواجہ سرا ساتھ ہی بھاگا آ رہا تھا۔۔۔

فریب اور دھوکے سلمانی ٹوپی پہن کر آتے ہیں،خبر ہی نہیں ہونے دیتے۔۔۔۔۔سگنل کھلا گاڑیاں رفتار سے آگے بڑھنے لگیں۔۔وہ خواجہ سرا اب بھی ان کی گاڑی کے ساتھ بھاگتے بول رہا تھا۔۔

جوانی آزمائش ہے جوانی صدقہ چاہتی ہے۔اپنی جوانی کے بدلے اپنی دل لگی دان کر دے۔۔ورنہ خقیت اور خواب کا فرق تاعمر رلاۓ گا۔۔۔حواجہ سرا کہیں پیچھے رہ گیا تھا۔۔مگر اس کی آواز ابھی بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔۔وہ بہت سہمی سہمی سی لگ رہی تھی۔۔وہ بہت ڈر گئ تھی۔۔۔

کچھ نہیں ہوا ابھی ہم گھر پہنچ جائیں گے یہ لوگ تو روز کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں ۔۔۔اگنور کرو۔۔۔۔۔اے۔کے اسے تسلی دینے لگا۔۔مگر پسینہ اس کے ماتھے سے بہہ رہا تھا۔۔سردی کے موسم میں بھی وہ پسینے سے شرابور تھی۔۔اور یہ سب حوف تھا حواجہ سرا کی باتوں کا نہیں خواجہ سرا کا۔۔۔۔

 ________________________________________________________

  سب کو کھانا دے کر اب وہ بیٹھی کھانا کھا رہی تھی کہ نوالہ اس کے گلے میں اٹکا۔۔

اسے کھانے میں جو چیز پسند نہیں تھی اسے وہی دی جاتی تھی وہ بھی بچی کھچی۔۔اور وہ حیران ہوتی اتنے امیر تھے یہ اور اس کی روٹی تک کو زہر کر دیتے پھر بھی۔۔۔۔۔

صبر کا گھونٹ بھرتی وہ کھانا کھا رہی تھی آخر پیٹ کی آگ کو بھی تو بجانا تھا۔۔ماضی چھم سے اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اماں جان میں نہیں کھاوں گی یہ کریلا۔۔آپ کو پتہ پھر بھی بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھی وہ نعرے لگا رہی تھی۔۔۔

آج تو کچھ نہیں ملے گا اور بہت عادتیں خراب ہو گئ ہیں تمہاری۔۔۔۔۔۔۔ہاٹ پاٹ سے روٹی نکال کر اماں نے اس کے آگے رکھی۔۔سعدی فون پر مصروف ساتھ ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔۔۔

اماں ڈانٹ رہی ہیں مجھے۔۔۔اس نے رونی سی شکل بنائ۔۔اماں کو بےاختیار اس پر پیار آیا۔۔۔

نہیں میرا دانی بچہ۔ڈانٹ نہیں رہی۔لیکن بیٹا یہ بری بات ہے تمام چیزیں اللہ کی بنائ ہوئ ہیں ہم اس میں نقص نکالنے والے یا اللہ کی بناوٹ کو ناپسند کرنے والے کون ہوتے ہیں۔۔۔اور سبزیوں سے تو انسان فِٹ رہتا ہے۔۔۔اماں نے پیار سے اسے سمجھایا۔۔اتنے میں ڈور بیل بجی۔سعدی اک مسکراہٹ ان دونوں پر اچھال کر باہر چلا گیا۔۔

واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پزا تھا۔۔۔

اماں میری بہن کو مت ڈانٹا کریں۔جو کہے مان لیا کریں۔یہ لو کوئ ضرورت نہیں کریلے کھانے کی۔تمہارا پزا۔۔۔پزا اس کے ہاتھ میں تھما کر وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔

یا ہو مان گئ تو جگر ہے میرا بھلے سے دو تین سال چھوٹا سہی پر جان ہے میری۔۔۔پزا کا پیس نکالتے ہوۓ وہ جوش سے بولی۔۔۔

اچھا اچھا تھوڑا بہنا مکھن کو بچا کر رکھو۔۔۔سعدی مسکرا دیا۔وہ اسے خوش ہی تو دیکھنا چاہتا تھا۔۔

آہم آہم۔۔اسے کھانسی لگی تو اس کا تسلسل ٹوٹا ماضی سے حال میں واپس آئ۔۔کتنا حسین ماضی تھا اس کا۔۔

اس کا گھر پرستان تھا اور وہ پری تھی پرستان کی،جو شہزادے کے انتظار میں دھوکہ کھا گئ اور اب وہی شہزادہ ظالم دیو کا روپ دھار چکا تھا۔۔۔

برتن سمیٹتی وہ اٹھی۔۔بچے ہوۓ برتن دھوۓ۔۔جلا ہوا ہاتھ درد کرنے لگا مگر وہ برداشت کر گئ۔۔۔

کھڑکی سے جھانک کر اس نے چاند کو دیکھا۔۔

اسکی.  اور چاند کی دوستی بہت پرانی تھی اپنے دکھ پر چاند بھی دکھی لگتا اپنی حوشی پر خوش لگتا تھا۔۔مگر آج اسے لگا چاند بھی ہنس رہا ہے اس پر۔۔

کیوں کہ وہ چمک رہا تھا بہت غرور کے ساتھ۔۔

تم چمکو اور چمکتے رہو۔تمہاری دوست تمہاری مکین تو غروب ہو گئ اساور کاظمی کی کی حویلی میں۔۔۔اداسی اس کے چہرے پر پھیلی ہوئ تھی۔کھڑکی بند کرتی وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔۔۔جہاں ظالم دیو ظلم کی تمام حدیں توڑے بیٹھا تھا۔۔۔

وہ بغیر آواز پیدا کیئے کمرے میں داخل ہوئ۔اسے لگا اساور سو گیا ہو گا۔۔مگر وہ ادِھراُدھر ٹہلتا فون پر کسی سے بات کر رہا تھا۔۔۔

ڈھونڈو اسے ڈھونڈنا تمھارا کام ہے معاوضہ ملے گا تمہیں۔۔وہ غصے میں تھا۔۔سعدی  رانا کی سانسیں میں اپنے ہاتھوں سے چھینوں گا۔۔۔سرسری سی نظر اس پر ڈالتے اساور نے کال منقطع کی۔۔آخری الفاظ پر دانین کا دل کانپا۔دھڑکن ساکت ہوئ۔۔بےجان نظروں سے مڑ کر اس نے اساور کو دیکھا۔۔

وہ اسے نظرانداذ کرتا بیڈ کی طرف بڑھا۔۔تکیہ اٹھا کر کارپٹ پر پھینکا۔۔۔۔وہ حیرانی سے اس کی کاروائ دیکھ رہی تھی۔۔۔

یہیں سوؤں گی تم آئندہ۔۔غصیلی مسکراہٹ کے ساتھ وہ بیڈ پر لیٹ گیا۔۔۔

اساور سردی ہے بہت میں کارپٹ پر کیسے سوؤں گی۔۔۔اس نے احتجاج کرنا چاہا مگر آواز التجا سی نکلی۔۔۔۔۔

آئ ڈونٹ کیئر مس دانین جمشید علی۔۔اساور نے کمبل اپنے اوپر اوڑھ لیا۔۔وہ اب کچھ نہیں سننے والا تھا۔۔دانین کو ساری رات یہیں گزارنی تھی ٹھٹھرتے ہوۓ سسکتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ تکیہ رکھ کر لیٹ گئ جلے ہوۓ ہاتھ کا درد،سردی کی شدت،خواب اور خقیقت کا فرق اس کی روح تک کو زخمی کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔

اس نے ایک نظر سکون سے سوۓ اساور کو دیکھا۔۔وہ اس شخص سے نفرت کرنا چاہتی تھی اور وہ نفرت کرے گی یہ اس نے ٹھان لی تھی۔۔.  

بس یہ اذیت اور تکلیف کی جنگ اسے اپنے بھائ کے بےگناہ ثابت ہونے تک لڑنی تھی۔اسے اپنے بھائ کی زندگی کو بچانے کے لیئے اس جنگ میں مر جانا پڑتا وہ مر جاۓ گی۔۔ ۔۔۔۔

ساری رات اس کی آنکھوں میں کٹنی تھی۔سردی کی شدت نے کپکپی طاری کر دی تھی اس پر۔۔اس کا دل چاہا جا کر کمبل میں دبک جاۓ مگر وہ سوچ کر ہی رہ گئ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت آسان ہے کہنا۔۔

محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔

مگر مطلب محبت کا،

 سمجھ لینا نہیں آساں۔۔

محبت پا کے کھو دینا،

محبت کھو کے پا لینا۔

یہ ان لوگوں کے قصے ہیں۔

محبت کے جو مجرم ہیں۔۔

جو مل جانے پر ہنستے ہیں۔۔

بچھڑ جانے پر روتے ہیں۔۔

سردی اس کی ہڈیوں میں گھس رہی تھی۔۔دسمبر کا مہینہ تھا۔۔ٹھنڈ کے مارے کپکپی بند گئ تھی اس کی۔۔۔ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی اس نے۔۔

نظریں بھٹک بھٹک کر اس ستم گر کی طرف چلی جاتیں جو اسے ٹھنڈی کارپٹ پر پٹخ کر خود نرم گرم بستر میں خواب و خرگوش کے مزے لے رہا تھا۔۔۔

وہ جو کبھی اس کی تکلیف پر تڑپ اٹھتا تھا وہ اتنا سنگ دل بھی ہو سکتا تھا دل ماننے کو تیار ہی نہ ہوتا۔۔۔

دانین نے اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس شخص کے ساتھ ایک خوشخال زندگی کے خواب دیکھتے ہوۓ گزارا تھا۔۔

خوابوں کے پائیدان لڑکیوں کی دسترس میں ہوتے ہیں وہ خواب سجاۓ جاتی ہیں ۔ان دیکھے رستوں پر محبت کی انگلی پکڑے چلی جاتی ہیں۔اور یہی خوابوں کے دیس تاعمر رولتے ہیں رُلاتے ہیں۔۔۔

وہ دانین جمشید علی تھی۔خواب نگر کی شہزادی۔۔اس کے خواب بےلگام گھوڑے تھے جو خواب نگر میں دوڑتے پھرتے تھے۔

اس کی خوابیدہ آنکھوں نے برسوں شہزادے کی راہ تکی تھی اور پھر شہزادہ آیا اور اس میں کھو گیا۔

خواب نگر کی وہ شہزادی خوابوں کی راہ کی مسافر بن گئ۔اور پھر چھن سے خواب ٹوٹا۔شہزادے نے ظالم دیو کا روپ دھار لیا۔۔۔

اذان کی آواز نے اس کی سوچوں پر بند باندھے۔۔کپکپاتی ہوئ وہ اٹھی۔۔تھکاوٹ اور سردی سے اس کا بدن ٹوٹ رہا تھا۔۔آہستہ آہستہ چلتی وہ کھڑکی کے پاس آئ۔۔تھوڑا سا پردہ ہٹا کر باہر جھانکا۔۔۔

کاظمی حویلی کے سامنے ہی مسجد تھی۔۔مؤذن کی اذان رات کے سکوت کو توڑ رہی تھی۔

مرغ اذانیں دے رہے تھے۔۔چرند پرند اذان کی آواز کے ساتھ اپنی پناہ گاہوں سے نکل آۓ تھے۔۔

اذان ختم ہو چکی تھی۔۔پردہ برابر کرتی دوپٹہ سر پر اوڑھے وہ وضو کرنے واش روم میں گھس گئ۔۔

وضو کر کے دوپٹہ صیح سے اوڑھا۔۔جاۓ نماز ڈالی اور نماز کی نیت باندھی۔۔ہاتھ کا درد سردی سے نڈھال ہوتا تپتا جسم اس کی آنکھوں سے بہہ رہا تھا۔۔۔

آنسؤوں سے چہرہ تر تھا۔۔۔نماز پڑھ کے ہاتھ دعا کے لیئے اٹھاۓ۔آنسوؤں نے ہچکیوں کا روپ دھار لیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ وہ سسکیاں بھر رہی تھی کہ آواز سے رونے کی اجازت نہیں تھی اسے۔۔۔۔

یااللہ مجھے ثابت قدم رکھ۔مجھے ہمت دے کہ میں اپنے بھائ کی زندگی کی جنگ جیت جاؤں۔۔سوجھی ہوئ آنکھیں بخار کی حدت سے بند ہو رہیں تھیں۔۔

میرا بھائ بہت معصوم ہے اس پر لگے الزام کو غلط ثابت کر میرے اللہ۔۔۔اس کی پھر سے ہچکی بند گئ تھی۔۔۔

میں یہ نہیں کہتی اللہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔کئیں لڑکیاں ایسی ہوں گی جو اس سے بھی بڑے بڑے ظلم کا شکار ہوں گی۔۔۔

بس میرے اللہ میری ہمت مت توڑنا۔۔۔مجھے مظبوط کر دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہچکیوں کے درمیاں وہ بولی۔۔اس سے مزید بولا بھی نہیں جا رہا تھا۔۔۔ہاتھوں کو منہ پر پھیرتی اس نے آنسؤں صاف کیئے۔۔۔جاۓ نماز لپیٹ کر دراز میں رکھی۔۔اور واپس آ کر لیٹ گئ۔۔بخار کی شدت اس کے انگ انگ کو توڑ رہی تھی۔۔تپتے جسم درد سے پھٹتے سر کے ساتھ وہ عنودگی میں چلی گئ۔۔۔۔

________________________________________________________

خالہ جان سنبھالیں اپنی ڈرپوک بیٹی کو ۔چھوٹی چھوٹی بات پر رو دیتی ہے۔۔۔وہ بمشکل اس کے خوف پر قابو پاتا اسے گھر تک لایا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔

کون ڈرپوک ہاں ڈی۔جے کسی سے نہیں ڈرتی سمجھے۔۔اپنے لیئے ڈرپوک کا لفظ سن کر وہ اپنی پرانی جون میں لوٹ آئ تھی۔۔۔

اے۔کے اور ڈی۔جے کی ماں مسکرا اٹھیں ۔وہ ایسی ہی تھی کسی بھی فیز سے پل بھر میں نکل آتی اور کبھی مہینوں لگ جاتے۔۔

خالہ جان آپ کی ڈی۔جے ابنارمل ہے آئ تھنک۔۔اے۔کے نے ڈی۔جے کو چھیڑنے کے لیئے کہا۔۔

اماں آپ دیکھ رہی ہیں اسے مجھے یعنی کے ڈی۔جے کو ابنارمل کہہ رہا ہے۔۔LLB کی سٹوڈنٹ کو۔مستقبل کی نامی گرامی وکیل کو۔۔۔ڈے۔جے اپنی ماں کی طرف دیکھتی حیرانی سے بولی۔۔۔وہ مسکرا دیں ۔ان دونوں کی نوک جھوک لگی رہتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تو کیا غلط کہھ رہا ہوں میں خالہ جان۔۔۔اس نے ڈی۔جے کو مزید چڑایا۔۔۔۔

تم ناں مجھ سے بات مت کرو ۔۔اپنے سامان کا بیگ وہی پھینکتی وہ پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئ۔۔۔۔۔۔۔۔اے۔کے کا جاندار قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔۔۔۔

________________________________________________________

سنو۔۔۔!!

محبت کرنے والے تو،

بہت خاموش ہوتے ہیں۔۔

جو قربت میں بھی جیتے ہیں۔

جو فرقت میں بھی جیتے ہیں۔۔

نہ وہ فریاد کرتے ہیں،

فقط اشکوں کو پیتے ہیں۔۔

محبت کے کسی بھی لفظ،

چرچا نہیں کرتے۔۔

وہ مر کے بھی اپنی چاہت کو،

کبھی رسوا نہیں کرتے۔۔

بہت آسان ہوتا ہے کہنا،

محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔۔

محبت ہم بھی کرتے ہیں۔۔

دانین. .  دانین ۔۔!!! نیم عنودگی میں اس نے اساور کی آواز سنی ۔۔۔اس نے آنکھیں کھولنی چاہیں مگر پلکیں من من کی ہو رہیں تھیں۔۔

دانین ۔۔!!اٹھو ناشتہ بنا کر دو۔۔۔وہ اسے جھنجھوڑ رہا تھا۔۔مگر اس کا جسم تو ہلنے سی انکاری تھا۔۔پھر سکوت چھا گیا۔۔اسے لگا اساور چلا گیا ہے۔۔۔مگر چہرے پر پڑتے پانی کے سیلاب نے اس کی تمام حسیات کو جگایا۔۔وہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔۔۔

اساور پانی کا خالی جگ لیئے کھڑا تھا۔۔جو سارا کا سارا بس پر پھینک چکا تھا۔۔پہلے ہی وہ بخار کی حدت سے دہک رہی تھی۔۔۔بھیگے وجود نے اس پر مزید کپکپی طاری کر دی تھی۔۔۔

پمشکل پلکوں کو اٹھا کر اس نے ظالم دیو کی طرف دیکھا۔۔۔جو پورے جہاں کی سختی اپنے چہرے پر لیئے کھڑا تھا۔۔۔

ماہرانی صاحبہ نیند پوری ہو گئ ہو تو ناشتہ بنا دو۔۔۔جگ کو میز پر پٹختا۔۔وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔

نیم بےجان وجود کو گھسیٹتی شال اوڑھ کر وہ کمرے سے نکل گئ۔۔۔

وہ کچن میں پہنچی کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ناشتہ بنایا اور لے کر کمرے میں پہنچی۔۔

ناشتہ کر لیں۔۔۔ٹرے ٹیبل پر رکھی۔۔۔۔۔

پرفیوم کی بوتل واپس ڈریسنگ پر رکھتا وہ آکر ناشتہ کرنے لگا۔۔۔۔

چاۓ دو۔۔۔سلائیس کا ٹکڑا منہ میں ڈالا۔۔جلدی سے دانین نے چاۓ کا کپ اٹھایا اس کی طرف بڑھایا۔۔کمزوری کی وجہ سے ہاتھ کانپا اور چاۓ چھلک کر اساور کے پینٹ پر گِر گئ۔۔۔۔اساور کا میٹر گھوما۔۔۔

جاہل عورت تمیز نہیں ہے تجھے۔۔اساور کا لہجہ وخشیانہ تھا وہ سہم گئ۔۔۔

سوری۔۔!!!! آواز کپکپائ۔۔

سوری مائ فٹ۔۔اسے زور کا دھکا دیتا وہ واش روم میں گھس گیا۔۔۔۔۔۔۔دانین کا سر بیڈ کی پائنتی سے لگا۔۔روح کی گھائل اب وہ جسم کی بھی گھائل ٹھہری۔۔۔ہاتھ سر پر لگا کر دیکھا تو خون بہہ رہا تھا۔۔۔

اس کی سانس ساکت ہوی۔وہ ڈر گئ تھی۔۔

پینٹ بدل کر وہ باہر نکلا۔۔بغیر اس پر نظر ڈالے پاؤں کی ایک مزید ٹھوکر بیڈ کے پاس بیٹھی اس خواب نگر کی شہزادی کو مارتے ہوۓ وہ لمبے لمبے ڈگ بڑھتا آفس روانہ ہو گیا۔۔۔

بہتے خون کو دیکھتی وہ رو پڑی تھی۔۔۔ماضی کی اک یاد آنکھوں کے پردے پر لہرائ۔۔

بےبی پنک پاؤں تک آتی فراک ،مانگ کی صورت میں بالوں کو دونوں کندھوں پر پھیلاۓ وہ اپنی دوست کی شادی میں جانے کے لیئے تیار تھی۔اساور لینے آیا تھا اسے۔پک اینڈ ڈراپ کی ڈیوٹی دانین کی وہی سرانجام دیتا تھا۔۔۔۔

پوری طرخ سے تیار ہو کر اس نے چوڑیاں پکڑیں اور بہننے لگئ۔۔۔ایک چوڑی اس کے ہاتھ میں ٹوٹ گئ۔۔۔۔ ۔ہاتھ کی پشت پر چھوٹی سی خراش آئ اور خون کا ننھا سا قطرہ ابھرا۔۔خون دیکھ کر اس کی جان ہوا ہوئ۔۔

اس نے زور سے چیخ ماری۔۔لاؤنج میں بیٹھے،اساور ،سعدی اور اس کی امی گھبرا گئیں۔۔بھاگتے ہوۓ اس کے کمرے کو پہنچے۔۔۔

کیا ہوا۔۔۔سعدی جلدی سے اس کے پاس پہنچا۔۔۔لہجہ پریشان تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے ہاتھ پر چوٹ لگ گئ۔۔۔اس کے آنسو نکلنے کو بےتاب تھے۔۔۔

دکھاؤ مجھے۔۔۔اساور نے تڑپ کر اس کا ہاتھ پکڑا۔۔چوٹ چھوٹی تھی مگر اساور کو اسے تکلیف دینے والی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی پریشان کرتی تھی۔۔۔۔

سعدی فرسٹ ایڈ باکس لاؤ۔۔اساور نے اس کا ہاتھ زور سے پکڑے سعدی کی طرف دیکھا۔۔وہ بھاگ کر فرسٹ ایڈ باکس لے آیا۔۔۔

جب تک اس کی پٹی نہیں ہو گئ۔دانین کی چیخیں گھر بھر میں گونج رہیں تھیں۔۔پٹی ہوی تو وہ چپ ہوئ۔۔۔

ذیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔۔وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اسے بہت چوٹ لگ گئ ہو۔۔۔

پریشان مت ہو بیٹا اتنی بڑی چوٹ نہیں ہے۔۔۔اس کی اماں نے اساور کو مطمئن کیا۔۔۔

اماں مجھے آرام کرنا ہے۔۔چھوٹے سے زحم سے اس کو کمزوری ہو گئ تھی۔۔

اور شادی۔۔۔

نہیں جا رہی دیکھیں طبیعت خراب ہے اس کی۔۔۔سعدی اور اساور بیک وقت بولے ۔ دانین نے مسکرا کر ماں کو دیکھا۔۔جو سر جھٹکتی مسکراتی ہوئ باہر چلی گئیں۔۔۔

سر میں درد کی ٹیس شدت سے ابھری تو وہ ماضی کی یاد سے باہر نکلی۔۔۔

اس کا حال اور مستقبل اس کے ماضی سے بہت مختلف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔

خود کو گھسیٹتی وہ ڈریسنگ کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔۔سر اچھا خاصا پھٹ چکا تھا۔۔خون ابل ابل کر بہہ رہا تھا۔۔اسے لگا وہ مر جاۓ گی مگر وہ تو بےہوش تک نہ ہوئ مرتی کیا۔۔۔

موج عشق کی تلاطم حیز روانی

جیسے اجڑا ہوا دریا بکھرا ہوا پانی

تیری آنکھوں کی سرخی کا بیان

تیری شب بھر کی اداسی کی کہانی

ڈریسنگ کے سامنے بیٹھی وہ سر سے نکلتے خون کو دیکھ رہی تھی۔۔۔

صیح کہا ہے کسی نے ماں باپ کے گھر چھوٹی سی چوٹ پر گھر سر پر اٹھا لینے والی لڑکی سسرال میں بڑی سے بڑی چوٹ بھی چپ کر کے سہہ جاتی ہے۔۔۔

دوپٹے سے بےدردی سے اس نے چوٹ کو رگڑا۔زخم مذید رسنے لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اٹھی اور جا کر منہ دھو کر کچن میں گھس گئ۔۔دن بھر نوکروں کی طرح اس سے کام لیا جانا تھا اب۔درد محسوس کرنے کا وقت کہاں تھا اس کے پاس۔۔۔

دانی۔۔!!!ناشتہ بناؤ جلدی سے میرے اور ماما کے لیئے۔اور ہاں مجھے پوریاں اور ماما کو آلو کے پراٹھے بنا دو۔۔۔سائرہ اپنا فرمائشی پروگرام لے کر خاضر ہوئ۔۔اس کی چوٹ دیکھی اور مسکرا دی۔_اس کے درد پر سکون ملتا تھا اسے۔۔۔

جی آپ جائیں میں بنا کر کمرے میں بجھواتی ہوں۔۔بخار کے مارے اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ٹانگیں شل ہو رہیں تھی۔۔۔

پانی پیتی سائرہ نے اک نظر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پکڑا گلاس نیچے پھینک دیا.  ۔۔

کانچ کے ٹوٹنے کی آواز گونجی۔۔دانین نے سہم کر سائرہ کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

کانچ سمیٹ لینا۔۔۔اک ادا سے مسکراتی سائرہ کچن سے چلی گئ۔۔۔

جلدی جلدی ان کے لیئے ناشتہ بنایا۔۔۔پھر لے کر کمرے میں پہنچی۔۔۔۔سائرہ اور اس کی ماں بیٹھی ٹی وی انجواۓ کر رہیں تھیں۔۔اس پر نظر پڑتے بھابھی کا مسکراتا چہرہ پتھر ہوا۔لب بھینچ لیئے۔۔آنکھوں میں غصہ نفرت خقارت جانے کیا کچھ در آیا۔۔۔

دانین کو لگا وہ اک منٹ اور یہاں رکی تو اس کا سانس بند ہو جاۓ گا۔۔سانس بند نہ بھی ہوا بھابھی اسے کچا کھا جائیں گی۔۔۔۔

ٹرے ان کے سامنے رکھتی وہ جلدی سے کمرے سے نکل آئ۔۔۔

وہ بھاگتے ہوۓ کچن میں پہنچی۔۔ٹوٹے کانچ کو وہ فراموش کر چکی تھی جو سیدھا اس کے دائیں پاؤں میں گھسا۔۔اس کے منہ سے سسکی نکلی۔۔۔

وہ وہیں بیٹھ گئ مارے درد کے اس کی گھگھی بند گئ تھی۔۔اس کا دل دھاڑیں مار مار کر رونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔مگر وہاں اس کا رونا سننے والا کوئ نہیں تھا۔۔جو کہتا تھا کبھی کہ آنسوں نہیں آنے دوں گا آنکھوں میں وہ شخص پتھر ہو چکا تھا۔۔۔

چچی ناشتہ وہ۔۔۔!!!سومو کو بریک لگا اس نے کچن میں سسکتی ہوئ دانین کو دیکھا ۔..

پاس پڑے جھاڑو سے کانچ کو ایک سائیڈ کرتی وہ اس کے پاس بیٹھ گئ۔۔جو گھٹنوں میں سر دئیے بےآواز ہچکیوں سے رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔

چچی۔۔سومو نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اسے ایک دم جھٹکا لگا۔۔دانین آگ بنی ہوئ تھی۔۔۔بخار نے اس کے جسم کو تپا دیا تھا۔۔۔

چچی بخار ہے آپ کو تو۔۔۔سومو پریشان ہوئ۔۔۔

کچھ نہیں ہوتا سومو ٹھیک ہوں میں۔۔۔دانین نے گھٹنوں سے سر اٹھایا تو سومو کو دھچکا لگا۔۔اس کے سر سے بھی خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

چچی یہ سب کیا ہے بخار سر اور پاؤں سے خون۔۔۔سومو کا لہجہ بھیگا۔۔۔

کچھ نہیں سومو۔۔یہ کانچ لگ گیا تھا پاؤں میں۔۔۔وہ مسکرائ ۔۔نم آنکھوں سے مسکرانا اذیت کی انتہا تھی۔۔۔

چکس نے ہاتھ اٹھایا آپ پر۔۔۔سومو کے لہجے میں دبا دبا غصہ در آیا۔۔۔۔.چلیں آپ میرے ساتھ ہوسپٹل۔۔طبیعت ذیادہ خراب ہو گئ یا کچھ ہو گیا آپ کو تو۔۔سومو پریشان تھی اس کے لیئے۔۔۔

بےفکر رہو سومو بہت ڈھیٹ جان ہوں کچھ نہیں ہو گا مجھے۔۔۔سومو کے اتنی فکر پر اس کا لہجہ بھرا گیا۔۔۔

چچی میں کچھ نہیں سنوں گی چلیں میرے ساتھ۔۔۔اسے ہاتھ سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتی ہوئ بولی۔۔۔۔۔

سومو کام ہے ابھی مجھے بہت بعد میں چلیں گے۔۔۔اس نے اختجاج کرنا چاہا مگر سومو پر کوئ اثر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے کھینچتی ہوئ اپنے ساتھ لے جا رہی تھی۔۔جلا ہوا ہاتھ زخمی پاؤں پھٹا ہوا سر اتنا درد کر رہے تھے کہ اس نے خاموشی اختیار کر لی۔۔۔۔

ڈرائیور انکل گاڑی نکالیں۔۔۔سومو نے ڈرائیور کو آواز دی۔۔جو سامنے بیٹھا ہوا تھا۔۔۔

سوری چھوٹی بی بی اساور صاحب کا حکم ہے دانی بی بی کو کہیں نہیں لے کر جانا۔۔۔ڈرائیور کی بات پر تو سومو کو آگ لگ گئ۔۔دانین کا دل ڈوبا۔دل نے وہ پانی رسنا شروع کیا جو آنکھ سے نکل کر آنسو کہلاتا ہے۔۔۔۔

صیح ہے مت لے کر جائیں آپ میں خود لے جاؤں گی۔۔۔فرنٹ ڈور کھول کر سومو نے دانین کو بٹھایا۔۔۔پھر گھوم کر ڈرائیور کے پاس آئ۔۔اس کے ہاتھ سے چابی کھینچی۔۔۔

گاڑی میں بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کی اور زن سے بھگا کر لے گئ۔۔۔

پیچھے کھڑا ڈرائیور اساور کے غصے سے ڈر گیا۔۔جلدی سے اساور کو کال لگائ۔۔۔

صاحب وہ سومو بیٹی دانین بی بی کو لے کر کہیں چلی گئیں ہیں۔۔۔

صاحب روکا تھا وہ مجھ سے چابی لے کر خود ڈرائیو کر کے چلیں گئیں۔۔۔۔

معاف کر دیں صاحب۔۔۔ڈرائیور کو اچھی خاصی شاید سنائ گئیں تھیں۔۔۔وہ ڈر گیا تھا۔۔۔

صاحب۔۔۔!!!اس کی بات منہ میں ہی رہ گئ۔۔دوسری طرف سے کال کاٹ دی گئ تھی۔۔۔

کرے کوئ بھرے کوئ۔۔۔ڈرائیور بڑبڑاتے ہوۓ اپنے کواٹر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔

________________________________________________________

آج اتوار کا دن تھا۔۔ڈے۔جے گدھے گھوڑے بیچ کر سو رہی تھی۔۔ہاسٹل سے گھر آکر اس کا یہی تو کام ہوتا تھا کھانا پینا اور سو جانا۔۔۔

پراٹھوں کی خوشبو سارے گھر میں پھیلی ہوئ تھی۔۔گرما گرم پوریاں راشدہ بھیگم اماں بی کے ساتھ تل رہیں تھیں۔۔۔

پراٹھوں کی مہک اسے لگی تو وہ فوراً اٹھ بیٹھی کھانے پینے کی وہ بہت شوقین تھی۔۔۔

چھلانگ لگا کر بیڈ سے اتری۔۔بکھرے بالوں کو کیچڑ میں جھکڑتی بغیر منہ دھوۓ وہ کچن کی طرف بھاگی۔۔۔

یاہو۔۔پوریاں۔. .  وہ خوشی سے چہکتی اماں بی کے گلے لگ گئ جو ان کی ہاں برسوں سے نوکرانی تھیں اب تو وہ گھر کا فرد بن چکی تھیں۔۔۔۔۔۔

خبردار ہاتھ لگایا. .  تو پہلے خلیہ درست کرو۔۔پراٹھا تلتی راشدہ بھیگم نے چمٹا اس کے الٹے ہاتھ پر مارا۔۔۔

اففف اماں ۔۔۔بعد میں ہو جاؤں گی فریش ناں پلیز ابھی کھانے دیں۔۔۔اسنے ہاتھ پوریوں کی طرف بڑھایا۔۔۔۔

ڈی۔جے جاؤ۔۔۔اس بار راشدہ بھیگم نے باقائدہ آنکھیں نکالیں۔۔۔ڈی۔جے نے رونی سی صورت بنا کر ماں کو دیکھا۔۔

باہر سے آتا اے۔کے اس کے تاثرات دیکھ کر ہنس پڑا۔۔۔

اسلام علیکم خالہ جان۔۔۔اے۔کے کچن میں ہی چلا آیا۔۔زبردست سا ناشتہ دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔۔۔

تم کیا صبح سویرے یہ سوکھا بوتھا لے کر پہنچ جاتے ہو۔بڑے کوئ ویلے انسان ہو۔۔۔کہتے ہوۓ اس نے ہاتھ دوبارہ سے پوریوں کی طرف بڑھایا۔۔۔راشدہ بھیگم نے چمٹے کا کاری وار کیا تو وہ سی کر کے رہ گئ۔۔ ۔۔۔

یہ آج مطلع ابر آلود کیوں ہے۔۔۔اے۔کے مسکرایا۔۔اور شیلف پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔

یہ جو تمہارا مطلع ہے کھا کھا کر پھٹ جاۓ گا مگر کھانے سے باز نہیں آۓ گا۔۔۔اماں بی نے بھی اپنا خصہ ڈالا۔اے۔کے کا قہقہ بےساختہ تھا۔۔۔۔

اماں بی آپ بھی ۔۔۔۔ڈی۔جے کو صدمہ ہوا۔۔۔۔

کہہ تو ٹھیک رہیں ہے اماں بھی۔تھوڑا اپنے وزن پر دھیان دو پھٹنے کو بےتاب ہی ہو۔۔۔۔راشدہ بھیگم نے بھی اسے چھیڑا۔۔

آپ میں سے کوئ مجھ سے بات مت کرے۔۔۔منہ پھلاتی وہ پاؤں پٹختی کمرے میں گھس گئ۔۔۔

مائینڈ کر گئ وہ۔۔حالہ وزن کی بات پر وہ ناراض ہو جاتی ہے نہ کیا کریں ناں۔۔۔اے۔کے کو برا لگا تھا یوں اس کا مذاق بننا۔۔۔

کوئ ناراض نہیں ہوتی ابھی پوریوں کی خوشبو پا کر بےصبری دوڑتی چلی آۓ گی۔۔۔۔۔اماں بی نے کہا تو اے۔کے اور راشدہ بھیگم مسکرا کر رہ گۓ۔۔۔۔

________________________________________________________

محبت سمیٹ لیتی ہے

زمانے بھر کے رنج و غم

سنا ہے دوست اچھے ہوں تو__

کانٹے بھی نہیں چبتے۔۔۔۔۔!!!!!

مری کی ٹھنڈ تو ویسے ہی ہڈیوں کو چیرتی ہے اوپر سے دسمبر کا مہینہ تھا۔۔خنکی فضا میں پھیلی ہوئ تھی۔۔

آسمان نے چاند کو اپنے اندر سمویا تو دن کی سفید چادر نے دنیا کو اپنی آغوش میں لیا۔۔۔

ایسے میں لارنس کالج مری کے سٹوڈنٹس بستروں میں دبکے خواب و خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔۔

وارڈن جہاں داد کی کڑک آواز پر سب آنکھیں ملتے بستر چھوڑ کر واش روموں کو بھاگے۔۔۔

سردی سے بچنے کے لیئے اوپر نیچے جلدی جلدی شرٹیں چڑھا کر گراؤنڈ کی طرف دوڑ لگا دی۔۔۔

ابے سعدی تو نے پھر میری بنیان پہنی چھٹی کے بعد تجھے پوچھتا ہوں۔۔۔لائن میں لگے لڑکے بھاگ رہے تھے ان میں ہی بھاگتے ہوۓ امان دبی آواز میں غرایا۔۔۔

کیا یار تیری بنیان میری بنیان اور میری بنیان بھی میری ہی بنیان۔۔۔سعدی نے اسے چھیڑا۔۔۔۔۔

یہ ایڈوانس تھا۔۔امان نے اِدھراُدھر دیکھتے ہوۓ اس.  کی کمر میں دھموکہ مارا۔۔۔۔باقی ادھار۔۔۔۔

تیری تو ۔۔۔سعدی اس کی طرف بڑھا۔۔۔۔

سعدی رانا اور امان کاظمی۔۔۔۔وارڈن جہاں داد کی آواز پر سعدی کا امان کی طرف بڑھتا ہاتھ رکا۔۔۔۔

تم دونوں نے ناک میں دم کر رکھا پورے کالج کے کل بھی سیکنڈ ایئر کے شفیق نے تم دونوں کی شکایت کی ہے ۔۔۔وارڈن جہاں داد کی آواز کرک اور اپنی تیز تھی کہ بندہ سن کر دو قدم پیچھے کھسکتا۔۔۔

اس شبو کو بھی زبان لگ گئ۔۔۔امان بڑبڑایا۔۔سعدی نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔

کیا بول رہے ہو اونچا بولو۔۔وارڈن جہاں داد اپنی اذلی انداذ میں بولا۔۔۔۔

سوری۔۔۔یک لفظی ادائیگی دونوں نے بیک وقت کی۔۔۔اور سر جھکا کر منہ پر معصومیت طاری کر کے کھڑے ہو گۓ۔۔۔۔۔

ابھی جانے دے رہا ہوں اگلی بار پرنسپل کے پاس لے جاؤں گا۔۔۔اپنی کرک آواز میں وارڈن جہاں داد انہیں وارن کرتا ہوا چلا گیا۔۔۔

وہاں کھڑے اکا دکا سٹوڈنٹس کی ہنسی چھوٹی۔۔۔

تم لوگوں کی۔۔۔سعدی نے جو آنکھیں دکھائ سب فوراً وہاں سے رفو چکر ہو گۓ۔۔۔

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئیں ہیں

لیکن آج بہت بےآبرو ہو کر وارڈن کے شر سے ہم نکلے۔۔۔امان نے غالب کے شعر کو بگاڑتے ہوۓ سرد آہ بھری۔۔۔۔۔۔

چل بیٹا اسمبلی میں نہ پہنچے تو پرنسپل نے بہت بےآبرو کر کے ہمیں کالج سے نکالنا ہے۔۔۔سعدی نے بھی سر آہ بھری ۔دونوں شکل پر شیطانی معصومیت سجھا کر سر جھکاۓ گراؤنڈ کی طرف بڑھ گۓ۔۔۔۔۔۔

________________________________________________________

اک جذبہ چاہت کا

من میں میرے جاگا ہے

چھوڑ کر دل کی دھڑکن حالی

جب دل لے کے وہ بھاگا ہے. .  

میں بیٹھا تھا سوچوں میں گم

زور پہ اس دن بارش تھی

سارے موسم کھل اٹھے تھے

دور کہیں اک سازش تھی

تب جو تم سے پیار ہوا تھا

کیا فرمانا وہ عجب تھا

جب یہ پوچھا نام بتا دو

دل دیا ہے جاں بھی دیں گے

گر یہ احساں تم جتا دو. .  . .  

میں نے پوچھا کیسے جانا

اس کا کہنا دل نے مانا

خلق پر تیرے مر مٹے ہم

اب نہ کرنا کوئ بہانہ. . .  

سوال ہوا اب منزل کا

جواب ملا بہت قریب

رہتے ہیں ہم سانسوں میں

موبائل کی میسج ٹون بجی تو کتابوں میں سر دیئے بیٹھی ڈی۔جے

چونکی. . . .  کل ہی وہ ہاسٹل واپس آ گئ تھی۔۔وہ اور آنیہ کل کے ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھیں۔۔۔ڈی۔جے نے فون اٹھا کر دیکھا سامنے اے۔کے کا نام جھگمگا رہا تھا۔۔۔اک مسکراہٹ بےاختیار اس کے ہونٹوں پر رقص کرنے لگی۔۔

آنیہ نے سر اٹھا کر مسکراتے ہونٹوں اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ اسے میسج پڑھتے دیکھا۔۔۔

خیر ہے کیوں مسکایا جا رہا ہے۔۔۔پین کان کے پیچھے لگاتی آنیہ نے اسے چھیڑا۔۔۔

اے۔کے نے نظم بھیجی ہے۔۔۔وہ ہلکا سا شرمائ۔۔آنیہ کی ہنسی چھوٹ گئ۔۔۔

کیا ہے۔۔۔ڈی۔جے چڑ گئ۔۔۔

یار شرما کیسے رہی ہو تم ۔۔۔۔

دفعہ ہو۔۔۔۔انیہ کو دھکیلتی وہ موبائل لے کر بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔

ویسے یار رشک آتا ہے تجھ پر اتنا مخبت کرنے والا اوپر سے ڈیشنگ بندہ واہ یار۔۔۔آنیہ نے کھلے دل سے تعریف کی۔۔ڈی۔جے مسکرا دی۔۔واقعی اس نے اپنے آپ کو بہت خوش قسمت تصور کیا۔۔۔

چل تو پڑھ میں بزی ہوں ابھی۔۔۔موبائل کان سے لگاتی ڈی۔جے نے آنکھ دبا کر کہا۔۔آنیہ دوبارہ کتابوں میں گھس گئ۔۔

ڈی۔جے مسکراتی ہوئ فون پر بات کرنے میں مصروف تھی۔۔

________________________________________________________

ریش ڈرائیو کرتی سومو دانین کو لے کر ہسپتال پہنچی۔۔ڈاکٹر سومو کی دوست کی بہن تھی تو ان کو آسانی سے اپائمنٹ مل گئ۔۔۔

سر پر چوٹ کیسے لگی آپ کے۔۔۔ڈاکٹر اس کا معائنہ کرنے کے بعد اب سر پر پٹی کر رہی تھی۔۔۔

واش روم میں گِر گئ تھی۔۔۔دانین نے جھوٹ بولا۔۔آنکھیں جھکی ہوئ تھیں۔۔۔

تو آپ کو اختیاظ کرنی چاہیئے مس کاظمی۔۔پاؤں بھی زخمی کیا ہوا ہے ہاتھ بھی جلایا ہوا ہے۔۔۔ڈاکٹر اچھی خاصی بھرکی تھی اس پر بھلا ایسی بےپرواہی کون کرتا ہے۔۔۔

تھوڑی بےپرواہ سی ہوں تو لگ گئ۔۔آئندہ خیال رکھوں گی۔۔۔نظریں ابھی تک جھکی ہوئ تھیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہی ہوں۔۔۔۔

پٹی کر دی ہے میں نے آپ کی۔۔کچھ دوائیاں لکھ رہی ہوں لے لینا آپ۔۔پریسکریپشن ڈاکٹر نے سومو کی طرف بڑھایا۔۔جسے سومو نے ہاتھ بڑھا کر پکڑ لیا۔۔۔۔

خدیجہ آپی اور تو کوئ مسئلہ نہیں ہے ناں۔۔۔سومو پریشان تھی۔کتنے کیسز ایسے دیکھے تھے اس نے جب چوٹیں بِگڑ کر ناسور بن جاتی ہیں۔۔۔۔۔

نہیں یہ ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔ڈاکٹر خدیجہ نے مسکرا کر جواب دیا۔۔

ٹھیک ہے ہم چلتے ہیں ڈاکٹر۔۔خداخافظ کہتیں وہ دونوں دروازے تک پہنچیں. .  جب ڈاکٹر کی آواز سنائ دی۔۔۔

سومو۔۔۔

جی خدیجہ آپی۔۔۔سومو پلٹی۔۔۔

جب تک ان کے زخم ٹھیک نہیں ہو جاتے ان کو گھر کا کوئ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ڈاکٹر نے ہدایات دیں۔۔۔

شیور۔۔۔سومو نے کہا اور دانین کو لے کر ہسپتال سے نکل آئ۔۔۔۔

________________________________________________________

رات ہونے کو تھی اور دانین اور سومو کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا۔۔۔

کہاں ہوتی ہیں آپ بھابھی اور تم سائرہ روک نہیں سکتی تھی سومو کو۔۔۔۔اساور غصے میں اِدھراُدھر چکر کاٹتا پھر رہا تھا۔۔۔

میں کمرے میں تھی چاچو اور سومو کا پتہ ہے آپ کو کتنی ضدی ہے کسی کی نہیں سنتی۔۔۔سائرہ نے اپنی صفائ پیش کی۔۔اساور کے سامنے اس کی بھی بولتی بند ہو جاتی تھی۔۔۔۔

اور بھابھی آپ. . . .  اس کی بات منہ میں ہی رہ گئ. . نظر دروازے پر پڑی۔۔جہاں سے سومو لنگڑا کر چلتی دانین کو سہارا دے کر لا رہی تھی۔۔ان کے ساتھ اک درمیانی عمر کی عورت بھی تھی جو اماں بی کی بیٹی تھی۔. .  ۔۔۔

سومو کیا طریقہ ہے یہ بیٹا ہم یہاں پریشان ہو رہے ہیں اور آپ نے بتانا بھی گوارا نہیں کیا۔۔۔اک نظر دانین پر ڈال کر وہ سومو کی طرف مڑا۔۔۔۔۔

دانین آپی کو ہسپتال لے کر گئ تھی۔۔۔اس نے چچی کی جگہ آپی کہا جو وہ پہلے کہا کرتی تھی۔۔پھر اساور سے شادی کے بعد چچی کہنے لگی تھی۔۔۔

کیوں اس ماہرانی کو کیا ہوا ہے۔۔۔سائرہ نے سر تا پیر اس کا جائزہ لیا۔۔وہ سہم گئ۔۔۔

کل آپ کو بھی لے چلوں گی آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس سائرہ آپی۔۔دکھ نہیں رہا کتنی چوٹیں آئ ہیں۔۔۔سومو نے دوبدو جواب دیا ۔ ۔۔اس کی بات پر اساور نے دانین کو دیکھا۔۔جس کے سر پر پٹی بندھی ہوئ تھی۔۔پاؤں کا زخم لنگڑا کر چلنے کی وجہ تھی۔۔۔جلے ہوۓ ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئ تھی۔۔۔اس کے دل کو کچھ ہوا۔۔۔دانین نے جھکی پلکیں اٹھا کر بھری آنکھوں کے ساتھ پرشکوہ انداذ میں اسے دیکھا۔۔

اساور نے نظریں پھیر لیں ۔۔۔۔

پھر بھی بیٹا تمہیں بتانا چاہیئے تھا ۔۔۔اساور تھوڑا نرم پڑا۔۔۔

اساور چچا بتاتی تو تب جب آپ نے ان کے گھر سے باہر جانے پر پابندی نہ لگائ ہوتی۔۔۔سومو کے لہجے سے ناراضگی عیاں تھی۔۔وہ جب بہت ذیادہ ناراض ہوتی اسے چچا کہتی تھی۔۔۔

یہ کون ہے۔۔۔رخشندہ بھابھی نے پیچھے کھڑی درمیانی عمر کی عورت کی طرف اشارہ کیا۔۔

یہ اماں بی کی بیٹی ہیں۔۔گئ تو میں اماں بی کو لینے تھی مگر ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔۔تو ان کو لے آئ۔۔۔سومو نے کہا۔۔۔

کیوں۔۔۔سائرہ نے اپنے اذلی بدتمیز انداذ میں سوال کیا۔۔۔

کیوں کہ دانین آپی کو چوٹ آئ ہے ڈاکٹر نے آرام کا کہا ہے۔۔تو یہ اب سے کوئ کام نہیں کریں گی گھر کا جو کام ہو فقیراں بی کو بتا دینا۔۔۔۔۔۔سومو نے کہا تو سائرہ اور رخشندہ کا مارے غصے کے برا خال ہو رہا تھا۔۔۔۔

اتنی بڑی ہو گئ ہو کہ اپنی ماں سے پوچھے بغیر فیصلے لو۔۔۔رخشندہ بھابھی نے آگے بڑھ کر ایک زوردار تھپڑ سومو کو رسید کیا۔۔۔

کیا کر رہی ہیں بھابھی بچی ہے۔۔۔اساور نے سومو کو کھینچ کر ان کے آگے سے ہٹایا۔ورنہ دوسرا تھپڑ بھی تیار تھا۔۔۔

بچی ہے تو بچی بنے میری ماں نہ بنے۔اس گھر کے فیصلےمیں لیتی تھی اور میں ہی لوں گی۔۔۔رخشندہ بھابھی کا غصہ ساتویں آسمان پر تھا۔۔۔۔سائرہ مسکرائ۔۔

ٹھیک ہے آپ چلائیں حکم جس پر چلانا ہے میں چلی جاتی ہوں۔۔۔سومو نے دانین کا ہاتھ پکڑا اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔

رکو رکو سومو بیٹا فقیراں بی یہیں رہیں گی آپ کہیں مت جاؤ۔۔اساور نے سومو کا ہاتھ پکڑا۔۔۔رخشندہ اور سائرہ تو خیران تھیں سومو اتنی خودسر کب سے ہوگئ تھی۔۔۔

آپ سب سن لیں دانین پر مزید ظلم نہیں ہونے دوں گی میں۔۔۔سومو تقریباً چیخی ہی تھی۔۔ 

کتنی چلتر لڑکی ہو تم میرا بیٹا تمہارا بھائ کھا گیا اور اب میری بیٹی کو تم نے میرے ہی خلاف کر دیا۔۔۔رخشندہ بھیگم پھپھری ہوئ دانین کی طرف بڑھیں۔۔۔

ماما پلیز ۔۔۔سومو دانین کے آگے کھڑی ہو گئ۔۔رخشندہ وہی رک گئ۔۔۔نہیں مارا سعدی نے امان بھیا کو اگر مارا ہوا ہے پھر بھی دانین کو سزا دینے کی کیا تُک بنتی ہے۔۔۔سومو غرائ۔۔دانین تو رخشندہ سے سہم کر سومو کے پیچھے چھپ گئ تھی۔۔۔۔

سومو۔اب آپ بدتمیزی کر رہی ہیں۔. اساور کو اس کے لہجے سے ذیادہ سعدی کو بےگناہ کہنا برا لگا تھا۔۔۔۔۔۔۔

او پلیز بدتمیزی کی بات مت کریں آپ۔وہ کیا ہوتی ہے دانین کا جلا ہاتھ اور پھٹا سر بتا رہا ہے۔۔۔سومو نے سارا لخاظ آج بلاۓ طاق رکھ دیا تھا۔۔اساور کی نظریں جھک گئیں۔۔۔۔۔۔

فقیراں بی دانین آتی کو روم میں لے جائیں۔۔سومو نے فقیراں بی کو کہا جو دانین کا ہاتھ پکڑ کر لنگڑاتی ہوئ دانین کو لیئے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔

چچا آپ سے یہ امید نہیں تھی مجھے۔۔۔اساور سے شکوہ کرتی وہ اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔

تم نے دیکھا اساور کیسے سومو میرے بیٹے کے قاتلوں کی سائیڈ لے رہی ہے۔۔میرا امان تو مر گیا نا ۔میرا منتوں مانگا بیٹا۔میرا جگر کا ٹکڑا۔۔۔رخشندہ بھیگم کی آہ و پکار شروع ہو چکی تھی۔۔سائرہ اور اساور کے لیئے پھر ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔۔۔

یہاں ہر طرف ہے عجب سماں

سب ہی خود پسند سبھی خودنما

دل بےسکوں کو نہ مل سکا 

کوئ چارہ گر بڑی دیر تک

مجھے زندگی ہے عزیز تر

اسی واسطے میرے ہمسفر

مجھے قطرہ قطرہ پِلا زہر

جو کرے اثر بڑی دیر تک

سومو کیا تھا یہ سب۔۔سائرہ دھڑام سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئ۔۔۔۔

سومو نے جلدی سے تکیہ کے نیچے کچھ چھپایا۔۔سائرہ کے اس طرح آنے سے وہ سٹپٹا گئ تھی جیسے کوئ چوری پکڑی گئ ہو۔۔مگر سائرہ کا دیہان اس طرف نہ گیا۔۔۔

کیا کر دیا ہے اب میں نے آپیا۔۔سائرہ کے چہرے کے تاثرات جانچتی وہ الماری کھول کر کھڑی ہو گئ جیسے چہرے پر چھائ سرخی کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہو۔۔۔۔

امان چلا گیا اب تم بھی چھوڑ جانے کی بات کر رہی ہو تو ماما ڈر گئ ہیں تم سے۔۔سائرہ کا لہجہ تیز تھا۔

ماما کو کہنا مجھ سے مت ڈریں میں تو بول کر دل کی بھراس نکال لیتی ہوں۔ڈرو دانین سے وہ چپ رہ کر سہہ جاتی ہے یاد رکھو اپیا مظلوم کے چپ کا حساب اللہ لے لیتا ہے وہ ناانصافیوں کو بحشتا نہیں ہے۔سومو کا لہجہ نرم مگر مظبوط تھا جو سیدھا دل پر اثر کرتا مگر سامنے سائرہ کاظمی تھی جذبات کو جوتی کی نوک تلے مسل دینے والی۔۔۔

تم کیوں اتنی طرف داری کرتی ہو اس کی۔۔۔سائرہ کے غصے کا میٹر بڑھ رہا تھا۔۔۔

اپیا رحم کریں اس پر یار اور یقین جانیں رحم کرنے والوں پر ہی رحم کیا جاتا ہے ۔۔۔سائرہ کے لہجے میں بےبسی اور اکتاہٹ ایک ساتھ در آئ۔وہ اس وقت اکیلے رہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔

اس کے بھائ نے رحم کیا تھا ہمارے بھائ کو مار ڈالا اس بھائ کو جو چلنے لگا تو میں نے اس کے پاؤں کے نیچے اپنی ہتھیلیاں رکھی کہ اسے چوٹ نہ لگے وہ بھائ جس کو میں نے خود سے ذیادہ چاہا۔۔۔سائرہ پھٹ پڑی تھی آنسو تواتر سے اس کے گالوں پر بہہ رہے تھے۔۔۔

کچھ اپنوں کے دکھ انسان کو اتنا کھاتے ہیں اندر سے کہ وہ بےرحم اور سفاک ہو جاتا ہے۔۔۔۔

اپیا یار پر سعدی نہیں مار سکتا اسے الزام ہے اس پر۔ ۔۔وہ دونوں تو بیسٹ بڈیز تھے۔۔۔سائرہ کے کندھے پر تسلی کے لیئے ہاتھ رکھا جسے سائرہ نے جھٹکا۔ ۔۔

نہیں تھا وہ دوست آستین سا سانپ نکلا وہ تو۔۔۔سائرہ سمجھنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔

اچھا اپیا آپ جائیں ماما کے پاس مجھے آرام کرنا ہے تھک گئ ہوں۔۔۔سومو نے بات ختم کی۔۔وہ مزید یہ سب نہیں سننا چاہتی تھی جو اس کا دل مانتا نہ تھا۔۔۔

سومو میں بتا رہی ہوں آئندہ تمہاری وجہ سے ماما کو تکلیف نہیں ہونی چاہیئے۔۔۔سائرہ نے ہاتھ اٹھا کر اسے وارن کیا۔۔۔

اک میں ہی ہوں ساری مصیبت کی جڑ خود جو شادی شدہ ہونے کے باوجود یہاں بیٹھی ہمارے سینوں پر مونگ ڈال رہی ہیں ماما کو چابیاں لگا کر وہ سب ماما کو پریشان نہیں کرتا واہ رے واہ ہم ڈالیں تو سیاپا آپ ڈالیں تو کچھ نہیں اچھا ہے اچھا ہے۔۔۔وہ فقط دل میں ہی سوچ سکی اس وقت وہ اتنا تھکی ہوئ تھی کہ سائرہ سے پنگا افورڈ نہیں کر سکتی تھی۔۔۔۔

ٹھیک ہے اپیا۔۔۔وہ مصنوعی سا مسکرائ۔۔۔۔سائرہ بھیگی آنکھیں پونجتی کمرے سے نکل گئ۔۔۔

 مجھے ہنسنے نہیں دیتا 

کسی کے یاد کا موسم 

دل ا ویراں  کی بیتابی 

سلگتی شام کا  منظر 

سہانی صبح کی بکھری ہوئی  

کرنوں کا  اجلاپان 

جلاتا ہے۔ مجھے ہر پل

کسی کے درد کا موسم 

مجھے ہنسنے نہیں دیتا 

جہاں  میں پھیلتا نفرت کا یہ 

پسرا سا سنناٹا 

کس کی  آنکھ کا دریا 

میرے اطراف میں ٹھہرا  ہوا 

وحشت کا سونا پنن 

مجھے ہنسنے نہیں دیتا 

بکھرتا ٹوٹتا منظر 

مجھے ہنسنے نہیں دیتا

۔تکیہ کے نیچے چھپایا البم نکالا۔۔۔ایک اداس سی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئ۔۔۔۔

________________________________________________________

تمنْایں

جذبوں سے بھری 

دل کے قبرستان میں دفن 

سسکتی سلگتی 

منتظر کامرانی کی 

زندگی کی تلاش میں  

رخص  کرتی 

حالآت سے جوجھتی 

مسکرآ تی اپنی بےبسی پر

خاموشی سے امّید کا 

دامن تھامے 

بھینٹ چڑھ جاتی ہیں وقت 

اور حالات کے تقاضوں پر 

مگر پھر بھی زندہ  رہتی ہیں 

دل کے کسی گوشے میں 

منتظر منتظر سی

دانین بیڈ پر لیٹی آرام کر رہی تھی جب دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے کمرے کے دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔وہ اساور تھا جو آج بہت خاموشی سے بغیر اس کی طرف دیکھے لیپ ٹاپ لے کر بیڈ پر اس کے برابر ترچھا سا بیٹھ گیا۔۔۔

وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔وہ کمرے میں داخل ہوتا تو طنز بڑھی نظروں سے اسے دیکھتا باتوں کے نشتر اس کی روح میں مارتا تھا۔۔بیڈ سے اٹھا کر کارپٹ پر پٹخ دیتا تھا۔۔مگر آج وہ چپ تھا۔۔شاید اس کی طبیعت کا حیال کر رہا تھا یا واقعی شرمندہ تھا وہ۔۔۔

دانین دھیرے سے بیڈ سے اٹھنے لگی. .  

کہاں جا رہی ہو۔۔۔لیپ ٹاپ پر نظریں ٹِکاۓ عام سے لہجے میں پوچھا۔۔۔۔

نیچے آپ بےعزت کر کے اتاریں خود ہی اتر جاتی ہوں۔۔۔لحاف ٹانگوں سے ہٹایا کمزوری کی وجہ سے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔

لیٹ جاؤ اِدھر ہی سردی ہے بہت طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے تمہاری۔۔لہجہ وہی عام سا تھا نہ شرمندگی تھی لہجے میں نہ غصہ تھا نہ محبت تھی بس عام سا لہجہ تھا۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ۔۔۔دانین دوبارہ سے لحاف ٹھیک کرتے لیٹ گئ جیسے منتظر ہو بس اس کے چند الفاظ کی۔۔لبوں کو مسکراہٹ نے چھوا۔۔۔کروٹ کے بل لیٹے اس کی نظریں اساور پر تھیں جس کی نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئ تھیں اور انگلیا تیزی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر چل رہیں تھیں۔۔۔

اس کی نظروں کی تپش وہ اپنے چہرے پر محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔۔۔لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیاں رکیں رخ پھیر کر دانین کو دیکھا جو بہت لگن اور دلچسبی سے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو خفظ کر رہی تھی۔۔۔اساور کے دیکھنے پر وہ سٹپٹائ اور نظریں جھکا لیں۔۔اساور نے کچھ پل اسے دیکھا اور پھر سے لیپ ٹاپ پر نظریں مرکوز کر دیں۔۔۔۔۔۔۔

________________________________________________________

‏ہم جو تم سے ملے ہیں اتفاق تھوڑی ھے💕

مل کر تم کو چھوڑ دیں مزاق تھوڑی ھے💞

اگر ہوتی تم سے دوستی اک حد تک تو چھوڑ دیتے💞

پر ہماری  تم سے دوستی کا حساب تھوڑی ھے💕

اب تم ڈھونڈو گے میری اس غزل کا جواب💞

یہ میرے دل کی آواز ھے کتاب تھوڑی ھے💕

مری لارنس کالج میں رات اتری تھی سب سٹوڈنٹس کمروں میں دبکے ہوۓ تھے۔کچھ سردی ہڈیوں میں اتر رہی تھی کچھ وارڈن جہاں داد کا خوف بھاری تھا ۔۔رات کے کھانے کے بعد کوئ سٹوڈنٹس کمروں سے باہر نہیں ملنا چاہیئے ورنہ شامت پکی ہوتی تھی اس کی۔۔۔۔

ایسے میں کوئ بھی لڑکا ہمت نہ کر سکتا تھا کالج سے کیا کمرے سے بھی نکلنے کی۔۔۔۔

لیکن وہ کیا ہے ڈھیٹوں کو کیا لینا دینا اس سب سے۔۔۔اور وہ دو ڈھیٹ تھے امان کاظمی اور سعدی رانا۔ جو ابھی تک جاگ رہے تھے جب باقی سب سٹوڈنٹس وارڈن کے خوف سے سو گۓ تھے۔۔۔

اے سعدی میرا بھائ نہیں ہے چل نا۔۔۔امان نے مصنوعی منت بھرا لہجہ اختیار کیا۔۔۔

نہیں نہیں میں نہیں جاؤں گا جہاں داد صاحب کچا کھا جائیں گے۔۔۔سعدی نے صاف انکار کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

تو ڈر گیا ان سے تو مطلب سعدی رانا ڈر گیا افف خدایا یہ دن دیکھنے سے پہلے سعدی رانا کو اٹھا کیوں نہیں لیا تو نے۔۔۔امان نے اوپر کی طرف دیکھتے ہوۓ ایکٹنگ سٹارٹ کر دی تھی۔۔مصنوعی آہیں جاری تھیں۔۔۔۔

تیری تو مجھے کیوں اٹھا لیتا تجھے اٹھا لے سو شیطان مرے ہوں گے تو تم پیدا ہوا ہو گا۔۔۔سعدی نے جمپ لگا کر اسے سنگل بیڈ پر پھینکا اور اس کی گردن دبوچ لی۔۔۔۔

او میرے باپ اوپر سے تو ہٹ۔۔۔امان نے دہائ دی۔۔۔

چل بخشا تجھے کیا یاد کرے گا تو۔۔۔۔سعدی نے احسان جتاتے ہوۓ اسے پرے دھکیلا۔۔۔

سعدی کسی کو نہیں پتہ چلے گا میرا یار چل ناں۔۔۔امان پھر سے منتوں ترلوں پر آ گیا۔۔۔

تیری عاشقی معشوقی مرواۓ گی کسی دن ہم دونوں کو آئ سوئیر۔۔۔۔سعدی ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر اپنے سنگل بیذ پر آڑا ترچھا لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔

جب عشق کیا تو ڈرنا کیا۔۔۔امان نے فلمی انداذ میں ڈائیلاگ مارا۔۔

افف یار میں بتا رہا ہوں تیری عاشقی تیرا سر کھاۓ گی ایک دن۔۔۔۔سعدی نے اسے تنبیہ کیا۔۔۔

دیکھیں گے ابھی تو چل وہ ویٹ کر رہی ہو گی پلیز میرا دوست میرا یار میرا بھائ۔۔۔۔امان نے اسے لاڈ سے پچکارا۔۔۔

چل ہٹ پڑے ڈرامے باز اماں نہ بن میری چلتا ہوں ساتھ اٹھ ۔۔۔سعدی نے اس کی منت بھری شکل دیکھ کر کہا۔۔۔

یاہو یہ ہوئ نا بات میرا بچہ۔۔۔امان خوشی سے اچھلتے ہوۓ اک کی طرف بڑھا۔۔۔

میرے باپ وہیں رک مجھ سے دور یہ عشق موذی مرض ہے پھیل بھی سکتا ہے۔۔۔سعدی نے ہاتھ اونچے کر کے اسے اپنی طرف بڑھنے سے روکا۔۔۔۔

اوکے ابھی چل۔۔۔دونوں اَپر کی ہڈی سر پر چڑھاۓ سردی سے بچاؤ کے تمام انتظامات کرتے پچھلے دروازے سے گارڈ کو چکما دے کر کالج سے نکل چکے تھے۔۔۔۔۔۔

________________________________________________________

آئ کم اِن سر۔۔۔اک لڑکی کی آواز گونجی تو اس نے روم ڈور کی طرف دیکھا۔۔۔

یس کم اِن۔۔۔وہ دوبارہ سے کسی فائل پر جھک چکا تھا۔۔

سر آپ نے حیا انٹرپرائزر والوں کے ساتھ میٹنگ فکس کی تھی۔۔۔وہاں کی سی۔ای او حیا سدوانی آپ سے ملنے آ چکی ہیں۔۔۔۔لڑکی جو کی اس کی سیکٹری تھی پروفیشنل انداذ میں بولی۔۔۔

اوکے کہاں ہے وہ۔۔۔اس نے فائل بند کرتےمحتصر سوال کیا۔۔۔

میٹنگ روم میں ھیں آپ کا ویٹ کر رہی ہیں۔۔۔۔

اوکے ۔۔۔سیکٹری چلی گئ تو وہ بھی اٹھا اور میٹنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔۔

حیا انٹرپرائزر سے اس کی پہلی ڈیل تھی۔۔اسے لگا تھا شاید وہ کوئ عمر رسیدہ خاتون ہو گی ۔۔مگر اس کا انداذہ غلط ثابت ہوا۔۔۔

وہ ساڑھے پانچ فٹ کی اونچی لمبی ددھیا رنگت اور کالے چمکدار بالوں والی ایک جوان لڑکی تھی۔۔۔

بلیو پینٹ کے ساتھ بلیو شرٹ پہنے ،کانوں میں ڈائیمنڈ ائیررنگ ڈالے ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھی بےشک وہ اپسرا معلوم ہوتی تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے ایک نظر حیا پر ڈالی اور سر براہی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔جس کے ساتھ حیا بیٹھی تھی۔۔۔

ہاۓ آئ ایم حیا سدوانی۔۔لڑکی پروقار انداذ سے کھڑی پراعتماد لہجے میں بولی۔ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔۔۔

آئ ایم اے۔کے۔۔اس کے بڑھے ہاتھ کو تھاما۔۔حیا نے دلچسبی سے اسے دیکھا۔۔۔بلیک تھری پیس سوٹ میں بالوں کو جیل سے جماۓ گھنی مونچھوں سے ڈھکے ہونٹوں کے ساتھ وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

مس حیا آپ ہاتھ چھوڑیں گی میرا۔۔۔اس کا اس طرح خود کو تکنا اور ہاتھ نہ چھوڑنا عجیب لگا تھا اسے۔۔

او سوری۔۔۔حیا سدوانی نے اک کا ہاتھ چھوڑا۔۔۔

آپ کی کمپنی کا بہت نام سنا ہے بہت کم عرصے میں آپ نے کمپنی کو ترقی دی۔۔۔اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے وہ بھی سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔

جی صیح سنا ہے آپ نے۔میرے باپا سدوانی صاحب کی طبیعت خرابی کی وجہ سے کمپنی loss میں تھی اب  میری سٹڈیز کمپلیٹ ہیں اور ترقی دوں گی اپنی کمپنی کو ۔۔۔۔حیا سدوانی پرغرور سی مسکرائ۔۔۔

اچھا لگا مجھے آپ ہمارے ساتھ ڈیل کرنے میں انٹرسٹڈ ہیں۔۔۔۔اے۔کے کا لہجہ حالصتاً کاروباری تھا۔۔وہ لڑکی کا کردار اس کی بھٹکتی نظروں کے جان جاتا تھا۔.  

آف کورس اے۔کے آئ مین مسٹر اے۔کے۔۔۔حیا کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جو اسے چونکا رہا تھا۔۔۔

اوکے پھر آپ اپنے پرپوزل لے کر آئیے گا میٹنگ ٹائم میری سیکٹری بتا دے گی آپ کو۔ مجھے ابھی ضروری کام ہے تو میں چلتا ہوں۔۔۔گھڑی دیکھتے ہوۓ وہ اٹھا۔۔۔پروفیشنل مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاۓ وہ میٹنگ روم سے نکل گیا۔۔۔

اے۔کے. .  حیا زیرِلب نام دہراتے ہوۓ مسکرائ۔۔

موبائل اور بیگ اٹھایا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔۔۔۔۔

ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں 

فرازؔ اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں 

جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر 

کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں 

تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا 

یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں  

نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی 

سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں 

ایکسرے ہو گیا ہو میرے چہرے کا تو تم سو سکتی ہو۔۔اپنے چہرے پر اس کی نظروں کی تپش وہ حاصی دیر سے محسوس کر رہا تھا۔۔

ایک بات پوچھوں اساور۔۔اس کی بات کو نظر انداذ کر چکی تھی وہ۔۔۔

ہاں پوچھو۔۔لہجہ سپاٹ تھا نظریں لیپ ٹاپ کی سکرین پر جمی ہوئ تھیں۔۔

اتنی نفرت کیسے کر لی تم نے مجھ سے۔۔اساور کی کی بورڈ پر چلتی انگلیاں تھمی۔۔کمرے میں کچھ پل کو سکوت چھا گیا۔۔اور پھر کی بورڈ پر اس کی انگلیاں چلنے لگیں۔۔۔

اساور . .  کمرے کے سکوت میں دانین کی نرم سی آواز گونجی۔۔کانپتے وجود کے ساتھ وہ اٹھی اور سر اساور کے کندھے پر ٹِکا دیا۔۔اساور نے چونک کر اسے دیکھا مانو وقت چند پل کے لیئے ٹھہر گیا۔۔

کیوں کرتے ہو اتنی نفرت تم نے کہا تھا ہمیشہ محبت کرو گے۔۔۔دانین کے أنسو تواتر سے بہتے ہوۓ اساور کے کندھے کو بھگو رہے تھے۔اساور کی نفرت جواب دے گئ آخر کب تک وہ خود سے لڑتا۔۔

اس کی آنکھ سے بھی ایک آنسو نکل کر گال پر آ ٹِکا۔۔اپنی انگلی کی پوروں سے اس کے آنسو بھرا چہرہ صاف کیا۔۔دانین نے چہرہ اٹھا کر اسے دیکھا۔اساور کی آنکھوں میں کتنے عرصے بعد اس نے اپنے لیئے محبت دیکھی تھی۔۔

آنسو بھری آنکھوں اور مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ دوبارہ سے سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔۔

گال پر بہتے آنسو کو صاف کرتے اساور نے مسکراتے ہوۓ اپنا سر دانین کے سر پر ہلکے سے ٹِکا دیا۔۔اسے اپنےدونوں بازوں کے گھیرے میں لیا۔۔۔۔۔دونوں کے آنسؤ تواتر سے بہہ رہے تھے۔۔۔دانین کے لیئے تو یہ سب خواب و خیال ہو گیا تھا جو آج ہو گیا تھا۔۔

مگر یہ اختتام تھوڑی تھا یہ تو اذیتوں بھرے ایک اور راستے کا آغاز تھا۔۔

محبت اور نفرت ہر گزرتے دن کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور ان دو جذبوں کے اختتام کے مراحل وقوع پذیر نہیں ہوتے۔۔۔

________________________________________________________

ہاں یاد ہے وہ دوستی کا ہر مزہ

محبتیں وہ رونقیں وہ مستیاں

لگا کے شرط وہ زندگی کی پھر کوئی

جو وعدے کر لیے نہ ہوں گے ہم جدا کبھی

او میرے یارا تیری یاریاں

دل کی صدا

میری خوشیاں تو ساریاں

ہونگے نہ جدا

دل كا دل سے ھوا ہے "عہدوفا"

اوۓ خبیث کدھر ہے تیری سنڈریلا۔۔۔۔وہ چلتے چلتے ریسٹورینٹ کے پاس پہنچ گۓ۔۔سردی کی شدت بڑھ رہی تھی۔۔

یہیں ہو گی یار دیکھتے ہیں نا۔۔امان اسے ہاتھ سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔۔۔۔۔

کوئ بہت ہی نکما انسان ہے تو۔۔

وہ رہی عینا وہ دیکھ۔۔تھوڑے فاصلے پر کھڑی لڑکی کی طرف امان نے اشارہ کیا۔لہجہ خوشی کا غماز تھا۔۔

چل مجنوں مل آ لیلا سے تب تک میں پیٹ پوجا کر لوں۔۔اسے دھکیل کر وہ ریستوران کے اندر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔

ہاۓ۔امان بھاگ کر عینا کے پاس پہنچا جو ہاتھ میں برگر پکڑے کھاتے ہوۓ اپنی دوست سے مسکرا کر باتیں کر رہی تھی۔۔

ہاۓ۔۔عینا نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا۔۔۔کیسے ہو۔۔

ایک دم پرفیکٹ۔۔امان بلش کر رہا تھا ہوٹل کی گلاس ونڈو سے دیکھ کر سعدی مسکرا دیا۔۔

برگر کھاؤ گے۔۔عینا نے آدھا کھایا برگر اس کی طرف بڑھیا جسے اس نے مسکراتے ہوۓ پکڑ لیا۔اور آنکھ کے اشارے سے عینا کو کچھ کہا۔۔

اس کا مطلب سمجھ کر عینا نے پاس کھڑی اپنی دوست کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکراتے ہوۓ ہوٹل کی طرف بڑھ گئ۔۔۔

کیا تھا یہ ہاں کب سے کھڑی ہوں میں تم اب آ رہے پتہ نہیں ہے کتنی ٹھنڈ ہے جم گئ ہوں میں۔۔عینا اب اپنی جون میں لوٹ آئ تھی تیزی سے ہاتھ اٹھا کر امان کی طرف بڑھی۔۔۔

آئ ایم سو سوری یا وارڈن بہت کڑکدار انسان ہے اس لیئے دیر ہو گئ۔۔اس کے حملے سے بچنے کے لیئے وہ تھوڑا جھک کر سائیڈ پر ہو گیا۔۔

سوری مائ فٹ۔۔وہ غصے سے لال پیلی ہو رہی تھی۔۔

عینا میری پیاری عینا معاف کر دو پلیز. .  امان نے معصوم سی شکل بنائ تو عینا کی ہنسی نِکل گئ۔۔

اچھا بس کرو اب ڈرامہ کنگ وہ میں کل اسلام آباد واپس جا رہی ہوں شفٹ ہو رہے ہیں ہم لاہور تو بہت کام ہے پیکنگ وغیرہ۔۔۔

واؤ مطلب ہمارے لاہور یاہو مزا آ گیا فاصلے ختم ہوۓ۔۔امان کی خوشی کی کوئ انتہا نہ تھی۔۔

ہاں نہ میں بھی تبھی بہت خوش ہوں اور لاہور شفٹ ہو جائیں پھر آپی کو تمہارے بارے میں بتاؤں گی۔۔۔عینا کے چہرے سے خوشی اور امان کے لیئے محبت صاف دِکھ رہی تھی۔۔۔

ہاں اور وہ. . .  اوۓ مانی۔۔سعدی کی آواز پر اسے اپنی بات پیچ میں چھوڑنی پڑی۔۔

کیا ہے۔۔وہ کھا جانے والے لہجے میں بولا۔۔

مسٹر عاشق باقی کا ادھار رکھو قسطوں میں کر لینا ابھی چلو وارڈن کو لگ گیا پتہ تو ساری عاشقی ناک کے ذریعے بہہ جانی ہے۔۔۔۔سعدی چبا چبا کر بولا۔۔

آتا ہوں کباب میں ہڈی ۔۔۔امان نے آنکھیں نکال کر اسے غصے سے دیکھا۔۔۔

ٹھیک ہے عینا چلتا ہوں ۔۔۔بجھے چہرے کے ساتھ عینا کو اللہ خافظ کہہ کر سعدی کی طرف بڑھا۔۔

ویسے کسی بہت ہی نکمے عاشق کی روح گھس گئ ہے تیرے اندر یا پھر رانجھے کا دوسرا جنم ہے تو۔۔۔سعدی نے منہ پھلا کر چلتے سعدی کو مزید چھیڑا۔۔۔

عشق کے دشمن خود تجھے کوئ پسند نہیں آتی میری دال بھی نہیں گلنے دیتا۔۔۔امان نے اسے ایک زوردار مکہ مارا۔۔

افف کتنا بھاری ہاتھ ہے تیرا۔اور باۓ دب وے کس نے کہا مجھے کوئ پسند نہیں ہے۔۔۔اپنا کندھا سہلاتے ہوۓ وہ مسکرایا۔۔

ہیں یہ معجزہ کب ہوا اور وہ خوش قسمت ہے کون جو اس عشق بیزار انسان کو پسند آ گئ۔۔امان حیران ہوا تھا۔۔

ہر چیز کا ایک مقررہ وقت ہوتا ہے اور  مقررہ وقت پر ہی ہر شے اچھی لگتی ہے دل کو دل کی طرح ٹریٹ کر کنٹرول بٹن نہ بنا۔۔۔اس کی بات کو اِدھر کرنے کی کوشش کی اس نے۔۔

بات مت گھما افلاطون کی اولاد کس کی بات کر رہا ہے وہ بتا۔۔امان کو تجسس ہو رہا تھا۔ 

کہا نہ ہر شے اپنے وقت پر بتائ جاۓ تو ہی اچھی لگتی ہے۔۔وقت آنے پر بتا دوں گا۔۔۔

چل دفعہ ہو سسپینس پیدا کر رہا ہے۔۔امان کو غصہ چڑھ گیا تھا۔۔

سسپینس کو چھوڑ جلدی چل جہاں داد صاحب کو پتہ لگ گیا نہ تو پھر وہ مار ماریں گے کہ ہم دوبارہ پیدا نہ ہو پائیں گے۔۔ سعدی نے اسے وقت کی نزاکت کا احساس دلایا اور حوف بھی۔۔

سہی کہہ رہا ہے جلدی کر۔۔۔امان کو بات سمجھ آ گئ تھی۔ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے وہ تیز تیز چلنے لگے تا کہ جلد سے جلد پہنچ جائیں۔۔

________________________________________________________

کہانی گر!

بتاو ناں ،تمہیں کچھ ربط میں بخشوں__؟؟

خرابان محبت کی

غم ہجراں سے نسبت کا

اگر دوں آگہی تم کو

کہیں کچھ پھول کانٹے ،سیپ موتی،اشک میں سونپوں

دریدہ دل کی وحشت تک رسائی تم کو باہم دوں

کہو تم  مان تو لو گے جو میرے روگ ہیں کاری

فراق یار میں الفاظ میں جو کہہ نہیں سکتا

میرے کچھ زخم ایسے ہیں جنہیں میں سہہ نہیں سکتا

میرے حرف عقیدت کو کوئی پھلواری بخشو گے___؟؟

میرے اس درد و درماں کو کہیں دلداری بخشو گے___؟؟

یہ تانے بانے لفظوں کے میرے بس میں نہیں آتے

مجھے لکھنا نہیں آتا،مجھے لکھنا اگر آتا

اسے میں قید کر لیتا،غزل کہتا ،نظم کہتا

میں کچھ بھی بحر چنتا مقطع و مطلع بنا لیتا

اسے دیتا غزل کا روپ ٹھمری سجا لیتا

نظم کہتا کوئی جس میں وصل جز لازمی ہوتا

سطور حد میں جذبوں ک تلاطم بیکراں ہوتا

سنو پیارے!

سنو محرم!

میرے پیارے کہانی گر

تم اب کی بار یوں کرنا

کہانی کچھ بھی لکھ دینا

قبل کچھ پل ختم شد سے

اسے میرا بنا دینا__!!

آپ ویٹ کریں میں آتا ہوں۔آ رہا ہوں نا بیٹا۔۔اے۔کے نے مسکراتے ہوۓ کال منقطع کر کے موبائل پاکٹ میں ڈالا کہ گاڑی ایک جھٹکے سے بند ہو گئ۔۔۔

کیا ہوا سعید  ..!! اس نے ڈرائیور سے پوچھا جو گاڑی سٹارٹ کرنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔۔

پتہ نہیں صاحب لگتا ہے انجن بند ہو گیا ہے میں دیکھتا ہوں۔ڈرائیور گاڑی سے نکل کر انجن چیک کرنے لگا۔۔گلاسز پہنتے وہ بھی گاڑی سے نکلا اور سڑک پر اکا دکا جاتی گاڑیوں کو دیکھنے لگا۔۔

صاحب انجن بند ہو گیا ہے مکینک کے پاس لے جانا پڑے گا۔۔۔ڈرائیور نے گاڑی چیک کر لی تھی۔۔۔

ہمم میں کیب منگوا لیتا ہوں تم ورکشاپ لے جانا گاڑی کو ۔۔اے۔کے نے کیب منگوانے کے لیئے موبائل پاکٹ سے نکالا۔ابھی وہ کال ملانے کی لگا تھا کہ اک گاڑی زن سے پاس سے گزری پھر ریورس لے کر پاس آ کر رُک گئ۔۔اے۔کے نے حیرانگی سے گاڑی کی طرف دیکھا۔۔

ہاۓ مسٹر اے۔کے ۔۔کھڑکی کا شیشہ نیچے ہوا تو سامنے حیا سدوانی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی تھی۔۔

ہاۓ مِس حیا۔۔

Can I help you..??حیا سدوانی اپنے محسوس پرغرور انداذ میں مسکرا کر بولی۔۔۔

No thanks,اے۔کے نے مسکرا کر کہا اور کیب کمپنی کو کال کرنے لگا ۔ ۔

یقیناً آپ کی گاڑی خراب ہو گئ ہے میں آپ کو چھوڑ دیتی ہوں پلیز منع مت کیجیئے گا۔۔۔

نہیں مِس حیا شکریہ آپ زحمت مت کریں۔۔۔

زحمت کیسی ہم بزنس پارٹنر بننے والے ہیں اتنا تو کر سکتی ہوں پلیز۔۔۔۔

اوکے ۔۔اے۔کے ڈرائیور کو کچھ ضروری ہدایات دیتا ہوا فرنٹ ڈور اوپن کر کے بیٹھ گیا۔۔اس کے بیٹھتے ہی حیا گاڑی زن سے آگے بڑھائ۔۔

آپ کو out of the way تو نہیں پڑے گا ناں۔۔

نہیں اے۔کے آپ کے گھر سے تین چار گھر چھوڑ کر ہی میرا گھر ہے۔۔حیا سدوانی مسکرائ تھی اے۔کے نے اس وقت اقرار کیا بےشک حیا سدوانی مسکراتے ہوۓ بہت دلکش لگتی ہے۔۔۔۔

اچھا پچھلے ماہ آپ لوگ شفٹ ہوۓ ہیں صدیقی صاحب کے گھر۔

یس باس۔۔

ہممم گُڈ۔۔کون کون ہے فیملی میں۔۔

ڈیڈ موم چھوٹی بہن اور میں بس مختصر سی فیملی ہے۔۔۔

اوکے۔. .  

اور آپ کی فیملی میں کون کون ہے۔۔۔

میری. . .  اسی وقت اے۔کے کا فون رِنگ کرنے لگا۔۔اے۔کے نے بات ادھوری چھوڑ کر کال پِک کی۔۔

ہیلو آفت کی پُریا۔۔۔وہ مسکرایا۔۔

ہاں نا آؤں گا ہر بار تو آتا ہوں پھر بھی بھروسہ نہیں کرتی ہو۔۔۔حیا نے دیکھا کال پر بات کرتے ہوۓ وہ ہمیشہ سنجیدہ رہنے والا شخص کھلے دل سے مسکرا رہا تھا۔۔اس کی خوشی بتا رہی تھی کسی بہت اپنے کا فون ہے۔۔حیا کی دھڑکن ایک دم سے تیز ہوئ۔۔اسے شدید گرمی محسوس ہونے لگی دل حسد کی آنچ پر پک رہا تھا اس سا۔۔

اس نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی مگر مقابل کے پھیلتی مسکراہٹ میں کوئ فرق نہ آیا۔۔

وہ ابھی بھی مسکرا مسکرا کر بات کر رہا جو حیا سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔۔

میں اتنے سال سے اپنے دل میں پنپتی اس محبت کو اتنی آسانی سے کسی کو نہیں دے دوں گی کبھی نہیں۔۔وہ ضبط کرتی ہوئ سوچ رہی تھی۔۔

تم میرے ہو اے۔کے ازل سے ابد تک۔۔۔حیا نے فصے کی شدت سے موڑ کاٹتے ہوۓ گاڑی کو اک زوردار جھٹکا دیا۔۔گاڑی بےقابو ہوتی ہوئ درخت سے جا ٹکرائ۔اک زوردار آواز گونجی اور پھر سکوت چھا گیا ۔

موبائل اے۔کے کے ہاتھ سے دور جا گِرا تھا سر ونڈو کے شیشے سے ٹکرایا۔۔

حیا اسٹیرنگ پر سر سے بہتے حون کے ساتھ بےہوش ہو گئ تھی۔۔

ایکسیڈنٹ اتنا زوردار تھا کہ اے۔کے بھی توازن قائم نہ رکھ پایا تھا۔ سر شیشے سے اتنے زور سے ٹکرایا کہ کانچ اس کے سر میں لگے۔۔

بند ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے دیکھا گاڑی سے اتر کر کچھ لوگ پریشانی سے ان کی مدد کو پہنچے۔۔۔۔

تمہارے پاس ہونے سے 

تمہارے پاس ہونے سے 

میری دھڑکن میں یہ کیسی 

عجب سی انتشاری ہے

عجب سی روح میں بیچینیاں ہیں 

جانے کیوں ہر دم 

تمہارے پاس ہونے سے 

میرے لب 

مسکراتے ہیں

 یہ آنکھیں بولتی ہیں کیوں 

صدا دھڑکن کی مجھ کو کیوں 

 عجب بے ربط لگتی ہے

تمہارے پاس ہونے سے 

محبت جاگ اٹھتی ہے

رات کا اندھیرا غائب ہوا تو سورج نے اپنی کرنیں پھیلائیں۔صبح کی روشنی چار سو پھیل گئ۔۔سائیڈ ٹیبل پر پڑا الارم بجا تو اساور آنکھیں ملتے ہوۓ اٹھنے لگا تھا کہ نظر بازو پر سر رکھ کر سوئ دانین پر پڑی۔ہونٹوں پر بےاختیار ایک مسکراہٹ دور گئ۔نرمی سے دانین کے پٹی ہوۓ سر کو اپنے بازو سے ہٹا کر تکیہ پر رکھا۔

نظریں ٹھہر گئ تھیں اس پر وہ سوتے ہوۓ بہت اچھی لگتی ہے اتنے عرصے میں اس نے غور ہی نہیں کیا تھا۔

ٹائم دیکھتا وہ مسکراتا ہوا واش روم میں گھس گیا۔تھوڑی دیر نہا کر نکلا۔گیلے بالوں کو ٹاول سے سکھاتا وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا تھا۔

شادی کے بعد آج پہلی بار وہ ہلکا پھلکا ہوا تھا آج اس کے دل میں نفرت بدلہ بغص کچھ بھی نہ تھا۔۔۔اور شادی کے بعد آج پہلی بار تھا اس نے دانین کو وخشیانہ انداذ میں نہیں اٹھایا تھا۔۔

آفس کے لیئے وہ تیار ہو چکا تھا۔جاتے جاتے وہ واپس پلٹا اور سوئ ہوئ دانین کے سائیڈ پر بیٹھ گیا۔۔

وہ شرمندہ تھا اس نے کیوں اتنا برا سلوک کیا اس کے ساتھ۔قصور اس کا توکچھ بھی نہ تھا۔۔

ہاتھ بڑھا کر چہرے پر پڑی اس کے بالوں کی لِٹ کو پیچھے کیا۔۔نظریں دانین پر ٹِکی ہوئ تھیں۔۔

کمرے کا سکوت موبائل کی رِنگ ٹون نے توڑا ۔اساور نے دانین سے نظریں ہٹا کر پاکٹ سے موبائل نکالا مگر اس کے موبائل پر کوئ کال نہیں تھی۔

اس نے خیرانی سے اِدھراُدھر دیکھا تو آواز ڈریسنگ کے دراذ سے آ رہی تھی۔۔وہ خیرانی سے ڈریسنگ کی طرف بڑھا۔۔دراز کھول کر موبائل نکالا ۔۔ موبائل کی سکرین پر سعدی کالنگ لکھا آرہا تھا۔۔اساور کے چہرے کے تاثرات پتھر ہوۓ۔لب بھینچتے ہوۓ اس نے کال پِک کر کے موبائل کان سے لگایا۔

ہیلو دانی میری بات سنو بہت ضروری بات کرنی ہے مجھے تم سے۔فوراً پی سی ہوٹل پہنچو جہاں ہم پچھلی بار ملے تھے ۔کال پِک ہوتے سعدی بغیر یہ جانے کے سامنے کون ھے تیزی سے بولتا چلا گیا۔

سعدی کی آخری بات پر اساور نے غصے بھری نظروں سے سوئ ہوئ دانین کو دیکھا۔ 

تھوڑے دیر پہلے کی مسکراہٹ محبت سب کافور ہوئ۔ہاتھ میں پکڑا دانین کا موبائل زور سے دیوار پر دے مارا۔

آواز سن کر دانین ڈر کر اٹھ بیٹھی تھی اور ناسمجھی سے غصے سے لال پیلے ہوتے اساور کو دیکھ رہی تھی۔

تمہیں پتہ تھا کہ سعدی کہاں ہے۔۔اساور غرایا۔

نن نہیں مم مجھے تت تو نہیں پتہ۔دانین اٹک اٹک کر بولی۔

تمہیں پتہ تھا وہ کہاں ہے پھر بھی میں نے سارے جہاں کی خاک چھانی ہے اسے ڈھونڈنے کو ۔۔اب کی بار اساور زور سے چلایا تھا۔کھینچ کر گلے سے ٹائ کو نکال کر صوفے پر اچھال دیا۔

تو کیا کرتی تمہیں بتاتی کہ جاؤ مار دو میرے بھائ کو۔۔دانین سہمی سہمی سی بولی۔۔

تم میری آنکھوں میں دھول جھونکتی رہی تم مل کر بھی آئ ہو اسے پی سی ہوٹل میں۔۔وہ غصے سے دانی کی طرف بڑھا ۔دانین کے کھلے بالوں کو اپنے ہاتھ کی مٹھی میں جھکڑا۔۔دانی کے سر میں درد کی شدید ٹیس اٹھی۔۔

اساور بخش دو اسے وہ بےچارا اپنی بےگناہی کے ثبوت ڈھونڈنے کو در در بھٹک رہا ہے میرا بھائ ہے وہ بخش دو اسے۔۔بےبسی سے کہتے ہوۓ دانین کی ہلکی سی سسکی نکلی مگر سامنے والے کو کوئ پرواہ نہیں تھی۔

نہیں ہے وہ بےگناہ اور اسے بخش دیا جاۓ اس لیئے کہ وہ تمہارا بھائ ہے جسے اس کمینے نے مارا تھا وہ نہیں تھا بھائ کسی کا اس سے کوئ پیار نہیں کرتا تھا کیا۔؟ہمارا امان تھا وہ دل کا ٹکڑا تھا وہ ہمارے۔۔اساور نے اس کے بالوں پر گرفت بڑھا دی ۔دانین درد کے مارے بےخال ہو رہی تھی۔۔

دانین کو زخم دے کر پھر انہیں زخموں کو ناسور کرنے والا اساور کاظمی تھا وہ۔۔

اساور مجھے درد ہو رہا ہے۔۔درد سے بےخال وہ ہچکیوں کے درمیان بولی۔۔

درد تمہارا درد مائ فُٹ۔۔بےدردی سے اسے دھکیل کر وہ الماری کی طرف بڑھا۔

آج امان کا قاتل مرے گا جس پی سی ہوٹل میں اپنی زندگی بچانے کی پلاننگ کرتا ہے اسی ہوٹل سے اس کی لاش نکلے گی۔الماری سے پسٹل نکالے وہ دروازے کی طرف بڑھا۔۔

نن نہیں اساور نہیں۔۔دانین نے بھاگ کر اس کا راستہ روکا ۔

دانین ہٹو میرے راستے سے.  ۔۔وہ چلایا ۔

میں آئ ہوں نا قصاص میں ۔بدلے میں لاۓ ہو مجھے تم نا جو کرنا ہے مجھے کرو ۔مم مجھے مار دو۔۔دانین نے اس کے ہاتھ میں پکڑی پسٹل کا رخ اپنی طرف کیا۔۔جسے اساور نے کھینچ کر پیچھے کر دیا۔۔

مجھے مارو اپنے اندر جلتے اس بدلے کے الاؤ کو ٹھنڈا کرو مگر تمہیں رب کا واسطہ ہے سعدی کو بخش دو۔۔وہ اس کے قدموں میں بیٹھتی چلی گئ۔۔

مجھ پر اب نہ واسطے اثر کرتے ہیں نا تمہارے یہ آنسؤ۔مجھے فرق پڑتا ہے تو اس چیز سے کہ میرے امان کا قاتل ابھی تک زندہ کیوں ہے۔۔پاؤں کی ٹھوکر سے اساور نے اسے دھکیلا۔اور ہاں آنسو بچاؤ بھائ کی میت پر کام آئیں گے تمہارے۔۔جلا دینے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہتا وہ باہر نکل گیا۔

دانین کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے کیسے بچاۓ وہ اپنے بھائ کو۔۔وہ خود کو بہت بےبس محسوس کر رہی تھی۔۔

اسے کچھ نہیں سوجھ رہا تھا۔گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ بےبسی سے روتی چلی گئ۔۔

________________________________________________________

زلفیں وہ نرم رات سی بکھری ہیں ناز سے

اور رات میں ستارے نگہ دلنواز کے

تاروں کے آس پاس ہیں چندا سے گال دو

چندا کے درمیان وہ نقطے سے خال دو

اور گال کے کنارے گلابی  گلاب سے

دو ہونٹ تو نہیں ہیں، یہ پیالے شراب کے 

اور ہونٹ یوں پیوستہ، زمین و فلک ملے

ہونٹوں کے بیچ گویا ہیں چمپا کے گل کھلے

مسکان سے چمن میں بھی پھولوں کے رس پڑے

چھو لے اگر یہ ہونٹ تو شبنم بھی ہنس پڑے

تعریف کیا بیان ہو  قامت کی چال کی

موسم بہار چلتی ہوا ہے شمال کی

کیسی کلائی اس کی، چنبیلی کی ڈال سی

کیسی تپش ہے سانس میں، سردی میں شال سی

پیکر کا رنگ ایسا کہ ابٹن میں دودھ ہے

اور اس کی ہر طرف میں سلگتا سا عود ہے

نازک کمر کے خم سے ہواؤں میں بل پڑے

پاؤں کے چومنے کو تو پتھر بھی چل پڑے

سینے کی دھڑکنوں سے طلاطم فضا میں ہے

صندل مثال مہکا تنفس  ہوا میں ہے

پلکوں کے زیر وبم سے نظاروں میں نور ہے

دیکھیں اگر وہ آنکھیں تو بڑھتا سرور ہے

ہر پرت کھل چکی ہے یوں پیکر جمال کی

تجسیم ہو رہی ہے وہ  صورت خیال کی

اماں کیوں نہیں بتا رہیں آپ مجھے میرا دل بیٹھا جا رہا ہے اماں۔۔ڈی۔جے ہوسٹل میں تھی جب بسے اے۔کے کے ایکسیڈنٹ کی خبر ملی۔تب سے وہ روۓ چلی جا رہی تھی۔۔

بیٹا وہ ٹھیک ہے تھوڑی سی چوٹ آئ ہے اسے بس۔۔راشدہ بھیگم نے اسے تسلی دی۔۔

اماں ٹھیک ہے تو بات کروائیں میری اس سے۔۔ڈی۔جے بضد تھی جب تک اس سے بات نہیں ہوتی وہ روۓ چلی جاۓ گی.  

ڈی۔جے پتر ہر بات میں ضد نہیں کرتے وہ دوائیوں کے زیرِاثر ہے ۔آپ کی بچگانہ بات مان کر میں اس کی طبیعت خراب کر دوں کیا۔۔؟؟اس بار راشدہ بھیگم نے ذرا غصے سے کہا۔۔

اماں غصہ کیوں کر رہی ہیں۔۔

غصہ نہیں کر رہی میرا بچہ بس کچھ باتیں آپ سمجھتے ہوۓ بھی نہیں سمجھتیں۔آپ بڑی ہو گئ ہو اب بڑوں کی طرح ری ایکٹ کرنا سیکھو۔۔راشدہ بھیگم نے محبت سے اسے سمجھایا اب۔۔

اماں وہ جاگے تو میری بات کروائیں گی نا۔۔ڈی۔جے نے بچوں کی طرح منہ بنا کر کہا۔۔

ہاں میرا بیٹا ابھی آپ پڑھو وہ جاگتا ہے تو بات کرواتی ہوں ۔۔اس کے بچگانہ لہجے پر راشدہ بھیگم مسکرا کر رہ گئیں۔۔

اللہ خافظ اماں۔۔ڈی۔جے نے موبائل ٹیبل پر رکھا اور پھر سے زور زور سے رونے لگ گئ۔اب جب تک وہ اے۔کے سے مل نہ لیتی بات نہ کر لیتی اسے سکون نہیں ملنا تھا۔۔

________________________________________________________

ایکسیڈنٹ کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے انہیں ہسپتال پہنچایا۔۔ایکسیڈنٹ شدید تھا مگر معجزاتی طور پر حیا اور اے۔کے کو ذیادہ چوٹیں نہیں آئیں تھیں۔۔

سر پر چوٹ کے باعث وہ دونوں بےہوش ہو گۓ تھے۔۔

حیا سدوانی کو ڈسچارج کیا جا چکا تھا جبکہ اے۔کے ابھی تک ہسپتال میں ہی تھا۔معمولی سا ہاتھ کا فریکچر تھا۔جس کا علاج ہو رہا تھا۔۔

شام تک اسے بھی ڈسچارج کیا جا چکا تھا۔

________________________________________________________

آپی دھیان سے گاڑی ڈرائیو کرنی چاہیئے تھی آپ کو دیکھیں کتنی چوٹیں لگوا لیں آپ نے۔۔حیا کی چھوٹی بہن فکرمندی سے بولی۔۔

او پلیز تم چھوٹی ہو تو چھوٹی رھو ماں مت بنو میں ہر شے کو سمجھتی ہوں تم مت سمجھاؤ مجھے۔۔حیا بیڈ پر لیٹتے ہوۓ نخوت سے بولی۔۔

آپی مجھے فکر تھی آپ کی۔۔اس کا لہجہ بھرا گیا تھا۔۔

مجھے ضرورت نہیں ہے تمھاری فکر کی اور تنگ مت کرو دفعہ ہو جاؤ یہاں سے۔۔حیا نے تیز لہجے میں کہا تو وہ بےچاری آنکھوں سے بہتے آنسووں کو صاف کرتی کمرے سے نکل گئ۔۔

وہ حیا سدوانی تھی اپنے سامنے کسی کو ٹِکنے کی اجازت نہیں دیتی تھی۔تکبر فخر کا ملاپ تھی وہ۔۔

خود سے ہر شخص کو کمتر سمجھا اس نے۔

صرف ایک اے۔کے تھا جس کے سامنے وہ اپنی سیلف ریسپیکٹ تک کو داؤ پر لگا سکتی تھی۔

اے۔کے بقول اس کے محبت تھا اس کی شدید جنوں دیوانگی سے بھی بڑھتی ہوئ محبت.  ۔

مگر وہ کسی اور کو چاہے یہ وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی تبھی تو خود کو اور اس کو زخمی کر پیٹھی تھی. .  

تم میرے ہو اے۔کے صرف میرے تمہیں خاصل کرنے کے لیئے سب کچھ کروں گی سب کچھ۔چاہے مر جاؤں یا مار دوں۔۔وہ خطرناک ارداوں کے ساتھ مسکرائ۔۔

جس سے بات کرتے تمہارے چہرے سے مسکراہٹ غائب نہیں ہوتی اسے ذھونڈوں گی اور پھر تمہاری زندگی سے بہت دور بھیج دوں گی۔۔وہ خودکلامی کرنے لگی۔۔

آنکھوں میں اے۔کے کے لیئے شدت اور دیوانگی صاف دِکھ رہی تھی وہ دیوانگی جو خطرناک سے بھی خطرناک ہوتی ہے۔۔

مسکراتے ہوۓ اس نے سر بیڈ سے ٹِکا کر آنکھیں موند لیں۔۔۔

________________________________________________________

سومو سومو۔۔وہ گِرتے پڑتے سومو کے روم تک پہنچی۔۔رات بھر کی جاگی سومو اس کے اس طرح ہلانے پر ہربڑا کر اٹھ بیٹھی.  ۔

چچی کیا ہوا آپ اتنا گبھرائ ہوئ کیوں ہیں۔۔دانین کو اس حال میں دیکھ کر وہ بھی ڈر گئ تھی۔۔

سومو وہ اسے مار دے گا۔۔دانین خواس باختہ سی بولی۔۔

کون کسے مار دے گا۔۔سومو ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔۔

مجھے اسے بتانا ہو گا۔۔

چچی آپ پہلے پانی پئیں ریلیکس ہوں پھر بتائیں۔۔سومو نے پانی کا گلاس بسے پکڑایا جسے وہ ایک ہی سانس میں پی گئ۔۔

اب بتائیں کیا ہوا ۔شب خوابی کے لباس میں ملبوس سومو نے گلاس سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور دانین کے برابر میں بیٹھ گئ۔۔

سعدی پی سی ہوٹل میں ہے۔اس نے مجھے بلایا تھا ملنے شاید ۔فون اساور نے اٹھایا ہے۔۔آنسو پونجتی وہ بولی۔ہچکیاں اب بھی جاری تھیں۔۔

پھر ۔ 

اساور کو پتہ چل گیا سعدی وہاں ہے۔۔

اوہ میرے خدایا پھر۔۔سومو کو لگا اس کا دل بند ہو جاۓ گا۔۔سر ہاتھوں میں گِرا کر بےبسی سے وہ دانین کو سننے لگی۔۔

اساور پسٹل لے کر گیا ہے۔کہہ رہا تھا آج پی سی ہوٹل سے لاش نکلے گی سعدی کی۔سعدی زندہ نہیں نکلے گا۔۔

واٹ ہمیں سعدی کو انفارم کرنا ہوگا اس سے پہلے کے چکس پہنچ جائیں وہاں۔۔سومو نے تیزی سے موبائل نکالا اور سعدی کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔۔مگر موبائل بند آ رہا تھا۔۔

دانین کے آنسوؤں نے گردن تک بسے بھگو دیا تھا۔۔سومو کے ہاتھ کانپ رہے تھے ماتھے پر گھبراہٹ کے مارے پسینے کے ننھے قطرے چمک رہے تھے۔۔۔

کیا ہوا سومو۔۔

فون بند آ رہا ہے اس کا۔۔

کہیں اساور پہنچ تو نہیں گیا۔۔دانین نے اپنا ڈر ظاہر کیا۔۔

ننن نہیں چچی اچھا اچھا بولیں۔۔میں ریسیپشن پر کال لگاتی ہوں۔سومو جلدی سے ہوٹل کا نمبر ملانے لگی۔۔

دو تین گھنٹیوں کے بعد فون ریسیو کر لیا گیا۔۔

اسلام علیکم۔۔؛!!

جی وہاں کوئ سعدی رانا آئے ہیں۔۔سومو پرامید تھی وہ سعدی کو بچا لے گی۔۔

کیا۔۔۔؟؟

سعدی رانا آۓ ہیں آپ کے ہوٹل۔۔سومو پرامید تھی وہ سعدی کو بچا لے گی۔۔

کیا۔۔؟؟

اچھا میری بات کروائیں۔۔سومو تھوڑی پرسکون ہوئ تھی۔۔

چچی وہ وہیں ہے ابھی چکس نہیں پہنچے ۔۔سوم نے روتی ہوئ دانین کو بتایا ۔دانین نے سکون کا سانس لیا۔

مم میری بات کروائیں پلیز۔سومو کے ہاتھ سے فون لے کر دانین نے کان سے لگایا۔۔

جی آپ سا نام۔ریسیپشن پر کھڑی لڑکی بولی۔۔۔

مسٹر سعدی آپ کے لیئے کسی مس دانین کا فون ہے۔۔سعدی ریسیپشن پر پہنچا تو لڑکی نے دانین کا خوالہ دے کر ریسیور اسے پکڑایا۔۔

کیا ہوا دانی تم ابھی تک آئ کیوں نہیں۔اور کال کیوں کاٹ دی تھی۔تم ٹھیک تو ہو نا۔سعدی نے ایک ہی سانس میں دو سوال کر ڈالے۔۔

ہاں میں ٹھیک ہوں سعدی تم جلدی سے نِکلو وہاں سے ۔

کیوں کیا ہوا ہے دانی۔۔

ابھی تفصیل نہیں بتا سکتی بس اتنا ہی کہ اساور کو پتہ چل گیا ہے تم وہاں ہو وہ تمہیں مارنے آیا ہے۔۔پلیز سعدی میری جان بھاگو وہاں سے۔۔دانین کی آنکھوں سے مارے بےبسی کے آنسو جاری تھے۔۔

ہاں ہاں نکلتا ہوں۔۔سعدی کی نظر سامنے پڑی جہاں سے اساور تیز تیز چلتے آ رہا تھا۔اس نے سعدی کو نہیں دیکھا تھا۔موقع کا فائدہ اٹھاتے سعدی تیزی سے ریسیپشن کے پیچھے سے گزرتا ہوا خفیہ دروازے سے باہر نِکل گیا۔۔

اساور اسے پورے ہوٹل میں ڈھونڈ رہا تھا مگر وہ ہوتا تو ملتا نا۔۔

اکسکیوزمی۔۔!! اساور ریسیپشن پر کھڑی لڑکی سے مخاطب ہوا۔۔

یس سر۔۔!! 

آپ کے ہاں کوئ سعدی رانا نام کا لڑکا آیا ہے۔۔

ہمم یس سر وہ یہاں کے مستقل کسٹمر ہیں۔ابھی ابھی ہی یہاں سے گۓ ہیں۔لڑکی خالص پروفیشنلانہ انداذ میں مسکرائ۔۔

چلے گۓ۔۔

جی سر انہیں فون آیا تھا تو وہ جلدی میں نِکل گۓ۔۔۔

کس کا فون آیا تھا آپ بتا سکتی ہیں۔۔

یس سر کوئ دانین کاظمی کا فون تھا۔۔لڑکی کے بتاتے ہی اساور کے چہرے کے تاثرات مزید پتھر ہوۓ۔۔سر کی رگیں غصے سے تن گئیں۔۔اس وقت سامنے دانین ہوتی تو وہ اس کا قتل ضرور کر دیتا۔۔

غصے سے مٹھیاں بھینچتے وہ ہوٹل سے باہر نکلا۔۔ذیادہ دور نہیں گیا ہوا گا میں آج اسے ڈھونڈ لوں گا۔۔خود کلامی کرتا وہ پارکنگ کی طرف بڑھا۔۔گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی کو فل اسپیڈ پر سڑک پر ڈال دیا۔۔

____________________________________________________________________________

ماما۔۔!! سائرہ رخشندہ بھیگم کو آوازیں دیتی لاؤنج میں پہنچی جہاں رخشندہ بھیگم بیٹھیں کوئ سیرئیل دیکھ رہی تھیں۔۔

کیا ہو گیا ہے سائرہ کیوں ایک ہی سانس میں شروع ہو گئ ہو۔۔رخشندہ بھیگم یوں ڈرامہ میں ڈسٹرب ہونے پر تنک کر بولیں۔۔

اماں میری ساس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ہسپتال میں ہیں ٹانگ ٹوٹ گئ ہے۔۔سائرہ بےزاری سے بولتی ریمورڈ لے کر چینل تبدیل کرنے لگی۔۔

کیا میری بہن کا ایکسیڈنٹ یہ کیسے چلو چلو چلیں.  ۔بہن کے ایکسیڈنٹ کی خبر سنتے ہی وہ پریشان ہو گئیں تھیں۔

اماں رہنے دیں میں نہیں جا رہی ان کنگلوں کی طرف ۔۔سائرہ نے نخوت سے کہا۔۔

بہن ہے وہ میری ساس نہیں مانتی تو خالہ کی طرخ ہی خیال کر لیا کرو۔۔اپنی بہن کے متعلق بیٹی کے فرمودات سن کر انہیں ہائ وولٹیج کا غصہ چڑھا تھا۔۔

اماں میں ایک شرط پر چلوں گی مجھے ان غریبوں کی بستی میں نہیں چھوڑ آئیں گی آپ آنا ہوا تو اپنے داماد سے کہیئے گا یہیں آ جاۓ ورنہ بھول جاۓ کہ ایک بیوی بھی تھی اس کی۔۔۔سائرہ کے تو مزاج ہی نہیں ملتے تھے ۔

کون سی غریب بستی کی بات ہو رہی ہے۔۔کچن سے چاۓ کا کپ لے کر نکلتی سومو نے پوچھا۔۔

تم بھی جلدی سے تیار ہو جاؤ سومو تمہاری فرخندہ خالہ کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے ہسپتال میں ہے جانا ہو گا۔۔

جی ماما چلوں گی میں۔۔سومو جلد ہی مان گئ کہ فرخندہ اس کی فیورٹ تھی۔۔

تم بھی اٹھ جاؤ سائرہ۔۔۔رخشندہ بھیگم اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔سومو بھی تیار ہونے کمرے کو چل پڑی۔۔سائرہ چاروناچار پیڑ پٹختے ہوۓ جانے کو تیار ہو گئ تھی۔۔

تھوڑی دیر میں وہ تینوں شہر سے دور ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئیں۔جو بقول سائرہ کے تھرڈکلاس لوگوں کا علاقہ اور ہسپتال تھا۔۔

____________________________________________________________________________

مم مجھے جانے دو پلیز.  بکھرے بالوں ملگجے خلیے والی لڑکی چلا رہی تھی مگر اس کی سننے والا وہاں کوئ نہ تھا۔۔

پلیز میرے بیٹے کا دم گھٹ جاۓ گا ہم دونوں مر جائیں گے۔۔خود کو گھسیٹتی وہ دروازے پر پہنچ کر بند دروازے کو زور زور سے پیٹنے لگی۔۔۔

کیا ہے لڑکی کیوں نیند خراب کر رہی ہو۔۔اک موٹی خرانٹ سی عورت آنکھیں ملتی کمرے میں داخل ہوئ۔۔

دیکھو میرا بیٹا بھوکا ہے کچھ کھانے کو دے دو مجھے بےشک نہ سہی میرے بیٹے کو کچھ دے دو۔۔اس نے تھوڑے دور بیٹھے دو سالہ بچے کی طرف اشارہ کیا جو بھوک کی شدت سے رو رہا تھا۔۔

میم صاحبہ کا خکم نہیں ہے مجھے اور اب دروازہ مت کھٹکھٹانا میری نیند خراب ہوئ تو میں تمہاری زندگی عذاب کر دوں گی ۔۔موٹی عورت غصہ کرتی دروازہ زور سے پٹخ کر لاک لگاتی ہوئ چلی گئ۔۔

پلیز پلیز خدا کا واسطہ ہے میرا بچہ بھوکا ہے کچھ تو دو۔۔پیچھے وہ دروازہ پیٹتی رہ گئ۔

خوراک کی عدم موجودگی نے لڑکی کی صخت کو حراب کر دیا تھا۔۔

میم صاحب وہ کچھ کھانے کو مانگتی ہے اس کا بیٹا اذان رو رہا ہے ۔۔موٹی عورت نے باہر آ کر فوراً اپنی میڈم کو کال ملائ تھی.  

ٹھیک ہے میم صاخب۔۔کال بند کرتے وہ موٹی عورت کچن کی طرف بڑھی فریج سے ڈبل روٹی اور دودھ کا پیکٹ نکالتی وہ اس بندھ کمرے کی طرف آئ جہاں ایک بدنصیب لڑکی کو اس کے بیٹے سمیت قید کیا گیا تھا۔۔

یہ لو اور کھاؤ۔۔ڈبل روٹی اور دودھ کا پیکٹ اس کی جھولی میں پھینکتی وہ پھر سے دروازہ لاک کر کے چلی گئ۔۔

اس بکھری لڑکی کو جیسے امید ملی ہو۔۔جلدی سے اپنے بیٹے کے پاس پہنچی اور اسے ڈبل روٹی دودھ میں ڈبو کر کھلانے لگی۔۔

بہت سارے آنسو اس کی آنکھوں سے نکلتے اس کی گردن پر جذب ہو گۓ۔۔

____________________________________________________________________________

وہ بیڈ پر آنکھیں موند کر لیٹا تھا۔۔سائیڈ ٹیبل پر پڑا اس کا موبائل بہت دیر سے رِنگ کر رہا تھا۔۔وہ جو نیندکی وادیوں میں تھا.  ہربڑا کراٹھ بیٹھا۔۔

موبائل اٹھا کر دیکھا تو سکرین پر خیا سدوانی کالنگ لکھا آ رہا تھا۔۔

آنکھیں ملتے اس نے کال پِک کر کے فون سے کان لگایا ۔

ہیلو میں نے آپکو ڈسٹرب تو نہیں کیا۔۔حیا سدوانی کی سریلی آواز موبائل سے گونجی جو اس وقت اسے شدید بری لگی تھی۔۔

رات کے اس وقت فون کرنا اور پھر پوچھنا کہ ڈسٹرب تو نہیں کیا ۔۔کیا کہلاتا ہے۔؟؟وہ بغیر کسی لخاظ کے تیز لہجے میں بولا۔۔

آئم سوڑی مجھے لگا آپ جاگ رہے ھوں گے۔۔حیا کے توقع کے برعکس جواب پرحیا تھوڑی دیر کو شرمندہ ہوئ مگر پھر ڈھیٹوں کی طرح مسکرانے لگی۔۔۔

کیوں میں آپ کو ویمپائرز کی فیملی سے لگتا ہوں۔۔جمائ کو ہاتھ سے روکتے وہ طنز سے اپنے لہجے کو پاک نہ کر پایا۔۔

آپ ٹھیک ہیں اب یہی پوچھنا چاہتی تھی میں۔۔۔حیا نے بات کو طول دینی چاہی ۔

میں ٹھیک ہوں مِس حیا آئندہ کوئ ضروری کام ہو تب بھی مجھے کال مت کیجیئے گا میری سیکٹری سے بات کر لیئجیے گا۔دوسری بات رات گۓ مجھے پھر کبھی بھول کر بھی کال مت کیجیئے گا اللہ خافظ۔۔بیزاری سے کہتے ہی اس نے کال کاٹ کر موبائل سائیڈ ٹیبل پر پٹخا اور زوردار جمائ لیتے ہوۓ دوبارہ سو گیا۔۔

دوسری طرف حیا حیرانی سے موبائل کو دیکھ رہی تھی۔۔پھر وہ اٹھی اور آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئ۔۔رخ بدل بدل کر خود کو غور سے دیکھنے لگی ۔

آخر کس چیز کی کمی ہے مجھ میں جو اے۔کے اتنی بری طرخ نظرانداز کرتا ہے مجھے۔۔لوگ میری ایک جھلک کو ترستے ہیں اور اسے کوئ قدر نہیں۔۔لیکن میں پھر بھی تمھیں پا کر رہوں گی۔۔۔وہ مغرور سا مسکرائ۔بالوں کو اک ادا سے جھٹکتے وہ ٹیرس کی طرف بڑھ گئ۔۔

مری لارنس کالج۔۔

ایک مہینے بعد  پیپرز شروع ہونے والے تھے جس کی وجہ سے سٹوڈنٹس کو ایک ہفتے کی چھٹیاں دی گئیں تھی تاکہ سٹوڈنٹس تھوڑا ری۰لیکس کر کے پوری انرجی سے پیپرز کی تیاریاں کر سکیں۔

ہاسٹل میں گہماگہمی تھی کچھ سٹوڈنٹس جا رہے تھے کچھ پیکنگ میں مصروف تھے۔سب کے چہروں سے خوشی جھلک رہی تھی۔۔

جن سٹوڈنٹس کو سال بھر گھونگھا سمجھا جاتا تھا آج ان کے لاؤڈسپیکر آسمان سے کو پہنچ رہے تھے۔

جن سٹوڈنٹس سے سوالات کے جواب میں صرف شرمیلی سے مسکراہٹ دیکھنے کو ملتی تھی ان کے قہقہے آج ہاسٹل کی دیواریں گِرا رہے تھے۔سب خوش تھے ایک ہفتے پڑھائ سے جان چھوٹ جانے پر اور کچھ فیملی سے ملنے پر۔

ایسے میں امان اللہ کاظمی اور سعدی رانا بھی پیکنگ میں مصروف تھے۔ہنستے مسکراتے باتیں کرتے وہ بھی گھر جانے کے لیئے خوش تھے۔

ہاسٹل کا کاٹ کبار بھی تو نے اپنے بیگ میں ساتھ لے جانا ہے۔سعدی نے اپنا بیگ پیک کر کے سائیڈ پر رکھا جبکہ امان کی پیکنگ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

تو کالی بلی کی طرح میرا ہر راستہ ہر بات ہر کام کیوں ٹوکتا ہے آج اپنا مسئلہ بتا ہی دو مسٹرسعدی رانا صاخب۔۔!! امان ہاتھ میں پکڑی شرٹ کو بیڈ پر پٹخ کر پنجے جھاڑ کر اس کی طرف بڑھا۔

مسئلہ یہ ہے کہ میں ایک انتہائ چست بندہ ہوں اور تم پر میری صحبت کا بھی کوئ اثر ہوتا نظر نہیں آتا۔انتہائ سست انسان ہو۔مجھے لیٹ ہو رہا ہے پہنچنے میں دیر ہو گئ تو فلائیٹ مِس ہو جانی ہے۔امان کا رخ زبردستی دوبارہ بیگ کی طرف موڑتے سعدی کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔۔

ہیلی کاپٹر بُک کروا لیں گے پھر یہ کون سی بڑی بات ہے۔۔امان نے بےپرواہی سے جواب دیا۔اور آخری شرٹ بیگ میں ڈال کر بیگ بند کرنے لگا۔۔۔

او بلگیٹس کی اولاد میں تیرے جتنا امیر نہیں ہوں کہ ہیلی کاپٹر منگواؤں غریب سا بندہ ہوں سکالرشپ نہ ملتی تو میں نے جاہل مر جانا تھا۔سعدی کی نظریں ہنوز کھڑکی سے باہر تھیں جہاں چمکتے چہروں کے ساتھ سٹوذنٹس جاتے ہوۓ دکھائ دے رہے تھے۔

ہاہاہاہا۔اتنا ہی کوئ فقیر پیدا ہوا ہے تو۔۔امان کی ہنسی چھوٹ گئ تھی اس کی آخری بات پر ۔

سعدی اور امان دوست تھے کزن تھے مگر سٹیٹس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔امان اللہ کاظمی ایک کامیاب بزنس مین کا بیٹا تھا۔شہر کے امیر ترین لوگوں میں ان کا نام شامل ہوتا تھا۔جبکہ سعدی اور دانین کے والد سرکاری ملازم تھے۔سیلری کم مگر خوشیاں ذیادہ تھیں۔پھر ان کے والد کی ڈیتھ ہو گئ۔پنشن پر گزارا تھا ان کا۔سعدی اور دانین تھے بھی بہت ذہین تھے۔سکالرشپ پر دونوں کی تعلیم جاری تھی۔جبکہ امان بہت ہی لاپرواہ سا تھا پڑھائ میں انٹرسٹ زیرو تھا سعدی جدھر تھا وہ ادھر ہی تھا۔بچپن کے دوست اور ہم عمر جو ٹھہرے۔۔

ویسے سعدی اک بات تو بتا۔۔!! امان بیگ کو سائیڈ پر رکھتا سعدی کے بیڈ کے اوپر سے چھلانگ لگا کر کھڑکی کے پاس کھڑے سعدی کو پہنچا۔۔

جی فرمائیں۔سعدی نے اسے تیز نظروں سے دیکھا اور جا کر اپنے سنگل بیڈ کی چادر جھاڑنے لگا۔۔

اماں سے اس بار بات کرنی ہے میں نے مان تو جائیں گی نا وہ میری شادی کروانے کے لیئے۔۔

دیکھ دوست جتنا میں جانتا ہوں تیری اماں اس بات پر قتل بھی کر سکتی ہیں۔چادر ڈال وہ اپنے بیگ کی طرف بڑھا۔لیکن تو لاڈلا ہے ان کا تیری بات شاید مان لیں۔اپنا بیگ اٹھاتے ہوۓ وہ دروازے کی طرف بڑھا۔۔

یاہو یہ کی نا تو نے یاروں والی بات۔۔امان اپنا بیگ پکڑے سعدی کے پیچھے بھاگا جو کمرے سے نِکل چکا تھا۔۔

ویسے میرا ایک مشورہ ہے۔۔سعدی نے چلتے چلتے گردن موڑ کر پیچھے آتے امان کو کہا۔۔امان نے أنکھ کی ابر اٹھا کر سوالیہ انداذ میں اسے دیکھا۔۔

ابھی کچھ وقت کے لیئے اس سب کو چھوڑ دے میرے بھائ اپنی تعلیم پر دھیان دے ۔اپنی عمر کا بھی جائزہ لے ابھی زمین سے اگا بھی نہیں ھے تو۔۔سعدی کی بات پر پیچھے پیچھے چلتے امان نے راستے میں پڑے پتھر کو پاؤں سے زور کے ٹھوکر ماری جو سیدھا آ کر سعدی کی ٹانگ میں لگا۔

سعدی نے کراہتے ہوۓ تیز نظروں سے مڑ کر اسے دیکھا۔جو اب دانت نکال رہا تھا۔

فلائیٹ مِس ہونے کا ڈر نہ ہوتا تو میں نے تیرا کباب وِد چٹنی یہیں بنانا تھا۔۔سعدی نے غصے سے کہا جس کا امان پر حاطرخواہ اثر نہ ہوا۔

ویسے تیرے انتظار میں کون پھول اور مالائیں لے کر کھڑا ہے جو تو اتنا اتاولا ہوا جا رہا ہے۔۔

کیوں میری ماں بہن نہیں ہے۔۔سعدی تنگ آ گیا تھا اس کی فضول کی باتوں سے تبھی تنک کر بولا۔۔

وہ تو ہیں کسی دوسرے کی بہن بیٹی کو بھی تو پھول چڑھانے والی لائن میں نہیں کھڑا کیا ہوا۔۔۔امان نے پھر سے اسے چھیڑا۔

اب تیری آواز میں نے سن لی تو پھول چڑھیں گے تیری قبر پر۔۔سعدی غصے سے بولا۔۔دونوں چلتے ہوۓ کالج کے گیٹ سے نِکل آۓ تھے۔اِکا دُکا سٹوڈنٹس گاڑیوں کے انتظار میں کھڑے تھے۔

کچھ اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گۓ تھے۔۔

امان کی سستی کی وجہ سے وہ دونوں لیٹ ہو گۓ ورنہ ابھی وہ اسلام آباد ائیرپورٹ پر ہوتے۔

بتا دے یار کب تک چھپاۓ گا۔۔امان کون سا باز آنے والا تھا۔تھوڑی خاموشی کے بعد وہ پھر شروع ہو چکا تھا۔۔

سعدی اسے نظردنداذ کرتا ایک ٹیکسی کی طرف بڑھا تھوڑی بات چیت کے بعد معاملہ طے پایا تو دونوں ٹیکسی میں بیٹھ گۓ۔

ٹیکسی اسلام آباد کی طرف جا رہی تھی جہاں سے جہاز کے ذریعے انہیں اپنی منزل کی طرف جانا تھا۔۔

____________________________________________________________________________

اپنے پیپرز کی تیاری پر دھیان دو ۔میں ٹھیک ہوں ۔۔لیپ ٹاپ پرنظریں گاڑھے ایک ہاتھ سے کچھ ٹائپ کرتا وہ دوسرے ہاتھ سے موبائل کان کے ساتھ لگاۓ بولا۔۔

میں کیسے یقین کر لوں تم ٹھیک ہو۔۔دوسری طرف ڈی۔جے منہ بناۓ بیٹھی تھی۔۔

میری آواز سے۔۔

مجھے نہیں آتیں یہ سِکلز۔ڈی۔جے معصومیت سے بولی تو کی۔بورڈ پر چلتے اس کے ہاتھ رکے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئ۔۔

دل پر ہاتھ رکھ کر آنکھیں بند کر کے مجھے سوچو ۔پھر دِل سے پوچھو وہ جو جواب دے وہ مان لینا۔لیپ ٹاپ کو ہاتھ سے سائیڈ پر کرتا وہ چیئر پر پیچھے کو ہو کر بیٹھ گیا۔

حیا کا دروازہ ناک کرتا ہاتھ رکا. .  اے۔کے کا ہر لفظ خرف بہ خرف اس نے سنا۔۔

مجھے نہیں پتہ یہ سب بس ملو مجھے تمہیں دیکھوں گی تو یقین آۓ گا دل کو۔۔وہ بچوں کے سے انداذ میں ضد کرنے لگی. .  اے۔کے سے بات کرتے وہ بچی ہی تو بن جایا کرتی تھی۔

اوکے میری جان میں ہارا تم جیتی شام میں آتا ہوں تمہارے ہاسٹل اب خوش۔۔

ایک دم خوش. . .  ڈی۔جے کھکھلا اٹھی۔۔

آئ۔لو۔یو ڈی۔جے. . . .  چیئر کو گھماتے اے۔کے شدت سے بولا۔دوسری طرف ڈی۔جے لال ٹماٹر ہو گئ تھی۔۔

بعد ممم میں بب بات کرتی ہوں. . .  سرخ ہوتے چہرے کے ساتھ ڈی۔جے نے فوراً کال کاٹ دی. .  اے۔کے مسکرا کر رہ گیا اس کے گریز پر۔۔

باہر کھڑی حیا کو لگا اس کا دم گھٹ رہا ہے وہ اب سانس نہیں لے پاۓ گی۔۔تھوڑی دیر پہلے جو چہرے پر مسکراہٹ تھی وہ غائب ہو گئ تھی اس کی جگہ پہلے اذیت اور پھر سختی نے لے لی۔۔۔

ٹک ٹک کرتی ہیل کے ساتھ وہ جیسے آئ تھی ویسے ہی واپس مڑ گئ۔۔

ورکرز نے خیرانی سے اس پری پیکر کو دیکھا جو ہنستے ہوۓ آئ اور شدتِ ضبط کے باعث لال  چہرہ لیئے واپس چلی گئ۔۔

____________________________________________________________________________

کیسے بتاؤں آپی کو ۔۔ آخر کیسے. . .  وہ کمرے میں ٹخلتی دماغ پر زور ڈالے سوچنے میں مصروف تھی۔۔

رات کو چاۓ دیتے ہوۓ بتاؤں گی گڈ۔۔وہ سوچتے ہوۓ خوش ہوئ۔۔.  نن نہیں چاۓ وہ ٹیرس پر پیتی ہیں کہیں مجھے وہیں سے دھکا مار دیا تو۔۔سوچتے ہی اس نے جھرجھری لے۔۔۔۔۔۔۔

کینسل یہ پلان۔۔ہاتھ سے ہوا میں کراس کا نشان بناتے وہ پھر سے کمرے کے چکر کاٹنے لگی۔۔

کھانے کی ٹیبل پر بتا دوں گی۔۔موم ڈیڈ بھی ہوں گے انہیں الگ سے بتانا نہیں پڑے گا۔ویسے بھی موم ڈیڈ کو بتانا نہ بتانا ایک ہی بات ہے مرضی تو آپی کی چلے گی۔۔نہیں ٹیبل پر نہیں بتاتی کہیں پلیٹ سے میرا سر پھوڑ دیا تو۔۔سوچتے ہوۓ اس نے ایک بار پھر جھرجھری لی۔۔

پھر کیسے بتاؤں۔۔

آپی ہیں کوئ جلاد تو نہیں۔۔ویسے کسی جلاد سے کم بھی نہیں۔۔وہ خودکلامی میں ہی سوال و جواب میں مصروف تھی۔۔

اوہ یہ میرے ذہن میں پہلے کیوں نہیں آیا۔تو بھی کتنی بدو ہے عینا۔۔اس نے آئینے میں دیکھتے ہوۓ اپنے سر پر چپت لگائ ۔

ہاں یہ ٹھیک ہے ٹیکسٹ کرتی ہوں آپی کو ۔۔اس نے مسکراتے ہوۓ جلدی سے فون اٹھایا۔۔

Hi, appi..

I am in love..

لکھ کر اس نے سینڈ پر کلک کیا۔۔

اوہ ہو گیا آپی مان جائیں بس۔۔وہ خوش تھی بہت خوش۔۔

کمرے میں گھول گھول گھومتے دوپٹے کو لہراتے خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔

____________________________________________________________________________

اس نے لاہور کی سڑکوں کی حاک چھان ماری مگر سعدی اسے نہ ملا۔۔وہ ایسا غائب ہوا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے اساور کو صبح سے دوپہر ،دوپہر سے شام،شام سے رات ہو گئ مگر وہ نہ مِلا۔۔

اساور بہت تھک گیا تھا۔۔صبح کے غصے پر تکھن غالب آ گئ تھی۔۔

دِماغ پھٹ رہا تھا۔وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا اس وقت وہ دانین کی شکل دیکھنے کا روادار بھی نہ تھا۔۔

دانین کی سعدی کو بچانے والی حرکت پر اس کا دِماغ ابھی بھی گرم تھا۔

وہ اب بےمقصد گاڑی کو دوڑا رہا تھا۔۔تبھی اس کی نظر وہاں سے جاتے کچھ لڑکوں کی ٹولی پر پڑی۔سڑک سنسنان تھی ایسے میں وہ لڑکے ہاتھ میں پیپسی کی بوٹلز پکڑے ناچتے گاتے ہوۓ جا رہے تھے۔۔

دِماغ کی گرمی دور کرنے کی حاطر اس نے سوچا کیوں نہ کولڈڈرنک پی لی جاۓ۔گاڑی کی سپیڈ سلو کرتے اس نے لڑکوں کے گروپ کے سامنے گاڑی کھڑی کر دی۔

لڑکوں کی ٹولی نے اسے عجیب سی نظروں سے دیکھا۔۔اساور نے ہاتھ سے ایک کو پاس آنے کا اشارہ کیا تو وہ منہ میں کچھ بڑبڑاتا لڑکھڑاتا ہوا گاڑی کے پاس آیا۔اساور نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔اس لڑکے کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں ایسے لگ رہا تھا وہ نیند میں ہے۔

ایک بوتل چاہیئے مجھے۔اساور نے لڑکے کے ہاتھ میں پکڑی بوتل کی طرف اشارہ کیا۔

لڑکے نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر اپنے دوستوں کی طرف مڑ کر فلق شگاف قہقہہ لگایا۔

او صاحب کو بوتل دو چلو جی چلو۔۔گاڑی کے پاس کھڑا لڑکا اپنے پیچھے کھڑے لڑکوں کو اشارہ کرتا جھومتا ہوا گاڑی کے آگے سے گزر گیا

۔پیچھے آتے ایک لڑکھڑاتے ہوۓ لڑکے نے بوتل اس کی طرف بڑھائ اور گاڑی کے آگے سے گزر گیا۔۔۔۔۔۔

اساور نے بوتل کھول کر منہ سے لگائ پہلا گھونٹ بھرتے ہی اسے ہزار والٹ کا کرنٹ لگا۔گاڑی کا دروازہ کھول کر اس نے جلدی سے منہ میں موجود ڈرنک کو تھوکا۔۔

بڑی چالاک ہو گئ ہے آج کل کی جنریشن پیپسی کی بوتل میں شراب۔۔اس نے اچنبھے سے لڑکھڑا کر جاتے ہوۓ لڑکوں کی ٹولی کو دیکھا۔اور بوتل بند کر کے سیٹ پر رکھ دی۔۔

اس کا دل ہر ایک شے سے اچاٹ ہو گیا تھا۔اسے پےسکونی سی لگی ہوئ تھی۔اس کی شدت سے خواہش تھی کہ سعدی اس کے سامنے ایک بار آ جاۓ بس ایک بار۔مگر مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔۔

وہ گاڑی سائیڈ پر کھڑی کر کے اسٹئیرنگ پر سر رکھ کر بیٹھ گیا۔رات کا اندھیرا چار سو پھیل چکا تھا۔سڑک بلکل سنسان تھی ایسے میں کافی دیر بعد کوئ گاڑی گزرتی تو ماحول کے سکون میں ہلچل ہوتی۔مگر وہ اسی طرح اسٹیرنگ پر سر رکھے بیٹھا تھا۔

سڑک کے سائیڈوں پر لگے درحتوں کے پیچھے کھیت تھے جن میں وقفے وقفے سے کتے بھونک رہے تھے۔

اس کا موبائل رِنگ کرنے لگا۔اسٹیرنگ سے سر اٹھا کر اس نے پاکٹ سے موبائیل نکالا۔گھر کے لینڈ لائن سے کال آ رہی تھی۔۔

سیٹ پر پیچھے کو ہو کر بیٹھتے اس نے خود کو ریلیکس کیا اور پھر کال پِک کی۔

اساور کہاں ہیں آپ۔دوسری طرف سے سہمی سہمی سی دانین کی آواز گونجی۔۔

کیوں۔۔؟؟اس کا لہجہ تیز ہوا۔وہ جو ریلیکس ہو کر بیٹھا تھا پھر سے آگ بھگولا ہو گیا۔۔

گھر نہیں آۓ آپ ابھی تک۔۔

تمہیں یہ فِکر ستا رہی ہو گی کہ تمہارا بھائ زندہ ہے کہ نہیں تو میں بتا دوں بچ گیا ہے کمینہ مجھ سے۔تم نے بھگا دیا اسے ورنہ وہ. . .  اساور نے خود کو بڑی گالی دینے سے روکا۔۔

اساور گھر پر کوئ نہیں ہے مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔وہ اس کی بات نظرانداز کر کے خوف سے بولی۔۔۔

کیوں باقی سب کہاں ہے۔۔اب کے اساور کا لہجہ تھوڑا نرم پڑا تھا۔۔

وہ بھابھی کی بہن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے سب وہیں گۓ ہیں۔ابھی سومو کی کال آئ تھی کہ وہ کل آئیں گے۔۔

ٹھیک ہے آتا ہوں میں۔اساور نے گاڑی سٹارٹ کر کے سڑک پر ڈالی۔ماخول کے خاموشی میں گاڑی کی آواز نے ارتعاش پیدا کیا۔۔۔

پلیز اساور کال مت کاٹیں مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔اساور کا فون کان سے ہٹاتا ہاتھ رکا۔دانین واقعی ڈری ہوئ تھی۔اساور کا تھوڑے دیر پہلے کا سارا غصہ ہوا ہو گیا تھا۔۔

سعدی،امان بدلہ کچھ وقت کے لیئے سب اس کے دماغ سے محو ہو گیا تھا یاد تھا تو صرف یہ کہ دانین اکیلی ہے ڈری ہوئ ہے ۔اسے جلد سے جلد اس کے پاس پہنچنا ہے۔۔

فون کان سے ہی لگا ایک ہاتھ سے ریش ڈرائیو کرتا وہ گھر کی طرف جا رہا تھا۔۔

گاڑی دوڑاتا وہ گھر پہنچا۔ہارن پر چوکیدار نے جلدی سے گیٹ کھولا۔گاڑی اندر لا کر پورچ میں کھڑا کرتا وہ گاڑی سے اتر کر وہ گاڑی لاک کرنے لگا۔پھر کچھ سوچتے ہوۓ سیٹ پر پڑی بوتل اٹھا لی۔دکھنے میں ایک دم کولڈڈرنک کی بوتل لگتی تھی وہ۔بوتل پکڑے وہ اندر کی طرف بڑھا۔

صاحب صاحب۔۔چوکیدار کی آواز پر اس کے بڑھتے قدم رکے۔اس نے مڑ کر سوالیہ انداذ میں چوکیدار کی طرف دیکھا۔جو ہاتھ میں پیکٹ پکڑے اس کی طرف آ رہا تھا۔۔

صاحب یہ کورئیر والا دے گیا تھا۔گھر پر کوئ نہیں تھا تو میں اندر نہیں گیا۔آپ لے لو یہ۔۔چوکیدار پیکٹ اسے پکڑا کر واپس گیٹ کی طرف چلا گیا۔۔

اساور نے ناسمجھی سے لفافے کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔وہ کورئیر دانین کاظمی کے لیئے آیا تھا۔۔کچھ سوچتے ہوۓ اس نے پیکٹ کو کھولا۔۔

اندر ایک فائل تھی۔پیکٹ سے فائل نکالی تو ایک چھوٹا سا کاغذ کا ٹکڑا نیچے گِرا۔۔

فائل کو کو غور سے دیکھتے ہوۓ اس نے کاغذ کا ٹکڑا نیچے سے اٹھایا۔۔

فائل میں دانین کے ڈاکومینٹس تھے۔۔ساتھ رول نمبر بھی تھا۔اس کے فورتھ سمیسٹر کے پیپرز سٹارٹ ہونے والے تھے۔۔

فائل کو بند کرتے اس نے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔جو فولڈ ہوا تھا۔اسے کھول کر وہ پڑھنے لگا۔جیسے جیسے وہ پڑھ رہا تھا۔اس کی سر کی رگیں تن گئیں تھیں۔چہرے پر سختی در آئ تھی۔۔وہ پل میں تولا پل میں ماشا شخص تھا۔

ہونٹوں کو سختی سے بھینچے وہ اندر بڑھا۔۔

فائل کو بند کرتے اس نے کاغذ کے ٹکڑے کو دیکھا۔جو فولڈ ہوا تھا۔اسے کھول کر وہ پڑھنے لگا۔جیسے جیسے وہ پڑھ رہا تھا۔اس کی سر کی رگیں تن گئیں تھیں۔چہرے پر سختی در آئ تھی۔۔وہ پل میں تولا پل میں ماشا شخص تھا۔

ہونٹوں کو سختی سے بھینچے وہ اندر بڑھا۔۔

سامنے صوفے پر ڈری سہمی سی دانین بیٹھی تھی۔اساور کو دیکھ کر اس کا ڈر ختم ہوا تھا۔وہ دوڑ کر اساور کے چوڑے سینے سے آ لگی۔

اگر اساور کو یہ انویلپ نہ مِلا ہوتا تو وہ خود سے لگی دانین کو خود میں سیمٹ لیتا۔

مگر اس وقت اس بددماغ شخص کا دماغ غصے کی آگ میں جل رہا تھا۔۔

اس نے جھٹکے سے دانین کو خود سے الگ کیا۔یوں ایک دم دھکا دینے پر وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ پائ تھی اور لڑکھڑاتے ہوۓ صوفے کے پاس گِری تھی۔۔

آنسوؤں بھری آنکھیں اٹھا کر دانین نے اس شخص کو دیکھا جو تکلیف نہ دینے کا وعدہ کر کے اسے تکلیفوں کے سمندر میں پھینک دیتا تھا۔سامنے کھڑا شخص پتھر تھا پر وہ مخبت بھی نہیں تھا۔۔محبت نرم مزاج لوگوں کا شیوہ ہے پتھر دلوں کو زیب دیتی ہے نہ راس آتی ہے۔

یہ یہ کیا ہے۔۔ہاتھ میں پکڑی بوتل کو صوفے پر پھینکتا وہ فائل لے کر اس کی طرف بڑھا۔دانی جو اس کے آنے پر اپنے اندر سے ہر خوف کو مٹتا ہوا پا رہی تھی اب اس سے ہی شدید خوف محسوس کر رہی تھی۔۔

کک کیا ہے۔۔دانین دھیرے دھیرے پیچھے کو کھسکنے لگی مگر آج کوئ ایسی زمین نہ تھی جو اساور کاظمی سے بچاتی ہوئ دانین جمشید علی کے لیئے پھٹ پڑتی۔کوئ آسمان آج ایسا نہ تھا جو اساور کے عتاب سے دانین کو بچا پاتا۔۔

یہ پڑھو۔۔غصے سے کانپتی آواز کے ساتھ اساور نے کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھمایا۔۔دانی نے جلدی سے اسے تھاما۔جیسے جیسے وہ تخریر پڑھ رہی تھی خوف کے مارے اس کی سانسیں بھی ختم ہو رہیں تھیں۔۔

وہ تم سے رابطے میں رہتا ہے ہر پل ہر گھڑی پھر کیوں تم مجھ سے جھوٹ بولتی ہو۔۔اساور کا شدید غصہ اس کے اونچے لہجے سے ظاہر ہو رہا تھا۔۔

وہ مم میں نے کہا تھا میرے ڈاکومینٹس لا دے وہ پیپرز ہونے والے ہیں۔۔

اوہ تو پیپرز کی تیاری کر رہے ہیں دونوں بہن بھائ۔کرئیر بنانا ہے گٹر کے کیڑوں نے۔۔اساور کا لہجہ انتہائ گھٹیا ہوتا جا رہا تھا۔دانی بس خیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ہر پل اس پر اساور کا نیا وخشیانہ روپ آشکار ہوتا تھا جس سے وو پہلے انجان رہی تھی۔۔

ہماری زندگیوں سے سکون ختم کر کے اپنا کرئیر بنانا ہے تم خودغرضوں نے۔۔وہ دانین کے پاس ہوتے ہوۓ بولا تو وہ ڈر کر ایک دم پیچھے ہوئ تھی۔۔

صیخ صیخ بنے گا اب کرئیر تمہارا دانین جمشید علی۔۔طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ دانین کے ڈاکومینٹس اٹھاۓ وہ کچن کی طرف بڑھا ۔۔دانین ناسمجھی سے اسے جاتے ہوۓ دیکھتی رھی۔۔تھوڑی دیر بعد جب بات اس کی سمجھ میں آئ وہ دوڑتے ہوۓ کچن کی طرف بھاگی ۔

مگر یہ کیا۔۔؟! اس کی زندگی کے بیس سال اساور نے چولہے میں جھونک دیئے تھے۔جن سے آگ بھڑک رہی تھی۔

دانین کو لگا کسی نے اس کے دل کو جلا دیا ہو۔وہ بھاگ کر چولہے کے پاس پہنچی لیکن تب تک اس کی مخنت اس کا کرئیر اس کے خواب جل کر راکھ ہو چکے تھے۔۔

دانین کی سانسیں تھم گئیں تھیں۔اس نے صدمے سے اساور کو دیکھا جو ہونٹوں پر مسکراہٹ سجاۓ اس کی بےبسی اور اذیت کو انجواۓ کر رہا تھا۔۔

اس پل دانین کو اساور سے شدید نفرت محسوس ہوئ اتنی نفرت کہ اس کا دل چاہا اساور کا قتل کر دے جو محت کا قاتل تھا۔جو اس کے خوابوں کے ڈھیڑ کو جلا کر راکھ کر چکا تھا۔۔

خواب کریئیر زندگی کے اتنے سال سب برباد چچچ بہت افسوس ہوا۔۔اساور نے اس کی بہتی آنکھوں کو اور بہنے کے نۓ جواز دینے چاہے۔۔دانین نے ایک نظر راکھ پر ڈالی اور پھر دونوں مٹھیوں میں بھر کر اساور کے چہرے پر مل دی۔۔

اساور کا میٹر مذید گھوما۔وہ حیران ہوا تھا اس کی ہمت پر۔۔

یہ یہ ڈیزرو کرتے ہو تم مسٹر اساورکاظمی یہ راکھ ۔اور تم جیسے دوغلے انسان کی اوقات نہیں ہے خوابوں کو جلا دینے کی۔۔وہ پوری شدت سے چیخی تھی۔غصے سے اسکا پورا وجود کانپ رہا تھا۔اساور نے اسے کبھی اتنےغصے میں نہیں دیکھا تھا۔

جب خواب بےکسوں کی آنکھوں کے سامنے جلاۓ جائیں تو ہمت خود پیدا ہو جاتی ہے۔

میں محبت ڈیزرو نہیں کرتا تو تم کرتی ہو کبھی اپنےگریبان میں جھانکا ہے۔۔چہرے کو ایک ہاتھ سے صاف کرتے دوسرے ہاتھ سے زور سے اس کا بازو پکڑا۔۔

جھانکتی ہوں اور حیران ہوتی ہوں غلطیاں تو سب سے ہوتی ہیں مجھ سے ایسی کون سا گناہ ہو گیا تھا جس کی سزا میں تم ملے ۔وہ بھی اسی کے انداذ میں بولی تھی۔آنکھوں میں خوابوں کی راکھ آنسو لا رہی تھی۔۔

جان لے لوں گا میں تمہاری جو ایک لفظ بھی کہا تو۔۔دانین کے دوسرے بازوکو بھی اپنی گرفت میں لیتے وہ غرایا۔دانین کی تکلیف کے مارے سسکی نکلی۔۔

قصاص کے لیئے تیار رہنا۔۔آج دانی بےخوف تھی۔اس کے لہجے سے ڈر غائب تھا۔۔

شٹ اپ۔۔

یو شٹ اپ مسٹر اساور کاظمی۔۔

بہت زبان چل رہی ہے آج۔۔دونوں بازو ایک ہاتھ سے زور سے مڑوڑتے اس نے ایک ہاتھ سے دانین کا منہ دبوچ لیا۔۔بہت پٹر پٹر کرنے لگی ہو آج۔۔ایک جھٹکے سے اسے دھکا دیتا وہ کچن سے نِکل گیا۔۔وہ شیلف سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تھی۔البتہ ہاتھ شیلف پر رکھے کٹر پر لگ گیا جسکی وجہ سے ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔۔

اساور غصے سے مٹھیاں بند کرتے لاؤنج میں صوفے پر آ بیٹھا تھا۔غصے کے مارے برا حال تھا اس کا۔ایک دم وہ اٹھ کر اِدھراُدھر کے چکر کاٹنے لگتا۔پھر ایک دم سے بیٹھ جاتا ۔۔۔

ابھی اس کی نظر صوفے پر پڑی بوتل پر گئ۔اس نے ایک دم بوتل اٹھائ۔جسے کچھ منٹ پہلے حرام جان کر چھوڑ دیا تھا اب اسے ہی ہاتھ میں پکڑے کچھ سوچ رہا تھا۔۔

بوتل کو ہاتھ میں لیتے اسے اپنے ٹیچر کے کہے الفاظ یاد آۓ۔۔

تو آج ہم بات کریں گے جگر اور اس کی بیماریوں پر اور یہ بیماریاں کیسے جنم لیتی ہیں وہ بھی جانیں گے۔۔۔ٹیچر نے سلام کے جواب کے بعد سبکو ٹاپک کا نام بتایا۔۔سب دلچسبی سے سر کو دیکھ رہے تھے۔

 جگر کا سکڑنا یا اپنے قدرتی سائز سے چھوٹا ہو جانا یہ ایک نہایت خطرناک اور مہلک مرض ہے جو زیادہ تر شراب نوشی  کے باعث پھیلتا ہے ۔ذیادہ تر یہ دوسرے ممالک کی بنسبت امریکہ اور یورپ میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔شراب نوشی کی وجہ سے جگر میں ریشہ دار مادہ پیدا ہو جاتا ہے جس سے جگر کے اصلی خلیے تباہ ہو جاتے ہیں اس کے ساتھ جگر میں چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی گانٹھیں بننے لگتی ہیں یہ عمل جگر کی تمام حصوں میں پھیلا ہوا ہوتا  ہے اور متواتر بڑھتا رہتا  ہے یہاں تک کہ جگر میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور جگر کی چربی گلنے لگتی ہے شروع میں تو جگر بڑھ جاتا ہے لیکن جب جگر کی چربی ختم ہو جاتی ہے اور گانٹھیں بڑھ جاتی ہیں تو وہ سکڑ کر چھوٹا ہو جاتا ہے اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا مریض نقاہت اور کمزوری کے باعث موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے اس بیماری کے دوران اور بھی پیچیدگیاں اور عارضے لاحق ہوجاتے ہیں مثلا پلورسی جریان خون جلندھر اور نمونیا وغیرہ__

ہاتھ میں پکڑی بوتل کو اس کے استاد کی آواز کھولنے سے روک رہی تھی۔مگر اس نے سر جھٹکا اور بوتل کھول دی۔

قرآن پاک میں اللہ کی طرف سے شراب نوشی کے بارے میں تین آیات کریمہ کا نزول فرمایا گیا ہے۔( تجھے پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کے متعلق انہیں فرما دو کہ ان دونوں میں ہی بڑا گناہ ہے اور فائدے ہیں خلق کےواسطے)۔۔کہیں سے اس کے قاری کی آواز گونجی جن سے وہ قرآن پڑھتا تھا۔اساور نے چونک کر اردگرد دیکھا کوئ نہیں تھا۔یہ اس کے اندر کی آوازیں تھیں علم تھا جو اسے اسلام کے دائرے سے نہ نکلنے کی تلقین کر رہا تھا۔۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"  اور بندہ جب شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں رہتا۔۔شراب حرام ہے۔

اس کی ماں کی آواز گونجی ۔منہ تک بوتل لے جاتے اس کے ہاتھ رکے مگر دوسرے ہی پل اس نے بوتل منہ سے لگا لی تھی۔

ذہن میں استاد،ماں،قاری سب کے پڑھاۓ جملے گردش کر رہے تھے مگر اس پل وہ سب کچھ فراموش کر دینا تھا۔کیونکہ وہ شدید غصے میں تھا۔

اسی لئیے تو غصے کو حرام کہا گیا ہے۔غصے میں انسان گر جاتا اپنے معیار سے ذات سے اور اسلام سے۔۔

غصہ نہایت خطرناک ہے اور اصل سمجھدار اور راسح مسلمان وہی ہے جو بروقت اس پر قابو پالیتا ہے۔۔

جبکہ غصے میں اپنا آپا کھو دینے والا اکثر سب کچھ کھو دیتا ہے۔۔

اس نے پہلے کبھی ڈرنک نہیں کی تھی اس لیئے اس پر نشہ جلدی اور بہت ذیادہ چڑھ گیا تھا۔۔

اپنے ہاتھ پر پٹی باندھتے آنسو پونجتے وہ کچن سے باہر آئ۔سامنے اساور لال آنکھوں، طنزیہ مسکراتے ہونٹوں، اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔

وہ حیرانی سے اس کی چال دیکھ رہی تھی۔ایسے لگ رہا تھا ٹانگوں میں چوٹ کے باعث ایسے چل رہا ہے۔۔

دانین کے پاس پہنچ کر اساور لڑکھڑایا۔دانین نے ایک دم دونوں ہاتھوں سے تھام کر اسےگرنے سے بچایا مگر اس کے پاس سے آتی بو پر دانین کی آنکھیں حیرت سے کھل گئیں۔وہ ایک دم اساور سے دور ہوئ۔وہ توازن قائم نہ رکھ پایا اور اوندھے منہ زمین پر گِر گیا۔۔۔

مم میں گِر گیا مم مجج مجھے اٹھاؤ۔اساور کا لہجہ بھی اس کے قدموں کی طرح کانپ رہا تھا۔۔۔

گِر تو تم گۓ ہو اور کتنا گِرو گے اساور۔۔دانین حیرت اور بےیقینی سے اسے دیکھے جا رہی تھی۔۔

ہاہاہا یہی میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔۔وہ طنز بھڑے انداذ میں ہنستا ہوا خود ہی اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔

آج تم نے ساری حدیں پار کر دیں تم سے نفرت کرنے کا اک نیا جواز دے دیا تم نے مجھے۔۔

اور میں تم سے انتہائ نفرت کرتا ہوں سنا انتہائ نفرت۔۔وہ بھی بند ہوتی لال آنکھوں کے ساتھ غرایا۔۔

اور ایک بات تو بتاؤ سعدی کی اتنی طرف داری کیوں کرتی ہو۔لگتا کیا ہے وہ تمہارا۔۔اساور نے شکی انداذ میں اسے دیکھا۔۔

بھائ لگتا ہے وہ میرا۔۔

مجھے تو عاشق لگتا ہے۔۔

شٹ اپ اساور جسٹ شٹ اپ۔تم مینٹلی کتنے گِرے ہوۓ انسان ہو۔۔اساور کی بات پر دانین کا غصہ بڑھ گیا تھا۔۔

تمہاری ماں نے تو جنم نہیں دیا اسے نہ خون کا رشتہ ہے پھر بھائ نو نو مجھے دال میں کچھ کالا لگتا ہے۔۔

تم مر جاؤ اساور ایک گھٹیا انسان ہو تم رشتوں کو ان کی پاکیزگی کو نہیں سمجھتے تم کیونکہ تم انسان نہیں ہو تم وخشی درندے ہو تم۔۔ضبط سے مٹھیاں بھینچتی وہ بھاگ کرسومو کے کمرے میں آ گئ۔دروازہ لاک کرتے وہ دروازے کے سہارے بیٹھتی چلی گئ۔آنسو اس کی آنکھوں سے تیز بارش کی طرح برس رہے تھے۔۔

گھٹنوں پر سر رکھ کر وہ ہچکیوں کے ساتھ رو پڑی تھی۔۔

آج ساری حدیں تمام ہوئیں تھیں۔اس کے خواب اس کا کردار سب ملیا میٹ کر دیا تھا اساور نے۔۔۔

____________________________________________________________________________

موم یہ ڈیڈ کو پاس کریں انہیں پسند ہے نا۔۔عینا اپنے والدین کے ساتھ ڈِنر کر رہی تھی۔۔اس کی ماں نے مسکراتے ہوۓ ڈونگا تھام کر سالن اپنے شوہر کی پلیٹ میں ڈالا۔۔

جیتی رہو میری بچی۔۔اس کے ڈیڈ مسکراۓ اور کھانا کھانے لگے۔۔

تبھی باہر زور زور سے ہارن کی آواز آئ پھر تیزی سے گاڑی پارک کی گئ جس کی وجہ سے گاڑی کے ٹائر چرچراۓ۔۔

عینا کی دھڑکن ہوا ہونے لگی۔یہ سب طوفان آنے کے پہلے کے چھوٹے موٹے ڈیمو تھے۔۔

دروازہ کھلا اور پینسل ہیل کی ٹک ٹک پورے لاؤنج میں گونجی۔وہ تیز تیز چلتے ڈائینگ روم میں پہنچی۔

عینا بہت گھبرا گئ تھے۔اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے تھے۔عینا نے مددطلب نظروں سے ماں اور باپ کو دیکھا۔

جب جب وہ اس تیزی سے گھر میں داخل ہوتی تھی عینا کی شامت آتی تھی۔

ڈائینگ ٹیبل کے سامنے کھڑی وہ کھا جانے والی نظروں سے عینا کو دیکھ رہی تھی۔اور عینا بےبسی سے ماں باپ کو تکے جا رہی تھی جنہوں نے اپنی بڑی بیٹی کو اتنا سر چڑھا دیا تھا کہ اب وہ اس کے غصے سے ڈر جاتے تھے۔۔

مینو بیٹا کیا ہوا ہے۔۔اس کی ماں نے بےچارگی سے اس کا ہاتھ پکڑا۔۔

یہ آپ اپنی اس لاڈلی ماہرانی سے پوچھیں۔ماں کا ہاتھ جھٹکتے مینو نے زور سے عینا کی چیئر گھمائ عینا توازن برقرار نہ رکھتے ہوۓ اوندھی منہ مینو کے قدموں میں گِری تھی۔۔

مینا بس کرو جان لو گی اس کی۔۔عینا کے بابا وہیل چیئر کو دھکیلتے عینا کے پاس پہنچے۔عینا  جلدی سے اٹھ کر ان کے پیچھے چھپ گئ۔

آپ مت بولیں بیچ میں ڈیڈ میں آج کوئ لخاظ کرنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔

ہمارا لخاظ تم کرتی کب ہو۔اس کی ماں بھی عینا کے پاس جاکھڑی ہوئ ۔۔

لو بن گئ ٹولی۔واہ مجھے پرایا کر کے اس چھٹانک بھر کی لڑکی کو خود میں سیمٹ لیتے ہیں واہ واہ بہت خوب۔۔مینو نے طنزیہ انداذ میں زوردار تالی ماری تھی۔

بہن ہے تمہاری کیوں اس کے پیچھے پڑی رہتی ہو ہر وقت بخش دو اسے۔۔اسے کے باپ نے اپنے کانپتے ہاتھ مینو کے سامنے جوڑے تھے۔۔

اپنی اس لاڈلی کے کرتوت پتا ہیں آپ کو زمین سے پوری طرح اگی نہیں اور میڈم صاحبہ محبت کررہی ہیں۔مینا کے لہجے میں خقارت ہی خقارت تھی۔۔

یہ اس کی زندگی ہے اپنی مرضی سے جینے کا خق رکھتی ہے وہ تم کون ہوتی ہو انٹرفئیر کرنے والی۔۔اس کے باپ کا لہجہ بھی اونچا ہو گیا تھا۔۔

پھر تو میری زندگی بھی میری اپنی تھی مجھے محبت کرنے کا خق کیوں نہیں دیا گیا۔میں کیوں محبت سےمحروم ہوں۔۔مینا بھی چلائ تھی ۔ڈائینگ ٹیبل پر ہاتھ مار سارے برتن اِدھراُدھر پھینک دییئے تھے۔

ٹوٹی کانچ کے ٹکڑے لاؤنج میں بکھرے پڑے تھے۔۔

محبت خودعرض لوگوں پر کبھی مہربان نہیں ہوتی۔اپنے اندر سے تکبر ،خقارت،خودغرضی کو نکالو تب تم جانو محبت کیا ہے۔۔اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر سمجھانے کی کوشش کی۔۔مگر اسنے ایک جھٹکے سے اپنے ہاتھ ان کے ہاتھوں سے چھڑاۓ تھے۔۔

میں خق نہیں رکھتی محبت پر تو کسی انسان کو محبت کرنے کا خق بھی نہیں دوں گی۔یہ بات سا سمجھ لو تو بہتر ہے۔۔انگلی اٹھا کر وارن کرتی وہ باپ کے پیچھے کھڑی عینا کی طرف بڑھی۔اسے بازو سے کھینچتی وہ کمرے کی طرف لے جانے لگی۔۔

ماں باپ کی لاکھ مزاحمت پر بھی اسے کوئ فرق نہیں پڑا تھا۔۔عینا کو کھینچ کر اس نے کمرے میں پھینک کر دروازہ لاک کر دیا۔۔

کسی نے اس عشق زادی کو یہاں کے نکالا تو نتائج کا ذمہ دار خود ہو گا۔۔چبا چبا کر کہتے دروازے کی چابی بیگ میں ڈالتی ٹک ٹک کرتی ہیل کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف چلی گئ۔۔

____________________________________________________________________________

اسلام علیکم۔اماں!! وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کی اماں کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی۔وہ آہستہ سے چلتا ہوا آیا اور پیچھے سے ان کی کمر میں ہاتھ ڈالا۔۔

سعدی میرا بچہ۔۔وہ خوشی سے پیچھے مڑیں۔سعدی کے ماتھے پر بھوسہ دیتے ان کے آنسو بہہ نکلے۔۔

اماں رو کیوں رہی ہیں جہاد سے تو آیا نہیں۔ان کے رونے پر پریشانی نے سعدی نے ان کے آنسو پونجے۔۔

سعدی کتنے مہینوں بعد دیکھا ہے تجھے میرا بچہ خوشی کے آنسو ہیں۔۔

افف اماں یہ أنسو آخر ہیں کیا چیز غم اور خوشی دونوں میں نِکل پڑتے ہیں۔آئ ڈونٹ انڈرسٹینڈ دِز تھیوری۔۔شرارت سے کہتا وہ انہیں ساتھ لیئے کچن سے باہر نکلا۔۔

یہ دانی نظر نہیں آ رہی۔۔

ہاسٹل میں ہے نا۔چھٹی نہیں ہوتی اسے اور تم بھی چلے جاتے ہو پیچھے مجھے اکیلا چھوڑ کر۔۔۔انہوں نے اپنا دکھڑا رویا۔۔

اماں کچھ پانے کے لیئے یہ سب تو سہنا پڑتا ہے جس دن میں اور دانی مشہور شخصیت بن جائیں گے تب آپ فخر کریں گی اس وقت پر۔۔

چل شودے۔اللہ تم دونوں کے خواب پورے کرے یہی دعا کرتی ہوں میں۔۔

اچھا یہ اماں بی کہاں ہے۔۔نظریں اِدھراُدھر دوڑاتے اس نے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔۔

طبیعت خراب رہنے لگی ہے ان کی آرام کر رہی ہیں کمرے میں۔۔

او اچھا آپ جلدی سے کھانا بنائیں میں اماں بی سے مل کر دانی کو لینے جاؤں گا جتنے دن میں یہاں ہوں چھٹی تو کرنی پڑے گی اسے۔۔. . . . .  

نہیں کرے گی بیٹا اپنی پڑھائ اور کرئیر کے لیئے بہت سیرئیس ہے وہ بھلے اور باتوں میں سیرئیس نہیں ہے. . . . .  

میں لے آؤں گا اماں میری صلاحیتوں سے بھی آپ واقف نہیں۔۔انگلی سے ان کی ناک چھوتا وہ مسکراتا ہوا اماں بی کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔۔

اسے جاتا دیکھ کر وہ سرشاری سے مسکرا اٹھیں۔وہ خدا کا شکر ادا کرتیں تھیں کہ اتنی اچھی اولادیں ملی ہیں انہیں۔۔

مسکراتے ہوۓ وہ کچن میں چلی گئیں ابھی انہیں دانین اور سعدی دونوں کی پسند کے کھانے بنانے تھے۔۔

محبت وہ پنجرہ ہے

جس میں ایک محبت زدہ

کو دنیا قید کر کے رکھتی ہے

جن شکاریوں کی فہرست میں

 سرِفہرست سنو جاناں۔!!

ہمارے کچھ اپنے آتے ہیں

مجھے کوئ نکالو یہاں سے موم ڈیڈ پلیز۔۔وہ تین دن سے کمرے میں قید تھی اس کی ماں میں اتنی ہمت نہیں تھی بڑی بیٹی کے خلاف جا کر چھوٹی کی مخافظ بنتی۔۔

وہ رو رہی تھی چلا رہی تھی۔مگر سب بےسود تھا۔اس کی فریادیں سنتے اس کے ماں باپ بھی ہلکان ہو رہے تھے۔۔

مجھے نکالو میں مر جاؤں گی یہاں۔۔دروازہ پیٹتے پیٹتے وہ تھک گئ تھی دروازے کے ساتھ لگ کر بیٹھتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔

مجھے یہاں سے نکلنا کچھ بھی کر کے۔امان سے کیسے کانٹیکٹ کروں میں۔۔وہ مسلسل بڑ بڑا رہی تھی۔۔

کہاں جا رہی ہو مینا۔۔سوٹ کیس دھکیلتی وہ ایک ہاتھ سے ہینڈ بیگ پکڑے جینز کے ساتھ سلیولیس بازوؤں والی شرٹ پہنے ٹک ٹک کرتی ہیلوں کے ساتھ کہیں جانے کو تیار تھی۔۔

بزنس میٹنگ ہے موم سنگاپور جا رہی ہوں تین دن کے لیئے۔۔رک کر ماں پر ایک نظر ڈال کر وہ باہر کی ظرف بڑھی۔۔

مینا سنو۔!! ماں کی آواز پر بےزاری سے منہ بناتی پلٹی۔۔کتنی بار کہا ہے موم مت جاتے ہوۓ پیچھے سے آواز دیا کریں۔۔

اتنے دور جا رہی ہو تو دل ڈر گیا تھا۔۔وہ ماں تھیں اور اولاد جیسی بھی ہو ماں کا پریشان ہونا اولاد کے لیئے فکر مند ہونا فطری ہے۔۔

پہلی بار نہیں جا رہی میں موم اور ڈیڈ اس سب کو سنبھالنے کے قابل ہوتے تو میں نہ جاتی۔۔اور تیسری بات عینا کو باہر کسی نے نکالا تو مجھ سے برا کوئ نہیں ہو گا۔۔انتہائ بدتمیزی سے کہتی وہ ٹک ٹک کرتی باہر نکل گئ۔۔

کچھ دیر بعد مینا کی گاڑی کی آواز آئ گیٹ کھلنے پر زن سے گاڑی باہر نکلی۔۔

اس کی ماں نے اسے جاتے ہوۓ دیکھا اور بھاگ کر عینا کے روم کے پاس پہنچی۔ڈوبلیکیٹ چابی سے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئیں۔۔

سامنے عینا بکھرے بالوں اور ملگجے حلیے کے ساتھ بیڈ کے پاس نیچے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی تھی ۔دروازے کی آواز پر سر اٹھا کر اس نے دیکھا۔اس کی آنکھیں شدتِ گریہ زاری کی وجہ سے سرخ ہو کر سوجھ گئ تھیں۔اس کی ماں کا دل کٹ کر رہ گیا تھا اپنی لاڈلی کی حالت پر۔۔

عینا میرا بچہ۔۔وہ روتی ہوئ اس کی طرف بڑھیں عینا بھی ماں کی آغوش پا کر ان میں سمٹ گئ تھی۔۔

ماں مجھے نکالیں یہاں سے ۔میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔ماں کے سینے سے لگی وہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔

کیسے بیٹا مینا کو جانتی ہوں کہرام مچا دے گی۔۔وہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہیں تھیں۔۔

ماں پھر مار دیں مجھے اس کے ڈر سے۔۔ماں سے دور ہوتی وہ پھٹ پڑی تھی۔میری کوئ زندگی نہیں ہے ماما۔۔؟؟ہر فیصلے پر میں نے آپی کی طرف دیکھا مگر اب بس ہو گیا میری زندگی میں اپنی مرضی سے جینا چاہتی ہوں۔۔

جاؤ جی لو اپنی مرضی سے میرا بچہ۔۔وہیل چیئر دھکیلتے اس کے ڈیڈ روم میں داخل ہوۓ۔۔۔

ڈیڈ۔۔وہ بھاگ ان کے گھٹنوں سے لگ کر بیٹھ گئ۔۔

جاؤ بیٹا مینا لوٹ آئ تو تم نہیں جا سکو گی وہ قیامت ہے تمہیں برباد کر دے گی تمہیں آباد نہیں ہونے دے گی۔۔تم چلی جاؤ اس کا کہرام ہم دیکھ لیں گے۔۔ڈیڈ نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔عینا نے حیرانی سے ماں کی طرف دیکھا جنہوں نے مسکرا کر سر کو خم دیا۔۔

تھینکس موم ڈیڈ یو آر بیسٹ پیرنٹس اِن ورلڈ۔۔ماں کے گلے لگ کر باپ کے سر پر بھوسہ دیتی وہ واش روم کی طرف بڑھی۔۔

منہ ہاتھ دو کر وہ باہر نکلی بالوں میں برش کر کے کیچر میں جھکڑا جوتے پہنے اور دروازے کی طرف بڑھی۔۔

عینا۔۔باپ کی آواز پر وہ پلٹی۔۔جی ڈیڈ. .  وہ ان کے پاس زمین پر آ بیٹھی۔۔

یہ فون اور پیسے رکھو ضرورت پڑیں گے اور کہیں سیف جگہ پر پہنچ کر ہمیں انفارم کرنا۔۔انہوں نے عینا کا گال تھپتھپایا۔۔آئ لو یو موم اینڈ ڈیڈ۔۔مسکرا کر کہتے وہ فون اور پیسے اٹھا کر جینز کی جیب میں رکھتی باہر نکل گئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

____________________________________________________________________________

رات کی تاریکی ختم ہوئ تو صبح کے سورج نے چاروں طرف روشنیاں پھیلا دیں۔۔

اساور کی آنکھ کھلی تو وہ لاؤنج کے صوفے پر ہی سویا ہوا تھا۔آنکھیں ملتا وہ اٹھا ٹیبل سے موبائل اٹھا کر ٹائم دیکھا۔۔

آفس کے لیئے بہت دیر ہو گئ اتنی دیر میں کیسے سوتا رہ گیا۔۔منہ پر ہاتھ ملتے وہ اٹھا تب ہی اس کی گود سے بوتل نیچے گِری تب اسے اپنے اتنی دیر تک سونے کی وجہ سمجھ آئ۔۔

یہ کیا کر دیا میں نے ڈرنک اوہ گاڈ۔۔ماتھے پر آۓ پسینے کے ننھے کو صاف کرتا وہ پشیمان لگ رہا تھا۔فرش پر پڑی بوتل کو اٹھا کر دیوار کے ساتھ پڑے ڈسٹ بن میں پھینکا۔۔

گھر کافی خاموش تھا سومو لوگ ابھی واپس نہیں آۓ تھے۔آفس جانے کے لیئے تیار ہونے کے ارادے سے وہ کمرے میں آیا۔مگر چاروں طرف پھیلی خاموشی کو دیکھ کر چونکا دانی کمرے میں نہیں تھی۔۔

کندھے اچکاتے وہ باتھ روم میں گھس گیا فریش ہو کر باہر نکلا تب بھی دانی کو نہ پا کر پرن ھوا۔۔

دانین دانین۔۔!!! وہ پورے گھر میں اسے پکار رہا تھا مگر جواب ندارد تھا۔۔کہاں چلی گئ۔۔کہاں ڈھونڈوں۔شائد سومو کے کمرے میں ہو۔۔وہ سومو کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔سامنے بیڈ پر سوئ دانین پر نظر پڑی تو اس نے سکون کا سانس لیا. ۔۔

دانین دانین اٹھو۔۔اساور نے بازو سے پکڑ کر دانین کو جھنجھورا۔وہ ذرا سا کسمسائ۔ایک آنکھ کھول کر اساور کو دیکھا اور کروٹ بدل کر پھر سے آنکھیں بند کر دیں۔۔

دانین تم سے کہہ رہا ہوں اٹھو ناشتہ بنا کر دو۔۔اساور نے اب کی بار ذرا زور سے اس کا بازو کھینچا۔۔

کیا تکلیف ہے تمہیں۔وہ اٹھتے ہی زور سے چیخی۔اساور نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔مینرز نہیں ہیں تمہیں۔۔

ناشتہ بنا کر دو آفس جا رہا ہوں میں۔۔

یہاں سے سیدھے جاؤ دروازہ کھولو آگے سیڑھیاں ہیں انہیں پھلانگ کر جاؤ تو نیچے دروازہ ہے اسے کھولو دائیں ہاتھ پر فقیراں بی کا کواٹر ہے وہ جھاگ گئ ہوں گی ان کو بولو بنا دیں گی۔۔کہہ کر وہ کمبل سر تک تان کر پھر سے سو گئ۔جبکہ اساور حیران پریشان کھڑا تھا اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ دانین ہی ہے۔۔

اسے آفس سے دیر ہو رہی تھی اس لیئے ضبط سے مٹھیاں بھینچتا  وہاں سے نکل گیا۔۔

دروازہ بند ہونے کی آواز پر دانین سے کمبل سے چہرہ نکال کر دروازے کی طرف دیکھا۔۔

بہت ہو گیا مسٹراساور اور نہیں اب تم نے حد حتم کر دی ہے۔ میں سب کچھ سہتی گئ کیونکہ تم سے مخبت کرتی تھی۔۔

ایک لڑکی اپنے سپنوں کے قاتل سے کبھی محبت نہیں کرتی۔میں تم سے نفرت نہیں کر سکتی مگر اب محبت بھی نہیں۔۔

بدلے کے قائل ہو تم لوگ اب میں بھی یہی کروں گی۔۔مظلوم نہیں ہوں میں ظلم نہیں سہوں گی بس. ۔۔منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے وہ دوبارہ سے آنکھیں موند گئ۔۔۔

میں نے تو صرف یہ چاہا تھا

کہ کوئ لمبی مسافت ہم دونوں

ایک دوسرے کے سنگ 

ہنستے کھیلتے طے کریں

راستے میں کہیں مجھے ٹھوکر لگے تو

تم آگے بڑھ کر مجھے نہ تھامو

اور وہیں پاس بیٹھ کر ہنستے چلے جاؤ

اور میں تم سے روٹھ جاؤں

تو تم گلاب میرے بالوں میں لگا کر

میرا ہاتھ تھامے مجھے کھینچتے ہوۓ

اپنے ساتھ لے چلو

اور پھر ایک لمبی مسافت یوں ہی 

ہنستے کھیلتے طے کر لیں

میں نے تو صرف یہ چاہا تھا

تم اور میں ایک دوسرے پر ہنسیں

راستے کے کانٹے میرے بالوں کو

خراب کر کے رکھ دیں تو

تم میرا مذاق اڑاؤ

میں نے یہ تو نہیں چاہا تھا کہ

تم یوں سرِعام میرا مذاق اڑاؤ

مجھے اذیت کے سمندر میں دھکیل دو

میں نے صرف یہی تو نہیں چاہا تھا

تم ہاتھ تھامتے میرا

میرے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں

کی پوروں پر نرمی سے چن لیتے

میں نے تو صرف یہ چاہا تھا۔۔

____________________________________________________________________________

اماں میری پیاری اماں۔۔امان رخشندہ بھیگم کے گلے میں بانہیں ڈالتا ہوا پیار سے بولا۔۔

کیوں اتنا پیار آ رہا ہے ماں پر دال میں کچھ کالا ہے۔۔رخشندہ بھیگم نے مسکرا کر اس کے سر پر بھوسہ دیا۔۔وہ ان کا لاذلا بیٹا تھا جس کے لیئے انہوں نے ہزاروں منتوں کے بعد پایا تھا۔ 

اماں شادی کروا دیں میری۔۔وہ کان کجھاتا بولا تو رخشندہ بھیگم ہنستی چلی گئیں۔۔کیوں ہنس رہی ہیں ماما۔۔وہ برا مان گیا تھا۔۔

عمر دیکھی ہے تم نے شادی کے خواب دیکھ رہے ھو ۔ ۔۔۔انیس کا ہو گیا ہوں اماں پڑھائ میں پیچھے ہوں اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ شادی کے قابل نہیں ہوں۔۔۔

پڑھائ میں پیچھے تو دوستی کے چکر میں رھ گۓ تم۔۔ہلکی سی چپت اس کے سر میں لگاتے انہوں نے کہا۔۔

اب دوست دو سال چھوٹا ہے اس میں میرا تو کوئ قصور نہیں ہے سعدی کے بابا کا قصور ہے جلدی شادی کرتے تو وہ میرا ہم عمر ہوتا۔۔شرارت سے کہتے اس نے سر رخشندہ بھیگم کی گود میں رکھ دیا ۔۔

جو بھی ہے شادی کا حیال دل سے نکال دو سائرہ کی شادی طے کر دی ہے اس پر دھیان دو۔۔۔

اماں۔۔وہ شکوہ کناں تھا۔۔

بس امان اور کوئ بخث نہیں۔۔وہ سختی سے بولیں تھی۔وہ جتنا اس سے پیار کرتی تھیں اتنی ہی سختی بھی وہ اسے بگاڑنا نہیں چاہتی تھیں۔اور وہ بھی ڈر جاتا تھا ان کی سختی سے جیسے اب ڈر گیا تھا۔۔

جی ماما۔۔مایوس چہرے کے ساتھ وہ ان کے کمرے سے باہر نکلا۔۔اس کے فون نے رِنگ کیا۔ان نون نمبر تھا۔۔وہ اگنور کرتا ہوا گھر سے نکل آیا۔۔

گاڑی میں بیٹھا تھا کہ موبائل دوبارہ رِنگ کرنے لگا۔۔

کون ہے۔۔؛؟؟فون کان سے لگاتے وہ بیزاری سے بولا تھا۔۔

اچھا کہاں ہو تم ۔۔۔پہنچتا ہوں میں۔کال منقطع کرتے اس نے گاڑی فل سپیڈ سے گیٹ سے باہر نکالی۔۔۔

____________________________________________________________________________

گاڑی ائیر پورٹ کے باہر رکی تھی۔ڈرائیور نے دوڑ کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا۔پینسل ہیل پہنے ایک پاؤں اور پھر دوسرا پاؤں گاڑی سے باہر رکھتی بالوں کو اک ادا سے جھٹکتی وہ گاڑی سے باہر نکلی۔ 

اردگرد پر ایک سرسری نگاہ  ڈالتے بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں پر سن گلاسز لگاۓ وہ تکبر سے چلتی ائیرپورٹ کی طرف بڑھی۔۔

اسلام علیکم میم۔۔!! اس کی سیکٹری اس سے پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔۔اب کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔

مسٹر اے۔کے نہیں پہنچے ابھی تک۔۔وہ پرغرور انداذ میں بولی۔۔

میڈم ان کو انفارم کیا تھا ان کی سیکٹری کہہ رہی تھی ان کو تھوڑی دیر ہو جاۓ گی۔۔

ہمم رائٹ۔۔وہ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر بیٹھ گئ۔سیکٹری اس کے رویے پر حیران ہوئ۔حیاسددوانی نے کبھی کسی کا انتظار کیا ہو بغیر ہنگامہ کیئے۔۔

میم میں انہیں بتا دوں آپ کو انتظار کرنا بلکل پسند نہیں۔۔

تم سے جتنا کہا جاۓ اتنا کرو ورنہ فارغ ہو تم۔گلاسز اتار کر ہاتھ میں پکڑتے تیز نظروں سے سیکٹری کو دیکھا جو گھبرا کر اب چپ چاپ کھڑی تھی۔۔

ٹھیک آدھے گھنٹے بعد اے۔کے آتا ہوا دکھائ دیا۔حیا بےحود سی اسے دیکھے گئ۔۔بلیک تھری پیس سوٹ میں بالوں کو ہمیشہ کی طرح خوبصورت سٹائل سے موڑے بیلک سن گلاسز پہنے ہمیشہ کی طرح کلائ میں پڑی رسٹ واچ کو دوسرے ہاتھ سے گھماتا وہ بہت ڈیشنگ لگ رہا تھا۔حیا تو کھو گئ تھی اس میں۔۔

اکسکیوزمی مس حیا۔۔اے۔کے نے اس کے چٹکی بجائ تو وہ ہوش کی دنیا میں واپس آئ۔۔

اوہ سوری مسٹر اے۔کے ہاۓ۔۔معزرت کرنے کے بعد اس نے جلدی سے ہاتھ مصافحے کے لیئے بڑھایا۔۔

ہاۓ ۔۔!! ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اے۔کے نے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ سرسری سا تھام کر چھوڑ دیا۔۔۔

تھوڑا لیٹ ہو گیا میں سوری۔فلائیٹ کا اعلان ہوا تو وہ سوٹ کیس ٹرالی میں ڈالے آگے بڑھ گۓ۔۔۔

وہ گاڑی بھگاتا ہوا عینا کے بتاۓ ایڈرس پر پہنچا تھا۔۔گاڑی پارک کرتے وہ ریستوران کی طرف بھاگا۔۔عینا کے آنسوؤں نے اسے پریشان کر دیا تھا فون پر وہ بہت رو رہی تھی۔۔

وہ ریستوران کا ڈور اوپن کر کے اندر داخل ہوا۔۔نظریں گھما کر عینا کو ڈھونڈنا چاہا۔۔

کونے میں پڑی ٹیبل کے پاس اسے عینا نظر آئ۔وہ دور تھی مگر اتنے دور سے بھی اس نے دیکھ لیا تھا اس کے آنکھوں کے پپوٹے بہت سوجھے ہوۓ تھے۔۔آنکھوں کے نیچے حلکے بھی پڑ چکے تھے۔۔وہ انتہائ کمزور نظر آ رہی تھی۔۔

وہ پریشانی سے تیز تیز قدم اٹھاتا اس کے پاس پہنچا۔۔عینا ۔۔۔وہ جو خیالوں میں کھوئ ہوئ تھی اس آواز کو سن کر فوراً ہوش کی دنیا میں آئ۔۔

امان۔۔امان کو دیکھ کر رکے آنسو پھر سے بہہ نکلے تھے۔۔

عینا میری جان کیا ہوا ہے اتنا رو کیوں رہی ہو اور اتنی ایمرجنسی میں کیوں ہو۔۔۔ٹیبل کے گرد ترتیب سے چار کرسیاں رکھی ہوئ تھیں۔امان نے ایک کرسی گھسیٹی تو پرسکون ماخول میں تھوڑی ہلچل ہوئ۔۔سب نے مڑ کر اسے دیکھا۔۔مگر وہ سب سے بےپرواہ کرسی عینا کے پاس رکھ کر بیٹھ گیا۔۔

سب ختم ہو گیا امان۔۔وہ روۓ چلی جا رہی تھی۔۔

پھر بھی پتہ تو چلے کیا ہوا ہے۔اور یہ خلیہ کیا بنایا ہوا ہے۔امان کا اشارہ اس کے رف سے کپڑوں کی طرف تھا جو تین دن سے اس نے نہیں بدلے تھے۔۔

شادی کرو گے مجھ سے۔۔اس کے سوال کو نظرانداذ کرتی بولی۔۔

آف کورس کروں گا یار اور تم سے ہی کروں گا اس میں رونے والی کیا بات ہے۔۔اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیئے وہ اسے بچوں کی طرح پچکارنے لگا۔۔

آج ہی کرو گے مجھ سے شادی۔۔

واٹ۔۔اسے شاک لگا۔۔

امان ہاں یا نا۔۔عینا نے اپنا ہاتھ اس کی گرفت سے نکالا تھا ۔۔

مگر آج کیوں یار ہم میں ڈیسائیڈ ہوا تھا کہ. . . .  

وہ تب کی بات تھی میں آج کی بات کر رہی ہوں۔۔عینا نے اس کی بات کاٹی۔۔

ہاں بابا کروں گا آج ہی کروں گا پتہ تو لگے ہوا کیا ہے۔۔امان نے پھر سے اس کے ہاتھوں کو اپنی مظبوط گرفت میں لیا👍🏾۔۔عینا کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔۔ایک ہاتھ سے عینا نے آنسو پونجتے ساری بات اس کے گوش گزار کر دی۔۔

یار تمہاری بہن کیا چیز ہے ایک مرتبہ بات سننے میں کیا خرج ہے۔۔عینا کے آنسو بہتے جا رہے تھے۔۔امان نے اپنی انگلیوں کی پوروں پر اس کے آنسو چنے۔۔

میرے پاس واپسی کا راستہ ہے نا ارادہ تم مجھ سے شادی کرو گے یا نہیں بس یہ بتاؤ ورنہ لاسٹ اوپشن پر سوسائیڈ ہے میرے پاس۔۔

شٹ اپ یار۔۔امان کا تو دل دہل گیا تھا اس کی بات پر ۔امان نے شاکی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

میں سعدی کو بلاتا ہوں تم آنسو صاف کرو اپنے رونا نہیں ہے اب تم نے۔۔ویٹر جوس لے کر آیا تو امان نے گلاس اٹھا کر عینا کو پکڑایا اس کا گال تھپتھپاتے وہ موبائل لیئے ریستوران سے باہر نکل گیا۔۔۔

___________________________________________________________________________________________________

کاظمی حویلی کا بڑا گیٹ کھلا تو ایک سفید گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئ۔۔گاڑی آ کر پورج میں رکی تو سومو سائرہ اور رخشندہ بھیگم گاڑی سے نکلیں۔

کل دن کی گئیں وہ آج دن میں لوٹیں تھیں۔

اماں آپ نے خالہ کو جو آسرا دیا ہے مجھے سمجھا بجھا کر بیجھ دیں گی تو میں بتا رہی ہوں میں اس غربت میں نہیں جاؤں گی ۔گٹر سے بھی بدتر جگہ ہے وہ۔۔گاڑی سے اترتے ہی سائرہ شروع ہو گئ تھی وہ کسی حال میں واپس نہیں جانا چاہتی تھی۔۔

تو وہ شوہر ہے تمہارا بہلا پھسلا کر یہی لے آؤ۔اتنا بھی نہیں ہو سکتا تم سے۔۔رخشندہ بھیگم نے ایک چپت اس کے ہاتھ پر لگاتے ہوۓ کہا۔۔

اماں ایسے مت بولیں آپی کو جانا چاہیئے اپنے سسرال۔بیاہی لڑکیاں اپنے سسرال میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ویسے بھی عروج اور زوال ساتھ ساتھ چلتے ہیں آج طیب بھائ کے مالی حالات ٹھیک نہیں کل ہو سکتا ہے بہتر ہو جائیں۔۔سومو نے نرم لہجے میں بہت پیار سے انہیں سمجھانا چاہا۔۔

اماں اس کو بولیں میرے معاملات میں مت بولا کرے۔۔سائرہ نخوت سے بولی۔سومو اور اس کی سمجھداری اسے زہر لگتی تھی ہمیشہ۔۔سومو اس کی بات کو نظر انداذ کرتی ان کے آگے چلتی ہوئ لاؤنج کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئ۔۔

تمہیں پا کر کہاں خوش تھے

تمہیں کھو کر کہاں روۓ

ہیں زندہ ہم اگر تم میں

دیا دکھ تو تم نے نہیں تھوڑا

بہت خوش ہیں تیرے بارے

میں جب سے سوچنا چھوڑا۔

لاؤنج میں اونچی آواز میں گانا گونج رہا تھا سامنے صوفے پر ہاتھ میں گاجر کا حلوہ کھاتے ہوۓ دانین بہت غور سے ٹی۰وی کو دیکھ رہی تھی۔سومو کو خوشگوار سی حیرت ہوئ۔دانین کا چہرہ آج باقی دنوں کی نسبت ریلکس لگ رہا تھا۔سومو کو خوشی ہوئ کہ شائد اساور اور دانین کے تعلقات بہتر ہو گۓ ہوں۔۔

سومو کے پیچھے پیچھے سائرہ اور رخشندہ بھی اندر داخل ہوئیں۔سامنے کا منظر دیکھ کر سائرہ نے ناگوار سی شکل بنائ۔رخشندہ بھیگم کا تو غصے سے برا حال ہو رہا تھا دانین کو اتنا ریلیکس دیکھ کر۔۔

یہ میرا گھر ہے کہ کلب۔۔رخشندہ بھیگم نے آگے بڑھ کر دانین کے ہاتھ سے ٹی۔وی ریموٹ کھینچ کر زور سے فرش پر پھینکا۔حلوے کا باؤل سے حلوہ اس کے منہ پر گِرا دیا۔۔

اسلام علیکم بھابھی۔۔!! دانین نے مسکرا کر ٹیبل پر پڑے ٹشو بکس سے ٹشو اٹھا کر منہ سے خلوہ صاف کیا۔۔

کیا سمجھ رکھا ہے تم نے میرے گھر کو ہاں۔حد میں رہو تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے۔۔اس کی مسکراہٹ نے رخشندہ بھیگم کو اور تپا دیا تھا۔۔

آئ نو بھابھی وہ تو میں بڑے گھر کی فیل لے رہی تھی ۔میرے باپ کا گھر ایسا کہاں۔۔سومو کے گلے لگتے اس نے ایک آنکھ سومو کی طرف ماری۔سومو مسکرا کر رہ گئ۔۔

کھانا نکالو ہمارے لیئے بخث مت کرو بھوک لگی ہے ہمیں۔۔سائرہ نخوت سے بولی۔۔

کھانا تو نہیں بنایا۔وہ کیا ہے نا کہ آپ سب تھے نہیں ۔رات کا کھانا رکھا ہوا تھا فقیراں بی نے وہ کھا لیا میں نے خلوہ بنا لیا تھوڑا سا بچا ہوا ہے سومو کا کام ہو جاۓ گا۔ویسے وہ کون سا وقت ہے جب تم بھوکی نہیں ہوتی۔۔دانین آج آپ سے تم پر آ گئ تھی۔سائرہ نے حیرت سے اسے دیکھا کہ وہ گھونگھی آج کیسے بول پڑی۔۔

جاؤ کھانا بناؤ اور اوقات میں رہو اپنی۔۔رخشندہ بھیگم دبے دبے غصے سے بولیں۔۔

آئ۔ایم۔سوری۔میرا موڈ نہیں ہے۔۔آرام سے کہتی وہ باؤل اٹھا کر کچن کی طرف بڑھنے لگی۔۔

بہت زبان چل رہی ہے تمہاری۔۔سائرہ نے اسے ہلکا سا دھکا دیا تو وہ لڑکھڑاتے گرنے لگی تھی لیکن سائرہ کابازو پکڑ کر اس نے گرنے سے بچایا خود کو۔۔

یہ تشدد وغیر آئندہ نہیں چلے گا۔یو نو وائیلنس اس کرائم۔۔سائرہ کے بازو کو پکڑ کر گھما کر کمر پر موڑ کر اس کے کان میں سرگوشی کے انداذ میں کہا۔۔

چھوڑو سائرہ کو۔۔رخشندہ بھیگم نے تھپڑ کے لیئے ہاتھ اٹھایا جسے فوراً سے پہلے دانین نے گھٹنے سے سائرہ کے ٹانگ پر ٹھوکر مار کر گرایا اور پکڑ لیا۔۔

بس مسزرخشندہ ناظم کاظمی بس۔۔اور نہیں میں وہ نہیں تھی جو میں یہاں آ کر بن گئ تھی۔میں یہ ہوں  نڈر سی دانین جمشید علی آئ سمجھ۔آئندہ آپ میں سے کسی نے چالاکی کی تو دو اور دو کو پانچ کرنا مجھے اچھے سے آتا ہے۔۔زور سے ان کے ہاتھ کو جھٹکتی وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تو اک پل کو رخشندہ بھیگم کانپ کر رہ گئیں تھیں۔۔

اماں میری ٹانگ۔۔فرش پر گری سائرہ تکلیف سے چلائ۔۔

چھوٹا سا فریکچر ہوا ہو گا دوبارہ یہ زبان اور ہاتھ ذیادہ چلا نہ تو پرمنٹ وہیل چیئر پر آ جاؤ گی۔ویسے ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے بےچارے طیب بھائ کی جان چھوٹے گی۔۔کیوں سومو۔۔ایک آنکھ دباتی مسکرا کر کہتے ہاتھ میں پڑے باؤل کو رخشندہ بھیگم کے پاؤں کے پاس زور سے پٹختی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئ۔

باؤل گرنے سے ایک شور پیدا ہوا اور کانچ بکھر گۓ۔رخشندہ بھیگم ڈر کر پیچھے ہوئیں۔۔سائرہ نے تکلیف سے ماں کی طرف دیکھا۔۔

دانین کا یہ روپ دیکھ کر وہ دونوں ماں بیٹی صیح معنوں میں ڈر گئیں تھیں۔رخشندہ بھیگم نے سائرہ کو پکڑ کر اٹھایا اور کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔

جبکہ پیچھے کھڑی سومو مسکرا کر رہ گئ تھی۔۔

___________________________________________________________________________________________________

امان کا فون آتے ہی سعدی بائیک لے کر تیزی سے ریستوران کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔۔

ریستوران کے پاس پہنچ کر اسے امان باہر کھڑا ہی دکھ گیا تھا۔۔بائیک سائیڈ پر کھڑی کرتا وہ امان کی طرف بڑھا۔۔

کیا ہوا یار اتنی جلدی میں بلایا تو نے مجھے۔۔سعدی امان کی طرف بڑھا۔۔

ہاں یار وہ مسئلہ ہو گیا ہے ۔۔۔امان نے کان کجھاتے اس کی طرف دیکھا ۔۔

بول بھی کیوں سسپینس کرئیٹ کر رہا ہے۔۔سعدی نے مکہ اس کے کندھے میں مارا۔۔

شادی کرنی ہے مجھے ۔۔

تیری تان پھر وہیں آکر ٹوٹتی ہے تھوڑا صبر کر لے میرے باپ۔۔سعدی نے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔۔

یار تو سمجھ نہیں رہا ۔۔۔

تو سمجھا نا مجھے۔۔۔

دیکھ عینا کی بہن یہ محبت وغیرہ کی سخت دشمن ہے۔اسےعینا اور میرے بارے میں پتہ چل گیا تھا تو اس نے عینا کو کمرے میں بند کر دیا تھا۔بڑی مشکل سے اس کے موم ڈیڈ نے اسے وہاں سے نکالا ہے اب مجھے اس سے شادی کرنی ہے۔اماں نے صاف انکار کر دیا ہے کہ وہ نہیں کروائیں گی ابھی میری شادی کسی بھی صورت۔۔تو کچھ کر یار۔۔امان اللہ ایک ہی سانس میں بولا۔۔

واٹ عینا گھر چھوڑ کر آ گئ ہے۔۔سعدی اچھلا۔۔

یار کیا کرتی ظالم بہن کے ہاتھوں مر جاتی۔۔امان نے برا منایا۔۔

تو اب یہ کہ میری مدد کرو شادی کرواؤ جب مناسب وقت ملا میں اماں کو بتا دوں گا۔۔

یو مین کورٹ میرج۔۔

ہاں۔۔امان نے اثبات میں سر ہلایا۔۔

 یار دیکھ لینا کوئ  لفرا نہ ہو جاۓ۔۔

نہیں ہوتا۔۔

چل پھر عینا سے بات کر لیں پھر کچھ ارینج کرتے ہیں۔۔سعدی نے کہا تو دونوں ریستوران کا گلاس ڈور دھکیلتے اندر داخل ہوۓ جہاں گم صم سی عینا سوجھی آنکھوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔۔

یہ جو دل ہے نا جاناں۔!!

آؤ اسے دو ٹکروں میں

بانٹ لیتے ہیں

ایک ٹکڑا تم رکھ لینا

ایک ہم خود میں چھپا لیں گے

یہ جو محبت ہے نا جاناں۔!!

آؤ اسے تقسیم کرتے ہیں

کہیں اس کو تم جی لینا

کہیں ہم اس کو پالیں گے

یہ جو لوگ ہے نا جاناں۔!!

انہیں چھوڑ دیتے ہیں

رخ کو موڑ لیتے ہیں

وگرنہ تم جان لو جاناں۔!!

کہیں یہ تم کو ڈس لیں گے

کہیں مجھ کو نوچ کھائیں گے

یہ جو جنگل ہے نا جاناں۔!!

یہ عاشقوں کا مسکن ہے

کہیں تم ڈیرا لگا لینا

کہیں ہم ایک دوجے کے

سنگ بسیرا کر لیں گے

یہ جو سکون ہے نا جاناں۔!!

اسے تم مجھ میں کہیں

میں تم میں کہیں ڈھونڈ لوں گی۔

            (پریشہ ماہ نور)

عینا تم ایک پھر سوچ لو تم یہ صیح ہو گا تمہارے لیئے۔۔سعدی نے اعتماد سے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔۔

وہ مقام بہت پیچھے رہ گیا سعدی جہاں صیح اور غلط کا تعین ہو۔اب وہ وقت ہے جب صرف ہو جانا معنی رکھتا ہے۔۔عینا اب سنبھل چکی تھی۔اطمینان اس کے چہرے پر پھیل رہا تھا۔۔

ٹھیک ہے جیسے تم دونوں کی خواہش مگر یار رخشندہ بھابھی نے کوئ مسئلہ کرئیٹ کیا تو۔۔سعدی آگے کو ہو کر بیٹھا۔۔

یار سائرہ آپی کی شادی ہو جاۓ پھر میں اماں کو بتا دوں گا ۔لاڈلا ہوں ان کا مان جائیں گی آئ نو۔امان نے فرضی کالر جھاڑے۔۔

چل ذیادہ خوش فہم نہ ہو۔سعدی نے اس کے کندھے پر زور کی چپت لگائ تو امان نے برا سا منہ بنایا۔عینا خاموشی سے دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔۔

چلو پھر اٹھو جلد سے جلد ختم ہو جاۓ یہ کام تو بہتر ہے۔۔تینوں آگے پیچھے ریستوران سے نکلے۔

امان کی گاڑی تک پہنچ کر سعدی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی۔امان نے عینا کے لیئے پچھلا دروازہ کھولا تو وہ خاموش سی بیٹھ گئ۔امان بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔گاڑی عدالت کی طرف رواں دواں تھی۔۔

یار وہ جو سامنے شاپنگ مال ہے اس کے پاس روک دے ذرا۔۔امان نے سامنے نظر آتے مال کی طرف اشارہ کیا۔۔

کیوں۔۔سعدی نے تیز نظروں سے اسے دیکھا۔

تو یہیں بیٹھ کباب میں ہڈی آتا ہوں میں۔۔دانت پیس کر کہتے وہ عینا کی طرف کا دروازہ کھول کر عینا کا ہاتھ پکڑے مال کی طرف بڑھ گیا۔۔

خود بھی مرے گا یہ عاشق مجھے بھی مرواۓ گا۔۔سعدی منہ ہی منہ میں بڑبڑیا۔۔

تھوڑی دیر گزری تھی کہ امان اور عینا مال سے باہر نکلے ۔

عینا نے وائٹ تنگ ٹراؤزر کے ساتھ پنک شارٹ شرٹ پہنی ہوئ تھے۔پہلے سے وہ قدرے بہتر اور پرسکون لگ رہی تھی۔

امان کا بازو جھکڑے وہ سر جھکاۓ چلی آ رہی تھی۔۔

اوہ حلیہ درست کروانے لے کر گیا تھا اس کا بڑا تیز ہو گیا ہے۔۔ویسے لڑکی کمال کی وفاشعار اور خوبصورت ملی ہے۔۔

کاش مجھے بھی مل جاۓ وہ۔۔سعدی کی آنکھوں کے سامنے ایک خوبصورت معصوم سا چہرہ آیا۔۔مسکراتے ہوۓ سعدی نے سر جھٹکا۔۔

چل اب سٹارٹ بھی کر دے گاڑی۔۔اس سوچوں کے بھنور میں ڈوبے دیکھ کر امان نے اسے کہنی ماری تو وہ ایک دم ہڑبڑایا جیسے نیند سے جاگا ہو۔۔

ہاں چلتے ہیں یار۔۔وہ پھیکا سا مسکرایا۔اسے خبر ہی نہیں ہوئ تھی کہ وہ دونوں کب آ کر گاڑی میں بیٹھے تھے۔وہ تو کسی کے مسکراتے چہرے کے گہرے ڈمپلوں میں کھویا ہوا تھا۔۔

___________________________________________________________________________________________________

وہ گھر میں داخل ہوا تو غیرمعمولی سی خاموشی چھائ ہوئ تھی۔یہ ویرانی اور خاموشی  تو امان کی موت کے بعد اس گھر کا اہم فرد بن چکی تھی۔

مگر آج کچھ ذیادہ ہی خاموشی محسوس کی تھی اس نے۔اسے لگا تھا بھابھی،سائرہ اور سومو آ گۓ ہوں گے مگر یہ خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ نہیں ہیں گھر پر۔۔

سر جھٹکتا وہ آگے بڑھا تبھی کچن سے نکلتی فقیراں بی سے ٹکر لگتے لگتے بچا تھا۔۔

یہ ہلدی والا دودھ کس کے لیئے ہے۔۔فقیراں بی کے ہاتھ میں پکڑے گلاس کو دیکھ کر وہ چونکا تھا۔۔

جی یہ سائرہ بٹیا کے لیئے ہے ان کو چوٹ لگی ہے۔۔فقیراں بی گلاس لیئے سائرہ کے کمرے کی طرف بڑھ گئیں۔۔

سائرہ کو چوٹ کیسے لگ گئ۔۔وہ بڑبڑاتا ہوا پریشانی سے سائرہ کے کمرے کی طرف بڑھا۔۔اندر داخل ہوا تو سامنے بیڈ پر ٹانگ پر پٹی باندھے سائرہ کراہ رہی تھی۔فقیراں بی دودھ کا گلاس رکھ کر فوراً وہاں سے نکلیں۔۔

سائرہ بیٹا یہ کیا ہوا ہے۔چوٹ کیسے لگ گئ۔وہ پریشانی سے اس کے پاس بیٹھا۔وہ اس کی ہم عمر تھی اس کے باوجود وہ اسے بیٹا کہتا تھا۔۔

یہ جا کر اپنی بیوی سے پوچھو۔غنڈہ بن گئ ہے پوری۔۔رخشندہ بھیگم پھٹ پڑیں تھیں۔۔

بھابھی دانی ایسا کیسے کر سکتی ہے۔۔اسے یقین نہیں آیا تھا۔۔

اوہ بیٹا جی جا کر خود دیکھ لو آج مخترمہ کے رنگ ڈنگ کی بدلے ہوۓ ہیں۔۔اساور تیزی سے کمرے سے نکلا۔آج اس کا بدلہ انداذ وہ صبح ہی محسوس کر چکا تھا۔۔

وہ کمرے میں داخل ہوا تو کپڑے تہہ کرتی دانین نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر سے اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔۔

اساور غصے سے اس کی طرف بڑا۔اس کا ہاتھ مڑوڑ کر پشت پر کیا۔دانین کے پشت اساور کی طرف تھی۔۔

سائرہ کو تم نے گِرایا۔۔وو دبے دبے غصے سے اس کی کان کے نزدیک غرایا۔اتنا نزدیک کے دانین اس کی سانسیں اپنے گال پر محسوس کر سکتی تھی۔پل بھر کو دانین کانپی تھی۔مگر اگلے ہی پل اس نے اپنے خوف پر قابو پا لیا تھا۔۔

ہاں تو۔۔تکلیف کے باوجود وہ اطمینان سے بولی۔اس کا اطمینان اساور کو آگ لگا رہا تھا۔۔

کیوں۔۔اساور نے اس کے بازو پر اپنی گرفت مظبوط کی تو اس کے منہ سے سسکی نکلی۔۔

جو تم سب میرے ساتھ کرتے ہو میں نے پوچھا کبھی کہ وہ کیوں ہے۔۔دانین نے زور سے پشت اسے ماڑی جس سے ہاتھ پر گرفت ڈھیلی ہوئ۔دانین نے موقع کا فائدہ اٹھاتے اساور کا ہاتھ جھٹک کر خود کو اس کے دور کیا۔۔۔

تم بدلے میں آئ ہو اس بات کو مت بھولو تم۔۔اساور نے انگلی اٹھا کر کہا تھا۔۔

اچھا اگر میں بدلے میں نہ آئ ہوتی تو کیا میں پھر بھی اس گھر میں نہ آئ ہوتی۔۔دانین نے نڈر انداذ میں سوال کیا۔اساور بس غصے سے دیکھ کر رہ گیا۔۔

تم اساور کبھی تم نے سوچا تم محبت کے دعویدار تھے مجھ سے۔میری چھوٹی سی تکلیف بھی تمہاری راتوں کی نیندیں خرام کرتی تھی۔اور اب تم میری تمام تکلیفوں کی وجہ ہو۔۔دانین چلا رہی تھی اور وہ آنکھوں میں غصے کی چنگاری لیئے خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔۔

تم وہ جو کال پر کہتے تھے سنو دانین آئ لو یو" تو میں شرما جاتی تھی۔جب مجھے چوٹ لگتی تھی تو تمہارا تڑپ جانا میری کئیر کرنا مجھے آسمان کی بلندیوں پر لے جاتا تھا ۔تم نے ایسا پٹخا ہے مسٹر اساور کے جڑنا چاہوں تو جڑ نہ پاؤں کی میرا وجود ٹکڑوں میں صورت میں اس کائنات میں بَٹ چکا ہے۔۔

تم وہ شخص تھے جس سے میں نے بےانتہا محبت کی، تم وہ شخص تھے جس کا نام میں نے اس دل پر لکھا تھا اور تم جان لو یہ سب تھا اور جہاں تھا ہو وہ ماضی ہوتا ہے۔۔تمہاری مخبت میری لگن سب ماضی تھا ۔۔دانین بولتی چلی جا رہی تھی مگر کوئ آنسو نہ تھا جو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر آ گرت۔وہ لڑکی کمال ضبط آزما رہی تھی۔۔

اور تم بھی جان لو دانین جمشید علی تم واحد وہ لڑکی تھی جس کے رہتے میرے لیئے دنیا میں لڑکیوں کا کال تھا۔تم وہ لڑکے تھی جس کے آگے مجھے دنیا ویران لگتی تھی ،تم میری کمزوری تھی اور اسی کمزوری کا تم نے فائدہ اٹھایا تم نے بھروسہ توڑا میرا ۔تم نے سعدی کو بچایا ایک ایسے انسان کو جو مجرم ہے قاتل ہے میرے امان کا۔۔اساور نے بازوؤں سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑ ڈالا۔۔

ایک پل کو سوچو اگر سعدی امان کا قاتل نہ ہوا تو پھر۔۔اساور کے ہاتھ دانین کے بازوؤں سے ہٹے۔وہ اسے دیکھتا رہ گیا اس پر تو اس نے سوچا نہیں تھا۔۔

جس دن سعدی پےقصور ثابت ہو جاۓ گا نہ تم اور تمہاری یہ نفرت دونوں خاک ہو جاؤ گے۔تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آۓ گا۔اور یہ میرا وعدہ ہے مسٹر اساور کاظمی جس دن سعدی باعزت اس الزام سے بَری ہو گا میرا اس گھر میں وہ دن آخری ہو گا اس سے پہلے بےفکر رہنا نہیں جاؤں گی مگر ملازمہ بن کر بھی نہیں رہوں گی۔۔

سعدی ہی قاتل ہے امان کا اور یہ پروف ہو چکا ہے اس لیئے فرض کرنے یا وعدے کرنے کی کوئ گنجائش نہیں رہتی ۔۔۔اساور پہاڑ سے پتھر اور چٹان سے نوکیلے لہجے میں بولا۔۔

تم بس یہ سن لو اساور میں اب تم سے محبت نہیں کرتی۔۔اساور کے اندر کچھ ٹوٹا تھا اس سے ذیادہ وہ سامنے کھڑی اس لڑکی کو توڑ چکا تھا۔۔پر میں تم سے نفرت بھی نہیں کرتی۔۔

نہ تم میری محبت ہو نہ نفرت تم ان دونوں کے بیچ لٹکے ہو تمہیں پتہ ہے یہ جو بیچ میں اٹکا ہوتا ہے زندگی کا عذاب ہوتا ہے۔۔۔۔۔دانین نے تہہ لگاۓ کپڑے اٹھاۓ اور الماری کی طرف رکھنے چلی گئ جو واشروم کے ساتھ تھی۔۔

اساور کے اندر بدلے کی آگ پل بھر کو ٹھنڈی ہوئ۔وہ سوچ رہا تھا اگر مگر کو اور آخر وہیں پہنچتا کہ سعدی قاتل ہے۔۔بدلے کی آگ عقل کو مفلوج کر دیتی ہے۔۔

__________________________________________________________________

کیا ہوا ڈرائیور انکل۔۔سکول یونیفارم پہنے وہ پندرہ سولہ سالہ لڑکی کافی دیر سے گاڑی کا معائنہ کرتے اڈھیڑ عمر کے آدمی سے بولی۔۔

بٹیا گاڑی خراب ہو گئ ہے ورکشاپ لے جانی پڑے گی۔۔

افف ہو ایک تو گرمی اوپر سے گاڑی خراب اب کیا ہو گا۔۔وہ خودکلامی کے سے انداذ میں بولی۔۔

سڑک پر بہت سی گاڑیاں آ جا رہی تھیں۔گاڑیوں کے ہارن اور شور کانوں کے پردے پٹھا رہا تھا۔۔یہ لاہور کی گنجان آباد سڑک تھی۔۔

وہ شیشے سے باہر جھانکتی آتی جاتی گاڑیوں کو دیکھنے لگی کہ کوئ شائد خراب گاڑی دیکھ کر مدد کو پہنچے مگر انسانیت کے لیئے انسانوں کے پاس فراغت کہاں۔۔

تبھی اسے تھوڑے دور سے اسے موٹرسائیکل آتا ہوا دکھائ دیا۔موٹرسائیکل سوار کچھ جانا پہچانا لگ رہا تھا مگر دور ہونے کی وجہ سے وہ صیح سے دیکھ نہیں پا رہی تھی۔۔موٹرسائیکل گاڑی کے پاس پہنچا تو موٹرسائیکل سوار نے شیشے میں سے جھانکتی لڑکی کو دیکھا۔جو بہت غور سے اسے دیکھ رہی تھی شائد پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی۔۔

اس کی ادا پر وہ مسکرایا ۔وہ اسے نہیں پہچانتی تھی مگر وہ اسے کروڑوں کے مجمع میں پہچانتا تھا۔۔بائیک سائیڈ پر کھڑی کرتا وہ گاڑی کی طرف بڑھا۔

لڑکی کے چہرے پر ابھی تک اجنبیت کے تاثرات تھے۔۔

کیا ہو گیا چچا گاڑی کو ۔۔انجن چیک کرتے ڈرائیور نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔

سدی بیٹا آپ۔۔وہ گاڑی کا انجن مسئلہ کر رہا ہے۔۔

اوہ سعدی بھائ آپ۔۔ڈرائیور نے نام لیا تو وہ جو اتنی دیر سے اسے تکتی اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی تھی فوراً بولی۔۔

پہچان لیا چھٹکی۔۔سعدی نے اس کے شیشے سے باہر نکلے سر پر ہلکی سی چپت لگائ۔۔

آپ کون سا آتے ہیں جو میں پہچان جاؤں اپنی سولہ سالہ زندگی میں مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے کوئ دوسری تیسری بار دیکھ رہی ہوں آپ کو۔۔سومو نے معصوم سی شکل بنا کر کہا تو سعدی بےاختیار اسے دیکھتا چلا گیا۔۔

وہ چھوٹی سی لڑکی جو اسے پہچان بھی نہ پاتی تھی وہ پورے دل و جان سے اس پر فدا تھا۔۔

چچا آپ گاڑی مکینک کے پاس لے جانا سومو کو میں گھر چھوڑ دوں گا۔۔

سعدی بیٹا موٹرسائیکل پر کیسے جا سکتی ہیں یہ۔۔ڈرائیور کو اعتراض تھا کیونکہ وہ کاظمی حویلی کی شہزادی تھی اور شہزادیوں کی سواریاں تو شان و شوکت والی ہوتی ہیں۔۔

کوئ نہیں انکل میں چلی جاؤں گی مجھے بہت اچھا لگتا ہے کھلی ہوا میں بادلوں کے سنگ اڑتے چلے جانا۔چلیں سعدی بھائ ۔۔سعدی کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ اپنا بیگ گاڑی سے نکال کر موٹرسائیکل کے پاس جا کھڑی ہوئ۔۔

چلیں چچا چلتا ہوں۔۔اس کی عجلت پر مسکراتے ہوۓ سعدی موٹرسائیکل کی طرف بڑھا۔جہاں وہ پہلے سے ہی کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔۔

___________________________________________________________________________________________________

عدالت میں معمول سے کہیں ذیادہ گہماگہمی تھی۔کالے کوٹ پہنے وکیل لوگوں کے ہجوم سے بچ بچا کر نکل رہے تھے۔آتے جاتے کیس جیت جانے پر ہنستے کیس ہار جانے پر روتے ہر طرح کے لوگ تھے۔۔

لوگوں کے ہجوم سے راستہ بناتے وہ تینوں ایک کمرے کی طرف بڑھ رہے تھے۔کمرے کے پاس وہ پہنچ کر رکے۔

کمرے کا دروازہ ہلکے کالے رنگ کا تھا جس پر ایڈووکیٹ شامین کے نام کا بیچ لگا ہوا تھا۔سعدی نے دروازے کو ہلکا سا دھکیلا تو وہ چڑچڑاہٹ کی آواز کے ساتھ کھلتا چلا گیا۔۔

أگے پیچھے وہ تینوں اندر داخل ہوۓ۔عینا نے امان کا بازو مظبوطی سے پکر رکھا تھا۔۔

اوہ امان اللہ کاظمی اور سعدی رانا یہاں ہمارے تو بھاگ جاگ گۓ۔۔ٹیبل پر پڑے فائلوں کے پلندے میں سر دیئے وہ بیٹھی تھی۔ان کے آنے پر مسکراتی ہوئ کھڑی ہو گئ۔۔

یِس بڈی ہم تمہاری ہیلپ چاہیئے تھی۔۔امان اور سعدی نے ریسلرز کی طرح پنچا ملایا۔انداذ سے لگ رہا تھا کافی گہرے دوست ہیں۔۔

میری ہیلپ ہمم بتاؤ بتاؤ شامین کو غریبوں مسکینوں کی مدد کرنے سے بہت سکون ملتا ہے۔۔شامین نے انہیں چھیڑا تھا۔۔۔

تم بدلو گی نہیں وکیل بن گئ ہو لچھن وہی ہیں۔۔سعدی کرسی گھسیٹتا ہوا بیٹھ گیا۔۔امان اور عینا پاس پڑے ایک بوسیدہ سے صوفے پر براجمان ہو گۓ۔۔

بدل جاؤں تو دھوکے باز کہلاؤ جو نہ بدلوں تو لچھن باز کہلاؤں واہ رے واہ کیسے لوگ ہیں۔۔ویسے کیا ہیلپ چاہیئے تھی اور یہ چھٹکی کون ہے۔۔شامین نے اتنی دیر سے حاموش بیٹھی عینا کی طرف اشارہ کیا۔۔

عینا میری. . . .  

وائف ہے تمہاری اوہ گاڈ مانا تم لوگوں سے بہت سینئیر ہوں بڑی ہوں مگر ہوں تو دوست مجھے بتایا بھی نہیں شادی کا یہ امید نہیں تھی تم سے امان۔اور تم سعدی تم نے بھی کر لی ہو گی۔۔امان کی بات کاٹتے وہ غصے اور تیزی سے بولی۔۔

کیا شامین میں تو ابھی بچہ ہوں۔۔سعدی نے معصوم سا منہ بنایا۔۔

دکھ رہے ہو مجھے پانچ فٹ کے بچے۔۔تم بتاؤ امان کیا ہے یہ سب۔۔؟؟وہ ایک ساتھ دونوں کو لتاڑ رہی تھی۔۔

تخمل نہ آیا تم میں۔امان نے افسوس سےہاتھ ملے ۔۔پوری بات نہ سننا آدھی کاٹ کر شروع ہو جانا۔۔

یہ میری بیوی نہیں ہے مگر تمہارے پاس اسی لیئے آیا ہوں کہ بیوی بنا دو۔۔امان نے تھوڑا سا شرمانے کی ایکٹنگ کی۔۔

میں مولویانی لگتی ہوں تمہیں۔۔وہ اب تھوڑی شانت ہو گئ تھی۔۔

ہاں تو۔۔امان نے تیز نظروں سے اسے دیکھا جو باتوں میں وقت ضائع کر رہی تھی۔۔

اچھا اب کھاؤ مت مجھے نظروں ہی نظروں سے کرتی ہوں کچھ۔۔شامین نے زبان کو ہونٹوں سے باہر نکال کر اسے چراتے ہوۓ کہا۔۔

جلدی۔۔۔

شامین لینڈ لائن سےکسی کو ضروری ہدایات دینے لگی۔۔کچھ دیر وہ فون پر مصروف رہی پھر فون بند کر کے ان تینوں کی طرف دیکھا۔۔

تمہارا کام ہو جاۓ گا تھوڑی دیر تک بس انتظامات ہو رہے ہیں۔۔شامین ہاتھوں کو ملا کر ٹھوڑی کے پیچھے رکھ کر بیٹھ گئ۔۔

اور ایک بات اور۔۔امان نے اسے مخاطب کیا ۔۔۔

جی ماۓ لارڈ فرمائیں۔۔شامین نے ہاتھ سینے پر رکھ کر کہا تو اداس بیٹھی عینا بھی ہنس پڑی۔۔امان نے بہت غور سے اس دھوپ  چھاؤں سی لڑکی کو دیکھا جو اس کی کل متاعِ جاں تھی۔۔

جب تک میں سائرہ آپی کی شادی نہیں ہو جاتی اور میں ان کو منا نہیں لیتا۔عینا تمہارے پاس تمہارے گھر رہے گی۔۔میں اسے اکیلا نہیں رکھ سکتا کہیں۔۔۔

یس ماۓ لارڈ حادمہ ہے آپ فکر کیوں کرتے ہیں۔۔شامین اچھی خاصی خوش مزاج لڑکی تھی۔۔

تینوں باتیں کرتے ہوۓ ہنس رھے تھے جبکہ عینا خانوشی سے امان کے بازو کو زور سے جھکرے بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔۔

 تو مسٹر امان میں کورٹ میرج سے جڑے مسائل پہلے ہی تمہیں بتا دوں بعد میں مت کہنا بتایا نہیں۔شامین راکنگ چیئر کو گول گول گھما رہی تھی۔۔

جی مِس شامین بتائیے اور اپنی چونچ بند رکھیئے پھر۔۔امان نے برا سا منہ بنایا شامین بات کو طول دیئے جا رہی تھی۔۔

پسند کی شادی میں ہوتا یہ ہے کہ لڑکی کے گھر والے لڑکے پر 365 ب کے تخت ایف آئ آر کروا دیتے ہیں۔اس صورتخال میں لڑکے کو چاہیئے فوراً لڑکی کا  164 کا بیان مجسٹریٹ کے سامنے کرواۓ جس میں لڑکی لڑکے کے خق میں بیان دے۔اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کو چاہیئے ضمانت قبل از گرفتاری کروا لے۔اور ہائ کورٹ میں Quashment of Fir کے لیئے رجوع کرے۔۔شامین بےپرواہ سی بیٹھی اسے تفصیلات سے آگاہ کر رہی تھی۔۔

اوہ میری ماں سب کچھ کر لوں گا پہلے جس کام کے لیئے تمہارے پاس آۓ ہیں۔۔امان نے اب کی بار تقریباً ہاتھ جوڑے تھے۔سعدی اور شامین اس کی عجلت پر مسکرا رہے تھے۔۔

اچھا ولی کون ہے لڑکی کا۔۔شامین اب کے سیرئیس ہو کر ایک فائل نکال کر اس میں کچھ لکھنے لگی۔۔

میں ہوں۔۔سعدی نے جواب دیا۔۔

مجسٹریٹ تھوڑی دیر تک فارغ ہو جائیں گے پھر میرج پیپرز پر ان کے سگنیچر ہوں گے پھر کچھ فارمیلیٹیز ہوں گی پھر ہو گیا نکاح۔۔شامین نے چٹکیوں میں مسئلہ حل کیا۔۔

پھر واقعی تھوڑی دیر میں ضروری کاراوائیوں کے بعد عینا امان کی ہو گئ۔۔

مینا بعد میں کوئ مسئلہ نہ کرے اس لیئے عینا نے 164 کا بیان بھی مجسٹریٹ کو دیا۔۔

عدالت سے نکل کر وہ چاروں دوبارہ شامین کے چیمبر کی طرف بڑھے۔۔لوگوں کا رش پہلے کی نسبت کافی کم تھا۔۔

اب آ گیا سکون مسٹر کاظمی۔۔چیمبر میں پہنچ کر شامین نے امان سے پوچھا۔۔

آف کورس۔۔امانے سر جھکا کر شرمانے کی ایکٹنگ کی تو شامین کا زوردار قہقہہ چیمبر کی دردودیوار سے ٹکرایا۔۔

اچھا سعدی تو امان کو لے کر پیچھے پیچھے میرے گھر پہنچ میں عینا کو لے کر پہلے نکلتی ہوں۔۔گاڑی کی چابیاں اٹھاۓ کوٹ کو ٹھیک کرتی وہ اٹھی۔۔

ویسے تمہارے پاس کوئ کیس ویس نہیں آتا جو یہ کنوارہ بوتھا لیئے ہمارے ساتھ چل پڑی ہو۔۔امان نے اسے چھیڑا۔۔

ہاں میں تو ہوں ہی ویلی مطلبی انسان اینڈ فار یور کائینڈ انفارمیشن مسٹر کاظمی آئ ایم ناٹ کنوارہ بوتھا میرا ایک عدد منگیتر ہے ترکی میں سرجن ہے بہت جلد میں نے اڑ جانا ہے اس کے ساتھ۔پہلے سخت لہجے اور آخر میں مسکراتے ہوۓ ہاتھ کو اونچا کر کے بولی۔اس کے چہرے پر ایک دم سرخی چھا گئ تھی۔۔

اچھا اچھا ٹماٹر مت بنو اور نِکلو۔۔امان نے کہا تو وہ ایک جھانپر اس کے کندھے پر رسید کرتے عینا کا ہاتھ پکڑے باہر نکل گئ۔۔

افف میرے نازک مانی کو لگی۔۔سعدی نے پچکارتے ہوۓ اسے چھیڑا۔۔چل دفعہ ہو پوری فلم ہے تو۔۔امان نے سعدی کو پکڑ کر دروازے کی طرف دھکا دیا۔چاروں آگے پیچھے باہر نکلے۔

گاڑی کے پاس پہنچ کر شامین نے ایک مسکراتی معنی خیز نظر سعدی پر ڈالی بدلے میں اس نے بھی مسکرا کر انگوٹھا دکھایا۔۔

شامین نے عینا کے بیٹھتے ہی گاڑی فل سپیڈ سے سڑک پر ڈال دی۔۔

سعدی بھی معنی خیزی سے مسکراتا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔امان کے بیٹھتے ہی وہ بھی گاڑی زن سے بھگا لے گیا۔۔

___________________________________________________________________________________________________

کوٹ پہن کر اس نے گلے میں ٹائ ڈالی بالوں کو سلیقے سے جیل سے جماۓ وہ آئینے کے سامنے کھڑا آفس جانے کے لیئے تیار تھا۔

کوٹ کے بٹن بندھ کرتے وہ سرسری سی نظر سوئ ہوئ دانین پر ڈال دیتا تھا۔۔

تیاری مکمل کر کے اس نے قدآور آئینے میں اپنا سراپا دیکھا۔

دانین کو دیکھتا وہ چلتا ہوا اس کے سرھانے پہنچا۔کچھ دیر کھڑا وہ اسے دیکھتا رہا۔پھر ہاتھ بڑھا کر بازو سے پکڑ کر اسے زور سے جھنجھوڑا۔۔۔

کیا ہے۔۔دانین کی آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں وہ کھا جانے والے لہجے میں بولی تھی ۔۔

آفس جا رہا ہوں ناشتہ بنا کر دو۔۔اساور کہہ کر اپنا فون چیک کرنے لگا۔۔

کون سا جہاد پر جا رہے ہو خیر فقیراں بی سے کہہ دو بنا دیں گے مجھے مت تنگ کرو نیند آ رہی ہے مجھے۔۔تکیہ بازوؤں کے نیچے رکھتے وہ آڑھی ترچھی پھر سے لیٹ گئ۔۔۔۔

دانین اٹھو۔۔!! اس بار اساور نے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اٹھایا اور نیچے کھڑا کر دیا۔۔

کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔دانین کا تو مانو دماغ گھوم گیا تھا۔۔

اب تو اٹھ گئ ہو ناشتہ بنا دو اب۔۔اساور نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو دانین نے کچھ پل اسے دیکھا اور پھر پیر پٹختی کمرے سے ملحق سٹڈی میں گھس گئ۔۔

بھوکے جاؤ میری بلا سے مجھے نیند آ رہی ہے۔۔منہ پر ہاتھ رکھ کر جمائ روکتے ہوۓ دانین نے کہا اور دھرام سے دروازہ بند کر دیا۔۔

دانین۔!!وہ غصے سے بل کھا کر رہ گیا تھا مٹھیاں بھینچتے وہ سٹڈی کے دروازے کو کھولنے آگے بڑھا مگر دانین اسے اندر سے لاک کر چکی تھی۔۔

اسے دانین پر اس کی ہمت پر غصہ آ رہا تھا جبکہ دانین اسے وہی لوٹا رہی تھی جو سوغات وہ اسے دے چکا تھا۔۔

ایگو اور سیلف ریسپیکٹ ہرٹ ہونا کسے کہتے ہیں دانین اسے اچھے سے باور کروا رہی تھی۔۔

غصے سے اساور کے سر کی رگیں تن گئ تھیں۔مٹھیاں بند کرتے سحتی سے دروازے کو ٹھوکر مارتا وہ باہر نکل گیا۔۔

___________________________________________________________________________________________________

سنگاپور میں رات نے اپنے پر پھیلا لیئے تھے مگر سنگاپور روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔رات بھی دن کا سماں پیدا کر رہی تھی۔۔اے۔کے کی میٹنگ کامیاب رہی تھی کل کی ان کی واپسی کی فلائیٹس تھیں۔

ان کی رہائش سنگاپور کے ایک بہترین ہوٹل میں تھی جس سے شہر کا ویو بہت اچھا دکھتا تھا۔۔

اے۔کے اور حیا سدوانی اور ان کی سیکٹریز سب ایک ٹیبل کے اردگرد بیٹھے کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔

ساتھ میں تھوڑی ہلکی پھلکی گفتگو بھی کر لیتے تھے۔۔

حیا کی نظریں اے۔کے پر ٹِکی ہوئ تھیں۔جنہیں اے۔کے اچھے سے محسوس کر رہا تھا مگر پھر بھی وہ نظر انداذ کرتے ہوۓ مسکرا رہا تھا۔۔

سب باتوں میں مشغول تھے ۔اے۔کے کھانے سے فارغ ہو کر کافی کا کپ اٹھاۓ گلاس وال کے پاس آ کھڑا ہوا جس سے شہر میں جلتی بجتی روشنیاں آتے جاتے لوگ سب نظر آ رہے تھے۔۔

گلاس وال کے عین پیچھے لائیٹیں لگائ گئ تھیں جو ہر پل اپنا رنگ بدل رہی تھیں جس سے گلاس وال پر مختلف رنگ آ جا رہے تھے۔۔

اے۔کے دلچسبی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔تبھی اپنے کندھے پر اسے دباؤ محسوس ہوا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو حیاسدوانی اپنی ازلی مسکراہٹ کے ساتھ موجود تھی۔وہ مسکراتے ہوۓ اتنی اچھی لگتی تھی کہ سامنے اے۔کے نہ ہوتا کوئ اور ہوتا تو منٹ نہ لگاتا اس کی زلفوں کی گھنی چھاؤں میں کھو جانے سے۔۔

کیا دیکھ رہے ہیں مسٹر اے۔کے۔۔وہ سامنے ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہو گئ۔۔

روشن شہر جسے رات کی تاریکی بھی سیاہ نہیں کرتی۔۔اے۔کے محویت سے گلاس وال کے اس پار دیکھ رہا تھا جب کے حیا کی نظریں اس پر جمی ہوئ تھیں۔۔

ایک بات کہوں۔۔حیا کی محویت ٹوٹنے کو نہ آ رہی تھی۔۔

ہممم۔۔کہو۔""۔۔

حیا کافی دیر چپ رہی تھی پھر ایک جھٹکے سے وہ اے۔کے کے گلے لگ گئ"آئ لو یو اے۔کے"":

۔اس طرح اچانک خود سے چمٹ جانے پر اے۔کے حیران ہوا تھا۔۔ٹیبل کے پاس بیٹھے سب لوگ ان کی طرف متوجہ تھے۔سب دبی دبی سی مسکراہٹ ان پر اچھال رہے تھے۔۔

حیا۔۔!! اے۔کے نے ایک جھٹکے سے حیا کے خود سے الگ کیا اور ایک زوردار تھپڑ اس کے گال پر دے مارا۔۔تھپڑ اتنی شدت سے پڑا تھا کہ حیا کے ہونٹوں کا کنارہ پھٹ گیا جس سے خون کی ایک ہلکی سی لکیر نکلی۔حیا کے گال پر اے۔کے کا ہاتھ نشان چھوڑ گیا تھا ۔

وہاں بیٹھے سب لوگ منجمند ہو گۓ تھے۔حیا کے اتنے کھلے اور بےباک اظہار پر بھی کسی کو اے۔کے سے اس چیز کی توقع نہیں تھی ۔۔

حیا نے بےیقینی سے سامنے کھڑے وجیہہ مرد کو دیکھا جو آنکھوں میں غصے کی چنگاری لیئے اسے بھسم کرنے کو تیار تھا۔۔۔۔

تم نے مجھے تھپڑ مارا۔۔حیا غصے کی شدت کے چلائ۔۔

ہاں کیونکہ تم ڈیزرو کرتی ہو تھپڑ کو ۔اپنی دوسرے کی عزت ساکھ سیلف ریسپیکٹ کسی شے سے کچھ لینا دینا نہیں ہے تمہارا کیسی لڑکی ہو تم حیا سدوانی ۔!!""شیم آن یو"_۔۔اے۔کے بہت غصے میں تھا۔۔

میں نے محبت کی ہے تم سے ۔۔""حیا نے بےبسی سے اس کا ہاتھ تھامنا چاہا۔۔

اور میں تھوکتا ہوں تمہاری تم جیسی تمام لڑکیوں کی محبت پر۔۔اے۔کے نے اپنا ہاتھ جھٹکا اسے خود سے پیچھے دھکیلتا وہ وہاں سے نکل آیا تھا ۔۔""

مگر اس کی آواز اس کو ابھی بھی سنائ دے رہی رھی"تھی۔۔

تم بھگتو کے اے۔کے تم میری نفرت کی آگ میں تاعمر جلو گے میرا انتقام تمہیں جلا کر راکھ کر دے۔۔""

میں تمہیں کہیں کا نہیں چھوڑوں گی۔"مجھے میری محبت کی بھیک کے جواب میں دھتکار ملی ہے تمہیں بھی برباد کر دوں گی میں""

وہ ہسٹریانی انداذ میں چیخ رہی تھی چلا رہی تھی مگر وہ کان لپیٹے اپنے روم میں چلا گیا۔۔

اٹھ گئ ماہرانی صاحبہ !!! " ہو گئ نیند پوری آپ کی۔۔زخمی ٹانگ گھسیٹ کر چلتے سائرہ کچن میں داخل ہوئ جہاں دانین کھڑی آملیٹ بنا رہی تھی۔تھوڑی سی چوٹ کو نہ جانے اس نے کتنا بڑا کر دیا تھا۔"_

رسی جل گئ پر بل نہ گیا۔۔دانین نے آملیٹ کو پلٹے چبا چبا کر کہا۔۔

ذیادہ باتیں مت کرو اور ناشتہ بنا کر دو مجھے۔۔سائرہ نے ناگواری سے کہا۔۔

ہمم اچھا تو مس سائرہ ناظم کاظمی وہیل چیئر پر بیٹھنا چاہتی ہے رائٹ۔۔دانین خطرناک مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف بڑھی تو سائرہ ایک دم ڈر کر پیچھے شیلف سے جا لگی بازو کی ٹکر سے کپ فرش پر گِرا اور چھناکے کے ساتھ ٹوٹ گیا۔۔

کانچ توڑ دیا اماں کہتی تھیں اچھا شگن نہیں ہوتا ہے کہیں تمہاری دوسری ٹانگ بھی نہ ٹوٹ جاۓ میرے ہاتھوں۔آملیٹ پلیٹ میں رکھتے دانین نے خطرناک نظروں سے اسے دیکھا۔ڈر کے مارے سائرہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ ہوئ۔۔

مم میں نے تت تو اتنا ہی کک کہا ہے ناشتہ بنا دو۔۔وہ ہکلائ تھی دانین کے تیور ان دنوں اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہے تھے۔۔

تت تم نن نے کک کیوں کک کہا مم مجھے نن ناشتہ بنانے کا جج جب کے تت تمہارے ہاتھ فی الحال صیح سلامت ہیں۔۔دانین نے اس کی نقل کرتے ہوۓ ہکلانے کی ایکٹنگ کی۔۔سائرہ منہ بناتے جلدی سے کچن سے نکل گئ جو دانین کا انداذ تھا وہ اس کا ہاتھ توڑ دینے سے بھی باز نہ آتی۔۔

سائرہ کے تیزی سے نکلنے پر دانین ہلکا سا مسکرائ اور چاۓ کا کپ آملیٹ اور سلائیس لیئے لاؤنج میں چلی آئ۔۔""پلیٹ ٹیبل پر رکھ کر وہ بیٹھنے کو مڑی ہی تھی کہ اس کا سر چکرایا_"۔

چچی کیا ہوا آپ کو۔۔"اپنے کمرے سے نکلتی سومو اسے یوں سر ہاتھوں سے پکڑے کھڑے دیکھ کر تیزی سے اس کی طرف بڑھی۔_":

کچھ نہیں سومو بس ہلکا سا چکر آ گیا تھا۔_"دانین اب سنبھل کر صوفے پر بیٹھ چکی تھی_":

چچی آپ ٹھیک نہیں لگ رہیں چلیں ہسپتال لے کر چلتی ہوں میں آپ کو۔۔_"_

ٹھیک ہوں سومو پریشان نہ ہو تم بلاوجہ"_

ایک ہاتھ میں چاۓ کا کپ پکڑے دوسرے سے وہ اپنی کنپٹی سہلا رہی تھی۔،_"

چکس نے کچھ کہا ہے پھر۔" 

سومو اس کے پاس ہی بیٹھ گئ۔چہرے سے پریشانی واضح ہو رہی تھی۔_"'

میں اب سب جیسی بن گئ ہوں جتنے دن میں نے اس گھر میں گزارے ہیں ان سے سیکھا ہے میں نے دنیا کے ساتھ جیسی دنیا ہے ویسے چلو ورنہ تمہیں لوگ نوچ کھائیں گے مار ڈالیں گے اور سمجھ بھی نہیں آۓ گی کہ کس نے قتل کر ڈالا آپ کا۔۔_"

اور میں اب جیسے کو تیسا کے اصول پر چل رہی ہوں جو زخم مجھے دیئے ہیں ان کے کھرنڈ کھرچنے نہیں دوں گی  *"_

وہ کیا کہتے ھیں اینٹ کا جواب پتھر سے۔۔""':اب اسے اہمیت نہیں دیتی میں نہ خود پر تشدد کی اجازت دیتی ہوں۔'

چاۓ کا کپ لبوں سے لگا لیا تھا۔"لہجہ بےانتہا مظبوط تھا۔۔'

چکس آپ کو کھو رھے ہیں اپنی سانسوں کو خود سے جدا کر رہے ہیں رفتہ رفتہ اور دیکھو ان کو پتہ بھی نہیں"_! 

کسی سے بےانتہا محبت کر کے بےانتہا نفرت کرنا چاہو اور کر نہ پاؤ اور نہ اس کے لیئے دل میں کچھ محسوس کرو ایسے انسان کی اذیت سمجھتی ہو تم۔"_،

دانین کی انگلیاں چاۓ کے کپ پر گھوم رہی تھیں جو اب اس کے گود میں تھا۔"_

جس دن سچ ثابت ہو جاۓ گا آپ کیا کریں گی چکس کو معاف کر دیں گی۔"_؟؟

ہاہاہاہا ۔۔__!!! اس کی بات پر دانین دیر تک ہنستی رہی تھی۔ہنستے ہوۓ آنکھوں میں نمی در آئ تھی۔""

سومو نے حیرانی سے اس نیم پاگل لڑکی کو دیکھا تھا۔"_

خواب بننے کے عمل کو جانتی ہو۔۔:"_نہیں تم کہاں جانو گی سومو۔!! میں جانتی ہوں ۔میں نے خواب دیکھے نہیں تھے میں نے خوابوں کو سینچا تھا پل پل ہر پل یار۔!_میں نے ان ہاتھوں سے خواب بننے تھے مم میں جانتی ہوں خواب بنتے میرے ہاتھ زخموں سے چور چور ہوۓ تھے مگر خواب پورے ہونے پر ملنے والی خوشی اور راخت کا خواب مجھے پھر سے خواب بننے پر مجبور کرتا تھا۔ "_"؛'

اور دیکھو تمہارے چچا نے میرے خوابوں کی بنی ڈور کو اپنے انتقام اکی آگ میں جلا دیا۔"":

وکالت میرا خواب تھا وہ خواب جو مجھے تروتازہ کرتا تھا۔۔:"انگلی کے پور سے اس نے آنکھ کے کنارے اٹکے آنسو کو صاف کیا۔۔۔''

اور معافی۔!"" اساور کاظمی کے لیئے دانین جمشید علی کے پاس اب دینے کو کچھ نہیں بچتا نہ محبت نہ نفرت اور نہ معافی۔"کچھ بھی نہیں۔"

اساور کاظمی وہ شخص تھا جسے دانین جمشید علی نے لڑکپن کی دہلیز پرقدم رکھتے ہی دل میں اترتے پایا تھا۔":

یقین جانو جیسے وہ دل میں اترا تھا ویسے ہی دل سے اتر گیا ہے۔"؛

اس نے میرے خواب جلا دیئے یار ۔_"وہ قاتل نکلا ۔۔ میرے خوابوں کا خون اس نے مجھے تڑپا تڑپا کر کیا ہے_"

میری سیلف ریسپیکٹ میری ایگو میرے دل کو سب کو بدگمانی کے پاؤں تلے روند ڈالا اس نے۔ایک عورت محبت بعد میں کرتی ہے بعد میں چاہتی ہے پہلے عزت چاہتی ہے نہ ملے تو سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔۔ایک عورت عزت نفس پر کمپرومائز نہیں کرتی۔" چلو یہی سہی میرے خواب میرے بھائ کی زندگی کا صدقہ ہوۓ۔۔"

گالوں پر آنسوؤں کی قطاریں بہہ نکلی تھی جن کو ہاتھ کی پشت سے اس نے بےدردی سے رگڑ ڈالا تھا اور نم آنکھوں سے مسکرا دی"'

نم آنکھوں سے مسکرانا تکلیف کا کون سا درجہ ہے کوئ اس سے پوچھتا۔۔""_

سومو بس دیکھے گئ تھی اس لڑکی کو ۔"وہ کمال کی لڑکی تھی نم آنکھوں سے بھی مسکرا دیتی تھی ایسی مسکراہٹ  جو دل چیڑ کر رکھ دے پھر اساور کیوں نہیں پگھلتا تھا۔_"_

آہ __ ۔منہ پر ہاتھ رکھ کر دانین تیزی سے کمرے کی طرف بھاگی ۔* سومو بھی اس کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئ۔"

واش روم سے دانین کی الٹیاں کرنے کی آوازیں وہ سن سکتی تھی۔"

دانین ٹھیک ہیں آپ۔۔وہ دروازہ پریشانی سے کھٹکھٹا رہی تھی۔"،_

تھوڑی دیر میں دروازہ کھلا ۔دانین تولیے سے منہ پونجتے باہر نکلی "اس کا چہرہ ایک دم سے زرد پڑ گیا تھا۔":

دانین کیا ہوا آپ کو۔۔"_سومو پریشانی سے اس کا چہرہ ھاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوۓ بولی۔۔

کچھ نہیں بس وومٹینگ ہو گئ تھیں شاہد کچھ غلط کھا لیا ہے تم جانتی ہو کھانے پینے کی کتنی شوقین ہوں میں۔"دانین نے مسکرانا چاہا مگر نقاہت کی وجہ سے وہ مسکرا بھی نہ پائ تھی۔سومو کا سہارا لیتے وہ بیڈ پر بیٹھ گئ۔"

چلیں میں آپکو ہوسپٹل لے کر چلتی ہوں۔"سومو نے اس کے لاکھ نہ نہ کرنے پر بھی بازو سے پکڑ کر زبردستی باہر لایا۔"سومو کا سہارا لیئے وہ چل رہی تھی ورنہ چکراتے سر کے ساتھ کہیں گِر جاتی۔۔__°°`

کیا ہوا خیریت ہے دانی بیٹا۔۔کچن کے کانچ کے ٹکڑے صاف کرتی فقیراں بی نے سومو کے سہارے چلتی دانین کو دیکھا تو ایک دم پریشان ہو اٹھیں۔__

طبیعت ٹھیک نہیں ہے ان کی ہسپتال لے کر جا رہی ہوں۔۔" سومو نےعجلت میں بات مکمل کی اور دانین کو لیئے دروازے سے باہر نکل آئ۔"_

ڈرائیور سے چابی لے کر اس نے دانین کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی زن سے کھلے گیٹ سے بھگا لے گئ۔":_

___________________________________________________________________________________________________

یار یہ کس روٹ پر لے کر جا رہا ہے شامین کی گاڑی کو فالو کر۔""_سعدی کے یو ٹرن لے لینے پر امان آگ بھگولہ ہو گیا۔"

چپ کر کے بیٹھ ورنہ یہیں کے دھکا دے دوں گا سمجھے۔۔"_سعدی نے غصے کے کہا۔""

تو لے کر کہاں جا رہا ہے مجھے اور عینا یار شامین اسے کہاں لے کر جا رہی ہے۔"

امان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے۔"

تو اور تیری بھیگم کڈنیپ ہو گۓ ہو۔:"تجھے قتل کرنے لے کر جا رہا ہوں میں۔'؛":

اس کے سوالات کے تنگ آکر سعدی نے تقریباً کچا نگل جانے والا لہجہ اختیار کیا۔"_

کر ہی نہ لے تو کڈنیپ۔" اوہ بھائ صاخب کڈنیپ کرنے والی شکلیں کوئ اور ہوتی ہیں ایسی ممی ڈیڈی نہیں ہوتیں۔"":

امان نے اس کے منہ پر چٹکی کاٹتے ہوۓ اس کا گال کھینچا جس سے سعدی ہمیشہ اریٹیٹ ہوتا تھا۔"_

اب کے تو نے ہاتھ لگایا مجھے تو تیرا قتل مجھ پر واجب ہو جانا ہے۔"_!

اپنی طرف سے سعدی نے دھمکی دی تھی مگر سامنے والا بھی خالص ڈھیٹ ہی تھا۔۔۔

ہاہاہاہا""

امان کا قہقہہ گاڑی میں گونجا تھا۔"_

امان کی طرف دیکھتے سعدی نے گاڑی جھٹکے سے روکی ۔"امان کا سر ڈیش بورڈ سے ٹکراتے ٹکراتے بچا تھا۔۔

اوہ تیری اندھوں کے بادشاہ کس کے ساتھ ٹھوک دی گاڑی ."دیکھ کر نہیں چلا سکتا۔۔امان نے اپنے سر کو ہلایا جہاں درد کی شدید ٹیس اٹھی تھی۔"_

یہ سیٹ بیلٹ خفاظتی اقدامات کے طور پر گاڑی میں لگایا جاتا ہے اور اس کا استعمال کر لینا چاہیئے۔"_سعدی نے بھی ادھار نہ رکھا تھا۔"

گاڑی کا دروازہ کھول کر وہ باہر نکلا اور سر سہلاتے امان کو زبردستی کھینچ کر گاڑی سے باہر نکالا۔۔""

تکیلف کیا ہے تجھے یہی بتا دے میرے باپ۔۔"امان نے ہاتھ سر تک لے جا کر سعدی کے آگے جوڑے۔۔

مجھے کوئ تکلیف نہیں ہے سامنے دیکھ۔"

سعدی نے اس کا منہ پکڑ کر سامنے مال کی طرف کیا۔"_

ہاں یہ شاپنگ مال ہے کیا دیکھوں کون کی وکھڑی چیز ہے۔۔امان ہاتھ پینٹ کی پاکٹ میں ڈالتے گاڑی کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔"_'

عقل کے دشمن یہ شاپنگ مال ہے اور. . . . . . . .  !!!

اور یہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ بن گیا ہے۔"

امان نے بیزاری سے اس کی بات کاٹی۔"_

کھوتے اپنی نئ نولی دلہن کے لیئے کچھ لے لو وہ کیا کہتے ہیں منہ دکھائ چاہے شادی ایسے ہو گئ مگر اس کے دل میں خواہشیں تو ہوں گی ۔":

اور ویسے بھی بہت ڈپریس ہے وہ خوش ہو جاۓ گی ۔" اب اس کا سب کچھ تو ہی تو ہے"_ سعدی نے نرمی سے کہتے ہوۓ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔"_

تو واقعی میرا سچا دوست ہے میری جان۔!! امان نے فرطِ جذبات سے سعدی کو جھپی ڈالی۔"_

اب چھوڑ دے۔۔"_عینا نہیں سعدی ہوں میں۔،"سعدی نے اسے چھیڑا۔"

چل دفعہ ہو جب جب تجھ پر پیار آنے لگتا ہے تیرے منہ کے کچھ نہ کچھ منحوس ہی نکلتا ہے۔"_سعدی کو خود  سے الگ کرتے مصنوعی خفگی سے کہتا وہ مال کی طرف بڑھ گیا۔۔

ابے سن تو سہی مجنوں کی اولاد۔۔"سعدی کے اس کے پیچھے ہی شاپنگ مال کا گلاس ڈور کھلولتے اندر داخل ہو گیا۔۔

بول محبت کے دشمن۔"_ امان نے برا سا منہ بنا کر کہا ۔سعدی اور وہ چلتے ہوۓ ایک جیولری شاپ میں داخل ہوۓ۔"_

زیور کی چمک نے شاپ کو روشن کیا ہوا تھا۔"،

لے گا کیا۔۔؟_"

سعدی اسے ہر شے ریجیکٹ کرتے دیکھ کر تنک کر کے بولا۔۔

تو چپ کر تجھے کیوں بتاؤں تجھے کون سا محبت سمجھ آتی ہے تجھے۔_"_

ہاں تم تو لو گرو ہو نا۔۔!! سعدی نے اس کی کمر پر ہلکی سی چٹکی کاٹی۔"

تمیز سے کھڑا ہو جا ورنہ رکھ کر ایک جھانپڑ لگاؤں گا۔۔"!_امان نے اسے تھپڑ دکھایا۔"!

تو بدل گیا ہے دوست بیوی آنے کے بعد سب بدل جاتے ہیں تُو بھی بدل گیا ہے"،_یہ امید نہ تھی تجھ سے۔،_:"!

سعدی نے مصنوعی آنسو صاف کیئے۔"_

پوری فلم ہے یار تو قسم سے۔،" امان مسکرایا۔۔

بس کبھی غرور نہیں کیا اپنے ٹیلنٹ پر۔۔سعدی نے فرضی کالر جھاڑے۔_"_!

یہ والا بریسلٹ پیک کر دیں۔، " امان نے ایک بریسلٹ شاپ کیپر کی طرف بڑھایا۔"_

بریسلٹ لے کر وہ دونوں ہنستے کھیلتے مذاق کرتے مال سے باہر نکلے۔"_!

گاڑی سٹارٹ کرتے خوش خوش سا امان اپنی عینا کے پاس پہنچنے کو بےتاب تھا۔"_!

___________________________________________________________________________________________________

آرام سے بیٹھ گئ ہو نا _" کوئ مسئلہ تو نہیں۔"،سعدی نے اپنے پیچھے بیٹھی سومو کو کہا جو شائد بائیک پر پہلی بار بیٹھی تھی۔_" 

وہ کاظمی خویلی کی ننھی اور لاڈلی شہزادی تھی وہ کہاں ان سواریوں پر بیٹھی ہو گی۔،!"

یس سعدی بھائ بہت مزہ آ رہا بس تھوڑا سا ڈر لگ رہا ہے کہیں گِر گئ میں تو۔_"

سومو نے ہاتھ زور سے سعدی کے کندھے پر رکھا تھا۔"_! سعدی بس مسکرا کر رہ گیا تھا۔۔_"؛

میں تمہیں نہیں گِرنے دوں گا بےفکر رہو۔_!"_

سعدی بھائ وہ گولا گنڈا والا ٹھیلہ پلیز روکیں بائیک۔_مجھے وہ کھانا ہے_"!"سومو نے سڑک کے کنارے چھاتہ بنا کر اس کے نیچے لگے گولا گنڈے کے ٹھیلے کی طرف اشارہ کیا۔"_

جہاں سے آتے جاتے لوگ ٹھنڈا سرخ میٹھا گولا گنڈہ کھا رہے تھے۔،_"

سومو طبیعت خراب ہو گئ پھر۔_"سعدی نے بائیک سائیڈ پر روکا۔_"

ایسی بھی کوئ نازک پری نہیں ہوں میں کچھ نہیں ہوتا "_چلیں چلیں۔!: سومو بیگ کندھے پر ڈالتی بھاگتی ہوئ ریڑھی کے پاس پہنچی۔_""

مجبوراً سعدی بھی اس کے پیچھے چل پڑا۔_"

انکل مجھے بنا دیں جلدی سے ایک کپ۔مزیدار میٹھا اور ٹھنڈا سا۔ _" آپ لیں گے سعدی بھائ _"ایسا کریں انکل دو بنا دیں۔_" ریڑھی والے کو بتا کر وہ سعدی کے پاس آ کھڑی ہوئ جو لکڑی کی بوسیدہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا_"

کیا ہوا کہیں یہ تو نہیں سوچ رہے خود مصیبت گلے ڈال دی جو گرمی میں خوار کروا رہی ہے۔_" سعدی کے اس طرح خود کو تکتے پا کر وہ بھی اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئ تھی۔_"

تم کہو تو صحرا کی خاک چھان لوں اور ہونٹوں سے پھر بھی مسکراہٹ جدا نہ ہونے دوں۔_" اس پر امان کا اثر ہو رہا تھا اس نے دل ہی دل میں سوچا۔_"

اوہ مائ گاڈ کہیں آپ مجنوں کی نسل سے تو نہیں۔_": سومو نے معصویت سے دونوں ہاتھ گال پر رکھتے اسے چھیڑا۔_"

مجنوں تو لیلا کو پانے کی چاہ میں کنوارہ مر گیا تھا میں کہاں اس کی نسل سے نکل آیا پھر ۔_"!_ سعدی اس کی شرارت سمجھ کر مسکرایا۔_

"مجنوں بننے کو مجنوں کے خاندان سے بیلونگ کرنا ضروری نہیں ہے۔ جس کا بھی عشق حد سے بڑھ جاۓ وہ پھر مجنوں کہلاۓ۔"_

مجنوں کوئ ایک شخص تھوڑی تھا وہ ایک شخص تو بس قیس تھا جب مجنوں بنا تو عشق بن گیا تھا عاشق بن گیا تھا _"! 

اتنی سی عمر میں اتنی بڑی باتیں۔_"سعدی حیران ہوا تھا اسے لگا وہ محبت کو ابھی نہیں سمجھتی ہو گی مگر وہ تو ایسی نکلی کہ عشق پڑھاۓ تو بندہ اس کے سحر سے نکل نہ پاۓ۔_"!

پورے سولہ سال کی ہوں میٹرک میں پڑھتی ہوں الحمداللہ میچورڈ ہوں ۔سمجھتی ہوں سب جانتی ہوں سب۔_"وہ ماسٹر میں پہنچ کر بھی ننھی کاکیاں بننے والی لڑکیاں مجھے سمجھ نہیں آتیں۔_"! عمریں بڈھوں کو مات دیں دماغ شیطان کو بچھاڑ دے اور منہ پر معصومیت طاری کر کے بولیں۔_"جی یہ محبت کیا ہوتی ہے مجنوں کون تھا ، فرہاد لیلیٰ کے چچا کا بیٹا ہے یا چھپکلی قتل بھی کر ڈالتی ہے"_

سومو کے چہرے پر بولتے ہوۓ اتنی معصویت در آئ تھی کہ وہ بس اسے دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔_

اچھا تم جانتی ہو محبت کیا ہے۔_؟"سعدی نے اپنے من کا سوال کیا۔"

نہیں شائد ہاں_!"سومو نے پہلے نفی میں اور پھر ہاں میں گردن ہلائ۔سعدی کنفیوز ہوا۔_"

"محبت کیا ہے ۔؟؟میں یا آپ کوئ کنفرم نہیں بتا سکتا ہر شخص اسے الگ چیز سے تعبیر کرتا ہے ۔کوئ دولت کماتا ہے کہ اسے دولت سے محبت ہے کوئ رشتے جوڑ کر رکھتا ہے کیوں کہ اسے محبت ہے،کوئ پہاڑوں کی محبت میں مبتلا ہے تو کوئ کہکشاؤں کی ،کوئ انسانوں میں سکون تلاش کرتا ہے تو کوئ رب سے لو لگاتا ہے کیونکہ اسے محبت ہوتی ہے_۔

  کسی کے لیئے محبت وہ بھیانک خواب ہے جو اسے راتوں میں سونے نہیں دیتا ڈراتا ہے اور کسی کے لیئے محبت وہ حسین خواب ہے جو وہ پلکوں کی جھالڑ پر سجاتا ہے تو مسکراتے ہونٹوں کے ساتھ رات آنکھوں میں کٹتی ہے۔ "

کوئ دل میں سماتا ہے تو کوئ دل سے اتر جاتا ہے آسان الفاظ میں  یہ کہ محبت ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے اور ہر شخص کی ذہنی کیفیت دوسرے شخص سے مختلف ہوتی ہے کوئ شے کسی بندے کو سکون دیتی ہے تو وہی شے کسی دوسرے کا سکون غارت کرتی ہے۔محبت وہی شے ہے۔_!_

وہ ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ پانی کی کوئ شکل نہیں ہوتی جس برتن میں ڈالو وہی شکل اختیار کر لیتی ہے اگزیکٹلی محبت بھی پانی ہے ہم محبت کو سکون کے برتن میں ڈالیں یہ سکون بن جاۓ گی بےسکونی کے برتن میں انڈیلیں تو یہ بےسکونی بن جاۓ گی۔

ماں کرے گی تو مامتا بن جاۓ گی باپ کرے گا تو شفقت کہلاۓ گی بہن کرے تو دوست بن جاۓ گی بھائ کرے تو جان پہچانی جاۓ گی محبوب کرے تو محبوبہ بن جاۓ گی بس ثابت ہوا محبت ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے جو پانی جیسی ہوتی ہے۔_"۔سعدی یک ٹک اسے دیکھے جا رہا تھا کاش وہ بتا پاتا سومو کے لیئے اس کی ذہنی کیفیت کتنی سکون والی ہے۔

تم نے محبت محسوس کی کبھی۔_"! سعدی کے اپنے سے ہی سوال تھے۔۔

ہاں کی ہے۔سومو نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا سعدی کو اپنا دل سینے کی حدود سے نکلتا ہوا محسوس ہوا _"

ماں کی مامتا بھائ کی محبت چکس کا لاڈ آپی کا لڑنا پھر پیار کرنا سب محبت کے دائرے میں آتے ہیں جو میں نے محسوس کیئے ہیں۔۔"_سومو کے لہجہ اپنوں کی محبت سے پُر تھا۔_!

اگر میں کہوں مجھے بھی تم سے محبت ہے تو تم کیا کہو گی۔"_! سعدی نے سوال کیا۔_

چھوٹے لڑکے نے پلاسکٹ کے گلاس میں لال فالودہ لا کر دونوں کو پکڑایا۔

یہ تو بہت اچھی بات ہے امان بھائ جیسی محبت۔،_" سومو مسکرائ ۔۔

نہیں جیسی اساور بھائ دانین سے کرتا ہے ویسی محبت۔_سعدی بلاوجہ گلاس میں موجود لال برف کو توڑنے لگا۔۔

ہاہاہاہا ۔۔!! سومو پل بھر کو منجمند ہوئ پھر دوسرے ہی لمحے اس کا ایک جاندار قہقہ گونجا تھا۔_" مذاق اچھا کر لیتے ہیں آپ "۔ سومو نے بات کو اڑا دینا چاہا تھا۔۔

محبت بس محبت ہوتی ہے سومو مذاق نہیں ہوتی۔۔سعدی کا فالودہ پگھل چکا تھا۔۔":

چلیں اماں پریشان ہو رہی ہوں گی۔_:اس کی بات کو نظرانداذ کرتے وہ بیگ سنبھالے جانے کے لیئے کھڑی ہو گئ۔"_

سعدی نے بائیک سٹارٹ کیا تو سومو بیگ کو دونوں کندھوں پر ڈالے بیٹھ گئ مگر اب کی بار سومو نے گرنے کے خوف سے سعدی کا کندھا نہیں پکڑا تھا۔_"

وہ بےتاثر چہرے کے ساتھ لب بھینچے بیٹھی تھی

۔"_

وہ نظرانداذ کر رہی تھی تو سعدی کا بھی فرض بنتا تھا وہ اس بات کو نہ چھیڑتا۔

بائیک لاہور کی سڑک پر دوڑ رہی تھی جس پر بیٹھے دو نفوس کے چہروں پر کچھ دیر پہلے کی ہنسی کا شائبہ تک نہ تھا۔"_

باقی کا سارا راستہ بہت خاموشی سے کٹا تھا۔۔

__________________________________________________________________________________________________

 دن کا اجالا سمٹا تو رات نے اپنے پر پھیلاۓ تھے۔ایسے میں شامین کا گھر روشن تھا بہت روشن عام دنوں کی نسبت۔

۔شامین کا دو کمروں پر مشتمل چھوٹا سا گھر تھا جس ایک کچن اور لاؤنج اسے مکمل کرتے تھے۔"_

شامین ایک مڈل کلاس سے بیلونگ کرتی تھی ماں مر چکی تھی باپ اور چچازاد کے ساتھ اس چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی پھر چچازاد ڈاکٹر بننے ترکی چلا گیا اور وہیں کا ہو گیا۔"_بیماری کے باعث ابا کا بھی انتقال ہو گیا۔۔

وہ ایک بہادر لڑکی تھی وہ بکھرتے حالات کے ساتھ بکھری نہیں تھی بلکہ خود کو سمیٹا تھا۔"_

وہ اب ایک کامیاب وکیل تھی اور اپنے باپ کے گھر میں اکیلی رہتی تھی۔_"

سعدی اور امان اندر داخل ہوۓ تو کچن سے شامین کے گنگنانے کی آواز آ رہی تھی _"

گنگناتے ہوۓ وہ کچن سے باہر نکلی ہاتھ میں چاۓ کا کپ تھا۔_"

بڑی دیر کر دی مہرباں آتے آتے۔۔شامین کپ سے چاۓ کا سِپ لیتی لاؤنج میں رکھے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گئ۔_"

عینا کہاں ہے۔:؟؟ امان نے بےتابی سے ادھراُدھر دیکھتے ہوۓ پوچھا۔_"

کون عینا۔_" شامین نے آنکھیں پٹپٹا کر انجان بنتے ہوۓ کہا۔_"

میں نے یہ ٹیبل اٹھا کر تیرے سر پر مار دینی ہے پھر اگلی پچھلی ساری یاداشت واپس آ جاۓ گی۔_" 

تم ٹھیک کہتے ہو سعدی یہ بدل گیا ہے واقعی یہ بدل گیا ہے اپنی بیسٹ فرینڈ کو بیوی کے لیئے ٹیبل مارے گا۔_" شامین نے رونی شکل بنا لی تھی۔_"

چلو یہ تو یاد آیا عینا میری بیوی ہے ورنہ ابھی تو تم اسے پہچاننے سے انکاری تھی۔۔_"۰امان نے اچھی خاصی کلاس لے ڈالی تھی اس کی۔۔

یہ امید نہیں تھی تم سے امان۔"اب کے وہ باقائدہ دہائیاں دینے لگی تھی۔_"

تم اور سعد کیا چیزیں ہو یا پوری کی پوری فلم۔_" امان نے ان کی ایکٹنگ پر کانوں کو ہاتھ لگایا۔۔

مست ایکٹنگ کرتے ہیں ہم ہے ناں۔!؛ شامین نے کپ ٹیبل پر رکھتے ایک دم کھڑے ہو کر ہاتھ تالی کے لیئے امان کی طرف بڑھایا _"

اسے ایکٹنگ نہیں بیسٹ فرینڈز اوور ایکٹنگ کہتے ہیں۔امان تنک کر بولا تو دونوں اپنا سا منہ لے کر رہ گۓ مگر دوسرے ہی پل دونوں کا فلک شگاف قہقہہ گونجا تھا۔ان دونوں کو یوں ہنستا دیکھ کر امان بھی ہنسنے لگ گیا تھا۔_"'

چپ کرو عینا ہم تینوں کو سائیکو نہ سمجھ لے۔شامین نے سرگوشی میں کہا۔

"بیسٹ فرینڈذ جب مل بیٹھیں تو ان کو سائیکو ہی سمجھ لو"سعدی نے اپنا فلسفہ جھاڑا۔۔""

اچھا عینا ہے کدھر مجھے ملنا ہے اس سے۔_" امان نے سوالیہ نظروں کے شامین کو دیکھا جس کے چہرے پر " میں نہیں بتاؤں گی" صاف صاف لکھا تھا۔وہ خود ہی کمروں کی طرف بڑھا۔۔_::

نہیں مل سکتے تم عینا سے۔"شامین نے صوفے سے ایک لمبی جست بھری اور سیدھی ایک کمرے کے آگے کھڑی ہو گئ۔_":

بڈھی ہونے کو ہو مگر بچپنا نہ جاۓ گا تمہارا _": ویسے کس خوشی میں اپنی بیوی سے نہیں مل سکتا میں۔_" امان نے اسے ہٹنے کا اشارہ کیا _"

دولہا میاں اس وقت میں عینا کی بہن ہوں تو سالی کے آگے جیب ڈھیلی کیئے بغیر نہیں مل سکتے عینا سے۔_"شامین نے ہتھیلی آگے کی۔۔

سعدی سے بھی بڑا ڈرامہ ہو تم۔_"امان نے والٹ سے سارے پیسے نکال کر شامین کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔_ . .  سعدی نے اپنی اس قدر تعریف پر برا سا منہ بنایا۔_"

دونوں سے نبٹتا وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر بڑھا مگر کمرے کی حالت دیکھ کر وہ ساکت رہ گیا تھا۔۔_"

کمرہ کے درمیان میں رکھا بیڈ جس پر سفید بیڈشیٹ بہت سلیقے سے بچھائ گئ تھی۔بیڈ کے اِردگِرد سفید جھالر لگا رکھی تھی جو سفید اور ہلکے گلابی رنگ کے نیچرل پھولں سے ڈھکا ہوا تھا۔_"پھولوں کی خوشبو پورے کمرے میں پھیلی ہوئ تھی۔_"

"بیڈ کے بیچوں بیچ ہلکا گلابی رنگ کا لہنگا پھیلاۓ سر سے منہ تک نیٹ کے گلابی دوپٹے کا گھونگھٹ کھینچے سر جھکاۓ بیٹھی عینا سفیدستان کی باسی معلوم ہوتی تھی"_:

امان کے لبوں پر بےساختہ مسکراہٹ دور گئ تھی۔ اس نے پلٹ کر صوفے پر بیٹھے امان سے ہتھیاۓ پیسے گنتے سعدی اور شامین کو دیکھا۔"

نظروں میں بےپناہ محبت اور تھینکس تھا۔دونوں نے مسکراتے ہوۓ اسے انگھوٹھا دکھایا۔_"امان مسکرا کر دروازہ بند کرتے بیڈ پر سر جھکا کر بیٹھی اپنی متاعِ جاں کیطرف بڑھا۔۔

بیڈ پر ایک ٹانگ آگے اور ایک پیجھے رکھ کر وہ بیٹھا تھا چہرے پر بےانتہا حوشی چھائ تھی۔"

آہستہ سے اس کا گھونگھٹ اٹھایا تو جو ہوش آتا رہا تھا وہ بھی جاتا رہا پھر۔عینا سفید آرٹیفشل گردن کے ساتھ لگے نیکلس کندھوں تک آتے سفیر بڑے بڑے جھمکے جن کے بیچ میں گلابی نگینہ لگا ہوا ماتھے پر مانگ نکال کر جھومر سجاۓ وہ کسی پرستان سے آئ نازک سی پری لگ رہی تھی۔_"

کیا ہوا۔۔_" اسے یوں منجمند ہوتے دیکھ کر عینا نے اس کے آگے چٹکی بجائ۔_"

کچھ نہیں بس یقین کرنا چاہ رہا تھا خدا آپ کی دعائیں مانگنے سے پہلے ہی سن لیتا ہے وہ دلوں میں جھانک لیتا میرے دل میں بھی جھانک لیا تبھی دیکھو آج تم میری ہوئ۔_"'امان کے الفاظ اس کی خوشی کے غماز تھے۔_"

بےشک وہ ہر شے پر قادر ہے۔_"،عینا نے شکر کرتے ہوۓ گردن ہلائ۔_

ہاتھ آگے کرو۔_امان نے کہا تو عینا نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔_"ہاتھ آگے کرو یار " امان نے پاکٹ میں ہاپھ ڈال کر بریسلٹ باکس نکالا۔_"باکس کھولتے اس میں نے بریسلٹ نکالا اور عینا کے اپنی گود میں رکھے ہاتھ پر بہت نرمی سے پہنانے لگا۔_* 

دیکھو تمہاری کلائ میں سجا تو یہ بھی خوبصورت ہو گیا۔۔امان اس کا ہاتھ تھامے اسے دیکھے جا رہا تھا۔_"پھر ہاتھ کو ہونٹوں کے قریب لا کر بہت پیار سے بھوسہ دیا ۔عینا جھینپ کر رہ گئ تھی _"::؛!

امان اس کے کسمسانے اور شرمانے پر مسکرایا تو عینا کا سر خودبخود جھکتا چلا گیا _"

امان نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اس کا چہرہ اونچا کیا اور اس کے خوبصورت کشادہ ماتھے پر اپنے لبوں کی مہر ثبت کر دی تھی۔_"

عینا مزید خود میں سمٹ گئ تھی وہ بس کی خالت سے خوب مخظوظ ہوتا رہا تھا_":

آج آسمان پر چاند بھی پورا نکلا تھا خوبصورت گول اور روشن پوری آب و تاب کے ساتھ چمکتا وہ ان دو محرموں کی محبت کا چشم دید گواہ تھا۔۔

سنگاپور میں صبخ کا سورج نکلا تو پاکستان سے آۓ مسافروں نے واپسی کی راہ لی ۔

لیکن وہاں بڑی خاموشی خاموشی تھی جسے اے۔کے نے نوٹ کیا تھا۔_"

سوٹ کیس دھکیلتا وہ ریسیپشن پر پہنچا جہاں اس کی سیکٹری اپنے سوٹ کیس کے ساتھ اس کا انتظار کر رہی تھی۔

سارے بل کلیئر ہو گۓ ہیں سر چلیں۔۔!! اس دیکھتے ہی سیکٹری نے کہا۔۔

حیاسدوانی اور اس کی سیکٹری کو بھی انفارم کر دو ان کی بھی فلائیٹ ہو گی۔۔موبائل چیک کرتا اے۔کے مصروف سے انداذ میں بولا۔۔

وہ دونوں تو رات میں ہی چلی گئ تھیں کہاں گئ ہیں یہ نہیں پتہ۔۔سیکٹری نے اسے آگاہ کیا۔۔

اوکے لیٹس گو_"سوٹ کیس گھسیٹتا موبائل پر مسکراتے ہوۓ کچھ ٹائپ کرتا وہ ہوٹل کا گلاس ڈور کھولتا پارکنگ کی طرف بڑھ گیا۔۔جہاں سے گاڑی کے ذریعے ایئرپورٹ پہنچنا تھا اس نے۔۔

___________________________________________________________________________________________________

میٹنگ روم میں کھڑا وہ پراعتماد انداذ میں اپنی پڑیزینٹیشن دے رہا تھا۔

سب لوگ سانس روکے اکے سن رہے تھے۔،"!!!

تبھی اس کی نظر بار بار بھٹک کر موبائل پر چلی جاتی جو بار بار بلنک کر رہا تھا۔____

ایک گھنٹے بعد میٹنگ ختم ہوئ تو وہ اپنا 

موبائل فون لیئے پیون کو فائیلیں کیبن میں پہچانے کی تلقین کرتا اپنے آفس روم میں آ بیٹھا۔۔،"

موبائل چیک کیا تو رخشندھ بھیگم اور سائرہ کی چالیس مِس کالز تھیں۔۔۔

اس نے فکرمندی سے جلدی جلدی سائرہ کا نمبر ملایا۔۔

جی بھابھی خیریت ہے۔۔

جی جی صیح میں آتا ہوں۔کال منقطع کرتا گاڑی کی چابیاں گلاسز پہنتے وہ آفس سے باہر نکلا۔۔

گاڑی سٹارٹ کر کے کاظمی خویلی کو جانے والے رستے پر بڑھا دی۔۔آدھے گھنٹے کی ریش ڈرائیو کرتے پہنچا تھا۔۔_":

اس کی گاڑی کے ہارن پر چوکیدار نے گیٹ کھولا تو اس کی گاڑی دھول اڑاتی ایک جھٹکے سے رکی۔۔۔

گاڑی سے اترتا وہ تیزی سے اندر کی جانب بڑھا جہاں رخشندہ بھیگم آگ بنی بیٹھیں تھیں۔_'

کیا ہوا بھابھی اتنی جلدی میں بلایا آپ نے خیریت تو ہے۔_"' اساور نے پریشانی رخشندہ بھیگم سے توچھا۔۔

تمہاری آوارہ بیوی نے میری بیٹی کو اتنا خودسر کر دیا ہے کہ باہر جاتے ہوۓ ماں سے پوچھنا تو دور بتانا بھی گوارہ نہیں کرتی۔۔_",رخشندہ بھیگم کا بس نہ چل رہا تھا کہ سامنے دانین ہو اور اس کا سر پھوڑ دیں۔۔

سومو کہیں گئ ہوئ ہے بھابھی۔_"اساور ان کے آگ بھگولہ ہونے کی وجہ سمجھ نہ پا رہا تھا۔۔

آپ کی بیوی صاحبہ سیرسپاٹے کو ساتھ لے گئ ہے تین گھنٹے ہو گۓ واپس نہیں آئیں۔۔_"پاؤں گھسیٹتی سائرہ صوفے پر بیٹھ گئ۔۔

کیا تین گھنٹے ہو گۓ ہیں آپ نے کال کی سومو کو۔_" اساور بھی ایک دم پریشان ہو اٹھا۔۔

تبھی گاڑی کے ٹائروں کی چڑچڑاہٹ گونجی_" کچھ پل بعد سومو اور دانین اندر داخل ہوئیں۔سومو اور دانین کے چہروں پر ایک دلکش مسکراہٹ تھی۔_"'

مل گئ آوارگی سے فرصت میری بیٹی کو بھی آوارہ کر دیا ہے تو نے آوارہ لڑکی۔_"' رخشندہ بھیگم دیکھتے ہی شروع ہو گئ تھیں۔

ماما کیا ہو گیا ہے اتنی غلط باتیں کیوں کر رہی ہیں۔_"' ۔سومو کو صدمہ ہوا تھا اس کی ماں کی زبان کتنی غلط ہو گئ تھی۔

دانین کی مسکراہٹ بھی سمٹ گئ تھی۔۔

کہاں تھی تم منع کیا تھا جب میں نے ایک قدم گھر سے باہر نہیں نکالو گی تو کیوں گئ تم۔۔"اساور غصے سے دانین کی طرف بڑھا تھا۔۔

تم باپ بننے والے ہو اساور۔_" اس کا ہاتھ تھام کر دانین نے بہت مان اور مخبت سے کہا تھا۔_"،

اساور ساکت ہوا تھا پل بھر کو ہونٹ مسکراۓ اور پھر وہی معمول کی سنجیدگی۔_"

رحشندہ بھیگم کی تو مارے حیرت کے آنکھیں باہر نکل آئ تھیں۔_"

سائرہ ناگواری سے منہ بناتی تیزی سے ذہن میں کچھ تانے بانے بن رہی تھی۔_"'

سومو نے اپنے چچا کو دیکھا کہ باپ بن کر چنگیز خان پگھل جاۓ وہ کیا چیز تھا۔_"'_۔

بکواس کر رہی ہے چاچو۔۔کچھ تانے بانے بنتی سائرہ کچھ فسادی سا سوچتے ہوۓ ایک دم بولی۔۔

آپی یہ رپورٹس گواہ ہیں۔_"سومو نے رپورٹس دکھائیں۔۔

یہ پچہ سعدی کا ہے۔_"' سائرہ نے سب کے سروں پر دھماکہ کیا تھا۔اساور تیزی سے پلٹا تھا سومو نے دکھ اور دانین نے صدمے سے اس کی طرف دیکھا۔۔

سائرہ زبان سنبھال کر سعدی بھائ ہے میرا۔_"، دانین کی آنکھ سے آنسو نکلا تھا۔۔۔

سگا تو نہیں ھے نا جیسے وہ چاچو کا کزن ہے ویسے ہی تمہارا بھی کزن ہے۔_"؛ سائرہ دل جلا رہی تھی اس کا۔۔

اور آپ خود بتائیں چاچو سعدی سے ملنے آپ سے چھپ کر نہیں جاتی رہی اور سوچیں اس کو سزا ہو جاۓ گی اس بات پر اس کے دل کو کیوں تکلیف ہو رہی ہے۔_"' سائرہ ایک کے بعد ایک پتہ پھینک رہی تھی۔_"

اساور تم میرے اور سعدی کے رشتے کی پاکیزگی کے گواہ ہو تم کچھ بولتے کیوں نہیں۔_" دانین نے اساور کے بازوؤں تھامے،دانین کی آنکھوں میں آس امید مان سب کچھ تھا۔_"

صیح تو کہہ رہی ھے سائرہ تمہارا کزن ھے وہ بھی اور کزن بھائ نہیں ہوتا _"' 

دانین نے ایک دم اساور کے بازوؤں سے ہاتھ ہٹاۓ وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی آنسو سیلاب بن کر اس کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔_"،

کچھ تو خدا کا خوف کریں چاچو۔_"، سومو نے باقائدہ ہاتھ جوڑے تھے۔۔

سومو تم جاؤ یہاں سے تم نہیں سمجھتی _"،_رخشندہ بھیگم نے غصے سے کہا۔۔

سب سمجھتی ہوں میں سب کچھ۔_" آپ سب نے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا میں سعدی کی اتنی طرفداری کیوں کرتی ہوں اس دن پی۔سی ہوٹل کال کر کے سعدی کو وہاں سے چلے جانے کا میں نے کیوں کہا تھا۔_"سومو روتے ہوۓ چلّا رہی تھی۔اساور نے بےیقینی سے اسے دیکھا وہ تو سمجھا تھا یہ دانین نے کیا ہے۔_"،

سب نے دانین کو ہی کٹہرے میں کیوں کھڑا کیا مجھ سے سوالات کیوں نہیں کیئے گۓ ہاں ۔انصاف چاہیئے تو انصاف کرنا بھی سیکھو مگر افسوس امان بھائ کے علاوہ کاظمی خون میں مخلصی نہ دیکھی میں نے۔۔_"،

کہنا کیا چاہتی ہو تم سومو۔_"،_اساور نے اس کی طرف دیکھا۔۔

محبت کرتی ہوں میں سعدی سے اور اتنی محبت کہ وہ جو کہے میں آنکھیں بند کر کے مان لو اس طرح ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھروں۔_"_

میری محبت بچپن کی نہیں ہے کچھ سال ہی پرانی ھے مگر آپ کی برسوں پرانی کھوکھلی محبت سے بہت مظبوط ہے۔_"_

سومو کے لہجہ آنسوؤں سے بھرایا مگر مظبوط تھا۔_"_

سومو وہ قاتل ہے تمہارے بھائ کا۔۔سائرہ بھی چلّائ تھی۔۔

سنا نہیں اتنی محبت کرتی ہوں اس سے کہ ٹکے ٹکے کے لوگوں کی باتوں کو سیرئیس نہیں لیتی۔۔سومو نے خقارت سے سائرہ کی طرف دیکھا سائرہ کو تو گویا آگ ہی لگ گئ تھی۔۔

فِٹے منہ تیری اس محبت کا جو میرے بیٹے کے قاتل سے ھے تجھے _"_رخشندہ بھیگم نے ایک زوردار تھپڑ سومو کو مارا وہ لڑکھڑا کر فرش پر گِری تھی۔۔

چاہے تمہیں اس سے محبت ہو سومو پر پھر بھی مجھ پر اس کا قتل فرض ہے اس کی سانسیں میرے ہاتھوں ہی حتم ہوں گی آئ سوئیر۔۔اساور سفاکی سے بولا۔

اور میں اسے بچا لوں گی آپ کی قسم اساور کاظمی ۔۔سومو نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھے۔۔

مرے ہوۓ سے اتنی محبت کہ زندوں کو جلا دیتے ہو واہ_!! اساور کاظمی کمال کرتے ہو ۔۔_سومو کو سہارا دے کر اٹھے دانین دکھی لہجے میں بولی۔۔

اسے چھوڑو بی بی اس گناہ کی پوٹلی کا کچھ کرو۔قاتل کے اولاد اس گھر میں نہیں پلّے گی۔_" سائرہ اپنی بھراس نکال رہی تھی۔۔

اساور کی اولاد ہے یہ۔۔دانین تیزی سے بولی۔۔

نہیں ہے یہ اساور کی اولاد سمجھی تم۔۔_:! رخشندہ بھیگم بھی اسی تیزی سے بولیں۔۔

آپ کو پتہ ہے اساور کے جانے کا کاظمی خویلی کو بہت نقصان ہوا ہے چچچچچ۔_! دانین نے افسوس سے گردن ہِلائ۔

کاظمیوں کا ونچ آگے نہ بڑھ پاۓ گا کیوں کہ وہ اکیلا مرد تھا اس کے بعد تو کوئ مرد بچا نہیں اور نامردوں سے نسلیں نہیں چلتیں۔دانین نے جلا دینے والی مسکراہٹ اساور کی طرف اچھالی۔۔

دانین۔۔__!! اساور نے تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔۔

انصاف چاہنے والو۔۔!! فار یوؤر کائینڈ انفارمیشن وومین وائیلینس از کرائم ۔ابھی پولیس کو بلا لوں گی تین چار ماہ کو اندر نام پیسہ شہرت سب پھر ٹائیں ٹائیں فِش ۔لوگ ہنسیں گے کہ دیکھو کیسا بندہ ہے دکھتا کچھ اور ہے اور ہے کچھ اور۔۔سومو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا تھا۔۔اساور نے حیرانی سے اپنی لاڈلی کو دیکھا تھا۔۔_"_

چلو دانین۔۔!! دانین کا ہاتھ تھامے سومو کمرے میں چلی گئ۔۔

سائرہ کا تو غصے سے برا حال تھا سومو کے آج کے رویئے نے اساور کو تو صدمہ لگا دیا تھا۔۔

اور رخشندہ بھیگم سوچ رہی تھیں ایک قتل واجب ہوتا تو وہ دانین کا پتہ صاف کرتیں۔۔ _'_'_

___________________________________________________________________________________________________

موم میں نے کہا بتائیں عینا کہاں ہے۔۔وہ جب سے لوٹی تھی عینا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئ تھی مگر وہ نہ ملی۔۔

بیٹا آپ کیوں انٹرفئیر کر رہی ہو اس کی لائیف میں اس نے جہاں جانا تھا چلی گئ بات ختم۔۔"__اس کا باپ اسے سمجھاتے ہوۓ بولا مگر وہ سمجھنے والوں میں سے نہ تھی۔۔

جب میں نے کہا تھا اسے روم سے باہر مت نکالیئے گا تو کس نے نکالا۔۔اس کا غصہ شانت ہونے کو نہ تھا۔۔

میں نے نکالا اور بھگا دیا اسے آؤ مار دو اپنی ماں کو۔۔_"_ اس کی ماں آنسو صاف کرتے بولیں۔۔

اِنف۔۔۔مینا نے ایک زوردار ٹھوکر صوفے کو ماری تھی پاؤں میں درد کی شدید لہر اٹھی مگر درد پر غصہ غالب آ گیا۔۔

بیٹا ٹھنڈے دماغ سے سوچو وہ بہن ہے تمہاری وہ اچھی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ گزارے تو تمہے خوشی ہونی چاہیئے۔۔

باڑ میں گئ خوشی کسی سے بھی کرتی بس محبت کر کے شادی نہ کرتی تو بہت خوشی ہوتی مجھے لیکن لو میرج ماۓ فٹ۔۔وہ جنونی ہو رہی تھی۔۔

بیٹا بھول جاؤ وہ سب ختم کرو سب زندگی کو نۓ ڈنگ سے گزارو خوش رہو بیٹا۔۔

نۓ ڈنگ سے گزاروں اگنور کیئے جانے ریجیکٹ کیئے جانے کا دکھ سمجھتے ہیں آپ۔۔ میں سمجھتی ہوں یہ دکھ سولہ سال کی عمر میں سہا میں نے اس دکھ نے اس آگ نے میرے دل کو دہکتا لاوا بنایا ہوا ہے جس میں ہر محبت زدہ کو جدائ کا دکھ سہنا ہو گا میرے دل میں لگی آگ محبتوں کو بھسم کرے گی۔۔وہ ہسٹریانی انداذ میں چیخ رہی تھی۔۔

مجھے نہیں ملی محبت تو محبت کسی کو بھی راس نہ آنے دوں گی میں۔۔

بیٹا اس یک طرفہ محبت کے بوجھ سے خود کو آزاد کرو دیکھو دنیا خوبصورت ہے بہت۔۔۔

کیا کمی تھی مجھ میں جو مجھ سے محبت نہیں کی گئ اور کیا ہی خاص بات ہے عینا میں جو کوئ اس سے محبت کر بیٹھا۔۔

میں بھی تو خوبصورت ویل ایجوکیٹڈ ہوں پھر مجھے کیوں ٹھکرایا گیا میری کاسہ محبت کی بھیک سے کیوں محروم رکھا گیا۔۔وہ سر پکڑ کر صوفے پر ڈھے گئ تھی۔۔

مینا میری بچی محبت دلوں کا سودہ ہے زبردستی کا نہیں ۔اس شخص کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ ھیں دنیا میں تم اِدھر اُدھر دیکھو تو صیح ۔ 

اور میں نے اس شخص کے علاوہ کسی کو ایک نظر دیکھنا بھی تو نہیں چاہا۔وہ ایسا شخص تھا جو زندگی سے چلا تو گیا مگر اس کے بعد بھی مجھے کوئ اور نظر ہی نہیں آیا میں کبھی نہیں نکل سکتی اس شخص کی محبت سے۔

وہ شخص وہ تھا جس کی وجہ سے مجھے دنیا میں مردوں کی کمی لگتی تھی کہ ایک ھی مرد کے سوا میری آنکھوں نے کبھی کسی کو دیکھا ہی نہیں۔۔وہ بےبسی سے بول رہی تھی درد اس کے لہجے میں نمایاں تھا۔۔

اس کے ماں باپ اس کی تکلیف محسوس کر رہے تھے۔مگر وہ ایسا ہی دکھ جو بڑی بیٹی کو کھا رہا تھا چھوٹی کو نہیں دینا چاہتے تھے۔۔

چلیں ہمیں یہاں سے جانا ہو گا میں لوگوں کو فیس نہیں کر سکتی جلدی جلدی پیکنگ کریں۔۔وہ کہتی تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی تھی۔۔

_

آج پھر ایک بار انہیں اپنا گھر چھوڑ دینا تھا صرف اور صرف مینا کے لیئے۔۔__

___________________________________________________________________________________________________

سعدی بیٹھا نوٹس بنا رہا تھا اگلے ہفتے سے ان کے ایگزام ہو رہے تھے۔

امان تو عینا کے ساتھ انجواۓ کر رہا تھا مگر سعدی ہمیشہ کی طرح محنت کر رہا تھا۔۔

امان اللہ لوگوں کا فیملی بزنس تھا جو کئیں دوسرے ممالک تک پھیلا ہوا تھا مگر سعدی کو محنت کر کے اپنے لیئے ایک مقام خاصل کرنا تھا۔۔

گریجوئیشن کے بعد وہ سی۔ایس۔ایس کرنا چاہتا تھا اس کے باپ کی یہ خواہش تھی جو سعدی پوری کرنا چاہتا تھا۔۔

ابھی بھی بیٹھا وہ ایگزام کی تیاری کر رہا تھا جب اس کا موبائل فون بجا۔۔

اس نےنمبر دیکھا تو unknown تھا۔۔

کندھے اچکاتے اس نے موبائل کان سے لگا۔ہاتھ تیزی سے کاپی پر چل رہے تھے جس پر بال پین سے وہ کچھ لکھ رہا تھا۔۔

کیوں تنگ کر رہے ہیں مجھے۔۔_؟؟ معصوم سے لہجے میں سوال کیا گیا۔۔

"_سعدی نے موبائل کان سے ہٹا کر حیرانی سے دیکھا کاپی پر لکھتا ہاتھ رکا تھا۔موبائل اس نے دوبارہ کان سے لگایا۔۔

میں نے کب تنگ کیا تمہیں۔۔وہ اس آواز کو لاکھوں میں پہچانتا تھا۔۔

آپ کر رہے ہیں مجھے تنگ۔۔سومو منہ پھلاۓ ایک ہی بات کیئے جا رہی تھی۔۔

اچھا کیسے تنگ کیا میں نے تمہیں۔۔وہ کرسی سے ٹیک لگا کر کاپی بند کرتا مسکرایا تھا۔۔

کتاب کھولتی ہوں تو اس میں آپ نظر آ رہے ہو۔ مِرر دیکھتی ہوں تو آپ دکھتے ہو سوتی ہوں تو آپ خواب میں آ جاتے ہو اسے تنگ کرنا ہی تو کہتے ہیں۔۔سومو کا معصوم منہ پھولا ہوا تھا جیسے وہ بےبس ہو کر فون کر بیٹھی ہو۔۔

اسے محبت کا آشکار ہونا کہتے ہیں جو تم پر ہو رہی ہے۔۔سعدی ہولے سے بولا۔۔

کیا مم محبت۔۔وہ ہکلائ تھی شائد گھبرائ تھی یا شرمائ تھی سعدی انداذہ نہ لگا پایا تھا۔۔

ہاں محبت کا نزول ہو رہا ہے تم پر چاہے آہستہ آہستہ ہی سہی ۔اور مقدس چیزیں آہستہ آہستہ نازل ہوتی ہیں۔۔سومو کی طرف حاموشی چھا گئ تھی۔۔

سومو سن رہی ہو۔۔!! اس کی خاموشی وہ محسوس کر رہا تھا۔۔

تو آپ کہہ رہے ہیں مجھے آپ سے محبت ہو گئ ہے۔۔__؟؟

یہ تو تم بتاؤ گی نا۔۔بتاؤ ہو گئ ہے۔۔

وہ سائرہ آپا اِدھر ہی مجھے آوازیں دیتی آ رہی ہیں سعدی میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔۔سومو نے عجلت میں فون کاٹ دیا۔۔_"

سعدی کتنی دیر تک فون کو تکتا اس کی آخری بات کو سوچتا رہا تھا آج وہ نہ کہتے ہوۓ بھی کہہ گئ تھی۔

سعدی بھائ کی جگہ صرف سعدی کہا گیا تھا محبت اثر دکھا رہی تھی۔۔

اس دن کے بعد سے اے۔کے کو حیاسدوانی کہیں نظر نہ آئ تھی۔

بزنس وائینڈاپ کر کے وہ کہاں چلی گئ کسی کو نہیں پتہ تھا۔

" اے۔کے کو تھوڑا گِلٹ تھا کہ حیا کی کچھ ذیادہ انسلٹ کر دی مگر پھر وہ بھول گیا کوئ حیا بھی تھی"_

آج وہ بہت خوش اتنا خوش کہ خوشی کا کوئ پیمانہ اس کی خوشی کو نہ ماپ سکتا تھا۔

سائرہ کے ولیمے کے ساتھ ہی آج اس کی منگنی تھی اس لڑکی سے جسے وہ بےانتہا چاہتا تھا۔_"

ولیمے کا فنکشن شہر کے مشہور ہال میں تھا ۔لوگوں کی آمد آمد تھی۔

دو دو رسمیں تھیں تو مہمان بھی ذیادہ تھے۔

سائرہ کا شوہر طیب اور اساور کاظمی عرف اے۔کے دونوں بلیو تھری پیس سوٹ میں اسٹیج پر بیٹھے اپنی دلہنوں کا انتظار کر رہے تھے۔۔"_

آمنے سامنے دو اسٹیج بناۓ گۓ تھے جن کو سفید اور سرخ گلابوں کے امتزاج سے بہت خوبصورتی کے ساتھ سجایا گیا تھا_"

تھوڑی دیر بعد مین انٹرنس پر شور اٹھا تھا ۔پھولوں کی برسات تلے سہج سہج کر چلتی وہ دونوں کہیں کی اپسرائیں معلوم ہوتی تھیں۔۔

دانین جمشید علی عرف ڈی۔جے گولڈن رنگ کی میکسی کے ساتھ دوپٹہ سر پر سلیقے سے رکھے ہم رنگ جیولری پہنے سیدھی اساور کے دل میں اتر رہی تھی۔۔۔۔۔۔""_'

جبکہ سائرہ نے ہلکا گلابی لہنگا زیب تن کیا ہوا تھا جس کے ساتھ میچنگ جیولری پہنے دوپٹہ سر پر ٹکا کر ایک طرف سے کمر پر اور ایک طرف سے دائیں کندھے پر بچھایا ہوا تھا۔۔___'"

دونوں چلتی ہوئ اسٹیج کے پاس پہنچی تو طیب اور اساور نے مسکراتے ہوۓ جھک کر ہاتھ آگے بڑھا اور سہارا دیتے ہوۓ صوفے تک لا کر اپنے بٹھایا اور خود بھی پہلو میں بیٹھ گۓ۔۔

سائرہ کے شوہر طیب کی ٹریول ایجنسی تھی اچھی خاصا امیر بندا تھا وہ اس لیئے سائرہ نے بھی کوئ اعتراض نہیں کیا اور دوسری بات رشتے کے لیئے ہاں کی یہ تھی کہ وہ خالہ زاد بھی تھا ورنہ شہزادی سائرہ کاظمی کے مزاج کہاں ملتے تھے ہر کسی سے۔_"_

سب بہت حوش تھے خوشی سب کے چہروں سے جھلک رہی تھی۔۔

امان سب کی تصویریں اتار رہا تھا۔جبکہ سعدی کا فون صرف سومو کے گرد گھوم رہا تھا جسے وہ اچھے سے نوٹ کر رہی تھی اور مسکرا بھی رہی تھی جس سے سعدی کو اپنی کشتی کنارے لگنے کا خوصلہ ہوا تھا۔

"مرد خوصلے کی رسی مظبوطی سے تب پکڑتا ہے جب عورت اپنی مسکراہٹ سے وہ رسی اس کی طرف بڑھاتی ہے۔""

خوش ہو۔_"_ اساور نے دانین کے مسکراتے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا۔_"_

ہاں دِکھ نہیں رہا تمہیں ناچوں تب پتہ لگے گا۔۔دانین نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ تپ کر کہا۔۔

گُڈ آئیڈیا یار ڈانس کریں ہم دونوں ساتھ۔وہ بچوں کی طرح خوش ہوا تھا"_"_

خوف کرو جو امیج لوگوں کی نظر میں تمہارا بنا ہوا ہے وہی رہنے دو فِری میں شوخے ہو کر چھچھوری خرکتیں نہ ہی کرنا۔۔۔دانین نے ہری جھنڈی دکھائ۔_"_

اوکے مائ لارڈ۔۔_"_اساور نے سینے پر ہاتھ رکھتے ذرا جھک کر کہا تو وہ ہنستی چلی گئ تھی دھنک جیسی ہنسی۔۔وہ مبہوت سا اسے دیکھے گیا تھا۔۔

___________________________________________________________________________________________________

ہاۓ آج تو بڑے بڑے لوگوں نے ہمارے غریب خانے کو رونق بخشی ذہے نصیب ذہے نصیب۔۔وہ رخ موڑ کر کھڑی ڈرائینگ روم کی دیوار پر قدآور فوٹو فریم دیکھ رہی تھی جب آواز پر پلٹی۔

وہ سینے پر ہاتھ رکھے جھک کر کھڑا تھا۔،"_وہ نہ چاہتے ہوۓ بھی کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔۔

کیا ہنستی ھو یار چاہے میں جتنا جھوٹا بندہ سہی مگر قسم سے ہنستے ہوۓ تم اپسراؤں کو مات دیتی ہو۔۔ایک گھٹنے کے بل بیٹھتے اس کا ہاتھ تھامتے ہاتھ کی پشت پر بھوسہ دیا۔۔

فلرٹی طبیعت تمہاری ختم نہ ہوئ ابھی تک _"_ وہ ایک ادا سے بولی تھی۔_

ہاۓ میری جان یہ فلرٹ باقی دنیا کی لڑکیوں کے لیئے تمہارے لیئے تو بندہ ہر پل تن من دھن سے خاضر ہے۔۔وہ ہونٹوں کو ٹیڑھا کرتا خباثت سے بولا۔۔

مجھے بھولے نہیں ہو ابھی تک میں سمجھی نام بھی یاد نہ ہو گا۔۔اس نے انگلی کو اس کے چہرے پر پھیرا۔۔

میں تم کو نہ بھلا پاؤں میری جان میری مینا۔۔_!! اس نے مینا کو کمر سے کھینچ کر اپنے بےحد قریب کیا۔۔

مینا نہیں حیا نام ہے میرا حیا سدوانی ۔۔حیا نے اس کے بالوں میں انگلی پھیرتے ایک ہاتھ اس کے سینے پر رکھتے ہلکا سا دھکا دے کر خود سے دور کیا۔۔

"اور مجھ ناچیز کو نومی کہتے ہیں"_سینے پر ہاتھ رکھتے نومی نے جھک کر اپنا تعارف کر وایا۔۔

 اتنا کیوں جھک رہے ہو نومی۔۔__"_

دیوی ہو حسن کی تم اور دیویوں کے آگے جھکا جاتا ہے نا سوئیٹ ہارٹ۔۔_"_

اوکے مجھے تم سے کچھ کام تھا__"_ حیا نے اپنے مطلب کی بات کی جس وجہ سے وہ آئ تھی۔_"_

پتہ تھا اس غریب کے غریب خانے پر دیوی حیا ایسے گزرتے گزرتے تو نہیں آ سکتیں ضرور کچھ کام ہو گا ۔۔بولیں جی ہم آپ کے غلام آپ کی سیوا میں خاضر۔_'_"

میری بہن عینا نے گھر سے بھاگ کر شادی کر لی ہے کس سی کی ہے کہاں رہ رہی ہے مجھے نہیں پتہ اور یہ صرف تم پتہ لگا سکتے ہو۔۔_"_

تو اتنا سا کام ہو جاۓ گا کل تک مگر۔۔۔. .  نومی نے انگلی سے سر کجھایا۔۔

مگر کیا۔۔حیا نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔

قیمت لگے گی کچھ بھی مفت تھوڑی ہوتا ہے سوئیٹ ہارٹ ۔۔_"_ نومی نے سر ٹیرھیا کر کے ترچھی آنکھ سے اسے دیکھا۔۔

مل جاۓ گی تمہیں قیمت مگر کام ہونے کے بعد۔_"_ حیا اس کے سارے مطلب اچھے سے سمجھ گئ تھی مگر نفرت کی آگ وہ بھی اپنی ہی بہن کے لیئے اس کے اندر اتنی ذیادہ بھری ہوئ تھی کہ وہ اس نفرت کی آگ میں سب جلا دینا چاہتی تھی چاہے پھر وہ خود ہی کیوں نہ راکھ بن جاۓ۔۔_"_

اوہ واؤ سچ۔۔_! وہ خوشی سے تیزی سے اس کی طرف بڑھا تھا۔۔

ہاں بلکل سچ تم میرا کام کرو تمہیں منہ مانگی قیمت ملے گی۔۔_"_ حیا کے چہرے پر مسکراہٹ تھی بہت خطرناک مسکراہٹ۔۔۔_"_

تھینک یو سوئیٹ ہارٹ ۔۔تھینک یو سو مچ ماۓ لو۔!! ایک ہاتھ سے اس کے بال کان کے پیچھے کرتا دوسرے سے نرمی سے اس کے گال کو مَس کیا تھا۔۔

"نفرت ،حسد یہ دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کو صیح اور غلط کا فرق بُھلا دیتی ہیں پھر انتقام کی چکی چلتی ہے پھر چاہے اس چکی میں انتقام لینے والا خود بھی پِس جاۓ اسے پرواہ ہی نہیں ہوتی"

___________________________________________________________________________________________________

وہ گھر بہت دیر سے لوٹا تھا دن کو ہوۓ فساد کے بعد وہ گھر لوٹنا ہی نہ چاہتا تھا مگر رات گۓ وہ لوٹ آیا تھا۔

دھیرے دھیرے چلتا وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا۔_"اسے لگا تھا دانین ابھی تک رو رہی ہو گی وہ جاۓ گا تو اس سے لڑے گی مگر وہ تو صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی لیپ ٹاپ کھولے بیٹھی تھی۔"_

دروازہ پاؤں کی ٹھوکر سے زور سے بند کرتا ڈریسنگ کے سامنے آ کھڑا ہوا ۔۔ترچھی نگاہ دانین پر ڈالی جس نے ایک بار بھی سر اٹھا کر اسے نہیں دیکھا تھا۔۔

_"گھڑی اتار کر ڈریسنگ پر رکھتے اس نے ٹائ ڈھیلی کی پھر پیر پٹختا باتھ روم میں گھس گیا_"

دانین نے نظر اٹھا کر باتھ روم کے دروازے کی سمت دیکھا ۔وہ اس شخص سے ایک نفرت ہی تو نہیں کر پا رہی تھی اور دوسری شے تھی محبت جو اب محسوس ہی نہیں ہوتی تھی۔_"_

چینج کر کے وہ باہر نکلا تو وہ پھر سے لیپ ٹاپ میں گم تھی_"_

دن کو ہونے والے ڈرامے پر روشنی ڈالو گی۔_"اساور نے اس سے لیپ ٹاپ چھین کر بیڈ پر اچھالا۔

ساری روشنیاں تم اور تمہاری اس بھتیجی نے ڈال دی تھی میری اتنی مجال جو روشنی ڈالوں۔_"_ چبا چبا کر کہتے وہ پھر سے لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ گئ۔۔

مجھے سچ جاننا ہے۔۔_"_ اس کا چہرہ اساور نے ٹھوڑی سے پکڑ کر اونچا کیا۔۔

اور تم سب دن کو سچ بھی بتا چکے ہو۔_"_دانین نے بنا ڈرے کہا۔۔۔

کیا رشتہ ہے تمہارا سعدی سے۔۔_"_ لیپ ٹاپ کارپٹ پر پٹختے اساور نے ہاتھ سے کھینچ کر اسے اپنے مقابل کھڑا کیا۔۔

پتہ ہے اس دن تم نے میرا کرئیر جلایا تھا میرے خوابوں کو آگ میں جھونک دیا تھا اس دن سے پہلے میں نے تم سے بےانتہا محبت کی تھی ۔اس دن کے بعد کچھ بھی نہیں کر پائ نہ محبت نہ نفرت کیونکہ ایک عورت ہوں میں۔ اور عورت محبت اسی سے کرتی ہے جو اس کی عزت کرتا ہے ۔

تم سے بھی محبت اسی لیئے ہوئ تھی کہ تم مجھے عزت دیتے تھے مگر اب تم نے جو کچھ کیا اس کے بعد محبت کی گنجائش ہی نہیں تھی مگر.  ۔۔__"_

وہ ذرا دیر کو رکی۔۔

جب عورت ماں بنتی ہے تو اس کے پاس دو آپشنز ہوتے ہیں یا صرف عورت رہے یا ماں بن جاۓ اور میں نے دوسرے آپشن کو چنا میں ماں بنی تو میں نے اپنے اندر کی عورت کو رہنے دیا اور ماں کو آنے دیا اور مائیں تو معاف کر دیتی ہیں اور میں نے کر دیا تمہیں معاف کیونکہ تم میرے ہونے والے بچے کے باپ ہو مگر تم نے کیا کر دیا میرے اندر جو صرف ماں رہ گئ تھی آج آدھی ٹوٹ گئ اب تم سے اتنی شدت سے میں نفرت کوں گی کہ تم بھی جلو گے اس آگ میں۔_

"_تم غلط ہو اور ایک دن ثابت ہو جاؤ گے اس دن تمہیں احساس ہو گا تم نے کیا کھو دیا پھر تم پچھتاؤ گے مگر تمہارے ہاتھ کچھ نہیں آۓ گا "_

یاد رکھنا میں معاف نہیں کروں گی اور تم باقی کی زندگی پچھتاوں میں گزارو گے "_گال بہتا اکلوتا آنسو صاف کرتے وہ واش روم میں گھس گئ وہ باقی کے بچے آنسو اس پتھر شخص کے سامنے نہیں بہانا چاہتی تھی "_

اور وہ تو اسے دیکھ کر رہ گیا تھا اکثر یہ سوچتا کہ اگر سب ایسا نہ ہوا جیسا وہ سمجھ رہا ہے تو پھر مگر دوسرے ہی پل اس پر ایک پتھر شخص چھا جاتا جو اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتا۔_"_

___________________________________________________________________________________________________

آپ کیوں جا رہی ہیں شامین۔۔عینا صبح سے ایک ہی سوال پوچھے جا رہی تھی۔__"_

گڑیا تم اپنی محبت سے مل گئ میں نہ ملِوں کیا۔۔شامین اس کے گال پر چٹکی کاٹی۔۔

تو آپ اپنے ان کو کہیں وہ یہیں آ جائیں پلیز آپ مت جائیں۔۔

کون کہاں جا رہا ہے بھئ۔۔اندر داخل ہوتا امان سیب کی قاش منہ میں رکھتا بولا۔۔

شامین ترکی جا رہی ہیں سعید بھائ نے بُلا لیا ہے ان کو آپ روکیں نا ان کو۔عینا نے امان کا بازو پکڑ کر بچوں کی طرح ضد کی_"_

اوۓ کیوں جا رہی ہے تو۔۔امان نے ہلکی سی چپت اس کے سر میں لگائ۔۔

سعید سیٹل ہو گیا ہے چاہتا ہے میں بھی اس کے پاس پہنچ جاؤں۔شامین مسکرائ

خوش ہو بہت تم۔۔_"_

ہاں بہت۔۔شامین بہت خوش لگ رہی تھی"_"

چلو خوش رہو تم اور عینا میں ہوں نا تیرے پاس بہت جلد کاظمی حویلی لے جاؤں گا موج سے زندگی گزاریں گے پھر۔۔"__

امان سیب کھاتا صوفے پر ٹانگ پھلاتا بیٹھ گیا۔_"_

کب لے کر جاؤ گے۔۔عینا اس کے پاس ہی بیٹھ گئ۔۔

بہت جلد۔امان نے اس کا گال تھپتھپایا۔۔

تم لوگ جاتے رہنا ابھی میری شام کی فلائیٹ ہے مجھے تو ٹھیک سے وِداع کرو یار۔۔"_

صیح صیح لنچ ہم ساتھ میں باہر کریں گے سعدی کو بھی بلا لیتا ہوں کل ہمیں بھی مری واپس جانا ہے_"،

ڈن ۔۔۔

ڈن۔۔

وہ چاروں اس وقت لاہور کے ایک خوبصورت ریستوران میں موجود تھے۔،*

رات میں شامین کی فلائیٹ تھی اور کل سعدی لوگوں نے بھی مری کے لیئے نکل جانا تھا۔_"_

یہ وِداعی پارٹی دی جا رہی تھی شامین کو۔"_

ہنستے مسکراتے وہ لنچ کرنے میں مصروف تھے شامین کے جانے کا دکھ بھی تھا اور وہ ایک خوشخال زندگی گزارے گی اس بات کی خوشی بھی تھی۔_"_

ہاں یار وقت سے پہنچ جانا۔"_ فون پر بات کرتا نومی ہوٹل کا گلاس ڈور دھکیلتے اندر داخل ہوا۔

ٹیبل کے ساتھ رکھی کرسی کھینچ کر وہ بیٹھا ہی تھا کہ سامنے عینا کو دیکھ کر ٹھٹھکا۔_"_

فوراً سے اس نے موبائل سے تصویر کھینچی ۔تصویر ایسے کھینچی گئ تھی کہ اس میں سعدی عینا اور امان نظر آ رہے تھے "_"

افف میرا کام تو بن گیا ۔۔ نومی شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔_"_

اب آۓ گا مزہ۔۔"_" موبائل پاکٹ میں ڈالتا وہ حیا سے ملنے کے ارادے سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔

ہوٹل سے نکلتے ایک مکروہ مسکراہٹ ان ہنستے کھیلتے چار نفوس پر ڈالتا وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔۔

__________________________________________________________________________________________________

مجھ سے ملنے ضرور آنا تمہارا اور امان کا انتظار کروں گی میں۔۔شامین جا رہی تھی تھوڑی دیر میں اس کی فلائیٹ تھی۔

سعدی عینا اور امان اسے چھوڑنے آۓ تھے۔_"_

واقعی یار جو جو بندہ محبوب کو پیارا ہوتا ہے دوستوں کو بھول جاتا تم پرائ ہو گئ ہو شامین پرائ ہو گئ ہو۔۔سعدی نے ڈرامیٹک انداذ میں کہا تو تینوں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔۔

کیوں سعدی کیا ہو گیا۔۔_"_؟؟شامین نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے پوچھا۔

ان دونوں کو کہہ رہی ہو " میں انتظار کروں گی" اور مجھے جھوٹے منہ بھی نہ پوچھنا۔۔سعدی کے شکوے جاری تھے۔۔

تم تو انٹیلیجنس آفیسر ہو مستقبل کے کسی چور چکے غدار کو پکڑنے آتے جاتے رہو گے ان کا ذرا مشکل تھا تو انوائیٹ کر دیا۔۔شامین نے اسے پچکارا۔۔

اچھا اب مسکا نہ مار۔۔

ان کی باتیں جاری تھی تھوڑی دیر میں ترکی جانے والی فلائیٹ کی اناؤسمینٹ ہو گئ تو شامین نے الوداعی نظروں سے انہیں دیکھا۔۔

"اچھے دوست زندگی کاسکون ھوتے ہیں شامین اور تم وہ سکون ہو میری زندگی کا ملیں گے پھر کسی دن کسی موڑ پر اور مل بیٹھ کر یوں ہنسیں گے جیسے پاگل ہوں اور بےشک پرانے دوست ایک دوسرے کے لیئے پاگل ہی ہوتے ہیں"_

سعدی نے کہتے ہوۓ ہاتھ آگے بڑھایا جس پر امان شامین اور عینا نے اپنے ہاتھ رکھے تھے"_

سب کے مل کر شامین بھیگی آنکھیں صاف کرتی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئ۔۔

___________________________________________________________________________________________________

یہ فون کیوں بند ہے حیا کا اتنی دھواں دھار نیوز دینی تھی۔۔وہ مسلسل کمرے میں ٹہلتا ہوا اسے کال ملا رہا تھا مگر ہر بار نمبر بند ہونے کی اطلاع مل رہی تھی۔۔"_

مجھے واپس جا کر اسے بتانا چاہیئے بڑی مشکل کے وہ ہاتھ لگی ہے ہاتھ سے پھسل نہ جاۓ۔۔نومی نے بڑبڑاتے ہوۓ الماری سے بیگ نکالا اور کپڑے رکھنے لگا۔۔

اوہ ڈئیر کزن یہ کیا ہو رہا ہے۔۔اک لڑکا اندر داخل ہوا تو اسے تیزی سے پیکنگ کرتے دیکھ کر چونکا۔۔

عادل مجھے روکنے کی کوشش نہ کرنا بہت ضروری کام ہے مجھے فٹافٹ نکلنا ہو گا۔۔

یار نومی تو دو ہفتوں کے لیئے آیا تھا مشکل سے ایک دن ہی ہوا ہے اور شادی ہے یار انجواۓ گھر ایسی فیملی پارٹیز روز تھوڑی ہوتی ہیں دن کو بھی ہم تجھے ہوٹل میں ڈھونڈتے رہے تھے نجانے کن چکروں میں ہو تم۔"_ اس کے کزن نے ایک ہی سانس میں اتنی باتیں کرتے اس کے ہاتھ سے شرٹ چھینی۔۔

یار کہا نہ مت روکو میں واپس آ جاؤں گا دو تین دن بعد شادی اٹینڈ کروں گا مگر ابھی جانا ہو گا مجھے ۔۔نومی نے اس کے ہاتھ سے شرٹ چھین کر بیگ میں رکھی اور جلدی سے سوٹ کیس بند کرتا قدآور آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔

پکا آؤ گے۔۔عادل نے اداسی سے پوچھا۔۔

ہاں یار آؤں گا.  ۔بال ہاتھ سے پیچھے کرتا وہ سوٹ کیس گھسیٹتا وہاں سے نکل آیا تھا۔۔

وہ جلد از جلد حیا کے پاس پہنچ کر اسے عینا اور اس کے شوہر کے متعلق بتانا چاہتا تھا۔۔

__________________________________________________________________________________________________

کل پیپر ہے یار تو نے کچھ پڑھنا ہے کہ نہیں۔__" سعدی نے امان کو کشن مارا جو پچھلے دو گھنٹے سے موبائل میں گھسا ہوا تھا۔۔

اب اپنی اتنی خوبصورت بیوی کو اکیلا چھوڑ کر آیا ہوں اور کیا کروں۔۔امان پر ذرا اثر نہ ہوا تھا۔۔

ہاں بہت اچھے کہاں چھوڑ کر آۓ ہو یہ دس میٹر چلو تو سامنے دکھے وہ اور اکیلی کہاں ہے وہ اپنی دوست کے پاس ہے اس لیئے کچھ پڑھ لے تو۔۔۔سعدی نے برا سا منہ بنایا۔۔

میں نے ٹاپ کرنا ہے بغیر پڑھے اور تو پڑھ کے کر لینا۔"_ امان نے بےپرواہی کا مظاہرہ کیا۔۔

کیوں کیا ارادہ ہے تیرا۔۔_؟؟ سعدی نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔۔

یہ دیکھ۔۔امان نے اپنا تکیہ اٹھایا تو سعدی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔۔

"تکیے کے نیچے پرزوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا جنہیں بہت مہارت سے اوپر نیچے رکھ کر جوڑے بناۓ گۓ تھے۔

اوہ بھائ صاحب تو چیٹنگ کرے گا۔۔سعدی نے حیرانی سے پوچھا۔۔

آف کورس۔_'"_امان نے آنکھیں پٹپٹائیں ۔۔

تو یہاں کیا کر رہا تم جیسوں کو سیاست میں ہونا چاہیئے۔۔سعدی نے واپس برا منہ بناتے کتابیں کھولیں۔۔

او تیری مشورہ کمال کا دیا ہے تو نے سوچتا ہوں کچھ۔۔امان کی بات پر سعدی نے دوسرا کشن بھی اٹھا کر اسے مارا۔امان نے ہنستے ہوۓ کشن کیچ کر لیا اور دوبارہ سے موبائل پر جھک گیا۔۔

___________________________________________________________________________________________________

وہ گھٹنوں میں سر دیئے بےآواز رو رہی تھی۔وہ کم عمر تھی اس کے باوجود وہ خقیت پسند اور مظبوط تھی_یوں وہ کبھی نہیں روتی تھی مگر آج اس کی محبت کے کردار کے چیتھڑے اڑاۓ گۓ تھے آج اس کی نظروں میں اساور خاک ہوا تھا اتنا رونا تو بنتا تھا۔۔

دروازہ ناک ہونے کی آواز پر اس نے سر اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا۔

"اساور نے اندر داخل ہو کر دروازہ ہلکی سی آواز کے ساتھ بند کیا۔

سومو نے دونوں ہاتھوں کی پشت سے رگڑ رگڑ کر اپنے آنسو صاف کیئے۔

سومو بیٹا کیا تھا یہ سب۔_؟ اساور قدم قدم چلتا بیڈ پر اس کے سامنے آ بیٹھا۔۔

أپ کون میں نے پہچانا نہیں۔۔سومو نے سوالیہ انداذ میں اسے دیکھا۔۔

سومو تم سے جو پوچھا وہ بتاؤ۔اساور ذرا سختی سے بولا۔۔

جن کو میں جانتی نہیں ہوں یا کوئ رشتہ نہیں رکھنا چاہتی میں ان کو صفائیاں دینا تو دور بات کرنا بھی پسند نہیں کرتی اور آپ سے رشتہ ختم کر کے unknown person کی لِسٹ میں ڈال دیا ہے۔۔سومو بیزاریت سے بولی۔۔

سومو تمہارے رویے نے مجھے صدمہ پہنچایا ہے۔۔

اوہ رئیلی اور جو آپ باتوں کے نشتر سے دل لہولہان کر دیتے ہیں وہ میرے لیئے دانین کے لیئے صدمہ نہیں ہوتے۔۔

دانین کا یہاں کوئ ذِکر نہیں ہے سومو میں تم سے تمہاری بابت پوچھ رہا ہوں۔میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ تمہاری باتیں گہرا صدمہ ثابت ہوئ میرے لیئے۔اساور کا لہجہ دانین کے ذکر پر سخت ہوا تھا۔۔

آپ کہا کرتے تھے دانین کے لیئے آپ کو اپنا دل تب سے دھڑکنا محسوس ہوا جب آپ دس سال کے تھے دانین کوئ سات سال کی تھی اور تب میں نہیں تھی کہیں بھی نہیں اس دنیا پر میرا وجود بھی ہو گا کوئ نہیں جانتا تھا کوئ نہیں۔

أپ دانین سے بیس سال محبت کے دعویدار رہے ہیں اور مجھ سے سترہ سال سے جب آپ اس کی محبت کو بھلا سکتے ہیں تو میں کیسے مان لوں کہ مجھ سے واقعی محبت کرتے ہیں آپ۔

"جو لوگ محبتوں کے مان نہیں رکھتے محبت ان پر یقین نہیں رکھتی ہے نہ دوسرا موقع دیتی ہے"_

اور آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں اس وجہ سے میری باتوں سے آپ کو صدمہ ہوا ۔کبھی سوچا وہ جو ایک لڑکی ہے دانین اس پر کیا گزرتی ہو گی آپ کی باتوں سے۔۔

میری سترہ سالہ محبت میں دی گئ اذیت آپ کو ٹھا کر کے لگی ہے تو آپ کی بیس سالہ محبت کے بعد دی گئ تکلیف اس کے لیئے موت جیسی اذیت ثابت ہوئ ہے۔_"_سومو اسے آئینہ دکھانا چاہتی تھی مگر وہ شخص محبت کا مجرم تھا اور مجرم کہاں اپنے جرائم آئینے میں دیکھتے ہیں۔۔

سعدی نے جو کیا اس کے بعد دانین کو سر آنکھوں پر نہیں بٹھایا جا سکتا تھا۔۔

اچھا چلیں ایک پل کو مان لیں سعدی نے امان بھائ کا قتل کیا ہے اس میں دانین کو سزا دینے والی کون سی لاجک ہے بقول آپ سب کے وہ اس کا بھائ نہیں ہے جیسے آپ کا کزن ہے ویسے ہی دانین کا بھی کزن ہے پھر یہ سب۔۔۔

اساور چپ رہ گیا تھا وہ کیا کہتا اب۔۔

میں امان کی موت کو بھلا نہیں سکتا۔بدلہ لوں گا اور خون کے بدلے خون کی اجازت اللہ بھی دیتا ہے۔۔

میں یہ نہیں کہہ رہی ونی یا قصاص ایک فضول رسم ہے جس بات کے لیئے ہمارا قرآن کہتا ہے وہ فضول نہیں ہو سکتی قصاص جائز ہے "اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قصاص میں تمہارے لیئے زندگی ہے " موت کا تکلیف کا ذکر تو نہیں کیا پھر آپ کیوں اسے موت سے پہلے موت سی اذیت دینا چاہتے ہیں آپ دانین کے ساتھ جیسے پہلے تھے ویسے بھی تو رہ سکتے تھے آپ کو بدلنا نہیں چاہیئے تھا۔۔بدلے کا حکم ہے مگر اس سے بہتر ہے معاف کر دینا۔۔

"بدلاؤ ضروری ہے مگر یہ بدلاؤ محبت میں آ جاۓ تو سب تہس نہس ہو جاتا ہے"

جس گھر کا فرد یوں اندھا دھند قتل کر دیا جاۓ وہاں کے مکین پہلے سے نہیں رہ سکتے سومو۔۔!!

میں خون کا بدلہ خون سے لوں گا معاف نہیں کروں گا اور اگر یہ غلط ٹھہرا تو میں ہاتھ جوڑ کر رب سے معافی مانگ لوں گا۔۔اساور کہہ کر رکا نہیں دروازہ دھرام سے بند کرتا باہر نکل گیا۔۔

پیچھے وہ گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھی سوچتی رہی کہ ""رحم نہ کرنے والوں پر کیا خدا کی طرف سے رحم کر دیا جاتا ہے معافی مل جاتی ہے"_

___________________________________________________________________________________________________

 مری لارنس کالج__

امتخانی ہال میں سکوت چھایا ہوا تھا سب اپنے اپنے پیپر بورڈ پر جھکے لکھ رہے تھے۔۔

ممتخن پورے ہال کا چکر لگا کر سٹوڈنٹس پر نظر رکھے ہوۓ تھے۔۔__

سعدی بھی جھکا پیپر لکھ رہا تھا وہ اتنا اچھا دِماغ رکھتا تھا کہ جب پیپر دیتا تو ختم کر کے ہی سر اٹھاتا تھا__

جبکہ امان ٹیڑھی نظر سے ممتخن کو جاتے دیکھتا اور پھر اپنے لباس میں چھپاۓ پرزے نکال کر پیپر بورڈ کے نیچے رکھ کر لکھنے لگتا۔__

امان سے اگلی سیٹ پر ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا جو اِدھراُدھر کے نظارے کر رہا تھا صاف لگ رہا تھا اسے کچھ بھی نہیں آ رہا۔__

اس سے اگلی سیٹ پر سعدی تھا جو چپ چاپ لکھے جا رہا تھا۔__

اوۓ کیوں بیٹھا ہے ایسے۔۔__ امان اپنا لکھ چکا تو اگلے سیٹ پر بیٹھے لڑکے کو سرگوشی میں کہا۔۔

نہیں آ رہا۔۔__ لڑکے نے بےپرواہی سے جواب دیا۔۔__

اچھا یہ لے اور لکھ۔۔__ امان نے اپنے پاس موجود تمام پرزے اس کی طرف بڑھاۓ جنہیں فوراً سے پہلے اس نے اچک لیا تھا۔__

تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ان کے پاس سے گزرتے ممتخن نے اس لڑکے کو نوٹ کر لیا۔۔

کیا ہے آپ کے پاس۔__' ' ممتخن نے تیز لہجے میں لڑکے محاطب کیا۔۔

کچھ بھی تو نہیں سر۔_ لڑکے کے چہرے سے ہوائیاں اڑ گئ تھیں۔۔۔

ممتخن مطمئن نہ ہوا اور تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور تلاشی شروع کر دی اس کے پاکٹ سے خاصی مقدار میں نقل کی پرچیاں نکلی تھیں۔۔

یہ سب کیا ہے__؟؟ممتخن کے غصے کا گراف بڑھ گیا تھا۔۔لڑکے نے بےبسی سے امان کی طرف دیکھا۔۔امان نے نفی میں گردن ہلا کر اپنا نام لینے سے منع کیا اسے۔۔__:

کہاں سے آئ تمہارے پاس اتنی نقل آپ پر کمیٹی بیٹھے گی آپ کے خلاف کاروائ ہو گی۔۔_"_ممتخن کی باتوں سے لڑکے کی گھگھی بند گئ تھی ۔

اس نے اِدھراُدھر دیکھا تو سارا ہال ہی اسے دیکھ رہا تھا اس نے ایک نظر اگلی سیٹ پر بیٹھے سعدی پر ڈالی۔۔۔

سر اس کی ہیں یہ ساری پرچیاں اس نے دی ھیں ۔۔لڑکے نے فٹاک سے سعدی کا نام لے لیا۔۔

سر یہ جھوٹ بول رہا ہے میری نہیں ہے یہ۔۔سعدی پر تو حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا اس نے شاکی نظروں سے لڑکے کی طرف دیکھا جو اپنی جان بچانے کو سارا ملبہ اس پر ڈال رہا تھا۔۔

سر مم میں جھوٹ نہیں بول رہا یہ پکا اسی کے ہیں۔۔لڑکے نے پھر وہی بات دہرائ ۔امان پہلو بدل کر رہ گیا اسے نہیں پتہ تھا اس کے گناہ میں ایسے سعدی پھنس جاۓ گا۔۔__

مسٹر سعدی رانا اپنے پیپر پر اور ان نقل کے پیپر پر لکھی لکھائ آپ کی ہی ہے۔۔ممتخن نے جھک کر اس کا پیپر اٹھا کر دیکھا تھا۔۔

سر میرا نہیں ہے یہ آپ یقین کریں۔۔سعدی کی آواز بھرا گئ تھی۔۔

مگر اب کچھ بھی تو نہ ہو سکتا تھا امان کو نوٹس بھی وہی تیار کر کے دیتا تھا اور عقل کے دشمن امان نے نقل انہیں نوٹس سے پھاڑ کر لائ تھی۔۔

چلیں آپ دونوں کاروائ ہو گی دونوں پر کیس فائل ہو گا اور اگلے تین سال تک آپ دونوں ایگزام نہیں دے سکتے۔۔"_ ممتخن کے الفاظ تھے یا ہتھوڑا سعدی کی سماعت کراہ کر رہ گئ۔۔

سعدی نے غصے اور شاکی بھری نظروں سے امان کی طرف دیکھا جو مٹھیاں بند کیئے بےبسی اور پریشانی سے اسے دیکھ رہا تھا__"_

سعدی کا پیپر اس سے لے کر ریڈ مارک لگا دیا گیا تھا۔۔

اس کا کرئیر اس کے زندگی کے اتنے سال برباد ہو گۓ تھے۔۔

جناح ائیر پورٹ کراچی میں معمول کی گہماگہمی تھی۔تھوڑی دیر پہلے ہی لاہور سے آنے والی فلائیٹ کی لینڈنگ ہوئ تھی۔۔

بھانت بھانت کے لوگ آ جا رہے تھے۔۔

ایسے میں وہ بھی اپنی ٹرالی گھسیٹتا آتا ہوا نظر آ رہا تھا۔۔

جب وہ بیگ لے کر باہر نکلا تو اس کا ڈرائیور گاڑی لیئے اس کے انتظار میں کھڑا تھا۔۔ڈرائیور نے بھاگ کر اس سے بیگ لے کر ڈِگی میں رکھا اور اس کے لیئے پچھلا دروازہ کھولا۔۔

کریم تم رکشہ پکڑ کر گھر چلے جاؤ مجھے کہیں کام سے جانا ہے۔۔پچھلی سیٹ کا دروازہ بند کرتا وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔

مگر صاحب۔۔ڈرائیور نے ابھی کچھ کہنے کے لیئے لب کھولے ہی تھے کہ وہ گاڑی سپیڈ سے بھگا لے گیا۔۔

آدھے گھنٹے کا سفر ٹریفک کے باعث ڈیڑھ گھنٹے میں تمام ہوا تھا۔۔کراچی جو کہ روشنیوں کا شہر ہے اس کی سب سے بڑی حامی بڑھتا ہوا بےہنگم ٹریفک ہے۔۔

ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد وہ حیا کے گھر کے سامنے تھا جس کا ایڈرس حیا نے اسے دیا تھا۔۔

گاڑی گیٹ کے آگے پارک کرتا وہ گاڑی سے اترا۔۔دوسری ڈور بیل پر دروازہ کھول دیا گیا تھا۔۔

ملازم اسے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر حیا کو بلانے چلا گیا۔۔تھوڑی دیر میں حیا ڈرائینگ روم میں داخل ہوئ۔۔

تم یہاں کیسے لاہور سے کب واپس آۓ۔۔حیا نے بےچینی سے ٹہلتے نومی سے سوال کیا۔۔

کال کیوں پِک نہیں کر رہی تھی تم۔۔نومی کی بےچینی دیکھنے لائق تھی۔۔

بزی تھی کچھ۔۔حیا بےزار نظر آ رہی تھی۔۔

عینا لاہور میں ہے کسی لڑکے کے ساتھ میں نے دیکھا ہے اسے کل تمہیں بہت کال کی پھر مجبوراً مجھے شادی چھوڑ کر آنا پڑا۔۔۔۔

سچ کک کہاں ہے وہ کس کے ساتھ ہے مجھے جلدی بتاؤ۔۔حیا کے بےزاری یکدم حتم ہو گئ تھی۔۔

یہی بتانے کے لیئے تمہیں کال کر رہا تھا کہ تم فوراً آ جاتی لاہور مگر تم میری کال پِک نہیں کرتی۔۔اور یہ پکچر کھینچی ہے میں نے ریستوران میں ان کی دیکھو ۔۔نومی نے موبائل سکرین آن کر کے حیا کے سامنے کی۔۔۔

اس میں دو لڑکے ہیں۔عینا کس کے ساتھ بھاگی ہے۔۔حیا کا چہرے پر غصے کے تاثرات جمع ہونا شروع ہو گۓ تھے۔۔

یہ تو وہاں جا کر پتہ لگے گا۔۔نومی نے موبائل پاکٹ میں ڈالتے ہوۓ بولا۔۔

 جلدی سے ٹکٹ کنفرم کرواؤ مجھے جلدی سے لاہور پہنچنا ہے۔۔حیا کو چکمہ دینے کے سزا تو وہ اب تاعمر بھگتے گی۔۔

_"حیا کے چہرہ بےتاثر تھا مگر برباد کر دینے کا تاثر پھر بھی رہتا تھا۔وہ اب عینا کے زندگی میں زہر گھولنے جا رہی تھی۔

___________________________________________________________________________________________________

وہ سر جھکاۓ خود کو زبردستی گھسیٹتے کسی شکست خوردہ شخص کی طرح وارڈن اور سپرڈنٹ کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔

آج اس کی برسوں کی مخنت تباہ ہو گئ تھی آج اس کے پانچ سال برباد ہونے جا رہے تھے۔

آج اس کے باپ کی قربانیاں اس کی ماں کے ارمان سب کچھ ختم ہو رہا تھا اور وہ کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔۔

وارڈن اس سے آگے آگے چلتا آفس میں پہنچ گیا پھر ان کے آفس کے پاس پہنچنے تک وہ آفس سے برآمد ہوا تھا۔۔

سعدی رانا آپ یہیں انتظار کریں سر راؤنڈ پر ہیں ٹیم آتی ہی ہو گی اور آپ کو سر ہال نمبر تین میں بلا رہے ہیں۔وارڈن نے سعدی کے بعد ساتھ کھڑے ممتخن کو اشارہ کیا اور دونوں آگے پیچھے چل پڑے۔۔

"_سعدی وہیں پاس پڑے بینچ پر سر ہاتھوں میں دے کر بیٹھ گیا تھا۔اس کا دل شدت سے رونے کو کر رہا تھا وہ دھاریں مار مار کر رونا چاہتا تھا مگر وہ کمال ضبط آزما رہا تھا۔۔

تھوڑی دیر بعد پیپر ختم ہو چکا تھا سٹوڈنٹس ہاتھوں میں پیپر بورڈ پکڑے ایگزام ہال سے نکل رہے تھے۔۔

امان باہر نکل کر سعدی کو ڈھونڈنے لگا تھا اسے اپنی غلطی کا احساس تھا مگر اس کا احساس سعدی کا ازالہ نھیں ہو سکتا تھا۔وہ اساور کو کال کر کے معاملات سنبھالنے کے لیئے بلا چکا تھا اور خوش قسمتی سے اساور آج وہیں کسی کام کے سلسلے میں آیا ہوا تھا۔۔

سعدی سوری یار۔۔!! ایک بینچ پر سر ہاتھوں میں پکڑے بیٹھا وہ اسے نظر آیا تو امان فوراً اس کے پاس پہنچا۔۔

سعدی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا آج ان آنکھوں میں دوستی محبت کچھ بھی نہیں تھا اک سردمہری اک آگ تھی جو جلا کر راکھ کر دینے والی تھی۔۔

سعدی یار مجھے نہیں پتہ تھا معاملہ اتنا سنگین ہو جاۓ گا اگر پتہ ہوتا تو میں. . . . . .  

اگر پتہ ہوتا تو کیا ہاں کیا۔۔امان کی بات منہ میں ہی رہ گئ سعدی تو بھڑک اٹھا تھا۔۔

چھوٹا بچہ ہے تو نا تجھے تو کچھ بھی نہیں پتہ مگر یہ تو پتہ ہے نا میں نے کتنی مخنت کی تھی میرے لیئے رزلٹ کتنا ضروری تھا میرے باپ کے خون پسینے کی کمائ تھی مجھے یہاں تک پہنچانے میں میری ماں کے ارمان تھے مجھے ایک اونچے عہدے پر دیکھنے کے میری بہن کے سپنے تھے یار میرا کرئیر تھا تو نے سب برباد کر دیا سب۔۔سعدی بات کرتے کرتے بےبسی سے اپنے سر کے بال نوچنے لگا اس کی آواز بھرا گئ تھی جیسے ابھی رو دے گا۔۔

"_یار سعدی. . . .  

چپ میرا نام مت لے اپنی چیٹر زبان سے یہ زبان ایگزام ہال میں بھی کھل سکتی تھی مگر نہیں تم تو تماشہ دیکھ رہے تھے انجواۓ کر رہے تھے_"_تیرا باپ ایک امیر آدمی ہے تو ساری زندگی بیٹھ کر کھاۓ تب بھی ختم نہ ہو مگر میرا باپ مجھے بڑا آدمی بنانے کے لیئے مخنت کرتے کرتے مر گیا تھا تو نے یہ کیا کر دیا امان ہماری پوری فیملی کو برباد کر دیا۔۔سعدی اس کی کوئ بات سننے کو تیار نہ تھا۔۔

یار تو فکر مت کر میں سب ٹھیک کر دوں پلیز یار مجھ سے ایسے تو بات مت کر مجھے تیرا لہجہ تکلیف دے رہا ہے۔۔امان اپنی غلطی پر پشیمان تھا۔۔

باڑ میں گیا تو اور باڑ میں گئ تیری فکر دفعہ ہو جا میری نظروں سے ورنہ تیری موت کا جرم میرے سر آ جاۓ گا دفعہ ہو یہاں سے۔۔سعدی نے امان کو دھکا دیا جبکہ سامنے سے آتے اساور نے اس کا ہر لفظ سنا تھا_"_

کیا ہو گیا ہے کیوں ایسے لڑ رہے ہو اور تم نے ایمرجنسی میں کیوں بلایا۔۔اساور نے پاس پہنچ کر پوچھا اسے سعدی کا امان کو یوں دھکا دینا سخت ناگوار گزرا تھا۔۔

آگ لگی ہوئ ہے میرے اندر الاؤ بھڑک رہا ہے سب کچھ جلا کر راکھ کر دینا چاہتا ہوں میں اور سب سے پہلے اس کی جان لوں گا اسے کہیں ہٹ جاۓ میرے سامنے سے۔۔سعدی غصے سے امان کی طرف بڑھا تھا اساور نے ایک جھٹکے سے اسے دھکا دے کر پیچھے کیا۔۔

Behave your self saadi۔۔

یہ کیا طریقہ ہے ۔۔اساور کو بھی غصہ چڑھ رہا تھا۔۔

یہ آپ اپنے اس لاڈلے سے پوچھیں۔۔ٹھوڑی پر ہاتھ مارتا سعدی دوبارہ بینچ پر بیٹھ گیا۔۔۔

وہ چکس. . . .  امان نے سر جھکاۓ ساری بات اساور کے گوش گزار کر دی تھی۔۔

امان زندگی جہاں روکے رک جاؤ مگر آگے بڑھنے کے لیئے شارٹ کٹ کبھی نہ لو تم پڑھ نہیں پاتے تو چھوڑ دیتے مگر چیٹنگ یہ بہت غلط کیا تم نے۔_"اور خود کو بچانے کے لیئے سعدی کی مخنت پر پانی پھیر دیا بہت افسوس ہوا مجھے بیٹا۔۔اب کے بھڑکنے کی باری اساور کی تھی۔۔

چکس غلطی ہو گئ پلیز کچھ کریں نا پلیز۔۔۔امان رو دینے کو تھا سعدی اور وہ کبھی نہیں لڑے تھے اور ایسی لڑائ تو کبھی نہ ہوئ تھی۔۔

سعدی ٹیم نے تم سے کچھ پوچھا ہے۔۔اساور نے بینچ پر بیٹھے سعدی سے پوچھا۔۔۔

نہیں تھوڑی دیر میں کاروائ ہو گی۔مجھے ابھی انتظار کرنے کا کہا ہے۔۔

اچھا میں کچھ کرتا ہوں۔۔اساور کہتے ہوۓ فون کان سے لگاتا پرنسپل کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔۔

سعدی نے ایک ناگوار نظر امان پر ڈالی تو وہ مارے شرمندگی کے سر جھکا گیا تھا۔۔۔۔

پھر اساور نے سب کیسے سنبھالا سعدی نہیں جانتا تھا بس اتنا ہوا کہ سعدی کے خلاف پرچہ نہیں کٹا تھا نہ کوئ کاروائ ہوئ تھی اور نہ اس کے پیپر پر ریڈ مارک لگا کر بھیجا گیا بس اتنا ہی ہو پایا تھا سعدی کو پیپر لکھنے کا وقت نہیں دیا گیا تھا۔مگر وہ باقی کے پیپرز دے سکتا تھا۔۔

اس کے پانچ سال ضائع ہونے سے بچ گۓ تھے ۔اور وہ ٹاپ نہ کر پایا تھا۔

"_مگر اس واقعے نے ان کی دوستی ضائع کر دی تھی امان معافی چاہتا تھا اور سعدی کچھ بھلانے کو تیار نہیں تھا۔

مگر پھر بھی سب کچھ ٹھیک تھا۔۔"_

___________________________________________________________________________________________________

کیا پتہ لگایا ہے تم نے ہاں کسی کام کے نہیں ہو تم۔۔

"حیا اور نومی آج صبح ہی لاہور پہنچے تھے مگر شامین کے گھر پر تالا تھا جس نے حیا کو مزید تپا دیا تھا۔۔"

یہیں کا ایڈرس ہے یار جہاں عینا رہائش پزیر تھی میرے سورسز غلط نہیں ہو سکتے۔۔نومی خود پریشانی سے موبائل پر ایڈرس دیکھ رہا تھا۔۔

کہاں گئ عینا پھر یہاں سے زمین کھا گئ یا آسمان نگل گیا اسے بولو۔۔حیا کی ناک غصے کی شدت سے سرخ ہو گئ تھی۔۔

ایکسکیوزمی۔!! اس کی بات نظر انداذ کرتا نومی وہاں سے جاتے ہوۓ شخص سے مخاطب ہوا۔۔

یہاں جو لوگ رہتے تھے وہ کہاں گۓ۔۔نومی نے شامین کے گھر کی طرف اشارہ کیا۔۔

شامین بٹیا کا پوچھ رہے ہیں آپ جو وکیل ہے۔۔

جی جی وہی۔۔نومی نے جلدی سے کہا۔۔

وہ تو دو دن پہلے ہی یہاں سے جا چکی ہیں۔دوسرے ملک چلی گئ ہے شامین بٹیا۔آپ لوگ کون۔۔؟؟اس شخص نے اب سوالیہ نظروں سے نومی اور حیا کی طرف دیکھا۔حیا نے بےزاری سے نظریں گھما لی تھیں۔

ہم فرینڈذ ہیں ان کے۔۔اچھا ان میں سے کسی کو شامین کے گھر دیکھا ہے آپ نے۔۔نومی نے جلدی سے موبائل اس شخص کے آگے پکڑا۔۔

ہمم ہاں یہ شامین بٹیا کی دوست ہے اور یہ والا لڑکا اس کا شوہر اور یہ اس کا دوست۔۔اس شخص نے کچھ دیر سوچتے ہوۓ بتایا۔۔

شکریہ بہت بہت آپ کا مگر آپ بتا سکتے ہیں یہ تینوں کدھر گۓ ہیں۔۔۔نومی کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔۔

ویسے تو مجھے کسی کے گھر کے معاملات کا پتہ نہیں ہوتا مگر شامین بٹیا پورے محلے کی بٹیا ہیں اپ ان کے دوست ہیں اس لیئے بتا دیتا ہوں۔۔اس بوڑھے نے کہا۔۔

جی ضرور بتائیں۔نومی اس کی اتنی لمبے تعارف پر غش کھا کر رہ گیا تھا مگر ضبط کیئے ہوۓ کھڑا رہا جبکہ حیا کے چہرے سے غصہ جھلک رہا تھا۔۔ ،"_

یہ مری میں پڑھتے ہیں وہیں گۓ ہیں۔۔اچھا  میں چلتا ہوں۔۔بوڑھا شخص کہہ کر اپنے گھر کی طرف بڑھ گیا۔۔

ہمیں مری جانا ہو گا فوراً ۔۔نومی گھوم کر اس جگہ کے شور سے بےزار کھڑی حیا کی طرف آیا۔۔

کیا گارنٹی ہے وہ وہاں ہوں گے۔ویسے ھی تمہیں ملا لیا اپنے ساتھ اکیلے میں جلدی ڈھونڈ لیتی عینا کو۔۔حیا بڑبڑاتے ہوۓ نومی کے پیچھے چل پڑی۔۔

اب ان کی اگلی منزل مری تھی۔

دا لارنس کالج مری۔۔

___________________________________________________________________________________________________

پانچ سال بعد۔۔

وقت گزر گیا اور یہی تو وقت کی حاصیت ہے ٹھہراؤ نہیں رکھتا اپنے اندر مسلسل پانی کے تیز بہاؤ کی مانند بہتا چلا جاتا ہے دن مہینے اور سالوں گزر جاتے ہیں۔پر وقت پھر بھی بہتا رہتا ہے۔۔

دانین کو خدا نے دو جڑواں بیٹیوں سے نوازا تھا۔۔وہ جو سوچتی تھی کیسے جیئے گی وہ ماں بنی تو جانا کیسے جیا جاتا ہے ۔۔وہ اپنے اندر سے ایک عورت کو مکمل طور پر مار چکی تھی وہ اب نہ اساور کی بیوی تھی نہ اساور اس کی محبت تھا وہ صرف اب زارا اور سارہ کی ماں تھی اور ایک قصاص میں آئ لڑکی تھی ایک قیدی تھی جس کی رہائ سعدی کی بےگناہی سے مشروط تھی۔۔۔

اسنے اپنے دل سے اساور کو نکال دیا تھا آنکھوں سے اس کے خواب نوچ پھینکے تھے۔اس کی محبت کا محور اب صرف اور صرف زارا اور سارہ تھیں۔۔

دانین اذیت شکار لڑکی تھی مگر پھر اس نے خود پر مزید ظلم نہیں ہونے دیا وہ کسی کو خود پر تشدد کی اجازت اب نہیں دیتی تھی۔مگر اس سے بڑھ کر اذیت اس کے لیئے کیا تھی کہ اس کی بیٹیوں کو پوری کاظمی حویلی میں ناجائز کا طعنہ ملتا تھا وہ تو چھوٹی تھیں مگر دانین کو یہ الفاظ نشتر کی طرح لگتے تھے جو اسے لہو لہان کر دیتے۔۔

اور اساور کاظمی وہ محبت کا مجرم تھا اور محبت کا مجرم انتہائ بدنصیب ہوتا ہے ۔

وہ  بدنصیب شخص پھر بدنصیب باپ ثابت ہوا تھا وہ اپنی بیٹیوں کو پیار کرنا چاہتا مگر بھابھی کے الفاظ اسے ان کے پاس نہیں جانے دیتے تھے وہ آس سے امید سے اپنے باپ کی طرف دیکھتی تھیں جو انتقام کی جنگ میں ہر محبت کو مار آیا تھا۔۔ بھابھی کی موجودگی میں وہ سارہ اور زارا کی موجودگی نظرانداذ کر دیتا تھا چاہے وہ پکارتی رہتیں۔۔

اس وجہ سے زارا بہت دور دور رہتی تھی اس سے اور سارہ وہ تو ہر وقت اس کی ٹانگ پکڑ کر پیچھے پیچھے پھرتی تھی مگر وہ بھابھی کی نظروں میں کھڑا رہنے کو اپنی بیٹی کو پسِ پشت ڈال دیتا تھا۔۔

زائرہ ناظم کاظمی عرف سومو وہ چھوٹی سی لڑکی تو پہلے ہی کافی بڑی ہو گئ تھی وہ محبت کے معاملے میں اساور جیسی نہیں تھی وہ امان جیسی تھی محبت کا پیکر غلطی ہو جاۓ تو ڈٹ جانے ک جگہ معافی مانگ لینے والی معاف کر دینے والی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی معاف کرنے والوں کو خدا دوست رکھتا ہے۔۔

وہ صرف سعدی کا انتظار کرتی تھی جو اپنی بےگناہی کے ثبوت لاۓ اساور کے منہ پر مارے اور دانین اور اسے وہاں سے لے جاۓ۔

وہ واقعی امان جیسی تھی محبت کرتی تھی تو بس محبت کرتی تھی وہ نفرت نہیں کرتی تھی کیونکہ محبت temporary تھوڑی ہوتی ہے جب بھی ہوتی ہے بس ہمیشہ ہوتی ہے پھر۔۔۔

___________________________________________________________________________________________________

میں شادی کر رہا ہوں۔۔صوفے پر ٹانگے پھیلا کر بیٹھے اساور نے اپنی طرف سے گویا اس پر بم پھوڑا تھا مگر سب وہ رخشندہ بھابھی کی کڑوی زبان سے کئیں دن پہلے سے جانتی تھی۔۔

آنکھیں میچ کر اس نے رخ موڑے خود کو کنٹرول کیا۔۔

آج دل میں بچی آخری گنجائش بھی اساور کے لیئے ختم ہو گئ تھی۔۔

بتا رہے ہو یا پوچھ رہے ہو۔۔وہ نارمل انداذ میں کہتی زارا اور سارہ کے کھلونے سمیٹنے لگی۔۔

بتا رہا ہوں بھلا پوچھوں گا کیوں۔۔؟؟ اساور نے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

اور اس عنایت کی وجہ۔۔؟؟ دانین یوں ہی مصروف رہی تھی۔۔

پہلی بیوی ہو تم میری اس لیئے بتا رہا ہوں۔۔

بہت بہت شکریہ اس نوزاش کے لیئے مگر اس کی کوئ ضرورت تھی نہیں اور جہاں تک پہلی بیوی کی بات ہے ایم سرپرائز میں اتنے سالوں میں بھول ہی گئ تھی شکریہ یاد دلانے کے لیئے اور دوسری بات یہ انوٹیشن تھا یا انوٹیشن ملے گا مجھے شادی میں آ سکتی ہوں میں۔۔دانین کا لہجہ نارمل تھا ہر طرح کے جذبے سے حالی بےتاثر۔۔

تم کچھ کہو گی نہیں ۔۔اساور اس سے یہ ایسپیکٹ نہیں کر رہا تھا۔۔

اس سے ذیادہ اور کیا کہوں۔؟؟ دانین نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔۔

تمہیں برا نہیں لگا۔۔اساور اسے ہی دیکھ رہا  تھا جس کا چہرہ کسی بھی تاثر سے حالی تھا۔۔

اگر تم اے۔کے ہوتے اور میں ڈی۔جے تو لگتا برا مجھے برا کیا لگتا دل رک جاتا میرا مگر اب نہ میں ڈی۔جے ہوں نہ تم ڈی۔جے کے اے۔کے ہو میرا دل تمہارے نام پر دھڑکتا ہے نہ مجھے تمہارے کچھ بھی کرنے سے کچھ فرق پڑتا ہے جو مرضی کرو۔۔

دانین اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی وہ تو اب اسے دیکھتی ہی نہیں تھی۔۔

پوچھو گی نہیں کس سے کر رہا ہوں شادی۔؟؟ اساور چاہتا تھا وہ کچھ کہے مگر وہ چپ تھی اور اس کی لاپرواہی اساور کو چب رہی تھی۔۔

نہیں جس سے بھی کرو مجھے نہیں جاننا ۔۔۔دانین کہتی ہوئ دروازہ کھول کر باہر نکل گئ۔وہ مزید اس کی بکواس سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔

___________________________________________________________________________________________________

بابا۔۔!! وہ ڈریسنگ کے سامنے کھڑا گھڑی پہن رہا تھا کہ چار سالہ سارہ اس کی ٹانگ پکڑ کر بولی ۔۔

جی بابا کی جان۔!! وہ اس کے ننھے ننھے ہاتھ پکڑ کر اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔۔

باہر سے آتی دانین کے قدم جامد ہوۓ تھے ہینڈل کھولتا اس کا ہاتھ رک گیا تھا۔۔وہ وہیں کھڑی ہو گئ تھی۔۔

بابا وہ نئ آنٹی کون ہیں وہ مجھے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے ایسے دیکھ رہی تھی کہ میں ڈر گئ۔۔وہ اساور کے گلے میں بازو ڈالے لاڈ سے بولی۔۔

اوہ بابا کی جان کو ڈر بھی لگتا ہے مگر میرا بچہ تو بہت بہادر ہے ۔۔اساور نے اس کے گال پر بھوسہ دیا تھا۔۔

دانین ہینڈل گھماتی اندر داخل ہوئ ۔اساور اسے دیکھتا سارہ کا گال تھپتھپاتا دوبارہ أئینے کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔

ماما اتنے لوگ کیوں آۓ ہوۓ ہیں گھر پر۔۔۔سارہ اب دانین کے پیچھے پڑ گئ تھی۔۔

زارا اور سارہ جڑواں تھیں مگر زارا کی برعکس وہ ذیادہ باتونی تھی زارا جھجھکتی تھی اساور سے جبکہ سارہ بلاجھجھک اس سے ہر بات منوا لیتی تھی۔۔

سارہ جاؤ یہاں سے ذیادہ سوالات مت کیا کرو۔۔دانین الماری کھول کر اس میں اپنے تہہ کیئے کپڑے رکھنے لگی۔۔

ماما۔۔!! سارہ نے مسکین سی شکل بنا کر کہا تو دانین نے اس کی طرف آنکھیں نکالی تو وہ منہ بنا کر کمرے سے باہر چلی گئ۔۔

ایسے مت ڈانٹا کرو پہلے ہی زارا سہمی سہمی رہتی ہے۔۔اساور نے ٹیڑھی نظر اس پر ڈالی۔الماری میں کپڑے رکھتے اس کے ہاتھ رکے تھے۔۔

وہ میری بیٹیاں ہیں اساور کاظمی ان کے اچھے برے کی ذمہ دار ہوں میں آپ کو اس تکلیف کی ضرورت نہیں ہے آپ بس اتنی مہربانی کریں میری بیٹیوں سے دور رہیں انہیں اپنی عادت مت ڈالیں میں نہیں چاہتی وہ جب یہاں سے جائیں تو تمہیں یاد بھی کریں۔۔

کہاں جائیں گی وہ۔۔اساور ٹھٹھکا تھا۔

جب تم یہ بدلے کی جنگ ہار جاؤ گے تو صرف جنگ نہیں ہارو گے سارہ اور زارا کو بھی ہار دو گے اور مجھ سے تو پھر بھی تمہارا کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے۔۔دانین ایسے ہی چہرہ الماری میں دیئے بولتی رہی۔۔

یہ تمہاری بھول ہے مس دانین جمشید علی کہ میں اپنی بیٹیوں کو کہیں جانے دوں گا وہ میری بیٹیاں ہیں اور ہمیشہ یہیں رہیں گی اور جہاں تک بدلے کی جنگ کی بات ہے وہ میں جیت کر رہوں گا کیونکہ میں جانتا ہوں میں سچائ پر ہوں اور سچا کبھی ہارتا نہیں ہے۔۔اساور نے تیزی سے جا کر اس کا بازو دبوچتے اسے زور سے اپنی طرف گھمایا۔۔

دانین بازو میں اٹھتی تکلیف کو نظر انداذ کرتی زور سے ہنسی تھی اتنی کہ اس کی آنکھیں نمکین سمندر بن گئیں۔۔

تو تمہیں یاد ہے وہ تمہاری بیٹیاں ہیں ورنہ اپنی اس ایک رات کی بےاختیاری کو تم نے بھول کر انہی بیٹیوں کو ناجائز کہا تھا مجھ سے حساب مانگا تھا ان کی رگوں میں دوڑتے خون کا۔۔

آج وہ تمہاری بیٹیاں ہیں یہ کایا کیسے پلٹ گئ ہاں بلکہ کایا کا کیا پلٹنا ہے تمہیں پتہ ہے تم ایک بزدل مرد ہو تم مجھ پر الزام لگاتے ہوۓ بھی جانتے تھے کہ یہ تمہارا ہی خون ہیں مگر تم چپ رہے تمہاری بھابھی نے ناجائز کا طعنہ دیا تم تب بھی جانتے تھے یہ ناجائز نہیں ہیں پھر بھی تم چپ رہے کیونکہ تم ایک بزدل مرد بزدل باپ ہو اور میں نہیں چاہوں گی زارا اور سارہ میں تمہاری خصلتیں جنم لیں ۔۔

اور دوسری بات تم خق پر نہیں ہو تم کو یہ ایک دن پتہ لگے گا اور پھر تاعمر سر پکڑ کر بیٹھے رہنا۔۔دانین نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی تھی باوجود درد کے کہ وہ اب ان تکلیفوں کی عادی تھی۔۔۔

وہ کچھ پل اسے دیکھتا رہا پھر ایک جھٹکے سے اسے دھکیلتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔۔

دانین نے بروقت اپنا توازن قائم رکھا ورنہ سیدھی الماری سے جا ٹکراتی۔۔

آنکھوں میں اٹھتے نمکین پانیوں کو آنکھیں زور سے میچ کر اندر اتارا کہ وہ اب آنسو پینا سیکھ گئ تھی۔۔

___________________________________________________________________________________________________

کاظمی خویلی میں آج شہنائیاں گونج رہی تھیں۔موسیقی کی آواز کانوں کے پردے پھاڑ رہی تھی۔۔

ہر طرف گہماگہمی تھی۔پورے شہر کو دعوت دی گئ تھی اور دعوت کا انتظام خویلی میں ھی کیا گیا تھا۔۔

سائرہ اور رخشندہ بھابھی کے چہروں سے ہنسی جدا نہیں ہو رہی تھی ۔۔

دانین اپنے کمرے میں زارا اور سارہ کے درمیان لیٹی دونوں کا سر سہلاتی ان اونچی شہنائیوں کی آوازیں سن رہی تھی۔۔

اس کے چہرہ ہر تاثر سے حالی تھا مگر ایک آنسو آنکھ سے نکلتا ہوا گال کے رستے اس کے گلے پر بہہ گیا تھا۔۔

آج اساور کی شادی تھی دوسری شادی۔۔وہ اساور جو کبھی صرف اور صرف اس کا ہونے کا دعویدار تھا جس کی نظریں اس سے ہو کر اسی پر ٹکتی تھیں۔۔

وہ اس سے محبت نہیں کر سکتی تھی مگر وہ محبت پر کوئ خق کیوں نہ رکھتی تھی یہ بات اسے کھاۓ جاتی تھی۔۔

باہر اونچا شور تھا ہر کوئ خوش تھا اور شائد اساور بھی وہ مسکرا رہا تھا سائرہ کے ساتھ اسٹیج کے سامنے رقص کر رہا تھا۔اور اسٹیج پر بیٹھی اس کی خوبصورت دلہن اسے کھلکھلا کر محبت پاش نظروں سے دیکھ رھی تھی۔۔

اساور بھی رقص کرتے ہوۓ اس پر ایک نظر ڈالتا اور مسکرا دیتا تھا۔۔

رقص کرتے ہوۓ اساور کی نظر اسٹیج کی طرف آتی دانین اور سومو پر پڑی۔۔

دونوں پیچ کلر کی گھٹنوں تک آتی فراک زیب تن کیئے ہوۓ تھیں۔بالوں کا جوڑا بنایا ہوا تھا جس کے اطراف سے دو لٹیں نکل کر چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔۔ دوپٹہ ہاتھوں پر ڈالے میچنگ جیولری پہنے وہ دونوں ایک سی معلوم ہوتی تھیں۔۔خوبصورت بہت خوبصورت۔۔

رقص کرتا اساور ساکت ہوا تھا اس کی نظریں دانین پر ٹھہر گئیں تھیں اس کی نظروں کے تعاقب میں سائرہ رخشندہ اور اسٹیج پر بیٹھی دلہن نے اس حسینہ کو دیکھا آنکھوں میں بےانتہا نفرت سمو کر۔۔۔۔

دانین اور سومو مسکراتے ہوۓ مہمانوں سے مل رھی تھیں۔۔

رخشندہ جو پےچینی دانین کے چہرے پر ڈھونڈنا چاہتی تھی وہ کہیں نہیں تھی دانین مطمئن تھی جیسے اسےکوئ فرق نہیں پڑتا مگر اسے فرق پڑتا تھا صدیوں کی محبتیں دنوں میں کہاں بھلائ جاتی ہیں مگر ہاں ہم محبت سےدستبردار ہو جاتے ہیں۔۔

دانین کو مظبوط کر کے سب کے سامنے لانے والی سومو تھی اس نے دانین کو بہت مظبوط بنا دیا تھا کیونکہ وہ محبت کا پیکر تھی۔۔

محبت جن لوگوں کے لیئے نایاب ہوتی ہے ان پر ہی نازل ہوتی ہے اور سومو ان ہی لوگوں میں سے تھیں۔۔

خوش لگ رہی ہو بہت۔۔اساور کو دانین کی مسکراہٹ چبی تھی بہت وہ اس سے رونے چلانے کی امید کرتا تھا مگر اس نے تو اف تک نہیں کیا تھا۔۔

اپنی بیوی کے تیور دیکھے ہیں آپ نے اساور کاظمی۔؛؛!! کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رھی ہے اس کی نظریں صاف بتا رہی ہیں وہ دانین کو برداشت نہیں کر پاۓ گی مجبوراً آپ دانین کو گھر سے نکال دیں گے اور دانین آزاد ہو جاۓ اور آزادی کی نوید پر انسان خوش تو ہوتا ہے۔۔دانین کی جگہ جواب سومو نے دیا تھا۔۔

"وہ اب اساور کو چکس کہتی تھی نہ چاچو اب وہ اس کا نام لیتی تھی کہ وہ شخص رشتوں کے قابل نہیں تھا ۔۔

یہ بھول ہے کہ اساور کی قید سے دانین اتنی آسانی سے نکل جاۓ گی نو نو کبھی نہیں۔۔دانین کی طرف دیکھتا وہ چبا چبا کر کہتا ہوا اپنی دلہن کی طرف بڑھ گیا۔۔

وہ جو کچھ دیر پہلے دانین کو دیکھ کر مبہوت رہ گیا تھا اب سنبھل چکا تھا۔۔

دانین نے سجی سنوری دلہن کو دیکھا جو انتہائ ناگواری سے اسے دیکھ رہی تھی۔۔

دانین نے جواب میں ایک تپا دینے والی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور سومو کا ہاتھ تھامے ایک ٹیبل پر جا بیٹھی۔۔

میرا محبوب کسی ہور دا ہوئ جاندا ہے۔۔

بیک گراؤنڈ میں گانا اونچی آواز میں چلایا تھا کسی نے ۔۔

دانین نے چونک کر سر اٹھا کر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر سر جھٹک کر مہمانوں سے باتیں کرنے لگ گئ۔۔

دانین کچن میں کھڑی زارا کے لیئے نوڈلز بنا رہی تھی تبھی وہ ٹک ٹک کرتی ہیلوں کے ساتھ منہ پر ڈھیروں میک اپ لگاۓ کچن میں داخل ہوئ۔۔

اک ناگوار نظر دانین پر ڈالی جس نے اس کے آنے کا کوئ حاص نوٹس نہیں لیا تھا۔۔

سنو۔۔!! اس نے دانین کو پکارا تو اک پل کو دانین نے مڑ کر اسے دیکھا اور پھر سے مصروف ہو گئ ۔۔

میں اور اساور لانگ ڈرائیو پر جا رہے ہیں تو مجھے کہیں بھی جانے سے پہلے چاۓ پینے کی عادت ہے تو جلدی سے بنا دو۔۔اس نے حکم صادر کیا تھا۔۔

"اکسکیوزمی۔۔دانین نے آئ برو اوپر کر کے تیکھی نظروں سے اسے دیکھا۔۔

میں نے کہا چاۓ بنا کر دو۔۔مقابل پر اس کی تیکھی نظر کا کوئ اثر نہ ہوا تھا۔۔

میڈم ہاتھ پیر سلامت ہیں تمہارے خود بناؤ مجھ سے بنوانی ہے تو پہلے معذور ہونا پڑے گا ۔اوہ ذرا سمجھاؤ اسے سائرہ مجھ سے جی خضوری کی توقع رکھنے والے کئیں کئیں مہینوں تک چل نہیں پاتے۔۔دانین نے سامنے سے آتی سائرہ کو دیکھ کر طنزیہ انداذ میں کہا۔۔

سائرہ پہلو بدل کر رہ گئ۔۔

چھوڑو اسے تم ملازمہ سے کہہ دو بنا دے گی ویسے بھی تم سے جلن اس کی آنکھوں میں دِکھ رہی ہے اور بھلا سوتن کو بھی کوئ چاۓ بنا کر دیتا ہے۔تم نے اس سے میاں چھینا ہے اس کا چچچ بےچاری ٹوٹی ہوئ ہے۔۔۔سائرہ نے بھی کوئ ادھار نہ رکھا تھا۔۔

افف جو چیز آپ کے استعمال میں رہ چکی ہو بعد میں چاہے کسی کی بھی ہو جاۓ فرق نہیں پڑتا اور یہ انسانی فطرت کی مسلمہ حقیقت ہے جو چیز دسترس میں رہی ہو اس سے حاصل شدہ تسکین ختم ہوتے ہوتے ختم ہو ہی جاتی ہے۔۔

جلنا تو اسے چاہیئے دانین کی اترن ہے اس کے پاس۔

اور ویسے بھی دانین بزدل لوگوں میں انٹرسٹ نہیں رکھتی۔۔۔

جواب دانین کی بجاۓ سومو نے دیا تھا جو اب کچن ٹیبل کے پاس کرسی کھینچ کر بیٹھی سیب کی بائٹس لے رہی تھی۔

آخری بات اس نے سیڑھیوں سے اترتے اساور کو دیکھ کر کہی تھی۔۔

جسے اس نے بآسانی سنا تھا۔۔

سائرہ نے ایک نفرت انگیز نظر دانین اور سومو پر ڈالتی وہاں سے چلی گئ۔۔

چلیں۔۔اساور کا بازو پکڑ کر اس نے پوچھا۔۔دانین رخ موڑ چکی تھی جبکہ دانین آنکھوں میں تمسخر لیئے اساور کو ہی گھور رہی تھی۔۔

ایک اچٹتی نظر رخ موڑے کھڑی دانین پر ڈالتا وہ اپنی بھیگم کا ہاتھ تھامے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔۔

اساور سمیت سب کو لگتا تھا دانین کو اب بھی فرق پڑتا ہے مگر دانین کو پتھر بنانے والے وہ سب ہی تھی اب تو پتھر دلی کا یہ عالم تھا کہ اگر وہ لوگ اس کے سامنے تڑپ تڑپ کر مر جاتے اسے رتی بھر پرواہ نہ ہوتی۔۔

___________________________________________________________________________________________________

ماما ماما۔۔!! ایک چھ سالہ بچہ عنودگی میں جاتی اپنی ماں کو پکار رہا تھا۔۔

رو رہا تھا وہی تو اس قید میں اس کا سہارا تھی وہ اسے کیسے کچھ ہونے دے سکتا تھا۔۔

اذان بیٹا .  ۔۔۔اس کی آنکھیں نقاہت سے بند ہو رہی تھیں مگر وہ آنکھیں بند نہیں کرنا چاہتی تھی اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی وہ آج سو گئ تو کبھی اٹھ نہیں پاۓ گی۔۔

ماما میں نے باہر کا راستہ تلاش کر لیا ہے اب ہم یہاں سے جا سکتے ہیں۔۔چھوٹے بچے کا سانس پھول گیا تھا جیسے وہ کہیں دور سے بھاگ کر آیا ہو۔۔

سچ۔۔اس کی آنکھوں کی جوت جل اٹھی تھی۔۔

جی ماما آپ خود کو سنبھالیں پھر ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔۔اذان اپنی ماں کو سہارا دے کر اٹھا رہا تھا۔۔

وہ اٹھ گئ تو وہ بھاگ کر اس کے لیئے جگ سے پانی ڈال کر لے آیا جو وہ موٹی عورت صبح ہی رکھ کر گئ تھی۔۔

میرا بہادر بیٹا۔۔اس نے اذان کی آنکھوں سے نیچے تک آتے بالوں کو ہاتھ سے پیچھے کرتے اس نے اذان کے ماتھے پر بھوسہ دیا۔۔۔۔

ماما میں موٹی آنٹی کو دیکھتا ہوں پھر ہم نکلتے ہیں یہاں سے۔۔اذان کہتا دروازے سے جھانک کر باہر دیکھنے لگا۔۔

"وہ اسے دیکھ کر نقاہت سے مسکرا دی تھی۔۔وہ اس کا بہادر بیٹا تھا جو راستے کی مشکلوں سے گبھرانے کی بجاۓ راستے تلاش کرتا تھا اور اسے راستے تلاش کرنے آتے تھے۔۔۔

___________________________________________________________________________________________________

آج کا سورج نکلتے ہی کاظمی خویلی میں معمول سے ذیادہ گہماگہمی تھی۔۔آج رخشدہ بھابھی کی کچھ دوستیں اساور کی نئ نویلی دلہن سے ملنے آنے والی تھیں۔ان کے لیئے بھرپور اہتمام ہو رہا تھا کچن سے اشتہاانگیز خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔۔

اساور کی شادی کو ایک مہینہ ہو چلا تھا۔۔

رخشندہ بھابھی کو سارے مسئلے دانین سے تھے نئ دلہن پر وہ بچھی چلی جاتی تھیں۔۔

رخشندہ بھابھی کی دوستوں کے آنے میں کچھ وقت تھا تو سب لاؤنج میں بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔۔

اور اکثر ہی ایسی محفلیں کاظمی خویلی کے لاؤنج میں سجتی تھیں بس سومو اور دانین آؤٹ سائیڈر تھیں۔۔

دانین کچن میں گھسی زارا اور سارہ کے لیئے سینڈوچز بنا رہی تھی ۔سومو کچن ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کرتی ترچھی نظر ان ہنستے مسکراتے نفوس پر ڈال دیتی تھی۔۔

ابھی بھی وہ سب کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے کہ زوردار آواز سے دروازہ کھلا تھا۔۔

بہت سے پولیس اہلکار آگے پیچھے گھر میں داخل ہوۓ ساتھ لیڈیز کانسٹیبل بھی تھیں۔

پولیس کو دیکھتے سب کی ہنسی پر بریک لگی تھی۔سب ایکدم کھڑے ہو گۓ تھے۔۔

ایس۔ایچ۔ او صاحب یہ کون سا طریقہ ہے کسی شریف انسان کے گھر گھسنے کا۔۔اساور کو تو آگ لگ گئ۔۔

سوری مسٹر اے۔کے مگر ہمیں ہماری ڈیوٹی کرنے دیں۔آپ کی وائف کے خلاف قتل اور اغواہ کی ایف آئ آر ہے اور پکے ثبوت بھی ۔اور اریسٹ وارنٹ بھی۔۔ایس۔ایچ۔او نے ایک انویلپ اساور کی طرف بڑھایا۔۔

اساور نے حیرانی سے اسے تھاما۔۔

سب پریشانی سے اساور کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھ رہے تھے۔۔

ناشتہ ادھورا چھوڑ کر سومو بھی لاؤنج میں چلی آئ۔دانین نے اشارے سے سارہ اور زارا کو وہاں سے ہٹنے کو کہا تو وہ دونوں کمرے میں چلی گئیں۔۔

کس نے کروائ ہے یہ ایف۔آئ۔آر وارنٹ دیکھ کر اساور نے سوال کیا۔سب ابھی تک سمجھ نہ پا رہے تھے کہ یہ کیا چل رہا ھے۔۔

ہم نے۔۔وہ دونوں ایک ساتھ بولتے اندر داخل ہوۓ۔

سعدی کو دیکھ کر دانین اور سومو کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئ جبکہ باقی سب ناسمجھی سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔

میرےشوہر امان اللہ کاظمی کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کیا تھا اس مکار اور فریبی عورت نے اور پھر مجھے بھی ایک کمرے میں بند کر دیا تھا اسی قید میں میرے بیٹے اذان امان اللہ کاظمی کا جنم ہوا تھا اور آج میرا بیٹا چھ سال کا ھے مجھے پورے سات سال اغواہ کر کے رکھنے والی کوئ اور نہیں میری اپنی بہن حیا سدوانی ہے جو کہ اب حیا کاظمی کہلائ جاتی ہے۔۔۔عینا نے اذان کا ہاتھ مظبوطی سے پکڑے اپنا مکمل تعارف کے ساتھ حیا کا گھناؤنا چہرہ بھی دکھایا تھا۔۔۔

اساور پر تو گویا آسمان ٹوٹا تھا اس نے بےیقینی سے حیا کی طرف دیکھا۔۔

رخشندہ بھیگم اور سائرہ کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا تھا۔۔

اور بہت چالاکی سے تم نے تمام ثبوت میرے خلاف کر کے مجھے امان کا قاتل ٹھہرا دیا جس کی سزا میری پوری فیملی نے ان سات سالوں میں بھگتی ہے اب تمہاری باری ہے حیا سدوانی۔۔۔سعدی نے ٹھنڈے لہجے میں مگر چبا چبا کر کہا تھا۔۔۔

تم تم وہاں سے نکلی کیسے   کیسے۔۔حیا ہسٹریانی کیفیت میں عینا کی طرف لپکی۔۔لیڈی کانسٹیبل نے حیا کے دونوں ہاتھ زور سے پکڑے مگر وہ پھر بھی بےقابو ہو رہی تھی کانسٹیبل نے ایک زوردار تھپڑ اسے رسید کیا تو وہ سیدھی صوفے پر جا گِری۔۔

تم نے پورا انتظام کیا تھا مگر میرا اذان میرے امان کی نشانی مجھے وہاں سے نکال لایا تاکہ تمہارا گھناؤنا چہرہ پوری دنیا کو دِکھا سکوں میں۔۔عینا نفرت سے بولی۔۔

یہ سب کیا ہے حیا میں نے تمہیں اس گھر کا فرد بنایا اور تم میرے امان کی قاتل نکلیں۔۔رخشندہ بھیگم کو تو صدمہ لگ گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو سر آنکھوں پر بِٹھا رہی تھیں۔۔

تم نے کیوں کیا یہ سب حیا جواب دو۔۔اساور غصے کی شدت سے چلایا تھا۔۔

مجھے نہیں پتہ تھا امان تمہارا بھتیجا ہے ورنہ مم میں کبھی نہ مرواتی اسے آئ سوئیر اساور میں تم سے بہت محبت کرتی ہوں سچ میں اساور۔۔حیا ایک دم اساور کی طرف لپکی تھی۔اساور نے زور سے دھکا دے کر اسے خود سے دور کیا۔۔

کیوں کیا تو نے یہ سب بدبخت عورت۔۔اب کے بھڑکنے کی باری سائرہ کی تھی حیا کو بالوں سے پکڑ کر ایک زوردار تھپڑ رسید کیا۔۔۔

آپ نے جو پوچھنا ہے بنا تششد کے جلدی پوچھیں باقی سب پولیس کی ذمہ داری ہے۔۔لیڈی کانسٹیبل نے سائرہ سے حیا کو بچایا ورنہ وہ اسے مار ہی ڈالتی۔۔۔

مجھے نہیں مل سکتی تھی میری محبت تو اور کسی کو کیوں ملتی۔مجھے جب ٹھکرا دیا گیا تھا تو اس میں کون سے ایسے سرحاب کے پر لگے تھے جو اسے اپنایا جاتا اسی لیئے میں نے اس سے خوشیاں چھین لیں اس کی محبت اس کا امان چھین لیا مار دیا اسے۔۔حیا گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چلائ تھی وہ اپنے آپے میں نہیں لگ رہی تھی۔۔

اور اس سب کے ذمہ دار تم ہو اساور کاظمی تمہیں یاد نہیں ہو گا ہم ایک ہی کالج میں پڑھتے تھے میں تم سے پاگلوں کی طرح محبت کرتی تھی مگر تم نے میری محبت کے جواب میں مجھے بری طرح سےدھتکار دیا تھا۔۔

ٹھکراۓ جانے کا دکھ سمجھتے ہو ۔۔نہیں میں سمجھتی ہوں کئیں سالوں تک میں خود کو ہی جوڑتی رہی تھی.  ۔

میں اس بات کو قبول نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے یعنی کہ حیاسدوانی کو ٹھکرا دیا گیا۔۔۔

میں سالوں بعد پھر سے لوٹی تھی تمہیں پانے کے لیئے مگر تم نے پھر مجھے رد کر دیا اس دانین کے لیئے۔میرے اندر اک آگ جل اٹھی جس میں دانین کو جلانا چاہتی تھی میں تمہاری محبت کی میت کی راکھ کرنا چاہتی تھی میں اور دیکھو میں کامیاب رہی اس سب میں۔۔

چلا کر کہتے آخر میں وہ دانین کی طرف دیکھتی فاتخانہ انداذ میں مسکرائ تھی۔۔

اس وقت حیا کوئ شدید پاگل معلوم ہو رہی تھی۔۔

ایک شخص کے لیئے آپ نے اپنے آپ کو کتنا گرا دیا اتنا کہ گندی نالی کا کیڑا معلوم ہوتی ہیں آپ۔۔عینا نے افسوس سے اسے دیکھا۔۔

مجھے برباد کرنے کے لیئے اور آپ کو پانے کے لیئے انہوں نے خود کو گندا کر دیا نومی کی ہوس کی پیاس بجھاتی رہیں یہ افسوس آپ نے کیا کر دیا مینا آپی۔۔

آپ حیا تھیں آپ بےحیائ کی داستاں بن گئیں۔۔

قانون کا مزید وقت برباد نہیں کیا جاسکتا ہمیں انہیں لے کر جانا ہو گا۔۔

پولیس والے چلاتی ہوئ روتی ہوئ حیا کو گھسیٹتے لے کر چلے گۓ تھے۔۔

سعدی میرے بھائ۔۔!! ان کے جانے کے بعد دانین سعدی کی طرف دوڑی اور آکر اس کے سینے سے لگ گئ وہ اس سے چھوٹا تھا مگر اب وہ کافی بڑا ہو گیا تھا۔۔

ان گزرے ماہ و سال میں وہ ایک نوجوان سے مظبوط مرد بن گیا تھا۔۔

ٹھیک ہو تم سعدی اللہ کا شکر ہے۔۔دانین اس کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیئے رو رہی تھی اور آج برسوں بعد اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو نکلے تھے۔۔۔

بہت انتظار کروایا آپ نے سعدی بہت۔۔سومو کی آنکھیں بھی بہنے لگیں تھیں۔۔

رخشندہ بھیگم صوفے پر ڈے گئیں تھیں۔سائرہ کمرے میں بھاگ گئ تھی۔۔

اساور خود سے ہی نظریں چرا رہا تھا۔

سامنے کھڑے تین نفوس ایک دوسرے سے مل کر کتنے خوش تھے۔۔

ایک پچھتاوا سا پچھتاوا تھا جو اساور پر چھا رہا تھا۔۔

اس نے نظر اٹھا کر سامنے کھڑی دانین کو دیکھا ایک پل کو دانین نے بھی اسے دیکھا اور فاتخانہ انداذ میں مسکرا دی۔۔

اس کی یہ ہنسی اساور کو بہت کچھ یاد دلا رہی تھی۔۔

اساور کے کانوں میں ماضی کی آواز گونجی تھی۔۔

جس دن سعدی بےگناہ ثابت ہو گا وہ دن اس گھر میں میرا آخری ہو گا""

ایک تکلیف اس کی رگوں میں اتری تھی۔آنکھیں بہنے کو بےتاب تھیں۔

حیا آپی کو جب میں نے بتایا کہ مجھے محبت ہو گئ ہے تو انہوں نے مجھے کمرے میں بند کر دیا۔۔

وہ مجھے کہیں آنے جانے نہیں دیتی تھیں اور یہ شروع سے ہی چلتا آیا تھا وہ اپنی ہر محرومی کا بدلہ مجھ سے لیتی تھیں۔۔۔۔

پھر آہستہ آہستہ وہ انتہا پسند ہو گئیں اور ضدی بھی۔۔ڈیڈ کے ایکسیڈنٹ کے بعد ڈیڈ وہیل چیئر تک محدود ہو گۓ تو حیا نے سارا بزنس سنبھال لیا۔۔پھر وہ پہلے سے ذیادہ اکڑو ہو گئ تھی خود سے آگے کسی کو نہیں دیکھتی تھی ۔۔

آپ نے انہیں دو بار ٹھکرا دیا تو ان کی ضد آگ بن گئ ایسی آگ جس میں وہ ہر ایک کو جلا دینا چاہتی تھیں۔۔اور اس آگ میں وہ خود بھی جل جاتی ان کو پرواہ نہیں تھی۔۔

پھر موم اور ڈیڈ نے مجھے گھر سے بھگا دیا تو میں امان کے پاس آ گئ امان نے بتایا تھا ان کی بڑی بہن کی شادی ہے اور اس کی اماں ابھی اس کی شادی نہیں کروائیں گی۔۔

اور میرے واپسی کے سارے راستے بند تھے پھر سعدی اور شامین نے ہماری شادی کروا دی تھی ایک سادہ سی مگر بہت خاص شادی۔۔

دوست نعت ہوتے ہیں اور خدا نعمتیں اپنے بندوں پر اتار کر بتاتا ہے کہ وہ ہے اور کامل ہے۔۔سعدی اور شامین بھی وہی نعمت تھے۔

وہ جلد مجھے آپ سب سے ملوانا چاہتا تھا مگر لیکن پھر ایک دن حیا آپی آ ٹپکیں۔۔

انہوں نےمجھے کہا وہ مجھے معاف کر چکی ہیں اور موم ڈیڈ میرا انتظار کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا وہ مجھے ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔۔

وہ اتنے پیار سے ملیں کہ میں بھول گی سب کچھ مجھے یاد تھا تو بس یہ کہ وہ میری بہن ہے اور مجھ سے خار رکھ سکتی ہیں نفرت تو نہیں کر سکتیں۔۔

امان بھی مجھے خوش دیکھ کر خوش ہو گیا تھا۔۔

میں ماں بننے والی تھی اور امان بہت خوش تھا مری سے واپسی پر وہ مجھے یہاں لانے کا ارادہ رکھتا تھا مگر اچانک آپی کی کال آئ کہ ڈیڈ کی طبیعت بہت خراب ہے تو ہم نے لاہور کی بجاۓ کراچی کی فلائیٹ پکڑی اور حیا آپی کے گھر پہنچ گۓ۔۔

وہاں جا کر پتہ لگا کہ موم اور ڈیڈ تو آپی کے کارناموں کے باعث پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔۔

مجھے کچھ ٹھٹھکا ۔ہم وہاں سے نکلنا چاہتے تھے کہ حیا آپی اور ان کے بواۓ فرینڈ نے ہمیں گھیر لیا۔۔پھر میری آنکھوں کے سامنے میرے امان کو بےدردی سے مار ڈالا تھا۔۔

عینا سر جھکاۓ بیٹھی بتاتے ہوۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔اک تکلیف سی تکلیف تھی ۔کرب تھا جو شدت سے خون میں گردش کر رہا تھا۔۔

ایف۔ایس۔سی میں جو میرے ساتھ ہو چکا تھا اس کے بعد مجھے اچھے رزلٹ کی امید نہیں تھی۔۔میرے دوست کے فادر کی ایجنسی تھی کراچی میں ۔۔ان دنوں میں پھی وہیں گیا ہوا تھا ۔امان سے میرا کوئ رابطہ نہیں تھا نہ مجھے معلوم تھا وہ کراچی آیا ہوا ھے۔۔

پھر مجھے ایک کال موصول ہوئ وہ عینا کی کال تھی وہ مدد کے لیئے مجھے پکار رہی تھی۔۔

میں ساری خفگی بھلاۓ عینا کے بتاۓ ایڈرس پر پہنچا مگر اندر صرف اور صرف خون تھا اور اس میں لت پت امان۔۔

میں نہیں سمجھ پایا یہ سب جال بچھایا گیا تھا جس میں مجھے پھنسا دیا گیا تھا۔تھوڑی دیر میں پولیس آ گئ۔۔

میری کوئ بات پولیس نے نہیں سنی اور مجھے لے گئ۔۔

جب آپ سے پوچھا گیا کہ اور کس پر شک ہے تو آپ نے میرا نام لیا وجہ میری اور امان ہونے والی لڑائ تھی جس سے آپنے میری امان کو دی جانے والی دھمکی یاد رکھتے ہوۓ مجھے قاتل قرار دے دیا۔۔

جال ایسے بچھایا گیا تھا کہ سارے ثبوت میرے خلاف تھے۔۔

دانین آئ پھر ایک دن میرے پاس جیل۔۔سعدی نے بات کرتے نظر صوفے کے پاس کھڑی دانین پر ڈالی۔۔

اساور کو بھی حیرت ہوئ تھی۔۔

یہ قصاص کے بارے میں جانتی تھی اور اس نےمجھے جیل سے بھاگ جانے کا کہا تھا۔۔اس نے کہا آپ لوگ قصاص مانگیں گے اور قصاص دانین ہو گی۔۔دانین نے ویسے بھی آپ ہی کی زندگی میں آنا تھا اس لیئے اس نے خوشی خوشی قصاص کے لیئے آمادگی ظاہر کی۔۔

اور اماں وہ بھی جانتی تھیں مجھ سے نفرت کر سکتے ہیں آپ مگر دانین کو تکلیف نہیں دیں گے اور پھر میں اپنی پےگناہی کے ثبوت بھی ڈھونڈ لوں گا۔۔

سعدی کی بات پر دانین کے چہرے پر ایک مسکراہٹ دور گئ۔تمسخر اور طنز سے بھری مسکراہٹ۔۔

اساور نے آنکھیں میچ کر تکلیف کی شدت کو اپنے اندر اتارا تھا۔۔

یہ میرے امان کا بیٹا ہے۔۔رخشندہ بھیگم نے پیار سے اذان کی طرف دیکھا۔۔

جی۔۔جاؤ اذان دادی کے پاس۔۔عینا نے روتی آنکھوں کے ساتھ اثبات میں سر ہِلایا۔اور اذان کو اشارہ کیا تو وہ مسکراتا ہوا رخشندہ بھیگم کے پاس چلا گیا۔۔

میرا امان لوٹ آیا دیکھو سومو دیکھو سائرہ اساور دیکھو نا یہ بلکل میرا امان ہے۔۔رخشندہ بھیگم اذان کا منہ بار بار چوم رہی تھیں۔۔

ماما باہر آ جاؤں میں۔۔دروازے میں سر نکال کر سارہ نے آواز لگائ تو دانین نے مسکراتے ہوۓ سر ہلایا۔۔

دانین یہ تمہاری بیٹی ہے۔۔سعدی حیرانی سے سارہ کو دیکھنے لگا۔۔

ہاں جڑواں بیٹیاں ہیں میری۔۔زارا باہر آؤ۔۔دانین نے کمرے کی طرف دیکھ کر آواز لگائ۔۔تو سنجیدہ سی دانین سب کو سرد نظروں سے دیکھتی باہر آئ۔

زارا سارہ ماموں کے پاس آؤ یہ آپ کے ماموں ہیں۔۔۔

آؤ میرے پاس۔۔سعدی نے بازو پھیلاۓ تو زارا سعدی کے گلے لگ گئ جا کر جبکہ سارہ حیرانی سے دیکھتی اساور کی گود میں بیٹھ گئ۔۔

سارہ ماموں کے پاس آو بیٹا ۔۔سعدی نے سارہ کو پکارا تو وہ اساور کی طرف دیکھنے لگی۔اساور نے سر اثبات میں ہلایا تو وہ چھلانگ لگا کر سعدی کے پاس چلی گئ تھی۔۔

ماشاءاللہ بہت پیاری ہیں بلکل اپنے ماموں پر گئیں ہیں۔۔سعدی نے دونوں کے گال پر بھوسہ دیا۔۔سومو اور دانین سعدی کو دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں ۔آج برسوں بعد وہ کھل کر مسکرا رہی تھیں۔۔

رخشندہ بھیگم اور سائرہ اذان سے باتیں کر رہی تھیں۔۔عینا اپنے بیٹے کو دیکھ رہی تھی جو ان ماہ و سال میں آج لگتا تھا جی رہا ہے۔۔

اساور کی نظریں کبھی دانین پر جاتی اور کبھی زارا اور سارہ پر ٹھہر جاتی تھیں۔۔

اس نے خود ہی سب کچھ اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا دیا تھا۔۔

وہ محبت کا مجرم تھا اور محبت کا مجرم بخت کے تخت کا خقدار نہیں ہوتا۔وہ بھی نہیں تھا۔

وہ پچھتا رہا تھا بہت ذیادہ ۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

آج کے دھچکے سے سب تھوڑے سنبھل چکے تھے۔مگر دن کو ہونے والی زلزلے کی گونج ابھی تک کاظمی خویلی کے درودیوار سے سنائ دے رہی تھی۔۔

سب بنا کچھ کھاۓ اپنے اپنے کمروں میں چلے گۓ تھے۔عینا کو سومو نے امان کے کمرے میں پہنچا دیا تھا۔۔

وہ جو عشق پیشہ تھے

دل فروش تھے مر گۓ

وہ ہوا کے ساتھ چلے تھے

اور ہوا کے ساتھ بکھر گۓ

وہ عجیب لوگ تھے

برگ سبز برگ زرد کا

روپ دھارتے دیکھ کر

رُخ زرد اشکوں سے ڈھانپ کر

بھرے گلشنوں سے مثال سایٔہ ابر

پل میں گزر گۓ

وہ قلندرانہ وقار تن پہ لپیٹ کر

گھنے جنگلوں میں گھِری ہوئ

کھلی وادیوں کی بسیط دُھند میں

رفتہ رفتہ اتر گۓ

عینا اب وہ عینا نہ تھی سات سال کی قید نے اسے بھری جوانی میں بوڑھا کر دیا۔۔

آنکھوں کے نیچے گہرے سیاہ ہلکے پڑ چکے تھے۔۔۔

اب وہ فقط ہڈیوں کا ڈھانچہ معلوم ہوتی تھی مگر آج وہ اپنے امان کے گھر تھی اس کا بیٹا اپنے میں تھا یہ سوچ اسے سکون دے رہی تھی۔۔

سعدی اپنے گھر چلا گیا تھا۔آخر کو وہ بہت سالوں بعد اپنے گھر کی شکل دیکھ سکتا تھا جہاں اس کا اور دانین کا بچپن تھا۔اس کے ماں باپ کی یادیں تھی بہت کچھ تھا اس گھر میں اور وہ بہت کچھ سکون تھا۔۔

دانین زارا اور سارہ کو لیئے کمرے میں چلی آئ تھی۔۔انہیں کھانا کھلا کر سلانے کے لیئے لٹایا اور خود بھی لیٹ گئ تھی ۔آج وہ سکون میں تھی برسوں بعد وہ سرخرو ہوئ تھی۔۔

وہ آزاد ہوئ تھی۔۔

زارا اور سارہ کو سلاتے وہ بھی آنکھیں موند کر سونے کی کوشش کرنے لگی تھی۔آج تو نیند بنتی تھی برسوں جاگی تھی وہ۔۔

دروازے پر آہٹ ہوئ پھر ہلکی سی آواز کے ساتھ دروازہ کھلا تھا مگر دانین نے آنکھیں کھول کر نہیں دیکھا تھا ۔وہ جانتی تھی وہ کون ہو سکتا ہے۔؟؟

وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا بیڈ کے پاس جا کر کھڑا ہوا تھا۔۔نظریں دانین کے چہرے پر ٹِک گئیں تھیں۔۔

ان آنکھوں میں پچھتاوا ملال دکھ اذیت کچھ کھو دینے کا کرب افسوس خوف کیا کچھ نہیں تھا۔۔

دانین۔۔!! اس نے ہولے سے دانین کو پکارا تھا لہجے میں ڈھیروں خوف تھا۔۔

دانین جاگ رہی ہو۔۔دانین کی طرف سے کوئ جواب نہ پا کر اس نے پھر سے پکارا تھا۔۔

اب کہ دانین نے آنکھیں کھول کر اساور کو دیکھا۔سردمہری سے برف سی نظر تھی اس کی جو منجمند کر دینے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔

بات کرنی ہے تم سے۔۔وہ واقعی بہت ٹوٹ گیا تھا پچھتاوا اس کے لہجے میں بول رہا تھا۔۔

میں نے کہا تھا تم جب ہارو گے تو صرف انتقام کی جنگ نہیں ہارو گے ساتھ ہم تینوں کو بھی ہار دو گے۔۔

ت

زارا کے سر پر بھوسہ دیتے اس کی نظریں اب معصوم سی سارہ پر تھیں۔۔

میں جانتی ھوں تمہیں کیا بات کرنی ہے مگر میں اس موضوع پر کوئ بات نہیں کرنا چاہتی جو چھ سالوں میں بارہا میں تمہیں بتا چکی ہوں۔۔

تم نے چھ سالوں میں جو کچھ دیا ہے میرے پاس اس کا بدلہ لوٹانے کو بھی کچھ نہیں ہے انفیکٹ میرے پاس تمہیں دینے کو اب کچھ نہیں ہے کچھ بھی نہیں اور اس کچھ بھی نہیں میں محبت سرِفہرست آتی ہے۔۔

وہ یوں ہی چِت لیٹی چھت کو گھور رہی تھی۔۔

دانین معافی بنتی نہیں ہے یار پھر بھی میں معافی چاہتا ہوں یار میں کمظرف ھوں یار تم تو اعلیٰ ظرف ہو معاف کر سکتی ہو مجھے پلیز.  ۔۔اس کاانداذ التجائیہ تھا۔۔

معاف نہ کرنے والی معافی مانگیں تو بڑا عجیب لگتا ہے مجھے لیکن پھر بھی میں نے تمہیں معاف کیا اساور کاظمی۔۔نظریں ابھی تک چھت پر تھیں اس نے ایک نظر بھی اساور پر نہ ڈالی تھی۔۔

اساور نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔۔اسے اپنی سماعت پر شک گزرا تھا۔۔

سچ یار تم نے معاف کر دیا۔۔اساور نے تصدیق چاہی تھی۔۔

میں جن سے تعلق نہ رکھنا چاہوں ان پر بلاوجے کے ملبے ڈالتی ہوں نہ شکوے کرتی ہوں اس لیئے بات ختم میرا تم سے کوئ لینا دینا نہیں ہے تم اور میں دو اجنبی ہیں جو ریلوے ٹریک پر ٹرین چھوٹ جانے پر غلطی سے ملے تھے اور اب ٹرین آ چکی ہے ہم دونوں کو اپنے اپنے ڈبے میں سوار ہو جانا چاہیئے۔۔دانین کا لہجہ دو ٹوک تھا۔۔۔۔۔۔

مگر دانین۔۔!!. . . .  اساور نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔

لائٹ آف کر دو مجھے نیند آ رہی ھے اپنے کمرے میں مجھے ایک پھرپور نیند لینے دو گے ۔۔۔دانین نے قطیعت سے کہتے کروٹ بدلی تھی۔۔

اساور کے اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا جس میں سرِفہرست اساور خود تھا۔۔

اور اس ٹوٹنے کی چبن آنکھوں میں ابھری تو آنسو بےاختیار اس کے گالوں پر بہہ نکلے تھے۔۔

جنہیں اس نے ہاتھ کی پشت سے صاف کیا۔۔دانین جانتی تھی وہ رو رہا ہے مگر دانین کو پتھر کرنے والا بھی وہ خود تھا۔۔اس مقام تک لانے والا بھی وہ تھا جہاں اساور کا مر جانا بھی اس پتھر کو توڑ نہیں سکتا تھا۔۔

میں کیسے تم کو سمجھاؤں

محبت اب نہیں ہو گی 

میرے اندر میرے من میں

میرا حصّہ نہیں باقی

سبھی کچھ وحشتوں کا ہے

میرے دل میں محبت یہ سنو باقی جو رہتی تھی

محبت وہ کہیں دل کے کناروں پر دفن ہے اب

دفن چیزیں کبھی زندہ نہیں ہوتیں

میں کیسے تم کو سمجھاؤں 

محبت اب نہیں ہو گی

میرے اب جسمِ خاکی میں

اندھیرا ہی اندھیرا ہے

کہیں آہ و بکاری ہے

کہیں یادیں سسکتی ہیں

کہیں خاموش لمحے ہیں

کہیں ویران رستے ہیں

کہیں پر خون بہتا ہے

کہیں پر آنسو گرتے ہیں

بہت سے خواب ہیں آنکھوں میں جو آنے سے ڈرتے ہیں

میں کیسے تم کو سمجھاؤں 

محبت اب نہیں ہو گی

چلو اب چھوڑ دو نا ضد 

محبت کو جگانے کی

ذرا سا مسکرانے کی

سنو دل کو لبھانے کی

چلو اب چھوڑ دو نا ضد

دفن چیزیں کبھی زندہ نہیں ہوتیں

کبھی واپس نہیں آتیں

چلو اب چھوڑ دو نا ضد

میں کیسے تم کو سمجھاؤں

محبت اب نہیں ہو گی.

بےبسی سے دانین کی پشت کو گھورتا وہ ٹیرس پر چلا آیا۔۔

اندر اس کا سانس گھٹ رہا تھا اور آج اس نے ان پانچ سالوں میں دانین پر گزری ہر اذیت کو محسوس کیا تھا جو وہ اتنے سالوں میں وہ محسوس نہیں کرتا تھا۔۔

"جب مُحِب اپنے محبوب کی تکلیف نہ محسوس کر سکے تو ایسی محبت کے دُر فٹے منہ"۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

اماں۔۔!! سائرہ لیٹی ہوئ ماں کے پیروں کی طرف آ بیٹھی تھی۔۔

ہوں۔۔رخشندہ بھیگم نقاہت سے بولیں۔۔

اماں خالہ کو کال کرو طیب کو بولے مجھے آ کر لے جاۓ۔۔سائرہ رخشندہ بھیگم کی ٹانگیں دبانے لگی۔۔

یہ اچانک تمہیں کیا دورہ پڑ گیا۔۔رخشندہ بھیگم نے حیرانی سے بیٹی کو دیکھا جس کی کایا پلٹ رہی تھی۔۔

اماں مجھے اپنے گھر چلے جانا چاہیئے مجھے احساس ہو رہا ہے میں نے اپنے اتنے سال یونہی برباد کر دیئے میں اپنے گھر میں طیب کے ساتھ خوش بھی تو رہ سکتی تھی۔۔سائرہ کو بھی آج عقل آئ تھی۔۔

میں کروں گی کل طیب سے بات تو تیاری کر لینا۔۔رخشندہ بھیگم کروٹ لے کر لیٹ گئیں۔۔

اماں طیب لے جاۓ گا مجھے معاف کر دے گا نا۔۔سائرہ نے آس اور امید سے ماں کی طرف دیکھا۔۔

امید رکھیں اپیا امید پر دنیا قائم ھے ۔۔طیب بھائ اور آپ کی ارینج میرج تھی جب اساور کاظمی جیسا محبت کا دعویدار مخبت کرنا چھوڑ سکتا ہے تو طیب بھائ سے بلکل چھوڑنے کی امید رکھیں۔اماں یہ آپ کی دوائ۔۔سومو ڈبہ سائیڈ ٹیبل پر رکھتی جانے کے لیئے پلٹی۔۔۔

اچھا اچھا بولو سومو بہن کے لیئے اچھا ھی ہو گا اس کے ساتھ۔۔رخشندہ بھیگم نے سائرہ کی پھیکی پڑتی رنگت دیکھی اور پھر سومو کو ڈانٹا۔۔

برا کرنے والوں کے ساتھ اچھا نہیں ھوتا اماں۔ماضی میں برائ بو کر مستقبل میں اچھائ کی توقع رکھنے والے نیم پاگل ہوتے ہیں۔۔۔

سومو کہتی ہوئ پلٹ کر جا چکی تھی۔۔۔۔۔۔

پیچھے کمرے میں ایک گہری خاموشی چھوڑ گئ تھی۔۔

سائرہ نے ماں کی طرف دیکھا اور پھر نظریں جھکا لیں تھیں۔۔

رخشندہ بھیگم کو بھی ہول اٹھنے لگے تھے ۔بچھلی بار جو سائرہ نے طیب کو بےعزت کر کے بیجھا تھا اس کے بعد وہ پھر لوٹا تھا نہ یہاں سے کسی نے پتہ کیا تھا۔۔

کہیں وہ سائرہ کے ساتھ رہنے سے انکار ہی نہ کر دے۔کہیں یہ کہیں وہ ایسی بہت سی سوچیں رخشندہ بھیگم کے دماغ میں گھومنے لگیں تھیں۔۔

سائرہ سر جھکاۓ ماں کی پاؤں دباتے اپنے آنسوؤں کو دبانے کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔

اپنے انجام کے ڈر گئ تھی وہ آخر کو بہتان تراشی کی تھی اس نے۔۔ایک پاکیزہ عورت پر بدکرداری کا۔۔

________________

""خدا کی ذات تکتی ہے عجب الزام تراشی بھی

تماشہ بنا کر دنیا نے خدا پہ ڈال رکھا ہے.

تہمت الزام تراشی اور بہتان ہمارے معاشرے کے لئے ناسور ہے۔یہ روئیے ہماری خوشیوں کو تباہ وبرباد کر دیتے ہیں۔ہر گھر اور فرد ان سے متاثر ہوتا ہے۔دوسروں کے بارے میں منفی سوچ اور غلط رویہ ہمیں ایک دوسرے سے دور لے جاتا ہے۔بعض اوقات کسی پر ایسا الزام لگا دیا جاتا ہے کہ سننے والا ششدر رہ جاتا ہے۔۔

""حضرت علیؓ نے فرمایا 

"کسی بے قصور پر بہتان لگانا یہ آسمانوں سے بھی زیادہ بھاری گناہ ہے""""

کسی پر بے جا تہمت اور بہتان لگانا شرعاً انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے  وہ فرماتے ہیں: بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ بوجھل ہے، یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔

اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاحزاب میں بے گناہ مؤمنین اور بے گناہ مؤمنات کو زبانی ایذا دینے والوں یعنی ان پر بہتان باندھنے والوں کے عمل کو صریح گناہ قرار دیا ہے۔

ایک حدیث میں ارشادِ نبوی ہے: مسلمان کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے: جو شخص کسی دوسرے کو فسق کا طعنہ دے یا کافر کہے اور وہ کافر نہ ہو تو اس کا فسق اور کفر کہنے والے پر لوٹتا ہے۔

الغرض مسلمان پر بہتان باندھنے یا اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں، اِس لیے اِس عمل سے باز آنا چاہیے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہیے؛ تاکہ آخرت میں گرفت نہ ہو۔

''عن علي قال: البهتان على البراء أثقل من السموات. الحكيم''. (كنز العمال (3/ 802)، رقم الحدیث: 8810)

'' لا ینبغي لصدیق أن یکون لعانًا''۔ (مشکاة المصابیح۲؍۴۱۱

نیز شریعت میں دعوی اور حق کو ثابت کرنے لیے یہ ضابطہ ہے کہ  مدعی ( دعوی کرنے والے ) کے ذمہ اپنے دعوی کو گواہی کے ذریعہ ثابت کرنا بھی ضروری ہے، اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں تو  مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا جائے اس)  پر قسم آئے گی ، اور اگر وہ قسم کھالے تو اس کی بات معتبر ہوگی، لہذ ا کسی شخص کو محض الزام لگاکر اس کے جرم کے ثابت ہوئے بغیر  سزا دینا شرعاً جائز نہیں ہے۔اگر سزا نافذ نہ کی گئی ہو تو سچی توبہ اور صاحبِ حق سے زبانی معافی کافی ہوگی۔ اگر سزا نافذ بھی کردی گئی اور اس سے مالی نقصان اٹھانا پڑا ہو تو صدقِ دل سے توبہ اور زبانی معافی کے ساتھ مالی تاوان بھی ادا کرنا ہوگا۔

خالہ جان آپ۔۔کب آئیں ترکی سے۔۔

سب اس وقت ڈائینگ ایریا میں بیٹھے کھانا کھا رہے۔دانین کی اماں کو دیکھ کر چونک پڑے۔۔اساور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ ان سے ملنے کے لیئے آگے بڑھا۔۔

کچن سے نکلتی دانین بھی ساکت ہو گئ تھی اپنی ماں کو دیکھ کر۔۔

چٹاخ۔۔۔۔تھپڑ کی گونج سب کے کانوں میں پڑی تو اپنی اپنی جگہ سے سب اٹھ کھڑے ہوۓ۔۔

خالہ جان۔!! اساور گال پر ہاتھ رکھے جہاں تھپڑ اپنا نشان چھوڑ گیا تھا بےیقینی سے اپنی خالہ کی طرف دیکھا۔۔

اساور تم نے بہت مایوس کیا مجھے بہت ذیادہ۔میری بیٹی کو کیا سے کیا بنا دیا خالانکہ تم محبت کے دعویدار تھے۔۔دانین کی اماں کے چہرے پر تکلیف واضح تھی۔۔۔۔

دانین نشان زدہ چہرے کے ساتھ سر جھکا گئ تھی جلے ہوۓ ہاتھ کو جلدی سے پیچھے کر کے چھپایا مگر اماں دیکھ چکیں تھیں۔۔

کتنی خودغرض ہیں آپ خالہ اپنی بیٹی کی تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر وہ جو ہمارے کلیجے چھلنی چھلنی ہیں وہ نہیں دکھتے آپ کو۔وہ آپ کا لاڈلا ہمارا سکون چھین کر جو لے گیا ہے اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔۔اساور بھی سارے لخاظ بالاۓ طاق رکھ چکا تھا۔۔

میں سعدی کی بات کرنے آئ ہوں نہ امان کی یہاں دانین موضوعِ بخث ہے ۔۔سعدی یا امان کی لڑائ سے اس کا کیا لینا دینا۔یہ تو تمہاری منگیتر تھی نہ اسے ہر حال میں تمہارے پاس آنا تھا پھر تم اسے کیوں سزا دے رہے ہو۔۔اماں تکلیف اور افسوس سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہی تھیں۔جو مرجھایا ہوا پھول ہو گئ تھی۔۔

تو کیوں بھاگا آپ کا لاڈلا اب یہی آپشن ہے میرے پاس پل پل تڑپاؤں دانین کو اور پھر تو وہ بھاگا چلا آۓ گا۔۔

وہ تو آ جاۓ گا اپنی بہن کی تکلیف دیکھ کر محبت آنے پر مجبور کر دیتی ہے مگر تم نہیں کر سکتے اس کی تکلیف محسوس بہت افسوس کے ساتھ مگر"لعنت ہے تمہاری محبت پر" ۔"_اماں کا بس نہ چلتا تھا اساور کو کہیں پھینک دیں۔۔

محبت تو امان کے ساتھ ہی مر گئ خالہ ۔۔ ۔

اساور کا لہجہ دھیما ہو گیا تھا۔۔

رخشندہ بھابھی کھا جانے والی نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔۔

سائرہ کا اپنا خون کھول رہا تھا۔۔

سومو سر جھکاۓ کرسی پر بیٹھی ٹیبل کو تَک رہی تھی۔۔

مجھے تو اندھیرے میں رکھا میری بیٹی نے میں پوچھتی تو کہتی" کہتی کہ اماں اساور سے سے ذیادہ کون چاہے گا مجھے میں بہت خوش ہوں۔اور میرے بھی ماں ہونے پر تُھو ہے میں اس کی تکلیف اس کے بِنا بتاۓ سمجھ کیوں نہ پائ۔مجھے خود سمجھنا چاہیئے تھا اساور کاظمی محبت کے دعویدار کی محبت مر سکتی ہے"_

مجھے قفیراں نہ بتاتی تو میں جان بھی نہ پاتی اور میری بیٹی کو تم لوگ مار کر اسی خویلی میں کہیں دفنا دیتے۔۔مگر اب اور نہیں اساور اور نہیں۔۔

میں نے دانین اور اساور کی پرورش کی ہے میں نے تربیت کی ہے ان کی سعدی کو بھلے میں نے جنم نہیں دیا مگر وہ خون تو میرا ہی ہے نا۔۔

میں نے نے ہر رشتے کا تقدس اور اخترام ان کو گھول کر پلایا تھا پھر تم نے کیسے کہہ دیا میرا بیٹا اور بیٹی۔. . .  کہتے کہتے وہ رک گئ سر جھٹکا کہ اس سے آگے کی بات وہ نہیں کر سکتیں تھیں۔۔

تو فقیراں نے پل پل کی خبر دی ہوئ ہے جاسوس تھی وہ یہاں آپ کی۔۔رخشندہ بھیگم غصے سے چلائ تھیں۔۔

ہاں اور اب میں دانین کو لینے آئ ہوں چلو دانین ۔۔اماں دانین کی طرف دیکھ کر بولیں تھیں۔۔۔

کبھی نہیں خالہ کبھی بھی نہیں جب تک سعدی خود کو میرے خوالے نہیں کر دیتا دانین یہاں سے ایک قدم بھی باہر نہ نکالے گی۔۔اساور ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔

دیکھتی ہوں میں بھی میری بیٹی کو میرے ساتھ جانے سے کیسے روکتے ہو۔۔خالہ جان نے سختی سے کہا۔۔

خالہ مجھے مجبور مت کریں میں سارے لخاظ بھول جاؤں۔۔اساور بدتمیزی سے بولا تھا۔۔

ان کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا یہ وہ اساور تو نہ تھا جسے انہوں نے اپنی بہن کے مرنے کے بعد بچوں کی طرح پالا تھا یہ وہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔

یہ اگر اساور نہیں تھا تو کون تھا پھر۔۔؟؟ وہ اسے دیکھے گئیں۔۔

دل میں درد کی ایک شدید لہر اٹھی۔نظر اٹھا کر دانین کو دیکھا تو وہ لہر دریا بن گئیں تھیں اور وہ آنکھوں میں بےیقینی لیئے زمین پر ڈھے گئیں۔۔

اساور نے حیرانی سے گرتی ہوئ خالہ کو دیکھا۔۔دانین بھی تیزی سے ان کی طرف بڑھی۔۔

اماں۔۔!! اماں۔۔!! وہ زمین پر پڑی ماں کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ کر چلائ تھی۔۔سومو بھی تیزی سے پاس پہنچی اور ان کی نبض ٹٹولنے لگی پھر ایک دم اس کا چہرہ فق ہوا تھا دانین نے سومو کو دیکھا اور پھر سامنے بےجان پڑی اپنی ماں کو ۔۔۔۔۔۔

خالہ خالہ!! ۔۔اساور بھی ان کے طرف بڑھا تھا۔۔

بس دور رہو میں نے کہا دور رہو میری ماں سے۔۔ دانین خلق کے بل چلائ تھی اتنا تیز کے کاظمی حویلی کی درودیوار کانپ کر رہ گئیں۔۔

اساور کے بڑھتے ہاتھ رکے تھے۔۔

خوش ہو جاؤ اساور کاظمی خوش ہو جاؤ تم سب میری ماں مر گئ۔۔باری باری سب کو دیکھتی وہ آنسوؤں سے بھرے چہرے کے ساتھ بولی تھی۔۔

رخشندہ اور سائرہ نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔اساور لڑکھڑاتا ہوا ڈھے گیا تھا۔۔اسے لگا اس کا پورا وجود شل ہو گیا ہے۔۔

وہ حیرانی سے سامنے مردہ پڑی اپنی ماں جیسی خالہ کو دیکھ رہا تھا۔۔

نہیں اماں مجھے چھوڑ چھوڑ کر مت جائیں مت جائیں اماں۔۔دانین کی آواز پر وہ جو ٹیرس پر کھڑا تھا تیزی سے اس کی طرف بھاگا وہ نیند میں بڑبڑا رہی تھی ۔جسم پسینے سے شرابور تھا۔وہ کانپ رہی تھی۔۔۔

دانین دانین۔!! اساور نے اس کو کندھے سے ہلایا تو وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔وہ بہت ڈری ہوئ تھی سہمی ہوئ تھی۔۔

کیا ہوا دانین ٹھیک ہو تم۔۔اساور نے فکرمندی سے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔۔

وہ اماں جا رہی ہیں انہیں کہو مت جائیں پلیز نہیں نہیں۔. .  وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپاۓ پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔۔

اساور کو پچھتاوے نے پھر سے آن گھیرا وہ جانتا تھا ماضی کا کون سا واقعہ اسے بار بار خواب بن کر ستاتا ہے۔۔

اس نے دھیرے سے دانین کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ساتھ لگایا۔۔

ڈری سہمی سی دانین بنا کچھ کہے اس کے سینے میں منہ چھپا کر رو دی تھی۔۔

وہ اس کے بال سہلا رہا تھا اسے تسلی دے رہا تھا مگر دانین کے رونے میں شدت آ چکی تھی اساور کی شرٹ کو دانین کے آنسوؤں نے بھگو دیا تھا۔۔

کچھ پل ایسے ہی گزرے تھے۔۔پھر ایک جھٹکے سے دانین نے سر اٹھایا اور اس سے دور ہوئ تھی۔۔

آنکھوں میں نفرت اور سردمہری لوٹ آئ تھی۔۔

جاؤ یہاں سے جاؤ۔۔دانین چلائ تھی غصے کی شدت سے۔۔

دانین ۔۔!!!

شٹ اپ اینڈ گیٹ آؤٹ۔۔تم ذمہ دار ہو اس سب کے ۔میری ماں تمہاری وجہ سے مری تھی  ۔۔میں تم سے نفرت کرتی ہوں شدید نفرت ۔۔

اساور آنکھیں میچتے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا تھا۔۔

پیچھے وہ لمبے لمبے سانس لیتی سر ہاتھوں میں دیئے روۓ چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔

ننھی زارا ان کی آوازیں سن کر اٹھ گئ تھی اب وہ بستر میں دبکی اپنی روتی ہوئ ماں کو دیکھ رہی تھی۔۔

کیا اس کی ماں پاگل ہے ۔۔؟؟کیسے پاگل ھو گئ۔۔؟؟

____________________________________________________________________________________________________________________________________

اماں آپ نے بات کی تھی طیب سے۔۔سائرہ رخشندہ بھیگم سے پوچھ رہی تھی جو اذان کے ساتھ باتوں میں مصروف تھیں۔۔

ہاں کی تھی کہہ رہا تھا بزی ہے فارغ ہو کر آۓ گا۔۔رخشندہ بھیگم نے اذان کے سر پر بھوسہ دیا اور بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔۔

اندر داخل ہوتی سومو نے بہت غور سے اپنی بہن کو دیکھا جیسے کچھ کھوجنا چاہتی ہو۔۔

وہ کہاں بزی ہو سکتا ہے اماں ٹال رہا ہے۔۔سائرہ دھپ سے صوفے پر بیٹھ گئ۔۔

وہ کیس جیت گۓ ہیں ان کی فیکٹری انہیں واپس مل گئ ہے کمپنی بھی اپنی حاصل کر چکے ہیں وہ تو بہت کام ہوتا ہے انہیں بزی ہوں گے۔۔کیا آپ نہیں جانتی۔۔؟؟سومو نے نظریں سائرہ پر ٹِکائ ہوئ تھیں جو سر جھکاۓ فرش کو دیکھ رہی تھی۔

سومو سر جھٹک کر اذان کے پاس بیٹھ گئ۔اذان اسے دیکھ کر کھلے دل سے مسکرایا تو سومو نے اس کے گال پر بھوسہ دیا۔۔

برسوں بعد اسے امان کا لمس محسوس ہوا تھا۔۔

کون کہتا ہے امان مر گیا ہے امان تو زندہ ھے۔۔اذان کو دیکھتے سومو نے دل میں سوچا تھا۔۔

پتہ ہے مجھے وہ اپنا کاروبار واپس لے چکا ہے مگر کیا وہ مجھے واپس لے جاۓ گا۔۔سائرہ کی سوئ وہیں اٹکی ہوئ تھی۔۔

میں نہیں جانتی آپی طیب بھائ کیا سوچ رہے ہیں یا کیا فیصلہ کریں گے مگر میں یہ ضرور جانتی ہوں "برے وقتوں میں ساتھ چھوڑ دینے والوں کو اچھے وقتوں میں پلٹ کر بھی نہیں دیکھا جاتا"_

جیون ساتھی وہ ہوتا ہے جو جیون بھر ساتھ رہے۔ہوا کے زور پر چھت اڑنے کو ہو تو اپنے ساتھی کا ہاتھ تھام کر خوصلہ دلاۓ، طوفان آئیں تو ہمت کا مظاہرہ کرے،ہر طرح کے حالات میں کہے"کچھ بھی ہو جاۓ میں تمہارے ساتھ ہوں"،،_

مرد اپنی عورت کی سہولت کے لیئے ہر سختی برداشت کرتا ہے بدلے میں کیا چاہتا ھے وہ بس اتنا جب تھکا ہارا گھر واپس آۓ تو اس کی عورت مسکراتے ہوۓ اس کا استقبال کرے،وہ اسے اپنی پریشانیاں بتاۓ تو وہ اس کا ہاتھ تھام لے مظبوطی سے اور جب وہ کرائسز سے گزرے تو اسے دھتکارے نہ بلکہ شانہ بشانہ اس کے ساتھ کھڑی ہو کیونکہ "ہر رات کے بعد صبح ہوتی ہے"_اور ایک جیون ساتھی میں یہ خوبیاں ہونی چاہیئے آپ کا شوہر ڈیزرو کرتا ہے یہ سب۔۔

آپ خود سے پوچھیں آپ نے کیا کیا ہے۔۔؟؟ سومو سائرہ کو سوچتے ہی چھوڑ کر کمرے سے نکل آئ تھی۔۔

سائرہ نے نظریں اٹھا کر ماں کو دیکھا تو وہ نظریں چرا گئیں۔۔

اماں آپ نے کیوں نہ بتایا مجھے کیا صیح ہے کیا غلط۔۔؟؟اس کی آنکھوں میں بہت سے سوال تھے۔۔

سومو کو بھی تو اماں نے کچھ نہیں بتایا وہ خود سب سمجھنے لگی غلط اور صیح کا فرق قصور تو میرا ہے۔۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

بچے ماں باپ کی عادتیں لے کر پیدا نہیں ہوتے وہ ماں باپ کی عادتیں اپناتے ہیں ہیں چاہے پھر اچھی ہوں یا بری۔

"سائرہ انہی لوگوں میں سے تھی اس نے ماں کی عادتیں اپنا لیں تھیں۔

اس نے خود کو اتنا بلند کر لیا کہ دوسرے لوگ اسے چھوٹی مخلوق لگنے لگے تھے۔اس نے ماں کی زبان کا زہر چرایا اور اس سے تلخی کا مکسچر بنا کر نگل لیا ۔اور وہ تلخی کا مکسچر وہ اب لوگوں کی زندگی میں گھولتی تھی۔

بعض اوقات ماں باپ ذیادتی کر جاتے ہیں بچوں کے ساتھ۔انہیں لاڈ پیار کر کے سب سے برتر کر کے ۔انہیں صیح کو غلط اور غلط کو صیح دکھا کے۔۔

جس کی جیب میں پیسہ ہے اس کے لیئے سب جائز ہے"" یہ بات بگاڑ پیدا کرتی ہے۔۔۔۔

ایک عورت پر پوری سوسائیٹی ڈیپینڈ کرتی ہے ۔۔ ایک عورت طے کرتی ہے اس کا معاشرہ کیسا ہو گا اور پھر اس کی تربیت معاشرے کو اس کی سوچ کے رنگ میں ڈھالتی ہے۔۔

اگر عورت منہ میں زہر لے کر پھرے گی تو کیسے معاشرہ زہر سے پاک ہو گا۔۔

معاشرہ عورت کے شعور اور اس کی تربیت کا عکس ہوتا ہے۔۔

بعض اوقات کچھ لوگ اپنے اندر شعور کی ایک ننھی سی کونپل لے کر پیدا ہوتے ہیں پھر ان کا دماع ڈیسائیڈ کرتا ہے کونپل کو درخت بنانا ہے یا سوکھا دینا ہے۔۔

زائرہ کاظمی عرف سومو اور امان اللہ کاظمی بھی انہی لوگوں میں سے تھے۔۔وہ شعور رکھتے تھے اس سے بھی بہتر شے وہ اپنے اندر محبت رکھتے تھے۔۔

یہ کاظمی حویلی کے تین پھول تھے جنہیں کھلنا تھا مگر.  ۔۔۔۔۔. . . . . .  ""__

____________________________________________________________________________________________________________________________________

کمرے میں سکوت چھایا ہوا تھا گہرا سکوت ایسے میں اساور کی سانسوں کے چلنے کی آواز آ رہی تھی۔۔

دم گھٹنے کی وجہ سے وہ زور زور سے سانس لینے لگتا تھا۔اور اس کا یہ دم پچھلے کچھ دنوں سے گھٹ رہا ھے۔۔

پچیوں اور دانین کا دور ہونے کا احساس بہت جان لیوہ تھا۔۔

اساور نے اٹھ کر کھڑکی کے پٹ وا کیئے کہ وہ دم گھٹنے کی وجہ سے مر سکتا تھا۔۔

مجھے معاف کر دو اساور میں نے بہت ذیادتی کر دی تیرے ساتھ۔۔رخشندہ بھیگم صوفے پر سر جھکاۓ بیٹھی تھی اساور سے نظریں ملانے کی ان میں ہمت نہیں تھی۔۔

انسان اپنے ہر اچھے اور برے فعل کا خود ذمہ دار ہوتا ہے کوئ بھی آپ پر ذیادتی نہیں کر سکتا اور میں انہی بندوں میں سے ہوں۔۔اساور پلٹا نہیں تھا وہ ہنوز باہر ہی دیکھ رہا تھا۔

جہاں زارا اور سارہ سومو اور سعدی کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔

زارا بیچ میں کسی بات پر کھلکھلا اٹھتی تھی اور یہ پہلی بار تھا اس نے زارا کو یوں ہنستے ہوۓ دیکھا تھا۔۔

سیاہ بالوں کی چوٹی بناۓ  بازو کے نیچے بال پکڑے وہ اسے بہت جانی پہچانی سی لگی تھی۔۔

بات کرتے ہوۓ وہ دو انگلیوں سے آنکھ کا کونا چھو کر ٹیڑھی نظر سے دیکھتی تھی۔۔اساور کو جھٹکا لگا تھا وہ زارا نہیں تھی وہ تو اس کا بچپن تھی ڈِٹو اس کی کاپی اسے وہ کبھی کبھی کسی سے مشابہت رکھتی لگتی تھی مگر وہ غور نہیں کر پایا تھا۔۔

سارہ نے اس کے بغل میں رکھی بال کو زور کا مکّا مارا تو وہ تھوڑی دور کیاری میں جاگِری۔

زارا غصے سے سارہ کی دیکھتی کیاری کی طرف بال لانے گئ تھی۔۔

اساور کو ایک اور جھٹکا لگا تھا وہ غصے میں ایک آئ برو کو اونچا کر بلکل اسی کی طرح دیکھتی تھی چال بھی ایک دم اساور کے جیسے تھی۔۔

اساور کی سانس دھونکنی کی مانند چلنے لگی تھی۔اس نے کھڑکی زور سے بند کی اور پانی کا گلاس منہ سے لگاتے وہ صوفے پر ڈھے گیا۔۔

رخشندہ بھیگم نے خیرانی سے اسے دیکھا۔۔جس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئ تھیں۔۔

کسی نے اس سے کہا تھا۔۔

"اولاد کے وجود میں پنہاں سبز موسموں کو والدین کی اعمال کی دھوپ جھلسا دیتی ہے اور پھر وہ جھلسے بچے قیامتیں لاتے ہیں۔۔

وہ اس سوچ کو جھٹکنے لگا تھا۔۔

وہ میرے جیسی ہے کیا وہ سچ میں میرے جیسی ہو گی۔۔اساور کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا۔۔وہ اٹھا اور تقریباً بھاگتے ہوۓ ہی باہر نکلا تھا۔۔

رخشندہ بھیگم اس کی بدخواسی کی وجہ نہ جان پا رہی تھیں۔۔

میں نے ناکردہ گناہوں کی سزا دانین کو دی اب کیا میرے گناہ ۔۔۔. . .  نہیں نہیں۔۔وہ سوچوں کو جھٹکتا باہر لان میں آیا۔۔

سارہ اس کو دیکھتے ہی دوڑ کر پاس چلی آئ۔سومو اور سعدی بھی ان کی طرف متوجہ ہوۓ۔۔

زارا بیٹا اِدھر آؤ۔۔اساور نے جھک کر سارہ کو گود میں بٹھایا اور اب وہ زارا کو پکار رہا تھا مسکراتے ہوۓ۔۔

سعدی اور سومو بھی مسکرا کر ان تینوں کو دیکھ رہے تھے مگر زارا کے سرد ہوتے تاثرات صرف اساور دیکھ پایا تھا۔

بال کو سائیڈ پر پھینکتے آئ برو ریز کر کے ترچھی نظر سے دیکھتے زارا اندر کی طرف بھاگ گئ تھی۔۔

سعدی اور سومو کی مسکراہٹ سمٹی۔اساور نے ایک کرب اپنے رگ و جاں میں اترتا محسوس کیا تھا۔۔

کیا وہ واقعی میرے جیسی ہے۔۔بند آنکھوں کے ساتھ اس نے سوچا تھا۔۔تبھی گال پر کسی کا لمس محسوس کر کے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔

آئ لو یو بابا۔۔!!.  سارہ اس کے گال پر بھوسہ دیتے ہوۓ بولی۔۔

آئ لو یو ٹو بابا کی جان۔۔!؛ اساور نے تمام سوچوں کو جھٹکتے سارہ کو مسکرا کر دیکھا۔۔

اور اندر اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی دانین نے یہ سارا منظر دیکھا تھا۔۔

اب اس کا دھواں دھواں ہوتا چہرہ دیکھا جا سکتا تھا۔۔

کیا سارہ اپنے باپ کو چھوڑ کر میرے ساتھ نہیں جاۓ گی۔۔؟؟ وہ کھڑکی سے ہٹ گئ اور گہرے گہرے گہرے سانس لینے لگی۔۔

اگر ایسا ہوا تو میں کیا کروں گی۔۔؟؟ تکلیف کی شدت سے اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں۔

اسے فیصلہ کرنا تھا اور فیصلے کی گھڑی بہت کھٹن ہوتی ہے ۔۔۔

ہاں فیصلہ کرنا موت کی شاہراہ پر چلنا ہے۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

وہ سر ہاتھوں میں دیئے صوفے پر بےدم سی بیٹھی تھی۔دروازہ کھلنے کی آواز پر سر اٹھا کر دیکھا اور وہ پھر سے اسی پوزیشن میں بیٹھ گئ۔۔

قدموں کے چاپ اسے اپنے قریب محسوس ہوئ ۔۔

وہ اس کے پاس آ کر رک گیا تھا۔۔پھر وہ دانین کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اس کے پاس کارپٹ پر بیٹھ گیا۔۔

دانین ہِلی نہیں تھی وہ اسی پوزیشن میں سر ہاتھوں میں دیئے بیٹھی رہی۔۔

دانین۔۔!! سومو نے مجھے کہا تھا میں محبت ڈیڑرو نہیں کرتا واقعی یار میں محبت ڈیزرو نہیں کرتا،، اس نے کہا تھا مجھے ڈرنا چاہیٔے اور یار میں آج ڈر گیا ہوں بہت ذیادہ۔۔وہ رو رہا تھا۔"اساور کاظمی رو رہا تھا"

میں نے تم سے محبت کی اور تمہیں ہی اذیت بھی دی اب میں اس اذیت سے نہیں نکل پا رہا۔۔تمہارے دور جانے کا خوف دیمک بن کر چاٹ رہا ہے مجھے ۔۔ تم مجھ سے لڑو جھگڑو مگر چھوڑ کر مت جاؤ یار۔۔ آنسو اس کا چہرہ بھگو رہے تھے۔۔

تم نے بہت تکلیف دی مجھے بہت اذیت دی  زندگی دو ماہ پہلے تمہیں سچ کا سامنا کروا دیتی اور تم آ کر مجھ سے معافی مانگ لیتے تو تھوڑا روتی تم سے جھگڑتی اور پھر تمہارے سینے میں خود کو چھپا لیتی اور پھر ساری زندگی ہم ساتھ رہتے کیونکہ تم نے مجھے اذیت دی مگر میری جگہ کسی کو نہیں دی۔۔

اور پھر تم نے میری جگہ کسی کو دے دی تو اس دن تم پورے دل سے اتر گۓ۔۔

یہ دو ماہ نہ آتے بیچ میں تو سب صیح تھا مگر اب کچھ صیح نہیں ہے ۔۔

بےوفائ کرنے کے لیئے میں تمہیں معاف نہیں کر سکتی انفیکٹ بےوفائ کی معافی ہوتی ہی نہیں ہے۔۔دانین بھی رو رہی تھی ہچکیوں کے ساتھ۔آنکھوں سے آنسو گر کر گود میں رکھے اساور کے ہاتھوں کو بگھو رہے تھے۔۔

میں پچھتا رہا ہوں یار. .  ۔۔ یہ کافی نہیں ہے۔۔

اگر سعدی کی سچائ تمہیں تاعمر پتہ نہ چلتی تو تم تاعمر نہ پچھتاتے تم اپنی زندگی خوشی سے جیتے۔۔جہاں تک معافی کی بات ہے تو میں نے کہیں سنا تھا"بےوفاؤں کو معاف نہیں کیا جاتا بس پچھتاوے کی زندگی دے کر چھوڑ دیا جاتا ہے"__دانین نے دونوں ہاتھوں سے آنکھیں رگڑ کر آنسوؤں کو روکنا چاہا۔۔

غلطی ہو گئ دانین غلطیوں کی معافیاں ہی تو ہوتی ہیں۔۔

معافی غلطیوں کی ہوتی ہے اساور کاظمی بےوفائ کی نہیں۔_"دانین کا لہجہ سرد تھا جیسے پورا سیاچن اس کے لہجے میں سمٹ آیا ہو۔۔

بےوفائ بھی تو غلطی ہوتی ہے۔۔اساور نے کمزور سی دلیل دینی چاہی۔۔

نہ نہ نہیں نہیں۔۔بےوفائ غلطی نہیں ہوتی بےوفائ گناہ ہوتی ہے۔۔دانین نے اس کے ہاتھ اپنے گھٹنوں سے جھٹک کر اس سے فاصلہ رکھنا چاہا۔۔

گناہ ہو گیا یار مانتا ہوں  تم بھی مان لو ۔گناہوں کے کفارے ہوتے ہیں دانین میں کفارہ ادا کروں گا۔۔اساور نے دانین کے دونوں ہاتھ تھامے۔۔

تو کر دو ادا کفارہ مجھے طلاق دے دو نہ بھی دو تو کوئ مسئلہ نہیں پر میں مزید تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتی۔"،بےوفاؤں کی صحبت خطرناک ہو سکتی ہے"_

دانین۔۔. .  !!!

بس کر دو اساور ہم دونوں کے لیئے یہی بہتر ہے کہ راضی و خوشی ایک دوسرے سے الگ ہو جائیں ورنہ اس الگ ہونے کی گونج ایک زمانہ یاد رکھے گا۔۔دانین فیصلہ کر چکی تھی چاہے فیصلہ موت کی شاہراہ ہو۔۔

اساور نے بےبسی سے سر دانین کی گود میں رکھ دیا۔۔اس کے آنسو دانین کی گود گیلی کرنے لگے تھے۔۔

فیصلہ ہو گیا تھا ان دونوں کو الگ ہو جانا تھا ایک دوسرے سے راضی و خوشی۔۔

دانین کے آنسو بھی روانی پکڑ رہے تھے۔۔

 دونوں پھوٹ کر رو رہے تھے مگر وہ ایک دوسرے کی انسو نہیں صاف کر سکتے تھے۔۔

دانین نے اپنا سر اپنی گود میں رکھے اساور کے سر پر رکھ دیا۔۔

دونوں کی آنسو مزید شدت سے بہہ رہے تھے۔۔

بےوفائ میں معافی نہیں ہوتی جدائ لازم ہوتی ہے۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

""""""""""""قیوم رانا پڑھائ کے سلسلے میں ترکی گۓ تھے پھر پڑھائ کے بعد اپنی کلاس فیلو سے شادی کر کے وہیں اپنی چھوٹی سی دنیا بسا لی تھی۔۔

ان کی دو بیٹیاں تھیں۔ راشدہ جمشید(دانین اور ثانیہ کی ماں) اور ساجدہ کاظمی (اساور اور ناظم کی ماں)تھیں۔۔

اور ایک بیٹا رئیس رانا(سعدی رانا کے والد) تھا۔۔

رئیس رانا(سعدی کے والد) کی شادی اس کی خالہ زاد سے ہو گئ تھی جو اپنے ماں باپ کے انتقال کے بعد ان کے پاس ہی رہتی تھی۔۔

شادی کے دو سال بعد ان کے ہاں سعدی کی پیدائش ہوئ تھی۔۔

پھر کچھ ایسا خادثہ ہوا کہ سعدی کے ماں باپ انتقال کر گۓ۔۔وہ خادثہ نہیں قتل تھا یہ بات تب پتہ چلی جب سعدی کے گھر پر کسی نے قبضہ کر لیا۔

راشدہ بھیگم کو بھائ کی موت نے صدمہ دیا تھا مگر وہ بھتیجے کو نہیں کھونا چاہتی تھیں اس لیئے سب چھوڑ چھاڑ کر پاکستان اپنے گھر آ گئیں۔۔

راشدہ (دانین کی ماں) کی شادی ان کی اپنی مرضی سے ان کے کلاس فیلو جمشید علی سے ہو گئ تھی۔جو کہ ترکی پڑھنے گۓ تھے اور پھر پڑھائ مکمل کر کے راشدہ بھیگم کو لیئے پاکستان آ گۓ اور گورمنٹ جاب کر لی۔۔

راشدہ بھیگم اور جمشید علی کی دو بیٹیاں تھیں۔_"_ثانیہ جمشید جس کی شادی جمشید علی کے جاننے والوں میں ہو گئ تھی جو کہ ترکی میں ہی رہائش پزیر تھے۔۔اور چھوٹی دانین جمشید عرف ڈی۔جے تھی۔جو وکالت کا خواب آنکھوں میں سجاۓ ہوۓ تھی۔۔جمشید علی کی جان دانین اور سعدی میں بسنے لگی تھی اور وہ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیئے ان کے ساتھ کھڑے تھے پھر ایک دن ہارٹ اٹیک سے وہ بھی مر گۓ۔۔

پنشن ملتی تھی جس سے گزارہ ہو جاتا تھا۔۔

ساجدہ کی شادی ایک امیر پاکستانی فیملی میں ہوئ تھی جن کا اپنا بزنس تھا۔۔اللہ نے انہیں دو بیٹوں کی نعت کے نوازا۔ناظم کاظمی اور شادی کے ک بیس سال بعد جب ناظم اٹھارہ سال کا تھا ان کے ہاں اساور کا جنم ہوا۔۔

اساور جب دس سال کا تھا تو اس کے ماں باپ گزر گۓ۔۔بھائ اسے اپنا بٹا بنا لیا تھا خود ناظم کاظمی کی ایک بیٹی تھی جو اساور سے چار سال چھوٹی تھی۔۔

پھر بہت منتوں مرادوں سے ان کے ہاں امان کا جنم ہوا تھا۔۔

منتوں سے مانگی اولاد میں جان بند ہوتی ہے یہی حال تھا سب کا ۔۔امان ان کے گھر کا لاڈلا تھا پھر اس کا پیار بانٹنے زائرہ (سومو) آ گئ۔۔

وہ ہنستی مسکراتی زندگی کو جینے والی فیملی تھی۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

گھر میں سومو اور سعدی کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔

دانین نے سعدی کی شادی کے بعد ترکی چلے جانا تھا سعدی اور سومو کے ساتھ ہی۔۔

سعدی کے والد صاحب کا گھر تھا وہاں جس پر زبردستی کسی نے قبضہ کر لیا تھا مگر اب وہ گھر سعدی کی ملکیت تھا ۔۔

سومو کو رخصتی کے بعد اسی گھر ترکی جانا تھا۔۔

آج سعدی کا نکاح تھا جس کا انتظام گھر پر ہی کیا گیا تھا۔۔۔

اسٹیج کو بہت خوبصورتی سے لال اور سفید پھولوں سے سجایا گیا تھا ۔۔۔

جس پر ہلکے گلابی رنگ کی میکسی پہنے سومو بیٹھی ہوئ تھی اور ساتھ سفید شیروانی پہنے سعدی بیٹھا ہوا مسکرا رہا تھا۔۔

دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مطمئن خوش اور مکمل لگ رہے تھے۔۔

سائرہ بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی اسے طیب کا بہت شدت سے انتظار تھا۔۔اور انتظار سولی پر لٹکاتا ہے۔۔

اساور ہاتھ میں فائل پکڑے اِدھراُدھر نظریں گھماۓ دانین کو ڈھونڈ رہا تھا۔۔زارا اور سارہ سومو اور سعدی کے پاس بیٹھی ہوئ تھیں۔۔

عینا رخشندہ بھیگم کے ساتھ مہمانوں سے مل رہی تھیں۔۔

اذان سائرہ سے باتیں کرتا اس کا دھیان بٹا رہا تھا۔۔

سب تھے وہاں صرف دانین نہیں تھی۔۔

وہ فائل تھامے اپنے کمرے کی طرف بڑھا جانتا تھا دانین کہیں نہیں ھے تو وہیں ہو گی۔۔

دروازہ کھولتا وہ اندر داخل ہوا ۔۔

دانین گِرے کلر کی میکسی پہنے بالوں کو پشت پر کھلا چھوڑے میچنگ جیولری پہنے بہت سے بھی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔۔

ایک نظر اساور پر ڈال کر وہ پھر سے اپنا دوپٹہ سیٹ کرنے لگی۔۔

اساور تو وہیں کھڑا اسے مبہوت سا دیکھے گیا۔۔

پھر قدم قدم چلتا اس کی پشت پر آ کھڑا ہوا ۔۔دانین کو آئینے میں اپنے پیچھے کھڑا وہ لمبا چوڑا مرد نظر آ رہا تھا۔۔اور اس کی مبہوت ہوتی نظریں بھی۔۔۔

آہم۔۔!:؟: دانین نے گلا کھنکار کر اس کا ارتکاز توڑا۔۔

وہ میں یہ دینے آیا تھا تمہیں۔۔اساور نے ایک دم چونک کر اسے دیکھا اور ہاتھ میں پڑی فائل اس ک سامنے کی۔۔

کیا ہے یہ ڈیوارس پیپرز۔۔دانین نے اس کے ہاتھوں سے فائل لی اور پڑھنے لگی جیسے جیسے پڑھتی گئ اسے حیرت ہوتی گئ۔۔

یہ تو تم نے جلا دیئے تھے۔۔دانین نے ہاتھ میں پکڑے پیپرز کی طرف اشارہ کیا۔۔

تھوڑا مشکل تھا مگر دوبارہ بنوا دیئے میں نے تمہارا خواب ہے یہ پورا ہونا چاہیئے۔۔اساور جان بوجھ کر اِدھراُدھر دیکھنے لگا۔۔وہ دانین کو دیکھتا تو وہ اپنا فیصلے سے مکر جاتا اور وہ دانین کو کوئ اور دکھ نہیں دینا چاہتا تھا۔۔

شکریہ۔۔دانین نے فائل دراز میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔۔۔

اور کچھ۔۔اس کی نظریں خود پر ٹِکی دیکھ کر دانین نے پوچھا۔۔

بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔۔اساور نے ایک ہاتھ سے اس کے گال کو ہلکا سا چھوا۔۔دانین نے ناگواری سے دیکھا تو وہ سوری کہتا ہوا تیزی سے باہر نکل گیا۔۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

سائرہ کا انتظار جب تھکنے لگا تو وہ آ گیا اس کا طیب آ گیا اس کے ساتھ ایک سہج سہج کر سر جھکاۓ سفید لانگ فراک میں ملبوس لڑکی چلی آ رہی تھی۔۔

سائرہ تو ساکت ہوئ مگر اگلے پل خود کو کمزور سی دلیلیں دیتی وہ طیب کی طرف بڑھی جو اساور سے مل رہا تھا۔۔

پھر لڑکی نے بھی مسکراتے ہوۓ سلام کیا تو اساور نے سر کو خم دے کر جواب دیا۔۔۔۔

وہ سب سے مل رہا تھا اسے نظرانداذ کر کے اور یہ بات اسے کھا رہی تھی۔۔

نکاح کی تقریب ختم ہوئ مہمان کم ہوۓ تو سب گھر والوں کو اکٹھا ہونے کا موقع ملا تھا۔۔

طیب تمہارے ساتھ یہ لڑکی کون ہے۔۔سب ایک ٹیبل کے گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔۔جب مہمانوں کو رخصت کر کے سائرہ اس کے سر پر پہنچ گئ۔۔

میری بیوی۔۔!! طیب نے بےنیازی سے کہا تھا۔۔سائرہ شل ہوئ۔سومو نے دھواں دھواں ہوتی اپنی بہن کو دیکھا اور پھر سے اپنی پلیٹ میں جھک گئ۔۔

دانین زارا کو کھانا کھلا رہی تھی پل بھر کو رکی اور پھر سے کھانا کھلانے لگی۔۔

اساور چکن پیس کا ٹکڑا توڑ کر سارہ کو کھلانے لگا۔۔رخشندہ بھیگم نے نظریں چرائ تھیں۔۔

کیا یہاں بیٹھا کوئ نفوس نہیں جانتا تھا۔۔؟؟ نہیں سب جانتے تھے اب رکے سائرہ کا ری ایکشن دیکھنے کے لیئے تھے۔۔۔۔

سائرہ نے ایک نظر طیب پر ڈالی اور پھر ساتھ بیٹھی معصوم سے نقوش والی اس کی بیوی پر جو پزل ہوتے ہوۓ مسلسل اپنی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔۔

میں نے اماں کو مجبور کیا تھا کہ وہ اساور چاچو کی شادی کروا دیں تمہاری تکلیف آج محسوس ہوئ دانین ۔۔

جو ظلم تم پر کیا اس کی سزا ہے یہ نا تمہاری بددعا ہے یہ نا۔۔سائرہ کی آنسو آنکھوں سے بہنے لگے۔۔کاجل کی پتلی سی لکیر اس کے گال پر آ ٹھہری۔۔

میں بددعا نہیں دیتی سائرہ ۔۔اماں کہتی تھیں بددعا دشمن کو بھی نہ دو تم دشمن تو نہیں ہو میری۔۔دانین کے لہجے میں سائرہ کے لیئے واقعی کوئ نفرت نہیں تھی۔۔۔

مجھے تم سے کوئ شکوہ نہیں ہے طیب ۔۔سومو نے ٹھیک کہا تھا جو تم ڈیزرو کرتے ہو وہ میں نہیں دے سکتی میں محبت ڈیزرو نہیں کرتی۔۔

سائرہ میری بات۔۔۔۔. . .  طیب نے کچھ کہنا چاہا تھا۔۔

نہیں طیب تم خوش رہو تم نے ٹھیک کیا بلکل ٹھیک۔۔بھری ہوئ آواز میں کہتی وہ اندر کی طرف بھاگ گئ جہاں بیٹھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونا چاہتی تھی۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

کاظمی حویلی میں سوگواریت چھائ ہوئ تھی۔۔شادی کے ہنگامے ختم ہو چکے تھے سب مہمان اپنے گھروں کو رخصت ہو گۓ تھے اب مسافر بھی اپنی منزل کو روانہ ہونے کے لیئے تیار تھے۔۔

دانین بچا کھچا سامان پیک کر رہی تھی زارا پاس ہی بیٹھی دانین کی ساری کاروائ دیکھ رہی تھی۔۔

سارہ کا وہاں نہیں تھی اور دانین جانتی تھی وہ کہاں ہو گی۔۔؟؟اساور سے چمٹی بیٹھی ہو گی کہیں۔۔

بیگ سائیڈ پر رکھتی وہ سارہ کی چیزیں سمیٹ کر اکھٹی کرنے لگی تھی۔۔

ماما سارہ نہیں جاۓ گی ہمارے ساتھ۔۔؟؟ زارا کو صرف سارہ کی فکر ہو رہی تھی جو اکثر ہی ہوتی تھی۔۔

نہیں بیٹا وہ یہیں رہے گی وہ۔۔دانین نے کرب سے آنکھیں میچی۔۔آنسوؤں کو خلق میں دھکیلا وہ زارا کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی۔۔

مگر اس کی مامتا تڑپ رہی تھی۔۔سارہ نے جانے کا سن کر گھر سر پر اٹھا لیا تھا۔۔وہ اپنے باپ کو نہیں چھوڑ سکتی تھی مگر وہ دانین کو چھوڑ سکتی تھی ۔۔

زارا اب چپ چاپ بیٹھی ماں کا چرہ پڑھ رہی تھی وہ اکثر یہی کرتی تھی۔۔

تبھی دروازہ کھلا تھا۔۔لال آنکھیں لیئے اساور اندر داخل ہوا۔۔زارا کو دیکھ کر پھیکا سا مسکرایا تھا۔۔

صوفے پر بیٹھی زارا ترچھی نظر سے اسے دیکھتی دروازہ کھول کر کمرے سے چلی گئ تھی۔۔

اساور نے صدمے سے اسے جاتے دیکھا ۔۔اس کے اندر کے واہمے اسے کاٹ رہے تھے۔۔

دانین ڈریسنگ مرر کے سامنے جھکی دراز سے کچھ نکال رہی تھی۔۔

اساور قدم قدم چلتا اس کے پاس آ کر رک گیا مگر دانین نے کوئ نوٹس نہیں لیا اور سیدھی ہو کر اپنا ضروری سامان اٹھانے لگی۔۔

اساور اسی کو دیکھ رہا تھا یک ٹک نظریں جماۓ۔۔مگر دانین مسلسل نظرانداذ کر رہی تھی۔۔

اساور نے پیچھے سے بازو دانین کے گِرد حمائل کر کے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے کر سر اس کے کندھے پر ٹکا دیا۔۔

دانین اس کی جرات پر سُن ہی تو ہو گئ تھی۔۔وہ دونوں ہمیشہ کے لیئے ایک دوسرے سے الگ ہو رہے تھے اور اساور کو رومینس سوجھ رہا تھا۔۔

دانین کا سکتہ ٹوٹا تو اس نے بےخود ہوتے اساور کے حصار سے زور لگا کر خود کو آزاد کیا۔۔

اساور نے پلکیں چھپکائیں جیسے ہوش میں آیا ہو۔۔

دانین تیز نظر سے اسے دیکھتی ہاتھ میں پکڑی اشیاء لیئے بیڈ پر پڑے اپنے سوٹ کیس کے طرف بڑھی۔۔

دانین سوری یار پلیز۔۔اساور نے باقائدہ ہاتھ جوڑے تھے۔۔

بےوفائ کے بہت سے موقعے تمہیں فراہم کیئے جاتے اور تم ان موقعوں کو ضائع کر دیتے تب میں کہتی "اٹس اوکے"_""کیونکہ محبت میں چوٹ کھایا دل کسی سوری کے جواب میں اٹس اوکے نہیں کہتا محبوب کی گلی سے چوٹ کھا کے نکلے تو پلٹ کر نہیں دیکھتا""دانین ہنوز بیگ پر جھکی ہوئ تھی وہ اساور کو نہیں دیکھ رہی تھی شائد دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔۔

دانین ہم ماضی کو اپنی محبت پر آئ مصیبت جان کر بھول بھی تو سکتے ہیں۔۔اساور آہستہ سے کہا تھا۔۔

تمہاری میری محبت بھی تو ماضی ہے۔۔دانین نے رک کر اس کی طرف دیکھا۔۔اور مصیبت تو واقعی آئ تھی محبت پر اور مصیبت اس لیئے آتی ہے کمظرف لوگ محبت نہ کرتے پھریں۔۔

____________________________________________________________________________________________________________________________________

دس سال بعد۔۔

سکول سے آ کر اس نے بھیگ صوفے پر پٹخا اور یونیفارم میں ھی جوتوں سمیت لیپ ٹاپ لیئے بیڈ پر بیٹھ گئ۔۔

وہ تیرہ چودہ سال کی گوری رنگت والی بچی تھی ۔بالوں کی اونچی پونی بناۓ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔۔

لیپ ٹاپ پر وہ تیزی سے کچھ ٹائپ کرنے لگی۔۔تھوڑی دیر میں اسکرین نے تیز روشنی اور سامنے کسی کا اکاؤنٹ دکھائ دینے لگا۔۔

اساور کاظمی۔۔اکاؤنٹ پر لکھے نام پر اس نے کلک کیا اور تصویریں دیکھنے لگی۔

سکول فنکشن ،پارٹیز،برتھ ڈے،ہوٹلنگ، اور سیر و سیاحت کی بہت ساری تصویریں کھلتی چلی گئیں۔۔

اس کی ہم عمر ہی ایک لڑکی اساور کے ساتھ ہر جگہ دکھائ دے رہی ہے مسکراتے ہوۓ خوش شائد بہت خوش۔۔

اس کے اندر بہت کچھ ٹوٹا تھا ۔آئ برو اونچا کیئے وہ تِرچھی نظر سے سکرولنگ کرتی تمام تصاویر دیکھ رہی تھی۔۔

ایک دم سے اس کی آنکھیں جلنے لگیں تھیں شائد اسکرین کی گئی تیز روشنی سے یا اس لڑکی مسکراہٹ سے۔۔

زارا زارا کہاں ہیں آپ بیٹا۔۔!! دانین کی آواز پر اس نے ایک سلگتی ہوئ نظر اساور کے مسکراتے چہرے پر ڈالی اس نظر میں بہت کچھ تھا جو بیان سے باہر تھا۔۔

دانین کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے وہ لیپ ٹاپ بند کرتی چھلانگ لگا کر باتھ روم میں گھس گئ۔۔

دانین سے سے بخث کرنے کا اس کا کوئ موڈ نہیں تھا۔۔

ہاں مگر وہ ایک طویل بخث چاہتی تھی اساور کاظمی سے اور اسے لاجواب کرنا چاہتی تھی۔۔

واش روم مرر کے سامنے کھڑے اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ اساور سے ملے ضرور ملے گی اور ایسی کہ وہ پھر ملنے جوگا نہ رہے گا۔۔

""بدگمانیوں کی گود میں جنم لیتے انتقام اور بدلے کا چکر کبھی نہیں رکتا۔انتقام نسل در نسل وراثت کی طرح منتقل ہوتا ہے۔۔

اور اس چکر کو چلاتا انتقام کا وارث بربادیاں لاتا ہے۔۔""

ختم شد۔۔


If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Inteqam E Laal Ishq Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Inteqam E Laal Ishq written by Parisha Mahnoor Khan. Inteqam E Laal Ishq by Parisha Mahnoor Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

   

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages