Musht E Gubar By Sofia Khan New Complete Romantic Novel
Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories
Novel Genre: Cousin Based Enjoy Reading...
Musht E Gubar By Sofia Khan Complete Romantic Novel |
Novel Name: Musht E Gubar
Writer Name: Sofia Khan
Category: Complete Novel
آسمان پہ پھیلے بادلوں نے نیلے آسمان کے ساتھ ساتھ سورج کو بھی چھپا دیا تھا
موسم تو ابر آلود تھا ہی کسی کی قسمت بھی خاک ہونے والا تھا
آج ایک اور معصوم بہن اپنے بھائی کے گناہوں کے بدلتے ونی ہونے جا رہی تھی
سرپنچ کے ڈیرے پر اس وقت بہت سے لوگ موجود تھے
جو سانس روکے منتظر تھے آج کے فیصلے کے جو کسی معصوم کو ظلم کی چھٹی میں دھکیلنے کیلئے کیا جانا تھا
"پنچایت اس فیصلے پہ پہنچی ہے کہ ۔۔۔۔
حنان شاہ کے قتل کے بدلے میں قاتل کی بہن یعنی افراسیاب چودھری کی بیٹی کو ونی کے طور پہ مقتول کے بھائی مومن شاہ کے حوالے کیا جائے
جس کا ابھی اور اسی وقت مومن شاہ سے نکاح ہوگا"
سر پنچ کی بھاری رعب دار آواز نے جہاں مومن شاہ کے سینے میں ٹھنڈک کی پھوار اتاری
وہیں چودھری افراسیاب کے اوپر اس فیصلے نے گویا ظلم کا پہاڑ توڑا ۔۔۔
آج پھر ایک بہن کو بھائی پہ قربان ہونا تھا بھائی کی زندگی بچانے کیلئے اسے اپنی معصوم جان پہ ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دیکھنے تھے ۔۔۔
"میری بچی پر رحم کریں سرپنچ جی اس کا کیا قصور آپ میرے بیٹے کو قتل کر دیں قتل کے بدلے قتل "
چودھری افراسیاب نے ان کے آگے رحم کی اپیل کی۔۔۔
"نہیں چودھری افراسیاب مجھے قتل کے بدلے قتل نہیں بلکہ ونی چاہیے "
ان کی آنکھوں میں بیٹی کی محبت اور اسے کھونے کی تڑپ دیکھتے کب سے خاموش بیٹھا مومن شاہ چلایا
"ابھی تو میری بچی بہت چھوٹی ہے آپ دو سال بعد اس کے اٹھارہ سال کے ہوتے ہی نکاح کر لیجیے گا شاہ صاحب وہ میرے پاس آپ کی امانت ہوگی "
چودھری افراسیاب نے اس کے سامنے التجا کی
"آج اور ابھی کا مطلب ابھی میں تمھیں دو دن نہ دوں اور تم دو سال کی بات کر رہے ہو
اگر تم ایک گھنٹے کے اندر اندر لڑکی کو لے کر ادھر نہیں آئے تو میں خود تمھاری گھر میں گھس کر اٹھا لاؤں گا اسے "
مومن شاہ نے غضب ناک انداز سے کہا
"ایسا ظلم نہ کریں کہ اگر حقیقت کچھ اور نکلے تو آپ معافی بھی نہ مانگ سکیں "
افراسیاب چودھری نے مومن شاہ کو دیکھتے کہا
"چودھری صاحب بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی
ابھی تو آپ کا بیٹا مجرم ہے
اور اسنے میرے بھائی کو قتل کیا ہے
پنچایت کے فیصلے پہ اب تمھیں اپنی لڑکی میرے حوالے کرنی ہوگی "
" میں میں اپنی بیٹی کسی کو نہیں دوں گا
جو کرنا ہے کر لو میں اپنی معصوم بیٹی ظالموں کے حوالے کبھی نہیں کروں گا
سن لو تم سب میں نے اپنی بچی کو ماں اور باپ بن کے پالا ہے
ایسے کیسے میں کسی اور کی گناہ کی سزا اپنی بچی کو دینے دوں "
یہ کہتے افراسیاب چودھری اپنے آنسو صاف کرتے چلا گیا
پیچھے مومن شاہ غصے سے سر پنج کو دیکھنے لگا ایسے جائے پانی وحشت زدہ نظروں سے ہی اسے جلا کے بھسم کر ڈالے گا
"مومن شاہ آپ اپنی ونی کو خود جا کے لے آئیں اگر افراسیاب اس کو آپ کے حوالے نہیں کر رہا تو "
سرپنچ نے اس کے غصے سے لال بھبھوکا چہرے کو دیکھتے کہا
"صاف ظاہر وہ تو میں لے ہی آؤں گا "
یہ کہتے مومن شاہ اپنے آدمیوں کے ساتھ
ادھر سے چلا گیا
وہاں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ مومن شاہ کو روکنا ممکن نہیں
وہ کسی کو خاطر میں نہ لانے والا پتھر دل انسان تھا جس پہ کسی کی التجاؤں کا بھی اثر نہ ہوتا تھا
وہ سب اس لڑکی کیلئے بس دعا ہی کر سکتے تھے
وہ شاہ حویلی پہنچا تو ملازم نے گاڑی کو دروزی کھولا وہ ایک شان سے باہر نکلا اور شاہانہ انداز سے قدم اٹھاتا حویلی کے اندر داخل ہو گیا
جہاں ملازم اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے
مومن شاہ کو آتے دیکھ جیسے ان کے ہاتھوں نے بجلی کی تیزی سے کام کرنا شروع کر دیا تھا
"سکینہ بی اور ان کی بیٹی کیا نام ہے ہاں پری کو ساتھ لو اور میرے پیچھے آؤ دوسری گاڑی میں "
وہ بے نیاز شہزادہ ہاتھ باندھے مؤدب کھڑے
شرفو کو حکم دیتا پھر سے پلٹ گیا تھا
اسنے اپنا بڑا بھائی کھویا تھا جس میں مومن شاہ کی جان بستی تھی
مگر وہ خود پہ ضبط کئے اب بس انتقام کی آگ میں جل رہا تھا
اب تو بس چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے اس کے دل و دماغ پہ ایک چیز چھائی تھی اور وہ تھا انتقام بس انتقام
اسے لگتا تھا وہ پنے بھائی کے قاتل کی بہن کو اپنے پاس رکھ کے اسپیکر ظلم کے پہاڑ توڑ کے اپنوں کی نظروں سے دور کر کے اپنے دل میں بجھتے الاؤ کو بجھا کے گا
مگر وہ انجان تھا قدرت کے فیصلوں سے جو اوپر آسمانوں پہ ہو چکے تھے
اور وہ نہ تو ضد سے نہ طاقت سے اور نہ ہی کسی اور طریقے سے ان فیصلوں کو بدل سکتا تھا
ابھی وہ جس نفرت اور انتقام کی آگ میں جل رہا تھا وہی اس پہ الٹے پڑنے والے تھے
بلیک مرسڈیز اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی
اس کے پیچھے محافظوں کی گاڑیاں بھی پیچھے غبار چھوڑتی جا رہی تھیں
بلیک مرسڈیز یکدم ایک خوبصورت گھر کے سامنے رکی یہ گھر نہ اتنا بڑا تھا نہ ہی چھوٹا
مگر اپنے مالکوں کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھا
بلیک کلر کی قمیض شلوار میں ملبوس کندھوں پہ بڑی سی بھوری شال ڈالے وہ گاڑی سے باہر نکلا اور قدم گھر کے دروازے کی طرف بڑھائے
اس کے باہر نکلتے ہی اس کے محافظ بھی بندوقیں تانے چاق و چوبند اس کے پیچھے چلے
گارڈ نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو شرفو نے اس کے اوپر پسٹل تانتتے اسے خاموش کروا دیا
جبکہ وہ شان بے نیازی سے گھر کے اندر داخل ہو گیا
"کدھر لے کے جا رہے ہو ہماری امانت کو افراسیاب ہم نے سوچا آپ کو زحمت ہوگی اسی لیے مومن شاہ بذاتِ خود چل کر اپنی امانت لینے آیا ہے "
چہرے پہ چٹانوں سی سختی لیے وہ قدم قدم چلتے افراسیاب کے قریب آیا
افراسیاب جو بیٹی کا بازو پکڑے گھر کی پچھلی سائڈ کی طرف جانے ہی لگا تھا مومن شاہ کی آواز سن کے ایک دم رکا
"دیکھو مومن شاہ میری بیٹی نے تمھارا کچھ نہیں بگاڑا تم اسے مت کے جاؤ "
افراسیاب نے منت بھرے انداز میں کہا
"مجھے کچھ نہیں پتہ کس نے میرا کچھ بگاڑا ہے یا نہیں مگر مجھے بس یہ یہ بڑی جھیل سی آنکھوں والی لڑکی چاہیے "
وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کے بلکل سامنے آ کھڑا ہوا
مومن شاہ کی سرخ انگارا آنکھیں چیخ چیخ کے اس کے انتقام اور نفرت کی کہانی بیان کر رہی تھی
افراسیاب نے بیٹی کو خود میں بھینچا
وہ ڈری سہمی باپ سے چپکی کھڑی تھی جیسے چھوٹا بچہ ڈر کے مارے کھڑا ہوتا ہے
اس کے اشارہ کرنے پہ سکینہ اور پری نے آگے بڑھ کے اس لڑکی کو پکڑنا چاہا
مگر وہ تھی کہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتی ان کے ہاتھ نہیں آ رہی تھی
"ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نہیں پکڑی جا رہی تم دونوں سے ہٹو پیچھے "
یہ کہتے وہ خود اس کا بازو سختی سے پکڑ چکا تھا جبکہ اس کے آدمی افراسیاب کو قابو کئے کھڑے تھے
وہ اسے گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا تھا جبکہ وہ تو رو کہ باپ کو پکار رہی تھی
چھوڑو مجھے ۔۔۔۔
بابا مجھے بچاؤ نہ ۔۔۔
اسی کھینچا تانی میں اس کا دوپٹہ بھی راستے میں گر گیا تھا
جب مومن کی نظر اس پہ پڑی تو غصے سے اس کے ماتھے کی تھیں تن گئیں
اپنے کندھوں سے شال اتارتا وہ اس کے اردگرد لپیٹ چکا تھا
اسے گاڑی کی بیک سٹ پہ پٹکتے وہ خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ چکا تھا
اور گاڑیاں دوبارہ منزل کی طرف رواں دواں تھیں
اور وہ معصوم لڑکی بے ہوش ہو کے اس کندھے پہ ڈھلک گئ
مومن ایک نظر اسے دیکھتا باہر کی طرف متوجہ ہو چکا تھا
____________
_____________
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں
نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں
جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے ہی روگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھ کی پکار ہوں
نہ میں ان کا حبیب ہوں نہ میں ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
چہرے پہ پڑنے والے پانی کے چھینٹوں سے اس نے مندی مندی آنکھیں وا کی تو اپنے اوپر ایک عورت کو جھکے پایا
جو اس کا
چہرہ تھپتھپاتے کچھ بول رہی تھی
"اٹھ جاؤ بیٹی چھوٹے سائیں آ گئے تو اچھا نہیں ہوگا وہ تمھارے ساتھ ساتھ مجھے بھی ڈانٹیں گے"
سیکنہ بی نے اسے پیار سے اٹھاتے کہا
"مجھے گھر جانا ہے بابا کے پاس پلیز مجھے بابا کے پاس چھوڑ آئیں مجھے ڈر لگ رہا ہے وہ وہ مجھے مارے گا وہ"
وہ روتے ہوئے سکینہ بی کے سامنے ضد کررہی تھی
"تم گھر نہیں جا سکتی بیٹی ونی میں آئی لڑکیاں کبھی گھروں میں جا ہی نہیں سکتی
انھیں تو ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی ہوتی ہے "
سکینہ نے روتی ہوئی معصوم لڑکی کو چادر اڑھاتے کہا
"مجھے نہیں پتہ مجھے گھر جانا ہے بس مجھے بابا کے پاس جانا ہے وہ پرشان ہونگے"
کسی ضدی بچے کی طرح وہ ضد کرتے بولی
" آپ کیسے جا سکتی ہیں آپ کا تو ویاہ ہے نہ آج ہمارے چھوٹے سائیں کے ساتھ آپ کے تو بھاگ ہی جاگ اٹھے ہیں آپ کا ویاہ خوبصورت گھبرو جوان سے ہو رہا ہے "
پری نے چھوٹے سائیں کی خوبصورتی بیان کرتے کہا
کون چھو چھوٹا سائیں ؟
وہ ہکلاتے ہوئے پوچھ رہی تھی
"مومن سائیں کی بات کر رہی ہوں جو آپ کو لے کر آئے ہیں وہ بہت اچھے ہیں "
پری نے مومن کی تعریف کرتے اس کے کملائے چہرے کو دیکھا
"نہیں وہ برے ہیں وہ مجھے زبردستی کے آئے ہیں وہ اچھے نہیں ہیں "
"صرف برا نہیں بہت برا ہوں اور اگر میری بات نہ مانی تو اس سے برا بننے میں بھی دیر نہیں لگاؤں گا "
دروازے میں کھڑے اس مومن شاہ نے کہا
ڈر کے مارے اس نے پاس کھڑی سکینہ بی کو پکڑ لیا
" اس کو لے کر باہر آ جاؤ نکاح کیلئے اور ہاں اچھی طرح سمجھا کے لانا "
سکینہ بی کو حکم دیتا وہ وہاں سے چلا گیا
" سنو بیٹی اگر مولوی صاحب کچھ پوچھیں تو تم کہنا قبول ہے پھر ہی تم گھر جا سکوں گی"
سکینہ بی نے اس ڈری سہمی لڑکی کو کہا
"ہاں ہاں میں سب کر لوں گی بس مجھے گھر جانے دو "
وہ گھر جانے کی خوشی میں جلدی جلدی بولی
اس بات سے انجان کے وہ اپنی قید کے پروانے پہ مہر ثبت کرنے جارہی ہے
کسی بے بس پرندے کی طرح سونے کے پنجرے میں قید ہونے جارہی ہے کھڑکیاں تو ہیں مگر بند
سکینہ اسے لے کے باہر آئی اور صوفے پہ بٹھا کے ساتھ مؤدب انداز میں کھڑی ہوگئ
مومن شاہ نے جو چادر اسے اڑھائی تھی اب بھی وہ اسی کو اوڑھے منہ ڈھانپے کوئی چھوٹی سی بچی لگ رہی تھی ڈری سہمی
مومن کے اشارہ کرنے پہ مولوی صاحب نے نکاح شروع کروایا
" قلب افراسیاب ۔۔۔۔۔
"کیے مولوی صاحب ابھی کچھ کام باقی ہیں جن کا پہلے ہو جانا بہت ضروری ہے "
پیچھے سے آنے والی رعب دار آواز پہ سب نے نظریں گھما کے آنے والی شخصیت کو دیکھا تھا
"مومن میں چاہتا ہوں کہ ان کاغذات پہ تمھارے نکاح سے پہلے ہی سائن ہو جانے چاہئیں"
وہ اب کالی شلوار قمیض میں ملبوس کندھوں پہ چادر ڈالے وجاہت کے شاہکار آنکھوں میں سرد پن لیے اپنے بیٹے سے مخاطب تھے
کیسے کاغذات گے؟
مومن شاہ نے باپ کے سامنے آتے پوچھا
وکیل صاحب لائیے کاغذات
ان کے کہنے پہ وکیل نے کاغذات کی ایک کاپی انھیں تمھاری دی
"جائیداد کے کاغذات ہم نے یہ حویلی اس لڑکی کے نام اور باقی جائیداد تمھارے نام کر دی ہے "
حیدر شاہ ایسے کہا جیسے یہ کوئی عام سی بات ہو
"بابا سائیں یہ سب کیا ہے؟
وہ لڑکی ہے ونی میں آئی ہے اور پھر ساری جائیداد میرے ہی نام کیوں میرے بھائی کی بیوہ اور بچہ بھی تو ہیں "
وہ چہرے پہ حیرت لیے بولا
تم نے اگر ان سب کاغذات پر سائن کر دئیے تو ٹھیک نہیں تو ہم حنان کے والد ہونے کے ناطے خون معاف کرنے کا اختیار بھی رکھتے ہیں اور پھر یہ لڑکی بھی ونی ہوکر تمھارے نکاح میں نہیں آئے گی "
وہ دھمکی آمیز لہجے میں کہتے کاغذات اسے پکڑا چکے تھے
جبکہ مومن شاہ حیران نظروں سے باپ کو دیکھ رہا تھا
کہ آخر انھیں جائیداد اس کے نام کرنے کی اتنی کیا جلدی ہے
آخر کیا وجہ ہے جو انھیں یہ سب کرنے پہ مجبور کر رہی ہے
اور وہ حنان کی بیوہ اور بیٹے جو کیوں نہیں کچھ دینا چاہتے
وہ سوچ میں پڑ گیا تھا نہ بھائی کا انتقام لیے بنا رہ سکتا تھا
اور نہ ہی بیوہ بھابھی اور بھتیجے کے ساتھ نا انصافی ہوتے دیکھ سکتا تھا
آخر کار وہ ایک نتیجے پہ پہنچ گیا تھا وہ جانتا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے
اس نے سائن کر کے پیپر حیدر شاہ کو پکڑا دئیے
اب اجازت ہے میرا نکاح ہو جائے
اس نے باپ کو دیکھتے پوچھا
اب نکاح پڑھائیں مولوی صاحب ۔۔۔۔
حیدر شاہ نے مولوی صاحب کو کہا
قلب افراسیاب آپ کا نکاح مومن حیدرشاہ سے بعوض حق مہر سکہ رائج الوقت طے پایا ہے کیا آپ کو قبول ہے
"ق ق ق قبول ہے "
اس کے منہ سے گھٹی گھٹی سسکیاں نکلی تھیں آواز جیسے حلق سے نکالنا مشکل ہو گیا تھا مگر اسے یہ سب قبول کرنا تھا گار اسے گھر جانا تھا تو ۔۔۔۔۔
مگر اسے خبر ہی نہ تھی یہ تو اسے بہلانے کیلئے بولا گیا تھا
ونی ہونے والی لڑکیاں بھلا کہاں اپنے ماں باپ کے گھر جاتی ہیں
تین بار قبول ہے بول کے وہ اپنے جملہ حقوق اس کے نام لکھوا چکی تھی
مومن شاہ نے بھی ایسے قبول ہے کہا جیسے کوئی بوجھ ہو اور جلد از جلد اسے اتار پھینکنا ہو
"چلو اب حویلی"
سب کے جانے کے بعد وہ قلب نہ اٹھتے دیکھ بولا
"مگر آپ نے بولا تھا کہ ہمیں بابا کے پاس چھوڑ آئیں گے مجھے کسی حویلی نہیں جانا "
وہ سر کو دائیں بائیں گھماتے بولی
" تمھیں کہاں جانا ہے ،کیاکھانا ہے پینا ،پہنا ہے سب میری مرضی سے ہوگا تم مومن شاہ کی ملکیت ہو
تم سانس بھی میری مرضی سے لو گی
اب سمجھی
یہ میں طے کروں گا تمھیں کیا کرنا ہے کیا نہیں
تم نہیں "
غضب ناک تیور لیے وہ معصوم سی لڑکی کو بولا
جس کا شاید اسے نام ہی نہیں پتہ تھا
نکاح کے وقت بھی اس نے غور نہیں کیا کوئی دلچسپی جو نہیں تھی
اسے صرف انتقام لینا تھا
ڈری سہمی لڑکی کو بازو سے پکڑتے وہ آگے بڑھا وہ بھی کسی کٹی پتنگ کی طرح اس کے ساتھ گھسیٹتی چلی گئ
_________________
مومن شاہ کے قلب کو لے جانے بعد افراسیاب چودھری زمین پر بیٹھتا چلا گیا
آج اس نے اپنی جان سے پیاری بیٹی بھی کھو دی تھی
اور بیٹا تو جانے جرم کر کے غائب ہی ہو گیا تھا
اس کے اپنے اسے دلاسہ دینے کے بجائے تماشائی بنے کھڑے تھے
ایسا ہی تو ہو رہا ہے ہم تکلیف میں ہوں دکھ میں ہوں ہمارے اپنے بس چپ چاپ خاموش تماشائی بنے ہماری حالت زار پہ مسکراتے اور آوازیں جاتے نظر آتے ہیں
اور شاید چند ایک لوگ اپنوں کا درد محسوس کر بھی لیتے ہیں
سب لوگ جو مومن شاہ کی گاڑیوں اور محافظوں کو دیکھ کر اپنے اپنے کمروں میں بند ہو گئے تھے
اب باہر کھڑے سرگوشیاں کرنے میں مصروف تھے
" بھائی بس کریں جو خدا کو منظور تھا شاید ہماری قلب کی قسمت ہی ایسی تھی
آپ بس دعا کریں کے وہاں اسے کوئی نقصان نہ پہنچے "
افراسیاب کے بھائی نے اسے اٹھاتے تسلی دی
زہرا بھائی جان کیلئے پانی لاؤ
انھوں نے اپنی بیوی کو پانی لانے کا کہا
__________________
عالیشان سرخ رنگ کی حویلی پوری شان کے ساتھ سامنے کھڑی یہاں بسنے والوں مے شاہانہ طرز زندگی کا منہ بولتا ثبوت تھی
بلیک مرسڈیز کے رکتے ہی باقی تمام
گاڑیاں بھی یکے بعد دیگرے حویلی کے بڑے سے پورچ میں آ رکی
مومن شاہ گاڑی سے نکلا اور کھینچ کے
سسکتی ہوئی قلب کو بھی باہر نکالا
پھر اسے لیے حویلی کے اندرونی حصے کی جانب بڑھا
بہت سی راہداریاں پار کرتے بڑے بڑے کمروں کے سامنے سے گزرتے وہ ایک بڑے سارے ہال میں آ رکا
جہان سامنے مسہری پہ ایک ادھیڑ عمر خاتون
بیٹھی کسی تصویر کو سینے سے لگائے آنسو بہا رہی تھی
قدموں کی آواز پہ اس نے سر اٹھا کے سامنے مومن کے ساتھ کھڑی سسکتی لڑکی کو دیکھا
غصے سے ان کے ماتھے پہ بل پڑے
پھر اچانک وہ مسہری سے اتر کے اس لڑکی کے قریب آتے اس پہ جھپٹ پڑیں
"تیرے بھائی نے میرا جگر کا ٹکڑا چھین لیا مار ڈالا میرے حنان کو
آخر کیا بگاڑا تھا میرے بچے نے اس کا جو اسکو بھری جوانی میں موت کی نیند سلا دیا"
وہ غصے سے اس چھوٹی لڑکی کو مارتے ہوئے بول رہیں تھی
جبکہ وہ خود کو ان سے بچانے کی ناکام کوشش کرتی ہلکان ہو رہی تھی
جب بوڑھی تھک کر رکی
تو کسی اور نے اس پہ اچانک حملہ کیا بالوں سے پکڑ کے زمین پہ گراتے مکوں لاتوں کی برسات شروع کردی
اس معصوم کا جس کا کوئی قصور نہ ہوتے ہوئے بھی یہ حال کیا جا رہا تھا
" ظالم مجھ سے میرا شوہر چھین کر مجھے بیوہ کر دیا
میرے بچے کو یتیم کر دیا تیرے بھائی نے میں تجھے چھوڑوں گی نہیں
مار دوں گی میں تجھے "
وہ حنان کی پچیس سالہ بیوی تھی جو قلب کو بے دردی سے مار رہی تھی
بس کر دیں بھابھی ورنہ یہ مر جائے گی
چھوڑیں ابھی
اب آپ کا غصہ اتر گیا ہو تو اماں جان اور آپ آج کے بعد اسے کچھ نہیں کہیں گی
میں خود دیکھ لوں گا
وہ درد سے دہری ہوتی قلب کو اٹھاتے بولا
پھر تقریباً گھسیٹتے ہوئے اسے اپنے کمرےلے کر چل پڑا
پری کو آواز دے بلایا
جی صاحب ۔۔۔
پری ہانپتی کانپتی اس کے کمرے میں آئی
" اسکی مرہم پٹی کر دینا آج کے بعد میں حویلی سے باہر ہوں تو تم اس کے ساتھ رہو گی "
وہ بے نیازی سے کہتا کمرے سے باہر نکل گیا
قلب بی بی زیادہ درد ہو رہا ہے کیا ۔۔۔
کتنا مارا آپ کو
سامیہ بی بی نے بہت برا کیا آپ کے ساتھ وہ تو ملازموں کو بھی ایسے ہی مارتی ہیں زرا رحم نہیں ہے ان میں ۔۔۔۔
اسکی مرہم پٹی کرتے وہ بولے جارہی تھی
پھر اس کو نیند کی دوا دے سلا دیا
خود باہر چلی گئ مومن شاہ کی تاکید کے مطابق دروازہ لاک کرنا نہ بھولی
__________________
"امی جان آخر آپ لوگوں نے کسیے قلب کو اس
درندے کے حوالے کر دیا "
دافع جو ابھی ابھی لوٹا تھا یہ سن کے کہ قلب کو ونی کر کے مومن شاہ کے گیا وہ انگاروں پہ لوٹ رہا تھا
اب بھی ماں کے سامنے کھڑا غصے سے ان سے پوچھ رہا تھا
" تم کیوں اس طرح غصہ کر رہے ہو تمھارا کیا اس کے بھائی کے گناہ کی سزا ملی ہے اسے اور شکر ادا کرو تمھاری جان چھوٹی اس سے "
رخشندہ بیگم نے ایسے کہا جیسے وہ ان پہ بوجھ ہو
" منگ تھی وہ میری ایسے کیسے چپ کر جاؤں پسند کرتا تھا میں اسے "
وہ بھی اسی انداز سے بولا
" ہاں تو شکر ہے یہ بات شاہوں کو نہیں پتہ تھی ورنہ پرائی لڑائی میں کہیں تجھے ہی نہ نقصان پہنچا دیتے "
وہ شکر ادا کرتے بولیں
" آپکو کیا لگتا ہے میں خاموش ہو کے ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا رہوں گا بے غیرت نہیں ہوں میں ۔۔۔
میں خود قلب کو وہاں سے لے کر آؤں گا "
وہ جتنے آرام سے یہ بات کر کے گیا تھا
رخشندہ بیگم کا آرام سکون تباہ کر کے گیا تھا
وہ سوچ میں پڑ گئ تھیں
کہ کیسے اپنے اکلوتے بیٹے کو بچائے
وہ تو اپنی بھانجی سے اس کی شادی کے ارمان سجائے بیٹھی تھی
کہ اب تو راستے کا کانٹا بھی نکل گیا تھا مگر ان کا بیٹا وہ خود پرائی آگ میں کودنے کی بات کر رہا تھا
وہ جب تھکا ہارا کمرے میں پہنچا سامنے ہی اس کو بیڈ پہ لیٹے خواب خرگوش کے مزے لیتے دیکھ اس کے ماتھے پہ بل پڑے
دماغ کی رگیں تن گئ
جتنا وہ خود پہ قابو پانے کی کوشش کرتا اتنا ہی زیادہ اس کو غصہ آجاتا
اب بھی ایسا ہی ہوا
" بابا مجھے آپ کے پاس آنا ۔۔۔۔۔
وہ نیند میں بھی بول رہی تھی
اس کے چہرے پہ درد کے آثار واضح تھے
مارنے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے نیچے نیل پڑ چکے تھے
اسکا نیند میں بھی باپ کو پکارنا جلتی پہ تیل کا کام کر گیا تھا
وہ کڑے تیور لیےس کی طرف بڑھا
کمفرٹر کھینچ کے اتار پھینکا
اتنے پہ ہی بس نہیں کی
اسے کندھے سے پکڑ کے اٹھاتے بیڈ سے نیچے وہ اتار چکا تھا
بیڈ کی چادر بھی اتار کے دور اچھالی گئ
جیسے قلب کا جسم لگنے سے ناپاک ہو گئی ہو
پھر وہ الٹے قدم لیتا قلب کی طرف آیا
" کس سے پوچھ کے یہاں سوئی تھی اور کیا سوچ کے سوئی تھی
میری چیزوں کو چھونے کی جرات بھی کیسے کر لی تم نے "
وہ اسے کندھوں سے پکڑ کے جھنجھوڑتے ہوئے پوچھ رہا تھا
وہ وہ رونے لگی تھی
ایک تو کچھ دیر پہلے پڑنے والی مار کا درد ویسے ہی برقرار تھا
ب اس کے جھنجھوڑنے کی وجہ ان میں اور زیادہ تکلیف ہو رہی تھی
" چپ ایک دم چپ آواز نہ تمھاری نہیں تو
زبان کھینچ لوں گا
مجھے روتی دھوتی لڑکیاں بلکل نہیں پسند"
مومن کی دھاڑ پہ اسے چپ لگ گئ تھی
" آخری اور پہلی بار معاف کر رہا ہوں آئندہ کوئی غلطی معاف نہیں کروں گا "
وہ ایسے بول رہا تھا جیسے ابھی پیار بھری بات کی ہو
🌺🌺🌺🌺
کر تو رہا ہے آج بے توقیر تو ہمیں
کل خواب تیری آنکھ کا سندور رہیں گے ہم
تھک جائے گا تو مانگ کے ہم کو دعاؤں میں
تیرے خیال و خواب کا محور رہیں گے ہم
🌺🌺🌺🌺
جبکہ وہ اثبات میں سر ہلاتے
ڈر کے مارے اس سے دور جا کھڑی ہوئی مبادہ پھر سے کچھ نہ بول دے
"اور ایک بات بتا دوں آج سے بلکہ ابھی سے میرے سارے کام تم کرو گی
کوئی بھی کام زرا بھی لیٹ ہوا تو انجام کی زمہ دار تم خود ہوگی سمجھی"
وہ اب قدرے نرم لہجے میں کہہ رہا تھا شاید اس کی روتی صورت دیکھ مومن کو ترس آگیا تھا
" می میں ۔۔۔۔۔
وہ اٹکتے ہوئے پوچھنے لگی ایسے جیسے اس کے علاؤہ بھی کوئی ہو اور اسے یہ کہا گیا ہو
ہاں کیوں تمھارے علاؤہ کمرے میں کوئی اور بھی ہے کیا؟
مومن نے آنکھیں دکھاتے سوال کیا
" نہ نہیں تو"
قلب نے تھوک نگلا
" شرفو پری اوپر بھیجو میرے کمرے میں"
شرفو کو حکم دیتے وہ فون کان سے ہٹھاتے جیب میں رکھ چکا تھا
ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ پری ان کے سامنے کھڑی تھی
جی صاحب جی آپ نے بلایا۔۔۔
وہ مؤدب انداز سے نظریں جھکائے بولی
" ہاں اپنی بی بی جی کو میرا سارا کام سمجھا دو اور ہاں کچھ کھانے کو بھی دے دو "
جی صاحب جی میں بتا دیتی ہوں ۔۔۔۔
چلیں بی بی جی میں آپ کو سب کام سمجھا دوں ۔۔۔۔
مومن کو جواب دیتے وہ پری سے مخاطب ہوئی
مومن بھی کمرے سے نکل گیا۔۔۔۔
"چلیں میں آپ کو حویلی دکھاؤں بہت بڑی اور پیاری حویلی ہے شاہوں کی "
پری ایک بہت ہی باتونی انیس بیس برس کی لڑکی تھی
وہ قلب سے بھی انتہاہی پیار اور مان سے پیش آ رہی تھی جیسے وہ بھی باقی
حویلی والوں کی طرح اس کی نظر میں اہم ہو
"اے لڑکی کہاں لے جا رہی ہو اس منحوس کو "
سامیہ جو سفید جوڑے میں ملبوس
اماں سائیں کے کمرے میں جا رہی تھی
ان کو دیکھ کے بولی
" وہ صاحب جی نے بولا ہے ان کو کان سمجھا دوں ان کا اور کھانا بھی دے دوں "
پری نے من و عن مومن کا حکم اسے بھی سنا ڈالا
"ہاں ہاں لے جاؤ پھر پورے گھر کا کام بھی بتا دینا
یہ بھی تمھارے ساتھ ہی کام کرے گی آخر کو مفت کی روٹیاں تھوڑی توڑنے دیں گے اس کو"
وہ نفرت سے کہتی اماں سائیں کی مسہری کی طرف بڑھ گئی
" پتہ نہیں خود کو سمجھتی کیا ہیں یہ جیسے باقی سب تو ہیں ہی کیڑے مکوڑے ان کے سامنے "
پری بڑبڑاتی
" یہ لیں آپ بریانی کھا لیں جلدی سے نہیں تو پھر سے آجائیں گی وہ "
بریانی کی پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے وہ
بولی
_____________________
"بھائی جان کی موت کا جتنا تجھے دکھ ہے اتنا ہمیں بھی ہے مگر تو نے تو خود کو سب سے دور ہی کر لیا ہے یار"
علی نے شکوہ کیا
" مجھے لگتا ہے میں نے خود کو کھو دیا میں جیسے میں رہا ہی نہیں "
وہ خلا میں گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا
" تیرا مسلہ پتہ ہے کیا تیری حالت ایسی تب ہوتی ہے جب تو کچھ غلط کرے میں تجھے اچھی طرح جانتا ہوں "
علی اس کے کندھوں پہ ہاتھ رکھتے اپنائیت سے بولا
" بھائی کا انتقام لیتے میں ادھر جا پہنچا جہاں شاید مجھے نہیں جانا چاہیے تھا اور بھائی کے قاتل کی بہن کو بیوی بنا بیٹھا کل جب اماں اور بھابھی اسے مار رہیں تھیں پہلے تو میں بت بنا تماشہ دیکھتا رہا
پھر ایک لمحے میں مجھے وہ سب برا لگا
اس تماشے سے میرا دل اچاٹ ہوگیا
حالانکہ میں یہ تو چاہتا تھا کہ اس کو درد ہو وہ تڑپے اور مجھے سکون ملے مگر ایسا ہوا نہیں "
یہ سب کہتے وہ ستائیس سالہ میچور، مغرور اور سرد رویہ رکھنے والا مومن لگ ہی نہیں رہا تھا
بس تو ٹھنڈے دماغ سے بیٹھ کے خود سوچ کہ آخر اس لڑکی کا کیا قصورہے
اس نے تیرا کچھ نہیں بگاڑا
پھر اس کے ساتھ ہی یہ سب کیوں؟
" میں کیا کروں جب جب میں اس لڑکی کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں
مجھے اس سے نفرت ہونے لگتی ہے
مجھے غصہ آتا ہے اس پہ
اسے دیکھ کے مجھے بھائی جان کی یاد آجاتی ہے
پھر مجھے اتنا یاد رہتا ہے کہ وہ میرے بھائی کے قاتل کی بہن ہے "
"خود پہ کنٹرول کر مومن کیا پتہ تجھے کبھی پتہ چلے تیرے بھائی کا قتل اس کے بھائی نے نہیں کسی اور نے کیا ہے
تو تب کیا کرے گا
ایک بے گناہ پہ ظلم کے پہاڑ نہ توڑ کے سچائی سامنے آنے پہ تو خود سے ہی نظریں ملانے کے قابل نہ رہے "
علی نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے کہا
ایک پل میں اس کی آنکھوں خون اترا
"وہی ہے میرے بھائی کا قاتل کیونکہ صرف وہی تھا
اس وقت کوئی اور تھا ہی نہیں اور اگر اس نے خون نہیں کیا میرے بھائی کا تو غائب کیوں ہے
آخر فرار کیوں ہو گیا سامنا کرتا نہ "
وہ انتہاہی غصے سے بولا
"تمھارا دکھ ابھی تازہ ہے میں نہیں چاہتا تم بلاوجہ کسی بے گناہ کو سزا دو اور ہوسکتا ہے تمھارے بھائی کے کوئی ایسے دشمن ہوں جو بس اس کی موت چاہتے ہوں اور دراب کو بھی انھوں نے کہیں چھپا دیا ہو یا پھر وہ اس خوف سے کہ کہیں الزام اس پہ نہ آئے چھپ گیا ہو "
علی کی بات پہ دراب ایک پل کو تو سوچ میں ڈوبا
پھر سر جھٹکا کیونکہ اس کے بھائی سے کسی کی دشمنی تھی ہی نہیں سارے سرے دراب کے قاتل ہونے کی طرف اشارہ کر رہے تھے
________________________
" آپ نے کہا تھا کی مومن میرا ہے وہ صرف مجھ سے ہی شادی کرے گا تو پھر یہ میں کیا سن رہی ہوں آپی "
عالیہ تن فن کرتی ھوں ہی سامیہ کے کمرے میں داخل ہوئی بیگ کندھوں سے اتار کے پھینکتے شروع ہوگئی تھی
وہ ایسی ہی تھی جنونی کسی چیز کے پیچھے پڑ جاتی یا تو اسے حاصل کر لیتی یاپھر کسی کے قابل بھی نہ چھوڑتی
" نہ سلام نہ دعا آتے ہی شروع ہوگئی ہو سر جھاڑ منہ پھاڑ بندہ کچھ تہزیب تمیز ہی سیکھ لیتا ہے "
سامیہ نے سخت کوفت سے کہا
" تمیز تہذیب گی بھاڑ میں مجھے کچھ نہیں پتہ بس مجھے مومن چاہیے تو بس چاہیے"
وہ ضدی لہجے میں بولی
" کیوں مومن کوئی شاپ پہ رکھا کھلونا ہے جو تو کہ رہی کہ تجھے چاہیے
ایسے تو نہیں ہوتا نہ
وہ جوان خوبصورت مرد ایسے کیسے میرے کہنے پہ تجھ سے شادی کر لے گا
مانا کے میں بھی یہ ہی چاہتی ہوں مگر یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا لگ رہا ہے "
سامیہ نے اسے اپنے پاس بٹھاتے پیار سے سمجھانا چاہا
آپی میں کیا کروں آخر؟
اس کے نکاح کی خبر سن کے آپ نہیں جانتی میں کتنی تکلیف میں ہوں
میں نے صرف اس کے خواب دیکھے ہیں
اسے اپنے اس پاس محسوس کیا ہے میں کیسے برداشت کرلوں اسے کسی اور کا ہوتے"
وہ روہانسی ہوئی
" ابھی تو میں بھی صدمے میں ہوں اور اماں جی سے بھی اس پہ بات کرنا ٹھیک نہیں لگتا اور تم فکر نہ کرو بہت جلد تم اس گھر کی بہو بنو گی "
اور ہاں آج یہ غلطی کر دی زور زور سے چلا کے زرا سمجھدار بنو ان سب کے ساتھ گھل مل کے رہو اور اپنی جگہ بناؤ اماں جی کے دل میں اور پھر وہی مومن کے دل اور زندگی میں تمھاری جگہ بنا دیں گی "
وہ اس کے قریب ہو کے شرگوشی نما انداز میں کہہ رہی تھی
"سوری آپی پتہ نہیں کیوں مجھے بس غصہ آگیا اور کچھ ہوش ہی نہ رہا"
وہ شرمندہ ہوئی
وہی تو بول رہی ہوں میری جان جوش سے نہیں ہوش سے کام لو ورنہ بنا بنایا کھیل بگڑ جائے گا اگر بی اماں جان یا پھر کسی اور کو تمھارے اس جوش کا پتہ چلا"
سامیہ کے کہنے پہ وہ مسکرائی
ہاں اب خیال رکھوں گی
____________________
وہ جو کب سے ایک پرانی بندوق پہ محبت سے ہاتھ پھیر رہے تھے
قدموں کی آواز پہ گردن گنجا کے پیچھے مومن کو دیکھا
ہاں بولو بیٹا کیا بات ہے کچھ کہنا ہے کیا ؟
مومن کو چپ دیکھ حیدرشاہ نے پوچھا
بابا آپ نے ایسا کیوں کیا؟
میرے نام ہی سب کچھ کیوں اور اس لڑکی کے نام کیسے آپ یہ حویلی کر سکتے ہیں؟
اس کے دل میں جو سوال تھے آخر وہ زبان پہ الفاظ بن کر آ ہی گئے تھے
وہ پہلے تو اپنے لاڈلے بیٹے کو دیکھتے رہے جس کو بھائی کی موت نے تڑ کے رکھ دیا تھا اندر سے مگر وہ یہ خود پہ ظاہر ہی نہیں ہونے دے رہا تھا
پھر بندق ایک سائڈ پہ رکھتے اسے پاس بیھٹنے کا اشارہ کرتے گویا ہوئے
" مومن دیکھو تم جوان خون ہو جزبات میں آ کے کچھ غلط نہ کر بیٹھو
کبھی کبھی جو ہمیں نظر آ رہا ہوتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے
اور ہم غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط مان کر ایک سراب کی صورت اس کے پیچھے بھاگتے بھاگتے اپنا ہی نقصان کر دیتے ہیں
اور اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ پلٹنے کا راستہ ہی نہیں بچتا
تب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے غلط کر دیا مگر پھر پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے "
انھوں نے ساتھ رکھی بندوق کو بغور دیکھتے کہا
" میں آپ سے کیا پوچھ رہا ہوں آپ مجھے صحیح غلط کا فلسفہ سمجھا رہیے ہیں
بابا سائیں میں نے جو پوچھا ہے آپ نے وہ تو بتایا نہیں میری بات کو گول کر گئے "
مومن نے ان کی آنکھوں میں کچھ کھوجتے کہا
ایسا سمجھ لو کہ یہ سب وقت کا تقاضا تھا ایسا میں نہ کرتا تو بعد میں پچھتاوا میرا مقدر بنتا
تم بھی آنکھیں کھول کے اپنے اردگرد دیکھوں کے چہروں اور لہجوں کو پڑھنا سیکھو "
وہ ایسے بات کر رہے تھے جیسے کوئی بہت بڑا راز ان کے سینے میں دفن ہو اور وہ چاہ کے بھی مومن کو بتا نہ سکتے ہوں
" کھل کے کہیں نہ بابا سائیں آخر بات کیا آپ نے اپنے سگے پوتے اور بیٹے کی بیوہ کو جائیداد میں کچھ کیوں نہیں دیا
اس میں کیا اچھا یہ تو سراسر نا انصافی ہے نہ ان کے ساتھ ان کا بھی حق"
" مومن تم تب مبشر کی جائیداد اسکے نام کر دینا جب وہ بڑا ہو جائے جب وہ خود سنھبال سکے "
وہ نظریں جھکائے بولے
آواز میں ایک درد تھا
اور بھابھی ان کا حصہ؟
"وہ اس حویلی میں حنان کی بیوہ کی حیثیت سے رہ رہی ہے نہ ہم نے اسے یہ حق دے دیا ہے یہ ہی بہت ہے "
سامیہ کے نام پہ ان کا لہجہ تلخ ہو گیا تھا
"اور تم کیا مجھ سے سوال کرنے آ گئے ہو جاؤ تم نے اپنی من مانی کونی تھی سو کر لی مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دو"
وہ اپنی آنکھوں میں آئی نمی چھپاتے مومن کو جانے کا بولے
مومن کے جانے کے بعد انھوں نے پھر سے بندوق کو اٹھا کے اسے چھو کہ محسوس کرنے لگے
یہ ان کو اپنے دوست سے تحفے ملنے والی وہ واحد چیز سے جو انھیں بہت عزیز تھی
ایک وہ وقت تھا جب لوگ چودھریوں اور شاہوں کی لازوال دوستی کی مثالیں دیا کرتے تھے
پھر کسی کی ایسی نظر لگی کہ سب درہم بھرم ہوگیا
حنان کی موت نے حالات کا رخ یکسر موڑ کے رکھ دیا تھا
اب وہ وقت آگیا تھا کہ شاہوں اور چودھریوں کی دشمنی کے قصے زبان زد عام تھے
ایک گہرا راز دل میں لیے حیدر شاہ جانے کس سوچ میں گم سب اچھا ہونے کی امید دل میں لیے بیھٹے تھے اور یہ دشمنی پتہ نہیں کب تک چلنی تھی
ایک معصوم کو تو اس آگ میں جھونک دیا گیا تھا
اور یہ کرنے والا ان کا لاڈلا بیٹا مومن تھا جو کبھی ایسا نہ تھا جلدبازی میں فیصلے کرنے والا
مگر کی بھائی موت نے اسے سر تا پیر بدل دیا تھا
وہ نرم دھیما لہجہ اور ہمدردی بھرے احساس تو کہیں دور جا سوئے تھے
اس کے دل میں اب صرف نفرت کی آگ اور دشمنی کا الاؤ جل رہا تھا
جس کے بجھنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی دکھائی دے رہی تھی
انتقام کی آگ کے شعلے اس قدر وحشت ناک اور شر انگیزہوتے ہیں
کہ کبھی اپنا وجود بھی اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے
جو لوگ انتقام کی آگ میں جلتے ہیں
وہ بدلہ لینے کے بعد بھی کوئی خوشی حاصل نہیں کر سکتے
جو انتقام کسی دوسرے کی بربادی ہوتا ہے وہ بھلا کسی کو خوشی کیسے دے سکتا ہے
اور انتقام کی آگ میں جلتے انسان اکثر اپنا ہی نقصان کر دیا کرتے ہیں
اب مومن شاہ کے ساتھ آگے کیا ہونے والا تھا یہ تو آنے والا وقت ہی بتا سکتا تھا
سر پہ اوڑھی شال اب سرک کر کندھوں پہ ڈھلک گئ تھی
وہ جھکی کچن میں صفائی کرنے میں مگن گردونواح سے بے خبر کھڑی تھی
جبکہ لمبے سیاہ ریشمی بال کمر پر آبشار کی صورت بکھرے تھے
وہ جو پانی پینے آیا آیا تھا کچن کے دروازے پہ ٹھٹک کر رکا
وہ جو لڑکیوں کو نظر اٹھا کر دیکھنے کا بھی روادار نہ تھا
آج اسے جانے کونسا جزبہ رکنے پر مجبور کر گیا تھا
وہ اسے دیکھنے میں ایسا محو ہوا کہ یہ بھی نہ یاد رہا کہ آیا کس کام سے تھا
پری اب اس کا کیا کرناہے ؟
وہ مڑتے ہوئے پری سے بولی جو کب کی جا چکی تھی
پھر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ خوف کے سائے چہرے پہ لہرائے شال کا ہوش آیا
تو جلدی سے کندھوں سے شال کو سر پہ لپیٹا اب وہ خود کو ڈھانپ چکی تھی
اس کی آواز سنتے وہ بھی ہوش میں آیا تھا اور پھر نظروں کا زاویہ بدلتے وہ اب پانی کی بوتل منہ سے لگائے کھڑا تھا
پانی پیتے وہ کچھ بھی کہے بغیر اپنے روم کی طرف بڑھ گیا تھا
اس کے جاتے ہی وہ دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگئ
وقار جو کچن کے سامنے سے ہی گزر رہا تھا ایک لڑکی کو کام کرتے دیکھ رکا اور الٹے
دو قدم پیچھے لیتا کچن کے اندر داخل ہوگیا
"ارے واہ کیا ملازمہ رکھی ہے حویلی والوں نے ان لوگوں کی تو قسمت ہی اچھی ہے کہ ملازمائیں بھی ان کو خوبصورت ملتی ہیں اور ایک ہم ہیں کہ۔۔۔۔
وہ کمینگی سے دل پہ ہاتھ رکھے قلب کو غلیظ نظروں سے دیکھتے کہہ رہا تھا
جبکہ اس کے اس طرح دیکھنے پہ قلب کو بہت برا محسوس ہوا تھا
اور اس کا ملازمہ کہنا اسے احساس کمتری میں مبتلا کر گیا
وہ خباثت سے کہتا قلب کی طرف بڑھا اور ایک ہی جست میں اس کی کلائی تھام لی
چھو چھوڑو مجھے ۔۔۔
وہ اپنی کلائی چھڑانے کی کوشش کرنے لگی
" اور اگر نہ چھوڑو تو کیا کرو گی ہاں"
کلائی پہ گرفت بڑھی تھی
وہ درد سے بلبلا اٹھی دبی دبی سسکیاں اس کے منہ نکلیں
آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کے گالوں پہ لڑھک گئے
"جان من رو کیوں رہی ہو میں نے تو کچھ کہا نہیں ابھی تک "
وہ کمینگی سے کہتا دوسرے ہاتھ سے اس کی گال پہ موجود آنسو صاف کرنے لگا
قلب نے چہرہ موڑ لیا
ذلیل انسان چھوڑو مجھے ۔۔۔۔
اس نے ایک بار پھر سے خود کو چھڑانے کی کوشش کی
" لو چھوڑ دیا تم بھی اس حویلی میں ہو اور میں بھی دیکھتے ہیں کب تک بچ پاؤں گی مجھ سے "
اس کی کلائی چھوڑتے وہ خباثت سے بولا
آزاد ہوتے وہ وہاں سے بھاگتی چلی گئ مومن مے کمرے میں جا کے جھٹ سے دروازہ بند کرتے مڑی
آنسو آنکھوں سے بے اختیار نکل کر گالوں کو بگھو رہے تھے
وہ جو ٹاؤل سےگیلے بالوں کو رگڑ رہا تھا
اچانک اس کے اس طرح ڈرے سہمے انداز میں روم کے اندر داخل ہونے پہ سوال کرتا
وہ اسے سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر اس کے چوڑے سینے سے الگی
مومن شاہ کے جسم میں کرنٹ سا دوڑ گیا تھا اس کے اچانک اس انداز پہ
اب حالت یہ تھی کی کہ وہ اس کے سینے سے لگی کانپ رہی تھی جبکہ وہ ہکابکا اسے کے ڈر سے کانپتے وجود کو دیکھ رہا تھا
ایک بار ہاتھ بڑھا کے اسے خود سے دور کرنا چاہا مگر پھر ہاتھ روک لیا
کیا ہوا کیوں رو رہی ہو ؟
اس کو ہلتے نہ دیکھ وہ پوچھ بیٹھا
اس کی آواز سنتے وہ ہوش میں آئی تھی
پھر اچانک نظریں اٹھا کے مومن کو دیکھا اپنی پوزیشن کا خیال آتے ہی
وہ فوراً اس سے دور ہوئی
بولو اب کیا گونگی ہو گئ ہو .۔۔۔۔
قلب کو نہ بولتا دیکھ اس نے پھر سے پوچھا
وہ وہ ۔۔۔۔
وہ بتانے لگی تھی پھر خیال آیا کہیں اس پہ بھی اسے ہی نہ مار پڑے چپ ہوگی
" یہ وہ وہ کیا لگا رکھا ہے بتاؤ بھابھی اور اماں نے مارا ہے یا کسی ملازم نے کچھ کہا ہے "
مومن کے پوچھنے پہ بھی وہ کچھ نہ بولی بس سسکیاں لے کے روتی رہی
اچھا چپ ہو جاؤ اماں اور بھابھی سے میں خود بات کر لوں گا ان میں سے کوئی بھی آج کے بعد تمھیں کچھ نہیں کہے گا اب رونا دھونا بند کرو
وہ جو سمجھ رہا تھا اماں جا بھابھی نے کچھ کہا ہوگا
اسے تسلی دیتے بولا
" اچھا جاو اب پری کے پاس تم میں کہہ رہا ہوں اب کوئی تمھیں کچھ نہیں کہے گا "
اب کی بار وہ تھوڑے غصے سے بولا
" نہ نہیں میں باہر نہیں جاؤں گی مجھے ڈر لگتا ہے "
وہ سسکیاں لیتے بولی
" اچھا ٹھیک ہے نہ جاؤ اب یہ رونا تو بند کرو نہ "
مومن کو اس کے رونے سے سخت کوفت ہو رہی تھی اس لیے جھنجھلا کے بولا
اب وہ آنسو صاف کرتی رونے کا شغل ترک کر چکی تھی مگر ابھی بھی ڈر سے کانپ رہی تھی
_____
ہماری جان کی قیمت چکا رہے ہیں وہ
ملا کے خاک میں مشت غبار دیتے ہیں
______
وہ سب کیلئے مشت غبار ہی تو تھی
مٹھی بھر ریت جس کی کوئی وقعت نہ تھی کسی کی نظروں میں
بابا کے گھر چاچی کا ڈر اور مار کیا کم تھا جو ادھر آ کر یہ ظلم
رونا تو جیسے اس کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا
وہ بابا کے گھر بھی چاچی کی نفرت کا نشانہ بنی رہی اسی نفرت اور حسد میں چاچی اس کے باپ اور بھائی کی غیرموجودگی میں گھر کا سارا کام اس معصوم سے کرواتی
اور باپ کو نہ بتانے کی دھمکی بھی دیتی کہ اگر اس نے باپ یا بھائی کسی کے سامنے زبان کھولی تو مار مار کے حشر بگاڑ دے گی
مار کے ڈر سے وہ آج تک کسی کے سامنے نہ بولی تھی
ہاں البتہ اس کے باپ اور بھائی کی موجودگی میں چاچی اس سے اس قدر پیار سے پیش آتی جیسے وہ اسکی سگی اولاد ہو
یہاں آکے بھی وہ سب کی نظروں میں اپنے لیے نفرت ہی دیکھی تھی
صرف پری ہی اس سے پیار سے پیش آتی تھی
اور مومن اس کا رویہ تو دھوپ چھاؤں کا تھا
کبھی سخت غصہ اور کبھی نرم دل ۔۔
پچھلے نو گھنٹے میں جب سے وہ اس حویلی میں آئی تھی
بلکہ لائی گئ تھی اس نے یہ سب ہی محسوس کیا تھا
______________________
حویلی والوں نے نئی ملازمہ رکھی لی ہے کیا؟
مبشر کو چاکلیٹ کھلاتے سامیہ کے ہاتھ رکے بھائی کے سوال پہ
نہیں تو۔۔۔۔
تو پھر وہ کون تھی جو کچن میں کام کر رہی تھی؟
گھنے لمبے سلکی بال شفاف خوبصورت معصوم چہرہ
قلب کا سراپا اس کی نظروں کے سامنے لہرایا
پتہ نہیں تم کس کی بات کر رہے ہو حویلی میں تو کوئی ۔۔۔۔
یہ کہتے کچھ یاد آنے پہ وہ رکی
ہاں وہ اچھا وہ تو مومن کی بیوی ہے جو ونی ہو کے آئی ہے "
چاکلیٹ کا ریپر ڈسٹ بن میں پھینکتے وہ سیدھی ہوئی
" یہ اتنی چھوٹی معصوم لڑکی اس اکڑو کی بیوی ہے "
لہجے میں مومن کیلئے حسد صاف نظر آرہا تھا
" ہاں ہے تو پر وہ اس کو منہ لگاتا نہیں چاہے جتنی بھی خوبصورت ہے
مگر ہے تو اس کے بھائی کے قاتل کی بہن نہ
اور ونی میں آئی لڑکی کی حثیت تو صرف ملازمہ جتنی ہوتی ہے "
مگر تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟
اس کو سوچ میں ڈوبا دیکھ سامیہ نے پوچھا کیونکہ وہ بھائی کے ٹھرک اور کمینے پن سے اچھی طرح واقف تھی
" نہیں بس ایسے ہی نظر آ گئ تو پوچھ لیا آپ بتائیں آپ نے عالیہ کیلئے بات کی ان لوگوں سے "
وقار نے بات بدلتے کہا
" ہفتہ بھر ہوا ہے میرے شوہر کی موت کو اب میں اتنی جلدی کیسے بات کر لوں
کسی کی سنتی ہے نہیں عالیہ بھی
تم زرا اسے سمجھاؤ کہ تھوڑا صبر کر لے جہاں اتنا صبر کر لیا تھوڑا اور سہی "
" مگر تم یہ بھی تو سوچو نہ کہ اگر مومن دوسری شادی کیلئے نہ مانا
اور اس نے پہلی بیوی یعنی اس لڑکی کو ہی اس حویلی کی بہو اور اپنی بیوی تسلیم کر لیا تو
کیونکہ وہ خوبصورت تو ہے ہی ساتھ کم عمر بھی کے
اور پھر مرد تو اپنے سے چھوٹی عمر کی بیویوں کے عشق میں مبتلا ہو کے سب بھول جاتے ہیں "
وقار نے اسے حقیقت بتائی
" ایسا کچھ نہیں ہوگا ونی میں آئی لڑکی کبھی اس حویلی کس وارث تو دے نہیں سکتی
اس لیے اماں سائیں مومن کی دوسری شادی ضرور کروائیں گی "
سامیہ جیسے پر یقین تھی
پھر بھی اگر ایسا کچھ نہ ہوا تو ہم کیا کریں گے ؟
وقار اس کی بات پہ مطمئن نہیں تھا تب ہی بولا
ایسا ہی ہوگا اور میں کروا کے رہوں گی اس حویلی کی بہو، مومن کی بیوی اور اس حویلی کو وارث دینے والی صرف عالیہ ہی ہوگی
سامیہ نے اٹل انداز سے کہا
ایسا ہی ہو جیسا تم کہہ رہی ہو ۔۔۔
وقار نے بھی اس کی بات پہ سر ہلا دیا
______________________
افراسیاب چودھری اس وقت حیدر شاہ کے ڈیرے پہ موجود تھا
جہاں وہ پہلے ہنس ہنس کے باتیں کیا کرتے تھے
ان کی محبت اور دوستی کی زمانہ مثالیں دیتا نہیں تھکتا تھا
ان میں سے کس کو معلوم تھا
کہ کبھی حالات اس قدر خراب ہونائیں گے
یہ سب ختم ہو جائے گا
برسوں کی دوستی یوں ختم ہوکر دشمنی میں بدل جائے گی
ان کے بچے ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے
وہ افراسیاب چودھری جو پہلے بڑے مان اور خوشی سے حیدر شاہ سے ملنے آتے تھے نظریں اٹھائے سینہ چوڑا کئے
مگر آج ایسا کچھ نہ تھا افراسیاب کی نگاہیں زمین میں گڑی تھیں
کندھے ڈھیلے کئے
آج وہ اپنی بیٹی کی خوشیوں اور سلامتی کی بھیک مانگنے آیا تھا
ان وہ نہ دوست بن کے آیا تھا نہ ہی دشمن
بلکہ وہ تو ایک فقیر بن کے جھولی پھیلائے اس سے کچھ مانگنے آیا تھا
اپنے جگری یار کی یہ ٹوٹی پھوٹی حالت دیکھ حیدر شاہ نے اپنا غم بھلا کے دوڑ کر اسے گلے لگایا تھا
جو بھی تھا وہ اس کا دوست ہی تھا وہی پرانا جگری یار
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے بیٹے کو قتل کرنے والا دراب ہی ہے یا کوئی اور
کیونکہ اس نے اپنی آنکھوں سے یہ نہ دیکھا تھا
اگر دیکھ بھی لیتا تب بھی اسے یقین تھا دراب کبھی ایسا نہیں کرے گا
"حیدر شاہ میں بہت شرمندہ ہوں تم سے مگر خدارا میری معصوم بچی کو میرے بیٹے کے گناہوں کی سزا نہ دو "
ایک دکھی باپ نے التجا کی
"افراسیاب وہ میری بھی بیٹی ہے میں بھی نہیں چاہتا اس کے ساتھ کچھ برا ہو "
" وعدہ کرو حیدر تم میری بچی کا خیال رکھو گے
میری بچی نے ماں کا پیار نہیں دیکھا
اور اب باپ کی شفقت سے محروم ہوگئ ہے
میں چاہتا ہوں وہ اپنے گھر میں خوش رہے عزت سے آباد رہے "
وہ روتے ہوئے اپنے دوست سے عہد کے رہے تھے
"میں وعدہ کرتا ہوں افراسیاب تمھاری بیٹی پہ آنچ بھی نہیں آنے دوں گا
تم فکر نہ کرنا
مومن بھی بہت جلد اسے قبول کر لے گا کیونکہ میں جانتا ہوں
بھائی کی موت کے صدمے نے اسے اس قدر سخت بنا دیا ہے
ورنہ وہ بہت نرم دل ہے "
اب افراسیاب کے دل سے بوجھ اتر چکا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا
کہ حیدر شاہ کے سامنے موت بھی کھڑی ہو نہ تب بھی وہ اپنے وعدے
سے پھرنے والوں میں سے نہیں وہ وعدہ وفا کرنے والوں میں سے ہے
___________________
"دیکھیں نہ اماں سائیں اب حنان کا غم تو ہم سب کو ہے اور یہ کوئی چھوٹا غم تو ہے نہیں
ایک پہاڑ تھا جو حنان کی موت کی صورت ہم سب کے سروں پہ گرا
آپ نے اپنا جوان بیٹا کھویا ہے
اور میں نے اپنے سر کا سائیں کھو دیا اور بیوگی کی چادر اوڑھ لی
ابھی ہم اسے سے سنبھلے بھی نہ تھے کہ مومن نے وہ قاتل کی بہن ہمارے سروں پہ لا بٹھائی "
سامیہ نے اماں سائیں کے پاؤں دباتے کہا
"ہاں وہ لڑکی تو ونی میں آئی ہے نہ میں نے اسے غصے میں مار تو دیا
مگر پھر میرا دل بڑا دکھا وہ معصوم تو بے قصور تھی نہ "
اماں سائیں نے شرمندہ ہوتے کہا
" آپکا بھی قصور نہیں ہے نہ وہ بھی تو اسی کا خون ہے آخر جس نے ہمارے حنان کو مار ڈالا "
سامیہ نے انھیں نرم پڑتے دیکھ کہا
" پھر بھی وہ تو بے قصور ہے اور ہمارے ہمارے مومن کی بیوی بھی تو ہے "
"مومن کی بیوی ہے مگر اماں آپ خود سوچیں خاندان کو وارث تو ونی عورت نہیں دے گی نہ وہ مومن کی بیوی ہے اس حویلی کی بہو ہے مگر ہے وہ ونی نہ "
"ہاں کہہ تو تم ٹھیک رہی بھلا قاتل کی بہن کیسے ہمارے مومن کو وارث دے سکتی ہے "
وہ سوچتے ہوئے بولیں
" اسی لیے میں کہہ رہی ہوں کہ ہم مومن کی شادی کسی اچھی پیاری اور سلجھی ہوئی لڑکی سے کروا دیں گے "
"اچھا سوچتی ہوں میں اس بارے میں ابھی تو مناسب نہیں لگتا مگر میں کروں گی بات مومن اور شاہ سائیں سے "
لوہا گرم دیکھ سامیہ نے چوٹ لگا دی تھی اب وہ اپنی بات اماں سائیں تک پہنچا چکی تھی
اب بس ایک کام رہتا تھا عالیہ کا نام ان کے سامنے رکھنا تھا پھر بس ہوگیا کام
_________________
" چھوٹے سائیں ہم نے پورا علاقہ چھان مارا اور آس پاس کے علاقوں میں بھی اچھی طرح دیکھ لیا
مگر دراب کا کہیں کچھ اتا پتہ نہیں
اور ان کے گھر والوں پہ بھی ہم نظر رکھ رہے ہیں ادھر بھی نہیں گیا وہ "
مومن اپنے ازلی انداز میں کالے شلوار قمیض کے ساتھ کندھوں پہ شال ڈالے ماتھے پہ تیاریاں چھڑائے ٹانگ پہ ٹانگ جمائے سامنے کھڑے اپنے آدمی کی بات سن رہا تھا
اس کی مکمل ہوتے ہی مومن غصے سے اٹھا اور مؤدب کھڑے اپنے آدمی کے قریب آیا
تم کہہ رہے ہو وہ تمھیں کہیں نہیں ملا آخر وہ گیا کہاں ہے
زمین نگل گئ یا آسمان کھا گیا اسے بتاؤ "
اس کی دھاڑ سن کے سب کے سر جھک گئے تھے
"مجھے جلد سے جلد دراب چاہیے ورنہ تم سب کی خیر نہیں تم سب کس کام کیلئے ہو جب ایک آدمی جو ہی نہیں ڈھونڈ سکتے تو"
یہ کہتے وہ اپنی بلیک مرسڈیز کی طرف بڑھا اور زن سے اسے بگھا کر لے گیا
اور کسی کو بھی اپنے پیچھے نہ آنے کی تاکید کرنا وہ نہیں بھولا
حویلی پہنچتے گاڑی سے اترتا حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گیا
اس کی آنکھوں میں اس وقت خون اتر آیا تھا
شدید غصے میں وہ خود ہی کنڑول ہی نہیں کر پارہا تھا
وہ سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے کی طرف بڑھا
دھاڑ کی آواز سے کمرے کا دروازہ کھلا
وہ جو کمرے میں کھڑکیوں کے پردے برابر کر رہی تھی
اس اچانک آنے والے طوفان پہ پلٹی
وہ غضب ناک تیور لیے اس کی جانب بڑھا
خوف سے وہ خود میں سمٹی
" تم پل پل تڑپو گی تمھیں اس درد سے روشناس کرواؤں گا جو میں اپنے بھائی کو کھونے پہ محسوس کر رہا ہوں
تم تڑپو گی روؤ گی مگر میں رحم نہیں کروں گا کسی کو کھونے کی تکلیف کیا ہوتی ہے یہ میں تمھیں اور تمھارے گھر والوں کو بتاؤں گا!!!! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
اس کے بالوں کو مٹھی سے جکڑتے اس کا چہرہ اوپر کرتے وحشت زدہ آنکھیں اس کی جھیل سی آنکھوں گاڑتے اس نے کہا
وہ ڈری سہمی معصوم لڑکی شاہ کی گرم سانسیں اپنے چہرے پہ محسوس کر سکتی تھی۔۔۔۔۔
بالوں پہ مضبوط گرفت کے باعث اس کی گردن اکڑ گئ تھی
جس میں درد کی اٹھتی ٹھیسں اسے دبی دبی سسکیاں لینے پہ مجبور کر رہی تھیں ۔۔۔۔
" چپ ایک دم چپ تمھاری آواز نہ آئے مجھے!!!!۔۔۔۔۔ "
دوسرے ہاتھ سے اس کا منہ دبوچتے وہ غرایا
آنسو ٹپ ٹپ اس کی آنکھوں سے بہہ نکلے
مگر پرواہ کسے تھی؟؟ وہ تو ہر جزبے سے عاری بس اس لڑکی کو تکلیف میں دیکھنا چاہتا تھا
وہ ظالم نہیں تھا مگر بن گیا تھا۔۔۔۔۔
اسے دھکا دیتا وہ وہ کمرے سے جا چکا تھا۔۔۔۔۔
اور وہ میز کا کنارہ ماتھے پہ لگنے سے ماتھے سے پھوٹتے خون کو ہاتھ رکھے روکنے کی کوشش کرتے اپنی قسمت پہ آنسو بہا رہی تھی۔۔۔۔
درد اس کی شدت سے اس نے آنکھیں میچ لیں
نہ بابا کو پکار سکتی تھی نہ بھائی کو بھائی کی خاطر وہ آج اس حال کو پہنچی تھی
پیدا ہوتے ماں اللّٰہ کو پیاری ہوگئ
باپ نے پالا بھائی نے لاس اٹھائے ہاں مگر چاچی کے ظلم کا نشانہ وہ بنتی رہی
اس نے سکون کا لمحہ نہیں دیکھا تھا
اور وہ بت رحم انسان اس کی یہ حالت کر کے خود سڑکوں کی خاک چھاننے نکل پڑا تھا
غصے میں یہ قدم اٹھا تو لیا تھا اس نے مگر پھر اسے احساس ہو رہا تھا
کہ یہ کیا جن کردیا آخر وہ اس قدر ظالم کیوں بن گیا ہے
بھائی کی محبت میں یاپھر سینے میں جلتی انتقام کی آگ کی وجہ سے جو بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی
یہ سب اس کیلئے پچھتاوا اور شرمندگی لانے والی تھی
__________________
اماں سائیں کی طبیعت بھی کافی دنوں سے خراب رہنے لگی تھی
اب تو حالات یہاں تک پہنچ گئے تھے کہ ان کے منہ سے خون تک آنے لگا تھا
یہ بات وہ سب سے چھپا رہیں تھیں
کہ بلاوجہ کیا شوہر اور بیٹے کو پرشان کرنا وہ تو پہلے ہی ہلکان ہو رہے ہیں
اماں سائیں کیا ہوا ہے آپ کو ؟
پری نے ان کو سنک پہ جھکے دیکھ پوچھا
کیونکہ سب ان کو اماں سائیں کہتے تھے تو گھر کے ملازم بھی انکو اسی نام بلاتے تھے چاہے چھوٹے ہوں یا بڑے
" کچ کچھ نہیں مجھے کچھ نہیں ہوا بس "
وہ ایسے اچھلی تھیں جیسے کوئی چوری پکڑی گئی ہو
اچھاااااا۔۔۔۔
پری جو وہاں ے جانے ہی لگی تھی پانی کا رنگ دیکھ کے رکی
اماں۔۔۔۔سا سائیں۔۔۔۔۔
وہ بے یقینی سے ان کو دیکھتے بولی
" آپ کو خون کی الٹی آئی ہے اور آپ نے کہا کچھ نہیں "
وہ اس طرح فکرمند ہوتے بولی جس طرح ایک بہت ہی پیار کرنے والی بیٹی ماں
کو
اور اس میں کوئی شک نہ تھا کہ اماں سائیں ملازموں کو بھی اپنی اولاد کی طرح ہی رکھتی تھیں
"دیکھ پری میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں تو کسی کو نہیں بتائے گی نہ ہی چھوٹے سائیں اور نہ ہی بڑے شاہ کو "
پری کے سامنے ہاتھ جوڑے وہ منت بھرے انداز سے بولیں
"اماں سائیں آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں آپ میرے سامنے ہاتھ تو نہ جوڑیں نہ آپ حکم کریں مجھے
اور آپ سائیں کو بتائیں اس طرح تو آپ کی طبیعت زیادہ بگڑ جائے گی "
پری نے کے بندھے ہاتھ تھامے کہا
" تھوڑی سی طبعیت خراب ہے اب اتنی بھی نہیں دوائی لوں گی تو ٹھیک ہوجاوں گی "
انھوں نے پری کو تسلی دی جو کہ کارآمد ثابت ہوئی
" جیسے آپ کی مرضی اماں سائیں
اچھا مجھے اجازت دیں میں قلب بی بی کو دیکھ آؤں
پتہ نہیں کیا کررہی ہونگی
چھوٹے سائیں نے بولا تھا جب وہ گھر نہ ہوں تو ان کا خیال رکھا کروں "
پری نے یہ کہتے ان سے اجازت مانگی
" جا اور میرے پاس بھی لے آنا میں نے بھی اس معصوم بچی پہ بڑا ظلم کر دیا
بچاری کو بے قصور ہوتے مارا اور میں بھی کیا کرتی بیٹے کے غم نے میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی صلب کر دی تھی "
وہ رنجیدہ ہوتی بولیں
پری نے جوں ہی دروازہ کھولا سامنے بے جان وجود کو فرش پہ پڑے دیکھ اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں
ماتھے سے بہتا خون فرش پہ ایک لکیر کی صورت قالین میں جذب ہو رہا تھا
چہرہ جیسے لٹھے کی مانند سفید ہو ہوچکا تھا
ہونٹ بھی نیلے پڑ چکے تھے
پتہ نہیں وہ کب سے اس حالت میں پڑی تھی
پری کی تو ہمت نہ ہوئی اس کے قریب جانے کی
اس نے نیچے کی جانب دوڑ لگا دی
دو دو سیڑھیاں پھلانگتی وہ حویلی سے باہر کھڑے شرفو کے پاس ہانپتی کانپتی پہنچی
سانس بھی بھاگنے کی وجہ سے پھول چکا تھا
پاؤں میں جوتیاں بھی نہ تھیں
اور چہرے کی اڑی رنگت دیکھ ایک لمحے کو تو شرفو نے بھی دل پہ ہاتھ رکھا
" پری خیر تو ہے نہ کیا ہوگیا ہے تجھے جو اس طرح بھاگی چلی آئی وہ بھی اس حلیے میں
اماں سائیں تو ٹھیک ہیں نہ "
اس نے پری کی اڑی رنگت دیکھ پوچھا
وہ وہ شرفو چھوٹی بی بی۔ ۔۔۔۔۔
اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی
بول بھی سہی کیا ہوا چھوٹی بی بی کو ؟
شرفو نے سوال کیا
" وہ ان کے ماتھے سے خون بہہ رہا ہے وہ اپنے کمرے میں پڑی ہیں اور اور مجھے لگتا ہے ان کو سانس بھی نہیں آ رہا اللّٰہ نہ کرے مجھے لگتا ہے کہ وہ مر ۔۔۔۔۔"
" پری کیا ہوگیا ہے تجھے اچھے الفاظ منہ سے نکال کیون مایوسی کی اور ڈرانے والی باتیں کر رہی ہے تو "
شرفو نے اسکی بات کاٹتے کہا
" تو جلدی سے چھوٹے سائیں کو فون لگا جلدی کر نہ "
ہاں میں کرتا ہوں فون ۔۔۔
وہ جیب سے فون نکالتے بولا
" بیل تو جا رہی ہے مگر سائیں فون نہیں اٹھا رہے
لو اب کاٹ دیا "
شرفو نے موبائل کی سکرین کو تکتے کہا
" شرفو تو بار بار کال کر کیا پتہ اٹھا لیں بس تو کال کر "
وہ اپنی ہتھیلیاں رگڑتے ہوئے بولی
مومن جو سیگریٹ پہ سیگریٹ پھونک رہا تھا
بار بار آنے والی شرفو کی کال پہ اس کے ماتھے پہ بل پڑے
" اب اس کو کیا موت پڑی ہے کیوں بار بار کال کر رہا ہے
کہیں سکون بھی نہیں لینے دیتے "
یہ کہتے اس نے فون کان سے لگایا
"ہاں بول شرفو کیا مصیبت آ گئ ہے کو تجھ سے صبر نہیں ہو رہا "
وہ غصے سے بولنے لگا مگر دوسری طرف کی بات سننے کے بعد اس کے چہرے پہ غصے کے بجائے پریشانی صاف نظر آ رہی تھی
ماتھے پہ پڑے بل ڈھیلے ہوئے سیگریٹ کا آدھا حصہ پھینکتے فون بند کرتے وہ فوراً گاڑی میں بیٹھا
اور جتنی سپیڈ سے چلا سکتا تھا اتنا تیزی سے حویلی کی جانب چلا
وہ خود کو کوس رہا تھا آخر اس کی وجہ سے ہی تو یہ سب ہوا تھا
وہ نہ کرتا غصہ قلب کو نہ ڈراتا اور دھکا نہ دیتا تو اس کی آج یہ حالت بھی نہ ہوتی
آخر وہ اتنا بے حس کیسے ہوسکتا ہے
وہ بے قصور تھی اس کا تو کوئی جرم نہ تھا
پھر اسے ہی کیوں سزا دے رہا ہوں میں
اب بس ایک بار وہ ٹھیک ہوجائے پھر اسے کوئی تکیلف نہیں دوں گا
میں ایک کھروچ تک نہیں آنے دوں گا اس کے بھائی نے جرم کیا ہے تو سزا بھی اسے ہی دوں گا
مومن نے خود سے عہد کیا
قلب کا سنتے پتہ نہیں کیوں اس کے دل کو بہت تکلیف پہنچی تھی
اسیے جیسے کسی نے چھرا اس کے دل میں گھونپ دیا ہو
اسی سوچ میں حویلی کے پورچ میں گاڑی روکتے وہ جھٹکے سے باہر نکلا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا راستے میں پری بھی اس کے پیچھے بھاگی
کمرے میں پہنچتے ہی سامنے کا منظر
اسے اپنا دل چیرتا ہوا محسوس ہوا
جسم سے جان کیسے نکلتی ہے یہ اسے اب معلوم ہوا تھا
وہ تو خود اپنی کیفیت سے انجان تھا
وہ تو بس اس لڑکی کو تکلیف دی چاہتا تھا
پھر اس کا دل کیوں کٹ رہا تھا
مومن نے لپک کر اس کے پاس بیٹھتے اسے اپنی باہوں میں بھرا
قلب کے بےجان بازو جھولنے لگے تھے
ایسے ہی اسے باہوں میں بھرے وہ سیڑھیاں
اترتا نیچے آیا
سامیہ نے حیرت سے اسے دیکھا تو اسکے تن بدن میں آگ لگ گئ کہ ایک ونی کی اتنی پرواہ
" شرفو گاڑی نکالو ہمیں ابھی ہوسپیٹل جانا ہے "
وہ قلب کو باہوں میں بھرے ہی دور کھڑے شرفو کو بولا
شرفو کے گاڑی نکالتے ہی اس نے بیک سیٹ پہ قلب کو لٹایا پھر خود بھی بیٹھا اور قلب کا سر اپنی گود میں رکھ لیا
گاڑی ہوسپیٹل کی جانب تیزی سے رواں دواں تھی
مومن کی نظریں قلب کے معصوم چہرے کی ٹکڑی تھیں
" اٹھو دیکھو تمھیں کچھ نہیں ہوگا میں آئیندہ ایسا کچھ نہیں کروں گا
پلیز تم آنکھیں کھول لو پلیز آنکھیں کھولو "
مومن اس کا چہرہ تھپتھپاتے دیوانے پن سے کہہ رہا تھا
شرفو گاڑی تیز چلاؤ ۔۔۔
ہوسپیٹل میں پہنچتے ہی اس نے قلب کو پھر سے باہوں میں بھرا تھا اور اسے لیے اندر بڑھا
ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔
میری بیوی کو دیکھیں
یہ آنکھیں نہیں کھول رہی ہے پلیز آپ اس کو
دیکھیں کیا ہوگیا ہے ؟
وہ بے قراری سے کہتا ڈاکٹر کو کوئی
دیوانہ ہی لگا تھا
دیکھیں شاہ صاحب آپ حوصلہ رکھیں ہم ابھی آپکی مسسز کو دیکھتے ہیں
ڈاکٹر نے اسے تسلی دی
ڈاکٹر اس کا ٹریٹمنٹ کرتے رہے ماتھے کی بینڈیج بھی کر دی
اور وہ یہ ساری کارروائی بے چینی سے دیکھتا رہا
" ڈاکٹر کیا بات ہے وہ ٹھیک تو ہے نہ اسے کچھ ہوگا تو نہیں نہ "
ڈاکٹر کے قریب آتے ہی مومن نے بے چینی سے پوچھا
"جی سب ٹھیک ہے چوٹ تو گہری نہیں تھی ہم نے بینڈیج کر دی ہے
مگر مجھے لگتا ہے وہ مینٹل سڑیس کی وجہ سے بے ہوش ہوئی ہیں
آپ نے اچھا کیا کو انھیں وقت پہ لے آئے ہیں
دوائیں لکھ دی ہیں آپ انھیں وہ کھلائیں اور کسی طرح کے بھی سڑیس سے دور رکھیں "
ڈاکٹر ے پیشہ ورانہ انداز سے اس کو ہدایت کی
پھر قلب کو لے کر حویلی آگیا قلب کو نیند کا انجیکشن دیا گیا تھا اس وجہ سے وہ ابھی تک سو وہی تھی
مومن اس کے پاس بیٹھا بس اس کے چہرے کو تکے جا رہا تھا
کتنا معصوم پاکیزہ چہرہ ہے
اور میں اسے تکلیف دیتا رہا میری وجہ سے ان
کرنی جیسی آنکھوں میں آنسو آئے
قلب کی آنکھوں کو انگلیوں سے چھوتے وہ خود سے بول رہا تھا
__________________
وہ نیند میں تھے جب گردن پہ ٹھنڈی نوکدار چیز کے دباؤ کی وجہ سے ان کی آنکھ کھلی
اماں سائیں نیند کی دوائیں لے کے سوتی تھیں جس کی وجہ سے آنے والے کو کوئی خطرہ نہیں تھا
شاید وہ پہلے سے ہی یہ بات جانتا تھا تب ہی اس نے اسی لیے رات کے اس پہر کا انتخاب کیا تھا
" بغیر چوں چراں کے سارے پیپرز میرے حوالے کردو اور ان پہ سائن بھی کرو
ورنہ تم جانتے ہو بڈھے کہ تمھارے ساتھ کیا ہوسکتا ہے
ایک بیٹا تو تم کھو ہی چکے کو تمھارا بس ایک ہی سہارا باقی ہے جسے تم ہرگز کھونا نہیں چاہو گے
اور تمھارا پوتا وہ بھی تو تمھیں بہت عزیز ہے
آخری نشانی جو ہے وہ تمھارے بیٹے کی یقینا تم اسے بھی نہیں کھونا چاہو گے "
آنے والا ہنوز ان کی گردن پہ چاقو رکھے بول رہا تھا
حیدر شاہ نے بھی اس کی بات مانتے سارے پیپرز اس کے حوالے کئے اور جو کاغذ اس کے حوالے کیا گیا اس پہ بھی سائن کر کے کاغذ اس کو تمھارے دیا
آنے والے نے ایک طنزیہ مسکراہٹ پاس کی اور جیسے چپ چاپ آیا تھا ویسے ہی واپس چلا گیا
حیدر شاہ پیچھے اپنا سر تھام کے رہ گئے
_____________________
م مت مارو چاچی مجھے ے مت مارو میں سا سارا کام ک ر دوں گی ی ۔۔۔
وہ نیند میں بھی بے چینی سے بول رہی تھی
مومن جس کی بیٹھے بیٹھے ہی آنکھ لگ گئ تھی
قلب کی آواز پہ اس کی آنکھیں جھٹ سے کھلیں
" کیا ہوا تم ٹھیک ہو دیکھو ادھر کوئی نہیں ہے اب تمھیں کوئی نہیں مارے گا کوئی تم سے اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرے گا "
مومن نے اس کا ہاتھ پکڑتے کہا
قلب نے بوجھل آنکھیں کھولیں وہ چاچی کے پاس نہیں تھی
مگر اپنے اتنا پاس موجود شخص کو دیکھ وہ خود سے کانپنے
" پلیز پلیز مجھے مت ماریں میں نے کچھ نہیں کیا "
وہ اس سے دور ہوتے بولی
مومن نے ضبط سے آنکھیں بند کیں
پھر پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا
" لو پانی پی لو میں تمھیں کچھ نہیں کہوں گا "
" پکا کچھ نہیں بولیں گے نہ "
گلاس کی طرف ہاتھ بڑھاتے اس نے بے یقینی سے پوچھا
"ہاں اگر تم میری بات مانو گی تو کچھ نہیں بولوں گا اور اگر نہ مانی تو پھر تم جانتی ہو میں کیا کروں گا "
اسے اپنے قریب کرتے وہ بولا
ہاں میں میں مانوں گی ۔۔۔
کسی معصوم بچی کی طرح وہ بولی
"چلو اب آنکھیں بند کرو اور سونے کی کوشش کرو "
مومن نے اسے سینے سے لگاتے اس کا سر
تھپتھپاتے کہا
وہ آنکھیں بند کرتی اس کا حکم مان گئ
مومن بے خود اس کے شفاف چہرے کو دیکھے گیا جس پہ اب سکون تھا
پہلے بھی یہ بچاری پتہ نہیں کیا کیا برداشت کرتی رہی
اور پھر میں نے بھی اس کو یہاں لا کر اتنے ظلم کئے
مگر اب نہیں کسی اور کے جرم کی سزا میں اسے نہیں دوں گا
اور نہ ہی کسی اور کو دینے دوں گا
یہ سوچتے اس نے قلب کو خود میں ایسے بھینچا اس کے دل میں ایک سکون سا اترا جیسے بہت قیمتی شے اس کو مل گئ ہو
پھر وہ بھی آنکھیں موند گیا
پری تم کس کا کھانا لے کے جارہی ہو ؟
اور یہ مومن نیچے کیوں نہیں آیا کھانا کھانے
اماں سائیں نے برتنوں میں کھانا سجاتی پری سے پوچھا
" اماں سائیں وہ رات قلب بی بی کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئ تھی وہ بے ہوش ہوگئ تھی تو چھوٹے سائیں انھیں ہسپتال لے گئ تھے
ابھی بھی انھوں نے کہا کہ ان اور قلب بی بی کا کھانا اوپر لے جاؤں "
پری نے ٹرے سجاتے کہا
"تم نے بتایا کیوں نہیں میں جا کے دیکھ لیتی بچی کو تم بھی نہ حد کرتی ہو پری تمھاری ماں سکینہ تو اتنی لاپرواہ کبھی نہیں رہی جتنی تم ہو "
اماں سائیں نے پری کو سنا ڈالیں
" پہلے اپنی اداؤں اور معصومیت سے مومن کو پھانس کیا اس سائن نے اب آپ بھی اس کے آگے بچھی جائیں گی اماں سائیں "
سامیہ کے لفظوں میں قلب کیلئے چھلکتی نفرت وہاں موجود سب لوگوں نے محسوس کی تھی
" وہ معصوم کیوں اتنے ظلم برداشت کرے اس کا کیا قصور ہے آخر "
اماں سائیں کی آنکھوں میں اس کا معصوم چہرہ گھوما
" ہوگی وہ معصوم ، بے گناہ اور بچی مگر آپ سب یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہے تو وہ بھی ایک قاتل کی بہن اور ونی نہ پھر یہ عنائیتں کیوں "
پلیٹ میں چمچ پٹکتے وہ زور سے بولی
" کیا طریقہ ہے یہ ثابت نہیں ہوا کہ اس کابھائی کی قاتل ہے
چلو ہم مان لیتے اس کے بھائی نے ہی قتل کیا ہے
مگر اس معصوم کا اس سب میں کیا قصور وہ تو ان سب باتوں میں تھی ہی نہیں
کیا یہ کافی نہیں کہ وہ اس گھر میں اپنے بھائی کے ان گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے جو اس نے کئے بھی ہیں کہ نہیں
اور رہی بات مومن کی تو قلب اس کی بیوی ہے وہ جو چاہے اس کے ساتھ سلوک کرے تم اس پہ بات نہ ہی کرو تو بہتر ہے "
حیدر شاہ سرخ آنکھیں لیے اپنے سخت انداز میں سامیہ کو گھورتے ہوئے بولے
جا رہی ہوں میں اپنے کمرے میں میری تو کسی کو پروا ہی نہیں ہے آپ سب کریں آرام سے ناشتہ۔۔۔۔
" بس تھوڑا سا سوپ پی لو اگر کچھ کھاؤ گی نہیں پیو گی نہیں تو ٹھیک کیسے ہوگی "
مومن بنے سوپ پلاتے پیار سے اسے سمجھایا
" مجھے نہیں پسند یہ اس کا ٹیسٹ ہی نہیں اچھا لگتا "
وہ روہانسی ہوئی
" میں بول رہا ہوں نہ جلدی سے پی لو نہیں تو میں نے پھر غصہ کرنا ہے اور تم نے ابھی دوائیاں بھی تو کھانی ہیں "
چہرے پہ خفگی تاری کرتے مومن بولا تو وہ جلدی جلدی مومن کے ہاتھ سے سوپ پینے لگی
مومن کو ٹیبلیٹ اپنی طرف بڑھاتا دیکھ قلب کا منہ بن گیا
برے برے منہ بناتی وہ کبھی مومن کے چہرے کو دیکھتی تو کبھی اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹیبلیٹ کو ۔۔۔
مومن نے ہنسی دباتے دودھ اور ٹیبلٹ اس کی طرف بڑھائے
قلب نے منہ بسورے مگر پھر مومن کی گھوریاں دیکھتے ہوئے اسے یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑا
" شاباش اب تم آرام کرو میں جا رہا ہوں کام سے پری تمھارے پاس ہوگی کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو اس سے کہنا
اور کمرے سے باہر مت جانا "
مومن اسے ہدایت کرتا چلا گیا
__________________
"ہاں بولو اب کیا مسلہ ہے وہ پیپرز بڈھے کے سائن کروا کے دے تو دیئے تھے تمھیں"
" وہ بڈھا ہماری سوچ سے بھی زیادہ ہوشیار نکلا اس نے تو جائیداد پہلے ہی جائیداد نام کر دی کسی کے ہمارے ہاتھ ایک ڈھیلا نہیں آنا"
وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح بولا رہا تھا جس نے سب کچھ داؤ پہ لگا کہ بھی بازی ہار دی ہو
کس کے نام ہے ساری جائیداد اور حویلی؟
"ساری جائیداد تو مومن شاہ کے نام کر دی حیدر شاہ نے مگر وہ حویلی اس کل کی آئی لڑکی کے نام کر دی "
اس کے پاؤں اس خبر لڑکھڑائے آخر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں کو محروم رکھ کر کسی غیر کے نام۔۔۔۔
" تو اب کیا کرنے کا ارادہ ہے تمھارا جو بھی کرو مجھے بس ساری جائیداد چاہیے "
سامیہ تم ہوش سے کام لو ہم لوگ بہت جلد ان لوگوں سے سب چھین لیں گے
پہلے تو ہمیں اس لڑکی پہ فوکس کرنا ہوگا اس کو ڈرا دھمکا کے حویلی اپنے نام کروانی ہوگی
اور سب سے اہم کام تمھیں مومن کی شادی عالیہ سے جلد از جلد کروانی ہوگی
کیونکہ وہ لڑکی اگر مومن کے دل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئ
تو سب کچھ ہمارے ہاتھ سے چلا جائے گا ہم کہیں کے نہیں رہیں گے
سن رہی ہو نہ میں کیا بول رہا ہوں "
اس کا جواب نہ پا کے وقار نے اسے پکارا
"ہاں ہاں میں سن رہی ہوں بس اب تم دیکھتے جاؤ میں کرتی کیا ہوں
عالیہ اس گھر کی بہو اور مومن کی بیوی ہی بنے گی اور اس لڑکی کو خالی ہاتھ یہاں سے جانا ہوگا
میں نے اپنا شوہر تو کھو دیا ہے مگر یہ حویلی اور جائیداد کسی قیمت پہ نہیں کھو سکتی میں "
سامیہ کا خاطر دماغ اب تیزی سے کام کر رہا تھا وہ کسی نتیجے پہ پہنچ چکی تھی اسے پتہ تھا
اب کیا کرنا ہے جس سے اس کا نام بھی نہ آئے اور سارا معاملہ بھی حل ہو جائے
_________________________
کہاں جا رہی ہیں بیگم صاحبہ ؟
اماں سائیں کو سیڑھیاں چڑھتے دیکھ حیدر شاہ نے پوچھا
" اپنی چھوٹی بہو سے ملنے جا رہی ہوں آپ بھی آجائیں ساتھ چلتے ہیں "
انھوں نے بتانے کے ساتھ ساتھ حیدر شاہ کو بھی ساتھ نے کی دعوت دے ڈالی
آج ان کے لہجے اور لفظوں میں قلب کیلئے وہ زہر نہیں تھا جو پہلے ہوا کرتا تھا
آج اس نفرت کی جگہ حیدر شاہ کو محبت نظر آ رہی تھی
" چلیں جو ہماری بیگم صاحبہ کا حکم "
وہ بھی ان کے ساتھ ہو لیے
قلب نے ان دونوں کو دیکھ فوراً سلام کیا
جیتی رہو ہماری بچی اماں سائیں اور حیدر شاہ نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے دعائیں دیں
قلب تو حیران سی کھڑی تھی کہ آخر یہ کایا پلٹ کیسے گئ پہلے مومن اب یہ
اسے لگا اس کے اچھے دن شروع ہوچکے ہیں اب کوئی ظلم نہیں کوئی آنسو نہیں ہوگا اس کی آنکھ میں
مگر ایسا کب ہوا کہ خوشی کا موسم ٹھہر جائے غم سے کہاں برداشت ہوتا ہے خوشیوں کے ڈیرے جما لینا
خوشیوں کو نگل کر غم کہیں نہ کہیں سے اپنی جگہ بنا ہی لیتے ہیں
ایک ہی موسم سے تو انسان اکتا جاتا ہے اسی طرح خوشی اور غم بھی آتے جاتے رہتے ہیں
" بیٹی مجھے معاف کر دو میں نے اس دن تھیں بہت مارا آخر میں بھی کیا کرتی
جوان بیٹے کے غم نے میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی صلب کر دی تھی
مجھے کچھ پتہ نہ تھا آخر میں کر کیا رہی ہوں یاد تھا تو صرف یہ کہ تم میرے بیٹے کے قاتل کی بہن ہو
یہ تو سوچ ہی نہیں رہی تھی تم بھی انسان ہو تمھارا آخر اس سب میں کیا قصور
اور میرے مومن کی دلھن ہو تم مگر اب میں اپنے رویے پہ شرمندہ ہوں مجھے معاف کر دو"
اماں سائیں نے قلب کے سامنے اپنے بوڑھے کانپتے ہاتھ جوڑ دیے
"اماں جی آپ یہ کیا کر رہی ہیں آپ بڑی ہیں مجھ سے آپ کی تو کوئی غلطی نہیں آپ نے جذباتی میں آ کے کہا جو بھی کہا آپ میری بڑی ہیں پلیز ایسا نہ کریں "
قلب نے ان کے جڑے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے کہا
" آج سے تم ہماری بیٹی ہو اللہ نے تمھاری صورت ہمیں بیٹی دی ہے "
حیدر شاہ نے آج افراسیاب چودھری سے کیا وعدہ قلب کو بیٹی بنا کر پورا کر دیا تھا
قلب کیلئے بھی یہ خوشی کی بات تھی
کیونکہ اماں سائیں کی صورت میں اسے ماں ملنے والی تھی
ماں کا وہ پیار جس کیلئے وہ بچپن سے تڑپی تھی وہ اماں سائیں سے اسے ملنے والا تھا
_______________
رافع ایک عورت تم سے ملنے آئی ہے میں نے اسے کتنا کہا مگر کہتی تم سے مل کے ہی جائے گی زرا مجھے بھی بتاؤ کون ہے وہ۔۔۔۔۔
رخشندہ بیگم تو نجانے کیا سمجھی تھی رافع کو اٹھاتے وہ بولیں
" اماں اب مجھے کیا پتہ کون ہے آپ خود پوچھ لو نہ اس سے "
رافع نے تقریباً چڑتے ہوئے کہا کیونکہ وہ خود کسی لڑکی کو نہیں جانتا تھا
" اگر تھمارا کسی لڑکی کے ساتھ چکر وکر ہے تو سب ختم کرو میں بتا رہی ہوں تمھیں میں ایسا کچھ برداشت نہیں کروں گی تمھاری شادی صرف میری بھانجی سے ہوگی "
" دیکھوں اماں یہ میرے جڑے ہاتھ تیرے سامنے میرا کوئی چکر نہیں میں نہیں جانتا کون ہے کیوں آئی ہے بس کر دے اب "
رافع نے پاؤں میں جوتے پہنتے بیزاریت سے کہا
جی آپ کون ؟
سامنے نقاب پوش عورت جو دیکھ رافع نے پوچھا
تو آپ ہیں رافع چوہدری ۔۔۔۔
جی میں ہی ہوں مگر آپ کون ہیں ؟
رافع نے اسے خود کو تکتا دیکھ پوچھا کہ عجیب پاگل عورت ہے جب پتہ کے میں ہی رافع ہوں تو کیوں بار بار پوچھ رہی ہے
" یہ میرا نمبر ہے اس آپ کو یہ جاننا ضروری نہیں کہ میں کون ہوں وغیرہ وغیرہ
بس یوں سمجھیں آپ کی ہمدرد ہوں اگر آپ کو قلب چاہیے تو آپ اس نبمر پہ رابطہ کر سکتے ہیں "
کاغذ اس کے ہاتھ میں تمھاتی وہ چل دی بنا اس کی بات کا جواب دیے
جبکہ رافع اپنے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو ہی دیکھتا رہ گیا اور دماغ میں بس ایک ہی نام گونجنے لگا قلب۔۔۔۔۔
مومن سائیں آپ نے بلا۔۔۔۔
قلب جو سامیہ کے یہ کہنے پہ کہ مومن اسے بلا رہا ہے اس کمرے میں آئی دروازے کے بند ہونے پہ خوف سے اچھلی
اور رہی سہی کسر سامنے کھڑے شخص نے پوری کر دی اس کی شکل دیکھ کے ہی وہ خوفزدہ ہوگئ
گھبراؤ نہیں میں نے ہی بلایا تھا تمھیں
"ایسا معصوم اور شفاف چہرہ میں نے پہلی بار دیکھا ہے "
وہ خباثت سے کہتا قدم اس کی طرف اٹھا رہا تھا
"دور رہو مجھ سے اللّٰہ کا واسطہ ہے مجھ سے دور رہو "
وہ پیچھے کی جانب اپنے وجود کو گھسیٹتے ہوئے اس کے سامنے گڑگڑائی
"تمھیں مجھ سے بچانے والا کوئی نہیں ہے لڑکی کیا یہ بہتر نہیں کہ تم بھی خود کو ہلکان نہ کرو ویسے بھی تم نے آ ہی جانا ہے میری باہوں میں"
وہ کہتے ہوئے اس کے قریب آیا جھک کر اسے بازو سے پکڑ کے اپنے سامنے کھڑا کیا
ماشاءاللہ کیا حسن ہے مگر وہ کیا ہے نہ تمھارے صرف نام کے شوہر نے تو اس حسن کا خراج دینا نہیں میں ہی دے دیتا ہوں
وہ کمینگی سے کہتا اس کی بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا
"مومن سائیں تمھیں نہیں چھوڑیں گے میں میں سب کو تمھاری حقیقت بتاؤں گی ذلیل کمینے دور رہو مجھ سے "
وہ چھوٹی سی لڑکی درندے کی گرفت سے آزاد ہونے کی کوشش کرتے بولی
" شوق سے بتانا اگر کوئی یقین کرے تو "
یہ کہتے وہ اس کا دوپٹہ اتار کے پرے پھینک چکا تھا
وہ غلیظ نظریں اس پہ گاڑے جھکنے لگا
"کمینے زلیل انسان دور رہو مجھ سے"
اس کے بازو میں دانت گاڑتے وہ وقار سے خوف کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی
آہ۔۔۔
وقار درد سے بلبلا یا
ایک لمحے کیلئے اس کی گرفت قلب پر کم ہوئی تو وہ اس سے دور بھاگ کے دروازہ کھولتی باہر کی طرف بھاگی
اور اس نے بھی وہاں سے بھاگنے کی
مومن جو اپنے کمرے کی کھڑکیاں کھولے نیچے جھانک رہا تھا
اس کی نظر باہر کی طرف جاتے وقار پڑی ایسا لگتا تھا جیسے وقار ہے جلدی میں ہو اور وہ بار بار پیچھے مڑ کے دیکھ رہا تھا جیسے کسی سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو
اسی لمحے روتی کانپتی قلب کمرے میں آئی اور آتے ہی دروازہ بند کر لیا
مومن فوراً اس کے پاس پہنچا
کیا ہوا تم تو کیوں رہی ہو بتاؤ مجھے ۔۔۔
مومن نے اسے بٹھاتے پوچھا
وہ وہ ۔۔۔۔
بتاؤ مجھے وہ کیا تم ڈرو نہیں مجھے بتاؤ کس نے کچھ۔۔۔۔
مومن کچھ کہنے والا تھا کہ اس کی نظر قلب کے کندھوں سے پھٹی قمیص پہ پڑی تو اس کا خون کھول اٹھا اور باقی کے الفاظ اس کے منہ میں رہ گئے
اس کے دماغ کی رگیں تن گئیں
وقار تم نے میری عزت پہ ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی تم اتنے گھٹیا نکلو گے یہ میں نے سوچا نہیں تھا
خیر قلب کو چھونے کی قیمت تو تمھیں چکانی پڑے گی
یہ سوچتے وہ اڑھنے لگا تو قلب نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روک لیا
"تم ڈرو نہیں اب کوئی نہیں آئے گا میں ابھی واپس آ رہا ہوں بس تمھارے پاک جسم کو چھونے والے کے کے ہاتھوں کو توڑ کر "
"نہ نہیں وہ بہت گندے ہیں میں نے بولا بھی کہ میں مومن سائیں کو بولوں گی وہ آپ کو ماریں گے مگر وہ کہتے آپ انھیں نہیں مارو گے"
قلب نے سوں سوں کرتے اسے ساری بات بتائی
اپنا نام قلب کے منہ سے سن کے مومن کے ہونٹوں پہ مسکان آئی
" تم آنسو صاف کرو اب ایک بھی آنسو تمھاری آنکھ میں نہ آئے
نہیں تو اس کی بجائے میں نے تمھاری پٹائی کر دینی ہے
میں جا رہا ہوں بس تھوڑی دیر کیلئے تم کمرے سے باہر نہ جانا "
مومن اس کو ہدایت کرتا کمرے سے نکل گیا
ہاں بس اماں سائیں کے کانوں میں تو میں نے ت۔ھاریاور مومن کی شادی کی بات ڈال دی تھی
مومن سامیہ کے کمرے کے سامنے سے گزرتے اس کے کمرے سے آنے والی آواز پہ ٹھٹک کر رکا
چونکہ کمرے کا دروازہ کھلا تھا اس لیے آواز صاف باہر آ رہی تھی شاید سامیہ دروازہ بند کرنا بھول گئ تھی
" ہاں بس وقار بھی قلب کو ڈرا دھمکا کے حویلی ہمارے نام کروا لے گا
اور پھر تم مومن کی جائیداد اپنے نام کروانا پھر ہمارا مقصد پورا ہو جائے گا
ہم نے جو چاہا وہ ہمارا ہوگا پھر
اور وہ بڈھا اسے تو میں نے پہلے ہی ڈرا رکھا ہے اس بڑھیا کا بھی اچھا انتظام کیا ہے "
اچھا فون رکھتی ہوں ایک تو ان کے پوتے کو میں بڑی مشکل سے سنھبال رہی پتہ نہیں کب جان چھوٹے گی "
اس کے لہجے میں اپنے ہی بیٹے کے لیے نفرت تھی وہ کیسی بیوی تھی کہ جسے شوہر کی موت سے فرق نہ پڑا تھا وہ کیسی ماں تھی کہ اس پہ اپنا ہی لختِ جگر بوجھ تھا جس سے وہ جان چھڑانے کے چکر میں تھی
کوئی اتنا سنگدل کیسے ہو سکتا ہے
مومن کو لگا وہ یہ سب برداشت نہیں کر پائے گا اس کیلئے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا
اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ سامیہ ایسا کیسے کر سکتی ہے اگر وہ کسی اور کے منہ سے سنتا تو کبھی اس بات پہ یقین نہ کرتا مگر یہ حقیقت تھی وہ اپنے کانوں سے یہ سب سن چکا تھا
خدا نے حقیقت اس پہ واضح کر دی
وہ کسی بے گناہ کو اس گناہ کی سزا دے چکا تھا جو اس نے کیا ہی نہیں تھا
اس نے دروازے کا سہارا لینے کیلئے پکڑا تو وہ کھلتا چلا گیا
سامیہ ایک دم پلٹی اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑ گئ تھیں مومن کو کمرے میں دیکھ کر اسے لگا سب ختم ہوگیا مومن نے سب سن لیا
"سوری بھابھی وہ میں مبشر کو لینے آیا تھا آپ ہر وقت اکیلے اس کو سنبھالتی رہتی ہیں میں نے سوچا تھوڑی دیر کیلئے لے آؤں "
مومن نے سامیہ کے چہرے کی اڑی ہوائیاں دیکھتے کہا
"ہاں ہاں بہت تنگ کرتا ہے یہ مجھے اور تمھاری بیوی کو اس لیے نہیں دیتی ہوں کہ کہیں تمھیں برا نہ لگ جائے "
سامیہ نے بات بدلی
" ارے کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ اسے پکڑا دیا کریں
ویسے کونسا اسے حویلی کے کام کرنے ہوتے ہیں ایک بچہ تو سنبھال ہی لے گی
آپ رہنے دیں میں آج ہی اسے کہتا ہوں اب مبشر کو وہی دیکھا کرے گی
آپ کی تو مجھے طبعیت ہی ٹھیک نہیں لگ رہی "
مومن کے فکر مندی سے کہنے پہ عالیہ نے اپنا ماتھا چھوا جہاں اتنی سردی میں بھی پسینے کی بوندیں تھیں
"ہاں وہ تھوڑا سر میں درد تھا تو اس وجہ سے"
" اچھا میں مبشر کو لے جاتا ہوں آپ آرام کریں "
مومن مبشر کو اٹھاتے وہاں سے چلا گیا
عالیہ نے سکھ کا سانس لیا کہ مومن نے کچھ نہیں سنا مگر بہت دیر ہوگئ تھی ان سب کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ چکا تھا
دروازہ کھلنے پہ قلب نے سر اٹھا کے آنے والے کو دیکھا
مومن کو دیکھ کے اس نے شکر ادا کیا کیونکہ اسے بہت ڈر لگ رہا تھا
" مبشر آپ ان کے پاس جاؤ بیٹا یہ آپ
کی آنی ہیں "
مبشر قلب کے ہاتھ میں دیتے مومن نے کہا
جبکہ وہ تین سال کا بچہ بھی خوشی خوشی قلب کے ساتھ کھیلنے لگا
" تم اس کا خیال رکھنا یہ تنگ نہیں کرتا میں اماں سائیں اور بابا سے ایک ضروری بات کر کے آتا ہوں "
مومن کے چہرے پہ اب سکون تھا ایک ایسا سکون جو انسان کو صحیح راستہ مل جانے پہ چہرے کا احاطہ کر لیتا ہے
"مومن تم ہوش میں تو ہو یہ کیا بات کر رہے ہو تم "
مومن کی فرمائش پہ حیدر شاہ دھاڑے
"ہاں آبا سائیں میں ہوش میں ہوں اور ابھی تو ہوش میں آیا ہوں میں نے پہلے ہی بہت سارا وقت ضائع کر دیا "
" دیکھو مومن جلدبازی میں ایسے فیصلے نہیں کئے جاتے ہیں بیٹا "
اماں سائیں نے اسے سمجھانا چاہا
" اماں سائیں میں جلد بازی میں فیصلہ نہیں کر رہا بہت سوچ سمجھ کے آپ کو ایسا بول رہا ہوں "
" اور قلب کا کیا ہوگا وہ بچی جو اس حویلی میں تمھاری دلھن بن کے آئی ہے اس کے ساتھ یہ نا انصافی نہیں ہوگی کیا"
اماں سائیں کو قلب کی فکر ستانے لگی
"آپ اس کی فکر نہ کریں میں دونوں کو پورے حقوق دوں گا کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی اور ویسے بھی ابھی وہ بہت چھوٹی ہے "
"مومن تم سمجھ کیوں نہیں رہے یہ سب ہمارے اچھا نہیں ہوگا "
حیدر شاہ نے کسی انجانے خوف سے کہا
"بابا سائیں آپکو کیا لگتا ہے مجھے آپ سب کی پرواہ نہیں ہے آپ سب کی فکر ہے تب ہی میں فیصلہ کر رہا ہوں "
مومن کسی حد تک تو ان کے خدشات سمجھ گیا تھا
" مومن اگر کچھ بھی غلط ہوا تو اس سب کے ذمہ دار تم ہوگے یہ بات یاد رکھنا"
حیدر شاہ کو لگتا تھا کہ عالیہ کے اس گھر میں آنے کے بعد سامیہ کی پوزیشن اور مضبوط ہوجائے گی
اور اس حویلی کا شیرازہ ہی بکھر جائے گا
"بابا سائیں بھروسہ رکھیں مجھ پہ ایک دن آپ خود میرے اس فیصلے پہ خوشی اور فخر محسوس کریں گے"
اللّٰہ کرے ویسا ہی ہو جیسا تم بول رہے مجھے تو حالات کسی اور سمت جاتے لگ رہے ہیں
حیدر شاہ نے سرد آہ بھری
_______________________
" مومن آپ یہاں مجھے تو یقین نہیں آرہا ہے "
مومن کو اپنے گھر پہ اپنے سامنے مسکراتا دیکھ عالیہ کا تو حیرت سے منہ کھل گیا
ہاں کیوں تمھارے گھر آنے پہ کوئی پابندی ہے کیا ؟
مومن نے الٹا اس سے سوال کیا
" نہ نہیں تو وہ آپ کبھی آتے نہیں نہ آج یوں اچانک دیکھ کے پوچھا"
" ہاں بس تم سے ملنے کا دل کر رہا تھا تو چلا آیا "
مومن کے جواب پہ عالیہ کے ہاتھوں سے موبائل گرتے گرتے بچا
حیرت اور خوشی کے تاثرات بیک وقت اس کے چہرے پہ آئے
خیریت آج میری یاد کیسے آئی بڑے لوگوں کو؟
عالیہ نے خود کو نارمل کرتے پوچھا
" ہاں کافی دنوں سے کچھ لوگ دل و دماغ پہ چھائے ہوئے ہیں تو سچا ان کا دیدار ہی کر لیا جائے "
الفاظ و انداز میں محبت سموئے دلکش مسکراہٹ سجائے کیا یہ وہی مومن تھا جو کسی لڑکی کو دیکھنا بھی گوارا نہ کرتا تھا
اور آج عالیہ پہ حیرتوں کے پہاڑ توڑ رہا تھا
اگر یہ کہا جائے کہ مومن ایک کمال ایکڑ تھا تو غلط نہ ہوگا
اس نے جس طرح عالیہ کے سامنے ایکٹنگ کی
اگر اس کا علی یا کوئی اور دیکھ لیتا تو غش کھا کر گر پڑتا
عالیہ کے پاس تو کہنے کو کچھ تھا ہی نہیں
اسے لگتا تھا مومن جیسا پتھر دل اپنے کام سے کام رکھنے والا ہر وقت ناک پہ غصہ جمائے رکھنے والا کبھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا
اور وہ کبھی اسے شیشے میں اتار نہیں پائے گی
مگر ادھر تو سب الٹ ہو گیا تھا
اسے اس سب کیلئے تھوڑی سی بھی کوشش نہیں کرنی پڑی مومن نے اس کا کام آسان کر دیا تھا
مومن قدم قدم چلتا عالیہ کے قریب آیا آہستگی سے اس کے ہاتھ کو پکڑ گیا
جبکہ مومن کی اس حرکت پہ عالیہ تو جیسے
جم گئ
" میری اولین ترجیح تم ہی تھی وہ لڑکی تو محض ونی میں آئی ہے
میری بیوی کے عہدے پہ کبھی فائز نہیں ہو سکتی
آج سے بلکہ ابھی سے تم یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اس حویلی کی خاندانی بہو صرف تم بنو گی
اور بہت جلد تم میرے پاس بہت پاس ہوگی اور پھر تم خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی سمجھو گی
بس تھوڑا سا انتظار
عالیہ کے چہرے پہ شرمیلی سی مسکان بکھری جبکہ یہ کہتے مومن کے چہرے پہ پراسرار مسکراہٹ تھی جیسے شکاری نے اپنے شکار کو پھانس لیا ہو "
سنو تم کچھ نہیں کہو گی کیا؟
مومن نے اپنی گھمبیر آواز میں اس کے کان کے پاس سرگوشی کی
عالیہ کی دھڑکنوں نے ایک سو اسی کی رفتار پکڑی
اس شخص کے آگے تو اس مے الفاظ ہی ختم ہو جاتے تھے
ایک عجیب خوبصورت سحر تھا مومن کی شخصیت میں جو بندے کو خود میں جکڑ لیتا تھا
" آپ مجھے بہت اچھے لگتے ہیں "
عالیہ نے شرما کے کہا
تم بھی بہت اچھی لگتی ہو مجھے ۔۔۔
مومن نے ہنوز چہرے پہ مسکراہٹ سجائے کہا
" اب میں چلتا ہوں بہت جلد اماں سائیں اور ابا سائیں تمھارے گھر آئیں گے مجھے یقین ہے تمھارے گھر والوں کی طرف سے ہاں ہی ہوگی "
مومن تو آیا تھا اور چھا گیا تھا عالیہ کو اپنی قسمت پہ یقین نہیں آرہا تھا
باہر نکلتے مومن کے چہرے پہ ہمیشہ والی سنجیدگی آ گئ تھی کچھ دیر پہلے والی نرمی اور مسکراہٹ کا نشاں تک باقی نہ تھا
اب تم لوگوں سے میں تمھاری زبان میں ہی بات کروں گا کیونکہ تم لوگ محبت میں مارنے کے عادی ہو تو میں بھی تم لوگوں کو اسی محبت کے جال میں پھانس کے ماروں گا
مومن سوچتے ہوئے اپنی بلیک مرسڈیز میں بیٹھ کے واپسی کے سفر پہ روانہ ہوا
کیونکہ اس نے اپنی منزل کیلئے پہلا اور اہم قدم بڑھا لیا تھا
مومن کے جاتے ہی عالیہ نے سامیہ کو فون لگایا
"آپی میں آپ کو بتا نہیں سکتی میں آج کتنی خوش ہوں "
پرجوش لہجے میں عالیہ نے سامیہ کو بتایا
" کیوں بہن کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگا ہے جو اس قدر خوش ہو "
سامیہ نے طنز کیا
"ارے آپی ایسا سمجھ لیں کے کوئی قارون کا خزانہ ہاتھ لگا ہے "
عالیہ نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا
اچھا اب سیدھا سیدھا بتا آخر بات کیا ہے جو تو اس قدر خوش ہے؟
" آپی یوں سمجھیں اب ہم اپنے مقصد کے بہت قریب بہت قریب پہنچ چکے ہیں "
عالیہ نے رازدارانہ انداز سے کہا
اب پہلیاں نہ بھجوا بس اتنا بتا کے اصل بات کیا ہے؟
سامیہ نے خفگی سے کہا
"یوں سمجھیں مومن اب میری مٹھی میں ہوگا "
"سمجھنے اور ہونے میں بڑا فرق ہے بہن "
سامیہ نے پھر طنز کیا
ہاں ہے تو مگر ۔۔۔
"بس کر بہن تم نہ اب رات کی بجائے دن میں بھی خواب دیکھنے لگی ہو میں رکھ رہی ہوں فون "
عالیہ کی بات کاٹتے سامیہ نے غصے سے کہا
"مومن نے مجھے پرپوز کیا ہے"
سامیہ کو لگا عالیہ مزاق کر رہی ہے
"تم تم مزاق کر رہی ہو نہ دربارہ بولو ابھی کیا کہا تم نے"
سامیہ کے لہجے میں بے یقینی تھی
" مومن نے مجھے پرپوز کیا ہے اور بہت جلد وہ مجھ سے شادی کرنے والا ہے
یہ نہ تو کوئی خواب ہے
اور نہ ہی کوئی مزاق بلکہ ایک خوبصورت حقیقت ہے "
عالیہ کی تو خوشی سنھبالنے نہیں سنبھل رہی تھی
" کہیں یہ سب مومن کی چال نہ ہو عالیہ "
سامیہ تو یہ سب عجیب لگ رہا تھا
"آپی آپ بھی نہ مومن ہمارے بارے میں تھوڑی جانتا ہے وہ کیوں کوئی چال چلے گا آپ بھی نہ "
عالیہ نے اس کی بات کی نفی کی
"ہاں یہ بات بھی ہے
مومن کونسا یہ بات جانتا ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں
چلو جو بھی ہے مبارک ہو تمھیں یہ واقعی بہت بڑی خوشی کی خبر ہے "
اب سامیہ بھی پر سکون تھی
ان کو لگ رہا تھا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہی ہیں اس کے قریب پہنچ گئ ہیں
مگر اصل میں حقیقت تو کچھ اور تھی
وہ وگ اپنی بربادی اور ناکامی کے قریب جارہی تھیں
مومن نے ایسی چال چلی تھی کہ ان کو لگ رہا تھا کہ وہی جیت رہی ہیں مگر حقیقت میں ایسا تھا نہیں
مومن ان کو وہی دکھا رہا تھا جو وہ دیکھنا چاہتے تھے
اصل بازی گر وہ ہوتا ہے جو ایسی بازی کھیلے کہ سامنے والے کو یقین ہو جائے کہ جیت اسی کی ہے اور دوسرا بندہ ہار رہا ہے
اور جیت اسی کی ہو جس اصل میں ہارتا ہوا نظر آئے
مومن نے بھی ایسی ہی بازی کھیلی کہ جس میں بظاہر تو سامیہ لوگوں کو لگا وہ جیت رہے ہیں
مگر حقیقت تو یہ تھی کہ یہ ان کا ہار کی طرف پہلا قدم تھا
آپ جو بھی قلب کے بارے میں کیا جانتی ہیں ؟
رافع نے بہت سوچنے کے بعد اس نمبر پہ آخر کال ملا ہی لی جو اس کے ہاتھ میں وہ نقاب پوش تمھاری گئ تھی
" سلام کرنے کا رواج نہیں ہے میرے خیال سے آپ کی طرف "
سامیہ نے اس کے سلام نہ کرنے پہ چوٹ کی
اسلام علیکم!
وعلیکم السلام
اب لگ رہے ہو کسی اچھے خاندان کے سلجھے ہوئے لڑکے
" اب سلام۔دعا ہو گئ ہے تو کام کی بات پہ آئیں "
رافع اکتائے ہوئے لہجے میں بولا
" نہ نہ لڑکے ایسے بات نہیں کرنی
کیونکہ تم نہیں بلکہ میں تمھاری مدد کر رہی ہوں وہ بھی بنا کسی غرض اور تمنا کے
تو تمھیں ذرا صبر سے کام لینا چاہیے"
سامیہ نے چبا چبا کے کہا
"ہاں مگر میں نہیں مانتا آپ صرف میری مدد کر رہی ہیں یا آپ کو کوئی غرض نہیں
بلکہ مجھے تو صاف لگ رہا ہے اس سب میں آپ کا اپنا کوئی مفاد ہے ورنہ کون ایسے کسی کے گھر آ کے اتنی بڑی آفر کرتا ہے"
رافع بھی کوئی دودھ پیتا بچہ تو تھا نہیں جو کسی کو سمجھ نہ سکے
اور ان کو جو بغیر کسی جان پہچان کے اسے مدد کی آفر کریں
"ویسے کافی سمجھدار لگتے ہو تم مجھے میں تو سمجھیں تھی کہ تم پہ بہت محنت کرنی پڑے گی "
"ہاں اب آپ بتا دیں آپ ہیں کون آپ کو اس سب سے کیا فائدہ ملے گا"
"آم کھاؤ گھٹلیاں نہ گنو"
"مگر مجھے بھی پتہ تو ہونا چاہے نہ کہ کہیں تم میرے ساتھ کوئی گیم تو نہیں کھیل رہی ہو"
دافع نے کہا
"میں تمھاری مدد کر رہی ہوں اگر چاہیے تو بولو اگر نہیں تو تمھاری مرضی "
سامیہ نے اب زرا غصے سے کہا ایک تو وہ اس کی مدد کر رہی تھی اور وہ تھا کہ نخرے ہی نہیں ختم ہو رہے تھے اس کے
" اچھا بولو مجھے کیا کرنا ہوگا "
رافع نے سوچا مجھے اس سب سے کیا کہ یہ کون ہے اور کیوں میری مدد کر رہی ہے میرے لیے سب سے اہم یہ ہے کہ یہ میری مدد کر رہی ہے
۔۔۔ مجھے صرف قلب سے ملنا کے اسے واپس گھر لانا ہے جیسے بھی مجھے اس سب سے فرق نہیں پڑنا چاہیے
" اگر تم نے ابھی قلب سے ملنا ہے
تو پانچ منٹ کے اندر حویلی کی پچھلی سائڈ پہ بنے گارڈن میں آؤ
وہاں تمھیں قلب مل جائے گی
اور تمھیں حویلی کی پچھلی جانب ایک چھوٹی سی کھڑکی ملے گی اس کے ذریعے تم حویلی میں داخل ہونا
واپس بھی اس کے ذریعے جانا میرا کام بس اتنا ہے کہ قلب کو گارڈن میں بھیجوں وہ میں کر دوں گی"
سامیہ نے اسے سارا پلان سمجھا دیا تھا
تقریباً پانچ منٹ کے اندر وہ حویلی کی پچھلی سائڈ پر موجود کھڑکی کہ پاس کھڑا تھا جو کہ کھلی ہوئی تھی
قلب تو مجھے دیکھتے خوش ہو جائے گی اور فوراً میرے ساتھ چل پڑے گی
یہ سوچتے وہ کھڑکی سے کودا
سامنے ہی اسے دوپٹہ پھیلاتی قلب نظر آئی
جو پہلے سے کافی کمزور لگ رہی تھی
قلب۔۔۔
رافع نے اس کے پیچھے سے آواز دی
قلب جانی پہچانی آواز پہ پیچھے پلٹی مگر سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کے وہ ساکت ہوگئ
آنکھوں سے خودبخود آنسو جاری ہو گئے
" قلب تم تو کیوں رہی ہو بس اب تم نہیں روؤ گی
آج سے تمھاری قید کے دن ختم میں تمھاری آزادی کا پروانہ بن کے آیا ہوں تمھیں یہاں سے لینے آیا ہوں "
رافع تو قلب کو سامنے دیکھ بولتا چلا گیا
اچھا اب چلو ۔۔۔
جیسے ہی رافع اس کا ہاتھ پکڑنے کو آگے آیا قلب دو قدم پیچھے ہٹی
" آپ آپ چلےجائیں رافع بھائی آپ فوراً یہاں سے چلے جائیں
اگر مومن سائیں نے آپ کو دیکھ لیا تو اچھا نہیں ہوگا "
"دیکھو تم ڈرو نہیں اب میں آگیا ہوں مہتم بس میرے ساتھ چلو "
رافع کو لگا وہ ڈر رہی ہے ان لوگوں سے تب ہی اس کے ساتھ نہیں جارہی
" رافع بھائی آپ چلے جائیں
یہ ہم سب کیلئے اچھا ہے
اب میرا گھر یہ ہے میں کہیں نہیں جا سکتی
مومن سائیں کو چھوڑ کر تو میں نہیں نہیں جا سکتی "
قلب یہ کہہ کے وہاں رکی نہیں تھی حویلی مے اندرونی حصے کی طرف بھاگ گئ تھی
جبکہ رافع وہاں اکیلا کھڑا رہ گیا
وہ یہاں رہنا چاہتی ہے اپنے ظالم شوہر کے پاس
نہیں نہیں وہ تو چھوٹی ہے ابھی تو وہ ڈر رہی ہے ان لوگوں کی وجہ سے
شاید یہ لوگ اس پہ بہت ظلم کرتے ہیں
اس وجہ سے وہ میرے ساتھ نہیں جا رہی
مگر میں قلب کو پھر کبھی لے کے جاؤں گا
اس جہنم سے نکال کر لے جاؤں گا
ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھا کہ موبائل پہ کال آنے لگی
" وہ تو کب کی حویلی واپس آ چکی ہے
اب تم بھی اپنے گھر کو جاؤ میاں آج کے لیے اتنا کافی ہے سوچوں کے بھنور سے نکلو حقیقت کو دیکھو
اب اگر رکے تو مومن کے بندے تمھیں نہیں چھوڑیں بندے تو چھوڑ بھی دیں مگر اس کے کتوں کا کوئی بھروسہ نہیں "
سامیہ نے اسے بتانے کے ساتھ ساتھ ڈرانا بھی ضروری سمجھا
" جا رہا ہوں میں اور ہاں ملاقات کے لیے شکریہ "
رافع بے مروت نہیں تھا کہ شکریہ بھی ادا نہ کرتا شکریہ بولتے وہ حویلی سے نکل گیا تھا
کہاں چلے گئے تھے تم رافع؟
وہ گھر پہنچا تو رخشندہ بیگم سامنے کھڑی اس کا ہی انتظار کر ہی تھی
"کہیں نہیں بس دوستوں کی طرف چلا گیا تھا "
اس نے صاف جھوٹ بولا کیونکہ وہ جانتا تھا رخشندہ بیگم کبھی اسے قلب کو واپس نہیں لانے دیں گی
" اچھاا چھوڑو ادھر آؤ تمھارا منہ میٹھا کرواؤں"
انھوں نے خوش ہوتے ہوئے کہا
کافی خوش نظر آ رہی ہیں آپ خیر ہے ؟
اس نے پوچھنا ضروری سمجھا
"پہلے یہ کھاؤ پھر بتاتی ہوں "
گلاب جامن اسکے منہ ٹھونستی وہ بولیں
" اب تو بتا دیں کس خوشی میں کھلا رہی ہیں مٹھائی "
گلاب جامن کھاتے رافع نے کہا
"مبارک ہو شمائلہ کے گھر والوں نے رشتے کے ہاں کر دی ہے "
ماں کی بات سنتے اسے پھندہ لگا کھانسی کا شدید دورا پڑا
کیا ہوا ؟
ہائے اللّٰہ تم رکو میں پانی لاتی ہوں"
وہ فکر مند ہوئیں
"یہ لو پانی پی لو "
پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھاتے وہ بولیں
پانی پینے سے اس کی حالت بہتر ہوئی
________________
" آج کافی خاموشی اور سکون ہے مجھے تو کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ لگتا ہے یہ "
علی نے چپ بیٹھے مومن کو دیکھتے کہا
"ہاں کچھ ایسا ہی سمجھو "
مومن نے بھی اس کی نفی نہیں کی
"خیر ہے بھائی بھابھی سے تو کوئی لڑائی نہیں ہوگئ یا آج پھر اسے زخمی کرکے ادھر مجنوں بنے بیٹھے ہو "
علی کو قلب کی فکر لاحق ہوئی
"نہیں یار تیری بھابھی تو معصوم سی ہے لڑائی تودور کی بات وہ تو شکوہ بھی نہیں کرتی ہے
آج میرا دل اور روح دونوں زخمی ہوگئے ہیں ٹوٹ گیا ہوں میں اور میری کرچیاں
مجھے میں ہی بکھر گئ ہیں جو اب مجھے چھب رہی ہیں "
درد بھرا ٹوٹا بکھرا لہجہ تھا مومن کا جو علی کو تڑپا گیا
"مومن مجھے بتاؤ کونسی بات پہ تم اس قدر پرشان ہو "
علی نے ایک کے قریب بیٹھتے کہا
" علی میرے اپنے میری جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں
مجھے برباد کر رہے ہیں میرے بھائی کی جان تو لے ہی چکے ہیں اب پتہ نہیں کس کی باری ہے "
درد تھا مومن کی آواز میں جو علی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا
کیا ہوا ہے مومن بتاؤ تو سہی ؟
علی نے فکر مندی سے پوچھا
" میں میں جا رہا ہوں مجھے گھر جانا ہے "
علی روکتا رہ گیا مگر مومن اس کی سنے بغیر وہاں سے گاڑی لے کر نکل گیا
اپنوں کے دیے زخم بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے دل کو چھلنی کرتے رہتے ہیں
مومن کی حالت بھی کچھ ایسی تھی
کیونکہ اس نے اپنے قریبی لوگوں سے چوٹ کھائی تھی
اور چوٹ بھی گہری جس کے اثرات دیر تک رہنے والے تھے
"چھوٹے سائیں چھوٹے سائیں اماں سائیں کو دیکھیں کیا ہوگیا ہے وہ اٹھ ہی نہیں رہی ہیں اور ان کے منہ سے خو خون بھی نکل آیا ہے "
پری دوڑتے ہوئے مومن کے کمرے میں آئی جہاں مومن مبشر اور قلب کے ساتھ کھیل رہا تھا
" کیا ہوا اماں سائیں جکو اچھی بھلی تو تھیں وہ "
یہ کہتے مومن نے مبشر پری کو پکڑایا
"پتا نہ سائیں ایک بار پہلے بھی ایسا ہوا ہے مگر انہوں نے مجھے بتانے نہیں دیا "
پری نے روتے ہوئے بتایا کیونکہ اماں سائیں ان سب کو ایک ماں کی طرح ہی رکھتیں تھیں
" تم پرشان نہ کو وہ ٹھیک ہو جائیں گی انشاللہ
تم مبشر کا دھیان رکھنا اور قلب تم میرے ساتھ چلو "
پری کو تسلی دیتے قلب کا ہاتھ پکڑتے وہ آمنا سائیں کے کمرے کی طرف دوڑا
تقریباً بیس منٹ کے بعد قلب اور مومن ہوسپیٹل کے سپیشل وارڈ کے باہر کھڑے تھے
ڈاکٹر اماں سائیں کو اندر لے گئے تھے جہاں ان کا ٹریٹمنٹ جاری تھا
مومن ادھر ادھر ٹہل رہا تھا
قلب کی سسکیوں کی آواز سنتے وہ اس کے قریب آیا
تم تو رہی ہو قلب ۔۔۔۔۔
گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا وہ مغرور شہزادہ خود بھی آنکھوں میں نمی لیے پوچھ رہا تھا
" نہیں تو میں کہاں رو رہی ہوں میں تو بس"
قلب صاف مکر گئ
"اچھا تو پھر یہ بارش کا پانی ہے جو تمھاری آنکھوں سے ٹپ ٹپ تمھاری گالوں پہ بہہ رہا ہے "
انگلیوں کی پوروں سے اس کے چہرے سے آنسو پونچھتے مومن نے اس کی جھیل سی آنکھوں میں دیکھا
نہ نہیں تو۔۔۔۔
" اچھا چپ ہو جاؤ
تم دعا کرو اماں سائیں کو کچھ نہ ہو میں بھائی کو پہلے ہی کھو چکا ہوں
میرے پاس اماں سائیں بابا سائیں اور تمھارے علاؤہ کوئی نہیں ہے "
" میں دعا ہی تو کر رہی ہوں کیونکہ میرے پاس بھی کوئی نہیں ہے
بابا بھائی وہ سب تو مجھے پوچھنے ہی نہیں آتے
ان کو تو میری یاد ہی نہیں آتی ہے میری ماں تو میرے بچپن میں ہی مجھے چھوڑ کے چلی گئ دنیا سے
اب اماں سائیں کی شکل میں مجھے ماں ملی انھوں نے مجھے ماں کا پیار دیا میں ان کیلئے دعا نہیں کروں گی تو کس لیے کروں گی "
مومن کو اس کے آگے اپنا درد کم لگا تھا
سنو کیا میں تمھارا نہیں ہوں ؟
مومن نے سوال کیا
آپ میرے ہیں ۔۔۔
جواب کی بجائے معصومیت سے پوچھا گیا
" ہاں میں صرف تمھارا ہوں اور تمھارا ہی رہوں گا "
مومن کے جواب نے قلب کے چہرے کی خوشی اور چمک کر بڑھا دیا تھا
تم بیٹھو اب میں ڈاکٹر سے مل لوں
ڈاکٹر کو باہر آتے دیکھ مومن نے اٹھتے ہوئے کہا
ڈاکٹر صاحب کیا ہوا ہے میری والدہ کو اور اچانک ان کی اس طرح طبیعیت کیسے بگڑ گئ اب کیسی ہیں وہ ؟
مومن نے ایک ہی سانس میں سارے سوال کر ڈالے
"دیکھیں شاہ صاحب آپ کی والدہ کی حالت ابھی بھی کریٹیکل ہے اگلے دو گھنٹے ان کیلئے بہت اہم ہیں "
مگر انھیں ہوا کیا ہے؟
"ان کی یہ حالت اچانک اسیے نہیں ہوئی
بلکہ مجھے لگتا ہے پچھلے کچھ دنوں سے ان کے منہ سے خون آ رہا تھا پتہ نہیں آپ لوگوں نے لاپرواہی کیوں برتی "
" ہمیں نہیں پتہ تھا اماں سائیں نے ہم سے یہ سب چھپایا "
شاہ صاحب آپ کی والدہ کو کسی شے میں روز ایک ایسا شہر ملا کر پلایا گیا ہے
جو بظاہر تو اثر نہیں کرتا مگر آہستہ آہستہ انسان کے اندرونی اعضاء کو ناکارہ کر دیتا ہے
اور چند مہینوں میں ہی مریض کی ڈیتھ ہوجاتی ہے
آپ کی والدہ کو یہ زہر پچھلے بیس دن سے دیا جا رہا ہے
اب تو اس نے اپنے اثرات دکھانے شروع کر دیے تھے
مگر اللّٰہ پاک کا شکر ہے کہ ابھی بھی کچھ بگڑا نہیں ہم اس کا علاج کر سکتے ہیں "
مومن نے کرب سے آنکھیں میچ لیں اتنے دنوں سے ان کی ماں کے ساتھ یہ سب ہو رہا تھا اور اسے خبر ہی نہیں تھی
دشمن اس کے گھر میں موجود تھے اور وہ باہر کی خاک چھان کر انھیں ڈھونڈتا پھرتا رہا تھا مومن کو خود پہ غصہ آنے لگا
آپ ٹھیک ہیں شاہ صاحب ؟
ڈاکٹر نے مومن کو کھویا کھویا دیکھ کے پوچھا
جی جی میں ٹھیک ہوں شکریہ۔۔
" آپ ٹینشن نہ لیں آپکی والدہ کو کچھ نہیں ہوگا "
مومن کا کندھا تپھپاتے ڈاکٹر چلا گیا
کیا بول رہے تھے وہ ؟
کب سے دور بیٹھی قلب ڈاکٹر کے جاتے ہی مومن کے پاس آئی
" وہ کہہ رہے تھے کہ اماں سائیں ٹھیک ہو جائیں گی "
مومن نے خود پہ قابو پاتے کہا کیونکہ وہ قلب کو اصل بات نہیں بتانا چاہتا تھا
" آپ ٹھیک تو ہیں نہ آپ کا جسم کانپ رہا ہے اور چہرے کی رنگت بھی اڑی ہوئی ہے "
قلب نے اس کی زرد پڑتی رنگت دیکھ کے پوچھا
"ہاں میں ٹھیک ہوں تم فکر نہ کرو "
______________________
" کیا ہوگیا ہے آپی آپ کیوں چکر کاٹ رہی ہیں آرام سے بیٹھ جائیں نہ "
عالیہ نے موبائل سے نظریں ہٹھاتے کمرے میں ادھر ادھر چکر کاٹتی سامیہ سے کہا جو تقریباً آدھے گھنٹے سے ایسے ہی چکر کاٹ رہی تھی
" عالیہ کیسے بیٹھ جاوں سکون سے اگر ڈاکٹرز کو پتہ چل گیا کہ اماں سائیں کو زہر دیا گیا ہے تو میرا کیا ہوگا"
سامیہ کے چہرے پہ ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے
" ارے آپ بھی نہ ایسے ہی پرشان ہو رہی ہیں ویسے تو خیر کوئی پتہ نہیں پکڑے جانے کا اگر آپ کی یہی حالت رہی تو ضرور پکڑے جائیں گے "
" تو اور کیا کروں چپ چاپ تماشہ دیکھوں اپنی حقیقت سامنے آنے کا"
"بالفرض ڈاکٹر بتا بھی دیتے ہیں کہ ان کو زہر دیا گیا ہے تو بھی آپ کا نام تھوڑی بتائیں گے ڈاکٹر ان کو کیا پتہ آپ نے دیا یا کسی اور نے آپ بس چل کرو "
سیب کی کاش منہ ڈالتے عالیہ نے اس کی مشکل حل کرتے کہا
" عالیہ تم مومن کو نہیں جانتی وہ بال کی کھال اتار لے گا وہ پتہ کرلے گا یہاں بات کسی اور کی نہیں اس کی اماں جان کی ہے "
سامیہ ابھی بھی ڈر رہی تھی
"ارے میری بھولی آپی کیا وہ اپنے بھائی کی موت کا پتہ لگا سکا ہے جو اس بات کا لگا لے گا نہیں نہ
تو بے فکر رہیں حویلی میں صرف آپ ہی نہیں اور لوگ بھی رہتے ہیں
جو اماں سائیں کو زہر دے سکتے ہیں
ان میں پری، سکینہ اور اس کی بھانگ بھر کی بیوی کیا نام ہے اس کا ہاں قلب وہ بھی تو ہے سب سے پہلا شک تو جائے گا اس لڑکی پہ "
" ارے ہاں یہ تو میں ٹینشن میں بھول ہی گئے مجھے تو گھرانے کی ضرورت ہی نہیں "
عالیہ کی بات پہ سامیہ نے سکھ کا سانس لیا
" سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں "
عالیہ نے خان صاحب کا مشہور ڈائیلاگ بولا تو وہ دونوں ہنس پڑیں
_______________
اماں سائیں کی طبیعت اب سنبھل چکی تھی اس لیے ڈاکٹرز نے چھٹی دے دی تھی وہ سب حویلی آ چکے تھے
"اماں سائیں قلب آپ کے پاس رہے گی آپ کو کسی چیز کی بھی ضرورت ہو تو اس کو بول دیجے گا "
اماں سائیں کو بستر پہ لٹاتے کہا
" ارے اماں کیسی ہیں آپ آپکو پتہ ہے آپ کا سن کے میں کتنا ڈر گئ تھی مگر آپ ٹھیک ہیں"
سامیہ نے آتے ہی اماں سائیں سے لپٹتے کہا
مومن نے اپنی نفرت اور غصہ بمشکل چھپایا اس کا بس چلتا تو اس عورت کو یہیں کھڑے کھڑے زمین میں گاڑھ دیتا
کرنی دوغلی عورت ہے
بھابھی میں جلدی میں آپ کو بتا نہیں سکا اور پھر مبشر بھی اکیلا ہوجاتا اس لیے
مومن نے دنیا جہان کی محبت لفظوں میں سموئے کہا
" بہت اچھا کیا تم نے
میں نے عالیہ کو جسیے ہی کال کرکے اماں سائیں کی طبیعت کا بتایا وہ تو پرشان ہونے دوڑی چلی آئی "
سامیہ نے عالیہ کوبھی گھسیٹ لیا حالانکہ وہ تو فل تیار شیار ہو کے مومن سے ملنے آئی تھی
جتنی محبت آپ کرتی ہیں نہ میری فیمیلی سے اور مجھ سے وہ تو شاید کسی نے کسی کے ساتھ کی ہو
ایسی بے لوث محبت کہ میرے بھائی کو مار دیا میری ماں کو زہر دے کے قطرہ قطرہ ان کی جان نکالنی چاہی اور نجانے اب کیا کریں گی
ان کی محبت ایسی ہے تو نفرت کیسی ہوگی
مومن تو بس سوچ سکا
" اور تم کھڑی کھڑی دیکھ کیا رہی ہو جاؤ اماں سائیں کیلئے جوس بنا کے لاؤ "
سامیہ نے پاس کھڑی پری کو کہا
"وہ چھوٹے سائیں کا حکم ہے کہ اماں سائیں کو کوئی کچھ نہیں دے گا کھانے کو یا پینے کو وہ خود اپنے ہاتھوں سے دیں گے "
پری کی بات سامیہ کے چہرے کی ہوائیاں اڑیں اسے لگا اب تو گئ کام سے مطلب مومن کو پتہ چل گیا ہے
وہ کیوں مومن کبھی تم گھر میں نہ ہو تو اماں سائیں کیا بھوکی پیاسی رہیں گی ؟
عالیہ نے میک اپ سے لدی آنکھیں بمشکل کھول کے مومن سے پوچھا
" نہیں عالیہ ایسی بات نہیں ہے ڈاکٹر نے ہدایت کی اور بعد میں میں کسی کو
اماں سائیں کے کھانے پینے کا شیڈول دے دوں گا
صاف ظاہر کہ ہر وقت تو میں نہیں موجود ہوں گا تو کسی نہ کسی کو یہ کرنا ہی ہے "
مومن کی بات پہ سامیہ کا رکا سانس بحال ہوا
عالیہ نے بھی بہن کی طرف دیکھتے سکھ کا سانس لیا
اس نے آنکھیں کھولیں تو تیز روشنی سے پہلے تو اسے کچھ نظر ہی نہ آیا
مگر پھر گزرے وقت کے واقعات آہستہ آہستہ اس کے ذہن کے پردے پہ فلم کی مانند چلنے لگے
اس نے اپنے ہاتھوں کو حرکت دینی چاہی مگر بے سود اس کو کرسی کے ساتھ باندھا گیا تھا
وہ جتنی دیر سے یہاں تھا اس کے پیچھے جانے اس کے گھر والوں پہ کیا قیامت گزر چکی ہوگی قلب کا خیال آتے ہی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑ گئ
اس کا تو کوئی جرم بھی نہ تھا کہ جس کی پاداش میں اسے اس سننان جگہ پہ قید کیا جاتا
پچھلے پندرہ دنوں سے وہ جگہ پہ قید تھا
"تو تمھیں پھر سے ہوش آ گیا چلو اب ہم تمھیں بے ہوش نہیں کریں گے "
کمینگی سے کہا گیا
" تم کیا سمجھتے ہو تمھارا ظلم ایسے ہی چھپا رہے گا
کوئی تمھارا حساب نہیں لے گا تم سے پوچھے گا نہیں "
دراب نے خود کو چھڑانے کی ناکام کوشش کرتے کہا
"نہ ابھی ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو وقار احمد کی سوچ تک بھی پہنچ سکے"
وقار نے کالر جھاڑتے کہا
"دیکھ لینا سچ سب کے سامنے آئے گا اور پھر تمھارا کیا ہوگا"
" جب سچ سامنے آئے گا تب کی تب دیکھی جائے گی
تم تو اس وقت تک اللہ کو پیارے ہو چکے ہوگے "
وقار نے ہنستے ہوئے کہا
" تمھیں بےنقاب کرنے والا تمھاری سوچ بھی پڑھیں لینے والا نہ صرف پیدا ہوچکا ہے
بلکہ وہ بہت جلد تمھیں آسمان سے زمیں پر لاپٹکے گا "
دراب نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہا
"پہلے تم خود کو تو بچا لو پھر ہماری بات کرنا"
وقار کے تھپڑ نے دراب کی بولتی بند کروا دی
_______________________
"تم نے کہا تھا پھر سے ملواو گی تم قلب سے "
" ہاں تو کہا تھا تو ملوا دوں گی مگر پہلے کی طرح تم نے اسے لے کر تو جانا نہیں"
سامیہ نے غصے سے رافع کو جھڑکا
"ہاں تو کیا کرتا
میں تم لوگوں نے اپنا ڈر ہی اس میں اتنا پیدا کر دیا ہے کہ وہ میری سنے بغیر ہی چلی گئ "
رافع نے بھی اسی کے انداز سے کہا
" اونچا اڑنے کی ضرورت نہیں زمین پہ واپس آؤ تم "
" اچھا اچھا تم بھی ذرا جلدی کچھ کرو میں مزید اسے وہاں برداشت نہیں کر سکتا "
رافع کو بھی احساس ہوا کہ اسے ذرا دب کے رہنا پڑے گا
کیونکہ اسے سامیہ کی مدد کی ضرورت ہے تب تک اس کی باتوں کو چپ کر کے برداشت کرنا پڑے گا
کیونکہ یہ مجبوری ہے
"ابھی تو مومن نے شادی کا فیصلہ کیا ہے شادی کے ہنگاموں میں میں کچھ کرتی ہوں "
"کیا مومن شادی کرنے والا ہے یہ تو اچھی خبر ہے "
رافع کو واقعی اس خبر سے خوشی ہوئی
پھر کیا وہ قلب کو طلاق دے دے گا ؟
رافع کو ابھی بھی اندیشہ تھا کہ اگر مومن نے قلب کو آزاد نہ کیاتو
" ہاں اور کیا اسے رکھ کر اچار تھوڑی ڈالنا ہے فارغ ہی کرے گا "
سامیہ نے بیزار انداز سے کہا
سامیہ اور عالیہ کی دلی خواہش آج پوری ہو گئ تھی
ان کے مقصد کی طرف انھوں نے آج دوسرا بڑا قدم اٹھا لیا تھا
اب تو بس اس کے پورے ہونے کا انتظار تھا یہ ان کی دوسری بڑی جیت تھی
جو درحقیقت ان کی ہار بننے والی تھی مومن کا عالیہ سے شادی کر لینا ان کیلئے تو ایک کامیابی تھی
مگر ایسا تھا نہیں یہ مومن کی جیت کی پہلی جیت ابھی تو اس نے پہلی سیڑھی عبور کی تھی ابھی منزل دور تھی
مومن نے ان وہ کیا جو وہ لوگ چاہتے تھے مگر اس سب کے پیچھے مومن کی چال تھی
اس نے اس سب میں عالیہ کا استعمال کیا تھا اسے ایک ڈھال بنا کے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا
اب اس نے عالیہ کو مہرا بنا کے اس سچائی تک پہنچنا تھا جس اس سے چھپائی گئ تھی
اپنے بھائی کے قاتل کا پتہ کر کے اس کو انجام تک پہنچانا تھا
کسی بے گناہ پہ الزام لگانے والوں کو ان کے کئے کی سزا دینی تھی
عالیہ مومن کے کمرے پھولوں کی سیج کے درمیان دلھن بنی کب سے مومن کا انتظار کر رہی تھی
" آپ نے اسے میرا کمرہ دے دیا اب میں کہاں جاؤں گی بتائیں نہ"
"تم نے کہاں جانا ہے اماں سائیں کے ساتھ ان کے کمرے میں رہنا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوجاتی اور میں اپنا کام نہیں کر لیتا "
مومن نے اسے سمجھایا
پھر بابا سائیں کہاں سوئیں گے ؟
"وہ دوسرے کمرے میں سوئیں گے نہ اب بس میری جان مجھے اجازت دو میں نے کسی کو اپنی فلم کا ٹریلر بھی دکھانا ہے"
آنکھ ونک کرتے وہ کمرے سے باہر نکلا سیگریٹ جلائی
اور اپنے کمرے میں چلا گیا
اس نے ضبط کرتے اپنے کمرے اس ناپسندیدہ لڑکی کو دیکھا اگر کوئی اور موقع ہوتا تو وہ اسے ایک منٹ اپنے کمرے میں برداشت نہ کرتا
مگر یہ اس کی مجبوری تھی جب تک وہ سارے راز نہ جان لیتا اسے عالیہ کے آس پاس رہنا تھا
سیگریٹ کے کش لگاتے وہ اس کے سامنے بیٹھا
" اتنی دیر سے میں انتظار کر رہی ہوں کہاں تھے
خیر چھوڑو میرا گفٹ دو منہ دکھائی کا "
" لائیں دیں میرا گفٹ "
اپنی مہندی سے سجی ہتھیلی مومن کے سامنے پھیلاتے اس نے اپنی سریلی آواز میں کہا
مومن نے سیگریٹ کا کش لگاتے دھواں اس کے چہرے پہ چھوڑا
اسے کھانسی کا شدید دورا پڑا
اس کے کھانسنے کی پرواہ کئے بغیر نازک ہاتھ کو پکڑ کے مومن نے اپنے سامنے کیا
سامنے بیٹھی لڑکی نے شرما کر نظریں جھکائیں
آہ۔۔۔
لڑکی منہ سے چیخ نکلی کیونکہ مومن دوسرے ہاتھ سیگریٹ کا ادھ جلا ٹکڑا اس کی ہتھیلی پہ مہندی سے لکھے اپنے نام پہ رکھ چکا تھا
" درد ہو رہا ہے نہ تکلیف ہو رہی ہے جلن کا احساس بھی ہو رہا ہوگا نہ
اور مجھے سکون مل رہا ہے تمھیں تکلیف میں دیکھ کر "
مومن کے چہرے پہ پراسرار مسکراہٹ تھی
" یہ کیا کر دیا تم نے میرا ہاتھ جلا دیا دماغ ٹھیک تمھارا "
جلن کی وجہ سے اس نے ہاتھ جھٹکتے مومن کو آپ سے تم تک پہنچانے میں دیر نہیں لگائی
" او سوری ڈارلنگ میں غصے میں تھا میں سمجھا میرے بھائ کے قاتل کی بہن ہے "
مومن نے اس کا ہاتھ پکڑتے چہرے پہ شرمندگی سجاتے کہا
" اچھا آئندہ خیال رکھیے گا اس منحوس کی جگہ مجھے نہ سزا دیجے گا"
" تم بے فکر رہو میری جان میں خیال رکھوں گا "
مومن نے محبت بھرے انداز میں کہا
"اچھا تم چینج کر کے سو جاؤ مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانا ہے میں تھوڑی دیر
میں لوٹ آؤں گا"
موبائل پہ نظریں دوڑاتے مصروف انداز سے کہتے وہ کمرے سے جا چکا تھا
" کہاں پھنسا دیا ان دونوں نے مجھے "
عالیہ سامیہ اور وقار کو کوسا
____________________
" کہاں رہ گئے ہوتم مومن اپنے کمرے میں جا چکا ہے اور وہ کچن میں ہے "
سامیہ نے کچن کے باہر کھڑے ہوکر فون کان سے لگائے دبی دبی آواز میں کہا
"میں ادھر ہوں"
سامیہ نے پیچھے مڑ کے دیکھا تو وہ بھی وہیں تھا
" اب میں نے تمھارا کام کر دیا ہے اسے یہاں سے لے کر فوراً نکلو
ببببویسے تو سب حویلی والے اپنے اپنے کمروں میں ہیں مگر پھر بھی احتیاط لازم ہے میں چلتی ہوں "
سامیہ اسے ہدایت دیتی چلی گئ کیونکہ اس کا کام تو ہوگیا تھا
قلب!!!
رافع نے پکارا تو بوتل منہ سے لگائے پانی پیتی قلب نے مڑ کر اپنا نام پکارنے والے کو دیکھا اس کی شکل دیکھتے ہی قلب کے منہ سے پانی کا فوارا سیدھا رافع کے منہ پہ
سوری رافع بھائی آپ یہاں کیا کر رہے ہیں
پانی رافع پہ گرنے کی وجہ سے وہ شرمندہ ہوئ
" میں تمھیں لینے آیا ہوں قلب "
کیوں ؟
قلب نے الٹا سوال پوچھا
"کیونکہ تم یہاں اپنی مرضی سے نہیں آئی زبردستی لائی گئ ہو اور قید کر کے رکھا ہے ان لوگوں نے تمھیں"
رافع نے اس کے قریب آتے کہا
" میں اپنی مرضی سے آئی نہیں تھی مانتی ہوں مگر میں اپنے شوہر کے گھر اپنی مرضی سے رہ رہی ہوں نہ کہ زبردستی "
قلب نے چبا چبا کے کہا
" دیکھو تم یہ سب ان لوگوں کے ڈر کی وجہ سے بول رہی ہو نہ تو تمھیں ڈرنے کی ضرورت نہیں میں ہوں تمھارے ساتھ "
رافع بات کرتے کرتے قلب کے ہاتھوں کو تھام گیا
قلبببببببب!!!!
بہت غصے سے قلب کو پکارہ گیا تھا دروازے کی سمت دیکھتے قلب اور رافع کی رنگت اڑی تھی
قلب نے تو باقاعدہ کانپتے ہوئے اپنے ہاتھ رافع سے چھڑائے
قلبببببببب!!!!
بہت غصے سے قلب کو پکارہ گیا تھا دروازے کی سمت دیکھتے قلب اور رافع کی رنگت اڑی تھی
قلب نے تو باقاعدہ کانپتے ہوئے اپنے ہاتھ رافع سے چھڑائے
مومن ۔۔۔۔
قلب کے ہونٹوں سے بے اختیار سے نام نکلا
کیا کر رہی ہو تم یہاں؟
مومن نے قلب کے بازوؤں سے پکڑ کر رافع سے دور کرتے پوچھا
وہ میں۔۔۔۔
مومن کی انگلیاں قلب کو اپنے بازوؤں میں دھنستی ہوئی معلوم ہوئیں
درد کی شدت سے منہ سے الفاظ ہی ادا نہیں ہو رہے تھے
"میں پوچھ رہا ہوں تم یہاں کیا کر رہی تھی قلب مومن شاہ"
مومن نے اپنا نام ساتھ جوڑتے اب قدرے سختی سے پوچھا
ساتھ رافع کو بھی آگاہ کیا کہ قلب کے ساتھ مومن شاہ کا نام جڑا ہے
"وہ میں اماں سائیں کیلئے پانی لینے آئی تھی
مجھے نہیں پتہ یہ کیسے آگئے میں تو ان سے بات بھی نہیں کرنا چاہتی تھی مگر یہ خود"
قلب نے ایک ہی سانس میں ساری کہانی سنا ڈالی
" اور تم یہاں کیا کر رہے ہو سالے صاحب
اگر اپنی بہن سے ملنے آئے تھے تو ایسے چوروں کی طرح آنے کی کیا ضرورت تھی
دن کے اجالے میں مرکزی دروازے پر میں خود تمھیں خوشامدید کہتا
مگر تمھیں اس طرح چور دروازے سے رات کے اس پہر آنے کی ضرورت نہیں تھی"
مومن نے رافع کو قلب سے تعلق یاد دلایا
" تم لوگوں نے قلب کو قید کر کے رکھا ہے اسے ڈرا کے رکھا ہے اور میں اس کو تمھاری جہنم سے نکال کے لے جاؤں گا "
چٹاخ ۔۔
اس سے پہلے کہ رافع کچھ اور کہتا منہ پڑنے والے زور دار تھپڑ نے اس کی بولتی بند کروا دی
وہ بے یقینی کی سی کیفیت سے قلب کو دیکھ رہا تھا
جس کے نرم و نازک ہاتھ نے اس کے گال پہ چھاپ چھوڑ دی
کتنی بار بول چکی ہوں آپ کو رافع بھائی کہ مجھے کسی نے قید نہیں کیا ہوا
مجھ پہ کوئی ظلم نہیں ہورہا میں اپنے گھر میں ہوں اپنے شوہر کے گھر میں جو میرے لیے سائبان ہے
اور کیا کہا آپ نے کہ جہنم میں قید ہوں میں تو آپ تصحیح کر لیں
کہ جہنم تو وہ تھی جہاں سارا دن کام کرکے آپکی امی کے طعنے سن کے مار کھا کر مجھے روکھی سوکھی ملتی تھی
مجھے اس جہنم سے رہائی مل گئ اب میں اپنے گھر میں ہوں جو چاہوں کر سکتی ہوں "
"قلب تم نے ہم سے کسی کو بتایا نہیں نہ اپنےبابا کو اور نہ ہی کسی اور کو چپ چاپ میری ماں کے ظلم سہتی رہی تم "
رافع پہ آج قلب نے ایک بہت بڑا انکشاف کیا تھا وہ جس کی توقع کم از کم وہ اپنی ماں سے نہیں کر سکتا تھا
مومن چپ چاپ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا
قلب بھی اب خاموش کھڑی تھی ان تینوں کے درمیان گہری خاموشی تھی
"مجھے معاف کر دو قلب میں ان سب سے انجان تھا اور اب میں بھی تمھارے لیے تکلیف کی وجہ بنا "
رافع قلب کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا
"رافع بھائی آپکی کوئی غلطی نہیں ہے آپکو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں ہے "
" مومن تم بھی مجھے معاف کر دینا مجھے یہ سب نہیں کرنا چاہیے تھا تم قلب کے شوہر ہو تم اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دو گے "
" ایک شرط پر معافی ملت گی بولو منظور ہے "
مومن نے مسکرا کر پوچھا
" آپکی ہر شرط دل و جان سے قبول ہے آپ حکم کریں "
"تو کل تم ا رہے ہو ہمارے ساتھ کھانا کھانے "
"جی کیوں نہیں ضرور "
" چلو پھر تمھیں چھوڑ دیتا ہوں باہر تک اور قلب تم اماں سائیں کے پاس جاؤ "
قلب کو اماں سائیں کے پاس جانے کا کہتے وہ رافع کو چھوڑنے چل دیا
______________
" یہ لو منہ میٹھا کرو خوشی کی خبر لایا ہوں میں۔ "
گلاب جامن دراب کے منہ ٹھونستے وقار نے کہا
"میں تھوکتا ہوں تمھاری اس مٹھائی پہ جو تم کسی کو نقصان پہنچانے کی خوشی میں بانٹ رہے ہو "
دراب نے تھوکتے ہوئے کہا
"جو بھی ہم تو بہت خوش ہیں
اور وہ پاگل مومن اسے تو کچھ خبر ہی نہیں اس کے ساتھ ہو کیا رہا ہے
وہ تو کسی اور کو قصور وار سمجھتا ہے افسوس"
وقار نے خباست سے کہا
" تمھیں لگتا ہے تمھارے ناپاک ارادوں سے کوئی واقف نہیں تو یہ تمھاری بھول ہے
تم غلطی پر ہو وہ سب دیکھ رہا ہے "
دراب نے اوپر کی طرف دیکھتے کہا
" کو کون دیکھ رہا ہے کوئی نہیں جانتا کوئی نہیں دیکھ رہا ہم جو بھی کر رہے صرف ہمیں پتہ ہے "
وقار دراب کی بات پہ بوکھلائے ہوئے ادھر ادھر دیکھتے بولا
کیونکہ اسے ڈر لگنے لگا کہ واقعی کوئی اس کے منصوبوں سے واقف تو نہیں
"تم نہیں جانتے ہوں ہے وہ جو سب جانتا ہے جو رحم کرنے والا ہے وہ سب جانتا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے
وہ ظالم کو اس کے ظلم کے ساتھ نست و نابود کرنے والا ہے
وہ انصاف کرنے والا ہے
وقار تمھیں لگتا ہے تم جو کر رہے ہو کسی کو معلوم نہیں مگر تم غلط ہو اللّٰہ سب دیکھ رہا ہے وہ تمھارے ناپاک ارادوں کو جانتا ہے "
"تم مجھے اپنی باتوں سے ڈرا نہیں سکتے سمجھے تم یہں سڑو گے تم ادھر ہی مرو گے "
وقار کو پسینے آنے لگے ڈر کی وجہ سے اس کی ٹانگیں کانپنے لگیں تو وہ وہاں سے چلا گیا
_______________________
" تم سے کہا تھا نہ میں نے کہ رافع تمھارا ہی داماد بنے گا
چھٹکارا مل گیا ہمیں تو اس منحوس سے اب تمھاری بیٹی میرے رافع کی دلھن بن کر میری بہو بن کر اس گھر میں آئے گی "
رخشندہ بیگم جو اپنے بھائی سے باتوں میں مگن تھیں سامنے کھڑے رافع کو دیکھ ان کی ہوائیاں اڑیں
" رافع تم کب آئے میں تمھاری ہی بات کر رہی تھی کہ میرا بچہ فرمانبردار ہے "
رخشندہ بیگم نے بیٹے کے سامنے بات سنبھالنے کی کوشش کی
" واہ اماں واہ اب مجھے مکھن نہ لگاو میں سب جان گیا ہوں جو بھی تم نے کیا"
رافع نے تالیاں بجاتے ان کو داد دی
رخشندہ بیگم پہلے ہی فون بند کر چکی تھی حیرانی سے بیٹے کو دیکھا
" ایسے کیا دیکھ رہی ہیں آپ کو تو ایوارڈ ملنا چاہیئے آپ نے بہت بڑا کارنامہ سر انجام دی دیا ہے نہ "
رافع نے ان کے قریب آتے کہا
" کیا ہوگیا ہے رافع کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو تم ماں کا احترام بھول گئے ہو تم "
رخشندہ بیگم نے آج پہلی بار اپنے بیٹے کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت دیکھی تھی وہ کیسے برداشت کر سکتی تھیں
" آپ نے کیوں کیا ایسا آخر کیا قصور تھا قلب کا جو آپ نے اس معصوم پہ ظلم کئے
صرف اس لیے کہ میری شادی اس سے نہ ہو آپ کی دلی تمنا پوری ہوئی
مگر آپ کو بہت جلد آپکی بہو سے ملواوں گا انتظار کیجئے گا"
رافع ان کا سکون برباد کرتا اپنے کمرے میں جا چکا تھا
"صبا چلو آج سے یہ تمھارا ہی گھر ہے گھرانے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے "
رافع اپنی دلھن کا ہاتھ پکڑے گھر لایا
رخشندہ بیگم کے چہرے کی رنگت ہی تبدیل ہو گئ اپنے بیٹے کے ساتھ دلھن بنی لڑکی کو دیکھ
کو کون ہے یہ لڑکی اور تم اس کو یہاں کیوں لے آئے ہو ؟
رخشندہ بیگم نے صبا کو نظروں میں رکھتے اپنے بیٹے سے سوال کیا
" یہ میری بیوی ہے اور بیوی یہ میری امی جان مطلب تمھاری ساس صاحبہ ہیں "
رخشندہ بیگم کے سوال کا جواب دیتے اس نے صبا سے تعارف بھی کروا دیا
رخشندہ بیگم تو اس کے جواب پہ غصے سے پاگل ہونے کو تھیں
آخر کیوں نہ ہوتیں اس بیٹے کی شادی اپنے بھائی کی بیٹی سے کروانے کیلئے انھوں نے کیا کیا پاپڑ نہ بیلے تھے
کتنے جتن کئے تھے اور آج ان کا بیٹا کسی اجنبی لڑکی کو ساتھ لے کر بول رہا یہ میری بیوی ہے
" یہ تم کیا بول رہے ہو تم ہوش میں تو ہو نہ تمھارا رشتہ میں نے تمھارے ماموں کی بیٹی سے طے کر دیا تھا
اور تم اس لڑکی سے شادی کرکے آ گئے ہو "
غصے سے بیٹے کو گھورتے انھوں نے انھوں نے آنے والی کی پرواہ کرنا بھی گوارا نہ کیا
" مجھے اندازہ تھا آپ کے ری ایکشن کا میں اور صبا اس کے لیے پہلے سے ہی تیار تھے آپ نے کوئی نہ کوئی تماشہ ضرور کرنا ہے "
رافع نے ان کی باتوں کا زرا اثر نہ لیا
رخشندہ بیگم کا اپنے بیٹے کے منہ سے سب سننا ان کیلئے اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا مشکل ہوگیا تھا
"چلو صبا میں تمھیں ہمارا روم دکھا دوں پھر ہم نے کل میری بہن کے گھر بھی جانا ہے "
رافع تو یہ سب کہہ کر چلا گیا
مگر رخشندہ بیگم تو صدمے میں چلی گئیں تھیں
وہ بیٹا جس نے ان کے سامنے کبھی آف تک نہ کی تھی
آج نہ صرف انھیں باتیں سنا گیا تھا بلکہ اتنا بڑا فیصلہ بھی خود ہی کرکے
شادی کرکے گھر آ گیا تھا
انھیں ان احساس ہو رہا تھا اگر وہ قلب کے ساتھ کچھ برا نہ کرتیں اس پہ ظلم نہ کرتیں تو آج ان کے ساتھ بھی یہ سب نہ ہو رہا ہوتا
اور ان کو بھی آج اپنے بیٹے کی نفرت کا سامنا نہ کرنا پڑ رہا ہوتا
غلطی جو وہ کر چکی تھیں اب اس کی سزا تو بھگتنی تھی ان کو
اگر قلب انھیں معاف کر دیتی تو ان کا بیٹا بھی ان کو معاف کر دیتا
یہ سوچ کہ انھوں نے قلب سے معافی مانگنے کا پکا ارادہ کر لیا تھا
_______________
؟تمھارا ولیمہ ہے جو اس طرح تیاریاں ہو رہی ہیں
عالیہ نے کچن میں ملازموں کے ساتھ کام کرواتی قلب پہ چوٹ کی
" میرا بھائی اور بھابھی آ رہے ہیں اس لیے مومن سائیں نے کہا تھا کہ کھانا اپنی نگرانی میں تیار کروا لوں "
قلب نے عالیہ کی باتوں کا برا منائے بغیر اسے جواب دیا
" جہاں تک مجھے پتہ ہے تمھارا بھائی تو قتل کرنے کے بعد سے غائب ہے اور مومن کے سامنے ٹسوے بہائے ہونگے پھر اس نے تم پہ رحم کھا کے اجازت دی ہوگی "
سیب کی کاش منہ میں ڈالتے عالیہ نے کہا
"پہلی بات میرے بھائی نے کوئی قتل نہیں کیا اور دوسری بات مومن سائیں کے سامنے مجھے رونے کی ضرورت نہیں اپنی بات منوانے کیلئے"
قلب میں پتہ نہیں کہاں سے اتنی ہمت آگئ تھی کہ عالیہ کو سیدھا سیدھا جواب دے ڈالا
" ارے واہ تمھارے منہ بھی زبان آگئ ہے میں تو سمجھیں تھی کہ تم بولتی نہیں ہو "
عالیہ نے تالیاں بجاتے اس کے گرد گھومتے کہا
" جب لوگ اپنی حد سے اور قد سے نکل کر اپنی باتیں کرنے لگیں تو جواب دینا ہی پڑتا ہے "
قلب نے اس کے انداز کو دیکھتے بغیر ڈرے کہا
" تمھیں تو بہت جلد میں مومن کی زندگی سے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال پھینکوں گی پھر پوچھوں گی کیسے زبان چلاتی ہو تم میرے سامنے "
عالیہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا
"وہ تو دیکھ لیں گے کون کس کو نکالتا ہےاور پوچھتا ہے وقت سے پہلے انسان کو بڑی باتیں نہیں کرنی چاہیں "
قلب عالیہ ہوئے جاتے ہوئے جواب دینا نہیں بھولی
________________________
قلب تم نے بتایا نہیں میری پسند کیسی ہے ؟
رافع نے آنکھ مارتے ہوئے قلب سے پوچھا
"ارے رافع بھائی آپکی پسند تو لاجواب ہے ماننا پڑے گا "
قلب نے ہنستے ہوئے صبا کو دیکھتے کہا
"اگر آپ دونوں ایک دوسرے سے باتیں کر چکے ہیں تو ہم بھی ادھر ہی موجود ہیں زرا ہم دونوں پہ نظر کرم کر دیں "
مومن نے معصوم شکل بناتے باتیں کرتے قلب اور رافع سے شکایت کی
مومن کی بات پہ باقی تینوں کا بھی قہقہ گونجا
رافع اور صبا مومن کی حویلی میں قلب کے ساتھ ایک اچھا وقت گزار کے گھر واپس آئے
صبا کی تو قلب سے اچھی دوستی ہوگئ صبا نے اسے اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے ڈالی
__________________
کیا ہوا مومن تم اتنے خوش کیوں لگ رہے ہو کیا وجہ ہے ؟
عالیہ نے مومن کو خوش دیکھ کر پوچھا
"عالیہ میں آج واقعی بہت خوش ہوں اتنا خوش کہ بیان سے باہر "
وہی تو پوچھ رہی ہوں بتائیں تو سہی آخر بات کیا ہے ؟
" مجھے اپنے بھائی کے قاتل کا پتہ چل گیا ہے اور قلب کے بھائی کا بھی کہ وہ کہاں ہے"
مومن کے الفاظ نے گویا عالیہ پہ بجلی گرادی تھی
اس کے چہرے پہ کئ رنگ آئے گئے
" مجھے اپنے بھائی کے قاتل کا پتہ چل گیا ہے اور قلب کے بھائی کا بھی کہ وہ کہاں ہے"
مومن کے الفاظ نے گویا عالیہ پہ بجلی گرادی تھی
اس کے چہرے پہ کئ رنگ آئے گئے
تو دراب نے آپ کے بھائی کا قتل نہیں کیا ؟
عالیہ نے سوال کیا
" ہاں دراب نے میرے بھائی کو نہیں مارا وہ تو میرے بھائی کا دوست تھا اس کی کوئی دشمنی بھی نہیں تھی "
مومن نے خود پہ پرفیوم چھڑکتے جواب دیا
آپکو پتہ ہے کہ قاتل کون ہے اور دراب کدھر ہے ؟
عالیہ نے خود پہ قابو پاتے پھر سے سوال کیا
" دراب کا تو پتہ چل گیا ہے مگر قاتل کے بارے میں دراب ہی بتا سکتا ہے "
مومن نے عالیہ کے چہرے پہ خوف کے سائے لہراتے دیکھ کہا
مگر تم کیوں گھبرا رہی ہو تمھیں تو پسینہ بھی آ رہا ہے وہ بھی اس موسم میں ؟
نہ نہیں تو میرے سر میں تھوڑا درد تھا تو اس وجہ سے "
ماتھے سے پسینےکی بوندیں صاف کرتے جواب دیا
" اچھا ٹھیک ہے اب میں چلتا ہوں مجھے جلدی پہنچنا ہے ادھر "
مومن جا چکا تھا مگر عالیہ کا سکون تباہ کر گیا
عالیہ فوراً سامیہ کے کمرے کی طرف دوڑی تاکہ وہ وقار کو بتا سکیں
"سامیہ کدھر ہو بہت بڑا مسلہ ہو گیا ہے یوں سمجھو ہماری بساط الٹنے والی ہے "
عالیہ نے آتے سامیہ کے سر پہ بم پھوڑا
ارے کیا ہوا کیوں ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہوگئ ہو لڑکی
خیر ہے اور کیا غلط ہوگیا کون ہماری بساط الٹنے والا ہے ؟
یںضض
سامیہ نے بھی سانس لیے بغیر سوالوں کی بوچھاڑ کر دی
" آپی آپ جلدی سے وقار بھائی کو کال کریں مومن کو سب پتہ چل گیا ہے وہ اس ٹھکانے پہ گیا ہے جہاں پہ وقار نے دراب کو قید کیا ہے "
عالیہ نے پھولی سانسوں سے بات مکمل کی
اسے کیسے پتہ چلا یہ سب کہیں تمھاری وجہ سے تو نہیں ؟
سامیہ تو خود ڈر ہی وجہ سے نیلی پیلی ہوگئ
" نہیں آپی مجھے نہیں پتہ کیسے معلوم ہوا اسے مگر ابھی تک اسے یہ معلوم نہیں کہ یہ سب ہم نے کیا ہے
اگر وہ دراب تک پہنچ گیا تو اسے سب معلوم ہوجائے گا آپ جلدی سے کال کریں وقار کو "
ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو
سامیہ نے فون کرکے وقار کو سب بتا دیا
اور وقار بھی اس جگہ کہ طرف روانہ ہوگیا جہاں انھوں نے دراب کو رکھا ہوا تھا
اسے یہ خبر ہی نہ تھی کہ کوئی اور بھی اس کا پیچھا کر رہا ہے
" ہاں مومن وقار کو ابھی کسی کی کال آئی ہے وہ خوفزدہ تھا اور گاڑی لے کر شہر کے اس حصے کی طرف جا رہا ہے جدھر تعمیرات کا کام جاری ہے "
علی نے مومن کو آگاہ کیا
"مجھے پتہ ہے اسے کیا بولا گیا ہے اور تم بہت احتیاط سے اس کا پیچھا کرنا دراب کو اور تمھیں ایک کھروچ ھی نہیں آنی چاہیے اور ہاں پولیس کو کال کر دی تھی نہ وہ تمھاری گاڑی سے بس دومنٹ کی دوری پہ ہوں "
مومن نے اسے ہدایت دی موبائل پہ میسج ٹون بجنے پہ وہ علی کو احتیاط کرنے کا کہہ کر اپنے واٹس اپ پہ آنے والی ویڈیو اوپن کر چکا تھا جس میں عالیہ اور سامیہ کے چہروں کے ساتھ آواز بھی صاف سنائی دے رہی تھی ان کی باتوں سے پتہ چل رہا تھا کہ مومن کے بھائی کے قتل میں ان کا بھی بڑا ہاتھ ہے
شاباش میری شیرنی تم نے تو کمال ہی کردیا
مومن نے قلب کو دل ہ دل میں داد دی جس نے ان دونوں بہنوں کی ویڈیو بنا کے بھیجی تھی جو وہ لوگ ثبوت کے طور پہ عدالت میں پیش کرنے والے تھے
_____________________
وقار نے کمرے کا دروازہ کھول کے ابھی کرسیوں سے بندھے بے حال دراب کو کھولنے کیلئے ہاتھ بڑھایا ہے تھا کہ کھٹکے پہ پیچھے دیکھا
علی۔۔۔
تو تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
ایک پل کو وقار کو لگا سب ختم
"میں آپ کو داد دینے آیا تھا کہ بہت ہی عظیم کام کیا ہے آپ نے اپنے بہنوئی کو مار کے بہت ہی عظیم کا اب تو آپ کو سب کچھ مل گیا ہوگا آپکی وجہ سے کتنی زندگیاں داؤ پہ لگی ہیں اب آپ خوش ہونگے "
علی نے کلیپنگ کرتے ہوئے کہا
"دراب تو آج مرے گا ہی مگر تمھاری موت بھی تمھیں یہاں لے آئی ہے علی اب تم بھی نہیں بچو گے "
وقار نے پسٹل کا رخ علی کی طرف کرتے کہا
" رک جاؤ وقار ورنہ ہم گولی چلا دیں گے"
انسپیکٹر صاحب نے وقار کو ٹریگر دباتے دیکھ تنبیہ کی
پو پولیس ۔۔۔۔
وقار کے منہ سے نکلا
وقار نے ٹریگر دبا دیا تھا کمرے کے اندر گولیوں کی آواز گونج اٹھی تھی
ایک گولی مومن کا بازو چیرتی ہوئی نکل گئی جو علی کو لگنے والی تھی مگر مومن نے علی کو پرے دھکیل کے خود پہ لے لی
اور انسپیکٹر کی پسٹل سے نکلنے والی گولیاں وقار کے دل کے آرپار ہوگئ تھیں اور وہ وہیں دم توڑ گیا تھا اس کی روح پرواز کر گئ تھی مجرم کو سزا مل چکی تھی
مومن تم ٹھیک ہو تم نے ایسا کیوں کیا لگنے دیتے مجھے گولی میرے سامنے کیوں آئے؟
علی نے مومن کے بازو سے بہتے خون کو دیکھتے پوچھا
"میں ٹھیک ہوں تم لوگ دراب کو ہوسپیٹل پہنچاؤ جلدی اس کی حالت کافی خراب لگ رہی ہے"
مومن نے کرسی پہ جھولتے وجود کی طرف اشارہ کیا
"لاش کو قبضے میں کو اور زخمیوں کو جلدی سے ہوسپیٹل پہنچاؤ "
انسپیکٹر صاحب نے اپنی ٹیم کو ہدایت دی
دراب کی حالت کے پیش نظر اسے ایڈمٹ کر لیا گیا تھا
اور مون کے بازو کو چونکہ گولی چھو کر گزری تھی تو اس کی ڈریسنگ کر دی گئ تھی
انسپیکٹر صاحب سے بات کرتے مومن ان کے ساتھ کی حویلی کی طرف روانہ ہوا
سامیہ کو اپنے بیٹے کا گلہ گھونٹتے دیکھ قلب فوراً مومن کو کال ملائی اور ساتھ ساتھ
عثمان کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگی
" سامیہ یہ کیا کر رہی ہو یہ تمھارا اپنا بیٹا ہے تم اسے کیوں مار رہی ہو تم ایک ماں ہو کر ایسا کیسے کر سکتی ہو چھوڑو اسے "
فون کے سپیکر سے قلب کی دوستی آواز بچے کی گھٹی گھٹی آواز مومن اور انسپیکٹر بخوبی سن سکتے تھے
حویلی پہنچتے ہی مومں اندر کی طرف دوڑا
لیڈی پولیس آفیسرز بھی پہنچ چکی تھی
انھوں نے عالیہ اور سامیہ کو قابو کرنا چاہا
سامیہ کو تو پکڑ لیا گیا مگر عالیہ نے اس سے پہلے ہی خود کو گولی مار لی تھی
مومن نے قلب اور عثمان کو اپنے سینے سے ایسے لگایا کیسے کوئی بچہ اپنا گمشدہ کھلونا ملنے پہ سینے سے لگا لیتا ہے کہ پھر سے گم نہ ہوجائے
سامیہ اور وقار کو عدالت نے پھانسی کی سزا سنا دی تھی کیونکہ ان پہ قتل کا جرم ثابت ہوچکا تھا
دراب نے گواہی دی تھی کہ مومن کے بھائی کو قتل کرنے والا وقار ہی تھا اور وقار کی بہن سامیہ بھی اپنے شوہر کو قتل کروانے کی سازش میں شامل تھی
ناصرف یہ بلکہ سامیہ نے یہ بھی قبول کیا تھا کہ اس نے زہر دے کر اپنی ساس اور اپنے بیٹے کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش بھی کی
اس طرح مجرموں کو سزا سنا کے مقتول کو انصاف دلایا گیا تھا
ایک لالچی عورت نے اپنے لالچ میں محبت کرنے والا شوہر خود ہی کھو دیا تھا
اپنی ہری بھری خوشحال فیملی کا شیرازہ بکھیر کے رکھ دیا تھا
ظلم ختم ہو جاتا ہے ظلم مٹ جاتا ہے اور ظالم کا چہرہ بے نقاب ہوجاتا ہے
مون کو اندازہ ہوگیا تھا کہ جو ہمیں نظر آرہا ہوتا یا دکھایا جارہا ہوتا ہے وہ کہانی کا ایک رخ ہوتا کہانی کا دوسرا رخ بھی حقیقت ہو سکتا ہے جلدی بازی میں انسان اپنے آپ پہ قابو نہیں پا سکتا اور کسی اور کی سزا بے گناہ کو دے بیٹھتا ہے
مومن نے قلب سے بھی معافی مانگ لی تھی اور اسے عزت سے دوبارہ دھوم دھام سے رخصت کروا کے اپنے گھر کے آیا تھا
عثمان کو بھی ان دونوں نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا
حویلی کی رونقیں بحال ہوگئیں تھیں سامیہ کی صورت جو آسیب کا سایہ حویلی پہ تھا وہ اب ختم ہو چکا تھا
اب حویلی میں عثمان کی شرارتیں قلب کی ہنسی اور مون کی مسکراہٹ کے ساتھ اماں سائیں اور حیدر شاہ کی دعاؤں کا راج تھا
ادھر دراب نے بھی شادی کر لی تھی رافع اور صبا بھی خوشحال زندگی بسر کر ہے تھے رخشندہ بیگم نے بھی قلب سے اپنے کیے کی معافی مانگ لی تھی
اس طرح ایک ونی ہونے والی لڑکی کو سسرال میں ایک عزت والا مقام ملا تھا محبت ملی تھی شفقت اور دعاؤں کا گھنا سایا میسر آیا تھا
مشت غبار
کبھی شاخ و سبزه و برگ پر کبھی غُنچه و گُل و خار پر
ميں چمن میں چاهے جہاں رهوں میرا حق هے فصلِ بہار پر
مجھے دے نه غیض کی دھمکیاں گریں لاکھ بار یه بجلیاں
مری سلطنت یہی آشیاں مری مِلکیت یہی چار پَر
جنہیں کہیۓ عشق کی وُسعتیں جو هيں خاص حُسن کی عظمتیں
یه اُسی کے قَلب سے پُوچھیۓ جسے فَخر هو غمِ یار پر
مرے اشک ِ خُوں کی بہار هے که مُرقّعِ غمِ یار هے
میری شاعری بھی نثار هے تیری چشمِ سحر نِگار پر
عجب انقلابِ زمانه هے مرا مختصر سا فسانه هے
یہی اب جو بار هے دوش پر یہی سَر تھا زانوۓِ یار پر
یه کمالِ عشق کی سازشیں یه جمالِ حُسن کی نازِشیں
یه عِنایتیں یه نوازشیں مری ایک مُشتِ غبار پر
میری سمت سے اُسے اے صبا یه پیامِ آخرِ غم سُنا
ابھی دیکھنا هو تو دیکھ جا، که خِزاں هے اپنی بہار پر
یه فریبِ جلوه هے سر بسر مجھے ڈر یه هے دلِ بیخبر
کہیں جَم نه جاۓ تیری نظر انہیں چند نقش و نگار پر
ميں رهینِ درد سہی مگر مجھے اور چاهيۓ کیا جگر
غمِ یار میرا شیفته، ميں فریفته غمِ یار پر
جگر مراد آبادی
ختم شد
If you want to read More the Beautiful Complete novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Youtube & Web Speccial Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
If you want to read Famous Urdu Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about
Musht E Gubar Romantic Novel
Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Musht E Gubar written by Sofia Khan.Musht E Gubar by Sofia Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.
Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply
Thanks for your kind support...
Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels
Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.
۔۔۔۔۔۔۔۔
Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link
If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.
Thanks............
Copyright Disclaimer:
This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.
No comments:
Post a Comment