Wo Kharoos Sa By Mahwish Urooj New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 22 July 2024

Wo Kharoos Sa By Mahwish Urooj New Complete Romantic Novel

Wo Kharoos Sa By Mahwish Urooj New Complete Romantic Novel

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Wo Kharoos Sa By Mahwish Urooj Complete Romantic Novel 

Novel Name: Wo Kharoos Sa

Writer Name: Mahwish Urooj

Category: Complete Novel

وہ جس رفتار سے گاڑی چلا رہا تھا اسے لگ رہا تھا کہ وہ کہیں اور پہنچے نہ پہنچے ہسپتال ضرور پہنچ جائے گی۔وہ پچھلی سیٹ پر یوں بیٹھی تھی جیسے کسی نے سیٹ پہ گلو لگا کر اسے بٹھایا ہو۔دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسائے اسکی نظر گاڑی چلانے والے کی کمان کی طرح تنی ابروؤں پہ تھی جو ریرویو مرر سے دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔نہ بھی دکھائی دیتیں تو گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے ہی وہ اس شخص کے غصیلے انداز سے اسکی کٹھور طبیعت کا اندازہ لگا چکی تھی۔اچانک اسپیڈ بریکر کی وجہ سے گاڑی اچھل کر جھٹکے سے بند ہو گئی۔وہ بھی اپنی جگہ سے کھسک گئی تھی۔

"یااللہ خیر۔۔۔۔"

گاڑی کے رکنے پہ اس نے گھبرا کر اسے دیکھا۔۔وہ دروازہ کھول کر جھٹکے سے باہر نکلا اور دروازہ بند کیے بغیر چہرے پہ گلیشئیر جیسے تاثرات لئے گاڑی کا بونٹ کھول کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔وہ اپنی کالی شال جو بار بار دُھلنے کی وجہ سے اپنی رنگت کھو چکی تھی، بےوجہ ہی کھول کر ایک بار پھر سے اپنے گرد لپیٹنے لگی۔سردی اتنی نہیں تھی مگر اسے بہت لگ رہی تھی۔ہاتھ پیر ٹھنڈے برف ہو رہے تھے۔

"یا اللہ یہ تو وہی محاورہ ہو گیا کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔۔اب مجھے اسے کانٹے دار کھجور کے درخت سے کون بچائے گا۔آسمان سے زمین پہ آنے سے تو اس کھجور کے درخت نے بچا لیا تھا مگر اب اس سے کیسے بچوں گی۔"

وہ بونٹ پہ نظریں جمائے سوچ رہی تھی۔۔جس کے پیچھے وہ نظروں سے اوجھل تھا۔کچھ دیر بعد وہ تیزی سے اسے اپنی طرف آتا دکھائی دیا۔

"یا اللہ۔۔مجھے بچا لے۔"

ایمان نے اُسے کڑے تیور لئے اپنی طرف آتا دیکھ کر آنکھیں سختی سے میچ لیں۔

"جلِ جلال تُو آئی بلا کو ٹال تُو۔۔۔"

آنکھیں بند کیے وہ دل ہی دل میں ورد کر رہی تھی کہ اسے ڈگی کھلنے کی آواز آئی۔اس نے دائیں آنکھ کو زرا سے کھول کر دیکھا۔سامنے کوئی ہوتا تو دکھائی دیتا۔۔۔آواز پیچھے سے آ رہی تھی۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں وہ شاید کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا۔ڈگی بند کر کے وہ آگے آیا۔۔شاید اسے اسکی مطلوبہ چیز مل چکی تھی۔۔اس کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی۔ایک بار پھر وہ بونٹ کے پیچھے غائب ہو چکا تھا۔

"یا اللہ گاڑی جلدی سے ٹھیک ہو جائے ورنہ یہ چنگیزخان مجھے یہیں کہیں زندہ گاڑ کر خود چلا جائے۔"

ممکنہ خدشے کے پیشِ نظر وہ آنکھیں بند کیے گاڑی ٹھیک ہونے کی دعا کر رہی تھی۔چہرے پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے بونٹ کے بند ہونے کی آواز سنی تو پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔وہ تیزی سے آ کر گاڑی میں بیٹھا اور ہاتھ میں پکڑی خالی بوتل ڈیش بورڈ پہ پھینکی جو ڈیش بورڈ سے ٹکرا کر نیچے آ رہی تھی۔اس نے اگنیشن میں چابی گھمائی۔گاڑی اسٹارٹ ہوئی اور ایک جھٹکے سے آگے بڑھی۔اب پھر سے وہی رفتار تھی اور وہ تھا۔

"اِس کا بس چلے تو گاڑی کو پلین بنا کر اڑا لے جائے۔۔۔ہونہہ نام محمود غزنوی اور حرکتیں چنگیز خان جیسی۔"

اس نے کنکھیوں سے اسکے گھنے بالوں والے سر کو دیکھا۔

"میری بلا سے جہنم میں جائے۔۔"

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے ریلکیس انداز میں سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا گئی۔نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر طویل سفر نے اس پہ سستی طاری کر دی تھی۔آنکھیں بند ہونے کی خواہش مند تھیں لیکن وہ سو کر سب کچھ کھونا نہیں چاہتی تھی۔

"ایمان تمھیں جاگنا ہے ورنہ یہ سڑیل کریلا تمھیں یہیں کہیں پھینک کر خود چلا جائے گا۔۔۔تمھیں اس لمبو پہ نظر رکھنی ہے۔"

وہ دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں مسلتے ہوئے بڑبڑائی تھی۔نیم خوابیدہ آنکھیں اس ظلم پہ دہائیاں دے رہی تھیں مگر وہ ان کی ایک سننے کو تیار نہیں تھی۔۔

"میری بھولی۔۔پیاری اور معصوم آنکھوں۔۔۔ہوش میں آؤ۔"

وہ انگلیوں سے بند آنکھوں کو پیار سے تھپتھپاتے ہوئے دل میں بولی تھی مگر اس لڑائی میں بِلاآخر نیند سے بھری آنکھوں نے اسے مات دے ہی دی تھی۔

"اٹھو۔۔۔۔"

کسی کے غصیلے انداز نے اسے آنکھیں کھولنے پہ مجبور کیا۔وہی چنگیزخان اس کے سر پہ کھڑا کڑے تیوروں سے اسے گھور رہا تھا۔

"افففف۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔۔اٹھو۔۔گھوڑے بیچنے کا وقت گیا۔"

وہ دوبارہ آنکھیں بند کرنے کے چکروں میں تھی کہ اُس چنگیزخان نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی چنگیز خانی دکھائی۔وہ آنکھیں مسلتے ہوئے گاڑی سے اتری۔دن کے اجالے نے اسکی آنکھوں کو چندھیا دیا تھا۔صبح ہو چکی تھی۔سورج کی نرم گرم کرنیں اس پہ پڑیں تو اسے نجانے کیوں سکون کا احساس ہوا۔اس کے باہر نکلتے ہی غزنوی نے گاڑی کا دروازہ دھاڑ کی آواز کے ساتھ بند کیا جس کی آواز یقیناً اندر تک گئی ہو گی کیونکہ چند لمحوں بعد اندر سے ایک بزرگ خاتون آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی برآمد ہوئیں۔ان کے ساتھ شاید ایک ملازمہ بھی تھی۔اس کی نظریں ان بزرگ خاتون پر تھیں کہ اچانک اسکے پیروں کے قریب کوئی چیز گری۔وہ ڈر کر ایک قدم پیچھے ہوئی۔یہ اسکا چھوٹا سا سفری بیگ تھا۔اس نے کھا جانے والی نظروں سے اُس چنگیز خان کی پشت کو گھورا اور پھر جھک کر اپنا بیگ اٹھا لیا۔سامنے دیکھا تو وہ ان بزرگ خاتون کے گلے لگا ہوا تھا۔اس کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ اسے خود پہ ہوا ظلم یاد کروا گئی۔وہ لکڑی کے خوبصورت نقش و نگار والے دروازے سے اندر چلا گیا جبکہ اب وہ بزرگ خاتون اس کے قریب آ رہی تھیں۔وہ اپنا چھوٹا سا بیگ سینے سے لگائے وہیں کھڑی تھی۔

"السلام وعلیکم۔۔!!"

ان کے قریب آنے پہ اس نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔جیتی رہو۔۔دیکھو شگفتہ کیسی موہنی صورت ہے میرے غزنوی کی دلہن کی۔"

انہوں نے اسے ساتھ لگا کر سامنے کھڑی شگفتہ سے کہا۔

"جی شاہ گل۔۔بہت پیاری ہے ماشاءاللہ۔۔سورج چاند کی جوڑی ہے۔اللہ جوڑی سلامت رکھے۔"

شگفتہ نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔اسے ڈر تھا کہ نجانے باقی گھر والوں کا رویہ کیسا ہوگا مگر ان دونوں خواتین سے مل کر اسے تھوڑا سکون ہوا۔

"آ جاؤ بیٹا اندر چلیں تم تھک گئی ہو گی۔۔تھوڑا آرام کر لو تب تک باقی گھر والے بھی جاگ جائیں گے ابھی تو سب سو رہے ہیں ورنہ رات گئے تک تمہارے انتظار میں بیٹھے رہے تھے۔میں نے ہی زبردستی سب کو بھیجا۔غزنوی نے فون کر کے بتا دیا تھا کہ تم لوگ صبح پہنچو گے۔وہ سب تو صبح تک تم دونوں کا انتظار کرنا چاہتے تھے مگر۔۔۔۔۔چلو خیر تھوڑی دیر تک مل ہی لو گی سب سے۔۔"

وہ اسے ساتھ لیے ایک کمرے کی طرف بڑھیں۔لاؤنج میں داخل ہوتے ہیں شگفتہ نے اُس سے اُس کا بیگ لے لیا تھا۔

"شگفتہ تم میرے لئے اور میری بیٹی کے لیے چائے بنا کر لاؤ۔۔ناشتہ ہم باقی سب کے ساتھ کریں گے۔"

کمرے میں داخل ہونے سے پہلے شاہ گل نے شگفتہ سے کہا۔وہ سر ہلا کر وہیں سے پلٹ گئی۔وہ دونوں کمرے میں داخل ہو گئیں۔یہ کمرہ شاید انہی کا تھا۔کمرہ بہت کھلا اور صاف ستھرا تھا۔ضرورت کی ہر چیز وہاں موجود تھی۔کمرے کی ڈیکوریشن میں سادگی کا خاص دھیان رکھا گیا تھا۔

"تمھارے داجی آئیں گے تو ہم ولیمے کا فنکشن کریں گے اور یہ غزنی کو دیکھو وہاں سے کیسے بھاگ گیا۔۔شرما گیا تھا میرا بچہ۔۔تم خفا مت ہونا اچانک سے یہ سب ہو گیا نا اس لئے ایسا کیا اس نے ورنہ تو میرا بچہ بہت خیال رکھنے والا ہے۔"

وہ اسے ساتھ لیے صوفے تک آئیں اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔وہ شاید اس خِفت کو مٹانے کے لئے اس کے سامنے یہ سب کہہ رہی تھیں جو انہوں نے غزنوی کے یوں وہاں سے جانے پہ محسوس کی تھی۔وہ اس کے پاس بیٹھ کر اسکے گھر والوں کے بارے میں پوچھنے لگیں تھیں۔تھوڑی دیر بعد شگفتہ چائے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔ٹرے اس نے ٹیبل پہ رکھا اور پھر باہر سے اسکا سفری بیگ بھی لے آئی۔

"ایک کپ غزنوی کو بھی دے آتی۔۔"

انھوں نے شگفتہ کے ہاتھ سے کپ لیتے ہوئے کہا۔

"میں نے پوچھا تھا لیکن کوئی آواز نہیں دی۔"

شگفتہ نے کپ ایمان کی طرف بڑھاتے ہوئے ان سے کہا۔

"ہاں سو گیا ہو گا۔۔نیند کا شیدائی ہے۔"

آخری جملہ انھوں نے ایمان کو دیکھتے ہوئے کہا اور ہنس دیں۔ایمان بھی سر ہلا کر دھیرے دھیرے چائے کی چسکیاں لینے لگی۔پہلے تو اس دلدل سے نکل جانے کی خوشی نے اسے کچھ سمجھنے نہیں دیا تھا۔وہ یہی  سمجھ رہی تھی کہ اچانک سے یہ سب ہونے کی وجہ سے وہ غصے میں ہے مگر یہاں آنے کے بعد کے رویے نے اب اسے پریشان کر دیا تھا۔شاہ گل بھی اسے بغور دیکھتے ہوئے غزنوی کے متعلق ہی سوچ رہی تھیں۔انھیں اعظم احمد(داجی) نے فون پہ سب بتا دیا تھا کہ کن حالات میں انھیں غزنوی اور ایمان کا نکاح کرنا پڑا اور یہ بھی کہ غزنوی اس نکاح کے لئے راضی نہیں تھا۔۔انہوں نے اسے اس نکاح کے لئے مجبور کیا ہے۔انہوں نے ان سے کہا کہ وہ ان کے فون بند کرنے بعد سب گھر والوں کو اکٹھا کر کے اس نکاح کے متعلق بتائیں اور یہ بھی بتائیں کہ ایمان غزنوی کے ساتھ ہی آئے گی۔ایک دو دن میں وہ خود بھی واپس آ جائیں گے پھر ولیمے کی تقریب رکھی جائے گی۔

"ایمان بیٹا۔۔۔اگر نیند آ رہی ہے تو تم آرام کر لو۔۔"

انہوں نے اس کی سرخ آنکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"جی۔۔۔"

وہ فوراً اٹھ کر بیڈ کی سمت بڑھ گئی۔شاہ گل حکم کی اس تعمیل پہ مسکرا دی تھیں۔

      ________________________________________

اسکی آنکھ کھلی تو وہی ملازمہ اسے آواز دے رہی تھی۔۔کچھ دیر تو وہ اسے گھورتی رہی پھر جب آنکھیں اس ماحول سے مانوس ہوئیں تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔

"تم۔۔۔۔"

اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھوں کو بچوں کے سے انداز میں رگڑتے ہوئے پوچھا۔

"جی میں شگفتہ۔۔۔شاہ گل کہہ رہی ہیں کہ آپ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آ جائیں۔۔وہاں سب ڈائننگ ہال میں آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔"

شگفتہ فُل اسپیڈ میں بولی تھی۔۔۔اس کی بات سن کر وہ سر ہلا کر تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔

"او جی اٹھ بھی جائیں۔۔میں نے آپکے کپڑے واش روم میں لٹکا دئیے ہیں۔"

شگفتہ اسے سستی سے بیٹھے دیکھکر اپنی چادر کا پلّو مروڑتے ہوئے بولی تھی۔

"اچھا نا اٹھتی ہوں۔"

وہ وقفے وقفے سے آتی اباسیوں کو ہاتھ سے روکتے ہوئے بیڈ سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گئی۔

"آپ نے تو کہا تھا کہ کپڑے واش روم میں لٹکائے ہیں مگر یہاں تو میرے کپڑے نہیں ہیں۔"

وہ واش روم کے دروازے میں کھڑی شگفتہ سے پوچھ رہی تھی۔

"او ہو۔۔۔۔ٹھہریں میں آتی ہوں۔"

وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتی اس کے پاس آئی اور واش روم کی الماری میں سے اسے ڈریس نکال کر ایمان کی طرف بڑھایا۔

"یہ تو میرا نہیں ہے۔"

اس نے شاکنگ پنک کلر کے سادہ مگر خوبصورت ڈریس کی طرف ہاتھ بڑھانے سے احتراز برتا۔

"بی بی یہ آپکا ہی ہے۔۔شاہ گل نے دیا ہے مجھے کہ آپکو دے دوں۔"

شگفتہ نے ڈریس اسکے ہاتھ میں دیا اور واش روم سے باہر نکل گئی۔اس نے ایک نظر ہاتھ میں پکڑے لباس کو دیکھا اور پھر شگفتہ کو جو اس کے انتظار میں صوفے پہ بیٹھ گئی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی۔ایک نظر آئینے میں خود پہ ڈالی۔۔یوں لگ رہا تھا جیسے یہ لباس خاص اسی کے لئے بنایا گیا ہو۔اسکی دودھیا رنگت پہ لباس بہت اٹھ رہا تھا۔اس نے کبھی اسقدر ڈارک کلر نہیں پہنا تھا۔اسکے پاس تو گنتی کے چار پانچ جوڑے تھے جنھیں وہ ساتھ لے آئی تھی حالانکہ ان میں سے تو کچھ اپنی اصلی رنگت بھی کھو چکے تھے۔ایک تسلی بخش نظر اس نے اپنے عکس پہ ڈالی اور گیلے بالوں میں برش کرنے لگی۔

"ماشاءاللہ جی۔۔آپ تو کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔"

شگفتہ اسکے پاس آ کھڑی ہوئی تھی۔

"بہت شکریہ۔۔"

اس نے مسکرا کر اسکا شکریہ ادا کیا اور گیلے بالوں کا ہی ہلکا سا جُوڑا بنا کر کیچر لگا لیا۔بیڈ پہ دھرا ڈوپٹہ اٹھا کر اچھے سے پھیلا کر اوڑھا۔

"چلیں چلتے ہیں۔۔سب انتظار کر رہے ہوں گے۔"

شگفتہ دروازے کی طرف بڑھی مگر ایمان وہیں کھڑی رہی۔وہ گھبراہٹ کا شکار ہو رہی تھی مگر جانا تو تھا۔۔آج نہیں تو کل سب کا سامنا کرنا ہی تھا۔

"آپ رک کیوں گئیں۔۔چلیں نا۔۔"

شگفتہ نے دروازہ کھول کر پیچھے دیکھا تو وہ وہیں کھڑی انگلیاں چٹخا رہی تھی۔

"جی۔۔آ رہی ہوں۔"

اس نے اچھے خاصے ٹھیک دوپٹے کو ایک بار پھر سر پہ اچھے سے جمایا اور قدم بڑھائے۔دھڑکتا دل لیے وہ شگفتہ کے پیچھے پیچھے ڈائننگ ہال میں داخل ہوئی تھی۔جھکی نظروں کے باوجود وہ خود پہ اٹھتی نظروں کو محسوس کر سکتی تھی۔اٹھتے قدموں کے ساتھ ساتھ اسکی دھڑکن بھی بڑھ رہی تھی۔

"وہ دیکھو۔۔۔میری بیٹی بھی آ گئی۔"

شاہ گل نے اسے آتے دیکھا تو "میری بیٹی" کہہ کر اسکا حوصلہ بڑھایا۔وہ مسکراتے ہوئے ان کی طرف بڑھی۔

"یہاں آؤ میرے پاس۔۔۔"

انھوں نے اپنی قریبی کرسی پہ ہاتھ رکھا۔

"السلام وعلیکم۔۔!!"

اس نے گھبراہٹ سے خشک پڑتے لبوں پہ زبان پھیری اور وہاں بیٹھے سبھی لوگوں کو سلام کیا۔وہ سب اسے حیران نظروں اور مسکراتے لبوں سے دیکھ رہے تھے۔

"وعلیکم السلام۔۔"

سبھی نے ایک آواز میں اسکے سلام کا جواب دیا تھا۔

"یہاں بیٹھو میرے پاس۔"

شاہ گل نے اپنے پاس والی کرسی کے ہینڈل پہ ہاتھ رکھا۔وہ دھیرے دھیرے چلتی ان کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔جہاں سب کی حیران نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھیں وہیں ان کے مسکراتے لبوں نے اسے کچھ حوصلہ بھی دیا تھا۔اس وقت یہاں صرف گھر کے بڑے موجود تھے۔

"یہ غزنوی کے والد اور تمھارے سُسر مکرم احمد۔۔تمھاری ساس شمائلہ، میرے سب سے بڑے بیٹے معظم احمد اور شریک حیات صدیقہ اور ان کے ساتھ غزنوی کے چھوٹے چچا مظفر احمد اور غزنوی کی چچی صائمہ ہیں۔"

عقیلہ بیگم نے سب سے تعارف کروایا۔سبھی نے مسکراتے ہوئے اسے خوش آمدید کہا تھا۔۔کچھ دیر بعد وہ سب اس سے یوں باتیں کر رہے تھے جیسے وہ انہی کی فیملی کا حصہ ہو۔۔خاص طور پر غزنوی کے والد اور والدہ اس سے بہت محبت سے پیش آ رہے تھے۔شاہ گل نے بھی ان سب کے رویوں کو دیکھ کر خدا کا شکر ادا کیا۔حالانکہ جب شمائلہ کو معلوم ہوا تھا تو وہ خاموش ہو گئیں تھیں مگر اب ان کے چہرے کے سکون نے شاہ گل کو بھی پرسکون کر دیا تھا۔شمائلہ بیگم کو یہ نازک سی موہنی صورت والی لڑکی بہت پسند آئی تھیں۔گھر کے بڑوں کو عقیلہ بیگم نے ایمان کو درپیش حالات کے بارے میں بتا دیا تھا اور یہ بھی کہ کن وجوہات کی بناء پر انھیں یہ نکاح کروانا پڑا تھا۔شمائلہ بیگم ایک بہت نرم دل کی مالک خاتون تھیں مگر بیٹے کے مزاج اور پسند ناپسند سے اچھی طرح سے واقف بھی تھیں۔ اپنی نرم طبیعت کے باعث انھیں ایمان سے ہمدردی محسوس ہو رہی تھی۔

"ریلیکس ہو کر بیٹھو ایمان بیٹا۔۔اسے اپنا گھر ہی سمجھو۔"

مکرم احمد نے ایمان کی ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہوئے اس سے کہا۔وہ ان کی طرف شکریہ ادا کرتی نظروں سے دیکھ کر مسکرا دی۔خوش گپیوں کے دوران بہت خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا۔ناشتے کے بعد شمائلہ بیگم اسے اپنے کمرے میں لے آئیں اور اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگیں۔اس سے اسکے خاندان اور تعلیم کے بارے میں پوچھتی رہیں۔ابھی وہ اس سے باتیں کر ہی رہی تھیں کہ دھڑام سے دروازہ کھلا اور ہنستی کھلکھلاتی لڑکیوں کا ایک جمِ غفیر اندر داخل ہوا۔شمائلہ بیگم ان سب کی اس قدر دھانسو انٹری پہ ہنسنے لگی تھیں۔ایمان حیرانی سے سبھی کو دیکھ رہی تھی۔شمائلہ بیگم اور ایمان صوفے پہ بیٹھی تھیں تو وہ سب ان کے سامنے نیچے کارپٹ پہ پُھسکڑا مار کر بیٹھ گئیں۔ملی جُلی آوازوں سے کمرے میں ہلکا سا شور پیدا ہو گیا تھا۔

"ایمان یہ سب تمھاری نندیں ہیں اور یہ سبھی تمھاری آمد اور تم سے ملنے کے لئے بےقرار تھیں۔دیکھو ان سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔

شمائلہ بیگم نے ہنستے ہوئے اسے بتایا۔ایمان مسکرا دی۔

"چلیئے تائی امی ہمارا تعارف کروائیے۔"

سحرش نے کشن اٹھا کر گود میں رکھا اور اسکے گرد بازو لپیٹتے ہوئے کہا۔

"ہاں ممانی جلدی جلدی بتائیے۔۔میرے پاس وقت کی بہت کمی ہے۔"

ارفع نے اپنی چھوٹی سی ناک سکوڑ کر کہا۔

"ارے بھئی تم لوگ خاموش ہو گی تو تعارف کرواؤں گی نا۔"

شمائلہ بیگم نے کہا اور پھر ایمان کیطرف دیکھا۔وہ سب اپنا تعارف ہونے کے لئے بہت بےقرار تھیں اور منتظر نگاہوں سے کبھی ایمان کو دیکھتی تو کبھی شمائلہ بیگم کو۔

"ایمان یہ تم اتنی ساری لڑکیوں کو دیکھ رہی ہو نا یہ سب تمھاری۔۔۔۔"

"ٹھہریں ممانی میں اپنا تعارف خود کرواوں گی۔"

عنادل ایک دم سے کھڑی ہوئی اور سب کی طرف دیکھتے ہوئے فرضی کالر کھڑے کیے۔

"ارے پہلے اپنے کرتوت تو بتا دو پھر کالر کھڑے کرنا۔"

ارفع نے عنادل سے کہا۔اس کی بات پہ قہقہہ پھوٹ پڑا۔

"خاموش۔۔۔۔گستاخ لڑکی۔۔۔ملکہ عالیہ کا اقبال بلند ہو۔۔"

عنادل نے ارفع کی طرف نروٹھے پن سے دیکھ کر مغرور انداز اپنایا اور اپنی ننھی سی ناک پھلائی۔۔ساتھ ہی ساتھ اپنا اقبال خود بلند کرنا نہ بھولی۔

"ہاں ہاں۔۔۔۔ملکہ عنادل کی شادی اقبال خاکروب سے جلد ہو۔۔"

ملائکہ کے ٹکڑا لگانے پہ یہ چھوٹی سی محفل ایک بار پھر ذعفران زار ہو گئی۔

"ملائکہ۔۔۔بری بات عنادل بڑی ہے تم سے۔۔"

شمائلہ بیگم نے ملائکہ کو گھرکا۔

"ایمان یہ ہماری برتن دھونے والی ماسی ہے۔"

لاریب کہاں پیچھے رہنے والی تھی۔۔اس نے اپنی طرف سے چٹکلا چھوڑا۔جسے سن کر ہنسی کا فوارہ پھوٹ پڑا۔

"حد ادب۔۔۔گستاخی لڑکی۔۔۔"

عنادل اپنے کریکٹر سے باہر آنے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی۔

"تم کون سی مہارانی ہو۔۔۔تمھارا بھی تو یہی کام ہے۔"

عنادل کو لاریب کا بیچ میں بولنا ایک آنکھ نہ بھایا۔

ایمان ان کی شرارتوں اور نوک جھونک کو انجوائے کر رہی تھی۔

"او ہو۔۔۔چپ کرو تم دونوں۔۔۔چچی جلدی سے تعارف کروائیں نا۔"

سدا کی بےصبری پرخہ نے چپ کا کفل توڑا۔

"اسکا نام زنبوری ہے۔۔۔"

یہ لطیفہ فائقہ نے سنایا تھا۔پورا کمرا ایک مرتبہ پھر قہقہوں سے گونج اٹھا۔اس بار ایمان بھی ہنس دی تھی۔

"فائقہ۔۔۔!!"

شمائلہ بیگم نے فائقہ کو تنبیہی نگاہوں سے دیکھا جبکہ لبوں پہ سجی مسکراہٹ بتا رہی تھی کہ وہ بھی ان سبھی کی نوک جھونک سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔پھر اسی ہنسی مذاق میں شمائلہ بیگم نے ان سب کا تعارف کروایا۔ایمان ان سے اور وہ سبھی ایمان سے مل کر بہت خوش ہوئیں۔تعارف کا مرحلہ گزرنے کے بعد شمائلہ بیگم تو کام کی غرض سے کمرے سے چلی گئیں۔ان کے جانے کے بعد سبھی نے ایمان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور اس پہ سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔وہ بھی مسکراتی، گھبراتی ان کے اُوٹ پٹانگ سوالوں کے جواب دیتی رہی۔

"ایمان تم تو اتنی چھوٹی سی ہو۔۔۔ہم۔تمھیں بھابھی نہیں کہیں گے۔"

پرخہ اس کے قریب کھسک آئی۔

"مجھے کوئی اعتراض نہیں پرخہ آپی۔"

ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"اچھا یہ بتاو کہ تمھیں غزنوی بھائی کیسے لگے۔"

ارفع نے اپنی چھوٹی سی ناک پہ پھسلتی عینک کو درست کیا۔غزنوی کے ذکر پہ ایمان کو سرخ گھورتی آنکھیں اور قہر بھرا لہجہ یاد آ گیا۔

"وہ یقینا بڑے زور سے لگے ہونگے۔"

ملائکہ نے اس کی جھکتی نظروں کو فوکس کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں ایمان۔۔وہ تو ہمیں بھی کبھی کبھی بڑے زور سے لگ جاتے ہیں۔کیا تمھیں بھی لگے ہیں۔۔زور سے۔۔۔؟؟"

فائقہ شرارتی نگاہوں سے اسے بغور دیکھ رہی تھی۔

"ہاں مجھے بھی بہت زور سے لگے ہیں۔"

ایمان نے ان سے رازداری سے کہا تو سبھی کا قہقہہ گونج اٹھا۔

"اور یہ تو بڑی اسپیشل ہیں انہیں تو ٹھاہ ٹھاہ کر کے لگنے چاہئیے۔"

پرخہ نے چہرے پہ سنجیدگی طاری کرتے ہوئے کہا۔پرخہ کے سنجیدہ انداز کے باوجود وہ سبھی ہنس دیں۔

"کیوں نہیں میرے بھائی تو ہیں ہی بہت زبردست۔۔"

ملائکہ نے انگوٹھا اٹھا کر ایمان کو تھمزاپ کیا۔

"میرا بھی تو ہے۔۔۔"

لاریب بھی آگے آئی۔

"میرے بھی تو ہیں۔"

عنادل اچھل کر صوفے پہ چڑھی تھی۔۔وہ ان سب کے ساتھ یوں گھل مل گئی جیسے ان سب سے برسوں کی شناسائی ہو۔ان سب کے بیچ اسے اجنبیت کا احساس ہی نہیں ہوا اور جو تھوڑی بہت ہچکچاہٹ تھی وہ بھی جاتی رہی۔ایمان گھر کے بزرگوں کے ساتھ ساتھ اس مسخروں کی ٹولی کے اخلاق سے بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔

      ________________________________________

"یہ سب کیا ہو رہا ہے؟"

اعظم احمد مردان خانے میں داخل ہوئے۔وہ کل ہی گاؤں آئے تھے۔زمینوں کے کچھ معاملات کے حل کیلئے ان کا آنا ضروری تھا۔حالانکہ شاہ گل نے انھیں اکیلے جانے سے منع بھی کیا تھا مگر وہ ناساز طبیعت کے باوجود اکرم علی کو ساتھ لئے حویلی آ گئے تھے۔ان کا دل تو یہاں گاؤں میں ہی رہنے کو چاہتا تھا لیکن بچوں کی پڑھائی کے باعث وہ شہر آ بسے تھے۔بچے پڑھ لکھ گئے اور شہر میں ہی سیٹلڈ ہو گئے۔اب تو بچوں کے بھی بچے جوان ہو گئے تھے۔زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے اعتباری لوگ رکھ کر وہ گاؤں سے بےغم ہو گئے تھے۔بس کبھی کبھی گاؤں کا چکر لگا لیتے تھے۔ایک دو دن تمام معاملات دیکھ کر واپس شہر ہو لیتے۔

"میں کچھ پوچھ رہا ہوں۔"

انکی بارعب آواز سن کر حاضرین محفل پہ سکوت چھا گیا تھا۔کسی نے جواب نہیں دیا تو انھوں نے دوبارہ پوچھا تھا۔جب بھی وہ گاؤں آتے تو انھیں ہر چھوٹے بڑے معاملے میں شامل کیا جاتا تھا۔ان سے مشورہ لیے بنا کوئی فیصلہ تکمیل نہیں پاتا تھا۔وہاں موجود لوگ انھیں دیکھ کر بیک وقت خوش اور حیران ہو گئے تھے۔❤

"ارے داجی آپ کب آئے۔۔ہمیں اطلاع بھی نہیں دی۔"

بادشاہ خان انھیں دیکھ کر فوراً ان کے پاس آیا تھا۔

"اب تو آ گیا ہوں نا۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور سب لوگ یہاں کس لئے اکٹھے ہوئے ہیں؟"

وہ بڑے بڑے قدم اٹھاتے چارپائی کی طرف آئے تھے۔اکرم علی بھی ان کے ساتھ تھا۔

"کچھ نہیں داجی۔۔۔بس یونہی گپ شپ۔۔۔۔کوئی خاص بات نہیں ہے۔

بادشاہ خان ان کی جائزہ لیتی نگاہوں کو خود پہ گڑے دیکھ کر بغلیں جھانکنے لگا تھا۔اعظم احمد اچھی طرح جانتے تھے کہ کچھ وقت سے بادشاہ خان علاقے کے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی کوشش کرتا تھا۔وقفے وقفے سے کوئی نہ کوئی انھیں گاؤں کے حالات سے مطلع کرتا رہتا تھا۔ان کا آنا اس لئے بھی ناگزیر ہو گیا تھا کہ بادشاہ خان نے اپنی حکمرانی قائم کرنی شروع کر دی تھی۔اگر وہ ہر معاملے کو طریقے اور انصاف سے سلجھانے کی کوشش کرتا تو وہ خود اسے اجازت دے دیتے مگر وہ تو جہاں پلڑا بھاری ہوتا وہاں فیصلہ کر دیتا تھا۔

"ادھر میری طرف دیکھ کر بات کرو۔۔یہاں وہاں کیوں نظریں گھما رہے ہو۔تمھارے مردان خانے میں لوگ گپ شپ کے لئے کب سے اکٹھے ہونے لگے ہیں۔جہاں تک میرا خیال ہے تم تو نچلے طبقے کے لوگوں کے ساتھ پانی پینے تک کے روادار نہیں کہاں یہ گپ شپ لگانا۔۔۔بات کچھ ہضم نہیں ہو رہی کہ یہ تبدیلی کیونکر رُونما ہوئی۔"

ان کی بارعب آواز میں کہی گئی باتیں ارد گرد موجود لوگوں کے چہروں پہ دبی دبی مسکراہٹ لے آئی تھی۔

"خیر چھوڑو۔۔یہ باتیں پھر کبھی سہی۔۔جوہر خان تم بتاؤ کیا معاملہ ہے؟"

انہوں نے گاؤ تکیے سے ٹیک لگاتے ہوئے جوہر خان سے پوچھا۔

"داجی۔۔رشید خان کو تو آپ جانتے ہیں۔۔وہ نشئی اور جواری۔"

جوہر خان اعظم احمد کے پوچھنے پہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گیا۔

"ہاں ہاں بالکل جانتا ہوں۔۔۔کیا کیا ہے اس نے؟"

اعظم احمد سیدھے ہو بیٹھے۔

"داجی اس نے بادشاہ خان سے ایک لاکھ روپے قرض لئے تھے کہ ایک مہینے تک واپس کر دے گا۔بادشاہ خان کو اچھی طرح معلوم تھا کہ رشید خان واپسی نہیں دے پائے گا مگر پھر بھی اس نے اسے اتنے پیسے قرض دیئے۔سارا گاؤں جانتا ہے کہ رشید خان جُوا کھیلتا ہے اور نشے کی لت اسے ایسی لگی ہے کہ اچھے بُرے کی تمیز ہی بھول بیٹھا ہے۔"

جوہر خان انھیں بتانے لگا جبکہ بادشاہ خان چہرے پہ کرختگی لئے جوہر خان کو دیکھ رہا تھا اور رشید خان سر جھکائے اپنی تعریفیں سُن رہا تھا۔

"ہاں بالکل نشہ ایک لعنت ہے اور رشید خان جوان اکلوتی بیٹی کے باپ ہو۔۔تمھیں شرم نہیں آتی یہ سب کرتے ہوئے۔"

اعظم احمد رشید خان کیطرف افسوس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"بیٹی کا ہی تو مسئلہ ہے داجی۔۔۔"

جوہر خان نے ان پہ واضح کرنا چاہا۔

"کیا مطلب جوہر خان۔۔؟"

اعظم احمد نے جوہر خان سے پوچھا۔

"داجی۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔یہاں لوگ ہر چھوٹی چھوٹی بات پہ میرے خلاف محاذ کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔مجھے کیا پتہ تھا کہ رشید خان سارا پیسہ جُوے میں ہار جائے گا۔میں تو سمجھا کہ کاروبار کرنا چاہتا ہے اس لئے پیسے مانگ رہا ہے۔"

اس پہلے کہ جوہر خان سارا کچا چٹھا کھولتا بادشاہ خان بول پڑا۔

"ہاں ہاں اور وہ کاغذ کیسا ہے جس پہ تم نے بغیر رشید خان پہ واضح کیے اس سے انگوٹھا لگوایا ہے۔جسے تم لئے پھر رہے ہو اور جس کی بنیاد پہ تم اس کی بیٹی سے جو تمھاری بیٹی کی عمر کی ہے شادی کر سکتے ہو۔بولو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔؟ اور جس کاغذ کو ہمارے سامنے رکھنے کے لئے تم نے ہمیں یہاں جمع ہونے کے لئے کہا تھا۔۔لگتا ہے یاداشت کمزور ہو گئی ہے تمھاری۔"

جوہر خان کو اس کی حرکتوں پہ بہت غصہ تھا۔۔وہ گاؤں میں لوگوں کو سود پہ قرض دیتا تھا اور جو قرض واپس نہیں کر پاتے تھے ان کی زمین یا گھر ان سے ہتھیا لیتا تھا۔بیچارے غریب لوگ اس کی ان چالاکیوں کو سمجھ نہیں پاتے تھے اور اس کے جھانسے میں آ کر اپنا سب کچھ گنوا دیتے تھے۔اس بار اس نے نہایت گری ہوئی حرکت کی تھی جس پہ جوہر خان کا خون کھول رہا تھا۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ان حرکتوں پہ وہ اسے جیل میں ڈال دیتا۔

"بادشاہ خان کیا جوہر خان ٹھیک کہہ رہا ہے؟"

اعظم احمد نے غصیلے لہجے میں بادشاہ خان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔

"یہ جھوٹ ہے داجی۔۔۔یہ میرے خلاف اس جوہر خان کی سازش ہے۔"

بادشاہ خان نے ساری بات جوہر خان پہ ڈالنی چاہی۔

"مجھے کیا فائدہ یہ سب کر کے۔۔۔۔اپنی غلطیوں پہ پردہ مت ڈالو بادشاہ خان۔۔سارا گاؤں واقف ہے کہ تم کس قماش کے آدمی ہو۔"

جوہر خان غصے سے کھڑا ہو گیا۔

"بیٹھ جاؤ جوہر خان۔۔۔میں بات کرتا ہوں۔۔۔ہاں تم بولو رشید خان۔۔کیا جوہر خان سچ کہہ رہا ہے؟"

اعظم احمد نے جوہر خان کو بازو سے پکڑ کر اپنے قریب بٹھایا اور سر جھکائے بیٹھے رشید خان سے پوچھا۔

"داجی میں اپنی بیٹی کی شادی بادشاہ خان سے کروانے کے لئے تیار ہوں۔۔اس نے رشتہ دیا تھا جس پہ میں راضی ہوں۔۔بادشاہ خان پیسے والا ہے میری بیٹی کو خوش رکھے گا۔جہاں تک قرض کی بات ہے تو وہ اتار دوں گا۔جوہر خان خواہ مخواہ اس بات کو بڑھا رہا ہے۔"

رشید خان کی بات سن کر سب کو سانپ سونگھ گیا۔انھیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ رشید خان اس طرح پینترا بدلے گا۔

"داجی دیکھ لیا آپ نے اسے کوئی اعتراض نہیں اور یہ جوہر خان یونہی میرے پیچھے پڑا ہے۔"

رشید خان کی بات نے جیسے بادشاہ خان کو ہمت دی۔وہ تیزی سے بولا تھا۔

"رشید خان تمھیں بادشاہ خان سے ڈرنے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔میں تمھارے ساتھ ہوں۔تمھاری بیٹی سارے گاؤں کی بیٹی ہے۔۔میری بیٹی ہے اور اپنی بیٹی کی شادی میں خود کرواؤں گا۔"

اعظم احمد نے رشید خان کو مضبوط کرنا چاہا۔

"داجی میرے جیسے نشئی اور جواری کی بیٹی سے کون شادی کرے گا۔۔میں جہیز میں ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں دے سکتا اپنی بیٹی کو۔۔کون کرے گا اس سے شادی۔"

رشید آنسو پونچھتے ہوئے بولا تھا۔

"لیکن رشید خان کیا تمھیں اپنی بیٹی اور بادشاہ خان کی عمروں میں زمین آسمان کا فرق دکھائی نہیں دیتا۔ایسا بھی کیا ہے کہ تم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کو تیار ہو۔رشید خان بیٹی کے باپ کو اتنا کمزور نہیں ہونا چاہیئے۔"

اعظم احمد کو اسکا رونا دُکھی کر گیا تھا۔

"کون مجھ غریب کی بیٹی سے شادی کرے گا۔۔کوئی نہیں ہے۔"

رشید خان نے بادشاہ خان کو دیکھا جو قہر بھری نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"ہاں تو اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم اسے بادشاہ خان سے بیاہ دو۔۔یہ تو ظلم ہے۔"

"داجی بالکل درست کہہ رہے ہیں رشید خان۔"

اعظم احمد کی بات کی وہاں بیٹھے سبھی لوگوں نے تائید کی۔

"کون کرے گا پھر۔۔؟"

رشید خان نے سبھی سے سوال کیا۔

"داجی کے ماشاءاللہ سے جوان پوتے ہیں۔۔کسی ایک سے نکاح کروا لیں۔"

بادشاہ خان کی اچانک کی گئی بات سُن کر اعظم احمد سمیت سبھی لوگ حیران رہ گئے۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو بادشاہ خان۔۔۔ہوش میں تو ہو تم۔۔بھلا داجی اور رشید خان کا کیا مقابلہ۔۔۔اور وہ سبھی ماشاءاللہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں۔ان کا رشید خان کی بیٹی سے کیا جوڑ۔۔۔"

جوہر خان کھڑا ہوا۔

"نہیں جوہر خان ایسا مت کہو۔۔۔اللہ کو یہ بات پسند نہیں۔۔میرے نزدیک یہ فرق معنی نہیں رکھتا۔۔مجھے منظور ہے اگر رشید  خان ہاں کر دے تو۔۔کیوں  رشید خان تم کیا کہتے ہو۔۔کیا تم میرے پوتے غزنوی احمد کو اپنی فرزندگی میں لینا چاہو گے۔۔؟؟"

اعظم احمد نے رشید خان کو دیکھا جس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو چھلک پڑے تھے۔

"یہ تو میری اور میری بیٹی کی خوش قسمتی ہو گی داجی۔۔۔میں آپکا یہ احسان ساری عمر نہیں بُھولوں گا۔"

رشید خان نے اعظم احمد کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگا لئے۔

"تو بس ٹھیک ہے یہ نکاح کل ہی ہو گا۔۔اکرم علی تم غزنوی کو فون کرو اور اسے کہو جلد سے جلد گاؤں پہنچے۔۔نیک کام میں دیر نہیں ہونی چاہئیے۔"

اعظم احمد اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اکرم علی سے کہا۔اکرم علی ہاتھ میں فون لے کر فوراً باہر چلا گیا اور باقی سبھی اعظم احمد اور رشید خان کو مبارکباد دینے لگے جبکہ بادشاہ خان اتنا اچھا موقع ہاتھ سے جانے پہ افسوس سے ہاتھ ملتا رہ گیا۔وہ سمجھ رہا تھا کہ اعظم احمد اِس کے لئے راضی نہیں ہوں گے تو پیچھے وہی رہ جائے گا۔پھر اعظم احمد کے چلے جانے کے بعد وہ رشید خان کو منا لے گا مگر بازی اُلٹی ہو گئی تھی۔اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا تھا۔

     ________________________________________

وہ آ تو گیا تھا مگر سارا راستہ پریشان رہا تھا۔نجانے ایسی کیا بات تھی کہ داجی نے اسے فوراً بلایا تھا۔گاؤں کے لیے نکلتے وقت ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی۔آفس میں ایک بہت اہم میٹنگ کی وجہ سے وہ ان کے ساتھ نہیں آ سکا تھا ورنہ وہ ان کے اکیلے جانے کے حق میں نہیں تھا۔لیکن وہ اکرم علی کو ساتھ لئے گاؤں کے لئے روانہ ہو گئے تھے اور اب ان کے اچانک بلانے پہ وہ پریشان تھا۔

اس وقت وہ اپنے کمرے میں موجود تھا گاؤں آئے اسے بیس منٹ سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا مگر یہاں کوئی موجود نہیں تھا سوائے دو تین ملازماؤں کے۔۔جنھیں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔اس کے داجی کے متعلق پوچھنے پہ انھوں نے اسے بتایا تھا کہ داجی بالکل ٹھیک ہیں اور اکرم علی کے ساتھ کہیں باہر گئے ہیں۔اعظم احمد کی طبیعت کا سن کر وہ پرسکون ہو گیا تھا اور اپنے کمرے میں ان کا انتظار کر رہا تھا۔سفر کی تھکان تھی اس لئے کچھ دیر آرام کی غرض سے وہ لیٹ گیا تھا۔آنکھ کھلی تو گھڑی کی سوئیاں تین بجے کا وقت بتا رہی تھیں۔وہ بیڈ سے اتر کر واش روم کی طرف بڑھ گیا۔شاور لینے کے بعد وہ کمرے سے باہر آیا تو ملازمہ نے اسے داجی کا پیغام دیا۔وہ ان کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

"ارے آؤ آؤ۔۔۔"

اعظم احمد نے اسے کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تو اس سے ملنے کے لئے اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے تھے۔وہ آگے بڑھ کر ان سے بغلگیر ہوا۔

"داجی آپ آ گئے تھے تو مجھے جگا دیتے۔آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔اتنی ایمرجنسی میں آپ نے بلایا۔۔میں تو پریشان ہو رہا تھا۔"

"الحمداللہ۔۔!! میں بالکل ٹھیک ہوں۔سفر کی تھکان ہو گی اس لئے میں نے سوچا تم آرام کر لو۔اس لئے تمھیں جگایا نہیں۔"

وہ اسے ساتھ لے کر صوفے کی طرف بڑھے۔

"خیریت تو ہے نا داجی۔۔؟"

غزنوی بغور ان کا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔

"ہاں ہاں بیٹا سب خیریت ہے۔۔تمھارا ساتھ چاہئیے تھا اس لئے تمھیں بلا لیا۔ایک کام تھا۔۔کیا تم میری مدد کرو گے؟"

غزنوی نے دیکھا وہ اسے اعتماد بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

"داجی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔۔آپ حکم کیجیئے۔"

غزنوی نے ان کا ہاتھ تھام کر انھیں اپنے ساتھ کا احساس دلایا۔اعظم احمد مسکرا دئیے اور پھر جو کچھ انھوں نے بتایا وہ اسکے چودہ طبق روشن کرنے کے لئے کافی تھا۔ان کا فیصلہ اسے قبول نہیں تھا مگر اس کے لئے انکار کرنا بھی بہت مشکل تھا۔وہ اس کے سامنے سوال رکھ کر اب اسکے جواب کے لئے منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا جواب دے۔

"مگر اسطرح داجی۔۔۔"

وہ صرف اتنا ہی کہہ سکا۔

"غزنوی مجھے پتہ ہے اچانک اتنا بڑا فیصلہ وہ بھی تمھاری زندگی کا جو تمھارے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے تمھارے لئے قبول کرنا مشکل ہے اور مجھے بھی کوئی حق نہیں پہنچتا کہ پہلے تو میں تمھاری مرضی کے خلاف کوئی فیصلہ کروں اور پھر تمھیں پابند بھی کروں۔۔اگر تم مان جاؤ گے تو میرا مان رہ جائے گا اور اگر تمھاری طرف سے انکار ہے تو میں تم پہ زبردستی نہیں کروں گا۔۔میرے لئے زبان سے زیادہ تمھاری رضامندی معنی رکھتی ہے۔"

انھوں نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"داجی مجھے منظور ہے۔۔میرے لئے آپکی زبان اہمیت رکھتی ہے۔"

اس نے ایک پل کے لئے ان کی آنکھوں میں دیکھا تھا جن میں التجاوں کا ایک سمندر موجزن تھا۔اسے ایک پل لگا فیصلہ کرنے میں اور وہ ایک انجان لڑکی کو اپنی زندگی میں شامل کرنے پہ رضامند ہو گیا تھا جس کے نام تک سے وہ انجان تھا۔

اس کے ہاں کرنے پہ داجی کے چہرے پہ جو خوشی دکھائی دی تھی اسے دیکھ کر وہ ایک پل کو وہ اپنی خوشی بھول گیا۔انھوں نے اسے سینے سے لگایا۔

"مجھے فخر ہے تم پہ۔۔۔"

وہ اسے کندھوں سے تھامے مسکرا رہے تھے۔

پھر انا فانا نکاح کے انتظامات کیے گئے۔داجی نے رشید خان کو پیسے بھی دئیے تاکہ وہ بادشاہ خان کو دے دے اور اس سے کہا کہ اگر وہ چاہے تو تھوڑے تھوڑے کر کے یہ پیسے منشی احمد گل کو دیتا جائے اور اسے زمینوں پہ کام کرنے کے لئے بھی رکھ لیا۔رشید خان کے پاس الفاظ نہیں تھے کہ ان کا شکریہ ادا کرتا۔

"چلیں داجی۔۔میں گاڑی میں آپکا انتظار کر رہا ہوں آپ آ جائیں۔"

نکاح کے کچھ دیر بعد جب سب مہمان چلے گئے تو وہ ان کے پاس آیا۔

"ہاں بیٹا وقت پہ نکلو۔۔۔سفر لمبا ہے تاکہ وقت پہ پہنچ جاؤ اور ہاں گھر پہنچتے ہی مجھے اطلاع دے دینا۔"

وہ اسے لے کر حویلی کے اندرونی حصے کی طرف بڑھے۔

"کیا مطلب داجی۔۔۔کیا آپ میرے ساتھ نہیں جا رہے؟"

وہ چلتے چلتے رک گیا۔

"نہیں بیٹا میں ابھی نہیں جا سکتا۔۔یہاں کچھ کام ہیں اور ابھی کل ہی تو میں آیا ہوں۔۔پھر سفر کی تھکان کی وجہ سے زمینوں پر بھی نہیں جا سکا۔اس لئے ابھی میں یہیں رہوں گا۔"

انھوں نے اسے اس کے ساتھ نہ جانے کی وجہ بتائی۔

"ٹھیک ہے داجی پھر میں نکلتا ہوں۔"

وہ ان سے بغلگیر ہوا۔

"شفیقہ بی بی دلہن کو لے آؤ غزنوی جا رہا ہے۔"

اعظم احمد نے دروازے کی چوکھٹ پہ کھڑی ملازمہ سے کہا۔غزنوی جو ان سے ملکر جانے ہی والا تھا ان کی بات سن کر رک گیا۔

"داجی وہ آپ کے ساتھ یہاں رہے کچھ دن۔۔پھر جب آپ آئیں تو ساتھ لے آئیے گا۔"

وہ ان سے بولا۔۔چہرے کے تاثرات نارمل رکھے تھے مگر اندر ہی اندر ناپسندیدگی کا جوار بھاٹا ابلنے لگا تھا۔

"نہیں بیٹا میں نے گھر میں بتا دیا ہے کہ ایمان تمھارے ساتھ ہی آئے گی۔وہ تمھاری ذمہ داری ہے اور پھر ہمیں تو یہاں کچھ وقت لگ جائے گا۔وہاں سب اسکے انتظار میں ہیں۔ایمان تمھارے ساتھ ہی جائے گی۔"

انھوں نے اسے تذبذب شکار دیکھ کر سمجھایا۔

"جی۔۔۔میں گاڑی میں۔۔۔"

"جی داجی آپ نے بلایا۔"

وہ بات کر ہی رہا تھا کہ اپنے عقب سے آتی آواز کی سمت مڑا۔ہلکے سرخ رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں بلیک چادر اوڑھے وہ داجی کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی اور غزنوی اسے دیکھ رہا تھا۔سیاہ چادر میں اسکی سپید رنگت اور بھی واضح ہو رہی تھی۔ان دونوں کے بیچ فاصلہ اتنا نہیں تھا کہ وہ اسکے تیکھے نقوش نہ دیکھ پاتا۔

"جی میں نے بلایا ہے۔۔آپ اپنا سامان لے آئیں۔آپ غزنوی کے ساتھ جائیں گی۔"

انھوں نے قریب آ کر پدرانہ شفقت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"جی داجی۔۔۔"

ان کے کہنے پہ وہ سر ہلا کر واپس پلٹ گئی۔غزنوی نے غور کیا کہ جتنی دیر وہ وہاں موجود رہی اس نے ایک بار بھی اس کی جانب نہیں دیکھا تھا جبکہ وہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔

"جاو بیٹا تم گاڑی نکالو۔۔۔دلہن آتی ہے۔"

اعظم احمد اس کی طرف پلٹے۔وہ سر ہلا کر گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔چوکیدار سے کہہ کر پانی کی بوتل منگوائی اور خود گاڑی میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔

"کیا مصیبت گلے پڑ گئی۔"

وہ غصے اور کوفت سے اسٹیئرنگ پہ مکا مارتے ہوئے خود سے بولا۔

"جی چھوٹے صاحب۔۔مجھ سے کچھ کہا۔"

چوکیدار بوتل ہاتھ میں لئے اس کی جانب قدرے جھک کر بولا۔

"نہیں۔۔۔یہ بوتل ڈگی میں رکھ دو۔"

وہ کوفت سے بولا۔

"جی صاحب۔۔۔"

چوکیدار ڈگی کی طرف بڑا۔تھوڑی دیر بعد وہ اسے دروازے سے برآمد ہوتی دکھائی دی۔داجی جو کہ وہیں کھڑے تھے اس کی طرف بڑھے اور پھر اسے لئے دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے گاڑی کی طرف آنے لگے۔

"غزنوی ایمان میری بیٹی ہے۔۔دھیان رہے اسے کوئی تکلیف نہ ہو۔"

وہ ایمان کے لئے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولے ایمان کو بیٹھنے کا کہتے غزنوی کی طرف دیکھنے لگے۔جس کا چہرہ اس وقت کسی بھی قسم کے تاثرات سے عاری تھا۔غزنوی نے ان کی بات پہ صرف سر ہلانے پہ اکتفاء کیا۔ان کے خداحافظ کہتے ہی غزنوی نے اگنیشن میں چابی گھما کر گاڑی اسٹارٹ کی۔ایمان اپنے دائیں جانب تیر کی سیدھ میں بیٹھے شخص کو دیکھنے کی ہمت خود میں نہیں پا رہی تھی۔آہستہ رفتار سے چلتی گاڑی لوہے کے گیٹ سے باہر نکلی۔ان کے نکلتے ہی چوکیدار نے گیٹ بند کیا۔گاڑی ایک جھٹکے سے آگے بڑھی اور اسکے اگلے ہی لمحے گاڑی ہوا سے باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی۔وہ اس کی جانب دیکھ تو نہیں رہی تھی مگر اندازہ لگا سکتی تھی کہ اسقدر شرافت کا مظاہرہ گیٹ کے بند ہونے تک تھا۔ابھی وہ کچھ سوچ ہی نہیں پائی تھی کہ اچانک گاڑی ایک جھٹکے سے رکی۔ایمان نے اپنے ساتھ بیٹھے شخص کو کنکھیوں سے دیکھا۔

"نکلو گاڑی سے۔۔۔"

وہ دھاڑا۔۔ایمان اچھل کر پیچھے ہوئی۔

"جی۔۔۔؟؟"

اس نے حیرانی سے اپنے مجازی خدا کو دیکھا جو اسے کڑے تیور لئے گھور رہا تھا۔خون چھلکاتی آنکھیں ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑا گئیں۔۔وہ وہیں جمی رہی۔

"کیا جی جی۔۔۔نکلو گاڑی سے۔۔۔اور پیچھے جا کر بیٹھو۔"

غزنوی کا جی چاہا ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے اٹھا کر باہر پھینک دے۔وہ ڈھیٹ بنی بیٹھی رہی۔پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی وہ اسکی بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ اسے گاڑی سے نکلنے کو کہہ رہا تھا اسے اتنا ہی سمجھ آ رہا تھا۔اسکی اگلی بات پہ اس نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔ایمان کی بھوری آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔غزنوی کا ہاتھ اسٹیئرنگ سے پھسلا تھا۔

"سُنا نہیں کیا۔۔۔نکلو۔۔۔"

اس بار آواز مدھم تھی مگر الفاظ میں سختی موجود تھی۔اس سے پہلے کہ اسکی آنکھیں چھلک پڑتیں وہ فوراً گاڑی سے نکلی اور دروازہ بند کیے بغیر پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی اور اتنی ہی تیزی سے اپنی چادر سے آنکھیں رگڑ ڈالیں۔

"یہ کیا طریقہ ہے۔۔۔؟؟"

غزنوی نے اس کی اس حرکت پہ غصے سے اسکی طرف پلٹ کر دیکھا۔لمبی لمبی خمدار پلکیں سرخ چہرے پہ سایٔہ فگن تھیں۔اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے دروازے کی طرف ہاتھ بڑھا کر دروازہ بند کیا۔

"اب نجانے کب تک گلے میں پڑے اس زبردستی کے ڈھول کو بجانا پڑے گا۔"

بلند آواز میں کہتے ہوئے اس نے گاڑی اسٹارٹ کی یہ جانے بغیر کہ اس کے اتنے تحقیر بھرے الفاظ نے ایک نازک سے دل کو چھلنی کر دیا تھا۔

     ________________________________________

اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے اپنے خاندان کو بہت محبت سے سینچا تھا۔وہ دونوں ہی بہت نرم مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھا۔اپنی نرم اور محبت سے بھرپور گرفت میں انھوں نے اپنے چاروں بچوں کو پالا تھا۔جب تک بچے چھوٹے تھے وہ بچوں کے ساتھ اپنے آبائی گھر میں ہی رہتے تھے مگر بچوں کی بہتر تعلیم کے لئے شہر میں آ بسے تھے۔ان کے بچوں میں بالترتیب معظم احمد، مکرم احمد، مظفر احمد اور طاہرہ احمد تھے۔سبھی بچے مزاجاً اپنے ماں باپ کا پرتو تھے۔پُرخلوص اور ملنسار۔۔۔

اعظم احمد نے شہر میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا۔۔جسے ان کے تینوں بیٹوں نے مل کر ترقی دی اور کاروبار کی دنیا اپنا نام بنایا۔تینوں اپنے باپ کے ساتھ شانہ بشانہ رہے۔بچوں کی شادیوں کے بعد انھوں نے اپنے بیٹوں کو الگ الگ پورشنز بنا کر دئیے مگر الگ الگ رہنے کے باوجود ان کے دل جڑے ہوئے تھے۔ان کے بیٹے ہر فیصلے میں اپنے ماں باپ کو شامل رکھتے تھے۔اب تو ان کے پوتے پوتیاں، نواسا نواسیاں بھی جوان تھے۔معظم احمد اور صدیقہ بیگم کے پانچ بچے تھے۔مصطفی،احد اور فائقہ۔۔مکرم احمد اور شمائلہ بیگم کے چار۔۔۔غزنوی، مرتضی، عائشہ اور ملائکہ۔۔پھر تھے مظفر احمد اور صائمہ بیگم۔۔جن کی اولاد بالترتیب پرخہ، طہٰ، ولی، حیا اور لاریب تھیں۔۔۔طاہرہ آفریدی کی شادی رضوان علی سے ہوئی تھی۔ان کے تین بچے تھے۔۔ارفع، عنادل اور فروز علی۔۔۔

جسطرح گھر کے بڑے محبت کی ڈور سے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے اسی طرح ان کے بچے بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔اس وقت مصطفی اور غزنوی پڑھائی ختم کرنے کے بعد فیملی بزنس سنبھال رہے تھے۔ہادی کی تعلیم بھی مکمل ہو چکی تھی اور باقی سب بھی کالج اور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس تھے۔زندگی پرسکون انداز میں اپنی ڈگر پہ چل رہی تھی۔ان کی پرسکون زندگی میں ہلچل ایمان کے ان کے خاندان کا حصہ بننے سے پیدا ہوئی۔باقی سبھی نے خوشی خوشی اسے قبول کر لیا تھا سوائے غزنوی کے۔۔۔جس کے لئے یہ ایک زبردستی کا بندھن تھا اور جسے نبھانے کے لئے وہ نہ تیار تھا اور نا ہی رضامند۔۔۔غزنوی کے روکھے رویے نے چنچل سی ایمان کو اداسیوں میں دھکیل دیا تھا۔وہ خاموشی سے اس بندھن کو نبھانے کی کوشش کر رہی تھی۔ہر رات وہ طے کرتی کہ جیسے بھی ہو وہ اس رشتے کو نبھائے گی مگر ہر صبح وہ خود کو مزید تھکا ہوا محسوس کرتی تھی۔

      ________________________________________

"شمائلہ غزنوی نہیں اٹھا ابھی تک۔۔"

شاہ گل نے شمائلہ بیگم سے پوچھا جو الماری کھولے کچھ ڈھونڈنے میں مگن تھیں۔

"اماں میں صبح سے تین چار مرتبہ آواز دے چکی ہوں۔دروازہ بھی اندر سے بند کر رکھا ہے۔"

شمائلہ بیگم نے الماری کے پٹ بند کیے اور ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔ایمان بھی ان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔غزنوی کا نام سن کر پریشانی اسکے چہرے پہ چھا گئی تھی۔جب سے وہ ایمان کو لے کر آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا۔اس سے دوبارہ سامنا نہیں ہوا تھا مگر وہ اپنے روکھے رویے سے اس پہ اپنی دھاک بٹھا چکا تھا۔

"وہ تو اتوار کے دن بھی کبھی اتنی دیر تک نہیں سوتا۔۔ایمان بھی کبھی اِدھر کبھی اُدھر بیٹھ رہی ہے۔اسے کمرے میں لے جاتیں۔۔تھوڑا آرام ہی کر لیتی بچی۔"

شاہ گل کی سنجیدہ گفتگو سن کر تمام لڑکیاں کمرے میں داخل ہونے لگی تھیں ان کی بات سن کر واپس کھسک لیں۔وہ سب بھی جانتی تھیں کہ غزنوی کو داجی کا فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔غزنوی کی اپنی ترجیحات تھیں۔۔اپنی پسند تھی اور اوپر سے وہ اپنی ضد کا پکا تھا۔ہر کام اپنی مرضی کے مطابق کرنے کا عادی تھا۔اسکے ساتھ کے باقی لڑکے اس سے قدرے مختلف اور مزاج میں لچک رکھتے تھے مگر غزنوی احمد ان سے بہت مختلف تھا۔

"اماں آپ جانتی تو ہیں اسکے مزاج کو۔۔۔اور اماں میری بات پہ خفا مت ہوئیے گا آپ کے اور داجی کے لاڈ پیار نے ہی اسے بگاڑا ہے۔"

"ارے بہو۔۔۔تم نے بھی خُوب کہی۔۔۔لاڈ پیار ہم نے سبھی بچوں سے کیا ہے۔ مگر غزنوی زرا اَتھرے مزاج کا ہے۔آج تک اپنا ہر فیصلہ وہ اپنی مرضی سے کرتا آیا ہے۔اب شادی جیسا اتنا بڑا فیصلہ ہم نے اس پہ تھوپ دیا ہے تو اتنی ناراضگی تو بنتی ہے نا بچے کی۔خیر۔۔۔۔کچھ دن تک خود ہی اس حقیقت کو تسلیم کر لے گا۔تم ایسا کرو بچی کو تو لے جاؤ کمرے میں۔"

عقیلہ بیگم نے شمائلہ بیگم سے کہہ کر ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھا۔جو دل ہی دل میں جلِ جلال تُو کا ورد کرنے لگی تھی۔وہ بھی تو اسکے مزاج کی تمام کڑیوں واقف ہو چکی تھی۔

"آؤ ایمان۔۔۔"

شمائلہ بیگم ایمان سے کہتی کمرے سے نکل گئیں۔

"جاؤ بیٹا۔۔گھبراؤ نہیں۔۔میں مانتی ہوں کہ غزنوی کا مزاج زرا اوکھا ہے۔۔مگر وہ دل کا بہت اچھا ہے۔۔بہت خیال رکھنے والا۔۔مجھے یقین ہے تم اپنی نرم طبیعت سے اسکا دل جیت لو گی۔"

عقیلہ بیگم نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تھپتھپایا۔

"جیت ہی نہ لوں میں اس چنگیز خان کا دل۔۔"

دل ہی دل میں سوچتی اس نے صرف مسکرانے پہ اکتفاء کیا اور کمرے سے نکل آئی۔شمائلہ بیگم سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ان کے پیچھے آئی۔انھوں نے پیچھے مڑ کر ایمان کو دیکھا۔۔اس کے چہرے پہ گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔وہ واپس پلٹ گئیں۔راہداری سے گزرتے ہوئے اس کے دل کی اُتھل پُتھل میں اضافہ ہوا تھا۔دیوار پہ لگی خوبصورت فریمز میں سجی تصویریں اس کی توجہ کا مرکز بنی تھیں۔وہ ہر ایک تصویر پہ نظر ڈالتی آگے بڑھ رہی تھی۔ایک تصویر کے سامنے اس کے قدم رک گئے۔تصویر میں غزنوی اور داجی ایک دوسرے کے کندھے پہ بازو پھیلائے مسکرا رہے تھے۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہے ہوں۔

"کھڑوس۔۔۔ہنستے ہوئے اچھا لگ رہا ہے۔"

وہ دھیرے سے بڑبڑائی اور تصویر پہ ایک آخری بھرپور نظر ڈال کر آگے بڑھ گئی.شمائلہ بیگم دروازے پہ دستک دینے کے ساتھ اسے پکار بھی رہی تھیں۔وہ ان کے ایک جانب کھڑی ہوئی تاکہ دروازہ کھلنے پہ وہ سامنے دکھائی نہ دے۔تیسری بار پکارنے پہ دروازہ کھلا تھا۔

"غزنوی۔۔۔! بیٹا یہ کیا طریقہ ہے؟"

وہ دروازہ کھول کر پلٹ گیا تھا۔شمائلہ بیگم ایمان کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی اندر داخل ہوئیں۔کمرے کی ابتر حالت کو شمائلہ بیگم حیرانی سے دیکھ رہی تھیں۔یہ ان کے اس بیٹے کا کمرہ تھا جو اپنی ہر چیز ترتیب سے رکھنے کا عادی تھا۔کبھی جو صفائی کے دوران چیزیں اپنی جگہ سے ادھر ادھر ہو جاتی تھیں تو پورا گھر سر پہ اٹھا لیتا تھا۔غصہ تو ہمیشہ اسکی ناک پہ دھرا رہتا تھا۔

"غزنوی۔۔۔یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔۔یا اللہ۔۔۔یہ بےترتیبی تمھاری مزاج کا حصہ تو نہیں تھی۔"

شمائلہ بیگم نے پیروں کے قریب پڑا کشن اٹھایا۔

"اور میری زندگی کو جو بےترتیب کر دیا گیا ہے وہ دکھائی نہیں دیتا آپکو۔" 

وہ پلٹا۔۔اس وقت وہ خود بھی اپنے کمرے کی ہی طرح بکھرا ہوا لگ رہا تھا۔اس کی نظر ان سے پیچھے کھڑی ایمان پہ گئی۔وہ ایک ناراض نظر ماں پہ ڈالتا الماری کیطرف بڑھا۔اپنے کپڑے لئے اور تیز آواز سے الماری بند بند کی۔

"تمھاری زندگی کو کیا ہوا ہے۔۔اچھی بھلی تو ہے۔۔تم یونہی بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہے ہو۔"

ایمان کو دیکھ کر غزنوی کے چہرے پر جو تناؤ پھیلا تھا وہ ان کی نگاہوں سے مخفی نہ رہ سکا۔

"ایمان۔۔بیٹھو تم۔۔اب یہ تمھارا بھی کمرہ ہے۔میں شگفتہ کے ہاتھ تمھارا سامان بھجواتی ہوں۔اپنے کپڑے الماری میں لگا لینا۔"

ان کی بات سن کر غزنوی نے پلٹ کر دیکھا۔اس نے اورنج کلر کا خوبصورت سا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔گھبراہٹ میں لپٹا چہرہ ہر قسم کے میک اپ سے عاری تھا۔وہ نظریں جھکائے صوفے پہ بیٹھی تھی۔وہ ایک سرسری سی نظر اس پہ ڈال کر واش روم میں گھس گیا۔

"میں ناشتہ بھجواتی ہوں تمھارے لیے۔۔جلدی فریش ہو کر باہر آؤ۔"

شمائلہ بیگم واش روم کے بند دروازے کو گھورتی کمرے سے چلی گئیں۔

انھوں نے اس سے پوچھا۔ایمان کمرے کا جائزہ لینے میں مگن ہوگئی۔واش روم سے چیزوں کی اُٹھک پَھٹک کی آوازیں آ رہی تھیں۔وہ گہرا سانس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اِدھر اُدھر بکھری چیزوں کو ترتیب سے رکھنے لگی۔یہ کام کرتے ہوئے اس کی نظر واش روم کے بند دروازے پر بھی تھیں۔دل کی بڑھتی دھڑکن کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کی کپکپاہٹ میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔وہ بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی کہ واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز پہ وہ جلدی سے واپس صوفے کی طرف آ گئی۔غزنوی باہر آیا تو وہ دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو آپس میں پھنسائے، نظریں ہاتھوں پہ جمائے بیٹھی تھی۔غزنوی نے بال خشک کئے اور تولیہ بیڈ پہ پھینک دیا۔منہ کا زاویہ یوں ٹیڑھا کر رکھا تھا جیسے کوئی کڑوی کسیلی گولی منہ میں ڈالے ہوئے ہو۔ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بال برش کرنے لگا۔اسی اثناء میں شگفتہ ناشتے کی ٹرے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔بغیر اِدھر اُدھر دیکھے شگفتہ نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور واپس پلٹ گئی۔وہ برش ڈریسنگ ٹیبل پہ پھینکتا صوفے پر آ بیٹھا۔خاموشی سے ٹرے اپنی جانب کھسکائی اور ناشتہ کرنے لگا۔وہ یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے اس کے علاؤہ وہاں کوئی اور موجود نہیں۔ایمان کی تو ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی کہ نظریں اٹھا کر اپنا مطالعہ کرتی نگاہوں کا مقابلہ کرتی۔

"اب کیا یونہی میرے سر پر سوار رہو گی؟"

وہ کپ ٹرے میں تقریباً پٹختے ہوئے بولا جبکہ وہ گھبرا کر کھڑی ہو گئی اور اس سے پہلے کہ وہ اسے مزید کچھ کہتا وہ کمرے سے نکل گئی۔غزنوی نجانے کیوں تادیر بند دروازے کو دیکھتا رہا جہاں سے وہ گئی تھی۔

       ________________________________________

"چلو لڑکیو۔۔!! جان چھوڑو بچی کی۔۔ائے ہائے غضب خدا کا ایسے بچی کو گھیرے بیٹھی ہو جسے کل قیامت ہو۔۔آئے ہٹو۔۔ذرا مجھے ملنے دو بچی سے۔"

خیرن بوا اونچا اونچا بولتی کمرے میں داخل ہوئیں۔وہ سب اس وقت لاونج میں بیٹھی تھیں کہ وہ ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئیں۔۔خیرن بوا اس گھر کی پرانی ملازمہ تھیں بلکہ اس گھر کا ایک حصہ تھیں۔کچھ دن وہ گاؤں اپنے بیٹے کے پاس رہنے گئی تھیں۔آج آئیں تو عقیلہ بیگم نے انھیں ایمان کے بارے میں بتایا اور اب وہ ان کے بیچ بیٹھی ایمان کو سر تا پیر گھور رہی تھیں۔ایمان خیرن بوا کی عقاب جیسی آنکھوں کو خود کے آر پار ہوتے محسوس کر کے کنفیوز ہو رہی تھی۔

"خیرن بوا۔۔۔آپ کب آئیں؟"

پرخہ نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔

"آئے میں تو صبح ہی آ گئی تھی لیکن سفر کی تھکاوٹ نے نیند کی وادیوں میں وہ جھولے جھلائے کہ اللہ کی پناہ۔"

پرخہ ان کا دھیان ایمان سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

"اور بوا آپ کے گھٹنوں کا درد کیسا ہے؟"

عنادل نے اپنے ہونٹوں پہ آتی مسکراہٹ کو دباتے ہوئے پوچھا۔ایمان نے اسے اور پرخہ کو شکریہ ادا کرتی نظروں سے دیکھا۔

"ائے ہائے بٹیا کیا بتاؤں کمبخت جان سے چمٹ گیا ہے اور مجال ہے کسی بھی موئے ڈاکٹر کی وہ نیلی پیلی گولیاں جو اثر کرتی ہوں اور اس بار جو ڈاکٹر کے گئی تھی تو کمبخت مارا کہنے لگا اماں بیڈ ریسٹ کرو۔"

خیرن بوا نے گھٹنوں کو ہلکے ہلکے دباتے ہوئے کہا۔

"تو بُوا پھر آپ نے کیا کہا؟"

لاریب بھی درمیان میں کُود پڑی۔۔وہ سبھی اپنی مسکراہٹ بڑی مشکل سے روکے ہوئے تھیں۔جانتی تھیں کہ اگر غلطی سے بھی ہنس دی تو خیرن بوا ہاتھ منہ دھو کر ان کے پیچھے پڑ جائیں گی مگر پھر بھی اُن سے چھیڑ خانی کرنا ان سب کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

"ائے میرا کیا کُچھ ہونے والا ہے جو پلنگ توڑنے بیٹھ جاؤں۔۔موئے کا دماغ خراب تھا جو مجھے الٹے سیدھے مشورے دے رہا تھا۔"

خیرن بوا نے جی بھر کر ڈاکٹر کو صلواتیں سنائیں۔

"سہی کہا بوا۔۔۔اس موئے کو وہیں ٹھیک کر دیتیں۔"

ارفع  نے بھی انھیں چھڑنا اپنا فرض سمجھا۔

"ائے دفع کرو۔۔۔یہ لونڈے کہاں ہیں؟

وہ ایک بار پھر ایمان کی طرف مڑیں۔ایمان نے مدد طلب نظروں سے سحرش کی جانب دیکھا۔

"بُوا سارے لونڈے۔۔۔۔سیر سپاٹا کرنے گئے ہیں۔صرف مصطفیٰ بھائی اور غزنوی بھائی ہی گھر پہ ہیں۔"

سحرش کی بجائے فائقہ نے جواب دیا۔

"کیا ہو رہا ہے بھئی۔۔؟"

عقیلہ بیگم بھی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔

"کچھ نہیں شاہ گل ہم تو بس بُوا سے باتیں کر رہے تھے۔"

سحرش نے شاہ گل سے کہا۔

"اور خیرن گاؤں میں سب ٹھیک تھا؟

شاہ گل نے خیرن بُوا سے پوچھا۔

"جی عقیلہ بیگم اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک تھا۔اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے جو اس نے ہمیں یہ خوشی کا دن دکھایا۔"

خیرن نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔

"الحمدللہ۔۔! اللہ اور بھی خوشیاں دے اور بچے کے نصیب اچھے کرے۔"

عقیلہ بیگم نے دعا دی۔

"آمین آمین۔۔!! آپ کو بھی غزنوی میاں کی دلہن کی مبارک باد۔۔ماشاءاللہ بہت پیاری بچی ہے۔"

خیرن بُوا نے ایمان کی طرف دیکھا۔پھر خاموشی سے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں اور اپنے سفید کرتے کی جیب سے پانچ سو کا نوٹ نکال کر ایمان کی مٹھی میں دبا دیا۔

"خیرن بُوا۔۔۔یہ۔۔۔"

ایمان خیرن بُوا سے پیسے نہیں لینا چاہ رہی تھی۔۔اسکی نظریں شاہ گل پہ تھیں جو اسے پیسے لے لینے کا اشارہ کر رہی تھیں۔

"ائے دلہن رکھ لو۔۔"

خیرن بُوا نے پیسے واپس سے اسکی مُٹھی میں دبا دئیے۔اس نے شکریہ کہہ کر پیسے رکھ لیے۔

"ٹھیک ہے امی میں جا رہی ہوں۔۔چلو ارفع، عنادل۔۔"

طاہرہ بیگم چادر اوڑھتے ہوئے لاؤنج میں داخل ہوئیں۔عنادل اور ارفع بھی اٹھ گئیں۔

"طاہرہ رک جاتی بیٹا۔۔۔بچے بھی کل آ جائیں گے۔۔کل چلی جاتیں۔"

شاہ گل نے بیٹی کو گھر کی طرف رخت سفر باندھتے دیکھ کر کہا۔فروز بھی گھر کے باقی لڑکوں کے ساتھ مری گیا ہوا تھا۔

"نہیں امی رضوان اکیلے ہوں گے۔آپ کو تو پتہ ہے ان کے مزاج کا۔۔۔اور ویسے بھی شادی کی تیاری بھی تو کرنی ہے۔"

طاہرہ بیگم ان سے معانقہ کرنے کے لئے آگے بڑھیں۔

"چلو جیسی تمھاری مرضی۔۔"

عقیلہ بیگم نے ان کا ماتھا چوما۔

"امی آپ آئیے گا نا بچیوں کو لے کر اور میں ایمان اور غزنوی کو ڈنر پہ انوائٹ کرنا چاہتی ہوں۔"

طاہرہ بیگم عقیلہ بیگم سے ملکر ایمان کی جانب آئیں اور اسے پیار سے گلے لگایا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔زرا یہ لڑکے آ جائیں پھر ہم سب آئیں گے۔"

عقیلہ بیگم نے عنادل اور ارفع سے ملتے ہوئے کہا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔اپنا خیال رکھیئے گا اللہ حافظ۔۔۔"

وہ دونوں کو لئے لاؤنج سے باہر نکل گئیں۔ان کے جانے کے بعد باقی سب بھی اپنے اپنے کام سے اٹھ گئیں۔

دو دنوں میں وہ اچھی طرح گھر کے لوگوں سے واقفیت حاصل کر چکی تھی۔لڑکیاں تو سبھی اس سے اچھی خاصی دوستی گانٹھ چکی تھیں اور لڑکوں میں سے ابھی صرف وہ مصطفی سے ہی مل پائی تھی کیونکہ باقی سب لڑکے آؤٹنگ کے لئے مری گئے ہوئے تھے۔اتنی محبتوں کے باوجود وہ یہاں ایڈجسٹ نہیں ہو پائی تھی۔سب اُوپرا اُوپرا سا لگ رہا تھا۔وہ خود کو اجنبی محسوس کرتی تھی۔جس کے لئے ذمہ دار غزنوی کا اُکھڑا رویہ تھا۔اس دن کے بعد سے وہ غزنوی کے روم میں رہنے لگی تھی۔اس نے اپنا چند پرانے کپڑوں پہ مشتمل سامان الماری میں ترتیب سے رکھ دیا تھا۔سارا دن تو باہر خود کو کسی نہ کسی کام میں مگن رکھتی تھی۔رات کو سونے کے لئے کمرے میں آتی تھی۔دوسری جانب غزنوی کا رویہ پہلے دن کی طرح ہی تھا۔وہ اس سے بات کرنا تو درکنار اسے مخاطب بھی نہیں ہوتا تھا۔کمرے میں ہوتا تو یوں ظاہر کرتا جیسے وہ کمرے میں موجود ہی نہ ہو۔وہ اسکے وجود سے قطعی لاپروائی برت رہا تھا۔اسکی کیا ضروریات ہیں۔۔یہاں کیسے رہتی ہے، غزنوی کو رتی برابر بھی پرواہ نہیں تھی۔صبح اٹھتا، ناشتہ کر کے آفس چلا جاتا۔ایک وہی تھی جو خاموشی سے اس کے سارے کام کیے جاتی۔سب کے الگ الگ پورشنز تھے اس لئے دن میں خاموشی کا راج ہوتا۔شام کی چائے سب مل کر پیتے تھے۔ملائکہ سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی۔ایک تو وہ اس کے ہم عمر تھی دوسرا غزنوی کی بہن بھی تھی۔عائشہ تو بیاہی ہوئی تھی۔اس کی شادی شمائلہ بیگم کی بہن کے بیٹے محمد ولی سے ہو چکی تھی۔دونوں کا ایک پیارا سا بیٹا بھی تھا۔ایمان اب تک اس سے مل نہیں پائی تھی کیونکہ وہ بھی اپنی فیملی کے ساتھ نادرن ایریاز گئی ہوئی تھی۔ملائکہ تقریباً سارا دن اسکے ساتھ گزارتی تھی۔شاہ گل، شمائلہ بیگم اور مکرم احمد سبھی اس کا بہت خیال رکھتے تھے مگر پھر بھی ناپسندیدگی کا دکھ اندر ہی اندر اسکی مسکراہٹوں کی جڑیں کاٹ رہا تھا اور خاموشی دھیرے دھیرے اسکی ذات کا حصہ بنتی جا رہی تھی۔اس وقت بھی غزنوی اور مکرم احمد کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔ناشتے کی ٹیبل پہ مکرم صاحب نے انھیں داجی کی آمد کے متعلق بتایا تھا۔شاہ گل اور شمائلہ بیگم سر جوڑے بیٹھی تھیں۔ملائکہ بھی کالج جا چکی تھی۔کمرے کی بےترتیبی نے اسکا استقبال کیا۔ایسا تقریباً روز ہی ہوتا تھا۔شمائلہ بیگم نے اسے غزنوی کی ڈسپلنڈ پرسنیلٹی کے بارے میں بتایا تھا۔انہوں نے اسے بتایا تھا کہ جب وہ صبح صفائی کی غرض سے شگفتہ کے ساتھ کمرے میں آتی تھیں تو ہر چیز ترتیب سے اپنی جگہ پہ پڑی ہوتی تھی یوں جیسے اپنی جگہ سے ہلائی تک نہ گئی ہو مگر اسے تو وہ ان کی باتوں کے بالکل برعکس لگتا تھا۔جو چیز وہ اٹھاتا وہ اپنی جگہ کی بجائے کہیں اور ہی پڑی ملتی تھی۔پتہ نہیں وہ ایسا تھا یا جان بُوجھ کر ایسا کرتا تھا یہ سوچے بغیر وہ ایک ایک چیز اٹھا کر اپنی اپنی جگہ پہ رکھتی رہتی تھی۔

"شاید میری زندگی اب ایسے ہی گزرے گی۔"

وہ بیڈ سے تولیہ اٹھا کر باتھ روم کی طرف جاتے ہوئے خود سے بولی تھی۔شاید وہ خود کو یہ باور کروانا چاہتی تھی کہ اب اسکی زندگی ایسے ہی گزرے گی۔واپس آ کر بیڈ سے غزنوی کی شرٹ اٹھائی۔۔۔اسکے پرفیوم کی ہلکی سی مہک اس کے نتھنوں سے ٹکرائی تو اس نے شرٹ کو ناک کے قریب لے جا کر گہری سانس لی اور اسکی مخصوص مہک کو اپنے اندر اتارا۔اسے لگا وہ اس کے آس پاس ہی کہیں موجود ہو۔ایک بےجان سی مسکراہٹ نے اسکے لبوں کو چُھوا تھا۔

"ایمان۔۔۔!"

شاہ گل کی آواز پہ اس نے جھٹ شرٹ بیڈ پہ پھینکی۔یوں جیسے چوری پکڑی گئی ہو۔شاہ گل کمرے میں داخل ہوئیں۔

"ایمان تمھاری ساس بازار جا رہی ہے۔تم بھی ان کے ساتھ جا کر کچھ خریداری کر لو۔۔کب سے دیکھ رہی ہوں کہ یہ کچھ ہی کپڑے ہیں تمھارے پاس جنھیں استعمال کر رہی ہو۔میں نے کتنی مرتبہ غزنوی سے بھی کہا ہے مگر وہ کام کا بہانا کر کے آج کل پہ ٹال جاتا ہے۔"

وہ اس کے قریب آئیں۔

"شاہ گل میرے پاس ہیں۔۔ضرورت نہیں ہے مجھے اور میں نے کہاں جانا ہوتا ہے گھر پہ ہی تو ہوتی ہوں۔"

اس نے انکار کیا۔

"ضروری نہیں ہے بیٹا۔۔چلو شاباش جلدی سے تیار ہو کر آ جاو نیچے۔۔شمائلہ انتظار کر رہی ہے۔میں نیچے جا رہی ہوں جلدی سے آ جاو۔"

عقیلہ بیگم پلٹ کر جانے لگیں۔

"جی۔۔۔"

وہ اتنا کہہ کر بیڈ کی چادر درست کرنے لگی۔

"اور ہاں۔۔"

وہ پلٹیں۔۔

"شرمانا مت۔۔ضرورت کی ہر چیز لینا۔۔ویسے تو شمائلہ ہے مگر پھر بھی تم انھیں بتاتی رہنا۔۔ٹھیک ہے؟"

عقیلہ بیگم نے اسے سمجھایا۔

"جی شاہ گل۔۔۔"

اس نے بیڈ سے شرٹ اٹھائی۔

"چھوڑ دو بیٹا۔۔۔یہ کام شگفتہ کر لے گی۔میں بھیجتی ہوں اسے۔"

یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئیں۔ان کے جاتے ہی ایمان نے شرٹ کو واش روم میں رکھا اور الماری کھول کر کپڑے نکالنے لگی۔وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھیں اسکے پاس گنتی کے چند ہی جوڑے تھے۔اس نے گہری سانس خارج کر کے الماری بند کی اور واش روم میں گھس گئی۔    _____________________________________________ 

اعظم احمد گاؤں سے واپس آ گئے تھے۔وہ نماز سے فارغ ہوئی تو لاؤنج میں کچھ شور سا محسوس ہوا۔جائے نماز طے کرتی وہ لاؤنج میں آئی۔سبھی وہاں موجود تھے۔اعظم احمد صوفے پہ براجمان عقیلہ بیگم سے کچھ بات کر رہے تھے۔

"السلام و علیکم۔۔!"

ایمان نے بلند آواز میں سلام کیا اسکے سلام کرنے پہ سبھی اسکی طرف متوجہ ہوئے۔دُھلا دُھلا معصوم چہرہ۔۔۔معصومیت اسکے چہرے کا خاصہ تھی۔ڈارک ریڈ کلر کے دیدہ زیب لباس میں ملبوس، نازک کلائیاں سرخ چوڑیوں سے سجی تھیں۔۔گلابی پنکھڑی نما لب۔۔بھوری آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر غزنوی کو اپنا دل کھینچتی محسوس ہوئی تھی۔یہ سب ایک لمحے کے لئے تھا، اگلے ہی پل وہ اپنی نظروں کا زاویہ بدل چکا تھا اور چہرے سے مسکراہٹ غائب ہوئی تھی۔اس کا خیال تھا کہ وہ جان بوجھ کر اپنے چہرے پہ معصومیت طاری کیے رکھتی ہے۔مگر آج اسے اپنا ہی اندازہ کہیں دور کھائی میں لڑکھتا دکھائی دیا۔

سبھی نے اسکے سلام کا جواب دیا سوائے غزنوی کے۔۔وہ اپنے ہاتھ کی لکیروں میں مگن تھا۔

"ادھر آئے میری بیٹی۔۔میرے پاس۔۔۔"

اعظم احمد نے اپنے قریب اسکے لئے جگہ بنائی۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔عقیلہ بیگم بھی مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"کیسی ہے میری بیٹی۔۔؟؟"

انھوں نے بڑے پیار سے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"ٹھیک ہوں داجی۔۔آپ کیسے ہیں۔۔بابا سے ملے تھے آپ۔۔کیسے ہیں بابا۔۔؟"

ایمان نے ایک ہی سانس میں سارے سوال پوچھ ڈالے۔

"ہاہاہا۔۔۔میں بھی ٹھیک ہوں۔۔بابا سے بھی ملا ہوں۔۔وہ بھی بالکل ٹھیک ہیں۔۔وعدہ کر کے آیا ہوں اس سے کہ اگلی بار تمھیں ساتھ لے کر آوں گا۔"

انھوں نے ہنستے ہوئے اسکے سارے سوالوں کے جواب دئیے۔

"سچ۔۔۔؟؟"

وہ بچوں جیسی معصوم مسکراہٹ لئے انھیں دیکھ رہی تھی۔سبھی نے بڑی محبت سے یہ منظر دیکھا تھا۔وہ محسن تھے اسکے۔۔۔۔انھوں نے اسے بےحرمتی کی دلدل میں گرنے سے بچایا تھا۔۔اسے عزت دی تھی، اپنے خاندان کا نام دیا تھا۔۔وہ مر کر بھی ان کا احسان نہیں اتار سکتی تھی۔

"میری بیٹی خاموش کیوں ہو گئی؟"

اعظم احمد نے اسکے پُرسوچ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی۔

"کیا ان سب نے میری بیٹی کا خیال نہیں رکھا۔"

انھوں نے اس سے پوچھتے پوچھتے عقیلہ بیگم کی جانب دیکھا۔اعظم احمد کے چہرے پہ کئی سوال تھے۔

"ارے نہیں داجی۔۔۔سب بہت اچھے ہیں۔۔میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔۔مجھے اتنا مان دیا۔۔میں کہاں اس قابل تھی۔۔۔مگر۔۔۔۔"

اسکی آنکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے۔

"ارے ارے۔۔۔کیا ہوا بیٹا۔۔جب سب اچھے ہیں تو پھر یہ رونا کیوں؟"

انھوں نے اسکے آنسو پُونچھے۔

"کیا غزنوی تمھارا خیال نہیں رکھتا؟"

غزنوی کا گلاس کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا۔اس نے ایمان کی طرف دیکھا جو اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔

"نہیں داجی۔۔۔سبھی میرا خیال رکھتے ہیں۔"

وہ جلدی نظروں کا رخ پھیر کر اعظم احمد سے بولی۔ایک طرح سے تو وہ بھی اسکا محسن ہی تھا چاہے کھڑوس اور اکڑو ہی سہی۔۔۔

"داجی غزنوی کا پوچھ رہے ہیں کہ وہ تمھارا خیال رکھتا ہے کہ نہیں۔"

صائمہ بیگم نے غزنوی کی طرف شرارتی انداز میں دیکھتے ہوئے کہا۔سب کے ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ رینگ گئی۔غزنوی گلاس منہ سے لگائے گھونٹ گھونٹ پانی پی رہا تھا۔اسے ڈر تھا کہ اگر ایمان نے صاف صاف بتا دیا تو داجی اس سے سوال جواب کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیں گے۔

"ہاں غزنوی۔۔!! تم میری بیٹی کا خیال رکھتے ہو نا۔۔؟

اعظم احمد نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

"جی وہ بھی خیال رکھتے ہیں۔"

وہ جبراً مسکرائی تھی۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے۔"

وہ پرسکون ہوئے تھے۔۔گاوں میں بھی انھیں اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا تھا کہ نجانے ایمان کے ساتھ ان سب کا رویہ کیسا ہوا۔خاص طور پر غزنوی کی ماں شمائلہ کا۔۔۔اس نے ایمان کو غزنوی کی دلہن کے روپ میں قبول کیا ہو گا یا نہیں۔حالانکہ شاہ گل انھیں مطمئن کرتی رہتی تھیں مگر پھر بھی ایمان کا خیال ان کے اردگرد گھومتا رہتا تھا۔۔۔کبھی پچھتاوے انھیں گھیر لیتے کیونکہ اپنے لاڈلے پوتے کی ضدی طبیعت سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔لیکن اب واپس آ کر جو رویہ ان سب کا ایمان کے ساتھ انھوں نے دیکھا وہ انھیں مطمئن کرنے کے لئے کافی تھا اور ایمان نے خود کہہ کر انھیں اس پریشانی سے بھی آزاد کر دیا تھا۔

ایمان کے الفاظ سے غزنوی کا اٹکا ہوا سانس بحال ہوا۔اب اعظم احمد ایمان کو اسکے والد کے بارے میں بتا رہے تھے۔شمائلہ بیگم اور باقی خواتین دوپہر کے کھانے کا انتظام دیکھنے کے لئے اٹھ گئیں تھیں۔ایمان نے ایک چور نظر غزنوی پہ ڈالی تھی جو مصطفی کی کسی بات پر ہنس رہا تھا۔کشادہ پیشانی،کھڑی ناک، سیاہ پراعتماد آنکھیں، عنابی لب اور شہزادوں جیسی آن بان رکھنے والا۔۔۔غزنوی احمد اس کے دل کے بند کواڑوں پہ بنا دستک دئیے ہی اسکے دل کی دہلیز پار کر چکا تھا۔۔چوری چوری اسے دیکھنا آج کل ایمان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ایسا کام جسے کر کے وہ اپنے اندر پھول کھلتے محسوس کرتی تھی۔۔محبت کا جھرنا پھوٹ پڑا تھا جس کا شور ایمان کے دل و دماغ میں برپا تھا اور اب اس شور سے بھاگنا اس کے لئے ناممکن تھا۔                _________________________________________

یہ کیا ہو رہا ہے بھئی۔۔؟

وہ قہوہ لئے داجی کے کمرے کی طرف آئی۔ساری لڑکیاں بند دروازے سے چپکی کھڑی تھیں۔ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح اپنے کان کمرے کے اندر لے جائیں۔گھر کے سبھی بڑے اندر کمرے میں موجود تھے۔ایمان کی آواز سن کر ساری پیچھے ہوئیں اور اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔

"ایمان ذرا اندر جا کر دیکھو۔۔کیا میٹنگ چل رہی ہے۔داجی نے سب کو بلایا ہے تو یقینا کوئی خاص بات ہو گی۔"

پرخہ نے اس کے ہاتھ سے ٹرے لے لی۔باقی سب پھر سے کان لگائے مصروف ہو گئی تھیں۔

"تو آپ کو اتنا تجسس کیوں ہو رہا ہے؟

ایمان نے ٹرے اس سے واپس لی۔

"میری پیاری ایمان ذرا اندر سے پکی پکی خبریں تو باہر لاؤ۔"

فائقہ نے ایمان کے گالوں پہ چٹکی کاٹی۔ایمان مسکرا دی تھی۔

"تم ساری چاغی کا پہاڑ بنی کھڑی رہو گی تو کیسے اندر کی خبر باہر لاؤں گی۔۔چلو ہٹو آگے سے قہوہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔"

ایمان نے ان سب کو دروازے سے ہٹانا چاہا۔

"ہائے ایمان۔۔میری جان جلدی جاؤ نا۔"

پرخہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر دروازے کے قریب کیا۔

"ٹھیک ہے آپ سب لاونج میں جا کر بیٹھو۔۔شگفتہ آپ سب کے لئے بھی قہوہ لا رہی ہے، میں آتی ہوں۔"

وہ ان سے کہتی کمرے میں داخل ہو گئی۔ان سبھی نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اندر داخل ہوئی تھی۔کمرے میں سبھی خوش گپیوں میں مگن تھے۔

"لگتا ہے تاریخ طے ہو گئی ہے۔"

وہ سبھی کو قہوہ سرو کر کے شاہ گل کے پاس آ بیٹھی۔

"جی بیٹا۔۔اگلے مہینے کی چوبیس تاریخ رکھ دی ہے۔اب تائی امی کی مدد کرنی ہے تم نے کیونکہ وقت بہت کم ہے۔"

عقیلہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"مبارک ہو آپ سب کو۔۔۔اور شاہ گل میں ضرور تائی امی کی مدد کروں گی۔میں ذرا یہ خوشخبری باقی سب کو بھی سنا دُوں۔"

وہ عقیلہ بیگم سے کہتی دروازے کی طرف بڑھی۔اسے یقین تھا کہ وہ اس کہنے کے باوجود دروازے سے ہی چپکی ہوں گی اور اسکا اندازہ صحیح تھا۔وہ جیسے ہی باہر آئی۔سب نے اسے گھیر لیا اور دبی دبی آوازوں میں اس سے پوچھنے لگیں۔

"بتاو نا ایمان۔۔"

ارفع نے ایمان سے پوچھا۔

"پتہ نہیں اندر کیا بات ہوئی۔۔جب میں اندر گئی تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کر رہے تھے۔۔اس لئے میں جان ہی نہیں پائی کہ وہ کیوں اکٹھے ہوئے اور کیا بات ہوئی۔"

ایمان چہرے پہ سنجیدگی طاری کیے کندھے اُچکا کر لاؤنج میں آ گئی۔اس کے ہاتھ میں بھاپ اڑاتا کپ تھا جس سے وقفے وقفے سے وہ سِپ لے رہی تھی۔وہ سب بھی اسکے پیچھے آئیں۔

"یہ کیا بات ہوئی ایمان۔۔۔بتاؤ نا اندر کیا چل رہا تھا؟

عنادل اسکے پاس بیٹھ گئی۔وہ چہرے پہ سنجیدہ تاثرات سجائے ان کا صبر آزما رہی تھی اور دل ہی دل میں ان کی بےصبری پہ مسکرا بھی رہی تھی۔

"اب بتا بھی دو ایمان۔۔"

پرخہ نے اسکا کندھا ہلایا۔

"لو۔۔۔پہلے بزرگ صاحبان کھچڑی پکاتے رہے اور اب ان کی بہو بھی کھچڑی کو مزید پکانے کے چکر میں ہے۔"

سحرش نے باقی سب کو دیکھا جن کی نظریں اس پہ جمی تھیں۔

"ارے میری پیاری سحرش آپی۔۔۔آپ کو اتنی بے چینی کیوں لگی ہوئی ہے۔میں ایسا کرتی ہوں کہ داجی سے ہی جا کر پوچھتی ہوں اور ان سے کہتی ہوں کہ آپ کی لاڈلیاں آپ کا فیصلہ جاننا چاہتی ہیں۔"

وہ ایک دم سے اٹھ کر جانے لگی کہ سحرش نے اسکا ڈوپٹہ پکڑا، فائقہ نے دامن اور پرخہ اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ایمان کھلکھلا کر ہنس دی مگر وہ سب سنجیدہ چہرہ لیے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"حملہ۔۔۔۔"فائقہ کے آواز لگاتے ہی وہ سب ایمان پر چڑھ دوڑنے کو آگے بڑھیں۔

"ارے ارے رکو رکو۔۔۔۔بتاتی ہوں۔"

ایمان نے ان سب کو آستینیں چڑھا کر خود پہ جھپٹتے دیکھا تو فوراً بولی۔ایک مرتبہ پہلے بھی وہ سب مل کر اسکا حلیہ بگاڑ چکی تھیں۔

"جلدی بولو۔۔۔"

عائشہ نے اپنی لمبی لمبی انگلیاں پستول کی ناب کیطرح اسکی کنپٹی پر رکھیں۔

"وہ اندر یہ فیصلہ ہوا ہے کہ جلد سے جلد۔۔۔۔"

وہ پھر خاموش ہوئی جبکہ وہ ساری منہ کھولے اس کے آگے بولنے کی منتظر تھیں۔

"اُففف۔۔۔!! ایمان بتا بھی چُکو۔۔۔۔"

لاریب نے اسکا گھٹنا ہلایا۔

"اندر پرخہ آپی اور مصطفی بھائی اور اور۔۔۔۔۔"

ایمان نے ایک بار پھر تجسس پھیلانا چاہا۔

"اور۔۔۔۔۔؟؟"

ارفع نے آنکھیں پھیلائیں۔

"اور یہ کہ ہادی بھائی اور سحرش آپی کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی ہے۔۔۔۔اگلے ماہ کی چوبیس تاریخ۔۔۔"

ایمان نے آخر تھیلے میں سے بلی نکال ہی لی۔

"ہُرّے۔۔۔!! ساڈا چڑیاں دا چمبا وے بابلا وے

ساڈا چڑیاں دا چمبا وے بابلا۔۔۔اساں اُڈ جانڑاں۔۔اساں اُڈ جانڑاں۔۔۔"

عنادل کا راگ شروع ہو چکا تھا۔

"ائے ہائے۔۔۔ظالم۔۔!! دل کے تار چھیڑ دیئے۔"

لاریب دل پہ ہاتھ رکھے ہائے ہائے کر رہی تھی۔

"ہماری پیاری بانسری بی بی۔۔۔۔زرا اپنی یہ پیں پیں بند کرو۔"

سحرش نے مسکراتے ہوئے عنادل کے منہ پہ ہاتھ رکھا۔

"دولہے کا سہرا سہانا لگتا ہے۔۔

دولہن کا تو دل دیوانہ لگتا۔۔

پل بھر میں کیسے بدلتے ہیں رشتے

اب تو ہر اپنا بیگانہ لگتا ہے۔۔"

ملائکہ بھی لہک لہک کر اچھے بھلے گانے کی ٹانگیں توڑنے لگی۔ان سب نے کانوں میں انگلیاں ٹُھونس لیں۔

"میں تو خُوب گانے گاؤنگی چاہے کسی کو آگ لگے۔"

ملائکہ نے ان سب کو کانوں میں انگلیاں ٹھونستے دیکھکر اِٹھلاتے ہوئے کہا۔ایمان بھی ان کی نوک جھونک سے محظوظ ہو رہی تھی۔

"ہونہہ۔۔! تمھاری بھونڈی آواز کو برداشت کرنے کی ہمیں قطعی کوئی ضرورت نہیں۔۔ہم اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگا کر کسی سُریلے کو سُن لیں گے۔"

ارفع نے سب کو ایک آسان علاج بتایا۔

"او ہو۔۔۔آپ خود تو بڑی سُریلی ہو نا۔"

ملائکہ نے ارفع کے بے پرواہ انداز کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا۔

"او ہو۔۔۔ایک تو تم لوگوں کو ایک دوسرے سے بِھڑنے کا موقع چاہئیے۔۔یہ بتاؤ شاپنگ کہاں سے اسٹارٹ کرنی ہے۔۔یااللہ کتنے کم دن ہیں ہمارے پاس۔۔"

لاریب نے سب کو متوجہ کیا۔

"ہاں بھئی لاریب بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔کیا لیں۔۔کیا پہنیں۔۔ڈیسائڈ کرتے ہیں۔"

فائقہ کے کہنے پہ وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔۔حیا اور پرخہ انھیں مشوروں سے نوازنے لگیں۔ایمان اُن کے ایک دوسرے کو دیتے اُوٹ پٹانگ مشوروں پہ اپنی ہنسی روک نہیں پا رہی تھی۔

"ارے بھئی کیا ہو رہا ہے؟"

عقیلہ بیگم کی آواز سن کر سبھی نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔

"شاہ گل۔۔۔!! مبارک ہو آپ کو۔۔۔"

وہ سب یک زبان ہو کر بولیں جبکہ پرخہ اور سحرش دل میں پھوٹتے لڈو چھپا کر شرافت کے ریکارڈ توڑنے لگی تھیں۔

"خیر مبارک میرے بچو۔۔! تم سب کو بھی مبارک ہو۔"

عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئیں۔انھوں نے باری باری سحرش اور پرخہ کا ماتھا چُوم کر دونوں کو دعائیں دیں۔

"میرا تو دل تھا کہ غزنوی اور ایمان کا ولیمہ بھی کر دیتے ہیں مگر غزنوی۔۔۔۔خیر چھوڑو۔"

ان کی نظر ایمان پر ٹھہر گئی جو غزنوی کے ذکر پہ نظریں جھکا گئی تھی۔

"ارے شاہ گل آپ خفا مت ہوں۔۔انھوں نے یقیناً چپکے چپکے کچھ پلان بنا رکھا ہو گا۔"

ارفع نے شاہ گل کے گلے میں بازو ڈالے۔

"پتہ نہیں اس نے کیا سوچ رکھا ہے۔۔خیر تم لوگ بتاؤ تیاری کب سے شروع کرنی ہے؟"

انھوں نے سر جھٹک کر پوچھا۔انھیں ایمان کے چہرے پہ اداسی چھاتی محسوس ہوئی تھی۔

"شاہ گل ہم آج سے ڈھولکی رکھیں گے۔"

فائقہ جلدی سے بولی۔

"نہیں بیٹا ابھی نہیں۔۔اگلے مہینے ڈھولکی رکھنا۔"

عقیلہ بیگم گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوگئیں۔ان کے جانے کے بعد وہ سب ایک بار پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئیں۔ایمان خاموشی سے اٹھ کر اپنے کمرے کیطرف بڑھ گئی۔

           ________________________________________

جیسے ہی شادی کی تاریخ رکھی گئی سبھی تیاری میں لگ گئیں۔ایمان کو بھی شمائلہ بیگم شاپنگ کے لئے ساتھ لے کر جاتیں تھیں۔غزنوی کو تو اسکی پرواہ ہی نہیں تھی۔بظاہر تو غزنوی کا رویہ نارمل تھا مگر وہ اس کی ہر ضرورت سے وہ لاپرواہ تھا اور شمائلہ بیگم اس بات سے واقف تھیں اس لئے وہ ایمان سے غزنوی کے رویے کے متعلق پوچھتی رہتی تھیں اور ایمان انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتی، لیکن وہ ماں تھیں غزنوی کی۔۔اپنے بیٹے کی مزاج آشنا تھیں۔غزنوی کے رشتے سے ایمان انھیں بہت عزیز ہو گئی تھی۔وہ اسکا ایک ماں کی طرح ہی اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں اور ایمان کو بھی ان کی عادت ہوتی جا رہی تھی۔آج بھی انھوں نے ایمان کو بازار لے کر جانا تھا ولیمے کے لئے ڈریس خریدنا تھا۔دس بجنے والے تھے لیکن ایمان اب تک کمرے سے باہر نہیں آئی تھی حالانکہ روز تو ناشتہ بنانےمیں وہ ان کی مدد کیا کرتی تھی۔غزنوی تو کب کا ناشتہ کر کے مکرم احمد کے ساتھ آفس کے لیے نکل چکا تھا۔مرتضیٰ بھی یونیورسٹی جا چکا تھا۔ملائکہ کی آج چھٹی تھی۔

"امی ناشتہ۔۔۔"

ملائکہ کچن میں داخل ہوئی۔

"بنا رہی ہوں میں۔۔تم زرا جا کر ایمان کو بلا لاؤ۔۔ابھی تک نہیں آئی نیچے۔"

اس سے پہلے کہ وہ چیئر سنبھالتی شمائلہ بیگم نے اس سے کہا۔وہ سر ہلاتی کچن سے نکل گئی۔وہ کمرے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوئی۔اسے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ ایمان بیڈ کی بجائے صوفے پہ سو رہی تھی۔میرون بلینکٹ سے جھانکتا چہرہ سرخی لئے ہوئے تھا۔

"ایمان۔۔! کیا ہوا ہے تمھیں۔۔؟"

ملائکہ نے اسے پکارا۔اس نے ذرا سی آنکھ کھول کر دیکھا ملائکہ اسکے پاس بیٹھ گئی۔

"ملائکہ تم۔۔۔کوئی کام تھا کیا؟"

ایمان صوفے کا سہارا لئے اٹھ بیٹھی۔۔اسے اچھا نہیں لگا کہ ملائکہ نےاسے ایسے صوفے پہ لیٹے دیکھ لیا ہے اس لئے اپنی خِفت مٹانے کو بولی۔آواز میں نقاہہت صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ملائکہ نےاسکا ماتھا چُھوا۔

"تمھیں تو بہت تیز بخار ہے اور یہاں کیوں لیٹی ہو۔۔کیا غزنوی بھائی سے کوئی جھگڑا ہوا ہے؟"

ملائکہ نے اسکے سرخ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں۔۔بس دھیان نہیں رہا۔۔طبیعت میں بےچینی سی تھی۔نماز پڑھ کر یہیں سو گئی تھی۔"

وہ کمبل کو درست کرتے ہوئے بولی۔

"مگر یہاں تو تم مزید بےآرام ہو جاو گی میری پیاری بھابھی۔۔چلو اٹھو بیڈ پہ لیٹو اور یہ غزنوی بھائی کو دیکھو نا بتایا بھی نہیں کہ تمھاری طبیعت درست نہیں ہے۔امی پریشان ہو رہی تھیں کہ تم اب تک نیچے کیوں نہیں آئی۔اس لئے مجھے تمھیں اٹھانے بھیجا۔اٹھو تم بیڈ پہ لیٹو، میں امی کو بتاتی ہوں تمھاری طبیعت کا۔"

ملائکہ اسے سہارا دینے کے لیے کھڑی ہوئی۔

"میں یہیں ٹھیک ہوں۔"

ایمان سُستی سے لیٹی رہی۔

"کیسے ٹھیک ہو۔۔۔چلو شاباش فورا اٹھو۔"

ملائکہ نے اسے ذبردستی اٹھایا اور اسے بیڈ پہ لے آئی۔

"میں امی کو بتا کر آتی ہوں۔"

ملائکہ اسے لیٹنے کا اشارہ کرتی کمرے سے چلی گئی۔اسے بہت عجیب سا لگا۔غزنوی کی غیر موجودگی میں بھی وہ کبھی بیڈ پہ بیٹھی تک نہیں تھی۔چار و ناچار اسے لیٹنا پڑا۔تھوڑی دیر بعد ملائکہ، شمائلہ بیگم اور عقیلہ بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔دونوں کے چہرے پہ پریشانی دکھ رہی تھی۔

"کیا ہوا بیٹا۔۔؟ طبیعت ٹھیک نہیں تھی تو بتایا کیوں نہیں۔"

شمائلہ بیگم نے آگے بڑھ کر اسکی پیشانی پہ ہاتھ رکھا جو بخار سے تپ رہی تھی۔

"اسے تو بہت تیز بخار ہے۔"

شمائلہ بیگم نے شاہ گل کی جانب دیکھا۔عقیلہ بیگم ایمان کے قریب بیٹھ گئیں۔

"بہو۔۔ڈاکٹر صاحب کو فون کرو۔"

شمائلہ بیگم سر ہلاتی کمرے سے نکل گئیں۔

"ملائکہ بیٹا۔۔جاو تم ایمان کے لئے دودھ گرم کر کے لاؤ اور ہلکا پھلکا سا ناشتہ بھی بنواؤ شگفتہ سے کہہ کر۔۔پتہ نہیں بچی کب سے بخار میں پُھنک رہی ہے اور اس لڑکے کو دیکھو نا بتایا تک نہیں ہمیں۔"

انھوں نے پریشانی سے ایمان کی طرف دیکھا جو اس وقت آنکھیں موندے ہوئے تھی۔ملائکہ بھی کمرے سے جا چکی تھی۔

"ایمان۔۔۔بچے آنکھیں کھولو۔"

عقیلہ بیگم نے اسکی دہکتی پیشانی کو چوما۔ایمان نے بمشکل آنکھیں کھولیں۔

"شاہ گل میں ٹھیک ہوں۔۔آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں۔"

وہ نقاہہت بھری مہین سی آواز میں بولی۔

"میرے بچے۔۔۔تم ٹھیک ہوتی تو کیا ایسے پڑی رہتی۔۔آ جائے یہ لڑکا۔۔۔ٹھیک کرتی ہوں اسے۔غضب خدا کا بچی بخار میں پڑی ہے اور ہمیں بتایا تک نہیں۔"

عقیلہ بیگم کی آواز سے غصہ چھلک رہا تھا۔

"انھیں نہیں پتہ تھا شاہ گل۔۔۔میں خود بھی سو رہی تھی۔وہ بھی سمجھے ہوں گے کہ میں سو رہی ہوں اور سچ میں مجھے معلوم ہی نہیں پڑا کہ وہ کس وقت کمرے سے گئے ورنہ میں ان سے خود کہہ دیتی۔"

وہ بمشکل آنکھیں کھولتی آہستہ آہستہ کہہ رہی تھی۔

"تم اسکی سائیڈ مت لو۔۔ہم جیسے اندھے ہیں۔پتہ ہے مجھے کہ اسے بالکل تمھاری پرواہ نہیں ہے۔"

وہ بولیں تو ایمان خاموش ہو رہی۔

"یہ لیجیئے دودھ اور ناشتہ۔۔"

ملائکہ ناشتے کی ٹرے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔

"یہ ٹرے یہاں رکھو بیٹا اور یہ دودھ کا گلاس مجھے پکڑاو۔"

عقیلہ بیگم نے ملائکہ سے کہا۔اس نے ٹرے ان کے قریب رکھی اور دودھ کا گلاس انھیں تھمایا۔

"اٹھو بیٹا۔۔ملائکہ بھابھی کی اٹھنے میں مدد کرو۔"

انھوں نے ملائکہ سے کہا۔اس نے ایمان کو سہارا دے کر بٹھایا اور پھر اسکے نہ نہ کرنے کے باوجود عقیلہ بیگم نے گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔ایک گھونٹ پی کر ایمان نے منہ پیچھے کر لیا تھا۔

"بس شاہ گل۔۔"

ایمان نے مزید پینے سے انکار کیا۔

"پی لو بیٹا تاکہ تھوڑی طبیعت سنبھلے۔"

انھوں نے ایک بار پھر گلاس اس کے لبوں سے لگایا۔ان کے اسرار پر وہ آہستہ آہستہ دودھ پینے لگی۔دودھ ختم کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر لیٹ گئی۔تھوڑی دیر میں شمائلہ بیگم ڈاکٹر عارف احمد کے ساتھ روم میں انٹر ہوئیں۔

"السلام علیکم۔۔!"

ڈاکٹر عارف احمد نے با آواز بلند سلام کیا تھا اور پھر عقیلہ بیگم سے خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد انھوں نے ایمان کا چیک اپ کیا۔

"پریشانی کی کوئی بات نہیں۔میں یہ میڈیسن لکھ کے دے رہا ہوں آپ منگوا لیجیئے۔انشاء اللہ شام تک بہتر ہوں گی۔اگر پھر بھی بخار نہ اترا تو کلینک لے آئیے گا۔"

ڈاکٹر عارف احمد نے ایمان کو انجیکشن لگایا اور ایک نسخہ لکھ کر عقیلہ بیگم کی جانب بڑھایا۔

"شکریہ بیٹا۔"

عقیلہ بیگم دوا کا نسخہ لیتے ہوئے بولیں۔

"اب مجھے اجازت۔۔میں چلتا ہوں۔"

ڈاکٹر عارف احمد اٹھ کھڑے ہوئے۔

"بیٹھو بیٹا چائے پی کر جانا۔۔ملائکہ جاؤ بیٹا ڈاکٹر صاحب کے۔۔۔۔"

"ارے نہیں شاہ گل مجھے دیر ہو رہی ہے ہاسپٹل جانا ہے۔انشاء اللہ پھر کبھی سہی۔۔اللہ حافظ۔۔"

ڈاکٹر عارف احمد الوداعی کلمات ادا کرتے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ان کے جانے کے بعد وہ تینوں ایمان کی تیمارداری میں لگ گئیں۔ملائکہ اور عقیلہ بیگم نے تو ایک پل کے لیے بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑا۔ایمان انھیں پریشان دیکھ کر شرمندہ ہوتی رہی کہ اسکی وجہ سے ان کےآرام میں خلل آیا تھا۔کچھ گھنٹوں تک اسکی طبیعت تھوڑی سنبھلی تو وہ عقیلہ بیگم کے سینے سے لگ گئی۔انھوں نے بھی اسے بانہوں میں سمیٹے رکھا۔ان کی مامتا بھری نرم آغوش میں اسے سکون مل رہا تھا۔وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی کہ اس نے اسے اتنا پیار کرنے والے لوگوں کے بیچ لاکھڑا کیا تھا۔

دوسری جانب عقیلہ بیگم کو ان دونوں کی ازدواجی زندگی کسی سہی رخ پہ جاتی نہیں دکھائی دے رہی تھی۔انہوں نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ہر صورت غزنوی سے بات کریں گی۔اس سے پہلے کہ یہ بات اعظم احمد تک پہنچے وہ خود غزنوی سے بات کر لیں گی ورنہ اعظم احمد پہلے ہی اس رشتے کو لے کر دل میں ہلکا سا پچھتاوا رکھتے تھے۔اگر انھیں معلوم ہو گیا تو وہ کوئی بھی فیصلہ کر لیں گے اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ وہ ایسا کوئی بھی فیصلہ کریں جس کے نتائج سنگین ہوں۔

       _________________________________________

"شگفتہ غزنوی آ گیا ہے آفس سے؟"

عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم غزنوی اور ایمان کے بارے ہی بات کر رہی تھیں کہ شگفتہ کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر عقیلہ بیگم نے پوچھا۔

"جی شاہ گل ابھی آئے ہیں۔۔مصطفی بھائی بھی ساتھ ہیں ان کے۔۔وہ دونوں غزنوی صاحب کے کمرے میں ہیں۔"

شگفتہ نے جواب دیا۔

"اچھا۔۔غزنوی سے کہو کہ شاہ گل بلا رہی ہیں۔"

انھوں نے اس سے غزنوی کو بلانے کو کہا۔

"جی۔۔۔اور شاہ گل میں اپنے کواٹر میں چلی جاؤں۔کرن کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا ہے۔شام تک واپس آ جاؤں گی۔"

شگفتہ جاتے جاتے پلٹی۔

"اچھا ٹھیک ہے چلی جاو۔"

عقیلہ بیگم کی بجائے شمائلہ بیگم نے کہا۔

"شکریہ بیگم صاحبہ۔۔کلثوم کو میں نے باقی کے کام بتا دئیے ہیں وہ کر لے گی۔خیرن بُوا بھی وہیں موجود ہیں۔"

وہ شکریہ ادا کر کے پلٹ کر جانے لگی تھی کہ عقیلہ بیگم نے اسے آواز دی۔

"یہاں آؤ۔۔۔" عقیلہ بیگم نے اسے قریب بلایا۔وہ ان کے پاس آئی۔انھوں نے سائیڈ ٹیبل کی دراز سے اپنا چھوٹا سا گلابی پرانے اسٹائل کا پرس نکالا۔پرس کھول کر انھوں نے دو نیلے نوٹ نکال کر شگفتہ کی جانب بڑھائے۔

"بچی کو کسی صحیح ڈاکٹر کو دکھانا اور اسکے لئے کچھ پھل بھی لے لینا۔"

شگفتہ نے پیسے تھام لئے اور انھیں دعائیں دیتی کمرے سے نکل گئی۔تھوڑی دیر بعد ہی غزنوی سلام کرتا کمرے میں داخل ہوا۔

"واعلیکم السلام۔۔!"

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ان کے پاس آ کر جھکا۔عقیلہ بیگم نےاسکے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

"شاہ گل آپ نے مجھے بلایا تھا۔۔"

اس نے شمائلہ بیگم سے آنکھوں کے اشارے سے پوچھتے ہوئے عقیلہ بیگم کی جانب دیکھا۔

"ہاں بیٹا۔۔تم سے کچھ ضروری بات کرنی تھی۔"

عقیلہ بیگم نے کہا۔

"جی شاہ گل کہئیے۔"

عقیلہ بیگم کے چہرے کی سنجیدگی دیکھکر اس کا ماتھا ٹَھنکا تھا۔

"غزنوی۔۔۔بیٹا تمھارے داجی نے تم پر اعتماد ظاہر کر کے تمھیں ایمان کی ذمہ داری سونپی تھی۔اللہ جانتا ہے یا تم، کہ تم نے کس دل سے اور کیا سوچ کر ان کے فیصلے کا مان رکھا۔مگر بیٹا تمھارا رویہ، تمھارا انداز صاف ظاہر کرتا ہے کہ تم اس رشتے سے خوش نہیں ہو۔"

وہ ایک لمحے کو خاموش ہوئیں۔۔غزنوی کے چہرے پر بھی سنجیدگی کا خول چڑھ گیا تھا۔

"نہیں شاہ گل۔۔۔ایسا کچھ نہیں ہے۔آپ کو یقیناً کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"

اس نے دادی اور ماں کے سامنے اپنا دفاع کرنا چاہا۔

"اگر ایسی بات نہیں ہے تو ہمیں ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تم ایمان کی جانب سے لاپرواہ ہو یا پھر ہمیں یہ جتانا چاہتے ہو کہ وہ تمھارے لئے اہمیت نہیں رکھتی۔وہ خوش نہیں ہے اور نہ ہی تم دونوں کے درمیان نوبیاہتا جوڑے جیسی کوئی بات ہے۔"

عقیلہ بیگم اس کے چہرے کے پل پل بدلتے تاثرات دیکھ کر خاموش ہوئیں۔

"کیا ایسا آپ سے ایمان نے کہا ہے؟"

اسکی آواز دھیمی مگر لہجہ سخت تھا۔

"نہیں وہ ہمیں کیا کہے گی الٹا وہ تو تمھارے رویے پر پردہ ڈالتی ہے۔مگر بیٹا ہم نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ہمیں سب دِکھتا بھی ہے اور ہم سب سمجھتے بھی ہیں۔"

شمائلہ بیگم نے بیٹے کو کڑی نظروں سے دیکھا۔

"مگر امی۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔"

غزنوی نے اپنے اندر اٹھتے غصے کو دبوچا۔

"تمھاری بیوی رات سے بخار کی شدت سے تکلیف میں تھی اور تم نے ہمیں بتایا تک نہیں یا پھر تم نے جان بُوجھ کر اگنور کیا۔"

"مجھے پتہ تھا کہ اسکی طبیعت ناساز تھی۔میں نے باہر نکلتے ہوئے سوچا تھا کہ آپ کو کہوں گا کہ ڈاکٹر عارف کو بلوا لیں۔مگر میں نیچے آیا تو دماغ سے نکل گیا۔"

غزنوی نے جلدی سے جھوٹ کا سہارا لیا۔

"واہ بیٹا کمال ہے۔۔۔یہ تربیت کی ہے میں نے تمھاری۔"

شمائلہ بیگم نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔

"امی میں سچ کہہ رہا ہوں۔۔میں نے ایمان سے بھی کہا تھا کہ اگر اسکی طبیعت زیادہ خراب ہے تو میں ڈاکٹر کو بُلا لاتا ہوں مگر اس نے یہ کہہ کر مجھے روک دیا کہ وہ کچھ دیر آرام کرے گی تو ٹھیک ہو جائے گی۔آپ پوچھ لیں اُس سے۔۔"

وہ دونوں اسے دیکھ رہی تھیں کہ اتنے میں ایمان کمرے میں داخل ہوئی۔

"لیں آ گئی ہے آپکی بہو بیگم۔۔۔پوچھ لیں اِس سے۔"

وہ نظریں ایمان کے چہرے پہ جمائے اس کے قریب آیا۔

"ارے بیٹا تم کیوں آ گئیں۔۔آرام کرتی۔۔"

عقیلہ بیگم نے ایمان کی جانب فکرمندی سے دیکھا۔غزنوی اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔وہ بغور ایمان کو دیکھ رہا تھا۔ملاحت بھرا چہرہ ابھی بھی بخار کی سُرخی لئے ہوئے تھا۔گلابی لب بھی سرخی مائل ہو رہے تھے۔

"ہیم۔۔۔تو میڈم کی طبیعت واقعی خراب ہے۔"

وہ بڑبڑایا۔

"میں ٹھیک ہوں شاہ گل۔۔۔بس ملائکہ پڑھ رہی تھی تو میں آپکے پاس آ گئی۔"

وہ غزنوی کی چبھتی نظریں خود پہ محسوس کر رہی تھی۔اسی لئے وہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز برتتی تیزی سے شاہ گل کیطرف بڑھی۔

"اچھا کیا۔۔۔آ جاؤ۔۔۔"

وہ ان کے پاس بیڈ پہ بیٹھ گئی۔غزنوی بھی ایمان پہ نظریں جمائے ہوئے تھا اور اس انتظار میں تھا کہ کب وہ اسکی طرف دیکھے اور وہ اسے خبردار کرے مگر ایمان شاہ گل سے بات کرنے کے بہانے خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔وہ بڑبڑاتا پلٹ کر جانے لگا۔

"غزنوی خیرن سے کہو کہ ایمان کے لئے جو یخنی بنوائی تھی وہ لے کرلائے۔"

عقیلہ بیگم کی بات سن کر وہ پلٹا اور پھر بِنا کچھ کہے تن فن کرتا کمرے سے نکل گیا۔اُس کے جاتے ہی شمائلہ بیگم کی ہنسی چُھوٹ گئی۔وہ ایمان کے کمرے میں داخل ہونے سے لے کر اب تک کے اسکے چہرے کے سارے انداز ملاحظہ کر رہی تھیں۔

"کیا ہوا بہو۔۔۔؟"

عقیلہ بیگم ایمان سے بات کرتے کرتے اُنکی طرف چونک کر دیکھنے لگی تھیں۔ایمان کو اندازہ تھا کہ وہ کیوں ہنس رہی ہیں۔اس لئے سر جھکا گئی۔

"صاحب زادے کا موڈ خراب ہو گیا ہے۔۔جاتے ہوئے غصے میں لگ رہا تھا۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ایمان کو اٹھا کر باہر لے جائے اور اپنا سارا غصہ اِس پہ اتار دے۔"

شمائلہ بیگم ہنسی روکتے ہوئے بولیں۔ان کی بات پہ ایمان نے فوراً شاہ گل کیطرف دیکھا۔

"لیکن ہم اسے یہ موقع نہیں دیں گے۔کتنے دنوں سے سحرش ایمان کو رات ان کی طرف رہنے کے لئے کہہ رہی تھی۔میں اور ایمان آج رات مظفر کی طرف رہیں گے۔۔کیوں ایمان۔۔۔؟؟"

شمائلہ بیگم سے کہتے کہتے انھوں نے ایمان سے پوچھا۔اس نے جھٹ اثبات میں سر ہلایا۔اس کے فوراً سے پیشتر سر ہلانے پر وہ دونوں مسکرا دیں۔

"چلو پھر دیر کس بات کی ہے۔"

شاہ گل اسے اشارہ کرتی بیڈ سے اُتر گئیں۔ایمان بھی بیڈ سے اُتر آئی تھی۔شمائلہ بیگم دونوں کی افراتفری دیکھ کر مسکرا دیں۔

       _________________________________________

وہ کمرے میں غصے سے یہاں وہاں چکر لگا رہا تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ شکار کب پکڑ میں آتا ہے۔آج رات کا ڈنر اس نے دوستوں کے ساتھ پلان کر رکھا تھا مگر اسکا موڈ سخت خراب ہو چکا تھا۔اس نے انھیں کال کر کے پروگرام کینسل کروا دیا تھا۔یہ بات اس کے لئے انسلٹنگ تھی کہ ماں اور دادی اس بات سے واقف تھیں کی وہ ایمان کے ساتھ اپنے اس رشتے کو قبول نہیں کر پایا تھا۔وہ تو ناچاہتے ہوئے بھی ایمان کو برداشت کر رہا تھا تاکہ گھر والوں کو ان کے بیچ کی اس  تلخی کی بِھنک بھی نہ پڑے۔اس کے نزدیک سارا قصور ایمان کا تھا۔وہی ہر وقت مظلوم شکل بنائے رکھتی تھی۔اسکی ظاہری صورت حال باہر کی سچویشن سے الگ نہیں تھی۔اب اسکا غصہ تبھی اترے گا جب وہ غصے سے بھرا کٹورا ایمان پہ خالی نہ کر دے۔وہ کمرے میں ٹہل ٹہل کر اسی کا انتظار کر رہا تھا۔مگر وہ کمرے میں نہیں آئی۔پھر ڈنر کے دوران بھی ایمان اسے دکھائی نہیں دی تھی۔ڈنر کے بعد واپس کمرے میں آنے تک اسکا غصہ سوانیزے پر پہنچ چکا تھا۔ڈنر کے بعد ایمان اسکے لئے دودھ کا گلاس لایا کرتی تھی۔کمرے میں واپس آنے کے بعد وہ اسی انتظار میں تھا مگر دروازے سے شگفتہ کو اندر آتے دیکھ کر غصے سے سرخ ہوتی آنکھوں سے اب خون چھلکنے لگا تھا۔شگفتہ نے جھٹ پٹ ٹرے ٹیبل پہ رکھا اور تیزی سے کمرے سے چلی گئی۔وہ اسے روک کر ایمان کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا مگر الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔اس نے دودھ کا گلاس خالی کیا اور کمرے سے نکل آیا۔اسکا رخ کچن کی جانب تھا۔لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی۔کچن سے کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں۔

"اچھا تو بلی یہاں چھپی بیٹھی ہے۔"

وہ مسکرایا۔۔مگر کچن میں قدم رکھتے ہی مسکراتے لب سکڑ گئے۔کچن میں ایمان کی بجائے شگفتہ برتن دھو رہی تھی۔

"جی صاحب۔۔کچھ چاہئیے آپکو؟"

شگفتہ بھی اسے دیکھ چکی تھی۔اس لئے ہاتھ دھو کر دوپٹے سے پونچتی ہوئے بولی۔

"نہیں۔۔۔وہ کمرے سے بھی برتن لے جاؤ۔"

مزید کچھ کہے بنا وہ پلٹ کر جانے لگا۔

"جی۔۔۔"

وہ دُھلے ہوئے برتن سائیڈ پہ کرتے ہوئے بولی۔

"ایمان کہاں ہے؟"

اس سے پہلے کہ وہ کچن سے نکلتی غزنوی نے پوچھا۔

"چھوٹے صاحب وہ تو شاہ گل کے ساتھ مظفر صاحب کیطرف گئی ہیں۔سحرش بی بی آ کر لے گئی تھیں انھیں۔"

یہ کہہ کر شگفتہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔غزنوی جو پہلے ہی غصے میں تپا ہوا تھا یہ سُن کر تو آگ بگولا ہو گیا اور اسی غصے میں بناء سوچے سمجھے بیرونی دروازے کیطرف بڑھ گیا۔اسکا رخ مظفر احمد کے پورشن کیطرف تھا۔ان کے پورشن میں داخل ہونے سے پہلے اس نے خود کو ریلیکس کیا اور پھر اندر داخل ہوا۔لاؤنج میں مظفر صاحب بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔انھوں نے غزنوی کو لاؤنج میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔انہوں نے مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پکڑا دُھواں اڑاتا کپ ٹیبل پہ رکھا۔

"السلام و علیکم چاچو۔۔"

غزنوی ان کے قریب آیا۔

"واعلیکم السلام برخوردار آج یہاں کا راستہ کیسے بُھلا دیا۔"

وہ دونوں بغلگیر ہوئے۔

"کچھ خاص نہیں چاچو بس ذرا ایمان سے کام تھا۔"

انھوں نے اپنی جگہ سنبھالی تو وہ بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"خیریت تو ہے نا بیٹا۔۔۔اس وقت۔۔؟"

انہوں نے پوچھا۔

"جی چاچو۔۔۔سب ٹھیک ہے۔۔بس ایک ضروری فائل اسے دی تھی۔وہ مجھے مل نہیں رہی۔"

غزنوی نے جلدی سے بہانا بنایا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔وہ تو شاید سحرش کے کمرے میں ہوگی اور اماں جی تو دوا لے کر ابھی سوئی ہیں۔"

مظفر صاحب نے ٹیبل پہ رکھا کپ اٹھا لیا تھا اور گھونٹ گھونٹ پینے لگے تھے۔

"نہیں چاچو آپ اسے یہیں بُلا دیں۔میں باہر انتظار کر رہا ہوں۔"

وہ یہ کہہ کر رکا نہیں اور تیز تیز قدم اٹھاتا لاؤنج سے نکل گیا۔مظفر صاحب نے ملازمہ سے کہہ کر ایمان کو بلوایا۔

"کہاں ہیں ظفر چاچو۔۔؟"

وہ لاؤنج میں آئی تو وہاں سوائے شریفاں کے کوئی نہیں تھا جو ٹیبل پہ دھرا خالی کپ اٹھا رہی تھی۔

"وہ جی۔۔باہر چھوٹے صاحب آئے ہیں۔آپ کو بلا رہے ہیں۔۔۔باہر لان میں ہیں۔"

شریفاں کچن کیطرف بڑھی۔

"کون چھوٹے صاحب؟"

ایمان نے حیرانی سے پوچھا۔شریفاں نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا۔اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا غزنوی آیا ہوگا۔

"غزنوی صاحب۔۔۔باہر ہیں۔"

شریفاں تو پلٹ گئی مگر اسکے چہرے کا رنگ اڑنے میں ایک پل سے بھی کم وقت لگا۔ٹانگوں نے چلنے سے انکار کر دیا۔

"کیا ہوا ایمان۔۔بابا کیا کہہ رہے تھے؟"

سحرش اسکے پیچھے آئی تھی۔

"وہ۔۔۔باہر۔۔۔۔؟"

ایمان نے بیرونی دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔سحرش اسے یوں گھبراتا دیکھ کر پریشان ہو گئی تھی۔

"تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو۔"

سحرش نے اسے بٹھایا۔اسکی اڑی رنگت اسے پریشان کیے دے رہی تھی۔

"سحرش آپی۔۔۔وہ باہر غزنوی آئے ہیں اور مجھے بلا رہے ہیں۔آپ پلیز ان سے جا کر کہہ دیں کہ میں سو چکی ہوں۔پلیز آپی۔۔"

اس نے سحرش کے ہاتھ تھام لئے اور لجاجت آمیز انداز میں بولی۔

"مگر کیوں۔۔جاؤ جا کر دیکھ لو کیا کہہ رہا ہے بلکہ ٹھہرو میں تمھارے ساتھ چلتی ہوں۔"

سحرش اسکا ہاتھ تھامے باہر کی طرف بڑھنے لگی۔

"نہیں نا آپی۔۔وہ بہت غصے میں ہونگے۔مجھے ڈانٹے گے۔ان کی ڈانٹ سے بچانے کے لئے ہی تو شاہ گل مجھے یہاں لائی ہیں۔آپ خود جا کر کہہ دیں نا پلیز۔۔میری پیاری آپی۔۔"

ایمان باہر جانے کو تیار نہیں تھی۔وہ چاہتی تھی کہ سحرش جا کر غزنوی سے کہہ دے۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔تم۔یہاں رکو۔۔۔میں کہتی ہوں اس سے۔۔اتنی گھبرا کیوں ہو رہی ہو پاگل۔۔بیٹھو تم۔"

سحرش اسے لاؤنج میں رکنے کا کہہ کر باہر آ گئی۔

"کیا بات ہے غزنوی۔۔اس وقت۔۔؟"

وہ لاؤنج میں ان کی جانب پشت کیے کھڑا تھا۔موسم کافی حد تک تبدیل ہو گیا تھا۔ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا موسم کی خنکی کو بڑھا رہی تھی۔وہ اسکی طرف پلٹا۔

"آپی وہ ایمان سے بات کرنی تھی۔"

ایمان کی بجائے سحرش کو اپنے سامنے موجود پا کر ایک بار پھر سے اسکے اندر ابال اٹھنے لگا۔

"وہ تو سو رہی ہے۔۔تم صبح بات کر لینا۔"

سحرش نے اسکے چہرے پہ غصہ ٹٹولتے ہوئے کہا۔سحرش کو وہ قطعی غصے میں نہیں لگ رہا تھا۔

"اچھا میں خود اس سے مل لیتا ہوں۔"

اس سے پہلے کہ وہ اسے روکتی وہ تیزی سے اندر کیطرف بڑھا۔سحرش باہر ہی رک گئی اسے غزنوی کے پیچھے اندر جانا مناسب نہیں لگا تو وہ لان میں کین کی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی۔

"مجھے آج پتہ چلا کہ تم ٹہل ٹہل کر سوتی ہو۔"

وہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ رہی تھی کہ غزنوی کی آواز پہ پلٹ کر دیکھا تو وہ لاؤنج کے بیچوں بیچ کھڑا اسے گھور رہا تھا۔آواز میں دبا دبا غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ایمان سے تو ایک قدم بھی نہ لیا گیا۔۔ایک تو وہ اس پہ غصہ تھا اور اب اسکا جھوٹ بھی پکڑا گیا تھا۔

"نیچے آؤ۔۔۔"

غزنوی نے وہیں کھڑے کھڑے اسے بلایا مگر وہ وہیں کھڑی رہی۔اسکی ہمت ہی نہیں پڑ رہی تھی قدم اٹھانے کی۔

"سنا نہیں تم نے۔۔۔"

وہ آواز بلند نہیں کر سکتا تھا ورنہ اسکا غصہ تو اپنی حد پار کر چکا تھا۔اس سے پہلے کہ وہ اسکے سر پہ پہنچتا وہ اسکی طرف بڑھی۔ایمان کے دل کی دھڑکن اسکے اٹھتے قدموں کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔

"اگر اگلے دس منٹ میں تم کمرے میں نہ پہنچی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

ابھی وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھی کہ غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ جھٹکے سے قریب کیا۔وہ توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور اسکے سینے سے آ لگی۔ایمان کو اسکی انگلیاں اپنے بازو میں پیوست ہوتی ہوئی محسوس ہوئی تھیں۔۔وہ اسکی پھٹی پھٹی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہہ رہا تھا۔

"سنا تم نے۔۔۔؟"

غزنوی نے اسے ایک اور جھٹکا دیا مگر اپنی گرفت سے نکلنے نہیں دیا تھا۔

"جی۔۔۔"

وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی۔

"صرف دس منٹ۔۔"

غزنوی نے اسے جھٹکا دے کر چھوڑا تھا۔وہ صوفے سے ٹکرائی تھی جبکہ غزنوی واپس پلٹ گیا۔وہ بھی اسکے پیچھے لپکی تھی۔

"ارے ارے ایمان۔۔کہاں جا رہی ہو۔۔غزنوی تو چلا گیا ہے۔"

سحرش نے ایمان کو غزنوی کے پیچھے جاتے دیکھ کر روکا تھا۔

"وہ کہہ رہے تھے گھر آؤ۔"

ایمان نے بیرونی دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے وہ نکل کر گیا تھا۔

"مگر اس وقت۔۔۔۔صبح چلی جانا۔"

سحرش نے اسے روکنے کی کوشش کی۔

"نہیں سحرش آپی۔۔کچھ کام ہے۔۔نہیں کیا تو غصہ ہو جائیں گے۔۔میں چلتی ہوں آپ شاہ گل کو بتا دینا۔"

اسے یہی بہانا بہتر لگا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔"

سحرش ہونٹوں پہ دبی دبی مسکراہٹ لئے واپس مڑ گئی۔ایمان اپنی پریشانی میں سحرش کی نگاہوں کی معنی خیزی نہ بھانپ سکی۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتی بیرونی گیٹ پار کر گئی۔ 

گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سیدھی اپنے کمرے کی طرف بڑھی۔دروازے پہ دستک دینے کے بعد جب کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو وہ اندر داخل ہو گئی۔گہری خاموشی نے اسکا استقبال کیا تھا۔غزنوی سامنے سامنے بیڈ پہ نیم دراز اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔اسے اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے پلٹ کر دروازہ بند کیا اور بناء اسکی طرف دیکھے صوفے کی طرف قدم بڑھائے۔غزنوی بیڈ سے اترا اور اگلے ہی لمحے وہ اسکے سامنے کھڑا تھا۔

"بہت شوق ہے نا تمھیں دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا۔۔"

اس نے ایک بار پھر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے اور اس کے بیچ کے فاصلے کو گم کیا۔

"مم۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں چاہا۔"

وہ نظریں جھکائے بولی اور اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی۔

"میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم کیا کرتی ہو اور کیا نہیں۔"

اسکے دونوں بازوں پہ غزنوی کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔

"مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔پلیز چھوڑیں۔"

ایمان کی آنکھوں میں نمی ڈولنے لگی تھی۔

"اپنی اوقات میں رہو۔۔میری فیملی کو میرے خلاف کرنے کا خیال دل سے نکال دو اور نہ ہی ایسی کوئی کوشش کرنا ورنہ میں کوئی بھی فیصلہ کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاؤں گا۔"

غزنوی نے جھٹکا دے کر اسے چھوڑا۔

"سی۔۔۔"

آہ۔۔۔!"

وہ سنبھل نہ سکی اور اسکا ماتھا ٹیبل کے کونے سے ٹکرایا۔ایک لمحے کو تو اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔سر میں اٹھتی درد کی شدید لہر نے اسے اٹھنے نہ دیا۔بھوری خمار آلود آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئی تھیں۔ایک پل کو تو غزنوی کا دل بھی بھورے نینوں میں ڈوب گیا تھا مگر اگلے ہی پل دماغ کی سختی نے دل کی نرمی کو نگل لیا۔اس نے بغیر اسکی پرواہ کیے لائٹ آف کی اور بستر پہ دراز ہو گیا۔کمرے میں گُھپ اندھیرا تھا۔تیزی سے بہتے آنسوؤں نے چہرہ تر کر دیا تھا۔اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد آنکھیں اندھیرے سے کچھ مانوس ہوئیں تو وہ ٹیبل کے سہارے اٹھی اور صوفے پہ کشن سیدھا کر کے خاموشی سے لیٹ گئی۔کمرہ اس کی ہلکی ہلکی سسکیوں سے گونج رہا تھا مگر غزنوی اسکی مدھم سسکیاں سننے کے باوجود کان بند کیے لیٹا رہا۔رات دھیرے دھیرے بیتی جا رہی تھی۔اس کی خوبصورت آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہ تھا جبکہ غزنوی کب کا سو چکا تھا۔سر تلے دھرا کشن اسکے آنسوؤں سے بھیگتا جا رہا تھا۔پھر رات کا نجانے کون سے پہر تھا جب نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔                                ______________________________________________

وہ صبح اٹھا تو کمرے میں دبیز پردوں کے باعث تاریکی کا راج تھا۔آج اتوار کا دن تھا۔گھڑی پہ نگاہ گئی تو دس بج رہے تھے۔اس نے بیڈ سے اتر کر ٹیوب لائٹ آن کی اور الماری سے کپڑے لے کر واش روم کیطرف بڑھ گیا۔فریش ہو کر باہر آیا تو صوفے پہ لیٹی ایمان پہ اسکی نظر گئی۔سینے تک چادر اوڑھے وہ خود سے بےخبر تھی۔رات کا واقعہ کسی فلم کیطرح اسکی آنکھوں کے آگے گھوم گیا تھا۔اسے اپنے سخت رویے پہ افسوس ہوا لیکن پھر اگلے ہی لمحے سر جھٹک کر وہ ڈریسنگ ٹیبل سے برش اٹھا کر بال برش کرنے لگا۔بھوک محسوس ہوئی تو ایک بار پھر سوئی ہوئی ایمان پہ نظر گئی۔

"یہ کیوں اب تک سو رہی ہے؟؟"

وہ ایک بار پھر گھڑی پہ نظر ڈالتے ہوئے خود سے بولا اور ایمان کیطرف بڑھا۔

"اوئے اٹھو۔۔"

اس نے قدرے بلند آواز میں ایمان کو پکارا۔۔اسے اپنا لہجہ عجیب سا لگا۔ایمان کے وجود میں ذرا سی بھی جُنبش نہیں ہوئی۔گلابی چوڑیوں سے سجی کلائی اسکی توجہ اپنی طرف مبذول کر گئی۔اسے یاد آیا کہ وہ جس رنگ کا لباس زیب تن کرتی تھی اسی رنگ کی چوڑیاں بھی اسکی کلائیوں میں سجی رہتی تھیں۔وہ چوڑیوں پہ نظر جمائے سوچ رہا تھا کہ کل ایمان نے جامنی رنگ کی چوڑیاں پہنی تھیں۔اس سے پہلے سرخ، اس سے پہلے بلیک اور اس سے پہلے آسمانی رنگ کی۔۔

"لاحول ولاقوة۔۔"

اس نے فوراً سر جھٹکا۔اسے خود پہ حیرانی ہوئی تھی کہ وہ بےخبری میں اسے نوٹ کر رہا تھا۔اب اسکی نظریں ایمان کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں۔سوجی آنکھیں رات بھر خود پہ گزری تکلیف کی کہانی بیان کر رہی تھیں۔گلابی ہونٹ سرخی مائل تھے۔غزنوی نے کچھ سوچ کر اسکے ماتھے کو ہلکے سے چُھوا جو تپ رہا تھا۔

"ایمان۔۔!"

غزنوی نے ایک بار پھر اسے پکارا تھا مگر اسکے سوئے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔لمبی خم دار پلکیں بےحرکت تھیں اور بخار کی حدت سے رخسار بھی سرخ ہو رہے تھے۔

"ایمان۔۔۔"

غزنوی اس پہ جھکا اسکا بازو ہلا رہا تھا۔ایمان کو بازو پہ ہلکا سا دباؤ محسوس ہوا تو اس نے فورا آنکھیں کھول دیں۔اس نے دیکھا غزنوی اس پہ جھکا اسے بغور دیکھ رہا تھا۔پہلے تو ایمان اسے یوں دیکھ کر حیران ہوئی اور پھر اگلے ہی لمحے پریشان۔۔وہ فورا اٹھ کر پیچھے ہوئی۔۔پھرتی سے نیچے گرا ڈوپٹہ اٹھا کر اوڑھا۔مگر دوسری جانب تو کوئی اور ہی معاملہ تھا۔غزنوی کی نظریں اسکی خم دار پلکوں میں اڑ گئی تھیں اور واپسی بھول بیٹھی تھیں۔وہ بھول گیا تھا کہ اس وقت وہ کہاں موجود تھا اور کیا کر رہا تھا۔ایمان نے اسے یوں محو انداز میں خود پہ نظریں گاڑھے دیکھا تو نظروں کا رخ پھیر لیا۔غزنوی کا دل چاہا کہ وہ اسکی اٹھتی گرتی پلکوں کو چھو کر محسوس کرے مگر ایمان کے نگاہیں پھیر لینے سے جیسے وہ ہوش میں آ کر فورا سیدھا ہوا۔اس دوران کمرے میں صرف چوڑیوں کی کھنک کی آواز تھی۔

"تمھیں بخار ہے۔۔تم۔وہاں بیڈ پہ لیٹ جاؤ۔۔میں تمھارے لئے میڈیسن لے کر آتا ہوں۔"

وہ دھیرے سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے اسکے جانے کے بعد اسکی ہدایت پر فورا عمل کیا۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ شمائلہ بیگم یا عقیلہ بیگم میں سے کوئی بھی اسے اس طرح صوفے پہ لیٹا دیکھے۔پچھلی بار تو وہ بےچینی کا بہانا بنا کر خود کو ملائکہ کے سوالات سے بچا گئی تھی مگر اس بار وہ ان سے کوئی بہانا نہیں بنا پائے گی اور اوپر سے غزنوی کا غصہ۔۔اس لئے وہ خاموشی سے اسکی ہدایت پہ عمل کرتی سر تک کمبل اوڑھے ہوئی تھی۔تھوڑی دیر بعد اسے دروازہ کھلنے اور پھر بند ہونے کی آواز آئی۔

"ایمان بی بی۔۔۔"

شگفتہ کی آواز سن کر اس نے کمبل سرکایا۔شگفتہ ہاتھ میں ٹرے لئے اس کے قریب کھڑی تھی۔وہ اٹھ کر بیٹھی۔

"ہائے بی بی جی آپکی آنکھیں تو بڑی سوجی ہوئی ہیں۔۔کیا ساری رات روتی رہی ہیں جی۔۔؟"

شگفتہ نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھی اور اسکا معائنہ کرتے ہوئے بولی۔

"طبیعت خراب رہی ساری رات۔۔بخار کی وجہ سے ٹھیک سے سو نہیں سکی۔"

وہ سُوجے پپوٹوں کو انگلیوں سے دباتے ہوئے بولی تھی۔

"پر آپ تو شاہ گل کے ساتھ مظفر صاحب کی طرف گئی تھیں۔۔یہاں کب آئیں؟؟ کیا صبح صبح آئی ہیں؟"

وہ اسکا سُتا سُتا چہرہ بغور دیکھ رہی تھی۔ایمان سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔

"تمھیں میں نے یہاں دوا دینے بھیجا تھا یا انٹرویو لینے۔"

غزنوی کی آواز پہ دونوں نے دروازے کی جانب دیکھا۔وہ کھا جانے والی نظروں سے شگفتہ کو دیکھ رہا تھا۔اسے شگفتہ کی ٹوہ لینے والی عادت کا علم تھا۔

"وہ جی۔۔میں تو بس یونہی۔۔"

اس نے پلٹ کر ٹرے ایمان کے قریب رکھا۔

"چلو نکلو یہاں سے اور ناشتہ لاؤ میرے لئے۔۔"

وہ صوفے کی طرف بڑھا۔شگفتہ فورا کمرے سے نکلی۔اس کے جانے کے بعد وہ صوفے سے اٹھ کر اسکے پاس آیا جبکہ وہ نظریں جھکائے سلائس ہاتھ میں پکڑے کھا رہی تھی۔اُس میں غزنوی کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں تھی۔

"جلدی سے ناشتہ کرو اور پھر یہ میڈیسن لے لینا۔"

وہ پلٹ تو گیا تھا مگر ایمان مسلسل اسکی نگاہیں خود پہ محسوس کر رہی تھی۔جب تک اسکا ناشتہ نہیں آیا وہ اسکا مطالعہ کرنے میں مصروف رہا۔تھوڑی دیر بعد شگفتہ اسکا ناشتہ لے آئی تو وہ ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گیا۔وہ دوا کھا کر لیٹ گئی تھی اور ایک بار پھر سے کمبل سر تک تان گئی۔

شادی کی تیاریاں زور شور سے جاری تھیں۔شمائلہ بیگم نے ایمان کو کچھ پیسے دیئے تاکہ وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ جاکر اپنی پسند سے شاپنگ کر لے۔تمام لڑکے بھی مری سے واپس آچکے تھے اور ایمان سے مل کر بیک وقت حیران اور خوش ہوئے تھے چونکہ وہ سب یہاں نہیں تھے اس لئے ایمان کے بارے میں انہیں معلوم نہیں تھا اور اب جب انھیں معلوم ہوا تو انھوں نے غزنوی کا خوب ریکارڈ لگایا تھا۔غزنوی بھی جہاں کہیں انہیں اکٹھے دیکھتا وہیں سے واپس ہو لیتا تھا۔خاص طور پر طٰہٰ اور احد تو غزنوی کی جان ہی نہیں چھوڑتے تھے

جہاں کہیں وہ نظر آجاتا اس کے سر پر پہنچ جاتے اور پھر اتنا تنگ کرتے کہ غزنوی کو وہاں سے بھاگنا پڑتا۔غزنوی کی ڈانٹ کا بھی ان پر کوئی اثرنہ ہوتا تھا۔مصطفی اور ہادی کی شادی میں اعظم احمد نے بڑوں کے صلاح مشورے سے غزنوی اور ایمان کے ولیمے کا فنکشن بھی رکھا تھا۔غزنوی نے سنا تو بہت اچھل کود کی مگر یہ سب بڑوں کا متفقہ فیصلہ تھا اس لئے اس کی کسی نے نہیں سنی۔ایمان بھی یہ سن کر گھبراہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ساری لڑکیاں ہر دم اسے گھیرے رکھتی تھیں خاص طور پرخہ اور ملائکہ۔۔انھیں معلوم تھا کہ وہ تھوڑی گھبراہٹ کاشکار ہو رہی ہے۔اسی لئے وہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آتی تھیں۔شمائلہ بیگم نے اسے الگ سے ولیمے کے فنکشن کی شاپنگ کروائی تھی۔غزنوی نے اس دن کے بعد سے اس کے پاس بھی پھٹکنا چھوڑ دیا تھا۔وہ جہاں موجود ہوتی وہ وہاں سے اٹھ کر چلا جاتا۔شمائلہ بیگم اورشاہ گل نے بھی یہ سوچ کر اسے اسکے حال پہ چھوڑ دیا تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔

ان کے لئے یہی بہت تھا کہ غزنوی نے ایمان کو چھوڑنے کی بات نہیں کی تھی۔شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے اور ایمان کی بےچینی میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔عقیلہ بیگم نے ڈھولکی اپنے پورشن میں ہی رکھوائی تھی۔شام کے بعد وہ ساری وہیں اکٹھی ہو کر ایک ہنگامہ برپا کیے رکھتی تھیں۔جہاں کہیں لڑکیاں ہوتی وہیں شرارتی لڑکے بھی آ دھمکتے تھے اور جو بھی گانا وہ گاتی تھیں اس میں اپنی ٹانگ اڑا کر گانے کا تیاپانچہ کر دیتے تھے۔اس وقت بھی ان سب نے عقیلہ بیگم کےکمرے کو گانوں کا اکھاڑا بنا رکھا تھا۔

"اسٹاپ اسٹاپ۔۔۔یار کوئی اور گانا گاتے ہیں۔"

عنادل نے دونوں ہاتھوں اٹھا کر انھیں روکا۔

"کون سا گانا۔۔؟"

لاریب اور عائشہ نے عنادل کو گُھوری سے نوازا جو اپنے پسندیدہ گانے کو تو یوں گاتی جیسے گانے کی اصل گلوکارہ وہی ہو۔۔۔لیکن اگر کوئی دوسرا اپنی پسند کے سُر لگانے کی کوشش کرے تو اسٹاپ اسٹاپ کہہ کر انھیں روک دیتی۔وہ ساری عنادل کی اس حرکت پہ اسے صرف گُھورنے پہ اکتفاء کرتیں۔

"کوئی بہت اچھا سا۔۔۔میری پسند کا۔۔جیسے۔۔"

وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گئی اور باقی سب اسکی گانوں کی پوٹلی کھلنے کی منتظر تھیں۔ایمان بھی ان کے بیچ موجود یہ سب بہت انجوائے کر رہی تھی۔

"جیسے۔۔۔۔؟"

ملائکہ نے پوچھا۔

"جیسے۔۔۔دل دیاں گلاں کراں گے نال نال۔۔"

عنادل آنکھیں بند کر کے شروع ہو چکی تھی۔

"اوئے۔۔اوئے۔۔۔خدا کو مانو عنادل۔۔اُس وقت سے کوئی دس مرتبہ تم یہ گانا گا چکی ہو۔۔لگتا ہے آج تمھارا دل دیاں گلاں ڈے ہے۔"

ارفع چڑ گئی اور بہن کے آسمان کو چھوتے سُروں کو نیچے اتارا۔

"تو۔۔۔"

عنادل نے اپنے مخصوص انداز میں ہونٹوں کو گول کیا۔

"بارہ منٹ بھی لگتا ہے اب نہ تیرے بن رہ پاؤں گا میں۔۔

ڈِھنکا چِھکا، ڈِھنکا چھکا۔۔۔۔۔۔"

ملائکہ نے ان سب کے خاموش ہونے کا فائدہ اٹھایا اور پھر اگلے ہی پل سبھی اسکے ساتھ ہم آواز ہو کر گا رہی تھیں۔۔ساتھ ہی ساتھ ہنسنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

سحرش جو ان سے تھوڑا پرے بیٹھی اپنے ڈوپٹے میں گوٹہ لگانے میں مصروف تھی۔۔۔ملائکہ کو دیکھ کر ہنس دی۔پرخہ بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی۔عقیلہ بیگم بھی وہیں موجود مسکرا کر اُن سب کو دیکھ رہی تھیں اور خیرن بوا تھوڑی تھوڑی دیر بعد سحرش کو ٹوک کر گوٹہ لگوا رہی تھیں۔شمائلہ بیگم ابھی ابھی چائے لے کر کمرے میں داخل ہوئیں تھیں۔

"اے لڑکیو۔۔! یہ کیا ڈھنکا چھکا، ڈھنکا چھکا لگا رکھا ہے۔توبہ توبہ یہ آج کل کے گانے۔۔"

خیرن بوا نے گوٹہ کناری چھوڑ کر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ان کے انداز پہ سبھی کھلکھلا کر ہنس دیں۔

"ایک ہمارا زمانہ تھا۔۔ہائے۔۔۔ایسے میٹھے سُریلے گانے کہ اگر کوئی سُریلانہ بھی ہوتا تو گانے کا مزا کرکرا نہیں ہوتا تھا اور اب دیکھو یہ موا ڈھنکا چھکا۔۔بَلا پڑے اس ڈھنکے چھکے پہ۔"

خیرن بوا کی بات سن کر سبھی کا قہقہہ گونج گیا۔

"ائے لو۔۔۔ان کی ہنسی ٹھٹول دیکھو۔۔ہمارے وقتوں میں ہر شادی کے گانے میں دلہن کے لئے نصیحت ہوتی تھی۔ائے وہ کیا تھا۔۔ہاں۔۔جا کے سسرال گوری میکے کی لاج رکھنا۔۔"

خیرن بوا نے ایک لمحہ سوچا اور پھر گنگنانے لگیں۔ان کی ہلکی سی کپکپاہٹ لئے آواز حاضرین محفل کے چہروں پہ مسکراہٹ لے آئی۔

"صحیح کہتی ہو خیرن۔۔بڑا ہی خوبصورت دور تھا اور شادیوں میں تو خوب مزا ہوتا تھا۔"

عقیلہ بیگم نے بھی پرانے دور کو یاد کر کے گہری سانس خارج کی۔

"بوا آج کل ماڈرن زمانہ ہے۔۔پرانے وقتوں کے میٹھے گانے آج کل کے تیز دور میں کہیں کھو سے گئے ہیں۔"

شمائلہ بیگم سبھی کو چائے سرو کرتی ہوئی بولی تھیں۔

"سولہ آنے کھری بات کہی تم نے دلہن۔"

خیرن بوا نے کپ ان کے ہاتھ سے لے لیا۔

"آج کل لوگ ایسے ہی گانے گاتے بھی ہیں اور سنتے بھی ہیں۔"

شمائلہ بیگم مزید بولیں جبکہ باقی سب ایک بار پھر سے ڈھنکا چھکا کی ٹوٹی ٹانگوں کا مزید کچومر بنانے میں لگ گئیں اور ساتھ ساتھ ہنستی بھی جا رہی تھیں۔

"لو پھر شروع ہو گئیں۔"

خیرن بوا نے اپنی ٹھوڑی پہ انگشت شہادت جمائی۔

"ارے بوا آپ کو پتہ نہیں ہے ملائکہ تو شادی میں اس گانے پہ ڈانس بھی کرے گی۔"

لاریب نے ہنستے ہوئے ملائکہ تو ٹہوکا دیا۔

"اے ہے ملائکہ۔۔۔توبہ کر۔۔تجھے کچھ اور نہیں ملا کیا۔"

خیرن بوا نے ملائکہ کو دیکھا۔

"بوا یہ لاریب جھوٹ بول رہی ہے۔"

ملائکہ نے لاریب کو چٹکی کاٹی۔

"کون جھوٹ بول رہا ہے؟"

مرتضی ہاتھ میں شاپنگ بیگز پکڑے کمرے میں داخل ہوا اور شاپرز ملائکہ کے پاس رکھتے ہوئے قریب ہی بیٹھ گیا۔

"مرتضی بھائی آپکو بڑا شوق ہے ہر کام میں ٹانگ اڑانے کا۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"

ملائکہ نے مرتضی کو ٹٹولتی نظروں سے دیکھا۔

"چھپکلی میں تو صرف پوچھ رہا ہوں کہ کون جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔دراصل میں آجکل جھوٹ بولنے والے لوگوں پر رسرچ کر رہا ہوں اور میرا ارادہ ہے تمھیں اپنی اسسٹینٹ بنا لوں۔"

مرتضی نے لاریب کی جانب کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے ملائکہ کو اشارہ کیا۔

"آ۔۔۔۔۔اچھا۔۔۔یہ رہا آپ کا پہلا ٹارگٹ۔"

ملائکہ نے لاریب کو بازو سے پکڑا جو فائقہ سے ڈھولکی چھیننے کیلئے پورا ذور لگا رہی تھی جبکہ فائقہ ڈھولکی دینے کے لئے قطعی تیار نہیں تھی۔

"ہائے یہ تو جتنا جھوٹ بول لیں ان کی چنی چنی آنکھوں میں ہمیں سچ دِکھ ہی جاتا ہے۔"

مرتضی نے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے ملائکہ سے کہا۔

"او۔۔ہو۔۔۔۔۔"

ملائکہ ہنسنے لگی اور لاریب مرتضی کی بات سن کر اسکی جانب مڑی تھی۔

"کس کی آنکھیں چُنی چُنی ہیں۔"

لاریب آستین اونچی کرتے ہوئے مرتضی کی طرف بڑھی۔

"آئینہ نہیں دیکھا کیا۔"

مرتضی نے ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔

"مرتضی بھائی۔۔۔۔۔۔"

لاریب نے اسے آنکھیں دکھائیں۔

"خدا کو مانو لڑکی۔۔۔میں کسی کا بھائی نہیں ہوں اور تمھارا تو بالکل نہیں ہوں۔"

آخری جملہ اس نے دھیمی آواز میں لاریب کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا تھا۔اسکی بولتی آنکھیں لاریب کو رخ پھیرنے پر مجبور کر گئیں۔وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"میرے دل کا تم سے ہے کہنا

بس میرے ہی رہنا

نہیں تو

سمجھے۔۔۔۔۔۔"

لاریب ارفع کی طرف متوجہ ہوئی جو گلے پہ چھری پھیرنے کے سےانداز میں گا رہی تھی۔اگلے لمحے اسکی آواز بھی ان سب کی آوازوں میں شامل ہو گئی تھی۔

_______________________________________


"کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟"

اعظم احمد نے دروازے سے جھانکا اور وہ جو کسی فائل میں گم تھا ان کی جانب دیکھ کر مسکرا دیا۔

"آپ کو اجازت کی کیا ضرورت ہے؟"

فائل چھوڑ کر وہ ان کے خیر مقدم کے لئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"کہہ تو ٹھیک رہے ہو برخوردار۔۔"

انھوں نے اس کے لئے اپنے بازو وا کیے۔وہ ہنستے ہوئے ان سے بغلگیر ہوا۔

"کہو میاں کیسا چل رہا ہے سب کچھ؟"

وہ اسکے کندھے پہ بازو دھرتے اسے ساتھ لئے صوفے کی جانب بڑھے۔

"سب ٹھیک ہے داجی۔۔۔"

اس نے مختصراً جواب دیا۔

"ایسا لگ تو نہیں رہا۔۔"

انھوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"کیا مطلب داجی میں سمجھا نہیں۔۔سب ٹھیک چل رہا ہے۔"

اسے ان کے چہرے پہ دِکھتے سوال سمجھ نہیں آ رہے تھے۔

"اگر سب ٹھیک ہے تو تم اسلام آباد میں اپنا کاروبار شروع کرنے کا کیوں سوچ رہے ہو۔"

وہ جس بات کے لئے آئے تھے وہ انھوں نے شروع کی۔ان کی بات سن کر اس کے مسکراتے لب ساکت ہو گئے۔

"داجی اس میں حرج کیا ہے؟"

اس نے ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"میں کب کہہ رہا ہوں بیٹا جی کہ کوئی حرج ہے۔۔حرج تو صرف اس بات کے دوسرے اینگل میں ہے اور وہ یہ کہ اسلام آباد میں کیوں۔۔۔یہاں کیوں نہیں۔۔کیا تم پرائیوسی چاہتے ہو۔۔؟"

اعظم احمد نے اپنے لہجے کو نرم رکھا ورنہ انھیں یہ بات قطعی پسند نہیں آئی تھی۔

"نہیں داجی۔۔۔پرائیوسی کیوں چاہوں گا میں۔۔میرے ساتھ ایک فرینڈ بھی ہے۔وہ اسلام آباد میں رہتا ہے۔ہم دونوں مل کر اپنا بزنس شروع کرنا چاہتے ہیں اور ویسے بھی کچھ وقت کی بات ہے، میں آتا جاتا رہوں گا۔"

اس نے ان کی جانب دیکھنے سے گریز کیا۔کیونکہ ان کی آنکھوں میں دیکھکر جھوٹ بولنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔ان سب سے دور جا کر رہنا اس کے لئے بھی مشکل تھا مگر وہ بھاگنا چاہتا تھا۔تین چار دن سے اس کے اندر ایک شور سا برپا تھا اور وہ اس شور سے دور جانا چاہتا تھا۔جہاں اسے اس محبت کی پکار سنائی نہ دے جو ہر پل اسے سنائی دیتی تھی۔وہ اس چلتے پھرتے وجود سے بھاگنا چاہتا تھا جو اسکی ضد کے سامنے کھڑا تھا۔

"تو تم نے فیصلہ کر لیا ہے؟"

اعظم احمد کا سنجیدہ لہجہ اسے سوچ کی گہری کھائی سے باہر کھینچ لایا۔اس نے ان کی جانب دیکھا۔

"جی۔۔۔کُمیل نے آفس کے لئے بلڈنگ بھی دیکھ لی ہے۔مجھے ایک دو دن میں نکلنا ہے۔"

وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔

"مگر یہاں کیا حرج ہے۔۔ہم سے دور جانا مقصود ہے کیا۔۔یہیں شروع کر لو بزنس۔۔شراکت میں بعد میں بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔یہاں ہم سبھی ہیں، تمھارے بابا، تایا اور چچا۔۔سبھی ہیلپ فل رہیں گے۔"

انھوں نے اسے قائل کرنے کی کوشش کی۔

"آپ سہی کہہ رہے ہیں داجی۔۔مگر میں اب کُمیل کے ساتھ معاہدہ کر چکا ہوں۔۔اب توڑ نہیں سکتا۔"

اس نے ایک بار پھر نظروں کا ذاویہ بدلا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔تم فیصلہ کر چکے ہو تو میں تمھیں روکوں گا نہیں کیونکہ میں اپنے بچوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ تمھارا عہد ٹوٹے۔۔تمھاری زبان ہماری زبان ہے۔۔"

انھوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور پھر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"شکریہ داجی۔۔"

وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔انھوں نے ایک دوستانہ مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی اور دروازے کیطرف بڑھ گئے۔

"لیکن شادی کے بعد چلے جانا۔۔ابھی فلحال روک دو اس کام کو۔۔"

اعظم احمد سست روی سے قدم اٹھاتے پلٹے تھے۔

"جی داجی۔۔ابھی صرف دو دن کے لئے جا رہا ہوں۔۔بس آپ ذرا بابا کو سنبھال لیں۔"

وہ اپنی کرسی کی طرف بڑھتے ہوئے بولا۔

"بےفکر رہو میں سمجھا دوں گا۔"

یہ کہہ کر وہ رکے نہیں اور اسکے کیبن سے نکل کر مکرم احمد کے کیبن کی طرف بڑھے۔وہ بنا اجازت اندر داخل ہوئےتھے۔مکرم احمد انہی کا انتظار کر رہے تھے۔

"آپ کو دیکھ کے لگ رہا ہے کہ وہ نہیں مانا۔"

مکرم احمد نے اعظم احمد کے سست قدموں سے اندازہ لگایا۔

"تمھارا اندازہ بالکل درست ہے۔۔وہ ٹھان چکا ہے کہ اسلام آباد ہی جائے گا۔میں چاہتا تو میں اس پہ دباو ڈال سکتا تھا مگر پھر رہنے دیا۔"

اعظم احمد نے ٹیبل پہ پڑا پیپر ویٹ اٹھا کر ہتھیلی پہ رکھا اور بغور اسے دیکھنے لگے۔

"مگر کیوں۔۔۔۔؟"

"میں ایک بار پہلے بھی اس پر اپنی مرضی تھوپ چکا ہوں اب مزید نہیں۔۔شوق پورا کر لینے دو اسے اپنا۔۔"

انھوں نے پیپر ویٹ واپس ٹیبل پہ رکھا۔

"مگر بابا۔۔۔آپ نے کوئی غلط فیصلہ تو نہیں کیا تھا اسکے لئے۔۔ایمان بہت صابر بچی ہے۔اسے تو خوش ہونا چاہیئے کہ آپ نے اس کے لئے۔۔۔"

مکرم احمد کچھ کہنا چاہتے تھے مگر انھوں نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روک دیا۔

"گرم خون ہے۔۔کرنے دو ابھی اسے۔۔روکا تو ناراض ہو کر جائے گا۔میں نے بات کر لی ہے۔ابھی فلحال تو دو دن کے لئے جا رہا ہے پھر شادی کے بعد جائے گا۔بعد میں ہم بھی چکر لگاتے رہیں گے اور میرے ذہہن میں ایک اور بات بھی آئی تھی۔"

اعظم احمد نے کہا۔

"وہ کیا۔۔۔۔؟"

مکرم احمد نے پوچھا۔

"وہ یہ کہ اس طرح غزنوی اور ایمان کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔"

اعظم احمد نے جواب دیا۔

"شاید آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔دونوں ایک دوسرے سے کھچے کھچے سے رہتے ہیں۔"

مکرم صاحب نے پرسوچ انداز سے انھیں دیکھا۔

"ہاں میں بھی چاہتا ہوں کہ وہ دونوں ایک نارمل زندگی گزاریں۔میں نے انھیں اب تک ایک دوسرے سے نارمل انداز میں بات تک کرتے نہیں دیکھا۔حالانکہ دونوں حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ ان کے رشتے کا کھوکھلا پن ہمیں دکھائی نہ پڑے مگر۔۔۔۔خیر چھوڑو۔۔اللہ اپنا کرم کرے گا انشاءاللہ۔۔میں چلتا ہوں اب۔۔تم مزید اس سے اس بارے میں بات نہ کرنا۔"

وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور مکرم صاحب کے سر ہلاتے ہی ان کے آفس سے نکل آئے۔ان کا رخ آفس کی پارکنگ کی جانب تھا۔

__________________________________________


شادی کی شاپنگ تقریباً سبھی کی مکمل ہو چکی تھی۔اگلے ہفتے سے شادی کا باقاعدہ آغاز ہو جانا تھا۔کچھ کپڑے تیار ہوچکے تھے اور کچھ ابھی ٹیلر کے پاس تھے۔اس وقت وہ الماری میں استری شدہ کپڑے لٹکا رہی تھی کہ کوئی دروازہ کھول کر تیزی سے اندر آیا اور اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔غزنوی کے لباس سے اٹھتی اسکی مخصوص خوشبو نے اسے اپنے گھیرے میں لیا جبکہ وہ بناء کچھ کہے خاموشی سے اسکے پیچھے کھڑا تھا۔

ایمان اسکے یوں اپنے پیچھے کھڑے ہونے پہ بھول گئی تھی کہ وہ کیا کام کر رہی تھی۔کرنا کچھ چاہتی تھی اور ہو کچھ اور رہا تھا۔پلٹ کر دیکھنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔پھر جب وہ یونہی اسکے پیچھے کھڑا رہا تو اس نے ہمت کر کے بغیر مڑے پوچھ ہی لیا۔

"کوئی کام تھا؟"

"تم سے مجھے کیا کام ہو سکتا ہے۔"

وہ نہایت ہی سنجیدگی سے بولا۔

وہ سر ہلا کر واپس سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔غزنوی اسکی گھبراہٹ صاف محسوس کر رہا تھا۔وہ اس کے اس قدر قریب کھڑا تھا کہ اگر وہ پلٹتی تو اس سے ٹکرا جاتی اور اوپر سے الماری کے دونوں پٹ کھلے ہونے کی وجہ سے وہ سائیڈ سے نکل بھی نہیں سکتی تھی۔شہد رنگ سلکی بالوں کی اونچی سی پونی ٹیل بنائے، جو جھکنے کی وجہ سے آگے کی جانب آ گئے تھے۔۔صراحی دار سفید گردن سے لپٹے بال۔۔۔قرمزی رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اور لباس کے ہم رنگ کھنکتی چوڑیاں، سارے کیل کانٹوں سے لیس وہ اسکے لئے کڑا امتحان ثابت ہو رہی تھی۔غزنوی کے دل کی دھڑکن اسکی ضد کو مات دینے کے درپے تھی۔اسی امتحان سے تو وہ بھاگ رہا تھا جو وہ ہر بار لینے کے لئے اسکے سامنے آ کھڑی ہوتی تھی مگر ہر بار وہ ان جذبوں کے چُنگل سے بھاگ نکلتا تھا۔ابھی بھی وہ دامن بچانے میں کامیاب رہا تھا۔

"تمھارا یہ سرچ آپریشن ختم ہو گیا ہو تو مجھے کچھ کام ہے۔"

وہ پیچھے ہوا۔ایمان کا دراز کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں رک گیا۔وہ واپس پلٹی۔ایک لمحے کو دونوں کی نظریں ملی تھیں اور پھر اگلے ہی لمحے وہ وہاں سے ہٹ گئی تھی۔غزنوی کی نگاہوں نے اسکا پیچھا کیا تھا۔ایمان صوفے پہ رکھے کپڑوں کی طرف بڑھی جو ابھی اسے عقیلہ بیگم کے کمرے میں دینے تھے۔اسے لگا جیسے وہ غزنوی کی نگاہوں کے گھیرے میں ہے۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو غزنوی نگاہیں پھیر گیا۔غزنوی کو اسطرح ٹکٹکی باندھے اپنی طرف دیکھتا پا کر اسکی دھڑکنیں بڑھ گئی تھیں۔اس نے کپڑے اٹھائے اور دروازے کی طرف بڑھی۔

"سنو۔۔۔۔"

وہ وہیں دروازے کے قریب رکی تھی لیکن مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔

"میں کل صبح سویرے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گا۔میرے کچھ کپڑے اس بیگ میں رکھ دو۔"

غزنوی نے الماری کے نچلے خانے سے ایک سفری بیگ نکال کر بیڈ پہ رکھا۔

"ڈنر بھی باہر دستوں کے ساتھ کروں گا۔امی چاچو کی طرف گئی ہوئی ہیں۔رات دیر ہو جائے گی۔وہ آئیں تو انھیں بتا دینا۔"

"جی۔۔"

وہ اتنا ہی کہہ سکی جبکہ غزنوی اس پہ ایک گہری نظر ڈالتا واش روم میں گھس گیا۔

___________________________


رات کے تقریبا ایک بجے وہ گھر میں داخل ہوا۔گاڑی پورچ میں کھڑی کرنے کے بعد وہ چوکیدار کے پاس آیا۔

اسے صبح اپنے اسلام آباد روانہ ہونے کے مطلق بتایا اور اسے ہدایت دیکہ صبح آٹھ بجے تک گاڑی کی صفائی بھی کر دے۔چوکیدار کے سرہلانے کے بعد وہ راہداری سے ہوتا ہوا اندرونی مین ڈور سے اندر داخل ہوا۔لاؤنج میں مکمل خاموشی تھی۔صرف ایک بلب کی مدھم سی روشنی لاؤنج میں پھیلی ہوئی تھی۔وہ کچن کی طرف آیا۔یہاں بھی تاریکی نے اسکا استقبال کیا تھا۔فریج سے اپنے لئے پانی کی بوتل نکال کر گلاس بھرا۔پانی پی کر لائٹ آف کرتا اپنے روم کیطرف بڑھ گیا۔

"غزنوی۔۔۔"

ابھی وہ سیڑھیوں تک پہنچا ہی تھا کہ شمائلہ بیگم کی نیند بھری آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تو اس نے پلٹ کر دیکھا۔

"السلام علیکم امی۔۔۔!!"

وہ انہی قدموں سے واپس پلٹ کر ان کے پاس آیا تھا۔

"واعلیکم السلام بیٹا۔۔لیٹ ہو گئے۔۔میں کافی دیر تمھارا انتظار کرتی رہی۔"

انھوں نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔

"جی امی بس فرینڈز کے ساتھ وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔۔آپ کیوں انتظار کرتی رہیں۔۔آرام کرتیں۔"

اس نے شرمندگی سے کہا۔

"میں نے سوچا کہ کہیں تمھیں چائے کی طلب نہ ہو اس لئے جاگ رہی تھی لیکن کچھ دیر پہلے ہی آنکھ لگ گئی۔تمھارے لئے چائے بنا دوں؟"

شمائلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔

"نہیں بس میں آرام کروں گا۔۔آپ بھی آرام کیجیئے۔"

طلب تو ہو رہی تھی چائے کی مگر اس نے ماں کی تھکاوٹ کے پیش نظر رہنے دیا اور انھیں شب بخیر کہتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔

کمرے میں داخل ہوا تو مکمل اندھیرے میں اسے کچھ بھی دکھائی نہ دیا۔اس نے سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹ آن کی اور واش روم میں گھس گیا۔کچھ دیر بعد واش روم سے نکلتے ہوئے اسکی نظر صوفے کی جانب اٹھی۔وہ وہاں نہیں تھی۔پہلے تو وہ حیران ہوا پھر یہ سوچ کر کہ چاچو کیطرف گئی ہو گی۔۔۔وہ بیڈ کیطرف آیا۔

یہ دیکھ کر اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ ایمان صوفے کی بجائےبیڈ پہ سو رہی تھی۔

"افف۔۔۔جتنا اس سے بھاگ رہا ہوں اتنا میرے حواسوں پہ سوار ہوتی جا رہی ہے۔"

ایک پل کو تو اس کا جی چاہا کہ اسے جگا دے مگر وقت کا احساس کر کے اسے سونے دیا اور خود لائٹ آف کی اور نائٹ بلب روشن کر کے بیڈ کی دوسری جانب خاموشی سے لیٹ گیا۔روم میں آنے سے پہلے نینداس پہ حاوی ہو رہی تھی مگر اب جیسے کہیں اُڑنچھو ہو گئی تھی۔قریب سے اٹھتی سانسوں کا مدھر گیت اسکی نیند اڑائے دے رہا تھا۔دل کی ایک ہی تکرار تھی کہ دیدار کے سوکھے کو سیراب کر لینے میں کیا قباحت ہے مگر برا ہو اس ضدی طبیعت کا جو اپنے سامنے کسی کو نہیں ٹکنے دیتی تھی۔آنکھیں ذبردستی بند کیے وہ سونے کی تگ و دو میں تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور کھڑی اسکا مذاق اڑا رہی تھی۔پھر رات کے نجانے کونسے پہر نیند اسکی آنکھوں میں آن بسی تھی اور دل اور دماغ کے درمیان چھڑی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی۔

صبح غزنوی کی آنکھ وقت پر کھلی تھی۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ابھی نکلنے میں ایک گھنٹے تک کا وقت تھا۔وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔نظر ساتھ سوئے وجود پہ پڑی اور وہیں جم گئی۔سفید چہرے میں گلابیاں گھلی ہوئی تھیں۔یاقوتی لب اپنے اندر تمام تر نرمیاں سمیٹے ہوئے تھے۔ایک بازو سینے پہ دھرا تھا جبکہ دوسرا تکیےپر تھا۔سفید کلائیاں اس وقت بھی سیاہ چوڑیوں سے سجی تھیں۔وہ بلاشبہ بہت خوبصورت تھی۔غزنوی کا دل ایک بار پھر سے شہد رنگ کھلی زُلفوں میں الجھنے لگا۔وہ اس کے چہرے پہ بکھری لٹوں کو پرے ہٹانے کو آگے ہوا تھا مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنی بےخودی میں اسکے قریب ہوتا ایمان کے سوئے ہوئے وجود میں حرکت ہوئی۔وہ فورا سیدھا ہوا۔

"میں کیوں اتنا کمزور ہو رہا ہوں کہ ایک نازک سی لڑکی میرے حواس سلب کیے دے رہی ہے۔"

وہ خود سے سوال کرتا بیڈ سے نیچے اتر آیا۔الماری سے کپڑے لیے اورفریش ہونے کی غرض سے واش روم کیطرف بڑھ گیا۔آدھے گھنٹے کے شاور نے اس کی طبیعت کو ہلکا پھلکا کر دیا تھا۔ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے بال برش کرتے کرتے اسکی نظر ایک مرتبہ پھر آئینے میں دکھتے وجود پر پڑی۔وہ اسی انداز میں سوئی ہوئی تھی۔

"میں ہار نہیں سکتا۔"

غزنوی نے سر جھٹک کر بال سلیقے سے جمائے اور پھر ایمان پہ ایک نظر بھی ڈالے بغیر ٹیبل سے اپنا سفری بیگ اٹھا کر کمرے سے نکل گیا۔ _____________________________________________


غزنوی اسلام آباد جا چکا تھا اور اسکا سکون بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔صبح جب اس نے خود کو بیڈ پہ پایا تو اس وقت سے اب تک شرمندگی کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔اپنی جانب سے ہوئی یہ لاپروائی اسے خون کے آنسو رلا رہی تھی۔جہاں کہیں بھی اکیلی ہوتی تو اس خیال سے آنکھوں میں نمی ہلکورے لینے لگتی۔یہ خیال ہی اسے چین لینے نہیں دے رہا تھا کہ ساری رات وہ اس بیڈ پہ سوئی رہی جس کا مالک اسے اپنے سامنے دیکھ کر فوراً ہی منہ پھیر لیتا تھا۔ایک لفظ بات کرنا تو دور وہ اس کی جانب دیکھتا بھی نہیں تھا۔ایک لمحے کو تو یہ خوش فہمی بھی اسے ہوئی کہ شاید وہ رات کو واپس آیا ہی نہ ہو مگر صبح جب وہ ناشتے کے لئے نیچے اتری تو شمائلہ بیگم نے اسے غزنوی کی رات دیر سے آمد کے بارے میں بتایا۔اس کے بعد تو وہ بالکل ہی ڈھے گئی۔وہ اس خیال کو جھٹک رہی تھی کہ وہ اس کے متعلق کیا سوچتا ہو گا۔اگر وہ یہاں ہوتا تو اس کے رویے سے وہ جان لیتی کہ اس کی اس بیوقوفی کو وہ کیا نام دیتا۔پریشان چہرہ لیے اس نے ادھر اُدھر کے کاموں میں خود کو مصروف رکھا۔شادی والا گھر تھا۔سب اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے، کسی کا دھیان اسکی طرف نہیں گیا اور اگر کسی نے اسکے چہرے پہ اداسی دیکھی بھی تو اسکی اداسی کو غزنوی کے جانے کا سبب گردان لیا تھا۔اس وقت بھی وہ کسی گہری سوچ میں گم تھی کہ لاریب نے متوجہ کیا۔

"ایمان۔۔۔یار کہاں گم ہو۔۔؟میں تم سے پوچھ رہی ہوں کہ مایوں کے لئے یہ ڈریس کیسا رہے گا اور تم ہو کہ غزنوی بھائی کے خیالوں میں یوں گم اور دکھی بیٹھی ہو جیسے وہ اسلام آباد نہیں بلکہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔"

لاریب نے گہری سوچ میں گم ایمان کی آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرایا۔

"آں۔۔۔کہا تو ہے کہ بہت خوبصورت ڈریس ہے۔"

ایمان نے اپنے سامنے پھیلے پیلے رنگ کے سوٹ پہ ہاتھ پھیرا۔

"کب کہا۔۔۔؟"

لاریب نے اسے گھورا۔

"ابھی کہا نا۔۔۔"

ایمان مسکرائی۔۔لاریب اسے ابھی بھی گھور رہی تھی۔

"ارے یار ایمان اپنے سیاں جی کے پیچھے اداس ہے۔۔کیوں ایمان۔۔؟؟"

عائشہ نے ایمان کو ٹہوکا دیا۔

"ایسی کوئی بات نہیں۔۔بس مجھے بابا یاد آ رہے ہیں۔"

یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پہ اداسی چھا گئی اور آنکھوں میں نمی سی چھلکنے لگی۔

"آئی۔ایم سوری ایمان۔۔میرا مقصد تمھیں ہرٹ کرنا نہیں تھا۔میں تو بس یونہی۔۔۔"

عائشہ نے اسے اپنے ساتھ لگایا۔۔پھر وہ سبھی اسکی دلجوئی میں لگ گئیں۔وہ اتنی محبتیں دیکھ کر شرمندہ ہو گئی۔

"چلو چلو۔۔۔مل کر ایمان کا پسندیدہ گانا گاتے ہیں۔"

یہ مشورہ عنادل کی جانب سے آیا تھا۔وہ سب حیران ہو رہی تھیں کہ ایمان کا پسندیدہ گانا صرف عنادل کو پتہ ہے اور انھیں اندازہ بھی نہیں۔ایمان خود بھی حیرت کے سمندر میں غرق تھی۔

"ارے بھئی۔۔تمھارا پسندیدہ گانا۔۔"

عنادل نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"سیاں دل میں آنا رے

آ کر پھر نہ جانا رے

ہو آ کر پھر نہ جانا رے۔۔۔

چھم چھما چھم چھم۔۔"

عنادل کھڑی ہو ٹھمکے لگانے لگی اور باقی سب پہلے تو ہنس دیں پھر اس کے ساتھ مل کر گانے لگیں۔۔ساتھ ہی ساتھ ایمان کو اشارے بھی کرتی جا رہی تھیں۔وہ بھی لبوں پہ شرمیلی مسکان لئے انھیں دیکھ رہی تھی۔

"ویسے یار میں سوچ رہی ہوں کہ ایمان نے یہ گانا غزنوی بھائی کو کتنی بار سنایا ہوگا۔"

فائقہ نے پُرسوچ انداز میں سب کی طرف دیکھا جو لبوں پر دبی دبی مسکراہٹ لیے فائقہ کی جانب دیکھنے لگی تھیں۔

"مجھے لگتا ہے کہ کم از کم دن میں چار پانچ مرتبہ تو سناتی ہی ہو گی۔"

ارفع نے سنجیدگی سے کہا۔باقی سب بھی ایمان کے دھواں دھواں ہوتے چہرے کی پرواہ کیے بغیر اپنے اپنے اندازے بتانے لگیں۔پتہ نہیں کیوں آج ان کا مذاق اسے نہیں بھا رہا تھا۔ان کے ہنستے ہوئے چہرے ایک دم سے سنجیدہ تب ہوئے جب ایمان جھٹکے سے اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔اور وہ سب ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھ کر رہ گئیں۔ایمان کا یہ انداز انھوں نے پہلی دفعہ دیکھا تھا ورنہ تو اس طرح کا مذاق وہ اس سے شروع سے ہی کرتی آئی تھیں لیکن کبھی بھی ایمان نے برا نہیں مانا تھا۔بس شرمیلی مسکان لبوں پہ سجائے نظریں جھکا لیتی تھی۔جب وہ اس کے نام کے ساتھ غزنوی کا نام لیتی تھیں تو اسے یہ خیال نہایت ہی خوش کن لگتا تھا اس کا نام اس کے نام کے ساتھ جڑا ہے جو اس کی زندگی میں ایک سایہ دار درخت کی طرح شامل ہوا تھا جس کے سائے میں اس نے پناہ لی تھی جس کی وجہ سے وہ آج روشنیوں میں اور اتنی محبتوں کے بیچ کھڑی تھی۔

"کبھی تو سیریس ہو جایا کرو تم لوگ۔۔جب دیکھو مذاق سُوجھتا رہتا ہے۔اب دیکھو نا اسے ناراض کر دیا تم لوگوں نے۔۔"

پرخہ نے ان سب کو ڈانٹا۔

"ہم تو مذاق کر رہے تھے۔۔وہ صبح سے ہی دکھی لگ رہی تھی اس لئے میں نے سوچا کہ تھوڑا سا۔۔"

فائقہ نے منہ بسور کر کہا۔

"ہاں اب دیکھو اپنا کارنامہ۔۔۔اسے اور بھی دکھی کر دیا ہے تم نے۔۔"

پرخہ نے اسے ڈانٹا اور وہاں سے چلی گئی۔اسکا رخ ایمان کے کمرے کی جانب تھا۔باقی سب بھی اسکے پیچھے آئیں تھیں۔

______________________________________


"سب کچھ بہت اچھے سے ہوگیا۔میں تو بہت گھبرا رہا تھا کہ کیسے اتنی جلدی مینیج کروں گا۔۔تھیکنس یار اگر تم ہیلپ نہ کرتے تو میں یہ اکیلے نہیں کر سکتا تھا اور سب سے بڑھ کر یہ گھر۔۔۔۔بہت شاندار ہے اور قریب بھی ہے آفس سے۔۔۔میری پسند کے عین مطابق۔۔"

غزنوی اسکی طرف چائے کا کپ بڑھاتے ہوئے فلور کشن پہ بیٹھ گیا۔۔وہ تشکّر بھری نظروں سے کمیل کو دیکھ رہا تھا۔

"ارے یار۔۔۔یہ تو کچھ بھی نہیں۔۔میں چاہتا تھا سب تیری پسند کے مطابق ہو۔۔لیکن یار مجھے ایک بات سمجھ نہیں آ رہی۔۔۔اتنا اسٹیبلشڈ بزنس چھوڑ کر یہاں سب سے الگ نئے سِرے سے شروعات کرنا۔۔۔میری سمجھ سے باہر ہے۔"

چند دنوں سے ذہہن میں کلبلاتا سوال کمیل کی زبان پہ آ ہی گیا تھا۔

"بس یار پھر کبھی بتاؤں گا۔بہت لمبی کہانی ہے۔"

غزنوی اسکا سوال ہنسی میں اڑاتے ہوئے چائے پینے لگا۔کمیل نے بھی اسکا انداز دیکھ کر دوبارہ نہیں پوچھا۔

"اچھا ٹھیک ہے میں چلتا ہوں۔۔۔کل آفس میں ملتے ہیں۔"

کمیل خالی کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور غزنوی کی طرف معانقہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔

"نہیں یار۔۔۔بیٹھ کھانا کھا کر جا۔۔مجھے اکیلے مزا نہیں آئے گا۔۔کیا یاد کرے گا آج اپنے ہاتھ سے بنا کر تجھے کھانا کھلاؤں گا۔"

غزنوی نے اسکا ہاتھ نہیں چھوڑا۔

"تو اس مزے کے لئے تُو بھابھی کو لے آ۔۔"

کمیل ہنسنے لگا جبکہ اسکی بات سن کر غزنوی نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ چھوڑا۔

"ویسے اچھا ہوتا کہ تُو بھابھی کو لے آتا۔۔کم از کم گھر کا پُرلطف کھانا تو نصیب ہوتا نا۔۔ویسے بھی تیرے ہاتھ کی کڑوی کسیلی چائے میں نے ابھی بھی بڑی مشکل سے حلق میں انڈیلی ہے۔"

کُمیل ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بناتا یوں بولا جیسے چائے کی جگہ کریلے کاجوس پی لیا ہو۔

"تُو اپنے یہ قیمتی مشورے اپنے پاس رکھ اور بیٹھ کھانا باہر سے آرڈر کر لیتا ہوں۔"

اس نے کمیل کو کشن کھینچ مارا۔

"یار بھابھی کو کیوں نہیں لایا۔"

کمیل نے کشن کیچ کر کے اپنے پیچھے رکھا اور پیر پسار لئے۔

"اسی جادوگرنی سے تو بھاگ کر آیا ہوں۔"

غزنوی بڑبڑایا۔

"کیا کہہ رہا ہے؟"

کمیل اسکے بڑبڑانے پہ سیدھا ہوا۔

"کچھ نہیں یار شادی ہے نا گھر میں۔۔اسی لئے نہیں لایا اور پھر میں نے واپس جانا ہے۔۔صرف دو دن کے لئے آیا ہوں۔"

وہ چائے کے کپ اٹھا کر کچن میں چلا گیا۔جبکہ کمیل نے اٹھ کر ٹی وی آن کیا اور واپس آ کر اسی پوزیشن میں بیٹھ گیا۔وہ یونہی چینل سرچنگ کر رہا تھا کہ ڈور بیل کی آواز پہ ٹی وی آف کردیا۔

"تم ٹھہرو۔۔۔میں دیکھتا ہوں۔"

اسی وقت غزنوی بھی کچن سے نکلا۔۔کمیل اسے روکتا خود لاؤنج سے باہر نکل گیا۔غزنوی واپس کچن کی جانب مڑ گیا۔

"آئیے آئیے خالہ۔"

کمیل کسی بزرگ خاتون کو ساتھ لئے لاؤنج میں داخل ہوا۔وہ خاتون کمیل کی جانب یوں مسکرا کر دیکھ رہی تھیں جیسے کافی ٹائم سے ان کی سلام دعا ہو۔غزنوی جو کچن کے دروازے میں موبائل لئے کھڑا تھا لاؤنج میں آ گیا۔اب وہ خاتون غزنوی کی جانب دیکھ رہی تھیں۔

"کیسی ہیں آپ۔۔۔؟"

وہ خاتون غزنوی کی جانب بغور دیکھ رہی تھیں کہ کمیل نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا۔

"کیسی ہیں خالہ۔۔؟"

کمیل نے ان سے پوچھا۔

میں ٹھیک ہوں بیٹا۔۔بس ذرا جوڑوں کے درد کی وجہ سے کہیں آ جا نہیں سکتی اسی لئے تو تم سے دوبارہ ملنے بھی نہیں آ سکی تھی۔"

وہ کمیل کے ساتھ ساتھ چلتیں صوفے تک آئیں۔

"کمبخت یہ جوڑوں کا درد۔۔بیٹھ جاو تو پھر کھڑا ہوا نہیں جاتا۔"

"یہاں بیٹھ جائیں خالہ۔۔میں آپکے لئے پانی لاتا ہوں۔"

کمیل انھیں صوفے پہ بٹھا کر پانی لانے کے لئے مڑا۔

"ارے نہیں بیٹا۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔یہ لڑکا کون ہے؟ تمھارا دوست ہے۔۔ائے لگتا تو بڑے اچھے گھر کا ہے۔"

بلقیس بیگم نے اپنی عینک ناک پہ ٹکائی اور غزنوی کی جانب بغور دیکھتے ہوئے کہا۔کمیل مسکرا دیا۔

"خالہ یہ اسی کا گھر ہے۔بتایا تھا نا آپکو کہ دوست کا گھر ہے۔آپ بھول گئیں شاید۔"

کمیل نے مسکراتے ہوئے غزنوی کا تعارف کروایا تو غزنوی نے آگے بڑھ کر انھیں سلام کیا۔

"جیتے رہو۔۔۔ماشااللہ۔۔!! اللہ تمھاری ماں کا کلیجہ ٹھنڈا رکھے۔"

بلقیس بیگم نے غزنوی کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دعا دی۔انھیں غزنوی بہت بھایا تھا۔

"اور سنائیں خالہ کیسی ہیں۔۔مجھے تو پہلے سے کافی کمزور لگ رہی ہیں۔"

کمیل نے انھیں لگاتار غزنوی کی جانب دیکھتا پا کر اپنی جانب متوجہ کیا۔

"ہاں بیٹا بس کیا کروں۔۔بوڑھی ہو گئی ہوں اور پھر اتنے دن بھی تو ہو گئے ہیں یاد نہیں رہا۔"

وہ پھولی سانسوں کے درمیان بولیں۔

"ارے خالہ بوڑھی کہاں۔۔ابھی تو جوان ہیں آپ۔"

کمیل ہنستے ہوئے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"ائے اب اتنی بھی مبالغہ آرائی سے کام نہ لو لڑکے۔۔" وہ دوپٹہ منہ پر رکھ کر کھلکھلائیں۔

کمیل بلقیس بیگم کو شرماتے دیکھ کر مسکرا دیا۔

"یہ بلقیس خالہ ہیں۔یہیں پڑوس میں رہتی ہیں۔جب میں یہاں کام سے آتا تھا تو دو تین بار ان سے ملاقات ہوئی تھی۔اِنھوں نے میرا بڑا خیال رکھا تھا۔"

کمیل نے غزنوی کی سوال کرتی نگاہوں کو دیکھ کر کہا۔

اسی دوران ڈور بیل کی چنگھاڑتی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔

"ائے بیٹا دیکھو تو ذرا ٹیپو آ گیا ہو گا۔"

بلقیس خالہ نے کمیل سے کہا۔وہ سر ہلا کر لاؤنج سے نکل گیا۔اس دوران بلقیس بیگم کبھی غزنوی تو کبھی گھر کا جائزہ لینے میں مصروف رہیں۔

"اکیلے رہتے ہو۔۔؟"

بلقیس خالہ نے غزنوی سے پوچھا۔جس پہ اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفاء کیا۔

"ائے لو بھلا اکیلے کیسے رہو گے۔۔؟ کھانا پینا، صاف ستھرائی۔۔یہ سب کون کرے گا؟"

انہوں نے ٹھوڑی پہ انگلی رکھی اور حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔ان کا انداز دیکھ کر اسے خیرن بوا یاد آ گئیں۔وہ بھی اسی انداز میں گفتگو کیا کرتی تھیں اور ان کا انداز تخاطب بھی بالکل ایسا ہی تھا۔

"کوئی کام والی رکھ لوں گا۔"

وہ بولا۔

"ائے کیا چھڑے چھانٹ ہو؟"

بلقیس بیگم نے اپنی موٹے موٹے عدسوں والی عینک کے پیچھے سے غزنوی کو گھورا۔اسی دوران کمیل کسی آٹھ سالہ صحت مند سے بچے کے ساتھ لاونج میں داخل ہوا تو ان کی جانب سے اسکا دھیان ہٹ گیا۔کمیل کے ہاتھ ٹرے تھی جس سے اٹھتی لوازمات کی خوشبو اسکے نتھنوں سے ٹکرائی تھی۔

"جی۔۔۔۔؟؟ میں سمجھا نہیں۔"

وہ دھیان ہٹنے کے باعث انھیں ٹھیک سے سن نہیں پایا تھا۔

"اے میاں۔۔اب ایسی مشکل اردو بھی نہیں بولی جو تم سمجھ نہیں سکے۔"

وہ ہنستے ہوئے بولیں تو غزنوی جھنپ گیا۔

"نہیں خالہ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔"

وہ مسکرا دیا۔

"اچھا چھوڑو۔۔۔ٹیپو میرے بچے۔۔ادھر آ۔"

بلقیس بیگم نے کمیل کے ساتھ کھڑے بچے کو اپنے پاس بلایا۔وہ ہنستے ہوئے انکے پاس آ کر بیٹھ گیا۔کمیل نے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور غزنوی سے کھانے کے آرڈر کے متعلق پوچھنے لگا۔

"بابا آ گئے تمھارے؟"

وہ ٹیپو سے پوچھنے لگیں جبکہ کمیل اور غزنوی کی بھوک ٹرے میں رکھی بریانی کی پلیٹ اور قورمے کے باول کے ساتھ روٹیاں دیکھ کر چمک اٹھی تھی مگر پھر بھی وہ دونوں ان دادی پوتے کی طرف متوجہ رہے۔

"نہیں دادو بابا ابھی تک نہیں آئے لیکن فون کر کے بتایا ہے کہ لیٹ آئیں گے۔اس لئے مما کہہ رہی تھیں کہ آ کر کھانا کھا لیں اور پڑوسیوں کو زیادہ سر نہ چڑھائیں۔"

بچے نے دادی کے سامنے من و عن اپنی ماں کے الفاظ دہرا دیئے۔کمیل اور غزنوی دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے جبکہ بلقیس بیگم ان کے سامنے شرمندہ ہو گئیں۔

"ائے ہائے۔۔تمھاری ماں کے منہ کے آگے تو خندق ہے۔۔چل جا گھر میں آ رہی ہوں۔"

وہ اپنی خجالت مٹانے کو بولیں اور ٹیپو کو جانے کو کہا۔ٹیپو بھی دادی کی بات پہ سر ہلاتا باہر بھاگ گیا۔

"بچو۔۔تم لوگ برا مت ماننا۔۔۔اسکی ماں ذرا اتھرے مزاج کی ہے۔تم لوگ نئے ہو نا اس لئے ایسا کہہ رہی ہے اور پھر روز روز کون کسی کی خدمت کرتا ہے۔۔یہ آجکل کی نسل کیا سمجھے۔۔پڑوسیوں کا بڑا حق ہوتا ہے۔ویسے میری بہو کی بھی غلطی نہیں آجکل زمانہ بھی خراب ہے نا۔۔کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کر دینا۔"

وہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"ارے نہیں خالہ۔۔۔آپ ہمیں شرمندہ کر رہی ہیں۔"

غزنوی نے فورا کہا۔

"اللہ خوش رکھے۔۔۔اچھا تم لوگ کھانا کھاؤ۔۔میں چلتی ہوں۔۔برتنوں کے لئے ٹیپو کو بھیج دوں گی۔"

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بولیں۔

"بہت شکریہ خالہ۔۔"

غزنوی کو انھیں شرمندہ دیکھ کر اچھا نہیں لگا۔

"ائے جیتے رہو بیٹا۔۔۔کچھ چاہئیے ہو تو بتانا، شرمانا نہیں۔۔یہ ساتھ ہی نسواری دروازے والا میرا گھر ہے۔۔تم آؤ گے تو مجھے خوشی ہو گی۔"

وہ یہ کہتی پلٹ گئیں۔

"جی ضرور۔۔۔آئیے میں آپکو چھوڑ آؤں۔"

کمیل ان کے پیچھے آیا تھا۔

"ارے نہیں نہیں بیٹا۔۔۔تم کھانا کھاؤ۔۔میں چلی جاوں گی۔"

بلقیس بیگم نے کمیل کو ساتھ آتے دیکھ کر کہا۔

"کوئی بات نہیں خالہ۔۔"

اس نے انھیں شانے سے تھاما۔۔اس کے اتنے اسرار کرنے پہ بلقیس بیگم خاموش ہو گئیں اور کمیل کے سہارے باہر کی جانب چلدیں۔

"ائے دیکھو مجھ بھلکڑ کو۔۔میں پھر بھول گئی۔۔ائے میاں تم شادی شدہ ہو؟"

ابھی وہ لاونج کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ بلقیس بیگم ماتھے پہ ہاتھ مارتیں غزنوی کی جانب پلٹی تھیں۔غزنوی کا ٹرے کی طرف بڑھتا ہاتھ وہیں تھم گیا۔

"جی جی خالہ۔۔یہ میاں شادی شدہ ہے بلکہ ایک بچے کا باپ بھی ہے۔"

غزنوی کی بجائے کمیل نے جواب دیا تھا جبکہ غزنوی بچے کے بارے میں سن کر کمیل کو سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔کمیل کو یقین تھا کہ بلقیس بیگم کے چلے جانے کے بعد اسکی خیر نہیں۔وہ ہنسی ضبط کیے غزنوی کو ہی دیکھ رہا تھا۔دونوں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھانے میں اس قدر مگن تھے کہ بلقیس بیگم کا تاریک ہوتا چہرہ نہ دیکھ سکے مگر پھر وہ خود کو سنبھال کر بولیں۔

"ماشاءاللہ۔۔! تو بیٹا اکیلے یہاں نہ رہنا، بیگم کو لے آنا جا کر۔۔۔اس بہانے میرا بھی دل لگا رہے گا۔"

غزنوی مسکرا دیا۔

"جی خالہ۔۔بھابھی جلد ہی آئیں گی۔"

کمیل جلدی سے بولا۔

"انشاءاللہ۔۔۔انشاءاللہ۔۔۔اچھا اللہ کے حوالے۔"

بلقیس بیگم دعائیں دیتیں پلٹ گئیں۔کچھ دیر بعد کمیل گنگناتا ہوا واپس آیا۔

"کیا ضرورت تھی اتنی بکواس کرنے کی۔۔منہ کو ذرا لگام نہیں لگا سکتے تھے۔جب دیکھو تمھارا یہ کاہل دماغ کا پرندہ جھوٹ کے انڈے دینے لگتا ہے۔"

غزنوی اس پہ چڑھ دوڑا۔

"ارے یار جھوٹ کہاں بولا۔۔۔تُو شادی شدہ ہے کہ نہیں۔۔ہے نا۔۔؟؟"

کمیل اسکی حالت سے حظ اٹھاتا بولا۔

"بکواس نہ کرو۔"

غزنوی نے اسے گھورا۔

"اور مجھے یقین ہے کہ جو تیرا ارادہ ہے۔۔بھابھی کو تو جب تک یہاں لانے پہ راضی ہوگا تیرے ایک تو کیا تین چار بچے تو ہو ہی جانے ہیں۔"

کمیل شرارتی انداز میں ہنستے ہوئے بولا جبکہ وہ اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"چل یار پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔"

کمیل نے صوفے پہ بیٹھ کر ٹرے اپنی جانب کھسکائی۔غزنوی نے بھی فلور کشن ٹیبل سے قریب کیا۔کمیل نے بریانی پہ ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیئے تھے اور خاموشی سے کھانا کھاتے ہوئے کسی کی یاد غزنوی کے دل کے دروازے پہ دستک دیتے ہوئے اپنے ہونے کا احساس دلا رہی تھی۔جس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کارگر ثابت نہیں ہو رہی تھی۔

___________________________________________


آج مایوں کی رسم تھی۔گھر میں مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔گھر میں کافی چہل پہل تھی۔غزنوی دو دن کا کہہ کر گیا تھا مگر اب تک واپس نہیں آیا تھا۔مایوں کی رسم کے لئے گھر کے لان میں ہی ڈیکوریشن کی گئی تھی۔پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا۔یہ سجاوٹ مکرم احمد کے پورشن میں کی گئی تھی۔پورا گھر کسی خوبصورت محل کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔پیلے، گلابی اور نارنجی رنگوں سے پورے لان کو سجایا گیا تھا۔

ایک جانب گلابی رنگ کے صوفے کو دلہنوں کے لئے نشست کے طور پر سجایا گیا تھا۔صوفے کے سامنے کے حصے کے کو چھوڑ کر پیچھے اور اطراف میں پیلے، گلابی اور نارنجی رنگ کے پھولوں کی لڑیاں لٹک رہی تھیں جو صوفے کے اوپر بنی آرٹیفیشل گلابی اور نارنجی رنگ کی چھوٹی سی چھت کے وسط میں لگے پھولوں کے گلدستے سے جوڑیں گئیں تھیں جو ایک پھولوں کے تخت کا سا منظر پیش کر رہا تھا۔اردگرد مہمانوں کے بیٹھنے کے لئے بھی کرسیاں لگائی گئیں تھیں۔وقفے وقفے سے مہمانوں کی آمد نے اِس رونق میں اضافہ کیا تھا۔لڑکے اپنی تیاری مکمل کر کے لان میں ہی موجود تھے۔گھر کی خواتین اور مرد بھی، مہمانوں کے استقبال کے لئے موجود تھے۔جو مہمان موجود تھے سبھی عقیلہ بیگم کو مبارکباد دینے کے بعد خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ساری لڑکیاں ادھر سے ادھر چہکتی پھر رہی تھیں۔ان کے لئے شمائلہ بیگم نے بیوٹیشن کو گھر پر ہی بلوایا تھا۔

ساتھ والے پورشن میں مہمانوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔سحرش اور پرخہ تیار ہونے پالر جا چکی تھیں۔۔دونوں کی مایوں کی رسم اکٹھی ہی ہونی تھی جبکہ دونوں دولہے ہادی اور مصطفی بھی اپنی اپنی تیاری میں مگن تھے۔کچھ لڑکیوں کی تیاری مکمل تھی اور کچھ تیار ہو رہیں تھیں۔ایمان ابھی تک تیار نہیں ہوئی تھی۔اس وقت وہ کچن میں تھی۔

"ایمان۔۔بیٹا اب تک تیار نہیں ہوئی تم۔۔؟"

شمائلہ بیگم کچن میں آئیں تو وہ کچن میں مٹھائی کے ٹوکرے رکھوا رہی تھی۔

"جی امی بس جا ہی رہی تھی۔"

ایمان ڈوپٹہ درست کرتے ہوئے بولی۔

"جلدی جاو بیٹا۔۔تیار ہو جاؤ میں بیوٹیشن کو بھیجتی ہوں تمھارے روم میں۔۔"

شمائلہ بیگم اسے کہتی پلٹ کر جانے لگیں۔

"جی۔۔"

وہ ایک آخری نظر کچن پر ڈالتی ان کے پیچھے ہی نکلی۔

"اور ہاں۔۔یہ غزنوی ابھی تک نہیں پہنچا۔۔۔ذرا فون کر کے معلوم کرو۔۔"

وہ اسے ہدایت دیتی واپس مڑ گئیں۔وہ سست قدموں سے چلتی اپنے کمرے میں آ گئی۔شمائلہ بیگم نے آج کے لئے اسکا ڈریس بیڈ پہ رکھا تھا۔یہ پیلے رنگ کا جدید تراش خراش کا بہت خوبصورت ڈریس تھا۔وہ بجھے دل سے کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھس گئی۔فریش ہو کر باہر آئی تو بیوٹیشن باہر اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔اسے باہر آتا دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور مسکراتے ہوئے اسکی جانب بڑھی۔پیلے جوڑے میں وہ اِس سادگی میں بھی غضب ڈھا رہی تھی۔پیلے رنگ میں اسکی سپید رنگت دمک رہی تھی۔

"آپ تو بنا میک اپ کے بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں۔"

بیوٹیشن نے ایمان کی موہنی صورت کو توصیفی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ایمان نے مسکراتے ہوئے اسے شکریہ کہا اور پھر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔بیوٹیشن اسکے بیٹھتے ہی اپنا بیوٹی بکس کھول چکی تھی اور پھر ماہرانہ انداز سے اسکے چہرے کے ملکوتی نقوش کی نوک پلک سنوارنے میں لگ گئی۔ساتھ ہی ساتھ اس سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی۔

"امی میرے کپڑے نکال دیجیئے آ کر۔۔۔میں ابھی ریڈی۔۔۔"

غزنوی بجلی کی سی تیزی سے کمرے میں داخل ہوا تھا۔اسے یوں اچانک کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر ایمان کھڑی ہو گئی اور بیوٹیشن جو اسکا ڈوپٹہ پن اپ کرنے کی سعی کر رہی تھی اس کے ہاتھ سے ڈوپٹہ چُھوٹ کر ایمان کے شانے سے ہوتا چیئر پہ ٹھہر گیا۔بیوٹیشن ایمان کی کنڈیشن دیکھ کر جان گئی تھی کہ آنے والا کون ہو سکتا ہے۔دوسری جانب غزنوی کی حالت بھی ایمان سے کسی صورت کم نہیں لگ رہی تھی۔وہ دروازے پہ ہاتھ رکھے وہیں مجسمے کیطرح کھڑا رہ گیا تھا اور ٹکٹکی باندھے ایمان کو دیکھ رہا تھا۔

"آ۔۔۔۔اسے یونہی رہنے دیں۔"

ایمان فورا رخ پھیر کر بیوٹیشن کو ڈوپٹے سے الجھتے دیکھ کر بولی تھی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔بس آپ ریڈی ہیں۔"

وہ اپنے بیوٹی بکس میں جلدی جلدی چیزیں ڈالتے ہوئے بولی اور بکس بند کر کے کھلے دروازے سے باہر نکل گئی۔غزنوی تو وہیں قدم جمائے کھڑا ایمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔بیوٹیشن کمرے سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا تھا۔دروازہ بند ہونے کی آواز غزنوی کو ہوش میں لے آئی۔ایمان بھی اس سے نظریں چرائے ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھی چیزوں کو خواہ مخواہ ہی ادھر ادھر کر رہی تھی۔

"السلام و علیکم۔۔"

ایمان نے بار بار شانے سے ڈھلک جانے والے ڈوپٹے کو سنبھالتے ہوئے دروازے کے پاس قدم جمائے کھڑے غزنوی کو دیکھ کر سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔"

غزنوی نے سلام کا جواب دیا اور جیب سے گاڑی کی چابی اور موبائل نکال کر بیڈ کی طرف بڑھا۔ایمان نے پلٹ کر اسے دیکھا۔بڑھی ہوئی شیو۔۔۔ملگجا لباس اور چہرے پہ چھائی سنجیدگی۔۔۔وہ اسے بہت تھکا ہوا سا لگا۔

"میرے کپڑے نکال دو۔"

کمرے کی خاموشی کو غزنوی کی سنجیدہ آواز نے توڑا۔ایمان الماری کی طرف بڑھی تھی۔غزنوی کی طرف اسکی پیٹھ تھی۔وہ الماری کے پٹ کھولے کپڑے نکال رہی تھی۔پیلے جوڑے میں ہلکا ہلکا میک اپ کیے وہ نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگتی بڑے سے ڈوپٹے کو سنبھالنے میں وہ ہلکان ہو رہی تھی۔غزنوی شرٹ کے اوپری بٹن کھولتا، بےخود انداز میں دھیرے دھیرے چلتا اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔وہ الماری سے سفید شلوار سوٹ نکال کر مڑی۔یوں اپنے پیچھے اسے کھڑے دیکھ کر ایک پل کو تو وہ گھبرا گئی۔

"یہ لیں۔۔"

ایمان نے ڈریس اسکی طرف بڑھایا۔غزنوی نے کپڑے اس کی ہاتھ سے لیے اور ایک بھرپور نظر اس پہ ڈالتا واش روم کی طرف بڑھ گیا۔غزنوی کے سامنے سے ہٹ جانے سے اسکا کب کا رکا ہوا سانس بحال ہوا۔وہ جیسے اسے دیکھ رہا تھا ایمان کا دم اٹکا ہوا تھا۔ایمان کو وہ پہلے سے بہت بدلہ بدلہ سا لگا۔پہلے وہ اسکی جانب دیکھتا تک نہ تھا مگر اب اسکی آنکھیں کچھ اور کہہ رہی تھیں اور انداز کچھ اور۔۔۔اسکی بولتی آنکھیں ایمان کو اپنے آر پار ہوتی محسوس ہوتی تھیں۔غزنوی کے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی وہ کمرے سے باہر نکلی۔سبھی لڑکیاں نک سک سے تیار لاؤنج میں کھڑی ایک دوسرے کی تیاری پہ کمنٹس پاس کر رہی تھیں۔

"ارے واہ۔۔۔ہماری بھابھی نے تو آج میدان لوٹ لینا ہے۔"

ملائکہ نے ایمان کو سیڑھیوں سے اترتے دیکھ کر ان سب سے کہا۔سبھی نے ایمان کو دیکھ کر اوئے ہوئے کے نعرے لگائے۔ایمان لبوں پہ شرمیلی مسکان لئے ان کے قریب آئی۔کتنے دنوں سے اس پہ چھائی یاسیت نجانے کہاں چھپ گئی تھی۔سبھی نے رسم کی مناسبت سے پیلے رنگ کے ڈریسز بنوائے تھے مگر تمام لباس تراش خراش میں ایک دوسرےسے مختلف تھے۔وہ سبھی ایمان کو ساتھ لئے ہنستی کھلکھلاتی لان میں آئیں۔

"لیجیئے شاہ گل سبھی چڑیلیں نازل ہو چکی ہیں۔"

احد کی نظر ان پہ پڑی تو اس نے عقیلہ بیگم کو متوجہ کیا تھا۔انھوں آنکھوں ہی آنکھوں میں ان سب کی نظر اتاری۔۔سارے لڑکے بھی عقیلہ بیگم کے اردگرد کرسیاں ڈالے بیٹھے تھے۔

"ماشاءاللہ ۔۔۔۔میری بیٹیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں۔"

عقیلہ بیگم نے ان کے قریب آنے پہ کہا۔

"تھینک یو شاہ گل۔۔۔"

عنادل نے اپنے کھلے سلکی بالوں کو اٹھلا کر پیچھے کیا تھا۔

"توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے۔۔کیسے کیسے لوگ ہیں دنیا میں۔۔صبح تک تو ساری چڑیلیں تھیں اور اب ایک دم سے پریاں۔۔۔یہ کون سی جادو کی چھڑی ہے بوا۔۔۔آپ کو معلوم ہو تو مجھے بھی بتائیے گا۔"

احد نے ساتھ بیٹھی بوا کو بھی بیچ میں گھسیٹ لیا۔

"ہاں ہاں بوا۔۔۔میں بھی جاننا چاہوں گا۔"

مرتضی نے بھی اپنی ٹانگ اڑانی چاہی۔طہ اور فروز بھی ہنس دئیے تھے۔

جیسے وہ کسی بڑے سنجیدہ موضوع پہ بات کر رہا ہو۔خیرن بوا اسکا اشارہ سمجھ کر منہ پہ ڈوپٹہ رکھ کر ہنسنے لگی تھیں۔

"احد۔۔۔۔"

عقیلہ بیگم نے اسے تنبیہی انداز میں گھورا۔

"شاہ گل۔۔۔اس لمبو کو سمجھا دیں کہ ہم سے نہ ٹکرائے ورنہ پاش پاش ہو جائے گا۔"

ارفع نے احد کی محبت کا نغمہ سناتی آنکھوں میں جھانکا۔

"ہونہہ۔۔۔چلو گرلز وہاں چلتے ہیں۔"

ارفع نے ناک منہ چڑھاتے ہوئے احد کی طرف دیکھا اور صوفے کے دائیں طرف تھوڑے سے فاصلے پہ رکھے تخت کی جانب اشارہ کیا جسے بھی پھولوں سے سجایا گیا تھا اور وہیں ڈھولک بھی موجود تھی۔اگلے ہی لمحے وہ سبھی وہاں تخت پہ بیٹھی ڈھولک پیٹ رہی تھی۔

"جاو بیٹا بہنوں کو لے آو تاکہ رسم شروع کی جائے۔"

عقیلہ بیگم نے احد سے کہا۔وہ مرتضی، طٰہٰ اور فروز بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

"خیرن ذرا ان کے ساتھ جاؤ یہ نہ ہو کہ بچیوں کو یونہی ہاتھ سے پکڑ کر لے آئیں۔"

عقیلہ بیگم نے ہنستے ہوئے خیرن بوا سے کہا تو وہ اپنا سفید غرارہ سنبھالے اٹھ کھڑی ہوئیں۔چاروں لڑکے آگے آگے اور خیرن بوا ان کے پیچھے پیچھے اندر کی جانب بڑھ گئیں تھیں۔

وہ کمرے میں آئی تو غزنوی موبائل ہاتھ میں لئے بیڈ پہ نیم دراز تھا۔اس نے بنا آہٹ پیدا کیے دروازہ بند کیا۔غزنوی نے ایک لمحے کو موبائل سے نظر ہٹا کر اسکی جانب دیکھا اور پھر واپس اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ایمان نے اسکے چہرے پہ بیتے لمحے کی جھلک ڈھونڈنے کی کوشش کی مگر وہاں ہمیشہ کی طرح اسکا چہرہ سپاٹ تھا۔۔وہ بھی سر جھٹک کر خاموشی سے صوفے کی طرف بڑھ گئی۔صوفے پہ بیٹھ کر اس نے پیروں کو سینڈلز کی قید سے آزاد کیا۔کچھ دیر دونوں ہاتھوں سے پیروں کو دباتی رہی۔۔ہیلز کبھی پہنی نہیں تھیں اس لئے پیر دُکھنے لگے تھے۔

"یہ لائٹ آف کر دو۔۔"

غزنوی نے موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور لیٹتے ہوئے قدرے بلند آواز میں اس سے کہا۔۔ایمان کے ہاتھ تھم گئے۔۔اسکا جی چاہا اسکی بات کو اگنور کرے اور وہیں بیٹھی رہی مگر وہ الماری کی طرف بڑھ گئی۔اپنے کپڑے لئے اور واش روم میں گھس گئی۔کچھ دیر بعد وہ واش روم سے نکلی تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔اس کے واش روم جانے کے بعد غزنوی نے اٹھ کر لائٹ آف کر دی تھی۔ایمان اندھیرے میں اندازے سے چلتی صوفے تک آئی تھی۔

کشن پہ سر رکھتے ہی ایک بار پھر سے وہ منظر اسکی آنکھوں کے آگے گھوم گیا۔وہ اٹھ بیٹھی۔۔۔اسے کمیل کا ہمدردی بھری نگاہوں سے اپنی جانب دیکھنا یاد آیا۔غصے کی ایک شدید لہر اس کے اندر اٹھی۔وہ تیزی سے صوفے سے اتری اور لائٹ آن کی۔ٹیوب لائٹ آن ہوتے ہی وہ پورا کمرہ روشنی سے بھر گیا۔غزنوی ابھی سویا نہیں تھا۔۔اس نے فوراً آنکھیں کھولیں۔

"اب اس وقت کیا پرابلم ہے۔"

اس نے ایمان کو سوئچ بورڈ کے پاس کھڑے دیکھا تو اٹھ بیٹھا اور غصیلے لہجے میں اس سے استفسار کیا۔وہ کچھ نہیں بولی بس یونہی کھڑی سنجیدہ نظروں سے غزنوی کو دیکھتی رہی۔۔اس کے چہرے اور آنکھوں کی سنجیدگی نے غزنوی کو حیران کیا۔

"ایمان لائٹ آف کرو۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔"

اس بار وہ قدرے نرم آواز میں بولا تھا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی بیڈ کے قریب آئی تھی۔

"میری آپ سے ایک ریکوئسٹ ہے کہ آپ کو مجھ سے جو بھی پرابلم ہے یا مجھ پہ غصہ ہے تو اپنا ارمان یہیں اس کمرے میں پورا کر لیا کریں۔۔کسی کے بھی سامنے میری توہین کرنا۔۔۔اس کی اجازت میں قطعی آپکو نہیں دوں گی۔اگر آئیندہ آپ نے ایسا کیا تو۔۔۔۔۔۔"

ایمان کی آواز دھیمی مگر لہجہ سختی لیے ہوئے تھا۔

"تو۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟"

اپنی حیرانگی کو بالائے طاق رکھتا غزنوی بیڈ سے اتر کر اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔اسکی نظریں ایمان کے چہرے پہ گڑیں ہوئیں تھیں۔

"تو۔۔۔۔میں۔۔۔"

ایمان کو لگا کہ اب وہ مزید نہیں بول پائے گی جبکہ وہ اسکے جواب کا منتظر اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑا تھا۔

"اگر میں ابھی پیچھے ہٹ گئی تو یہ یونہی مجھ پہ شیر ہوتا رہے گا۔اب مجھے بھی اِسے بتانا ہے کہ مجھے بھی اِسکے ہونے نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔"

"تو میں آپ کو معاف نہیں کروں گی۔"

وہ پلٹی اور غصیلے انداز میں چلتی صوفے تک آئی۔غزنوی کی حیرانی سَوا ہوئی تھی اور وہ غصے سے اسکی جانب دیکھتا، تیزی سے اسکے پاس آیا۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی مجھ سے ایسے بات کرنے کی۔۔تم ہوتی کون ہو۔۔۔؟"

غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کیا۔ایمان نے جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کیا۔

"لائٹ آف کریں۔۔۔مجھے نیند آ رہی ہے۔"

وہ غصے سے اسکے الفاظ اسی کو لوٹاتی رُخ پھیر کر لیٹ گئی۔غزنوی دونوں ہاتھ کمر پہ رکھ کر کچھ دیر وہیں کھڑا حیرانگی کے سمندر میں غوطے کھاتا رہا۔پھر مزید بات کو بڑھائے بغیر لائٹ آف کی اور بیڈ پہ آ گیا۔تکیے پہ سر رکھ کر اس نے آنکھیں بند کیں تو ایمان کا سجا سنورا چہرہ نگاہوں کے پردے پہ چھا گیا۔نجانے کیوں اس کے لب مسکرا دئیے۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور جا کھڑی ہوئی اور ایمان کا ایک ایک روپ بند آنکھوں کے سامنے کسی فلم کی صورت چلنے لگا۔کچھ دیر پہلے والا غصہ بھی کہیں دور جا سویا تھا تو محبت اسکے سامنے کھلکھلا کر ہنس دی۔


🌼🌼


اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو ایمان کمرے میں نہیں تھی۔آج ولیمہ تھا۔تمام انتظامات دیکھنے تھے۔وہ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آیا۔

"السلام علیکم۔۔!"

برنر کے پاس کھڑی شمائلہ بیگم کو سلام کرتا وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

"امی ناشتہ۔۔۔۔"

غزنوی نے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا۔شمائلہ بیگم جو اسی کے لئے ناشتہ بنا رہی تھیں۔انھوں نے جلدی سے اس کے لئے ڈائننگ ٹیبل پہ ناشتہ چن دیا۔

"آج تمھارا ولیمہ ہے۔"

شمائلہ بیگم نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھا۔

"جی جانتا ہوں۔۔کمیل اٹھ گیا یا ابھی تک سویا ہوا ہے۔"

اس سے پہلے کہ شمائلہ بیگم مزید اس بارے میں بات کرتیں، اس نے جلدی ٹاپک چینج کیا۔

"اس نے تو کب کا ناشتہ کر لیا ہے۔۔جلدی اٹھ گیا تھا۔۔اب تمھارے دادا کے ساتھ ان کے کمرے میں ہے۔"

شمائلہ بیگم بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں اور دھیرے دھیرے چائے کی چسکیاں لینے لگیں۔غزنوی بھی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔

"امی۔۔۔وہ شاہ گل۔۔۔۔"

وہ دونوں خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مگن تھے کہ ایمان کچن میں داخل ہوئی اور غزنوی کو شمائلہ بیگم کے ساتھ کچن میں بیٹھے دیکھ کر وہ وہیں رک گئی۔غزنوی اور شمائلہ بیگم نے بیک وقت اسکی جانب دیکھا۔بلیک کلر کے سمپل سے ڈریس پہ ریڈ کلر کا ڈوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھ رکھا تھا۔۔دھلا دھلایا شفاف چہرہ ایک انجانی سی چمک لئے ہوئے تھا۔غزنوی نے اسکے چہرے سے بمشکل نظریں ہٹائیں اور ناشتے میں مشغول ہو گیا۔

"ہاں بولو بیٹا۔۔۔"

شمائلہ بیگم نے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ایمان سے پوچھا۔

"وہ شاہ گل آپ کو بلا رہی تھیں۔"

یہ کہہ کر وہ پلٹ کر جانے لگی تھی کہ شمائلہ بیگم کی پکار پہ رکی۔

"ایمان۔۔۔۔!! بیٹا تم بھی آ جاؤ۔۔۔۔غزنوی کے ساتھ ہی ناشتہ کر لو۔۔۔تم بھی صبح سے کاموں میں لگی ہوئی ہو اور وہ بھی بناء ناشتہ کیے۔۔میں ناشتہ بنا رکھا ہے تمھارے لئے۔۔"

ایمان نے غزنوی کی جانب دیکھا جو ناشتے میں یوں مگن تھا جیسے اسکے علاؤہ وہاں کوئی اور موجود نہ ہو۔

"میں نے چائے پی لی تھی شاہ گل کے ساتھ۔۔۔اور ابھی بھوک بھی نہیں ہے۔"

وہ قطعی لہجے میں بولی۔۔غزنوی اس کے انداز سے اسکا موڈ بھانپ گیا تھا۔اس نے ایک نظر اس پہ ڈالی تو وہ پلٹ کر جانے لگی۔یوں جیسے کہہ رہی ہو مجھے بھی تمھاری پرواہ نہیں ہے


اگلے دن جب وہ سو کر اٹھا تو ایمان کمرے میں نہیں تھی۔آج ولیمہ تھا۔تمام انتظامات دیکھنے تھے۔وہ جلدی سے فریش ہو کر نیچے آیا۔

"السلام علیکم۔۔!"

برنر کے پاس کھڑی شمائلہ بیگم کو سلام کرتا وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔

"امی ناشتہ۔۔۔۔"

غزنوی نے جگ سے گلاس میں پانی انڈیلا۔شمائلہ بیگم جو اسی کے لئے ناشتہ بنا رہی تھیں۔انھوں نے جلدی سے اس کے لئے ڈائننگ ٹیبل پہ ناشتہ چن دیا۔

"آج تمھارا ولیمہ ہے۔"

شمائلہ بیگم نے چائے کا کپ اسکے سامنے رکھا۔

"جی جانتا ہوں۔۔کمیل اٹھ گیا یا ابھی تک سویا ہوا ہے۔"

اس سے پہلے کہ شمائلہ بیگم مزید اس بارے میں بات کرتیں، اس نے جلدی ٹاپک چینج کیا۔

"اس نے تو کب کا ناشتہ کر لیا ہے۔۔جلدی اٹھ گیا تھا۔۔اب تمھارے دادا کے ساتھ ان کے کمرے میں ہے۔"

شمائلہ بیگم بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئیں اور دھیرے دھیرے چائے کی چسکیاں لینے لگیں۔غزنوی بھی خاموشی سے ناشتہ کرنے لگا۔

"امی۔۔۔وہ شاہ گل۔۔۔۔"

وہ دونوں خاموشی سے ناشتہ کرنے میں مگن تھے کہ ایمان کچن میں داخل ہوئی اور غزنوی کو شمائلہ بیگم کے ساتھ کچن میں بیٹھے دیکھ کر وہ وہیں رک گئی۔غزنوی اور شمائلہ بیگم نے بیک وقت اسکی جانب دیکھا۔بلیک کلر کے سمپل سے ڈریس پہ ریڈ کلر کا ڈوپٹہ اچھی طرح سے اوڑھ رکھا تھا۔۔دھلا دھلایا شفاف چہرہ ایک انجانی سی چمک لئے ہوئے تھا۔غزنوی نے اسکے چہرے سے بمشکل نظریں ہٹائیں اور ناشتے میں مشغول ہو گیا۔

"ہاں بولو بیٹا۔۔۔"

شمائلہ بیگم نے چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے ایمان سے پوچھا۔

"وہ شاہ گل آپ کو بلا رہی تھیں۔"

یہ کہہ کر وہ پلٹ کر جانے لگی تھی کہ شمائلہ بیگم کی پکار پہ رکی۔

"ایمان۔۔۔۔!! بیٹا تم بھی آ جاؤ۔۔۔۔غزنوی کے ساتھ ہی ناشتہ کر لو۔۔۔تم بھی صبح سے کاموں میں لگی ہوئی ہو اور وہ بھی بناء ناشتہ کیے۔۔میں ناشتہ بنا رکھا ہے تمھارے لئے۔۔"

ایمان نے غزنوی کی جانب دیکھا جو ناشتے میں یوں مگن تھا جیسے اسکے علاؤہ وہاں کوئی اور موجود نہ ہو۔

"میں نے چائے پی لی تھی شاہ گل کے ساتھ۔۔۔اور ابھی بھوک بھی نہیں ہے۔"

وہ قطعی لہجے میں بولی۔۔غزنوی اس کے انداز سے اسکا موڈ بھانپ گیا تھا۔اس نے ایک نظر اس پہ ڈالی تو وہ پلٹ کر جانے لگی۔یوں جیسے کہہ رہی ہو مجھے بھی تمھاری پرواہ نہیں ہے۔


🌼🌼


ولیمے کے فنکشن کا انتظام بھی لان میں ہی کیا جانا تھا۔فنکشن چونکہ رات کو تھا اس لئے آہستہ آہستہ سب تیاریوں میں مگن تھے۔وہ سب بھی اس وقت ایک ہی روم میں اکٹھی بیٹھی گپ شپ میں مصروف تھیں۔ایمان بھی ان کے ساتھ ہی تھی لیکن تھوڑی دیر پہلے شگفتہ نے اسے شمائلہ بیگم کا پیغام دیا تو وہ اٹھ کر شمائلہ بیگم کے روم میں آ گئی۔آج چونکہ ایمان اور غزنوی کا بھی ولیمہ تھا اس لئے شمائلہ بیگم نے ایمان کو اپنے روم میں بلوایا تھا۔انھوں نے اس کے لئے ولیمے کی مناسبت سے ڈریس لے رکھا تھا جو ابھی تک انھوں نے اسے دیا نہیں تھا۔وہ کمرے میں آئی تو وہ اسی کا انتظار کر رہی تھیں۔وہ اندر آئی تو انھوں نے اسے اپنے پاس بلایا۔وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔اس وقت وہ روم میں اکیلی تھیں۔انھوں نے ڈریس اسکے سامنے رکھا تو وہ گم سُم انداز میں اس عروسی جوڑے کو دیکھنے لگی۔

"ایمان۔۔بیٹا کیا سوچ رہی ہو۔۔؟ کیسا ہے؟"

شمائلہ بیگم نے اس کے سامنے پستئ رنگ کی بے حد خوبصورت میکسی کو پھیلا رکھا تھا۔اس نے چونک کر انھیں دیکھا تو شمائلہ بیگم نے آنکھوں کے اشارے سے اسے متوجہ کیا۔جوڑے کی دمک آنکھوں کو خیرا کیے دے رہی تھی۔

"بہت پیارا ہے۔۔"

وہ آہستگی سے بولی۔

"اچھا یہ لے جاؤ۔۔۔آج تم بھی سحرش اور پرخہ کے ساتھ پالر سے تیار ہو گی۔ان کے ساتھ ہی چلی جانا۔یہ نا ہو کہ ادھر ادھر کے کاموں کو خود کو مصروف کر لو اور بھول جاؤ۔۔بلکہ اب اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔۔آج تو میری بیٹی کا دن ہے۔"

شمائلہ بیگم نے بہت محبت سے اسکی ٹھوڑی کو چُھو کر اسکا چہرہ اونچا کیا۔

"جاؤ تم جاؤ اپنے روم میں، میں شگفتہ کے ہاتھ بھیجتی ہوں۔"

وہ ڈریس تہہ کرنے لگی تھی کہ شمائلہ ببگم نے اسے روک دیا۔وہ صبح سے اسکا تھکا تھکا سا انداز دیکھ رہی تھیں۔انھوں نے اس کا ذکر عقیلہ بیگم سے بھی کیا تھا مگر انھوں نے یہ کہہ کر انھیں تسلی دی کہ وہ گھبرا رہی ہے اور اپنے والدین کو بھی یاد کر رہی گی اس لئے صبح سے اداس ہے۔

"ایمان۔۔۔۔!!"

اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلتی انھوں نے اسے روکا۔

"جی۔۔!!"

وہ پلٹی۔۔

"کیا بات ہے بیٹا۔۔۔صبح سے تم کچھ بُجھی بُجھی سی لگ رہی ہو۔"

وہ چہرے پہ پریشانی لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔بس بابا کی یاد آ رہی تھی۔"

اسکی آنکھوں میں تیرتے آنسو انھیں بے چین کر گئے تھے۔وہ اٹھ کر اس کے پاس آئیں۔

"یہ شادی کے بھکیڑے ختم ہوں تو میں غزنوی سے کہوں گی کہ تمھیں لے جائے۔ایک دو دن رہ لینا ان کے پاس۔"

انھوں نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ایمان بھیگی آنکھوں سے مسکرا دی۔شمائلہ بیگم کو وہ بہت عزیز ہو گئی تھی۔اسکی خاموشی انھیں کَھلتی تھی اور وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ غزنوی کا رویہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں ہے جسکی وجہ سے وہ اس قدر خاموش ہوتی جا رہی ہے۔ایمان کے جانے کے بعد وہ سوچ رہیں تھیں کہ ایمان کو غزنوی کے ساتھ بھیجیں گی تاکہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزاریں اور ایک دوسرے کو سمجھیں۔وہ انھیں اسطرح نہیں رہنے دے سکتیں تھیں اور نہ ہی ساری زندگی اسطرح گزاری جا سکتی ہے۔انھیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا۔


🌼🌼🌼


ایمان پالر سے آ چکی تھی۔اسے شمائلہ بیگم نے اس کے کمرے میں چھوڑ گئیں تھیں تاکہ کچھ دیر وہ ریسٹ کر لے۔وہ دروازہ لاکڈ کر کے آئینے کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔پستئی رنگ میں اسکی چھب ہی نرالی تھی۔اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ آئینے میں دکھتا یہ وجود اسکا ہے۔

"میری بیٹی جب دلہن بنے گی تو اتنی پیاری لگے گی کہ سارا گاؤں دیکھتا رہ جائے گا۔"

دلہن کے روپ میں خود کو دیکھ کر اسے اپنی ماں کے کہے جملے یاد آ گئے تھے۔

"جی نہیں میری گڑیا زیادہ پیاری لگ رہی ہے۔"

وہ اپنی دلہن بنی گڑیا اپنی ماں کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر نہایت نروٹھے انداز میں بولی تھی۔اس کی بات سن کر اسکی ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی تھی۔

"یہ بھی پیاری لگ رہی ہے لیکن میری گڑیا جب دلہن بنے گی تو اس سے بھی پیاری لگے گی۔اسکی آنکھوں میں چمکتے خواب ہونگے۔"

انھوں نے اسکے نرم پُھولے پُھولے گالوں کو چُومتے ہوئے کہا تھا۔

"لیکن اماں۔۔۔آپ کی گڑیا کہاں ہے؟"

اس نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے ماں سے پوچھا تھا۔

"میری گڑیا، میری آنکھوں کے سامنے ہے۔"

انھوں نے نہایت محبت سے اسکے بال سنوارے تھے۔

"کاش اماں آج آپ میرے پاس ہوتیں تو دیکھتیں کہ آج آپکی بیٹی دلہن تو بن گئی ہے مگر اس کی آنکھوں کے چمکتے خواب اپنی چمک کھو چکے ہیں۔اسکے چہرے پہ سجے رنگوں میں حقیقت کی روشنی مفقود ہے۔"

اس نے آنکھوں میں پھیلتی نمی کو پیچھے دھکیلا۔یہ رنگ اور یہ روپ، یہ دلکش انداز اسے کوئی خوشی نہیں دے رہے تھے۔وہ آئینے سے نظر ہٹاتی صوفے کی جانب آئی تھی۔ماں کی یاد نے اسے مزید غمگین کیا تھا اور باپ سے ملنے کے لئے دل مچلنے لگا تھا۔وہ ایک گہری سانس خارج کرتی بیٹھ گئی۔وہ شادی ختم ہونے کے فوراً بعد داجی سے کہے گی کہ اسے کچھ دنوں کے لئے گاؤں بھیج دیں۔وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند گئی۔اسی دوران دروازے پہ دستک ہوئی۔اس نے آنکھیں کھول کر بند دروازے کو دیکھا۔کسی نے ناب کو گھمایا مگر دروازہ اندر سے لاکڈ تھا اس لئے ایک بار پھر دستک دی گئی۔

"کون۔۔۔؟"

اس نے وہیں بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں پوچھا۔

"دروازہ کھولیے ملکہ عالیہ۔۔۔!!"

غزنوی کی شیرینی میں لپٹی آواز آئی۔وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔۔لیکن دروازے کیطرف بڑھنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔یہ مٹھاس اسے ہضم نہیں ہوئی تھی۔۔اس کے ذہہن میں غزنوی کے الفاظ گردش کر رہے تھے۔

"آج کی تاریخ میں یہ دروازہ کھل جائے گا یا نہیں۔۔؟؟"

غزنوی کی آواز ایک بار پھر اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔اب کے لہجے میں سنجیدگی نمایاں تھی۔ایمان نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا۔

"بہت شکریہ ملکہ عا۔۔۔۔۔"

ایمان کو دیکھ کر باقی کے الفاظ اسکے منہ میں ہی رہ گئے۔ایمان اسے خود کو یوں گھورتے دیکھ کر فوراً صوفے کی طرف بڑھ گئی۔

"جادوگرنی۔۔۔۔"

وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا اس سے کترا کر الماری کی جانب بڑھ گیا۔

"اب اِسکی جانب نہیں دیکھنا غزنوی احمد۔۔۔۔جادوگرنی ہے یہ۔۔"

وہ الماری کے پٹ کھولے اپنی مطلوبہ چیز دریافت کرنے لگا مگر وہ بھول گیا تھا کہ وہ کیا لینے آیا تھا۔چیزوں کو اُلٹ پُلٹ کرتے اسے خود پہ غصہ آنے لگا تھا۔

"کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟"

وہ پیچھے کھڑی اس سے پوچھ رہی تھی۔۔غزنوی اپنے عقب سے خوشبوؤں کا ریلا خود پہ چھاتا محسوس ہوا۔وہ فورا سیدھا ہوا۔

پیچھے ہٹو۔۔۔"

غزنوی نے بھڑک کر غصے سے اسکی جانب دیکھا۔وہ فورا پیچھے ہٹی۔۔

"میں تو آپکی مدد کے لئے آئی تھی۔"

ایمان کے لہجے سے واضح تھا کہ اسے غزنوی کا انداز پسند نہیں آیا تھا۔وہ پلٹ کر جانے لگی۔پلٹ کر جاتے ہوئے ایمان کی نظر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ پڑے موبائل پر پڑی۔اس نے غزنوی کی جانب دیکھا جو دراز کھولے اس میں کچھ ٹٹول رہا تھا۔وہ فون کی طرف بڑھی۔اس نے خاموشی سے فون اٹھایا اور میکسی سنبھالتی واپس غزنوی کے پاس آئی۔

"یہ رہا آپ کا فون۔۔۔"

وہ قدرے بلند آواز میں بولی اور موبائل اسکی طرف بڑھایا۔دراز میں کچھ ڈھونڈتے غزنوی کے ہاتھ تھم گئے اور اسے یاد آیا کہ وہ روم میں موبائل لینے کی غرض سے آیا تھا۔یہ خیال آتے ہی اسکا خود پہ مزید غصہ بڑھنے لگایا۔یعنی اس پہ ایمان کا وجود اس قدر اثرانداز ہو رہا تھا کہ وہ جو چیز لینے آیا تھا وہی اسکے دماغ سے ہی نکل گئی تھی اور پھر اوپر سے بہت یاد کرنے پر بھی اسے یاد نہیں آ رہا تھا کہ وہ روم میں کیا لینے آیا تھا۔اس نے اتنی تیز آواز کے ساتھ الماری کے پٹ بند کیے کہ وہ بدک کر پیچھے ہٹی۔اس نے کچھ لمحے تو غصیلی نظروں سے ایمان کو دیکھا اور پھر جھپٹ کر موبائل اس کے ہاتھ سے کھینچ لیا۔

"میری چیزوں کو ہاتھ مت لگایا کرو۔۔"

وہ بہت ہی بدتمیزی سے کہتا کمرے سے نکل گیا جبکہ وہ حیران پریشان کھڑی اسکے اتنے غصے میں آ جانے کا سبب سوچ رہی تھی۔روم میں آنے سے پہلے تو اسکے لہجے میں غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔پھر اچانک ایسا کیا ہوا۔۔۔

اب تو اسے غزنوی کے رویے سے چڑ ہونے لگی تھی۔وہ مسلسل اسکی عزت نفس پہ کچوکے لگا رہا تھا۔اب وہ سوچ رہی تھی کہ ایک بار گاوں چلی جائے تو واپس نہیں آئے گی۔وہ وہیں بیڈ پہ بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد شمائلہ بیگم اسے لینے آ گئیں تھیں۔کمرے سے لان تک کے راستے میں انھوں نے اسے بتایا کہ تمام مہمان بڑی شدت سے اسکے منتظر ہیں۔جب وہ لان کی انٹرنس پہ پہنچی، جسے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔۔ وہ سبھی اس کی طرف دوڑی آئیں۔

"تم لوگ بھابھی کو لے کر آؤ۔۔"

وہ اسے ان کے حوالے کر کے خود عقیلہ بیگم کی طرف بڑھ گئیں۔وہ سبھی اسکے اطراف ہو گئیں۔ایمان ان کی سنگت میں اسٹیج کی جانب قدم بڑھائے۔سبھی مہمانوں کی ستائش بھری نظریں اس پہ ٹکی ہوئی تھیں۔ملائکہ اور لاریب کی مدد سے وہ اسٹیج پہ آ گئی۔پرخہ اور سحرش پہلے ہی سے اسٹیج پہ موجود تھیں۔اسکی آمد پر دونوں مسکراتے چہروں کے ساتھ اس کے استقبال کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔انھوں نے اسے پرخہ اور سحرش کے ساتھ بٹھا دیا۔اپنے ہاتھوں کی لرزش اور دل کی بےترتیب دھڑکنیں اسے نروس کیے دے رہی تھیں۔جیسے ہی وہ بیٹھی ہر طرف سے کیمرے کے فلیش چمکنے لگے۔ایک ہی نقطے پہ نگاہیں یوں رکی ہوئیں تھیں جیسے اٹھنا بھول گئی ہوں۔


"ایمان۔۔!! ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"

لاریب نے اسکی جانب جھکتے ہوئے دھیرے سے کہا۔وہ سب بھی اسکی تعریف میں رطب اللسان تھیں جبکہ وہ سر جھکائے ان کی باتوں پر مسکرا دیتی۔خاندان کی خواتین اس سے ملنے اسٹیج پر آنے لگیں تو وہ ساری اسٹیج سے اتر کر پہلی نشستوں پہ بیٹھ گئیں۔خاندان کی ساری خواتین اس سے بہت محبت و اپنائیت سے ملیں۔تھوڑی دیر بعد فوٹوگرافی کا دور شروع ہو گیا۔اسی دوران مصطفیٰ، ہادی اور غزنوی بھی اپنے دوست احباب اور اعظم احمد کے ہمراہ اسٹیج کی جانب آئے۔تینوں جوڑیاں سبھی کی توجہ کا مرکز تھیں۔اعظم احمد اور عقیلہ بیگم محبت بھری نگاہوں سے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے۔

"اوئے۔۔آؤ ہم سب بھی پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔۔کچھ پکچرز بنوا لیں۔"

عنادل نے ان سب سے کہا تو وہ سب اس کا آئیڈیاء سن کر ہنستے ہوئے اس کے ساتھ اسٹیج پہ چڑھ گئیں۔

"اوئے اوئے۔۔۔چلو اترو۔۔۔ہماری باری ہے۔۔"

انھوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو طہ، مرتضیٰ، احد اور فروز کھڑے تھے۔مرتضی اور احد تو باقاعدہ تیوری چڑھائے انھیں دیکھ رہے تھے۔

"کیوں جی۔۔۔۔پہلے ہماری باری۔۔۔۔"

ارفع ناک پُھلاتی پیچھے جا کھڑی ہوئی۔

"یہ ناانصافی ہے۔۔۔۔تم چڑیلیں اس وقت سے بیچارے فوٹوگرافر کو گھیرے ہوئیں تھیں۔نقلی بیوٹی دیکھو ان کی۔"

فروز نے آنکھیں گھما گھما کر کہا۔

"ہاں تو۔۔۔۔تمھیں کیا تکلیف ہے۔۔۔۔؟؟"

ملائکہ بھی میدان میں اتر آئی۔

"بُری بات فروز۔۔۔۔اتنی پیاری تو لگ رہیں ہیں سب۔۔۔"

احد کی نظریں سبھی پر سے ہوتی ہوئیں صوفے کے پیچھے کھڑی ارفع پہ ٹھہر گئیں۔جبکہ وہ تو لاپروائی سے پوز بنا بنا کر تصویریں بنوا رہی تھی۔وہ مسکرا دیا۔

"ہمیں ایک دو پکچرز بنوانے دو پھر تم لوگ چاہو تو ساری رات اس فوٹو سیشن کو جاری رکھنا۔۔۔چلو چلو ایک طرف ہو جاؤ شاباش۔۔۔۔"

مرتضیٰ نے ان سبھی کو یوں پیچھے ہونے کو کہا جیسے وہ ساری بکریاں ہوں اور وہ خود چرواہا۔اسٹیج پہ موجود سبھی ان کی اس عزت افزائی پر ہنس رہے تھے۔صرف ایک ایمان تھی جس نے سر اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہیں کی تھی جبکہ پرخہ اور سحرش ان کی باقاعدہ سائیڈ لے رہی تھیں۔بلاآخر وہ سبھی ٹیڑھے ٹیڑھے منہ بناتی بڑے سے اسٹیج کے دائیں جانب کھڑی ہو گئیں۔اچھی خاصی پکچرز بنوانے کے بعد وہ سارے نیچے اترے تھے اور وہ ساری انھیں گھورتی پیچھے جا کھڑیں ہوئیں اور جو پکچرز بنوانی شروع ہوئیں تو پھر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔فوٹوگرافر بیچارے کی شامت آئی ہوئی تھی۔کبھی اسے دائیں طرف بلاتیں تو کبھی بائیں جانب۔۔۔وہ بیچارہ گِھن چکر ہو کر رہ گیا تھا۔تھک ہار کر اس نے غزنوی کو اشارہ کیا۔تو اس نے انھیں اسٹیج سے اتارا۔اسطرح فوٹوگرافر کی جان بخشی ہوئی۔۔ورنہ وہ تو مرتضیٰ کے مشورے پر عمل کرنے پر تُلی ہوئیں تھیں۔آخر میں ایک فیملی فوٹو بنائی گئی۔اسکے بعد تینوں دولہا صاحبان اسٹیج سے اتر گئے۔

"ایمان۔۔۔تم ٹھیک ہو۔۔؟"

عائشہ نے گود میں سوتے حذیفہ کو تھپکی دیتے ہوئے کہا۔جو بار بار اتنے شور کے باعث اٹھ جاتا تھا۔

"جی آپی۔۔۔ٹھیک ہوں۔"

ایمان نے اس کی کھوجتی آنکھوں سے نظریں چُرائیں۔

"تو پھر اتنی خاموش کیوں ہو۔۔۔غزنوی کا رویہ تمھارے ساتھ ٹھیک تو ہے نا۔۔؟"

عائشہ نے بلاآخر دل میں کلبلاتا سوال اس سے پوچھ لیا۔

"جی سب ٹھیک ہے۔۔۔اور خاموش اس لئے ہوں کہ میں دلہن ہوں اور دلہن زیادہ بولتی نہیں ہے۔"

ایمان نے اس کے کان کے قریب آ کر کہا۔۔اس کا جواب سن کر عائشہ ہنس دی مگر اب بھی اسکی تسلی نہیں ہوئی تھی۔

"دلہن تو پرخہ اور سحرش بھی ہیں۔۔۔وہ تو دیکھو کیسے چہک رہی ہیں۔۔۔اور تمھارے چہرے پہ سنجیدگی طاری ہے۔"

عائشہ نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا۔

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔بس آج مجھے اماں اور بابا کی بہت یاد آ رہی ہے۔"

اس نے آدھا سچ بیان کیا۔۔۔۔اور واقعی صبح سے اپنے والدین کو یاد کر کے بار بار اسکی آنکھیں بھیگنے لگتی تھیں۔

"ٹھیک کہتی ہو۔۔۔یہ وقت ہی ایسا ہوتا ہے۔۔۔جب والدین کا ساتھ بیٹی کے لئے کسی ڈھال سے کم نہیں ہوتا۔آئی ایم سوری۔۔۔میں نے تمھیں دُکھی کر دیا۔"

عائشہ نے اسکے ہاتھوں پہ ہاتھ رکھا۔

"اِٹس او کے آپی۔۔۔"

وہ لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولی۔پتہ نہیں عائشہ اس کے جواب سے مطمئن ہوئی تھی یا نہیں مگر ایمان نے چہرے پہ مسکراہٹ سجا لی تھی تاکہ کوئی دوسرا اسکے اندر چھپے بھید کو نہ پا لے۔۔وہ کیوں کسی کے سامنے اپنا آپ آشکار کرے۔۔یہ اسے قبول نہیں تھا۔اس نے سب کے ہنستے مسکراتے چہروں پہ نظر ڈالی۔۔سبھی ہنسی مذاق اور خوش گپیوں میں مگن تھے۔سبھی کی جانب دیکھتے اسکی نگاہ ایک جگہ آ کر ٹھہر گئی۔عائشہ کی نگاہوں نے بھی اسکی نظروں کا پیچھا کیا۔اس کے چہرے پہ مسکراہٹ چھا گئی۔وہاں غزنوی مصطفیٰ کی کسی بات پہ ہنس رہا تھا۔

عائشہ نے ایمان کے مسکراتے چہرے کو ایک دم تاریک پڑتے دیکھا۔

"ایمان۔۔۔۔تمھارے اور غزنوی کے مابین سب ٹھیک ہے۔۔۔؟؟"

عائشہ نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔

"جی۔۔۔"

مختصر جواب آیا۔۔اب اسکی نظریں اپنے ہاتھوں پر تھیں۔

"مجھے ایسا نہیں لگتا۔۔تمھارے اور غزنوی کے درمیان شادی شدہ جوڑوں جیسی کوئی بات نہیں۔"

عائشہ اسے باور کروانا چاہتی تھی کہ وہ غزنوی اور اسکے رشتے کے بارے میں سب جانتی ہے۔وہ اسکی بات پہ یقین کر لیتی مگر اس نے خود غزنوی نے منہ نکلے الفاظ سنے تھے جن سے صاف ظاہر تھا دونوں کے بیچ نارمل ریلیشن نہیں ہے۔

"امی میں تھک گئی ہوں۔۔اپنے روم میں جانا چاہتی ہوں۔"

شمائلہ بیگم جو اسکے پاس ہی کھڑی پرخہ سے کوئی بات کر رہی تھی۔عائشہ اسکا رویہ دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی۔

"اچھا بیٹا۔۔۔عائشہ۔۔!! بیٹا بھابھی کو کمرے میں لے جاؤ۔"

وہ جس کے سوالات سے بچنا چاہ رہی تھی شمائلہ بیگم نے اسی کو اسکے ہمراہ کر دیا تھا۔عائشہ نے حذیفہ کو شمائلہ بیگم کی گود میں دیا اور ایمان کی جانب ہاتھ بڑھایا جسے ایمان نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے تھام لیا۔عائشہ اسے سہارا دئیے اسٹیج سے اتری۔لان سے کمرے تک کے راستے میں دونوں کے مابین کوئی بات نہیں ہوئی۔

"یہاں بیڈ پہ آ جاؤ۔۔یہاں ریلیکس رہو گی۔"

کمرے میں داخل ہوتے ہی ایمان کو بیڈ کی بجائے صوفے کی جانب بڑھتا دیکھ کر کہا۔

"نہیں میں فلحال یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔پہلے چینج کروں گی۔"

ایمان نے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنا سر دباتے ہوئے کہا۔اب وہ اسے کیا بتاتی کہ اس بیڈ سے اسکا ناطہ صرف دور سے دیکھنے تک کا ہے۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔تمھارے لئے کچھ کھانے کو بھیجوں۔۔تم نے کھانا بھی نہیں کھایا۔"

عائشہ نے اسے صوفے کی پشت سے ٹیک لگاتے دیکھ کر کہا۔

"نہیں مجھے بھوک نہیں ہے۔"

اس نے انکار کیا۔

ایمان۔۔۔!! اِس کمرے میں اپنا مقام سمجھو۔۔۔یہاں کی ہر چیز تمھاری ہے اور یہاں رہنے والا بھی۔"

عائشہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔اسکے الفاظ سن کر ایمان نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا۔

"خوش رہا کرو۔۔۔تم ہنستی مسکراتی اچھی لگتی ہو۔۔۔غزنوی کو بہت جلد تمھاری قدر ہو گی۔وہ یقینا دل ہی دل میں تم سے محبت کرتا ہے۔۔بس اپنی بےنام ضد کے ہاتھوں یہ سب کر رہا ہے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔تمھاری محبت اسے احساس دلا سکتی ہے مگر اس کے لئے تمھیں قدم بڑھانا پڑے گا۔آئی ایم شیور وہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔"

وہ حوصلہ دیتی نظروں سے ایمان کو دیکھتی دروازے کی سمت بڑھ گئی۔

"آپ کی غلط فہمی ہے آپی کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔"

وہ عائشہ کے جانے کے بعد استہزائیہ ہنستے ہوئے خود سے بولی تھی۔لان سے ابھی بھی ہلکی پھلکی موسیقی کی آواز آ رہی تھی۔چینج کرنے کو اسکا من نہیں کر رہا تھا۔آنکھوں کی تھکن بڑھ رہی تھی۔اسی تھکن کو ذائل کرنے کے لئے اس نے اپنی نرم پوروں سے بند آنکھوں کو ہلکے ہلکے دبایا۔۔آنکھوں کا بند ہونا تھا کہ غزنوی مسکراتے چہرے کے ساتھ بند آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوا۔۔۔وہ۔۔۔جس کا نام سنتے ہی اسکے دل کی دھڑکنیں بےترتیب ہونے لگتی تھیں۔بلیک تھری پیس سوٹ پہ بلیک ٹائی لگائے وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔گھنی مونچھوں تلے مسکراتے عنابی لب، گہری بھوری آنکھیں۔۔سلیقے سے بنائے بال۔۔مسکراتا تو بہار کی آمد جیسا لگتا۔۔۔غصے میں ہوتا تو گرجتے بادلوں جیسا۔۔اسکا خیال ایمان کو اندر تک سرشار کر گیا۔اسے کہیں پڑھی ہوئی غزل یاد آئی۔۔۔

"عجیب شخص تھا سب کا خیال رکھتا تھا

مگر مزاج میں جاہ و جلال رکھتا تھا۔۔"

ایمان کے لب گنگنائے۔۔۔

"وہ خوش لباس تھا خوشبو سے پیار تھا اسکو

قباء کی دلکشی بھی بے مثال رکھتا تھا۔۔

کرے جو بات تو دن عُود کر نکل آئے

وہ گفتگو میں کچھ ایسا کمال رکھتا تھا۔۔

اداسیاں بھی جگمگا اٹھیں نگاہوں میں

غضب کی شوخیاں وہ خوش جمال رکھتا تھا۔۔

سکوت و سحر بپا کر دے اک نظر میں ہی

کہ چشم آہ یا چشم غزال رکھتا تھا۔۔۔

نکل پڑا تھا خوشی کی تلاش میں انیس۔۔!!

مگر نگاہ میں رنگ و ملال رکھتا تھا۔۔"

غزنوی کا رنگ اسے خود پہ چڑھتا محسوس ہو رہا تھا۔۔کبھی کبھی اسے یہ خیال بھی ڈسنے لگا کہ اگر غزنوی نے اسے چھوڑ دیا تو وہ کیسے رہے گی اس کے بغیر۔۔۔اسکی آنکھوں میں مرچیں سی لگنے لگیں تو اس نے پَٹ سے آنکھیں کھول دیں۔باہر ابھی بھی محفل سجی ہوئی تھی۔وہ خاموشی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔کھڑکی کے قریب آ کر اس نے زرا سا پردہ سرکا کر نیچے دیکھا۔۔اسکی نظر کمیل کے ساتھ کھڑے غزنوی پہ پڑی تو وہ ایک گہری سانس خارج کرتی پردہ گرا کر وارڈروب کی طرف بڑھ گئی۔

🌼🌼🌼


گھر آئے مہمان بھی رخصت ہو گئے تھے۔بس صرف بلقیس بیگم اور ان کی بیٹی رقیہ ابھی یہیں تھے۔انھوں نے آج شام تک نکلنا تھا۔خیرن بوا انھیں روکنا چاہ رہی تھیں مگر انھوں نے سہولت سے انکار کر دیا۔خیرن بوا چاہتی تھیں کہ رقیہ رک جائے تو وہ یہیں کہیں اسکے رشتے کی بات چلائیں گی۔۔مگر بلقیس بیگم بیٹی کو خود سے اتنی دور بیاہنے کے حق میں نہیں تھیں۔اس وقت وہ خیرن بوا کے کمرے میں بیٹھی اپنا سامان پیک کر رہی تھیں۔

"خیرن۔۔۔تم خفا نہ ہو تو ایک بات کہوں۔۔؟"

بلقیس بیگم نےخیرن سے کہا جو اپنے سامنے کپڑوں کو تہہ لگا کر رکھتی جا رہی تھیں اور پھر رقیہ انھیں ترتیب سے سوٹ کیس میں رکھ رہی تھیں۔

"ہاں ہاں کہو۔۔۔تم بھی کمال کرتی ہو آپا۔۔۔میں کیوں برا مانوں گی تمھاری بات کا۔۔؟

خیرن ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولیں۔

"ائے مجھے ایسا لگتا ہے کہ غزنوی میاں اور ایمان کی شادی کچھ اچھی نہیں چل رہی ہے۔آج دونوں کا ولیمہ تھا اور دونوں ایک دوسرے سے کھچے کھچے سے لگ رہے تھے۔اس بچی کے چہرے پہ میں نے کوئی خوشی نہیں دیکھی۔۔۔خدا خبر کیا چل رہا تھا اس کے من میں کہ بالکل کھوئی کھوئی سی تھی۔"

بلقیس بیگم کی بات سن کر خیرن کو یقین ہو گیا کہ وہ جو بھی کہہ رہی ہیں، یہ سب تو وہ بھی محسوس کر رہی تھیں۔۔۔مگر وہ اسے اپنا وہم گردان کر خاموش رہی۔۔لیکن اب ان کی بہن نے بھی یہی محسوس کیا تھا۔

"نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔ایمان تھوڑی خاموش طبع بچی ہے اور ہمارا غزنوی شروع ہی سے خود میں مگن رہنے والا بچہ۔۔کل تو وہ صبح سے ہی اپنے والدین کی کمی محسوس کر رہی تھی۔اسی لئے اداس تھی۔"

خیرن نے بات سنبھالی۔۔ان کی بات سن کر بلقیس بیگم نے بھی اثبات میں سر ہلایا اور اپنے کام میں مشغول ہو گئیں۔


وہ چائے کا کپ ہاتھ میں لئے اعظم احمد کے کمرے کے باہر کھڑی تھی۔ایمان کو ان سے بات کرنی تھی۔وہ وہاں آ تو گئی تھی مگر اب اندر جانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔لیکن بات تو کرنی تھی، اس لئے ہمت جُتا کر دروازے پہ دستک دی۔

"کم ان۔۔۔"

اعظم احمد کی بھاری آواز اسکی سماعتوں سے ٹکرائی۔۔۔اسے آج معلوم ہوا تھا کہ غزنوی کی آواز بالکل اعظم احمد جیسی ہے۔وہ دروازہ کھولتی اندر داخل ہوئی۔

"السلام علیکم داجی۔۔۔!!"

اس نے انھیں سلام کیا۔وہ بیڈ پہ نیم دراز کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔وہ اسے دیکھ کر مسکرا کر بیڈ کراون سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔

"وعلیکم السلام۔۔۔یہاں رکھ دو بیٹا۔"

ایمان کے ہاتھ میں چائے کا کپ دیکھ کر انھوں نے کہا۔وہ آہستہ قدموں سے چلتی قریب آئی اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی جبکہ وہ پھر سے مطالعے میں مصروف ہو گئے تھے۔ایمان جانے کی بجائے وہیں کھڑی رہی۔

"کچھ کہنا ہے بیٹا۔۔۔؟"

انھوں نے اسے وہیں کھڑے دیکھ کر پوچھا۔

"جی داجی۔۔مجھے آپ سے اجازت درکار تھی۔"

ایمان نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔اعظم احمد نے ایک پل کو اسکی جھکی نظروں کو دیکھا۔انھوں نے کتاب ایک جانب رکھی اور پوری طرح اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔

"کیسی اجازت بیٹا۔۔۔؟"

انھوں نے اسکی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے نرم لہجے میں پوچھا۔ایمان اس بات سے انجان تھی کہ دائیں جانب صوفے پہ جناب غزنوی احمد بھی تشریف فرما تھے۔۔ایمان کی بات سن کر وہ سیدھے ہو بیٹھے اور ہاتھ میں پکڑی فائل ٹیبل پہ رکھ دی۔

"ہاں کہو بیٹا۔۔۔کیسی اجازت۔۔۔؟"

کوئی جواب نہ پا کر انہوں نے ایک بار پھر پوچھا۔۔ایمان گھبراہٹ میں انگلیاں چٹخا رہی تھی اور پیچھے بیٹھے غزنوی کا سانس رکا ہوا تھا کہ کہیں وہ اس کے رویے کے بارے میں تو بات کرنے نہیں آئی ہے۔پریشانی اس کے چہرے پہ چھانے لگی تھی۔۔۔اوپر سے اعظم احمد غزنوی کی جانب نہیں دیکھ رہے تھے تا کہ ایمان کھل کر بات کر سکے۔

"داجی میں کچھ دنوں کے لئے گاوں جانا چاہتی ہوں بابا سے ملنے۔۔اگر آپ اجازت دیں تو۔۔"

وہ خاموش ہوئی اور جھکی نظریں اٹھا کر ان کی جانب دیکھا۔اعظم احمد مسکرا دئیے۔

"ضرور جاو بیٹا۔۔تمھارا جب جی چاہے جایا کرو۔اس میں اجازت کی کیا بات۔۔۔ہاں بس تمھارے شوہر کی اجازت ہونی چاہیئے۔۔کیوں برخوردار۔۔!! کیا تم لے جاو گے میری بیٹی کو۔۔؟"

اعظم احمد نے ایمان کے پیچھے سے جھانکا۔ان کے برخوردار کہنے پر وہ فورا پلٹی تھی۔دائیں جانب صوفے پہ غزنوی ٹانگ پہ ٹانگ رکھے بیٹھا اسی کی جانب دیکھ رہا تھا۔چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔ایمان ایک پل کو تو گھبرا گئی۔۔پھر سوچا کہ وہ کیوں کچھ کہے گا جبکہ وہ تو خود چاہتا ہے کہ وہ اسکی نظروں سے کہیں دور چلی جائے۔۔اگر اسے ذرا سا بھی غزنوی کی موجودگی کا علم ہوتا تو ابھی بات کرنے نہ آتی۔

"میں لے جاوں گا داجی۔۔۔مگر۔۔۔"

وہ ایک پل کو خاموش ہوا۔

"مگر کیا۔۔۔؟"

اعظم احمد نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"کل میری ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔۔اسی لئے کچھ دیر بعد میں اسلام آباد کے لئے روانہ ہوں گا۔وہاں سے واپس آ جاوں تو لے جاوں گا۔"

اب وہ صاف انکار تو نہیں کر سکتا تھا۔اس لئے کام کا بہانا بنا کر منع کر دیا۔ایمان کو اس کے ٹھنڈے لہجے پہ بہت غصہ آیا۔

"مگر داجی میں کل ہی جانا چاہتی ہوں۔۔آپ مجھے کسی اور کے ساتھ بھیج دیں۔ان کا کیا پتہ کب واپسی ہو۔"

ایمان نے اعظم احمد سے لجاجت بھرے لہجے میں کہا۔

"ہاں تقریبا دو ہفتے تک میں فارغ نہیں ہوں۔"

غزنوی نے فورا سے پیشتر کہا۔اسکے یوں صاف منع کرنے پر ایمان کا چہرہ تاریک ہوا جو اعظم احمد سے مخفی نہ رہ سکا۔

"کام تو بیٹا ہوتے رہتے ہیں۔۔ایمان شادی کے بعد پہلی بار اپنے میکے جا رہی ہے اور وہ بھی اتنے وقت بعد۔۔۔تمھارا جانا ساتھ ضروری ہے۔"

اعظم احمد نے ایمان کی طرفداری کی۔

"مگر داجی۔۔۔میں اپنی میٹنگ کینسل نہیں کر سکتا۔۔میرا جانا بہت ضروری ہے۔۔آپ اسے ڈرائیور کے ساتھ بھیج دیں۔"

وہ لاپروائی سے بولا۔

"تمھارا جانا ساتھ ضروری ہے۔۔غزنوی۔۔"

انھوں نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا۔

"اگر میرا جانا ضروری ہے تو اس منتھ انتظار کر لے۔۔نیکسٹ منتھ لے جاوں گا۔"

اسکا دوٹوک انداز دیکھ کر ایمان کا دل بھر آیا۔

"ٹھیک ہے تو تم۔۔۔۔"

وہ بیڈ سے اتر کر غزنوی کی طرف بڑھے۔

"رہنے دیں داجی۔۔۔مجھے نہیں جانا۔"

وہ انھیں روکتی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔اعظم احمد اسے روکتے ہی رہ گئے۔

"یہ کیا طریقہ ہے غزنوی۔۔۔تمھارا رویہ بہت روڈ تھا۔۔کیا تم خوش نہیں ہو ایمان کے ساتھ۔۔؟"

ان کے کڑے لہجے میں دریافت کرنے پہ غزنوی فائل ٹیبل پہ رکھتا ان کے پاس آیا۔

"ایسی کوئی بات نہیں ہے داجی۔۔مگر آپ کو پتہ ہے نا کہ میرا نیا نیا بزنس ہے۔یہ میٹنگ اگر میں کینسل کر سکتا تو کر لیتا مگر۔۔۔"

"اگر مگر کچھ نہیں۔۔ایمان تمھارے ساتھ اسلام آباد جائے گی اور جس دن تم فارغ ہوئے اسے گاوں لے جانا۔۔ویسے بھی تم اسلام آباد میں اکیلے کیسے رہو گے۔۔تم وہاں اور وہ یہاں۔۔مناسب نہیں لگتا۔"

انھوں نے اسے بیچ میں ہی ٹوک دیا اور بستر تک آئے اور بیڈ پہ لیٹتے ہی کتاب کھول لی۔۔جسکا مطلب تھا کہ وہ مزید اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

"کیا مصیبت ہے۔۔"

وہ احتجاجا بولا مگر دھیرے تاکہ ان تک آواز نہ جائے۔۔لیکن اعظم احمد نے اسکے چہرے سے اندازہ لگا لیا تھا۔

"جا کر ایمان سے کہو کہ پیکنگ کر لے۔۔وہ تمھارے ساتھ جا رہی ہے۔"

وہ بےحد سنجیدگی سے بولے جبکہ غزنوی تن فن کرتا کمرے سے نکل گیا۔۔

وہ غصے میں بڑبڑاتا، دھڑام سے دروازہ کھولتا کمرے میں داخل ہوا۔ایمان الماری کے پاس کھڑی تھی۔اسکے ہاتھ میں غزنوی کی شرٹس تھیں۔ایمان نے اسکے غصے کی پرواہ کیے بغیر ہاتھ میں پکڑی شرٹس بیڈ پہ رکھیں اور پھر غزنوی کے سفری بیگ میں ترتیب سے رکھنے لگی۔غزنوی نے تیز آواز سے دروازہ بند کیا اور تن فن کرتا اس کے سر پہ جا پہنچا۔

"کیا ضرورت تھی داجی کے سامنے شریفاں بی بی بننے کی۔"

وہ کڑے تیور لیے اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

"کیا مطلب۔۔؟"

ایمان نے بلیک شرٹ کو تہہ لگاتے ہوئے پوچھا۔

"مطلب یہ کہ تم ان کے سامنے خود کو حد درجہ معصوم اور مجھے ظالم بنا کر آ رہی ہو۔۔۔اس کے پیچھے مقصد کیا تھا۔۔؟"

غزنوی نے اسکی لاپروائی محسوس کی تو اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔

"میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔"

وہ اپنا ہاتھ اسکی گرفت سے آزاد کراتے ہوئے بولی۔۔اسکا ماتھا شکن زدہ تھا۔غزنوی نے دائیں آبرو اٹھائی۔

"آپ جو چاہتے تھے میں وہی کر کے آئی ہوں۔"

وہ مزید بولی۔

"نہایت بدتمیزی سے پیش آئی ہو تم ان کے سامنے۔"

دھیما لہجہ سختی لیے ہوئے تھا۔

"میں نے کوئی بدتمیزی نہیں کی۔"

وہ الماری کی طرف بڑھی۔۔

"بدتمیزی کی ہے تم نے۔۔اُس رات بھی نے نہایت بدتمیزی سے بات کی تھی مجھ سے۔۔"

ایمان کے اس لاپرواہ رویے پہ غزنوی کا جی چاہا اسے باہر پھینک دے۔وہ جتنا اس سے تنگ کرنا چاہتا تھا وہ اتنی ہی لاپروائی ظاہر کر رہی تھی۔

"میں پہلے بھی بتا چکی ہوں۔۔وہ تو آپکے ایکشن کا ری۔ایکشن تھا۔"

ایمان اب بھی اسکی جانب نہیں دیکھ رہی تھی۔

"ویسے ایک بات تو بتاؤ۔۔یہ سب کون سکھا رہا ہے تمھیں۔"

غزنوی اسکے چہرے کو فوکس کرتے ہوئے بولا۔

"کیا مطلب۔۔۔میں سمجھی نہیں۔۔"

ایمان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا۔

"بھولی بننے کی اچھی خاصی ایکٹنگ کر لیتی ہو۔"

غزنوی کی آنکھوں میں دِکھتا احساس نرم مگر لہجہ سختی لیے ہوئے تھا جبکہ ایمان اسکی بات کا کوئی جواب نہ دیتی ہوئی الماری کی طرف بڑھ گئی۔

"تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔۔۔اسلام آباد۔۔۔۔سامان پیک کر لو۔۔"

غزنوی نے کہا تو ایمان نے فوراً پلٹ کر اسے دیکھا۔اس کے چہرے پہ ہوائیاں اڑنے لگیں جو غزنوی سے چُھپی نہ رہ سکیں۔وہ اپنے ہونٹوں پر در آنے والی مسکراہٹ کو دبا گیا۔

"وہاں مجھے اپنی خدمت کے لئے بھی تو کسی کی ضرورت پڑے گی اور تم سے بہتر کون ہو گا اس کام کے لئے۔"

وہ طنزیہ انداز میں کہتا کمرے سے نکل گیا جبکہ ایمان نے ہاتھ میں پکڑی شرٹس غصے سے زمین پر پٹخ دیں اور سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گئی۔

⁦ 

پھر اس نے بڑی کوشش کی۔۔بڑے ہاتھ پیر مار کر دیکھ لئے۔۔لیکن نتیجہ دھاک کے وہی تین پات۔۔اوپر سے خیرن بوا سے اسے جو ڈانٹ پڑی وہ الگ۔۔

"بُوا مجھے آپ لوگ یاد آؤ گے۔۔میں کہاں عادی ہوں۔"

اس نے رونی صورت بنا کر خیرن بوا کو دیکھا۔

"اے لو۔۔۔!! پاگل ہوئی ہے۔۔ائے اکیلی کہاں ہو۔۔یہ ہمارا پتر ساتھ ہو گا نا۔"

بوا چاول صاف کرتے ہوئے بولیں۔

"لیکن بوا۔۔۔۔۔اچھا آپ میرے ساتھ چلیں۔"

ایمان نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔۔جبکہ شمائلہ بیگم افسوس سے سر دائیں بائیں ہلاتیں کچن کی جانب بڑھ گئیں۔

"ائے شمائلہ۔۔۔یہ لڑکی تو بالکل باؤلی ہو گئی ہے۔کب سے اُول جلول بولے جا رہی ہے۔اۓ ہئے۔۔تم تو کوئی انوکھی لگی ہو یہ کہتے ہوئے۔۔۔ائے لڑکیاں اپنے میاں کے پیچھے پیچھے رہتی ہیں اور ایک تم ہو۔۔میاں سے کوسوں دور رہنے پہ تُلی ہو۔آجکل کی لڑکیاں تو بس خَسم کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں باقی سب جائیں بھاڑ میں۔"

وہ ایمان کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگیں۔

"بوا۔۔۔یہ تو سارا دن باہر ہوں گے۔۔اپنے کام میں مصروف۔۔میں اکیلی ہی تو ہوں گی۔آپ میرے ساتھ چلیں گی تو مجھے تنہائی تو محسوس نہیں ہو گی۔"

اس نے ابھی تک ان کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔

"ائے بی بی۔۔مجھے تو معاف ہی رکھو۔"

خیرن بوا بھی ہاتھ چھڑاتیں کچن میں چلی گئیں۔

خیرن بوا اور شمائلہ بیگم نے جب اسکی بات پہ دھیان نہیں دیا تو ایمان ایک آخری مرتبہ عقیلہ بیگم سے بات کرنے کے لئے ان کے روم میں آ گئی۔وہ آج طبیعت کی خرابی کے باعث اپنے کمرے میں ہی تھیں۔ایک آخری کوشش کرنے وہ ان کے روم میں ان کے سامنے بیٹھی تھی۔

"یہ تو ایک اچھا موقع ہے تمھارے پاس۔۔اپنا آپ منوانے کا۔۔اور تم ویسے ہی اس سے گھبرا رہی ہو۔۔"

پہلے تو عقیلہ بیگم اس کی بات سن کر سر پکڑ کر رہ گئیں۔۔پھر اسے سمجھانے لگیں۔انہیں اعظم احمد نے بتا دیا تھا کہ ایمان کا غزنوی کے ساتھ جانے والا فیصلہ ان کا تھا۔غزنوی بھی مشکل سے مانا ہے۔

"شاہ گل مجھے نہیں جانا۔۔میں بابا سے ملنے جانا چاہتی ہوں۔۔آپ پلیز روک لیں مجھے۔۔"

ایمان نے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی۔

"بیٹا غزنوی نے کہا ہے نا کہ وہ فارغ ہوتے ہی لے جائے گا۔تب تک تم بھی اپنا گھر بار سنبھال لو گی۔"

عقیلہ بیگم بھی اسے سمجھانے لگیں۔

"ٹھیک ہے تو پھر آپ بھی چلئیے میرے ساتھ۔۔"

ایمان اب بھی ضد پہ اڑی ہوئی تھی۔درحقیت وہ غزنوی کے غصے سے ڈری ہوئی تھی۔یہاں سب کی موجودگی میں تو وہ تھوڑا بہت لحاظ کرتا تھا مگر وہاں وہ اسکے آسرے پر اکیلی ہو گی۔۔اسی دوران خیرن بوا ہاتھ میں چھوٹی سی ٹرے جس میں جوس کا گلاس رکھا تھا، لیے کمرے میں داخل ہوئیں۔ایمان کو وہاں بیٹھے دیکھکر ان کی تیوری چڑھ گئی اور تو اور اس کے الفاظ بھی انکے کانوں تک پہنچ گئے تھے۔  

"ائے یہ لڑکی تو بالکل ہی باؤلی ہوئی بیٹھی ہے۔"

بوا نے ٹرے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور گلاس عقیلہ بیگم کی طرف بڑھایا جو انہوں نے فوراً تھام لیا۔

"میں بھی اسے کب سے یہی سمجھا رہی ہوں۔"

عقیلہ بیگم نے خیرن بوا کو دیکھا جبکہ وہ افسوس سے اسکی طرف دیکھتیں کمرے سے چلی گئیں۔

"دیکھو بیٹا۔۔۔غزنوی تمھارا شوہر ہے۔اسطرح اس سے بھاگنے کے درپے رہو گی تو کیسے چلے گا۔یوں سب کے سامنے اپنا اور اپنے رشتے کا تماشا مت بناو۔تمھارے اس طرح کھلے عام انکار کرنے سے یہ سب کیا سوچیں گے۔"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں اب کے سختی نمایاں تھی۔ایمان خاموش رہی۔۔عقیلہ بیگم کچھ لمحے اسے دیکھتی رہیں پھر گہری سانس خارج کرتیں مزید بولیں۔

"ابھی تم چلی جاؤ۔۔۔میں بھی آ جاؤں گی تم سے ملنے۔۔۔اور وہاں خیرن بوا کی بہن وہ کیا نام تھا ان کا۔۔"

وہ سوچ میں پڑ گئیں۔۔ایمان اسی طرح نروٹھے انداز میں بیٹھی رہی۔

"ہاں یاد آیا۔۔۔بلقیس۔۔۔۔غزنوی کی پڑوسن ہیں وہ۔۔میں خود ان سے کہہ دوں گی کہ تمھارا خیال رکھیں۔"

انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اسے تسلی دی۔ایمان مزید کوئی راہ نہ پا کر اپنی رضامندی ظاہر کرتی وہاں سے اٹھ آئی۔

جیسے تیسے اس نے اپنی پیکنگ کی۔غزنوی کسی کام سے گھر سے باہر تھا اور اس سے کہہ کر گیا تھا کہ شام تک نکلیں گے۔وہ سوٹ کیس ریڈی کیے منہ پُھلائے بیٹھی تھی۔موڈ سخت خراب تھا۔جیسے جیسے وقت قریب آ رہا تھا دل کی حالت عجیب سے ہو رہی تھی۔

"تم تو یوں سر پکڑ کر بیٹھی ہو جیسے میرے ساتھ نہیں کسی جنگی محاذ پر جا رہی ہو۔"

غزنوی کمرے میں آیا تو وہ بیڈ پہ بیٹھی تھی۔پاس ہی براؤن کلر کر سوٹ کیس تیار پڑا ہوا تھا۔ایمان کی صورتحال دیکھ کر غزنوی کو ہنسی آ گئی مگر اس کے سامنے ہنسنے سے گریز کیا۔۔لیکن بولنے سے خود کو روک نہ سکا۔ایمان نے نہایت غصیلے انداز میں اسے دیکھا۔غزنوی کی نظر اس کی بھوری آنکھوں میں اٹک گئی۔

"مجھے آپ کے ساتھ نہیں جانا۔۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تو میں کون سا تمھیں ساتھ لے جانے کے لئے مر رہا ہوں۔۔۔مت جاؤ۔۔"

غزنوی نے بیڈ سے سوٹ کیس اتار کر نیچے رکھا اور وہیں بیٹھ گیا۔ایمان کا طرز عمل دیکھ کر اسکا موڈ بگڑا تھا تو اس نے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔یہ دیکھ کر ایمان کڑھ کر رہ گئی۔

"یہ شخص بہت ہی پھیل رہا ہے۔"

اس نے دل میں سوچا۔

"تو آپ جائیں اور داجی سے کہہ دیں کہ آپ مجھے ساتھ نہیں لے جا سکتے اور یہ کہ وہ مجھے ڈرائیور کے ساتھ گاوں بھیج دیں۔"

ایمان پہلی بار اس سے یوں ہمکلام تھی۔۔ورنہ اس سے پہلے تو کبھی اس نے غزنوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی۔۔غزنوی بھی کب اسکی ذات کے ان پہلوؤں سے واقف تھا اور نہ کبھی ایسا سوچا تھا کہ وہ یوں اس کے سامنے آ کھڑی ہو گی۔وہ تو اسے دبو سی لڑکی سمجھتا آیا تھا۔

"میں کیوں کہوں۔۔۔خود جاؤ اور داجی سے کہہ دو۔۔پہلے ہی تمھاری وجہ سے مجھے امی اور شاہ گل کی باتیں سننی پڑتیں ہیں۔"

وہ اس کی سچویشن سے لطف اٹھا رہا تھا۔

"میں نہیں کہہ سکتی۔۔"

وہ ہار مانتے ہوئے بولی۔غزنوی کو اس پل وہ دل سے بےحد قریب لگی۔دل کیا مزید اسے تنگ کرنا ترک کر دے مگر دل کی نرمی پہ سختی جمانا اب اس کے لئے آسان ہو گیا تھا۔

"تو ٹھیک ہے۔۔زیادہ نخرے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔میں نیچے گاڑی میں انتظار کر رہا ہوں۔"

وہ سوٹ کیس اٹھانے کے لئے بڑھا۔۔اپنا سامان تو وہ گاڑی میں رکھوا چکا تھا۔

"مہارانی کا سامان میں کیوں اٹھاؤں۔۔نوکر نہیں ہوں اسکا۔"

یہ سوچ کر سوٹ کیس کی طرف بڑھتا اسکا ہاتھ وہیں رک گیا۔وہ اسے وہیں چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔غزنوی کے جانے کے کچھ دیر بعد چوکیدار رؤف اسکا سامان لینے کمرے میں آیا۔ایمان وہیں مجسمے کی صورت کھڑی تھی۔

"بی بی۔۔۔صاحب کہہ رہے ہیں جلدی آئیں۔"

چوکیدار اسے وہیں جمے دیکھ کر بولا اور پھر سامان اٹھاتا کمرے سے نکل گیا۔

"آتی ہوں صاحب کے چمچے۔۔"

وہ بھی دانت پیستی کمرے سے نکل آئی۔لاؤنج میں سبھی موجود تھے اسے سی۔آف کرنے کے لئے۔۔۔سوائے غزنوی کے۔۔شاید وہ ان سے ملکر جا چکا تھا۔باری باری سب سے ملنے کے بعد وہ آخر میں عقیلہ بیگم کے پاس آئی۔

"اپنا اور غزنوی کا خیال رکھنا۔"

عقیلہ بیگم اس کی آنکھوں کے بجھے دیوں سے نگاہ چرا کر بولیں۔وہ سر ہلاتی باہر نکل گئی۔وہ ان سے کچھ کہنا چاہتی تھی۔۔ان سے وعدہ لینا چاہتی تھی کہ وہ اس کے پاس اسلام آباد آئیں گی۔۔مگر غزنوی ہارن پہ ہارن دئیے جا رہا تھا۔وہ باہر آئی تو چوکیدار رؤف نے اسے دیکھ کر گاڑی کا فرنٹ ڈور کھول دیا۔وہ غزنوی کی جانب دیکھے بغیر بیٹھ گئی۔گیٹ کھلا تھا۔۔اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔گاڑی جیسے ہی مین روڈ پہ آئی چوکیدار نے گیٹ بند کر دیا۔گیٹ بند ہونے کے اگلے ہی پل گاڑی ہوا سے باتیں کرتی آگے بڑھنے لگی۔ایمان کو اپنا پہلا سفر یاد آ گیا۔فرق صرف اتنا تھا کہ آج غزنوی نے اسے پیچھے بیٹھنے کے لیے نہیں کہا تھا۔وہ خاموشی سے ڈرائیو کر رہا جبکہ وہ کھڑکی سے باہر بھاگتے دوڑتے مناظر میں کھو گئی۔رات کے آٹھ بجے تھے جب وہ لوگ اسلام آباد پہنچے۔راستے بھر گاڑی میں خاموشی رہی تھی۔دونوں نے آپس میں کوئی بات نہیں کی۔جس رفتار سے غزنوی نے گاڑی چلائی تھی وہ جلد ہی اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔گاڑی ایک پوش ایریا میں داخل ہوئی تو ایمان جو کہ ریلیکس انداز میں بیٹھی ہوئی تھی سیدھی ہو بیٹھی تھی۔کچھ دیر مزید سفر کے بعد گاڑی ایک چھوٹے مگر بہت ہی خوبصورت بنگلے کے پاس آ رکی۔غزنوی نے ہارن دیا تو گیٹ کھول دیا گیا۔

وہاں خاموشی اس قدر تھی کہ ہارن کی آواز فضا کو چیرتی ہوئی سی محسوس ہوئی تھی۔ہارن دینے کے دو منٹ بعد نہایت پُھرتی سےگیٹ کھول دیا گیا۔گاڑی تیزی سے اندر داخل ہوئی۔ایمان نے دیکھا کہ ایک شخص سیاہ کپڑوں میں ملبوس، کندھے پہ بندوق لٹکائے گیٹ کے قریب کھڑا تھا۔وہ یقینا چوکیدار تھا۔عمر سے تقریبا چالیس سے پینتالیس کا لگ رہا تھا۔گاڑی پورچ میں آ کھڑی ہوئی۔گاڑی کا انجن بند ہوتے ہی وہ دونوں ایک ساتھ ہی گاڑی سے نکلے تھے۔

"السلام علیکم کاکا۔۔"

غزنوی نے چوکیدار کو سلام کیا اور گاڑی کی چابی اس کے ہاتھ میں دے دی۔چوکیدار نے مسکراتے ہوئے غزنوی کو سلام کا جواب دیا۔

"گاؤں سے کب آئے کاکا۔۔۔۔؟"

غزنوی نے سلام کے بعد پوچھا جبکہ چوکیدار کی سوالیہ نظریں ایمان کی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔

"کاکا یہ میری بیوی ہے اور ایمان یہ گل خان کاکا ہیں۔یہ بھی ہمارے گاؤں سے ہیں۔یہاں چوکیدار کی حیثیت سے ملازم ہیں۔"

غزنوی نے ان دونوں کا تعارف کروایا۔ایمان نے سر کے اشارے سے گل خان کو سلام کیا۔یہ جان کر اسے بہت خوشی ہوئی کہ گل خان کا تعلق انہی کے گاؤں سے ہے۔گل خان نے پدرانہ شفقت کے ساتھ اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔

"کاکا۔۔۔۔گاڑی سے سامان لے آئیں۔"

وہ گل خان سے کہتا راہداری سے ہوتا ہوا اندر کی طرف بڑھ گیا۔ایمان بھی اس کے پیچھے آئی تھی۔اندر جاتے ہوئے اس نے چاروں اطراف نظر ڈالی، بنگلہ مختلف پھول پودوں سے ڈھکا ہوا تھا۔دیوار پر گلابی اور سفید  بوگن ویلیا عجب بہار دکھا رہا تھا۔چھوٹا سا لان رنگ برنگی پھولوں سے سجا ہوا تھا۔وہ توصیفی نظر ڈالتی اندرونی دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔لاؤنج میں آئی تو غزنوی وہاں نہیں تھا۔

"اب کہاں غائب ہو گیا۔۔۔؟"

اس نے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے سوچا اور کچھ دیر سستانے کے لئے صوفے کی جانب آ گئی۔صوفے کی بیک سے سر ٹکا کر وہ آنکھیں موند گئی تھی۔

"بی بی یہ سامان کہاں رکھوں۔۔؟"

چوکیدار کی آواز پہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔وہ دونوں سوٹ کیس اپنے پیروں کے قریب رکھے اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔

"صاحب کے کمرے میں پہنچا دو۔۔لیکن صرف ان کا سامان۔۔یہ براؤن کلر والا سوٹ کیس دوسرے کمرے میں رکھ دو۔"

وہ پرسکون انداز میں بولی۔

"یہاں تو میں اس شخص کی غلامی نہیں کروں گی۔"

"جی بی بی آپ نے کچھ کہا؟"

ایمان کو منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے دیکھ کر چوکیدار نے پوچھا۔

"نہیں کچھ نہیں۔۔تم جاؤ یہ سامان صاحب کے کمرے میں رکھ آؤ۔۔بعد میں میں خود دیکھ لوں گی۔"

گل خان کے چہرے پر تذبذب کے آثار دیکھتے ہوئے اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس نے اپنے الفاظ کو بہانے کی چادر میں لپیٹا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔"

وہ دونوں سوٹ کیس اٹھا کر دائیں جانب والے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔کچھ دیر بعد وہ سامان رکھ کر کمرے سے باہر آ گیا۔

"بی بی۔۔۔!! میں رشیدہ کو بھیج دیتا ہوں وہ آپ کی مدد کر دے گی۔"

گل خان اس کے پاس آ کر بولا۔

"کون رشیدہ۔۔۔؟"

ایمان نے پوچھا۔

"جی وہ یہاں ملازمہ ہے۔"

گل خان کے بتانے پر ایمان نے سر ہلا کر اسے جانے کو کہا۔وہ پلٹ کر لاؤنج سے نکل گیا۔

"پتہ نہیں یہ کھڑوس غزنوی اتنی دیر سے کمرے میں کیا کر رہا ہے۔"

ایمان نے بند کمرے کے دروازے کو گُھورا۔

"خیر۔۔۔مجھے کیا۔۔"

وہ دل پر پتھر رکھتی پاؤں پسار کر پرسکون انداز میں بیٹھ گئی۔سفر کی تھکان سے اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں تھیں۔

"السلام علیکم بی بی۔۔!"

کسی کے سلام کرنے پر اس نے چونک کر آنکھیں کھول دیں۔ایک سانولی رنگت والی عورت اسکے سامنے کھڑی اسے تجسّس بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"کون ہو تم۔۔۔؟"

ایمان سیدھی ہو بیٹھی اور اسے سر سے پیر تک دیکھا۔۔حلیے سے تو وہ ملازمہ لگ رہی تھی۔

"بی بی میں رشیدہ۔۔۔ادھر کام کرتی ہوں اور یہیں سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہوں۔میرا مرد یہاں مالی کا کام کرتا ہے جی۔۔"

وہ اپنے ڈوپٹے سے منہ پونچتی نیچے کارپٹ پہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔

"اچھا۔۔۔ایسا کرو کہ ایک کپ چائے بنا دو اسٹرانگ سی۔۔"

وہ واپس صوفے سے کمر ٹکا گئی۔رشیدہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی جبکہ ایمان نے ایک بار پھر بند دروازے کو گُھوری سے نوازا۔

⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩

رات کے نو بجنے والے تھے۔وہ ابھی تک صوفے پہ ہی براجمان تھی۔تمنا اپنا سارا کام ختم کر کے جا چکی تھی۔غزنوی بھی کمرے سے باہر نہیں آیا تھا۔اتنی دیر ہو گئی تھی انھیں یہاں آئے ہوئے۔اب تو بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے تھے۔یہاں آنے کی پریشانی میں اس نے دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا تھا اور یہاں آنے کے بعد تھکاوٹ کے باعث صرف چائے کی ہی طلب ہوئی تھی۔اسی لئے صرف چائے ہی پی تھی۔اب زرا تھکاوٹ دور ہوئی تو بھوک نے آ جکڑا تھا۔اسے اندازہ لگانے میں دیر نہ لگی کہ غزنوی سو گیا ہو گا۔وہ اٹھ کر اسکے کمرے کی طرف بڑھی۔دروازے کے قریب پہنچ کر وہ ششں و پنج میں مبتلا تھی کہ اندر جائے یا نہیں مگر پھر کچھ سوچ کر سامان کے بہانے دستک دے ڈالی۔اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ایک بار دو بار مسلسل تین بار دستک دینے کے بعد بھی جب کوئی جواب نہ ملا تو اس نے دھیرے سے ناب گھمائی۔دروازہ لاکڈ نہیں تھا۔وہ محتاط انداز میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی۔کمرے میں اندھیرا تھا۔اس نے سوئچ بورڈ ڈھونڈ کر لائٹ آن کی۔کمرہ روشن ہوتے ہی اسکی نظر بیڈ پہ آڑھے ترچھے سوئے غزنوی پر پڑی۔وہ گہری نیند میں تھا اسی لئے تو لائٹ آن ہونے کے بعد بھی اسکی نیند میں کوئی خلل نہیں آیا۔پہلے تو اسکا جی چاہا کہ ہاتھ بڑھا کر اسے جگا دے مگر پھر اپنا ارادہ ملتوی کر دیا اور وہ جس خاموشی سے آئی تھی اسی خاموشی سے کمرے سے نکل آئی مگر آنے سے پہلے وہ غزنوی پہ پڑا کمبل درست کرنا نہ بھولی تھی۔

وہاں سے وہ سیدھے کچن میں آئی تھی۔اپنے لئے کھانا گرم کیا اور وہیں کچن میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔کھانا کھانے کے بعد اس نے برتن دھوئے اور لائٹس آف کرتی کچن سے باہر آئی۔روم میں جانے سے پہلے اس نے لاؤنج کا دروازہ اندر سے بند کیا مگر لائٹس آن رہنے دیں تاکہ اگر غزنوی اٹھے تو باہر آنے پہ اسے اندھیرے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔وہ غزنوی کے روم کے ساتھ والے روم میں آ گئی۔۔یہ بھی بیڈ روم تھا۔۔اردگرد نظر دوڑا کر اس نے دروازہ اندر سے بند کیا اور خود بیڈ پہ آ گئی۔تکیے پہ سر رکھتے ہی اسے نیند نے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا تھا۔

❇️ ⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩

اسکی آنکھ کھلی تو رات کے گیارہ بج رہے تھے۔کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔اسے اپنی اتنی بےخبری والی نیند پر حیرانی ہوئی تھی۔اچانک کچھ یاد آنے پہ صوفے پہ نظر گئی لیکن وہاں ایمان نہیں تھی۔صوفہ بھی سنگل تھا۔کمرے میں اسکے علاوہ کسی اور کے موجود ہونے کے آثار بھی نہیں لگ رہے تھے۔

"یہ اب تک روم میں کیوں نہیں آئی۔"

اس نے کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے سوچا۔

وہ بیڈ سے اتر آیا۔لائٹس آن کیں اور پھر روم سے باہر آ گیا۔لاؤنج کی تمام لائٹس آن تھیں۔وہ یہاں بھی نہیں تھی۔گھر کا میں ڈور بھی بند تھا۔وہ اپنے روم کے ساتھ والے روم کی جانب آیا۔اس نے بناء دستک کے دروازہ کھولنا چاہا مگر دروازہ اندر سے لاکڈ تھا۔وہ واپس لاؤنج میں آ گیا اور صوفے پہ بیٹھ گیا۔بھرپور نیند لینے کے بعد اب اسے بھوک ستا رہی تھی۔وہ کچن کیطرف آ گیا۔فریج سے ترکاری کا باول نکال کر اون میں گرم کرنے لئے رکھ دیا۔کھانا گرم ہوا تو اس نے وہیں بیٹھ کر کھانا کھایا اور گندے برتن سنک میں رکھ کر لائٹس آف کرتا کچھ سے نکل آیا۔۔اب اس ٹائم کچھ اور تو تھا نہیں کرنے کو اس لئے لاؤنج کی بھی لائٹس بند کرتا اپنے روم میں آ گیا۔

اگلے دن وہ ٹائم سے اٹھ گیا تھا۔فریش ہو کر کچن میں آیا تو وہاں خاموشی تھی۔ایمان ابھی تک روم سے باہر نہیں آئی تھی۔

"یہ رشیدہ بی بی بھی تشریف نہیں لائی اب تک۔"

اس نے فریج سے پانی کی بوتل نکال کر گلاس میں پانی ڈالا۔پانی پینے کہ بعد وہ کچن سے نکل آیا۔اپنے روم کی طرف جا ہی رہا تھا کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔وہ دروازے کی طرف بڑھا جسے اب کوئی تقریبا پیٹ رہا تھا۔

"صاحب جی۔۔۔بی بی صاحب۔۔۔"

دستک کے ساتھ ساتھ فل والیوم میں پکارا بھی جا رہا تھا۔آواز رشیدہ کی تھی۔اس سے پہلے کہ دروازہ توڑ دیا جاتا غزنوی نے دروازہ کھول دیا۔

"کیا دروازہ توڑو گی اب۔۔"

وہ غصیلے لہجے میں بولا۔

"ہائے صاحب۔۔۔میں بھلا دروازہ کیوں توڑوں گی۔۔جھلی تو نہیں ہوں۔"

وہ ڈوپٹہ منہ پہ رکھ کر کھی کھی کرنے لگی۔

"اسکی کمی تھی۔۔"

وہ بڑبڑایا۔

"کیا صاحب۔۔؟"

رشیدہ نے اسے غصے سے اپنی طرف دیکھتا پا کر پوچھا۔

"کچھ نہیں میرے لئے ناشتہ بناؤ۔۔جلدی نکلنا ہے مجھے۔"

وہ پلٹ گیا۔

"جی صاحب۔۔پَر دروازہ کیوں بند کیا تھا۔۔میں صبح سے دو بار آئی تھی۔۔روز تو بند نہیں ہوتا۔۔"

وہ مزید سوال کرنے کے موڈ میں تھی۔اس کے سوال پہ غزنوی نے پلٹ کر اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تو وہ سیدھی سیدھی کچن میں چلی گئی۔جلدی جلدی ناشتہ تیار کیا اور ٹرے لئے کمرے میں آئی۔روز وہ اپنے روم میں ہی ناشتہ کرتا تھا۔

"صاحب وہ بی بی صاحب کدھر ہیں۔۔؟"

رشیدہ نے پورے کمرے پہ نظر دوڑائی۔باتھ روم کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا اور وہاں سے کوئی آواز بھی نہیں آ رہی تھی۔

"ناشتہ یہاں رکھو اور جاؤ۔۔۔"

وہ ٹرے اپنی جانب کھینچتے ہوئے بولا۔رشیدہ کمرے سے نکل گئی۔غزنوی نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور پھر آفس کے لئے نکل گیا۔

رشیدہ نے کچن کا کام نمٹایا۔۔وہ برتن دھو کر کر نل بند کرتی واپس مڑی تو اسکی نظر کچن میں داخل ہوتی ایمان پہ پڑی۔

"ارے بی بی۔۔۔آپ جاگ گئیں۔۔ناشتہ بناؤں آپ کے لئے۔۔؟"

رشیدہ نے اس نے پوچھا۔

"نہیں تم ایسا کرو کہ باقی کے کام دیکھ لو۔۔۔ناشتہ میں خود بنا لوں گی۔صاحب چلے گئے۔۔؟؟"

اس نے فریج کی طرف آتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"جی بی بی صاحب۔۔۔"

رشیدہ ہاتھ پونچتی کچن سے نکل گئی۔ایمان نے اپنے لئے ناشتہ بنایا۔ناشتے کے بعد وہ لاونج میں آ گئی۔رشیدہ وہیں موجود جھاڑ پونچھ کر رہی تھی۔

"بی بی صاحب۔۔۔!! آج کھانے میں کیا بناؤں۔۔؟"

رشیدہ نے اسے بیٹھتے دیکھ کر پوچھا۔

"بریانی بنا لو اور ساتھ میں رائتہ۔۔۔"

ایمان سادہ سے لہجے میں بولتی ٹیبل پہ پڑا اخبار اٹھا کر دیکھنے لگی۔کچھ دیر میں ہی بور ہو کر اخبار اپنی جگہ پر رکھتی کچن میں آ گئی۔

"لاؤ میں بھی تمھاری مدد کر دوں۔"

ایمان نے اسکے ہاتھ سے چھری لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا۔رشیدہ اس وقت پیاز کاٹ رہی تھی۔

"ارے نہیں بی بی۔۔۔میں کر لوں گی۔۔"

رشیدہ نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا۔

"اچھا ٹھیک ہے پھر میں اپنے روم میں ہوں۔"

وہ اس سے کہتی غزنوی کے روم میں آ گئی۔۔گرے اور پرپل کلر پورے کمرے میں نمایاں تھا۔رات کو اسے موقع نہیں ملا تھا کمرہ دیکھنے کا۔بیڈ کی پچھلی دیوار پرپل پینٹ کی وجہ سے پورے کمرے میں سب سے نمایاں تھی۔کمرے میں موجود ہر چیز میں انہی دونوں رنگوں کا استعمال کیا گیا تھا۔وہ توصیفی نظروں سے دیکھتی ہر چیز کو چھو کر محسوس کر رہی تھی۔یہ کمرہ پورے گھر سے مختلف تھا۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس کمرے کی دنیا الگ اور اس سے باہر الگ دنیا بسی ہے۔ہر چیز نفاست سے اپنی جگہ پہ موجود تھی۔کمرے میں غزنوی کے پرفیوم کی مہک کمرے میں موجود ہر چیز سے لپٹی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔وہ ہر چیز کا باریک بینی سے جائزہ لیتی الماری کے قریب پڑے سوٹ کیس کے طرف آئی۔اس نے پہلے غزنوی کا سفری بیگ کھولا۔اس کے کپڑے اور ضرورت کی تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ پہ رکھیں۔اپنا سوٹ کیس کھول کر اس میں سے اپنا ایک ڈریس نکالا اور واش روم میں گھس گئی۔فریش ہو کر باہر آئی تو اپنا سامان کسی اور وقت پہ درست کرنے کا ارادہ کرتی روم سے باہر آ گئی۔ویسے بھی وہ جانتی تھی کہ اسے اس کمرے میں ایک صوفے تک پہ جگہ نہیں ملنے والی اس لئے کچن میں آ گئی۔رشیدہ کچن میں ہی تھی۔

"بی بی صاحب۔۔۔چاول دم پہ رکھ دئیے ہیں بس صرف رائتہ بنانا رہ گیا ہے۔"

رشیدہ نے اسے آتے دیکھ کر کہا۔

"ٹھیک ہے تم رہنے دو۔۔۔رائتہ میں خود بنا لوں گی۔"

ایمان نے آنچ دھیمی کی۔

"جی۔۔۔"

تمنا ہاتھ دھونے کے لیے سنک کی طرف بڑھ گئی۔

"سنو۔۔۔!! تم نے وہ دوسرے والے بیڈ روم کی صفائی کر دی ہے یا نہیں۔"

یاد آنے پر اس نے کچن سے باہر نکلتی رشیدہ سے پوچھا۔

"جی بی بی صاحب کر دی تھی۔اس کے لئے علاوہ کوئی اور کام ہو تو بتا دیں۔۔آپ کا سامان ترتیب سے رکھ دوں؟"

اس کی بات سن کر فریج کی طرف بڑھتی ایمان نے ذہہن میں ایک چنگاری سی جلی۔۔

"ہاں کر دو۔۔صاحب کے کپڑے تو میں نے لگا دیئے ہیں تم میرے کپڑے الماری میں ترتیب سے لگا دو۔"

ایمان نے لبوں پہ در آنے والی شرارتی مسکراہٹ کو روکتے ہوئے رشیدہ کی طرف دیکھا۔

"ابھی کر دیتی ہوں۔۔"

وہ کچن سے نکل گئی۔۔جبکہ ایمان رائتہ بنانے لگی۔

"الماری میں اپنے کپڑوں کے ساتھ ساتھ میرے کپڑے دیکھ کر صاحب بہادر کی شکل دیکھنے والی ہو گی۔"

وہ دل ہی دل میں سوچتی مسکرا رہی تھی۔

"اب اتنا تنگ کرنا تو میرا بھی حق بنتا ہے۔"

وہ بڑبڑائی تھی۔۔

⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩ ⁦❇️⁩

شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے جب وہ تھکاوٹ سے چُور گھر میں داخل ہوا۔سستی سے چلتا وہ لاؤنج میں صوفے پہ ڈھے گیا۔ہاتھ میں پکڑی فائلز اور اپنا لیپ ٹاپ اس نے ٹیبل پہ رکھ دیا۔کچن سے آتی کھٹ پٹ کی آوازیں اس کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھیں۔

"شاہدہ بی بی۔۔ایک گلاس پانی لانا۔"

اس نے وہیں سے بلند آواز میں شاہدہ کو پکارا۔

"یہ لیں۔۔۔"

ایک مانوس سے آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔وہ جو آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا، پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ایمان پانی کا گلاس ہاتھ لئے اسکی جانب دیکھ رہی تھی۔آج کے اس قدر ٹف دن کے باعث وہ اسے بھول ہی گیا تھا۔کل شام یہاں آنے کے بعد سے وہ اسے اب دیکھ رہا تھا۔اسے یاد آیا کہ رات وہ روم میں بھی نہیں تھی۔یک ٹک اسے اپنی جانب دیکھتا پا کر ایمان کنفیوز ہو گئی۔

"پانی۔۔۔۔"

ایمان نے گلاس اسکی آنکھوں کے آگے کیا تاکہ غزنوی کی توجہ اس سے ہٹے اور ایسا ہی ہوا۔۔غزنوی نے خاموشی سے گلاس اسکے ہاتھ سے لے لیا۔جب تک اس نے پانی پیا وہ وہیں کھڑی رہی۔

"کچھ اور لیں گے آپ۔۔؟؟ چائے بنا دوں۔۔؟"

ایمان نے خالی گلاس لینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے ہوچھا۔

"اِسے کیا ہو گیا۔۔جادوگرنی جادو کی ڈوز بڑھانے والی ہے کیا۔"

غزنوی سیدھا ہو بیٹھا۔

"شاہدہ بی بی کہاں ہے۔۔؟"

غزنوی نے آس پاس نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔

"وہ کچن میں ہے۔"

وہ مختصر جواب دے کر پلٹ گئی۔۔اس کے جانے کے بعد وہ ایک گہری سانس خارج کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔اپنے کمرے کی طرف اسکے بڑھتے قدم کچھ سوچ کر وہیں تھم گئے۔وہ پلٹ کر کچن کیطرف آیا۔ایمان کچن میں ہی تھی۔

"ایمان۔۔۔!!"

غزنوی کچن کے دروازے میں کھڑا تھا۔ایمان جو برنر کے پاس کھڑی تھی، پلٹ کر دروازے کی سمت دیکھا۔

"جی۔۔۔؟؟"

ایمان کے لہجے اور نگاہوں میں حیرت نمایاں تھی۔غزنوی نے کبھی اسے اس طرح نہیں پکارا تھا بلکہ وہ تو ایمان کو مخاطب کرنے سے بھی گریز کرتا تھا۔

"ایک کپ چائے روم میں بھجوا دو۔۔میں روم میں ہوں۔۔"

ایمان کی آنکھوں میں دِکھتی حیرت بھانپ کر وہ پلٹ گیا۔اس کے جانے کے بعد ایمان نے چائے کا پانی رکھا۔

"بی بی صاحب۔۔!! میرا کام ختم ہو گیا ہے۔۔اگر کوئی اور کام نہیں ہے تو میں چلی جاؤں۔۔؟؟"

رشیدہ نے چائے کی پتی اسکے سامنے سلیب پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں چلی جاو۔۔۔مگر جانے سے پہلے زرا مجھے وہ گرین باول پکڑانا۔"

ایمان نے کھولتے پانی میں چائے کی پتی ڈالی۔رشیدہ سر ہلاتی باول لے آئی۔

"یہ لیں۔۔۔"

اس نے باول ایمان کی طرف بڑھایا۔تب تک وہ چائے بنا چکی تھی۔ایمان نے اسکے ہاتھ سے باول لے لیا۔چولھا بند کر کے اس نے باول میں بریانی نکالی۔

"یہ تمھارے لئے۔۔۔"

ایمان نے باول پہ ڈھکن لگا کر باول رشیدہ کی طرف بڑھایا۔

"بہت شکریہ بی بی۔۔"

رشیدہ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے باول اسکے ہاتھ سے لے لیا اور دعائیں دیتی وہاں سے چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد ایمان نے کپ میں چائے ڈالی اور غزنوی کے کمرے میں آ گئی۔

"یہ تمھارے کپڑے میری الماری میں کیا کر رہے ہیں۔"

وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئی غزنوی اس پہ برس پڑا۔ایمان نے دیکھا کہ بیڈ پہ اسکے کپڑوں کا ڈھیر پڑا ہے۔

"یعنی وقت آ گیا، جس کا وہ انتظار کر رہی تھی۔"

ایمان نے لبوں پہ کِھلنے والی مسکراہٹ کو دبا کر سوچا۔اسے تنگ کرنے اور چڑانے کا ایک موقع آج اسے بھی ملا تھا تو اس موقع کو وہ ہاتھ سے کیسے جانے دیتی۔وہ اسے ذبردستی اپنے ساتھ اسلام آباد لے آیا تھا جبکہ وہ گاوں جانا چاہتی تھی۔جانتی تھی کہ اپنی الماری میں اسکے کپڑے دیکھ کر وہ بھڑک جائے گا اور ایسا ہی ہوا تھا مگر اسے اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسکی چیزوں کا یہ حال کرے گا۔۔یہ دیکھ کر اسے بہت دکھ ہوا تھا۔بات کپڑوں کی حد تک ہوتی تو ٹھیک تھا مگر وہ اسکی ذات سے اسقدر نفرت کرتا تھا کہ اسکی چیزیں بھی اسکی برداشت سے باہر تھیں۔

"یہ کیا کیا آپ نے۔۔۔میرے سارے کپڑے خراب کر دیئے۔"

وہ ٹرے ٹیبل پہ رکھتی بیڈ کیطرف آئی اور سب سے اوپر پڑا سوٹ اٹھا کر ٹھیک سے بیڈ پہ رکھا۔ایک ایک کر کے باقی بھی اٹھانے لگی تھی۔

"تمھاری ہمت کیسے ہوئی اور کس سے پوچھ کر تم نے اپنے کپڑے میری الماری میں رکھے۔"

وہ اسکی بات کو اگنور کرتے ہوئے غصیلے لہجے میں کہتا اسکے قریب آیا۔

"یہ صرف آپ کا کمرہ نہیں ہے۔۔میرا بھی ہے۔"

ایمان نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔

"اوہ۔۔۔!! کس حق سے۔۔؟"

وہ دونوں ہاتھ کمر پہ رکھے اسکے سامنے آ کھڑا ہوا۔

"میں بیوی ہوں آپکی۔۔اس کمرے پہ اور یہاں موجود ہر اک شے پہ میرا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپکا۔۔پھر یہ سوال۔۔چِہ معنی۔۔؟؟"

ایمان نے جوابی وار کیا۔اسکی بات سے غزنوی کی آنکھیں حیرانی سے مزید پھیل گئیں۔

"آہاں۔۔۔!! بیوی ہو میری۔۔؟؟ محترمہ بیوی صاحبہ بیوی ہونے کے کون سے فرائض آپ نے نبھائے ہیں؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا معنی خیز سوال کر گیا۔ایمان نے اس کی آنکھوں میں دکھتے سوال کا مفہوم جان کر نظریں پھیر لیں۔

"یوں نظریں پھیر لینے سے میرے سوال کا جواب نہیں مل جائے گا۔۔بتانا پسند کریں گی کہ کون سے فرائض پورے کیے ہیں آپ نے۔۔؟"

غزنوی نے اپنے اور اسکے درمیان موجود فاصلے کو مزید کم کیا۔تھوڑی دیر پہلے وہ بےخوف ہو کر اس سے بات کر رہی تھی مگر اب اسے اسطرح سوال و جواب کرتا دیکھ کر وہ کنفیوز ہو گئی۔

"آپ کا ہر کام میں کرتی ہوں۔۔اور کیسا ہوتا ہے بیوی کا فرض۔۔۔آپکی ہر بات برداشت کرتی ہوں، خاموشی سے آپکی ہر جلی کٹی سنتی ہوں۔۔آپکی لاپروائی چپ چاپ سہتی ہوں۔۔جو کہتے ہیں مانتی اور کرتی ہوں۔کبھی آپکے رویے کی شکایت نہیں کی۔۔اور کیا کروں۔۔؟؟ اور کیا آپ نے اب تک بیوی کے فرائض پورے کیے ہیں جو مجھ سے یہ سوال کر رہے ہیں۔جب سے شادی ہوئی ہے میری ضرورتوں کا خیال تو کیا رکھنا مجھ سے ٹھیک سے بات تک نہیں کرتے آپ۔۔"

گلوں گیر لہجے میں کہتی وہ وہاں مزید نہیں رکی جبکہ غزنوی چاہ کر بھی اسے روک نہ پایا۔اسے ایمان کا رونا تکلیف دے رہا تھا۔وہ تو صرف اسے تنگ کر رہا تھا۔

"مجھے اس سے بات کرنی چاہیئے۔"

وہ خود سے کہتا دروازے کی سمت بڑھا۔

"میرا سوٹ کیس۔۔۔؟"

اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے باہر نکلتا ایمان تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی اور اپنا سوٹ کیس اٹھانے کے لئے آگے بڑھی جو الماری کے سائیڈ پہ دیوار کے ساتھ رکھا ہوا تھا۔غزنوی وہیں کھڑا اسکے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا۔ایمان نے سوٹ کیس اٹھایا اور جس تیزی سے کمرے میں آئی تھی اسی تیزی سے واپس چلی گئی۔غزنوی اسکے پیچھے آیا تھا۔

"یہ کیا کر رہی ہو۔۔۔؟"

ایمان کو سوٹ کیس میں اپنے کپڑے رکھتے دیکھکر غزنوی نے قریب آتے ہوئے پوچھا۔

"میں گاوں جانا چاہتی ہوں۔۔آپ مجھے گل خان کاکا کے ساتھ گاوں بھجوا دیں۔"

سادہ سے لہجے میں کہتی وہ کپڑے سوٹ کیس میں تقریبا پٹخ رہی تھی۔

"کیوں۔۔۔؟؟ جب میں نے کہا تھا کہ دو ہفتے ویٹ کرو۔۔میں لے جاوں گا تو پھر۔۔۔"

غزنوی نے اسے بغور دیکھا۔وہ گلابی رنگ کی پُھولدار قمیص اور سفید شلوار پہ سفید ڈوپٹہ سلیقے سے اوڑھے ہوئے تھی۔چہرے پہ کچھ دیر پہلے دکھنے والی مسکراہٹ کی جگہ اب سنجیدگی نے لے چکی تھی۔

"مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ۔۔آپ اپنا کام مکمل کیجیئے۔۔میں چلی جاوں گی۔"

سارے کپڑے سوٹ کیس میں اڑستی اس نے بیگ کی زپ بند کی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔ابھی تو وقت نہیں ہے اور نا ہی رات کا سفر مناسب۔۔۔کل صبح گل خان کاکا لے جائے گا تمھیں۔ابھی مجھے بھوک لگی ہے۔۔تم کھانا گرم کرو، میں وہیں آ رہا ہوں۔"

غزنوی نے نرمی سے کہتے ہوئے سوٹ کیس اٹھا کر وہیں ایک طرف رکھ دیا۔ایمان نے وال کلاک پر نظر ڈالی اور خاموشی سے کمرے سے نکل گئی۔کھانا تو تقریبا گرم تھا مگر پھر بھی اس نے دھیمی آنچ پہ گرم ہونے کے لئے رکھ دیا۔اسی دوران ڈائننگ ٹیبل پہ برتن رکھے اور فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل اور رائتہ نکال کر ٹیبل پہ رکھا۔پتہ نہیں وہ کیوں اسقدر غصے میں ہو گئی تھی حالانکہ تنگ کرنے کا پلان تو اسکا تھا۔جب وہ جانتی تھی کہ وہ بھڑک جائے گا تو پھر اتنا دکھ کیوں ہوا تھا۔

"شاید میں دل ہی دل میں اس شخص سے نرمی کا سلوک چاہتی تھی۔اسکی نظروں میں اپنی اہمیت ڈھونڈنا چاہتی تھی۔"

یہ سوچ کر اسے بہت دکھ ہو رہا تھا کہ جب وہ اپنی الماری میں اسکے کپڑے تک برداشت نہیں کر رہا تھا تو اپنے گھر میں اسکا وجود کیسے برداشت کر رہا ہو گا۔

"کھانا ملے گا بھی یا نہیں۔۔؟"

غزنوی کی آواز نے اسے چونکا دیا۔وہ اپنے خیالوں میں اتنی گم تھی کہ اسکے آنے کا علم ہی نہ ہو سکا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ کرسی پہ بیٹھا ویٹ کر رہا تھا۔

غزنوی کو وہاں بیٹھے پانچ منٹ سے زیادہ ہو گئے تھے۔وہ چولھے کے پاس کھڑی تھی اس لئے وہ سمجھا کہ وہ کھانا گرم کر رہی ہے مگر جب وقت گزرنے لگا تو اسے ایمان کو متوجہ کرنا پڑا۔

"لا رہی ہوں۔۔۔"

ایمان نے جلدی سے ڈش میں بریانی نکالی اور ڈش اٹھائے ڈائننگ ٹیبل کی جانب آ گئی۔ڈش اس نے غزنوی کے سامنے رکھی اور خود پلٹ کر جانے لگی تھی کہ غزنوی نے اسے روک لیا۔

"کھانا نہیں کھانا۔۔۔؟"

وہ اسکی جانب دیکھے پوچھ رہا تھا۔ایمان کی کلائی اسکی گرفت میں تھی۔

"مجھے بھوک نہیں ہے۔۔"

جھٹکے سے رکنے کی وجہ سے ایمان کا ڈوپٹہ ڈھلک کر غزنوی کے ہاتھ پہ آ رہا تھا۔ایمان کی صراحی دار گردن اسکے سامنے تھی۔گلابی لب سختی سے باہم ملے ہوئے تھے۔بھوری آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی تھی۔ایمان نے اسکی خود پہ بھاگتی دوڑتی نظروں کو محسوس کرتے ہوئے فورا ڈوپٹہ درست کیا۔

"بیٹھ کر کھانا کھاؤ۔۔۔ورنہ بھول جاؤ کہ میں تمھیں گاؤں جانے دوں گا۔"

غزنوی نے اسکی کلائی چھوڑ دی اور سیدھا ہو کر اپنی پلیٹ میں چاول نکالنے لگا۔اس کی دھمکی کارگر ثابت ہوئی تھی۔ایمان بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی اور تھوڑے سے چاول اپنی پلیٹ میں نکالے۔غزنوی رغبت سے کھانا کھا رہا تھا جبکہ ایمان اچاٹ دل سے کھا رہی تھی۔تھوڑی دیر بعد وہ کھانا کھا کر کمرے میں چلا گیا اور ایمان نے برتن سمیٹ کر دھوئے اور لائٹ آف کرتی اپنے کمرے کی جانب آ گئی۔غزنوی کے روم کا دروازہ بند تھا۔اس نے ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھولنا چاہا تو دروازہ بند تھا۔اس نے ایک بار پھر کوشش کی مگر دروازہ لاکڈ تھا۔کچھ دیر ناب گھما گھما کر وہ کھولنے کی کوشش کرتی رہی مگر دروازہ کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کیونکہ دروازہ واقعی لاکڈ تھا۔وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہو گئی۔

"یہ تو اب تک کھلا ہوا تھا۔۔لاکڈ کیسے ہو گیا۔"

وہ یہ سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی کہ یہ شرارت غزنوی کی ہے مگر سچ یہی تھا وہ دروازہ لاکڈ کر گیا تھا۔۔مگر کیوں۔۔۔یہ سوچنا بھی اسکے لیے محال ہو رہا تھا۔

وہ غزنوی کے روم میں آ گئی۔

"وہ کمرے کا دروازہ لاکڈ ہو گیا ہے۔"

وہ بیڈ پہ نیم دراز موبائل میں مصروف تھا۔

"کون سے کمرے کا۔۔؟"

غزنوی نے پوچھا۔

"ساتھ والے روم کا۔"

وہ بیڈ کے قریب آئی۔

"اچھا وہ۔۔۔میں نے لاکڈ کیا ہے۔"

غزنوی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔۔

"آپ نے۔۔۔؟؟ مگر کیوں۔۔۔؟"

ایمان کا وجود زلزلوں کی زد میں تھا۔

"زیادہ سوال مت کرو۔۔۔دروازہ اور لائٹ بند کرو اور سو جاؤ میری پیاری بیوی۔"

وہ موبائل سائیڈ ٹیبل پر رکھتا اس پہ یوں نظریں جمائے ہوئے تھا کہ ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں کرنٹ سا دوڑ گیا۔وہ کچھ لمحے اسے یونہی دیکھتا رہا اور پھر رخ پھیر کر لیٹ گیا جبکہ ایمان یونہی کھڑی رہی۔۔اس سے ایک قدم بھی نہ لیا گیا یوں جیسے زمین نے اسکے قدموں کو مضبوطی سے جکڑ لیا ہو۔

"اب کیا یونہی میرے سر پہ کھڑی رہو گی۔۔دروازہ بند کرو اور آ کر سو جاؤ۔۔اس بارے میں صبح بات کریں گے۔"

ایمان نے پلٹ کر اسے دیکھا اور قدر سخت لہجے میں بولا۔

"میں کہاں سوؤں۔۔۔یہاں اس صوفے پر۔۔یہ تو چھوٹا ہے۔"

ایمان نے پریشان چہرہ لئے دائیں طرف رکھے سنگل صوفے کیطرف اشارہ کیا۔

"یہاں بیڈ پہ آ جاؤ۔۔۔"

وہ سادہ سے لہجے میں کہتا ایک بار پھر رخ پھیر گیا اور ایمان کا رنگ اڑ گیا۔مرتا کیا نہ کرتا کے مصادق اس دروازہ بند کیا اور لائٹ آف کرتی بیڈ کی طرف آ گئی۔نائٹ بلب کی روشنی میں اس نے غزنوی کو دوسری جانب رخ کرتے دیکھا۔

"جلاد۔۔۔"

وہ دھیرے سے بڑبڑائی اور اسے ایک اور لقب کا میڈل پہناتی آہستگی سے بیڈ کی دوسری جانب لیٹ گئی۔وہ بالکل کونے سے لگی تھی کہ اگر زرا سی بھی اور ادھر ہوتی تو نیچے گر جاتی۔نیند تو اڑ ہی چکی تھی مگر اب رات تو گزارنی تھی۔۔۔لہٰذا دل ہی دل میں آیت الکرسی کا ورد کرتی وہ آنکھیں موند گئی۔دوسری جانب کروٹ کے بل لیٹے غزنوی کو بھی سونے کی کوشش میں ناکامی کا سامنا تھا۔ساتھ لیٹا وجود اسکی نیند اڑائے دے رہا تھا۔اسکے کانوں میں ایمان کے الفاظ گونج رہے تھے اور پھر ایک پل لگا اسے فیصلہ کرنے میں۔۔۔۔اپنی نام نہاد ضد کو بالائے طاق رکھتا وہ اسے اپنی جانب کھینچ چکا تھا۔ایمان اس اچانک حملے کے لئے تیار نہیں تھی۔اس نے ایک پل کو غزنوی کی آنکھوں میں جھانکا اور اس کی گرفت سے نکلنے کی سعی کرنے لگی مگر غزنوی کے مضبوط بازؤں کے آگے اس کی نازک کوششیں دم توڑ گئیں۔ 

لیکن ایمان نے اپنی کوششیں ترک نہیں کیں۔۔غزنوی کی آنکھوں میں جو دِکھ رہا تھا وہ اسے سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

"چھوڑیں پلیز۔۔۔۔"

ایمان کپکپاتی آواز میں اسکے بازوں کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ غزنوی اسے بانہوں میں جکڑے یوں دیکھ رہا تھا جیسے اس کے بعد وہ اسے کبھی دیکھ نہیں پائے گا۔۔ایمان کے چہرے کے وحشت ذدہ تاثرات اسکا سکون غارت کر رہے تھے۔وہ اسکی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھے بالکل ساکت تھا۔ایمان کی آنکھوں میں اسے حیرانی اور خوف واضح دکھائی دے رہا۔اسکی بھوری آنکھوں میں ڈولتی نمی جب گالوں پہ بکھری تو وہ ہوش میں آیا اور کچھ دیر پہلے تک مردانگی کا جو ذعم اس کے اندر کسی جوار بھاٹے کیطرح ابل رہا تھا، اڑنچھو ہو گیا۔

وہ یہ کیا کرنے جا رہا تھا۔۔کیا وہ اتنا کمزور شخص تھا جو اسے، جس کے لئے اپنے دل میں پنپتی محبت کی کونپلوں سے وہ خوب واقف تھا۔جس کا ساتھ ہونا اسے خوشی دینے لگا تھا۔اس کونپل کو اپنی نام نہاد انا کو تسکین پہنچانے کے لئے مسلنے پہ تل گیا تھا۔وہ دھیرے سے ایمان سے الگ ہوا اور اس کی جانب سے رخ پھیر گیا۔

ایمان اس کایا پلٹ پہ حیران رہ گئی۔چہرے کے نقوش سے ٹپکتا خوف کم ہونے لگا۔غزنوی نے جو رخ پلٹا پھر اسکے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔دوسری جانب ایمان اٹھ بیٹھی اور بے ترتیب دھڑکنوں کو اعتدال پہ لانے کی سعی کرنے لگی۔نظر اب تک غزنوی پہ ٹھہری ہوئی تھی۔کچھ دیر وہ یونہی خود کو اس کے سو جانے کا یقین دلاتی رہی۔غزنوی بھی یوں لیٹا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

ایمان نے تکیے پہ سر رکھ دیا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔جی تو چاہ رہا تھا کہ کمرے سے چلی جائے مگر خود میں ہمت نہیں پا رہی تھی۔

آنسو ایک بار پھر آنکھوں سے بہہ نکلے تھے۔دل ہی دل میں قرآنی آیات کا ورد کرتی وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی۔یہ خیال رہ رہ کر اسے تکلیف دے رہا تھا کہ غزنوی اس پہ اپنی برتری ظاہر کرنے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے اور کس حد تک جا سکتا ہے۔

نجانے اسکے ذہہن میں کیا آیا کہ وہ اگلے ہی لمحے اسکی جانب سے رخ پھیر گیا تھا۔

آنکھیں بند کر لینے کے بعد ذہہن پہ چھپے کچھ دیر پہلے کے مناظر۔۔۔غزنوی کا بپھرتا انداز اور اپنا پتے کی طرح لرزتا دل۔۔۔وہ کچھ بھی تو بھول نہیں پا رہی رہی۔ابھی تک غزنوی کے ورزشی بازوؤں کی گرفت محسوس کر کے اسکا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا۔دل ہی دل میں اس نے پختہ ارادہ کیا کہ اسے صبح گاؤں جانا ہے اور اگر غزنوی نے اسے روکنے کی کوشش کی تو وہ اعظم احمد کو فون کر کے کہے گی۔یہی سوچتے سوچتے نجانے رات کے کس پہر نیند نے اسے اپنے گھیرے میں لے لیا۔۔۔

💚

روز کیطرح اسکی آنکھ فجر کے وقت کھل گئی تھی۔تکیے کے پاس رکھا ڈوپٹہ اٹھا کر اوڑھا اور سائیڈ پہ لیٹے غزنوی پر ایک بھی نظر ڈالے بغیر وہ بیڈ سے اتری۔۔۔نماز کا وقت تھا اس نے وضو کیا اور نماز ادا کی۔کتنی ہی دیر وہ جائے نماز پہ ہی بیٹھی رہی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ خدا سے اپنے لئے کیا مانگے۔۔۔دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے وہ خالی خالی نظروں سے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی۔اپنی ذات کے استحصال نے اسکی آنکھوں میں ڈولتی محبت کو تکلیف کے گہرے پانیوں میں ڈبو دیا تھا۔وہ تو اپنی زندگی میں موجود اس شخص سے صرف اور صرف محبت کی خواستگار تھی۔یہ کب چاہا تھا کہ وہ اپنا آپ یوں اس پہ مسلط کر دے کہ وہ گھٹن محسوس کرنے لگے۔۔اسکا دم گھٹنے لگا۔۔تکلیف سی تکلیف تھی جو اسکے رگ و پے میں سرایت کر گئی تھی۔اسے بےچین و بےکل کیے دے رہی تھی۔یہ صحیح تھا کہ وہ غزنوی سے بےطرح محبت کرتی تھی۔وہ اسکے دل میں دھڑکن کیطرح دھڑکنے لگا تھا اور یہ اس کے اندر پھولوں کی طرح مہکتی محبت ہی تھی جو غزنوی کے دل میں بھی اپنے لئے محبت کی مہک چاہتی تھی۔۔اپنا احساس چاہتی تھی۔۔اسکی آنکھوں میں وہ چمک دیکھنا چاہتی تھی جو اسے دیکھنے سے اسکی آنکھوں میں اپنا احساس اجاگر کرے مگر اسکی چاہت کے بالکل الٹ ہو گیا تھا۔غزنوی نے اسکی ذات کی نفی کر کے اپنی خواہشات کی خاردار بیلوں کو اسکے تاریکیوں میں جکڑے وجود سے لپیٹنے کی کوشش کی تھی۔جو اسے گھٹن کے سوا کچھ نہیں دے رہی تھی۔اپنی محبت کے اس طرح پیروں تلے روندے جانے پر اسکے دل کا درد بڑھ گیا تھا۔چہرہ آنسوؤں سے تر ہونے لگا تھا۔

"یا اللہ۔۔تُو تو دلوں کے بھید جانتا ہے۔میرے دل کو سکون عطا کر۔۔مجھے اس تکلیف سے نجات دے۔۔"

دونوں ہاتھوں سے چہرہ چھپائے وہ بے آواز رو دی تھی۔۔۔رونے سے دل کا بوجھ تھوڑا ہلکا ہوا تو وہ جائے نماز لپیٹتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے جائے نماز صوفے پہ رکھی اور کمرے سے باہر نکل آئی۔

ابھی شاہدہ کے آنے میں وقت تھا۔اس لئے وہ کچن میں آ گئی۔اپنے لئے ایک کپ چائے بنائی اور لاونج میں آ گئی۔صوفے پہ بیٹھ کر دھیرے دھیرے چائے پینے لگی۔یہاں موجود خاموشی سے اسے الجھن ہونے لگی۔وہ جس گھر سے آئی تھی وہاں تو ہر وقت چہل پہل رہتی تھی اور یہاں دن رات گہری خاموشی کا سامنا۔۔۔اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ کسی کھائی میں رہ رہی ہو۔جہاں صرف اپنی ہی آواز کی گونج سنائی دیتی ہو۔گھڑی پہ نظر پڑی تو وہ باہر لان میں آ گئی۔لاونج کی بہ نسبت یہاں زندگی محسوس ہو رہی تھی۔پھولوں سے لدے لان میں خوشبوؤں کا بسیرا تھا۔درختوں پہ جُھولے لیتے پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں کو بھلی لگ رہی تھی۔ہاتھ میں چائے کا کپ لئے وہ کیاری میں لگے ایک ایک پھول کو چُھو کر محسوس کر رہی تھی۔

اعظم ولا کا لان بھی بہت ہرا بھرا تھا۔مالی بابا بہت خیال رکھتے تھے۔شام کی چائے اعظم احمد اور عقیلہ بیگم لان میں ہی پیتے تھے۔اس کا وقت بھی ان کے ساتھ گزرتا تھا۔شاہدہ نے اسے بتایا تھا کہ اس کا شوہر یہاں مالی کا کام کرتا ہے اور وہ اس بنگلے کے سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہے۔سرونٹ کوارٹر کی تلاش میں اس نے نظریں گھمائیں۔لان کے پچھلی جانب اسے لکڑی کا ایک چھوٹا سا دروازہ دکھائی دیا۔یہ دروازہ بنگلے کے بائیں جانب دیوار سے ملحق تھا۔ساری دیوار بوگن ویلیاء سے ڈھکی ہوئی تھی۔اس کی چائے بھی ختم ہو گئی تھی۔اس نے کپ سفید کین کی ٹیبل پر رکھا اور لان کے بائیں جانب آ گئی۔سورج کی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر دیوار پہ پڑ رہی تھیں۔وہ دروازے کے قریب آ گئی۔دروازے کا رنگ ہلکا نیلا تھا۔ایمان نے دروازے پہ ہاتھ رکھا۔۔۔دروازہ اندر سے بند تھا۔وہ وہیں سے واپس مڑ گئی۔واپس لان میں آ کر اپنا کپ اٹھایا اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔

"السلام علیکم بی بی صاحب۔۔"

ابھی وہ لاؤنج میں داخل ہوئی ہی تھی کہ پیچھے سے شاہدہ کی آواز آئی۔

"وعلیکم السلام۔۔"

ایمان نے پلٹ کر سلام کا جواب دیا۔

"آپ اتنی جلدی اٹھ گئیں آج۔۔؟"

شاہدہ نے اسکے ساتھ چلتے چلتے پوچھا۔

"میں روز ہی جلدی اٹھتی ہوں۔۔تم آج جلدی آ گئیں۔"

ایمان نے اسکی جانب دیکھا۔

"جی بس بچوں کی آج چھٹی تھی سکول سے تو وہ اس خوشی میں جلدی اٹھ گئے تھے۔ورنہ روز تو اسکول جانے کے لئے اٹھتے ہوئے اتنا تنگ کرتے ہیں کہ بس۔۔ابھی انہیں ناشتہ بنا کر دیا تو سوچا وقت پہ کام بھی ختم کر لوں۔یہ کپ مجھے دے دیں۔"

شاہدہ نے کپ لینے کے لئے ہاتھ اسکی طرف بڑھایا۔

"کتنے بچے ہیں تمھارے؟"

ایمان نے کپ اسکے ہاتھ میں دیتے ہوئے پوچھا۔

"تین۔۔۔ایک لڑکی اور دو لڑکے ہیں۔لڑکے دونوں اسکول جاتے ہیں اور لڑکی ابھی دو سال کی ہے۔جب تک میں یہاں کام کرتی ہوں اسے باپ سنبھالتا ہے۔"

وہ بڑے شوق سے بتانے لگی۔ایمان کو اسکے چہرے پہ تمانیت بھری مسکراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔

"تمھارا شوہر خیال رکھتا ہے تمھارا؟"

ایمان نے نجانے کیوں یہ سوال پوچھ لیا۔

"بس بی بی جی۔۔۔سکون سے زندگی گزر رہی ہے اور کیا چاہیئے۔۔"

وہ دونوں کچن میں داخل ہو گئیں۔

"ہاں سکون۔۔۔زندگی میں سکون ہے تو اور کیا چاہیئے۔"

وہ دھیرے سے بولتی ناشتہ بنانے کا کہتی باہر آ گئی۔

کمرے کا دروازہ تو لاکڈ تھا اس لئے وہ لاونج میں آ گئی۔اس دوران گل خان کاکا ہاتھ میں اخبار لئے لاونج میں داخل ہوا اور سلام کے بعد اخبار ٹیبل پہ رکھ کر وہاں سے چلا گیا۔ایمان اخبار اٹھا کر دیکھنے لگی۔

"بی بی صاحب۔۔!!"

اس نے اخبار سے سر اٹھا کر سامنے کھڑے گل خان کو دیکھا۔اسکے ہاتھ میں ٹرے تھا جس پہ سفید جالی کا کپڑا پڑا ہوا تھا۔

"جی کاکا۔۔۔۔؟"

ایمان نے اخبار سائیڈ پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔

"بی بی صاحب۔۔یہ ٹیپو دے کر گیا ہے۔۔۔کہہ رہا تھا کہ دادو نے دیا ہے۔"

گل خان کاکا کے ٹیپو کا نام لینے کے باوجود ایمان اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"لاؤ کاکا مجھے دے دو۔۔"

گل خان اسے مزید بتانے ہی لگا تھا کہ اتنے میں شاہدہ کچن سے باہر آ گئی اور آگے بڑھ کر گل خان سے ٹرے لے لی۔گل خان واپس چلا گیا۔شاہدہ نے ایمان کو بتایا کہ ٹیپو ان کا پڑوسی ہے اور بلقیس بیگم کا پوتا ہے اور یہ کہ وہ اکثر غزنوی کے لئے ناشتہ بھجواتی رہتی ہیں۔ایمان بلقیس بیگم کا نام سن کر مطمئن ہو گئی۔شاہدہ بھی ٹرے لے کر کچن میں جا چکی تھی۔ایمان نے وال کلاک کی جانب دیکھا۔سوئیاں آٹھ کا ہندسہ پار کر چکی تھیں۔اگلی نظر اس نے غزنوی کے روم کے بند دروازے پر ڈالی۔

"آپ کے لئے ناشتہ بنا دوں یا صاحب کے ساتھ ناشتہ کریں گی؟"

شاہدہ اس سے پوچھنے کچن سے باہر آئی۔

"بنا دو۔۔"

ایمان نے نظریں بند دروازے سے ہٹا کر اسے دیکھا۔شاہدہ سر ہلا کر واپس کچن میں چلی گئی جبکہ ایمان صوفے کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند گئی۔

⁦❤️⁩

صبح ساڑھے آٹھ بجے کے قریب اسکی آنکھ کھلی تھی۔آنکھیں جیسے ہی کمرے میں کھڑکی آتی روشنی سے مانوس ہوئیں تھیں اس نے رخ پلٹ کر اپنی دائیں جانب دیکھا۔ایمان وہاں نہیں تھی۔وہ اٹھ بیٹھا اور کچھ دیر یونہی بیڈ پہ بیٹھا رہا۔رات کا واقعہ اپنی پوری جزئیات سمیت اسکی آنکھوں کے پردے پر چلنے لگا۔اپنی کی گئی حرکت اسے بھلائے نہیں بھول رہی تھی۔انسان اپنی خواہشات کے آگے کس قدر کمزور ہے یہ اسے آئینے میں دکھتے اسکے عکس نے بتایا تھا۔اس کی ایمان سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں تھی بیوی تھی اس کی صرف ایک ضد نے اسے اس حال تک پہنچا دیا تھا کہ وہ ہر کام جسے وہ یقیناً تکلیف محسوس کرتی، وہ کرنے سے گریز نہیں کرتا تھا۔اپنی نام نہاد مردانگی نے اسے ایمان کے سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑا تھا۔ایمان کا معصوم چہرہ اسکی نگاہوں کے سامنے گھوم رہا تھا۔پچھتاوے کے ناگ اپنا پھن پھیلائے اسے ڈسنے کو تیار تھے۔وہ کہیں غائب ہو جانا چاہتا تھا۔گھر پہ رہ کر وہ اسکی سوال کرتی نظروں کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔اوپر سے آج سنڈے بھی تھا۔اس لئے اس نے کمیل کو فون کیا کہ اسے کچھ ڈسکشن کرنی ہے۔گھر پہ رکتا تو ایمان اسکی نظروں کے سامنے رہتی اور وہ اس وقت اسکا سامنا کرنے کی ہمت خود میں نہیں پاتا تھا۔یہ تو وہی جانتا تھا کہ وہ محبت میں ہارا تھا۔یہ پسپائی محبت نے اس کے مقدر میں لکھی تھی ورنہ وہ منہ زور خواہشات کا تابع نہیں تھا مگر اس وقت یہ بات ایمان کو سمجھانا اسکے بس میں نہیں تھا۔ایمان کے معصوم چہرے پہ دکھتے سوالوں کے اسکے پاس کوئی جواب نہیں تھے۔صرف اور صرف پچھتاوے تھے۔ایسا نہیں تھا کہ وہ اسے بے چینیاں سونپ کر خود سکون کی ندی میں غوطہ زن تھا۔۔۔وہ بھی بے چین تھا۔اس معاملے میں وہ ایک نتیجے پر پہنچا تھا کہ اسے ایمان سے معافی مانگنی ہے پھر وہ اسے گاؤں بھیج دے گا کیونکہ اسکے خیال میں وقت ہی اب اس معاملے پہ گرد ڈال سکتا تھا۔

یہی سوچ کر وہ کمرے سے باہر آیا۔۔اردگرد نظر دوڑائی تو ایمان اسے لاؤنج میں ہی نظر آ گئی۔ایمان کا دھیان اسکی جانب نہیں تھا اس نے دھیرے سے دوسرے بیڈ روم کا دروازہ ان لاکڈ کیا اور چابی پاکٹ میں رکھتا سست روی سے چلتا اسکے پاس ایا۔وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے ہوئے تھی۔وہ نیند میں تھی یا کسی گہری سوچ میں وہ جان نہیں سکا اور نا ہی اسکی آہٹ ایمان کو متوجہ کر پائی تھی۔غزنوی نے بغور اسکی جانب دیکھا۔وہ لیمن کلر کی پرنٹڈ شرٹ اور سفید ٹراؤزر پہ سفید ڈوپٹہ سلیقے سے لیے ہوئے تھی۔پیلے رنگ میں اسکی رنگت سنہری ہوئی جا رہی تھی۔وہ اپنی نگاہوں میں اسکا سنہری روپ سموتا دھیرے سے اسکے پاس بیٹھ گیا۔ایمان نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور اپنے دائیں جانب دیکھا۔غزنوی اپنے دونوں ہاتھوں کو آپس میں پھنسائے، نظریں جھکائے بیٹھا تھا۔چہرے کے نقوش سے سنجیدگی ٹپک رہی تھی۔ایمان جو پہلے ریلکیس انداز میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔سیدھی ہو بیٹھی۔دونوں کے مابین فاصلہ کم تھا۔ایمان کو اسکے چہرے پہ سنجیدگی کے ساتھ ساتھ شرمندگی بھی دکھائی دے رہی تھی۔وہ اسکے بولنے کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ بالکل خاموش تھا یوں جیسے دل ہی دل میں الفاظ ترتیب دے رہا ہو۔بالاآخر کچھ دیر بعد چپ کا کفل ٹوٹا۔

"میں بہت۔۔۔آئی ایم سوری۔۔اس کے علاؤہ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں جو میں تم سے کہوں۔۔امید ہے کہ تم میری پہلی اور آخری خطا کو معاف کر دو گی۔"

وہ بےچینی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا کہتا رہا اور وہ بناء اسکی جانب دیکھے سنتی رہی مگر کہا کچھ نہیں۔۔غزنوی نے اپنی بات کا ردعمل جاننے کے لیے اسکی جانب دیکھا۔

"ایمان۔۔۔!!"

اس نے اسے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے پکارا۔

"میں گاوں جانا چاہتی ہوں۔۔آپ یا مجھے خود چھوڑ آئیں یا پھر گل خان کاکا کے ساتھ بھیج دیں۔"

وہ اتنا کہہ کر اٹھ کر جانے لگی مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے اور غزنوی کے درمیان فاصلہ بنا پاتی غزنوی نے اسکی کلائی اپنی گرفت میں لے لی۔

"نیکسٹ ویک میں خود لے جاؤں گا۔"

وہ نرم لہجے میں بولا۔۔ایمان کی نازک کلائی پہ اسکی گرفت مضبوط تھی۔

"آپکو یونہی تکلیف ہو گی۔۔۔میں ان کے ساتھ چلی جاوں گی پھر آپ کو جب مناسب لگے مجھے لینے آ جائیے گا۔"

وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی۔غزنوی کو اس کے الفاظ سن کر کچھ سکون ہوا ورنہ وہ تو یہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ گل خان کے ساتھ چلی گئی تو کہیں واپس آنے سے انکار نہ کر دے اور اگر وہ واپس نہ آئی تو وہ گھر والوں سے کیا کہے گا۔۔خاص طور پر داجی کا سامنا کیسے کرے گا۔۔۔مگر اب اسکے الفاظ نے اسے اس الجھن سے نکال لیا تھا۔

"بی بی صاحب۔۔! ناشتہ یہیں لے آوں؟"

اسی لمحے شاہدہ کچن سے باہر آئی۔ایمان نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا۔غزنوی نے فورا اسکا ہاتھ چھوڑا تھا۔

"نہیں میں وہیں آتی ہوں۔"

ایمان کچن کیطرف بڑھ گئی جبکہ غزنوی وہیں بیٹھا رہا۔اسکی نظر اپنے ہاتھ پہ تھی جہاں ایمان کا نازک اور مہکتا لمس رہ گیا تھا۔کچھ پل یونہی گزر جانے کے بعد وہ اٹھا اور مین ڈور کیطرف بڑھ گیا۔

"آپ کا ناشتہ۔۔۔۔"

ایمان کچن سے باہر آئی تھی مگر وہ وہاں موجود نہیں تھا۔اس نے غزنوی کے کمرے کی جانب دیکھا۔۔دروازہ بند تھا لیکن ساتھ والے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔وہ ایک گہری سانس لیتی واپس پلٹ گئی۔

💕

"کیا بات ہے۔۔؟ کچھ پریشان اور الجھے ہوئے دکھ رہے ہو۔"

کمیل نے اسکے ستے ستے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا۔وہ اس وقت کمیل کے گھر پہ تھا۔آفس سے آف ہونے کے باعث کچھ دیر سڑکوں پہ آوارہ گردی کے بعد وہ کمیل کیطرف آ گیا تھا۔کمیل کی چھوٹی سی فیملی تھی۔وہ دو بھائی اور ایک بہن تھے۔والد حیات نہیں تھے۔۔بہن کی شادی ہو چکی تھی۔دونوں بھائی فُضیل اور کمیل اپنے والد کا بزنس سنبھال رہے تھے۔غزنوی اور اسکی دوستی ایک بزنس پارٹی میں ہوئی تھی اور شہروں کے فاصلے ہونے کے باوجود دن بدن مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔

"کچھ نہیں۔۔۔"

وہ موبائل میں گم بولا۔

"کیسے کچھ نہیں تمہیں کبھی ایسی حالت میں نہیں دیکھا یوں اداس تو تم اپنی زبردستی ہونے والی شادی پر بھی نہیں تھے کمیل اس کے ساتھ صوفے پر آکر بیٹھ گیا اور موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔

"نیند پوری نہیں ہوئی اس لیے۔۔"

وہ موبائل لینے کے لیے آگے ہوا مگر کمیل نے ہاتھ پیچھے کرلیا اور موبائل سکرین کی جانب دیکھا جہاں غزنوی اور ایمان کے ولیمے کی ایک تصویر جس میں دونوں بےحد ساتھ ساتھ کھڑے تھے،ابھری ہوئی تھی۔

"آہاں۔۔۔!! تو محترم اس حالت پہ پہنچ گئے ہیں کہ بیوی گھر میں ہیں اور وہ خود باہر مجنوں بنے پھر رہے ہیں۔"

کمیل اس کی جانب دیکھ کر ہنسا تھا۔

"بکواس مت کرو۔۔۔ہر وقت فضول گوئی۔"

غزنوی نے اس کے ہاتھ سے موبائل لینا چاہا مگر کمیل ہاتھ کمر کے پیچھے لے گیا۔

"اچھا یہ تو ذرا یہ بتاؤ کہ یہ مجنوں کی کونسی قسم ہے؟"

کمیل نے موبائل اس کی آنکھوں کے سامنے کر کے موبائل کی گیلری میں موجود ایک پکچر کی طرف اشارہ کیا۔غزنوی نے دیکھا اس تصویر میں وہ ایمان کی جانب مکمل توجہ اور محبت سے دیکھ رہا تھا۔تصویر بہت خوبصورت تھی۔اسے یاد آیا کہ ولیمے میں ایمان لگ ہی اتنی خوبصورت رہی تھی کہ نظر بھٹک کر وہیں چلی جاتی جہاں وہ موجود ہوتی تھی۔نجانے کس وقت کیمرہ مین نے یہ پکچر لی تھی اسے پتہ نہیں چلا تھا۔بعد میں جب غزنوی نے اس سے تمام فوٹوز لیے تو اس میں ان دونوں کی پکچرز بھی تھیں جو ان کی بےخبری میں لی گئیں تھیں۔لیکن اپنے زعم میں وہ اس قدر گم رہتا تھا کہ کبھی ان تصویروں کو دیکھا ہی نہیں تھا۔کبھی کبھی جو دل میں اک نرم گوشہ بیدار ہوتا تھا اسی کے باعث اس نے اپنی اور ایمان کی تصویریں اس سے لے لی تھی۔ابھی بھی اس نے کسی خیال میں گم گیلری کھول لی تھی۔

"یار یہ چائے کب آئے گی۔۔؟"

غزنوی نے اس کی جانب دیکھے بغیر اس کے ہاتھ سے موبائل لے لیا۔اپنی چوری پکڑے جانے کی وجہ سے وہ اس سے نظریں نہیں ملا پایا تھا۔

"کہہ دیا ہے۔۔۔ویسے میں سیریسلی پوچھ رہا ہوں اگر کوئی بات ہے تو شئیر کر سکتے ہو۔"

کمیل نے سنجیدہ لہجے میں استفسار کیا۔

"ایسا کچھ نہیں ہے تمھیں یونہی لگ رہا ہے۔"

غزنوی اسے سنجیدہ دیکھ کر مسکرا دیا۔

"تم کہتے ہو تو مان لیتا ہوں۔۔ورنہ تمھاری شکل کی ٹیڑھی میڑھی سوئیاں تو بڑا سنجیدہ وقت دکھا رہی ہیں۔"

کمیل نے آخر میں غیر سنجیدہ رویہ اپنایا۔

"اچھا۔۔۔اور یہ چائے ہے کہ موٹا گوشت۔۔۔جو ابھی تک تیار نہیں ہوا۔"

غزنوی نے بھی اسکا دھیان اپنی طرف سے ہٹانے کے لئے غیر سنجیدہ اندر اپنایا۔کمیل اسکا بہترین دوست تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ مزید سوال کرے اور وہ اس سے کچھ بھی شئیر نہ کر پائے۔اسی دوران ملازمہ چائے اور لوازمات کی ٹرے اٹھائے کمرے میں داخل ہوئی۔

"یہ لو آ گئی چائے۔۔۔"

کمیل نے ہنستے ہوئے کہا اور ٹرے اپنی جانب کھسکائی۔غزنوی نے بھی چائے کا کپ اٹھا لیا تھا۔بھوک تو نہیں تھی مگر چائے کی طلب ہو رہی تھی۔کمیل اسے بغور دیکھتے ہوئے گرم چائے کی چسکیاں لینے لگا۔وہ چاہتا تو کُرید کُرید کر اس سے پوچھ سکتا تھا مگر وہ چاہتا تھا کہ غزنوی خود اس سے شئیر کرے۔

⁦❇️⁩

گھر سے جاتے ہوئے غزنوی گل خان سے کہہ آیا تھا کہ وہ ایمان کو گاؤں لے جائے۔اب واپسی میں آتے ہوئے وہ یہی سوچ رہا تھا کہ ایمان جا چکی ہو گی۔اس لئے اسکا گھر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا۔وہ تقریبا شام سات بجے وہاں سے روانہ ہوا تھا۔راستے میں اچانک ایک خیال آیا تو اس نے ایمان کو کال کرنے کا سوچا مگر یہ سوچ کر کہ ایمان کے پاس موبائل فون نہیں ہے، اپنی لاپروائی پہ بےحد افسوس ہوا۔گاڑی سڑک کے ایک جانب روک کر اس نے گل خان کو کال کی۔

"جی صاحب۔۔۔۔!"

گل خان نے فون ریسیو کرتے ہی پوچھا۔

"کاکا زرا ایمان کو فون دیجیئے گا۔"

اس نے کہا۔۔۔گل خان نے اسکے کہنے پر فون ایمان کی جانب بڑھایا جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سفر کی تھکان کے باعث اونگھ رہی تھی۔گل خان کے پکارنے پر وہ چونک کر اٹھی تھی۔

"صاحب بات کرنا چاہتے ہیں۔"

اس نے فون ایمان کو دیتے ہوئے کہا۔ایمان نے فون اس کے ہاتھ سے لے کر کان سے لگایا۔

"السلام علیکم۔۔۔!"

اس نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔ایمان آپ ایک دو دن اپنے والد کی طرف گزار کر حویلی چلی جانا۔"

غزنوی نے سلام کا جواب دینے کے بعد کہا۔

"مگر کیوں۔۔۔؟"

ایمان نے ناپسندیدگی سے پوچھا۔

"میں نے سوال کرنے کو نہیں کہا۔۔۔جب جی چاہے چلی جایا کرنا مگر رہنا حویلی میں ہی۔۔۔"

غزنوی نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔

"یہ لیں کاکا۔۔"

ایمان نے بےدلی سے فون گل خان کیطرف بڑھایا۔گل خان نے فون ڈیش بورڈ پہ رکھا اور گاڑی کی سپیڈ بڑھائی۔ابھی گاوں پہنچنے کے لئے ایک گھنٹہ مزید لگنا تھا۔اس لئے ایمان ریلکیس ہو کر آنکھیں موند گئی۔اگلے ایک گھنٹے میں وہ گاوں پہنچ گئے تھے۔دھول اڑاتی گاڑی حویلی کے گیٹ کے قریب جھٹکے سے آ کر رکی۔گاڑی کے جھٹکے سے رکنے سے ایمان کی آنکھ کھل گئی۔حویلی کا چوکیدار گیٹ کھول رہا تھا۔

"کاکا آپ حویلی کیوں آئے ہیں۔۔مجھے اپنے گھر جانا ہے بابا سے ملنے۔۔"

ایمان نے حویلی میں گاڑی داخل ہوتے دیکھی تو بولی۔

"بی بی۔۔۔صاحب نے کہا تھا کہ آپکو پہلے حویلی لے جاؤں۔۔آپ تھوڑا ریسٹ کر لیں پھر میں آپکو لے جاؤں گا۔"

گل خان نے ریویو مرر میں دکھتے اسکے عکس کو دیکھتے ہوئے کہا۔اتنے لمبے سفر نے واقعی اسے تھکا دیا تھا۔اس لئے وہ خاموش ہو گئی۔گاڑی طویل راہداری سے گزرتی ہوئی پورچ میں آ کر رکی۔گاڑی جیسے ہی رہی ایمان اندر کیطرف بڑھ گئی۔حویلی کی پرانی ملازمہ شفیقہ اس کے استقبال کے لئے لاونج میں ہی موجود تھی۔شفیقہ نے بہت گرم جوشی سے اسکا استقبال کیا۔

"شفیقہ بی بی۔۔۔بی بی کا سامان کون سے کمرے میں رکھنا ہے؟

وہ شفیقہ سے حال چال پوچھنے لگی تھی کہ گل خان لاؤنج میں داخل ہوا۔اس نے ایمان کا سوٹ کیس اٹھا رکھا تھا۔

"کاکا یہ سامان غزنوی صاحب کے کمرے میں رکھ دو۔۔بی بی۔۔۔آپ بھی سفر کی تھکان اتار لیں۔۔میں آپ کے چائے بنواتی ہوں۔

شفیقہ نے گل خان سے کہتے ہوئے آخر میں ایمان کی جانب دیکھا۔ایمان بھی سر ہلاتی گل خان کے پیچھے چل دی۔وہ گل خان کے پیچھے ہی کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ گل خان نے اسکا سوٹ کیس ایک سائیڈ پہ رکھ دیا۔

"بی بی آپ جس وقت بھی اپنے گھر جانا چاہیں میں لے جاؤں گا آپکو۔"

یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا جبکہ ایمان دروازہ بند کرتی بیڈ پہ آ گئی۔بیڈ پہ لیٹتے ہی اسکی نظر سامنے دیوار پہ گئی۔دیوار پہ غزنوی کی تصویریں چھوٹے بڑے خوبصورت فریمز میں سجی ہوئیں تھیں۔وہ بیڈ سے اتر کر دیوار کے پاس آئی تھی۔ایک ایک تصویر کو بغور دیکھتے ہوئے وہ ایک تصویر کے سامنے آ کر رک گئی۔اس تصویر میں غزنوی کے ساتھ کمیل بھی کھڑا تھا۔کمیل کو دیکھ کر اسکے کانوں میں غزنوی کے الفاظ گونج گئے۔دل سے ایک ٹیس سی اٹھی تھی جو اسکے مسکراتے لبوں کو سنجیدگی کے پیراہن پہ لپیٹ گئی۔وہ واپس بیڈ کی طرف آ گئی۔اسی دوران شفیقہ چائے لئے کمرے میں داخل ہوئی۔

"بی بی۔۔۔چائے۔"

شفیقہ نے چائے کا کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔وہ جو لیٹ رہی تھی سیدھی ہو بیٹھی۔

"بی بی۔۔گھر والے سب کیسے ہیں۔۔عقیلہ بیگم نے تو جیسے یہاں کا راستہ ہی بھولا دیا ہے ورنہ ہر مہینے داجی کے ساتھ ایک چکر ضرور لگاتی تھیں۔داجی بھی آپکے جانے کے بعد دوبارہ نہیں آئے۔"

شفیقہ نیچے کارپٹ پہ بیٹھتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"سب ٹھیک ہیں۔۔بس گھر میں شادی تھی اس لئے سبھی مصروف تھے۔"

ایمان نے کپ اٹھاتے ہوئے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا۔

"لو دیکھو۔۔۔مجھ بھلکڑ کو۔۔۔کیسی گزری شادی۔۔آپکا بھی تو ولیمہ ہو گا نا۔۔؟"

شفیقہ نے پر تجسس انداز میں پوچھا۔

"ہاں۔۔۔"

وہ مختصراً بولی۔

"اچھا بی بی آپ تھکی ہوئی ہیں آرام کریں۔۔کھانے میں کیا بنواؤں آپ کے لئے۔۔؟

وہ اسکا مختصر جواب سن کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کچھ بھی بنا لو۔"

ایمان کے کہنے پہ وہ سر ہلاتی کمرے سے نکل گئی۔ایمان نے چائے ختم کی اور کپ ٹیبل پہ رکھ کر لیٹ گئی۔آنکھیں موندیں تو تھکاوٹ سے چور جلتی آنکھوں کو جیسے سکون سا ملا تھا۔

❣️⁩

"شمائلہ زرا غزنوی کو فون کرو۔۔۔پہچنے کے بعد صرف ایک ہی بار ہی فون کیا تھا اور ایمان سے تو بات ہی نہیں ہو پائی۔"

شمائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں تو عقیلہ بیگم نے جو قرآن مجید کو جزدان میں رکھ رہی تھیں ان سے کہا۔

"جی شاہ گل کرتی ہوں۔۔۔۔ابھی کچھ دیر پہلے بھی میں نے کال کی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا اور لینڈ لائن نمبر ہے نہیں میرے پاس۔"

وہ ان کے پاس آئیں اور کال ملا کر موبائل کان سے لگایا۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر غزنوی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔انہوں نے وال کلاک کیطرف دیکھا۔رات کے آٹھ بج رہے تھے۔انہوں نے موبائل سائیڈ پہ رکھ دیا اور عقیلہ بیگم کی طرف دیکھا۔اسی دوران موبائل فون کی رنگ ٹون بجی۔شمائلہ بیگم نے اسکرین پہ نظر ڈالی تو غزنوی کا نمبر دیکھ کر جھٹ فون اٹھایا۔

"السلام علیکم امی۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔؟"

غزنوی ک آواز سن کر ان کے دل کو کچھ ڈھارس بندھی تھی۔

"وعلیکم السلام۔۔۔غزنوی بیٹا یہ کیا طریقہ ہے۔فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے۔۔تمھیں معلوم بھی ہے کہ میں اور تمھاری شاہ گل یہاں کتنے پریشان رہتے ہیں۔کم از کم ایک فون تو کر دیتے۔"

شمائلہ بیگم نے اسکی آواز سنتے ہی اسے ڈانٹا تھا۔

"ارے امی۔۔فون کیا تو تھا میں نے کہ ہم خیریت سے پہنچ گئے ہیں اور ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں ہمیں آئے ہوئے۔۔آپ اور شاہ گل تو خواہ مخواہ پریشان ہوتیں ہیں۔ہم ٹھیک ٹھاک ہیں۔"

غزنوی نے انھیں تسلی دی۔"

تو پھر میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے تم۔۔۔کتنی بار کال کر چکی ہوں۔"

وہ ابھی بھی غصے میں تھیں۔

"میں روم سے باہر تھا اسلئے پتہ نہیں چل سکا۔"

اس نے فون نہ اٹھانے کی وجہ پیش کی۔

"اچھا ایمان سے میری بات کرواؤ۔۔"

اب جب کہ غزنوی سے بات ہو گئی تھی تو انہوں نے مطمئن انداز میں کہا۔

"ایمان۔۔۔۔۔امی ایمان تو یہاں نہیں ہے۔"

غزنوی نے دھیرے سے کہا۔

"وہاں نہیں ہے سے کیا مراد۔۔۔۔وہ تمھارے ساتھ نہیں ہے کیا۔۔؟"

وہ ایک بار پھر پریشانی سے بولیں۔ان کے چہرے پہ ہوائیاں اڑتے دیکھ کر عقیلہ بیگم نے بھی اپنا دل تھام لیا۔

"ارے امی۔۔۔وہ گاؤں گئی ہے۔۔داجی سے کہا تھا اس نے کہ وہ گاؤں جانا چاہتی ہے۔میں خود ابھی آفس کے کام سے فارغ نہیں تھا اس لئے گل خان کاکا لے گئے ہیں اسے۔۔۔اگلے ہفتے میں جاؤں گا اسے لینے۔"

اس سے پہلے کہ وہ دونوں خواتین پریشان ہوتیں۔۔اس نے جلدی سے بتایا۔

"کیا۔۔۔۔؟؟ تم اس سے اتنے تنگ تھے غزنوی کہ تم نے اسے اگلے ہی دن گاؤں بھیج دیا۔۔۔شاباش بیٹا شاباش۔۔۔"

شمائلہ بیگم کا غصہ ایک بار پھر عود کر آیا۔

"یار امی۔۔۔آپ پہلے میری پوری بات تو سن لیں۔۔کیا آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں۔۔آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں اتنا ظالم نہیں ہوں۔۔آپ کی بہو رانی کو ہی صبر نہیں تھا۔۔کہا بھی کہ کچھ دن انتظار کر لو، لے جاوں گا مگر نہیں۔۔بیگم صاحبہ کو کل ہی جانا تھا۔اب میں اسے ذبردستی روک تو نہیں سکتا تھا نا۔۔۔اسے جانا تھا سو چلی گئی۔باقی کی ڈیٹیل آپ اپنی بہو کو فون کر کے اس سے لے لیں۔"

غزنوی اپنے متعلق اپنی ماں کی قیاس آرائیاں سن کر غصے سے بولا۔

"تو تم ایک دن کے لئے اپنی مصروفیات کو ایک طرف نہیں رکھ سکتے تھے کیا۔۔۔معصوم بچی کو تمھارے حوالے کیا کیا تم نے تو آنکھیں ماتھے پہ ہی رکھ لیں۔"

انہوں نے اسکے غصے کی ذرا پرواہ نہ کی۔

"لاؤ دو مجھے۔۔میں خود بات کرتی ہوں۔"

عقیلہ بیگم کو ساری بات کا اندازہ ہو گیا تھا۔اس لئے انہوں نے شمائلہ بیگم کے ہاتھ سے فون لے لیا۔

"غزنوی بیٹا۔۔۔۔تم جلدی چلے جانا اسے لینے۔۔وہاں حالات نجانے کیسے ہوں۔۔تمھارے داجی بتا رہے تھے کہ ایمان کے والد کے وہی حالات ہیں۔۔جُوا کھیلنا اسکی زندگی ایک بار پھر اوڑھنا بچھونا بن گیا ہے۔۔بیٹا میں نہیں چاہتی، بلکہ تم بھی یقینا ایسا نہیں چاہو گے کہ وہ کسی مصیبت میں پھنسے۔"

عقیلہ بیگم نے دھیرے سے اپنی پریشانی، جو یہ سن کر کہ ایمان گاوں میں اکیلی ہے، اسکے کان میں انڈیلی۔۔جسے سن کر وہ بھی پریشان ہو گیا۔

"السلام علیکم شاہ گل۔۔۔!! آپ فکر نہ کریں۔۔گل خان کاکا وہیں ہیں۔ایمان انہی کے ساتھ گئی ہے۔میں بھی پرسوں تک چلا جاؤں گا۔وہ بہت ضد کر رہی تھی ورنہ میں ان کے ساتھ اسے نہ بھیجتا۔۔۔"

اس نے سلام کے بعد انھیں تسلی دی۔حالانکہ ان کی بات نے اسے پریشانی میں مبتلاء کر دیا تھا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔یاد سے چلے جانا۔۔میں بھی بات کرتی ہوں ایمان سے۔۔اللہ حافظ۔۔"

عقیلہ بیگم نے کال کاٹ کر شمائلہ بیگم کو حویلی فون ملانے کے لئے کہا۔شمائلہ بیگم نے فورا ان کی بات پر عمل کیا اور حویلی کال ملائی۔اگلی بیل پہ فون اٹھا لیا گیا۔دوسری جانب آواز شفیقہ کی تھی۔

"کیسی ہیں بڑی بی بی آپ۔۔۔؟"

شفیقہ نے سلام دعا کے بعد پوچھا۔

"ٹھیک ہوں شفیقہ۔۔تم سناؤ۔۔حویلی میں سب ٹھیک ہے؟"

شمائلہ بیگم جلد مدعے پہ آئیں۔

"اللہ کا کرم ہے بی بی۔۔۔سب ٹھیک ہے اور آج تو ایمان بی بی کے آنے سے رونق بھی ہو گئی ورنہ تو بھائیں بھائیں کرتی حویلی میں، میں بالکل اکیلی تھی۔"

شمائلہ بیگم کے دل کی بات شفیقہ کی زبان پہ تھی۔

"کہاں ہے ایمان۔۔۔ذرا میری بات کروانا۔"

انہوں نے آنکھوں کے اشارے سے عقیلہ بیگم کو ایمان کے حویلی میں موجود ہونے کے متعلق بتایا۔

"جی اچھا۔۔۔میں ابھی بات کرواتی ہوں آپ کی۔"

"شفیقہ ایک گلاس پانی تو پلانا۔"

شفیقہ ایمان کی آواز سن کر پلٹی۔

"لیجیئے ایمان بی بی خود ہی آ گئیں ہیں۔۔آپ بات کریں۔"

شفیقہ نے مسکراتے ہوئے فون اپنے پاس آتی ایمان کی طرف بڑھایا۔ایمان نے سوالیہ نظروں سے شفیقہ کو دیکھا اور فون کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

"وہ جی شہر سے بڑی بی بی کا فون ہے۔آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں۔"

شفیقہ نے اسکی سوالیہ نظروں کے جواب میں کہا۔ایمان شمائلہ بیگم کا سن کر فون کان سے لگایا۔

"السلام علیکم امی۔۔۔!!کیسی ہیں آپ؟ شاہ گل، داجی کیسے ہیں اور باقی گھر والے سب۔۔؟"

ایمان نے بیتابی سے پوچھا۔۔اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مدتوں بعد ان کی آواز سن رہی ہو۔

"سب ٹھیک ہیں۔۔تم کیسی ہو۔۔؟ اپنے بابا سے ملنے تو نہیں گئیں؟"

شمائلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔ابھی بابا سے ملنے نہیں گئی۔"

اس کی آواز سے بےانتہا خوشی چھلک رہی تھی۔

"ایمان بیٹا۔۔۔!! کیا غزنوی نے تمھیں زبردستی بھیجا ہے۔۔سچ بتانا۔۔"

شمائلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔ان کی بات سن کر ایمان ایک پل کو خاموش رہ گئی۔

"نہیں امی۔۔۔ایسا نہیں ہے۔۔میں خود ہی ضد کر کے آئی ہوں۔ایک دو دن میں غزنوی بھی آئیں گے مجھے لینے۔"

ایمان دھیرے سے بولی۔

"اچھا ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔یہ لو شاہ گل سے بات کرو۔"

شمائلہ بیگم نے فون عقیلہ بیگم کی طرف بڑھایا۔۔عقیلہ بیگم نے فون کان سے لگایا۔سلام دعا کے بعد وہ بھی اپنی تسلی کے لیے اس سے غزنوی کے رویے کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ایمان نے انہیں بھی اپنی طرف سے مطمئن کرنے کی پوری کوشش کی اور وہ بھی مطمئن ہو گئیں تھیں۔

"ایمان اپنے بابا سے ملنے جاؤ گی تو شفیقہ کو ساتھ لے کر جانا۔۔"

عقیلہ بیگم نے ایمان سے کہا۔وہ حیران تھی کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں۔

پہلے غزنوی نے اسے حویلی میں رہنے کا کہا تھا اور اب عقیلہ بیگم بھی اس سے یہی بات کر رہی ہیں کہ ایک تو وہ وہاں قیام نہ کرے اور دوسرا شفیقہ کو ساتھ لے کر جائے۔وہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ وہ دونوں ایسا کیوں کہہ رہے ہیں جبکہ اب تو سب ٹھیک ہو گیا ہے۔

"ٹھیک ہے شاہ گل۔۔اور آپ سنائیں باقی سب ٹھیک ہیں۔آپ سب کو لے کر آئیں نا میرے پاس اسلام آباد۔۔میں نے آپ سب کو بہت مس کیا۔"

ایمان نے ذہہن میں آتے خیالات کو جھٹکا اور ان سے سب کے متعلق پوچھنے لگی۔

"تو ایک فون کر لیتی۔۔ہمیں تھوڑی تسلی مل جاتی۔۔میں اور تمھاری ساس پریشان ہو رہے تھے۔"

عقیلہ بیگم نے تکیے سے ٹیک لگائی۔

"کیسے کر لیتی۔۔ایک تو میرے پاس موبائل فون نہیں ہے اور دوسرا گھر میں لینڈ لائن فون بھی نہیں لگا ہوا۔"

ایمان نے انھیں اپنی مجبوری بتائی۔

"ہاں غزنوی بتا رہا تھا کہ اس نے درخواست دے رکھی ہے جلد ہی لگ جائے۔ہم آئیں گے تم سے ملنے اسلام آباد۔۔بچیاں بھی کہہ رہی تھیں۔ویسے بھی اگلے ماہ سے رمضان بھی شروع ہونے والا ہے تو تم دونوں رمضان یہیں گزارو ہمارے ساتھ، پھر عید کر کے لوٹ جانا۔"

عقیلہ بیگم نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"کیا۔۔۔آپ سچ کہہ رہی ہیں؟"

وہ ان کی بات سن کر خوشی سے بولی۔

"ہاں بالکل۔۔"

وہ اسکے بچوں کے سے انداز میں پوچھنے پر مسکرا دیں۔

"سچ شاہ گل۔۔آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ دی۔"

وہ بہت خوش تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔اللہ حافظ۔"

عقیلہ بیگم نے خدا حافظ کہا تو اس نے بھی انھیں اپنا خیال رکھنے کی تاکید کرتی فون رکھ دیا۔

"یہ لیں پانی۔۔"

وہ فون رکھ کر شفیقہ کیطرف پلٹی تو اس نے پانی کا گلاس اس کی طرف بڑھایا۔

"وہ جی گل خان پوچھ رہا تھا کہ آپ آج جائیں گی اپنے والد سے ملنے یا وہ آپ کو کل لے چلے۔۔؟"

شفیقہ نے اسے گل خان کا پیغام دیا۔ایمان نے پانی کر گلاس اس کے حوالے کیا۔اس کے ذہہن میں عقیلہ بیگم کے الفاظ گونج رہے تھے۔وہ اس وجہ کو سوچ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ اسے حویلی میں رہنے کا کہہ رہی تھیں۔

"بی بی۔۔۔آپ نے بتایا نہیں۔۔گل خان سے کیا کہوں؟"

شفیقہ نے اسے سوچوں میں گم دیکھ کر دوبارہ پوچھا۔

"آں ہاں۔۔۔آج نہیں کل جاؤں گی۔"

وہ اس سے کہتی اپنے کمرے کیطرف پلٹ گئی۔اس کے دل میں بھی اب خدشے سر اٹھانے لگے تھے۔اپنے کمرے کیطرف جاتے ہوئے اس کے ذہہن میں کئی سوال تھے۔اسے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ وہ سب کیوں اسے باپ سے ملنے۔۔خاص طور پر اکیلے ملنے سے روک رہے تھے مگر بیڈ پہ لیٹتے ہی وہ تمام خدشات کو کل پہ اٹھا کر آنکھیں موند گئی۔

💚

اگلے دن وہ گل خان اور شفیقہ کے ساتھ گھر آئی تھی۔رشید خان گھر پہ موجود نہیں تھا۔۔گھر کا دروازہ کھلا تھا اور حالت بہت خراب تھی۔گل خان گھر سے کچھ فاصلے پر موجود درختوں کے سائے میں گاڑی کھڑی کیے خود بھی وہیں موجود تھا۔ایمان نے شفیقہ کے ساتھ مل کر گھر کی بکھری حالت کو سمیٹا اور رشید خان کا انتظار کرنے لگی۔تقریبا دو گھنٹے کے انتظار کے بعد رشید خان گھر میں داخل ہوا۔وہ دونوں برآمدے میں چارپائی پہ بیٹھیں تھیں۔ایمان کو والد کی یاد تو آ ہی رہی تھی مگر گھر آ کر اور گھر کی حالت دیکھ کر ماں کی یاد بھی شدت سے آنے لگی۔کام کے دوران بار بار اسکی آنکھیں بھیگ جاتیں، جنھیں وہ اپنے سفید پلو سے پونچھ ڈالتی۔

رشید خان نے جیسے ہی دروازے سے اندر قدم رکھا، وہ تیز قدموں سے اسکی طرف آئی۔رشید خان بھی اسے یوں اچانک دیکھ کر بیک وقت حیران اور خوش تھا۔ایمان کتنی ہی دیر اس کے سینے سے لگی روتی رہی۔

"بس بیٹا۔۔۔بس کرو۔۔"

رشید خان نے سینے سے لگی ایمان کو خود سے الگ کیا۔

"بابا کیا میں آپکو یاد نہیں آتی تھی۔۔ایک بار بھی مجھ سے ملنے نہیں آئے؟"

ایمان نے باپ کے سینے سے لگتے ہوئے شکایت کی۔

"یاد تو آتی تھی۔۔۔لیکن بس کام کی وجہ سے ملنے نہیں آ سکا۔۔تم سناؤ خوش ہو نا۔۔؟"

رشید خان اسکے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے برآمدے میں بچھی اکلوتی چارپائی کی جانب آ گیا۔شفیقہ وہاں سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی تھی۔دونوں باپ بیٹی کافی دیر تک راز ونیاز کرتے رہے۔ایمان کو ان کی حالت میں کوئی سدھار نہیں لگ رہا تھا۔

"بابا۔۔۔میں نے سنا ہے کہ آپ پھر سے بادشاہ خان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے ہیں اور اس کے جوے کے اڈے پر بھی جاتے ہیں۔"

ایمان نے عقیلہ بیگم کی بات کے پیش نظر ہوا میں تیر چھوڑا۔

"نہیں ایسا نہیں ہے۔۔کس نے کہا ایسا۔۔؟"

پہلے تو ایمان کے اس طرح پوچھنے پر وہ گھبرا گیا لیکن پھر اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے بولا۔

"بابا۔۔۔سچ کب چھپتا ہے۔۔آپ کی اور گھر کی حالت تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہے۔"

وہ رشید خان کیطرف بغور دیکھ رہی تھی۔

"ارے دیکھو میں تو بھول ہی گیا۔۔شادی کے بعد پہلی بار تم اپنے باپ کے گھر آئی ہو اور میں نے تمھاری کوئی خاطر مدارت بھی نہیں کی۔"

رشید خان فورا اٹھ کھڑا ہوا۔۔صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کے سوالوں اور ٹٹولتی نظروں سے بچنا چاہ رہا تھا۔

"نہیں بابا۔۔۔میں ابھی ناشتہ کر کے آئی ہوں۔۔آپ بس میرے پاس بیٹھیں۔۔"

اس نے انھیں روکنا چاہا۔

"اچھا لیکن کھانا میرے ساتھ کھاؤ گی۔"

وہ ہاتھ چھڑاتا بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ایمان افسوس سے سر ہلاتی رہ گئی۔رشید خان کے جانے کے بعد شفیقہ کمرے سے باہر آ گئی۔

"بی بی صاحب۔۔۔گھر کب جانا ہے؟"

شفیقہ نے اپنی کالی چادر سے پسینہ پونچھتے ہوئے پوچھا۔

"شفیقہ تم ایسا کرو کہ گل خان کاکا کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔۔ظہر کے بعد ان کو بھیج دینا۔۔میں دوپہر کا کھانا بابا کے ساتھ کھاؤں گی۔"

"جی ٹھیک ہے۔۔جیسا آپ کہو۔۔لیکن جب تک وہ واپس نہیں آتے میں رکتی ہوں آپ کے پاس۔"

شفیقہ چارپائی پہ بیٹھ گئی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔"

ایمان نے نیلے آسمان پہ نظر ڈالی جہاں کبوتروں کا غول گول چکر لگا رہا تھا۔گول گول چکر لگاتے کچھ دیر کے لئے وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتے تھے۔

"بی بی صاحب آپ بالکل اپنی والدہ جیسی ہوں گی۔۔رشید خان سے تو آپکی زرا شکل نہیں ملتی۔۔"

شفیقہ اسے لگاتار آسمان کیطرف دیکھتا پا کر بغور اسکا جائزہ لیتے ہوئے بولی تاکہ ایمان اسکی طرف متوجہ ہو جائے۔

"ہاں۔۔لیکن میری آنکھوں کا رنگ بالکل بابا کی آنکھوں کے جیسا ہے۔"

ایمان نے اسکی طرف دیکھا۔شفیقہ نے اسکی بھوری کانچ جیسی آنکھوں میں جھانکا تھا۔

"کیسی تھیں آپکی والدہ۔۔۔۔؟"

شفیقہ بہت باتونی تھی۔۔خاموش رہنا نہیں سیکھا تھا اس نے۔۔ایک دن میں اسے کافی اندازہ ہو گیا تھا۔

"بہت اچھی۔۔بہت محبت کرنے والی تھیں میری اماں۔۔۔"

وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولیں۔۔ماں کے ذکر پر اسکی آنکھیں نم ہو گئیں تھیں لیکن لبوں پہ مسکان لئے وہ اسے ان کے بارے میں بتانے لگی۔۔انہی باتوں میں کافی وقت بیت گیا۔رشید خان ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔

"بابا نے کنتا وقت لگا دیا ہے۔۔نجانے کہاں چلے گئے ہیں۔تم چلی جاؤ حویلی۔۔"

اس نے ہاتھ پہ بندھی گھڑی پہ نظر ڈالی۔۔گھڑی کی سوئیاں ساڑھے بارہ کا ہندسہ پار کر گئیں تھیں۔

"ہاں جی۔۔۔کافی ٹائم ہو گیا اور ہمیں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔"

شفیقہ نے بند دروازے کو دیکھا۔اسی دوران رشید خان دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔

"آ گئے ہیں۔۔"

شفیقہ نے دروازے سے اندر آتے رشید خان کو دیکھ کر کہا۔ 

اس نے بیرونی دروازے سے اندر آتے رشید خان کی طرف دیکھ کر شفیقہ کو جانے کا اشارہ کیا۔۔

"لیکن بی بی۔۔شاہ گل نے کہا تھا کہ جب تک آپ یہاں رہیں میں آپکے ساتھ رہوں۔"

شفیقہ نے اسے یاد دہانی کرائی۔

"معلوم ہے مجھے۔۔۔۔وہ میرے بابا ہیں۔مجھے ان سے کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔۔۔تم جاؤ۔۔۔"

یہ کہہ کر وہ اٹھی اور رشید خان کیطرف بڑھ گئی۔

"کیا لائے ہیں بابا۔۔۔؟"

اس نے مسکراتے ہوئے رشید خان کے ہاتھ سے شاپر لیا۔

"مچھلی لایا ہوں۔۔۔تمھیں پسند ہے نا۔۔"

رشید خان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا۔اسی دوران شفیقہ خدا حافظ کہتی بیرونی دروازے سے باہر نکل گئی۔ایمان شاپر اٹھائے کچن میں آ گئی۔شفیقہ کے جانے کے بعد رشید خان نے دروزاہ بند کیا اور ایمان کے پیچھے کچن میں آ گیا۔

"بابا۔۔۔ایک بات کہوں؟"

ایمان نے تلی ہوئی مچھلی کے ٹکڑوں کو پلیٹ میں نکالتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں کہو۔۔"

وہ اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔

"بابا۔۔۔جب تک میں یہاں ہوں۔آپ میرے پاس حویلی آ کر رہیں۔۔میں اکیلی ہوں وہاں۔آپ میرے ساتھ آ کر رہیں گے تو مجھے اچھا لگے گا۔"

اس نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اٹھا بڑی محبت سے باپ کے منہ میں ڈالا۔

"رہنے تو نہیں مگر تم سے ملنے آؤں گا۔۔کتنے دن تک یہاں ہو اور تمھارا شوہر آیا ہے تمھارے ساتھ یا نہیں؟"

رشید خان غزنوی کا پوچھا۔

"انہیں بہت ضروری کام تھا اس لئے میں گل خان کاکا کے ساتھ آئی ہوں۔ایک دو دن تک وہ آئیں گے مجھے لینے۔"

غزنوی کے ذکر سے دل میں اٹھتی ٹیسوں نے اسے بےکل کر دیا۔لیکن جلد ہی خود پہ قابو پا کر بولی۔

"تم خوش ہو نا۔۔؟"

رشید خان نے اپنے منہ کیطرف بڑھتا اسکا ہاتھ بیچ میں ہی روک لیا۔

"جی بابا۔۔۔بہت خوش ہوں۔سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔"

وہ دھیرے سے بولی۔

"اللہ تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔آمین۔۔!! چلو آؤ کھانا کھاتے ہیں۔تمھیں بھی بھوک لگ رہی ہوگی۔میں نے بھی صبح صرف ایک پیالی چائے کی پی ہے۔"

رشید خان نے اسے پلیٹ میں چٹنی نکالتے دیکھکر کہا۔ایمان نے ٹرے میں چٹنی، مچھلی اور روٹیاں رکھیں اور دونوں باپ بیٹی کچن سے باہر آ گئے۔

"بابا یہ تو بہت مزے کی ہے۔۔"

ایمان نے پہلا لقمہ منہ میں ڈالتے ساتھ ہی کہا۔مچھلی واقعی بہت ذائقے دار تھی۔کانٹے بھی کم تھے۔اسے شروع سے ہی مچھلی بہت پسند تھی۔اماں اس کے لئے کبھی کبھار گھر میں بنایا کرتی تھیں۔

"ہاں۔۔۔وہ گل شیر ہوٹل والا تھا نا۔۔۔وہی بناتا ہے اپنے ہوٹل میں۔۔سارے گاؤں کو بہت پسند ہے۔اس لئے دن بدن ترقی کر رہا ہے۔"

رشید خان نے اسے یاد دلایا۔

"جی جی۔۔۔مجھے یاد ہے۔۔"

ایمان یاد آنے پر بولی۔پھر یونہی ادھر ادھر کی باتوں میں دونوں نے کھانا کھایا۔اس کے بعد ایمان نے قہوہ بنایا۔جب تک وہ قہوہ بناتی رہی رشید خان اسکے پاس ہی کھڑا رہا۔

"یہ لیں بابا۔۔۔"

اس نے کپ رشید خان کیطرف بڑھایا۔رشید خان نے اس کے ہاتھ سے کپ لیا اور کچن سے باہر آ گیا۔ایمان بھی اپنا کپ ہاتھ میں لئے اس کے پیچھے آئی تھی۔دونوں نے خاموشی سے قہوہ پیا، یوں جیسے باتیں ختم ہو گئی ہوں۔کچھ دیر بعد ایمان ظہر پڑھنے کے لئے اٹھ گئی اور رشید خان چارپائی پہ لیٹ گیا۔تھوڑی دیر بعد ہی برآمدے میں اسکے خراٹے گونجنے لگے تھے۔وہ برآمدے میں ہی ایک جانب کھڑی نماز ادا کر رہی تھی۔نماز پڑھنے کے بعد وہ بھی اندر کمرے میں آ گئی اور چارپائی پر لیٹ کر اس گھر میں گزرے لمحوں کو یاد کرنے لگی۔۔

⁦🏵️⁩

گاوں آئے آج اسے چوتھا دن تھا۔اس دن کے بعد وہ دوبارہ اپنے گھر نہیں گئی تھی لیکن اگلے دن رشید خان اس سے ملنے حویلی آیا تھا۔پھر اسی رات ایمان کے بہت اسرار پر وہ رات وہیں حویلی میں رہا۔وہ تو اگلے دن بھی اسے روکنا چاہتی تھی مگر رشید خان کام کا بہانا کر کے چلا گیا تھا۔کرنے کو کچھ خاص کام نہیں تھے بس کچن میں شفیقہ کی تھوڑی مدد کر دیتی تھی۔حالانکہ ایک بندے کا کام ہی کتنا ہونا تھا۔پھر بھی شفیقہ کے لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ اس کے ساتھ حویلی کے دیگر کاموں میں بھی لگی رہتی۔شفیقہ وہاں اکلوتی ملازمہ نہیں تھی۔دوسری دو ملازمائیں چھٹی پر تھیں۔

"تم رہنے دو۔۔۔چائے میں خود بنا لوں گی۔"

شفیقہ اسے کچن میں آتا دیکھ کر اس کے لئے چائے بنانے لگی تھی کہ اس نے منع کر دیا۔

"بی بی میں بنا دیتی ہوں۔"

شفیقہ نے ساس پین میں نل سے پانی لیتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔

"تم باقی کام دیکھ لو۔۔۔لاؤ۔۔"

ایمان نے اسکے ہاتھ سے ساس پین لے لیا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔"

شفیقہ کچن سے نکل گئی۔اس نے اپنے لئے چائے بنائی اور کپ لئے حویلی کی پچھلی جانب بنے لان میں آ گئی۔شام کا وقت قریب تھا۔ہلکی ہلکی ہوا نے موسم کو کافی حد تک خوشگوار کر دیا تھا۔وہ دھیرے دھیرے چلتی پھولوں کی باڑ کے پاس بنے سنگی بینچ پر آ بیٹھی۔۔لان کے دائیں جانب بیرونی دیوار کے ساتھ بڑے بڑے پتھروں کو جوڑ کر آبشار کی طرز کا فوارہ بنایا گیا تھا۔جس سے پانی ایک تسلسل سے بہہ رہا تھا۔پانی بہنے کی آواز نے خاموشی میں ایک ہلکا سا شور پیدا کر رکھا تھا۔

یہاں کا سکون اسے اپنے اندر تک اترتا محسوس ہوا۔جو بے قراری اور بےچینی وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔اب اسکی جگہ سکون نے لے لی تھی۔چائے ختم ہوئی تو کپ وہیں بینچ پہ رکھتی وہ فوارے کے پاس آ گئی اور وہیں بیٹھ گئی۔اب اسکا ہاتھ پانی میں دائیں سے بائیں لہریں بنا رہا تھا۔

"کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟"

ایک مانوس سی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی تھی۔وہ فورا پلٹی اور سامنے والے کو دیکھ کر وہیں ساکت رہ گئی۔

غزنوی سنجیدہ تاثرات لئے اسے دیکھ رہا تھا۔

"آ۔۔۔آپ۔۔۔آپ کب آئے؟"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ابھی کچھ دیر پہلے۔۔تم ٹھیک ہو۔۔؟"

وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔سبز رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں وہ ہمیشہ کیطرح اسے بہت منفرد لگی۔

"میں ٹھیک ہوں۔"

وہ نظریں جھکا گئی۔غزنوی کی نظروں سے لڑنا اس کے بس میں نہیں تھا۔

"چلیں۔۔۔۔"

غزنوی نے اسے ساتھ آنے کا کہتے ہوئے قدم بڑھائے۔

"شاہ گل نے فون کیا تھا۔انہوں نے کہا ہے کہ ہم رمضان ان کے ساتھ گزاریں۔تمھارا کیا خیال ہے اس بارے میں۔۔؟"

وہ اسے شاہ گل کے فون اور ان کی خواہش کے بارے میں بتانے لگا۔

"میری بات بھی ہوئی تھی ان سے تو مجھ سے بھی یہی کہا تھا۔"

ایمان اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانے لگی کہ وہ کیا چاہتا ہے مگر وہاں سوائے سنجیدگی کے کچھ نہیں ملا۔

"ابھی تو بزنس سیٹ اپ ہوا ہے۔۔فلحال تو میں نے انھیں منع کر دیا ہے۔۔لیکن یہ کہا ہے کہ ہم عید ان کے ساتھ گزاریں گے۔۔۔ٹھیک ہے نا۔۔۔؟"

وہ رک کر اسکی جانب مڑا۔

"لیکن میں۔۔۔۔۔۔۔"

وہ رکی۔

"تم کیا۔۔۔۔؟"

غزنوی نے اسقدر سنجیدگی سے پوچھا کہ وہ آگے کچھ بول ہی نہ سکی۔

"میں جہاں رہوں گا۔۔۔تم بھی وہیں رہو گی۔۔ہم نے ایک گھنٹے میں اسلام آباد کے لئے نکلنا ہے۔۔تم اپنا سامان رکھ لو۔"

وہ دبے دبے رعب سے کہتا تیز تیز قدم اٹھاتا اندر کیطرف بڑھ گیا جبکہ ایمان دل مسوس کر رہ گئی۔کتنی خوش تھی وہ شاہ گل کی بات سن کر۔۔لیکن اب اسے اپنی بیچارگی پہ رونا آنے لگا۔وہ خود تو حکم سنا کر اندر چلا گیا تھا جبکہ وہ وہیں برآمدے کی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی۔

پھر اگلے ایک گھنٹے میں وہ حویلی سے نکل آئے تھے۔۔لیکن سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے وہ ایمان کو رشید خان سے ملوانے لے گیا۔رشید خان غزنوی کو دیکھکر بہت خوش ہوا تھا۔کچھ دیر وہاں گزار کر وہ نکل آئے تھے۔غزنوی نہایت سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ساتھ ہی بیٹھی ایمان بھی خاموشی کے سارے ریکارڈ توڑے بیٹھی تھی مگر دل ہی دل وہ غزنوی کو خوب صلواتیں سنا رہی تھی۔

پھر اگلے ایک گھنٹے میں وہ حویلی سے نکل آئے تھے۔۔لیکن سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے وہ ایمان کو رشید خان سے ملوانے لے گیا۔رشید خان غزنوی کو دیکھکر بہت خوش ہوا تھا۔کچھ دیر وہاں گزار کر وہ نکل آئے تھے۔غزنوی نہایت سنجیدگی سے ڈرائیو کر رہا تھا۔ساتھ ہی بیٹھی ایمان بھی خاموشی کے سارے ریکارڈ توڑے بیٹھی تھی مگر دل ہی دل میں وہ غزنوی کو صلواتیں سنانا نہیں بھولی تھی۔

سارا راستہ اسی خاموشی کی نظر ہو گیا تھا۔وہ تقریبا گیارہ بجے اسلام آباد پہنچے تھے۔

غزنوی کے ہارن دینے پر شاہدہ نے دروازہ کھولا۔گل خان ایک دن مزید رک گیا تھا گاوں میں۔۔آہنی گیٹ کھلتے ہی گاڑی سیدھی پورچ میں جا رکی۔ایمان گاڑی سے نکل کر اندر کیطرف بڑھ گئی۔وہ سیدھی اپنے روم میں آئی تھی، لائٹ آن کی۔

"السلام علیکم بی بی۔۔!!"

وہ الماری سے اپنے کپڑے نکال رہی تھی کہ شاہدہ کمرے میں داخل ہوئی۔

"وعلیکم السلام۔۔!! کیسی ہو شاہدہ۔۔؟"

اس نے کپڑے نکال کر الماری بند کی۔

"میں ٹھیک ہوں بی بی۔۔۔آپ کیسی ہیں؟"

شاہدہ نے اس سے پوچھا۔

"میں بھی ٹھیک ہوں۔"

ایمان کپڑے لئے واش روم کیطرف بڑھ گئی۔

"وہ جی میں صاحب کے لئے چائے بنا رہی ہوں۔۔آپ لیں گی؟"

شاہدہ نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا۔

"ہاں لے آؤ۔۔۔"

یہ کہہ کر وہ واش روم میں گھس گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو شاہدہ اسکے لئے چائے رکھ کر جا چکی تھی۔گیلے بالوں کا جوڑا بناتی وہ ٹیبل سے کپ اٹھاتی بیڈ پہ آ گئی۔ابھی چائے ختم کر کے کپ سائیڈ ٹیبل پہ رکھا ہی تھا کہ غزنوی کمرے میں داخل ہوا۔وہ جو تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی غزنوی کے یوں اچانک وارد ہونے پر سیدھی ہوئی۔

"تم کس کی اجازت سے یہاں سو رہی ہو؟"

وہ لڑنے کے انداز میں کمر پہ ہاتھ رکھے اس سے مخاطب تھا۔

"کیا مطلب؟"

وہ پیشانی پہ بل ڈالے بیڈ سے اتری۔

"مطلب یہ کہ میرا اور اپنا تماشا مت بنواؤ۔۔۔تم وہیں رہو گی میرے ساتھ، میرے روم میں۔"

غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر قریب کیا۔

"مم۔۔میں یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔"

اس نے اپنا بازو چھڑانا چاہا۔۔وہ اسکی آنکھوں میں دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔

"اس کا فیصلہ میں کروں گا۔"

غزنوی نے اسکے بازو کو جھٹکا دیا لیکن چھوڑا نہیں۔۔۔پھر زبردستی اپنے کمرے میں لا کر اسے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔

"لائٹ آف کرو۔۔"

وہ بارعب لہجے میں کہتا بیڈ کی طرف بڑھا۔۔ایک تو غزنوی کا خوف اوپر سے کمرے میں اے۔سی کی ٹھنڈک۔۔۔ایمان پہ کپکپی طاری ہو گئی تھی۔جی چاہ رہا تھا کہ ابھی یہاں سے بھاگ جائے لیکن پھر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق وہ لائٹ آف کرتی بیڈ پہ آ گئی۔کچھ دیر تو یونہی لیٹی اے۔سی کی ٹھنڈک برادشت کرتی رہی مگر پھر ہاتھ بڑھا کر کمبل سر تک تان کر رخ پھیر گئی۔

دن نہایت ہی سست روی سے گزر رہے تھے، خاص طور پہ ایمان سےتو وقت کاٹنا مشکل ہو رہا تھا۔وہ سارا دن گھر میں بولائی بولائیپھرتی۔۔جب تک شاہدہ ہوتی تب تک اسکے ساتھ بات کر کے وقت گزرجاتا تھا مگر جب وہ اپنے کوارٹر میں چلی جاتی تو اسکا وقتکچھوے کی رفتار کی طرح گزرتا اور یہ وقت اسکے لئے کاٹنا دوبھرہو جاتا۔۔ابھی تک گھر میں فون بھی نہیں لگا تھا اس لئے اعظم ولابھی بات نہیں ہو پا رہی تھی۔غزنوی صبح کا جاتا شام کو واپس آتا۔۔۔اور گھر آتا تو ساتھ فائلوں کا انبار بھی اٹھا لاتا اور پھر گھر میںبھی اسکا سارا وقت اسٹڈی میں گزرتا۔دونوں کے بیچ روزمرہ گفتگوبھی نہ ہونے کے برابر تھی۔وہ منتظر رہتی کہ وہ اس سے بات کرےمگر اس نے تو جیسے آنکھوں پہ پٹی اور زبان پہ تالے لگا رکھے تھے۔جب وہ اسٹڈی میں ہوتا تو وقفے وقفے سے کام کے بہانے دروازے تکجا کر لوٹ جاتی۔شادی سے پہلے تو وہ اسی خاموشی اور تنہائی کیعادی تھی مگر اعظم ولا کے بےلوث محبت لوٹانے والوں کے بیچ رہ کروہ زندگی کو جینا سیکھ گئی تھی۔لیکن جب سے یہاں آئی تھی وہزندگی کو بھولتی جا رہی تھی۔اوپر سے غزنوی کا رویہ۔۔۔وہ ایک بارپھر سے اپنے خول میں بند ہو گیا تھا۔خود میں مگن اور ایمان سےلاپرواہ۔۔

آج بھی وہ معمول کے مطابق کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی کہ باہر کچھ شور سا سنائی دیا۔وہ پریشر کے نیچے آنچ کو آہستہ کرتی کچن سے باہر آئی۔غزنوی آج معمول سے جلدی گھر آ گیا تھا اور اس وقت اسٹڈی میں تھا۔آوازیں لاونج سے آ رہیں تھیں۔وہ حیران ہوتی لاونج میں آئی اور ان سب کو دیکھکر حیران رہ گئی۔

"یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں۔۔۔"

وہ عقیلہ بیگم، خیرن بوا اور باقی سب کو دیکھ کر خوشی کے عالم میں ان کیطرف بڑھی۔وہ سب سے یوں مل رہی جیسے کافی عرصے بعد مل رہی ہو۔۔

"کیسی ہو ایمان۔۔۔اور غزنوی بھائی کہاں ہیں؟"

ملائکہ نے اس کے گلے لگتے ہوئے پوچھا۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں اور غزنوی اوپر اسٹڈی میں ہیں۔"

وہ اب خیرن بوا سے مل رہی تھی۔

"اچھا۔۔۔میں بلا کر لاتی ہوں۔۔اتنے دن ہو گئے میں نے اپنے بھائی کو نہیں دیکھا۔"

ملائکہ سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔

"شاہ گل میں بتا نہیں سکتی۔۔آپ سب کو یہاں دیکھکر مجھے کتنی خوشی ہوئی ہے۔مجھے آپ سب کی بہت یاد آتی ہے۔"

ایمان عقیلہ بیگم کے سینے سے لگی تھی۔

"لو اور سنو۔۔۔تو بی بی ایک مہینہ ہونے کو آیا اور تم نے ایک چکر تک نہیں لگایا۔"

خیرن بوا اس کی بات سن کر اپنے مخصوص انداز میں بولیں۔

"گھر تو بہت پیارا ہے۔"

فائقہ نے اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے کہا۔

"ہاں واقعی۔"

ارفع نے بھی اسکی ہاں میں ہاں ملائی۔

"آپ لوگ سحرش آپی اور پرخہ آپی کو نہیں لائے ساتھ؟"

اس نے عقیلہ بیگم سے پوچھا۔

"کہا تو تھا بیٹا۔۔لیکن وہ دونوں اب تمھاری طرح گھربار والی ہیں۔"

وہ سیڑھیوں سے اترتے غزنوی کو دیکھ کر بولیں۔ایمان جو ان کے ساتھ جڑی بیٹھی تھی جھٹ ان سے الگ ہوئی۔

"السلام علیکم۔۔!!"

غزنوی با آواز بلند سلام کرتا عقیلہ بیگم کی طرف آیا۔وہ بھی اسے سینے سے لگانے کے لئے اٹھ کھڑیں ہوئی۔

"کیسا ہے میرا بچہ؟"

عقیلہ بیگم نے بہت محبت سے اسکی جانب دیکھا اور اسکے کشادہ سینے سے لگیں پوچھنے لگیں۔

"میں بالکل ٹھیک۔۔۔آپ کیسی ہیں، داجی نہیں آئے آپ لوگوں کے ساتھ؟"

"ہم سب ٹھیک ہیں۔۔اور تمھارے داجی تمھیں بہت یاد کرتے ہیں۔اداس ہیں تمھارے لئے۔۔جب سے تم یہاں آئے ہو، میں نے انھیں بہت بےچین دیکھا ہے۔"

عقیلہ بیگم نے اسے اعظم احمد کی ناراضگی کا بتایا۔وہ بھی ان کی ناراضگی کا سن کر اداس ہو گیا۔

"خیرن بوا۔۔۔!! خلاف معمول آپ کیوں اتنی خاموش ہیں؟"

ماحول کی سنجیدگی کا احساس ہوا تو وہ خیرن بوا کی طرف پلٹا۔

"ائے تمھیں اپنی شاہ گل سے فرصت ملے تو ہم کچھ بولیں۔"

خیرن بوا خو خود کا اگنور کیا جانا ایک آنکھ نہ بھایا۔۔اس لئے بغیر لگی لپٹی رکھے بولیں تھیں۔ان کا نروٹھا انداز وہاں بیٹھے سبھی لوگوں کے لبوں پہ مسکراہٹ لے آیا۔

"ارے میری پیاری بوا۔۔آپ کے آنے سے تو رونق لگ گئی ہے میرے گھر میں۔۔"

غزنوی نے فورا ان کے آگے سر خم کیا۔خیرن بوا نے بھی ناراضگی بھلا کر اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور اسے دعا دی۔

"اور چڑیلو۔۔۔۔تم سب مزے میں ہو یا نہیں۔"

اب اسکا رخ سامنے صوفے پہ بیٹھیں فائقہ، ارفع، عنادل، ملائکہ اور لاریب کی جانب تھا۔وہ ساری اچھی خاصی اسکے رعب میں تھیں اسلئے اسکے اسطرح پوچھنے پر صرف مسکرا دیں۔

"ویسے غزنوی بھائی یہاں بیچ میں آپ کی مسز بھی براجمان ہیں۔۔"

فائقہ نے ایمان کی طرف اشارہ کیا۔

"یہ تو تم سب سے زیادہ طاقت ور چڑیل ہے۔۔اسی کی تو قید میں ہے تمھارا شہزادہ بھائی۔"

غزنوی نے بغور ایمان کیطرف دیکھا اور ہلکے پھلکے انداز میں بولا۔وہ سبھی ہنس دیئے لیکن یہ ہنسی ایمان کے لبوں پر نہ کِھل سکی لیکن ماتھے پہ بل ضرور لے آئی۔

"ہونہہ دیو کہیں کا۔۔۔مجھے چڑیل کہہ رہا ہے۔"

وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔

"میں آپ سب کے لئے چائے لے کر آتی ہوں۔"

وہ اٹھ کر کچن میں آ گئی جبکہ غزنوی بلند آواز میں عقیلہ بیگم سے ایمان کو چڑانے کے لئے اسکی شکایتیں لگا رہا تھا۔جو اسے کچن میں چائے بناتے ہوئے صاف سنائی دے رہی تھیں۔

"میں مانتی ہی نہیں۔۔۔ایمان ایسا کر ہی نہیں سکتی۔الٹا تم نے ضرور میری بیٹی کو تنگ کیا ہو گا۔"

وہ ٹرے لئے لاونج میں آئی تو عقیلہ بیگم اسکے فیور میں غزنوی سے کہہ رہی تھیں۔ایمان نے مسکراتے ہوئے سب کو چائے سرو کی۔

"اچھا شاہ گل آپ لوگ گپ شپ لگائیں۔۔میں ذرا اسٹڈی میں ہوں۔۔کل ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔رات کے کھانے پہ ملتے ہیں۔"

چائے ختم کرتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔عقیلہ بیگم نے سر ہلا کر اسے اجازت دی تو وہ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔

"ائے میں ذرا اپنی بہن سے مل آؤں۔۔"

خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"ہاں جاو۔۔مل آو۔۔میری طرف سے بھی حال احوال پوچھ لینا۔"

عقیلہ بیگم نے خیرن کو اٹھتے دیکھکر کہا۔

"ضرور۔۔۔"

خیرن بوا دروازے کیطرف بڑھ گئیں۔

"اور ہاں۔۔۔اگر اس نے کھانے کے لئے اسرار کیا تو میرا انتظار نہ کرنا کھانے پر۔۔"

وہ جاتے جاتے پلٹ کر عقیلہ بیگم سے بولیں۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔چلو لڑکیو۔۔!! میں ذرا آرام کر لوں۔"

عقیلہ بیگم بھی اٹھ کھڑیں ہوئیں۔

"آئیے شاہ گل میں آپ کو کمرہ دکھا دیتی ہوں۔"

ایمان بھی ان کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔عقیلہ بیگم کو کمرے میں چھوڑ کر جب وہ نیچے آئی تو وہ ساری سر جوڑے بیٹھی تھیں۔۔

"کیا تخریب کاری ہو رہی ہے۔"

وہ ان کے بیچ آ کر بیٹھ گئی۔

"ہاں۔۔ہم سوچ رہے تھے کہ تمھیں کیسے چرا کر لے جائیں کہ تمھارے میاں جی کو اسکی خبر بھی نہ ہو سکے۔"

فائقہ کی بات پر وہ صرف مسکرا کر رہ گئی۔

"ایسا لگتا تو نہیں ہے غزنوی بھائی ایمان کو ہمارے ساتھ جانے دیں گے۔۔کیوں ایمان۔۔"

ملائکہ نے ایمان کو ٹہوکا دیا۔

"ارے اگر ہماری ایمان اپنے میاں جی سے کہے گی تو کیا مجال ہے کہ میاں جی اجازت نہ دیں۔"

عنادل نے بھی شرارتی انداز میں ایمان کی طرف دیکھا۔

"تم لوگ یہ قیاس آرائیاں چھوڑو اور بتاو کھانے میں کیا کھاو گے۔۔۔کیا بناؤں تم لوگوں کے لئے؟"

وہ ان کی باتوں سے جان چھڑاتی اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ سب بھی اب اپنی اپنی فرمائشیں بتانے لگیں تھیں۔

"حوصلہ حوصلہ لڑکیو۔۔۔!! ابھی بہت سے دن ہیں تم لوگوں کی فرمائش پوری کرنے کے لئے۔۔ابھی کے لئے میری پیاری بہنو۔۔ایک ہی فرمائیش پہ متفق ہو جاو۔"

ایمان نے ان کی فرمائشوں پہ کان بند کر لئے۔

"ارے واہ۔۔!! خود ہی تو پوچھ رہی تھی۔"

ارفع نے اسے کانوں پہ ہاتھ رکھتے دیکھ کر کہا تو وہ ہنس دی۔

"اچھا۔۔۔تم لوگ گپ شپ لگاو۔۔"

وہ اٹھ کر کچن کی طرف بڑھ گئی۔

🌺

"یہ لیجئے آپ کی چائے۔۔۔"

ایمان نے چائے کا کپ عقیلہ بیگم کے ہاتھ میں تھمایا۔وہ فجر پڑھ کر باہر لان میں آ گئیں تھیں۔۔ہلکی ہلکی ہوا طبیعت پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔

"شکریہ بیٹا۔۔۔وہ سب بھی اٹھیں نماز کے لئے یا نہیں؟"

عقیلہ بیگم نے تازہ ہوا میں گہرا سانس لیا۔

"جی اٹھیں تھیں۔"

وہ مختصرا بولی۔

"خیرن نہیں آئی رات کو؟"

خیرن بوا کا خیال آتے ہی عقیلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔

"نہیں۔۔۔وہ رات وہیں رک گئیں تھیں۔۔بلقیس خالہ نے رات کو ہی فون کر کے بتا دیا تھا۔"

وہ بھاپ اڑاتی چائے کا کپ واپس ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولی۔

"بلقیس بیگم آتیں ہیں تمھارے پاس؟"

بلقیس بیگم کا نام یاد آتے ہی انہوں نے پوچھا۔

"جی زیادہ نہیں بس ایک دو بار ہی آئی ہیں۔آجکل وہ اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے کافی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔بتا رہیں تھیں کہ ایک جگہ بات چلتے چلتے رہ گئی۔"

ایمان انہیں تفصیل سے بتانے لگی۔

"اوہ۔۔!! مگر کیسے؟"

عقیلہ بیگم کے چہرے پر فکر و پریشانی کے آثار نمودار ہوئے۔انہیں معلوم تھا کہ بلقیس بیگم بیٹی کے رشتے کو لے کر کسقدر پریشان تھیں۔اب یہ سب سن کر انہیں بہت دکھ ہوا تھا۔

"رشتہ تقریبا طے تھا مگر لڑکے کی بہن، جو رقیہ سے پہلی ملاقاتوں میں ملی نہیں تھی اور جب ملی تو یہ کہہ کر رشتہ ختم کر دیا کہ لڑکی ذرا دبتے ہوئے رنگ کی ہے اور یہ کہ انہیں تو گوری چٹی بھابھی چاہئیے۔"

ایمان نے افسوس سے بتایا۔

"توبہ۔۔!! کیا زمانہ آ گیا ہے۔۔پہلے وقتوں میں لوگ رشتہ کرتے وقت شرافت اور اخلاق کو مدنظر رکھتے تھے اور آجکل لوگ کے شرافت کا پیمانہ ہی بدل گیا ہے۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جنھیں بعد میں منہ کی کھانی پڑتی ہے مگر پھر بھی سمجھتے نہیں ہیں۔۔بچیوں کو تو بھیڑ بکری سمجھ رکھا ہے انہوں نے۔"

انہیں بہت تکلیف پہنچی تھی یہ سن کر۔۔۔

"جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔آجکل کسی کو کسی دوسرے کے جذبات کا احساس ہی نہیں۔۔"

ایمان نے ٹھنڈی ہوتی چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔۔کچھ پل یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔

"یہ کون ہے۔۔۔؟"

لان کے دائیں جانب سے شاہدہ کو گھر کی طرف جاتے دیکھ کر عقیلہ بیگم نے ایمان سے پوچھا۔ایمان کی اس جانب پیٹھ تھی اس لئے وہ شاہدہ کو آتے نہیں دیکھ پائی تھی۔اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔

"یہ ملازمہ ہے۔۔۔شاہدہ۔۔۔یہیں سرونٹ کوارٹر میں رہتی ہے۔۔۔۔شاہدہ۔۔۔!!"

ایمان نے عقیلہ بیگم کو بتاتے بتاتے شاہدہ کو بھی آواز دے ڈالی۔شاہدہ نے ایمان کے ساتھ کسی خاتون کو بیٹھے دیکھا تو تجسس بھری نظروں سے عقیلہ بیگم کو دیکھتی ان کے پاس آ گئی۔

"السلام وعلیکم۔۔!!"

شاہدہ قریب آئی۔

"وعلیکم السلام۔۔۔"

عقیلہ بیگم اور ایمان نے بیک وقت جواب دیا۔

"شاہدہ یہ شاہ گل ہیں۔۔ہماری دادی۔۔۔"

ایمان نے عقیلہ بیگم کا تعارف کروایا۔

"بی بی ناشتہ ابھی بناوں یا کچھ دیر ٹھہر کر۔۔۔؟"

شاہدہ نے ایمان سے پوچھا۔

"تھوڑی دیر بعد۔۔۔پراٹھوں کے لئے آٹا گوندھ لو۔شاہ گل آپ کیا لیں گی ناشتے میں۔۔؟"

ایمان نے ساتھ ہی عقیلہ بیگم سے پوچھا۔

"کچھ بھی بنا لو بیٹا۔۔۔"

وہ چائے کا کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولیں۔

"ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔میں آتی ہوں تھوڑی دیر تک۔۔"

ایمان نے شاہدہ کو جانے کا کہا۔شاہدہ سر ہلاتی وہ سے چلی گئی۔

"میں زرا دیکھ آؤں۔۔غزنوی اٹھے ہیں یا نہیں۔"

ایمان نے تسبیح کے دانے گراتی عقیلہ بیگم سے کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔عقیلہ بیگم بھی سر ہلاتی اپنے کام میں مشغول ہو گئیں اور ایمان اندر کی طرف بڑھ گئی۔

🏵️⁩

"ایمان۔۔۔!!"

کمرے سے غزنوی کے پکارنے کی آواز آ رہی تھی۔وہ کچن میں ان سب کے لئے ناشتہ تیار کر رہی تھی۔آج عقیلہ بیگم اور لڑکیوں کو آئے تیسرا دن تھا۔وہ سب بھی سوائے لاریب کے کچن میں اس کی ہیلپ کر رہی تھیں۔روٹی بیل کر اس نے دائیں سے بائیں ہاتھ پہ ڈال کر مزید ہموار کی اور توے پہ ڈال کر ارفع سے خیال رکھنے کا کہتی کچن سے نکل آئی۔

"ایمان دیکھو بیٹا۔۔غزنوی بلا رہا ہے۔"

وہ لاؤنج میں آئی تو عقیلہ بیگم نے اس سے کہا۔

"جی جا رہی ہوں۔"

وہ کمرے کیطرف بڑھ گئی۔دروازے پہ دستک دیئے بغیر وہ کمرے میں آئی تھی مگر اندر آ کر اپنی اس حرکت پہ لاکھ مرتبہ پچھتائی۔غزنوی بناء شرٹ کے الماری کے پاس کھڑا تھا۔ایمان کو اندر آتے دیکھکر اب اسکا رخ اسکی جانب تھا۔ایمان نظریں جھکا گئی۔چہرے پہ غصے کے آثار تھے۔

"میری ریڈ شرٹ کہاں ہے؟"

غزنوی نے الماری کے پٹ بند کیے۔

"یہیں ہو گی۔۔۔الماری میں۔۔"

وہ بیڈ کیطرف آئی اور کمبل طے کرنے لگی۔

"میں کیا پوچھ رہا ہوں اور تم کیا کام لے بیٹھی ہو۔"

وہ آہستہ آواز میں کہتا قریب آیا۔ایمان نے غزنوی کو قریب آتے دیکھا تو کمبل چھوڑ کر الماری کیطرف بڑھی۔الماری کھول کر دیکھا تو مطلوبہ شرٹ نچلے خانے میں پڑی تھی۔اس نے شرٹ کے مل جانے پر دل ہی دل میں شکر ادا کیا۔

"یہ رہی۔۔۔"

ایمان نے شرٹ غزنوی کو دکھائی۔۔

"یہ آئرن کون کرے گا؟"

غزنوی نے آنکھیں دکھائیں۔ایمان سے تو وہاں کھڑا ہونا دوبھر ہو رہا تھا۔

"میں کر دیتی ہوں۔"

وہ تیزی سے کمرے سے نکلی۔۔جلدی سے شرٹ آئرن کی اور کمرے میں واپس آئی۔۔

"وہاں کہاں رکھ رہی ہو۔۔ادھر لاو۔۔۔"

نظریں جھکائے جھکائے وہ شرٹ بیڈ پہ رکھ ہی رہی تھی کہ غزنوی بول پڑا۔ایمان نے شرٹ اس کے حوالے کی۔

"میرا والٹ نہیں مل رہا۔۔دیکھو کہاں ہے۔"

شرٹ دے کر وہ پلٹی ہی تھی کہ ایک نیا حکم صادر ہوا۔عزنوی کے لبوں کی دبی دبی مسکراہٹ ایمان کی جھکی نظروں سے مخفی تھی۔اس نے بیڈ کے آس پاس نظر دوڑائی مگر اسے والٹ کہیں نظر نہیں آیا۔

"یہاں تو نہیں ہے۔"

اس نے پلٹ کر غزنوی کو دیکھا۔

"تو ڈھونڈو۔۔۔کہاں ہے۔۔"

اس نے شرٹ کا اوپری بٹن بند کیا اور کالر ٹھیک کرتا اسکی طرف پلٹا۔وہ پھر سے سارے کمرے میں ڈھونڈنے لگی جبکہ غزنوی اسے اس کام پہ لگا کر خود آرام سے بیڈ پہ بیٹھ کر اسے والٹ کی تلاش میں کمرے میں ادھر سے ادھر چکراتا دیکھتا رہا۔ہلکے گلابی رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں وہ خود بھی گلابی گلابی لگ رہی تھی۔شیفون کا گلابی آنچل بار بار ڈھلک جاتا۔۔ایمان خود پہ اسکی نظریں محسوس کر رہی تھی۔

"کہاں ہے یہ کمبخت والٹ۔۔۔"

وہ جلد سے جلد اسکی کھوجتی نظروں دور جانا چاہتی تھی مگر والٹ مل کے ہی نہیں دے رہا تھا۔

"کہاں رکھا تھا آپ نے۔۔؟"

ایمان نے بیڈ پہ سکون سے بیٹھے غزنوی کو دیکھا۔

"کہاں۔۔۔۔؟؟ اوہ ہاں یاد آیا۔۔میں اسٹڈ میں ہی چھوڑ آیا تھا۔دیکھو ساتھ میں گاڑی کی چابیاں بھی ہوں گی۔"

وہ سوچنے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے بولا۔اسکی آنکھوں کی شرارت اور چہرے پر بکھرتی مسکراہٹ ایمان کو اچھا خاصا تپا گئی۔اسکا جی چاہا کہ اسکے سر پہ کچھ دے مارے، لیکن برداشت کرتی اور ایک عدد گھوری سے نوازتی کمرے سے نکل گئی۔اپنے پیچھے اسے غزنوی کا دبا دبا سا قہقہ صاف سنائی دیا۔جس سے صاف ظاہر تھا کہ اس نے یہ سب جان بُوجھ کر کیا تھا۔

اسکے غصے سے لال ہوتے چہرے کو یاد کرتے ہوئے غزنوی کو کہیں پڑھی ہوئی ایک نظم یاد آئی۔

"ابھی تو عشق میں ایسا بھی حال ہونا ہے

کہ اشک روکنا تم سے محال ہونا ہے

ہر ایک لب پہ ہے میری وفا کے افسانے

تیرے ستم کو ابھی لازوال ہونا ہے

بجا کہ خار ہیں لیکن بہار کی رُت میں

یہ طے ہے اب کہ ہمیں بھی نہال ہونا ہے

ہماری روح پہ جب بھی عذاب اتریں گے

تمھاری یاد کو اس دل کی ڈھال ہونا ہے

تمہیں خبر ہی نہیں تم تو لوٹ جاؤ گے

تمہاری یاد کو اس دل کی ڈھال ہونا ہے

کبھی تو روئے گا وہ بھی کسی کی بانہوں میں

کبھی تو اس کی ہنسی کو زوال ہونا ہے

ملے گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں

بس انتظار ہے کب یہ کمال ہونا ہے

ہر ایک شخص چلے گا ہماری راہوں پر

محبتوں میں ہمیں وہ مثال ہونا ہے

زمانہ جس کے خم و پیچ میں الجھ جائے

ہماری ذات کو ایسا سوال ہونا ہے

یقین ہے مجھ کو وہ لوٹ آئے گا

اسے بھی اپنے کیے کا ملال ہونا ہے.۔!"

دھیرے دھیرے گنگناتے ہوئے وہ ایمان کے لوٹنے کا انتظار کرنے لگا۔

غصے میں جلتی بُھنتی وہ اسٹڈی میں آئی تھی۔اندر داخل ہوتے ہی اسے ٹیبل پہ پڑی چابیاں اور والٹ دکھائی دے گیا۔ایمان نے دونوں چیزیں اٹھائیں اور باہر آ گئی۔

"ایمان ناشتہ ریڈی ہے۔۔ہم سب انتظار کر رہے ہیں۔۔غزنوی بھائی سے کہو کہ یہ رومینس بعد میں کر لیں۔"

تیزی سے سیڑھیاں اترتی وہ روم کیطرف جا رہی تھی کہ فائقہ نے کچن سے نکل کر دُہائی دی۔۔بعد میں اپنے آخری جملے پر خود ہی کھی کھی کرنے لگی۔

"آ رہے ہیں۔۔"

وہ فائقہ سے کہتی کمرے میں داخل ہوگئی۔

"یہ لیں اور آ جائیں، ناشتہ ریڈی ہے۔"

ایمان نے والٹ ہاتھ میں دینے کی بجائے بیڈ پہ اسکے قریب رکھا اور جھپاک سے کمرے سے نکل گئی۔

"بہت شکریہ۔۔"

وہ والٹ اور کیز اٹھاتا اسکے پیچھے کمرے سے نکلا۔وہ دونوں کچن میں پہنچے تو وہ سب ان کے انتظار میں بیٹھے تھے۔

"غزنوی بھائی۔۔یہ کوئی وقت ہے رو۔۔۔"

اس سے پہلے کہ عنادل اپنا جملہ مکمل کرتی، عقیلہ بیگم کی گھورتی نگاہیں اسے چپ کرا گئیں۔

"میرا مطلب ہے کہ میں آپ کے انتظار میں ناشتہ کیے بغیر ہی مر جاتی تو۔۔۔"

اس نے جلدی سے بات کو بدلا۔

"تو پھر ہم بھی ناشتہ نہ کرتے اور تین دن بعد تمھاری قُل کے چاول کھاتے۔۔۔"

غزنوی نے ہنستے ہوئے اسکی طرف دیکھا جبکہ وہ روہانسی ہو گئی۔

"غزنوی۔۔۔۔!!"

عقیلہ بیگم نے غزنوی کو گھوری سے نوازا۔

"سوری شاہ گل۔۔۔"

وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ناشتے میں مصروف ہو گیا۔

"ایمان کو اسلام آباد دکھایا یا تب سے اب تک اس گھر میں ہی قید ہے؟"

انہوں نے گھونٹ گھونٹ چائے پیتے ہوئے غزنوی کو دیکھا۔

"جی ہاں۔۔۔سارا اسلام آباد دکھایا۔۔۔یہاں تک بیگم صاحبہ تو اپنے میکے کی بھی سیر کر آئی ہیں۔"

وہ آملیٹ سے مکمل انصاف کرتے ہوئے بولا۔اس کے جھوٹ پہ ایمان کا منہ طرف جاتا ہاتھ رک گیا مگر پھر اگلے ہی لمحے وہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔

"ایمان کیا یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟"

انہوں نے آج دونوں کی کلاس لینے کی ٹھان لی تھی شاید۔۔

"جی شاہ گل۔۔۔جب میں گاؤں سے واپس آئی تھی تو لے کر گئے تھے۔۔"

وہ بناء کسی کی جانب دیکھے بولی تھی۔

"ہیم۔۔۔"

وہ مزید کھنگالنے کا ارادہ ترک کرتیں ناشتہ کرنے لگیں تو ایمان نے سکھ کا سانس لیا۔وہ جب سے آئیں تھیں اس سے کرید کرید یہی جاننے کی کوشش کر رہی تھیں کہ وہ خوش ہے۔۔غزنوی کا رویہ اسکے ساتھ کیسا ہے۔۔وہ انھیں مطمئن کرنے کی ہر کوشش کر رہی تھی مگر وہ روز کسی نئے سوال کے ساتھ اسکے سامنے موجود ہوتی تھیں اور اوپر سے خیرن بوا کی ایکسرے مشین جیسی نگاہیں۔۔۔لگتا تھا دونوں اسی ایک کام سے یہاں آئیں تھیں۔

"ائے تم لوگوں کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا لڑکیو۔۔!"

خیرن بوا اسقدر خاموشی سے گھبرا کر بولیں۔

"خیرن بوا۔۔۔آپکی بہن کا گھر یہاں پڑوس میں ہے؟"

لاریب نے خیرن بوا سے پوچھا۔

"ائے ہاں۔۔یہیں پڑوس میں ہی رہتی ہے۔۔اسکے گھر میں تو ہر دم چہل پہل رہتی ٹیپو کی وجہ سے۔۔بہت ہی شرارتی لونڈا ہے۔۔ایک دم آفت کا پرکالہ۔۔۔ماں کو ٹک کے بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔"

وہ ہنستے ہوئے انہیں ٹیپو کی شرارتیں بتانے لگیں۔

"بچوں سے تو گھر میں رونق ہوتی ہے۔"

عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں۔

"سہی کہہ رہی ہیں آپ عقیلہ بیگم۔۔۔اللہ ہمیں بھی یہ دن دکھائے۔۔آمین۔۔!!"

خیرن بوا نے ایمان کی جانب دیکھتے ہوئے دعا دی۔

"آمین۔۔۔!"

عقیلہ بیگم نے آمین بولا۔ان کی بات کا مقصد سمجھ کر ایمان کے حلق میں نوالا اٹک گیا۔اس نے جلدی پانی کا گلاس منہ سے لگایا۔

"میں چلتا ہوں۔۔۔۔اللہ حافظ۔۔"

غزنوی ایک گہری نظر ایمان پر ڈالتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"اللہ حافظ بیٹا۔۔۔"

عقیلہ بیگم بھی اٹھ گئیں۔۔خیرن بوا بھی ان کے ساتھ ہی باہر آئیں۔باقی سب گپ شپ لگاتی ناشتہ ختم کرنے لگیں۔

"یہ سب کیا ہو رہا ہے۔۔۔؟"

ایمان ان سب کی تلاش میں باہر آئی تو وہ سب سر جوڑے لان میں بیٹھی تھیں۔

"کچھ نہیں۔۔۔آج ہم واپس جا رہے ہیں تو اس لئے دل اداس ہے۔"

لاریب لان کی سبز گھاس پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اداسی سے بولی۔

"اداس تو میں بھی ہوں تم سب کے جانے سے۔"

ایمان نے ان سب کیطرف دیکھا۔۔

"کتنی رونق ہو گئی تھی تم سب کے آنے سے۔"

وہ ان کے جانے کا سن کر بہت اداس ہو گئی تھی۔عقیلہ بیگم سے اس نے کچھ دن اور رکنے کا کہا تھا مگر انہوں نے سہولت سے منع کر دیا تھا۔

"تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔۔۔"

ارفع نے مشورہ دیا۔

"غزنوی بھائی نہیں جانیں دیں گے۔۔وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ اور ایمان عید پہ ہی آئیں گے۔"

ملائکہ نے ایمان کو شرارتی نظروں سے دیکھا۔وہ سب بھی ہنس دیں۔

"یار یہ لان کتنا خوبصورت سے نا۔۔۔"

عنادل ایک گہری سانس لیتی اٹھ کھڑی ہوئی۔موسم صبح ہی سے کافی خوشگوار تھا۔

"ہاں واقعی۔۔۔ہمارے لان سے بھی زیادہ خوبصورت یے۔"

لاریب نے عنادل کی ہاں میں ہاں ملائی۔وہ سب باتیں کر رہی تھیں کہ گاڑی کے ہارن کی آواز نے سب کی توجہ اپنی جانب کھینچی۔چوکیدار گل خان نے آگے بڑھ کر آہنی گیٹ کھولا۔۔گیٹ کھلتے ہی غزنوی کی گاڑی اچھی خاصی اسپیڈ سے پورچ میں آ رکی۔وہ سب حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔وہ اتنی ہی تیزی سے گاڑی سے نکلا اور زوردار آواز کے ساتھ دروازہ بند کیا۔

"بھائی غصے میں لگ رہے ہیں۔"

ملائکہ کے ساتھ ساتھ باقی سب کا بھی یہی اندازہ تھا۔چوکیدار گیٹ بند کر کے گیٹ کے قریب بنے ایک چھوٹے سے کمرے میں چلا گیا تھا۔

"اس وقت تو کبھی نہیں آتے۔۔۔آج کیسے۔۔"

ایمان نے غزنوی کو گاڑی سے نکلتے اور مین ڈور کی طرف بڑھتے دیکھ کر کہا۔

"دیکھ نہیں رہی کس قدر غصے میں ہیں۔"

فائقہ نے کہا۔

"کچھ ہوا ہو گا آفس میں۔۔۔"

لاریب بھی کپڑوں سے نادیدہ گرد جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں تو پودوں کو پانی دینے لگی ہوں۔"

عنادل کیاری میں رکھے پانی کے پائپ کی طرف بڑھی۔

"لیکن یار بھائی کا غصہ کیسے کم کیا جائے۔۔یہ تو سوچو۔۔۔"

ملائکہ اور ارفع ایک آواز میں بولیں تھیں اور پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر کھلکھلا کر ہنس دیں۔

"ان کا غصہ تو ایک ہی صورت کو دیکھکر کم ہو سکتا ہے۔"

ملائکہ نے ایمان کو دیکھا جو اس ادھیڑ بن میں تھی کہ غزنوی کیوں اتنے غصے میں ہے۔وہ سب بھی اسکا اشارہ سمجھ گئیں تھیں۔

"ہاں ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔"

ارفع کے ذہہن میں جھماکا سا ہوا۔اس نے پودوں کو پانی دیتی عنادل کے کان میں کچھ کہا اور دونوں ایمان کیطرف شرارت سے دیکھتی ہنس دیں اور باقی سب کو بھی اشارے سے بلایا۔ایمان ان سب سے بےخبر وہیں بیٹھی اپنے اور غزنوی کے روم کی کھڑکی کو دیکھ رہی تھی۔

"آہ۔۔۔۔"

ٹھنڈے پانی کی پھوار جیسے ہی اس پر پڑی وہ اچھل کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"یہ کیا کر رہی ہو تم لوگ۔۔۔رُکو عنادل۔۔۔"

وہ دونوں ہاتھوں سے پانی کی بوچھاڑ کو روکنے کی ناکام کوشش کرتی ان کیطرف بڑھ رہی تھی۔وہ سبھی ہنس رہی تھیں۔اس بیچ وہ اچھی خاصی بھیگ چکی تھی۔

"چلو پلان کا ایک مرحلہ تو مکمل ہو گیا۔"

عنادل نے پائپ پھینک کر ہاتھ جھاڑے۔

"یہ کیا کیا ہے تم لوگوں نے بدتمیزو۔۔۔!!"

وہ اپنا بھیگا ڈوپٹہ نچوڑتے ہوئے بولی۔مسکراہٹ اسکے چہرے پر بھی اپنی چھب دکھلا رہی تھی۔وہ سب بھی ہنس رہی تھیں۔

"میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گی۔"

ایمان بھی پائپ اٹھانے کے لئے آگے بڑھی تھی مگر انھوں نے اسے پکڑ لیا تھا۔

"چلو لڑکیو۔۔۔!! پلان نمبر ٹو۔۔۔"

لاریب نے نعرہ لگانے کے سے انداز میں ہاتھ بلند کیا۔

"او کے باس۔۔۔"

وہ سب ایک آواز میں بولیں اور ایمان کو پکڑے اندر جانے لگیں۔

"یہ کیا کر رہی تم لوگ۔۔"

وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔

"ہم تمھیں ٹھنڈا ٹھار کر کے کسی کا غصہ اتارنے والے ہیں۔۔دیکھنا تمھیں یوں بھیگا بھیگا دیکھ کر سارا غصہ ہوا ہو جائے گا۔"

ارفع نے اسے اطلاع دی۔

"کیا مطلب۔۔۔؟؟"

ایمان نے کچھ سمجھنے اور کچھ ناسمجھنے کے سے انداز میں کہتے ہوئے اپنے ہاتھ جھٹکے سے ان کی گرفت سے چھڑائے تھے۔۔مگر انہوں نے پھر سے اسے قابو کر لیا۔

"نہیں نہیں۔۔۔"

ایمان نے اپنی حالت کے پیش نظر انھیں روکا۔

"ہاں ہاں۔۔۔"

فائقہ نے باقی سب کو آنکھ ماری۔۔ایمان کا دل کسی پتے کی مانند لرزنے لگا۔

"یار پلیز۔۔۔ایسا نہ کرو۔۔۔وہ مزید غصہ ہو جائیں گے۔"

ایمان نے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔

"کچھ نہیں ہوتا۔۔۔دیکھنا ان کے غصے کا پارہ کیسے نیچے آتا ہے۔تمھیں اس بھیگے بھیگے موسم میں بھیگا بھیگا دیکھکر۔"

عنادل نے کہا تو باقی سب کا قہقہ گونج گیا۔وہ سب اسے لئے روم کے دروازے تک پہنچ گئیں تھیں۔وہ اسکی ایک بات نہیں سن رہی تھیں اور اسے لگ رہا تھا جیسے اسکا سانس بند ہو جائے گا۔

"شش۔۔۔!!"

لاریب نے ہونٹوں پہ انگلی رکھ کر انھیں خاموش رہنے کو کہا۔وہ سب خاموش ہو گئیں۔ایمان نفی میں سر ہلانے لگی۔عنادل نے فائقہ کو دستک دینے کا اشارہ کیا۔

فائقہ نے دستک دی مگر دروازہ نہیں کھلا۔ایمان نے شکر کا سانس لیا۔

"یار وہ دروازہ نہیں کھول رہے۔۔لگتا ہے سو گئے ہیں۔"

ارفع نے آہستہ آواز میں کہا۔

"دوبارہ دو دستک۔۔"

لاریب نے فائقہ سے کہا۔فائقہ نے اس بار زور سے دستک دی۔اگلے ہی پل دروازہ کھلنے کی آواز پہ انہوں نے ایک دوسرے کو الرٹ رہنے کا اشارہ کیا۔

"نن۔۔نہ۔۔نہیں۔۔۔"

ایمان نے بولی تھی۔دروازہ جیسے ہی کھلا انہوں نے ایمان کو اندر کی جانب دھکا دیا اور خود وہاں سے بھاگ گئیں۔ایمان اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور دروازے کی دوسری جانب کھڑے غزنوی سے ٹکرا گئی۔غزنوی اس اچانک افتاد پہ حیران اسے دیکھ رہا تھا۔وہ گرنے والی تھی کہ غزنوی نے فوراً اسے سمیٹا بازوؤں میں سمیٹا۔۔اس کے بازو بھی بھیگ گئے تھے۔

اگلے ہی پل شدید غصے سے غزنوی کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔

"سس۔۔سوری۔۔یہ ان سب۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کر پاتی ایک زناٹے دار تھپڑ ایمان کے نازک گال پہ اپنی چھاپ چھوڑ گیا۔جسکی آواز لاؤنج تک سنائی دی تھی۔وہ قہر بھری سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ایمان نیچے کارپٹ پہ گری، دائیں گال پہ رکھے اسے حیران نظروں سے دیکھ رہی تھی۔

"شرم لحاظ سب بھول بیٹھی ہو کیا۔۔وہ تو بچیاں ہیں تم تو سمجھدار تھیں نا۔۔بےشرمی کا جامہ پہن کر مجھے لبھانے کے ارادے ترک کر دو۔آئیندہ اگر ایسی کوئی حرکت کی تو ایک سیکنڈ نہیں لگاوں گا تمھیں اپنی زندگی سے نکال باہر کرنے میں۔۔بےشرم عورت۔"

وہ اونچی آواز میں چلاتا کمرے سے نکل گیا۔بےپناہ غصے میں لاونج سے گزرتے ہوئے وہ شاہ گل اور خیرن بوا کو نہیں دیکھ پایا تھا۔باقی سب بھی ہکا بکا رہ گئیں تھیں۔جہاں کچھ دیر پہلے کھلکھلاہٹیں تھیں اب وہاں موت کی سی خاموشی چھا گئی تھی۔کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ روم میں جا کر ایمان کو دیکھتا۔عقیلہ بیگم کانپتی ٹانگوں سے چلتی ہوئی صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئیں۔انھیں اندازہ نہیں تھا کہ غزنوی کے دل میں ایمان کے لئے اتنی نفرت ہے۔وہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔

خیرن بوا بھی ان کے پاس آ بیٹھیں اور ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔میاں بیوی میں ایسا ہوجاتا ہے کبھی کبھی۔"

خیرن بوا نے انھیں تسلی دی۔

"افسوس تو اس بات کا ہے خیرن کہ ہمارے ایک غلط فیصلے نے بچوں کی زندگی خراب کر دی۔لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی غلطی کو درست کر لیا جائے۔"

وہ بھیگے لہجے میں بولیں۔

"یہ سب ہماری غلطی کی وجہ سے ہوا شاہ گل۔۔ہمیں نہیں معلوم تھا کہ وہ اسطرح ری۔ایکٹ کریں گے۔"

عنادل شرمندہ لہجے میں بولیں۔۔باقی سب کو بھی اپنے فعل پر افسوس ہو رہا تھا۔

"تم لوگوں کا بھی قصور ہے۔۔مگر غزنوی کو تو بہانا چاہئیے تھا، لہذاء اسے وہ موقع آج تم لوگوں نے فراہم کر دیا۔اچھا ہی ہوا کہ اس رشتے کی حقیقت ہمارے سامنے آ گئی۔اب فیصلہ لینے میں آسانی ہو گی۔"

وہ بہت دکھ سے بولیں۔

"ائے کوئی اس بچی کو بھی جا کر دیکھو۔"

خیرن بوا نے ان سب سے کہا۔

"بوا ہم میں تو اتنی ہمت نہیں ہے۔۔"

ارفع بولی تو باقی سب نے بھی اثبات میں سر ہلایا۔

"ٹھیک ہے میں خود دیکھتی ہوں۔"

خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"مجھے کمرے میں لے جاو لاریب۔۔مجھ میں ہمت نہیں ہے کہ میں اس بچی کا سامنا کر سکوں۔"

عقیلہ بیگم نے لاریب سے کہا تو وہ انھیں سہارا دیئے کمرے میں لے گئی اور باقی سب افسوس سے ایک دوسرے دیکھتے ہوئے سر جھکا گئیں تھیں۔

💕

اسے سمجھ نہیں آیا تھا کہ یہ سب اچانک کیا ہو گیا تھا۔وہ اسی پوزیشن میں کارپٹ پہ بےحس و حرکت پڑی تھی۔اٹھنے کی کوشش تک نہیں کی تھی۔غزنوی کے الفاظ اسکے کانوں کسی سیسے کی طرح پڑے تھے۔جس کی تپش اسکا سارا جسم جھلسائے دے رہی تھی۔کس قدر نفرت میں لپٹے تھے اس کے الفاظ، جنھوں نے اسکی بچی کچی طاقت تک چھین لی تھی۔

آنکھوں سے گرم سیلے رواں جاری تھا۔بایاں ہاتھ ابھی تک بائیں گال پہ ساکت تھا۔بھیگے کپڑوں میں جیسے آگ سی دہک رہی تھی۔آج اسکے بےجان رشتے کا لاشہ سب کی نظروں کے سامنے تھا۔وہ پردہ جو اس نے اپنے دل کو مار کر اس کھوکھلے رشتے پہ ڈال رکھا تھا، غزنوی کے غصے کی تیز ہوائیں اسے اڑا لے گئیں تھیں اور اب یہ رشتہ کسی بےبرگ و بار درخت کی طرح اپنی حالت پہ شرمندہ کھڑا تھا۔اسکا دکھ صرف وہی سمجھ سکتی تھی۔

"ایمان بٹیا۔۔۔"

خیرن بوا کی آواز اسے حال میں کھینچ لائی۔وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔نہایت پُھرتی سے اپنے بھیگے ڈوپٹے سے چہرہ صاف کیا۔

"ایمان۔۔۔"

خیرن بوا کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ کارپٹ پہ بیٹھی ہوئی تھی۔

"ارے بوا۔۔۔آپ کب آئیں۔؟"

وہ چہرے پہ ذبردستی کی مسکراہٹ سجائے بولی۔وہ ان کی جانب ڈائریکٹ دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔لیکن اسکے نازک گال پہ غزنوی کے انگلیوں کے نشان، اسکی بکھری حالت، کانپتے ہونٹ اور سوجی آنکھیں۔۔اسکی ظاہری حالت اسکے لہجے کے بالکل برعکس تھی۔

"رو لے بٹیا۔۔دل میں روگ نہ پال۔۔غزنوی ایسا نہیں ہے۔۔کوئی اور وجہ ہو گی جسکا غصہ وہ بیوقوف تم پر نکال بیٹھا۔۔اب یقینا پچھتا رہا ہو گا۔"

وہ اسکے بائیں گال کو پیار سے سہلاتے ہوئے بولیں۔ایمان کی آنکھیں نمکین پانیوں سے بھر گئیں اور چہرہ بھیگ گیا۔۔خیرن بوا نے اسے گلے لگایا اور وہ اتنی محبت پا کر بکھر گئی۔

"بس چپ کر جا۔۔۔میری بچی۔۔تمھارے رونے سے میرا کلیجہ پھٹ رہا ہے۔۔کیا حال ہو گیا ہے۔۔چل شاباش بس اپنے آنسو پونچھو اور کپڑے بدلو۔۔کہیں بخار نے آ لیا تو۔۔۔شاباش میری بچی۔۔"

انہوں نے اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے خود سے الگ کیا۔وہ سسکیاں بھرتی ان سے الگ ہوئی۔

"جا کپڑے بدل۔۔۔گھر لوٹ کر آنے دے اسے۔۔وہ لتے لوں گی کہ ساری زندگی یاد رکھے گا۔"

خیرن بوا نے اسکے آنسو پونچھے۔۔اسکا سارا وجود ہچکولوں کی زد میں تھا۔انہوں نے اسے بیڈ پہ بٹھایا۔اسکے آنسو پونچھے۔۔۔پھر انہوں نے الماری کھول کر ایک ڈریس نکالا اور اسکے ہاتھ میں دیا۔وہ کپڑے لینے کے بعد بھی وہیں بیٹھی رہی۔

"ائے لڑکی اب تم نہیں اٹھی تو میں یہیں شروع ہو جاوں گی۔"

انہوں نے پیار بھری دھمکی دی تو وہ اٹھی۔

"چلو جلدی سے فریش ہو کر نیچے آو۔۔مل کر کھانا کھاتے ہیں۔کمبخت بھوک نے ادھ مرا سے کر دیا ہے۔"

وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتی کمرے سے نکل گئیں۔اسکی نظر دروازے کے دائیں طرف دیوار پہ لگی غزنوی تصویر پر پڑی۔

"بےشرم عورت۔۔۔"

غزنوی کے الفاظ اسکے کانوں میں گونجے جو اس پہ چابک کیطرح لگے۔آنکھوں میں ڈولتا نمکین پانی گالوں سے ہوتا ہوا اسکے بکھرے بالوں میں جذب ہو گیا۔چہرے کی جلن بڑھ رہی تھی اور آنکھوں کا کاجل پھیلتا جا رہا تھا۔

⁦❣️⁩

گاڑی کی سیٹ سے پشت ٹکائے وہ آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔اس کے ہاتھ پہ ٹہرا وہ نازک لمس اسکی تکلیف بڑھا رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ جو کچھ اس نے کر دیا تھا اس کا سدباب اب وہ کیسے کرے گا۔ایمان کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا درد اس کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں تھا۔وہ کیسے سمجھائے گا اسے کہ یہ ایک غیر ارادی فعل تھا۔

اس نے آنکھیں کھول دیں اور اس سچویشن سے نکلنے کے لئے اس نے ریڈیو آن کیا۔مہدی حسن کی پُرسوز آواز گاڑی میں گونجنے لگی۔

میں ہوش میں تھا تو پھر اس پہ مر گیا کیسے

یہ زہر میرے لہو میں اتر گیا کیسے۔۔

کچھ اس کے دل میں لگاوٹ ضرور تھی ورنہ

وہ میرا ہاتھ دبا کر گزر گیا کیسے۔۔

ضرور اس کی توجہ کی رہبری ہو گی

نشے میں تھا تو میں اپنے ہی گھر گیا کیسے۔۔

جسے بھلائے کئی سال ہو گئے کامل

میں آج اس کی گلی سے گزر کیسے۔۔

اندھیرا کافی بڑھ گیا تھا۔۔۔بے خیالی میں ڈرائیو کرتے کرتے وہ گھر سے کافی دور آ گیا تھا۔اس نے گاڑی ریسورس کی اور اسپیڈ بڑھائی۔گھر جانے کی ہمت تو نہیں تھی مگر سامنا تو کرنا ہی تھا۔اسے اپنی غلطی کا احساس تھا مگر یہ احساس بھی اسی سکون نہیں دے رہا تھا۔یہ اس کی زندگی کی دوسری بڑی غلطی تھی جس پر وہ بے حد شرمندہ تھا۔ایمان کا معصوم چہرہ ایک پل کے لئے بھی اس کی آنکھوں سے سے دور نہیں ہٹا تھا۔رہ رہ کر خود پہ غصہ بڑھتا ہی جا رہا تھا تھا کہ اس نے نے کسی اور کا غصہ اس پر اتار دیا۔آفس میں میں آج ایک اہم ڈیل فائنل ہونی تھی مگر ایک بزنس حریف کی وجہ سے یہ ڈیل اس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔اس لئے وہ آفس سے جلدی اٹھ آیا تھا اور یہی غصہ اس نے ایمان پر اتار دیا تھا۔اسکا گھبراتا اور بھیگا وجود اسکے لئے آزمائش بن گیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کمزور پڑتا اس کا بپھرتا غصہ عود کر آیا اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا لے گیا۔ریڈیو پہ اب نصرت فتح علی خان کی آواز اپنا جادو چلا رہی تھی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر بٹن آف کر دیا۔سناٹے کو چیرتی آواز خاموش ہو چکی تھی۔اس نے اپنی گھڑی پہ نظر ڈالی۔رات کے نو بجنے والے تھے۔اسے وقت کا احساس تک نہیں ہوا تھا۔اس نے گاڑی کی اسپیڈ بڑھائی۔تقریباً آدھے گھنٹے کی ریش ڈرائیونگ کے بعد وہ گھر پہنچ گیا۔

چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔۔گاڑی پورچ میں کھڑی کرتا وہ اندر کیطرف بڑھ گیا۔لاونج میں مکمل خاموشی تھی۔وہ واپس باہر آیا۔

"کاکا۔۔۔۔!!"

اس نے چوکیدار کو پکارا۔گل خان فورا اپنے کمرے سے باہر آیا۔

"جی صاحب۔۔؟"

وہ بھاگ کر قریب آیا تھا۔

"کیا شاہ گل وغیرہ واپس جا چکی ہیں؟"

اس نے گل خان سے ہوچھا۔

"نہیں صاحب۔۔۔گھر پر ہی ہیں سب۔۔۔"

گل خان کے کہنے کے بعد وہ سر ہلاتا واپس پلٹ گیا۔اپنے کمرے کے بند دروازے کو دیکھتا کمرے کی جانب بڑھا۔باقی کمروں کے دروازے بھی بند تھے۔معمول کے مطابق وہ بناء دستک دیئے کمرے میں داخل ہوا۔کمرے میں جلتی نائٹ بلب کی روشنی میں سب واضح نظر آ رہا تھا۔ایمان بیڈ کے دائیں جانب سکڑی سمٹی لیٹی تھی۔یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے، وہ قریب آیا۔وہ گہری نیند میں تھی۔دائیں کروٹ لیٹنے سے اسکا وہی گال اسکی نظروں کے سامنے تھا جس پہ اسکی انگلیوں کے نشان اب بھی موجود تھے۔غزنوی کو اپنے دل کی دھڑکن رکتی محسوس ہوئی۔آنسووں کے مٹے مٹے نشان اسکے چہرے پہ دکھائی رہے تھے۔غزنوی نے کمبل کھول کر اسے اوڑھایا اور قریب ہو کر بہت نرمی سے اپنے ہاتھ کی پشت سے ایمان کے گال کو چُھوا۔ایک بار، دو بار، بار بار غزنوی کے ہاتھ نے اسکے چہرے کی نرمی کو اپنے اندر سمویا تھا۔وہ حیران ہوا کہ ایمان اسکے چھونے سے اٹھ کیوں نہیں رہی۔اسی لمحے اسکی نظر سائیڈ ٹیبل پہ دھرے دودھ کے خالی گلاس اور اسکے ساتھ پڑی ٹیبلیٹس پر پڑی۔غزنوی نے اٹھا کر چیک کیا۔یہ نیند کی ٹیبلیٹس تھیں۔وہ ٹیبلیٹس رکھتا اسکے پاس بیٹھ گیا۔

بھوک پیاس سے بےنیاز وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتا رہا اور پھر دھیرے سے اسکے گالوں کو لبوں سے چُھوا۔

کچھ پل اور وہ اسکے بےخبر وجود کو دیکھتا رہا پھر وہ اٹھ کر اپنی جگہ پہ آ کر لیٹ گیا۔نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔آنکھوں پہ ہاتھ رکھے وہ ساکت لیٹا رہا مگر تھوڑی تھوڑی دیر بعد سوئی ہوئی ایمان پر ایک نظر ڈالنا نہیں بھولتا۔۔

رات آنکھوں میں کٹ گئی تھی۔وہ ساری رات سو نہیں پایا تھا اور صبح وہ ایمان کے جاگنے سے پہلے آفس کے لئے نکل گیا تھا۔

💓

ﺳُﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ۔۔!!

ﺟﺪﺍﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔

ﮐﺒﮭﯽ ﻓﺮﺻﺖ ﻣﻠﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﮔِﺮﻧﺎ ﺗﻢ

ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺷﺠﺮ ﺳﮯ ﮔِﺮ ﮐﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺁﻥ ﭘﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﺗﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﺭﻭﻧﺪﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

ﭨﮭﭩﮭﺮﺗﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ

ﮐﺴﯽ ﺑﮯ ﺑﺲ ﺍﮐﯿﻠﯽ ﺑﺎﻭﻓﺎ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ

ﮐﺒﮭﯽ ﺗﻢ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﺳُﻨﻨﺎ

ﮐﺒﮭﯽ ﻗﻄﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮭﮍﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﻮﻧﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﻮﺣﮯ ﭘﺮ

ﻧﮕﺎﮦ ﮐﺮﻧﺎ

ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺟﮯ ﮐﯽ ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﭘﺮ

ﺗﮍﭖ ﮐﺮ ﺑﯿﻦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﯿﮟ

ﮐﺒﮭﯽ ﺭﺧﺼﺖ ﮐﮯ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﻟﮍﮬﮑﺘﮯ ﮨﻮﮰ

ﺁﻧﺴﻮ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﮔﮯ

ﺗﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﺟﺎﻥ ﭘﺎﺅ ﮔﮯ۔۔!

ﺟُﺪﺍﺋﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔

ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺑﺮﺳﺘﮯ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﻣﻮﺳﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﮯ

ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﻣُﭩﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﭙﺎﺗﮯ ﮨﻭ۔۔

ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻢ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮ،

ﺳُﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ۔۔!!

ﮐﺒﮭﯽ ﺟﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﭘﺮ

ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﮨﻨﺴﯽ ﭼﮭﯿﻨﯽ

ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺅ ﮔﮯ

ﺗﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ۔

ﺟُﺪﺍﺋﯽ۔

ﻣﻮﺕ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔

"اپنا سامان پیک کرو۔۔تم ہمارے ساتھ جا رہی ہو۔۔غزنوی کا جب دل چاہے گا آ جائے گا۔ہم کل اسی لئے نہیں گئے کہ آج تمھیں ساتھ لے کر جائیں گے۔"

عقیلہ بیگم خیرن بوا کے ساتھ اپنے کمرے میں تھیں کہ وہ قہوہ لئے کمرے میں داخل ہوئی۔اسے دیکھتے ساتھ ہی انہوں نے حکم صادر کیا تھا۔آواز میں نرمی تھی مگر لہجے سے ظاہر تھا کہ ان کا فیصلہ اٹل ہے۔

"مگر شاہ گل۔۔میں ایسے کیسے جا سکتی ہوں۔غزنوی سے پوچھا نہیں ہے میں نے۔"

وہ اب غزنوی کو غصہ دلانے جیسا کوئی کام نہیں کر سکتی تھی۔

"اس سے پوچھنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔میں مزید اب تمھیں یہاں نہیں چھوڑ سکتی۔عید کے بعد لوٹ آنا اس کے ساتھ۔۔۔مگر ابھی چلو۔۔"

انہوں نے اسکی سوال کرتی نظروں سے نگاہیں چراتے ہوئے کہا۔

"مگر شاہ گل۔۔۔"

ایمان نے کہا تو انہوں نے ایسی نظروں سے اسکی جانب دیکھا کہ وہ چپ رہ گئی اور قہوہ رکھ کر پلٹ گئی۔باقی سب لاؤنج میں تھیں۔اسی دن تو ان کی ہمت نہیں تھی کہ ایمان کا سامنا کرتیں مگر آج غزنوی کے آفس جاتے ہی سبھی نے اس سے معافی مانگی تھی۔وہ سب بھی بہت شرمندہ تھیں۔اگر وہ اسکی بات مان لیتیں تو وہ سب نہ ہوتا۔ملائکہ تو باقاعدہ اس کے لئے روئی بھی تھی۔

"کہاں جا رہی ہو ایمان۔۔قہوہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔"

لاریب نے اسے کمرے میں جاتے دیکھ کر پوچھا۔

"شاہ گل نے پیکنگ کرنے کا کہا ہے۔۔وہی کرنے جا رہی ہوں۔"

اس نے پلٹ کر کہا۔

"سچ۔۔۔؟؟"

اس کی بات سن کر ملائکہ کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔

"ہیم۔۔"

وہ واپس مڑ گئی۔۔پتہ نہیں کیوں اسکا دل اداس تھا۔ایک گھبراہٹ سی تھی جو اس وجود پہ طاری ہو گئی تھی۔کل سے پہلے اگر وہ اسے ساتھ چلنے کا کہتیں تو وہ خوشی خوشی ان کے ساتھ چلی جاتی مگر اب اسکا دل قطعی نہیں مان رہا تھا۔ان کے ساتھ جانے کو دل نہیں چاہ رہا تھا۔شاید سب کے سامنے اسکا بھرم ٹوٹ گیا تھا۔اسے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاہ گل اب اس بارے میں داجی سے بات ضرور کریں گی۔جس طرح ان کا انداز پرسکون تھا، لگتا تھا وہ اندر ہی اندر کوئی فیصلہ کیے ہوئے تھیں اور یہ اسکی چھٹی حس تھی جو اسے خبردار کر رہی تھی۔اسے سمجھا رہی تھی کہ کچھ ہونے والا ہے۔۔کچھ ایسا جسکے لئے اسکا دل راضی نہیں ہے۔۔لیکن شاہ گل کا فیصلہ رد کرنے کی ہمت اس میں نہیں تھی۔اس لئے خاموشی سے ساری پیکنگ کی۔

تھوڑی دیر بعد شاہدہ نے اسے اطلاع دی کہ شاہ گل اسے بلا رہی ہیں۔وہ کمرے پہ ایک بھرپور نظر ڈالتی باہر آ گئی۔اس کے پیچھے شاہدہ اس کا سامان لے آئی۔وہ سب لاونج میں اسکا ویٹ کر رہی تھیں۔اسکے آتے ہی سب اٹھ گئیں۔

"بی بی آپ پھر کب آئیں گی۔۔؟"

شاہدہ آنکھوں میں آنسو لئے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"جلد آؤں گی۔۔"

وہ مختصرا کہتی عقیلہ بیگم کے پاس آئی تھی۔انہوں نے مسکرا کر اسے ساتھ لگایا اور شاہدہ کو خیال رکھنے کا کہتیں مین ڈور کی جانب بڑھ گئیں۔

اگلے دس منٹ وہ روانہ ہو گئے۔شاہدہ کو عقیلہ بیگم نے سمجھا دیا تھا کہ غزنوی ایمان کے متعلق پوچھے تو اسے بتا دے کہ وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی ہیں۔وہ غزنوی کو بتائے بناء ان کے ساتھ آ تو گئی تھی مگر دل وہیں اٹک گیا تھا۔وہ جانتی تھی کہ غزنوی کو جب اسکے جانے کا علم ہو گا تو اسے یہ بات پسند نہیں آئے گی۔

سارا راستہ وہ اسی بارے میں سوچتی رہی تھی۔حالانکہ اسکی پریشان صورت دیکھ کر عقیلہ بیگم اسے اعتماد دلا رہیں تھیں کہ وہ سب سنبھال لیں گی اور یہ کہ وہ بالکل پریشان نہ ہو۔۔انہوں نے اس مسئلہ کا حل ڈھونڈ لیا ہے۔

اب انہوں نے کیا حل ڈھونڈا ہے یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔

🎀

رات بھر سوچتے ہوئے وہ ایک فیصلے پہ پہنچا تھا کہ اسے اب کیا کرنا ہے۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ایمان کے ساتھ اپنی زندگی کی شروعات کرے گا۔زندگی کی ہر خوبصورتی جس پر اسکا حق ہے، اسکے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دے گا۔اسے اتنی محبت دے گا کہ وہ اپنی ساری تکلیفیں بھول جائے گی۔وہ ان تمام پلوں کو دوبارہ جینا چاہتا تھا جو اس نے اپنی بیوقوفی کی نظر کر دیئے تھے۔وہ اپنے اس فیصلے پہ بہت خوش اور مطمئن تھا۔آج آفس میں ایمان کے متعلق سوچتے ہوئے اس نے سارا دن گزارا تھا۔اسکی ایک ایک ادا، ایک ایک انداز کو یاد کرتے ہوئے مسکراہٹ ایک پل کو بھی اس کے لبوں سے الگ نہیں ہوئی تھی۔دل ہی دل میں وہ اس حیرانی کو سوچ کر ایکسائیٹڈ ہو رہا تھا جو ایمان کے چہرے پہ اسکا بدلہ ہوا رویہ دیکھ کر آنی تھی۔وہ جلدی جلدی کام نبٹا رہا تھا تاکہ وقت پر گھر پہنچ سکے۔اس نے فیصلہ کیا بدلہ دل کے دھڑکنے کا انداز ہی بدل گیا تھا۔آفس سے نکلتے نکلتے بھی ساڑھے چھ بج چکے تھے۔آفس سے سیدھا وہ مارکیٹ آیا تھا۔اس نے ایمان کے لئے دو تین ڈریسز، جوتے اور میچنگ جیولری خریدی۔۔اپنے لیے بھی کچھ شاپنگ کی۔۔رات کے تقریباً آٹھ بجے وہ گھر میں داخل ہوا۔تھکے تھکے قدموں سے چلتا لاونج میں رکھے ٹرپل سیٹر صوفے پہ گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گیا۔ہاتھ میں پکڑے شاپرز ٹیبل پر رکھ دیئے اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی کنپٹی کو ہلکے سے دبایا۔کچھ دیر یونہی بیٹھے رہنے کے بعد غیر معمولی خاموشی نے اسے متوجہ کیا تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا، کہیں سے بھی کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔

"لگتا ہے شاہ گل وغیرہ چلی گئیں ہیں۔"

وہ خود سے کہتا اٹھا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"ایمان۔۔۔!! یار ایک گلاس پانی تو پلاؤ۔۔"

کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے لائٹ آن کرتے ہوئے کہا۔۔اگلے ہی لمحے پورا کمرہ روشنی میں نہا گیا تھا۔ایمان کمرے میں نہیں تھی۔اس نے لیپ ٹاپ صوفے پہ رکھا اور واش روم کے ادھ کھلے دروازے سے جھانکا۔ایمان وہاں بھی نہیں تھی۔وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا کمرے سے نکل آیا۔ایمان کو کمرے میں نہ پا کر اسکے ذہہن میں اچانک ایک خیال وارد ہوا۔جسے اسکا دل جُھٹلانا چاہ رہا تھا۔نیچے لاؤنج میں بھی خاموشی کا راج تھا۔وہ کچن میں آیا تو وہاں کی لائٹس بھی آف تھیں۔باری باری اس نے سارے رومز چیک کیے مگر ایمان کہیں بھی نہیں تھی۔اب اسکا رخ سرونٹ کوارٹر کی طرف تھا۔کچھ لمحوں بعد وہ شاہدہ کے کوارٹر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔اندر سے بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔کچھ پل یونہی گزر گئے کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔گھر کے اندر بچوں کے شور کی وجہ سے کسی نے دستک کی آواز نہیں سنی تھی۔اب کی بار اس نے ذرا زور سے دستک دی۔اس بار دروازہ کھول دیا گیا۔

"ارے صاحب۔۔۔آپ اس وقت۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"

شاہدہ کا شوہر اشرف جو اس گھر میں مالی تھا۔۔غزنوی کو اس وقت وہاں دیکھ کر حیران ہوا۔

"ہاں خیریت ہی ہے۔۔۔زرا شاہدہ کو بلاؤ۔۔بات کرنی ہے۔"

اسے اشرف سے پوچھنا مناسب نہ لگا اس لئے شاہدہ کو بلوایا۔اشرف واپس پلٹ گیا تھا۔تھوڑی دیر بعد وہ شاہدہ کے ساتھ واپس آیا۔

"جی صاحب۔"

شاہدہ نے اس کی جانب دیکھا۔۔جو کافی پریشان دکھ رہا تھا۔

"شاہدہ شاہ گل وغیرہ کس وقت گئے؟"

اس نے پوچھا۔

"صاحب وہ تو سارے صبح گیارہ بجے ہی روانہ ہو گئے تھے۔"

شاہدہ نے بتایا۔

"اور ایمان؟"

غزنوی کو اپنا اندازہ ٹھیک لگا مگر پھر بھی پوچھ لیا۔

"ایمان بی بی بھی ساتھ گئی ہیں ان کے۔۔کیا آپکو بتا کر نہیں گئیں؟"

شاہدہ کے بتانے پہ کچھ کہتے کہتے رک گیا اور پھر اگلے ہی پل بولا۔

"وہ مجھے کال کر رہی تھی لیکن بہت مصروفیت کے باعث میں کال اٹینڈ نہیں کر پایا۔"

غزنوی کو فوری طور پر یہی بہانا سوجھا اور اسکا جواب سُنے بغیر واپس پلٹ آیا۔ایمان کا اسطرح عقیلہ بیگم کے ساتھ جانا اسے مزید تھکا گیا۔وہ سست قدموں سے چلتا اپنے کمرے میں آیا۔اس وقت وہ کچھ نہیں سوچنا چاہتا تھا مگر ایمان کا خیال اور اسکا احساس اسے بےچین کر رہا تھا۔اس نے وراڈروب سے کپڑے لئے اور واش روم میں گھس گیا۔ٹھنڈا پانی بھی اسکی تھکن کو اتار نہیں پایا تھا۔وہ لائٹ آف کرتا، سست روی سے چلتا بستر پہ آ گیا۔کمرے میں نائٹ بلب کی ہلکی سی روشنی میں بھی اسے بیڈ کی دوسری جانب کا سُونا پن صاف دکھائی دے رہا تھا۔اسے اپنے فعل پہ مزید افسوس اور پچھتاوا ہونے لگا۔

وہ ایک گہری سانس خارج کرتا آنکھیں موند گیا مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔دائیں سے بائیں کروٹ لیتا وہ بےچینی سے اٹھ بیٹھا۔وہ بیڈ سے اترا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے سیگریٹ کا پیکٹ اور لائٹر اٹھاتا ٹیریس پہ آ گیا۔چیئر پہ بیٹھ کر اس نے سیگریٹ سلگائی۔ہوا میں رچی رات کی رانی کی خُوشبو میں اب سیگریٹ کی بُو شامل ہونے لگی تھی۔سیگریٹ کے دھوئیں سے اسکی آنکھیں جلنے لگیں تھیں۔وہ کوئی چین سموکر نہیں تھا۔بس کبھی کبھار پیتا تھا اور آج وہ دل کی بےچینی کو کم کرنے کے لئے پی رہا تھا لیکن بےچینی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جا رہی تھی۔وہ کتنی ہی دیر یونہی بیٹھا رہا۔رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب وہ اٹھ کر کمرے میں آیا تھا۔واش روم میں آ کر اس نے جلتی آنکھوں پہ پانی کے چھینٹے مارے اور ٹاول سے چہرہ پونچھتا بیڈ پہ آ گیا۔

اس نے ٹیبل سے موبائل فون اٹھایا۔گھڑی پہ نظر ڈالی تو اسے کال کرنے کے لئے یہ وقت مناسب نہیں لگا۔وہ کال کرنے ارادہ ملتوی کرتا گیلری اوپن کر گیا۔شادی کی مختلف فوٹوز ابھی تک اس کے فون میں سیو تھیں۔اس نے صرف اپنی اور ایمان کی پکچرز کو چھوڑ کر باقی تمام تصویریں ڈیلیٹ کر دیں۔

سنو تم لوٹ آؤ نا۔۔۔

وہ دیکھو چاند نکلا ہے۔

ھماری منتظر آنکھیں

دعائیں مانگتی آنکھیں

تمہیں ہی سوچتی آنکھیں

تمہیں ہی ڈھونڈتی آنکھیں

تمہیں واپس بلاتی ہیں۔۔۔

یہ دل جب بھی دھڑکتا ہے

تمھارا نام لیتا ہے

یہ آنسو جب بھی بہتے ہیں

تمھارے دکھ میں بہتے ہیں

یہ بارش جب بھی ہوتی ہے

تمہیں ہی یاد کرتے ہیں

خوشی کوئی جو آتی ہے

تمھارے بن ادھوری ہے

سنو تم لوٹ آؤ نا

سنو تم لوٹ آؤ نا۔۔۔

وہ اس کی تصویر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ اسکے ایک ایک نقش کو آنکھوں کے راستے دل میں اتار رہا تھا۔

ایمان کے جانے سے ایک مستقل اداسی نے جیسے گھر کا راستہ ہیدیکھ لیا تھا۔ہر دم اسے ایمان کی کمی محسوس ہوتی۔اسے گئے دودن ہو چکے تھے۔گھر کے ہر کونے میں اس کا احساس اجاگر ہوتا۔غزنوی کا دل جیسے ہر ایک شے سے اچاٹ ہو گیا۔صبح آفس کے لئےنکلتا تو رات گئے تک واپسی ہوتی۔۔

ایک دو بار اس نے گھر فون کیا اور دونوں بار اسکی بات شمائلہ بیگمسے ہوئی۔انہوں نے اس سے کسی قسم کی کوئی بات نہیں کی تھی لیکن ان کے لہجے سے چھلکتی سنجیدگی اسے اس بات کا یقین دے رہی تھی کہ ان سے کچھ چھپایا نہیں گیا۔اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں ایمان کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بزی ہے کہہ کر اسکی بات نہیں کروائی۔وہ ایمان سے بات کرنا چاہتا تھا۔۔اس سے اپنی کی گئی زیادتی کی معافی مانگنا چاہتا تھا مگر اسکی بات ہی نہیں ہو پا رہی تھی۔

آج بھی آفس میں لنچ بریک کے بعد اس نے گھر کے لینڈ لائن پہ فون کیا تو خیرن بوا کی آواز سن کر اس نے کوئی بات نہیں کی اور کال کاٹ دی۔

اچانک ایک خیال بجلی کیطرح اس کے ذہن میں آیا اور اپنی بیوقوفی پہ خود کو خوب صلواتیں سنائیں۔اس نے فوراً ملائکہ کو فون کیا۔وہ بےقراری سے اس کے کال پک کرنے کا منتظر تھا۔چوتھی بیل پہ فون اٹھا لیا گیا۔

"السلام علیکم بھائی۔۔!!"

وہ اس وقت لاریب کے ساتھ اسکے روم میں بیٹھی اسکی شاپنگ دیکھ رہی تھی کہ موبائل اسکرین پہ بلنک کرتا بھائی دیکھ کر اس نے فورا فون ریسیو کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔!! کیسی ہو ملائکہ اور باقی سب کیسے ہیں؟"

غزنوی نے پیون کے ہاتھ سے فائل لی اور اسے جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔

"الحمداللہ بھائی سب ٹھیک ہیں۔۔آپ کیسے ہیں؟"

ملائکہ نے طے کیا ہوا ڈریس کھولا۔

"میں بھی ٹھیک ہوں۔۔ملائکہ ایمان سے بات کروانا۔"

غزنوی بناء جھجکے کہا۔

"بھائی ابھی تو میں لاریب کیطرف آئی ہوں۔۔تھوڑی دیر تک واپس جا کر بات کرواتی ہوں۔"

اس نے لاریب کو دیکھا۔

"نہیں مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔ابھی جاو۔۔میں پانچ منٹ بعد فون کرتا ہوں۔"

اس سے پہلے کہ وہ فون بند کرتی غزنوی فورا بولا۔

"لیکن بھائی۔۔۔تھوڑی دیر بعد۔۔۔"

"میں نے کہا نا مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔"

حسب معمول وہ بھڑک گیا۔

"جی اچھا۔۔"

وہ دھیرے سے بولی اور بیڈ سے اتری۔دوسری جانب غزنوی کال کاٹ چکا تھا۔ملائکہ گھر آئی تو لاونج لیکن کوئی بھی نہیں تھا۔وہ سیدھی کچن میں آئی۔

"امی۔۔!! ایمان کہاں ہے؟"

کچن میں ایمان کو موجود نہ پا کر اس نے شمائلہ بیگم سے پوچھا۔

"وہ اپنے روم میں ہے۔۔طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اسکی۔"

انہوں نے بتایا تو وہ پلٹ کر جانے لگی۔

"ملائکہ یہ جوس بھی لے جاو اسکے لئے۔"

شمائلہ بیگم نے ٹرے اسکی طرف بڑھایا۔ملائکہ نے ان کے ہاتھ سے ٹرے لی اور کچن سے نکل آئی۔ایمان کے کمرے کا دروازہ بند تھا۔وہ بناء دستک دیئے کمرے میں داخل ہو گئی۔ایمان بیڈ پہ لیٹی تھی۔ملائکہ کو اندر آتا دیکھ کر اٹھ بیٹھی۔

"تم اتنی جلدی آ گئیں؟"

اس نے ملائکہ کو ٹرے ٹیبل پہ رکھتے دیکھ کر پوچھا۔

"ہاں۔۔۔چلو یہ لو جوس پیو اور کیا ہوا ہے تمھیں؟"

ملائکہ نے گلاس اسکی طرف بڑھایا جو ایمان نے تھام لیا۔

"کچھ نہیں۔۔میں ٹھیک ہوں۔"

ایمان نے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا۔

"ٹھیک لگ تو نہیں رہیں۔۔آئینے میں چہرہ دیکھا ہے اپنا۔۔"

ملائکہ اسکے پاس ہی بیٹھ گئی اور اسکے سرخ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے کہا۔اسکی بات سن کر اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموشی سے جوس پینے لگی۔اسی دوران موبائل فون کی رنگ ٹون نے کمرے میں گونجتی خاموشی کو توڑا۔ملائکہ نے ہاتھ میں پکڑے موبائل فون کو دیکھا۔

"جی بھائی۔۔۔یہ لیں بات کریں۔"

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی، ملائکہ نے فون اسکی طرف بڑھایا اور خود برق رفتاری سے کمرے سے نکل گئی۔غزنوی کی ہیلو ہیلو کرتی آواز واضح سنائی دے رہی تھی۔اس نے گلاس سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اور فون کان سے لگایا۔

"ہیلو۔۔۔!! ایمان۔۔!"

دوسری جانب بیتابی سے پکارا گیا۔

"السلام و علیکم۔۔!!"

اس نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔!! کیسی ہو؟"

ایمان کی آواز سن کر اسے لگا جیسے تپتے صحرا سے وہ نخلستان میں آ گیا ہو۔دل کو ایک سکون نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔

"ٹھیک۔۔۔آپ کیسے ہیں؟"

آنکھوں میں ڈولتی میں ملکوں کی باڑ کو پار کیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔"

وہ اسکے خاموشی سے بہتے آنسوؤں سے بےخبر بولا۔دوسری جانب وہ بالکل خاموش رہی۔

"ایمان۔۔۔اس دن جو کچھ بھی ہوا، وہ ایک غیر ارادی فعل تھا۔میں بہت شر۔۔۔۔"

"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی۔۔میں جانتی ہوں کہ آپکی نظر میں میری کیا وقعت ہے۔غلطی میری ہی تھی۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا۔۔وہ جھٹ بولی۔اسکے لہجے کی سختی غزنوی کو سُن کر گئی۔وہ آگے کچھ بھی نہ بول سکا۔

"اب اگر آپ نے مزید کچھ نہیں کہنا تو میں فون رکھوں؟"

کچھ پل یونہی خاموشی کے ساتھ گزرے تو ایمان نے پوچھا۔غزنوی جو اس کے اسکے الفاظ کی سختی کی گہرائی کو ناپنے میں لگا تھا، ہوش میں آیا۔

"آئی ایم ایکسٹریملی۔۔۔"

"میں نے کہا نا مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی اور نا ہی مجھے آپ کی معافی تلافی کی ضرورت نہیں ہے۔"

ایمان کی سرد آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔وہ خاموش ہو گیا۔

"اچھا میں گل خان کو بھیج رہا ہوں۔۔تم واپس آ جاو۔۔رمضان شروع ہونے والا ہے۔۔میں اکیلا کیسے گزاروں گا۔"

غزنوی نے اسکی سختی کے جواب میں نہایت نرمی سے کہا۔۔وہ جواب میں کچھ نہ بولی۔

"ایمان میں کچھ کہہ رہا ہوں۔"

غزنوی کو اسکی خاموشی کھٹکنے لگی۔

"جی۔۔۔۔"

ایمان سے کچھ اور نہ بن پڑا تو دھیرے سے بولی۔

"گڈ۔۔۔اور سنو۔۔اگر شاہ گل تمھیں روکنا بھی چاہیں تو مت رکنا۔۔میں ابھی بھیجتا ہوں گل خان کو۔۔تم اپنی پیکنگ کر لو۔۔اللہ حافظ۔۔!!"

غزنوی نے اپنی بات ختم کرنے کے ساتھ ہی فون بند کر دیا۔وہ اسے کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں پائی۔وہ اسے روکنا چاہتی تھی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اب عقیلہ بیگم اسے نہیں جانے دیں گی۔

فون بند ہو چکا تھا مگر اسکی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب رواں ہو چکا تھا۔ملائکہ کمرے میں آئی تو وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔

"ایمان۔۔۔کیا ہوا۔۔؟ کیا بھائی نے پھر کچھ کہہ دیا ہے؟"

وہ اسے یوں روتا دیکھ کر اس کے پاس آئی اور اسکے چہرے سے ہاتھوں کو ہٹایا۔اسطرح رونے سے چہرہ بےتحاشا سرخ ہو رہا تھا۔ملائکہ نے اسے گلے سے لگایا اور اسی پیٹھ سہلاتے ہوئے اسے چپ کرانے لگی۔

"آخر پتہ تو چلے۔۔۔کیا کہا ہے بھائی نے؟"

کافی دیر بعد جب اسکے رونے میں کمی آئی تو ملائکہ نے اسے خود سے الگ کیا۔

"وہ گل خان کو مجھے لینے بھیج رہے ہیں۔"

وہ روتے ہوئے بولی۔

"اف۔۔۔یہ بھائی بھی نا۔۔۔تو تم کیوں رو رہی ہو۔۔شاہ گل نے تم سے وعدہ کیا ہے نا کہ اب وہ تمھارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہونے دیں گی تو پھر کیوں پریشان ہوتی ہو۔۔۔بھائی اگر گل خان کاکا کو بھیجتے ہیں تو بھیجتے رہیں۔۔شاہ گل تمھیں ان کے ساتھ نہیں جانے دیں گی۔"

ملائکہ نے اسکے آنسو پونچھے۔

اب وہ اسے کیا بتاتی کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔۔کیوں اسکا دل درد سے پھٹا جا رہا ہے۔

"اور ہاں ابھی وکیل صاحب بھی آئے ہوئے ہیں، داجی اور شاہ گل نے بلایا ہے انہیں۔۔داجی کے کمرے میں بیٹھیے ہیں۔۔۔بابا بھی وہیں ہیں۔"

ملائکہ نے بتایا تو وہ رونا بھول کر اسے دیکھنے لگی۔

"اسکا مطلب ہے۔۔۔"

اسکے ہاتھ سے فون گود میں جا گرا۔

"اسکا مطلب ہے کہ شاہ گل فیصلہ کر چکی ہیں اور اب تو انھیں داجی اور بابا کی حمایت بھی حاصل ہے۔جبکہ امی کو ان کا یہ فیصلہ بالکل پسند نہیں آیا، ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں غزنوی سے بات کی جا سکتی ہے۔اسے سدھرنے کا ایک موقع دینا چاہیئے۔۔لیکن شاہ گل اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہو رہی ہیں۔ابھی امی نے مجھے بتایا کہ۔۔۔۔"

"ایمان۔۔!! بیٹا تمھیں داجی بلا رہے ہیں۔"

ملائکہ اسے بتا ہی رہی تھی کہ شمائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی اور ایمان کو مخاطب کیا۔

"مم۔۔۔مجھے۔۔کیوں۔۔؟"

ایمان کا چہرہ سفید پڑا تھا۔

"ملائکہ زرا تم کچن میں جاؤ۔۔شگفتہ سے کہو اگر چائے تیار ہے تو داجی کے کمرے میں دے آئے۔"

شمائلہ بیگم نے ملائکہ کو منظر سے ہٹانا چاہا۔۔وہ سر ہلاتی وہاں سے چلی گئی۔

"میرے بہت منع کرنے کے باوجود شاہ گل، داجی اور تمھارے بابا نے خلع کے پیپرز بنوا لیے ہیں۔"

انہوں نے اسکے سر پہ بم پھوڑا۔۔۔انکی بات سن کر اسکا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔وہ منہ کھولے انھیں دیکھ رہی تھی۔اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ شاہ گل اسکے لئے یہ فیصلہ کیے بیٹھیں ہیں۔آنسو پھر ایک تواتر سے اسکی آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔

"اب فیصلہ تمھارے ہاتھ میں ہے بیٹا۔۔۔تم بہت اچھی اور صابر بچی ہو۔۔تم مجھے ویسے ہی عزیز ہو جیسے ملائکہ۔۔خدا گواہ ہے میں نے کبھی تمھیں اپنی بہو نہیں بلکہ بیٹی مانا ہے۔مجھے یقین ہے کہ وہ تمھاری طرف ضرور راغب ہو گا۔۔بس تھوڑا سا صبر اور انتظار۔۔۔"

وہ اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیے اسے سمجھا رہی تھیں۔

"امی یہ انتظار لاحاصل ہے۔۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔۔میں اگر انتظار کر بھی لوں تو پھر آگے ایک سوالیہ نشان مجھے صاف دکھائی دیتا ہے۔میں رہی ہوں وہاں ان کے ساتھ۔۔وہ مجھ بات تک نہیں کرنا پسند نہیں کرتے۔مجھے اپنا آپ وہاں ایک ایسے سامان کیطرح لگتا ہے جسکی ضرورت کسی کو نہیں۔وہ نہیں رہنا چاہتے میرے ساتھ۔۔"

وہ بلک بلک کر رو دی۔

"میں مانتی ہوں کہ وہ تھوڑا غصیلہ ہے، ضدی ہے۔۔۔مگر ایمان میں نے اسکی آنکھوں میں تمھارے لیے چاہ دیکھی ہے۔وہ اظہار نہیں کر پاتا کیونکہ اپنی نام نہاد ضد اور انا کے آگے گھٹنے ٹیکنا اس جیسے مرد کے لئے آسان نہیں جس کے آگے اپنے فیصلے اہمیت رکھتے ہوں۔جو صرف اپنے بنائے گئے راستے پر چلنا چاہتا ہو۔تم اسے وقت دو، مجھے یقین ہے کہ تم جو اس سے پیچھے رہ گئی ہو، وہ تمھیں ساتھ لے جانے کے لئے لوٹ آئے گا۔"

وہ اسکا حوصلہ بڑھا رہی تھیں۔۔اسے مستقبل کے حسین خواب دکھا رہی تھیں۔

"ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔وہ مجھ سے صرف صرف نفرت کرتے ہیں۔میں کیسے اس انتظار میں کھڑی رہوں کہ وہ میری جانب پلٹیں گے۔میرے پاؤں پہلے ہی اس خاردار راستے پہ چل چل کر چھلنی ہو چکے ہیں۔میں تنہا سفر کرتے کرتے بہت تھک گئی ہوں۔"

وہ ان کے ہاتھوں کو آنکھوں سے لگا کر رو دی۔

"تو تمھارا بھی وہی فیصلہ ہے جو باقی سب کا ہے؟"

انہوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکنا چاہا، مگر وہ نظریں جھکا گئی۔

"اچھا جاؤ۔۔۔۔لیکن میری ایک بات یاد رکھنا کہ تمھارے ہر فیصلے میں، میں تمھارے ساتھ ہوں۔"

شمائلہ بیگم نے اسکا چہرہ اونچا کیا۔

"مجھے بھروسہ ہے آپ پر۔۔۔"

وہ آنکھوں میں محبت و عقیدت لئے انہیں دیکھ رہی تھی۔شمائلہ بیگم نے اس کا ماتھا چُوما اور اسے لئے کمرے سے نکل آئیں۔

"ایمان بی بی۔۔۔داجی آپکو بلا رہے ہیں۔"

وہ شمائلہ بیگم کے ساتھ داجی کے کمرے کے پاس پہنچی ہی تھی کہ شگفتہ کمرے سے باہر آئی اور اسے وہیں کھڑے دیکھ کر کہا۔

"جاؤ تم۔۔"

شمائلہ بیگم اسے اندر جانے کا کہتیں شگفتہ کے ساتھ وہیں سے پلٹ گئیں۔ایمان کچھ دیر وہیں کھڑی رہی پھر دروازے پہ دستک دی۔اندر سے اجازت ملتے ہی وہ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔

"السلام و علیکم۔۔!!"

اس نے اندر بیٹھے افراد کو سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔! ایمان یہاں آؤ بیٹا۔۔"

اعظم احمد اسے دیکھ کر اپنی جگہ سے کھڑے ہو گئے اور اسے اپنے پاس بلایا۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے پاس آئی۔انہوں نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گئے۔

"بیٹا۔۔!! مجھے بہت افسوس ہے کہ میں تمھارے والد اور جرگے کے بڑوں سے کیا ہوا وعدہ نہیں نبھا پایا۔تمھیں اس گھر میں جو مقام ملنا چاہیئے تھا ہم سب وہ بھی نہیں دے پائے۔میں جانتا ہوں کہ تمھارے ساتھ ساتھ میں نے غزنوی کی زندگی بھی خراب کی۔تم دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوش نہیں ہو یہ جان کر مجھے اس قدر تکلیف ہوئی ہے کہ بتا نہیں سکتا۔میں تو تم دونوں کو ہنستا بستا دیکھنا چاہتا تھا۔اسی لئے میں نے غزنوی کو دوسرے شہر میں بزنس کرنے دیا تاکہ تم دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملے۔مگر تمھاری شاہ گل نے جو کچھ مجھے بتایا اس کے لئے میں تم سے بہت شرمندہ ہوں۔مجھے پتہ تھا کہ وہ ضدی ہے، غصے کا تھوڑا تیز ہے مگر پھر بھی میں نے تمھارے لئے اس کا انتخاب کیا۔اس نے جو کچھ کیا اس کے لیے میں تم سے معافی مانگتا ہوں۔"

وہ سر جھکائے بولے۔

"داجی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔۔مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔آپ نے جو بھی فیصلہ کیا تھا وہ میرے لئے بہت قابلِ احترام ہے۔اپ نے مجھے جو عزت دی، جو پیار اور عزت مجھے یہاں سے ملی، یہ میری خوش قسمتی ہے۔۔کمی شاید مجھ میں ہی تھی۔۔میں ہی اس رشتے کو نہیں نبھا پائی۔آپ سب نے مجھے جو عزت اور محبت دی ہے، اس کا احسان تو میں زندگی بھر نہیں اتار سکتی۔"

ایمان کو اعظم احمد کا شرمندہ ہونا تکلیف دے رہا تھا۔

"احسان مت کہو اسے بیٹا۔۔۔تم مجھے بہت عزیز ہو۔اسی محبت اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے اور تمھاری شاہ گل نے تمھارے لئے ایک فیصلہ کیا ہے۔ہم نے تمھیں اسی لئے یہاں بلایا ہے۔۔لیکن اس سے پہلے کہ میں تمھیں ہمارا فیصلہ بتاوں، میں تم سے جاننا چاہتا ہوں کہ تم کیا چاہتی ہو۔میں اس بار اپنا فیصلہ تم پر تھوپنا نہیں چاہتا۔تمھیں یقین دلاتا ہوں کہ جو فیصلہ تمھارا ہو گا، وہی ہمارا فیصلہ ہو گا۔"

اعظم احمد نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

ایمان نے ایک نظر عقیلہ بیگم کو دیکھا۔انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے اشارہ کیا۔

"ایمان۔۔!! بیٹا جو دل میں ہے وہ کہو۔۔کوئی زبردستی یا زیادتی نہیں ہو گی تمھارے ساتھ۔"

عقیلہ بیگم نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"داجی۔۔!! آپ سب میرے لئے بہت محترم ہیں۔پہلے بھی آپکے فیصلے پہ مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا اور اب بھی آپ جو فیصلہ کریں گے، میرا بھی وہی فیصلہ ہو گا۔"

وہ عقیلہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے تمھارے لئے اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ فیصلہ تمھارے حق میں بہتر ہو۔"

اعظم احمد نے یہ کہتے ہی سامنے بیٹھے وکیل صاحب کو اشارہ کیا۔وکیل صاحب نے ٹیبل پر سے کچھ پیپرز اٹھا کر ایمان کیطرف بڑھائے۔ایمان نے داجی کیطرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔پھر ان کے اشارہ کرنے پر اس نے پیپرز تھام لئے۔اس تمام عرصے میں غزنوی کے والد بالکل خاموش بیٹھے اس کی جانب دیکھ رہے تھے۔

"یہ کیا ہے؟"

ایمان نے اعظم احمد کی جانب دیکھا۔

"ہم نے فیصلہ کیا ہے تمھارے اور غزنوی کے مابین جو یہ رشتہ ہے اسے ختم کر دیا جائے۔"

انہوں نے بناء لگی لپٹی رکھے کہا۔

"داجی میں سمجھی نہیں۔"

وہ یا تو سچ میں ان کی بات کا مطلب نہیں سمجھی تھی یا پھر جو وہ کہہ رہے تھے وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی۔

"میں نے اور تمھارے داجی نے تمھاری اور غزنوی کی علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے۔تم دونوں خوش نہیں ہو تو پھر اس رشتے کی سوکھی بیل کو پانی دے کر پروان چڑھانے کی جدوجہد کیوں۔۔۔سوکھی بیلیں کبھی پروان نہیں چڑھتیں۔میں نہیں چاہوں گی کہ تمھاری ساری زندگی اس سوکھے کو سرسبز کرنے میں گزرے۔"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔

وہ سر جھکائے ہاتھ میں اس نے ان کے لہجے کی اداسی کو پا لیا تھا۔

"ہم نے یہ فیصلہ دل پہ پتھر رکھ کر کیا ہے۔۔تم دونوں ہی ہمیں بہت عزیز ہو اور میں نہیں چاہتی کہ تم یہ سوچو کہ ہم غزنوی کا ساتھ دے رہے ہیں۔وہ غلطی پر ہے اور ہم اسکی غلطیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتے۔وہ ہماری وجہ سے زبردستی اس رشتے کو نبھا رہا ہے۔"

وہ مزید بولیں۔

"داجی۔۔۔آپ ایک بار مجھے غزنوی سے بات تو کرنے دیں۔۔میں اسکے ہوش ٹھکانے لگا دوں گا۔۔ہم یہ فیصلہ بہت جلدی میں کر رہے ہیں۔۔ہو سکتا ہے کہ وہ ایسا نہ چاہتا ہو۔اس سے ایک بار بات کر لی جائے تو۔۔۔۔"

"سب بتا تو دیا ہے بیٹا تمھیں۔۔۔وہ چاہتا تو اب تک سب ٹھیک ہو جاتا۔جب سے ایمان اس گھر میں آئی ہے میں نے اسکے چہرے پہ حقیقی خوشی نہیں دیکھی۔مجھے نہیں لگتا بات کرنے کا کوئی فائدہ ہو گا۔۔بہتر ہو گا کہ اس قصے کو ختم کیا جائے۔۔"

عقیلہ بیگم نے مکرم احمد کی طرف دیکھا۔وہ بھی ماں کی بات سن کر خاموش ہو گئے کیونکہ وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں۔

"ایمان یہ خلع کے کاغذات ہیں۔۔اس پہ تمھارے دستخط چاہیئے تاکہ ہم غزنوی کو بھجوا دیں۔"

اعظم احمد نے کہا تو ایمان کو ایسا لگا جیسے آگ کا ایک بھڑکتا شعلہ اس کے ہاتھ میں ہے جس سے اسکا پورا وجود جلنے لگا ہے۔اس نے پیپرز فوراً ٹیبل پر یوں پھینکے جیسے وہ کوئی اچھوت چیز ہوں اور کھڑی ہو گئی۔اس کا یہ رویہ دیکھکر اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔

"ایمان۔۔!! بیٹا ہم نے بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔تم ہم پہ بھروسہ کرو۔۔ہم تمھیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔"

اعظم احمد اسکے پاس آئے اور اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"مجھے کچھ وقت چاہیئے۔"

اس نے ان کی جانب دیکھے بغیر کہا۔بھوری کانچ جیسی آنکھوں میں ڈولتا پانی باہر آنے کو بیتاب ہونے لگا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن یہ پیپرز لے جاؤ اور اگر ہم سے متفق ہو تو سائن کر دینا ورنہ جو تمھارا فیصلہ ہو گا وہی ہمارا فیصلہ ہو گا اور یہ مت سوچنا کہ ہم تمھیں مجبور کر رہے ہیں۔ہم صرف تمھارا بھلا چاہتے ہیں۔۔لیکن یہ طے ہے کہ تم اب یہیں رہو گی۔"

اعظم احمد نے پیپرز اس کی طرف بڑھائے، جو اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے تھام لئے اور پھر کسی کی جانب دیکھے بغیر وہاں سے چلی گئی۔ایک بار پھر اسے اپنا وجود آگ کے شعلوں میں خاکستر ہوتا محسوس ہوا تھا۔

"مجھے لگتا ہے ایمان اس کے لئے تیار نہیں ہے۔۔"

ایمان کے جاتے ہی مکرم احمد بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور عقیلہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔عقیلہ بیگم بیٹے کی بات سن کر خاموش رہیں مگر ان کے ماتھے پہ سوچ کی لکیریں ابھری ہوئی تھیں۔ایمان کا یہ طرزِ عمل ان کے لئے حیران کن تھا۔

"عقیلہ بیگم۔۔!! آپ اب اس بارے میں ایمان سے کوئی بات نہیں کریں گی۔اسے یہ فیصلہ خود کرنے دیں اور مکرم تم بھی شمائلہ بہو سے بات کرو کہ وہ بھی اس بارے میں اسے مجبور نہ کرے۔وہ نہیں چاہتی کہ یہ علیحدگی ہو۔اس لئے وہ ضرور ایمان کو منع کرے گی دستخط کرنے سے۔"

اعظم احمد نے مکرم احمد کی جانب دیکھا جو دروازہ کھولے کھڑے تھے۔انہوں نے پلٹ کر دونوں کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلاتے وہاں سے چلے گئے۔

"ظہر کا وقت ہو گیا ہے۔۔۔آپ بھی نماز پڑھ لیجئیے۔۔اللہ نے چاہا تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

عقیلہ بیگم گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے ایک غلط فیصلہ کیا اور ایک معصوم لڑکی زندگی کو مشکلات سے نکالنے کی بجائے اسے مزید کٹھنائیوں میں دھکیل دیا۔ساری زندگی میری کانٹوں پہ گزرے گی اگر میں ایمان کو انصاف نہ دلا سکا۔"

وہ وہیں صوفے پر ڈھے سے گئے۔

"اللہ سب بہتر کرے گا۔۔آپ اپنے آپ کو الزام مت دیں۔۔آپ نے تو اسکا بھلا ہی سوچ کر فیصلہ کیا تھا۔"

عقیلہ بیگم نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انہیں حوصلہ دیا۔

"میں غزنوی کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔"

وہ نہایت دکھ سے بولے۔انہیں غزنوی سے ایسی بے اعتنائی کی امید نہیں تھا۔وہ تو ان کا بہت لاڈلا تھا۔انہیں بہت مان تھا اس پہ کہ وہ کبھی انہیں شرمسار نہیں کرے گا مگر اس نے تو انہیں ایک گہری کھائی میں پھینک دیا تھا جہاں انہیں صرف اندھیرا ہی دکھ رہا تھا اور اس گہرے اندھیرے میں بھی انہیں دو آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔۔۔ایمان کی اداس اور سوال کرتی نگاہیں۔۔۔جن میں آج انھیں دکھ ہلکورے لیتا دکھائی دیا تھا۔

"پریشان نہ ہوں۔۔"

وہ ایک گہری سانس خارج کرتی بولیں۔

"یہ معاملہ جتنی جلدی ہو سکے نبٹ جائے تو اچھا ہے۔"

انہوں نے عقیلہ بیگم کو دیکھا۔

"نجانے ایمان کیا فیصلہ کرے گی۔"

ان کے چہرے پہ پریشانی نے اپنا جال بچھا رکھا تھا۔

"وہ ابھی معصوم ہے، ناسمجھ ہے۔۔خیر۔۔!! اللہ کے حضور دعا ہی کر سکتے ہیں۔"

وہ اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گئے۔

🌺

وہ اس وقت بیڈ پہ بیٹھی اپنے سامنے پڑے خاکی رنگ کے لفافے کو دیکھ رہی تھی، جس میں موجود پیپرز نے اسکی سانسیں روک رکھی تھیں۔حالانکہ کچھ دیر پہلے شمائلہ بیگم نے اسے ان کاغذوں میں چھپے مفہوم کے بارے بتا دیا تھا۔لیکن وہ سمجھ کر بھی نہیں سمجھ پائی تھی اور اب وہی اژدھا اس کے سامنے منہ کھولے کھڑا تھا۔اسے کہا گیا تھا کہ فیصلہ وہ کرے۔۔۔

"کیا مجھ میں اتنی ہمت ہے جس کے بَل پر میں کوئی فیصلہ کر سکوں۔میں کیا فیصلہ کروں گی۔۔میں تو خود ایک ایسی بند گلی میں کھڑی ہوں جس کے دونوں راستے بند ہوں۔"

اپنی بیچارگی پہ اسکا جی چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر رو دے۔اسے وہ خاکی لفافہ اپنی بےبسی کا مذاق اڑاتا محسوس ہو رہا تھا۔

"یا اللہ۔۔۔تُو رحیم و کریم ہو۔۔جہاں سب دروازے بند ہو جاتے ہیں وہاں ایک تیرا در کھلا رہتا ہے۔تُو مجھے ہمت دے کہ میں اس خاردار جنگل سے نکل سکوں۔"

تکیہ تیزی سے اسکے آنسوؤں سے بھیگنے لگا تھا۔

"ایمان۔۔۔کیا ہوا ہے۔۔ایسے کیوں رو رہی ہو؟"

اس نے ایک مانوس آواز سن کر سر اٹھایا۔اس کے بالکل قریب عائشہ کھڑی تھی اور اس سے کچھ ہی فاصلے پر ملائکہ ٹیپو کو اٹھائے کھڑی تھی۔جو گہری نیند میں تھا۔ایمان جلدی سے اٹھ بیٹھی اور اپنے آنسوؤں سے دھلا چہرہ صاف کیا۔ملائکہ کی شرمندگی سے بھری نگاہیں ایمان پہ تکیہ ہوئی تھیں۔وہ جانتی تھی کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔

"ارے عائشہ آپی۔۔آپ کب آئیں؟"

وہ بمشکل مسکراتے چہرے کے ساتھ عائشہ کے پاس آئی۔

"ابھی کچھ دیر ہی ہوئی ہے۔۔۔لیکن تم کیوں رو رہی تھی؟"

عائشہ نے اسے یوں ہلکان ہوتے پہلی بار دیکھا تھا۔

"کچھ نہیں۔۔۔وہ بس بابا کی یاد آ رہی تھی تو دل بھر آیا۔آپ کھڑی کیوں ہیں آئیں بیٹھیں۔"

ایمان نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔عائشہ اس کے جواب سے مطمئن نہیں ہوئی تھی۔

"ملائکہ۔۔۔!! تم بتاؤ۔۔۔کیا چل رہا ہے۔۔ایمان کس کے ساتھ اسلام آباد سے آئی اور غزنوی کہاں ہے؟"

عائشہ ملائکہ کی جانب مڑی۔۔۔جس کے چہرے پہ صاف لکھا تھا کہ وہ جانتی ہے ایمان کیوں رو رہی ہے۔

"آ۔۔۔آ۔۔آپی۔۔۔پتہ نہیں۔۔۔میں تو نیچے تھی۔"

ملائکہ نے ایمان کی جانب دیکھا جو اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں منع کر رہی تھی بتانے سے۔

"کمال ہے۔۔۔مجھے کوئی بتائے گا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔۔ایمان۔۔۔!! سچ بتاؤ، تمھارے اور غزنوی کے بیچ سب ٹھیک ہے نا۔۔۔اور یہ کیا ہے؟"

اس کا رخ اب پھر سے ایمان کی جانب تھا کہ اچانک اسکی نظر بیڈ پہ ایک جانب پڑے خاکی لفافے پر پڑی اور اس سے پہلے کہ ایمان اسے اٹھاتی، عائشہ نے اٹھا لیا۔

"یہ۔۔۔۔۔۔؟؟"

وہ لفافے کے اندر رکھے پیپرز نکال چکی تھی جبھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایمان کو دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان نے سر جھکا لیا۔عائشہ نے پلٹ کر ملائکہ کو دیکھا جو ٹیپو کو بیڈ پر لٹا رہی تھی۔پھر ملائکہ نے عائشہ سے کچھ بھی نہیں چھپایا۔اسلام آباد جانے اور وہاں سے واپس آنے کی ساری روداد کہہ سنائی۔سب سن کر عائشہ افسوس سے ایمان کو دیکھا۔جو سر جھکائے بیٹھی تھی اور اسکےبےآواز آنسو اسکے گود میں رکھے ہاتھوں پر گر رہے تھے۔وہ ایک گہری سانس خارج کرتی ایمان کے قریب ہوئی اور اسکا چہرہ اونچا کیا۔

"تم کیا چاہتی ہو۔۔؟"

عائشہ نے پوچھا۔

"میں۔۔۔؟؟ میں تھک گئی ہوں آپی۔۔"

وہ عائشہ کے گلے لگ کر رو دی۔عائشہ نے اسکے بکھرے وجود کو سنبھالا۔

"دیکھو ایمان۔۔۔یہ تمھاری زندگی ہے اور کسی کو کوئی حق نہیں اس سے کھیلنے کا۔۔غزنوی کا رویہ میں نے دیکھا ہے وہ تمھارے بارے میں کیا سوچتا ہے یہ اس نے بارہا اپنے رویے سے سب کو بتایا ہے۔میں پہلے ہی تم سے بات کرنا چاہتی تھی مگر پھر سوچا کہ شاید تم لوگوں کو تھوڑا وقت درکار ہے ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے۔۔تم اسکے اسلام آباد چلی گئیں تو میں اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ تم دونوں ایک دوسرے کے قریب آ جاؤ گے مگر یہاں تو سب الٹا ہو گیا۔"

عائشہ نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی۔۔۔انہوں نے سب کی نظروں میں میری حیثیت دو کوڑی کی کر دی ہے۔۔میں پہلے بھی کیا تھی مگر اب تو خاک ہو گئی ہوں۔"

اسکی آنکھوں سے بہتے آنسو عائشہ کو تکلیف دے رہے تھے۔

"ایسے نہ کہو۔۔۔تمھاری قدر نہیں ہے اسے اور اسے اس بات کا احساس بہت جلد ہو گا کہ وہ کیا کھونے جا رہا ہے۔"

عائشہ نے اسکے آنسو پونچھے۔

"ایسا کبھی نہیں ہوگا۔۔انہیں تو موقع چاہیئے مجھ سے الگ ہونے کا اور آپ دیکھیئے گا وہ ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے مجھے خود سے دور کرنے میں۔"

اس نے اپنے دل کے ڈر کو زبان دی۔

"ایمان بھائی کو ایک موقع تو ملنا چاہیئے۔۔۔کیا پتہ جیسا ہم سوچ رہے ہیں اسکے بالکل الٹ ہو۔"

ملائکہ نے غزنوی کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا۔

"تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ ہمیں اسے وقت دینا چاہیئے۔۔ملائکہ میں اپنے کانوں سے سنا ہے اسکو ایمان کو ڈی گریڈ کرتے ہوئے۔۔وہ اس کی بےعزتی کرتے وقت یہ بھی نہیں دیکھتا کہ آس پاس کون ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے۔یہ تو ایمان نے اس پہ پردہ ڈال دیا ورنہ میں تب ہی یہ مسئلہ سب بڑوں کے سامنے رکھ دیتی اور اب سوچتی ہوں تو مجھے یہ بات پہلے کر لینی چاہیئے تھی تو آج یہ وقت نہ آتا اور دور کیوں جاتی ہو خود اپنی آنکھوں سے ایمان کے ساتھ اسکا سلوک دیکھ چکی ہو۔"

عائشہ ملائکہ کی بات سن کر غصے سے بولی۔ملائکہ خاموش ہو گئی اور روم سے چلی گئی۔

"ایمان میرا خیال ہے تمھیں غزنوی سے علیحدہ ہو جانا چاہئیے۔اس بار فیصلہ تم کرو۔۔تم بالکل کمزور نہیں ہو۔ہم سب تمھارے ساتھ ہیں۔"

عائشہ نے اسکے ہاتھ تھام کر اسے ہمت دلائی۔

"میں اس محبت کا کیا کروں آپی۔۔جسکی جڑیں میرے اندر مضبوط ہو چکی ہیں۔میں ان سے الگ ہو کر خالی ہو جاوں گی۔۔ختم ہو جاوں گی۔"

ایمان کی آنکھوں سے سیلِ رواں جاری تھا۔

"کیا کرنا ایسی محبت کا جسکی جڑوں کو تم اپنے خون سے سینچ رہی ہو۔اسے تمھاری ذرا پرواہ نہیں۔جب سے آئی ہو۔۔کال کی اس نے؟"

عائشہ نے پوچھا۔

"جی۔۔آج کال کی تھی۔۔کہا کہ گل خان کاکا کو بھیج رہے ہیں مجھے لینے۔"

ایمان نے آنسووں کے بیچ بتایا۔

"ہیم۔۔۔خود نہیں آئے گا لینے۔۔واہ بھئی۔۔"

عائشہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ایمان خاموش رہی۔۔اسے اسکے لہجے میں رچی دھونس یاد آئی۔۔

"بےمہر انسان۔۔"

وہ صرف سوچ کر رہ گئی۔

کیا ہوتا اگر یہ دھونس پیار بھری ہوتی تو وہ ایک پل یہاں نہ رکتی۔۔لیکن وہ یہ صرف سوچ کر ہی رہ گئی۔

"تم سمجھدار ہو۔۔۔اپنے لئے بہتر فیصلہ کر سکتی ہو۔اپنے مستقبل کو اندھیری کھائی میں مت گم ہونے دو۔ایسے راستے پر مت چلو جس پہ چھائی کہر میں منزل دکھائی نہ دے۔"

عائشہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور ٹیپو کو اٹھاتی کمرے سے نکل گئی۔

"آپ ٹھیک کہتی ہیں آپی۔۔۔اگر وہ مجھ سے الگ ہو کر خوش رہتا ہے تو میں کیوں روکاوٹ بنوں۔"

وہ سامنے رکھے کاغذ کو اٹھاتے ہوئے خود سے بولی۔اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے۔اسے خوف نے آ لیا تھا۔محبت ترک کرنے سے کب ترک ہوتی ہے مگر یہ فیصلہ اسے کرنا تھا۔محبت کو چھوڑنے کا فیصلہ۔۔۔

⁦🏵️⁩

"داجی۔۔۔باہر گل خان آیا ہے۔۔کہہ رہا ہے کہ چھوٹے صاحب نے ایمان بی بی کو لینے بھیجا ہے۔"

چوکیدار ان کے سلام پھیرنے کا منتظر کھڑا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ نیت باندھتے،وہ فورا بولا۔

"اسے چائے پانی پوچھو، میں آتا ہوں۔"

وہ اس سے کہہ کر نیت باندھ چکے تھے۔چوکیدار واپس پلٹ آیا اور گل خان کو ان کا پیغام دیا۔تقریبا بیس منٹ بعد اعظم احمد لاونج میں آئے اور شگفتہ وہیں لاونج میں موجود تھی۔انہوں نے اسے گل خان کو بلانے کا کہا۔شگفتہ سر ہلاتی لاونج سے چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ گل خان کے ساتھ لاؤنج میں داخل ہوئی۔

"السلام علیکم داجی۔۔!!"

گل خان ان کیطرف دیکھتے ہوئے بولا۔ان کے چہرے کے سنجیدہ تاثرات کو وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔اعظم احمد نے سر کے اشارے سے سلام کا جواب دیا تھا۔

"داجی۔۔۔مجھے چھوٹے صاحب نے ایمان بی بی کو لینے بھیجا ہے۔"

کچھ پل خاموشی سے گزرنے کے بعد اس نے دوبارہ اپنے آنے کا مقصد بتایا۔اتنی سی بات کے اتنی سوچ بچار۔۔۔اسے کچھ عجیب لگا۔

"گل خان۔۔ایمان اب یہیں رہے گی۔۔دو دن ہوئے یہاں آئے۔رمضان وہ ہمارے ساتھ گزارے گی۔غزنوی سے کہنا کہ وہ بھی یہاں آ جائے اور رمضان ہمارے ساتھ گزارے۔جہاں تک بزنس کی بات ہے تو ہم ظہور صاحب کو بھیج دیں گے۔ویسے بھی ان کی فیملی رمضان میں اسلام آباد شفٹ ہو رہی ہے۔وہ بہت قابل بھروسہ اور سمجھدار ہیں۔اچھی طرح سنبھال لیں گے تمام معاملات۔۔"

اتنا کہنے کے بعد وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

"جی جناب۔۔۔"

وہ پلٹ کر جانے لگا۔۔حالانکہ غزنوی نے اسے ایمان کو ضرور اپنے ساتھ لانے کی ہدایت کی تھی بلکہ یہاں تک کہا تھا کہ اسے لئے بنا وہ واپس نہ آئے۔لیکن اب وہ داجی سے تو بحث کرنے سے رہا اس لئے خاموشی سے باہر کا رخ کیا۔

"اور ہاں۔۔۔کھانا کھائے بنا مت جانا۔۔کچھ دیر آرام کرو۔۔پھر چلے جانا۔"

وہ پلٹ کر بولے اور پھر سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے۔گل خان بھی لاونج سے نکل گیا۔

باہر آ کر اس نے جیب سے موبائل فون نکالا اور کال ریکارڈز میں غزنوی کا نمبر نکال کر بٹن پُش کیا۔اگلی بیل پر کال ریسیو کر لی گئی تھی۔

"جی کاکا۔۔۔کہیئے۔۔۔"

غزنوی مصروف انداز میں بولا۔

"چھوٹے صاحب۔۔ایمان بی بی نہیں آ رہی ہیں۔داجی نے کہا ہے کہ وہ وہیں رہیں گی اور آپ کو بھی بلایا ہے۔"

گل خان نے اسے داجی کا پیغام دیا۔

"ایسا داجی نے کہا ہے؟"

اس کی بات سن کر غزنوی کا ماتھا ٹھنکا۔اسے معاملات سنجیدہ نوعیت کی جانب جاتے دکھائی دیئے۔

"جی صاحب۔۔۔"

وہ مختصرا بولا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔میں خود بات کرتا ہوں۔"

غزنوی نے کال کاٹ کر داجی کا نمبر ملایا مگر ان کی جانب سے خاموشی تھی۔اسے لگا جیسے وہ جان بوجھ کر اسکی کال ریسیو نہیں کر رہے ہیں ورنہ وہ خود اسے کالز کیا کرتے تھے اگر وہ ان کی نظروں کے سامنے نہ ہوتا تو۔۔۔لیکن اب اسکے کانوں میں گونجتی ٹوں ٹوں کی آواز اسکا منہ چڑا رہی تھی۔اس نے دوبارہ کال ملائی مگر وہی خاموشی۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اس نے ملائکہ کو کال کی۔

"ملائکہ۔۔۔ایمان کہاں ہے۔۔میری بات کراو اس سے۔"

کال ریسیو ہوتے ہی اس نے ملائکہ سے ایمان کے متعلق پوچھا۔

"بھائی وہ تو اپنے روم میں ہیں۔۔"

ملائکہ جو الماری کھولے کھڑی تھی، بند کرتے ہوئے بولی۔

"داجی نے گل خان کو ایمان کو لے جانے سے کیوں منع کیا ہے۔۔میں نے کہا تھا کہ ہم عید پہ آئیں گے مگر پھر بھی میری بات کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔اب میں انھیں کال بھی کر رہا ہوں تو وہ ریسیو نہیں کر رہے ہیں۔۔کیا وہ گھر پہ نہیں ہیں؟"

غزنوی نے اس سے پوچھا۔

"نہیں۔۔وہ تو گھر پہ ہی ہیں۔۔شاید سو رہے ہوں۔"

ملائکہ سمجھ گئی تھی کہ انہوں نے جان بوجھ کر کال ریسیو نہیں کی ہو گی ورنہ عموما ایسا ہوتا نہیں تھا۔

"اس وقت۔۔۔"

غزنوی نے اپنے ہاتھ پہ بندھی گھڑی کی جانب دیکھا۔

"بھائی آپ بھی آ جائیں۔۔"

ملائکہ نے بات بدلی۔

"یہاں بہت کام ہے۔۔۔میں فلحال نہیں آ سکتا۔"

غزنوی نے سامنے پڑی فائل بند کی۔

"بھائی مجھے آپکو کچھ بتانا تھا۔۔۔شاہ گل نے داجی کو سب بتا دیا ہے۔داجی بہت خفا ہو رہے تھے بلکہ انہوں نے ایک فیصلہ بھی کر ڈالا ہے۔"

وہ ڈرتے ڈرتے بولی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ غصہ تو غزنوی کا بھی ناک پہ دھرا رہتا ہے۔

"کیسا فیصلہ۔۔۔۔؟"

اسے ملائکہ کے لہجے سے بات کی سنجیدگی کا اندازہ ہوا۔

"بھائی۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔"

ملائکہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

"کیا وہ وہ۔۔۔۔اب بتا بھی چکو۔۔۔کیسا فیصلہ۔۔؟"

وہ اس کے اسطرح رکنے پر چڑتے ہوئے بولا۔

"بھائی داجی نے خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں۔"

وہ جلدی سے بولی۔

"ملائکہ کیا پہیلیاں بُھجوا رہی ہو۔۔۔ٹھیک سے بتاو۔۔کس کی خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں؟"

غزنوی کی آواز میں دبے دبے غصے کے ساتھ پریشانی بھی تھی۔

"آپکی اور ایمان کی۔۔۔۔"

آخر اس نے کہہ ہی دیا۔

"کیا بکواس کر رہی ہو؟"

وہ گرجدار آواز میں بولا۔

"میں سچ کہہ رہی ہوں بھائی۔۔۔انہوں نے وہ کاغذات ایمان کو سائن کرنے کے لئے بھی دے دیئے ہیں۔امی نے بہت سمجھایا، سبھی نے اس فیصلے کی مخالفت کی مگر وہ اپنے فیصلے سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔شاہ گل تو اس بارے میں امی کی بھی نہیں سن رہی ہیں۔آپ آ جائیں پلیز۔۔۔"

وہ کہتے کہتے رو دی۔۔اسے اس رشتے کا انجام دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا تھا۔ایمان اسے بہت عزیز تھی۔وہ غزنوی کے رویے کے بھی مخالف تھی مگر ایسا بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ دونوں الگ ہو جائیں۔

دوسری جانب غزنوی کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ داجی ایسا فیصلہ کریں گے اور وہ بھی اس سے کچھ پوچھے یا اسکی سنے بغیر۔۔وہ مانتا تھا اس سے غلطی ہوئی تھی۔اسے ایمان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرنا چاہیئے تھا۔وہ شرمندہ تھا اپنے کیے ہوئے فعل پہ۔۔۔

مگر اب کیا۔۔۔؟؟

ایک بڑا سا سوالیہ نشان اسکی نظروں کے سامنے تھا۔

"اور ایمان۔۔۔۔؟؟"

اس نے دھیرے سے پوچھا۔۔

"بھائی آپ آ جائیں۔۔اس سے پہلے کہ سب ختم ہو جائے۔۔آپ کو اسے منا لینا چاہیئے ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔۔اگر ایمان آپکو اپنی لائف میں چاہیئے تو جلدی آ جائیں بلکہ ابھی آ جائیں۔۔آپ کے اسکے بیچ غلط فہمیوں کی ایک مضبوط دیوار کھڑی ہے جسے صرف آپ ہی پاٹ کر سکتے ہو ایمان نہیں۔۔۔اور اگر آپکے دل میں اسکے لئے ذرا برابر بھی گنجائش نہیں ہے تو پھر خوش ہو جائیں بھائی۔۔۔وہ جلد سائن کر دے گی۔"

یہ کہہ کر اس نے تو فون بند کر دیا تھا مگر ادھر غزنوی کے آس پاس جیسے دھماکے سے ہونے لگے تھے۔

وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔وہ بالکل ساکت بیٹھا رہ گیا تھا اور اسکے کان میں صرف ایک ہی جملہ گونج رہا تھا۔۔" خوش ہو جائیں بھائی۔۔وہ جلد سائن کر دے گی۔"

کچھ پل یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے پھر اچانک ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے اسکے ذہہن میں کُودا۔وہ ایمان سے بات کر کے اسے اعتماد میں لے سکتا تھا۔اسے بتا سکتا تھا کہ وہ اسکے لئے کیا ہے۔۔اسکا ساتھ اسکی زندگی کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ سانس لینا۔اس نے جلدی سے دوبارہ نمبر ڈائل کیا مگر ملائکہ فون نہیں اٹھا رہی تھی۔اس نے بار بار ٹرائی کیا مگر۔۔۔۔وہی خاموشی۔۔۔

اس نے فون تقریبا پٹخ دیا۔۔۔وہ بھول گیا تھا تھوڑی دیر بعد اسکی ایک بہت اہم میٹنگ ہے۔

"مجھے واپس جانا ہو گا۔۔۔ورنہ میں خالی ہاتھ رہ جاوں گا۔۔کچھ نہیں بچے گا۔۔۔"

وہ اٹھا اور گاڑی چابی، والٹ پاکٹ میں ڈالا اور تیزی سے اپنے کیبن سے نکلا۔

"ایکسکیوزمی سر۔۔۔!! مسٹر کامران باقی اسٹاف کے ساتھ میٹنگ روم میں کب سے آپکے منتظر ہیں۔میں بھی یہ فائل لینے اور آپکو بلانے آیا تھا۔"

ابھی وہ کیبن سے نکلا ہی تھا کہ مینیجر اشفاق احمد نے اسے روکا۔

"پلیز اشفاق صاحب۔۔۔آج کی یہ میٹنگ کینسل کر دیجیئے۔۔مجھے ایک بہت ضروری کام سے پشاور جانا ہے۔۔آپ پلیز سنبھال لیں۔۔"

وہ پریشانی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔

"لیکن سر۔۔۔آج رات ہی مسٹر کامران بھی جرمنی فلائی کر جائیں گے۔۔اگر آج نہ ہوئی تو پھر کبھی یہ ڈیل نہیں ہو پائے گی۔۔ہم ایک نقصان پہلے بھی اٹھا چکے ہیں۔اب مزید کی گنجائش نہیں ہے۔کمپنی ڈوب جائے گی۔"

ان کی بات سن کر وہ مزید پریشان ہو گیا۔

اس نے سوچا کہ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وہ کال پہ بات کرے گا ایمان سے اور خود کل صبح ہی روانہ ہو جائے گا۔

یہ سوچ کر وہ سر ہلاتا اشفاق صاحب کے ساتھ میٹنگ روم کی جانب بڑھ گیا۔

⁦❤️⁩

"ملائکہ بی بی۔۔۔؟؟"

وہ کچن میں تھی جب شگفتہ اسے پکارتی ہوئی کچن میں آئی۔ایمان بھی وہیں موجود تھی۔اس نے بھی شگفتہ کے پکارنے پر اسے پلٹ کر دیکھا تھا۔

"کیا ہوا۔۔؟"

ملائکہ نے برنر سلو کیا۔

"وہ جی غزنوی صاحب کا فون ہے۔۔آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔"

شگفتہ نے کہا تو انکی نظریں بہ یک وقت ملیں۔۔غزنوی کا نام سن کر ایمان کے دل کی دھڑکن بڑھی تھی۔

"اچھا آؤ تم یہاں۔۔یہ چائے تیار ہے داجی اور شاہ گل کو دے دو۔"

ملائکہ نے اس سے کہا اور خود کچن سے نکل گئی۔وہ لاونج میں رکھے فون اسٹینڈ کی جانب آئی اور فون اٹھا کر کان سے لگایا۔شاہ گل بھی وہیں صوفے پہ ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی تھیں۔اس نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ہچکچاتے ہوئے فون اٹھایا۔

"السلام و علیکم۔۔۔!!"

ملائکہ نے عقیلہ بیگم کی جانب کنکھیوں سے دیکھا تھا۔

"ملائکہ ابھی اور اسی وقت میری بات ایمان سے کرواؤ۔"

وہ سلام کا جواب دے کر فوراً بولا۔

"بھائی۔۔۔وہ۔۔۔وہ اس وقت ایمان یہاں موجود نہیں ہے۔"

ملائکہ رک رک کر بولی۔۔خود پہ گڑی عقیلہ بیگم کی نظریں وہ محسوس کر رہی تھی۔عقیلہ بیگم بھی جانتی تھیں کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے۔

"میں رات کو بھی کافی دیر تک تمھارے موبائل پہ کالز کرتا رہا مگر تم نے میری کال ریسیو نہیں کی۔

اب کی بار وہ غضبناک انداز میں بولا۔

"جی بھائی۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔!!"

وہ عقیلہ بیگم کے سامنے اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے فون رکھنے لگی۔دوسری جانب غزنوی کا غصہ سوا نیزے پر پہنچ گیا تھا۔اسکا جی چاہا کہ ابھی وہاں جا کر سب کا مزاج ٹھکانے لگا دے کہ اسکی بات کو اہمیت ہی نہیں دی جا رہی تھی۔

"ادھر لاؤ۔۔۔میری بات کرواؤ۔۔"

ملائکہ کو فون رکھتے دیکھکر عقیلہ بیگم نے فون کیطرف ہاتھ بڑھایا۔وہ اس بارے میں ان کے سامنے مزید بات نہیں کر پا رہی تھی تھی اسلئے فون رکھ رہی تھی۔۔لیکن اب اس نے ان کے کہنے پر فون ان کی طرف بڑھا دیا۔دوسری جانب غزنوی اکیلا بیگم کی آواز سن کر خاموش ہو رہا۔

"کیا بات ہے غزنوی۔۔۔بار بار کالز کر رہے ہو۔۔خیر تو ہے نا۔۔۔؟؟ کام سے فرصت میرے بیٹے کو۔۔؟؟"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں چھپا طنز اس سے مخفی نہ رہ سکا۔

"السلام و علیکم شاہ گل۔۔۔کیسی ہیں آپ؟"

اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا کہے۔۔۔

"وعلیکم السلام۔۔۔!! میں بالکل ٹھیک ہوں تم کیسے ہو؟"

اسکی آواز سن کر ان کا دل پگھلا تھا۔۔وہ ان کا بہت لاڈلا تھا۔۔دل و جان سے عزیز تھا۔۔وہ اپنے لہجے کو سخت نہیں رکھ پائیں۔یہ خیال انہیں مزید بےچین کر گیا کہ ایمان کے ساتھ ساتھ ذیادتی غزنوی کے ساتھ ہوئی ہے۔ان کے فیصلے نے دونوں کی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ انجام سوچے بغیر کر دیا۔جس کا نتیجہ اب ان کی نیندیں اڑائے دے رہا تھا۔

"میں ٹھیک ہوں شاہ گل۔۔۔"

ان کا نرم لہجہ محسوس کر کے اسکی ہمت بڑھی۔۔۔وہ شرمندہ تھا۔

"کب آ رہے ہو؟"

انہوں نے پوچھا۔

"آج شام روانہ ہوں گا۔۔۔شاہ گل مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔"

اس نے ابھی ان سے بات کرنے کی ٹھانی۔۔۔وہ انہیں اعتماد میں لے سکتا تھا۔

"مجھے بھی بہت ضروری بات کرنی ہے۔۔لیکن جب تم آؤ گے تب بات ہو گی۔"

انہوں نے پاس ہی کھڑی ملائکہ کو جانے کا اشارہ کیا جسکے کان انہی کی طرف تھے۔ملائکہ وہاں سے چلی گئی۔

"شاہ گل۔۔۔مجھے ابھی بات کرنی ہے۔۔آپ لوگ مجھ سے پوچھے بغیر اتنا بڑا فیصلہ۔۔"

"یہ باتیں فون پر کرنے کی نہیں ہیں۔۔آؤ تو بات ہو گی۔۔اللہ حافظ۔۔!!"

اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کر پاتا انہوں نے مزید کوئی بات سنے بغیر کہا اور فون رکھ دیا۔ان کا ٹھہرا انداز اسے بہت کچھ سمجھا گیا تھا۔کال ڈسکنیکٹ ہونے کے بعد اس نے نمبر ملایا۔اس بار وہ ملائکہ کے پرسنل نمبر پہ کال کر رہا تھا۔

ملائکہ ایمان کے روم میں اسکا انتظار کر رہی تھی کہ موبائل کی رنگ ٹون نے اسے متوجہ کیا۔

"ہیلو۔۔۔!!"

اس نے کال ریسیو کی۔

"میرا فون کل کیوں ریسیو نہیں کیا تھا۔"

غزنوی نے اس سے پوچھا۔

"بھائی میں اس وقت باہر تھی روم سے اور موبائل روم میں ہی رہ گیا تھا۔جب واپس آئی تو آپکی کالز دیکھ کر ایمان کے پاس گئی تھی اس سے بات کروانے مگر وہ سو گئی تھی۔"

اس سے پہلے کہ وہ پھر غصے میں آتا وہ فورا بولی۔

"ٹھیک ہے ابھی بات کرواؤ۔۔۔"

اس نے وجہ بتائی تو وہ بولا۔

"وہ تو۔۔۔۔۔جی یہ لیں بات کریں۔"

وہ بیڈ سے اتر کر کمرے میں داخل ہوتی ایمان کیطرف بڑھی اور اسکی سوالیہ نظروں کی پرواہ کیے بغیر فون اسکے ہاتھ میں دے کر کمرے سے نکل گئی۔ایمان نے فون کان سے لگایا۔۔

"ہیلو۔۔!!"

"ایمان۔۔۔!!"

اسکی آواز سن کر غزنوی کے جلتے دل کو کچھ ڈھارس بندھی۔

"السلام و علیکم۔۔!!"

وہ دھیرے سے بولی۔۔

"یہ میں کیا سن رہا ہوں؟"

ایمان کی آواز سن کر اسکے بےقرار دل کو کچھ سکون ہوا تھا۔اسکا جی چاہا کہ اپنا دل کھول کر اس لڑکی کے سامنے رکھ دے مگر وہ اپنی بے قراری پر حتی الامکان قابو پاتے ہوئے بولا۔۔

"کیا سنا ہے آپ نے۔۔؟"

ایمان کا دل بھی اسکی آواز سن کر تیزی سے دھڑک رہا تھا۔غزنوی کو محسوس ہوا کہ اسکا لہجہ کسی بھی قسم کے احساس سے عاری تھا۔

"یہی کہ داجی نے خلع کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں اور تم سے ان پر دستخط کرنے کو کہا ہے۔ایمان۔۔۔!! یہ ہمارے بیچ کا مسئلہ ہے۔اسے میں اور تم مل کر سارٹ آوٹ کر لیں گے پھر باقی سب کیوں یہ فیصلہ کریں کہ ہمیں ساتھ رہنا ہے یا نہیں۔"

غزنوی کو یہ سوچ کر ہی بہت غصہ آ رہا تھا کہ وہ ان کی بات کیوں مان رہی ہے مگر اب وہ بات کو مزید بگاڑنا نہیں چاہتا تھا اس لئے اس نے اپنے لہجے کو نرم رکھا۔

"اب یہ معاملہ ہمارے بیچ تک کا کب رہا۔۔آپ بھول گئے ہیں شاید۔۔آپ ہی کی بدولت بات اس نہج تک پہنچ گئی ہے اور مجھے بھی لگتا ہے کہ اب ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں رہا جس پہ بات کی جائے بلکہ یہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہئیے تھا۔۔لیکن خیر۔۔۔۔!! اب بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔"

وہ ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولی تو غزنوی کو معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا۔وہ تو سمجھ رہا تھا کہ وہ سب سنبھال لے گا۔ایمان سے بات کرے گا اور سب ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں تو حالات سمندر کی منہ زور لہروں کی طرح بگڑ چکے تھے۔۔لیکن وہ کنارے پہ کھڑا ہو کر ان منہ ذور لہروں میں اپنے دل کو ڈوبتا دیکھ نہیں سکتا تھا۔

"تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔"

وہ آخری جملے پہ ذور دیتے ہوئے بولا۔وہ دھیان دیتی تو غزنوی کے آخری جملے میں اسکے دل کی کیفیت میں چھپے جذبوں کو محسوس کر سکتی تھی۔۔وہ جذبے جن میں پوشیدہ محبت کی خوشبو تھی۔۔۔خوش آئیند زندگی کی نوید تھی۔۔مگر اسکے دل کا درد اسقدر بڑھ گیا تھا کہ اس خوشبو کو وہ محسوس نہ کر سکی۔

"مجھے بہت افسوس ہے کہ میں آپکی تکلیف کا سامان بنی۔۔آپ پر ذبردستی مسلط کی گئی۔مجھے یہ سمجھتے ہوئے بہت دیر ہو گئی کہ ہمارا رشتہ ندی کے کناروں کیطرح ہے جو ساتھ ساتھ تو چلتی ہیں مگر کبھی ملتی نہیں ہیں۔آج تک میری کوئی بھی بات آپکو بُری لگی ہو یا میرا کوئی بھی عمل کسی تکلیف کا باعث بنا ہو تو مجھے معاف کر دیجیئے گا۔"

آنسوؤں کا گولا سا اسکے حلق میں اٹک گیا تھا۔

"میں شام تک پہنچ جاوں گا۔۔ہم اس بارے میں مل کر بات کریں گے۔"

وہ جانتا تھا کہ ایمان اسکی طرف سے بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہے جسے صرف اور صرف مل کر ہی دور کیا جا سکتا ہے۔

"آپ بزی ہیں یہ میں جانتی ہوں اور اب جلتی ہوئی راکھ میں کوئی چنگاری بھی نہیں بچی۔۔پیپرز آپکو صبح تک مل جائیں گے۔۔میں دستخط کر چکی ہوں۔۔فی امان اللہ۔۔۔"

اس سے آگے بولنے کی ہمت وہ خود میں نہیں پا رہی تھی اس لئے اس نے الوادعی کلمات ادا کر کے کال ڈسکنیکٹ کر دی جبکہ دوسری جانب غزنوی اس کے الفاظ سن کر ساکت رہ گیا۔

⁦❣️⁩

"کیا اس نے آپ سے کہا تھا کہ وہ آ رہا ہے؟"

اعظم احمد نے عقیلہ بیگم سے پوچھا جو ابھی عشاء پڑھ کر فارغ ہوئیں تھیں۔وہ ہاتھ میں پکڑی تسبیح کے دانے گراتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔وہیں کچھ فاصلے پر گل خان بھی کھڑا تھا۔عقیلہ بیگم کی جانب سے اشارہ ملتے ہی انہوں نے گل خان سے جانے کا کہا اور پیپرز عقیلہ بیگم کی طرف بڑھائے۔

"ٹھیک ہے تو پھر آپ یہ رکھ لیجیئے۔۔۔وہ آئے تو اسے دیجیئے گا کہ دستخط کر دے۔"

عقیلہ بیگم نے لفافہ ان کے ہاتھ سے لے لیا جبکہ وہ خود اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھ گئے۔

"ویسے وقت تو کافی ہو گیا ہے۔۔۔اب تک تو اسے آ جانا چاہیئے تھا۔"

اعظم احمد نے گھڑی کی جانب دیکھا۔

"اگر اس نے کہا ہے کہ آئے گا تو آپ کو بھی پتہ ہے کہ وہ آپ کا پوتا ہے۔"

وہ پیپرز ایک جانب رکھتے ہوئے بولیں تو وہ مسکرا دیئے۔

"کہہ تو آپ ٹھیک رہی ہیں۔"

وہ یہ کہہ کر ان کی جانب سے رخ پھیر کر لیٹ گئے۔عقیلہ بیگم جانتی تھیں کہ وہ بہت دکھی ہیں۔۔ایمان کے سائن کرنے کے بعد انہوں نے کسی طرح کوشش کر کے گاؤں ایمان کے والد رشید خان سے بات کی اور انہیں شہر آنے کو کہا۔رشید خان بھی ان کے اسطرح اچانک بلانے پہ پریشان ہو گیا تھا۔

"رشید خان کل آئے گا؟"

عقیلہ بیگم نے کچھ سوچ کر پوچھا۔

"ہیم۔۔۔۔"

ان کی آواز بہت دھیمی تھی مگر پھر بھی عقیلہ بیگم کو سنائی دے گئی۔

"اگر آپ غزنوی کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں تو ہم اس فیصلے کو ملتوی کر سکتے ہیں۔"

عقیلہ بیگم کے دل میں کلبلاتا سوال زبان پہ آیا۔

"نہیں۔۔۔اگر ایمان نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو پھر ہم کیوں پیچھے ہٹیں۔۔"

وہ بناء ان کی جانب رخ کیے بولے۔

"پتہ نہیں مجھے ایک موہوم سی امید تھی کہ شاید ایمان اس پہ دستخط نہ کرے۔۔اسکی آنکھوں میں مجھے ہمیشہ غزنوی کے لئے چمکتے جذبے دِکھے ہیں۔"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔

"تمھیں یہ امید تھی یا پھر تم ایسا نہیں چاہتی تھیں کہ ایمان دستخط کرے۔۔۔اگر اس نے ہمارے فیصلے کو آگے بڑھایا ہے تو اس کے پیچھے ضرور کوئی ٹھوس وجہ ہو گی۔۔کیا تم ایسا نہیں چاہتیں؟"

وہ اٹھ کر بیٹھ گئے اور عقیلہ بیگم کو بغور دیکھتے ہوئے سوال کیا۔

"ایمان کو دکھی دیکھنا۔۔۔یہ سب مجھے بہت تکلیف دے رہا ہے حالانکہ یہ فیصلہ میرا اپنا تھا۔"

ان کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا۔اعظم احمد اٹھ کر ان کے پاس آئے۔

"تم دیکھنا میں اپنی بیٹی کی شادی کتنے اچھے لڑکے سے کروں گا۔۔غزنوی سے بھی اچھا۔۔۔"

وہ ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بولے۔

"غزنوی سے اچھا ایمان کے لئے آپکو چراغ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔یہ آپ مجھ سے لکھوا لیں۔"

دروازہ کھول کر غزنوی اندر آیا تھا۔وہ دونوں اسے اپنے سامنے کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔

"السلام و علیکم۔۔!!"

وہ ان دونوں کے درمیان میں آ کر بیٹھ گیا۔چہرے سے تھکن صاف ظاہر تھی مگر لہجہ ہشاش بشاش تھا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔"

عقیلہ بیگم نے اس کے لئے بازو وا کیے جبکہ اعظم احمد خفگی ظاہر کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔وہ مسکراتے ہوئے عقیلہ بیگم سے ملا۔

"داجی۔۔۔ایمان نے آپکو مجھ سے چھین لیا ہے۔۔اس کے لئے اب آپ مجھ سے بات تک نہیں کریں گے؟"

وہ فوراً ان کے راستے میں آ کھڑا ہوا۔

"خبردار جو میری بیٹی کے متعلق ایک لفظ بھی کہا تو۔۔۔۔مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔"

اعظم احمد نے شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے وارننگ دی۔

"اچھا اچھا۔۔۔نہیں کرتا گستاخی آپکی بیٹی کی شان میں۔۔آپ لوگ آرام کریں۔۔کل ملاقات ہو گی۔۔شب بخیر۔۔!!"

وہ اعظم احمد سے کہتا اور عقیلہ بیگم کے ماتھے کا بوسہ لیتا کمرے سے نکل گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئے۔

💓

محبت کی نہیں تم نے۔۔۔

اگر تم کو محبت تھی

تو تم نے راستوں سے جا کے پوچھا کیوں نہیں منزل کے بارے میں

ہواؤں پر کوئی پیغام تم نے لکھ دیا ہوتا۔۔۔

درختوں پر لکھا وہ نام، تم نے کیوں نہیں ڈھونڈا؟

وہ ٹھنڈی اوس میں بھیگا، مہکتا سا گُلاب اور میں

مرے دھانی سے آنچل کو تمھارا بڑھ کے چھو لینا

چُرانا رنگ تتلی کے، کبھی جگنو کی لو پانا

کبھی کاغذ کی کشتی پر بنانا دل کی صورت اور اس پر خواب لکھ جانا

کبھی بھنورے کی شوخی اور کلیوں کا وہ اِٹھلانا

تمھیں بھی یاد تو ہوگا۔۔۔۔؟

اگر تم کو محبت تھی، تو تم یہ ساری باتیں بھول سکتے تھے؟

نہیں جاناں!

محبت تم نے دیکھی ہے، محبت تم نے پائی ہے۔۔

محبت کی نہیں تم نے۔۔۔

وہ دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوا تو وہ بالکل سامنے ہی بیٹھی تھی۔۔وہ دروازے کی جانب کمر کر کے بیٹھی کسی گہری سوچ میں گم تھی۔وہ بناء آہٹ قدم اٹھاتا اس پاس آیا تھا۔وہ آنکھیں موندے ہوئے تھی۔۔وہ اندازہ نہیں لگا پایا کہ وہ سو رہی ہے یا جاگ رہی ہے۔آوارہ لٹیں چہرے کے اردگرد سایہ فگن تھیں۔گلابی لب سختی سے باہم ملے ہوئے تھے اور گھنیری پلکیں میں ہلکی سی لرزش بغور دیکھنے سے محسوس ہوتی تھی۔

وہ چہرہ اسکے چہرے کے قریب لے آیا۔ایمان کو اپنے اردگرد کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور اپنے سامنے، بالکل قریب اس دشمن جاں کو مسکراتا پایا۔جس نے اسکے وجود میں محبت کا شجر اگایا تھا۔۔جس کی خوشبو سے اس کا تن من معطر رہتا تھا۔

"آپ۔۔۔۔؟؟"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"جی۔۔۔کوئی اعتراض۔۔۔؟؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا بولا۔اسکے لبوں کی مسکراہٹ ایمان کو اپنا مذاق اڑاتی محسوس ہوئی۔اس نے نظروں کا رخ پھیر لیا۔غزنوی نے بھی اسکی نظروں میں چھپی ناپسندیدگی کو پا لیا تھا۔

غزنوی نے اپنے اور اسکے بیچ فاصلے کو کم کیا۔

"پیچھے رہ کر بات کیجئے۔۔"

وہ اسکے بڑھتے قدموں سے گھبرائی تھی۔

"اور اگر میں قریب آ کر بات کرنا چاہوں تو۔۔۔؟"

وہ مزید قریب ہوا۔

"ہمارے بیچ اب ایسا کچھ نہیں جسے آپ بنیاد بنا کر میرے اور اپنے بیچ کے اس فاصلے کو مٹا سکو۔۔لہذاء اپنے حواسوں میں رہیئے۔"

اس نے تلخ لہجے میں کہا اور باہر کی جانب قدم بڑھائے مگر غزنوی نے اسکا راستہ روک لیا۔

"اتنے دنوں بعد دیکھ رہا ہوں۔۔۔تھوڑا قریب سے تو دیکھنے دو۔۔"

غزنوی نے اچانک اسکی کمر میں بازو ڈال کر اسے قریب کیا۔.اسکی اس حرکت پہ ایمان نے اسے غصے سے دیکھا اور دونوں ہاتھ اسکے سینے پہ ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے کیا۔غزنوی کی گرفت کمزور تھی اس لئے انکے بیچ کا فاصلہ بڑھ گیا۔

"میرے اور آپکے بیچ جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلے سے کئی زیادہ ہے۔جسے پار کرنا آپکے بس کی بات نہیں اور نا ہی کبھی ایسی کوشش کیجیئے گا۔"

وہ اسے وارننگ دیتی کمرے سے نکل گئی جبکہ غزنوی چہرے پہ مسکراہٹ مگر آنکھوں میں فکروں کا جال لئے کھڑا رہ گیا۔

"یہ کیا طریقہ ہے۔۔؟"

وہ رات کے کھانے کی تیاری کر رہی تھی جب وہ کچن میں اس کے سر پہ آ کھڑا ہوا۔

"کیا۔۔۔؟"

ایمان نے ناسمجھی سے اسکی جانب دیکھا اور پھر واپس اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔

"میری طرف دیکھو۔۔۔"

غزنوی نے اسکی لاپروائی پہ کھولتے ہوئے اسے بازو سے پکڑ کر اس کا رخ اپنی جانب کیا۔اسکی سخت گرفت ایمان کو درد سے دوچار کر گئی۔

"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی۔"

ایمان نے جھٹکے سے اپنا بازو اسکی گرفت سے آزاد کیا۔

"لیکن مجھے کرنی ہے۔"

غزنوی نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ایمان نے ایک پل کو اسکے چہرے پہ چھائے غصے کے بادلوں کو دیکھا اور بولی۔

"میں آپ سے پہلے بھی کہہ چکی ہوں کہ اب میرے اور آپ کے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے جس پہ بات کی جائے۔"

اسکی آواز دھیمی تھی مگر لہجے میں سختی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔

"تم کون ہوتی ہو اسکا فیصلہ کرنے والی؟"

ایمان کا انداز اسے آگ بگولا کرنے میں بھرپور کردار ادا کر رہا تھا۔ایک تو وہ اسے اپنی بات کہنے کا موقع تک نہیں دے رہی اور نہ ہی خود اس موضوع پر بات کو تیار تھی۔دوسری جانب اعظم احمد اور عقیلہ بیگم نے بھی اس معاملے میں اسکے ساتھ سرد مہری سے کام لیا تھا۔وہ جب سے آیا تھا ان سے بات کرنے کی تگ و دو میں تھا مگر وہ اسے موقع ہی نہیں دے رہے تھے۔انہوں نے اگلی صبح ہی خلع کے کاغذات اسے دستخط کرنے کے لئے دے دیئے تھے۔اسکا جی تو چاہا کہ اسی وقت، ان کے سامنے اس آزادی کے پروانے کو پھاڑ دے مگر احترام آڑے آ گیا۔

صرف شمائلہ بیگم اور ملائکہ ہی تھیں جو اسے اپنے ارادے پہ قائم رہنے کا مشورہ دے رہی تھیں۔انہی کی بات پہ عمل کرتے ہوئے وہ بار بار ایمان کے سامنے جا کھڑا ہوتا مگر وہ اس کی کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لاتی تھی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن میری ایک بات یاد رکھو کہ تم جو چاہتی ہو۔۔میں وہ ہونے نہیں دوں گا۔"

وہ دو ٹوک انداز میں بولا۔

"میں چاہتی ہوں ایسا۔۔؟؟"

ایمان کی سوالیہ نظریں اسکی جانب اٹھی ہوئیں تھیں۔

"تو اور کون چاہتا ہے۔۔۔؟؟ داجی یا شاہ گل۔۔۔؟؟ انہوں نے تو صرف کاغذات تیار کروائے تھے لیکن فیصلے کا حق تو تمھیں دیا تھا اور تم۔۔۔تم مادام تو جیسے دستخط کرنے کو اوتاولی ہوئی جا رہی تھی۔۔جھٹ کر دیئے۔۔تو کون چاہ رہا تھا ایسا۔۔تم، میں یا وہ دونوں۔۔یوں جلدی دستخط کر دیئے جیسے اسی دن کا تو تمھیں انتظار تھا کہ کب تمھیں موقع ملے اور کب تم کر گزرو۔"

وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔اسکے طنزیہ لفظوں کی کاٹ ایمان کو اپنے دل کو چیرتی محسوس ہوئی۔

"میں نہیں بلکہ آپ ایسا چاہتے تھے۔"

وہ رخ پھیر کر سرد لہجے میں بولی۔۔اب وہ اس کے سامنے کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی۔

"میں۔۔۔؟؟ میں نے کب تم سے ایسا کہا کہ میں تم سے علیحدگی چاہتا ہوں۔"

غزنوی نے اسکا رخ اپنی جانب کیا۔

"بے شک زبان سے نہ کہا ہو مگر اپنے رویے سے آپ نے بارہا یہ باور کرایا ہے کہ آپ مجھے ایک ناپسندیدہ بوجھ سمجھتے ہیں اور یہ کہ آپکی نظروں میں میری کوئی وقعت نہیں۔"

ایمان نے اپنے آنسووں کو پیچھے دھکیلا جو سمندر کی منہ ذور لہروں کیطرح باہر آنے کو بیتاب تھے۔

"واہ واہ۔۔۔آپکی عقل کو تو میرا سلام ہے ایمان بی بی۔"

ایمان کے ہر بات خود سے اخذ کر لینے پر وہ مزید چڑ گیا۔

"مجھے آپکے ساتھ نہیں رہنا۔"

یہ کہہ کر وہ تیزی سے وہاں سے چلی گئی۔۔ایمان کو وہ سراسر اسکا مذاق اڑاتا محسوس ہوا تھا جبکہ غزنوی نے غصے سے بھپرتے ہوئے سامنے پڑے شیشے کے گلاس کو فرش پہ دے مارا۔کانچ ٹوٹنے کی آواز سن کر کچن کی طرف آتی شمائلہ بیگم دوڑی آئیں تھیں۔ابھی کچھ دیر پہلے وہ کچن میں آئیں تھیں مگر ایمان اور غزنوی کو بات کرتے دیکھ کر واپس پلٹ گئی تھیں۔

"کیا ہوا۔۔۔یہ گلاس۔۔۔؟؟"

شمائلہ بیگم نے فرش پہ پڑے کانچ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔۔

"کچھ نہیں۔۔۔"

وہ کڑے تیور لیے کچن سے نکلا۔۔شمائلہ بیگم گھبرا کر اسکے پیچھے بھاگیں تھیں۔غزنوی کو کمرے کی طرف بڑھتا دیکھ کر ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔انہیں خوف نے آ لیا کہ کہیں وہ کچھ الٹا سیدھا نہ کر دے۔حالات ویسے بھی اسکے خلاف جا رہے تھے۔

"غزنوی۔۔۔بیٹا رکو۔۔بتاو تو سہی آخر ہوا کیا ہے؟"

وہ ہانپتی ہوئی اسکے پیچھے آ رہی تھیں جبکہ وہ تیز قدموں سے اپنے کمرے میں داخل ہوا۔اسکے اسطرح دھڑام کی آواز سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے پر ایمان بوکھلا گئی۔۔

وہ تیزی سے اسکی جانب بڑھا۔

وہ الماری کے پاس کھڑی تھی۔۔ایمان کی آنکھوں میں خوف نے انگڑائی لی۔غزنوی نے ایک پل کو اسکی خوف سے پھیلتی آنکھوں میں جھانکا اور پھر اسے پکڑ کر الماری کے سامنے سے ہٹایا۔۔

ایمان نے پیچھے مڑ کر ایک نظر دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔ایمان کو ان کی موجودگی نے کچھ حوصلہ دیا تھا۔

اس دوران غزنوی نے الماری کھول کر اس میں سے خلع کے پیپرز نکالے اور الماری بند کر کے اسکے سامنے آیا۔

"یہ رہی تمھاری آذادی۔۔۔۔"

غزنوی نے خلع کے پیپرز اسکی آنکھوں کے سامنے پُرزے پُرزے کر دیئے اور پھر وہ وہاں رکا نہیں۔۔

ایمان دم سادھے کھڑی تھی۔۔اس نے پیروں میں بکھرے کاغذ کے ٹکڑوں کو دیکھا۔

شمائلہ بیگم کو غزنوی سے اس حرکت کی امید قطعی نہیں تھی۔

غزنوی کے جانے کے بعد وہ اسکے پاس آئیں۔

"تم پریشان مت ہو۔۔آئے گا تو میں سمجھاوں گی اسے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

انہوں نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا جسکی آنکھوں میں ڈولتی نمی اب پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر آ کر اسکا چہرہ بھگو رہی تھی۔اس کی آنکھوں میں دِکھتا سوال شمائلہ بیگم کو نگاہ چرانے پر مجبور کر گئی۔

⁦❇️⁩

"کہاں تھے تم۔۔؟"

رات کے تقریبا گیارہ بجے وہ گھر میں داخل ہوا تھا۔لاؤنج سے کمرے تک فاصلہ وہ بنا ادھر ادھر دیکھے طے کر رہا تھا کہ مکرم احمد کی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ صوفے پر بیٹھے یقینا اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ان کے ساتھ شمائلہ بیگم بھی موجود تھیں۔

دونوں کی آنکھوں میں غصے کی بجائے سرد مہری تھی۔

"السلام و علیکم بابا۔۔۔!!"

وہ موبائل پینٹ کی جیب میں ڈالتا قریب آیا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔!! کہاں تھے۔۔تمھاری ماں کب سے تمھیں فون کر رہی ہے لیکن تمھارا فون بند جا رہا تھا۔"

وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔

"فون آف ہو گیا تھا۔"

وہ مختصرا بولا۔

"ہیم۔۔۔روم میں آو تم سے بات کرنی ہے۔"

وہ اسے گھورتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

"امی۔۔۔!!"

شمائلہ بیگم نے بھی ان کے پیچھے ہی قدم بڑھائے تھے مگر غزنوی نے انہیں روک دیا۔

"غزنوی۔۔۔بیٹا جو معاملات آرام سے بیٹھ کر سلجھانے والے ہیں تم نے اپنے غصے کی بدولت انہیں مزید گھمبیر کر دیا ہے۔تمھیں میں نے کتنا سمجھایا تھا کہ ایمان کو نرمی سے سمجھاو اسے اپنے ساتھ کا احساس دلاو۔۔۔مگر تم۔۔۔۔تم صرف مجھے بار بار اسکے سامنے شرمندگی سے دوچار کر دیتے ہو؟"

وہ نہایت افسردگی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھیں۔

"امی۔۔۔!! وہ ایسی حرکتیں کرتی ہی کیوں ہے جن سے مجھے غصہ آتا ہے۔۔وہ خود کیوں نہیں سمجھ لیتی کہ اگر میں اسے چھوڑنا چاہتا تو اتنا وقت کیوں برباد کرتا۔"

اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کس طرح سب تک اپنی بات پہنچائے۔۔

"معاف کرنا بیٹا۔۔تم نے اسے اپنایا بھی تو نہیں۔۔"

انہوں نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

"آپ نے اسکا رویہ نہیں دیکھا۔۔"

وہ دھیرے سے بولا۔

"بیٹا۔۔۔!! کسی سے اپنا رویہ اتنا سخت نہیں رکھنا چاہیئے کہ جب وہ پلٹ کر آپ کے سامنے آئے تو آپ اسے سہل نہ کر پاو۔۔زندگی گزارنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ سمجھوتا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ رشتوں کی ڈور بہت نازک ہوتی ہے۔۔صرف ایک جھٹکا کافی ہوتا ہے ٹوٹنے کے لئے۔۔جہاں تک میں جانتی ہوں ساری غلطی تمھاری ہے۔۔تم نے شروع ہی سے اپنے اور اسکے بیچ انا کی دیوار تعمیر کر رکھی ہے۔اب جبکہ وہ تھک چکی ہے اور پیچھے ہٹنا چاہتی ہے تو تم اسے پیچھے ہٹنے بھی نہیں دے رہے ہو۔"

انہوں نے اسے نرمی سے سمجھانے کی کوشش کی۔

"اگر وہ تھک گئی ہے تو کہہ نہیں سکتی۔"

وہ اب بھی جھکنے کو تیار نہیں تھا۔

"شاباش بیٹا۔۔۔تم ایک عورت سے یہ امید کر رہے ہو کہ وہ آگے بڑھ کر تم سے کہے کہ تمھارے پیچھے بھاگتے بھاگتے تھک گئی اور تمھارا ساتھ، تمھارا سہارا چاہتی ہے۔۔ایسے معاملوں میں عورت تھک تو جاتی ہے مگر ہار نہیں مانتی۔۔اگر داجی اور شاہ گل اس علیحدگی کے مدعے کو نہ اٹھاتے تو وہ کبھی اپنے منہ سے نہ کہتی۔۔یونہی تمھارے پیچھے بھاگتی رہی۔"

وہ سر دائیں بائیں ہلاتی پلٹ کر جانے لگیں۔انہیں لگ رہا تھا کہ وہ دیوار سے سر پھوڑ رہی ہیں۔

"آپ میری ماں ہیں یا اسکی۔۔۔جب دیکھو اسی کی ڈھال بنی کھڑی رہتی ہیں۔"

اسکا دل کہہ رہا تھا کہ غلطی اسی کی ہے مگر دماغ اسے صحیح قرار دے رہا تھا۔

"میں تم دونوں کی ماں ہوں لیکن تم میری تربیت کا پاس رکھنے میں ناکام رہے غزنوی۔۔اب چل کر اپنے بابا کی بات سن لو۔۔وہ انتظار کر رہے ہوں گے۔"

شمائلہ بیگم یہ کہہ کر پلٹ گئیں۔۔وہ بھی خاموشی سے ان کے پیچھے چلنے لگا۔

"اب ایک اور لیکچر سننا پڑے گا۔"

یہ سوچ کر ہی وہ کوفت میں مبتلا ہونے لگا تھا۔

شمائلہ بیگم کے پیچھے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا تو مکرم احمد کھڑکی کے قریب چیئر پر بیٹھے کسی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھے۔کھڑکی کھلی ہوئی تھی اور تازہ ہوا کے جھونکے کھڑکی کے پردے سے ٹکرا کر کمرے کے اندر اپنا احساس دلا رہے تھے۔

شمائلہ بیگم تو بیڈ کی جانب بڑھ گئیں جبکہ غزنوی ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔وہ پوری طرح سے کتاب میں محو دکھائی دے رہے تھے یا پھر دکھائی دینے کی بھرپور کوشش کر رہے تھے۔وہ سامنے کھڑا تھا اور وہ اس سے مکمل طور پر لاپروائی برت رہے تھے۔یہ بات اسے کَھلنے لگی۔

"بابا۔۔۔!! آپ کو کچھ بات کرنی تھی۔"

مجبوراً اسے انہیں متوجہ کرنا پڑا۔

"شمائلہ بیگم۔۔!! دیکھا تم نے۔۔زرا سی اگنورنس اس سے برداشت نہیں ہو رہی۔"

مکرم احمد نے کتاب گود میں رکھی اور شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔

وہ بچہ نہیں تھا کہ ان کی بات کے پیچھے چھپے مفہوم کو نہ جان سکتا۔

"برخوردار۔۔۔یہی لاپروائی تم نے اس بچی سے بھی برت رکھی ہے۔داجی اور شاہ گل نے جو بھی فیصلہ کیا۔۔پہلے تو میں اس کے حق میں نہیں تھا مگر اب میں بھی ان کے ساتھ ہوں۔"

اب وہ اسکی طرف دیکھ رہے تھے۔

"بابا۔۔۔پلیز۔۔۔!! میں ایسا کچھ بھی نہیں چاہتا۔۔ٹھیک ہے میں مانتا ہوں کہ میری کچھ غلطیاں ہیں۔۔جنھیں میں ٹھیک کرنا بھی چاہتا ہوں۔۔لیکن کوئی میری بات سُنے تب نا۔۔۔اوپر سے آپکی بہو۔۔۔وہ تو چار ہاتھ آگے ہے آپ سب سے۔۔۔میری بات ہی نہیں سُنتی۔"

غصہ ایک بار پھر عود کر آیا تھا۔

"یہ اچھی بات ہے کہ تم اب اپنی غلطی کو سُدھارنا چاہتے ہو۔۔لیکن اس کے لئے تمھیں ایمان سے معافی مانگنی ہو گی۔"

وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔

"معافی۔۔۔۔؟؟ کس بات کی معافی۔۔۔؟؟"

وہ بمشکل اپنا لہجہ دھیما کر پایا تھا ورنہ ان کی بات نے آگ پہ تیل کا کام کیا تھا۔

"جو رویہ تم نے اسکے ساتھ روا رکھا تھا۔۔اس کی ذات کی نفی کرتے رہے۔۔اس رویے کی معافی۔۔"

وہ اس کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کا بغور معائنہ کرتے ہوئے بولے تھے۔وہ جانتے تھے کہ وہ اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ پاتا۔۔اور ایمان اس کے مزاج کے اس رخ سے اچھی طرح واقف ہے۔

"معاف کیجئے گا بابا۔۔۔میں اس سے اپنے کیے کی معافی مانگ چکا ہوں اور آپ سب کا مجھ سے مزید معافیوں کی توقع رکھنا عبس ہے۔۔آپ لوگ علیحدگی کے ٹاپک کو ختم کیجیئے اور ایمان کو میرے ساتھ بھیجیں۔۔وہاں میرے کام کا حرج ہو رہا ہے۔"

وہ اپنی بات کہہ کر خاموش ہوا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔کیوں کہ تمھاری ماں یہ سب نہیں چاہتی۔۔اس لئے میں داجی اور شاہ گل سے صبح اس بارے میں بات کروں گا کہ تمھیں ایک موقع اور دیں۔۔جاؤ اب آرام کرو۔۔۔صبح بات ہو گی۔"

وہ بیڈ کی جانب بڑھ گئے۔شمائلہ بیگم نے ان کی بات سن کر سکون کا سانس لیا اور مسکرا کر اسے جانے کا اشارہ کیا۔وہ بھی کمرے سے نکل آیا اور کچھ دیر کے لئے وہیں لاونج میں بیٹھ گیا تھا، کیونکہ اس وقت وہ ایمان کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔

⁦❇️⁩

اگلے دن مکرم احمد نے عقیلہ بیگم اور اعظم احمد سے اس بارے میں بات کی۔۔یہ سن کر تو انہیں خوشی ہوئی تھی کہ غزنوی علیحدگی کے حق میں نہیں ہے۔وہ ایمان کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا جس پہ انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا مگر پھر بھی چونکہ علیحدگی کا فیصلہ ایمان کا تھا اس لئے وہ ایک بار اس سے بھی اس بارے میں پوچھنا چاہتے تھے۔وہ اپنی پرانی غلطی کو دہرانا نہیں چاہتے تھے۔

وہ سب راضی تھے۔۔غزنوی کو ایک موقع دینا چاہتے تھے۔اس لئے اگلے دن سبھی بڑے ان کے روم میں موجود تھے اور ایمان کا انتظار کر رہے تھے۔شمائلہ بیگم اسے بلانے گئی تھیں۔وہ سب تو یہ جان ہی گئے تھے کہ غزنوی خلع کے پیپرز پھاڑ چکا ہے اور دل ہی دل میں اس کے اس اقدام پر خوش بھی تھے۔غزنوی بھی وہیں موجود تھا۔

تھوڑی دیر بعد ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔وہ دل ہی دل میں بہت کنفیوز تھی۔شمائلہ بیگم نے اسے نہیں بتایا تھا کہ داجی اور شاہ گل اسے کس لئے بلایا ہے۔وہ اسے سرپرائز دینا چاہتی تھیں۔کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ایمان بھی اس رشتے کو ختم کرنا نہیں چاہتی ہے بس وہ غزنوی کے رویے کے باعث یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔

"السلام علیکم۔۔۔!!"

ایمان نے کمرے میں داخل ہوتے ہی باآوازِ بلند سلام کیا۔غزنوی کو وہاں موجود پا کر وہ مزید گھبرا گئی تھی۔لیکن پھر سب کی موجودگی کا احساس اسے ہمت دلا گیا۔

"یہاں آؤ بیٹا۔۔میرے پاس۔۔"

عقیلہ بیگم نے اپنے پاس بلایا۔وہ نَپے تلے قدموں سے چلتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔غزنوی نے ایک بار بھی اسکی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔وہ مظفر احمد سے باتوں میں مگن تھا۔

"ایمان۔۔۔بیٹا ہم سب نے غزنوی کو ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے۔۔تم ہمارے نزدیک اتنی ہی اہم ہو جتنا کہ غزنوی ہے۔وہ اپنے کیے پر شرمندہ ہے اور اس رشتے کو ایک اور موقع دینا چاہتا ہے اور علیحدگی نہیں چاہتا۔ہم نے بےشک علیحدگی کا فیصلہ تمھارے لئے، تمھاری خوشیوں کو مدنظر رکھ کر کیا تھا لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس فیصلے پہ خوش نہیں تھا۔۔ہمیں صرف اور صرف تمھاری خوشی درکار تھی۔خدا گواہ ہے کہ ہم نے تم میں اور اپنے باقی بچوں میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔تمھیں ہمیشہ اپنی بیٹی سمجھا ہے۔۔لیکن تم یہ نہ سوچنا کہ ہم تم سے اس بنیاد پر فیصلے کا حق چھین رہے ہیں۔ایسا کبھی نہیں ہو گا۔اس لئے ہم نے یہ فیصلہ تم پر چھوڑا ہے کہ تم غزنوی کو ایک آخری موقع دینا چاہتی ہو یا نہیں۔۔۔"

عقیلہ بیگم اپنی بات ختم کر کے اب اسکے بولنے کی منتظر تھیں۔۔بلکہ سبھی منتظر نگاہوں سے اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔غزنوی بھی اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔

ایک پل کے لئے ایمان نے نگاہیں اٹھا کر اپنے بالکل سامنے بیٹھے اُس شخص کو دیکھا جو اسکے لئے ایک ایسے قلعے کی مانند تھا جس میں رہتے ہوئے اب اسکا دم گھٹنے لگا تھا۔۔جس میں قید اسکی محبت کا وجود اب مرجھا گیا تھا۔غزنوی کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا۔وہ اسکے فیصلے کا منتظر تو تھا مگر یہ انتظار اسکی آنکھوں میں کسی راز کی مانند تھا۔وہ نہایت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا۔اسکی نگاہوں کی سرد مزاجی ایمان کو اپنی رگوں میں دوڑتے خون کو منجمد کرتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔۔اور پھر ایک پل لگا اسے فیصلہ کرنے میں۔۔۔صرف ایک پل۔۔۔

اس نے ایک گہری سانس خارج کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی عقیلہ بیگم کو دیکھا۔۔

"میں اب بھی اپنے فیصلے پر قائم ہوں شاہ گل۔۔۔میں ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔میری ہمت جواب دے گئی ہے اس رشتے کی سیلن زدہ دیواروں کہ بیچ رہ کر۔۔۔"

وہ بنا جھجک بولی۔۔۔وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ ہمت اسکے اندر کہاں سے آ گئی تھی۔شاید اس نے اپنے دل کو مار کر زندگی گزارنا سیکھ لیا تھا۔

اس کا فیصلہ سن کر سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔۔عقیلہ بیگم نے غزنوی کو دیکھا۔

غزنوی تیزی سے اٹھا اور کمرے سے نکل گیا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔جو تمھارا فیصلہ، وہی ہمارا فیصلہ۔۔"

عقیلہ بیگم اسے سمجھانا چاہتی تھیں مگر اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں اعظم احمد نے اسکے فیصلے پر مُہر لگا دی۔وہ خاموش ہو رہیں۔۔

ایمان کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ سب اس کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔۔بس اسکی خاطر خاموش ہو گئے ہیں۔وہ انہیں تکلیف دینا چاہتی تھی مگر وہ اپنی زندگی کو مزید دُکھوں میں بھی نہیں دھکیل سکتی تھی۔اس شخص پہ اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ایک انا پرست شخص پہ بھروسہ کرنے کی غلطی وہ دوبارہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ آئی۔۔۔باقی سب اسکے الفاظ کے ہی چکرویو میں پھنسے ہوئے تھے۔ان کے تو وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ نازک سی لڑکی۔۔نرم جذبات رکھنے والی لڑکی۔۔۔اتنا کٹھن فیصلہ کر سکتی ہے۔

"بس اب اس بارے میں مزید بات نہیں ہو گی۔"

اعظم احمد نے عقیلہ بیگم کے بہتے آنسوؤں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"لیکن داجی۔۔۔وہ بچی ہے۔۔۔اگر غزنوی ایک موقع چاہتا ہے تو کیوں نہیں۔۔۔ہم بڑے ہیں، ایمان کو سمجھانا ہمارا فرض ہے۔۔وہ ایک غلط فیصلہ کر رہی ہے۔۔مجھے پہلے بھی اس فیصلے پر اختلاف تھا اور اب بھی ہے۔شاہ گل آپ لوگوں کو خلع تک بات لانی ہی نہیں چاہیئے تھی۔اب دیکھ لیں آپ۔۔"

شمائلہ بیگم بھی رونے لگیں تھیں۔

"شمائلہ یہ کسطرح بات کر رہی ہو تم شاہ گل سے۔۔۔بیٹے کی محبت تم پہ اسقدر حاوی ہو گئی ہے کہ اس بچی کی تکلیف تمھیں دکھائی نہیں دیتی۔کون عورت اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر جلانا چاہے گی۔۔اگر اس نے یہ فیصلہ کیا ہے تو یہ فیصلہ کرنے کے لئے تمھارے بیٹے نے ہی اسے مجبور کیا ہے۔اگر غزنوی کے کرتوت اچھے ہوتے تو وہ اسے ایک موقع ضرور دیتی۔۔ہمارے فیصلے کو عزت دیتی۔"

مکرم احمد کو شمائلہ بیگم کا بات کرنے انداز پسند نہیں آیا تھا۔

"مکرم۔۔۔۔!!"

اعظم احمد نے مکرم احمد کو تنبیہی نظروں سے دیکھا۔۔مکرم احمد اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔

"معاف کیجیئے گا شاہ گل۔۔۔"

شمائلہ بیگم اٹھ کر عقیلہ بیگم کے پاس آئیں اور ان کے ہاتھ تھام لئے۔۔۔

"شمائلہ۔۔۔!! کیسی معافی۔۔۔تم نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔۔ہم نے ہی جلد بازی سے کام لیا۔"

عقیلہ بیگم افسردہ لہجے میں بولیں۔

"ٹھیک ہے تو پھر عید کے بعد اس فیصلے کو عملی جامہ پہنائیں گے۔۔ہو سکتا ہے تب تک کوئی نرم شگوفہ ان دونوں کے دل میں پھوٹ پڑے۔"

اعظم احمد نے سبھی سے کہا اور واش روم کی جانب بڑھ گئے۔

"بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔۔ہو سکتا معاملے کو طوالت دینا کوئی بہتر متبادل سامنے لے آئے۔"

معظم احمد نے اپنی خاموشی کو توڑا۔

"اللہ کرے ایسا ہی ہو۔"

مکرم احمد نے کہا تو سبھی نے آمین کہا۔

⁦❇️⁩

وہ وہاں سے سیدھی لان میں آئی تھی۔۔موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔ہلکی ہلکی ہوا طبیعت پہ اچھا اثر ڈال رہی تھی۔وہ کین کی کرسی کو پیڑ کے سائے میں لے آئی اور وہیں بیٹھ گئی۔

"مجھے تو خوش ہو جانا چاہیئے تھا۔۔۔پھر کیوں میرے دل کی گرہ کھلی نہیں ہے۔۔کیوں اس رشتے کے بےجان لاشے پر آنسو بہانے کو جی چاہ رہا ہے۔۔کیوں اپنا ہی فیصلہ مجھے بیاباں میں گھسیٹ لایا ہے۔۔"

وہ چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو دی۔

"یوں رونے سے دل پہ پڑا بوجھ کم ہونے سے رہا۔"

ارفع کی آواز پہ اس نے چہرے سے ہاتھ ہٹا کر اسے دیکھا اور تیزی سے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا۔ارفع کے ساتھ عنادل، ملائکہ اور باقی سب بھی تھیں۔وہ سبھی اسکے پاس نیچے ہی بیٹھ گئیں۔

"جانتی ہوں کہ دل پہ پڑا بوجھ رونے سے کم نہیں ہو گا۔۔مگر اس درد میں گھلنے سے تو بہتر ہے کہ اسے کسی صورت تو باہر نکالوں۔۔ورنہ اندر سے مزید خالی ہو جاؤں گی۔"

آنسو ایک بار پھر سے اسکا چہرہ بھگونے لگے تھے۔

"اگر اپنا ہی فیصلہ سہل نہیں کر پا رہی ہو تو کیوں کیا یہ فیصلہ؟"

فائقہ نے اسکا ہاتھ ہاتھوں میں لیا۔

"تو پھر کیا کرتی۔۔؟؟ بتاؤ۔۔۔۔"

ایمان کے پوچھنے پر فائقہ خاموش رہی۔

"ایک بار سے اس شخص کی بےاعتنائی سہنے کی ہمت نہیں ہے اب مجھ میں۔۔غزنوی اپنی ہی انا کے زعم میں قید ایک مضبوط دیوار ہے۔۔جس سے سر ٹکرا کر میں لہو لہان تو ہو سکتی ہوں پر اسے توڑ نہیں سکتی۔"

ایمان کے رونے میں اضافہ ہوا۔۔فائقہ نے اسکے آنسو پونچھے۔۔

"تو جب دل کڑا کر کے فیصلہ لے لیا ہے تو پھر خود کو مضبوط رکھو۔"

لاریب نے بھی سمجھانے کی کوشش کی۔۔ایمان کا یوں رونا ان سب کو تکلیف دے رہا تھا۔

"تم فکر نہ کرو۔۔۔مصطفیٰ آئیں گے تو میں بات کروں گی کہ وہ غزنوی سے بات کریں۔۔۔اسے سمجھائیں۔"

پرخہ نے اسے ساتھ لگایا۔

"نہیں پرخہ آپی۔۔۔آپ کوئی بات نہیں کریں گی مصطفیٰ بھائی سے۔۔"

ایمان نے پرخہ کو منع کیا۔

"اچھا ٹھیک ہے تو پھر سنبھالو خود کو۔۔۔"

پرخہ نے اسے ہلکا سا ڈانٹ دیا۔

"اوئے۔۔۔۔غزنوی بھائی آ رہے ہیں۔"

عنادل نے غزنوی کو باہر آتے دیکھکر کہا تو سب گھبرا کر اٹھ کھڑیں ہوئیں۔ایمان نے جلدی سے اپنا چہرہ صاف کیا اور تھوڑا سا رخ موڑ گئی۔۔وہ غصے میں لگ رہا تھا اور ان سب پہ ایک بھی نظر ڈالے بغیر سوٹ کیس کو تقریباً گھسیٹتے ہوئے گاڑی تک لایا۔

"رفیق۔۔۔!!"

اس نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور چلّاتے ہوئے چوکیدار کو آواز دی۔۔وہ بیچارا بھاگ کر آیا اور سوٹ کیس اٹھا کر گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ رکھا، پھر گیٹ کھولنے کے لئے بھاگا۔

وہ سب وہیں کھڑیں اسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔۔لیکن ایمان نے ایک بار بھی پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔اسے ڈر تھا کہ ایک بار بھی اگر اس نے اسے پلٹ کر دیکھ لیا تو وہ ٹوٹ جائے گی اور وہ ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی۔

گیٹ کھلتے ہی وہ گاڑی زن سے گیٹ سے نکال لے گیا۔

"چلو جی۔۔۔اللہ ملائے جوڑی،ایک اندھا ایک کوڑی۔۔۔"

عنادل نے ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا۔

"یہ کیا بونگیاں مار رہی ہو؟"

سحرش نے اسکے سر پہ چپت لگائی۔

"اللہ۔۔آپی محاورہ بولا ہے نا۔۔"

عنادل نے سر پہ ہاتھ پھیرا۔

"اس وقت تو ان دونوں پہ یہ محاورہ سوٹ کرتا ہے۔۔۔وہ کیا تھا۔۔۔؟"

لاریب سوچنے لگی۔۔۔وہ سبھی اسکی طرف دیکھ رہیں تھیں۔

"ہاں یاد آیا۔۔۔۔ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں۔"

لاریب بولی تو سبھی کو ہنسی آ گئی۔

"شش۔۔۔!! یہ کوئی موقع ہے شگوفے چھوڑنے کا۔۔۔"

سحرش نے انہیں ڈانٹا اور ایمان کی طرف اشارہ کیا جو ابھی تک پیٹھ کیے بیٹھی تھی۔وہ سبھی خاموش ہوئیں۔

"ویسے ایمان کو اس وقت ہلکے پھلکے ماحول کی ضرورت ہے۔۔کیوں عنادل۔۔؟؟"

لاریب نے عنادل کو ٹہوکا دیا۔

"ہاں ہاں۔۔۔۔بالکل۔۔۔"

عنادل نے لاریب کی ہاں میں ہاں ملائی۔

"تو پھر۔۔۔۔۔ہم ایسا کرتے ہیں کہ غزنوی بھائی کو فون کر کے کہتے ہیں کہ ایمان ان کے غم میں بے ہوش ہو گئی ہے۔"

ملائکہ جو اتنی دیر سے بالکل خاموش بیٹھی تھی، کھڑی ہوئی۔ایمان نے فوراً اسکی طرف دیکھا۔

"خبردار ملائکہ۔۔۔۔اگر تم نے ایسا کچھ بھی کیا تو پھر مجھ سے کبھی بات مت کرنا۔"

وہ اسے وارننگ کرتی وہاں سے چلی گئی۔

"ِان دونوں کو سیدھا کرنے کے لئے ہمیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔"

پرخہ نے دور جاتی ایمان پر سے نظریں ہٹا کر ان سب کی طرف دیکھا۔

"کیسا۔۔۔۔۔؟؟"

وہ جو سب اسکی بات سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں، اسکے یوں بھنویں اُچکا کر ہاتھ پھیلانے پر ہنس دیں اور اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ دیئے۔اب وہ سب سر جوڑے اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے اپنے آئیڈیاز دے رہی تھیں۔

"اے لڑکیو۔۔۔یہ کیا سر جوڑے بیٹھی ہو تم سب۔۔پھر کون سی کھچڑی پکا رہی ہو۔"

خیرن بوا پھولتی سانسوں پر قابو پاتیں ان کے قریب رکھی کرسی پہ آ کر بیٹھ گئیں۔

"کچھ نہیں بوا۔۔۔ہم تو بس یونہی۔"

سحرش سیدھی ہو کر بیٹھ گئی۔

"اچھا جاو۔۔۔اپنی اماں کی مدد کرو جا کر۔۔رمضان شروع ہونے والا ہے۔"

خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں اور ان کے جانے کے بعد وہ ساری ایک بار زور و شور سے سے اپنی اسکیم تیار کرنے لگیں۔پلان بنانے کے بعد انہوں لڑکوں سے بھی بات کر لی۔۔وہ سب بھی تیار تھے جانے کے لئے۔۔لیکن انہوں نے بڑوں کو منانے کا زمہ انہی کے سر ڈال دیا تھا۔۔ان سب نے کل کا دن ڈیسائیڈ کیا تھا عقیلہ بیگم سے بات کرنے کا کیونکہ ان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔غزنوی کے اسطرح بنا بتائے چلے جانے سے وہ بہت پریشان تھیں بلکہ سبھی پریشان تھے۔

⁦❇️⁩

"پلیز شاہ گل۔۔آپ پرمیشن لے دیں نا۔۔۔داجی سے۔۔"

وہ ساری اگلے ہی دن اپنے متفقہ پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عقیلہ بیگم کے پیچھے پڑی ہوئیں تھیں۔

"ائے لڑکیو۔۔۔!! بالکل ہی باؤلی ہوئی جا رہی ہو تم لوگ تو۔۔۔ائے یہ بھی کوئی دن ہیں گھومنے پھرنے کے۔۔عید کے بعد چلے جانا سارے۔۔"

خیرن بوا بھی اپنا پان دان لئے وہیں بیٹھی ہوئیں تھیں اور ان کے پلان کا تیاپانچہ کرنے کی کوشش میں تھیں۔

"بوا ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔چار دن ہی تو باقی ہیں رمضان المبارک میں۔۔۔اور تم لوگ ایک دو دن کے لئے جا کر بھی کیا کرو گے۔۔عید کے بعد سب مل کر جانا اور زیادہ دن گزارنا۔دو دن میں کیا لطف اٹھا پاؤ گے۔"

شمائلہ بیگم نے انہیں سمجھایا۔

"امی۔۔۔یہ پلان ہم نے اپنے لئے تھوڑی نا بنایا ہے۔۔یہ تو ہم نے ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔وہ بہت اداس ہے۔۔جگہ بدلے گی تو اسکے لئے اچھا رہے گا نا۔۔آپ خود تو دیکھ رہی ہیں کہ وہ کتنی خاموش ہو گئی ہے۔"

ملائکہ نے شمائلہ بیگم کے گلے میں بانہیں ڈالیں۔وہ سب بھی زور زور سے سر ہلانے لگیں۔

"سحرش اور پرخہ۔۔۔یہ تو بچیاں ہیں۔۔مجھے تم دونوں سے ایسی بے وقوفی کی امید نہیں تھی۔تم دونوں کو چاہیئے تھا کہ انہیں سمجھاتیں، الٹا ان کی الٹی سیدھی پِینگوں میں تم بھی جھولنے کو تیار ہو گئیں۔۔اپنے اپنے شوہروں سے اجازت لی ہے تم دونوں نے؟"

شمائلہ بیگم نے پرخہ اور سحرش سے پوچھا۔۔

"اوہو۔۔۔ممانی بتا تو رہے ہیں کہ سارا پلان ہم نے صرف اور صرف ایمان کے لئے بنایا ہے۔۔اور ہادی اور مصطفیٰ بھائی بھی جا رہے ہیں ہمارے ساتھ۔۔"

سحرش بولی۔۔اب شمائلہ بیگم کو کیا پتہ تھا کہ یہ پلان انہی دونوں کا ہے ورنہ دونوں کی خیر نہ ہوتی۔

"بھابھی۔۔!! بچیاں ٹھیک کہہ رہی ہیں۔۔ایمان بہت چپ چپ سی رہنے لگی ہے۔اچھا ہے ایک دو دن گھوم پھر آئیں گے تو اچھا رہے گا۔شاہ گل آپ بھی مان جائیں۔۔پھر لڑکے ساتھ جا تو رہے ہیں۔"

صائمہ بیگم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔"

بالآخر عقیلہ بیگم کو ماننا ہی پڑا۔

"یاہو۔۔۔۔!!"

ان کا ماننا ہی تھا کہ وہ سب خوشی سے اچھلنے لگیں۔

"اے لو۔۔۔اب بندریا کی طرح اچھلنے کی کیا ضرورت ہے۔"

خیرن بوا منہ پہ ڈوپٹہ رکھ کر ہنسنے لگیں۔۔

"چلو بندریو۔۔۔!! پیکنگ کرو۔۔اور ساتھ ہی ساتھ بندروں کو بھی اطلاع دے دو۔"

عنادل نے کہا تو سبھی ہنس دیئے۔

"اچھا ہم بندریاں ہیں تو آپ کیا ہیں؟"

ملائکہ نے عنادل سے پوچھا۔

"یہ بندریوں کی شہزادی ہیں۔"

اس سے پہلے کہ عنادل جواب دیتی، لاریب بول پڑی۔

"کانسنٹریٹ گرلز۔۔۔۔شہزادی۔۔۔"

عنادل نے ایک ادا سے اپنی جانب اشارہ کیا۔۔

"جی جی۔۔۔۔شہزادی صاحبہ۔۔۔چلیں ہم پیکنگ کر لیں۔"

لاریب نے عنادل کو بازو سے پکڑا اور وہاں سے چلی گئی۔۔پیچھے وہ سب بھی باری باری نکل گئیں۔

⁦❇️⁩

"کیا ہوا۔۔؟؟ کل سے یہ تیری اجڑی شکل دیکھ رہا ہوں۔۔اب تم کچھ بتاو گے یا پھر اس معاملے میں مجھے پولیس کی مدد لینی پڑے گی۔"

کمیل دیکھ رہا تھا کہ جب سے وہ آیا تھا کچھ خاموش سا تھا۔پہلے بھی کوئی اتنا باتونی نہیں مگر کبھی اسطرح چپ بھی نہیں رہا تھا۔وہ انتظار کر رہا تھا کہ کب وہ اس سے شیئر کرتا ہے مگر وہ خاموشی سے اپنے کام میں مصروف رہتا اور کام نہ ہوتا تو خیالوں میں گم رہتا۔

جب اس نے ذکر نہیں کیا تو آج اس نے خود ہی پوچھ لیا۔

"کیا مطلب؟"

غزنوی نے فائل بند کر کے اسکی جانب دیکھا۔

"میں نے کوئی اتنا مشکل سوال نہیں پوچھا کہ تم جواب نہ دے سکو۔۔جبکہ جانتے بھی ہو کہ میں کس بارے میں پوچھ رہا ہوں اور کیوں پوچھ رہا ہوں۔"

کمیل ٹیبل پہ ہاتھ رکھ کر اسکی جانب جھکا تھا۔

"ہم کام کے بارے بات کر رہے تھے اور کام کے بارے میں ہی بات کریں تو اچھا ہو گا۔"

غزنوی دوبارہ فائل کھول کر اس پہ جھک گیا۔

"ٹھیک ہے تم نہیں بتانا چاہتے تو نہ بتاؤ۔"

کمیل نے اس کے ہاتھ سے فائل لے لی اور پھر دونوں ہونے والی میٹنگ کے اہم پوائنٹس ڈسکس کرنے لگے۔

"ٹھیک ہے یہ فائل میں ایک بار ہارون صاحب کو دکھا دیتا ہوں۔۔تم تب تک چائے منگواؤ اور ساتھ کچھ کھانے کو بھی منگوانا۔"

کمیل فائل اٹھا کر کیبن سے نکل گیا۔

چائے کی طلب تو اسے بھی ہو رہی تھی، اس لئے اس نے چائے منگوائی اور چیئر سے پشت ٹکا کر ریلکیس ہو کر بیٹھ گیا۔

فارغ ہوا تو خیالات کی ہوا پھر سے اسے انہی لمحوں میں واپس لے گئی۔وہ اس بارے نہیں سوچنا چاہتا تھا اسی لئے گھر میں اور گھر سے باہر اس نے خود کو کام میں مصروف رکھا تھا۔ایمان کے فیصلے نے اسکے دل و دماغ کا سکون برباد کر رکھا تھا۔گھر میں ہوتا تو اسکی یاد اور شدت اختیار کر لیتی تھی۔ایمان نے یہاں ذیادہ وقت نہیں گزارا تھا مگر پھر بھی اسے گھر کے ہر ایک کونے میں اسکی موجودگی کا احساس ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے آفس میں زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا تھا۔

"کیا سوچ رہا ہے۔۔؟؟"

وہ آنکھیں بند کیے گہری سوچ میں گم تھا کہ کمیل نے ٹیبل بجا کر اسے متوجہ کیا۔

"کچھ نہیں۔۔۔۔ہارون صاحب کو کہتے کہ ایک بار اچھے سے اسٹڈی کر لیں۔"

وہ سیدھا ہوا۔۔اسی دوران پیون چائے اور اسنیکس لیے انٹر ہوا۔

"ہاں کہہ دیا ہے۔"

کمیل اسے بغور دیکھتے ہوئے بولا۔

"گُھور کیوں رہا ہے؟"

غزنوی نے چائے کا کپ اسکی جانب بڑھایا۔

گُھور نہیں رہا۔۔۔دیکھ رہا ہوں کہ ایسی کون سی بات ہے جو تم مجھے بتا نہیں پا رہے ہو۔"

کمیل نے کپ اسکے ہاتھ سے لے کر واپس ٹیبل پر رکھا۔

"تمھیں تو یونہی خواہ مخواہ تجسس کا بخار چڑھ جاتا ہے۔۔میں بالکل ٹھیک ہوں۔"

اس نے کہا تو کمیل ہنس دیا۔

"ویسے ایک بات کہوں۔۔بالکل مجنوں لگ رہا ہے۔"

کمیل کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔

"یونہی بے پَر کی اڑانا چھوڑو اور کام پہ دھیان دو۔۔۔مجھ پہ ریسرچ کرنے سے کچھ نہیں ملنا۔"

وہ چائے کا کپ اٹھاتا بولا۔

"اچھا۔۔۔ٹھیک ہے میں بے پر کی اڑا رہا ہوں۔۔۔تم یہ بتاؤ کہ بھابھی کو ساتھ کیوں نہیں لائے؟"

کمیل نے بے خیالی میں اسکی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا۔

"ایک دو دن میں آ جائے گی۔"

اس نے اس موضوع سے جان چھڑائی۔

"ہییم۔۔۔اچھی بات ہے۔۔"

کمیل نے اسنیکس کی پلیٹ اپنی جانب کھینچی۔۔غزنوی نے بھی شکر ادا کیا ورنہ کب سے اسکی دوربین جیسی آنکھوں کو خود پہ محسوس کر رہا تھا۔وہ بھی خاموشی سے چائے پینے لگا لیکن دماغ نے پھر سے ایمان کی یادوں کے چکر لگانا شروع کر دیئے تھے۔

⁦❇️⁩

کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا

دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

غموں نے بانٹ لیا ہے مجھے یوں آپس میں

کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا​

یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے

تُمھیں تو ساتھ میرا دُور تک نِبھانا تھا

مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے

وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا

کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا۔۔

عابدہ پروین کی درد میں لپٹی آواز غزل کے بول اسکے دل کی چبھن کو بڑھا رہے تھے۔آنکھیں تو اب ہر پل چھلکنے کو بیتاب رہنے لگیں تھیں۔اس وقت بھی اسکی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔اس نے غزنوی سے الگ ہونے کا فیصلہ تو لے لیا تھا مگر اس سے الگ ہونا آسان نہیں تھا۔اس کمرے کی ہر اک شے میں اسکی یاد جھلکتی تھی۔کمرے میں رہتی تو دل کا درد سوا ہو جاتا اور غزنوی کی موجودگی کا احساس اسے کمرے سے باہر جانے نہیں تھا۔

اس کا حال پنجرے میں قید اس پنچھی جیسا تھا جسے اسکی قید سے محبت ہو گئی ہو۔۔

وہ گاوں جانا چاہتی تھی مگر شاہ گل نے اسے جانے نہیں دیا تھا۔وہ جانتی تھی کہ اگر وہ چلی گئی تو واپس نہیں لوٹے گی لیکن انہوں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے گاوں لے کر ضرور جائیں گی۔

وہ انہی سوچوں میں غلطاں تھی وہ ساری کسی ہجوم کی مانند کمرے میں داخل ہوئیں۔

"چلو لڑکی پیکنگ کرو۔۔۔ہم جا رہے ہیں۔"

پرخہ نے قریب آ کر اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ایمان نے ناسمجھی سے پہلے پرخہ اور باقی سب کی جانب دیکھا۔

"ارے یار۔۔۔میں نے بہت سادہ الفاظ کا استعمال کیا ہے۔تم تو مجھے یوں دیکھ رہی ہو جیسے میں نے فارسی بولی ہو۔"

پرخہ نے اسکی حیران نظروں کے جواب میں کہا۔

"مگر کہاں۔۔۔؟؟"

ایمان نے پوچھا۔

"مری۔۔۔"

لاریب اور عنادل ایک آواز ہو کر بولیں۔

"مری۔۔۔کس لئے۔۔؟"

اس نے غیر دماغی سے سوال کیا۔

"وہاں خلاء سے خلائی مخلوق کا بچہ گرا ہے اور ہم گود لینے جا رہے ہیں۔"

عنادل نے نہایت معصومیت سے کہا۔۔باقی سب کے لبوں پہ دبی دبی مسکان سج گئی۔۔ایمان بھی اسکی بتائی وجہ سن کر مسکرا دی۔

"یار ہم نے سوچا تھوڑی آوٹنگ شاوٹنگ ہو جائے۔اس لئے ہم نے مری جانے کا پلان بنایا ہے۔"

ارفع نے کہا۔

"تم لوگ جاو یار۔۔۔مجھے نہیں جانا۔"

یہ کہتی وہ بیڈ پہ جا بیٹھی۔

"کوئی بہانا نہیں۔۔۔تم ہمارے ساتھ چل رہی ہو۔"

سحرش اسکے پاس آ کر بیٹھ گئی اور باقی سب بھی اسکے سر ہو گئیں اور اسے منا کر ہی دم لیا۔ساتھ ہی ساتھ مل کر اسکی پیکنگ بھی کروا لی۔۔

"ارے یہ اتنے سارے کپڑے۔۔۔ہم تو صرف دو دن کے لئے تو جا رہے ہیں۔"

ایمان نے پرخہ کو اتنے زیادہ کپڑے بیگ میں رکھتے دیکھ کر کہا۔

"یار کیا پتہ ہم زیادہ دن کے لئے رک جائیں۔"

سحرش نے کہا تو وہ مزید کچھ نہ کہہ سکی۔اگلے دن ان کی روانگی تھی۔

"یہ تم لوگ کیا کھسر پھسر کر رہی ہو؟"

ایمان نے فائقہ، لاریب اور ملائکہ کو دیکھ کر کہا۔وہ کتنی دیر سے انہیں نوٹ کر رہی تھی کہ وہ ایک دوسرے کے کان میں کچھ کہتیں اور پھر ہنسنے لگتیں۔

"ہماری آپس کی بات ہے۔"

فائقہ نے ہنستے ہوئے کہا۔

"اچھا۔۔۔۔؟؟"

ایمان نے غیر مطمئن انداز میں کہا۔

"جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

فائقہ ایک لمبی سی جی کہہ کر پھر سے اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔۔

کچھ دیر بعد جب شگفتہ انہیں رات کے کھانے کے لئے بلانے آئی تو ان کی یہ کھسر پھسر بند ہوئی۔

⁦❇️⁩

مری میں ان سب نے بہت انجوائے کیا۔صرف دو ہی دن تھے اس لئے وہ سب خوب گھومے پھرے۔۔جگہ کی تبدیلی نے ایمان پہ اچھا اثر ڈالا تھا۔ان سب نے بھی اسے ایک پل کے لئے بھی اکیلا نہیں چھوڑا تھا۔جو بھی اُوٹ پٹانگ حرکتیں کرتیں ساتھ میں اسے بھی شامل رکھتی۔آج شام کے بعد ان کی واپسی تھی۔ان کا جی تو نہیں چاہ رہا تھا مگر پلان نمبر ٹو پہ عمل بھی تو کرنا تھا۔اس لئے انہوں جانے سے پہلے کچھ شاپنگ کی اور پھر روانہ ہوئے۔

"یار یہ تم لوگ کیا کر رہی ہو۔۔۔چپ کر بیٹھو۔۔۔کان کھا لئے ہمارے۔۔اب اگر چُوں چُوں کی نہ تو یہیں گاڑی سے اتار دوں گا۔"

ان کی ہنسی کو بریک لگانے کے لئے مرتضیٰ نے پیچھے مڑ کر انہیں ہلکی پھلکی ڈانٹ سے نوازا۔

"مصطفیٰ بھائی۔۔۔۔کیا ہم اسلام آباد پہنچ گئے ہیں؟؟"

مرتضیٰ کی بات کو اگنورنس کے ڈبے میں ڈال کر عنادل نے مصطفیٰ سے پوچھا۔

"ہاں گڑیا۔۔۔ہم پہنچ گئے ہیں اسلام آباد۔۔"

مصطفیٰ نے جواب دیا۔

"اچھا۔۔۔۔۔غزنوی بھائی کا گھر یہاں سے قریب ہے؟"

اگلا سوال لاریب کی جانب سے آیا۔

"نہیں۔۔۔"

مصطفیٰ کا مختصر جواب آیا۔

"ہییم۔۔۔"

لاریب نے عنادل کو دیکھا۔۔

ابھی بیس منٹ کا سفر مزید کیا تھا کہ فائقہ پیٹ پکڑ کر رونے لگی۔سب ہی اسکی طرف متوجہ ہو گئے۔

"کیا ہوا فائقہ۔۔۔؟"

سحرش جو اسکے پاس ہی بیٹھی تھی۔پریشانی سے پوچھنے لگی۔

"آپی پیٹ میں شدید درد ہو رہا ہے۔"

وہ پیٹ پکڑ کر دوہری ہوتے ہوئے بولی۔ایمان بھی پریشانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔مصطفی نے گاڑی رکوائی۔سبھی فائقہ کی طرف متوجہ تھے۔

"اس کی حالت تو بہت خراب ہو رہی ہے مصطفیٰ۔۔۔ڈاکٹر کو دکھانا پڑے گا۔"

پرخہ نے اپنے سینے سے لگی روتی فائقہ کو دیکھ کر مصطفیٰ سے کہا۔

"ہاں کچھ کرتے ہیں۔"

مصطفیٰ نے ڈرائیور کو چلنے کا اشارہ کیا۔

"کیوں نا ہم غزنوی بھائی کی طرف چلیں۔۔۔"

عنادل کا مشورہ سبھی کو پسند آیا اور مصطفیٰ ڈرائیور کو گائیڈ کرنے لگا۔کچھ دیر بعد وہ غزنوی کے گھر پہنچ گئے تھے۔غزنوی ان سب کو وہاں دیکھکر حیران رہ گیا تھا۔۔

"تم سب یہاں کیسے۔۔۔؟؟"

غزنوی نے مصطفیٰ کے گلے ملتے ہوئے پوچھا۔

"یار فلحال اس بات کو چھوڑو۔۔۔فائقہ کی طبیعت ٹھیک نہیں۔۔اسے ڈاکٹر پہ لے کر جانا ہے۔"

مصطفیٰ نے غزنوی کا دھیان فائقہ کی طرف دلایا۔جو لان میں کین کی کرسی پہ بیٹھی مسلسل روئے جا رہی تھی۔ایمان بھی چہرے پہ پریشانی لئے اسی کے ساتھ تھی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔چلو۔۔۔۔"

غزنوی گاڑی کی طرف بڑھا تو مصطفیٰ نے پرخہ اور ایمان کو اشارہ کیا۔وہ دونوں فائقہ کو سہارا دیئے گاڑی تک لائیں۔پرخہ بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی اور گاڑی تیزی سے گیٹ سے نکل گئی۔

جیسے ہی گاڑی گیٹ سے نکلی وہ ساری اندر کی جانب بڑھیں۔

"بھابھی۔۔۔!! اچھی سی چائے پلوا دیں۔"

مرتضیٰ نے صوفے پہ بیٹھتے ہوئے ایمان سے کہا تو وہ سر ہلاتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔

غزنوی اور مصطفیٰ جب فائقہ کو لئے واپس آئے تو وہ سب وہیں لاؤنج میں ان کا انتظار کر رہے تھے۔فائقہ اب تھوڑی بہتر لگ رہی تھی۔پرخہ نے اسے وہیں بٹھایا۔ایمان اس کے پاس آئی اور اس سے طبیعت کا پوچھا۔فائقہ نے اسے بتایا کہ اب وہ بہتر محسوس کر رہی ہے۔اسے بہتر دیکھ کر ایمان کے چہرے سے پریشانی کے بادل چھٹے تھے۔

سبھی لڑکیاں پریشانی سے پرخہ کی جانب دیکھ رہی تھیں۔اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سب ٹھیک رہنے کا اشارہ کیا تو وہ ریلیکس ہو گئیں۔

"اب اس وقت تو واپس جانا مناسب نہیں۔۔۔گھر فون کر کے بتا دو کہ تم لوگ یہاں ہو اور آج واپس نہیں آ پاؤ گے۔"

غزنوی نے ایک نظر فائقہ کے پاس بیٹھی اس دشمنِ جاں پر ڈالی اور مصطفیٰ سے کہا۔

"بھائی میں نے کر دیا ہے۔"

فروز نے مصطفیٰ کو موبائل نکالتے دیکھ کر کہا۔۔

"ٹھیک ہے تو پھر آرام کرو تم سب۔۔"

غزنوی نے ان سب سے کہا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔وہ سب بھی سونے کے لئے اٹھ گئے۔ایمان اور پرخہ کچن میں تھیں۔پرخہ کو چائے کی طلب ہو رہی تھی۔اس لئے وہ اسکے لئے چائے بنا رہی تھی۔باقی لڑکیاں جیسے ہی ایمان کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچیں۔۔ایک ہنسی کا فوارہ تھا جو پھوٹ پڑا تھا۔

"یار تم بڑی زبردست ایکٹریس نکلیں۔۔۔آج تو تم نے سبھی ایکٹریسز کو پیچھے چھوڑ دیا۔"

لاریب نے فائقہ کی پیٹھ تھپتھپائی۔

"تم لوگوں کو کیا پتہ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے تو میری جان نکلی جا رہی تھی لیکن تھینک گاڈ پرخہ آپی نے بچا لیا۔ورنہ تو بچُو۔۔!! گئے تھے تم سب۔۔۔"

فائقہ اپنی گردن پہ چھری پھیرنے کے انداز میں انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔

"چلو شکر ہے۔۔سب ٹھیک سے ہو گیا۔۔اب آرام کرتے ہیں اگلا پلان کل۔۔۔"

ارفع نے شرارتی انداز میں آنکھ ماری تو سبھی ہنس دیں۔

"اور ہاں یار۔۔۔ایمان کو زرا سا بھی شک نہ ہو کہ یہ سب ہماری پلاننگ تھی۔"

سحرش نے ان سب سے کہا تو وہ سب سر ہلا کر اپنی اپنی جگہ پہ لیٹ گئیں۔۔ایمان نے میٹریسز بچھا کر ان کے لئے سونے کی جگہ بنائی تھی۔سحرش انہیں سونے کا کہتی روم سے باہر آ گئی۔

"چلو نا سونا نہیں ہے کیا؟"

وہ دونوں کچن میں چائے ختم ہونے کے بعد بھی باتوں میں مگن تھیں جب سحرش کچن میں آئی۔

"ہاں بس جا ہی رہے تھے۔"

پرخہ ایمان کے سامنے سے کپ اٹھا کر سنک کی طرف بڑھی۔

"ہییم۔۔۔!! میں بھی سونے جا رہی ہوں۔"

سحرش واپس پلٹ گئی۔

"جاؤ تم بھی آرام کرو۔۔"

پرخہ نے کپ دھوتے ہوئے پلٹ کر ایمان کیطرف دیکھا۔

"جی۔۔۔"

ایمان کو بھی نیند آ رہی تھی اس لئے وہ کچن سے باہر آئی اور لاونج کے صوفے کیطرف بڑھی۔

فائقہ کی طرف سے دھیان ہٹا تو اب یہاں اسے اپنی موجودگی نے شرمندگی سے دوچار کر دیا۔

وہ لاؤنج میں آ گئی۔

"تم اب تک یہاں کیوں بیٹھی ہو؟"

اپنے کمرے کیطرف جاتی پرخہ نے اسے لاؤنج میں بیٹھے دیکھا تو اس کے پاس آ کر ہوچھا۔

"آپکا انتظار کر رہی تھی۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔پرخہ نے مسکرا کر اسے دیکھا اور پھر دونوں کمرے کیطرف بڑھیں۔

"تم یہاں کہاں جا رہی ہو۔۔اپنے کمرے میں جاؤ نا۔"

پرخہ نے اسے غزنوی کے روم کے ساتھ والے روم میں جاتے دیکھ کر کہا۔ایمان خاموشی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔

"چلو جاؤ شاباش اپنے روم میں جاؤ۔۔۔"

وہ اسے غزنوی کے روم تک لے آئیں۔یہی تو ان کا مقصد تھا۔غزنوی اور ایمان کو قریب لانے کا مقصد۔۔تاکہ ایمان ایک بار پھر اپنے فیصلے پہ غور کرے۔وہ جانتی تھی کہ ایمان غزنوی سے الگ رہ کر خوش نہیں رہ سکتی۔

"آپی۔۔پلیز آپ۔۔۔"

پریشانی اسکے چہرے پہ دِکھنے لگی تھی۔

"کچھ نہیں ہوتا۔۔تمھیں پتہ ہے وہاں اور میٹریسز نہیں ہیں۔۔تم کہاں سوؤ گی؟ اچھا چلو تم نہیں چاہتی تو میں مصطفی کو لڑکوں کے روم میں بھیج دیتی ہوں۔وہ وہاں سو جائیں گے۔"

پرخہ نے اسے پریشان دیکھکر کہا۔

"نہیں کوئی بات نہیں۔۔۔آپ جائیں سو جائیں۔۔میں یہاں سو جاؤں گی۔"

ایمان نے کہا تو وہ کمرے کیطرف بڑھ گئیں۔جب تک وہ کمرے میں داخل نہیں ہوئی ایمان وہیں کھڑی رہی۔کچھ دیر وہ وہیں کھڑی رہی اور پھر لاؤنج میں آ گئی۔اس نے لائٹ آف کی اور اپنا ڈوپٹہ پھیلا کر صوفے پہ لیٹ گئی۔سارے دن کی تھکاوٹ نے اسے جلد ہی نیند کی وادیوں میں دھکیل دیا۔

⁦❇️⁩

تمھیں جانے کی جلدی تھی۔۔۔

سو اپنی جلد بازی میں

تم اپنے لمس کی کرنیں، نظر کے زاویے ،پوروں کی شمعیں

میرے سینے میں بھڑکتا چھوڑ آئے ہو۔۔

وہاں تکیے کے نیچے

کچھ سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں،

کسی نوزائیدہ خوشبو کے تازہ خوابچے

بستر کی شکنوں میں گرے کچھ خوبرو لمحے

ڈریسنگ روم میں ہینگر سے لٹکی ایک سترنگی ہنسی کو

بس اچانک ہی پسِ پردہ لٹکتا چھوڑآئے ہو۔۔

تمھیں جانے کی جلدی تھی

اب ایسا ہے کہ جب بھی

بے خیالی میں سہی لیکن کبھی جو اِس طرف نکلو

تو اتنا یاد رکھنا

گھر کی چابی صدر دروازے کے بائیں ہاتھ پر

اک خول میں رکھی ملے گی

اورتمھیں معلوم ہے

کپڑوں کی الماری ہمیشہ سے کھلی ہے

سیف کی چابی تو تم نے خود ہی گم کی تھی

سو۔۔۔

وہ تب سے کھلا ہے اور اُس میں کچھ تمھاری چوڑیاں،

ایک انگوٹھی اور ان کے بیچ میں کچھ زرد لمحے

اور اُن لمحوں کی گرہوں میں بندھی کچھ لمس کی کرنیں،

نظر کے زاویے پوروں کی شمعیں اور سنہرے رنگ کی ٹوٹی ہوئی سانسیں ملیں گی

اور

وہ سب کچھ جو میرا اور تمھارا مشترک سا اک اثاثہ ہے سمٹ پائے

تو لے جانا۔۔۔

مجھے جانے کی جلدی ہے۔۔۔

نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دُور تھی۔کروٹ پہ کروٹ بدل رہا تھا مگر نیند تو جیسے روٹھ گئی تھی۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔پانی کی تلاش میں نظریں سائیڈ ٹیبل پر گئیں مگر ٹیبل خالی تھی۔

وہ پانی پینے روم سے باہر آ گیا۔۔لائٹ آن کی۔۔سیڑھیوں سے نیچے اترتے ہوئے اسکی نظر لاؤنج میں صوفے پہ بےخبر سوئے ہوئے وجود پہ پڑی۔وہ کچن کیطرف جانے کی بجائے صوفے کیطرف بڑھا۔

وہ گلابی ڈوپٹہ خود پہ پھیلائے سوئی ہوئی تھی۔چہرہ بھی ڈوپٹے میں چھپا رکھا تھا۔اسے یاد آیا کہ گلابی رنگ کا لباس تو ایمان نے پہن رکھا تھا۔

یہ خیال آتے ہی وہ صوفے پہ ہاتھ ٹکا کر معمولی سا جھکا اور دوسرے ہاتھ سے اسکے چہرے سے ڈوپٹہ ہٹایا۔

وہ گہری نیند میں تھی۔

غزنوی کی نظریں اسکے چہرے پہ پھسلنے لگیں۔اس نے ٹیبل کو صوفے کے قریب کیا اور وہیں بیٹھ گیا۔نجانے کتنی ہی دیر وہ اسے یونہی دیکھتا رہا۔۔

پھر اس خیال سے کہیں اسکی نیند کھل گئی اور اس نے اسے یہاں بیٹھے دیکھ لیا تو کیا سوچے گی۔وہ اٹھا اور اپنے کمرے کیطرف بڑھ گیا۔وہاں سے اٹھ کر جاتے ہوئے اس کے دل نے شدت سے یہ دعا کی تھی کہ ایمان وہیں اس کے پاس رک جائے۔۔۔

"ارے بی بی۔۔۔آپ۔۔۔یااللہ میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی۔۔"

شاہدہ نے ایمان کو کچن میں دیکھ کر اپنی آنکھیں زور زور سے رگڑ ڈالیں اور جب یقین ہو گیا تو خوشی سے اسکی طرف بڑھی۔ایمان چائے بنا رہی تھی۔اس نے مسکراتے ہوئے اسکی طرف دیکھا۔

"آپ کب آئیں۔۔۔کیا رات کو آئیں تھیں۔۔کیونکہ شام تک تو میں یہیں تھی۔"

شاہدہ نے اس سے پوچھا۔۔۔اسکے چہرے پر حیرت تھی۔

"رات کو۔۔۔کافی دیر سے۔۔۔تم اپنے کوارٹر میں تھی۔۔صرف میں ہی نہیں باقی گھر والے بھی آئے ہیں۔"

چائے تیار تھی۔۔اس نے اپنے لئے چائے کپ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

"اوہ جی۔۔۔بہت اچھا کیا کہ آپ آ گئیں۔۔قسم سے آپ کے جانے سے یہ گھر تو بالکل سُونا سُونا ہو گیا تھا۔صاحب بھی صبح آفس جاتے تو پھر رات گئے لوٹتے ہیں۔گھر میں بالکل خاموشی رہتی ہے۔میں بھی کام ختم کرنے کے بعد اپنے کوارٹر میں چلی جاتی ہوں۔۔اب آپ آ گئیں ہیں تو اس گھر کی رونقیں پھر سے بحال ہو جائیں گی۔۔"

شاہدہ کی آنکھوں میں اسے دیکھ کر جو خوشی کی چمک دِکھی تھی وہ دیکھ کر اسکے مسکراتے لبوں پہ سنجیدگی چھا گئی۔وہ یہ چمک کسی اور کی آنکھوں میں دیکھنے کی خواہش دل میں پال رہی تھی مگر اسے سوائے سرد مہری کے کچھ نہیں ملا تھا۔

"بی بی۔۔اور کون کون آیا ہے ہے۔۔کیا شاہ گل بھی آئیں ہیں آپ کے ساتھ؟"

شاہدہ نے پوچھا۔

"نہیں شاہ گل تو نہیں آئیں۔۔بچیوں نے سب نے مری جانے کا پلان بنایا تھا۔ہم سب مری گئے تھے دو دن کے لئے۔۔کل واپسی تھی مگر راستے میں فائقہ کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔اسی لئے ہم اسے یہاں لے آئے۔۔"

ایمان وہیں ٹیبل کے قریب کرسی نکال کر بیٹھ گئی۔

"اچھا۔۔اب کیسی ہیں فائقہ بی بی۔۔۔؟؟"

شاہدہ نے ناشتے کی تیاری شروع کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔اب بہتر ہے۔"

وہ مختصراً جواب دیتی چائے پینے لگی۔

"تمھارے بچے ٹھیک ہیں؟"

ایمان نے اس سے پوچھا۔

"ہاں جی۔۔۔شکر ہے اللہ کا۔۔بالکل ٹھیک ہیں۔ناشتے میں کیا بناؤں؟"

شاہدہ نے فریج سے آٹا نکالتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"پراٹھے اور آملیٹ۔۔۔میں مدد کر دوں گی۔۔آٹا کم ہو گا اور گوندھ لو۔"

وہ بولی تو شاہدہ نے سر اثبات میں ہلا اور کام میں مشغول ہو گئی۔۔ساتھ ہی ساتھ زبان کے جوہر بھی دکھا رہی تھی۔

ایمان گھونٹ گھونٹ چائے پیتی اسکی باتوں پہ مسکرا رہی تھی جب غزنوی تیزی سے کچن میں داخل ہوا۔ایمان کو وہاں موجود دیکھکر ایک پل کو اسکی آنکھوں کے آگے رات والا منظر گھوم گیا۔وہ ابھی بھی اسی گلابی لباس میں تھی۔

ایمان فوراً رخ پھیر گئی تھی۔۔

"شاہدہ بی بی۔۔۔میں نے تم سے رات کو کچھ کہا تھا اگر تمھیں یاد ہو تو۔۔۔؟؟"

وہ ایمان کو رخ پھیرتے دیکھ کر شاہدہ کی جانب مڑا۔۔جسکے چہرے پہ اب ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔وہ بھی اپنے صاحب کے غصے سے اچھی طرح واقف تھی۔

"جی بس ابھی کر دیتی ہوں۔۔"

وہ اپنے آٹے سے سَنے ہوئے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"میں خود کر لوں گا۔"

وہ غصیلی نظروں سے ایمان کی پشت کو گھورتا باہر نکل گیا۔ایمان نے اسکے جاتے ہی سکھ کا سانس لیا تھا۔

"بی بی۔۔۔آپ جا کر شرٹ استری کر دیں نا۔۔اب وہ خود کیسے کریں گے۔۔پہلے بھی دو شرٹس جلا چکے ہیں اور پھر سارا غصہ مجھ پر نکالا تھا بلکہ کام سے فارغ ہی کر دیا تھا۔وہ تو اللہ بھلا کرے کمیل صاحب کا۔۔وہ عین موقع پر آ گئے اور ہماری جان بخشی ہوئی۔ان دنوں صاحب بڑے غصے میں رہتے تھے۔اب کہیں پھر سے نہ جلا دیں شرٹ ورنہ پھر میری شامت آ جائے گی۔"

شاہدہ نے اسے پچھلے ہفتے کا واقعہ بتایا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔تم ناشتے کی تیاری کرو۔۔۔میں کر دیتی ہوں۔"

وہ چائے ختم کرتے ہوئے بولی۔۔وہ بھی اب سب کے سامنے کوئی دوسرا ہنگامہ کھڑا کرنا نہیں چاہتی تھی۔اس لئے چائے ختم کرتی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسے ناشتے کے متعلق چند ہدایات دیتی کچن سے نکل آئی۔

اس کا رخ غزنوی کے روم کی جانب تھا۔۔دوسری جانب وہ اسی انتظار میں تھا کہ کب روم میں داخل ہوتی ہے۔۔لہذا بڑے آرام سے بیڈ پہ بیٹھا اسکا انتظار کر رہا تھا۔تھوڑی دیر بعد اسے دستک کی آواز آئی۔اس نے خود کو لاپرواہ ظاہر کرنے کے لئے بیڈ سے اپنی شرٹ اٹھائی اور الماری کھول کر کھڑا ہو گیا۔

ایمان اجازت ملتے ہی کمرے میں داخل ہوئی۔۔اس نے غزنوی کو الماری میں کچھ تلاش کرتے ہوئے پایا۔

"لائیں دیں۔۔میں کر دیتی ہوں۔۔۔شاہدہ مصروف ہے۔"

وہ قریب آئی اور شرٹ لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔۔غزنوی مسکراہٹ دباتے ہوئے سیدھا ہوا اور شرٹ اسکی سمت بڑھائی۔۔ایمان کی نگاہیں جھکی ہوئیں تھیں۔۔اس لمحے وہ اسکی سوال کرتی نگاہوں کا سامنا کرنا نہیں چاہتی تھی۔

ایمان شرٹ لے کر آئرن اسٹینڈ کی جانب آ گئی۔شرٹ ٹیبل پہ رکھ کر سوئچ آن کیا اور کچھ لمحے استری گرم ہونے کا انتظار کرنے لگی۔اسی دوران غزنوی بھی اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔وہ خود کو لاپرواہ ظاہر کرتی شرٹ آئرن کرنے لگی مگر کب تک وہ اسکی نظروں کی قید کو سہتی۔۔وہ مسلسل اس پہ نظریں جمائے اسے کنفیوز کر رہا تھا۔۔آخر ایمان کی برداشت جواب دے گئی۔

"آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں؟"

ایمان نے شرٹ اسکی طرف بڑھائی جو غزنوی اس سے لینے کی بجائے اسکے مزید قریب آیا۔۔نظریں اب بھی ایمان کے چہرے کو فوکس کیے ہوئے تھیں۔

"کیوں۔۔۔؟؟ آپ کو ایسے دیکھنا منع ہے کیا؟"

وہ سیدھے اسکی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔

"یہ سب کر کے آپ کیا ظاہر کرنا چاہتے ہیں؟"

ایمان نے شرٹ ایک بار پھر اسکی جانب بڑھائی۔

"میں نے کیا کیا ہے؟"

معصومیت کی انتہا تھی۔وہ اسے یوں دیکھ رہا تھا جیسے کوئی نامکمل شخص اپنے کھوئے ہوئے حصے کو دیکھتا ہے۔ایمان گہری سانس خارج کرتی بیڈ کی جانب آئی اور شرٹ بیڈ پہ رکھی اور دروازے کی جانب بڑھی۔

لیکن اسے پہلے کہ وہ دروازہ کھول کر باہر قدم رکھتی۔۔۔غزنوی اسکے آگے آ کر اسکا راستہ روک گیا۔

"تم نے چوڑیاں کیوں نہیں پہنیں۔۔؟؟"

غزنوی نے اسکی کلائی اپنی نرم گرفت میں لیتے ہوئے پوچھا۔۔۔غزنوی سے اتنے غیر متوقع سوال کی اسے قطعی امید نہیں تھی۔وہ آنکھوں میں حیرتوں کا سمندر لئے اسے دیکھ رہی تھی جو اسکی حالت سے پوری طرح حَظ اُٹھاتا اسے دیکھ رہا تھا۔اسی دوران ایک کمزور لمحے نے غزنوی کو اپنی گرفت میں لیا اور اس نے ایمان کے ہاتھ پہ لب رکھ دیئے۔۔ایمان کو لگا جیسے اسکا دل دھڑکنا بھول گیا ہو۔۔اسکا وجود کسی مجسمے کی صورت وہیں تھم گیا تھا۔وہ چاہ کر بھی اپنا ہاتھ کھینچ نہیں پائی تھی۔

"تمھاری کلائیاں چوڑیوں سے سجی اچھی لگتی ہیں۔"

وہ دوبارہ اسکی کلائی پہ جھکا تھا مگر اس سے پہلے کہ غزنوی کے لب اس کے ہاتھ کو چھو پاتے، ایمان نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ کھینچا۔

"راستہ دیں۔۔"

وہ سرد لہجے میں بولی۔

"ایک شرط پہ۔۔۔۔"

غزنوی نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"شرط۔۔۔۔؟؟ کیسی شرط۔۔؟؟"

ایمان نے پوچھا۔

"اس شرط پہ کہ تم یہاں سے نہیں جاؤ گی۔۔۔یہیں رہو گی میرے پاس۔۔"

غزنوی اپنی شرط بیان کرتا۔۔۔اسکی آنکھوں میں جھانکتا، چہرہ اسکے چہرے کے قریب لایا تھا۔ایمان بے دھیانی میں لگاتار اسی کی طرف دیکھے جا رہی تھی مگر درپردہ وہ اسکی شرط کے پیچھے چھپے معنی تلاش رہی تھی۔

غزنوی مسکرا دیا اور اسکی کھلی آنکھوں میں پُھونک مارتا واش روم کی جانب بڑھ گیا جبکہ وہ پلکیں جھپکاتی وہیں کھڑی رہ گئی۔ ________________________________________


"چلو گرلز۔۔تیاری پکڑو۔۔داجی کا حکم ہے کہ آج کی تشریف لے کر آؤ۔"

وہ سب ناشتے کے بعد گپ شپ میں مگن تھیں جب فروز وہاں آیا۔

"فروز بھائی ابھی کچھ دن اور رک جاتے ہیں نا۔۔"

ملائکہ کا جانے کا بالکل موڈ نہیں تھا۔صرف اسی کا نہیں باقی سب کا بھی فلحال جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔فروز ڈریسنگ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال برش کرنے لگا۔

"کوئی نہیں۔۔۔تم لوگوں کو تو کوئی کام نہیں۔۔لیکن بابا مجھے بار بار فون کر رہے ہیں کہ کب آ رہے ہو۔میں تو نہیں رک سکتا۔

وہ اب ہاتھوں سے بال سنوار رہا تھا۔

"اچھا ایک دن اور۔۔"

ملائکہ نے کہا۔

"نہیں ملائکہ ہم مزید نہیں رک سکتے۔۔"

سحرش نے اسکے بال سنوارے۔

"مگر آپی۔۔۔"

اب کی بار عنادل نے کہا تھا۔

"شاہ گل نے صبح فون کر کے کہا تھا کہ آج واپس آو۔۔چلو اٹھو۔۔۔تیاری پکڑو۔۔میں زرا مصطفی کو قہوہ دے کر آتی ہوں۔"

پرخہ اٹھتے ہوئے بولی اور کمرے سے نکل گئی۔ایمان بالکل خاموش ان کی باتیں سن رہی تھی۔وہ ابھی تک ان لمحوں کے اثر سے نکل نہیں پائی تھی۔

"ایمان۔۔۔!! کہاں گم ہو۔۔صبح سے دیکھ رہی ہوں۔۔کچھ زیادہ ہی چپ ہو۔۔کوئی پرابلم ہے کیا؟"

سحرش نے خاموش بیٹھی ایمان کو متوجہ کیا۔

"آں۔۔۔ہاں۔۔۔کچھ نہیں۔۔"

وہ کھوئی کھوئی سی بولی تھی۔

"لگتا ہے ایمان کا واپس جانے کو دل نہیں چاہ رہا۔"

فائقہ جو اپنے فون میں بزی تھی، ہنستے ہوئے بولی۔

اس کی بات سن کر باقی سب بھی ہنس دیں۔۔صرف سحرش ہی تھی جو اسکے چہرے کو سنجیدگی سے بغور دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان ان سب کے اسطرح ہنسنے پر جھنپ گئی تھی۔

"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔تم لوگ اپنے فضول اور بیکار کے اندازے لگانا بند کرو۔"

وہ یہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔

"لگتا ہے تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔"

ارفع نے شرارتی نگاہوں سے سحرش کی طرف دیکھا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی مگر اس کی شرارت بھانپ گئی تھی۔

"تمھارا مطلب ہے۔۔۔جلدی جلدی ایک اور پلان بنانا پڑے گا۔"

عنادل نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔

"تو پھر کیا کریں ایسا۔۔۔؟؟"

ارفع کھسک کے ان کے قریب ہوئی۔

"آرام سے بیٹھو تم سب۔۔۔کوئی الٹی سیدھی حرکت نہیں کرنی۔۔میں غزنوی سے بات کرتی ہوں۔۔"

سحرش نے اُن سب کو سر جوڑتے دیکھکر کہا اور فون اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

"وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔"

عنادل نے سحرش کے باہر نکلتے ہی کہا۔

"ایمان کا رویہ دیکھا ہے نا۔۔یہ نہ ہو کہ وہ ہم سے بھی ناراض ہو جائے۔سحرش آپی ٹھیک کہہ رہی ہیں۔اگر غزنوی بھائی چاہیں تو ایمان کو روک سکتے ہیں۔وہ بیوی ہے ان کی۔"

فائقہ نے اپنی فلاسفی جھاڑی تو وہ سب بھی اسکی بات سے متفق نظر آئیں۔

"چلو چلنے کی تیار کرو۔۔تم سب نے تو بیگز بھی ایسے کھول کر رکھ دیئے ہیں جیسے کئی دن رہنے کے لئے آئے ہو۔"

لاریب کھڑے ہوتے ہوئے بولی۔۔

اب وہ سب اپنا سامان اپنے سفری بیگز میں رکھ رہی تھیں۔

"تم لوگوں نے تیاری کر لی ہے تو لنچ کے لئے نیچے آ جاؤ۔۔"

وہ سب ابھی ابھی پیکنگ کر کے فارغ ہوئی ہی تھیں کہ ایمان کمرے میں آئی۔۔وہ انہیں لنچ پہ بلانے آئی تھی۔

"آ رہے ہیں۔۔"

عنادل کے کہنے پر وہ پلٹ کر جانے لگی۔

"ایمان۔۔۔!!"

فائقہ کے پکارنے پر وہ رکی اور مڑ کر فائقہ کیطرف دیکھا مگر کہا کچھ نہیں۔

"تم ہم سے ناراض ہو۔۔۔۔آئی ایم سوری اگر تمھیں میری کوئی بات بری لگی ہے تو۔۔"

فائقہ نے قریب آ کر اسکے ہاتھ تھام لئے تھے۔

"نہیں تو۔۔۔بھلا میں کیوں ناراض ہوں گی تم سب سے۔۔"

وہ مسکرائی۔

"ابھی جو تھوڑی دیر پہلے۔۔۔۔ہم نے۔۔۔"

فائقہ خاموش ہوئی۔

"ایسا کچھ بھی نہیں۔۔۔میں بالکل ناراض نہیں ہوں۔۔۔یہ بتاؤ کہ سحرش آپی کہاں ہیں۔۔نیچے لاؤنج میں بھی نہیں تھیں۔"

ایمان نے کمرے میں نظر دوڑائی۔

"وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے اپنا فون لے کر نکلی تھیں۔۔شاید گھر بات کرنی تھی انہوں نے۔"

عنادل نے کہا تو وہ واپس پلٹ گئی۔۔

"اچھا ہوا تم نے یہ نہیں بتایا کہ وہ غزنوی بھائی سے بات کرنے گئی ہیں۔"

ملائکہ اس کے پاس آئی۔

"اب میں اتنی بھی پاگل نہیں ہوں۔"

عنادل نے ناک چڑھائی۔

"چلو شکر ہے۔۔تم نے مانا تو سہی کہ تم تھوڑی پاگل ہو۔"

لاریب نے عنادل کے گلے میں بانہیں ڈال کر کہا تو سوائے عنادل کے سبھی ہنس دیں۔

"ہاں شکر ہے تم پر نہیں گئی۔۔ورنہ تو پوری پاگل ہوتی۔"

عنادل نے اپنا بدلہ چُکایا۔

اب ان کی تُو تُو میں میں پھر سے شروع ہو گئی تھی۔ ____________________________________________


"غزنوی تم نے کیا سوچا ہے اس بارے میں؟"

سحرش نے کمرے کا دروازہ اچھے سے لاک کرتے ہوئے پوچھا۔

"کس بارے میں آپی؟"

وہ سحرش کے اس وقت کال کرنے کا مقصد نہیں سمجھ پایا تھا۔وہ بزی تھا مگر اس وقت سحرش کی کال مصروف ہونے کے باوجود اسے لینی پڑی تھی۔کچھ دیر میں اس کی ایک بہت اہم میٹنگ شروع ہونے والی تھی اور ابھی اسے کچھ اہم پوائنٹس دیکھنے تھے۔

"ایمان کے بارے میں۔۔۔اور کس کے بارے میں۔۔تم بھی نا غزنوی۔۔"

وہ اسکی غیر دماغی پہ کھولتے ہوئے بولی۔

"آپی۔۔۔اس وقت مجھے ایک بہت ضروری میٹنگ اٹینڈ کرنی ہے۔۔میں اس بارے میں گھر آ کر بات کروں گا۔"

وہ مصروف انداز میں بولا تو سحرش ایک گہری سانس خارج کرتی رہ گئی۔اسکی یہ لاپرواہی ہی معاملات کو اس نہج پر لے آئی تھی۔

"غزنوی۔۔میں چاہتی ہوں کہ ایمان تمھارے پاس ہی رہ جائے۔۔تم دونوں مل کر ہی اس رشتے کو ٹوٹنے سے بچا سکتے ہو ورنہ تو۔۔۔میں نے یہی بات ڈسکس کرنی تھی۔۔لیکن تم مصروف ہو تو۔۔۔خیر گھر آؤ تو پھر بات کرتے ہیں۔"

وہ فون رکھنے لگی تھی کہ غزنوی کی آواز آئی۔

"کیا سچ آپ چاہتی ہیں کہ وہ رک جائے؟"

غزنوی نے فائل بند کر کے ایک طرف رکھی۔۔۔سحرش مسکرا دی۔

"ہاں بالکل۔۔۔بلکہ ہم نے آؤٹنگ کا پلان بھی تم دونوں کے لئے بنایا تھا۔۔وہاں جانا اور واپسی پر تمھاری طرف آنا۔۔سب پلاننگ تھی۔"

وہ مزے سے اسے بتا رہی تھی اور وہ حیرانگی سے سن رہا تھا۔

"ہم اسے تمھارے پاس لے آئے اب جلدی آ کر سنبھالو، کیونکہ ہم شام سے پہلے روانہ ہوں گے۔۔بس یہی کہنا تھا تم سے۔۔۔اب کرو کام۔۔۔مگر یاد رہے گھر جلدی آنا اگر ایمان کو روکنا چاہتے ہو تو۔۔۔"

سحرش نے اسے ڈھکے چھپے الفاظ میں سمجھا دیا تھا کہ وہ ایمان کو مزید فورس نہیں کر سکتی۔کیونکہ اس نے ایمان کو منانے کی بہت کوشش کی تھی مگر وہ نہیں مان رہی تھی۔

"ویسے آپی۔۔۔کیا ایمان بھی اس پلاننگ میں شامل تھی؟"

غزنوی نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔

"ارے نہیں۔۔۔کیا تمھیں لگتا ہے کہ ایسا ہوا ہو گا۔۔وہ تو قطعی تیار نہیں تھی۔۔ہم زبردستی لے کر گئے تھے اور یہاں تو وہ فائقہ کی وجہ سے آ گئی تھی۔۔اور ہاں لڑکوں میں سے بھی کسی کو نہیں پتہ۔۔"

سحرش نے اسے بتانا ضروری سمجھا۔

"جی ٹھیک ہے۔۔۔میں میٹنگ ختم ہوتے ہی آ جاؤں گا۔۔اللہ حافظ۔۔!!"

غزنوی فون رکھ چکا تھا۔۔

سحرش بھی فون اپنے ہینڈ بیگ میں رکھتی کمرے سے باہر آ گئی۔اسکا رخ ڈائننگ روم کی طرف تھا۔دوسری جانب غزنوی یہ سوچ رہا تھا کہ ایمان کو کسطرح واپس جانے سے روکے۔۔وہ چاہتا تو اسے زبردستی روک سکتا تھا مگر اب وہ ایمان کے ساتھ سخت رویہ اپنانے کے حق میں نہیں تھا۔وہ چاہتا تھا کہ وہ رکے مگر اپنی مرضی سے۔۔۔لیکن ایسا ہوتا اسے مشکل ہی لگ رہا تھا۔

_________________________________________


ایمان کچن میں تھی۔شاہدہ بھی وہیں کھڑی برتن دھو رہی تھی۔باقی سب لاؤنج میں بیٹھیں گپ شپ لگا رہی تھیں۔۔اسی دوران ایمان کو لاؤنج سے آتے غیر معمولی شور نے متوجہ کیا۔وہ چولھا بند کرتی لاؤنج میں آئی۔

لاؤنج میں دائیں طرف رکھے ڈبل سیٹر صوفے پر بلقیس بیگم بیٹھی رو رہی تھیں۔انکے ساتھ ہی ان کی بیٹی رقیہ بھی پریشان چہرہ لیے ماں کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔سحرش اور پرخہ انہیں خاموش کرا رہی تھیں۔وہ پریشانی سے ان کی طرف بڑھی۔

"کیا ہو گیا بلقیس خالہ۔۔۔؟؟ خیریت تو ہے نا۔۔؟"

ایمان ان کے قریب آئی اور ایک لمحے کو ان کے ساتھ بیٹھی رقیہ کو دیکھا جس کا چہرہ سپاٹ تھا۔

"ارے میرا بیٹا یہاں نہیں تھا ورنہ اسکی مجال تھی جو وہ مجھے گھر سے نکالتی۔۔ہائے میرے اللہ۔۔!! اب میں اس جوان جہان بچی کو لے کر کہاں جاؤں گی۔"

بلقیس بیگم روتے ہوئے بولیں۔۔

سحرش نے عنادل کو اشارہ کیا کہ وہ رقیہ کو وہاں سے لے جائے۔۔عنادل اور باقی سب رقیہ کو لے کر اوپر کمرے میں چلی گئیں جبکہ لاریب کچن کی جانب بڑھ گئی۔

"کیا مطلب۔۔۔کس نے گھر سے نکال دیا ہے آپکو۔۔؟"

ایمان نے حیرانی سے پوچھا۔

"بہو نے۔۔۔ہائے میرا ٹیپو کیسے رو رہا تھا۔"

وہ اپنا سفید ڈوپٹہ چہرے پہ رکھے مزید تیزی سے رو دیں۔

"خالہ۔۔!! آپ یہ لیں پانی پیئں۔۔اور پرسکون ہو کر مجھے ساری بات بتائیں۔"

ایمان نے لاریب کے ہاتھ سے گلاس لے کر ان کے ہاتھ میں دیا۔بلقیس بیگم نے گلاس منہ کو لگایا اور دھیرے دھیرے پانی پینے لگیں۔۔سحرش اور پرخہ سامنے صوفے پر بیٹھ گئیں جبکہ ایمان ان کے پاس ہی بیٹھی تھی۔پانی پی کر گلاس انہوں نے ایمان کو دیا اور ڈوپٹے سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے ایمان کیطرف دیکھا۔

"بیٹا تمھیں برا تو نہیں لگا کہ میں اپنی بیٹی کو لے کر تمھارے در پر آ گئی ہوں۔۔معاف کرنا بیٹا کچھ سمجھ ہی نہیں آئی۔۔غزنوی اور تمھارا خیال آیا تو یہاں چلی آئی۔۔تمھیں برا تو۔۔۔"

"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ خالہ۔۔۔اسے بھی اپنا گھر سمجھیئے۔"

ایمان نے ان کے آنسو پونچھے جو پھر سے ٹوٹی ہوئی لڑی کی صورت ان کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔

"شکریہ بیٹا۔۔اللہ تمھیں سدا خوش اور آباد رکھے۔"

انہوں نے تشکر بھری نظروں سے ایمان کو دیکھا۔۔

"آپ بتائیں تو سہی۔۔آخر ایسی کیا بات ہو گئی؟"

ایمان نے پوچھا۔

"بس بیٹا۔۔۔جب مصیبت آتی ہے تو ہر طرف سے گھیرے میں لے لیتی ہے کہ انسان کو کچھ سُجھائی نہیں دیتا۔۔آج رقیہ کو دیکھنے کچھ لوگ آ رہے تھے۔۔اللہ اللہ کر کے تو اتنا اچھا رشتہ ملا تھا۔رقیہ پسند بھی آ گئی تھی۔۔لڑکا سرکاری اسکول میں استاد ہے۔چھوٹا سا خاندان ہے۔۔مگر میری بہو۔۔۔بے شمار برائیاں نکال کر بیٹھ گئی۔اسکی ایک ہی ضد کہ رقیہ کا رشتہ اسکے بھائی سے کر دیا جائے۔۔ہائے۔۔میں کیسے اپنی بیٹی اس آوارہ کے نکاح میں دے دوں۔۔مگر نہیں۔۔۔۔ہر بار کیطرح چپکے سے لڑکے والوں کے گھر فون کر دیا کہ ہمیں رشتہ منظور نہیں۔"

وہ تفصیل بتاتے ہوئے ایک بار پھر رو دیں۔۔ایمان، سحرش اور پرخہ نے نہایت تاسف سے انکی طرف دیکھا۔

"میں نے کچھ دیر پہلے ان کے آنے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جھٹ انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ ایسی لڑکی کو ہم کیونکر بیاہ کر لے جائیں جس کا پہلے ہی اپنی بھابھی کے بھائی سے چکر چل رہا ہو۔۔میری معصوم بچی پر اتنا بڑا الزام لگا دیا۔۔بہت منایا۔۔ترلے کیے۔۔مگر۔۔۔۔۔"

ایمان کو انہیں اسطرح روتے دیکھ کر بہت دکھ ہو رہا تھا۔

"مت روئیں خالہ۔۔۔اللہ نے ہماری رقیہ کے لئے اس سے بھی بہتر منتخب کر رکھا ہو گا۔آپ یوں رو رو کر خود کو ہلکان مت کریں۔"

ایمان نے انہیں ساتھ لگایا۔

"لیکن خالہ آپکی بہو نے گھر سے کیوں نکالا آپ کو۔۔۔ایک تو رشتہ ختم کروا دیا اوپر سے گھر سے بھی آپکو نکال دیا۔"

پرخہ نے پوچھا۔

"بس بیٹا کہا تو ہے۔۔جب مصیبت آتی ہے تو ہر طرف سے آتی ہے۔۔۔بس یہ پوچھنا میری جان کو آ گیا کہ کیوں ان سے غلط بیانی کی اور کیوں میری بیٹی کے پیچھے پڑی ہے۔۔۔۔بس پھر کیا، وہ ہنگامہ کیا۔۔وہ ہنگامہ کیا کہ اللہ کی پناہ۔۔۔میری بیٹی پر وہ گھٹیا الزامات لگائے اور ہمیں دھکے مار کر گھر سے نکال دیا۔وہ میرا چھوٹا سا ٹیپو رو رو کر کہتا رہا کہ مما دادو کو مت نکالو گھر سے۔۔۔مگر وہ زہرہ ہی کیا جس پہ کسی کے آنسوؤں کا اثر ہو۔۔۔میرا بچہ کتنا رو رہا تھا۔۔"

وہ پھر سے پوتے کو یاد کر کے رو دیں۔

"خالہ۔۔۔آپکا بیٹا۔۔۔۔؟؟"

ایمان نے پوچھا۔

"وہ بیچارہ کام کے سلسلے میں کچھ دن کے لئے شہر سے باہر گیا ہے۔۔بس یہی موقع مل گیا اسکو اور اپنے دل کی مراد پوری کر لی۔"

بلقیس بیگم نے ایمان کیطرف دیکھا۔

"خالہ آپ پریشان نہ ہوں۔۔اللہ سب بہتر کرے گا۔۔آپ آرام سے بیٹھیں، میں آپکے لئے کچھ کھانے کو منگواتی ہوں۔"

ایمان نے انکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔

"ارے نہیں بیٹا۔۔۔۔بھوک نہیں ہے۔۔مجھے تو اپنی بچی کا غم ہے۔۔میرا کیا ہے آج زندگی ہے کل نہیں۔۔۔کیا بنے گا میری معصوم بچی کا۔۔"

پریشانی ان کے چہرے کا احاطہ کیے ہوئے تھی۔

"خالہ آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔۔۔آپ یہاں رہیں اور دیکھئیے گا رقیہ کے لئے اس سے بھی اچھا رشتہ مل جائے گا۔۔اپ کیوں فکر کرتی ہیں۔۔اللہ اپنا کرم کرے گا۔۔انشاءاللہ۔۔!!"

ایمان نے انہیں حوصلہ دیا تھا۔

"آمین۔۔۔!! اللہ تمھیں خوش رکھے بیٹا۔۔۔لیکن ہم تم پر بوجھ نہیں بننا چاہتے۔"

بلقیس بیگم شرمندگی سے بولیں۔

"کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ خالہ۔۔اب آپ نے دوبارہ ایسا کہا تو میں ناراض ہو جاؤں گی۔"

وہ نروٹھے انداز میں بولی تو انہوں نے محبت سے اسے ساتھ لگایا۔

"آپ بیٹھیں میں کچھ کھانے کو منگواتی ہوں۔"

ایمان نے کہا۔

"ایمان تم بیٹھو خالہ کے پاس۔۔۔میں کہہ دیتی ہوں شاہدہ سے۔۔سحرش تم رقیہ کو بلا لاؤ۔۔وہ بھی کچھ کھا لے۔"

پرخہ فوراً اٹھی اور جاتے جاتے سحرش سے رقیہ کو بلا کر لانے کا کہا۔سحرش اٹھ کر سیڑھیوں کیطرف بڑھ گئی۔

ایمان نے ان کے نہ نہ کرنے کے باوجود اپنی نگرانی میں انہیں کھانا کھلایا اور پھر انہیں آرام کرنے کی غرض سے اوپر والے کمرے میں لے گئی۔

__________________________________


"ایمان تم نے تو انہیں یہاں رکنے کا کہہ دیا ہے مگر وہ یہاں کسطرح رہ سکتی ہیں جبکہ تم بھی یہاں موجود نہیں ہو۔"

وہ بلقیس بیگم کو روم میں چھوڑ کر آئی تو پرخہ نے اس سے کہا۔

"کیا مطلب ہے آپی۔۔۔؟؟"

وہ پرخہ کے اتنے سخت رویے پر حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"مطلب یہ کہ ان کا اسطرح یہاں غزنوی کے ساتھ رہنا مناسب نہیں۔۔اگر تم یہاں رہتی تو تب بات کچھ اور ہوتی۔۔لیکن تمھاری غیر موجودگی ان کی بیٹی کے لئے مزید مسائل کھڑے کر سکتی ہے۔۔جو عورت رقیہ کو اپنے آوارہ بھائی کے ساتھ جوڑ سکتی ہے وہ کیا کیا نہیں کر سکتی۔۔کل کو اگر اسے پتہ چلے گا کہ وہ یہاں رہتی ہیں وہ بھی تمھاری غیر موجودگی میں تو کیا کیا نہیں کہے گی۔"

پرخہ نے اسے سمجھایا۔

"پرخہ ٹھیک کہہ رہی ہے ایمان۔۔اور اگر بلقیس خالہ کو یہ معلوم ہوا کہ تم یہاں نہیں رہ رہی ہو تو وہ یہاں نہیں رکیں گی۔۔اگر وہ اکیلی ہوتیں تب بات کچھ اور تھی۔۔۔مگر اب جبکہ انکی جوان بیٹی بھی ان کے ساتھ ہے تو۔۔۔یہاں رہنا قطعی مناسب نہیں لگے گا انہیں۔"

سحرش کی باتیں اسے صحیح لگ رہی تھیں۔۔

"ہم انہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں نا۔۔"

ایمان نے ایک اور حل بتایا۔۔

"مشکل ہے کہ وہ ہمارے ساتھ جائیں۔۔کیونکہ کچھ دن میں ان کا بیٹا واپس آ جائے گا۔۔اور غزنوی کا بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا کہتا ہے اس معاملے میں۔۔"

پرخہ نے اسکی طرف دیکھ کر نفی میں سر ہلایا۔

"تو پھر۔۔۔۔۔؟؟"

اس نے پریشانی سے دونوں کی طرف دیکھا۔

"تو پھر یہ کہ تمھیں ان کے پاس رکنا پڑے گا یہاں۔۔۔پھر جب ان کا بیٹا آ کر انہیں لے جائے گا تو تم واپس آ جانا۔"

سحرش نے اپنی طرف سے حل بتایا۔۔جسے سن کر ایمان کے چہرے کا رنگ اڑ گیا جبکہ پرخہ کے لبوں پہ دبی دبی مسکراہٹ کھیل گئی۔

"تم پریشان کیوں ہوتی ہو۔۔۔غزنوی کو آ لینے دو۔۔وہ دیکھ لے گا سب۔۔"

سحرش نے کہا تو ایمان اٹھ کر کچن کیطرف بڑھ گئی۔

"ویسے سحرش۔۔۔لڑکی تو اچھی ہے۔۔ویسے بھی ایمان اور غزنوی کی علیحدگی ہونے والی ہے تو غزنوی کے لئے رقیہ کیسی رہے گی؟"

پرخہ نے جان بوجھ کر بلند آواز میں کہا تاکہ ایمان سن لے۔۔ایمان کے قدم وہیں تھم گئے۔اس نے پلٹ کر دیکھا وہ دونوں اب دھیمی آواز میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ رہی تھیں۔ایمان سے ایک قدم بھی مزید نہیں لیا گیا۔۔

اس کے کانوں میں ایک ہی تکرار ہو رہی تھی۔۔

غزنوی اور رقیہ۔۔

اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچنا چاہتی تھی۔پرخہ اور سحرش نے پلٹ کر ایمان کی طرف دیکھا جو تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی غزنوی کے روم میں غائب ہو گئی تھی۔

پرخہ نے ہنستے ہوئے سحرش کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلائی جس پہ سحرش نے مسکراتے ہوئے ہاتھ مارا تھا۔۔

اللہ نے انہیں موقع دیا تھا تو وہ اسے کیوں ہاتھ سے جانے دیتیں۔

اب غزنوی کے آنے کی دیر تھی۔۔

___________________________________


غزنوی گھر آیا تو بلقیس بیگم اور رقیہ لاؤنج میں ہی بیٹھی تھیں۔ایمان انہیں آرام کی غرض سے اوپر کمرے میں چھوڑ کر آئی تھی مگر وہ بیس منٹ بعد ہی واپس نیچے آ گئیں تھیں۔ایمان بھی وہیں موجود تھی۔

"السلام علیکم۔۔!!"

غزنوی کی آواز پہ سبھی اسکی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔اس وقت وہاں ایمان، پرخہ اور سحرش ہی موجود تھے۔

"خیریت۔۔۔؟؟"

غزنوی نے بلقیس بیگم کا سرخ چہرہ اور سوجھی ہوئی آنکھیں دیکھیں تو وہ ان کے پاس آیا۔۔مگر اس نے پرخہ سے پوچھا۔۔غزنوی کا پوچھنا تھا کہ بلقیس بیگم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

پرخہ نے ساری تفصیل بتائی تو پہلے تو اسے بہت غصہ آیا مگر پھر بلقیس بیگم کا خیال کر کے وہ ان کے پاس آیا اور انہیں تسلی دی۔

"بیٹا۔۔۔اور کچھ سجھائی نہیں دیا تو میں رقیہ کو لے کر یہاں آ گئی۔۔"

بلقیس بیگم نے بہتی آنکھوں سے غزنوی کی جانب دیکھا۔

"خالہ بیٹا بھی کہتی ہیں اور پرایا بھی کر رہی ہیں۔آپکے بیٹے کا گھر ہے اور رقیہ میری بہن ہے۔۔آپ یہیں رہیں میرے پاس۔۔اور پریشان بالکل نہ ہوں۔"

غزنوی نے بلقیس بیگم کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔

"میں ویسے بھی اکیلا ہوتا ہوں۔۔آپ لوگ میرے ساتھ رہیں گے تو یہاں بھی کچھ زندگی کے آثار دکھائی دیں گے۔"

اس نے کنکھیوں سے ایمان کی طرف دیکھا جس نے اس کی بات پر پہلو بدلا تھا۔

"ائے یہ کیسی بات کی۔۔اکیلے کب ہو۔۔ماشاءاللہ اتنی پیاری بیوی ہے تمھاری۔۔"

بلقیس بیگم نے چہرہ صاف کرتے ہوئے ایمان کی جانب دیکھا۔

"کہاں خالہ۔۔۔ان کی ضد ہے کہ رمضان المبارک اعظم ولا میں گزاریں گی اور میں اپنے کام کی وجہ سے نہیں جا سکت۔۔یہ جا رہی ہیں۔۔تو میں اکیلا ہی ہوا نا۔"

وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔۔سحرش اور پرخہ بھی مسکراہٹ دبائے ہوئے تھیں۔

"ایمان۔۔!! کیا غزنوی ٹھیک کہہ رہا ہے؟"

بلقیس بیگم اب ایمان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔وہ کچھ نہ کہہ سکی۔۔بس خاموش رہی۔۔

"ائے لڑکی۔۔یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔شوہر کو یہاں ملازموں کے سہارے چھوڑ کر جا رہی ہو۔"

وہ ایک دم سے بولیں تو ایمان ان کی بات پر پہلو بدل کر رہ گئی۔

"خالہ۔۔وہ شاہ گل چاہتی تھیں کہ ہم رمضان ان کے پاس گزاریں۔۔اس لئے۔۔۔"

اس نے بات کرتے ہوئے غزنوی کی جانب غصیلی نظروں سے دیکھا۔جو مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"ائے اگر ایسی بات ہے تو پھر بھی شوہر کو یوں اکیلے چھوڑ کر جانا مناسب نہیں۔۔"

بلقیس بیگم نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

"جی وہ شاہ گل نے۔۔۔"

ایمان منمنائی۔

"دیکھو بیٹا۔۔اب تم جا رہی ہو تو ہمارا یہاں رکنا مناسب نہیں لگتا۔۔بھئی اب مالکن ہی گھر میں نہیں ہو گی تو ہم یہاں کیسے رہیں گے۔۔تم خود ہی سوچو کیا یہ مناسب ہے۔۔؟"

بلقیس بیگم کے چہرے پہ پریشانی ایک بار پھر جگہ بنا چکی تھی۔

"خالہ آپ یہاں رہیں۔۔غزنوی نے کہا تو ہے آپ سے۔"

ایمان ان کی پریشانی سمجھ رہی تھی۔

"لیکن تمھاری بات اور ہے بیٹا۔۔۔تم گھر کی مالکن ہو۔۔وہ تو سارا دن باہر ہو گا۔۔سچی بات ہے بیٹا۔۔!! میں تو تمھاری غیر موجودگی میں یہاں نہیں رہ سکتی۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"خالہ آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں۔۔میں اور غزنوی اب۔۔۔"

"خالہ آپ یہاں رہیں۔۔ایمان نہیں جائے گی۔۔کچھ وقت بعد غزنوی کے ساتھ ہی آ جائے گی۔"

اس سے پہلے کہ ایمان اپنی بیوقوفی میں اپنے اور غزنوی کے رشتے کی پول کھولتی۔۔پرخہ جلدی سے بولی۔ایمان نے اسکی طرف دیکھا تو پرخہ نے آنکھوں کے اشارے سے اسے منع کیا۔وہ خاموش رہ گئی۔

"ہاں یہ بات ٹھیک ہے نا۔۔۔"

بلقیس بیگم نے یہ کہہ کر اپنے ساتھ بیٹھی رقیہ کو دیکھا۔جو اس وقت سے ایک لفظ بھی نہیں بولی تھی۔

"رقیہ بیٹا۔۔۔"

انہوں نے اسے اپنے سینے سے لگایا تو وہ اپنے آنسووں پہ قابو نہ رکھ سکی اور ان کے سینے سے لگ کر رو دی۔

سحرش اور پرخہ اسے ان سے الگ کیا اور اسے حوصلہ دینے لگیں جبکہ ایمان انہیں غیر دماغی سے دیکھ رہی تھی۔اس کا ذہن کچھ اور ہی تانے بانے بُننے میں لگا ہوا تھا۔اب جب کہ سب ختم ہونے جا رہا تھا تو اسے یہاں رہنا بالکل مناسب نہیں لگ رہا تھا۔اوپر سے غزنوی کا رویہ۔۔۔۔اس کی سوچ سے بالاتر تھا۔وہ اسے بالکل سمجھ نہیں پا رہی تھی۔وہ یہاں آ کر بری طرح پھنس گئی تھی۔اس نے اس سلسلے میں عقیلہ بیگم سے بات کرنا مناسب سمجھا۔اب وہی اسے بہتر مشورہ دے سکتی ہیں۔

اس لئے اس نے لاونج خالی ہوتے ہی اعظم ولا کال کی۔۔فون شمائلہ بیگم نے اٹھایا تھا۔ان سے حال احوال دریافت کرنے کے بعد اس نے ان سے عقیلہ بیگم سے بات کروانے کا کہا۔

عقیلہ بیگم کی آواز جیسے ہی اسکے کانوں میں پڑی تو اپنی بےبسی پہ اسے رونا آ گیا۔وہ اسے یوں روتے دیکھ کر پریشان ہو گئیں۔ان کے پوچھنے پر اس نے روتے روتے انہیں ساری بات بتائی۔

"یہ تو واقعی بہت دکھ کی بات ہے۔۔کسقدر بدتمیز عورت ہے ان کی بہو کہ اپنے شوہر کی بوڑھی ماں اور جوان جہان بہن کا بھی خیال نہیں کیا۔۔"

وہ بہت افسوس سے بولیں۔

"جی۔۔۔"

وہ اتنا ہی کہہ سکی۔۔۔

"تم نے بہت اچھا کیا جو انہیں وہیں روک لیا۔۔ورنہ وہ بیچاری کہاں کہاں دھکے کھاتی پھرتیں۔"

"جی شاہ گل۔۔۔لیکن آپ میرا مسئلہ بھی تو دیکھیں نا۔۔۔"

ایمان نے اپنی پریشانی کی جانب ان کی توجہ دلائی۔

"بیٹا یہ بات تو بالکل ٹھیک ہے کہ تمھاری غیر موجودگی میں ان کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔۔آجکل لوگ خون کے رشتوں کی پرواہ نہیں کرتے تو پھر منہ بولے رشتے تو کسی کھاتے میں نہیں ہیں۔۔تم وہاں رہو جب تک بلقیس بہن وہاں ہیں۔۔جب وہ چلی جائیں تو فون کر دینا۔۔یہاں سے کوئی بھی آ جائے گا تمھیں لینے۔"

عقیلہ بیگم اسے سمجھانے کی غرض سے بولیں۔

"مگر شاہ گل۔۔میں یہاں نہیں رک سکتی۔۔یہ مناسب نہیں ہے۔"

ایمان نے اپنی بات پہ زور دیتے ہوئے کہا۔

"تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ رشتہ ابھی بھی قائم ہے اور سب سے بڑی بات غزنوی ایسا نہیں چاہتا۔۔وہ ایک اور موقع دینا چاہتا ہے اس رشتے کو اور تمھیں اسکا ساتھ دینا چاہئیے۔ٹھیک ہے ہم نے اپنی جلد بازی میں یہ فیصلہ کیا لیکن وہ بھی اس وقت کے حساب سے تھا۔۔تب ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ غزنوی کیا چاہتا ہے۔"

وہ بہت نرمی سے بولیں۔۔اپنے لہجے سے انہوں نے اس پہ یہ ظاہر کر دیا تھا کہ وہ بھی ان دونوں کو ساتھ دیکھنا چاہتی ہیں۔

"مگر۔۔۔"

ایمان شش و پنج میں مبتلا تھی۔

"اگر مگر کچھ نہیں۔۔اور ویسے بھی ایک ہفتے کی تو بات ہے۔۔بلقیس بہن اپنے گھر چلی جائیں گی۔۔تمھیں اگر تب بھی لگے کہ اب آگے مزید ساتھ نہیں چل سکتا تو آ جانا واپس۔۔چلو اب میں چلتی ہوں عصر کا وقت ہو رہا ہے اور تم پریشان مت ہو۔۔اللہ حافظ۔۔"

انہوں نے اپنی بات کہہ کر فون بند کر دیا۔

"کیا کہا پھر شاہ گل نے۔۔؟"

وہ فون ہاتھ میں پکڑے سوچ میں گم تھی کہ پیچھے سے پرخہ کی آواز پہ پلٹ کر دیکھا۔

"وہ چاہتی ہیں کہ جب تک بلقیس خالہ یہیں ہیں میں یہیں رہوں۔۔"

ایمان نے ریسیور کریڈل پہ رکھ کر اسکی طرف دیکھا۔

"وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں ایمان۔۔جب وہ چلی جائیں تو فون کر دینا۔۔میں مصطفیٰ کو بھیج دوں گی تمھیں لینے۔۔اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔۔نا ہی غزنوی سے ڈرنے کی وہ کچھ نہیں کرے گا جب تک بلقیس خالہ یہاں موجود ہیں اور پھر ان کے جانے کے بعد تو ویسے بھی تم نے یہاں رہنا نہیں ہے۔۔اس لئے ریلیکس رہو اور سب اللہ پر چھوڑ دو۔۔وہ بہتر فیصلہ کرے گا تمھارے لئے۔۔اور پھر ہم سب تو ہیں ہی تمھارے ساتھ۔۔"

پرخہ نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

"چلو اب تم پریشانی کو ایک طرف رکھو اور میرے لئے ایک کپ اسٹرانگ سی چائے بناؤ۔۔میں زرا ان سب کو دیکھوں۔۔مصطفی کہہ رہے تھے کہ تھوڑی دیر میں نکلنا ہے۔"

پرخہ نے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے کہا۔

"اپی۔۔۔آپ لوگ ایک دو دن اور رک جائیں نا۔۔"

ایمان نے ان سے مزید رک جانے کو کہا۔

"مصطفیٰ کے آفس کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں ضرور رک جاتی۔۔۔"

پرخہ نے سہولت سے انکار کر دیا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گئی.

ناچاہتے ہوئے اب اسے رکنا تھا۔۔

عصر کے بعد ان کی روانگی تھی۔غزنوی کو جب معلوم پڑا کہ ایمان نہیں جا رہی ہے تو وہ بہت خوش تھا مگر اس نے یہ خوشی کسی پہ ظاہر نہیں ہونے دی۔ایمان سے اس نے کوئی بات نہیں کی تھی۔

وہ سب اس وقت لاونج میں بیٹھے تھے کہ فروز نے انہیں چلنے کے لئے کہا۔سامان وغیرہ گاڑی میں رکھا جا چکا تھا۔

سب اس سے باری باری مل رہی تھیں۔۔

"اپنا خیال رکھنا۔"

پرخہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولی۔

"جی۔۔"

وہ بہت سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی۔پرخہ نے ایک گہری سانس خارج کی اور گاڑی میں آ بیٹھی۔بلقیس بیگم اور رقیہ بھی وہیں موجود تھیں۔

"چلو یار۔۔پہنچتے ہی فون کر دینا۔"

غزنوی مصطفی سے گلے ملتے ہوئے بولا۔

"ہاں ضرور۔۔۔چلو اللہ حافظ۔۔!!"

باقی سب تو گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔اس کے بیٹھتے ہی ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کی۔اسی دوران گل خان گیٹ کھول چکا تھا۔گاڑی دھیمی رفتار سے گیٹ پار کر گئی۔

گل خان نے ان کے نکلتے ہی گیٹ بند کیا۔بلقیس بیگم نے ایمان اور رقیہ کے ساتھ اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔

غزنوی اسٹڈی میں چلا گیا تھا اور ایمان وہیں لاونج میں رقیہ سے اسکی ہابیز کے متعلق پوچھنے لگی۔کچھ دیر میں مغرب کا وقت ہو گیا تو وہ نماز کے لئے اٹھ گئیں۔

رات کو جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو بارہ بج رہے تھے۔۔نائٹ بلب کی مدھم روشنی میں اسے کچھ بھی واضح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔کچھ لمحے وہیں کھڑی رہی پھر جب آنکھیں نیم تاریکی سے مانوس ہوئیں تو اس نے بیڈ کی جانب قدم بڑھائے۔۔غزنوی بےخبر سو رہا تھا۔وہ بھی دھیرے دھیرے چلتی قریب آئی۔۔اس نے جھک کر غزنوی کی بند آنکھوں کے آگے ہاتھ لہرا کر اسکے گہری نیند میں ہونے کا یقین کیا اور پھر بیڈ کے دوسری جانب آ کر خاموشی سے لیٹ گئی۔

کچھ دیر بعد تھکاوٹ کے باعث اسکی آنکھیں بند ہونے لگیں مگر وہ سونا نہیں چاہتی تھی۔۔لیکن خود کو زبردستی جگائے رکھنے کی اسکی کوشش ناکامیاب رہی اور اگلے چند لمحوں میں نیند اسکا گھیراؤ کر چکی تھی۔

_______________________________________


رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا تھا۔غزنوی نے بلقیس بیگم کے بیٹے سے ان کی بات کروا دی تھی۔ان کا بیٹا بھی حقیقت جان کر بہت غصے میں تھا۔اس نے غزنوی کا بہت شکریہ ادا کیا جس نے اسکی ماں اور بہن کو اپنے گھر میں پناہ دی ورنہ یہ سوچ کر ہی اسکا دل کانپ گیا کہ اسکی ماں اور بہن کہاں جاتیں۔۔اس نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے ہفتے آ جائے گا۔۔

بلقیس بیگم واپس گھر نہیں گئیں تھیں ورنہ اپنے پوتے کو ایک نظر دیکھنے کے لئے ان کی آنکھیں ترس گئی تھیں۔ایک پل کو تو پوتے کی محبت ہر شے پر حاوی ہو گئی تھی اور وہ اس سے ملنے اٹھ کھڑی ہوئیں لیکن رقیہ نے انہیں روک دیا۔

ایمان نے بھی انہیں کچھ دن اور صبر کرنے کو کہا۔

ایمان ان دونوں کا بہت خیال رکھتی تھی لیکن اپنی سچویشن پہ کُڑھنے لگی تھی۔غزنوی سے اس نے بالکل بات چیت بند کر رکھی تھی مگر وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا،وہ جہاں ہوتی وہاں آن موجود ہوتا۔اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا مگر وہ موقع نہ دیتی۔جب وہ آفس میں ہوتا تو آرام سے رہتی لیکن جیسے ہی وہ گھر آتا بلقیس بیگم یا پھر رقیہ کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔اسے خود سے دور رکھنے کے اسی طریقے پر وہ سختی سے کاربند تھی۔

بلقیس بیگم جہاندیدہ خاتون تھی۔اس کا رویہ ان کی نظر سے پوشیدہ نہ رہ سکا تھا۔یہ شک انہیں ایک بار پہلے بھی ہوا تھا مگر تب خیرن نے ان کا وہم ہے کہہ کر ٹال دیا تھا۔مگر اب تو وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں کہ غزنوی جب گھر پہ ہوتا ہے تو کسطرح ایمان کے پیچھے پیچھے رہتا ہے۔اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ اس کی زرا پرواہ نہیں کرتی۔یہ سب دیکھتے ہوئے انہوں نے ایمان سے بات کرنے تہیہ کیا اور اگلے دن جب وہ ان کے ساتھ بیٹھی دھنیا صاف کر رہی تھی تو انہوں نے اس سے پوچھ لیا۔

"تمھارے اور غزنوی کے بیچ کیا کوئی ناراضگی چل رہی؟"

ان کے پوچھنے پر ایمان نے ایک دم سے ان کی طرف دیکھا۔موٹے موٹے عدسوں والی عینک کے پیچھے سے دو آنکھیں اسے اپنا بھرپور جائزہ لیتی محسوس ہوئیں۔

"نن۔۔نن۔۔۔نہیں تو خالہ۔۔۔ایسی تو کوئی بات نہیں۔"

وہ نظریں جھکا کر بولیں کہ کہیں وہ اسکی آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی چُبھن کو نہ پا لیں۔

"اے بہو۔۔!! یہ بال ہم نے دھوپ میں سفید نہیں کیے۔۔وہ جسطرح تیرے آگے پیچھے پھرتا ہے۔۔تجھ سے بات کرنے کے مواقع ڈھونڈتا ہے۔۔یہ تو کسی اندھے کو بھی دِکھ جائے، میں تو پھر آنکھیں رکھتی ہوں۔"

بلقیس بیگم اسکے نگاہیں چرانے پر ہنس کر بولیں۔

اسے سمجھ نہ آئی کہ کیا کہے۔۔۔اس لئے خاموش رہی۔

"ایک بہو میری بھی ہے۔۔تم سے قطعی مختلف۔۔اسے ہر وقت یہ غم لگا رہتا ہے کہ اسکا شوہر اسے توجہ نہیں دیتا۔۔۔پر تمھارے ہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔۔شوہر بیچارہ بات کرنے کو آگے پیچھے پھرتا ہے اور بیوی کے مزاج ہی نہیں ملتے۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔ایک ہمارا زمانہ تھا۔بیوی شوہر کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی تھی۔اس کی ہاں میں ہاں ملاتی تھیں۔۔وہ کہتا تھا کہ دن ہے تو دن کہتیں۔اب تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہے۔"

وہ دھنیے کی نازک ٹہنی ہاتھ میں لیے آنکھوں کو کسی غیر مرئی نقطے پر مرکوز کیے بولیں۔

"ایسی بات نہیں ہے خالہ۔۔"

وہ ان کے صحیح اندازوں پہ اپنی حیرت چھپاتے ہوئے بولی۔

"بیٹا شوہر کا وجود بیوی کے ہاتھ میں برف کی طرح ہوتا ہے، جو رویوں کی گرمائش سے پگھلنے لگتا ہے۔محبت و اعتبار کی ٹھنڈک ہی اسے قائم رکھتی ہے۔۔قیمتی رشتے وقت کی بھیڑ میں کھو جائیں تو انسان اکیلا ہو جاتا ہے۔۔اپنی جگہ پہچانو۔۔۔"

بلقیس بیگم کی بات پہ اس نے پل بھر کو نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ سر ہلا کر مسکرا دیں جبکہ وہ ٹوکری اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔

بلقیس بیگم اسے جاتا دیکھتی رہیں۔⁦

___________________________________


"آپ انسانوں کی طرح کب بی ہیو کریں گے؟"

ایمان جو بلقیس بیگم کی باتوں کے باعث کب سے جلی بھنی بیٹھی تھی، غزنوی کو یوں اپنے پیچھے آتا دیکھ کر بولی۔

"کیا مطلب۔۔؟؟ میں نے ایسی کون سی حرکت کر دی جس سے تمھیں میرے انسان نہ ہونے پر گماں ہونے لگا ہے۔"

غزنوی نے فریج میں سے پانی کی بوتل نکال کر منہ سے لگائی۔

"اب اس وقت تو میرا پیچھا چھوڑ دیں۔"

ایمان نے اپنی آواز ممکن حد تک کم رکھنے کی کوشش کی۔

"تمھارے پیچھے نہ آوں تو پھر کس کے پیچھے آوں؟"

غزنوی نے پانی پیتے ہوئے شرارتی انداز میں اسے دیکھا۔ایمان نے اسے ایک گُھوری سے نوازا۔

"ویسے ایک حل ہے میرے پاس۔۔۔اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمھارے پیچھے پیچھے نہ پھروں تو۔۔۔"

غزنوی گلاس ٹیبل پہ رکھتا اس کے پاس آیا۔

"کیا۔۔؟؟"

وہ جل کر بولی۔

"وہ یہ کہ تم میرے پیچھے بھاگنا شروع کر دو۔"

اس نے غیر سنجیدگی سے کہا۔

"شرم تو نہیں آتی ایسی بات کرتے ہوئے۔"

وہ گلاس ٹیبل سے اٹھا کر اپنی جگہ پہ رکھتی وہاں سے جانے لگی۔

"شرم تو لڑکیوں کو آنی چاہیئے۔۔۔مجھ سے کیا کام شرم کا۔"

وہ ہنس کر بولا تو وہ پیر پٹختی وہاں سے چلی گئی۔

"ارے بیگم۔۔۔رکو تو سہی۔۔۔رمضان میں کوئی نیکی کا کام ہی کر لو۔۔"

وہ پیچھے آیا تھا۔

"آہستہ بولیں۔۔"

ایمان نے غصے سے کہا مگر آواز دھیمی رکھی۔اب وہ بلقیس بیگم کو مزید کوئی موقع نہیں دینا چاہتی تھی اسے لیکچر دینے کا۔

"کیوں۔۔۔۔؟؟"

وہ دھیمے سے بولا۔

ایمان صرف اسے دیکھ کر رہ گئی۔۔آنکھوں میں غصہ بھرا تھا۔غزنوی اس کی جانب جھکا اور اسکی آنکھوں پہ پھونک مارتا تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔

"آو نا۔۔۔یا میں لینے آوں۔۔؟"

اسے وہیں کھڑا دیکھ کر وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے واپس آیا جبکہ وہ اسے دیکھتی رہی۔

"کیا اب آنکھوں سے سالم نگلو گی مجھے؟"

وہ شرارت سے باز نہ آیا۔آج کل اس نے ایمان کے ساتھ یہی رویہ اپنا رکھا تھا۔گھر میں ہوتا تو اسکی ناک میں دم کیے رہتا۔یہی وجہ تھی کہ ایمان اب اس سے کھل کر بات کر لیتی۔۔چاہے اس کی حرکتوں پہ چڑ کر ہی کرتی۔۔مگر کرتی ضرور تھی۔چپ چاپ وہاں سے نکلتی نہیں تھی۔

"ہونہہ۔۔۔!! مجھے کوئی شوق نہیں ہے۔"

وہ آگے بڑھ گئی۔۔

"تو کون یہ کام صرف شوق سے کرتا ہے۔۔کچھ لوگ مجبوراً بھی کرتے ہیں۔۔جیسے تم مجبوراً کرتی ہو اور۔۔۔۔"

وہ پل بھر کو رکا اور اس کے آگے آ کر اسکا راستہ روک دیا۔

"اور میں بہت شوق سے۔۔"

اس نے ایمان کی بھوری آنکھوں میں جھانکا۔غزنوی کی آنکھوں میں نجانے ایسا کیا تھا۔وہ جھنپ گئی اور اس کے سائیڈ سے ہوتی آگے بڑھ گئی۔۔

غزنوی کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

____________________________________⁦


وہ کچن میں افطاری کی تیاری میں مصروف تھی۔شاہدہ اپنے کوارٹر چلی گئی تھی۔رقیہ اس کے ساتھ ہی موجود اسکی مدد کروا رہی تھی۔غزنوی ابھی تک آفس سے نہیں لوٹا تھا۔اس نے فون کر کے بتا دیا تھا کہ آج اسے دیر ہو جائے گی۔اس لئے وہ پرسکون ہو کر کام کر رہی تھی ورنہ اس وقت تو اس کے سر پہ سوار اپنی اوٹ پٹانگ باتوں سے اسکا دماغ کھا رہا ہوتا تھا۔افطاری میں کچھ ہی ٹائم تھا۔اس لئے وہ جلدی جلدی کام نبٹا رہی تھی۔

"بھابھی آج غزنوی بھائی نہیں ہیں تو کتنی خاموشی ہے گھر میں۔۔"

رقیہ پکوڑوں کی پلیٹ اٹھا کر ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولی۔

"شکر ہے۔۔آج سکون ہے تھوڑا۔"

وہ مسکراتے ہوئے ٹشو سے ہاتھ پونچتی بولی۔۔اسی دوران لاونج سے غزنوی کی آواز آئی۔

"لو۔۔۔!! شیطان کا نام لیا اور شیطان حاضر۔۔"

ایمان نے کہا تو رقیہ ہنس دیں۔

"ہائے بھابھی کیسی باتیں کر رہی ہیں۔۔شیطان کہاں۔۔اتنے اچھے تو ہیں غزنوی بھائی۔۔آپ تو بہت خوش نصیب ہیں کہ آپ کو غزنوی بھائی جیسا خیال رکھنے والا ساتھی ملا ہے۔۔"

رقیہ نے اسکی طرف دیکھا۔

"ہاں۔۔۔بہت خوش نصیب ہوں۔۔چلو اب یہ برتن بھی رکھ دو۔۔ٹائم ہونے ہی والا ہے۔"

ایمان نے نل کھول کر ہاتھ دھوتے ہوئے کہا۔

"جی۔۔۔"

رقیہ برتن اٹھا کر ٹیبل پہ لے گئی جبکہ ایمان کچن سے نکل آئی۔وہ لاونج میں آئی تو غزنوی کے ساتھ کمیل بھی موجود تھا۔ایمان کو آتا دیکھ کر وہ کھڑا ہوا۔

"السلام علیکم بھابھی۔۔۔! کیسی ہیں آپ۔۔؟"

کمیل نے سلام کیا۔۔غزنوی جو بلقیس بیگم کے ساتھ باتوں مین مگن تھا اب اسکی طرف دیکھ رہا تھا۔

سبز رنگ کے پرنٹڈ سوٹ میں ملبوس، سرخ چہرہ لئے وہ کمیل کو سلام کا جواب دینے کے بعد اب اس سے حال احوال پوچھ رہی تھی۔

"ایمان۔۔!! آج کمیل ہمارے ساتھ افطاری کرے گا۔"

غزنوی نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کہا۔

"جی۔۔"

وہ اسکی طرف دیکھے بغیر کہتی پلٹ گئی۔تھوڑی دیر بعد وہ سبھی افطاری کی ٹیبل پہ موجود تھے۔

"ارے خالہ میں تو آپکو بتانا بھول گیا۔۔احمد نے فون کیا تھا۔وہ آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ وہ گھر جا کر بات کروا دوں گا۔آپ فارغ ہو جائیں تو پھر میں بات کروا دوں گا آپکی۔"

غزنوی نے بلقیس بیگم کو ان کے بیٹے کی فون کال کے بارے میں بتایا۔

"اچھا بیٹا۔۔۔"

بلقیس بیگم مختصراً کہتی دعا میں مشغول ہو گئیں۔وہ سب بھی دعا کرنے لگے۔

_______________________________________⁦


"آپ یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہیں۔"

وہ اپنی گاڑی کیطرف بڑھ رہا تھا کہ لان میں بیٹھی رقیہ کو دیکھکر وہ اس کے پاس آیا۔وہ جو ریلیکس انداز میں بیٹھی تھی فورا سیدھی ہوئی۔رقیہ کی آنکھیں ناپسندیدگی کا واضح اظہار کر رہی تھیں۔وہ شرمندہ سا ہو گیا۔

"معاف کیجیئے گا۔۔آپ کو شاید میرا یوں آپ کی تنہائی میں مُخل ہونا پسند نہیں آیا۔"

کمیل شرمندگی سے گویا ہوا۔

"شاید نہیں یقینا۔۔"

رقیہ نے بناء اسکی طرف دیکھے کہا۔کمیل نے بغور اسکی طرف دیکھا۔۔تیکھی ناک پہ دھرا غصہ، آنکھوں میں ناپسندیدگی اور سختی سے بھینچے ہوئے لب۔۔۔کمیل کو کچھ تو اس لڑکی میں غیر معمولی سا لگا۔

وہ چونکہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز برت رہی تھی اس لئے وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا تھا۔چائے سرو کرتی وہ گہری سیاہ آنکھوں والی لڑکی اسکی توجہ کا مرکز تھی۔۔

اسے لگا جیسے اس نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔۔لیکن اسے یاد نہیں آ رہا تھا۔

"اب آپ کیا یونہی میرا مطالعہ کرنے میں مصروف رہیں گے کیا؟"

اس کی طنز بھری آواز کمیل کو ہوش میں لے آئی۔مطلب وہ اسکی خود پہ مرکوز نظروں سے باخبر تھی۔وہ مسکرا دیا۔

"آپ مجھے بہت دلچسپ لگیں۔"

وہ بالکل اسکے سامنے بیٹھ گیا۔اس کے بیٹھتے ہی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اللہ حافظ۔۔!!"

وہ اسے بیٹھتا دیکھ کر تیزی سے اٹھی اور ایک پل بھی رکے بغیر تیز تیز قدم اٹھاتی وہاں سے چلی گئی۔

"ہییم۔۔۔۔لڑکی دلچسپ معلوم ہوتی ہے۔"

وہ خود سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا اور پھر اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔اسکے لبوں پہ ٹھہری مسکراہٹ گہری ہوتی جا رہی تھی۔

______________________________________


دن سست روی سے گزر رہے تھے۔عقیلہ بیگم سے اسکی دو تین بار بات ہوئی تھی۔اسی دوران غزنوی نے اسے موبائل فون بھی لے دیا تھا۔اب وہ جس وقت فارغ ہوتا اسے کال کر لیتا یا پھر میسجز کر کر کے اسکی ناک میں دم کیے رکھتا۔تنگ آ کر وہ موبائل کمرے میں ہی چھوڑ دیتی اور جب چیک کرتی تو موبائل میسجز اور مسڈ کالز سے بھرا ملتا۔۔مگر وہ ایک کا بھی جواب نہ دیتی۔کبھی کبھی اسکے اُوٹ پٹانگ میسجز اسکے لبوں پہ ہنسی لے آتے تھے۔وہ حیران تھی کہ وہ اتنا کیسے بدل سکتا ہے یا پھر وہ تھا ہی ایسا۔۔وہ سمجھ نہ پائی تھی۔۔

وہ غصہ ہوتی رہتی مگر وہ چھیڑنے سے باز نہ آتا۔۔

ابھی بھی وہ اسکے بار بار کال کرنے پر اکتائی بیٹھی تھی۔آج اس نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا تھا اسے تنگ کرنے کا۔۔وہ کال کرتا، وہ اٹھاتی تو ہیلو کہہ کر فون بند کر دیتا۔تنگ آ کر وہ موبائل سائلینٹ موڈ پر کرنے ہی والی تھی کہ اسی دوران پھر سے کال آ گئی۔اس نے کال ریسیو کی۔

"آپ کو کیا تکلیف ہے۔۔۔؟؟ آفس میں کوئی کام نہیں ہے آج۔۔کیوں میری جان کھا رہے ہیں؟"

وہ غضبناک انداز میں بولی۔۔۔دوسری جانب غزنوی اپنی ہنسی نہیں روک پا رہا تھا۔

"یار میرا روزہ ہے۔۔کیوں مجھ روزے دار پہ الزام لگا رہی ہو۔"

سنجیدگی سے کہا گیا۔

"افف۔۔۔!! غزنوی اگر آپ مجھے تنگ کرنے سے باز نہ آئے تو میں واپس چلی جاؤں گی۔"

وہ دھمکی دیتے ہوئے بولی۔

"تم جا کر تو دکھاؤ۔۔۔۔میں تو باز نہیں آنے والا۔"

ڈھٹائی کی حد تھی۔

"بھاڑ میں جائیں آپ۔۔"

وہ غصے سے کہتی کال کاٹ گئی۔۔اگلے ہی پل میسج کی ٹُون بجی۔اس نے میسج کھول کر دیکھا۔

"اچھا۔۔ابھی آتا ہوں۔"

اس کا میسج پڑھ کر وہ مسکرا دی اور موبائل سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا۔۔۔اسکے بعد خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔پھر کچھ سوچ کر اس نے موبائل اٹھا کر اپنا پہلا میسج ٹائپ کیا۔

"وہیں رہیئے۔۔"

ایک نرم سی مسکراہٹ نے اسکے گلابی کو چھوا تھا۔۔اس نے موبائل واپس ٹیبل پہ رکھ دیا۔کچھ لمحے یونہی خاموشی کی نظر ہو گئے۔

ایمان نے موبائل کی جانب دیکھا۔۔وہ انجانے میں اسکے میسج کی منتظر تھی مگر خاموشی کا دورانیہ طویل ہوتا گیا۔

وہ موبائل وہیں چھوڑ کر باہر آ گئی۔۔اس نے ساتھ والے کمرے میں جھانکا۔بلقیس بیگم تلاوت کر رہی تھیں۔وہ آہستگی سے دروازہ بند کرتی نیچے آ گئی۔رقیہ کو ڈھونڈتی وہ کچن میں چلی آئی۔شاہدہ سبزی کاٹنے کے ساتھ ساتھ نجانے کون کون سے قصے رقیہ کی سماعت میں انڈیل رہی تھی اور وہ ایک ہاتھ کان پہ رکھے اسے یوں سن رہی تھی جیسے اس سے ضروری اور کوئی کام نہ ہو۔

"کیا ہو رہا ہے بھئی؟"

اسکی آواز پہ رقیہ نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا اور مسکرا دی جبکہ شاہدہ کی زبان کو تالا لگا اور ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔

"بھابھی۔۔!! یہ شاہدہ کتنا بولتی ہے اور وہ بھی نان اسٹاپ۔۔۔"

رقیہ ہنستے ہوئے بولی۔

"ہا باجی۔۔۔۔خود ہی تو کہہ رہی تھیں۔۔۔اور اور۔۔۔۔"

شاہدہ نروٹھے انداز میں بولی تو دونوں ہنس دیں۔

"کوئی بات نہیں شاہدہ۔۔۔یہ بھی تمھیں ایسے سن رہی تھی جیسے یہ ریڈیو پہ خبریں سن رہی ہو۔"

ایمان نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔

"بی بی۔۔۔۔آپ کو پتہ ہے میرا شوہر کیا کہتا ہے۔۔"

شاہدہ نے چھری ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔

"کیا کہتا ہے؟"

ایمان بھی کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔

"وہ کہتا ہے شاہدہ جب تُو بولتی ہے تو لگتا ہے جیسے ڈھول بج رہا ہو۔"

وہ شرماتے ہوئے بولی۔۔جبکہ وہ دونوں اپنی ہنسی پہ کنٹرول نہ رکھ پائیں۔

"ہا باجی۔۔۔"

شاہدہ بیچاری نروٹھے انداز میں کہتی دونوں کے ہنسنے کی وجہ سوچنے لگی۔

__________________________________


"خالہ دیکھیئے تو کون ملنے آیا ہے آپ سے۔۔؟"

وہ ابھی اپنے کمرے سے لاؤنج میں آ کر بیٹھی ہی تھیں کہ غزنوی کی آواز پہ انہوں نے لاونج کے دروازے کی سمت دیکھا۔وہاں غزنوی کے ساتھ اپنے بیٹے احمد کو کھڑے دیکھ کر وہ فورا اسکی طرف بڑھیں۔

"میرا لال۔۔۔میرا بچہ۔۔۔"

وہ روتے ہوئے احمد سے لپٹ گئیں۔

"ارے اماں۔۔۔۔روتے نہیں ہیں۔۔میں آ گیا ہوں نا۔۔اب سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

احمد انہیں ساتھ لپٹائے لپٹائے صوفے تک لے آیا۔رقیہ اور ایمان بھی آواز سن کر باہر آ گئیں تھیں۔رقیہ تو بھائی کو دیکھ کر خوشی سے اسکی طرف بڑھی۔بلقیس بیگم بیٹے کے سینے سے لگیں روئے جا رہی تھیں۔انہیں اسطرح روتے دیکھ کر ایمان کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔احمد نے بلقیس بیگم کے آنسو پونچھے اور انہیں صوفے پہ بٹھایا۔

"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"

رقیہ آنکھوں میں آنسو لئے احمد کے قریب آئی۔اس نے اسے ساتھ لگایا۔

"ارے اماں بس بھی کر دیں۔۔۔آپ اسطرح روئیں گی تو میں واپس چلا جاؤں گا۔"

احمد صوفے پہ ان کے قریب بیٹھ گیا۔رقیہ نے اپنے آنسو پونچھے۔

"تجھے نہیں پتہ احمد۔۔۔"

بلقیس بیگم ایک بار پھر بیٹے کے سینے سے لگ گئیں۔

"بس اماں۔۔۔چلیں آپ میرے ساتھ چلیں گھر۔۔"

وہ انہیں خود سے الگ کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بلقیس بیگم اور رقیہ بھی اٹھ گئیں۔

"یار اتنی جلدی بھی کیا ہے۔۔ابھی تو آئے ہو۔"

غزنوی نے قریب آتے ہوئے کہا۔

"نہیں یار۔۔۔تمھارا اور بھابھی کا بہت شکریہ کہ تم لوگوں نے اماں کا اتنا خیال رکھا۔"

احمد نے تشکر بھری نظروں سے ایمان اور غزنوی کو دیکھا۔

"کیس باتیں کرتے ہو یار۔۔خالہ میری ماں کی جگہ پر ہیں اور رقیہ بہن ہے۔۔"

غزنوی نے بلقیس بیگم کیطرف دیکھا تو وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھتیں مسکرا دیں۔

"بہت شکریہ یار۔۔۔میں ہمیشہ تمھارا احسان مند رہوں گا۔"

احمد اس سے بغلگیر ہوا۔

"تم مجھے شرمندہ کر رہے ہو۔"

غزنوی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ مسکرا دیا۔

"چلیں اماں۔۔۔۔"

احمد نے بلقیس بیگم سے کہا تو وہ سر ہلا کر ایمان کے پاس آئیں۔

"اپنا اور غزنوی کا خیال رکھنا۔۔میں آتی رہوں گی تمھارے پاس۔۔۔"

وہ اس سے ملتے ہوئے بولیں۔اس نے سر اثبات میں ہلایا۔۔

"اچھا بچو۔۔۔اللہ حافظ۔۔۔"

بلقیس بیگم نے الوادعی کلمات ادا کرتے ہوئے احمد کی سنگت میں قدم بڑھایا۔غزنوی اور رقیہ دونوں ان کے ساتھ گیٹ تک آئے تھے۔غزنوی ان کے ساتھ باہر چلا گیا جبکہ وہ وہیں سے پلٹ آئی۔

"السلام وعلیکم شاہ گل۔۔!! کیسی ہیں آپ؟"

ایمان فون کان سے لگائے لاونج میں آئی۔غزنوی بھی وہیں صوفے پہ آنکھیں بند کیے محو استراحت تھا۔ایمان کی آواز سن کر آنکھیں کھول کر ایک نظر اسکی جانب دیکھا اور پھر دوبارہ آنکھیں بند کرلیں۔آج سنڈے تھا تو وہ گھر پہ ہی تھا۔

"وعلیکم السلام۔۔!! الحمداللہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم سناؤ۔۔"

شاہ گل نے اس سے پوچھا تھا۔

"یہاں سب ٹھیک ہے۔۔شاہ گل آپ مصطفیٰ بھائی کو کب بھیجیں گی مجھے لینے۔"

وہ کنکھیوں سے غزنوی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔وہ جانتی تھی کہ اسکےکان اسی کی جانب لگے ہیں۔

"یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں شاہ گل۔۔کب ہوا یہ۔۔۔اور بابا۔۔بابا ٹھیک تو ہیں نا؟"

اسکے سوال کے جواب میں شاہ گل نے اسے جو بتایا وہ سن کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔غزنوی نے پٹ سے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔ایمان کے چہرے سے پریشانی ہویدا تھی اور آنکھوں میں تیزی سے پانی جمع ہونے لگا تھا۔ہاتھوں کی کپکپاہٹ اور خاموش لب۔۔۔اسے لگا وہ ابھی گر جائے گی۔وہ صوفے کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے بیٹھ گئی۔۔بھل بھل بہتے آنسوؤں سے اسکا چہرہ بھیگتا جا رہا تھا۔

"کیا ہوا ایمان؟"

وہ قریب آیا۔۔مگر وہ گم سم سی اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔کسی انہونی کا احساس غزنوی کی رگ و پے میں سرایت کر گیا۔اس نے فوراً اسکے ہاتھ سے موبائل لے کر کان سے لگایا۔

"السلام و علیکم شاہ گل۔۔۔کیا ہوا ہے؟؟ سب ٹھیک تو ہے نا؟"

غزنوی کی نظریں خاموش آنسو بہاتی ایمان پہ تھیں۔

"وعلیکم السلام۔۔بیٹا۔۔۔!! ایمان ٹھیک ہے؟"

عقیلہ بیگم نے اس سے ایمان کا پوچھا۔۔ان کے لہجے میں پریشانی تھی۔

"وہ تو سُدھ بُدھ کھوئے بیٹھی ہے۔۔آپ بتائیں تو صحیح، آخر ہوا کیا ہے؟"

"بابا۔۔۔۔!!"

ایمان نے باپ کو پکارتے ہوئے بے طرح رو دی۔

"بیٹا یہاں سب ٹھیک ہے۔۔لیکن ایمان کے والد کو گولی لگی ہے۔ابھی کچھ دیر پہلے تمھارے داجی کو گاوں سے فون آیا تھا۔۔۔وہ جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔"

عقیلہ بیگم نے بہت دکھ سے بتایا۔۔ایمان کے رونے کی آواز ان کے کانوں تک بھی پہنچ رہی تھی۔

"اوہ۔۔!! کب ہوا یہ اور کس نے۔۔؟"

غزنوی نے ایمان کیطرف دیکھا جو روئے جا رہی تھی۔

"جس نے بھی فون کیا تھا اس نے بتایا کہ رشید خان کا پھر سے بادشاہ خان کے اڈے پر آنا جانا شروع ہو چکا تھا۔بادشاہ خان کو ہی لوگوں نے دیکھا گولی چلاتے ہوئے۔باقی تفصیل تو وہاں جا کر ہی معلوم ہو گی۔تمھارے داجی بتا رہے تھے کہ رشید خان کی حالت کافی تشویشناک ہے۔تم ایمان کو لے جاؤ گاؤں۔۔اس کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔اگر تم فارغ نہیں ہو تو اسے گل خان کے ساتھ بھیج دو۔"

عقیلہ بیگم نے تفصیل بتانے کے ساتھ ساتھ اسے اعظم احمد کا پیغام بھی دے دیا۔

"جی میں لے جاتا ہوں۔"

وہ دل میں آتے مزید سوال ترک کرتے ہوئے بولا۔

"ایمان کو حوصلہ دو۔۔اس کڑے وقت میں تمھارا ساتھ بہت اہمیت رکھتا ہے۔یہ ایک واحد رشتہ ہی رہ گیا اسکے پاس۔۔اللہ اپنا رحم کرے۔۔آمین۔۔!!"

عقیلہ بیگم ایمان کا دکھ اپنے دل پہ محسوس کر رہی تھیں۔

"آمین۔۔!!"

غزنوی نے دھیرے سے کہا۔

"تمھارے داجی تھوڑی دیر میں نکل رہے ہیں۔۔اچھا اللہ حافظ۔۔!"

عقیلہ بیگم نے الوادعی کلمات کہے۔

"شاہ گل۔۔!! کیا آپ بھی جا رہی ہیں؟"

غزنوی نے کچھ سوچ کر پوچھا۔

"ہاں بیٹا۔۔۔تمھارے داجی مجھے بھی چلنے کے لئے کہہ رہے ہیں۔"

عقیلہ بیگم نے گہری سانس خارج کی۔

"جی۔۔یہی مناسب رہے گا۔۔ہم بھی نکلتے ہیں۔۔اللہ حافظ۔۔!"

یہ کہہ کر اس نے موبائل ٹیبل پہ رکھا اور ایمان کے پاس بیٹھ گیا جو چہرہ ہاتھوں میں چھپائے ہچکیوں سے رو رہی تھی۔

"ایمان حوصلہ کرو۔۔"

اس نے ایمان کے چہرے سے ہاتھ ہٹائے۔۔اسکا آنسوؤں سے تر سرخ چہرہ اسکے سامنے تھا۔

"اللہ نے چاہا تو وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔۔چلو شاباش آنسو پونچھو اور کچھ سامان رکھو ہم ابھی جائیں گے۔"

غزنوی نے اسکی پلکوں سے ٹوٹتے موتی اپنی پوروں سے چن لیے۔۔وہ فوراً اٹھی اور کمرے کی طرف بڑھ گئی۔غزنوی بھی گل خان سے بات کرنے اٹھ کھڑا ہوا۔۔پہلے اس نے شاہدہ کو اپنے جانے کا بتایا اور پھر گل خان سے گاڑی نکالنے کو کہا۔

اسکے بعد وہ واپس کمرے میں آیا تو ایمان سوٹ کیس تیار کر چکی تھی۔

"تم چینج کر لو۔۔۔"

غزنوی نے اسکے ملگجے کپڑوں کی طرف اشارہ کیا۔۔وہ خاموشی سے اٹھی، الماری سے اپنے کپڑے لئے اور واش روم کی طرف بڑھ گئی۔غزنوی نے اپنی پاکٹ سے موبائل نکالا اور کمیل کو کال کر کے اسے سارے بات بتائی۔

"یار کچھ پتہ نہیں۔۔۔کتنے دن لگ جائیں۔۔ویسے تو سہیل صاحب ہیں مگر ایک آدھ چکر لگا لینا تم بھی۔"

اس نے ایک ہاتھ سے بال سنوارتے ہوئے کہا۔

"فکر نہ کرو۔۔۔میں دیکھ لوں گا۔"

دوسری جانب سے کمیل نے کہا۔

"تھینک یو یار۔۔"

اس نے شکریہ ادا کرتے ہوئے موبائل جیب میں رکھ دیا۔اسی دوران ایمان بھی واش روم سے باہر آئی تھی۔اسے باہر آتے دیکھ کر غزنوی سوٹ کیس اٹھا کر باہر نکل گیا۔وہ بھی اسکے پیچھے آئی تھی۔ اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔گل خان گیٹ کھول چکا تھا۔اگلے چند لمحوں میں گاڑی ہوا سے باتیں کرتی سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ ___________________________________________


جب وہ حویلی پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ان کی گاڑی تیزی سے حویلی کا گیٹ پار کرتی گیٹ سے کچھ ہی فاصلے پر رک گئی تھی۔

"مجھے ہاسپٹل جانا ہے۔۔آپ مجھے یہاں کیوں لے آئے ہیں؟"

ایمان نے اسکی جانب دیکھا۔ان کے رکتے ہی چوکیدار دوڑتا ہوا ان کے پاس آیا تھا۔

"مجھے نہیں معلوم وہ کون سے ہاسپٹل میں ہیں۔راستے میں بھی میں فون کرتا رہا ہوں داجی کو، مگر وہ فون نہیں ریسیو کر رہے ہیں۔یہاں پوچھ لیتے ہیں۔"

غزنوی نے اس سے کہا اور پھر چوکیدار کی طرف متوجہ ہوا۔

"خلیل خان۔۔۔داجی۔۔۔۔"

ابھی اس نے اتنا کہا ہی تھا کہ ڈیش بورڈ پہ رکھا اسکا موبائل بجنے لگا۔اس نے فون اٹھا کر دیکھا تو اعظم احمد کا نمبر دیکھکر کال ریسیو کی۔

"جی داجی۔۔۔!! السلام و علیکم۔۔۔ہم پہنچ گئے ہیں۔کون سے ہاسپٹل میں ہیں آپ لوگ۔۔؟"

غزنوی نے ان سے پوچھتے ہوئے چوکیدار کو جانے کا اشارہ کیا جو اسکا منتظر کھڑا تھا۔وہ اسکا اشارہ پاتے ہی چلا گیا۔

"وعلیکم السلام۔۔غزنوی ہم یہاں ایک پرائیویٹ ہاسپٹل میں ہیں۔تم گل شیر سے کہو وہ لے آئے گا تم لوگوں کو، اسے راستہ معلوم ہے۔"

اعظم احمد کو معلوم تھا کہ وہ راستہ سمجھ نہیں پائے گا اس لئے اسے گل شیر کو ساتھ لانے کو کہا۔

"جی۔۔۔کیا شاہ گل بھی وہیں ہیں آپ کے پاس؟"

غزنوی نے عقیلہ بیگم کی بابت پوچھا۔

"ہاں بیٹا وہ یہیں ہیں۔۔آپریشن ہو گیا ہے لیکن رشید خان ابھی بےہوش ہے لیکن ڈاکٹر اس کی حالت اب خطرے سے باہر بتا رہے ہیں۔"

اعظم احمد نے اس کے پوچھنے سے پہلے بتا دیا۔

"ٹھیک ہے داجی۔۔۔ہم آ رہے ہیں۔"

اس نے موبائل ڈیش بورڈ پہ رکھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔

"آپریشن ہو گیا ہے۔۔انکل ابھی بےہوش ہیں مگر خطرے سے باہر ہیں۔"

وہ ایمان کو اپنی جانب منتظر نظروں سے دیکھتا پا کر بولا۔ایمان کے چہرے پہ سکون کی لہر دوڑ گئی۔

اس نے گاڑی ریسورس کی اور گیٹ کے قریب آ کر رک گیا۔

"خلیل خان۔۔۔گل شیر کدھر ہے۔۔اسے بلاؤ۔۔ہمارے ساتھ ہاسپٹل چلنا ہے اسے۔"

غزنوی نے گیٹ کے قریب بیٹھے چوکیدار سے کہا۔

"جی صاحب۔۔۔!!"

وہ سرونٹ کوارٹر کی طرف بڑھ گیا۔تھوڑی دیر بعد خلیل خان گل شیر کو لئے ان کی طرف آیا۔گل شیر خلیل خان کا بڑا بیٹا تھا۔چہرے سے لگ رہا تھا کہ اسے نیند سے جگایا گیا ہے۔

"السلام و علیکم چھوٹے صاحب۔۔!!"

وہ پچھلی سیٹ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔!!"

غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی اور گیٹ سے باہر نکالی۔پچھلی سیٹ پر بیٹھا گل شیر اسے راستہ بتاتا جا رہا تھا۔بیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد وہ ہاسپٹل پہنچ چکے تھے۔

"صاحب میں واپس چلا جاؤں؟"

غزنوی گاڑی سے نکلنے لگا تو پیچھے بیٹھا گل شیر بول پڑا۔۔

"ٹھیک ہے جاؤ۔"

اس کے کہنے کی دیر تھی وہ تیزی سے گاڑی سے نکلا۔۔ایمان بھی باہر کھڑی غزنوی کا انتظار کر رہی تھی۔رشید خان کے خیریت سے ہونے کی اطلاع سن کر وہ پرسکون تو ہوئی تھی مگر چہرے پہ بےچینی کے تاثرات اب بھی قائم تھے۔

وہ گاڑی لاکڈ کرتا اسکے پاس آیا۔

"چلیں۔۔"

وہ اسے ساتھ لئے آگے بڑھا۔ریسپشن پہ بات کرنے کے لئے وہ آگے ہوا ہی تھا کہ دائیں جانب سے آتے اعظم احمد نے اسے پکارا تو وہ وہیں رک گیا۔

"السلام علیکم داجی۔۔! بابا کیسے ہیں؟"

اُس سے پہلے ایمان ان کی طرف بڑھی۔

"پریشانی کی بات نہیں ہے بیٹا۔۔رشید خان اب بہتر ہے۔

بس ابھی دواوں کے زیر اثر سو رہا ہے۔آو میں تمھیں لے چلوں۔"

وہ اس سے کہتے ہوئے غزنوی سے بغلگیر ہوئے اور پھر ان دونوں کو ساتھ لئے آگے بڑھے۔دائیں طرف مڑنے پر ایمان کو عقیلہ بیگم بینچ پہ بیٹھی دکھائی دیں۔وہ تیز قدموں سے چلتی ان کے پاس آئی اور ان کے سینے سے لگ گئی۔

"نا بچے۔۔۔اللہ نے اپنا کرم کیا ہے۔۔اللہ کے حضور شکرانے کے نوافل ادا کرو۔۔تمھارے بابا کو اللہ نے دوسری زندگی دی ہے۔"

وہ اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولیں۔

وہ آنسو پونچھتی ان سے الگ ہوئی۔

"السلام علیکم شاہ گل۔۔!!"

غزنوی نے عقیلہ بیگم کو سلام کیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔جیتے رہو۔۔تم تو جاتے ہو بیٹا تو پلٹ کر فون تک نہیں کرتے۔"

عقیلہ بیگم نے اسکے سر پہ ہاتھ پھیرا مگر اس سے شکوہ کرنا بھی نہیں بُھولیں تھیں۔وہ شرمندہ سا ہو گیا۔

"آؤ بیٹا میں تمھیں اندر لے جاوں۔"

اعظم احمد نے ایمان سے کہا تو وہ اٹھی اور ان کے ساتھ سامنے والے روم میں چلی گئی۔

"یہ سب ہوا کیسے شاہ گل۔۔؟"

ایمان کے جاتے ہی غزنوی نے عقیلہ بیگم سے پوچھا۔

"بس بیٹا۔۔۔عقل کا اندھا ہے رشید خان۔۔پہلے کتنی مشکل سے اسکے چنگل سے نکالنے کے لئے تمھارے داجی نے زمینوں پہ کام سے لگایا تھا۔بس کچھ ہی دن من لگا اور پھر سے وہی سب۔۔جُواری کب جُوا گری چھورتا ہے۔۔بادشاہ خان کے ساتھ پھر سے اڈے پر جانے لگا تھا۔آج بھی صبح وہیں گیا تھا۔اللہ معاف کرے اُس کمبخت نے اس مقدس مہینے میں بھی جوے کا اڈا کھول رکھا ہے۔وہیں پیسوں پہ لڑائی ہو گئی اور بادشاہ خان نے غصے میں آ کر اس پہ فائر کر دیا۔۔یہ تو اللہ نے اپنا کرم کیا کہ لوگوں کے روکنے پر اسکا نشانہ چُوک گیا اور گولی رشید خان کو چھو کر نکل گئی۔خون بہت زیادہ بہنے کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک تھی۔"

عقیلہ بیگم نے اسے ساری بات تفصیل سے بتائی جو ابھی کچھ دیر پہلے اعظم احمد نے انہیں بتائی تھی۔

"اور اب کہاں ہے بادشاہ خان؟"

اس نے ان سے پوچھا۔۔اسی بیچ اعظم احمد روم سے باہر آئے۔

"وہ جیل میں ہے۔۔اتنی آسانی سے چھوٹے گا نہیں۔بہت سے لوگوں کے سامنے یہ سب ہوا۔۔کچھ تو گواہی دینے کو بھی تیار ہیں اور کچھ بادشاہ خان کے ڈر سے پیچھے ہٹ گئے۔پہلے پہل تو پولیس والے اسے گرفتار ہی نہیں کر رہے تھے یہ تو میں نے انسپیکٹر سے بات کی تو کوئی ایکشن لیا گیا۔"

وہ بینچ پہ بیٹھ گئے۔

"داجی مضبوط کیس جب تک نہیں بنے گا تو اس نے تو باہر آ ہی جانا ہے۔میں خود جاؤں گا تھانے۔"

وہ مضبوط لہجے میں بولا۔

"ہاں بالکل۔۔لیکن تم فکر مت کرو، بادشاہ خان پہ ایک کیس تھوڑی نا ہے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے کیس ہیں اس پہ۔۔پہلے تو کوئی ڈر کے مارے گواہی نہیں دیتا تھا اب دیکھنا سارے آگے آئیں گے۔"

اعظم احمد نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"شاہ گل مغرب کا وقت قریب ہے۔چلیں میں آپکو اور ایمان کو گھر چھوڑ آوں۔"

کچھ دیر بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔"

وہ گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"میں ایمان کو بلاتا ہوں۔"

عقیلہ بیگم کے سر ہلانے پہ وہ کمرے میں داخل ہو گیا۔

وہ ان کے قریب کرسی گھسیٹے، ان کا ہاتھ ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔

"ایمان۔۔۔!"

اس کے پکارنے پر ایمان نے پلٹ کر دیکھا۔ایمان نے رشید خان کا ہاتھ بہت نرمی سے واپس رکھا اور اسکی جانب متوجہ ہوئی۔

"چلو میں تمھیں اور شاہ گل کو حویلی چھوڑ آؤں۔"

وہ قریب آ کر دھیرے سے بولا۔

"مگر یہاں بابا اکیلے۔۔۔"

وہ دھیرے سے کہتی کھڑی ہوئی۔

"میں ہوں نا۔"

غزنوی نے اپنی طرف اشارہ کیا۔

"آپ چلے جائیں۔۔میں رک جاتی ہوں بابا کے پاس۔"

وہ جانا نہیں چاہتی تھی اس لئے پلٹ کر اپنی جگہ پہ جا بیٹھی۔

"چلو اٹھو۔۔۔افطاری کے بعد آ جانا۔۔تم تھک گئی ہو گی اور پھر وہاں شاہ گل اور داجی بھی اکیلے ہونگے۔"

غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا تھا۔ایمان نے اسے ناراضگی بھری نظروں سے دیکھا تو اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے چلنے کا اشارہ کیا۔

"جب انہیں ہوش آ جائے گا تو میں آ جاؤں گا تمھیں لینے۔"

اسکے کندھے پہ بازو پھیلائے وہ اسے لئے دروازے کی طرف کیطرف بڑھتے ہوئے بولا۔ایمان نے سر اثبات میں ہلایا اور پھر ایک بار پلٹ کر رشید خان پہ ایک نظر ڈالتی باہر نکل گئی۔

غزنوی اسے، عقیلہ بیگم اور اعظم احمد کو حویلی لے آیا۔مغرب کا وقت قریب تھا اس لئے وہ آرام کرنے کی بجائے کچن میں آ گئی۔اعظم احمد اور شاہ گل نے غزنوی کو بھی کچھ دیر کے لئے روک لیا تھا۔ ____________________________________________


رشید خان کو ہوش آ گیا تھا۔کمزوری کی وجہ سے اسے ایک دو دن اور ہسپتال میں رہنا تھا۔پولیس آ کر اسکا بیان بھی لے گئی تھی۔اعظم احمد اور بیٹی کے سامنے یہ اعتراف اسے شرمسار کر گیا کہ وہ پھر سے جوا کھیلنے لگا تھا۔انسپیکٹر صاحب نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ بادشاہ خان کو کڑی سے کڑی سزا دلوائیں گے۔

ڈاکٹرز کی بھرپور توجہ کی بدولت رشید خان تیزی سے صحت یاب ہو رہا تھا۔تین دن بعد اسے ڈسچارج کر دیا گیا۔غزنوی رشید خان کو حویلی لے آیا تھا اور اب ایمان باپ کی تیمارداری میں لگی رہتی۔غزنوی بھی رشید خان کی میڈیسن کا خیال رکھتا، اسے ڈریسنگ کے لئے ہاسپٹل لے کر جاتا۔رشید خان اور غزنوی کے بیچ جو تھوڑی بہت جھجھک تھی وہ اب ختم ہو گئی تھی۔آج بھی معمول کے مطابق جب وہ رشید خان کو ڈریسنگ کروانے کے بعد واپس آیا تو ایمان وہیں لان میں ان کا انتظار کر رہی تھی۔گاڑی سے نکلتے ہوئے ان دونوں نے بھی ایمان کو دیکھ لیا تھا۔۔وہ دونوں کسی بات پہ مسکراتے ہوئے اسکی جانب آ رہے تھے۔وہ اٹھ کر رشید خان کی طرف بڑھی۔

"کیا کہا ڈاکٹر نے۔۔؟"

وہ باپ کے سینے سے لگی پوچھ رہی تھی۔

"ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اب زخم کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہے۔بس ایک دو بار اور پٹی بدلوانے جانا پڑے گا۔"

رشید خان نے اس کے سر کا بوسہ لیتے ہوئے کہا۔وہ باپ کے رویے میں اسقدر تبدیلی دیکھکر حیران ہوتی تھی۔بچپن میں جب وہ ان کے قریب جاتی تھی تو وہ اسے دھتکار کر پرے کر دیا کرتے تھے مگر ان کے اتنے روکھے رویے کے باوجود وہ ان کے پاس جانا نہیں چھوڑتی تھی۔اس نے دیکھا تھا کہ اسکی سہیلیوں کے بابا ان سے کتنا پیار کرتے، ان کے لئے کھلونے لاتے، وہ بھی چاہتی تھی کہ جب وہ کھیل رہی ہو تو اسکے بابا آ کر اسے گود میں اٹھائیں، اسے پیار کریں۔۔مگر ایسا ہونا تو دور کی بات رشید خان اسے قریب تک آنے نہیں دیتا تھا۔وہ بارہا اپنے رویے سے جتاتا رہتا تھا کہ اسے بیٹے کی چاہ تھی اور وہ بیٹی تھی۔

ماں سے سوال کرتی تو وہ بہلا پھسلا کر اسکا دھیان کسی اور جانب کر دیتی تھیں۔۔پھر ماں کے جانے کے بعد تو وہ اسے بھول ہی گئے تھے۔۔

لیکن آج سب کچھ بدل گیا تھا۔۔جو محبت اور شفقت اسے چاہئیے تھی وہ اسے مل رہی تھی۔۔

"کیا سوچ رہی ہو بیٹا۔۔؟"

رشید خان نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں بابا۔۔۔میں آپ کے لئے کچھ کھانے کو لاؤں؟"

وہ اپنے خیالات جھٹکتی بولی۔

"نہیں۔۔۔بس تھک گیا ہوں۔۔کچھ دیر آرام کروں گا۔"

رشید خان نے اندر کی جانب قدم بڑھا دیئے، شاید وہ بیٹی کے چہرے پہ پھیلتی حیرانی سے اب مانوس ہو چکا تھا۔

"ہماری طرف بھی کچھ نظر کرم ہو جائے۔۔ہم سے پوچھا جائے کہ ہمیں کیا چاہیئے؟"

غزنوی جو اتنی دیر سے خاموش بیٹھا تھا، رشید خان کے جاتے ہی بولا۔۔انداز میں شرارت چھلک رہی تھی۔

"کیوں آپ کا روزہ نہیں ہے؟"

ایمان نے اسکی طرف حیرانی سے دیکھا۔

"روزہ تو ہے مگر۔۔۔۔۔کھانے پینے کے علاؤہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے جسکی چاہ کی جا سکتی ہے۔"

وہ معنی خیزی سے کہتا قریب آیا۔

"شرم تو نہیں آتی روزے میں بھی۔۔۔۔"

ایمان نے آگے کچھ بھی کہنے سے گریز کیا اور پلٹ کر اندر کی جانب بڑھ گئی جبکہ غزنوی کے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ _______________________________________________


انہیں گاؤں آئے کافی دن ہو گئے تھے۔اعظم احمد تو جب سے آئے تھے روز کہیں نہ کہیں نکل جاتے، آج وہ زمینوں پہ گئے تھے اور اپنے ساتھ غزنوی اور رشید خان کو بھی لے گئے تھے۔ایمان اور عقیلہ بیگم حویلی میں ہی تھیں۔جب سے گاؤں والوں کو پتہ چلا تھا کہ عقیلہ بیگم بھی آئی ہیں تو روز کوئی نہ کوئی ان سے ملنے آ جاتا۔عقیلہ بیگم سب سے ہی بہت شفقت اور ملنساری سے ملتی تھیں۔

آج بھی کوئی خاتون ان سے ملنے آئی ہوئی تھی اس لئے وہ مہمان خانے میں تھیں۔ایمان کمرے میں بیٹھی بیٹھی بور ہونے لگی تو وہ بھی مہمان خانے چلی آئی۔

"شاہ گل۔۔۔کیا میں آ جاؤں؟"

اندر داخل ہونے سے پہلے ایمان نے ان سے اجازت لینا ضروری سمجھا کیونکہ جو عورت ان کے ساتھ بیٹھی تھی وہ بہت دھیرے بات کر رہی تھی جیسے اسے کسی دوسرے کے اسکی بات سن لینے کا خدشہ ہو۔

"آ جاؤ بیٹا۔۔"

عقیلہ بیگم نے پلٹ کر اسے دیکھا اور پھر اندر آنے کی اجازت دی۔وہ عورت اب کچھ فاصلے پہ ہو کر بیٹھ گئی تھی۔ایمان اس عورت کو سلام کرتی عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔وہ عورت اب مسکراتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔

"ماشاءاللہ۔۔۔بہت سنا تھا ایمان کے بارے میں۔۔۔آج دیکھ بھی لیا۔۔بالکل اپنی ماں جیسی ہے۔بڑے صبر والی عورت تھی اسکی ماں۔"

وہ عورت ایمان کو دیکھتے ہوئے بولی۔

"آپ اماں کو جانتی ہیں؟"

اپنی ماں کے متعلق سن کر اس نے اشتیاق سے پوچھا۔

"ہاں بالکل جانتی ہوں۔۔تمھاری ماں تو میری سہیلی تھی۔بیاہ کر ہمارے گھر کے قریب ہی آئی تھی۔ہم دونوں میں بڑی گہری دوستی تھی۔پھر میری شادی ساتھ والے گاؤں میں ہوگئی تو ملنا ملانا کسی حد تک کم ہو گیا تھا۔تمھاری پیدائش کے بعد میں اس سے کوئی تین چار بار ہی ملی ہوں گی، پھر تمھارے باپ کیوجہ سے وہ بھی ختم ہو گیا۔"

وہ گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولی۔اسکی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔۔ماں کے ذکر پر ایمان کی آنکھیں بھی آبدیدہ ہوگئیں۔

"تم سے ملنے تو میں کئی بار آئی تھی مگر تمھارے باپ نے ملنے ہی نہیں دیا۔"

یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اچھا شاہ گل۔۔۔اب میں چلتی ہوں۔اگر ہو سکے تو۔۔۔۔"

وہ عورت کچھ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔

"ہاں ہاں تم فکر مت کرو۔۔میں آج ہی بات کروں گی۔۔انشاءاللہ کچھ نہ کچھ حل نکل آئے گا۔"

عقیلہ بیگم نے اس تسلی بھرے الفاظ کہے تو وہ شکریہ ادا کرتی وہاں سے چلی گئی۔

"شاہ گل ان کا کیا مسئلہ تھا؟"

ایمان نے عقیلہ بیگم سے پوچھا۔۔۔وہ ابھی اور باتیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ شاید جلدی میں تھی اس لئے رکی نہیں۔

"اس کی بیٹی کی شادی کا مسئلہ ہے۔بچپن میں اپنی رضامندی سے رشتہ طے کر دیا تھا۔اب لڑکے والے منکر ہو گئے ہیں۔رشتے کی بات پورے خاندان کو پتہ تھی اس لئے اب خاندان سے کوئی بھی آگے نہیں آ رہا۔۔بیٹی ابھی کم عمر ہے مگر یہ جلد سے جلد اسکی شادی کرنا چاہتی ہے۔اسکی بہن اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگ رہی ہے مگر اسکا شوہر اس رشتے کے لئے راضی نہیں کہ شادی صرف اسکے خاندان میں ہو گی ورنہ وہ بیٹی کی شادی برادری سے باہر نہیں کرے گا۔اب یہ کوئی بات ہے بھلا۔۔وہ بھی اسی کی بہن ہے۔۔زات برادری کے چکر میں پڑ کر اتنے اچھے رشتے کو ٹھکرا رہا ہے۔"

عقیلہ بیگم نے افسوس سے کہا۔

"شاہ گل۔۔۔یہ مرد کی کون سی قسم ہے۔۔کبھی باپ بن کر ظالم بن جاتا ہے تو کبھی شوہر۔۔۔تو کبھی بھائی بن کر اپنے غصے کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔۔یہ کیوں اپنی نام نہاد انا کو ہمارا خون پلاتے رہتے ہیں۔کیوں عزت عزت کہہ کر ہمارے ماتھے پہ بےعزتی کا داغ لگا دیتے ہیں۔۔کیا سکون ملتا ہے انہیں معصوم چہروں کو تاریکی کی چادر میں چھپا کر۔۔۔کیوں نہیں سمجھتے کہ ہم عورتیں بھی انسان ہیں، نرم احساسات رکھنے والی مخلوق۔۔۔تیز لہجوں سے مر جانے والی۔۔۔یہ مرد کیوں ایسا کرتا ہے؟"

عقیلہ بیگم کی بات سن کر اسکے زخم ہرے ہو گئے تھے۔

"سب ایک جیسے نہیں ہوتے بیٹا۔۔۔اچھے برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔۔کہیں عورتیں سمجھنے سے قاصر ہو جاتی ہیں تو کہیں مرد سمجھ کر بھی نہیں سمجھنا چاہتا۔"

وہ اسکی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولیں۔

"مگر سزا کی حقدار ہمیشہ عورت ہی ٹھہرتی ہے۔۔میں نے تو ایسا ہی دیکھا ہے شاہ گل۔"

وہ شاید اس اندیکھی گرہ کو کھولنا چاہتی تھی جو اس کے دل و دماغ میں بندھی تھی۔

"ایسا تھوڑی ہے۔۔کبھی کبھی عورت بھی مرد کو سزا دیتی ہے۔۔خاموشی کی سزا۔۔"

انہوں نے اسکی آنکھوں میں جھانکا تو وہ ان کی بات سمجھ کر نظریں جھکا گئی۔

"میں نے کب سزا دی ہے۔"

ان کا مطلب سمجھ کر وہ نروٹھے لہجے میں بولی۔

"کیا تمھیں غزنوی کے لہجے میں نرمی اپنا احساس نہیں دلاتی۔۔؟ بولو۔۔۔۔"

انہوں نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے۔

"اس میں بدلاؤ میں محسوس کر رہی ہوں تو یقیناً تم بھی محسوس کر رہی ہو گی۔۔اس لئے اب جب کہ وہ اپنی انا کے خول سے نکل آیا ہے تو تم بھی اس خاموشی کو توڑ دو۔۔۔"

عقیلہ بیگم نے اسکا چہرہ اونچا کیا۔۔وہ خاموشی سے ان کی آنکھوں میں دیکھتی رہی اور پھر نظریں جھکا گئی۔

"ظہر کا وقت ہو گیا ہے میں نماز پڑھ لوں۔"

وہ اسکے سر پہ ہاتھ رکھتیں کمرے سے نکل گئیں۔

"اتنی آسانی سے تو نہیں۔۔۔جب تک چیخ چیخ کر نہیں کہے گا تب تک تو نہیں۔"

ایمان کی آنکھوں میں چمک اور لبوں پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی۔۔یقیناً وہ بھی غزنوی کی نگاہوں میں چھپے راز کو پا چکی تھی۔ _____________________________________________


وہ عشاء کی نماز اور تراویح پڑھ کر فارغ ہوئی تو کمرے سے باہر آ گئی۔لاؤنج میں مکمل سناٹا تھا۔شاہ گل بھی اپنے کمرے میں تھیں۔رشید خان ابھی وہیں تھا۔اُس نے کئی بار اپنے گھر جانے کا ارادہ ظاہر کیا مگر اعظم احمد نے اسے روک لیا تھا۔

وہ تینوں عشاء اور تراویح پڑھنے کے بعد حویلی کے مردان خانے میں ہوتے تھے کچھ دیر وہاں گزار کر واپس آتے۔۔۔وہ باہر لان میں آ گئی۔

شاہ گل نے پھر دوبارہ اس سے غزنوی کے بارے میں بات نہیں کی تھی۔لیکن کسی نہ کسی بات کو یہی پیراہن پہنا کر اس کے سامنے کر دیتی تھیں۔وہ بھی جانتی تھی کہ برف پگھلنے لگی ہے مگر وہ چاہتی تھیں کہ ایمان خود فیصلہ لے۔انہوں نے اسے آج صبح ہی بتایا تھا کہ اعظم احمد نے طلاق کے پیپرز تیار کروا لئے ہیں اور یہ کہ وہ اسکے فیصلے کو عزت دینا چاہتے ہیں۔

یہ سن کر وہ خاموش رہ گئی تھی۔عقیلہ بیگم نے اسے فیصلہ کرنے کے لئے کہا تھا۔وہ تب سے سوچ رہی تھی کہ کیا کرے۔۔

اب بھی وہ اسی ایک بات کو لئے خیالوں میں گم تھی کہ کسی نے اسکی آنکھوں کے آگے چٹکی بجائی۔

اس نے چونک کر اپنے سامنے کھڑے غزنوی کو دیکھا۔

"کیا میرے بارے میں سوچ رہی تھی؟"

وہ مسکرایا۔

"بالکل بھی نہیں۔"

وہ اٹھ کر جانے لگی۔

"مجھ سے بھاگنا چھوڑ دو۔"

سنجیدگی میں لپٹی گھمبیر آواز ایمان کے کانوں سے ٹکرائی۔اس نے پلٹ کر غزنوی کو دیکھا۔

"خوش فہمی ہے آپکی۔"

وہ مسکراہٹ روک کر بولی۔

"اچھا۔۔۔تمھیں کس نے کہا کہ مجھے خوش فہمی ہے۔۔مجھے تو پورا یقین ہے کہ تم میرے بارے میں ہی سوچ رہی تھی۔"

غزنوی نے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"اور بھی اہم کام ہیں میرے پاس۔"

وہ اسکے اتنے صحیح اندازے پہ حیران ہوئی تھی مگر اپنے تاثرات چھپا گئی۔

"یہاں دیکھو میری طرف۔۔۔"

وہ اسکے نگاہیں پھیر لینے پر اس کے سامنے آیا۔

"بتاؤ اب۔۔۔"

وہ دونوں ہاتھ اسکے کندھے پہ رکھتے ہوئے تھوڑا سا جھکا۔۔ایمان نے اسکی آنکھوں میں انتظار کو ٹھہرتے دیکھا۔

"اتنی آسانی سے تو نہیں۔۔۔"

ایمان نے دل ہی دل سوچا اور یہ سوچتے ہی اسکے دل میں شگوفے پھوٹنے لگے تھے مگر اس نے اپنے چہرے سے کچھ بھی ظاہر ہونے نہیں دیا۔

"ہاں میں آپ ہی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔"

اس نے سنجیدگی سے کہا۔

"کیا۔۔۔۔؟"

غزنوی کے لب مسکرائے تھے۔

"یہی کہ آپ سے چھٹکارا کب ملے گا۔"

اس نے غزنوی کی آنکھوں میں جھانک کر بےرحمی سے کہا۔غزنوی کے لبوں کی مسکراہٹ پل میں غائب ہوئی تھی۔ایمان اسی سنجیدگی سے اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ایک پل کو بھی نگاہیں نہیں پھیریں تھی۔

"مجھ سے چھٹکارا تو تمھیں مر کر ہی ملے گا۔"

یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا جبکہ ایمان اسے نگاہوں سے اوجھل ہونے تک دیکھتی رہی۔ __________________________________________


"آپ نے مجھے بلایا داجی۔۔۔!"

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو وہ صوفے پہ بیٹھے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے سر کے اشارے سے اسے اجازت دی۔وہ اندر آئی تو سائیڈ والے صوفے پہ عقیلہ بیگم اور غزنوی بیٹھے تھے۔

"جی داجی۔۔؟"

وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"بیٹا اب تمھارے والد صحت یاب ہو گئے ہیں اور اپنے گھر جانا چاہتے ہیں۔میں اور تمھاری شاہ گل بھی تھوڑی دیر تک واپس چلے جائیں گے۔میرا خیال ہے کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔۔۔یہ کچھ آخری روزے ہیں، ہمارے ساتھ گزار لو۔۔"

اعظم احمد نے ہاتھ میں پکڑی تسبیح ایک جانب رکھتے ہوئے کہا۔

"جی داجی۔۔۔بابا مجھ سے بھی کہہ رہے تھے کہ وہ گھر جانا چاہتے ہیں۔میں تو سوچ رہی تھی کہ کچھ دن ان کی دیکھ بھال کے لئے انکے پاس رک جاتی ہوں مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہیں اور مجھے اپنے گھر جانا چاہیئے۔"

ایمان نے بھی رشید خان سے ہوئی بات ان کے گوش گزار کر دی۔

"ٹھیک ہے۔۔۔گل شیر لے جائے گا اسے۔۔۔لیکن میرا اور تمھاری شاہ گل کا خیال ہے تم ہمارے ساتھ چلو۔۔کچھ دن بعد غزنوی بھی آ جائے گا۔"

اعظم احمد نے اسے اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہا۔ایمان نے شاہ گل کیطرف دیکھا جو اس کے جواب کی منتظر تھیں۔

"ٹھیک ہے داجی میں آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گی۔ویسے بھی میں نے تو آنا ہی تھا۔شاہ گل سے کہا تھا کہ وہ مصطفیٰ بھائی کو بھیج دیں جب انہوں نے بابا کے بارے میں بتانے کے لیے فون کیا تھا۔"

وہ شاہ گل کیطرف ہی دیکھ رہی تھی۔

"لیکن غزنوی چاہتا ہے کہ تم اسکے ساتھ اسلام آباد چلو۔۔"

شاہ گل نے ساتھ بیٹھے غزنوی کی طرف دیکھا۔

"نہیں شاہ گل میں اسلام آباد نہیں جاننا چاہتی۔"

ایمان نے انکار کیا۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔تو ہم تھوڑی دیر میں نکل رہے ہیں۔۔تم اپنا سامان رکھ لو۔"

اعظم احمد نے اس سے کہا تو وہ سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔وہاں سے اپنے روم میں آئی اور الماری میں سے اپنے کپڑے نکال کر اپنے سفری بیگ میں ڈالنے لگی۔اپنا سامان رکھنے کے بعد اس نے سوچا کہ غزنوی کا سامان بھی پیک کر دیتی ہے اس لئے وہ غزنوی کے کپڑے الماری سے نکالنے لگی۔ابھی وہ کپڑے نکال کر سوٹ کیس میں ڈال ہی رہی تھی کہ غزنوی تن فن کرتا کمرے میں داخل ہوا۔

"تم نے یہ کیوں کہا کہ تمھیں ان کے ساتھ جانا ہے جبکہ تم میرے ساتھ جاؤ گی۔"

غزنوی نے اسکے ہاتھ سے جھٹکے سے اپنی شرٹ کھینچی جو وہ ابھی سوٹ کیس میں رکھنے جا رہی تھی۔ایمان کو معلوم تھا کہ وہ ابھی اس سے سوال و جواب کرنے آئے گا۔اس لئے وہ پرسکون دکھائی دے رہی تھی۔وہ بہت جلد اپنا ٹیمپر لوز کر لیتا ہے اوپر سے وہ مسلسل اسکی ذات کی نفی کر رہی تھی۔اسکے ساتھ وہی رویہ اپنائے ہوئے تھی جو اس نے اسکے ساتھ شروعات میں روا رکھا تھا۔

"میں آپ کے ساتھ نہیں جا رہی۔۔اسی لئے تو انہیں کہا۔"

ایمان نے اسکے ہاتھ سے شرٹ کھینچی۔

"تم میری نرمی سے ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو، میں تمھیں کچھ کہہ نہیں رہا تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ تم میرے سر پہ چڑھ جاؤ۔۔میں نے کہہ دیا ہے کہ تم میرے ساتھ اسلام آباد جا رہی ہو اینڈ ڈیٹس اِٹ۔"

غزنوی نے اسے بازو سے پکڑ کر جھٹکے سے چھوڑا۔۔وہ اسکا ٹھنڈا ٹھار رویہ دیکھ کر وہ مزید تپ گیا تھا اور اپنے غصے پہ قابو نہ رکھ سکا۔

"میں ان کے ساتھ جاؤں گی اور آپ مجھے نہیں روک سکتے۔"

وہ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے ضدی لہجے میں بولی۔

"کیا ایک بات سمجھ میں نہیں آ رہی؟"

غزنوی بغور اسکا جائزہ لیتے ہوئے بولا۔

"آپ پلیز جائیں یہاں سے اور مجھے میرا کام کرنے دیں۔"

ایمان نے اس کے غصے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کہا۔۔

"ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔"

وہ سنجیدگی سے کہتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان اسکے جانے کے بعد سر جھٹک کر واش روم کی جانب بڑھ گئی۔

پھر غزنوی نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اعظم احمد اور عقیلہ بیگم کے ساتھ اعظم ولاء آ گئی۔ _______________________________________


اعظم ولاء میں سبھی اسے ان کے ساتھ دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے۔شمائلہ بیگم اسے بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی تھی۔وہ ان کی جانب دیکھنے سے کترا رہی تھی کیونکہ انکی آنکھیں جو سوال اس سے پوچھ رہی تھیں انکا جواب اسکے پاس نہیں تھا۔خیرن بوا نے خلاف مزاج اسے گلے سے لگا کر اسکا شکریہ ادا کیا تھا کہ اس نے ان کی بہن اور بھانجی کا خیال رکھا۔اس وقت وہ اپنے کمرے میں اپنے کپڑے ترتیب سے الماری میں لگا رہی تھی۔روم میں آنے کے فوراً بعد اس نے حویلی فون کر کے ملازمہ سے غزنوی کے بارے میں پوچھا تھا۔ حویلی کی ملازمہ نے اسے بتایا کہ وہ ان کے نکلنے کے آدھے گھنٹے بعد اسلام آباد کے لیے روانہ ہوا تھا۔انھیں یہاں پہنچے تقریباً پینتالیس منٹ ہو گئے تھے۔وہ بار بار گھڑی پہ نظر ڈال رہی تھی۔

ابھی غزنوی کے اسلام آباد پہنچنے میں وقت تھا۔اس لئے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

"ایمان کیا کر رہی ہو بیٹا۔۔ارے رہنے دیتی۔۔شگفتہ کر لیتی یہ کام۔"

شمائلہ بیگم کمرے میں آئیں اور بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولیں۔

"کوئی بات نہیں امی۔۔۔میں کر لوں گی۔"

وہ الماری بند کرتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"غزنوی کے ساتھ کیوں نہیں گئی تم؟"

شمائلہ بیگم نے اسے بغور دیکھا۔

"یونہی۔۔۔۔"

اس سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا۔

"یونہی۔۔۔۔؟؟ اس کا مطلب ہے کہ تم ابھی بھی اپنے فیصلے پر قائم ہو؟"

شمائلہ بیگم کے الفاظ میں ناراضگی صاف چھلک رہی تھی۔ایمان خاموشی سے انہیں دیکھے گئی۔

"ابھی میں داجی کی بات سن کر آ رہی ہوں۔انہوں نے تمھارے لئے کہیں رشتے کی بات بھی کر رکھی ہے اور عید کے بعد اس کام کو انجام دینے کا سوچ رہے ہیں۔ان کے خیال میں اگر تم نے اپنا فیصلہ بدلنا ہوتا تو تم ان کے ساتھ یہاں نہ آتی بلکہ غزنوی کے ساتھ جاتی جبکہ وہ چاہتا بھی تھا کہ تم اس کے ساتھ جاؤ۔مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی ایمان۔۔"

وہ اسکی جانب سے رخ پھیر گئیں۔

"میں اپنا فیصلہ بدل چکی ہوں امی، اور جہاں تک کسی اور سے رشتے کی بات ہے تو میں غزنوی کے علاؤہ کسی اور کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔"

ایمان نے ان کی ناراضگی ظاہر کرنے کے انداز پہ مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا۔شمائلہ بیگم نے فوراً اس کی جانب پلٹ کر دیکھا۔وہ اسے بےیقین نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔

"سچ کہہ رہی ہوں۔۔میں یہاں آئی ہی اس لئے ہوں کہ داجی سے بات کر کے اس بات کو ختم کر دوں۔۔میں جانتی ہوں کہ ناصرف آپ بلکہ کوئی بھی نہیں چاہتا کہ یہ رشتہ ختم ہو۔سچ پوچھیں تو اسلام آباد جانے سے پہلے میں اپنے فیصلے پر قائم تھی اور اپنے فیصلے پر قائم بھی رہتی اگر میں وہاں غزنوی کے بدلے ہوئے رویے کو محسوس نہ کر لیتی۔وہ بالکل بدل گئے ہیں۔۔میرے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کر رکھا انہوں نے۔۔شروعات میں تو میں اسے ان کا ڈرامہ سمجھتی رہی کہ شاید وہ سب کی موجودگی کے باعث ایسا رویہ اپنائے ہوئے ہیں مگر سب کے جانے کے بعد بھی وہ ویسے ہی تھے۔اس لئے میں نے سوچا کہ انھیں ایک اور موقع دے دوں۔۔اور اپنا بدلہ بھی لے لوں۔"

آخر میں وہ ہنستے ہوئے بولی۔

"شرارتی لڑکی۔۔۔اب تم میرے بیٹے سے بدلہ لو گی۔"

شمائلہ بیگم نے اسکا کان نرمی سے پکڑا۔۔

"اتنا تو میرا بھی حق بنتا ہے۔"

وہ شرارت سے بولی۔۔شمائلہ بیگم اسکے کھلے کھلے چہرے کو دیکھکر مسکرا دیں۔

"ویسے تم کہو تو یہ خوشخبری میں خود دے آؤں داجی اور شاہ گل کو۔"

شمائلہ بیگم کھڑے ہوتے ہوئے بولیں۔

"جی۔۔۔"

وہ انہیں اجازت دیتی اپنے باقی کپڑے الماری میں ہینگ کرنے لگی اور شمائلہ بیگم خوشی خوشی شاہ گل کو بتانے چلدیں۔ _________________________________________


پھر جب شمائلہ بیگم نے سب کو بتایا تو سبھی یہ جان کر بہت خوش ہوئے کہ ایمان نے اپنا فیصلہ بدل لیا ہے اور اب وہ سبھی اسکے سر ہو رہی تھیں۔

"اوئے ہوئے۔۔۔یہ کرشمہ کب ہوا؟"

لاریب نے اسکے کندھے سے کندھا ٹکرایا۔

"کرشمہ ہوا نہیں ہوئی۔۔"

ملائکہ نے ہنستے ہوئے کہا۔وہ ایمان کے فیصلے سے بہت خوش تھی۔جب سے اسے پتہ چلا تھا کہ ایمان نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہے تو اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔

"یہ کیا تم لوگ ہوا، ہوئی لگائے بیٹھے ہو۔۔ہٹو مجھے بات کرنے دو۔"

سحرش نے لاریب اور ملائکہ کو ہٹایا جو ایمان کو گھیرے بیٹھی تھیں۔

"ہمارے پلان نے آخر اپنا کمال کر ہی دیا۔"

فائقہ نے شرارتی انداز سے پہلے سحرش اور پھر فائقہ کو دیکھا۔جو اب وہی پیٹ دُکھنے والی ایکٹنگ کر کے سب کو بتا رہی تھی اور ان سب سے اپنی ہنسی روکنا محال ہو رہا تھا جبکہ ایمان ہونقوں کی طرح ان سب کے چہرے دیکھ رہی تھی۔

"ارے ہماری بہو رانی۔۔۔کچھ سمجھ آیا یا نہیں؟"

فائقہ پیٹ پہ ہاتھ رکھے ایمان کے قریب آئی۔

"تو کیا وہ سب۔۔۔ڈرامہ۔۔"

ایمان نے حیرت بھری نظروں سے اسے دیکھا۔

"تو اور کیا۔۔ورنہ تم کس کے قابو کی تھی۔۔۔یہ میری لاجواب اداکاری ہی تھی جس نے آج ہمیں یہ دن دکھایا۔"

فائقہ نے اپنے فرضی کالر کھڑے کیے۔

"تم نے تو صرف ایکٹنگ کی تھی جبکہ پلان تو پریشے اور سحرش آپی کا تھا۔"

لاریب نے مزید پول کھولی۔

"لیکن یہ تو مانو گی نا کہ کیا زبردست ایکٹنگ کی تھی میں نے۔۔"

فائقہ نے ایمان کے چہرے کو فوکس کرتے ہوئے کہا۔

"تو کیا ہمارا مری جانا اور مری سے اسلام آباد جانا۔۔۔وہ سب ایک پلان تھا؟"

ایمان پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔اسے اب بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ سب پلاننگ تھی۔

"جی۔۔۔۔بالکل پلان تھا۔۔"

ارفع بھی میدان میں آئی۔

"یار حد ہے چالاکی کی۔۔۔تم لوگوں نے مجھے بَھنک تک نہیں لگنے دی۔"

ایمان کو اپنی بیوقوفی پہ ہنسی آنے لگی۔

"اور لڑکیوں پلان کامیاب ہونے پر ایک ٹریٹ تو ہونی چاہیئے ایمان کیطرف سے۔۔کیا خیال ہے؟"

عنادل نے کہا تو سب ہی ایمان کے سر ہو گئیں۔

"ارے بھئی روزہ ہے۔۔"

ایمان نے جان بچانی چاہی۔

"افطاری کے بعد تم ہمیں آئس کریم کھلاؤ گی۔"

ارفع جو آئس کریم کی دیوانی تھی جھٹ بولی۔۔باقی سبھی نے بھی اسکا ساتھ دیا۔

"اچھا بھئی ٹھیک ہے۔۔۔لیکن غزنوی۔۔۔۔کیا غزنوی بھی اس پلان میں تم لوگوں کے ساتھ۔۔۔۔"

دل میں آئی بات وہ لبوں تک لائی۔

"نہیں۔۔۔غزنوی کو نہیں معلوم تھا۔۔ہاں لیکن وہ بھی چاہتا تھا کہ تم وہیں رک جاؤ اسکے ساتھ۔۔وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے ایمان۔۔میں نے اس آنکھوں میں تمھارے لئے عزت، پیار۔۔سب دیکھا ہے۔۔وہ اپنے پچھلے رویے پہ شرمندہ تھا اور تمھیں وہیں روک کر اپنی طرف سے دی گئی ہر تکلیف کا ازالہ کرنے کا خواہشمند تھا۔"

سحرش اسکے قریب آئی تھی۔

"ٹھیک ہے۔۔اب صبح کا بھولا جب گھر آ ہی گیا ہے تو میں اسے بھولا نہیں کہوں گی۔"

ایمان مسکراتے ہوئے بولی تو پہلے تو وہ سبھی ہنس دیں اور پھر اسکے پیچھے پڑ گئیں کہ اس نے ان کے بھائی کو بھولا کیوں کہا۔

"ارے ارے بھئی۔۔میں نے محاورہ بولا ہے۔"

وہ روہانسی ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی۔۔۔

"اتنی جلدی تم سب اپنے بھائی کی سائیڈ ہو گئیں۔۔جاؤ۔۔۔اپنے بھائی سے ہی کہنا کہ آئسکریم کھلائے تم لوگوں کو۔"

وہ دروازے کیطرف بڑھی اور اس سے پہلے کہ ان میں سے ایک بھی اسے پکڑتی وہ کمرے سے نکل گئی۔

"چلو شکر ہے۔۔لوٹ کر بُدھو گھر کو آئے۔"

پرخہ نے ان سب کی طرف دیکھا تو سبھی ایک بلند بانگ قہقہ فضا میں بلند ہوا جو باہر دروازے سے لگی ایمان تک بھی پہنچ گیا تھا۔

"کیا کہا۔۔۔؟؟"

اب وہ دروازہ کھولے اندر جھانک رہی تھی۔۔چہرے پہ چھایا بناوٹی غصہ ان سے چھپ نہ سکا۔

"آ۔۔۔میں کہہ رہی تھی شکر ہے سب اچھے سے ہو گیا۔"

پرخہ نے چہرے پہ سنجیدگی سجائے کہا۔

"ویسے کتنی اچھی جوڑی ہے نا۔۔ایک بھولا اور دوسرا بُدھو۔۔۔"

فائقہ چٹکلہ چھوڑنے سے باز نہ رہ سکی۔۔اس کی بات سن کر کمرہ ایک بار پھر زعفران زار ہو گیا لیکن اس بار ان کے ساتھ ایمان بھی شامل تھی۔ ___________________________________________


رمضان کا آخری عشرہ چل رہا تھا۔سبھی عبادتوں میں مشغول تھے۔ایمان نے ایک دو بار غزنوی کو کال کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ اس شدید ناراضگی ظاہر کر رہا تھا۔اسکی کال پک نہیں کر رہا تھا۔عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم نے کئی مرتبہ اسے بلایا مگر وہ کام کا بہانا بنا کر ان کی بات ٹال جاتا۔

آج بھی افطاری کے بعد جب ایمان نے اسے کال کی تو اس نے کال پک نہیں کی۔ایمان نے فون بند کر کے ڈراور میں ڈال دیا۔

پھر کچھ دیر بعد وہ عقیلہ بیگم کے لئے چائے لے کر ان کے کمرے میں آئی تو وہ غزنوی سے ہی بات کر رہی تھیں۔شمائلہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔

"بس اب کتنے کم دن رہ گئے ہیں۔۔اب بھی تمھیں کام کی ہی پڑی ہے۔"

عقیلہ بیگم اسکے بار بار انکار پہ ناراضگی ظاہر کرتی بولیں۔

"دو تین دن پہلے آ جاؤں گا شاہ گل۔۔ایک بہت ضروری کام نبٹا رہا ہوں۔۔جیسے ہی ختم ہو گا میں آپکے پاس ہوں گا۔"

وہ فوراً بولا۔

"لائیں شاہ گل مجھے دیں میں بات کرتی ہوں۔"

شمائلہ بیگم نے فون کیطرف ہاتھ بڑھایا۔

"ہاں یہ لو۔۔۔تمھاری ماں بات کرنا چاہ رہی ہے۔"

عقیلہ بیگم نے غزنوی سے بات کر کے فون شمائلہ بیگم کیطرف بڑھا دیا۔شمائلہ بیگم نے فون ان کے ہاتھ سے لے لیا اور ایک نظر دروازے کے بیچوں بیچ کھڑی ایمان کو دیکھا۔وہ ٹرے ہاتھ میں لئے دھیرے دھیرے چلتی ان کے قریب آئی۔وہ دونوں بیڈ پہ آمنے سامنے بیٹھی تھیں۔ایمان نے ٹرے ان دونوں کے بیچ رکھ دی۔

"ایمان۔۔۔!! بیٹا تمھارے داجی آ گئے ہیں؟"

عقیلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔غزنوی کے کانوں تک بھی ان کا جملہ پہنچ گیا تھا۔

"نہیں۔۔ابھی تک نہیں آئے۔۔آپکو کچھ اور چاہیئے؟"

اس نے ان سے پوچھا اور پھر ان کے نفی میں سر ہلانے پر دروازے کیطرف بڑھ گئی۔

"کب آ رہے ہو تم۔۔۔سیدھے سیدھے دو دن میں واپس آؤ۔۔ایک تو اتنی دور جا کر بزنس شروع کرنے کی کیا تُک تھی۔۔شکل دیکھنے کو ترس گئی ہوں تمھاری اور تمھیں ماں کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔ماں کو ستانے کا اچھا طریقہ ڈھونڈا ہے تم نے۔"

شمائلہ بیگم روہانسی ہو گئیں۔

"ٹھیک ہے صرف دو دن۔۔۔اللہ حافظ۔"

پھر اس نے روم سے نکلتے نکلتے شمائلہ بیگم کو کہتے سنا تھا۔

"کیا کہہ رہا تھا؟"

عقیلہ بیگم اب شمائلہ بیگم کیطرف متوجہ تھیں۔

"کہہ رہا تھا کہ پرسوں آ جائے گا۔"

شمائلہ بیگم نے فون دائیں جانب رکھا اور چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔عقیلہ بیگم نے بھی ان کی تقلید کی تھی جبکہ دروازے سے کان لگائے ایمان کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔

________________________________________


پھر وہ واقعی ہی دو دن بعد آ گیا۔۔اس وقت وہ سبھی لان میں بیٹھی چائے کا انتظار کر رہی تھیں۔موسم صبح ہی سے ابر آلود تھا۔کالے بادلوں نے پورے آسمان کو ڈھک رکھا تھا اور سارا دن وقفے وقفے سے بارش ہوتی رہی تھی۔شمائلہ بیگم نے سب کو آج اپنے ہاں افطاری پہ انوائیٹ کیا تھا۔بڑے تو افطاری کے بعد ہال کمرے میں جمع ہو گئے تھے جبکہ وہ ساری لان میں آ گئی تھیں۔ایمان ان کے لئے چائے بنا رہی تھی۔سب سے پہلے اس نے چائے بنا کر شگفتہ کے ہاتھ ہال کمرے میں بھجوائی اور پھر ان کے لئے چائے لئے لان میں آ گئی۔وہ ساری خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔آجکل انکی باتوں کی تان عید اور عید کی شاپنگ پہ آ کر ٹوٹتی تھی۔ابھی بھی سب اپنے اپنے ڈریسز ڈسکس کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ فائقہ کو چھیڑنے میں مگن تھیں کیونکہ اسکا ایک بہت اچھا رشتہ آیا تھا اور گھر کے بزرگوں کا ارادہ تھا کہ عید کے بعد بات فائنل کی جائے گی۔

"ارے بھئی تم سب اسے کیوں چھیڑ رہی ہو؟"

ایمان ان پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"چائے کہاں ہے بہو رانی۔۔۔"

پرخہ اس کو اب اسی طرح پکارتی تھی۔

"آ رہی ہے۔۔۔"

وہ ہنسی۔

"کیسے آ رہی ہے۔۔۔خود چل کر۔۔؟"

عنادل نے غیر سنجیدگی سے کہا۔

"شگفتہ لا رہی نا۔"

ایمان نے اسکے گالوں پہ چٹکی کاٹی۔

"ویسے کیا خیال ہے آپکو چھیڑ لیا جائے۔"

لاریب نے ایمان کی آنکھوں میں جھانکا۔

"خبردار۔۔۔۔۔"

ایمان نے شہادت کی انگلی اٹھا کر وارن کیا۔

"لاریب۔۔۔بس یہ بچپنا چھوڑ دو۔"

پرخہ نے لاریب کو ٹوکا۔۔جس نے آج کل یہ وطیرہ اپنایا ہوا تھا کہ جہاں کہیں ایمان کو دیکھتی غزنوی کا نام لے لے کر اسکے ناک میں دم کیے رہتی۔

"اچھا۔۔۔۔"

لاریب نے منہ پر انگلی رکھی۔

"لکھ دے کہ سانوریا کیا بیقرار ہے

انکھیوں میں بھیگے بھیگے کجرے کی دھار ہے۔۔

ہوتی نہیں صبح سے شام لکھ دے۔۔

چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔۔

حال میرے دل کا تمام لکھ دے۔۔"

منہ پہ انگلی ہونے کے باوجود وہ گنگنا رہی تھی۔۔اسکی آنکھوں میں رچی شرارت دیکھ کر ایمان نے پیر سے جوتا نکالا۔۔جسے دیکھ کر لاریب فوراً سے پیشتر دور ہٹی۔

اسی دوران گاڑی کے ہارن پہ سب کی نظریں گیٹ کی طرف اٹھیں۔گیٹ کھلتے ہی غزنوی کی گاڑی پورچ میں جا رکی۔۔سب کے ساتھ ساتھ ایمان کی نظریں بھی وہیں ٹکیں تھیں اور ساکت نظروں کیطرح اسکے دل کی دھڑکن بھی رک رک کر چل رہی تھی۔۔

ڈارک بلیو ڈریس شرٹ پہ بلیک ٹائی لگائے ہوئے تھا۔۔۔وہ گاڑی سے نکلا۔۔۔سن گلاسز اب ہاتھ میں پکڑے وہ ان سب کی طرف آ رہا تھا۔

"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"

ملائکہ دوڑی گئی بھائی کے پاس۔۔

"کیسے ہیں بھائی۔۔؟"

ملائکہ اسکے سینے سے لگی پوچھ رہی تھی۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔تم سب ٹھیک ہو؟

غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کی طرف دیکھکر نگاہ پھیر لی۔وہ بھی اسی کیطرف دیکھ رہی تھی۔

"الحمداللہ۔۔۔!! ہم سب بھی ٹھیک ہیں۔"

پرخہ آگے آئی۔

"تم لوگ آج یہاں کیوں ڈیرا جمائے ہوئے ہو۔۔"

غزنوی نے چیئر پہ بیٹھتے ہوئے شرارتی انداز میں کہا۔

"کیا مطلب ہے غزنوی بھائی۔۔"

عنادل نروٹھے انداز اسکے سامنے بیٹھتی ہوئی بولی۔وہ ہنسنے لگا۔

"ارے بھئی مذاق کر رہا تھا۔۔چلو تم سب اپنی چائے چائے انجوائے کرو۔۔"

وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اندر کیطرف بڑھ گیا۔

"آپی۔۔۔ذرا شگفتہ سے کہہ کر ایک کپ چائے میرے روم میں بھیج دیں۔۔"

وہ جاتے جاتے پلٹ کر پریشے سے بولا۔

"اچھا۔۔۔"

پرخہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہمممم۔۔۔۔بلم تو بڑے ناراض لگ رہے ہیں۔"

سحرش نے ایمان کی طرف دیکھا۔۔انداز "اب سنبھالو" والا تھا۔ایمان ایک گہری سانس بھر کر کندھے اچکاتی چائے پینے لگی۔

"ایمان جاؤ چائے بنا کر لے جاؤ۔"

پرخہ نے ایمان کو دیکھا تو وہ کپ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"نجانے کب ان دونوں کے بیچ سب ٹھیک ہو گا۔"

سحرش نے دور جاتی ایمان کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے کہا۔

"ہاں۔۔۔مجھے بھی انتظار ہے اس وقت کا جب یہ دونوں کسی ناول کے ہیرو اور ہیروئین کیطرح ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھ رہے ہونگے۔"

لاریب نے سحرش کی طرف دیکھا۔

"تم تو نا بس رہنے ہی دو۔"

فائقہ نے لاریب کے سر پہ ایک چپت رسید کی۔

"ناولز کی دنیا سے نکل آؤ لڑکی۔۔۔ناولز کے ہیرو ہیروئن بیچارے ورائٹر کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں ورنہ حقیقت میں ایسے ہی ہوں۔۔نخریلے اور اکھڑ۔۔۔"

پرخہ کچھ سوچتے ہوئے بولی جبکہ سحرش اسے دیکھ کر رہ گئی۔ __________________________________________


ایمان نے جھٹ پٹ چائے بنائی۔پہلے تو اس نے سوچا کہ جسطرح اس نے اسے اگنور کیا تھا وہ بھی اگنور کرے مگر پھر چائے کی ٹرے شگفتہ کو دینے کی بجائے خود کمرے کی جانب آ گئی۔

دروازے میں دستک دیئے بنا وہ اندر داخل ہو گئی۔کمرے میں خاموشی تھی۔وہ پورے کمرے پہ طائرانہ نظر ڈالتی ٹیبل کیطرف آئی۔واش روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔وہ یقینا واش روم میں تھا۔وہ ڈریسنگ کے سامنے آئی۔ایک اچٹتی سی نظر خود پہ ڈالی۔۔ہلکے آسمانی رنگ کے پرینٹڈ سوٹ پہ کئی کئی سلوٹیں موجود تھیں۔صبح سے وہ اسی لباس میں تھی۔اس نے ہاتھ پھیر کر سلوٹیں دور کرنے کی کوشش کی اور چہرے کے گرد بکھری لٹوں کو سنوارا۔اسی دوران کھٹکے کی آواز نے اسے الرٹ کیا۔اس نے نہایت پھرتی دکھاتے ہوئے ٹرے ہاتھ میں اٹھائی۔غزنوی باہر آیا تو وہ ٹرے لئے کھڑی تھی۔وہ لاپروائی ظاہر کرتا ڈریسنگ کیطرف آیا اور بال برش کرنے لگا۔

"چائے۔۔۔۔"

ایمان نے اسکی لاپروائی پہ کُڑتے ہوئے کہا۔

"ہاں تو رکھ دو۔۔۔"

غزنوی کی بےپروائی عروج پہ تھی۔۔اس نے بھی دو حرف بھیجتے ہوئے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور باہر نکل گئی۔غزنوی برش ٹیبل پر رکھا اور چائے کا کپ اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا۔

"میری محترمہ۔۔۔کچھ بدلی بدلی سی لگ رہی ہیں۔"

خود سے کہتا وہ مسکرا دیا تھا۔

چائے ختم کرتا وہ اسکی تلاش میں باہر آیا تھا۔۔لاونج میں عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم بیٹھی تھی۔فائقہ کی شادی زیرِ بحث تھی۔ابھی جب وہ ان سے ملنے ہال کمرے میں گیا تھا تو وہاں بھی یہی موضوع زیرِ بحث تھا۔اسے بھی یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی۔

"امی۔۔۔بھوک لگی ہے کچھ کھانے کو ملے گا۔۔افطاری میں ایک سینڈوچ ہی کھا پایا تھا۔"

وہ شمائلہ بیگم اور عقیلہ بیگم کے درمیان آ کر بیٹھ گیا تھا۔

"اچھا۔۔۔میں لے کر آتی ہوں کچھ۔"

شمائلہ بیگم اٹھ کر باورچی خانے کی طرف بڑھ گئیں۔

"تمھارے داجی کہہ رہے تھے کہ تم بزنس یہاں شفٹ کر رہے ہو۔"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں چھلکتی خوشی پہ وہ مسکرا دیا۔

"جی شاہ گل۔۔۔میری بیگم مجھ سے زیادہ آپ لوگوں کے پاس رہنا پسند کرتی ہے اور جب دیکھو آپ لوگ ظالم سماج بن کر میرے اور میری بیوی کے بیچ آ جاتے ہیں۔"

وہ شرارت کرنے سے باز نہ آیا۔

"ائے لو۔۔۔یہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے۔"

اس سے پہلے کہ عقیلہ بیگم کچھ کہتیں خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔غزنوی کے ساتھ ساتھ عقیلہ بیگم بھی ہنس دیں۔

"اور کیا بوا۔۔۔شرافت کا تو زمانہ ہی نہیں ہے۔۔اور وہ آپکی بہو۔۔۔جن کے دل میں سارے جہاں کا درد تو سمایا ہے لیکن شوہر کا درد ان کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتا۔"

غزنوی نے ایمان کو آتے دیکھکر شرارت پہ آمادہ دکھائی دیا۔

"ہائے۔۔۔یہ میں کیا سن رہی ہوں۔۔اے بہو ذرا ادھر آنا۔"

خیرن بوا نے بھی ایمان کو لاؤنج میں آتے دیکھ لیا تھا۔ایمان نے ایک غصیلی نظر غزنوی پہ ڈالی اور عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"جی بوا۔۔"

ایمان نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے کچھ سنا ہی نہیں ورنہ غزنوی کی فلک پھاڑ آواز اسکے کانوں تک پہنچ گئی تھی۔

"خیرن شرارت کر رہا ہے۔"

عقیلہ بیگم ہنستے ہوئے بولیں۔

"ہاں بھئی یہ کل کے چھورے اب ہم سے شرارت کریں گے۔۔ائے یہ ہنسی ٹھٹھول اپنی بیوی سے کیا کرو۔بیوی کے سامنے تو ان کی گھگھی بندھ جاتی ہے اور ہمارے سامنے زبان کسی بڑوے کیطرح چلنے لگتی ہے۔"

خیرن بوا کی توپوں کا رخ اب غزنوی کی جانب ہو چکا تھا جبکہ ایمان سے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔

"یہ کیا بوا۔۔۔میں اپنا کیس آپکے پاس لے کر آیا ہوں اور آپ مجھ پہ ہی۔۔۔"

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔جانتا تھا بوا کے چُنگل سے خود کو چھڑانا مشکل ہو جائیگا۔

"اے لو۔۔۔اے بیٹا۔۔پردہ پوشی درست است۔۔(پردہ پوشی اچھی ہوتی ہے)۔"

وہ اپنی پھسلتی ہوئی عینک کو واپس اپنی چھوٹی سی گول ناک پہ جماتے ہوئے بولیں تو غزنوی سر کھجانے لگا۔

"ائے کو میں تو بھول ہی گئی۔۔کس کام سے آئی تھی اور کیا کر بیٹھی۔۔ائے تمھاری ماں باورچی خانے میں بلا رہی ہیں تمھیں۔۔"

وہ پیشانی پہ ہاتھ مارتی ہوئی غزنوی سے بولیں۔

"جی بوا۔۔۔"

اندھا کیا جانے دو آنکھیں کے مصداق وہ کچن کیطرف بڑھا۔

"بوا مجھے آپ سے اور شاہ گل سے ایک بہت ضروری بات کرنی ہے۔"

ایمان اپنا موبائل فون گود میں رکھتے ہوئی ان کے قریب ہوئی۔

"ہاں ہاں کہو۔۔۔خیر تو ہے نا۔۔؟"

خیرن بوا اور عقیلہ بیگم کے چہرے پہ حیرانی کے ساتھ ساتھ پریشانی کے رنگ بھی نمایاں ہوئے۔ایمان کبھی اسطرح بات کی نہیں تھی اس لئے وہ پریشان ہو گئی تھیں۔

"ارے بوا۔۔۔سب خیر ہے۔۔آپکو اگر یاد ہو تو شادی میں غزنوی کا ایک دوست آیا تھا۔وہ اونچا لمبا سا۔۔"

ایمان نے انہیں یاد دلانے کی کوشش کی۔

"ائے ہاں۔۔۔وہ نٹ کھٹ سا۔۔ہاں ہاں یاد ہے۔"

خیرن بوا یاد آتے ہی بولیں تھیں۔

"کمیل کی بات کر رہی ہو؟"

عقیلہ بیگم نے کہا تو ایمان نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ابھی کچھ دیر پہلے کمیل کی والدہ کا فون آیا تھا مجھے۔۔شاید غزنوی نے ان کو میرا نمبر دیا ہو گا۔دراصل وہ اپنے بیٹے کمیل کے لئے آپکی بھانجی رقیہ کا رشتہ مانگا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر بلقیس خالہ راضی ہوں تو وہ باقاعدہ رشتہ لے کر آئیں گی۔میں نے سوچا کہ پہلے آپ سے بات کر لوں پھر یہ خوشخبری بلقیس خالہ کو بھی دے دوں گی۔ویسے تو کمیل بہت اچھا لڑکا ہے لیکن آپ غزنوی سے اسکے متعلق پوچھ سکتی ہیں۔"

ایمان نے تفصیل سے انہیں بتایا۔۔یہ سن کر تو خیرن بوا کے چہرے پہ خوشی کے رنگ چَھلکے پڑ رہے تھے۔

"اے بہو۔۔۔تم نے کتنی بڑی خوشی کی خبر سنائی ہے۔۔اللہ تمھیں خوشیاں دے۔سدا اپنے میاں کے دل پہ راج کرو۔"

خیرن بوا نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا۔

"خیرن یہ تو بہت بڑی خوشخبری ہے۔۔کمیل بہت اچھا اور شریف لڑکا ہے اور پھر سب سے بڑھ کر ہمارے غزنوی کا دوست ہے۔میں تو کہتی ہوں کہ دیر نہ کرو۔۔آج ہی بلقیس بہن سے بات کرو۔"

عقیلہ بیگم بھی یہ سن کر بہت خوش ہوئی تھیں۔

"ائے ہاں۔۔ابھی بات کرتی ہوں۔۔ٹھہرو زرا میں نمبر لے کر آتی ہوں۔نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔"

وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔۔

"ارے خیرن تم بیٹھو۔۔۔جاؤ ایمان تم لے آؤ بوا کی ڈائری۔۔"

ایمان اٹھ کر تیز تیز قدموں سے لاؤنج سے باہر چلی گئی۔اسے پتہ تھا کہ بوا کے پاس ایک چھوٹی سی ڈائری ہے جس سارے رشتے داروں کے نمبر انہوں نے فائقہ سے لکھوا رکھے تھے۔وہ جلدی سے ڈائری کے آئی اور بلقیس بیگم کے بیٹے احمد کا نمبر ڈائل کیا۔پہلے رقیہ کے پاس بھی موبائل تھا لیکن پھر بہو کی شکی طبیعت کے باعث انہوں نے اس سے موبائل کے کر بیٹے کو دے دیا تھا۔

ایمان نمبر ڈائل کر رہی تھی جبکہ وہ دونوں نہایت اشتیاق سے اسے دیکھ رہی تھیں۔

"آؤ آؤ بادشاہ خان۔۔ملک صاحب تمھاری ضمانت کے کاغذات لائے ہیں۔"

ایس ایچ او کرم داد نے جیسے ہی بادشاہ خان کو آتے دیکھا تو مونچھوں کو تاؤ دیتا بولا۔اسکے سامنے ہی کرسی پہ ملک خاور علی بیٹھا سیگریٹ کے کش لگا رہا تھا۔

"شکریہ ملک صاحب مجھے پتہ تھا کہ آپ مجھے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔اتنے دن میں نے اس قید خانے میں کیسے گزارے یہ میں ہی جانتا ہوں۔"

بادشاہ خان داڑھی کھجاتا آیا اور ہاتھ باندھے ملک خاور علی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ملک خاور علی فوراً اٹھا اور کچھ دیر اسکی طرف غصیلی نظروں سے دیکھتا رہا۔

"یہ آخری بار ہے بادشاہ خان۔۔اس کے بعد میں تیری کوئی مدد نہیں کرنے والا۔۔مجھے اور بھی مسئلے مسائل سے نبٹنا ہوتا ہے۔۔تیری طرح فارغ نہیں ہوں کہ زنانیوں کے پیچھے بھاگتا رہوں۔۔تجھ جیسے نمک حرام پالنے کا ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا ہے میں نے۔"

ملک خاور علی تمسخر اڑاتے لہجے میں بولا۔ایس ایچ او کرم داد کی نگاہیں بھی کچھ ایسا ہی نظارہ پیش کر رہی تھیں۔

"ملک صاحب غلطی ہو گئی۔"

وہ ملک خاور علی کی بےتحاشا سرخ آنکھیں خود پہ جمے دیکھکر بغلیں جھانکنے لگا۔

"او بس کر غلطی پہ غلطی کیے جا رہا ہے۔۔لڑکی نہ ہو گئی۔۔۔اور مر گئیں ہیں کیا جو تُو ایک ہی پیچھے دیوانہ ہو رہا ہے؟"

ملک خاور علی بادشاہ خان کو منمناتے دیکھ کر تیش میں آ گیا۔

"میری طرف سے فارغ سمجھ خود کو۔۔تیری وجہ سے میں اپنی کرسی نہیں چھوڑ سکتا۔۔جی تو چاہتا ہے کہ رکھ کے لگاؤں تیرے اس تھوبڑے پہ۔۔کتے سے بدتر ہو گیا ہے تُو۔۔"

ملک خاور علی اس پہ دھاڑتا باہر نکل گیا۔

"ملک صاحب۔۔ملک صاحب۔۔معاف کر دیں اس بار۔۔آئیندہ ایسا نہیں ہو گا۔"

بادشاہ خان گھگھیاتا ملک خاور علی کے پیچھے دوڑا تھا لیکن ملک خاور علی نے ایک بار بھی پیچھے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا تھا۔فوراً سے پیشتر اپنی جیپ میں سوار ہوا اور ڈرائیور سے چلنے کے لئے کہا۔اس کا گن مین بھی سرخ آنکھوں سے بادشاہ خان کو دیکھ رہا تھا۔

گاڑی دُھول اڑاتی جا چکی تھی اور بادشاہ خان وہیں کھڑا رہ گیا تھا۔

وہ وہاں سے سیدھا اپنے مردان خانے آیا تھا۔دل و دماغ غصے کی شدت سے تپ رہے تھے۔اسے اپنی توہین بھلائے نہیں بھول رہی تھی۔دل تو چاہ رہا تھا کہ وہیں سب کے سامنے اسکی بےعزتی کر کے اسکی اکڑ کو اسکے منہ دے مارتا مگر ملک خاور علی سیاسی اثرورسوخ رکھتا تھا وہ منٹوں میں اسے واپس حوالات میں ڈال سکتا تھا، جب چاہتا اسے چیونٹی کی طرح مسل سکتا تھا۔اس سے بیر پالنا اسے مہنگا پڑ سکتا تھا اس لئے غصہ پی گیا۔گھر آ کر بھی اسے ملک خاور علی کے چہرے کے تاثرات اور اسکی اکڑی گردن اسکے غصے پہ جلتی پہ تیل کا کام کر رہی تھی۔۔اوپر سے اس کے گن مین کی تمسخر اڑاتی نظریں بادشاہ خان کے تلوں پہ لگ کر سر پہ بجھ رہی تھیں۔جیل سے وہ خود باہر آ سکتا تھا مگر اس بار اسکے خلاف گواہی دینے والے پیدا ہو گئے تھی اور یہ سب اعظم احمد اور غزنوی احمد کی وجہ سے ہوا تھا ورنہ ایس ایچ او کرم داد کے لئے اسے آزاد کرنا آسان تھا۔وہ اس کا دوست تھا اور اسکے ہر گناہ پہ جلد سے جلد مٹی ڈالنے کا اہم کام کرتا تھا۔اس بار بھی اس نے بہت کوشش کی تھی مگر اعظم احمد کے بیچ میں پڑ جانے سے وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا تھا اور اعظم احمد کی وجہ سے لوگ بھی اسکے خلاف گواہی دینے کو تیار کھڑے تھے۔ایس ایچ او کرم داد نے شروعات میں ہی اس معاملے سے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔اس نے کئی بار بادشاہ خان کو سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ رشید خان کو خود سے الگ کر لے کیونکہ اب وہ اکیلا نہیں ہے مگر بادشاہ خان نے اسکی ایک نہیں سنی۔

اب وہ چارپائی پہ چت لیٹا آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے رہا تھا۔ایک فیصلہ تو وہ تھانے سے گھر تک کے راستے میں کر چکا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے اب وہ ملک خاور علی کے پاس نہیں جائے گا۔جو بھی کرے گا خود کرے گا۔

"خان۔۔۔!! خان شکر ہے کہ تم واپس آ گئے ہو۔۔سارا گاؤں تمھارے خلاف ہو گیا ہے اور ہر کوئی گواہی دینے کو بھی تیار کھڑا ہے۔اِن سب کو اعظم احمد کی پشت پناہی حاصل ہے۔میں تو سب کے منہ بند کر کر کے تھک گیا ہوں۔"

جانس خان جیسے ہی مردان خانے میں داخل ہوا، بادشاہ خان کو چارپائی پہ لیٹا دیکھ کر اسکے پاس بھاگا آیا تھا اور ساتھ ہی اسے گاؤں کی خبریں بھی دینے لگا تھا۔جانس خان، بادشاہ خان کا خاص بندہ تھا۔چوبیسوں گھنٹے اسکے ساتھ ہی رہتا تھا۔اسکے ہر برے کام میں اسکے ساتھ شامل رہتا تھا۔بادشاہ خان سود پہ قرض دیتا تھا اور جب وصولی کا وقت آتا تو جانس خان ہی جاتا تھا۔بادشاہ خان اس پہ اندھا اعتماد کرتا تھا۔ابھی بھی بادشاہ خان کے کہنے پر وہی ملک خاور علی کے پاس گیا تھا۔

"او کرنے دے باتیں۔۔۔بادشاہ خان کسی سے خائف نہیں ہے اور نہ کبھی ہو گا۔۔"

بادشاہ خان کے گرد آگ کی لپٹیں اس کی بات سن کر شعلوں کا روپ دھار گئی تھیں۔وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔اس کے چہرے کے کرخت تاثرات دیکھ کر جانس خان فوراً چارپائی سے اترا، کیونکہ غصے میں اکثر بادشاہ خان اسے لات مار کر دور گرا دیا کرتا تھا۔اس لئے اب جانس خان اس سے دوری بنائے رکھتا تھا۔ابھی بھی اس نے یہی کیا تھا اس سے دور جا کھڑا ہوا تھا۔

"یہ ہوئی نا بات خان۔۔۔خان آپکا جگر تو شیر کا جگر ہے شیر کا۔۔میں نے وہ کھری کھری سنائی کہ اب کچھ بھی کہنے سے پہلے دس بار سوچیں گے۔۔لیکن خان ایک بات سمجھ نہیں آئی۔۔رشید خان سے تو اچھی خاصی بنتی تھی آپکی۔۔۔پھر یہ سب کیونکر۔۔۔؟"

وہ بادشاہ خان کے چہرے کے تاثرات کا بغور مطالعہ کرتا قریب آیا مگر تھوڑا بہت فاصلہ اب بھی برقرار رکھا تھا۔

"میرے ساتھ چالاکی کر رہا تھا۔۔اپنی رشتے داری کی تڑی لگا رہا تھا مجھے۔۔میری منگیتر کو کسی اور کے سپرد کر دیا۔۔کہا تھا میں نے اسے کہ چھڑا کر لائے بیٹی کو اور میری امانت میرے حوالے کرے۔۔ورنہ میں تو اسکے منہ سے نوالہ چھین لوں یہ تو اسکی بیٹی ہے۔"

بادشاہ خان بےشرمی سے ہنستا جانس خان کو دیکھ رہا تھا۔جو بےشرمی میں اس سے دس ہاتھ آگے تھا۔گاوں کی عورتیں ہوں یا لڑکیاں۔۔کوئی بھی اسکی غلیظ نگاہوں سے بچ نہیں پاتی تھی۔

"خان ایسا کیا ہے اس لڑکی میں جو تم اسکا خیال جھٹک نہیں پاتے۔"

جانس خان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"اوئے تُو نہیں سمجھے گا۔۔"

بادشاہ خان چارپائی سے اتر کر مردان خانے سے نکل کر گھر میں داخل ہو گیا۔

"خان۔۔۔! رشید خان نے تو تمھارے سارے پیسے لوٹا دیئے تھے تو پھر تم کونسے پیسوں کی بات کر رہے ہو؟"

جانس خان کے دل میں کھلبلی سے مچ گئی تھی اسکا انداز دیکھ کر۔۔وہ اسکے پیچھے آیا تھا۔

"تُو نے دیکھا رشید خان کو مجھے پیسے دیتے ہوئے۔۔۔یا پھر گاؤں کے کسی شخص کے سامنے اس نے مجھے پیسے لوٹائے۔۔نہیں نا۔۔؟ تو پھر اس نے کب دیئے اور میں نے کب لئے۔۔"

وہ جانس خان کو دیکھتا، مکروہ ہنسی ہنستا آگے بڑھ گیا۔

جبکہ جانس خان ہنستا ہوا اپنے خان کے چَلتر دماغ کو دل ہی دل میں داد دیتا اسکے پیچھے ہو لی۔ _________________________________


غزنوی نے ایمان سے بالکل بات چیت بند کر رکھی تھی۔وہ پہلے بھی کب اس سے بات کرتا تھا مگر اسلام آباد میں گزرا وقت اس یہ یقین دلانے پہ مجبور کر گیا تھا کہ غزنوی بدل گیا ہے۔۔اسکے آگے پیچھے پھرنا، اسے فون کالز کر کر کے تنگ کرنا، اسکے لئے شاپنگ کرنا، اسے چھیڑنا۔۔غزنوی کا کہا گیا ہر ایک جملہ ایمان کو محبت کا احساس دلانے لگا تھا۔ابھی تو وہ ٹھیک سے اس احساس کو جی بھی نہیں پائی تھی کہ وہ پھر سے ویسا ہی کٹھور ہو گیا تھا۔

پہلے کی بات اور تھی۔۔وہ اپنے دل میں پنپتے اس جذبے کو خود پہ حاوی ہونے نہیں دیتی تھی مگر اب غزنوی کی بےاعتنائی اور لاپروائی کو شدت سے محسوس کر رہی تھی۔

اس نے غزنوی کو کئی بار منانے کی کوشش کی، ڈھکے چھپے الفاظ میں اسے اپنی محبت کا احساس دلانا چاہا مگر وہ تو جیسے آنکھیں کان دونوں بند کیے ہوئے تھا۔ایمان کو لگتا تھا جیسے غزنوی کو سوائے اسکے سبھی دکھائی دیتے ہیں۔

اوپر سے گھر والوں کے سامنے وہ اسکے ساتھ بالکل مختلف رویہ اختیار کیے ہوئے تھا۔۔اسکی پرواہ کرتا۔۔کسی نہ کسی بہانے سے اسے پکارتا۔۔اس لئے سب اسکا نارمل بی ہیور دیکھ کر قدرے مطمئن ہو چکے تھے۔ایمان بھی اپنے رویے سے ان پہ کچھ بھی ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ابھی بھی وہ بالکل گم سم سی بیٹھی تھی۔تھوڑی دیر پہلے رشید خان نے اسے فون کیا تھا۔انہوں نے اس سے ملنے کا عندیہ ظاہر کیا تو ایمان نے انہیں عید پہ اعظم ولاء آنے کی دعوت دی تھی اور رشید خان نے ایک دو دن تک آنے کا وعدہ کیا تھا۔فون ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا اسی دوران غزنوی کمرے میں داخل ہوا۔ایمان پہ نظر پڑی تو وہ اسے کسی گہری سوچ میں گم دکھائی دی۔غزنوی نے دروازہ تیز آواز سے بند کیا تو ایمان نے چونک کر اسکی طرف دیکھا۔غزنوی نے بنا کچھ کہے الماری سے اپنے کپڑے لئے اور واش روم میں گھس گیا۔اتنے میں غزنوی کا فون بجنے لگا جو اس نے ایک سیکنڈ پہلے ٹیبل پہ رکھا تھا۔ایمان نے کبھی اس کے فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا تھا اس لئے ابھی بھی اگنور کیے اٹھ کھڑی ہوئی۔فون بجتے بجتے خاموش ہو گیا تھا۔اپنا فون اس نے سائیڈ ٹیبل کی دراز میں رکھا اسی دوران غزنوی کے فون کی رنگ ٹون دوبارہ سے بجنے لگی۔ایمان نے واش روم کے دروازے کی طرف دیکھا اور پھر ٹیبل کیطرف آ کر موبائل اٹھایا۔بلنک ہوتے کمیل کے نام پہ نظر پڑی تو کال ریسیو کی۔

"ہیلو۔۔!! السلام علیکم۔۔!!"

اس سے پہلے کہ کمیل کچھ بولتا ایمان نے سلام کیا۔۔کمیل ایمان کی آواز سن کر سنبھل گیا۔

"وعلیکم السلام بھابھی۔۔۔کیسی ہیں آپ۔۔؟"

کمیل جو ابھی غزنوی کی اچھے سے خبر لینے والا تھا سنبھل کر بولا۔دراصل وہ صبح سے اسے کالز کر رہا تھا لیکن غزنوی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔۔آپ کیسے ہیں اور آنٹی کیسی ہیں۔۔میں نے سوچا تھا ان سے دوبارہ بات کرنے کا مگر مصروفیت کے باعث ذہن سے نکل گیا۔"

ایمان نے اسکی اور اسکی والدہ غزالہ بیگم کی خیریت دریافت کی۔

"الحمداللہ۔۔!! یہاں سب خیریت ہے۔۔امی بھی آپکو فون کرنے کا کہہ رہی تھیں مگر گھر میں مہمان آئے تھے اس لئے نہیں کر پائیں۔۔"

کمیل نے اسے بتایا۔

"اور بتائیے۔۔آپ تو چھپے رستم نکلے۔۔یہ ہمارے گھر بار بار اسی مقصد سے آیا جا رہا تھا۔۔"

ایمان نے شرارتی انداز اپنایا۔۔اسے یاد تھا کہ جب تک بلقیس بیگم وہاں اس کے پاس تھیں کمیل ہر دوسرے دن چکر لگایا کرتا تھا، حالانکہ پہلے کبھی اسطرح نہیں آتا تھا۔اب جب رشتے کی بات چلی تو اسے کمیل کی رقیہ کے اردگرد چکر لگاتی نظروں کا مفہوم سمجھ میں آ گیا تھا۔

"ارے بھابھی۔۔۔آپ بھی۔۔۔آپ کے شوہر محترم کیا کم تھے اس کام کے لئے جو آپ بھی شروع ہو گئیں۔ویسے یہ آپکے محترم ہیں کہاں؟ صبح سے کوئی بیسیوں بار کال کر چکا ہوں مگر محترم کال ریسیو ہی نہیں کر رہے۔"

کمیل نے اس کی شرارت پہ مسکرا کر بات کا رخ بڑی عمدگی سے غزنوی کی جانب موڑ دیا۔

"وہ۔۔۔۔یہ لیں بات کریں۔۔۔کمیل کا فون ہے۔"

وہ بتا ہی رہی تھی کہ غزنوی واش روم سے باہر آیا۔۔ایمان نے قریب آ کر فون اسکی طرف بڑھایا۔غزنوی نے فون اسکے ہاتھ سے لے لیا۔

"ہاں یار بابا کے ساتھ ایک بہت اہم میٹنگ اٹینڈ کر رہا تھا اس لئے کال پک نہیں کر پایا۔"

غزنوی نے کمیل کو کال پک نہ کرنے وجہ بتائی۔

"ویسے میں ابھی تمھیں کال کرنے ہی والا تھا۔۔خیریت تھی۔۔؟؟"

اس نے ایک نظر پاس ہی کھڑی ایمان کو دیکھتے ہوئے کمیل سے پوچھا۔ایمان نے بھی اسے رشید خان کی آمد کے متعلق بتانا تھا اس لئے وہیں کھڑی رہی۔

"اچھا ٹھیک ہے میں صبح خود وہاں لیٹر بھیج دوں گا۔۔تم بس صبح آفس جا کر سہیل صاحب سے بات کر لینا اور فائل ان کے حوالے کر دینا۔۔باقی میں خود دیکھ لوں گا۔"

غزنوی بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔

"ہاں ٹھیک ہے میں کر لوں گا۔۔اگر کال ریسیو کر لیتا تمھاری تو آفس میں ہی یہ کام کر لیتا۔۔خیر ابھی دو دن ہیں ڈیل فائنل کرنے کے لئے۔۔انشاءاللہ کور اپ ہو جائیگا۔۔"

غزنوی نے بائیں ہاتھ سے گیلے بال سنوارتے ہوئے کہا اور الوداعی کلمات کہہ کر فون ٹیبل پہ رکھ دیا۔اب وہ ایمان کی طرف متوجہ تھا جو اس کی بات ختم ہونے کی منتظر تھی۔

"کچھ کہنا تھا؟"

غزنوی بیڈ کراؤن سے پشت ٹکا کر بیٹھ گیا۔

"جی۔۔۔وہ بابا سے بات ہوئی تھی ابھی۔۔وہ بتا رہے تھے کہ بادشاہ خان جیل سے چھوٹ گیا ہے۔"

ایمان قریب آتے ہوئے بولی۔۔اسکے چہرے پہ پریشانی تھی۔

"یہ تو ہونا ہی تھا۔۔ہمارے آنے کے بعد گاؤں کے لوگ پیچھے ہٹ گئے ہونگے تو آسانی سے ضمانت ہو گئی ہوگی۔۔تم پریشان مت ہو میں بات کرتا ہوں۔"

وہ اسے پریشان دیکھ کر بولا۔

"میں نے یہاں بلایا ہے۔۔عید بھی ہے اور پھر بادشاہ خان۔۔وہ دوبارہ بھی ایسی حرکت کر سکتا ہے۔میں ٹھیک کیا نا۔۔؟"

وہ ٹھہر ٹھہر کر بولی۔

"ہاں اچھا کیا۔۔ویسے بھی وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔۔پھر کب آنے کا کہا ہے انہوں نے؟"

غزنوی نے ٹیبل سے موبائل اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

"کہہ رہے تھے کہ ایک دو دن میں آ جائیں گے۔۔مان کب رہے تھے بڑی مشکل سے مانے ہیں۔"

وہ مزید بولی۔

"دو دن تو بہت زیادہ ہیں۔۔گل خان وہیں گاؤں میں ہے صبح میں اسے کہہ دوں گا کہ وہ کل آ جائے اور جاتے جاتے انہیں یہیں ڈراپ کر جائے۔۔بلکہ میں ابھی کہہ دیتا ہوں۔"

موبائل اسکے ہاتھ میں تھا، وہ گل خان کو کال کرنے لگا۔۔پھر جتنی دیر وہ بات کرتا رہا ایمان وہیں کھڑی رہی۔

"آپکے لئے چائے۔۔۔"

غزنوی نے بات ختم کرنے کے بعد موبائل ٹیبل پہ رکھا تو ایمان نے اس سے چائے کا پوچھا۔

"چائے نہیں۔۔۔قہوہ پیوں گا۔۔اگر تم فارغ ہو تو۔۔"

غزنوی نے نیم دراز ہوتے ہوئے کہا۔۔ایمان کو اسکے لہجے میں اجنبیت صاف محسوس ہوئی۔وہ اس بارے میں بات کرنے کا ارادہ ترک کرتی کمرے سے نکل آئی۔ ________________________________________


رشید خان بھی آج افطاری تک پہنچنے والا تھا۔ایمان نے اعظم احمد کو بھی بتا دیا تھا کہ بادشاہ خان جیل سے چھوٹ گیا ہے۔انہوں نے بھی یہی کہا تھا کہ رشید خان کا وہاں رہنا مناسب نہیں۔شگفتہ کے ساتھ مل کر اس نے ان کے کمرہ صاف کروا دیا تھا۔کام ختم ہونے کے بعد شگفتہ تو اپنے کوارٹر میں چلی گئی تھی اور وہ بھی کچھ دیر آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں آ گئی تھی۔نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔جب آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت قریب تھا۔فریش ہو کر وہ عقیلہ بیگم کے کمرے میں آ گئی۔شمائلہ بیگم اور خیرن بوا بھی وہیں موجود تھیں۔

"لو بہو بھی آ گئی۔۔"

خیرن بوا نے اسے دیکھ کر کہا۔۔ان دونوں نے بھی اسکی طرف مسکرا کر دیکھا تھا۔ایمان چہرے پہ دھیمی مسکان سجائے ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"یہ دیکھو یہ بنارسی ساڑھی کیسی ہے؟"

خیرن بوا نے سرخ بنارسی ساڑھی اس کے سامنے پھیلائی۔

"بہت پیاری ہے بوا۔۔۔کیا یہ آپ رقیہ کی شادی پہ پہنیں گی؟"

ایمان نے ساڑھی پہ نرمی سے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔۔

"اے بہو۔۔۔کچھ ہوش کے ناخن لو۔۔اب میں چٹے چاٹے پہ یہ پہنتی ہوئی اچھی لگوں گی کیا۔"

خیرن بوا نے ٹھوڑی پہ شہادت کی انگلی جما کر حیران نظروں سے ایمان کی طرف دیکھا۔شمائلہ بیگم اور عقیلہ بیگم کے لب بھی مسکرانے لگے۔

"اے تم لوگ بھی ٹھٹھول کرنے لگیں۔"

وہ اب شمائلہ بیگم کی طرف دیکھ رہیں تھیں۔

"ویسے خیرن۔۔تمھارے جہیز کی ہے۔۔پہننے میں کیا حرج ہے۔۔آخر کو ساس ہو۔۔"

عقیلہ بیگم نے ہنسی روک کر خیرن بوا سے کہا۔

"اے دفع۔۔۔بڈھی گھوڑی لال لگام۔۔۔عقیلہ بیگم تم تو کچھ عقل کی بات کرو۔"

خیرن بوا ناراضگی سے ساڑھی سمیٹنے لگیں۔

"بوا۔۔مذاق کر رہے ہیں۔۔ایمان یہ ساڑھی بوا کے جہیز کی ہے۔۔انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے سنبھال رکھی تھی۔"

شمائلہ بیگم نے اسے بتایا۔

"سوچا تھا کہ اپنی بیٹی کو دوں گی۔۔بیٹی تو اللہ نے دی نہیں تو رقیہ کے لئے رکھ لی۔۔زرا بتانا تو کیسی لگے کی رقیہ پہ؟"

خیرن بوا نے ساڑھی دوبارہ سے اسکے سامنے پھیلائی۔

"بہت خوبصورت ہے بوا اور رقیہ پہ تو بہت اچھی لگے گی۔"

ایمان نے کہا تو ان کے چہرے پہ مسکراہٹ سج گئی۔۔ساڑھی ابھی بھی نئی کی نئی تھی۔۔جیسے کسی نے ہاتھ تک نہ لگایا ہو۔۔

"اماں نے میرے اور بلقیس کے لئے بڑی محبت سے خریدی تھی۔۔بس رنگ مختلف تھا۔۔اسکے لئے سبز رنگ میں خریدی تھی۔۔مجھے یقین ہے، بلقیس نے بھی سنبھال رکھی ہو گی۔"

خیرن بوا ساڑھی کو تہہ لگاتے ہوئی بولیں۔۔ایمان نے ان کے چہرے پہ کھلتے رنگوں کو بہت محبت سے دیکھا۔

"بہت عمدہ ہے۔۔لیکن بوا یہ ڈیزائن پرانا نہیں ہے۔"

ایمان نے جھجھکتے ہوئے کہا کہ کہیں بُوا پھر سے غصہ نہ ہو جائیں۔

"ائے ہاں یہ تو ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔بس میں تو دے آؤں گی پھر چاہے جو بھی کرے اسکا۔"

وہ اسکی سوچ کے برعکس دھیرے سے بولیں۔

"ہاں یہ سہی ہے۔۔بچی خود ہی اپنی پسند سے تراش خراش کروا لے گی۔"

عقیلہ بیگم نے بھی تائید کی۔

"بس تو پھر سہی ہے۔۔گل خان کے ہاتھ بھجوا دوں گی۔"

خیرن بوا نے ساڑھی ایک جانب رکھی اور ایمان کو دوسرے کپڑے دکھانے لگیں جو انہوں نے رقیہ کے لئے خرید رکھے تھے۔ ___________________________________


"تمھاری شاپنگ مکمل ہوگئی؟"

ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ افطاری کی تیاری کروا رہی تھی۔تقریبا کام نبٹ گیا تھا۔

"جی مکمل ہے۔۔وہاں اسلام آباد میں کچھ ڈریسز خریدے تھے، ابھی تک پہنے نہیں۔۔وہی پہن لوں گی اور رہ گئے جوتے تو اس دن پرخہ آپی اور سحرش آپی کے ساتھ گئی تھی تو لے لئے تھے آپکو دکھائے بھی تو تھے۔"

ایمان نے مصروف انداز میں انہیں بتایا۔

"ارے وہ اتنے سمپل سے تھے۔۔شادی کے بعد تمھاری پہلی عید ہے۔ایک دو فینسی ڈریسز تو ہونے چاہیئے اور وہ جوتا بھی بہت سمپل سا تھا۔ایسا کرو آج غزنوی کے ساتھ چلی جاو۔"

شمائلہ بیگم نے اس پہ نظریں فوکس کرتے ہوئے کہا۔صاف لگ رہا تھا کہ وہ جان چھڑا رہی ہے۔

"ارے امی۔۔وہ ٹھیک ہیں اور فینسی بھی ہیں۔مزید کی ضرورت نہیں ہے۔"

وہ انہیں مطمئن کرنےکی کوشش کر رہی تھی۔

"تم اسے کہہ دو گی یا میں جا کر کہہ دوں۔"

شمائلہ بیگم دو ٹوک انداز میں بولیں۔

"میں کہہ دوں گی۔"

تو وہ گہری سانس خارج کرتی انہیں یقین دلاتی بولی۔

"یہ شگفتہ کہاں رہ گئی۔۔کتنی دیر ہو گئی ہے، دس منٹ کا کہہ کر گئی تھی اور بیس منٹ سے اوپر ہو گئے۔۔میں دیکھتی ہوں۔۔بیٹا زرا یہ فریج میں رکھ دو۔"

شمائلہ بیگم اسے رائتہ فریج میں رکھنے کا کہتیں کچن سے نکل گئیں اور وہ سوچنے لگی کہ اب یہ بات وہ اُس اُکھڑ کو کیسے کہے گی۔وہ تو آج کل پَروں پر پانی تک نہیں پڑنے دیتا تھا۔وہ غزنوی کے پل میں تولہ اور پل ماشہ جیسے مزاج سے تنگ پڑ گئی تھی۔کمرے میں ہوتا تو اس قدر سخت تاثرات چہرے پر سجائے رکھتا کہ وہ بات تک نہیں کر پاتی تھی۔وہ جانتی تھی کہ وہ اس سے ناراض ہے۔وہ یہ بھی مانتی تھی کہ غلطی اسکی تھی اور کئی بار اس نے غزنوی کو منانے کی بھی کوشش کی مگر سامنے سے اسکا رویہ ایسا ہوتا کہ وہ ہمت نہیں کر پاتی تھی۔

اب وہ بھی اس سے کم ہی مخاطب ہوتی لیکن اندر ہی اندر وہ غزنوی کے اپنی طرف اٹھنے والے قدموں کی تہہ دل سے منتظر تھی۔۔

لیکن آج شمائلہ بیگم نے اسے پھر سے اسکے سامنے جا کھڑے ہونے کا کہہ دیا تھا اور یہ سوچتے ہی کچن کی گرمی اسے کچھ زیادہ ہی چھبنے لگی تھی۔اس نے ہاتھ دھوئے اور کچھ سے باہر آ گئی۔غزنوی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آفس سے آیا تھا۔وہ کمرے میں آئی تو وہ جوتوں سمیت بیڈ پہ لیٹا ہوا تھا۔آنکھوں پہ بازو رکھے شاید سو رہا تھا۔ایمان نے سوچا آگے بڑھ کر اسکے شوز اتار دے مگر دونوں کے بیچ اتنی فرینکنیس تو تھی نہیں۔۔اس لئے وہ ارادہ ملتوی کرتی صوفے کی طرف بڑھ گئی۔اسکی آہہٹ سے بھی غزنوی کے ساکت وجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔وہ کچھ دیر یونہی خاموشی سے صوفے پہ بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔بظاہر تو وہ سویا ہوا لگ رہا تھا مگر نجانے کیوں ایمان کو محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اسے نظروں کے زاویے پہ رکھے ہوئے ہے۔۔اسے دیکھ رہا ہے اس خیال کے آتے ہی وہ اسکی جانب سے رخ پھیر گئی۔اسے مسلسل لگ رہا تھا کہ وہ غزنوی کی نظروں کے حصار میں ہے۔اگلے ہی لمحے وہ جھٹکے سے اٹھی اور اسکے سرہانے جا کھڑی ہوئی۔

"مجھے آج مارکیٹ جانا ہے۔۔عید کی شاپنگ کرنی ہے۔"

وہ اسکے سر پہ کھڑی یوں بول رہی تھی جیسے سامنے والا بہرہ ہو۔۔مگر اسکا اتنا اونچا اونچا بولنا بھی بیکار گیا۔وہ جوں کا توں لیٹا رہا۔ایمان کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے۔

"آپ سن رہے ہیں یا نہیں؟"

ایمان نے اسکی طرف بڑھایا ہاتھ واپس کھینچ لیا اور تھوڑے دھیمی آواز میں بولی۔

"کیا مسئلہ ہے جو سر پہ کھڑی چلا رہی ہو۔دیکھ بھی رہی ہو کہ شوہر تھکا ہارا آفس سے آیا ہے۔۔یہ نہیں ہوتا کہ۔۔۔"

وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا اور دبے دبے غصے سے ایمان کی طرف دیکھ کر بولا۔

"مجھے شاپنگ کے لئے جانا ہے۔"

ایمان نے سینے پہ ہاتھ باندھتے ہوئے نروٹھے انداز میں کہا۔غزنوی نے اسکا نروٹھا انداز ملاحظہ کیا اور پھر اگلے ہی پل اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے بیٹھایا۔

"کچھ زیادہ فری نہیں ہو رہی تم۔۔"

غزنوی کی سنجیدہ نگاہیں اسکے سلونے چہرے پہ جمی تھیں۔

"میں کب فری ہو رہی ہوں۔۔ایک سیدھی سی بات کر رہی ہوں اور آپ کے مزاج ہی نہیں مل رہے۔نجانے خود کو کیا سمجھتے ہیں۔۔مجھے کوئی شوق نہیں آپ سے فری ہونے کا۔۔یہ اور بات کہ آپ نے فری ہونے کی کافی کوشش کی جو میں نے کامیاب نہیں ہونے دی۔"

وہ ایک ادا سے آنکھیں گھماتی بولی۔۔انداز ایسا تھا کہ تم سیر ہو تو میں سوا سیر۔۔

"یہ منہ اور مسور کی دال۔۔"

غزنوی مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔

"کیا مطلب۔۔۔؟"

ایمان کو امید نہیں تھی کہ ایسا جواب دے گا۔وہ تو اسکے اپنی طرف قدم بڑھانے کی منتظر تھی مگر اس نے تو نہایت دھڑلے سے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسکی ذات کی نفی کر دی تھی۔

"مطلب یہ کہ تم اتنی اہم نہیں ہو کہ تم پہ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کروں۔"

غزنوی اپنی بات کے اختتام پر اسکی رونے والی شکل پہ اپنی ہنسی نہیں روک پا رہا تھا اس لئے فورا بیڈ سے اترا۔

"افطاری کے بعد لے جاوں گا۔"

وہ اسکی جانب سے کسی جواب کا منتظر بولا تھا۔

"نہیں جانا مجھے آپ کے ساتھ۔۔"

ایمان جھٹکے سے اٹھی اور تیزی سے باہر نکل گئی۔اسکے یوں باہر جانے پر وہ مسکرا دیا۔

"کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کہی کا بھید کھل جائے

اسی خدشے سے میں تم سے۔۔۔

مگر یہ کیا اذیت ہے

عجب انداز وحشت ہے

مجھے تم سے محبت ہے۔۔"

غزنوی دھیرے سے گنگنایا۔ _____________________________________


"کہاں جا رہی ہو تم دونوں؟"

ایمان اور ملائکہ، لاریب کے بلانے پر ان کے پورشن میں جا رہی تھیں کہ پیچھے سے آتی غزنوی کی آواز نے ان کے قدم روک دیئے۔دونوں نے پلٹ کر دیکھا۔وہ ٹراؤزر کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے کھڑا ان کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اب تیوری چڑھائے ان کے قریب آیا۔

"بھائی۔۔۔ہم لاریب کیطرف جا رہے ہیں، اس نے بلایا تھا۔"

ملائکہ نے غزنوی کی سوال کرتی نگاہوں کے جواب میں کہا۔

"آپ نے تو شاپنگ پہ جانا تھا نا۔"

اب وہ سوالیہ نظریں ایمان پہ مرکوز کیے پوچھ رہا تھا۔ملائکہ تو فورا غزنوی کے سنجیدہ تیور دیکھ کر وہاں سے کھسک لی اور بناء پیچھے دیکھے سیدھی لاریب کے پورشن کی طرف بڑھ گئی۔

"میرا ارادہ بدل گیا ہے۔"

ایمان نے بھی جان چھڑا کر کھسکنا چاہا۔

"مگر مجھے تو جانا ہے۔"

غزنوی نے اسے بازو سے پکڑا اور اسے کمرے میں لے آیا۔

"چلو چینج کرو۔۔۔میں باہر گاڑی میں ویٹ کر رہا ہوں۔"

اسے کپڑے تبدیل کرنے کا کہہ کر وہ خود کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے ایک نظر اپنے ملگجے لباس پہ نظر ڈالی اور الماری کی طرف بڑھ گئی۔کچھ دیر میں لباس تبدیل کرنے کے بعد وہ کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آئی۔کچھ دیر پہلے تو لاؤنج خالی تھا مگر اب وہاں خیرن بوا اور شمائلہ بیگم بیٹھی نجانے کیا راز و نیاز کر رہی تھیں۔ایمان پر نظر پڑی تو خیرن بوا نے گھڑی کی جانب دیکھا۔

"اے بہو۔۔۔یہ اس وقت کہاں کا قصد کیے بیٹھی ہو۔"

خیرن بوا نے ایمان کو سر سے پیر تک بغور دیکھا۔حالانکہ وہ بہت سادہ لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ اسی دوران گاڑی کے ہارن کی آواز پہ تینوں نے بیک وقت لاؤنج کے دروازے کی سمت دیکھا۔

"جاؤ بیٹا۔۔غزنوی انتظار کر رہا ہے۔"

شمائلہ بیگم نے ایمان سے کہا تو وہ سر ہلاتی باہر کی جانب بڑھ گئی۔

وہ باہر آئی تو غزنوی گاڑی گیٹ کے قریب روکے اسکا انتظار کر رہا تھا۔وہ گاڑی کی طرف آئی۔اس کے قریب پہنچتے تھے فرنٹ ڈور کھولا گیا۔

"چلیئے نا محترمہ۔۔۔ایک تو آپ کو انتظار کروانے کا نجانے کیوں اتنا شوق ہے۔"

وہ گاڑی میں بیٹھی تو غزنوی نے اگنیشن میں چابی گھماتے ہوئے کہا۔

"میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔"

ایمان نے اسکی طرف دیکھے بناء کہا۔

"ہاں ہاں بیگم صاحبہ۔۔۔آپ نے تو کبھی کچھ نہیں کیا۔"

غزنوی ڈرائیونگ کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔جواب میں وہ خاموش رہی۔

"وہ تمھارا گونگا فون کہاں ہے؟"

غزنوی نے ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھا جو اس سے لاپرواہ بھاگتے دوڑتے منظر میں گم تھی۔وہ اس سے بات کرتے رہنا چاہتا تھا۔۔شاید وہ اسے سنتے رہنا چاہتا تھا مگر وہ اب بھی خاموش رہی۔

"جب بھی کال کرو کچھ بولتا ہی نہیں۔"

غزنوی نے بات کو مذاق کا رنگ دیا۔

"ظاہر ہے گونگا ہے تو کیسے بولے گا۔"

ایمان چڑ کر بولی۔

"بالکل تمھاری طرح۔"

وہ ہنسی روکتے ہوئے بولا۔ایمان نے اسکی طرف یوں دیکھا جیسے اسکی دماغی حالت پہ شبہ ہو۔

"لگتا ہے کہ آج افطاری میں آپ نے کچھ زیادہ ہی کھا لیا ہے، تبھی الٹا سیدھا بول رہے ہیں۔۔گاڑی زرا تیز چلایئے۔۔ہمیں واپس بھی آنا ہے۔"

ایمان کے لہجے کا تیکھا پن غزنوی کو واضح محسوس ہوا مگر وہ اگنور کر گیا اور خاموشی سے ڈرائیو کرنے لگا۔اسکے بعد دونوں میں مزید کوئی بات نہیں ہوئی۔شاپنگ کے دوران بھی ایمان کی عدم دلچسپی عروج پر تھی۔ہر ڈریس پہ لاپروائی سے ناک چڑھانا۔۔۔وہ ساری شاپنگ کے دوران یہی ایک کام بہت اچھے سے کر رہی تھی۔غزنوی نے اپنی پسند سے اسے تین ڈریسز اور میچنگ جوتے، جیولری دلائی۔اپنے لئے بھی اس نے کچھ شرٹس خریدیں۔

"بس کافی ہے۔"

غزنوی کو کاسمیٹکس کی شاپ کیطرف بڑھتے دیکھ کر ایمان جلدی سے بولی۔۔وہ وہیں رک گیا۔

"اچھا آؤ۔۔۔"

وہ پلٹ کر چوڑیوں کے اسٹالز کیطرف بڑھ گیا۔۔وہاں رش دیکھ کر ایمان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ غزنوی کی غصہ چھلکاتی نظریں خود پہ جمے دیکھکر چپ کر گئی مبادہ وہ وہیں نہ شروع ہو جائے۔۔پہلے ہی وہ اپنے جان بُوجھ کر کیے جانے والے نخروں سے اسے اچھا خاصا تپا چکی تھی جو غزنوی کے چہرے پہ صاف دکھ رہا تھا۔اسے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے غصے کی جھلک دکھلاتا آگے بڑھ گیا۔

"نَک چڑا۔۔۔"

وہ بڑبڑائی اور اسکے پیچھے ہو لی۔

اب چوڑیوں کے اسٹالز پہ لڑکیوں کا ہجوم تھا۔۔وہ ان کے ہٹنے کے انتظار میں کوفت کا شکار ہونے لگا جبکہ ایمان اسکے تاثرات کا کچھ دیر مزا لیتی خود آگے بڑھی اور اپنے لئے میچنگ چوڑیاں خریدیں۔غزنوی نے شکر کا کلمہ پڑھ کر پیمنٹ کی اور تیز تیز قدم اٹھاتا مال کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ایمان بھی اسکے پیچھے تھی۔۔پارکنگ میں پہنچ کر غزنوی نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کر ہاتھ میں پکڑے شاپرز رکھے اور ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولا۔۔ایمان بھی فوراً بیٹھی اور ہاتھ میں پکڑا چوڑیوں کا شاپر پچھلی سیٹ پہ رکھ دیا۔

"پہلے یہ دروازہ بند کریں محترمہ، پھر اسکے بعد باقی کاروائیاں کر لیجئیے گا۔"

غزنوی نے دروازہ کھول کر شاپر پیچھے رکھتی ایمان سے طنزیہ لہجے میں کہا۔اس نے فوراً گاڑی کا دروازہ بند کیا۔عید میں تین دن تھے اس لئے رش بڑھنے لگا تھا۔غزنوی نے پارکنگ سے گاڑی نکالی۔

"آئس کریم کھاؤ گی؟"

آئس کریم پارلر پہ نظر پڑی تو اس نے ایمان سے پوچھا۔

"نہیں۔۔"

جی تو چاہ رہا تھا مگر ناک چڑھا کر انکار کر گئی۔۔غزنوی نے گاڑی آئس کریم پارلر کے پاس روکی۔

"شکر ہے تھوڑی عقل سلامت ہے موصوف کی۔"

ایمان نے دل ہی دل میں سوچا مگر اسکے چہرے کے سنجیدہ تاثرات میں کوئی فرق نہیں آیا۔گاڑی رکتے دیکھ کر آئس کریم پارلر سے ایک لڑکا بھاگتا ہوا ان کی طرف آیا۔

"ایک چاکلیٹ۔۔۔"

غزنوی گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہوئے بولا۔۔وہ اتنا دھیرے بولا کہ ایمان صرف چاکلیٹ ہی سن پائی۔

"ہائے۔۔چاکلیٹ۔۔۔مجھے تو اسٹابری فلیور پسند ہے۔۔چلو خیر چاکلیٹ ہی کھا لوں گی۔"

ایمان نے چاکلیٹ فلیور کا سن کر غزنوی کی جانب سے چہرہ موڑے برے برے منہ بنائے۔۔کچھ لمحوں بعد ایمان نے اس لڑکے کو واپس آتے دیکھا پھر اگلے ہی لمحے اس نے لڑکے کی جانب سے نظر گھمائی۔

"سر۔۔!! میڈم کے لئے کونسا فلیور؟"

لڑکے نے ٹرے سے آئسکریم کپ اٹھا کر غزنوی کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں میڈم کو آئسکریم نہیں پسند۔"

ایمان نے غزنوی کو کہتے سنا۔

"ظالم انسان۔۔۔کیا تھا جو میرے لئے بھی منگوا لیتا۔"

ایمان کو اپنی اس بے قدری پہ رونا آنے لگا۔۔غزنوی نے ساتھ بیٹھی ایمان کو دیکھا جو باہر عمارتوں کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس سے زیادہ ضروری کوئی دوسرا کام نہ ہو۔اس نے کندھے اُچکا کر گاڑی اسٹارٹ کی۔

سارا راستہ وہ کڑتی رہی جبکہ وہ مزے سے آئسکریم کھاتا رہا۔

"ندیدہ کہیں کا۔۔یوں آئسکریم کھا رہا ہے جیسے پہلے بار کھا رہا ہو۔"

ایمان نے کنکھیوں سے غزنوی کی جانب دیکھا۔

"ٹیسٹ تو کرو۔۔۔بہت مزے کی ہے۔"

غزنوی نے اسکی چور نظروں کو خود پہ مرکوز دیکھ کر کپ اسکی طرف بڑھاتا بولا۔

"اب آفر کر رہا ہے تو ایک۔۔۔"

ایمان نے سوچا۔

"چلو اچھا مت کھاؤ۔"

اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ بڑھاتی غزنوی نے ہاتھ واپس کھینچ لیا۔۔وہ دل مسوس کر رہ گئی۔

"اففف ۔۔۔کسقدر ٹریفک ہے۔۔سنو۔۔۔!!"

تھوڑی دیر بعد غزنوی کی آواز گاڑی میں گونجی۔۔وہ جو ابھی آئسکریم پہ فاتحہ پڑھ کر فارغ ہوئی ہی تھی کہ غزنوی کے پکارنے پر اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی۔

"یار یہاں سے گاڑی فوراً نکالنی ہے۔۔اب میں آئسکریم کھاؤں یا ٹریفک سے گاڑی نکالوں۔۔تمھارے ہاتھ فری ہیں آئسکریم ہی کھلا دو۔"

غزنوی نے کپ اسکی طرف بڑھایا جبکہ ایمان اسے حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔

"پکڑو نا یار۔۔۔تم مت کھانا، مجھے کھلاؤ۔"

غزنوی نے اسے ساکت بیٹھے دیکھ کر کہا۔۔ایمان نے کپ اسکے ہاتھ سے لے لیا۔۔اس نے کپ میں جھانکا۔۔

"ساری تو چٹ کر گیا ہے۔"

ایمان نے تھوڑی سی بچی ہوئی آئسکریم کو دیکھکر سوچا۔غزنوی نے گاڑی کی رفتار بڑھائی۔۔

"خود ہی کھائے۔۔۔اب میں اسکے یہ نخرے بھی اٹھاؤں۔"

وہ جو پہلے ہی جلی بھنی بیٹھی تھی کپ ڈیش بورڈ پہ رکھ کر بڑبڑائی۔

"ارے۔۔۔کھلاو بھی پگھل جائے گی۔"

وہ اسے کپ ڈیش بورڈ پہ رکھتے دیکھ کر بولا۔۔ایمان غصے سے اسکی طرف دیکھکر رخ پھیر گئی۔وہ ڈرائیونگ کی طرف متوجہ تھا مگر اسکے لبوں کی مسکراہٹ گہری ہوگئی تھی۔ایمان کو ڈھیٹ بنے بیٹھے دیکھ کر وہ دل میں ابھری خواہش کو دباتا۔۔۔گاڑی کی رفتار دھیمی کرتا کپ اٹھا کر بقیا آئسکریم کھانے لگا۔

_________________________________


"کمبخت کہاں مر گیا؟"

بادشاہ خان نے بند دروازے پہ اپنے جوتے کی چھاپ چھوڑی۔

"خان میں تو کہتا ہوں۔۔دفع کرو اس کمینے کو۔۔ڈرپوک تھا۔۔جیسے ہی اسے پتہ چلا کہ شیر پنجرے سے باہر آ گیا ہے تو سب چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گیا۔۔جگر والا ہوتا تو یوں دُم دبا کر نہ بھاگتا۔۔مجھے تو لگتا ہے شہر بھاگ گیا ہے۔"

جانس خان بات کرتے کرتے اسے مکھن لگانا نہ بھولا تھا۔

"او جانس خاناں۔۔۔!! تُو صحیح کہہ رہا ہے، جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔۔لیکن شہر کیوں جائے گا اور کب گیا۔۔دو دن پہلے تک تو یہیں گاؤں میں ہی تھا۔"

بادشاہ خان اب غصے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ کہیں سے بھی رشید خان کو پکڑ کر اپنے سامنے لا کھڑا کرے اور اس کے ہوش ٹھکانے لگا دے۔

دو دن سے لگاتار وہ دونوں رشید خان کے گھر کے چکر پہ چکر لگا رہے تھے، کبھی رات گئے اور کبھی دن چڑھے۔۔مگر رشید خان ان کے ہاتھ نہ آیا۔جیل سے چھوٹتے ہی وہ رشید خان کو سبق سکھانا چاہتا تھا، جس کی وجہ سے وہ دو دن جیل کی ہوا کھا کر آیا تھا، مگر ایس ایچ او کرم داد نے اسے منع کر دیا تھا کہ ابھی کچھ دن گاؤں والوں کی نظروں سے اوجھل رہے اور نا ہی اپنا جُوے کا اڈا کھولے۔۔ایک دو دن جیسے تیسے صبر کے گھونٹ پی کر اس نے جانس خان کو رشید خان کے بلانے بھیجا مگر رشید خان کے گھر پہ تالا لگے دیکھ کر جانس خان واپس آ گیا۔۔

"کسی سے پوچھ تو سہی۔۔۔آخر کہاں غائب ہو گیا ہے، زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا ہے۔۔پورے گاؤں میں نہیں ہے اور شہر جا نہیں سکتا۔"

بادشاہ خان اب غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا۔

"خان میں نے پوچھا ہے گاؤں والوں سے۔۔کسی کو بھی اسکے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور اگر کسی کو معلوم بھی ہے تو منہ سے نہیں پھوٹ رہا۔اگر شہر گیا بھی ہے تو کسی کو تو پتہ ہو گا مگر کوئی بھی زبان نہیں کھول رہا۔"

جانس خان، بادشاہ خان کے قریب آیا۔

"تو پھر کہاں دفعان ہو گیا ہے۔"

بادشاہ خان بجلی کی طرح جانس خان پر جھپٹنے کو آگے ہوا مگر جانس خان نے فوراً پیچھے ہٹ کر اپنا بچاؤ کیا۔

"خان ایک خیال آیا ذہن میں۔۔۔کہیں وہ حویلی میں تو چھپا نہیں بیٹھا۔"

جانس خان کے دماغ میں حویلی کا خیال آیا۔

"ہو سکتا ہے۔۔جا معلومات کر جا کے۔۔۔اور ہاں پکی خبر نہ لایا تو وہیں مردان خانے میں زندہ گاڑ دوں گا۔"

بادشاہ خان نے جانس خان کو گریبان سے پکڑ کر جھٹکے سے چھوڑا۔وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور کچھ فاصلے پہ جا گرا۔۔بادشاہ خان نے کندھے پہ پڑا سفید صافہ جھاڑ کر دوبارہ کندھے پہ جمایا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہاں سے چلا گیا۔اسکے جانے کے بعد جانس خان کپڑے جھاڑتا اٹھ کھڑا ہوا۔اردگرد نظر دوڑائی۔۔دور تک گلی سنسان تھی۔۔اس نے شکر کیا کہ اس وقت وہاں کوئی اور نہیں تھا ورنہ لوگوں کی تمسخرانہ نظریں کیسے برداشت کرتا۔۔

ایک نظر بند دروازے کو دیکھا اور پھر وہاں سے حویلی کا رخ کیا۔ __________________________________________


آج آخری روزہ تھا۔افطاری میں اچھا خاصا اہتمام کیا گیا تھا۔سبھی ایک بار پھر مکرم احمد کے پورشن میں جمع تھے اس لئے آج کافی چہل پہل تھی۔ایمان، ملائکہ اور شمائلہ بیگم افطاری کی تیاری کر رہی تھیں۔خیرن بوا بھی وہیں موجود دھنیا صاف کر رہی تھیں۔وہ بڑی توجہ سے دھنیے کی ایک ایک ٹہنی سے ایک ایک پتی الگ کر کے پاس رکھی چھوٹی سی نیلی ٹوکری میں ڈالتی جا رہی تھیں۔ساتھ ہی ساتھ زبان پہ کسی کلمے کا ورد بھی جاری تھا۔

"ہائے بوا آج آخری روزہ ہے۔"

لاریب دھم سے آ کر خیرن بوا کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔

"ائے ہائے۔۔۔لونڈیاء۔۔۔کیا ہر وقت اچھل کود کرتی رہتی ہو۔۔"

خیرن بوا نے لاریب کو ناگواری سے دیکھا۔

"اُفففف بوا۔۔میں نے کتنی بار کہا ہے کہ مجھے لونڈیا مت کہا کریں۔"

لاریب نے ٹوکری سے دھنیے کی ٹہنی اٹھائی۔

"اے ہے۔۔لونڈیا نہ کہوں تو کیا لونڈا کہوں؟"

خیرن بوا نے اسکے ہاتھ سے ٹہنی لے کر ٹوکری میں رکھی۔

"اسے آپ لونڈی کہا کریں بُوا۔۔"

لاریب نے منہ کھولا ہی تھا کہ کچن میں داخل ہوتی فائقہ نے کہا اور بوا کے کرسی کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔

"اے بی بی تم تو رہنے ہی دو۔۔۔اور ہاتھ بٹاؤ آ کر۔۔ڈھیسلا کی ڈھیسلا کبھی وہاں گری تو کبھی یہاں۔۔پرائے گھر جا کر ہماری ناک ہی کٹواو گی۔"

خیرن بوا نے فائقہ کو گھورا۔۔لاریب ہنسنے لگی جبکہ فائقہ اس عزت افزائی پہ منہ ٹیڑھا کرتی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔

"بُوا مجھے سارے کام کرتی ہوں۔"

فائقہ نروٹھے انداز میں خیرن بوا کی جانب دیکھتے ہوئے بولی۔

"ائے ہم نے تو کبھی نہیں دیکھا تمھیں کام کرتے۔جب بھی ہم گئے موئی کتاب ہی منہ کو لگا رکھی ہوتی ہے تم نے۔"

بوا مصروف انداز میں بولیں۔۔شمائلہ بیگم اور ایمان نے فائقہ کے یوں پکڑے جانے پر مسکرا کر اسے دیکھا۔

"آپکو کیا پتہ بوا۔۔آپ تو یہاں ہوتی ہیں۔"

فائقہ روٹھی روٹھی بولی جبکہ اس کے سامنے بیٹھی لاریب نے اپنی جان چھوٹنے پر شکر کا کلمہ پڑھا۔

"ایمان تم جا کر تھوڑا آرام کر لو۔۔باقی کا کام فائقہ دیکھ لے گی۔"

بوا نے فائقہ کا امتحان لینا ضروری سمجھا۔۔جبکہ فائقہ منہ کھولے بوا کو دیکھنے لگی۔

"بوا میں کر لوں گی۔"

ایمان آنچ دھیمی کرتے ہوئے بولی۔

"ائے میں آرام کرنے کا کہہ رہی ہوں۔۔جاؤ شاباش اپنے کمرے میں جاؤ۔۔یہ دونوں ہیں شگفتہ کی مدد کرنے کے لئے۔۔کیوں بہو میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا؟"

خیرن بوا نے ساتھ بیٹھتی شمائلہ بیگم سے پوچھا۔

"جی بوا۔۔۔ایمان بوا ٹھیک کہہ رہی ہیں کچھ دیر ریسٹ کر لو۔۔"

شمائلہ بیگم نے خیرن بوا کی تائید کی۔

"جی۔۔۔"

ایمان مختصراً کہتی کچن سے نکل گئی۔

"میں بھی تھوڑا آرام کر لوں۔"

لاریب بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"تم اور فائقہ، شگفتہ کی مدد کرو۔۔چلو بہو باہر چلتے ہیں، اس موئی کرسی پہ بیٹھے بیٹھے میری کمر اکڑ گئی ہے۔"

خیرن بوا شمائلہ بیگم سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں اور پھر دونوں کچن سے نکل گئیں۔

"بہت اچھے بھئی بہت اچھے۔۔"

لاریب نے فائقہ کی طرف دیکھ کر آنکھیں گھماتے ہوئے کہا تو فائقہ نے اسکے کندھے پہ مکا جڑ دیا۔شگفتہ بھی دونوں کی شامت آنے پر ہنس رہی تھی۔

"شگفتہ بیگم۔۔۔تمھارے دانت کیوں اتنے نکل رہے ہیں۔"

لاریب اور فائقہ اب شگفتہ کے سر پہ کھڑی تھیں۔

"باجی۔۔۔آپ دونوں بوا جی سے پنگا نہ لیا کرو۔۔۔پتہ بھی ہے آپ کو ان سے پنگا چنگا نہیں ہوتا۔"

شگفتہ نے دونوں کو باری باری دیکھا۔

"تم اپنے کام سے کام رکھو۔۔۔ہم سے پنگا نہ لو ورنہ چنگا نہیں ہو گا اور زرا یہ اپنے پیلے دانتوں کی نمائش بند کرو، جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ۔"

فائقہ نے اسکے ہاتھ سے چمچہ لیا۔

"ہا ہائے باجی۔۔"

شگفتہ نے منہ بنایا تو وہ دونوں ہنس دیں۔ _______________________________


"گل شیر۔۔۔!!"

جانس خان کب سے حویلی سے کچھ فاصلے پر بیٹھا انتظار میں تھا کہ کوئی باہر آئے تو وہ اس سے رشید خان کے متعلق پوچھے۔چوکیدار سے پوچھا تھا اس نے مگر اسکے یہ بتانے کے باوجود کہ رشید خان حویلی میں نہیں ہے، اسے یقین نہیں آیا تھا۔۔پھر وہ وہیں کچھ فاصلے پر بیٹھ گیا تھا اور دو گھنٹوں کے مسلسل انتظار کے بعد گل شیر حویلی سے باہر آتا دکھائی دیا تو وہ فوراً اٹھ کر اسکے پیچھے آیا تھا۔

"جانس خان تم یہاں کیا کر رہے ہو؟"

گل شیر نے اسے وہاں دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں۔۔کسی کام سے یہاں سے گزر رہا تھا، تمھیں دیکھا تھا تو سوچا باقی کا سفر تمھارے ساتھ طے کیا جائے۔"

جانس خان نے صفائی سے جھوٹ بولا۔

"اچھا۔۔"

گل شیر قدم آگے بڑھائے۔۔جانس خان بھی اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔

"کہاں جا رہے ہو؟"

جانس خان نے بات شروع کی۔

"اماں کی دوائی ختم ہو گئی ہے۔۔وہی لینے ہسپتال تک جا رہا تھا۔"

گل شیر نے چلتے چلتے جواب دیا۔

"اچھا اچھا۔۔۔میں بھی وہیں جا رہا تھا۔۔حویلی والے تو چلے گئے ہونگے نا۔"

جانس خان مدعے پہ آیا۔

"ہاں۔۔۔کب کے۔۔"

گل شیر نے جواب دیا۔

"رشید خان کیسا ہے اب۔۔۔تم یقین نہیں کرو گے میں نے ہی آگے بڑھ کر بادشاہ خان کو قابو کیا تھا ورنہ تو گولی رشید خان کا سینہ چیر گئی ہوتی۔"

جانس خان کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد دوبارہ شروع ہوا۔

"ہاں سنا تھا میں نے کہ لوگوں کے روکنے سے بادشاہ خان کا نشانہ چُوک گیا تھا لیکن کسی نے تمھارا نام نہیں لیا۔"

گل شیر سادہ سے لہجے بولا۔

"یار تم جانتے نہیں ہو گاؤں کے لوگوں کو۔۔۔جلتے ہیں مجھ سے۔۔"

جانس خان اپنے لہجے پہ قابو پاتے ہوئے بولا۔

"خیر چھوڑو۔۔۔میں چلتا ہوں مجھے دیر ہو رہی ہے۔"

گل شیر نے کچھ ہی دور نظر آتی ہسپتال کی عمارت کو دیکھکر کہا اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔

"ارے یار۔۔۔ٹھہرو نا۔۔میں بھی آ رہا ہوں۔"

جانس خان اسکے پیچھے دوڑا۔

"ویسے میں رشید خان سے ملنے آیا تھا حویلی۔۔اسکے گھر پہ تو تالا لگا تھا، سوچا حویلی جا کر دیکھ لوں مگر چوکیدار نے کہا کہ رشید خان وہاں نہیں ہے۔۔وہاں اپنے گھر بھی نہیں ہے اور حویلی میں بھی نہیں۔۔تو کہاں ہے رشید خان۔"

جانس خان نے بالآخر پوچھ ہی لیا۔

"رشید خان تو شہر چلا گیا ہے۔۔گل خان آیا تھا اسے لینے۔۔۔اور اب وہیں شہر میں ہی رہے گا۔"

گل شیر یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔۔وہ کم عمر لڑکا تھا، جانس خان کی چالاکی نہیں سمجھ پایا اور اپنی بیوقوفی میں اسے رشید خان کے متعلق بتا دیا۔

جانس خان کچھ دیر وہیں کھڑا گل شیر کو جاتے دیکھتا رہا۔۔پھر اسکے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی یہ خبر لے کر بادشاہ خان کے پاس پہنچا۔۔بادشاہ خان اس وقت اپنے گھر کے مردان خانے میں لیٹا ہوا تھا۔

"خان خان۔۔۔!"

جانس خان دوڑتا ہوا چارپائی کے پاس پہنچا، جس پہ بادشاہ خان لیٹا ہوا تھا۔اسکی سانس پھولی ہوئی تھی۔

"کیا آفت آ گئی ہے۔"

بادشاہ خان ناگواری سے اسکی جانب دیکھتا اٹھ بیٹھا۔

"خان گیدڑ شہر میں ہی چھپا بیٹھا ہے۔۔اعظم احمد کے گھر میں اور اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔وہیں رہے گا۔"

جانس خان نے کچھ دیر اپنی پھولی سانسوں پہ قابو پایا اور پھر گل شیر کی بتائی ساری بات بادشاہ خان کو بتا دی۔

"پکی خبر ہے؟ یہ نہ ہو کہ وہ حویلی میں چھپا بیٹھا ہو۔"

بادشاہ خان نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔

"خان ایک دم پکی خبر ہے۔گل شیر نے بتایا کہ رشید خان گل خان کے ساتھ گیا ہے۔اب حویلی کے اندر کی خبر ہے، جھوٹ کیسے ہو سکتی ہے۔"

جانس خان نے بادشاہ خان کے چہرے پہ سوچ کی گہری ہوتی لکیروں کو دیکھکر کہا۔

"کہہ تو تُو ٹھیک رہا ہے۔جب وہ وہاں ہے تو ہم بھی وہیں چلتے ہیں۔"

بادشاہ خان اٹھ کھڑا ہوا۔

"خان ابھی؟"

جانس خان نے حیرانی سے اسکی طرف دیکھا۔

"نہیں۔۔۔صبح آ جانا۔"

یہ کہہ کر بادشاہ خان اندرونی دروازے کی طرف بڑھ گیا۔اسکے جانے کے بعد جانس خان وہیں چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ ______________________________________________


افطاری کے بعد وہ ساری ٹولی چھت پہ چاند تلاش کرنے پہنچ چکی تھی، لیکن چاند کی تلاش کم اور ایک دوسرے پہ فقرے زیادہ کَسے جا رہے تھے۔

"یار لگتا ہے کل بھی روزہ ہے۔"

مرتضیٰ نے فیروز کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔"

فیروز بھی شکل پہ بیچارگی سجاتے ہوئے بولا۔

"بس حد ہوگئی۔۔میں تو چاند کے پاس جا رہا ہوں۔"

مرتضیٰ نے فیروز کو آنکھ ماری اور کچھ فاصلے پہ کھڑی فائقہ اور لاریب کی طرف بڑھ گیا۔

"او تُو اتنا خبیث ہو گا، مجھے اندازہ نہیں تھا۔"

فیروز نے با آواز بلند کہا تو لاریب اور فائقہ نے، جو نجانے کیا کھسر پھسر کر رہی تھیں اسکی طرف دیکھا۔

"فیروز تم تھوڑا آہستہ نہیں بول سکتے ہو، جب دیکھو حلق پھاڑتے رہتے ہو۔"

وہیں کچھ فاصلے پہ غزنوی، مصطفی اور ہادی بیٹھے ہوئے تھے۔۔غزنوی نے اپنا بزنس یہیں سیٹل کرنے کا سوچ لیا تھا اور وہ ہادی سے ساتھ چلنے کے لئے کہہ رہا تھا۔فیروز کے اونچا بولنے پہ مصطفیٰ جو بغور غزنوی کی بات سن کر اسے مشورہ دے رہا تھا، اسکی طرف دیکھ کر بولا۔

"بھائی میں تو آہستہ ہی بول رہا تھا۔"

وہ اپنے اونچا بولنے پر پچھتایا۔۔مصطفی واپس سے ہادی اور غزنوی کی طرف متوجہ ہو گیا۔فیروز ان کے مصروف ہونے پر مرتضیٰ کے پیچھے آیا۔

"ویسے کیا گفتگو ہو رہی ہے؟"

مرتضیٰ نے لاریب سے پوچھا۔

"آپ کے بارے میں کوئی گفتگو نہیں ہو رہی تھی۔"

لاریب کو مرتضیٰ کی مداخلت پسند نہیں آئی۔

"وہ دن کب آئے گا جب تم میرے بارے میں گفتگو کرو گی۔"

مرتضیٰ نے ٹھرکی انداز اپنایا تو فائقہ ہنس دی جبکہ لاریب نے اسے صرف گھورنے پہ اکتفاء کیا۔

"کبھی نہیں۔۔"

وہ رخ پھیر گئی۔

"اوئے اعلان ہو گیا ہے کل عید ہے۔"

اسی لمحے ملائکہ اعلان کرتی چھت پہ آئی۔اسکے پیچھے ایمان، سحرش اور پرخہ بھی تھیں۔وہ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔۔

"چاند مبارک ہو محترمہ۔۔"

غزنوی سب کو باتوں میں مصروف دیکھ کر کرسی پہ بیٹھی ایمان کیطرف آیا۔

"آپکو بھی مبارک ہو۔"

ایمان نے اسے بھی مبارکباد دی۔۔غزنوی کرسی اسکے قریب گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔

"انکل کہاں ہیں؟"

غزنوی کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا بات کرے تو اس نے رشید خان کے متعلق پوچھا۔

"وہ داجی کی کمرے میں ہیں۔"

وہ اپنے ہاتھوں پہ نظریں جمائے بولی۔

"غزنوی میں نے سنا ہے کہ تم بزنس یہیں سیٹل کرنے سوچ رہے ہو؟"

وہ کچھ کہنے کے لئے دل ہی دل میں الفاظ ترتیب دے رہا تھا کہ پرخہ ان کے قریب آ کر بیٹھ گئی۔وہ جو ایمان کیطرف تھوڑا جھک کر بیٹھا تھا سیدھا ہوا۔

"جی آپی۔۔۔لیکن ابھی کچھ وقت لگے گا۔"

غزنوی نے ایمان کو اٹھ کر نیچے جاتے دیکھا۔

"سب ٹھیک ہے نا غزنوی؟"

پرخہ نے اسکی نظروں کا پیچھا کیا۔

"جی آپی سب ٹھیک۔۔"

وہ مسکرایا۔۔

"بہت اچھا فیصلہ ہے۔۔۔مجھے بہت خوشی ہوئی۔۔پتہ نہیں یہ شگفتہ ابھی تک چائے کیوں نہیں لے کر آئی۔۔میں دیکھتی ہوں۔"

پرخہ نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے اٹھی اور سیڑھیاں اتر گئی۔۔غزنوی نے ایک نظر ان سب پہ ڈالی جو سر جوڑے کسی پلاننگ میں مصروف تھے۔۔ہادی اور مصطفیٰ وہاں موجود نہیں تھے۔وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر کر اپنے کمرے میں آ گیا۔

مگر جسے ڈھونڈتا آیا تھا وہ وہاں نہیں تھی۔۔اس نے موبائل پاکٹ سے نکال کر ایمان کا نمبر ڈائل کیا۔اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجنے لگی۔۔سائیڈ ٹیبل کی طرف آیا جسکی اُوپری دراز تھوڑی سے کھلی ہوئی تھی۔موبائل وہی پڑا تھا۔اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا لیا۔

یہ دیکھ کر اسکی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ موبائل کی اسکرین پہ اسکی تصویر جگمگا رہی تھی۔اگلے ہی پل ایک جاندار مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا گھیراؤ کیا۔

"آپ یہاں ہیں۔۔۔میں اوپر چھت پہ گئی تھی۔"

ایمان کمرے میں آئی۔۔اپنا موبائل اسکے ہاتھ میں دیکھ کر اسکے دل کی دھڑکن بڑھی۔غزنوی کے چہرے کی دھیمی مسکان ایمان کو بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔

"خیریت تھی۔۔۔؟؟ آپ مجھے ڈھونڈ رہی تھیں۔"

غزنوی معنی خیزی سے کہتا قریب آیا۔۔"آپ" کا صیغہ ایمان سے ہضم نہ ہوا۔

"وہ داجی آپ کو بلا رہے ہیں۔"

وہ پلٹ کر جانے لگی جو تیزی سے آگے آ کر اسکا راستہ روک گیا اور اسکا موبائل اسکے آنکھوں کے سامنے کیا۔موبائل وال پہ لگی غزنوی کی پکچر ایمان کی آنکھوں کے سامنے تھی۔

"لو اپنا فون۔"

غزنوی نے فون اسکی بڑھایا۔ایمان نے فون اسکے ہاتھ سے لے لیا اور اسکے سائیڈ سے ہو کر بجلی کی سی تیزی سے وہاں سے نکلی۔غزنوی اسکی گھبراہٹ سے محظوظ ہوتا اسکے پیچھے کمرے سے نکلا۔اسکا رخ اعظم احمد کے کمرے کی طرف تھا۔ ________________________________________


عید کا دن تھا اور غزنوی نے اسے گھن چکر بنانے میں کوئی نہیں چھوڑی تھی۔ہر چیز میں کیڑے نکالتا وہ اسکے ہاتھ پاؤں پُھلائے دے رہا تھا۔

"آپ تو ایسے ری۔ایکٹ کر رہے ہیں جیسے پہلی بار عید کی نماز پڑھنے کا رہے ہیں۔"

ایمان رومال اسکی جانب بڑھاتی بولی۔

"تم سے تو میں آ کر نبٹوں گا۔"

غزنوی رومال اسکے ہاتھ سے لیتا کمرے سے نکل گیا۔ایمان نے جلدی جلدی ادھر ادھر بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔

"ایمان۔۔۔!"

اسی دوران شمائلہ بیگم اسے پکارتیں کمرے میں داخل ہوئیں۔

"جی؟"

وہ جو بیڈ شیٹ ٹھیک کر رہی تھی، سیدھی ہوئی۔

"بیٹا یہ سب چھوڑ دو۔۔شگفتہ دیکھ لے گی، تم تیار ہو جاؤ۔۔میں بھیجتی ہوں اسے۔"

وہ اسے ہدایت دیتی کمرے سے چلی گئیں۔ایمان نے جلدی سے بیڈ کی چادر درست کی پھر الماری سے کپڑے لیتی واش روم میں گھس گئی۔

وہ تیار ہو کر باہر آئی تو گھر کے مرد نماز پڑھ کر آ چکے تھے۔سبھی لاؤنج میں موجود تھے۔اس نے سب کو سلام کیا اور عقیلہ بیگم کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد اعظم احمد اور رشید خان کو لئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔شمائلہ بیگم شیر خورمہ لانے کچن میں چلی گئیں۔باقی خواتین بھی ان کی مدد کرنے کے لئے اٹھ گئیں تھیں۔ان کے جاتے ہی ساری ینگ پارٹی زبردستی اپنی عیدی وصول کرنے میں لگ گئی۔ہادی اور مصطفیٰ نے کچھ پس و پیش کے بعد عیدی دے دی لیکن غزنوی ان سب کو ناکوں چنے چبوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا تھا۔

"ایمان تمھارا شوہر تو ایک نمبر کا کنجوس ہے۔"

فائقہ تھک ہار کر ایمان کو با آواز بلند مخاطب کیا۔

"تمھیں آج پتہ لگا یے؟ یہاں تو کنجوسی کی کوئی حد نہیں ہے۔"

ایمان طنز کرنے سے خود کو روک نہ پائی۔اسے آئسکریم والا واقعہ یاد آیا۔

"اووووووووو۔۔۔یہ کون بولا؟"

سحرش نے ایمان کی طرف دیکھا۔ایمان کو سحرش کی آنکھوں میں حیرانی دکھائی دی تو وہ جھینپ گئی۔

"یہ جو انہوں نے اتنا خوبصورت ڈریس، میچنگ جیولری اور جوتے پہن رکھے ہیں یہ میرے کنجوس ہونے کی بھرپور گواہی دے رہے ہیں۔"

غزنوی کہاں باز آنے والا تھا، اس نے اپنا بدلہ چکانے میں دیر نہیں کی۔

"ہاں بھئی ایمان۔۔تمھارا ڈریس تو بہت خوبصورت ہے۔"

پرخہ نے اسکے تیز گلابی اور سیاہ رنگ کے خوبصورت لباس کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"تھینک یو پرخہ آپی۔۔یہ میری چوائس ہے لیکن اعظم احمد کی چوائس کو نجانے کیا ہو گیا تھا۔"

غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کو دیکھا جسکے چہرے کا رنگ اس کی بات سن کر پھیکا پڑا تھا۔جبکہ باقی سبھی اسکی بات کو مذاق کے اینگل سے دیکھکر ہنسنے لگیں تھیں۔

ایمان نے غزنوی کو دیکھا، وہ اب ان سب کو عیدی دے رہا تھا۔ان سب کو مصروف دیکھ کر ایمان خاموشی سے اٹھ گئی۔

صبح سے شام ہونے کو آئی تھی۔ایمان کے انتظار میں وہ کمرے میں موجود تھا۔صبح بھی جب وہ کمرے میں آیا تھا تو وہ روم میں نہیں تھی۔شاید وہ اسکی صبح والی بات کو لے کر ناراض تھی۔اسے شدت سے اس بات کا احساس ہوا تھا کہ اسے سب کے سامنے ایمان سے ایسی بات نہیں کرنی چاہیئے تھی۔نجانے کیوں وہ سب ٹھیک کرنے بجائے سب بگاڑتا چلا جا رہا تھا۔اسکی تلاش میں ادھر ادھر نظریں دوڑاتا وہ اپنے کمرے میں آ گیا تھا مگر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی جب وہ کمرے میں نہیں آئی تو غزنوی کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آیا۔لیکن وہاں بھی ایمان کے سواء سبھی موجود تھیں۔وہ کچن کیطرف آیا۔ایمان شمائلہ بیگم کے ساتھ وہیں موجود تھی۔شمائلہ بیگم کی کسی بات پہ ایمان کے مسکراتے لب غزنوی کو دیکھ کر سکڑے تھے۔اس کے کانوں میں اس کا صبح والا جملہ گونجا تو وہ نگاہیں پھیر گئی۔

"امی ایک کپ چائے بنا دیں۔"

وہ قریب آیا اور ایمان پہ نظریں جمائے شمائلہ بیگم سے بولا۔ان کی پیٹھ تھی اسکی طرف۔اسے ماں کے سامنے اور کوئی بہانا نہ سُوجھا تو چائے کا ہی کہہ دیا۔

"یہ کوئی وقت ہے چائے کا۔۔لنچ کا وقت ہے۔"

شمائلہ بیگم نے پلٹ کر بیٹے کو دیکھا۔

"بھوک نہیں ہے مجھے اور کیا اس وقت چائے پینے پر ممانعت ہے؟"

وہ جلے کٹے انداز میں بولا۔نظریں لاپرواہ بیٹھی ایمان پہ مرکوز تھیں۔

"مجھے چائے پینی ہے۔۔شگفتہ کہاں ہے اس سے کہیں کہ وہ بنا دے گی، آپ لوگوں میں سے کوئی زحمت نہ کرے۔"

غزنوی تٗندہی سے کہتا کچن سے نکل گیا۔

"ارے اسے کیا ہو گیا؟"

شمائلہ بیگم نے غزنوی کے اسطرح کچن سے نکل جانے پر ایمان کی جانب حیرانی سے دیکھا جبکہ وہ جواب میں صرف کندھے اُچکا کر رہ گئی۔

"جاؤ بیٹا۔۔چائے بنا کر لے جاؤ، ورنہ مزید موڈ خراب ہو جائے گا۔عید کے دن بھی یہ لڑکا آگ کا گولا بنا ہوا ہے۔"

شمائلہ بیگم نے اس سے کہا تو وہ ناچاہتے ہوئے بھی اسکے لئے چائے بنانے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"میں زرا اس شگفتہ کو دیکھ لوں۔"

وہ اس سے کہتیں کمرے سے نکل گئیں۔چائے بنا کر وہ اوپر کمرے میں آئی تو غزنوی بیڈ پہ نیم دراز، موبائل میں مصروف تھا۔ایمان نے بنا اسے مخاطب کیے چائے کا کپ خاموشی سے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور پلٹ کر جانے لگی۔

"رُکو۔۔۔!"

وہ بیڈ سے اتر کر اسکے سامنے آیا۔ایمان اسکی طرف دیکھتی اسکے بولنے کی منتظر رہی۔

"عیدی نہیں لو گی اپنی؟"

وہ اسکی آنکھوں میں جھانکتا قریب ہوا۔

"مجھے نہیں چاہیئے۔۔صبح جو سب کے سامنے عیدی ملی، وہی کافی ہے میرے لئے۔"

وہ رُوکھے پن سے کہتی رخ پھیر گئی۔

"مگر میں تو چاہتا ہوں کہ تمھیں عیدی دوں۔"

وہ اسے بانہوں کے گھیرے میں لیتا بولا۔ایمان اپنے گرد اسکی مضبوط بانہوں کا حصار بندھے دیکھ کر چونکی تھی مگر پھر بھی جوابی کاروائی کیے بغیر ویسی ہی ساکت کھڑی رہی۔غزنوی کی یہ پیش قدمی اسکے لئے حیرانی کا باعث نہیں تھی اور دوسری جانب غزنوی کو ایمان کی خاموش رضامندی خوشگواریت کا احساس دلا رہی تھی۔

"اچھا۔۔۔یہ کایا پلٹ کیسے۔۔اس دن تو میرے انکار کو آپ نے ایک جانب ڈال دیا تھا۔"

ایمان نے اسے آئسکریم والا واقعہ یاد دلایا۔۔۔انداز نروٹھا تھا۔غزنوی کو اس کے انداز پہ ہنسی تو بہت آئی مگر کنٹرول کر گیا۔

"اور کوئی شکایت؟"

وہ اسکے کان کے قریب گنگنایا۔

"اور ابھی کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا آپ نے۔"

ایمان کا انداز ابھی بھی ناراض ناراض سا تھا۔

"کچھ دیر پہلے کیا کہا تھا؟"

غزنوی نے اسکے کندھے پہ ٹھوڑی ٹکائی۔۔ایمان کے ملبوس سے اٹھتی بھینی بھینی خوشبو اسکی کی سانسوں کو معطر کیے دے رہی تھی۔

"یہی کہ میں داجی کی چوائس ہوں اور آپ کو۔"

ایمان نے کہا تو غزنوی نے اسکا رخ اپنی جانب موڑا۔

"یار تمھیں اب بھی لگتا ہے کہ تم صرف داجی کی چوائس بن کر رہ گئی ہو۔ویسے کمال کی بات ہے اگر تم ایسا سمجھتی ہو۔"

وہ اسکی بھوری آنکھوں میں جھانکتا بولا۔ایمان کی ناراض آنکھوں میں دکھتا اپنا عکس اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آیا۔

"ویسے اتنی بیوقوف لگتی تو نہیں ہو۔"

وہ پھر سے شرارتی موڈ میں آیا۔

"اب آپ مجھے بیوقوف کہہ رہے ہیں۔"

وہ دکھ سے بولی۔غزنوی کی صبح کہی گئی بات نے اسے واقعی تکلیف پہنچائی تھی۔جسکے باعث وہ اسکے سامنے آنے سے گریز برت رہی تھی۔

"تم میرے دل کے کسقدر قریب ہو، کیا تم یہ نہیں جانتی؟"

غزنوی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتا گھمبیر لہجے میں بولا۔اسکے لفظوں کی سچائی اسکی آنکھوں سے بھی بیاں ہو رہی تھی۔

"اور وہ جو بار بار سب کے سامنے آپ میری انسلٹ کرتے ہیں۔۔وہ کون سی محبت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔"

ایمان نے دو ٹوک انداز اپنایا۔

"میں نے کب کہا کہ مجھے تم سے محبت ہے؟"

وہ پھر سے پٹری سے اترا۔ایمان نے اسے ناراضگی بھری نظروں سے دیکھا۔

"ہاہاہاہا۔۔"

ایمان کے اسطرح دیکھنے پہ غزنوی کا قہقہ بلند ہوا۔ایمان کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔اس نے پلکیں جھپک جھپک کر اس نمکین پانی کو پیچھے دھکیلا۔

"بہت برے ہیں آپ۔۔"

ایمان نے اپنے کندھے سے اسکے ہاتھ جھٹکے سے پرے ہٹائے اور وہاں سے جانے لگی۔

"ارے ارے میری بھولی بیگم۔۔"

غزنوی نے اسے روکا۔

"تم نے بھی تو مجھے آئسکریم نہیں کھلائی تھی۔"

وہ بھی چہرے پہ ناراضگی سجاتا گویا ہوا۔ایمان کو اسکی آنکھوں میں شرارت چمکتی صاف نظر آ رہی تھی۔وہ خاموشی سے اسکی آنکھوں میں دیکھتی رہی۔

"تیری آنکھیں پسند مجھ کو

اکثر میں یہ کہتا ہوں

میرا دل یہی چاہتا ہے

ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی

تجھے میں پابندِ نگاہ کر لوں

نہ تُو کسی اور کو دیکھے

نہ ہی کوئی تجھکو دکھائی دے

جو تیری آنکھ کے آئینے میں

ذرا سا جھانک کر دیکھے

تو عکس میرا دکھائی دے

تُو بس مجھ کو ہی دیکھے

اور

میں بس تُجھ کو دکھائی دوں۔۔۔"

غزنوی اسکی آنکھوں میں دیکھتا گنگنایا۔ایمان نظریں جھکا گئی تھی۔غزنوی نے اسکی پیشانی کو اپنے لبوں سے چُھوا تھا۔ ___________________________________


آج چار دن ہو گئے تھے بادشاہ خان اور جانس خان کو شہر آئے ہوئے۔وہ دونوں شہر کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔جب سے آئے تھے دونوں زیادہ تر وقت ہوٹل میں ہی گزار رہے تھے، صرف کھانا کھانے کے لئے ہی باہر آتے یا پھر صرف جانس خان کھانا لینے آتا تھا۔

"خان ہم اور کتنے دن یہاں رہیں گے۔جس کام کے لئے آئے تھے وہ ابھی تک نہیں کیا۔"

جانس خان نے ہاتھ میں پکڑی کھانے کی ٹرے بادشاہ خان کے سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔۔میں بھی سوچ رہا ہوں کہ جس کام کے لئے یہاں آئے وہ آج کر لیا جائے، چل کھانا کھا۔۔پھر چلتے ہیں اعظم احمد کے گھر۔۔۔اسے بھی تو پتہ چلے کہ کس چور کو گھر میں پناہ دے رکھی ہے اس نے۔"

بادشاہ خان نے ٹرے اپنے قریب کھینچتے ہوئے کہا اسکے چہرے پہ مکروہ مسکراہٹ کھیلنے لگی تھی۔

جانس خان بھی ساتھ بیٹھ گیا۔دونوں کھانا کھانے کے دوران منصوبہ بندی کرتے رہے کہ وہاں جا کر کیا کیا کہنا ہے۔کھانا کھانے کے کچھ دیر وہ دونوں چائے پینے اسی ہوٹل میں آئے جہاں سے جانس خان کھانا لاتا تھا۔وہاں سے اٹھے تو گھڑی چار بجے کا وقت بتا رہی تھی۔

کچھ دیر بعد وہ اعظم ولا کے سامنے کھڑے تھے۔بادشاہ خان نے ایک نظر گھر پہ ڈالی اور پھر جانس خان کو اشارہ کیا۔وہ گاڑی سے اترا اور ڈور بیل بجائی۔کچھ دیر بعد چوکیدار باہر آیا۔

"کون ہو تم؟"

چوکیدار نے سر تا پیر جانس خان کو جانچتی نظروں سے دیکھا اور پوچھا۔

"جاؤ اپنے صاحب سے کہو کہ بادشاہ خان آیا ہے۔"

جانس خان نے جیپ کی طرف اشارہ کیا۔

"کون بادشاہ خان؟"

چوکیدار نے پوچھا۔اسی دوران بادشاہ خان جیپ سے اتر کر ان کی طرف آیا۔چوکیدار نے بادشاہ خان کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا۔اسلئے اسکی سوالیہ نظریں اب بادشاہ خان کیطرف اٹھی ہوئی تھیں۔

"اوئے جا کر اعظم احمد سے کہو کہ گاؤں سے بادشاہ خان آیا ہے۔"

بادشاہ خان نے چوکیدار کو ڈھیٹ بنے دیکھ کر تُند لہجے میں کہا۔

"ٹھیک ہے یہاں کھڑے رہو۔"

چوکیدار بادشاہ خان کے انداز سے زرا متاثر نہ ہوا اور دونوں کو کڑی نظروں سے گھورتا اندر چلا گیا۔تھوڑی دیر بعد اسکی واپسی ہوئی۔اس نے انھیں کڑی نظروں کے گھیرے میں اندر آنے کا راستہ دیا۔پھر دونوں کو لئے گھر کے ساتھ ملحق ایک کمرے میں لے آیا۔یہ ایک مہمان خانہ تھا۔اعظم احمد شہر آنے کے باوجود اپنی روایات نہیں بھولے تھے۔کمرہ گھر والوں کی سادہ طبیعت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔

"بیٹھو۔۔۔وہ آتے ہیں۔"

چوکیدار نے صوفے کی طرف اشارہ کیا اور دروازہ بند کرتا وہاں سے چلا گیا۔

"گھر تو بڑا شاندار ہے۔"

جانس خان نے تائید طلب نظروں سے بادشاہ خان کی طرف دیکھا جو خود بھی کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔

"او چپ کر کے بیٹھ۔۔یہ تو کچھ بھی نہیں ملک خاور علی کا گھر دیکھ کیا شاندار محل بنایا ہے اس نے۔۔ہر چیز ہی واہ واہ کہنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔"

بادشاہ خان کی زبان کچھ اور ، اور آنکھیں کچھ اور ہی کہہ رہی تھیں۔جانس خان بچہ تو تھا نہیں کہ اس کی حالت نہ سمجھ سکتا۔

ابھی انھیں وہاں بیٹھے کچھ وقت ہی گزرا تھا کہ وہی چوکیدار گھر کے اندر سے کھلتے دروازے سے اندر داخل ہوا۔اسکے ہاتھ میں ٹرے تھی جسے وہ خاموشی سے ان کے سامنے رکھ کر واپس چلا گیا تھا۔

چند منٹ بعد اعظم احمد کمرے میں داخل ہوئے غزنوی بھی ان کے پیچھے تھا۔اعظم احمد کو آتے دیکھ کر جانس خان اور بادشاہ خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"کہو بادشاہ خان کیسے آنا ہوا؟"

اعظم احمد صوفے پہ بیٹھتے ہوئے بولے۔ان کی نظریں بادشاہ خان کے چہرے پہ تھیں۔یہ ان کے لئے حیرانی کا باعث تھا۔وہ کبھی یہاں نہیں آیا تھا مگر آج اسکا یہاں موجود ہونا انھیں کسی انہونی کا احساس دلا رہا تھا۔

"داجی۔۔! میں رشید خان سے ملنے آیا ہوں، اس نے کہا تھا کہ وہ عید کے بعد میرے پیسے لوٹا دے گا۔"

بادشاہ خان نے صفائی سے جھوٹ بولا۔

"کون سے پیسے؟"

اعظم احمد نے حیرت سے بادشاہ خان کیطرف دیکھا۔

"وہی جن کے بدلے اس نے مجھ پہ اپنی بیٹی کو بیچا تھا۔"

بادشاہ خان نے ایک اچٹتی نظر اعظم احمد کے ساتھ بیٹھے غزنوی پر ڈالی اور طنزیہ انداز میں بولا۔غزنوی اسکے الفاظ سن کر فورا اسکی جانب لپکا تھا مگر اعظم احمد نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے آگے بڑھنے سے روکا۔برا تو ان کو بھی لگا تھا مگر برداشت کر گئے کیونکہ وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ پیسوں کے لئے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔

"زبان سنبھال کر بات کرو بادشاہ خان۔"

اعظم احمد نے سرد لہجے میں کہا۔

"میں نے وہ پیسے رشید خان کو دے دیئے تھے تاکہ تمھیں لوٹا دے، غزنوی بھی وہاں موجود تھا۔تو اب کون سے پیسے لینے آ گئے؟"

اعظم احمد نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

"رشید خان نے مجھے کوئی پیسے نہیں دیئے۔وہ تو ہمیشہ ٹالتا رہا۔پچھلی بار بھی جب ملا تھا تو میں نے اپنے پیسے مانگے تھے، اس نے انکار کیا تو غصے میں آ کر مجھ سے وہ سب ہو گیا۔آپ اسے بلا کر پوچھ لیں۔"

بادشاہ خان نے ترچھی نظروں سے غزنوی کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھا۔اسکے لبوں سے ایک پل کے لئے بھی طنزیہ مسکراہٹ الگ نہیں ہوئی تھی۔بادشاہ خان کو غزنوی کا سرخ چہرہ مزا دے رہا تھا۔

"داجی یہ بکواس کر رہا ہے۔آپ مجھے ڈیل کرنے دیں اسے۔ہم نے پیسے دیئے تھے اور مجھے یقین ہے کہ رشید انکل نے بھی پیسے دے دیئے ہوں گے۔"

غزنوی ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا۔اسکا جی چاہ رہا تھا کہ اسکے مزاج ٹھکانے لگا دے۔

"داجی اپنے پوتے کو سمجھاؤ۔۔میں زیادہ برداشت کرنے کا عادی نہیں ہوں۔"

بادشاہ خان بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔

"غزنوی جا کر رشید خان کو بلا لاؤ۔آمنے سامنے بات ہو جائے تو بہتر ہے۔"

اعظم احمد نے غزنوی سے کہا تو وہ ایک غصیلی نظر بادشاہ خان پہ ڈالتا کمرے سے نکل گیا۔بادشاہ خان نے جانس خان کو دیکھا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔کچھ دیر بعد رشید خان غزنوی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔

"ارے رشید خان۔۔۔کیسے ہو؟ بڑی صحت بنا لی ہے۔"

بادشاہ خان، رشید خان کی طرف یوں بڑھا جیسے دونوں میں بڑی گہری دوستی ہو لیکن رشید خان اس سے سرد انداز میں ملا۔

"تم یہاں کیسے؟"

رشید خان نے ایک نظر سنجیدہ بیٹھے اعظم احمد کو دیکھا اور پھر بادشاہ خان سے پوچھا۔اسے کمرے کی فضاء کچھ عجیب سی محسوس ہوئی۔

"میں اپنے پیسے لینے کے لئے آیا ہوں، پہلے تمھارے گھر گیا وہاں تالا لگا تھا۔وہیں لوگوں سے پتہ چلا کہ تم شہر گئے ہو تو میں یہاں آ گیا۔"

بادشاہ خان نے اپنی بات کے اختتام پر رشید خان کے چہرے کا رنگ اُڑتے دیکھا۔

"کون سے پیسے؟ میں تمھیں تمھارے سارے پیسے لوٹا چکا ہوں۔"

رشید خان بیٹھتے بیٹھتے اٹھ کھڑا ہوا۔اسکے چہرے پہ حیرانی کی جگہ اب پریشانی نے لے لی تھی۔

"وہی پیسے۔۔جو تم جوے میں ہار گئے تھے۔جس کے بدلے تم نے اپنی۔۔۔۔"

بادشاہ خان نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔اس نے دیکھا غزنوی کے ماتھے پہ لکیر سی ابھر آئی تھی۔

"تم پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔میں تمھیں تمھارے سارے پیسے لوٹا چکا ہوں۔مجھ پہ تمھارا کوئی قرض نہیں۔داجی یہ جھوٹ بول رہا۔میں اسے پیسے دے چکا ہوں۔"

رشید خان نے پلٹ کر اعظم احمد کو دیکھا۔

"تمھارے پاس کیا ثبوت ہے؟"

بادشاہ خان نے ڈھٹائی کی حد کر دی جبکہ رشید خان تو حیران پریشان اسکا منہ تک رہا تھا۔

"بکواس مت کرو بادشاہ خان۔۔۔میرے پاس ثبوت نہیں ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھ پہ چڑھ دوڑو۔۔میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس میں بھی تمھاری کوئی چال ہے۔مجھ پہ تمھارا کوئی قرض نہیں ہے اور شاید یہ جانس خان بھی وہیں ہو جب میں نے تمھیں رقم واپس کی ہو گی کیونکہ ہر جگہ تمھارا سایہ ہی تو بنا رہتا ہے۔"

رشید خان نے جانس خان کو دیکھا جسکے تیور بھی بادشاہ خان سے کم نہیں تھے۔

"جھوٹ مت بولو رشید خان۔۔بادشاہ خان کی ساری وصولی میں کرتا ہوں اور کئی بار تمھارے پاس بھی آیا تھا پیسے لینے لیکن تم تو یہاں بھاگ آئے۔اس دن بھی اگر میں نہ روکتا بادشاہ خان کو تو تم اس وقت یہاں کھڑے جھوٹ نہ بول رہے ہوتے۔مجھے اس میں مت گھسیٹو، اور سچ بات تو یہ ہے کہ تم نے پیسے دیئے ہی نہیں۔"

جانس خان کہاں کم تھا، اس نے رشید خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔بادشاہ خان نے جانس خان کو آنکھوں ہی آنکھوں میں شاباش دی جبکہ غزنوی اور اعظم احمد ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔

"رشید خان مجھے بہت افسوس ہوا کہ اتنی ٹھوکریں کھا کر بھی تم میں کوئی سدھار نہ پیدا ہوا۔میں نے تمھیں پیسے دیئے تھے کہ تم اس شخص سے اپنی جان چھڑاؤ۔۔تم نے زمین پہ جانا چھوڑا، بادشاہ خان سے دوبارہ مراسم بڑھائے، مجھے اطلاع ملتی رہی مگر میں خاموش رہا اور تم سے کوئی سوال و جواب نہیں کیا کہ تمھاری زندگی ہے تم اچھے برے میں تمیز کر سکتے ہو، لیکن تم تو وہیں کہ وہیں کھڑے ہو۔۔لوگ صحیح کہتے ہیں کہ جواری کبھی جوا کھیلنے سے باز نہیں آتا۔"

اعظم احمد افسوس بھرے لہجے میں بولے۔

"داجی یہ سب جھوٹ ہے۔۔میں نے اگلے دن ہی اسے پیسے واپس کر دیئے تھے۔"

رشید خان نے اعظم احمد کی آنکھوں میں اداسی کی لکیر دیکھی تو ان کی طرف بڑھا۔

"تو پھر یہ سب کیا ہے؟"

اعظم احمد نے اس سے سوال کیا۔

"داجی میں سچ کہہ رہا ہوں میں نے پیسے دے دیئے تھے۔"

رشید خان نے ایک نفرت بھری نظر بادشاہ خان پہ ڈالتے ہوئے اعظم احمد سے کہا۔

"اچھا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔۔داجی اس بے غیرت شخص کی بات کا یقین نہ کریں۔پہلے اس نے اور اس کی بیٹی نے مجھے پھنسایا اور جب میرا پیسہ ہڑپ گئے تو آپ کو پھانس لیا اپنی چالبازی بیٹی کے ساتھ ملکر۔۔اسکی بیٹی تو یہی کام کرتی تھی۔۔۔گاؤں کے مردوں کو رجھانے کا۔۔۔۔"

"بکواس بند کرو اپنی۔۔۔"

اس سے پہلے کہ وہ اپنی زبان سے مزید زہر اُگلتا غزنوی نہایت غضبناک انداز سے اسکی طرف لپکا اور گریبان سے پکڑ کر اسکے چہرے پر پے در پے تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی۔بادشاہ خان کو سنبھلنے تک کا موقع نہ مل سکا۔اعظم احمد اور رشید خان فوراً غزنوی کو روکنے کو آگے بڑھے جبکہ جانس خان تو بادشاہ خان کا تھپڑوں سے سرخ چہرہ دیکھ کر ہی پیچھے ہٹ گیا تھا حالانکہ وہ ابھی بادشاہ خان کی بات پہ مہر لگانے ہی والا تھا مگر بادشاہ خان کی حالت دیکھ کر چپ کر گیا۔اسے اس شہری لڑکے سے ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ یوں بپھر جائے گا۔بادشاہ خان نے تو اسے کہا تھا کہ شہری لڑکا ہے اسی وقت تین لفظ ادا کر کے دونوں باپ بیٹی کو گھر سے باہر کر دے گا لیکن یہاں تو حالات کچھ اور ہی رنگ اختیار کر گئے تھے۔

"غلیظ انسان۔۔تیری جرآت کیسے ہوئی۔"

غزنوی نے اسے لات مار کر دور گرایا۔

"غزنوی چھوڑو اسے۔۔"

اعظم احمد نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا۔شور سن کر گھر کے باقی مرد بھی وہاں آ گئے تھے۔مصطفی نے آگے بڑھ کر غزنوی کو پکڑا لیکن غزنوی کب قابو میں آ رہا تھا اب وہ لاتوں سے بادشاہ خان کی ہڈی پسلی ایک کرنے پہ تلا ہوا تھا جبکہ وہ اتنی مار کھانے کے باوجود مسلسل منہ سے مغالظات بک رہا تھا۔تبھی تو غزنوی کے ہاتھ نہیں رک رہے تھے۔وہاں موجود سبھی نے اس کے منہ سے نکلتے زہر کو سنا تھا۔اعظم احمد تو اسے روکنے کی کوشش میں ہانپنے لگے تھے۔رشید خان نے ان کی حالت غیر ہوتے دیکھ کر انہیں صوفے پہ بٹھایا۔

"غزنوی چھوڑو اسے پولیس کے حوالے کرتے ہیں۔۔خود ہی سچ بول دے گا۔"

ہادی اور مصطفیٰ نے غزنوی کا اٹھا ہوا ہاتھ پکڑا۔وہ ہاتھ چھڑاتا وہاں سے باہر نکل گیا۔

"ہادی۔۔۔۔!!"

ہادی کو بادشاہ خان کیطرف بڑھتا دیکھ کر اعظم احمد نے بلند آواز میں اسے پکارا۔وہ وہیں رک گیا۔

"بادشاہ خان دفع ہو جاؤ یہاں سے اور دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا۔گاوں جا کر ہمارے منشی سے مل لینا۔وہ تمھیں پیسے دے دے گا۔"

اعظم احمد نے زمین پہ بیٹھے بادشاہ خان کو دیکھا۔اسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا جس سے اب خون رس رہا تھا۔گریبان کے بٹن ٹوٹ گئے تھے۔

"سنا نہیں تم نے۔۔اب دفع ہو یہاں سے، نہیں تو میں شروع ہو جاؤں گا۔"

مصطفیٰ نے غصے سے کہہ کر ایک قدم اسکی طرف بڑھایا۔بادشاہ خان لڑکھڑاتے قدموں سے اٹھ کھڑا ہوا۔جانس خان اسے سہارا دینے کے لئے آگے ہوا مگر بادشاہ خان نےا سے دھتکار دیا۔

"اعظم خان۔۔!! میں چھوڑوں گا نہیں، اپنی بےعزتی کا بدلہ تو میں لے کر رہوں گا۔"

بادشاہ خان نے دھمکی دی۔

"جا جا۔۔۔بہت دیکھے ہیں تیرے جیسے۔"

مصطفیٰ نے اس کی دھمکی سے ڈرے بغیر کہا۔

"دیکھ لوں گا تم سب کو۔"

وہ لڑکھڑاتا باہر نکل گیا۔جانس خان بھی اسکے پیچھے دوڑا تھا۔رشید خان شرمندہ نظروں سے سبھی کو دیکھ رہا تھا۔

"مصطفیٰ غزنوی کو فون کرو۔۔گاڑی لے کر نکلا ہے کچھ کر نہ بیٹھے غصے میں۔"

اعظم احمد کو غزنوی کی فکر لاحق ہوئی۔

"جی داجی۔"

مصطفیٰ کمرے سے باہر نکل گیا۔دروازے میں عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم کھڑیں سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہیں تھیں۔

"کچھ نہیں ہے، سب ٹھیک ہے۔"

مصطفیٰ انہیں تسلی دیتا ان کے پاس سے گزر گیا۔عقیلہ بیگم اعظم احمد کو سر جھکائے بیٹھے دیکھکر اندر آئیں۔

"شمائلہ داجی کے لئے پانی لے کر آؤ، کہیں ان کی طبیعت نہ بگڑ جائے۔"

مکرم احمد نے بیوی سے کہا جو ابھی تک دروازے میں کھڑیں تھیں۔

"داجی۔۔! آپ ریلیکس رہیں۔یہ شخص ایک نمبر کا جھوٹا اور مکار ہے اور منشی سے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہیں۔اسے اب یاد آیا ہے پیسے لینا۔اتنا عرصہ اسے یاد نہیں تھا۔"

مکرم احمد نے ایک نظر رشید خان کے تاریک اور شرمندگی سے چُور چہرے کو دیکھا اور اعظم احمد کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"اعظم صاحب۔۔!! مکرم ٹھیک کہہ رہا ہے۔ہمیں اسکی باتوں پہ دھیان نہیں دینا چاہیئے۔رشید خان نے یقیناً پیسے دے دیئے ہونگے۔"

عقیلہ بیگم بھی اعظم احمد کے پاس آ کر بیٹھ گئیں اور انہیں تسلی دی۔

"مجھے دکھ اس بات کا ہے کہ اپنی انا کی تسکین کے لئے اس نے ہماری بیٹی کے لئے کیسے کیسے الفاظ استعمال کیے۔"

اعظم احمد بولے تو کیا کیا نہیں تھا ان کے لہجے میں۔۔دکھ، شرمندگی، تکلیف۔۔

"غزنوی کا فون بند جا رہا ہے۔"

اسی دوران مصطفیٰ واپس کمرے میں داخل ہوا۔اعظم احمد نے مکرم احمد کی طرف دیکھا۔

"وہ ٹھیک ہو گا۔۔اتنا کمزور نہیں ہے آپکا پوتا۔"

مکرم احمد نے انہیں تسلی دی۔

سبھی خاموش تھے۔۔رشید خان بھی خاموشی کی چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔ _____________________________________________


"چپ ہو جاؤ ایمان۔۔کیوں اپنا خون جلا رہی ہو۔ہمیں پورا یقین ہے تم پہ اور غزنوی کو بھی تم پر اعتماد ہے۔تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہو۔"

پرخہ ایمان کو ساتھ لگائے اسے خاموش کرا رہی تھی۔جب سے اسے پتہ چلا تھا وہ تب سے ہی روئے جا رہی تھی۔اوپر سے غزنوی کا یوں منظر سے غائب ہو جانا بھی اسے رلائے دے رہا تھا۔ابھی تو سب ٹھیک ہو رہا تھا۔اسکی پرسکون زندگی میں بادشاہ خان نے پھر سے کنکر پھینک کر ارتعاش پھیلا دیا تھا۔

"پھر وہ اسطرح کیوں چلے گئے۔"

ایمان جو پرخہ کے سینے سے لگی تھی اس سے الگ ہوئی۔

"ایمان مرتضیٰ بتا رہا تھا نا کہ اس نے بادشاہ خان کو مار مار کر اسکی کیا حالت کر دی تھی۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تمھارے خلاف ایک لفظ نہیں سن سکتا۔"

پرخہ نے اسکے آنسو پونچھے۔

"انہیں اعتبار نہیں آیا ہو گا تبھی تو اسطرح چلے گئے۔اگر انہیں شک تھا تو مجھ سے پوچھتے۔میں انہیں بتاتی۔۔بابا نے مجھے بتایا تھا جب انہوں نے اسے پیسے دیئے تھے۔بابا مجھ سے کیوں اتنا بڑا جھوٹ بولیں گے۔"

وہ آنکھوں میں آنسو لئے پرخہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔اسے اس بات نے بہت تکلیف دی تھی کہ وہ اسطرح چلا گیا تھا۔شام ہونے کو آئی تھی اور غزنوی کا کچھ پتہ نہیں تھا۔مصطفی بار بار اسے کال کر رہا تھا مگر اس کا نمبر مسلسل بند جا رہا تھا۔

"تمھیں پتہ تو ہے کہ وہ غصے کا کس قدر تیز ہے۔تھوڑی دیر تک آ جائے گا اور تمھارے یہ سارے شکوے سن کر ہنسے گا تمھارے پاگل پن پر۔"

پرخہ نے اسے سمجھایا۔اسی دوران مصطفیٰ کمرے میں داخل ہوا۔

"مصطفیٰ غزنوی آ گیا ہے کیا؟"

پرخہ نے اسے دیکھتے ہی پوچھا۔

"نہیں۔۔لیکن اس سے بات ہو گئی ہے وہ اسلام آباد میں ہے اور ٹھیک ہے بالکل۔"

مصطفیٰ نے دونوں کیطرف دیکھا۔ایمان نے پرخہ کی طرف ایسی نظروں سے دیکھا کہ پرخہ نظریں پھیر گئی۔

"پرخہ ایک کپ چائے بنا دو۔۔سر میں شدید درد ہو رہا ہے اور ایمان تم بالکل پریشان نہ ہو غزنوی بالکل ٹھیک ہے۔اس نے بتایا کہ اسے کمیل کی کال آ گئی تھی اس لئے اسے آفس کے کام سے ارجنٹ اسلام آباد جانا پڑا۔کہہ رہا تھا کہ دو روز میں آ جائے گا۔"

مصطفیٰ نے قریب آ کر ایمان کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو اس نے صرف سر ہلانے پہ اکتفاء کیا۔

مصطفیٰ اس کی جانب ایک مسکراہٹ اچھالتا کمرے سے نکل گیا۔

"دیکھ لیا آپ نے۔"

ایمان نے پرخہ کی جانب دیکھا۔اسکی آنکھوں کی سطح ایک بار پھر گیلی ہونے لگی تھی۔

"پریشان نہ ہو۔۔مصطفی نے کہا ہے نا کہ کام سے گیا ہے۔چلو تم اسے کال کرو، میں ذرا مصطفیٰ کے لئے چائے بناتی ہوں۔"

پرخہ نے اسے غزنوی کو کال کرنے کا کہا اور خود وہاں سے چلی گئی۔اس کے جانے کے بعد ایمان اٹھی اور غزنوی کو کال کرنے لگی۔دوسری جانب بیل جا رہی تھی مگر وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔

"بزی ہونگے۔"

خود کو دلاسہ دیتی وہ موبائل رکھتی واش روم کی طرف بڑھ گئی۔منہ ہاتھ دھونے کے بعد اسے کچھ بہتر محسوس ہوا۔اس نے غزنوی کا نمبر ملایا مگر اس بار بھی کال ریسیو نہیں کی گئی۔وہ اسکی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا یہ سوچ کر اسکی آنکھوں کی جلن بڑھنے لگی تھی۔اس نے موبائل ایک طرف ڈال دیا۔اسے یقین ہو گیا تھا کہ غزنوی اس سے ایک بار پھر بدگمان ہو گیا ہے۔

"بات ہوئی غزنوی سے؟"

پرخہ کمرے میں داخل ہوئی۔

"نہیں۔۔وہ فون نہیں اٹھا رہے۔"

وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔

"چلو کوئی بات نہیں۔۔یقیناً مصروف ہو گا۔تم دل پر مت لو۔۔"

پرخہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا، وہ خاموش رہی۔

"تم ٹھیک ہو؟"

پرخہ نے اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔

"میں ٹھیک ہوں۔"

وہ سر جھکا گئی۔۔پرخہ نے اسے بغور دیکھا۔

"کیا غزنوی نے کچھ کہا ہے؟"

وہ سوالیہ نظروں سے اسکی طرف دیکھتی اس کے پاس بیٹھ گئی۔

"وہ فون نہیں اٹھا رہے۔۔تھوڑی دیر بعد پھر کروں گی کال۔شاید مصروف ہوں۔"

ایمان نے گھڑی کی طرف دیکھا جسکی سوئیاں آٹھ کا ہندسہ پار کر رہی تھیں۔اس کے ذہہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی کہ اس وقت کون سا آفس اور کیا مصروفیت۔۔وہ یقیناً اس سے بات نہیں کرنا چاہتا۔۔پرخہ نے بھی اسکی نگاہوں کا پیچھا کیا۔اسے غزنوی پہ بہت غصہ آیا۔

"ٹھیک ہے تم آرام کرو۔۔میں اب چلوں گی۔۔"

پرخہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

"جی۔۔"

وہ صرف اتنا ہی بول سکی۔پرخہ دکھ سے اسکی طرف دیکھتی باہر آ گئی۔اسکے جانے کے بعد اس نے پھر فون اٹھا لیا۔اس بار کال ریسیو کر لی گئی۔

"کہو۔۔۔"

نہایت ہی سرد مہری سے کہا گیا۔ایمان کے دل سے ایک ٹیس سی اٹھی۔

"وہ۔۔۔میں۔۔۔آپ ٹھیک ہیں؟"

اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ بات کسطرح سے شروع کرے۔

"ہاں ٹھیک ہوں۔۔"

انداز جان چھڑانے والا تھا۔

"غزنوی۔۔۔!! وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے، بابا نے اسے پیسے دے دیئے تھے۔وہ ایک جواری ہے اسکا کیا بھروسہ۔۔"

وہ کانپتی آواز میں بولی۔

"یہی میں بھی سوچ رہا ہوں کہ وہ ایک جواری ہے لیکن تمھارا باپ بھی تو ایک جواری ہی ہے اور ابھی تم نے ہی کہا کہ جواری کا کیا بھروسہ۔۔"

غزنوی کے لہجے کی کاٹ اس نےا پنے دل پہ محسوس کی۔اسے لگا جیسے اسکا دماغ سُن ہو گیا ہو۔

"غزنوی۔۔۔"

وہ صرف اتنا ہی کہہ سکی تھی۔

"ٹھیک تو کہہ رہا ہوں۔۔کیا تمھارا باپ ایک جواری نہیں ہے۔داجی کے منع کرنے کے باوجود وہ اس شخص سے دوستانہ مراسم رکھ رہا تھا تو وہ اس سے الگ کیسے ہو گیا۔اپنے باپ سے کہہ دینا کہ اب اسے یہاں سے ایک روپیہ نہیں ملے گا۔"

غزنوی مزید کاٹ دار لہجے میں بولا۔

"یہ جھوٹ ہے بابا ایسا نہیں کر سکتے۔"

ایمان نے اسے یقین دلانا چاہا۔

"تم اچھی طرح واقف ہو اس بات سے کہ تمھارا باپ کیا کیا کر سکتا ہے۔مجھے تو لگتا ہے کہ یہ تمھارے باپ اور اس بادشاہ خان کی چال ہے ہم سے پیسے لینے کی۔لیکن میں سمجھ گیا ہوں اور تم بھی سمجھ لو کہ اب انھیں یہاں سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں ملے گی۔"

غزنوی نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔

"یہ جھوٹ ہے۔۔ایسا نہیں ہے۔"

ایمان اب بھی اسکی بات سے انکار کر رہی تھی۔ایک موہوم سی امید تھی اسے شاید وہ اسکی بات کا یقین کر لے مگر وہ تو کچھ بھی سننے کو تیار نہیں تھا۔

"ٹھیک ہے تو پھر تم خود ہی پوچھ لو جا کر اپنے باپ سے کہ کیسا ہے اور اب مجھے بار بار کالز کر کے تنگ مت کرنا۔"

وہ کال کاٹ چکا تھا۔

"بابا ایسا نہیں کر سکتے۔"

وہ خود سے کہتی وہیں ڈھے گئی تھی۔آنسو تواتر سے اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ ____________________________________________


کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا اور اس نیم تاریکی میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز سنائی دی تھی۔اُسے اپنی ہی خاموشی سے وحشت ہو رہی تھی۔وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔جب سے آیا تھا اپنے کمرے میں بند تھا۔ایک ہی بات اسکے دماغ سے چپک گئی تھی۔اس نے آنے کے فوراً بعد ہی مصطفیٰ کو فون کر کے اپنے اسلام آباد آنے کے متعلق بتا دیا تھا۔جب وہ گھر سے نکلا تھا تو اس کا اسلام آباد آنے کا قطعی کوئی پلان نہیں تھا۔اس فیصلے کے پیچھے کی حقیقت کچھ اور ہی تھی اور وہ یہ تھی کہ جب وہ گاڑی لے کر باہر نکلا تھا تو گھر سے کچھ فاصلے پر ہی رک گیا تھا۔گھر سے دور جا ہی نہیں پایا تھا وہیں گھر سے کچھ فاصلے پر موجود تھا۔وہ وہاں خود کو کول ڈاؤن کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک گاڑی کا دروازہ کھلا اور کوئی گاڑی میں بیٹھا۔وہ آنکھیں بند کیے پرسکون بیٹھا تھا۔

"مصطفیٰ مجھے کچھ وقت چاہیئے۔اس وقت میرا دماغ بہت گھوما ہوا ہے۔"

یہ کہہ کر اس نے آنکھیں کھول کر ساتھ بیٹھے شخص کو دیکھا۔وہ جو خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ساتھ بیٹھے بادشاہ خان کو دیکھ کر اس کے اندر غصے کا ایک جوالا مکھی پھٹ پڑا۔

"تم۔۔۔"

غزنوی قہر بھری نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ بادشاہ خان نہایت پرسکون انداز میں بیٹھا اپنے دائیں ہاتھ سے بائی بازو دبا رہا تھا۔

"اس سے پہلے کہ میں اپنا آپا کھو دوں، دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"

غزنوی نے اس وارننگ دیتے ہوئے کہا۔

"مجھ سے تو جتنا نبٹ لیا اتنا کافی ہے، تم اب اپنے سسر اور بیوی سے نبٹو، جو تمھارے خلاف منصوبہ بندی کیے بیٹھے ہیں۔انہیں کنٹرول کرو تو تمھارے لئے بہتر ہو گا۔"

بادشاہ خان نے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے کہا۔اس کا دماغ تیزی سے سازش کے تانا بانا بن رہا تھا۔پہلی ترکیب تو فیل ہو گئی تھی۔اب دوسرا وار کرنا تھا اور کاری وار کرنا تھا تاکہ دشمن اٹھنے کے قابل نہ رہ سکے۔

"بکواس بند کرو اپنی، مجھے تمھاری بکواس میں کوئی دلچسپی نہیں۔"

وہ ایک بار پھر بادشاہ خان پہ جھپٹا۔بادشاہ خان کا گریبان ایک بار پھر غزنوی کے ہاتھ میں تھا۔

"سچ ہمیشہ کڑوا ہی ہوتا ہے غزنوی احمد۔۔۔تمھارے اور تمھارے خاندان کے خلاف کتنی گہری سازش رچی گئی ہے تم سوچ بھی نہیں سکتے۔"

بادشاہ خان نے جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا۔

"تم نکلتے ہو یا میں پولیس کو فون کروں اور یہاں حوالات سے نکلنا اتنا آسان نہیں ہو گا تمھارے لئے اور نا ہی میں تمھیں نکلنے دوں گا۔"

غزنوی نے اسکی بات پہ کان نہ دھرے اور پولیس کی دھمکی دی۔

"کرو ضرور کرو فون لیکن میری پوری بات سننے کے بعد۔۔میں یہاں تم لوگوں کی آنکھوں سے معصومیت کی پٹی اتارنے آیا تھا، لیکن تم نے مجھے میری بات پوری کرنے ہی نہیں تھی۔میں تو حقیقت بتانے آیا تھا۔"

بادشاہ خان نے نہایت چالاکی سے اپنے مکروہ عزائم کو عملی جامہ پہنایا۔

"کیسی حقیقت؟؟"

غزنوی چونک کر بولا۔

"اب کی ہے نا عقلمندوں والی بات۔۔۔حقیقت یہ ہے کہ رشید خان ایک فراڈ اور نہایت چالباز شخص ہے۔یہ سارا پلان ہی اسکا تھا۔بلکہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا میں نے اور رشید خان نے ملکر تم لوگوں سے پیسے لینے کا پلان بنایا تھا۔پھر جب عمل کی باری آئی تو اس نے مجھے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا تبھی تو گرما گرمی میں میرے ہاتھ سے گولی چل گئی۔ایک تو مجھے میرے پیسے بھی نہیں لوٹائے اور اوپر لڑکی بھی ہاتھ سے۔۔۔"

بادشاہ خان اسکے تاثرات دیکھنے کے لیے ایک پل کو خاموش ہوا۔

"خبردار جو اپنی گندی زبان پہ اسکا نام بھی لایا۔"

اسکی بات سن کر غزنوی کا خون کھولنے لگا تھا۔

"ارے تم بیوقوف ہو۔۔وہ شامل ہے اپنے باپ کے ساتھ۔۔ساری عمر تمھیں لوٹنے کا پلان بنا رکھا ہے دونوں نے۔۔"

بادشاہ خان لوہا گرم دیکھکر مزید بولا۔اپنی بےعزتی کا بدلہ وہ کیونکر ہاتھ سے جانے دیتا۔

"میرا یہاں آنا اور پیسوں کی مانگ کرنا یہ سب ہمارے پلان کا حصہ تھا لیکن رشید خان نے مجھے دھوکہ دے دیا۔۔لیکن میں کیوں اسے عیش کرنے دیتا اور یہ جو تم میرے جیل سے چھوٹنے کی بات کر رہے ہو تو تمھاری اطلاع کے لئے بتا دوں کہ رشید خان کے ہی کہنے پر میں جیل سے آزاد ہوا۔"

اپنی بات کے اختتام پر بادشاہ خان نے غزنوی کے چہرے پہ پھیلتی حیرت دیکھ کر دل ہی دل میں خود کو شاباش دی۔

"میں تمھاری بات پہ کیوں یقین کروں؟"

غزنوی کی نگاہوں میں بے یقینی تھی۔

"تم چاہو تو ابھی میرے سامنے تھانے کال کر کے پوچھ سکتے ہو۔رشید خان نے نا صرف مجھے رہا کروایا بلکہ کیس بھی واپس لے لیا ہے یہ کہہ کر کہ وہ کوئی اور شخص تھا جس نے گولی چلائی جس کے ساتھ وہ اس دن جوا کھیل رہا تھا۔چاہو تو معلومات کر لو۔"

بادشاہ خان نے شک کی کنجی غزنوی کے ہاتھ میں تھمائی اور اپنا موبائل اسکی طرف بڑھایا۔

"اسکی ضرورت نہیں۔۔میں جانتا ہوں تم ہی نے اپنے آدمیوں کے ذریعے اس پہ دباؤ ڈالا ہو گا۔"

غزنوی نے اسکی جانب سے رخ پھیرا۔زبان سے تو اس نے کہہ دیا تھا کہ اسے اسکی بات کا یقین نہیں مگر دل و دماغ میں ایک جنگ سی چھڑ گئی تھی۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ بادشاہ خان کا اس کیس سے چھوٹ جانا آسان نہیں تھا جبکہ اس کے گرفتار ہونے پہ اس کے خلاف گواہی دینے بہت سے لوگ آگے آئے تھے۔

"تم بھی اچھی طرح جانتے ہو کہ جیل سے نکلنا اتنا آسان نہیں تھا۔"

بادشاہ خان نے نی طرف سے شک کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی۔

"نکلو یہاں سے۔"

غزنوی کی بھنویں اسکی بات سن کر غصے سے تن گئی تھیں۔وہ بولا تو اس کا انداز دوٹوک تھا۔

"جا رہا ہوں۔۔مگر اب تم مزید ان باپ بیٹی کے مکر و فریب میں مت آنا۔مجھے خود سے الگ کر کے اس نے اپنی بیٹی کو شامل کر لیا ہے کیونکہ بیٹی سے اسے کوئی دلی لگاؤ تو تھا نہیں اگر ہوتا تو وہ یوں اسے چند پیسوں کے عوض۔۔"

"تم نے سنا نہیں۔۔اس سے پہلے کہ میری برداشت ختم ہو اترو گاڑی سے۔"

بادشاہ خان کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ دھاڑا۔

"چلتا ہوں۔"

بادشاہ خان گاڑی سے اتر گیا اور لنگڑاتا ہو اپنی جیپ میں سوار ہو گیا۔

"کیا ہوا خان۔۔؟ بڑی دیر بات ہوئی۔"

جانس خان نے جیپ اسٹارٹ کرتے ہوئے بادشاہ خان سے پوچھا۔

"بجھی ہوئی راکھ میں چنگاری اب بھی ہے۔میں ہوا دے آیا ہوں۔آگ بھڑکنے میں دیر نہیں اور وہ دونوں باپ بیٹی اس آگ میں جل کر راکھ ہو جائیں گے۔اب تماشا دیکھنا ہے کہ یہ غزنوی احمد ان کا کیا حال کرتا ہے۔"

بادشاہ خان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

جیپ وہاں سے جا چکی تھی اور وہ گاڑی میں ہی موجود تھا۔اسے یاد آیا کہ گاؤں کے تھانے کے ایس ایچ او کا نمبر اسکے پاس تھا۔ایک آخری امید پہ اس نے نمبر ڈائل کیا۔جہاں سے بادشاہ خان کی بات پر سچائی کی مہر لگا دی گئی کہ رشید خان نے کیس واپس لے لیا ہے اور یہ جان کر وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔فون بند کرنے کے بعد اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر ہاں اور نہیں کی کشمکش میں وہ ریش ڈرائیونگ کرتا اسلام آباد پہنچ گیا تھا۔اس وقت وہ ان دونوں باپ بیٹی کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔اسلام آباد پہنچنے کے بعد اسے گھر والوں کا خیال آیا تو اس نے مصطفیٰ کو فون کر کے اپنے اسلام آباد میں ہونے کا بتا دیا۔اس نے مصطفیٰ کو ایک ارجنٹ کام کا کہا تھا اور مصطفیٰ نے اس سے زیادہ باز پُرس نہیں کی۔

لیکن اب یہاں آ کر اسے افسوس ہو رہا تھا کہ وہاں رک کر وہ رشید خان سے پوچھ سکتا تھا کہ سچ کیا ہے۔ ______________________________________________


ایمان باجی۔۔!! آپ یہاں ہیں؟ میں آپکے کمرے آپ کو تلاش رہی تھی۔وہ شاہ گل اپنے کمرے میں بلا رہی ہیں۔"

وہ باورچی خانے میں اپنے لئے چائے بنا رہی تھی۔رات سے اسکے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔صبح بھی درد ویسے کا ویسے ہی تھا۔ناشتہ کرنے کے بعد اس نے ٹیبلیٹ بھی لی مگر درد میں کچھ فرق نہ پڑا۔چائے کی طلب نے اسے کچن میں لے آئی۔

"اچھا۔۔"

وہ ابلتے پانی کے نیچے آنچ دھیمی کرتی کچن سے نکل گئی۔سر کو ہلکے ہاتھ سے دباتے ہوئے وہ عقیلہ بیگم کے کمرے میں داخل ہوئی۔

"آپ نے مجھے بلایا شاہ گل؟"

ایمان سست قدموں سے چلتی کمرے کے وسط میں آ کر رک گئی۔

"ہاں بیٹا۔۔یہاں آؤ۔۔"

انہوں نے اسکے لئے اپنے پاس جگہ بنائی۔وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

"غزنوی سے بات ہوئی تمھاری؟"

شاہ گل نے اسکی سوجھی ہوئی آنکھوں کو بغور دیکھا۔

"جی بات ہوئی تھی۔"

وہ سر جھکائے بولی۔

"کیا تم روتی رہی ہو؟"

شمائلہ بیگم نے عقیلہ بیگم کے دل میں آئی بات کو زبان سے کہا۔

"نہیں تو۔۔"

اس نے اپنی دلی کیفیت چھپانے کی کوشش کی۔

"آنکھیں تو کچھ اور ہی کہہ رہی ہیں۔"

عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم نے کسی پولیس افسر کی طرح اس سے سوال و جواب کرنا شروع کر دیا تھا۔

"شاہ گل دراصل کل رات سے میرے سر میں شدید درد ہو رہا ہے۔جسکی وجہ سے میں رات کو ٹھیک سے سو نہیں سکی اسی لئے آنکھوں میں سوزش ہو رہی ہے۔"

اس نے وجہ بتائی۔

"تو بیٹا مجھے بتانا تھا نا۔"

شمائلہ بیگم نے اس کی پیشانی کو چھوا جو تپ رہی تھی۔

"بس صرف سر میں درد ہے۔"

وہ لبوں پہ مسکان سجا کر بولی۔وہ انہیں اس بات کی بھنک بھی نہیں پڑنے دینا چاہتی تھی کہ غزنوی کا رویہ اسکے ساتھ ٹھیک نہیں۔

"اچھا۔۔تمھارے والد جا رہے ہیں کیا؟ میں نے شگفتہ کے ہاتھ چائے بھجوائی تھی تو وہ واپس آنے پر بتا رہی تھی کہ رشید خان تمھارے والد پیکنگ کر رہے تھے۔"

شمائلہ بیگم نے مطمئن ہو کر پوچھا کیوں کہ ان کے غزنوی کا اسطرح اسلام آباد چلے جانا انہیں نارمل نہیں لگ رہا تھا۔

"جی وہ جا رہے ہیں۔"

ایمان نے یہ کہہ کر سر جھکا لیا۔

"ایمان ہمیں ان پہ پورا بھروسہ ہے۔ہمارے لیے وہ قابل بھروسہ ہیں نا کہ بادشاہ خان۔"

عقیلہ بیگم نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔

"میں جانتی ہوں شاہ گل۔۔لیکن وہ اس وجہ سے نہیں جا رہے، جانا تو تھا واپس انہوں نے۔"

ایمان نے کہا تو عقیلہ بیگم سر ہلا کر رہ گئیں۔

"لیکن وہ تو جیل میں تھا، چھوٹ کیسے گیا؟"

شمائلہ بیگم نے ایمان کیطرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

"تمھارے داجی نے گاؤں فون کیا تھا یہی معلوم کرنے کے لئے کہ اسکی ضمانت کیسے ہوئی جبکہ اسکے خلاف کیس مضبوط تھا۔وہیں سے معلوم ہوا کہ کسی ملک خاور علی نے بادشاہ خان کی ضمانت کروائی ہے۔بادشاہ خان اسکا خاص کارندہ تھا۔تمھارے داجی جانتے ہیں اس ملک خاور علی کو۔۔کہہ رہے تھے سیاسی اثرورسوخ رکھتا ہے اسی بناء پہ چھڑا لیا اسے۔"

عقیلہ بیگم نے انہیں بتایا۔

"جی بابا نے بھی مجھے یہی بتایا تھا جب میں نے ان سے بادشاہ خان کے متعلق پوچھا تھا۔اسی لیے تو میں نے ان کو کچھ دن کے لئے یہاں بلا لیا تھا۔مجھے خوف تھا کہ کہیں بادشاہ خان پھر سے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔اب دیکھ لیں آپ وہ یہاں بھی آ گیا۔"

ایمان نے ان کی بات کی تصدیق کی۔

"ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔"

شمائلہ بیگم اٹھتے ہوئے بولیں۔

"میں تمھارے لئے چائے اور ٹیبلٹ بھجواتی ہوں۔"

یہ کہہ کر شمائلہ بیگم کمرے سے چلی گئیں۔

"جاؤ بیٹا تم بھی آرام کرو۔"

عقیلہ بیگم نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو وہ سر ہلاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔اپنے کمرے میں جاتے ہوئے اسکا دماغ مختلف سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔غزنوی کی باتیں، اسکا کٹھور لہجہ، بےلچک انداز۔۔۔وہ سہل نہیں کر پا رہی تھی۔اپنے کمرے میں آ کر سب سے پہلے اس نے موبائل اٹھا کر غزنوی کا نمبر ڈائل کیا تھا مگر وہ کال نہیں پک کر رہا تھا۔ایک بار، دو بار، تین بار۔۔۔مگر دوسری طرف وہی کہر میں لپٹی خاموشی تھی۔اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور موبائل سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دیا تھا۔

"اب میں کال نہیں کروں گی۔"

اسکی انا نے سر اٹھایا۔اسی بیچ شگفتہ اسکے لئے چائے اور دوا لے آئی۔

"وہ جی چھوٹی بیگم صاحبہ کہہ رہی تھیں کہ اگر دوا سے آرام نہ آئے تو پھر وہ ڈاکٹر۔۔۔"

"نہیں میں ٹھیک ہوں جاؤ تم۔"

ایمان نے اسے بات مکمل کرنے نہیں دی۔

"میں آپکا سر دبا دوں؟"

شگفتہ جاتے جاتے پلٹی۔

"نہیں۔۔"

اس نے نفی میں سر ہلایا تو وہ کمرے سے چلی۔اس نے پہلے ٹیبلٹ لی اور پھر چائے پینے کے لئے کپ اٹھا ہی تھا کہ شگفتہ کے ساتھ رشید خان کمرے میں داخل ہوا۔

"اچھا بیٹا میں چلتا ہوں۔"

وہ ایمان کی طرف بڑھے جبکہ شگفتہ دروازے سے ہی پلٹ گئی۔ایمان بیڈ سے اتر کر ان کے پاس آئی۔

"بابا اپنا خیال رکھیئے گا۔"

وہ ان کے سینے سے لگی کہہ رہی تھی۔

"فکر نہیں کرو۔۔مجھے وہاں کوئی خطرہ نہیں۔۔بس تم اپنے باپ کو غلط مت سمجھنا، میں مانتا ہوں کہ میں نے زندگی میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔تمھیں کوئی سکون نہیں دے سکا، یہ میرے اللہ کا کرم ہے کہ اس نے تمھارے نصیب میں اتنے اچھے اور ملنسار لوگوں کا ساتھ لکھا ہے ورنہ تمھارے باپ نے تو تمھیں تباہی کے دہانے تک لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔کوشش کروں گا کہ خود کو مزید تمھارا گناہگار نہ ہونے دوں۔"

رشید خان کا چہرہ اداسی کی ایک داستان پیش کر رہا تھا۔

"بابا ایسا مت کہیں۔۔میری آپ سے محبت میں کبھی کمی نہیں آئی اور نہ مجھے آپ سے کوئی شکوہ ہے۔آپ ایک طرف اور ساری دنیا ایک طرف۔۔مجھے آپ کا یہ اداس چہرہ تکلیف دے رہا ہے۔آپ اپنا خیال رکھیں۔۔میں آپکو دُکھی نہیں دیکھ سکتی۔"

وہ ان کے سینے سے لگی کہہ رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے بہتا سیلِ رواں ان کا گریبان بھگو رہا تھا۔

"بیٹا میں بہت گناہگار شخص ہوں۔تم دعا کرنا کہ اللہ مجھے بخش دے۔میں نے موت کو قریب سے دیکھا ہے اور جب اللہ نے مجھے توبہ کا موقع دیا تو میں نے سچے دل سے توبہ کی۔بادشاہ خان جو بھی کہہ رہا ہے وہ سب جھوٹ ہے۔میرے خلاف یہ اسکی چال ہے۔"

رشید خان اسکے سر پہ ہاتھ رکھتا شرمندگی سے بولا۔

"بابا مجھے آپ پر بھروسہ ہے، میں جانتی ہوں کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔"

ایمان نے ان پہ اعتماد ظاہر کیا۔

"اللہ تعالیٰ تمھیں ہمیشہ خوش رکھے۔۔میں چلتا ہوں، تم اپنا خیال رکھنا۔۔اللہ حافظ۔۔!"

رشید خان نے اسکی پیشانی چومی اور اسے ساتھ لئے کمرے سے نکل آیا۔رشید خان تو خود جانا چاہتا تھا مگر اعظم احمد نے ڈرائیور کو اسے گاؤں چھوڑ کر آنے کا کہہ دیا تھا۔ڈرائیور باہر گاڑی میں انتظار کر رہا تھا۔ایمان بیرونی دروازے تک اس کے ساتھ آئی تھی۔رشید خان کے جانے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔رشید خان کی باتوں سے اس کے دل پہ ایک بوجھ سا آن ٹھہرا تھا۔وہ کمرے کی خاموشی اس پہ گھبراہٹ طاری کیے دے رہی تھی۔وہ عقیلہ بیگم کے پاس آ گئی جو لاؤنج میں بیٹھیں تھیں۔ان کے ساتھ اعظم احمد بھی موجود تھے۔

"چلے گئے تمھارے والد؟"

عقیلہ بیگم اسکا اترا چہرہ دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا۔

"جی۔۔"

وہ ان کے پاس بیٹھ گئی۔ابھی اسے وہاں بیٹھے کچھ لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ اعظم احمد کے موبائل کی رنگ ٹون نے عقیلہ بیگم اور ایمان کو متوجہ کیا۔

"کیا۔۔۔؟؟ کیا کہہ رہے ہو، کیسے ہوا یہ سب؟"

فون کان سے لگائے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ٹھیک ہے تم فوراً ہاسپٹل لے کر جاؤ، میں اور مکرم آتے ہیں۔"

فون بند کر کے انہوں نے سامنے بیٹھی خواتین کو دیکھا جو ان کا پریشان چہرہ دیکھ کر خود بھی پریشان دکھائی دے رہی تھیں۔

"کیا ہوا ہے اعظم صاحب؟؟ خیر تو ہے نا؟"

عقیلہ بیگم نے دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔

"رشید خان پہ دوبارہ حملہ ہوا ہے۔ڈرائیور نے بادشاہ خان اور اس کے ساتھ والے شخص کو پہچان لیا۔"

اعظم احمد نے کہا تو وہ دونوں ہکا بکا انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ___________________________________________


"اچھا ہوا تم آ گئے۔"

غزنوی کے کال پہ بتانے پہ وہ اس وقت آفس میں ہے کمیل اس سے ملنے آ گیا تھا۔

"ہاں آنا تو تھا ہی۔کیسا ہے؟"

غزنوی اس سے گرمجوشی سے بغلگیر ہوا۔

"میں ٹھیک ہوں۔۔تم سناؤ۔۔گھر میں سب ٹھیک؟"

کمیل نے پوچھا۔

"الحمداللہ۔۔! سب ٹھیک ہیں۔"

غزنوی اسے بیٹھنے کا اشارا کرتا اپنی چیئر کی طرف بڑھا۔

"ویسے اس بار کافی دن لگا دیئے، تم تو کہہ رہے تھے کہ عید کے تین دن بعد ہی آ جاؤں گا۔"

کمیل نے پیپر ویٹ اٹھاتے ہوا کہا۔

"بس اچانک پروگرام بن گیا۔"

وہ ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتا ہوا بولا۔

"بھابھی کیسی ہیں؟"

کمیل نے اس سے ایمان کی بابت دریافت کیا۔

"ٹھیک ہے۔۔تم یہ بتاؤ کہ کام کہاں تک پہنچا؟"

غزنوی نے فائل اسکی طرف بڑھا کر بڑی صفائی سے بات کا رخ بدلا۔

"سب ٹھیک ہے، سہیل صاحب سے بات ہو گئی تھی۔وہ بھی تمھارا انتظار کر رہے تھے۔انہوں نے بات کر تو لی ہو گی تم سے؟"

کمیل نے پوچھا۔

"ہاں میری بات ہو گئی ہے۔بس وکیل صاحب آ رہے ہیں تو پھر ملکر سب فائنل کر لیتے ہیں۔میں چاہتا ہوں کہ ایک ہی بار سب سیٹل ہو جائے کیونکہ میں بار بار نہیں آ پاؤں گا۔"

غزنوی نے سنجیدگی سے کہا۔

"وکیل صاحب کس وقت تک آئیں گے؟"

کمیل نے فائل کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے مصروف انداز میں پوچھا۔

"گیارہ بجے تک آنے کا کہا ہے۔۔کیوں تمھیں کہیں جانا ہے کیا؟"

غزنوی نے فائل سے نظر ہٹا کر اسکی جانب دیکھا۔

"ہاں مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔"

کمیل فائل بند کر کے اٹھ کھڑا ہوا۔

"ٹھیک ہے وکیل صاحب سے مشورہ کر کے دونوں چلیں گے۔"

غزنوی نے کہا۔اسی دوران وکیل صاحب کیبن میں داخل ہوئے۔

"السلام و علیکم وکیل صاحب۔۔!"

غزنوی انھیں دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا اور نہایت گرمجوشی سے ان سے مصافحہ کیا۔

"وعلیکم السلام ینگ مین۔۔کیا حال چال ہیں؟"

وکیل صاحب بھی اسی گرمجوشی سے اس سے اور پھر کمیل سے ملے۔

"سب ٹھیک آپ کہیٔے۔"

غزنوی انھیں بائیں جانب رکھے صوفے کی جانب لے آیا۔

"الحمداللہ۔۔!"

وکیل صاحب بیٹھے تو وہ ٹیبل سے فائل اٹھا کر لے آیا۔پھر انہوں نے سہیل صاحب کو بھی بلوا لیا۔پھر ڈیڑھ گھنٹے کی میٹنگ میں تینوں نے وکیل صاحب کے مشورے سے تمام معاملات سیٹل کیے۔

"چلیئے مبارک ہو آپ کو سہیل صاحب۔۔میں انشاللہ کل تک پیپرز ریڈی کروا لوں گا۔"

وکیل صاحب نے ٹیبل سے فائل اٹھاتے ہوئے خود بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔

"خیر مبارک وکیل صاحب اور غزنوی بیٹا بہت شکریہ کہ تم نے مجھے یہ موقع دیا۔"

سہیل صاحب نے غزنوی کی طرف دیکھا۔

"اس میں شکریہ کی کیا بات سہیل صاحب۔۔یہ سب آپکی محنت ہے اور مجھے بہت خوشی ہے کہ میں آپکے کسی کام آ سکا۔"

غزنوی نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے تو مجھے اب اجازت۔"

وکیل نے غزنوی کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔جو اس نے تھام لیا۔پھر وکیل صاحب، سہیل صاحب کے ساتھ چلے گئے۔ان کے جانے کچھ دیر بعد وہ دونوں بھی آفس سے نکل آئے۔وہاں سے وہ سیدھے مارکیٹ آ گئے تھے۔

"کیا لینا ہے؟"

وہ دونوں مال میں داخل ہوئے تو غزنوی نے پوچھا۔

"کچھ شرٹس لینی ہیں۔"

کمیل ایک دکان میں داخل ہوا۔غزنوی بھی اسکے پیچھے ہی تھا۔پھر دونوں نے اپنے لئے کچھ شرٹس خریدیں۔

"بھابھی کے لئے کچھ لینا ہے؟"

کمیل نے شاپنگ بیگز اُٹھاتے ہوئے غزنوی سے پوچھا جو اپنے لئے گھڑی پسند کر رہا تھا۔

"نہیں۔"

اتنا سیدھا جواب۔۔اسکی لاپروائی پہ کمیل نے اسکی طرف حیرت سے دیکھا۔

"چلیں یا کچھ اور لینا ہے تم نے؟"

غزنوی نے اسکی حیران نگاہوں کو خود پہ جمے دیکھکر پوچھا۔کمیل نے نفی میں سر ہلایا تو وہ شاپرز اٹھاتا دکان سے نکل گیا۔سیڑھیوں سے اترتے ہوئے غزنوی کی نظر ایک جیولری شاپ میں لگے چوڑیوں کے اسٹالز پر پڑی۔اسکے قدم خود بخود دکان کی طرف اٹھے۔

سیاہ چوڑیاں دیکھکر پرسوں صبح والا واقعہ اپنی تمام جزیات کے ساتھ اسے یاد آیا۔ایمان کو چوڑیاں بہت پسند تھیں۔ہر لباس کے ساتھ میچنگ کانچ کی چوڑیاں پہننا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔یہ بات شروع ہی سے اسکے نظروں میں آئی یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ انجانے میں ایمان نے اپنی کلائیوں میں کھنکتے کانچ سے اسے اپنی موجودگی کا احساس دلایا تھا۔دن میں تو یہ چوڑیاں اسکی ڈسٹربنس کا باعث تھیں مگر رات میں بھی اسکی چوڑیوں کی کھنک سے بار بار اسکی نیند کھل جاتی تھی۔وہ ویسے بھی بیدار نیند سوتا تھا اور ایمان نیند میں کروٹ بدلتی رہتی تھی جس سے ہاتھوں میں پہنی چوڑیاں کھنک کر خاموشی میں ارتعاش پیدا کرتی تھیں۔پرسوں رات بھی ایمان کی چوڑیوں کی آواز سے اسکی نیند ٹوٹی تھی۔پھر لاکھ کوشش کے باوجود وہ سو نہیں پا رہا تھا۔

اس نے ایمان کیطرف دیکھا جو اس کی طرف پیٹھ کیے سو رہی تھی۔وہ لیٹے لیٹے اسکے قریب کھسک آیا اور اپنے دائیں بازو پہ وزن ڈالتا اس کے کندھے سے جھانک کر اسے دیکھا۔ستواں ناک میں چمکتی لونگ نیم تاریکی میں بھی چمک رہی تھی۔گلابی لب سختی سے جڑے ہوئے تھے۔اسی وقت ایمان نے نیند میں رخ غزنوی کی جانب کیا اور اس حرکت سے ایمان کی کھنکتی چوڑیاں غزنوی کو اپنی جانب متوجہ کر گئیں۔سیاہ چوڑیاں اسکی سپید نازک کلائی پہ سجی ہوئیں تھیں۔ایمان کا معصوم چہرہ اسکے سامنے تھا۔غزنوی اس کے چہرے پہ جھکا اور ایمان کی چمکتی پیشانی کی نرمی کو اپنے لبوں میں سموتا مسکرا دیا۔

ایمان کی پلکوں میں ہلکی سی جُنبش ہوئی تو وہ جلدی سے پیچھے ہٹا۔

اپنے تکیے پہ سر رکھتے ہوئے اسکی گہری نظریں ایمان کے چہرے کو گھیرے میں لئے ہوئیں تھیں اور پھر نیند آنے تک وہ اسی کام میں مصروف رہا تھا۔اگلی صبح وہ آفس کے لئے تیار ہو رہا تھا جب ایمان اسکے لئے ناشتہ لائی۔اندر آنے کے بعد ایمان نے نک سک سے تیار غزنوی پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ٹیبل کیطرف بڑھ گئی۔غزنوی نے آئینے میں دکھتے اپنے عکس پہ ایک نظر ڈالی اور پھر ٹیبل کے پاس اسکے انتظار میں کھڑی ایمان کے پاس آیا۔

"ویسے یہ اچھا طریقہ ہے شوہر کو ساری رات جائے رکھنا۔"

غزنوی گھمبیر لہجے میں کہتا اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

"کیا مطلب؟"

ایمان نے اسکی طرف ناسمجھی سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"مطلب یہ کہ تم مجھے اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے کیا کیا حربے نہیں آزماتی ہو۔"

غزنوی کا انداز سنجیدہ تھا اور اسکے سنجیدہ چہرے سے کوئی اندازہ نہیں لگا پا رہی تھی مگر غزنوی کی آنکھوں کی چمک اسے اسکی شرارت کا پتہ دے رہی تھی۔

"بھول ہے آپکی کہ میں ایسا کرتی ہوں ہاں یہ اور بات ہے کہ آپ میرے پیچھے پیچھے رہتے ہیں۔"

ایمان اسکے سائیڈ سے نکلتی صوفے پہ جا بیٹھی اور ریلیکس انداز میں غزنوی کے لئے کپ میں چائے ڈالنے لگی۔

"میں اتنا بیوقوف نہیں اور تمھاری چالاکی تو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔یہ تمھاری چوڑیاں رات بھر مجھے بیدار رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔"

غزنوی نے اسکی کلائی میں سجی چوڑیوں کو اپنی انگلی سے چھیڑا۔

"آپ ڈسٹرب ہوتے ہیں تو نہیں پہنوں گی۔"

ایمان اسکی طرف دیکھتے دیکھتے چوڑیاں اتارنے لگی۔

"ابھی ناشتہ کرو۔۔یہ کام بعد میں کر لینا۔"

غزنوی نے اسے چوڑیاں اتارتے دیکھ کر کہا۔

"جی۔۔"

وہ خاموشی سے ناشتہ کرنے لگی جبکہ غزنوی اپنا سر پیٹ کر رہ گیا۔اسے اس سیدھی لڑکی پہ غصہ آنے لگا تھا کہ وہ کہتا کچھ تھا اور وہ سمجھتی کچھ اور تھی۔

مگر یہ بھی سچ تھا کہ ایمان کی یہی سادگی اسکے لبوں پہ مسکراہٹ لے آتی تھی۔

اسکے لب ابھی بھی مسکرا رہے تھے۔

"کچھ لینا ہے یہاں سے؟"

کمیل اسکے پیچھے آیا تھا۔وہ چونک گیا۔

"نہیں۔۔کچھ نہیں لینا۔"

وہ پلٹ کر مین ڈور کی طرف بڑھ گیا۔کمیل بھی کندھے اچکاتا اسکے ساتھ قدم اٹھاتا مال سے نکل آیا تھا۔ ________________________________________


"آئی ایم سوری۔۔!! ہم نے اپنی پوری کوشش کی مگر بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ہم انہیں بچا نہیں پائے۔"

ڈاکٹر صاحب نے اعظم احمد کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

اعظم احمد نے سر جھکا لیا اور ان سے کچھ فاصلے پہ کھڑی عقیلہ بیگم نے دل تھام لیا۔انہوں نے اپنے ساتھ کھڑی ایمان کو دیکھا۔اس کی ساکت آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی سن چکی ہے۔ان کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ دھم سے ہاسپٹل کے فرش پہ بیٹھی تھی۔

"ایمان۔۔!"

عقیلہ بیگم نے اسے بازو سے پکڑ کر سنبھالنے کی کوشش کی تھی۔انہوں نے اسے بینچ پہ بیٹھایا۔

"حوصلہ کرو بیٹا۔"

عقیلہ بیگم نے اسے سینے سے لگایا۔اسکی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔

"اللہ کی یہی مرضی تھی بیٹا۔سنبھالو خود کو۔"

اعظم احمد نے قریب آ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تھا۔آپ ایمان کو لے کر گھر چلی جائیں، میں ذرا انسپکٹر صاحب سے مل لوں۔ڈرائیور بھی ان کے پاس ہے۔مرتضی کو کال کر دی ہے میں نے وہ آ رہا ہے۔"

اعظم احمد، عقیلہ بیگم سے کہتے وہاں سے چلے گئے۔

ایمان کی تو ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔وہ اسے حوصلہ دیتی گھر لے آئیں۔کچھ وقت بعد اعظم احمد اور ڈرائیور

گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔غزنوی کو بھی اطلاع کر دی گئی تھی۔سبھی اسے احساس دلا رہے تھے کہ وہ اسکے غم میں برابر کے شریک ہیں۔لیکن سامنے پڑی باپ کی میت اسے یہ احساس دلا رہی تھی کہ وہ بالکل اکیلی ہو گئی ہے۔

اسکا رونا سب کی آنکھوں میں آنسو لے آیا تھا۔سبھی اسے حوصلہ دے رہے تھے۔

"بیٹا بس کرو۔۔ان کے لئے دعا کرو کہ اللہ آگے کی منزل آسان کرے۔"

جنازہ اٹھنے کے بعد بلقیس بیگم جو غزنوی کے ساتھ آئیں تھیں، ایمان کے پاس آ بیٹھیں اور اسکے ہچکیوں کی زد میں آئے وجود کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیا۔سب ہی باری باری اسے چپ کرانے کی کوشش کر چکے تھے مگر اسکی آنکھوں کی نمی بڑھتی جا رہی تھی۔

"میں اکیلی رہ گئی خالہ۔۔ایک ہی تو رشتہ تھا، جو میرا اپنا تھا اب اس ایک اپنے کی خوشبو کو کہاں تلاشوں گی۔"

وہ بلقیس بیگم کے سینے میں منہ چھپائے ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔

"اکیلی کب ہو۔۔ہم سب ہیں تمھارے ساتھ۔"

اس کے دُکھ پہ بلقیس بیگم کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔وہ اسے دلاسا دے رہی تھی۔بہت زیادہ رونے سے اسکی طبیعت بگڑنے لگی تھی۔بلقیس بیگم اسے کمرے میں لے آئیں۔شمائلہ بیگم نے اسکے لئے کھانا اور ٹیبلٹ بھجوائی۔جو بلقیس بیگم نے اسے زبردستی کھلایا۔وہ شدید زہنی دباؤ کا شکار ہو رہی تھی اس لئے انہوں نے اسے دوا کھلائی اور اسے آرام کا کہتیں کمرے سے باہر آ گئیں۔

اعظم احمد ابھی کچھ لمحے پہلے مہمانوں کو رخصت کر کے کمرے میں داخل ہوئے تھے۔عقیلہ بیگم بیڈ پہ لیٹی تھیں۔انہیں آتے دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھیں۔اعظم احمد سست روی سے چلتے صوفے پہ آ کر بیٹھ گئے۔چہرے سے تھکن واضح تھی۔وہ جیسے ہی آ کر بیٹھے تھے ان کا موبائل فون بجنے لگا۔

"جی انسپیکٹر صاحب؟"

وہ فون کان سے لگاتے ہوئے بولے۔عقیلہ بیگم بیڈ سے اتر کر ان کے پاس آ بیٹھیں۔

"یہ تو بہت اچھا ہوا۔انسپیکٹر صاحب تگڑی چارج شیٹ فائل کیجیئے گا۔اب کی بار اسے وہ چھوٹنے نہ پائے۔ملک خاور علی کو بھی شاملِ تفتیش کیجیئے گا۔اس جیسے لوگ ہی ہمارے ملک کا ناسور ہیں۔اُس کی ہی وجہ سے یہ جیل سے چھوٹنے میں کامیاب ہوا اور اب دیکھیئے ہم نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا۔میں اسے کڑی سے کڑی سزا دلوانا چاہتا ہوں۔"

اعظم احمد بولے۔

"ٹھیک ہے میں کل پہلی فرصت میں آپ کے پاس ہونگا۔۔اللہ حافظ۔۔!"

کچھ دیر انسپیکٹر صاحب کی بات سننے کے بعد وہ بولے اور الوادعی کلمات ادا کر کے فون رکھ دیا۔

"تھانے سے فون تھا؟"

انہوں نے جیسے ہی فون رکھا عقیلہ بیگم نے پوچھا۔اعظم احمد نے اثبات میں سر ہلایا۔

"کیا کہہ رہے تھے؟"

عقیلہ بیگم مزید جاننا چاہتی تھیں۔

"بادشاہ خان اور اسکے ساتھی کو گاؤں کے قریب ہی گرفتار کر لیا گیا ہے۔۔یہی بتا رہے تھے۔"

اعظم احمد پاؤں پسار کر بیٹھ گئے۔

"یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔لیکن کہیں پہلے کی طرح چھوٹ نہ جائے۔"

وہ پریشانی سے بولیں۔

"نہیں اس بار ایسا نہیں ہو گا۔یہ شہر ہے اور پھر چند راہ گیروں نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔گواہ ہیں وہ اس قتل کے۔"

اعظم احمد نے انہیں تسلی دی۔

"پہلے بھی تو گواہ تھے، لیکن کیا ہوا۔"

عقیلہ بیگم کے لہجے میں بےیقینی تھی۔

"ملک خاور علی نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ چلایا ورنہ وہ باہر نہ آ پاتا۔پھر گاؤں کے لوگ ڈرتے بھی تھے اس سے اس لئے اس نے دھمکیاں دے کر گواہوں کو یہ کہنے پہ مجبور کیا کہ رشید خان نے اس پہ حملہ کیا تھا اور اس نے اپنے بچاؤ میں فائر کر دیا۔اس بار ملک خاور علی ایسا کچھ نہیں کرے گا۔وہ اپنی جان بچائے گا نا کہ بادشاہ خان کو بچانے کا جوکھم اٹھائے گا۔"

اعظم احمد نے تفصیل بتا کر انہیں مطمئن کیا اور مطمئن ہو بھی گئیں۔

"چلو اچھا ہوا۔۔اعظم صاحب آپ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں آرام کر لیجیئے۔"

وہ اعظم احمد کے چہرے پہ تھکاوٹ کے آثار دیکھ کر بولیں۔وہ سر ہلا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"ایمان کی طبیعت کچھ سنبھلی؟"

اعظم احمد نے بیڈ کی جانب بڑھتے بڑھتے پلٹ کر ان سے پوچھا۔

"کیسے سنبھلے گی، باپ کو کھویا ہے اس نے۔۔ابھی تو دکھ تازہ ہے، وقت تو لگے گا نا۔"

عقیلہ بیگم ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بولیں۔

"خیال رکھو اسکا۔"

وہ عقیلہ بیگم کو ہدایت دیتے بیڈ پہ لیٹ گئے جبکہ عقیلہ بیگم ایمان کے متعلق سوچنے لگیں پھر اٹھ کر کمرے سے باہر آ گئیں۔ _______________________________________


"ویسے مجھے بہت افسوس ہوا،میں تو تمھیں بہت سمجھدار سمجھتا تھا لیکن تم نے مجھے بہت نا امید کیا۔"

وہ اس وقت لان میں بیٹھا سیگریٹ پھونک رہا تھا جب مصطفیٰ کرسی اسکے قریب کرتا بیٹھ گیا اور اسکے ہاتھ سے سیگریٹ لے کر ایش ٹرے میں مسل دی۔

"میں نے ایسا کیا کر دیا؟"

غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے لیکن پھر چہرے پہ ایسے تاثرات سجائے جیسے وہ اسکی الفاظ کو معانی نہیں پہنا پایا ہو۔

"جسطرح تم یہاں سے اڑنچھو ہو گئے تھے اس بارے میں بات کر رہا ہوں۔"

مصطفیٰ نے اسے گُھورا۔

"یار بتایا تو تھا کہ کمیل کا فون آ گیا تھا، مجھے جانا پڑا تھا۔تم یونہی بال کی کھال اتارنے میں اپنی توانائی ضائع کر رہے ہو۔"

غزنوی نے اسکی بات کے جواب میں کہا۔

"مجھ سے جھوٹ مت بولو، کمیل سے بات ہوئی ہے میری، اس نے مجھے بتایا کہ تم یوں اچانک ہی وہاں پہنچ گئے جبکہ تمھاری پلاننگ دو دن بعد کی تھی۔"

غزنوی کے ایک بار پھر جھوٹ بولنے پہ مصطفیٰ کا لہجہ سخت ہوا۔

"جب پتہ چل گیا ہے تو دوبارہ پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔غصے میں تھا، یہاں رہتا تو مزید دماغ خراب ہوتا میرا، اس لئے میں نے منظر سے غائب ہونے کا فیصلہ کیا۔"

غزنوی نے اب چھپانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔مصطفی نے بات چھیڑی تو وہ صاف صاف بتانے لگا۔

"کیوں؟"

مصطفی نے کڑی نظریں اس پہ جما رکھی تھیں۔

"یار۔۔تم کیا اس وقت کچہری لگا کر بیٹھ گئے ہو۔میں تھک گیا ہوں، سونے جا رہا ہوں۔"

غزنوی نے لاپرواہی سے کہا اور جانے کے کئے اٹھ کھڑا ہوا۔

"یہ لاپروائی تم کسی اور کے سامنے ظاہر کرنا۔یہاں بیٹھو اور مجھے بتاو۔۔علیم صاحب کے چوکیدار نے مجھے بتایا کہ تمھاری گاڑی کافی دیر ان کے گھر کے سامنے کھڑی تھی۔اب مجھے سچ سننا ہے۔"

مصطفی نے کہا تو وہ گہری سانس خارج کرتا بیٹھ گیا۔اسے یاد آیا کہ جب وہ گاڑی میں بیٹھا تھا تو چوکیدار باہر ہی کھڑا تھا۔

"اس نے یہ بھی بتایا کچھ دیر بعد ہمارے گھر کوئی شخص کڑے تیور لئے نکلا تھا اور اپنی جیپ جو ہمارے گھر کے گیٹ کے پاس کھڑی تھی، کی طرف جاتے جاتے تمھاری گاڑی میں بیٹھ گیا تھا اور کافی دیر تمھارے ساتھ گاڑی میں بیٹھا رہا۔پھر اس کے جانے کے بعد تم ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئے۔"

مصطفی نے اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تفصیل سے بتایا۔

"اور یہ ساری کہانی اس نے تمھیں کب سنائی۔"

غزنوی ساری بات سن کر حسب معمول طیش میں آیا۔

"جنازے سے کچھ دیر پہلے جب داجی نے مجھ سے تمھیں انفارم کرنے کے بارے میں پوچھا تھا۔اس وقت وہ مجھ سے افسوس کرنے کے لئے میرے پاس ہی کھڑا تھا۔وہ شخص بادشاہ خان ہی تھا نا؟"

وہ مصطفی کی سوالیہ نظروں کے جواب میں گہری سانس خارج کر کے رہ گیا۔

"ہاں وہی تھا۔"

غزنوی نے اسکی بات کی تردید نہیں کی۔وہ چاہتا تو انکار کر سکتا تھا مگر انکار کرنے سے اسکی کی گئی اتنی سنگین غلطی درست تو ہو نہیں سکتی تھی۔

"تو اس نے تم سے ایسا کیا کہا کہ تم سیدھے اسلام آباد چلے گئے جبکہ تمھارا اسلام آباد جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔"

مصطفی کے پوچھنے پہ اس نے اپنے اور بادشاہ خان کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو کہہ سنائی۔مصطفی کو اسکے چہرے پہ شرمندگی صاف دکھائی دے رہی تھی۔

"مجھے تم سے اتنی بیوقوفی کی توقع نہیں تھی ویسے، تم اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ کس قماش کا آدمی ہے اور اپنے مفاد کے لئے کس حد تک جا سکتا ہے۔شروعات سے ہی تم اسکے ناپاک عزائم سے واقف تھے، پھر بھی؟"

مصطفی اسکے چہرے پہ چھائی شرمندگی دیکھ کر افسوس ہوا۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کانوں کا اتنا کچا نکلے گا۔

"اسی بات کا تو دکھ ہے۔اگر میں یوں نہ جاتا تو رشید انکل اسطرح دلبرداشتہ ہو کر یہاں سے نہ جاتے اور نا ہی یہ سب ہوتا۔"

غزنوی نے بے چینی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔

"تم خود کو اس بات کے لئے موردِ الزام کیوں ٹھہرا رہے ہو؟ انہوں نے تو جلد یا بدیر یہاں سے جانا ہی تھا۔"

مصطفی نے اسکی بے چینی محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"نہیں۔۔۔میں نے انہیں یہاں رہنے کے لیے راضی کر لیا تھا۔ بادشاہ خان کی وجہ سے سے ان کی جان کو خطرہ تھا۔یہ بات میں نے ایمان کے سامنے نے ہی کی تھی۔جب عید کے دوسرے دن ہی انہوں نے واپس گاؤں جانے کی بات تھی۔ایمان بھی چاہتی تھی کہ وہ یہیں شہر میں رہیں، اس کے پاس، مگر سب الٹا ہوگیا اور میرے رویے کی وجہ سے انہوں نے جانے کا فیصلہ کیا۔شاہ گل کہہ رہی تھیں کہ ایمان نے اور داجی نے روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ رکنے کو تیار نہیں تھے۔"

یہ کہتے ہوئے غزنوی کی آنکھوں کی سرخی بڑھ گئی تھی۔

"میں نے تمھیں ہمیشہ کہا ہے کہ اپنے غصے پہ کنٹرول کرنا سیکھو۔کیا تم نے اس سے ان سارے الزامات کا ثبوت نہیں مانگا تھا؟"

مصطفی نے اس سے پوچھا۔

"اس نے کہا کہ رشید خان نے ہی کیس واپس لیا جسکی وجہ سے اسے جیل سے رہائی ملی اور میں چاہوں تو تھانے فون کر کے معلومات کر سکتا ہوں۔اس کے سامنے تو میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے اسکی باتوں کا رتی برابر بھی یقین نہیں لیکن اسکے جانے کے بعد میں نے تھانے کال کر کے پوچھا تھا۔ایس ایچ او نے بھی بادشاہ خان کی بات پہ سچ کی مہر لگا دی، بس پھر کیا تھا میرے اندر جیسے بھانبھڑ سے جلنے لگے، کچھ سمجھ میں نہ آیا اور اسلام آباد چلا آیا۔"

غزنوی نے ساری بات بتانے کے بعد مصطفی کی طرف دیکھا۔وہ بھی اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

"ایمان کی شکوہ کرتی نگاہوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے مجھ میں، میری نادانی کے باعث وہ اپنا ایک عزیز رشتہ کھو بیٹھی ہے۔"

غزنوی نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔

"تم خود کو الزام نہ دو۔ان کی اتنی ہی زندگی لکھی تھی اور پھر اللہ کی مرضی کے سامنے انسان بےبس ہے۔تم ایسا تھوڑی چاہتے تھے۔بادشاہ خان کس مقصد کے تحت یہاں آیا تھا، یہ ہم سب میں سے کسی کو معلوم نہیں تھا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے یہ سب رشید انکل کو باہر لانے کے لئے ہی کہا ہو تاکہ وہ اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا سکے۔"

مصطفی نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے نارمل کرنے کی کوشش کی۔

"لیکن یار میں یہاں رہ کر ان سے پوچھ سکتا تھا۔وہ گھر چھوڑ کر نہ جاتے تو بادشاہ خان کو موقع نہ ملتا۔"

غزنوی کے چہرے سے بےسکونی چھلک رہی تھی۔مصطفی نے تسلی دینے کے انداز میں اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ سر جھکا کر رہ گیا۔اب سب سے مشکل کام ایمان کا سامنا کرنا تھا۔کمرے میں جاتے ہوئے اپنے کہے ہوئے الفاظ اسکے کانوں میں گونج رہے تھے۔ _________________________________________


وہ کمرے میں آیا تو ایمان سو رہی تھی۔اس نے بہت آہستگی سے دروازہ بند کیا اور وال کلاک کی جانب دیکھا۔وہ نارملی اس وقت جاگ رہی ہوتی تھی۔حقیقت تو یہ تھی کہ ایمان جاگ رہی تھی لیکن دروازے پہ ہوتی آہٹ سن کر اس نے آنکھیں بند کر لیں تھیں۔غزنوی الماری سے کپڑے لیتا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کے بعد طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس ہوا تھا مگر دل پہ جو بوجھ تھا وہ کیسے ہلکا ہو گا۔اب اسے یہ سوچنا تھا۔رہ رہ کر اے ایمان کی اپنی جانب اٹھی شکوہ کناں نگاہیں یاد آ رہی تھیں اور پھر جب اسے تسلی دینے کے لئے وہ اسکے قریب جانے لگا تو وہ رخ پھیر گئی تھی۔

گیلے بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ بیڈ کی جانب آیا اور ایمان کے معصوم چہرے کو نگاہوں کے فوکس کرتا نیم دراز ہو گیا۔اب بھی سانس کے ساتھ ساتھ اسکی دبی دبی سسکیاں بھی سنائی دے رہی تھیں۔

"ایمان۔۔!"

غزنوی نے دھیرے سے اسے پکارا اور قریب ہوا۔ایمان کی لرزتی بھیگی پلکیں اسے ایمان کے بیدار ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔

"ایمان۔۔!"

غزنوی نے دوبارہ پکارا مگر وہ بےحس و حرکت لیٹی رہی۔

"میں جانتا ہوں کہ تم جاگ رہی ہو۔"

اس نے ایمان کے چہرے پہ بکھرے بالوں کو سنوارتے ہوئے کہا۔آیمان نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ پرے کیا اور رُخ پھیر کر لیٹ گئی۔

"میں جانتا ہوں کہ میری باتوں نے تمھارے دل کو بہت ٹھیس پہنچائی ہے۔کیا مجھے معافی نہیں مل سکتی؟"

وہ کمر تک آتی چٹیا پہ انگلی پھیرتے ہوئے اسکے کان کے قریب آ کر بولا۔

"بالکل نہیں۔"

اس نے بھیگے لہجے میں کہتے ہوئے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں رگڑ ڈالیں۔

"پلیز۔۔۔!"

غزنوی کو سمجھ نہیں آیا کہ کسطرح اس سے بات کرے۔

"مجھے آپ سے کوئی بات نہیں کرنی، پلیز مجھ سے پرے ہٹئے۔آپ کی وجہ سے میں نے اپنے بابا کو کھو دیا ہے۔آپ نے کیسے ان پہ مورد الزام ٹھہرایا تھا۔آپ کے کہے گئے زہریلے الفاظ، جن سے میں پل پل مری ہوں۔وہ بہت دکھی ہو کر گئے تھے یہاں سے، انہیں لگتا تھا کہ آپ کو ان پہ اعتبار نہیں تو وہ کس حیثیت سے یہاں رہیں۔اس لئے وہ چلے گئے، یہ دنیا ہی چھوڑ کر چلے گئے۔وہ جانا نہیں چاہتے تھے، میرے ساتھ رہنا چاہتے تھے۔انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ گاوں والا گھر بیچ کر وہ یہاں اپنے لئے ایک گھر خریدیں گے، مگر آپ کی تنگ نظری اور رویے نے انہیں بہت دکھی کر دیا اور وہ واپس جانے پہ مجبور ہو گئے۔وہ جان گئے تھے کہ آپ کو ان پہ اعتبار نہیں۔۔آپکی بےاعتباری نے میرے بابا کی جان لے لی، آپ قاتل ہیں میرے بابا کے اور میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔"

کمرے میں ایمان کی سسکیاں گونج رہی تھیں۔

"مجھے ان پہ شک نہیں تھا، میں صرف غصے میں تھا۔"

غزنوی نے اسکے ہاتھ تھامنے چاہے۔

"تھا آپ کو شک۔۔۔وہ بہت اداس تھے یہاں سے جاتے ہوئے۔اگر آپ اسطرح نہ جاتے، ان کی بات سنتے، ان کا اعتبار کرتے تو وہ آج میرے پاس ہوتے، میرے بابا میرا واحد رشتہ تھے، میری آنکھوں کی ٹھنڈک تھے۔آپ نے وہ بھی چھین لی۔"

وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہتی جا رہی تھی۔دھیرے دھیرے اسکی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی لیکن غزنوی نے اسے روکا نہیں، جو وہ کہنا چاہتی تھی اسے کہنے دیا اور جب وہ ریلیکس ہو جائے اس پھر وہ اس سے بات کرے تاکہ وہ پرسکون ہو کر اسکی بات سنے۔ایمان چہرہ ہاتھوں میں چھپائے رو رہی تھی۔

"مجھے تمھارا ہر الزام قبول ہے لیکن پلیز تم پرسکون ہو جاؤ۔مجھے احساس تھا کہ مجھے ان سے بات کرنی چاہیئے تھی۔بادشاہ خان کی باتوں سے اگر میرے دل میں شک کی کوئی ذرا سی پھانس بھی تھی تو اسے بیٹھ کر سلجھا دینا چاہیئے تھا۔میں شرمندہ ہوں، اپنے رویے پہ، ان الفاظ پہ جو میں نے ان کے لئے استعمال کیے۔میں انہیں واپس تو نہیں لا سکتا مگر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ بادشاہ خان کو کڑی سے کڑی سزا دلاوں گا۔میرا یقین کرو۔"

غزنوی نے اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹانے چاہے جو ایمان نے ایک بار پھر جھٹک دیئے۔

"آپ کا یقین کروں۔۔۔آپ کا؟ جو جب چاہے تپتے صحرا میں گھسیٹ لے اور جب چاہے ٹھنڈی چھاوں بن جائے۔آپ کے اس دھوپ چھاوں جیسے رویے جھیلنے کی سکت اب مجھ میں نہیں ہے۔میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔۔۔نہیں۔۔۔بلکہ آپ ایسا کریں اس جواری کی بیٹی کو ہی چھوڑ دیں، بخش دیں مجھے۔"

وہ اسکے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے رو دی۔غزنوی نے اسکی حالت کے پیش نظر مزید بات کرنا مناسب نہ سمجھا اور پیچھے ہٹ گیا جبکہ ایمان کتنی ہی دیر دبی دبی سسکیوں سے روتی رہی۔ ______________________________________


بادشاہ خان اور اسکے ساتھی جانس خان کے خلاف مضبوط کیس بنایا گیا۔بادشاہ خان کے وکیل نے بہت کوشش کی کہ بادشاہ خان کو بیل مل جائے لیکن عدالت نے ضمانت کی درخواست منسوخ کر دی اس وقت وہ جیل میں تھا۔فلحال وہ مسلسل وکیل کے کہنے پر اس جرم سے انکار کیے جا رہا تھا۔لیکن پھر جسمانی ریمانڈ نے بادشاہ خان اور جانس خان کو قبول کرنے پہ مجبور کر دیا۔غزنوی اور اعظم احمد کی کوششوں سے گاوں کے تھانے کا ایس ایچ او پہلے سسپینڈ ہوا اور پھر اسے گرفتار کیا گیا۔ساتھ ہی ساتھ اعظم احمد کے بتانے پہ ملک خاور علی کو بھی انٹیروگیٹ بھی کیا گیا۔اس نے تمام حالات بتانے میں بالکل پس و پیش سے کام نہ لیا اور خود کو صاف بچاتا سارا الزام بادشاہ خان پہ لگا دیا۔عدالت میں کیس چل رہا تھا اور غزنوی کو امید تھی کہ عدالت کا فیصلہ بھی ایک دو اور پیشیوں کے بعد ان کے حق میں ہو جائے گا۔آج بھی پیشی تھی۔اس لئے وہ اور مصطفی عدالت سے کچھ لیٹ گھر آئے تھے۔اعظم احمد اور عقیلہ بیگم لاؤنج میں ہی ان کا انتظار کر رہے تھے جب وہ دونوں لاؤنج میں داخل ہوئے۔دونوں نے بیک وقت بلند آواز میں سلام کیا۔مصطفی تو معذرت کرتا اپنے پورشن کی طرف بڑھ گیا جبکہ غزنوی وہیں اعظم احمد کے ساتھ بیٹھ گیا۔

"کیا بنا؟ اور کب تک فیصلہ آنے کی امید ہے؟"

اعظم احمد نے اس سے پوچھا۔

"انشاءاللہ۔۔! ایک دو پیشیوں میں فیصلہ آ جائے گا اور ہمارے حق میں ہو گا۔بادشاہ خان کا چیپٹر تو آپ کلوز ہی سمجھیں۔"

غزنوی انہیں آج کی پیشی کے متعلق بتایا۔

"یہ تو بہت اچھی خبر ہے۔"

اعظم احمد نے پرسکون ہو کر صوفے سے پشت ٹکائی۔

"جی۔۔۔امی کہاں ہیں اور بابا بھی دکھائی نہیں دے رہے۔"

غزنوی کی نظریں اردگرد کا چکر لگاتی ان تک پلٹ آئیں۔

"تمھاری ماں تو کچن میں ہو گی اور ایمان کو صائمہ ساتھ لے گئی ہے۔وہ بچی بالکل بجھ کے رہ گئی ہے۔باپ کی اندوہناک موت نے اسے بیمار کر ڈالا ہے۔صائمہ آئی تھی میں نے ہی زبردستی بھیجا ہے کہ کچھ وقت گزار لے گی تو ہو سکتا ہے طبیعت کچھ بہل جائے۔شام تک تم جا کر لے آنا۔وہ کہہ کر گئی ہے کہ اسے وہاں رات نہیں رکنا اس لئے وقت پہ اسکے پیچھے ڈرائیور کو بھجوا دیں۔"

عقیلہ بیگم نے اسکی بے چین نظروں کو تاک لیا تھا اس لئے تفصیل سے بتایا۔

"جی۔"

وہ سر اثبات میں ہلاتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں ذرا فریش ہو لوں۔"

وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔اسی دوران شمائلہ بیگم چائے لئے لاونج میں آئیں۔

"شاہ گل غزنوی کہاں گیا؟"

شمائلہ بیگم نے کپ عقیلہ بیگم کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔

"اپنے کمرے میں گیا ہے، شگفتہ کے ہاتھ چائے وہیں بھیج دو۔تھکا تھکا سا لگ رہا تھا۔"

انہوں نے چائے کا کپ تھامتے ہوئے کہا۔ان کی بات سن کر شمائلہ بیگم نے شگفتہ کو آواز دی۔عقیلہ بیگم انہیں بھی کیس کے متعلق بتانے لگی تھیں جبکہ اعظم احمد خاموشی سے اپنی چائے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ___________________________________


کمرے میں داخل ہوتے ہی گھپ اندھیرے اور خاموشی نے اسکا استقبال کیا۔آج کل یہی دو چیزیں اسے کمرے میں اپنا استقبال کرنے کو ملتی تھیں۔اس دن کے بعد سے دونوں کے بیچ کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی بلکہ اب وہ جہاں موجود ہوتا، ایمان وہاں سے ہٹ جاتی۔اس سے بات کرنا تو دُور اسکی کسی بات کا جواب تک نہیں دیتی تھی۔سب گھر والوں کو مطمئن رکھنے کے لئے بس خاموشی سے اسکے کام کیے جاتی۔غزنوی بھی بڑی خاموشی سے اسکی ناراضگی برداشت کر رہا تھا۔

اس نے بےدلی سے لائٹ آن کی اور الماری سے کپڑے لے کر واش روم میں گھس گیا۔اس نے یہ سوچا تھا کہ یہ خبر جب وہ ایمان کو سنائے گا کہ ایک دو پیشیوں میں بادشاہ خان کو سزا ہو جائے گی تو وہ ساری ناراضگی بھول جائے گی اور پھر شاید اسکے رویے میں بھی کچھ تبدیلی آ جائے، مگر وہ یہاں تھی ہی نہیں۔

فریش ہو کر باہر آیا تو شگفتہ ٹرے لئے کھڑی تھی۔

"یہاں رکھ دو۔"

وہ تولیے سے بال رگڑتا ہوا قدرے سخت لہجے میں بولا۔شگفتہ اس کا خراب موڈ دیکھ کر ٹرے رکھتی فورا کمرے سے نکل گئی۔

"غزنوی کھانے کے لئے کچھ بھیجوں؟"

وہ بال برش کر رہا تھا جب شمائلہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔

"نہیں امی بھوک نہیں ہے۔آفس میں لنچ کر لیا تھا۔"

اس نے پلٹ کر ان کی طرف دیکھا۔

"اچھا۔۔شام کو یاد سے ایمان کو لینے چلے جانا۔وہ جانا نہیں چاہتی تھی لیکن شاہ گل نے زبردستی بھجوا دیا کہ تھوڑی آب و ہوا تبدیل ہو گی تو وہ اِس اداسی سے باہر نکلے گی۔"

وہ آ کر اس کے پاس بیٹھ گئیں۔

"جی ٹھیک ہے۔"

غزنوی نے چائے پی کر کپ ٹرے میں رکھا۔

"کچھ دیر آرام کروں گا۔مرتضی اگر آئے تو اسے یہاں بھیج دیجیئے گا۔"

وہ بیڈ کی جانب بڑھا۔شمائلہ بیگم بھی ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکل آئیں۔وہ انہیں کچھ خاموش سا لگا تھا۔

"السلام و علیکم چچی!"

وہ اسی سوچ میں گم چلی جا رہی تھیں کہ مرتضیٰ تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا ان کے سامنے آ گیا۔

"وعلیکم السلام بیٹا۔۔کیسے ہو؟"

انہوں نے اسکے شانے پہ ہاتھ پھیرا۔

"بالکل ٹھیک۔۔آپ یہ بتائیے کہ آپ وہ کھڑوس برخوردار کہاں ہیں؟"

مرتضیٰ نے ان کے پیچھے جھانکتے ہوئے کہا۔

"شریر۔۔۔غزنوی اپنے کمرے میں ہے۔وہ بھی ابھی پوچھ رہا تھا تمھارے بارے میں۔"

شمائلہ بیگم نے اسکے غزنوی کو کھڑوس کہنے پہ ہنستے ہوئے کہا۔

"مزاج بخیر ہیں ان کے یا گرم ہیں؟"

مرتضیٰ کی شرارتی رگ مزید پھڑکی۔

"مزاج تو گرم ہی لگ رہے ہیں، اب تم آ گئے ہو تو شاید ٹھنڈے ہو جائیں۔"

وہ اسکے گال تھپتھپاتے ہوئے بولیں۔

"ابھی لیجیئے۔۔ایک دم کول کول کر دوں گا جا کر۔بس آپ کچھ کھانے کو بھیج دیں، بہت بھوک لگ رہی ہے۔"

وہ ہنستے ہوئے آگے بڑھ گیا جبکہ وہ سر ہلاتیں سیڑھیاں اتر گئیں۔ ______________________________________


عصر کی نماز پڑھ کر وہ ارفع کے ساتھ باہر لان میں آ گئی تھی۔عنادل کچن میں گھسی کوئی کارستانی کر رہی تھی۔موسم کافی خوشگوار ہو رہا تھا۔وہ دونوں باتوں میں مگن تھیں کہ گاڑی کا ہارن سنائی دیا۔چوکیدار نے گیٹ کھولا تو غزنوی کی گاڑی دھیمی رفتار سے چلتی پورچ میں آ رکی۔اس دوران عنادل بھی وہیں آ گئی تھی۔

"ایسے ہونقوں کی طرح کیوں دیکھ رہی ہو مجھے، جیسے کسی ایلین کو دیکھ لیا ہو۔"

غزنوی نے کچھ فاصلے پہ کھڑی عنادل کے نیم وا منہ کو ٹھوڑی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے بند کیا۔ایمان نظریں اپنے پیروں پہ مرکوز کیے ہوئے تھی۔ایمان کو دیکھکر وہ ایک دم ہشاش بشاش ہو گیا تھا۔لبوں پہ ایک جاندار مسکراہٹ آن ٹھہری تھی۔اسے لگا جیسے اسکے دل پہ چھائی بےچینی کہیں اڑنچھو ہو گئی ہو۔

"اللہ غزنوی بھائی آپ کتنے ٹائم بعد ہمارے گھر آئے ہیں۔"

ارفع اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔

"ہاں یہ تو ہے، کافی وقت بعد آیا ہوں۔"

وہ چیئر ٹیبل کے قریب گھسیٹتے ہوئے بیٹھ گیا۔

"ویسے آپ آج بھی نہ آتے اگر آپ کی بیگم یہاں نہ ہوتی۔"

عنادل نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے غزنوی کی جانب دیکھا۔

"ہاں یہ تو ہے۔"

غزنوی کے منہ سے اتنا صاف اقرار سن کر وہ ہکا بکا رہ گئیں۔

"یعنی ہماری کوئی ویلیو ہی نہیں۔"

عنادل نے نروٹھے انداز میں کہا۔

"اب جب بیگم بیٹھی ہو تو اتنا تو خیال رکھنا ہی پڑتا ہے نا۔"

غزنوی نے دائیں آنکھ کا کونہ دباتے ہوئے عنادل کو دیکھا۔وہ دونوں اسکا اشارہ سمجھ کر ہنس دیں۔اس دوران ایمان بالکل خاموش رہی۔

"پھپھو کہاں ہیں؟"

غزنوی اٹھ کھڑا ہوا اور بسکٹ اٹھا کر ایمان کی چائے میں ڈبوتے ہوئے پوچھا۔ایمان نے اسکی طرف بہت غصیلی نظروں سے دیکھا جبکہ وہ اسے شرارتی نگاہوں سے دیکھتا اندر کی جانب بڑھ گیا۔

"چلو تیاری پکڑ لو۔۔۔تمھارا مسٹر تمھیں لینے آیا ہے۔"

ارفع نے بسکٹ ایمان کی چائے میں ڈبونا چاہا لیکن وہ ہاتھ پیچھے کر گئی۔

"ارفع۔۔۔!"

اب کی بار غصیلی نظروں سے ارفع کو نوازا گیا جبکہ وہ ہنسنے لگی۔

"بالکل اپنے بھائی پہ گئی ہو۔"

ایمان نے نروٹھے انداز میں کہا۔

"تو اور کس پہ جاوں؟"

ارفع نے معصومیت سے آنکھیں پٹپٹائیں۔ایمان کو ہنسی آ گئی۔

"ویسے تم دونوں چلو نا میرے ساتھ۔"

ایمان کو غزنوی کے ساتھ جانے میں ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔اتنے دنوں سے وہ اسے مکمل اگنور کیے جا رہی تھی۔وہ بات کرنے کی کوشش کرتا تو اسے جھڑک دیتی یا وہاں سے اٹھ جاتی لیکن غزنوی نے ہار نہیں مانی تھی، بس وہ اسے موقع نہیں دیتی تھی اور یہی موقع آج اسے مل رہا تھا جو وہ نہیں چاہتی تھی۔

"ہم کل آئیں گے۔ویسے بھی کل بابا اور فیروز بھائی کسی کام سے ایک دو دن کے لئے شہر سے باہر جا رہے ہیں۔"

عنادل نے بتایا تو وہ ٹھیک ہے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"کہاں؟"

اسے اندر کی طرف بڑھتا دیکھ کر ارفع نے پوچھا۔

"میں پھپھو سے مل لوں۔"

وہ دھیرے سے بولی اور پلٹی لیکن پھر وہیں رک گئی کیونکہ صائمہ بیگم اور غزنوی اسی جانب آ رہے تھے۔

"غزنوی تم اسے ہی اس کے پیچھے آ گئے، رہتی ایک دو دن ہمارے پاس۔"

صائمہ بیگم کین کی کرسیوں میں سے ایک پہ بیٹھ گئیں۔

"مجھے تو کوئی اعتراض نہیں اگر ایمان رکنا چاہتی ہے تو رک سکتی ہے۔"

اس نے ایمان کی طرف دیکھا۔

"ٹھیک ہے پھپھو میں رک جاوں گی، ویسے بھی ابھی عنادل اور ارفع بہت اسرار کر رہی تھیں اور پھر کل آپ لوگ بھی تو جائیں گے نا۔"

وہ صائمہ بیگم کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔عنادل اور ارفع خوش ہو گئی تھیں۔

"چلو اچھا ہے۔۔تم بھی رک جاتے غزنوی۔"

اب وہ غزنوی کی طرف دیکھ رہی تھیں۔

"نہیں پھپھو۔۔پھر کبھی سہی۔۔اللہ حافظ۔۔!"

وہ سسنجیدگی سے کہتا پورچ میں کھڑی گاڑی کیطرف بڑھ گیا۔ایمان کی نظریں اسکی پشت پہ ٹکی تھیں۔اب وہ گاڑی کا دروازہ کھولے چوکیدار کو گیٹ کھولنے کا اشارہ کر رہا تھا۔شاید اسی دوران اسکا موبائل بجا تھا۔موبائل پاکٹ سے نکالتے ہوئے وہ پلٹا تو ایمان اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔دونوں کی نگاہیں چار ہوئیں۔اسی لمحے ایمان نے نظروں کا زاویہ بدلا تو وہ بھی رخ پھیر گیا۔

"رات کے کھانے میں کیا بنائیں ایمان؟"

صائمہ بیگم نے اس سے پوچھا۔

"مما بریانی بنا لیں اور ساتھ میں کباب۔"

ایمان کی بجائے عنادل نے جواب دیا۔

"تم سے کس نے پوچھا ہے؟"

ارفع نے عنادل سے کہا تو وہ اسکی طرف دیکھ کر منہ بگاڑ کر بولی۔

"تمھیں کیا تکلیف ہے۔"

ایمان نے دیکھا کہ غزنوی اب فون پہ کسی سے بات کر رہا تھا۔ان کے بیچ کافی فاصلہ تھا جسکے باعث وہ اسے سن نہیں پا رہی تھی۔

"ارے بھئی۔۔اتنی بڑی ہو گئی ہو تم دونوں لیکن بچپنا نہیں گیا۔"

صائمہ بیگم نے بےزاری سے عنادل اور ارفع کی طرف دیکھا۔ایمان بھی مسکراتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہو گئی۔

"لگتا ہے غزنوی بھائی نے بھی جانے کا ارادہ کینسل کر دیا ہے۔"

ارفع نے غزنوی کو ان کی جانب آتے دیکھ کر کہا۔صائمہ بیگم اور ایمان نے بھی اسے آتے دیکھ لیا تھا۔

"خیر ہے بیٹا؟"

صائمہ بیگم نے قریب آتے غزنوی سے پوچھا۔

"جی پھپھو۔۔وہ شاہ گل کا فون تھا۔گاؤں سے کوئی فیملی آئی ہے ایمان سے تعزیت کے لئے، وہ کہہ رہی تھیں کہ ایمان کو لے کر جلد آؤ کیونکہ انہوں نے واپس بھی جانا ہے۔"

غزنوی نے پہلے صائمہ بیگم اور پھر ایمان کی طرف دیکھا جس کے چہرے پہ حیرانی تھی۔

"اوہ۔۔۔! تو وہ کل تک نہیں رک سکتے؟"

عنادل کا ایمان کے جانے کا سن کر موڈ خراب ہوا۔

"نہیں بیٹا بری بات ہے۔وہ ایمان سے ملنے آئے ہیں تو اسکا جانا ضروری ہے۔"

غزنوی کی بجائے صائمہ بیگم نے جواب دیا۔

"چلیں؟"

غزنوی نے ایمان سے کہا تو ایمان بھی حیران پریشان ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اچھا پھپھو اللہ حافظ۔۔!"

وہ پلٹ گیا۔ایمان بھی ان سے ملتی اسکے پیچھے آئی تھی۔

"کون آیا ہے؟"

ایمان نے بیٹھتے ساتھ ہی پوچھا۔

"ایک سیکنڈ۔"

غزنوی نے مصروف انداز میں کہتے ہوئے اگنیشن میں چابی گھمائی۔کھلے گیٹ سے گاڑی نکال کر اس نے اسپیڈ بڑھائی۔اس بیچ ایمان بالکل خاموش رہی۔ _______________________________________


"بوا آپ کہاں جا رہی ہیں؟"

لاریب نے انہیں ہانپتے ہوئے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ کر پوچھا اور پھر تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر ان کے پاس آئی۔

"ائے ایمان کے پاس جا رہی تھی۔صبح سے کچھ طبیعت ٹھیک نہیں تھی اس لئے اپنے کمرے میں ہی تھی۔وہ دکھائی نہیں دی تو سوچا وہ اپنے کمرے میں ہو گی، اسی کے پاس جا رہی ہوں۔پر یہ موئی سیڑھیاں۔۔اب میری بوڑھی ہڈیوں میں کہاں اتنا دم ہے کہ انہیں پھلانگ سکوں، جیسے تم ابھی کسی بندریا کی طرح دوڑی چلی آئی ہو۔"

خیرن بوا اسکا ہاتھ تھامے نیچے اترنے لگیں۔

"اففف بوا۔۔۔ایک تو آپ بولتی بہت ہیں۔اب یہ تو میری خوبی تھی جسکی وجہ سے آپ نے آج مجھے بندریا کا خطاب دے دیا۔"

لاریب نے ایک ہاتھ سے انہیں تھام رکھا تھا اور دوسرا کانوں کو لگایا۔

"ہائے نوج۔۔۔!! کیسے قینچی کیطرح چر چر چلتی ہے تمھاری زبان۔۔اب بندریا کی طرح قلانچیں بھرو گی تو بندریا نہیں کہوں گی تو اور کیا کہوں گی۔"

بُوا نے بھی اپنے دوسرے ہاتھ کا استعمال کر کے اسکے کندھے پہ ایک دھپ رسید کی۔

"اوئی۔۔بوا۔۔۔۔قسم سے سوئیاں چبھنے لگی ہیں۔اب بھی کتنا زور ہے آپ کے اس مرد مجاہد ہاتھ میں۔"

لاریب اپنا کندھا ملنے کے بھرپور ایکٹنگ کر رہی تھی۔

"ائے دفع۔۔۔چھالے پڑیں گے تیری زبان پہ جو مجھے مجاہد کہہ رہی ہے۔چل چھوڑ۔۔۔"

آخری سیڑھی پہ پہنچتے ہی خیرن بُوا نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔

"آہ۔۔۔بھلائی کا تو زمانہ ہی نہیں رہا۔"

لاریب نے دونوں ہتھیلیوں کو افسوس کرنے کے انداز میں آپس میں رگڑا۔

"ائے ہائے لڑکی۔۔!! تیرا بیڑا تر جائے۔۔مجھے نیچے کیوں لے آئی، اوپر جانا تھا مجھے۔۔بمشکل چھ سیڑھیاں چڑھ پائی تھی۔"

خیرن بوا کو اچانک یاد آیا تو ماتھا پیٹتی بولیں۔

"لو۔۔۔!! بوا جی میں نے تو آپ کو بچایا ہے کیونکہ ایمان اوپر کمرے میں نہیں ہے۔وہ صائمہ پھپھو کی طرف گئی ہے۔غزنوی بھائی لینے گئے ہیں انہیں، ابھی آ جائیں گی۔آپ یونہی اوپر جا کر پچھتاتیں کہ بے کار میں اپنی ٹانگوں کو اتنی زحمت دی۔آپ یہاں تشریف رکھیں۔"

لاریب نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔

"ہائے کتنی بھلی مانس ہے تُو کہ تجھے میرا اتنا خیال تھا۔۔چل جا یہاں سے۔۔دماغ چاٹ گئی ہے میرا۔۔یہاں تک بھر گئی میں تیری باتوں سے۔"

خیرن بوا نے اپنی ناک کے کونے پہ انگلی رکھی تو لاریب نے بھی وہاں سے جانا مناسب سمجھا ورنہ بوا نے تو اگلے پچھلے سارے ریکارڈ آج ہی توڑ دینے تھے۔

"لو جی۔۔بی مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا۔"

لاریب کو ناک چڑھائے جاتا دیکھ کر خیرن بوا نے کہا اور خود ہی ہنسنے لگیں۔ _______________________________________


"آپ بتا کیوں نہیں رہے۔۔۔کون آیا ہے گاؤں سے۔"

غزنوی کے ایک سیکنڈ کو جب دس منٹ ہو گئے تو وہ غصے میں بولی۔

"کوئی نہیں۔"

غزنوی کا لہجہ سادہ تھا۔

"مطلب۔۔۔آپ پھپھو سے جھوٹ بول کر مجھے وہاں سے لائے ہیں؟"

ایمان نے اسکے ٹھنڈے ٹھار لہجے پہ کھولتے ہوئے پوچھا۔

"جھوٹ۔۔۔نہیں تو۔۔سیانے کہتے ہیں کہ مصلحتاً جو جھوٹ بولا جائے اسے جھوٹ نہیں کہتے، اسے مصلحت کہتے ہیں۔"

غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔

"اور یہ کس سیانے نے کہا ہے؟"

ایمان کا اسے کڑی نظروں میں تولا۔

"میں۔۔مجھ سے بڑھ کر بھی سیانا ہو گا؟"

غزنوی نے اسکے گال کو چھوتے ہوئے شرارت سے کہا۔ایمان نے اسکا ہاتھ جھٹکا جبکہ وہ ہنسنے لگا تھا۔

"اب ڈرامہ مت کرو۔۔تم بھی تو چاہتی تھی کہ میں تمھیں وہاں نہ رکنے دوں۔اب جب لے آیا ہوں تو نخرے آسمان کو چھو رہے ہیں۔"

غزنوی نے ایک بار پھر اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔

"ان فضولیات سے پرہیز کریں۔"

وہ پھر سے اسکا ہاتھ جھٹک گئی۔

"کون سی فضولیات؟ یہ۔۔۔۔؟؟"

غزنوی نے پھر سے کوشش کی۔

"غزنوی!!"

وہ غصے سے لال پیلی ہونے لگی۔

"جی۔۔"

وہ اسے مزید چڑانے سے باز نہیں آیا۔

"ایک تو تم جو چاہتی ہو وہ کر رہا ہوں پھر بھی۔۔۔اچھا چھوڑو، آئسکریم کھاؤ گی؟"

غزنوی نے آئسکریم پارلر کے پاس گاڑی روکی۔

"زہر کھاؤں گی۔۔وہ لا دیں کہیں سے۔"

ایمان نے اسکی طرف سے رخ پھیرا۔

"کہیں سے کیوں۔۔یہیں سے منگوا دیتا ہوں۔۔یار ایک زہر بھری آئسکریم تو لانا۔"

اس کے اسطرح کہنے پہ ایمان نے فورا پلٹ کر اسکی طرف دیکھا۔وہاں کوئی نہیں تھا۔وہ ہنسنے لگا جبکہ وہ اسے قہر بھری نظروں سے گھور رہی تھی۔

"اب کیا سالم نگلو گی۔"

غزنوی نے گھبرانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی۔گاڑی مین روڈ تک لاتے لاتے غزنوی اسے آج کی سماعت کے مطلق بتانے لگا۔غزنوی نے اسکے چہرے پہ اطمینان و سکون کی ایک لہر دیکھی تو وہ بھی پرسکون ہو گیا۔ _________________________________________


"ہاں اس سنڈے کو آ جاؤں گا، تم کل مل لینا وکیل صاحب سے۔"

وہ فون پہ بات کر رہا تھا جب وہ کمرے میں داخل ہوئی۔اسکے ہاتھ میں اپنے اور غزنوی کے استری شدہ کپڑے تھے۔

"ٹھیک ہے ان شاء اللہ سنڈے کو ملیں گے۔"

غزنوی نے ایک گہری نظر ایمان پہ ڈالتے ہوئے کہا۔

ایمان خاموشی سے الماری کی طرف بڑھی اور اپنے کام میں مگن ہو گئی۔غزنوی بیڈ سے اتر کر اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا۔

"میں سنڈے کو اسلام آباد جا رہا ہوں، تم چلو گی ساتھ؟ دو تین دن کا کام ہے پھر واپس آ جائیں گے۔"

اس کی بات سن کر ایک پل کو ایمان کے ہاتھ تھمے تھے۔

"مجھے نہیں جانا۔۔ویسے بھی دو دن کے لئے جا رہے ہیں تو میں کیا کروں گی وہاں۔"

ایمان نے بناء پلٹے جواب دیا۔

"جو میں کروں تم بھی وہی کر لینا۔"

وہ بولا تو اسکے لہجے کی گھمبیرتا ایمان کو چونکا گئی مگر اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور اپنا کام ختم کرنے کے بعد الماری بند کر دی۔

"مطلب؟"

اس نے پلٹ کر دیکھا۔

"مطلب یہ کہ میں اپنے ایفل ٹاور کو دیکھوں گا اور تم اپنے ایفل ٹاور کا دیدار کرنا۔"

غزنوی نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے اور اسکی آنکھوں میں جھانکا۔ایمان نے اپنے ہاتھ چھڑانا چاہے لیکن غزنوی کی گرفت مضبوط تھی۔

"اسلام آباد میں کون سا ایفل ٹاور ہے؟"

ایمان کو معلوم پڑ گیا تھا کہ اسکی رگِ ضرافت پھڑک رہی ہے۔

"یہ تو جب تم میرے ساتھ وہاں جاؤ گی تب ہی دکھا پاؤں گا نا تمھیں۔"

غزنوی نے اسکے ٹھنڈے ہاتھ اپنے چہرے پہ رکھے جنھیں چھڑانے کی کوشش میں وہ ناکام ہوئی جا رہی تھی۔غزنوی کی آنکھوں سے لپٹی محبت کی شعاعیں اسکے وجود کا احاطہ کرنے لگیں تو وہ گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی۔

"اب آگے بڑھنے کا وقت ہے نہ کہ پیچھے قدم لینے کا۔"

غزنوی نے ایک جھٹکے سے اسے قریب کیا۔غزنوی کی محبت کا پیغام دیتی آنکھیں اسے کسی الارم سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔

"چھوڑیں۔"

اس سے پہلے کہ وہ اسکے ہاتھ اپنے لبوں تک لے جاتا ایمان نے اپنے ہاتھ چھڑائے اور تیزی سے کمرے سے نکل گئی لیکن اپنے پیچھے اس نے غزنوی کا جاندار قہقہ ضرور سنا تھا۔دھڑکتے دل کے ساتھ سیڑھیاں اترتی وہ کسی سے ٹکرائی تھی۔

"ائے ہائے کہاں بھاگی جا رہی بہو؟"

خیرن بوا کو سامنے دیکھ کر وہ مزید ہواس باختہ ہو گئی۔

"اففف۔۔۔اسے کہتے ہیں آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا۔"

وہ ماتھے پہ ہاتھ مارتی بڑبڑائی۔

"ائے کیا بول رہی ہو؟"

خیرن بوا کان پہ ہاتھ رکھتی اسکے قریب ہوئیں۔

"کچھ نہیں بوا۔۔۔"

ایمان نے اپنی ہڑبڑاہٹ پہ قابو پایا۔

"آپ اوپر کہاں جا رہی تھیں؟"

ایمان نے پوچھا۔

"غزنوی کو بلا کر لاؤ، مجھے کچھ بات کرنی ہے اس سے۔"

وہ جہاں سے بھاگ کر آئی تھی وہ اسے وہیں بھجوا رہی تھیں۔

"وہ بوا۔۔۔وہ سو رہے ہیں۔تھوڑی دیر بعد بات کر لیجیئے گا۔"

ایمان نے بہانا بنایا۔

"کون سو رہا ہے؟"

وہ سیڑھیوں سے اترتا ان کے قریب آ کھڑا ہوا۔

"اے لو تم تو کہہ رہی تھی کہ غزنوی سو رہا ہے؟"

خیرن بوا ٹھوڑی پہ انگلی جمائے سوالیہ نظروں سے ایمان کی طرف یوں دیکھ رہی تھیں جیسے اسکا جھوٹ پکڑ لیا ہو۔وہ سٹپٹا گئی۔

"چھوڑیں نا بوا یہ خود چلتے پھرتے سوئی رہتی ہے۔"

غزنوی نے کنکھیوں سے ایمان کی جانب دیکھا۔خیرن بوا ہنسنے لگیں جبکہ ایمان کڑے تیور لیے اسکی جانب دیکھ رہی تھی، غزنوی ہنسی دبائے خود کو سنجیدہ ظاہر کرنے کوشش میں تھا۔

"مرتضیٰ کی ہوا لگ گئی ہے تمھیں بھی۔"

خیرن بوا نے ہلکی سی دھپ اسکے شانے پہ رسید کی۔

"نہیں کسی کی نظر لگ گئی ہے۔"

وہ مسلسل اسے نشانہ بنائے ہوئے تھا۔

"اللہ میرے بچے کو نظر بد سے بچائے اور جلنے والوں کا منہ کالا ہو۔"

خیرن بوا کھڑے کھڑے تھکنے لگیں تھیں اس لیے صوفے کی جانب بڑھ گئیں۔

"آمین آمین۔۔! آپ بتائیے، کچھ کام تھا کیا؟"

غزنوی نے یاد آنے پر پوچھا۔

"ہاں تمھاری اماں بتا رہی تھیں کہ تم آج کل میں اسلام آباد جاؤ گے، تو میں سوچ رہی تھی کہ مجھے بھی ساتھ لے جانا۔بلقیس اور رقیہ بہت یاد آ رہی ہیں، سوچا مل آؤں، پھر تمھارے ساتھ ہی لوٹ آؤں گی۔"

انہوں نے کہا۔

"ٹھیک ہے تو کل تیار رہیئے گا۔"

غزنوی ان کے پاس آ بیٹھا۔

"ٹھیک ہے بیٹا۔۔اللہ تمھیں خوش رکھے، ڈھیروں ترقی سمیٹو۔"

خیرن بوا نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا۔

"آمین۔۔!"

غزنوی اٹھ کھڑا ہوا۔

"ایمان بھی جائے گی؟"

خیرن بوا نے خاموش کھڑی ایمان کی طرف دیکھا۔

"نہیں بوا۔۔میں کہہ تو رہا ہوں کہ چلے میرے ساتھ، لیکن۔۔۔"

ایمان نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ غزنوی بول پڑا۔

"ائے کیوں۔۔؟"

عینک کے پیچھے سے دو تجربہ کار نگاہیں ایمان پہ جم گئیں۔

"بوا صرف دو دن کے لئے ہی تو جا رہے ہیں، میں جا کر کیا کروں گی۔"

وہ منمنائی۔

"ائے یہ کیا بات ہوئی بھلا۔۔تم بھی ساتھ چلنا۔"

خیرن بوا نے اسے نظروں سے تولنے کی کوشش کی۔

"جی۔"

وہ اتنا ہی کہہ پائی جبکہ غزنوی اپنا کام ہوتے دیکھ کر وہاں سے کھسک لیا۔غزنوی کے جانے کے بعد خیرن بوا نے شوہر کی منشاء کا خیال رکھنے پہ اسے ایک لمبا چوڑا لیکچر جو دینا شروع کیا تو پھر خاموش ہونے کا نام نہ لیا جبکہ ایمان نے لیکچر سنتے ہوئے دل ہی دل میں غزنوی کو خوب صلواتیں سنائیں۔

___________________________________


آدھا گھنٹہ ہو گیا تھا انہیں اسلام آباد آئے۔خیرن بوا صوفے پہ براجمان لاؤنج کا جائزہ لینے میں مگن تھیں۔ایمان کچن میں تھی اور غزنوی آتے ہی اپنے روم میں بند ہو گیا تھا۔ایمان نے چائے بنا کر پہلے خیرن بوا کو دی اور غزنوی کو دینے کے لئے روم میں آئی۔وہ واش روم میں تھا۔اس نے ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پہ رکھ دی اور نیچے آ گئی۔بلقیس بیگم اور رقیہ کو لاؤنج میں موجود پا کر وہ نہایت گرم جوشی سے ان کی طرف بڑھی۔

"کیسے مزاج ہیں خالہ۔۔! احمد بھائی اور بھابھی اور وہ شرارتی ٹیپو کیسا ہے؟"

ایمان دونوں سے ملتی خیرن بوا کے پاس آ بیٹھی۔

"شکر ہے اللہ ہے، ہمارے مزاج بالکل بخیر ہیں۔تم سناو، عقیلہ بیگم اور باقی سب کیسے ہیں؟"

بلقیس بیگم بڑی محبت سے اسکی جانب دیکھ رہی تھیں۔

"الحمداللہ۔۔! سب ٹھیک ہیں۔شاہ گل اور امی آپ کو سلام دے رہی تھیں۔"

ایمان نے باری باری دونوں کیطرف دیکھا۔

"واعلیکم السلام۔۔اللہ صحت و تندرستی عطا کرے، آمین۔۔غزنوی دکھائی نہیں دے رہا۔"

بلقیس بیگم نے اردگرد نظر ڈالتے ہوئے غزنوی کے مطلق پوچھا۔

"وہ کمرے میں ہیں، آپ کے چائے لاؤں یا ٹھنڈا؟"

ایمان اٹھ کھڑی ہوئی۔

"ارے نہیں بیٹا۔۔اس وقت میں چائے نہیں پیتی، بس اب گھر جا کر کھانا کھاوں گی۔یہ تو گل خان نے آ کر خیرن اور تم لوگوں کی آمد کا بتایا تو رہا نہیں گیا، دوڑی چلی آئی۔حالانکہ رقیہ کہتی رہی کہ وہ لوگ ابھی آئے ہیں، لمبا سفر تھا۔۔تھک گئے ہونگے، صبح مل لیجیئے گا مگر مجھ سے کہاں صبح تک صبر ہونا تھا، اس لئے چلی آئی ملنے۔"

بلقیس بیگم نے اسے روکا تو وہ واپس بیٹھ گئی۔

"بہت اچھا کیا آپ نے، اب کھانا ہمارے ساتھ کھائیے گا۔کیوں بوا؟

ایمان نے خاموش بیٹھی بوا سے پوچھا۔

"ہاں ہاں کیوں نہیں۔"

خیرن بوا نے تسبیح گود میں رکھی اور بلقیس بیگم کی جانب دیکھا۔

"ارے نہیں، کھانا گھر میں ہی کھائیں گے اور تم بھی تھکی ہوئی ہو میں بھجوا دوں گی کھانا، آج رقیہ نے کریلے گوشت بنائے ہیں۔تم تھک گئی ہوگی۔"

بلقیس بیگم نے محبت سے اسکی جانب دیکھا۔

"خالہ آپ لوگوں کو ناحق تکلیف ہو گی۔میں بنا لوں گی۔"

ایمان نے کہا۔

"کوئی تکلیف نہیں ہو گی۔"

بلقیس بیگم نے کہا تو وہ مسکرا دی۔کچھ دیر ادھر ادھر کی گفتگو کرنے کے بعد ایمان رقیہ کو اشارہ کرتی باورچی خانے میں آ گئی۔فریج سے ٹماٹر نکال کر سلیب پہ رکھے اور برنر آن کرنے لگی۔

"بھابھی آپ رہنے دیتیں، کھانا میں بھجوا دوں گی۔اگر کریلے نہیں پسند تو کچھ اور بنا لوں گی۔"

رقیہ نے کچن میں داخل ہوتے ہی اسے کھانے کی تیاری کرتے دیکھ کر کہا۔

"میں تو بہت شوق سے کھاتی ہوں، میری اماں بھی بہت مزے کے کریلے گوشت بنایا کرتی تھیں۔لیکن یہ تمھارے غزنوی بھائی جو ہیں نا، وہ ہیں تو اسی سبزی جیسے لیکن یہ کھانی انہیں پسند نہیں اور پھر میں چاول بھی بھگو چکی تھی۔تم بتاو شادی کی ڈیٹ فکس ہو گئی؟"

ایمان نے اس سے پوچھا۔

"نہیں ابھی نہیں، دراصل کمیل کی بڑی بہن بیرون ملک رہائش پذیر ہیں اور ایک دو مہینے تک وہ پاکستان آ رہی ہیں۔ان کے آنے کے بعد کی تاریخ رکھی جائے گی۔"

رقیہ نے بتایا تو ایمان نے بغور اسکی جانب دیکھا۔رقیہ کے چہرے پہ ایک چمک سی تھی اور لبوں پہ کھلی کھلی مسکراہٹ۔۔ایمان نے بےاختیار اسکی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا کی۔

"چلو اچھا ہے۔مجھے بلاو گی نا اپنی شادی میں؟"

ایمان نے شرارتی انداز میں پوچھا۔

"بھابھی آپ کیسی بات کر رہی ہیں، بھلا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم آپ کو نہ بلائیں۔

رقیہ اسکے قریب آئی۔

"جانتی ہوں بھئی، میں تو یونہی کہہ رہی تھی۔"

ایمان پیاز کاٹنے لگی۔

"لائیے میں آپ کی مدد کر دوں۔"

رقیہ نے اسکی آنکھوں میں پانی جمع ہوتے دیکھ کر اسکے ہاتھ سے پیاز اور چھری لے لی۔ایمان شُوں شُوں کرتی مسکرا دی۔

"رہنے دو تم میں کر لیتی۔"

ایمان نے اپنے ڈوپٹے سے آنکھیں رگڑ ڈالیں جن میں پیاز کاٹنے سے جلن شروع ہو گئی تھی۔

"ویسے میں نے سنا ہے کہ پیاز کاٹتے ہوئے اگر آنسو نکلیں تو اس لڑکی کی ساس اس سے بہت محبت کرتی ہے حالانکہ مجھے بالکل یقین نہیں ہے اس بات پہ۔۔لیکن آپ کی ساس تو آپ سے محبت کرتی ہیں۔میں نے انھیں آپ کی فکر کرتے اور آپ کا خیال رکھتے دیکھا ہے۔"

رقیہ نے پیاز کاٹتے ہوئے ایمان کی طرف دیکھا۔

"میں بھی نہیں مانتی، لیکن ہاں یہ تو ہے کہ امی میرا بہت خیال رکھتی ہیں۔"

ایمان شمائلہ بیگم کو یاد کرتی مسکرا دی۔

"لیکن اب اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟"

ایمان رقیہ کی آنکھ سے بہتا پانی صاف کرتے ہوئے ہنس دی۔رقیہ بھی پانی سے بھری آنکھوں کے ساتھ ہنس دی تھی اور پیاز کی پلیٹ اسکی طرف بڑھائی۔

"ویسے آپ لوگ تو ابھی آئے ہیں اور فریج تازہ سبزی رکھی ہوئی ہے۔"

رقیہ نے فریج سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے پوچھا۔

"دراصل آنے سے پہلے غزنوی نے گل خان کاکا کو اطلاع دے دی تھی۔غزنوی نے ہی ان سے کہا تھا۔"

ایمان کے بتانے پہ اس نے سر ہلایا اور پھر کھانا بنانے میں ایمان کی مدد کرنے لگی۔

_______________________________


رات کو وہ سفر کی شدید تھکان کے باعث وقت پہ سو گیا تھا۔کھانا کھانے کے فورا بعد وہ روم میں آیا تو نیند نے مزید جاگنے کی مہلت نہیں دی۔جب ایمان کچن سمیٹ کر کمرے میں آئی تو وہ سو چکا تھا۔اس نے ایک بھرپور نظر گہری نیند سوئے ہوئے غزنوی پہ ڈالی۔وہ بھی ہلکا پھلکا لباس زیب تن کرتی بیڈ پہ آ گئی۔کافی دیر کروٹ پہ کروٹ لیتی رہی۔کمرے میں نائٹ بلب جل رہا تھا۔روم میں مدھم روشنی ہونے کے باوجود غزنوی کے چہرے کا ایک ایک نقش اس کے سامنے تھا۔کمان کی طرح تنے ہوئے ابرو جن کی ہی وجہ سے وہ بہت اکھڑ نا صرف دکھتا تھا بلکہ اکھڑ تھا بھی، چہرے پہ سجی مونچھیں۔۔۔

"مونچھیں دیکھو ذرا اس کھڑوس کی۔"

یہ سوچ ایمان کے لبوں پہ مسکراہٹ لے آئی۔اسے اس بات سے انکار نہیں تھا کہ وہ اوپر سے جتنا بھی اس سے لاپرواہی برتتی وہ اس سے کہیں زیادہ اس کے دل میں بسا تھا۔وہ لاکھ کوشش کرتی کہ غزنوی کا خیال اس پہ مسلط نہ ہو مگر وہ اس سے دُور رہ کر بھی اس کے سر پہ تنے نیلے آسمان جیسا تھا جسکا سایہ اس پہ قدرت نے مقرر کیا تھا۔وہ اسے اپنے والد کی موت کا زمہ دار ٹھہراتی تھی لیکن حقیقت تو اس کے بالکل برعکس تھی۔غزنوی نے کتنی کوشش کی تھی اسے منانے کی مگر وہ اسے ایک موقع تک نہیں دے رہی تھی۔

غزنوی کے ساتھ کی انہی میٹھی اور کڑوی یادوں کو سوچتے نجانے کس پہر اسکی آنکھ لگ گئی۔

_______________________________


صبح فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی تھی۔نماز پڑھ کر وہ روم سے باہر آئی۔خیرن بوا کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تو وہ نماز کے بعد تلاوت میں مصروف تھیں۔اس نے انھیں ڈسٹرب نہ کیا اور خاموشی سے پلٹ آئی۔اپنے لئے چائے بنانے کے لئے وہ کچن میں آئی، پانی ابلنے کے لئے رکھنے کے دوران اسے یاد آیا کہ وہ کل سے آئے ہیں اور اس نے ایک بار بھی رشیدہ کو نہیں دیکھا۔آنچ دھیمی کرتی وہ باہر آئی۔اسکا رخ سرونٹ کوارٹر کی جانب تھا۔گھر کی دائیں دیوار سے ملحق قدیم طرز کے لکڑی کے دروازے کے باہر کھڑی وہ سوچ رہی تھی کہ دستک دے یا وہاں سے واپس چلی جائے۔ابھی اندھیرا پوری طرح سے چھٹا نہیں تھا۔اس لئے اس نے پلٹ جانا ہی مناسب سمجھا اور لان میں آ گئی۔کچھ دیر تازہ فضاء میں چہل قدمی کرتی رہی۔اسکے ذہہن سے نکل گیا کہ وہ کچن میں چائے کا پانی چڑھا کر آئی ہے۔

"ہائے باجی آپ کو دیکھکر مجھے کتنی خوشی ہو رہی ہے۔"

وہ چہل قدمی کرتے کرتے گلاب کے پھولوں کے پاس آ کر رک گئی اور ایک ایک پھول کو نرمی سے چھو رہی تھی کہ پیچھے سے رشیدہ کی خوشی سے چہکتی آواز پہ پلٹی۔

"السلام و علیکم رشیدہ۔۔!"

ایمان نے سلام پہ زور دیتے ہوئے اسے یاد دلانا چاہا۔

"واعلیکم السلام باجی۔۔!!"

رشیدہ کے نہایت معصومیت سے جواب دینے پر وہ مسکرا دی۔

"کیسی ہیں آپ باجی؟"

رشیدہ کا جوش ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔تم کیسی ہو اور بچے؟"

ایمان کرسیوں کی طرف آ گئی۔

"اللہ کا شکر ہے باجی، سچی باجی مجھے جب پتہ چلا کہ صاحب یہ گھر بیچ رہے ہیں تو میرا تو رو رو کر برا حال ہو گیا تھا، لیکن اب آپ کو دیکھ دل خوش ہو گیا ہے۔"

رشیدہ ڈوپٹہ کانوں کے پیچھے اڑستی بولی تھی۔چہرے کے تاثرات بھی بات کی مناسبت سے تبدیل ہو رہے تھے۔

"اس بارے میں تو مجھے پتہ نہیں ہے، لیکن ہم یہاں سے مستقل جا رہے ہیں۔وہیں سب کے ساتھ ہی رہیں گی۔بس کچھ قانونی کاروائی تھی جس کے یہاں آئے ہیں۔لیکن تم لوگ پریشان نہ ہو، تمھارے صاحب نے کچھ سوچ رکھا ہو گا اور اگر نہیں سوچا ہو گا تو میں بات کر لوں گی۔"

ایمان نے اسکی پریشانی سمجھتے ہوئے کہا۔

"اللہ آپ کو اور صاحب کو ہمیشہ ہنستا بستا اور خوشحال رکھے، ہمارا اتنا خیال رکھا، کبھی نوکر نہیں سمجھا ہمیں۔آپ مجھے بہت یاد آئیں گی۔"

رشیدہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔

"مجھے بھی۔۔۔کل کہاں تھیں تم، آئیں ہی نہیں۔"

ایمان نے گل خان کو دیکھتے ہوئے رشیدہ سے پوچھا، جو اپنے کمرے سے نکل کر گیٹ کھول کر باہر نکل گیا تھا۔

"وہ باجی ہم گاوں گئے تھے، میری ساس کی طبیعت اچانک بگڑ گئی تھی، بس اچانک جانا پڑ گیا۔آج صبح ہی آئے ہیں۔گل خان نے بتایا تھا کہ صاحب آئے ہیں میں سمجھی وہ صرف اکیلے آئے ہیں۔آپ نے اچھا کیا جو آپ بھی آ گئیں۔میں آپ کے چائے بنا کر لاتی ہوں۔"

رشیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔اس کے چائے کا نام لینے پر ایمان کو یاد آیا کہ اس نے چولھے پر چائے کا پانی رکھا تھا۔

"اوہ۔۔۔!! مجھے بھول ہی گیا کہ چائے کا پانی رکھ کر آئی تھی۔اب تک تو بھاپ بن گیا ہو گا۔جاو ذرا جا کر دیکھو۔"

ایمان نے جلدی جلدی کہا۔

"جی جاتی ہوں۔"

رشیدہ تیزی سے مڑی۔

"اور سنو۔۔! چائے دو کپ بنانا، ایک کپ اوپر کمرے میں خیرن بوا کو دے آنا۔"

ایمان نے قدرے بلند آواز میں کہا۔

"کیا۔۔۔؟؟ بوا بھی آئیں ہیں آپ کے ساتھ؟"

خیرن بوا کا سن کر رشیدہ کے ہاتھوں کے طوطے اڑے، خیرن بوا اسکے ہر کام میں کوئی نہ کوئی نقص نکال ہی لیتی تھیں اور پھر جو اسکی شامت آتی تھی یہ ایمان کو بھی معلوم تھا۔ایمان نے اسکی اڑی رنگت پہ لبوں پہ نمودار ہوتی ہنسی کو روکا۔

"چائے دے آنا انہیں۔"

ایمان نے زور دے کر کہا۔

"جی۔"

رشیدہ کے منہ کے بگڑے زاویے ایمان کو ہنسنے پر مجبور کر گئے تھے۔

______________________________


غزنوی ناشتہ کر کے جا چکا تھا۔خیرن بوا لاؤنج موجود تھیں اور رشیدہ سے اپنی نگرانی میں صفائی کروا رہی تھیں۔ایمان کچن میں تھی۔اسے لاونج میں ہوتی پریڈ کی آواز بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔

"ائے ہائے۔۔ستیا ناس مار دیا ہے پورے گھر کا، ہر چیز دھول مٹی سے اٹی پڑی ہے۔ائے بی بی۔۔! کیا تم نے گھر کو کباڑ خانہ سمجھ رکھا تھا۔"

خیرن بوا نے رشیدہ کو بے دلی سے جھاڑ پونچھ کرتے دیکھ کر کہا۔

"بوا میں روز صفائی کرتی تھی۔"

رشیدہ نے منہ بسورا۔

"ہاں ہاں دکھ رہا ہے۔۔کتنی صفائی کر رہی تھی تم، ایسے ہی کرتی ہو گی جیسے ابھی ٹوٹے ہاتھوں سے لگی ہو۔ائے کیا دم نہیں ہاتھوں میں، کھاتے پیتے یہ حال ہے۔ائے ایک ہم تھے ایک ایک چیز کو رگڑ رگڑ کر یوں صاف کرتے تھے کہ اپنی شکل دکھائی دینے لگتی تھی۔اللہ بخشے ہماری اماں کو یوں صفائی کرتی تھیں کہ دودھ پھینکو اور اٹھا لو اور ہمیں بھی یہی سکھایا اور آج کل ملازمائیں بس پیسوں سے مطلب، جان چھڑاتی ہیں کام سے۔"

خیرن بوا کسی غیر مرئی نقطے پہ نظریں جمائے بولیں۔

"بوا دودھ کیسے اٹھاتی تھیں وہ؟"

رشیدہ نے ان کی بات کو اپنے دماغ کے ترازو میں تولتے ہوئے پوچھا۔

"اے لو بی بی سے بک بک کرا لو۔دھیان لگا کر صاف کر۔"

خیرن بوا نے تیز نگاہوں سے اسے گھورا۔

"ائے کیا بول رہی ہے؟ ذرا اونچا بول۔"

خیرن بوا نے رشیدہ کو منہ ہی منہ بڑبڑاتے دیکھ کر پوچھا۔

"کچھ نہیں بوا، وظیفہ پڑھ رہی ہوں۔"

رشیدہ جل کر بولی۔

"ائے تُو بڑی آ گئی، ملانی بیگم۔۔۔جو وظیفے پڑھ رہی ہے۔"

خیرن بوا کو اسکی بات پہ تو جیسے تپ چڑھ گئی۔

"رشیدہ۔۔۔بوا سے بحث مت کرو اور تم یہ رہنے دو، میں کر لوں گی۔تم ذرا بیگ سے کپڑے نکال کر الماری میں لگا دو اور دو شلوار سوٹ بیڈ پہ رکھے ہیں، انہیں استری کر دینا۔"

ایمان لاؤنج میں آئی اور رشیدہ کی رونے بدتر صورت دیکھکر اسے وہاں سے بھیجا اور رشیدہ اندھا کیا چاہے دو آنکھوں کے مصداق وہاں سے یوں بھاگی جیسے کسی نے جادو کی چھڑی گھما کر اسے غائب کر دیا ہوا۔

"بوا ذرا یہ لہسن چھیل دیں، تاکہ میں پیسٹ بنا کر رکھ لوں۔"

ایمان نے ہاتھ میں پکڑی نیلی ٹوکری خیرن بوا کی طرف بڑھائی۔

"اچھا، ذرا اس کام چور پر بھی نظر رکھا کرو۔ہاتھوں سے کم اور آنکھوں سے صفائی زیادہ کرتی ہے۔"

انہوں نے ناک چڑھاتے ہوئے اس کے ہاتھ سے باسکٹ لی۔

"آپ کے قہوہ بنا دوں بُوا؟"

ایمان نے ان سے پوچھا۔

"ائے ہاں بیٹا، گلا سوکھ گیا ہے میرا۔"

ان کے کہنے پہ ایمان سر ہلاتی کچن میں چلی گئی۔کچھ دیر بعد وہ دو کپ اٹھائے واپس آئی۔

"یہ لیں۔"

ایمان نے کپ ان کے سامنے ٹیبل پہ رکھ دیا اور خود بھی ساتھ ہی بیٹھ گئی۔

"بوا باقی میں کر لوں گی، آپ تھک گئی ہونگی۔"

ایمان نے ان کے لہسن چھیلتے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے کہا، جن میں ہلکی سی لرزش سے محسوس ہو رہی تھی۔

"ائے نہیں بیٹا۔۔میں کون ایک جوا چھیلنے کے لئے پہاڑ پہ چڑھتی ہوں اور پھر دوسرا جوا لینے کے لئے پہاڑ سے نیچے آتی ہوں جو تھک جاوں گی۔"

وہ ہنستے ہوئے بولیں تو ایمان مسکرا دی۔

"اچھا پہلے قہوہ پی لیں، ٹھنڈا ہو جائے گا۔"

ایمان نے کپ اٹھا کر ان کی طرف بڑھایا جو انہوں نے تھام لیا۔

"گھنٹہ ہو گیا ہے اس رشیدہ کو اوپر کمرے میں گئے۔"

خیرن بوا کی نظر وال کلاک پر پڑی تو اس کی طرف دیکھکر بولیں۔

"جی میں دیکھتی ہوں جا کر۔"

ایمان نے کپ ٹیبل پہ رکھا اور سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔ ___________________________________________


رات وہ روم میں آئی تو غزنوی جاگ رہا تھا۔غزنوی نے ایک پل کو لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر اسکی طرف دیکھا تھا۔وہ صوفے کیطرف بڑھ گئی۔ان کے بیچ دوری کی یہ ڈور ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اوپر اوپر سے "سب اچھا ہے" کا سائن بورڈ لگائے دونوں زندگی گزار رہے تھے۔۔۔نہ غزنوی اپنی انا کا بوجھ اٹھانے سے تھک رہا تھا نا وہ ہار مان رہی تھی۔دو دن ہو گئے تھے انہیں اسلام آباد آئے۔ یہاں آ کر غزنوی بہت مصروف ہو گیا تھا۔

"بوا کہاں ہیں؟"

اس نے مصروف انداز میں ایمان سے پوچھا۔

"آج بلقیس خالہ نے لنچ پہ بلایا تھا۔آپ تو مصروف تھے اس لئے ہم چلے گئے۔یہی بتانے کے لئے میں نے دوبار آپ کو کال بھی کی تھی لیکن آپ نے ریسیو نہیں کی۔خالہ نے انہیں آج اپنی طرف روک لیا۔"

ایمان نے بناء اسکی طرف دیکھے بتایا۔غزنوی نے کوئی جواب نہیں دیا اور اپنے کام میں مصروف رہا۔

"ہم واپس کب جا رہے ہیں، دو دن کا کہا تھا آپ نے؟"

ایمان نے اسے مصروف دیکھکر پوچھا۔

"ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا کہ کب واپسی ہو گی کیونکہ یہاں کچھ کام پینڈنگ ہیں۔"

غزنوی لیپ ٹاپ بند کرتے ہوئے بولا۔

"آپ یہ گھر بیچ رہے ہیں؟ رشیدہ کے بارے میں کیا سوچا؟"

وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی قریب آئی تھی۔

"ہاں جب ہم یہاں رہیں گے نہیں تو کیا کرنا ہے اس گھر کا، جہاں تک رشیدہ کا معاملہ ہے تو اس بارے میں میں نے سوچ رکھا ہے۔وہ یہیں رہیں گے۔"

غزنوی نے لیپ ٹاپ اسکی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ایمان نے لیپ ٹاپ ٹیبل پہ رکھ کر دیا۔

"لائٹ آف کر دو۔"

وہ ٹیبل لیمپ آن کرتا بولا اور آنکھوں پہ بازو رکھتا لیٹ گیا۔اس نے اٹھ کر لائٹ آف کی اور واپس آ کر اپنی جگہ پہ لیٹ گئی۔نیند ابھی اسکی آنکھوں میں بسنے سے انکاری تھی۔

"میں تھک گیا ہوں اور تم وہ درخت ہو جسکے سائے میں میں اپنی تھکن اتارنا چاہتا ہوں۔"

غزنوی نے ہاتھ بڑھا کر اسے قریب کیا تھا۔تھکاوٹ تو اسکے بھی روم روم میں بسی ہوئی تھی۔غزنوی کا وجود تو اسکے لیے بھی چھاؤں جیسا ہی تھا لیکن اسکا رخ اب بھی مخالف سمت میں تھا۔

"ایمان۔۔۔"

ان کے بیچ وقت خاموشی سے سرکنے لگا تھا کہ غزنوی نے اسے پکارا تھا۔ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا مگر اسکی خاموشی نے غزنوی کا حوصلہ بڑھایا تھا۔اس نے ایمان کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا کر آنکھیں موند لیں۔ ________________________________________________


ایمان کی آنکھ کھلی تو کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔پہلے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیا لیکن جب ذہہن نے بیداری کی سرحد پار کی تو اپنے بالکل پیچھے کسی کے وجود کا احساس اسے سیکنڈز میں ہوش میں لایا۔وہ ابھی بھی اسی کے تکیے پہ سر رکھے لیٹا سو رہا تھا۔اسکی نیند میں گھلی سانسوں کی آواز ایمان کو اپنے کانوں کے بالکل پاس سنائی دے رہی تھی۔اسکا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔غزنوی کا بازو اسکے گرد کسی قلعے کی مضبوط فصیل کی طرح اسے اپنے حصار میں لیے ہوئے تھا۔یہ بات اسکی دھڑکنیں بےترتیب کرنے کے لئے کافی تھی کہ اس نے ساری رات اسی حصار میں گزار دی تھی۔رات جب وہ اس سے قریب ہوا تھا تو کسی اندیکھی قوت نے اسکے جیتے جاگتے حواسوں کو سلب کر لیا تھا جس کے باعث وہ خود سپردگی کے عالم میں خود کو غزنوی سے الگ نہیں کر پائی تھی۔ماتھے پہ پھوٹتے پسینے کے ننھے ننھے قطروں کو اس نے سائیڈ پہ رکھے ڈوپٹے سے یوں آہستگی سے پونچھا کہ کہیں اسکی زرا سی بھی حرکت سے غزنوی کی نیند نہ کھل جائے۔پھر اسی آہستگی سے اس نے خود کو اسکی قید سے آزاد کیا اور بنا اسکی طرف دیکھے کمرے سے باہر آئی لیکن دروازہ بند کرنے سے پہلے اس نے ایک بار غزنوی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تھا۔وہ اسی پوزیشن میں سویا ہوا تھا۔وہ شکر کا کلمہ پڑھتی خیرن بوا کے روم میں آ گئی جو کل بلقیس بیگم کی طرف رک گئی تھیں۔

کچھ پل اسے اپنی دھڑکنوں کی لگامیں تھامنے میں لگے تھے پھر وضو بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔نماز پڑھنے کے بعد اس نے تلاوت کی۔دل کی بے چینی کو کچھ قرار ہوا تو وہ وہیں بیڈ پہ لیٹ گئی۔ابھی غزنوی کے اٹھنے میں کافی وقت تھا۔نیند تو آنی نہیں تھی اس لئے لایعنی سوچیں پھر سے اس پہ حاوی ہونے لگیں۔رہ رہ کر اسے یہی بات کھائے جا رہی تھی کہ غزنوی اسکے متعلق کیا سوچتا ہو گا۔دماغ مسلسل کچوکے لگاتا رہا تو دل بھی تاویلیں پیش کرتا رہا۔دل و دماغ میں چھڑی جنگ نے اسکی بے چینی میں اضافہ کیا تو وہ کمرے سے نکل آئی۔انہی سوچوں سے بچنے کے لئے وہ کچن میں آ گئی۔رات کا اندھیرا اب چھٹ چکا تھا۔اس نے اپنے لئے ایک کپ چائے بنائی اور لاؤنج میں آ گئی۔اسی دوران فون کی گھنٹی نے ماحول بھی رچی خاموشی کو چیر ڈالا۔وہ کپ ٹیبل پہ رکھتی فون اسٹینڈ کی جانب آئی اور فون اٹھایا۔

"ہیلو۔۔!!"

وہ ٹیلی فون اسٹینڈ کے قریب رکھی کرسی پہ بیٹھ گئی۔

"السلام و علیکم ایمان بی بی۔۔!"

شگفتہ کی کانوں کو چیرتی آواز سنائی دی۔

"وعلیکم السلام شگفتہ۔۔! کیسی ہو تم اور گھر میں سب کیسے ہیں؟"

ایمان کو اتنی صبح صبح اسکی آواز سن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔

"جی بی بی یہاں سب ٹھیک ہے۔آپ کیسی ہیں؟"

"تھوڑا آہستہ بولو شگفتہ، کان کے پردے پھاڑ دیئے تم نے تو۔"

عقیلہ بیگم کی ڈانٹ بھری آواز ایمان کے کانوں میں پڑی تو وہ مسکرا دی۔

"لیں آپ شاہ گل سے بات کریں۔"

شگفتہ کی آواز اب تھوڑی دھیمی ہوئی تھی۔

"کیسی ہو بیٹا۔۔تم لوگ تو دو دن کا کہہ کر گئے تھے، ایک ہفتہ ہونے کو آیا ہے۔"

رسمی سلام دعا کے بعد عقیلہ بیگم نے اس سے پوچھا۔

"جی۔۔بس ابھی غزنوی کا کام مکمل نہیں ہوا ہے اس لئے نہیں آ سکے۔"

ایمان نے وجہ بتائی۔

"اچھا۔۔غزنوی تو سویا ہو گا؟"

انہوں نے پوچھا۔

"جی۔۔خیرن بوا بھی بلقیس خالہ کی طرف ہیں۔کل ہم گئے تھے ان کی طرف، میں تو واپس آ گئی لیکن خالہ نے انہیں وہیں روک لیا۔"

ایمان نے بتایا۔

"اچھا کیا، ویسے کب ہے شادی،کوئی تاریخ رکھی؟"

عقیلہ بیگم نے پوچھا۔

"نہیں ابھی تو نہیں، لیکن خالہ کہہ رہی تھیں کہ نومبر یا دسمبر میں شادی کریں گے۔"

ایمان نے چائے کا کپ اٹھا کر لبوں سے لگایا۔

"اتنی لیٹ کیوں، وہ تو جلد سے جلد رقیہ کو بیاہنا چاہتی تھی۔"

عقیلہ بیگم نے اپنی حیرت نہ چھپائی۔

"وہ تو جلد ہی کرنا چاہتی تھیں لیکن کمیل کی بڑی بہن بیرون ملک مقیم ہیں۔وہ آئیں گی تب ہی تاریخ رکھی جائے گی۔"

ایمان نے وجہ بتائی۔

"چلو اللہ نصیب اچھے کرے بچی کے۔"

عقیلہ بیگم نے دعا دی تو ایمان نے آمین کہا۔پھر کچھ دیر ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد اس نے انہیں خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔ان سے بات کر کے ذہہن کچھ حد تک بٹ گیا تھا۔وہ کپ اٹھا کر کچن کی طرف جا ہی رہی تھی کہ رشیدہ مٹک مٹک کر چلتی لاؤنج میں داخل ہوئی۔

"یہ کسطرح چل رہی ہو؟ کیا ٹانگ میں درد ہو رہا ہے؟"

رشیدہ اسکی آواز پہ چونک گئی تھی۔

"ہائے باجی آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔"

رشیدہ سینے پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔

"ارے تم ڈرتی بھی ہو۔"

ایمان نے اسکے چہرے کو بغور دیکھا۔

"سچی باجی آپ نے تو میرا تراہ ہی نکال دیا ہے۔"

وہ ہولنے کے بھرپور ایکٹنگ کرتی پاس آئی۔چلنے کا انداز ویسا ہی تھا۔

"یہ کیسے چل رہی ہو؟"

ایمان کو اسکا انداز دیکھکر الجھن ہونے لگی۔

"ہائے باجی۔۔"

رشیدہ ڈوپٹہ منہ پر رکھے پہلے تو کھی کھی کرتی رہی پھر بولی۔

"لگتا ہے نیند پوری نہیں ہوئی تمھاری۔"

ایمان نے اسکے دنداسے سے سرخ ہوئے ہونٹوں اور مسوڑوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"نہ جی۔۔میں تو بالکل بھلی چنگی ہوں۔"

رشیدہ نے اس بار چھوٹی چھوٹی سرمے سے بھری آنکھوں کو پٹپٹاتے ہوئے کہا۔ایمان کو ہنسی تو بہت آئی مگر اسکی دل آزاری نہ ہو اس لئے منہ پھیر گئی۔

"اچھا تو پھر یہی بتا دو کہ آج سورج کہا سے نکلا ہے؟"

ایمان کچن کی طرف جاتے ہوئے بولی۔رشیدہ بھی اسکے پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔

"وہ تو وہیں سے نکلا ہے جہاں سے روز نکلتا ہے۔آپ بتائیں کہ میں کیسی لگ رہی ہوں؟"

وہ کچن میں داخل ہونے ہی والی تھی کہ رشیدہ تیزی سے اسکے سامنے آ کر اسکا راستہ روک گئی اور کچھ شرماتے لجاتے ہوئے اس سے پوچھا۔

"بہت اچھی لگ رہی ہو، لیکن تم نے پہلے تو کبھی ایسا "میک اپ" نہیں کیا۔

ایمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ہائے باجی وہ ہمارے پنڈ میں ایک لڑکی ہے، مکاراں سی۔۔وہ نا ایسے ہی آنکھوں میں ڈھیروں ڈھیر سرمہ لگا کر یونہی چلتی ہے۔کمبخت ماری کو سارا گاوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتا ہے۔جیسے کوئی ہیروئین ہو اور اوپر سے اسکا نخرہ توبہ توبہ باجی۔۔۔کیا بتاوں۔"

رشیدہ نے آج کی اپنی اس کارگزاری کی پول کھولی۔

"تو تم بھی ویسی بننا چاہتی ہو، جیسی وہ ہے، تاکہ تمھیں بھی سارا گاوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھے۔"

ایمان کے الفاظ تو سادہ تھے مگر اس میں طنز کی آمیزش بھی بہت آسانی سے محسوس کی جا سکتی تھی۔

"نہیں باجی بس۔۔رات کو میرے شوہر نے جو اسکا ذکر کیا تو پہلے تو مجھے تپ چڑھ گئی لیکن پھر میں نے سوچا کہ جیسی وہ ہے ویسی تو میں بھی بن سکتی ہوں۔اس لئے آج صبح یہ تیاری کی۔۔ہائے جب کاکے کا ابا مجھے دیکھے گا تو اس کی کیا حالت ہونی۔۔۔رج کے مزا آنا ہے۔"

وہ پھر کھی کھی کرتی ہنسنے لگی۔

"اور اگر اسے یہ سب اچھا نہ لگا تو؟"

ایمان کے سوال پہ وہ سوچ میں پڑ گئی۔

"تو کیا۔۔۔جا کے منہ دھو لوں گی۔"

رشیدہ نے آسان حل بتایا۔

"کسی کے پیچھے اندھا دھند بھاگنے سے راستے کے گڑھے نظروں سے محو ہو جاتے ہیں۔سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا ہی ان کھائیوں سے بچا سکتا ہے جن میں گر کر انسان اپنا آپ گنوا بیٹھتا ہے۔"

ایمان نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"ہائے باجی کیسی مشکل مشکل باتیں کر رہی ہیں آپ، میرے تو کج پلے نہ پڑا۔"

رشیدہ نے اسکے ہاتھ سے کیتلی لے کر چولھے پہ رکھی۔

"میرا مطلب ہے کہ جیسی تم ہو ویسی ہی اچھی لگتی ہو۔یہ سرمے کا ٹرک تھوڑا صاف کر آؤ، اگر بوا نے تمھیں ایسے دیکھ لیا نا تو "بھوتنی" کہنے سے کم پہ راضی نہیں ہونگی۔"

ایمان نے مسکراتے ہوئے اسکی آنکھوں سے بہتے سرمے کو دیکھا۔

"ہا۔۔۔۔اچھا کیا جو بتا دیا۔۔ابھی صاف کر کے آتی ہوں۔"

رشیدہ اپنے سیاہ ڈوپٹے سے آنکھیں رگڑتی باہر نکل گئی جبکہ ایمان ہنستے ہوئے ناشتہ بنانے لگی۔

______________________________________


غزنوی نے کمرے میں ہی ناشتہ منگوایا تھا۔اس نے خود جانے کی بجائے ناشتے کی ٹرے بنا کر رشیدہ کو دی اور خود خیرن بوا کے کمرے میں آ گئی۔وہ غزنوی کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔اس لئے جب تک وہ گھر میں تھا وہ اسکی نظروں سے اوجھل رہنا چاہتی تھی۔وہ وہیں کمرے میں رہ کر غزنوی کے جانے کا انتظار کرنے لگی۔

بار بار گھڑی پہ نظر ڈالتی وہ کمرے میں یہاں سے وہاں ٹہل رہی تھی کہ دروازے پہ دستک ہوئی اور غزنوی روم میں داخل ہوا۔

"تم یہاں کیا کر رہی ہو؟"

وہ پینٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتا قریب آیا۔

"وہ۔۔۔مم۔۔میں یہاں اپنا فون ڈھونڈنے آئی تھی۔"

غزنوی کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر وہ گھبرا گئی۔

"یوں؟؟ ٹہل ٹہل کر۔۔۔اسطرح ٹہلنے سے اگر چیزیں مل جاتی ہیں تو میری بھی ایک شے کھو گئی ہے۔جب تک میں آفس سے آوں گا تب تک تم ڈھونڈ دو۔"

وہ نہایت سنجیدگی سے کہتا اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگا۔ایمان نے اسکی پوسٹ مارٹم کرتی نگاہوں سے گھبرا کر نگاہیں پھیریں۔

"کون سی چیز؟ میں نے تو آپکی ضرورت کی ساری چیزیں ٹیبل پہ رکھ دیں تھیں۔"

ایمان نے ذہہن پہ ذور ڈالتے ہوئے پوچھا۔

"وہ سب تو مل گئی ہیں لیکن ایک سب سے اہم چیز وہاں موجود نہیں تھی تو میں اسے ڈھونڈتے ہوئے یہاں آ گیا۔"

غزنوی نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔

"کیا؟"

ایمان اپنے بھولپن میں پوچھ گئی۔

"آپ۔۔۔"

غزنوی نے مسکراہٹ لبوں پہ سجاتے ہوئے اسکی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کیا۔ایمان نے اسکی گہری سیاہ آنکھوں کو خود پہ محسوس کیا تو دھڑکنیں پھر سے اس سے دغا کر گئیں۔وہ نظریں جھکائے ہوئے تھی۔

"میں تو یہیں ہوں۔"

ایمان نے پیچھے ہٹنا چاہا لیکن غزنوی کی اسکی اس کوشش کو ناکام کیا۔

"کہاں ہو؟"

وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اس کے چہرے پہ جھکا تھا۔ایمان کا سر اپنے سینے سے جا لگا تھا۔غزنوی نے اپنے سر کو اسکے سر سے ہلکے سے ٹکرایا۔

"آج شام ہم واپس چلیں گے، میں جلدی واپس آ جاوں گا۔"

پھر وہ اسکی پیشانی پہ اپنی محبت کی مہر ثبت کرتا کمرے سے نکل گیا۔

ایمان نے سر اٹھا کر اسے کمرے سے نکلتے دیکھا تھا۔اس نے نرمی سے اپنی پیشانی کو چھوا تھا بالکل وہیں جہاں وہ اپنا لمس چھوڑ گیا تھا۔

_______________________________________


پھر سارا دن انہی رنگوں کی نظر ہو گیا جو وہ محبت کے لبادے میں سمو کر اس پہ بکھرا گیا تھا۔اس ایک لمس میں۔۔محبت، احترام۔۔وہ سب تھا جو اسے چاہیئے تھا۔اب اسے انتظار تھا اسکے آنے کا، اس لئے اسکی بےچین نظریں بار بار دروازے تک جا کر لوٹ آتیں یا وہیں کہیں ٹھہر جاتیں۔اس نے رشیدہ کو خیرن بوا کو بلانے بھیج دیا تھا۔کچھ دیر بعد خیرن بوا رشیدہ کے ساتھ قدم بہ قدم چلتیں لاؤنج میں داخل ہوئیں۔

خیرن بوا کے چہرے پہ مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی، جو رشیدہ کو دیکھ کر مزید گہری ہو جاتی تھی۔

"کیا بات ہے بوا، بہت خوش دکھائی دے رہی ہیں۔"

ایمان بوا کے پاس آئی اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں صوفے تک لے آئی۔بوا نے کوئی بھی جواب نہیں دیا بس ہنسے جا رہی تھیں۔

"باجی بوا مجھ پہ ہنس رہی ہیں۔"

رشیدہ منہ بنا کر بولی۔اس کا یہ کہنا نہیں تھا کہ خیرن بوا ہنسنے لگیں۔

"ائے میں کیوں ہنسوں گی تم پہ؟"

بوا نے ٹھوڑی پہ انگلی رکھی۔

"نہیں بوا جی۔۔میں کوئی بچی تھوڑی نا ہوں۔"

رشیدہ کا انداز نروٹھا تھا۔

"جاو میرے لئے ایک گلاس پانی لاو۔"

خیرن بوا کے مسکراتے چہرہ سنجیدگی کا لبادہ اوڑھ گیا۔رشیدہ ناک پُھلاتی کچن میں چلی گئی۔

"بوا آج ہم نے واپس لوٹنا ہے۔اگر آپ رکنا چاہتی ہیں تو رک سکتی ہیں۔"

ایمان ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔

"ہاں بلقیس بھی کہہ رہی تھی کہ رک جاو کچھ دن، پھر احمد لے جائے گا۔میرا بھی جی چاہ رہا ہے۔"

خیرن بوا نے کہا۔

"ٹھیک ہے بوا، میں آپکا سامان رکھ دیتی ہوں۔"

وہ اٹھتے ہوئے بولی۔

"ارے نہیں تم بیٹھو میرے پاس، رشیدہ کر لے گی۔جاو رشیدہ میرے کپڑے الماری سے نکال کر میرے اٹیچی میں ڈال دو۔"

انہوں نے رشیدہ کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے اس سے کہا۔وہ سر اثبات میں ہلاتی واپس پلٹ گئی جبکہ ایمان انھیں عقیلہ بیگم کی کال کے بارے میں بتانے لگی۔

______________________________________


غزنوی عصر سے کچھ دیر پہلے آیا تھا۔خیرن بوا دونوں سے مل کر واپس چلی گئی تھیں۔گل خان ان کے ساتھ ان کا سامان لے گیا تھا۔غزنوی نے اپنا اور ایمان کا سوٹ کیس بھی گاڑی میں رکھوا دیا تھا۔

"رشیدہ تم بالکل پریشان مت ہو۔غزنوی کہہ رہے تھے کہ رضا صاحب کی فیملی بہت اچھی ہے۔تمھیں یہاں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔"

ایمان نے رشیدہ کا پریشان اور اُترا ہوا چہرہ دیکھ کر اسے تسلی دی۔

"پر باجی آپ مجھے بہت یاد آئیں گی۔پتہ نہیں وہ لوگ میرا کام پسند کریں گے بھی یا نہیں۔"

رشیدہ کی پریشانی اسکے تسلی دینے کے باوجود جوں کی تُوں تھی۔

"ایسا کچھ نہیں ہو گا اور پھر تم تو بہت اچھے سے سب سنبھال لیتی ہو، انہیں تمھارا کام ضرور پسند آئے گا اور ویسے بھی وہ کوئی اتنی بڑی فیملی نہیں ہے۔دو میاں بیوی، ایک بوڑھی ماں اور تین بچے۔۔۔کتنی چہل پہل ہو گی۔تمھارا دل لگ جائے گا۔"

ایمان نے اسے ساتھ لگایا۔

"اللہ کرے ایسا ہی ہو۔"

رشیدہ نے کہا۔

"ایسا ہی ہو گا، اچھا دیکھو بُوا ابھی یہیں ہیں۔تم ان سے ملنے جاتی رہنا۔"

ایمان اسے خیرن بوا کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتی باہر آ گئی۔غزنوی ابھی کچھ لمحے پہلے اسے چلنے کا اشارہ کرتا وہاں سے نکل کر باہر گیا تھا۔

"آپ بھی اپنا خیال رکھنا۔"

رشیدہ اسکے ساتھ باہر تک آئی۔

"تم بھی۔۔۔اللہ حافظ۔۔!"

ایمان اس سے معانقہ کرتی گاڑی میں آ بیٹھی۔اسکے بیٹھتے ہی غزنوی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔

"وہ لفافہ رشیدہ کو دے دیا تم نے؟"

گاڑی مین روڈ پہ ڈالتے ہوئے غزنوی نے اسکی طرف دیکھا۔

"جی۔۔"

وہ مختصرا جواب دیتی تیزی سے گزرتے منظر میں کھو۔اسے صحیح معنوں میں یہاں سے جانے کا دکھ ہو رہا تھا۔اس گھر سے اسکی بہت سی اچھی بری یادیں وابستہ تھیں۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس گھر کے لئے اتنی اداس ہو سکتی ہے۔

"کیا بات ہے؟"

غزنوی نے اسکی اداس سی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا۔

"کچھ نہیں۔"

ایمان نے اسکی طرف دیکھا۔

"لیکن تم اداس لگ رہی ہو۔"

غزنوی نے مزید کہا۔

"رشیدہ کے لئے اچھا نہیں لگ رہا۔۔"

اس نے اپنی اداسی کو کسی اور پیراہن میں ڈھالا۔

"فکر کی کوئی بات نہیں۔۔سہیل صاحب بہت ملنسار اور سلجھی طبیعت کے مالک ہیں اور میں ان کی فیملی سے بھی مل چکا ہوں، بہت اچھے لوگ ہیں اور سہیل صاحب نے مجھ سے کہا ہے کہ وہ ان کو کام سے نہیں نکالیں گے۔ہاں گل خان گاوں جانا چاہتا ہے۔حویلی میں اسکی ضرورت ہے۔وہ وہاں کام کرے گا۔"

غزنوی نے اسکی پریشانی دور کرنے کی کوشش کی تو ایمان سر سیٹ کی پشت سے ٹکائی اور نظریں دور افق پہ پھیلتے خوبصورت رنگوں پہ جما دیں۔شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔

گاڑی تیزی رفتاری سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔

"ایمان۔۔۔!"

غزنوی کے پکارنے پر ایمان نے آسمان سے نظریں ہٹا کر اسکی طرف دیکھا۔

"گل خان تمھارا گاوں والا گھر خریدنا چاہتا ہے۔وہ خود تم سے بات کرنا چاہتا تھا مگر ہچکچاہٹ کا شکار تھا کہ کہیں تمھیں برا نہ لگے۔آتے ہوئے اس نے مجھے پھر سے یاد دلایا ہے کہ میں اس بارے میں تم سے بات کروں۔"

غزنوی نے یاد آنے پر کہا۔

"مجھے نہیں بیچنا اس گھر کو، وہاں اماں کی اور میرے بچپن کی یادیں ہیں۔میں کیسے ان یادوں کو بیچ سکتی ہوں۔ہاں اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہ سکتے ہیں۔چابی وہاں حویلی میں ہی ہے شفیقہ کے پاس۔"

ایمان نے گھر بیچنے سے انکار کیا۔

"میں نے بھی کہا تھا مگر وہ۔۔۔"

"میں نہیں بیچنا چاہتی۔"

ایمان اسکے بات مکمل کرنے سے پہلے ہی بول پڑی۔

"ٹھیک ہے جیسی تمھاری مرضی۔"

ایمان کے دو ٹوک انکار پہ غزنوی نے مزید کچھ نہ کہا اور اپنی توجہ ڈرائیونگ کی طرف مرکوز کر دی۔

_______________________________________


جب وہ گھر پہنچے تو رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔غزنوی تو سب سے مل کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا جبکہ باقی سب کے ساتھ لاؤنج میں ہی تھی۔عنادل اور ارفع کے علاوہ سبھی موجود تھے۔

"جاو بیٹا آرام کرو۔۔"

عقیلہ بیگم نے ایمان کے تھکن زدہ چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔وہ بھی تھک گئی تھی اس لئے کمرے میں آ گئی۔غزنوی آنکھوں پہ بازو رکھے لیٹا ہوا تھا۔ایمان واش روم کی طرف بڑھ گئی۔کچھ دیر بعد وہ فریش ہو کر باہر آئی تو غزنوی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی کنپٹی کو دبا رہا تھا۔

"میں دبا دوں سر؟"

ایمان نے بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے پوچھا اور پھر اسکے ہاں یا ناں کہنے سے پہلے وہ اسکے قریب کھسک آئی اور اسکی گرم پیشانی پہ ہاتھ رکھا اور ہلکے ہاتھوں سے دبانے لگی۔غزنوی نے آنکھیں کھول کر اسکی طرف دیکھا اور پھر آنکھیں موند لیں۔غزنوی نے اسکے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھ کر دباؤ بڑھایا۔ایمان کے ہاتھوں کی نرماہٹ اور ٹھنڈک اسے اپنے خون میں رچتی محسوس ہوئی۔غیر ارادی طور پر غزنوی نے اسکی گود میں سر رکھ دیا۔ایمان کا ہاتھ تھم گیا۔

ایمان کا کومل احساس ملتے ہی غزنوی کو لگا اسکا درد کہیں دور جا سویا ہے اور دوسری جانب

ایمان کو لگا اسکی سانسیں وہیں اسکی گود میں کہیں اٹک گئیں ہوں۔اسکے سرد ساکت ہاتھ ابھی بھی غزنوی کے بھاری ہاتھوں کے نیچے دبے تھے۔

"اگر زیادہ درد ہو رہا ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔"

ایمان کو اسکی پیشانی دہکتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ بولی۔

"نہیں میں ٹھیک ہوں۔"

غزنوی دھیرے سے بولا تو وہ خاموش ہو گئی۔اسکا ہاتھ ابھی بھی غزنوی کے ہاتھ کے نیچے دبا تھا۔اسے لگا جیسے اسکا دل غزنوی کے ہاتھ میں دھڑک رہا ہو۔

"چائے بنا لاؤں؟"

ایمان نے سر دباتے اس سے پوچھا۔

نہیں تم یہیں رہو۔"

وہ اسکی گود میں چہرہ چھپا کر بولا۔

"تم کیا مجھ سے خوفزدہ ہو؟"

غزنوی نے اس سے پوچھا۔

"یہ کیسا سوال ہے؟ ایسا کچھ نہیں ہے۔"

ایمان پہلے تو اسکے سوال پہ حیران رہی پھر بولی۔

"تو پھر تمھارے ہاتھ میں لرزش کیوں ہے۔"

وہ اس کی گود میں سر رکھے رکھے سیدھا ہوا تھا۔ایمان نے سر جھکا کر اسکی جانب دیکھا۔

"نہیں تو۔"

ایمان نے اس پر سے نظر ہٹائی۔غزنوی مسکرایا اور اپنے ماتھے سے اسکا ہاتھ ہٹا کر لبوں سے لگایا۔ایمان نے اپنا ہاتھ کھینچا مگر غزنوی کی گرفت مضبوط تھی۔

"حقیقت سے بھاگنا تمھاری عادت بن چکی ہے یا حقیقت سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں ہے۔"

غزنوی نے اسکا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھا۔ایمان کو اسکی لفظوں میں ہلکے طنز کی آمیزش مگر آنکھوں میں نرمی محسوس ہوئی۔

"میں حقیقت میں جیتی ہوں۔"

ایمان نے اپنا ہاتھ کھینچا۔

"اچھا ہاتھ کیوں پیچھے کر لیا۔سر دباؤ نا، اسی بہانے تمھارا یہ خوشبو بھرا لمس ہی محسوس کر رہا ہوں۔"

"جی۔۔۔؟؟"

وہ جو اسکی بات سن نہیں پائی تھی اس لئے بولی۔

"کچھ نہیں۔۔میرا سر۔۔۔"

غزنوی نے ااندیکے لئے اپنے ہاتھ اسکی طرف بڑھائے۔ایمان نے اسے گھوری سے نوازا اور ہاتھ اسکی قید میں دینے کی بجائے اسکی پیشانی پر رکھا اور اپنا پورا زور لگا کر اسکا سر دبانے لگی۔ایمان کا انداز غزنوی کے لبوں پہ ایک جاندار مسکراہٹ لے آیا۔

________________________________________________


وہ ناشتہ لے کر کمرے میں آئی تو غزنوی جانے کے لئے بالکل کھڑا تھا۔اس نے خاموشی سے ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور واپس جانے کے لئے پلٹنے لگی۔

"مرتضیٰ آیا ہے یا نہیں؟"

وہ کالر ٹھیک کرتا قریب آیا۔

"جی وہ نیچے انتظار کر رہا آپکا۔"

وہ سادہ سے لہجے میں کہتی پلٹ گئی۔

"رُکو۔۔۔"

غزنوی نے اسے پکارا۔ایمان کے قدم رکے اور پلٹ کر اس نے غزنوی کی طرف دیکھا۔

"تم ناشتہ نہیں کرو گی؟"

وہ کف بند کرتا صوفے کی جانب بڑھا اور ٹرے اپنی جانب کھینچتے ہوئے بولا۔

"مجھے بھوک نہیں ہے۔چائے پی لی تھی میں نے شاہ گل کے ساتھ۔"

وہ کہہ کر جانے لگی۔

"یہاں آؤ۔۔۔"

غزنوی بظاہر تو ناشتے میں مگن تھا مگر دھیان کی ہوا ایمان کے گرد ہی منڈلا رہی تھی۔وہ دروازہ واپس بند کرتی اسکے پاس آ کر کھڑی ہو گئی۔

"کیا بات ہے؟"

غزنوی نے ہاتھ میں پکڑا سلائس واپس پلیٹ میں رکھا اور اسکی طرف ہاتھ بڑھایا۔جسے ایمان نے بناء پس و پیش کے تھام لیا۔شاید وہ اسکے ساتھ کی یقین دہانی چاہتی تھی۔غزنوی کو اسکا خودسپردگی کا انداز پل بھر کو حیران کر گیا۔اس نے ایمان کو اپنے پاس بٹھایا اور سلائس اسکے منہ کے قریب لے گیا۔دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔غزنوی کو اسکی آنکھیں نم ہوتی محسوس ہوئیں۔

"کیا ہوا ہے، تمھاری آنکھوں میں نمی کیوں ہے؟"

اس نے سلائس واپس پلیٹ میں رکھا اورا سکی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔غزنوی کے لہجے کی نرمی پا کر ایمان اسکے چوڑے سینے سے آ لگی۔وہ اسے ایک بار پھر ورطہ حیرت میں ڈال گئی تھی لیکن پھر اپنی حیرت کو ایک سائیڈ پہ رکھتے ہوئے اسکے گرد اپنے مضبوط بازوؤں جا حصار باندھ گیا۔وہ اسکے سینے سے لگی بےطرح روئے جا رہی تھی۔

"ایمان کچھ تو بتاؤ، آخر بات کیا ہے؟

اسکی شرٹ ایمان کے آنسوؤں سے بھیگنے لگی تھی۔اس نے اسے خود سے الگ کر کے اسکا آنسوؤں سے تر چہرہ صاف کیا۔وہ یونہی روتی رہی۔

"اب کچھ بتاؤ گی تو پتہ چلے نا کہ یہ بن موسم برسات کیوں ہو رہی ہے۔"

وہ اسکی بھیگی آنکھوں میں جھانکتا پوچھ رہا تھا جو بار بار نمکین پانیوں سے بھر جاتی تھیں۔

"داجی بتا رہے تھے کہ آج ہو سکتا ہے کیس کی آخری پیشی ہو اور شاید آج فیصلہ ہو جائے گا۔"

وہ آنسوؤں کے بیچ بولی۔

"ہاں میں اور مرتضیٰ کورٹ جا رہے ہیں لیکن اس میں ساون بھادوں کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو خوشی کی خبر ہے کہ آج وہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔"

غزنوی نے اسکے بہتے آنسوؤں کو اپنی پُوروں سے چُن لیا۔

"بس یونہی بابا یاد آ گئے تو دل بھر آیا تھا۔داجی بتا رہے تھے کہ پچھلی پیشی میں بادشاہ خان اپنے بیان سے پھر گیا تھا اور اس نے کہا کہ پولیس نے اسکے مخالفین کے ساتھ مل کر اس سے اقرار جرم کروایا ہے۔اسے سزا ہو جائے گی نا۔۔کہیں وہ پہلے کی طرح چھوٹ تو نہیں جائے گا۔ہمارا معاشرہ توا یسے مجرموں کے لئے پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے۔اگر اس وقت اسے چھوڑا نہ جاتا تو آج بابا میرے پاس ہوتے۔"

آنسو ایک بار پھر اسکی آنکھوں سے بہنے کو بیتاب تھے۔وہ اپنے دل کا ڈر زبان پہ لے آئی تھی۔

"ایسا کچھ نہیں ہو گا۔اب ایسی بھی اندھیر نگری نہیں ہے۔ہمارا کیس مضبوط ہے۔وہ اپنے بیان پھر گیا تو کیا، ہمارے پاس اس کے خلاف ٹھوس ثبوت ہیں۔انشاء اللہ وہ ضرور آج اپنے کیفرِ کردار تک پہنچے گا۔"

غزنوی نے اسے بھروسہ دلایا۔

"ہیم۔۔۔! آپ ناشتہ کریں۔۔چائے ٹھنڈی ہو گئی ہو گی۔میں دوسری بنا لاتی ہوں۔"

دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہوا تو اسے اپنے اور غزنوی کے بیچ نا ہونے کے برابر فاصلہ دکھائی دیا۔چائے کا بہانا کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"نہیں۔۔۔ٹھیک ہے۔تم بھی ناشتہ کرو اور پریشان مت ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔"

وہ اس کے کپ میں چائے ڈالتے ہوئے بولا اور پھر کپ اسکی طرف بڑھایا۔ایمان نے کپ اسکے ہاتھ سے لے کر لبوں سے لگایا۔

"ویسے کیا ہم میں صلح ہو گئی ہے؟"

غزنوی نے شرارتی نظروں سے اسکی طرف دیکھا۔اس کا اشارہ سمجھ کر ایمان کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔

"ہم میں لڑائی کب تھی؟"

ایمان کی آنکھوں میں بھی شرارت چمک رہی تھی۔اسکے سنہرے چہرے پہ رنگ یوں بکھرے تھے جیسے موسلادھار بارش کے بعد مطلع صاف ہو جائے۔

"اچھا۔۔؟؟ کیا نہیں تھی؟"

غزنوی قریب ہوا۔

"نہیں۔۔۔۔وہ صرف آپکے نخرے تھے۔"

ایمان نے بھی جواب میں وہی انداز اپنایا۔

"آہاں۔۔۔!! تو پھر اسکا کوئی عملی ثبوت بھی دیں نا۔"

وہ گھمبیر لہجے میں کہتا اپنے اور اسکے بیچ معمولی سے فاصلے کو بھی مٹا گیا۔وہ بھی تو اسکی آنکھوں میں اپنا عکس دیکھ رہی تھی۔نہ جھجکی، نہ گھبرائی۔۔۔یہ یقینا اس محبت کی طاقت تھی جو وہ یوں بنا جھجکے اس سے نظریں ملا رہی تھی۔غزنوی سے خود پہ قابو پانا مشکل ہوا۔

"بھائی مرتضی بھائی کب سے ویٹ کر رہے ہیں۔"

اسی دوران ملائکہ نے دروازے پہ دستک دی۔

"ہاں۔۔۔آ رہا ہوں۔"

وہ اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکراتا اٹھ کھڑا ہوا۔

"اللہ حافظ۔۔!"

وہ الوداعی کلمات ادا کرتا کمرے سے نکل گیا جبکہ ایمان کی نظریں اپنی شفاف ہتھیلی کی لکیروں میں کھو گئیں۔اسکا رواں رواں اپنے اللہ کے حضور دعا گو تھا۔

______________________________________________________


وہ سب لاونج میں موجود مرتضی اور غزنوی کا انتظار کر رہے تھے۔انہیں کافی دیر ہو گئی تھی۔وہ پریشان تو تھی ہی مگر مقررہ وقت سے جب وقت اوپر ہونے لگا تو اسکی پریشانی میں مزید اضافہ ہونے لگا۔بار بار پلکیں بھیگ جاتیں، عقیلہ بیگم اور شمائلہ بیگم اسکی دلجوئی میں لگے تھے لیکن نجانے کیوں اس جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا اسکی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔

"انشاءاللہ اچھی خبر آئے گی بیٹا، تم کیوں پریشان ہو رہی ہو۔"

عقیلہ بیگم نے اسکی بےچینی محسوس کرتے ہوئے اسے تسلی دی۔

"شاہ گل کب آئیں گے غزنوی۔۔اب تک تو آ جانا چاہیئے تھا نا۔"

ایمان نے گھڑی کی جانب دیکھا۔

"آ جائیں گے۔۔کوئی ضروری کام پڑ گیا ہو گا۔"

شمائلہ بیگم بھی اسے دلاسا دیا۔

"السلام و علیکم۔۔۔!!"

مرتضی لاونج میں داخل ہوا دھم سے صوفے پر آ بیٹھا۔

"وعلیکم السلام۔۔۔کہاں رہ گئے تھے بیٹا؟ کہہ رہے تھے کہ جلدی آئیں گے اور اتنا ٹائم لگا دیا۔۔۔اور یہ غزنوی کہاں ہے؟"

عقیلہ بیگم نے دروازے کیطرف دیکھکر پوچھا۔

"آ رہا ہے۔۔۔لیجیئے آ گیا۔"

مرتضی نے لاونج میں داخل ہوتے غزنوی کو دیکھکر کہا۔غزنوی با آواز بلند سلام کرتا عقیلہ بیگم کے سامنے آ بیٹھا۔

"بادشاہ خان نے بھاگنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس کے الرٹ ہونے کی وجہ سے وہ جلدی دھر لیا گیا۔کسی کو اندازہ تک نہیں تھا کہ وہ ہتھکڑیوں سمیٹ بھاگنے کی کوشش کرے گا اور تو اور اسکا وہ ساتھی۔۔۔کیا نام تھا اسکا؟؟ وہ جو یہاں بھی آیا تھا اسکے ساتھ۔"

غزنوی نے مرتضی کی جانب دیکھا۔

"جانس خان۔"

مرتضی نے اسے نام بتایا۔

"ہاں۔۔۔وہ عدالت کے باہر گاڑی لئے اس کا ویٹ کر رہا تھا کہ جیسے ہی بادشاہ خان آئے اور وہ دونوں رفو چکر ہوں۔۔فل پروف پلان بنا رکھا تھا دونوں نے۔"

غزنوی نے تفصیل سے آگاہ کیا۔اس دوران اعظم احمد بھی وہاں آ گئے تھے اور اب بغور اسے سن رہے تھے۔

"یہ تو اچھا ہوا کہ وہ پکڑا گیا۔"

اعظم احمد نے کہا۔ایمان نے سکھ کا سانس لیا۔

"لیکن کیس کا فیصلہ اگلی پیشی تک ٹل گیا ہے۔"

مرتضی نے مزید بتایا۔

"اللہ غارت کرے۔۔کیسا شخص ہے۔جرم پہ جرم کرتا جا رہا ہے۔بڑا ہی چلتر آدمی ہے لیکن خیر اچھا ہوا کہ پکڑا گیا، خس کم جہاں پاک۔"

عقیلہ بیگم ہاتھ جھاڑتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"آپ کہاں چلدیں۔۔میرے ساتھ ذرا معظم کی طرف چلیں۔"

اعظم احمد عقیلہ بیگم کو اٹھتے دیکھکر خود بھی کھڑے ہو گئے اور پھر باہر کی سمت بڑھ گئے۔

"جی۔۔"

وہ بھی سر ہلاتیں ان کے پیچھے چلدیں۔

"چلو یار میں بھی چلتا ہوں۔امی نے بازار جانا تھا، انہیں لے جاوں ورنہ نجانے کب تک یہ سننا پڑے گا۔"

مرتضی نے غزنوی کی طرف مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا جو غزنوی نے تھام لیا۔

"ٹھیک ہے۔۔۔لیکن سونے سے پہلے ہادی سے مل لینا۔"

غزنوی نے کہا تو وہ سر ہلاتا باہر نکل گیا۔

"امی بھوک لگی ہے کھانا گرم کروا دیں۔"

غزنوی سامنے بیٹھی شمائلہ بیگم سے بولا تو وہ اچھا کہتیں کچن کیطرف بڑھ گئیں۔

"آہم۔۔۔"

ان کے جاتے ہی غزنوی نے گلا کھنکھار کر ایمان کو متوجہ کیا جو کسی گہری سوچ میں گم تھی۔اس نے چونک کر غزنوی کیطرف دیکھا۔

"کیا خیال ہے ہم نے جہاں پہ ختم کیا تھا وہیں سے شروع کریں؟"

وہ لہجے میں مزاح کا رنگ اور آنکھوں میں شرارت کی چمک لئے اسے دیکھ رہا تھا۔

"کیا مطلب۔۔۔؟"

وہ ناسمجھی سے بولی۔

"میرا مطلب ہے کہ۔۔۔"

وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اسکے پاس آ بیٹھا۔

"بھائی۔۔۔امی آپکو بلا رہی ہیں۔"

اسی دوران ملائکہ لاونج میں داخل ہوئی اور غزنوی کو مخاطب کیا۔وہ جو ایمان کیطرف قدرے جھکا ہوا تھا فورا سیدھا ہوا۔

"تم کیا اچانک سے وارد ہونے کی ڈگری لینے کی کوششوں میں ہو؟"

غزنوی نے پلٹ کر ملائکہ کو دیکھا۔وہ بیچاری ہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی جبکہ ایمان اپنی ہنسی کو بمشکل دبا پائی تھی۔

"جایئے۔۔۔"

ایمان نے غزنوی سے کہا۔

"ایمان آو ہم فائقہ کیطرف چلتے ہیں۔وہ بلا رہی ہے۔"

ملائکہ غزنوی کی بات کو سمجھنے کی کوشش ترک کرتے ہوئے ایمان کے پاس آئی۔ایمان کو تو موقع چاہیئے تھا، فورا چلنے کے لئے تیار ہوئی۔

"ایمان کھانا کمرے میں لے آو، میں تب تک ذرا فریش ہو لوں۔"

غزنوی ایمان سے کہتا سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔

"بھائی شگفتہ لے آئے گی بلکہ آپ ایسا کریں کچن میں ہی چلے جائیں۔"

وہ اس سے کہتی ایمان کا ہاتھ پکڑے باہر کی جانب بڑھ گئی۔ایمان غزنوی کو تیوری چڑھائے اپنی طرف دیکھتا پا کر رک گئی۔

"ملائکہ تمھارے بھائی غصہ ہو رہے ہیں۔۔یوں کرو تم جاو۔۔میں انہیں کھانا دے کر آتی ہوں۔"

ایمان نے ملائکہ سے کہا۔

"اففف۔۔۔اب اس میں غصہ ہونے والی کیا بات ہے۔وہ دیکھو۔۔وہ آرام سے اپنے کمرے میں جا رہے۔تم نے نا میرے بھائی کو یونہی جن بنا رکھا ہے۔چلو چلیں۔۔"

وہ اس سے کہتی تیزی سے لاونج کا دروازہ پار کر گئی۔اگر ایک بار پلٹ کر بھائی کے ماتھے کے بل دیکھ لیتی تو وہیں ایمان کا ہاتھ چھوڑ کر خود بھاگ کھڑی ہوتی۔ایمان غزنوی کا غصیلہ انداز یاد کر کے مسکرا دی۔اس نے سوچا کچھ پل وہاں گزار کر واپس آ جائے گی۔اب وہ دل ہی دل میں اسے منانے کے طریقے سوچنے لگی پھر احساس ہونے پر اپنی ہی سوچ پہ مسکرا دی۔

_____________________________________


"پرخہ آپی بتایئے نا کیسا رہے گا یہ ڈرہس؟"

فائقہ نے پرخہ کے سامنے سیاہ کامدار سوٹ پھیلایا۔

"بہت اچھا ہے۔"

پرخہ کے ساتھ ساتھ سبھی نے ڈریس کو توصیفی نظروں سے دیکھا تھا۔

"پر امی کہہ رہی ہیں۔۔کالا سوٹ مت رکھو۔۔اچھا نہیں ہوتا۔"

فائقہ نے اپنا مسئلہ بیان کیا۔

"یہ سب دقیانوسی باتیں ہیں۔یہ سارے رنگ اللہ تعالی نے ہماری زندگی خوبصورت بنانے کے لئے بنائے ہیں نا کہ کسی بھی فضول عقیدے سے جوڑنے کے لئے۔اللہ تعالی ایسی باتوں سے ناراض ہوتے ہیں۔تم ضرور یہ ڈریس رکھو۔"

پرخہ نے اسکے دل میں بندھی گرہ کو کھولا۔

آپی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ہم لوگوں نے اپنی کم عقلی میں نجانے کون کون سی چیزوں، رنگوں اور باتوں کو مختلف عقائد سے جوڑ کر اپنی زندگیوں کو اجیرن بنا لیا ہے۔اب یہ کوئی بات ہوئی بھلا۔۔سیاہ چوڑیاں مت پہنو، سیاہ کپڑے مت خریدو اور ایسی بہت سے فضولیات، تم ایسے گہن دل میں مت پالو اور اپنے دل و دماغ کو ان سے پاک رکھو۔۔اللہ تعالی ہم سب کو ان سب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔۔"

سحرش نے مزید کہا۔

باقی سب نے بھی اسکی بات کی تائید کی۔

"لیکن امی۔۔"

فائقہ نے منہ بسورا۔

"تم ان کی فکر مت کرو، میں سمجھا دوں گی انہیں۔"

پرخہ نے اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

"ٹھیک ہے۔۔ایمان تم کیوں خاموش بیٹھی ہو۔۔میں کیسی لگ رہی ہوں؟"

فائقہ نے کافی دیر سے خاموش بیٹھی ایمان کا کندھا ہلایا اور اسکے سامنے سیاہ کامدار ڈوپٹہ اوڑھا۔

"ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو۔"

ایمان نے تعریف کی۔فائقہ مسکرا دی۔

"دراصل علی کو بلیک کلر بہت پسند ہے۔یہ میں نے ان کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے خریدا ہے۔"

فائقہ نے شرمیلی سی مسکان لبوں پہ سجائے کہا۔

"اووووووووو۔۔۔۔"ان" کی پسند سے۔۔واہ واہ۔۔"

لاریب نے اسے چھیڑا۔۔باقی سب بھی اسکی ٹانگ کھینچنے میں لگ گئیں۔ان سب کو شرارتوں میں مشغول دیکھ کر وہ خاموشی سے اٹھ آئی۔

____________________________________


وہ جب گھر واپس آئی تو لاؤنج سے خیرن بوا کے بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔اونچی آواز میں ٹیکسی ڈرائیور کو صلواتیں سنائی جا رہی تھیں اور ساتھ ساتھ سفر نامہ بھی جاری تھا۔ایمان سر کو دائیں بائیں ہلاتی مسکرا دی۔

"السلام و علیکم بوا۔۔آپ کب آئیں؟"

وہ بڑے پرتپاک انداز میں ان کی طرف بڑھی۔

"ائے دیکھ نہیں رہی۔۔ابھی آئی ہوں۔"

وہ اپنے مخصوص انداز میں بولیں تو وہ سب کے سامنے اس حوصلہ افزائی پر جھنپ گئی۔انہوں نے اسے ساتھ ہی بٹھا لیا۔

"احمد کسی کام سے آ رہا تھا تو میں بھی چلی آئی اسکے ساتھ، بلقیس اور رقیہ تو بہت اسرار کر رہی تھیں کہ رک جاوں لیکن بس گھر کی اور تم لوگوں کی یاد ستانے لگی تھی۔ذرا سا کوئی ذکر چھڑتا تو بس دل ہمکنے لگتا کہ اڑ کر چلی جاوں۔"

وہ پھولی سانسوں کے ساتھ کہہ رہی تھیں۔

"یہ لیں بوا۔۔بہت اچھا کیا جو آپ چلی آئیں۔فائقہ کی شادی کی تاریخ رکھ لی ہے ہم نے۔"

شمائلہ بیگم نے گلاس ان کی طرف بڑھایا۔صندل کا شربت ان کا پسندیدہ مشروب تھا، غٹاغٹ چڑھا گئیں۔

"رقیہ کو بھی لے آتی ساتھ۔"

ایمان نے ان سے کہا۔

"ائے میری بچی کا تو بہت جی تھا لیکن احمد نے منع کر دیا یہ کہہ کر کہ وہ کام کے فورا بعد واپس آئے گا۔دراصل وہ اپنے دفتری کام کے لئے آیا تھا۔یہاں بھی سلام کیا اور یہ جا وہ جا۔"

خیرن بوا نے خالی گلاس ایمان کے ہاتھ میں تھمایا جو اس نے ٹیبل پہ رکھ دیا۔

"تم کہاں تھی؟"

اب سوالنامے کی ابتداء خیرن بوا کی جانب سے ہوئی۔

"میں اور ملائکہ فائقہ کی طرف تھے۔فائقہ اپنی شاپنگ دکھا رہی تھی۔بہت اچھی اور عمدہ شاپنگ کی ہے اس نے۔"

ایمان نے لیپ ٹاپ میں مصروف غزنوی کو کنکھیوں سے دیکھا جو قطعی لاپرواہ دکھائی دے رہا تھا۔

"اچھا کیا۔۔۔میں ذرا ٹانگیں سیدھی کر لوں پھر جاؤں گی ملنے۔"

خیرن بوا گھٹنوں پہ ہاتھ رکھتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

"ارے ٹھہرو خیرن میں بھی چلتی ہوں تمھارے ساتھ۔"

عقیلہ بیگم بھی ان کے پیچھے ہی اٹھ کھڑیں ہوئیں۔شمائلہ بیگم نے ایمان کی طرف دیکھا جس کی نظریں سامنے بیٹھے غزنوی کے گرد منڈلا رہیں تھیں۔انہیں خوشگوار حیرت نے آن گھیرا۔

"تم کچھ کھاؤ گی ایمان۔۔۔؟"

انہوں نے ایمان کو متوجہ کیا۔

"نہیں۔۔فائقہ نے اسنیکس بنائے تھے۔اب بھوک نہیں، بس ڈنر کروں گی۔"

وہ دھیرے سے بولی۔

"اچھا ٹھیک ہے۔"

شمائلہ بیگم اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔اب لاونج میں صرف وہ اور غزنوی موجود تھے۔وہ اٹھ کر اسکے پاس آ کر بیٹھ گئی۔سنجیدہ چہرہ اور مصروف ہاتھ۔۔۔۔وہ چاہتی تھی کہ وہ اسکی جانب دیکھے مگر وہاں تو یوں ظاہر کیا جا رہا تھا جیسے اسکے سوا وہاں کوئی دوسرا موجود نہ ہو۔

جیسے جیسے شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے، ویسے ویسے گھر کی چہل پہل اور رونق میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔خیرن بوا شادی کی تیاریوں میں خوب ہاتھ بٹا رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ لڑکیوں کی بھی اچھی خاصی شامت آئی ہوئی تھی۔عنادل اور ارفع بھی اب یہیں ہوتی تھیں۔جیسے ہی اعظم احمد  اپنے کمرے اور باقی مرد آفس کے لئے نکلتے، یہ ساری کبھی ایک پورشن تو کبھی دوسرے پورشن میں دھما چوکڑی مچائے رکھتی تھیں۔مرتضی اور فیروز بھی ان کے پیچھے پیچھے ناک میں دم کیے رہتے یا پھر خیرن بوا کو جھوٹی سچی لگا کر ان کے پیچھے لگائے رکھتے۔ابھی وہ ساری ڈھولک لئے چھوٹے چچا کے پورشن میں جمع تھیں۔خیرن بوا اور عقیلہ بیگم بھی وہیں تھیں۔

ایمان معمول سے زیادہ خاموش بیٹھی تھی۔وہ بار بار اس سے ان کے ساتھ شامل ہونے کو کہتیں مگر مسکرا دیتی۔اسکے لبوں کی مسکراہٹ آنکھوں میں ٹھہری اداسی سے میل نہیں کھا رہی تھیں۔آج صبح جب غزنوی نے اس سے کسی بات کو لے کر بحث کی تو وہ غصے میں ہاتھ میں پکڑی شرٹ وہیں بیڈ پہ پھینکتی روم سے نکل آئی تھی غزنوی اس کے اس انداز پہ بپھر گیا تھا اور اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے نکلتی وہ تیزی سے اسکے سامنے آ کر اسکا راستہ روک گیا۔دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے یوں کھڑے تھے جیسے اگر ایک بھی جھکا تو ٹوٹ جائے گا۔ایمان کی نازک کلائی غزنوی کی گرفت میں تھی۔شدید غصے کے باعث غزنوی کے ماتھے کی رگ ابھر آئی تھی اور اسکی یک دم سرخ پڑھتی آنکھیں ایمان کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسنی دوڑا گئی۔سختی سے لب بھینچے غزنوی شاید اپنے غصے پہ قابو پانے کی کوشش کر رہا تھا۔ایمان کو ایک پل کو لگا جیسے وہ اسے اٹھا کر پٹخ دے گا لیکن اس کے خوف کے باوجود ایمان نے اپنی نظروں کا زاویہ نہیں بدلا تھا اور اسی طرح اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی رہی۔

"یہ میری تمھیں لاسٹ وارننگ ہے۔"

وہ اسکا ہاتھ جھٹکے سے چھوڑتا صوفے کیطرف بڑھا۔

"یہ شرٹ استری کرو۔"

وہ یوں گویا ہوا جیسے ان کے بیچ سب نارمل ہو۔ایمان بیڈ پہ رکھی شرٹ کی طرف آئی۔شرٹ اٹھا کر مڑی تو غزنوی صوفے پہ بیٹھا شوز اتار رہا تھا۔وہ اسکی جانب متوجہ نہیں تھا۔اس نے غزنوی کے غصے کی پرواہ کیے بغیر شرٹ بیڈ پہ واپس رکھی اور فورا سے پیشتر کمرے سے نکل گئی۔اپنی دلیری دکھانے کی کوشش میں وہ اسکی بات سے انکار کر آئی تھی اور اب ان سب کے بیچ بیٹھی اپنی حرکت پچھتا رہی تھی۔                         ____________________________________

اپنے پیچھے تیز آواز سے بند ہوتے دروازے کی جانب غزنوی نے پلٹ کر دیکھا تھا۔بند دروازے سے ہوتی اس کی نظر واپس بیڈ پہ پڑی شرٹ پہ پڑی۔

"گڈ۔۔!! محترمہ میرے انداز مجھ پہ ہی آزما رہی ہے۔"

وہ خود سے بولا۔۔ساتھ ہی لبوں پہ پھیلتی مسکراہٹ اسکے غصے کے پل بھر میں اُڑنچھو ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔

"تو کیا خیال ہے محترم غزنوی احمد۔۔سیر کو تو سوا سیر ہی ہوتا ہے۔"

کچھ سوچ کر وہ کمرے سے نکل آیا۔گھر میں بالکل خاموشی تھی۔اس نے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے شگفتہ کو پکارا۔شگفتہ کچن میں تھی اس کی آواز سن کر دوڑی آئی۔

"جی صاحب؟"

شگفتہ قریب آئی۔

"کہاں ہیں سب؟"

وہ آخری سیڑھی پہ رک گیا۔

"وہ چھوٹے چچا کے گھر ہیں۔"

شگفتہ نے جواب دیا۔

"جا کر ایمان کو بلا کر لاو۔۔"

آواز میں غصے کی آمیزش کرتا وہ واپس سیڑھیاں چڑھ گیا۔

"جی صاحب۔۔"

وہ کچن کی طرف بڑھ گئی۔

"وہاں کہاں جا رہی ہو؟"

غزنوی شگفتہ کچن کی طرف جاتے دیکھ کر دھاڑا۔

"جج۔۔جی جی۔۔۔۔"

شگفتہ باہر کی طرف بھاگی۔                         __________________________________________

"اوئے کہاں گم ہو؟"

یہاں سب کے بیچ موجود ہونے کے باوجود اسکا دھیان غزنوی کے اردگرد منڈلا رہا تھا۔اسے گم سم دیکھ کر سحرش نے اسکا کندھا ہلا کر اسے متوجہ کیا تھا۔

"آں۔۔۔!! کہیں نہیں۔۔۔"

وہ چونک کر بولی۔

"ارے بھئی کچھ تو ہے جسکی پردہ داری ہے۔"

سحرش نے اسے چھیڑا۔ایمان نے جوابا صرف مسکرانے پہ اکتفاء کیا۔اس دوران لاریب کے اچانک کھڑے ہو کر ٹھمکے لگانے پہ وہ دونوں اسکی طرف متوجہ ہوئیں۔شمائلہ بیگم بھی وہیں موجود صائمہ پھپھو کے ساتھ باتوں میں مگن تھیں۔وہ سحرش کو اپنی شاپنگ کے متعلق بتا رہی تھی کہ اندر آتی شگفتہ پہ اسکی نظر پڑی۔شگفتہ بھی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔پھر اس نے آواز دے کر اشارے سے اسے باہر بلایا اور خود بھی باہر نکل گئی۔ایمان سحرش کو بتاتی اٹھ کر باہر آ گئی۔

"کیا ہوا شگفتہ؟؟"

ایمان نے شگفتہ کے اسقدر رازداری برتتے انداز پہ اسے حیرت سے پوچھا۔

"باجی وہ چھوٹے صاحب بڑے غصے میں ہیں اور انہوں نے مجھے آپکو بلانے بھیجا ہے۔"

شگفتہ نے ایسے کہا جیسے کوئی پہاڑ سر کر لیا ہو۔

"اچھا تم جاو۔۔میں آتی ہوں۔"

ایمان نے اسے ٹالا اور پلٹ کر جانے لگی۔

"ارے نہیں باجی۔۔آپ میرے ساتھ چلیں ورنہ میری شامت آ جانی ہے۔انہوں نے کہا ہے آپکو ساتھ لے کر آوں۔"

ایک تو پہلے ہی وہ اپنے کارہائے نمایاں پہ پچھتا رہی تھی اور اب شگفتہ کا انداز اسے مزید ہولائے دے رہا تھا۔

"اچھا چلو۔۔۔"

ایمان دل کڑا کر اسکے آگے آگے ہو لی۔

"بہادر بنو ایمان۔۔۔تم بھی ایمان غزنوی احمد ہو، اب تمھیں ڈرنا نہیں ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔اب اس محمود غزنوی، چنگیز خان اور ہٹلر کو بتانا ہے کہ تم اب اس سے خائف نہیں ہو۔"

دل ہی دل میں خود کو مضبوط کرتی وہ سیڑھیاں چڑھنے لگی۔دل کو ڈھارس باندھنے کے لئے اس پلٹ کر دیکھا، شگفتہ غائب تھی۔

"یہ کہاں گئی؟"

اس نے اردگرد نظر دوڑائی۔

"کمال کرتی ہو ایمان اب کیا شگفتہ تمھارے ساتھ روم میں جائے گی۔اب آگے طوفان کا سامنا تم نے خود کرنا ہے۔"

اس نے سوچا اور دستک دیئے بغیر روم میں داخل ہو گئی۔

"آپ نے بلایا تھا؟"

وہ سیدھی اسکے سر پہ جا کھڑی ہوئی۔انداز ایسا تھا جیسے کوئی قلعہ فتح کر لیا ہو۔

"جی جی بیگم صاحبہ۔۔! اس ناچیز نے ہی آپکو بلانے کی گستاخی کی ہے۔"

غزنوی نے یہ کہتے ساتھ ہی اسے بازو کے پکڑ کر اپنے جانب کھینچا۔وہ توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور اسکے ساتھ آ لگی اور اس سے پہلے کہ ایمان اس سے الگ ہوتی وہ اس پہ اپنی گرفت مضبوط کر گیا۔ایمان نے اسکے چہرے پہ غصہ تلاش کرنا چاہا مگر وہاں تو غصے کا شائبہ تک نہ تھا۔ایمان کا ڈر کہیں دور جا سویا۔

"اللہ پوچھے تمھیں شگفتہ۔۔۔"

وہ دل میں شگفتہ کو اچھی خاصی صلواتیں سنانے لگی۔

"یہ کیا طریقہ تھا؟"

غزنوی نے اسکی ننھی سے ناک کو دبا کر چھوڑا۔وہ ریلیکس ہوتی اس سے الگ ہوئی لیکن غزنوی کے بازو ابھی بھی اس کے گرد حصار بنائے ہوئے تھے۔

"کیا؟؟"

وہ روٹھے انداز میں آنکھیں گھماتی بولی تھی۔

"یہ تمھارے نخرے کچھ زیادہ بڑھ نہیں گئے؟"

ایمان کے من موہنے چہرے کے گرد جھولتی لٹ کو غزنوی نے انگلی پہ لپیٹتے ہوئے پوچھا۔

"میں نے تو نخرے نہیں کیے لیکن آپ بہت فری ہو رہے ہیں۔"

ایمان نے اسکے سینے پہ انگلی رکھ کر اسے پیچھے کیا۔

"میں اب آپکے ساتھ فری نہیں ہوں گا تو کس کے ساتھ ہوں گا۔اگر آپکو اچھا نہیں لگتا تو مجھے بتایئے میں اسکے ساتھ فری ہو جاوں گا جس سے آپ کہیں گی۔"

غزنوی نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔اس کا گھمبیر لہجہ۔۔ ایمان کا دل ڈوب کر ابھرا۔

"میں آپکو اس قابل نہیں چھوڑوں گی کہ کسی اور کے ساتھ فری ہوں۔"

ایمان نے اپنے دل کی بےترتیب دھڑکنوں پہ قابو پاتے ہوئے اسکی آنکھوں میں جھانکا۔

"جب بھی کوشش کی ہے منہ کی کھائی ہے۔"

وہ ہنسا تھا۔۔۔ایمان نے اپنی بند مٹھی اسکے کشادہ سینے پہ ماری۔غزنوی کی آنکھوں میں محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اسے اپنے ساتھ بہائے لے جانے لگا۔وہ گھبرا کر اٹھ کھڑی ہوئی۔

"بھاگنا تمھارے لئے ہمیشہ سے آسان رہا ہے۔"

وہ صوفے سے پشت ٹکاتا گویا ہوا۔

"میں کیوں بھاگوں گی آپ سے؟"

وہ پلٹ کر سادہ سے لہجے میں کہتی دروازے کی جانب بڑھی۔

"اسے بھاگنا نہیں کہتے تو اور کیا کہتے ہیں۔"

غزنوی کا لہجہ طنزیہ ہوا۔ایمان نے پلٹ کر ایک سرسری سی نظر اس پہ ڈالی۔

"اب نہیں بھاگوں گی۔"

ایک گہری مسکراہٹ اسکی جانب اچھالتی وہ کمرے سے نکل گئی جبکہ اس واضح اقرار پہ غزنوی کے لبوں پہ مسکراہٹ آن ٹھہری۔                          ______________________________________________

آج ایمان اور ملائکہ صبح ہی سے چھوٹے چچا کے پورشن میں تھیں۔شادی کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں تھیں۔وہ دونوں جیسے ہی فارغ ہوتیں ان کی مدد کے لئے دوڑی جاتیں۔شادی میں پندرہ دن باقی تھے۔اعظم احمد نے شادی کے تمام فنکشنز اپنے پورشن میں ہی رکھے تھے۔باقی سب بھی وہیں اکٹھی ہوتی تھیں۔کام بھی کرتیں اور ہلا گلا بھی مچائے رکھتی تھیں۔جہاں جہاں وہ موجود ہوتیں فائقہ ان کے پیچھے پیچھے رہتی اور کام کے دوران انہیں تنگ کرتی رہتی۔کبھی چیزیں غائب کر دیتی تو کبھی ان کے کاموں میں کیڑے نکالتی۔وہ سب اسکی اس گھر میں آخری شرارتوں کا سوچ کر برداشت کرتیں لیکن چچی باقاعدہ اسے اسکی غیر سنجیدگی پہ ڈانٹتی اور ٹوکتی رہتیں مگر وہ فائقہ ہی کیا جو سنجیدہ ہو جائے۔ان کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی اور ہنستی رہتی۔سبھی اسکی مسکراہٹوں کے دائمی ہونے کی دعا کرتیں۔

اس وقت بھی وہ ساری مل جل کر کام نبٹا رہی تھیں کہ ملائکہ ایمان سے گھر جانے کا کہتی کمرے سے نکل آئی۔

"ملائکہ۔۔!"

وہ لان سے گزر کر اندر جا رہی تھی کہ غزنوی کی آواز پہ اس نے پورچ کی جانب دیکھا۔وہ دونوں ہاتھوں میں ڈھیر سارے شاپرز پکڑے ہوئے تھے۔وہ رک کر اسکی طرف بڑھی۔

"السلام و علیکم بھائی۔۔!!"

ملائکہ نے سلام کیا۔

"وعلیکم السلام۔۔!! یہ پکڑو ذرا۔۔"

غزنوی نے کچھ شاپرز اسکی طرف بڑھائے جو ملائکہ نے تھام لئے۔

"آپ نے تو آج کافی شاپنگ کر لی۔"

وہ شاپنگ بیگز میں جھانکتی ہوئی بولی۔

"ہاں آج جلدی فارغ ہو گیا تھا تو مارکیٹ کا چکر لگا لیا۔"

وہ دونوں آگے پیچھے لاونج میں داخل ہوئے۔شمائلہ بیگم بھی وہیں موجود تھیں۔انہوں نے غزنوی کو شاپنگ بیگز سے لدا پھدا دیکھکر نرمی سے مسکرائیں۔

"کیا ہوا جو یہ لڑکا کسی کی بات مان لے۔۔اپنی مرضی کا مالک ہے۔"

وہ بڑابڑائیں۔۔غزنوی بلند آواز میں سلام کرتا ان کے پاس آ بیٹھا۔

"آج آفس نہیں گئے تھے کیا، فرصت کیسے ملی میرے بیٹے کو؟"

انہوں نے مسکراہٹ دباتے ہوئے پوچھا۔وہ ان کے لہجے میں چھپا طنز محسوس کر کے مسکرا دیا۔

"آج آفس سے وقت پہ نکل آیا تھا تو سوچا شاپنگ کر لی جائے۔"

غزنوی نے ایک شاپر ان کی طرف اور دوسرا شاپر ملائکہ کی طرف بڑھایا۔

"امی لگتا ہے بھائی آج سارا مال ہی خرید لائے ہیں۔"

ملائکہ نے شاپنگ بیگ تھامتے ہوئے شمائلہ بیگم کی طرف دیکھا۔شمائلہ بیگم نے اثبات میں سر ہلایا۔

"یہ کچھ اپنی اور ایمان کے لئے۔"

وہ سر کھجاتا بولا۔

"تھینک یو بھائی۔۔۔اتنا خوبصورت ڈریس۔"

ملائکہ کی آنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔

"ویلکم۔۔۔اب ایسا کرو کہ یہ باقی شاپرز کمرے میں رکھ آو۔"

غزنوی نے حکم نامہ بھی جاری کیا۔ملائکہ نے شاپرز اٹھائے پلٹ گئی۔اسی دوران شگفتہ پانی کا گلاس لئے لاونج میں داخل ہوئی۔

"شگفتہ یہ باقی تم اٹھا لاو۔"

ملائکہ نے شگفتہ سے کہا تو سر ہلاتی گلاس غزنوی کے سامنے رکھتی اس کے ساتھ ہو لی۔غزنوی کی نظریں مطلوبہ شخص کی تلاش میں تھیں مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔

"ایمان کہاں ہے؟"

بلاآخر اس نے شمائلہ بیگم سے پوچھ لیا۔

"وہ تمھاری چچی کی طرف گئی ہے۔"

شمائلہ بیگم نے بتایا۔

"اچھا۔۔۔ذرا میرے لئے ایک کپ چائے بھجوا دیں۔"

وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

"اچھا۔۔۔اور ہاں یاد آیا۔۔مصطفی کئی بار کال کر چکا ہے کہہ رہا تھا تم اسکا فون نہیں اٹھا رہے ہو۔کال کر لو اسے۔"

انہوں نے یاد آنے پر اس سے کہا۔

"جی کر لیتا ہوں۔۔میں مال میں تھا اور موبائل گاڑی میں ہی رہ گیا تھا اس لئے ریسیو نہیں کر سکا۔"

اس نے پلٹ کر کہا اور پھر تیزی سے سیڑھیاں چڑھ گیا۔شمائلہ بیگم اس کے چائے بنانے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔                                         __________________________________________

شام کے قریب قریب وہ گھر میں داخل ہوئی۔تھکاوٹ کے باعث سیدھی اپنے کمرے میں آئی۔پورا کمرہ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔اس نے سوئچ بورڈ ٹٹول کر لائٹس آن کیں اور پلٹ کر دروازہ بند کرتی اندر آئی۔کمرہ روشن ہوتے ہی بید پہ پڑے شاپنگ بیگز اسکی آنکھوں سے ٹکرائے۔اس کی حیرت میں اضافہ ہوا جب اس نے ایک ایک شاپر کھول کر دیکھا۔تین بے حد خوبصورت اور آنکھوں کو خیرہ کر دینے والے ملبوسات، میچنگ جیولری، سینڈلز، کلچز اور پرفیومز۔۔۔باقی دو شاپرز میں مردانے کپڑے اور جوتے تھے۔سبھی برانڈڈ اور خوبصورت تھا۔

"صاحب بہادر نے تو اچھا خاصا خرچہ کر ڈالا۔"

وہ تمام چیزوں پہ توصیفی نظر ڈالی اور غزنوی کی پسند کی کھلے دل سے داد دیتے ہوئے تمام شاپرز اٹھا کر الماری میں رکھے۔کبھی کبھی غزنوی کی جانب سے دلایا گیا محبت کا احساس اسے بہت معتبر کر دیتا تھا، دل میں پھول سے کھل جاتے اور ان پھولوں کی مہک سے اسکی زندگی بھی مہکنے لگتی تھی۔بےشک وہ کبھی کبھی اسکے لہجے کی سختی اسکا دل بھی پتھر کر دیتی تھی، اسکا دل ٹوٹ جاتا تھا، ساری دینا سے خفا ہو جاتا تھا لیکن جب وہ اسکے دل کی تاروں کو چھو آتا تو وہ سب کچھ بھلا دیتی۔۔۔اپنی ذات کو بھی جسکی خاطر وہ اسکے سامنے تن کر کھڑی ہونے لگی تھی۔اس کی محبت سے مخمور وہ نماز ادا کرنے اٹھ کھڑی ہوئی۔مغرب پڑھ کر وہ کمرے سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ تیزی سے اندر داخل ہوتے غزنوی سے ٹکرا گئی۔

"اففف۔۔!!"

ایمان نے اپنی ناک پہ ہاتھ رکھا جو غزنوی کے فولادی سینے سے ٹکرائی تھی۔درد کی شدت سے آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔

"اوہ۔۔۔!! ٹھیک ہو تم؟"

غزنوی نے اسے فوراً سنبھالا تھا۔ایمان نے ناک پہ دباؤ بڑھاتے ہوئے سر اثبات میں ہلایا۔آنسو ڈھلک کر چہرہ بھگو گئے تھے۔۔غزنوی نے بغور اسکی طرف دیکھا۔پیلے رنگ کی پھولدار قمیص پہ سفید ڈوپٹہ شانوں پہ پھیلائے اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔سرخ و سپید رنگت پیلے رنگ میں مزید نکھر گئی تھی۔

"آرام سے نہیں چل سکتی تھی۔"

غزنوی نے خود پہ ہوتے اس جادو کو توڑا جو اسے لپیٹ میں لینے لگا تھا۔

"میں تو آرام سے ہی چل رہی تھی۔"

وہ بسورتے ہوئے بولی اور آنسو صاف کیے۔

"ویسے ایک بات تو بتاؤ یہ تلوار جیسی ناک لئے طوفان میل بنی کہاں جا رہی تھی، سینہ چیر دیا لے کے۔"

غزنوی نے مسکراتے ہوئے اسکی ناک کو پکڑ کر ہلکے سے دبایا۔ایمان نے اپنی بند مٹھی اسکے سینے سے ٹکرائی۔

"اور آپ خود کون سی میل پہ سوار تھے، یا پھر جان بوجھ کر مجھ سے ٹکرا رہے تھے؟"

وہ اس سے فاصلے پہ کھڑی ہوئی۔

"ارے بیگم صاحبہ ہم تو آئے ہی اس دنیا میں آپ سے ٹکرانے کے لئے ہیں۔"

غزنوی دھیرے سے کہتا اپنے اور ایمان کے بیچ موجود فاصلے کو مٹا گیا اور اپنے مخصوص انداز میں اس کے چہرے پر پھونک ماری۔ایمان نے آنکھیں بند کیں۔وہ یہ نرم جھونکے سہنے کی عادی ہو گئی تھی اس لئے اس نے کچھ بھی کہے بغیر اس کے پاس سے نکلنا چاہا۔

"بیڈ پہ شاپنگ بیگز رکھے تھے۔"

غزنوی نے اسے روکا اور سوالیہ انداز میں بیڈ کیطرف اشارہ کیا۔

"الماری میں رکھ دیئے ہیں۔"

ایمان نے بتایا۔

"تم نے دیکھی، پسند آئی؟"

غزنوی نے گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھی۔

"جی دیکھی بھی اور پسند بھی آئی۔ویسے کمال کی بات ہے آپ جلد فارغ ہو گئے "فالتو" لوگوں کے لئے۔"

ایمان نے اسکا بغور جائزہ لیا۔ایمان کے لہجے میں طنز محسوس کرتا وہ دراز کھولتا وہیں تھم گیا۔ 

"یہاں آؤ ذرا۔۔۔"

غزنوی نے اسے اشارہ کیا۔ایمان نفی میں گردن ہلاتی نہایت پھرتیلے انداز میں کمرے سے نکلی تھی جبکہ وہ سیٹی پہ کوئی دھن بجاتا واش روم کی جانب بڑھ گیا۔                       _____________________________________

آج مہندی تھی اس لئے گھر میں صبح سے ہی چہل پہل کا سماں تھا۔لان کو مہندی کے فنکشن کے لئے سجایا گیا تھا۔سبھی لڑکیاں صبح سے ہی تیاری میں مگن تھیں۔ہر کام مکمل ہونے کے باوجود کسی کا ڈوپٹہ نہیں مل رہا تھا تو کوئی اپنا ڈریس کہیں رکھ کر بھول گئی تھی۔ایک اودھم سا برپا تھا پورے گھر میں۔

"ائے کوڑھ مغز۔۔تجھے کہا ہے کہ یہ پھول اندر لے جا مگر تو نے تو یہیں ڈھیر لگا دیا۔عقل کیا گھانس چرنے گئی ہوئی ہے تیری۔"

خیرن بوا نے شگفتہ کو گلاب کے پھول وہیں ٹیبل پہ رکھ کر جاتے دیکھ کر اسے خوب لتاڑا۔آج صبح ہی سے بیچاری کی شامت آئی ہوئی تھی۔

"بوا جی باہر آپ نے ہی کہا تھا کہ اندر رکھ دو تو میں نے یہاں رکھ دیئے۔"

شگفتہ نے سارا ملبہ ان پہ ڈال دینا چاہا۔

"ائے  باولی ہوئی ہے کیا۔۔بہری ہو گئی ہے۔میں نے کہا تھا کہ اندر کمرے میں پرخہ کو دے کر آ۔"

خیرن بوا نے خود پہ الزام لگتے دیکھا تو اسے آڑھے ہاتھوں لیا۔

"اب میرا منہ کیا تاک رہی ہے۔۔۔جا لے کر جا اندر۔"

شگفتہ کو وہیں جمے دیکھ کر وہ مزید تپ گئیں۔

"جا رہی ہوں۔"

شگفتہ نے ٹوکرا اٹھایا اور پرخہ کو ڈھونڈتی آگے بڑھی۔

"خیرن کیوں اپنا جی جلاتی ہو، بچیاں دیکھ لیں گی خودی۔"

عقیلہ بیگم اپنا سفید بڑا سا چکن کا ڈوپٹہ سر پہ ٹکاتی لاونج میں داخل ہوئیں اور خیرن بوا کو شگفتہ سے الجھتے دیکھ کر کہا۔

"ائے ان پہ ڈال دیا تو ہو گیا کام۔۔اوپر سے یہ شگفتہ۔۔کمبخت ایک نمبر کی کام چور ہے۔چاہتی ہے کہ ہر وقت نٹھلی بیٹھی رہے۔"

خیرن بوا ناک چڑھا کر اوپر جاتی شگفتہ کیطرف دیکھا۔عقیلہ بیگم سر ہلاتی چپ کر گئیں۔انہیں معلوم تھا کہ اس بحث کا کوئی اختتام نہیں ہو گا۔                        _________________________________________

گوٹہ کناری لگے بڑے سے پیلے ڈوپٹے کو سنبھالتی وہ نیچے اتر رہی تھی کہ آخری سیڑھی پہ پاوں مڑا اور اس سے پہلے کہ وہ گرتی کسی کے مضبوط بازوں نے اسے سنبھالا۔

"ارے ارے بیگم صاحبہ۔۔۔سنبھل کر چلیے۔"

غزنوی کی گھمبیر آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔

"افف۔۔۔ایک تو آپ میرے لئے یہ مصیبت غرارہ خرید لائے ہیں۔گز بھر کا تو ڈوپٹہ ہے۔اوپر سے بیوٹیشن کو اپنے نادر مشورے کیوں دیئے۔اچھا بھلا اسے چوٹی بنانے کا کہا تھا۔"

ایمان ایک ہاتھ سے ڈوپٹہ سنبھالتی اور دوسرے ہاتھ سے بکھرے سلکی بال۔۔جو چہرے پہ بکھر آئے تھے، تپے ہوئے لہجے میں بولی۔

اسکی بھوری آنکھوں میں کاجل کی گہری لکیر۔۔۔غزنوی نے نظروں کا زاویہ بدلا۔

"نیچے اترو۔۔۔"

غزنوی نے ہاتھ اسکی طرف بڑھایا جو ایمان نے تھام لیا اور نیچے اتری۔سفید کلف لگے شلوار سوٹ میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا۔

"کیوں لگ رہا ہوں نا دولہا؟"

ایمان کو اپنی طرف محو انداز میں دیکھتا پا کر اسکی جانب جھک کر شرارتی انداز میں بولا۔

"اللہ رے یہ خوش فہمی۔۔۔کس نے کہہ دیا آپ سے ایسا؟"

ایمان نے جانے لگی۔

"آپکی آنکھوں نے۔"

غزنوی نے اسکا ہاتھ تھام کر اسے روکا۔وہ اسکے سامنے کھڑا ہوا اور اسکی آنکھوں جھانکتا گھمبیر لہجے میں گنگنایا۔

سب بتاتی ہیں ان کہی ، آنکھیں 

دل کی کرتی ہیں مخبری، آنکھیں

جھانک لیتی ہیں دل کے اندر تک

جب بھی ملتی ہیں باہمی آنکھیں

اک غزل آج اُن پہ کہہ ڈالوں

کہہ رہی ہیں وہ جھیل سی آنکھیں

ہے خبر، لوٹنا نہیں اُس کو

پھر بھی ہیں راہ دیکھتی، آنکھیں

در حقیقت ہمارے اندر کی 

بس دکھاتی ہیں روشنی آنکھیں

اُن میں کچھ بات ہے الگ یوسف

ورنہ دنیا میں اور بھی آنکھیں۔۔۔۔۔

ایمان سے وہاں رکنا محال ہو گیا مگر اسکا ہاتھ اب بھی غزنوی کے مضبوط ہاتھ میں تھا۔

"ایمان۔۔۔۔۔!!"

اسی اثناء میں ملائکہ اسے پکارتی اندر کی جانب آ رہی تھی۔ایمان ہوش میں آئی۔

"چھوڑیں غزنوی۔۔۔"

ایمان نے دھیرے سے کہتے ہوئے اپنا ہاتھ چھڑانا چاہا۔

"کیا۔۔۔۔؟؟"

وہ شریر ہوا۔

"میرا ہاتھ۔۔۔"

ایمان نے التجائی نظروں سے اسکی جانب دیکھا۔وہ اسکا ہاتھ چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔

"تم یہاں ہو۔۔۔چلو سب بلا رہے ہیں رسم شروع ہو گئی ہے۔"

ملائکہ اسکا ہاتھ پکڑتی باہر لان کی جانب بڑھ گئی۔                          __________________________________________

رسمیں کافی دیر تک چلیں تھیں۔اب تھک کر سب اپنے اپنے کمروں میں تھے۔شگفتہ اپنے کوارٹر میں جاتے ہوئے اسے غزنوی کا پیغام دے کر گئی تھی اور اب وہ نیند کو دور بھگاتی اس کے لئے چائے بنا رہی تھی۔چائے لئے وہ کمرے میں آئی تو غزنوی صوفے پہ آنکھیں موندے بیٹھا تھا۔

"چائے۔۔۔"

ایمان کی آواز پہ وہ آنکھیں کھول کر سیدھا ہوا۔

"چائے بنا رہی تھی یا پائے؟"

وہ کپ ٹیبل پہ رکھ کر پلٹ کر جا رہی تھی جب غزنوی نے پیچھے سے اسے گھیرے میں لیا اور اسکے گال سے گال ٹکراتا بولا۔

"آپ کیا ہر وقت میرے ساتھ جنگ کی حالت میں رہتے ہیں۔"

ایمان نے کہا۔

"یہ محبت کی جنگ ہے اور تم جانتی ہو کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے اور پھر میری تو محبت اور جنگ دونوں ساتھ ساتھ جاری ہیں۔"

غزنوی نے اپنی قید کا حصار اسکے گرد تنگ کیا۔

"میں باز آئی آپ کی ایسی جنگ نما محبت سے۔۔مجھے معاف رکھئیے۔"

ایمان کے ہاتھ اسکے مضبوط بازوں پہ جمے تھے۔

"کیوں۔۔۔؟؟"

غزنوی نے اسکی سنہری مائل ذلفوں میں چہرہ چھپایا۔

"کیونکہ مجھے نیند آ رہی ہے۔"

ایمان نے تھکاوٹ بھرے لہجے میں کہا۔

"اچھا ابھی تمھیں نیند آ رہی ہے اور فنکشن کے دوران جو تم مجھے اشارے کر رہی تھیں، وہ کیا تھا؟"

غزنوی کا انداز سنجیدگی لئے ہوئے تھا۔

"کیا۔۔۔میں؟؟ میں نے کب آپکو اشارے کیے؟"

حیرت کی زیادتی سے ایمان کی آنکھیں پھیل گئیں۔

"چلو اب نخرے مت کرو اور مان لو کہ تم مجھے اشارے کر رہی تھیں۔"

وہ ہنسی دباتے ہوئے بولا۔

"میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا۔۔ہاں البتہ آپ نے مجھے پریشان کیے رکھا، پورے فنکشن میں میرے باڈی گارڈ بنے رہے۔"

ایمان نے اس سے الگ ہونا چاہا مگر غزنوی کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔

"بالکل غلط۔۔۔الٹا تم مجھ پہ اپنی یہ بندوق جیسی آنکھیں تانے ہوئے تھیں جیسے کسی دشمن گروہ سے میرا تعلق ہو۔"

غزنوی نے چہرے پہ معصومیت سجاتے ہوئے کہا۔

"اب اس وقت اس فضول بحث کا مقصد؟"

ایمان نے پلٹ کر اسکی طرف دیکھا جسکے چہرے پہ کچھ اور ہی رنگ بکھرے تھے۔

"میرا مقصد تو واضح ہے۔"

غزنوی نے اسکے سر سے سر ٹکرایا۔

"آپکا مقصد تو صرف مجھے تنگ کرنا ہے محبت کرنا نہیں۔"

ایمان نے نارضگی جتائی۔

"تم نے اقرار مانگا ہے....

تو سنو......!!

دل کے سچے جذبے...

اظہار کے محتاج نہیں ہوتے...

یہ تو وہ جذبے ہیں...

جو جگنو بن کر...

آنکهوں میں چمکتے ہیں...

ہونٹوں کے نرم گوشوں میں رہ کر..

دل میں بستے ہیں....

تم مجھ میں اس طرح سمائی ہو...

کہ جیسے...

تاروں میں چمک...

تتلی میں رنگ...

میرا تمہارا رشتہ اٹوٹ ہے....

جو جڑا رہے تو زندگی.....

اور ٹوٹ جائے تو موت.............!!

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا گھمبیر لہجے میں کہتا گیا اور وہ اسکی آنکھوں کے حصار میں جکڑی اسکے حرف حرف پہ ایمان لے آئی۔

"آج بھاگنا نہیں ہے؟"

کچھ پل یونہی خاموشی سے بیت گئے تو غزنوی نے پوچھا۔ایمان نے نفی میں گردن ہلائی اور اسکے کشادہ سینے سے لگ کر آنکھیں موند گئی۔

"مجھے آپکی محبت کے حصار سے کبھی نہیں بھاگنا۔"

وہ دھیرے سے بولی تھی۔

"میں بھاگنے دوں گا بھی نہیں۔"

ایمان نے اسکی طرف دیکھا تو غزنوی کے مسکراتے لب اسکی شفاف پیشانی کو چھو گئے۔

"اب لڑیں گے نہیں نا؟"

ایمان نے اس یقین دہانی چاہی۔

"نہیں۔"

غزنوی نے نفی میں سر ہلایا۔

"اور میرے کاموں میں کیڑے بھی نہیں نکالیں گے؟"

اس نے ایک اور وعدہ چاہا۔

"نہیں۔"

وہ اسکا چہرہ ہاتھوں پہ لئے بولا۔ایمان مسکرائی۔

"یار ان کھلے بالوں میں تو تم بالکل چڑیل لگ رہی ہو۔آئیندہ بال کھلے مت چھوڑنا۔"

غزنوی اسے سر تا پیر گھورتے ہوئے بولا۔

"اور آپ خود کیا ہیں۔۔اکڑو جن۔۔۔"

ایمان نے اپنا بدلہ چکایا۔

"اچھا۔۔۔ٹھہرو۔۔۔"

غزنوی نے اسے پکڑا۔۔

"کیا ہوں میں۔۔۔۔؟؟"

غزنوی نے پوچھا۔

"شہزادہ گلفام۔۔۔"

وہ اسکے تیور دیکھ کر تیزی سے بولی۔

"ہیم۔۔۔۔؟؟"

غزنوی نے گرفت مضبوط کی۔

"نہیں نہیں پرنس چارلس۔۔۔"

ایمان نے ہنستے ہوئے کہا۔

"کیا۔۔۔۔۔؟؟"

غزنوی نے وارننگ دیتے ہوئے پوچھا۔

"آپ غزنوی ہیں۔۔۔میرے غزنوی۔"

اس قدر واضح اظہار۔۔غزنوی مسکرا دیا۔۔۔۔وارننگ کام کر گئی تھی۔وہ اسکے چہرے پہ جھکا تھا۔ایمان کے من موہنے چہرے پہ رنگ بکھرے جنھیں وہ اپنے لبوں سے چننے لگا۔دونوں کے بیچ خاموشی گہری  آن ٹھہری اور اس خاموشی میں صرف محبت کلام کر رہی تھی۔

۔۔⁦ختم شد۔۔۔۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Wo Kharoos SaRomantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Wo Kharoos Sa written by Mahwish Urooj. Wo Kharoos Sa by Mahwish Urooj is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages