Mohabbat Ho Gai Hai Novel Mahra Shah Complete Romantic New Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Sunday 21 July 2024

Mohabbat Ho Gai Hai Novel Mahra Shah Complete Romantic New Novel

Mohabbat Ho Gai Hai Novel Mahra Shah Complete Romantic New Novel  

Mahra Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Mohabbat Ho Gai Hai By Mahra Shah Complete Romantic Novel 


Novel Name: Mohabbat Ho Gai hai

Writer Name: Mahra Shah 

Category: Complete Novel

 

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

" ادا جی آگے گاڑی چل کیوں نہیں رہی چلاؤ گھر جلدی پہنچنا ہے نانی اماں انتظار میں ہے میری ۔۔؟" عابیر کریم بخش نے تیز آواز میں ٹیکسی ڈرائیور سے بولتے ہوئے کہا وہ حیدرآباد سے کراچی آئی تھی پر سامنے پولیس والے گاڑی روک کر چیک کر رہیں تھے۔


" بی بی جی آگے پولیس والوں نے سب کو روک رکھا ہے چیک کرلے پھر آگے جانے دے رہے ہیں اس لئے دیر ہو رہی ہے۔" ڈرائیور نے ادب سے کہا ۔۔ عابیر بےزاری سے آس پاس دیکھتی برے اثرات لیے ہوئے تھی گود میں کپڑوں کی پوٹلی رکھی ہوئی تھی ۔۔۔


" ہائے اللہ سائیں کتنا سوہنا ہے پولیس والا ۔۔۔۔!! عابیر نے سامنے اس خوبرو نوجوان خوبصورت پولیس والے کو دیکھتے ہوئے حسرت سے کہا ۔۔وہ اپنی کاجل سے بڑی بڑی آنکھوں سے بس اسے ہی دیکھے جا رہی تھی جب ان کی گاڑی قریب رکی تو اسے وہ سامنے دکھا اس کا دل بہت تیز دھڑک اٹھا تھا دل کی ایک بیٹ مس ہوئی تھی اسے دیکھ کر پہلی بار کوئی حسین نوجوان دیکھا تھا جو ۔۔۔


" چیک کرو گاڑی کو اچھے سے اور اس ڈبے میں کیا ہے ۔۔۔؟" مرتضیٰ حمید اے ایس پی پولیس آفیسر ایک نظر اس ٹیکسی ڈرائیور کو اور پیچھے موجود لڑکی کو دیکھتے اس کے ساتھ اس کا ڈبہ دیکھا جس میں شاید اس لڑکی کا سامان ہو لیکن اسے اپنے شک کی تصدیق ضرور کرنی تھی ۔۔اس کی بات پر دوسرے پولیس والے نے پیچھےکا دروازہ کھولا ۔۔۔


" میڈم آپ باہر نکلیں ہمیں آپ کا سامان چیک کرنا ہے ۔۔۔؟" وہ پولیس والا ادب سے بولا ۔۔


" ہے کیوں میں کوئی چور ہوں جو تو میرے سامان دیکھے گا شرم نہیں آتی عورت کا سامان دیکھتے ہوئے ۔۔۔؟" عابیر اس کی بات پر غصے سے باہر نکلتی شروع ہوگئی وہ دو پولیس والے گھبرا کے پیچھے ہوئے مرتضیٰ کسی سے فون پر بات کر رہا تھا کے اس لڑکی کی تیز آواز پر پیچھے موڑ کر دیکھا جو گرین کلر کے بلوچی کپڑوں میں سر پر بڑی سی چادر چڑھائے ہوئے تھی سانولا رنگ دھوپ میں مزید چمک رہا تھا براؤن آنکھیں تیکھے نین نقش والی لڑکی شدید غصے میں تھی وہ چلتا ہوا ان کے قریب آیا ۔۔۔۔ کچھ پولیس والے تو اس کی اردو پر عش عش کر اٹھے تھے ۔۔


" دیکھیں محترمہ ہمیں ہمارا کام کرنے دیں آپ کو نہیں پتا لیکن ملک کے حالات بہت خراب ہو گئے ہیں ہمیں ہر چیز کا خیال رکھنا پرتا ہے سو پلیز ہمیں تلاشی لینے دیں ۔۔؟" وہ نہایت آرام سے مخاطب ہوا ۔۔۔


" آدھے حالات تو تم جیسے پولیس والوں کی وجہ سے خراب ہوا ہے نہ آنکھیں کھلی رکھتے ہو نہ کان لیکن دکھائی پھر بھی نہیں دیتا کچھ ۔۔ امیر سے پیسے لے کر جانے دیتے ہو غریب کی جان کو آتے ہو اور کیا ملے گا تم کو میرے سامان سے خوامخواہ دیکھ کر شرم سار ہو جاؤ گے ۔۔۔!! وہ انتہائی فضول بول گئی جس پر آس پاس پولیس والے کے ساتھ وہ بھی ایک پل کو شرمندہ ہو گیا اس کی باتوں سے غصہ بھی بہت آیا اس بیوقوف لڑکی پر ۔۔۔


" تمیز سے پیش آئیں محترمہ میں آپ سے عزت سے بات کر رہا ہوں تو میرے ساتھ بھی عزت سے پیش آئیں ورنہ لاک اپ میں ڈال دوں گا۔۔؟" اس نے سخت لہجے میں کہا ۔۔


" میں تم کو اتنا سوہنا سمجھا تو اندر سے اتنا کالا نکلا عورت سے بات کرنی کی تمیز نہیں تم کو میں بول بھی رہی ہو چور نہیں پھر بھی تم کو بہت شوق چرا ہے میرا سامان دیکھنے کا کیوں ۔۔۔؟" وہ اب باقاعدہ سے لڑنے کے موڈ میں تھی ۔۔اس وقت مرتضیٰ پبلک پلیس میں تھا اس لئے مجبوری میں خود پر ضبط کر گیا ورنہ واقعی اسکا دل کیا آج اس لڑکی کو اپنی گن سے شوٹ کردے لیکن اسے زیادہ بحث نہیں کی اور جانے دیا وہ بھی برا منہ بناتی بیٹھ گئ اب اسے وہ پولیس والا زہر لگا جو کچھ دیر پہلے بہت اچھا لگا تھا ۔۔۔

________★

" نانی اماں کیسی ہیں میں نے آپ کو بہت یاد کیا سچ میں ۔۔!! وہ بڑی مشکل سے یہاں پہنچی تھی اسکے بعد ٹیکسی ڈرائیور سے کرائے پر کتنا بحث کر کے اندر آئی ۔۔


" میں نے بھی بہت یاد کیا اپنی دھی کو ۔۔!! نانی اماں نے بہت پیار محبت سے اسے اپنے ساتھ لگایا تھا۔


" تم کو پتا ہے میرے ساتھ آج کیا ہوا کیسے مشکل سے یہاں پہنچی ہوں پتا ہے آج مجھے ایک کمینہ منحوس پولیس والا ملا اور میرے کو چور سمجھا اس نے ۔۔!! وہ تو تھی ہی باتونی پھر ہوگئی شروع اپنے ساتھ ہوئے آج کے واقعے کو بیان کرنے میں نانی نے حیرت سے اس کی بات سنی۔


" بیٹا آپ مجھے بتاؤ کون تھا وہ کمینہ میں اپنے پوتے سے کہوں گی اسے اچھے سے سبق سیکھائے۔۔۔!! اب نانی نے اس کے مسئلے پر غور کیا ۔۔۔


" ہے سچی وہ کردے گے کام ۔۔؟" وہ حیرت سے چیخ کر بولی ۔۔نانی نے تھوڑا گھبرا کر اسے کہا ۔۔یہاں کس کو عادت تھی تیز آواز میں بات کرنے کی اب اسے سکھانے کی سوچنے لگیں شکر تھا اس وقت گھر پر کوئی نہیں تھا ۔۔


" آرام سے بات کرو لڑکی شہر کے لوگ تیز آواز میں بات نہیں کرتے اس لئے سمجھا رہی ہوں کل کو تمہیں کوئی کچھ بول نہ دے ورنہ تمہیں ہی دکھ ہوگا ۔۔!! نانی اماں نے اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا وہ تھوڑا بہت سر ہلا گئی بات تو سہی تھی ان کی اس کی ماں نے بھی سمجھا کر بھیجا تھا۔


" اچھا ٹھیک ہے کوشش کرتی ہوں نہ اب گاؤں سے آئی ہوں اتنی جلدی عادت نہیں لگے گی نہ ۔۔۔ اچھا بتائے باقی سب کدھر مجھے ملنا ہے سب سے اماں نے سلام بھیجا ہے ۔۔۔۔!!


" وعلیکم السلام خوش رہو گھر پر کوئی نہیں ہے سب باہر اپنے کاموں سے بس میں تنہا رہتی ہوں اب تم آگئی ہو نہ اب تم سے بہت باتیں کروں گی ۔۔!! نانی خوش ہو گئی تھی اسے دیکھ کر ان کا اکیلا پن دور ہونے لگا تھا عابیر کے آنے کے بعد ۔۔ انہوں نے ہی اسے بلوایا تھا انکی طبیعت خراب رہنے لگی تھی یہاں سب اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے ۔۔ عابیر کی ماں نے اپنی ماں جی کی طبیعت دیکھ کر اپنی بیٹی ان کی خدمت کے لیے بھیجی تھی۔

__________★

" عابیر بیٹا آپ کے امی ابو کیسے ہیں وہ نہیں آئے ساتھ ۔۔؟" حمید صاحب نے پیار سے اس سے پوچھا ۔۔


" ماموں سائیں اللّه پاک کا شکر ہے سب ٹھیک ہیں آپ سب کیسے ہیں اماں ابا نے سلام بھجا ہے آپ سب کو ۔۔!! عابیر بڑے جوش سے ان سے بات کرنے لگی ۔۔


" السلام علیکم !!


" وعلیکم السلام آؤ اس سے ملو یہ ہے سارا کی بیٹی عابیر کریم بخش گاؤں سے آئی ہے سارا سے تو آپ لوگ مل چکے ہیں ۔۔!! حمید صاحب اپنی بیوی کو اور چھوٹے بیٹے کو عابیر سے ملوایا تھا ۔۔


" عابیر یہ ہے میری بیوی شازیہ حمید اور یہ میرا چھوٹا بیٹا احمد ۔۔!! شازیہ بس اس کے سلام کا جواب دیتی اندر چلی گئی سب جانتے تھے اس کے مزاج کو عابیر تو اس خوبصورت عورت کو دیکھ کر بڑی خوش ہوئی تھی لیکن اس کے ہلکے انداز میں ملنے پر خاموش سی ہوگئی اسکے برعکس احمد بڑا شرارتی مزاج کا تھا ۔۔ احمد کو وہ بلوچی کپڑوں میں پیاری سی لڑکی بہت اچھی لگی اسکے بولنے کا انداز اسکی احمد کو بہت مزہ آیا اس سے باتوں میں ۔۔


" عابیر تم کیا کرتی ہو۔۔؟" احمد اسکے زیادہ بولنے پر حیرت سے اسے دیکھا جو بولتی تو چپ ہونے کا نام نہیں لیتی تھی ۔۔


" میں سلائی کڑھائی کرتی ہوں پتا ہے میں اپنے گاؤں کی سب سے مشور لڑکی ہوں کام کاج میں سب سے آگے ہوں اپنی اماں پر گئی ہوں ۔۔!! افف دنیا تعریف کرے نہ کرے لیکن وہ سب سے آگے تھی خود کی تعریف کرنے میں ۔۔


" ہاہاہا اچھا پھر میرے کپڑے بھی سیو گی ۔۔؟" احمد شرارت سے اسے دیکھتا ہوا بولا ۔۔


" ہے سچی تم میرے سے کپڑے سلواؤ گے ۔۔ پھر ٹھیک ہے میں تم کو پہلا کپڑا مفت میں سی دوں گی پھر دوسری واری میں تم سے پیسے لوں گی ۔۔؟" عابیر احسان کرنے والے انداز میں کہا ایک تو وہ ہمیشہ سے تھی صاف گوئی ۔۔


" ہاہاہا ہاؤ کیوٹ آبی تمہارے ساتھ تو بہت مزہ آئے گا اب ۔۔!! احمد تو اسکے انداز پر ہی فدا ہو گیا ۔۔ ارے محبت والا تھوڑی کچھ انداز پر فدا ہونا خوبصورتی کہا جاتا ہے اگلے کی ۔۔


" چھوٹے ادا تم بھی بڑے پیارے ہو دیکھو مجھے بھی تمہارے ساتھ مزہ آرہا ہے ۔۔!! عابیر کو احمد بہت پیارا اچھا لڑکا لگا تھا جیسے وہ اپنے گاؤں کے چھوٹے لڑکوں سے باتیں اور مستی کرتی تھی یہاں بھی اسے احمد مل گیا تھا ۔۔۔انکی باتوں پر نانی اماں ماموں سائیں تو بس ہنستے رہے تھے ۔۔جب کے شازیہ کو وہ لڑکی بالکل پسند نہیں آئی ۔۔

_________★

" السلام علیکم ماما بہت بھوک لگی ہے پلیز کھانا لگا دیں میں فریش ہو کے آیا ۔۔؟ وہ تھکا ہوا آتے سب کو سلام کرتا جلد بازی میں اوپر چلا گیا روم میں باقی سب بھی اب کھانے کی میز پر جمع ہونے لگے تھے ۔۔عابیر تو ہر چیز کو حیرت اور حسرت سے دیکھ رہی تھی اس کی اماں نے بتایا تھا وہ لوگ امیر ہے ان کے گھر کی ہر چیز اعلیٰ ہے وہ تو مزے مزے کے کھانے دیکھ کر اس کی بھوک جاگ گئی اب اس سے صبر نہیں ہو رہا تھا جب کے شازیہ اماں بتول احمد بیٹھے ہوئے تھے بس انتظار تھا تو حمید صاحب اور مرتضیٰ کا اسے اماں نانی اچھے سے سمجھا کر آئی تھی وہاں سب ساتھ مل کر کھاتے ہے اس لئے خاموشی سے سر جھکا کر بیٹھی تھی بھوک کہ وجہ سے اس کی زبان کو بریک لگا ہوا تھا۔


" بہت بھوک لگی ہے یار آج تو بالکل تھکا دینے والا دن تھا ۔۔!! مرتضیٰ فریش سا بلیک ٹراؤزر ٹی شرٹ میں اپنی خوبصورت وجاہت سے سب کو اپنی جانب متوجہ کیا اماں نے اپنے خوبرو پوتے کی نظر دل ہی دل میں اتاری ۔۔ عابیر تو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی اپنی زندگی میں پہلی بار اتنا حسین مرد دیکھا تھا اسنے ۔۔اسے بےساختہ وہ پولیس والا یاد آیا جو اس سے ملتا جلتا لگ رہا تھا ۔۔۔


" نظر لگاؤ گی میرے بھائی کو ۔۔؟" احمد نے شرارت سے جھک کر سرگوشی میں کہا اس کی بات پر وہ آدھی ہوش میں آئی ۔۔


" ماشاءاللّٰه بڑا سوہنا ہے ۔۔!! اسکے منہ سے بےساختہ لفظ نکلے شازیہ بیگم نے اسے گھورا اماں نے جلدی سے اسکا ہاتھ دبا کر ہوش دلایا اور وہی احمد کے قہقہے نے حمید صاحب سے بات کرتے مرتضیٰ نے چونک کر سامنے دیکھا تو ایک انجان لڑکی کو سب کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر حیرت ہوئی سوالیہ نظروں سے ماں پھر باپ کو دیکھا۔ جب کے عابیر اب بڑے غور سے اس کا جائزہ لے رہی تھی اسے یہ دیکھا ہوا لگ رہا تھا۔۔


" بیٹا یہ تمہاری سارا پھوپھو کی بیٹی ہے عابیر کریم بخش ۔۔۔ اور عابیر یہ میرا بڑا بیٹا مرتضیٰ ۔۔!! مرتضیٰ نے ایک نظر اس سانولے رنگ کی لڑکی پر ڈالتے صرف سر ہلایا ۔۔جب کہ عابیر کی آواز نے سب کو شاک میں ڈال دیا۔


" اماں نانی یہی تو بےغیرت پولیس والا ہے جس کو میرا سامان دیکھنا تھا اور مجھے اتنی دیر دھوپ میں کھڑا رکھا ۔۔!! اس کی زبان نے جہاں اماں نانی شازیہ بیگم کو شرمندہ کیا وہی حمید صاحب احمد کے قہقہے نکلے تھے ۔۔ اور اس کا سرخ چہرہ بتا رہا تھا وہ بے انتہائی کی حد پر تھا غصے میں اس کی آنکھیں ضبط سے لال ہو گئی تھیں جو صرف احمد ہی سمجھ سکا یہ پیاری لڑکی اس کے بھائی کےہاتھوں ہی مر جائے گی ۔۔


" کون ہے یہ بدتمیز لڑکی زبان استعمال کرنے کی تمیز نہیں تمہیں ۔۔؟" وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا سب نے گھبرا کر اسے دیکھا عابیر تو اس کی دھاڑ پر ڈر کے نانی اماں کے پیچھے چھپ گئی۔۔


" بیٹا آرام سے بچی ڈر گئی ۔۔!! حمید صاحب نے اسے ٹھنڈا کرنا چاہا ۔۔


" وٹ نان سینس ڈیڈ سیریسلی بچی اس کی زبان دیکھی وہاں روڈ پر بھی مجھے میری ٹیم کو شرمندہ کردیا تھا اسے تو میں جیل میں ڈالوں گا ۔۔؟" مرتضیٰ کو اب موقع ملا تھا اپنا حساب برابر کرنے کا وہ غصے میں آگے بڑھ تھا ۔۔


" اللّه سائیں میری مدد کریں ۔۔ اماں نانی مجھے بچا اس کمینے پولیس والے سے ہاۓ اللّه میں مر گئی ۔۔!! عابیر اسے غصے میں آگے بڑھتے دیکھ کر اماں نانی کو پیچھے سے پکڑ تے ہوئے چلائی ۔۔ مرتضیٰ تو اس کے گالی لفظ پر ہی غصے سے لال ہو گیا ۔۔احمد تو صدمہ میں سب دیکھ رہا تھا حمید صاحب کو ہنسی کے ساتھ مزہ بھی آرہا تھا کے مرتضیٰ شازیہ کا غصے سے بےحال دیکھ کر جلدی سے مرتضیٰ کو سنبھالا ۔۔۔


" اماں اسے روم میں لے جا کر دماغ درست کریں اس جاہل لڑکی کا ۔۔۔؟" شازیہ بیگم غصے سے کہتے ہوئے مرتضیٰ کے پیچھے گئی جو غصے میں روم میں چلا گیا تھا ۔۔۔


" اماں نانی بھوک کھانا تو کھا لوں پھر چلتے ۔۔۔!!


" چپ کر کے چل شرمندہ کردیا مجھے سب کے سامنے یہ سیکھا ہے تم نے بات کرنے کی تمیز نہیں سیکھائی تیری ماں نے۔۔؟" نانی اماں غصے میں سخت سنا رہی تھیں اسے لیکن اس کا سارا دھیان اپنی پیٹ پوجا کرنے میں تھا ۔۔اماں نانی افسوس سے سر ہلا کر وہیں بیٹھ گئیں۔۔


" تم بھائی سے مل چکی ہو ۔۔؟ احمد نے حیرت سے نکلتے اس سے پوچھا اور پھر کیا تھا عابیر صاحبہ کی زبان کو شاید ہی کوئی بریک لگا سکتا ہو۔۔ احمد حیرت اور کھلے منہ سے اسے دیکھ رہا تھا کیا تھی یہ لڑکی کس طرح شرمندہ کر دیتی تھی سب کو اور وہ اتنا تو جان گیا تھا یہ لڑکی اب شاید ہی اس کے بھائی کی نظروں سے بچ پائے۔

_________★

" اچھا اب چپ ہو جا نانی اماں کتنا بولتی ہو۔۔۔!! وہ جو نانی اماں کب سے اسے سمجھانے میں لگی تھیں اسکی بیزاری صورت حیرت سے دیکھتی رہ گئیں ۔۔تو کیا وہ اتنی دیر سے دیوار میں سر مار رہی تھیں اور وہ نیند سے بے حال سفر کی الگ تھکان ۔۔نانی اماں کے ساتھ دوسری سائیڈ پر لیٹ گئی اور تھوڑی ہی دیر میں اپنی دنیا میں چلی گئی ۔۔نانی اماں افسوس سے اسے دیکھتے سر ہلا گئیں اب وہ تو اس کے لئے صرف دعا ہی کر پائیں جو اس کے پوتے کے سامنے کم ہی آئے تو اچھا ہے۔

_________★

" یار امی پلیز مجھے نہیں کرنی اس سے شادی ۔۔؟ هادیق نے ماں کو سمجھا تے ہوئے کہا ۔۔


" دیکھوں هادیق ہاں کردو مجھے اب اور شرمندہ مت کروں اپنے باپ کے سامنے صیحیح کہتے ہے میں نے ہی تمہے لاڈ پیار میں بگاڑ دیا ہے تھوڑی تو عزت رکھلو اپنے ماں باپ کی ۔۔" مسز مصطفیٰ دکھ سے بیٹے کو دیکھا ۔۔

" یار امی ایسے تو نہ دیکھے پلیز لیکن آپ میری بات بھی سمجھے نہ شادی مجھے کرنی ہے اور میں اپنی پسند سے کرنا چاہتا ہوں پھر کیوں اس چڑیل کو میرے گلے ڈال نہ چاہتے ہے آپ لوگ ۔۔؟" ھادیق کو اب غصہ آرہا تھے اپنے گھر والوں کے فیصلے پر ۔۔


" دیکھو بیٹا تمہارے باپ نے زبان دی ہے اپنے بھائی کو اور گھر کی بیٹی ہے کیا برائی ہے اس میں اچھی پڑھی لکھی خوبصورت ہے کیا کمی ہے اس میں جو انکار کر رہے ہوں ۔۔؟" اب مسز مصطفیٰ کو بھی اسکے انکار سے غصہ آنے لگا تھا ۔۔

" اچھی بہت اچھی ہے بس لیکن مجھے نہیں پسند میں اپنے یونیورسٹی میں کسی کو پسند کرتا ہوں اور اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں پلیز سمجھے اور یہ گھر میں رشتے داریاں مجھے پسند نہیں ۔۔؟" ھادیق نے سنجیدگی سے اپنا فیصلہ سنایا ۔۔


" ٹھیک ہے تم اپنے ماں باپ کو سب کے سامنے شرمندہ کروانا چاہتے ہوں تو کرو جہاں شادی کرنی ہے جاکے کروں ہم تمہارے کسی بھی فیصلے میں تمہارا ساتھ نہیں دینگے ۔۔؟" مسز مصطفیٰ غصے میں بول کر روم سے چلی گئی ۔۔


" شٹ اس چڑیل کے لئے باہر سے رشتے ختم ہو گے تھے جو گھر میں صرف میں ہی ملا قربانی کے لئے افف کیا کروں سویرا کو کیسے سمجھا آؤ اب ۔۔!" بے بسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا تھا ۔۔


وش اسکے چچا بیٹی تھی اسکے ماں باپ کا ایکزسیڈٹ ہو گیا تھا وش دس سال کی تھی اسکے باپ کی خواہش تھی اسکی بیٹی کی شادی هادیق سے ہوں جائے گھر میں ہی رہے باہر نہ جائے انکی بیٹی اور هادیق کے باپ کوبھی یہ بات منظور تھی انہوں نے بچپن میں ہی زبان دے دی تھی اپنے بھائی کو ۔۔

" ماما پلیز یار دادی سے بولے وہ جاہل لڑکی یہاں نہیں رہے گی میں اسے یہاں برداشت نہیں کر سکتا آپ ڈیڈ سے بات کریں۔۔؟" مرتضیٰ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اس لڑکی کا کچھ کردے اسے نفرت ہو رہی تھی اس بد تمیز لڑکی سے ۔۔۔


" مرتضیٰ بیٹا ریلکس وہ بس کچھ دنوں کے لئے آئی ہے ہمیشہ تھوڑی رہے گی یہاں اماں کی طبیعت کی وجہ سے تمہارے پاپا نے بلایا تھا میں بات کروں گی وہ جلد اس لڑکی کو اپنے گاؤں بھیجے۔۔؟" شازیہ نے اپنے بیٹے کو آرام سے سمجھایا۔ورنہ ان کا خود کا دل تھا وہ لڑکی ایک منٹ یہاں نہ رہے لیکن اپنی ساس کی طبیعت کی وجہ سے مجبور تھی خود تو ان کے لئے گھر میں رک نہیں سکتی تھی۔


"_سیریسلی ماما وہ ایک سیکنڈ مجھے یہاں برداشت نہیں اففف ماما میں کیسے یار ۔۔۔!! مرتضیٰ کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا بڑی مشکلوں سے شازیہ بیگم نے اسے ٹھنڈا کیا تھا ۔۔۔جس پر وہ خاموش ضرور ہوا تھا لیکن اسکے اندر نفرت غصہ بہت بڑھ گیا تھا عابیر کے لئے ۔۔۔

_________★

" بہت مشکل سے سنبھالا ہے آپ جلدی اماں کے لئے کوئی نرس کا بندوبست کریں اور اس لڑکی کو یہاں سے بھیجیں ۔۔۔دیکھا نہیں کیسی جاہلوں والی زبان ہے اسکی بات کرنے کی تمیز نہیں سارا کی بیٹی میں ماں تو ایسی نہیں یہ پتا نہیں کہاں سے آئی ہے ۔۔۔!! شازیہ بیگم نے ناگواری سے عابیر کا ذکر کیا ۔۔۔


" وہ بچی ہے گاؤں سے آئی ہے اسے نہیں پتا ہمارے ماحول کا شہر کا وہ گاؤں سے کبھی باہر نکلی نہیں اس لئے لیکن دل کی بہت صاف ہے میں بہت بار مل چکا ہوں جانتا ہوں اسے تم لوگ تھوڑا ٹائم دو اسے خود کو سب ٹھیک ہو جائے گا اور ہاں مرتضیٰ کو بولو تھوڑا کم غصہ دکھایا کرے ایسا کرتے ہیں کسی بچی کے ساتھ ۔۔۔؟" حمید صاحب تحمل سے انھیں سمجھا رہے تھے اور شازیہ بیگم جانتی تھی ان کی بات کے آگے اس کی کبھی نہیں چلتی۔

________★

" چھوٹے ادا سنو تمہارا وہ بے غیرت پولیس والا بھائی گیا ۔۔؟" وہ آج اماں کے کہنے پر کمرے سے دیر سے نکلی تھی باہر جب سامنے احمد کو بیٹھا دیکھا اسی کے پاس آ گئی تھی ۔۔


" ہاہاہا یار تم سچ میں بہت کیوٹ ہو تمہارے ساتھ تو بہت مزہ آنے والا ہے سچ میں۔۔!! احمد نے اسکی بات پر قہقہہ لگایا۔۔


" تم سب مجھے اچھے لگتے ہو لیکن وہ بےغیرت پولیس والا زہر لگتا ہے میری اتنی بےعزتی کی ہے ۔۔۔ایک سچی بات بتاؤں ۔۔؟" عابیر آس پاس نظرے گھماتے ہوئے پھر اسے دیکھا جو بہت غور سے مسکراتے ہوئے اسکی باتوں پر توجہ دے رہا تھا۔


" تمہارا بھائی ہے بڑا سوہنا پر اندر سے بڑا کالا ہے۔۔ " اسکے سامنے مرتضیٰ کی پرسنیلٹی بہت بری ثابت ہوئی تھی۔ احمد کے زور سے ہنسنے پر گھبرا کر آس پاس دیکھا کہیں نانی اماں ہی نہ پہنچ جائے۔


" ارے نہیں یار وہ دل کا برا نہیں ہے بس غصے کا تھوڑا تیز ہے سنجیدہ مزاج ہے ان کا تم دل خراب نہ کرو ۔۔؟" احمد کے دل میں بھائی کی محبت جاگی تھی ۔۔


" اچھا تم کہتے ہو تو مانتی ہوں لیکن میرا دل بڑا خراب کیا ہے اس بندے نے ۔۔!! عابیر نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔


" کم تو تم نے بھی نہیں کیا کیا تھا بھائی کے ساتھ ۔۔!! احمد کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔۔


" ہاں تو جیسے کو تیسا حساب کی بڑی پکی ہوں میں گھر میں سب سے زیادہ۔!! وہ پھر شروع ہوئی اپنی تعریف میں ۔۔

_______★

" وہاٹ تمہارے گھر والے تمہاری شادی تمہاری اس سو کولڈ کزن سے کروانا چاہتے ہے اور تم نے کیا کہا ۔۔؟" سویرا غصے سے چلا رہی تھی هادیق پر ۔۔


" یار بتا تو رہا ہوں امی کو صاف انکار کردیا ہے لیکن وہ اور ناراض ہوگی ہے کہا خود کرلو جاکے تم ہی بتاؤ کیا کروں یار پریشان کردیا ہے سب نے مجھے یہاں تم غصہ کر رہی ہوں ۔۔؟" ھادیق نے بے بسی سے کہا ۔۔


" ایک آئیڈیا ہے اور یہ ضرور کام کریں گا ۔؟"۔صدر ھادیق کا دوست بولا ۔۔


" کیسا آئیڈیا اور اگر فیل ہوگیا تو ۔۔؟" هادیق نے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


" كياااا تم پاگل ہوں میں شادی کرلوں اور کیا ہوگا بعد میں یہ سب اتنا آسان دیکھ رہا ہے نہیں میں یہ نہیں کر سکتا ۔۔؟" ھادیق نے اسکی بات سنتے انکار کردیا ۔۔


" یس تم اب ایسا ہی کروں گے مجھے بھی یہ سہی لگ رہا ہے ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے سوچ لو هادیق کچھ عرصے کی بات ہے پلیز میرے لئے اسکے بعد ہم ساتھ یہاں سے چلے جائیں گے ۔۔؟" سویرا کو صدر کا آئیڈیا پسند آیا اور اسنے سوچ لیا تھا هادیق کو راضی کر کے ہی رہے گئی ۔۔


" اوکے پھر میری ایک شرط ہے ۔۔۔؟ کیسی شرط ۔۔؟؟ سویرا نے جلدی سے پوچھا ۔۔


" اگر اسکے ساتھ رہتے مجھے اسکی عادت یا محبت ہوگی تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا ۔۔؟" ھادیق نے آگے کا سوچتے ہوئے کہا ۔۔


" تم نے اگر ایسا سوچا بھی نہ تو میں تمہاری جان لے لوں گی لیکن مجھے یقین ہے ایسا کچھ نہیں ہوگا مجھے منظور ہے تمہاری شرط ۔۔!! سویرا جانتی تھی وہ اسے کبھی دھوکہ نہیں دیگا ۔۔دونوں ایک دوسرے کو ایک سال سے پسند کرتے آئے ہیں ۔۔دونوں کی یونیورسٹی کا آخری سال تھا یہ اسکے بعد دونوں کا اپنے خواب پورے کرنے کے بعد شادی کا ارادہ تھا جو کے گھر والوں کی وجہ سے ناکام ہوتا دکھائی دے رہا تھا ۔۔

_______★

" کیا ہوا ہے سر خیر تو ہے آج کل بڑے غصہ میں ہیں ۔۔؟" حوالدار عباس نے اپنے سر کے سرخ چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


" آج کل میرے سامنے ایک خطرناک مجرم گھوم رہا ہے جیسے چاہ کر بھی گرفتار نہیں کر سکتا۔۔!!" مرتضیٰ غصے سے مٹھیاں بھینچ گیا۔


" سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میں مان ہی نہیں سکتا اے ایس پی مرتضیٰ حمید ایک ایسے خطرناک مجرم کو پکڑ نہیں پارہا ۔۔۔؟" عباس حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے نفی کی ۔۔


" عباس کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں صرف دور سے ہی قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن چاہ کر بھی ہم ان تک پہنچ نہیں پاتے اگر پہنچ جائیں تو کچھ لوگ ایسے بیچ میں آتے ہیں ان کی وجہ سے سارا معاملہ خراب ہو جاتا ہے ۔۔۔!! وہ پتا نہیں کون سے خیال میں کس کو قتل کر رہا تھا عباس کے پلے کچھ نہ پڑا ۔اسکی باتیں اسکے اوپر سے گزر گئی تھیں۔۔


" سر فیاض خان نے پھر پنگا لیا ہے ۔۔؟" حوالدار نے اندر آتے اسکے ہاتھ میں فائل دی ۔۔


" سر میں کہتا ہوں اس کمینے کو کسی سنسان سڑک پر بلا کر وہیں دفنا دیتے کسی کو پتا نہیں چلے گا جتنا اس نے لوگوں کا جینا حرام کیا ہوا ہے ۔۔!! عباس نے غصے میں کہا تھا ۔۔


" اس کا کچھ تو کرنا پڑے گا بہت چھوٹ دی ہے اسے ۔۔!! مرتضیٰ نے غصے سے سخت لہجے میں کہا ۔۔

________★

" ہادی کہا گیے تھے پلیز مجھے نہ ایک کام ہے باہر کا لکے چلو ۔۔؟" وش بھاگتی ہوئی اسکے سامنے آئی ۔۔ وش بیس سال کی ایک خوبصورت لڑکی تھی بلیک ڈریس میں اسکا سفید رنگ اور بھی نکھر گیا تھا کندوں سے تھوڑے نیچے سلکی بال کھلے ہوئے سٹائل سے آگے پیچھے رکھے ہوئے تھے وہ بہت دلکش لگ رہی تھی ھادیق آج اسے گہری دلچسپی سے دیکھ رہا تھا اسنے آج تک وش کو اس نظروں سے نہیں دیکھا تا نہ ہی وہ زیادہ بات کرتا تھا جو کے اب اس رشتے کی بات چیت چل رہی تھی تو وہ اب کچھ سوچنے لگا تھا پہلے تو اسے شادی کر کے گھر والوں کو خوش کرنا تھا پھر اسکے بعد کیا کرنا چاہئے وہ اسنے سوچ لیا تھا ۔۔


" کسی اور کے ساتھ جاؤ میں ابھی تھکہ ہوا آیا ہوں یہ نہیں کے کچھ پوچھ لو چائے پانی نہیں بس شوپنگ کا بخار چرا ہے ۔۔!!" ھادیق کا موڈ بدل گیا غصے میں بول کر روم میں چلا گیا ۔۔


ارے حد ہوگی ہے گی بھائی ایک چھوٹا سا کام بولا اس پر بھی نواب صاحب کے نخرے چائے پانی چائیے افف کیا کرو چلو وش بنا دیتے ہے چائے غریب صاحب کے لئے ۔۔!! وش خود سے بڑ بڑا تی ہوئی کیچن میں چلی گئی ۔۔

___________★

" ہاں صاحب زادے کیا فیصلہ کیا ۔۔؟" مصطفیٰ صاحب نے پوچھا ۔۔


" جی ابو میں تیار ہوں پر میری ایک شرط ہے ۔۔؟" هادیق نے فرمابرداری سے کہا ۔۔


" کیسی شرط اور یہ بھی جانتے ہوگے ہم لوگ شادی اسی مہینہ میں کرنا چاہتے ہے ۔۔؟" مصطفیٰ صاحب رعب سے کہا ۔۔


" جی منظور ہے پر میری شرط یہ ہے میں باہر جاکے پڑھنا چاہتا ہوں اور وش کو میں ابھی ساتھ نہیں لیکے جا سکتا ہوں آپ جانتے ہے باہر کے حالات کیسے ہوتے ہے پلیز ابو میں شادی کے دو مہینہ بعد جاؤ گا میں نے پہلے سے انتظام کرلیا ہے اور اپکی عزت کے خاطر میں جلدی شادی بھی کر رہا ہوں ورنہ کون اتنی جلدی کرتا ہے ۔۔!! ھادیق انھے اموشنل بلیک۔میل کر رہا تھا جس میں۔ وہ کافی حد تک کامیاب ہو گیا تھا ۔۔اکلوتا ہونے کا فائدہ اٹھا رہا تھا

___________★

" ہاۓ اللّه جی کیسے ظالم لوگ رہتے ہیں یہاں ان معصوم بچوں کو پانی بھی نہیں دیتے ۔۔!! عابیر باہر لان میں پودوں کو دیکھتے ہوئے بڑبڑائی ۔۔پھر پانی کا پائپ لے آئی اب وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی پانی دیتے ہوئے وہ ساتھ گنگنا رہی تھی ۔۔


" ساری دنیا بھلائے بیٹھی ہوں

یہ نہ سمجھو کے مجھ کو پیار نہیں

تم جو آئے ہو میری دنیا میں

اب کسی کا انتظار نہیں "


ساتھ وہ جو مزے سے گانا گارہی تھی پانی کے پھوارے کو ہر طرف کر رہی تھی کہ سامنے سے آتے مرتضیٰ کے اوپر بارش کردی ۔۔


" وہاٹ دا ہیل ۔۔!! وہ غصے سے سر اٹھا کر سامنے منہ کھولے صدمہ میں کھڑی اس دشمن کو دیکھا ۔۔احمد جو باہر سے آرہا تھا سامنے کا سین دیکھ کر وہیں تھوڑا دور رک گیا تھا ۔۔اب کیا ہونے والا تھا ۔۔


" ہائے اللّه سائیں بچا لے آج میری تو قسمت ہی خراب ہے اس بندے کے سامنے ۔۔!! وہ دل میں اپنے لئے خیریت کی دعا مانگنے لگی اس دن مرتضیٰ کے غصے سے بہت ڈر گئی تھی ۔۔


" تم نے سمجھا کیا ہوا خود کو مجھ سے کوئی پرانی دشمنی ہے جو ہر جگہ میرا خون جلانے آتی ہو۔؟"


" آہہہ اماں ۔۔!! مرتضیٰ نے غصہ میں آگے بڑھتے اسکا بازو پکڑا وہ درد سے چلائی کیوں کے اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔۔


" بھائی چھوڑیں کیا کر رہے ہیں بابا نے دیکھ لیا تو آپ جانتے ہیں پھر ۔۔۔؟" احمد تیزی سے آگے بڑھا ۔۔


" چھوٹے ادا مجھے بچاؤ اپنے بےغیرت بھائی سے آہہہ ۔۔!! وہ جو درد سے کراہ رہی تھی آنکھوں میں نمی بھر گئی تھی درد سے احمد کو دیکھتے ہوئے اسکی زبان پھر پهسلی جسکا جھٹکا پھر اسے ملا مرتضیٰ غصے میں دوسرا بازو بھی پکڑا تھا کہ احمد نے تیزی سے چھوڑایا وہ تیزی سے پیچھے ہوتے ہوئے گہرے سانس لیتی ڈبڈبائی نظروں سے اس ظالم کو دیکھا پانی گرا تھا کوئی بوم نہیں وہ بھی غلطی سے لیکن وہ تو جان کو آرہا تھا ۔۔ اور مرتضیٰ کو لگا آج ہی اپنا سارا حساب لینا چاہیے تھا ۔۔۔


" میں جاؤں گی کل تھانے بتاؤں گی یہ کمینہ پولیس والا مجھے اپنے گھر میں مارتا ہے میں تم کو جیل بھجواؤں گی ۔۔؟" عابیر نے غصے میں روتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے منہ پر ہاتھ پھرتے اسے دھمکی دی ۔۔اسکے پیارے سے انداز پر احمد اپنی ہنسی روکنے کے لئے منہ موڑ گیا اور مرتضیٰ نے ایک پل کو حیرت سے اسے دیکھا دوسرے ہی پل غصے میں سرخ ہوتے آگے بڑھا ۔۔۔


" تمہاری تو آگے سے زبان چلاتی ہوں ۔۔؟


" مم میرے قریب بھی آئے تو پانی سے ماروں گی ۔۔ یا اللّه بچا یہ تو ڈرتا بھی نہیں ۔۔یہ یہ تو میری جان کا دشمن بن گیا ہے اماں نانی بچا مجھے تمہارا کمینہ پوتا مجھے مارنا چاہتا ہے ۔۔۔!! وہ غصے میں کہتی پانی اس پر پھینکتی زور زور سے بولتی اندر بھاگی ۔۔۔مرتضیٰ پھر خود کو بھیگا دیکھ کر اس کے پیچھے بھاگا ۔۔اور احمد ہنس ہنس کر بے حال ہو گیا تھا۔۔

________★

" اماں نانی بچا مجھے اپنے پوتے سے وہ میری جان کو آرہا ہے۔۔!! عابیر ننگے پاؤں اندر بھاگتے ہوئے آتی اماں نانی کے پیچھے چھپ گئی وہ جو اسکی چیخ پر اٹھ کھڑی ہوئی تھی کہ اسکے تیزی سے آتے بولنے پر پریشان ہو گئیں۔شازیہ بیگم بھی پریشان سی ہو گئی۔


" تم باہر نکلو تمہیں تو میں جیل میں ڈال کر سیدھا کروں گا زبان سے صرف گالیاں نکلتی ہیں اسکے یہ سیکھ کر آئی ہے اسے ابھی کے ابھی نکالیں دادو میں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا اسے ۔۔۔؟" مرتضیٰ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ اسکا کچھ کردے غصے میں اسکا سفید رنگ سرخ پڑ گیا تھا ۔۔شازیہ بیگم نے بیٹے کی حالت دیکھتی ایک نظر نفرت سے اس پر ڈالی جو نانی کے پیچھے چھپی ہوئی تھی ۔۔احمد وہاں خاموشی سے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔


" اب کیا کردیا لڑکی تم نے ۔۔؟ نانی اماں نے غصے سے پیچھے موڑ کر اسے دیکھا ۔۔۔


" نانی اماں قسم لے لے میں نے کچھ نہیں کیا وہ تو غلطی سے یہ سامنے آگیا تو پانی ۔۔۔


" اور وہ جو تمہارے منہ سے پھول جھڑتے ہیں۔۔؟"


" وہ تو تم نے غصہ دلایا اس لئے اور نانی اماں اسنے مجھے مارا بھی ۔۔!! اسکے بولنے پر وہ تڑپ کر نانی اماں کو صفائی دی ساتھ ساتھ رونا بھی جاری تھا احمد کو اسکا رونا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا اسے اپنے بھائی پر غصہ آیا پر چپ رہا ۔۔


" اماں مرتضیٰ صحیح کہ رہا ہے آپ اس جاہل لڑکی کو واپس بھیج دیں دو دن نہیں ہوئے اس کا یہ حال ہے آپ خود سوچیں ہمارا اٹھنا بیٹھنا اچھے اسٹینڈرڈ لوگوں میں ہے اور یہ جاہل لڑکی اپنی زبان سے ہمیں شرمندہ کر دے گی۔۔!! شازیہ بیگم نے غصے اور ناگواری سے عابیر کو دیکھا ۔۔ وہ انکی باتوں پر چپ ہو گئی تھی ۔۔مرتضیٰ بےزاری سے ایک نگاہ اسکے جھکے سر پر ڈالتا غصے سے روم میں چلا گیا اور پیچھے شازیہ بیگم بھی جانے سے پہلے سنانا نہ بھولی ۔۔


" اماں آپ سارا کو بلاتی اس سے اچھا تھا اسکے پر کاٹ دیں آپ نے اسکو اپنے لئے بلایا ہے وہیں تک رکھیں پورے گھر میں دندناتی نہ پھرے ۔۔!! شازیہ بیگم آخری زہر کند لفظ استعمال کرتے ہوئے چلتی بنی ۔۔احمد ایک افسوس نگاہ اس پر ڈالتا روم میں چلا گیا اب وہاں دادی اور وہ جھکے سر سے کھڑی تھی۔۔


" کمرے میں آؤ بات کرنی ہے تم سے ۔۔؟" نانی اماں کی سخت آواز پر آنکھیں صاف کرتی انکے پیچھے گئی ۔۔


" تم جانتی ہو نہ تمہاری ماں باپ نے یہاں کیوں بھیجا ہے تمہیں ۔۔؟" نانی اماں کا سخت لہجہ تھا اس نے جھکے سر سے ہاں میں سر ہلایا ۔۔


" میں نے رات کیا سکھایا تھا یہاں رہو گی تو مرتضیٰ شازیہ سے کوئی بات بحث نہیں کرو گی جو کہیں گے آگے سے بس سنتی رہنا اگر یہیں رہنا ہے تو یہ انکا گھر ہے کبھی بھی تمہیں نکال سکتے ہیں اور تم جانتی ہو کیا کہہ کر میں نے تمہیں بلایا ہے میں بیمار ہوں اپنے لئے کسی کی ضرورت ہے اس لئے تمہیں یہی رکنے کو بلایا ہے اور تم ہو کہ مجھے شرمندہ کرنے میں لگی ہو ۔۔؟" نانی اماں سخت ناراض تھیں انھیں بھی اسکی تیز چلتی زبان پسند نہیں تھی پھر اسکے گھر میں باقی سب کو کیسے پسند ہوگی۔۔


" نانی اماں تم ناراض تو نہ ہو میں مافی مانگ لوں گی بس اب گالی بھی نہیں دوں گی لیکن دل میں تو دے سکتی ہوں نہ ۔۔؟" وہ جھک کر نانی اماں کے گھٹنوں کو دبا کر آخر میں شرارت سے بولی جس پر نانی اماں کی ہنسی نکلی۔۔


" دیکھوں بیٹا میں جانتی ہوں تم پڑھی لکھی نہیں ہو لیکن یہاں سب پڑھے لکھے ہیں انھیں یہ لہجہ پسند نہیں ہے اس لئے کوشش کیا کرو ان کے سامنے کم ہی آؤ ٹھیک ہے۔۔!! نانی اماں نے پیار سے اس کے سر پر ہاتھ رکھا وہ جانتی تھیں عابیر دل کی بہت صاف ہے بس زبان کی وجہ سے وہ کسی کو پسند نہیں۔

_______★


نکاح بلکل سادكی سے کیا گیا تھا بس ولیمہ کا بڑا پروگرام رکھا تھا ۔۔ وش بچپن سے جانتی تھی اسکا رشتہ ھادیق مصطفیٰ سے کیا گیا ہے اور اسے اپنے ماں باپ کے فیصلے سے کوئی گلا نہیں تھا وہ خوش تھی جیسے بچپن سے چاہا اسے پایا وہ جانتی تھی ھادیق تھوڑا غصے والا ہے ہمشہ اپنی کرتا ہے پر وہ پاگل تو اسکی محبت میں تھی اسے کوئی مسلا نہیں تھا هادیق سے ۔۔ هادیق کا بس چلتا تو وہ آج بھی بھاگ جاتا یہاں سے لیکن باپ کی وجہ سے وہ راضی ہوا اسے وش سے مسلہ نہیں تھا پر وہ ابی شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اور وش کی وجہ سے یہ سب ہو رہا تھا اسے اب وش سے نفرت ہو رہی تھی جو اسکے خوابوں کی دشمن بن گئی تھی چوٹھی سی عمر میں اسے ایک ذمداری دی گئی ہے ۔۔ ھادیق بائیس سال کا خوبصورت نو جوان تھا پر وہ اپنے جسم کی وجہ سے بڑا مرد لگتا تھا گھنی داڑھی موچھیں لمبا قد ۔۔

_______★

" دادی عابیر کہاں ہے ۔۔؟" احمد اور باقی سب ساتھ بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے لیکن عابیر کو نہ پا کر احمد نے پوچھا حمید صاحب کا بھی دھیان نہیں رہا تھا اب چونک کر اپنی ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔ دادی گھبرا گئی تھیں حمید صاحب کی موجودگی میں کیا کہتیں ناشتہ کرتے مرتضیٰ کا ہاتھ ایک پل کو رکا تھا۔


" بیٹا وہ آرام کر رہی ہے تم ناشتہ کرو۔!! دادی نے کہہ کر ناشتے پر توجہ دی ۔۔احمد کو مزہ نہیں آرہا تھا عابیر کے بغیر۔۔


" میں چلتا ہوں دیر ہو رہی ہے۔۔!! اس کا عابیر کے ذکر پر موڈ خراب ہو گیا تھا۔۔


" ہاۓ اللّه کہاں پھنس گی ہوں اس سے تو اچھا تھا گاؤں میں رہتی یہاں نہ آتی ایک تو یہ نانی اماں ڈانٹ سے باز نھیں آتیں بس اللہ انہیں تھوڑی اور لمبی زندگی دے ان کے سہارے تو یہاں ہوں۔۔!! عابیر منہ بناتے ھوئے پتا نھیں کیا کیا بڑبڑا رہی تھی۔

___________★


" سنو ادھر آؤ ۔۔؟" مرتضیٰ جو رات کے کھانے کے بعد باہر لان میں ٹہل رہا تھا اسے اپنی دھن میں باہر آتے دیکھ کر جلدی بولا کیوں کہ وہ اسے وہاں دیکھ کر واپس موڑ رہی تھی ۔۔


" جی میں ۔۔؟؟ اس نے نہ سمجھی سے رک کر اسے دیکھتے ہوئے خود پر انگلی رکھی ۔۔


" نہیں تمہارے پیچھے جو چڑیل ہے اسے بلایا ہے راستہ دو آنے کا اسے ۔۔؟" مرتضیٰ اس کے انداز پر جل کر بولا ۔۔ لیکن بہت جلد اپنے ہی بولنے پر پچھتایا ۔۔


" آہہہ اللّه سائیں جی بچا لے مجھے اماں نانی آہ ۔۔۔!! مرتضیٰ کے ذرا پوچھنے پر وہ ڈر کر اچھلی وہی خوف سے منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے چیخنے لگی ۔۔


" شش پاگل لڑکی چپ ہو جاؤ کیا جاہلوں والی حرکت ہے ۔۔!! مرتضیٰ تیزی سے آگے بڑھتے نیچے بیٹھ کر اسے منہ سے ہاتھ ہٹایا ۔۔۔


" نہیں تم بولے میرے پیچھے بھوتنی ہے وہ مجھ کو لے جائے گی ۔۔۔؟" عابیر خوف سے پھیلی آنکھیں بڑی بڑی کرتی بولی آنکھوں سے آنسوں بہنے شروع ہوگئے تھے۔مرتضیٰ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا اتنی سی بات پر رونا ڈرنا اسے تو لگا یہ لڑکی جتنی زبان کی تیز ہے بہادر بھی اتنی ہوگی پل میں اسکی غلط فہمی دور ہوئی تھی۔ ساتھ ہنسی بہت آئی پر ضبط کر گیا تھا ۔۔


" تمہیں پتا ہے بھوت کس کے پاس آتے ہیں ۔۔؟" مرتضیٰ کے پوچھنے پر وہ چپ ہوتے نفی میں سر ہلایا تھا ۔۔۔ اسکے دونوں ہاتھ ابھی تک مرتضیٰ کے ہاتھوں میں تھے وہ نیچے بیٹھی ہوئی تھی جب کے وہ گھٹنوں کے بل سامنے بیٹھا تھا۔رات کی چاندنی انکے چہرے پر ہلکی روشنی پھیلائے ہوئے تھی اسکا سانولا رنگ خوبصورت نین نقش چمک رہیں تھے۔مرتضیٰ کو اسے تنگ کرنے میں مزہ آرہا تھا ۔۔


" جو لوگ زیادہ زبان چلاتے ہیں گالیاں دیتے ہوئے فضول گوئی کرتے ہیں ان کے پاس اکثر بھوت چڑیلیں ملنے آتے ہیں۔۔!! مرتضیٰ اسکا خوف زدہ چہرہ دیکھتا ہوا گھمبیر لہجے میں بولا تھا۔وہ جب سے آئی تھی وہ اسکی زبان سے ہر وقت گالی سنتا تھا اسے آتی تو زیادہ بری والی نہیں تھی لیکن اسکا یہ لہجہ مرتضیٰ کو زہر لگتا تھا ۔۔


" پر میں ایسی نہیں ہوں میں اچھی ہوں ۔۔!! افف عابیر کی معصومیت اس وقت مرتضیٰ اسکی ہر بدلحاظی جیسے بھول گیا تھا اتنی معصوم ادا تھی اس کی۔


" کس نے کہا تم اچھی ہو۔۔؟


" وہ چھوٹے ادا کہتے ہیں میں اچھی ہوں ۔۔!! مرتضیٰ کو اسکے انداز پر ہنسی آنے لگی تھی جو وہ لب دبا کر ضبط کر گیا۔سر جھٹک کر وہ چونکا اسکے ہلکے سانولے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں دیکھ کر ۔۔پھر ایک نگاہ اسے دیکھا جو ابھی تک اسے ہی دیکھ رہی تھی وہ گڑبڑا کر تیزی سے دو قدم پیچھے ہوا اسکے انداز نے عابیر کو پھر ڈرا دیا ۔۔۔


" اٹھو جاؤ اندر ۔۔؟" اسے عجیب سا احساس ہوا ایک پل کو۔۔


" پر وہ بھوت جی میرے پیچھے ہے ۔۔؟" عابیر کی خوف زدہ آواز پر اسے دیکھا پھر ایک قدم قریب آیا ۔۔


" اگر تم گالیاں دینا چھوڑ دو گی تو وہ نہیں آئے گا میں کہہ دوں گا اسے اب جاؤ وہ چلا گیا ۔۔!! مرتضیٰ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہتا اندر چلا گیا وہ حیرت صدمہ سے نکلتی ڈرتے ہوئے ایک نظر آس پاس ڈالتے ہوئے بھاگی ۔۔

______

" ہاہاہا مجھے یقین نہیں آتا جن وہ بھی تمہارے پیچھے ۔۔؟" احمد کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا وہ رات کا قصہ سنا رہی تھی اسے ۔۔۔


" چھوٹے ادا یقین کرے میں سچی بول رہی رات کو جن ہمارے پاس تھا تمہارے بھائی نے بچایا مجھے ۔۔!! عابیر چڑ کر پھر اسے دیکھا جو اب دبی دبی ہنسی ہنس رہا تھا ۔۔


" اچھا تم تو کہتی ہوں بھائی خود ایک جن ہے پھر تم کو کیسے بچایا اس نے ۔۔؟" احمد جان بوجھ کر تیز بولا تھا کیوں کے مرتضیٰ تیار سا ہو کر باہر جانے لگا تھا کے اسکی آواز پر رک کر آنکھیں چھوٹی کرتا ان دونوں کو دیکھا عابیر کی اسکی طرف پشت تھی ۔۔وہ اب عابیر کا جواب سننا چاہتا تھا ۔۔پتا نہیں کیوں اپنے ہی احساس سمجھ نہیں پایا ۔۔


" ارے ہاں یہ تو میں سوچا نہیں کیا پتا وہ کمینہ پولیس والا جن اپنے ساتھی کو بلایا ہوں مجھ کو مارنے کو بولا ہوگا تمہارے کمینے بھائی ۔۔۔۔۔ عابی عابی ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔!! وہ جو ابھی مزید اسے گالیاں دینے کے موڈ میں تھی کیوں کے اسے لگا رات کو اسے بچایا نہیں تھا اسنے ۔۔لیکن اسکی بات بیچ میں ہی احمد نے کاٹ دی وہ پیچھے اپنے بھائی کی آنکھوں میں خون دیکھ سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ مرتضیٰ کو پھر غصہ دلا دیا اسکی باتوں نے وہ اسے پھر گالی دے رہی تھی وہ چاہ کر بھی خود پر ضبط نہیں کر پایا تیزی سے اسکی طرف گیا ۔۔۔


" تمہیں سمجھایا تھا نہ مجھے گالی مت دینا کیا بگاڑا ہے میں نے تمہارا دل تو کرتا ہے تمہاری زبان حلق سے کھینچ لوں۔۔۔!! وہ انتہائی سخت غصہ میں تھا اسکی سرخ آنکھیں بتا رہی تھیں اسکا ضبط۔۔ عابیر کا بازو اسکی مظبوط گرفت میں تھا ۔۔۔وہ دھک دھک کرتی دل سے حیرت صدمہ میں تھی وہ جن کیسے پہنچ گیا اسکے اوپر ۔۔۔ احمد تو بھائی کے غصہ سے ڈر گیا تھا ۔۔۔اتنا غصہ اسنے آج تک نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔


" چچ۔۔چھوڑے ۔۔۔ادا بچا مجھے ۔۔۔!؟" تیز دھڑکتے دل کے ساتھ اٹک اٹک کر بولتی احمد سے مدد طلب کی مرتضیٰ کی گرفت میں اسے اپنا بازو بے جان ہوتا محسوس ہوا ۔۔۔


" بھائی چھوڑے کوئی دیکھ لے گا تماشا لگ جائے گا ۔۔۔!! احمد ہوش میں آتے تھوڑا قریب آیا ہمت سے بولا تھا کہ مرتضیٰ کی سرخ مرچوں والی آنکھوں میں دیکھتے شرمندہ سا چپ ہوا ۔۔عابیر درد سے رونے لگی تھی ۔۔


" اماں اماں مجھ ۔۔۔!! وہ ہمت کرتی تیز آواز میں اماں نانی کو بلانے لگی تھی کے مرتضیٰ نے اسے گھوما کر منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ دیا ایک ہاتھ اسکا منہ پر دوسرا بازوں میں تھا اسکی پشت مرتضیٰ کے سینے سے لگی ہوئی تھی وہ خود کو چھڑوانے کی کوشش میں ہلکان ہو رہی تھی ۔۔


" بھائی یہ یہ کیا کر رہے ہیں ۔؟" احمد آگے بڑھ تھا کہ۔۔


" خبردار احمد آگے بڑھے تو اسے تو میں جیل میں ڈال کر سیدھا کروں گا ۔۔لے جا رہا ہوں اسے اگر کسی کو کچھ بھی بتایا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ۔۔۔!! احمد عابیر کی تو جیسے جان ہی نکل گئی اسکی بات سے احمد چاہ کر بھی روک نہیں پایا وہ اسکی گرفت میں پھڑپھراتی رہی ۔۔۔

_______★

ھادیق آپ کہا جا رہے ہے ۔۔وش ھادیق کو تیار ہوتا دیکھ کر پوچھا ۔۔


اپنی دوسری بیوی کے پاس تمہیں کوئی مسئلا ہے ۔۔؟" هادیق نے چڑ کر کہا ۔۔


میں آپ کی بیوی ہوں پہلی اور آخری سمجھے اگر آپنے دوسری کے بارے میں سوچا تو میں اپنے ساتھ آپ کی بھی جان لیلو گئی ۔۔!! وش نے غصے میں کہا اسے ھادیق کے منہ سے دوسری بیوی سنا اچھا نہیں لگا ۔۔وہ شروع سے اپنی چیزو محبت میں بہت پوزیسیوز تھی ۔۔


تمہیں نہیں لگتا تمہاری زبان شادی کے بعد کچھ زیادہ چلنے لگی ہے ۔۔؟" ھادیق اسے اپنے قریب کرتے ہوئے کہا وش شادی کے بعد بدل گئی تھی وہ ھادیق سے ضد غصہ بہت کرنے لگی تھی یہ شاید اسکی محبت میں کرتی تھی انکی شادی کو ایک مہینہ ہو گیا تھا اور اس ایک مہینہ میں ھادیق اسکا بہت خیال بھی رکھتا تھا اسے پیار سے باتیں کرنا کبھی غصہ بھی کر جاتا تھا پر وش تو پہلے ہی اسکی محبت میں دیوانی تھی اسکے غصے سے چھوٹی باتوں پر ناراض نہیں ہوتی تھی وہ ھادیق کی ہر بات مانتی تھی اس سے پوچھ کر یہاں وہاں جانا وش کو تو اسکی عادت ہونے لگی تھی بہت وہ رات کو کبھی دیر سے آتا تو وہ اسکے انتظار میں بیٹھی رہتی ھادیق کو اسکی یہ عادت اچھی لگتی تھی وہ اسکا بہت خیال کرتی اسکا انتظار کرتی لیکن دوسرے ہی پل اسے غصہ آنے لگتا تھا خود پر وہ اس سے محبت نہیں کرنا چاہتا تھا اسے اب کسی بھی حال میں باہر جانا تھا جو کے اب بہت جلدی ہی یہ کام ہونے والا تھا ھادیق نے شادی سے لے کر اب تک سب سے پیار سے بات کرنا انکا خیال رکھنا وش کا خیال رکھنا سب اپنے باپ کو خوش کرنے کے لئے کیا تاکے جب وہ جائے تو کوئی بھی اسے نہ روکے ۔۔


میں بھی چلو آپکے ساتھ ۔۔؟" وش نے معصومیت سے کہا ۔۔


نہیں میں باہر دوستوں کے ساتھ جا رہا ہوں رات کو دیر سے آؤ گا انتظار مت کرنا اوکے ۔۔!! ھادیق ایک نظر اسے دیکھ کر باہر چلا گیا ۔۔ وش گہری سانس لی وہ جانتی تھی ھادیق کل باہر چلا جائے گا پڑھائی کے لئے اور وہ ابی اسکے ساتھ نہیں جا سکتی پر وہ جتنا دل کو سمجھاتی اتنا اسکا دل اداس ہوجاتا وہ اسکے دور جانے کا سوچتے ہی تڑپ جاتی پر کسی سے کہ نہیں پاتی تھی ۔۔ اسکے کبھی یو اجنبی رویے پر دل بہت دکھ تا تھا اسکا ۔۔

" احمد بیٹا عابیر کو دیکھا کافی دیر سے اسے ڈھونڈ رہی ہوں ۔۔؟" نانی اماں کب سے آواز دے رہی تھی جواب نہ ملنے پر خود ہی باہر آگئی تھی اسے دیکھنے ۔۔


" دد ۔۔دادی وہ وہ ۔۔!! احمد جو کب سے پریشان بیٹھا تھا عابیر کے لئے دادی کی آواز پر گھبرا گیا تھا ۔۔عابیر کو گئے ہوئے ایک گھنٹہ ہو گیا تھا احمد کی تو جان سولی پر لٹکی ہوئی تھی ۔۔۔


" گئی ہو گی باہر کہی سیر سپاٹے کرنے اور کیا دیکھا نہیں اماں ہے بھی کتنی تیز ۔۔؟" شازیہ بیگم اندر آتے ناگواری سے کہا تھا۔


" نہیں بہو وہ یہاں کے راستوں سے واقف تھوڑی ہے ایسے کیسے بنا بتائے چلی گئی ۔۔۔ جا احمد پتر باہر جاکے دیکھ بھائی کو بھی کال کرو اس لڑکی نے مجھے پریشان رکھنے کی قسم کھائی ہے جیسے ۔۔۔!! دادی کو غصہ آرہا تھا اسکی بیوقوفی والی حرکت پر ۔۔۔ شازیہ بیگم کا کہنا تھا وہ باہر گئی ہے گھر سے خود اکیلی جیسے انہوں نے دیکھا تھا ۔۔۔ احمد کو تو موقع چاہیے تھا وہاں سے بھاگنے کا بس ۔۔

_______★

" بھائی پلیز کال اٹھا لے پلیز ۔۔۔!! احمد کب سے اسے کال کر رہا تھا جو اٹھانے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔۔


" ہیلو بھائی پلیز عابیر کو لے آئیں دادی بابا پریشان ہوں رہے ہیں اسکے لئے پلیز بھائی ہم نے کہا وہ خود کہی گئ ہوئی ہے کچھ بھی کریں اسے لے آئیں اس بار اگلی بار میں وعدہ کرتا ہوں وہ ایسا کچھ نہیں کہہ گی آپ کو پلیز ایک بار بھائی ۔۔۔!! احمد کی پریشان گھبراتی ہوئی آواز سے لگ رہا تھا وہ لوگ بہت زیادہ پریشان ہیں اس وقت ۔۔۔ مرتضیٰ بولا کچھ نہیں کال کاٹ دی ۔۔۔احمد غصے میں بالوں میں ہاتھ پھیرتا رہ گیا ۔۔


" اتنی جلدی نہیں مس عابیر بخش ۔۔!! مرتضیٰ ایک نظر بند دروازے پر ڈالتا باہر نکل گیا تھا ۔۔۔

___

" دیکھے پولیس والے ادا مجھے چھوڑ دے اب گالی نہیں دوں گی کچھ نہیں بولوں گی میں جانے دے ۔۔۔؟" عابیر نے روتے ہوئے کہا تھا اسے وہ غصے میں گاڑی تیز رفتار سے چلا رہا تھا ۔۔


" ایسے نہیں تمہارا علاج اچھے سے کرنا ہوگا پھر جاکے تم سدھرو گی ۔۔؟" مرتضیٰ کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا ۔۔


" مجھے جانے دو میں نہیں آؤں گی چلی جاؤں گی اپنے گھر اب چھوڑ دے ۔۔۔؟" عابیر نے ڈرتے ہوئے کہا تھا ۔۔اسکو اب جیل جانے سے ڈر لگ رہا تھا ۔۔


" بےفکر رہو تمہارے گھر بھی جلد چھوڑ آؤں گا۔.؟" ایک تیز نظر اس پر ڈالی ۔۔


" میں نانی اماں ، ماموں سائیں کو بتائوں گی کہ تم مجھ کو مارنے والے ہوں ۔۔؟" اسے دھمکی دی پر ڈر تو صرف یہاں تو وہاں تو سکون ہی سکون تھا ۔۔


" سائیں جی مجھے معاف کر دے اب نہیں بولوں گی کوئی گالی نہیں دوگی میری قسم لے لو میں نہیں بولوں گی تم جو کہوں گے میں وہی کروں گی مجھے گھر لے جاؤ ۔۔جیل میں نہ ڈالوں میرے گھر والوں کو کیسے پتا چلے گا میں جیل میں ہوں مجھے نہ سزا دو چھوڑ دو ۔۔؟" اب تو اسکے رونے میں تیزی آگئی تھی مرتضیٰ نے ایک نظر اسے دیکھا جو منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے رو رہی تھی وہ گہرا سانس لیتا گاڑی روک گیا پھر اسے دیکھا جو بلند آواز سے رو رہی تھی ۔۔


" چپ ۔ چپ بند کرو یہ رونا ایسی حرکت کرتی کیوں ہوں بعد میں پچھتانا پڑے عابیر اگر چپ نہیں ہوئی تو میں تمہیں اسی گن سے شوٹ کردونگا اور لاش یہی اسی جگہ دفنا دونگا کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا تم کہا غائب ہوگئ ۔۔ سمجھ آئی بات دوبارہ مجھے گالی دینے کا سوچنا بھی مت مجھے کیا کسی کو بھی نہیں ۔۔ تمہاری زبان پر اب گالی لفظ استعمال نہ ہوں آئی بات سمجھ ۔۔۔؟" مرتضیٰ کی ڈھار پر وہ خوف زدہ ہوتی گاڑی کے دروازے سے چپک گئ تھی بڑی بڑی آنکھوں میں خوف تھا اسکے ہاتھ میں گن دیکھ کر اسکی زبان کے ساتھ وجود بھی ساکت ہو گیا تھا ۔۔اور مرتضیٰ صاحب نے تو آج دل کھول کر اپنا بدلہ لیا تھا ۔۔ اسکی آنکھوں کے اشارے پر وہ ڈر سے جلد اثابت میں سر ہلا گی ۔۔ایسے میں وہ بہت کیوٹ لگی تھی لیکن یہاں جذبات ہوتے تو شاید پسند آتا یہ انداز ۔۔


"بند کرو یہ ڈرامہ جاہل لڑکی اس بار تمہیں معاف کر رہا ہوں صرف اس بار اگلی بار اگر تمہارے منہ سے گالی نکلا تو یاد رکھنا زبان کھینچ لوں گا ۔۔۔!! مرتضیٰ نے غصہ میں اسے بازو سے کھینچ کر قریب کرتے ہوئے سرخ آنکھوں میں دیکھ کر سختی سے کہا عابیر ہچکی لیتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ، اسے مرتضیٰ کے اس روپ نے بہت خوف زدہ کردیا تھا ۔۔ وہ بہت اچھے سے اسے ڈرا دھمکا کر گھر لایا تھا احمد تو اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا جب کہ وہ تو اب جتنا ہوتا اتنا مرتضیٰ سے دور بھاگتی تھی ۔۔

______★

" خالہ میں نے ماما نے آپ کو بہت مس کیا ۔۔!! وہ خوبصورت سی ماڈل لڑکی اپنی خالہ سے پیار سے ملتے ہوئے کہا ۔۔


" می آلسو بےبی اب سے تم یہیں رہو گی کہیں نہیں جانے دوں گی ۔۔؟" شازیہ بیگم اپنی بهانجی سے ملتے ہوئے پیار سے کہا ۔۔


" مرتضیٰ دیکھو کون آیا ہے ۔۔؟" شازیہ بیگم مرتضیٰ کو اندر آتے ہوئے دیکھ کر کہا ۔۔وہ مسکراتا ہوا ماں کو دیکھ کر انکے پاس آیا پیار سے انکا ماتھا چوما پھر دادی سے ملا ۔۔


" میں بھی ہوں یار مجھ سے نہیں ملو گے ۔۔؟" ہانیہ اسکے خوبصورت سے چہرے کو دیکھ کر اسکے قریب آتے ہی گلے ملی باقی سب تو مسکرا رہے تھے بس دادی کو یہ حرکت پسند نہیں آئی جب کے دور سے دیکھتی عابیر کی حیرت سے آنکھیں پھٹ گئیں وہ تو پہلے ہی ہانیہ کی خوبصورتی سے متاثر ہوئی تھی اب تو اسکے بولڈنیس پر منہ پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔


" کیسی ہوں ہانی کب آئی ۔۔؟" مرتضیٰ صوفے پر بیٹھ گیا پولیس کی وردی میں اس کی پرسنیلٹی بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔ ہانیہ کا دل دھڑکا تھا وہ تو بس اسے ہی دیکھ رہی تھی باتیں کر رہی تھی ۔۔آس پاس تو جیسے کوئی ہو نہ ہو ۔۔ شازیہ بیگم تو بہت خوش نظر آرہی تھی جبکہ دادی منہ بناتی ہوئی اٹھ کر روم میں چلی گئیں۔ مرتضیٰ نے محسوس کیا تھا دادی اس سے ناراض ہو گئی ہے ۔۔ احمد اندر آتے ہی پہلے عابیر کو دیکھا پھر اسی کے پاس چلا گیا جو سامنے حیرت سے مرتضیٰ کو قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔


" بھائی بہت پیارا ہنستے ہیں ہے نہ ۔۔!! احمد اسکی نظریں سامنے دیکھتا شرارت سے بولا ۔۔ وہ بھی ٹرانس کی کیفیت میں سر ہلا گئی ۔۔ اسے مرتضیٰ شروع سے ہی پسند تھا بس اپنی زبان سے وہ دور ہوگی تھی اس سے ۔۔ وہ اپنی سنجیدہ مزاج کی وجہ سے ہمیشہ اپنی میں رہا تھا ۔۔


" تمہارا بھائی ہنستا ہے مجھے دیکھ تو اسے غصہ آتا نہ جانے کون سا جن چڑ جاتا ہے انھیں ۔۔؟" عابیر نے منہ بناتے ہوئے احمد سے کہا ۔


" ہاہاہا یار تم بہت کیوٹ ہو میں تمہیں اب سب سکھا دوں گا اوکے اور ہاں بھائی برے نہیں بس غصے کے تیز ہے ۔۔؟" احمد اسکے گال کھینچتا پیار سے ہنستے ہوئے اسے سمجھایا تھا۔


" تم مجھ کو سب سکھادو گے سچی میں ۔۔؟" وہ مسکرادی ۔۔


" اچھا چلو میں تمہیں ملاتا ہوں اپنی کزن سے آؤ ۔۔؟" احمد اسکا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھا تھا کہ عابیر رک گئی ۔۔


" نہیں تمہاری بھائی پھر مجھ کو مارے گا مجھے اب ڈر لگتا ہے تمہارے بھائی سے ۔۔!! وہ ڈر سے تیزی سے بولی تھی احمد اسکے چہرے پر ڈر دیکھ سکتا تھا ۔۔


" میں تمہارے ساتھ ہوں آجاؤ بھائی نہیں بولتے کچھ ۔۔۔!! وہ اسے کھینچتے ہوئے حال میں لایا تھا ایکدم مرتضیٰ کا مسکراتا ہوا چہرے غصے میں بدلہ شازیہ بیگم ناگواری سے اسے دیکھا ہانیہ حیرت سے اس عجیب لڑکی کو دیکھا جو بلوچی ڈریس میں سر پر دوپٹہ ہلکے سانولے رنگ کی لڑکی سے اسے کراہیت محسوس ہوئی ۔۔۔ لیکن وہ ٹھٹھکی تب جب اسکی نظر احمد کے ہاتھ میں اسکا ہاتھ دیکھا ۔۔


" احمد کیسے ہو اور یہ ۔۔؟ وہ اٹھ کر احمد سے ملتے ہی اسکی طرف ناگواری سے دیکھا ۔۔


" یہ ہماری کزن ہے سارا پھوپھو کی بیٹی عابیر نام ہے ۔۔!! احمد نے خوشی سے اسکا تعارف کروایا تھا وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھی تھی اسے ملنے کے لئے کہ ہانیہ بدک کر پیچھے ہوئی احمد کو اسکی یہ حرکت پسند نہیں آئی جب کہ عابیر کی مسکراہٹ غائب ہوئی ۔۔ مرتضیٰ موبائل پر جھکا ہوا تھا ۔۔


" او بس بس مل کر اچھا لگا ۔۔!! ہانیہ جبراً مسکراتے ہوئے واپس اپنی جگہ پر بیٹھی ۔۔۔


" عابیر تم جاؤ اماں کے پاس انھیں کچھ چاہیے تو نہیں ۔۔!! شازیہ بیگم اسے کہتی وہ سر ہلا کر چلی گئی ۔۔۔ احمد خاموشی سے مرتضیٰ کے ساتھ بیٹھ گیا ۔۔۔


" خالہ یہ عجیب سی لڑکی یہاں پر رہتی ہے ۔۔؟" ہانیہ کا لہجہ ناگوار تھا ۔۔۔شازیہ بیگم نے اسے پوری بات بتائی ۔۔ اس نے بیزاری سے بات سنی ۔۔


" ہانیہ وہ عجیب نہیں بہت پیاری ہے ۔۔!! احمد کو ہانیہ کا انداز برا لگا تھا ۔۔ مرتضیٰ نے ایک نظر احمد کو دیکھا وہ غصہ میں تھا اسے بہت کم غصہ آتا تھا کسی پر جب سے عابیر آئی تھی وہ اسکے ساتھ زیادہ پایا جاتا تھا مرتضیٰ نے یہ بات نوٹ کی تھی انکی آپس میں اچھی دوستی ہوگئی ہے ہاں البتہ وہ اب اسکے سامنے کم آتی تھی اگر آجاتی تو اپنی زبان استعمال نہیں کرتی تھی اس لئے وہ بھی خاموش تھا اب صرف دادی کے لئے اسے یہاں برداشت کرتا تھا ۔۔ تین ماہ ہوگئے تھے عابیر کو یہاں وہ پہلے بہت باتیں کرتی تھی جب سے اسنے دیکھا تھا یہاں اس سے صرف تین لوگ ہی بات کرنا پسند کرتے تھے دادی ، احمد اور حمید صاحب باقی مرتضیٰ شازیہ بیگم بات تو کیا دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے اسے وہ بھی اب عادی ہوگئی تھی انکے لہجے کی کچن کا کام وہ دل لگا کر کرتی تھی انکی کک سے وہ بہت اچھے اچھے کھانے بنانے سیکھ گئی تھی پھر خود بناتی اسکے ہاتھ میں کمال کا ذائقہ تھا جسے صرف احمد اور حمید صاحب ہی سراہتے تھے ۔۔۔

_______

" اماں یہ کمینی عورت کون ہے مجھ سے ملی نہیں اور تم کو پتا ہے مجھے دیکھ کر منہ چڑا رہی تھی ۔۔!! عابیر غصے میں نانی اماں کو بتایا تھا ۔۔


" مجھے بھی نہیں پسند شازیہ کی بہن کی بیٹی ہے یہاں گھومنے آئی ہے دبئی میں رہتی ہے اس لئے اسکا مزاج الگ ہے سب سے ۔۔!! نانی اماں نے اسے دیکھا جو صرف انکے سامنے دل کھول کر بہت بولتی تھی ۔۔


" عابیر بیٹی تم یہاں ہو ہمارے ساتھ اب تم ڈر کر خود کو چھپانے کی ضرورت نہیں ہے تم سمجھ رہی ہو میں کیا کہہ رہی ہوں ۔۔۔؟" نانی اماں بہت غور سے اسے دیکھ کر کچھ سوچتی ہوئی اسے بولی وہ ان کے پاؤں دباتی چونک کر دیکھا نانی اماں کی بات وہ بہت اچھے سے سمجھ گئی تھی اسکے راز سے صرف وہ اور حمید صاحب ہی واقف تھے۔


" چھوڑیں اماں ڈر جائیں گے یہاں سب ۔۔!! وہ شرارت سے ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔نانی اماں بھی مسکرادی ۔۔


" ڈرا دو پھر اس ہانیہ کو بھی پتا چلے میری بچی کسی سے کم نہیں لاکھوں میں ایک ہے ۔۔!! نانی اماں پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہا تھا انھیں عابیر کا سادہ سا لہجہ اپنا پن بہت پسند تھا وہ دل میں اسکے لئے خوشیوں کی دعا گو ہوئی ۔۔

_____

" یہ کیسا ہے ۔۔ ؟" وش ریڈ سمپل سا ڈریس دکھایا ۔۔


" اچھا ہے یہی لو ۔۔ سچ میں اوکے پھر یہ پیک کروادے ۔۔ !! خوشی سے مسکراتے ہوئے کہا ۔۔


" آئس کریم کھاؤ گی ۔۔؟" هادیق کو اسکے ساتھ سکون مل رہا تھا اسکی باتیں سننا اسکی معصوم خوائش اسکا دل نہیں کر رہا تھا وہ گھر جائے بس اسکے ساتھ چلتا رہے وہ اپنے جذبات سمجھ نہیں پا رہا تھا ۔۔


" تم یہی رکو میں لےکے آتا ہوں ۔۔!! وہ آگے بڑھ گیا وش اسکے انتظار میں سائیڈ پر کھڑی ہو گئی ۔۔


" دلکش حسینہ اکیلی کیوں کھڑی ہوں ہمارے ساتھ چلو ۔۔؟" دو لڑکے اسکے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور اپنی گندی زبان استعمال کرنے لگے ۔۔


" یہ یہ کیا بدتمیزی ہے میں اپنے شوہر کو بلاؤ گئی جاؤ یہاں سے ۔۔!! وش ڈرتے ہوئے پیچھے ہوئی ۔۔


" میری جان اسے بلانے کی کیا ضرورت ۔۔! ابھی وہ کچھ کہتا ایک پنج زور سے اسکے منہ پر لگا لڑکا کرہ کر نیچے گر گیا ۔۔


هادیق آئس کریم لیتا ایک نظر پیچھے ڈالی کے اسکے آنکھوں میں خون اتر آیا وہ غصے میں تیزی سے ان کے سامنے آیا اور ان لڑکوں کو مارتا چلا گیا وش ڈر سے روتے ہوئی اسے پیچھے کرنے لگی ۔۔


" تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری بیوی سے بات کرنے کی نہیں چھوڑو گا تم لوگوں کو ۔۔!! هادیق کی غیرت جاگ گئی تھی ۔۔


" هادیق چھوڑے مر جائے گے وہ پلیز چلے یہاں سے ۔۔!! وش روتے ہوئے کہا ۔۔کچھ گارڈز آگئے انہیں چھڑوانے ۔۔


" تم ٹھیک ہوں نہ کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے اوکے رونا بند کروں ۔۔!! هادیق اسکے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا وش روتی ہوئی اسکے گلے لگ گئی ۔۔


" شش بس میں ہوں نہ کچھ نہیں ہوا ۔۔ !! ھادیق نے خاموش کرواتے ہوئے گاڑی میں بٹھایا ۔۔


__________★

" هادیق میں نے آپ کی ساری چیزے رکھ دی کچھ رہ تو نہیں گیا نہ بتا دے پھر رکھ دو ۔۔؟" وش اسکا سامان پیک کرتے ہوئی پوچھا تھا ۔۔


" ایک چیز رہ گئی ہے ۔۔!! هادیق اسے دیکھتا ہوا اسکے قریب آیا ۔۔


" کیا لیکن میں نے تو سب رکھ دیا ہے مجھے تو کچھ یاد نہیں آرہا اچھا بتائیں کون سی چیز ہے پھر ڈال دو ۔۔؟" وش سامان دیکھتے ہوئے کہا ۔۔


" خود کو ڈال دو یہ ایک چیز رہ گئی ہے یہاں جسے میں اپنے ساتھ نہیں لےکے جاسکتا ۔۔!! هادیق نے اسے اپنے حصار میں لیا ۔۔


" ہاہاہا هادیق آپ نے تو ڈرا دیا مجھے لگا شاید کچھ بھول گئی میں ۔۔ وش نے قہقے لگاتے ہوئے کہا ۔۔


" آپ آرام سے جائے اور پھر وہاں جاکے مجھے بلا لینا میں آجاؤ گی ۔۔!! وش کی آنکھوں میں نمی آئی ۔۔ هادیق کا دل تیز دھڑک رہا تھا وہ اپنی فیلنگ سمجھ نہیں پا رہا تھا اسکا دل نہیں کر رہا تھا وش کو چھوڑ کر جائے پر اپنے خواب کا سوچتیں ہی وہ سب کی ذات بھول جاتا تھا ۔۔ وش کے ماتھے پر بوسہ دیتا ہوا باہر نکلا اور نیچے اپنے ماں باپ سے مل کر ایک نظر وش کو دیکھا جو اسے مسکراتی ہوئی بائے کر رہی تھی اسنے بھی مسکرا کر ہاتھ ہلایا ۔۔

_________★

" عابی کیا کر رہی ہو سارا دن گھر میں رہتی ہو بور نہیں ہوتی ۔۔؟" احمد ابھی باہر سے آیا تھا کہ اسے دیکھا جو باہر اکیلی بیٹھی تھی اسے دیکھ کر خوش ہوئی ۔۔


" تم آ گئے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی ۔۔ نانی اماں سو گئی ہے اس لئے میں یہاں بیٹھی تھی ۔۔۔!! عابیر نے اسے وجہ بتائی اپنی تنہائی کی ۔۔


" تو پھر تم ٹی وی دیکھ لیا کرو نہ ۔۔؟" احمد نے اس کا مسئلہ حل کیا ۔۔


" ارے ہاں وہ میں سوچا نہیں پر وہ مجھے کھولنی نہیں آتی ۔۔؟" عابیر کو ٹی وی بہت پسند تھا لیکن اسے چلانا نہیں آتا تھا وہ سمارٹ ٹی وی تھا اس لئے وہ اکثر نانی اماں کے ساتھ دیکھتی تھی جب وہ خود دیکھتی تھی تو ۔۔


" چلو آؤ میں تمہیں سکھاتا ہوں ۔۔؟" احمد اسکا ہاتھ پکڑ کر اندر لاؤنچ میں لے آیا پھر اسے ٹی وی کھولنے کا طریقہ بتایا جسے وہ بہت غور سے دیکھ اور سمجھ رہی تھی ۔۔۔


" اچھا بتاؤ کیا دیکھو گی ۔۔؟"


" کچھ بھی اس میں کیا کیا آتا ہے ۔۔؟" وہ حیرت خوشی سے ٹی وی کو دیکھ رہی تھی جو اس وقت کوئی چینل پر بریک چل رہی تھی ۔۔


" اس میں بھائی آتے ہیں مرتضیٰ حمید دیکھو گی ۔۔؟" احمد شرارت سے پوچھتا اسکے خوف زدہ چہرہ دیکھا مرتضیٰ کا ڈرانہ دھمکی وہ سب پل میں آنکھوں کے سامنے آگیا تھا ۔۔۔


" نہیں نہیں ادا میں نے ٹی وی ہی نہیں دیکھنی اس کو بھی تمہارے کم۔۔ کھڑوس بھائی نے نہیں چھوڑا ۔۔!! اسکی تیز رفتار سے چلتی زبان سے پھر گالی نکلتی کے بریک لگا دی خود ہی ۔۔


" ہاہاہا یار مذاق کر رہا ہوں تم بھائی سے کچھ زیادہ نہیں ڈرنے لگی ۔۔؟" احمد نے اسکی دکھتی رگ پر وار کیا تھا ۔۔


" مم ۔میں ڈرتی نہیں وہ تو اماں نانی کہتی ہے اور تم جانتے ہوں نہ تمہارا بھائی مجھ سے لڑتا ہے مارتا ہے خود کتنا برا ہے اور تم مجھے کہہ رہے ہوں ۔۔؟" عابیر خفا سی ہوئی تھی ۔۔


" عابی تم نہ بہت معصوم ہو تمہیں چلاک ڈرامہ دیکھنا چاہیے اس میں تم بہت کچھ سیکھو گی ۔۔ تم نہ یہ دو چینل دیکھو گی اس میں جو ڈرامہ آتا ہے وہ دیکھنا اوکے ۔۔!! احمد اسے بہت پیار سے سکھا رہا تھا اسے ایک پاکستانی ایک انڈین چینل بتایا جس پر وہ ڈراماز دیکھ سکتی ہے ۔۔اسکی خوشی کا تو کوئ ٹھکانا نہیں تھا ۔۔

" یہ کون ہے ۔۔۔؟ مرتضیٰ نے اپنے گھر میں ایک انجان خوبصورت لڑکی کو دیکھتے ہوئے حیرت سے پوچھا تھا ۔۔ سفید رنگ بڑی بڑی آنکھیں خوبصورت کالے گھنے بال کی لمبی ناگن جیسی چوٹی وہ دیکھنے میں بہت حسین کوئی لڑکی تھی جو لان میں حمید صاحب کے ساتھ باہر بیٹھی باتیں کر رہی تھی سر جھکا ہوا تھا ہلکا سا ۔۔


" ہائے اللّه سائیں ۔۔تم نشہ وغیرہ تو نہیں کر آئے۔۔؟" وہ کتنی دیر بعد بولی تھی اسکی آواز نے مرتضیٰ کو ہوش کی دنیا میں لوٹایا تھا ۔۔۔۔ اور وہ بولتے ہوئے پھر بھول گئی اسکی دھمکی کو جو تین ماہ پہلے دی تھی اس نے ۔۔


" ماموں سائیں تمہارا بیٹا نشہ کرتا ہے یہ دیکھو ابھی بھی نشہ کر کے آیا ہے اس لئے تو مجھے پہچان نہیں پا رہا ۔۔؟" وہ حمید صاحب سے حیرت کو انگیز میں دیکھتے ہوئے بولی تھی پھر اسے گھورا ۔۔ جس کا پھر ضبط آزما رہی تھی ۔۔


" تم نے تمیز نہیں سیکھی ہے بات کرنے کی ۔۔۔؟" مرتضیٰ نے غصے میں گھورا تھا ۔۔ ایک پل کو اسکی خوبصورتی بہت متاثر کر گی تھی لیکن ہمیشہ کی طرح اسکی زبان کام خراب کر دیتی تھی ۔۔ اسی وقت احمد کی حیرت انگیز آواز آئی ۔۔۔


" تم اچانک سے گوری کیسے ہو گئی راتوں رات کون سی کریم لگائی تھی یار کہی فائزہ بیوٹی کریم تو نہیں لگائی ۔۔؟" احمد اسکے الگ روپ پر عش عش کر اٹھا ۔۔۔


" ہاہاہا نہیں نہیں چھوٹے ادا میں اپنے گاؤں کی سب سے حسین لڑکی ہوں ایسا سب کہتے ہیں وہاں میرے ابا سب سے سوہنے تھے نہ میں بھی انہی پر گئی ہوں ۔۔ لیکن وہاں کا وڈیرہ بڑا کمینہ انسان ہے اس نے مجھے دیکھ لیا تھا جب میں تھوڑی چھوٹی تھی تب سے کمینہ ذلیل انسان مجھ پر گندی نظر رکھے ہوئے تھا اس لئے اماں نے مجھے کالا رنگ لگا دیا وہ کہتی تھی میں اسکی نظروں میں نہ آؤں لیکن یہاں تو مجھے کوئی خطرہ نہیں اس لئے میں نے منہ دھو لیا ۔۔!! عابیر کی یہی تیز رفتار سے چلتی زبان مرتضیٰ کو زہر لگتی تھی کہیں بھی انسان کو شرمندہ کردیتی تھی آس پاس کے لوگوں کا خیال تک نہیں رہتا تھا چھوٹے بڑوں کے سامنے کیسے زبان چلانی ہے ۔۔ اسکی ہر بات پر گالی ضرور شروع ہوتی تھی یہ مرتضیٰ نے نوٹ کیا تھا ۔۔ اب بس مرتضیٰ کی زندگی کا مقصد یہی بن گیا تھا اسکا قتل کرنا اور اتنی ہی خاموشی سے اسے مارنا کسی کو خبر تک نہ ہو اس کا بہت شدت سے دل چاہا ابھی اٹھا کے جیل میں ڈال دے اسے یا پھر اسی وڈیرے کو اسکے سامنے پیش کردے ۔۔۔


" تو کیا اتنے سالوں سے تم نے منہ نہیں دھویا تھا ۔۔؟" احمد کی چیخ نکل گئی تھی صدمہ سے ۔۔


" ارے نہیں وہ تو میں دھوتی تھی پھر یہ لیپ لگا دیتی تھی نہ تم کو میں اچھی نہیں لگی کیا ۔۔!! عابیر حیرت سے اسے دیکھا جو بڑی آنکھوں سے اسے صدمہ سے دیکھ رہا تھا ابھی تک اور مرتضیٰ کی خون خوار نظریں اسی پر تھی ۔۔


" یار تم بہت حسین ہو اتنی معصوم خوبصورتی تو میں نے کہیں دیکھی ہی نہیں کیوں بھائی سچ کہا نہ ۔۔!! احمد کا لہجہ اب شرارت سے بھر پور تھا ۔۔۔ مرتضیٰ خونی نظروں سے اسے دیکھتا اندر چلا گیا تھا وہ اسے دیکھتا ضرور اسکی خوبصورت لیکن اس نے گہری دلچسپی سے نہیں دیکھا تھا زیادہ ورنہ آج تو اپنا دل ہار جاتا اتنے خوبصورت نین نکش پر ۔۔


" لگتا ہے آج پھر کسی سے رشوت لے آیا ہے بےغیرت پولیس والا ہونہہ ۔۔!! وہ منہ بناتے ہوئے بڑبڑائی ۔۔ عابیر کو پتا نہیں کیوں اسکا نظر انداز کرنا اب پسند نہیں تھا دل شدت سے چاہتا تھا اس شخص سے باتیں کرے لیکن اس نے اپنا خوف ہی ایسا ڈالا تھا دل میں کیا ہی کہتی ۔۔۔

رات کو کھانے پر حمید صاحب نے سب کو بتا دیا تھا عابیر کے رنگ روپ کے بارے میں آدھی کہانی تو وہ تھوڑی دیر پہلے سنا چکی تھی باقی کی حمید صاحب نے پوری کرلی ہانیہ تو اسکی بڑی بڑی خوبصورت کاجل سی آنکھیں دیکھتی اسکے رنگ و روپ میں وہ گلال وہ واقعی بہت حسین تھی ہانیہ اور شازیہ بیگم نے دل میں اعتراف کیا تھا اس بات کا لیکن ہانیہ کو جلن ہونے لگی تھی اس سے وہ تو پہلے ہی مرتضیٰ کو پٹانے آئی تھی اس بار لیکن اب عابیر کے سامنے سب جاتا ہوا دِکھ رہا تھا اسے ۔۔۔ آج مرتضیٰ نے ایک بات نوٹ کی تھی وہ پھر سے باتیں کرنے لگی تھی جیسے شروع دن میں کرتی تھی لیکن بیچ میں اسکے ڈر سے وہ کم ہی اسکے سامنے بولتی تھی اب اگر پھر وہ شروع ہوئی تھی تو کیا وہ پھر اسے گالیاں دے گی یہی سوچتے ہوئے وہ اسکا ہنستا ہوا چہرہ دیکھا جو سانولے رنگ میں بھی ایک کشش رکھتی تھی تو آج تو اسکی کشش ایک الگ ہی روپ میں تھی ۔۔ وہ جلد نظریں چرا کر اٹھ گیا تھا۔۔

________★

" عابیر ۔۔!! اپنے نام کی پکار پر اسنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سانس لینا بھول گی ۔۔ مرتضیٰ غصے میں اسے گھور رہا تھا ۔۔


" ہائے اللّٰه میری ہی کیوں قسمت خراب ہے اس بندے کے سامنے صبح والا بدلہ تو نہیں لیگا عابی بھاگ جا نہیں تے مرے گی ۔۔!! وہ خود سے دل ہی دل میں بڑبڑائی تھی اس سے پہلے بھاگتی مرتضیٰ قریب آتے رک کر اسے گہری نظروں سے دیکھنے لگا تھا ۔۔


" اپنی زبان دکھاؤ ۔۔؟" وہ سنجیدہ تھا ۔۔


" ہے ک۔کیوں ۔۔ مم ۔۔میری زبان کیوں چاہیے ۔۔؟" عابیر پہلے حیرت سے دیکھتے ہوئے بولتی تیزی سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لئے اسکا کیا بھروسہ ۔۔


" اسی زبان پر تین مہینے سے تالا لگا ہوا تھا آج کس نے کھولا ۔۔؟" مرتضیٰ ایک قدم قریب آیا وہ اس وقت کچن میں تھے عابیر پیچھے ہوتی سلپ سے لگی ۔۔ مرتضیٰ کو آج پھر موقع ملا اپنا اپنا حساب برابر کرنے کا ۔۔ وہ جھکا عابیر کی خوف سے آنکھیں باہر آنے کو تھی ۔۔


" مم ۔۔میں معافی مانگتی اب نہیں بولوں گی قسم لے لو مجھے مارو مت ۔۔!! منہ پر دے ہاتھ نہیں ہٹائے تھے آواز گھوٹی گھوٹی سی تھی ۔۔ ڈر سے آنکھوں میں نمی دل کی دھڑکن تیز تھی ۔۔ مرتضیٰ کو مزہ آیا اسکے ڈرے ہوئے روپ سے ۔۔۔


" پہلے بھی تم نے وعدہ کیا تھا اور تم پھر بھول گی ۔۔ سوچ رہا ہوں رات کو اندھیرے میں تمہیں اٹھا کر یہاں سے بہت دور لے جاؤ وہاں آرام سے تمہارا قتل عام کروں کسی کو خبر تک نہیں ہوگی کوئی عابیر کریم بخش تھی ۔۔!! مرتضیٰ کے خوف ناک اندازے بیان نے تو اسکی جان نکال دی آنکھوں میں سیلاب اترا نفی کرتے ہوئے جیسے التجا کی تھی ۔۔۔ وہ تھوڑا اور جھکا فاصلہ تھوڑا ابھی تھا انکے بیچ سانسوں کی تپش چہروں پر تھی ۔۔۔ مرتضیٰ اسکی خوبصورت بڑی کاجل جیسی آنکھوں میں ڈر دیکھ سکتا تھا چہرہ شرم حیا ڈر سے سرخ تھا ۔۔ گھنی پلکیں رقص کر رہی تھی ۔۔ مرتضیٰ چونکا یہ کیا تھا کیسا احساس تھا اسکی قربت میں وہ کیا کر رہا تھا نہیں وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتا تھا وہ نفرت کرتا ہے اس سے خود کے احساسات پر ضبط کرتا تیزی سے پیچھے ہوا تھا اسکے پیچھے ہونے پر عابیر تیزی سے بھاگنے والی تھی کہ اسکا دوپٹہ سر سے سرکا وہ رکی سانس لینا چاہا تھا کے پھر روک گئی ۔۔ مرتضیٰ کے ہاتھ میں اسکی گھنی ناگن جیسی چوٹی تھی ۔۔


" ایک اور موقع دے رہا ہوں صرف دادی کیلئے تم انکی وجہ سے یہاں ہوں اب اگر تمہارے زبان استعمال ہوئی مجھے کوئی بھی الٹا سیدھا لفظ بولا تو یاد رکھنا ابھی جو بھی کہا سب سچ کر دونگا ۔۔؟" گہری سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔


" مم ۔۔میں نہیں بولوں گی ک۔کسی کو نہیں بتاؤ گی جج ۔جاؤ ۔۔!! آواز میں ڈر تھا پیچھے مڑنے کی غلطی نہیں کی تھی وہ تو اسکے چوٹی کے چھوڑنے کے انتظار میں تھی ۔۔مرتضیٰ ایک گہری دلچسپ نظر اسکے ہاتھ میں موٹی سی چوٹی پر ڈالی اسی نرماہت محسوس کرتے ہوئے دل کے کونے میں خواہش جاگی وہ ان بالوں کی خوشبوں محسوس کرتا ۔۔


" اا ۔ادا سائیں چ ۔چھوڑے ۔۔؟" عابیر کی آواز پر ہوش میں آتے تیزی سے چھوڑتا وہاں سے نکل گیا عابیر سے پہلے ہی خود کی بہکتی کہفیت پر ہزار پر لعنت بھیجی تھی اس نے ۔۔


" کیا ہو گیا تھا مجھے آج ۔۔ کیا میں پاگل ہوں نہیں بیغرت ہوں شاید یہ کیا کر رہا تھا ۔۔ نہیں مجھے اس سے نفرت ہے یہ سب کچھ نہیں ہاں ۔۔!! روم میں آتا ہزار بار پھر خود پر لان تان کرنے لگا تھا وہ واقعی آج کا یہ احساس سمجھ نہیں پایا تھا وہ تو اسے ڈرانے گیا تھا اسکی پھر سے چلتی زبان کو بریک لگانے یہاں تو اپنا ہی بریک فیل کر آیا تھا ۔۔

______★

" مرتضیٰ کیا تم مجھے باہر گھمانے لے جاؤ گے پلیز انکار مت کرنا میں اتنے ٹائم بعد آئی ہوں اور تم ہو کہ ٹائم ہی نہیں دیتے ۔۔!! ہانیہ منہ بناتے ہوئے لاڈلے انداز میں کہا جسے وہ اسکی ہر بات سرآنکھوں پر رکھتا ہو ۔۔


" ہانی ابھی نہیں یار کل چلتے ہیں کچھ دن مجھے چوٹھی کے ملے ہیں آرام تو کرنے دو ۔۔۔!! مرتضیٰ بےزاری سے بولا تھا وہ ویسے ہی کچھ دن کی تھکان اتار رہا تھا ۔۔


" پولیس والے ادا میں چائے لاؤں ۔۔؟" عابیر کی آمد نے مزید موڈ خراب کردیا ہانیہ کا تو وہی مرتضیٰ کو جھٹکا لگا اسکے میٹھے سے لہجے کے ساتھ اسکے نئے نام و روپ پر ۔۔


" وہاٹ پولیس والے ادا سیریسلی تمہیں اور کوئی نام نہیں ملا ۔۔۔؟" مرتضیٰ نے حیرت سے پھر غصے میں کہا اسے ۔۔


" وہ سیریلی کیا ہوتا ہے ۔۔؟" عابیر حیرت سے پوچھا ۔۔۔۔ اسکے انداز پر مرتضیٰ کو ہنسی تو آئی پر دبا گیا ۔۔


"جاہل لڑکی یہ پڑھے لکھوں کی سمجھ آنے والی باتیں ہیں اور ہاں اس کا نام مرتضیٰ حمید ہے تو یہی بلاؤں اپنے فضول سے نام مت دو سمجھی ۔۔۔!! ہانیہ کا بس نہیں چل رہا تھا وہ عابیر کو تھپڑ مار دے ایک تو اسکے بیچ آگئی وہ کیسے بھی کرکے اسے منا لیتی لیکن یہ پتا نہیں کہا سے ٹپک پڑی تھی ۔۔


" مرتضیٰ پلیز ہم باہر چل کر چائے پیتے ہیں پلیز چلو نہ ۔۔!! وہ جو عابیر کو دیکھنے میں مصروف تھا ہانیہ کے قریب آتے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ کر لاڈ سے کہنے پر ہوش میں آیا ۔۔۔ عابیر اس بےشرم لڑکی کی حرکت پر حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔۔


" کیوں تم لوگوں کو گھر پر چائے نہیں مل رہی جو باہر جاؤ گی ۔۔میں اچھی چائے بناتی ہوں ۔۔؟" دونوں نے حیرت سے عابیر کو دیکھا جیسے عجیب بات کہہ دی ہو ۔۔ پر عابیر ایک چیز سمجھ گی تھی مرتضیٰ کے ساتھ دشمنی نہیں کرنی ورنہ اپنی موت کو خود دعوت دینے جیسی بات ہوئی اب وہ جتنا ہوتا اسکی نظروں میں اچھی بننا چاہتی تھی ورنہ اسکی لاش تو کسی کو نہیں ملے گی یہ وہ دھمکی اپنے دل و دماغ میں جیسے بیٹھا گی تھی ۔۔


" اچھا ٹھیک ہے جاؤ تم چائے لے آؤ پھر چلتے ہیں ۔۔۔!! مرتضیٰ کہتا ایک نظر اسے دیکھ جو خوش ہوتی مزے سے اندر بھاگی ۔۔


" سیریسلی مرتضیٰ اگر نہ جانے کے بہانے ہیں تو بتا دو ۔۔!! ہانیہ کو غصہ آنے لگا تھا وہ دیکھ رہی تھی مرتضیٰ پہلے اس سے اتنی بات نہیں کرتا تھا اب یہ لڑکی تو جیسے ہاتھ دھو کر اسکے پیچھے پڑھی ہو ہانیہ کی سوچ یہاں سے کچھ زیادہ آگے جا رہی تھی ۔۔۔

_______

" کیا ہوا اماں نانی تم پریشان ہو ۔۔؟؟ عابیر نے نانی اماں کو پریشان اور خاموش دیکھ کر فکر مندی سے پوچھا ۔۔


" ہاں بیٹا وہ کمینہ وڈیرہ تمہارے باپ کو پھر تنگ کر رہا ہے اسکا فون آیا تھا کہا جلد تمہاری شادی کروا دوں کہیں پھر شاید وہ تمہاری جان چھوڑ دیگا ۔۔!! نانی اماں پریشان سی بولی ۔۔


" نانی اماں مجھے گاؤں جانے دو وہ کمینہ منحوس انسان میرے ابا کو کچھ کر نہ دے تم مجھ کو بھیج دو میں دیکھ لوں گی اس کو ۔۔!! عابیر باپ کا سنتی تڑپ گئی تھی وہ کیسے نہ ہوتی پریشان جانتی تھی وہ ظالم انسان کہاں کسی کو بخشتا ہے۔


" نہیں تو پاگل ہے میں بات کرتی ہوں حمید سے اسے آنے دو ۔۔!! نانی اماں حمید صاحب سے بات کرنے کا ہی آخری حل نکالا ۔۔۔

_______★

" یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہو گیا ہے اماں ۔۔ کہا بھی تھا بخش کو آجاؤ یہیں تم لوگ بھی لیکن وہ اپنا گاؤں چھوڑنے کو تیار بھی نہیں ہے ۔۔۔!! حمید صاحب بھی پریشان ہوگئے تھے بات سن کر۔۔


" ماموں سائیں آپ مجھے واپس بھیج دے وہ ظالم شخص میرے ابا کو جینے نہیں دیگا ۔۔۔!! عابیر رونے والی ہوگئی تھی دل نے چاہا ابھی اڑ کر چلی جائے اپنے گاؤں ۔۔۔


" نہیں بیٹا بخش نے سختی سے منع کیا ہے تمہیں وہاں لے جانے سے وہ ایک دو روز میں خود آئے گا آپ فکر مت کریں ہم ہیں آپ کے ساتھ ۔۔۔!! حمید صاحب اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے سمجھایا ۔۔


" السلام علیکم کیا ہوا خیر ہے سب پریشان بیٹھے ہیں ۔۔۔!! مرتضیٰ دادی کی روم میں آتے دیکھا جہاں تینوں خاموش پریشان بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔


" حمید تم عابیر کیلئے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈو اس کی جلد شادی کروا دیتے ہیں پھر اس کمینے کو شاید چین ملے ورنہ سب کا جینا حرام کر دے گا ۔۔۔!! دادی افسوس سے سر ہلاتے ہوئے کہا مرتضیٰ حیرت سے باپ پھر ایک نظر عابیر کو دیکھا جو آج بہت خاموش اور اداس نظر آئی ۔۔۔


" جی اماں دیکھتا ہوں کوئی اچھا سا رشتہ ۔۔!! حمید صاحب نے ہاں میں ہاں ملائی پھر مرتضیٰ کے حیرت زدہ چہرے کو دیکھ کر اسے سب بتایا جس نے غصہ میں مٹھیاں میچیں تھیں ۔۔


" آپ لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا یہ اتنا آسان معاملہ نہیں تھا بابا ۔۔!! مرتضیٰ کو غصہ آیا آخر گھر کی عزت کی بات تھی ۔۔


_________★

بیٹا غصے میں سارے مسلے حل نہیں ہوتے اور تم وہاں کے علاقہ کے پولیس والے نہیں ہو وہاں کے پولیس والے بھی انکے اشارہ پر چلتے ہیں اس لئے تو یہ حل ہے کسی کی بھی گھر کی عزت کو لے جاتے ہیں فخر سے وہاں کوئی قانون نہیں چلتا ۔۔!! حمید صاحب نے افسوس سے اسے گاؤں کے حالات بتائے جسے سن کر مزید غصہ آنے لگا تھا ۔۔


" لوگوں کے دل میں خوف خدا ختم ہو گیا ہے بیٹا اس لئے تو یہ حالات چل رہے ہیں، ہم لوگوں نے اس لئے عابیر کو اپنے پاس رکھا ہوا ہے لیکن اب اس کے ماں باپ چاہتے ہیں اس کی شادی ہو جائے کہیں تو شاید وہ کمینہ انسان خاموش ہو جائے ۔۔۔!! نانی اماں نے سب بتایا اسے ان سب کی باتوں کے بیچ آج وہ خاموش تھی جسے صرف اپنے گھر کی فکر تھی ۔۔مرتضیٰ نے اسکا اداس چہرہ دیکھا جو اچھا نہیں لگا وہ خاموش کہاں رہتی تھی ہمیشہ ہنستی مسکراتی ہی اسکے سامنے آئی تھی اور آج وہ خود کے ساتھ دوسروں کو بھی اداس کر رہی تھی اسکی خوبصورتی میں واقعی بہت کشش تھی ۔۔

_______★

" کیا ہوا بیٹا تم پریشان لگ رہے ہو ۔۔؟" دادی نے حمید صاحب کو پریشانی سے اندر آتے دیکھا ۔۔


" جی اماں وہ عابیر کو بلائیں کچھ بات کرنی ہے ۔۔!! حمید صاحب پریشان گھبرائے ہوئے تھے۔


" ہوا کیا ہے بیٹا آرام سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں بیٹھو میں عابیر کو آواز دیتی ہوں عابیر ۔۔۔!! دادی حمید صاحب کو پاس بیٹھا کر عابیر کو آواز دی ۔۔


" اماں اس کمینہ انسان نے بخش پر گولی چلا دی ہے اسکی حالت خراب ہے اس لئے عابیر کو ملانے لے جا رہا ہوں ۔۔!! حمید صاحب کو آج ہی صبح فون آیا تھا جس پر وہ تیزی سے گھر بھاگے آئے ۔۔


" یا اللّه خیر یہ سب کیا ہو گیا بیٹا میں بھی ساتھ چلتی ہوں یہ سب کیسے ہو سکتا ہے میں چل کر بات کرتی ہوں کہیں معاملہ زیادہ خراب نہ ہو جائے ۔۔۔!! دادی نے دل پر ہاتھ رکھا وہی اندر آتی عابیر کے کانوں نے یہ بات سن لی وہ تڑپتی ہوئی ان کے قریب آئی۔


" مم ۔۔ ماموں سائیں یہ کیا کہ رہے ہیں ابا کو کیا ہوا مجھے مجھے لے چلیں ان کے پاس ۔۔۔!! وہ روتی ہوئی بولی دادی اور حمید صاحب کو اس کی حالت پر بہت افسوس ہوا حمید صاحب نے دادی کو ساتھ چلنے سے منع کردیا اور عابیر کو ساتھ لے گئے ۔۔

_______★

" آج تو بہت خاموشی ہے گھر میں خیر ہے ۔۔؟" مرتضیٰ جاب سے واپس آیا تو گھر کی خاموشی دیکھ کر حیرت ہوئی ورنہ ہمیشہ عابیر محترمہ کا ڈھول بجتا رہتا تھا ۔۔


" ہاں بھائی میں بھی بور ہو گیا ہوں اور آپ کو پتا ہے میں عابیر سے ناراض ہوں بغیر بتائے گاؤں چلی گئی ۔۔!! احمد ناراض سا بولا وہ جسے ہی گھر آیا اسے پتا چلا عابیر اپنے گاؤں جا چکی ہے پوری بات اسے پتا نہیں تھی ۔۔


" کیاا کب کیسے کس کے ساتھ ۔۔؟" مرتضیٰ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا حیرت اور فکر مندی سے پوچھا ۔۔ احمد نے حیرانگی سے بھائی کے نئے روپ کو دیکھا ۔۔


" بیٹا آرام سے تمہارے بابا کے ساتھ گئی ہے اسکے باپ کی طبیعت خراب تھی اس لئے انہوں نے بلوایا ہے اور کبھی نہ کبھی تو جانا تھا اسے تم لوگ پریشان کیوں ہو رہے ہوں ۔۔!! مسز حمید نے آدھی ادھوری بات بتائی پر مرتضیٰ کے لہجے نے ان کو پریشان کردیا تھا ۔۔


" پھر بھی ماما ایسے کوئی جاتا ہے کیا اور بابا مجھے تو ساتھ لے جاسکتے تھے میں نے دیکھنا تھا عابیر کا گاؤں ۔۔!! احمد سخت ناراض تھا عابیر سے ۔۔


" بھائی ہم چلے ساتھ عابیر کے گاؤں ۔۔؟" احمد پرجوش انداز میں بولا تھا ۔۔


" بس خاموش کیا بچوں جیسی ضد ہے اپنی پڑھائی پر دھیان دو اور تم جا کے فریش ہو میں کھانا لگواتی ہوں ۔۔!! مسز حمید نے دونوں کو جھڑکا ۔۔


" دادو کہاں ہیں ۔۔؟؟


" اپنے روم میں تم پہلے فریش ہو پھر مل لینا ۔۔!! مسز جانتی تھی وہ دادی کے پاس گیا تو وہ اسے پوری بات بتا دیں گی انھیں اپنا یہ بیٹا بہت پیارا تھا اس لئے اس کے فیصلے وہ خود چاہتی تھی لیکن شوہر ساس کے ہوتے ہوئے کیسے وہ خود صرف اس پر حق جتانا سمجھتی تھیں ۔۔


" السلام علیکم دادو کیسی ہیں ۔۔؟" مرتضیٰ دادو کے روم میں آیا وہ پریشان سی بیٹھی ہوئی تھیں ۔۔


" کیا بتاؤں بیٹا کیسی ہو سکتی ہوں اپنے بچے جب پریشان ہوں تو ماں کیسے خوش رہ سکتی ہے ۔۔!! دادی اداس ہوئی


" کیا ہو گیا ہے کوئی بات ہوئی ہے یہ بابا اچانک گاؤں کیوں گئے ہیں۔۔!! مرتضیٰ کو جو بات دل میں کھائی جا رہی تھی وہ پوچھ بیٹھا ۔۔


" بیٹا کیا بتاؤں کیا ہو رہا ہے سب ۔۔!! دادی گہرا سانس لیتی اسے ساری بات بتائی جس کا چہرہ غصہ میں سرخ ہو گیا تھا ۔۔


" اور آپ اب بتا رہی ہیں اتنی بڑی بات ہوگئی اور بابا انہوں نے مجھے بتایا تک نہیں ایسے ہی چل دیے مجھے ساتھ لے جاتے اگر وہاں پھر کچھ مسئلہ ہو گیا تو ۔۔!! مرتضیٰ کو رہ رہ کر اپنے باپ کے فیصلہ پر غصہ آنے لگا تھا ۔۔


" ہاں بیٹا وہی سوچ کر پریشان ہو رہی ہوں تم کال کرو پوچھو اس سے نہیں تو ہم چلتے ہیں مجھے بھی یہاں سکون نہیں مل رہا چل کر اپنی بچی کو دیکھ لوں ۔۔!! پریشانی سے دادی کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی جنہیں مرتضیٰ نے بہت سمجھا کر دوائی کھلا کر سلایا پھر باپ کو کال کی ۔۔۔


" بابا آپ بتا کر جا سکتے تھے کیا آپ مجھے اتنا غیر ذمہ دار سمجھتے ہیں کیا فائدہ میرا پولیس میں ہونے کا جب اپنوں کو ہی پروٹیکٹ نہ کر پاؤں ۔۔؟" مرتضیٰ نے غصہ میں کہا ۔۔


" بیٹا اس وقت پریشانی ہی ایسی تھی کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن اب تمہاری یہاں مجھے بہت ضرورت ہے تم ابھی کسی کو مت بتاؤ جلدی سے یہاں پہنچو وہ لوگ عابیر کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔۔!! حمید صاحب کی نم پریشان آواز پر وہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تھا کہ انکی آخری بات پر اسکا خون کھول اٹھا ۔۔۔


" وہاٹ بہت غلط کر رہے ہیں یہ لوگ ان کو تو اب میں بتاؤں گا میں آرہا ہوں بابا آپ پریشان نہ ہوں ۔۔!! مرتضیٰ تیزی سے روم میں گیا جلدی جلدی اپنا سامان پیک کرنے لگا اسے کسی بھی حالت میں یہاں سے نکلنا تھا جلد ۔۔


" بھائی کہا جا رہے ہیں سب خیر ہے ۔۔؟" احمد مرتضیٰ کو باہر نکلتا دیکھ کر جلدی سے پیچھے آیا ۔۔


" ایک مشن پر جا رہا ہوں دعا کرنا کامیاب ہو کر لوٹوں اور ہاں گھر کا خیال رکھنا صبح سب کو بتا دینا ابھی سو جاؤ ۔۔!! مرتضیٰ احمد کو اچھے سے گھر کی ذمہ داری سمجھا کر گاڑی میں بیٹھا تھا ۔۔۔اب اس کی منزل اسے کہاں لے جائے گی یہ تو اسے بھی نہیں پتا تھا قسمت کیا کھیلنے والی ہے ان کے ساتھ ۔۔۔

________★

" ماموں سائیں ابا ٹھیک تو ہے نہ ۔۔۔؟"


" ہاں بیٹا جی آپ دعا کریں فکر نہ کرو میرے بچے سب ٹھیک ہوگا ۔۔!! وہ کب سے باپ کی پریشانی میں رو رو کر ہلکان ہوئی تھی وہ اپنے گاؤں کے ہی ہسپتال میں تھے ۔۔


" ابا تم ٹھیک ہو نہ میری جان نکل گئی تھی ۔۔!! عابیر باپ کو دیکھ کر روتے ہوئے ان کے پاس بیٹھی انھیں گولی چھو کر گزری تھی جس وجہ سے آج طبیعت سہی تھی ۔۔


" میری دھی میں ٹھیک ہوں روتے نہیں میرا بچہ۔۔!! باپ نے پیار سے اسے پاس بیٹھا کر تسلی دی ۔۔


" عابیر تمہیں آتے ہوئے کسی نے دیکھا تو نہیں ایسے آ گئی اپنا حلیہ درست کرتی اب اگر پھر اس کمینے ذلیل انسان کی نظر پڑ گئی تو ۔۔!! اماں اسے دیکھتے ہوئے پریشانی سے گویا ہوئی سب کی توجہ بھی ان کی طرف اٹھی تھی ۔۔


" اماں تو فکر نہ کر چل عابیر تجھے گھر لے چلتی ہوں وہ چل کر اپنا کالا رنگ لگا دے ۔۔!! اس کی بہن عابدہ نے دیکھ کر کہا سب کی بات ٹھیک لگی گھر تھوڑا ہی دور تھا اس لئے پیدل جانا تھا عابیر اماں کی بڑی چادر لے کر نکلی تھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ کچھ لوگ راستے میں ملے ۔۔


" ارے یہ تو وہی چھوری ہے جو وڈیرہ کو چاہیے تھی دیکھ آج خود چل کر سامنے آئی ہے اور آج تو اپنے حسین روپ میں واہ ۔۔!! ان بندوں کے منہ سے ایسی بات سن کر دونوں گھبرا گئیں تھیں عابیر کی طبیعت تو ویسے ہی کل سے باپ کی طبیعت کا سن کر خراب تھی گھبراہٹ پریشانی رونے سے بوجھل پن محسوس کر رہی تھی ۔۔


" سن آبی ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی چل بھاگتے ہیں۔۔!! اس کی بہن کو حالات دیکھتے ہوئے یہی سہی لگا ۔۔


" لیکن آپی ہم ڈریں کیوں ہم چلتے ہیں اپنے گھر چل ان کمینون کی زبان تو کبھی بند نہیں ہوگی ۔۔!! عابیر کو غصہ ہی آگیا تھا ان لوفرو کی بات سن کر بہن کا ہاتھ پکڑ کر جسے ہی آگے بڑھی تھی کے وہ تین لوگ آگے آگئے تھے دونوں گھبرا کے رک گئی تھی ان میں سے ایک نے عابیر کی بہن کو دھکہ دے کر گرا دیا دونوں عابیر کے منہ پر ہاتھ رکھ کر گھسیٹتے ہوئے لے گے وہ چیختی رہی گھٹی آواز میں خود کو چھڑوانا چاہا لیکن بے سود ۔۔ باعیر کی بہن نے بہت چاہا اسے بچانے کیلئے انکی گاڑی کے پیچھے بھاگ بھاگ کر تھک گی ۔۔

" اماں اماں وو وہ لوگ ع۔۔۔عا۔۔۔عابیر کو اٹھا کے لے گئے ہیں ۔۔!! عابدہ واپس گھر والوں کے پاس جاتے سب معاملہ بتایا انھیں۔۔ حمید صاحب نے پریشانی سے مرتضیٰ کو کال کر کے بلایا تھا سب دعا کر رہے تھے عابیر کے لئے ماں باپ بہت پریشان تھے بیٹی تھی عزت تھی کیسے نہ پریشان ہوتے روتے ہوئے اللّٰه سے دعا گو ہوئے ۔۔ تھوڑی دیر بعد انھیں گھر جانے کی اجازت مل گئی تھی اب سب پریشان گھر میں بیٹھے ہوئے تھے حمید صاحب تو بیٹے کے انتظار میں تھے رات ہو گئی تھی سارے محلے والوں میں باتیں بننی شروع ہو گئی تھیں ماں باپ شرمندگی سے ڈوب مرنے کو تھے اب ۔۔


" السلام علیکم پھوپھو ۔۔!! مرتضیٰ جسے ہی اندر آیا اپنی گھمبیر آواز میں سب کو متوجہ کیا اپنی طرف ۔۔ سارا پھوپھو تو روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی تھی سب کے آنسو نکلنے لگے تھے انکی حالت پر مرتضیٰ کو بہت افسوس ہوا تھا انکی حالت دیکھتے ہوئے حمید صاحب اسے ساتھ لے کر باہر صحن میں آئے ۔۔


" یہ سب کیا ہے بابا یہاں کوئی قانون نہیں کوئی بھی آکے کسی کی بیٹی کو لے جائے گا تو سب ایسے دیکھتے رہ جائیں گے ۔۔!! مرتضیٰ کو رہ رہ کر ان کی سوچ بزدلی پر غصہ آرہا تھا ۔۔


" بس بیٹا کچھ گاؤں کے ایسے حالت ہوتے ہیں جہاں ایسے ہی مجبور انسان پائے جاتے ہیں جن کے اختیار کسی اور کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ان کے جینے مرنے کے فیصلے کوئی اور کر رہا ہوتا ہے ۔۔ خیر یہ سب تو کچھ نہیں ابھی لیکن تم دیر مت کرو جلدی چلو عابیر کو لے آئیں یہاں اگر بیٹی کو صبح تک گھر سے باہر رکھا جائے تو وہ کبھی ویسے سر اٹھا کر نہیں چلتی یا پھر یہ سمجھو لوگ اسے جینے نہیں دیتے بےقصور ہوتے ہوئے بھی چپ کر کے سنتی ہے بس ۔۔!! حمید صاحب بہت افسردہ تھے ان کے علاقہ کے حالات کیسے تھے وہ اچھے سے جانتے تھے بس مرتضیٰ کے لئے یہ سب بہت نیا نظام تھا ۔۔ جسے رہ رہ کر غصہ آرہا تھا ۔۔


" نہیں بابا آپ رکے میں جاؤں گا آپ پھوپھو لوگوں کو سنبھالیں میں ہوں ۔۔!! وہ باپ کے لاکھ کہنے پر انہیں سمجھاتے ہوئے عابیر کے دو کزنز کو لیے نکلا تھا ۔۔

_____

" دیکھ حسینہ تجھے میں نے کتنا ڈھونڈا تھا اور تو آج میرے سامنے پتا تھا تجھے بلانے کے لئے تیرے باپ کو زمین بوس کرنا پڑھتا تو کب کا کردیا ہوتا میری جان ۔۔ اتنا تو مجھے یقین تھا تو ہے گوری چٹی سونڑی ۔۔!! وہ وڈیرہ اسے دیکھتے ہوئے ہوس بھری نظروں سے دیکھتا کہہ رہا تھا عابیر کو اس کے لہجے سے گھن آرہی تھی دل کیا بھاگ جائے یہاں سے یا کوئی مدد کو آجائے اس کے لئے ۔۔ دل میں شدت سے دعا گو ہوئی تھی کہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی ۔۔۔


" وڈیرہ سائیں باہر پولیس آئی ہے ۔۔!! وڈیرہ کا آدمی بھاگتا ہوا آیا اسے باہر پولیس کی خبر دی ۔۔ وہ جو عابیر کے قریب جانے کا ارادہ کر رہا تھا بدمزہ ہوتے ہوئے باہر نکلا ۔۔ وہ جو صبح سے اس خالی کمرے میں قید تھی رو رو کر تھک گئی تھی اب بھوک پیاس سے نڈھال ہو رہی تھی جس وجہ سے چکر آرہے تھے اسے ۔۔


" جی فرمائیں صاحب جی کیا خدمات کی جائے آپ کی ۔۔!! وڈیرہ اپنی بڑی مونچھوں کو تاؤ دیتا ہوا بولا ۔۔ مرتضیٰ نے ایک بھر پور نظر اس پر ڈالی جو عمر میں اس سے بھی چند سال بڑا تھا حولیے سے بھی جاہل آوارہ لگ رہا تھا۔


" شکایت ملی ہے تم نے بخش کریم کی بیٹی کو اغوا کیا ہے اسے عزت سے ہمارے حوالے کرو ۔۔؟" مرتضیٰ اپنی بھر پور وجاہت سے بھاری آواز میں بولتا اس کے قریب آ کر سنجیدگی سے بولا وہ تھا بھی پولیس یونیفارم میں ۔۔


" ہاہاہاہا صاحب جی غلط خبر لے کے آئے ہیں جانتے نہیں میں اس علاقہ کا سردار ہوں یہاں کوئی بھی میرے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کر سکتا اور آپ تو سیدھا الزام لگا رہے ہیں میں بھلا کیوں اس کی (گالی ) بیٹی کو اٹھاؤں گا ۔۔!! وہ ہنستا خباثت بھرے لہجے میں بولا تھا کہ آخر میں گالی دیتے ہوئے شاید اپنی موت بھول گیا جسے مرتضیٰ کے پنج نے یاد دلا دیا تھا مرتضیٰ کا خون کھول گیا تھا اس کے گالی لفظ پر ۔۔۔


" تو جانتا نہیں مجھے مرتضیٰ حمید کیا چیز ہے تجھ جسے ہزاروں کو دیکھ چکا ہوں تو کیا چیز ہے سالے تیری زبان سے جو یہ گندے لفظ نکلتے ہیں انھیں ہمیشہ کے لئے بند کر سکتا ہوں میں ۔۔۔!! مرتضیٰ غصہ کی شدت میں اسے مارتا گیا جو جو اس کے آدمی بیچ میں آرہے تھے انھیں بھی دھوتا گیا ساتھ ۔۔ عابیر کے کزن منہ کھولے حیرت سے مرتضیٰ کا روپ دیکھ رہے تھے انھیں تو کسی فلم کا ہیرو لگا تھا ۔۔


" سائیں صاحب چھوڑے اگر اسے کچھ ہو گیا تو بڑا مسئلہ ہو جائے گا ہمارے گاؤں کے لئے آپ پوچھیں عابیر کہاں ہے ۔۔!! عابیر کا چچا زاد کزن آگے بڑھتے ہوئے مرتضیٰ کو روکتا اسے سمجھایا ۔۔ مرتضیٰ غصے بھری نظر دیکھتا دور ہوا وڈیرہ کراہتا اندر کی جانب اشارہ دیا مرتضیٰ بھاگتا ہوا اندر پہنچا دیکھا تو وہ کونے میں بیہوش پڑی ہوئی تھی ۔۔ وہ ایک افسوس بھری نظر ڈالتا اسے باہوں میں اٹھا کر باہر لے گیا گاڑی میں بیٹھا کر وہ لوگ وہاں سے نکلے تھے ۔۔ وڈیرہ کو اسکے آدمی ہسپتال لے گئے تھے ۔۔ یہ سب معاملہ دیکھتے ہوئے رات کو پنچایت رکھی تھی ۔۔۔

_______★

" عابیر میری دھی تو ٹھیک ہے ۔۔۔ شکر ہے اللّٰه سائیں کا تو ٹھیک ہے ۔۔۔!! سارا اپنی بیٹی کو دیکھتے ہوئے واری جا رہی تھی عزت جو سہی سلامت گھر پہنچی تھی ۔۔۔


" اماں ابا ٹھیک ہے اور میں میں یہاں کیسے آئی ۔۔!! عابیر باپ کی حالت کا پوچھتے حیرت سے خود کو گھر میں دیکھتے پوچھا ۔۔


" اے عابی تجھے پتا ہے تجھے سائیں صاحب کے بڑے بیٹے پولیس والے سائیں نے بچایا اور اس وڈیرہ کو ایسا مارا تو ہوتی وہاں ہوش میں تو سچ میں حیران رہ جاتی ۔۔۔!! اس کے کزن سلیم نے اسے ساری کہانی سنا دی جسے وہ حیرت انگیز ہوئی وہ بھلا اس پر کب مہربان ہوا اسکے لئے یہاں آیا تھا اسے بچایا تھا دل کے ایک کونے میں خوشی کی لہر دوڑ سی گئی تھی ۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود کو پرسکون محسوس کر رہی تھی کھانے پینے کی وجہ سے شاید لیکن گھر کا ماحول پریشانی والا تھا باہر محلے والوں کی باتیں الگ سننی پڑ رہی تھیں کے رات کو فیصلہ رکھا گیا تھا وڈیرہ کو مارنے پر گاؤں کی عورت کو اغواء کرنے پر ۔۔

_________★


" بیٹا میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں تو نے میری بیٹی کی عزت بچا لی ۔۔!!


" نہیں بخش کریم یہ اس کا فرض تھا تم ہاتھ مت جوڑو عابیر ہماری بھی کچھ لگتی ہے اتنی پیاری بیٹی ہے ہماری اللّٰه اسکی حفاظت کرے آمین ۔۔!! بخش کریم بہت شکر گزار تھے حمید صاحب اور ان کے بیٹے کے دونوں باپ بیٹے نے ان کو بہت حوصلہ دیا ۔۔


" اب کیوں پریشان ہو کچھ نہیں ہوگا اب سب ٹھیک ہے دیکھنا ۔۔!! حمید صاحب ان کے اداس پریشان چہرہ دیکھتے ہوئے ہمت دی ۔۔۔ مرتضیٰ وہیں بیٹھا ہوا تھا عابیر چائے لیے اندر آئی تھی دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے نظر چرا گئے تھے شاید حالات ایسے چل رہے تھے اس لئے ۔۔ وہ چائے رکھ کر باہر چلی گئی تھی ۔۔۔


" بس حمید سائیں عابیر کیلئے پریشان ہوں آج رات کو بیٹھ کر فیصلہ کریں گے وڈیرہ کو جو نقصان ہوا ہے وہ بدلے میں میری بیٹی لے گا ۔۔!! بخش کریم کی بات پر مرتضیٰ کو جھٹکا سا لگا یہ بات اسے اچھی نہیں لگی تھی کیوں یہ خود بھی نہیں جانتا تھا لیکن جو بھی تھا عزت کا معاملہ تھا ان کے گھر کا تھا کیسے برداشت کرتا ۔۔


" ایسا فیصلہ کرنے کا حق کسی میں نہیں ہے چچا صاحب آپ کیسے بیٹی کا فیصلہ انھیں کرنے دے سکتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں ایسا کہنے والے ۔۔!! مرتضیٰ غصہ ضبط کرتے بولا تھا ۔۔


" بیٹا آپ گاؤں کے رسم و رواج سے واقف نہیں اس لئے ایسا کہہ سکتے ہیں ہم لوگ یہاں رہتے ہیں یہاں کے فیصلے ہمیں ماننے پڑیں گے ۔۔!! مرتضیٰ کو انکی جہالت پر غصہ آرہا تھا اس لئے عابیر کی زبان اسکا لہجہ ایسا کیوں تھا اب سمجھ آیا اسے ۔۔ اس میں اسکی غلطی نہیں تھی وہ پلی بڑھی ایسے ماحول میں تھی ۔۔

______★

" ارے واہ عابیر تو تو بڑی خوش نصیب ہے تجھے اینا سوہنا شوہر مل رہا ہے ہائے عابی کیا قسمت پائی ہے تو نے دیکھ کتنا سوہنا منڈا تینو ملا ہے ۔۔!! اسکی بہن اور کزن اسے کب سے چھیڑ رہی تھیں۔۔ اسکی قسمت پر رشک کر رہے تھے سب ۔۔ جو سوچوں میں گم تھی ۔۔۔


" اچھا چلو لڑکیوں تم لوگ باہر جاؤ مجھے عابی سے بات کرنی ہے جاؤ ۔۔!! سارا ماں اندر آتے ہی سب کو باہر بھیج دیا اس کے سامنے آئی جو لال جوڑے میں سادہ سی تیار پیاری لگ رہی تھی لیکن پریشان الجھی ہوئی ۔۔


" اماں یہ سب کیا ہو رہا ہے تو ہی خیال کر لے کیا سوچیں گے ماموں سائیں کے گھر والے مامی سائیں کو بھی نہیں پتا یہ صہیح نہیں ہو رہا اور ان سے پوچھا ہے وہ راضی ہے کیا ۔۔!! وہ دھڑکتے دل کے ساتھ خوف زدہ سی بولی تھی انجانی خوشی تھی کہ خوف میں بدل رہی تھی ۔۔


" دیکھ عابی میں جانتی ہوں ہم ان کے قابل نہیں لیکن تو دیکھ یہ سب تیرا نصیب ہے یہی ہونا تھا ہو رہا ہے اسے خوشی خوشی قبول کر لے تیرے ماموں سائیں نے بڑے پیار مان سے تجھے مانگا ہے سب کے سامنے میں انکی سگی بہن نہیں لیکن سگی سے بڑھ کر پیار کرتے ہیں بھائی حمید مجھے تجھے بھی خوش رکھے گے میری بچی (ماموں سائیں نے مانگا ہے اس نے نہیں ماں ۔۔وہ دل میں کہہ سکی ) تو نصیب سمجھ کر دل سے راضی ہو جا اور خوشی خوشی اس رشتے کو نبھانا سب کو خوش رکھنا کبھی لڑ جھگڑ کر واپس ماں باپ کے گھر مت آنا تجھے یہاں سے بھیج رہیں ہے تو حالات جانتی ہے سمجھ رہی ہے میری بات کو ۔۔!! ماں آنسو بہاتے ہوئے اسے اچھے سے سمجھا رہی تھی وہ خالی خالی دماغ لئے حاضر تھی وہاں بس ۔۔۔ پل میں کیا سے کیا ہو گیا تھا ۔۔

_______★

" یہ سب سہی نہیں ہو رہا بابا آپ نے کیوں کیا ایسا ماما کو پتا چلا تو جانتے ہیں کیا قیامت آئے گی اور مجھ سے پوچھا تک نہیں وہاں سب کے سامنے فیصلہ سنا دیا آپ نے ۔۔!! مرتضیٰ کو بے انتہا غصہ تھا اپنے باپ پر جو پوری پنچایت میں فیصلہ سنا آئے تھے عابیر کا نکاح مرتضیٰ سے ہوگا اور آج ابھی ہوگا سب کے سامنے رات وہ اسے لے کر رخصت ہوں گے یہاں سے ۔۔۔۔۔


" تو اور کیا کرتا اپنے گھر کی عزت کو یوں غیروں میں دیتے ۔۔ سارا ہماری سگی نہ سہی لیکن سگی بہن سے بڑھ کر ہے میں نے اماں کو بتا دیا ہے انھیں بھی کوئی اعتراض نہیں تمہاری ماں کو میں سمجھا دوں گا ابھی تم چلو باہر نکاح خواں انتظار کر رہا ہے ہمیں پھر نکلنا بھی ہے ۔۔!! حمید صاحب کے جذباتی فیصلے پر آج وہ اپنی قسمت سے لڑ رہا تھا ۔۔ وہاں ان کے سنائے ہوئے فیصلے پر اس کے باپ کا دل راضی نہیں ہوا تھا ساتھ اس کا بھی لیکن جب باپ جذباتی ہو کر اسے قربانی کا بکرا بنائیں گے تب جی بھر کر ان پر غصہ آیا اسے اور عابیر کا سوچتے ہی مزید غصہ آجاتا تھا ماں بھائی اپنے گھر کی الگ پریشانی تھی کیسے فیس کرے گا وہ سب کو کیا وہ ساری زندگی ایسی جاہل لڑکی ان پڑھی لکھی کے ساتھ جی پائے گا اس کے ساتھ سفر خوبصورت گزرے گا سوچوں سوچوں میں دل پر پتھر رکھتے ہوئے اسے اپنے نکاح میں لے ہی لیا اب آگے کا سفر کیا ہوگا کیسے ہوگا یہ تو آنے والے وقت کو پتا تھا ۔۔ رات دیر سے وہ لوگ نکلے تھے گاڑی میں موت جیسی خاموشی تھی ہر کوئی اپنی اپنی سوچوں سے لڑ رہا تھا ایک دوسرے سے کوئی آگے آنے والے لمحے کا سوچتے گھبرا جاتا تو کوئی کسی کے سامنے سے گریز کر رہا تھا تو کوئی آگے کے سفر کے لئے تیار نہ تھا پر ہونا تو تھا تیار ۔۔

_______★

" مرتضیٰ ۔۔!! وہ جو غصہ میں گاڑی سے نکلتا آگے بڑھ رہا تھا پیچھے حمید صاحب عابیر تھے کہ اسکے تیزی سے بڑھتے قدم حمید صاحب کی آواز پر رکے تھے ۔۔


" جی بابا بولے اب کیا خدمات کروں اس وقت آپ کے حکم پر ۔۔!! وہ جل کر غصہ میں دانت پیستا ہوا بولا تھا حمید صاحب کو اس کے لہجے پر ہنسی آئی پر کنٹرول کر گئے عابیر نے تو حیرت سے اسے دیکھا غصہ میں جھنجھلایا ہوا ۔۔۔


" بیٹا آپ بھول رہیں ہیں کہ آپ ساتھ کوئی قیمتی چیز لائے تھے جسے ایسے ہی چھوڑ کے جا رہے ہیں۔۔!! ان کے سنجیدہ لہجے پر وہ نہ سمجھی سے انھیں دیکھے گیا جسے مطلب ۔۔۔؟


" عابیر بیٹی جاؤ مرتضیٰ کے ساتھ اس کے کمرے میں آج سے وہی آپ کی جگہ ہے کوئی پریشانی ہو تو بھلا جھجھک ہم سے کہنا ۔۔!! حمید صاحب پیچھے مڑتے خاموش کھڑی عابیر سے مخاطب ہوئے اسکا جھکا سر جھٹکے سے سیدھا ہوا وہیں کھڑے مرتضیٰ کو بھی کرنٹ لگا تھا ۔۔


" بابا یہ یہ کیا کہ رہے ہیں یہ سب جلدی نہیں ہو رہا ماما سے پوچھے بغیر آپ اکیلے فیصلے لیتے جا رہے ہیں اور میں مجھ سے کوئی رضا مندی نہیں پوچھ رہے آپ ۔۔؟" وہ شاک سے نکلتا حیرت و غصہ میں بولا تھا ۔۔


" دیکھو بیٹا جو ہونا تھا سو ہو گیا اب یہی تمہاری قسمت ہے جسے جتنا جلدی قبول کرو گے اتنی آسان ہوگی رخصت کر لائے تھے بھاگا کر نہیں ۔۔ تمہاری ماں سے میں بات کر لوں گا تم جاؤ آرام کرو تھک گئے ہو گے ۔۔!! حمید صاحب فیصلہ سنا کر وہ گئے اسکی ایک نہیں سنی ۔۔ مرتضیٰ غصہ میں دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بھیچتے آنکھیں بند کرتا ضبط سے گہرا سانس لیا ایک تیکھی نظر اس پر ڈالتا تیزی سے روم میں گیا ۔۔ اور وہ گھبراہٹ سے وہیں کھڑی سوچ رہی تھی کیا کرے جائے یا نہیں لیکن نہ جانے کا مطلب پھر حمید صاحب کے فیصلے سننے پڑتے اور اس کا سوچ کر ہی سانس اٹک رہا تھا کب سے غصہ میں وہ خود پر ضبط کئے ہوئے آرہا تھا یہ بہت اچھے سے جانتی تھی ہمت کرتی آگے بڑھی تھی ۔۔۔۔

_______★

" وش چائے لاؤ ۔۔۔افف میں پھر سے بھول گیا "۔۔ هادیق جب سے آیا تھا وہ ہر بار وش کو آواز دیتا تھا اسے عادت ہوگئی تھی وہاں وش اسکا ہر کام خود کرتی تھی وہ یہاں جب سے آیا تھا اسے وش کی بہت یاد آنے لگی تھی ۔۔۔ اسکا دل اب نہیں لگتا تھا سویرا کے ساتھ وہ جب بھی ملتا تھا وہ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد پھر سے جھگڑا شروع کر دیتی تھی اسے یاد آیا اس نے ایک بار سویرا سے کہا وہ اسکے لئے كافی بنا دے وہ الٹا اسے چڑ کر کہنے لگی میں نوکر ہوں کیا جو یہ کام کروں اسے اس وقت شدت سے وش کی یاد آئی تھی۔۔۔


" السلام علیکم امی کیسی ہیں آپ ۔۔۔؟"


" وعلیکم السلام زندہ ہوں بس تم تو چھوڑ کے چلے گئے پوچھا تک نہیں ماں کا حال ۔۔!! مسز مصطفیٰ نے دکھ سے کہا وہ آج چار مہینوں بعد بات کر رہا تھا ۔۔


" اور سب خیر ہے باقی سب ٹھیک ہے ۔۔؟" وہ پوچھنا وش کا چاہتا تھا پر شرمندگی سے پوچھ نہیں پایا ۔۔۔


" اچھا اب میں رکھتی ہوں مجھے ہسپتال جانا ہے اپنا خیال رکھنا ۔۔۔"


" کیا ہوا امی آپ ٹھیک تو ہیں نہ ۔۔؟" هادیق پریشان ہوا ۔۔


" ہاں بیٹا میں ٹھیک ہوں وہ وش "


" وش ، وش کو کیا ہوا امی بتائیں ۔۔؟" وہ ماں کی بات کاٹتا پریشانی سے وش کا پوچھ رہا تھا اسکے چہرے پر وش کے لئے فکرمندی دیکھ کر امی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ۔۔۔


" خود آکر دیکھ لو اسے کیا ہوا ہے ۔۔؟" ماں نے بولتے ہی فون بند کردیا هادیق پریشان سا پھر سے کرنے لگا اسے وش لئے بے چینی ہو رہی تھی ۔۔۔


" یار امی پوری بات تو بتا دے میں پردیس میں ہوں یہاں دوسرے شہر میں نہیں کہ بھاگتا ہوا آؤ کچھ تو خیال کریں آپ بتائے سہی سے پریشانی ہو رہی ہے ۔۔؟؟ وہ بہت زیادہ پریشان لگ رہا تھا ۔۔۔


" کچھ نہیں موسم کی وجہ سے سردی لگی ہے بخار تھا اسے اس لئے جا رہے تھے تم خود کیوں نہیں فون کرتے ہوں اسے ۔۔؟" امی پوری بات بتاتے ہوئے آخر میں شکوہ کیا وہ وش کی خاموشی اسکا اکیلا پن محسوس کر سکتی تھی لیکن بیٹے کی غلطی پر خود شرمندہ بھی تھی ۔۔۔


" تھیک ہے آپ لوگ خیال رکھے پھر بات کرو گا اللّٰه حافظ ۔۔!! تھوڑی دل کو تسلی ملتے ہی فون بند کردیا تھا ۔۔ دل بہت چاہتا تھا بات کرنے کا لیکن وہ اپنے خواب یہاں سب ایسے کچھ نہیں چھوڑ کے جا سکتا تھا اس لئے خود کو وش سے دور رکھنے میں ہی بہتری سمجھی تھی ۔۔۔


" اسے تمہاری فکر تھی ۔۔!! مسز مصطفیٰ وش کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو ساتھ کھڑی سب سن چکی تھی ۔۔۔


" انھیں بس اتنی ہی فکر ہوتی ہے ۔۔۔ جب وہ خود مجھ سے بات کریگا تب ہی میں بتاؤ گی آپ پلیز امی ۔۔!! وش ان سے التجا کرتی نظروں سے دیکھتے ہوئے روم میں چلی گی مسز مصطفیٰ کو اس کی حالت پر افسوس ہوا تھا ۔۔

" سوچنا بھی مت یہاں سونے کا باہر پھینک دونگا تمہیں ۔۔!! وہ جو واش روم سے فریش ہوتا ہوا نکلا تھا اسے روم کے بیچ کھڑے بیڈ کی طرف منہ کیے گہری سوچ میں تھی کے اسکی غصہ بھری آواز پر اچھل پڑھی۔۔ مرتضیٰ کو لگا وہ یہاں سونے کا سوچ رہی ہوگی ۔۔ غصہ میں آگے بڑھ کر اسکا بازوں دبوچتا اسکے قریب کھڑا ہوا ۔۔ عابیر کی تو سانسیں ہی رک گئی اسکی قربت میں ۔۔ پلکیں لرزی تھیں ۔۔ نیا رشتہ تھا بیچ میں ۔۔


" تمہیں تو بہت خوشی ہو رہی ہوگی نہ یہاں واپس آنے کی یہاں کا چین سکون آرام بہت پسند آگیا تھا تمہیں اس لئے ہاں کی تھی اس لئے واپس آئی تھی اتنے امیر لوگ ہاتھ سے کیسے جانے دیتی کہاں گاؤں کے ماحول اور کہاں شہر کا آرام یہی سب چاہیے تھا نہ تمہیں ۔۔۔؟" وہ غصہ نفرت میں نہ جانے کیا کیا بولتا گیا وہ جو اسکی خوشبو کے سحر اثر میں تھی اسکے زہر خند لہجے پر حیران سی اسے دیکھے گی اسکی سوچ لفظ پر جتنا افسوس کرتی کم تھا ۔۔ اسنے تو یہ سب نہیں چاہا تھا وہ تو قسمت کا کھیل سمجھ کر قبول کر رہی تھی لیکن یہاں تو نفرت ہی سامنے تھی ۔۔۔ دل پر گہری سی چوٹ لگی تھی ان لفظوں سے ۔۔


" مم ۔میں ایسا کچھ نہیں چاہا یہ سب ماموں سائیں کی وجہ سے ہوا ہے انہوں نے فیصلہ کیا تھا آپ کو جو تکلیف ہے ان سے کہہ دیں۔۔!! عابیر کو غصہ تو بہت آیا اسکے لہجے پر لیکن آنسو ضبط کرتی نم لہجے میں بولی پر اسکا جواب دینا مرتضیٰ کا انا کا مسئلہ بن رہا تھا غصہ میں سخت گرفت کرتا کچھ پل اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پیچھے دھکہ دیا جس پر وہ لڑکھڑا گئی تھی ۔۔ خود کو گرنے سے بچانا چاہا پر زمین پر گر گئی تھی مرتضیٰ اسے نیچے دیکھتا بیڈ پر بیٹھ کر ذرا جھک کر اسے دیکھتا نفرت سے بولا ۔۔۔


" تمہاری اوقات یہی ہے جتنا جلدی سمجھو گی اتنی آسانی ہوگی تمہیں اور ہاں خبر دار میری کسی بھی چیز کو ہاتھ لگایا تو ورنہ بہت برا پیش آؤں گا ۔۔ اور ہاں یہاں نیچے سو سکتی ہو ۔۔!! وہ اسکے آنسو اگنور کرتا اپنی نفرت جتلا کر بیڈ پر گر گیا سونے کے لئے عابیر آنسوں بہاتے ہوئے خود کو بہت بےبس محسوس کیا تھا ماں باپ کا گھر اب اپنا نہیں رہا تھا جس کے سہارے وہ اس شخص کے منہ پر اسکے ہی لفظ مار کر جاتی لیکن واہ رے قسمت اسکے باپ کے بہت احسانات تھے جس کی خاطر خاموش تھی ۔۔۔ پر کب تک یہ تو ساری رات اس زمین پر بچھے قالین پر سوتے ہوئے سوچ رہی تھی کیا وہ ساری زندگی اس شخص کی نفرت سہتی رہے گی یا کبھی اسکے دل میں جگہ بنا پائے گی ۔۔۔

________★

" یا اللّٰه اتنی سردی کیوں لگ رہی ہے موسم سے پہلے کون سی سردی آ گئی یہ ۔۔؟" وہ ٹھنڈے کمرے میں خود پر ٹھنڈ محسوس کرتے ہوئے بڑبڑا کر اٹھتے ہوئے خود سے کہتی آس پاس نظر دوڑائی جیسے معلوم کرنا چاہا ٹھنڈ کہاں سے آرہی ہے ۔۔ لیکن کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ نہ دیکھا وہ رات وہی زمین پر بیچھے نرم قالین پر سو گئی تھی اپنی چادر لیے ہوئے تھی اوپر لیکن چونکہ اے سی کی کولنگ بڑھ گئی تھی جس وجہ سے اسے ٹھنڈ لگنے لگی تھی لیکن اب یہ عابیر کو کون سمجھائے اے سی کی وجہ سے ہوئی ہے ٹھنڈ ۔۔


" یا اللّٰه پاک یہ کیسا معجزہ ہے بن موسم سردی اتنی حالانکہ بارش بھی نہیں ہوئی پھر اور یہ اندھیرا کیوں ہے اتنا سائیں جی کو کہاں ڈھونڈوں ۔۔!! عابیر پریشان ہوتی ہمت سے بیڈ کے سہارے اٹھ کر دھیرے سے آگے بڑھی ۔۔ ہاتھ مارتے ہوئے جا کے مرتضیٰ تک پہنچی تھی ۔۔


" سا ۔۔ سائیں جی اٹھیں وہ دیکھیں سردی پتا نہیں کہاں سے آ گئی ہے رات تو نہیں تھی معجزہ ہوا ہے سائیں جی اٹھیں۔۔!! وہ جو نیند کے مزے لے رہا تھا کسی کی مسلسل آواز پر بیدار ہوتے ہوئے اٹھا بوجھل آنکھیں کھولتے ہوئے آس پاس کسی کو محسوس کیا اندھیرے کی وجہ سے کچھ خاص نہ دیکھا اس لئے پھر سے ایک ساتھ اسکے بازؤں پر محسوس کرتے ہوئے اسے کھینچا اپنی اوڑ کہ دونوں وجودوں میں کرنٹ سی لگی ۔۔ عابیر جو مسلسل اسے جھنجوڑ رہی تھی اسکے ہاتھ کھینچنے پر اسکے اوپر گری تھی دھڑکن ایک دم تیز رفتار سے چلی تھی کہ وہی دوسرے وجود میں بھی یہی حال تھا مرتضیٰ خود پر نرم نازوک وجود محسوس کرتا اسکی گرم سانسیں خود کے چہرے پر محسوس ہوئی کچھ لمحے دونوں ہی سانسوں کی ہوا محسوس کرتے رہے کہ عابیر ہوش میں آتے ہی پیچھے ہوئی جس پر مرتضیٰ کا بھی سحر ٹوٹا تھا ۔۔


" یہ کیا بدتمیزی تھی ایسے جگاتا ہے کوئی ۔۔؟" وہ خود کو سمبھالتا ہلکہ غصہ میں بولا ابھی غصہ آیا ہی کہاں تھا پورا ابھی تو ایک مہکتے وجود کے حصار میں تھا وہاں بھی یہی کیفیت تھی تھوڑی سی ۔۔


" و وہ وہ یہاں سردی آئی ہے ۔۔؟"


" کیا ۔۔؟ عابیر کے اچانک جلد بازی میں بولنے پر وہ حیرت سے چیخا ۔۔ جلدی سے سائیڈ سے لائٹ جلائی روشنی ہوتے ہی سامنے عابیر بغیر دوپٹہ کے پریشان کھڑی دکھائی دی مرتضیٰ اسے دیکھتا نظریں چرا گیا ۔۔


" وہ معجزہ ہوا ہے دیکھے باہر گرمی تھی کل اور رات کو بھی اور آج ابھی اتنی ٹھنڈ ہو گئی ہے لیکن ابھی تو گرمی والا موسم چل رہا ہے پھر یہ جلدی سردی کیوں آئی ہے ۔۔!!مرتضیٰ کا دل کیا اپنا سر دیوار پر دے مارے کیا تھی یہ پھر ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے پھر اے سی کی طرف دیکھا ۔۔


" وہ دیکھ رہی ہو ۔۔؟"


" جی سائیں ۔۔!!


" وہ اے سی ہے جس سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے جس کی وجہ سے پورا کمرہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے سمجھی یہ لائٹ پر چلتا ہے اب اگر اپنے بیوقوف دماغ کا استعمال کیا نہ تو شوٹ کر دوں گا ۔۔!! مرتضیٰ نے اے سی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے طریقہ سے سمجھایا ۔۔ وہ حیرت سے اس چھوٹے سے ڈبے کو دیکھ رہی تھی ۔۔


" اس ڈبے سے جلدی سردی آتی ہے یا اللّٰه جی یہ ڈبا بڑے مزے کا ہے پورا کمرہ ٹھنڈا کرتا ہے گھر بھی کرتا ہوگا پورا ہے ناں سائیں جی ۔۔!! وہ خوشی سے کہتی اسکی طرف موڑی تھی کہ اس کی خون خوار نظریں خود پر دیکھتے ہوئے زبان کو بریک لگا گئی ۔۔


" ہٹو نیند برباد کردی جاہل لڑکی پتہ نہیں کون سا گناہ ہوا تھا جس کی سزا تمہاری صورت میں ملی ہے ۔۔!! مرتضیٰ غصہ میں کہتا واش روم کی طرف بڑھا ۔۔


" ہونہہ گناہ سارا دن تو کرتے رہتے ہیں بےغیرت رشوت خور پولیس والا آیا بڑا اللّٰه پوچھے مجھے جاہل کہا خود ہوگا ۔۔!! عابیر کل سے اپنی بےعزتی برداشت کرتے ہوئے تھک گئی تھی اسکا ضبط جواب دینے لگا تھا جس کی وجہ سے اب غصہ میں وہ بھی پیٹھ پیچھے اسے سنا دیتی تھی منہ پر ہمت کم تھی ابھی اس میں ۔۔ گہرا سانس لیتے آج کیسے بارے میں سوچا کیا ہوگا آج سب کو پتا چلے گا ۔۔ دل میں ڈھیروں دعائیں کی آج کے دن کیلئے ۔۔۔

_________

" السلام علیکم کیسی ہے ماما دادی ۔۔؟" مرتضیٰ فریش ہوتا نیچے آیا جہاں سب ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔


" وعلیکم السلام بیٹا جی خدمت خلق سے فرصت مل گئی آپ باپ بیٹے کو ۔۔!! مسز حمید طنزیہ بولی دادی کو اسکا لہجہ اچھا نہ لگا وہ پوتے کو دعا دیتے ہوئے پیار کیا ۔۔


" بابا عابیر کو ساتھ نہیں لائے کیا ۔۔؟" احمد وہاں سب کو دیکھ کر عابیر کی کمی محسوس کرتا ہوا بولا تھا ۔۔


" وہ کیوں آئے گی دوبارہ بھلا اپنے گھر گئی تھی وہی اس کا گھر ہے بیٹا جی یہاں مہمان بن کر آئی تھی کچھ دن کے لئے ۔۔!! مسز حمید کو چھوٹے بیٹے کی بات پسند نہیں آئی غصہ میں اسے گھورتے ہوئے اچھے سے سمجھایا ۔۔ لیکن وہاں بیٹھے تین نفوس اس بات پر غیر آرام دہ ہوئے ۔۔


" مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے ۔۔؟" حمید صاحب نے سب کو اپنی طرف توجہ دلائی ۔۔ مرتضیٰ کا ناشتہ کرتا ہاتھ رک گیا دل دھڑکا تھا ایک نظر باپ پر ڈالتے ہوئے ماں کو دیکھا جو اسکے باپ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔


" عابیر کہاں ہے جاؤ عابیر کو بلاؤ ۔۔۔۔۔؟" سچ میں عابیر آئی ہے میں بلاتا ہوں ۔۔!! حمید صاحب کی بات سنتا احمد خوشی حیرت سے بولتا اٹھ کر عابیر کو بلانے گیا مسز حمید افسوس سے اپنے شوہر بیٹوں کو دیکھتی رہ گئیں۔۔۔


" عابی شکر ہے تم آ گئی میں نے تمہیں کتنا مس کیا تم جانتی نہیں یار ۔۔!! احمد خوشی سے کہتا ہوا اسے ساتھ لایا تھا ۔۔ وہ تو آج گھبرائی ہوئی تھی ۔۔ دھیرے سے سلام کرتی وہی کھڑی رہی احمد کے ساتھ ۔۔


" بیٹھ جاؤ بیٹا سب ناشتہ کرو اسکے بعد مجھے سب لاؤنچ میں ملو بات کرنی ہے ضروری ۔۔!! حمید صاحب کہتے ہوئے ناشتہ کرنے لگا سب اپنے ناشتے کی طرف متوجہ ہوئے پھر ۔۔


" یہ کیا بکواس ہے مرتضیٰ کیا کہہ رہا ہے تمہارا باپ یہ سب ۔۔!! مسز حمید حیرت صدمہ غصہ میں بولی ۔۔ آنکھیں شوہر کی بات سن کر بیٹے کے نظریں چرانے پر نم ہوگئی تھیں ۔۔ دادی خاموش بیٹھی ہوئی تھی اسکے پاس کھڑی عابیر سر جھکائے ۔۔۔۔ احمد حیرت بےیقینی سے سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔ کیا یہ سچ تھا جو اس کے بابا نے بتایا ۔۔


" ماما پلیز آرام سے بیٹھ کر بات سنے میں ۔۔۔

" بس مرتضیٰ تم سے یہ امید نہیں تم نے ایک بار ایک بار بھی اپنی ماں کا نہیں سوچا میرے ارمان خواب چکنا چور کردے تم دونوں نے اور اماں جی آپ بھی ملی ہوئی تھی واہ بس میں ہی دشمن ہوں نہ تم لوگوں کی ۔۔!! مسز حمید غصے اور دکھ میں بیٹے کو دیکھ کر کہتی رو دی ۔۔


" ماما پلیز یقین کریں میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ سب حالات ہی ایسے پیدا ہوگئے تھے سب مجبوری میں ہوا ۔۔۔!! مرتضیٰ ماں کے قدموں کے پاس بیٹھ کر انکے ہاتھ تھام کر بولا تھا پھر انہوں نے روتے ہوئے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ۔۔


" دیکھو شازیہ یہ سب ہم نے مجبوری میں کیا تھا لیکن جو ہوا وہ تو ہو گیا اب یہ سب تماشا لگانے سے کیا ہوگا ۔۔!! حمید صاحب سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔۔


" تماشا یہ سب آپ کو تماشا لگ رہا ہے میرے بیٹے کی زندگی برباد کردی آپ نے اور آپ مجھ سے اچھے کی امید لگا رہے ہیں میں کبھی اس جاہل لڑکی کو اپنی بہو نہیں مانوں گی کہاں میرا بیٹا ہمارا سٹیٹس اور یہ گاؤں کی گوار لڑکی میں اپنے بیٹے کی شادی اپنی مرضی سے کروں گی آپ لوگوں نے کی اپنی مرضی اب میں کروں گی میری بھی ضد ہے اگر میرا فیصلہ منظور نہیں تو میرا مرا ہوا منہ دیکھوں گے مرتضیٰ تم لوگ ۔۔۔۔۔۔ ماما پلیز ۔۔!! شازیہ بیگم غصہ نفرت سے عابیر ان سب کو دیکھتے ہوئے اپنی بات کہتی اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔۔ انکی بات پر حمید صاحب دادی احمد شرمندہ سے ہوئے عابیر کے سامنے مرتضیٰ غصہ میں سب کو دیکھتا باہر چلا گیا تھا وہ جانتا تھا اسکی ماں کا یہی ریکشن ہوگا ۔۔


" او مائے گاڈ مجھے یہ سب خواب سا لگ رہا ہے کیا یہ سچ ہے عابیر میری بھابی جان بن گئی ہے ۔۔ بابا میں بہت خوش ہوں ہماری پیاری چھوٹی سی بھابی عابیر جی ۔۔!! احمد شرارت سے بولتا سب کے چہرے پر مسکراہٹ لاتا عابیر کو شرمندہ کے ساتھ شرم و حیا سے سرخ کر گیا تھا ۔۔

________★

" سر جی خیریت ہے آج کل بڑے تھکے ہوئے لگ رہے ہیں ۔۔۔!! عباس مرتضیٰ کا تھکا ہوا چہرہ غور سے دیکھتا ہوا بولا تھا ۔۔


" ہاں یار بس آج کل سوچیں بہت ہیں جو ہمیشہ تھکا دیتی ہیں ۔۔!! مرتضیٰ سے ماں کا اداس چہرہ ناراضگی برداشت نہیں ہو رہی تھی رہ رہ کر باپ اور عابیر پر غصہ آرہا تھا ۔۔


" اچھا سنو دیکھ لینا سب سر درد ہو رہا ہے گھر جا رہا ہوں ۔۔!! مرتضیٰ کا سر درد سے پھٹ رہا تھا اس لئے گھر کے لئے جلدی ہی نکل گیا تھا ۔۔۔

" یہ کیا کہہ رہی ہو خالہ آپ جانتی ہیں میں نے اپنے مرتضیٰ کے خواب دیکھے ہیں ہمیشہ اور یہ سب ۔۔۔؟" ہانیہ سے یہ بات ہضم ہی نہیں ہو رہی تھی کہ مرتضیٰ اور عابیر کا نکاح ہو چکا ہے بلکہ ساتھ بھی رہتے ہیں اسے بہت زیادہ غصہ آرہا تھا اپنی بیوقوف خالہ پر ۔۔۔


" میں جانتی ہوں سب میں وہاں ہوتی تو کیا ہونے دیتی ایسا کچھ یہ تو حمید اپنی بہن کی محبت میں پاگل بن کر آئے ہیں لیکن تم فکر مت کرنا میری بہوں تم ہی بنو گی میں مرتضیٰ کو مناؤں گی اس جاہل بیوقوف لڑکی کو کبھی اپنی بہو قبول نہیں کرنے والی میں دیکھنا کیا کرتی ہو اسکے ساتھ ۔۔!! شازیہ بیگم کا سارا غصہ ہی عابیر اور اسکے گھر والوں پر تھا انکے حساب سے سب کچھ انکا کیا دھرا ہے ۔۔


" پلیز خالہ جو بھی کرنا ہے جلدی کریں میں اس جاہل پاگل لڑکی کو ایک منٹ برداشت نہیں کر سکتی اور آپ مرتضیٰ کو کہہ دیں وہ اس لڑکی سے سو فیصد دور رہیں کہیں اسکی خوبصورتی میں خود کو گنوا نہ بیٹھے ۔۔۔!! ہانیہ نے ناگواری سے کہا تھا ۔۔


" میرا بیٹا ایسا نہیں ہے وہ خود اس سے نفرت کرتا ہے بس ہمیں ان کو الگ کرنا ہے مرتضیٰ کے دل و دماغ کو اس کے لئے باغی بنا دینا ہے خود ہی چھوڑ دیگا ۔۔!! شازیہ بیگم نے غصے اور نفرت میں کہا تھا بیٹے کی غلطی وہ کبھی مان نہیں سکتی تھی انکے حساب سے انکے بیٹے ہمیشہ سہی ہوتے ہیں کچھ غلط نہیں کرتے ماؤں کا ایک یہی انداز سب کو آزمائش میں ڈال دیتا ہے ہمیشہ ۔۔ ہانیہ اور شازیہ بیگم مل کر بہت سے منصوبے بنا رہی تھیں۔۔۔

_______★

" نانی اماں مجھے شرم آرہی ہے سائیں جی کے سامنے آنے سے اور چھوٹے ادا بھی مجھ کو تنگ کر رہا ہے کہتا ہے پہلے دشمن تھا اب جانِ دشمن بن گیا سائیں جی آپ کا ۔۔۔!! عابیر شرم و حیا سے سرخ پڑھتے چہرے کے ساتھ بولی تھی ۔۔ نانی اماں کے پاس بیٹھی کب سے انکی نصیحتیں سن رہی تھی اب اپنی کہنے لگی تھی ۔۔۔


" دیکھوں بیٹا میں جانتی ہوں یہ سب اتنا آسان نہیں ہے لیکن مشکل بھی نہیں ہے تم سب سیکھ جاؤ گی بس تھوڑا وقت دو سب کو خود کو پھر دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا اور ہاں اپنی اس تیز زبان کا استعمال مرتضیٰ کے سامنے کم کیا کرنا مرد کو وہ عورت بالکل پسند نہیں جو اس سے زبان درازی کرے اپنے شوہر کا خیال رکھنا اسکی ہر بات ماننا اسکو عزت دینا تمہارا کام ہے سمجھ آئی میری باتیں ۔۔؟" نانی اماں نے اسے دیکھا جو بڑے غور سے انکی باتیں سنتے ہوئے سر ہلا رہی تھی ۔۔۔


" لیکن نانی اماں وہ اماں ساس وہ مجھے پسند نہیں کرتی نہ اور وہ ہانیہ بھی مجھے گھور کر دیکھتی ہے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے ان سے کہی راتوں رات مجھے زہر کھلا کر مار دیا تو ۔۔؟" عابیر کی سوچ کا کچھ نہیں ہو سکتا تھا لیکن وہ واقعی ان سے ڈر گئی تھی ۔۔۔


" ایسا نہیں کہتے تم انکے دل میں جگہ بنانے کی کوشش تو کرو دیکھنا اللّٰه بھی تمہارا ساتھ دیگا تم سادہ معصوم ہو غلط باتوں پر دیھان مت لگایا کرو ۔۔!! نانی اماں نے پیار سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔۔


" دل کی جگہ کوئی اور جگہ نہ بن جائے میری ۔۔!! وہ بڑبڑائی ۔۔

_________ ★

" تم یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔؟" مرتضیٰ تھکا ہوا آیا تھا کہ وہ سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔


" جی وہ ٹی وی دیکھ رہی ہوں ۔۔!! مرتضیٰ کے اچانک آنے پر وہ گھبرا سی گئ دل الگ سے دھڑک اٹھا تھا ۔۔


" کس کی اجازت سے میری چیزوں کو ہاتھ لگایا تم نے ۔۔؟" وہ گھورتا اور غصے میں اسکے کچھ قدم قریب آیا تھا ۔۔ وہ ڈر سے پیچھے ہوتی کہ صوفہ تھا ۔۔


" ماموں سائیں نانی اماں نے کہا اب سے یہی کمرہ ہے میرا اور یہاں سب چیزوں پر حق رکھتی ہوں میں ۔۔!! عابیر ہمت سے جواب دینے لگی جس پر اسکے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔


" تم زبردستی کا رشتہ بنی ہو میری لئے سمجھی یہاں اس کمرے میں ہر چیز پر صرف و صرف میرا حق ہے تمہارا کوئی حق نہیں سمجھ آئی بات جاؤ یہاں سے بہت تھکا ہوا ہوں سر درد ہے ۔۔!! مرتضیٰ اسکا بازو پکڑتا قریب سے غصے و نفرت میں اپنے زہریلے لفظ استعمال کرتا اسے چھوڑا ۔۔۔ عابیر جانتی تھی یہ سب زبردستی ہو رہا ہے لیکن کیا اسے یہ سب سہنا پڑے گا بلاوجہ کی نفرت ۔۔


" ایسے نہیں گالیاں دیتی میں اس بندے کو ۔۔!! وہ بڑبڑائی ۔۔


" تم گئی نہیں ابھی تک ۔۔؟" مرتضیٰ فریش سا واش روم سے نکلتا اسے وہی زمین پر بستر بچھاتے ہوئے دیکھ کر غصے میں آیا ۔۔


" دیکھیں سائیں جو کہنا ہے ماموں سائیں سے کہنا ابھی مجھے باہر کوئی سونے نہیں دیگا نانی اماں کے پاس جاؤں گی ہزار سوال کریں گی پھر ماموں سائیں کو بلائیں گی اور پھر اس لئے چھوڑیں سب سو جائیں اور ہاں میں چائے لائی تھی پینی ہے تو پی لیں نہیں تو پھینک دے مرضی ہے اور ہاں سنے اس سردی والے ڈبے کو بند کرو ۔۔ ایسا لگ رہا ہے موسم سے پہلے ٹھنڈ آگئی ہے ۔۔!! وہ تو بس اسکی تیزی سے چلتی زبان پر حیرت سے دیکھ رہا تھا اور وہ اسے اپنے طریقہ سے سمجھا چکی تھی ۔۔ غصے میں تھی اس لئے اپنی تیز رفتار سے چلتی زبان پر اسکا دیان نہ گیا ورنہ اب کہا اسکے آگے زبان چلتی تھی اب ۔۔


" تم بیوقوف لڑکی یا اللّٰه کہاں پھنس گیا ہوں ۔۔!! غصے میں بالوں میں ہاتھ پھیرتا اے سی کی کولنگ بڑھا دی اب سکون سے اسکی بنائی گئی چائے پی رہا تھا اور وہ پتلی سے چادر اوڑھے سونے کی کوشش کرنے لگی تھی ۔۔ اور مرتضیٰ کچھ سوچ آنے پر ٹی وی پر مووی لگا کر اب پر سکون تھا ۔۔ وہ جو سونے والی تھی ٹی وی کی آواز پر منہ سے چادر ہٹاتی ٹی وی دیکھنے لگی تھوڑی دیر گزری اسے سخت گہری نیند آنے لگی تھی ایک دو بار آنکھیں بند ہوتی کھلی تھی کہ اچانک بند آنکھ کھلی اور سامنے ہی چڑیل دیکھی اسکی تو پوری آنکھیں ہی پھٹی پھٹی رہ گئیں۔۔۔ مرتضیٰ کب سے اسکے ایکشن موڈ پر ۔ انتظار میں تھا کے اسکی چیخ پر مسکراہٹ دبا گیا ۔۔۔


"آہہہ ۔۔ یا اللّٰه بچا لے اماں اماں آہہہ ۔۔!! صرف ایل ای ڈی کی ہی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور اتنی بڑی اسکرین پر بھوت چڑیلیں فل ہارر سین آن تھا ۔۔۔ ڈر اور خوف میں چلاتی ہوئی پیچھے ہوتی بیڈ سے لگی ہاتھ مار کر روتے ہوئے اٹھی بیڈ پر چڑھی۔


" سس سائیں جی کہاں ہو سائیں آہہہ ۔۔!! بیڈ پر تیزی سے مرتضیٰ کے پاس بھاگتے ہوئے اسے پکار رہی تھی اسکے قریب پہنچتے اسکا بازوں اسکے ہاتھ آیا وہ جو خاموشی سے اسکی حالت انجوئے کر رہا تھا اسکے حملے پر خود بھی حیرت میں آیا افراتفری میں کہا دوپٹہ کہاں وہ کچھ ہوش نہیں تھا ۔۔


" سس سائیں جی سن رہے ہو۔۔چ چڑیل کو بھگاؤ نہ آاہہہ ۔۔۔!! عابیر ڈر سے رونا ہی آگیا تھا ۔ روتے ہوئے کہہ رہی تھی ہلکی ٹی وی کی روشنی پر اسکا تھوڑا تھوڑا چہرہ نظر آرہا تھا پھر ٹی وی پر عجیب و غریب تیز آوازوں پر وہ چیختی ایکدم مرتضیٰ کے پہلو میں بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر کے سر اسکے بازو پر رکھ دیا ہاتھوں کی گرفت مضبوط بنا لی اسکے بازوں پر اور مرتضیٰ بوکھلا گیا تھا ۔۔


" شش چلاؤ مت سب جاگ جائیں گے میں ہوں یہیں۔۔۔!! مرتضیٰ تیزی سے ٹی وی بند کرتا اسکے بازوں پر ہاتھ رکھتا اسے حوصلہ دیا ۔۔


" وو وہ بھوت اسے بھگاؤں ۔۔۔!!


" بھاگ گیا دیکھو آنکھیں کھولو نہیں ہے ۔۔!! دونوں انجانے میں قریب تھے ایک دوسرے کے وہ ہمت کرتی تھوڑا سا سر اٹھا کر دیکھا لیکن اندھیرے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں دیا بس ایک مہکتا خوشبودار وجود قریب تھا چہرے پر سانسوں کی تپش تھی دونوں کے ۔۔ جذبات بہکنے لگے تھے لمحہ بھر میں عابیر اپنے چہرے پر گرم دہکتی سانسیں محسوس کر رہی تھی وہ مزید سرخ ہوئی گال دہکنے لگے تھے مرتضیٰ کو خود پر ضبط کرنا مشکل ہوا تھا لیکن بہت ہمت سے خود پر ضبط کرتا اپنے جاگے جذبات کو واپس سلاتا ہوا تھوڑا پیچھے ہوتے لائٹ جلائی تھی کہ کمرہ روشن ہوتے ہی دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے نظریں چرا گئے ہاتھ تیزی سے پیچھے ہوئے تھے دونوں ہی ۔۔۔ آج تو مرتضیٰ جی بھر کر پچھتایا تھا اس خوبصورت چڑیل کو چھیڑنا خود یعنی کے لئے ضبط کا امتحان لینا تھا ۔۔۔۔


" یہ یہ کیا بد تمیزی ہے جاؤ نیچے ۔۔!! وہ نظریں چراتا ہوا بولا ۔۔۔


" وو ۔۔ وہ بب ۔۔ بھوت چڑیل آگئی تو ۔۔؟" عابیر کی خوف زدہ نظریں سامنے ٹی وی پر تھی ۔۔۔ مرتضیٰ اسے دیکھتا ہی رہ گیا اتنی معصوم لیکن زبان کی تیز شکل صورت کی حسین کوئی کمی نہیں تھی اس پیاری سی لڑکی میں سوائے ان پڑھ ہونے میں ۔۔ وہ سوچنے لگا کیا واقعی اسے قبول نہیں کر سکتا اسے وہ جگہ مقام نہیں دے سکتا جو حق رکھتی ہے ۔۔ پھر خود ہی اپنی سوچوں کو جھٹک دیا ۔۔۔


" نہیں آئے گی کوئی چڑیل اب جاؤ سو جاؤ مجھے نیند آرہی ہے اترو بیڈ سے میرے ۔۔؟! اسکے سرد لہجے پر عابیر کو دکھ ہوا تھا پر کیا کرتی یہی قسمت تھی اسکی چپ چاپ اٹھ گئی لیکن ڈر ابھی بھی تھا دل میں ۔۔۔


" سائیں جی ۔۔؟


" اب کیا ہے عابیر ۔۔؟" اسکے پکارنے پر وہ چڑتا ہوا اسے دیکھا ۔۔


" وہ اس ٹھنڈے ڈبے کو گرم کریں تھوڑا بہت سردی لگ رہی ہے میرے پاس یہ چادر بھی پتلی سی ہے ۔۔!! وہ معصومیت سے اسے دیکھتے ہوئے اپنے دکھ سنائے تھے ۔۔


" یہ گرم نہیں ہوتا ہے کیوں کے یہ ٹھنڈا ڈبہ ہے سمجھی اگر سردی لگ رہی ہے تو جاؤ وہاں سے کمبل لے لو ۔۔!! وہ الماری کی طرف اشارہ دیتا کروٹ بدل گیا ۔۔


"اا ۔۔اکیلے ۔۔؟


"نہیں میں چلتا ہوں ماہ رانی صاحبہ ۔۔ جاؤ ۔۔دماغ خراب کردیا ہے میرا ۔۔!! وہ دانت پیستا غصے میں بڑبڑاتا سونے لگا ۔۔


"ہونہ جہنمی انسان ۔۔!! عابیر دل میں اللّٰه کے کلمات پڑھتے ہوئے آگے بڑھ کر جلدی سے کمبل اٹھاتی اپنے بستر پر آئی ۔۔۔

_______★

" دادو کیا لگتا ہے کچھ چینج ہونا چاہئے ۔۔۔؟" دادی اور احمد دونوں سر سے پاؤں تک اسے دیکھتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرائے ۔۔ اب تو احمد کا جیسے مشن بن گیا تھا عابیر کو اسکی سہی جگہ دلانا لیکن سب سے زیادہ اسے بھائی کے دل میں جگہ بنانی تھی ۔۔


" کیا ہوا مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں آپ دونوں ۔۔؟" عابیر حیرت سے دونوں کو خود پر گہری دلچسپ نظریں دیکھتے ہوئے نہ سمجھی میں پوچھا اسکی بات پہ وہ لوگ مسکراتے ہوئے اٹھے ۔۔۔


" چلوں عابی اوپس آج سے تم میری پیاری سی بھابھی ہوں ویسے تو میں سال چھوٹا ہوں تم سے لیکن آج کل کون دیکھتا ہے ۔۔۔ آجاؤ بھائی کو پھنسانے کے طریقے بتاؤں تمہیں پیاری بھابھی ۔۔۔!! احمد شریر لہجے میں اسے چھیڑتا اسکے خوبصورت چہرے پر رنگوں کا گلال بھکیر گیا تھا ۔۔ وہ شرم و حیا سے کچھ بول نہیں پائی تھی ۔۔۔


" چ ۔چھوٹے ادا یہ سب کرنا ضروری نہیں مجھ کو ویسے ہی تیرا بھائی پسند نہیں کرتا اور مجھے کوئی شوق نہیں جن کابوں کرنے کا مم ۔۔مطلب سائیں جی دور ہی اچھے ۔۔!! گھبراہٹ سے بولا نہیں جا رہا تھا مرتضیٰ کو جن کہنے پر نانی اماں کی آنکھوں نے جملہ درست کروایا تھا لیکن یہ سچ تھا وہ پھر مرتضیٰ کے ہاتھوں بےعزت نہیں ہونا چاہتی تھی پر آگے احمد تھا اسکی ایک نہیں سنی وہ بھی تیز دھڑکنوں کے ساتھ احمد کی باتیں سننے لگی تھی چہرہ سرخ ہوتا گیا ۔۔


_________★

"وہ کب سیٹ پہ بیٹھی سوگئ پتا نہیں چلا هادیق آرام سے چلتا ہوا اسکے ساتھ آکے بیٹھ گیا اور آرام سے اسکا سر اپنے کندھو پے رکھ دیا تھوڑی دیر اسکے خوبصورت چہرے کو دیکھتا رہا پھر آرام سے اسکا ایک ہاتھ اٹھا کے اپنے ہاتھ میں لیا اور اپنے انگلیوں کو اسکی انگلیوں میں پنسا دیا تھا اسکے چہرے پے جو آگے بال آرہے تھے انکی ایک لٹ کو اپنے شرٹ کے بٹن میں دبا دی اور اپنا سر اسکے سر پے رکھ کے آرام سے سو گیا نید نہیں آئی تھی بس اسکی خوشبوں اپنے اندر اتار رہا تھا ۔۔۔۔ وش کو اپنے سر پے کچھ باہری محسوس ہوا تو اسکی آنکھ کھل گئی لیکن اسکا ہاتھ کسی مرد کے ہاتھ میں دیکھ کے وہ ڈر گئی جلدی میں اسنے چہرہ اٹھا کے دیکھا تو حیران رہ گی پھر غصے میں اپنا سر دور کیا پر درد سے ہلکا کرہ کے اسکے قریب ہوئی کیوں کے اسکے بال اسکی شرٹ میں اٹکے ہوئی تھے اسکو بہت غصہ آیا اور وہ بھی ڈھیٹ بن کے سونے کی ایکٹنگ کر رہا تھا ۔۔۔۔


"۔چھوڑو مجھے کیا بدتمیزی ہے اٹھو ۔۔؟" وہ غصے سے بول کے اسکو اٹھا رہی تھی لیکن وہ نہیں اٹھا ۔۔


"۔میں نے کہا اٹھو اور چھوڑو میرا ہاتھ ۔۔؟" وہ پھر سے غصے میں دور ہونے کی کوشش کر رہی تھی کبھی بال تو کبھی ہاتھ نکالنے میں ایک ساتھ سے کرتے ہوئے تھک سی گی تھی ۔ لیکن وہ اب اپنی گرفت مضبوط کر کے بیٹھا تھا ۔۔


"۔کیا ہیں یار سونے دو سکون سے ۔۔؟" اسکے بار بار ہلانے سے منہ بنا کے بولا ۔ آنکھیں کھول کے اسکے خوبصورت غصے سے سرخ چہرے کو دیکھ رہا تھا اسکو بہت سکون مل رہا تھا اسکو تنگ کرنے میں ۔۔۔


وہ غصے میں خود کو چھڑوا کے تھک گئی تھی اسکی خوبصورت سی آنکھوں میں پانی جمع ہو گیا تھا اسکا سر نیچے تھا اور اسکے ہاتھ سے اپنے ہاتھ کو نکالنے میں لگی تھی اور وہ اس کو دیکھ رہا تھا دل نے کہا کاش یہ پل یہی رک جائے اور وہ یوں ہی اسکے قریب بیٹھی رہے ہمیشہ ۔۔


اب وہ غصے سے اپنے بال کھینچ کے نکال رہی تھی ایسا کرنے سے اسکو بھی درد ہو رہا تھا لیکن وہ جلدی سے اس شخص سے دور جانا چاہتی تھی وہ پھر سے اس سے محبت نہیں کرنا چاتی تھی یا پھر اپنے سوئی ہوئی محبت کو نہیں جگانا چاہتی تھی ۔۔ اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کے اسکے ہاتھ پے گر رہے تھے اور هادیق کی یہاں بس ہوگئی وہ اسکی آنکھوں میں اب آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا ۔۔


"۔روکو میں کرتا ہو آرام سے ایسا کرنے سے خود کو تکلیف دوگی اور کچھ نہیں ۔۔؟" وہ اب آرام سے اسکے بال نکال رہا تھا اور سمجھا بھی رہا تھا لیکن اس کا ہاتھ ابھی بھی اسکے ہاتھ میں تھا ۔۔


"۔میرے نصیب میں تکلیف ہی لکھی ہیں اور آپ ایسے الفاظ استعمال نہ کریں تو اچھا ہیں ۔۔؟" وہ دکھ اور غصے سے بولی ۔۔


"۔میں معافی مانگ رہا ہوں پلیز ایک موقع دو میں سب ٹھیک کردوں گا صرف ایک ۔۔؟" وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ کے نرمی سے بول رہا تھا لیکن اسکی بات بیچ میں کاٹ دی اسنے ۔۔۔


"۔موقع کس چیز کا دو بولے یا تو پھر سے میری زندگی میں آکے ایک بار پھر کوئی سودا کریں میرا یا پھر سے پہلی والی بیوقوف لڑکی بن جاؤ آپ کی محبت میں ۔۔؟"وش غصے میں اسکی آنکھیں میں دیکھ کے بول رہی تھی اور آنسو بھی نکل رہے تھے ۔۔۔ اسنے بال تو آرام سے نکال دیہ پر ہاتھ نہیں چھوڑا تھا یا شاید اب نہیں چھوڑنا چاہتا تھا ۔۔


"۔وش پلیز ایک بار بات سن لو میری میں نہیں رہ سکتا تمہارے بغیر تم ۔۔؟" وہ ابھی اور کچھ بھی کہتا لیکن بس اسٹاپ پر روک گئی اور وش جلدی سے اٹھ گئی لیکن ہاتھ ابھی تک نہیں چھڑا پائی هادیق نے اسکا غصہ دیکھ کے نرمی سے ہاتھ چھوڑ دیا وہ بھی اسکے پیچھے نکل آیا ۔۔۔


" وش پلیز اب اور نہیں یار ۔۔؟" هادیق نے بے بسی سے کہا ۔۔


" کیا اور نہیں ہاں بولے کیا اور نہیں اور آپ کیسے کہہ سکتے ہے آپ میرے بغیر نہیں رہ سکتے واہ کمال کی بات یہ پانچ سال پورے پانچ سال آپ میرے بغیر اور میں آپکے بغیر رہتی آئی ہوں هادیق مصطفیٰ اور اس پانچ سال میں نہ تو میں مری نہ آپ پھر کیسے کہہ سکتے ہے آپ مر جائے گے ۔۔؟" وش غصے سے پھٹ پھڑی اسکا چہرہ آنسو سے بھر گیا تھا هادیق سے دیکھا نہیں جا رہا تھا اسکا یہ حال یہ پانچ سال اسنے کیسے گزارے یہ وہی جانتا تھا وہ جانتا تھا وہ معافی کا حقدار نہیں لیکن وہ ایک کوشش کرنا چاہتا تھا ۔۔


" پلیز وش صرف ایک موقع صرف ایک میں جانتا ہوں میں نے بہت غلط کیا میں تمہارا گنہگار ہوں مجھے نہیں کرنا چائیے تھا تمہارے ساتھ ایسا پلیز وش اب اور نہیں رہ سکتا یار بہت تڑپ رہا ہوں تمہارے لئے ۔۔؟" هادیق نے نم لہجے میں التجاع کی آنکھیں بھر آئی تھی اسکی وش سے کی یاد بے تحاشا آئی آج تو وہ اپنے ہاتھ جوڑ نے میں بھی دیر نہ کرتا ۔۔


" پلیز هادیق مجھ میں اب طاقت نہیں رہی ہاتھ مت جوڑے ۔۔؟" وش اوٹو لے کے چلی گئی اسے وہی چھوڑ کر هادیق کے پاس صرف پچھتاوا تھا آج پانچ سال پہلے جب وہ یہاں سے گیا تو اسنے صرف اپنے باپ سے بات کرتا تھا کبھی ماں سے بھی کرلیا کرتا تھا لیکن وش سے نہیں کرتا تھا ۔۔۔ اسے شروع میں وش کی بہت یاد آتی تھی دل کرتا تھا بھاگ کر واپس چلا جائے اسکے پاس لیکن خود پر ضبط کرنے لگتا تھا اس لئے وہ وش سے بات نہیں کرتا تھا وہ جانتا تھا ۔۔۔ اگر اس سے بات کرے گا تو وہ اسے دور نہیں رہ پائے گا ۔۔ اور اس بیچ سویرا نے بھی اسے دھوکہ دے دیا اسنے اپنے کزن سے شادی کرلی وہ جانتی تھی هادیق اپنی کزن کو کبھی نہیں چھوڑے گا اس لئے اسنے اپنے امیر کزن سے شادی کرلی ۔۔۔ هادیق کو تب وش کی بہت قدر ہوئی پر وہ جانتا تھا اسنے دیر کردی ہے اسنے خود کو سزا دینے کے لئے وہی پڑھائی کے ساتھ اپنی جاب کر لی خود کو مصروف کرنے لگ گیا گھر والوں سے بات کرنی بند کردی وہ جانتا تھا گھر بات کرے گا تو سب اسے واپس آنے کا کہے گے پر وہ خود کو معاف نہیں کرپا رہا تھا اور اب اسے رہا نہیں گیا تو آج پانچ سال بعد واپس آیا سب سے پہلے وہ وش سے مل کر اسے معافی مانگنا چاہتا تھا اس لئے اسنے راستے میں دیکھا وش بس اسٹاپ پر کھڑی تھی وہ بھی اسکے پیچھے چلا آیا ۔۔

" سائیں جی ۔۔؟ نم پیاری آواز اپنے قریب سے آئی ۔۔


" تمہیں کہا تھا نہ میرے سامنے کم آیا کرو مجھے مخاطب بالکل مت کیا کرو ۔۔!! مرتضیٰ باہر لان میں آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا اس آواز کو پہچانتا ہوا بند آنکھوں سے ہی بولا ماتھے پر بل پڑے تھے اسکی موجودگی سے ۔۔


" یہ آپ کی چائے لائی تھی اگر آپ کے سر میں درد ہے تو مالش کر دوں ۔۔؟" عابیر معصومیت سے کہتی چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھتے اسکے ہاتھوں میں پہنی چوڑیوں کی آواز پر مرتضیٰ کی آنکھیں کھلی تھیں سامنے وہ جھکی اپنے کام میں مصروف تھی لیکن وہ تو جسے کہیں کھو گیا تھا اسکے خوبصورت سراپا دیکھتے ہی اندر میں سے بےیقینی آواز سی آئی کیا یہ عابیر بخش ہے اتنی حسین یہ لال رنگ جسے بنایا ہی اسکے لئے تھا ۔۔۔۔۔ سرخ رنگ کا برانڈ کا کاٹن کا جوڑا لمبے گنے سیاہ بال کھلے شانوں پر بکھرے ہوئے ہلکے سے میک اپ میں چھوٹے سفید ایرنگ کانوں میں دونوں سفید کلائیوں میں لال چوڑیاں اتنا حسین قیامت روپ لئے اسکے سامنے اسکا ضبط آزمانے کے در پر تھی اسکے قیامت روپ پر تو وہ آج عش عش کر اٹھا اور یہ عنایت نانی اماں اور احمد کی تھی ۔۔۔


" یہ سب کیا ہے ۔۔؟" بڑی مشکل سے خود پر ضبط کے بند باندھ کر بولا تھا ۔۔ جتنی کوشش کرتا نظریں چرانے کی پر وہ تو گستاخیاں کرنے پر تھی ۔۔


" یہ چائے بسکٹ ۔۔ مالش کروں سر پر ۔۔؟" وہ اسکا سوال سمجھ نہیں پائی پھر اپنی کہی ۔۔۔ وہ تو پہلے ہی مرتضیٰ کا امتحان بنی ہوئی تھی اور قریب آنے کی آفر دے رہی تھی اسے ۔۔ خود پر ضبط کرنا اسکے لئے محال ہو رہا تھا ۔۔


" یہ تیار کس خوشی میں ہوئی ہو۔۔؟" اسکی تیاری کی وجہ جیسے جانتا تھا پھر بھی اسکے منہ سے سننا تھا ۔۔


" یہ نئے کپڑے ہیں اور دیکھیں میں کیسی لگ رہی ہوں نانی اماں اور چھوٹے ادا نے دلوائے ہیں کہا اچھی تیار ہو کر جایا کرو شوہر کے سامنے آپ کو خوش کرنے کی لئے تیار ہوئی ہوں ۔۔۔۔؟" عابیر بڑی ہمت کرتے ہوئے اسے سب کہتی سرخ پڑھ گئی تھی ۔۔۔۔ وہ تو اسکی باتوں پر حیرت سے اسے دیکھتا رہا ۔۔


" مم ۔۔میں چائے نکالتی ہوں شاید زیادہ بول گئی۔۔۔!! عابیر اب اسکی نظروں سے گھبراتی جلدی سے چائے نکالنے جھکی تھی ۔۔


" سنبھال کر یہ بال سارے چائے میں جاتے ابھی ۔۔۔؟" اسکے جھکنے پر کچھ بالوں کی لٹیں آگے پهسلی ہوئی چائے میں پڑنے والی تھیں جسے مرتضیٰ نے آگے بڑھ کر ہاتھ سے پیچھے کیا ۔۔


" ہاں دیکھیں نہ میں نے کہا تھا چھوٹے ادا سے بال باندھ لوں لیکن اس نے کہا سائیں کو بال کھول کر پھنساؤ۔۔!! وہ تیزی سے بولتی زبان دانتوں تلے دبا گئی آنکھیں زور سے میچ لی ۔۔ مرتضیٰ کو اسکے لہجے پڑ زوروں کی ہنسی آئی لیکن دبا گیا ۔۔۔


" آپ چائے پئیں میں گئی ۔۔!! وہ خود ہی شرمندہ ہوتی وہاں سے بھاگنے لگی تھی ۔۔ پر اسکی کلائی مرتضیٰ کی مضبوط گرفت میں آ گئی ۔۔ تیز دھڑکنوں سے آنکھیں بند کرلی اسنے وہ اس کے لمبے گھنے بالوں کی پشت پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔۔ ابھی جذبات بدلتے الفاظ میں میٹھاس آتی کہ ہانیہ کی دور سے آتی آواز پر ہاتھ چھوڑ دیا اور دونوں نے مڑ کر اسے قریب آتے دیکھا ۔۔


" مرتضیٰ تم ۔۔۔ یہ یہاں کیا کر رہی ہے اور یہ کیا اتنی لمبی ویگ لگائی ہے اتارو اسے مرتضیٰ کو اپنے حسن میں پھنسا رہی ہو ۔۔۔آاہہہ اماں ۔۔۔!! ہانیہ لان میں آتے انکے قریب پہنچ کر عابیر کا خوبصورت سراپا دیکھتے ہی غصے میں اسکے لمبے بال ویگ سمجھ کر پیچھے سے زور سے کھینچے عابیر کا سر لڑک کر پیچھے ہوا وہ تڑپتی پیچھے بالوں میں ہاتھ ڈال کر اسے سے بچانے لگی مرتضیٰ صورتحال دیکھتا تیزی سے انکے بیچ آیا ہانیہ کے ہاتھوں سے اسکے بال چھڑوائے ۔۔۔


" چھوڑو ہانیہ پاگل ہو گئی ہو یہ اسکے اصلی بال ہیں کوئی ویگ نہیں چھوڑو ۔۔۔ دوبارہ اسی حرکت کا سوچنا بھی مت اس پر صرف میں حق رکھتا ہوں جو بھی کروں کسی اور کو یہ حق نہیں دیا میں نے سمجھی ۔۔!! مرتضیٰ کو ہانیہ کی حرکت انتہائی زہر لگی اسے عابیر سے پیچھے کرتے ہوئے غصے میں اسے اسکی جگہ اچھے سے سمجھا گیا تھا پھر پیچھے مڑ کر عابیر کو دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسوں بہہ رھے تھے درد سے وہ آگے بڑھتا اسکا ہاتھ تھام کر لے گیا ہانیہ غصے اور نفرت سے ان کی پشت دیکھتی رہی ۔۔۔۔


" تم ٹھیک ہو درد ہو رہا ہے کیا ۔۔!! مرتضیٰ اسے روم میں لاتے فکرمندی سے پوچھتا اسے دیکھا نم بڑی بڑی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھی جس میں مرتضیٰ کا دل ڈوب رہا تھا عابیر دکھ سے اسے دیکھتے ہوئے مڑ کر جانے لگی تھی پر اسکی کلائی مرتضیٰ کی گرفت میں تھی ۔۔


" تمہیں یہ سب تیاری کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں نے تمہیں ہمارے بیچ اس رشتے کو قبول نہیں کیا ہے یہ سب بہت مشکل ہے میرے لئے عابیر بخش میں اپنی ماما کو ناراض کر کے کوئی نیا رشتہ شروع نہیں کر سکتا اگر انھیں تم قبول نہیں تو بابا سے بات کروں گا یہ سب حرکتیں کرنا بند کرو تم ، احمد اور دادی سے بھی کہہ دینا ۔۔!! مرتضیٰ کا لہجہ جذبات پل بھر میں بدلے سنجیدگی سے ہر لفظ سے اسے مارتا گیا ۔۔ ایک نظر اس نم آنکھوں میں ڈال کر چلا گیا وہ وہی اسکے لفظوں میں پھنسی ہوئی تھی ابھی تو اسکی قربت میں دل دھڑکا تھا ابھی تو اسکے جذبات بدلے تھے اور وہ پل میں سب توڑ گیا ۔۔۔

_________

" کیا کہا بھائی نے ۔۔؟؟ احمد پر جوش نظر آیا ۔۔


" تمہارا بھائی عزت کے لائق نہیں انھیں وہ چھمک چھلو ہی چاہیے ۔۔!! عابیر کو اسکے کہے لفظ یاد آئے تھے ۔۔


" کون چھمک چھلو کس کو چاہیے ۔۔؟؟"احمد نے نہ سمجھی سے دیکھا اسے ۔۔


" اس بغیرت پولیس والے کو ۔۔!! باقی لفظ منہ میں رہ گئے تھے کیوں کہ سامنے وہ جلاد اپنے جلاد روپ میں اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کب آیا اسے پتا تک نہیں چلا تھا ۔۔ اور اسکا سانس اوپر کا اوپر نیچے کا نیچے ہی رکا ہوا تھا اسکے غصے سے وہ سچ میں ڈرتی تھی ۔۔


" دیکھا دادی یہ عورت کبھی سدھر نہیں سکتی اس پر کتنی بھی محنت کر لیں آپ لوگ یہ جاہل گنوار ہی رہے گی ۔۔!! مرتضیٰ انکے قریب آتے طنزیہ مسکراہٹ سے بولا تھا ۔۔ عابیر کو اس کی بات اسکا لہجہ بہت چبھا تھا اسے اپنی زبان پر بھی افسوس ہوا جو اسے شرمندہ ہی کروا دیتی ہے ۔۔ گاؤں میں تو یہ عام بات تھی اسکے لئے اپنے کزنوں محلے والوں سے بات کرتے ہوئے یہاں تو ویسے ہی نہیں پسند کسی کو ۔۔


" دیکھ لیجیے گا بہت جلد اپنے فیصلوں پر پچھتاوا ہوگا ۔۔ میرے بیٹے کی زندگی برباد کردی ۔۔!! شازیہ بیگم وہاں سے گزرتے ہوئے اپنے زہریلے لفظوں کا تیر چلا کر گئی تھی ۔۔


" تم کمرے میں آؤ ۔۔؟" مرتضیٰ گھورتے ہوئے کہتا روم میں چلا گیا ۔۔۔


" دیکھ لیا کیسے کچھ ٹھیک ہوگا یہاں ہم تم پر محنت کر رہے ہیں سب کے دل میں جگہ بناؤ اور تم ہو کے سب کا دل خراب کر رہی ہو کتنی بار کہا تھا اس طرح کے لفظ استعمال مت کرو سمجھ ہی نہیں آتی بات اس لڑکی کو ۔۔!! نانی اماں نے سخت گھوری سے عابیر کو دیکھا جو نم آنکھوں سے دیکھ رہی تھی بےعزتی پر چہرہ سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔


" وہ ہمارے گاؤں میں شبانہ بھی تو ہے وہ بھی اپنے شوہر کو بےغیرت کمینہ یہ سب کہتی ہے اسکا شوہر مارتا تھا اس لئے پھر میں تو اس لئے بولا انہوں نے شروع میں جب مجھے روکا تھا روڈ پر میرا سامان دیکھنے کو کہا پولیس والے کو اب خود سوچوں اماں اس طرح کسی عورت کے سامان دیکھے جاتے ہیں بیچ روڈ پر ۔۔ پھر سائیں کو وہاں غیرت نہ آئی ۔۔۔!! وہ غصے میں آج اپنے گالی دینے لفظ کی تشری کھول بیٹھی تھی ۔۔ احمد کو تو ہنسی آئی نانی اماں نے غصے میں گھورا تھا لیکن یہ ڈھیٹ لڑکی افسوس سے سر ہلا گی وہ ۔۔۔


" دادی پلیز آپ نے بہت باتیں سنا دی ہیں آپ غصہ مت کریں بھابھی سب سیکھ جائے گی بس تھوڑا ٹائم دیں اس طرح انکی ذات پر انگلی اٹھانے سے کیا ہوگا سیکھ جائے گی وہ پہلے ہی صبح برا ہو چکا ہے اسکے ساتھ غصہ کرنے کا حق تو وہ بھی رکھتی ہے ۔۔۔۔!! احمد کو سب کی باتوں سے غصہ آگیا تھا موڈ خراب ہو گیا اسکا تو غصے میں باہر نکل گیا ۔۔۔عابیر مجرموں کی طرح کھڑی رہی ۔۔


" جاؤ اب اسکے پاس پھر غصہ کرے گا شکر کرو آج زیادہ غصہ نہیں کیا اسنے ۔۔ اسکا خیال رکھا کرو بات مانا کرو دیکھنا کیسے تمہارے آگے پیچھے ہوتا ہے پھر اب جاؤ ۔۔!! نانی اماں سمجھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔


" ا اماں نانی اگر اس نے بند کمرے میں مار دیا تو مم ۔۔ میں نہیں جاؤں گی مجھے بڑا ڈر لگتا ہے سائیں سے ۔۔۔!! وہ ڈرتے ہوئے اماں نانی کے پاس بیٹھ گئی تھی ۔۔۔


" اتنا برا بیٹا نہیں ہے میرا کچھ نہیں کہتا جاؤ اب ورنہ میں یہیں اسے بلاؤں گی کہوں گی خود ہاتھ پکڑ کر لے جائے تجھے ۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں اماں کیوں میری جان کی دشمن بنی ہو۔۔۔۔!! وہ روتی صورت بناتی اٹھی تھی ۔۔ اب دل میں اللّٰه کے کلام پڑھتی گئی ۔۔

_______★

" سائیں جی کہاں گئے ۔۔۔!! وہ جیسے ہی کمرے میں آئی کمرہ خالی تھا تھوڑا آگے ہوتی باتھ روم کے دروازے کو دیکھا تھا کہ پیچھے سے دروازہ بند ہونے کی آواز پر مڑی تو وہ سامنے ہی جیب میں ہاتھ ڈالے کھڑا اسے بھنویں سکیڑتے ہوئے قدم اسکی جانب بڑھائے ۔۔ عابیر کا چہرہ فق ہوا تھا وہ قدم آگے بڑھتا گیا وہ قدم پیچھے ہٹتی گئی ۔۔


" ارے کیا ہوا بیگم آپ ڈر کیوں رہی ہیں یہ سب تیاری تو میرے لئے تھی نہ تو موقع دو اسے دیکھنے کا اسے اپنے رنگ میں رنگنے کا ۔۔!! وہ شوخ سے لہجے میں کہتا اسے قریب کیا بازؤں سے پکڑا کہ عابیر کی دھڑکن تیز رفتار پکڑ لی ۔۔۔


" مم ۔۔میں دوبارہ نہیں کروں گی ایسا سچی قسم لے لیں معاف کر دیں جانے دیں ۔۔۔!! وہ گھبرائی ہوئی سی تیزی سے بولی ۔۔۔


" گھبرا کیوں رہی ہو میں شوہر ہوں تمہارا میرا حق ہے تم پر کچھ بھی کروں ۔۔!! معنی خیز لہجہ تھا اسکے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی تھی مرتضیٰ کا ذومعنی لہجہ اسے خوف میں ڈال رہا تھا ۔۔ اسے خود کے قریب کیے ایک ہاتھ اسکے بازؤں پر دوسرا کمر میں ڈالتا اسکی ریڑھ کی ہڈی میں اک سنسناہٹ دوڑا گیا تھا۔۔۔


" منہ کھولو ۔۔؟؟ بھاری گھمبیر سرگوشی ہوئی کان میں ۔۔ عابیر کے وجود کی خوشبو اسے بہکا رہی تھی پر اس وقت وہ کسی اور ہی موڈ میں تھا تبھی ضبط کرنا پڑا خود پر ۔۔


" کک ۔۔کیوں ۔۔!! اب تو اسے خوف کے مارے رونا آرہا تھا دل شدت سے دھڑکتا رہا ۔۔


" شش میری معصوم بیگم روتے نہیں ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں یار ۔۔!! مرتضیٰ اسکے آنسو صاف کرتا معصومیت سے بولا پھر اسے لے جا کر صوفہ پر بٹھایا تھا عابیر خوف زدہ سی سمٹ کر بیٹھ گئی زبان پر تو جیسے تالا لگ گیا تھا ۔۔


" ارے یہ کیا میری معصوم بیگم کی دراز زبان کہاں غائب ہو گئی اتنی خاموشی ۔۔ کہیں کسی طوفاں کی علامت تو نہیں ہے نہ ۔۔۔!! مرتضیٰ اپنے عجیب روپ پر اسے خوف میں مارنے کے در پر تھا ۔۔


" چلوں شاباش منہ کھولو ۔۔۔ کھولو۔۔؟" اسکے آرام سے کہنے پر وہ نہیں مانی جب سختی سے کہا تو ہمت کرتی سو سو کے ساتھ منہ کھولا ہلکا سا ۔۔


" زبان باہر نکالو۔۔!! رعب سے کہتا اسکے سر کی نفی پر گھورا تو اسنے نکالی ۔۔۔!! مرتضیٰ کا مسکرانا عجیب تھا ۔۔


" آہہہہ ۔۔۔ اماں ۔۔۔ شش ۔۔۔!! مرتضیٰ کے ہاتھ میں وہ چمکتی ہوئی چیز دیکھ کر عابیر کی خوف سے چیخ نکلی اسکی باقی کی آواز حلق میں دبا دی مرتضیٰ نے وہ اس پر جھکا چھوٹا سا چاکو اپنے ہونٹوں پر رکھتا اسے چپ رہنے کا اشارہ دیا قریب سے اسکی آنکھوں میں دیکھتے پل بھر کو رحم آیا اسکی حالت پر لیکن آج اگر اسکا علاج نہیں کیا تو وہ پھر اسے سب کے سامنے بےعزت کرتی رہے گی۔۔۔


" اگر چلاؤ گی چیخوں گی تو ایک منٹ نہیں لگاؤں گا زبان کاٹنے میں تم مجھے جانتی نہیں عابیر بخش میں کتنا خطرناک پولیس والا ہوں ارے نہیں تم کیا کہتی ہو بغیرت رشوت خور یہی سب کہتی ہو نہ بولو کاٹ دوں زبان جس سے صرف فضول لفظ نکلتے ہیں ۔۔۔!! ایک دم نفرت حقارت سے اسے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ عابیر کا چہرہ سفید پڑا تھا خوف کے مارے جسم کانپنے لگا تھا ۔۔۔ آج اسنے جتنی توبہ کرنی تھی کرلی اپنی زبان سے نفرت سی ہونے لگی تھی اب تو مر کر بھی اس شخص کو کچھ نہیں بولے گی ۔۔


" چلو عابیر تمہیں ایک موقع دیتا ہوں سدھرنے کا اگر تم نہیں سدھری پھر وہی جاہلوں والی زبان استعمال کی تو اس دن آخری دن ہوگا تمہارا سمجھ آئی بات ۔۔!! مرتضیٰ کو رحم آ ہی گیا تھا اس پر ۔۔۔ وہ تیزی سے ہاں میں سر ہلانے لگی ۔۔ مرتضیٰ نے اسکے منہ سے ہاتھ ہٹایا وہ گہرا سانس لیتی ڈر سے اس سے دور ہوئی تھی ۔۔


" اور ہاں کیا باہر جاکے بتاؤ گی میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا ۔۔؟؟


" نن ۔۔ نہیں مم ۔۔میں کسی کو نہیں بتاؤں گی مجھے مت ماریں۔۔!! خوف سے روتے ہوئے نفی میں سر ہلاتے ہوئے وعدہ کر رہی تھی مرتضیٰ کا ڈر اسکے اندر گہرا اثر چھوڑ گیا تھا اب تو کچھ بھی ہو جاتا وہ اسکا راز راز ہی رکھتی ۔۔ مرتضیٰ کو حیرت ہوئی وہ اتنا ڈر گئی تھی اس سے جب کے اسکے حساب سے اسنے ابھی تک اتنا کچھ کیا بھی نہیں تھا ۔۔


" ٹھیک ہے اب جاؤ میرے لئے کچھ کھانے کو لاؤ اور ساتھ چائے خبر دار کہیں اور گئی کسی سے کچھ کہا تو اس بار ایسا غائب کروں گا خود کو بھی نہیں ملو گی ۔۔!! غصے میں قریب آتے آخری وارننگ دیتا واش روم میں چلا گیا عابیر منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے رو پڑی تھی ۔۔

______

" بھابھی کیا کر رہی ہیں ۔۔!! احمد کچن میں آتے ہی پیار سے بولا تھا ۔۔۔


" وو ۔۔وہ سائیں کے لئے چائے آپ کو دوں۔۔!! عابیر بہت آرام دہ آواز میں بولی ۔۔ ایک تو پہلے ہی ڈری ہوئی تھی احمد نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا ۔۔۔


" بھابھی آپ ٹھیک ہیں آپ روئی ہیں کسی نے کچھ کہا بھائی نے ۔۔!! احمد اسکی سرخ آنکھیں دیکھتے فکر مندی سے پوچھا ۔۔


" نن ۔۔نہیں وہ میں تھک گئی ہوں جلدی سوتی ہوں نہ آج دس بج گئے ہیں اس لئے ۔۔۔!! ایک پل کو خیال آیا احمد سے دل کا حال کہہ دے پھر اگلے پل مرتضیٰ کی دھمکی یاد آئی تو ڈر سے بات بدل گئی تھی ۔۔۔


" عابیر چائے کا کہا تھا میں نے ۔۔!! مرتضیٰ کی انٹری پر دونوں نے مڑ کر دیکھا عابیر تو گھبرا گئی اسے دیکھ کر ذہن کے پردے پر وہی فلم چلی تھوڑی دیر پہلے والی ۔۔


" مم ۔۔میں لا رہی تھی بن گئی آپ کو دوں چھوٹے ادا ۔۔!! عابیر نے چائے نکالتے ہوئے احمد سے پوچھا تھا ۔۔


" جی ضرور نکال دیں۔۔!! وہ مسکراتا ہوا کہتا مرتضیٰ کے پاس گیا ۔۔


" ایک بات کہوں بھائی اچھی چیز کی قدر کرنا سیکھ لیں کھو گئی تو پچھتائیں گے ۔۔!! احمد دھیرے سے کہتا اپنی چائے لیے چلا گیا مرتضیٰ اسکی پشت گھورتے ہوئے عابیر کی طرف دیکھا جو کام میں مصروف تھی ایک پل کو دل میں اسکے لئے رحم آیا احساس سا جاگا تھا پر کیا یہ احساس اسے جلد ہوگا یہ بات تو خود بھی نہیں جانتا تھا ۔۔۔

وقت کا کام تیزی سے گزرنا سو گزر رہا تھا ہر کوئی اپنی زندگی میں مصروف تھا بس کسی کے لئے اچھا وقت گزر رہا تھا تو کسی کے لئے برا مرتضیٰ گھر تھوڑا کم آنے لگا تھا خود کو کام میں مصروف کردیا تھا وجہ ماں ٹھیک سے بات نہیں کرتی تھی باپ سے خود ناراض تھا شادی کی وجہ سے عابیر سے اسکا کم ہی آمنا سامنا ہوتا تھا کیوں کے وہ اب اس سے ڈرتی بہت تھی اس لئے کم جانے میں ہی عافیت تھی ہانیہ اپنے گھر جا چکی تھی انکے گھر والے یہی شفٹ ہو گئے تھے احمد پڑھائی کے ساتھ گھر میں عابیر کے ساتھ تھوڑی مستی کر لیتا تھا شازیہ بیگم کا رویہ تبدیل نہیں ہو رہا تھا عابیر سے دن بہ دن وہ اسے چبھ رہی تھی جسکا روز شوہر بیٹے پر ڈالتی تھی ۔۔۔

" سنو جاہل لڑکی کب تک رہنے کا ارادہ ہے تمہارا یہاں ۔۔؟" شازیہ بیگم ناگواری سے بولی تھیں ۔۔

" جج جی میں کہاں جاؤں گی ۔۔؟" عابیر نے  نہ سمجھی سے آرام سے بولی تھی ۔۔

" اپنے گاؤں چلی جاؤ میرے بیٹے کے لئے تم بالکل قابل نہیں ۔۔ دیکھا ہے کبھی خود کو آئینہ میں اسکے برابر لگتی ہو۔۔!! شازیہ بیگم نے غصہ نفرت سے کہا آج غصہ بہت تھا عابیر پر ۔۔ لیکن وہ چاہ کر بھی ان سے بدتمیزی نہیں کر سکتی تھی ۔۔

" تمہیں شرم نہیں آتی مجھ سے زبان چلاتے ہوئے یہی دن دیکھنے باقی رہ گئے تھے اب ۔۔؟" شازیہ بیگم کے اچانک انداز بدلنے پر عابیر حیرت زدہ ہوئی تھی ۔۔

" سس  آ آپ ۔۔۔۔ عابیر ۔۔۔!! ابھی وہ کچھ کہتی پیچھے سے بھاری گھمبیر آواز پر اچھل پڑی ۔۔ دیکھا تو سامنے مرتضیٰ اور حمید صاحب کھڑے تھے وہیں احمد بھی آگیا سب ساتھ کھڑے تجسس میں دیکھ رہے  تھے۔۔

" تمہاری ہمت کیسے ہوئی ماما سے بدتمیزی کرنے کی ۔۔!! مرتضیٰ غصے میں آگے بڑھتے ہوئے اس کا بازو پکڑا عابیر کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا کیا کہہ اور کیا ہو رہا تھا ۔۔۔

" مم ۔۔۔ میں نے کچھ نہیں کیا میں سچ کہہ رہی ہوں ۔۔۔!!

" ہاں بیٹا یہ سچ بول رہی ہے اس نے کچھ نہیں کہا چھوڑو جانے دو میں ہی جھوٹی ہوں ۔۔۔!! شازیہ بیگم افسوس سے کہتے ہوئے چلی گئی تھیں وہاں سے ۔۔۔عابیر تو انکے جھوٹ پر ابھی تک حیرت زدہ تھی ۔۔۔

" دکھا رہی ہو نہ اپنا جاہل پن ۔۔۔ تم جیسی جاہل گوار کو اپنے ہی گاؤں جسے بندے سے شادی کرنی چاہیے ۔۔۔!! مرتضیٰ  غصے میں اسکی تذلیل کرتا روم میں چلا گیا ۔۔۔احمد اور حمید صاحب کو بہت دکھ ہوا عابیر کی حالت پر ۔۔

" بیٹا مجھے معاف کر دینا یہ سب شاید میری وجہ سے ہو رہا ہے ۔۔۔!! حمید صاحب شرمندگی سے بولتے چلے گئے ۔۔۔

" مم ۔۔میں سچ میں کچھ نہیں کیا چھوٹے ادا تم کو بھی یقین نہیں ۔۔۔!! عابیر روتے ہوئے احمد سے کہا ۔۔

" روتے نہیں مجھے پورا یقین ہے آپ نے کچھ نہیں کہا وہ بس ماما آپ کو پسند نہیں کرتی اس لئے شاید وہ ایسا کہہ رہی ہیں میں ان کی طرف سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارے نہیں نہیں چھوٹے ادا آپ کیوں بولیں گے میں ان سے بھی نہیں کہتی یہ بس نصیب ہے میرا ۔۔!! عابیر احمد کو شرمندہ دیکھتی جھٹ سے اسے شرمندہ ہونے سے روکا تھا ۔۔۔

" اچھا بھوک لگی ہے کھانا ملے گا ۔۔!! احمد نے منہ بناتے ہوئے پیٹ پر ہاتھ رکھا ۔۔

" ہاں ابھی لائی ۔۔!! وہ سب کچھ بھولتی مسکرا کر بھاگی ۔۔

__________★

" آئم سوری ماما یہ سب میری وجہ سے ہو رہا ہے شاید آپ کو اتنا ہرٹ کرنے کی سزا ہے ۔۔!! مرتضیٰ ماں کے آگے بیٹھا انکے ہاتھ تھام کر عابیر والی بات سچ سمجھتا ماں سے معافی مانگنے لگا تھا۔۔۔

" نہیں بیٹا یہ میرا قصور ہے جو اس لڑکی کو ایک موقع دینے چلی تھی تمہاری زندگی میں اسے موقع دینا چاہا خواہش تو میری ہانیہ تھی ۔۔!! شازیہ بیگم دکھ سے بیٹے کو قائل کرنے لگی تھی ۔۔۔

" دکھ کس بات کا بیگم کروا دو بیٹے کی دوسری شادی ویسے بھی پہلی کو تو اسکا حق دے نہیں رہا دوسری کو شاید دے دے ۔۔۔!! حمید صاحب طنزیہ کہتے روم سے باہر چلے گئے ۔۔ ایک پل کو مرتضیٰ کو شرمندگی ہوئی تھی ۔۔۔

" مرتضیٰ ۔۔۔۔جی ۔۔" ماں کے پکار نے پر وہ ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔

" بیٹا میں بھی چاہتی ہوں تم میری خواہش پوری کرو جیسے باپ کی کی ہے ویسے میری بھی ایک کر دو ۔۔!! شازیہ بیگم جذباتی ہوئی ۔۔

" کیا مطلب ماما میں سمجھا نہیں !؟ نہ سمجھی سے مرتضیٰ نے دیکھا ۔۔

" دیکھوں بیٹا لوگ تو چار چار شادیاں بھی کر لیتے ہیں تم تو میرے پیارے بیٹے ہو نہ میری بھی بہت خواہش تھی ارمان تھے تمہاری شادی کو لے کر تو کیا جیسے باپ کی بات مانی ویسے ماں کا مان بھی رکھ لو ہانیہ سے شادی کرلو بےشک اس لڑکی کو بھی رکھو نہیں کہوں گی کچھ لیکن بیٹا وہ تمہارے ساتھ باہر کی دنیا میں اٹھنے بیٹھنے کے قابل نہیں ہانیہ کو باہر کی دنیا میں لے کر  گھوم سکتے ہو اس جاہل کو گھر کی دنیا میں ہی رکھو ۔۔۔!! اور بھی بہت کچھ کہہ رہی تھیں شازیہ بیگم لیکن مرتضیٰ کو پتا نہیں کیوں یہ سب اچھا نہیں لگا تھا ماں کو انکار کرنے کی ہمت وہ کر نہیں پایا تھا دل میں عجیب سی بے چینی ہونے لگی تھی ۔۔

" اچھا سنو تمہاری خالہ لوگ یہاں آئے ہوئے ہیں زین کی شادی کی ڈیٹ فکس کردی ہے انہوں نے کل آئیں گے یہاں میں چاہتی ہوں تم مجھے جلد سوچ کر جواب دو تا کہ میں اس بیچ اپنی بہن سے بات کرلوں اپنے باپ سے خود بات کر لینا وہ ویسے ہی مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔۔۔!! وہ بیٹے کے دل کے حال سے انجان اپنے ہی دل کی بات کرتے ہوئے کہا تھا ۔۔

_________★

مرتضیٰ نے روم میں آتے چاروں طرف نظر دوڑائی کسی کی تلاش میں لیکن وہ ہوتی تو نظر آتی دل میں خواہش سی جاگی وہ یہاں ہو اسکی باتوں کو اسکے جاہل پن کو جسے مس کیا تھا اسنے ۔۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا اچانک سے کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا یا پھر اچانک سے شازیہ بیگم کی باتوں کا اثر تھا ۔۔۔ بے چین ہوتا روم سے باہر نکلا اسکے قدم دادی کے روم کی طرف تھے جسے ہی اندر سے آواز آئی قدم باہر ہی رک گے آدھ کھلے دروازے سے اسکی پشت نظر آرہی تھی جو کے دوپٹے سے کور تھا اسکی یہ عادت سب کو گھر میں اچھی لگتی تھی اسکا دوپٹہ سر پر ہی رہتا تھا بھلے اب وہ انکے دیے گے لان کے برینڈڈ کپڑوں کو پہنتی تھی لمبے گھنے بال ہمیشہ باندھ کر چلتی اس پر دوپٹہ  معصوم چہرے کی کشش تھی جسے گھر میں سب کو اپنی اپنی لگتی تھی وہ صرف دو انسان کو چھوڑ کر مرتضیٰ اور شازیہ بیگم ۔۔۔

" نانی اماں میں سچ کہہ رہی ہوں جھوٹ نہیں بولتی میں میں نے مامی ساس کو کچھ بھی نہیں کہا تھا بلکہ انہوں نے کہا میں گاؤں چلی جاؤں ۔۔۔!! عابیر دکھی انداز میں نانی اماں سے شکایات کی ۔۔

" میں جانتی ہوں میری عابیر بہت نیک دل ہے وہ ایسا کچھ نہیں کہتی بس چھوڑو دل پر نہ لو بات کو تم جانتی ہو نہ اپنی ساس کا رویہ ابھی اسے وقت دو ۔۔!! نانی اماں نے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا تھا ۔۔

" اچھا میں یہاں سو جاؤں آج نہ روکنا اماں ۔۔۔ سائیں بڑے غصے میں ہیں مجھے ان سے بڑا ڈر لگتا ہے وہ تو میری بات کا یقین بھی نہیں کرتے نہ ۔۔۔!! عابیر کے دل میں مرتضیٰ کا خوف تازہ ہو گیا تھا ۔۔

" دیکھو بیٹا اب تمہاری شادی ہوگئی ہے تمہارا اپنے شوہر کے کمرے میں ہی رہنا ٹھیک ہوگا ایسے کب تک چھپتی رہو گی ۔۔!! دادی کو اچھا نہیں لگتا تھا مرتضیٰ کا رویہ لیکن وہ ان کے بیچ سب ٹھیک کرنا چاہتی تھیں ۔۔۔

"ایک تو وہ پہلے ہی میرے خون کے پیاسے ہیں ۔۔

" اماں وہ نہیں مانتے بیوی مجھے میں جاہل گوار ہوں گاؤں سے آئی ہوں ۔۔۔ اور دیکھے سہی کہتے ہیں کیا میں نہیں ہوں جاہل ہوں نہ پھر کیوں سب بڑے زبردستی کر رہے ہیں ایسے رشتے کو چلانے کی جس کا کوئی نام و نشان نہیں ۔۔۔اب میں یہی سو رہی ہوں زمیں پر سو جاؤں گی پر وہاں آج تو نہیں جانے والی میں ۔۔۔!! عابیر نے حالات کو سمجھتے ہوئے بات تو سہی کہہ دی دل میں تو دکھ اسکے بھی بہت تھا لیکن اتنا تو سمجھ گئی تھی یہاں کے لوگ صرف پڑھے لکھے کو اہمیت دیتے ہیں ۔۔۔ مرتضیٰ کے دل میں ایک بوجھ سا بیٹھ گیا تھا عابیر کی باتیں اسکا سچائی والا لہجہ ۔۔۔مرے قدموں سے واپسی کی رہ لی ۔۔۔۔۔ ساری رات بے چینی سے نیند نہیں آئی اسے ۔۔ اے سی پر نظر پڑھتے ہی اسکے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ آئی تھی عابیر کا انداز روز رات کو اس ٹھنڈے دبے کو بد دعا دینا ۔۔۔

_______★

" تم سب کو ضرور آنا ہے زین کی شادی میں ۔۔!! شازیہ بیگم کی بہن بیٹے کی شادی کا کارڈ لے کر آئی تھی سب لاؤنج میں بیٹھے ہوئے تھے عابیر کچن میں چائے بنا رہی تھی ۔۔۔

" ماشاءاللّٰه بہت مبارک ہو بتول بیٹے کی ۔۔!! دادی نے مسکراتے ہوئے مبارک باد دی ۔۔

" شکریہ اماں بس آپ کی دعاؤں کا صلہ ہے ۔۔!!

" خالہ یہ تو بتائے زین نے خود پسند کی ہے یا آپ لوگوں نے ۔۔!! احمد نے شرارت سے زین کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔

" میں نے خود میرے بیٹے نے کہا جہاں ماما کہے گی وہیں کروں گا پھر دیکھ لو ایک شادی پر گئی تھی وہاں وہ لڑکی بہت پسند آئی مجھے ماشاءاللّٰه پڑھی لکھی خوبصورت سی ہے ۔۔!! بتول خالہ کے لہجے میں فخر تھا بیٹے کے لئے وہی سب کی نظر شازیہ بیگم پر اٹھی جن کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی جو بھی تھا ماں تھی دل میں ارمان رکھتی تھی بیٹے کی شادی کا سب کے چہرے پر شرمندگی کے تاثرات تھے ۔۔

" ہاں مرتضیٰ تم کب کر رہے ہو شادی دیکھ لو تم سے پہلے میری ہو رہی ہے ۔۔!! زین نے ہنستے ہوئے قہقہہ لگایا تھا ۔۔

" ہاں شازیہ تم بتاؤ کب بیٹے کو گھوڑی پر بیٹھاؤ گی ۔۔!! بتول خالہ نے بہن کو کہا۔۔

" یہ بڑا ہے سمجھدار ہے اپنی مرضی کرے گا حمید صاحب ہیں نہ پھر میری کیا ضرورت ۔۔!! شازیہ بیگم طنزیہ انداز میں دونوں کو دیکھ کر کہا تھا ۔۔

" کیوں نہیں تم ماں ہو حق رکھتی ہو۔۔!! ہاں ہاں ضرور سوچیں گے ابھی زین کی شادی تو انجوئے  کر لیں ۔۔!! شازیہ بیگم نے دکھ سے بیٹے کو دیکھتے ہوئے بات بدل گی ۔۔

" یہ کون ۔۔؟؟ بتول خالہ سامنے چائے پیش کرتے ہوئے عابیر کی طرف اشارہ دیا اس سے پہلے شازیہ بیگم اس کی کوئی تذلیل کرتی احمد جھٹ سے بولا تھا ۔۔۔

" یہ ہماری پیاری کزن سارا پھوپھو کی بیٹی ہے ہمارے پاس گھومنے آئی ہے ۔۔!! احمد چاہا کر بھی بھابھی لفظ استعمال نہیں کر پایا ماں کے انداز پر چپ ہوتے بات بدلی سب نے سکھ کا سانس لیا لیکن پتا نہیں کیوں ایک شخص کو اچھا نہیں لگا اپنے نام سے جوڑے ہونے کے باوجود نام نہیں دے پایا ۔۔

" شی از سو کیوٹ اس کو بھی ساتھ ضرور لانا اور آپ سب نے ضرور آنا ہے ہر ایونٹ میں ۔۔!! پھر باتوں کا دور چلا ان سب میں عابیر خاموش بیٹھی ہوئی تھی لیکن زین کے بار بار مخاطب کرنے پر ہلکی آواز میں جواب دیتی رہی دل میں صرف شازیہ بیگم اور مرتضیٰ کا خوف تھا ۔۔

_____

هادیق گھر میں جیسے آیا اسے کچھ آوازے آئی وہ ان آواز کے پیچھے گیا تو وہ اپنی جگہ ساکت رہ گیا سامنے کا منظر دیکھ کر ۔۔

" نہیں دادو یہ میرا ہے آپ ايانا سے کہہ نہ ۔۔ " ہادی اپنی ٹوئن بہن کی شکایت کی دونوں ہی چار سال کے گول مٹول پیارے بچے تھے ہادی بالکل هادیق کی کوپی تھا ايانا ماں کے جیسی دیکھتی تھی ۔۔

" بس دونوں لڑنا بند کروں اور جلدی سے دودھ  پیلو پھر جلدی سونا ہے نہ ۔۔؟" وش دودھ لے کے انکے سامنے آئی ۔۔

" نہیں ماما مجھے  ڈوڈو پستڈ نہیں ۔۔ !! ايانا نے منہ بناتے ہوئے کہا ایسا کرتے ہوئے وہ بہت کوٹ لگ رہی تھی ۔۔

" نہیں کوئی نخرے نہیں چلے گئے جلدی ختم کروں ۔۔ وش نے آنکھیں دکھائی تو دونوں نے جلدی سے دودھ ختم کیا ۔۔

" بابا بابا ۔۔ ہادی کی نظر هادیق  پر گئی تو وہ بھاگتا ہوا اسکے پاس گیا ۔۔ هادیق جو شاک میں تھا اسکی آواز پر ہوش میں آیا اور جھک کر اسے گود میں اٹھایا ايانا بھی اسکے پاس آئی ۔۔

 مسز مصطفیٰ بیٹے کو دیکھ کر اپنے آنسو روک نہیں پائی وہ بھی هادیق  کے پاس جاکے اسے ملی جو اپنے بچوں کو پیار کر رہا تھا مصطفیٰ صاحب وش اپنے جگہ کھڑے ہوئے تھے ۔۔

" میرا بیٹا کیسے ہوں تم ٹھیک ہو نہ اسی بھی کیا ناراضگی کے ہم بھوڑے ماں باپ کو ہی بھول گے بیٹا ۔۔ مسز مصطفیٰ دکھ افسوس سے کہا ۔۔

" میں آپ سب سے مافی چاہتا ہوں جانتا ہوں مافی کے قابل نہیں جو غلطی کی ہے اسکی سزا تو ملنی تھی نہ پر آپ لوگوں نے مجھے سے میرے بچوں کی پیچان تک چھپا دی اتنا بھی بڑا گناہ نہیں کیا تھا میں نے جتنی سزا آپ لوگوں نے دی ہے آج ۔۔!!  هادیق مصطفیٰ صاحب اور وش کے سامنے آکر غصے میں زور سے چلایا اسے آج بہت برا جھٹکا لگا تھا اپنے بچوں کو دیکھ کر ۔۔

" بچوں آپ روم میں جاؤ میں آتی ہوں جاؤ شاباش ۔۔!! وش نے  بچوں کو پیار سے کہا اور انھیں روم میں بھیج دیا ۔۔

" جی تو مسٹر هادیق مصطفیٰ کیا کہہ رہے تھے سزا دی ہے ہم لوگوں نے آپکو اچھا اور جو آپ کرتے آئے ہیں وہ کیا ہے ۔۔ ؟" وش هادیق کے سامنے آتی سکون سے کہہ رہی تھی ۔۔ وہ جانتی تھی یہ سب تو ایک دن ہونا تھا کل جو اس سے ملنے کے بعد وہ گھر آئی کتنا روئی تھی پھر سے پرانی یادیں وہ سب نظروں کے  سامنے گھومی تھی ۔۔ کہی نہ کہی هادیق کے ریکشن سے ڈر بھی تھا ۔۔۔

" میں نے جو بھی کیا لیکن تم نے میرے بچوں کی پیچان چھپا کر رکھی مجھ سے کیا یہ سہی تھا بولو ۔۔؟" هادیق غصے میں اسکا بازو پکڑ کر بولا  مصطفیٰ صاحب اپنی مسز کو لے کے وہاں سے چلے گئے وہ چاہتے تھے دونوں آرام سے بات کرلے ایک دوسرے سے ۔۔۔

اچھا بتائے کیسے بتاتی آپکو کہ آپ کے بچے ہیں ۔۔  یہاں سے جانے کے بعد کبھی  بھی ایک بار صرف ایک بار اپنے مجھے سے بات کی یا پھر کوشش کی بات کرنے کی نہیں هادیق مصطفیٰ میں ایک پاگل تھی یہاں جو ہر پل تڑپ رہی تھی جانے ایسا کیا ہو گیا مجھے سے جو آپ بات تک نہیں ۔۔ جب کرتے بابا سے بات کرتے تھے تو اس وقت وہی کھڑی ہو کر انتظار کرتی تھی میں شاید یہ فون اب میری طرف آئے گا اب مجھے سے بات کریں گے آپ لیکن نہیں کبھی ایسا کچھ نہیں ہوا روز میرا دل توڑتے تھے آپ ۔۔ اور پھر کیا آئستہ آئستہ وہ کال بھی آنا بند ہوگی میں چاہتی تھی یہ بات میں خود بتاؤں آپکو یہ پل میں آپکے ساتھ جیوں لیکن اپنے میرے سارے خواب ارمان توڑ دیے توڑ دیے هادیق ۔۔ وش روتی ہوئی نیچے بیٹھتی چلی گئی اسنے آج اپنی ہر بات کہہ کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردیا تھا ۔۔ پر هادیق کو شرمندہ کیا اسے اسکی غلطی بتا کر وہ خود سے نظر نہیں ملا پا رہا تھا ۔۔ وہ آج جی بھر کر پچھتایا تھا دل میں خیال آیا کاش وہ زندہ ہی نہ ہوتا یہ سب کچھ نہ ہوا ہوتا وہ کیوں چھوڑ گیا تھا ان سب کو کیوں خود کے ساتھ برا کر بیٹھا تھا ۔۔ وش اپنی جگہ سہی تھی وہ کیسے بتاتی اس نے تو کبھی بات کرنے کی کوشش ہی نہیں کی اس سے ۔۔۔ آج اسکے پاس صرف پچھتاوا رہ گیا تھا ۔۔۔

" کل رات کہاں تھی ۔۔؟" مرتضیٰ نے آج اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر جان بوجھ کر انجان بنا ۔۔

" نانی اماں کے پاس سوئی تھی ۔۔!! دھیرے سے بولتے ہوئے بستر بچھانے لگی ایک تو یہاں آنے کا دل نہیں تھا اوپر سے نانی اماں نے زبردستی بھیجا تھا ۔۔۔

" مجھے ایک کپ چائے لا دو ۔۔۔!! دل اس سے باتیں کرنے کو مچل رہا تھا جیسے دو دن سے وہ دور بھاگتی رہی بات نہیں کرتی تھی اور یہ چیز مرتضیٰ سے برداشت نہیں ہو رہی تھی ۔۔

" ابھی تھوڑی دیر پہلے تو پی تھی ۔۔؟" وہ حیرت سے بولی ایک تو اسے جلد سونے کی عادت تھی اوپر سے نیند پوری طرح حاوی ہو رہی تھی ۔۔۔

" تو کیا دوبارہ پینے پر پابندی ہے جاؤ چائے لاؤ ۔۔!! اس بار تھوڑا سخت انداز اپنایا تھا مرتضیٰ نے ۔۔

" ایک تو یہ شخص زہر لگتا ہے مجھے صرف غصہ کرنا اور  حکم چلانا آتا ہے ہونہہ ۔۔!! عابیر دیرے سے بڑبڑاتے ہوئے بے دلی سے چائے بنانے نکلی ۔۔ مرتضیٰ کو اس کا یہ روپ بہت پیارا لگا تھا پر اپنی ہی کیفیت سے انجان بن رہا تھا ۔۔۔

" رکو کہاں ۔۔!! وہ تھوڑی دیر بعد چائے لے کے حاضر ہوئی اسے دیتے ہی سونے کے لئے آگے بڑھی پھر پکار بیٹھا ۔۔ اسے سخت نیند آرہی تھی جس وجہ سے وہ بیزار ھو رہی تھی ۔۔

" اب کیا ۔۔ دیکھے سائیں جی مجھے نیند آرہی ہے سخت والی صبح کہنا جو کام ہو۔۔!! وہ کہتی پھر سے جانے لگی مرتضیٰ اس کی نیند سے بوجھل آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اسے تنگ کرنے کا سوچا مزہ آرہا تھا اسے یہ سب کرتے ہوئے ۔۔

" نہیں بعد میں سونا ابھی میرے سر میں مالش کرو اس دن تو کہہ رہی تھی نہ تمہارے ہاتھوں میں جادو ہے تو دکھاؤ اپنا جادو ۔۔!! مرتضیٰ کو کوئی بہانہ بنانا پڑا اسے روکنے کا ۔۔ عابیر کو مرتضیٰ کا رویہ جھٹکا دے رہا تھا وہ کب سے اس سے اتنے کام کروانے لگا تھا یہ سب کیا ہو رہا تھا کہیں خواب تو نہیں نیند تو اس کے رویہ پر اڑ سی گئی تھی دل یکدم دھڑک اٹھا تھا ۔۔ جن جذبات کو سلا رہی تھی وہ پھر جاگنے لگے تھے ۔۔ خاموشی سے آگے بڑھتے ہوئے تیل لائی وہ صوفہ پر بیٹھ کر چائے پینے لگا اور وہ اسکے پیچھے کھڑی دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کانپتے ہاتھ آگے کر کے آرام سے اسکے سر پر تیل کی مالش کرنے لگی ۔۔ ایسا کرتے ہوئے اسکے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکراہٹ بکھر گئی تھی مرتضیٰ آنکھیں بند کرتا سکون سا محسوس کرنے لگا تھا کمرے میں معنی خیز خاموشی چھائی ہوئی تھی ۔۔

" سائیں جی کیا ہم بھی شادی میں جائیں گے مجھے نہ بڑا شوق ہے شادیوں میں جانے کا وہاں کا کھانا کھانے کا ۔۔!! عابیر مزے سے مالش کرتے ہوئے اپنی ہی دھن میں کہہ رہی تھی ۔۔ مرتضیٰ جو سکون سے آنکھیں موڑے ہوئے تھا یکدم آنکھیں کھولی تھیں ۔۔

" تم کیوں جاؤ گی تمہیں کس نے بلایا وہاں ۔۔!! مرتضیٰ نے گھورتے ہوئے کہا تھا ۔۔

" کیوں نہیں جائیں گے ان ادا نے مجھے بھی دعوت دی ہے میں جاؤں گی ضرور جاؤں گی ۔۔!! عابیر بدلے میں گھورتے ہوئے کہتی اپنے بستر پر چلی گئی وہ بس گھورتا رہ گیا تھا ۔۔

_________★

" آج سب جلدی گھر واپس آ جانا شام کو ہمیں جانا ہے مہندی پر زین کی یاد رہے ۔۔!! شازیہ بیگم سب کو ناشتے پر ساتھ بیٹھا دیکھ کر کہا آج انھیں زین کی مہندی پر جانا تھا ۔۔

" اوکے موم میں تو آ جاؤں  گا باقی بابا اور بھائی کا تو آپ کو پتہ ہے جب کہو کہیں جانا ہے تو دیر کرتے ہیں ۔۔!! احمد نے منہ بناتے ہوئے کہا اس کی بات پر عابیر کو ہنسی آئی پر چھپا گئی ۔۔ مرتضیٰ نے اسے اور احمد کو گھورا تھا ۔۔

" میری طرف سے معذرت کر لینا بہو میری طبیعت ٹھیک نہیں گھٹنوں میں درد رہتا ہے اس لئے بیٹھ نہیں پاؤں گی زیادہ دیر ۔۔ شادی پر چلوں گی بس ۔۔!! دادی اماں نے طبیعت خرابی کی وجہ سے معذرت کر لی ۔۔ شازیہ بیگم کی موجودگی میں عابیر کی زبان چلتی نہیں تھی ۔۔

" ٹھیک ہے اماں کہہ دوں گی بس بچوں آپ سب ٹائم پر پہنچ جانا ۔۔!! شازیہ بیگم نے ایک بار پھر پر یاد دلایا انھیں ۔۔

" کوشش کرتا ہوں جلد آنے کی ۔۔!! مرتضیٰ ناشتہ ختم کرتا جانے لگا حمید صاحب بھی حامی بھرتے ہوئے آگے بڑھے ۔۔

" ماما آپ عابی کو بھی ساتھ لے جانا، پارلر سے اچھے سے تیار کروائیے گا آخر کو ہماری بھابی کسی سے کم نہیں لگنی چاہیے ۔۔۔!! احمد کی بات پر شازیہ بیگم کا موڈ خراب ہوا اور عابیر سرخ پڑتے ہوئے مسکرا دی ۔۔ تھوڑی دیر میں سب اپنے اپنے راستے ہوئے جب عابیر کچن میں تھی شازیہ بیگم وہاں آئی ۔۔

" سنو لڑکی ۔۔!! شازیہ بیگم نے ناگواری سے اسے پکارا تھا ۔۔

" جی جی بولے ۔۔!! وہ ادب سے نرمی سے بولی تھی ۔۔

" تم نہیں چلو گی ہمارے ساتھ کسی بھی فنکشن میں سمجھی ہمیں اپنی ناک نہیں کٹوانی تم جیسی جاہل لڑکی کو ہر جگہ ساتھ لے پھرتے رہیں یہ تو میرے بیٹے بیوقوف ہیں جو تم جیسی جاہل لڑکی کا دل رکھتے ہیں میں نہیں ۔۔اور ہاں خبر دار کسی سے کبھی کچھ یہ کہا تم میرے بیٹے کی بیوی ہو اس کی شادی میں اپنی مرضی سے  اپنے  اسٹینڈر کے حساب سے کروں گی ۔۔ اماں کا بہانہ کر کے رک جاؤ ۔۔!! شازیہ بیگم اپنی ناگوار باتوں سے اسکا دل زخمی کرتے ہوئے چلی گئیں وہ بت بنی انکی باتوں پر آنسو بہانے لگی تھی کتنا شوق تھا اسے جانے کا رات مرتضیٰ سے بحث بھی کی اور اب یہ کیا وہ اتنی ناقابل تھی سب کیلئے ۔۔۔۔

_________★

" میرے کپڑے پریس کردو یہ والے ۔۔!! مرتضیٰ نے سفید کاٹن کا سوٹ نکال کر اسے تھمایا ۔۔۔ وہ خاموشی سے تھامتی ہوئی پریس کرتی لے آئی مرتضیٰ کو آج وہ خاموش اور اداس لگی تھی جیسے لیکن اسکے پاس مزید ٹائم نہیں تھا اسکے احساسات سمجھتا ۔۔ اسکے تیار ہونے تک وہ اسکی وہیں مدد کرتی رہی پھر روم سے نکل آئی ۔۔ تھوڑی دیر بعد مرتضیٰ بھی خوبصورت وجاہت کے ساتھ حاضر ہوا ۔۔ شازیہ بیگم نے بیٹوں کو دیکھتے ہوئے ماشاءاللّٰه کہتی انکی نظر اتاری تھی ۔۔۔ احمد بھی خوبصورت نوجوان تھا ۔۔ مرتضیٰ کو دیکھتے عابیر کی دھڑکنوں میں شور سا اٹھا تھا نظرے چراتی جانے لگی تھی کہ احمد کی آواز پر رکی ۔۔۔۔

"عابی تم تیار نہیں ہوئی ابھی تک ۔۔!! احمد اسے صبح گھر والے حلیہ میں دیکھتا حیرت سے پوچھا تھا ۔۔ عابیر ایک نظر ڈرتے ہوئے شازیہ بیگم پر ڈالی جو اسے ہی غصے میں گھور رہی تھیں یہ منظر مرتضیٰ نے بھی دیکھا تھا ۔۔ احمد کے پوچھنے پر اسکی نظر بے ساختہ اسی پر اٹھی تھی ۔۔۔

" نہیں وہ اماں نانی کی طبیعت خراب ہے انھیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی اس لئے تم لوگ جاؤ میں پھر کبھی ۔۔!! بہت سے آنسو اپنے اندر اتاکر کر ضبط سے مسکرا کر کہا تھا ۔۔

" ہاں بیٹا میں اکیلی ہوں طبیعت بھی تھوڑی ناساز ہے اس لئے عابی کو ساتھ رکھا ہے ۔۔!! دادی نے بات سنبھالی احمد مزید بحث کرتا مرتضیٰ غصے میں بولا تھا ۔۔۔

" بس کرو احمد بچے نھیں ہو تمہیں چلنا ہے چلو دادی اکیلی ہیں کوئی تو ساتھ ہونا چاہئے نہ چلو اب دیر ہو رہی ہے ۔۔!! اسے پتا نہیں کیوں کس بات کا غصہ آنے لگا تھا موڈ ہی خراب ہو گیا تھا سارا اسکا ۔۔ عابیر نم نگاہوں سے ان سب کو جاتے ہوئے دیکھا ۔۔۔

__________★

" ماما ۔۔؟ مرتضیٰ سب کو گاڑی سے اتار کر اندر جانے کے بعد پیچھے جاتی ماں کو پکارا تھا ۔۔

" ہاں بیٹا ۔۔!! شازیہ بیگم مسکراتے ہوئے اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھتے ہوئے پیار سے پوچھا تھا ۔۔

" آپ نے عابیر کو آنے سے منع کیا تھا ۔۔!! مرتضیٰ کا لہجہ سنجیدہ تھا ۔۔

" ہاں کیا تھا لگا دی اس نے چغلی تمہیں دیکھا اب یہی کرے گی وہ تم سے دور کرنا چاہتی ہے مجھے ۔۔!! شازیہ بیگم یکدم جذباتی ہو گئیں ۔۔ 

" ماما ماما پلیز یار آپ جذباتی کیوں ہو رہی ہیں میں صرف بات کر رہا ہوں اس نے کچھ نہیں کہا ہے مجھ سے لیکن میں بچہ نہیں ہوں ۔۔ آپ اسے میری بیوی نہیں مانتی تو مت مانے میں بھی تو نہیں مانتا لیکن وہ ہمارے گھر کی فرد ہے کزن ہے ہمارے گھر میں رہتی ہے اس کے ہر حوالے سے ہم جواب دہ ہیں ۔۔۔!!  مرتضیٰ آرام و سنجیدگی سے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی برا تو اسے لگا تھا پر ہمیشہ سے خود کے جذبات کو وہم سمجھ کر اگنور کر دینا ۔۔

" ماما بھائی چلیں یہاں کیوں رک گئے ہیں ۔۔!! احمد انکے قریب آتے ہوئے بولا تھا دونوں سنبھل کر آگے بڑھنے لگے شازیہ بیگم خاموش ہو گئی تھیں کہیں نہ کہیں مرتضیٰ کی بات انھیں سہی لگی تھی  ۔۔۔

" بھائی کیا آپ نے عابی کو آنے سے منع کیا تھا اسے کتنا شوق تھا یہاں آنے کا یہ سب دیکھنے کا ۔۔!! احمد مرتضیٰ کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے آرام اور افسوس سے کہتا آگے بڑھ گیا تھا ۔۔ مرتضیٰ کے قدم رک گئے تھے اسے کل رات عابیر کی بات یاد آئی کتنی خوشی سے کہہ رہی تھی وہ ضرور جائے گی ۔۔ اچانک سے مرتضیٰ کو بہت بےچینی ہونے لگی تھی عجیب سی گھٹن ہونے لگی تھی وہاں تھوڑی دیر ركتا ان سے مل کر سر درد کا بہانہ کرتا وہاں سے نکل گیا شازیہ بیگم کو اسکی بے چینی کی وجہ سمجھ آرہی تھی جیسے وہ سمجھنا نہیں چاہتی تھی ہانیہ غصے میں کھولتی رہ گئی ۔۔۔

______

" وش پلیز یار میری بات سنوں مجھے ایک موقع دو ۔۔؟" ہادیق گھر تو واپس آگیا تھا ماں بچے تو اچھے سے پیش آرہے تھے بس مصطفیٰ باپ تھا اور ایک چاچا بھی انکا کہنا تھا اگر وش معاف کرے گی تو ہی وہ کریں گے اگر کسی کا نقصان ہوا بھی ہے تو وہ وش ہے ۔۔ ہادیق بہت کوشش کر رہا تھا وش سے معافی مانگنے کی لیکن اسکے لئے یہ سب آسان نہیں تھا  ۔۔ وہ بہت کوشش کر رہا تھا اسکے قریب رہنے کی لیکن وہ تھی کے بچوں میں گھر میں خود کو مصروف کر رکھا تھا ۔۔۔

"مسلہ کیا ہے آپ کے ساتھ ہادی ۔۔ چھوڑے میرا ہاتھ ۔۔؟" وش غصے میں اپنا ہاتھ چھڑواتے  ہوئے غم و غصے میں اسے ہادی کہ گئی جس پر ہادیق کے چہرے پر مسکراہٹ سی آئی وش خفا سی ہوتی دور ہونا چاہا ۔۔ غصہ تھا لیکن اتنا بھی نہیں اسکی قربت میں اپنا حال دل سنانا بھول جائے اسکے پیار اور نرم رویہ پر خود پر ضبط کرنے کی کوشش بھی نکام ہو رہی تھی ۔۔

" اب نہیں چھوڑنا چاہتا پہلے ہی بہت پچھتا رہا ہوں یار مزید ہمت نہیں مجھ میں تم سے دوری کی ۔۔!! ہادیق اسکے قریب کرتے دونوں ہاتھوں سے اسکا چہرہ بھرتا محبت و جذبات سے اپنے ہونے کا یقین دلایا وش کے آنسوں میں روانگی آئی تھی ۔۔

" آپ بہت برے ہے ہادی میں معاف نہیں کرنا چاہتی آپ کو آپ پھر دھوکہ دے گے مجھے پھر چھوڑ کے چلے جائیں گے میں کیسے برداشت کر پاؤ گی اب کی بار کیسے کروں آپ پر  اعتبار ۔۔؟" وش کمزور پڑھتے ہوئے کہتی اسکے سینے پر سر رکھے شدت سے روتے ہوئے کہہ رہی تھی اپنی دل کی بات اتنے سالوں کا اعتبار ، غصہ و غم سب آنسوں کے ساتھ بہ رہیں تھے آج ۔۔

" آئم سوری وش پلیز مجھے ماف کردو میں نے بہت بڑی غلطی کردی اپنی زندگی کے حسین پل گنوا دیے میں نے ۔۔!!  ہادیق شدت سے اسے خود میں بھیجنے رو رو کر مافی مانگ رہا تھا دونو ہی اپنے ماضی کے وہ پل یاد کرتے ہوئے رو رہے تھے وش روتے ہوئے اسکے گلے لگی ہوئی تھی ۔۔

زندگی بہت خوبصورت ہوتی ہے جو اپنوں کے ساتھ گزرتی ہے جیسے آپ ناقدری کر کے گنوا دیتے ہے ہادیق نے بھی اپنے زندگی کے وہ حسین پل اپنی آنا ضد میں گنواہ دیے پر اسنے اتنی بھی دیر نہیں کی ۔۔ اسے جلدی ہی اپنوں کی قدر آگئ تھی ۔۔ جس نے توبہ کر کے اللّٰه اور اسکے بندوں سے مافی مانگ لی اور اس پاک ذات نے اسے خالی نہیں بھیجا اسے واپس اپنا محبت والااسکی خوشیاں دے دی تھی ۔۔ انسان کی یہی تو خوبصورتی ہے اگر وہ معافی مانگے اور وہ معاف کردے وہ جلد اپنے کیے پر پچھتائے اسے احساس ہوں جائے وہ کہا غلط ہے کیا کر رہا ہے بڑے نقصان سے پہلے خود کو بچا لے ۔۔

" اداس ہو۔۔؟" دادی نے اسکی خاموشی محسوس کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔

" نہیں بس ایسے ہی آپ کو کچھ چاہیے تو نہیں میں باہر ٹھنڈی ہوا کھانے جاؤں ۔۔؟" عابیر معصومیت سے کہتی دادی کو بہت پیاری معصوم بچی لگی تھی انکے دل سے بہت سی دعائیں نکلیں اسکے لئے ۔۔

" ہاں جاؤ میں سونے لگی ہوں بعد میں آجانا ۔۔!! دادی کہتی سونے لگیں وہ خاموشی سے باہر آ گئی تھی دل بھاری سا ہورہا تھا شدت سے رونے کا جی چاہ رہا تھا اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں یہ لوگ اس سے ۔۔ وہ پڑھی لکھی نہیں تو کیا وہ انسان نہیں ۔۔ باہر لان میں آتے ہی ضبط سے آنکھیں بند کرتی آنسو پر باندھ باندھنا چاہا تھا لیکن جب دل بھاری ہو کتنا بھی ضبط کیا جائے آخر حد ٹوٹ جاتی ہے اور اسے ہلکا کرنا پڑتا ہے ۔۔ کچھ دیر اپنی بے بسی اور اپنی بد قسمتی پر آنسو بہاتی دل ہلکا کرتی وہیں دروازے کے باہر لان کی سڑھیوں پر بیٹھ گئی ہلکی گھر کی روشنی پھیلی ہوئی تھی لیکن چاند کی روشنی اپنے پورے جوبن  پر رہی کھلے بال نیچے زمین پر آدھے پھیلے ہوئے تھے گھٹنوں پر تھوڑی رکھے ہوئے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی ۔۔۔

" اتنی جلدی آ گئیں۔۔؟"عابیر آواز سنتے ہوئے خود سے بڑبڑائی لیکن اٹھی نہیں وہیں بیٹھی رہی سیڑھیوں پر ۔۔ یہی سوچ کر وہیں بیٹھی رہی جب اسکی ضرورت نہیں تو کیا فائدہ پیچھے جانے کا ۔۔۔

" مرتضیٰ بے دلی سے اندر کی طرف بڑھنے لگا تھا کہ وہ دشمن جان وہیں راستے پر بیٹھی ہوئی ملی جھکے سر سے زمین کو دیکھتے کسی گہری سوچ میں لگی تھی اسے ۔۔ لیکن یہ کیا اسے ایک سکون سا ملا تھا اسے دیکھ کر جس کیلئے اتنی بے چینی تھی اسے دیکھتے ہی سکون کی لہر ڈور گئی تھی اندر ۔۔ وہ سانس خارج کرتا ۔۔ آنکھیں بند کرتا ہوا ہلکا سا مسکرایا تھا اپنی ہی کیفیت پر ۔۔ پھر دیرے سے آگے قدم بڑھائے ۔۔

" یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔۔؟" مرتضیٰ کی گھمبیر آواز پر بوکھلا گئی تھی ۔۔۔

" آ ۔آپ اتنی جلدی آ گئے ۔۔ باقی سب کہاں ہیں ۔۔؟" مرتضیٰ کو دیکھتے ہی تیزی سے اپنی جگہ کھڑی ہوتے جھٹ سے دوپٹہ سر پر اوڑھا تھا کچھ آوارہ بالوں کی لٹ چہرے کے آگے پھیلی ہوئی تھی اس سادہ سے  روپ میں بھی بہت پیاری لگی تھی مرتضیٰ کو ۔۔ اسے دیکھ کر آج کا ہانیہ کا حولیہ یاد آیا کیسے دوپٹہ کے بغیر سب کے ساتھ چپک کر کھڑی باتیں کرتی تصویریں بنواتی چھوٹی سی چولی اور  شرارے کے بیچ میں پیٹ دیکھ رہا تھا ہلکا سا اسے ڈھیروں شرمندگی ہونے لگی تھی ۔۔ عابیر کے سامنے احمد صحیح کہتا تھا اسکے پاس  ہیرا ہے وہ اسے اپنی لاپروائی سے کھو دے گا ۔۔ مرتضیٰ کو سوچوں میں خود کو تکتے ہوئے دیکھ کر وہ شرم و حیا سے گھبراتی آنکھیں جھکا گئی تھی ۔۔ کچھ دیر دونوں کے بیچ خاموشی رہی عابیر کو گھبراہٹ ہونے لگی تھی اس لئے تیزی سے اندر کی طرف مڑ کر جانے لگی تھی کہ یکدم مرتضیٰ نے اسکی کلائی پکڑتے ہوئے اپنی طرف کھینچا تھا وہ کٹی ہوئی شاخ کی مانند اس کے کشادہ سینے سے آن ٹکرائی تھی دوپٹہ کھسک کر اتر گیا تھا بال آگے کو بکھر گئے تھے اس قربت پر دل زور سے دھڑکا تھا ۔۔ اور دوسرے وجود کو جیسے سکون ملا تھا اس قربت پر ۔۔

 " کیوں میرا جلدی آنا تمہیں پسند نہیں آیا ۔۔؟" گھمبیر آواز ذومعنی لہجے میں کہتا وہ اس کے بال اس کے کانوں کے پیچھے کر گیا  ۔۔ اسکا دل کانوں میں دھڑکنے لگا تھا آنکھیں جھکی ہوئی تھی ۔۔۔ گال سرخ ہوگئے تھے ۔۔

" مم ۔۔میرا وو ۔۔ وہ مطلب نہیں تھا ۔۔ باقی سب ساتھ نہیں تھے ۔۔!! گھبراہٹ میں سمجھ ہی نہیں آیا کیا کہہ لفظ اسکی قربت میں نکل نہیں رہے تھے ۔۔ ابھی شاید وہ مزید اسے اپنی قربت میں پاگل کرتا خود بھی ضبط کے بندھن توڑ دیتا دادی کی آواز نے دونوں کے بیچ بہتا خمار توڑ ڈالا ۔۔ عابیر تیزی سے دور ہوئی ۔۔

" عابیر بیٹی کہاں ہو۔۔؟" دادی کی پھر آواز آئی ۔۔

" جج ۔۔جی آئی ۔۔!!

" کہاں تھی ۔۔۔ وہ باہر لان میں کھلی ہوا کھانے بیٹھی تھی ۔۔!! دادی کے پوچھنے پر خود کو سنبھالتے ہوئے کہا تھا ۔۔

" اکیلی کیوں بیٹھی تھی باہر تمہیں تو ڈر لگتا ہے نہ اندھیرے سے ۔۔ اور یہ لال پیلی کیوں ہو رہی ہو بھوت دیکھ لیا کیا ۔۔!! دادی کی بات پر جہاں وہ شرمندہ ہوئی تھی وہی مرتضیٰ پیچھے سے آتا ہلکا سا مسکرادیا ۔۔

" وہ سس سائیں ۔۔۔۔ ارے بیٹا تم اتنی جلدی آگئے ۔۔۔؟"  ابھی وہ کچھ کہتی پیچھے سے مرتضیٰ کو دیکھتے دادی نے پوچھا ۔۔

" جی سر میں درد تھا اس لئے آگیا آپ سوئی نہیں ۔۔؟"  وہ آگے بڑھتا دادی کا ہاتھ تھام کر انھیں واپس روم میں لے گیا تھا ۔۔۔ عابیر تھوڑی دیر وہی کھڑی اپنی دھڑکنوں کو سنبھالنے میں تھی پھر اسکا سر درد کا سوچتی کچن میں چائے بنانے چلی گئی ۔۔ 

" آ ۔آپ کی چائے ۔۔!! وہ دادی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جب وہ چائے لے کر آئی تھی ۔۔

" شکریہ بہت طلب ہو رہی تھی ۔۔!! وہ اسے گہری دلچسپی نظروں سے دیکھتے ہوئے ذومعنی لہجے میں کہا تھا ۔۔۔ تھوڑی دیر وہی دادی کے ساتھ بیٹھا بظاہر باتیں ان سے کرتا رہا نظریں کسی اور کو گھبرانے پر مجبور کر رہی تھیں۔ عابیر دل میں دعائیں کرتی رہی وہ یہاں سے چلا جائے جلد ورنہ وہ اسکی نظروں سے مر جاتی مزید اگر وہ وہاں رکا رہا تو لیکن دادی چونکہ دوائی کے زیر اثر تھیں اس لئے سونے کو لیٹ گئیں گھر پر کوئی نہ ہونے کی وجہ سے عابیر کو ساتھ ہی رکھا جس پر مرتضیٰ کا دل بجھ سا گیا وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے روم میں چلا گیا تھا عابیر خود کو ابھی تک اسکے حصار میں محسوس کرتی شرمیلی مسکراہٹ چہرے پر ڈور گئی تھی ۔۔ اب تو ان کے بیچ محبت کی داستان شروع ہوئی تھی کہاں تک لے جائے گی یہ تو وقت بتائے گا ۔۔ 

___________★

" بس کریں بھائی نظر لگائیں گے بھابی کو ۔۔!! احمد مرتضیٰ کے پاس آتا بولا جو کب سے عابیر کو دیکھنے میں مصروف تھا آج وہ بے حد دلکش حسینہ لگ رہی تھی لال شفون کے اسٹائلش ڈریس میں کھلے لمبے بال کانوں میں چھوٹے سے جھمکے گلے میں چین دونوں ہاتھوں میں لال چوڑیاں یہ سب دادی اور احمد کی پسند تھی جس پر سے مرتضیٰ کی نظر ہی نہیں ہٹ رہی تھی اوپر سے پالر والی نے میک اپ کا کمال آج تو عابیر کسی کے دل پر بہت گہرائی سے وار کر رہی تھی ۔۔ وہ لوگ آج زین کی شادی میں آئے ہوئے تھے عابیر تو یہاں کی رونق اور سجاوٹ دیکھ کر ہی حیران تھی دادی کے پاس بیٹھے ہوئے وہ بس وہاں کے لوگوں کو دیکھتے حیران تھی ۔۔

" میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں اس پر ضائع کروں ۔۔!! وہ خود پر ضبط کرتا آگے بڑھ گیا ۔۔ 

" بیٹا تم یہی بیٹھی رہنا میں تھک گئی ہوں تھوڑا آرام کرنے اندر جاتی ہوں ۔۔!! نانی اماں اسے وہی بیٹھا کر زین کی بہن کے ساتھ اندر چلی گئی تھیں وہ زیادہ دیر بیٹھ نہیں پاتی تھیں ۔۔ عابیر بیٹھ کر بور ہو رہی تھی اس لئے اٹھ کر تھوڑا آگے گئی سامنے ہی مرتضیٰ کو اکیلا کھڑا پایا ۔۔ اسکے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ آ گئی تھی وہ آگے بڑھی ۔۔

" سائیں جی میں کیسی لگ رہی ہوں ۔۔؟" پیاری سی آواز پر مرتضیٰ نے سامنے دیکھا ایک پل کو پھر ساکت ہوا اسے اپنے قریب اس روپ میں دیکھ کر ۔۔ پھر خود کو سنبھالتے بولنے کے لائق ہوا ۔۔

" تم ۔۔تم یہاں کیوں آئی ہو دادی کہاں ہیں ۔۔؟" وہ بات بدل گیا ۔۔

" وہ انکے گھٹنوں میں درد تھا آرام کرنے اندر گئی ہیں۔۔!! عابیر دھیرے سے بولی وہ اس کی تعریف کی منتظر تھی لیکن دل بجھ سا گیا ۔۔

"ماشاءالله آج تو محفل میں چاند نظر آیا ہے ۔۔!! مرتضیٰ کا کزن زین کا چھوٹا بھائی وہا آتے ایک بھر پور نظر عابیر پر ڈالتا اسکی تعریف کی ۔۔مرتضیٰ کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔۔عابیر تو شرم حیا سے سرخ ہوگی تھی جس پر مرتضیٰ کا ضبط جواب دینے والا تھا ۔۔

" مرتضیٰ بھائی یہ کون ہے حسین لڑکی ۔۔؟" اسکی نظریں عابیر سے ہٹ نہیں رہی تھی ۔۔اسنے تعریف نہیں کی تو کیا کوئی اس حسین شہزادی کی نہ کرتا ۔۔

" یہ ب ۔۔کزن ہے ہماری تم جاؤ وہاں سب مزے کر رہیں ہے ۔۔!! اگر وہ نہ ہٹا سامنے سے تو آج اسکے ہاتھوں ضرور قتل ہونا تھا کوئی ۔۔ایک تو منہ سے بیوی لفظ ادا نہیں ہو رہا تھا ۔۔

" ہے سنوں تمہاری شادی ہوگی ہے کیا ۔۔۔نہیں تو پلیز مت کرنا تم مجھے بہت اچھی لگی کیا ۔۔۔۔۔!

" یہ شادی شدہ ہے ۔۔۔۔!! مرتضیٰ کی برداشت سے باہر تھی اب ایان کی باتیں عابیر تو حیرت سے دیکھ رہی تھی یہ سب کیا ہو رہا تھا وہ کیسے اس سے فلرٹ کر رہا تھا وہ بھی اسکے شوہر کے سامنے اور وہ ضبط کرنے کے علاوہ کچھ نہ کر پایا تھا ۔۔۔سنجیدگی سے اسکا شادی شدہ بتا کر گھور رہا تھا ۔۔عابیر کا دل دھڑکا تھا اسے لفظوں پر ۔۔۔

" ارے یار کاش تم شادی شدہ نہ ہوتی کیا نام تھا ۔ع۔عابیر ۔۔۔!! ایان کے پوچھنے پر عابیر نے جواب دیا جس پر مرتضیٰ نے گھورا تھا اسے ۔۔

"اچھا عابیر آؤ ہمارے ساتھ میں تمہیں سب سے ملواتا ہوں ۔۔!! ایان تھا ہی فرینک بندا سو شروع ہو گیا باتوں فری ہونے میں لیکن وہ اس وقت مرتضیٰ کو سخت زہر لگ رہا تھا اسکے سامنے اسکی بیوی سے فلرٹ ۔۔

" نہیں ایان یہ یہی تھیک ہے دادی کے پاس جانا ہے انکوں ضرورت ہے عابیر کی تم جاؤ مزے کرو ۔۔۔!! ضرورت تو اسے تھی اپنی بیوی کی یہ تو بھگانے کا بہانہ تھا ۔۔ ایان شاید پیچھا نہ چھوڑتا اگر اسکو کوئی کزن نہ لینے آتا اور وہ بھی آتا ایک نظر اس حسن کی پری پر ڈالتا تعریف کرنا نہ بھولا ۔۔۔مرتضیٰ اپنی گن گھر چھوڑ آنے پر پچھتایا تھا ۔۔

" افف اللّٰه کتنا مزہ کر رہے ہم بھی ناچیں ۔۔؟" تھوڑی دیر بعد عابیر سامنے زین کی بہن ایان کزن کو ڈانس کرتے ہوئے دیکھ کر ایک دم خوشی سے چہکی ۔۔

" کیا تم پاگل ہو ہم دوسروں کی شادی میں کیوں ناچیں گے ۔۔؟" مرتضیٰ کو اسکی بات پسند نہیں آئی تھی ۔۔ایک تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا مزید وہ ضبط کا امتحان لے رہی تھی ۔۔

" سائیں ہم چھوٹے ادا کی شادی میں ناچیں گے ۔۔!! اسکی نظریں سامنے لوگوں پر تھی جو موج مستی میں تھے اور یہاں وہ کھڑی کسی کے ضبط کا امتحان بنی ہوئی تھی ۔۔

" بہت شوق ہو رہا ہے ڈانس کا ۔۔؟" وہ ڈانت پیستے ہوئے بولا تھا ۔۔

" ہاں بہت ۔۔!! ہاں بھئی اسکے اندر کی روح کو کہاں چین گاؤں میں تو وہ ہر کسی کی شادی میں ناچ لیتی تھی ۔۔

" گھر چل کر ناچ لینا  ۔۔!! مرتضیٰ اسکی خوشی دیکھتے ہوئے کہا ۔۔

" ہںیں۔۔سچی ۔۔!! وہ اسکی گھوری پر چپ ہوگئی ۔۔

" کس نے کہا تھا اتنا تیار ہونے کو ۔۔۔!! وہ اسکے خوبصورت سراپے پر چوٹ کی ۔۔۔

" اماں نانی اور چھوٹے ادا نے کروائی تھی تیاری میں اچھی لگ رہی ہوں سب نے تعریف کی آپ کو چھوڑ کے ان ادا نے بھی چاند بولا مجھے ۔۔!! اسکے لہجے میں خوشی تھی اپنی تعریف پر کون خوش نہیں ہوتا اور یہ بات مرتضیٰ کو غصہ دلا گی لیکن خاموش رہا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اسکے پیٹ میں سے آواز آئی تو ۔۔

" سائیں ۔۔ همم ۔۔!! مرتضیٰ جانے کیوں اسکے پاس ہی کھڑا رہا وہاں سے جانے کا دل نہیں کر رہا تھا نظریں بار بار اسکی اوڑھ اٹھ رہی تھی ۔۔۔ دلکش حسن اپنی طرف  کھینچ رہا تھا ۔۔۔ 

" یہ لوگ کھانا کب کھلائیں گے ۔۔؟" رات کے بارہ بج رہے تھے اب تک کھانا نہیں کھلا تھا وہ جلد کھانے سونے کی عادی تھی ۔۔

" تمہیں بھوک لگ رہی ہے ۔۔؟"

" ہاں بہت زیادہ اور نیند بھی آرہی ہے ۔۔۔!! وہ اسکا تھکا ہوا چہرہ نیند سے سرخ آنکھوں کو دیکھ کر سمجھ گیا وہ نیند اور بھوک کی بہت کچی ہے ۔۔ اور اس طرح معصومیت سے کہتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی اسے ۔۔

" ٹھیک ہے تم یہاں بیٹھ جاؤ میں دیکھتا ہوں ۔۔!! پتہ نہیں کیوں وہ نرمی سے کہتا ہوا وہاں سے نکلا اسکے لئے کھانا کھلوانے ۔۔

_____

" رکیں ادا یہاں بھی کھانا دیں نہ مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔۔؟" وہ کب سے دیکھ رہی تھی کوئی بھی ویٹر اسکی طرف کھانا نہیں لارہا تھا وہ کونے کی ٹیبل پر تھی اکیلی ۔۔ مرتضیٰ کے کہتے تھوڑی ہی دیر میں کھانا لگ چکا تھا سب مزے سے کھا رہے تھے لیکن اسے کوئی نہیں پوچھ رہا تھا پتا نہیں احمد اور مرتضیٰ اسے دکھائی کیوں نہیں دے رہے تھے حمید صاحب اور دادی تھوڑی دیر پہلے چلے گئے تھے ۔۔

" میم آپ ویٹ کریں میں کہتا ہوں ۔۔!! ویٹر کہتا وہاں سے نکلا لیکن اسکے انتظار میں بھوک سے نڈھال ہو گئی تھی آنکھوں میں نیند الگ اسے بہت زوروں کا رونا آنے لگا تھا اپنی اتنی بےعزتی محسوس ہوئی سب کھانا کھانے میں مگن تھے اور وہ سر جھکائے پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے رو رہی تھی کسی کو اسکی تکلیف کا احساس نہیں ہو رہا تھا کوئی اس سے کچھ نہیں پوچھ رہا تھا ۔۔ وہ ٹیبل پر بازو رکھتے ہوئے ان پر سر رکھ کر رونے لگی تھی جب بہت رو کر اسکا دل ہلکا ہوا تو سرخ آنکھوں سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ایک گھنٹہ ہو گیا تھا وہاں بیٹھے ہوئے کھانے کو کچھ نہ ملا اسے ۔۔

" ارے عابیر تم یہاں کیوں بیٹھی ہو ۔۔؟" ہانیہ اسے دیکھتے ہوئے وہاں آکر پوچھا ۔۔

" ووہ ۔۔وہ مجھے بھوک لگی ہے کھانا نہیں دے رہے یہ لوگ ۔۔؟" عابیر بھوک سے بے حال ہوتے ہوئے کہا تھا ۔۔

" دیکھو عابیر تمہیں گھر جاکے کھانا کھانا چاہیے یہاں تم دیکھ رہی ہو کتنے ہائی کلاس کے لوگ ہے ایسے میں تمہیں جاہلوں کی طرح کھاتے ہوئے دیکھ کر کیا سوچیں گے سوچو مرتضیٰ اور خالہ کی کتنی بےعزتی ہوگی میں تمہارے لئے کھانا پیک کروا دیتی ہوں اوکے ۔۔!! ہانیہ اپنی زہریلی زبان چلاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی ۔۔ عابیر کی آنکھیں بھر آئی تھی دل نے کہا وہ شدت سے روئے ۔۔ 

" چلیں یا پھر یہی رہنے کا ارادہ ہے ۔۔؟" گھمبیر آواز پر اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکے اداس چہرہ اور  سرخ آنکھوں کو دیکھ کر ٹھٹکا تھا ۔۔ کیا وہ روئی تھی اسکی حالت دیکھ کر تو یہی لگ رہا تھا لیکن وہ خاموش رہا ۔۔

" اللّٰه یہاں کسی دشمن کو بھی نہ بھیجے چلیں مجھے بہت نیند آرہی ہے ۔۔!! ایک نظر سب کو دیکھ کر بڑبڑاتے ہوئے کہتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔ وہ بس سر ہلا کے آگے بڑھا ۔۔۔ اب مرتضیٰ کو اسکی خاموشی نے بے چین کردیا تھا وہ بار بار اسے دیکھتا پھر آگے دیکھتا وہ جب سے گاڑی میں بیٹھی تھی خاموشی سے باہر کے بھاگتے ہوئے منظر دیکھ رہی تھی ۔۔۔ مرتضیٰ کے دل میں بہت سے سوال آرہے تھے وہ بات کرنا چاہتا تھا اسے وہ خاموش بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی کچھ پل کے لئے وہ اسکی سرخ آنکھوں میں دیکھ کر شرمندہ ہوا تھا کیوں اسے نہیں پتہ ۔۔

" تم آج خاموش ہو خیر تو ہے ۔۔؟" وہ اپنے بےچین دل کو روک نہیں پایا اس سے بات کرنے میں ۔۔

" خاموش ہوں اس لئے خیریت ہے ۔۔ ورنہ میری آواز کس کو اچھی لگتی ہے میرا بولنا کسی کو پسند نہیں نہ ہی میں ۔۔!! آخر لفظ وہ بہت آہستہ بولی لیکن مرتضیٰ کے کان بہت تیز تھے جس نے سن تو لئے لیکن جواب نہیں دے پایا ۔۔ کیا وہ سچ کہہ رہی تھی ۔۔۔ ہاں سچ ہی تو کہا تھا اس نے پھر کیوں اسے یہ بات بری لگی اس کے لئے ۔۔ وہ راستے میں ہی سو گئی تھی جب گھر پہنچے تو مرتضیٰ نے کوشش کی اسے اٹھانے کی لیکن اسے گہری نیند میں دیکھ کر بانہوں میں بھرتا ہوا روم میں لے گیا تھا ۔۔۔

______

" کیا سوچ رہی ہوں ۔۔؟" ہادیق وش کے پاس آتے پوچھا اس وقت وہ لوگ سمندر کی لہروں کو دیکھتے ہوئے ساتھ کھڑے اپنے بچوں کو دیکھ رہے تھے جو پانی سے کھیل رہیں تھے ہنستے کھیلکھلاتے ہوئے ۔۔

" اتنے عرصے میں ایک مکمل زندگی لگ رہی ہے بہت حسین ۔۔۔۔۔ اب ایسا لگتا ہے وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے ۔۔۔۔۔ جب آپ ساتھ نہیں تھے تب ایسا لگتا تھا یہ وقت کبھی گزرے گا ہی نہیں میں اور میرے معصوم بچے اس طرح رہ جائیں گے میں شوہر کے بغیر ادھوری تو وہ باپ کے بغیر ۔۔۔ لیکن وہ ذات اکیلا کہا چھوڑتی ہے یہی امید زندہ رکھتی ہے انسان کے اندر ۔۔۔!! وش سمندر کی لہروں کو گہرائیوں سے دیکھتے ہوئے بہت گہری بات کہہ رہی تھی ۔۔ ہادیق اسکی ہاتوں سے شرمندہ ہونے کے ساتھ اسکے دکھ کو محسوس کر سکتا تھا وہ بھی تو تڑپا تھا کاش اسے معلوم ہوتا اسکے دو خوبصورت معصوم پھول بھی ہے ۔۔

" وش میں چاہتا ہوں تم مجھے معاف مت کروں میں روز صبح اٹھ کر تم سے معافی مانگوں گا لیکن تم تب تک مت کرنا جب تک تمہارے اندر وہ سب ختم نہیں ہو جاتا ۔۔ جانتا ہوں آسان نہیں ہم کوشش کر سکتے ہیں ۔۔۔ تم مجھے بہت خوبصورت تحفہ ملی ہوں جس کے لائق میں کبھی نہ تھا اس لئے اپنی ناقدری کی سزا میں اپنے بچوں کا بچپن نہ دیکھ پایا ۔۔!! ہادیق اپنے پچھتاوے میں بےحد شرمندہ تھا ۔۔ اس لیے وش کیلئے آسان نہیں تھا یہ سب اتنی آسانی سے بلا دینا ۔۔

" وش میری خواہش پوری کرو گی ایک ۔۔؟" ہادیق نے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔ 

" اگر میرے بس میں ہوا تو ضرور ۔۔!! وہ مسکرائی جیسے زندگی مسکرائی ہوں ہادیق کی نظروں میں ۔۔

" میں اپنے بچہ کا بچپن محسوس کرنا چاہتا ہوں میں ایک باپ بن کر اسکے چھوٹے ہاتھ پاؤں چومنا چاہتا ہوں میں یہ پل تمہارے ساتھ محسوس کرنا چاہتا ہوں وش ۔۔۔ یقین کروں اس بار ہر وہ پل ساتھ میں جئیے گے جس کے خواب شاید کبھی ہم نے دیکھے ہوں ۔۔ میری خواہش پوری کروں گی ۔۔۔؟" ہادیق محبت سے اسکا چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں بھرتا پیار سے اپنا لمس اسکے ماتھے پر چھوڑا تھا ۔۔۔

" آپ محبت سے ساتھ دیگے تو یہ پل ضرور ہم ساتھ میں جئیے گے ۔۔!! وش نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے تھے ۔۔ 

" ماما بابا جلدی آئے نہ ہم ساتھ میں کھیلتے ہیں ۔۔۔۔۔ آرہے ہیں ۔۔!! بچوں کی آواز پر دونوں مسکراتے ہوئے انکی طرف چل دیے ۔۔۔۔۔۔ کتنا سکون ملتا ہے جب دل کسی کیلئے صاف ہو جاتا ہے ایک امید سی جاگتی ہے اب کی بار زندگی کچھ حسین پل دے گی ۔۔ اور یہی زندگی کے خوبصورت لمحات ہادیق اور وش جینے والے تھے ۔۔ آنے والے بہت سی خوشیاں انکے آنگن میں اترنے کو بیتاب تھی ۔۔۔۔ غلطیاں آپ کو بہت کچھ سیکھا دیتی ہے ۔۔ جو سبق آپ اپنی زندگی میں ملنے والے پیار محبت میں سیکھ نہیں پاتے وہ آپ کی زندگی میں کچھ لوگ ایسے آ کے سیکھا دیتے ہیں ۔۔ جیسے ہادیق کی زندگی میں سویرا نے ایک شرط پر اسکی زندگی برباد کردی وہ خود بھی تو خود کر برباد کر آیا تھا شاید یہ ماں باپ کی دعاؤں اور وش کی محبت تھی جو آج وہ اپنی زندگی کے وہ حسین پل گزار رہا ہے ۔۔۔

" مجھے بھوک لگی ہے ۔۔!! مرتضیٰ نے جیسے بیڈ پر لیٹایا اسے وہ نیند میں ہی بھوک سے بڑبڑائی ۔۔

" تم نے کھانا نہیں کھایا ۔۔؟" مرتضیٰ جھک کر اس سے پوچھا نیند میں بھی پیٹ پر ہاتھ رکھے ہوئے آنکھیں بند تھیں ۔۔

" عابیر تم نے کھانا کیوں نہیں کھایا تم نے کہا تھا تمہیں بھوک لگی ہے پھر کھایا کیوں نہیں ۔۔؟" مرتضیٰ اسکے جواب کا منتظر تھا لیکن اسے نیند کی آغوش میں دیکھ کر بازؤں سے پکڑ کر ہلکا سا ہلایا ۔۔

" ہا۔ہانیہ نے کھانا نہیں کھانے دیا۔۔!! وہ کہہ رہی تھی کہ پیٹ میں شدید درد بھوک سے متلی ہونے لگی ۔۔

" عابیر وہاٹ دا ۔۔!! اسکے متلی کرنے پر وہ تیزی سے دور ہوا عابیر کو غنودگی میں ہی متلی ہوئی دوسری بار پر اسکی آنکھیں کھل گئی  تھیں وہ تیزی سے باتھ روم میں بھاگی ۔۔ مرتضیٰ پریشانی سے اسکے پیچھے گیا تھا ۔۔ 

" عابیر تم ٹھیک ہو ۔۔؟" مرتضیٰ اسکی پیٹھ سہلاتے ہوئے پوچھ رہا تھا وہ دو بار متلی کرتے ہوئے بے حال سی ہوگئی تھی مرتضیٰ بازؤں سے پکڑ کر نہ کھڑا ہوتا تو پکا اسنے گر جانا تھا ۔۔۔

" ابھی کرنی ہے ۔۔؟"

" نن ۔۔ نہیں بس ٹھیک ہوں مجھے کپڑے بدلنے ہیں۔۔!! تھوڑا سنبھلتے ہوئے مرتضیٰ کی گرفت میں سے نکلی ۔۔ مرتضیٰ اسکی حالت پر پریشان سا ہو گیا تھا آج تو یقین ہو گیا وہ نیند اور بھوک کی بہت کچی ہے لیکن ہانیہ کی حرکت پر اسے بے حد غصہ آیا اسکا بعد میں سوچتے ہوئے وہ وہیں اسے چھوڑتا ہوا خود روم سے نکل گیا ۔۔

_______★

" کیا کروں بھوک کی وجہ سے نیند نہیں آرہی اب اور صبح ہو جائے گی تھوڑی دیر تک سائیں جی پتہ نہیں کہاں چلے گئے ۔۔!! عابیر فریش ہوتی صوفہ پر بیٹھی سوچ رہی تھی بستر نہیں لگایا تھا نیچے  ۔۔ چار بج رھے تھے اس لئے سونے کا نہ سوچتے ہوئے کھانے کے بارے میں سوچ رہی تھی ابھی اپنی ہی سوچوں میں تھی مرتضیٰ ہاتھ میں ٹرے لئے اندر آیا عابیر اسے دیکھتے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔  مرتضیٰ نے  اسے دیکھا ہلکے آسمانی لان کے کپڑوں  میں بال آدھے کیچر سے باندھے ہوئے تھے چہرہ میک اپ سے پاک تھوڑی دیر میں اسکی طبیعت نے اسے کمزور سا کردیا تھا ۔۔۔

" بیٹھو ۔۔!! مرتضیٰ آگے بڑھ کر ٹیبل پر ٹرے رکھتے ہوئے اسے دیکھا جو ابھی تک حیرت سے کھڑی اسے تو کبھی کھانے کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔

" مم ۔۔میں ۔۔!! عابیر حیرت سے خود پر انگلی رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔

" نہیں تمہارے پیچھے ۔۔۔۔ سس ۔۔سائیں ۔۔!! ابھی مرتضیٰ اسے ڈراتا کے وہ ڈر سے اسکو پکارتی ہوئی اسکے ساتھ بیٹھ گئی پھر ڈر سے پیچھے آس پاس دیکھا کمرے میں ہلکی مدھم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔۔ اسکی حرکت پر مرتضیٰ مسکراہٹ دبا گیا ۔۔

" یہ کھاؤ ۔۔؟"

" یہ کیا ہے ۔۔!! وہ حیرت سے پلیٹ کو دیکھتے ہوئے پھر اسے دیکھا ۔۔

" تم نے کبھی نہیں کھایا یہ ۔۔؟" مرتضیٰ حیرت سے اسے پوچھا وہ نفی کرتے ہوئے اسے دیکھا  ۔۔

" یہ میکرونی ہے مجھے فلحال یہی بنانا آیا سو بنا کر آگیا اب کھاؤ ورنہ پھر خالی پیٹ کی وجہ سے الٹی آئے گی ۔۔!! مرتضیٰ نے میکرونی کی پلیٹ اٹھا کر اسے دی ۔۔ وہ اسکے لئے اس وقت تو اتنا کر ہی سکتا تھا ۔۔

" آپ مجھے بتاتے میں بنا لیتی کچھ آپ نہیں کھائیں گے ۔۔!! عابیر کو بہت حیرت ہوئی مرتضیٰ نے اسکے لئے کچھ بنایا ۔۔

" نہیں تم کھاؤ میں نے کھایا تھا کھانا ۔۔۔۔۔ میں یہ سب کھالوں ۔۔!! وہ ہاتھ میں پکڑی پلیٹ سے تھوڑا سا کھاتی بھوک مزید جاگ اٹھی اور اتنی مزے کی چیز کو چھوڑنے کا دل نہیں کیا بڑی معصومیت سے پوچھتے ہوئے اسے دیکھا ۔۔مرتضیٰ تو اسکے انداز پر ہی فدا ہو گیا ہلکا سا مسکراتے ہوئے سر ہلایا ۔۔۔

" تم نے وہاں کھانا کیوں نہیں کھایا ۔۔؟" مرتضیٰ کے سوال پر وہ پانی پیتے ہوئے کھانسنے لگی حلق میں نوالہ پھنس گیا تھا ۔۔

" آرام سے اتنی جلدی کیا تھی ۔۔!! وہ آگے بڑھا تھا کہ عابیر تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئ اور چیزیں سمیٹی ۔۔

" مم ۔۔ میں برتن دھو کے آئی آپ سو جائیں۔۔!! وہ جلدی سے سوال سے بچنے کیلئے وہاں سے بھاگی ۔۔ مرتضیٰ سمجھ گیا تھا وہ اس بارے میں بات نہیں کرنا چاہتی ہے ۔۔ 

_______★

" بھائی آپ کو پتہ ہے ماما اور ہانیہ مل کر کل رات بھابی کو کھانا کھانے نہیں دیا تھا ۔۔۔ مجھے پتہ ہے آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ بات میں نے خود اپنے گنہگار کانوں سے سنی سوچا آپ کو بھی بتا دوں شاید عابی نے کچھ کہا ہو اور آپ نے یقین نہ کیا ہو اس بیچاری کا ۔۔!! احمد نے اس وقت مرتضیٰ کو اپنے روم میں بلایا اور رات وہ جب ماں کو لینے واپس آرہا تھا ہانیہ اور اپنی ماں کی بات سن لی تھی ساتھ موبائل پر ریکارڈ کردی تھی تا کہ مرتضیٰ کو سنا سکے جو ہمیشہ عابیر سے لڑتا ہے ۔۔

" یہ بات کس کس کو بتائی ہے ۔۔؟" مرتضیٰ کو ماں اور ہانیہ پر بے حد غصہ آیا تھا انکی اس حرکت کی وجہ سے عابیر کی رات طبیعت خراب ہو گئی تھی بھلا اس سے بہتر کون جان سکتا تھا وہ کتنا پریشان ہوا تھا اسکے لئے ۔۔۔

" کسی کو نہیں صرف آپ کو اور بھابی سے پوچھنے کا ارادہ ہے ۔۔!! احمد کی بات پر مرتضیٰ کچھ سوچتا ہوا بولا ۔۔۔

" میں چاہتا ہوں تم یہ بات خود عابیر سے پوچھو وہ تم سے ہر بات شئیر کرتی ہے اس بار پوچھنا میں بھی سننا چاہتا ہوں ۔۔!! احمد سمجھ گیا وہ کیا کہنا چاہتا ہے سر ہلا کر ہاں میں جواب دیا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔۔

" بھابی آپ ۔۔!! احمد عابیر کو دیکھتا حیران ھوتا بولا تھا ۔۔

" ہاں میں یہ دیکھو تمہارے لئے کھیر لائی ہوں کھا کر بتاؤ کیسی لگی ۔۔ میں اندر آؤں۔۔!! عابیر مسکراتے ہوئے کہتی اسے وہیں دروازے کے پاس کھڑا پاکر خود ہی اندر جانے کا پوچھا ۔۔ احمد ایک نظر پیچھے دیکھا جب مرتضیٰ واش روم میں جا کے دروازہ بند کردیا وہ سکون کی سانس لیتا اسے اندر آنے دیا ۔۔۔

" اچھا ہوا آپ آ گئی مجھے کچھ پوچھنا تھا ۔۔؟" عابیر کو بیٹھا کر احمد اپنی مطلب کی بات پر آیا ۔۔

" کیا پوچھنا ہے ۔۔؟؟ عابیر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔۔

" کیا کل رات ہانیہ نے آپ کو کھانا کھانے نہیں دیا تھا پلیز سچ بولنا بھابی ۔۔؟" احمد پیار سے اپنی پیاری معصوم بھابی کو دیکھتے ہوئے امید سے پوچھا تھا ۔۔

" وو ۔۔وہ مجھے یاد نہیں تم یہ کھاؤ نہ ۔۔!! عابیر بات بدل گئی اسے نہیں پسند کوئی اس کی وجہ سے لڑے نفرت کریں ایک دوسرے سے ۔۔

" اچھا بھائی کو بتایا تھا ۔۔؟" احمد ایک نظر واش روم کے دروازے پر ڈالی ۔۔

" تمہارا بھائی میرا یقین نہیں کرتا ۔۔!! وہ اداسی سے بولی اندر بیٹھا مرتضیٰ ضبط سے آنکھیں بند کرتا پھر کھولی ۔۔اسے کل رات اسکی طبیعت بار بار آنکھوں کے پردوں پر لہرا رہی تھی عابیر کی خاموشی سرخ آنکھیں ۔۔ یکدم گھبراہٹ سی ہونے لگی تھی اس کے اندر ۔۔

" آپ بول کر تو دیکھیں ایک بار بھائی سے بات کریں کیا پتہ وہ آپ کا یقین کر لے ۔۔۔!! احمد نے ایک بار پھر سمجھانا چاہا اسے ۔۔

" اچھا نہ چھوڑو رات گئی بات گئی اب تم یہ کھاؤ اور بتاؤ کیسا بنا ہے ۔۔!! وہ پھر اپنی ٹون میں واپس آئی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی دل میں میل نہیں رکھتی تھی صاف دل کی مالک تھی ۔۔ اب اسکی تعریف کی منتظر تھی ۔۔

" واہ بھابی کیا کھیر بنائی ہے سچ میں دل کرتا ہے آپ کے ہاتھ چوم ۔۔۔ٹھااا۔۔۔ !! احمد  اسکی تعریف میں کچھ زیادہ ہی بول گیا تھا اندر واش روم میں مرتضیٰ  غصے میں کوئی چیز نیچے پھینک دی جسے وہ لوگ فراموش کر بیٹھے تھے ۔۔

" یہ کیسی آواز تھی اندر کوئی ہے کیا ۔۔۔؟" عابیر حیرت سے واش روم کے بند دروازے کو دیکھ  کر احمد کو دیکھا ۔۔

" وو ۔۔ وہ کوئی نہیں میری چیزیں ایسے ہی گرتی ہیں سہی سے رکھتا نہیں نہ میں ۔۔!! احمد گھبرا گیا تھا ۔۔

" ہاں پتہ تھا مجھے تم کوئی چیز سہی کرتے کب ہو میں صفائی کر دیتی ہوں تم آرام سے کھاؤ ۔۔!! وہ کہتی اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔ اسکی بات پر اندر کھڑا مرتضیٰ  گھبرا گیا تھا وہی احمد کے حلق میں کھیر پھنس گئی تھی ۔۔

" اوفو آرام سے نہیں کھائی جاتی تم سے کوئی چیز رکو پانی لاتی ہوں ۔۔!! وہ پریشانی سے کہتے نیچے بھاگی ۔۔احمد اپنی سانس بحال کرتا تیزی سے واش روم بھاگا ۔۔

" بھائی پلیز جلدی نکلیں ورنہ پکا بھابی کے ہاتھوں قتل ہو جاؤں گا ۔۔!!احمد نے پریشانی سے کہا تھا ۔۔

" اسکی صرف زبان چلتی ہے ہاتھ نہیں ۔۔!! وہ طنزیہ بولتا چلا گیا ۔۔ احمد بیڈ پر گر گیا ۔۔

____________

" یہ مال ہے یہاں سے ہم کپڑے لیں گے آپ کیلئے چلیں آجائیں ۔۔!! احمد اسے آج شاپنگ پر لایا تھا کل زین کے ولیمہ کیلئے ڈریس دلانے ۔۔

" ہائے اللّٰه اتنا بڑا میں کھو گئی تو ۔۔!! عایبر نے بڑے سے لکی مال کو دیکھتے ہوئے پریشانی سے احمد سے کہا ۔۔

" پھر آپ کا پولیس والا شوہر پورے مال کو بند کروا دے گا ۔۔۔ ہاہاہا سچ میں سائیں جی ایسا کر سکتے ہیں ۔۔!! وہ ہنستے ہوئے حیرت میں بولی تھی ۔۔ احمد اسے لئے آگے بڑھ کر مرتضیٰ کو کال کردی تھی جیسے ہی فارغ ہو یہاں پہنچ جائے ۔۔

" یہ دیکھیں کتنے پیارے کپڑے ہیں آپ پر تو سب ہی اچھے لگیں گے ۔۔!! احمد پیار سے اسکے لئے ڈریس دیکھتا ہوا بولا تھا ۔۔ عابیر حیرت انگیز طور پر آس پاس کی خوبصورت چیزوں کو دیکھ رہی تھی دوسری سائیڈ چوڑیوں پر نظر پڑتے ہی وہ وہاں گئی خوبصورت رنگوں والی چوڑیاں اسے بہت زیادہ پسند آئی تھیں۔۔ احمد موبائل پر کال آنے کی وجہ سے تھوڑا دور ہوا تھا وہ مرتضیٰ کو بتا رہا تھا وہ لوگ سیکنڈ فلور پر ہیں۔۔ سامنے ہی مرتضیٰ آتا دکھائی دیا احمد نے ہاتھ ہلا کر اسے یہاں بلایا وہ سیدھا چلتا ہوا وہیں آیا ۔۔

" مجھے کیوں بلایا یہاں جانتے نہیں بزی تھا میں ۔۔!! جب کہ دل تھا اس دشمن جان کو دیکھنے کا ۔۔

" خیریت بھائی یہ تو آپ کال پر بھی بتا سکتے تھے پھر میں تھوڑی کہتا ادھر آئیں۔۔۔۔ شٹ اپ ۔۔!! احمد نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا وہ گھورتا ہوا آگے بڑھا ۔۔

" عابیر کہاں ہے ۔۔؟؟ مرتضیٰ تھوڑا آگے آتے کپڑوں والی شاپ پر عابیر کو نہ پا کر پیچھے آتے احمد سے کہا ۔۔

" یہی تو تھیں بھابی ہم لوگ کپڑے دیکھ رہے تھے ۔۔!! احمد تیزی سے اندر آتا آس پاس دیکھا ۔۔

" احمد عابیر کہاں ہے کیا تم پاگل ہو اسے یہاں کا کچھ پتہ نہیں جانے کہاں گئی ۔۔!! مرتضیٰ غصے میں گھورتے ہوئے احمد سے کہتا دوسری سائیڈ گیا جب کہ احمد خود پریشانی سے اسے ڈھونڈنے لگا تھا ۔۔۔ 

" احمد کچھ پتہ چلا ٹھیک ہے اناؤس روم میں جاؤ ۔۔!! مرتضیٰ دھڑکتے ہوئے دل سے عابیر کو تلاش کر رہا تھا جیسے وہ نہ ملے گی تو وہ سانسیں نہیں لے پائے گا ۔۔

ابھی تو دھڑکنوں میں بسایا ہے تمہیں ۔۔

_____

" سنیے ادا جی یہاں میرے ساتھ چھوٹے ادا تھا وہ میرے دیور کیا آپ نے انھیں دیکھا مجھے نہیں مل رہے وہ پریشان ہو رہے ہوں گے ۔۔!! وہ مال میں گم ہو گئی تھی عابیر چوڑیاں لینے کا سوچتی سوچتی احمد کو بلانے لگی تھی کہ اسے وہاں نہ پا کر آگے بڑھی دوسری سائیڈ جاکے ڈھونڈا لیکن احمد کہیں نہیں ملا خود بھی یہاں وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھتی پریشان سی ہوئی تھی ۔۔

" کیا آپ بچھڑ گئی ہیں فیملی سے ۔۔؟" ایک نوجوان اسکی بات سنتا پریشانی میں دیکھ کر اسکے پاس آتے بولا ۔۔

" جی وہ پتہ نہیں کہاں گئے میں یہیں کھڑی تھی اب وہ نہیں ہے ۔۔!! عابیر اس جگہ کھڑی پریشانی سے کہہ رہی تھی ۔۔

" چلیں میں آپ کو اناؤنس روم میں لے چلتا ہوں وہاں آپ کی فیملی آجائے گی آپ کو لینے چلیں آجائیں ۔۔!! وہ لڑکا اسے اناؤنس روم میں لے آیا تھا ۔۔

" عابیر کی فیملی انھیں آکے لے جائے ۔۔!! اناؤنس پر عابیر حیرت سے وہاں دیکھ رہی تھی لڑکا اس کو دیکھتا مسکراتے ہوئے اس کے پاس آیا ۔۔

" تم کو پتہ ہے ہمارے یہاں کوئی گم ہو جاتا ہے تو ہم مسجد میں جاکے اعلان کرواتے ہیں پھر اسکے راشتے دار اور ماں باپ وغیرہ آتے ہیں لینے ۔۔!! وہ بہت مزے سے اسے بتا رہی تھی لیکن وہ تو اسکی خوبصورت بڑی بڑی آنکھوں میں خوشی کی چمک دیکھتا رہ گیا کسی کی باتیں اتنی پیاری بھی ہو سکتی ہیں اتنا خوبصورت انداز اس نے آج تک کسی کا نہیں دیکھا تھا ۔۔

" بھابی شکر آپ مل گئیں کہاں چلی گئی تھیں کتنا ڈھونڈا میں نے آپ کو ۔۔!! احمد جو کسی کال کی وجہ سے رک گیا تھا وہ بھی یہیں آرہا تھا اناؤنس روم میں ۔۔ عابیر کا سنتے ہوئے تیزی سے بھاگا آیا پیچھے مرتضیٰ بھی وہیں آگیا عابیر کے ساتھ کھڑے اس جوان سے احمد اور  عابیر کو باتیں کرتا دیکھ کر مٹھی بھینچی تھی غصے میں ۔۔

" چلو اب بہت تماشا ہو گیا ہے اور تم جب یہاں کے راستے تک نہیں جانتی تو کیا ایک جگہ کھڑا نہیں رہا جاتا تم سے پریشان کرنا اچھا لگتا ہے ۔۔!! مرتضیٰ بغیر کسی لحاظ کے اسے سنانے لگا عابیر شرمندگی سے سر جھکا گئی احمد کو اچھا نہیں لگا کسی کے سامنے اس کی انسلٹ پر ۔۔

_____

" تم لوگ یہاں کیوں آئے تھے پتہ نہیں احمد تمہیں یہ نہیں واقف یہاں سے ۔۔؟" مرتضیٰ ڈرائیو کرتا غصے میں دونوں کو گھورتے ہوئے کہا ۔۔ عابیر پیچھے بیٹھی لب کاٹ رہی تھی جب کہ آج تو اسنے گم ہو کر مرتضیٰ کی جان نکال دی تھی ۔۔

" بھائی آپ کو سب کے سامنے  بھابی کو نہیں ڈانٹنا چاہیے تھا ۔۔۔۔۔!! احمد خفا ہوا ۔۔

" یہ کون سی بڑی بات ہے یہ کرتے ہی سب کے سامنے ذلیل ہے مجھے ہونہہ ۔۔اور تو اور ان ادا نے تو ہماری مدد کی شکریہ بھی نہیں بولا ہم نے ان کو  ۔۔۔!! وہ بھی غصے میں بول گئی جب مرتضیٰ نے غصے میں گاڑی روکی ۔۔ اور اسکی زبان سے دوسرے کے بارے میں ہمدردی ہضم نہیں ہوئی مرتضیٰ صاحب کو ۔۔ 

" تمہاری زبان پھر چلی ۔۔۔۔؟" اس نے غصے سے پیچھے مڑ کر ڈرایا اسے ۔۔۔

" مم ۔میں و ۔وہ ۔۔۔۔۔ بھائی پلیز گھر چلتے ہیں ابھی یہاں کوئی تماشا نہیں ۔۔!!عابیر پھر خوف زدہ ہوئی اسکے روپ پر کے احمد نے بات ختم کی ۔۔۔ پھر خاموشی سے گاڑی آگے بڑھی تھی ۔۔۔

" مرتضیٰ اچھا ہوا تم آ گئے تمہیں پتہ ہمارا رشتہ ہونے والا ہے تم نے تو مجھے بتایا ہی نہیں تم پسند کرتے ہو مجھے ۔۔!! ہانیہ انھیں اندر آتا دیکھ کر جان بوجھ کر عابیر کے سامنے جا کر اسکے گلے لگتی آگ لگا گئی ۔۔ 

" یہ کیا بکواس کر رہی ہو ۔۔!! مرتضیٰ اسے الگ کرتا حیرت و غصے میں پوچھا احمد اور  عابیر تو جیسے ساکت ہو گئے تھے وہی جب کہ مرتضیٰ کو ہانیہ کی بات زہر لگی تھی وہ پہلے ہی بھرا بیٹھا تھا اسے سنانے کو جو اس دن عابیر کے ساتھ کیا تھا ان لوگوں نے ۔۔

" تمہیں نہیں بتایا خالہ جانی نے وہ آج آئی تھیں رشتہ مانگنے ماما سے زین کی شادی کے بعد انہوں نے کہا تھا وہ جلد ہی ہماری شادی کروانا چاہتی ہیں یہ دیکھو خالہ جانی مرتضیٰ کو میں نے ہی سرپرائز دے دیا ۔۔!! ہانیہ نے بڑا دھماکہ کیا تھا شازیہ بیگم مسکراتے ہوئے وہاں آئی حمید صاحب اور دادی بھی وہاں آگئے تھے ۔۔ مرتضیٰ نے کسی خیال سے پیچھے کھڑی عابیر کو دیکھا جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں سمندر جمع تھا اسکے دیکھتے نظریں جھکا گئی مرتضیٰ کو یہ سب اچھا نہیں لگا تھا ۔۔۔ عابیر کو لگا وہ سانسیں نہیں لے پائے گی کیوں قسمت اسکے ساتھ نا انصافی کر رہی تھی  ۔۔

" موم یہ سب کیا ہے ۔۔؟" مرتضیٰ نے بے یقینی سے ماں کو دیکھا ۔۔

" اچھا خالہ میں چلتی ہوں کل ہم چلیں گے شاپنگ پر ۔۔!! ہانیہ وہاں کا ماحول  سیریس دیکھتی کھسکنا چاہا کام تو وہ اپنا کر چکی تھی ۔۔

" خیر سے جاؤ احمد اپنی ہونے والی بھابی کو چھوڑ آؤ ۔۔ اور تم مرتضیٰ میرے روم میں آؤ ۔۔!! شازیہ بیگم حکم دیتی کمرے میں چلی گئی پیچھے مرتضیٰ غصے میں گیا حمید صاحب اور دادی عابیر سے نظریں نہیں ملا پا رہے تھے وہ تو جیسے چپ ہو گئی تھی احمد مجبوری میں ہانیہ کو لے گیا ۔۔۔

_________

" موم یہ سب کیا ہے ۔۔؟" مرتضیٰ ضبط کرنے لگا تھا اپنا غصہ وہ جیسی بھی تھی ماں تھی لیکن اسکے ساتھ یہ کریں گی اسنے سوچا نہیں تھا ۔۔

" کیوں یہ سب تمہیں پسند نہیں آیا تم بھول رہے ہو بیٹا یہ وہی ہے جس سے تم نفرت کرتے ہو چھوڑنے والے تھے اور آج میرے فیصلے پر تمہیں اعتراض ہو رہا ہے کہیں محبت تو نہیں کر بیٹھے تم ۔۔!! وہ ماں تھی بیٹے کے بدلے تاثرات جذبات اچھے سے سمجھ رہی تھیں ۔۔

" موم اب حالات بدل چکے ہیں میں نے آپ سے یہ نہیں کہا تھا اسے چھوڑ دونگا موقع دینے کا سوچا تھا میں ۔۔ اور آپ مجھ سے پوچھے بغیر میرا رشتہ کروا رہی ہیں ۔۔؟" اسکی آواز میں دکھ تھا ۔۔ وہ ماں تھی اونچی آواز نہیں رکھ سکتا تھا ۔۔

" تمہارے باپ نے بھی تو یہی کیا تھا مجھ سے پوچھا تھا اور اب جب کہ میں اپنے دل کی خواہش بتا رہی ہوں تو تمہیں اعتراض ہو رہا ہے میرے فیصلے پر ۔۔۔ میں چاہتی ہوں تم ہانیہ کو ہی میری بہو بناؤ مجھے وہ نہیں پسند تمہارے لئے ۔۔!! ماں تھی بیٹے کو زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے نرمی سے سمجھانے لگیں ۔۔۔

" موم وہ مجھے پسند ہے ہاں مانتا ہوں پہلے نہیں تھی لیکن اب میں خود کو اس رشتے کو ایک موقع دینا چاہتا ہوں پلیز موم مجھے کوئی بڑا قدم اٹھانے پر مجبور مت کیجیئے گا ۔۔ آپ میری ماں ہیں تو میں بھی آپ کا بیٹا ہوں پلیز ۔۔!! وہ بے حد سنجیدگی سے ماں کو دیکھتے ہوئے کہتا آگے بڑھ کر انکا ماتھ چوم کر تیزی سے باہر نکلا شازیہ بیگم بیٹے کی دھمکی کو اچھے سے سمجھ گئی تھیں۔۔ وہ سچ میں اس لڑکی سے محبت کر بیٹھا تھا وہ اسکے لئے کچھ بھی کر سکتا تھا ماں باپ کو بھی چھوڑ سکتا تھا کیسے خیال اور وہم آ رھے تھے شازیہ بیگم بیٹے کی دوری کسی صورت برداشت نہیں کر سکتی تھیں ۔۔۔

_________

" یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔؟" مرتضیٰ بےچینی سے اسے پورے گھر میں ڈھونڈتا ہوا اوپر چھت پر آیا اسکی وہاں موجودگی پر گہرا اور  پر سکون سانس لیتا مسکراتا ہوا اسکے ساتھ کھڑا ہو گیا وہ جو نیچے ایک  نکتے پر نظر مرکوز کیے ہوئے تھی ۔۔

" سوچ رہی ہوں زندگی اتنی مشکل ہوتی ہے یا پھر صرف ہم جیسے ان پڑھ لوگوں کی قسمت اتنی خراب ہوتی ہے ۔۔۔ سمجھ نہیں آرہا قسمت کا کھیل ہم جیسے ان پڑھ لوگوں کو ان پڑھ ہی لوگ ملنے چاہیے نہ کے پڑھے لکھے جن کے ساتھ رہتے ہوئے پل پل احساس ہو اپنی اوقات کیا ہے ۔۔۔ میں جانتی ہوں اس میں آپ کی غلطی نہیں ہے حالات ہی ایسے پیش آ گئے تھے لیکن مجھے بہت افسوس ہے اس بات کا ۔۔ حالات جیسے بھی ہوں وہ وقتی ہوتے ہیں ٹھیک ہو جاتے ہیں اس میں جذبات میں آکے ایسے فیصلے نہیں کرنے چاہیے جس پر بعد میں پچھتاوا ہو ۔۔۔۔ آپ کو ماموں سائیں نے مجبور کیا تھا ۔۔ میں جانتی ہوں آپ کو ساس اماں کو میں کبھی اچھی نہیں لگی اسکی وجہ بھی جانتی ہوں ۔۔ل ۔لیکن سائیں جی آپ اپنی اماں کی بات مان لے انکا حق ہے آپ پر وہ جو کہتی ہیں سہی کہتی ہیں میں واقعی آپ کے لائق نہیں ہوں کہیں بھی اٹھ بیٹھ نہیں سکتی آپ کے ساتھ میں گاؤں واپس چلی جاؤں گی آپ لوگ لڑائی جھگڑا مت کریں میری وجہ سے ۔۔!! اسکی باتیں اسکا دل دکھا رہی تھیں لیکن سچ ہی تو کہہ رہی تھی پھر کیوں اسکا سچ اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا وہ بھی تو صبح شام اسے یہی یاد دلاتا تھا اور آج جب وہ خود جان گئی ہے اسکی اوقات کیا ہے تو کیوں وہ اسے بولنے سے روکنا چاہتا تھا ۔۔۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا اسکی باتوں نے دل پر جیسے کوئی بھاری پتھر رکھ دیا ہو بغیر کچھ کہہ وہ وہاں سے نکل گیا عابیر ایک بار پھر اپنی خاموش قسمت پر پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی ۔۔ وہ نہیں جانتی تھی کب کیسے اسکا دل اب اسکے نام سے دھڑکتا ہے جدائی کا سوال ہی نہیں اٹھتا محبت میں لیکن یہاں تو وہ قسمت کے ایسے کھیل پر کھڑی پچھتا رہی تھی کاش میں کبھی شہر نہ آتی نا ہی مرتضیٰ سے ملاقات ہوتی نہ وہ کبھی اسکے دل میں گھر کرتا ۔۔ اب تو وقت نکل چکا تھا ہاتھ سے کیسے خود کو سنمبھالتی وہ ۔۔ عابیر کریم بخش ، مرتضیٰ حمید سے محبت کرنے لگی تھی ۔۔ محبت میں جدائی تو ختم کر دیتی ہے پھر وہ کیسے زندہ رہے گی آج جتنا رونا تھا جی بھر کے رو لیا تھا ۔۔۔

_________

" بھابی آپ جا رہی ہیں میدان چھوڑ کر ۔۔؟" احمد کو جیسے ہی خبر ملی وہ بھاگتا ہوا آیا تھا دادی اور حمید صاحب اسکے فیصلے پر خاموش تھے وہ جانتے تھے اسکے ساتھ کبھی کچھ اچھا نہیں ہوا اس گھر میں اس لئے وہ اسے مزید تکلیف نہیں دینا چاہتے تھے مرتضیٰ شام سے گیا ہوا تھا ابھی تک نہیں آیا تھا گھر اس بات کا عابیر کو بہت دکھ تھا وہ کچھ کیوں نہیں کہہ رہا کیا وہ بھی یہی چاہتا ہے ۔۔۔ نہ جانے کیوں جھوٹی امیدیں دل میں تھی اسکے ساتھ گزرا وقت کتنا خوبصورت لگتا تھا ۔۔ 

" یہ میدان کبھی میرا نہیں تھا پھر کیوں میں دوسروں کی چیزوں پر قبضہ کروں میرا یہاں سے جانا ہی بہتر ہے آپ سب اپنا خیال رکھیے گا چھوٹے ادا ۔۔!! وہ آنسو صاف کرتی مسکراتے ہوئے بولی تھی اوپر سے جتنا ہنس لے ۔۔ جب دل میں ڈھیروں غم سے بھرا ہوا ہو تو آنکھیں کیسے مسکرا سکتی ہیں ۔۔

" مجھے چھوٹا ادا کون بلائے گا کون اچھے اچھے کھانا بنا کر کھلائے گا میں نہیں جانے دونگا آپ کو مت جاؤ عابی ۔۔!! احمد کی آنکھیں بھی نم ہو گئی تھیں اسے یہ پیاری اور چھوٹی سی بھابی بہت عزیز تھی غصہ تو اسے اپنے بھائی پر آرہا تھا جانے کہاں چھپ گیا تھا اور یہ خوشباں ہمیشہ سے اس گھر سے ختم ہونے والی تھی ۔۔۔

" بھابی پلیز روئے مت آپ بالکل اچھی نہیں لگتی روتے ہوئے ۔۔ میں آپ کو رلانا نہیں چاہتا بلکہ روکنا چاہتا ہوں ۔۔!! احمد اسکے برسات والے آنسو دیکھ کر دکھ سے بولا تھا ۔۔ 

" کیا کروں میں تمہارا بھائی اب اچھا لگنے لگا ہے تو کیا کروں اپنے دل کا جسے اسے دیکھ کر سکون ملتا ہے اسے دیکھ کر دھڑکتا ہے تم سب اچھے لگتے ہو مجھے میں وہاں کیسے رہوں گی تم لوگوں کے بغیر ۔۔۔۔!! وہ سو سو کرتی وہ بےسی سے بولی تھی ۔۔ جب ایک وجود کے چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ آئی احمد کو اسکی معصومیت پر پیار آیا تھا اتنی پیاری بھابی تھی اسکی اس گھر کی رونق تھی ۔۔احمد ایک نظر پیچھے کھڑے وجود کو مسکراتا ہوا دیکھ کر شرارت سے اپنی بھابی کو دیکھا تھا ۔۔ جو سر جھکا کر اپنے آنسوں بہا رہی تھی ۔۔

" تو آپ کیسے چھوڑ کے جا سکتی ہیں اپنے پیارے خوبصورت شوہر کو یہاں آپ جائیں گی وہاں کوئی اور چڑیل آکر قبضہ کرلے گی پھر کیا کریں گی آپ ۔۔؟" وہ شرارت سے کہتا اسے دیکھا جو اسکی بات پر رونا بھول کر حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔ دل کھونے کے خوف سے دھڑک اٹھا تھا ۔۔

" اللّٰه انھیں نظر سے بچائے گا لیکن وہ مجھے اچھے لگتے ہیں میں تو نہیں لگتی نہ اور تمہاری وہ چڑیل خالہ کی بیٹی وہ تو بیٹھی ہے نہ سائیں جی کو چرانے کے لئے وہ اب ان کے ہو جائے گے  نہ میں تو کہیں نہیں تھی اس لئے چلی جاؤں گی گاؤں ۔۔ اب تم باتوں میں نہ لگاؤ مجھے چھوڑ کے آؤ رات ہوگئی ہے وہاں پہنچتے دیر ہو جائے گی تم صبح آجانا رات وہاں روکو گے نہ ۔۔!! درد تو اسکا تھا پھر کیوں وہ اپنے درد سے سب کو تکلیف دیتی یہی سوچ کر وہ احمد سے پیار سے پوچھنے لگی تھی ۔۔ جب پیچھے سے گھمبیر آواز پر سانس روک گئی  ۔۔۔

" کس کی اجازت سے جا رہی ہو تم ۔۔؟؟

"س ۔سائیں جی آ ۔آپ ۔۔!! مرتضیٰ کو غصے میں دیکھ کر ہمیشہ اسکی جان جاتی تھی ابھی بھی مرنے والی حالت تھی ۔۔ مرتضیٰ نے احمد کو اشارہ کیا باہر جانے کا ۔۔ وہ جیسے ہی آگے بڑھا عابیر نے ڈر سے احمد کا ہاتھ پکڑتی سر نفی میں ہلانے لگی نم آنکھوں میں التجا تھی ۔۔ اپنے جلاد شوہر کا کیا پتہ پھر بند کمرے میں مارنے کی دھمکی دے یا پھر سچ میں کردے آج اسکا کام تمام ۔۔

" میں نے کہا جاؤ ۔۔!! مرتضیٰ کی دھاڑ پر دونوں اچھل پڑے احمد تیزی سے بھاگا تھا اسکے جاتے مرتضیٰ نے کمرے کا دروازہ بند کیا اسکی حرکت پر عابیر کا گلہ خشک ہوا وہ تیزی سے واش روم میں بھاگی مرتضیٰ نے جیسے دیکھا اس تک پہنچنا چاہا کے وہ دروازہ بند کر گئی تھی ۔۔ دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر رکی ہوئی سانس بحال کرنے لگی ۔۔

" عابیر دروازہ کھولو ۔۔؟" مرتضیٰ نے غصے میں دروازے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا ۔۔

" نن ۔۔نہیں سا ۔سائیں آ ۔آپ مم ۔۔ماریں گے ۔۔!! وہ ڈر اور خوف سے روتے ہوئے بولی تھی وہ مرتضیٰ کے غصے والے روپ سے بہت ڈرتی تھی یہ بات وہ بھی اچھے سے جانتا تھا اسکی اسی بات پر اسکے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی تھی جب جب وہ اسے ڈراتا وہ اتنی ہی معصوم اور پیاری لگتی تھی اسے اس وقت وہ اسکے تاثرات دیکھنا چاہتا تھا پر وہ تھی چھپ کے بیٹھی ۔۔ دل تو آج گستاخیاں کرنے کو مجل رہا تھا ۔۔

"پہلے کتنی بار مارا ہے جو اس بار ماروں گا چلوں شاباش نہیں مارتا باہر آؤ بات کرنی ہے ۔۔؟" وہ روعب سے بولا تھا ۔۔

" ی یہی سے بولے سن رہی ہوں باہر نہیں آؤں گی آپ کا کیا بھروسہ مار دیں تو کسی کو پتہ بھی نہ چلے میری لاش کہاں گی نہ سائیں جی معاف کریں باہر نہیں آؤں گی ۔۔!! وہ اسکا پہلے والا روپ یاد کرتی خوف زدہ ہو گئی تھی اس وقت تو وہ جس غصے میں تھا اسکی لاش تک کا کسی کو پتہ نہ چلے ۔۔۔ اور آج اسکا دل کیا واقعی اپنی دھمکی سچ کر دے ۔۔ ایک تو صبح سے بے سکون گھوم رہا تھا اسکا سوچ سوچ کر سر درد سے پھٹ رہا تھا اسکی باتوں نے کتنا شرمندہ کیا تھا اور یہاں وہ سامنے نہیں آرہی کہ بات ہو پائے ۔۔

" تم کھولتی ہو کے میں توڑ دوں۔۔؟" اب کی بار اسے واقعی غصہ آگیا تھا عابیر پر ۔۔ اسکے غصے والے روپ سے ڈرتے ہوئے وہ دھیرے سے باہر نکلی تھی سر جھکا ہوا تھا رویا رویا ہلکا سا گلابی ۔۔ مرتضیٰ نے ایک قدم اسکی جانب بڑھایا تھا کہ وہ ڈر سے آنکھیں بند کر گئی دھڑکنیں تیز ہوئی اسنے اسکا ہاتھ پکڑ کر صوفہ تک لا کر اسے بیٹھایا کچھ دیر کمرے میں معنی خیز خاموشی تھی صرف دھڑکنوں کا رقص سنائی دے رہا تھا ۔۔ ایک شدت سے خوف زدہ دھڑک رہا تھا تو دوسرا چاہت سے محبت کے اظہار سے ۔۔۔

" تم مجھے چھوڑ کے سچ میں جانا چاہتی ہو۔۔۔؟" بھاری گھمبیر آواز پر اسکی دھڑکنوں نے مزید رفتار پکڑ لی ۔۔۔ اس لو دیتی کی نظروں سے گھبراتی وہ حلق تر کرتی نظریں چرانے لگی تھی ۔۔

" کہو کچھ ۔۔؟" وہ اسکا ہاتھ دبا کر بولا تھا ۔۔

" مم ۔۔ سس ۔۔ آ ۔آپ آپ اپنی اماں سائیں کی بات مم ۔۔مان لے وہ سہی کہتی ہیں ۔۔!! گھبراہٹ کے مارے عابیر کے لفظ ہی نہیں نکل رہے تھے ہمت کرتے ہوئے وہ کچھ لفظ ادا کرتی گئی ۔۔

" کیا سہی کہتی ہیں ۔۔؟" مرتضیٰ کا لہجہ بہت نرم تھا ۔۔ وہ تو اسکی گھنی پلکوں کی حرکت کو دیکھ رہا تھا ۔۔ عابیر کا دل بھر آیا تھا ۔۔ جتنا اپنے آنسؤں پر ضبط کرتی وہ اتنی تیزی سے بہنے لگے تھے ۔۔

" آپ ایک اچھی باشعور پڑھی لکھی بیوی کا حق رکھتے ہیں مم ۔۔ میری جیسی لڑکی ایک گاؤں کی گاؤں میں ہی اچھی لگتی ہے یوں شہر میں آکر پڑھے لکھے حسین مرد کا نصیب کیسے ہو سکتی ہے ۔۔!! وہ بہتے ہوئے آنسوں کے ساتھ خود کو بے مول بتا رہی تھی جب کے وہ بس خاموشی سنجیدگی سے اسے سن رہا تھا اسکے جھکے سر اور بہتے آنسو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ ایک بار اسکے دل سے تو پوچھتی وہ کتنی انمول ہے اسکے لئے اب ۔۔ 

" آ ۔آپ بھی تو پسند نہیں کرتے ہیں مجھے آپ نے بھی کہا تھا چھوڑ دیگے یہ سب مجبوری کا رشتہ ہے پھر کیا کہوں گی ۔۔ آپ بس مجھے عزت اور احترام کے ساتھ میرے گھر چھوڑ آئیں میں اپنی اماں ابا کو سمجھا دونگی وہ بھی سمجھ جائیں گے  آپ بس میری وجہ سے لڑے نہ اپنی اماں کی بات مان لے ۔۔!! اپنا ہاتھ اسکے مظبوط ہاتھوں میں دیکھتی ہوئی وہ دھیرے سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ مرتضیٰ جند لمحے اسے روتے اور جھکے سر کو دیکھتا گہرا سانس لیتا اثبات میں سر ہلاتا ہوا نرمی سے اسکے آنسو صاف کیے ۔۔۔ عابیر ایک پل کو ڈر سے اپنی آنکھیں بند کی نرم لمس پر دھیرے سے آنکھیں کھولتے ہوئے اسکی آنکھوں میں دیکھا دل شدت سے  اسکے نام سے دھڑک رہا تھا  ۔۔۔۔ یہ تو آج احساس ہی الگ تھے خوبصورت انداز تھا آج تو بیچ رشتہ بھی کمال تھا تو کیسے نہ یہ احساس جاگتا ۔۔

" میں کچھ کہوں گا نہیں صرف ایک عمل سے تمہیں یہ احساس دلاؤں گا تم میرے لئے کیا ہوں تمہاری میری زندگی میں کیا اہمیت ہے تم کیا بن گئی ہو میرے لئے میری سانسیں میری دھڑکنوں میں بسنے لگی ہو عابیر مرتضیٰ ۔۔!! وہ قریب ہوا اسکی پلکوں پر دھیمے سے اپنے ہونٹ رکھتا اسکے رخساروں سے پھیلتا ایک گستاخی کرتا اسکے چہرے کی  لالی دیکھنے لگا ہولے سے مسکراتے ہوئے اسے گہرا سانس بھرتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ حیا و شرم سے نظریں جھکانے پر مجبور ہو گئی تھی ۔۔۔ مرتضیٰ کے خوبصورت انداز پر وہ جتنی حیران ہوتی کم تھا اسکے انداز بیان محبت سے آج خود کو بہت خوش نصیب سمجھ رہی تھی ۔۔

" کیا اب بھی کچھ کہنے کی ضرورت ہے تم میرے لئے کیا ہو میرے دل میں کیا مقام بنا چکی ہو میرا ہر عمل تمہیں یہ احساس دلائے گا تم مرتضیٰ حمید کیلئے کیا مقام رکھتی ہو ۔۔ اسکے دل میں رہتی ہو ۔۔ کیا میں آج اپنی بیوی سے اپنے حقوق لے سکتا ہوں اسے دل و جان سے اپنے اندر اتار سکتا ہوں اسکے چہرے پر اپنے محبت کے رنگ بکھیر سکتا ہوں ۔۔۔!! وہ آنکھیں موندے چہرے پر گرم دہکتی سانسیں محسوس کر رہی تھی مرتضیٰ نے مسکراتے بازو اسکے کمر کے گرد حمائل کرتا اسے مزید قریب کیا خود کے اسکا تمام خون چہرے پر سمٹ آیا تھا ۔۔ آج چاند بھی انکی نزدیکی پر شرماتا بادلوں کی اوڑ میں چھپ گیا ۔۔ وہ دونوں آج ایک خوبصورت احساس میں پر سکون حصار میں ایک دوسرے کو مکمل محسوس کرتے ہوئے خوش تھے یہ انکی نصیب کی خوشیاں تھی دیر سے سہی پر انھیں اپنے ہونے کا ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع مل گیا ۔۔

" سر خیر ہے آج تو بہت اچھے موڈ میں لگ رہے ہیں ۔۔!! عباس اسکے خوبصورت چہرے پر دلکش مسکراہٹ دیکھتا حیرت سے بولا تھا  ۔۔

" بس یار یہ سمجھوں کافی عرصے بعد ایک سکون ملا ہے ۔۔ ایک خوبصورت تحفہ ملا ہے اللّٰه پاک کی طرف سے ۔۔۔!! مرتضیٰ مسکراتے ہوئے دلکشی سے عابیر کا صبح شرمیلا روپ یاد کرتے ہوئے دل سے مسکرایا تھا ۔۔

" سر ڈی ايس پی سر آئے ہوئے ہیں آپ کو بلا رہے ہیں ۔۔!! حوالدار اندر آتے بولا ۔۔ مرتضیٰ سن کر سر کے روم کی طرف گیا ۔۔۔

" السلام علیکم سر آپ نے یاد کیا ۔۔!! مرتضیٰ سلیوٹ کرتا ہاتھ ادب سے پیچھے باندھے بولا ۔۔

" ہاں ایس پی مرتضیٰ آپ سے ضروری کام تھا بیٹھو ۔۔۔۔!! ڈی ايس پی جنید اقبال نے بات کا آغاز کیا ۔۔

" جی سر بولیے کیا خادم حاضر ہے ۔۔!! مرتضیٰ مسکراتا ہوا شرارت سے بولا تھا وہ سر تھوڑے اچھے دوست تھے عمر کا فرق تھا اس لئے لفظوں میں لحاظ تھا ۔۔

" ہاہاہا ۔۔ وہ تو پتا ہے مجھے تم کب میرے کام میں حاضر نہیں ہوتے ابھی کچھ پرسنل کام ہے بیٹا ۔۔ اصل میں ہم لوگ اسلام آباد کیلئے جا رہے ہیں ایک مہینہ لگے گا وہاں تو ۔۔۔!! وہ بات  شروع کرتے ہوئے زرا رکے ۔۔۔

" سر سب خیریت ہے خیر سے جانا ہو رہا ہے ۔۔!! مرتضیٰ انکی پریشانی سمجھتے ہوئے کہا تھا ۔۔

" جی بیٹا خیر ہے لیکن ساتھ کچھ کام ہے میرے سالے کی طبیعت خراب ہے اس لئے جانا پڑ رہا ہے کچھ میرا اپنا کام ہے اور ان سب میں ہم اپنی بیٹی کو ساتھ نہیں لے کے جا سکتے ہیں اسکا کالج ڈسٹرب ہو سکتا ہے اور اسے یہاں بھی کسی کے حوالے نہیں چھوڑا جا سکتا اس لئے تمہیں بلوایا نور کو تو تم جانتے ہوں کتنی ضدی ہے کہا بھی تھا ساتھ چلو کہتی نہیں جانا کیونکہ کالج جانا ضروری ہے سو ہم جلد واپس آنے کی کوشش کریں گے اس لئے تم اسے اپنے گھر لے جاؤ اس کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتے اور تم سے بہتر شخص کوئی نہیں ملا تمہاری فیملی کو بھی جانتا ہوں  ۔۔۔!! انہوں نے اپنی پوری بات کہہ دی ۔۔

" جی سر ضرور آپ پریشان نہ ہوں میں واپسی پر نور کو آپ نے گھر لے جاؤں گا جب تک آپ لوگ خیر سے نہیں لوٹ آتے ہم نور کا اچھے سے خیال رکھیں گے ۔۔!! مرتضیٰ خوش دلی سے وہا سے نکلا ۔۔ ایک تو دل اس دشمن جان سے ملنے کو مچل رہا تھا ۔۔

_________

" اوہو بھابی آج تو آپ کا چہرہ لال پیلا نہیں ہو رہا کچھ زیادہ ہی آج تو آپ کے چہرے پر محبت کے رنگ دکھائی دے رہے ہیں ۔۔۔ ویسے سچ بتائیے بھائی نے رات کیا کہا غصہ تو نہیں ہوئے نا زیادہ ۔۔۔؟" احمد اسے چھیڑتا اصل بات پر آیا بھابی کا دیور تھوڑا فکر مند تھا ۔۔۔

" چھوٹے ادا تم مجھے تنگ نہ کیا کرو اس طرح ۔۔۔ اور وہ سائیں جی ۔۔۔۔!! وہ رکی دھڑکنیں تیز ہوئی اب کیا کہتی کتنے خوبصورت انداز میں اسنے احساس دلایا تھا اسکے ہونے کا ۔۔۔

" بولے یار کیا بولا بھائی ۔۔؟" احمد بضد ہوا ۔۔۔

" وہ کہتے ہیں میں اچھی ہوں ۔۔ اب وہ بھی پسند کرتے ہیں ہائے اللہ جی مجھے شرم آرہی ہے چھوٹے ادا مجھ سے ایسے سوال نہ کیا کرو ۔۔!! عابیر شرم و حیا سے سرخ ہوگی تھی ۔۔۔ احمد نے اس کے پیارے انداز پر قہقہ لگایا تھا ۔۔

" اسکا مطلب اب آپ گھر چھوڑ کر نہیں جائیں گی ہم سب کے ساتھ رہیں گی ۔۔!! احمد کی بات پر وہ خوشی سے  سر ہلا گی ۔۔

" احمد تم گئے نہیں یونیورسٹی ۔۔؟" شازیہ بیگم نے اچانک سے ماحول میں خلل پیدا دیا تھا ۔۔ عابیر گھبراتی اپنے کام میں لگی ساس کی تیکھی نظر جو پڑی تھی ۔۔۔

" نہیں ماما آج چھٹی لی ہے کلاس نہیں تھی زیادہ اس لئے ۔۔۔۔ آپ کو کچھ چاہیے ۔۔؟" احمد پیار سے انکے گلے لگتا بولا تھا ۔۔

" میرے بیٹے مجھ سے کچھ پوچھتے کب ہیں ۔۔!! وہ خفا ہوتی وہاں سے چلی گئیں ۔۔ 

" آپ پریشان نہ ہوں ماما جلد ٹھیک ہو جائیں گی آپ سے بھی دیکھنا ۔۔!! احمد اسے پریشان ہوتا دیکھ کر پیار سے سمجھاتا ماں کے پیچھے گیا ۔۔

_______

مرتضی بھائی آپ کے گھر میں کون کون ہے؟ یہ تھی خوبصورت نین نقش والی نور جنید اقبال چھوٹی سی بیس سال کی برون کانچ سی آنکھیں خوبصورت سلکی سٹائلش سے کٹے ہوئے بال آگے پیچھےبکھرے ہوئے کندھوں تک ۔۔ سفید رنگت وہ کھلے پنک ٹراؤزر  شرٹ میں بہت کیوٹ لگ رہی تھی ۔۔ وہ تھی بلا کی حسین عابیر جیسی خوبصورتی وہ بھی رکھتی تھی ۔۔ نور کے سوال پر مرتضیٰ کے چہرے پر پھر وہی خوبصورت مسکراہٹ آئی تھی ۔۔

" موم ڈیڈ ، دادی ایک چھوٹا بھائی اور ایک بہت پیاری بیوی ۔۔!! مرتضیٰ نے سب کا بتاتے ہوئے عابیر کا خوبصورت دلکشی سے بتایا تھا ۔۔ ایک تو وہ صبح سے یاد آرہی تھی دل تو کیا ابھی بھاگ کے اسکے پاس پونچ جائے ۔۔۔

" مرتضیٰ بھائی آپ نے شادی کرلی اور ہمیں بلایا بھی نہیں کیوں ۔۔ کیا ہم اتنے پرائے ہیں ۔۔!! نور نے ناراضگی جتائی ۔۔۔۔ مرتضیٰ کا انکے گھر آنا جانا رہتا تھا جس کی وجہ سے نور اسے دل سے بھائی مانتی تھی یہی وجہ تھی کے جنید اقبال نے اپنی بیٹی کی ذمہ داری دی تھی ۔۔

" ارے نہیں گڑیا یہ سب بہت جلد ہوا سو گھر چلوں عابیر سے مل کر سب شکوے ختم ہو جائے گے ۔۔۔!! وہ اب کیا بتاتا اسے کیسے ہوئے انکی قسمت کے فیصلے ۔۔۔

_______

" السلام علیکم امی یہ نور ہے آپ تو جانتی ہے ۔۔!! مرتضیٰ نور کو ساتھ گھر لے آیا تھا لاؤنج میں صرف دادی ، شازیہ بیگم اور حمید صاحب بیٹھے ہوئے تھے ۔۔ مرتضیٰ کی بے چین نظروں نے عابیر کو تلاش کیا تھا ۔۔ وہ ہوتی تو دکھائی دیتی ۔۔ جو کے یہ تینوں پہلے بھی نور سے مل چکے تھے ایک دو بار جنید صاحب کی کسی پارٹی وغیرہ میں بس احمد اور عابیر انجان تھے ۔۔

" وعلیکم السلام ۔۔ نور بیٹا کیسی ہے آپ ۔۔!! شازیہ بیگم نے  خوشگواری سے پوچھا تھا ۔۔ حمید صاحب اور دادی نے بھی بہت سی باتیں کی نور سے وہ تو تھی ہی موج مستی والی انکے ساتھ مزے سے باتوں میں لگی تھی ۔۔

" عابیر اور احمد کہاں ہے ۔۔؟" مرتضیٰ پوچھ بیٹھا ۔۔

" احمد عابیر کو آئس کریم کھلانے لے گیا ہے آتے ہونگے آج اسکی چھٹی تھی اس لئے اسے گھمانے لے گیا ۔۔!! دادی نے پوری بات بتائی وہ خاموشی سے سر ہلا گیا دل تو اسکا بھی بہت تھا اسکے ساتھ اکیلے باہر جانے کا لیکن پتہ نہیں کب اپنی خواہش پوری ہوگی ۔۔۔ ماں کے سامنے عابیر کو لے جانے دے ڈرتا تھا ابھی انکا غصہ کم کرنا تھا اس لئے وہ خود انھیں منائے گا ۔۔۔

" میں روم میں جاتا ہوں سر درد ہے تھوڑا آرام کر لیتا ہوں عابیر آئے تو اوپر بھیج دیجئے گا ۔۔!! وہ کہتا وہاں سے گیا شازیہ بیگم کچھ دیر نور کے ساتھ بیٹھی پھر اس کے لئے گیسٹ روم ریڈی کرنے چلی گئی اور دادی آرام کرنے چلی حمید صاحب بھی اپنے کام سے نور صوفے پر بیٹھی موبائل چلا رہی تھی جب احمد اور عبیر کی اندر آتے ہنسے کی آواز آئی نور نے  سامنے دیکھا ایک خوبصورت سی لڑکی اور اسکے ساتھ ہینڈسم سا لڑکا آرہا تھا ۔۔

" السلام علیکم تم کون ہو عدی ۔۔!! عابیر آگے بڑھ جب کے احمد کی کال آنے پر دوسری سائیڈ چلا گیا عبیر حیرت سے سامنے چوٹی سی پیاری لڑکی کو دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔

"وعلیکم السلام میں نور اور آپ ۔۔۔؟" نور نہ سمجھی سے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔

" جی میں عابیر تم کون ہوں یہاں کیوں بیٹھی ہوں ۔۔!! عابیر ایک انجان لڑکی کو اپنے گھر میں دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔

" او تم ہوں عابیر مرتضیٰ ۔۔۔۔ مرتضیٰ بھائی کی بیوی میں سہی ہوں ۔۔؟" نور خوشی سے پھر سے اس سے ملتے ہوئے پوچھا اسے واقعی عابیر بہت پیاری لگی مرتضیٰ نے سہی کہا تھا اسکی بیوی بہت پیاری ہے ۔۔ عابیر شرما گئی تھی ۔۔

" تم سائیں کو جانتی ہوں ۔۔؟" عابیر حیرت اور دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھا تھا ایک پل کو اسکا مرتضیٰ کو جاننا اچھا نہ لگا لیکن اسکے منہ سے بھائی لفظ سنتی تھوڑی مطمئن ہوئی تھی ۔۔

" جی ہاں وہی تو لائے تھے مجھے یہاں آپ کا کمرے میں انتظار کر رہے ہیں آپ جائے پھر ہم بات کرتے ہیں ۔۔!! نور کو مرتضیٰ اسکا انتظار یاد آیا تھا ۔۔ عابیر اسے واپس آنے کا کہتی دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اپنے کمرے تک گئی ۔۔۔

" ایکسکیوزمی ہو آر یو ۔۔؟"  احمد حیرت سے سامنے بیٹھی خوبصورت لڑکی کو ایک پل کو دیکھتا ہوا حواس میں لوٹا حیرت سے پوچھ بیٹھا تھا ۔۔

" آئم نور جنید اقبال اینڈ یو ۔۔؟" نور نے بھی وہی سوالیہ نگاہوں سے پوچھا تھا ۔۔۔

" احمد ۔۔ یہ میرا گھر ہے آپ کون ۔۔۔؟" احمد کو اسکی خوبصورت نین نکش بہت متاثر کر رہے تھے وہ وہی صوفے پر بیٹھ گیا نگاہیں نور کے معصوم خوبصورت چہری پر ٹک سی گئی تھی ۔۔

" میں نے کب کہا میرا گھر ہے مسٹر ۔۔!! نور نے آنکھیں گمائی جسے احمد کا سوال بہت پچکانا لگا تھا  اور احمد صاحب کی محبت بھری نگاہ تو اسکے دیکھنے پر ہی شرمندہ ہوگئی ۔۔۔ اسکا رکھا پن بجلی بن کر گرا احمد پر ۔۔۔

" جی آپ نے نہیں کہا لیکن اس وقت آپ میرے گھر میں ہے تو میرا جاننا ضروری ہے کون ہے کہا سے آئی ہے ۔۔!! وہ جبراّ مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔ اب وہ لڑکی بری لگ رہی تھی اسے ۔۔

" آپ گھر میں آئے کسی بھی مہمان سے اس طرح پیش آتے ہیں ۔۔۔۔ خیر مجھے پیاس لگی ہے پانی پلاؤ ۔۔۔!! نور بیزاری سے جواب دیتی آخر میں حکم دیا ۔۔۔ یہاں لگا احمد صاحب کو سو والٹ کا جھٹکا آج تک خود اٹھ کر پانی نہیں پیا سامنے والی کے حکم پر تو جیسے جن کی طرح حاضر ہوتا اسے بہت زیادہ غصہ آنے لگا تھا سامنے بدتمیز لڑکی پر ۔۔۔

" یو ۔۔جس کی مہمان بن کر آئی ہے اسی سے کام کروائے میں نوکر نہیں ہوں آپ کا ۔۔۔!! احمد جل بھن گیا تھا اسکی نخریلی ادا سے ۔۔۔ وہ خود اپنے گھر میں لاڈلا تھا اور یہ نوکر بنا رہی تھی ۔۔۔

" تمیز سے بات کرے مسٹر ڈی ايس پی کی بیٹی ہوں ۔۔!! نور کا یہی ڈائیلوگ مشہور تھا جہاں کام نکلوانا ہوں یہ کام آتا تھا اور اسے لگا یہاں بھی کچھ ایسا ہوگا لیکن اس بار شاید وہ غلط آدمی کو دھمکی دے بیٹھی اسکا سرخ چہرہ بتا رہا تھا ضبط سے کیا ہوا غصہ اب پھٹنے کو ہے ۔۔۔

" اور میں پرائم منسٹر کا بیٹا ہوں زیادہ اٹیٹوڈ دکھایا تو پاکستان سے باہر پھینکواہ دونگا ۔۔!! احمد کہاں پیچھے رہتا اب تو یہ لڑکی آنکھوں میں چب رہی تھی ۔۔ بس نہ چلا ایک رکھے لیکن مجبور عورت تھی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا تھا ورنہ دل تو قتل کرنے کو تھا ۔۔۔

" ہاہاہاہا پرائم منسٹر کا بیٹا ہاہاہاہاہا اففف حمید انکل کا تو بزنس ہے نہ وہ کب پرائم منسٹر بنے ۔۔۔!! نور کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا تھا احمد نے کتنی مشکل سے خود کو روکا ہوا تا یہ وہی جانتا تھا ابھی شاید اسکا ضبط جواب دیتا شازیہ بیگم وہاں آئی بیٹے کو غصے میں نور کو ہنستے ہوئے دیکھا ۔۔

" ماما کون ہے یہ بدتمیز لڑکی بات کرنے کی تمیز نہیں نخرے دیکھے مجھ پر ہنس رہی ہے میں تو ۔۔!! احمد کا غصے کے مارے برا حال تھا ۔۔۔ نور اسکا غصہ دیکھتی مزید ہنسی تھی ۔۔۔

" بیٹا ایسے نہیں کہتے یہ مرتضیٰ کے سر کی بیٹی ہے ۔۔ یہاں مہمان ہے اس طرح بات نہیں کرتے ۔۔ نور بیٹا یہ میرا چھوٹا بیٹا مرتضیٰ کا بھائی ہے ۔۔ تم لوگوں کے بیچ شاید کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے ۔۔۔!! شازیہ بیگم نے بات سنمبھالنے کی کوشش کی ۔۔۔

" آنٹی مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی شاید یہ کچھ زیادہ خوش فہمی میں رہتے ہیں ۔۔ خیر میں نے صرف پانی ہی مانگا تھا ۔۔ یہ تو تالاب میں ڈوبانے کو تیار تھا ۔۔!! نور نے مزید ہوا دی اسکے غصے کو شازیہ بیگم نے کسی طرح یہاں سے بھیجا اسے ۔۔۔

" بیٹا تم آرام کرو تھکی ہوئی ہوگی ۔۔ آؤ تمہیں روم دکھاؤ ۔۔!! وہ پیار سے اسے ساتھ لے گئی ۔۔

" آنٹی سنے مجھے بھوک لگی ہے کچھ بنا کر دے جائے اور پانی کی بوتل بھی پلیز ۔۔!! نور مسکراتے ہوئے کہتی واش روم میں گئی شازیہ بیگم اس چھوٹی سی پٹاخہ پر حیرت ہوئی اپنی سے بڑی سے کہہ رہی تھی کچھ بنا کر لے آؤ یہ آج کل کے بچے خود تو کچھ کرتے نہیں ماں باپ سے کام کروانا ہوتا ہے اور نور میڈم تو تھی ہی لاڈلی جس نے واقعی آج تک پانی کا کلاس بھی خود کے لئے نہ بھرا ہو سب کچھ ماں ہاتھ کی ہتھیلی پر دیتی تھی ۔۔ شازیہ بیگم کو یہ عادت نور کی بہت بری لگی عابیر کے بعد انہوں نے کیچن کا کام کرنا ہی چھوڑ دیا تھا جو تھوڑا بہت کرتی تھی اب تو بھول ہی گئی تھی وہ راستے کو اور آج یہ لڑکی وہی کا راستہ دیکھا رہی تھی ۔۔۔ وہ بے دلی سے چلی گئی اس وقت عابیر بھی دکھائی نہیں دے رہی تھی ورنہ اسے کہہ دیتی ۔۔۔

_____

" السلام علیکم سائیں جی آپ کب آئے ۔۔!! عابیر کمرے میں آتے ہی سلام پیش کیا نظریں سامنے بیٹھے مرتضیٰ پر تھی جو خاموشی سے سر اثبات میں ہلاتے سلام کا جواب دیتا اپنے کام میں مصروف ہو گیا لیپ ٹاپ پر تیزی سے انگلیاں چل رہی تھی یہ شاید غصہ تھا کس بات کا انجان تھا ۔۔۔

" سائیں میں چائے لاؤ ۔۔!! عابیر کو اسکی خاموشی کی وجہ سمجھ نہیں آئی ۔۔۔ دل الگ سے اسکی موجودگی میں تیز رفتار سے چل رہا تھا ۔۔۔ اور وہ اجنبی بنا ہوا تھا ۔۔۔

" تمہیں گھومنے سے فرصت ملے گی تو ہی میرے کام یاد آئے گے نہ ۔۔!! مرتضیٰ نے  گھورتے ہوئے کہا لیکن غصہ کرنا چاہتا تھا پر اسکی معصوم ادا دل پر وار کر رہی تھی کیسے وہ تو اب اگنورے کرنے والی چیز تھی نہیں ۔۔

" سائیں جی آپ ناراض ہو رہے ہیں ۔۔ وہ تو چھوٹے ادا لے گے باہر کلفی کھلانے  اور میں تو آپ کے کپڑے دھو کر استری کر دیے تھے ۔۔۔!! عابیر نے اپنی صفائی پیش کی ۔۔۔۔ مرتضیٰ نے مسکراہٹ دبا کر آنکھیں چھوٹی کرتا اسے دیکھا ۔۔ جس کی آنکھیں نم ہوگئی تھی اب اسکی بےرخی پر ۔۔۔

" ادھر آؤ ۔۔۔" مرتضیٰ بیڈ پر بیٹھا تھوڑا سائیڈ ہوتا اسے بلایا خود کے پاس ۔۔۔ وہ خاموشی سے چلتی کنارے پر ٹک گئی ۔۔

" تھوڑا اور قریب آؤ ۔۔۔!! مرتضیٰ کو اسکی یہ بات بہت پسند تھی وہ اسکے حکم پر چلتی تھی ۔۔۔ شرم گھبراہٹ سے اب سامنے بیٹھی ہوئی تھی وہ بیڈ سے ٹیک لگاتا ٹانگے سیدھے کیے ہوئے تھا ۔۔ لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھتا خود سیدھا ہوتا ۔۔ عابیر کے قریب بیٹھ کر اسے مزید خود کے قریب کرتا اپنا سر اسکے سر پر ٹکا کر آنکھیں بند کر لی  سکون سے ۔۔ دونوں ہاتھ اسکی کمر کے گرد باندے ہوئے تھے عابیر کے ہاتھ اسکے سینے پر تھے دھڑکنوں میں پھر شور گونجا ۔۔۔

" آج کے بعد جہاں جانا ہوں مجھ سے پوچھ کر جانا میری اجازت کے بغیر کہی نہیں جاؤ گی ٹھیک ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ اسکے کان میں سر گوشی نما بولا تھا ۔۔ اسکی قربت نے عابیر کی زبان پر تالا لگایا ہوا تھا ۔۔۔ مرتضیٰ مزید بہکتا اسکے گال پر دہکتے لب رکھے ۔۔ عابیر کا دل تھم گیا، سانس رُک گئی جب ناک کے نتھنوں سے ٹکراتی محسور کن خوشبو نے عابیر کی سانسوں کو مہکایا تھا۔ وہ دم سادے اِس لمحے کو محسوس کرتی خوشبو میں کھو سی گئی تھی۔ مرتضیٰ کی حالت بھی غیر نہ تھی اس سے ۔۔۔ عابیر کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں شنبم پھوٹی تھی کانوں کی لو سے لے کر بلشن سے رنگے گال مزید گلال ہوئے تھے۔ لمحے کے ہزاروں حصے میں وہ آئندہ لمحوں کو تصور کرتی شرما گئی تھی۔ دل کی ڈھرکنیں بے قابو ہوتی، حالت غیر کرگئی تھی آنکھیں ہنوز بند تھیں۔ مرتضیٰ کا خمار اسکے خوشبودار وجود میں بہک رہا تھا ۔۔ یہ لمحہ دونوں کیلئے خوبصورت تھا ایک دوسرے کو مکمل کرنے والا ایک دوسرے کی قربت میں مکمل کرنے والا ۔۔۔

___

" بھائی یہ کون ہے لڑکی جس نے آتے ہی میری بے عزتی کی ہے ۔۔۔!! احمد کو رہ رہ کر اس لڑکی پر غصہ آرہا تھا پورا گھر اٹھ گیا تھا وہ میڈم ابھی تک آرام فرما رہی تھی دن کے بارہ بجے تھے ۔۔۔ احمد کب سے مرتضیٰ کو کل والا قصہ سنا رہا تھا ۔۔۔

" تم دونوں کان کھول کر سن لوں کوئی الٹی سیدھی حرکتیں نہیں کرنی یاد رکھنا ورنہ میری نوکری بھی جا سکتی ہے ۔۔ وہ میرے سر کی بیٹی ہے ایک مہینے کیلئے یہی رہے گی جب تک میرے سر واپس نہیں آجاتے ۔۔۔!! مرتضیٰ نے چائے پیتے ہوئے حکم دیا ایک نظر عابیر اور احمد کو دیکھتا ہوا بولا تھا وہ جانتا تھا یہاں یہ دونوں قریب ہے شرارت میں کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔۔۔

" بھائی وہ ایک سیکنڈ برداشت کرنا مشکل ہے ۔۔۔۔!! احمد چڑا تھا ۔۔۔

" چھوٹے ادا وہ اتنی پیاری ہے تم کو اچھی کیوں نہیں لگتی ۔۔۔؟" عابیر نے حیرت سے پوچھا احمد نے پھر بتایا اپنا دکھڑا ۔۔۔

" سنوں احمد اسے کہی جانا ہو تم لےکے جانا ہوگا میں اپنی جاب پر بزی ہوں اور ہاں عابیر کو مجھ سے پوچھے بغیر کہی مت لے جانا ۔۔۔!! مرتضیٰ کی بات پر احمد نے حیرت سے بھائی کو دیکھا یہ اسکا سگا بھائی ہے نہ ۔۔

" بھائی آپ سے پہلے وہ میری دوست اور میری پیاری بھابی ہے ۔۔ مجھے اجازت کی ضرورت نہیں ۔۔۔ ویسے آج کل آپ دونوں کے رنگ ہی الگ دکھائی دے رہے ہیں خیر ہے ۔۔ کہی میں چاچو تو نہیں بننے والا ۔۔۔!! احمد کی شرارت سے کہی بات عابیر کو سر سے پاؤں تک سرخ کردیا مرتضیٰ پہلوں بدل کر رہ گیا شازیہ بیگم کی موجودگی میں عابیر سے کم ہی مخاطب ہوتا تھا اور یہاں تو احمد نے بات ہی ایسی چھیڑ دی خود کو بچانے کیلئے جلدی سے کہتا وہاں سے بھاگا تھا ایک نظر اسکے چہرے پر پھیلے خوبصورت رنگ دیکھتا مسکرا دیا ۔۔۔۔۔ شازیہ بیگم کی تیز نظروں نے یہ منظر دیکھ لیا تھا نہ سمجھ نہ تھی بیٹے بہوں کے رنگ نہ سمجھتی ۔۔۔۔ غصے میں اٹھ کر کمرے میں جاتی ہانیہ کو کال کر کے گھر پر بلایا تھا ۔۔۔

" او ہوں ہم یہ نہیں کھاتے ۔۔!! نور نے پراٹھا انڈا دیکھتے ہوئے منہ بنایا ۔۔۔۔ جو عابیر نے اسکے سامنے لا کے پیش کیا تھا ۔۔۔ 

" تو کیا کھاتی ہے میڈم آپ ہم آپ کی شان میں وہ لے آتے ہیں ۔۔۔!! احمد طنز کیے بغیر رہ نہیں پایا ۔۔۔ عابیر بیچاری کو سمجھ نہیں آیا شوہر کی نوکری کیسے بچاؤ ۔۔۔

" چھوٹے ادا وہ بڑے گھر کی ہے اچھا کھاتی پیتی ہوگی ۔۔ تم انگریزی کھانا کھاتی ہوگی ہے نہ وہ ہانیہ بھی یہی کھاتی تھی نا۔۔ ادا وہ والا کھاتی ہوگی یہ ۔۔!! عابیر نے ہانیہ کا یہاں رہ کر جو فریش لائٹ ناشتہ یاد آیا اسکے مطابق نور بھی ایسا کھاتی ہوگی اسکی بات کے انداز پر نور اور احمد دونوں کو پیار آیا اس پر اور ہنسی بھی ۔۔

" آپ ہمیں بہت کیوٹ لگتی ہوں اور یہ ہم مرتضیٰ بھائی کو بتائیں  گے ۔۔۔ ان کے بھائی کو ہم یہاں بہت کھٹک رہے ہیں ۔۔؟" نور نے اپنی طرف سے احمد کو دھمکی دی  ۔۔۔

" دھمکی جا کے کسی اور کو دو میرا بھائی میری بات سنے گا اور ہاں دوسروں کے گھر میں رہ کر اتنے نخرے نہیں دکھائے جاتے سمجھی آئی بڑی بھائی سے شکایت کرنے والی ۔۔۔!! وہ تیز نظرو سے گھورتا وہاں سے نکلا ۔۔ نور کو اب یہ بندا زہر لگ رہا تھا اور اسکی عزت کروانے کا سوچتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ سی آگئ تھی ۔۔۔۔

________

 " سنو تم یہ روم جلد خالی کرنے کو سوچوں میری اور مرتضیٰ کی شادی ہونے والی ہے جلد سو اب سے یہ کمرہ میرا ہوگا سمجھی تم ۔۔۔۔!! ہانیہ عابیر کے کمرے میں آتے ہی ادا سے بیڈ پر بیٹھ کے اسکے دل پر زخم دے رہی تھی وہ یہاں آئی اسی مقصد پر تھی کسی طرح عابیر کو مرتضیٰ کی زندگی سے نکالنا تھا ۔۔۔ اس لئے جان بھوج کر اسکے روم میں آئی ۔۔۔ عابیر جو مرتضیٰ کے کپڑے پریس کر رہی تھی اسکی موجودگی میں حیرت ہوئی جب اسکی بات سنی دل کی گہرائیوں تک دہل گئی تھی ۔۔۔۔ ابھی تو خواب دیکھنے شروع کیے تھے ابھی اس کے  سنگ جینے کے خواب دیکھے تھے ۔۔۔ وہ تو اس قصے کو فراموش کر بیٹھی تھی اس مہربان کے سنگ رہ کر ۔۔۔

" ت۔۔ تم جو بات کرنی ہے سائیں سے کرو مجھے تنگ نہ کرو ۔۔۔!! عابیر کو اب اس پر غصہ آنے لگا تھا ۔۔ اتنا آسان ہوتا ہے کہ  اپنا شوہر کسی کو بھی دینا ۔۔ اب بس اب تو جنگ کے میدان میں اترنا پڑیگا ۔۔۔

" تمہارے منہ میں بھی زبان ہے ۔۔؟" ہانیہ طنزیہ بولی تھی ۔۔

" بس بہت سنی تمہاری جاؤ یہاں سے میں اپنے گاؤں میں کسی کی فضول نہیں سنتی تجھے جو مسئلہ ہے سائیں سے بولو وہ نکال سکتے ہیں مجھے تم نہیں ۔۔۔۔!! عابیر غصے میں آگے بڑھتی لڑنے کو تیار تھی ۔۔ اس پر تو اسکو پہلے بھی کھانے والا غصہ تھا آج تو حساب برابر کرنا تھا ۔۔۔

" میں تمہیں دیکھ لو گی اور دیکھنا مرتضیٰ ہی تمہیں اپنے ہاتھوں سے گھر سے باہر نکالے گا ویٹ اینڈ واچ ۔۔۔!! ہانیہ دھمکی دیتی پیر پٹکتی چلتی بنی ۔۔۔ عابیر نے  پیچھے سے منہ چڑایا ۔۔۔

_____

 یار بھابی یہ لڑکی مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی دیکھا نہیں کتنے نخرے کرتی ہے جیسے کہی کی پرنسیس ہوں ۔۔۔!! احمد کو رہ رہ کر اسکی نخرے والی اداوں پر غصہ آرہا تھا ۔۔۔ ایک تو آتے ہی اسکی بےعزتی کردی بیچارے دل کو اسکی معصومیت اتنی اچھی لگی تھی کہ یکدم دل سے ہی اتر گئی ۔۔۔

" سائیں کے صاحب کی بیٹی ہے اگر برا مان گئی تو سائیں کو نکال دے گے نہ سوچے کچھ ۔۔۔!! عابیر کو شوہر کی نوکری کی فکر ستانے لگی تھی ۔۔ 

" لیکن چھوٹے ادا دیکھے نہ کتنی سونی ہے وہ پلی ایسی ہوگی اس لئے نخرے کرتی ہے ایک ہی تو ماں باپ کی ہے ۔۔!! عابیر اسکا دل صاف کیا اسکی طرف سے ۔۔ نور کی خوبصورت اور معصوم ادا پسند تھی عابیر کو ۔۔۔

" تو یہاں کیوں آئی ہے ہم کیوں اٹھائے اسکے شوق اور ہاں سن لے آپ میری سائیڈ ہی رہے گی کبھی بھی بھائی نے کچھ کہا تھا دیکھا نہیں کیسے دھمکی دے رہی تھی فٹنی کہی کی ۔۔!! احمد کو اسکا یہاں رہنا غصہ دلا رہا تھا ۔۔ 

" اچھا ٹھنڈے ہو جاؤ میں ہوں نا سائیں میری بات مانتے ہیں اب ۔۔!! وہ شرمیلی مسکراہٹ سے بولی تھی مرتضیٰ کا آج کل اس پر نرم رویہ محبت سے پیش آنا عابیر کو تو ہواؤں میں اڑا رہا تھا ۔۔ کاش یہ محبت ایسے ہی انکے بیچ رہے ۔۔۔ پر کیا قسمت برے لوگوں کی نگاہوں سے بچا سکتی تھی انھیں ۔۔

___

" سنو لڑکی ۔۔!! 

" جی آپ نے بلایا ۔۔!! شازیہ بیگم روکھے لہجے میں عابیر کو آواز دی ۔۔۔ وہ تھوڑا گھبراتی اور نرمی سے انکے سامنے پیش ہوئی ۔۔۔

" ہاں آج میرے کچھ خاص مہمان آرہے ہیں تو تم کچن کا کام اچھے سے دیکھ لینا کوئی کمی پیشی نہ ہوں اور ہاں کوشش کرنا خود کو ان کے سامنے بھی مت لانا ورنہ خامخا کے سوال جواب دینے پڑے گے ۔۔ تمہیں صرف میرے بیٹے نے قبول کیا ہوگا میں نے نہیں سمجھی میری بہوں صرف ہانیہ بنے گی جس کا خواب میں نے برسو سے دیکھا ہے ۔۔ تمہارا ہماری زندگی میں آنا سب برباد کر گیا ہے ۔۔۔!! شازیہ بیگم غصے و نفرت سے اپنی باتوں کا زہر چلاتی  گئی ۔۔۔ عابیر کو انکے انداز و لہجے پر بے حد دکھ ہوا وہ بڑی مشکل سے خود کے آنسوں روکنے لگی تھی ۔۔۔ اسے سمجھ نہیں آیا وہ اپنی ساس کے دل میں کیسے جگہ بنائے سب ٹھیک تھا بس یہ نہیں تھا ۔۔۔

" ج ۔جی نہیں آؤ گی ۔۔!! ضبط کے باوجود ایک آنسوں نکل آیا تھا ۔۔۔ وہ تیزی سے کچن میں بھاگی ۔۔

" یار عابیر آپ اتنا ڈرتی کیوں ہے اپنی ساس سے ۔۔؟" نور انکی باتیں سن چکی تھی اسے شازیہ بیگم کا لہجہ بہت برا لگا تھا اور عابیر کیلئے افسوس ہوا تھا ۔۔۔ وہ کچن کے دروازے پر ہی کھڑی تھی اب عابیر کے پیچھے آئی جو دوبٹے سے آنسوں صاف کر رہی تھی ۔۔۔

" کتنی بری ساس ہے نہ آپ کی اس طرح کوئی پیش آتا ہے کیا بلکے انھیں تو ملوانا چاہیے آپ کو اپنے مہمانوں سے بہوں کی حیثیت سے لیکن یہاں تو عجیب ہی سین ہے ۔۔۔۔!! نور کو شازیہ بیگم کا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔۔

" وہ بری نہیں ہے بس میں اچھی نہیں لگتی انھیں میں پڑھی لکھی نہیں ہو گاؤں سے آئی ہوں کچھ نہیں آتا تھا یہ بھی نانی اماں اور چھوٹے ادا نے سکھایا اچھے کپڑے پہننا، کھانا بنانا اورو کھانا پینا بس ساس اماں کو خوش نہیں رکھ پائی میں ۔۔۔۔!! عابیر صاف گوئی سے سب بتا دیا نور کو ۔۔اس نے تو ساس کو یہاں سب کو خوش کرنے کیلئے احمد کے آئیڈیاز پر بھی کام کرتی رہی کوشش بہت کی پوری طرح نہ سہی تھوڑی بہت وہ ان کے بیچ رہنے جیسی ہو سکتی تھی ۔۔۔

" آپ مرتضیٰ بھائی کو کیوں نہیں بتاتی ان کی ماں آپ سے کتنا برا پیش آتی ہے اور ویسے ہمیں تو آپ بری نہیں لگتی ہر چیز تو پرفیکٹ ہے رہا پڑھا لکھا تو آج کل دونوں ہی اچھے نہیں کچھ پڑھے لکھے ہونے کے باوجود جاہل سوچ رکھتے ہیں تو کچھ جاہل لوگ ویسے ہی اپنی ذہانت ظاہر کر رہے ہوتے ہیں یار سمجھ بتاؤ یہاں آپ جس کو جتنا خوش رکھنے کی کوشش کرے گی وہ اتنا ہی آپ کا امتحان لیتا جائے گا ۔۔۔ تو آپ کو کوئی ضرورت نہیں کسی کے لئے روۓ بلکے اپنی اچھی زندگی گزارے چھوڑے دوسرو کو ۔۔ اچھا اب مسکرا دے ہمیں تو اس گھر میں آپ ہی بہت پسند ہے ۔۔۔!! نور نے مسکراتے ہوئے بہت خوبصورت طریقے سے بات سمجھائی تھی ۔۔۔ ایک پل کو عابیر حیرت سے دیکھا اتنی چوٹی تھی باتیں کتنی سمجھداری والی کرتی تھی ۔۔۔

" تم بھی بہت پیاری ہوں ۔۔۔!! عابیر اپنا رونا بھول کر مسکرائی دی ۔۔

" اچھا اب کام کر دے گی میرا ۔۔؟" نور کو اپنا کام یاد آیا ۔۔۔

" ہاں بولے کیا بنا کر دو کچھ چاہیے تو میں ہوں نہ ۔۔!! عابیر خوش دلی سے پوچھا تھا ۔۔۔

" وہ جو آپ کا لاڈلا دیوار ۔۔ مطلب دیور ہے اسے کہے ہمیں باہر لے جائے شوپنگ پر جانا ہے آپ بھی چلے ساتھ ۔۔۔!!! نور کی بات پر عابیر کو ہنسی آئی تھی ۔۔۔

" آپ جاؤ میں بلاتی ہو چھوٹے ادا کو ۔۔۔ میں سائیں سے پوچھے بغیر نہیں جا سکتی انہوں نے منع کیا تھا ۔۔ عابیر خود کیلئے انکار کرتی احمد کو بلانے گی ۔۔۔ نور گہرا سانس خارج کیا ۔۔۔ افف اس گھر میں رہنے والے عجیب دو لوگ شازیہ بیگم اور  احمد کیلئے اسکے خیالات تھے ۔۔۔

________

" خالہ پلیز روئے مت آپ مرتضیٰ کو کیوں نہیں بتاتی اس جاہل لڑکی نے آپ کی سب کے سامنے بے عزتی کی ہے کوئی ساس سے تیز لہجے میں بات کرتا ہے اوپر سے مجھے کتنی  گالیاں  دی اس گوار نے آپ نے دیکھا نہیں ۔۔۔ سب کے سامنے کس طرح جاہلوں والی زبان استعمال کر رہی تھی کتنا شرمندہ کیا آج عابیر نے ۔۔۔

" کیسے بتاؤ میرے بیٹے کو وہ ماں کی بات پر یقین نہیں کرتا  جب کہ جانتا ہے اس لڑکی کی تیز دار زبان کے استعمال کو ۔۔۔ آج کس طرح اپنی زبان سے مجھے میرے سرکل میں دوستوں کے سامنے شرمندہ کیا تھا ۔۔۔ میں تو کچھ کہہ بھی نہ پائی آج کل اس لڑکی کو پتا نہیں کیا ہوا ہے خود کو مالک سمجھ رہی ہے گھر کی اس لئے تو میری بےعزتی کردی لیکن میں ساس تھی نہ ہانیہ ، مرتضیٰ کی ماں سمجھ کر عزت دیتی چند لوگوں میں ۔۔۔!! شازیہ بیگم رونے کی خوب ایکٹنگ کر رہی تھی اس وقت انکی باتیں انکے آنسوں سچے لگ رہے تھے ماں کا یو تڑپ کر رونا بیٹے سے کہا برداشت ہو سکتا تھا ۔۔

" کیا کہا تھا میں نے بس یہی میرے اندر کچھ خاص مہمان بیٹھے ہوئے ہے تم کوشش کرنا ان کے سامنے مت آنا خامخا ان کے سوال جواب دینے پڑے گے ۔۔۔ پھر کیا چڑ دوری مجھ پر ۔۔۔ دھمکی دے دی میرے ہی بیٹے کی مجھے ہمت دیکھو کل کی آئی ہوئی لڑکی کی ۔۔۔ کیسے اترا رہی تھی مرتضیٰ اسے کبھی گھر سے نہیں نکال سکتا بلکے مجھ نکال دے گے اگر میں اب کچھ کہا تو ۔۔۔!! شازیہ بیگم کے وار خوب کام میں آرہے تھے ہانیہ طنزیہ مسکرائی تھی ۔۔ شاطر مسکراہٹ تو شازیہ بیگم کے ہونٹوں پر بھی تھی ۔۔۔

مرتضیٰ پیچھے کھڑا کب سے یہ سن رہا تھا ضبط سے مٹھی بھینج لی اتنا تو جانتا تھا عابیر کی زبان کا لیکن یہ سب کیا ہوگا یقین کرنا مشکل تھا تھوڑا ۔۔۔ خود بات کرنے کا سوچتا آگے بڑھا ۔۔ جب اپنے کمرے میں نہ ملی تو دادی کے کمرے تک آیا لیکن قدم کچھ ہی دوری پر رک گے عابیر کی زبانی پر ۔۔

" اماں نانی یہ ہانیہ یہاں کیوں آتی ہے آج بھی مجھ سے لڑ رہی تھی پھر میں نے بھی ایسی سنائی یاد رکھے گی چڑیل نہ ہو تو ۔۔۔!! عابیر  نانی اماں سے آج صبح ہونے والی بات بتا رہی تھی ہانیہ کا یہاں آنا اسے اب اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔ مرتضیٰ کو کھونے سے ڈرتی تھی اب ۔۔۔

" نہ بول اسکی خالہ کا گھر ہے لڑکی خبر دار کوئی بحث کی تو شازیہ چھوڑے گی نہیں تمہیں ۔۔!! نانی اماں نے آنکھیں دیکھائی ۔۔۔

" یہ گھر میرا بھی تو ہے نہ اب مجھے وہ پسند نہیں اسے نکال دے یہاں سے اپنے گھر جائے ۔۔ یہاں آئے گی تو میرا گھر خراب کرے گی نہ اماں سمجھا کریں ۔۔۔!! عابیر کو کسی بھی طرح ہانیہ کا یہاں آنا بند کروانا تھا ۔۔۔

" شازیہ نے سن لیا نہ تو تمہیں گھر سے باہر پھینک دے گی زبان پر قابوں میں رکھا کر اپنی ۔۔ مجھے تو تیری ہی ٹینشن مار دیگی لڑکی سدھر جا ابھی سے ورنہ یہی سب تیرے ساتھ برا کر بیٹھے گے عقل مند بن ۔۔۔!! نانی اماں نے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اسکے احساسات کو کوئی سمجھ ہی نہیں رہا تھا ۔۔۔

" وہ نہیں نکال سکتی مجھے ۔۔ سائیں میرے ساتھ ہے اب دیکھنا میں سائیں کو بولو گی وہ نکال دے گے انھیں ۔۔۔۔!! عابیر کی یہی بات مرتضیٰ نے غلط سمجھ لی اسکے کان میں ماں کے کہے لفظ گونج اٹھے ۔۔۔ وہ ہانیہ کی برائی میں لگی تھی وہ اپنی ماں کی سمجھ بیٹھا دل تو کیا ابھی اندر جاکے ایک رکھ کر دے نہیں تو ہاتھ پکڑ کر باہر نکال دے سارا بھرم ایک پل میں ختم کردے اسکا انتہائی غصے میں تھا آج وہ ضبط سے آنکھیں بند کرتا گہرا سانس لیتا اپنے کمرے کی طرف قدم اٹھائے دل بھاری سا ہو گیا تھا ابھی تو اسکے ساتھ  خوبصورت پل گزرے تھے گھر سے جاتے دل شدت سے واپس آنے کو کہتا تھا اس دیکھنے کو مچلتا تھا اور اب یکدم اسکی خوبصورت زندگی میں سيائی پھیل گئی ۔۔۔۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کریں ایک طرف ماں تو دوسری طرف محبت ۔۔۔ وہ عابیر کو سدھارنا چاہتا تھا تا کے سب کو اچھی لگے کوئی اسے کچھ نہ کہے وہ بھی تو اسکی عزت کرتی تھی ہر بات مانتی تھی یہی تو بھرم تھا مرتضیٰ کو ۔۔ اب اسے اپنی بے لوث خدمت محبت لوٹانا بھاری پڑھ رہا تھا جیسے ۔۔۔

______

" جلدی کرو مجھے دیر ہو رہی ہے کہی جانا بھی ہے ۔۔ تمہارا گارڈ بن کر نہیں آیا ہوں آگے پیچھے گھومتا پھیرو ۔۔۔!! احمد کو اس پر اس وقت شدید غصہ تھا کیسے دھمکی دیتی مرتضیٰ کو کال کروا کر اسے نوکر بنا کر ساتھ لائی تھی اب تھی کے یہ کرو وہ کرو اس دکان پر رکو یہ لینا ہے وہ ۔۔۔ احمد کا دماغ گھوم رہا تھا وہ مرتضیٰ کی کال پر بھی نہ آتا اسکے ہاتھ اگر عابیر پیار سے نہ کہتی تو ۔۔۔

 " مسئلہ کیا ہے آپ کو ہم چیزے سوچ سمجھ کر لیتے ہیں ایسے ہی کوئی بھی چیز اٹھا کر نہیں رکھتے اپنے پاس ۔۔۔!! نور کا طنز اندر تک جلا گیا اسے ۔۔۔

" بولے ماہ رانی صاحبہ کدھر لے جاؤ ۔۔۔( دل تو جہنم میں پھینک آنے کو کر رہا ہے ) ۔۔۔ احمد نے سرد آہ بھری ۔۔۔

" مال چلوں اسکے بعد کچھ کھانا ہے ہمیں بھوکھ لگی ہے ۔۔!! نور نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔ اب کی بار دونوں کے بیچ خاموشی رہی احمد نے مال سے ریسٹورنٹ تک اسکی خدمات کی اسکی نخریلی اداؤں پر ضبط سے کام چلاتا رہا ۔۔۔

" شِٹ اب ایسے کیا ہوا ۔۔۔!! اچانک گاڑی سنسان روڈ پر رک گئی تھی رات ہونے والی تھی پورا دن خوار ہوا تھا آج تو ۔۔۔

" کیا ہوا احمد گاڑی کیوں روکی ۔۔۔!! نور آس پاس کے عجیب خاموش ماحول سے ڈر گئی تھی جلدی سے گاڑی سے اتر کر احمد کے پیچھے آئی جو اب خود گاڑی چیک کر رہا تھا ۔۔۔

" روکی یا رک گئی سچ بتاؤ کسی پاگل خانے سے تو بھاگ کر نہیں آئی ۔۔۔ صبح سے اتنا خوار کر رہی تھی وہ نہ دیکھا تمہیں اب مجھ سے معصوم بلی بن کر پوچھ رہی ہوں ۔۔۔!! احمد تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا اسکے پوچھے کی دیر تھی سارا غصے نکل آیا ۔۔۔۔ اسے پتا نہیں چلا وہ غصے میں خود کے قریب کر چکا تھا نور کے دونوں بازوں اسکے ہاتھوں میں تھے ۔۔ نور تو سکتے میں تھی زندگی میں پہلی بار کسی کے یو قریب کھڑی اس کی سانسوں کی تپش نور کے چہرے کو سرخ کر کردیا ۔۔۔ احمد کو جب احساس ہوا اسنے تیزی سے چھوڑا اسے دونوں ہی نظرے چرا کے رہ گئے ایک دوسرے سے ۔۔۔

_______

 " سائیں کہاں رہ گئے تھے آج دیر کردی ۔۔۔!! عابیر کب سے مرتضیٰ کا انتظار کر رہی تھی رات سے بارہ بج رہے  تھے وہ اب دس تک سو جاتی تھی لیکن آج مرتضیٰ کے انتظار میں خود کو سونے سے روکا ہوا تھا پریشان تھی اسکے دیر کرنے پر ۔۔۔ وہ آیا تھا اور چلا بھی گیا اسے پتا نہیں چلا تھا مرتضیٰ خود سے ہی لڑ رہا تھا ۔۔۔

" جہاں بھی تھا تم سے مطلب ۔۔ اب ہر بات تمہیں بتا کر جایا کرو ۔۔۔؟" ایک پل کو اسکا فکر مند چہرہ دیکھتا سکون ملا تھا اسے لیکن صبح والی باتیں ذہن کے پردے پر لہرائی تو لہجہ ہی بدل گیا سرد پن اور غصہ ایک پل میں ڈور آیا تھا ۔۔۔

" جی ۔۔م ۔میں کھانا لاؤ ۔۔۔؟" عابیر کو اسکا سرد پن سنجیدہ لہجہ کنفیوژ کر گیا تھا ۔۔۔

" بھوکھ نہیں مجھے اور ہاں اب کوئی سوال نہیں جاکے سو جاؤ ۔۔ اس وقت دماغ پہلے ہی گھوما ہوا ہے مزید کوئی سوال نہیں ۔۔۔!! مرتضیٰ اسکا بازوں پکڑتا سخت لہجے میں کہتے ہی وہی چھوڑتا واش روم میں گھس گیا ۔۔۔ عابیر کا دل بھر آیا تھا اس لہجے پر ۔۔۔

" سائیں ناراض کیوں ہوں ۔۔؟" مجھ سے کوئی غلطی ہوگی ہے کیا ۔۔؟" عابیر بے چینی سے روم میں چکر کاٹ رہی تھی جب مرتضیٰ واش روم فریش ہوتا باہر آیا وہ تیزی سے اسکے قریب جاتے نم لہجے میں بولی تھی ۔۔۔

" غلطی ۔۔ نہیں عابیر تم غلطی کب کرتی ہوں تم تو لوگوں کا دماغ خراب کرتی ہوں ۔۔سمجھتی کیا ہو خود کو تم ۔۔۔ مالکہ ہو اس گھر کی یہ سب تمہارا ہے جو دل کرے گا وہ کرو گی لحاظ کرنا بھول جاؤ گی یہاں سب تمہاری مرضی سے ہوگا ۔۔۔۔ ہانیہ میری کزن ہے تم اسے اور ماما کو گھر سے نکانلے کا سوچ رہی تھی ہاں بولوں ۔۔۔۔؟" عابیر کے بولنے کی دیر تھی وہ تو پھر چپ ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا غصے کی شدت سے ڈھارا تھا اس پر ۔۔بازوں پر گرفت سخت تھی ۔۔وہ بے یقینی سے مرتضیٰ کو دیکھے گی ۔۔جب عابیر اسکی گرفت میں کرائی تھی ۔۔ مرتضیٰ کے اتنے شدید عمل پر اسکی سمجھ سے باہر تھا ۔۔۔

" سس ۔۔سائیں چچ ۔۔چھوڑے درد ہو ۔۔۔۔ خاموش بالکل چپ ایک بھی آنسوں بہایا نہ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔۔کہا بھی تھا میرا دماغ گما ہوا ہے کوئی سوال مت کرنا ۔۔ لیکن تمہاری التی کھوپڑی میں کہا کوئی بات بیٹھ تی ہے ۔۔۔ عابیر میں نے کہا نہ چپ ۔۔۔!! مرتضیٰ اس وقت کتنے غصے میں تھا عابیر کے آنسوں تک اثر نہیں کر رہے تھے اس پر ۔۔وہ بیچاری اسکی مظبوط گرفت میں پھرپڑاتی رہ گئی ۔۔ اسکے سرد نفرت لہجے نے تو اندر تک ٹوڑ دیا اسے آنسوں شدت سے بہ رہے تھے ۔۔۔۔مرتضیٰ کی غصلی نگاہوں سے خوف زدہ ہوتی سو سو کرتی خود پر ضبط کرنے لگی چہرہ سرخ ہو گیا تھا ۔۔۔

" میری ایک بات کان کھول کر سن لو میری ماما کو آج کے بعد کوئی بھی تکلیف ہوئی تمہاری وجہ سے تو جان سے مار دونگا تمہیں بھی خود کو بھی ۔۔ قصہ ہی ختم ہو جائے گا ہم دونوں کا ۔۔۔۔!! اسکے زہر خند لہجے میں وہ اپنی صفائی سے کچھ بول ہی نہیں پائی اسکے نفرت بھرے انداز لہجے نے تو ہر لفظ چین لئے تھے اس معصوم کا دل یو لمحے بھر میں ٹوڑ دیا تھا ۔۔جٹکے سے اسے چھوڑ تا خود جاکے بیڈ پر سونے لگا وہ زمین پر گری اپنی بری قسمت پر رو رہی تھی کیسا کھیل تھا ابھی تو محبت کے رنگ چڑ نے شروع ہوئے تھے ایک پل میں سب ختم ہو گیا ۔۔۔اسکا دل کیا شدت سے ڈھارے مار کر روے لیکن اس دشمن جان کی موجودگی میں گوٹ گوٹ کر وہی روتی رہی ۔۔۔۔مرتضیٰ محسوس کر سکتا تھا اسکی سسکیوں کو سن رہا تھا دل اسے اپنے حصار میں لینے کو مچل رہا تھا لیکن نہیں دماغ اس وقت ماں کا ساتھ دے رہا تھا اسکی سنی غلط باتوں پر دیان دلا رہا تھا عابیر باتیں ماں کا رونا کیسے بھول سکتا تھا ۔۔ وہ چاہتا تو پیار محبت سے پوچھ سکتا تھا لیکن عابیر کا مخاطب کرنا خود پر ضبط کھو دینا اب بری طرح پچھتا رہا تھا ۔۔۔ وہ نہیں دینا چاہتا تھا اسے تکلیف نہیں دے پا رہا تھا کیسے کرتا ابھی تو محبت ہوئی تھی پھر کیوں ہو رہا تھا اسکے ساتھ اتنا برا ۔۔۔ پوری رات سوچتی رہی آخر ایسا کیا ہوا کہ اچانک سے مرتضیٰ کا محبت بھرا نرم لہجہ ہی تبدیل ہو گیا اس سے دونوں ہی اپنی اپنی سائیڈ پر ساری رات جاگتے سوچتے ہوئے گزاری تھی ۔۔۔۔

_____

" نانی اماں مجھے اپنے گھر بھیج دو اماں ابا کے پاس جانا چاہتی ہوں میں ۔۔!! جہاں قدر نہیں وہاں رہنے کا فائدہ ۔۔۔ عابیر کو یہی سہی لگا تھا ۔۔۔

" ہے کیوں کل تو کہہ رہی تھی یہ تمہارا اپنا گھر ہے بڑی خوش تھی آج کیا ہوا کہی مرتضیٰ نے کچھ کہا تو نہیں ۔۔۔؟" نانی اماں اچانک سے اسکے فیصلے پر حیرت ہوئی انھیں پورا قصہ نہیں پتا تھا لیکن عابیر کا اداس چہرے روئی آنکھیں نم آواز سب سمجھا رہا تھا نانی اماں کو  ۔۔۔

" یہ گھر میرا نہیں ہے شاید کبھی تھا ہی نہیں ۔۔ گھر تو ایک ہی اپنا ہوتا ہے جہاں ڈر کر سانس نہیں لینی پڑتی ۔ جہاں دکھ سکھ میں نکالے نہیں جاتے ۔۔۔ جہاں پیدا ہوتے ہیں وہی جیتے ہیں ۔۔۔ شوہر کا گھر ہر عورت کے نصیب میں نہیں ہوتا اماں بہت کم خوش نصیب عورتیں ہوتی ہے جنہیں ماں باپ کے گھر کے بعد ایک اور اپنا گھر ملتا ہے  اور میں ان میں شمار نہیں ہوتی ۔۔۔۔!! اسکا دل بھر آیا تھا آنسوں لفظوں کے ساتھ بہ رہے تھے ۔۔

" عابیر میری بیٹی دل چھوٹا مت کر دیکھنا سب ٹھیک ہو جائے گا میں بات کرتی ہوں مرتضیٰ سے ۔۔۔!! نانی اماں اسکا دل صاف کرنا چاہا مرتضیٰ کی طرف سے اب تو وہ خود یہ رشتہ ختم نہیں کروانا چاہتی تھی عابیر جیسی بہوں بیٹی انھیں کہی نہیں مل سکتی تھی ۔۔۔ احمد نے یہ سب بات سن لی تھی ۔۔ اسے بہت دکھ ہوا تھا عابیر کیلئے بھائی پر غصہ آنے لگا تھا ۔۔۔۔

_____

تم اتنے اداس ہو کے یہاں کیوں بیٹھے ہوں ۔۔؟" اسکی خاموشی پر حیرت ہوئی ۔۔

" بھائی بھابی کی بالکل قدر نہیں کرتے ۔۔ جب کہ اب ان کے بیچ سب ٹھیک ہو رہا تھا پتا نہیں کیا ہوگیا اچانک سے بھابی جا رہی ہے واپس گاؤں اور وہ بہت خاموش رہنے لگی ہے ۔۔۔ مجھے اچھا نہیں لگتا انھیں اس طرح دیکھتے ہوئے ۔۔!! احمد نہ جانے کیوں اسکے سامنے اپنے دل کا بوج ہلکا کرنے لگا ۔۔۔ نور کو اتنا اندازہ ہو گیا تھا یہاں احمد عابیر سے زیادہ کلوز ہے وہ دل سے بھابی کی عزت کرتا ہے ۔۔ نور کو احمد کی یہ بات بہت اچھی لگی تھی ۔۔

" پھر تم کیوں نہیں کچھ کرتے ان کے بیچ سب ٹھیک کرنے کی ۔۔؟" نور نے پر سکون ہوکے اسے مشورہ دیا تھا ۔۔۔ احمد ایک پل کو حیرت سے دیکھا یہ آئیڈیا اسے کیوں نہیں آیا ۔۔۔ اسکی آنکھوں میں چمک آئی تھی ۔۔

" واہ یار تم نے تو میری پروبلم سولو کردی تھینک یو ۔۔ویسے کیا تم میری مدد کروگی ۔۔۔۔؟" احمد کو اسکی بات بہت اچھے سے سمجھ آگئ تھی وہ خوش ہوتا اسے دیکھا وہ اتنی بری نہیں تھی بس حالات اچھے میں ملاقات نہیں ہوئی انکی ۔۔ پھر کچھ سوچ کر سوال کیا نور سے ۔۔۔ نور حیران ہوئی وہ اتنا خوش ہو گیا اسکی چوٹی سے بات پر ہی ۔۔۔

" ایک شرط پر ۔۔" 

" کیا ۔۔؟"

" پہلے مجھے سوری کہوں ۔۔؟" نور نے اپنا بدلہ لیا ۔۔

" وہ کس لئے ۔۔؟"احمد حیران ہوا ۔۔

" آپ نے ہمارے ساتھ شروع دن سے برے اثرات رکھے بدتمیزی کی ۔۔!! نور اپنی غلطی کہا مانتی تھی ۔۔ احمد نے گھورا دل چاہا یہی اسکا گلہ دبا دے لیکن ابھی اپنا مسئلہ نہیں بھابی کا حل کرنا تھا ۔۔۔

" سوری ۔۔ اب کرو گی ۔۔؟" اسکے اتنی جلدی سوری پر نور کو حیرت ہوئی لیکن شاید وہ پریشان تھا چہرے پر صاف ظاہر تھا خیر اب کرنی پڑیگی مدد اسکو ۔۔ سوری جو بول دیا ۔۔دل تو اسکے ساتھ بحث کرنے کو تھا پتا نہیں کیوں مزہ آتا تھا جسے اسکے ساتھ الجھنے میں ۔۔

" اوکے تو سنوں جیسا کہتی ہوں ویسا کرنا ہوگا اگر ان دونوں کے بیچ کچھ سہی کرنا ہے تو ۔۔!! نور تھوڑا آگے جھکی اور اب اپنے مشورے دینے شروع کردیے احمد اسکی بات غور سے سنتا گیا چہرے پر مسکراہٹ آگئ اپنی کامیابی کا سوچ کر ۔۔۔

________

" چھوٹے ادا تم مجھے گاؤں چھوڑ کے آؤگے ۔۔۔؟" عابیر  ماموں سائیں کو کہتی اگر وہ یہاں ہوتے وہ تو کچھ دنوں کیلئے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے اپنے بزنس کے کام سے مجبورن اسے احمد کے پاس آنا پڑا دل تو اب یہاں رہنے کا تھا ہی نہیں ۔۔ جس کیلئے رہنا تھا وہ تو کل سے بات تو دور دیکھ بھی نہیں رہا تھا کتنی کوشش کی تھی بات کرنے کی ایک بار اپنی غلطی پوچھنے کی پر وہاں تو شاید اسکے لئے کوئی جگہ ہی نہیں تھی اب تو عابیر کو بھی یہی لگا تھا مرتضیٰ اسکے ساتھ خوش نہیں وہ ہانیہ سے شادی کرنا چاہتا ہے ۔۔۔۔

" بھابی آپ کیوں جا رہی ہیں ہمارے ساتھ رہے نہ پلیز نہ جائے میں آپ کے ساتھ ہوں بھائی سے پوچھ لیتے ہیں کیا انھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہوگی ۔۔۔؟" احمد نہیں چاہتا تھا وہ جائے اسکے لئے کچھ بھی کرنا پڑا تو کرے گا اب ۔۔۔

" نہیں چھوٹے ادا اب کچھ نہیں کہنا سننا سب ختم ہو گیا ہے اس رشتے کا تو شروع سے ہی نہ سر تھا نہ پیر پھر کیوں بلاوجہ ایک نام نہاد رشتے کو چلائے آپ بولے چھوڑ کے آتے ہیں کے میں خود جاؤ ۔۔؟" اب کی بار عابیر نے غصے و سنجیدگی سے کہا تھا ۔۔۔

" سب ٹھیک ہو سکتا ہے ۔۔؟" احمد نے لاچاری سے بولا ۔۔

" نہیں ہو سکتا اب کچھ بھی ٹھیک ایک شعر سناؤ ۔۔؟" وہ اداس مسکراہٹ سی بولی ۔۔ احمد اثبات سے سر ہلایا ۔۔۔مرتضیٰ کے اندر آتے قدم تھمے اسکے ۔۔۔۔

" میرے گاؤں کی مٹی سے بھرتا ہے تیرے شہر کا پیٹ "

" اور تیرے شہر والے گاؤں والوں کو گنوار کہا کرتے ہیں "

(زارا خان )

____

مرتضیٰ کب سے کمرے میں بے چین سا چکر کاٹ رہا تھا عابیر کا سنا شعر نے اسے شرمندہ کردیا تھا لیکن وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کیا کریں کیسے سب ٹھیک کرے ماں کی باتیں پھر سنی ہوئی عابیر کی زبانی وہ سب فریب تھا کچھ اور تھا کیوں وہ سمجھ نہیں پایا تھا ابھی تھانے میں ایک مجرم پر کتنا غصہ نکالا تھا اسنے ۔۔۔۔۔ کچھ سوچتا کمرے سے باہر نکلا دادی کے کمرے کی طرف آیا ۔۔۔

" السلام علیکم دادی کیسی طبیعت ہے ۔۔؟" وہ پیار سے  انکا ماتھا چومتا وہی بیٹھا کن اکھیوں سے اسے ڈھونڈا پر شاید باتھ روم میں تھی دروازہ بند تھا ۔۔

" وعلیکم السلام میری جان بس بھوڑی  ہوگئی ہوں کبھی ٹھیک کبھی بیمار تم بتاؤ تھکے ہوئے لگ رہے ہوں  ۔۔؟" دادی پیار سے اپنے خوبرو خوبصورت پوتے کو دیکھتے ہوئے دل میں ماشاءاللّٰه کہا وہ تھا ہی اتنا حسین مرد ۔۔۔ اسکی شخصیت کمال کی تھی ۔۔

" نہیں ٹھیک ہوں بس آپ عابیر کو سمجھائے دادی وہ ماما سے بدتمیزی نہ کیا کریں آپ جانتی ہے نہ ماما کا رویہ پھر ان سب میں ایک میں ہی پھس جاتا ہوں ۔۔ میں خود چاہتا ہوں ماما عابیر کو ایک موقع دے لیکن وہ اپنی زبان لہجے سے سب کا دل خراب کر رہی ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ دادی کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا انھیں سب کہہ رہا تھا دادی اسکے دل کی حالت اچھے سے سمجھ رہی تھی جب کہ پیچھے کھڑی عابیر کا دل بھر آیا تھا وہ اتنی بری ہے سب کا دل خراب کر رہی ہے پھر کیوں اسنے جھوٹی محبت دکھائی تھی اسے وہ سب کیا تھا انکے بیچ کچھ دنوں کے وہ حسین پل چھن سے اسے اندر ٹوٹا تھا ۔۔۔

" پر بیٹا عابیر نے تو ایسی کوئی حرکت نہیں کی وہ تو تمہاری ماں سے بہت ڈرتی ہے اسکی عزت کرتی ہے بلکے  آگے سے شازیہ آکے اسے بہت کچھ سنا دیتی ہے وہ بیچاری خاموشی سے سن کر بھی ان سنا کر دیتی ہے یہاں تک مجھ سے بھی شکایت نہیں کرتی پھر تم یہ سب کیا کہہ رہے ہوں کوئی بات کی ہے شازیہ نے بتاؤ مجھے ۔۔۔!! دادی کو یقین تھا شازیہ نے ہی کوئی آگ لگائی ہوگی ان کے بیچ ۔۔ جب مرتضیٰ ساری بات انھیں بتا دی عابیر بے یقینی سے مرتضیٰ کی پشت دیکھ رہی تھی آنسوں برسات کی طرح بہ رہے تھے دادی کچھ لمحے خاموش رہی مرتضیٰ نے عابیر کی موجودگی محسوس کرتا پیچھے دیکھا تو وہ اسے ہی بہتے آنسوں سے دیکھ رہی تھی ۔۔ مرتضیٰ کو اسکے آنسوں نے تکلیف دی تھی وہ کچھ کہتا دادی کی آواز نے ماحول میں سکتہ توڑا ۔۔۔

" عابیر کیا یہ سچ ہے مرتضیٰ نے جو کہا تم نے شازیہ کے ساتھ بدتمیزی کی ہے ۔۔۔؟" نانی اماں کا لہجہ سخت تھا ۔۔۔ عابیر کی خاموشی کو پھر غلط فہمی دے رہی تھی ۔۔۔حقیقت میں بھی تو ایسا ہے ہوتا ہے نہ کہ ایک ایسا شخص جو آپ سے پیار محبت اور نرمی سے بات کرتا ہو اور اچانک وه سرد ہو جائے تو اس کا لہجہ ہی نہیں اس کی اٹھتی ہر نظر بھی آپ کو تیر کی ماند لگتی ہے اس وقت عابیر کے دل پر کیا گزر رہی تھی یہ تو وہی جانتی تھی ۔۔۔

" دیکھا دادی اس بار اسکی غلطی ہے اس لئے چپ ہے کتنی بار سمجھایا ہے اسکو اپنی زبان پر قابو رکھو لیکن نہیں کرنی اس نے اپنی مرضی ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ کو غصہ آیا تھا اس پر ۔۔ وہ آنسوں صاف کرتی ضبط سے آنکھیں میچ کر گہرا سانس لیتی پھر انھیں دیکھا ۔۔

" مم ۔۔میں ساس اماں سے معافی مانگ لوں گی ۔۔۔!! جھکے سر سے نم آواز میں بولی ۔۔۔ مرتضیٰ کچھ دھیما پڑا تھا ۔۔۔

" ابھی چل کر میرے ساتھ معافی مانگوں ۔۔۔؟" مرتضیٰ روعب سے کہتا آگے بڑھ کر اسکا ہاتھ تھامتا لے گیا ساتھ ۔۔۔۔ وہ چپ چاپ اسکے ساتھ ہو لی ۔۔۔

" ما ۔۔۔۔ میں نے کہا تھا مرتضیٰ میرا بیٹا ہے وہ میری ہی بنائی گئی کہانی پر یقین کریگا نہ اس جاہل لڑکی پر اسکی زبان سے تو شروع سے ہی مرتضیٰ کو نفرت رہی ہے وہ کیسے یقین کرتا اسکا اس بار والا کھیل کام کر گیا اب تمہیں میری بہوں خود مرتضیٰ بنائے گا بس ایک بار اس لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے باہر ۔۔۔۔۔۔!! شازیہ بیگم اپنے ہی بنائے گئے پلین پر کامیابی کا جشن مناتی ہوئی اپنی باتوں سے کسی کا اتنی بری طرح دل چور چور کر گئی انھیں اندازہ تک نہ ہوا ۔۔۔۔ دروازے پر کھڑا مرتضیٰ اسکے ہاتھ میں عابیر کا ہاتھ دیکھتے ہوئے انکے ہاتھ سے فون چھوٹ گیا تھا ۔۔۔ بیٹے کی آنکھوں میں بےیقینی ، دکھ اور افسوس دیکھتے ہوئے انکا دل گھبرا گیا تھا ۔۔۔

" مم ۔مرتضیٰ ب بیٹے یہ ۔۔۔۔!! انکی آواز لرز گئی تھی وہ گھبراتی ہوئی آگے بڑھتی پر مرتضیٰ خود اندر آتا شکوہ کن نگاہوں سے ماں کو دیکھا ۔۔۔

" عابیر کو لایا تھا ماما آپ سے معافی مانگنے ایک موقع مانگنے آیا تھا اس رشتے کو چلانے کا پر آپ نے مجھے میری نظروں میں گرا دیا اتنی بری طرح ماما ۔۔۔!! مرتضیٰ کی آنکھیں بھر آئی آواز نم تھی کچھ بولا نہیں جارہا تھا ماں تھی چلا بھی نہیں سکتا تھا آج تک ماں سے اونچی آواز میں بات تک نہیں کی اب کیسے اپنا کردار بدل سکتا تھا ۔۔۔۔ شازیہ بیگم بیٹے کے سامنے شرمندہ ہوتی کچھ بول نہیں پائی ۔۔۔ ان سب کے بیچ عابیر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی اسے تو انصاف مل گیا اتنی جلدی کیوں کے وہ اچھی تھی سچے دل سے ان سب سے وفا کی تھی ۔۔۔

" مم ۔۔میں معافی مانگتی ہوں آپ سے ۔۔۔۔۔۔ یہ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے میں اپنے بیٹے سے دور ہوگئی ہوں تم نے کیا ہے یہ سب یہی چاہتی تھی نہ میرا بیٹا یہ گھر سب تمہارا ہو جائے اب خوش ہو نہ ۔۔۔۔۔!! عابیر غلط نہ ہوتے ہوئے بھی معافی مانگ لی ۔۔ وہ ساتھ لایا تھا وہ یہی سنا چاہتا تھا اس لئے تو وہ خود کو بےمول کرتی گئی ۔۔۔ شازیہ بیگم نے غصے میں آگے بڑھتے اپنا سارا غصہ اس پر نکال دیا ایک تھپڑ کے ساتھ لفظوں کے ہزار تھپڑ مار کر ۔۔۔۔

" ماماااا یہ کیا کیا آپ نے کیوں ۔۔۔!! مرتضیٰ تیزی سے ان کے بیچ آتا غصے و غم میں چلایا تھا احمد اور نور بھی وہاں آگئے تھے دادی بھی ہامپتی ہوئی وہی پونچھی تھی ۔۔۔ 

" یہ سب اسکی وجہ سے ہوا ہے جب سے ہمارے گھر اور زندگیوں میں آئی ہے کچھ اچھا نہیں ہو رہا تم سے دور کردیا ہے اس نے مجھ سے میرے سارے خواب چھين لئے ہے اس نے ۔۔۔ماما ماما ۔۔۔!! شازیہ بیگم چلاتے ہوئے بولی یکدم انکی طبیعت خراب ہوئی مرتضیٰ اور احمد بھاگتے ہوئے انکے پاس آئے ۔۔ باپ تھا نہیں اس وقت بیٹے ہی دیکھتے رہے انھیں ۔۔۔۔

________

" عابیر مرتضیٰ کو آلے نے  دو اس طرح اکیلی کیسے جا سکتی ہوں تم ۔۔۔؟" نانی اماں اسکا پیک  سامان دیکھتے ہوئے روکا تھا رات شازیہ بیگم کی طبیعت نے سب کو ڈرا دیا تھا مرتضیٰ بغیر ناشتہ کیے چلا گیا شازیہ بیگم اب بہتر تھی نور تو ان کے حالت سے ہی بیزار تھی اسے شازیہ بیگم بالکل بھی پسند نہیں تھی اب ۔۔۔

" بس کرے اماں کیوں یہاں سب کی زندگی دل خراب کروانا چاہتی ہے جو مجھے دیکھ کر ہی ہوتے ہیں سب کے اب مجھے جانے دے نا روکنا مجھے اماں ابا کو سمجھا دوگی سائیں میری قسمت نہیں تھا ان کی شادی ہانیہ سے کروا دو تم لوگ ۔۔۔ ویسے ہی قسمت نے کم امتحان نہیں لئے میرے جو ایک اور دینے کو تیار ہو جاؤ میں انوکھی نہیں ہوں اماں بہت سی عورتوں کی اسی طرح زندگی برباد ہوتی ہے غلط فہمی ایک سے وفا تو دوسرے سے بےوفائی ۔۔۔۔۔ جہاں اعتبار نہ ہوں وہاں یقین دہانی کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔۔!! عابیر اداس مسکراہٹ سے خود کی ذات کا مذاق اڑانے والے انداز میں بولی ۔۔۔

" پتا ہے اماں جب مرد ، ماں اور بیوی کے بیچ پھنس جاتا ہے نہ تو اسکے لئے دونوں میں سے ایک کے لئے انصاف کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے ۔۔ کسی کے ساتھ وفا نبھاتا ہے تو کسی کے ساتھ بےوفائی  نہیں تو خود کے ساتھ ہی بہت بڑا سمجوتا کر لیتا ہے ۔۔۔۔ مقام تو دونوں ہی عورت اسکی زندگی میں خاص رکھتی ہے لیکن وہ وقت و حالات کے بیچ ایسا پھنس جاتا ہے کہ اسکے لئے فیصلہ لینا بے حد مشکل ہوتا ہے  ۔۔ کبھی غلط فیصلے تو کبھی پچھتاوا رہ جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔!! عابیر کا اشارہ کل رات کی طرح تھا جب اسکی ماں اس پر چلائی تھپڑ مارا اور خود ہی مظلوم بن گئ بیٹے کی نظر میں اور وہ جہاں تھی وہی کھڑی رہ گئ ۔۔۔

" مجھے کچھ پیسے دے دو میں کوئی گاڑی والے چچا کو گاؤں کا نام بتاؤ گی وہ چھوڑ دیگیں ۔۔ مجھے ایک ہزار روپے دو ایک ہزار روپے سائیں کی قمیض سے چرایا ہے ۔۔۔ وو ۔وہ کپڑے دھوئے تھے تو نکل آئے اب میرے ہوئے نہ ۔۔۔!! وہ تیز رفتار سے چلاتی زبان پر یکدم بریک لگاتی گھبرا کر بات کو تصہیح کی ۔۔۔ نانی اماں کو ہنسی آگئ تھی وہ خفا ہوتی ان سے مل کر نکلی لیکن نانی اماں کو اسکی ٹینشن تھی ان کے لاکھ روکنے پر بھی وہ آج اپنی ضد پر قائم تھی احمد بھی گھر پر نہیں تھا  وہ بھی اٹھی مرتضیٰ کو فون لگاتی اسے بتا دیا عابیر کا گھر چھوڑنا مرتضیٰ کو غصہ ہی آگیا تھا سب نے اسکا ہی سکون برباد کرنے کی ٹھان لی ہو جیسے ۔۔۔

________

" عباس یہاں دیکھ لینا میں ایک مجرم کو پکڑنے جا رہا ہوں ۔۔۔!! مرتضیٰ دادی کی کال سنتا جلدی سے وہاں جانے کو مچل رہا تھا وہ کیسے چھوڑ کے جا سکتی تھی اسے یہ تو اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا عابیر کچھ ایسا کر سکتی تھی ۔۔۔

 " سر آپ اکیلے کیسے جائیں گے میں چلتا ہوں ساتھ ۔۔؟" عباس ایمانداری سے خود کو پیش کیا ۔۔۔

" نہیں عباس یہ مجرم صرف میرا ہے میرے علاوہ کوئی اسے ہاتھ نہیں لگا سکتا ۔۔۔!! مرتضیٰ مصروف انداز میں اپنی بات کہتا اپنی چیزے سیمٹنے لگا تھا ۔۔۔

" سر اس مجرم کیلئے جیل تیار کروا دو ۔۔؟" عباس کو لگا وہ مرتضیٰ کا کوئی دشمن ہوگا جس سے وہ خود نپٹنا چاہتا تھا ۔۔۔

" شیٹ اپ ۔۔ اپنی بیوی کی بات کر رہا ہوں یار ۔۔۔!! مرتضیٰ اسکے بےوقوفانہ سوال پر گھورتا چلا گیا ۔۔۔ عباس اپنی بات پر شرمندہ ہوکے رہ گیا ۔۔۔

________

" ڈیم اٹ یار ۔۔۔۔ عابیر کیا کرو میں تمہارا کیوں میرے ضبط کا امتحان لے رہی ہوں ۔۔۔۔ کہا جا سکتی ہے اس وقت ۔۔۔!! خود سے بڑبڑاتا وہ بس اسٹاپ کا سوچتا وہاں گیا ۔۔۔۔ اس وقت وہ اپنی وردی میں بہت خوبرو ہینڈسم لگ رہا تھا آس پاس کے لوگوں کی توجہ بنا ہوا تھا ۔۔۔ سن گلاسس لگایا ہوا تھا ان کے پیچھے بےچین نگاہیں اس وقت صرف اس دشمن جان کو ڈھونڈنے میں مصروف تھی ۔۔۔ سب سے الگ دور ایک جگہ بیٹھی لڑکی پر گمان ہوا تھا ۔۔ وہ اسکے بھاری قدم اس اور اٹھے تھے ۔۔۔ بڑی سی سر پر چادر میں جھکا ہوا پاس رکھا بیگ آج پھر وہی اسی کپڑوں میں تھی بلوچی لباس میں جو پہلے دن پہن کے آئی تھی ۔۔۔ ایک پھتر پر بیٹھی سو سو کرتی برسات جیسے بہتے آنسوں کو بار بار گال رگڑ کر صاف کرتی سرخ روئی ہوئی آنکھیں ، ناک گال رونے اور دھوپ میں بیٹھنے پر پورا منہ سرخ ہوا پڑا تھا ۔۔۔ اس طرح بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی مرتضیٰ اسے دیکھتا سکون سے گہری سانس خارج کی وہ گھٹنوں کے بل اسکے آگے بیٹھا ۔۔ عابیر کو کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو گھبراتی سر اٹھا کر سامنے دیکھا تو سانس رک سی گئ تھی آنکھیں پھٹی کے پھٹی رہ گئی ۔۔۔

" رو کیوں رہی ہوں ۔۔۔۔ جارہی تھی نا چھوڑ کر ۔۔۔!! اس نے غصہ ضبط کرتے ہوئے سرد لہجے میں پوچھا ۔۔۔۔ عابیر کو مرتضیٰ کے ہونے کا یقین ہوا تو پھر رونا شروع کردیا  ۔۔۔

"سس ۔۔ سائیں میرے پیسے چوری ہوگئے وہ کمینہ ، کتا چور میرے پیسے لے گیا پندرہ سو ہی بچے تھے میرے پاس وہ بھی لے گیا چور ایک تو گاڑی والے نے اتنا کرایا لیا اور وہ بس والا ادا بھی زیادہ پیسے مانگ رہا تھا مم ۔۔ میرے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔۔۔۔!! عابیر روتے ہوئے سو سو کرتی مرتضیٰ کو بتا رہی تھی اسکی معصوم انداز پر اسے بے حد پیار آیا تھا ۔۔ وہ اس وقت نرمی سے پیش نہیں آنا چاہتا تھا اس نے یہ قدم اٹھا کر کتنا غلط کیا اسے اتنا غصہ تھا اس پر لیکن یہاں اسکے انداز لب و لہجے نے تو حیران کردیا ہمیشہ کی طرح وہ لب دبا کر مسکراہٹ روکتا اسے دیکھا ۔۔۔

" پیسے کہاں سے آئے ۔۔؟" مرتضیٰ کی گھوری پر وہ لب کاٹتی رہی ۔۔۔

" ن ۔نانی اماں نے دیے ایک ہزار روپے اور ایک آپ کے کپڑے دھوتے ہوئے ملے اپنا حق سمجھ کر رکھا تھا اپنے پاس ۔۔ میں ابا سے لیکر کر دے دوگی واپس ۔۔۔!! عابیر نے جھکے سر سے اپنا اقرار جرم قبول کیا ۔۔۔۔ مرتضیٰ کے سنجیدہ تاثرات پل کو غائب ہوتے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ سی آئی ۔۔۔

" ٹھیک ہے ابھی گھر چل کر بات کرتے ہیں ۔۔۔!! وہ اٹھا اب اسکا منتظر تھا ۔۔

" نہیں گھر واپس نہیں جاؤ گی وہ میرا گھر نہیں ہے سائیں جی مجھے کچھ پیسے ادھار دے دو گھر جاکے ابا سے لے کے بھیج دوگی ۔۔۔۔!! اسکے غصے کے ڈر سے گھبراتی ہمت سے بول دیا پر اسکی تیکھی نظروں سے دھڑکنیں رک رک کر چل رہی تھی ۔۔۔ 

" عابیر مجھے غصہ مت دلاؤ تم میرا دماغ بہت زیادہ خراب کر چکی ہوں یہ قدم اٹھا کر اب کوئی بحث مت کرنا میرا دماغ پہلے ہی گھوما ہوا ہے مزید کوئی سوال نہیں گھر چلوں وہاں بتاؤ گا تمہیں کس کا کون سا گھر ہے ۔۔۔۔!! مرتضیٰ کے سرد لہجے میں دھمکی دیتا اسکا ہاتھ پکڑتا ایک ہاتھ سے بیگ اٹھا کر تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ وہ پھر اسکے غصے والے انداز پر ڈرتی اسکے ساتھ کھینچتی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔ سوچ تو اس نے بھی لیا تھا کچھ بھی ہو جائے گاؤں تو واپس جا کر ہی رہے گی یہاں اس گھر میں عزت نہ ہوں وہاں رہ کر ذلت سہنے سے بہتر ہے چلی جائے ۔۔۔۔۔

" کس کی اجازت سے گھر چھوڑ رہی تھی ۔۔۔؟" وہ غصے سے اسکا بازو پکڑتے ہوئے بولا ۔۔۔ گاڑی گھر کے بجاۓ سنسان سڑک پر رکی ہوئی تھی ۔۔۔ وہ خوفزدہ سی آنسوں بہا رہی تھی پر کتنا ڈرتی کچھ ہمت تو دکھانی تھی ۔۔۔

" سس ۔۔ سائیں چھوڑے جب آپ کو اعتبار ہی نہیں مجھ پر تو کیا فائدہ ایسے کھوکلے رشتے کا آ ۔آپ سمجھتے کیوں نہیں ہے آپ کی اماں کہی اور شادی کروانا چاہتی ہے آپ وہی کرلے ویسے بھی تو آپ میرے ساتھ تو خوش ہے نہیں پھر کیوں میں یہاں رہ کر سب کی تکلیف کا باعث بنو ۔۔۔!! عابیر ہمت کرتے ہوئے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کیا شکوہ کن آنکھوں  سے مقابل کی سنجیدہ چہرے کو دیکھا ۔۔۔

"  تم اور ماما مجھے مارنا چاہتی ہوں تو ایک ہی بار بتا دو اڑا دو خود کو گولی سے ۔۔۔۔۔۔ نہیں تو پھر بھاگو مت کرواؤ میری شادی ہانیہ سے تمہیں تو شادیوں میں ناچنے کا بہت شوق ہے نہ شادی میں پھر رکو یہی دیکھ لو بربادی میرے ساتھ اپنی بھی ۔۔۔!! وہ غصے میں دانت پیستے ہوئے بولا تھا ۔۔۔ عابیر نے حیرت سے دیکھا اسے دل تو جیسے رک رک کر دھڑک رہا تھا وہ اتنی آسانی سے بول گیا ۔۔۔

" سائیں آپ شادی کرلے گے ۔۔۔۔ مجھے گاؤں چھوڑ آؤ مجھے نہیں آنا شادی میں چھوڑے مجھے ۔۔۔!! عابیر غصے میں خود کو چھوڑواتے ہوئے رو پڑی ۔۔۔

" شش رونا بند کرو ۔۔۔۔ ہم گھر چل کر بات کرتے ہیں اب گھر سے اکیلے نہیں نکلنا سمجھ رہی ہوں ۔۔۔۔!! وہ نرمی سے اسکے آنسوں صاف کرتا خاموش آنکھوں میں دیکھتا بے چین ہوا تھا سکون سے گھر جاکے بات کرنا چاہتا تھا اس سے ۔۔۔ وہ شرمندہ تھا اپنی ماں کی باتوں میں آکر اس پر الزام لگانا خود سے دور رکھنا آسان نہیں تھا آج اسکا یہ قدم اٹھانا مرتضیٰ کو پریشان کر گیا تھا ۔۔۔

" پھر گھر سے بھاگوں گی ۔۔؟" گھر کے باہر گاڑی روکتا ہوا اسے دیکھ کر پوچھا ۔۔۔ 

" بھاگی نہیں تھی نانی اماں کو بتا کر گئ تھی انہوں نے آپ کو بھیجا تھا نہ ۔۔۔۔!! وہ خفا سی لگی تھی مرتضیٰ نے اسے غور سے دیکھا گھنی پلکیں جھکی ہوئی روئی روئی سی وہ معصوم پری دل کے بہت قریب لگی تھی پھر کیسے جدائی کا سوچ سکتا تھا اب تو بس کچھ غلط فہمیاں تھی وہ جلد ختم کرنی تھی ۔۔۔

" باہر آؤ ۔۔۔۔۔!! مرتضیٰ گاڑی کا دروازہ کھولے اسکے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑا اسکے اترنے کا منتظر تھا ۔۔۔۔ عابیر نے ڈبڈبائی نگاہوں  سے پہلے اسے دیکھا پھر اسکے پھیلے ہوئے ہاتھ کو پھر غصے میں خود ہی اترتی تیزی سے اندر کی اور چلی گئی ۔۔۔ اسکی ناراضگی پر وہ گہرا مسکرایا تھا ۔۔۔

_______

" آفاق تم کب آئے گاؤں میں سب کیسے ہے اماں ابا چچا چاچی عابدہ مینا سب کیسی ہے ۔۔۔!! عابیر جو اندر اداسی سے آرہی تھی اپنے کزن کو سامنے بیٹھا دیکھ کر ساری اداسی یکدم اوڑن چھو ہوگئی وہ خوشی سے چہکتی دوسرے صوفے پر بیٹھتی خوشی سے اپنے گاؤں کے ہر قریبی فرد کا پوچھ رہی تھی ۔۔۔۔ اپنے تو اپنے ہوتے ہیں لاکھ شکوہ گلا سہی کبھی ان کے ساتھ بہت خوبصورت یادیں وابستہ رہی ہوتی ہے ۔۔۔ آفاق نے بھی خوشی سے ہر کسی کا پیگام دیا اسے ۔۔۔ مرتضیٰ اندر آتا حیرت سے عابیر کے بدلتے خوشی سے چہکتے روپ کو دیکھ رہا تھا اور اس اسکے کزن کو دیکھا ہوا تھا گاؤں میں اس لئے پہچان گیا تھا ۔۔۔

" السلام علیکم ۔۔۔!! بھاری گهمبیرتا آواز میں سلام پیش کیا ۔۔

" وعلیکم السلام سائیں کیسے ہو ۔۔۔؟" آفاق ادب سے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے ملا تھا ۔۔

" عابیر بیٹا جاؤ آفاق پہلی بار آیا ہے کچھ کھانے پینے کو لاؤ ۔۔۔!! نانی اماں اسے دیکھ کر سکون کا سانس لیا کب سے آفاق بیٹھا پوچھ رہا تھا وہ مرتضیٰ کے ساتھ باہر گئی کہتی بات تال گئی تھی ۔۔۔ اب پھر اسے پہلے والے روپ میں دیکھ کر خوش ہوئی تھی ۔۔۔

" جی اماں میں ابھی لائی آفاق تم بیٹھو میں تمہیں اچھا اچھا کھانا کھلاتی ہوں ۔۔۔ تمہیں تو میرے ہاتھوں کا کھانا پسند ہے نہ یہاں تو میں بہت کچھ سیکھا ہے ۔۔۔!! وہ تو بےحد خوشی سے اسے بتاتی اٹھی مرتضیٰ حیران سا اسے دیکھے گیا وہ اسے تو جیسے بھول گئ تھی ۔۔۔ تھوڑی دیر میں حمید صاحب ، احمد اور نور بھی آگئے تھے شازیہ بیگم تو اپنے ہی کمرے میں رہی ۔۔۔۔ مرتضیٰ فریش ہوتا وہی آگیا وہ جو اندر نہیں آرہی تھی کب سے اپنے کزن کی خدمات میں لگی ہوئی تھی مرتضیٰ خون کا خول اٹھا تھا ضبط سے اسے گھور رہا تھا اور وہ اسکی گھوری سے بے نیاز سی اپنی ہی موج میں تھی ۔۔۔

" عابیر تم سائیں والے سب گاؤں آؤ نہ تمہیں پتا ہے مینا کی شادی ہو رہی ہے رفیق کے ساتھ اسی کی دعوت دینے آیا ہوں ۔۔۔!! آفاق نے انہیں کارڈ دیا ۔۔ اور عابیر کی دوست اپنی بہن کی شادی کی خبر دی جسے سن کر وہ بے حد خوش ہوئی تھی ۔۔۔

" ہائے اللّٰه سچی مینا کی شادی ہو رہی ہے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا میں گاؤں آجاتی ۔۔۔۔!! عابیر کی خوشی دیکھنے والی تھی مینا اسکی پکی سہلی تھی ۔۔۔

" واؤ ہمیں بھی گاؤں کی شادی دیکھنی ہے ہم بھی ساتھ چلتے ہیں مرتضیٰ بھائی ۔۔۔!! نور کو تو بہت شوق تھا گاؤں کی شادیاں دیکھنے کا ۔۔۔

" بہت مبارک ہو بیٹا ہم لوگ کوشش کرے گے آنے کی نہیں تو یہ بچے آجائے گے تم لوگ باتیں کرو میں تھوڑا تھکا ہوا ہوں آرام کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ بیٹا مجھے بھی اپنے کمرے میں چھوڑ دو کب سے بیٹھی ہوئی ہوں ۔ آفاق بیٹا تم آج یہی رک جاؤ کل چلے جانا اب شام ہونے والی ہے ۔۔۔۔!! دادی اور حمید صاحب کہتے ہوئے وہاں سے چلے گئے ۔۔۔

" آفی تم رک جاؤ آج ہم بہت سی باتیں کرے گے ۔۔۔۔ ہاں  تم رکو آج رات محفل لگاتے ہیں ۔۔۔!! احمد نے عابیر کا ساتھ دیا عابیر کی خوشی تو دیکھنے والی تھی مرتضیٰ کو خود کا اگنورے کرنا بے حد غصہ دلا رہا تھا وہ تو موقع ہی نہیں دے رہی تھی بات کرنے کا ۔۔ اب تو مرتضیٰ کو اسکا کزن چھب رہا تھا ۔۔۔

_______

" آفاق بھائی آپ کی شادی ہو گئی ہے ۔۔؟" نور نے سوال کیا سب رات کے کھانے کے بعد ساتھ بیٹھے ہوئے تھے بڑے تو سونے چلے گئے تھے اور مرتضیٰ کا دل نہیں تھا یہاں بیٹھنے کا کمرے کی تنہائی سے بہتر تھا اس دشمن جان کا دیدار کرنا جو ضبط کا امتحان لے رہی تھی اسکا کب سے ۔۔۔ کھانے کے دوران بھی بار بار اپنے کزن کا خیال اور اسے تو جیسے فراموش کیے ہوئے تھی دل نے شدت سے خواہش جاگی پکڑ کر ہاتھ اسکا لے جائے کمرے میں پھر خوب حساب کتاب لے اپنا ۔۔۔۔

" ارے اسکی تو میرے ساتھ بات طے تھی یہ تو میری اب ہوگئی تم بھی کرلو آفاق تمہیں یاد ہے شاہد چچا اسکی بیٹی سونم بڑی سوہنی ہے کہو تو بات چلاؤ ۔۔۔!! اففف عابیر تمہاری یہ تیز رفتار سے چلتی زبان کہی بھی شرمندہ کر دیتی تھی خود کو نہیں دوسروں کو ۔۔۔۔ کاش عابیر دیکھ لیتی کسی کی خونخوار نظروں کو تو شاید ہی خود کو بولنے سے روکتی ۔۔۔ احمد اور نور کے قہقہے نے محفل میں مزید اضافہ کیا مرتضیٰ کی غیرت گوارا نہیں کر رہی تھی مزید وہاں بیٹھنا لیکن جیسے اور ثبوت چاہیے تھے اس مجرم کو سزا دینے کیلئے ۔۔۔۔ آفاق بیچارہ تھوڑا شرمندہ تھا کیسے اسکا ساتھ نہیں دے پایا تھا اس وقت ماں بہن کے کہنے پر وہ عابیر کا ہاتھ تھام نہیں پایا۔۔۔

" یہ تم گاؤں آکر میرا رشتہ کروانا ۔۔۔ اماں ابا سے بات کرو گی تو وہ شاید مان جائے ۔۔۔!! آفاق نوجوان خوش شکل کا اچھا لڑکا تھا سیدھا سادہ سا ۔۔۔ اپنے رشتے کی بات پر شرما سا گیا ۔۔۔

" ہاں کیسے نہیں مانے گے میرے معاملے میں تو بڑے نخرے کر رہے تھے وہاں ایسا کچھ نہیں چلے گا سمجھا کر بھیجنا مجھے تو سادہ سی انگھوٹی ایک جوڑا دے کر چپ کروایا تھا میرے معاملے میں تو تم بھی چپ رہے تھے وہاں اگر چپ رہے تو بیٹھے رہنا ساری زندگی کنوارے بتا رہی ہوں تمہیں ۔۔۔!! عابیر پوری توجہ سے آفاق سے اپنی بات کر رہی تھی نور اور احمد ہکا بکا سے بیٹھے عابیر کی باتیں سن رہے تھے ایک نظر عابیر کو دیکھتے ایک نظر مرتضیٰ کو جس کے پاس شاید اس وقت گن نہیں تھی لیکن  اس سرخ نگاہیں قتل کرنے کو کافی تھی ۔۔۔۔  لیکن عابیر تو آفاق سے شروع سے ہی فری تھی کزن تھے ساتھ ایک ہی گھر میں پلے بڑے ہے یہاں وہ اپنی ہی بحث میں مصروف تھی اگر ایک نگاہ اس کی اور اٹھی ہوتی تو شاید زبان پر بریک لگتا  ۔۔

" تم صبح گاؤں جاؤ گے نہ تو مجھے بھی ساتھ لے جانا مجھے مینو کی شادی سے پہلے چلنا ہے باقی سب بعد میں جائے گے سائیں کی بھی نوکری ہے یہاں وہ بھی شادی والے دن جائے گے مامو سائیں والوں کے ساتھ ۔۔۔!! احمد اور نور کا تو گلہ خشک ہو رہا تھا مرتضیٰ کے پھٹنے کا انتظار جو تھا اور وہ ضبط سے موٹھی بہینچے ہوئے ایک آخری غصیلی نگاہ اس پر ڈالتا تیزی سے اٹھ کر اندر چلا گیا ۔۔۔۔ 

"مرتضیٰ سائیں کو کیا ہوا وہ چلے گے ۔۔۔؟" آفاق حیرت سے پوچھا مرتضیٰ کا یو اچانک جانا ۔۔۔

" بھائی تھک گئے ہونگے کب سے ہمارے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے انکی جاب تھکا دینے والی جو ہے ۔۔۔۔ عابیر جاؤ بھائی سے پوچھو کچھ چاہیے تو نہیں انھیں ۔۔۔!! احمد بات سنمبھالتا ہوا بولا پھر اس بیچاری کو شیر کی جیل میں بھیجنے کو کہہ رہا تھا ۔۔۔ 

_______

" سائیں جی آپ کو کچھ چاہیے تو نہیں وہ چھوٹے ادا کو لگا آپ اندر آگئے ہیں تو کچھ چاہیے ہوگا تو پوچھ لو ۔۔۔ جلدی بتائے مجھے آفاق کو چائے دینی ہے پھر اسے بتانا ہے وہ کہاں سوئے گا ۔۔۔!! عابیر اندر آتی تیزی سے اپنی بات کہہ دی بغیر اسکے خراب موڈ کو جاننے وہ تو بس گھورتا رہ گیا پہلے ہی اسکی باتوں نے دماغ خراب کیا ہوا تھا اوپر سے وہ کزن زہر لگ رہا تھا اس وقت اسے ۔۔۔ کیا سوچا تھا رات کو سکون سے بیٹھ کر بات کریں گے اسے پیار سے منائے گا اور اب اس نے مزید موڈ کی واٹ لگا دی ۔۔۔ وہ تو روم میں آیا غصہ ضبط کرنے تھا سگریت نکال کر پینے کا سوچا تھا کہ وہ پھر ٹپک پڑی ۔۔

" تو جاؤ نہ کس نے روکا ہے پوری رات اسکی خدمت کرتی رہوں جیسے صبح سے اسکے آگے پیچھے پھر رہی ہو ابھی میری کیا ضرورت تمہیں میری تو فکر ہے نہیں ۔۔۔ تمہیں کب سے میرے معاملے میں انجان پھر رہی تھی ابھی وہی کرو جاکے ۔۔۔۔!! وہ جو کب سے غصے میں بھرا ہوا تھا عابیر کے بولنے کی دیر تھی پھٹ گیا اچانک سے ۔۔۔ عابیر حیرت سے اسکے بگڑے ہوئے موڈ کو دیکھ رہی تھی ۔۔ وہ اسکے کزن سے جل رہا تھا یہ اندازہ لگانا تھوڑا مشکل تھا اسکے لئے ۔۔۔۔ 

" اس وقت چلی جاؤ عابیر میرا دماغ پہلے ہی بہت گھوما ہوا ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ غصے میں گھورتے ہوئے بولا ۔۔۔

" نہیں سائیں آپ کا دماغ مجھے دیکھ کر خراب ہو جاتا ہے ۔۔ جارہی ہوں نہ میں دیکھو گی نہ آپ کا دماغ گھومے گا ۔۔۔!! عابیر کو پہلے ہی اس پر غصہ تھا آج تو حساب ہی برابر کر دیا ۔۔ اب تو پکا سوچ لیا تھا گاؤں جاکے ہی رہے گی ۔۔۔

" تمہاری تو کس کی اجازت سے جارہی ہوں اپنے اس آفاق صاحب کے ساتھ ۔۔ میں نے کہا تھا نہ عابیر مجھ سے پوچھے بغیر کہی نہیں جانا اور تم نیچے کیا کہہ رہی تھی بولو ۔۔؟" اسکی باتوں نے مرتضیٰ کو مزید غصہ دلا دیا وہ غصے میں آگے بڑھتا اسکے دونوں بازوں پر مظبوط گرفت کرتا اسے خود کے بے حد قریب کیا ۔۔۔ اچانک حملہ پر وہ ڈر سے آنکھیں بند کرتی دھیرے سے کھولتی اسے خود کے قریب پا کر سانس روک گئی ۔۔۔ اسکی قربت ہمیشہ کی طرح جان لیوا تھی پھر اتنے دنوں کی دوری پر آج ایک دوسرے کے قریب ہونا سانس لینے بھی مشکل ہوا تھا  ۔۔۔ 

" مم ۔۔میں یہاں سے چلی جاؤ گی آ۔آپ دوسری شادی کر لے اس ہانیہ سے آپ کی اماں بھی خوش ہو جائے گی اور آپ ۔۔۔!! ہمت کرتی بھرے ہوئے لہجے میں بولی تھی آنکھیں پھر نم ہوئی اس ظالم ہمسفر کی قربت جان لیوا ثابت ہوتی تھی دھڑکنوں میں شور سا اٹھا تھا ۔۔۔

" اور میں کیا ہاں ۔۔۔ بہت آسان لگتا ہے تمہیں یہ سب ۔۔۔ تمہیں دیکھ کر پتا کہ کیوں دماغ خراب ہوتا ہے ۔۔ تمہاری یہی باتیں میرے موڈ کی واٹ لگا دیتی ہے ۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آتا میرے احساسات سمجھ نہیں آتے یہ جان بوجھ کر ناٹک کرتی ہوں بولوں ۔۔۔۔؟" مرتضیٰ غصے میں گھورتے ہوئے اسکی نم نگاہوں میں دیکھا ۔۔۔

" سائیں چھوڑے ۔۔۔ مجھے آپ کو سمجھ نہیں آتی کبھی خود کے قریب کرتے ہیں کبھی دور ۔۔۔آ ۔آپ پہلے خود سے فیصلہ کرلے آپ چاہتے کیا ہے مجھ سے ۔۔۔ لیکن میں نے اب یہاں نہیں رہنا آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں ہے سائیں ۔۔ مم ۔۔میں نہیں ڈرتی اب ۔۔!! کچھ تو ہمت دیکھانی تھی ۔ وہ اپنے دل کو بات کہہ گئ خود کو اس سے چھوڑوا کر تھوڑی دور ہوئی دل زورو سے دھڑک رہا تھا نہ جانے کیا کرے گا  ۔۔ کہہ تو دیا ڈرتی نہیں پر اصل میں جان جاتی تھی اسکے غصے والے روپ سے ۔۔

" اچھا تو اب تم نہیں ڈرتی مجھ سے ۔۔۔!! مرتضیٰ جیسے بات سمجھتے ہوئے سر ہلایا ۔۔

" تو اب میں تمہیں جیل میں ڈال سکتا ہوں تم سے وہی پر اپنے بدلہ لونگا یہاں تو آج اپنے کزن کو دیکھ کر شیرنی بن گئی ہوں ۔۔۔ وہ کمینہ میرے ایک تھپڑ کا نہیں اس سالے کی ہڈی پسلی ایک کردو گا جس کے آتے آج تمہاری زبان چل رہی ہے ۔۔۔۔ اور یہاں میں صبح سے تم سے بات کرنے کو خوار ہو رہا ہوں اور تم ۔۔۔۔!! مرتضیٰ کا غصہ آسمان کو چھو رہا تھا اس نے گھورتے ہوئے دھمکی دی ۔۔۔ عابیر حیرت سے دیکھے گئی ۔۔۔

" سائیں آپ مجھے جیل میں ڈالے گے ۔۔۔؟" وہ صدمہ کی کیفیت میں بولی تھی ۔۔۔

" مم ۔۔ میں مامو سائیں کو بتاتی ہوں ابھی جاکے تم مجھے جیل میں ڈالنے والے ہو میرے معصوم چچا زاد کو مارنے کا سوچ رہے ہو اسے گالیاں دی ۔۔۔ ہم گاؤں والوں کو کمزور نہ سمجھو سائیں ہم ہمیں بھی بدلہ لینا آتا ہے صبر ۔۔۔!! عابیر کو تو اپنے کزن کیلئے دھمکی سن کر ہی غصہ آگیا تھا وہ سارے لحاظ بھول بیٹھی خود بھی میدان میں کھڑی ہوگئی جنگ کرنے کو منہ پر ہاتھ پھیرتی دھمکی دی اسے یہ انداز بہت کیوٹ تھا پر اس وقت مرتضیٰ اس موڈ میں نہیں تھا جو پیاری لگے ۔۔۔ مرتضیٰ حیرانگی سے اسکے نئے روپ کو دیکھا ۔۔ آج تو کسی اپنے کو دیکھ کر اسکے پر نکل آئے تھے ۔۔۔

" تم آج میرے ہاتھوں نہیں بچوں گی ۔۔۔۔!! مرتضیٰ  تیزی سے آگے بڑھا تھا ۔۔ وہ اتنی ہی تیزی سے چلاتی ہوئی بھاگی تھی پر آج شاید ہی اسکے ہاتھوں بچے گی ۔۔

" یااللّٰه بچاؤ ۔۔ اماں اماں ۔۔

" رک جاؤ عابیر نہیں تو چھوڑو گا نہیں تمہیں ۔۔!! پیچھے دھمکی دیتے ہوئے تیزی سے آرہا تھا آج اسکا موڈ ہی نہیں تھا اسے بخشنے کا ۔۔ اور وہ جو بڑی ہمت دکھاتی نہ ڈرنے کا دعوه كرگئ تھی اب جان لبوں کو آگئ تھی ۔۔۔ اسکے ہر اس آج تک پیش آنے والے خطرناک روپ کو یاد کرتی جان نکل رہی تھی ۔۔۔

" عابیر دروازہ کھولو ۔۔۔ ڈرتی نہیں ہو نا سامنے آؤ پھر ۔۔۔!! وہ تیزی سے نانی اماں کے روم خود کو بند کرتی گہرے سانس لے رہی تھی ۔۔ اور وہ پیچھے دروازے کے وہ کھڑا غصے میں بول رہا تھا ۔۔۔

" ہائے اللّٰه خیر اب کیا کردیا لڑکی ۔۔۔!! نانی اماں دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے گھورا ۔۔۔ مرتضیٰ کی آواز آرہی تھی اور وہ دروازے سے چیپک کے کھڑی دل پر ہاتھ رکھے ہوئے تھی ۔۔

" نانی اماں بچا مجھے وو ۔وہ سائیں جی نے آج پکا مار دینا مجھے ۔۔ وہ نہیں چھوڑے گے اماں مجھے چھپا لے سائیں بہت غصے میں ہے مارنے والے مجھے ۔۔۔ مم ۔۔مجھے گاؤں بھیج نانی اماں نہیں تو یہاں آخری رات سمجھ میری ۔۔۔!! وہ ڈرتی ہامپتی ہوئی نانی اماں کے پاس بیٹھی رونے لگی اسے لگا آج واقعی مرتضیٰ کے ہاتھوں قتل ہو جائے گی ۔۔۔

" بیٹا تم جاؤ جاکے آرام کرو گھر میں مہمان ہے میں سمجھاتی ہوں اسے ابھی کوئی تماشا نہ کرو دونوں ۔۔!!  نانی اماں نے وہی سے باہر کو آواز دی اسے نرم کرنا چاہا  عابیر انکے ہاتھ پکڑے ڈر سے کانپ رہی تھی مجبور نانی اماں کو وہی بیٹھے سمجھانا پڑا  ۔۔۔

" نہیں دادی یہ ایسے نہیں مانے گی اسے میرے حوالے کرے آج اسکی ساری بہادری نکالتا ہوں ۔۔ دماغ خراب ہوگیا ہے اسکا ۔۔!! مرتضیٰ کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا اس وقت وہ بس عابیر نامی وجود کو ہی ختم کرنے کے موڈ میں تھا ۔۔ وہ کتنا کھڑوس غصے والا ہے جانتے ہوئے بھی وہ چھیڑ چھاڑ کر جاتی ہے اسکے ساتھ ۔۔۔

" مرتضیٰ بیٹا جاؤ باپ آجائے گا تمہارا خامخا مسلہ بڑے گا ۔۔۔!! نانی اماں تھوڑی سخت ہوئی ۔۔

" آج مت بھیجئے گا دادی اسے میرے کمرے میں ورنہ صبح تک لاش ملے گی اسکی ۔۔۔!! وہ غصے میں دروازے پر ہاتھ مارتا غرایا ۔۔ عابیر ڈر سے اوچھلی ۔۔

_______

" دیکھ عابیر میں کہہ رہی ہوں سدھر جا ابھی بھی وقت ہے نا کیا کرو مرتضیٰ کا دماغ خراب ایسے غصہ نہیں ہوتا تم پر تمہاری یہی حرکتیں اسے غصہ دلاتی ہے ۔۔ کل رات بھی پتا نہیں کیا کر آئی تھی کچھ بتایا نہیں تم نے اور اب چلی اپنا بوریا بستر باندھ کر گاؤں ۔۔۔!! نانی اماں اسکی صبح سویرے تیاری دیکھتی غصہ ہوئی پر وہ ڈھیٹ رات بھی انکی باتیں ڈانٹ سن کر بیٹھی رہی ۔۔

" نانی اماں سچ بتا پوتے سے زیادہ محبت ہے نہ تجھے مجھ پر تھوڑا سا ترس بھی نہیں آتا یہی رکی تو شام تک تو میرے جنازے پر کلمہ پڑھتی رہے گی ۔۔ سائیں اب نہیں چھوڑنے والے مجھے وو ۔وہ تو جیل بھی بھیج دے گے اب ہائے اللّٰه میری قسمت ہی خراب نکلی یہی بندا ملا خطرناک ۔۔۔۔!! عابیر کو اپنی قسمت پر رونا آیا ایک تو اس شخص نے دل میں جگہ بنائی پر شاید وہ نہیں بنا پائی اسکے دل میں اپنے لئے کوئی جگہ اسی بات کا تو رونا آرہا تھا ۔۔۔ دل اسے چھوڑ کر جانے کو نہیں تھا پر اب صورتحال بہت نازک تھی ۔۔۔

" دیکھوں عابیر تم بھی مجھے پیاری ہوں بچی ہوں اس طرح معاملات بیگڑ جاتے ہیں بیٹھو سکون سے بات کروں شوہر ہے تمہارا اسکا حق ہے تم پر غصہ سوال جواب کرنا اگر تم غلط ہو تو یہ سب کر کے تم اسے اور غصہ دلاؤ گی اسکا دل اپنی طرف سے خراب کروگی ۔۔۔!! نانی اماں نے پیار سے سمجھانا چاہا وہ نہیں چاہتی تھی یہ دونوں الگ ہوں ساتھ میں جتنے پیارے لگتے ہیں ۔۔ پتا نہیں کس کی نظر لگ گئی ان کو نانی اماں کی سوچ تھی ۔۔۔

" نہیں روکو نانی اماں اب ویسے حالات نہیں ہے ان  آنکھوں سے دیکھ چکی ہوں یہاں کوئی پسند نہیں کرتا یہ تو ایک مجبوری کا رشتہ تھا سائیں جی بہت اچھے ہے بہت سوہنے ہے انھیں یہاں پڑھی لکھی اچھی لڑکی ملنی چاہئے نہ کہ میں ۔۔ اگر میں یہاں رہی تو کبھی کچھ ٹھیک نہیں ہوگا سب خراب کر دوگی میں اس لئے نہ روک جانے دے مجھے ابھی سائیں سو رہے ہے چلی جاؤ تو اچھا ہے ورنہ بعد کا تمہیں پتا ہے کیا ہوگا ۔۔ یہاں کہہ دینا مینو کی شادی کیلئے جارہی ہوں مامو سائیں غصہ نہیں ہوگا تم سب بھی آؤ گے نہ مینو کی شادی پر تو مل لے گے ۔۔۔!! عابیر اپنی تکلیف اپنے تک رکھتی نانی اماں سے اداس لہجے میں بہت گہری باتیں کرتی اٹھ گئی ۔۔۔۔ وہ یہاں رہ کر شازیہ بیگم کے مزید کوئی غلط الزام خود پر نہیں برداشت کر سکتی تھی اس طرح زندگی سکون سے نہیں خسارے میں ہی گزرنی تھی تو کیوں نہ دور رہ کر ہی سہی تھوڑی بہت تکلیف کے ساتھ پر سکون کچھ پل تو گزر سکتے تھے ۔۔۔  صبح پانج بجے کی اٹھی ہوئی تیاری کرتی چھے بجے آفاق کے ساتھ نکل گئی بس نانی اماں بی جاگی ہوئی تھی جسے پتا تھا ۔۔۔ اسکے جاتے سب اٹھے تو جس جس کو پتا چلا کوئی غصے میں کوئی ناراض کوئی خوش نظر آیا تھا ۔۔۔

______

" احمد رکو کہاں جارے ہو ۔۔؟" نور تو گھر میں اکیلی بور ہوگئی تھی عابیر کا جیسے سنا غصہ بھی آیا ناراضگی بھی ہوئی پر کیا کر سکتی تھی اسکی مرضی تھی ۔۔ وہ رات کو کہہ چکی تھی پر اس وقت دن کے تین بجے احمد کو ایک بیگ کے ساتھ باہر گاڑی کی طرف جاتے دیکھ کر تیزی سے اسکے پیچھے بھاگی ۔۔۔

" کہی بھی جاؤ تمہیں کیا ہٹو راستے سے ۔۔!! وہ پہلے ہی عابیر کے جانے پر خراب موڈ میں تھا غصے میں گھورتا گاڑی میں سامان رکھنے لگا تھا نور تو اسکے بدلے روپ پر حیرت زدہ ہوئی پھر یکدم اسے بھی غصہ آیا ۔۔۔

" آپ ہم سے تمیز سے پیش آیا کریں سمجھے اور یہ بتائے آپ بھی گھر چھوڑ کے جا رہے ہے ۔۔۔؟" اسکا اشارہ بیگ کی طرح تھا ۔۔

" میں اپنی بھابی کے پاس جا رہا ہوں انھیں واپس لے کے ہی آؤنگا وہ یہاں سے نہیں جا سکتی مجھے ان کے علاوہ کوئی بھابی نہیں چاہیے اپنے گھر اور بھائی کی زندگی میں اب جو کرنا ہے میں خود کرو گا ۔۔ تم نے تو کہا تھا نہ مدد کرو گی پھر کی دیکھو کیا ہو گیا بھابی چھپ کر چلی گی بھائی صبح سے خاموش اپنے کام میں مصروف جیسے کچھ ہوا نہیں ۔۔۔!! احمد تو جیسے بھرا ہوا تھا یکدم پھٹ گیا تھا غصے میں نور کا بازوں پکڑتا اسکے قریب کرتے ہوئے اپنی ہی کہے جارہا تھا اسے اندازہ نہیں ہوا وہ کیا کر رہا ہے کیا کہہ رہا ہے اس وقت اسکا مائنڈ ڈسٹرب تھا وہ عابیر سے بہت کلوس تھا بھابی بہن دل سے مانا تھا اسے کیسے پھر ایک بھائی ہوکے چھوڑ دیتا انھیں ۔۔۔وہ دونوں طرف کا بھائی تھا ۔۔۔

" ا احمد چچ ۔۔ چھوڑے آپ کیا کر رہے ۔۔ہہ ۔ہم نے کب ہیلپ کرنے سے انکار کیا ہم خود چاہتے ہیں عابیر مرتضیٰ بھائی کے بیچ سب ٹھیک ہو جائے ۔۔۔!! نور کو اسکی باتوں نے ہرٹ کردیا تھا وہ نم آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولی جس پر احمد کچھ نرم پڑا پھر اپنی غلطی کا احساس ہوا ۔۔۔

" سوری میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا میں اس وقت بہت ڈسٹرب ہوں ۔۔!! وہ شرمندہ سا بولتا آگے بڑھا نور کو اسکا شرمندہ لہجہ بہت پیارا لگا پتا نہیں کیوں وہ اب اتنا برا نہیں لگتا تھا ۔۔

" کیا ہم بھی ساتھ چل سکتے ہیں آپ کے ہمیں بھی عابیر کا گاؤں دیکھنا ہے ہم بھی ہیلپ کرنا چاہتے ہیں پلیز ۔۔۔!! نور بہت معصومیت سے احمد کو دیکھتے ہوئے بولی وہ تو اسکے انداز پر ہی فدا سا ہوا کیسے انکار کرتا سر اثابت میں ہلایا وہ مسکرادی ۔۔۔

آہہہ احمد  اسے بھگاؤں نہ ہمیں ڈر لگتا ہے ان سے پلیز ۔۔۔؟" نور بکریوں کو دیکھتے ہوئے چیختی اسکے بازو کو سختی سے پکڑ لیا ۔۔ تھوڑی دور بهنس کھڑی تھی مرغے مرغی آس پاس بھاگ رہی تھی ۔۔ گاؤں کا بہت حسین منظر تھا یہ اور آس پاس لوگ ۔۔

" افف یار تم ہٹو گی تو ہی کچھ کرو گا نہ چھوڑو تو سہی مجھے ۔۔؟" احمد تو اسکی سخت گرفت میں ہل نہیں پایا تھا اگر ہلتا تو ساتھ وہ بھی کھینچی چلی آتی ۔۔

" نہیں نہیں یہ کھا جائے گا ہٹا دو نہ ۔۔۔!! وہ اب رونے جیسی ہوگئی تھی نور کو جانوروں سے بہت ڈر لگتا تھا ۔۔۔

" اگر اسی طرح میرے قریب رہی نہ تو میرا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہو جائے گا ایک خوبصورت حسین چڑیل مجھ معصوم پر چمٹ گئی ہے ۔۔۔ مرد ہوں یار فیلنگ آتی ہے ہٹو اب ۔۔۔!! احمد تو واقعی اسکی قربت میں پگھل رہا تھا جیسے دل اسکی اور کھینچا جارہا تھا ۔۔۔ اوپر سے اسکا معصوم انداز بہت پیارا تھا ۔۔

" کیا آپ آپ کتنے بے شرم انسان ہے ۔۔۔!! نور اسکی باتوں سے شرمندہ ہوتی ساتھ لال پیلی ہوتی تیزی سے دور ہوئی ۔۔۔ تو احمد کی بھی سانس بحال ہوئی تھی ۔۔ اف یہ حسین چڑیل ضرور اسکے دل میں گھس جائے گی ۔۔ احمد کی سوچ تھی ۔۔۔ نور ڈرتی ہوئی ان سے تیزی سے دور بھاگتی اندر کی طرف بھاگی تھی ۔۔۔

______

" ارے چھوٹے ادا تم اور نور تم بھی آئی ہو ۔۔۔؟" عابیر انھیں گاؤں میں دیکھتی حیرت انگیز ہوئی ۔۔۔

" جی پیاری بھابی ہم لوگ آپ کو لینے آئے ہیں ۔۔!! احمد پیار سے بولتا عابیر کا ہنستا چہرہ مڑجھا گیا ۔۔

" پر چھوٹے ادا میں مینو کی شادی میں آئی ہوں کیسے جا سکتی ہو ابھی ۔۔۔!! عابیر نے بات سنمبھالی اسکی اماں وہی آگئ تھی ۔۔۔

" ہم بھی شادی دیکھنے آئے ہیں پھر ساتھ واپس جائے گے ۔۔ السلام علیکم سارا پھوپھو کیسی ہے آپ ۔۔؟" احمد آگے بڑھ کر سارا پھوپھو سے ملا نور کو عابیر کے گھر والے گاؤں سب پسند آیا تھا اسے یہاں بہت مزہ آرہا تھا احمد بھی اب ان کے ساتھ ہنستا مذاق مستی میں تھا عابیر کو ان کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی بار بار مرتضیٰ کا خیال آرہا تھا نہ جانے کیا کر رہا ہوگا غصہ ہوگا یہ سچ میں شادی کر لے گا دوسری اسکی محبت بھری باتیں وہ سب وعدے کیا جھوٹ تھا جتنا دل کو سمجھتا تو وہ اسی کا سوچتا پریشان ہو رہا تھا ۔۔۔

_____

" طبیعت ٹھیک ہے بیٹا یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو ۔۔؟" حمید صاحب رات کے بارہ بجے مرتضیٰ کو باہر لان میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو حیرت سے اسی طرف بڑھے وہ پانی پینے کے لئے اٹھے تھے جب گزرے تو انکی مرتضیٰ پر نظر پڑھی تھی ۔۔۔

" جی بابا ٹھیک ہو آپ اس وقت  سوۓ نہیں ۔۔؟" مرتضیٰ جو اپنی ہی سوچوں میں تھا حمید صاحب کی آواز پر باہر کی دنیا میں لوٹا ۔۔۔

" گھر کی رونق گھر میں نہیں تو نیند کیسے آئے گی ۔ یاد آرہی ہے ۔۔؟" حمید صاحب عابیر کے ذکر پر مسکراتے ہوئے بولے تھے ۔۔

" نہیں میں کیوں کسی کو یاد کرو آپ سو جائے ۔۔ میں بھی جا رہا ہوں ۔۔!! مرتضیٰ ان کی باتوں سے بچنے کیلئے وہاں سے اٹھ جانا بہتر سمجھا تھا ۔۔۔

" مرتضیٰ ۔۔۔؟ حمید صاحب نے سنجیدگی سے پکارا ۔۔

" جی ۔۔؟" مرتضیٰ نے مڑ کر دیکھا ۔۔

" عابیر کو سچ میں چھوڑ دوگے ۔۔؟" حمید صاحب بیٹے کے تاثرات غور سے دیکھے ۔۔۔

"چھوڑنا اتنا آسان ہوتا ہے ۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے ۔۔ اتنا بیغرت ہو ۔۔۔ موم کو سمجھا دونگا ۔۔!!  وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔۔

" مجھے اعتبار ہے آپ پر بیٹا لیکن یاد رکھنا وہ آپ کی عزت ہے آپ کی غیرت ہے اسے چھوڑ نے کا کبھی سوچنا مت مرتضیٰ ۔ ایک پاکیزہ نیک محبت کرنے والی عورت بہت کم لوگوں کے نصیب کا حصہ ہوتی ہے ۔ اسے پیار سے رکھو گے پیار دیگی وفا دو گے وفا ملے گی ۔بےوفائی کرو گے دغابازی کرے گی ۔ عابیر بہت الگ ہے یہی تو اسکی خوبصورتی ہے وہ سب سے الگ ہے پیارے دل کی ہے اسے گھر بنانا آتا ہے گھر ٹوڑ نا نہیں ۔۔ یاد رکھنا الفاظ میرے ۔۔۔!! حمید صاحب اسے بہت اچھے سے سمجھا کر گے تھے اپنے گہرے لفظوں سے وہ واقعی شرمندہ ہوا تھا ان کی باتوں سے ۔۔ حمید صاحب سمجھا کر اندر چلے گئے ۔۔ مرتضیٰ گہری سوچ میں پڑھ گیا تھا کہی نہ کہی آج تک کیے ہوئے اپنے رویہ پر شرمندہ تھا ۔۔جس کے سامنے ہونا چاہئے تھا تب ہوا نہیں اپنی لاپروائی سے وہ عابیر کو کھو سکتا تھا یہ احساس ہی جان لیوا تھا ۔۔۔

____

 " عابیر مرتضیٰ لے ہی لیا اپنا بدلہ مجھ سے اب تیار رہو میرے وار کیلئے ۔۔۔ مجھے چھوڑ کر سزا دے رہی ہو تو تم نے دے دی تمہارے بغیر تو میرا جینا نہیں لیکن اپنے بغیر بھی تمہیں جینے نہیں دونگا ۔۔۔!! مرتضیٰ ایک نظر خود پر ڈالتا مسکراتے ہوئے خود کو آئینے میں دیکھا ۔۔۔ آج بہت خوش تھا موڈ فریش تھا اسکا ۔۔۔ عابیر کو گئے ہوئے ایک ہفتہ ہو گیا تھا اور وہ کیسا گزرا تھا کوئی مرتضیٰ کے دل سے پوچھتا وہ دشمن جان ایک پل ایسا نہیں جو یاد نہ آئی ہو اور اس بیچ ہانیہ سے اسکی تلخ حقیقت باتیں بیان ہوئی وہ بہت اوٹ اوف مائنڈ لڑکی تھی یہ حقیقت اسکی ماں کے سامنے بھی پیش آگی تھی انھیں بھی ہانیہ نے اپنی کسی پارٹی پر بلا کر نو لفٹ کروائی جس پر ان کا موڈ اچھا خاصہ خراب ہوا تھا آج تک ان کے ساتھ کوئی اس طرح پیش نہیں آیا وہ سگی ہوکے بھی نیچا دکھا گی ۔۔ شازیہ بیگم کو عابیر لاکھ بری لگتی تھی پر اسکا عزت دینا انھیں پسند تھا اور اس وقت عابیر کی یہ اچھائی انھیں یاد آئی تھی ۔۔۔

" مرتضیٰ بیٹا کہی جا رہے ہو ۔۔؟" شازیہ بیگم اسے تیار سا دیکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔

" جی ایک ضروری کام سے آپ کو کچھ کام تھا ۔۔!! مرتضیٰ ان سے تھوڑا ناراض تھا اس لئے جواب بھی روکھا سا تھا ۔۔۔

" ناراض ہوں ۔۔؟" ماں تھی بیٹے کی ناراضگی کہاں برداشت ہوتی ۔۔ اسکا خاموش لہجہ انھیں مار دیتا تھا ۔۔

" نہیں میرے ناراض ہونے سے کیا ہوتا ہے آپ کہے کچھ کہنا تھا ۔۔!! مرتضیٰ نے لہجہ نرم رکھا ۔۔۔

" عابیر کو لینے نہیں جاؤ گے ۔۔؟" شازیہ بیگم کی بات پر وہ ایک پل کو انھیں دیکھتا رہ گیا ۔۔۔

" نہیں آنا ہوگا خود آئے گی ۔۔۔ ویسے بھی اسکا یہاں کیا کام وہ اپنے گھر گئی ہے ۔۔!! حیرت سے نکلتا بگڑے موڈ سے بولا تھا ۔۔

" وہ مائیکے گئی ہے گھر اس کا یہ ہے چلے لینے اسے دیکھو گھر کتنا خالی سا لگ رہا ہے ۔۔ میری باتیں تمہیں عجیب لگ رہی ہوگی لیکن بغیر کوئی سوال جواب کے لے جا سکتے ہو ۔۔؟" شازیہ بیگم اسکے حیرت زدہ چہرے کو دیکھتی مسکرادی ۔۔۔

" میری دوسری شادی نہیں کروائے گی ۔۔؟" مرتضیٰ شرارت سے مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

"کہو تو عابیر سے کرواؤ پھر سے ۔۔؟" شازیہ بیگم بھی اسی کے طرح بولی تھی حمید صاحب اور دادی حیرانگی سے کب سے ان کی باتیں سن اور سمجھنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔ مرتضیٰ کے قہقہے نے سب کی جان میں جان ڈال دی تھی ۔۔۔

_______

ایسے کیا دیکھ رہے ہوں ۔۔؟" نور کب سے اسکی خود پر نظر محسوس کر رہی تھی ۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی تھی 

" تمہاری خوبصورتی یار تم سچ میں اتنی حسین ہوں یا آج لگ رہی ہوں ۔۔۔؟" احمد تو اسکے حسن پر فدا ہو گیا تھا وہ بلوچی جوڑے میں سمپل سے میک اپ کھلے کندھوں تک آتے بال بہت پیاری اور حسین لگ رہی تھی ۔۔۔ احمد کو بہت اٹریک کر رہی تھی اس روپ میں ۔۔ اسکے دل میں تو کب سے محبت جاگی تھی اسکے لئے بس اعتراف کرنے میں ٹائم لگ رہا تھا یا سمجھ نہیں آرہا تھا خود کی فیلنگز ۔۔

" شٹ اپ اپنی نگاہوں کو ہم پر سے ہٹاوں ۔۔۔؟" نور چڑی تھی ۔۔ اسکی باتوں سے ۔۔

"ہمیں زندہ رہنے دو ے حسن والوں ۔۔ اب تو مشکل ہے یار میری نگاہ پڑتی ہی خوبصورت لڑکیوں پر ہے ۔۔ اور پھر انھیں ہٹانا  بے حد مشکل ہو جاتا ہے میرے لئے ۔۔۔!! احمد گہری دلچسپی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا تھا ۔۔

" آپ آپ ہٹو یہاں سے چیچھورا کہی کا ۔۔۔!! نور کے پاس الفاظ نہیں تھے جسے اس پر ضایع کرنے کو وہ اسے دھکہ  دیتی آگے بڑھ گئی تھی ۔۔ آج گاؤں میں مینو کی منہدی تھی کل برات تھی اور مرتضیٰ کے گھر والے کل آنے تھے آج سب مل کر محفل لگا رہے تھے عابیر اور نور ایک جیسی ڈریس کی ہوئی تھی عابیر کی خوبصورتی دیکھنے والا یہاں موجود نہیں تھا ورنہ آج پھر آپنا آپ ہار جاتا اسکے آگے ۔۔۔

_______

" عابیر  سچ بتا سب ٹھیک تو ہے نہ تم ایسے اچانک آفاق کے ساتھ آئی پھر احمد بابا آئے ہے اپنے سائیں کے ساتھ لڑ جگڑ کر تو نہیں آئی کہی ۔۔۔!! ماں تھی پریشان ہوئی اس طرح آنے پر پھر احمد لوگ کا یوں پیچھے آنا اور اب کل حمید صاحب اور دادی والے آرہے تھے ۔۔

" نہیں اماں تم پریشان نہ ہو کچھ نہیں ہوا میں تو مینو کی شادی کیلئے آئی ہو سائیں کو بتایا تھا خامخا وہم نہ پال ۔۔۔!! عابیر اس وقت ماں کو پریشان نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔ یہ اسکی قسمت تھی نہ جانے کیا فیصلہ ہونا تھا پر اس وقت سب خوش تھے وہ کوئی پریشانی والی بات نہیں کرنا چاہتی تھی ۔۔۔

" تو سچ کہہ رہی ہے نہ ۔۔؟" سارا نے پریشانی سے پوچھا ۔۔ عابیر اثبات میں سر ہلاتے ہوئے گلے لگ گئی ان کے ماں کی آغوش میں اپنے غم کا اظہار بھی نہ کر پائی ۔۔۔

________

" نور تمہیں ان معصوم جانورں سے ڈر کیوں لگتا ہے یار یہ دیکھو کتنے پیارے ہے ۔۔۔!! احمد اور نور اس وقت ان کی زمینوں پر گھومنے آئے ہوئے تھے اور یہاں بھی بکریاں  اور چھوٹے چھوٹے پیارے دوسرے جاندار تھے پر نور کو ان سے بے حد ڈر لگتا تھا عابیر انھیں اپنا گاؤں گھما رہی تھی ۔۔۔

" ہاں پیارے بہت ہے دل بھی کرتا ہے ہاتھ لگاؤ پر پتا نہیں کیوں عجیب سا ڈر لگتا ہے ان کے ہاتھ ، پاؤں اور منہ سے ۔۔۔!! نور کیوٹ سا منہ بناتے ہوئے بول رہی تھی احمد مسکراتا اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔۔

" اچھا تو آؤ ۔۔۔ آہہہ احمد نہیں پلیز یہ یہ کاٹے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہوتا کچھ بس پیار سے ہاتھ پھیرتی جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ہمیں ڈر لگ رہا ہے چھوڑو ۔۔۔۔!! احمد اچانک سے اسکا ہاتھ پکڑتا پاس کھڑی بکری کے سر پر پھیرنے لگا اسکا ہاتھ احمد کی سخت گرفت میں تھا وہ ڈر سے چیختی دور ہونے کی کوشش کر رہی تھی پر احمد صاحب نے تو جیسے سوچ لیا تھا آج اسکا ڈر ختم کر کے رہے گا پر اتنا آسان نہیں ہوتا جس چیز سے ڈر لگتا ہے ایکدم ختم ہو جائے ناممکن ہے ۔۔ 

" ہم مرتضیٰ بھائی کو بتائے گے آپ ہمیں یہاں تنگ کر رہے ہیں بہت ۔۔۔!! نور ناراضگی سے بولی تھی ۔۔

" ہاہاہا یار میں تو مذاق کر رہا ہوں یہ سب بچپنہ عجیب نہیں تمہارا اور جاؤ جسے بتانا ہے بتاؤ ڈرتا تھوڑی ہو کسی سے ۔۔۔!! احمد اچانک سے اسکے قریب ہوتا بولا نور گھبرا کر پیچھے ہوئی کے پاؤں مڑا تھا اس سے پہلے گرتی احمد نے تھام لیا اسکا ہاتھ جھٹکا دیتا خود کے قریب کیا وہ سینے سے لگتی ایک ہاتھ سے فاصلہ بنایا ایک پل کو سانس روک گئی دھڑکنوں میں شور سا مچ گیا تھا ۔۔

" آ ۔آپ چچ ۔۔چھوڑے ہمیں بہت چیچھوری حرکتیں کر رہے ہیں ہمیں سب دیکھ رہیں ہے گھر جاکے مرتضیٰ بھائی کو بتاؤ گی ان کے بھائی کی نیت کتنی خراب ہے ۔۔۔!! نور ہوش میں آتی تیزی سے دور ہوتی غصے میں گھبراتی ہوئی جو منہ میں آیا بول گئی ایک تو بچایا اس نے ورنہ پیچھے کیچڑ میں گر جاتی پر ہوا بھی تو اسکی وجہ سے تھا ۔۔۔

" کیا مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو ایسی بکواس حرکتیں کرو گا ایک تو گرنے سے بچایا ہے اپر سے احسان فراموش لڑکی ۔۔!! وہ دانت پیستا ہوا بولا ۔۔۔

" ہاہاہا کیا یہ بات عابیر بھابی کو پتا ہے ۔۔؟" نور کو اسکے انداز پر ہنسی آگئ تھی ۔۔۔

" کون سی بات ۔۔؟" احمد نے ناسمجھی سے دیکھا اسے ۔۔

" یہی پاگل کتے نے کاٹا تھا آپ کو ہاہاہاہا ۔۔۔!! اسکی بات پر احمد کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا اور وہ تھی ہنسے جا رہی تھی ۔۔۔ پھر یکدم چہرے کے رنگ بدلے اس نے ان بکریوں کو اسی اور گھما دیا اب وہ بکریاں اسکے قریب جا رہی تھی نور کی ہنسی چیخوں میں بدلی ۔۔۔ اب ہنسے کی باری احمد کی تھی ۔۔۔

" اااہہہ احمد ہمیں بچاؤ پلیز امی بابا ۔۔۔!! 

اسکے بار بار چلانے پر احمد نے غصے میں آکر اسے اٹھا لیا تھا بازوں میں یکدم اسکی چیخیں تھم سی گئی دل کان میں دھڑکنے لگا تھا ۔۔ آنکھیں نم سی ہوگئی تھی ۔۔

" اب خوش وہ تمہارے  پاؤں میں کیا ہاتھ منہ تک نہیں پونچ سکتے ہیں اور تم چلا چلا کر پورے گاؤں والوں کو جمع کر دوگی یہ کوئی خون خوار جانور نہیں ہے ۔۔۔!! احمد خود بھی ہوش میں نہیں تھا اس لئے فل وقت غصے میں کہتا گیا ۔۔ اسکی چیخوں نے دماغ خراب کر دیا تھا ۔۔۔

" احمد سائیں آپ نے بی بی جی کو گود میں کیوں اٹھایا ہوا ہے بی بی جی کو چوٹ لگی ہے کیا ۔۔؟" آفاق انھیں دیکھتا گویا یہی اندازہ لگایا تھا جب کہ اسکے کہنے پر احمد نے غور سے نور کا چہرہ یو قریب سے دیکھتا ساکت رہ گیا اب اسکا دل دھڑکا تھا اور محبت کے ہی نارے لگاۓ جارے تھے ۔۔

" کیا ہوا چھوٹے ادا نور کو کیا ہوا ہے ۔۔؟" عابیر پریشان سی ان کے قریب آتے پوچھا تھا ۔۔

" ہاں وہ اسکا پاؤں مڑ گیا تھا چل نہیں سکتی بیچاری اس لئے اٹھانا پڑا گھر چلتے ہیں اب ۔۔!! احمد بہانہ بناتا اسے لے کے آگے بڑھا باقی سب پیچھے آئے ۔۔

" کک کیا آپ جھوٹ ۔۔۔۔۔ شش سچ بولو گی تو وجہ پوچھے گے سوچو کتنا ہنسے گے تمہاری نادانی پر ۔۔!! احمد نے آنکھیں دیکھاتے ہوئے چپ کروایا ۔۔ نور کو اسکے ساتھ مزہ بھی آتا تھا ایک خوبصورت سا احساس ہونے لگا تھا اس سنگ یہی فیلنگ دوسری طرف بھی تھی ۔۔۔

_____

" السلام علیکم نانی اماں کسی ہو ماموں سائیں آپ کیسے ہے ۔۔۔؟" عابیر ان سب کو یہاں دیکھ کر بہت خوش ہوئی بس کسی کی کمی محسوس ہوئی دل چاہا کاش اسکا دیدار ہو جائے پر شاید یہ انتظار یہی رہ جانا تھا وہ لوگ شادی پر آئے ہوئے تھے شازیہ بیگم بھی ساتھ تھی عابیر کو حیرت ہوئی وہ اس سے اتنے اچھے سے ملی تھی دل ایکدم بھر آیا تھا کاش وہ پہلے سے ہی اچھے سے پیش آتی تو آج وہ اپنے سائیں کی زندگی میں ہوتی ۔۔۔ 

" جاؤ بیٹا سب کے لئے چائے پانی کا انتظام کرو ۔۔۔!! سب ایک دوسرے سے ملنے باتیں کرنے کے بعد کمرے میں چلے گے تھے ۔۔

" آجاؤ بیٹا یہ ہے آپ کا کمرا عابیر تم مرتضیٰ سائیں کو اپنا کمرا کیوں نہیں دکھایا ۔۔۔!! سارا پھوپھو اسکے ساتھ اندر داخل ہوئی وہ جو پلنگ پر چادر چڑھا رہی تھی اسے لگا نانی اماں اسکے ساتھ رہے گی اس لئے اپنے کام میں مگن دوپٹہ کہی بالوں کا ہلکا سا جوڑا بنا ہوا تھا سفید لان کے کپڑوں میں وہ اس وقت ایک خوبصورت پرکشش حسن رکھتی تھی اور اسکے اس روپ نے سامنے والے کے ہوش اڑا دیے سوے ہوئے جذبات  انگڑائی لے کے جاگ اٹھے تھے ۔۔۔ اور وہ اسے یوں اچانک سامنے دیکھ کر ساکت ہوگئی تھی پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔۔ سارا اپنا کام کرتی چلی گئی کب پتا ہی نہیں چلا دونوں کو ۔۔ نظروں کے تصادم ہی  کمال کا ہوا تھا جو نگاہیں ٹھری ہوئی تھی ایک دوسرے پر ابھی تک ۔۔۔۔ مرتضیٰ کا یوں اچانک آنا اسے کچھ سمجھ نہیں آیا وہ آیا ہوا تھا پر اس نے نہیں دیکھا تھا سب کو اندر بھیج کر وہ اپنا کمرا صاف کرنے آئی تھی اب نیت نانی اماں کو لے کے آنے کی تھی یہاں پر لیکن اسکی موجودگی نے تو اسکا دل دھڑک دھڑک کر گویا پسلیاں توڑ کر باہر آنے کو تھا ۔۔۔ مرتضیٰ ہوش میں آتا خود پر لعنت ملامت کرتا اسے اگنور کر کے باتھ روم میں گھس گیا تھا ۔۔عابیر بڑھتی دھڑکنوں سے خود کو سنمبھالتی گہرے سانس لئے تھے ۔۔۔ 

" سس ۔۔سائیں یہاں کیسے وہ وہ تو نہیں آئے ہوئے تھے پھر یہ اچانک ۔۔ کہی میرا وہم تو نہیں ۔۔ نہیں نہیں یہ سچی والے سائیں لگ رہے ہیں مجھے دیکھا اور بات تک نہیں کی آنکھوں سے ہی مار رہے تھے ہاں سائیں جی ہے میرے ۔۔۔۔۔ میرے ۔۔!! خود سے بڑبڑاتی وہ پتا نہیں کیا کیا بول رہی تھی آخری لفظوں میں ہونٹوں پر گہری خوبصورت مسکراہٹ سی آگئ تھی ۔۔۔ مرتضیٰ باہر آتا یہ حسین منظر اپنی نگاہ میں قید کر چکا تھا ۔۔۔ وہ چپ چاپ چلتا ہوا اپنے بیگ سے کچھ چیزے دیکھتا روم سے باہر چلا گیا ۔۔۔۔ عابیر کو حیران و پریشان سی وہی کھڑی مرتضیٰ کی خاموشی کو سمجھنے کی کوشش کی اسے اب تک اپنی پوزیشن کا ہوش نہیں تھا ۔۔ کیا وہ ناراض ہے وہ بتا کر نہیں آئی اس لئے یا کچھ اور بات ہے اب اسے بے چینی ہونے لگی تھی جلدی سے اپنا دوپٹہ سنمبھالتی باہر آئی اسکے پیچھے ۔۔

" بھائی آپ بھی آئے ہیں ۔ آپ کو پتا ہے یہاں بہت مزہ آتا ہے ہم نے بہت انجوائے کیا ہے ۔۔۔!! احمد اپنے بھائی کو دیکھتا خوشی سے بولا تھا ۔۔

" پھپھو مجھے ایک کپ چائے مل سکتی ہے بہت تھکا ہوا ہوں سر درد ہے ۔۔!! مرتضیٰ گمبھیر آواز پر اسکا دل پھر زورو سے دھڑک اٹھا تھا پہلے ہی دھڑکیں مشکل سے سنمبھالی تھی ۔۔۔

" ہاں ہاں ضرور بیٹا عابیر کھڑی کیوں ہو جاؤ اچھی سی چائے بنا آؤ ۔۔۔!! سارا پھوپھو داماد پر واری جارہی تھی ۔۔۔۔ ماں کے کہنے پر وہ اپنی دھڑکنوں کو سنمبھالتی ہوئی آگے بڑھی تھی کہ قدم ٹھر گئے تھے آنسوں کا گولہ اٹک سا گیا تھا اسکی بےرخی پر ۔۔۔

" نہیں سارا پھوپھو آپ کے ہاتھ کی پینی ہے اتنے وقت بعد آیا ہوں ۔۔ اپنے ہاتھوں سے نہیں بنا کر پلائے گی ۔۔!؟"مرتضیٰ ساس کو پیار سے کہتا انھیں کچن میں بھیج چکا تھا خود روم میں چلا گیا ۔۔۔ وہ وہی کھڑی ایک آنسوں گالوں پر پھسل گیا ۔۔۔

_____

" نانی اماں سنو نہ وہ سائیں مجھ سے بات نہیں کر رہے کیوں وہ ناراض ہے یا غصہ ہے بتاؤ نہ مجھے اچھا نہیں لگ رہا وہ بات نہیں کر رہے مجھ سے مجھے رونا آرہا ہے یہ دیکھو ابھی بھی آنسوں آرہے ہے ۔۔۔!! وہ بہت پریشان ہوگئی تھی مرتضیٰ کے اگنور کرنے پر ساری رات اس نے بات نہیں کی صبح بھی جلدی اٹھ کر جیسے باہر گیا ہوا تھا باہر ہی تھا سب سے ہنس کر باتیں کر رہا تھا اس پر نظر پڑھتے ہی خاموش ہو جاتا نظریں چرا لیتا تھا ۔۔ اسکا یہ انداز بے رخی کی مار اسے مار رہا تھا ۔۔۔

" ہاں تو تجھے کیا یہاں بھی میں زربدستی لائی ہو آ ہی نہیں رہا تھا تو پوچھ کر گئی تھی اس سے کوئی بات مانتی ہو میرے بیٹے کی نہیں بس یہ کینچی جیسی زبان چلتی ہے تیری بتایا ہے سب تیری ماں کو کس طرح خود کا گھر برباد کر رہی ہو ۔۔۔!! نانی اماں بھی ناراض تھی ۔۔۔

" ہاں ہاں ڈال دو سب میرے سر پر ۔۔ میں ہی بری تم سب اچھے بس ۔۔۔ جاؤ سب جنت میں ۔۔ایک میں ہی جہنم کے دروازے پر کھڑی ہوگی ہے نہ ۔۔۔۔۔ برا مت ماننا اماں نانی ہے تیرے بھی قبر میں پیر پھر بھی سچ نہیں بول رہی میں میرے ساتھ آج تک سائیں نے کچھ اچھا نہیں کیا پھر بھی میں ان کے ساتھ رہی ۔۔۔!! ایک تو پہلے ہی پریشان تھی مرتضیٰ کے یو بلاوجہ ناراضگی پر خفا اب غصہ آرہا تھا اپر سے نانی اماں کی باتوں نے مزید دماغ خراب کردیا اس کا ۔۔۔

" لڑکی شرم لحاظ کچھ نہیں اندر تیرے بلاؤ اپنے پوتے کو میں ۔۔۔؟" نانی اماں نے دھمکی دی ۔۔

" ہاں ہاں بلاؤ اب یہ دھمکی دینا باقی رہ گئی تھی تم سب چاہتے ہی یہی ہوں یہ سائیں ہی میری جان لے میرا خون ان کے ہاتھوں ہو جائے ۔۔۔!! اسے رونا آنے لگا تھا بھاگتی ہوئی چلی اپنے روم میں ۔۔۔

______

" افف عابیر آپ بہت حسین لگ رہی ہے یار آج تو مرتضیٰ بھائی پکا دیوانے ہو جائے گے آپ کے دیکھنا یہ حسن کا جادو کیسے چلتا ہے ان پر ۔۔۔!! نور عابیر کو بے حد خوبصورت سا تیار کرتی اب اسے چھیڑ رہی تھی ۔۔۔ اس نے ایک نگاہ آئینے پر ڈالی اپنے خوبصورت سراپے کو دیکھا کیا وہ سائیں کو اچھی لگ سکتی ہے پہلا خیال ہی یہی تھا ۔۔۔ سب نیچے بڑے سے آنگن میں تھے یہی پر ساری سجاوت کی گئی تھی ہر چیز بہت خوبصورت تھی ۔۔۔۔۔ وہ مہررون کلر کے ہلکے سے کام دار کپڑوں میں ملبوس تھی خوبصورت لمبے بال کمر پر لہرا رہے تھے آج تو جیسے پکا انتظام کیا ہوا تھا آپ نے سائیں پر بجلیاں گرانے کی ۔۔۔۔ اور وہ بھی آج کچھ کم نہیں لگ رہا تھا سفید کاٹن کے سلوار قمیز میں بے حد وجیہہ لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ کب سے بے چین نظریں دشمن جان کو ڈھونڈ رہی تھی جب وہ سامنے آئی دکھائی دی پھر کچھ دکھائی نہ دیا ۔۔۔ وہ دادی سے باتیں کرتی کچھ کام میں ہاتھ بٹا رہی تھی اپنے چچا والوں کے مینو کی شادی تھی کیسے پیچھے رہتی ۔۔۔ مرتضیٰ اسے اندر جاتا دیکھتا اسکے پیچھے گیا تھا ۔۔۔ ناراضگی اپنی جگہ پر اتنی قاتل حسینہ کو اگنور کرنا بہت مشکل کام تھا جو اب ضبط کے بعد بھی ٹوٹ رہا تھا ۔۔۔

" " بھائی کدھر ۔۔؟" احمد بیچ رہ میں حائل ہو گیا ۔۔

" وہ کچھ کام ہے آتا ہوں ۔۔!! مرتضیٰ جلدی بہانہ کرتا وہاں سے جانے لگا احمد پھر کچھ کہتا مرتضیٰ تیزی سے آگے بڑھ گیا تھا ۔۔۔۔

" آپ ولن کیوں بن رہے ہے ان کے بیچ ۔۔۔؟" نور احمد کو آنکھیں دیکھتی اسکا یوں مرتضیٰ کو روکنا سمجھ گئی تھی ۔۔۔

" نہیں میں تو ہیرو بننا چاہتا ہوں وہ بھی تمہارا ۔۔!! احمد شرارت سے آنکھ ونگ کرتا مسکرایا تھا ۔۔۔

" یار آج بھی میرے دل پر بجلیاں گرانے آئی ہو ۔۔۔ دیکھو بندا معصوم ہوں یو سرے عام بدنام نہ کرو ۔۔۔!! احمد کی آنکھوں میں شرارت تھی لہجہ محبت سے چور تھا نور گھبراتی دور ہوئی اس سے اسکا یوں بات کرنے کا انداز اسے گھبرانے پر مجبور کر دیتا تھا ۔۔۔

" آ ۔آپ ہم نے کہا تھا نہ ہم سے ایسی واہیات باتیں نہ کیا کرے ہم مرتضیٰ بھائی کو بتا دیگے ۔۔۔!! نور گھبراہٹ پر قابو پاتی اسے گھورتے ہوئے کہا ۔۔

" یار بھائی کی دھمکی نہ دیا کرو میں بہت شریف بندا ہوں تم جانتی نہیں ایک بار جسے دل میں بیٹھا لیا اسے کہی اور نہیں بیٹھاتا  اور اب تیار رہنا ۔۔۔!! احمد یکدم سنجیدہ ہوا ۔۔۔

" کس لئے تیار ۔۔؟" نور نہ سمجھی سے پوچھا ۔۔

" اگلی ہماری باری ہے جلد آؤ گا رشتہ مانگنے ۔۔۔!! احمد کے انداز نے اسے سر سے پیر تک سرخ کردیا ۔۔۔ دل زور سے دھڑک اٹھا تھا کچھ کہنے کو تھا نہیں مڑ کر چلی گئی جاتے ہوئے نہ جانے کیوں ہونٹ مسکراہٹ میں ڈھلے اور احمد نے بھی اسکی پشت پر محبت بھری نگاہ ڈالی ۔۔۔ نور تو اسے شروع سے ہی پسند آگئ تھی پر کچھ اسکے نخرے والے انداز پر چڑا تھا لیکن یہاں آتے اسکے ساتھ خوبصورت لمحات گزارنے پر احساس ہوا محبت ہوگئی ہے نور سے اسے ۔۔۔ دل کے حالات چھپانے سے اچھا بیان کیا جائے ۔۔۔

_____

عابیر جلد بازی میں سیڑھیوں سے اتر رہی تھی کہ ڈسبیلنس ہوتے ہی لڑکھڑائی، گرنے کے ڈر سے فوراً آنکھیں کبوتر کی طرح میچ لیں تھی۔ اِس سے پہلے کہ وہ زمین بوس ہوتی، کسی نے کمر سے پکڑ کر اُسے گرنے سے بچایا تھا۔ دل تھم گیا، سانس رُک گئی، جب ناک کے نتھنوں سے ٹکراتی محسور کن خوشبو نے سانسوں کو مہکایا تھا۔ وہ دم سادے اِس لمحے کو محسوس کرتی،۔شرم سے بوجھل پلکوں کو دھیرے سے سامنے کھڑے وجود پر ڈالی تھی ۔۔۔ دھڑکنوں نے سائیں کی یہاں موجودگی پر شور مچایا تھا ۔ دوسری طرف بھی کچھ ایسی کیفیت پیدا ہوئی تھی نازک صورتحال پیش ہوئی تھی ضبط کے بندھن ٹوٹنے  پر تھے ۔۔۔ مرتضیٰ کے مظبوط حصار میں کھڑی وہ لرزتی پلکوں کے رقص نے مرتضیٰ کو گستاخیوں پر اكسایا ۔۔۔۔ سارا پھوپھو کی دور سے آتی آواز پر دونوں ہوش کی دنیا میں آئے ۔۔

" ش ۔ شکریہ ۔۔!! عابیر مدھم دھڑکنوں سے کچھ کہتی وہ خاموشی سے اپنا راستہ اختیار کرتا چلا گیا ۔۔۔ اس نے مڑ کر اس بےوفا کو دیکھا دل بھر سا آیا تھا پھر رونے کو جی چاہا تھا پر اب بس ہوگئی تھی اسکی ۔۔ نم نگاہوں سے دیکھتے ہوئے غصے سے اسکے پیچھے گئی تھی ۔۔۔ مرتضیٰ کمرے میں آتا سگریٹ  سلگا کر تیکھی نظروں سے سامنے عابیر کو دیکھا ۔۔۔ اسے ڈبڈبائی نظروں سے خود کو دیکھتا پا کر وہ لب بھینچ گیا ۔۔۔

" س ۔ سائیں ۔۔؟ کپکپاتی آواز تھی ۔۔

" کوئی کام تھا ۔۔؟" سرد تاثرات تھے ۔۔

" آپ ناراض کیوں ہے ۔۔؟" اسے رونا آیا تھا اسکے سرد لہجے پر ۔۔۔

" میں ناراض کیوں ہوں یہ جانتے ہوئے بھی پوچھ رہی ہو تم ۔ منع کیا تھا میری اجازت سے کہی نہیں جاؤ گی پھر بھی تم نے اپنی مرضی کی اب اب میرا بات نا کرنا برا لگ رہا ہے تمہیں ۔۔۔!! مرتضیٰ سگریٹ پھینکتا تیزی سے اسکے قریب آیا ۔ اسے اپنی طرف کھینچا تھا ایک ہاتھ سے اس کا بازو پکڑ کر جھٹکتا وہ چبا چبا کر بولا۔۔  اپنے بازو پر اس کی سخت گرفت اور کھردرا لب و لہجہ محسوس کر کے وہ ڈر گئی تھی پر ہمت نہیں ہارنی تھی ۔۔۔

" سائیں آپ بھی تو یقین نہیں کرتے مجھ پر میں نے ساس اماں کو کبھی کچھ برا نہیں کہا ۔ اس لئے سوچا آپ نے کبھی اعتبار نہیں کیا مجھ پر پھر کیسے رہ لیتی آپ کے ساتھ ۔۔۔!! وہ بھاری لہجے میں بولتے ہوئے رکی آنسوں تیزی سے بہنے شروع ہوئے تھے ۔۔ مرتضیٰ سخت ہونا چاہتا تھا اور غصہ کرنا تھا پر اسکی خوبصورت قاتل نم آنکھوں نے بولنے سے روک دیا ۔۔۔

" ہمارے بیچ جو بھی ہوا وہ سب ایک غلط فہمی تھی ہم بھی انسان ہے کبھی غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتے ہیں تو اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا سب چھوڑ کے چلے جاؤ سب ختم ہو گیا ۔۔۔!! مرتضیٰ سنجیدگی سے بولا ۔۔

"پھر سس سائیں آپ یہاں کیوں ۔۔۔!! وہ پوچھنا چاہتی تھی کیا آپ میرے لئے آئے ہے تو یو بےوفائی والا سلوک کیوں ۔۔۔

" کیوں نہیں آ سکتا او تمہیں لگ رہا ہوگا تمہیں مارنے آیا ہو بدلہ لینے ارے نہیں عابیر میں تو یہاں اپنے پیسے لینے آیا تھا تم سے ۔۔!! مرتضیٰ کا لہجہ یکدم بدلہ تھا اب سامنے حق رکھتی حسین بیوی کو کب تک خود پر ضبط کرتا ۔۔۔

" پپ پیسے کون سے میرے پاس آپ کے کوئی پیسے نہیں قسم لے لے سائیں میں کوئی پیسے چوری کر کے نہیں آئی وہ تو ایک بار ہی ہاتھ لگے ۔۔۔!! وہ آنسوں صاف کرتی خود پر لگے الزام سے تڑپ اٹھی ۔۔۔

" ہاں میری معصوم بیگم وہی ایک ہزار روپے لینے آیا ہوں۔۔ پولیس والے کہاں چھوڑتے ہیں اپنا حساب ۔۔۔؟" آنکھوں میں خمار سا اترا ۔۔ لہجہ شرارتی تھا ۔۔۔ مکمل اپنے حصار میں لیا اسے دونوں بازوں کمر کے گرد حائل کیے تھے ۔۔۔ وہ شرم حیا سے نگاہ نہیں ملا پائی ۔۔ پر اسکی باتوں نے حیرت سے اسکی طرف توجہ دی ۔۔

" سائیں تم ۔۔۔۔"اسے دکھ ہوا  رونے کی وجہ سے بولا نہ گیا ۔۔۔

" ابا سے لے کے آتی ہو ۔۔!! وہ حصار سے نکلنے کو مچھلی  پر اسکی گرفت مضبوط تھی ۔۔

" رکے محترمہ تم میرا حساب پیسے سے نہیں دوگی بلکے وہ قرض اپنی محبت سے ادا کروگی ۔۔۔!! مرتضیٰ کا انداز بہت رومانس تھا اسے مزید کھینچ کر خود کے قریب کیا ایک بازو اسکی کمر پر باندھ کر اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا وہ مکمل اسکے حصار میں تھی حیا سے سرخ چہرہ قربت بھی کیا کمال کی تھی آج تو جان لینے کے در پر تھی ۔۔ وہ شرم سے چہرہ سینے میں چھپا گئی ۔۔

" سائیں جی اب ناراض نہیں ۔۔؟" ہلکی سے آواز میں پوچھا تھا ۔۔۔

" کس نے کہا ناراض نہیں یہ تو اپنا حق جتا رہا ہوں ۔۔۔۔ منانے کیلئے کچھ کرو تو مانوں ۔۔؟" وہ اس کے کان کے پاس سرگوشی کرتے بولا ۔ اس کے لفظوں پر عابیر کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ ہوئی تھی ۔۔۔

" سس سائیں ۔۔!! اسکی گستاخی پر وہ خفا ہوتی دور ہوئی ۔۔۔ مرتضیٰ نے مسکراہٹ دبا کر آنکھیں دکھائی ۔۔۔

________

" عابیر تم ٹھیک ہو ۔۔؟" سارا اسکی صبح سے طبیعت خرابی پر پریشان سی ہوگئی تھی کل شادی ختم ہوتے ہی سب چلے گئے تھے دادی اور عابیر ولیمہ کیلئے رکے ہوئے تھے جس پر مرتضیٰ پھر اس سے خفا ہو کر گیا تھا وہ چاہا کر بھی یہاں رک نہیں پایا تھا جاب تھی احمد اور نور کی پڑھائی وہ لوگ وعدہ کر کے گئے تھے ولیمہ پر آئے گے پھر ساتھ عابیر دادی کو لے جائے گے حمید صاحب شازیہ بیگم بھی بچوں کے ساتھ واپس چلئ تھی ۔۔ عابیر پھر اپنے سائیں کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی پر اسکی قسمت میں سائیں کے ساتھ سکون کے لمحات جیسے گزر نہیں رہے تھے اور آج صبح سے طبیعت میں بوجل پن محسوس ہو رہا تھا ۔۔۔

" عابیر اپنی ماں کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جاؤ طبیعت زیادہ خراب نہ ہو جائے ۔۔۔!! نانی اماں نے بھی پریشانی سے کہا ۔۔۔

" نہیں اماں اب کیا ڈاکٹر کے پاس جانا کچھ الٹا سیدھا کھایا ہوگا اس لئے ۔۔۔۔۔۔ عابیر ۔۔۔!! وہ بولتے ہوئے بیہوش ہوگئی تھی سارا امی اور نانی اماں کی چیخوں پر سب اندر آگئے تھے ۔۔۔ جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے گئے اسے ۔۔۔ اور اسی وقت وڈیرہ کو نظر عابیر کے بیہوش وجود کو ہسپتال میں داخل ہوتے ہوئے پڑی تھی ۔۔۔۔۔

" سا ئیں سنے ۔۔؟" ڈر سے پکارا اسے ۔۔

" کیا سنوں ہاں ۔۔  تمہاری انہی حرکتوں کی وجہ سے اگر میرے بچے کو کچھ ہو جاتا تو ۔۔۔؟" رہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھا جب پتا چلا اسکی طبیعت خرابی کا کس طرح وہ جاب سے بھاگا تھا گاؤں جب اسکے پونچھنے پر پتا چلا وڈیرہ واپس گاؤں میں  اپنی دشت چلا رہا ہے عابیر والوں کے گھر پر اسکی نظر رکھی ہوئی تھی پر اسے ایک لاسٹ وارینگ دیتا وہ عابیر کو اپنے ساتھ لے آیا غصہ ہونا چاہتا تھا اسکے وہاں ضد سے رکنے پر لیکن اسنے وہ خوشی دی تھی جس پر صرف محبت دیکھانی تھی ۔۔ لیکن اپنے غصیلی طبیعت کا کیا کرتا جب تک غصہ نہ نکالے جیسے سکون نہیں اس شخص کو ۔۔

" ایک تو سائیں آپ کی ناک پر ہمیشہ غصہ ہی رہتا ہے یہ نہ مجھ سے محبت سے بات کر لے ۔۔۔ ہمیشہ مجھے ڈانٹے اور غصہ کرتے ہیں کبھی سمجھا بھی ہے مجھے کہ نہیں ۔۔۔ آپ کو میرے ساتھ رہنا ہی نہیں اس لئے ایسا کرتے ہیں ۔۔۔!! اسکے سرد رویہ پر اسے رونا آیا تھا ۔۔ مرتضیٰ کو اندازہ نہیں تھا وہ رونا شروع کر دے گی پر وہ بھی کیا کرتا اسے کھونے سے ڈر جو لگتا تھا اب ۔۔۔

" عابیر اچھا سنو رونا بند کرو ۔۔ میں بس چاہتا ہوں تم خوش رہوں تمہیں اور ہمارے بچے کو کچھ نہ ہو اس لئے تم اب گاؤں نہیں جاؤ گی جب جانا ہو میرے ساتھ ایک دن کیلئے بس ۔۔۔!! وہ اب پیار سے سمجھانے لگا تھا اسکا چہرہ ہاتھوں میں لیتا اسکے آنسوں صاف کیے ۔۔۔

" آپ ناراض نہیں ہے نہ ۔۔۔!! ابھی بھی اسکی ناراضگی کی فکر تھی ۔۔۔ 

" مناؤ گی مجھے ۔۔!! مرتضیٰ اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتا اسکی آنکھوں میں دیکھ کر جذبے سے بولا ۔۔۔ 

" ہمیشہ میں ۔۔؟"عابیر نے نم نگاہوں سے شکوہ کیا ۔۔

" تنگ کون کرتا ہے ۔۔؟" جسے یاد دلایا ۔۔

" غصہ کون کرتا ہے ۔۔۔؟" وہ بھی یاد دلانے لگی ۔۔

" دلاتا کون ہے ۔۔۔؟"  وہ بھی اپنے نام کا ایک تھا ۔۔۔

" معاف کردے مجھے جانے دے ہمیشہ میں ہی بری کمینہ پول ۔۔۔!! غصے میں کہتی پھر زبان پھسلنے پر ڈانٹوں تلے زبان دبا گئی آنکھیں زور سے میچ لی ۔۔۔ مرتضیٰ کو اس بار غصہ نہیں آیا اسے اس پیارے سے انداز پر ہنسی اور پیار بے وقت آیا تھا پر چھپا کر چہرے پر سنجیدگی طاری کردی ۔۔۔

" رک کیوں گئی گالیاں دینا نہیں چھوڑو گی تم ۔۔۔؟" 

 پتا ہے میں کیا سوچ رہا ہوں ۔۔۔!! آنکھوں میں شرارت تھی لہجہ سخت سرد تھا ۔۔ جس پر عابیر کو خوف آیا دل دھڑکا تھا ۔۔

" کک ۔کیا ۔۔ سائیں میں وہ غلط ۔۔۔۔۔ شش ۔۔۔!! وہ اپنے بولنے پر شرمندہ ہوتی معافی مانگنے لگی کہ اسنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر چپ کروایا ڈرانے والا روپ تھا اس وقت ۔۔۔

" تمہیں ایک بار جیل میں ڈال کر اپنے خوب بدلے لو یہ جو زبان تمہاری رک رک کر پھر چلتی ہے نہ اسے ایک بار ہی ٹھیک کردو میرے بچے کے آنے سے پہلے ورنہ اسنے بھی یہی سیکھنا ہے تم سے ۔۔۔ کیا کہتی ہو پیار سے چلو گی جیل میں یا اٹھا کر لے جاؤ ۔۔۔؟" مرتضیٰ سہی معنوں میں اسکی جان لینے پر تھا خوف سے اسکا دل بند ہونے کو تھا ۔ روتے ہوئے نفی کی اس طرح بہت کیوٹ لگی تھی پر ابھی پیار نہیں دیکھا سکتا تھا ۔۔۔

" یہ یہ آخری بار تھا قسم لے لے اب اب ایسی کوئی غلطی نہیں کرو گی آپ معاف کردے سائیں میں آپ کی ہر بات مانوں گی وعدہ ۔۔۔!! سو سو کرتے ہوئے کہا ۔۔۔

" اچھا اچھا بس رونا بند کرو اتنا کوئی روتا ہے کیا یار مذاق کر رہا تھا سچی میں ۔۔۔ عابیر تم نے میری دل کی دنیا ہی بدل دی ہے یار تم مجھے بہت عزیز ہو ۔۔۔۔!! مرتضیٰ نے آگے بڑھ کر اسے اپنے ساتھ لگایا اسکا رونا مزید نہیں دیکھ سکتا تھا اب محبت کے راستے پر محبوب کو دکھ دینا کہا برداشت ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ 

" سائیں آپ بہت برے ہے ۔۔۔!!

" ہاں بہت زیادہ یار ۔۔۔!!

" یار نہ کہے ۔۔" معصومیت سے کہتی اسے پیاری لگی ۔۔۔

" کیوں ؟" وہ حیران ہوا ۔۔

" اماں کہتی ہے لوفر بولتے ہیں یار ويار ۔۔!! عابیر کی بات پر وہ ہنستا ہی چلا گیا اسے پھر رونے کو تیار دیکھتا خود سے لگا گیا ۔۔۔۔ عابیر اور اسکی باتیں اف کمال ہوتی تھی مرتضیٰ کو کبھی ہنساتی تو کبھی غصہ دلاتی ۔۔۔

_______

" معافی مل سکتی ہے اپنے بچوں کی اماں سے ۔۔؟" شرارتی لہجہ تھا چھیڑنے والا ۔۔

" سائیں تم نے مجھے بہت رلایا ہے بہت ڈرایا ہے میں کیسے تم کو معاف کرو تم بہت برے ہو ۔۔۔ پر تم ۔۔ آپ اچھے لگتے ہیں اس لئے معاف کر رہی ہو اپنے بچے کے ابا کو ۔۔!! شکوہ کن لہجہ نم نگاہیں محبت بھرا دل تھا ۔۔۔۔

" سائیں ۔۔؟ سینے سے لگی میٹھی سی پکار ۔۔

" جی سائیں کی جان ۔۔" اسکا بالوں میں ہاتھ ہلکا سا ہلاتا ہوا سکون بخش رہا تھا ۔۔

" دوسری شادی تو نہیں کرے گے نہ میں آپ سے بہت محبت کرتی ہو ۔۔۔ پتا نہیں کب کیسے پر ۔۔ بہت محبت ہو گئی ہیں آپ سے ۔۔!! شرمیلی مسکراہٹ اظہار محبت پر دل کی دھڑکن اپنی دھن بجا رہی تھی ۔۔۔

" سوچ رہا ہوں کرلو دوسری بھی ہر مرد کی خواہش ہوتی ہے تو میں کیوں پیچھے رہوں ۔۔۔!! وہ تنگ کرنے لگا ۔۔۔

" سائیں سچ میں کرلو گے ۔۔۔ میں اس بار سچ میں چلی جاؤ گی گاؤں واپس بتا رہی ہوں آپ کی قمیص سے دو ہزار بھی چوری کرلو گی ۔۔۔!! غصے میں کہتی وہ الگ ہوگئی ۔۔۔ اسکی باتوں نے دل کی دنیا ہی ہلا دی تھی ۔۔۔

" آپ مجھے چھوڑ دیں گے نہ ہمیشہ ایسا کرتے ہیں جھوٹ بولتے ہیں محبت ہے ۔۔ نہیں کرتے ہے ۔۔!! اسے رونا آیا ایک تو یہ شخص مجال ہے کبھی دو پل کی خوشی دے جب تک رلائے نہ سکون نہیں آنا مرتضیٰ کو ۔۔۔

" تم چھوڑ کر چلی جاؤ گی ۔ میں پھر لینے آجاؤنگا ۔۔!! وہ جانے لگی تھی کہ اسنے ہاتھ سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا وہ سینے سے آلگی ۔۔ غصے میں ہاتھ چھڑوانے کی کوشش میں مچل رہی تھی اسکی گرفت میں وہ دلچسبی سے بس اسے روتا غصے میں دیکھ رہا تھا ۔۔۔

" میں کبھی واپس نہیں آؤ گی ۔ آپ کرے دوسری تیسری ۔۔۔!!

" تمہارے تو اچھے بھی واپس آئے گے ۔۔ رہی دوسری تیسری وہ تو تم کرواؤ گی اپنے ہاتھوں سے میری دلہن کو سجاؤ گی ۔۔۔؟" مرتضیٰ کا موڈ ہی اسے تنگ کرنے کا تھا ۔۔

" مار دونگی اپنے ہاتھوں سے انھیں پھر لے جانا جیل بہت شوق ہے نہ آپ کو مجھے جیل مب ڈالنے کا ۔ کرلے یہ بھی حسرت پوری ۔۔۔!! غصے میں روتے ہوئے کہتی ہاتھ چھڑوا کر کروٹ بدل کر دوسری طرف منہ کرتی ناراضگی کا اظہار کیا ساتھ رونے میں مصروف تھی ۔۔ مرتضیٰ کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔ آگے بڑھ کر اسے اپنے مکمل حصار میں لیتا اسکے بالوں میں منہ چھپا گیا گہرا سانس لیتا ۔۔ 

" بیوی سائیں ناراض ہوگئی ہے ۔۔۔ اچھا سنو ۔۔۔؟" پیار بھری سرگوشی کرتا اسکی دھڑکنوں میں شور مچا گیا ۔۔۔

" نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ادھر دیکھو عابیر ۔۔ رونا بند کرو اور میری بات سنو ۔۔ میں بس تمہیں تنگ کر رہا تھا تم میری پہلی اور آخری بیوی ہو بس اسکے بعد کوئی نہیں ۔۔۔!!

" اور میں تم سے بھی زیادہ محبت کرتا ہو تم سے پتا ہی نہیں چلا تمہارے سنگ کیسے تم سے محبت ہو گئی ہیں  ۔۔ تمہیں ڈانٹنا تم پر پیار آنا بہت پیارہ لگتا ہے عابیر مرتضیٰ ۔۔۔!! مرتضیٰ نے اسکا سر تکیہ پر رکھا خود برابر لیٹ گیا نرمی سے اسکے آنسوں صاف کرتا بولا تھا ۔ دونوں کی نگاہوں میں محبت تھی ایک دوسرے کیلئے ۔۔ 

" پتا ہے جب جب تم سائیں کہتی ہو میرا دل تمہاری پکار پر دھڑک اٹھتا ہے ۔۔ تم پر بے حد پیار آتا ہے ۔۔!! وہ اسکے قریب ہوتا اسکی ناک سے اپنی ناک رب کی  ایک بازوں سے اسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا ۔۔۔

" سائیں جی اب مجھے ڈرائے گے تو نہیں نا ۔۔ اور کبھی دوسری شادی کی بات نہیں کرے گے ورنہ سچی میں چلی جاؤ گی ۔۔۔ وعدہ کرے آپ کے غصے سے بڑا ڈر لگتا ہے مجھے ۔۔!! اسکی معصومیت افف عابیر کیسے پیار نہ آئے مرتضیٰ کو اس پر ۔۔۔

" تم وعدہ کرو غصہ نہیں دلاؤ گی تو نہیں ڈراؤگا ورنہ موڈ کی وارنٹی نہیں دیتا میں ۔۔۔۔۔۔۔ سائیں ۔۔۔!! مرتضیٰ کے جواب نے اسے غصہ دلایا پر اسکی محبت بھرے لمس چپ کروا دیتے تھے ۔۔ سر اسے سینے پر رکھتے ہی آنکھیں موندلیں سکون سے وہ خود بھی سکون میں تھا اب اسکے سنگ  ۔۔۔ اسکی ماں بننے کی خوشی سے سب گھر والوں کو بہت خوشی دی تھی ۔۔

__________

" بھائی میرا بھی کچھ سوچ لے اب ۔۔؟" احمد مرتضیٰ کے پاس بیٹھا سرگوشی میں بول رہا تھا لاونج میں سب ساتھ بیٹھے ہوئے تھے عابیر کا پانچواں ماہ چل رہا تھا ۔۔۔

" تمہارا کیا سوچنا ہے ۔۔ اپنی پڑھائی پر دھیان دو ۔۔!! مرتضیٰ اسکا اشارہ سمجھ رہا تھا نور کے باپ کی باتوں سے بھی لگ رہا تھا انھیں احمد اپنی بیٹی کیلئے پسند ہے ۔۔۔

" بھائی آپ تو ماشاءاللّٰہ باپ بن گئے ۔۔ اب میرا بھی سوچے مجھے بھی اپنے بچے دنیا میں لانے ہے یار ۔۔!! احمد کی بات پر سب کے قہقہے نکلے ۔۔۔ 

" چھوٹے ادا تم بےفکر رہوں تمہاری شادی میں کرواؤ گی ۔۔۔!! عابیر کی معصومیت پر پیار آیا تھا ۔۔

" یہ ہوئی نہ بات دیکھا بھائی یہ ہوتی ہے بھابی بہن ماں آئی لو یو بھابی جان ۔۔ جلدی سے ہمارے شہزادے کو دنیا میں لاؤ پھر میری شادی کی تیاری پکڑے ۔۔۔!! احمد تو جیسے گھوڑے پر سوار تھا ۔۔۔ بس نہ چلا آج ہی نور کو لے آئے ۔۔۔

_________

" سائیں آپ چھوٹے ادا کیلئے اپنے صاحب سے بات کرے نہ وہ نور کا رشتہ ہمیں دے ۔۔؟" عابیر احمد کے بہت کہنے پر مرتضیٰ سے بات کرنے آئی تھی خواہش تو اسکی بھی تھی  ۔۔۔

" تم چاہتی ہو سر مجھے نوکری سے نکال دے یہ بات کہوں ان سے چار دن نہ ہوئے انکی بیٹی ہمارے پاس حفاظت کیلئے بھیجی گئی تھی ۔۔ اور یہاں تمہارے چھوٹے ادا نے عاشقی کرنی شروع کردی ۔۔۔!! مرتضیٰ نے سنجیدگی سے گھورتے ہوئے کہا ۔۔۔

" سائیں میرے چھوٹے ادا ایسے نہیں ہے محبت تو کبھی بھی ہو جاتی ہے پوچھ کر تھوڑی کرتے ہیں محبت ہو گئی تو بس ہوگئی اب کیا میرے معصوم ادا پر الزام لگائے گے ۔۔۔!! عابیر کو مرتضیٰ کی بات بری لگی غصے میں سنا کر چلی گئی مرتضیٰ اسکی پشت دیکھتا رہ گیا اسے بولنے کا موقع دیے بغیر یہ گئی وہ ۔۔۔

_____

" نور کیسی ہو ۔۔؟" احمد نور کو گھر میں دیکھ کر ہی خوش ہو گیا تھا ۔۔۔

" ہم ٹھیک آپ سنائے ۔۔" نور نے نرم مسکراہٹ سے جواب دیا ۔۔

" میں تو بہت کچھ سنا سکتا ہوں سن پاؤ گی ۔۔؟" احمد کا لہجہ شریر تھا ۔۔

" آپ کو نہیں لگتا آپ بہت چھیچوڑے ہوگئے ہیں ۔۔!! نور نے گھورا ۔۔

" نہیں میں تو آج کل بہت زیادہ ہینڈسم ہو گیا ہوں ۔۔پتا ہے بھابی میرے لئے رشتہ تلاش کر رہی ہے ۔۔!! احمد نے بہت غور سے نور کے تاثرات دیکھ رہا تھا ۔۔۔ احمد کی بات پر نور کا نہ جانے کیوں دل دھڑکا تھا اچانک تیزی سے ۔۔

" اچھا ۔۔!! وہ بے دلی سے بول کر آگے بڑھی تھی کہ احمد پھر سامنے آیا ۔۔۔

"کیا یار ہم دوست بنے تھے یاد نہیں تو یاد کرواؤ ۔۔۔ خیر مجھے ایک بات کہنی تھی تم سے ۔۔۔!! احمد سیریس ہوا ۔۔

"کیا کہنا ہے ۔۔؟"

" یار جیسے بھائی بھابی والے معاملے میں مدد کی اب بھی کردو ویسے ۔۔ مجھے ایک لڑکی پسند ہے بس اسکے باپ کو امپریس کرنا ہے سو کوئی آئیڈیا دے سکتی ہو ۔۔!! وہ بہت سنجیدہ سا بول رہا تھا ۔۔

" ہم ہم کیوں مدد کریں آپ کی زندگی ہے جو کرے ۔۔ ویسے بھی آپ کی چھیچوری حرکتوں کی وجہ سے اس لڑکی کا باپ کبھی نہیں مانے گا دیکھنا ۔۔!! نور کو غصہ آیا اسکا یو بولنا اسے پسند نہیں آیا کیوں کہ یہاں تو خود دل آیا تھا اسکا ۔۔

" یار لڑکی تو راضی ہے بس باپ اسکا مسئلہ ہے ۔۔!!

" ہم کیوں کرے آپ کی مدد جاکے خود کرے اپنی ۔۔۔!!

"تمہیں ملواؤ پھر مدد کرو گی ۔۔؟" وہ اسکی آنکھوں میں نمی دیکھ سکتا تھا ۔۔۔

" نہیں ملنا ہمیں جانے دے اب ۔۔۔!! وہ غصے سے جانے لگی پر اسکی کلائی اسکی مظبوط گرفت میں تھی ۔۔۔

" یہاں رہتی ہے وہ آنکھوں میں دیکھوں اسکا عکس پیاری ہے نہ ۔۔۔۔؟" احمد نے اسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھا آنکھوں کی طرف اشارہ دیا جس کا عکس اسکی آنکھوں میں دکھائی دے رہا تھا ۔۔ نور کی تو سہی معنوں میں دھڑکنوں میں شور سا مچ گیا شرم سے نگاہیں ہی چرا لی ۔۔۔ احمد دھیرے سے جک کر اسکے کان میں سرگوشی کی ۔۔۔

" ہاں تو مناؤ گی میرے سسر کو ۔۔ انکی پری مجھے پسند آگئی ہے ۔۔۔!!

______

" سائیں آپ کے دل میں کبھی یہ خوائش نہیں جاگی ایک پڑھی لکھی عورت ملنی چاہئے تھی آپ کو میری جیسی نہیں ۔۔؟" عابیر کو اپنے ان پڑھ اور  مرتضیٰ کے پڑھے لکھے پر افسوس سا ہوا وہ ایک حسین مرد پولیس والا اور وہ گاؤں میں رہنے والی ان پڑھ اسکا نصیب بنی ۔۔

" مجھے نہیں پتا میری ایسی کوئی خوائش تھی کہ نہیں ہاں اچھی پڑھی لکھی اخلاق والی ہو جو گھر بنانا جانتی ہوں جیسے پتا ہو گھر کو جنت کیسے بنانا ہے جسے میرے ساتھ میرے ماں باپ کا خیال رکھنا آتا ہو تم میں یہ سب تھا تم بہت صاف دل کی پیاری سی لڑکی ہو جسے صبر کرنا بھی آتا ہے بس ایک بات بری ہے تمہاری ۔۔!! مرتضیٰ محبت سے کہتا آخر میں منہ بنایا ۔۔

" وہ کیا ۔۔؟ عابیر نے حیرت سے پوچھا ۔۔

" زبان تمہاری ۔۔!! مرتضیٰ نے گھورا ۔۔

" سائیں اب تو گالیاں نہیں دیتی میں ۔۔؟" عابیر کی  معصومیت افف ۔۔

"پہلے کم دی تھی ۔۔؟" مرتضیٰ نے یاد دلایا ۔۔

" وہ سب معاف نہیں کیا آپ نے ۔۔؟" عابیر کو دکھ ہوا ۔۔

" کردیا تھا کیوں کے میں بھی تو برا بنا تھا تمہارے ساتھ تم نے کیا معاف ۔۔؟" یکدم محبت بھرا لہجہ ۔۔۔

" ہاں تھوڑا سا ۔۔" شرارت ہوئی ۔۔

" تھوڑا سا کیوں ۔۔؟" حیران ہوا ۔۔

" کیوں کے آپ ابھی بھی غصہ کرتے ہیں مجھ پر ۔۔!! یاد دلایا ۔۔

" وہ تمہاری حرکتوں کی وجہ سے یار اب تم ہیروئن اور میں ہیرو تو ہے نہیں کسی ناول کے اینڈ میں اچھے بن جائے جس کے آگے جاکے لڑائی جگڑے ہونے نہیں ۔۔۔ یہ تو تم بھی اچھے سے جانتی ہو کب کیسے غصہ دلا دیتی ہو ۔۔۔!! مرتضیٰ نے بھی حساب برابر کیا ۔۔

" سائیں تم بھی کم نہیں ہو ۔۔۔ غصے میں خطرناک لگتے ہو ۔۔۔!! عابیر کہا پیچھے رہتی ۔۔

"اچھا ۔۔!! بھنویں اچکائی ۔۔

" جی ہاں ۔۔!! مسکراہٹ دبائی ۔۔

" جانے من ۔۔ سائیں ۔۔!! اسکا پیار سے چھیڑنا ۔۔اسکا شرمانا ۔۔

" سائیں اگر کبھی زندگی میں آگے جاکے آپ کو لگے آپ دوسری شادی کر لینی چاہئے پہلی پر شاید تھوڑا پچھتاوا ہو تو آپ کر لینا میں کچھ نہیں کہو گی ۔۔!! عابیر کے دل میں نہ جانے کیوں یہ خیال آیا جس نے اداس کر دیا تھا ۔۔۔

" ایک لگاؤں گا نہ ساری عقل ٹھکانے آجائے گی تمہاری ۔۔۔ اور اب سو جاؤ خبردار ایک آواز بھی نکلی تو ۔۔۔!! مرتضیٰ کو غصہ ہی آگیا تھا اسکی باتوں پر ۔۔۔ وہ بھی اسکے غصے سے ڈر کر چپ ہوئی ۔۔

_________

" عابیر تم نے مجھے معاف کیا ۔۔؟" شازیہ بیگم شرمندہ تھی عابیر کے سامنے ۔۔۔

" کیسی باتیں کر رہی ہے ساس اماں میں کوئی ناراض نہیں آپ مجھے گناہگار نہ کریں یوں ہاتھ جوڑ کر ۔۔!! عابیر نے دل سے معاف کیا تھا انھیں آب ان کے ساتھ بہت خوش تھی ۔۔سنگ پیا ساتھ جو تھا ۔۔

" اوئے لڑکی اپنی بوڑھی نانی سے بھی معافی مانگ یاد نہیں کیا بولا تھا مجھے ۔۔۔!! دادی نے گھورا اسکی بدتمیزی یاد دلائی ۔۔۔

" نانی اماں تم تو میری جان ہوں ۔۔!! پیار سے نانی اماں کے گلے لگی تھی ۔۔۔

" مجھے بتائے دادی کیا کیا اب اس نے میں کرتا ہوں سیدھا اسے ۔۔۔!! مرتضیٰ مصنوئی گھوری سے کہا ۔۔۔

" بس کردے میری معصوم سی پیاری سی عابی بھابی کے پیچھے پڑھ گئے ہیں یار آپ لوگ ۔۔۔!! احمد نے بھابی کا ساتھ دیا جس نے اسکا رشتہ کروا کر ہی دم لیا ۔۔۔

" ہاں بچے تمہارا کام جو کیا ہے ۔۔۔!! حمید صاحب نے بھی ساتھ دیا مذاق مستی میں ۔۔۔

_______

" سائیں میں کیسی لگ رہی ہوں ۔۔؟" مرتضیٰ کے آج پھر ہوش اڑانے کو تیار کھڑی لال رنگ کے کپڑوں میں بے حد حسین لگ رہی تھی کھلتا  گلاب بھرا ہوا جسم پیاری سی بہت خوبصورت روپ میں تھی آج ۔۔۔

" ماشاءاللّٰہ  بہت پیاری مرتضیٰ کی جان ۔۔!! گہری دلچسپ نظروں سے دیکھتا دل سے بولا ۔۔ وہ خود سفید کاٹن  کے شلوار قمیض میں بہت پیارا اور وجہہ لگ رہا تھا ۔۔۔

" ماشاءالله سائیں جی آپ بھی سوہنے لگ رہے ہیں ۔۔!! عابیر نے شوہر کی نظر اتاری ۔۔۔

" سائیں آج ہم ناچیں گے ۔۔؟" عابیر کا دل کیا احمد کی سگائی میں خوب ناچے مزے کرے ۔۔۔

" خبردار ایسی کوئی حرکت نہیں کروگی ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ۔۔۔

سائیں آپ سے برا ویسے بھی کوئی نہیں لیکن کیوں مجھے بہت شوق تھا نہ ادا کی شادی پر ناچنے کا تو اب منع کیوں کر رہے ہے ۔۔۔!! عابیر ضد پر آئی لہجہ ناراضگی والا تھا ۔۔

" تم پاگل ہوں ایسی حالت میں تم سب کے سامنے ناچو گی ۔۔ احمد کی شادی میں ناچ لینا ابھی نہیں ٹھیک ہے ۔۔!! پیار سے سمجھانے لگا جانتا تھا غصہ کرنے کا وقت نہیں ابھی ۔۔

" نہیں میں ناراض ہوں ۔۔۔"

" عابیر غصہ مت دلاؤ یار آج اچھا دن ہے سو چلو مسکراؤ میری پیاری بیگم ۔۔۔!! مرتضیٰ نے اسے قریب کرتے ہوئے محبت سے منایا تھا ۔۔۔

______

" احمد اور نور آج محفل میں چھائے ہوئے تھے بہت پیارے لگ رہے تھے دونوں کی آج منگنی کے ساتھ ان کا نکاح بھی تھا دو سال بعد رخصتی رکھی تھی ان کی ابھی جو کہ پڑھائی چل رہی تھی دونوں کی ۔۔۔ عابیر کا ناچنے کو دل مچل رہا تھا پر مرتضیٰ نے تو جیسے نظر ہی اس پر رکھی ہوئی تھی آج ۔۔۔۔۔ عابیر کا خوبصورت سفر شروع ہوا تھا اب وہ بہت خوش تھی اب اپنوں کے ساتھ اپنے سائیں کے ساتھ ۔۔ مرتضیٰ اور عابیر عادت بن گئے تھے ایک دوسرے کی عادت ہو تو ایک دوسرے کے بغیر ایک پل بھی گزارنا مشکل ہوتا ہے وہی ان کے ساتھ ہوتا تھا ۔۔۔ نفرتوں لڑائی جھگڑوں کے بعد ہی تو کچھ خوشیاں ملتی ہے جنہیں اپنی بےقدری سے ہم کبھی کھو دیتے ہیں ۔۔ تو کبھی پا لیتے ہیں یہی تو زندگی ہیں ۔۔ محبت دوگے محبت ملے گی عزت کے بدلے عزت ہی تو چاہیے ہوتی ہیں ۔۔۔

" بہت خوبصورت لگ رہی ہو ۔۔ دل کر رہا ہے آج ہی رخصتی کروا لو ۔۔ کیا کہتی ہو ۔۔؟" احمد نور کے ساتھ بیٹھا سرگوشی میں بولا تھا ۔۔ نور پر بہت پیارا روپ آیا تھا آج اور یہی چیز احمد کا ایمان ڈگمگا رہا تھا ۔۔۔

" ہم ہے ہی خوبصورت ۔۔ میں کہتی ہو کوئی ضرورت نہیں ابھی ہمیں وقت چاہیے ہماری پڑھائی ختم ہونے تک ۔۔۔!! نور نے صاف ہری جھنڈی دکھائی ۔۔۔ وہ گھورتا رہ گیا ۔۔۔

" ایسے کہو گی تو اٹھا کر لے جاؤ گا ۔۔ ویسے ہی میرے بچے اوپر بیٹھے بور ہو رہے ہے ۔۔ انھیں دنیا میں آنا ہے یار تم ظالم ماں نہ بنو ۔۔۔!! احمد تو جیسے شرم بیچ کر آیا ہو آج ۔۔۔ ایمان جو خراب کر رہی تھی اسکی خوبصورتی اور انکے بیچ حلال رشتے نے بولنے کا موقع جو دیا تھا ۔۔۔

" آپ چاہتے ہیں ہم بابا سے بول کر آپ کو اندر ڈالوا دے اگر پھر کوئی بےشرمی والی بات کی تو ابھی اٹھ کر چلی جاؤ گی ۔۔۔ ویسے ہی آپ کی ہم پر شروع سے گندی نظر تھی نہ آج کرلیا اپنا شوق پورا ۔۔۔!! نور اسکی بے شرمی باتوں سے غصے میں بول گئی احمد ایک نظر اسے دیکھتا خاموشی سے آگے دیکھ رہا تھا اسکے جواب نہ دینے پر نور نے دیکھا وہ سنجیدہ نظر آیا ہینڈسم تو وہ شروع سے تھا اسکا بولنے اور پیار کرنے والا انداز ہی تو اسے پسند تھا اب اسکی خاموشی نے ڈرا دیا ۔۔۔

" احمد ۔۔!! کوئی جواب نہیں جانے لگا پر ہاتھ نور کے نرم ہاتھوں میں تھا مڑ کر اسکی نم نگاہوں میں دیکھا ۔۔۔

" سوری ہم زیادہ بول گے ۔۔۔ ہم ویسا کچھ ۔۔۔۔۔ شش ۔۔۔!! وہ کچھ کہتی رونے سے بولا نہ گیا کہ احمد نے ایک نظر آس پاس ڈالی سب کھانا کھانے میں مصروف تھے اسکا ہاتھ تھام کر دوسری سائیڈ چلا گیا وہ بھی خاموشی سے ساتھ تھی ۔۔۔

" آپ ناراض ہوگئے ۔۔۔؟"

" ہاں تم نے میری پاک محبت نظروں کو گندی کہا ۔۔؟" احمد سنجیدہ تھا ۔۔۔

" نہیں وہ ۔۔ وہ بس منہ سے نکل گیا سوری اب ایسا کچھ نہیں کہو گی پلیز ۔۔۔!! نور اسکے ہاتھ تھام کر محبت سے بولی تھی احمد کو اسکی آنکھوں میں اپنے لئے صاف محبت دکھائی دے رہی تھی ۔۔۔

" ایسے نہیں ۔۔"

" پھر کیسے ۔۔؟" حیران ہوئی اسکے نہ ماننے پر ۔۔۔

" تمہاری آنکھوں میں جو میرے لئے محبت ہے اسے لفظوں میں بیان کرو ۔۔۔ اپنے ہونٹوں سے ادا کرو ۔۔؟" اسے کمر سے پکڑ کر خود کے قریب کرتا اسکا دل دھڑکا ۔۔۔ وہ اسکی جان نکال گیا ۔۔۔

" ا ۔احمد کوئی دیکھ لے گا پلیز چھوڑے ۔۔۔!! شرم و حیا سے گھبراتی ہوئی آواز میں بولی تھی ۔۔۔

" چھوڑ دو سچ میں ۔۔۔؟" آئے ابرو اچکائے اسے دیکھا ۔۔ وہ نم حیا دار نگاہوں سے نفی کی ۔۔ احمد مسکراہٹ دبا گیا ۔۔۔

" پر مناؤ ۔۔۔؟" 

" سوری ۔۔"

" ھم نہیں ایسے نہیں کچھ الگ ہو نور ۔۔؟" آنکھوں میں دیکھتا لہجہ سنجیدہ رکھا نگاہوں میں محبت تھی ۔۔ وہ ایک پل کو آنکھیں بند کرتی گہرا سانس لیتی اسکے حصار میں دھڑکتے دل کے ساتھ اسکے گال پر لب رکھتی اسکے گلے لگ گئی ۔۔۔ احمد کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ آگئی تھی ۔۔۔

" یہ ہوئی نہ بات تم تو بہت تیز نکلی ۔۔۔!! وہ اب چھیڑ رہا تھا ۔۔۔ اسکے گرد حصار مظبوط کرتا ۔۔۔ نور کے لب مسکرائے ۔۔۔

" نور احمد کا انداز ہے ۔۔۔ آئی لو یو سو مچ ۔۔۔!! اظہار کیا خوبصورت لگا ۔۔۔

_____

  " کتنا کھاؤ گی عابیر ۔۔؟" مرتضیٰ اسے بہت زیادہ کھاتے ہوئے دیکھتا حیران ہوا ساتھ پریشان بھی کیونکہ اکثر زیادہ کھانے کے بعد وہ الٹی کر دیتی تھی ۔۔۔

" سائیں پھر نظر لگائے گے ۔۔۔ اکیلی تھوڑی ہو یہ بھی کھاتا ہے میرے ساتھ دو لوگ ہے ہم ۔۔۔!! اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی مرتضیٰ کو ہنسا گئی ۔۔۔

" عابیر کیا کرو تمہارا ۔۔۔!! وہ ہنستے ہوئے پیار سے اسکے گال کھینچا ۔۔

" سائیں ایسے کرتے ہے تو یہ لٹک جائے گا ماس میرا ۔۔۔!! 

" اچھا بس پھر کمرے میں چل کر الٹی کر دینی ہے ۔۔۔!! اسکا ہاتھ کھانے سے چھڑایا ۔۔۔

" سائیں آپ کو پتا ہے نہ مجھے شادیوں کے کھانے کتنے پسند ہے ۔۔۔۔ اگر کبھی آپ کو باہر اکیلے دعوت ملے نہ میرے لئے بھی لے آئیگا ۔۔۔!! اسے واقعی شادیوں کے کھانے بہت پسند تھے پتا نہیں کیوں یہ اسکی عادت مرتضیٰ کو بہت پسند آتی تھی کیوٹ سی ۔۔۔

" میں تو کہتا ہوں میری شادی کرواؤ کھانا ملے گا بہت اچھا اچھا روکو گا بھی نہیں ۔۔۔!! وہ شرارت سے اسکے غصے سے سرخ چہرے پر نظر ڈالی ۔۔۔

" سائیں اگر میری زبان سے پھر کچھ نکلا تو آپ غصہ کر جائے گا ۔۔۔ ایسے فالتو میں استعمال نہیں ہوتی میری زبان ۔ دیکھ رہی ہو آپ کو بھی ۔۔۔!! اسے شدید غصہ آیا وہ اب برداشت نہیں کر سکتی تھی مرتضیٰ کو کسی کے ساتھ بھی ہانیہ کا واپس چلے جانا ہی اسکے خوشی تھی ۔۔۔ 

" اچھا بس ورنہ پھر مجھے بھی غصہ آجائے گا چلو احمد کے پاس چلتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ سائیں ہم بھی فوٹو کھنچوانے گے ۔۔۔۔۔۔ ہاں ضرور جان ۔۔۔!! یہ لوگ نہیں سدھر سکتے تھے لڑنا محبت کرنا یہی کام آتا تھا دونوں کو ۔۔۔ پر کچھ بھی ہو ایک دوسرے کو کسی کے ساتھ دیکھ نہیں سکتے تھے یہی تو محبت تھی ان کے بیچ ۔۔۔ نفرت کرتے کرتے محبت ہو گئی ہے ایک دوسرے سے ۔۔۔

____

" بھائی ۔۔ بھابی میں کیا اچھا لگتا ہے آپ کو ؟" احمد کے سوال پر اسکے چہرے پر  نرم مسکراہٹ تھی ۔۔

" اسکا ہر وقت سر پر دوپٹہ ہونا اسکی بڑی كاجل سی آنکھیں اور سب سے خوبصورت اسکی ہنسی ۔۔ وہ پورے  دل سے ہنستی ہے ۔۔!! وہ دل سے مسکراتے ہوئے بولا تھا ۔۔اسکے پہلو میں بیٹھی وہ شرما گئی تھی ۔۔

" واہ اور برا کیا لگتا ہے ۔۔؟" احمد شرارت سے بولا تھا سب اسکی باتیں سن کر ہنس رہے تھے سب ساتھ لاؤنج میں تھے شازیہ بیگم کی گود میں تین سال کا چھوٹا ارتضیٰ کھیل رہا تھا ۔۔

" بس اسکی یہ دس گز لمبی زبان ۔۔!! اس بات پر سب کے خوشیوں سے  بھرے قہقے گھونجے ۔۔ اور سچ ہی تو کہا تھا اسکی زبان نے ہی تو آج تک کام خراب کیا تھا دونوں کے بیچ ۔۔ 

" بھابی آپ کی باری ۔۔؟"

" میرے سائیں بہت اچھے ہیں کیوں کہ وہ سوہنا ہے یہ لمبا یہ موٹا ۔۔۔!! وہ اسکی مظبوط بازوں اسکی پرسنلٹی کو موٹاپا کہہ گئی ۔۔ اسکی بات پر سب کے چھت پھاڑ قہقہے نکلے اور مرتضیٰ نے گھورا ۔۔

" اور بری بات ۔۔؟"

" سائیں جی کا غصہ بڑا خطرناک ہے ۔۔!! وہ بہت معصومیت سے بولی تھی ۔۔ سب ہی انکی باتوں سے محفوظ ہو رہے تھے ۔۔ یہ خوشیاں تھی یہ محبت تھی جو آج سب پر سکون تھے ۔۔

" سائیں جی سنے ۔۔!!

" کیا ہے سائیں کی مصیبت ۔۔!!

" نانی اماں ۔ یہ پھر بولا مجھے مصیبت ۔۔!! وہ منہ بناتے ہوئے شکایت لگائی مرتضیٰ کی  ۔۔ سب ٹھیک ہونے کے بعد دیرے ہی سہی اب حالات بہت اچھے تھے اور مرتضیٰ کا اسے تنگ کرنا عابیر کا ابھی تک وہ پاگل پن کبھی مرتضیٰ کو ہنساتا تو کبھی غصہ دلاتا تھا ۔۔

" افف کہاں پھنس گیا میں تم ملو بعد میں بتاتا ہوں ۔۔!! وہ اسے گھورتا بڑبڑایا ۔۔ عابیر کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ جس سے مرتضیٰ کو بھی دل سے مسکرانا پڑا تھا ۔۔۔ 

______

" ہاں تو سائیں جان باہر بہت زیادہ زبان نہیں چل رہی تھی ۔۔۔؟" مرتضیٰ اسے کمر سے تھام کر خود کے قریب کرتے ہوئے گھورتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔

" سائیں میں آپ تمہاری تعریف کی اور ڈانٹ بھی رہے ہو ۔۔!! وہ خفا ہوئی ہاتھ اس کے قمیص کے بٹنوں سے کھیل رہے تھے ۔۔۔

" یہ تعریف تھی ۔۔؟" بھنویں اچکائی ایسا کرتے ہوئے وہ بہت پیارا لگتا تھا عابیر کو ۔۔۔

" سائیں ایسے آنکھیں بڑی نہ کیا کرو بڑے سوہنے لگتے ہو ۔۔!! شرما کر کہتی آنکھیں جھکا گئی ۔۔۔

" اور تم اس طرح مت شرمایا کرو میری جان دل چاہتا ہے تمہیں ایسے ہی دیکھتا رہوں ۔۔۔ پتا نہیں کب کیسے عابیر مرتضیٰ سے محبت ہو گئی ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ نے محبت سے اسکے ماتھے پر لب رکھے ۔۔ عابیر آنکھیں موندے مسکرادی ۔۔۔

" سائیں ۔۔!! 

"ھم ۔۔!!

" میں بہت تنگ کرتی ہوں نہ ۔۔!! بلا کی معصومیت تھی ۔۔

" بہت زیادہ ۔۔ پر یہ کام صرف عابیر بخش ہی تو کر سکتی ہے ۔۔۔!! مرتضیٰ نے اسکے گرد حصار مظبوط کیا ۔۔

" سائیں اب تو گالیاں نہیں دیتی نہ پھر بھی آپ غصہ کر رہے ہے ۔۔!! 

" کل کون دے رہا تھا نیند میں ۔۔؟" مرتضیٰ نے گھورا ۔۔

" سائیں آپ سوتے نہیں مجھ پر نظر رکھتے ہیں ۔۔۔ وہ تو آپ کل مجھ سے لڑے تھے اس لئے دماغ پر سوار تھے تو سامنے سے نہ نکلی ہوگی اس لئے نیند میں دے دی کون سا کوئی بڑی گالی دی ہوگی یہی بیغرت کمینہ بولا ہوگا ۔۔۔۔!! اسکی تیزی سے چلتی زبان پر پتا ہی نہ چلا خود کی غلطی کا اعتراف کر لیا ۔۔۔۔ جب احساس ہوا تو اسکے سینے سے لگ گئی ۔۔۔

" معاف کردے دوبارہ نہیں کروگی ۔۔۔!! دل سے معافی مانگنے لگی ۔۔

" تم کبھی نہیں سدھرو گی عابیر ۔۔!! وہ بس گھورتا اسے گہرا سانس بھرا ۔۔۔

" سدھر گئی تو آپ کو کیسے پسند آؤ گی ۔۔!! وہ مسکرائی ۔۔۔

_______

" سائیں عابدہ کہ رہی تھی اسکی بیٹی جب بڑی ہوگی تو وہ اسے یہاں بھیجنا چاہتی ہیں پڑھنے کیلئے وہا گاؤں میں سکول نہیں ہے اس لئے اسکا بیٹا بیٹی ہی ہے وہ لوگ شہر نہیں آسکتے اپنا سب کچھ چھوڑ کر ۔۔ تو کیا میں انھیں اپنے پاس بلا سکتی ہوں اگر آپ ساس اماں اجازت دے تو ۔۔۔!! عابیر کیلئے یہ کہنا تھوڑا مشکل تھا پر اسکی بہن نے جب کہا وہ نہیں چاہتی ایک عابیر عابدہ جیسی لڑکی ہو گاؤں میں اسے بڑا شوق تھا اسکے بچے پڑھے لکھ پہلے بچے اپنے گاؤں کے نام روش کرے پر خود شہر نہیں جا سکتے تھے سب کچھ یہی تھا بس وہ چاہتی تھی بیٹے بیٹی کا کالج تک ان کے ساتھ رہے پھر وہ انکا کوئی انتظام کر لے گے شہر میں تب تک وہ چاہتی تھی عابیر ایک بہت اچھی خالہ ثابت ہوئی ہے ۔۔۔

" تمہارا بھی گھر ہے عابیر تم فیصلے لے سکتی ہیں ہم ساتھ ہے رہی بات بچوں کے پڑھائی کی تو یہ بہت اچھی بات ہے ہم کسی کے کام آئے گے انکے بچے ہماری وجہ سے پڑھ لکھ کر کچھ بننے گے ۔۔۔ مجھے اور ماما کو کوئی اعتراز نہیں ہوگا ۔۔!! مرتضیٰ نے اسکا مان رکھا ۔۔۔ وہ خوش ہوئی اتنا پیار کرنے والا ہمسفر ملا اپنی حرکتوں سے اسنے بھی کم تنگ نہیں کیا تھا اسے پر آج دونوں ایک دوسرے کے نصیب بنے ہوئے خوش تھے ۔۔ ضروری تو نہیں ان پڑھ گھر کو جنت نہیں بنا سکتی اسے محبت عزت دو تو بدلے میں جنت ہی ملے گی اسکی طرف سے ۔۔۔

"تم سے  محبت ہو گئی ہیں " مرتضیٰ اپنے ساتھ لگاتے ہوئے بولا ۔۔۔

" عشق ہو گیا ہے آپ سے ۔۔!! وہ سینے سے لگی ۔۔۔ دور زندگی کی خوشیوں نے مسکرایا تھا انکی محبت پر ۔۔۔

عابیر مرتضیٰ کی یہ پیاری سی کہانی اختتام کو پہنچی جس میں آپ کو دیکھنے کو ملی ایک بہت پیاری چلبلی سی عابیر کریم بخش ۔۔ اور ایک بہت ہی خوبصورت کھڑوس سا پولیس والا مرتضیٰ حمید ۔۔ اور انکے بیچ ہوئے لڑائی جھگڑوں سے لیکر محبت ہو گئی ہے تک کا سفر ۔ اور انکی محبت کی نشانی ارتضیٰ حسن ۔۔ ۔ختم شدہ ۔۔۔

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


Mohabbat Ho Gai Hai Romantic Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Mohabbat Ho Gai Hai  written by Mahra Shah . Mohabbat Ho Gai Hai   by Mahra Shah  is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

 Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link


If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  


Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically b


No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages