Tera Khumar By Haya Khan New Complete Romantic Novel - Madiha Shah Writes

This is official Web of Madiha Shah Writes.plzz read my novels stories and send your positive feedback....

Breaking

Home Top Ad

Post Top Ad

Monday 29 July 2024

Tera Khumar By Haya Khan New Complete Romantic Novel

 Tera Khumar By Haya Khan New  Complete Romantic Novel 

Madiha Shah Writes: Urdu Novel Stories

Novel Genre:  Cousin Based Enjoy Reading...

Tera Khumar By Haya Khan Complete Romantic Novel

Novel Name: Tera Khumar

Writer Name: Haya Khan

Category: Complete Novel

مکمل ناول کے لیے نیچے جائیں اور ناول ڈوان لوڈ کرے ۔

رات کا آخری پہر تھا جہاں سب نیند کی وادیوں میں گم تھے وہی وہ لڑکی اپنے کمرے میں جائے نماز پہ بیٹھی  اللہ کی عبادت میں مشغول تھی ، وہ لاڈلی عبادت جس میں اللّٰہ پاک خود آسمان پر آتے ہیں اور فرما تے ہیں کوئی ہے مانگنے والا میں اسے عطا کرونگا ۔ اور اس لڑکی کا یہ معمول تھا رات کے اس پہر جاگنا اور اپنے پروردگار کی عبادت کرنا ۔ 

وہ جائے نماز پہ بیٹھی گڑگڑا کر اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی ۔ 

" یا اللہ تو مجھے معاف فرما ، میں اس گناہ میں پڑھ گئی میں تیرے بندے کی محبت میں پڑھ گئی میں جانتی ہوں وہ نامحرم ہیں میرے لیے میں بے بس ہوں لیکن تو بے بس نہیں ۔  میرے رب ، یا تو اسے میرا کردے یا پھر میرے دل سے اسکی محبت نکال دے ۔ میرے پروردگار میں تیری عبادت کرتی ہوں اور تجھی سے مدد مانگتی ہوں (آمین) ۔

اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا  آنسوؤں سے متواتر چہرا مگر پُرنور اور حسین ۔

خوبصورت سنہری بڑی بڑی آنکھیں چھوٹی سی کھڑی ناک باریک خوبصورت ہونٹ اور اس پر قہر تھوڑھی پر درمیان میں کالا سیاہ وہ تل جو اسکی چمکتی رنگت پر بے حد نمایاں ہوتا تھا لیکن اسکی  نگاہیں اسکے چہرے پر سب سے حسین تھی سب سے دلکش ۔

وہ اپنے خاندان کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی لیکن اسنے بارہ سال کی عمر سے خود کو سات پردوں میں سمبھال کے رکھا تھا نا کبھی کسی مرد کی طرف نظریں اُٹھاتی اور نہ ہی خاندان کے کسی مرد نے اُسے دیکھا بس اسنے "کبیر خانزادہ" کو اپنی دعاؤں میں مانگا تھا وہ اسکا بچپن کا منگ تھا ۔ 12 سال کی عمر میں اسنے "کبیر" کو ترکی پڑھائی کے سلسلے میں جاتا دیکھا تھا ۔ بس وہ آخری بار تھا اسکے بعد سے اسنے صرف دعائیں کی تھی اور اسکی محبت کا خدا کے سوا کوئی گواہ نہ تھا ۔ 

وہ جائے نماز سے اٹھی اور قرآن پاک کی تلاوت کری فجر کی اذان ہوئی نماز پڑھی، پھر اپنے دیگر کاموں میں مشغول ہوگئی۔ 

❤️❤️❤️

سورج کی روشنی سے آسمان سجنے لگا اور خان حویلی میں سب عورتیں کچن کی طرف روانہ ہوئی  ۔

 عبد الغفار خانزادہ جن کے تین  بیٹے اور ایک بیٹی تھی ، بڑے بیٹے برہان خانزادہ پھر ایک بیٹی اسمارہ خانزادہ دوسرے بیٹے رضوان خانزادہ اور تیسرے بیٹے رحمان خانزادہ 

 برہان خانزادہ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی  بڑا بیٹا کبیر خانزادہ جس کی عمر چھبیس سال تھی اور چھوٹا بیٹا فردان خانزادہ جس کی عمر پچیس سال  اور انکی چھوٹی بیٹی اسراء خانزادہ جو سترہ سال کی تھی  ۔ 

 اور رضوان خانزادہ کی بس ایک بیٹی نرمین خانزادہ جس کی عمر اکیس سال تھی  اسکے بعد اللّٰہ نے انہیں کوئی اولاد نا دی اور نہ ماں باپ نے شکوہ کیا  بلکہ وہ اللّٰہ کے شکر گزار تھے کہ اللّٰہ نے انہیں اتنی نیک بیٹی سے نوازا۔

رحمان خانزادہ کو اللّٰہ نے ایک بیٹی راحمہ خانزادہ جس کی عمر انیس سال تھی اور دو جڑواں بیٹے جو گھر میں سب سے چھوٹے اور لاڈلے تھے  فاز خانزادہ اور شاز خانزادہ جن کی عمر سولہ سال تھی ۔ 

اسمارہ خانزادہ جن کا صرف ایک بیٹا تھا ضرغام خانزادہ جس کی عمر پچیس سال تھی جو فردان خانزادہ سے بس دو مہینے چھوٹا تھا ۔ 

❤️❤️❤️

سب مرد حضرات ناشتہ کر کے گاؤں کے کسی کام سے نکل گئی تھے اور فردان خانزادہ بھی ڈیرے پر تھا  لیکن دا جان ( عبد الغفار خانزادہ) سربراہی کرسی پر ابھی بھی بیٹھے تھے اور سب جانتے تھے کہ وہ اپنی لاڈلی کے ساتھ ہی ناشتہ کرینگے ۔

"دا جان ہم نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کے ہمارا انتظار مت کیا کریں آپ ناشتہ کرلیا کریں پھر کیوں ہمیں روز شرمندہ کرتے ہیں آپ؟ "

نرمین یہ کہتی دا جان کے برابر میں آ بیٹھی دھیمہ لہجہ خوبصورت آواز بلکل اپنے نام کی طرح نرم اور نازک  ۔

دا جان نے نرمین کی خوبصورت دھیمی آواز سنی اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور ہلکے نیلے رنگ کے قمیض شلوار میں سر پر طریقہ سے دوپٹہ اوڑھے اسکا پُرنور چہرا دیکھ کر بے ساختہ ماشاءاللہ کہا ۔

"میری جان ہمارے حلق سے نوالا ہی نہیں اُترتا جب تک آپ ہمارے پاس آکر نہ بیٹھ جائیں" ۔

دا جان نے کہتے منہ میں نوالا ڈالا ۔

فاز اور شاز نے آتے ہی ادھم مچا ڈالا،

" مورے جلدی سے ناشتہ لے ائے ہمارے پیٹ کے سارے جانور جاگ چکے ہیں"۔ 

پیچھے سے راحمہ نے آکر دونوں کا ایک ایک  کان مروڑا ،

"تم دونوں کو آخر کب بھوک نہیں لگتی؟ 

راحمہ کے پیچھے سے شاہین خانزادہ ( رحمان خانزادہ کی بیوی) نے راحمہ کا کان مروڑا ،

"چھوڑو میرے بیٹوں کو ، کتنی بار کہا ہے انکے کھانے پر مت ٹوکا کرو"

شاہین بیگم نے اپنی بیٹی راحمہ کو جھاڑا جو زرد رنگ کے قمیض شلوار میں سر پر سلیقہ سے دوپٹہ اوڑھے منہ بسور کر نرمین کے برابر میں بیٹھ گئی ۔

"مورے میرے اتنے حسین کان ہے آپ انکا سٹائیل چینج کر دینگی کسی دن موڑموڑ کر " 

راحمہ اپنے کان پکڑ کر سہلانے لگی۔

سامنے شاز اور فاز اپنے پیٹ پکڑ کر اس پر ہسی کرنے لگے ۔ 

راحمہ خانزادہ بھی خوبصورتی میں بے مثال تھی دو چھوٹی مگر خوبصورت کالی گہری آنکھیں جن میں سرمہ ڈال کر وہ انہیں حسین بنا لیا کرتی لمبی کھڑی ناک اور برے بھرے ہونٹ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسکے لیئے اللہ نے اسکے جیسا ہی کوئی خوبصورت مرد رکھا ہوگا یہ اسکے خود کے الفاظ تھے فطرتی وہ بےباک تھی سب سے تیز جو برا لگتا کہ دیتی لیکن کردار کی اتنی کھری کے اپنی خوبصورتی پر ناز کے باوجود کبھی کسی حرام تعلق میں نہ پڑی ۔ 

اسراء خانزادہ جو آج سنڈے کی وجہ سے آرام فرما رہی تھی  سب کو سلام کر کے دا جان سے سر پر شفقت بھرا ھاتھ رکھوا کر  اب ناشتہ کے لئے راحمہ کے برابر آ بیٹھی تھی ۔

اسراء خانزادہ بھی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی آخر کبیر خانزادہ کی بہن تھی ہری خوبصورت آنکھیں جو دونوں بہن بھائی کو وراثت میں اپنی ماں سے ملی تھی کھڑی ناک اور اسے ناک پہ چوٹا سا کالا تل  باریک کٹاؤدار لب  وہ بے حد خوبصورت تھی اور راحمہ کی فطرت اپناتے کافی حد تک مغرور بھی تھی وہ چاہتی کہ اس کے حُسن کو سراہا جائے وہ کافی حد تک بے وقوف اور نادان تھی اس دنیا کی بھیڑ میں چھپے بھیڑیوں سے نا واقف  ۔

"مورے میرا پراٹھا لے آئے" ۔ 

شاہانہ خانزادہ (برہان خانزادہ کی بیوی)اور نازو خانزادہ (رضوان خانزادہ کی بیوی) بھی پراٹھے لے کر وہی آ بیٹھی ۔ 

دادی جان وفات پا گئی تھی پانچ سال پہلے ۔ 

دا جان نے اپنے خوشیوں سے بھرا گھر دیکھ کر دل ہی دل میں سب کی نظر اتاری ۔ 

نرمین ہمیشہ سے انکے دل کے قریب رہی تھی بلکے گھر کے سبھی افراد کے دل میں نرمین کا ایک الگ مقام تھا ۔  

جب نرمین سات سال کی تھی  تبھی سے دا جان نے اسکا رشتہ کبیر سے جوڑ دیا تھا وہ چاہتے تھے نرمین ہمیشہ انکی نظروں کے سامنے رہے اور پھر کبیر بھی انکا لاڈلا تھا لیکن کبیر باہر ملک گیا وہاں کے رنگ میں نہ رنگ جائے اور نرمین کا دل اسکے کسی عمل سے ٹوٹ نا جائے وہ اپنی لاڈلی پوتی کو ٹوٹتے ہوئے کبھی نہیں دیکھ سکتے تھے یہ ڈر آج کل انکے دل میں پنجے گاڑھ کر بیٹھا تھا جو کتنا سچ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا  ۔ 

❤️❤️❤️

ترکی (استنبول)

آج (MediPol university) میں اسکی آخری شام تھی جہاں ڈگری ختم ہونے کے بعد ایک بہت بڑے پیمانہ پر (farewell) organize کی گئی تھی ۔

جہاں سب میوزک کی دھن پرسوار تھے وہی 

وہ سب سے الگ ایک کونے میں ہاتھ میں جوس کا گلاس پکڑے کھڑا وہ حسین مرد جو سب کی آنکھوں کی چمک خود میں قید کیے کھڑا تھا ۔ 

وہ جانتا تھا وہاں کھڑی ہر لڑکی کی چاہ ہے وہ آخر کیوں نا ہوتا؟ 

ہری کائ سی گہری آنکھیں کھڑی ستواں ناک ہلکی بیٔرڈ میں چھپے عنابی لب اور ان سب پر  قہر ڈھاتا وہ گال میں چھپا گڑھا جو بہت کم اپنی جھلک دکھاتا تھا جب اسکا مالک چاھتا۔ 

آج کے تھیم کے مطابق وہ بلیک پینٹ کے ساتھ ڈارک بلیو کلر کی شرٹ پہنے سلیوز کہنی تک فولڈ کیٔے بلیک ہی شوز پہنے ھاتھ میں رولیکس کی برینڈڈ واچ پہنے ونڈو کے پاس کھڑا جوس پینے میں مصروف تھا کے اسے اپنے عقب سے اپنے نام کی آواز آئی ۔ 

"کبیر خانزادہ" لگتا ہے جس غرور سے آپ یہاں آۓ تھے ویسے ہی یھاں سے چلیے جائینگے آپکو نہیں لگتا کے آ پکو ایک خوبصورت لڑکی کے ساتھ اپنی اس حسین شام کا اختتام کرنا چاہیے ؟؟ 

وہ  جیسے ہی پلٹا ایک خوبصورت لیکن تنگ کپڑوں میں کھڑی لڑکی اس سے مخاطب تھی کبیر نے سپاٹ نظروں سے اسکا جائزہ لیا اورناگواری سے سر جھٹکا اور دوبارہ اپنے سابقہ کام میں مشغول ہوگیا ۔ 

اس لڑکی سے اپنی بے عزتی برداشت نا ہوئی تو اس نے بے ہوشی کا ناٹک کیا اور کبیر کے بازو سے ٹکراتی کے کبیر جو اسکی خرافات سے واقف تھا پھرتی سے اسکا ہاتھ پکڑا اور پیچے موڑ کر اسکی آنکھوں میں اپنی سرد ہری آنکھیں گاڑھی تو اس لڑکی کو اپنی چاروں طرف وحشتوں کا سماں محسوس ہوا ھاتھ میں اُٹھتا درد بتا رہا تھا کے اس حسین مرد کو لڑکی کی یہ حرکت پسند نہیں آئی تھی لیکن پھر بھی وہ نڈر بنی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی بولی تھی ۔

""ائی لائیک اٹ" لگتا ہے خون کافی گرم ہے، تم چاہوں تو آج کی رات ہم دونوں مل کر آگ لگا سکتے ہیں" 

ہری آنکھوں میں یہ سن کر لالی ابھری اور ہونٹوں پر سرد مسکراہٹ  کے ایک جھٹکے میں کبیر نے اسے نیچے پھینکا تھا اور  جب بولا تو چہرا سپاٹ اور آنکھیں وحشت میں ڈوبی تھی ۔

"تم جیسی ہزاروں لڑکیوں کی چاہ ہے  کبیر خانزادہ ۔ لیکن میری نظر میں ایسی لڑکیوں کی اوقات پتہ ہے کیا ہے ؟ نیچے گری ہوئی ایک بے کار شے جسے میں نظر بھر کر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اپنی قربت پیش کرنا تو بہت دور کی بات ہے"۔ 

کبیر کے اشارے کو سامنے گری لڑکی باخوبی سمجھ گئی تھی اہانت سے اسکا چہرہ سرخ ہوا اور کبیر وہاں سے طنزیہ  سائیڈ سمائیل پاس کرتا واک آؤٹ کر گیا۔

❤️❤️❤️

"فردان بابا آپ سے گاؤں کے کچھ لوگ بات کرنے آئے ہیں"

فردان ڈیرے پر موجود تھا جب ایک ملازم نے آکر اسے کہا ۔

"جی شفیق بابا بھیج دیں"

فردان خانزادہ جو چھے فٹ  سے نکلتے قد کالی سیاہ آنکھیں کھڑی ناک عنابی لب جو ہلکی داڑھی میں چھپے تھے اور اپنے بھائی کی طرح گال پر پڑھتا گڑھا اسے نہایت حسین مرد بناتا تھا ۔ اپنے خاندان میں سب سے زیادہ جنونی پایا جاتا تھا  ۔ 

کسی بھی چیز کو حاصل کرنے کا جنون ، تباہ کرنے کا جنون ، خود میں سما لینے کا جنون ۔ 

کتھئی رنگ کے قمیص شلوار پہنے کالی شال کندھے پر ڈالے وہ آستین کہنی تک موڑتے ہوئے بولا۔

جب ایک آدمی جس کا نام آصف تھا دو لڑکو  کو گریبان سے پکڑ کر لایا اور اسکے سامنے پھینکا ۔

"لالا یہ مجھے راستے میں نظر آے ہمارے گاؤں کی بچیاں جو میٹرک کے پرچہ دے کر آرہی تھی انھے اپنے ساتھ گھسیٹ کر لے جا رہے تھے میری نظر پڑھ گئی ورنہ آج دو پھول تباہ ہوجاتے ۔

آصف غصہ میں بولا کے فردان کا خون کھول اُٹھا ۔

وہ ان آدمیوں کے پاس آیا اور جھکا ایک ھاتھ سے ایک ادمی کا گریبان پکڑتے دوسرے کو لات ماری  اور اپنے جوتے کی نوک اسکے سینے پر رکھ کر دباؤ دیا کے وہ دونوں فردان کی وحشت سے کانپ اٹھے۔ انہونے آج تک صرف سنا تھا کے فردان خانزادہ جنونی ہے ہر چیز میں اور آج انکا اس سے پالا پڑھا تھا تو تھرتھر کانپ رہے تھے۔

"ہمارے گاؤں کی بیٹی پر ہاتھ ڈالا مطلب ہماری عزت پر ھاتھ ڈالا ، اور ہماری عزت پر ھاتھ ڈالنے والوں کے ھاتھ سلامت رہے؟  تو پھر لعنت ہے خانزادوں پر ۔ 

فردان کی آنکھیں سرخ اور وحشت سے بھری تھی کے وہ دونوں آدمی اسکے پیروں میں گر کر گڑگڑانے لگے ۔ لیکن معافی وہ بھی اس فعل کی یہ نا ممکن تھا ۔ 

"آصف لے جاؤ ان دونوں کو اُٹھا کر تہہ خانہ میں انکا فیصلا رات کو اپنا انجام پاۓ گا" ۔

فردان نے سامنے صوفے پر بیٹھ کر ھاتھوں میں دبی سگریٹ جلائی اور گہرے کش لینے لگا اور آصف ان دونوں کو گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گیا ۔  

❤️❤️❤️

"اچھا شاہانہ بھابھی یہ تو بہت اچھی بات ہے کے ہمارا کبیر کل واپس آ رہا ہے مجھے بہت خوشی ہوئی آپ فکر نہ کریں کسی چیز کی سب کام ہو جائینگے"

اسمارہ بیگم بیٹھی فون پر ہمہ تن گوش تھی کے پیچھے سے ضرغام جس نے ابھی حویلی میں قدم رکھا تھا اسکے قدم تھمے ۔

ضرغام کو ہمیشہ سے ہی کبیر سے چڑ تھی ۔ کیونکہ خاندان کے مردوں میں ہمیشہ کبیر کو اُوپر رکھا جاتا تھا ، ہر چیز کی چھوٹ اُسے تھی  ، باہر جانا جس کی اجازت ضرغام تک کو نہیں ملی تھی لیکن کبیر کے بے حد منانے سے اسے مل گئی تھی وہ ہر چیز میں ہمیشہ ضرغام سے اوپر رہا تھا جو ضرغام کو نہیں پسند تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ ایک وجہی مرد تھا سانولی رنگت مگر پرکشش نقش تھے چھے فٹ سے نکلتا قد  بھوری خوبصورت آنکھیں ہلکی داڑھی عنابی لب ۔ اسکا روعب اتنا تھا کے سامنے والا بھی اس سے بات کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچتا تھا ۔ وہ جب کہیں سے گزرتا تو سامنے والا ایک بار مڑ کڑ اسے ضرور دیکھتا ۔ 

ابھی وہ حویلی ایا ہی تھا کہ اسنے یہ خبر سنی اور اسکا منہ تک کڑوا ہوگیا کہ گیارہ سال بعد پھر سے کبیر خانزادہ کے نارے سننے پڑہینگے ۔ 

"مورے ، مورے بعد میں باتیں کرے گا پہلے مجھے کھانا دیں بے حد بھوک لگی ہے مجھے۔"

"چلیں شاہانہ بھابھی میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں"

"ضرغام اتنے بڑے ہو گئے ہو کسی ملازم سے کہدیتے وہ کھانا لگا دیتا لیکن نہیں ماں ہی کھلائے ابھی بھی"

"اپکو پتا ہے نہ مورے میں آپکے ھاتھ سے ہی کھانا لیتا ہوں پھر اس بات کا کیا مقصد"

مقصد ہے۔ کل کو شادی ہو جائیگی تو کیا تب بھی ایسا کروگے ؟ 

ضرغام کی آنکھوں میں چھن سے کسی کا سراپا لہرایا اور نوالا منہ تک جاتے جاتے رکا اپنے خیال کو جھٹک کر سپاٹ نظروں سے اپنی مورے کو دیکھا ۔ 

"میں ہمیشہ ایسا ہی رہونگا ضرغام خانزادہ کسی کے لئیے خود کو نہیں بدلے گا". 

اسمارہ بیگم سے زیادہ اسنے خود کو یہ جتایا تھا ۔ 

ترکی(استنبول)✨

آج اس خوبصورت شہر میں اسکی آخری رات تھی،  بوسفورس کروس

(Bosphorus Cruise )میں ارحم اور

عرش کے ساتھ بیٹھا وہ ڈنر کر رہا تھا۔

بلیک ہائی نیک ساتھ بلیک پینٹ اور اسکے اُپر لونگ کوٹ پہنے بال جیل سے سیٹ کیئے ہری گہری آنکھوں میں وہ شخص سب سے منفرد حسن رکھتا تھا ۔ 

 جب عرش بولا۔

"تو تو کل واپس جارہا ہے فائنلی ! خوشی تو ہو رہی ہوگی اتنے سال بعد اپنے ملک اپنے شہر واپس جا نا اپنے ماں باپ سے ملنا" ۔ 

کبیر عرش کے سوال پر خاموش رہا اور ایسے نظر انداز کیا جیسے سنا ہی نہ ہو ۔ 

عرش اور ارحم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر کبیر کو ۔ 

"کیا ہوا تو خوش نہیں ہے" ؟ 

ارحم نے سوال کیا تو کبیر نے چمچ پلیٹ میں رکھ کر اسے دیکھا۔

سپاٹ چہرا ہر احساس سے عاری خاموش انکھیں ۔ 

"خوشی ہے اس بات کی کہ فیملی سے  سب سے بہت سال بعد ملونگا لیکن" ۔۔۔۔

"لیکن کیا" ؟ 

"لیکن تم لوگ وہاں کی روایات طور طریقہ سے واقف نہیں ہو" ۔

"میں اتنے سال پلٹ کر وہاں اسلئے واپس نہیں گیا کے مجھے بچپن سے ان سب طور طریقوں سے چڑ تھی ۔ تم لوگ نہیں جانتے لیکن" ۔۔ 

وہ کہہ کر خاموش ہوگیا جیسے چڑ گیا ہو اس موضوع سے ۔ 

"لیکن کیا" ؟ 

عرش کی آواز پر اسنے نظر اٹھا کر ان دونوں کو دیکھا۔ 

"وہاں میری ایک منگ بھی ہے" ۔

وہ کہہ کر پل بھر کیلئے خاموش ہوا اور ان دونوں کے چہرے دیکھنے لگا جو الجھے ہوئے تھے جیسے وہ سمجھے نہ ہوں، جب کبیر کی ہی آواز گونجی ۔ 

"منگ سے مراد بچپن میں ہی میری  منگنی۔ ہو گئی۔ تھی ۔ میری کسی کزن سے ۔"

وہ ایک ایک لفظ انکی آنکھوں میں دیکھ ٹھر ٹھر کر بولا ۔

اور انکے چہرے دیکھنے لگا جو یہ سن کر حیران اور خاموش تھے ۔ 

واٹ؟؟ 

"لیکن آج کے دور میں ایسا کہاں ہوتا ہے"؟  

ارحم نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا ۔ 

"میرے گاؤں میں یہ سب عام ہے یہاں منگنی بچپن میں کردی جاتی ہے اور ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا اور جب پتہ چلتا ہے تو آپ اس فیصلے سے پھر نہیں سکتے"۔ 

کبیر نے اپنی پیشانی مسلتے ہوئے پریشان لہجے میں کہاں ۔ 

"یہی وجہ ہے کے میں نو سال سے وہاں واپس نہیں گیا" ۔ 

"میں کیسے کسی ایسی لڑکی سے شادی کر سکتا ہوں جسے میں جانتا بھی نہیں۔ وہ گاؤں کی کوئی گوار ہوگی جسے وہاں جاکر ہر حال میں مجھے اپنانا پڑے گا"۔ 

"تو تو منا کردینا کے میں نہیں کر سکتا ایٹ لیسٹ(At least) تیرے سٹینڈرڈ(Standard) کی تو ہونی چاہئے نا یار وہ لڑکی جو تیری وائف بنے" ۔ 

ارحم بولا تو عرش نے بھی ہاں میں ہاں ملائی ۔ 

"سہی کہہ رہا ہے ارحم۔  میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کے کبیر خانزادہ جس کے پیچھے یہاں کی کئی خوبصورت اور ایجوکیٹڈ(Educated) لڑکیاں لائن لگا کر کھڑی رہتی ہیں وہ اپنے گاؤں جاکر کسی گوار سے شادی کرے گا ۔ ؟ ان بیلیو ایبل (Un Believable) ".

عرش نے اپنی حیرانی کا اظہار کیا تو کبیر نے اسے گھوری سے نوازا جس پر وہ خاموش ہوا۔ 

"میں کبھی کسی گاؤں کی گوار سے شادی نہیں کرونگا چاہے مجھے اپنے بڑوں کے سامنے آواز ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے" ۔ 

کبیر نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے سنجیدہ چہرے میں انہیں جواب دیا.

"ہم تیرے ساتھ ہیں تو فکر نہیں کر تو جا اور ہمیں اپڈیٹ(Update) دیتے رہنا"۔ 

کبیر نے سر اثبات میں ہلایا ۔ 

کبیر کی ایسی شخصیت نہ تھی کے وہ ہر کسی کو دوست بناتا لوگوں پر بھروسہ وہ جلدی نہیں کر پاتا تھا سامنے والے شخص کو پرکھنا اسکی شخصیت کا خاصہ بن گیا تھا لیکن کبیر نے سوچا بھی نہیں ہوگا کے یہ خاصیت اسے ایک دن مشکل میں بھی ڈال دے گی ۔

اسنے بس یہاں آکر یہی دو دوست بنائے تھے ارحم اور عرش جن کا تعلق ترکی کہ ہی کسی چھوٹے شہر سے تھا لیکن وہ اسکے سچے دوست ثابت ہوئے تھے جو بات آج تک کبیر نے اپنے منہ سے نا کہی تھی کیونکہ وہ کسی کو کومپلیمنٹ دینے کے حق میں تھا ۔ 

وہ سمجھتا تھا کے ہر تعریف کبیر خانزادہ کے لیے ہیں اور آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا جس کی تعریف "کبیر خانزادہ" خود کرے ۔ 

 ❤️❤️❤️

اہہہہہ۔ ۔ ۔ 

"آپ کو نظر نہیں آتا ہمیشہ ایسے ہی ٹکراتے رہتے ہیں اور پھر ہم پر الزام لگا دیتے ہیں کہ ہم آپنی آنکھیں کمرے میں رکھ کر آتے ہیں"

راحمہ جو رات گئے پیاس لگنے کی وجہ سے کچن سے پانی لینے جا رہی تھی کسی پتھر جیسے وجود سے ٹکرائی اور سر مسلنے لگی ، سامنے جو نظر پڑی تو فردان اپنی پوری وجاہت سے کھڑا اسے ہی خون خوار نظروں سے گھور رہا تھا جس کے سر سے دوپٹہ غائب تھا۔ 

"اپنی زبان کو لگام دے کر اگر تم اپنے آپ کا خیال رکھوگی تو زیادہ بہتر ہوگا لڑکی ۔  مجھے تمھاری یہ دو گز کی زبان سخت زہر لگتی ہے۔ اور سر پر دوپٹہ لو فورن" ۔

فردان جو تھکا ہارا ڈیرے سے واپس آرہا تھا سامنے اس چلتی پھرتی آفت سے ٹکراکر فوری اسنے ماتھے پر تین بل سجائے ۔ 

راحمہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو فورن سر پر دوپٹہ لیا لیکن اپنی غلطی ماننا اسکی عزت کے خلاف تھا ۔ اسلیئے اپنی زبان کے جوہر دکھاتے ہوئے جب بولی تو فردان کے آگ لگا گئی۔

"ہمیں اپنے آپ کا خیال بہت اچھی طرح رکھنا آتا ہے آپ اپنی نظروں کا خیال رکھیں تو زیادہ بہتر ہوگا"۔

فردان کے تو سر پہ لگی اور تلوؤں پر بجھی، اسکی انکھوں کے گوشے سرخ ہوگئ  اور غصہ سے سفید پٹھانی رنگت سرخ ہو گئی ۔ 

راحمہ کو اپنی بات کا اندازا فردان کی سرخ رنگت دیکھ کر ہوا تو فورن وہاں سے بھاگنے لگی کے کیوں اس جنونی جن کو چھیڑ دیا۔ 

لیکن فردان نے غصے میں اسکے ہاتھ کو پکڑ لیا اور کمر پر موڑ کر سختی سے اسے اپنے قریب کیا کہ راحمہ کی جان نکل گئی اور وہ درد سے آنکھیں بھینچ گئی ۔

"جتنا کہتا ہوں صرف اتنا کیا کروں یہ جو اپنی زبان کے جو ہر تم دکھاتی پھرتی ہونا ایک دن اسے ایسا بند کرونگا کہ دوبارہ میرے سامنے کھولنے کی غلطی نہیں کروگی۔"

فردان  کا چہرہ اسکے چہرے سے دو انچ دور تھا اسنے اسکے ڈرے سہمے چہرے کو دیکھا تو طنزیہ مسکرایا جس چڑیا کی چونچ ہر وقت چلتی رہتی تھی وہ آج اسکے چنگل میں سہمی کھڑی تھی ۔  

اور اسکے ھاتھوں پر مزید دباؤ دیا تو وہ درد سے بلبلا اٹھی اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہونے لگے  ۔ 

فردان اسکے آنسو دیکھے تو طنزیہ مسکرایا ۔

"ائیندہ میرے سامنے اپنی زبان مت چلانا ورنہ اس سے بھی زیادہ برداشت کرنا پڑھے گا"۔ 

اس نے ایک دم اسکا ہاتھ چھوڑا تو راحمہ جھٹکا کھا کر پیچھے ہوئی اور اپنا ہاتھ مسلنے لگی ۔ 

فردان ایک نظر راحمہ کو دیکھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ 

پاگل پٹھان ، سائیکو ، جن۔ 

راحمہ جس کی تکلیف کم ہی نہیں ہو رہی تھی فردان کے جاتے ہی اسکو بچپن سے دیئے گئے القابات سے نوازنے لگی۔ 

ڈرتی تو وہ کسی کے باپ سے بھی نہیں تھی لیکن " فردان خانزادہ" کے  روب اور غصہ میں وہ ہمیشہ دب جاتی لیکن اس بات کو مانتے ہوئے اسکی انا بیچ میں آجایا کرتی تھی کیونکہ اسکا ماننا تھا کہ،،،،

 "ڈرتی تو وہ کسی کے باپ سے بھی نہیں ہے" 

 ❤️❤️❤️

صبح کا سورج نکل گیا تھا خان حویلی میں عید کا سماں تھا سارے ملازم افرا تفری میں سارے کام انجام دے رہے تھے شاہانہ بیگم کے تو پیر ہی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے  انکا بیٹا جگر کا ٹکڑا کتنے سال سے اسکا ماتھا نہ چوما تھا بس ویڈیو کال پر اسے نہارتی تھی تو رودیتی اسے محسوس کرنے کیلیئے انکی ممتا تڑپ رہی تھی، اور آج انکی خواہش پوری ہورہی تھی ۔ 

نازو بیگم بھی کھانے کی تیاریوں میں لگی ہوئی تھی آخر کبیر خانزادہ اپنے گھر واپس آرہا تھا پورے نو سال بعد وہ اپنے گھر میں قدم رکھ رہا تھا سب کے دلوں میں بستا تھا وہ انکے خاندان کا پہلا چشم و چراغ تھا وہ اسکی اہمیت ہر چیز سے بڑھ کر تھی اور نازو بیگم کے دل میں تو ہمیشہ سے کبیر کے لئیے ایک الگ سی انسیت تھی جب سے دا جان نے نرمین کا رشتا کبیر سے کیا تھا ۔ 

مورےےےے مورےےےے ؟؟؟؟؟ 

شاز اور فاز بھاگے ہوئے شاہین بیگم کے پاس آئے 

"ہاں ماڑا کیا ہوا کیوں آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہے"؟ 

"آج کبیر لالا آ رہے ہیں آپنے ہماری وہ گفٹ کی لسٹ دے دی تھی نا؟"

"وہ گفٹ کی لسٹ تھی ؟ ماڑا پورا جواہر (Cevahir) لے کر ائے گا تمہارا لالا اتنی بڑی لسٹ ہم نے اپنے بچے کو نہیں دیا وہ تھک جاتا خرید خرید کر".

"مورے یہ کیا کرا آپ نے اب لالا ہمارے لئیے گفٹ نہیں لائے گے" 

شاز اور فاز مایوس ہو کر رونے والی شکلے بنانے لگے لیکن دا جان کی سیکھ آڑے آگئی کے خان کبھی نہیں روتا۔ 

پھر آڑے تیڑے منہ کے زاویہ بناتے دا جان کے پاس چلے گئے ۔ 

❤️❤️❤️

"جی دا جان پورے گاؤں میں خوشی کا سماں ہے سب بہت خوش ہیں لالا اتنے سال بعد آ رہے ہیں"

مردان خانہ میں بیٹھے سبھی مرد گفتگو میں محو تھےجب فردان  خانزادہ کی آواز گونجی ، سب کی باتوں کا مرکز کبیر خانزادہ تھا جو آج رات حویلی واپس آ رہا تھا لیکن کوئی تھا جو اس گفتگو کے موضوع سے چڑ کھا رہا تھا "ضرغام خانزادہ" بظاہر منہ پر جھوٹی مسکراہٹ لیئے بیٹھا تھا لیکن اندر سے اسکا خون خول رھا تھا کبیر کی پڑھائی اسکی عادت اسکی تعریفوں کو سنتے ۔

کبیر کا شوق تھا آرکیٹیکٹ (Architect) بننے کا  اسلیے اسنے ترکی کی بہت بڑی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا جسکے لیئے اسنے جان توڑ کوشش کی تھی اپنے باپ دادا کو منانے کے لیئے اسکے بعد اسے اجازت دی گئی ۔

ایسا نہیں تھا کہ خان حویلی پڑھائی کے خلاف ہے لیکن دا جی نہیں چاہتے تھے کے کبیر اس قدر پڑھائی کرے کہ یہاں آ کر تو اسے گاؤں ، پنچایت اور انکی جگہ ہی سمبھالنی تھی اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ کبیر کسی اور پڑھائی میں پڑ کر انکے رواج بھولے لیکن کبیر کی زد کے آگے مجبور ہوکر وہ مان گئے مگر اس شرط پر کے وہ جب بھی ائے گا اسے یہی سب کرنا ہے جو اسکے باپ دادا کرتے آرہے ہیں۔ 

ضرغام خانزادہ نے اپنی  بہت کوشش کی کہ وہ بھی ملک سے باہر جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرے لیکن اسکی بات کو رد کردیا گیا یہ کہہ کر کے کبیر کی دیکھا دیکھی کوئی نہیں کرے گا اور کسی کو یہ اجازت نہیں ملے گی جس کی وجہ سے ضرغام کو اور نفرت ہونے لگی کبیر سے۔ 

ضرغام اور فردان نے شہر کی یونیورسٹی سے MBA کیا ہوا تھا ۔  حال ہی میں نرمین نے بھی اسلامک لٹریچر میں ماسٹر کیا تھا ۔ راحمہ اور اسراء کی تعلیم ابھی جاری تھی ۔ نرمین کی خواہش تھی اسلامک لٹرییچر پڑھنے کی ، دا جان لڑکیوں کو پڑھانے کے حق میں نہ تھے لیکن فردان نے انہیں بھت  سمجھا یا کہ آج کے دور میں پڑھائی کتنی ضروری ہے جس کے چلتے دا جان مان تو گئے البتہ خوش ابھی بھی نہ تھے۔

"خوش تو ہونا ہی ہے انکا تو نیا سردار آرہا ہے۔"

دا جان نے جب کہاں تو ضرغام کا خون مزید کھولا کہ انکی جگہ بھی اب کبیر کی ہوگی ۔ 

لیکن آگے کیاکیا کبیر کا ہونا تھا یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ 

❤️❤️❤️

نرمین صبح سے اپنے کمرے میں بندھ تھی اسکا دل بھت عجیب ہورہا تھا یہ سوچ کر کے وہ اتنے سالوں بعد آرہا ہے کیسا دکھتا ہوگا اب کیسا سوچتا ہوگا کیا وہ جانتا ہوگا کہ یہاں کوئی ہے جو رات رات بھر جاگ کر اسکی سلامتی کی دعائیں کرتی ہے ، اسے سوچے بنا اسکا گیارہ سال میں ایک دن نہیں گزرا ، اس سے محبت کئے بنا اسنے ایک لمحہ نہیں گزارا ، لیکن یہ تو اسکی اللّٰہ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ نرمین خانزادہ نے کتنی خاموشی سے کتنی ٹوٹ کر کبیر خانزادہ سے محبت کی ہے ۔ اسکی آنکھیں جھپکی اور  آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا اور منہ سے بے اختیار صرف ایک ہی پکار نکلی ۔

"اللّٰہ" ۔۔۔۔۔

ظہر کی آذانوں کی آواز اسکے کانوں میں گونجی ، وضو کیا ، نماز پڑھی اور پھر خاموشی سے چپکے سے  دل میں اللّٰہ سے مخاطب ہوئی جیسے ہمیشہ ہوا کرتی تھی وہ خود کی زبان سے بہی یہ زکر نہیں کرتی تھی کے اللّٰہ کو برا نا لگ جائے وہ خاموشی سے مصلہ پر بیٹھ کر اللّٰہ سے مخاطب ہوتی تھی۔ 

" یا اللہُ میں کچھ نہیں جانتی بس اتنا جانتی ہوں کے تو بے حد رحیم ہے تیری رحمتوں کی کوئی حد نہیں تو چاہے تو سب عطا کر سکتا ہے بس سامنے نیت ہونی چاہیے اور میری نیت تجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا  ۔ میں نہیں جانتی کی وہ وہاں جاکر کیسا ہوگیا ہوگا میں اسے یاد ہونگی یہ نہیں ہمارا رشتہ یاد ہوگا یہ نہیں وہ باہر سے آکر اس رشتہ کو مانے گا یا جھٹلادے گا میں کچھ نہیں جانتی میں بس تجھ سے تیرے بندے کو مانگتی ہوں کہ اگر اسنے مجھے ٹھکرادیا تو بے شک میں منہ سے اُف نہ کرونگی لیکن میں زندہ نہ رہ سکونگی۔ میرے خدا میری دعاؤں کی لاج رکھنا میرے اٹھے ہاتھوں کی لاج رکھنا بے شک تو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے"۔ آمین

سفید سوٹ اور سفید دوپٹہ کے ہالہ میں بھیگا چہرہ بڑی بڑی خاموش سیاہ آنکھیں  کپکپاتے سرخ لب اور سفید چہرے میں گھلی رونے کے باعث گلابی سرخیاں وہ کتنی حسین تھی وہ جانتی ہی کہاں تھی دن رات سر پر تو صرف ایک شخص ہی سوار رہتا  خود کو تو آنکھ بھر کر کبھی دیکھا ہی نہیں تھا کے اندازا ہوتا سات پردوں میں چھپی دنیا میں بھٹکی ہوئی کوئی حور تھی وہ ۔ 

جائے نماز سے اٹھی تو دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز پر پلٹی ۔

چہرے کو نقاب کی مدد سے ڈھکا اور دروازے کی طرف بڑھی دروازہ کھولا تو راحمہ اور اسراء فورن سے اندر ائی ۔ 

"آپی چلیں نا زنان خانے میں سب تیاریوں میں لگے ہیں اور آپ سب سے چھپ کر کمرے میں بیٹھی ہیں" ۔ 

اسراء آتے ہی شروع ہوگئی تھی ۔

"ھاں چلو میں بس آ رہی تھی نماز ادا کر رہی تھی"

وہ تینوں ساتھ ہی کمرے سے روانہ ہوگئی تھی ۔ 

نرمین اور راحمہ نیچے آکر کچن میں چلی آئی ۔

زنان خانہ میں اسراء کی دو سہیلیاں آئی تھی جن سے مل کر اسراء حویلی کے ہی پچھلے باغ میں جانے کا سوچنے لگی جہاں حویلی کے مرد جانے سے منا کرتے تھے کیونکہ اکثر وھاں مالی یا اور ملازم پائے جاتے تھے لیکن وھاں لگے پھولوں کی اسراء دیوانی تھی تو اپنی سہیلیوں کو لے کر چھپ چھپاتے باغ میں چلی ائی ۔

ضرغام جو کال سننے حویلی کی پچھلی طرف ہی آ رہا تھا کے اسراء کے کان کھڑے ہوئے۔

"یہ تو ...... 

یہ تو ضر ۔ ضرغام لالا کی آواز ہے لگتا ہے وہ یہی آ رہے ہیں"۔ 

اسراء کی کپکپاتی آواز مشکل سے حلق سے باہر نکلی ۔ 

تو اسکی ایک سہیلی اسکی پتلی ہوتی حالت دیکھنے لگی ۔ 

تمہارے ماتھے پر تو ایسے پسینہ آ رہا ہے جیسے کوئی جن آ رہا ہو۔ 

وہ ج۔ جن ہی ہیں ۔

وہ تینوں وہاں بنی ایک دیوار کے پیچھے چھپ گئی اور اسراء تو پریشانی میں آ گئی جب کے اسکی دونوں تتلیاں دیوار کے پیچھے چھپتے ضرغام خانزادہ کو دیکھنے لگی جو کال پر کسی سے مخاطب تھا ۔

یہ جن ہیں ؟ 

اسراء کی ایک سہیلی ضرغام کو تکتے ہوئے اسراء سے مخاطب ہوئی ۔

تممم دونوں یہ کیا کر رہی ہو اگر انہونے دیکھ لیا تو تم دونوں کا تو کچھ نہیں جائے گا لیکن ہمیں وہ کچا چبا جائینگے اور ڈکار بھی نہیں لینگے ۔

اسراء نے ان دونوں کی حرکت دیکھی اور غصہ ہوئی ۔ 

"یہ اتنا ہینڈسم جن مجھے دےدو اگر تم نہیں رکھ رہی" 

اسکی کی ایک سہیلی جو بنا آنکھ جھپکے ضرغام خانزادہ کو دیکھ رہی تھی مدہوش لہجے میں اسراء سے مخاطب ہوئی ۔ 

کیا ؟ ہینڈسم اور ضرغام لالا ذرا دکھاؤ ہمیں بھی کہی تم لوگوں نے فردان لالا کو تو نہیں دیکھ لیا ۔ 

اسراء نے دیوار کے پیچھے سے جھانکا تو ضرغام خانزادہ ہی فون کال پر مخاطب تھا۔ 

سفید کرتا شلوار پہنے اس پر بلیک کوٹ پہنے  بھوری آنکھیں بھورے بال سلیقے سے سیٹ کیئے ضرغام خانزادہ اپنی بھرپور وجاہت سے کھڑا تھا ۔ 

لیکن اسراء خانزادہ کو تو وہ ابھی بھی کہی سے ہینڈسم نہیں لگا تھا ۔ 

یہ تو ضرغام لالا ہی ہیں لیکن یہ تو کہی سے بھی ہینڈسم نہیں ہیں ۔ 

اسراء آنکھیں پھیرتی ان دونوں سے کہنے لگی جو ضرغام کو ایسے دیکھ رہی تھی جیسے وہ جن نہیں یہ چڑیلیں ہو جو ضرغام کو چمٹنے کو تیار ہوں ۔ 

"اتنے حسین مرد کو تم ایسے کیسے کہہ سکتی ہو "۔ 

"دیکھو تو ذرا چوڑا سینہ مردانہ وجاہت بھوری آنکھیں۔  حسن اسے نہیں کہتے تو کسے کہتے ہیں "؟

"تم دونوں نے ابھی ہمارے کبیر لالا کو نہیں دیکھا اصل خوبصورتی کا شہکار تو وہ ہیں ۔ "

اسراء اپنے بھائی کے حسن کے چرچے کرنے لگی اسے تو اپنے بھائی کے سوا کوئی حسین لگتا ہی نہ تھا ۔

"تو ٹھیک ہے اپنے بھائی کو تم رکھ لو اور یہ ضرغام خانزادہ مجھے دے دو"

اسکی ایک سہیلی جو دیوانی ہو گئی تھی ضرغام کی اسراء سے کہنے لگی تو اسراء نے تپ کر اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اسکی منڈی کو آگے کیا جو وہ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔ 

"ایسے بھی کوئی حسین نہیں ہیں ۔ بھلا سانولی رنگت میں کیا حسن رکھا ہے ۔ "

اسراء ضرغام کی رنگت کو اسکے نقوش سے ناپ تول دیتی تھی۔ اسکی یہ منطق اسکی دوستوں کو کم سے کم سمجھ میں نہ آئی۔ 

ضرغام کی گندمی رنگت اور اسکی بھوری آنکھیں اسکی پرسنیلٹی پر بے حد جچتی تھی ۔ ایسے ہی لڑکیاں اس پر فدا نہیں ہوتی تھی۔  لیکن یہ بات ایسے حسن پسند لوگوں کو کہاں سمجھ آتی ۔ 

ضرغام کو کافی دیر سے کچھ آواز آرہی تھی اسنے ادھر اُدھر دیکھا تو کوئی نہیں تھا جیسے ہی وہ پیچھے مڑا اسے لال آنچل ہوا سے اڑتا ہوا نظر آیا ۔

اسراء کی جیسے ہی نظر پڑی اسنے اسٹور روم کا دروازہ جو پچھلی طرف کھلتا تھا سب سے پہلے اپنی دوستوں کو بھگایا ۔ اور جیسے ہی اسنے جلد بازی میں قدم آگے رکھا اسکا پیر مڑا اور وہ دھڑام سے نیچے ۔ 

ضرغام جو وہاں اسکی سہیلیوں کے جاتے ہی پہنچ چکا تھا اسراء کو وہاں اس حالت میں دیکھ کر اسکا دماغ بھک سے اڑا ۔

ضرغام نے اپنے ہاتھوں کی مٹھیاں زور سے بھینچے سپاٹ چہرے سے اسے دیکھا جو کسی چھوٹے بچے کی طرح اپنی چوری پکڑے جانے پر  آنکھیں میچے اسکے سامنے پڑی تھی ۔ 

سر سے گرتا کندھے پر پڑا اسکا دوپٹہ جس کا دوسرا سرا اپنے ھاتھ میں بھینچا ہوا تھا سفید رنگت اسکے خوف سے زرد پڑی تھی اپنے پیر کا درد تو اسے محسوس ہی نہیں ہوا تھا سامنے والے کے خوف سے  اور ہلکی آواز میں صرف ایک ہی الفاظ دوہرا رہی تھی۔ 

میں نے ک۔کچ۔کچھ نہیں کیا  میں نے کچھ نن۔نہیں کیا ۔۔۔ 

ضرغام ایک ٹانگ موڑے اسکے قریب بیٹھا گردن ٹیڑھی کرے اسکے خوف سے زرد چہرے کو سپاٹ  سرد اور خاموش نظروں سے دیکھ رھا تھا ماتھے کی رگیں تن گئی تھی۔ 

"تم سے کہا تھا نا دوبارہ میرے سامنے مت آنا". 

وہ سرد نظروں سے اسکے حسین چہرے کو دیکھتے  کہنے لگا۔ 

لیکن اسراء نے اپنی آنکھیں نہ کھولی ۔ 

ضرغام نے اسکے نازک پیر کو دیکھا اور پھر اسکی خوف سے بند آنکھوں کو  اور دوسرے ہی پل اسنے اسراء کے پیر کو پکڑتے موڑا تھا ۔ 

اسراء جو اس حرکت کی توقع ہرگز نہیں کر رہی تھی اچانک درد سے بلبلا اٹھی اور چیخ نے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ ضرغام نے اپنا بھاری ہاتھ اسکے منہ پر رکھا اور اسکی چیخ کا گلا گھونٹ دیا ۔ 

"آواز ۔نہیں ۔آنی۔ چاہیے مجھے"۔

اسراء نے اپنی نم بھیگی آنکھیں کھولی تو ضرغام نے اسکی آنکھوں میں اپنی سرد بھوری آنکھیں گاڑھی  اور ٹہر ٹہر کر اپنے الفاظ ادا کیئے۔ 

اگلے ہی پل اسکا ہاتھ پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں کھڑا کردیا اسراء نئی درد کی تکلیف سے تڑپ اٹھی لیکن ہونٹ بھینچ لیئے منہ سے آواز نہ نکلی جو اگر نکل جاتی تو پتہ نہیں وہ اس حکم خلافی کی کیا سزا دیتا ۔ 

"میں نے منع کیا تھا نا کے میرے سامنے مت آنا اور تم یہاں میرے سامنے یہاں دعوتِ نظارہ بنی پڑی تھی "۔ 

اسراء کا ایک بازو جو ابھی بھی اس جلاد کے ہاتھ میں تھا اسے موڑ کر کہتے ہوئے وہ دبادبا سا چلاّیا کے اسراء کی روح لرز گئی وہ ڈر کے مارے کانپ رہی تھی اسکا سانس سوکھ رہا تھا لیکن سامنے والے کو حوش ہی کہاں تھا ۔

"میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو اگر میری جگہ کوئی ملازم یھاں تمہیں ایسے پڑا دیکھ لیتا تو ؟ تو میں یہیں تمہیں زندہ گاڑھ دیتا "۔ 

ضرغام کا غصہ کسی طور پر کم نہیں ہو رہا تھا ۔

"ضر ضر ضرغا غام لا۔لا میں نے کچ۔کچھ نہیں کیا ۔ میں ب بس پھو۔ پھول توڑنے آئی تھی ۔

وہ آنسو بہاتی ہچکیاں لیتی اپنی بات بتانے لگی ۔

"یہاں گھر کی عورتوں کا آنا منع ہے یہ بات جانتی ہونا تممم۔"

وہ اسکا ہاتھ مزید موڑتے ہوئے غصہ سے دھاڑا کہ ایک ملازم جو وہاں سے گزر رہا تھا شور کی آواز سن کر بھاگا ہوا آیا۔

ضرغام کی نظر ملازم پر پڑی تو اسراء کو دیوار کی اور دھکیل کر ملازم پر دھاڑا  ۔

"ایک منٹ سے پہلے یھاں سے دفعہ ہو جاؤ ورنہ یہی دفنا دونگا۔" 

وہ ملازم گھبراتا ہوا وہاں سے رفوچکر ہوگیا ۔ اور اسراء جسکی کمر دیوار سے زور سے ٹکرائی تھی وہ مزید وہاں کھڑی آنسو بہانے لگی، خوف سے اسکا برا حال تھا سانس اسکا سینے میں ہی اٹکا تھا۔ 

ضرغام نے اسراء کی ایسی حالت دیکھ خود کو کنٹرول کیا نہیں تو اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ آج اس لڑکی کا خو+ن کردے ۔

اسنے دیوار کے ارد گرد ہاتھ رکھ کر اسراء کو اپنے گھیرے میں لیااور اسکے قریب ہوا۔

"مجھے سخت چڑ ہے تم سے لڑکی میرے آس پاس مت آیا کرو نہیں تو میں تمہیں جا+ن سے ما+ر دونگا اور یہ اپنی خوبصورتی کے جوہر جو یہاں پڑی تم ابھی دکھا رہی تھی اگر آئیندہ ایسے مجھے کہی نظر آگئی تو وہی کلمہ پڑھ لینا کیونکہ میں تمہیں بخشونگا نہیں ۔"

ضرغام اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا کے اسکے الفاظوں کی وحشت سے اسراء کا دل لرز اٹھا وہ روتی ہوئی سانس بحال کرنے کی کوشش کرتی نفی میں سر ہلانے لگی۔ 

ضرغام نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ایک قدم پیچھے ہٹایا اور وہاں سے چلا گیا ۔ 

ضرغام گیا تو اسکا سانس بحال ہوا ۔ وہ پتہ نہیں کیوں اسراء سے اس قدر چڑ کھاتا تھا ۔ اس گھر میں موجود سب لوگ اس سے اتنی محبت کرتے تھے کہ ضرغام کہ رویہّ سے وہ بے تحاشا ڈر جایا کرتی تھی اور آج تو ضرغام کے غصہ کو دیکھ اسکا سانس رکنے لگا تھا ۔ وہ اپنے آنسو صاف کرتی سیدھا اپنے کمرے میں جا بند ہوئی تھی ۔

اور یہ نفرت اس قدر کیوں تھی اسکا پتہ تو وقت بتائے گا۔

❤️❤️❤️

شام گئی حویلی میں پورا خاندان جمع تھا تبھی ایک ملازم بھاگا ہوا آیا۔

 "بڑے صاحب کبیر بابا آ گئی"۔

یہ خبر سن وہاں سب خوشی سے کھڑے ہوئے ۔ 

زنان خانہ کی عورتیں بھی خوش ہوتے کھڑی ہوئی ۔  نرمین کا دل گھبرا اٹھا اور آنکھیں ساکت ہوگئی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیسا محسوس کرے خاموشی سے آنکھیں جھپکے اسنے اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا ۔ جو ایسے دھڑک رہا تھا جیسے پاگل ہو رہا ہو لیکن اسکا چہرہ خاموش تھا، وہ خاموشی سے سب کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ 

باہر پہلے ایک اور ایک کے بعد دو دیگر گاڑیاں آکر رکی۔پہلی گاڑی سے دو گارڈز اترے اور دوسری گاڑی کا دروازہ احتراماً جھک کر کھولا ایک دروازے سے فردان خانزادہ اور دوسرے سے کبیر خانزادہ نکلے ۔

کالے شلوار قمیض میں وائٹ شال کندھوں پر ڈالے بال جیل سے سیٹ کیئے ہری گہری آنکھیں اپنی مردانہ وجاہت سمیت باہر نکلا کبیر خانزادہ ۔  

دا جان نے اتنے سالوں بعد اپنے جگر کے ٹکڑے کو قریب سے دیکھا انکی آنکھیں نم ہوگئی ۔

سب سے  پہلے اسنے دا جان کو گلے لگایا اسکا اپنا دل بھی دا جی کے گلے لگتے بھر آیا تھا آنکھیں بھیچے اسنے اپنا حصار مظبوط کیا ۔

ہا ہا میرا جوان ۔ دا جان نے خوشی سے کہا اور اس سے الگ ہوئے ۔ 

کبیر مسکرایا اور اپنے باپ برہان خانزادہ کے گلے لگا وہ بے پناہ خوش تھے اپنے بیٹے کو گلے لگائے کبیر بھی انکے حصار میں اپنے باپ کی شفقت محسوس کرنے لگا ۔ 

اپنے باپ کے کافی دیر گلے لگے اسنے اپنے چاچا رحمان اور رضوان خانزادہ کو گلے لگایا وہ اتنے سالوں بعد ان سب سے مل رہا تھا بچپن میں انکی محبت یاد کرتے اسکی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔ 

ان سب سے ملتے اسکی نظر ان بھوری آنکھوں سے ٹکرائی ۔

"ضرغام خانزادہ".

کبیر طنزیہ مسکرایہ اور اسکے گلے لگا ۔ 

ضرغام بہی آگے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اس سے بغلگیر ہوا ۔ 

"مجھے نہیں پتہ تھا تم بھی میرے استقبال کے لیئے کھڑے ہونگے "۔ 

"میں تو آگے جگہ جگہ تمہیں کھڑا نظر آؤنگا"۔

اسکے طنز کا جواب ضرغام نے بھی اسی کے انداز میں دیا۔

اور سب اندر کی طرف بڑھے ۔

وہ اندر آکر بیٹھے اور کبیر سے سب کی ملاقات کروانے لگے جو مغرور مسکراہٹ چہرے پر سجائے سب سے مل رہا تھا اسکا دل اپنی ماں سے ملنے کیلئے تڑپ رہا تھا لیکن فلحال وہ خاموش تھا ۔ 

مردان خانہ اور زنان خانہ کے بیچ ایک جعلی دار دیوار تھی جہاں سے غور کئے جھانکا جائے تو سب نظر آتا تھا۔  

اسراء اور راحمہ وہاں سے جھانک کر سب کو خبریں دینے لگی ۔کیونکہ سب جانتے تھے کے کبیر کو وہاں سب جلدی نہیں چھوڑینگے اور شاہانہ بیگم تو تڑپ رہی تھی اس سے ملنے کیلیئے ۔ 

"مورےےےے لالا تو بہت ہینڈسم ہوگئے  ہیں ، ویڈیو کال سے بھی زیادہ".  

اسراء بھاگی ہوئی آئی اور شاہانہ بیگم کو بتانے لگی ۔ 

لیکن نرمین کا دل زور سے دھڑکا جیسے کود کر باہر آ جائے گا ۔

وہ وہاں سے سیدھی کمرے میں چلی گئی اس سے برداشت نہ ہوا تو ۔ 

کافی دیر بعد کبیر نے سب سے خود معذرت کی اور وہاں سے اٹھ کر زنان خانہ کی طرف آگیا ۔ 

اسراء جو پہلے ہی جالی دار سے کھڑی اسے دیکھ رہی تھی اسنے جاکر زنان خانے میں اعلان کیا راحمہ اور اسراء نے دوپٹہ سر پر لیا۔ 

کبیر وہاں آ یا تو دور سے ہی پہلی نظر اپنی ماں پر گئ ۔

وہ زور سے انکے گلے لگا اور چپکے سے آنکھیں صاف کی جو ماں کے آغوش میں آ تے ہی نم ہو گئی تھی ۔ 

اسنے ماں سے الگ ہو کر انکا ماتھا چوما اور کافی دیر تک ٹھرا رہا ۔

"میں نے اپکو بہت یاد کیا مورے ".

"میرا بیٹا" شاہانہ بیگم کی تو آنکھیں ہی نہیں بھر رہی تھی کبیر کا چہرا دیکھتے ۔ 

وہ پھر سے گلے لگا تو نازو بیگم جو ترس رہی تھی اور لائن میں لگی تھی وہ بولی 

"ماڑا ہمیں بھی تو ملنے کا موقعہ دو"۔

کبیر اور شاہانہ بیگم ہنسے اور پھر باری باری نازو بیگم ، شاہین بیگم اور اسمارا پھوپھو سے ملا اور پھر اسراء کو اپنے گلے سے لگائے رکھا ۔ 

کیسی ہے میری گڑیا"۔

کبیر اسکا ماتھا چومتے بولا ۔ 

"ہم ٹھیک ہیں لالا آپ کیسے ہیں"۔

"میں بلکل ٹھیک"۔

اسکی نظر راحمہ پر پڑھی تو سوالیہ نظروں سے اسراء کو دیکھا ۔

یہ راحمہ آپی ہیں لالا، رحمان چاچا کی بیٹی"۔

کبیر سر ہلاتے آگے بڑھا اور راحمہ کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ 

"کیسی ہیں گڑیا آپ"۔

ہم ٹھیک ہیں لالا"۔ 

کبیر نے اسے دیکھا وہ بے حد خوبصورت تھی۔ اسے وہ بلکل اسراء کی طرح لگی ۔ 

 اسنے نظریں گھمائی تو اور کوئی نظر نہ آیا ۔ 

 " وہ کہاں تھی جس سے اسکی منگنی ہوئی تھی" ۔ اسنے دل میں سوچا لیکن منہ سے نا کہا ۔

 وہ اتنا تو جانتا تھا کے اسکی منگنی رضوان چاچا کی بیٹی سے ہوئی تھی۔

  اور اسکا نام وہ اپنے ذہن پر زور ڈالےسوچنے لگا شاید نازمین ؟ اسے اپنی سوچ پر شک ہوا لیکن نہیں یہ نام تو نہ تھا ۔ 

  اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا اس لڑکی کو ۔ جس کا دن نہیں گزرا تھا کبیر خانزادہ کو سوچے بغیر ۔

اسنے اپنا ذہن جھٹکا ۔ وہ کیوں سوچ رہا تھا اس لڑکی کو جس کے لیئے اسے انکار کرنا تھا ؟ وہ کسی گاؤں کی گوار سے شادی نہیں کرے گا اسنے سوچ لیا تھا اور اس چیز سے پیچھے ہٹنے کیلیئے اسے جو کرنا پڑھا وہ کریگا۔ اسنے سوچا اور اپنی ماں کے پاس بیٹھ گیا۔ 

❤️❤️❤️

نرمین کمرے میں دروازہ بند کئے بیٹھی تھی شام سے رات ہو گئی تھی نازو بیگم اسکے پاس بھی آئی تھی لیکن اسنے یہی کہا کہ اسے سر درد ہے جو واقعی تھا ۔ اسکا دل عجیب ہورہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا سب کے بیچ کیسے ری ایکٹ کرے ۔ 

یا اللہ مدد ۔ 

انکھیں بند کیئے آسمان کی طرف دیکھے اسنے دل سے اللہ کو پکارا تھا ۔ 

دوپٹہ کندھے پر ڈالے آج کالے سیاہ بال اسکے ڈھیلی چوٹی میں بندھے تھے جو کمر سے نیچے آ تے ۔ اور اسکی وہی دو خوبصورت بڑی آنکھیں۔ کائی رنگ کی فراک ،چوڑی دار پہنے وہ مضطرب سی کھڑی تھی۔

وہ حسین تھی بے تحاشہ لیکن خود کو کبھی عشق کی نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا ۔

یہ لمبے سیاہ بال جن کا خیال بچپن سے اسکی مورے نے کیا تھا جو وہ اتنے حسین تھے یہ دو خوبصورت آنکھیں جنہیں کوئی دیکھے تو انکے سحر میں ڈوب جائے وہ سراپائے محبت تھی لیکن اپنے حسن سے نا واقف معصوم سی وہ لڑکی کسی کے عشق میں گودے گودے ڈوبی تھی۔ 

شام سے رات ہوئی وہ باہر نا آئی اور عشاء کی نماز پڑھتے سونے کیلیئے لیٹ گئی ۔ 

کے اچانک اسکے کمرے کا دروازہ بجا وہ گھبرا کر اٹھی چہرے پر دوپٹہ ڈالا۔

"کون؟"

'ہم ہیں آپی دروازہ کھولیں".

باہر سے راحمہ اور اسراء کی آواز ائی ۔ 

اسنے دروازہ کھولا تو وہ لوگ اندر ائی ۔ 

"کیا ہوا میری پیاری آپی آپکی طبیعت خراب ہے آپ کھانا کھانے نہیں آئی پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔"

"دا جان نے بھی کچھ نہیں کھایا وہ آپکے پاس آنا چاہرے تھے لیکن انکے گھٹنے تکلیف کر رہے ہیں اسلیئے ہم آپ کو بلانے آئے ہیں".

راحمہ کی آواز پریشان سی تھی۔  

" یا اللہ یہ تو ہم نے سوچا ہی نہیں ۔ دا جان سے کہیں آپ پریشان نا ہو ہم کھانا لے کر انکے پاس آتے ہیں" ۔

اپنے خیالوں میں کھوئی وہ اس چیز کو تو بھول ہی گئی تھی اور اپنی اس بھول پر نادم بھی تھی وہ فورن سے رسوئی کی طرف نکلی ۔ 

❤️❤️❤️

کبیر اپنے کمرے میں لیٹا تھا ۔ لیکن وہ آج کے دن کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ 

"کھانے کے وقت"۔

"دا جان آپ کچھ کھا کیوں نہیں رہے "۔ 

کبیر نے دا جی کو نا کھاتے دیکھا تو کہا ۔

"نہیں بیٹا بس ابھی ہم کھائیں گے آپ کھائیں"۔

"دا جی آپ کھائیں میں نرمین کو بلا کر لاتی ہوں ۔"

نازو بیگم نے کہا تو داجی نے انہیں منا کردیا۔ 

"نہیں بیٹا آپ رہنے دو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے اسے آرام کرنے دیں میں نہیں چاہتا کے میری بیٹی بیمار ہو۔"

 ان سب میں اب کبیر بولا وہ سمجھ گیا تھا کے واقعی جب سے وہ آیا ہے وہ لڑکی نا اسکے سامنے آئی اور اب اسکے نخرے ختم نہیں ہورے تھے ۔

"داجی اگر وہ نہیں آرہی تو آپ تو کھانا کھائیں"۔

"نہیں بیٹا آپ سب کھانا کھائیں ہمیں بھوک نہیں ہے ہم تھوڑی دیر میں اسکے ساتھ کھالیں گے۔"

کبیر حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ باقی سب تو اسکے عادی تھے لیکن کبیر کو یہ سب دیکھے غصہ آ رہا تھا ۔ 

اب رات کے 11 بج رہے تھے اور اسکے دماغ میں یہ خیال تھا کے دا جی نے کھانا کھایا ہوگا یا نہیں اسے اُس لڑکی پر رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا وہ اس قدر خود غرض تھی کے وہ جانتی تھی کہ دا جی اسکے بغیر کھانا نہیں کھاتے پھر بھی وہ نیچے کھانا کھانے نہ آئی ۔

"سیلفش"

ایک لفظ بول کر وہ کھڑا ہوا اور واشروم میں بند ہوگیا ۔ 

سکے بعد وہ دا جی کے کمرے میں جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ 

❤️❤️❤️

وہ اپنے کمرے میں رولنگ چیر پر بیٹھا ہاتھ میں سگار لیئے گہرے کش لے رہا تھا۔

اور آج کے دن کے بابت سوچ رہا تھا ۔ 

اسراء سے ٹکراؤ، اسکا ڈرنا، اس سے نفرت، 

کبیر کی بہن اور اسکے بچپن کی منگ ۔ 

ہاں اسراء خانزادہ ضرغام خانزادہ کی بچپن کی منگ تھی جس سے اسے سخت چڑ تھی، جس کے بابت صرف ضرغام جانتا تھا اسراء نہیں ۔

وہ کبیر کی بہن تھی ، بچپن کی منگ تھی اور اس دل میں وہ تو کم سے کم ہر گز نہیں تھی۔ 

ضرغام جب بھی اسے دیکھتا اسکا غصہ سوا نیزے پر پہنچ جاتا۔ 

آخر کیوں کر دیتے ہیں بچپن میں منگنی کیوں اپنی اولاد کی خوشیوں کا نہیں سوچتے کیوں انہیں ذہنی بیمار کر دیتے ہیں یہ کہہ کہہ کر کے کچھ بھی ہوجائے بچپن کی منگ سے دستبردار نہ ہونا کیوں کیوں؟  اسے غصہ آ رہا تھا سوچ سوچ کر۔ 

خانزادہ اپنی زبان اور اپنی عزت سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتے  یہ انکی غیرت کے خلاف تھا ۔ 

لیکن یہ دل ۔ ضرغام نے اپنی آنکھیں بند کیئے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا اور چھن سے کسی کا سراپا لہرایا اور جھٹ سے اسنے اپنی آنکھیں کھول دی ۔ 

سگار ہاتھ سے پھینکے وہ کھڑا ہوگیا ۔ کھڑکی سے باہر کی ہوا اسکے وجود کو چھو رہی تھی ۔

وہ خاموشی سے کھڑا اس دن کے بارے میں سوچ رہا تھا جب چار سال پہلے اسنے اس پری کو دیکھا تھا ۔ 

جب وہ اپنی یونیورسٹی سے آتے ہوئے شاز اور فاز کے اسکول کے باہر کھڑی انکا انتظار کر رہی تھی ۔ 

چھٹی کا وقت تھا وہ باہر کھڑی انکا انتظار کر رہی تھی  پہلی بار وہ انہیں لینے آئی تھی اسے اس طرح گاڑی سے باہر نکلنا پسند نہیں تھا اور نہ ہی اسے اجازت تھی لیکن آج انکی سالگرہ کے موقعے پر وہ انہیں سرپرائز کرنا چاہتی تھی  کے اسکے برابر میں کھڑی عورت جو خود بھی کھڑی اپنے بچوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اسکے ہاتھ میں ڈیڑھ سال کی بچی تھی جو بہت رو رہی تھی ۔

نرمین کی جب نظر پڑی تبھی اس بچی نے بھی اسے دیکھا اور وہ نرمین کی بڑی بڑی آنکھیں اور حجاب کی ہالہ میں چھپا چہرہ دیکھ متجسس ہو کر خاموش ہو گئی اور ٹکر ٹکر اسے دیکھنے لگی ۔ 

نرمین کو اسکے دیکھنے کے انداز سے ایک دم ہسی آئی اور پیار بہی بہت آیا ۔ اسنے جیسے ہی ہاتھ بچی کی طرف بڑھائے بچی خوشی خوشی اسکی گود میں آ گئی ۔ 

نرمین اس سے کھیلنے لگی کے اچانک اسنے نرمین کے حجاب پر حملہ کیا اور جھٹ سے نیچے اُتار دیا۔ 

نرمین جس کو یہ قطعی امید نہیں تھی فورن بچی کو ماں کے حوالے کر کے اسنے  اپنا نقاب واپس چہرے پر ڈالا ۔ 

اور آس پاس دیکھا لیکن وہاں چند عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی نہ تھا لہکن پھر بھی وہ بہت گھبرا گئی تھی بچی کی ماں نے اس سے معذرت کی لیکن دور کھڑے ایک شخص نے یہ منظر کبھی خواب میں بھی نہ دیکھا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ جو اسکول کے بلکل سامنے  کیفے میں بیٹھا کافی پینے آیا تھا باہر نکلتے وقت غیر ارادی طور پر اسکی نظر پڑی اور وہ اس منظر میں کہی کھو سا گیا ۔ نقاب اُترنا چہرے کا دیدار ہونا اور پھر نقاب پہن لینا اور پھر نقاب سے باہر جھانکتی وہ کالی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں وہ کوئی انسان تھی یا پری ۔ 

وہ کھو سا گیا تھا اس منظر میں دنیا جہاں کا حوش کہا تھا اسے دیکھنے کے بعد کوئی اتنا حسین کیسے ہو سکتا تھا ۔ 

وہ خاموشی سے ناک کی سیدھ میں چلتا گیا کے اچانک ایک بائیک اسکے سامنے آکر رکی ۔ 

"بھائی دیکھ کر چلو مین روڈ ہے یہ" ۔ 

ضرغام جو اس منظر میں گم تھا اچانک اسکا تسلسل ٹوٹا اور اسنے سامنے دیکھا جو اب شاز اور فاز کے ساتھ کھڑی تھی اور وہ خوشی سے نہال ہو رہے تھے کے آج پہلی بار انکی فیورٹ آپی انہیں لینے آئی تھی ۔

وہ خوشی سے اچھل رہے تھے اور کہہ رہے تھے نرمین آپی آپ ہمیں لینے آئی ہیں ہمیں یقین نہیں ہو رہا۔  

ضرغام نے حیرانی سے اس منظر کو دیکھا ۔

"یہ تو نرمین ہیں"۔

اسے یاد پڑا اسنے تو کبھی غور ہی نہیں کیا تھا کے نرمین اب ان کے سامنے نہیں آتی ۔ 

اوّل تو وہ خان حویلی جاتا ہی کم تھا 

دوسرا اسکی ایسے نظر نہ تھی کے وہ اپنے گھر کی بیٹیوں پر نظر رکھتا۔ 

اسنے اسراء اور راحمہ کو تو دیکھا ہوا تھا جو بہت کم کبھی کسی مو قع پر نظر آ جاتی لیکن نرمین کو حوش سمبھالنے کے بعد کہاں کبھی اسنے دیکھا تھا ۔ 

آج وہ سمجھا تھا کہ نرمین خانزادہ پردہ کرتی ہے ۔ 

لیکن یہ لمحہ جو خدا گواہ تھا اسنے کسی ارادے سے نہیں کیا تھا وہ ہو گیا تھا اس نے نرمین خانزادہ کو بغیر حجاب کے دیکھ لیا تھا لیکن بس ایک لمحہ ۔ فقط ایک لمحہ جس نے اسکی زندگی بدل دی یہ ایک لمحہ اسکے دماغ میں نقش ہو گیا یہ ایک لمحہ جو وہ بھلا نہیں پا رہا تھا ۔ 

وہ جانتا تھا وہ کبیر خانزادہ کی منگ ہے یہ بات کون نہیں جانتا تھا لیکن یہ دل یہ دماغ اس یادداشت سے وہ کیسے اسے مٹاتا جو چار سال سے اسکے ذہن میں پنجے گاڑھ کر بیٹھ گئی تھی ۔ 

وہ سردی میں بغیر شرٹ کے بلیک ٹراؤزر میں کھڑا کھڑکی کے باہر کے منظر میں گم تھا یا اسکے خیالوں میں وہ نہیں جانتا تھا ۔ 

وہ بس اتنا جانتا تھا کے وہ اس لڑکی کو بھلا نہیں پا رہا وہ اسپاٹ چہرہ لیئے سرد تاثرات کے ساتھ جبڑے بھینچے خاموش کھڑا تھا ، پُر اسرار خاموشی کسی طوفان سے پہلے آنے کی خاموشی۔

❤️❤️ By Haya Khan ❤️❤️  

 وہ خاموشی سے دبے پاؤں رسوئی خانے میں گئی اور کھانا گرم کیا اور داجی کے کمرے کی طرف چلی گئی ۔ 

اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر کی طرف چلی گئی ۔ 

"دا جان ؟؟"

وہ کمرے میں آئی تو وہ صوفے پر بیٹھے تھے نرمین کو دیکھ کر خوش ہوئے اور اسے اندر بلایا ۔ 

"آؤ میری جان".

"ہم آپ کیلیئے کھانا لے کر آئے ہیں آپ نے کھانا نہیں کھایا نا ۔؟"

نرمین نے خفگی کا اظہار کیا ۔ 

اور انکے برابر میں آ بیٹھی دا جان نے  اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔ 

"بیٹا آپ نے نہیں کھایا تھا تو ہم کیسے کھا لیتے۔" 

"ہمیں معاف کردیں داجان ہم پتہ نہیں کیسے بھول گئے کے ہماری وجہ سے آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا ہوگا۔"

نرمین کی آنکھیں نم ہو گئی وہ بے حد شرمندہ تھی کے اپنی سوچوں میں وہ اتنی مگن ہو گئی کے یہ بھی بھول گئی کے دا جان شوگر کے مریض ہیں اور انہیں کھانا وقت پر چاہیئے ہوتا ۔ 

"نہیں میری جان آپ کیوں شرمندہ ہو رہی ہیں ۔ ہم جانتے ہیں آپکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور ہم تو بڑھاپے میں آکر اور نخرے والے ہو گئے ہیں پہلے اپکی بی جان کو پریشان کردیا کرتے تھے اب وہ نہیں رہی تو اپکو کرتے ہیں"۔

داجان کی بولتے بولتے آنکھیں نم ہو گئی بی جان کی یاد میں ۔

نرمین نے ہاتھ بڑھا کر انکی آنکھیں صاف کی اور انکے ہاتھوں پر بوسہ دیا ۔ 

"آپ کر لیا کریں نخرے ہم ہیں نا اٹھانے کیلئے اپنے داجان کے نخرے"۔

نرمین کی خود کی آنکھیں آنسوں سے بھر گئی تھی سفید رنگت گلابی ہو گئی تھی فورن اور آنکھوں میں بھی گلابی ڈورے چھا گئے تھے ۔

اسنے نوالا بنا کر انہیں کھلایا تو انہونے کھایا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا ۔ 

"بس اسلیئے تو ہم آپکے نخرے اٹھاتے ہیں کیونکہ ہمیں مفت میں اتنی پیاری پیاری دعائیں مل جاتی ہیں۔"

وہ انکا موڈ بحال کرنے کے غرض سے بولی اور دہیرے سے ہنسی۔ 

اچانک دروازہ کھٹکھٹایا کسی نے تو داجان نے دروازے کی طرف دیکھا نرمین کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی ۔ 

"لیں آ گئی آپکی دونوں پیاریاں۔"

اس وقت اس پہر نرمین کے سوا راحمہ اور اسراء ہی جاگ رہی تھی تو نرمین نے اپنے اندازے سے کہا ۔ 

داجان ہولے سے ہنسے اور آنے والے کو اجازت دی۔ 

کبیر جو باہر کھڑا کب سے داجان کی آواز سن رہا تھا یقیناً وہ کسی سے بات کر رہے تھے لیکن کس سے سامنے والے کی آواز اتنی ہلکی تھی کے اسکے کانوں تک پہنچنے سے قاصر تھی ۔ اسی تجسس میں اسنے دروازو کھٹکھٹایا ۔

 اور داجان کی اجازت ملتے ہی اسنے دروازہ کھولا اور اندر آیا سامنے کوئی لڑکی اسکی طرف پیٹھ کر کے بیٹھی تھی اور داجان مسکرا کر اس سے بات کر رہے تھے ۔ 

"داجان"؟

اسنے کہا تو نرمین اس آواز کو سن کر گھبرا گئی دل زورو سے دھڑک نے لگا وہ پہچان گئی تھی اس شخص کی آواز ابھی کل ہی تو وہ اس آواز سے مانوس ہوئی تھی ۔ سر پر تو اسکے دوپٹہ تھا گڑبڑا کر اسنے حجاب سے اپنا چہرا ڈھکا ۔ 

دا جان نے ایک نظر نرمین کو دیکھا اور دوسری نظر کبیر کو جو سامنے کھڑا ماتھے پر ایک بل ڈالے یہ دیکھنے کی کوشش میں تھا کے کون بیٹھا ہے ۔ 

"برخوردار صبر کرو"۔

کبیر وہی ٹھر گیا ۔ اور نرمین کا دل مانو حلق میں آگیا تھا وہ اتنا گھبرا گئی تھی اچانک ہونے والی اس صورتحال میں کے اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے جائے یا بیٹھی رہے مڑے یا نہ مڑے کہ داجان نے اسکی مشکل آسان کردی ۔ 

"نرمین بیٹا آپ جاؤ اپنے کمرے میں آرام کرو میں کھانا کھالونگا۔"

کبیر جو اسی تجسس میں تھا اس نام کو سن کر اسکے ماتھے سے فوری بل ہٹے ۔ کبیر کی نظریں اسی پر تھی جو خاموش بیٹھی تھی ۔

نرمین خاموشی سے کھڑی ہوئی اور پلٹی  کبیر نے دیکھا ہرے اسکی آنکھوں کے رنگ جیسے لباس میں کھڑی لڑکی جس کے سارے بال حتیٰ کے اسکا چہرہ اسکے حجاب میں چھپا تھا سوائے آنکھوں کے۔ 

 وہ حیرانی  سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا ۔ اسکی بڑی بڑی آنکھیں جن کے اٹھنے کی چاہ چھپکے سے اسکے دل نے کی تھی وہ نہیں جانتا تھا لیکن وہ چاہتا تھا اور پھر ایسا ہوا ۔ 

نرمین کی نظر غیر ارادی طور پر اسکی طرف اُٹھی ۔

بس ایک لمحہ صرف ایک لمحہ اور دوبارہ اسکی نظریں جھک گئی اور وہ خاموشی سے اسکے برابر سے گزر گئی ۔ 

اور کبیر مانو اسکی آنکھوں کے سحر میں گم ہوگیا ۔ بلا کا خوبصورت منظر تھا اُن  جھکی آنکھوں کا اُٹھنا اور پھر سے جھک جانا۔ اسکی آنکھوں میں بکھرے گلابی ڈورے جو رونے کے باعث آئے تھے اسکی انکھوں کو مزید بلا کا حسین بنا دیا تھا۔ 

کبیر کی آنکھوں کی پتلیاں ساکت سی اسی جگہ اٹکی تھی جس جگہ سے وہ ابھی گزری تھی اس احساس کے تحت کے وہ آنکھیں ابھی بھی یہاں موجود ہیں اور وہ انکے سحر میں ڈوبا تھا ۔ 

اسنے مکمل خود کو ڈھکا ہوا تھا لیکن وہ آنکھیں ، وہ آنکھیں تو اس ساحرہ نہ ڈھکی ہی نہیں جن  سے وہ اسے اس سحر میں جکڑ گئی۔ 

تادیر وہ وہاں کھڑا تھا کے دا جان کی آواز نے اسکا سحر توڑا ۔ 

"کبیر ؟ آؤ اندر ."

وہ خاموشی سے انکے پاس آکر بیٹھ گیا۔ 

داجان بھی سمجھ گئے تھے کے یہ انکی پہلی ملاقات تھی سالوں بعد ۔ لیکن ابھی اس بارے میں بات کرنا انہونے مناسب نا سمجھا ۔کبیر نے سر جھٹکا ۔

"کیسی طبیعت ہے آپکی ؟ کھانا کھانے کے بعد کیسا محسوس کر رہے ہیں۔؟"

"ٹھیک ہوں بس نرمین بیٹی کے ساتھ کھانا کھانے کی ایسی عادت ڈلی ہے کے حلق سے نوالا نہیں اُترتا ۔"

"تو اسے چاہئیے کے جب وہ جانتی ہے کے آپ اسکے ساتھ کھاتے ہیں تو وقت سے کھائے یہ نخرے دکھانے کا مطلب ؟"

وہ فورن اپنی ٹون میں آیا تھا ۔ اسے دا جان کی طبیعت کا احساس تھا کے نا کھانے کے باعث انکی طبیعت نا بگڑ جائے۔ 

دا جان نے اسے ٹوکا ۔ 

"میری بیٹی کے بارے میں اس طرح بات نا کرو ۔ وہ نخرہ نہی ہے  پانچ سال پہلے جب تمہاری بی جان ہمیں چھوڑ کر گئی تھی تب دن رات ہماری خدمت کری ہے ہمارا خیال رکھا ھے اگر ان پانچ سالوں میں وہ آج اپنی طبیعت کی وجہ سے بھول گئی تو  یہ نخرہ ہر گز نہیں ہے۔"

داجان نرمین کے خلاف دو الفاظ بھی سن لیں ایسا ممکن کہاں تھا۔ 

کبیر خاموش ہوگیا داجان کو اس لڑکی کی طرف داری کرتے دیکھ ۔ 

وہ جانتا تھا وہ ہمیشہ سے یہی کرتے تھے ۔ 

" اچھا چلیں آپ سو جائیں رات بہت ہو گئی ہے"۔

وہ خاموشی سے اُٹھ کھڑا ہوا  ۔اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ 

دا جان اسکے جانے کے بعد کافی دیر تک اس بارے میں سوچتے رہے ۔ 

وہ جانتے تھے نرمین کے دل کے راز اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا انہونے محبت کا جہاں آباد تھا ۔ 

وہ اپنی پوتی سے بے پناہ محبت کرتے تھے وہ چاہتے تھے کے وہ انکے سامنے رہے اور اسی طرح انہیں کبیر بھی عزیز تھا انکی دلی خواہش تھی کے وہ کبیر اور نرمین کی شادی دیکھیں ۔ لیکن انہیں کبیر کی طرف سے بہت خدشے تھے اسکی انکھوں میں انہونے بغاوت دیکھی تھی۔ انہیں ڈر تھا اس دن کا جب کبیر انکی سوچ کو سچ ثابت کردےگا۔ 

❤️❤️by Haya Khan❤️❤️

وہ اپنے کمرے میں آیا اس حویلی کا سب سے شاندار کمرہ تھا اسکا ۔ دروازہ کھلتے ہی سامنے بنی دیوار پر بنا اسکا پورٹریٹ اور اسکے نیچے جہازی سائز بیڈ ۔ دائیں طرف رکھے دو شاہی طرز میں بنے صوفے اور انکے بیچ رکھی خوبصورت سی بنی ٹیبل ۔ اسکے ساتھ لگے خوبصورت سفید رنگ کے پردے ۔بائیں طرف رکھی خوبصورت طرز میں بنی ڈریسنگ ٹیبل اور اسی کے ساتھ اندر کی طرف بنی الماری  اور کمرے کے ساتھ بنا چھوٹا سا بنا لائیبریری روم ۔ اسکے کمرے میں ہر چیز سفید رنگ کی تھی دیوار کا رنگ پردے، صوفے اور  فرنیچر۔ 

یہ کمرہ اسی کے ڈیزائن کے مطابق بنایا ہوا کمرہ تھا جو حویلی میں بنے ہر کمرے سے  بڑھ کر خوبصورت تھا ۔ 

یہ کبیر خانزادہ کا کمرہ تھا۔ 

بلیک ٹراؤزر اور بلیک شرٹ پہنے بال بکھرے ماتھے پر وہ اس وقت بھی بلا کی حسین لگ رہا تھا ۔

وہ اپنے کمرے میں آیا  اور ریموٹ سے لائیٹ آف کر کے لیٹ گیا۔ 

آنکھیں بند کری تو آنکھوں کے سامنے وہ دو کالی سیاہ آنکھیں آگئی۔  کبیر نے فورن اپنی آنکھیں کھول دی۔

اسے اچانک گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ 

اس نے پھر سے اپنی آنکھیں بند کری ۔

تو آنکھوں کے سامنے دوبارہ وہ آنکھیں اگئی وہ پریشانی سے اُٹھ بیٹھا ۔

یہ کیا ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ 

وہ اٹھا سائیڈ لیمپ آن کیا اور پانی پینے لگا ۔ 

وہ کیوں اسکے ذہن میں آرہی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔ 

ساری رات اسکی آنکھوں میں کٹی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا اسکے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔

وہ کمرے میں آتے ہی دروازہ بند کر گئی تھی حیرت سی اپنے دل پر ہاتھ رکھے وہ خاموش کھڑی تھی آنکھوں کی پتلیاں ساکت تھی ۔ 

وہ ایک لمحہ جب اسکی نظریں اٹھی تھی اور پھر جھک گئی تھی ۔ اس ایک لمحہ میں اسنے جانا وہ کتنا حسین ہو گیا تھا 

کتنا خوبصورت۔  ہری کائی سی گہری آنکھیں بال ماتھے پر بکھرے ہلکی داڑھی میں وہ کتنا دلکش لگ رہا تھا ۔

اسنے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا  جو دھڑک دھڑک کر پاگل ہو رہا تھا ۔ وہ خاموشی سے آئی اور بستر پر بیٹھی رات کا ایک بج رہا تھا وہ لیٹ گئی سونے کے لیئے ۔ 

آج پھر پوری رات اسکے خیالوں میں اس شخص کا راج تھا جو ہمیشہ سے اسکے دل و دماغ میں بسا رہا تھا ۔

❤️❤️

صبح کے سورج نے چاروں پہر روشنی کر دی تھی خان حویلی میں صبح ناشتے کا وقت تھا گھر کے سارے مرد جمع تھے۔ اور ناشتہ کرنے میں مصروف تھے ۔ 

داجی پہلے ہی ناشتہ کر چکے تھے لیکن پھر بھی سربراہی کرسی پر سب کے ساتھ بیٹھے تھے ۔

"لالا آپ ہمارے لیئے کچھ نہیں لائے کیا مورے نے تو ہماری لسٹ آپکو دی ہی نہیں تھی ۔"

شاز اور فاز ناشتہ کی ٹیبل پر بیٹھے اپنا دکھڑا رو رہے تھے جو یہ سمجھ رہے تھے کے کبیر ان کیلیئے کچھ نہیں لایا ۔

"مورے نے لسٹ نہیں دی تھی لیکن تم دونوں جو روز ویڈیو کال کر کے مجھے اپنی چیزیں گنواتے رہتے ہو میں کیسے بھول جاتا ".

کبیر انکے اترے چہرے دیکھ محضوظ ہوا تھا ۔ لیکن یہ سن نے کے بعد شاز اور فاز اپنی جگہ سے کھڑے ہوئے تھے اور خوشی سے کبیر کے بغلگیر ہوئے تھے ۔

"کبیر لالا آپ بہت اچھے ہے چلیں پھر ہمیں دکھائے سب۔"

"تم دونوں کا دماغ خراب ہے کیا ماڑا اسے ناشتہ تو کرنے دو۔"

شاہین بیگم اپنے ڈھولو بھولو کی فرمائیشوں سے تنگ آ کر بولی ۔

سب بڑے انکی نوٹنکی دیکھ مسکرا اُٹھے ۔

"لالا آپ ناشتے کے بعد تیار ہو جائے گا داجان نے کہا ہے آپ کو گاؤں کے کچھ معزز لوگوں سے ملوانا ہے۔"

فردان نے اپنی بات کہی تو کبیر نے تاثرات سپاٹ کیئے اور اثبات میں سر ہلایا ۔

وہ سب سمجھ رہا تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے فلحال وہ خاموش تھا لیکن اسنے سوچ لیا تھا وہ زیادہ دیر خاموش نہیں رہے گا ۔ وہ آج ہی ساری بات دا جان سے کلیئر کرے گا ۔ 

❤️❤️

"ہم کتنے حسین ہیں نا اسراء لگتا ہے خدا نے بہت پیار سے بنایا ہے ہمیں "۔ 

اسراء اور راحمہ ، اسراء کے کمرے میں بیٹھی تھی جب راحمہ شیشہ میں دیکھ اپنے گُن گانے لگی۔  

"بس کر دیں راحمہ آپی یہ دیکھیں ریاضی کا سوال حل نہیں ہو رہا  ہم سے پلیز ہماری مدد کردیں"۔

"تمہارے فردان لالا کہاں ہے ؟ ان سے کہو وہ کروائینگے ۔ ہیرو بن کر گھومنے کے علاوہ کرتے ہی کیا ہیں وہ۔"

فردان جو اسراء کے کمرے میں ہی آ رہا تھا  اپنی شان میں قصیدے سنتے ٹھر گیا ۔  

"اگر فردان لالا نے یہ سن لیا نا تو وہ آپکے اس خوبصورت چہرے کا ایک آدھ نقوش ادھر اُدھر کر دینگے".

اسراء جو اپنے بھائی کے غصہ سے واقف تھی اسنے دھمکانا مناسب سمجھا ۔ 

"ہنہہ۔ ہمارے سامنے انکی زبان بھی نہیں کھلتی ان خوبصورت نقوش کو ہاتھ لگانا تو بہت دور کی بات ہے."

راحمہ اپنی ناک نیچی کرلے ایسا کہاں ممکن تھا ۔ 

باہر فردان نے اسکی بڑھائیوں پر مٹھیاں بھینچی ۔ اور  اندر کی طرف خاموشی سے قدم رکھا ۔ 

راحمہ کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی وہ خاموشی سے دروازہ بند کر کے اس سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور اسراء کو خاموش رہنے کا اشارہ کرا جو اسے دیکھ چکی تھی۔

"مجھے لگتا ہے آپ تھوڑا زیادہ  بول رہی ہیں۔ " 

اسراء نے راحمہ کو بچانے کی چھوٹی سی کوشش کی ۔ 

" تمہیں نہیں پتا سب کے سامنے وہ بہت اٹٹیٹیوڈ میں رہتے ہیں لیکن جب کبھی اکیلے میں ٹکراجاتے ہیں تو سوری سوری کرتے ہیں ہمارے سامنے ۔"

فردان لالا سے آپ اکیلے میں ٹکراتی بھی ہیں ؟ 

اسراء نے حیرانی کا اظہار کیا ۔ تو راحمہ کو اپنی بات کا اندازہ ہوا تو گڑبڑا گئی ۔ 

"ہمارا۔ ہمارا مطلب انسان کبھی ٹکرا جاتا ہے ۔ کبھی کہیں جا رہا ہوتا ہے ۔"

راحمہ گھبرا کر الٹے سیدھے الفاظ ادا کرنے لگی ۔  

 فردان جو پیچھے کھڑا راحمہ کی گوہر افشانیاں سن رہا تھا متبسم ہو کر اسے دیکھنے لگا ۔ 

"فردان لالا آپ ہی بتائیں کیا سہی ہے اور کیا غلط ۔"

اسراء راحمہ کے پیچھے جھانک کر اشارے سے اسے بتانے کی کوشش کرنے لگی ۔ 

"ہاہاہا تمہیں لگتا ہے تم اس طرح سے ہمیں فردان لالا کے نام سے ڈراؤ گی اور ہم ڈر جائینگے؟ ارے ہم ان سے نہیں ڈرتے ورتے ہم تو بہت بہادر۔۔

وہ ہاتھ نچاتے ہوئے بولتے بولتے پلٹی اور دیدے پھاڑے فردان کو سامنے کھڑے دیکھ حیران رہ گئی اور منہ سے نکلتے سارے الفاظ حلق میں کہی دب گئی۔

تھوک نگلتے اسنے سامنے دیکھا جو اسے ہی خون خوار نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ 

"گڑیا تمہیں داجان بلا رہے ہیں ۔ جاؤ انکی بات سن کر آؤ"۔

وہ راحمہ کی آنکھوں میں دیکھ اسراء سے مخاطب ہوا ۔ 

اسراء کھڑے ہو کر راحمہ کی طرف دیکھ اسکی سلامتی کی دعا کرتے باہر کی طرف روانہ ہوئی۔

راحمہ نے ایک نظر بند دروازے کو دیکھا اور دوسری نظر فردان کو جو اسے ہی سرد نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ گرے رنگ کے کرتا شلوار میں وہ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا ۔  لیکن چہرے کے تاثرات دیکھ اسنے دل میں کلمہ پڑھا۔ 

تو مجھے ہیرو بن کر گھومنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے ؟ 

اسنے ایک قدم راحمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا تو راحمہ کے قدم پیچھے اٹھے ۔ 

"نہیں آپ۔ آپ کہاں سے ہیرو لگتے ہیں؟ "

فردان نے ایک ائیبرو اٹھائی تو اسنے گھبرا کر اپنے الفاظوں پر غور کیا ۔ 

"میرا مطلب آپ کو تو بہت زیادہ کام ہوتے ہیں" ۔ وہ پھیکا سا مسکرا کر اپنے الفاظ بدل گئی ۔  

"ہمم ۔ اور تمہارے سامنے میری زبان بھی نہیں کھلتی؟"

اسنے پھر ایک قدم راحمہ کی طرف بڑھایا تو راحمہ کے قدم پھر پیچھے ہٹے۔ 

"نہیں نہیں میرا کہنے کا مطلب تھا آپ کم۔ کم بولتے ہیں نا۔" وہ بلاوجہ جھوٹا قہقہہ لگاتی پیچھے ہو رہی تھی زبان اسکا ساتھ چھوڑ رہی تھی ۔ 

اور مجھے یاد نہیں آ رہا کب میں نے تمہیں سوری بولا تھا ۔؟ 

وہ سوچنے کی اداکاری کرنے لگا  اور راحمہ کو اپنے اردگرد خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگی ۔ 

"یہ سب ہم نے کیا بول دیا۔" وہ منہ ہی منہ میں پریشانی سے بڑبڑانے لگی جو فردان کے کانوں تک  اسکے قریب ہونے سے با آسانی پہنچ چکی تھی ۔ 

اسنے پھر راحمہ کی طرف قدم اُٹھائے تو راحمہ جو لگاتار پیچھے ہورہی تھی دیوار سے ٹکراگئی ۔ اور فردان نے پھر ایک قدم اسکی طرف بڑھایا ۔ 

فردان نے دیوار کے ایک طرف اسکے ہاتھ رکھتے اسے دیکھا جو گلابی رنگ کے کپڑے پہنے دوپٹہ کے ہالہ میں ماتھے پر پسینے لئیے اسکے سامنے کھڑی تھی ۔ 

"تمہارے ماتھے پر تو پسینہ  آرہا ہے ۔ لیکن ابھی تو تم کہہ رہی تھی تم بہادر ہو۔"

"ہاں تو ہم راحمہ رحمان خانزادہ ہیں۔ ہم ۔ ہم کسی سے نہیں ڈر۔ ڈرتے"

وہ اپنی بہادری کے مظاہرے یقیناً دکھاتی اگر فردان اتنا قریب نہ کھڑا ہوتا ۔ 

تو فردان اپنا رومال نکال اسکے ماتھے سے پسینہ صاف کرنے لگا راحمہ اسکے اتنے قریب آتے اپنا سانس تک روک گئی اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگی جو اپنا رومال استعمال کر رہا تھا ۔ 

"اگر تم اپنی بہادری کے مظاہرے مجھے اس طرح سے دکھانے لگی ہو تو مت دکھاؤ ۔ 

میں نہیں چاہتا میں کنوارا مروں۔"

فردان نے راحمہ کی سانس روکنے والی حرکت پر اشارہ کر کے کہا تو وہ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔ بات اسکے سر پر سے گزر چکی تھی ۔ 

"ک۔کیا۔کیا مطلب؟؟" 

وہ سن دماغ کے ساتھ اسے دیکھنے لگی ۔ 

"سانس لو ۔ "

فردان نے اسکے اتنے قریب آکر راحمہ کی آنکھوں میں دیکھتے اپنا حکم جاری کیا ۔ 

"آپ پیچھے ہو جائے پہلے"۔

اسنے ڈرتے ڈرتے کہاں اور فردان کے ماتھے پر بل پڑھتے دیکھ 

"پلیزز" لگا کر اپنا جملہ مکمل کیا ۔ 

 فردان نے دو قدم پیچھے لیا تو راحمہ کو اپنے اردگرد آکسیجن کا احساس ہوا ۔ 

"اپنی زبان اتنی ہی کھولا کرو جتنی برداشت کرسکو بعد میں۔ یہ جو تم پٹر پٹر بولتی ہونا کسی دن جان سے جاؤگی میرے ہاتھوں۔"

فردان خانزادہ فوراً اپنی ٹون میں واپس آیا تھا۔ 

"ہماری زبان ہے ہماری مر ۔ ضی "۔

راحمہ جو نیچے نظریں رکھے پتہ نہیں کیا تلاش کر رہی تھی فردان کے الفاظ سنتے اپنی زبان پر بریک نا لگا سکی ۔ لیکن پھر اسکی سرد نظریں دیکھ اپنی زبان پر ایک بار پھر غصہ آیا ۔ 

تمم۔۔۔ 

فردان کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ اسراء واپس کمرے میں آگئی ۔ 

"فردان لالا آپ کو کبیر لالا بلا رہے ہیں ڈیرے پر جانا کے لیئے۔"

فردان نے ایک سرد نظر راحمہ پر ڈالی اور چلا گیا ۔ اور راحمہ خوشی سے اسراء کے گلے لگ گئی ۔ 

"ہماری پیاری بہن آج تم نے ہمیں بچالیا ورنہ یہ پاگل پٹھان۔۔۔ 

اسراء کے ماتھے پر بل پڑھتے دیکھ اسنے اپنے الفاظ بدلے 

"ہمارا مطلب ورنہ فردان لالا تو آج یہی ہمارا مقبرا بنا دیتے."

وہ پھیکا سا مسکرا کر اپنی جان بخشی پر خوش ہونے لگی ۔ 

"ہاں تو اپنی جان بھی آپ خود ہی پھسا تی ہیں"۔ 

"اچھا اچھا چلو بس کرو۔ آؤ میں تمہیں تمہارا سوال حل کر کے دوں" ۔  

❤️❤️❤️

فردان اور کبیر  ڈیرے کے لئیے روانہ ہوئے تھے۔ فردان ڈرائیو کر رہا تھا جب اسکی آواز آئی۔

"کیا سوچ رہے ہیں آپ لالا کیا ارادہ ہے پھر۔ ؟"

"میں جو سوچ رہا ہوں اسی پر عمل کرونگا اور آج داجان سے اس بارے میں لازمی بات کرونگا".

کبیر باہر سڑک پر نظر رکھے کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ 

"سردار آپ کچھ کریں ۔ ہماری بیٹیاں باہر شہر جاکر نہیں پڑھ سکتی ہم چاہتے  ہیں کے یہں گاوں میں کالج یونیورسٹی ہو جہاں ہماری بیٹیاں محفوظ رہ کر تعلیم جاری رکھ سکے ۔ بڑے سردار لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف ہے اسلیئے وہ یہاں کوئی تعلیمی اداراہ تعمیر نہیں کرواتے آپ تو باہر سے آئے ہیں سمجھے ہماری بات کو شہر میں داخلہ کرواؤ تو راستہ میں ملک شہباز کے لوگ آجاتے ہیں اور ایک دو بار تو انہوں نے ہماری بیٹیوں کے ساتھ۔۔ "

یہ کہتے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کبیر نے یہ سنتے غصہ سے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچی ۔ 

فردان  غصہ میں کھڑا ہوگیا ۔ 

"میں اسے چھوڑونگا نہیں اسکی ہمت کیسے ہوئی ہمارے گاؤں کی عورتوں پر نظر رکھنے کی"۔

"آخر کب تک ایسا ہی ہوتا رہے گا وہ یہاں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالتے رہینگے  تم انہیں ماروگے پیٹوگے پھر یہی ہوتا رہے گے آخر کب تک"۔

کبیر کی شریانیں غصہ سے پھٹنے کو تھی ۔

"کرتا ہوں میں بات آج داجان سے"۔

کبیر نے آج تہیہّ کرلیا تھا کے وہ اس جہالت کو ختم کر کے رہے گا۔ 

داجان اپنے کمرے میں اپنے تینوں صاحبزادوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ 

"برہان ہمیں لگتا ہے کہ چونکہ کبیر اب واپس آگیا ہے تو ہمیں اب جلد از جلد اپنے فرض ادا کر دینے چاہیئے" ۔ 

کہی نہ کہی داجان کے دل میں جو ڈر تھا وہ اسے چھپا رہے تھے ۔ 

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں آپکی بات سے متفق ہوں ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیئے میں کبیر اور فردان سے اس بارے میں بات کروں اگر آپ کہیں تو؟" 

"نہیں تم نہیں ہم بات کرینگے ان دونوں سے خاص طور پر کبیر سے ۔" 

داجان کسی گہری سوچ میں گم تھے ۔ 

"جی جیسا آپ کو مناسب لگے ۔ "

"لیکن اسراء ابھی چھوٹی ہے داجی میں اسکی شادی ابھی نہیں کرنا چاہتا ۔ "

'لیکن برہان میں چاہتا ہوں کے اسراء کا بھی نکاح ہو جائے پھر جیسا منا سب لگے گا اسکی رخصتی کر دینگے" ۔ 

برہان خانزادہ داجی کی بات سن خاموش ہوئے تھے اور اثبات میں سر ہلا کر اپنی رضا ظاہر کی تھی۔

رضوان خانزادہ اور رحمان خانزادہ نے بھی مسکرا کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا ۔ 

اور اب داجان کبیر سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جس کے خود کے ارادے کیا تھے وہ اس بات سے نا واقف تھے۔  

🤍🤍🤍

رات کے سائے ڈھل گئے تھے نرمین داجی کے کمرے میں انہیں دودھ دینے گئی ۔

"آؤ بیٹا میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔

نرمین نے میٹھی سی مسکان کے ساتھ انہیں دیکھا جو سفید پوش کالی چادر سے خود کو ڈھکے کافی بزرگ لگے اسے ۔ 

بی جی کے انتقال کے بعد سے وہ دن با دن ڈھل رہے تھے لیکن نرمین انکا بہت خیال رکھتی تھی ۔

"یہ لیں گرم دودھ پی لیں دا جان " وہ انکے ساتھ بیٹھی انکے ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑایا ۔

"ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی تھی بیٹا ۔ 

"جی کہیں دا جان ۔

"آج ہم نے آپکے بابا اور باقی سب بڑوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کے آپ لوگوں کے فرض سے پورے ہوجائے  ۔ کبیر بھی اب آگیا ہے تو ہمیں لگتا ہے کسی قسم کی دیر نہیں کرنی چاہئے اب۔ 

نرمین دا جان کی بات سن رہی تھی نظریں نیچے کرے وہ خاموش تھی لیکن اسکے اندر یہ بات سن کر جو ادھم برپا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے ۔ 

"آپ کو جیسا مناسب لگے دا جان ۔ 

دا جی نے خوشی سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔

 "جیتی رہو ہماری بیٹی"۔

نرمین  خوش تھی لیکن اسکے دل اور دماغ میں کئی سوال تھے کیا دا جی نے کبیر سے بات کرلی ہو گی ؟ اسنے کیا کہا ہوگا ۔ یہ سب وہ کہنا چاہتی تھی لیکن زبان سے کہہ نہ سکی ۔ 

وہ خاموشی سے اٹھتی خالی گلاس ہاتھ میں لیئے چہرہ ڈھکے وہاں سے رسوئی خانہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ 

نرمین جو کچن میں دودھ کا گلاس رکھنے آئی تھی جیسے ہی پلٹی اسکے سامنے  کوئی کالا سایہ کھڑا تھا وہ گھبرا گئی اور گھبراہٹ میں اسکے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور دو قدم دور ہوئی لیکن گھبراہٹ میں ہاتھ سے نقاب چھوٹنے نہ دیا۔

وہ ڈر کے مارے اپنی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں کو مزید بڑا کیئے کھڑی تھی۔

 آپ ۔ آپ کون ہیں ؟؟ 

نرم لہجہ خوبصورت آواز ، چاند کی روشنی سیدھا اسکے چہرے پر پڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں۔ ہاں یہ وہی آنکھیں تھی جو اسنے رات دیکھی تھی ۔ انہیں آنکھوں کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہیں پایا تھا اور پھر سے وہی آنکھیں ۔ 

وہ اسکی آواز سنتا اور اسکی آنکھیں دیکھتا کسی سحر میں گم ہو گیا تھا ۔ 

ہاں وہ سحر ہی تو تھی جس نے اسے کل رات بھی جکڑ لیا تھا اور آج پھر وہ اسکے سامنے تھی ۔ 

وہ نرمین کی آنکھوں میں کہی گم ہو گیا تھا جیسے پلک جھپکے گا تو وہ کہی غائب ہو جائے گی ۔

 نرمین گھبرا کر اسکی طرف سے نکلنے لگی تھی لیکن وہ پھر اسکے آگے آ گیا تھا ۔

 وہ گھبرا کر دو قدم  پیچھے ہوئی اپنی بے بسی دیکھ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ کون تھا اندھیرے میں اسکا چہرہ بھی اسے نظر نہیں آرہا تھا ۔ 

"ہمیں جانے دیں پلیز" ۔ 

اسکی نظریں نرمین کی آنکھوں میں کہیں گم ہو گئی تھی ۔ اسکی آنکھوں میں آنسو حسین لگ رہے تھے بے تحاشا حسین وہ خاموشی سے کھڑا وہ آنسو دیکھ رہا تھا جو انکھ سے جمچھلک کر نقاب میں جب ہو رہا تھا اچانک اسنے قدم آگے کی طرف بڑھایا بے اختیاری میں بڑھا ہوا قدم ۔ 

وہ کچن میں سلب سے لگ کر کھڑی ہو گئی تھی آنکھوں میں سے آنسو جاری تھے اور دل میں اللّٰہ سے مخاطب تھی ۔ 

وہ سایہ اس سے ایک قدم کی دوری پر کھڑا تھا چہرہ اسکے قریب کیا تو نرمین کی دھڑکنیں رک گئی وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی ۔  جو اسکے کان کے قریب جھکتے گھمبیر آواز میں بولا۔

"Gözlerin çok güzel"

(تمہاری آنکھیں بہت حسین ہیں)

نرمین کی آنکھیں سختی سے بند تھی لیکن یہ آواز ؟ یہ تو کبیر خانزادہ کی آواز تھی تو کیا یہ وہی تھا وہ اپنی سانس تک روک گئی تھی ۔اسنے کیا کہا تھا وہ کوئی دوسری زبان تھی وہ سمجھ نہ سکی لیکن اس آواز کو وہ پہچان سکتی تھی ۔ 

اسنے اچانک آنکھیں کھولی اور اسے دھکا دیتے وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی  اور اپنے کمرے میں جاتے دروازہ بند کرتے وہ دروازے سے لگی گہرے سانس لے رہی تھی اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ 

کبیر جو ابھی حویلی میں داخل ہوا تھا اسے اندھیرے میں کچن سے آواز آئی ۔ 

اسے حیرت ہوئی کے اس طرف تو اندھیرا ہے پھر آواز وہاں سے ؟ وہ دبے پاؤں اس طرف گیا تو وہاں کوئی لڑکی تھی ۔ سر پر دوپٹہ لیئے لیکن اس لڑکی کی پیٹھ تھی اس طرف ۔ اسکے دل نے  کہا کہ شاید یہ وہی ہے جو کل رات دا جی کے کمرے میں تھی ۔ اندھیرا تھا لیکن کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں وہ دیکھ سکتا تھا وہ روشنی سیدھا اس لڑکی کے وجود پر پڑھ رہی تھی ۔

وہ ان میں ڈوبا تھا کہ اسکے دھکا دینے سے وہ اپنے حوش و حواس میں لوٹا تھا ۔ یہ کیا تھا وہ کیا کر رہا تھا اسکا دماغ اس وقت بلکل خالی تھا ۔ اسے حیرانی ہوئی اس پر بھی جو ابھی اسے یہاں سے دھکا دے کر بھاگی تھی اور خود پر بھی وہ اتنا بے اختیار کیسے ہو سکتا تھا ۔ وہ کمزور نفس کا انسان تو نہ تھا پھر کیسے وہ ان آنکھوں میں گم ہو گیا تھا  وہ اپنا سر جھٹکتے داجان کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔ یہ سب جو بھی ہو رہا تھا ٹھیک نہیں تھا ۔ 

🤍🤍🤍

دروازے کی آواز سنتے داجی نے اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔ 

"آئے برخوردار ہم آپ سے ہی ملنا چاہتے تھے ۔ 

ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ انکے پاس بیٹھا تھا۔

"طبیعت کیسی ہے آپکی داجان ۔ 

"ہم ٹھیک ہیں بس عمر کا تقاضہ ہے اب اس عمر میں تو یہ سب ہوتا رہے گا ۔

"کیسی باتیں کر رہے ہیں داجان اللّٰہ اپکو لمبی زندگی دے۔ 

"کبیر ہم چاہتے ہیں کے بچپن میں جو معاہدا طہ پایا تھا اب اسکی تکمیل ہو جائے۔ 

یہ سن کبیر نے خاموشی سے نظریں نیچے کی تھی۔  اسی بات سے وہ بچنا چاہ رہا تھا لیکن آج شاید وہ وقت آگیا تھا۔

"میں سمجھا نہیں آپ کی بات کا مقصد۔ 

وہ جان کر بھی انجان بن گیا تھا۔ 

"ہم چاہتے ہیں آپکی اور نرمین کی اب شادی ہو جانی چاہیئے ۔ 

داجی نے اسکو انجان بنتے دیکھ اپنی بات پھر دوہرائی تھی۔ 

کبیر نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی اور نظریں نیچے کیئے اپنا جملہ مکمل کیا ۔ 

"داجان میں ایسا نہیں چاہتا۔ 

"کیا مطلب ہے آپ کا ۔ دا جی نے سنتے ہی اپنے ماتھے پر بل ڈالے تھے۔ 

"داجان میں آپ کے فیصلہ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں اس روایت میں نہیں بندھنا چاہتا ۔ میں نرمین خانزادہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ 

یہ کہتے ایک پل کو اسکے سامنے وہ دو آنکھیں آئی تھی جس کا وہ اسیر ہوتا جارہا تھا لیکن اس بات سے وہ خود ہی نا واقف تھا اور نہیں جانتا تھا کے جس نعمت کیلیئے کوئی مر رہا ہے وہ اسے مفت میں مل رہی ہے ۔ 

"کبیر یہ کیا بول رہے ہو تم وہ تمہارے بچپن کی منگ ہے ۔ تم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ 

داجان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ یہ بات سن نا بھی نہیں چاہتے تھے جو کبیر آرام سے بول گیا تھا۔ 

"داجان میں اسے جانتا تک نہیں ہوں وہ کیسی ہے کیسی نہیں میں کچھ نہیں جانتا اسکے بارے میں ۔ میں کسی بھی لڑکی سے ایسے شادی ہر گز نہیں کرونگا ۔ 

وہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ 

"وہ تمہاری عزت ہے تمہارے نام پر بیٹھی ہے اور تم اس بات سے مکر نہیں سکتے وہ ساری زندگی تمہارے نام پر نہیں بیٹھے گی۔

"وہ منگ تھی بیوی نہیں جو ساری عمر میرے نام پر بیٹھے گی ۔ 

رات ہوگئی ہے ابھی جاکر سوجائیں ہمیں امید ہے صبح آپ کا جواب یہ نہیں ہوگا۔ 

داجان کی سختی بھری آواز سن کبیر خاموش ہوا تھا ان کی طبیعت کا خیال کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ 

"آپ مجھے ایک رات کا وقت دیں یا ایک سال کا میرا جواب نہیں بدلے گا۔ 

وہ کہتا وہاں سے چلا گیا ، اور پیچھے دا جان کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ 

کبیر خانزادہ شادی آپکی صرف نرمین خانزادہ سے ہی ہوگی۔ 

🤍🤍🤍

وہ غصہ میں بھرا اپنے کمرے میں آیا تھا ایسا نہیں ہوسکتا میں جس لڑکی کو جانتا تک نہیں اس سے شادی کرلوں۔ سوچ سوچ کر اسکی دماغ کی نسیں پھول چکی تھی کے اتنے میں اسکا موبائل بجا۔ 

"ہیلو۔

"کیسا ہے یار کہاں غائب ہے تونے تو جاکر کال ہی نہیں کری ۔ 

"بس یار یہاں آکر تھوڑا مصروف ہو گیا تھا 

"ہاں ہاں کہیں وہاں تجھے تیری منگ پسند تو نہیں آگئی جو دوستوں کو بھول گیا۔ 

ارحم اور عرش نے شوخیاں جھاڑی۔ 

کبیر کی آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر پہلے کا منظر لہرایا اسکی بھیگی بھیگی آنکھیں خوبصورت آواز ۔ اسکے دل نے کہیں سے آواز دی تھی کہ کبیر خانزادہ تم نے جتنا جانا ہے وہ ایک سحر لگی ہے تمہیں اگر تم اسے پورا جان بیٹھے تو حوش نا گنوادو۔

"ہیلو ؟ تجھے آواز آ رہی ہے ہماری؟

"ہاں۔ ہاں آ رہی ہے ۔ 

"کیا ہوا ؟ کچھ ہوا ہے؟ 

ارحم نے سوال کیا تو کبیر نے پیشانی مسلی۔ 

"ابھی داجان سے بات کر کے آ رہا ہوں میں نے اپنی بات صاف لفظوں میں سمجھادی ہے میں کسی صورت یہاں شادی نہیں کرونگا۔ 

"تونے بات کرلی ہے تو پریشانی کس بات کی ؟ 

"جتنا میں دا جان کو جانتا ہوں وہ اپنی زبان سے نہیں پھرینگے ۔ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔

"تو فکر نہیں کر جب تونے کہہ دیا ہے تو اپنی بات پر ڈٹے رہنا۔ 

کبیر کی پریشانی بھری آواز سن عرش نے اپنا مشورا دیا ۔ 

"تو ایک بار دیکھ لے جان لے کیا پتہ جیسا تو سوچ رہا ہے وہ ویسی نہ ہو ۔ ؟ 

 ارحم نے کچھ سوچ کر کہا۔  

"کیسی بات کر رہا ہے ارحم وہ گاؤں میں رہتی ہے۔  ہو گی کوئی گوار سی ان پڑھ عجیب سا اسکا کوئی ڈریسنگ سینس ہوگا رنگ برنگی میکپ میں نہاتی ہوگی ۔ گاؤں کی لڑکیاں اسی ٹائپ کی ہوتی ہیں ۔ 

کبیر کے سامنے وہ منظر لہرایا جب اسنے نرمین کو پہلی بار دیکھا تھا ہرا کائی سے گہرے کلر کا  سادہ سا فراک بلکل اسکی آنکھوں کی طرح اور چوڑی دار پہنے سرپر  دوپٹہ لیئے  چہرا ڈھکے بس وہ دو آنکھیں، 

بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ 

"نہیں وہ ایسی نہیں ہے وہ بہت۔۔۔

اتنا کہتے اسے حوش آیا ۔اور سر جھٹکا یہ اسے کیا ہو رہا تھا ۔ 

"میرا مطلب وہ چہرہ چھپاتی ہے شاید ۔ شاید پردہ کرتی ہے ۔ میں نے اسے جب بھی دیکھا ہے وہ چہرہ ڈھک کر ہی میرے سامنے آئی ہے۔ 

کبیر نے بتایا تو وہ دونوں سوچ میں پڑھ گئے۔ 

"ہوسکتا ہے اسکا چہرہ خراب ہو تبھی وہ چہرہ ڈھکتی ہو ۔ ؟؟

عرش نے ہمیشہ کی طرح اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ 

ارحم نے اپنا سر پیٹا اور کبیر نے اپنے سامنے دیوار کو ایسے گھورا جیسے وہ عرش ہی ہے۔ 

ارحم نے اسکی کمر پر گھونسا جڑا ۔

"بکواس مت کیا کر۔ 

"لیکن اسکی آنکھیں ۔ اسکی آنکھیں خوبصورت ہیں۔

کبیر کے بے اختیاری میں کہے گئے الفاظوں سے ارحم اور عرش کو چپ لگ گئی ۔

"تو یار یہاں بھی تو وہ ایملی تھی تیرے پیچھے پاگل تھی اسکی آنکھیں بھی تو کتنی حسین تھی ، بلکہ وہ تو پوری ہی حسینہ تھی سر سے پیر تک ۔ اسے تو تونے کبھی نہیں کہاں ایسا ۔ تو اس حجابی میڈم کی صرف آنکھیں دیکھ کر تو اسکی تعریف کر رہا ہے، اپنا اصول بھول گیا کے کبیر خانزادہ کے علاوہ کوئی تعریف کے لائق نہیں ہے ؟ 

مجھے لگتا ہے عرش تیری پرسنل دشمنی ہے حجابی میڈم کے ساتھ ۔ 

ارحم نے چڑ کر کہا تو عرش نے ایسے سر ہلایا جیسے واقعی وہ اسکے پیسے چرا کر بھاگی ہے۔ 

کبیر خاموش کھڑا کسی سوچ میں گم انکی باتیں سن رہا تھا ۔ 

واقعی وہ تو اپنے علاوہ کسی کو تعریف کے قابل نہیں سمجھتا تھا اسنا اپنا سر جھٹکا اور واپس اپنی ٹون میں آیا ۔ 

"تو سہی کہہ رہا ہے عرش میں زیادہ سوچ رہا ہوں ۔ لیکن اپنے فیصلہ سے ہر گز بھی پیچھے نہیں ہٹونگا میں ۔ 

ارحم خاموش کھڑا تھا وہ اس نظریہ سے نہیں سوچ رہا تھا جس سے کبیر اور عرش سوچ رہے تھے ۔ 

وہ خاموش تھا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ 

🤍🤍🤍🤍

نرمین اپنے کمرے میں آکر بیٹھی اسکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑھ رہے تھے ۔  ہاں وہ کبیر ہی تھا لیکن اسے کیا ہوا تھا وہ اسکے اتنا قریب آیا تھا یہ سوچ ہی اسکے پسینہ چھوڑ رہی تھی ۔ اسنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور واشروم فریش ہونے چلی گئی ۔ 

جب وہ سونے کے لیئے لیٹی تو آنکھوں کے سامنے پھر وہی منظر لہرایا ۔

"Gözlerin çok güzel"

یہ کیا کہا تھا اسنے ۔ یقیناً وہ تر کش زبان تھی لیکن نرمین اس زبان سے واقف نہ تھی ۔ 

اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی شدید گھبراہٹ۔ 

وہ سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی ۔ 

کیا واقعی کبیر خانزادہ شادی کے لیئے راضی ہے یہ بات سوچتے اسکے چہرے پر خوبصورت سی مسکان آئی تھی ۔ 

وہ اس بات سے نا واقف تھی کے آگے اس عشق نے اس سے کئی امتحان لینے ہیں ۔ 

اور بے شک خدا جس سے محبت کرتا ہے اس سے امتحان بھی لیتا ہے اور وہ تو اللّٰہ کی محبوب بندی تھی ۔ اس کی زندگی میں آگے کتنے امتحان تھے ان سے نا واقف تھی۔ 

🤍🤍🤍

تیرا خمار❤️

تحریر:حیا خان❤️

چھٹی قسط:6

داجان اپنے کمرے میں اپنے تینوں صاحبزادوں کے ساتھ بیٹھے تھے ۔ 

"برہان ہمیں لگتا ہے کہ چونکہ کبیر اب واپس آگیا ہے تو ہمیں اب جلد از جلد اپنے فرض ادا کر دینے چاہیئے" ۔ 

کہی نہ کہی داجان کے دل میں جو ڈر تھا وہ اسے چھپا رہے تھے ۔ 

"آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں میں آپکی بات سے متفق ہوں ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیئے میں کبیر اور فردان سے اس بارے میں بات کروں اگر آپ کہیں تو؟" 

"نہیں تم نہیں ہم بات کرینگے ان دونوں سے خاص طور پر کبیر سے ۔" 

داجان کسی گہری سوچ میں گم تھے ۔ 

"جی جیسا آپ کو مناسب لگے ۔ "

"لیکن اسراء ابھی چھوٹی ہے داجی میں اسکی شادی ابھی نہیں کرنا چاہتا ۔ "

'لیکن برہان میں چاہتا ہوں کے اسراء کا بھی نکاح ہو جائے پھر جیسا منا سب لگے گا اسکی رخصتی کر دینگے" ۔ 

برہان خانزادہ داجی کی بات سن خاموش ہوئے تھے اور اثبات میں سر ہلا کر اپنی رضا ظاہر کی تھی۔

رضوان خانزادہ اور رحمان خانزادہ نے بھی مسکرا کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا تھا ۔ 

اور اب داجان کبیر سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے تھے جس کے خود کے ارادے کیا تھے وہ اس بات سے نا واقف تھے۔  

🤍🤍🤍

رات کے سائے ڈھل گئے تھے نرمین داجی کے کمرے میں انہیں دودھ دینے گئی ۔

"آؤ بیٹا میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔

نرمین نے میٹھی سی مسکان کے ساتھ انہیں دیکھا جو سفید پوش کالی چادر سے خود کو ڈھکے کافی بزرگ لگے اسے ۔ 

بی جی کے انتقال کے بعد سے وہ دن با دن ڈھل رہے تھے لیکن نرمین انکا بہت خیال رکھتی تھی ۔

"یہ لیں گرم دودھ پی لیں دا جان " وہ انکے ساتھ بیٹھی انکے ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑایا ۔

"ہمیں آپ سے کچھ بات کرنی تھی بیٹا ۔ 

"جی کہیں دا جان ۔

"آج ہم نے آپکے بابا اور باقی سب بڑوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کے آپ لوگوں کے فرض سے پورے ہوجائے  ۔ کبیر بھی اب آگیا ہے تو ہمیں لگتا ہے کسی قسم کی دیر نہیں کرنی چاہئے اب۔ 

نرمین دا جان کی بات سن رہی تھی نظریں نیچے کرے وہ خاموش تھی لیکن اسکے اندر یہ بات سن کر جو ادھم برپا ہوا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے ۔ 

"آپ کو جیسا مناسب لگے دا جان ۔ 

دا جی نے خوشی سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔

 "جیتی رہو ہماری بیٹی"۔

نرمین  خوش تھی لیکن اسکے دل اور دماغ میں کئی سوال تھے کیا دا جی نے کبیر سے بات کرلی ہو گی ؟ اسنے کیا کہا ہوگا ۔ یہ سب وہ کہنا چاہتی تھی لیکن زبان سے کہہ نہ سکی ۔ 

وہ خاموشی سے اٹھتی خالی گلاس ہاتھ میں لیئے چہرہ ڈھکے وہاں سے رسوئی خانہ کی طرف روانہ ہوگئی۔ 

نرمین جو کچن میں دودھ کا گلاس رکھنے آئی تھی جیسے ہی پلٹی اسکے سامنے  کوئی کالا سایہ کھڑا تھا وہ گھبرا گئی اور گھبراہٹ میں اسکے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور دو قدم دور ہوئی لیکن گھبراہٹ میں ہاتھ سے نقاب چھوٹنے نہ دیا۔

وہ ڈر کے مارے اپنی بڑی بڑی کالی سیاہ آنکھوں کو مزید بڑا کیئے کھڑی تھی۔

 آپ ۔ آپ کون ہیں ؟؟ 

نرم لہجہ خوبصورت آواز ، چاند کی روشنی سیدھا اسکے چہرے پر پڑھ رہی تھی اسکی آنکھیں۔ ہاں یہ وہی آنکھیں تھی جو اسنے رات دیکھی تھی ۔ انہیں آنکھوں کی وجہ سے وہ رات بھر سو نہیں پایا تھا اور پھر سے وہی آنکھیں ۔ 

وہ اسکی آواز سنتا اور اسکی آنکھیں دیکھتا کسی سحر میں گم ہو گیا تھا ۔ 

ہاں وہ سحر ہی تو تھی جس نے اسے کل رات بھی جکڑ لیا تھا اور آج پھر وہ اسکے سامنے تھی ۔ 

وہ نرمین کی آنکھوں میں کہی گم ہو گیا تھا جیسے پلک جھپکے گا تو وہ کہی غائب ہو جائے گی ۔

 نرمین گھبرا کر اسکی طرف سے نکلنے لگی تھی لیکن وہ پھر اسکے آگے آ گیا تھا ۔

 وہ گھبرا کر دو قدم  پیچھے ہوئی اپنی بے بسی دیکھ اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے وہ کون تھا اندھیرے میں اسکا چہرہ بھی اسے نظر نہیں آرہا تھا ۔ 

"ہمیں جانے دیں پلیز" ۔ 

اسکی نظریں نرمین کی آنکھوں میں کہیں گم ہو گئی تھی ۔ اسکی آنکھوں میں آنسو حسین لگ رہے تھے بے تحاشا حسین وہ خاموشی سے کھڑا وہ آنسو دیکھ رہا تھا جو انکھ سے جمچھلک کر نقاب میں جب ہو رہا تھا اچانک اسنے قدم آگے کی طرف بڑھایا بے اختیاری میں بڑھا ہوا قدم ۔ 

وہ کچن میں سلب سے لگ کر کھڑی ہو گئی تھی آنکھوں میں سے آنسو جاری تھے اور دل میں اللّٰہ سے مخاطب تھی ۔ 

وہ سایہ اس سے ایک قدم کی دوری پر کھڑا تھا چہرہ اسکے قریب کیا تو نرمین کی دھڑکنیں رک گئی وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی ۔  جو اسکے کان کے قریب جھکتے گھمبیر آواز میں بولا۔

"Gözlerin çok güzel"

(تمہاری آنکھیں بہت حسین ہیں)

نرمین کی آنکھیں سختی سے بند تھی لیکن یہ آواز ؟ یہ تو کبیر خانزادہ کی آواز تھی تو کیا یہ وہی تھا وہ اپنی سانس تک روک گئی تھی ۔اسنے کیا کہا تھا وہ کوئی دوسری زبان تھی وہ سمجھ نہ سکی لیکن اس آواز کو وہ پہچان سکتی تھی ۔ 

اسنے اچانک آنکھیں کھولی اور اسے دھکا دیتے وہ وہاں سے بھاگ گئی تھی  اور اپنے کمرے میں جاتے دروازہ بند کرتے وہ دروازے سے لگی گہرے سانس لے رہی تھی اسکا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ 

کبیر جو ابھی حویلی میں داخل ہوا تھا اسے اندھیرے میں کچن سے آواز آئی ۔ 

اسے حیرت ہوئی کے اس طرف تو اندھیرا ہے پھر آواز وہاں سے ؟ وہ دبے پاؤں اس طرف گیا تو وہاں کوئی لڑکی تھی ۔ سر پر دوپٹہ لیئے لیکن اس لڑکی کی پیٹھ تھی اس طرف ۔ اسکے دل نے  کہا کہ شاید یہ وہی ہے جو کل رات دا جی کے کمرے میں تھی ۔ اندھیرا تھا لیکن کھڑکی سے آتی چاند کی روشنی میں وہ دیکھ سکتا تھا وہ روشنی سیدھا اس لڑکی کے وجود پر پڑھ رہی تھی ۔

وہ ان میں ڈوبا تھا کہ اسکے دھکا دینے سے وہ اپنے حوش و حواس میں لوٹا تھا ۔ یہ کیا تھا وہ کیا کر رہا تھا اسکا دماغ اس وقت بلکل خالی تھا ۔ اسے حیرانی ہوئی اس پر بھی جو ابھی اسے یہاں سے دھکا دے کر بھاگی تھی اور خود پر بھی وہ اتنا بے اختیار کیسے ہو سکتا تھا ۔ وہ کمزور نفس کا انسان تو نہ تھا پھر کیسے وہ ان آنکھوں میں گم ہو گیا تھا  وہ اپنا سر جھٹکتے داجان کے کمرے کی طرف بڑھا تھا۔ یہ سب جو بھی ہو رہا تھا ٹھیک نہیں تھا ۔ 

🤍🤍🤍

دروازے کی آواز سنتے داجی نے اسے اندر آنے کی اجازت دی تھی ۔ 

"آئے برخوردار ہم آپ سے ہی ملنا چاہتے تھے ۔ 

ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ وہ انکے پاس بیٹھا تھا۔

"طبیعت کیسی ہے آپکی داجان ۔ 

"ہم ٹھیک ہیں بس عمر کا تقاضہ ہے اب اس عمر میں تو یہ سب ہوتا رہے گا ۔

"کیسی باتیں کر رہے ہیں داجان اللّٰہ اپکو لمبی زندگی دے۔ 

"کبیر ہم چاہتے ہیں کے بچپن میں جو معاہدا طہ پایا تھا اب اسکی تکمیل ہو جائے۔ 

یہ سن کبیر نے خاموشی سے نظریں نیچے کی تھی۔  اسی بات سے وہ بچنا چاہ رہا تھا لیکن آج شاید وہ وقت آگیا تھا۔

"میں سمجھا نہیں آپ کی بات کا مقصد۔ 

وہ جان کر بھی انجان بن گیا تھا۔ 

"ہم چاہتے ہیں آپکی اور نرمین کی اب شادی ہو جانی چاہیئے ۔ 

داجی نے اسکو انجان بنتے دیکھ اپنی بات پھر دوہرائی تھی۔ 

کبیر نے ضبط سے اپنی مٹھیاں بھینچی اور نظریں نیچے کیئے اپنا جملہ مکمل کیا ۔ 

"داجان میں ایسا نہیں چاہتا۔ 

"کیا مطلب ہے آپ کا ۔ دا جی نے سنتے ہی اپنے ماتھے پر بل ڈالے تھے۔ 

"داجان میں آپ کے فیصلہ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن میں اس روایت میں نہیں بندھنا چاہتا ۔ میں نرمین خانزادہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ 

یہ کہتے ایک پل کو اسکے سامنے وہ دو آنکھیں آئی تھی جس کا وہ اسیر ہوتا جارہا تھا لیکن اس بات سے وہ خود ہی نا واقف تھا اور نہیں جانتا تھا کے جس نعمت کیلیئے کوئی مر رہا ہے وہ اسے مفت میں مل رہی ہے ۔ 

"کبیر یہ کیا بول رہے ہو تم وہ تمہارے بچپن کی منگ ہے ۔ تم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔ 

داجان کا غصہ ساتویں آسمان پر پہنچ گیا تھا جس کا ڈر تھا وہی ہوا تھا وہ یہ بات سن نا بھی نہیں چاہتے تھے جو کبیر آرام سے بول گیا تھا۔ 

"داجان میں اسے جانتا تک نہیں ہوں وہ کیسی ہے کیسی نہیں میں کچھ نہیں جانتا اسکے بارے میں ۔ میں کسی بھی لڑکی سے ایسے شادی ہر گز نہیں کرونگا ۔ 

وہ کہتے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ 

"وہ تمہاری عزت ہے تمہارے نام پر بیٹھی ہے اور تم اس بات سے مکر نہیں سکتے وہ ساری زندگی تمہارے نام پر نہیں بیٹھے گی۔

"وہ منگ تھی بیوی نہیں جو ساری عمر میرے نام پر بیٹھے گی ۔ 

رات ہوگئی ہے ابھی جاکر سوجائیں ہمیں امید ہے صبح آپ کا جواب یہ نہیں ہوگا۔ 

داجان کی سختی بھری آواز سن کبیر خاموش ہوا تھا ان کی طبیعت کا خیال کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ 

"آپ مجھے ایک رات کا وقت دیں یا ایک سال کا میرا جواب نہیں بدلے گا۔ 

وہ کہتا وہاں سے چلا گیا ، اور پیچھے دا جان کسی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔ 

کبیر خانزادہ شادی آپکی صرف نرمین خانزادہ سے ہی ہوگی۔ 

🤍🤍🤍

وہ غصہ میں بھرا اپنے کمرے میں آیا تھا ایسا نہیں ہوسکتا میں جس لڑکی کو جانتا تک نہیں اس سے شادی کرلوں۔ سوچ سوچ کر اسکی دماغ کی نسیں پھول چکی تھی کے اتنے میں اسکا موبائل بجا۔ 

"ہیلو۔

"کیسا ہے یار کہاں غائب ہے تونے تو جاکر کال ہی نہیں کری ۔ 

"بس یار یہاں آکر تھوڑا مصروف ہو گیا تھا 

"ہاں ہاں کہیں وہاں تجھے تیری منگ پسند تو نہیں آگئی جو دوستوں کو بھول گیا۔ 

ارحم اور عرش نے شوخیاں جھاڑی۔ 

کبیر کی آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر پہلے کا منظر لہرایا اسکی بھیگی بھیگی آنکھیں خوبصورت آواز ۔ اسکے دل نے کہیں سے آواز دی تھی کہ کبیر خانزادہ تم نے جتنا جانا ہے وہ ایک سحر لگی ہے تمہیں اگر تم اسے پورا جان بیٹھے تو حوش نا گنوادو۔

"ہیلو ؟ تجھے آواز آ رہی ہے ہماری؟

"ہاں۔ ہاں آ رہی ہے ۔ 

"کیا ہوا ؟ کچھ ہوا ہے؟ 

ارحم نے سوال کیا تو کبیر نے پیشانی مسلی۔ 

"ابھی داجان سے بات کر کے آ رہا ہوں میں نے اپنی بات صاف لفظوں میں سمجھادی ہے میں کسی صورت یہاں شادی نہیں کرونگا۔ 

"تونے بات کرلی ہے تو پریشانی کس بات کی ؟ 

"جتنا میں دا جان کو جانتا ہوں وہ اپنی زبان سے نہیں پھرینگے ۔ سمجھ نہیں آ رہا کیا کروں۔

"تو فکر نہیں کر جب تونے کہہ دیا ہے تو اپنی بات پر ڈٹے رہنا۔ 

کبیر کی پریشانی بھری آواز سن عرش نے اپنا مشورا دیا ۔ 

"تو ایک بار دیکھ لے جان لے کیا پتہ جیسا تو سوچ رہا ہے وہ ویسی نہ ہو ۔ ؟ 

 ارحم نے کچھ سوچ کر کہا۔  

"کیسی بات کر رہا ہے ارحم وہ گاؤں میں رہتی ہے۔  ہو گی کوئی گوار سی ان پڑھ عجیب سا اسکا کوئی ڈریسنگ سینس ہوگا رنگ برنگی میکپ میں نہاتی ہوگی ۔ گاؤں کی لڑکیاں اسی ٹائپ کی ہوتی ہیں ۔ 

کبیر کے سامنے وہ منظر لہرایا جب اسنے نرمین کو پہلی بار دیکھا تھا ہرا کائی سے گہرے کلر کا  سادہ سا فراک بلکل اسکی آنکھوں کی طرح اور چوڑی دار پہنے سرپر  دوپٹہ لیئے  چہرا ڈھکے بس وہ دو آنکھیں، 

بے اختیار اسکے منہ سے نکلا ۔ 

"نہیں وہ ایسی نہیں ہے وہ بہت۔۔۔

اتنا کہتے اسے حوش آیا ۔اور سر جھٹکا یہ اسے کیا ہو رہا تھا ۔ 

"میرا مطلب وہ چہرہ چھپاتی ہے شاید ۔ شاید پردہ کرتی ہے ۔ میں نے اسے جب بھی دیکھا ہے وہ چہرہ ڈھک کر ہی میرے سامنے آئی ہے۔ 

کبیر نے بتایا تو وہ دونوں سوچ میں پڑھ گئے۔ 

"ہوسکتا ہے اسکا چہرہ خراب ہو تبھی وہ چہرہ ڈھکتی ہو ۔ ؟؟

عرش نے ہمیشہ کی طرح اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کیا تھا ۔ 

ارحم نے اپنا سر پیٹا اور کبیر نے اپنے سامنے دیوار کو ایسے گھورا جیسے وہ عرش ہی ہے۔ 

ارحم نے اسکی کمر پر گھونسا جڑا ۔

"بکواس مت کیا کر۔ 

"لیکن اسکی آنکھیں ۔ اسکی آنکھیں خوبصورت ہیں۔

کبیر کے بے اختیاری میں کہے گئے الفاظوں سے ارحم اور عرش کو چپ لگ گئی ۔

"تو یار یہاں بھی تو وہ ایملی تھی تیرے پیچھے پاگل تھی اسکی آنکھیں بھی تو کتنی حسین تھی ، بلکہ وہ تو پوری ہی حسینہ تھی سر سے پیر تک ۔ اسے تو تونے کبھی نہیں کہاں ایسا ۔ تو اس حجابی میڈم کی صرف آنکھیں دیکھ کر تو اسکی تعریف کر رہا ہے، اپنا اصول بھول گیا کے کبیر خانزادہ کے علاوہ کوئی تعریف کے لائق نہیں ہے ؟ 

مجھے لگتا ہے عرش تیری پرسنل دشمنی ہے حجابی میڈم کے ساتھ ۔ 

ارحم نے چڑ کر کہا تو عرش نے ایسے سر ہلایا جیسے واقعی وہ اسکے پیسے چرا کر بھاگی ہے۔ 

کبیر خاموش کھڑا کسی سوچ میں گم انکی باتیں سن رہا تھا ۔ 

واقعی وہ تو اپنے علاوہ کسی کو تعریف کے قابل نہیں سمجھتا تھا اسنا اپنا سر جھٹکا اور واپس اپنی ٹون میں آیا ۔ 

"تو سہی کہہ رہا ہے عرش میں زیادہ سوچ رہا ہوں ۔ لیکن اپنے فیصلہ سے ہر گز بھی پیچھے نہیں ہٹونگا میں ۔ 

ارحم خاموش کھڑا تھا وہ اس نظریہ سے نہیں سوچ رہا تھا جس سے کبیر اور عرش سوچ رہے تھے ۔ 

وہ خاموش تھا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ 

🤍🤍🤍🤍

نرمین اپنے کمرے میں آکر بیٹھی اسکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑھ رہے تھے ۔  ہاں وہ کبیر ہی تھا لیکن اسے کیا ہوا تھا وہ اسکے اتنا قریب آیا تھا یہ سوچ ہی اسکے پسینہ چھوڑ رہی تھی ۔ اسنے ماتھے سے پسینہ صاف کیا اور واشروم فریش ہونے چلی گئی ۔ 

جب وہ سونے کے لیئے لیٹی تو آنکھوں کے سامنے پھر وہی منظر لہرایا ۔

"Gözlerin çok güzel"

یہ کیا کہا تھا اسنے ۔ یقیناً وہ تر کش زبان تھی لیکن نرمین اس زبان سے واقف نہ تھی ۔ 

اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی شدید گھبراہٹ۔ 

وہ سونے کی کوشش کرنے لگی لیکن نیند اس سے کوسوں دور تھی ۔ 

کیا واقعی کبیر خانزادہ شادی کے لیئے راضی ہے یہ بات سوچتے اسکے چہرے پر خوبصورت سی مسکان آئی تھی ۔ 

وہ اس بات سے نا واقف تھی کے آگے اس عشق نے اس سے کئی امتحان لینے ہیں ۔ 

اور بے شک خدا جس سے محبت کرتا ہے اس سے امتحان بھی لیتا ہے اور وہ تو اللّٰہ کی محبوب بندی تھی ۔ اس کی زندگی میں آگے کتنے امتحان تھے ان سے نا واقف تھی۔ 

🤍🤍🤍

صبح سات بجے وہ باہر سے واک کر کے واپس آرہا تھا نیوی بلو ٹریک سوٹ میں وہ واقعی مبہوت کرنے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ 

حویلی میں داخل ہوتے اسکا رخ اپنےکمرے کی طرف تھا کے پیچھے سے اسے برہان خانزادہ کی آواز سنائی دی ۔

"کبیر؟

"جی بابا ؟

وہ پیچھے پلٹا تو وہ اسی سے مخاطب تھے۔

"ہمیں تم سے کچھ بات کرنی ہیں ناشتے کے بعد فریش ہو کر ملاقات کریگا ہم سے ۔

"ٹھیک ہے بابا۔ 

وہ فریش ہونے اپنی کمرے کی طرف قدم بڑھا گیا ۔

ناشتے کے بعد فردان اور کبیر برھان خانزادہ کے سامنے بیٹھے تھے۔

" ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہماری اولاد اس بات سے انکار نہیں کریگی ۔ 

فردان اور کبیر نے ایک نظر ایک دوسرے کی طرف اور پھر اپنا باپ کی طرف نظریں کی۔ 

"ہم چاہتے ہیں آپ دونوں کی شادی اب ہو جانی چاہیئے اور اسراء کا فلحال صرف نکاح۔ 

فردان کیا آپ کو ہماری بات سے کوئی اعتراض ہے ؟

اسکی آنکھوں میں راحمہ خانزادہ کا سراپا لہرایا اور آنکھوں میں چمک ابھری۔ 

"نہیں بابا آپ کا حکم سر آنکھوں پر ۔ 

"خوش رہو بیٹا۔

برہان خانزادہ نے خوش ہو کر بیٹے کے کندھے کو تھپکا۔

"لیکن بابا اسراء ابھی چھوٹی ہے اسکا نکاح اتنی جلدی؟ 

کبیر نے کہا تو فردان نے بھی سر اثبات میں ہلایا۔ 

"جی بابا اسکے لیئے یہ بہت جلدی ہے۔

"آپ لوگ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن ہم فلحال صرف نکاح کرینگے اسکا رخصتی بعد میں ہوجائیگی ۔ 

تو کبیر اور فردان نے سر اثبات میں ہلایا۔ 

"کبیر آپ کو کوئی اعتراض؟

وہ خاموشی سے برہان خانزادہ کے چہرے کو دیکھ رہا تھا کے ان کے سوال پر ہوش میں آیا ۔ 

"بابا ۔ میں وہ۔ 

"کیا ہوا کبیر کوئی پریشانی ہے ؟

فردان نے بھی چہرے کا رخ کبیر کی طرف کیا۔ 

کبیر نے آج بات کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا وہ کسی حال میں یہ شادی نہیں چاہتا تھا۔ 

"بابا میں۔ میں اس لڑکی سے شادی نہیں کرسکتا جسے میں نے دیکھا نہیں کبھی میں اسکو جانتا تک نہیں ۔ 

فردان کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا اور برہان خانزادہ کی آنکھوں میں نا سمجھی کی رمق ابھری ۔ 

"لالا کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ ؟ نرمین پردہ کرتی ہیں اور یہ بات سب جانتے ہیں۔

کبیر کے خیال میں پھر اسکا سراپا لہرایا وہ ڈھکا چھپا چہرہ اور وہ دو آنکھیں ۔ اسکے دل نے سرگوشی کی تھی کے وہ شاید غلط کر رہا ہے لیکن اسکی انا نے پھر اسے ویسا ہی بنا ڈالا۔ 

مجھے اسکے پردے سے کوئی مسلئہ نہیں ہے بس میں اس سے شادی نہیں کرنا چاھتا۔ 

"کبیر ہم آپ سے بھی زیادہ پیار اور محبت اپنی بیٹی نرمین سے کرتے ہیں اور یہ بات ہم ہر گز برداشت نہیں کرینگے کے اس گھر میں ان کے ساتھ کوئی نا انصافی ہو یا ہمارا اپنا خون یہ نا انصافی کرے ۔ تو اسلیئے بہتر ہوگا کے سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کریں ۔ 

برہان خانزادہ درشت لہجے میں بولے۔ 

وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کے کبیر کا یہ جواب ہوگا۔ 

"بابا پلیز مجھے فورس مت کرے میں نہیں چاہتا کے میں جسے جانتا تک نہیں اس سے شادی کرلوں ۔ 

کبیر نے بیزاریت بھرے لہجے میں جواب دیا۔ تو برہان خانزادہ نے فردان کو باہر جانے کا اشارہ کیا ۔ وہ ایک نظر کبیر کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کھڑا ہوا۔ تو برہان خانزادہ کبیر سے مخاطب ہوئے ۔ 

"میری ایک بات کان کھول کر سن لیں کبیر خانزادہ نرمین رضوان خانزادہ آپکی بچپن کی منگ ہیں اور آپ کے نام سے منسوب ہیں بچپن سے ۔ اور خانزادوں کی غیرت کے خلاف ہے اپنی زبان سے پھر جانا ۔ 

وہ آپکی عزت ہے اور اپنی عزت کو کیسے بچانا ہے اور کیسے ڈبانا ہے یہ آپکے ہاتھ میں ہے ۔ 

آپ ترکی جانے سے پہلے  اچھی طرح جانتے تھے کے آپکی منگنی ہو چکی ہے نرمین سے  اور اسکے باوجود اگر آپ آج یہ سب بول رہے ہیں تو شرم آنی چاہیئے آپکو جانتے بوجھتے اپنی زبان سے پھرتے ہوئے ۔ 

خانزادہ ہو اپنی زبان کا پاس رکھنا سیکھو  اپنی عزت اور غیرت کا پاس رکھنا سیکھو  

ورنہ اگر ذرا بھی غیرت نہیں ہے تو مکر جاؤ اپنی منگ سے  ہم مان لیں گے ہمارا بیٹا بے غیرت نکلا۔" 

"بابا۔۔۔۔

کبیر نے مٹھیاں بھینچنے اپنی آواز کو قابو کرنے کی کوشش کی ہری آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئی تھی گردن کی ہری نیلی نسیں ابھر کر باہر آ گئی تھی ۔

آواز نیچے رکھ کر بات کریں ہم سے ۔ آج ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ پر بھروسہ کیا اور خود سے اتنا دور رکھ کر آپکو باہر بھیجا ۔ باہر کی ہوا آپکو خوب لگی ہے کبیر خانزادہ لیکن یاد رکھے گا اگر ہماری عزت آپ نے مٹی میں ملانے کی کوشش کی تو ہم برداشت نہیں کرینگے ۔ 

بابا ؟ آپ غلط سمجھ رہے ہیں مجھے میری ایک بار بات تو صحیح سے سن لیں ۔ 

اس بار وہ نرم  اور بے بس لہجہ میں اپنے باپ سے مخاطب ہوا لیکن برہان خانزادہ نے منہ موڑ کر اسے جانے کا اشارہ دیا تھا۔ 

وہ غصّہ قابو کرتے اپنے کمرے سے نکل گیا۔ 

🤍🖤🤍

وہ سیدھا اپنے کمرے میں آیا تھا غصہ سے اسکی ماتھے کی رگیں پھٹنے کو تھی ۔ برہان خانزادہ کے الفاظ اسے کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے وہ اپنے کمرے میں ٹہل رہا تھا اور غصہ قابو کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔  

اسکی عزت اور غیرت پر سوال اٹھایا گیا تھا اسکے باپ نے اسکی دکھتی رگ پر وار کیا تھا کیسے وہ اسکی وجہ سے اپنے خون اپنے بیٹے تک کی بات نہیں سن رہے تھے کیا وہ اس سے زیادہ عزیز تھی اسکے باپ کو 

اسے نفرت ہو رہی تھی نرمین کے وجود سے اس کی وجہ سے اسکی غیرت بیچ میں آئی تھی صرف اسکی وجہ سے اسکے باپ نے اسے آج بے غیرت کہہ دیا تھا ۔ یہاں آ کر اسکا ضبط ختم ہوا تھا ۔ 

اہہہہہ۔۔۔۔ 

اسنے غصّہ سے چیخ کر سائیڈ ٹیبل سے واس اٹھا کر پھینکا تھا جو چورا چورا ہو گیا تھا۔ 

اچانک اسکا موبائیل رنگ ہوا تھا ۔

"ہیلو؟

کھڑکی سے باہر نظر آتے نظارے کو دیکھتے اسنے جواب دیا تھا جبڑے بھینچے تھے جیسے غصہ قابو کیا جا رہا ہو۔

"کیسا ہے بھائی ۔ 

عرش کی آواز موبائیل سے گونجی تھی۔

"ٹھیک ۔

"کیا ہوا تجھے ؟ خیریت؟ 

کبیر نے آنکھیں بند کر کے کھولی تھی ہری آنکھوں کے گوشہ اس وقت شدید غصّہ کا پتہ دے رہے تھے ۔

"اسکی وجہ سے آج میرے باپ نے مجھ سے جس طرح بات کی ہے مجھ سے برداشت نہیں ہورہا ۔ دل کر رہا ہے اس جڑ کو سرے سے اکھاڑ دوں ۔ 

"کس کی وجہ سے بھائی؟ کیسی باتیں کر رہا ہے کونسی جڑ کو اکھاڑنے جا رہا ہے مجھے تو بتا ؟ 

"نرمین خانزادہ"

کبیر نے اسکا نام چبا چبا کر ادا کیا تھا ۔ 

"اوہ وہ حجابی میڈم تیری منگ؟

 کبیر تجھے نہیں لگتا یہ آج کل کے زمانہ میں پردہ اینڈ آل مطلب ہاں لوگ اپنی بہن بیٹیوں کو چھپا کر رکھتے ہیں لیکن تو تو اسکا کزن ہیں ایک گھر میں رہتے ہو لیکن تجھ سے بھی پردہ ۔ 

  یہ سب لڑکیوں کے ڈھونگ ہوتے ہیں لڑکوں کو اٹریکٹ کرنے کے ۔ ورنہ تجھے تو وہ کم از کم دکھا ہی سکتی ہے لیکن تیرے ڈامنے بھی اتنا نخرہ ۔"

عرش کا باہر کے ممالک کے حساب سے جو لڑکیوں کے لیئے امیج بنا ہوا تھا وہ وہی کبیر کو سب سمجھا نے لگا۔ 

"ٹھیک کہہ رہا ہے تو ۔ یہ سب ناٹک ہے مجھے اور باقی لڑکوں کو اٹریکٹ کرنے کیلیئے تاکہ لوگ اسکی طرف متوجہ ہوں ۔ 

سب کو اسنے اپنے قابو میں کیا ہوا ہے داجان اور بابا اسکے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتے اج میرے سگے باپ نے مجھ پر اسے فوقیت دی ہے ۔ جو میں تو کم از کم برداشت نہیں کرونگا ۔ اسکا خمیازہ وہ ضرور بھگتے گی ۔ 

کبیر اس وقت جس غصہ کی آگ میں جل رہا تھا اس میں عرش کی باتوں نے تیل کی مانند کام کیا تھا ۔ 

کبیر کو برہان خانزادہ کی کڑوی باتوں کے سوا کچھ یاد نہیں تھا وہ باتیں سوچ سوچ کر اسکا خون جلا رہی تھی اسکی عزت اور غیرت پر آئی تھی بات اور اب وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا اب وہ اس شادی سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ 

🤍🖤🤍

شاز اور فاز اپنی آپی کے پاس بھاگے ہوئے آئے تھے جو انہیں سب سے پیاری تھی اس گھر میں سب سے زیادہ پیار بچپن سے انہیں نرمین نے ہی کیا تھا وہ نرمین کے بہت قریب تھے ۔ 

راحمہ اور اسراء جو پہلے سے نرمین کے کمرے میں ڈیرہ جما کر بیٹھی تھی شاز اور فاز کے آتے ہی منہ کے زاویہ بگاڑے تھے ۔

ان سب کا زیادہ تر وقت اس کے کمرے میں ہی گزرتا تھا ۔

تم دونوں کیوں آجاتے ہو ہمارے پیچھے پیچھے لڑکیوں کو کبھی اکیلا بھی چھوڑدیا کرو ۔

اسراء نے منہ چڑاتے ہوئے کہا۔ 

"اپو آپ کے پاس نہیں آئے ہم ۔ نرمین آپی کا کمرہ ہے انکے پاس آئے تھے انہیں یہ کہنے کے مورے شوپنگ پر جا رہی ہیں اور انہیں بھی بلا رہی ہیں ۔ 

"راحمہ کے کان فوری کھڑے ہوئے تھے ۔

کیا مورے شہر جا رہی ہیں ہم بھی چلتے ہیں پھر ۔ 

"جی نہیں آپ دونوں یہی آپی کے کمرے میں بیٹھ کر با تیں کریں نا اپ کو نہیں بلایا ۔ 

"تم چپ کرو ہم بھی جاہینگے ہم ابھی چاچی سے کہتے ہیں ۔

اسراء انہیں خاموش کرواتے کھڑی ہوئی تھی ۔ 

نرمین جو ڈریسنگ روم میں تھی انکا شور سنتے باہر آئی۔ 

"کیوں لڑ رہے ہیں آپ لوگ پھر سے ۔؟

آپی مورے اور بڑی ماما نیچے بلا رہی تھی آپ کو شوپنگ کے لیئے اسراء اور راحمہ آپی بلاوجہ پیچھے لگ رہی ہیں ۔ 

نہیں ہم بھی مورے سے کہتے ہیں ہم تینوں چلتے ہیں نا ۔ 

راحمہ جو شوپنگ کی دیوانی تھی فوراً تیار کھڑی تھی نرمین نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہلایا ۔

وہ تینوں نیچے آئی عبایا اور نقاب کر کے کیونکہ انہیں بنا پردے کے باہر جانے کی اجازت نہ تھی ۔ 

"ارے لالا آپ لے کر جا رہے ہیں ہمیں شوپنگ پر ۔ ؟؟  

اسراء نے کبیر کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دیکھا تو چہک کر بولی ۔ 

"ہاں گڑیا  چلو۔ 

اسنے ایک نظر نرمین خانزادہ کو دیکھا جو  ہمیشہ کی طرح آج بھی پردے میں ڈھکی چھپی تھی نظریں نیچے کیئے کھڑی تھی ۔

نرمین جانتی نہیں تھی ورنہ کبھی اسکے ساتھ جانے کی حامی نہ بھرتی ۔ 

کبیر کی نظریں خود پر محسوس کر سکتی تھی وہ اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔

"اسراء ہماری طبیعت۔۔ 

"چلو اسراء دیر ہو رہی ہے ۔ 

نرمین جو کبیر کی نظروں سے گھبراتی اسراء کو منع کرنے لگی تھی  کبیر کی آواز پر خاموش ہوئی تھی۔ 

ان تینوں کے ساتھ شاہانہ بیگم بھی موجود تھی جو آگے فرنٹ پر کبیر کے ساتھ بیٹھ گئی تھی اور وہ تینوں پیچھے بیٹھی ۔

مرر کے دونوں طرف اسراء اور راحمہ بیٹھی تھی اور نرمین انکے درمیان ۔ 

کبیر نے کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے مرر اپنی طرف سیٹ کیا جس میں نرمین کا عکس بھی اس مرر میں آسانی سے واضح ہوسکتا تھا۔ وہ سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا صبح کی باتیں اسکے دماغ میں گھوم رہی تھی جسکو وہ اتنی آسانی سے بھلا نہیں سکتا تھا۔  

کبیر کی نظریں مرر کے اس پار نرمین پر ہی تھی ۔ نرمین کی نظریں اٹھی تو کبیر جو سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا خود با خود اسکی نگاہوں میں نرمی کا عنصر شامل ہوگیا ۔  

وہ مبہوت ہو کر اسے دیکھنے لگا بنا پلکیں جھپکائے ۔ نرمین نے اگلے لمحہ نظریں نیچے کری تو کبیر کو ہوش آیا ۔ 

وہ اسکی آنکھوں میں ہمیشہ گم ہوجاتا تھا ۔ یہ آنکھیں یقیناً اس سے کچھ غلط کروا کر چھوڑینگی ۔ 

اسنے سر جھٹکتے کار اسٹارٹ کی تھی۔ 

نرمین کا دل زورو سے دھڑک رہا تھا اسکا دل کہہ رہا تھا کچھ صحیح نہیں ہے ضرور کچھ غلط ہونے والا ہے ۔ 

🤍🖤🤍

اسمارہ خانزادہ کے شوہر اور ضرغام کے والد اسماعیل خانزادہ نے ضرغام کو اپنے کمرے میں بلایا تھا جو ابھی باہر سے واپس آیا تھا ۔ 

"جی بابا آپ نے بلایا مجھے۔؟

"ہاں بیٹا بیٹھو۔  

"خان حویلی گئے تھے کل ہم ۔ 

اسماعیل خانزادہ نے اپنی بات کا آغاز کیا ۔

وہاں برہان لالا اور داجی سے ہماری بات ہوئی تھی ۔ 

کبیر اب آگیا ہے تو انکا کہنا ہے کبیر اور فردان کی شادی کردی جائیے۔ اور اسکے ساتھ ہی آپکا اور اسراء بیٹی کا نکاح بھی ۔

ضرغام جو اس بات کی قطعی توقع نہیں رکھتا تھا یہ سن کر اسکی سانسیں تھمی تھی ۔  اسے پتہ تھا اب کبیر کے آنے کے بعد یہ سب ضرور ہوگا لیکن ابھی سے یہ نہیں جانتا تھا وہ ۔

"ضرغام؟

ہم آپ سے کچھ کہہ رہے ہیں بیٹا ؟

جی بابا ہم سن رہے ہیں ۔

تو بتائیں بیٹا آپکی کیا رائے ہے اس بارے میں ۔ 

ضرغام خاموش رہا لیکن پھر کچھ سوچتے ہوئے اسنے کہا۔

میں راضی ہوں بابا آپ میری رضامندی دے دیں ۔ 

وہ خاموشی سے اٹھتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ 

ضرغام خانزادہ کے دماغ میں کیا چل رہا تھا یہ اسکے سوا اور کوئی نہیں جانتا تھا۔

"نہیں کبیر خانزادہ نہیں ہر چیز جو مجھے چاہیئے ہو وہ تمہیں نہیں مل سکتی ۔ 

تم کیسے سب آسانی سے حاصل کرلیتے ہو ۔

کیسے بن مانگے سب تمہاری جھولی میں آ گرتا ہے ۔ کیسے تم ہر اس نعمت تک پہنچ جاتے ہو جہاں تک جانے کیلیئے میں جتن کررہا ہوتا ہوں۔

نہیں نہیں اب نہیں بس بہت ہوا ۔ ضرغام خانزادہ کسی کا غلام نہیں ہے ۔  یہ خوشی تمہیں حاصل نہیں ہوگی بلڈی کزن ۔"

وہ جب سے روم میں آیا تھا کمرے کا حشر بگاڑ چکا تھا ۔ بھوری آنکھیں خون اگل رہی تھی سانسیں پھولی ہوئی تھی وہ ہزیانی کیفیت میں بڑبڑا رہا تھا ۔ 

اسے کبیر خانزادہ سے نفرت ہو رہی تھی جو اسکی ہر خوشی پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا تھا ۔ 

خوشی بھی وہ جو بھلائے نہ بھولے ۔ 

"نرمین خانزادہ"۔

ہر رات اسے سوچ کر آنکھیں بند کی تھی اور ہر صبح آنکھیں کھولے جو پہلا چہرا اسکی آنکھوں میں آتا وہ نرمین خانزادہ کا تھا ۔ 

وہ جانتا تھا وہ اس پر کوئی حق نہیں رکھتا لیکن یہ دل کیوں نہیں مان رہا تھا وہ مانتا تھا کوئی اور اسکے حصّے میں ہے لیکن اسکے بارے میں اسنے کبھی نہیں سوچا تھا اسنے تو اسراء خانزادہ کو کبھی غور سے بھی نا دیکھا تھا ۔  

اسکے دل میں آگ لگی تھی جو وہ کیسے بجھاتا یہ وہی جانتا تھا اور اب اس آگ کی لپیٹ میں وہ کس کس کے وجود لیتا اس سے وہ خود بھی نا واقف تھا۔ 

حسد بہت بری شے ہے ۔

انسان اس چیز کی قدر کبھی نہیں کرتا جو اللّٰہ نے اسکی جھولی میں بن مانگے ڈالی ہوتی ہے ۔ اسے وہی چیز پسند آتی ہے جو کسی دوسرے کے حصّہ ہو  اور اس حسد کی آگ میں جلتے وہ  خود بھی برباد ہوتا ہے اور اپنے سے جڑے ہر رشتے کو تباہی کے دہانے لا کھڑا کرتا ہے۔ 

🖤🤍🖤🤍🖤🤍🖤

گاڑی شہر کے بڑے مال کے باہر آکر رکی تھی ۔  نرمین کا سارا سفر الجھن میں گزرا تھا ایک کبیر کی نظریں اسے کنفیوز کر رہی تھی جو ہر تھوڑی دیر بعد اسے گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا اور دوسرا اسکے اندر کی بے چینی اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی جیسے کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ 

وہ تینوں مال میں داخل ہوئی شاہانہ بیگم کے ساتھ۔ 

 کبیر گاڑی پارک کر کے آیا مال میں آتے۔  آنے جانے والی لڑکیاں مبہوت ہوکر اس شہزادے کو دیکھ رہی تھی جو بلیک  جینس پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے اس پر لیدر کی بلیک جیکٹ پہنے سب سے بے خبر مغرورانہ چال چل رہا تھا ۔  وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ آگے پیچھے کئی لڑکیاں اسے دیکھ رہی ہیں وہ اپنی مبہوت کردینے والی شخصیت سے اچھی طرح واقف تھا۔

وہ مضبوط قدم اٹھاتا اسراء کے برابر آیا تھا۔ 

راحمہ نرمین اور شاہانہ بیگم ساتھ جبکے 

اسراء اکیلے چلتی اپنے لیئے کچھ خوبصورت تلاش کرنے میں مگن تھی ۔

"لالا میں آج آپکی جیب اچھی طرح سے خالی کروانے والی ہوں" ۔ 

"بلکل گڑیا تم پورا مال خریدلو تمہارے سامنے کچھ نہیں ہے"۔ 

"کبیر لالا تھوڑا ہلکا ہاتھ رکھے گا آپنے تو پیار میں کہہ دیا ہے لیکن یہ میڈم آپکا بلکل خیال نہیں کرینگی سچ میں آپکو کنگال کردے گی".

راحمہ انکے پاس آکر کبیر کی مہربانی پر اسے وارن کرنے والے انداز میں بولی ۔ 

کبیر ہلکا سا قہقہہ لگاتے پیچھے مڑ کر ایک نظر نرمین کو دیکھنے لگا جو شاہانہ بیگم سے ہی کچھ کہہ رہی تھی۔ لیکن اسکے کان کچھ بھی سننے سے قاصر تھے۔

اسنے چہرہ موڑا اور اسراء راحمہ کو لیئے ایک شاپ میں داخل ہوا تو نرمین اور شاہانہ بیگم اسکے پیچھے اندار آئی۔ 

"خوش آمدید سر میں آپکی کیسے مدد کرسکتی ہوں؟" 

"Welcome sir how may i help you?"

سامنے بلیک پینٹ شرٹ میں کھڑی ہیلپر  کبیر سے مخاطب ہوئی ۔ 

"کیا آپ مجھے خوبصورت مشرقی لباس دکھا سکتی ہیں"؟ 

"Yes please can you show me some beautiful western dresses"

"جی بلکل آئے میڈم"۔ 

"Sure . come ma'am"

وہ اسراء اور راحمہ کو اپنے ساتھ لیئے خوبصورت سے لباس دکھانے لگی نرمین خود ہی ہینگ ہوئی ڈریسس دیکھنے لگی اور شاہانہ بیگم اسراء اور راحمہ کے پاس گئی جو ایک دوسرے سے لڑ رہی تھی ۔ 

"میں بڑی ہوں اسلیئے میں لونگی یہ ڈریس" ۔ 

راحمہ بولی تو اسراء نے غصہ سے ناک چڑھائی۔

"یہ کوئی بات نہیں ہوئی اس ڈریس پر پہلے میری نظر پڑی تھی ۔"

"میڈم پلیز یہ ڈریس آپ دونوں کو مل جائے گا لڑے مت۔ "

وہ ہیلپر پریشانی سے انکے چہرے دیکھنے لگی ۔۔

کبیر نے انہیں دیکھ نفی میں سر ہلایا اور پیچھے مڑ کر دیکھا جہاں نرمین ڈریسس ہاتھ سے ادھر اُدھر کر دیکھ رہی تھی۔

وہ اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا جہاں نرمین نے پلٹ کر دیکھا تو اسکے بلکل پیچھے دو قدم کے فاصلہ پر کبیر کھڑا تھا۔ وہ گھبرا کر پلٹی تو اسراء اور نرمین دور کھڑی لڑ رہی تھی اور شاہانہ بیگم انہیں سمجھا رہی تھی ۔ وہاں ہینگ ہوئے کپڑے انہیں چھپا گئے تھے کے کسی کی نظر نا پڑ سکے۔

اسنے پھر پلٹ کر دیکھا کہ شاید اسکا وہم ہو کبیر اسکے اتنے پاس نا ہو لیکن یہ خواب نا تھا وہ واقعی اسکے پاس کھڑا سپاٹ چہرے سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔

اسکی گھبرائی ہوئی بڑی بڑی آنکھیں جو ڈر سے مزید پھیلی ہوئی تھی کوئی کبیر سے پوچھتا وہ کتنی دلکش لگ رہی تھیں ۔  

اسنے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو نرمین کو اور گھبراہٹ ہونے لگی۔ 

 کبیر اسکی آنکھوں میں گم تھا کہ اسے صبح کا منظر یاد آیا تو اسکی نظروں میں جو نرم تاثر تھا وہ خود با خود سخت ہوگیا۔ اسے نرمین کو دیکھ وہ سب باتیں یاد آنے لگی جو اسکے باپ نے کہی تھی وہ سب باتیں یاد آنے لگی جو عرش نے اسے کہی تھی وہ خاموش اور سرد نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

 نرمین اسکی ہری آنکھوں میں غصہ وحشت ضبط سے جبڑے بھینچنا سب کچھ دیکھ سکتی تھی اسکے ہاتھوں میں لرزش پیدا ہوئی تھی  ۔

(یہ سب لڑکیوں کے ڈھونگ ہوتے ہیں لڑکوں کو اٹریکٹ کرنے کے ۔ ورنہ تجھے تو وہ کم از کم دکھا ہی سکتی ہے لیکن تیرے سامنے بھی اتنا نخرہ ۔)

اسکے کانوں میں عرش کے الفاظ گونجے تھے کیا وہ واقعی پردہ کرتی تھی یا سچ میں وہ اسکے سامنے ڈھونگ کر رہی تھی ۔

اسنے سامنے کھڑی لڑکی کو آزمانا چاہا تھا ۔

اسکا حق تھا آخر کو وہ اسکی منگ تھی پھر زبردستی کی ہی صحیح۔ 

نرمین نے اسکے سائیڈ سے جانا چاہا تو کبیر نے ایک ہاتھ اسکے سامنے دیوار پر رکھ دیا ۔ اسنے گھبرا کر دوسری طرف سے جانا چاہا تو کبیر نے پھر اپنا ہاتھ رکھتے اسے حصار میں لیا ۔ نرمین کی آنکھوں میں ڈر اور آنسوؤں کے باعث چمک وہ باخوبی دیکھ سکتا تھا لیکن آج وہ ان آنکھوں میں خود کو گم نہیں ہونے دے سکتا تھا اسی مقصد کے تحت تو وہ سب کو شاپنگ پر لایا تھا تاکہ وہ اس لڑکی سے مل سکے جو اسکے گھر میں ہوتے ہوئے کہاں ہوتی تھی وہ نہیں جانتا تھا  ۔ 

"ہمیں جانے دیں پلیز"۔

نرمین نے نم ہلکی آواز میں اس سے کہا تو وہ خاموش آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا ۔ 

اتنی خوبصورت آواز کیا وہ لڑکی پوری کی پوری کوئی سحر تھی ۔ پہلے حسین آنکھیں اس پر یہ دھیما نرم لہجہ اور شیریں آواز ۔ اُس رات کبیر حوش میں نا تھا لیکن آج وہ اپنے حوش و حواس کا دامن تھامے اسکے سامنے کھڑا تھا۔ 

کبیر نے اپنی آنکھیں میچتے خود پر قابو پایا تھا۔ 

" اپنے چہرے سے یہ نقاب اتارو۔"

کبیر نے اپنے چہرے پر بے زاری لاتے اس سے کہا جبکہ دل میں حشر برپا تھا۔ اسنے نرمین کی آنکھوں میں دیکھا جو اسکے الفاظ سنتے بے یقینی سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

وہ کیا کہہ رہا تھا نرمین چاہ کر بھی سمجھنا نہیں چاہتی تھی ۔ 

"یہ۔یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ ہم۔ ہمیں جانے دیں پلیز کوئی دیکھ لے گا ۔"

نرمین نے روتے ہوئے اس سے کہا تو وہ غصہ بھری نگاہیں اسکی نگاہوں میں ڈالے کھڑا رہا ۔ 

"یہ ناٹک میرے سامنے مت کرو اور فوراً چہرے سے نقاب اتارو ۔ میں جانتا ہوں تم جیسی لڑکیاں مردوں کو اٹریکٹ کرنے کیلیئے یہ سب کرتی ہیں۔ میں تو تمہارا منگیتر ہوں گھر میں ہماری شادی کا ذکر چل رہا ہے تو میرے سامنے یہ ناٹک بے کار ہے۔" 

نرمین ساکت نظروں سے اسکے الفاظ سن رہی تھی وہ کیا بول رہا تھا ۔کیا وہ اسے مردوں کی توجہ حاصل کرنے والی لڑکی سمجھ رہا تھا اسکا دل دماغ سے لڑ رہا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہے وہ شاید کچھ اور کہنا چاہ رہا ہے ۔ دل نے تو ہمیشہ محبوب کی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے تو اب کیسے نہ ڈالتا۔

کبیر نرمین کی ساکت نظروں کو دیکھ اسکے کان کے قریب جھکا ۔

"اگر تم چاہو تو میں کسی کو نہیں بتاؤنگا کے تم مجھے اپنا چہرہ دکھا چکی ہو ۔"

وہ چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے اسکے چہرے کو دیکھ رہا تھا جو بے یقینی کی کیفیت میں کھڑی تھی۔ اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا جو کب سے اسکے سامنے منتیں کر رہی تھی اب خاموش و جامد کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ 

کبیر کے دل نے ملامت کی تھی اسکی آنکھوں میں بے یقینی دیکھے ۔ 

لیکن وہ تو عادی تھا دوسروں کو آزمانے کا چاہے اس سے سامنے والے کا دل ٹوٹے یا وہ انگاروں پر لوٹے اس سے کبیر خانزادہ کو کوئی غرض نہ تھا وہ لوگوں کو آزمائے بغیر اپنی زندگی میں شامل کرنا بے وقوفی سمجھتا تھا جو کس حد تک اسکی زندگی تباہ کر سکتا تھا اس بات سے وہ جلد آشنا ہونے والا تھا۔ 

"ہم اپنا چہرہ آپکو نہیں دکھا سکتے ۔ جانے دیں ہمیں ۔ "

نرمین بے یقینی کا دامن چھوڑتے 

سرد انداز میں بولی تھی ۔ کیونکہ وہ اپنے پردے پر کوئی بات برداشت نہیں کرسکتی تھی پھر چاہے سامنے کبیر خانزادہ ہی کیوں نا ہو ۔ 

 "اوہ۔ تو تمہیں لگتا ہے جس جال میں تم نے پورے گھر کو پھسایا ہوا ہے اس میں کبیر خانزادہ کو بھی آسانی سے پھسالوگی تو یہ تمہاری بھول ہے۔

  یاد رکھنا نرمین رضوان خانزادہ تمہاری وجہ سے داجی اور بابا نے جس انداز اور الفاظوں میں مجھ سے بات کی ہے وہ میں کبھی نہیں بھولونگا  ۔ 

 دعا کرو۔ دعا کرو کہ تم میرے حصّہ میں نا آؤ ورنہ نفرت اور حقارت تمہارا مقدر بنے گی۔" 

 کبیر  اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے اپنی نفرت اپنے الفاظوں کے ذریعہ اسکے دماغ میں نقش کر گیا تھا کے وہ ساکن کھڑی رہ گئی تھی ۔ 

 وہ پیچھے پلٹتا وہاں سے چلا گیا تھا لیکن نرمین کو ساکت کھڑا چھوڑ گیا تھا۔ 

 اسنے اپنے آپ کو سمبھالا لیکن وہ ابھی کیا کہہ کر گیا تھا ؟ کیا وہ اس سے زبردستی شادی کر رہا تھا ؟ کیا وہ اسے ایک ڈھونگی لڑکی سمجھتا ہے؟ 

اسے اسراء کی آواز آئی تو فوراً سے پہلے اپنے آنسو صاف کیئے اور آگے بڑھی جہاں اسراء اسے لال کلر کا خوبصورت سا ڈریس دکھا رہی تھی جو بے حد حسین تھا ۔ 

"آپی دیکھیں یہ ڈریس اور کلر آپ پر بے حد حسین لگے گا ۔" 

وہ نرمین پر ڈریس لگائے اسے بتا رہی تھی لیکن نرمین کا دھیان یہاں نا تھا وہ سامنے کھڑے کبیر خانزادہ کو دیکھ رہی تھی جو بے تاثر چہرہ لیئے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔

ایک دم اسکا دل ہر چیز سے اچاٹ ہوا تھا۔

"نہیں اسراء ہمیں نہیں چاہیے آپ اپنے لیئے لےلیں ہمیں گھر جانا ہے۔ "

نرمین نے آنسو ضبط کرتے کہا جو بس چھلکنے کو تھے۔

"کیوں آپی ابھی تو ہم نے بس چند ہو سوٹ لیئے ہیں۔"

کبیر جو قریب کھڑے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا اسراء کو اپنے بازوؤں کے حلقہ میں لیتے نرمین پر نظریں گاڑھی ۔ 

"چلو گڑیا ابھی گھر چلتے ہیں آگے بہت سے مو قعے آ رہے ہیں شاپنگ کے دل کھول کر کریگا تب ۔" 

وہ مسلسل نرمین پر نظریں گاڑھے طنزیہ مسکراہٹ سجائے معنی خیز انداز میں بولا ۔ 

"ٹھیک ہے لالا۔"

اسراء بے دلی سے شاہانہ بیگم سے چلنے کا کہنے لگی نرمین بھی اسکے ساتھ ہی چلی گئی۔ 

کبیر جس ماحول سے آیا تھا اسکی شخصیت پر گہرا اثر پڑا تھا وہ ہر گز بھی پردے کی اہمیت نا جانتا تھا اسکی نظروں میں لڑکیوں کا یہی امیج تھا کیونکہ اسنے اپنی زندگی میں جتنی لڑکیاں دیکھی تھی وہ اسکی وجاہت کے سامنے بچھی چلی جاتی تھی کہ اپنا آپ تک اسکے حوالہ کرنے کو تیار ہوجاتی تھی اسے گھن آتی تھی ان لڑکیوں سے جس چیز کو کوئی میلی نظر سے دیکھ بھی لے کبیر اس چیز سے نظریں پھیرلیتا تھا کجا کہ وہ لڑکیاں جو میلی نظر تو کیا اپنا جسم بھی باخوشی کسی نامحرم کے حوالہ کر جاتی تھی اس کی نظر میں لڑکیاں ایسی ہی تھی ۔ آج تک اسنے دیکھا ہی نہیں تھا کسی لڑکی کو ایسے پردہ کرتے اسکے لیئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ ایک لڑکی اپنے آپ کو چھپا کر رکھ رہی ہے اسکی نظر میں یہ بات قطعی نارمل نہیں تھی ۔ 

وہ اپنے کہے گئے الفاظوں کی اہمیت نا جانتا تھا جو اسنے نرمین کے دماغ میں نقش کیئے تھے جس کا بگھتان تو اسے بھگتنا تھا اور آگے وہ اپنی اس نا سمجھی میں کیا کیا غلط کرنے والا تھا اس بات سے نا واقف تھا۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍

وہ مال سے نکل رہے تھے جب شاہانہ بیگم کی نظر ضرغام پر پڑی وہ وہاں کھڑا شاید کسی سے بات کررہا تھا ۔ 

"ارے ضرغام بیٹا آپ یہاں ؟" 

ضرغام نے پلٹ کر دیکھا تو وہ سب کھڑے تھے لیکن اسکی نظر تو سیدھا بلیک حجاب کے ہالہ میں کھڑی لڑکی پر پڑی تھی جو ایک نظر ضرغام کو دیکھ نظریں نیچے کر گئی تھی ۔ ضرغام کے دل نے ایک بیٹ مس کی تھی ۔  لیکن کبیر کو انکے ساتھ کھڑا دیکھ اسکا منہ تک کڑوا ہوا تھا ۔ 

کبیر اسکی جانب پلٹا تو واقعی ضرغام کھڑا ہوا تھا ۔ وہ سپاٹ چہرہ لیئے اسے دیکھنے لگا جو انہیں کے پاس آ رہا تھا ۔ 

"اسلام علیکم مامی جان ۔ کیسی ہیں آپ ۔ 

 ضرغام نے سر جھکا یا تو شاہانہ بیگم نے شفقت بھرا ہاتھ اسکے سر پر رکھا ۔ "

"میں ٹھیک بیٹا آپ کیسے ہیں ؟ 

اللہ کا شکر ہے ۔ "

اسراء ضرغام کو دیکھ کبیر کے پیچھے چھپنے لگی ۔ راحمہ اور نرمین گاڑی میں بیٹھنے لگی تو وہ جلدی سے بیٹھی ۔

ضرغام نے کبیر کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اسنے ایک نظر دیکھ کر اس ہاتھ کو تھام لیا ۔ 

"یہاں کیسے ؟ "

کبیر نے بے زاریت لیئے پوچھا تو ضرغام جو پہلے ہی تپا ہوا تھا اسکی شکل دیکھ اور بگڑا ۔ 

"جو یہاں سب کرنے آتے ہیں میں بھی وہی کرنے آیا ہوں ۔ 

اینی پروبلم؟ "

"نو ۔ یو کین گو ناؤ ۔ 

ہمیں لیٹ ہو رہا ہے ویسے بھی,  ہم چلتے ہیں ۔ "

کبیر کا حکم جھاڑتا لہجہ ضرغام کو تپا گیا تھا وہ کچھ کہتا اس سے پہلے شاہانہ بیگم صورتحال سمجھتی ضرغام کے قریب آئی ۔

"ضر بیٹا حویلی آئیے گا نا آپ تو چکر لگاتے ہی نہیں ۔ "

"جی مامی وہ تھوڑا کام کی وجہ سے مصروفیت رہتی ہے انشاء اللہ آؤنگا۔"

وہ چہرے پر جھوٹی مسکان سجائے بولا تو شاہانہ بیگم کی سانس میں سانس آئی انکے بیٹے کو تو ہر جگہ حکم جھاڑنے سے فرصت نہیں ملتی تھی ۔

"میں چلتا ہوں مامی پھر ملاقات ہوگی۔ "

وہ ایک نظر گاڑی میں بیٹھی نرمین پر ڈالتا وہاں سے چلا گیا ۔  

کبیر کی نظروں نے گاڑی میں بیٹھے دور تک اسکا پیچھا کیا تھا ۔۔

🤍🖤🤍🖤🤍🖤

وہ آتے ہی سیدھا کمرے میں بند ہوئی تھی ۔

عبایا اتارتے ایک طرف رکھا تھا اور آئینہ میں خود کو دیکھا تھا آنکھیں ضبط سے لال ہو رہی تھی پورے راستہ وہ برداشت کرتی آئی تھی کہ آنکھ سے آنسو نا گرے لیکن اسکی باتیں دماغ میں گردش کر رہی تھی ۔

(یہ ناٹک میرے سامنے مت کرو اور فوراً چہرے سے نقاب اتارو ۔ میں جانتا ہوں تم جیسی لڑکیاں مردوں کو اٹریکٹ کرنے کیلیئے یہ سب کرتی ہیں۔ میں تو تمہارا منگیتر ہوں گھر میں ہماری شادی کا ذکر چل رہا ہے تو میرے سامنے یہ ناٹک بے کار ہے۔) 

اسکی آنکھ سے آنسو لڑیوں کی صورت بہے تھے اسکے الفاظ ذہن میں آتے ہی۔

(اگر تم چاہو تو میں کسی کو نہیں بتاؤنگا کے تم مجھے اپنا چہرہ دکھا چکی ہو ۔)

اسنے ہچکیاں دبانے کے لیئے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

(دعا کرو۔ دعا کرو کہ تم میرے حصّہ میں نا آؤ ورنہ نفرت اور حقارت تمہارا مقدر بنے گی۔)

"یا اللّٰہ"

وہ آنسو بہاتی نیچے بیٹھتے اللّٰہ کو پکار بیٹھی ۔ 

وہ کیسے ادا کرسکتا تھا ایسے الفاظ ۔ 

کبیر خانزادہ کے منہ سے ایسے الفاظ سن نا اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ 

وہ شخص جس سے اسنے اتنی خاموش اور اتنی ٹوٹ کر محبت کی تھی آج وہ شخص اسکے سامنے کھڑا اسکے پردے پر سوال اٹھا رہا تھا ۔ 

اسکے کردار پر سوال اٹھا گیا تھا ؟ 

وہ تو اسے جانتا تک نا تھا تو کیسے وہ ایسی بات اپنے منہ سے نکال سکتا تھا ۔ 

اسنے تو محبت کی تھی کبیر خانزادہ سے اور اسکی محبت ایسی نکلی تھی وہ انکھیں میچتے ہچکیوں سے رورہی تھی منہ سے ایک الفاظ نا ادا کیا تھا بس اپنے دل پر ہاتھ رکھے اللّٰہ کو پکارا تھا ۔ 

وہ تو اللّٰہ کی محبوب بندی تھی وہ محبوب بندی جس نے اپنے منہ سے کبھی کوئی شکوہ نا نکالا تھا اور یہاں تو اسکا محبوب تھا وہ محبوب جسکا ذکر وہ صرف اللّٰہ کے سامنے کرتی تھی اللّٰہ سے مانگتی تھی اسکے سامنے ہاتھ پھیلاتی تھی جو بے شمار عطا کرنا جانتا ہے ۔

وہ کیسے اپنے ہی مانگی ہوئی چیز کا شکوہ اللّٰہ سے کر سکتی تھی جسکو اسنے سالوں رو رو کر مانگا تھا ۔

وہ خاموشی سے آنسو بہاتی اپنا درد خود سے بھی چھپاتی اپنے لیئے اللّٰہ سے صبر مانگ رہی تھی ۔ 

اور بے شک وہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ 

"ہائے کتنے حسین ڈریسس ہیں نا اسراء دیکھو ہم کتنے پیارے لگ رہے ہیں ۔ اللّٰہ بری نظر سے بچائے ہمیں آمین آمین۔ 

راحمہ خود پر نیلے رنگ کا حسین فراک لگاتے صدقے واری جارہی تھی اپنے ۔ 

جب شاز اور فاز کی اینٹری ہوئی ۔ 

"چلو بھئی لوٹ لیا لالا کو آتے کے ساتھ ہی دونوں نے ۔"

شاز اور فاز آتے ہی صوفے پر بیٹھے ان پر تبصرے کرنے لگے تھے ۔ 

"کبیر لالا جیسے بڑے دل والے بنو دیکھو کتنی اچھی شاپنگ کروائی ہے ہمیں ۔

اسراء اتراتی ہوئی بولی ۔ 

" آپ لوگوں پر لٹانے سے اچھا ہے ہم کسی غریب کا پیٹ بھر دیں کیونکہ آپ لوگوں کا تو بھرتا نہیں ہے شاپنگ سے ۔ 

فاز نے ان دونوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ 

جس پر راحمہ کا خون جل گیا لیکن صبر کا دامن تھامے بولی ۔

"چلو تم دونوں کا کیا برا مان نا اڈاپٹڈ بچوں کی تو یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہوتی ہیں ۔ 

شاز جو چھوٹے دل کا مالک تھا راحمہ کی بات پر صدمہ سے اسے دیکھنے لگا۔ 

"میں اڈاپٹڈ ہوں ؟ 

راحمہ نے بتی سی نکال کر اثبات میں سر ہلایا ۔ 

فاز نے شاز کو کہنی سے ٹہوکا رسید کیا۔

"بابا کے پاس اب یہی ایک آپشن بچا تھا ۔ پہلی اولاد جو کام کی نہیں نکلی تھی انکی ۔ ہمیں اڈاپٹ تو کرنا ہی تھا پھر انہونے۔ 

فاز کے جواب پر راحمہ خول اٹھی اور کشن اٹھا کر اسکے منہ پر دے مارا ۔

اور شاز کی شکل دیکھی جو اب آنکھوں میں آنسو آنے کا نتظار کرتا صدمہ میں بیٹھا تھا ۔ 

"میں اڈاپٹڈ ہوں ۔ ؟

وہ حیرت سے بیٹھا تھا اسے ابھی بھی یقین نہیں آ رہا تھا۔

"جاؤ یار سارے سینس آف ہیومر کی ایسی کی تیسی کردی تم نے شاز ۔

راحمہ جلے دل سے بولی تو اسرا اور فاز کا قہقہہ گونجا ۔ 

"ماڑا یہ کیا کمرے کا حال بنایا ہوا ہے تم لوگوں نے ۔ 

شاہین بیگم کمرے میں داخل ہوتے دیکھنے لگی جو کمرہ کم مچھلی بازار زیادہ لگ رہا تھا۔ 

"یہ گھر ہے جنگل نہیں ہے لڑکیوں ۔ سمیٹو اسے ۔

وہ راحمہ اور اسراء پر غصہ کرنے لگی جنہونے سارے شاپنگ سے لائے کپڑے پورے کمرے میں پھیلائے ہوئے تھے۔ 

"مورے ہم سمیٹ ہی رہے تھے بس ۔ 

"تم سے کچھ نہیں ہوگا بس انہی سب میں تم لڑکیوں کا دماغ ہے۔ کچن آکر دیکھو میرے ساتھ۔ آج تم دونوں کچھ نا کچھ بناؤ گی اپنے اپنے ذاتی ہاتھوں سے ۔ ایک دوسرے کی مدد اگر کی نا تو اچھا نہیں ہوگا ۔ نرمین کو دیکھو کتنا ذائقہ ہے اسکے ہاتھ میں اور تم دونوں صدا کی پھوڑ ہو ۔ 

جلدی آؤ نیچے میں تم دونوں کا انتظار کر رہی ہوں۔ 

وہ دونوں منہ بناتی کمرہ سمیٹنے لگی ۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤🤍🖤

وہ جب سے آیا تھا دماغ صرف اسی کی طرف تھا اسکی آنسو بھری آنکھیں اس سے شکوہ کررہی تھی لیکن وہ سخت دل بنا رہا اس کا دل دکھاتا رہا تھا لیکن اب جب سے وہ آیا تھا اسکو ایک منٹ کا چین نہیں آرہا تھا۔ 

"کیا مصیبت ہوگئی ہے کیا ہو رہا ہے آخر مجھے ۔ میں نے جو کیا ٹھیک کیا ہے. "

وہ جھنجھلا کر اپنا سر جھٹکتا خود کو احساس دلانے کی کوشش کررہا تھا کہ اسنے کچھ غلط نہیں کیا لیکن اسکا دل وہ آنکھیں یاد کر کے خود کو ملامت کررہا تھا۔ جب کبیر کا فون بجا۔ 

"ہیلو۔ ؟"

"لالا آج شام گاؤں میں پنچائیت ہے کچھ ضروری فیصلہ کرنے ہیں ۔ اسکے لیئے آپکا وہاں ہونا ضروری ہے۔"

کبیر نے سوچتے لب بھینچے ۔ 

"ٹھیک ہے۔"

وہ فون رکھتا ایک فیصلہ کرتے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

اور شام کی تیاری کرنے لگا۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤

فردان خانزادہ شام کی تیاری کے لیئے گھر آیا تھا ریڈی ہوتے ہوئے اسنے خود کو آئینہ میں دیکھا تھا اور پرفیوم چھڑکا تھا ۔ 

کالے رنگ کا کُرتا پہنے ہاتھ میں گھڑی ڈالتے اسنے ایک نظر خود کو دیکھتے بالوں میں برش کیا تھا آستین کہنی تک چڑھاتا باہر نکلا ۔ 

راحمہ جو کچن میں اپنا سر کھپا رہی تھی 

اسکی نظر سیڑھیوں سے نیچے اترتے فردان پر پڑی۔  جو اب رکتے کسی ملازم سے کچھ کہہ رہا تھا۔ 

کالے رنگ میں وہ اس وقت نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ راحمہ کی نظر غیر ارادی طور پر ٹکی تھی اور ہٹنا بھول گئی تھی ۔ 

وہ خاموشی سے اسے دیکھنے لگی ۔ 

اسے خود نہیں پتہ چلا وہ کب سے کھڑی اسے دیکھ رہی ہے ۔ وہ اسے بے تحاشہ حسین مرد لگا تھا ۔ 

وہ اسے دیکھتی رہی یہاں تک کے فردان حویلی سے باہر نکل گیا ۔ 

اچانک حوش میں آتے اسنے حیرانی سے آنکھیں جھپکتے سوچا کے وہ کیا کر رہی تھی ۔ 

"حد ہے راحمہ وہ فردان لالا ہیں کیسے ندیدوں کی طرح دیکھ رہی تھی تم انہیں ۔ توبہ توبہ "

اپنے ماتھے پر ہاتھ مارتے اسنے خود کو ملامت کری اور کچن کی طرف چلی جہاں  شاہین بیگم اسکی کلاس لینے کیلئے کھڑی تھی ۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤

 گاؤں میں پنچایت کا سماں تھا ۔ ملک فراز کا بیٹا ملک شہباز ایک عیّاش انسان تھا جسے شباب کا نشہ تھا اسکے آدمی باہر گزرتی لڑکیوں اور عورتوں کو اٹھالیا کرتے تھے پھر وہ کہاں جاتی تھی کسی کو کچھ پتہ نا ہوتا تھا فردان کو پورا شک تھا کے اس میں ہاتھ ملک شہباز کا ہی ہے اسیلیئے آج کل وہ اس پر نظر رکھوارہا تھا اسکے ہر عمل پر فردن خانزادہ کی چیل جیسی نظر تھی ۔ 

یہاں رہنے والوں کا زیادہ تر ماننا تھا کے لڑکیوں کی پڑھائی ضروری نہیں جس کی بہت بڑی وجہ یہی تھی کے لڑکیوں کی عزتیں باہر نکلتے ہی محفوظ نا رہتی ۔ مگر آج کی جنریشن جو چاہتی تھی پڑھے اعلیٰ تعلیم نا صحیح لیکن تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن ماں کے ڈر اور باپ کی عزتوں کی وجہ سے یہ نا ممکن تھا ۔ 

فردان جانتا تھا گاؤں کا ماحول جو خراب ہے جو دہشت گاؤں میں پھیلی ہے یہ سب عیاش ملک شہباز کا کام ہے ۔ اسے بس ایک  موقعہ چاہیئے تھا اسکے بعد ملک شہباز کی ایک بوٹی بھی کسی کو نا ملتی ۔  وہ اپنے سامنے کی کرسی پر ملک شہباز اور ملک فراز کو بیٹھا دیکھ مٹھیاں بھینچے بیٹھا تھا جو مکروہ مسکرایٹ لیئے اسی کو دیکھ رہے تھے۔ 

سردار کی کرسی پر دا جی ( عبد الغفار) براجمان تھے اور انکے بیٹے برہان صاحب رضوان صاحب اور رحمان صاحب بھی شامل تھے ایک طرف ضرغام خانزادہ اور اسماعیل صاحب بھی بیٹھے تھے ۔ 

فردان خانزادہ دا جی کے دائیں طرف کرسی پر بیٹھا تھا اور بائیں  طرف کی کرسی فلحال خالی تھی ۔

 کیونکہ کبیر خانزادہ کا انتظار کیا جا رہا تھا جو اب ختم ہوا تھا کیونکہ سامنے سے وہ آتا نظر آیا تھا سب اسکی آمد پر کھڑے ہوئے تھے لوگ مبہوت ہو کر اس شہزادے کو دیکھ رہے تھے جو چوڑے سینہ پر سفید کرتا پہنے سفید ہی شال کندھوں پر ڈالے پٹھانی نین نقوش گلابی رنگت پر وہ ہری آنکھیں غضب ڈھاتی تھی بال جیل سے سیٹ کیئے کروفر سے چلتا آ رہا تھا ۔ 

زوردار آواز میں سب کو سلام کرتے وہ اپنی کرسی پر براجمان ہوا تھا ۔ 

ایک آواز میں سب نے سلام کا جواب دیا تھا ۔ 

جس کے بعد دا جی کی آواز گونجی تھی ۔ 

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں یہ ہمیشہ سے طے تھا کے میرے بعد سردار کی کرسی پر میرا پوتا کبیر خانزادہ ہوگا ۔ جو اب باہر ممالک سے اپنی تعلیم مکمل کر آیا ہے ۔ 

اور اسلیئے آج میں یہ کرسی یہ سرداری اور یہاں کے فیصلے کرنے کا ہر اختیار اپنے پوتے کبیر خانزادہ کو دیتا ہوں ۔ جس سے مجھے پوری امید ہے کہ وہ اس عہدے پر رہتے ہر فیصلہ کو انصاف اور عدل سے لے گا اور آپ سب ان سے مطمئین رہینگے ۔  

سب کے چہروں پر ایک مسکراہٹ تھی کیونکہ عبد الغفار خانزادہ نے اتنے سالوں میں ہمیشہ عدل اور انصاف کے فیصلہ لیئے تھے کے سب ان سے با خوبی خوش تھے اور اس بات میں کوئی غرض نا تھا کے انکے بعد کبیر خانزادہ کو انکا سردار بنا دیا جاتا ۔ 

لیکن ضرغام خانزادہ جس کی نظر صرف کبیر خانزادہ کے چہرے پر تھی ۔ وہ مٹھیاں بھینچتے بہت ضبط کے ساتھ بیٹھا تھا کیونکہ پانی اب دن با دن سر پر سے گزرتا جا رہا تھا اسے نفرت ہو رہی تھی کبیر خانزادہ سے جس کا ہر جگہ پرچم لہرایا جاتا تھا اسے نفرت ہو رہی تھی اس وقت کبیر خانزادہ کے چہرے پر مغروریت دیکھتے ۔ بھلے وہ سب لے لیتا لیکن اس کے بدلے وہ ایک شخص اسے دیدیتا اسنے آنکھیں میچتے دل میں سوچا تھا۔ اور اب وہ اپنے ارادوں سے پیچھے نہیں ہٹنے والا تھا  اسے ہر حال میں نرمین خانزادہ چاہئیے تھی اور یہ صرف اس وقت ممکن تھا جب کبیر خانزادہ اسے چھوڑدے اور اب اسے کیا کرنا تھا اسے اچھی طرح پتہ تھا ۔ 

کبیر خانزادہ نے چہرے پر ایک سرد مسکراہٹ سجائی اور دا جی سے بغلگیر ہوا۔ انہونے خوشی سے اسکے کندھے تھپکے تھے ۔ اور پھر فردان اور باقی سب سے ملا لیکن جب ضرغام خانزادہ سے ملنے کی باری آئی تو وہ اسکے سامنے جا کھڑا ہوا لیکن ضرغام کھڑا نا ہوا وہ ابھی بھی اپنی کرسی پر آرام سے بیٹھا تھا ۔ 

"کھڑے ہوجاوُ ابھی سب کے سامنے اپنی جلن کا اظہار کروگے تو میں اور اچھا اور تم مزید برے بن جاؤگے "۔

وہ طنزیہ مسکراہٹ سجاتا ضرغام کو دیکھتے ہلکی آواز میں بولا ۔ اور ضرغام کی شکل دیکھی جو سپاٹ چہرہ لیئے اسی جو دیکھ رہا تھا۔ 

وہ خاموشی سے اٹھا اور وہاں سے چلا گیا ۔ کبیر کی نظروں نے دور تک انکا پیچھا کیا تھا۔۔ 

ملک شہباز نے طنزیہ نظروں سے دیکھا تھا اس منظر کو ۔ 

کبیر خاموشی سے جاکر اپنی سردار کی کرسی پر براجمان ہوا تھا اسے اب اچھے سے پتہ تھا اسے کیا کرنا ہے ۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤

اج رات دا جی نے حویلی آتے ساتھ ہی سب کو یہ خبر دی تھی۔ حویلی میں خوشی کا سماں تھا ۔

سب رات کے کھانے کی ٹیبل پر براجمان تھے مرد حضرات ٹیبل پر بیٹھے تھے جب کے لڑکیاں سب کو سرو کر رہی تھی ۔  نرمین چہرہ ڈھکے سب کے ساتھ ہی تھی اور کبیر کی نظریں وہ خود پر با خوبی محسوس کر سکتی تھی لیکن انجان بنتے رضوان صاحب کو کڑھائی پیش کر رہی تھی جو اسنے خود بنائی تھی ۔ 

"دا جی اپکو پتہ ہے اج سارا کھانا ہماری بہنو نے بنایا ہے ۔ اسلیئے میں تو صرف وہی ڈشز کھاونگا جو نرمین اپو نے بنائی ہیں ۔ اب پیٹ کا بھی تو سوچنا پڑھتا ہے نا ۔ "

فاز چہکتا ہوا سب کو بتانے لگا تو سب کے چہروں پر خوبصورت سی مسکان نے بسیرا کیا ۔ اور راحمہ اور اسراء نے منہ پھلالیا ۔ 

"میری گڑیا نہ کیا بنایا ہے مجھے ٹیسٹ کرواؤ میں بتاؤنگا ۔ "

فردان اسراء سے مخاطب ہوا تو اسراء نے فخریہ نظروں سے شاز اور فاز کو دیکھا۔ اور راحمہ نے مسکین شکل لے کر اپنے بھائیوں کو ۔ 

"دیکھو فردان لالا اتنے اچھے بھائی ہیں اور ایک تم دونوں ہو  ایک نوالا بھی تم دونوں کو ہم اپنی ڈش میں سے نہیں دینگے "۔ 

راحمہ غصہ سے ناک پھلائے بولی تو فردان جس نے اسراء کے ہاتھ کا بنا پلاؤ کا پہلا نوالا منہ میں ڈالا تھا راحمہ کے لفظ لالا پر اسے پھندا لگا ۔ 

کبیر نے مسکراہٹ ضبط کرتے فردان کی پیٹھ تھپکی تھی جس پر اسنے مسکین شکل بناتے کبیر کو دیکھا تھا ۔ 

"لاو گڑیا آپ مجھے ٹیسٹ کرواؤ کیا بنایا ہے آپنے ۔ "

کبیر راحمہ سے مخاطب ہوا تو وہ خوشی سے اکسائیٹڈ ہوتے کبیر کے پاس بھاگی ۔ 

"یہ دیکھیں کبیر لالا یہ کباب ہم نے بنائے ہیں" ۔  کبیر نے ایک بائیٹ منہ میں رکھا تو وہ واقعی اتنا برا نا تھا. کبیر نے راحمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور کچھ نوٹ اسکے ہاتھ میں رکھے جسے دیکھ کر راحمہ کی آنکھیں چمک اٹھی ۔ لیکن شاز اور فاز کو یہ منظر پسند نا آیا ۔ 

داجان کا کھانا مکمل ہوا تو وہ اٹھ کر اپنے تینوں بیٹوں کو ساتھ لیئے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئے اور کبیر اور فردان کو بھی کھانے کے بعد وہاں آنے کی تاکید کی جس پر انہونے اثبات میں سر ہلایا۔ 

فاز نے کباب کی طرف ہاتھ بڑھایا تو راحمہ نے صاف منا کیا ۔ 

"راحمہ دے دو تنگ نہیں کرو بھائی کو۔ "

شاہین بیگم کی آواز پر راحمہ نے ناک چڑھاتے کباب انکے حوالے کیئے ۔ 

فاز نے ایک نوالہ منہ میں ڈالا تو اسے اچھا لگا لیکن خاموشی سے دوسرا نوالا بھی منہ میں رکھ لیا ۔ 

راحمہ انتظار میں بیٹھی اسکی شکل دیکھ رہی تھی کہ اب وہ تعریف کرے گا لیکن وہ تو پوراا کباب ہضم کر کے دوسرا بھی اٹھا گیا ۔

"کیسا بنا ہے ؟ 

راحمہ سے صبر نا ہوس تو خود ہی پوچھ لیا۔

"ٹھیک ہے بس اتنا خاص نہیں ۔ "

شاز منہ میں کباب ڈالتے مصروف سے انداز میں بولا تو راحمہ کی سر پر لگی تلوؤں پر بجھی ۔ 

"ہاں تو مت کھاؤ ادھر دو ۔ ایسے کیوں کھا رے ہو جیسے صدیوں کے بھوکے ہو ۔

راحمہ کی آنکھیں پھٹھی اور ماتھے پر سلوٹ ڈالے وہ اسکے ہاتھ سے کباب کی ٹرے لینے لگی جسے فاز چھوڑ نہیں رہا تھا ۔ 

"ہاں تو کیا ہو گیا اتنا سا کام تو آپ نے آج کر لیا ہے بس پکایا تو ہے اس میں کونسا اتنی خاص بات ہے۔" 

فاز ہاتھ نچانچا کر بولنے لگا ۔

"ہاں تو کچھ تو کرتی ہوں نا تمہاری طرح بیٹھی نہیں رہتی ۔"

"بس کردیں آپ تو اتنا اترا رہی ہیں ان کبابوں پر اتنے بھی اچھے نہیں بنے اپکے شوہر کا تو اللّٰہ ہی حافظ ہے بچارے کا پتہ نہیں کیا ہوگا"۔ 

راحمہ کی گوری رنگت لال دھوا دھار ہوگئی ۔ شرم کے باعث نہیں غصہ کے باعث ۔ کیونکہ شرمانا اسس آتا نہیں تھا ۔

سب بیٹھے انکی حرکتیں ملاحضہ کر رہے تھے جن کا بس نہیں چل رہا تھا اٹھ کر یہی جنگ شروع کردیں ۔ اور بیچارے شوہر کے بارے میں بچار سن کر فردان کو پانی پیتا پھر اچھو لگا ۔ 

"بس کر جاؤ ماڑا اب کیا ق+تل کروگے ایک دوسرے کا۔ ہر وقت لڑتے رہتے ہو۔"

شاہین بیگم غصہ سے دبا دبا چیخی تو 

راحمہ اور فاز خاموشی اور حیرانی سے شاہین بیگم کی شکل دیکھ رہے تھے ۔

"مورے ہم تو ایسے ہی مزاق کر رہے ہیں آپ اتنا سیریس کیوں ہو رہی ہیں ۔" 

راحمہ اور فاز ایک دم نورمل ہوکر شاہین بیگم کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی خوفناک قصہ سنا رہی ہوں ۔ 

تم دونوں خاموشی سے کھانا کھاؤ اور اب آواز آئی نا تم دونوں کی تع کھانا بند ڈائریکٹ صبح کا ناشتہ ملے گا ۔ 

شاہین بیگم غصہ سے بولی تو دونوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے اور انکی شکلیں دیکھ کر باقی سب دبا دبا سا ہنسنے لگے ۔ 

کبیر اور فردان بھی اٹھ کر دا جان کے کمرے میں روانہ ہوئے ۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤🤍🖤 

سب بڑے داجان کے کمرے میں بیٹھے تھے کبیر فردان اور خواتین بھی ۔

ہم چاہتے ہیں کہ اب بچوں کی شادی کی تاریخ طے کردیں ۔لیکن اس سے پہلے راحمہ اور اسراء سے پوچھ لیں کیونکہ یقیناً اوہ اس بات سے نا واقف ہیں ۔ آپ لوگ ایک بار ان ڈے بات کرلیں اسکے بعد انشاء اللہ اس جمعہ بچوں کی رخصتی کرلیں گے ۔ 

جی داجی آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں وہ دونوں نہیں جانتی۔  ہم نہیں جانتے ان کا کیا ری ایکشن ہوگا لیکن ایک بار انسے پوچھ لینا چاہیئے ۔ 

برہان خانزادہ کی بات سے سب متفق تھے ۔ کبیر اس جمعہ رخصتی کا سن کر آنکھیں میچی تھی ۔ لیکن اب وہ کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ بات اب اسکی عزت کی تھی اسکی غیرت کی تھی اسلیئے وہ خاموش بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا ۔ 

ایک بار آپ لوگ اپنی بیٹیوں سے انکی رضامندی لے لیں پھر دوبارہ انشاللہ اسمارہ اور اسماعیل کو بلا کر تاریخ طے کرلیں گے ۔ 

داجان نے کہا تو سب نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا۔ 

🤍🖤🤍🖤🤍🖤🤍🖤

اسراء اور راحمہ نرمین کے کمرے میں ہی ڈیرہ جمائے بیٹھی تھی ہمیشہ کی طرح ۔ 

اور اسے اپنے کپڑے دکھارہی تھی جو نرمین بے خیالی میں دیکھ رہی تھی ۔ 

"دیکھیں آپی یہ کتنا حسین ہے ۔ "

اسراء اپنا ڈریس دکھانے لگی ۔ 

"ہاں بہت پیارہ ہے ۔ 

نرمین نے پیار سے اسکا چہرہ دیکھتے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

جب انکا دروازہ ناک ہوا اور شاہین ، نازہ اور شاہانہ بیگم اندر آئی ۔

"مورے دیکھے کبیر لالا نے اتنی ساری شاپنگ کروائی ہے ۔ "

"ہاں بہت پیاری ہے ۔" شاہانہ بیگم نے اسکے گال پر پیار کرتے کہا تو وہ خوش ہوئی۔ 

ہمیں آپ لوگوں سے کچھ بات کرنی ہے نازو بیگم نرمین کے پاس بیٹھتی بولی۔

"جی مورے ہم سن رہے ہیں ۔ "

نرمین نے کہا تو شاہین بیگم نے بات کی شروعات کی ۔

"داجی نے آپ لوگوں کی شادی طے کردی ہے۔"

شاہانہ بیگم نے کہتے انکی شکلیں دیکھی جو حیران نظروں سے دیکھ رہی تھی البتہ نرمین کا چہرہ ہر جزبات سے عاری تھا۔ 

"ماما آپ اپو کو کہہ رہی ہیں نا ؟" 

"ارے یہ تو بہت خوشی کی بات ہے ۔

ہائےئےئے اپو کی شادی ہوگی اس گھر میں شادی ہوگی ۔ بہت مزہ آئے گا ۔ "

 راحمہ اور اسراء ایک دوسرے کی کنفیوشن دور کرتی بولی ۔ 

تو باقی سب پاٹ چہرہ لیئے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنے لگے ۔ 

"بس کریں اچھلنا کودنا ہم آپ تینوں کی بات کر رہے ہیں ۔ آپ تینوں کی شادی دا جان نے طے کردی ہے ۔" 

نرمین کی کبیر سے ۔ راحمہ کی فردان سے اور  شاہین بیگم اتنا کہتے خاموش ہو گئی ۔ 

کیونکہ سب جانتے تھے کہ اسراء کو ضرغام سے چڑ ہے وہ اسکا نام نا ہی لیتی ہے اور نا سن نا پسند کرتی ہے۔ 

" اور اسراء کی ضرغام سے ۔"

شاہانہ بیگم نے جملہ پورا کرتے اسراء کی شکل دیکھی جو آنکھیں پھاڑے حیرانی سے اپنی ماں کی شکل دیکھ رہی تھی ۔ 

اسراء کا دل اچھل کر حلق میں آگیا تھا یہ الفاظ سن کر وہ خاموشی سے اپنی ماں کی شکل دیکھ رہی تھی جو شاید ابھی کہہ  دیں کہ وہ مذاق کررہی ہیں ۔لیکن انہونے نا کہا ۔ 

راحمہ کا دل زورو سے دھڑک رہا تھا اسنے کبھی زندگی میں ایسا نہیں سوچا تھا جسے وہ لالا کہتی ہوئی بڑی ہوئی ہے آج اسکے ماں باپ اسی سے اسکی شادی کروادینگے ۔ وہ دونوں صدمے میں بیٹھی تھی ۔ جبکہ نرمین خاموش بیٹھی صبح کے بابت سوچ رہی تھی ۔

"مورے آپ یہ ۔ یہ ک۔ کیا کہہ رہی ہیں۔" 

راحمہ نے ہکلاتے زبان کے ساتھ کہاں اسکا دماغ اس بات کا یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ 

اور اسراء صدمے کے مارے خاموش بیٹھی تھی ۔ 

نازو بیگم نے نرمین کے سر پر ہاتھ رکھا تو وہ پھیکی سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اثبات میں سر ہلایا۔ 

تو نازو بیگم نے اسے گلے سے لگایا۔ 

انکی اولاد نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا تھا کبھی انکی نافرمانی نا کری تھی کبھی انہیں تنگ نا کیا تھا ۔ اتنی پیاری بیٹی کے بعد وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اللہ سے شکوہ کریں گے دوسری اولاد کا ۔ 

انہونے اپنی جان سے عزیز بیٹی کو گلے سے لگایا تھا اور انکی انکھوں میں آنسو آئے تھے ۔

نرمین کو گلے سے لگاتے انہونے دل سے اسکی خوشیوں کی دعا کی تھی  وہ کتنی پوری ہونی تھی یہ تو وقت ہی بتا تا۔ 

کبیر رات اپنے کمرے میں لیٹا چھت کو گھور رہا تھا اسکا دماغ دنیا جہاں سے دور ان دو انکھوں میں کھویا تھا ۔ 

وہ باہر ممالک میں رہا تھا بے شک اسنے اپنی یونیورسٹی میں بال ڈھکے کچھ لڑکیاں دیکھی تھی وہ بھی اپنے سر ڈھانپ کر کیوں رکھتی تھی اس بارے میں اسنے کبھی نہیں سوچا تھا اسے کیا فرق پڑتا تھا کے کوئی لڑکی خود کو ڈھکے نا ڈھکے لیکن نرمین وہ تو اپنا چہرہ تک کور کرتی تھی اس صدی میں یہ سب اسے ڈھونگ لگا تھا ۔ یونیورسٹی میں کئی لڑکیاں لڑکوں کی توجہ حاصل کرنے کیلیئے بہت کچھ کرتی تھی ۔ 

کیا نرمین بھی ایسی ہی ہے یا پھر وہ واقعی اس جنریشن میں پردہ کرتی ہے؟ 

وہ ایک دم سے اٹھ بیٹھا اور اپنا سر پکڑ لیا ۔ 

"اہہہ یہ لڑکی میرے ذہن پر کیوں سوار ہو رہی ہے ۔ "

"نرمین خانزادہ اگر یہ سب کچھ ناٹک ہوا تو تمہاری زندگی قیامت کبیر خانزادہ خود بنائے گا ۔ "

اسنے شوعلے بار آنکھوں سے خود کے سامنے نرمین کو تصور کیا تھا ۔ 

------✨حیا خان✨-----

کہنے کو وہ بستر پر لیٹی سامنے کتاب پکڑے پڑھ رہی تھی لیکن اسکا دماغ آج اسکی ماں کی باتوں میں اٹکا تھا ۔

 (آپ تینوں کی شادی دا جان نے طے کردی ہے ۔" 

"نرمین کی کبیر سے ۔ راحمہ کی فردان سے اور۔۔ 

 اور اسراء کی ضرغام سے۔۔")

"یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ نہیں نہیں۔ ضر۔ضرغام لالا تو مجھے جان سے مار دینگے اگر یہ بات انہیں پتہ بھی چلی تو ۔"

وہ ہڑبڑا کر اٹھی تھی اسکا دل کانوں میں دھڑک رہا تھا ماتھے پر پسینہ تھا ۔

آنکھوں میں آنسو آنے لگے تھے اس نے تو کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا کبھی کسی کے بارے میں نہیں لیکن آج ایسا سوچا جا رہا تھا وہ بھی ضرغام سے اسکے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے یہ سوچتے ہی۔ 

اچانک اسکے کانوں میں اسکی سہیلی کی آواز گونجی تھی ۔ 

("اتنے حسین مرد کو تم ایسے کیسے کہہ سکتی ہو "۔ 

"دیکھو تو ذرا چوڑا سینہ مردانہ وجاہت بھوری آنکھیں۔  حسن اسے نہیں کہتے تو کسے کہتے ہیں "؟)

ضرغام کے نام سے تو اسے صرف خوف یاد آتا تھا کبھی اسنے اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا وہ خیالوں میں کھوئی اسے سوچ رہی تھی ۔ 

سنہری رنگت بھوری آنکھیں جن میں ہر وقت اسنے صرف غصہ دیکھا تھا۔ کسرتی وجود جسے روز ورزش کر کے تراشا گیا ہو ۔ 

وہ واقعی ایک مکمل حسین مرد تھا لیکن اسکا غصہ؟  وہ یہ غصہ کیوں کرتا تھا اسکی وجہ وہ خود بھی نہیں جانتی تھی لیکن ہمیشہ سے ہی وہ اسے پسند نہیں تھی ضرغام نے اس پر ہمیشہ صرف غصہ کیا تھا کبھی پیار کے دو الفاظ بھی نہیں بولے تھے ۔ گھر میں سب کی لاڈلی تھی وہ کبھی کسی نے اس سے اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی تھی اور وہ ۔ وہ اسے آنکھ بھر کر کیا پیار کی ایک نظر بھی نہیں دیکھتا تھا ۔ 

اسنے اٹھتے خود کو شیشہ میں دیکھا تھا ۔ 

گوری سفید رنگت ہری کائی سی حسین خوبصورت آنکھیں کھڑی مغرور ناک اور ناک کے بلکل بیچ میں کالا تل ۔ خوبصورتی سے تراشے گئے لب ۔ 

وہ بے حد خوبصورت تھی اور جوانی کی دہلیز پر رکھا قدم تھا اسکی خوبصورتی نکھر کر باہر آتی تھی ۔ 

"اتنی حسین ہوں پھر بھی ایک پیار کی نظر ضرغام لالا نے کبھی مجھ پر نہیں ڈالی ۔ کیا میں معصوم نہیں لگتی ؟کیا میں پیاری نہیں لگتی ۔ حالانکہ ان سے تو بہت زیادہ حسین ہوں کتنی گوری ہوں میں اور وہ تو بس ٹھیک ٹھاک ہی ہیں۔"

اسنے شیشہ میں خود کو دیکھتے کہا ۔ وہ بے وقوف یہ نہیں جانتی تھی کے اپنی معصومیت میں وہ یہ چاہ کر گئی تھی کہ ضرغام اسے پیار کی نظر سے دیکھے ۔ لیکن وہ مغرور شہزادہ تو اس پر ایک نظر بھی نا ڈالتا تھا پیار کی نظر تو بہت دور کی بات تھی یہ سوچتے وہ بجھے دل سے جاکر واپس بستر پر بیٹھی تھی جب اسکے دماغ میں پھر سے اسکا ڈر آ بیٹھا ۔ 

"نہیں یہ بات ضرغام لالا کو جب پتہ لگے گی تو کیا ہوگا وہ تو ہماری سانسیں بھی بند کردیں گے ۔ وہ تو ہمیں  ابھی ہی اپنے سامنے برداشت نہیں کرتے ۔" 

"یا رب ہم کیا کریں آپ جانتے ہیں نا ایسا ہم نے نہیں سوچا داجان نے سوچا ہے ۔ اور داجان کو تو کوئی منع نہیں کرتا اب کیا ہوگا ۔ پلیز اللّٰہ پاک ہمیں بچالیں ہم نے کچھ بھی نہیں کیا اور اس والے کانڈ میں تو سچ میں ہمارا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔"

وہ اپنی خوبصورت آنکھوں میں موٹے موٹے آنسوں لاتے اللہ پاک سے خود کی سفارش کر رہی تھی ۔

اور پھر ایسے ہی پوری رات اسکی تانے بانے بُنتے گزر گئی ۔ 

------✨حیا خان✨-----

"فر۔ فردان لالا اور میں ؟؟"

"ہنہہ وہ پاگل پٹھان تو ہر وقت ہم سے اپنے نخرے ہی اٹھواتے رہینگے۔ نخرہ تو انکی ناک پر بیٹھا ہوتا ہے۔ اور ہماری زبان ہماری زبان تو انکے سامنے ہر بار ہم سے بے وفا ہو کر اول فول بکتی رہتی ہے ۔دو منٹ تو انکے سامنے طریقے سے گزرے نہیں کبھی ساری زندگی کیسے گزارا کرینگے ہم ۔"

راحمہ جب سے آئی تھی اپنے کمرے میں کب سے ٹہل لگاتے یہی سوچ رہی تھی ۔  

اسکا دماغ الگ الگ سوچ پکڑ کر لا رہا تھا اور وہ ہر بات پر پریشان تھی ۔ 

"کیا وہ جانتے ہیں اس بارے میں ۔؟" 

اب اسکا دماغ نئی سوچ لے کر آیا تھا جس پر وہ پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔

"یا اللہ کتنا عجیب لگے گا ان کے سامنے جانا  اگر واقعی ایسا ہوگا تو ۔ "

اسنے پھر رونے والی شکل بناتے آسمان کی طرف دیکھا تھا ۔ 

"حسین تو ہیں وہ اس میں کوئی شک نہیں ہے اور آج تو وہ بہت ہینڈسم۔ ۔۔۔"

اتنا کہتے اسنے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

"دیکھا ۔ دیکھا انکے ذکر پر بھی یہ بے وفا زبان ہمارے ساتھ ایسا ہی کرتی ہے انکے سامنے پتہ نہیں کیا کیا کرے گی ۔"

اسنے آسمان کی طرف دیکھتے پھر دہائی دی تھی ۔۔

"راحمہ تمہارا تو بیٹا اللہ ہی حافظ ہے ۔"

وہ اپنے بستر پر لیٹتے خود سے مخاطب ہوئی تھی اور جلدی سے آنکھیں بند کی تھی ۔ دیر سے سونے سے اسکی آنکھوں کے نیچے حلقے آسکتے تھےاور یہ رسک ہر ٹینشن پر بھاری تھا۔  

------✨حیا خان✨------

صبح ہوتے ہی داجان نے اسمارہ خانزادہ اور اسماعیل خانزادہ کو بلاتے تاریخ طے کردی تھی ۔ 

اس جمعے کو انکی رخصتی طے پائی تھی اور آج پیر تھا ساری تیاریاں جلد از جلد ہو رہی تھی خان حویلی میں افرا تفری مچی تھی۔ 

ساری عورتیں شاپنگ کیلیئے نکلی ہوئی تھی جبکے اسراء اور راحمہ اپنے پیپرز کے بارے میں سوچ رہی تھی راحمہ کے اگلے ہفتے جب کے اسراء کے ولیمہ کے دو دن بعد سے شروع تھے۔ جس پر سب بڑوں کا یہی کہنا تھا کے وہ شادی کے بعد دے لیں پیپرز ۔ 

کبیر خانزادہ جو حویلی کے اصولوں سے واقف تھا اسنے سوچا نہیں تھا کے فردان کی بدولت حویلی کی لڑکیاں شہر سے باہر جاکر تعلیم حاصل کرینگی اسے علم نہیں تھا کے نرمین نے ماسٹرز کیا ہوا ہے یا وہ اتنی تعلیم یافتہ ہے۔ البتہ یہ سن اسے شاک لگا تھا اور کہی نا کہی وہ خوش اور مطمئن بھی تھا کہ جس طرح اسنے سوچا تھا کے گاؤں کی کوئی جاہل لڑکی سے اسکی شادی ہوگی کم سے کم ایسا نہیں ہوا ۔

سب شادی کی تیاریوں میں مگن تھے حویلی کی ساری عورتیں شاپنگ کیلیئے نکلی تھی سوائے اسراء اور نرمین کے ۔

"اپو ہم آپ کی کچھ ہیلپ کر دیتے ہیں کیا آپ اکیلی کھانا بنائینگی ۔ "

اسراء کچن میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔ ملازمہ چاہے سارے کام سمبھالتی لیکن کھانا گھر میں گھر کی عورتیں ہی بناتی تھی ۔

"نہیں اسرا آپ جائے ہم کرلینگے آپکے پیپرز ہیں آپ پڑھائی کریں ۔"

نرمین نے مٹھاس بھرے لہجے میں کہا تو اسراء نے پیچھے سے اسے زور سے گلے لگایا ۔ جب کبیر اسی طرف آرہا تھا کچن کے باہر اسکے قدم رکے ۔ 

"آپ ورلڈ کی بیسٹ اپو ہیں اور ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ آپ ہی ہماری بھابھی بن رہی ہیں۔ "

اپنی بہن کی رائے جان کر اسکے دل میں کہی نا کہی سکون پہنچا تھا۔ ۔

"گڑیا آپ سے زیادہ یہ خوش قسمت ہیں جو انہیں کبیر خانزادہ مل رہا ہے۔"

اسنے داخل ہوتے ہی طنز کے تیر چلائے تو نرمین نے ہڑبڑا کر چہرا ڈھکا ۔ جبکہ اسراء بھی گھبرا کر پیچھے مڑی۔

"لالا آپ یہاں کیوں آئے ہیں کسی نے دیکھ لیا تو اچھی بات نہیں ہے حویلی کے مرد کچن میں داخل نہیں ہوتے۔" 

کبیر نے ایک نظر کھانے کی تیاری کرتے ہوئے نرمین پر ڈالی جو ایک بار بھی نہیں پلٹی تھی ۔ کبیر کو یہ اگنورنس برداشت نہیں ہوئی تھی۔ 

"کوئی فرق نہیں پڑھتا گڑیا ۔ ویسے بھی  مجھے مورے نظر نہیں ائی پوری حویلی میں تو ڈھونڈتا ہوا یہاں آگیا تھا ۔ "

کبیر کی نظریں نرمین کی پشت پر تھی پتہ نہیں کیوں لیکن اسے بہت غصہ آرہا تھا۔ مگر وہ اسراء کے سامنے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ 

"لالا مورے تو بازار گئی ہوئی ہیں بلکہ سب کہی نا کہی نکلے ہوئے ہیں میں اور اپّو ہی ہیں حویلی میں ۔" 

"تو آپ یہاں کیا کر رہی ہیں جائے پیپرز کی تیاری کریں۔ "

کبیر نے اسراء کو پیار سے کہا تو نرمین کے ہاتھ کانپے ۔ وہ کیوں اسراء کو جانے کا کہہ رہا تھا ۔

اسراء نے ایک نظر نرمین پر ڈالی اور دوسری اپنے بھائی پر جو ڈارک بلو کرتے میں آستین کہنی تک فولڈ کیئے بلکل یہی کا ایک شہری لگ رہا تھا ایک حسین مرد ۔ وہ بھی جوابًا مسکراتی وہاں سے چلی گئی۔ 

وہ وہی رکھی ایک کرسی پر بیٹھا کرسی پیچھے کسکانے کی آواز سے نرمین نے بے ساختہ اپنی مٹھیاں بھینچی ۔ 

وہ پتہ نہیں کیوں بے چین تھا اسکی آنکھیں دیکھنے کو لیکن وہ اسے اپنا دید نہیں بخش رہی تھی ۔ مگر اب اس سے برداشت نا ہوا تو بول اٹھا۔ 

"ایک گلاس پانی پلاؤ مجھے"۔

اسکی گھمبیر آواز گونجی تو نرمین نے دل پر ہاتھ رکھتے گہری سانس لی اور پلٹی لیکن نظریں ابھی بھی نا اٹھائی۔ 

وہ فریج تک گئی پانی گلاس میں بھرا اور اسکے سامنے رکھتے پلٹی ۔ 

کبیر جسکی نظریں اسی پر گڑی تھی وہ اسکی پلکیں نا اٹھتے دیکھ طعش میں آیا تھا اب ۔ 

اور جھٹ سے پانی کا گلاس نیچے پھینکا تھا ۔ تو نرمین ہڑبڑا کر پلٹی ۔ 

"کیا سمجھتی ہو تم خود کو یہ ایٹیٹیوڈ کس کو دکھا رہی ہو تم؟ تمہارے سامنے کبیر خانزادہ کھڑا ہے ۔جس کے ایک دیدار کے لیئے لڑکیاں تڑپتی ہیں اور تم مجھے اپنا ایٹیٹیوڈ دکھا رہی ہو ۔ 

ٹیبل پر زور سے ہاتھ مارتے اسنے اپنا غصہ ظاہر کیا تھا جب نرمین کی ڈر کے مارے بے ساختہ چیخ نکلی تھی اور آنکھیں پھاڑے وہ اسے دیکھ رہی تھی جس کو غصہ آخر کس بات کا آرہا تھا وہ نہیں جانتی تھی ۔

یہ تو نرمین کی عادت تھی وہ کیوں کسی مرد کو دوسری نظر اٹھا کر دیکھتی پھر چاہے سامنے اسکی محبت ہی کیوں نا ہو وہ اسکا محرم تو نہیں؟۔ لیکن کبیر نے اس بات کو کوئی اور ہی رنگ دیا تھا ۔

"ہم نے کب آپ کو اٹیٹیوڈ دکھایا کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ 

نرمین نے نم آواز میں کہا تو بے ساختہ کبیر کے تیور ڈھیلے پڑھے اسکی آواز سنتے۔ 

اب وہ اسے کیا جواب دیتا کے اسکے آتے ہی نرمین نے اسے پلٹ کر نہیں دیکھا اس بات سے جناب کا خون کھولا ہے یا پانی دیتے ہوئے بھی نظریں نا اٹھانا ۔

کبیر کو خود پر غصہ آیا تھا یہ کیا حرکت کی تھی اسنے وہ کیوں چاہ رہا تھا کہ نرمین بھی باقی لڑکیوں کی طرح اسکے ارد گرد گھومے اسکے آتے ہی اسکو نہریں بھر کر دیکھے ۔ 

وہ غصہ ضبط کرتا وہاں سے چلا گیا اور نرمین اپنا قصور ڈھونڈتی رہ گئی ۔ 

-----✨حیا خان✨-----

کبیر حویلی سے باہر کو جا رہا تھا جب اسے سامنے ضرغام کو کسی ملازم سے بات کرتا ہوا دیکھا ۔ جب وہ اسے دیکھ کر خاموش ہوا۔ 

"تم یہاں کیا کررہے ہو ؟ "

کبیر جو پہلے سے تپا ہوا تھا ضرغام کو دیکھ کر اسکا حلق تک کڑوا ہوا۔ 

"تمہاری مرضی سے آؤنگا یہاں؟ "

"ہاں میری مرضی سے کیونکہ یہ میری حویلی ہے اور اب تو سردار بھی بن گیا ہوں تو میری رضا تو ہر چیز میں چاہیے ہوگی ۔ "

کبیر نے طنز مارا تو ضرغام نے مٹھیاں بھینچی ۔ 

"سالے صاحب آپ شاید بھول رہے ہیں اب یہ میرا ننیہال ہی نہیں اب میں اس گھر کا داماد بن نے جا رہا ہوں تو آپکو آپکا یہ رعب مشکل میں ڈال سکتا ہے ۔" 

ضرغام نے اسکا کندھا جھاڑتے اپنی اہمیت یاد دلائی تھی۔ جب کبیر کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا ۔ 

"تم مجھے دھمکی دے رہے ہو ۔"

 اسکی کائی سی گہری آنکھوں میں غصّہ بھرا تھا جسے دیکھ ضرغام طنزیہ مسکرایا تھا ۔ یہی کبیر کی کمزوری تھی ایک جس کا اندازہ اچھی طرح ہوا تھا ضرغام کو۔ 

"دھمکی نہیں ہے یہ حقیقت ہے پرسو شادی ہے یہ تعلقات ہمیں اب ٹھیک کرلینے چاہیئے ۔ کیا کہتے ہیں پھر سالے صاحب۔ "

کبیر نے جبڑے بھینچے تھے ۔ 

"ایک بات یاد رکھنا ضرغام خانزادہ ۔ اگر میری بہن کو کوئی مشکل پیش آئی تمہارے پاس یا اسکی آنکھوں میں ایک آنسو بھی آیا تمہاری وجہ سے تو اس دن تمہاری جان لینے سے مجھے کوئی چیز نہیں روک سکتی ۔ یاد رکھنا یہ بات ۔" 

ضرغام طنزیہ مسکرایا ۔ 

"فکر نا کرو تم اس گھر کی اور تمہاری لاڈلی کا میں بہت اچھے سے خیال رکھونگا۔ "

"یہی بہتر ہے تمہارے لیئے۔ "

کبیر کہتا باہر کی طرف روانہ ہوگیا ۔ 

جب کہ ضرغام وہاں کھڑا کچھ سوچتے گہرا مسکرایا تھا۔ 

 -----✨حیا خان ✨-----

فردان جو شہر کسی کام سے آیا تھا مال سے انہیں پک کرنے آگیا تھا اور باہر کھڑا انکا انتظار کررہا تھا جب سامنے سے سب عورتیںں اسے آتی نظر آئی۔  لیکن وہ دور سے ہی حجاب کے ہالہ میں راحمہ کو پہچان گیا تھا ۔ 

اپنی شادی کی شاپنگ کیلیئے وہ خود آئی تھی جس سے اسے اندازہ ہوا تھا کہ وہ بھی اس شادی کیلیئے رضامند ہے ۔

راحمہ نے دور سے فردان کو دیکھتے ہی نظریں جھکائی تھی اس کی کیفیت عجیب ہوئی تھی۔ جسے دیکھ فردان کے چہرے پر خوبصورت سی مسکان نے بسیرا کیا تھا جب اسکے چہرے کا گڑھا اسکی مسکان سے واضح ہوا۔ 

وہ گاڑی میں بیٹھے تو فردان نے مرر سے ایک نظر اسے دیکھا جو نازو بیگم سے ہی کچھ بات کر رہی تھی جب نظروں کی تپش سے اسنے مرر میں دیکھا جہاں فردان خانزادہ اسی کو دیکھ رہا تھا۔ 

اسنے جھٹپٹا کر نظروں کا زاویہ بدلا تھا اور دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا جو آج پہلی بار اتنی زور سے دھڑکا تھا جیسے اج ہی ساری دھڑکنیں ختم کریگا۔ 

"یا اللہ یہ فردان لالا ہمیں ایسے ندیدوں کی طرح کیوں دیکھ رہے ہیں ۔ "

پریشانی سے وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے مخاطب ہوئی ۔ 

"تمہیں آنے کی کیا ضرورت تھی راحمہ پیپرز بھی قریب ہیں تمہارے تیاری کرتی بیٹھ کر۔" 

شاہین بیگم کی آواز آئی تو راحمہ کا دھیان بھٹکا ۔ 

"کیسی باتیں کر رہی ہیں مورے ہم اپنی شادی کی شاپنگ خود کرینگے ہماری شادی ہے یہ.  دولہا تو اپنی پسند کا ڈھونڈلیا اب کیا شاپنگ بھی اپنی پسند سے کرینگے آپ لوگ."

وہ ناک چڑھاتے جو بھی منہ میں آیا بول گئی ۔ لیکن جب احساس ہوا تو سامنے نظر ڈالی جہاں خونخوار نظروں سے فردان اسے دیکھ رہا تھا۔ 

"ہم۔ہمارا مطلب کہ ہماری شادی ہے نا ہم اپنی خوشی سے شاپنگ کرینگے ۔" 

وہ تھوک نگلتے کہنے لگی ۔ جب فردان نے اپنی مسکراہٹ ضبط کرتے گاڑی سٹارٹ کی تھی۔ 

راحمہ نے پھر اپنی زبان کو کوسا تھا ۔ 

"یہ ہمارا مرڈر کروا کر ہی چھوڑے گی۔"

مغرب کی آذانوں کی آواز ہر سو آرہی تھی ۔ ایک خوبصورت طلسم چھایا تھا آذانوں کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی کتنا خوبصورت ماحول تھا ۔ جب وہ وضو کرتے اپنے رب کی بندگی کیلیئے حاضر ہوئی تھی ۔ 

سلام پھیرتے اسنے اپنے اللّٰہ کی محبت میں ذکر و اذکار پڑھے تھے ۔ کئی لمحے گزر گئے اسنے اللّٰہ کے سامنے اپنے ہاتھ اٹھائے دعا کیلیئے ۔ سمجھ نا آیا کیا کہوں شکر ادا کروں کے جسکو اللّٰہ سے رورو کر مانگا تھا وہ ملنے جا رہا ہے ۔ یا شکایت کروں کہ جسے مانگا تھا اسے اس طرح تو نہیں مانگا تھا ۔ لیکن شکایت ؟ اپنی ہی مانگی ہوئی چیز پر شکایت تو نہیں کرتے  اس پر تو شکر ادا کرتے ہیں اور وہ نا شکری نہیں تھی لیکن ۔ یہ لفظ لیکن ہی شکایت ہے ۔ شکایت تو شروع ہی یہاں سے ہوتی ہے ۔ اور اللّٰہ کے محبوب بندے شکایت نہیں کرتے وہ تو اللّٰہ سے اچھے کی امید کرتے ہیں اس سے صبر مانگتے ہیں اور "جب اللّٰہ کا بندہ اسکی بات کو مانتے  صبر کرتا ہوگا تو آسمانوں پر ہمارا رب کتنا خوش ہوتا ہوگا۔

اور سچ ، صبر ، حیا تو اللّٰہ کے یہاں بڑی بات ہے."

اسنے سوچتے اپنے رب کا شکر ادا کیا تھا، اپنے نصیب کیلیئے دعا کی تھی اور اپنے رب سے بے شمار صبر مانگا تھا۔ 

(آمین) ۔

نماز پڑھتے وہ اٹھی تھی جب نازو بیگم اور شہانہ بیگم اسکے کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔

" میری بیٹی کی نمازیں تو بہت لمبی ہو رہی ہیں کیا بات ہے اللّٰہ تعالیٰ سے کیا خاص مانگا جا رہا ہے ۔"

نازو بیگم اسے تنگ کرتی اسکے پاس آکر بیٹھی اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیا ۔

"کچھ خاص نہیں مورے بس اپنے آنے والے کل کیلیئے دعا کی ہے۔ "

اسنے کہا تو نازو بیگم اور شہانہ بیگم نے پیار بھری نظروں سے دیکھا شہانہ بیگم نے اسے گلے سے لگایا ۔ 

"میں بہت خوش قسمت ہوں نازو جو مجھے ایسی بہو مل رہی ہے ۔ یہ میرے بیٹے سے بھی زیادہ عزیز ہے مجھے ۔ امید کرتی ہوں میرا بیٹا دنیا جہاں کی خوشیاں نرمین کے قدموں میں لاکر رکھ دے ۔"

انکی محبت دیکھتے نرمین کی آنکھیں نم ہوئی تھی ۔

وہ اسے بٹھاتے اسے خاندانی زیورات دکھا رہی تھی ۔

"شادی کے دن آپ انہی میں سے پہن لینا جو کپڑوں سے میچ کرے ۔ 

کبیر اور فردان دونوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی پسند سے اپنی دلہنوں کے کپڑے پسند کریں گے جو ابھی کچھ دیر میں آجائینگے۔" 

نرمین نے سنتے چہرہ جھکایا تھا جب نازو بیگم نے آنکھیں نم کرتے پیار بھری نظروں سے دیکھا تھا. 

"چلیں ٹھیک ہے بھابھی پھر ہم راحمہ اور اسراء کو بھی زیورات دے دیتے ہیں تب تک انکے جوڑے بھی آجائیں گے۔"

"چلو ٹھیک ہے."

وہ کہتی وہاں سے نکلی تی راحمہ اور اسراء کو زیورات دینے ۔ جب ایک گھنٹے بعد انکے جوڑے آئے تھے۔ 

اور وہ تینوں جوڑے بے تحاشہ حسین تھے ۔ جسے دیکھتے وہ تینوں ایک دم ساکت ہوئی تھی ۔ اور ان تینوں کو اپنے اپنے جوڑے بے تحاشہ پسند آئے تھے ۔ 

لیکن کبیر خانزادہ یہاں بھی نمبر لے گیا تھا کیونکہ اسکی ہونے والی بیوی کا جوڑا شایانِ شان تھا ۔ سب سے حسین اور سب سے بھاری کے راحمہ اور اسراء نے اسکا جوڑا دیکھتے صدق دل سے اسکے نصیب بھی اسی طرح خوبصورت ہونے کی دعا کی تھی کیونکہ انکی بہن تو انہیں جان سے بھی زیادہ عزیز تھی وہ چاہتی تھی جتنی وہ صورت اور سیرت کی حسین ہے اسی طرح کے وہ نصیب بھی پائے ۔ لیکن اللّٰہ نے اس کیلیئے کیا سوچا تھا یہ تو اللّٰہ ہی جانتا تھا۔ 

"اب آپ لوگوں کے جوڑے بھی تیار ہیں ۔

کل آپ لوگوں کی مہندی کی رسم ہے تو صبح سے تیار رہیئے گا اور اپنے سارے کام پہلے سے کر لیجیئے گا آپکے مہندی کے جوڑے بھی شام میں آگئے ہیں ۔"

شاہانہ بیگم ان سے کہتی اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوئی تھی۔  

----------❤️حیا خان❤️----------

ضرغام خانزادہ تیزی سے ڈرائیونگ کرتا گھر کی طرف روانہ ہو رہا تھا ۔ 

اس سے کبیر کی خوشی اور اپنا غم برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ 

اس کے دل میں آگ لگی تھی جو کسی نا کسی کو جلا کر ہی ختم ہوتی ۔ اسے نرمین خانزادہ اب ہر حال میں چاہیئے تھی چاہے پھر اب وہ کسی بھی حال میں ۔ یہ محبت تھی جنون تھا یا انتقام اب اس کی سوچ سے بالاتر تھا اسے بس کبیر کو مات دینی تھی کبیر کو نیچا دکھانا تھا اور کسی کی منگ کو اس سے چھین لینا اسے اسکا نا ہونے دینا یا اسکے قابل نہیں چھوڑنا اتنا کافی تھا اسے نیچا دکھانے کو ۔ اور کون نہیں جانتا تھا کہ کبیر خانزادہ کسی جھوٹی شے کو ہاتھ نہیں لگاتا اور جب وہ اسکی نہیں ہوگی تو ضرغام خانزادہ اپنائے گا اسے اور ساری زندگی نیچا دکھائے گا کبیر خانزادہ کو ۔ 

بسس ۔ ۔ اسکی سوچ میں یہ سب آتے ہی اسنے جھٹ سے گاڑی روکی تھی۔ 

اسکا سانس تیزی سے پھول رہا تھا ۔ 

ان سب میں وہ ایک ذات کو بلکل فراموش کر چکا تھا اسراء خانزادہ ۔ حسد کی آگ میں جلتے ضرغام اپنا سب کچھ گنوانے والا تھا جو اسکا نہیں تھا وہ بھی اور جو اسکا ہونے جا رہا تھا وہ بھی ۔

----------❤️حیا خان ❤️---------

"سردار آج پھر گاؤں میں ایک لڑکی کے ساتھ حادثہ ہوا ہے اور اسکے پیچھے ملک شہباز ہی ہے ۔ یہ دیکھے جہاں آپ نے کیمراہ لگونے کو کہےتھے اسکے فوٹیج۔ "

فردان اور کبیر ڈیرے سے نکلنے لگے تھے جب ان کا آدمی بھاگا ہوا انکے پاس آیا تھا۔ 

کبیر اور فردان نے وہ ویڈیو دیکھتے مٹھیاں بھینچی تھی ۔ 

فردان طعش میں آتے گن نکالتا اسے لوڈ کرتا کھڑا ہوا تھا جب کبیر نے اسکا راستہ روکا ۔ 

"گل خان کل ہی پنچایت بٹھاؤ ساری بات کل پنچایت میں ہوگی ۔"

کبیر نے اپنے آدمی کو دیکھتے کہا۔

"لالا میں اسے زندہ نہیں چھوڑونگا چھوڑیں مجھے ۔ "

"نہیں فردان صبر کرو اور عقل سے کام لو ۔ دل تو میرا بھی یہی کر رہا ہے کہ اسے چھلنی چھلنی کردوں لیکن ہمارا ایک غلط عمل سب بگاڑ دیگا ۔"

"لیکن سردار کل تو حویلی میں رسم ہے۔" 

گل خان بولا تو کبیر نے سرخ نظروں سے اسے گھورا ۔ 

"عورتوں کی رسم میں ہمارا کوئی کام نہیں ہے تم پنچایت بٹھاؤ اسکا فیصلہ کل ہی ہوگا۔"

"جی سردار جیسا آپ کہے ۔ "

وہ کہتے وہاں سے چلا گیا تھا جبکے کبیر اور فردان حویلی کی طرف نکلے۔

----------❤️حیا خان❤️---------

کل صبح کا سورج نکلا سب کی تیاریاں عروج پر تھی۔ 

سارے مرد صبح ناشتے کے بعد ڈیرے کی طرف روانہ ہوئے تھے جہاں کچھ دیر میں پنچایت شروع تھی اور خواتین مہندی کی رسم کی تیاریوں میں لگ گئی تھی جو آج شام تھی ۔ 

کبیر پنچایت میں پہنچا تو سب اسی کی راہ میں تھے سامنے وہ غریب آدمی تھا جسنے اپنی بیٹی کی ضد پر اسے شہر کے کالج میں ایڈمیشن دلوایا تھا اور راستہ میں ہی اسے اٹھالیا گیا تھا اسکی ذات کو روندھ کر اسے گاؤں کے جنگل میں جھاڑیوں کے قریب پھینک دیا تھا جب صبح اسکی لاش وہاں سے کسی راہ چلتے کو برآمد ہوئی تھی۔

جسکا کبیر کو جب پتہ چلا تو اسکا غصّہ ساتویں آسمان پر پہنچا تھا کہ کیوں اسنے رات فردان کو روکا کاش وہ چلا جاتا اور ملک شہباز کے چیتھڑے اڑا دیتا ۔ 

سامنے ملک شہباز بھی بیٹھا تھا اپنے باپ ملک فراز کے ساتھ ۔ جب کبیر نے بیٹھتے سب کے سامنے وہ ویڈیو چلائی تھی جسے دیکھتے ملک شہباز کو اپنے سامنے تارے ناچتے نظر آئے تھے ۔ 

"نہی۔ نہیں یہ می میں نہیں ہوں ۔ یہ کیا بکواس ہے ۔"

ملک شہباز بوکھلاتا ہوا بولا تھا ۔ جب ملک سرفراز دھاڑے تھے ۔ 

"میرے بیٹے نے نہیں کیا یہ کیا بکواس ہے یہ ۔ "

سب کی آپس میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئی تھی جب کبیر کی گرجدار آواز پر سب خاموش ہوئے تھے ۔ 

"خاموش۔ یہ ثبوت جھوٹےنہیں ہیں ۔ ہمیں تم پر پہلے سے شک تھا جو اسکے بعد یقین میں بدل گیا کہ وہ تم ہی تھے جسنے جانے کتنی ہی لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی اور کتنی ہی لڑکیوں کے پڑھائی کے شوق کا گلا گھونٹ دیا ۔ ناجانے کتنے باپ شرمندگی کے ڈر سے آج تک منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور کتنے ہی اپنی عزت کے خاطر اپنی اولاد کو اگے نہیں پڑھارہے ۔ 

اس سب کے ذمیدار تم ہو ملک شہباز اور اسکی جتنی بھیانک سزا تمہیں ملی جائے کم ہے ۔" 

وہ اپنی کرسی سے کھڑا ہوتا دھاڑا تھا آنکھیں حشت سے لال انگارہ ہوئی تھی سفید رنگت غصّہ سے سرخ ہوئی تھی ۔ 

جب ملک فراز اور انکے بیٹے ملک شہباز نے نفرت سے اسے دیکھا تھا ۔ 

جب کبیر نے اپنا فیصلہ سنایا تھا ہر جگہ گہرا سکوت چھایا تھا ۔ 

بھرے مجمعے کے بیچ کھڑا کرتے اسے اتنے کوڑے مارے جائیں کے اسکی سانسیں ختم ہو جائے ۔ لیکن کوڑے نا رکیں ۔ 

"بلائیں ان سب ماں باپ کو جنکے پھولوں کو اپنے ہاتھوں تلے مسلا ہے اس درندے نے ۔ ان سب کے ہاتھوں اسے وہ کوڑے پڑہینگے اور جب یہ مرجائے تو اسکی لاش کو بنا نماز جنازہ کے دفنا دیا جائے ۔ ایسے شخص کی یہی سزا ہونی چاہیئے ۔ "

کبیر اپنا فیصلہ سناتا اٹھ کھڑا ہوا تھا جبکہ ملک فراز ساکت کھڑے تھے انکا اکلوتا بیٹا جس کی ہر جائز نا جائز بات مانتے آج اسے اس حال میں لا کھڑا کیا تھا انہونے اسکا آج یہ انجام ہونا تھا ۔؟

کبیر کے آدمی ملک شہباز کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لارہے تھے جب ملک فراز غم و غصّے سے پاگل ہوتے اسکے پیچھے بھاگے تھے ۔ جسکا کبیر کے آدمیوں نے کوئی اثر نہیں لیا تھا اور اسے گھسیٹتے ہوئے وہاں سے لے گئے ۔ 

ہر کوئی کبیر خانزادہ کے انصاف پر خوش تھا اور وہ آدمی جسکی بیٹی کو کل روندھ کر مار دیا گیا تھا وہ بے تحاشا روتے کبیر کے پیروں میں گرا تھا ۔ 

"سردار آپکے انصاف سے میں مطمئین ہوں آپنے میرج بیٹی کو انصاف دلادیا میں آپکا احسان مند رہونگا ۔" 

کبیر نے فوراً اسے اپنے پیروں سے اٹھا کر گلے لگایا تھا جس پر وہ سسک سسک کر رودیا ۔ 

داجان نے بھی کبیر کو گلے لگایا تھا خوشی سے ۔ 

"مجھے فخر ہے کہ میرے پوتے نے آج اپنے رتبہ کی لاج رکھی اور ایک بہترین فیصلہ کیا ۔ آپ نے یہ ثبت کردیا کہ آپ ہی اس رتبہ کے لائق تھے ۔ "

"شکریہ داجان ۔ "

وہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ اپنے باپ کے گلے لگا ۔ جبکہ گاؤں والے اپنے نئے سردار اور اسکے انصاف پر بے حد خوش تھے ۔ 

جبکہ ملک فراز نے یہ منظر نفرت سے دیکھا تھا ۔ 

"میں تمہیں چھوڑونگا نہیں کبیر خانزادہ ۔نہیں چھوڑونگا۔" 

----------❤️حیا خان❤️---------

گھر میں مہندی کا سماں تھا سارے مرد حضرات کا انتظام ڈیرے پر تھا جبکہ گاؤں کی سبھی عورتیں خان حویلی میں موجود تھی ۔ مرد کے نام پر باہر بس گارڈز تھے ۔ جن کو کبیر خانزادہ سخت سیکیورٹی پر لگا کر گیا تھا ۔ 

دلہنیں تیار نرمین کے کمرے میں بیٹھی تھی ۔ ہر تھوڑی دیر بعد راحمہ خود کو شیشہ میں نہارتی ۔ سبز رنگ کے پٹھانی سٹائل پیروں کو چھوتا فراک پہنے جس پر جگہ جگہ شیشہ چمک رہا تھا اور لمبے بالوں کو خوبصورتی سے بل ڈالتے آگے رکھا گیا تھا ۔ میک اپ کے نام پر کاجل آنکھوں میں بھر بھر کر لگائیں جو اسے بے حد پسند تھا اور پیلے رنگ کا بھاری دوپٹہ اسکے سر پر سیٹ کیا گیا تھا پھولوں کا زیور پہنے ۔  

وہ پٹھانی گڑیا بے حد حسین لگ رہی تھی ۔ 

جبکہ اسراء بھی پیلے رنگ کا پیروں کو چھوتا فراک پہنے جس پر شیشے کا ہی کام کیا ہوا تھا اوپر سے بالوں میں فرینچ بنائے نیچے سے بال کھلے چھوڑے تھے پھولوں کی جیولری پہنے سر پر سبز رنگا کا دوپٹہ سیٹ کیئے آنکھوں میں کاجل بھرتے جو( راحمہ نے زبردستی لگایا تھا) نہایت ہی  خوبصورت لگ رہی تھی۔

اور نرمین ایک طرف خاموش بیٹھی تھی ملٹی کلر کا خوبصورت شیشوں کا بنا پٹھانی فراک پہنے کانوں اور ماتھے پر گیندے کے پھول ڈالے لمبے خوبصورت بالوں کو چٹیا میں قید  کیئے سر پر گلابی رنگ کا دوپٹہ سیٹ کیئے بنا میک اپ کے وہ سادگی میں بھی قہر ڈھا رہی تھی ۔ 

"اپو آئے نا آپ بھی کاجل لگا لیں ۔ اتنی خوبصورت آنکھیں ہیں آپ کی تو اور مزید حسین لگیں گی ۔ "

راحمہ ہاتھوں میں کاجل لیئے نرمین کے پاس آ بیٹھی تھی۔ 

"نہیں راحمہ ہمیں یہ سب پسند نہیں ہے آپنے لگایا ہے نا اور دیکھیں کتنی حسین لگ رہی ہیں۔"

نرمین نے مسکراتے انکار کیا تھا۔ 

"کیا میں پیاری نہیں لگ رہی اپو ؟ "

اسراء بجھے دل سے اسکے پاس آکر بیٹھی ۔ 

"نہیں ہماری گڑیا تو ہم تینوں میں سب سے زیادہ پیاری لگ رہی ہے۔ "

نرمین نے اسکے گالوں پر پیار کرتے کہا تھا تو وہ مسکرادی ۔ 

جب شاہین بیگم انکے کمرے میں آئی تھی ۔ 

"ما شاء اللّٰہ میری بیٹیاں اتنی پیاری لگ رہی ہیں۔ "

شاہین بیگم انکے سر پر پیار کرتی نم آنکھوں سے بولی۔ 

"مورے ہم تو ویسے ہی بہت پیارے ہیں۔ "

راحمہ نے اترا کر کہا جس پر شاہین بیگم نے اسکے سر پر چپت رسید کیا تھا ۔ 

"کبھی نہیں سدھرنا تم ۔ چلیں میں آپ سب کو نیچے لے جانے آئی ہوں۔ "

پھر نازو بیگم بھی آتے ان تینوں کو ساتھ نیچے لے گئی تھی جہاں کافی عورتیں بیٹھی تھی ۔

ہر جگہ رونق تھی ۔ مہندیاں لگ رہی تھی جب دلہنوں کے آتے انکے ہاتھوں پر خوبصورتی سے مہندی لگنا شروع ہوئی ۔

کای وقت گزرتا گیا جب دلہنوں کی مہندی مکمل ہوئی ۔

"ہمیں اوپر لے چلیں پلیز۔ "

نرمین جو بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی اب اوپر جانا چاہتی تھی ۔ جب وہاں ایک لڑکی اسے اوپر چھوڑ آئی ۔ 

اپنے کمرے میں بیٹھتے وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جہاں بھر بھر کر مہندی لگوائی گئی تھی پیروں کی مہندی سوکھے ہونے کے باعث اسے چلنے میں مشکل پیش نا آئی۔  

پتہ نہیں آگے اسکے نصیب میں کیا لکھا تھا وہ خاموش نظروں سے مہندی پر نظریں جمائے اپنے آنے والے کل کا سوچ رہی تھی ۔ 

کافی رات گزر گئی تھی مہمان جا چکے تھے سب اپنے اپنے کمروں میں تھے وہ اپنے بستر سے ٹیک لگائے بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کر گئی تھی جب اسکا دروازہ کسی نے کھٹکھٹایا ۔ 

اچانک جھٹکے سے اٹھی تھی وہ اور دروزے کی طرف دیکھا پھر گھڑی کی طرف رات کے بارہ بج گئے تھے مہندی بلکل سوکھ چکی تھی اسکی آنکھ لگ گئی اور اسے خبر بھی نہ ہوئی وہ سر جھٹکتے دروازے کی طرف قدم بڑھا گئے ۔ 

ضرور اسراء اور راحمہ ہونگی وہ سوچتے آگے کی طرف بڑھی ۔

"کون ؟؟"

اسنے پکارا لیکن باہر سے کوئی آواز نا آئی۔ اس کے ماتھے پر بل پڑھا ۔ 

"کون ہے؟؟ "

اسنے پھر پکارا لیکن جواب ندارد ۔ 

اب اسے گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ 

ابھی تک وہ اپنے سابقہ حلیہ میں تھی جب اسنے دوپٹہ سے ہی اپنا چہرہ ڈھکتے دروازہ کھولا تھا۔ 

اور سامنے والے شخص کو دیکھ کر اسکے چہرے پر حیرانگی پریشانی اور دل میں خوف نے دستک دی تھی ۔ 

 نرمین نے جیسے ہی دروازہ کھولا تھا اسکا چہرہ تاریک ہوا تھا ۔ 

"ضر۔ضرغام لالا آپ ؟"

اسے سمجھ نہیں آیا تھا کیا کرے وہ حیران و پریشان تھی اسنے تو کبھی ضرغام سے بات نا کی تھی کزن ہونے کے باوجود بھی وہ اسکی ذات کے بابت کچھ نا جانتی تھی اور آج وہ اسکے کمرے کے باہر کھڑا تھا ۔اسے گھبراہٹ کے مارے سمجھ نہیں آیا تھا کیا کرے ۔

"جی مج۔مجھے آپ سے بات کرنی تھی ۔ "

ضرغام اسے دیکھتے کسی اور جہاں میں گم تھا اسکی آنکھیں لال ہو رہی تھی جبکہ چہرہ ہر جزبات سے عاری تھا شاید نہیں یقیناً وہ نشہ میں تھا ۔ 

"یہ بات کرنے کا کوئی وقت اور ماحول نہیں ہے معذرت کے ساتھ آپ صبح بات کیجیئے گا ۔" 

نرمین نے اپنے مزاج سے ہٹ کر کچھ سخت لہجہ میں کہا تھا۔ اور دروازہ بند کرنے لگی تھی جب ضرغام نے دروازے پر ہاتھ رکھتے اسے روکا تھا۔ 

نرمین کے دل میں شدت سے کچھ بہت غلط ہونے کا اندیشہ اٹھا تھا ۔ 

"یہ کیا بد تمیزی ہے جائیں یہاں سے۔"

اسنے اواز تیز کرتے کہا تھا اور اپنے ہاتھ سے اپنے نقاب کو سختی سے تھام رکھا تھا ۔ جب ضرغام اندر داخل ہوا تھا کمرے میں۔ 

"پلیز ایک ۔ ایک بار میری بات سن لیں اس اس کے بعد میں یہاں سے چلا جاؤنگا ۔" 

نرمین انکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی جو ہلکے ہلکے ڈگمگا رہا تھا بھوری آنکھیں سرخ ہورہی تھی بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے جبکہ کتھئ رنگ کا کاٹن کا کرتا سلوٹ زدہ تھا۔ 

وہ ایک ایک قدم آگے بڑھا رہا تھا اور نرمین کا ایک ایک قدم پیچھے ہٹ رہا تھا وہ شاک میں گھری اسے دیکھ رہی تھی جس کی آنکھیں نم تھی یقیناً وہ آنسوں تھے۔ 

نم آنکھوں اور نم اواز کے ساتھ جب وہ بولا تو وہ نرمین کے پیروں تلے زمین کھینچ گیا تھا۔ 

"میں ضرغام خانزادہ آج آپ سے اقرار کرنے آیا ہوں کہ میں آپ سے بہت بہت محبت کرتا ہوں"۔ بولتے بولتے اسنے اپنے آنسوؤں کا پھندا حلق سے اتارا تھا ۔ "جب سے آپکو دیکھا ہے تب سے ہر دن ہر رات اپکو سوچتے ہوئے گزرا ہے ۔ چار۔ چار سال میں نے صرف آپ ۔اپکو سوچا ہے۔"

اسنے آنکھیں نرمین کی شاک آنکھوں میں گاڑھے کہا تھا۔

" نا آپ سے پہلے کبھی کسی لڑکی کے بارے میں سوچا تھا اور نا آپ کے بعد ۔ میری محبت کو نا ٹھکرائے گا۔ میں اپنی آنکھوں کے سامنے آپکو کسی اور کا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ اور اس کبیر خانزادہ کا تو بلکل بھی نہیں ۔

کبیر کا نام کہتے اسکی آنکھوں میں واضح نفرت دکھی تھی۔

"اسنے سب چھینا ہے مجھ سے۔  سب کچھ  لیکن اپنی محبت میں اسکی جھولی میں نہیں ڈالونگا ۔ جب سے میں نے آپکا چہرہ دیکھا ہے اسکے بعد سے کچھ دکھا ہی نہیں مجھے۔ ہر رات یہ چہرا میری آنکھوں کے سامنے آیا ہے اور ہر دن میں نے یہ چہرہ سوچتے شروع کیا ہے ۔ کل میں اس حق سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا ۔ مجھے خالی ہاتھ نا چھوڑے گا ۔"

"نرمین خانزادہ ضر-ضرغام خانزادہ مرجائےگا آپکے بغیر ۔"

 بولتے بولتے اپنے الفاظوں میں اٹکتا وہ اسکے سامنے گھٹنوں کے بل گرا تھا اور ہاتھ جوڑے تھے اس مغرور انا کے مارے شہزادے کی آنکھ سے دو آنسو ٹوٹ کر بے مول ہوئے تھے۔ 

جبکہ نرمین ساکت کھڑی تھی۔

جیسے کسی نے اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا ہو۔

 جیسے آج وہ بے پردہ ہوگئی ہو ۔ 

 جیسے آج اسکی چادر اسکے سر سے کھینچ لی گئی ہو ۔ 

 جیسے آج اسے انگاروں پر گھسیٹ لیا گیا ہو۔ 

اسنے اپنی زندگی میں خود کو سینچ سینچ کر رکھا تھا وہ جانتی تھی وہ حسین تھی آخر کس کس عورت یا لڑکی کے منہ سے نا سنا تھا اسنے اپنے لیئے یہ الفاظ ۔ وہ جانتی تھی کہ اس معاشرے میں جو حسن سے مالا مال ہے مشکل سب سے زیادہ اسی کیلیئے تو ہے ۔ یہ چہرے جب مرد دیکھے گے تو کیسے نہیں بہکے گے ۔ یہی تو آزمائش ہوتی یے ان لوگوں کی جس کو اللّٰہ حسن کمال دیتا ہے ۔ 

یہی تو وہ دیکھتا ہے کہ کون غرور کرتا ہے اپنے حسن کی نمائش کرتا ہے اور کون اسکی امانت کو چھپا کر اسکے احکام کی پیروی کرتا ہے ۔ 

اسنے تو اپنی زندگی میں اپنے رب کو راضی کرنے کی اسکے احکام ماننے کی پوری کوشش کی تھی لیکن یہ کیا ہوگیا تھا یہ گناہ اس سے کب سرزد ہوگیا تھا اسنے تو کوئی کوتاہی نا کی تھی پھر کیسے کسی نامحرم نے اسے بے پردہ دیکھ لیا تھا ۔ 

ایک نامحرم آج اسکے کمرے میں آکر اپنی محبت کا دم بھر رہا تھا اسکے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھا اس سے بھیک مانگ رہا تھا اس مرد کی آنکھوں سے اسکی محبت میں آنسو گر رہے تھے لیکن اسے یہ آنسو تیزاب بن کر اپنے چہرے پر اپنی روح پر گرتے محسوس ہو رہے تھے۔

 وہ شاک کی حالت میں گھری تھی جب ضرغام خانزادہ جو اس سے دو قدم دور گھٹنوں کے بل بیٹھا تھا اس پر سے نظر ہوتی پیچھے کسی کے جوتوں پر ٹھری تھی جو اندر اسکے کمرے کی طرف آہستہ آہستہ اٹھ رہے تھے اسکی آنکھیں جوتوں سے ہوتی آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھی تھی اور ان کائی سی گہری انکھوں سے جا ملی تھی جس کی آنکھیں شدید سرخ ہونے کا پتہ دے رہی تھی جیسے ان سے ابھی خون نکل آئے گا ۔ جبڑے مظبوطی سے بھینچے ہوئے تھے اور وہ نظریں نرمین خانزادہ کی آنکھوں میں گڑھی تھی جیسے وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے تباہ کردیگا۔ 

کبیر خانزادہ کو دروازے پر کھڑے دیکھ اور اسکے تاثرات دیکھ نرمین کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے ۔ اسکا دھیان اب ضرغام سے ہٹ کر مکمل طور پر کبیر پر تھا جب ضرغام نشہ کی حالت میں ہی نرمین کا ہاتھ پکڑنے کے غرض سے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہے  اور پکڑنے سے پہلے ہی کبیر کی سرد آواز کمرے میں گونجتی ہے ۔ 

"ہاتھ ۔مت۔ لگانا ۔اسے ۔"

کبیر نرمین کی آنکھوں میں ہی آنکھیں گاڑھے پنے الفاظوں پر زور دیتا ضرغام سے مخاطب ہوا تھا ۔

لہجہ اتنا سرد تھا کے نرمین کی ریڈھ کی ہڈی میں خوف سے سنسناہٹ ہوئی تھی اور ضرغام کا ہاتھ ہوا میں ہی رکا تھا۔ 

کبیر کی آواز سنتے وہ اپنے ہوش و حواس میں لوٹا اور کھڑا ہوتے پلٹا تھا جب سامنے کبیر خانزادہ کھڑا تھا جو آنکھوں میں وحشت لیئے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ 

ضرغام کا چہرہ سپاٹ ہوا تھا اسے دیکھتے   اور پیچھے پلٹ کر نرمین کو دیکھا تھا جو ہلکے ہلکے کپکپا رہی تھی چہرہ ابھی بھی ڈھکا ہوا تھا آنکھوں میں بے تحاشہ آنسو تھے ۔ جب بے ساختہ ضرغام کو ابھی کچھ دیر پہلے کا منظر ذہن میں آیا تھا اسنے پھر نرمین کا چہرہ دیکھا تھا اور اپنے کیئے پر بے حد افسوس کیا تھا وہ ایسا تو نہیں چاہتا تھا ۔ لیکن یہ کیا ہوگیا تھا۔ جب پیچھے دروازہ بند ہونے کی آواز آئی لیکن ضرغام پلٹا نہیں ۔ وہ ابھی بھی نرمین کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں وہ شاک میں رہتے شاید اب خود سے بھی نظریں ملانے کے قابل نہیں رہی تھی اب۔ 

"نظریں ہٹا اس پر سے ورنہ جان سے مار ڈالونگا۔ "

کبیر ضرغام کا گریبان پکڑتے دھاڑا تھا ۔ اور ایک مکہ اسکے منہ پر دے مارا تھا ۔ 

جب نرمین کی چیخ کی آواز نکلی تھی کپکپاہٹ اسے دیکھتے صاف واضح تھی جب کبیر نے اپنے ہونٹ پر انگلی رکھتے اور آنکھیں نکالے اسے آواز بند رکھنے کا اشارہ کیا تھا ۔

"آواز نا نکلے تمہاری"۔

نرمین نے بے تحاشا روتے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

"تیری ہمت بھی کیسے ہوئی میری ہونے والی بیوی سے ایسی بکواس کرنے کی۔"  اسنے ایک مکہ اور اسکے منہ پر دے مارا تھا ۔

"اسے ایسی نظروں سے دیکھنے کی ۔"

پھر ایک مکہ ضرغام کے منہ پر جڑا تھا ۔ 

"رات کے اس پہر اسکے کمرے میں آنے کی ۔"

"اس سے اتنے گھٹیا الفاظ کہنے کی."

در پہ در اسکے منہ پر پڑنے والے مکوں سے ضرغام کی ناک اور ہونٹ سے بے تحاشہ خون نکلا تھا ۔  

وہ اپنے بچاؤ کی بہت کوشش کررہا تھا لیکن کبیر کے سر پر جنون سوار ہوا تھا ۔ آخر تھا تو وہ پٹھانوں کا خون اپنی عزت اور غیرت پر بات کیسے برداشت کرلیتا اور وہ بھی اونچی ناک والا کبیر خانزادہ ۔

کبیر نے مار مار کر اسے نڈھال کردیا تھا لیکن اسے صبر نہیں آ رہا تھا۔ 

اسکا نام بچپن سے اسکے نام کے ساتھ جڑا تھا وہ اس سے شادی نہیں کرتا تب بھی وہ اسکا ایسا کریکٹر برداشت نا کرتا کہ وہ اسکے خاندان کی لڑکی اسکے تایا کی بیٹی تھی ۔ تو اب تو وہ اسکی ہونے والی بیوی تھی کل انکا نکاح تھا اور آج اسکی ہونے والی بیوی کے محبوب اٹھ کر آرہے تھے۔ اور محبوب بھی وہ جو اسکی خود کی بہن کا ہونے والا شوہر تھا یعنی اسکی بہن کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا ۔ 

یہ باتیں سوچتے کبیر کا دماغ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا اسکا خون کھول رہا تھا کے آج وہ ضرغام خانزادہ کی جان لے لے۔ وہ اسے بے تحاشہ مار رہا تھا جب نرمین کی کپکپاتی نم آواز اسکے کانوں میں پڑی تھی اور وہ ساکت ہوا تھا ۔

"پل۔پلیز۔پلیز انہیں جانے دیں وہ مر۔مر  جائینگے ۔ "

جسے سنتے کبیر کے تیور بگڑے تھے اسنے سرخ انگارہ آنکھوں سے نرمین کو گھورا تھا جس کا سانس اسکے دیکھتے ہی حلق میں اٹکا تھا۔ 

جب ضرغام نے طنزیہ مسکراتے کبیر کو دیکھا تھا ۔ 

کبیر کو یہ مسکراہٹ آگ لگا گئی تھی اسنے زور دار مکہ پھر اسکے منہ پر مارا تھا جب نرمین کے رونے کی آوازیں باقاعدہ اب آنے لگی تھی ۔ 

وہ اسے جھٹکے سے چھوڑتا پیچھے ہٹا تھا ۔ 

ضرغام کی حالت بہت بری ہوئی تھی سارہ نشہ اسکا بھاگا تھا اٹھنے کی کوشش کرتا وہ لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوا تھا جب کبیر نے اسے گریبان سے پکڑا تھا۔ 

اب تم۔ تم نے سن ہی ل۔لیا ہے تو اچھ۔اچھی بات ہے ۔کبیر خانزادہ تو کس۔کسی کی آنکھ بھر کر دیکھ۔دیکھی ہوئی شے استعمال کرنا پسند نہیں کرتا ۔کرتا۔ تو بیوی کیا بنا۔بنائے گا۔ "

ضرغام طنزیہ مسکراتا ابھی بھی اپنے قول سے پیچھے نہیں ہٹا تھا۔ 

جب کبیر نے سرد مسکراہٹ چہرے پر سجائی ۔ 

"نرمین میری بچپن کی منگ ہے میرے نام کی مہر بچپن میں ہی اس پر لگ گئی تھی وہ سالوں سے میرے نام پر بیٹھی ہے ۔ میں اسے قبر میں تو اتار سکتا ہوں لیکن تجھے کبھی نہیں دونگا ۔ "

کبیر نے سرد آواز میں اپنے الفاظوں پر زور دیتے اس سے کہا تھا جب ضرغام نے بھی دانت بھینچے تھے۔ 

"تم اس سے محبت نہیں کرتے جبکہ میں ۔۔۔

وہ جملہ مکمل کرتا کہ کبیر نے پھر اسکے منہ پر مکہ مارا تھا اور اسکا گریبان پکڑتے پھر کھینچا تھا۔ 

"نرمین خانزادہ کل اپنے تمام حقوق کے ساتھ میرے حصّے میں آئی گی لیکن اپنی بہن کی زندگی میں کسی حال میں برباد نہیں کرونگا ۔ اسکی شادی تم سے ہر گز نہیں ہوگی اب ۔ 

جب ضرغام کا دماغ غصّہ سے پھرا تھا ۔

"میں نرمین کو تیرا نہیں ہونے دونگا۔ "

جب کبیر غصّہ سے اسکا گریبان پکڑتا دھاڑا تھا۔ 

"اےےے وہ میری ہی ہے ہمیشہ سے اور اپنی آخری سانس تک میری ہی رہے گی"۔ 

تو کیا کسی کا باپ بھی اٹھ کر آجائے تو بھی نرمین کا نام کبیر سے الگ نہیں کر سکتا۔"

جب اسکی باتیں سنتا ضرغام طنزیہ ہنسا تھا اور ایک جھٹکے سے اس سے اپنا گریبان چھڑوایا تھا۔ 

"تو اپنی منگ کو نہیں چھوڑسکتا اور نا کوئی تجھ سے چھڑوا سکتا ہے کیونکہ تیرا نام اسکے ساتھ بچپن سے جڑا ہے۔ 

تو تونے یہ کیسے سوچ لیا پھر کہ ضرغام خانزادہ اپنی بچپن کی منگ اسراء خانزادہ جس کا نام میرے نام کے ساتھ بچپن سے جڑا ہے اسے چھوڑ دیگا۔ "

اسکی بات سنتے کبیر نے پھر غصہ میں اپنا ہاتھ اٹھایا تھا جو ضرغام نے ہوا میں ہی پکڑلیا تھا۔ اور اسکی آنکھوں میں سختی چھائی تھی جبکہ ہونٹوں پر سرد مسکراہٹ تھی۔ 

"اب تو کچھ کر سکتا ہے تو کر کے دکھا دے۔"

وہ اسکا ہاتھ چھوڑتا دروازہ کھولتا وہاں سے گیا تھا کبیر نے غصہ میں سامنے پڑے واس پر مکہ مارتے دھاڑ سے اسے توڑا تھا جب نرمین کی چیخ گونجی تھی  ۔

اور نرمین کی طرف پلٹا تھا جسکی آنکھیں سرخی مائل بھیگی ہوئی تھی ہاتھ کپکپارہے تھے نقاب آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا ۔ جب اسنے نظریں اٹھائی تھی اور کبیر کی وحشت بھری نظروں کا سامنا کیا تھا جہاں شکوہ غصہ قہر سب موجود تھا ۔نظریں جھکاتے اسے اپنا آپ مجرم لگا تھا ۔  اور اسکے ہاتھ پر نظر پڑی تھی جہاں سے خون بہہ رہا تھا ۔ 

"آپ ۔آپ کا ہاتھ ۔ خون ۔"

روتے کانپتی آواز میں اسکے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے تھے ۔ جب وہ قدم قدم چلتا اسکے قریب آکر رکا تھا۔ اور چہرے پر سرد مسکراہٹ سجائی تھی اسکے ہاتھوں سے اٹھتی مہندی کی خوشبو اسکے حواسوں پر سوار ہو رہی تھی ۔ 

"خاموش۔۔

 تم سے سارے حساب کل بے باک ہونگے۔ 

 میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کے ساری زندگی تم سے بے تحاشہ نفرت کرونگا۔ کبھی تم مجھے اپنے ساتھ نا پاؤگی ۔"

وہ اس سے مسکراتے ایسے وعدے کررہا تھا جیسے کوئی خوشی خوشی کسی رشتہ میں بندھ کر کرتا ہے مگر چہرے پر وحشت چھائی تھی ۔جبکہ نرمین کی پتلیاں ساکت سی اسکی رسرد آنکھوں میں ٹھری تھی۔  

اسکی انکھوں میں دیکھتا وہ وہاں سے چلا گیا پیچھے دروازہ بند کرگیا ۔ 

---------💕حیاخان💕---------

ضرغام گاڑی میں سیٹ سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا نرمین کا سوچتے اسکی آنکھ سے ایک باغی آنسوں پھسلتا  کنپٹی میں جذب ہوا تھا جب کبیر کا نفرت سے سوچتے اسنے اپنی آنکھیں کھولی تھی۔

"نہیں کبیر خانزادہ میں تمہیں نہیں بخشونگا تمہاری زندگی تباہ کردونگا ۔ جتنا میں تڑپا ہوں اگر اس سے زیادہ میں نے تمہیں نا تڑپایا تو میرا نام ضرغام خانزادہ نہیں ۔"

اپنے مہرے کا سوچتے وہ طنزیہ مسکرایا تھا ۔ 

"اسراء خانزادہ"۔

ہولے سے بڑبڑاتے اسنے آنکھیں بند کرتے پھر سیٹ سے ٹیک لگایا تھا۔ 

---------💕حیاخان💕--------

کبیر نے اپنے کمرے میں آتے ہر چیز اِدھر سے اٹھا کر اُدھر پھینکی تھی اسکا غصّہ سے برا حال تھا ہاتھ سے بہتا خان سوکھ چکا تھا ۔

"نرمین رضوان خانزادہ تم نے اچھا نہیں کیا ۔ پتہ نہیں کیوں مجھے امید تھی کہ نہیں میں غلط رائے قائم کر رہا ہوں تمہارے بارے میں شاید تم دوسری لڑکیوں جیسی نہیں ہو شاید واقعی تم سب سے الگ ہو ۔ لیکن نہیں یہ میرا وہم تھا ۔ تم جیسی لڑکیاں صرف دکھاوے کے لیئے اور  لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلیئے ایسا کرتی ہیں ۔ نہیں نرمین خانزادہ۔ 

مجھ سے جڑی شہ میرے نام سے جڑے لوگ مجھ سے بے وفائی کریں یہ کبیر خانزادہ کو گوارہ نہیں۔ اس کا انجام تم ساری زندگی بھگتو گی۔ "

وہ خود سے بڑبڑاتا اپنی رائے قائم کر چکا تھا ۔ 

آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا اسنے آج یقین کرلیا تھا۔ آنکھیں لہو چھلکا رہی تھی ۔ اسکے بس میں ہوتا تو ضرغام خانزادہ کو وہ جان سے مار ڈالتا ۔ اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیتا۔

اور تصور میں نرمین کو سوچتے اسنے شرٹ اتار کر پھینکی تھی اور سگریٹ سلگائی تھی ۔ چہرہ ہر جذبے سے عاری تھا ۔ اسکی خاموشی میں کل نرمین کو تباہ کرنے کا جنون تھا ۔ جو اب اسکے سر پر سوار ہوا تھا۔ اب اس جنون میں وہ کیسے اس نازک جان کو تباہ کرے گا یہ اس کے آنے والا کل بتائے گا۔ 

---------💕 حیاخان💕----------

کبیر کے کمرے سے جاتے نرمین ساکت سی زمین پر بیٹھی تھی ۔ اسکا دل دہل گیا تھا یہ اتنی سی دیر میں کیا سے کیا ہوگیا تھا اسنے تو سوچا بھی نہیں تھا وہ چار سال سے اس گناہ میں مبتلا ہے کوئی نامحرم اسکی محبت کا دم بھرتا ہے ۔

اسکے آنسوں ساکن تھے وہ خاموشی سے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔ 

(میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کے ساری زندگی تم سے بے تحاشہ نفرت کرونگا۔ کبھی تم مجھے اپنے ساتھ نا پاؤگی ۔")

اسکے کانوں میں اسکے الفاظ گونج رہے تھے۔ اسنے اپنے مہندی سے سجے ہاتھوں کی طرف دیکھا تھا ۔ 

جس شخص کے نام کی مہندی اسکے ہاتھوں میں سجی تھی وہ اس سے نفرت کا دعویدار تھا ۔ 

جس سے اسنے بے تحاشہ محبت کی تھی آج وہ اس سے کہہ رہا تھا کے وہ کبھی اسکا ساتھ نہیں پائی گئی ۔ 

وہ گھٹنوں میں چہرا چھپائے آنسوؤں سے رودی ۔

یا اللّٰہ ۔ یا اللّٰہ ہمیں معا۔معاف کردیں ہم نہیں جانتے تھے یہ۔ یہ سب ہمیں نہیں پتہ تھا آپ جانتے۔ جانتے ہیں نا سب ۔ 

وہ ہچکیوں سے روتی اللّٰہ سے مخاطب ہوئی تھی ۔ مٹھیوں میں دوپٹہ دبوچا تھا ۔ 

آج وہ بے آبرو ہوگئی تھی ۔ اسے بے پردہ کردیا گیا تھا وہ بے تحاشہ رو رہی تھی کی اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا ۔ 

خود کی ذات کو چھپا چھپا کر رکھنے والی آج بے پردہ ہوگئی تھی ۔ 

پوری رات اسنے ہچکیوں سے روتے اور اللّٰہ سے معافی مانگتے گزاری تھی لیکن اسے صبر نہیں آرہا تھا آج وہ اتنی صابر لڑکی اپنا صبر ہار گئی تھی ۔ 

صبح اٹھتے حویلی میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا ۔ پوری حویلی کو پھولوں سے سجایا گیا تھا سارے ملازم بھاگ دوڑ میں لگے تھے مرد حضرات سارے انتظامات دیکھ رہے تھے جبکہ عورتیں نرمین کے کمرے میں موجود تھی جہاں نرمین اور راحمہ کو تیار کرنے کیلیئے بیوٹیشنز آئی ہوئی تھی ۔ 

چونکہ اسراء کا نکاح کل کبیر اور فردان کے ولیمہ کی رسم کے ساتھ تھا اسلیئے وہ ریلیکس تھی جبکہ راحمہ کی شکل دیکھ اسے بے تحاشہ ہسی آرہی تھی جہاں وہ میک اپ آرٹسٹ کا دماغ کھا چکی تھی اسے ٹوک ٹوک کر اسکا کہنا تھا کہ اس بیوٹیشن سے زیادہ اچھا وہ خود تیار ہوسکتی ہے جبکہ انکی تیاری کیلیئے شہانہ بیگم نے شہر کی نمبر ون بیوٹیشنز کو بلایا تھا ۔ 

جب شاہین بیگم راحمہ کو جھٹک کر خاموش رہنے کی تاکید کرتے باہر گئی تھی جبکہ نرمین خاموش گم صم سی بیٹھی تھی ۔ صبح سے نازو بیگم پریشان ہوکر اس سے پوچھ چکی تھی کہ کیا بات ہے یا پھر وہ اس رشتے سے خوش ہے جس پر وہ زبردستی مسکراتے اور اثبات میں سر ہلاتے انکے گلے لگی تھی۔ 

لیکن اسکا دل بہت اداس تھا اسے ایک انجانا سا خوف تھا پتہ نہیں اسکے نصیب میں کیا لکھا تھا اور اسکے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ لیکن یہ تو وہی شخص تھا جسکو اسنے دعاؤں میں مانگا تھا اور آج اسی سے اس کا نکاح تھا اسنے مسکرانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ مسکرا نا سکی ۔

باہر مردوں میں فردان نے سارے انتظامات دیکھے تھے جبکہ کبیر صبح سے باہر کے معاملات سمبھال رہا تھا۔ 

شام کے سائے ڈھلے تھے ۔ 

وہ اپنے کمرے میں  ہاف وائٹ کلر کی شیروانی پہنے اور اسکے ساتھ کلہ باندھے مہرون شال اوڑھے وہ کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا کہ کسی کی نظر اٹکتی تو ٹہر ہی جاتی شیشہ کے سامنے کھڑا تھا خود پر بے تحاشہ پرفیوم کرتے وہ کسی گہری سوچ میں گم تھا اور کل رات کے بابت سوچتے اسکا دماغ نئے سرے سے گھوم رہا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ کو وہ کسی حال میں بخشنے والا نہیں تھا ۔ اسراء سے یہ شادی اسے ہر حال میں روکنی تھی ۔ وہ کیسے جانتے بوجھتے اپنی بہن کو اس آگ میں جھونک دیتا۔ اپنے فیصلہ پر اٹل ہوتے اسنے پھر ایک نظر خود کو دیکھا تھا ۔

 ہری کائی سی گہری آنکھوں میں ایک انوکھی سی چمک تھی ۔ کسی کو مات دینے کی چمک کسی کو نیچا دکھانے کی چمک ۔ اسے بے ساختہ نرمین کی وہ دو انکھیں یاد آئی تھی جنہیں اسنے جب بھی دیکھا تھا وہ ان میں ڈوب جاتا تھا لیکن آج تک اسنے کبھی اس لڑکی کا چہرہ نہیں دیکھا تھا ۔ 

وہ مغرور شہزادہ اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرےگا جسکو کبھی دیکھا بھی نہیں ہوگا ۔ لیکن قسمت اسے کہاں لے آئی تھی ۔ وہ لڑکی کبیر کےلیئے ایک مسٹری تھی ۔ جسے جتنا سلجھاتا تھا اتنی الجھتی تھی وہ لڑکی جب پردہ کرتی تھی تو کیسے اسکی محبت کا کوئی دعویدور نکل آیا تھا کیسے کوئی اسکے چہرے پر مر مٹنے کے دعوے کر رہا تھا ۔

اسنے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ تو اسکے بچپن کا منگ تھا تو کسی اور نے اسے کیسے دیکھا اسکے دل میں آگ جل اٹھی تھی ۔ جب ضرغام نے اس سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا ۔

وہ کیسے برداشت کرتا کہ کبیر خانزادہ کی ہونے والی بیوی سے کوئی محبت کا اظہار کررہا ہے ۔ وہ انہی سب سوچوں میں گم تھا جب شاہانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی ۔ 

"میرا بیٹا شہزادہ لگ رہا ہے آج"۔

وہ نم آنکھوں سے اسکا ماتھا چومتے اس پر دم کرنے لگی جب کبیر نے مسکراتے ان کے سر پر ہونٹ رکھے ۔ 

"ایک ملکہ کا بیٹا ہوں شہزادہ تو لگونگا نا۔" 

شاہانہ بیگم کو بے ساختہ اپنے بیٹے پر پیار آیا تھا۔ 

"بیٹا نرمین بہت اچھی بچی ہے ۔ ہمیشہ ہماری آنکھوں کے سامنے رہی ہے ۔ کبھی اسنے کسی پر غصہ تو کیا اونچی آواز میں بھی بات نہیں کی ۔ بہت معصوم ہے وہ ۔ کبھی اسکا دل نا دکھانا۔ میں یہ بات اسے نہیں تمہیں کہونگی کہ تم بہت خوش قسمت ہو جو تمہیں نرمین خانزادہ مل رہی ہے ۔ "

وہ خاموش نظروں سے اپنی ماں کی بات سن رہا تھا ۔ لیکن جو اس نے کل رات اپنے کانوں سے سنا تھا وہ کیا تھا۔ وہ لڑکی واقعی کوئی مسٹری تھی۔ 

وہ مسکراتا اپنی ماں کو مطمئین کر گیا تھا ۔ 

وہاں سے نکلتی شاہین بیگم فردان کے کمرے میں روانہ ہوئی تھی جو یقیناً نخرے دکھاتا اپنی ہی چیزوں پر غصہ کر رہا ہوگا ۔ 

"مورے یہ کلہ کیسے پہنتے ہیں ۔ 

میرے سارے بال خراب ہورے ہیں اسکی وجہ سے۔  کیا اسکے بغیر مجھے کوئی دلہا نہیں سمجھے گا میں نہیں پہن رہا یہ دیکھے اپکا بیٹا ایسے ہی کتنا ہینڈسم لگ رہا ہے۔"

بلیک خوبصورت شیروانی میں بلیک ہی شال ساتھ اوڑھے کالی گہری آنکھیں اور ہلکی بیئرڈ میں وہ واقعی شہزادہ لگ رہا تھا بے تحاشہ ہینڈسم۔ 

شہانہ بیگم نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہتے اس پر دعائیں پڑھ کر پھونکی تھی۔

"بیٹا جی کلہ سے ہی مرد دلہا لگتا ہے اور آپکو پتہ ہے راحمہ کتنی حسین لگ رہی ہے

شاہین تو ڈر رہی ہے کہ کہی اسے نظر نا لگ جائے اپنی ماں کی ہی۔ اور آپ چاہتے ہیں آپ کلہ نہ پہنے ۔ آپکے دلہے کے روپ میں کمی آجائے گی  سوچ لیں ۔ "

راحمہ کا سنتے بے تحاشہ فردان کا دل دھڑکا تھا لیکن اپنی کمی کا سنتے اسنے فوراً اپنی ماں کے ہاتھ میں کلہ پکڑایا تھا تاکہ وہ اسے پہنائے ۔ 

شاہین بیگم دبا دبا سا مسکراتی اسے کلہ پہنانے لگی وہ جانتی تھی انکا نخرے باز بیٹا ایسے نہیں مانےگا ۔ 

"آپ جانتی ہیں نا میری اور کبیر بھائی کی کیا خواہش ہے ۔ ویسا ہی ہونا چاہیئے ۔"

فردان راحمہ کا سوچتے اپنی ماں سے مخاطب ہوا تھا ۔ 

"جی بیٹا آپ فکر نہیں کریں سب آپ دونوں کی خواہش کا احترام کرینگے ۔ "

__________💥حیاخان💥_________

 ہائے کتنی حسین لگ رہی ہیں آپ دونوں ۔ میں نے اتنی حسین دلہنیں کہی نہیں دیکھی ۔ 

اسراء انہیں دیکھتے صدقے وارے ہوئی تھی اسے نظریں ہٹانا مشکل لگ رہا تھا ان دونوں سے ۔

جبکے وہ خود بھی بے حد حسیں گولڈن کلر کے غرارے میں کھلے لمبے بال ہلکی سی جیولری اور ہلکے سے میک اپ میں گڑیا لگ رہی تھی ۔ 

راحمہ بلڈ ریڈ کلر کا لہنگا پہنے بالوں کا خوبصورت جوڑا بنائے ہلکے میک اپ انکھوں میں کاجل بھرتے اور بلڈ ریڈ رنگ کی لپسٹک لگائے خاندانی زیورات پہنے کوئی حسین اپسرا لگ رہی تھی ۔ خود کو نہارتے نہارتے وہ تھک نہیں رہی تھی جب شاہین بیگم نے اسکا رخ شیشہ سے موڑ دیا تھا ۔ 

"بس کریں راحمہ کیا خود کی نظر لگائے گی آپ۔ 

شاہین بیگم اس پر غصہ ہوئی تھی۔ 

"مورے آج ہماری شادی ہے آپ اس طرح ہمیں نہیں ڈانٹ سکتی۔"

وہ روتی صورت بنائے بولی تھی جب شہانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔ 

"ہاں بھئی شاہین میری بیٹی کو کچھ  مت کہو اسکی شادی ہے اج ۔"

شاہانہ بیگم نے اسے گلے سے لگاتے پیار سے کہا تھا۔ وہ لگ ہی اتنی پیاری رہی تھی۔

"جی بڑی ماں اتنے پیارے انسان کو کوئی کیسے کچھ کہہ سکتا ہے۔"

وہ ان سے لاڈ لیتی ہوئی بولی تھی جو اس پر دعائیں پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔ 

"بس راحمہ بیٹا اتنا نہیں بولو دلہنیں خاموش رہتی ہیں ۔"

شاہین بیگم اسکی زبان کو بریک نا لگتے دیکھ پریشانی سے بولی تھی جس پر وہ خاموش ہوئی تھی۔ 

"اچھا نا مورے نہیں بول رہے ہم کچھ بس خوش۔ "

شاہین بیگم نے اسے گلے سے لگایا تھا جب بیوٹیشن نے نرمین کو آخری ٹچ اپ دیتے سر پر دوپٹہ اوڑھایا تھا۔ 

"ماشاءاللہ میم آپ بہت خوبصورت ہیں اور دلہن بن کر تو آپ پر بہت روپ آیا ہے۔"

نرمین کو دوپٹہ اوڑھاتے بیوٹیشن نے مبہوت ہوتے کہا تھا جب نرمین نے نظر اٹھا کر خود کو شیشہ میں دیکھا تھا ۔ 

اناری رنگ کا لہنگا پہنے جو کبیر کی خواہش پر اسنے زیب تن کیا تھا بے تحاشہ حسین اور بھاری تھا بھاری زیورات پہنے ہاتھوں میں ڈائمنڈ کے کنگن پہنے ہلکا سا میک اپ کیا گیا تھا اور اسکی بڑی بڑی انکھوں میں کاجل ڈالا گیا تھا گھنی پلکوں کے سائے تلے وہ آنکھیں آج حسین لگی تھی ہونٹوں پر سرخ اناری لپسٹک لگائے آسمانوں سے اتری کوئی پری لگ رہی تھی وہ ۔ 

خود کو آئینہ میں دیکھتے اسے ضرغام کے الفاظ یاد ائے تھے ۔ 

(جب سے میں نے آپکا چہرہ دیکھا ہے اسکے بعد سے کچھ دکھا ہی نہیں مجھے۔ ہر رات یہ چہرا میری آنکھوں کے سامنے آیا ہے اور ہر دن میں نے یہ چہرہ سوچتے شروع کیا ہے ۔)

یہ سوچتے اسکا سانس سینے میں اٹکا تھا انکھوں میں آنسو بھرتے اسنے پلکیں جھکائے تھی۔ 

اسے ان الفاظوں سے نفرت ہورہی تھی ۔ 

جب نازو بیگم اسکے پیچھے اکر کھڑی ہوئی تھی ما شاء اللہ ما شاء اللہ میری بیٹی تو بہت خوبصورت لگ رہی ہے۔ 

آنکھیں نم کرتے انہونے اسکی نظر اتاری تھی جب اسراء اور شاہانہ بیگم اسکے پاس آکر کھڑی ہوئی تھی ۔

"میری دونوں بہوئیں حسین ترین لگ رہی ہیں اللّٰہ انکے نصیب بھی اتنے ہی اچھے کرے آمین ۔ 

وہ ان دونوں کی نظر اتارتے اور انکو چنری اڑاتے انکے چہرے چھپا گئی تھی ۔ 

"یہ کیا کیا آپنے مورے ۔؟" 

اسراء نے حیرانی سے پوچھا۔ 

"بیٹا یہ آپکے دونوں بھائیوں کی خواہش ہے کہ اپنی بیوی کا چہرہ سب سے پہلے وہ خود دیکھیں گے ۔ اور اسکی اجازت کسی عورت کو بھی نہیں دی انہو نے۔ ہم تو گھر کے افراد ہیں باہر کا کوئی افراد انہیں نہیں دیکھ سکتا۔"

راحمہ کے ہاتھ لرزے تھے فردان کا سوچتے ۔ جس انسان کے بارے میں کبھی ایسا سوچا تک نا تھا آج اسی کے ساتھ اسکا نکاح تھا اچانک اسکا دل گھبرانے لگا تھا ۔ 

جبکہ نرمین خاموش ساکن تھی دل ایسا تھا جیسے بند ہوجائے گا دھیمی دھیمی سانسیں لیتی اسکے دماغ میں بس کل کا منظر چل رہا تھا اسکے کانوں میں کسی کی آواز نہیں آرہی تھی سوائے کل کی آوازوں کے۔ 

جب  نازو بیگم اور شاہین بیگم انہیں نیچے لے کر جانے لگی۔ 

_________💥 حیاخان 💥_________

پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا ۔ 

نیچے سیڑھیاں اترتے سامنے پھولوں سے نکاح کا سیٹ اپ کیا گیا تھا جہاں فردان اور کبیر بیٹھے اپنی دلہنوں کا انتظار کرہے تھے ۔ 

داجان نے اپنے پوتوں کے سر پر ہاتھ رکھا تھا اور انہیں ڈھیر ساری دعائے دی تھی ۔

جو شہزادوں کی طرح وہاں براجمان تھے۔ 

اتنے میں نرمین اور راحمہ کو نیچے لایا گیا تھا جو شہزادیوں کی طرح سیج سیج کر چلتی بڑا سا لال گھونگھٹ ڈالے انہی کی طرف آرہی تھی ۔ 

انہیں لا کر کبیر اور فردان کے سامنے بٹھایا گیا تھا ۔ 

اور نکاح شروع کیا گیا تھا۔ 

پہلے کبیر اور نرمین کا نکاح پڑھایا گیا تھا۔ 

کبیر خانزادہ ولد برھان خانزادہ آپکا نکاح نرمین خانزادہ ولد رضوان خانزادہ سے ایک کروڑ روپے سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپکو قبول ہے؟ 

جب کبیر کی نظر دور کھڑے ضرغام خانزادہ پر گئی تھی جو مہرون رنگ کا کرتا شلوار پہنے اس پر مہرون ہی رنگ کی شال اوڑھے کھڑا تھا ۔ کبیر کی انکھوں کی چمک بڑھی تھی چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے ضرغام کی انکھوں میں دیکھتے ڈنکے کی چوٹ پر اسنے اقرار کیا تھا ۔

ضرغام سرخ آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا  ضبط سے جبڑے بھینچے تھے جیسے بہت صبر کر رہا ہو ۔ 

جب نرمین سے مولوی نے پوچھا اور ہر جگہ سکوت چھا گیا ۔ 

نازو بیگم نے نرمین کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اسنے حوش میں آتے اقرار کیا تھا۔ 

جس کے بعد ہر جگہ مبارکباد کا سماں ہوا تھا ۔ 

فردان خانزادہ ولد برہان خانزادہ اپکا نکاح راحمہ خانزادہ ولد رحمان خانزادہ سے ایک کروڑ روپے سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپکو قبول ہے؟ 

جب فردان نے اقرار کیا تھا جس کے بعد راحمہ سے پو چھا گیا تھا جس کے قبول ہے کہنے کے بعد فردان کے انگ انگ میں سرشاری اتری تھی ۔ 

وہ بچپن سے جانتا تھا کہ راحمہ اسکی منگ ہے لیکن اس شرارتی چڑیا کو ہمیشہ اسنے اپنے رعب میں رکھا تھا وہ اسے دل سے پسند تھی اور اج وہ اسکے نصیب میں لکھ دی گئی تھی اسکے چہرے سے بے تحاشہ خوشی چھلک رہی تھی۔ 

ہر جگہ مبارکباد کا سماں تھا حویلی کے سب افراد بے انتہا خوش تھے لیکن ضرغام خانزادہ کے دل میں ایک آگ جل رہی تھی جو اب کس طرح بجھے گی یہ وہ بتائے گا اب۔ 

نکاح کے بعد سب دیگر رسومات میں لگے تھے جب اسراء راہداری کی طرف جاتی جب کسی نے پلر کے پیچھے سے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا ۔ 

اور وہ چیختی اسے سے پہلے اسکے منہ پر ہاتھ جمایا تھا ۔ 

چاند کی چاندنی سیدھا اسراء کے چہرے پر پڑھ رہی تھی وہ جھٹپٹاتی خود کو چھڑوانے کی تگودو میں تھی جب جانی پہچانی آواز اسکے کان میں آئی ۔

"ششش۔۔

جھٹپٹانا بند کرو ۔ "

 اسرا ایک دم ٹہری ۔ اسکے حواس جو اسے سمجھانا چاہ رے تھے وہ اس پر یقین نہیں کرنا چاہتی تھی ۔کیا وہ ضرغام خانزادہ تھا ؟ 

لیکن اس بار تو اس نے کچھ بھی نہیں کیا تھا نا وہ اسکے سامنے آئی تھی ۔

وہ آنکھیں پھاڑے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس کا چہرہ اندھیرے میں نظر نہیں آرہا تھا ۔

"ہاتھ ہٹا رہا ہوں ۔ اب مجھے آواز نا آئے ۔"

 اسکی سرسراتی آواز جب کانوں میں پھر سے گونجی تو وہ حوش میں آتے سر ہاں میں ہلاگئی۔ 

ضرغام نے اسکے منہ سے ہاتھ ہٹایا وہ نازک سی گڑیا چاند کی چاندنی میں چمک رہی تھی ۔ لیکن ضرغام کا سخت دل اسکی معصومیت اور اسکی خوبصورتی سے پرے تھا۔ 

"میں نے کچھ بھی نہیں کیا ضرغام لالا سچ میں ۔ میں نے تو آپکو دیکھا بھی نہیں تھا میں آپ کے سامنے بلکل نہیں آئی تھی نا ہی میں گارڈن کی طرف جاری تھی میں سچ کہہ رہی ہوں ۔ "

وہ ایک ہی سانس میں بولتی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی کیونکہ واقعی اس بار تو اسنے کچھ بھی نہیں کیا تھا ۔ 

اسکی چلتی زبان سے چڑتے ضرغام نے ماتھے پر تین بل ڈالے ۔ 

"خاموششش۔۔

میں نے کہا کہ تم نے کچھ کیا ہے؟ نہیں نا تو پھر کیوں پٹر پٹر کر رہی ہو۔ "

اسنے سخت لہجہ میں کہا تو اسراء کے آنسو جو کب سے اسکی آنکھ میں اٹکے تھے وہ آنکھ سے نکلتے بے مول ہوئے ۔ 

ضرغام اسکے آنسو دیکھتا خود پر کنٹرول کرگیا ۔ ایک قدم اسکی طرف بڑھایا تو اسراء گھبراتی اور ایک قدم پیچھے ہوتے پلر سے جا لگی تھی ۔ 

لیکن ابھی بھی انکے بیچ دو قدم کا فاصلہ  تھا  وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگا ۔ 

"اور یہ لالا کس خوشی میں کہہ رہی ہو تم مجھے؟ 

میرے نام کی مہندی اپنے ہاتھوں پر سجا کر ابھی بھی مجھے لالا کہہ رہی ہو؟ "

اسکی آنکھیں لال جبکہ لہجہ نرم تھا ایک آئیبرو اچکاتے وہ اس سے سوال کر گیا جو اسے ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی ۔ ۔

اسراء نے کہاں کبھی خود کے لیئے اسکا نرم لہجہ سنا تھا ۔ 

وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اسکے سوال پر تو غور ہی نہیں کیا تھا۔ 

ضرغام کی نظر اسکی ناک کے بیچ اس تل پر گئی جو مغرور ہو کر اسکی ناک پر بیٹھا تھا ۔ جو پتہ نہیں کیوں اسے بلکل اچھا نا لگا تھا ۔ اسکی ناک پر انگلی مرتے وہ اسے ہوش کی دنیا میں واپس لایا تھا ۔

"تم سے کچھ کہہ رہا ہوں میں ۔"

وہ سانس روکتے اسکی حرکت ور اسکے نرم لہجہ میں کھوئے چلی جارہی تھی۔

"آپ ۔ وہ۔ میں لالا کہہ رہی تھی وہ۔"

وہ حواس باختہ ہوتی اٹک اٹک کر بولی تھی جب ضرغام نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا تھا۔ 

"تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟ کیا آپ وہ میں کررہی ہو۔ "

"جی۔جی لالا میں بل۔بلکل ٹھیک ہوں ۔"

وہ پھر سے ایک سانس میں بولتی اسے جواب دے گئی تھی کہی پھر سے وہ غصہ میں نا آجائے۔

لیکن ضرغام کے ماتھے پر پھر بلوں کا جال بچھا۔ 

"یہ آخری بار سمجھا رہا ہوں۔"  

وہ تحمل سے ایک ہاتھ پلر پر رکھتا اسکے قریب ہوا اور اسکی ہری کانچ سی انکھوں میں اپنی آنکھیں گاڑھی۔ 

"آئیندہ مجھے لالا مت کہنا ۔ آج پوری رات میرا نام لے کر پریکٹس کرو کیونکہ کل اگر تم نے مجھے لالا کہا تو اس بات کی بہت اچھی سزا دونگا میں تمہیں جو تمہارے حق میں بلکل اچھی نہیں ہوگی۔ " 

نرم لہجہ میں اسے سمجھاتا وہ اسے اپنے ازلی لہجہ میں وارننگ دے گیا تھا ۔ 

جو ڈر کے مارے فوراً اثبات میں سر ہلاگئی تھی ۔ 

پھر ایک نظر اسکی مہندی کو دیکھا جو لال گہرا رنگ لائی تھی وہ طنزیہ مسکرایا ۔ 

"اسے میں کل سراہوں گا ۔ پانی میں ہرگز ہاتھ مت ڈالنا ۔ یہ رنگ پھیکا نہیں پڑھنا چاہیے۔" 

ضرغام نے حکم سناتے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا جس پر وہ حیران ہوتی منہ کھولے اسکے رویہ دیکھ رہی تھی جو اسے ہضم نہیں ہورہا تھا ۔ 

ضرغام نے اسکی تھوڑی کے نیچے انگلی رکھتے اسکا منہ بند کیا تھا ۔ 

وہ اچھے سے جانتا تھا کہ وہ اسکے نرم لہجہ کو سمجھ نہیں پارہی ہے تبھی اتنا حیران ہے اسکی ہونقوں جیسی شکل دیکھتا وہ نفی میں سر ہلاتا وہاں سے چلا گیا تھا۔ 

جب کے وہ تو ابھی تک ساکت اپنے ہاتھ پر اپنی ناک پر اپنی تھوڑی پر اسکا لمس محسوس کر سکتی تھی ۔

ایک انجانی سی مسکراہٹ اسکے خوبصورت چہرے پر آئی تھی ۔ جب اسکے کانوں میں اپنے نام کی اواز آئی وہ فوراً وہاں سے بھاگی تھی۔ 

اور دور چاند کو اس پاگل لڑکی کی مسکراہٹ پر ترس آیا تھا۔ 

_____________❤️______________

نرمین کو کبیر کے روم میں بٹھانے کے بعد اسراء راحمہ کو لے کر فردان کے روم میں چھوڑنے آئی تھی جو پورے راستے اسراء کا دماغ کھارہی تھی۔ 

"اسراء ایسا کرو تم میری جگہ گھونگھٹ ڈال کر بیٹھ جاؤ پھر جب وہ پاگل پٹھ۔ میرا مطلب ہے جب فردان آئیں گے اور میری جگہ تمہیں دیکھیں گے تو مزہ ائے گا بہت ۔ "

وہ آکسائیٹڈ ہوتی خرافاتی سوچے دماغ میں لارہی تھی جس کی بات سنتے اسراء کو اسکی سوچ پر شبہ ہوا تھا اور اسنے حیرانی سے راحمہ کو دیکھا تھا ۔ 

"کیسی باتیں کررہی ہیں راحمہ آپی میں انکی بہن ہوں کتنا عجیب لگے گا میں اس فضول حرکت میں آپکا ساتھ ہرگز نہی دونگی ۔ 

"اور وہ بھی فردان لالا انکے ساتھ ایسی خرافات مت کرے گا وہ آپکے شوہر ہیں اب لالا نہیں ہیں جن کے ساتھ ایسی حرکتیں کرنے کے بعد آپ مورے کے پاس آجایا کرتی تھی اب آپکو انکے ساتھ رہنا ہے تو اپنی خیر منالےگا اب مورے کام نہیں آئینگی ۔ "

اسراء اسکو سمجھانے کے غرض سے بولی تھی جس کا راحمہ پر تو کم سے کم کوئی اثر نہیں ہوا تھا ۔

وہ ایک کان سے سنتی دوسرے سے نکال گئی تھی کیونکہ نارمل چیزیں ہماری راحمہ کو کہاں پسند تھی۔ 

اسراء نفی میں سر ہلاتی اسے بیڈ پر بٹھاتی اسکا لہنگا پھیلانے لگی تھی ۔ جسکا کمرہ گلاب کے پھولوں سے خوبصورتی سے سجا تھا ہر طرف گلاب کی بھینی بھینی سی خوشبو پھیلی تھی ۔

وہ اچھی طرح جانتی تھی کے اسکی نصیحت راحمہ نے ان سنی کردی ہے اسکے لالا ہی اسے سدھار سکتے ہیں یہ سوچتے وہ کمرے کا دروازہ بند کرتی وہاں سے چلی گئی تھی جب راحمہ کا دماغ نئی نئی ترکیبیں بن نے لگا تھا ۔ 

____________❤️❤️___________

فردان اور کبیر کو گاؤں کے دوست یاروں نے گھیرا ہوا تھا جن میں کبیر کو تو کوئی خاص انٹرسٹ نا تھا وہ آرام سے انکے ساتھ بیٹھا موبائل میں ایسے مصروف تھا جیسے اسکی نہیں صرف فردان کی شادی ہوئی ہو البتہ فردان کمرے میں جانے کے بہانے ڈھونڈ رہا تھا جو اسکی شکل سے صاف نظر آرہا تھا کیونکہ غصہ سے اسکی سفید ناک سرخ ہو رہی تھی جو اکثر ہوجایا کرتی تھی کیونکہ غصہ ہمیشہ اسکا ناک پر بیٹھا ہوتا تھا ۔ شاید صحیح ہی کہتی تھی راحمہ اسے "پاگل پٹھان" ۔ 

"کیا کرے گا بھائی اندر جاکر آرام سے بیٹھا رہ ۔"

جب فردان کا ایک دوست اسے جلاتا ہوا بولا تھا جس پر فردان کا دماغ گھوما تھا۔ 

"تیری شادی کی رات تجھے اسی طرح روک کر بتاؤنگا کہ کیا کرتے ہیں اندر جاکر ۔"

جس پر سب کا ایک ساتھ قہقہہ لگا تھا۔ 

فردان کی بس ہوئی تھی اور وہ کھڑا ہوا تھا ۔ جب ایک دوست اسے پکڑنے کیلیئے اٹھنے لگا۔ 

"آرام سے بیٹھو بہت لیٹ ہو چکا ہے پہلے ہی ۔ اب ہاتھ لگایا تو منہ کا نقشہ بگاڑ دونگا ۔۔"

کبیر خاموشی سے موبائل میں ایسے مصروف تھا جیسے وہ یہاں موجود ہی نہ ہو لیکن فردان اب وہاں سے جاچکا تھا ۔ 

"کبیر لالا آپ نے نہیں جانا اپنی بیگم کے پاس ؟؟"

فردان کا دوست اب کبیر کی طرف رخ کر گیا تھا ۔ 

کبیر جو انجان بنا بیٹھا تھا۔ لیکن کسی غیر کے منہ سے اپنی بیگم کا ذکر بھی سنتے اسنے تیز نظروں سے اسے گھورا تھا جو سٹپٹاتے معافی مانگتا وہاں سے غائب ہوا تھا۔ اور وہ دوبارہ اپنے موبائل میں مشغول ہوگیا تھا اسے کوئی فرق نہیں پڑا تھا کے اندر بیٹھا وجود پچھلے دو گھنٹے سے اسکے انتظار میں بیٹھا ہے۔ 

___________❤️__________

راحمہ کی بیٹھے بیٹھے کمر اکڑ گئی تھی دو گھنٹوں سے وہ یہاں بیٹھی تھی ۔ پہلے پہل جب اسراء اسے بٹھا کر گئی تھی تو اسکا دماغ بہت سے تانے بانے بن رہا تھا۔

  لیکن پھر اسکا دل گھبرانے لگا آگے کی زندگی کے بارے میں سوچتے ۔ کتنا عجیب احساس تھا جس کے بارے میں کبھی ایسا سوچا بھی نا ہو اور وہی آپکا نصیب بن جائے اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے گی کبھی نا شرمانے والی بندی کو آج اپنے ہمسفر کے بارے میں سوچتے گھبراہٹ سی ہو رہی تھی ۔یہ سوچے ذہن میں آتے ہی سارے خرافات چھومنتر ہوگئے تھے اسکے۔ اب صرف شرم اور گھبراہٹ کا بسیرا تھا اسکے دل و دماغ میں  ۔ 

لیکن اب اسکے بیٹھے ہوئے دو گھنٹے گزر گئی تھے ۔اب راحمہ شرم کو بھاڑ میں جھونکتے کھڑی ہوئی تھی اسنے ابھی تک اپنا گھونگھٹ اٹھا کر کوئی دس بار دیکھ لیا تھا ایک تو یہ فرمائش اسے قطعی پسند نہیں آئی تھی وہ آج اتنی خوبصورت لگ رہی تھی اوپر سے اسکے نئے نئے شوہر نے نیا حکم صادر کردیا تھا کہ چہرہ نا دیکھے کوئی ۔ اب وہ اتنی پیاری لگ رہی تھی اور کسی سے تعریف بھی نہیں ملی اسے ۔ 

وہ منہ بناتی واپس چہرے پر گھونگھٹ ڈالتی بستر سے ٹیک لگاتے بیٹھی تھی جب کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور اسکا دل ڈھول کی طرح بجنے لگا وہ آنکھیں پھاڑے گھونگھٹ میں سے ہی دیکھنے کی کوشش کررہی تھی جو کمرے میں داخل ہوا تھا ۔

فردان نے کمرے میں آتے ایک نظر سامنے بیٹھے وجود پر ڈالتے سلام کیا تھا ۔ 

"اسلام علیکم ❤️۔ 

جسکا جواب راحمہ نے ہوش میں آتے ہلکی آواز میں سر ہلکا سا ہلا کر دیا تھا جس کی اواز کم سے کم فردان کو تو نہیں آئی تھی ۔ 

وہ جواب دیتی نظریں جھکا گئی تھی اسکا دل بے قابو ہوتے دھڑک رہا تھا۔ 

فردان اسے لو دیتی نظروں سے دیکھتا اسے پاس بیڈ پر آ بیٹھا۔ 

"کیسی ہیں آپ ۔

جس کا جواب راحمہ نے اثبات میں سر ہلاتے دیا تھا ۔ زبان تو فردان کے آتے ہی ایسے بند ہوگئی تھی جیسے منہ میں تھی ہی نہیں ۔ 

"کیا اجازت ہے میں اپکا گھونگھٹ اٹھا لوں ۔ ؟ 

اسے اجازت کی ضرورت نا تھی لیکن راحمہ کا منہ کھلوانے کے غرض سے وہ سوال کر رہا تھا کہ وہ کوئی جواب دے لیکن راحمہ اسکے سوال پر خاموش ہوگئی تھی ۔ 

کوئی جواب نا پاتے فردان نے مسکراہٹ روکتے اسکا گھونگھٹ اٹھایا تھا ۔ 

اسکا چہرہ دیکھتے فردان کے چہرے کی مسکراہٹ آہستہ آہستہ معدوم ہوئی اور وہ یک ٹک اسے دیکھنے لگا ۔ 

جو آنکھیں میچے لال موتیوں کی بھاری مانگ پٹی پہنے ہلکے میک اپ میں سرخ رنگ کی لپسٹک لگائے اسکے دل کی دنیا میں تباہی مچاگئی تھی اور اس پر غضب وہ ناک کی نتھلی ۔ 

فردان گہری سانس بھرتا اسکا من موہنا سا روپ دیکھ رہا تھا جو اسکے ڈر سے آنکھیں میچے بیٹھی تھی ۔ 

"بہت خوبصورت لگ رہی ہیں آپ ۔ 

جنگلی بلی".

اسکے  دیئے گئے نام پر راحمہ نہ جھٹ سے آنکھیں کھولتے حیران کن نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔ جو یہی چاہتا تھا کہ وہ کمفرٹیبل ہوجائے۔

"آپ نے ہمیں جنگلی بلی کہا؟" 

وہ منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

"جی بلکل ہم نے آپ کو جنگلی بلی کہا ۔" 

وہ اپنی طبیعت کے خلاف کچھ شرارت کے موڈ میں تھا ۔ آرام سے پھیل کر بیٹھتا وہ اسکا خوبصورت چہرہ دیکھنے لگا جو اب شاید غصہ سے ہلکا ہلکا لال ہورہا تھا۔

"اپنی اتنی خوبصورت نئی نویلی دلہن کو کوئی جنگلی بلی کہتا ہے ۔ ؟ ہم آپکو کہا سے جنگلی بلی لگتے ہیں ہم تو اتنے معصوم ہیں اور وہ جو سب ہمارے بارے میں گوہر افشانیاں کرتے ہیں نا وہ خود ہم سے پنگے لیتے ہمارا کوئی قصور نہیں ہے اس میں ۔ "

وہ معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتی اپنے ازلی انداز میں واپس آئی تھی ۔ 

اب اسے کہاں یاد تھا کہ وہ ایک دن کی دلہن اپنے شوہر کے سامنے بیٹھی ہے اب تو بس اسے اپنے نام کے آگے سے جنگلی بلی ہٹانا تھا جو اسے بلکل پسند نہیں آیا تھا۔ 

"آپ جیسی معصوم ہو تو انسانوں کا معصومیت سے بھروسہ اٹھ جائے جنگلی بلی."

وہ ہلکا سا ہنستا ہوا سر نفی میں ہلاتے کہنے لگا۔ 

لیکن غضب خدا کا اسکی مسکراہٹ۔ وہ گال پر پڑھتا گڑھا جو اسکی ہلکی سی مسکراہٹ سے ہی اتنا گہرا ہوگیا تھا کہ راحمہ کا دل اس میں ڈوبنے لگا۔ 

وہ ٹکٹکی باندھے فردان کو دیکھ رہی تھی جب فردان اسکی طرف متوجہ ہوتے اسے دیکھنے لگا وہ اچھی طرح جانتا تھا وہ کہاں کھوئی ہے ۔ اس دلکش انسان کے پاس یہ بہت قیمتی چیز تھی جسے وہ ہر کسی کے سامنے کھول کر نہیں دکھاتا تھا ۔

راحمہ کا دل چاہا تھا ہاتھ بڑھا کر اس گڑھے کو دیکھے جو اسکے چہرے پر بے تحاشہ خوبصورت لگ رہا تھا ۔ 

فردان نے اپنا ہاتھ اگے بڑھاتے بہت استحقاق سے اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔ جس پر راحمہ گڑبڑاتے اپنی مہندی سے سجا ہاتھ اسکے سفید ہاتھ میں دیکھنے لگی ۔ 

راحمہ کے ہاتھ کی کپکپاہٹ نظرانداز کرتے وہ بہت غور سے اسکی مہندی دیکھ رہا تھا پھر اسکا ہاتھ اپنے قریب کرتے ایک گہری سانس بھرتے اسکی مہک کو سانسوں میں سمایا تھا اور وہی ٹہرا رہا ۔ 

"یہ مہندی آپکے ہاتھوں میں بہت حسین لگ رہی ہے ۔" 

وہ اسکے ہاتھوں پر نظریں جمائے بولا جب کے راحمہ کا چہرا دھوادھار ہورہا تھا اسکی زرا سی قربت میں ۔

جب ایک نظر فردان نے اسکی طرف اٹھائی جو اسکے دیکھتے ہی نظریں جھکا گئی تھی جس پر فردان پھر مسکرایا تھا ۔ 

"یہ آپ جو سب کے سامنے اتنی شیرنی بنی گھومتی ہیں ہمارے سامنے اتنی بھیگی بلی کیوں بن جاتی ہیں .؟ "

فردان اسکا لال چہرہ دیکھتے کہنے لگا ۔ لیکن اسکا ہاتھ ابھی تک اپنے ہاتھ میں پکڑے اسکی خوشبو سے مدہوش ہورہا تھا ۔ 

اور راحمہ کی حالت ایسی تھی جیسے ابھی بے ہوش ہوجائے گی فردان کی باتیں تو اسکے دماغ میں بیٹھ ہی نہیں رہی تھی وہ تو اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ میں دیکھ رہی تھی جسے وہ سختی سے اپنے ہاتھ میں پکڑا بیٹھا تھا ۔ 

ہم۔تو نہیں ۔ نہیں بنتے جنگ۔ جنگلی بلی۔ 

وہ اٹک اٹک کر بنا سوچے بول رہی تھی اور نظریں فردان کے ہاتھ میں مقید اپنے ہاتھ پر تھی۔ 

فردان اپنی ہنسی روکتے اسکی شکل دیکھنے لگا جو ابھی کسی بھی وقت بے ہوش ہوجانے کو تھی۔ 

"اچھا ریلیکس رہیں ۔ بے ہوش مت ہوجائے گا۔ میں سب سے کیا کہونگا کہ میری بیوی میرے صرف ہاتھ پکڑنے سے ہی بے ہوش ہوگئی؟"

وہ اسکے کان کے قریب جھکتا ذومعنی انداز میں بولا تھا اور اسکا چہرہ دیکھا تھا جس کا سارا خون سمٹ کر اسکے چہرے پر آگیا تھا۔ 

اور اسکی ناک کی نتھلی کو دیکھنے لگا جسکے موتی اسے پریشان کرہے تھے ۔

اچانک وہ سیریس ہوتے اسکی ناک کی نتھلی پر انگلی رکھتے پھر اسکی انکھوں میں دیکھنے لگا جس نے شرم کے باعث آنکھیں بند کر رکھیں تھی ۔ 

"آنکھیں کھولیں۔

وہ بھاری آواز میں اسے حکم دے گیا تھا ۔ 

راحمہ نے اپنی لال ڈوروں سے بھری آنکھیں کھولی۔ جن میں کاجل بھرتے اسنے بے حد خوبصورت بنایا ہوا تھا۔ 

وہ پھر سے اسکے کان کے قریب جھکا تھا ۔ 

آپکی آنکھوں میں یہ کاجل ہمیں بے حد حسین لگتا ہے ہمیشہ انہیں کاجل سے لبریز رکھےگا ۔

وہ نرم مسکراہٹ کے ساتھ اسکا شرمایا گھبرایا روپ دیکھ رہا تھا ۔ جو اس وقت قیامت بنی اسکے سامنے بیٹھی اسکا ضبط آزما رہی تھی ۔

فردان نے اسکے دونوں ہاتھوں پر محبت بھرا بوسہ دیا ۔ 

"میری زندگی میں ہونے والا سب سے خوبصورت اضافہ ہیں آپ ۔ بچپن سے میری نگاہوں کا مرکز رہی ہیں آپ ۔ یہ مقام ہمیشہ سے آپکا تھا اور یہ دل ، یہ دل ہمیشہ سے آپکا طلبگار رہا تھا "۔

وہ اسکی چوڑیوں سے کھیلتے اسے دیکھنے لگا جسکا انگ انگ ہمہ تن گوش بیٹھا تھا وہ اس کے الفاظوں میں کھوئی ہوئی تھی جیسے کوئی سحر ہو ۔

"اور آج آپ ہمارے سامنے ہماری سیج سجائے بیٹھی ہیں یہ ایک خوبصورت خواب لگ رہا ہے ۔ لیکن اس خواب سے ہم ساری زندگی نہیں اٹھنا چاہتے آپکا ساتھ ہم ساری زندگی اپنے ساتھ چاہتے ہیں۔ ہمیشہ آپکو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا  چاہتے ہیں۔

 راحمہ فردان خانزادہ ہم فردان خانزادہ آپ سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں۔" 

اتنا خوبصورت اظہار سنتے راحمہ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔ اسنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کوئی اس سے اتنی محبت کرتا ہوگا اور اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہوتی اسکے لیئے کے اسکا محرم یہ اظہار کررہا تھا ۔ 

اسکی آنکھوں میں تشکر بھرے آنسو آئے تھے جسے فردان نے مسکراتے اپنی انگلی کے پوروں سے چنا تھا۔ اور اسکے ماتھے پر شدّت بھرا بوسا دیا تھا ۔ 

"ہمارے ساتھ تہجد کی نماز ادا کرینگی نا ؟ 

جس پر راحمہ نے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔ 

"اپ فریش ہو جائے ۔"

وہ بستر سے اٹھنے لگی جب اسے کچھ یاد ایا ۔

وہ مڑتی فردان کا چہرا دیکھنے لگی ۔ 

"آپ نے تو ہماری تعریف ہی نہیں کی اور نا ہی ہمیں منہ دکھائی دی  ۔ ؟ 

فردان حیرانی سے اسکا چہرہ دیکھنے لگا ۔

ابھی اتنا کچھ کہا ہے ہم نے آپ سے وہ کس کھاتہ میں گیا ۔ ؟ 

"وہ تعریف تھوڑی تھی ۔ آپنے تو ہمیں بتایا ہی نہیں کہ ہم کیسے لگ رہے ہیں آج ۔ اور یہ گھونگھٹ بھی ڈلوادیا پتہ ہے کسی نے بھی آج ہمیں نہیں دیکھا جب کے ہم اتنے حسین لگ رہے تھے ۔"

وہ اپنی چھوٹی سی ناک پر غصہ سجائے فردان کو اس وقت بہت پیاری لگی تھی ۔ 

جب اسنے راحمہ کی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنی طرف کھینچتے خود سے لگایا تھا ۔ 

"نماز پڑھ لیتے ہیں اسکے بعد تفصیل سے پوری رات آپکی تعریف کرینگے آپ فکر نہیں کریں ۔ "

وہ اسکی چھوٹی سی ناک پر بوسا دیتے اسکے کان میں ذومعنی انداز میں بولا تھا جس کا چہرہ اسکی بات سے دھواں دھواں ہوا تھا ۔ 

"ہم۔ہم نماز پڑھ رہے تھے نا تو چلیں ۔" 

وہ اسکی آنکھوں میں خمار اترتے دیکھ فوراً بولی تھی ۔ جو سر اثبات میں ہلاتا وضو کرنے گیا تھا ۔ اور پیچھے وہ اپنی بھاری جیولری اتارنے لگی تھی ۔ اور پھر ڈریسنگ روم میں جاتے اپنا بھاری جوڑا چینج کرتے اسنے سادہ شیفون کا لال جوڑا پہنا تھا ۔ 

 فردان کے فریش ہوتے ہی وہ بھی وضو کرتی آئی تھی اور پھر انہوں نے تہجد کی نماز ساتھ ادا کی تھی۔ نماز کے بعد دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے  فردان کی باتیں یاد کرتے تشکر سے راحمہ کی آنکھ سے ایک آنسو نکلا تھا ۔ اور پھر الحمدللہ کہتے اسنے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرتے سامنے نظر اٹھائی تھی جہاں وہ آنکھوں میں محبت لیئے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ 

 اور پھر وہیں اسکی گود میں سر رکھتے اسکے ہاتھ کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لیتے  فردان نے اسکا چہرا دیکھا تھا جہاں میک اپ سے پاک چہرے پر گلال بکھرا تھا ۔ 

"آپ بہت خوبصورت ہیں راحمہ فردان خانزادہ ۔ ںے تحاشہ حسین اور اس طرح اس سادگی میں آپ سیدھا یہاں ہمارے دل میں اترتی ہیں ۔" وہ اسکا ہاتھ اپنے دل کے مقام پر رکھتے اسے بتانے لگا۔  

"آپکو پتہ ہے آپ ہمیشہ سے ہماری پسند تھی لیکن کبھی ہم نے نظر بھر کر آپکو نہیں دیکھا تھا کبھی میلی نظر سے اپکی طرف نہیں دیکھا تھا ۔ اپ ہمیشہ سے چلبلی سی تھی اپکی باتیں ہمیں مجبور کرتی تھی کے اس معصوم پری کو ایک نظر دیکھ لو فردان خانزادہ لیکن ہم جانتے تھے اگر نظر بھر کر اپکو دیکھ لیں گے تو پھر خود پر قابو کھو دینگے اور آپ پر اپنی محبت آشکار کردینگے ۔ لیکن جب آپ ہماری دسترس میں نہیں تھی ۔ ہمیں کوئی حق حاصل نہیں تھا کہ ہم اپ سے محبت کا اظہار کریں لیکن دیکھیں آج آپ ہمارے سامنے ہماری بن کر بیٹھی ہیں اور ہم جی بھر کر آپکو دیکھ سکتے ہیں ۔ آپکے سارے حقوق آج ہمارے پاس محفوظ ہوگئے ۔ آج سے آپکی آتی جاتی سانسوں پر بھی ہمارا حق ہوگا ۔ آج سے آپ ہمارا وہ روپ دیکھیں گی جو صرف آپکے لیئے ہوگا ۔

آج سے ہماری بے تحاشہ محبت کی اکلوتی حق دار ہونگی آپ۔ 

وہ اسی طرح اسکی گود میں سر رکھے اسکے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لیئے اسکی آنکھوں میں دیکھتے  راحمہ کے ہاتھوں پر بے تحاشہ بوسے دیتے ہوئے بولا تھا ۔ 

"کیا وا۔واقعی آپ ہم۔ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں ؟  

راحمہ نم انکھوں سے فردان کو دیکھتے بولی تھی جب اسنے اٹھ کر بیٹھتے راحمہ کی نم آنکھوں پر بوسا دیا تھا ۔ 

"آپ سے محبت کرنا اب ہم پر فرض ہے راحمہ فردان خانزادہ ۔ "

فردان نے اسکو اپنے سینے سے لگاتے کہا تھا وہ بات بے بات اسکے نام کے ساتھ اپنا نام جوڑ کر اسے اور خود کو احساس دلا رہا تھا کے اب واقعی وہ اسکی ہے۔

 اور پھر اسے گود میں اٹھاتے وہ اب اٹھ کھڑا ہوا تھا راحمہ نے اسکے کندھے پر سر رکھتے مسکراتے آنکھیں موندی تھی اور اپنے بہتر مستقبل کی اپنے رب سے دعا گو تھی ۔ 

سفید پھولوں سے خوبصورتی سے کمرہ سجا تھا کیونکہ کبیر کو گلاب سے الرجی تھی ۔ بستر کے بلکل وسط میں وہ ٹیک لگائے بیٹھی تھی کئی گھنٹے گزر گئے تھے کمرے میں نا اسکو آنا تھا اور نا ہی وہ آیا تھا اتنا تو وہ سمجھ گئی تھی ۔ 

کب سے وہ ایسی ہی بیٹھی تھی اب تو اسکی آنکھیں بند ہونے لگی تھی چہرے پر گھونگھٹ یوں ہی پڑا تھا ۔ کتنی حسین لگ رہی تھی وہ ۔ سب کا کہنا تھا کہ کتنا خوش قسمت ہے کبیر جسے نرمین جیسی حسین اور خوبصورت کردار کی لڑکی ملی تھی ۔ لیکن یہ تو نرمین ہی جانتی تھی کی نا کبیر نہ اسکے حسن کو ایک نظر دیکھنا گوارہ کیا تھا اور نا ہی اسکے کردار پر یقین کیا تھا وہ تو جب سے آیا تھا اسے خود پر شک کرتے ہی پایا تھا نرمین نے ۔ 

اور کل۔کل رات جو کچھ ہوا اسکی وضاحت وہ کیسے دے گی کبیر کو۔  وہ تو کل رات اس سے کہہ گیا تھا کے آج رات وہ اسے بخشے گا نہیں ۔ کہاں عادت تھی اسے لوگوں کا وضاحتیں دینے کی غلطی نا ہونے کے باوجود بھی وہ خود کو گناہگار تصور کر ہی تھی لیکن دل کے اتنا قریب شخص اس کے بارے میں اتنا کچھ غلط سوچ رہا تھا یہ بات اسے گوارہ نہیں ہورہی تھی ۔ پوری دنیا اسے غلط سمجھ لیتی لیکن وہ نا سمجھتا ۔ 

آنکھ سے موتی ٹوٹ کر گر رہے تھے لیکن اسنے ہار نہیں مانی تھی آج رات وہ سب کچھ ٹھیک کر کے ایک اچھی زندگی گزارے گی اپنی محبت کے ساتھ ۔ 

 وہ تہیہ کرگئی تھی لیکن اب کبیر کا انتظار تھا جو نہیں آیا تھا لیکن اسے سجایا گیا تھا کبیر خانزادہ کے لیئے وہ چاہتی تھی کہ وہ اسکا گھونگھٹ اٹھا کر ایک بار اسے دیکھ لے ۔  رات کے تین بج گئے تھے لیکن اسکا کچھ نہیں پتہ تھا وہ اسکا انتظار کرتے کرتے ٹیک لگاتی آنکھیں بند کر گئی ۔ 

---------❤️----------

سب جا چکے تھے اور فردان کو گئے ہوئے بھی تین گھنٹے گزر چکے تھے لیکن وہ ابھی تک وہی بیٹھا سگریٹ جلائے اپنے دل میں لگی آگ کو کم کرنے کی کوشش کررہا تھا ۔ جب راحم اور عرش کی کال آئی اسنے اٹھائی۔

"کیسا ہے بھائی ؟ تو تو اب یاد بھی نہیں کرتا ہم یاد نا کرے تو بھول ہی جائے ۔

عرش نے کال اٹھاتے ہی اپنا ریڈیو اسٹارٹ کردیا تھا۔ 

کبیر جواباً خاموش رہا ۔

"کیا ہوا کبیر تو ٹھیک ہے؟ 

راحم نے پریشان ہوتے سوال کیا ۔ 

"اج میری شادی تھی"۔

کبیر کی آواز گونجی تو عرش اور راحم صدمے میں آگئے ۔

"کیا بول رہا ہے تو ؟ میرا طلب اسی لڑکی سے جس کے بارے میں تونے بتایا تھا ؟

راحم نے حیران ہوتے سوال کیا تو کبیر کو پتا نہیں کیوں ناگوار گزرا یہ ذکر چھیڑنا ۔ 

"ہممم۔

بس اتنا کہتے کبیر خاموش ہوا۔ 

جب عرش صدمے سے نکلتے ہی بولا ۔ 

"تو نے کچھ کیا کیوں نہیں آواز اٹھاتا اپنے لیئے تونے اس حجابی میڈم سے شادی کرلی ۔ " 

کبیر نے سنتے ہی اپنی مٹھیاں بھینچی ۔

یہ قصور تو اسی کا تھا اسنے غیر مردوں کے سامنے کسی لڑکی کو ڈسکس کیا تھا تو آج آکر انہیں سوال کرنا ہی تھا ۔ کسی غیر لڑکی کو بھی آپس میں ڈسکس کرنا بیٹھ کر یہ گناہ ہے اور وہ اپنے گھر کی عزت کو بیٹھ کر ان سے ڈسکس کررہا تھا ۔ اور عزت بھی وہ جو اب خود اسکی بیوی تھی۔ اسے بے تحاشہ اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا ۔ 

یہ نرمین کی شخصیت اور کردار کا اثر تھا یا کبیر کی انا کا لیکن اسے یہ گوارہ نہیں ہوا تھا کے کوئی اسکی بیوی کا ذکر بھی کرے کجا کے ایسی باتیں ۔ 

جبکہ عرش بولتا چلا جارہا تھا ۔

"اب تو کیا کرے گا ؟ چھوڑدے اسے طلاق لےلے اور یہاں اج۔۔۔

"بکواس بند کرر اپنی۔۔۔ 

کبیر شیر کی مانند دھاڑا تھا ۔ 

وہ اتنا بے غیرت تو نا تھا کے اپنی عزت کو چھوڑ کر بے آسرا کردے کہ وہ بے غیرت کہہ لائے دنیا جہاں میں ۔ 

جب راحم نے عرش کو خاموش کروایا تھا ۔ 

"کبیر اچھا میری بات سن تو چھوڑ اسے "

لیکن کبیر نے اسکی دوسری بات سننے سے پہلے ہی غصہ میں آتے کال کٹ کردی تھی ۔ 

اسکا غصّہ مزید بڑھ گیا تھا اسنے گھڑی میں وقت دیکھا جو رات کے ساڑھے تین بجا رہی تھی ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ 

اور اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھائے تھے ۔ 

_________❤️__________

اسنے کمرے میں قدم رکھا کمرے میں ڈم لائیٹس آن تھی پورا کمرہ خوبصورتی سے سجا تھا اور سامنے وہ بستر سے ٹیک لگائے شاید نہیں یقیناً سو چکی تھی جو کبیر کو بلکل پسند نا آیا تھا ۔ 

اسنے دروازہ لاک کرتے قدم اندر کی طرف بڑھائے تھے ۔ کلہ اور شال تو وہ الریڈی اتار چکا تھا ۔ اب شیروانی بھی اتار کر ایک سائیڈ پر رکھتے ۔ اسنے کمرے کا ٹیمپریچر بڑھایا تھا۔ 

سفید کرتے میں وہ چاندی کی طرح چمک رہا تھا بال جیل سے سیٹ ہوئے تھے ہلکی داڑھی اور سرد تاثرات وہ یقیناً بہت شاندار پرسنیلٹی کا مالک تھا ۔ 

اسنے ریموٹ اٹھاتے کمرے میں لگے جھومر کی لائیٹس اون کی تھی جس نے کمرے کو اور بھی بے تحاشہ حسین بنایا تھا  جو بستر کے بلکل وسط میں لگا ہوا تھا اور بلکل اسکے نیچے نرمین بیٹھی تھی ۔ 

یہ اسنے نرمین کو اٹھانے کے غرض سے کیا تھا جس کے چہرے پر پہلے سے گھونگھٹ تھا تو اس پر کچھ خاص فرق نا پڑھا ۔

یہ دیکھتے کبیر کے ماتھے پر تین بل پڑے ۔ 

وہ اسکا انتظار کیئے بغیر کیوں سوئی تھی یہ بات اسے ناگوار گزر رہی تھی بے حد ۔ 

سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاتے اسنے زور سے واپس رکھا تھا جب نرمین ہڑبڑاتے اٹھی  اور اسکے منہ سے ہلکی سی چیخ برآمد ہوئی۔ اور اسکو اٹھ کر بیٹھتے دیکھ کبیر کو سکون ملا۔ 

"لگتا ہے کافی نیند آئی ہے آپکو تو ایسا کریں آپ سوجائے میں بعد میں آجاؤنگا ۔"

کبیر نے طنز کیا تھا جس پر وہ ہڑبڑائی تھی ۔ 

"ن۔نہیں ہم جاگ رہے تھے پتہ۔پتہ نہیں کیسے آنکھ لگ گئی ہماری ہمیں معاف کردیں ۔ "

اسنے اسکے غصہ سے ڈرتے فوراً معذرت کی تھی ۔کل رات کے بعد سے وہ بہت ڈر گئی تھی کبیر سے اسکے غصہ سے ۔ حالانکہ اسکی غلطی نا تھی وہ تو پچھلے پانچ گھنٹوں سے اس قدر بھاری جوڑے میں بیٹھی اسکا انتظار کرہی تھی ۔

کبیر نے اسکا نرم لہجہ اور ڈری ہوئی آواز سنی تو اعصاب ڈھیلے کیئے ۔ 

"تم نے چینج کیوں نہیں کیا ابھی تک؟"

"وہ میں۔ آپکا انتظار کر رہی تھی ۔"

وہ بولی اور صحیح سے بیٹھنے لگی کے گھونگھٹ سرکا  تو اسنے ٹھیک کیا اور چوڑیوں کی گونج پورے کمرے میں گونج کر حسین سُر بنا گئی۔

جب کبیر کے ہاتھ  آستینیں موڑتے ہوئے اسکی چوڑیوں کا ارتعاش سنتے تھمے ۔ 

لیکن وہ خود پر ضبط کر گیا ۔ 

"تمہیں لگتا ہے تمہارا یہ حسین چہرا دیکھنے کے لیئے میں مرا جارہا ہوں؟"

وہ بائیں طرف کی طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتا بائیں آئیبرو بھی سوالیہ اٹھاگیا ۔

"یہ چہرا جو تم گھر میں چھپاتی پھرتی  ہو اور باہر کی دنیا کو دکھاتی پھرتی ہو اس چہرے میں مجھے کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ۔"

وہ طنز کے تیر مارتے اسکے دل کو چھلنی چھلنی کر گیا تھا نرمین کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔

جبکہ  کبیر کے دل نے شدّت سے اس چہرے کو دیکھنے کی چاہ کی تھی جس کی فقط آنکھیں ہی اسکی راتوں کی نیندیں اڑائے ہوئی تھی ۔ 

"ایسی۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ہم ایسے نہیں ہیں جیسا آپ ہمیں سمجھ ۔ سمجھ رہے ہیں ۔ "

وہ روتی اٹکتی ہوئی بولی تھی ۔

"ہم جانتے بھی نہیں کہ ضر۔ضرغام۔۔۔

"تمہاری ہمت کیسے ہوئی اسکا نام اپنی زبان سے لینے کی ؟"

 وہ اپنی صفائی دینے کے غرض سے بولی تھی جب وہ دھاڑتے ہوئے پھولوں کی لڑیاں نوچتے ہوئے بولا ۔

 نرمین بے تحاشہ ڈرتے پیچھے کھسکی تھی ۔ 

وہ ایک گھٹنہ بستر پر گاڑھے اسکی طرف جھکا تو وہ ڈر کر اور پیچھے ہوئی ۔ 

"اگر آئیندہ تمہارے اس منہ سے میں نے اس شخص کا نام سن لیا تو اُس کی موت تو طے ہے لیکن تمہیں بھی میں اسی کمرے میں زندہ گاڑھ دونگا ۔ "

وہ اسکے قریب آتے سرد آواز میں بولا تھا کہ نرمین کو اسکی آواز سے بھی وحشت ہوئی تھی ۔ 

"ہم_ہماری ایک بار پوری بات۔بات سن لیں پلیز ۔"

وہ ہچکیوں سے روتی ہوئی ہمت کرکے پھر سے بولی تھی ۔  

اسکی سسکیاں سنتے کبیر نے خود پر قابو کیا اور وہی اسکے پاس بیٹھ گیا ۔ 

"مجھے تمہاری لو اسٹوری سن نے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے."

"چلو ایسا کرتے ہیں پہلے تمہارا یہ

 گھونگھٹ اٹھا لیتے ہیں ۔ میں بھی تو دیکھو جس چہرے پر وہ مر مٹ رہا ہے آخر کیا ہے اس میں ایسا۔"

اسنےطنزیہ انداز میں کہتے اسکا گھونگھٹ اٹھانا شروع کیا تھا ۔ جس میں سب سے پہلے اسکی چمکتی تھوڑی دکھی تھی جس کے بلکل درمیان میں کالا سیاہ تل جگمگا رہا تھا وہ اسے بے تحاشہ خوبصورت لگا تھا پھر اسکی نتھلی کے موتی جو اسکے کانپتے ہونٹوں کو چھو رہے تھے جسکی وجہ سے وہ موتی ہل رہے تھے اور اس منظر کو خوبصورت بنا رہے تھے ۔

اسکی تو یہی بس ہوگئی تھی وہ لال اناری پنکھڑیاں بے تحاشہ حسین تھی ۔ وہ اسکا گھونگھٹ وہی روکتے انہیں تکنے لگا جب نرمین نے پھر سے سسکی لی اور اسکے لب ہلے کبیر کو ہوش میں لائے پھر ایک جھٹکے میں اسنے اسکا گھونگھٹ پلٹ دیا ۔ اور جب دیکھا تو ساکت رہ گیا۔ 

 ماتھے پر بھاری جیولری کی خوبصورت مانگ پٹی ٹکائے جسکے موتی اسکی چمکتی پیشانی کو چھپائے ہوئے تھے وہ آنکھیں جھکی تھی جن کا وہ اسیر ہونے لگا تھا ۔ وہ گال جو میک اپ کے باعث لال تھے یا اسکے خوبصورت نین نقوش کا ہی ایک حسین حصہ تھے اسے پتا نا چلے لیکن اسکے پھولے گلابی گال اسے بے حد پیارے لگے تھے ۔ اور وہ ہونٹ خوبصورتی سے تراشے گئے اناری رنگ میں رنگے تھے اور پھر یہ کالا سیاہ تل جو شان سے اسکی تھوڑی پر بیٹھا تھا ۔ 

وہ تو خوبصورتی کا شہکار تھی ۔ کبیر خانزادہ جس کو غرور تھا کے اسکے جیسا  پُرکشش انسان کون ہو سکتا ہے اسے آج اپنا آپ نرمین خانزادہ کے سامنے کچھ بھی نا لگا تھا ۔ وہ تو کوئی معصوم سی  پری تھی کوئی شہزادی جو اس جہاں کی تو نہیں لگی تھی اسے ۔ 

وہ یک ٹک بنا پلکیں جھپکائے اسے دیکھ رہا تھا ۔ اسکے دل نے خواہش کی تھی کے ایک بار صرف ایک بار وہ پلکوں کا باڑ اٹھالے اور وہ اسے ایک نظر اسکی حسین آنکھوں کو دیکھ لے ۔ 

کبیر نے اپنی آنکھوں میں خمار لیئے اسکی تھوڑی کے نیچے انگلی رکھی تھی اور اسکا جھکا چہرا اٹھایا تھا ۔ 

جب نرمین نے پلکوں کا باڑ اٹھاتے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔

اور کبیر وہی تھمتے سانس روک گیا تھا ۔ 

دراز پلکیں___غزال آنکھیں💖

مصوری کا___ کمال آنکھیں💖

فتح کرتی ہے یہ دلوں کو 

خدا کے بندے سمبھال آنکھیں 💖

ان کا غصّہ بڑا ہے پیارا 

وہ کانٹیں ہونٹ نکال آنکھیں 💖

وہ نیند سے جاگی ادھ کھلی سی

خمار کا عکس کمال آنکھیں 💖

وہ کچھ نا کہنا آنسو بہانا 

جھکی وہ پلکیں وہ لال آنکھیں💖

وہ آنکھوں آنکھوں میں بات اسکی 

لفظوں سے بوجھل نڈھال آنکھیں💖

وہ مثل مہتاب میں اک سمندر

وہ اٹھتی موجیں اچھال آنکھیں💖

تلاش کر بیٹھے چار سو وصال 

ڈھونڈنا پائے بے مثال آنکھیں ۔💖

"از قلم احمد وصال"

وہ سانس روکتے اسکی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا یہ آنکھیں... انہی نہ تو اسکی راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی ۔ وہ یک ٹک اسکے حسین چہرے کو دیکھے گیا یہاں تک کے نرمین کی پلکیں لرزنے لگی اسکا دل اسکے ہاتھوں میں دھڑک رہا تھا آنکھیں رونے کے باعث لال ہورہی تھی جب کبیر نے بے ساختہ اپنا ہاتھ اگے بڑھایا اور اسکے آنسوؤں کو اپنے پوروں سے چنا ۔ نرمین نے آنکھیں میچی تھی جب وہ بے اختیار آگے کو جھکا تھا نرمین کے کان کے قریب گھمبیر آواز میں بولا ۔ 

"Çok güzelsin, bu dudakların çok güzel, bu benlerin çok güzel ve bu gözlerin, bu gözlerin çok güzel." 

"تم بہت خوبصورت ہو ، تمہارے یہ ہونٹ بہت خوبصورت ہیں، تمہارے یہ تل بہت خوبصورت ہے اور تمہاری یہ آنکھیں ، یہ آنکھیں بے تحاشہ حسین ہیں۔"

وہ اسکے کان کے قریب جھکا رہا اور گہری سانس بھری جب نرمین اسکی بھاری آواز اور سانس کھینچنے کے عمل سے سانس روک گئی ۔ 

اسے سمجھ نا آیا تھا کہ کبیر نے کیا کہا ہے لیکن اسکا لہجہ اسکے رونگٹے کھڑے کر گیا تھا ۔ 

کبیر نے پیچھے ہوتے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا وہ پھر اسے سحر میں جکڑ رہی تھی اور وہ ان آنکھوں پر سب قربان کر سکتا تھا ۔

"ہم۔ہم نے کچھ نہیں کیا۔ کل جو کچھ بھی ہوا اس۔اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں تھا ۔ ہم نے تو کبھی کسی کو بھی نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ ہم نہیں جانتے انہوں نے کب کیسے ہمیں دیکھا ہم۔ہم گھر سے باہر ہمیشہ پردے میں نکلے ہیں ہم ایسی لڑکی نہیں ہیں جیسا آپ ہمیں سمجھ۔سمجھ رہے ہیں ۔ "

وہ روتے ایک ایک لفظ ٹہر کر کہتے اسکی انکھوں میں دیکھتی کہہ گئی تھی جو اسے خاموشی سے سانس روکے سن رہا تھا ۔ 

کبیر کا دل نرمین کے آنسو اسکی معصومیت پر ایمان لے آیا تھا ۔ وہ ساکت سا ان بہتے ہوئے موتیوں کو دیکھ رہا تھا جب کبیر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے اسکے آنسو صاف کیئے تھے ۔ 

نرمین خاموشی سے اسے دیکھے گئی تھی وجاہت سے بھرپور حسین مرد تھا وہ جو ہری کائی سی گہری آنکھوں سے اسی کو دیکھ رہا تھا اور ایک ہاتھ سے اسکا چہرا تھام رکھا تھا جب اسکے کان میں ضرغام کی آواز گونجی ۔

(میں ضرغام خانزادہ آج آپ سے اقرار کرنے آیا ہوں کہ میں آپ سے بہت بہت محبت کرتا ہوں"۔)

کبیر ہوش کی دنیا میں واپس آیا تھا۔ 

(جب سے میں نے آپکا چہرہ دیکھا ہے اسکے بعد سے کچھ دکھا ہی نہیں مجھے۔ ہر رات یہ چہرا میری آنکھوں کے سامنے آیا ہے اور ہر دن میں نے یہ چہرہ سوچتے شروع کیا ہے ۔)

اسنے نرمین کا چہرہ دیکھتے اپنا ہاتھ اسکے چہرے سے ہٹایا تھا ۔ 

(نرمین خانزادہ ضرغام خانزادہ مرجائےگا آپکے بغیر ۔")

ہاتھ کی مٹھیاں بھینچتے وہ فوراً اس سے پیچھے ہوا تھا۔ 

اور اپنے ہاتھوں سے ماتھے سے بالوں کو پیچھے کیا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ کی باتیں اسکے الفاظ وہ بھولائے نہیں بھول رہے تھے اسے ۔ وہ کیسے بھلا سکے گا کہ ضرغام خانزادہ نے اسکی بیوی سے محبت کا اظہار کیا تھا ۔ 

لیکن اس لڑکی کے آنسو کیوں اسکا دل مان نے کو تیار نا تھا کہ اس میں نرمین کا کوئی قصور ہے کیوں اخر نرمین کے آنسو کبیر کے دل پر موم بن کر گر رہے تھے ۔ 

وہ پاگل ہونے کو تھا اسنے سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاتے زمین پر پھینکا تھا جب نرمین نے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا تھا ۔ 

کبیر نے اسکی طرف نظریں اٹھائی تھی ہری آنکھیں غصّہ سے لال ہوجایا کرتی تھی جن سے نرمین کو خوف آیا تھا ۔ 

کبیر نے اسکا بازو پکڑتے اسے بستر سے نیچے اتار تے کھڑا کیا تھا نرمین اپنا بھاری لہنگا سمبھالتی اسکے سینے سے آ لگی ۔ 

"تم نرمین کبیر خانزادہ ہو ۔ آج کے بعد اس سوچ پر اس چہرے پر ان سانسوں پر اور تمہارے وجود پر صرف میرا اختیار ہوگا ۔ 

اپنے دماغ سے ہر چیز کو فراموش کردو اور بس اتنا یاد رکھو کہ تمہارے نام کا حوالا اب میرے نام کے ساتھ دیا جائے گا ۔ 

اور کبیر خانزادہ اپنی عزت پر بات برداشت نہیں کرے گا۔ وہ شخص مجھے تمہارے سے سو قدم دور بھی برداشت نہیں ہے اسلیئے خیال رکھنا یہ تمہارے   لیئے ہی اچھا ہوگا ۔ 

اسکا گال تھپتھپاتے ایک جھٹکے سے اسے سے دور ہوا تھا اور کمرے سے نکل گیا تھا جب نرمین بستر پر بیٹھتی ہاتھوں میں چہرا چھپاتی سسکیوں سے رودی تھی ۔ 

اسنے تو کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا تھا، کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی تھی تو پھر کیوں اسکے ساتھ ایسا ہو رہا تھا وہ خاموشی سے آنسو بہارہی تھی نا کوئی شکوہ نا کوئی گلہ وہ خاموش ہوگئی تھی اور پھر سے اللّٰہ سے اپنے لیئے صرف صبر مانگا تھا ۔

اسے پتہ تھا یہ دن برے ہیں ساری زندگی نہیں۔ اور جو اللّٰہ اسکی محبت کو اسکی دعاؤوں کے ذریعہ اسکی زندگی میں داخل کرسکتا ہے تو وہ پھر اسکی زندگی میں خوشیاں بھی واپس لاسکتا یے۔ 

بے شک وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ 💖

نرمین نے اٹھتے وقت دیکھا تھا یہ تہجد کا وقت تھا اللّٰہ کی لاڈلی عبادت تھی وہ اٹھتے چینجنگ روم میں گئی تھی چینج کرتے گلابی رنگ کا ساد سوٹ پہنے وہ وضو کیلیئے گئی تھی ۔ اور پھر جائے نماز بچھاتے وہ اللّٰہ کے روبرو حاضر ہوئی ۔ دعا کیلیئے ہاتھ اٹھاتے اسکی انکھ سے آنسوؤں کی برسات ہوئی۔ 

وو خاموشی سے آنسو بہاتی رہی لیکن پھر خاموش ہوتے اسنے الحمدللہ کہا تھا ۔ 

جسے اسنے اللّٰہ سے رورو کر مانگا تھا آج وہ اسکا نصیب بن گیا تھا ۔ جب اللّٰہ نے اسے ملا دیا تھا تو آگے کے راستے بھی وہ دکھا دےگا ۔ 

اللّٰہ دیکھتا ہے جب ہم سجدوں میں تڑپتے ہیں ۔ اللّٰہ دیکھتا ہے جب ہم دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے خاموش ہوجاتے ہیں ۔ 

اللّٰہ دیکھ رہا ہوتا ہے جب ہم صبر کرتے کرتے بھی تھک جاتے ہیں ۔ اللّٰہ کو ہر اس لمحے کی خبر ہے جب ہم بے بس ہو کر خاموش ہوجاتے ہیں ۔ یقین رکھیں صبر رکھیں اللّٰہ امید لگانے والوں کو کبھی نا امید نہیں کرتا ۔ 

اور نرمین کو اللّٰہ پر بھروسہ تھا وہ یہ نہیں سوچتی کہ اللّٰہ سے مانگے گی اور وہ دے نا دے ۔ وہ اللّٰہ سے اس یقین سے مانگتی تھی کے جب اسکی نیت صاف ہوگی اور اسکے حق میں بہتر ہوگا تو اللّٰہ اسے ضرور عطا کرے گا اور اگر اسے وہ نا مل سکا جو اسنے مانگا تھا تو؟ 

تو وہ اس پر یقین رکھتی تھی جو اسے تہجد کی نمازوں میں مانگ کر بھی نہیں ملا وہ اسکے لیئے کیسے بہتر ہوسکتا ہے کیسے اللّٰہ اپنے محبوب بندے کو وہ دےدے جو اسکے لیئے صحیح نہیں بے شک ہمیں ہر حال میں اللّٰہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے ۔

ٹیرس پر بیٹھا وہ سگریٹ پھونک رہا تھا اور نظریں آسمان کی طرف تھیں ۔ جہاں سے چاروں طرف سے فجر کی آذانوں کی آوازیں گونج رہی تھی جو ماحول کو سحر زدہ کررہی تھی ۔ 

باہر ممالک میں یہ ماحول نا تھا یہ سکون۔ آذانوں کی آوازیں اسکی روح کو یہ سب سکون بخش رہا تھا  وہ آنکھیں بند کیئے ان آوازوں کو سن رہا تھا۔  جب آنکھوں کے سامنے اسکا چہرہ آیا تھا سادہ معصوم حسین یہ سب الفاظ تو بہت چھوٹے تھے اسکے لیئے وہ کتنی دلکش تھی ۔ لیکن یہ خلا جو بیچ میں آرہا تھا جو وہ برداشت نہیں کر پارہا تھا وہ کیسے مٹے گا ۔ وہ کیسے آگے بڑھ سکے گا نرمین کے ساتھ یہی سب سوچتے فجر ہوگئی تھی جب وہ تھکن سے ٹوٹے بدن کو لیئے اپنے کمرے کی طرف روانہ ہوا تھا ۔ 

اسنے کمرے میں قدم رکھا تو ہلکی روشنی میں بستر کے برابر جائے نماز بچھائے وہ سجدے میں تھی ۔ کبیر کے قدم وہی تھمے تھے ۔ نماز؟ نماز کہاں یاد تھی اسے ۔ کہنے کو وہ ایک مسلمان تھا لیکن اسنے اپنی ستائیس سالا زندگی میںں بچپن میں ضرور نماز پڑھی تھی جب تک وہ یہاں تھا اسنے قرآن بھی کھولا تھا لیکن پھر وہاں جانے کے بعد وہ اس دنیا میں اتنا مگن ہوا تھا کی اللّٰہ کو واقعی بھول بیٹھا تھا وہ جھینپتا کمرے میں قدم رکھتے ہی پیچھے سے دروازہ بند کرتا واشروم میں داخل ہوا تھا۔

نرمین کو نماز میں احساس ہوگیا تھا کہ وہ آگیا ہے اسکے دل نے شدت سے یہ خواہش کی تھی کہ کبیر اسکے ساتھ نماز پڑھے وہ نماز ختم کرتی دعاؤوں کے لیئے ہاتھ اٹھاگئی تھی جب تھوڑی دیر میں کبیر ٹاول سے بال رگڑتا باہر نکلا بلیک ٹی شرٹ اور بلیک ٹراؤزر پہنے وہ ہینڈسم لگ رہا تھا اور اسے دیکھنے لگا جو طگلابی دوپٹہ کے ہالہ میں اس کا پُر نور چہرہ دیکھ وہ ٹکٹکی باندھے دیکھے گیا ۔ یہ منظر اسے اتنا شفاف اور پاکیزہ لگا تھا کہ اسکے دل اسے چپکے سے نرمین کی پاکیزگی کی گواہی دینے لگا تھا ۔ 

وہ بستر پر لیٹا تھا جب وہ جائے نماز لپیٹتی تھوڑی دیر ایسی کھڑی رہی اس کشمکش میں کے وہ کیا کرے بستر پر گئی اور کبیر نے جھڑک دیا تو وہ کچھ سوجتے بستر کے سامنے رکھے صوفے پر ٹک گئی ۔جب کبیر کی آواز کمرے میں گونجی ۔

"یہاں کوئی ڈرامہ نہیں چل رہا ہے جو میں بستر اور تم صوفے پر سوگی ۔ فوراً یہاں آکر لیٹو"۔

کبیر کب سے اسکی حرکتیں ملاحضہ کررہا تھا جب اسکے غصہ کا گراف نرمین کو صوفے پر بیٹھتا دیکھ بڑھا تھا اور وہ سرد آواز میں بولا ۔ 

نرمین اسکے غصہ کا سوچتی بستر کی طرف بڑھی تھی اور کونے میں ٹکتے وہ لیٹی تھی اسنے خود پر بلینکٹ بھی نہیں لیا تھا اسکے ڈر سے جو کبیر پر آدھا پڑا تھا ۔

وہ وہاں لیٹی تھی کب اسے سوچتے سوچتے نیند آئی وہ نہیں جانتی تھی لیکن کبیر اسکی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کے وہ اسکے غصہ سے بے تحاشہ ڈر گئی ہے یہاں تک کے ایک بستر ایک بلینکٹ میں سوتے ہوئے بھی اسے خوف آرہا ہے ۔ اسنے اے سی کا ریموٹ اٹھاتے اسے سلو کیا تھا اور خود سے بلینکٹ ہٹاتے اس پر ڈالا تھا جو سکڑی سمٹی ہوئی کوئی معصوم سے گڑیا لگ رہی تھی ۔اس پر سے نظریں ہٹاتے وہ واپس اپنی جگہ پر لیٹتے آنکھیں بند کر گیا تھا ۔۔ 

----------❤️❤️❤️----------

ضرغام آج سڑکوں پر بلاوجہ گاڑی چلاتا مارا مارا پھر رہا تھا اسے کوئی ہوش نہیں تھا کہ کیا وقت ہورہا تھا کیا نہیں جب اسنے نڈھال ہوتے بیچ راستے میں گاڑی روکی تھی اور آنسوں گھونٹ کے ذریعہ حلق سے اتارتا آنکھیں موندتے سیٹ سے ٹیک لگا گیا تھا ۔

"میرے ساتھ ہی کیوں"؟؟ وہ دھیرے دھیرے بڑبڑایا تھا 

"کیوں کیوں میرے ساتھ ہی آخر ایسا کیوں ہوتا ہے ۔ سب کچھ اسے دےدیا تھا میں نے برداشت کیا مگر نر۔نرمین کو بھی اس کبیر کو دے دیا ؟ یا اللّٰہ آپ سب اسے دے دیتے میں کچھ نا کہتا  لیکن نرمین وہ مجھے دے دیتے۔۔ ""

وہ اسٹیرنگ پر مکے مارتا چیخ رہا تھا۔لیکن کوئی اسکی حالت دیکھنے والا نہیں تھا سوائے اللّٰہ کی ذات کے . 

ہم انسان اتنے ناشکرے ہوتے ہیں کہ خود ہی حاصل کرنے کے جتن کرنے لگ جاتے ہیں شاید خود پر غرور بہت ہوتا ہے کہ ہم حاصل کرلینگے جو ہم چاہتے ہیں۔ اللّٰہ سے ضد لگانے لگ جاتے ۔ حالانکہ اس سے تو گڑگڑا کر مانگا جاتا ہے اسکے آگے فقیر بنا جاتا ہے کی تو ہی تو ہے دینے والا تو نہیں دیگا تو ہم کہاں جائینگے اور آنکھوں میں آنسو کی دیر ہوتی ہے بس اور ہمارا رب کن فرما دیتا ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نیت نیک رکھو ۔ جب ہماری نیت ہی غلط ہوگی تو وہ شے ہماری کیسے ہوگی ۔ لیکن انسان نادان ہے سمجھتا نہیں۔  

ایک ضرغام کی محبت تھی خود غرض  ضد  اور حسد میں ڈوبی ۔

ایک نرمین کی محبت تھی صبر اور اللّٰہ کے لیئے کچھ بھی قربان کرنے کی چاہ ۔ 

اور تم وہ کرو جو رب چاہتا ہے 

پھر ہوگا وہی جو تم چاہوگے ۔💖

اسکی آنکھ سے اک آنسو بہا تھا وہ ساری رات یونہی مارا مارا پھرا تھا یہاں تک کے صبح کا سورج نکل آیا۔

ایک رات ہوئی برسات بہت 

میں رویا ساری رات بہت 💔

ہر غم تھا زمانے کا لیکن 

میں تنہا تھا اس رات بہت 💔

پھر آنکھ سے اک ساون برسا

جب سحر ہوئی تو خیال آیا 💔

وہ بادل کتنا تنہا تھا 

جو برسا ساری رات بہت 💔

---------❤️❤️❤️--------

پورے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا جب اسکی آنکھ کھلی پہلے تو وہ غائب دماغی سے سوچتی رہی پھر جب ذہن کے پردوں پر رات کا منظر لہرایا تو اسنے پلٹ کر دیکھا جہاں فردان سو رہا تھا اسے یہ ایک خواب لگا ہلکی لیمپ کی روشنی میں وہ فردان کا چہرا دیکھنے لگی جو سفید رنگت گھنی پلکیں بچھائے آنکھیں موندے سو رہا تھا اکے چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ آگئی جو اسے گلابی کر گئی تھی ۔ 

کیا واقعی وہ اتنی خوش قسمت تھی کہ اسے بنا مانگے بنا جتن کیئے اتنا چاہنے والا شخص مل سکتا ہے ۔ اسنے اپنا ہاتھ فردان کے گال پر رکھا جہاں اسنے کل رات وہ گڑھا دیکھا تھا ۔ یہ تو بہت کم اسے دیکھنے کو ملا تھا لیکن کل رات تو وہ مبہوت ہو کر اسے دیکھ رہی تھی اتنا دلکش تھا وہ ۔ اسے خود کی قسمت پر رشک ہوا تھا۔ وہ مسکراتی اٹھ کر  اپنے لمبے سنہرے بالوں کو جوڑے میں قید کیئے وارڈروب سے اپنے کپڑے نکالتے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

جب باہر نکلی تو فردان ابھی تک سو رہا تھا اسے حیرت ہوئی۔ صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے اور آٹھ بجے سب ناشتے کی ٹیبل پر ہونگے یہ سوچتے وہ جلدی جلدی تیار ہونے لگی ۔

نیلے رنگ کا بھاری سوٹ پہنے وہ بال کھولے آگے سے ٹویسٹ بناتے میک اپ کے نام پر آنکھوں میں کاجل بھرنے لگی جب اسے فردان کے الفاظ یاد آئے تھے ۔ 

"آپکی آنکھوں میں کاجل بہت حسین لگتا ہے انہی ہمیشہ انہیں کاجل سے لبریز رکھےگا"۔ 

وہ مسکراتی آنکھوں میں کاجل لگاتی ہونٹوں پر گلابی لپسٹک لگاتے ریڈی ہوتے پلٹی جب فردان ابھی بھی آنکھیں بند کیئے سورہا تھا ۔ 

"افف یہ پاگل پٹھان تو ابھی تک سو رہے ہیں کیسے اٹھائے ہم انہیں ٹائم بھی اتنا کم ہے کیا سوچےگے سب "۔ وہ ہلکی اواز میں بڑبڑاتی فردان کے قریب ہوئی ۔

"سنیں؟؟ اٹھ جائیں۔"لیکن فردان نے کوئی رسپونس نا دیا ۔ 

"سنیں نا؟؟ اٹھ جائے۔ اب وہ ہلکے سے اسے شولڈر پر ہاتھ لگاتی اسے اٹھانے لگی جسنے لال ڈوروں میں ڈوبی آنکھیں کھولی ۔ اور اسے دیکھ کر مسکرایا جو اسکے سامنے بلکل تیار کھڑی نیلے رنگ میں بے حد حسین لگ رہی تھی ۔ 

اسکا ہاتھ پکڑتے کھینچ کر اپنے برابر میں لٹاتے وہ واپس آنکھیں بند کر گیا تھا جب وہ چیختی ڈر کر آنکھیں میچ گئی۔۔ 

جب انکھیں کھولی تو فردان ایک ہاتھ اسکے اوپر رکھتے اسکے بالوں میں منہ چھپائے آنکھیں بند کیئے ہوا تھا ۔ 

راحمہ سانس روکے اسے دیکھنے لگی جو اتنا قریب تھا ۔ لیکن وقت دیکھتی پھر سے بولی۔ 

"اٹھ۔اٹھ جائے پلیز ناشتہ پر سب انتظار کررہے ہونگے۔ 

وہ روتی صورت بناتے ہوئے بولی تھی جب فردان نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا جو معصوم شکل بنائے اسکے چنگل میں قید تھی ۔ 

"امم نہیں سوجائے آپ بھی ۔ ابھی ہماری نیند پوری نہیں ہوئی ۔ "

وہ بھاری آواز میں کہتا واپس منہ چھپاگیا تھا۔ جب راحمہ کا پارہ ہائے ہوا ۔ 

"مجھے سانس نہیں آرہا آپ کا ہاتھ دس کلو کا ہے بھئی ہٹائے اسے اور نیچے چلیں ہمیں دیر ہو رہی ہے پاگل پٹھ.. ""

اسکی زبان کو بریک لگی تھی جب فردان نے اسے گھورا تھا ۔ 

"م۔میرا مطلب تھا کہ می۔میں پاگل پٹھانی ہوں ۔ چل۔چلیں ہم نیچے چلتے ہیں ۔ "

وہ فردان کے تاثرات دیکھتے ہڑبڑاتے ہوئے اسکا نام بھی اپنے سر لے گئی تھی ۔ 

"اپنی زبان کو قابو میں رکھیں میری جان ۔ یہ میرے سامنے چلے گی تو آپکا نقصان ہوگا ۔ وہ انگلی سے اسکے گالوں پر نقش و نگار بناتا اسے سہما گیا تھا ۔

راحمہ کی زبان اسکے تالو سے لگی تھی اب مجال تھی جو وہ ایک الفاظ کہہ دے ۔ کل رات کے بعد سے اسکی ان باتوں کا اندازہ اسے اچھے سے ہوگیا تھا ۔   وہ سر اثبات میں ہلاتی فردان کا ہاتھ ہٹانے لگی تھی جب فردان نے اسے پھر گھورا ۔ 

"دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کی آپ کبھی ہماری نفی نہیں کرینگی۔"

وہ پھر اس پر جھکتا ہوا بولا تھا جب راحمہ اپنا سانس تک روکتی واپس اسکا ہاتھا اسکی سابقہ جگہ پر رکھ گئی تھی ۔ ۔

جس پر فردان اپنی ہنسی بمشکل دباتا اسکی شکل دیکھ رہا تھا جو لال ہو رہی تھی ۔ 

"کافی فرمانبردار بیوی ملی ہیں ہمیں"۔

وہ اسکا ماتھا چومتا اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اپنے کپڑے لیتا اراحمہ کو ایک نظر دیکھا جو ابھی تک بستر پر ویسی ہی لیٹی تھی شاک میں جیسے وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ 

"اگر آپکا نیچے جانے کا ارادہ بدل گیا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ہم بھی آپکو کمپنی دے دیتے ہیں ۔" 

وہ اپنے کپڑے سائیڈ پر رکھتا واپس اسکی طرف بڑھا تھا جب وہ تیز رفتار سے اٹھ کر بیٹھتی سیدھی کھڑی ہوئی تھی ۔

"نہیں نہیں نہیں ہم بلکل ریڈی ہیں آپ جلدی سے آجائیں ہم ساتھ چلینگے ۔"

وہ گھبرا کر فوراً پیروں میں چپل ڈالتی سر پر دوپٹہ اوڑھ گئی تھی مبادا کہی وہ واقعی اپنے کہے پر عمل نا کردیں ۔ 

فردان اپنی ہنسی روکتا لب دبائے واپس کپڑے اٹھاتا واشروم میں بند ہوا تھا ۔ 

"واقعی کوئی کارٹون ملی تھی اسے۔ "

جب بیس منٹ میں وہ واشروم سے باہر نکلتا اسے دیکھ رہا تھا جو بستر پر بیٹھی پیر جھلاتی اسکا انتظار کررہی تھی ۔ 

ڈارک بلو کاٹن کے کرتے میں وہ مبہوت کرگیا تھا راحمہ کو جب آئینہ میں بال بناتے اسنے راحمہ کو دیکھا تھا جو سٹل اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

وہ مسکراتا سائیڈ ڈرار کھولتا اس میں سے ایک باکس نکال گیا تھا۔ 

اور راحمہ کو کندھے سے پکڑتے اسنے شیشہ کے سامنے کھڑا کیا اور پیچھے سے اپنے حصار میں لیا اور شیشہ سے ہی اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا  ۔ 

"ما شاء اللّٰہ "۔ وہ اسکے کان میں گھمبیر آواز میں بولتا باکس میں سے ایک خوبصورت سا لاکٹ نکال گیا تھا ۔ 

 جسے دیکھتے ہی راحمہ کی آنکھوں کی چمک بڑھی ۔ فردان نے وہ لاکٹ اسکے گلے میں ڈالا جو ڈبل ہارٹ شیپ میں تھا اور ہر طرف ڈائیمنڈز لگے تھے ۔ 

نازک سا لاکٹ اسکی نازک سی گردن پر چارچاند لگا گیا تھا ۔ 

اسے کندھوں سے تھامتے اسکا چہرا اپنی طرف موڑتے فردان نے اسے دیکھا تھا جو گلابی گڑیا لگ رہی تھی اسنے جھکتے لاکٹ کے ہارٹ پر بوسا دیا جب راحمہ کپکپائی ۔ 

"اس لاکٹ کو کبھی مت اتارے گا ہمیشہ اپنے گلے کی زینت بنا کر رکھے گا اسے ۔" 

جب وہ شرماتی نظریں جھکاگئی تھی ۔ 

اور پھر سر پر دوپٹہ لیتی فردان کے ہمراہ کمرے سے نکلی تھی۔ 

 ---------❤️❤️❤️--------

کبیر کی آنکھ کھلی تو کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی پر اسکی نظر پڑی اور آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھتے اسنے آنکھیں بند کی جب واشروم کا دروازہ کھلا تھا اور اسنے پلٹ کر دیکھا تھا جہاں نرمین مہرون رنگ کی پیروں کو چھوتی فراک پہنے جس پر نفیس سا کام ہوا تھا گیلے لمبے بال جنہیں وہ ٹاول سے رگڑتی کبیر کو بنا دیکھے جلدی جلدی تیار ہورہی تھی ۔ بال سکھاتے وہ جلدی سے انہیں سلجھاتے میک اپ کے نام پر ہونٹوں کو لال لپسٹک لگاتے وہ بالوں کو باندھنے لگی ۔ 

کبیر یک ٹک اسے دیکھ رہا تھا جس کو اللّٰہ نے واقعی حسن سے نوازا تھا اسکی کس کس چیز کی تعریف کرتا وہ ۔ اسکے اتنے حسین کالے سیاہ لمبے بال دیکھتا وہ مبہوت ہوا تھا ۔ جب اسے باندھتا دیکھ وہ اٹھا تھا اور عین اسکے پیچھے آکر کھڑا ہوا 

اور اسکے ہاتھوں کو روکا جو بالوں میں بل ڈال رہا تھا ۔ 

"کھلے رہنے دیں انہیں۔اچھے لگ رہے ہیں۔"

وہ کسی سحر میں گم اسے دیکھ رہا تھا جب نرمین ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی تھی۔ اور وہ ہوش میں آیا تھا اور اسے پیچھے ہٹتے دیکھ ایک قدم اسکی طرف بڑھایا تھا۔

"کیا ہوا میرا چھونا ناگوار گزرا ہے ؟ "

نرمین جو اچانک آفت پر کچھ سمجھ نا سکی تھی اور ہڑبڑاہٹ میں قدم پیچھے بڑہا گئی تھی اب کبیر کی بات پر اسے حیرانی سے دیکھنے لگی۔ 

"ن۔نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ ہ۔ہم گھبرا گئے تھے آپ اچانک سے آئے تو ۔ "

لیکن کبیر کی نظر اسکے چہرے پر گئی تھی جہاں وہ معصوم شکل بنائے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ 

جب وہ قریب آتا اسکی گردن میں ہاتھ ڈالے اسکا چہرا خود سے قریب کر گیا تھا ۔ اور اسکے بالوں کی خوشبو میں گہرا سانس لیا تھا ۔ اور پھر پیچھے ہوتے اسکے ماتھے پر لب رکھے تھے ۔ 

جب نرمین گھبراتی اسکی ٹی شرٹ کو مٹھیوں میں دبوچ گئی تھی ۔ 

وہ اس میں گم تھا جب ڈور ناک ہوا اور وہ آنکھیں کھولتے نرمین کا چہرا دیکھنے لگا ۔ اور فوراً پیچھے ہوتے واشروم میں بندھ ہوگیا ۔

نرمین جو آنکھیں بند کرتی بہت مشکل سے اسکی قربت براشت کررہی تھی اسکے جھٹکنے سے گھبراگئی تھی اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے ۔ کیا وہ اتنی بے مول تھی اسکی انکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا ۔ 

کبیر بنا اسے دیکھے ڈریسنگ روم میں بند ہوا تھا اور نک سک سا تیار ہوتے بال بنانے لگا تھا جب اسکی نظر مرر سے نظر اتی نرمین پر گئی جو بھیگی آنکھوں سے بستر پر بیٹھی اسکے تیار ہونے کا انتظار کررہی تھی ۔ کبیر کے دل میں چبھن ہوئی تھی اسکا ارادہ یہ نا تھا لیکن اگر اب وہ کر گزرا تھا اور انا کا مارا کبیر خان اپنے کیئے کی معافی مانگ لے یہ کہاں ممکن ہے ۔ 

اٹھو ہمیں دیر ہو رہی ہے ۔ وہ کرتے کے کفلنکس بند کرتے دروازے کے باہر قدم رکھ گیا تھا جب نرمین سر پر نماز اسٹائل دوپٹہ باندھتی اسکے پیچھے ہی باہر نکلی تھی ۔ 

اسلام علیکم کبیر نے ناشتہ کی ٹیبل پر بیٹھتے ایک ساتھ سب کو سلام کیا تھا اسکے پیچھے آتے نرمین نے سب کو سلام کیا کبیر کے چہرے پر اسکی آواز سنتے ہلکی سی مسکان آئی تھی وہ آج اس سے منسوب ہوکر سب کے سامنے آئی تھی ایک انجانی سی خوشی ہوئی تھی دل کو۔ 

جب داجی اور باقی سب نے انکے آتے ہی بے ساختہ ما شاء اللہ کہا تھا ۔ 

جب پیچھے سے فردان اور راحمہ بھی آئے تیز آواز سے سلام کرتا وہ ڈائیننگ کی طرف آئے تھے سب نے پیار بھری نظروں سے انہیں دیکھ سلام کا جواب دیا تھا نرمین چہرا ڈھکتے اپنی ماں کے پاس کھڑی ہوئی تھی  جب راحمہ بھی اسکے پاس آ کھڑی ہوئی  نازو بیگم  نے ان دونوں کو  بیٹھ کر ناشتہ کرنے کا کہا تھا جس پر وہ سہولت سے انکار کر گئی تھی۔

راحمہ کی نظر فردان کی طرف اٹھی جس نے اسے نظروں سے اپنے برابر آکر بیٹھنے کا کہا تھا ۔ وہ جانتا تھا کل رات سے راحمہ نے کچھ نہیں کھایا تھا سب جانتے تھے کے راحمہ سے بھوک برداشت نہیں ہوتی ۔ 

راحمہ کنفیوز سی نازو بیگم کو دیکھنے لگی جب انہونے ہنستے ہوئے اسے بیٹھنے کا کہا تھا ۔  وہ ہچکچاتی اسکے برابر میں بیٹھ گئی تھی پھر فردان کی پلیٹ میں اسے ناشتہ سرو کرنے لگی ۔۔

جب فردان نے جوس گلاس میں نکالتے اسکے آگے رکھا تھا راحمہ سب کے سامنے اسکی حرکت پر جھینپی۔ سب مرد اسےحیرت سے دیکھنے لگے اور سب عورتیں دبا دبا سا مسکرا نے لگیں جب داجان نے کھانستے سب کو ناشتے کی طرف متوجہ کیا تھا جو خود بھی خوشی سے یہ منظر دیکھ رہے تھے ۔ کہ انکا پوتا اور پوتی انکے فیصلے میں خوش ہیں بس نرمین اور کبیر کیلیئے انکے دل میں خدشات تھے انہوں نے نظر اٹھا کر کبیر کو دیکھا تھا جو ناشتے میں ایسے مگن تھا جیسے اس سے زیادہ ضروری کچھ نہیں ہے اور نرمین کو جو کبیر کی طرف ہی دیکھ رہی تھی جب کبیر کو پھندا لگا اور نرمین نے فوراً گلاس میں جوس بھرتے سامنے رکھا تھا اسکے ۔ کبیر نے ایک نظر اسے دیکھتے جوس کا گلاس اسکے ہاتھ سے لیتے پیا تھا اور یہ منظر دا جان اور باقی سب نے مسکرا کر دیکھا تھا۔ 

سب کھانا کھا کر اٹھے تو کبیر داجان سے مخاطب ہوا ۔ 

"مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے ۔ آپ لوگ فری ہوجائے اسکے بعد مردان خانہ میں ملاقات ہوتی ہے" ۔  وہ تمام مردوں سے مخاطب ہوا تھا جس پر سب نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

نرمین کا دل بے اختیار دھڑکا تھا کہی وہ کچھ داجان سے نا کہہ دے اس رات کے بارے میں ۔ اسے اپنی آبرو کی شدت سے فکر لاحق ہوئی تھی ۔ وہ تو اس سے ویسے ہی نفرت کرتا تھا کہی نفرت میں آکر اسکی عزت مجروح نا کردے ۔  

-------❤️حیا خان❤️-------

"مجھے لگتا ہے ہمیں اسراء اور ضرغام کے بارے میں ایک بار سوچ لینا چاہیئے ۔ میرا مطلب اس رشتہ کو لے کر."

سب مرد حضروت مردان خانہ میں بیٹھے تھے جب کبیر سب سے مخاطب ہوا۔ 

"کیسی باتیں کررہے ہیں لالا آج اسکا نکاح ہے اور کیا برائی ہے ضرغام میں میں اسکے ساتھ رہا ہوں ہمیشہ وہ ایک اچھا انسان ہے ۔ "

فردان پریشانی سے کبیر سے مخاطب ہوا ۔ ظاہر سی بات تھی پورے گاؤں میں سب کو پتہ تھا کہ سردار کی بہن کا نکاح ہے آج ضرغام خانزادہ سے ۔

جب داجان سپاٹ چہرہ لیئے کبیر کو جانچتی نظروں سے دیکھ رہے تھے جو سرد تاثرات لیئے بیٹھا تھا جیسے کچھ ضبط کررہا ہو ۔ 

"کیا بات ہے بیٹا ہمیں اصل وجہ بتائے ۔ "

داجان کبیر سے مخاطب ہوئے تو اسنے ضبط سے مٹھیاں بھینچی ۔ وہ اپنی بیوی کی عزت کو اچھال نہیں سکتا تھا اب وہ اسکی عزت تھی وہ اپنی عزت کو کسی غیر مرد کے ساتھ نہیں جوڑ سکتا تھا ۔ اور ایک طرف اسکی بہن تھی جو معصوم تھی اور وہ جانتا تھا ضرغام خانزادہ کبیر سے بدلہ کیلیئے اسکی بہن کو جینے نہیں دےگا ۔ اسے بس کسی بھی حال میں آج یہ نکاح نہیں ہونے دینا تھا ۔ 

"داجان ابھی اسراء چھوٹی ہے اور مجھے نہیں لگتا ضرغام اسکے لیئے صحیح میچ ہے ۔ "

کبیر سے کوئی بات نہیں بن رہی تھی کوئی ٹھوس وجہ اسکے پاس نہیں تھی ۔ 

"کیسی بات کررہے ہیں آپ بیٹا میں نے آپ اور فردان دونوں سے اس بات کی حامی لی تھی اور تب آپ نے ایسا کچھ نہیں کہا تھا پھر اب ایسا کیا ہوا جو آپ اچانک عین نکاح کے وقت منع کررہے ہیں؟؟"" 

برہان خانزادہ الجھتے ہوئے بولے تھے ۔ 

"لالا  ضرغام اچھا انسان ہے ۔ اگر آپکو اس سے کوئی بھی خدشات ہیں تو بے فکر ہوجائے وہ کبھی کوئی نا انصافی نہیں کرےگا ۔" 

فردان کبیر کو سمجھاتے ہوئے بولا تھا ۔

"جب میں کہہ رہا ہوں آپ سب سے کے میں نہیں چاہتا اسراء کی شادی اس انسان سے ہو تو آپ لوگ سمجھ کیوں نہیں رہے ۔ "

وہ غصّہ میں بولا تو داجان اسے دیکھتے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ 

"اگر آپکے پاس کوئی ٹھوس وجہ ہے تو بات کریں ورنا ہم بلاوجہ رشتے خراب نہیں کرسکتے ۔ "

"بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں داجی میں اپنی بیٹی کیلیئے وہاں رضا مند ہوں تو مجھے نہیں لگتا کسی کو کوئی اعتراض ہونا چاہئیے ۔ "

برہان خانزادہ بھی اٹھتے اپنا فیصلہ سنا گئے تھے ۔ جب کبیر نے غصہ میں مٹھیاں بھینچی ۔ 

"کیا میرے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہاں ؟" 

کبیر تیز آواز میں بولا تو داجان نے نفی کی ۔ 

"ایسی بات نہیں ہے بیٹا لیکن یہ کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے ۔ اگر یہی  بات تھی تو آپ تب کہتے جب برہان نے آپ سے پوچھا تھا ۔ سو فیصد تب آپ ہی کی بات مانی جاتی لیکن ابھی عین وقت پر منع کرنے سے کتنی بدنامی ہوگی ہماری بیٹی کے اس گھر سے رشتے خراب ہونگے اور پھر اسراء پر بھی داغ لگے گا وہ بچپن سے ضرغام سے منسوب ہے ۔ ضرغام کبھی اس بات سے پیچھے نہیں ہٹے گا ۔ ""

داجان نے اسے تسلی سے سمجھایا تو اس رات کا منظر پھر کبیر کی آنکھوں کے سامنے آیا جب وہ نرمین کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے اس سے اظہارِ محبت کررہا تھا اسکا غصّہ ساتوے آسمان پر پہنچا تھا وہ کھڑا ہوا اور اپنے باپ کی طرف رخ کرتے ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولا تھا ۔

"اگر میری بہن کو اسنے اتنی سی بھی تکلیف پہنچائی تو اسکا قتل مجھ پر فرض ہو گا ۔ میں جان سے ماردونگا اسے ۔ 

اور میں یہ صرف کہہ نہیں رہا اگر ایسا ہوا تو میں اسکی لاش آپ سب کے قدموں میں لا پھینکوں گا ۔ یاد رکھے گا میری بات۔"

وہ کہتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔ 

جب پیچھے سب اسکا جنون دیکھتے گھبراگئے تھے ۔ 

--------❤️حیا خان❤️--------

وہ غصّہ میں سیدھا وہاں سے اپنے کمرے میں آیا تھا۔

نرمین وارڈروب میں کپڑے سیٹ کررہی تھی جب اسنے دھاڑ سے دروازہ بند کرتے اسکا بازو دبوچا تھا ۔ 

وہ اچانک ہونے والی آفت سے گھبراتی اسکی شرٹ مٹھیوں میں بھینچ گئی تھی ۔ 

"یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہورہا ہے۔ یاد رکھنا اگر اسنے تمہاری وجہ سے میری بہن کو کھروچ بھی دی تو تمہادی سانسیں کھینچ لوں گا میں۔" 

وہ غصہ میں اسکے منہ پر دھاڑتا اپنی گرفت اسکے بازو پر مضبوط کر گیا تھا ۔ 

نرمین آنکھیں پھاڑے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جو پل پل میں اپنے روپ بدل رہا تھا ۔ اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پھیلی تھی کبیر کا یہ روپ دیکھ کر ۔ 

"کیا۔کیا ہوا ہے آپ ایسے کیوں کررہے ہیں اور ہم۔ہمارا ہاتھ چھوڑیں بہت تکلیف ہورہی ہے ہمیں ۔ 

وہ جھلملاتی آنکھوں سے بولی تھی اور اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبایا تھا جب کبیر کی نظر اسکی حرکت پر گئی اور وہ ساکت سا دیکھنے لگا ۔ 

جو اب درد کی تکلیف سے آنکھیں میچ گئی تھی جب اسکی تکلیف کا سوچتے کبیر نے گرفت ہلکی کرتے اسے چھوڑا۔ 

اسکا غصہ ایسے بیٹھا تھا جیسے تھا ہی نہیں ۔ وہ یک ٹک نرمین کو دیکھ رہا تھا جس سے اپنے بازو کی تکلیف برداشت نہیں ہورہی تھی اور آنسوں موتیوں کی صورت گررہے تھے۔ 

کبیر نے اسے تکلیف میں دیکھتے جبڑے بھینچے تھے ۔ اور اسے اپنے حصار میں لیتا بستر تک آیا تھا ۔ نرمین کو بٹھاتے وہ پانی کا گلاس بھرتے اسکے سامنے کرگیا تھا ۔

"پانی پیؤ ۔ 

"ن۔نہیں ہمیں ن۔نہیں پینا ۔

وہ غصہ میں روتی ہوئی بولی تھی جب کبیر کے چہرے پر ہلکی سی مسکان آئی تھی ۔  

"دکھاؤ مجھے ۔ زیادہ تکلیف ہورہی ہے ؟ 

وہ نرمین کے پاس بیٹھتا اسکا بازو تھامنے لگا جب وہ بچوں کی طرح روتے ناراضگی دکھاتی اپنا بازو پیچھے کر گئی تھی ۔ اصل میں وہ اس کے غصہ سے بے تحاشہ ڈر گئی تھی اسکا ننھا سا دل تھرتھرا گیا تھا ۔ اس سے کہا کبھی کسی نے اتنی سختی سے بات کی تھی کجا کے اس کے منہ پر دھاڑنا ۔ 

"اب تم مجھے پھر سے غصہ دلا رہی ہو۔ 

کبیر نے ماتھے پر بل ڈالا اور مصنوعی غصّہ سے بولا تو وہ گھبراتی نظریں جھکاتی اپنا بازو اسکے آگے کر گئی تھی ۔ 

اسکا بازو تھامتے کبیر نے آستین اوپر کر کے دیکھا جہاں اسکی انگلیوں کے لال نیلے نشان پڑھ گئے تھے۔ وہ واقعی اس نازک گڑیا پر سختی کر گیا تھا۔ کبیر کو اسکی سفید چمڑی پر یہ نشان سخت ناگوار گزرے تھے ۔ اسے بے حد افسوس ہوا لیکن اپنے کیئے کی معافی تو وہ مانگتا ہی نہیں تھا ۔ 

اتھتے دراز سے ٹیوب نکالتے اسکے بازو پر لگانے لگا اور اسے دیکھا جو لال چہرہ آنکھیں میچیں بیٹھی بے تحاشہ پیاری لگ رہی تھی ۔ 

نرمین اپنے بازو پر اسکا لمس محسوس کرتی کپکپارہی تھی ۔

"تمہارا آج کا ڈریس ابھی تھوڑی دیر میں آجائے گا وہی پہننا۔ "

جب نرمین نے سر جھکاتے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ 

وہ پیچھے ہوتا کچھ لمحے اسے دیکھتا رہا پھر واپس پلٹ گیا ۔ اسکی نظر میں نرمین غلط تھی لیکن پھر بھی اسکا دل اسے بار بار انکار کررہا تھا وہ سختی کرتا تھا لیکن پھر اسکا دل اسکے ایک آنسو پر پگھلا جارہا تھا اسکے آنکھیں ہر وقت اسکے دماغ میں نقش رہتی تھی اسکی آواز اسے کوئی سُریلا گیت لگنے لگی تھی جو وہ ہر وقت سن نا چاہتا تھا  اسے سمجھ نہیں آرہا تھا یہ کیا ہو رہا تھا اسکے ساتھ ۔ 

کبیر خانزادہ عشق کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ گیا تھا لیکن اس بات سے انجان بنا وہ مغرور انسان اپنی انا کو سر پر چڑھائے بیٹھا تھا ۔ لیکن نرمین کی محبت اور اللّٰہ پر پختہ یقین نے اسے اسکی دعاؤوں سے اسکے سامنے اسکا نصیب بنا کر کھڑا کردیا تھا۔ اور جو رب نرمین کے دل میں اسکی محبت ڈال سکتا ہے اسکی قسمت بنا کر اسکے محرم کا درجہ دلواسکتا ہے وہ کبیر کے دل میں بھی اسکے عشق کی کونپل  کھلا سکتا ہے۔ 

دیکھنا یہ تھا کہ وہ وقت پر اپنے عشق کی قدر کرلے گا یا اس موقع کو اپنے ہاتھوں سے گنوا دے گا ۔ 

--------❤️ حیا خان ❤️------

پوری حویلی میں سجاوٹیں چل رہی تھی اج اسراء کے نکاح اور کبیر  فردان کے ولیمہ کا فنکشن تھا۔ تینوں دلہنوں کو گھر میں ہی پارلر والی تیار کرنے آئی تھی ۔ 

اسراء گولڈن رنگ کی بھاری کام دار فراک پہنے اسکے نیچے شرارہ پہنے ماتھے پر بھاری بندی ٹکائے سائیڈ میں جھومر ڈالے ہاتھوں میں بھر بھر کر چوڑیاں پہنے مہندی سے رنگے ہاتھ ہلکے میک اپ اور لال لپسٹک لگائے وہ حسینا جان لیوا حد تک پیاری لگ رہی تھی۔  

لیکن ذہن کے پردوں پر کل کا منظر چھایا تھا ضرغام کا اتنا محبت بھرا لہجہ اسکی خواہشیں جو وہ حق سے اسراء سے کررہا تھا اسراء کو ہضم نہیں ہو رہا تھا پہلی بار کوئی مرد اسکے اتنا قریب آیا تھا مرد بھی وہ جو اس سے منسوب ہے اور کچھ گھنٹوں میں اسکے نکاح میں ہوگی یہ سوچتے اسراء کے ہتھیلیاں نم ہوئی تھی وہ معصوم کہاں آج کل کے ماحول، کبیر اور ضرغام کی سرد جنگ اور نرمین کے لیئے ضرغام کی محبت کو جانتی تھی وہ معصوم تو دل میں خواہشیں بننے لگی تھی ضرغام خانزادہ کیلیئے۔ 

جب شاہانہ بیگم آنکھوں میں آنسو لاتی اسکی نظر اتارنے لگی اور پھر اسے سینے سے لگایا ۔ اسراء کی آنکھیں بھی نم ہوئی تھی آج اسکے نام کے آگے ضرغام کا نام لگ جائے گا اسکے باپ کا نام مٹادیا جائے گا یہ سوچتے ہر لڑکی کی طرح اسکے ہاتھ بھی کپکپائے تھے ۔ شاہانہ بیگم نے اسے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا تھا ۔ 

--------❤️حیا خان❤️-------

راحمہ پنک کلر کے بھاری کامدار سوٹ پہنے سر پر دوپٹہ سجائے نازک سی جیولری اور لائٹ میک اپ میں نظر لگ جانے کی حد تک پیاری لگ رہی تھی اور شیشہ میں خود کو نہار رہی تھی ۔ جب فردان رائل بلو کلر کا تھری پیس پہنے اسکے پیچھے آ کھڑا ہوا تھا ۔ اور راحمہ کو یک ٹک دیکھ رہا تھا جیسے اس سے پہلے اسنے ایسا خوبصورت منظر نا دیکھا ہو ۔ 

"بہت حسین لگ رہی ہیں"

فردان اسے اپنے حصار میں لیتا آنکھوں میں خمار لیئے محبت سے بولا ۔ 

راحمہ کی پلکیں لرزنے لگی۔ 

"جنگلی بلی"

فردان اسکا شرمایا ہوا روپ دیکھتے اسکے کان کی لو پر بوسہ دیتا پیچھے ہوا ۔۔ 

جب راحمہ کے ماتھے پر بل آئے ۔ 

"آپ ۔ آپ ہمیں اس نام سے نہیں پکار سکتے ۔""

وہ چڑ کر بولی تو فردان نے لب دانتوں میں دباتے مسکراہٹ کو روکا ۔ 

"ہم تو آپکو اسی نام سے پکارے گے جو آپکا ہے۔ "

"ہمارا نام راحمہ رحمان خانزدہ ہے آپ ہمیں اسی نام سے پکارینگے۔ 

راحمہ بے دھیانی میں غصہ ناک پر سجائے بولی تھی جب فردان کی مسکراہٹ سمٹی ۔ اور اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھے اسکے قریب آتے سپاٹ انداز میں بولا ۔ 

"ششش ۔۔۔ 

راحمہ فردان خانزادہ ہیں آپ ۔ آئیندہ مت بھولےگا۔"

جب راحمہ نے اسکا سپاٹ لہجہ دیکھتے اسکے لبوں پر رکھے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔ 

'ہم نے بے دھیانی میں بول دیا ۔ ہمیں معاف کردیں ۔ "

"کوئی بات نہیں جنگلی بلی۔"

فردان واپس اپنی ٹون میں آتا اسے چھیڑ گیا تھا ۔ راحمہ کی شکل دیکھتے اسے ہنسی آئی جو رونی صورت بنا گئی تھی ۔ 

لیکن ہاتھ چھڑانے کی غلطی نا کری کیونکہ وہ جانتی تھی یہ نخرے باز پاگل پٹھان پھر برا مان جائے گا ۔ 

فردان نے عقیدت سے اسکا ماتھا چوما تھا ۔

"آپ وہ واحد شخص ہیں جن کے سامنے ہمارا دل جھک جاتا ہے ، خاموش ہوجاتا ہے ، موم ہوجاتا ہے ، کیونکہ ہمیں آپ سے بے پناہ محبت ہے راحمہ فردان خانزادہ ۔ "

فردان شدت جزبات سے بولا تو راحمہ نے پلکیں بچھاتے چہرے پر خوبصورت سی مسکان سجائی تھی اپنے نام کے ساتھ فردان کے نام کا حوالہ اسے بے پناہ خوبصورت لگا تھا ۔

"آپ نے بتایا نہیں ہم کیسے لگ رہے ہیں "۔ 

فردان نے چہرے پر ہلکی سی مسکان سجاتے پوچھا تھا ۔ 

"بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں ہمارے شوہر ۔ آخر راحمہ فردان خانزادہ کے شوہر ہیں "۔ 

راحمہ نے گردن اکڑاتے اتراتے ہوئے جواب دیا تھا ۔ 

جس پر فردان کا خوبصورت قہقہہ گونجا تھا جسے راحمہ نے محبت سے دیکھا تھا ۔ 

"چلیں ابھی ہم نیچے جاتے ہیں رات کو یہی سے شروع کرینگے ۔ "

فردان اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیتے چوما تھا اور خود باہر کی طرف قدم بڑھا گیا تھا ۔ 

------❤️حیا خان❤️--------

نازو بیگم نے نرمین کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا اندر جاکر دیکھا جہاں نرمین کا میک اپ ہو چکا تھا لیکن ڈریس اسنے ابھی تک چینج نہیں کیا تھا ۔ 

نازو بیگم نے اسے دیکھا جو چہرے پر پریشانی سجائے بیٹھی تھی ۔

"کیا ہوا نرمین بیٹا آپ نے کپڑے چینج کیوں نہیں کیئے۔"

"مورے ہم یہ ڈریس کیسے پہنے آپ دیکھے یہ اتنا ہیوی اور ٹیل ہے ہم کیسے سمبھالیں گے ۔ "

وہ روہانسی ہوتے بولی تھی نازو بیگم کو بے تحاشہ پیار آیا تھا ۔ انہوں نے بستر پر پڑا ڈریس دیکھا تھا جو پورا بستر گھیرے ہوئے تھا۔ سفید موتیوں سے سجا وہ خوبصورت ڈریس پیچھے سے ٹیل  بے حد حسین تھا جو سامنے والے کی آنکھوں کو چکا چوند کردے  ۔ 

"بیٹا یہ آپکے شوہر نے آپکے لیئے بہت پیار سے لیا ہے اور تھوڑی سی دیر کی بات ہے جلدی سے پہن لیں باہر سب مہمان آچکے ہیں ۔ "

نازو بیگم نے اسے مناتے ڈریس پہنایا تھا جیسے تیسے جب وہ چینج کرتے ڈریسنگ روم سے باہر نکلی تھی جہاں نازو بیگم نے اسے مبہوت ہوتے دیکھا ۔ وہ خود ہی اتنی پیاری تھی اسے سجاوٹ کی تو ضرورت نا تھی۔ لیکن ہلکے سے پنک میک اپ اور لائٹ سی جیولری پہنے وہ بے حد پیاری لگی رہی تھی۔ نازو بیگم نے دعائیں پڑھتے اس پر دم کیا تھا اور اسکی نظر اتاری تھی ۔ اور ہاف وائٹ گھونگھٹ اسکے چہرے پر ڈالا تھا ۔ 

"چلین اب ہم نیچے جاتے ہیں آپ یہی بیٹھے تھوڑی دیر میں کبیر کے ساتھ نیچے آئیگا "۔ 

جس پر وہ سر ہلاتی اپنا ڈریس کو سمبھال کر بستر پر بیٹھی تھی۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

اسراء ور ضرغام کا نکاح پہلے تھا جہاں ایک طرف اسراء اور دوسری طرف ضرغام کو بٹھایا گیا تھا ۔

گولڈن شیروانی گولڈن ہی کلہ پہنے وہ بے تحاشہ ہینڈسم لگ رہا تھا کہ کچھ لڑکیوں نے رشک اور کچھ نے حسد کیا تھا  اسراء کی قسمت پر ۔

جہاں کبیر خانزادہ پوری وجاہت لیئے بلیک تھری پیس پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیئےشہزادہ لگ رہا تھا اور اسراء کے برابر سرد تاثرات لیئے کھڑا تھا اور دوسری طرف فردان خانزادہ سے اسراء کو اپنے حصار میں لیئے بیٹھا تھا  ۔ 

مولوی نے نکاح شروع کیا تھا۔

اسراء خانزادہ ولد برہان خانزادہ آپکا نکاح ضرغام خانزادہ ولد اسماعیل خانزادہ سے ایک کروڑ سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے کیا آپکو قبول ہے ؟ 

اسراء نے بے اختیار کبیر کے ہاتھوں کو اپنی سخت گرفت میں لیا تھا ۔ جب فردان نے اسکی کیفیت سمجھتے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا ۔

"ق۔قبول ہے۔"

اسراء نے قبول کرتے اپنے سارے حقوق ضرغام کو سونپے تھے ۔ 

جس پر کبیر نے اپنی بہن کا ماتھا چوما تھا اور وہ کبیر اور فردان کے گلے لگتے بے تحاشہ روئی تھی ۔

"ضرغام خانزادہ ولد اسماعیل خانزادہ آپکا نکاح اسراء خانزادہ ولد برہان خانزادہ سے ایک لاکھ روپے سکہ رائج الوقت قرار پایا ہے آپکو قبول ہے؟ 

ضرغام کے دماغ پر نرمین کا عکس سوار تھا اسنے مٹھیاں بھینچتے سامنے پھولوں کے اس پار اسراء پر نظر ڈالی تھی  جو کبیر کے سینے سے لگی بیٹھی تھی ۔ 

"قبول ہے ۔ 

ضرغام کی قبولیت کے بعد ہر طرف خوشیوں کا سماں بکھرا تھا ۔

سب بڑوں نے مل کر انکے سر پر ہاتھ رکھتے انہیں دعائیں دی تھی جب ضرغام خانزادہ اٹھ کر اسراء کے پاس آیا تھا اور اسکا گھونگھٹ اٹھایا.  اس خوبصورت پٹھانی گڑیا کا چہرہ دیکھتے وہ سانس روک گیا تھا ایک لمحہ صرف ایک لمحہ لگا تھا اور وہ واپس اپنے خول میں سمٹ گیا تھا ۔ 

"مبارک ہو ۔ "

اسکا گھونگھٹ اٹھاتے ضرغام نے بس اتنا ہی کہا تھا جب اسراء نے گھنی پلکوں کا جھالر اٹھاتے ضرغام کو دیکھا تھا وہ وجاہت سے بھرپور مرد اسے آج سے پہلے کبھی اتنا حسین نہیں لگا تھا ۔  

"اپکو بھی ۔"

وہ ہلکا سا مسکراتی پلکیں جھکا گئی تھی ۔

ضرغام اسکے برابر میں آ بیٹھا تھا ۔

سب نے بے ساختہ انکی نظر اتاری تھی ۔ 

شاہانہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کو اوپر اپنی بہوؤں کو لینے بھیجا تھا جو کب سے ان دونوں کا انتظار کررہی تھی ۔ 

اسنے دروازہ کھولتے سامنے دیکھا تھا جہاں وہ اپنا بھاری جوڑا پہنے بستر سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کئیے بیٹھی تھی۔ 

یہ ڈریس جو اسنے ایک آنکھ میں پسند کیا تھا نرمین کے لیئے جس پر موتی اور نگینوں کا کام اٹھ رہا تھا اور اس ڈریس کو بے تحاشہ حسین دکھا رہا تھا وہ جانتا تھا یہ ڈریس بہت ہیوی ہے لیکن پھر بھی وہ چاہتا تھا کہ کبیر خانزادہ کی بیوی یہی ڈریس پہنے چاہے اس نازک جان کیلیئے کتنا ہی مشکل کیوں نا ہو۔ 

وہ سامنے بیٹھے وجود کو یک ٹک دیکھ رہا تھا سفید رنگ میں وہ کوئی پری ہی تو لگ رہی تھی ہلکے سے میک اپ اور نازک سی جیولری نے اسکے حسن میں چار چاند لگا دیئے تھے۔ کبیر کی نظروں کا مرکز اسکی تھوڑی پر چمکتا وہ تل بنا تھا اور جن آنکھوں کا وہ دیوانا تھا وہ تو گھنی پلکوں کے نیچے چھپی ہوئی تھی ۔ وہ دروازے پر کھڑا ساکت سا اسے دیکھ رہا تھا ۔ 

جب ہوش میں آتے وہ قدم قدم چلتا اسکے پاس آیا نرمین اسکے کلون کی خوشبو اپنے آس پاس محسوس کرتی آنکھیں کھول گئی تھی ۔ 

 وہ جلدی سے اپنا بھاری جوڑا ٹھیک کرتی کھڑی ہونے لگی تھی جب اسکا پیر اپنی گھیرےدار ٹیل میں اٹکا تھا وہ واپس بستر پر گرتی اور اپنی حالت بگاڑتی اس سے پہلے ہی کبیر نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا ۔ 

نرمین نے دھک دھک کرتے دل کے ساتھ آنکھیں بند کرتے خود کو کبیر کے گھیرے میں محسوس کیا تھا ۔ 

"تم ٹھیک ہو ؟ پیر میں موچ تو نہیں آئی ؟ بیٹھو۔۔  دکھاؤ مجھے کہی لگی تو نہیں ۔ "

اسنے سرعت سے نرمین کو آرام سے بستر پر بٹھایا اور نیچے زمین پر بیٹھتے اسکے سینڈل میں قید پیروں سے سینڈل اتارتے اسکے چاندی سے سفید پاؤں کو اپنے گھٹنے پر رکھا تھا۔ سفید پاؤں میں چمکتی پازیب کبیر کا دل دھڑکا گئی تھی ۔ 

ہڑبڑاہٹ میں نرمین کو سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیا کہے ۔ وہ تو حیرانی سے کبیر کا چہرہ دیکھ رہی تھی جس کے چہرے پر اضطراب اور فکر صاف نظر آرہی تھی نرمین کے دل خوشیوں سے نہا گیا تھا اپنے محبوب کے چہرے پر خود کے لیئے اتنی فکر دیکھ ۔ لیکن جب کبیر نے اسکے پیروں کو اپنے ہاتھوں میں لیا تو وہ اپنا پیر کھینچتی دبک کر پیچھے ہوئی ۔ 

"یہ یہ کیا کر رہے ہیں آپ ۔ آپ ہمارے پیر کو کیوں ہاتھ لگارہے ہیں۔"

نرمین حیرت سے اس مغرور انسان کو دیکھنے لگی جو اسکا پاؤں پکڑے زمین پر اسکے سامنے بیٹھا تھا ۔ 

کبیر کے چہرے پر ناگواریت پھیلی تھی اسکی حرکت پر ۔ اسنے اسکا پاؤں زبردستی واپس کھینچتے اپنے ہاتھ میں لیا تھا اور اس بار گرفت مضبوط تھی۔  

"اگر اب مجھے جھٹکا تو یہ پیر میں خود اپنے ہاتھ سے توڑدونگا ۔"

نرمین اسکا غصّہ دیکھتی گھبرائی تھی ۔ 

"لیکن ہماری۔ ب۔بات تو سنیں".

جب کبیر نے پھر اسے گھورا تھا ۔ اور وہ منہ بند کرتی خاموش ہوئی۔ 

وہ دونوں پیر دائیں بائیں موڑتے معائنہ کرنے لگا اور پھر نرمین کا چہرہ دیکھا ۔ 

"یہ تو بلکل ٹھیک ہیں ۔ کوئی موچ نہیں آئی. "

"ہاں تو کس نے کہا موچ آئی ہے ۔ ہم ٹھیک ہیں بلکل".

نرمین نے منمناتے ہوئے کہا تھا ۔ 

جب کبیر نے اسے پھر گھورا تھا ۔ 

"تو پہلے کیوں نہیں بتایا ۔ ٹائم ویسٹ کررہی ہو اتنی دیر سے میرا۔"

"ہم نے تو کچھ کہا ہی نہیں آپ سے۔ 

آپ خود کب سے پیر پکڑ کر بیٹھے ہیں اور ہمیں خاموش کروائے جارہے ہیں ۔"

نرمین جھنجھلاتی ہوئی بولی تو کبیر نے اپنے ہاتھ میں مقید نرمین کے پیر کو اور پھر خود کو زمین پر بیٹھا دیکھ وہ جھٹکے سے کھڑا ہوا تھا ۔ 

"چلو نیچے سب ہمارا انتظار کررہے ہیں ۔ "

وہ سابقہ لمحوں کا اثر زائل کرنے کے لیئے بولا تھا ۔ اور اسکے چہرے پر گھونگھٹ ڈالتے نرمین کے آگے ہاتھ پھیلایا تھا ۔ یہ احتیاط تھی اپنی بیوی کیلیئے کہ وہ پھر سے اس ڈریس میں الجھ کر گر نا جائے جو اسنے اپنے شوہر کی خوشی کے لیئے زیب کر لیا تھا یہ جانتے ہوئے کہ وہ کس قدر بھاری ہے ۔ کبیر کے دل کو خوشی ہوئی تھی ۔ 

نرمین نے اسکا ہاتھ تھاما تھا جب وہ دو قدم چلتے پھر لڑکھڑائی تھی ۔ اور اس بار کبیر نے دایاں ہاتھ اسکی کمر کے گرد ڈالتے بائیں ہاتھ سے اسکا ہاتھ تھاما تھا ۔ نرمین کے چہرے پر خوبصورت سی مسکان آئی تھی جو کبیر نا دیکھ سکا تھا ۔ 

----------❤️ حیا خان ❤️-------

فردان راحمہ کا ہاتھ تھامے نیچے لے کر آیا تھا جب سب نے پیار بھری ظروں سے اس جوڑی کو دیکھا تھا ۔ 

"سنیں ہم پیارے تو لگ رہے ہیں نا۔ ؟ "

راحمہ سپاٹ لائٹ کی روشنی میں سب کی نظروں سے کنفیوز ہوتی دھیمی آواز میں فردان سے بولی تھی ۔ 

"ابھی کمرے میں ہم نے آپکی اتنی تعریف کی تو تھی لگتا ہے رات والا انداز زیادہ پسند آیا ہے آپکو ہمارا تعریف کرنے کا ۔ "

فردان شرارت بھرے انداز میں بولتا اسکا چہرا دیکھنے لگا جو تپا ہوا لال ہورہا تھا شرم سے۔  فردان نے اپنی مسکراہٹ کو کنٹرول کیا تھا جب اسے اپنے ہاتھ پر جلن محسوس ہوئی تھی ۔ 

"یہ کیا کررہی ہیں جنگلی بلی فوراً باز آجائیں ورنہ ابھی تو سب ہیں ابھی آپ بچ جائینگی لیکن رات کو ہمارے پاس ہی آنا ہے  ۔"

فردان نے ہلکی آواز میں راحمہ کو دھمکی دی تھی جو اسکے ہاتھ پر ناخن گاڑھ چکی تھی اور اسکی دھمکی سنتے فوراً سیدھی ہوئی تھی ۔ 

"آپ ہمیشہ ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہیں پاگل پٹھ۔۔۔۔۔ 

جب فردان نے اسے گھورا تھا ۔ 

"سوری۔۔۔۔۔۔۔

راحمہ نے اپنی دانتوں تلے زبان دبائی تھی ۔ 

"یہ سوری اچھے سے قبول کرینگے ہم آپ سے فکر نا کریں ۔ "

فردان اسے پھر دھمکی دی تھی اور راحمہ معصوم چہرا بنا کر اسے دیکھنے لگی تھی کے شاید اسے معافی مل جائے لیکن فردان اگنور کرتا اسکا ہاتھ تھامے آگے بڑھا تھا جہاں سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے جو شاید مہمانوں کی نظر میں پیار بھری گفتگو کررہے تھے ۔ 

فردان نے لاکر راحمہ کو اسٹیج پر بٹھایا تھا جہاں تین اسٹیج بنے تھے ۔ 

اب سب کی نظر سامنے سپاٹ لائٹ سے آتی روشنی پر پڑی تھی جہاں سے کبیر خانزادہ نرمین کو اتنے پیار اور احتیاط سے پکڑے نیچے لیکر آرہا تھا ۔ سب نے نرمین کے ڈریس کو رشک بھری نظروں سے دیکھا تھا اور پھر اس پریوں سی لڑکی کے ساتھ اترتے اس شہزادے کو جس کے چہرے سے بے تحاشہ فکر چھلک رہی تھی اپنی بیوی کیلیئے۔ کچھ نظروں میں ستائش تھی تو کچھ نظریں حسد سے دیکھ رہی تھی اس منظر کو  کوئی یہ منظر دیکھ کر نہیں کہہ سکتا تھا کے بند کمرے میں یہی شخص اپنی بیوی کے ساتھ جلاد بنا ہوتا ہے۔ 

وہ احتیاط سے نرمین کو سڑھیوں سے اتارتا نیچے لایا تھا جہاں دو ملازماؤں نے اسکی ٹیل کو فرش پر پھیلایا تھا۔  

اور وہ مغروریت سے چلتے ہوئے اسکے ہاتھ میں اپنا تھامتے ہوئے اسٹیج تک آرہا تھا۔ اسکی شخصیت سے لوگ کتنے متاثر ہوتے ہیں اس بات کا علم اسے اچھی طرح تھا ۔ وہ ضرغام خانزادہ کی آنکھوں میں فخر سے دیکھ رہا تھا جیسے اسکو بتا رہا ہوں کے جو کبیر خانزادہ کا ہوتا ہے اس سے کوئی اسے نہیں چھین سکتا ۔ 

ضرغام کی آنکھیں حسد بھری نظروں سے یہ سب دیکھ رہی تھی نرمین کے ہاتھ میں تھاما ہوا ہاتھ اس کے دل میں آگ لگارہا تھا کبیر کا چہرے پر یہ غرور اسے خاک میں ملانا تھا۔ وہ نفرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔اور اپنے برابر بیٹھے وجود پر اسنے ایک کے بعد دوسری نظر تک نا ڈالی تھی جو غیر ارادی طور پر یہ خواہش کررہی تھی کے اسکا شوہر تعریف نا صحیح ایک بار پیار بھری نظروں سے ہی دیکھ لے ۔

کبیر نے نرمین کو اسٹیج پر لاتے اسے احتیاط سے بٹھایا تھا۔ نرمین بے حد خوش تھی کبیر کی اتنی فکر اور احتیاط خود کیلیئے دیکھتے۔ اسے لگا تھا جیسے اسکی ہر خواہش آج پوری ہو گئی ہو جب کبیر خانزادہ نے اسکی مسکان ایک سیکنڈ میں چھینی تھی ۔ 

"ویسے آج تمہیں تکلیف تو بہت ہو رہی ہوگی نا کہ جو تمہاری محبت کا دم بھرتا تھا آج وہ کسی اور کا ہوگیا ہے اور اب تم سے محبت کون کرے گا تمہاری خوبصورتی کا دم کون بھرے گا  ۔ "

کبیر نے اسکے برابر بیٹھتے طنزیہ لہجہ میں اسکے کانوں میں زہر انڈیلا تھا ۔ 

نرمین اپنی جگہ خاموش ہوتی مٹھیاں بھینچ گئی تھی ۔ یہ الفاظ اسکی جان نکال گئے تھے اسکی ساری خوشی راکھ ہوگئی تھی۔ آخر کب اسنے کسی غیر سے اپنی تعریفیں وصولی تھی ۔  اسے وہ منظر پھر سے یاد آیا تھا جہاں ضرغام اسکے قدموں میں بیٹھا اظہار کررہا تھا۔ اور اس رات وہ بے آبرو ہوئی تھی اپنے ہی شوہر کے سامنے ۔ کیا ساری زندگی وہ ایسے ہی یہ طعنہ اسے دیتا رہے گا کیا کبھی وہ اپنی محبت کے ساتھ خوش نہیں رہ پائیگی ۔ نرمین کی انکھ سے دو موتی ٹوٹ کر گرے تھے ۔

جب کبیر سائیڈ سمائل چہرے پر سجائے اسکی گود میں دھرا ہاتھ پکڑتے اپنے ہاتھ میں قید کر گیا تھا وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ضرغام کی نظریں یہی ہیں ۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ ضرغام اس بات کو ایکسپٹ کرلے جو اسے نہیں ملا وہ اسکا تھا ہی نہیں اور اب آگے جو اسکا ہو گیا ہے اسکے ساتھ بڑھے ۔ 

جب نرمین نے اپنا ہاتھ کھیچنا چاہا جسے کبیر نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا جیسے طوفان بھی آجائے تو نہیں چھوڑے گا ۔ 

"کیا ہوا میرا چھونا بہت ناگوار گزر رہا ہے تمہیں۔ ؟؟" 

کبیر اسکے ہاتھ پر سخت گرفت کرتے ہوئے بولا تھا جس کی گرفت سے نرمین کو لگا جیسے اسکے خون کی گردش ہاتھ میں رک گئی ہو ۔ 

"نہ۔نہیں ہمیں درد۔۔۔ "

"خاموشی سے بیٹھو۔۔"

نرمین نے بولنا چاہا تھا لیکن کبیر ںے اسے خاموش کرواتے مسکرا کر سامنے دیکھا تھا ۔۔ درد سے نرمین کے آنسو نہیں تھم رہے تھے اور جب اسکی برداشت سے باہر ہوئی تو وہ بول اٹھی ۔ 

"چھوڑیں پلیز ہمیں درد ہورہا ہے بہت ۔ "

وہ التجا کرتے لہجہ میں بولی جب کبیر اسکی نم آواز سنتا اسکے ہاتھ پر دھیان دے گیا تھا جو گلابی سے پیلا زرد ہورہا تھا۔ اسنے فوراً نرمین کا ہاتھ چھوڑا تھا۔ وہ بے دھیانی میں اتنی دیر سے اسکے ہاتھ پر گرفت سخت کیا ہوا تھا ۔

کبیر کے ماتھے پر بل پڑھے تھے اسنے نرمین کا ہاتھ تھاما اور اسے سہلانے لگا ۔ 

"درد تو نہیں ہو رہا ؟؟" وہ ہاتھ سہلاتے سہلاتے فکر مندی سے پوچھنے لگا اور نرمین اسے حیرانی سے دیکھنے لگی جو ایک ایک منٹ میں روپ بدلتا تھا ۔ کیا تھا وہ شخص ۔ خود ہی اسے تکلیف دے رہا تھا اور خود ہی اس تکلیف پر تڑپ بھی رہا تھا ۔  نرمین خاموش رہی اور اپنے منہ سے ایک الفاظ نا بولی ۔ 

کبیر اسکی تکلیف سمجھتا اپنے ہاتھ میں نرمی سے اسکا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا اور ہر تھوڑی دیر بعد پیار سے سہلا رہا تھا جیسے تڑپ رہا ہو اسے درد دے کر ۔ لیکن نرمین کا دل جو تھوڑی دیر پہلے خوشی سے جھوم رہا تھا اب اسکے لمس پر بھی خاموش تھا ۔ 

اسکے کانوں میں کبیر کے تھوڑی دیر پہلے کہے گئے جملے بازگشت کررہے تھے جو نرمین کی شادی کے بعد آئی پہلی مسکراہٹ کو بھی چھین گئی تھے ۔

-----❤️حیا خان ❤️-------

سب خوشیاں مناتے تینوں جوڑیوں کو محبت سے دیکھ رہے تھے جب ضرغام خانزادہ نے سب کے سروں پر بم پھوڑا تھا ۔ 

"داجان میں معافی چاہتا ہوں ۔ جانتا ہوں کہ یہ طریقہ غلط ہے ۔ لیکن میں ابھی ہی اسراء کی رخصتی چاہتا ہوں ۔ "

داجان اور برہان خانزادہ نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا۔ 

"بیٹا یہ کیسی باتیں کررہے ہیں آخری وقت پر کیسے ہم کرسکتے ہیں ۔ اسراء ابھی چھوٹی ہے اسلیئے اسکی رخصتی فلوقت نہیں ہو سکتی وہ بھی اسکے لیئے تیار نہیں ہوگی اور کبیر بھی نہیں چاہتا۔"

برہان خانزادہ نے اسے تمام مسائل سے آگاہ کرنا مناسب سمجھا تھا۔

"ماموں جان میں جانتا ہوں یہ سب لیکن آپ فکر نا کریں میں اپکی بیٹی کو ہمیشہ گرم ٹھنڈی آنچ سے بچا کر رکھونگا اسے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی آپ اسراء کی فکر نا کریں وہ اب میری ذمہ داری ہے میں با خوبی نبھاؤ گا ۔ 

اور رہی کبیر کی بات تو باپ آپ ہیں اپنی بیٹی کا فیصلہ اپکو اور اپکے بعد مجھے کرنے کا حق ہے۔"

ضرغام خانزادہ اچھی طرح جانتا تھا کے کس طرح باتوں کے جال میں پھسانا ہے ۔ 

برہان خانزادہ کو تو ہمیشہ سے ہی ضرغام داماد کے روپ میں پیارا تھا وہ اس پر خود سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے ۔ 

"ٹھیک ہے بیٹا میں ایک دفعہ کبیر اور فردان سے بھی پوچھ لوں یہ بہتر رہے گا ۔"

"جیسا آپکو مناسب لگے ماموں جان لیکن مجھے مایوس مت کرے گا ۔ اپکے داماد نے آج آپ سے پہلی خواہش کی ہے ۔ اس پر بھروسہ رکھے گا۔"

ضرغام برہان خانزادہ کا ہاتھ تھامے ان سے منت کررہا تھا جب وہ مسکراتے اسے گلے لگا گئے تھے ۔ دا جان نے بھی اسے مسکرا کر دیکھا تھا لیکن کبیر کے ردّعمل کا سوچتے انہیں پریشانی لاحق ہوئی تھی ۔ 

---------❤️ حیا خان ❤️-------

برہان خانزادہ نے بہت مشکل سے کبیر کے غصہ کو سمبھالا تھا ۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ ضرغام کو جان سے مار دے یہ حرکت اسے سمجھ نہیں آئی تھی اور جو دماغ کہہ رہا تھا وہ کبیر سمجھنا نہیں چاہ رہا تھا ۔

"یہ فیصلہ میں اسراء پر چھوڑتا ہوں۔ اگر اسے کوئی مسلئہ نہیں ہے تو مجھے بھی کوئی مسلئہ نہیں ہوگا ۔"

کبیر سپاٹ چہرا لیئے بولا تھا اور فردان کو کوئی اعتراض نہیں تھا وہ تو کبیر کے غصہ سے بھی پریشان تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے جو وہ ایسا ردعمل دے رہا ہے ۔ 

جب کے ضرغام داجان کے پاس دوسرے روم میں موجود تھا ۔ 

"دا جان میں اپنی بیوی سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہوں ۔ آپ فکر نا کریں اس پر کوئی دباؤ نہیں ہوگا بس اسے مطمئین کرنا چاہتا ہوں۔"

"ٹھیک ہے بیٹا میں بھیجتا ہوں ۔ "

ضرغام ہر جگہ لفظ بیوی کا استعمال جان بوجھ کر کررہا تھا۔ وہ جانتا تھا یہاں آکر سب مجبور ہونگے اور سب مجبور ہوگئے۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

اسراء اپنے روم میں کھڑی تھی جب سے اسے بتایا گیا تھا کے ضرغام خانزادہ اس سے اکیلے میں ملنا چاہتا ہے اسکے ماتھے پر پسینا نہیں ٹھر رہا تھا ۔ ہتھیلیاں نم ہو رہی تھی اسنے اسراء سے کیوں ملنا تھا سوچتے سوچتے وہ پریشانی میں ٹہل رہی تھی جب کلک کی آواز سے دروازہ کھلا تھا ۔  

اور اسراء اپنی جگہ سٹل ہوئی تھی۔ جب اسکے کانوں میں قدموں کی چاپ سنائی دی تھی ۔ 

"اسلام علیکم ۔"

اپنے کان کے قریب گھمبیر آواز سنتے اسنے اپنے شرارے کو مٹھیوں میں دبوچا تھا ۔ 

اسکا منہ سل گیا تھا آواز منہ سے نکلنے سے انکاری تھی اسنے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا تھا ۔ 

ضرغام نے اسکا کندھا تھامتے اپنی طرف کیا تھا ۔ جو پلکوں کا جھالر نیچے گرائے اسکے سامنے کھڑی تھی ۔

اسراء خانزادہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھی۔ گلابی رنگت میں گھلی سرخیاں ہلکے میک اپ اور لال رنگ میں ہونٹ رنگے۔ہری آنکھیں اور کھڑی ناک پر شان سے براجمان ہوا وہ تل گولڈن رنگ کے بھاری جوڑے میں وہ گڑیا ہی تو لگ رہی تھی۔ آخر تھی بھی تو کبیر خانزادہ کی بہن حسن تو بے تحاشہ تھا ان بہن بھائیوں میں ۔ یہ سوچتے ضرغام خا۔نزادہ طنزیہ مسکرایا تھا ۔ 

لیکن نرمین کی سوچ ذہن میں آتے ہی وہ سامنے کھڑے وجود کے حسن کو جھٹلا گیا تھا ۔

"کیسی ہو؟ "

اپنا لہجہ کو نرم رکھتے وہ اسراء سے پھر مخاطب ہوا تھا ۔ اسراء نے اپنی آنکھیں اٹھاتے ایک نظر اسے دیکھا تھا اور پھر پلکیں بچھا گئی تھی ۔ 

"ٹھیک ہوں ، آپ کیسے ہیں ۔ ؟ 

"میں بھی ٹھیک ہوں۔ "یہ کہتے ضرغام نے اسے گلے سے لگایا تھا ۔ جو اسکا لمس پاتے ہی کپکپائی تھی ۔ 

"نکاح مبارک"۔

اسکے کھلے بالوں میں چہرہ چھپاتے سرگوشی کرتے ضرغام نے اسکے رونگٹے کھڑے کردیئے تھے ۔ اسراء سانس روکے خاموش کھڑی تھی ۔ کوئی جواب نا پاتے ضرغام نے اسکا چہرہ دیکھا تھا جو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ جسے دیکھتے ضرغام  طنزیہ مسکرایا تھا ۔

"لگتا ہے تم خوش نہیں ہو اس نکاح سے ۔ کیا کوئی زبردستی۔۔۔"

"نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے ہم خوش ہیں۔" 

اسراء اپنی معصومیت میں ڈوبی یہ سمجھی تھی کہ ضرغام کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ ۔اسیلیئے اسے کلیئر کرنے لگی لیکن ضرغام کے چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ دیکھتے وہ خاموش ہوئی تھی ۔ 

وہ حیرانی سے ضرغام خانزادہ کو دیکھ رہی تھی جو اسکے ساتھ کھڑا مسکرا رہا تھا یہ منظر تو اسنے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ اسکا ساتھ ہو اور ضرغام کے چہرے پر غصہ نا ہو یہ تو نا ممکن تھا ۔ آج وہ اسکی خوبصورت مسکراہٹ میں کھوئی تھی جب ضرغام نے کمر سے پکڑتے اسے قریب کیا تھا ۔ 

"یہ تو اچھی بات ہے باربی ڈول کے تم خوش ہو ۔ امید ہے میرے ساتھ زندگی گزار کر تم کبھی نہیں پچھتاؤ گی۔"

وہ سنجیدہ تاثرات لیئے اس سے بولا تھا

اسکی باتوں میں کچھ تو تھا جو اسراء اپنی معصومیت میں سمجھنے سے قاصر تھی ۔ وہ تو اس لمس سے ہی پاگل ہوئے جارہی تھی جو کسی سانپ کی طرح اسکی کمر سے لپٹا تھا ۔ 

"میں چاہتا ہوں کے رخصتی آج ہی ہوجائے۔" 

اسکی بات پر اسراء نے جھٹکے سے سر اٹھایا تھا ۔ 

لیکن ابھی تو صرف نکاح تھا رخصتی کا تو ۔۔۔

"ہاں میں جانتا ہوں ۔ لیکن میں چاہتا ہوں کے میں اپنی بیوی کے ساتھ ایک ایک لمحہ انجوائے کروں نا کے یوں دور رہ کر آہیں بھروں۔ "

وہ اسراء کی بات بیچ میں کاٹتا سائیڈ سمائیل چہرے پر سجائے بولا تھا جب اسراء کی نظر پھر اسکی مسکراہٹ پر ٹہری ۔ وہ واقعی اچھی طرح جانتا تھا کے سامنے والے کو اپنی باتوں میں اور اپنے جال میں کیسے الجھانا ہے۔ 

"لیکن بابا اور لالا۔ وہ تو نہیں مانیں گے ۔"

"سب تم سے آخر میں تمہاری رضا مندی پوچھے گے جس پر تم ہامی بھروگی ۔ ٹھیک ہے؟ "

 وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے اتنے خوبصورت انداز میں بول رہا تھا کے وہ آنکھیں بند کرکے یقین کرلیتی اس پر ۔ 

"بولو کیا کہوگی ۔ ؟"

اسنے پھر سے پیار بھرے انداز میں اسراء کی انکھوں میں دیکھ پوچھا تھا۔۔ اور وہ اسکی بھوری آنکھوں کے سحر میں ڈوبی سر اثبات میں ہلاگئی تھی ۔

"قبول ہے۔ "

اسراء نے ہامی بھرتے سر جھکایا تھا ۔ 

جب ضرغام خانزادہ اپنی فتح پر دل کھول کر مسکرایا تھا۔ اور اسے پھر سے سینے میں بھینچا تھا۔ 

--------❤️ حیا خان ❤️-------

"اسراء کہاں ہے ۔ ؟ "

کبیر ماتھے پر بل ڈالتا باہر آیا تھا جہاں اسراء نہیں تھی ۔ جب وہ پلٹا اور اسراء شان سے ضرغام خانزادہ کے پیچھے اسکے ساتھ چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ کبیر نے اپنی مٹھیاں بھینچی تھی جب ضرغام اسے دیکھتے مسکرایا تھا ۔ 

"تم میری بہن کے ساتھ کیا کررہے تھے "۔ 

کبیر سب کی موجودگی میں اپنے غصہ پر قابو رکھتے دبی دبی آواز میں چیخا تھا ۔ 

"ارے سالے صاحب کیسی باتیں کررہے ہیں ۔ بیوی ہیں یہ میری ابھی اتنے گواہوں کے سامنے ہم نے ایک دوسرے کو قبول کیا ہے ۔"

ضرغام اسکی بات کا مذاق بناتے بات کو ہوا میں اڑا گیا تھا ۔ کبیر نے خود پر بے تحاشا ضبط کیا تھا جب کے اسراء پیچھے کھڑی اپنے بھائی کا رویہ دیکھ رہی تھی ۔ 

"میری گڑیا آپ کا فیصلہ ہم جاننا چاہتے ہیں کیا آپ راضی ہے آج ہی رخصتی پر ؟

کبیر ضرغام کو اگنور کرتا اسراء کے پاس آیا تھا اور اسکے سر پر ہاتھ رکھتے پوچھا تھا ؟ 

جس پر وہ خاموشی سے اثبات میں سر ہلاتی سر جھکا گئی تھی ۔ کبیر نے ایک نظر ضرغام کو دیکھا تھا جو اسی کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا ۔ جیسے جواب جانتا ہو۔ 

"گڑیا آپ کو کسی کے دباؤ میں آکر ہامی نہیں بھرنی ہے آپ اپنے دل سے بتائے؟

کبیر نے اس سے سیک مرتبہ پھر پوچھا تھا کے شاید اسراء انکار کردے ۔ "

"لالا جیسی بڑوں کی مرضی ہم اس میں خوش ہیں ۔ اگر آپ لوگ چاہتے ہیں کے رخصتی آج ہوجائے تو ہمیں کوئی مسلئہ نہیں ہے ۔ "

وہ اتنی ہلکی اواز میں بولی تھی کے کبیر کے برابر میں ضرغام کو کھڑے بھی مشکل سے آئی تھی ۔ 

جب وہ سرشار سا ہوتا فتح مندی سے مسکراتا کبیر کو دیکھنے لگا جو اسراء کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے شاید وہ اب انکار کردے گی ۔ لیکن پھر برہان خانزادہ قریب آتے اسراء کو سینے سے لگا گئے تھے ۔ 

"ہماری بیٹی بھی اگر راضی ہے تو پھر رخصتی ابھی ہی ہوگی ۔ "

جب کبیر بہت ضبط سے وہاں کھڑا تھا ۔ پھر ضرغام کو دیکھتے اسکے قریب ہوا تھا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

"اگر میری بہن کو تو نے ایک آنسو بھی رلایا تو تیری میت کو چار کندھے بھی نہیں نصیب ہونگے ۔ یاد رکھنا میری بات۔ "

ضرغام نے مسکرا کر اسکی حالت دیکھی جس کا بس نہیں چل رہا تھا وہ یہی ضرغام سے ہاتھا پائی شروع کردے۔ کبیر کی تو جان بسی تھی اسراء میں ۔ اس کا مطلب اسکا فیصلہ بلکل صحیح تھا ۔ وہ مسکراتا کبیر کے گلے لگا تھا ۔

"فکر نہیں کرو ۔ تمہاری بہن میری بیوی ہے اب سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھونگا اسے ۔ "

وہ طنزیہ مسکراتا سامنے اسراء خانزادہ کو دیکھنے لگا جو اپنے باپ کے گلے لگے رو رہی تھی آنسوؤں سے ۔

کبیر پیچھے ہوتے اپنی بہن کے قریب گیا تھا اور سسکے سینے میں بھینچا تھا۔ 

وہ ایک مضبوط مرد تھا لیکن اس وقت اسکا دل کرا تھا کے اپنی بہن کو وداع کرتے وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ 

وہ بے حد ضبط سے کام لیتے اسے ضرغام خانزادہ کے ساتھ رخصت کرگیا تاھا۔ 

رات کے سائے ڈھل گئے تھے اسراء کی رخصتی لیتے ضرغام اور اسکے فیملی روانہ ہوئی تھی۔  انکے محل نما گھر میں تین گاڑیاں آگے پیچھے آکر رکی تھی ۔ ایک میں اسراء اور ضرغام تھے ۔ دوسری میں اسماعیل خانزادہ اور اسمارہ خانزادہ تھے ۔ 

اور تیسری میں گارڈز۔ پورے گھر کو خوبصورتی سے سجایا ہوا تھا لائٹنگ سے ۔ اور ملازمائیں ایک قطار میں کھڑی تھی پھولوں کا تھال لیئے ۔ 

جب گاڑی گیٹ کے باہر رکی تھی اور اسمارہ بیگم نے اپنی گاڑی سے اترتے اسراء کو احتیاط سے نیچے اتارا تھا ۔ 

"مورے آپ جائے اندر اسے لے کر میں تھوڑی دیر میں گھر آتا ہوں ۔ "

وہ سپاٹ چہرہ لیئے سامنے دیکھ رہا تھا ۔ 

اسراء نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تھا اتنی بے رخی ۔ ابھی تو وہ ہنستا مسکراتا اسے وداع کر کے لایا تھا اور اب نئی نویلی دلہن کو ایسے ہی چھوڑ کر جارہا تھا ۔ 

"لیکن بیٹا آپ کہاں جارہے ہیں ۔ اپکی نئی دلہن گھر میں آئی ہے باقی کام بعد میں کرےگا پہلے اندر آئے ۔" اسمارہ بیگم ڈپٹنے کے انداز میں بولی تھی۔ جب کے اسراء معصومیت سے اسکا چہرا دیکھ رہی تھی یہ کیا ہورہا ہے۔ 

"مورے پلیز ۔ میں نے کہا نا آپ جائے میں بس تھوڑی دیر میں آ رہا ہوں کچھ امپورٹنٹ کام ہے ۔ "

اب کی بار وہ تحمل سے انہیں سمجھاتا گاڑی زن سے لے گیا تھا ۔ 

"یہ کہا گیا ہے اس وقت؟ "

اسماعیل صاحب جو ابھی گاڑی سے نیچے اترے تھے اسے جاتا دیکھ حیرانی سے پوچھنے لگے ۔ 

"پتہ نہیں ۔ کہہ رہا ہے کچھ امپورٹنٹ کام ہے ۔"

اسمارہ بیگم نے بتایا تو اسماعیل خانزادہ نے لب بھینچے ۔ 

"یہ کوئی جگہ ایسی نہیں چھوڑتا جہاں ہم شرمندہ نا ہوں ۔"

وہ شرمندہ ہوتے ضرغام کا سوچتے غصہ کرنے لگے ۔ 

"کوئی بات نہیں پھوپھا جان انہیں کچھ کام ہوگا آجائیں گے تھوڑی دیر میں ۔ "

اسراء بات سمبھالتی بولی تھی جس پر وہ مسکراتے اثبات میں سر ہلاتے آگے بڑھے تھے جہاں سب ملازمین نے اسکے سر پر پھولوں کی برسات کی تھی ۔ 

اسراء کو شدت سے اس وقت صرغام کی کمی کحسوس ہوئی تھی لیکن وہ سب کا موڈ اور گھر کا ماحول خراب نہیں کرنا چاہتی تھی اسلیئے چہرے پر جھوٹی مسکان سجائے آگے بڑھی تھی ۔

اسمارہ بیگم نے اسے اندر لاتے ضرغام کے روم میں بٹھایا تھا جو سجا ہوا تھا جسے دیکھ اسمارہ بیگم بھی حیران ہوئی تھی ۔ 

"اسکا مطلب اسکے پہلے سے رخصتی لینے کے ارادے تھے ۔"

اسمارہ بیگم نے مسکراتے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ 

کمرے میں قدم رکھتے ہی اسراء ٹھٹکی تھی ۔ پھول تو اسے شروع سے ہی پسند تھے اور یہ کمرہ پھولوں سے سجا ہوا تھا ۔ 

"شاید ضرغام اس دن جان گئے تھے کے مجھے پھول بہت پسند ہیں."

وہ اپنے دل میں ہی غلط فہمیاں پالتے خوش ہوئی تھی ۔

اسمارہ بیگم نے اسے بستر پر بٹھایا تھا اور اسکے لیئے کھانا لے کر آئی تھی ۔ 

کیونکہ رخصتی کے چکر میں اسراء نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا ۔ 

کھانا کھلاتے انہوں نے اسراء کو کچھ ضروری ہدایت دی تھی ۔ 

اور پھر اسے انتظار کرنے کا کہتے وہ کمرے سے چلی گئی تھی ۔ 

اسراء بستر پر بیٹھی پورے کمرے میں نظر دوڑا رہی تھی جو بہت بڑا اور حسین تھا ۔ 

پورا کمرہ وائٹ اور بلیک کلر سے رنگا ہوا تھا بلیک کلر کا عالیشان بیڈ جس پر سفید چادر بچھی تھی اور اس چادر کو پھولوں نے چھپایا ہوا تھا ۔ 

بائیں طرف بنی ڈریسنگ ٹیبل اور اس پر رکھے بے تحاشا پرفیموز اور جیل ۔ دائیں طرف بلیک ہی ویلوٹ کے صوفے رکھے اور اسکے سامنے خوبصورت سی ٹیبل رکھی تھی جس پر بے تحاشا پھول سجے تھے ۔ صوفوں کے پیچے بنی گلاس وال جس کے پیچھے یقیناً کوئی روم تھا ۔ 

یہ کمرہ بے تحاشا خوبصورت لگا تھا اسراء  کو ۔ لیکن اب وہ بیٹھے بیٹھے تھکنے لگی تھی ضرغام کے انتظار میں ۔ ایک گھنٹا گزرا پھر دو ، پھر تین اور اسی طرح فجر کی آذانوں کی آوازیں آنے لگی ۔ وہ بیٹھے بیٹھے کب سوگئی اسے پتہ نا لگا ۔ لیکن اذانوں کی اواز سے اسکی آنکھ کھلی ۔ 

اپنے اطراف میں دیکھا تو سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا اسکے سونے سے پہلے اسکا مطلب وہ نہیں آیا تھا ۔ 

اسراء کا دل ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوا تھا اسکی انکھوں میں آنسو جھلملانے لگے تھے ۔ ایک تو پہلے ہی اسکو سب عجیب لگ رہا تھا اتنی جلدی رخصتی اور اب اکیلے کمرے میں بیٹھے اسے اپنے گھر والوں کی یاد آئی تھی ۔ 

وہ اٹھی تھی اور اپنے سر سے دوپٹہ اتار کر بیڈ پر رکھا جیولری اتارتے اسنے اپنے جوڑے سے پنز نکالتے انہیں کھول دیا تھا اب وہ اپنے بھاری لہنگے کو اٹھاتے وارڈروب کھولنے جاری تھی جب ضرغام دروازہ کھولتے اندر آیا تھا اور پیچھے سے دروازہ بند کیا تھا ۔ 

اسراء کے قدم وارڈروب تک جاتے جاتے رکے تھے چاروں طرف ضرغام کی خوشبو اسے بتارہی تھی وہی اس روم میں موجود ہے لیکن اسراء کی پیٹھ تھی اسکی طرف ۔ اسے اپنے دوپٹہ کی فکر لاحق ہوئی تھی جو اسنے بستر پر چھوڑا تھا ۔ وہ تھوک نگلتے اس خوشبو کو اپنے قریب آتے محسوس کررہی تھی جب پیچھے سے ضرغام نے اسکے کندھے پر اپنی تھوڑی ٹکائی تھی ۔ 

"انتظار کررہی تھیں میرا ؟"

وہ اسکے گرد حصار باندھتا پوچھ رہا تھا جسکا دل ڈھول کی مانند بج رہا تھا ۔ ضرغام اسکے دل کی رفتار سنتے گہرا مسکرایا تھا ۔ 

آپ ۔ آپ کو بہت دیر ہوگئی ۔ میں انتظار کررہی تھی آپکا ۔ 

وہ اسکے ہاتھوں پر ہاتھ جماتے  بہت ہلکی آواز میں بولی تھی ۔ ضرغام نے اسکا رخ اپنی طرف کیا۔  اور اسکا خوبصورت چہرہ دیکھنے لگا ۔ جب اسکی نظر پھر اس دشمن پر پڑی تھی ۔ 

"تمہیں پتہ ہے یہ تل مجھے تمہاری ناک پر بلکل پسند نہیں ہے ۔ "

وہ محویت سے اسکی بات اگنور کرتا ناک پر بیٹھے تل کو دیکھ رہا تھا جیسے سب بھول گیا ہو ۔ سب کچھ ۔

اسراء اسکی خمار میں ڈوبی آواز سنتے کپکپائی تھی۔ 

"ک۔کیوں ہمیں ب۔بہت پسند ہے یہ تل ."

وہ اسکی بات کا برا مناتی بولی تھی۔ 

ضرغام اسکی بات پر مسکرایا تھا ۔ اور اسکے ماتھے پر بوسا دے گیا تھا جو اسراء نے آنکھیں بند کرتے محسوس کیا تھا ۔ 

"لیکن مجھے نہیں پسند یہ "۔ ضرغام نے سنجیدگی سے کہتے اسکی ناک پر اپنے دانت گاڑھے تھے۔"م

"اہہہہ ۔۔۔

اسکی شدت سے اسراء کی آنکھ میں آنسو آئے تھے جب ضرغام نے دور ہوتے اسے دیکھا تھا جس کی صراحی دار گردن پر بھی ایک تل اسکی بیوٹی بون کے پاس جگمگا رہا تھا ۔

ضرغام اس تل کو دیکھتا طنزیہ مسکرایا تھا اور پھر اسراء کی جھلملاتی آنکھوں میں دیکھا تھا جب اسراء اسکی مسکراہٹ کا مطلب سمجھتی فوراً پیچھے ہوئی تھی۔

ضرغام نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسکے ارادے ناکام کیئے اور اپنے قریب کرتا اسکی بیوٹی بون پر بھی دانت گاڑھ گیا تھا۔ 

اسراء ہونٹ بھینچتی اپنی آواز دبا گئی تھی جب ضرغام نے پیچھے ہوتے اسکا چہرا دیکھا تھا جو شرم سے لال ہو رہا تھا یا تکلیف سے اندازہ لگانا مشکل تھا۔۔

اور پھر نظر جھکاتے دوبارہ اسکےتل کو دیکھا تھا جو لال ہورہا تھا جیسے اس سے اب خو+ن نکل آئے گا۔ سرد سی مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ضرغام نے اسکی آنکھیں دیکھی تھی جو بند تھی بھیگی پلکیں کپکپارہی تھی۔  

"آنکھیں کھولو باربی ڈول۔ "

اسکا لال قندھاری چہرا دیکھتے حکم دیا گیا تھا۔ 

جب اسراء نے آنکھیں  کھولتے اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا تھا جن کی چمک آج کچھ الگ ہی داستان سنا رہی تھی ۔ 

ضرغام نے اسکی ہری گہری آنکھوں میں دیکھا تھا جن پر پہلے کبھی غور نہیں کیا تھا اسے یہ آنکھیں پسند آئی تھی۔

"تمہیں پتہ ہے میں نے تمہارا نام باربی ڈول کیوں رکھا ہے ۔ "

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا جہاں جواب سننے کی چاہ تھی ۔ وہ ہلکا سا مسکرایا ۔ 

"کیونکہ تمہاری آنکھیں کسی ڈول کی طرح ہیں ۔ تم چلتی پھرتی گڑیا ہو، نازک سی گڑیا۔ "

وہ اسکی پلکوں کو محویت سے تکتا ہوا بول رہا تھا ۔ اور پھر اسکی ناک سے ناک جوڑتے اہنا جملا مکمل کیا تھا۔

"جسے توڑنے میں مجھے بہت مزہ آئے گا."

اسکی بات سنتے اسراء نے جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی تھی اور آنکھوں میں الجھن در آئی تھی۔ 

جب کے ضرغام اسکے پیچھے ہونے پر بد مزہ ہوا تھا ۔ لیکن حصار ابھی بھی نہیں توڑا تھا۔ 

اسکی الجھن دیکھتے ضرغام نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ 

"پسند کرتی ہو مجھے ۔؟ 

جب اسراء نے نظریں جھکاتے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

ضرغام طنزیہ مسکرایا تھا۔ 

"اور محبت ؟ 

اسکا سوال سنتے اسراء نے جھکی پلکیں اٹھائی تھیں۔ اور حیرانی سے اسکا سوال دہرایا تھا

"محبت ؟ مجھے ن۔نہیں پتہ محبت کسے کہتے ہیں لیکن آپکے لیئے جو احساس جاگے ہیں وہ۔وہ کسی کے لیئے نہیں جاگے ۔" 

وہ اٹکتی اسکے سوال کا جواب دے گئی تھی ۔ 

 ضرغام نے مسکراتے اسکے کے گرد حصار کو سخت کیا تھا اسراء نے تکلیف سے آنکھیں میچی۔ 

"دعا کرنا تمہیں محبت نا ہو باربی ڈول۔ ورنہ بے مو+ت ماری جاؤگی تم۔"

وہ اسکی تھوڑی پکڑتے آنکھوں میں دیکھ ٹہر ٹہر کر بولا تھا جب اسراء نے ساکت ہوتے اسکا لہجہ دیکھا تھا جو سخت ہوگیا تھا۔

ضرغام نے جھٹکے سے اسے چھوڑا اسراء گرتے گرتے بچی تھی جب وہ بے گانگی سے پلٹتے اپنے وارڈروب سے کپڑے نکالتا واشروم میں بند ہوگیا تھا۔

اسراء نے خالی خالی نظروں سے اسکی پشت کو دیکھا تھا جس کا انداز آج بہت عجیب تھا اور اسکی باتیں اسراء کے ذہن سے پرے تھی۔ 

------❤️ حیا خان ❤️--------

جب سے اسراء کی رخصتی ہوئی تھی کبیر کا دماغ صرف ضرغام پر تھا وہ ہر طرح سے سوچ رہا تھا اگر اسنے کسی بدلے میں آکر رخصتی لی ہو تو ؟ اور یہاں آکر کبیر کے غصہ کی شدّت بڑھ گئی تھی۔ 

اس سب میں اسکی معصوم بہن کا کہیں کوئی قصور نہیں تھا اور اگر ضرغام نے اس سے بدلے کے چکر میں اسکی بہن کو گھسیٹا تو بدلہ اور مو+ت کیا ہوتا ہے یہ کبیر خانزادہ بتائے گا اسے۔ 

کبیر کو شدّت سے اسراء کی فکر ہوئی تھی ۔ اسکی غصہ سے ماتھے کی نیلی رگیں نظر آنے لگی تھی ۔ 

"نرمین خانزادہ تم ہو ساری فساد کی جڑ". وہ ہاتھ کی مٹھی بناتے ہونٹوں پر رکھ گیا ہو جیسے بہت ضبط کیا ہو۔ 

اور قدم حویلی کے اندر بڑھائے تھے سیدھا اپنے کمرے کی طرف ۔ کیونکہ غصّہ تو صرف ایک ہی ذات پر اترتا تھا اب۔  

--------❤️ حیا خان ❤️-------

نرمین بہت تھک گئی تھی اور سیدھا کمرے میں آئی تھی چینج کرتے وہ بستر پر آکر بیٹھی تھی وہ حسین انکھیں آج لال ہورہی تھی پتلیاں ساکت سی تھی اور دماغ میں صرف کبیر خانزادہ کے جملے بازگشت کررہے تھے ۔ 

("ویسے آج تمہیں تکلیف تو بہت ہو رہی ہوگی نا کہ جو تمہاری محبت کا دم بھرتا تھا آج وہ کسی اور کا ہوگیا ہے اور اب تم سے محبت کون کرے گا تمہاری خوبصورتی کا دم کون بھرے گا۔)

اسکے الفاظ یاد کرتے نرمین کی آنکھ سے ایک آنسو بے مول ہوا تھا ۔ آج اسکا دل کررہا تھا پھوٹ پھوٹ کر روئے اسکا سارا صبر آج ٹوٹ گیا تھا۔ 

ضروری تو نہیں انسان جیسا سوچے اسے ویسا ہی ملے وہ رب کبھی لے کر آزماتا ہے اور کبھی دے کر ۔ اور اسے دے کر آزمایا گیا تھا ۔ کبیر خانزادہ اسکا نصیب اسکا محرم بنا تھا لیکن ایسا تو اسنے کبھی نہیں سوچا تھا ۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے دماغ کسی بوجھ تلے دب گیا ہو اسے کوئی راستہ نظر نا آرہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے بس اب یہی زندگی ہے ۔

لیکن اسنے روتے آسمان کی طرف دیکھتے اللّٰہ کو پکارا تھا ۔ 

"یا اللّٰہ مجھے صبر دے میری مشکل آسان فرما ۔" 

"دل میں اپنے رب کو پکارا تھا اور پھر سکون بھری سانس کھینچی تھی جیسے اسکے رب نے اسے تسلی دی ہو وہ مسکرایا ہو اور کہا ہو میرا اتنا محبوب بندہ اتنی جلدی بکھر گیا۔"

اسنے صبر کا دامن تھامتے اپنے آنسو پوچھے تھے ۔ 

ہر تکلیف اذیت نہیں ہوتی کچھ تکلیفیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان کو بہت صابر بنادیتی ہیں اور صبر کرنے والوں لوگ اللّٰہ کو بہت پسند ہوتے ہیں۔ 

وہ ہمت باندھتے اٹھ کھڑی ہوئی تھی جب کبیر اندر آیا تھا ۔ 

ابھی تک وہ اسی ڈریس میں تھا سفید شرٹ پہنے کوٹ بازو میں ڈالے اور ماتھے پر آتے وہ گھنے بال ۔ وہ اس حلیے میں بھی بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا لیکن نرمین نے دل پر پتھر رکھتے نظروں کا زاویہ بدلا تھا اور واشروم میں جا بند ہوئی تھی۔

کبیر نے ضبط سے اس دروازے کو دیکھا تھا جس کے پیچھے ابھی وہ اسے اگنور کر کے بند ہوئی تھی ۔ 

وہ وہی صوفے پر بیٹھا تھا سر پیچھے گرا کر اسنے آنکھیں بند کی تھی ۔ 

جب واشروم کا دروازہ کھلا تھا اور نرمین باہر آئی تھی ۔ 

کبیر نے اسی پر نظریں ٹکائی ہوئی تھی جو سفید کلر کے قمیض شلوار میں دوپٹہ شانوں پر پھیلائے اب شاید سونے کیلیئے لیٹ رہی تھی ۔ 

"کیا ہوا؟ ماتم منایا جارہا ہے کسی بات کا ؟"

کبیر نے اسے لیٹتے دیکھ طنزیہ مسکرا کر شعلہ بھرا جملہ اسکی طرف پھینکا تھا ۔ 

جبکہ دل میں خود کہ بھی پھانس چبھی تھی اسکی انکھوں میں آنسو جھلملاتے دیکھ ۔ 

"اپنی بہن کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا میں ۔ اگر اسنے تمہاری وجہ سے اسے تکلیف دی تو اچھا نہیں ہوگا۔ "

کبیر نے صوفے سے کھڑے ہوتے کہا تھا ۔

کبیر کے الفاظ سنتے اس بار نرمین کو ضبط ٹوٹا تھا اور بلینکٹ خود پر سے پھینکتے وہ اسکے سامنے کھڑی ہوئی تھی ۔ بار بار اپنے کردار پر کیچڑ وہ کیسے برداشت کرسکتی تھی۔ 

"اور ہمارا کیا ؟ کیا ایک بار بھی آپنے ہمیں صفائی کا موقعہ دیا ؟ آخر جانتے ہی کیا ہیں آپ ہمارے بارے میں جو آپ اتنے گندے الفاظ اپنی بیوی کے لیئے ادا کررہے ہیں ۔؟ 

یاد رکھے گا کبیر خانزادہ ہم آپکی اس حرکت کے لیئے اپکو کبھی معاف نہیں کرینگے ۔ "

وہ آنسو بہاتی اسکے سینے پر ہاتھ مارتی غصہ سے ایک ایک الفاظ دہرا رہی تھی اور کبیر ساکت کھڑا اسکا یہ روپ دیکھ رہا تھا جو اسنے اب تک نہیں دیکھا تھا ۔ 

کبیر نے اسکے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے تھے ۔ 

"صفائی دینا چاہتی ہو اپنی ۔ ؟ دو صفائی ؟ کیا کہوگی اپنی صفائی میں ؟ کیسے وہ ضرغام تمہاری محبت میں مبتلا ہوا ہاں ؟ تم تو پردہ کرتی ہو نا تو کیسے کوئی غیر مرد تمہارا چہرا دیکھ گیا مجھے تو تم نے منگیتر ہوتے ہوئے بھی نہیں دکھایا تھا یہ چہرا ۔ ؟ یا پھر تم بھی اس سے محبت کرتی۔۔۔""

کبیر غصہ پر قابو کھوتا جو منہ میں آیا تھا بول گیا تھا جب نرمین نے اسکے الفاظ سنتے جھٹکے سے خود کو چھڑایا تھا ۔ 

"ہم نے کسی کو اپنا چہرا نہیں دکھایا ۔ ہم بے گناہ ہیں ۔ آپ نے ہمارے کردار پر الزام لگایا ہے ہمارے کردار پر کیچڑ اچھالی ہے بنا سچ جانے بنا کوئی بات جانے آپ نے ہم پر تہمت لگائی ہے ۔ "

"ہم نہیں جانتے ضرغام لالا نے ہمیں کب دیکھا تھا لیکن ہم کبھی انکے سامنے نہیں آئے ہم نے کبھی ان سے بات تک نہیں کی اکیلے ۔ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم ان سے محبت کرتے ہیں اپکو لگتا ہے ہم نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا تھا ؟ کیا اتنے گرے ہوئے لگتے ہیں ہم آپکو؟ 

"ہماری ماں کو نو مہینہ لگے تھے ہمارا دل بنانے میں ہم نے کسی کو اتنا حق نہیں دیا کے کوئی بھی اس دل میں آ سمائے ۔  کسی غیر انسان کے لیئے ہم اپنے اللّٰہ کی حدود اور اپنے ماں باپ اور خاندان کا دل نہیں توڑسکتے ۔ "

وہ دبی دبی آواز میں چیختی کبیر کی آنکھوں میں اپنی بھیگی آنکھیں ڈالے بول رہی تھی اور کبیر سن رہا تھا خاموش ساکت کھڑا ۔ جیسے اسکے الفاظ نہیں وہ سچ ہو جو کبیر کے دل پر نقش ہو رہے ہوں ۔ 

"ہم نہیں جانتے وہ کیا ہیں کیسے ہیں کیا سچ ہے کیا نہیں ۔ لیکن۔ 

"کبیر خانزادہ ہم اتنے بے مول نہیں ہیں ہم نے اپنی زندگی کو اتنا سستا نہیں بنایا کے دو ٹکے کے لوگ آکر ہماری زندگی سے کھیل جائیں ۔ ہمارا وجود کسی تعریف یا اعزاز کا محتاج نہیں ہے جو ہم کسی غیر مرد کی محبت میں اتنے گر جائیں ۔ ہم جانتے ہیں کے ہم بہت خاص ہیں کیونکہ بیکار چیزیں اللّٰہ بناتے ہی نہیں ہیں ۔ 

اور آئیندہ ،،،

وہ اسکے قریب آتی انگلی اسکی طرف اٹھاتی اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتی بولی تھی۔ 

"آئیندہ اگر آپ نے ہمارے کردار پر انگلی اُٹھائی تو کبیر خانزادہ یاد رکھے گا ہم بھی نرمین کبیر خانزادہ ہیں آپکے آنسو بہادینگے لیکن آپکو معاف نہیں کرینگے ۔ "

وہ آنسو بہاتی نیچے زمین پر بیٹھی اور گھٹنوں میں چہرا چھپائے بلند آواز سے رودی تھی ۔  

آج نرمین خانزادہ اسے حیران کر گئ تھی ۔ اسکا ایک ایک لفظ کبیر کے دل پر جا لگا تھا ۔ آج اسے زندگی میں پہلی بار اتنی شرمندگی ہوئی تھی اسکے آنسو دیکھ اسکے الفاظ سنتے اسکا دل گھبرایا تھا ۔

کبیر نے نیچے اسکے پاس بیٹھتے اسے دیکھا تھا جسکا رونے کے باعث جسم لرز رہا تھا ۔ وہ کیسے اسکے کردار پر الزام لگا گیا تھا کیا کچھ نہیں بولا تھا کبیر نے اسے ۔ وہ الفاظ وہ رویہ یاد کرتے کبیر کا دل ڈوب کر ابھرا تھا ۔

اگر وہ چاہتی تو وہ بھی تو اسکو آزما سکتی تھی اسے برا بھلا کہہ سکتی تھی اسکے کردار پر انگلی اٹھا سکتی تھی لیکن نہیں اسنے تو کبھی یہ نا کہا کہ وہ باہر سے آیا ہے کتنے افیئر رہے اسکے ۔

وہ کن الفاظوں میں معافی مانگتا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا دل کہہ رہا تھا کبھر خانزادہ ابھی سنبھل جاو ورنہ بہت انمول چیز کھو دوگے ۔ 

اور آج کبیر خانزادہ نے اپنے دل کی سنی تھی ۔ آج اسکے رونے پر اسکا  بھی دل بے تحاشا رو رہا تھا ۔ وہ اپنا مضبوط ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ گیا تھا جو ہچکیوں سے چہرا چھپائے رورہی تھی۔ 

"نرمین۔۔

کبیر نے پہلی بار اسکا نام پکارا تھا ۔ وہ سانس روکتے اسکی شکل دیکھنے لگی جسکے چہرا ندامت سے بھرا تھا ۔ وہ کھڑی ہوتے کمرے سے ملحقہ سٹڈی روم میں بند ہوئی تھی ۔۔

"نرمین دروازہ کھولو پلیز میری بات سن لو ایک بار ۔ "

کبیر نے اٹھتے دروازہ بجایا تھا جہاں وہ بند ہوئی تھی 

لیکن جواب ندار۔۔۔ 

وہ واپس پلٹتا اپنے کپڑے نکالتا واشروم میں بند ہوا تھا ۔  

تیس منٹ گزرے پھر آدھا گھنٹہ لیکن نرمین سٹڈی روم سے باہر نہیں آئی تھی وہ وہی بیٹھا اسکا انتظار کرتا رہا تھا ۔ 

کبیر کی انکھوں کے سامنے اسکا بھیگا چہرا آیا تھا جب وہ روتی اپنی صفائی دے رہی تھی ۔ وہ کیسے اس لڑکی کو تکلیف پہنچا سکتا تھا ۔ اسکے چہرے کی پاکیزگی پر جب اسکا دل چیخ چیخ کر پکارتا تھا کے وہ لڑکی غلط نہیں ہیں تو پھر کیوں اپنے دماغ کی سنتے اپنی فطرت کے مطابق نرمین کو آزمایا اسکا دل کررہا تھا کہ خود کو ایسی سزا دے کہ نرمین کے دل کو راحت پہنچ جائے ۔

لیکن لوگ باتیں بھول جاتے ہیں ، لوگ واقعات بھول جاتے ہیں ، لوگ لوگوں کو بھول جاتے ہیں لیکن انسان کبھی یہ نہیں بھول سکتا کہ اسے کسی نے کیسا محسوس کروایا تھا ۔ 

اور کبیر کے الفاظوں نے نرمین پر کیا اثر چھوڑا ہوگا وہ کیسا محسوس کرتی ہوگی وہ اس بات سے انجان تھا لیکن اسکے دکھ کا سوچتے وہ تڑپ رہا تھا ۔ یہ محبت تھی جو نرمین کے درد پر اسے تڑپا رہی تھی اور یہی اسکی سزا بن نے والی تھی ۔ 

وہ وہی بستر سے ٹیک لگائیے سو گیا تھا ۔ 

جب نرمین فجر کے وقت کمرے سے باہر نکلی ایک نظر اسے دیکھا جو بے آرام سا بستر پر بیٹھا سو رہا تھا وہ نظر انداز کرتی واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

وضو کرتے اسنے اپنے آپ کو آئینہ میں دیکھا تھا جہاں اسکی انکھیں رات بھر جاگ کر رونے کی داستان سنا رہی تھی۔ وہ باہر نکلتے جائے نماز بچھاتے نماز کو کھڑی ہوئی تھی ۔ 

سلام پھیرتے دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے وہ بے تحاشہ روئی جب اسکی سسکیاں سنتے کبیر نیند سے جاگا تھا اسے دیکھا جسکا وجود کانپ رہا تھا۔ وہ اٹھتا آہستہ قدم اٹھاتا اسکے قریب جابیٹھا ۔

نرمین اللّٰہ سے گفتگو میں اتنی مصروف تھی کہ اسکا چلنا پاس بیٹھنا محسوس نا کرسکی ۔ 

اور رب سے محبت ایسی ہی ہونی چاہئیے کے آپ کے اردگرد کیا ہورہا ہے آپ اس سے بے گانے ہوتے بس اس کی بندگی میں مشغول ہوجائیں۔ 

کبیر خاموشی سے بیٹھا اسکی لرزتی پلکیں اور اسکے کپکپاتے ہونٹ دیکھ رہا تھا ۔ اسکے دل میں چبھن ہو رہی تھی اور وہ نہیں جانتا تھا اسکی دوا کیا ہے ۔ بلیک ٹراؤزر اور بلیک ہی شرٹ پہنے بکھرے بال ماتھے پر چہرے پر پھیلی پریشانی اور اسکے برابر زمین پر بیٹھے وہ کہیں سے بھی مغرور کبیر خانزادہ نہیں لگ رہا تھا ۔

نرمین نے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور نظریں اٹھائی تو وہ اسکے سامنے ہی بیٹھا تھا اسے دیکھ وہ چونکی تھی ۔ 

لیکن پھر نظر انداز کرتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ کبیر نے اسے اٹھتے دیکھ اسکا ہاتھ پکڑا تھا وہ ابھی بھی نیچے بیٹھا تھا جبکہ نرمین اب کھڑی ہوچکی تھی ۔ 

وہ کافی دیر خاموشی سے اسکا ہاتھ پکڑے بیٹھا رہا جیسے کچھ کہنے کے لیئے خود کو تیار کر رہا ہو ۔ لیکن اسکے الفاظ اسکا ساتھ نہیں دے رہے تھے ۔ نرمین نے انتظار کیا کہ شاید وہ کچھ بولے لیکن وہ کچھ نہیں بولا تھا نرمین طنزیہ مسکراتی ہاتھ چھڑاتے وہاں سے چلی گئی تھی ۔ 

اور بستر پر لیٹتے انکھیں بند کرتی وہ سوگئی تھی یا سونے کا ناٹک کررہی تھی کون جانتا تھا ۔ 

کبیر اسکی نظر اندازی پر سلگ کر رہ گیا تھا لیکن برداشت کرا تھا ۔ ہر بار اسکی ضد اسکا غصہ اسکی دھونس اور اسکا روعب کام نہیں آنے والا تھا ۔ نرمین کے معاملے میں اسے نرم ہونا تھا بلکل اسکی نازک مزاجی کی طرح ۔ 

وہ کھڑا ہوتا اسکے برابر آکر لیٹا لیکن نرمین کروٹ بدل گئی تھی ۔ اسنے ندامت سے اسکی پشت کو دیکھا تھا لیکن کیا فائیدہ تھا ۔ 

وہ کافی دیر اسکی پشت کو دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کرگیا ۔ 

-------❤️ حیا خان ❤️-------

ضرغام نے واشروم سے باہر نکلتے اسے دیکھا تھا جو ابھی تک ان کپڑوں میں بیٹھی تھی جبکہ دوپٹہ اب شانوں ہر پھیلا تھا ۔ 

اسراء نے اسے دیکھتے فوراً پیٹھ موڑی تھی کیونکہ وہ صرف ٹراؤزر پہنے کھڑا تھا شرٹ کا کوئی اتا پتہ نہیں تھا ۔ پھولے مسلس اور سکس پیک اسے ایک مضبوط مرد بتا رہے تھے ۔ اسراء نے بے اختیار اپنے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔ اتنا ہینڈسم تو وہ نہیں لگا تھا اسے کبھی لیکن نکاح کا اثر تھا یا کچھ اور لیکن اب وہ اسے اچھا لگنے لگا تھا ۔ وہ اسکے بارے میں سوچنے لگی تھی اسکا لمس اسراء کو راحت بخش رہا تھا ۔

ضرغام نے اسکے پلٹنے پر حیرانی سے اسے دیکھا تھا ۔ 

"کیا ہوا؟ مجھے دیکھ کر پلٹ کیوں گئی ؟"

"وہ آپ آپ شرٹ نہیں ۔۔۔

اسراء اتنا بولتی خاموش ہوئی تھی جب ضرغام کے ماتھے پر بل اب بات سمجھتے سیدھے ہوئے تھے ۔ وہ شیشہ میں خود کو دیکھتے ٹاول سے بال رگڑنے لگا اور ایک نظر اسکو دیکھا جو ابھی تک پیٹھ کیئے کھڑی تھی ۔ 

"عادت ڈال لو کیونکہ مجھے شرٹ پہن کر سونے کی عادت نہیں ہے ۔ وہ بال بناتا اب اسکی طرف پلٹا تھا  اور وہی ٹیبل سے ٹیک لگائے کھڑا ہوگیا تھا ۔ "

جب اسراء نے دھڑکتے دل پر ہاتھ رکھا تھا۔ 

"میری طرف پلٹو ۔ "

بھاری آواز میں حکم دیا گیا تھا ۔ 

اسکی بھاری آواز سنتے اسراء چونکی اور پھر پلٹی تھی لیکن آنکھیں ابھی بھی بند تھی اور دوپٹہ ہاتھوں میں بھینچ رکھا تھا ۔۔

ضرغام دور سے ہی اسکی کپکپاہٹ دیکھتا مسکرایا تھا ۔ 

"آنکھیں کھولو باربی ڈول"۔

ایک بار پھر حکم دیا گیا تھا ۔ 

اور ضرغام خانزادہ حکم دے اور اسراء خانزادہ نا مانے ۔ خیر یہ تو پہلے بھی ممکن نہیں تھا جبکہ اسراء کے دل میں اسکی دہشت تھی پھر اب تو محبت دستک دے رہی تھی اب وہ کیسے انکار کرتی ۔ 

اسنے آہستہ سے پلکوں کا جھالر اٹھایا تھا لیکن نظروں کا زاویہ بدلا تھا ۔ 

اب کی بار ضرغام کے ماتھے پر بل پڑا تھا ۔

"میری طرف دیکھو"۔ 

اب کی بار اسنے غصہ سے حکم دیا تھا جب اسراء نے ہڑبڑاتے اسے دیکھا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ اسی کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا دور سے کھڑا نا وہ اسکے قریب گیا تھا نا اسے اپنے قریب بلایا تھا۔

"گڈ۔ اب نظریں یہاں سے نا ہٹیں ۔ " 

ضرغام نے ایک بار پھر حکم دیا تھا ۔ جبکہ اسراء اب شرم سے پانی پانی ہورہی تھی ۔ 

کئی لمحہ گزر گئے لیکن اسراء نے نظروں کا زاویہ نا بدلا ۔ اور ضرغام وہی سے کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔

اسراء اب شرم سے پانی پانی ہونے کے در پر تھی کے اس بے رحم کو پتہ نہیں کیسے رحم ایا اور اسے بخش دیا ۔ 

"جاؤ کپڑے چینج کر کے آرام کرو تھک گئی ہونگی ۔ "

وہ سائیڈ سمائل چہرے پر سجاتا بولا تھا اور اسراء کو بس کہنے کی دیر تھی وہ جھٹ سے اپنے کپڑے لیتے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

اسنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا جو پسلیاں توڑ کر باہر آنا چاہ رہا تھا ۔ وہ چہرے پر ہاتھ رکھتی شرماتے چہرا چھپا گئی تھی۔

راحمہ آئینہ کے سامنے کھڑی تھی ۔ آج وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی ایک ایک شخص نے اسکی تعریف کی تھی لیکن سب سے زیادہ فردان کی آنکھوں نے اسے سراہا تھا۔ جس نے پورے فنکشن میں اس پر سے نظریں نہیں ہٹائی تھی ۔  اسے کسی قیمتی متاع کی طرح دیکھ رہا تھا جیسے وہ کوئی انمول دعا ہو جو رنگ لے آئی ہو ۔

راحمہ خود کو آئینہ میں دیکھتی انگلیاں مروڑ رہی تھی اسے گھبراہٹ ہو رہی تھی ۔  جب جب اسے فردان کی بھاری خمار میں ڈوبی سرگوشی یاد آتی ۔

"ہمارا انتظار کرے گا ۔  چینج مت کرے گا ۔"

فردان کو بڑوں نے روک لیا تھا لیکن وہ صاف الفاظوں میں اسے کہہ چکا تھا کہ وہ اسکے آنے سے پہلے چینج نا کریں ۔ 

راحمہ کو بے تحاشہ گھبراہٹ نے آ گھیرا تھا ۔ کل سے اسکی نئی زندگی شروع ہوئی تھی فردان نے اس نازک گڑیا کو کسی انمول موتی کی طرح چنا تھا ۔ وہ بے تحاشہ خوش تھی لیکن فطری شرم و حیا اسکے آڑے آ رہی تھی فردان کی آنکھوں نے اسے واضح وارننگ دی تھی اور اب اسکے بچنے کے کوئی چانسس اسے نظر نہیں آ رہے تھے ۔  

"ہم ایسا کرتے ہیں کے جلدی سے چینج کر کے سو جاتے ہیں صبح کہہ دینگے کہ ہم تھک گئے تھے اسلیئے سوگئے"۔

وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی اپنی اعلیٰ پلاننگ پر اچھل رہی تھی جو یقیناً اسکے لیئے غلط ثابت ہونے والی تھی ۔ 

وہ جلدی سے جیولری اتارتی اپنے کپڑے لیتے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

چینج کرتے وہ لائیٹس آف کرتی فوراً سوگئی تھی ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️ -------

فردان بڑوں میں بیٹھا کب سے انتظار کررہا تھا کے کب سب اپنے اپنے کمروں میں جائے اور وہ اپنی جنگلی بلی کے پاس جائے ۔ جو آج اسکے چاروں شانے چت کرتی اب اسکی انکھوں کے سامنے سے فرار تھی ۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ اُڑ کر چلا جائے ۔

 کبیر تو تھا ہی مغرور وہ تو کسی سے بنا پوچھے کب سے اپنے کمرے میں جا چکا تھا اسے پسند نہیں تھا بلاوجہ گپے ہانکنا یا پھر فضول گوئی کرنا وہ اپنی مرضی کا مالک تھا اسے کوئی فرق نہیں پڑھتا تھا کوئی اسکے پیچھے کیا کہے کیا سوچے لیکن فردان اسکا الٹ تھا ۔ غصہ کا وہ بلا کا تیز تھا اتنا جنونی کے مرنے مارنے پر آجائے لیکن بڑوں کی عزت اسکی اولین ترجیح تھی ۔اور بڑوں کے کہنے پر وہ وہاں بیٹھا تھا پھر مجبوری میں ہی صحیح ۔ 

جب داجی اسکی طرف متوجہ ہوئے جو ہر تھوڑی دیر بعد گردن اٹھا کر اپنے روم کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ انکے چہرے پر اسکی بےتاںی دیک مسکراہٹ آئی تھی جسے وہ فوراً چھپا گئے۔ 

"فردان بیٹا آپ بھی جائیں سوجائیں تھک گئے ہونگے۔ اور آپ بھی باقی سب اپنے روم میں چلیں رات ہوگئی ہے کافی ۔ "

داجی نے سب کو کہا تو سب اٹھتے اپنے اپنے کمروں کی طرف بڑھ گئے اور فردان کے دو دوست بھی اس سے مل کر روانہ ہوگئے ۔ فردان کی دلی مراد پوری ہوئی تھی ۔ وہ فوراً اٹھتا اپنا کوٹ بازو میں ڈالتا اوپر کی طرف بڑھا تھا ۔ 

دروازہ کھولتے جیسے ہی اسنے کمرے میں قدم رکھا کمرے میں ڈم لائیٹس آن تھی جسے دیکھ فردان کے ماتھے پر بل پڑے اور اندر قدم رکھتے اسکی بیڈ پر نظر پڑی جہاں راحمہ سینے تک بلینکٹ اوڑھے انکھیں بند کیئے سو رہی تھی ۔ 

جسے دیکھ فردان کا غصہ عود آیا تھا ۔ اسنے راحمہ کو کہا تھا کے وہ اسکا انتظار کرے اسکے باوجود وہ چینج کرتی سو گئی تھی ۔ فردان نے مٹھیاں بھینچ کر کوٹ کو صوفے پر پھینکا تھا اور اپنے کپڑے وارڈروب سے نکالتا چینج کرتا اسکی طرف سے کروٹ کرتے لیٹ گیا تھا ۔ 

اسکا دل بہت دکھا تھا اسنے ایک پیار بھری خواہش کی تھی جو اسکی بیوی نے نادانی میں ہی سہی لیکن اسکی خواہش کا مان نہیں رکھا تھا ۔ شاید وہ اس سے پہار نہیں کرتی تھی یہ تو وہی تھا جو اس سے پیار بھرے دعوے کررہا تھا کل سے ۔ راحمہ نے تو ایک بار بھی اس سے کوئی پیار بھرا جملا نا کہا تھا ۔ 

شاید وہ زبردستی اس پر مسلط ہورہا ہے۔

اپنے دماغ میں رات بھر یہی سب باتیں سوچتا وہ سوچکا تھا ۔

راحمہ کی فجر میں آنکھ کھلی جب اسنے برابر میں دیکھا جہاں اسکا پاگل پٹھان سو رہا تھا ۔ اسنے مسکراتے فردان کے گال پر ہاتھ رکھا تھا جہاں اس کے گڑھا پڑھتا تھا ۔ جو راحمہ کو بے انتہا پسند تھا ۔ 

وہ اٹھی تھی اور وضو کرتے نماز پڑھنے کھڑی ہوئی تھی ۔ سلام پھیرتے اپنے رب کے سامنے اسنے سجدہ شکر ادا کیا تھا ۔جو اسکو اتنی محبت کرنے والا شوہر ملا تھا ۔ وہ اسکی محبت کسی قیمت پر نہیں کھونا چاہتی تھی ۔ 

دعا مانگتے وہ پلٹی تھی جب بیڈ سے وہ غائب نظر آیا تھا ۔ یقیناً وہ بھی نماز پڑھنے گیا تھا لیکن وہ اتنی بے خبر کیسے ہوئی کے اسے پتہ تک نا چلا ۔ وہ سر جھٹکتی قرآن پاک اٹھاتی تلاوت کرنے بیٹھ گئی تھی ۔ 

--------❤️ حیا خان ❤️-------

صبح کا سورج نکل آیا تھا جو شاید آج کے دن مشکلیں لانے والا تھا ۔ 

نرمین صبح اٹھتے خود فریش ہوتے کبیر کے کپڑے ریڈی کر کے وہ کمرے سے چلی گئی تھی کچن میں آتے اسنے سب کے لیئے ناشتہ تیار کیا تھا بجھے دل سے وہ سارے کام کررہی تھی جیسے دماغ کہی اور ہو اور اسکا وجود کہی اور ۔ جب پراٹھا بناتے اسکی کلائی پر گرم تیل کی چھینٹ آ گری ۔ اسنے ہونٹ دانتوں تلے دباتے اپنی چیخ کا گلا گھونٹا تھا ورنا سب اسکی اتنی سی جلن پر سر گھر پر اٹھا لیتے ۔ 

درد برداشت کرتے اسکی آنکھوں میں آنسو آئے تھے جب شاہانہ بیگم پیچھے سے آئی۔

"نرمین بیٹا کیا ہوگیا ہے ابھی تو اپکی شادی ہوئی ہے اور دوسرے دن ہی آپ ناشتے بنانے کھڑی ہوگئی ہیں۔ جائے اوپر شوہر کو بلا کر لائے اپنے وہ کب سے مجھے آوازیں لگا رہا تھا لیکن میں نے کہا اب آپکی ایک عدد بیگم ہے اسی کو تنگ کریں ۔ "

کبیر کا ذکر سنتے پھر اسکا دل بھر آیا تھا ۔ کیسے کل اسنے اتنی بڑی بات کہہ دی تھی کے وہ بھی شاید ضرغام خانزادہ سے محبت کرتی ہے ۔ 

جس انسان کی محبت کا ساری زندگی وہ دم بھرتی آئی تھی اج وہ اس سے کہہ رہا تھا کے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے ۔ نرمین نے آنسو پیتے طہیہ کیا تھا کے وہ کبیر خانزادہ کو معاف نہیں کرے گی اتنی آسانی سے ۔ وہ کوئی کمزور لڑکی نا تھی ۔ اگر وہ اپنی محبت کے لیئے خاموش تھی تو اسکا یہ مطلب نہیں تھا کے وہ اسکی کردار کشی کرے ۔ اپنے کردار پر بات وہ ہر گز برداشت نہیں کرسکتی تھی چاہے پھر سامنے کبیر خانزادہ ہی کیوں نا ہو۔ 

وہ مسکراتی اوپر کی طرف گئی تھی اپنے کمرے کے باہر کھڑے ہوتے اسنے ایک پل کو سوچا پھر دروازہ کھولتے اندر آئی تھی ۔

جہاں کبیر کے ہاتھ خود پر پرفیوم چھڑکتے رکے تھے ۔ 

نرمین اسکے سامنے جاکر کھڑی ہوئی تھی جیسے بتائیں کیا کام ہے ۔ 

لیکن کبیر تو اسے دیکھتے ہمیشہ نئی سرے سے اسکا اسیر ہو جاتا تھا ہمیشہ اس میں گم ہوجاتا تھا ۔ ابھی بھی وہ نظر پڑتے ہی اسے دیکھ رہا تھا جو رائل بلو کلر کا سادہ شیفون کا سوٹ پہنے اسپر دوپٹہ سر پر اوڑھے بالوں کی ڈھیلی چٹیا بنائے جس کی آوارہ لٹے بار بار اسکے منہ پر آرہی تھی۔ وہ بس اسے دیکھنے میں مگن تھا جب نرمین نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔ اور بس یہاں اسے لگا تھا وہ اپنا دل ہار جائے گا ۔ یہ سب کیا ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا لیکن دل کہہ رہا تھا ۔ بس وہ اسے ایسے ہی دیکھتا رہے اور ساری زندگی گزر جائے ۔ 

نرمین نے اسے خود کو تکتے دیکھ مصنوعی کھانسی سے ہوش میں لانے کی کوشش کی تھی جب وہ پلک جھپکتے خود کو نارمل کر گیا تھا ۔

"آپکو کچھ کام تھا۔۔۔۔؟"

نرمین نے سرسری سا پوچھتے بیڈ سے گیلا تولیہ اٹھایا جو اسکی صاف طبیعت کو بلکل نا بھایا تھا ۔ 

"آ_ ہاں وہ میں اپنی واچ ڈھونڈ رہا تھا ۔ مل نہیں رہی تھی ۔" 

کبیر خانزادہ جو بات کرنے سے پہلے سوچتا بھی نہیں تھا وہ نرمین کو دیکھتے کنفیوز ہوچکا تھا ۔

نرمین نے ایک نظر بھی اس پر نہیں ڈالی تھی دوبارہ جو طلبگار تھا کے وہ دیکھے اسے ۔ 

وہ سائیڈ ڈرار سے واچ نکالتی ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتی پلٹ گئی تھی اسکے پاس سے گزرتے وہ کمرے سے باہر جانے لگی تھی جب کبیر نے اسکی کلائی تھامی اور نرمین کی دبی دبی چیخ نکلی ۔

کبیر نے اسکے چہرے پر درد کے تاثرات دیکھتے فوری چھوڑ دیا تھا ۔ لیکن اسنے تو اتنا تیز نہیں پکڑا تھا پھر یہ کیا ۔ 

اسنے پھر سے نرمین کی کلائی پکڑ کر دیکھا جہاں اسکی سفید کلائی پر  سرخ سرخ نشان پڑے تھے جسے دیکھ کبیر کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا تھا  ۔

"یہ_یہ کیسے ہوا ...؟؟؟

وہ بوکھلاتا ہوا اسے بیڈ پر بٹھاگیا تھا جیسے ہاتھ نہیں اسکا پیر جلا ہو ۔ 

اور اسکا ہاتھ پکڑتے پھونک مارنے لگا۔

"یہ کیسے ہوا؟ ہمیں ہاسپٹل چلنا چاہیے ۔"

نرمین جو صدمے سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ ہاسپٹل کا سنتے ہوش میں آئی تھی ۔ 

"ہم بلکل ٹھیک ہیں چھوڑیں ہمیں آپ۔ سب نیچے بلا رہے ہیں۔۔"

وہ اپنا ہاتھ چھڑواتی اٹھنے لگی تھی جب اسکے انداز پر کبیر کا پھرا ہوا دماغ پھر پھرا تھا ۔ 

"آرام سے بیٹھو ادھر ۔ میں پوچھ رہا ہوں کیسے جلا ہے یہ ؟؟؟"

ابکی بار وہ غصّہ سے بولا تھا جب نرمین کی آنکھوں میں اسکا لہجہ سنتے پھر آنسو آئے تھے ۔

کبیر اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھتا صبر کا گھونٹ پی گیا تھا ۔ اسے جتنی نزاکت سے نرمین کو سمبھالنا تھا وہ اتنا ہی اس نازک جان پر غصہ کر جاتا تھا ۔اور اب بھی وہ اسکے آنسو دیکھتے بوکھلا گیا تھا ۔ 

"اچھا۔ آئے ایم سوری ۔۔ چلو ہم ہاسپٹل چلتے۔۔۔۔ "

اسنے اپنا جملا مکمل بھی نا کیا تھا جب نرمین اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔۔ 

"ہماری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے آپ کو ۔ایسی لڑکی جو آپکو دھوکا دے رہی ہو اور کسی اور سے محبت کے دم بھرتی ہو  اسکی فکر کرتے آپ اچھے نہیں لگتے اسلیئے رہنے دیں۔ "

وہ بولتی دروازے کی طرف بڑھی تھی ۔ آنسو صاف کرتی وہ رکی۔ 

"جلدی نیچے آجائے سب اپکا انتظار کررہے ہونگے ۔" 

وہ بولتی وہاں سے چلی گئی تھی لیکن کبیر کتنے ہی لمحہ وہاں بیٹھا رہا ۔ بھلے اسنے یہ جملے اسے خود بولے تھے ۔ لیکن آج اسکے منہ سے سننا کبیر کو شرمندگی اخری حد تک پہنچاگیا تھا  ۔ 

 کبیر نے بال ماتھے سے پیچھے کرتے خود شال اوڑھی تھی ۔ آنکھیں ضبط سے بند کر کے کھولتا اسکے پیچھے نیچے گیا تھا ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

راحمہ کی آنکھ کھلی وقت دیکھا تو صبح کے ساڑھے سات ہوگئے تھے ۔ اسنے بستر کے اس طرف دیکھا تھا جہاں فردان نہیں تھا ۔ وہ رات بھی اتنی خاموشی سے نماز کو چلا گیا تھا پھر کب واپس آیا اسے اندازا نا ہوا راحمہ انتظار کرتے کرتے سو چکی تھی اور اب بھی وہ اسکو اٹھائے بغیر  کہاں چلا گیا تھا ۔ 

وہ جلدی سے بستر سے اٹھ کر اپنے کپڑے لیتی واشروم میں گھسی تھی ۔ 

دس منٹ میں فریش ہوتے اسنے جلدی جلدی ڈرائیر سے اپنے بال سکھائے تھے بال بناتے ہلکا سا میک اپ کرتی وہ جیولری میں فردان کا دیا ہوا لاکٹ پہننے لگی جب فردان کمرے میں آیا تھا۔ 

راحمہ اسکو دیکھتے اپنا ناراضگی موڈ آن کرنے کا سوچتی لیکن فردان جو ابھی جاگنگ سے آیا تھا اس  کا سنجیدہ چہرہ دیکھ وہ رک گئی ۔ جو اسے مکمل اگنور کرتا الماری سے اپنے کپڑے نکالتا واشروم میں بند ہوا تھا ۔ 

اسے کچھ عجیب ضرور لگا تھا لیکن وہ خاموش ہوتی اسکا انتظار کرنے لگی ۔ 

"آپ مجھے اٹھا تو دیتے دیکھیں ہم اتنا لیٹ اٹھے ہیں ۔ "

راحمہ فردان کو واشروم سے نکلتے دیکھ اپنی ٹون میں شروع ہو گئی تھی یہ بھلائے جو رات کو اسنے کیا تھا وہ فردان جیسے نخریلے انسان کے لیئے ناقابلِ قبول تھا ۔

"اب تو ریڈی ہو چکی ہیں نا ؟ تو ٹائم ضائع نہیں کریں اور نیچے چلیں لیٹ ہو رہا ہے ہمیں ۔ "

وہ بے لچک انداز میں اپنے بال بناتے ہوئے بولا تھا۔ 

فردان نے کمرے میں آنے سے لے کر اب تک غلطی سے بھی ایک نظر راحمہ پر نہیں ڈالی تھی جو راحمہ نے شدّت سے محسوس کیا تھا ۔ اسکا دل اداس اور چہرہ مرجھاگیا تھا فردان کے لب و لہجہ سن کر ۔ 

اسے تو ایک دن میں ہی فردان کا اسے سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھنا اتنا پسند آیا تھا وہ اسکی محبت کی ایسی عادی ہوئی تھی کے اب اسکی آنکھیں جھلملا گئی تھی ۔ لیکن اپنے آنسو پیتے وہ اسکے پیچھے کمرے سے باہر نکلی جو بنا اسے مخاطب کیئے نکل گیا تھا ۔ 

-------❤️ حیا خان ❤️-------

سب ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھے تھے نرمین کبیر کو سرو کرنے کے بعد دا جان کے پاس کھڑی تھی جو اسے کہ رہے تھے کے وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ناشتا کرے۔ 

"داجان ہمارا دل نہیں کررہا ہم تھوڑی دیر میں کھا لینگے ۔ "

نرمین انکار کر چکی تھی ۔ کے نازو بیگم جو کب سے اسکا چہرا دیکھ رہی تھی انہیں اپنی بیٹی آج بہت عجیب لگ رہی تھی ۔ وہ تو ماں تھی ۔ اور ماں تو اپنی اولاد کے بولنے کی محتاج نہیں ہوتی وہ تو اولاد کا چہرا دیکھ کر ہی محسوس کرلیتی ہے ۔ جیسے نازو بیگم کو لگ رہا تھا پھر انہوں نے کبیر کی طرف دیکھا جس کی پلیٹ اسکے سامنے ایسی کی ایسی رکھی تھی لیکن اسکی نظریں ہر تھوڑی دیر بعد نرمین کو ہی یکھ رہی تھی جس نے ابھی تک ایک نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھ اتھا کبیر کو۔ 

"نرمین بیٹا آپ اپنا خیال نہیں رکھ رہی اور آپکا یہ چہرہ بھی آج اتنا اترا ہوا ہے ۔ بیٹا آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ۔"

داجان نے نازو بیگم کی مشکل آسان کرتے خود ہی سوال کرلیا تھا جب نرمین کی نظر کبیر کی طرف اٹھی تھی جو اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ 

نظروں کا زاویہ بدلتے وہ جھوٹی پھیکی مسکان چہرے پر سجا گئی تھی ۔ 

"داجان ہم بلکل ٹھیک ہیں ۔ آپ ہمارے لیئے اتنا پریشان نہیں ہوا کریں ۔"

نرمین نے انکا پریشان چہرا دیکھ کر انکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا جب دا جان کی نظر اسکی کلائی پر جلے نشانوں پر پڑی تھی وہ بوکھلا گئے تھے  

"ن۔نرمین بیٹا یہ کیا ہوا ہے آپکے ہاتھ پر اتنا زیادہ لال نشانات کیسے ہوا یہ؟"

داجان نے اسکے ہاتھ پکڑ کر دیکھا تو رضوان خانزادہ بھی اپنی چیئر سے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ 

"بیٹا یہ کیا کردیا آپنے دکھائے ہمیں ۔ "

رضوان خانزادہ اسکا ہاتھ پکڑتے دیکھنے لگے جب کے نرمین بے بسی سے ان دونوں کے چہرے دیکھنے لگی جن کی جان بستی تھی اس میں ۔ پیچھے نازو بیگم اور باقی سب بھی پریشان کھڑے تھے ۔ 

رضوان خانزادہ نے اسکی کلائی دیکھی تھی جو کافی زیادہ سرخ ہو رہی تھی جلنے کی وجہ سے ۔ 

"چلیں ہم آپکو ہاسپٹل لے کر چلیں ہماری بیٹی کا ہاتھ کیسے اتنا جل گیا ۔ "

رضوان خانزادہ اسکا ہاتھ پکڑتے  جانے لگے جب اسنے روکا ۔

"بابا جان ہماری بات تو سنیں ۔ ہم بلکل ٹھیک ہیں بس پراٹھے بناتے ہوئے تیل گر گیا تھا لیکن اب اتنی جلن نہیں ہے ۔ "

نرمین نے کہا تو پیچھے بیٹھے کبیر نے اپنی مٹھیاں بھینچی تھی ۔وہ اتنی لاپرواہ کیسے ہوسکتی تھی۔  اتنی جلن نہیں ہو رہی مطلب تھوڑی بہت ہو رہی تھی اور وہ کیسے سب کے ساتھ نارمل کھڑی تھی ۔ 

وہ چاہتا تھا کے رضوان صاحب اسے زور دیں ڈاکٹر کے جانے پر تاکہ وہ انہیں منع نا کرسکے۔ وہ خود بھی بہت پریشان تھا کب سے اسکا ہاتھ دیکھ حلق سے نوالا بھی نا اترا تھا ۔ 

"نہیں بیٹا اٹھیں ہم آپکو ڈاکٹر کے لے کر چلیں ۔ ایسے ہم کبھی نہیں بیٹھے گے ۔" 

جب راحمہ اور فردان بھی پیچھے سے آئے تھے ۔

" کیا ہوا ہے آپ لوگ ایسے پریشان کیوں کھڑے ہیں ۔ "

فردان نے سب کو کھڑے دیکھ پوچھا تھا اور راحمہ نے آگے آتے نرمین کا ہاتھ دیکھا تھا جو رضوان صاحب کے ہاتھ میں تھا ۔ 

"آپی آپ کا ہاتھ اتنا کیسے جلا ۔" 

راحمہ نے آتے اسکا ہاتھ دیکھا تو نرمین نے گہری سانس بھری ۔ 

جب فردان نے آگے آتے اسکا ہاتھ دیکھا تھا جو بہت جلا ہوا تھا ۔ 

نرمین نے چہرے پر نقاب کرلیا تھا اسکے آتے ہی ۔ 

"نرمین بھابھی یہ تو بہت زیادہ جلا ہے ۔ 

آپ کو ڈاکٹر کے جانا چاہیئے ۔ "

فردان بھی بولا تو اب کبیر جو اسکا ضدی پن کب سے برداشت کررہا تھا اسکی بس ہوئی تھی وہ کھڑے ہوتے چابی اٹھاتے باہر نکلا تھا ۔ 

"چاچو آپ آجائے میں باہر گاڑی میں انتظار کررہا ہوں۔"

وہ بولتا باہر نکل گیا تھا جب کے راحمہ نرمین کو عبایا پہناتے باہر چھوڑ آئی تھی ۔ 

رضوان خانزادہ بھی آنے لگے جب کبیر نے انہیں روکا ۔ 

"چاچو آپ پریشان نا ہوں ۔ میں جارہا ہوں نا اچھی طرح چیک اپ کرواؤنگا ۔"

کبیر نے انکو تسلی دی تو وہ خاموش ہوگئے نرمین کو گاڑی میں بٹھاتے ۔ کبیر سیٹ پر آکر بیٹھا تھا ۔ 

ایک نظر اس پر ڈالتا جو اس سے بیگانی ہوئی سامنے دیکھ رہی تھی کبیر نے گاڑی اسٹارٹ کی تھی۔ 

وہ سارے راستے بار بار اس پر ایک نظر ڈال لیتا جو ایسے بیٹھی تھی جیسے کار میں اسکے سوا اور کوئی نا بیٹھا ہو۔ 

کبیر اسکی نظر اندازی دیکھ کڑھ رہا تھا لیکن برداشت کرتا رہا ۔ 

"اہم ۔ زیادہ جلن تو نہیں ہو رہی...؟؟؟"

نرمین نے اسے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا تھا ۔ جب کبیر کا دماغ گھومنے لگا تھا اب لیکن پھر بھی برداشت کرتے وہ دوبارہ مخاطب ہوا۔۔ 

"میں تم سے پوچھ رہا ہوں ۔" 

نہیں ۔ 

ایک لفظی جواب دے کر وہ پھر خاموش ہوگئی تھی ۔ جب ہاسپٹل کے باہر گاڑی کھڑی کرتے وہ اسے اندر لے گیا تھا ۔ ڈاکٹر نے کریم وغیرہ دی تھی اور ہاتھ پانی میں نا ڈالنے کی ہدایت کرتے اسے خیال رکھنے کا کہا تھا ۔ 

ادویات لیتے وہ خاموشی کے دائرے میں گھر آئے تھے ۔ گھر آتے ہی وہ گاڑی سے اتر گئی تھی ۔ 

نرمین نے اسے مخاطب کرنا تو دور کی بات تھی دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا تھا جس پر کبیر کا دماغ جس میں برداشت کی سکت زیادہ نہیں پائی جاتی تھی وہ اب گرم ہونے لگا تھا اسکی نظر اندازی دیکھ کر ۔ 

وہ کنٹرول کرتا باہر نکلا تھا اب ۔ اور سیدھا کمرے میں اسکے پیچھے گیا تھا ۔ 

کھڑکی سے چھن کر آتی روشنی سیدھا اسکے چہرے پر پڑی تھی جو شرٹ لیس اوندھے منہ بیڈ پر لیٹا سو رہا تھا ۔ 

اسنے روشنی سے بچتے نیند میں ہی چہرے پر ہاتھ رکھا تھا جب اسراء واشروم سے باہر نکلی تو سیدھا نظر ضرغام پر پڑی جس کی گندمی رنگت سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی ماتھے پر بل سجے تھے جس پر اسراء فدا ہوئی ۔ 

وہ بے چین بے چین سا سیدھا اسراء کے دل میں اترا تھا ۔ وہ قریب آتے اس روشنی اور ضرغام کے بیچ آگئی جو اسکے شوہر کو بے جا تنگ کررہی تھی۔ ضرغام کے ماتھے کے بل سیدھے ہوئے تو اسراء مسکرائی ۔ 

وہ دن با دن اس کے دل میں اپنے پنجے گاڑھتا جا رہا تھا اور وہ اسکی دیوانی ہوئے چلی جا رہی تھی ۔ اسے تو یہ گندمی رنگت کا شخص نہیں پسند تھا کہاں وہ سرخ سفید سی اور کہاں وہ بادامی رنگت کا پر کشش مرد جس کی بھوری آنکھیں اسے ہر وقت کسی نشے میں ڈوبی لگتی تھی جیسے کچھ کہنا چاہتی ہوں ۔

اسراء کے دل نے خواہش کی تھی کہ وہ جھک کر ان آنکھوں کو چوم لے ۔ 

لیکن اس ڈریگن کی آنکھیں کھلتے ہی تو وہ سہم جایا کرتی تھی ۔ جیسے وہ اسے آنکھوں سے ہی نگل جائے گا۔  

وہ بے اختیاری میں جھکتے بستر پر اسکے قریب بیٹھی تھی ۔ بالوں سے گرتی پانی کی بوندیں اسکے کپڑوں اور اب بستر کو گیلا کررہی تھی لیکن وہ تو مسکراتی صرف اسی میں گم تھی جو دنیا جہاں سے بے گانا نیندوں میں گم تھا ۔ 

اسراء نے ہاتھ بڑھاتے اسکے بال ماتھے سے پیچھے کیئے تھے جب ضرغام نے اسکا وہی ہاتھ پکڑا تھا ۔ اور جھٹ سے اپنی آنکھیں کھولی تھی جو اسراء کی حیرت ذدہ آنکھوں سے ٹکرائی تھی ۔ 

اسکی خمار میں ڈوبی لال ڈوروں والی  آنکھیں دیکھ اسراء کے جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی تھی ۔ اسنے اپنا ہاتھ چھڑوانا چاہا جب ضرغام نے اس چھوئی موئی کو ایک جھٹکا دیتے خود پر گرایا تھا ۔

"میں جانتا ہوں میں بہت ہینڈسم ہوں لیکن تم اتنی فارغ ہو یہ نہیں پتا تھا۔ ؟؟"

ضرغام نے اسکی سہمی شکل دیکھ کر کہا جو بار بار اپنی کمر سے اسکے ہاتھا ہٹانا چاہ رہی تھی جس پر ضرغام کی گرفت مزید سخت ہوتی جارہی تھی ۔ 

"ہم فارغ نہیں ہیں......"

اسراء نے منہ بناتے ہوئے کہا تو ضرغام طنزیہ مسکرایا ۔

"تو پچھلے بیس منٹ سے میرے سامنے کھڑی کیا کرر ہی ہو..؟"

ضرغام نے اسے وقت کا احساس دلایا تو وہ حیران ہوئی ۔ 

"آ۔آپ جاگ رہے تھے؟"

"یوں چھپ چھپ کر دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے قریب آکر بھی دیکھ سکتی ہو باربی ڈول میں تمہیں کھا نہیں جاؤنگا۔ "

ضرغام نے اسکے گیلے بال چہرے سے ہٹاتے اسکے گلابی گالوں سے پانی صاف کیا تو وہ کپکپا گئی ۔۔

اسراء اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی تھی جو نیند کے باعث اور نشیلی لگ رہی تھی ۔ جب ضرغام اسے خود میں کھوتے دیکھ گہرا مسکرایا ۔ 

"محبت کرتی ہو مجھ سے ؟"

اسے خود میں گم دیکھ ضرغام نے اپنا رات والا سوال دہرایا تھا جب اسراء نے کھوئے ہوئے سر اثبات میں ہلایا ۔ 

"سوچ لو ۔ برا پھنس جاؤگی۔"

وہ اسکے کان کے قریب جھکتا کوئی صور پھونک رہا تھا اسراء نے آنکھیں بند کرتے اسکے سینے میں چہرا چھپایا تھا۔ 

جس پر ضرغام اپنی فتح پر مسرور ہوا تھا ۔ وہ بنا کہے اظہار کر چکی تھی ۔ 

اسے چھوڑتے ضرغام خود کھڑا ہوا تھا ۔ اور اپنے کپڑے لیتا سیدھا واشروم میں بند ہوا تھا ۔ اور اسراء اچانک اسکی اجنبیت دیکھتے حیران ہوئی تھی ۔ 

اسے سمجھ نہیں آرہا تھا پل میں وہ اسے آسمان پر بٹھا رہا تھا اور پل میں اسے زمین پر پھینک دیتا ۔ 

--------❤️ حیا خان ❤️-------

وہ واشروم سے باہر نکلا نک سک سا تیار وہ اسراء کو دیکھنے لگا جس نے ہرے رنگ کا فراک پہنے لال دوپٹہ سر پر اوڑھ رکھا تھا ۔ پنک پنک سے میک اپ اور ہلکی سی جیولری میں وہ بہت پیاری لگی تھی کے ضرغام نے اسکے سراپے سے نظریں چراتے اپنے کف لنکس بند کیئے تھے ۔ 

اور سائیڈ ڈرار سے ایک باکس نکالا تھا اور اسکے ہاتھ میں دیا تھا ۔۔ 

"تمہاری منہ دکھائی ۔ "

وہ کبھی ہاتھ میں پکڑے اس باکس کو دیکھتی اور کبھی اسے جو اب آئینہ کی طرف منہ کرتے بال بنا رہا تھا۔ 

اسنے باکس کھولا تو اس میں جڑاؤ دار کنگن تھے ۔ 

"یہ تو بہت خوبصورت ہیں.. آپ نے لیئے ہیں ہمارے لیئے ؟"

وہ خوش ہوتے معصومیت سے پوچھنے لگی جب ضرغام شیشہ سے ہی نظر آتے اس کے عکس کو دیکھتے طنزیہ مسکرایا ۔ 

"ماما نے دیئے تھے کہا تمہیں دے دوں ۔"

وہ کہتے پلٹتا اسراء کی انکھوں میں دیکھنے لگا جو پہلے کسی موتی کی طرح چمک رہی تھی اور اب بلکل مرجھا گئی تھی۔ ضرغام نے اسکے قریب اتے اسکے بال کان کے پیچھے اڑسے تھے۔ 

"اور ویسے بھی میں تحفے انہیں دیتا ہو جس سے میں محبت کرتا ہوں ۔ اور تم بیوی ہو ، محبت نہیں بےبی ڈول ۔"

وہ مسکراتا اسکی آنکھوں میں دیکھتا اسے ساکت کر گیا تھا ۔ 

"ک_کیا مط_ مطلب آپ مجھ سے مح_محبت......"

اسراء کے دل میں چبھن سی ہوئی ہوئی تھی۔ 

جس پر ضرغام کھل کر مسکرایا ۔ 

"کیا؟ کیا کہاں ؟؟

میں ؟ اور تم سے محبت؟؟ "

وہ ہنستا ہوا اسکا چہرا دیکھنے لگا جو اپنے آنسوؤں کو روکنے کی ناممکن سی کوشش کررہی تھی ۔ 

وہ اسکا مذاق اڑا رہا تھا ؟ اسکا دل چھن سے ٹوٹا تھا جیسے وہ اب تک کوئی خواب دیکھ رہی تھی اور اب اسکو نیند سے اٹھاتے کسی نے بری طرح جھنجھوڑا ہو۔۔ 

اسکی آنکھیں دھندلا گئی تھی ۔ آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر نیچے گرا تھا جسے نیچے گرنے سے پہلے ضرغام نے اپنے انگوٹھے سے چنا تھا ۔ 

اسکی آنکھ کا پہلا آنسو جو اسکے گال پر بہہ گیا تھا ضرغام کا دل اس میں ڈوب کر ابھرا تھا لیکن پھر اپنی محبت جو بیچ منجدھار میں آکر اس سے بے دردی سے کبیر خانزادہ نے چھینی تھی اسکا حساب بھی تو بےباک کرنا تھا اسے۔ سفاک سی مسکراہٹ نے پھر سے چہرے کا احاطہ کیا تھا۔ 

"تم میری محبت ہر گز نہیں ہو ۔ اور نا ہو سکتی ہو محبت ایک بار ہوتی ہے اور مجھے ہوچکی ہے ۔ اب کسی سے نہیں ہوگی  ۔ ۔"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتا تلخ مسکراہٹ چہرے پر سجائے اسکا نازک سی لڑکی کا دل اپنے ہاتھوں سے کرچی کر چی کررہا تھا ۔ جس نے جوانی آتے ہی محبت کی دہلیز پر ابھی قدم جمائے تھے ۔  

اسراء نے حیران نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکا سامنے کھڑا اسکو اذیت دیتے مسکرا رہا تھا ۔ ایک۔دو اور دو کے بعد کئی آنسو اسراء کی آنکھ سے بہے تھے ۔ 

"تو۔آپ__آپ نے ہم سے ش_شادی کیوں_کیوں  کی ۔۔؟

اسراء نے آنسو بہاتے ہلکی سی آواز میں پوچھا تھا جس پر ضرغام نے اسکا معصوم چہرا دیکھا تھا ۔ ایک پل اسکا دل کیا تھا جو زخم محبت میں خود کو ملا ہے وہ کیوں کسی کو دے رہا ہے۔  لیکن کبیر خانزادہ سے نفرت اتنی بڑھ گئی تھی کہ اسکے آگے ہر بات چھوٹی لگنے لگی تھی ۔

"کسی کی اتنی اوقات نہیں ہے جو ضرغام خانزادہ کے بچپن کی منگ کو کسی اور کے حوالے کرے۔ تمہارا نام بچپن سے میرے نام کے ساتھ جڑا ہے ۔ اور کوئی مجھ سے جڑی شے پر نظر اٹھائے گا تو ان آنکھوں کو نوچ لونگا میں۔"

وہ چہرے پر چٹانوں جیسی سختی سجاگیا تھا ۔ 

"لیکن تم سے محبت؟

 تم اس ٹائپ کی نہیں ہو یو نو ۔۔"

وہ طنزیہ مسکراتا اس کا دل چیر گیا تھا ۔ 

"آپ_آپ ایسا ن_نہیں  کرسکتے آپ اس رشتے کے ساتھ بے وفائی کر_کرہے ہیں۔"

اسراء اپنی تازی تازی محبت کا یوں گلا گھٹتے دیکھ تڑپ رہی تھی اندر سے لیکن باہر سے خود کو مضبوط کررہی تھی ۔ 

"کیسی بے وفائی باربی ڈول ؟ تم میرے سامنے میری بیوی کی حیثیت سے کھڑی ہو ۔ اور اگر اس سے بھی زیادہ کچھ چاہیئے تمہیں تو چلو آج روم سے باہر جانا کینسل کردیتے ہیں ۔ "

وہ بےباکی سے بولتے اسکی بیوٹی بون پر ٹھرے تل پر انگوٹھا رگڑنے لگا ۔ 

جب وہ اسکا ہاتھ جھٹکتی پیچھے ہوئی ۔

ضرغام کے ماتھے پر بلوں کا جال بچھا تھا ۔ اسکے جھٹکنے پر ۔ 

"واپس اپنی جگہ پر آؤ" 

اسنے اسراء کو دیکھا جو اسکے سامنے کھڑی آنسو بہارہی تھی ۔ 

"آپ کس_کسی اور سے؟؟"

اسراء نے اپنا جملا ادھورا چھوڑا تھا ۔ 

اسکی زبان یہ جملا پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی تھی ۔ 

"واپس_اپنی_جگہ پر_ آؤ ۔"

وہ ایک ایک لفظ چباتا اپنی سابقہ بات پر اٹکا تھا لیکن اسراء کو ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے دیکھ اسنے آگے بڑھتے اسکے ہاتھ کو مروڑ کر پیچھے کمر سے لگایا تھا ۔ 

جس پر وہ کراہتے انکھیں میچ گئی تھی ۔ 

"آئیندہ میری بات کا انکار مت کرنا باربی ڈول۔ مرد اپنی نفی کبھی برداشت نہیں کرتا اور ہم تو پھر خان ہیں ۔ اس حرکت پر تمہاری سانسیں چھین لوں گا میں۔۔ "

وہ اسکے قریب آتا پہلے والا ضرغام خانزادہ بن گیا تھا ۔ جس کے منہ سے اور آنکھوں سے ہر وقت آگ برستی تھی ۔ 

اسراء تکلیف سے کراہ رہی تھی لیکن ضرغام نے اسکا ہاتھ نا چھوڑا ۔ 

"عورت بھی اپنی نفی کبھی برداشت نہیں کرتی ہے ضرغام خانزادہ ۔ ہم اگر  اپنی پر آئے تو اپکو محبت کے اصلی معنی سمجھا کر چھوڑونگے ۔ "

"کیونکہ پاک محبت صرف محرم کے دلوں پر حکمت کرتی ہے ۔  جیسے میری محبت ہے ۔ نا محرم کے دلوں پر نہیں۔ جیسے آپکی محبت ہے ۔"

وہ مسکراتی اسکی آنکھوں میں اپنی بھیگی آنکھیں گاڑھ کر بولی تھی کے ضرغام ساکت سا اسکی انکھوں میں جنون دیکھ رہا تھا۔ 

وہ اس چھوٹی سی لڑکی اور اسکی محبت کا یقین دیکھ کر ایک پل کے لیئے حیران ہوگیا تھا لیکن پھر اسے خود سے دور جھٹکا جو اپنا ہاتھ پکڑتے آنسو بہاتی اسے دبانے لگی تھی ۔ 

"یہ جو تمہاری نئی نئی جنونی محبت پیدا ہوئی ہے نا اسے ایک پل لگے گا مجھے توڑنے میں ۔ اور تمہارے یہ سارے بڑے بڑے دعوے دھرے رہ جائینگے۔ "

وہ پھر سے سفاکیت سے مسکراتا آئینہ کی طرف مڑتا اپنے آپ کو ایک نظر دیکھتا باہر نکل گیا تھا پیچھے اسراء زمین پر بیٹھتی چہرا گھٹنوں میں چھپاتے بے تحاشہ رو دی تھی۔ 

---------❤️ حیا خان ❤️-------

کبیر اپنے کمرے میں ہی جا رہا تھا جب فردان اسے بیچ میں ہی پکارتا اپنے ساتھ لے گیا تھا ڈیرے پر ۔ 

"سردار آپ سے درخواست ہے کے آپ یہاں اسکول کالج کا انتظام کردیں ۔ ہم جانتے ہیں بڑے سردار اس بات پر راضی نہیں ہونگے ۔ لیکن ہم اپنی بیٹیوں کو شہر بھیجنے سے قاصر ہیں ۔"

گاؤں کے کچھ لوگ کبیر سے مخاطب تھے ۔ جن کی بیٹیاں پڑھنا چاہتی تھی لیکن وہ انہیں اس لمبے سفر کے باعث کالج یونیورسٹی بھیجنے سے پریشان تھے۔ 

"آپ لوگ فکر نہیں کریں ہم اس بارے میں سوچے گے ۔" وہ کہتا ایک نظر فردان کو دیکھا تھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

گاؤں کے لوگ جا چکے تھے ، جب فردان اس سے مخاطب ہوا ۔ 

"لالا یہ مشکل کام ہے میں جانتا ہوں آپ خود ایک آرکیٹیکٹ ہیں لیکن دا جان کو سمجھانا مشکل کام ہے ۔ وہ لڑکیوں کو پڑھانے کے خلاف ہیں جب آپ یہاں نہیں تھے تو میں نے نرمین بھابھی راحمہ اور اسراء کے لیئے داجان کو بہت منایا تھا اور اس میں نرمین بھابھی کا بھی ہاتھ تھا ۔ یہ تو وہی تھی جنہوں نے داجان کو منایا تو آج وہ تینوں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ ورنہ داجان سے تو ابھی بھی کوئی ذکر نہیں کرتا تعلیم کے معاملات میں" ۔ 

فردان نے اسے سمجھانا چاہا تھا ۔ جو کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ 

"ضرور ہوگا ۔ یہ پورانے زمانے کی باتیں ہیں۔ آج کل کے دور میں تعلیم جتنی مردوں کے لیئے ضروری ہے اتنی ہی عورتوں کے لیئے ضروری ہے۔ اور یہاں ادارے ضرور تعمیر ہونگے ۔"

کبیر نے تہیہ کرتے فردان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا جس نے یہ سنتے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

رات ہوگئی تھی لیکن فردان ابھی تک کمرے میں نہیں آیا تھا کمرے میں بیٹھی وہ کب سے اسکا انتظار کررہی تھی ۔ 

صبح سے اس نے ایک پیار بھری نظر سے بھی نہیں دیکھا تھا راحمہ کو جو کب سے اسکی طلبگار تھی ۔ اسے کچھ غلط لگا تھا۔۔ 

کہی وہ اس سے ناراض تو نہیں ہے ؟ کل رات۔۔۔ ہاں کل رات کے بعد سے وہ عجیب برتاؤ کررہا تھا۔ یہ سوچتے اسکا دل گھبرا رہا تھا ۔ اسے تو کسی کو منانا بھی نہیں آتا تھا ۔ اب وہ کیا کرتی ۔۔

روہانسی ہوتے وہ سوچنے بیٹھی تھی۔ جب دروازہ کھلا تھا اور فردان اندر داخل ہوا تھا۔ 

وہ کھڑی ہوتے اس کے پاس آئی تھی ۔ 

"آگئے آپ ۔ ہم کب سے آپ کا انتظار کررہے تھے۔"

راحمہ نے آتے ہی خوشی سے اسکا استقبال کیا جو بنا اسے دیکھے اپنی شال رکھتا سائیڈ ٹیبل پر واچ اتار کر رکھتا واشروم میں بند ہوا تھا ۔ 

راحمہ نے حیرانی سے یہ دیکھا تھا ۔ اسکی آنکھیں جھلملانے لگی تھی لیکن اسنے کنٹرول کرتے ایک نظر آئینہ میں خود کو دیکھا تھا ۔ جو مہرون کلر کی سادہ شیفون کی فراک پہنے بالوں کو جوڑے میں قید کر رکھا تھا میک اپ سے پاک چہرے میں پیاری لگ رہی تھی لیکن نئی نویلی دلہن تو کہی سے نہیں لگ رہی تھی ۔ 

اسنے ڈریسنگ ٹیبل پر سے کاجل اٹھاتے آنکھوں میں لگایا تھا مسکارے سے گھنی پلکیں مزید سواری گئی تھی پھر لپسٹک اٹھاتے اسنے ہونٹوں کو مہرون رنگ میں رنگا تھا ۔ بالوں کو کھولتے آدھے بالوں میں کیچر لگاتے اسنے تنقیدی نظروں سے خود کا جائزہ لیا جو مہرون رنگ میں ہلکا سا تیار ہوتے اب حسین ترین لگ رہی تھی ۔ اسنے مسکراتے خود کو دیکھا تھا جب فردان باہر نکلا تھا ۔

 بلیک ٹراؤزر پر وائٹ ٹی شرٹ پہنے وہ اس حلیہ میں بھی ہینڈسم لگ رہا تھا اسنے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا تھا ۔

راحمہ نے اسے دیکھا جو ایک نظر بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا ۔ 

"ہم آپ کے لیئے کھانا لے آئے ۔ ؟؟ 

اسنے فردان کو مخاطب کیا جو موبائل ہاتھ میں تھامے بیڈ پر جاکر لیٹا تھا۔ لیکن اسے ابھی بھی نا دیکھا تھا اور جواب بھی نا دیا تھا ۔ اب راحمہ کو رونے کے ساتھ غصّہ بھی آنے لگا تھا ایسا بھی کیا کردیا تھا جو وہ اسے اتنے نخرے دکھا رہا تھا ۔ 

اسنے فردان کے پاس جاتے اسکے ہاتھ سے موبائل چھینا تھا اب اسکی بس ہوچکی تھی کب سے وہ برداشت کررہی تھی اسکی نظراندازی ۔

"ہم آپ سے اتنی دیر سے کچھ پوچھ رہے ہیں اور اپ ہمیں جواب دینا تو دور ہمیں دیکھ بھی نہیں رہے جیسے ہم ہے ہی نہیں ۔"

اسنے فردان کی طرف دیکھتے کہا تھا جو غصّہ سے مٹھی کس چکا تھا لیکن ابھی بھی سامنے دیوار پر دیکھ رہا تھا اور اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا جو اسکے سامنے اپنے سوال لیئے کھڑی تھی ۔ 

راحمہ کی آنکھوں میں دیکھتے دیکھتے آنسو بھرے تھے ۔ وہ اس سے بات نہیں کررہا تھا اسے دیکھ نہیں رہا تھا اور اسے تو سمجھ بھی نہیں آ رہا تھا وہ کیا کرے ۔ بےبسی سے اسکی آنکھیں بھر گئی تھی ۔ 

وہ موبائل بیڈ پر پھینکتی ڈریسنگ روم میں بند ہوگئی تھی ۔ فردان نے اسکی پشت کو دیکھا جو اسکی بات نا مانتے اسی کو غصّہ دکھا رہی تھی ۔ اسے چاہیے تھا وہ منائے اسے لیکن اسی کو نخرے دکھا رہی تھی ۔

وہ جان کر اسکا چہرا نہیں دیکھ رہا تھا اسے پتہ تھا اسے دیکھتے وہ اپنا غصہ بھول جائے گا لیکن کل رات وہ اپنی بات کی نفی برداشت نہیں کرپایا تھا  اسے ابھی تک اس بات پر غصہ تھا جو ٹھنڈا ہر گز نہیں ہوا تھا ۔ 

آدھا گھنٹا گزر گیا تھا وہ کمرے سے باہر نہیں آئی تھی ۔ اب فردان کو تفتیش ہو رہی تھی وہ ابھی تک نہیں آئی تھی ڈریسنگ روم میں ایسا بھی کیا کررہی تھی آخر ۔ 

جب کلک کی آواز سے دروازہ کھلا اور وہ باہر آئی سادہ سے سفید قمیض شلوار پہنے کاجل آنکھوں سے پھیلا ہوا تھا رونے کے باعث اور ہونٹ مہرون رنگ سے رنگے کپکپارہے تھے جیسے ابھی بھی آنسو ضبط کررکھے ہوں ۔ 

راحمہ کو ایسے دیکھتے فردان کا دل منہ کو آیا تھا ۔ وہ اٹھتے اسکے پاس گیا تھا جو واشروم منہ دھونے جارہی تھی اب۔ 

"کیا ہوا آپکو _آپ رو کیوں رہی ہیں ۔؟" 

اسنے راحمہ کا بازو پکڑتے اپنی طرف کیا تھا جو نظریں جھکائے کھڑی تھی ۔

فردان نے اسکی تھوڑی پر انگلی رکھتے اسکا چہرا اوپر کیا تھا جس نے ابھی بھی نظریں نہیں اٹھائی تھی ۔ 

سفیدی میں گھلی رونے کے باعث سرخیاں گیلی پلکیں اور وہ ہونٹ جو ابھی تک کپکپارہے تھے ۔

فردان کا دل ڈوبا تھا اسکی خوبصورتی میں ۔کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے قریب کرتے اسنے جھکتے بے خودی میں اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا ۔ 

"کل ہم نے آپ سے کہا تھا کے آپ ہمارے آنے سے پہلے چینج مت کرے گا تو آپ نے کیوں نہیں مانی ہماری بات ؟ 

اور اب ہماری ناراضگی بھی برداشت نہیں ہو رہی آپ سے ۔"

اسکی بات سنتے راحمہ کی آنکھ سے پھر انسو گرنا شروع ہو گئے تھے فردان نے گھبراتے اسکے آنسو اپنے پوروں سے چنے تھے۔ 

"یار جنگلی بلی کیوں آپ ایسے رو کو خود کو ہلکان اور ہمیں پریشان کررہی ہیں ۔"

راحمہ نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا جو اسکے رونے پریشان سا کھڑا تھا ۔ 

فردان نے اسکی آنکھوں میں دیکھا جو اب لال ہورہی تھی اسے اب غصہ آرہا تھا ۔ 

راحمہ کو گود میں اٹھاتے وہ بستر کی طرف بڑھا تھا جو نظریں نیچے کیئے اسکے گردن کے گرد حصار باندھ گئی تھی ۔ 

اسے بستر پر لٹاتے وہ اسکے قریب لیٹا تھا جو  ابھی بھی آنسو بہارہی تھی ۔ 

"پہلے تو آپ رونا بند کریں ورنہ ہم اچھی طرح سے اپکو چپ کروائینگے ۔"

اس بار فردان نے غصہ میں کہا تھا جو نظریں اٹھاتے فردان کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھنے لگی تھی ۔ 

فردان نے اسے گھورا تو راحمہ نے اپنے آنسو صاف کیئے۔ 

"آپ___آپ نے صبح سے ہم__ہماری طرف ن_نہیں دیکھا تھا۔ "

اسنے ہچکیوں کے بیچ فردان سے شکوہ کیا تھا جو اسکی شکایت اسی سے کرتے ہوئے فردان کو بہت پیاری لگی تھی ۔  

فردان نے مسکراتے ایک ہاتھ اسکے گرد باندھا تھا ۔

"اور____؟؟ 

"ہم_ہماری تعریف بھی نہیں کی آپ__آپ نے آج ۔ "

اسنے ایک اور شکوہ کیا تھا  فردان کے ہونٹوں پر خوبصورت سی مسکان آئی تھی ۔ 

وہ اسکے مزید قریب ہوتے گیلی پلکوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کرنے لگا ۔ 

"اور____؟؟

"اور آپ نے صبح سے ہم سے ایک دفعہ بھی بات نہیں کی."

یہ بولتے راحمہ کی آنکھ سے پھر ایک آنسو گرا تھا جب فردان نے اسے گھورتے صاف کیا تھا ۔ 

"اور آپ نے کل ہمارے ساتھ جو کیا تھا اسکا اپکے قانون میں کیا انصاف ہے ؟"

فردان نے خمار میں ڈوبی آواز میں بولتے اسکے گال پر بوسہ دیا تھا جب راحمہ نے شرمندہ ہوتے نظریں نیچے کی تھی ۔ 

"ہم__ہمیں ڈر لگ رہا تھا."

فردان نے چونکتے اسے دیکھا تھا ۔

"اور کس سے ڈر لگ رہا تھا آپکو ؟ "

"آ__ آپ سے ۔۔"

اسنے شرمندہ ہوتے کہا تھا جیسے کوئی مجرم اپنا جرم قبول کر رہا ہو۔ 

فردان نے اسکی بات سمجھتے اپنی مسکراہٹ دبائی تھی ۔ 

"ہمممم__ ڈر تو آپ کو لگنا چاہیئے ۔ بلکہ اب زیادہ لگنا چاہیئے کیونکہ آپ نے ہماری بات نہیں مانی اسلیئے اب سزا بھی بنتی ہے آپکی ۔"

راحمہ نے چونکتے اسے دیکھا تھا جو خمار میں ڈوبی آنکھیں لیتے اسکے قریب ہوا تھا اور اسکے بالوں میں چہرا چھپاتے لائیٹس آف کر گیا تھا ۔ 

رات دیر کیئے فردان کے ساتھ کبیر کو بھی آنے میں بہت دیر ہوگئی تھی ۔ نرمین انتظار کر رہی تھی کہ رات کے گیارہ بج گئے تھے لیکن ابھی تک وہ نہیں آیا تھا ۔ 

وہ کپڑے چینج کرتی سادہ سا سوٹ پہن کر ابھی بستر پر بیٹھی ہی تھی جب کبیر تھکا ہارا اندر آیا تھا اور نرمین پر نظر پڑی جو سادہ سے سفید سوٹ میں دھلے منہ کے ساتھ کوئی حور لگ رہی تھی ۔ اسے دیکھتے کبیر کی تھکن اتری تھی وہ دروازے پر کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جب نرمین اسکی طرف متوجہ ہوئی اور اسے خود کو یوں تکتا دیکھ وہ نظریں نیچے کرتے دوپٹہ سر پر اوڑھتی اسکے کپڑے نکالنے وارڈروب کی طرف بڑھی ۔ 

چیرا سپاٹ اور سنجیدہ تھا ۔ کچھ بھی ہو لیکن وہ اسکا شوہر تھا اور اسکی ذمہ داری تھی اسکی ضرورتوں کا خیال رکھنا۔ اسنے چاہا مگر پوچھنا گوارا نا کیا کے وہ اتنی دیر سے کیوں آیا۔ وہ کپڑے نکالتے ڈریسنگ روم میں رکھتے باہر آئی تو کبیر اب شاید واشروم میں تھا جہاں سے پانی کی آوازیں آ رہی تھی ۔ 

وہ باہر نکلتے کھانا گرم کرنے گئی ۔ اور جب کھانا لے کر آئی تو کبیر شیشہ کے سامنے کھڑا تولیہ سے بال رگڑتا اسے بستر پر پھینک گیا تھا ۔ بلیک ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں وہ گیلے بالوں میں انتہا کا ہینڈسم لگنے کے باوجود بھی نرمین کو بہت زہر لگا تھا کیونکہ گیلا تولیہ اسکا بیڈ پورا گیلا کر چکا تھا کبیر پلٹا تو نرمین ہاتھ میں کھانے کی ٹرے پکڑے تولیہ کو گھور رہی تھی اور نرمین کے تاثرات سے صاف پتہ چل رہا تھا کے اسے یہ چیز بلکل پسند نہیں آئی ۔ 

کبیر نے اسکے تاثرات دیکھتے اپنی مسکراہٹ دبائی ۔ اور گلا کھنکھارتے اسنے نرمین کو متوجہ کیا وہ نیچے نظریں کرتے کھانے کی ٹرے بستر پر رکھ کر پلٹ چکی تھی ۔ کبیر کو اچھا لگا تھا اپنے سارے کام اس سے کروانا ۔ وہ حق سے کررہی تھی اسکی بیوی کی حیثیت سے اور یہی بات کبیر کو اندر تک سرشار کررہی تھی ۔ 

لیکن وہ اس معصوم لڑکی کا دل بہت بری طرح توڑ چکا تھا ۔ اور یہ سوچ آج صبح سے رات چوبیس گھنٹے اسکے سر پر سوار رہی تھی ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کیسے اس سے معافی مانگے کیسے اس سے بات کرے وہ تو دیکھ بھی نہیں رہی تھی اسکی طرف اور وہ اسکی آنکھوں کے اس ظلم پر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔

"تم نے کھانا کھالیا ؟"

وہ پلٹی تو کبیر نے اسے خود کی طرف متوجہ کیا ۔ 

"نہیں ہمیں بھوک نہیں ہے ۔"

وہ بنا پیچھے مڑے اسے جواب دے گئی تھی کبیر کے ماتھے پر بل پڑے تھے ۔ 

"ادھر آؤ ۔ میرے ساتھ کھانا کھالو ۔"

وہ اسے حکم دے رہا تھا یا التجا کررہا تھا نرمین کو سمجھ نا آیا ۔

"نہیں۔ ہمیں نہیں کھانا"۔ 

وہ وہاں سے جانے لگی جب کبیر نے بھی کھانا خود سے پرے کیا ۔ 

"اسے بھی ساتھ لے جاؤ مجھے بھوک نہیں ہے ۔ "

نرمین نے انکھیں بند کرتے خود پر ضبط کیا اور پلٹ کر کھانا اسکے سامنے رکھتی بیٹھ گئی۔ 

کبیر مسکرایا اور چمچ بھر کر اپنے منہ میں ڈالا ۔ اور نرمین کو دیکھا جو دوسری پلیٹ تیار کررہی تھی اپنے لیئے۔

"اسی پلیٹ میں کھاؤ "۔

اب کی بار کبیر نے اسے حکم دیا تھا ۔ نرمین نے ابھی بھی نظر اٹھا کر اسکو نہیں دیکھا تھا ۔ وہ چمچ اٹھاتے تھوڑے سے چاول منہ میں ڈال گئی تھی ۔ 

"ہاتھ کیسا ہے اب ۔ ؟ تم نے جیل لگایا جو ڈاکٹر نے دیا تھا ۔؟ 

کبیر کو نرمین کے ہاتھ کا خیال آیا تھا۔

"نہیں۔" 

ایک لفظی جواب دیا گیا تھا بس ۔ 

"کیوں نہیں لگایا تھا ؟ ڈاکٹر نے کہا ہے دو ٹائم لگانا ہے ورنہ نشان رہ جائے گا ۔ اور مجھے یہ نشان تمہارے ہاتھ پر نہیں چاہیئے۔"

وہ پہلے برہم ہوا پھر آخر میں نرمی سے کہتے اسکا ہاتھ پکڑا جو نرمین نے واپس کھینچ لیا تھا۔ 

"ہم ٹھیک ہیں ۔ کسی جیل کی ضرورت نہیں ہے ۔ آپ کھانا کھائیں وہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔" 

نرمین چند نوالے کھاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔ 

جبکہ کبیر خاموش نظروں سے بیٹھا اسی کو دیکھ رہا تھا۔ 

اسنے بھی دو چار نوالے لیتے کھانا دور کیا تھا ۔ نرمین اٹھ کر ٹرے رکھنے چلی گئی تھی۔ 

جب آئی تو کبیر جیل ہاتھ میں پکڑے اسکا انتظار کررہا تھا وہ اگنور کرتی آئینہ کے سامنے جا کھڑی ہوئی ۔ اور اپنے بال بنانے لگی۔ اسکے لمبے کالے سیاہ بال ۔۔۔ 

آنکھوں کے بعد سب سے حسین کبیر کو اسکے بال لگے تھے جو کمر سے بھی نیچے آتے تھے ۔ 

وہ اٹھ کر اسکے پیچھے جا کھڑا ہوا جو کب سے اسے اگنور کررہی تھی اب شیشہ سے اسے دیکھنے لگی ۔ کبیر نے اسے کندھے سے پکڑتے اپنی طرف رخ کیا اور اسکا ہاتھ تھامتے کلائی کا جائزہ لیا جہاں پر سرخ سرخ نشان تھے جس سے اندازہ ہو رہا تھا اسنے کوئی احتیاط نہیں کی تھی اچھی طرح سے پانی میں ہاتھ ڈالا تھا اور جیل جو ڈاکٹر نے لگایا تھا بس تبھی لگایا تھا دوبارہ اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا تھا ۔ 

کبیر کو اسکی خود سے اتنی بے فکری دیکھ کر بہت غصّہ آیا تھا اسنے نرمین کو گھورا جو نظریں نیچے کیئے کھڑی تھی پھر اسکا ہاتھ تھامتے اسے بستر پر لے جا کر بٹھایا ۔ اسکے برابر میں بیٹھتے اپنی انگلی پر جیل نکالتے احتیاط سے اس پر جیل لگایا تھا جو جلا نشان سوکھ کر پاپڑ ہو رہا تھا اور جگہ جگہ چھالے بنے ہوئے تھے ۔ 

"یا اللّٰہ ۔" 

آنکھیں میچتے درد برداشت کرتے بے اختیار اسکے منہ سے نکلا تھا ۔ 

کبیر کو اسکی تکلیف دیکھ کر دکھ ہوا وہ ہلکے ہلکے پھونک مارتے اس کے ہاتھ پر احتیاط سے جیل لگانے لگا۔

نرمین نے محسوس کرتے آنکھیں کھولی تو کبیر کو ایسے دیکھ وہ سب بھلائے اسے دیکھنے لگی جو بہت خوبرو تھا بے حد حسین ماتھے پر بلوں کا جال بچھا تھا پلکیں اتنی گھنی تھی کے وہ ہری کائی سی گہری آنکھوں پر بے تحاشہ جچتی تھی ۔ رنگت سفید تھی جو تھوڑے سے بھی غصے پر سرخ ہوجاتی تھی ۔ ہلکی داڑھی چہرے پر خوب جچتی تھی ۔ وہ بے حد حسین مرد تھا جس کے ظاہر سے تو اسنے کبھی محبت نہیں کی تھی یقیناً وہ ایسا نا بھی ہوتا تب بھی وہ اس سے ایسی ہی محبت کرتی لیکن اسکا الزام جو اسنے نرمین کی ذات پر بنا سوچے سمجھے لگادیا تھا اسے سوچتے نرمین کی آنکھوں میں تیزی سے آنسو جما ہوئے تھے ۔ 

کبیر نے احتیاط اور پیار کے ساتھ اسکے جیل لگاتے چہرہ اوپر اٹھایا تھا تو وہ آنکھوں میں آنسو بھرے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ 

اسکی آنسو بھری آنکھیں دیکھ کبیر جم گیا تھا اپنی جگہ ۔ وہ شکوہ کرتی آنکھوں نے کبیر کو ڈھیروں شرمندگی کے گڑھے میں ڈالا تھا ۔ آج اسے اپنی لوگوں کو پرکھنے کی عادت سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔  وہ کیسے اس پر شک کر گیا تھا کیسے اسے اتنا برا بھلا کہہ سکتا تھا وہ تو جانتا بھی نہیں تھا اسے اور اسے کٹھرے میں لا کر کھڑا کرچکا تھا ۔ کبیر کا دل کررہا تھا اس لڑکی کو وہ اپنے سینے میں بھینچ کر اپنے اندر لگی آگ کو ختم کردے۔ 

نرمین اپنے آنسو پوچھتے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ جب کبیر نے واپس اسکا ہاتھ پکڑتے  بستر پر بٹھایا تھا ۔ اور نرمین کی آنکھوں میں دیکھا تھا جو نظریں نیچے کیئے آنسو لیئے بیٹھی تھی ۔ 

وہ اسکے برابر سے اتراتا اسکے قدموں میں بیٹھا تھا ۔ جسے دیکھ نرمین حیران ہوتے اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ کبیر نے اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر واپس بستر پر بٹھایا تھا ۔ اور اسکے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھا رہا ۔ 

کئی لمحیں گزر گئے لیکن وہ کچھ نہیں بولا نرمین اسے دیکھتی رہی حیران نظروں سے۔ وہ خود میں ہمت جمع کررہا تھا معافی مانگنے کی ۔ 

ہاں وہ شخص بلا کا مغرور انسان تھا ۔ سب کو جوتے کی نوک پر رکھنے والا جس نے کبھی معافی جیسا لفظ خود کے لیئے استعمال نا کیا تھا ۔ آج وہ اسکے سامنے قدموں میں بیٹھا تھا ۔

"میں_وہ تم سے__میں یہ کہنا_"

نرمین اسے خاموش نظروں سے دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھی وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔

"ہمیں_ نیند آرہی ہے۔"

اسکی جھجھک دیکھتے نرمین نے بات ختم کرنا چاہی تھی ۔ 

"جب تک میں اپنی بات نہیں کہہ دیتا تم یہاں سے ہل بھی نہیں سکتی ۔"

کبیر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے کہاں تھا۔ 

"آپ نہیں کہہ سکتے۔۔۔

 کسی کی کردار کشی کرکے اسے زخم آپ بہت آرام سے دے سکتے ہیں ۔ لیکن انہی زخموں پر مرہم آپ جیسا انسان کبھی نہیں رکھ سکتا."

نرمین کی آنکھ سے انسو ٹوٹ کر کبیر کے ہاتھ پر گرا تھا جو اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیئے اسکے قدموں میں بیٹھا تھا ۔ 

کبیر کے دل پر چبھی تھی یہ بات ۔ وہ بلکل صحیح کہہ رہی تھی ۔ اپنے الفاظوں سے لوگوں کو تکلیف تو بہت آسانی سے دے جاتا تھا وہ ۔ کبھی ایسی نوبت ہی نہیں آئی تھی کے کبھی جھکنا بھی پڑھے اور آج جب اپنے کہے گئے الفاظوں کا مداوا کرنا تھا تو منہ سے لفظ نکلنے سے انکاری تھے۔ کبیر شرمندگی میں ڈوبا ہوا تھا لیکن اب وہ اسے اور تکلیف نہیں دے گا اسکا دل بے سکون تھا اسے سکون نہیں آرہا تھا ۔ اور اگر یہ سکون اس سے معافی مانگ کر مل جائے گا تو وہ ضرور کرےگا ۔

چھوڑیں ہمیں نیند___"

وہ ابھی اتنا ہی بولی تھی کے کبیر نے جھک کر اسکے ہاتھوں پر نرمی سے بوسہ دیا تھا ۔ نرمین کا دل زور سے دھڑکا تھا ۔ 

ایک_ دو اور پھر کئی بوسے کبیر نے اسکے ہاتھوں پر دیئے تھے ۔ کے نرمین کی آنکھ سے اشک ٹوٹ کر گرنے لگے تھے ۔ 

"میں بہت برا انسان ہوں بہت بہت برا ۔ 

سب کو خود کے سامنے حقیر سمجھنے والا مغرور مرد ۔ 

کبیر کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ وہ نرمین کے پہلوں میں گرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑے بیٹھا تھا اور نظریں اس سے ملانے کی ہمت نہیں تھی اسلیئے نظریں ہاتھوں پر جما رکھی تھی۔ 

"جوانی میں قدم رکھتے روزہ نماز عبادت سب چھوڑ دیا تھا ۔ باہر جاکر باہر کی زندگی میں رنگ گیا تھا ۔ کبھی خود سے کوئی شکوہ کوئی گلا نہیں تھا ہمیشہ خود کو صحیح سمجھ کر غلط فیصلے کیئے تھے ۔ کوئی تھا ہی نہیں وہاں جو اس پر زور دیتا کے نماز پڑھو عبادت کرو ۔ وہاں تو ہر جگہ بے پردگی تھی ۔ ۔ بے لباس لڑکیاں ہوتی تھی ۔ کچھ ایسی بھی ہوتی تھی جو ویسٹرن کپڑوں پر اپنا ہیڈ کَوَر کرتی تھی ۔ مجھے لگتا تھا یہ سب فیشن کے لیئے یوز کرتے ہیں سب ۔ 

کبھی سوچا ہی نہیں کے ایسی بھی لڑکیاں ہوتی ہے اب جو اپنے آپکو چھپا کر رکھتی ہیں اپنے محرم کے لیئے ۔ "

نرمین سانس روکے اسکی باتیں سن رہی تھی جو ہر دن اپنا نیا روپ دکھاتا تھا لیکن آج یہ روپ دیکھ نرمین سے برداشت نہی ہورہا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے دل بیٹھ رہا ہو اسے ایسے دیکھ ۔

لیکن وہ چپ نا ہوا اپنی بات پوری کیئے بغیر۔ 

"یہاں آکر تمہیں دیکھ کر میں حیران تھا پہلے پہل تو مجھے یہ بھی فیشن لگا لیکن وقت کے ساتھ یہ سب ایک ناٹک لگنے لگا ۔ شاید میرا دماغ اس بات کو ماننے سے انکاری تھا اسلیئے ہر طرح کے بہانے بنتا تھا ۔ اور پھر اس رات جب میں نے ضرغام خانزادہ کے منہ سے وہ الفاظ سنے تھے ۔۔۔۔"

ضرغام کا نام لیتے کبیر کی نرم گرفت نرمین کے ہاتھوں پر سخت ترین ہوئی تھی ۔

" مجھے ایسا لگا جیسے میرے سارے شک و شبہات صحیح تھے ۔ اسے تمہارے قدموں میں گرے دیکھ میرا ضبط ٹوٹ گیا تھا ۔"

اسنے نظر اٹھا کر نرمین کو دیکھا تھا جو ساکت سی اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

""تم_تم تو میری ہو نا ؟ بچپن سے صرف میری ہو ۔ میرے نام سے جڑی ہو۔ ہمیشہ کبیر کے ساتھ نرمین کا نام لگایا گیا ہے نا ۔ سب__سب جانتے ہیں نا تو پھر وہ کیسے تم سے محبت کر سکتا تھا ۔ وہ کیسے تم سے اظہار کرسکتا تھا کبیر خانزادہ کی ملکیت پر اسنے نظر اٹھائی بھی کیسے میرے بس میں ہوتا تو میں اسے جان سے مار دیتا ۔"" 

کبیر دیوانوں کی طرح نرمین کی آنکھوں میں دیکھ جنونی انداز میں بول رہا تھا کے نرمین کی ریڑھ کی ہڈی تک سنسنی دوڑی تھی ۔

"نرمین خانزادہ صرف کبیر خانزادہ کی ہے۔ 

ہے نا؟ 

اسنے نرمین کی آنکھوں میں التجا کرنے کے انداز میں پوچھا تھا ۔

نرمین ساکت سی بیٹھی تھی اسکی بات سنتے برستی آنکھوں سے مسکراتی اثبات میں سر ہلاگئی تھی ۔ 

اسکی ہاں اور  مسکراہٹ دیکھتے کبیر اپنی جگہ سٹل ہوا تھا ۔  اور اسکی انکھوں میں دیکھتے جملا دہرایا تھا ۔ 

"Gülüşün çok çekici."

(تمہاری مسکراہٹ بہت دلکش ہے۔) 

جب نرمین کے ماتھے پر نا سمجھی سے بل پڑے تھے ۔ اور کبیر اسکی ناسمجھی پر مسکرایا تھا ۔ 

"میں نہیں جانتا معافی کیسے کس طرح مانگتے ہیں کے دوسرے انسان کے دل و دماغ سے وہ ساری باتیں مٹ جائیں جو مجھ جیسے لوگ انکے ذہنوں میں گاڑھ دیتے ہیں لیکن میں اپنی زندگی میں یہ کوشش ضرور کرونگا کے تمہارے ذہن سے وہ سب باتیں مٹادوں جو میں نے نقش کی ہیں۔

 کیونکہ معافی مانگنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی دوسرے کے لیئے اسے معاف کرنا ۔ اس اذیت کو بھولنا بہت مشکل ہوتا ہے۔۔ اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کے وہ ساری اذیتیں جو میں نے دی ہیں وہ خوشیوں میں بدل دونگا۔"

 وہ اسکے ماتھے سے ماتھا جوڑ گیا تھا ۔

"پلیز مجھے ایک موقعہ دےدو ۔"  

وہ اس سے التجا کررہا تھا لیکن نرمین کے منہ سے الفاظ نکلنے سے انکاری تھے وہ شاکڈ کی سی کیفیت میں اسکی باتیں سن رہی تھی آنسو چہرا بھگو رہے تھے اور انکھیں بند تھی ۔ 

جب نرمین نے اسکے ہونٹوں پر ہاتھ رکھتے  مزید بولنے سے روکا تھا ۔ 

"آپ_واقعی بہ_بہت بہت برے ہیں۔"

وہ اسکی گردن میں چہرا چھپاتی پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی ۔

کبیر نے اسکو خود میں بھینچتے اپنی نم آنکھیں صاف کی تھی ۔ 

"آپ پلیز نیچے سےاٹ_ اٹھ جائیں۔ مجھے اچھا نہیں لگ رہا۔"

وہ کبیر سے دور ہوتی ہچکچاتی بولی تھی جو آنکھیں چھوٹی کیئے اسے شوخی سے دیکھ رہا تھا۔

"محبت میں انائیں کیسی ۔ 

کہیں تو آپکے قدموں میں ساری زندگی گزاردوں جاناں۔" 

نرمین کا دل دھڑکا تھا اسکے لفظ محبت پر ۔ وہ سنجیدہ چہرے سے اسے دیکھ رہی تھی جو انکھوں میں محبت سموئیں اسکی آنکھوں کو پڑھ کر مسکرایا تھا ۔

"تمہیں پتہ ہے ۔ تم وہ واحد شخص ہو جس کے لیئے میرا دل موم ہوجاتا ہے _ خاموش ہوجاتا ہے_ تمہارے سامنے جھک جاتا ہے_ کیونکہ کبیر خانزادہ کو نرمین کبیر خانزادہ سے بے پناہ محبت ہے"_

وہ اسکی انکھوں میں دیکھ ٹہر ٹہر کر ایک ایک الفاظ بول رہا تھا کے نرمین کی انکھ سے تشکر کا آنسو ٹوٹ کر گرا تھا ۔ 

کبیر نے کہتے اسکا ماتھا چوما تھا اور اسکے آنسو صاف کرتے اسے سینے سے لگایا تھا۔ 

"میں انتظار کرونگا تمہارے جواب کا

"(Canım)"۔

اسکا جملا سنتے نرمین کی پیشانی پر پھر نا سمجھی سے بل پڑے تھے ۔ 

"انتظار؟"

"ہاں انتظار تمہاری محبت کا۔۔

"میری دنیا کی سب سے خوبصورت ترین بات تم سے "اعترافِ مُحبت" سننا ہوگا۔"

اسکے الفاظ سنتے نرمین کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا چہرا شرم و حیا سے سرخ کندھاری ہو گیا تھا وہ مسکراتے نظریں جھکا گئی تھی اور یہ منظر کبیر نے اپنے دل میں قید کیا تھا ۔ 

وہ اسے کیا بتاتی کے تم تو ابھی اس محبت میں گرفتار ہوئے ہو میں تو برسو سے تمہاری دیوانی تمہارے انتظار میں دن گن گن کر گزارتی تھی ۔ ہر نماز میں اپنے رب کے آگے ہاتھ پھیلاتی تھی اور وہ رب نہایت ہی غفورالرحیم ہے جس نے مجھے تمہیں عطا کردیا ۔ 

"کیا اب میں کھڑا ہو سکتا ہوں؟ میرے پیروں میں بہت درد ہوگیا ہے."

وہ شوخی بھرے لہجہ میں بولا تھا کہ نرمین نے شرمندہ ہوتے حامی بھری تھی کبیر نے مسکراتے اسکا ہاتھ پکڑتے اسکی ہتھیل کو چوما تھا ۔ 

"ہم_ہمیں نیند آ_رہی ہے۔ 

وہ گھبراتی پھر سے نیند کا بہانا بنانے لگی تھی جس پر کبیر نے مسکراتے اسے بستر پر لٹایا تھا اور خود اسکے برابر اکر لیٹا تھا ۔ 

نرمین جھجھکتے ہوئے دور ہوکر لیٹی ۔کبیر نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے قریب کیا تھا ۔ اور اپنے بازوؤں میں بھر کر لیٹ گیا ۔ وہ اسکے اتنے قریب آنے پر سانس روک گئی تھی کبیر نے اسکے بالوں میں چہرا چھپایا اسے بے حد سکون مل رہا تھا نرمین کے آغوش میں ۔ 

"سانس لے لو canım کھاؤنگا نہیں تمہیں۔ "

کبیر نے خمار میں ڈوبی آواز میں کہا تو نرمین کا دل دھک دھک کرتے باہر آنے لگا ۔ 

وہ خود کو ریلیکس کرنے لگی پھر آہستہ آہستہ سانس لیتی چہرہ موڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ 

"اس الفاظ کا کیا مطلب ہے؟"

وہ کنفیوز تھی اس لیئے پوچھ بیٹھی ۔ 

"کس الفاظ کا ؟"

"یہ جو آپ نے ابھی کہا ۔ (canım)"

کبیر نے چہرہ اٹھاتے اسے دیکھا تھا جو اسکے اٹھتے ہی نظریں جھکا گئی تھی ۔

اور اسکے چہرے پر آتے بال کان کے پیچھے کیئے تھے ۔ 

"یہ ترکش الفاظ ہے جس کے معنی ہے ۔ (جانم My Sweetheart )۔ ❤️"

کبیر نے مسکراتے بتایا تو وہ جھینپتی اپنا چہرہ موڑ گئی ۔ 

اسکے کندھے پر بوسہ دیتے کبیر نے اسے پھر سے اپنے حصار میں لیا تھا اور ایک سکون بھری نیند کی راہ میں نکل گیا تھا جو اسے کافی وقت بعد ملی تھی ۔ 

نرمین مسکراتی اسکے حصار میں خود کو خوش قسمت تصور کرتے آنکھیں موند گئی تھی ۔ یقیناً آج اسکی ساری دعائیں پوری ہوگئی تھی ۔ 

"ماضی میں جو ہم نے دکھ جھیلے ہوتے ہیں جو اذیتیں برداشت کی ہوتی ہیں ، اپنے قیمتی آنسو ضائع کیئے ہوتے ہیں جب ہم ان پر صبر کرلیتے ہیں تو آپکے یہ آنسو اور اپکا صبر مستقبل کی خوشی کے بیجوں کو آہستہ آہستہ پانی دینا شروع کردیتا ہے اور ایک دن آپکو وہ میٹھا پھل مل جاتا ہے ۔ جو ہم نے کبھی سنا ہوتا ہے کے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔"

---------❤️ حیا خان ❤️ -------

دن بھر اسمارہ بیگم کے ساتھ گزارتے اسنے خوش رہنے کی کمال ادکاری دکھائی تھی ۔ 

اور وہ جو آج اس نئی نویلی دلہن کو چھوڑتے صبح کا گیا تھا وہ اب تک نہیں آیا تھا۔ اسمارہ بیگم نے کئی بار اس سے پوچھا اور ضرغام کو خود بھی فون کیا جسکا کا کوئی اتا پتا نہیں تھا ۔ 

اپنے کمرے میں آتے اسنے ایک گہرا سانس بھرا تھا ۔ کمال ضبط کی مالک نکلی تھی وہ ۔ ان کچھ دنوں میں اسکو خوشی غم نفرت محبت سب دیکھنے کو مل گئی تھی۔

گہرا سانس بھرتے فریش ہوتے وہ بیڈ پر بیٹھی تھی ۔  

صبح کے بارے میں سوچتے اسکی آنکھ سے انسو ٹوٹ کر گرے تھے یہ کیا ہوگیا تھا ۔ اگر وہ اس سے محبت نہیں کرتا تھا تو یہ سب کیوں کیا اسکے ساتھ ۔ کیوں کیا اس سے نکاح ۔ اور اب نکاح کرکے اسکے سامنے اپنی محبت آشکار کرتے اسکو تڑپا رہا تھا وہ یہ سب کیوں کررہا تھا اسراء سارے اختیار کھوتے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی جب ضرغام خانزادہ کمرے میں داخل ہوا اور اسے روتے دیکھ پھر اپنی زبان کے جوہر دکھاتے اسکا دل جلا گیا تھا ۔

"ارے ارے باربی ڈول رو کیوں رہی ہو؟ صبح تو تمہاری پاک محبت کے نعرے سن کر گیا ہوں میں اور اب تم آنسو بہا رہی ہو ۔؟ کیا پچھتاوا ہورہا ہے اپنی پاک محبت پر؟۔"

وہ استہزایہ مسکراتے آستین فولڈ کرتے اسکے برابر بیٹھا تھا۔

مذاق اڑاتا لہجہ اسراء کا دل جلا گیا تھا لیکن آنسو پوچھتے اسنے ضرغام خانزادہ کو شکوہ کناں نظروں سے دیکھا تھا ۔ جو مسکراتی آنکھوں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ 

"تمہیں پتہ ہے اس طرح روتی ہوئی تم مجھے کتنی اچھی لگ رہی ہو ۔ دل کررہا ہے اپنے لبوں سے ان آنسوؤں کو چن لوں ۔ "

وہ اسکے قریب جھکتا آنکھوں میں آنکھیں ڈالے شوخ انداز میں بولا تھا اسراء خاموشی سے کھڑے ہوتے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

ضرغام نے خاموش نظروں سے اسکی پشت کو دیکھا تھا ۔ 

وہ کیا کررہا تھا ۔ کیا یہ صحیح تھا وہی کرنا جو اسکے ساتھ ہوا ہے۔ وہ تو اچھی طرح سے جانتا ہے کے محبت میں ٹھکرایا جانا کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے پھر وہ کیوں کسی کے ساتھ ایسا کررہا تھا ۔ 

لیکن آہ کاش وہ کسی کبیر خانزادہ کی بہن نا ہوتی تو وہ اسکی محبت کی قدر کرلیتا لیکن کبیر اس وقت اور آگے تمام زندگی نرمین کے ساتھ گزارے کا یہ سوچتے اسکی نسوں میں گردش کرتا خون لاوے کی طرح ابل پڑتا تھا۔

اور اس حسد کے آگے فلحال اسراء کی محبت کی اسکی نظر میں کوئی اوقات نہیں تھی ۔ 

یہ سب سوچتے وہ ڈریسنگ روم میں بند ہوا تھا ۔ 

آنے والی زندگی انکے لیئے کیا موڑ لے کر آنے والی تھی یہ تو بس رب جانتا تھا ۔ 

ایک روشن صبح نے اپنا دیدار کروایا تھا جو اسراء کی زندگی میں ایک نئی امید لے کر آئی تھی ۔  

 صبح اٹھتے ساتھ فریش ہوکر اسنے سرخ رنگ کی گھیرے دار فراک پہنی تھی جو شیشوں سے سجی تھی نازک سے ڈائیمنڈ کے آویزے کانوں  میں ڈالتے اسنے اپنی پلکوں کو مسکارے سے بوجھل کیا تھا جو گھنی گھنی سی ہری آنکھوں پر خوب جچ رہی تھی کاجل کی لکیر کھینچتے اسنے اپنے ہونٹوں کو سرخ رنگ سے رنگا تھا ۔ 

اور ایک تائیدی نظر خود پر ڈالی تھی نیچے سے اوپر خود کو دیکھتے وہ مسکرائی تھی اور اپنی آنکھوں کو دیکھتے ٹہری تھی ۔ اگر ضرغام خانزادہ اسے باربی ڈول کہتا تھا تو واقعی وہ کسی باربی ڈول سے کم نا تھی ۔ 

اگر وہ اس سے محبت نہیں کرتا تو کیا ہوا وہ اسکا محرم تھا وہ اس سے اتنی محبت کریگی کہ وہ اپنی محبت کو بھولتے اسکا دیوانہ ہوجائے گا ۔۔ اور یہ امید اسے اسکے رب نہ دی تھی جو اسکا محرم بنا دیا گیا تھا ۔ وہ مسکراتی پلٹی تھی اور بیڈ پر دیکھا جہاں وہ مزے کی نیند لے رہا تھا ۔ 

اسراء مسکراتی اسکے پاس آکر بیٹھ گئی تھی ۔ انگلی سے اسکے ماتھے سے بال پیچھے کرتے اسنے مسکرا کر ضرغام کے منہ کے زاویہ دیکھے تھے ۔ 

"ڈریگن خانزادہ ۔"

ہلکی سی آواز میں بڑبڑاتے اسنے کندھا ہلاتے ضرغام کو ہلایا تھا جو ٹس سے مس نا ہو رہا تھا ۔ 

"ضر آٹھ جائیں ۔"

اب کی بار اسنے کندھا ہلاتے اونچی آواز سے کہا تھا جس نے خمار زدہ آنکھیں کھولتے اسراء کو دیکھا اور دیکھتا رہ گیا ۔ 

وہ ہری آنکھیں اور سرخ ہونٹ قیامت بنے اسکے سامنے تھے وہ پوری طرح سرخ رنگ میں رنگی اسکے سامنے بیٹھی تھی ۔ 

صبح صبح اٹھتے جزبات کی لہر اسکے سینہ میں دوڑی تھی  اس سے پہلے وہ اسے کمر سے تھامتے خود پر گراتا کے اسرء جو اسکی خمار میں ڈوبی بھوری آنکھیں پڑھ رہی تھی سرعت سے پیچھے ہوتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ 

ضرغام کے ماتھے پر بل آئے تھے اسکی حرکت پر جب وہ چہرہ موڑ کر پیچھے کھلے لمبے بال جو اسراء کی پشت پر رینگ رہے تھے انہیں اپنی انگلی کے پوروں سے سمیٹ کر اپنے کندھے پر ڈال گئی تھی  ایک ادا کے ساتھ ۔ کے ضرغام جس کے ماتھے پر بل تھے اسکی حرکت پر آہستہ آہستہ سیدھے ہوئے ۔ 

وہ مدہوشی میں بستر سے اٹھتے قدم قدم چلتے اسکے قریب آیا تھا جو نظریں نیچے کیئے ضرغام کے پرفیموز اٹھاتے انہیں سمیل کر رہی تھی ۔ بظاہر تو وہ ضرغام کو فراموش کررہی تھی لیکن اندر سے اسکا دل ڈھول کی مانند بج رہا تھا جو اسکے قدموں کی چاپ سنتے دھڑ دھڑ کر رہا تھا ۔ 

اسکے پیچھے کھڑے ہوتے اسنے شوخ نظروں سے اسراء کو دیکھا تھا جو اپنے کپکپاتے ہاتھوں پر قابو پانے کی پوری کوشش کررہی تھی اور بظاہر اسکے پرفیومز میں گم تھی۔ 

ضرغام نے اسکے بالوں کو پیچھے مٹھی میں دبوچا تھا اور اپنی ناک کے قریب کرتے آنکھیں بند کرتے اسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرا تھا ۔ 

اسراء نے ایک ہاتھ سر کے پیچھے لے جاتے اسکے ہاتھ پر رکھا تھا اور تکلیف سے آنکھیں میچی تھیں۔

"ہممم__ تمہاری خوشبو زیادہ حسین ہے اور تم میری خوشبوں میں مدہوش ہورہی تھیں باربی ڈول"__

وہ ابھی تک آنکھیں بند کیئے اسکے بالوں کو مٹھی میں جکڑے اسکی خوشبو میں گم تھا جب اسراء نے آنکھیں کھولتے مسکرا کر اسے دیکھا تھا ۔ 

"محبوب کی خوشبو سے بڑھ کر اور کوئی خوشبو کیسے پسند آسکتی محب کو ۔"

اسکی بات سنتے ضرغام نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا تھا  جو مسکرا رہی تھی ۔ 

جھٹکے سے اسکے بال چھوڑتے اسنے اپنی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتے استہزایہ نظروں سے اسے سر سے پیر تک دیکھا تھا ۔ 

"کس خوشی میں اتنا تیار ہوا گیا ہے؟ کل رات تک تو تم ماتم منا رہی تھی ۔ اور اب دلہن بنی کھڑی ہو "۔

تمسخر اڑاتا لہجہ اپناتے اسنے اسراء کی تیاری پر چوٹ کی تھی ۔ جسے اسراء نے اگنور کرتے مسکراتے اسے دیکھا تھا ۔ 

"آج ہمارا برتھڈے ہے ۔ اسلیئے آج ہم بہت خوش ہیں ۔"

وہ مسکراتی اسے اپنے سپیشل ڈے سے آگاہ کرگئی تھی جو یقیناً وہ نہیں جانتا تھا ۔ 

"تو ؟ کس پر احسان کیا ہے تم نے پیدا ہوکر ۔ ایک فالتو سامان کی طرح پہلے خان حویلی میں رہتی تھی اب یہاں پڑی رہوگی ۔"

مذاق اڑاتا لہجہ اسراء کے چہرے سے مسکراہٹ نوچ گیا تھا ۔ 

"ہم کوئی فالتو چیز نہیں ہیں ۔ ہمارے بھائیوں نے ہمیں پریوں کی طرح رکھا ہے اور اسراء خانزادہ کتنی قیمتی چیز ہے یہ آپکو ہم ضرور بتائینگے ایک دن۔ "

اسکی اتنی جرات پر ضرغام جو کبرڈ سے اپنے کپڑے لے رہا تھا اسکے ہاتھ رکے تھے اور پلٹ کر ایک ائیبرو اچکاتے اسے دیکھا تھا جو سنجیدہ چہرا لیئے اسی کو دیکھ رہی تھی ۔

قدم اٹھاتے اسکے قریب آیا تھا اور اسکی گردن میں ہاتھ ڈالتے خود کے قریب کیا تھا جو اسکے سینے سے آ لگی تھی ۔ چہرے پر تمسخر اڑاتی مسکراہٹ تھی ۔

"بہت نازک ہو تم کسی گڑیا کی طرح ۔ کانچ کی گڑیا ۔ اپنی حد کو سمجھو ورنہ کانچ کی چیزیں توڑنے میں مجھے بڑا مزہ آتا ہے۔"

کمینگی سی مسکراہٹ چہرے کا حصہ بنی تھی اور اسراء کے چہرے پر تکلیف کے تاثرات دیکھ اسنے جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا اور کپڑے اٹھاتے واشروم میں بند ہوا تھا ۔

پیچھے اسراء نے اپنے آنسو صاف کرتے ایک نظر کھڑکی سے نظر آتے روشن آسمان کی طرف دیکھا تھا اور مسکرائی تھی۔ 

"میں انتظار کرونگی تیری رحمت کا میرے رب_"

صبر کا دامن تھامتے پلٹ کر ایک نظر خود کو دیکھا تھا اور اسمارہ بیگم کے پاس چلی تھی ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

"ما شاء اللّٰہ ما شاء اللّٰہ میری بیٹی تو گلاب کا پھول لگ رہی ہے ۔"

اسمارہ بیگم نے مسکراتے اسکی نظر اتری تھی اور اسے گلے سے لگایا تھا۔ 

"اللّٰہ تمہیں بے تحاشہ خوشیاں دکھائے اور میرے بیٹے کے ساتھ ہمیشہ خوش رکھے آمین آمین ۔۔ جنم دن بہت مبارک ہو بیٹا ۔ "

"آپ کو یاد تھا پھپھو؟"

اسراء خوش ہوتے چہچہائی تھی ۔ 

"ہاں بلکل میں اپنی بیٹی کا اتنا خاص دن کیسے بھول سکتی ہوں ۔ میرے بیٹے کا جوڑا بنا کر اس دن تمہیں اتارا گیا تھا ۔ میں تو ہمیشہ یاد رکھونگی یہ دن ۔ "

اسمارہ بیگم نے خوشی سے نہال ہوتے اسکا کھلکھلاتا چہرا دیکھا تھا ۔ جب ضرغام خانزادہ جو سیڑھیوں سے نیچے اترتا آرہا تھا اپنی ماں کا جملا سنتے اسکے پیر تھمے تھے۔ 

وہ اسکا جوڑا تھی اسکا نصیب اسکی پسلی ۔ جو اسی سے جڑی تھی اور اسی کو ملنی تھی۔ لیکن ہائے یہ دکھ کے نرمین اسکی قسمت میں نہیں تھی ۔ مٹھیاں بھینچتے وہ نیچے آتے ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھا تھا ۔ 

اسمارہ بیگم اور اسراء بھی وہی آئی تھی ناشتے کی ٹیبل پر اسماعیل صاحب نے ضرغام کو مخاطب کیا تھا۔ 

"اب ولیمہ کے فنکشن کا بھی سوچنا ہے برخوردار ۔ کیا ارادے ہیں۔ ؟؟"

"پرسو اسراء کا پہلا پیپر ہے تو آپ کل ہی دیکھ لیں جیسا آپ کو ٹھیک لگے۔"

ضرغام نے کہتے ایک نظر اسراء کو دیکھا تھا جو مسکرا کر دیکھتی ضرغام کو اس وقت سمجھ سے باہر لگی تھی ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

نیند میں اپنی دائیں طرف ہاتھ رکھتے اسے خالی پن کا احساس ہوا تو اسکی آنکھ کھلی ۔ پورے کمرے میں نظر دوڑائی لیکن وہ کہی نہیں تھی اسنے چہرے پر ناگواری جیسے تاثرات سجائے اور اٹھ کھڑا ہوا۔ 

جب نرمین کمرے میں داخل ہوئی ۔ مسکرا کر اسے دیکھا جس کا چہرا اترا ہوا تھا اور وہ اسی کو دیکھ رہا تھا نرمین اس کے قریب آئی ۔ 

"ہم آپ کو جگانے ہی آ رہے تھے بس ۔ کیا ہوا آپ نے ایسی شکل کیوں بنائی ہوئی ہے۔ ؟؟ "

کبیر نے کمر سے تھامتے اسے قریب کیا اور اسکے ماتھے پر بوسا دیا ۔ 

"جاگتے ہی آنکھوں کے سامنے تم نہیں تھی ۔ اسلیئے کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ 

آئیندہ تم روم سے باہر نہیں جاؤگی جب تک میں نا جاگوں۔ "

کبیر نے اسے سینے سے لگاتے کہا تھا جو مسکراتے اسکے دل کی دھڑکنیں سن رہی تھی ۔ 

 کبیر نے اسے دور کرتے اسکے سر سے دوپٹہ اتارا تھا اور اسکے بال دیکھیں تھے جو ڈھیلی چوٹی میں بندھے تھے ۔ کبیر نے دیکھتے ماتھے پر بل ڈالے۔ 

"میں نے کہا تھا نا کے انہیں کھلے چھوڑا کرو ۔ مجھے یہ بے حد پسند ہیں کھلے۔ "

"لیکن یہ مجھے پریشان کرتے ہیں کام کرتے وقت ۔ اسلیئے میں باندھ لیتی ہوں ۔"

نرمین نے اسے وجہ بتائی تو کبیر نے اسکے بندھے بال کھول دیئے۔ 

"لیکن میرے سامنے انہیں ایسے ہی رکھا کرو بے شک باہر نکلتے باندھ لیا کرو ۔ "

"ٹھیک ہے ۔"

نرمین نے مسکراتے اسے دیکھا تھا جو اسکے بالوں کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کررہا تھا ۔ 

"تمہیں پتہ ہے جب میں نے پہلی بار تمہارے بالوں کو دیکھا تھا ___ میرا شدّت سے دل کیا تھا کے میں انہیں محسوس کروں ۔ 

اور تمہاری یہ آنکھیں ۔ یہ جادوئی انکھیں سحر میں جکڑنے والی ہیں ۔"

کبیر نے اسکی آنکھوں کو چوما تھا ۔ 

"تم چلتی پھرتی ایک ساحرہ ہو"۔ 

اسنے مسکراتے نرمین کے ماتھے سے ماتھا ٹیکا تھا ۔ نرمین مسکرائی تھی اپنی تعریف اسکے منہ سے سنتے۔ 

"تم کچھ نہیں کہوگی؟؟

کبیر نے اسے خاموش دیکھتے پوچھا تھا ۔ 

"ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کے ۔۔۔۔"

کے؟؟ "

کبیر ہمہ تن گوش تھا ۔

کے۔۔۔ "

"کے ہمارا نیچے سب انتظار کررہے ہیں ۔ آپ فریش ہوجائیں ۔"

نرمین نے شرارتی انداز میں اس سے کہا تو کبیر بد مزہ ہوا۔ 

"اچھا یار جارہا ہوں ۔ میرے کپڑے تو لا دو تم ۔۔۔ "

بنا اسکے چہرے سے نظر ہٹائے وہ اپنے لاڈ اسی کے ہاتھوں اٹھوانا چاہتا تھا۔ 

"آپکے کپڑے واشروم میں ہینگ آپکا انتظار کررہے ہیں۔" 

نرمین نے مسکراتے اسے کہا جو نا جانے کے بہانے بنا رہا تھا ۔

"ارے یار ____ اچھا میں جا رہا ہوں لیکن تم یہاں سے ہلنا مت بلکل بھی ورنہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کے تم جانتی نہیں ہو ابھی مجھے ۔۔۔"

کبیر اسے وارن کرتا ۔واشروم میں بند ہوا تھا ۔ نرمین مسکراتے بیڈ پر بیٹھی تھی ۔ 

کبیر خانزادہ نے حکم دیا تھا اسے وہ کیسے ٹال دیتی ۔۔۔

------❤️ حیا خان ❤️-------

مردان خانے میں بیٹھے سب اسکی بات پر حیران تھے جب کے داجان غصّہ میں تھے ۔ 

"پرسو کی فلائیٹ ہے میری ترکی کی دو ہفتے کے لیئے جانا ہے مجھے "۔اسنے ایک نظر دا جان کو دیکھا تھا۔ 

جو نظریں نیچے کیئے غصہ سے آگ بگولا ہوئے بیٹھے تھے ۔ 

"کبیر بیٹا اسکی کیا ضرورت ہے۔ اور دوبارہ ترکی جانے کا کیا مطلب ہے ۔؟"

برہان خانزادہ اسکی بات سمجھ نہیں پارہے تھے ۔ 

"بابا میری ایک میٹنگ ہے۔ یہاں میں کالج اور یونیورسٹی تعمیر کروانا چاہتا ہوں تاکے کسی کو شہر جاکر تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت نا پڑھے ۔ میری بات ہوچکی ہے ایک کمپنی سے میری ڈیل ہے اور کچھ اگریمنٹس ہیں جن کے لیئے ترکی جانا پڑھے گا۔۔ "

اس سب کی کیا ضرورت ہے کبیر ۔ ؟؟  

اس معاملے میں داجان کی پہلی مرتبہ آواز گونجی تھی ۔

"ضرورت ہے داجان ۔ آج کے دور میں تعلیم کی بہت ضرورت ہے ۔مرد اور عورت دونوں کے لیئے ۔ اور یہاں کے لوگوں میں تعلیم کا شعور اجاگر ہے لیکن وہ اتنی دور سفر کرکے جانے سے قاصر ہیں۔ 

اور ایک سردار ہونے کے ناطہ میرا فرض ہے کے میں ان کی مشکل آسان کروں اسلیئے میں نے فیصلہ کیا ہے کے میں یہاں ادارے ضرور بنواؤنگا۔ "

داجان اسکی بات سنتے خاموشی اختیار کرگئے تھے لیکن برہان خانزادہ اپنے باپ کی خاموشی اچھی طرح پہچان گئے تھے ۔ 

"کبیر تمہیں یہ فیصلہ لینے سے پہلے ہم سے مشورہ لینا چاہیئے تھا ۔"

""بابا داجان نے مجھے سردار بنایا ہے ۔ میری بہن کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں تو آپ لوگوں نے میری نہیں سنی تھی ۔ لیکن میں چاہتا ہوں اس فیصلہ پر میرے کوئی اعتراض نا اٹھایا جائے ورنہ مجھے ایسا لگے گا کے میرے فیصلہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ "

اسکی بات سنتے داجان اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔اور اپنے کمرے میں چلے گئے تھے انکے پیچھے باقی سب بھی ۔ جبکہ فردان اسکے پاس آیا تھا اور اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

لالا میں آپ کے ساتھ ہوں آپ فکر نا کریں ۔ اور ہاں ایک مشورہ دونگا ۔ دا جان کو منانے کے لیئے نرمین بھابھی کی مدد ضرور لے گا وہ شاید آپکے لیئے آسانی کردیں۔"

کبیر نے اسے دیکھتے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

--------❤️ حیا خان ❤️-------

"ہمیں گھر جانا ہے ۔ وہاں سب یاد کررہے ہیں ہمیں۔"

اسراء نے ضرغام کے پاس آتے کہا تھا جو کہی جانے کے لیئے تیار کھڑا تھا ۔ 

"کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ کل ولیمہ ہے اور پرسو پیپر۔۔ تیاری کرو گھر بیٹھ کر ۔"

ضرغام مصروف سا اپنا آرڈر دیتے کمرے سے باہر نکلنے لگا تھا جب اسراء اسکے راستے میں آئی ۔ 

آنکھیں نم سی تھیں جب کے چہرے پر التجا تھی ۔ 

"پلیز ہمیں لے جائیں ہمیں مورے کی بہت یاد آرہی ہے ۔ "

"ہاں تو ٹھیک ہے ۔ موبائل کس الّو نے ایجاد کیا ہے؟ کرلو کال ۔"

وہ پھر اسے مشورہ دیتے باہر جانے لگا جب اسراء نے دوبارہ اسکا راستہ روکا ۔ 

"کیا مسئلہ ہے لڑکی ۔ دو بول تم سے پیار کے کیا بول دیئے ۔ سر پر بیٹھ کر ناچنے کی ضرورت نہیں ہے میرے"۔

وہ غصّہ سے بھرم ہوتے اسکا بازو دبوچ چکا تھا ۔ 

پیار؟ 

اسراء نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔ 

"پیار کے دو بول تو آپ نے کہے ہی نہیں ۔ 

ہاں البتہ طنز کے تیر بہت چلائے ہیں ۔ "

"کیوں ؟ اتر گیا محبت کا بھوت تمہارے سر سے اتنی جلدی ؟ محبت میں محبوب کے تمام نخرے اٹھانے پڑھتے ہیں اسراء بی بی تم جیسے لوگ جو محبت کا ڈھول بجاتے پھرتے ہیں نا ایسے کئی لوگ باہر تمہیں محبت کے دم بھرتے نظر آئینگے ۔"

اسراء کی انکھوں میں پانی جمع ہوتے بہہ گیا تھا ۔ 

"آرام سے گھر میں بیٹھو اور اسی چار دیواری کے بیچ میں رہو۔ گھر سے باہر نظر آئی تم مجھے یا میری غیر موجودگی میں اگر تم گھر سے باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دونگا تمہاری ۔ "

وہ اسکے منہ پر پھنکارتے جھٹکے سے اسکا بازو چھوڑ گیا تھا ۔ 

اسراء گرتے گرتے سمبھلی اور اس ظالم کو دیکھا جو اسے اگنور کرتے کمرے سے باہر نکل گیا تھا ۔ 

اسراء کو بے تحاشہ رونا آیا تھا جو آج کا دن اپنی مورے اور گھر والوں کے ساتھ منانا چاہتی تھی ۔ 

ہر سال بہت پیار اور اہتمام کے ساتھ یہ دن منایا جاتا تھا ۔ لیکن آج وہ اس طرح اپنے گھر والوں سے دور سب سے دور ہے۔ اس اچانک ہونے والی رخصتی اور اچانک اپنے ماں باب اور اپنے گھر والوں سے دوری اسے بے تحاشہ کھل رہی تھی ۔ وہ سب کو یاد کرتے آنسوؤں سے رو دی تھی۔ 

نرمین راحمہ فردان کبیر سب نے اسے وش کردیا تھا اور وہاں اسکے منتظر تھے جنہیں اسنے کہا تھا کے وہ آج ضرور آئیگی ۔ لیکن ضرغام خانزادہ جسکو اسراء کے وجود سے کوئی غرض نہیں تھا اسے دھتکارتے وہ وہاں سے جا چکا تھا ۔ 

--------❤️ حیا خان❤️--------

"کیا سچ میں کبیر لالا جا رہے ہیں واپس ترکی ؟؟؟"

راحمہ نے اشتیاق سے پوچھا تھا۔ 

"ہاں پرسو ان کی فلائیٹ ہے ۔ "

فردان نے مصروفیت میں جواب دیا تھا ۔ 

"تو کیا وہ اپو کو بھی لے کر جائینگے ۔"؟؟

راحمہ نے جملے میں مزید حیرانی سموئے پوچھا تھا۔ 

فردان نے کچھ فائلز کا مطالعہ کرتے ایک نظر راحمہ کو دیکھا تھا جو صوفے پر اسکے ساتھ بیٹھے اس سے سوال پر سول کیئے جا رہی تھی ۔ 

"جی بیگم _ نرمین بھابھی کو شاید وہ اپنے ساتھ لے کر جائینگے ۔ "

فردان نے اسکا ہاتھ پکڑ کر چوما اور جواب دیا ۔ 

"واؤ ___ مطلب وہ لوگ ہنی مون پر جا رہے ہیں؟؟"

راحمہ نے خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا تو فردان نے حیرانی سے اسے دیکھا ۔ 

"آرام سے بیگم__ اور وہ لوگ ہنی مون پر نہیں جا رہے بلکہ کبیر لالا کو کچھ کام ہے جس کی وجہ سے انہیں دو ہفتے کے لیئے جانا پڑھ رہا ہے."

"ہاں تو وہی بات ہوئی نا __ کام کون سا انسان چوبیس گھنٹے کرتا ہے ۔ باقی ٹائم تو وہ گھومے پھرینگے ہی نا ۔ "

"آپ تو ایسے اکسائیٹڈ ہو رہی ہیں جیسے آپ جارہی ہیں ۔ "

فردان مسکراتے واپس فائلز دیکھنے لگا۔ 

"ہمارے ایسے نصیب کہاں __ اپکو فرصت ملے نخرے دکھانے سے اور ہمیں اپکے نخرے اٹھانے سے تبھی تو ہم ہنی مون پر جائینگے نا ۔۔ "

راحمہ نے بنا فردان کی طرف دیکھے حسرت سے اپنا جملا مکمل کیا اور جب اپنی بات کا احساس ہوا تو پلٹ کر فردان کو دیکھا جو اسی کو گھور رہا تھا ۔ 

راحمہ کو اپنے ارد گرد خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دی تھی ۔ 

فردان نے اپنی فائلز بند کر کے سائیڈ پر رکھی اور اسکا ہاتھ پکڑنے لگا جب وہ فوراً سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ 

"ہم_ہمیں نا مورے بلا رہی تھی ات_اتنی دیر سے ہم ان_کی بات سن کر آتے ہیں"

فردان کی آنکھوں میں جو شدت تھی راحمہ جانتی تھی وہ لمحہ میں اس کی ذات میں محو ہو جائیگا۔ اورا اب اسکو روکنے کی غلطی اس رات کے بعد سے وہ ہر گز نہیں کرسکتی تھی ۔ 

"واپس یہاں آکر بیٹھو ۔ "

فردان نے اسے گھورتے ہوئے کہا ۔ تو راحمہ اسکے پاس واپس آکر بیٹھی ۔ جب فردان نے اسے  کھینچتے خود کے قریب کیا۔ 

"بھاگا مت کرو مجھ سے اور نا ہی ڈرا کرو___کھا تھوڑی جاؤنگا تمہیں۔۔" 

سنجیدہ لہجہ مگر بھاری آواز نے راحمہ کو کانپنے پر مجبور کیا تھا ۔ 

"م__میں جان بوجھ کر ن__نہیں کرتی،،،

آ__آئ ایم سوری۔۔۔۔ "

جملا مکمل کرتے راحمہ کی انکھیں جھلملائی تھی۔ 

"ایک بات بتاؤ کیا واقعی میں تمہیں جن لگتا ہوں جو تم یوں ڈر ڈر کر مجھ سے بھاگتی ہو ۔ ؟؟"

یہ سوال فردان نے واقعی حیرانی سے پوچھا تھا ۔ اسکی شکل دیکھ راحمہ اتنی گھبراہٹ میں بھی ہنس پڑی ۔ 

"لگتے تو ہیں__ سڑو اور جن_"

راحمہ اپنی گھبراہٹ کو ٹاٹا بائے بائے کرتے واپس اپنی ٹون میں آئی تھی۔ اور شوخ لہجہ میں فردان کو جواب دیا تو اسنے راحمہ کا ہاتھ چھوڑا۔ 

"ہمیں بہت کام ہے اب آپ یہاں سے جاسکتی ہیں ۔ "

فردان سنجیدہ چہرہ لیئے واپس اپنے کام میں لگ گیا تھا راحمہ نے حیرت سے اسکی شکل دیکھی تھی جس کے نخرے واقعی بہت تھے ۔ راحمہ اسکی بے رخی یاد کرتے جھٹکے سے بنا سوچے سمجھے اسکے ہاتھ سے فائل کھینچ گئی تھی ۔

فردان کا ہاتھ پکڑتے اسنے اپنے ہاتھ میں لیا ۔ 

"آپ جن بھی ہیں سڑو بھی ہیں پاگل پٹھان بھی ہیں اور نخریلے بھی ہیں ۔ لیکن آپ صرف ہمارے ہیں ۔"

راحمہ نے ہلکی آواز میں اسکے ہاتھوں کو تھماتے وہی اپنی نظریں رکھے کہا تھا ۔ کیوں کے آنکھوں میں دیکھ کر یہ کہنے کی ہمت اس میں نا تھی ۔ 

"ہم آپ سے ڈرتے نہیں ہیں_____

 ہمیں تو اپکی آنکھوں کی چمک خوفزدہ کردیتی ہے ۔ آپکی بھاری آواز ہی ہماری سانسیں تھما دیتی ہے ۔ "

وہ جذب کے عالم میں مسکراتی ہوئی بولی تھی 

اسکے جملے کی خوبصورتی نے فردان کی رگوں میں دوڑتے خون کی گردش کو مزید بڑھایا تھا وہ سرشار سا ہوتے راحمہ کو جھٹکے سے اپنے حصار میں لے گیا تھا ۔ 

"اس چمک کے ساتھ آپکو بھی چمکنا ہوگا ۔ ہمارے رنگ میں اپکو بھی رنگنا ہوگا ۔ 

ہماری مرضی کے مطابق آپکو بھی ڈھلنا ہوگا۔"

وہ اسکی ناک سے ناک ٹکراتے اسے حکم دے  گیا تھا ۔ 

راحمہ نے کپکپاہٹ سمیت اسکی گردن پر رکھے ہاتھوں سے اپنے ناخن گاڑے تھے تو فردان کا سارا خمار بھک سے اڑا ۔ 

"تمہارے نیلز تو میں آج ہی کاٹوں گا جنگلی بلی ۔"

 اس سے دور ہوتے فردان نے اپنی گردن سہلائی تو راحمہ قہقہہ لگاتے کھڑی ہوئی ۔ اور ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگائے کھلکھلاتے ہوئے اسے دیکھنے لگی ۔ 

"اپنی حرکتوں میں سدھار لے آئیں ۔کیوں کے ہمارے نیلز تو چھوٹے چھوٹے ہی ہیں ۔ یہ دیکھیں۔ "

وہ دور سے ہی اپنے ہاتھوں کے ناخن اسے دکھانے لگی ۔ جسے دیکھتے فردان کو حیرت ہوئی ۔ 

"تو پھر یہ مجھے اتنا کیوں چبھتے ہیں_"

اسکی انکھوں میں دیکھتے فردان نے کہا تو راحمہ کا چہرا گلاب کی مانند لال ہوگیا.جسے دیکھتے فردان پھر مدہوش ہونے لگا ۔ وہ اسکی طرف بڑھتا کے اسکا موبائل بج اٹھا۔ 

آنکھیں میچتے اسنے غصّہ سے فون دیکھا جہاں کبیر کا نام جگمگا رہا تھا ۔ ایک نظر بے بس سی راحمہ پر ڈالی جو مسکراتے اسی کو دیکھ رہی تھی ۔ 

"واپس آکر تمہاری اس مسکراہٹ کو اچھی طرح محسوس کرونگا ۔ تب تک کے لیئے جتنا خوش ہونا ہے ہوتی رہو۔"

پل میں اسے گھبراہٹ میں مبتلا کرتے وہ وہاں سے جا چکا تھا لیکن راحمہ کے دل کی رفتار بڑھا گیا تھا۔ 

وہ کمرے میں بیٹھی رورہی تھی دوپہر سے شام ہوگئی تھی لیکن وہ کمرے سے باہر نا آئی جب اسمارہ بیگم نے تشویش کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ 

 ابھی تک وہ ویسی ہی تیار تکیہ میں منہ دیئے رورہی تھی ۔   جب دروازہ کی آواز پر آنسو پوچھتے اسنے دروازہ کھولا ۔ 

اسمارہ بیگم نے اسکی لال انکھیں دیکھی جو صاف رونے کا پتہ دے رہی تھی ۔ انکا دل اسراء کو اس حالت میں دیکھ حلق میں آیا تھا ۔ 

"کیا ہوا میری جان آپ رو کیوں رہی ہیں ؟ کیا آپکی طبیعت خراب ہے ؟ یا کسی نے کچھ کہا ہے ۔ ؟" 

اسمارہ بیگم نے ایک ساتھ سارے سوالات پوچھ ڈالے تھے جب اسراء انکے گلے لگتی پھوٹ پھوٹ کر رودی ۔ 

"پھ_پھپھو جانی ہمیں مورے کی بہت یاد آ رہی ہے ۔ "

وہ ہچکیوں سے روتی ہوئی بولی تھی ۔ 

"تو میری جان آپ جائیں نا ان کے گھر ۔ آپ شاہانہ بھابھی کا فون نہیں اٹھا رہی تھی انکی میرے پاس کال آئی تھی میں نے یہی کہا ہے کے آپ آئینگی آج ۔۔ وہ آپکا انتظار کررہی ہیں۔۔"

یہ سنتے اسراء کو مزید رونا آیا تھا ۔۔ 

"لیک_لیکن ہم کیسے جائینگے ۔ ضر تو چلے گئے ہیں ۔۔ "

۔ جب اسمارہ بیگم نے اسے خود سے الگ کرتے اسکے آنسو صاف کیئے تھے ۔

" تو میرے بچے ہم آپکو لے چلتے ہیں اپنے ساتھ ۔ اور ضرغام کے کان تو ہم کھینچے گے آپ فکر نا کریں۔ "

جانے کا سنتے اسراء کے معصوم چہرے پر دنیا جہاں کی خوشیاں آ سمائی تھی ۔ لیکن ضرغام کی وہ آخری ہدایت۔۔۔۔۔۔

( "گھر سے باہر نظر آئی تم مجھے۔  یا میری غیر موجودگی میں اگر تم باہر نکلی تو ٹانگیں توڑ دونگا تمہاری ۔ ")

اسکے غصے کا سوچتے اسراء کا جسم خوف سے کپکپا اٹھا تھا ۔ 

"ن_نہیں پھوپھو جانی ۔ ہم نہیں جائینگے ۔"

وہ یک دم اداس ہوتے خاموش ہوگئی ۔جو اسمارہ بیگم نے باخوبی محسوس کیا تھا۔ 

"کیا ہوا بچے ابھی تو آپ کہہ رہی تھی کے آپکو یاد آرہی ہے۔ ؟؟؟"

"وہ ضر __ضر نے منع کیا ہے کے ہم نہیں جاسکتے۔ ہم_ہمارے پیپرز ہیں ہم اسکی تیاری کریں بس۔۔۔"

اسراء نے پھر سے روتے ہوئے اپنا جملا مکمل کیا اسمارہ بیگم کو ضرغام پر بے پناہ غصّہ آیا ۔ 

"کچھ نہیں ہوتا بیٹا ایک دن آپ نہیں پڑہینگی تو ۔ اور یہ آپکا سپیشل دن ہے آپکو سب کے ساتھ منانا چاہئے ۔ ہم اپکو لے کر چلیں گے ۔ "

"لیکن پھپھو جانی وہ بہت غصّہ کرینگے "۔ 

اسراء سر جھکاتی منمناتی ہوئی کہنے لگی تو اسمارہ بیگم کو ترس آیا اس پر۔ 

"بیٹا وہ جلاد تھوڑی ہے جو تم اس سے اتنا ڈر رہی ہو ۔ کچھ نہیں کہے گا میں اس سے بات کرونگی اور اگر تم چاہو تو میں اسے نہیں بتاؤنگی ہم اس کے آنے سے پہلے واپس آجائیں گے ۔ "

اسراء نے انکی بات پر سر اٹھایا تو انہوں نے اسراء کا ہاتھ پکڑتے تسلی دی تھی ۔ 

وہ معصوم خوش ہوتے جلدی سے اپنی جانے کی تیاری کرنے لگی ۔ 

بنا یہ سوچے جب اس ڈریگن خانزادہ کو یہ خبر ملے گی تو وہ کیا سلوک کرے گا اس کے ساتھ ۔ 

-----❤️ حیا خان ❤️-------

"مورے یہ اسراء میری کال پک نہیں کررہی آپکی بات ہوئی کیا اس سے ۔ ؟؟"

کبیر نے رسوئی کے باہر کھڑے ہوتے شاہانہ بیگم کو مخاطب کیا تھا جو نرمین کے ساتھ کچن میں کھڑی رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھی ۔ 

کبیر نے ایک محبت بھری نظر اس پر ڈالی تھی جو اسکی آواز سنتے بھی پلٹی نہیں تھی البتہ سٹل ضرور ہوگئی تھی ۔ 

"نہیں بیٹا میرا بھی فون نہیں اٹھایا اسنے ۔۔ لیکن اسمارہ سے بات ہوئی تھی میری وہ کہہ رہی تھی کے آج اسراء آئیگی ۔ شاید تیار ہورہی ہوگی اسلیئے اب تک نہیں آئی ۔۔"

کبیر نے اثبات میں سر ہلاتے پھر نظر نرمین پر ڈالی تھی جو ابھی بھی اسے نظر انداز کررہی تھی جو اس اکڑو خانزادہ کو بلکل پسند نہیں آیا تھا ۔۔ 

"مورے آپ کیوں اتنی گرمی میں کچن میں کھڑی ہیں ۔ آپکی دو دو بہوئیں ہیں نا تو آپ آرام کریں ۔"

وہ پھر نظر نرمین پر ڈال کر اپنی ماں سے مخاطب ہوا تھا نرمین نے مسکراہٹ دباتے پیاز کو تیل میں فرائی کے لیئے ڈالا تھا۔

شاہانہ بیگم بھی خوب اسکی فکر سمجھ رہی تھی اپنی مسکراہٹ چھپاتے انہوں نے کبیر کو وقت دیا تھا۔ 

"جی جی بیٹا میں بس راحمہ کے پاس ہی جارہی تھی اس کے کان پکڑنے کے میٹھا آج وہی بنائیگی ۔"

وہ کہتی وہاں سے روانہ ہوگئی تھی جب نرمین انکی غیر حاضری پر پلٹی اور سامنے دیکھا جہاں کبیر خانزادہ بلیک شلوار قمیض میں آستینیں چڑھائے ماتھے پر بل سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا اسکی رعب دار پرسنیلٹی اور سخت تاثرات نرمین کو ہمیشہ سہما دیا کرتے تھے  ۔ 

"آ__آپ کو کچھ چاہیئے ۔ ؟؟"

لمحے گزرے لیکن وہ کچھ نا بولا تو نرمین نے ہی خاموشی کو توڑا ۔ 

کبیر نے انہی تیوروں کے ساتھ قدم بڑھائے تو نرمین کو گھبراہٹ ہوئی ۔ 

وہی پہلے جیسے تنے ہوئے نقش ، وہی غصہ جو اسکی ذات کا حصّہ تھا وہی آنکھوں کی سرخی ۔۔ 

"ہ__ہم کام کر رہے تھے ۔۔"

وہ اس کے قریب آ رکا تو نرمین نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا ۔

 ڈر اسکے چہرے اور آنکھوں میں واضح دیکھا جا سکتا تھا جو ہمیشہ کبیر کے غصہ اور تکلیف دینے کے بعد رہتا تھا ۔ 

یہ دیکھتے کبیر کو دکھ ہوا تھا کے اسکی فطرت کی چھاپ ہی نرمین پر غلط پڑی تھی تو آگے وہ کس طرح اسکا بھروسہ بنا پائیگا۔ 

کبیر نے آگے بڑھتے اسکا ہاتھ تھاما تھا اور اسکی ہتھیلی کو چوما تھا جہاں جلے کے ابھی بھی ہلکے ہلکے نشانات تھے ۔ 

"نرمین کبیر خانزادہ چاہئیے تھوڑی دیر کے لیئے ۔ کیا مل سکتیں ہیں مجھے ؟؟"

اسکا ہتھیلی چومنا اور یہ پیار بھرا انداز دیکھ نرمین نے گہرا سانس لیا تھا۔ سب نارمل تھا ۔ اسنے مسکراتے نظریں جھکائی ۔ 

"آپ روم میں جائیں ۔ ہم آتے ہیں بس"_

کبیر کے ماتھے پر پسینا آتے دیکھ نرمین نے فکر سے کہا تھا ۔ 

"کیوں یہاں بات نہیں ہو سکتی کیا ؟ "

"ہوسکتی ہے لیکن _ آپکو پسینا آرہا ہے نا چولہے کے سامنے آپ روم میں جائیں ہم وہاں آجاتے ہیں۔ "

نرمین کی فکر دیکھ کبیر کا دل بچوں کی طرح خوش ہوا تھا ۔ 

اسنے قریب ہوتے ماتھا چوما تھا ۔ 

"جب تم روز یہاں کھڑی ہوسکتی ہو تو میں پانچ منٹ بھی نہیں کھڑا ہوسکتا کیا؟ "

کبیر نے محبت پاش نظروں سے دیکھا تھا ۔ 

"لیکن خان آپکو پسینا آرہا ہے نا ۔"

اسکے بے دھیانی میں بولے گئے الفاظ نے کبیر کا خون سیرو بڑھایا تھا ۔ 

"تو خانم آپ کو بھی تو آرہا ہے نا ۔ "

وہ اسی کے لہجے میں محبت سموئے بولا تھا کے نرمین کو ہنسی آئی ۔ اسنے اپنے دوپٹہ سے کبیر کے ماتھے سے پسینا صاف کیا تو کبیر نے اسکی خوشبو میں گہری سکون بھری سانس لی تھی۔ 

"کیا تم ہمیشہ مجھسے__ ایسے ہی ڈرتی رہوگی ۔ "

خاموشی کے چند لمحے گزرے تھے جب کبیر نے بھاری سانسوں کے ساتھ پوچھا تھا ۔ جیسے اسکا دل برداشت نا کر پا رہا ہو نرمین کا اس سے دور رہنا۔

نرمین نے پلکوں کو جنبش دیتے نم انکھوں کو چھپایا تھا ۔ 

"ا_ایسی بات نہیں ہے ۔ وہ ہ ہم __"

کبیر نے بے اختیار اسے سینے سے لگایا تھا ۔۔ 

"میں سب ٹھیک کردونگا ۔ ہماری زندگی کے ہر لمحے تمہیں اتنی محبت دونگا کہ پھر کسی بھی چیز کا گریز باقی نا رہے گا ۔ "

نرمین کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر اسکے کرتے میں جذب ہوا تھا۔۔ 

"کمرے میں آؤ ___یہ لمحے بہت کم ہیں تمہیں محسوس کرنے کے لیئے"_

وہ اسے بھاری آواز میں حکم دیتے کمرے میں روانہ ہو گیا تھا ۔ 

پیچھے نرمین اپنی دھڑکنیں سمبھالتی گلاب ہو گئی تھی۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

"ارے بھئی ہمیں کیک کھانا ہے اسراء آپی کب آئینگی۔۔"

شاز سے انتظار کرنا محال ہو رہا تھا ۔ 

"ایسا کرتے ہیں ہم کاٹ کر کھا لیتے ہیں اسراء آپی آئینگی تو انکو انکے حصہ کا دے دینگے ۔ اور اسی میں ہیپی برتھ ڈے بھی کرلینگے۔ "

فاز نے آئیڈیا دیا تو راحمہ نے اسکا کان مروڑا ۔ 

",بھوکے انسان ایسے کر رہے ہو جیسے زندگی میں تم نے کیک نہیں دیکھا ۔ 

آرام سے بیٹھ کر اسکا انتظار کرو ورنہ منہ میں کیک کا ایک ذرّہ بھی جانے نہیں دینگے تم دونوں کے ۔"

راحمہ نے ان دونوں کو جھڑکا تو وہ دونوں فوراً خاموش ہوئے کیوں کے کیک کو نا کھا کر وہ اپنے پیٹ کے ساتھ نا انصافی نہیں کر سکتے تھے ۔ 

سب اسراء کا انتظار کررہے تھے ۔ جب وہ گھر میں اسمارہ بیگم کے ساتھ داخل ہوئی ۔ 

"اسلام علیکم ۔۔۔" 

اسراء نے تیز آواز میں سب کو سلام کیا تو سب یکدم خوشی سے کھڑے ہوئے اور اس سے ملنے لگے ۔ شاہانہ بیگم کے گلے لگتے وہ بے تحاشہ روئی تھی ۔۔

"ب_بہت بہت یاد آرہی تھی مورے مجھے آپکی ۔"

اسراء آنسوؤں سے رونے لگی تھی جب انکی انکھوں میں بھی آنسو آئی سب نے محبت سے یہ منظر دیکھا جب کبیر اور نرمین سیڑھیوں سے اترتے نیچے آئے ۔۔

اسراء کے قریب آتے کبیر نے اسے سینے میں بھینچا ۔ 

"کیسی ہے میری گڑیا ۔۔؟؟"

"ٹھیک ہوں لالا آپ کیسے ہیں ۔ ؟"

"بلکل ٹھیک میری جان"_

راحمہ سے ملتے وہ نرمین کے گلے لگی تھی ۔ 

"بہت یاد آئی مجھے آپ سب کی ۔۔ سب سے زیادہ آپ کی اپو ۔۔"

اسکی نم انکھیں نم لہجہ سن کر نرمین کی انکھیں بھی بھر آئی کہاں وہ انکی معصوم سی گڑیا گھر میں کھلکھلاتی تھی اور آج وہ ان سے ملنے کے لیئے تڑپ رہی تھی۔ اسکے آنسو صاف کرتے نرمین نے مسکرا کر اسکا گال چوما ۔ 

"ہم نے بھی آپ کو بہت زیادہ یاد کیا _ اگر آپ نا ملنے آتی آج تو ہم سب پھپھو جانی کے گھر آجاتے آپ سے ملنے ۔ "

نرمین نے اسکا موڈ بحال کرنے کی کوشش کی تو وہ کھلکھلائی۔۔ 

سب سے ملنے کے بعد اسمارہ بیگم نے سب کو ولیمہ کے معاملات کے بارے میں بتایا ۔ 

اور اسراء راحمہ اور نرمین کے ساتھ نرمین کے کمرے میں روانہ ہوئی جہاں آج انکے ساتھ کبیر بھی موجود تھا۔ اور فردان کبیر کے ہی کسی کام سے باہر گیا ہوا تھا۔ 

کبیر کے بازوؤں کے حلقہ میں بیٹھی وہ سب سے باتوں میں مشغول تھی ۔ 

"گڑیا آپ خوش تو ہیں نا ضرغام کے ساتھ ؟؟"

کبیر نے ہلکی آواز میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تو اسراء نے اسے دیکھا ۔ 

"جی لالا ہم بہت خوش ہیں وہ ہم_ہمیں بلکل آپ سب کی طرح  خ_خوش رکھتے ہیں ۔"

یہ کہتے اسراء کی آواز ڈگمگائی تھی اور آج صبح کے منظر اسکی انکھوں کے سامنے گھومے تھے ۔۔

"سچ کہہ رہی ہیں نا آپ ؟ اور یہ آپکی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے پھر سے ۔ ؟؟ "

کبیر نے مشکوک نظروں سے اس سے پوچھا تو وہ اسکے سینے سے لگ گئی ۔ 

"آپ لوگوں کی کمی تو کوئی پوری نہیں کرسکتا نا چاہے کوئی کتنا بھی پیار کرلے کتنا ہی خوش رکھ لے۔ "

بھیگے لہجہ میں اس نے کہا تو کبیر نے ہلکا سا مسکرا کر اسے دیکھا ۔ 

"اسے رکھنا پڑھے گا آپ کو خوش گڑیا ۔ ورنہ آپ ہمیں بتائے گا آپ جانتی ہیں نا آپکے دونوں بھائی آپ سے کتنا پیار کرتے ہیں ۔ "

"جی لالا آپ پریشان نہیں ہو ۔"

"لالا کیک کب کٹے گا اب تو اسراء آپی بھی آگئی ہیں ۔ "

شاز سے برداشت نا ہوا تو پھر بول اٹھا جب سب مسکراتے نیچے کی طرف بڑھے ۔ 

نیچے جاتے سب نے کیک کاٹا تھا جب فردان بھی داخل ہوا اسراء کو سینے سے لگاتے اسنے مبارکباد دی اور اس سے باتوں میں مشغول ہوگیا ۔ 

کب وقت گزرا کسی کو پتا نا چلا جب اسراء نے گھڑی دیکھی جو رات کے نو بجا رہی تھی ۔ 

جسے دیکھ اسراء کے پسینے چھوٹے تھے ۔ نو بج چکے تھے اور دس بجے ضرغام خانزادہ گھر واپس آجاتا۔ وہ اسمارہ بیگم کے پاس گئی جنہوں نے اسے تسلی دیتے سب سے اجازت چاہی ۔ 

"کل ملینگے اب انشاءاللہ ۔ ولیمہ کی بھی تمام تیاریاں دیکھنی ہے ۔ "

اسمارہ بیگم نے کہا تو اسراء بھی نم آنکھوں سے سب سے ملی۔ اسکے دل میں اس وقت سب سے زیادہ ضرغام کا خوف تھا ۔ اسے کیسے وقت پتہ نا چلا ۔یہاں آکر وہ سب میں ایسے مشغول ہوگئی تھی کے وقت کا احساس نا کرسکی اور اگر وہ ضرغام سے پہلے گھر نا پہنچی تو وہ کیسا ردعمل دے گا یہ سوچتے اسکے ہاتھ پیر پھول رہے تھے۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا وہ اڑ کر وہاں پہنچ جائے ۔ لیکن وقت کو جو منظور۔۔۔۔۔۔

وہ لوگ سب سے ملتے ڈرائیور کے ساتھ گھر کو روانہ ہوئے تھے پورے راستے اسراء اپنے رب کو یاد کرتی ہوئی آئی تھی کے بس کسی طرح کچھ ہوجائے اور ضرغام گھر نا پہنچ سکے ۔ اسنے خود کو سو صلواتوں سے نوازا تھا جو اپنے گھر والوں سے مل کر اتنا خوش ہوگئی تھی کے سب بھول گئی تھی ۔ جب جھٹکا کھا کر گاڑی رکی تھی اور اسکی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا تھا  ۔ 

"کیا ہوا بیٹا ؟ گاڑی کیوں روک دی ۔؟ "

"میڈم لگتا ہے گاڑی میں کچھ مسئلہ ہوا ہے دیکھنا پڑہیگا_"

اسمارہ بیگم نے ڈرائیور سے پوچھا تو وہ نیچے اترا۔ 

اسراء کا دل زور سے دھڑکا تھا اور آنکھوں میں آنسو آئے تھے ۔ 

"یہ_یہ کیا کر ررہے ہیں پھوپھو جانی کچھ کریں ۔ ہم گھر کے لیئے لیٹ ہو جائینگے ۔۔ "

اسراء نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا تو اسمارہ بیگم نے اسکا چہرا دیکھا جہاں خوف کے تاثراث تھے ۔ 

",بیٹا آپ اتنا پریشان کیوں ہورہی ہیں کچھ نہیں ہوگا ہم نے کہا نا ہم ضرغام سے بات کرلینگے آپ ڈرے نہیں ۔ "

وہ اسکا ہاتھ پکڑتی اسے سمجھانے لگی تسلی دینے لگی ۔ 

"ن_نہیں پھوپھو کچھ کریں__پلیز جلدی کریں ۔۔ "

وہ روتی ہوئی بولی تو اسمارہ بیگم کو تشویش ہونے لگی ۔ گھر جاکر وہ ضرغام سے تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ رکھتی تھی ۔ 

یہاں ہی کھڑے انہیں دس بج چکے تھے جب دوسرے ڈرائیور کو بلایا گیا اور وہ انہیں گھر لے کر روانہ ہوا ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

وہ گھر پہنچا تھا جب عادتاً وہ پہلے اسمارہ یگم کے کمرے میں گیا جہاں اسمارہ بیگم موجود نا تھی ۔ اسنے ملازمہ سے پوچھا ۔

"خان صاحب وہ چھوٹی بی بی کے ساتھ خان حویلی گئی ہیں ۔ ابھی واپس نہیں آئی ۔ "

ملازمہ وہاں سے جا چکی تھی جب کے ضرغام خانزادہ وہی کھڑا رہا ۔ سپاٹ چہرا لیئے دانت بھینچتے اسنے اپنی آنکھوں کو بند کر کھولا تھا ماتھے کی رگیں تن کر صاف پتا دے رہی تھی کے اسکا غصّہ اس وقت ساتویں آسمان پر پہنچا ہے ۔ واپسی کے قدم اٹھاتا وہ کمرے میں گیا تھا ۔ 

ٹھنڈے ٹھار پانی سے فریش ہوتے ہوتے شرٹ لیس سا ونڈو کے پاس کھڑا تھا ۔ 

وہ نہیں چاہتا تھا کے اسراء اپنے گھر والوں سے ملے وہ اسکو قید کر لینا چاہتا تھا کے کبیر خانزادہ تڑپے اپنی بہن سے ملنے کے لیئے لیکن اسراء نے یہ اچھا نہیں کیا تھا۔ 

اسکی آنکھیں اپنا حکم ٹھکرائے جانے کی وجہ سے سرخ لال ہورہی تھی ۔ سگریٹ سلگاتے وہ کاؤچ پر  بیٹھا ہاتھ میں لائیٹر پکڑے اس سے نکلتے شوعلہ کو وہ بہت غور سے دیکھتے پر اسرار سا مسکرایا ۔ سر پیچے ٹکائے انکھیں بند کیئے وہ انتظار کرنے لگا۔ 

اپنے شکار کا انتظار۔ خود وہ فلحال خاموش تھا لیکن اندر کا طوفان امڈ امڈ کر باہر آرہا تھا ۔ جو اسراء ضرغام خانزادہ کو ہی برداشت کرنا تھا ۔  

-------❤️ حیا خان ❤️--------

"پرسو صبح فلائیٹ ہے ترکی کی ۔دو ہفتوں کے لیئے جانا ہے مجھے ۔ "

وہ  اچانک اسکی گود میں سر رکھ گیا تھا ۔ جس پر نرمین کی سانسیں تھم گئی تھی وہ حیران نظروں سے سانس روکیے اسے دیکھ رہی تھی۔  جب کبیر نے اسکا ہاتھ تھامتے اپنے سر پر رکھا تھا ۔ 

اشارہ صاف تھا کے اسے سکون چاہیئے ۔ 

نرمین نے دھیمی دھیمی سانسیں لیتے اپنے کپکپاتا ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے سکون دینے لگی البتہ جس بات کا صدمہ اسکو زیادہ تھا وہ ترکی جانے کی بات تھی ۔  

"کیوں ؟"

دل میں تو بہت سے سوال اٹھے لیکن زبان پر صرف ایک ہی الفاظ تھا ۔ 

"کاش تم پوچھ لیتی اکیلے؟"

کبیر نے انکھیں کھولتے اسکا چہرا دیکھا تو وہ کنفیوز سی سر جھکا گئی ۔ 

کبیر نے اسکا شرمندہ چہرا دیکھتے اٹھ کر اسکی تھوڑی کو نرمی سے پکڑا تھا ۔ 

"اپنی زندگی کو ساتھ لے کر جاؤنگا _  تمہیں دیکھے بنا سانس لینا محال ہوجائیگا میرا ورنہ۔ "

لہجہ میں محبت سموئے کہا تو نرمین کے چہرے پر خوبصورت سی مسکان آئی ۔ 

کیا واقعی وہ اسکے لیئے اتنی اہم ہوگئی تھی ۔ کیا واقعی وہ اسکے لیئے دیوانہ ہوا جارہا تھا جو خود برسو سے اسکا جوگ پالے بیٹھی تھی ۔ اسکا دل بھر آیا تھا چہرا جھکاتے اسنے خود پر قابو کیا تھا ۔ 

اسکے ہاتھوں پر محبت سے بوسا دیتے کبیر نے ساری بات اسکے گوش گزار کی تھی ۔ جس پر نرمین کو خوشی ہوئی تھی کے واقعی اسکی سوچ ہمارے بڑوں سے مختلف اور اچھی تھی۔ وہ یہاں کے بچوں کے مستقبل کے بابت سوچ رہا تھا ۔ 

"ہم آپ کے ساتھ ہیں ۔ اور داجان بھی مان جائینگے آپ فکر نا کریں ۔ ہم ان سے بات کرینگے ۔ اور بڑوں کی دعاؤں کے بغیر اتنی دور جانا اچھا نہیں ہے نا۔ ہم انہیں منا لینگے۔۔"

نرمین نے اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے اسے تسلی دی تھی جس پر کبیر مطمئن ہوتے واپس اسکی گود میں سر رکھ گیا تھا ۔ 

"تمہیں پتہ ہے تم سراپائے محبت ہو ۔"وہ اسکے ہاتھ کی لکیروں کو گہری نظروں سے دیکھتا بار بار چوم رہا تھا اور پھر ایک محبت بھری نظر اسکے چہرے پر ڈال لیتا جس کے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ حسین لگ رہے تھے اور سفید رنگت گلاب ہوئی تھی ۔ 

"کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں نا جن کی نظر اتارنے کو دل کرتا ہے ۔۔

بلکل تمہارے جیسے ہوتے ہیں وہ لوگ ۔"

وہ اسکی انکھوں کو پھر ہونٹوں پر سجی خوبصورت سی مسکان اور پھر وہ سیاہ بھنور دیکھ رہا تھا جو اسکی تھوڑی پر چمک رہا تھا ۔ 

"تمہیں پتہ ہے تمہاری آنکھیں کتنی پیاری ہیں ؟اور تمہاری آواز ؟ تمہاری آواز مجھے بے حد پسند ہے ۔ 

تمہیں دیکھ کر ، تمہاری مسکراہٹ کو دیکھ کر تمہاری آنکھوں کو دیکھ کر اور اس خوبصورت تل کو دیکھ کر تمہارے صدقے جانے کو جی چاہتا ہے ۔ "

اسنے نرمین کے بھنور پر بوسہ دیتے سنجیدہ لہجہ میں کہا تھا کے اسکی کائی سی گہری آنکھوں میں خمار تیرتے دیکھ  نرمین کا رواں رواں کانپ اٹھا تھا ۔ 

نرمین کو وہ کوئی دیوانہ ہی لگا تھا جس طرح وہ اسکی ذات میں مشغول ہوتے اسکی تعریف کررہا تھا ۔ 

"مجھے شدّت سے انتظار رہے گا اس دن کا جب تم اپنی اس خوبصورت آواز میں مجھے سے اعتراف کروگی ۔ اور اس دن کوئی تمہیں میری محبت کے امڈتے طوفان سے نہیں بچا سکے گا ۔ " وہ اسکے ہاتھوں کو محبت سے سہلاتے شوخ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا جو حیا اور شرم سے لال ہو رہی تھی ۔ پلکیں رخساروں پر سجی کانپ رہی تھی۔  

اسکی کمر کے گرد حصار بناتے وہ اپنی آنکھیں بند کرگیا تھا اور نرمین ساری رات دھیمی سی سانسیں بھرتے اسکے سر میں ہاتھ چلاتی رہی ۔ اور دماغ و دل ساری رات اپنے رب کا شکر بجا لاتا رہا ۔ 

"اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے_"

---------❤️ حیا خان ❤️--------

اسراء کا گھر میں رکھا پہلا قدم ہی ڈگمگا گیا تھا جب اسنے باہر ضرغام خانزادہ کی گاڑی کھڑی دیکھی تھی ۔ 

"بیٹا کیا ہوا آپ ٹھیک ہیں ۔ "

اسمارہ بیگم نے اسراء کو دیکھا تھا جس کے چہرے پر پریشانی و خوف اور آنکھیں نم تھی ۔

"ج_جی پھپھو جانی ہم ٹھیک ہیں."

"آپ اوپر جائیں اور فکر مت کریں ضرغام آپ کو نہیں ڈاٹے گا ۔ اور اگر اسنے آپکو تھوڑا سا بھی ڈانٹا تو آپ ہمیں بتائے گا ہم آپ کے سامنے اسکے کان کھینچے گے ۔ "

اسراء نے انکی بات کا کوئی خاص اثر نہیں لیا تھا کیوں کے جیسے ضرغام خانزادہ کو وہ جانتی تھی وہ تو اسکو اسکی حرکت پر قید کر کے دوسرا سانس بھی لینے نہیں دے گا ۔ 

وہ کانپتی ہوئی قدم اوپر کی طرف بڑھا گئی تھی جہاں ایک شکاری اسکے شکار کے لیئے تڑپ رہا تھا  کے کب وہ آئے اور کب وہ اسکی جان اپنی مٹھی میں قید کرے ۔ 

کمرے کے باہر کھڑے اسے کئی لمحے گزر گئے تھے ہمت کرتے اسنے ناب گھمایا تھا اور دروازہ کھلتا چلا گیا ۔ 

کمرے میں گپ اندھیرا تھا اسنے اندر قدم رکھا اور دروازہ بند کیا ۔ برابر ہاتھ مارتے وہ کمرے کو روشن کرنے لگی تھی کے پیچھے سے کسی نے اسے اپنے حصار میں لیا تھا کے اسراء کی پشت اسکے شرٹ لیس سینے سے ٹکرائی تھی ۔ 

وہ اچانک چیخنے کے لیئے منہ کھولتی کے اسکے کان کے بلکل قریب اسکی سرد آواز اسراء کی زبان پر قفل لگا گئی ۔

"ششش____ آواز نا آئے باربی ڈول ورنہ یہ آواز ہمیشہ کے لیئے بند کردونگا ۔"

اسراء کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لیئے ضرغام کا سرد ٹھٹرتا لہجہ ہی کافی تھا۔ حصار اس قدر تنگ تھا کے اسراء کو لگا اسکی پسلیاں چٹخ جائینگی ۔ 

"باربی ڈول کا برتھ ڈے کیسا گزرا سکے ہسبنڈ کے بغیر ؟ _"

ضرغام نے اسکی خوشبو میں گہرا سانس لیتے سکون اپنے اندر گھلتا محسوس کیا تھا لیکن اس چڑیا کی جان وہ کیسے بخش دیتا جس نے اسکے حکم کے خلاف ورزی کی تھی ۔ 

اور آج اچھی طرح وہ اسکی نازک جان کی سانسیں اپنے خوف سے چھین لینے کے در پر ہوا تھا  ۔ 

"م_میں ن_نہیں __معاف۔۔۔۔۔"

اسراء کے منہ سے الفاظ نکلنے سے انکاری تھے اسکا سانس بند ہو رہا تھا آنسو گالوں کو بھگوتے اسکے آنچل میں جذب ہو رہے تھے ۔ لیکن ضرغام خانزادہ کو اس پر ذرّہ برابر بھی رحم نا آیا ۔ 

اسکی آواز میں التجا تھی کے ضرغام خانزادہ نے جھٹکے سے پلٹتے اسکا چہرا اپنی اور کیا تھا ۔ 

"کس بات کی معافی جانم آپکو اپنی مورے کی یاد آرہی تھی ان سے ملنے جانا تو آپکا حق تھا نا آپکے شوہر کی اجازت گئی بھاڑ میں ۔ " 

وہ سرد سا مسکراتا اسکی تھوڑی نرمی سے پکڑے اپنے لہجہ کو حد درجہ سخت کر چکا تھا کے اسراء سانس روکتے پھٹی آنکھوں سے اسکا چہرا دیکھ رہی تھی ۔ 

"آج میں تمہیں بتاتا ہوں کے جب اجازت ملے بغیر ہی اپنی خواہش پوری کی جائے تو کیسا محسوس ہوتا ہے."

وہ اسکی ناک کے تل پر دانت گاڑھ چکا تھا کے اسراء نے سسک کر پیچھے ہونا چاہا تھا ۔ لیکن وہ اس پر گرفت سخت کرتا اسے سختی سے تھام گیا تھا ۔ 

اپنے کارنامے کو دیکھتے وہ طنزیہ مسکراہٹ چہرے پر سجاگیا تھا ۔ اسراء کی ناک سرخ ہو چکی تھی اور اسکے دانتوں کے نشان صاف واضح تھے ۔ 

جب وہ اسے کندھے پر ڈالتے بستر کی طرف بڑھا تھا ۔ اسراء کی آنکھیں پھٹی رہ گئی تھی ضرغام کی سزا کا سوچتے ۔ وہ اپنے ہاتھ پیر تیزی سے چلانی لگی تھے ۔ 

"ای_ایک بار ہماری بات سن لیں پلیز پلیز ہماری_بات سن لیں ۔۔ پھ_پھپھو جانی نے ہم سے ضد_ضد کی تھی ۔۔۔۔"

وہ ضرغام سے التجائیں کر رہی تھی روتے روتے لیکن اس پر کوئی اثر نا پڑھا ۔ 

ضرغام نے اس نازک گڑیا کو احتیاط سے بیڈ پر لٹایا تھا ۔ 

اس پر چھاتے اسنے اسراء کا چہرا دیکھا تھا جس کے چہرے پر خوف اور ڈر کے ملے جلے تاثرات تھے وہ خطرناک حد تک لال ہو رہی تھی ۔ چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا ۔

اسکا چہرا دیکھتے ضرغام کو دو پل کے لیئے اس پر رحم آیا تھا ۔ وہ کتنی معصوم اور بے وقوف تھی ۔ اور اپنی بے وقوفی میں ہی وہ ہمیشہ اسکے قہر کا نشانہ بنتی تھی ۔ 

"بہت حسین لگ رہی ہو باربی ڈول یوں خوف سے کانپتی ہوئی آنسو بہاتی ہوئی اور التجائیں کرتی ہوئی ۔ لیکن تم جانتی ہو نا میں بے رحم ہوں سفاک ہوں جابر ہوں ۔ پھر کیوں ایسی حرکتیں کرتی ہو کے میں مجبور ہوجاوُں تمہیں تکلیف دینے کے لیئے بتاوں؟؟؟ "

وہ اسکے چہرے کے نقوش کو غور سے دیکھتے ہوئے کہہ رہا تھا ۔ اسکی ہری خوبصورت آنکھیں جو واقعی مصنوعی ڈول جیسی لگتی تھی بھیگی ہوئی حسین ترین لگ رہی تھی ۔ 

"آئیندہ ایسا نہیں__نہیں ہوگا پلیز ہمیں مع_معاف کردیں ۔۔۔ ہم ن_نہیں کرینگے دوبارہ کب_کبھی نہیں کریں گے ۔ "

وہ معصوم بے تحاشہ رو رہی تھی کے ضرغام خانزادہ نے اسکی بالوں میں چہرا چھپایا تھا اور مدہوشی سے گہرے سانس بھرے تھے کے اسراء اپنا سانس تک روک گئی تھی ۔ 

کئی لمحے گزر گئے تھے لیکن وہ سانس نہیں لے سکی اور ضرغام پیچھے نا ہٹا ۔ جب سانس نا لینے کی وجہ سے اسراء کے جسم کو ایک جھٹکا لگا تھا ۔ 

ضرغام نے چہرا اٹھاتے اسے دیکھا جو کانپ رہی تھی اور سانس لینے کی کوشش کررہی تھی لیکن اسے سانس نہیں آرہی تھی ۔ آنکھیں بھیگی ہوئی تھی ۔ 

ضرغام نے پیچھے ہوتے اسکا چہرا تھپتھپایا تھا ۔ 

"ہئے با_باربی ڈول سانس لو ۔ "

ضرغام نے پہچھے ہوتے تشویش سے اسکا چہرا دیکھا تھا ۔  جو سانس روکے پڑی تھی  اور پھر اچانک دائیں طرف اسکا چہرا ڈھلکا تھا اور وہ حوش و حواس سے بے گانہ ہو چکی تھی ۔ 

"ہیئے باربی ڈول سانس لو ۔"

ضرغام نے پیچھے ہوتے تشویش سے اسکا چہرا دیکھا تھا ۔  جو سانس روکے پڑی تھی  اور پھر اچانک دائیں طرف اسکا چہرا ڈھلکا تھا اور وہ حوش و حواس سے بے گانہ ہو چکی تھی ۔ 

ضرغام نے حیران ہوتے اسے دیکھا تھا جس کا جسم پسینہ سے شرابور تھا۔ وہ اسکا چہرہ تھپتھپانے لگا تھا لیکن کوئی ریسپونس نا ملتے اسنے اسراء پر سے اٹھتے پانی کا گلاس تھامتے اسنے چند چھینٹے پھینکے تو اسکی پلکوں میں جنبش ہوئی۔ 

آنکھیں کھولتے اسکی نظریں ضرغام کی آنکھوں سے ٹکرائی تھی ۔ جس کے چہرے پر پریشانی کے تاثرات تھے لیکن دو لمحوں میں اسنے اپنے تاثرات بدلتے چہرے پر سرد مہری سجائی تھی ۔ 

وہ سخت نظروں سے جھکا اسے دیکھ رہا تھا ۔ جب اسراء کی آنکھیں ڈر سے پھر سے بھر گئی تھی ۔ 

"خاموش___ اگر اب ایک انسو بھی باہر آیا تو تمہارا گلا دبا کر یہی قبر بنا دونگا۔ سمجھی ۔ "

وہ برہم ہوتا اس پر سے اٹھا تھا ۔ 

یہ کیا ہوا تھا اسے ۔ 

ایک لمحے کے لیئے ضرغام کی سانس بھی رک گئی تھی اسے بے ہوش دیکھتے ۔ لیکن جزبات پر قابو کرنا ضرغام خانزادہ کو بہت اچھی طرح آتا تھا۔ 

اسراء آنسوں روکتے ویسی ہی پڑی تھی جب ضرغام خانزادہ نے بنا پلٹے اسے حکم دیا تھا ۔ 

"اٹھو__ دو منٹ کے اندر فریش ہو کر باہر آؤ ۔ "

یہ بولنے کی دیر تھی کے اسراء اٹھتی واشروم کے دروازے کی طرف بھاگی تھی جب ضرغام خانزادہ کی آواز پر اسکے قدم تھمے۔ 

"اگر دو منٹ میں باہر نہیں آئی تو تیسرا منٹ شروع ہونے سے پہلے میں اندر آجاؤنگا ۔اور مجھے انتظار کرنا پسند نہیں ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے دیکھ چکی ہو تم انتظار کا نتیجہ ۔۔"

اسکے کہنے کی دیر تھی کے اسراء نے واشروم میں بند ہوتے گہرے سانس لیئے ۔ سکون تو اسے واشروم میں بھی نہیں لینے دیا تھا اس نے ۔ دو منٹ کا کہہ کر اسنے اسراء کی سانسیں ابھی بھی قید کر رکھی تھی ۔ 

باہر ضرغام خانزادہ شدید اضطراب کا شکار تھا ۔ اسکا غصّہ ابھی تک کم نا ہوا تھا اس نازک جان کے ساتھ اتنی بے رحمی کر کے بھی نہیں ۔ اپر سے اسکی سانسیں تھمتے دیکھ ضرغام اور پاگل ہوا تھا ۔ وہ جانتا تھا واشروم میں بند ہو کر وہ روئے گی اور مزید اسکا سانس پھولے گا ۔ تبھی دو منٹ کا کہتے وہ اسکا انتظار کرنے لگا جو بنا چینج کیئے دھلے منہ کے ساتھ ٹھیک دو منٹ میں باہر آ چکی تھی ۔ 

ضرغام اسے خاموشی سے سٹل دیکھتا رہا ۔

"چینج کیوں نہیں کیا تم نے ۔ ؟" 

وہ جیبوں میں ہاتھ پھسائے اسے دیکھ رہا تھا جو ابھی تک اس سے دور کھڑی کانپ رہی تھی آنکھیں اور ناک لال تھی رونے کے باعث۔ 

"کپ_کپڑے باہر تھے ۔۔ دو_دو منٹ میں کیسے کرتی۔۔۔"

اسکی بات پر ضرغام کے ماتھے کے بل سیدھے ہوئے وہ شدید خوفزدہ ہوچکی تھی ضرغام سے جو وہ باخوبی دیکھ سکتا تھا ۔ 

وارڈروب کھولتے ضرغام نے کپڑے اِدھر اُدھر کیئے پھر ایک آرام دہ لباس نکالتے اسکے سامنے کیا ۔

"پانچ منٹ ۔۔۔"

ضرغام نے کہتے چینجنگ روم کی طرف اشارہ کیا تھا ۔ 

وہ کپڑے لیتے چار منٹ میں ہی باہر آئی تھی کے اب کوئی رسک لینا وہ افورڈ نہیں کرسکتی تھی۔ 

جب ضرغام خانزادہ فل اے سی کیئے بستر پر ٹانگیں لٹکائے لیٹا تھا ۔ 

"یہاں آؤ __"

وہ بنا اسے دیکھے سرد آواز میں بولا تھا کے اسراء پھر ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی شاید وہ اس پر رحم نہیں کھائے گا آج شاید وہ واقعی آج اسکی سانسیں چھین لے گا یہ سوچتے اسراء کا ننھا سا دل کانپنے لگا تھا۔ ۔۔ 

"ہ_ہم آئیندہ ن_نہیں جائینگے _ آپکی اجازت کے بغیر کبھی ب_باہر نہ_نہیں جائینگے۔  کبھ_کبھی بھی نہیں جائینگے مورے سے ملنے _ ہم_ہمیں معاف کردیں پلیز معا_ف کرد_یں۔ "

وہ ہچکیوں سے رونے لگی تھی کے پورے کمرے میں اسکے رونے کی آوازیں گونجنے لگی . ضرغام نے اسکی التجا سنتے کرب سے آنکھیں بند کری تھی جیسے اسکا دل کسی نے دبوچ لیا ہو۔ البتہ ابھی تک بستر پر ایسا ہی پڑا تھا ۔ وہ اسکی التجاؤں کے آگے کمزور پڑ رہا تھا ۔ 

"میں نے کہا یہاں آؤ ۔" 

ضرغام نے جملا پھر سے دوہرایا تھا کے اسراء مزید روتی کپکپاتی اسکے قریب آئی ۔ ضرغام آنکھیں کھولتے اٹھ کھڑا ہوا۔۔

اسے کھینچتے نرمی سے خود کے قریب کرتے وہ اسے سینے سے لگا گیا تھا ۔ 

اسراء کے آنسوؤں میں مزید روانی آئی تھی وہ آنسوؤں سے رونے لگی اس ستمگر کا سینہ ملتے ہی ۔ 

"میں جانتا ہوں میں بہت سفاک ہوں ۔ لیکن تمہیں اسی ضرغام کے ساتھ زندگی گزارنی ہے ۔ اسلیئے عادت ڈال لو ۔ اور سب سے بڑی بات میری نافرمانی کرنے سے پہلے خود کو جان سے مارلینا کیونکہ اگر زندہ بچ گئی تو میں تمہیں اذیت دے دے کر مار ڈالونگا۔ "

اسکے برفیلے الفاظ سنتے اسراء کی سانس سوکھ گئی تھی یہ کیسا شخص تھا جو ستم کر کے مسیحائی بھی کر رہا تھا اور مستقبل میں کرنے والے ظلم بھی بتا رہا تھا ۔  

"وہ ضرغام خانزادہ تھا اس کہانی کا ولن وہ رحم دل کیسے ہو سکتا تھا ۔ "

وہ اسے سینے سے لگائے اسکے بالوں میں ہاتھ چلاتا رہا یہاں تک کے اسراء نیند کی وادیوں میں گم ہوگئی ۔ اسے نرمی سے گود میں اٹھاتے بستر پر لٹاتے اس پر کمفرٹر دیا تھا ۔ اور خود اسکے برابر بیٹھتے تادیر اسکا چہرا دیکھتا رہا ۔ جسکا منہ حددرجہ لال ہو رہا تھا نیند میں بھی وہ  خوف سے بڑبڑا رہی تھی ۔ 

ضرغام نے اسے کھینچتے اپنے سینے سے لگایا تھا اور سکون سے انکھیں بند کی تھی جیسے اسکے جلتے دل پر بھی کسی نے ٹھنڈی پھوار کردی ہو۔ 

وہ اس بات سے ناواقف تھا کے سکون رب نے اسکے محرم میں ہی رکھا ہے یعنی اسراء خانزادہ میں ۔ اور کسی اور کی چیز سے حسد کرنے سے اسکی خود کی قیمتی چیز بھی اس سے چھن سکتی ہے ۔ لیکن ضرغام خانزادہ ایک سیراب کے پیچھے بھاگ رہا تھا ۔ جس کی منزل صرف تباہی تھی۔۔

-------❤️حیا خان❤️-------

فجر کی آذانوں کی گونج ہر سو پھیلی ہوئی تھی ۔ نرمین کی آنکھ کھلی تو ویسے ہی بیڈ سے ٹیک لگائے سوگئی تھی کمر بیٹھے رہنے سے تختہ ہوگئی تھی اور کبیر ابھی تک ویسے ہی اسکی گود میں سر رکھے کوئی معصوم بچہ لگ رہا تھا جس کو بہت سالوں بعد سکون کی نیند میسر آئی ہو۔ 

نرمین نے ایک پیار بھری نظر اپنے محرم پر ڈالتے احتیاط سے اسکے سر کے نیچے تکیہ لگایا تھا اور اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ 

وضو کرتے وہ واشروم سے باہر نکلی تھی ۔ 

سکون بھری نماز پڑھ کر اسنے سلام پھیرا تھا ذکر و اذکار کے بعد دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائے گئے تھے ۔ 

"اے میرے پروردگار!! دونوں جہانوں کے مالک ۔ میں اتنی محبت اتنی اہمیت کے لائق نا تھی جتنی آپ نے مجھے نوازی ہے ۔ میری دعاؤں کو قبولیت بخشی ہے ۔ میرے پروردگار اگر آپ مجھے نا عطا کرتے تو آپکے سوا اور کوئی ذات نہیں تھی جو میری محبت میری جھولی میں ڈال سکتا ۔ لیکن آج آپ نے میری مانگی گئی دعاؤوں پر کن کہہ کر مجھے خود سے بے تحاشہ قریب کرلیا۔ آپ سے کی گئی میری محبت میں اتنا اضافہ ہوگیا کے دل کرتا ہے ہر نماز کے بعد شکرانے ادا کیئے جائیں ۔ ہر سانس کے بعد الحمدللّٰہ کہا جائے ۔ ہر سجدے کے بعد شکر کا سجدہ ادا کیا جائے ۔ رب العالمین آپکی محبت کا نعم البدل کچھ نہیں ۔ کبھی مجھے خود سے دور نا کرے گا کبھی مجھے اس دنیاوی زندگی میں  بھٹکنے نا دے گا جہاں کھو کر میں اپنے رب کو بھول جاؤں ۔ مجھے ہدایت دے گا میرے رب اور میرے شوہر کو ہدایت دے گا کے وہ آپکی محبت میں مشغول ہوجائیں ۔ آپکی عبادت کے طلبگار ہوجائیں انہیں سیدھی راہ دکھانا اور اپنے خاص لوگوں میں شامل کرنا جن کو تو ہدایت دینے والا ہے۔"

چہرا آنسوؤں سے تر تھا ایسا خوبصورت تعلق تھا اس مؤمنہ کا اپنے رب کے ساتھ  ۔ اور ان دعاؤوں کو ایسے یقین سے مانگا گیا تھا جیسے وہ جانتی ہو کے جس سے مانگ رہی ہوں وہ مجھے خالی ہاتھ نہیں چھوڑےگا ۔ اور ایسی ہی ذات بھروسہ کے قابل ہے جو ہر لمحہ ہر ایک کی فریاد کو سن بھی رہی ہو اور دیکھ بھی رہی ہو۔  اور پھر جب یقین کامل اور نیت صاف ہو اور صبر کا دامن سختی سے تھاما گیا ہو  تو وہ ضرور عطا کرتا ہے ۔ 

" بے شک صبر کے صلے ہمیشہ خوبصورت ہوا کرتے ہیں ۔"✨

دعاؤں پر آمین پڑھتے اسنے اپنے آنچل سے اپنا چہرا صاف کرتے پلٹ کر دیکھا تو کبیر خانزادہ نا جانے کب سے اسکے برابر میں بیٹھا اسے محویت سے دیکھ رہا تھا ۔ 

نرمین اسے دیکھتی چونکی تھی ۔ 

"آپ جاگ رہے تھے ۔۔ ؟؟" 

کبیر نے سوال کا جواب نہیں دیا اور یونہی اسکا چہرا دیکھتا رہا ۔ ایسا نہیں تھا کے وہ دنیا کی واحد خوبصورت لڑکی تھی جو اسکے سامنے بیٹھی تھی اسنے ناجانے کتنی خوبصورتی باہر ممالک میں دیکھی تھی لیکن سامنے بیٹھی لڑکی اسکی دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی ۔ جسکا چہرا ہمیشہ میک اپ سے پاک رہتا تھا لیکن وہ پھر بھی دنیا کی ہر چمکتی چیز سے زیادہ چمکتی تھی ۔ جسکے چہرا دوپٹہ کے ہالہ میں معصوم اور خوبصورت لگتا تھا ۔ 

"تمہیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے جیسے جنت سے کوئی حور میرے لیئے دنیا میں بھیجی گئی ہو ۔"

کبیر اسکی آنکھوں میں گم تھا اسکا معصوم چہرا دیکھتے کبیر نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا اور تا دیر وہی ٹھرا رہا تھا  جیسے سکون اپنے اندر گھول رہا ہو ۔ 

"مجھے ایسی کوئی نیکی یاد نہیں پڑھتی جو میں نے کی ہو اور اسکے بدلہ مجھے تم عطا کی گئی ہو ۔ "

کبیر کی آنکھیں نم تھیں ۔ ہاں اسکے دل میں اپنے رب کے لیئے محبت بڑھی تھی ۔ 

اسنے تو کچھ مانگا ہی نہیں تھا اور بنا مانگے اسکے رب نے اسے ایسے شخص سے نواز دیا تھا۔ 

اور وہ جس طرح  چاہتا ہے تمہیں اپنے قریب بلا لیتا ہے ۔ اور کبیر خانزادہ کو اپنے قریب کرنے کا اسکے رب نے یہ راستہ چنا تھا کے کبیر کا دل اب اپنے رب کی یاد کے بغیر بے سکون ہونے لگا تھا ۔ 

نرمین نے اسکی نم آنکھوں پر اپنا انگوٹھا پھیرا تھا ۔ 

"آپ نماز پڑھنا چاہینگے ؟"

ہزاروں سوالوں کو دباتے نرمین نے صرف چند الفاظ ادا کیئے تھے ۔ کبیر ساکت سا ہوگیا تھا ۔ خاموش جیسے کچھ کہنے کو نا ہو ۔ 

"م_میں نے کافی وقت سے نماز___نہیں پڑھی۔" کبیر نے لڑکھڑاتے شرمندگی سے کہتے نظریں جھکائی تھی ۔

"کوئی بات نہیں آج سے پڑھ لیں ۔ " نرمین نے اسکے گالوں پر پیار سے ہاتھ رکھتے اسکا چہرا اٹھایا تھا ۔ 

"ل_لیکن میں کیسے _ میرا مطلب ہے میں سب بھول گیا ۔ وضو نماز ۔ " وہ شرمندگی کی گہرائیوں میں تھا جو کہنے کو مسلمان تھا لیکن نماز اور عبادت نہیں آتی تھی ۔ وہ نرمین کے آگے آج خود کو بے حد کمتر محسوس کررہا تھا ۔ 

نرمین نے ہلکا سا مسکراتے اسکا چہرا ویسے ہی تھام رکھا تھا ۔ 

"کوئی بات نہیں ہم آپ کو وضو کرنا اور نماز میں پڑھنے کی دعائیں سب سکھا دینگے ۔ پھر آپ پڑھ لے گا ۔ "

کبیر کی آنکھیں نم ہوئی تھی آگے کے مراحل سوچتے اسکا دل کانپا تھا ۔ 

"مگ_مگر اللّٰہ تعالیٰ میری نماز کیوں قبول کرینگے۔ اتنے وقت سے میں انہیں بھولا ہوا تھا ۔ کبھی پلٹ کر ان کی طرف نہیں دیکھا وہ بہت ن_ناراض ہونگے ۔"

وہ نرمین کو اس وقت کوئی چھوٹا بچہ لگا تھا جو نم آنکھوں سے اسے اپنا خوف بتا رہا تھا۔

"جب آپ نو سال بعد پلٹ کر واپس آئے تھے تو کیا تائی جان آپ سے ناراض تھی ؟ "

نرمین نے اس سے پیار سے پوچھا تو وہ خاموشی سے نفی میں سر ہلا گیا ۔ 

"تو جب آپکی اتنی محبت کرنے والی ماں ناراض نہیں ہوئی تو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والا رب کیسے ناراض ہو سکتا ہے ۔ "

کبیر نے اپنی آنکھیں جھپکتے آنسوؤں پر قابو کیا تو نرمین نے نفی میں سر ہلایا ۔ 

"اپنی ذات کو کبھی بھی کسی سے کم تر مت سمجھے گا آپ سب کرسکتے ہیں ۔ ۔

میں بہت عام سی بندی ہوں ہاں مگر محبت پر یقین رکھتی ہوں ۔ 

ایک میری محبت ہے ایک اللّٰہ کی محبت ہے ۔  میں اسکی عبادت کرتی ہوں یہ میری محبت ہے ۔ اور وہ مجھے عبادت کی توفیق دیتا ہے یہ اسکی محبت ہے ۔ میں صبر کا دامن تھامے رکھتی ہوں یہ میری محبت ہے ۔ اور وہ مجھے میرے صبر کا خوبصورت صلہ عطا کرتا ہے یہ اسکی محبت ہے۔ "

"اللّٰہ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں یہ تو بس ہم انسان ہی ہیں جو دنیاوی زندگی میں کھوتے اسے بھول جاتے ہیں لیکن وہ ہمیں کبھی نہیں بھولتا ۔ وہ آپ کو بھی نہیں بھولے بلکہ وہ یاد کر رہے ہیں آپکو کے کب آپ آئینگے اور کب وہ آپکی تمام غلطیاں معاف کرتے آپکو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازیں گے ۔ "

اسکی باتیں اپنے سحر میں جکڑ چکی تھی کبیر خانزدہ کو وہ ساکن سا بیٹھا نرمین کی باتیں ایسے غور سے سن رہا تھا جیسے کوئی چھوٹا بچہ معصومیت سے نئی باتوں کو سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ 

"تو کیا__میں بھی اگر نماز پڑھنے لگوں گا تو کیا وہ__مجھ سے بھی ایسے ہی محبت کرینگے جیسے تم سے کرتے ہیں ؟"

اسکی بات سنتے نرمین مسکراتی اسکے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام گئی تھی ۔ کبیر نے ساکت سا ہوتے یہ منظر دیکھا تھا جہاں اس لڑکی نے آج خود اسے چھونے میں پہل کی تھی ۔  

"اللّٰہ تعالٰی اپنے بندوں کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتے وہ مجھ سے بھی زیادہ آپ سے خوش ہونگے کے آپ دنیا کی رنگینیوں کو چھوڑ کر انکے قریب آئے ۔ "  نرمین نے جھکتے کبیر کے دونوں ہاتھوں کی پشت پر بوسہ دیا تھا اور نظریں جھکا گئی تھی ۔ کبیر نے سانس روکتے اسکی جسارت کو دیکھا تھا وہ ایک مضبوط مرد اسکی باتوں اور چھوٹی سی جسارت پر دم بخود ہوگیا تھا ۔

اسکے جملوں نے کبیر کی ہمت باندھی تھی اگر وہ اللّٰہ کی عبادت کرتی تھی  اسکے قریب رہتی تھی تو اس بات کا غرور نہیں رکھتی تھی ۔ جس طرح سے اسنے کبیر کو اس طرف مائل کیا تھا وہ دلوں جان سے اس پروردگار کے آگے سجدہ ریز ہوجاتا جس نے اپنی اتنی حسین اور باشعور بندی اسکے دامن میں بن مانگے ڈالی تھی ۔ جس نے اسے اللّٰہ کی محبت سے آشنا کیا تھا ۔ 

کبیر نے آگے بڑھتے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا اسے آج فخر ہوا تھا اپنی محبت پر ۔ اسکی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹتا نرمین کے دوپٹہ میں جذب ہوا تھا وہ جانتی تھی وہ رو رہا ہے وہ بے سکون ہے اسکی زندگی میں کچھ خلش ہے اور رب کی یاد ہی اس خلش کو مٹا سکتی ہے ۔ 

اس نے کافی دیر تک نرمین کو سینے سے لگائے رکھا ۔

" آپ دعائیں یاد کرنا چاہینگے؟ "

نرمین نے اسکے سینے سے لگے لگے ہی پوچھا تھا ۔ 

"ابھی ہی یاد کرنا چاہونگا ۔ "

وہ مسکراتا اس سے الگ ہوا تھا نرمین کھڑی ہوتے ایک کتاب لے کر آئی تھی جس میں دعاؤوں کا اور نماز کا طریقہ درج ذیل تھا ۔

اسکا ہاتھ تھامتے نرمین نے اسے کھڑا کیا اور واپس بستر پر جا بیٹھی اور اسکا سر خود سے اپنی گود میں رکھتے نرمین نے حمد و ثناء سے آغاز کیا تھا ۔ کبیر اسکی خوبصورت آواز میں دعائیں سنتا اسکے ساتھ دوہرانے لگا ۔ 

نرمین اسکو حرف با حرف دعائیں پڑھانے اور سمجھانے لگی اور وہ خوشی کے ساتھ انکوں یاد کرنے لگا ۔ 

"ام ہم خان__ پہلے دائیں طرف سلام پھیرتے ہیں اسکے بعد بائیں طرف ۔ "

اور وہ سر ہلاتا  نرمین کے ماتھے کا بوسہ لیتے اٹھ کھڑا ہوا__ 

"سمجھ گیا خانم"۔۔ 

ان شاء اللّٰہ میں ان دعاؤوں کو آج جب موقعہ ملے گا دوہراتا رہونگا تاکہ یہ مجھے یاد رہیں۔ "

نرمین نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ایک دوسرے کی سنگت میں  وقت کا پتہ نا چلا تھا اور فجر سے بیٹھے بیٹھے اب ساڑھے سات بج چکے تھے ۔ 

وہ دونوں فریش ہوتے باہر کی طرف بڑھے تھے جہاں سب ناشتہ کی میز پر ان دونوں کا ہی انتظار کررہے تھے ۔ 

دا جان نے کبیر کے چہرے پر آج ایک سکون اور اطمینان دیکھا تھا جو پہلے نا دیکھا تھا ۔ وہ ماشاءاللہ کہتے مسکراتے کھانے کی طرف توجہ کر چکے تھے ۔ 

-------❤️ حیا خان ❤️-------

 آج ضرغام خانزادہ اور اسراء ضرغام خانزادہ کا ولیمہ تھا۔ اور وہ دونوں ابھی تک کمرے سے باہر نا آئے تھے اسمارہ بیگم پریشان تھی کل رات کے اسراء کے رویہ سے اور اب تک ان کا باہر نا آنا انہیں مزید پریشانی میں مبتلا کررہا تھا ۔ 

جب انہوں نے ملازمہ کو انکا دروازہ کھٹکھٹانے کا کہا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ سیدھا لیٹے جبکہ اسراء اسکے سینے میں دبکی ہوئی لیٹی تھی جب کھٹکھٹانے کی آواز سن کر اسراء کی آنکھ کھلی ۔ پہلے تو وہ غائب دماغی سے ضرغام کو دیکھنے لگی لیکن جب آہستہ آہستہ رات کے مناظر اسکی آنکھوں میں گھومے تو جھٹکے سے اس سے دور ہوتی اٹھ بیٹھی ۔ اسی اثنا میں ضرغام کی آنکھیں بھی کھل چکی تھی ۔ اور وہ ماتھے پر بل ڈالے ناگواری سے اسے دیکھنے لگا۔ 

"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ چپ چاپ سوجاؤ "۔ اسکا ہاتھ کھینچتے دوبارہ ضرغام نے اسے اپنے سینے میں بھینچتے انکھیں بند کرلی تھی جب اسراء آنکھیں پھاڑے سانس روکتے اسے دیکھنے لگی۔ 

سوتا ہوا وہ کوئی خاموش ڈریگن لگتا تھا جو اٹھتے ہی منہ سے آگ اور ہاتھوں سے وار کرنے لگتا تھا ۔ اسراء نے کل رات کے بابت سوچتے جھرجھری لی تھی ۔ اور اسکے ہاتھ ہٹانے چاہے تھے جب دروازہ ایک بار پھر زور سے کھٹکھٹایا گیا ۔ 

"کیا مسئلہ ہے اگر اب دروازہ بجایا تو ہاتھ توڑ دونگا باہر آکر ۔ "

ضرغام غصّہ میں اتنی زور سے چیخا تھا کے اسراء نے اپنے کانوں پر ہاتھ جمائے تھے اور ڈر سے آنکھیں بند کی تھی ۔ 

"اور تم خاموشی سے پڑی رہو ۔ اب اگر میری نیند خراب کی تو تمہاری نیندیں حرام کردونگا میں ۔" 

ضرغام نے لال سرخیوں میں گھلی آنکھوں سے اسے وارن کیا تھا جو اسکے ڈر سے اثبات میں سر ہلاتی فوراً سے اسکے سینے میں چہرا چھپا گئی تھی ۔ 

ضرغام نے اسکی فرمانبرداری پر اپنی مسکراہٹ دبائی تھی ۔ اور اسی طرح اسے لیئے لیٹا رہا نیند تو شاید اب نا آتی لیکن اس لڑکی کا ضرغام کے سینے سے لگنا اسکے وجود سے آگ بجھانے کا کام کررہا تھا ۔ وہ اسے لیئے لیٹا سکون حاصل کررہا تھا جو خاموشی سے اسکے سینے سے لگی اسکے دھڑکتے دل کی آواز واضح سن سکتی تھی ۔ اسراء نے مسکراتے اسکے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

وہ ظالم شخص کیوں اسکے دل میں اترتا جا رہا تھا اس معصوم کی سمجھ سے باہر تھا لیکن اس ڈریگن کے محبت بھرے لمس کےلئے وہ سب قربان کرسکتی تھی ۔ 

ایک گھنٹہ مزید گزر گیا تھا لیکن اسنے اسراء کو نا چھوڑا ۔ نا وہ سویا تھا اور نا اسکے حصار میں دبکی ہوئی اسراء جب دروازہ دوبارہ کھٹکھٹایا گیا اور اس بار اسمارہ بیگم کی آواز بھی ساتھ تھی ۔ 

"ضرغام بیٹا تم ٹھیک ہو؟؟ دس بج چکے ہیں بیٹا ۔ ۔۔ ؟؟"

وہ اپنے بیٹے کی پرائیوسی کبھی ڈسٹرب نا کرتی لیکن کل رات کے بعد وہ اسراء سے ایک بار مل کر تسلی کرنا چاہتی تھی ۔ اور ضرغام کی بھی خبر لینا چاہتی تھی ۔ 

"جی مورے ہم بس تھوڑی دیر میں نیچے آتے ہیں۔"

ضرغام نے کہتے اسراء کو خود سے دور کیا اور اٹھ کھڑا ہوا اور واشروم میں بند ہوگیا ۔ 

پیچھے اسراء نے کھڑے ہوتے اسکے کپڑے نکالے تھے جب ضرغام خانزادہ کی آواز واشروم سے آئی ۔۔ 

"میرے کپڑے ؟؟؟"

اسراء نے جلدی اسکے کپڑے تھمائے تھے جب وہ گیلے بالوں کو رگڑتے بھورے رنگ کا کرتا پہنے بھوری ہی آنکھوں کے ساتھ بے حد ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ 

اسراء منہ کھولے اسے دیکھ رہی تھی ۔ جو پہلے اسے ایک آنکھ نا بھاتا تھا اور اب دن با دن اسے دنیا کا حسین ترین مرد لگنے لگا تھا ۔ 

ضرغام اچھی طرح جانتا تھا کے وہ اسی میں ڈوبی اسے دیکھ رہی ہے لیکن نظر انداز کرتے گھڑی ہاتھ میں باندھنے لگا ۔ 

پیچھے پلٹا تو وہ ابھی تک اسی میں محو تھی ۔ 

"تمہیں مجھے دیکھتے رہنے کے علاوہ اور کوئی کام دھندا نہیں ہے.؟"

ضرغام نے اسے جھڑکتے وقت کا احساس دلایا تھا تو اسراء نے گڑبڑا کر اِدھر اُدھر دیکھا ۔

"اپنے ہی بندے کو دیکھ رہی تھی دوسرے کے تھوڑی جو ناپ تول کر دیکھوں ۔ "

اسکے منمنا کر کہنے کے باوجود ضرغام سن چکا تھا ۔ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ سجاتے وہ اسکی طرف قدم بڑھا گیا تھا۔ 

اسراء گھبراتی ہوئی پیچھے ہوئی لیکن بیڈ سے ٹکراتی وہ جھٹکے سے بستر پر بیٹھی تھی ۔ ضرغام نے ایک پیر اٹھاتے بستر پر رکھا تھا اور اس پر جھکا تھا ۔ 

"تمہاری اتنی اوقات نہیں ہے کہ کسی کو نظر اٹھا کر دیکھو اور میں تمہارا بندہ نہیں ہوں جس کو تم حق جما کر دیکھو ۔ یہ بندہ کسی دوسرے کا کب سے ہو چکا ہے اور بے تحاشہ اس سے محبت کرتا ہے ۔ اور آخری دم تک کرتا رہے گا ۔ اسکے آگے تمہارے یہ وجود اور تمہاری یہ خوبصورتی فضول ہے ۔ "

ضرغام نے ایک ایک لفظ اسکی نم آنکھوں میں گاڑھتے ہوئے کہا تھا جو اس لڑکی کا دل بری طرح کرچی کرچی کر گیا تھا ۔ 

"ک_کیا وہ واقعی ب_بہت خوبصورت ہے؟ "

اسراء نے دھندلائی آنکھوں سے ضرغام کو دیکھتے پوچھا تھا اپنے آنسو پر قابو نا رکھتے وہ رخسار پر بہہ نکلا تھا ۔ 

ضرغام نے اس آنسو کو انکھ میں بھرنے سے لے کر تھوڑی پر پھسلنے تک دیکھا تھا اور پھر نظریں دوبارہ اسکی ہری حسین آنکھوں میں گاڑھی تھی ۔ جو اس وقت خود کوئی اپسرا لگ رہی تھی ۔ لیکن سفاکیت کے اعلٰی درجہ پر پہنچتے وہ اس کا دل کچل گیا تھا ۔ 

"بہت زیادہ خوبصورت ہے ۔ اس دنیا کی حسین ترین لڑکی ہے وہ ۔ "

ضرغام نے اپنا ہاتھ بے اختیار آگے بڑھاتے اسکا آنسو صاف کیا تھا البتہ اپنا جملہ مکمل کرتے وقت دور دور تک اسکے ذہن میں نرمین خانزادہ کا خیال نہیں تھا وہ تو سامنے بیٹھی باربی ڈول کی آنکھوں میں گم تھا ۔ 

اسراء نے اپنے دل کی کرچیوں کو اپنے دامن میں بھرتے پھر ہمت باندھی تھی ۔ 

"لیکن وہ آپکی محرم نہیں ہے ۔ اور جو محرم ہے اسکا دل آپ بے دردی سے توڑ رہے ہیں کے اس درد کو سہتے ہم مر بھی سکتے ہیں۔ اور اگر ہم ہی مر گئے تو کس پر کرینگے یہ ستم ۔"

اسکی بات سنتے ضرغام اس سے دور ہوتے قہقہہ لگاتا شیشہ کی طرف پلٹا تھا ۔  

"جس دن تم مرجاؤ گی نا اس دن اس دنیا سب سے زیادہ میں خوش ہونگا ۔ ٹرسٹ می ۔ تم ابھی اس ستم کے پیچھے چھپی کہانی سے نا واقف ہو۔ تمہاری موت میرے لیئے باعث سکون بنے گی باربی ڈول ۔ "

وہ قہقہہ لگاتا ایک نظر اس پر ڈال گیا تھا جو سکتہ میں بیٹھی اسکے الفاظوں کے زہر کو برداشت کرنے کی کوشش کررہی تھی ۔ 

ضرغام خانزادہ جا چکا تھا لیکن کتنی ہی دیر وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی تھی ۔ 

کیا اتنی بے مول تھی وہ ۔ کیا اسکا وجود اس قابل نہیں تھا کے ضرغام خانزادہ اس پر محبت بھری ایک نظر ڈال سکے ۔ ضرغام خانزادہ کو اسکے مرنے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا تھا یہ بات اسراء کے جسم سے روح کھینچنے کے مترادف تھی۔ 

دروازہ کھٹکھٹاتے نرمین کمرے میں داخل ہوئی تھی جہاں دا جان قرآن پاک پڑھتے اب اسے رکھ رہے تھے ۔ 

"ہم غلط وقت پر تو نہیں آئے ؟ "

نرمین نے مسکراتے داجان سے پوچھا تو انہونے بھی جواباً مسکراتے اسے اندر آنے کا اشارہ کیا ۔ 

"اکیلے اکیلے کیا کررہے تھے یہاں آپ ۔ ؟"

"کچھ نہیں بیٹا بس تلاوت کررہا تھا اب میں بوڑھا انسان اور کیا کرونگا ۔ "

داجان نے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے اپنے پاس بٹھایا تھا ۔ 

"داجان آپ ناراض ہیں خان سے؟"

نرمین نے بات کا آغاز کیا تو داجان نے گہری سانس بھری ۔ 

"وہ تو ہمارا دایاں بازو ہے اس سے بھلا ہم کیسے ناراض ہو سکتے ہیں۔ لیکن۔۔۔ "

داجان کہتے کہتے رکے تھے۔

"لیکن؟ "

"لیکن انہوں نے ہماری یا کسی کی رائے نہیں لی سیدھا اپنا فیصلہ سنایا ۔ جبکہ وہ جانتے ہیں یہ اس سب کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے ۔ "

داجان نے کہتے افسوس سے سر ہلایا تھا ۔ 

نرمین نے انکا ہاتھ پکڑتے انہیں خود کی طرف متوجہ کیا تھا۔ 

"آپ کو پتہ ہے دا جان اگر آج میں اتنا پڑھی نا ہوتی تو خان شاید کبھی مجھے خود کے لیئے نا چنتے ۔ بے شک وہ ہر لحاظ سے ابھی بھی مجھ سے بہتر ہیں لیکن ایسے کامیاب مرد ہمیشہ اپنے لیئے ایک پڑھی لکھی عورت ڈھونڈتے ہیں۔۔ 

"اور اگر ہماری شادی آج خان سے نا ہوئی ہوتی کسی اور سے ہونی ہوتی تو کیا آپ کسی بھی گوار سے ہماری شادی کردیتے؟" 

داجان نے نفی میں سر ہلایا تو نرمین مسکرائی ۔ 

"ہم جانتے ہیں آپ ہمارے لیئے ایک اچھا سلجھا ہوا پڑھا لکھا شخص ہی تلاش کرتے ۔ 

"وقت بدل گیا ہے لوگ بدل گئے ہیں اور لوگوں کی سوچ بدل گئی ہے ۔ پہلے زمانے میں سگھڑ پن دیکھتے ہی لڑکی کو بیاہ دیا جاتا تھا لیکن آج کل کے دور میں سب پڑھنا چاہتے ہیں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ خواہ وہ مرد ہو یہ عورت ۔ 

"اور پھر جب ہمارے رب نے کہہ دیا ہے کے علم حاصل کرنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے تو بات یہی ختم ہوجاتی ہے۔ کیا مرد اور کیا عورت؟"

داجان نرمین کو دیکھتے اسکی بتائی ہوئی باتوں سے متفق تھے لیکن شروع سے جس ذہن میں وہ جیتے ہوئے آئے ہیں وہ اتنی آسانی سے بدل لینا مشکل تھا۔ نرمین انکا چہرا دیکھتے انکے دل کے حال پڑھ رہی تھی۔ 

"اگر یہاں ہمارے گاؤں میں ہی ایسی سہولیات موجود ہونگی تو سب لڑکیاں سیف رہینگی ۔ کسی باپ کو یہ ڈر نہیں ہوگا کے اسے اپنی بچی کو تعلیم حاصل کروانے کے لیئے دور بھیجنا پڑہیگا۔ "

اسکی بات سنتے داجان دھیما سا مسکرائے تھے اور اثبات میں سر ہلایا تھا۔ جس پر نرمین کی باچھیں کھل اٹھی تھی۔ 

"وہ غلط نہیں ہیں دا جان وہ یہاں کے لوگوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں ۔ پلیز انہیں ڈھیر ساری دعائیں دیں کے وہ کامیاب ہوجائیں وہ پریشان ہیں یہ سوچ کر کے آپ ناراض ہیں ۔ آپکی دعاؤوں کے بغیر ہم۔کچھ بھی نہیں ہیں۔"

اسکی نم آواز سنتے داجان نے اسکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا ۔ 

"آپ پریشان نا ہو ہماری ساری دعائیں ہمارے بچوں کے لیئے ہی تو ہیں بیٹا ۔ ہم ناراض نہیں ہیں اور وہ سردار ہے اس گاؤں کا اور ان لوگوں کے بارے میں اچھا سوچ رہا ہے ہمیں فخر ہے اپنے پوتے پر۔ "

انہونے نرمین کو سینے سے لگایا تھا اور نرمین نے مسکراتے ان کا ہاتھ چوما تھا ۔ 

------❤️ حیا خان ❤️--------

"یہ ہماری شادی تھوڑی ہے مورے جو فردان ہمارے لیئے اتنا ہیوی ڈریس لے آئے ہیں پاگل پٹھان۔" 

آخری الفاظ منہ میں بڑبڑاتے راحمہ نے اپنی ماں سے کہا تھا جب شاہین بیگم نے اسکے سر پر چپت لگائی ۔ 

"ااہہہہ مورے ہماری شادی ہوگئی ہے ۔ اب آپ ہم پر اس طرح تشدد نہیں کرسکتی ہیں ۔ "

"آپکی شادی ہوجائے یا بچے ہم آپکی ماں ہیں یہ مت بھولا کریں آپ ".

جب فردان کمرے میں داخل ہوتے وقت اسکا جملا سن چکا تھا اور لب دانتوں میں دبائے اپنی مسکراہٹ روک گیا تھا ۔ 

"کیا ہورہا ہے چچی جان ۔ "

فردان نے راحمہ کی شکل دیکھی جو سرخ ہو رہی تھی بچوں کا ذکر سنتے۔ 

"کچھ نہیں بیٹا ۔ بیس سال سے اس آفت کو سنبھالے سنبھالے اب ہماری بس ہوگئی ہے ۔ اب یہ آپکے حوالہ ہے سنبھالیں اسے ۔ "

شاہین بیگم نے ہنسی پر قابو پاتے فردان سے کہا تو وہ بھی ضبط کرتا اثبات میں سر ہلا گیا ۔ 

راحمہ کا غصہ سے دماغ پھر گیا تھا۔ 

"مورے آپ ہمارے شوہر کے سامنے ایسے ہماری انسلٹ نہیں کرسکتی ہیں ."

اسکی بات سنتے شاہین بیگم کے چہرے پر ناسمجھی کے تاثرات ابھرے جب کے فردان جس ضبط سے بیٹھا تھا وہی جانتا ۔ اگر وہ ہنس دیتا تو راحمہ کا غصہ مذید بڑھ جاتا۔ 

"کیوں بیٹا اتنے سالوں سے فردان اسی گھر میں رہ رہے ہیں اور ہم انکے سامنے ہی آپکے کان کھینچتے آپکی پٹائی کیا کرتے  تھے بھول گئی ہیں کیا ۔ ؟ "

شاہین بیگم کی بات پر راحمہ نے گڑبڑاتے اپنی اتنی عزت کو ملیامیٹ ہوتے دیکھا تھا۔ 

"مورے____"

راحمہ بےبس ہوتے چیخی تھی جبکہ فردان اور شاہین بیگم کا ایک ساتھ قہقہہ گونجا تھا۔ 

راحمہ غصہ سے پیر پٹختی ڈریسنگ روم میں بندھ ہو گئی تھی ۔

جب شاہین بیگم فردان کو اسے سمجھانے کا اشارہ کرتی باہر چلی گئی تھی۔۔ 

گلا کھنکھارتے فردان نے دروازہ کھٹکھٹایا تھا جہاں راحمہ بند ہوی تھی ۔ 

"بیگم باہر آجائیں آپکی مورے آپکی عزت کا فالودہ کرکے جا چکی ہیں ۔"

فردان ابھی بھی اسے چھیڑنے سے باز نا آیا تھا جب راحمہ کی غصہ سے بھری آواز باہر آئی تھی ۔ 

"چلے جائیں یہاں سے ورنہ ہم آج کے فنکشن میں آپکو اپنا چہرا بلکل نہیں دکھائینگے اور یہ جو ہمارے وزن سے بھی زیادہ ہیوی ڈریس لے کر آئے ہیں نا اسے بھی نہیں پہنینگے ۔ "

راحمہ کی دھمکی سنتے فردان کی مسکراہٹ سمٹی تھی ۔

 "اچھا نا جنگلی بلی یہ ظلم تو نہیں کرے گا اتنے پیار سے لے کر آئے ہیں ہم یہ ڈریس آپکے لیئے ۔"

فردان مظلوم بنتے سیدھا لائن پر آیا تھا جب راحمہ پھر غصہ میں غرّائی۔

"کمرے سے باہر جائیں۔۔۔۔۔۔"

"اچھا میری ماں جا رہا ہوں ۔"

وہ اپنے کہے پر پوری نا اتر جائے اسلیئے فردان مسکراتا وہاں سے باہر نکلا تھا ۔

--------❤️ حیا خان ❤️--------

شام کا وقت تھا کبیر صبح سے غائب تھا کام کے سلسلے میں جب نرمین کمرے میں داخل ہوئی اور سامنے ہی بلیک کلر کا خوبصورت سا ہیوی فراک دیکھتے وہ دروازے پر ہی تھمی تھی ۔ 

قدم بڑھاتے اسنے وہ ڈریس دیکھا تھا جہاں ایک کارڈ کے ساتھ گلاب کا پھول بھی رکھا تھا۔ 

نرمین نے مسکراتے پھول کو اٹھا کر اسکی خوشبو کو محسوس کیا تھا۔ پھر کارڈ اٹھاتے اس پر لکھی تحریر پڑھی تھی ۔ 

وقت پر گھر آجاؤنگا اور آپ کو اسی ڈریس میں دیکھنے کا طلبگار ہوں ۔ میری خوبصورت سی بیوی کے لیئے خوبصورت سا تحفہ ۔ ❤️

نرمین نے مسکراتے اس کارڈ پر اپنے ہونٹ ثبت کیئے تھے ۔ اور اسے رکھتے وہ تیار ہونے چلی گئی تھی ۔ 

وقت گزرتا گیا نرمین ریڈی ہوچکی تھی شیشے کے سامنے کھڑی وہ آئینہ میں خود کو دیکھ رہی تھی ۔بلیک رنگ میں اسکی دمکتی رنگت چمک رہی تھی ۔  

ہلکے سے میک اپ میں اسنے ماتھے پر ٹیکا پہنا تھا بال فل وقت کھلے تھے اور ہونٹوں پر سرخ رنگ سجا تھا جب پیچھے مڑتے اسنے اپنا حجاب اٹھانا چاہا اور کبیر کمرے میں داخل ہوا۔ 

نرمین کا رخ اسی کی طرف تھا بنا دوپٹہ بنا حجاب کے وہ سجی دھجی کبیر خانزادہ کے سامنے کھڑی تھی ۔ جسے دیکھتے کبیر خود سٹل ہوا تھا اور پیچھے دروازہ بند ہوا تھا۔ 

نرمین کے ماتھے پر شرم سے پسینہ آنے لگا تھا یہ سوچتے کے وہ اسکے سامنے ایسے کھڑی ہے۔ وہ فوراً سے کبیر کی طرف پشت کر گئی تھی ۔ 

کبیر مدھم سا مسکراتے اسکی طرف بڑھا اور اسکے بازو کو نرم گرفت میں لیتے اسے اپنی طرف کھینچا کے نرمین گھبراتی ہوئی اسکے حصار میں قید ہوگئی اسکے بال لہراتے اسکے منہ پر آ گرے ۔

کبیر ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالتے اسے مزید اپنے قریب کرگیا تھا ۔ بادلوں کی اوٹ میں چھپے اس چاند کو دیکھتے کبیر کی آنکھوں میں خماری اتری تھی ۔ 

ہاتھ آگے بڑھاتے اسکے بالوں کو پیچھے گراتے اسنے نرمین کی تھوڑی پکڑتے اٹھائی تھی ۔ 

"پہلے ہی اتنی حسین ہو اور آج ان کیل کانٹوں سے لیس ہو کر میرے سامنے آ کھڑی ہوئی ہو۔ یقین جانو تمہاری ہاں کا بھی انتظار نہیں کرونگا ۔"

کبیر اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکاتے گہرے لہجہ اور بھاری آواز اسکی سماعت سے گزارتے اسکے جسم میں کپکپی طاری کرگیا تھا ۔ کے نرمین انکھیں بند کرتے اسکے سینے پر ہاتھ رکھے کانپنے لگی تھی ۔ 

"میں چاہتا ہوں تمہارے منہ سے اقرار سن کر اپنی بیتابیاں تمہارے گوش و گزار کروں۔ اپنی منمانیاں شدّت سے کروں کے تم سے سانس لینا محال ہوجائے اور آج تم مجھے ہر حد پار کرنے کے لیئے مجبور کر رہی ہو۔"

اسکی سانسوں میں گہری سانس بھرتے کبیر اپنی گفتگو سے ہی اسکی جان آدھی کرنا چاہتا تھا ۔ 

"ہ_ہم لیٹ ہو رہے ہیں ۔ پلیز چھ_چھوڑ دیں ہمیں ۔"

نرمین اسکی باتوں اور اسکے اتنے قریب ہونے پر لڑکھڑاہٹ کا شکار ہوتی بے بسی سے بولی تھی کہ کبیر نے پلٹ کر اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگایا ۔ 

"انتظار ہے مجھے اس دن کا شدّت سے جس دن تم اعتراف کروگی اور میں اس روح کو اپنے نام کرونگا۔"

"لیکن یاد رکھنا جتنا انتظار کرواؤگی اتنی ہی میری محبت کی شدّت بڑھتی جائیگی اسلیئے اپنے لیئے اور میرے لیئے آسانی کرنا ۔"

وہ آنکھیں بند کیئے بہکی آواز اور خمار میں ڈوبی آنکھیں لیئے اسکے کان کے قریب جھکا تھا جب نرمین کا سانس لینا دوبھر ہوا تھا ۔ وہ مچلتے اس سے دور ہوئی تھی 

اور دل پر ہاتھ رکھے گہری گہری سانسیں بھرنے لگی تھی ۔ 

"ابھی تو برداشت کررہا ہوں خانم لیکن بعد میں یہ ٹِرک کام نہیں آئیگی ۔ اسلیئے اپنی برداشت بڑھائیں۔" وہ قریب ہوتے اسکے کان میں سرگوشی کرتا واشروم میں بند ہوا تھا ۔ 

جبکہ نرمین کی حالت شرم سے پانی پانی تھی اور دل اس دیوانے کی دیوانگی دیکھتے دھڑکتا باہر آنے کو تھا ۔ 

اس کے نکلنے سے پہلے وہ اپنے آپ کو حجاب میں ڈھکنے لگی ۔ بلیک سوٹ پر لال دوپٹہ کندھے پر ڈالے اور لال ہی حجاب اوڑھے وہ کبیر کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی ۔ جو بیس منٹ میں باہر نکلتے ریڈی ہونے لگا ۔

کبیر نے نرمین کو دیکھا جو اس کی سابقہ رویّہ سے گھبراتے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔ مسکراہٹ روکتے کبیر نے آئینہ میں ایک نظر خود کو دیکھا بلیک کرتا پجامہ پہنے اس پر کوٹ پہنے ماتھے سے بال پیچھے جیل سے سیٹ کرتے وہ ہاتھ میں قیمتی گھڑی پہنتےخود کو دیکھنے لگا جو ہری کائی سی گہری آنکھوں کے ساتھ نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا اور آئینہ سے ہی پیچھے نظریں جھکائے اپنی بیوی کو دیکھا تھا۔

وہ کسی کو ایک نظر نا دیکھنے والا مغرور شہزادہ اپنی بیوی کو نظر بھر کر دیکھنے کی چاہ رکھتا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کے بس وہ اپنی بیوی کو ہی دیکھتا رہے جو اس دنیا کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی اسکے لیئے۔ 

"چلیں خانم ؟"

نرمین نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور اسکی پتلیاں ساکت رہ گئی تھی ۔  یہ مکمل حسین مرد اسکے حصّہ میں تھا اسکی محبت تھا یہ بات رشک سے کم نا تھی اسکے لیئے ۔ 

کبیر نے مسکراتے اسکا خود میں گم ہونا دیکھا تھا جب وہ اسکے قریب جھکا تھا اور نرمین ہوش میں آئی تھی ۔ 

"آئی نو آئے ایم ویری ہینڈسم لیکن اپکے آگے دنیا کی ساری خوبصورتی بے کار ہے canım ". 

"دیر ہو رہی ہے ہمیں ۔ چلیں۔"

نرمین نے نظریں جھکاتے سوال کے برعکس جواب دے کر کبیر کے موڈ پر پانی پھیرا تھا جس میں وہ منہ بناتے اسے دیکھنے لگا نرمین کو یک دم ہنسی آئی تھی اسکی شکل دیکھ۔ جب کسی نے انکا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ 

اور کبیر نے اپنا ہاتھ اسکے آگے پھیلاتے نرمین کا ہاتھ تھاما تھا ۔ اور نیچے کی طرف روانہ ہوا تھا۔ 

------❤️ حیا خان ❤️------

"یہ آپ نے اچھا نہیں کیا بیگم اس کا جرمانہ آپ کو ادا کرنا ہوگا۔ "

فردان فرنٹ سیٹ پر بیٹھا دل ہی دل میں بڑبڑا رہا تھا کیونکہ راحمہ نے کمرے سے لے کر گھر سے باہر آنے تک اسے فل اگنور کرتے داجان اور شاز اور فاز کو اسکے ساتھ گاڑی میں بٹھایا تھااور خود شاہانہ بیگم کی گاڑی میں جا بیٹھی تھی۔ 

جبکہ فردان کی ہڈی میں آگ لگی تھی اسکی یہ حرکت دیکھ جو اسے ایسے اگنور کررہی تھی جیسے وہ یہاں موجود ہی نا ہو ۔ اور اتنی حسین لگ رہی تھی کے فردان کی نظریں بے بسی سے اسے دیکھ رہی تھی کے وہ پاس ہو اور فردان اسے محسوس کرسکے لیکن وہ بھی راحمہ خانزادہ تھی اپنے نام کی ایک اسنے اپنی بے عزتی کا پورا پورا بدلہ لیا تھا کے فردان اتنی سی دیر میں تلملاگیا تھا۔ 

جل بھن کر گاڑی اسٹارٹ کرتے وہ سب روانہ ہوے تھے۔ 

-------❤️ حیا خان ❤️-------

آسمانی رنگ کا بھاری جوڑا جو دیکھنے والے کی آنکھوں کی چمک بڑھا دے اسراء زیب تن کیئے شیشہ کے سامنے بیٹھی تھی پارلر والی نے اسکے حسن کو مزید چار چاند لگاتے حسین ترین بنا دیا تھا ۔ بالوں کو  کرلس کرتے کھلا چھوڑا گیا تھا جبکے خوبصورتی سے میک اپ کرکے نازک سی جیولری اسے پہناتے سر پر دوپٹہ اوڑھایا تھا پارلر والی نے اس نازک گڑیا کو آخری ٹچ اپ دیتے مسکراتے ماشاءاللہ کہا تھا ۔ جبکہ اسراء نے اب تک خود کو ایک نظر بھی نہیں دیکھا تھا وہ تو کسی غیر مرئی نقطہ میں گم تھی ۔سپاٹ چہرہ لیئے بیٹھی وہ بس ضرغام خانزادہ کے الفاظوں میں جکڑی ہوئی تھی ۔ 

وہ کسی اور سے محبت کرتا تھا وہ مانتی تھی لیکن اسکی آنکھوں میں دیکھی گئی اپنے لیئے نفرت اسکی برداشت اور عقل سے پرے تھی ۔ ضرغام خانزادہ اس سے اتنی نفرت کرتا تھا کے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا وہ جیئے یا مرے ۔پھر ایسی بھی کیا مجبوری تھی کے اسنے اتنی نفرت کے باوجود اسراء سے شادی کرلی۔ 

اس حسین جوڑے میں اسکا سوگوار حسن قہر ڈھا رہا تھا ۔ لیکن اسراء خانزادہ نے خود کو ایک نظر دیکھنا گوارہ نا کیا تھا ۔ 

جب اسکا شوہر اسکا محبوب اسے چھوڑ کر کسی دوسری عورت کے حسن میں زمین اور آسمان کے قلابے ملا رہا تھا تو کیا فائیدہ اسکے خوبصورت ہونے کا یا لگنے کا۔ 

وہ کمرے میں بلکل تیار بیٹھی تھی جب ضرغام اندر داخل ہوا۔ اور بیوٹیشن کو دیکھتے انگلی کے اشارے سے باہر جانے کو کہا ۔ وہ فوراً اسے دیکھتی باہر کو روانہ ہوئی تھی ۔ ضرغام نے دو قدم اسکی طرف بڑھاتے تیسرا قدم روک لیا تھا جب اسکی نظر اسراء پر پڑی اور وہ مبہوت سا ہوتے اسے دیکھا گیا جو گم صم سی بیٹھی اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں ناجانے کیا تلاش کررہی تھی ۔ 

اسراء نے انجانے سے احساس کے تحت آئینہ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تھا جہاں وہ اسکے پیچھے ہی کھڑا بلیک کلر کا تھری پیس پہنے بال جیل سے سیٹ کیئے نک سک سا تیار بھوری خمار بھری آنکھوں کے ساتھ اسے ہی تک رہا تھا۔ اس سے ہوتی ہوئی اسراء کی نظریں خود پر آ ٹھری ۔ اور وہ مہارت سے کیئے گئے میک اپ میں چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی ۔ 

اسراء طنزیہ مسکراہٹ سے ہنستے اسے دیکھنے لگی تو ضرغام ہوش میں آیا ۔

",ایسے مت دیکھے ہمیں۔ ورنہ آپکے دل میں چھپی کسی غیر کی محبت برا مان جائیگی ۔ "

اسراء نے تلخ لہجہ میں کہا تھا کے ضرغام کا خمار بھک سے اڑا اور دماغ گرم ہوا تھا لیکن تنز بھرا جملا اسکی طرف اچھالتا وہ خود کو نارمل کرگیا ۔ 

"ہنہہ__ تم میں ایسا ہے ہی کیا جو دیکھا جائے ۔ " 

وہ قدم قدم چلتا اسکے پیچھے آ ٹھرا تھا اور خود کو شیشہ میں دیکھتے بال سیٹ کرنے لگا تھا ااسراء نے حسرت سے اس انسان کو دیکھا تھا جو اسکا ہوتےہوئے بھی اسکا نہیں تھا ۔ 

"محبت نا صحیح___ لیکن کیا آپکو ہم پر ترس بھی نہیں آتا ؟ "

اسراء نے یونہی بیٹھے ٹوٹے لہجے میں کہا تھا کے ضرغام کے ہاتھ تھمے تھے ۔ 

"بہت ظلم ہو رہا ہے تمہارے ساتھ جو ترس کھاؤں تم پر ؟" ضرغام نے اسکا بازو دبوچتے لمحے میں اسے اپنے سامنے کھڑا کیا تھا کے اسراء کی درد سے سسکی نکلی تھی ۔ 

"میں ضرغام خانزادہ ہوں بے رحم انسان۔۔ تمہاری یہ ادائیں اور یہ معصومیت کے جال بچھانے کے جو ڈھونگ ہے نا یہ مجھ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے اسلیئے یہ سب بند کرو ۔

اور ایک بات میری دھیان سے سنو اس کمرے کی بات اگر یہاں سے باہر نکلی یا تم نے آسمانوں میں اڑنے کی کوشش کی تو ضرغام خانزادہ اسراء نامی چڑیا کے پر کاٹنا با خوبی جانتا ہے ۔ اس کمرے میں تمہیں قید کر کے تمہاری زندگی عذاب بنا دونگا اور تم اچھی طرح جانتی ہو جو میں کہتا ہوں وہ میں ہر قیمت پر کرتا ہوں۔"

ضرغام نے اسکی انکھوں میں چبا چبا کر لفظ ادا کیئے تھے کے اسراء کے جسم میں سنسنی دوڑ گئی تھی ۔ 

"ڈر ہے آپکو ؟ لیکن کس کا ڈر؟ ضرغام خانزادہ تو ہر شہ پر حکمرانی کرنا جانتا ہے نا پھر کیا چیز آپکو ڈرا رہی ہے۔؟ "

اسراء نے ہمت کرتے اپنا جملا مکمل کیا تھا کے ضرغام کی پکڑ مزید سخت ہوئی اور اسراء نے دانت ہونٹوں پر جماتے برداشت کیا تھا ۔ 

اسراء نے واقعی اس سے ایسا سوال پوچھ لیا تھا جسکا ضرغام کے پاس کوئی جواب نا تھا۔

"زیادہ زبان چلاوگی تو یہ جسم تو رہے گا مگر جان باقی نہیں رہے گی ۔ 

تم کیوں بھول جاتی ہو کہ تم میرے سامنے کھڑی ہو ضرغام خانزادہ کے سامنے ۔ جس کا میٹر اگر گھومے گا تو وہ تمہاری جان آدھی کردیگا ۔ اسلیئے سوچ سمجھ کر بولا کرو نازک جان ہو مر مرا جاؤگی ۔ "

ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا تھا کے اسراء لڑکھڑائی تھی لیکن اسی ہاتھ سے سہارا دیتے اسراء کی کلائی تھام لی تھی ورنہ وہ اس بھاری جوڑے سمیت نیچے جا گرتی ۔ 

"آؤ میری جان تمہارے آنسو صاف کردوں اتنی پیاری جو لگ رہی ہو تم یہ آنسو تمہاری آنکھ میں اچھے نہیں لگ رہے آج۔ "

لمحہ میں اپنا روپ بدلتے وہ مسکراتے نرم لہجہ میں اسکے انسو پوچھتا دوپٹہ صحیح کرگیا تھا کے اسراء کو اسکے دو دو لمحوں میں بدلتے لہجہ پر حیرانی ہوئی تھی۔ 

اسکا ہاتھ تھماتے وہ گھسیٹتے اسے اپنے ساتھ لے گیا تھا پھر اسکا ہاتھ اپنے بازو میں ڈالتے نیچے اترا تھا جہاں سب انکے منتظر تھے ۔

خان حویلی کے تمام افراد آ چکے تھے ۔ ہر جگہ گھما گھمی تھی جب اسراء اور ضرغام ہاتھ می ہاتھ ڈالے نیچے آ رہے تھے ۔ اور سب کی توجہ انکی طرف گئی۔ 

نرمین نے سامنے دیکھا جہاں اسراء ضرغام کے ہمراہ نیچے آرہی تھی ۔ نرمین کو وہ دن یاد آیا تھا جب ضرغام نے اس سے اظہار کیا تھا ۔ وہ کشمکش میں تھی اسراء کے حوالہ سے ۔ لیکن فلحال اسنے خاموش رہنا بہتر سمجھا تھا ۔ اسے فکر تھی کے وہ اسراء کے ساتھ برا رویہ نا رکھے کیونکہ اس معصوم کا اس میں کوئی قصور نا تھا ۔ 

کچھ ہی لمحہ گزرے تھے جب کبیر اسکے ساتھ آ کھڑا ہوا ۔

اور سامنے دیکھا جہاں اسکی بہن سپاٹ چہرے کے ساتھ نیچے آ رہی تھی کبیر کے ماتھے پر بل چھائے تھے جب ضرغام جو چہرے پر جھوٹی مسکان سجایا ہوا  پلٹ کر اسراء کی شکل دیکھتا مٹھیاں بھینچ گیا ۔ 

"بیگم اپنے اس خوبصورت چہرے پر مسکان سجاؤ ورنہ یہ مسکان ساری زندگی کے لیئے چھین لونگا۔"

جھوٹی مسکان کے ساتھ ضرغام نے چبا چبا کر اپنے الفاظ ادا کیئے تھے کے اسراء  بامشکل باچھیں کھینچتے مسکرائی تھی ۔

اور ہم قدم چلتے نیچے آئے تھے جہاں ہر ایک کے چہرے پر مسکراہٹ تھی وہی کبیر اور نرمین کو شک و شبہات تھے ان دونوں کے متعلق۔ 

"اسراء تم تو انہیں جن سڑو اور پتہ نہیں کیا کیا کہتی تھی یہاں تک کے تم نے یہ بھی کہا تھا کے ضرغام خانزادہ ہینڈسم نہیں ہے اور آج تم انہی کی دلہن بنی بیٹھی ہو ۔ بہت چالاک ہو تم ۔ "

اسراء اکیلی اسٹیج پر بیٹھی تھی جب اسراء کی سہیلیوں نے اسے چھیڑتے مصنوعی افسوس سے کہا تھا۔ 

"قسمت کی بات ہے ۔ اور آج دنیا کے سب سے حسین مرد ہمارے لیئے ضرغام ہی ہیں۔ "

اسراء نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا تھا جب راحمہ اور نرمین اسکے پاس آئی تھی ۔ 

اسراء نے انہیں گلے سے لگایا تھا اور ایک آنسو ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے نکلا تھا۔ 

جب نرمین نے اسکے انسو صاف کرتے ماشاءاللہ کہا تھا۔ 

"بہت پیاری لگ رہی ہے ہماری گڑیا آج تو ۔"

راحمہ نے پیار بھری نظروں سے کہا تھا کے اسراء دھیما سا مسکرائی ۔ 

"آپ خوش ہیں نا اسراء ؟ "

نرمین نے اسے غور سے دیکھتے یہ سوال کیا تھا کے اسراء نے پلٹ کر اسے دیکھا ۔ 

"جی اپو ہم خوش ہیں۔ آپ بتائے کبیر لالا آپ سے پیار تو کرتے ہیں نا ۔؟ "

اسکی بات سنتے نرمین کا چہرا گلال ہوا تھا البتہ دیکھ کوئی نہیں سکتا تھا کیونکہ چہرے پر نقاب تھا۔ 

"یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے اسراء تمہیں نہیں پتہ اج کل تو اپو کے آگے پیچھے ہی پائے جاتے ہیں کبیر لالا ۔"

راحمہ نے شوخی سے کہا تو نرمین نے اسے آنکھیں دکھائی۔ 

"اور ایک ہمارے نخریلے شوہر ہیں ۔ جنہیں بس ہمیں تنگ کرنا اور نخرے دکھانا آتا ہے۔ "

راحمہ نے دور سے فردان کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا راحمہ نے فوراً سے منہ بناتے نظریں پھیری تھی ۔ جس پر فردان کے سینے میں آگ لگ گئی تھی کیونکہ اس سے یہ اگنورینس برداشت نہیں ہو رہی تھی وہ بھی راحمہ کی طرف سے اس بات کا بدلہ اسے منانے کے بعد وہ اچھے سے لینا چاہتا تھا۔ 

ضرغام سب بڑوں سے بغلگیر ہوتے کبیر کی طرف آیا تھا جو اسے ہی سخت نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ ضرغام اسکی بے بسی پر مسکراتے اسے گلے سے لگاگیا تھا۔ 

کبیر سب کو دیکھتے اس سے ملا اور پیچھے ہوا تھا ۔ 

"کیسے ہیں سالے صاحب ۔"

ضرغام نے دل جلاتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا ۔

"بلکل ٹھیک اپنی محبوب بیوی کے ساتھ بہت خوش ہوں۔"

کبیر نے مسکراتے لمحوں میں ضرغام کی مسکراہٹ چھینی تھی ۔ 

"اور تم بھی اپنی بیوی کے ساتھ خوش رہو کیونکہ میری بہن کو خوش رکھنا تمہارا فرض ہے ورنہ مجھے تو تم جانتے ہی ہو جس دن مجھے اپنی بہن کی آنکھ میں آنسو نظر آیا اس دن میں تمہیں بخشونگا نہیں مائنڈ اٹ ۔ "

کبیر اسکا کندھا تھپتھپاتے وہاں سے جاچکا تھا جبکہ ضرغام اسکے لفظ محبوب بیوی پر اٹک چکا تھا مٹھیاں بھینچتے وہ وہاں سے سیدھا اسراء کی طرف بڑھا تھا لیکن اسکے قدم وہی تھمے تھے نرمین کو دیکھتے جو نقاب کے ہالہ میں بیٹھی تھی پھر اسکی نظر سوگوار حسن لیئے اسراء پر پڑی تھی جو خاموش بیٹھی نظر لگ جانے کی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی ۔  ۔ 

ضرغام نے پلک جھپکتے اس منظر سے دور بھاگنا چاہا تھا اچانک اسے شدید گھبراہٹ ہونے لگی تھی جیسے سب کچھ برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہو۔ 

وہ باہر گارڈن میں جانے لگا تھا جب اسکی سماعت میں گزرنے والے شاہانہ بیگم کے الفاظ اسکے قدم جما گیا تھا ۔

"جی جی کل ہی فلائیٹ ہے صبح نرمین اور کبیر کی ۔ دو ہفتے میں آجائیں گے واپس ۔" 

وہ اسمارہ بیگم کو بتارہی تھی جو خوش ہوتے آگے اور باتیں کرنے لگی جبکہ ضرغام تو انہی الفاظوں میں اٹک گیا تھا ۔ 

نرمین اور کبیر خوش تھے ایک دوسرے کے ساتھ بظاہر سب کچھ صحیح تھا لیکن وہ خوش نہیں تھا ۔ اسکی زندگی برباد تھی اور کبیر خانزادہ کو خوش دیکھتے اسکا دماغ مزید گھوم رہا تھا جب وہ خوش نہیں ہے تو کبیر کیوں خوش تھا ۔ 

اس بات کی آگ مزید ضرغام کے سینے میں بھڑک اٹھی تھی ۔ 

ساتھ خیریت کے ساتھ فنکشن گزر گیا تھا اور سب جا چکے تھے اسراء اپنے کمرے میں جا چکی تھی جبکہ ضرغام ابھی تک باہر لاؤنچ میں بیٹھا تھا ۔

دماغ کی نسیں پھٹنے کو تھی حسد کی آگ سینے میں گھل رہی تھی جب اسمارہ بیگم نے پیچھے سے اسے پکارا تھا ۔ 

"ضرغام ہمیں آپ سے بات کرنی ہے ۔"

ضرغام اپنا اشتعال چھپاتے مسکاتے اسمارہ بیگم کا ہاتھ تھامتا انہیں بٹھا گیا تھا ۔

"جی مورے بولیں ۔"

بظاہر تو وہ مسکرا رہا تھا لیکن اسمارہ بیگم تو ماں تھی ۔ خاموشی سے اسکا چہرا دیکھنے لگی ۔۔

"آپکے اور اسرء کے بیچ سب ٹھیک تو ہے نا ؟"

انکے سوال پر ضرغام ٹھٹکا تھا ۔

"جی مورے سب ٹھیک ہے خیریت ؟؟ کیوں پوچھ رہی ہیں آپ ؟؟"

"کیونکہ ہمیں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ کل رات اسراء اتنا ڈری ہوئی کیوں تھی ؟ اور آپ اسے خان حویلی کیوں نہیں لے کر گئے تھے۔ " 

اسمارہ بیگم کے الفاظ پر ضرغام کو چپ لگی تھی ۔ 

"آپ سے کچھ کہا ہے اسراء نے ؟"

اسنے اپنی ماں کا چہرا غور سے دیکھتے ہوئے کہا تھا ۔ 

"اسکا مطلب واقعی کچھ ٹھیک نہیں ہے ؟" اسمارہ بیگم کا شک بڑھتا جا رہا تھا جب ضرغام مسکراتے انکی گود میں سر رکھ گیا۔ 

"مورے  آپکا بیٹا اسے بہت چاہتا ہے تو اسے تکلیف کیوں دے گا ؟؟ وہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر ڈر جاتی ہے بس۔ پتہ نہیں مجھسے اتنا کیوں ڈرتی ہے وہ۔ "

ضرغام نے جھوٹ اپنی باتوں میں ملاتے 

اسمارہ بیگم کا شک دور کرنا چاہا تھا جو ابھی بھی اسے ایسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ 

"امید کرتی ہوں ایسا ہی ہو ۔ کیونکہ اسراء اُس گھر کی بہت لاڈلی ہے اور میرے بھی دل کے بہت قریب ہے۔ اگر تمہاری وجہ سے اسے کوئی دکھ ملا تو اپنی ماں کو بھی بھول جانا تم۔ "

انکی باتیں سنتے ضرغام اٹھ بیٹھا تھا۔ 

"کیسی باتیں کررہی ہیں مورے آپ کیا آپکو مجھ پر یقین نہیں ہے؟ اور اسراء کے لیئے آپ مجھے چھوڑ دینگی ۔ ؟؟"

وہ بے یقینی کی کیفیت میں گھرا اپنی ماں کو دیکھ رہا تھا جو اتنی بڑی بات اتنی آرام سے بول گئی تھی۔ 

"یقین ہے تم پر لیکن اسراء کی آنکھوں میں چھپی اداسی اور کل رات اسکا ڈر میری آنکھوں سے مخفی نہیں ہے ۔ نئی نویلی دلہن ہے وہ ۔ لیکن اسکے چہرے سے وہ چمک اوجھل ہے۔ میں نہیں چاہتی ضرغام کے میرے گھر والوں سے میرے معاملات خراب ہو یا میرا بیٹا کسی کی بیٹی کے ساتھ کوئی ناجائز حرکت کریں۔ "

"مورے کیا ہوگیا ہے آپکو ۔ آپ کیوں یہ سب سوچ رہی ہیں ۔ ایسا کچھ نہیں ہے آپ فکر نا کریں کل آپکو ساری چمک اس کے چہرے پر نظر آجائیگی۔ بس؟"

"ہمم یہی امید ہے مجھے تم سے ۔۔۔ "

اسمارہ بیگم بولتی وہاں سے جا چکی تھی لیکن ضرغام خانزادہ کے چہرے کے تاثرات خطرناک حد تک بگڑ چکے تھے ۔

------❤️ حیا خان ❤️ -------

اسراء فریش ہوتی ونڈو سے باہر سیاہ آسمان دیکھ رہی تھی جہاں روشن چاند جگمگا رہا تھا اکیلا اداس خاموش اسے وہ بلکل اپنی طرح لگا تھا ۔ 

جب پیچھے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی تھی لیکن اسکی پوزیشن میں کوئی فرق نا آیا ۔ 

کئی لمحے گزر گئے لیکن اسراء کو کوئی چہل پہل کی آواز نا آئی جب اسنے پلٹ کر دیکھا تو ضرغام سنگل صوفے پر خاموش چہرا پیچھے ٹکائے بیٹھا تھا۔ 

اسراء کو کچھ ٹھیک نا لگا تو وہ اندھیرے کمرے کو روشنی سے نہلاگئی جب ضرغام کی ٹھنڈی ٹھار آواز آئی ۔ 

"بند کرو اسے۔ "

اسکی بات سنتے اسراء نے نا سمجھی سے دیکھا جب ضرغام نے اپنا جملا مزید سختی سے دوہرایا۔ 

"میں نے کہا بند کرو اسے ۔"

اسکی غصہ میں ڈوبی آواز سنتے اسراء نے لمحہ میں لائیٹس بجھا دی تھی ۔ 

وہ پھر کئی لمحے وہی کھڑی ضرغام کو دیکھتی رہی ۔ لیکن ضرغام کی پوزیشن میں فرق نا پڑتے دیکھ وہ دو قدم بڑھاتی اسکے قریب آئی ۔

"آپ ٹھیک ہیں؟؟"

ضرغام کے کوئی جواب نا دینے پر اسراء نے پھر دو قدم مزید بڑھائے ۔ اور اسکے بلکل سامنے جا کھڑی ہوئی جب ضرغام نے اسکا ہاتھ پکڑ کر کھینچا تھا اور اسے اپنے حصار میں قید کرتے وہ اسکی گردن میں چہرا چھپا گیا تھا ۔ 

اسراء اسکی چانک کی جانے والی حرکت اور اسکے سخت حصار میں سانس روک گئی تھی۔ اسکے پاس سے ایک عجیب سی سمیل آنے لگی کیا وہ نشہ میں تھا یہ بات ذہن میں آتے وہ ہکا بکا ہوتی دور ہونے لگی لیکن ٹہری تب جب اسے اپنی گردن میں نمی کا احساس ہوا ۔ اور اسے اندازہ ہوا ضرغام خانزادہ رو رہا تھا ؟ ہاں وہ اسکے آنسو تھے ۔ اسراء نے خود کو چھڑوانا چاہا لیکن ضرغام نے اسے ایسا کرنےنا دیا ۔ وہ ساکت ہوتی اسکے بالوں میں ہاتھ دیتی سہلانے لگی تھی کے ضرغام نے مزید شدت سے اسے خود میں بھینچا تھا ۔ 

"آ_آپ ٹھیک ہیں ؟ "

اسراء نے نرمی سے اپنا سوال دوہرایا تو ضرغام اندھیرے میں ہی اپنے آنسو پوچھتا اس سے دور ہوا البتہ اپنے حصار سے آزاد اسے ابھی بھی نہیں کیا تھا۔۔ 

"م_میں ہی کیوں ؟ ہمیشہ میرے ساتھ ہی ایسا ک_کیوں ہوتا ہے؟ میں نے جس چیز کو چاہا کبیر نے مجھ سے وہ سب چھین لیا ۔"

اسکے کندھے پر اپنے گال ٹکائے وہ آج بہت بکھرا ہوا معلوم ہو رہا تھا ۔ 

جبکہ اسکے برعکس اسراء جو اسکے بالوں میں ہاتھ چلا رہی تھی اپنے لالا کا نام سنتے وہ تھمی تھی ۔ 

"ہمیشہ اسکی وجہ سے مجھے کیوں پیچھے رکھا گیا ۔ ؟ ہر چیز میں کبیر مجھ سے کیوں برتری لے جاتا تھا ۔۔ سب ٹھیک تھا سب کچھ وہ سب لے لیتا لیکن مجھ سے میری محبت نا لیتا "۔ 

اسکی لفظ محبت اور اپنے لالا کے بابت سن کر اسراء کی دھڑکنیں تھمی تھیں اسے کچھ غلط ہونے کا احساس شدت سے ہوا تھا۔ 

"ن_نرمین کو مجھ سے کیوں چھین لیا اسنے ۔ چ_چار سال سے میں نے آنکھ بند کر کے اسے چاہا تھا پھر کیوں کبیر نے جانتے بوجھتے ضرغام سے نرمین کو چھین لیا ۔  "

ضرغام کا جملا مکمل ہوتے سن اسراء کو لگا تھا کسی نے اسکے پیروں سے زمین کھینچ لی ہو ۔ اسکا سانس سینے میں اٹکا تھا تو کیا وہ جس سے محبت کرتا تھا وہ نرمین خانزادہ تھی ؟ اسکی اپو؟ اسکا دماغ سن تھا جیسے وہ سکتے میں آگئی ہو جیسے اسکا دماغ اس بات کو ماننے سے انکاری ہو۔ ۔ 

"ہر چیز جو مجھے چاہیئے ہوتی ہے وہ کبیر کو مل جاتی ہے ۔ ہم_ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے ۔ کیوں؟ کیا میں کسی چیز کے لائق نہیں ہوں؟ کیا ہوجاتا اگر وہ کبیر کو نا ملتی ۔ کیا ہوجاتا وہ مجھے مل جاتی ۔ کیا ہوجاتا ؟؟ لیکن نہیں مجھے کبھی کچھ نہیں ملا کبھی نہیں۔۔۔۔۔ "

ضرغام کی بات سنتے ایک جھٹکے سے وہ اس سے دور ہوئی تھی ۔ جسے دیکھ ضرغام بھی ہوش میں آیا تھا ۔ 

یہ کیا ہوا تھا اسے اسراء کے نرم حصار میں آتے ہی اسنے اپنے غموں کو آشکار کردیا تھا ۔ 

اور اب وہ اسراء کو دیکھ رہا تھا جس نے ہاتھ بڑھاتے پورے کمرے میں روشنی کردی تھی اور اسکی آنکھوں میں آنسو بھرے تھے تیز تیز چلتی سانسیں جن کی آواز کمرے میں گونج رہی تھی وہ حیران نظروں سے ضرغام کو دیکھ رہی تھی ۔ 

"آ_آپ ن_نرمین اپو____؟؟؟"

اسراء نے لڑکھڑاتی آواز کے ساتھ اپنا جملا ادھورا چھوڑا تھا جیسے یقین کرنا ناممکن ہو؟ 

ضرغام نے سپاٹ چہرا لیئے اسے دیکھا تھا اور اپنی نظریں پھیری تھیں۔ 

"ل_لیکن اپو تو پردہ___ کرتی ہیں۔"

وہ مدھم آواز میں جیسے خود سے پوچھ رہی تھی کے یہ کیسے ممکن ہے؟ جبکہ ضرغام اسکی بے یقینی دیکھتا ایک قدم اسکی طرف بڑھا گیا تھا جب اسراء نے ہاتھ آگے بڑھاتے اسے وہی روکا تھا ۔

"م_میری اپو غ_غلط نہیں ہو سکتی وہ آپ_آپ سے محبت کی دعویدار نہیں ہو سکتی ۔ ن_نہیں". 

"یہ محبت یک طرفہ ہے۔"

ضرغام نے اسکی غلط فہمی دور کی تھی کیونکہ جو حقیقت تھی وہ یہی تھی کے نرمین اس بات کو جانتی تک نا تھی کے وہ نرمین سے محبت کرتا ہے اور  جس رات اسنے نرمین سے اظہار کیا تھا اس رات سے وہ خود ندامت کا شکار تھا۔

ایک لڑکی کی عزت اسکی حرکت کی وجہ سے خراب ہو سکتی تھی اور عزت بھی وہ جو اسکی محبت ہو ۔  ضرغام کو بے حد شرمندگی تھی لیکن اپنی محبت کو غلط اسنے ابھی تک نا مانا تھا۔ 

"ل_لیکن اپو تو پردہ ___ کیسے؟"

اسراء حیران نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے اس بات کا یقین کرنا نا چاہتی ہو۔

"ہاں تو کی ہے میں نے اس سے محبت کیا غلط کیا ہے میں نے ہاں؟"

ضرغام اسکے سوالوں سے چڑتا اسکا بازو دبوچتے چیخا تھا ۔ 

"دیکھ چکا ہوں میں اسے ایک بار ۔ اور اس دن کے بعد سے اسکا چہرا میرے یہاں یہاں نقش ہے ۔ "ضرغام دل کے مقام پر انگلی رکھتا چیخا تھا۔ 

" لیکن تمہارا وہ بھائی جسے شوق ہے میری ہر خوشی چھیننے کا وہ آگیا اور مجھسے چھین کرلے گیا اسے ۔"

اسراء آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

اسکے زہریلے الفاظوں کو سن رہی تھی ۔  

ضرغام نے اسے دور دھکیلا تھا اور اپنے بال پکڑتے کھینچے تھے ۔ 

"سب سب لے گیا وہ مجھ سے ۔ وہ ایسا ہی ہے سب کا فیورٹ ۔ سب سے نمبر ون ۔ ہر کسی کی پسند ۔ چاہے وہ کچھ بھی کرے اچھا برا لیکن کسی کی نظر میں وہ غلط نہیں ہوتا ۔ "

وہ بڑبڑاتا ہوا اسراء کو پل پل میں حیران کررہا تھا ۔ جب اسراء دو قدم چلتے اسکے قریب آئی تھی۔ 

"یہ آپکی محبت ہے ؟ یا لالا سے جلن ؟ "

 آپکی محبت سے زیادہ اپکے الفاظوں میں لالا کے لیئے جلن اور حسد بول رہی ہے ۔"

غصہ اس وقت اس نازک گڑیا کا سوا نیزے پر تھا ۔ لیکن اسے ضرغام کو اس حالت میں دیکھ ترس بھی آیا تھا۔ 

جب ضرغام نے اپنی نم آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا تھا ۔

",ہاں ہے جلن ہے نفرت مجھے اس کبیر خانزادہ سے ۔" ضرغام نے اپنا کوٹ اتار کر پھینکا تھا اور ٹائی کی نوٹ ڈھیلی کرتا اسے کھینچ گیا تھا البتہ انکھیں غصہ و غم کی وحشت سے لال انگارہ ہو رہی تھی۔ اسراء کے قریب بڑھتے اسنے سائیڈ ٹیبل سے واس اٹھاتے زور سے زمین پر پھینکا تھا ۔ اسراء اچھلتی دو قدم مزید دور ہوئی تھی کے ایک کانچ کا ٹکڑا اسکے پیر میں جا چبھا تھا اسکی چیخ نکلی تھی کے ضرغام ہوش میں آتے اسکے قریب بھاگا ۔ 

"ک_کیا ہوا ؟ دکھاؤ مجھے؟"

اسراء زمین پر بیٹھی اپنا پیر ہاتھ میں پکڑے تکلیف سے انکھیں میچ گئی تھی جب ضرغام اسکے برابر بیٹھتے اسکا پیر اپنے ہاتھوں میں تھام گیا تھا۔ 

اپنے ہاتھ سے اس معمولی کانچ کو کھینچتے وہ اسراء کی چیخ نکال گیا تھا البتہ خون زیادہ نا نکلا تھا جب وہ اپنا ہاتھ رکھتا اسے دبا گیا تھا ۔ 

اور نظر اٹھا کر اسراء کو دیکھا تھا جو حیرانی سے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ 

" تمہاری غلطی یہ ہے کے تم اس کبیر خانزادہ کی بہن ہو ۔" وہ اسکی نم آنکھوں میں دیکھتا اسے جتا گیا تھا۔ 

اسکا پیر چھوڑتے اسکے برابر میں ہی بیٹھ گیا تھا اور اپنا سر اسکے کندھے پر ٹکا گیا تھا۔ 

"تمہیں پتہ ہے جب ہم چھوٹے تھے  اور جب بھی کہیں جاتے تھے تو کبیر اور مجھے ہمیشہ ایک ہی چیز پسند آتی تھی۔ لیکن ہمیشہ کبیر کو دے دی جاتی تھی اور مجھے ٹال دیا جاتا تھا ۔ جب بھی میں کسی چیز پر ہاتھ رکھتا تھا تو کبیر اسے حاصل کرلیتا تھا ۔ اور ہمیشہ مجھے جتایا کرتا کے دیکھ تو کبھی میں نہیں بن سکتا ۔ تجھے کبھی اتنی اہمیت نہیں مل سکتی جتنی مجھے ملتی ہے ۔ وہ ہمیشہ سے مغرور تھا اپنی چیزوں پر اپنے آپ پر غرور کرنے والا اور مجھے جتانے والا۔ 

کبھی کبھی تو مجھے لگتا تھا وہ جان بوجھ کر میری چیزوں پر نظر رکھتا تھا تاکہ وہ اسے حاصل کرکے مجھے بتا سکے کے ہر چیز اسکی ہے ہر چیز پر اسکی ملکیت ہے۔ اور میں__میں کچھ نہیں کرسکتا۔"

"اسلیئے نفرت ہے مجھے اس انسان سے ۔ اور تم" ۔۔۔ وہ یکدم اسراء سے دور ہوتا اسکی تھوڑی دبوچ گیا تھا۔ 

"تم اسی کی بہن ہو ۔ مجھے نفرت ہے تم سب سے ۔ تم سب کی وجہ سے میں ایسا ہوں تم سب نے مل کر میری ذات کو ایسا بنایا ہے ۔ اور یہ سب اب تمہیں ہی برداشت کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کے اس سے جڑی ہر چیز کو اتنی اذیت دوں کے وہ تڑپ اٹھے ۔ اور تم اسکی جان بسی ہے تم میں  وہ دیکھے تمہیں تڑپتا ہوا تب اسے پتہ چلے جب کسی کو اسکی محبت نہیں ملتی تو انسان کیسے مرتا ہے ۔ ۔"

 "محبت کرتی ہو نا مجھ سے ؟ لیکن میں نہیں کرتا ۔ میں کبھی نہیں کرسکتا اس لڑکی سے محبت جس سے جڑے شخص سے مجھے شدید نفرت ہو ۔ "

 اسراء نے روتے روتے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ 

"اپو آپکی محبت نہیں ہیں وہ آپکی ضد ہیں جو لالا سے چھین کر انہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں آپ۔ وہ تو شروع دن سے انہی کی تھیں ۔ وہ کبھی آپکی تھی ہی نہیں جو لالا آپ سے چھینتے انہیں ۔ "وہ چیخی تھی کے ضرغام نے یکدم اسے دور دھکیلا تھا ۔ اور کرب سے ہنستے پیچھے بستر سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا ۔ 

"وہ مجھے نہیں ملی اور میں تمارے ساتھ رہنا نہیں چاہتا ۔"

"ہم کبھی آپکو نہیں چھوڑینگے ہم آخری سانس تک آپکے ساتھ رہینگے ہم وعدہ کرتے ہیں"۔ وہ ضرغام کے ہاتھ پکڑتی آنسو بہاتی بولی تھی ۔ 

"ٹھیک ہے ۔ تو پھر ایسا کرو سب کو چھوڑ دو اپنے گھر والوں کو اپنے بھائی کو ۔ سب سے قطع تعلق کرلو اور میں تمہارا ۔ "

اسنے مسکراتے کہا تھا کے اسراء نے صدمے سی کیفیت میں ڈوبے اسے دیکھا تھا ۔ 

"کیا ہوا ؟ نہیں کرسکتی نا ؟ تم کچھ بھی نہیں کرسکتی ۔ تم صرف منہ سے محبت محبت کے گانے گنگنا سکتی ہو اور تم کچھ نہیں کرسکتی ۔ "

وہ ویسے ہی بستر سے ٹیک لگائے بیٹھا بولا تھا جب اسراء نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ وہ بے بس تھی یہاں ۔ 

"تمہیں پتہ ہے اس سب میں سب سے بڑی غلطی ہمارے بڑوں کی ہے جو بچپن میں اپنی اولادوں کو ایک دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں بنا یہ سوچے کے انہوں نے انسان پیدا کیئے ہے ۔ کوئی جانور نہیں ہے ہم جسے بنا پوچھے کسی کے بھی ساتھ باندھ دو اور اسے پوری جوانی غیرت اور عزت کے پرچے سناتے اسکی ذات کو مجبور کردو کے اب تمہیں اسی سے کرنی ہوگی ورنہ تم جیسے مرد مرد نہیں۔"

 اسکی آواز نم تھیں آنکھیں نم تھیں جیسے وہ زندگی سے بے زار ہو۔ 

"اور میں _میں ضرغام خانزادہ انہیں یہ بتاؤنگا کے ان سب حرکتوں کا اس عمر میں آکر کیا نتیجہ نکلتا ہے تاکہ آگے جاکر یہ نصیحت بنے سب کے لیئے ۔ "

وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھتا ایک ایک لفظ اسکی انکھوں میں انکھیں گاڑھے بولا تھا کے اسرا ساکت و جامد بیٹھی رہ گئی تھی ۔ 

اسکی انکھ سے آنسو بنا رکے گالوں کو بھگو رہے تھے اسے ضرغام کی تکلیف دیکھ خود اپنے دل میں چبھن محسوس ہو رہی تھی ۔ کیوں کوئی انسان محبت میں کسی دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرجاتا ہے۔ کیوں ہمارے بڑے یہ نہیں سوچتے کے بچوں کا ذہن انکا دل بہت معصوم ہوتا ہے انکو اچھا یا برا بنانے میں ان بڑوں کا پورا پورا ہاتھ ہوتا ہے ۔ ایک سے بے تحاشہ محبت میں دوسرے کو احساس کمتری کا شکار نا بناؤ ۔

 لیکن ایسا ہوجاتا ہے ۔ بعض دفعہ ہم ایسا کرجاتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کے ہم کسی کی حساسیت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اور جب وہی بچے اسی احساسِ محرومی کے ساتھ پرورش پاتے بڑے ہونے لگتے ہیں اور منفی ذہنیت رکھنے لگتے ہیں تو ہم سراسر انہیں غلط ٹہرا دیتے ہیں ۔ کوئی انکی رکھی گئی بنیاد پر غور نہیں کرتا سب بس یہ دیکھتے ہیں کہ کیا اسنے کیا اور کیا نہیں کیا۔ اور یہاں آکر وہ ایک انسان کو تباہ کرجاتے ہیں۔ 

اسراء قریب ہوتے فوراً سے اسکے سینے سے لگی تھی کے ضرغام ساکن ہوگیا تھا ۔ لیکن پھر ہوش میں آتے ہی اسنے اسراء کو خود سے دور جھٹکنا چاہا لیکن وہ پیچھے سے اسکی شرٹ کو دبوچتے مزید سختی سے پکڑ گئی کے ضرغام ایک دم تھم گیا تھا اور پھر خود بھی اسکے گرد حصار بناتا خود میں بھینچتے آنکھیں بند کر گیا تھا۔

"ن_نفرت کرتا ہوں میں تم سے ۔ 

سن رہی ہو نا تم ؟  آ _آئی ہیٹ یو ۔۔ "

اسکے الفاظ سن نے کے باوجود اسراء اس سے الگ نا ہوئی تھی بلکہ مزید اسکے سینے میں چھپنے لگی تھی ۔ ضرغام کے دل کو ایک عجیب سکون سا ملتا تھا جب بھی وہ اسکے سینے سے لگتی تھی ۔ وہ سکون تھی اسکا ۔ جیسے کسی نے اسکے جلتے سلگتے دل پر ٹھنڈی اوس گرادی ہو۔ 

لیکن کبھی وہ اس بات کو ماننے والا نہیں تھا ۔ کیونکہ ضرغام خانزادہ ہو اور وہ کبیر کی بہن کو اپنا سکون قرار دےدے ۔ یہ تو نا ممکن تھا فلحال۔ 

اسراء کو وہ معصوم بچہ لگا تھا آج پہلی بار اسے ضرغام کی ذات پر اگر غصہ آیا تھا تو ترس بھی بے تحاشہ آیا تھا۔ وہ اس بکھرے ہوئے انسان کو سمیٹنا چاہتی تھی خود میں مشغول کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اپنے خول سے باہر نکلتا ہی کب تھا اور آج جو باتیں اس پر آشکار ہوئی تھی وہ اسے آج ضرغام کی اصل پہچان کروا گئی تھی ۔

اسراء نے اس غصیل مرد کو آج پہلی بار اپنے سامنے روتے دیکھا تھا کے اسکا دل بھر آیا تھا اسے ایسے دیکھ۔ وہ اس سے دور ہوتی ضرغام کو دیکھے گئی جو سر پیچھے بستر پر گراتا سو چکا تھا اسراء نے پھر اسکے سینے پر سر رکھتے ویسے ہی آنکھیں بند کرلی تھی بنا کل کے بابت سوچے کے وہ کیسا ردعمل دے گا یہ کیا زہر اگلے گا وہ بس اس پل اسے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ 

فردان کمرے میں داخل ہوا اور پیچھے دروازہ بند کیا ۔ یہاں وہاں دیکھتے اسنے راحمہ کو تلاش کرنا چاہا جو شاید نہیں یقیناً یہاں سے غائب تھی ۔ اور اب واشروم وغیرہ میں دیکھتے اسکے شک پر مہر لگ گئی تھی ۔

فردان کا غصہ عود آیا تھا اب اسکی برداشت یہاں ختم ہوئی تھی۔ ایک تو وہ دوپہر سے اسے اگنور کررہی تھی ۔ اسے اپنے قریب بھی بھٹکنے نہیں دیا تھا بس دور دور سے نظارے کراتے اس پاگل پٹھان کو تڑپایا تھا ۔ لیکن اب بس ہوئی تھی ۔ ضرغام نے اسکا نمبر ملایا تھا جو رنگ کررہا تھا لیکن اٹھایا نہیں گیا تھا ۔ 

"اب تمہاری خیر نہیں ہے راحمہ فردان خانزادہ ۔"

وہ کمرے سے نکلتا سیدھا اسکے کمرے میں گیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا اسکے علاوہ وہ اس ٹائم اور کہی جا نہیں سکتی تھی ۔ 

دوسری طرف راحمہ کمرے میں آتے ہی بستر پر بیٹھی تھی صبح سے اسکی معصوم شکل دیکھتے راحمہ اسے اگنور کررہی تھی اور وہ جل بھن رہا تھا ۔ اور اب جو اسنے پلاننگ کی تھی اس پر راحمہ کو بے تحاشہ ہنسی آرہی تھی ۔ جب وہ اسے کمرے میں نہیں دیکھے گا تو کیا سوچے گا ۔  وہ اسی اثنا میں بیٹھی مسکرا رہی تھی جب دروازہ بجا تھا ۔ 

اور راحمہ کا دل اچانک اچھلتے حلق میں آیا تھا ۔ 

وہ دروازے کے سامنے سانس روکے کھڑی  تھی ۔۔

"ک_کون؟؟"

اسکی پھنسی پھنسی آواز گلے سے نکلی تو فردان نے دانت پر دانت جماتے ضبط کیا ۔ 

"دروازہ کھولیں۔۔"

فردان کی سرد آواز سنتے راحمہ ڈرتے ایک قدم پیچھے ہوئی تھی ۔ لیکن ہمت باندھتے وہی جمی رہی۔ 

"ہم نہیں کھولینگے ۔ آج آپ اکیلے سوئے ۔ ہم یہاں آرام سے سوئینگے۔" 

اسکی بات سنتے فردان کا دماغ گرم ہوچکا تھا ۔ 

"آپ ذرا دروازہ کھولیں میں آپکو بتاتا ہوں کے آرام کہتے کسے ہیں ۔"

فردان ایک ایک لفظ چباتا ہوا بولا تھا جیسے دانتوں کے بیچ راحمہ ہو۔ 

راحمہ نے تھوک نگلتے چہرے پر پریشانی سے بل ڈالے دروازے کو دیکھا تھا ۔ 

"ہم نہیں کھولینگے ۔ آپ جائیں یہاں سے ۔ ہم اپنے میکہ میں ہیں اور آج یہیں سوئینگے۔"

"آپ دروازہ کھول رہی ہیں یا میں اسے توڑدوں؟ پھر آپ خود سب کو جواب دیتی پھرے گا ۔ " 

فردان نے غصہ میں دروازے پر ہاتھ مارا کے راحمہ اچھل گئی ۔ اب اسے اپنی شامت اپنے سامنے نظر آرہی تھی۔  

"آلتو جلالتو آئی بلا کو ٹال تو۔۔"

راحمہ منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی کوئی نئی ترکیب سوچ رہی تھی جب فردان کی آواز پھر سے آئی ۔

"اگر میرے تین گننے تک آپ نے یہ دروازہ نا کھولا تو میں اسے توڑ دونگا ۔" 

ایک__

دو__

راحمہ اپنے ہاتھوں کو مسلتی ٹینشن سے بس رو دینے کو تھی جب فردان نے تین کہتے دروازے پر زور سے ہاتھ مارا ۔ 

اور راحمہ فورن سے لاک کھولتے واشروم کے دروازے کی طرف بھاگی تھی کے فردان نے آگے بڑھتے پھرتی سے اسکا ہاتھ تھماتے اپنی طرف کھینچا تھا ۔ 

اپنے حصار میں قید کرتے فردان نے اسے دیکھا تھا جو نیوی بلیو کلر کے لہنگے میں سجی دھجی اب آنکھیں سختی سے میچیں خود کو اس سے چھڑوانے کی تگودو کررہی تھی لیکن وہ ٹس سے مس نا ہوا۔ 

"ہم آپ سے ناراض ہیں ۔ چھوڑیں ہمیں۔"

راحمہ نے ہار مانتے فردان کے سینے پر ہاتھ رکھے چہرے پر غصے کے تاثرات سجائے البتہ اندر سے دل کانپ رہا تھا۔ 

"اپنی ساری ناراضگی آپ صبح سے ہم پر ظلم کرتے ہوئے دکھا چکی تھیں لیکن یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ۔ "

"ہم نے کچھ نہیں کیا ۔ جو کیا بلکل ٹھیک کیا۔ الٹا ہمیں تو یہ دروازہ بھی کھولنا نہیں چاہیئے تھا وہ تو ہمیں ترس آگیا آپ کے اوپر اور ہم نے کھول دیا ورنہ آج آپکو ساری رات دروازے کے باہر گزارنی پڑھتی ۔" 

راحمہ کی زبان فراٹے مارتی اب اسٹارٹ ہوچکی تھی ۔ فردان نے اسے آنکھیں چھوٹی کرتے دیکھا تھا اور اسکی بات پر تمسخرانہ ہنسی ہنستے فردان نے اسے دیکھا تھا۔

" اورآ پکو لگتا ہے کے ہم  دروازے کے باہر رات گزارلیتے؟ ۔ اتنا ہی بولیں بیگم جتنا بعد میں برداشت کرسکیں یہ جو آپکی چھ فٹ لمبی زبان ہے نا یہ آپکو ہمیشہ کی طرح پھر کہی مشکل میں نا ڈال دیں ۔ "

اسکی بات سنتے راحمہ کو مزید غصہ آیا تھا ۔ "آپ ہماری زبان کو ایسے نہیں کہہ سکتے کچھ ۔ یہ ہمارا سہارا ہے ہم کوئی معصوم سی ڈرنے بھاگنے والی لڑکی نہیں ہیں ۔ ہم شیرنی ہیں ۔" 

 فردان نے اسکا نڈر انداز دیکھتے ایک ائیبرو اٹھاتے داد دی تھی اسے۔ 

"یہاں آپ غلط ہیں بیگم شیرنی نہیں ہیں آپ بلکہ اسکی خالہ زاد بہن ہیں ۔ جنگلی بلی۔"

فردان نے اپنی مسکراہٹ دباتے اسے مزید غصہ دلایا تھا جو یہ سنتے پھڑپھڑانے لگی تھی اسکے حصار میں۔ 

"چھوڑیں ہمیں ۔چھوڑیں..."

وہ دبا دبا سا چیخی تھی کے فردان نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھتے اسکی چیخ کا گلا گھونٹا تھا۔ 

"چپ بلکل چپ اگر کسی نے یہاں آتے ہمیں اس حال میں دیکھ لیا نا تو ہمیں تو کوئی شرم نہیں ہے البتہ آپ شرم سے پانی پانی ہوجائینگی۔ "

فردان نے اسے وارن کرنا چاہا جب وہ رکتی اسے گھورنے لگی ۔ 

"ویسے آج آپ نے خود پر رحم کیا ہے ۔۔ کیونکہ اگر آج آپ چینج کر چکی ہوتی تو ہم اپکی جان نکال دیتے لیکن آپکو بخشتے نہیں _"

وہ اسکے گھورنے کو اگنور کرتے پیچھے ہوتا اسے نیچے سے اوپر دیکھنے لگا جو آج اس رنگ میں قہر ڈھا رہی تھی ۔ 

آنکھیں اسکے انگ انگ سے گزرتی اسکے چہرے پر آٹکی تھی کے فردان کی انکھوں میں یکدم اسکی طلب بڑھنے لگی ۔ جیسے کوئی پیاسا ہو اور اسکے سامنے کوئی صحرا ۔

اسکی آنکھوں میں اپنی طلب دیکھتے راحمہ فوراً پلٹی تھی۔ 

"ہ_ہمیں نیند آرہی ہے۔ تھک__گئے ہیں نا اسلیئے ۔ "راحمہ اپنے ہاتھوں کو مسلتی بولی تھی کے اچانک اسکی سماعتوں میں بھاری سانسوں کی آواز گونجی۔ 

"ہم ہیں نا_ آپ کو سکون پہچانے کے لیئے ہی تو ہماری ذات کو اس زمین پر اتارا گیا ہے۔ اور تھکن تو ہمیں بھی ہے تو کیوں نا ایک دوسرے کے سکون کا ذریعہ بنا جائے۔"

راحمہ کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھتے فردان کے چہرے پر خوبصورت سی مسکراہٹ آئی تھی ۔۔ 

نیوی بلیو کلر کا کوٹ پہنے فردان کو شدت سے جسم پر گھلتی نمی کا احساس ہوا تھا جب اسنے وہ اتار پھینکا۔

"اب بیگم آپ اپنے سسرال نہیں جانا چاہتی تو کیا ہوا ہمیں اپکے میکہ میں رہنے میں کوئی مسلئہ نہیں ہے۔ " 

وہ آستینیں فولڈ کرتا پیچھے بیڈ پر جا بیٹھا تھا ۔ اور گہری نظروں سے راحمہ کو دیکھنے لگا جو کچھ دیر پہلے شیرنی بنی ہوئی تھی لیکن اب بھیگی بلی بنی اسکے سامنے کھڑی یہاں وہاں دیکھتے فردان کو اگنور کرنے کی پوری کوشش کررہی تھی ۔ 

فردان نے نچلا لب دباتے اسے شوخ نظروں سے دیکھا اور شہادت کی انگلی اٹھاتے  اپنے قریب آنے کا اشارہ کیا ۔ راحمہ نے تھوک نگلتے سر ہلاتے نفی کی تھی جس پر فردان نے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا تو راحمہ نے معصوم شکل بنائی تھی پر فردان کی نظریں ہنوز سنجیدہ ہی تھی جس پر اسکی مصنوعی معصومیت کا کوئی اثر نہیں پڑہا تھا ۔

فردان اسے قریب نا آتے دیکھ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور واپس جانے کے لیئے قدم بڑھائے تھے کے راحمہ نے سامنے آتے اسکا راستہ روکا۔ 

"ہ_ہم آ تو رہے تھے ۔ "

راحمہ نے معصومیت کے تمام ریکارڈ توڑتے  ہوئے کہا تھا کے فردان کے چہرے پر سنجیدہ تاثرات دیکھتے وہ ڈری تھی ۔

 ایک بات کا تو اسے اندازہ ہوگیا تھا ۔ وہ چاہے کتنا بھی ناراض ہو جائے لیکن فردان کی ایک سنجیدہ نظر ہی اسکی سانس اٹکا دیتی تھی ۔ وہ ہمیشہ اسے خود کے لیئے محبت لٹاتا ہوا پسند تھا ۔ اور جہاں وہ سنجیدہ ہوتا تھا وہاں راحمہ کے ہاتھ پیر پھول جایا کرتے اور ابھی بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ۔ 

"کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ آپکو نیند آرہی تھی آپ سو جائیں۔ " 

فردان بے رخی سے بولتا جانے لگا جب راحمہ پھر اسکے سامنے آئی ۔ 

"آپ ایسا نہیں کرسکتے ایک وقت میں صرف ایک ہی ناراض ہو سکتا ہے ۔ اور فلحال ہم آپ سے ناراض تھے۔ "

راحمہ نے روہانسی شکل بناتے بولا کے فردان کو اس پر ٹوٹ کر پیار آیا اور اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اچانک اسنے اپنی طرف کھینچا کے راحمہ گھبراتی اسکے سینے سے آلگی ۔ 

"کیسے دور ہوگی آپکی ناراضگی بیگم جلدی بتائیں ۔ اسکے بعد آپکو ہماری ناراضگی بھی دور کرنی ہے ۔"

فردان نے بھاری آواز کے سنگ اسکے رخصار چھوئے تھے ۔ 

"ہ_ہم آج مان جانے کے موڈ میں ن_نہیں ہیں ۔ "

راحمہ نے اسکی انگلیوں کو گھبراتے ہوئے دیکھا تھا جو اسکے رخصار کو چھو رہی تھیں ۔ 

"تو ٹھیک ہے آپکی ناراضگی کل پر رکھتے ہیں ۔فلحال ہماری ناراضگی پر توجہ دیں۔  "

سائیڈ ٹیبل پر ہاتھ مارتے لائیٹس آف کرتے فردان اسے گود میں اٹھاتا اپنی دنیا میں لے گیا تھا جہاں ایک دوسرے کی پناہوں میں سکون محبت اور وارفتگیاں  تھی۔

------❤️حیا خان❤️-------

سورج کی کرنیں سیدھا ضرغام کے چہرے پر پڑ رہی تھی جو اسراء کو اپنے حصار میں لیئے بیڈ سے ٹیک لگائے سو رہا تھا لیکن روشنی سے وہ انکھیں مسلتا بیدار ہوا اور اپنے آپکو کسی ذات میں جکڑے پایا نیچے جھک کر دیکھا تو اسراء اس سے چپکی سورہی تھی۔ 

اسکی مدھم سانسیں ضرغام کے سینے پر پڑتی اسے سکون پہنچا رہی تھی وہ بے خود ہوتا اسے دیکھ رہا تھا جب دھیرے دھیرے اس کی آنکھوں کے سامنے رات کا منظر چھانے لگا کے کس طرح وہ نشہ میں ڈوبا سب اسکے سامنے آشکار کر گیا تھا اور کیسے وہ اسکے سامنے ٹوٹ کر بکھرا تھا اور کیسے اسراء نے رات اسکے جلتے سینے کو جھنجھوڑتے اپنے قرب سے سکون پہنچایا تھا ۔ 

ضرغام سب یاد کرتے دوبارہ اسراء کو دیکھنے لگا جو معصوم سی بچی لگ رہی تھی اسکے سینے سے چپکی۔ 

ضرغام نے اسے گود میں اٹھاتے بستر پر لٹایا اور اسے دیکھنے لگا جو اسکا پسندیدہ مشغلہ بنتا جا رہا تھا۔ 

وہ دیکھنے لگا کے کس طرح سے اس معصوم کو وہ تڑپاتا ہے رلاتا ہے ۔ وہ جانتا تھا وہ سفاک بن جاتا ہے لیکن خود پر قابو پانا ضرغام خانزادہ کو  سب سے مشکل ترین کام لگتا تھا ۔ لیکن کس طرح وہ نازک جان اسے برداشت کرتی تھی یہ بس وہی جانتی تھی ۔ جسکا سانس شادی سے پہلے ہی ضرغام خانزادہ کو دیکھ کر سوکھ جایا کرتا تھا آج وہ کس طرح اسکی قید میں پھڑپھڑاتے تڑپ جایا کرتی تھی لیکن ضرغام خانزادہ بے رحم تھا ۔ نہایت بے رحم ۔ 

کہتے ہیں نا کے جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ ہمیں وہی لوٹاتا ہے ۔ اور ضرغام خانزادہ کے پاس صرف اذیت جلن دکھ تکلیف ہی تھی اور اسراء ضرغام خانزادہ کو اس سے وہی ملنی تھی۔  

ضرغام پیچھے ہوتا اٹھ کھڑا ہوا تھا اور ایک نظر اسے دیکھتا اپنے کپڑے لیتا فریش ہونے چلا گیا تھا ۔ 

اسکے جانے کے پندرہ منٹ بعد اسراء کی آنکھ کھلی تھی یہاں وہاں دیکھتے اسنے ضرغام کو تلاش کرنا چاہا تھا لیکن پانی کی آواز سنتے وہ سمجھ گئی تھی کے ضرغام فریش ہونے گیا ہے کل رات کے بابت سوچتے اسکے چہرے کے تاثرات سنجیدہ ہوئے بالوں کو باندھتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ کے ضرغام باہر آیا اور اسے سرے سے نظر انداز کرتے ضرغام آئینہ کے سامنے کھڑا ہو چکا تھا ۔ وہ محسوس کرسکتا تھا اپنی پشت پر اسراء کی نظریں۔ 

"پہلی بار نہیں دیکھ رہی تم مجھے ۔  بیس منٹ ہیں تمہارے پاس فٹافٹ فریش ہوکر باہر آؤ مجھے کسی کام سے جانا ہے۔ نیچے چل کر مجھے ناشتہ دو۔  "

ضرغام نے اسے کہا تو وہ اسے دیکھنے لگی جو اپنے کام کے لیئے اج خود اس سے کہہ رہا تھا وہ خوشی خوشی اپنے کپڑے لیتی جلدی سے  سیدھا فریش ہونے گئی تھی ۔ 

واپس آتے جلدی سے تیار ہوتے اسراء نے اسے پلٹ کر دیکھا تھا جو شیشہ کے اس پار کھڑا کسی سے کال پر بات کررہا تھا ۔ 

کتنا دلکش تھا وہ۔ آنکھیں تو اسراء کی  خود بھی بے حد حسین تھیں لیکن ہائے وہ ضرغام خانزادہ کی بھوری آنکھیں ۔ 

اسراء نے حسرت بھری نظروں سے کھوئے کھوئے اسے دیکھا تھا جب ضرغام خانزادہ نے پھر اسے خود کو تکتا پا کر بھنویں سکیڑتے اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی طرف اشارہ دلاتے وقت یاد دلایا تھا۔ 

اسراء جھٹ سے ہوش میں آتی ہلکا ہلکا میک اپ کرنے لگی لیکن دماغ صرف اس انسان کی طرف توجہ دلا رہا تھا جو کل رات بلکل الگ تھا اور آج اسکے سامنے وہی مغرور ضرغام بنا کھڑا تھا ۔ 

"ضرغام اندر آیا اور ایک لمحہ کے لیئے رکتے اسے دیکھنے لگا جو بہت پیاری لگ رہی تھی ۔ اسکے دل نے بے ساختہ ماشاءاللہ کہا تھا ۔

" بیس منٹ دیئے تھے باربی ڈول پورا آدھا گھنٹہ لگادیا تم نے تو... کیوں میرا میٹر شارٹ کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہو تم ۔ "

اسے دیکھتے ضرغام نے ماتھے پر دو بل ڈالے تھے حالانکہ وہ کل رات کی باتوں کا اثر زائل کرنا چاہ رہا تھا ۔ وہ نہیں چاہتا تھا کے ضرغام خانزادہ کسی کے سامنے کمزور پڑے ۔ 

"م_میں بس ریڈی ہوں چلیں۔" 

پاؤں میں چپل ڈالتے سر پر دوپٹہ اوڑھتے وہ پلٹی تھی  جب ضرغام پلٹ کر دروازہ کھولتے باہر نکلا تھا ۔

نیچے وہ دونوں ساتھ آئے تھے جسے دیکھتے اسمارہ بیگم نے ماشاءاللہ کہا ۔

ضرغام نے نیچے آتے سب کو سلام کرتے  اپنی سیٹ سمبھالی تھی اسرا جلدی سے اسکی پلیٹ تیار کرتی اسکے برابر میں بیٹھی تھی ۔ 

"بیٹا آج نرمین اور کبیر ترکی جا رہے ہیں تو تم اسراء کو لے جاؤ حویلی ۔ وہ مل آئیگی ۔"

اسمارہ بیگم ضرغام سے مخاطب ہوئی تھی جو کبیر خانزادہ کا زکر سنتے آگ بگولا ہوا تھا اندر سے لیکن تاثرات سے واضح نا کیا ۔ جبکہ اسراء کے منہ میں جاتا نوالا تھما تھا اسنے چور نظروں سے ضرغام کو دیکھا تھا جو سپاٹ چہرا لیئے بیٹھا تھا ۔ 

"جی مورے لے جاؤنگا"۔

ضرغام نے جواب دیا تو اسراء نے پلٹ کر حیرت سے اسے دیکھا ۔ 

وہ جانتی تھی کے ضرغام کبھی مورے کی کوئی بات نہیں ٹالے گا لیکن وہ جس اذیت میں رہے گا وہاں یہ سوچتے اسراء کا دل بیٹھا تھا ۔ وہ محبت کرتی تھی اس سے کیسے برداشت کرتی اسکا تڑپنا جو وہ سب سے تو چھپا لے گا لیکن خود اندر ہی اندر سلگتا رہیگا ۔ 

"نہیں پھوپھو جانی آج ہماری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ۔  لالا  اور اپو سے تو ہم کل مل لیئے تھے ۔ باقی بات ہم فون پر کر لینگے ۔"

اسراء نے سہولت سے انکار کیا تھا اسمارہ بیگم کو کے ضرغام نے ایک لمحہ میں اسے دیکھا تھا۔ کیا وہ اسکے لیئے اپنے گھر والوں سے ملنے کو منع کررہی تھی ۔ ؟ یہ سوچتے ضرغام کے سخت دل پر کہی نا کہی دراڑ پڑی تھی ۔ 

"خیریت بیٹا آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟" اسمارہ بیگم نے پریشانی سے کہا تو اسراء مسکرائی۔ 

"جی پھوپھو جانی بس کل کی وجہ سے بہت تھکن ہوگئی ہے نا تو سر میں درد ہے اور پھر کل سے ہمارے پیپرز بھی ہیں تو صحت اس وقت بہت ضروری ہے ۔"

اسراء کے جواب پر اسمارہ بیگم کو تسلی ہوئی تھی البتہ ضرغام اب کھڑا ہوا تھا جب اسراء بھی اپنے ناشتے کی پلیٹ پرے کھسکاتی اسکے ساتھ ہی کھڑی ہوئی تھی ۔ جو ضرغام سے مخفی نا رہا تھا۔ 

"صبر۔۔۔۔"

اسراء نے دروازے تک پہنچتے ضرغام کو پیچھے سے آواز لگائی تھی ۔ وہ پلٹا اور اسکا معصوم خوبصورت چہرہ دیکھا۔ 

وہ قریب آتی آیت الکرسی پڑھتے اس پر حصار باندھ گئی تھی ۔ کے ضرغام نے آنکھیں بند کرتے اس تحفظ کو محسوس کیا تھا۔ 

وہ جب تک گاڑی میں نا بیٹھ گیا اسراء وہاں کھڑی رہی اور پھر گاڑی سٹارٹ کرتے ضرغام زن سے اڑا گیا تھا جب کے دائیں طرف کے شیشہ میں دور تک اسے اسراء نظر آئی تھی جسے دیکھتے وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔ بلکل انجان سی مسکان جس سے وہ ناواقف تھا۔ 

-----❤️ حیا خان ❤️--------

صبح کا سورج آتے ساتھ ہی سب کو اداس کر گیا تھا کیونکہ کبیر تو جا رہا تھا پر ساتھ نرمین کو بھی لے جا رہا تھا ۔ جسکی کمی سب کو ہی کھلنے والی تھی ۔ نرمین بھی اداس سی سمان باندھ چکی تھی اور ایک گھنٹے میں انکی فلائیٹ تھی۔ 

عبایا پہنتے خود کو ڈھکتے وہ سب سے ملنے لگی تھی ۔ دا جان نے کبیر کو خوشی سے گلے سے لگایا تھا ۔ 

"خوش رہو میرے جگر ۔ اللّٰہ تمہیں کامیاب کریے ۔"

دا جان نے مسکراتے اسے دعا دی تھی جس  پر وہ خوشی سے انہیں دیکھنے لگا۔ 

اور پھر پلٹ کر نرمین کو دیکھا جو مسکراتی اسے دیکھتی آنکھیں جھپکتے اسے خیر کا اشارہ دے گئی تھی ۔ کبیر مسکراتا دا جان اور باقی سب  کی دعاوں کے حصار میں نرمین کو لے کر وہاں سے چلا گیا تھا ۔ 

نرمین پہلی بار پلین کا سفر کررہی تھی جسکی وجہ سے اسکے دل میں انجانا سا ڈر تھا ۔ 

"خ_خان ۔ کیا کوئی اور راستہ نہیں ہے ترکی جانے کا ؟ "

نرمین نے تھوک نگلتے نم انکھوں سے کبیر کو دیکھا تھا ۔

"نہیں canım بس یہی ایک راستہ ہے وہاں پہنچنے کا ۔"

کبیر نے اسکی معصوم انکھیں دیکھی جو ڈر سے بار بار چھپک رہی تھیں ۔ 

"لیکن ہم وہاں زندہ تو پہنچ جائینگے نا "

نرمین کی بات پر کبیر نے اپنی ہنسی دبائی تھی ۔ جہاز بس پروان چڑھنے ہی والا تھا کبیر نے ایک خاموش نظر باہر کو ڈالتے اس کے چہرے پر ڈالی جو پریشانی سے اسکے جواب کی منتظر تھی۔ 

"کچھ کہہ نہیں سکتے canım اگر ہم زندہ نا رہے ۔ تو سوچیں میں وہ الفاظ سنے بغیر ہی اس دنیا سے کوچ کر جاونگا جو میری خواہش ہے کے میں آپ کے منہ سے سنوں۔"

کبیر نے اسکا دھیان بھٹکانا چاہا تھا جس میں وہ کامیاب ہوا تھا ۔ 

"ک_کیسی باتیں کررہے ہیں آپ ۔ اللّٰہ نا کرے آپکو کچھ ہو ۔ اپکو ہماری زندگی بھی لگ جائے آپ اے____"

"ہیئے۔۔۔۔ خاموش!!! "

کبیر نے اسکی بات پوری ہونے سے پہلے ہی برہم ہوتے اسکے نقاب کے پیچھے چھپے ہونٹوں پر انگلی رکھ تھی۔ 

"تمہاری زندگی میری زندگی کی ضمانت ہے ۔ تم نہیں ہوگی تو میری زندگی کا کیا کام ؟ کبیر کے جینے کے لیئے نرمین کا جینا ضروری ہے ۔ بے حد ضروری ۔ "

وہ شدت جزبات میں بولتا نرمین کو سکتہ دلاگیا تھا ۔ 

کبیر کے انکھیں اسکے الفاظ کی عکاسی کررہی تھی۔ وہ ان گہری آنکھوں میں ڈوبنے لگی تھی جب کبیر نے جھکتے اسکی آنکھوں کو چوما تھا نرمین ہڑبڑاتی پیچھے ہوئی تھی اور اِدھر اُدھر دیکھا تھا جہاں کوئی انکی طرف متوجہ نا تھا اسکی بوکھلاہٹ دیکھتے کبیر ہولے سے ہنسا تھا ۔ 

"بے فکر رہیں "میری زندگی" کسی نے نہیں دیکھا ۔ "

کبیر نے اسے کہا تو وہ اسے ٹھیک سے گھور بھی نا سکی اور وہ اپنی منزل کو روانہ ہوئے جہاں اس شہر کی خوشیاں انکا انتظار کرہی تھیں۔

ترکی کی فضاء میں گہرا سانس بھرتے کبیر کو اپنے پرانے دن اور وہ دوست یاد آئے تھے جن سے اس دن کے بعد سے کبیر نے کلام نا کیا تھا ۔ انہیں یاد کرتے کبیر نے سر جھٹکا تھا ۔ اور برابر میں کھڑی نرمین کو دیکھا تھا جو باقی سب عورتوں کو دیکھ رہی تھی جو تنگ لباس اور کم لباس میں گھوم رہی تھی اور پھر اسنے ایک نظر اپنے آپ کو دیکھا جو وائٹ عبایا پہنے اس پر وائٹ ہی حجاب پہنے جن سے صرف وہ  خوبصورت آنکھیں نظر آرہی تھیں۔

 خود کو ڈھکنا چھپانا اسے اپنے رب کا دیا ہوا تحفظ لگتا تھا جو وہ دل سے کرتی تھیں منہ بناتی وہ اب کبیر کو دیکھنے لگی جو کافی دیر سے اسکی انکھوں کو لوگوں کو دیکھ کر شاکڈ ہونا پھر ان انکھوں میں اتری ناگواری اور پھر خود کو رشک سے اپنے عبائے میں دیکھنا ملاحظہ کررہا تھا ۔ 

کبیر اپنی مسکراہٹ چھپاتے اسکے کندھے کے گرد ہاتھ رکھتے اپنے حصار میں لیئے آگے بڑھا ۔ 

ایک کشادہ فلیٹ کا دروازہ کھولتے کبیر سارا سامان لیئے اندر آیا تھا ۔ اور اسکے پیچھے نرمین جو ستائشی نظروں سے اس گھر کو دیکھ رہی تھی جہاں داخل ہوتے ہی اچھا خاصہ بڑا لاونچ تھا جس کے ساتھ ہی امریکی طرز پر بنا کچن تھا اور اسکے سامنے بنا ایک روم پھر سامنے ہی گول دائرے میں بنی سیڑھیوں سے چڑھتے وہ اوپر آئے تھے جہاں کا دروازہ کھولتے کبیر اندر داخل ہوا ۔

 وہ کبیر کا بیڈروم تھا جو نہایت ہی حسین ترین تھا ۔ حویلی جتنا بڑا تو نہیں لیکن کافی حد تک خوبصورت یہ بھی تھا۔ آخر کبیر خانزادہ کا روم تھا ۔ وہاں ہو یا یہاں اسکی پسند ہر جگہ سراہی جاتی تھی۔ پورا کمرہ سفید رنگ سے رنگا تھا جہاں کا فرنیچر بلیک رنگ کا تھا ایک وال پر بنا سٹائلش مرر اور اسکے سامنے رکھی ٹیبل جس پر دنیا جہاں کے برینڈڈ پرفیومز رکھے تھے ۔ دائیں طرف رکھے دو صوفے اور انکے بیچ میں رکھی میز اور کمرے سے ہی منسلک ایک بالکنی تھی جسکا دروازہ شیشہ کا تھا جسے کھولتے ساتھ وہاں بنا سوئمنگ پول تھا جس کے چاروں طرف شیشہ کی دیواریں تھیں اور اسکے آس پاس ہرے بھرے پودے رکھے تھے اس کمرے کو دیکھ بھی نرمین ساکت ہوئی تھی۔ اتنا شاندار کمرہ The Great Architect کبیر خانزادہ کا ہی ہوسکتا تھا۔  

کبیر نے اسکی انکھوں میں امڈتی ستائش دیکھتے اسے اپنے حصار میں لیا تھا اور اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اسکا نقاب نیچے کیا تھا ۔ نرمین لجاتی ہوئی نظریں نیچے کر گئی تھی ۔ 

" کیسا لگا ہمارا روم canım"؟؟

اسکے حجاب سے پن نکالتے مصروف سے انداز میں کبیر نے سوال کیا تھا جب کے آواز قدرے دھیمی اور بھاری تھی۔ 

جبکہ نرمین اس دلکش انسان کو دیکھ رہی تھی جو دن با دن اس سے اتنی محبت جتاتا اسکی سوچ سے بھی پیارا لگنے لگا تھا اسے ۔وہ تو گم سی تھی اسکی گہری بولتی آنکھوں میں جب کبیر نے اسکا حجاب اتارتے بستر پر اچھالا تھا ۔ 

اب نرمین کو دیکھا جو ابھی تک اسی میں کھوئی ہوئی تھی کبیر نے مسکراتے اسے خود میں محو دیکھتے اسکے بندھے کالے سیاہ بال ایک جھٹکے میں کھول دیئے تھے جو لہراتے کمر پر پھیل چکے تھے ۔ 

"بہت پیارا_"

دو لفظی جواب دیتے نرمین ابھی تک اس میں محو رہتے کبیر کو خود سے عشق کرنے پر اکسا رہی تھی۔ اور کبیر خانزادہ نرمین خانزادہ سے عشق میں ہر حد پار کردینا چاہتا تھا ۔ 

"پہلے یہ کمرہ میرے لیئے عام تھا لیکن اب یہ ایک خواب گاہ بن گیا ہے جہاں اب تم

مجھے میسر آؤگی مسز کبیر خانزادہ ۔"

کبیر نے اسکے بالوں میں اپنا ہاتھ الجھاتے ان مخملی زلفوں کو محسوس کیا تھا ۔ 

اسکے لفظوں کے پیچھے چھپی بے چینی اور ان آنکھوں میں خمار کی وارفتگیاں نرمین کو جو کہانی سنا رہی تھیں اس سے اسکا دل بیٹھے جا رہا تھا ۔ 

"تمہاری طرح صبر نہیں ہے مجھ میں۔ اسلیئے صرف جب تک یہاں ہیں تب تک کا وقت ہے تمہارے پاس ۔ مزید میرے پاگل پن کو ہوا مت دو کے تم سے میری محبت سہنا محال ہوجائے ۔یہاں سے واپس تم میرے رنگ میں رنگ کر جاؤگی ۔ "

وہ اسکی بالوں میں چہرہ چھپائے بھاری آواز میں کہتے اسے خود میں مشغول کررہا تھا کے نرمین دل و جان سے اسکی محبت کے سمندر میں بہنے کو تیار تھی لیکن شرم و حیا کے سائے جسکے پردے میں وہ ہمیشہ رہی تھی کیسے اس شخص سے اظہار کرتی جو اسکے منہ سے دو لفظ محبت کے سننے کےلیئے بیٹھا تھا ۔ 

"ہ_ہمیں فریش ہونا ہے ۔"

کبیر کی قرب کو سہنا اسے محال لگا تھا جو کبیر اسکے گہری سانسیں بھرتے وجود کو دیکھتے محسوس کرسکتا تھا ۔ 

مسکراتے وہ اسے خود سے الگ کرگیا تھا جب وہ عبایا رکھتے وہاں سے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

پیچھے کبیر بھی مسکراتا بستر پر لیٹتے موبائل پر مصروف ہوچکا تھا اور اب سنجیدہ تاثرات لیئے ارحم کا نمبر دیکھتے اسے کال ملائی تھی ۔

-------❤️ حیا خان ❤️-------

"کیا واقعی تو یہاں اس شہر میں ہے ۔ اور تو نے بتایا بھی نہیں۔۔۔ "

ارحم شاکڈ کی سی کیفیت میں ڈوبا بولا تھا۔ 

"ہاں کچھ کام کے سلسلے میں یہاں آنا پڑہا بس۔ چند دنوں کے لیئے یہی ہوں اسکے بعد چلا جاؤنگا واپس ۔"

کبیر کی بات سنتے ارحم کھڑا ہوا تھا ۔ 

"چل ٹھیک ہے کہاں ہے پھر تو؟ اپنے فلیٹ میں ؟ آتا ہوں میں۔ "

ارحم اپنی رو بولتا جا رہا تھا جب کبیر نے اسے روکا۔ 

"رک جا بھائی اب میں اکیلا نہیں ہوں میری بیوی بھی ہے میرے ساتھ ۔ اسلیئے گھر آنا مناسب نہیں ہے رات کو فری ہوکر میں تجھ سے ملتا ہوں۔"

کبیر کی بات سنتے ارحم خاموش ہوا تھا۔ پچھلی بار عرش کی اس بے وقوفی کے بعد سے کبیر نے کتنے وقت انکی کال نہیں اٹھائی تھی۔  ارحم نے عقلمندی سے کام لینا مناسب سمجھا تھا ۔ 

"چل ٹھیک ہے اب تو بھابھی ہیں وہاں تو تو ایسا کر میرے فلیٹ آجانا میں عرش کو بھی بلالوں گا ۔ "

عرش کا نام سنتے کبیر خاموش ہوچکا تھا جب ارحم نے پھر بولا۔ 

"دیکھ تجھے پتہ ہے کبیر وہ منہ پھٹ یے ۔ اور اپنی غلطی پر شرمندہ بھی ہے۔ تو معاف کردے اسے اتنی پرانی دوستی ہے یار ہماری ایسے جزباتی لمحوں میں آکر ضائع نا کر ۔ "

ارحم کی بات سنتے کبیر کے تنے تاثرات ڈھیلے ہوئے تھے ۔ اپنے ظرف کو بڑا کرنا اور قیمتی رشتوں کو ایک موقعہ دینا اسنے اپنی بیوی سے سیکھا تھا ۔ 

"ملتے ہیں پھر رات میں ۔"

کبیر کے اتنا ہی کہنے پر ارحم خوش ہوتے کال کٹ کرگیا تھا۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

کیسا ہے تو؟"

کبیر اور عرش اس وقت ارحم کے گھر میں تھے جب عرش کبیر سے گلے ملا۔ 

"ٹھیک ہوں تو کیسا ہے؟"

کبیر کا چہرا تو عام طور پر بھی سپاٹ رہتا تھا اسلیئے عرش اسکے تاثرات سے اندازاہ نا لگا سکا کے کبیر سے کیا کہے ۔۔ 

جب کبیر نے اسے خود کا غور سے جائزہ لیتے دیکھا تو زور سے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔۔

"میں تجھے کیا ایلین لگ رہا ہوں ۔ جو تو مجھے ایسے گھور رہا ہے ۔ ؟ یا تو یہ سمجھ رہا ہے کے پاکستان جانے کے بعد میری شکل بدل گئی ہے ؟ "

کبیر نے مسکراتے ہوئے کہا تو ارحم اور عرش آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگے ۔ جو واقعی بدلا بدلا لگ رہا تھا ۔ 

بدل تو تو گیا ہے بھائی لیکن سمجھ نہیں آرہا بدلا کیا ہے ۔"

عرش کے جواب پر اب باقعدہ کبیر نے قہقہہ لگایا تھا ۔ 

"بس بس کر بھائی کیوں ہمارا ہارٹ فیل کروانا چاہ رہا ہے پہلے ہمیں یہ تو یقین کرنے دے کہ تو ہی کبیر ہے تو اور ایسے ہنستے ہمیں مشکوک کررہا ہے۔" 

ارحم نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا تو کبیر نے بتایا کے کس طرح اسکی سوچ غلط تھی اور اپنی غلطی سے وقت سے پہلے اسنے سبق سیکھ لیا تھا ۔ اور کس طرح اپنی بیوی کی محبت نے اسے اپنے گرد لپیٹ لیا اور اب وہ ساری زندگی اس میں گرفتار رہنا چاہتا ہے۔

ارحم اور عرش منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے۔ جیسے اس کے بدلے بدلے لب و لہجہ کی وجہ انہیں سمجھ آگئی ہو۔ 

"مطلب بھائی کو محبت ہوگئی ہے ۔؟ "

ارحم نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے کہا تو کبیر نے اپنا سر قدرے جھکاتے داد وصول کی ۔ 

"ابے یار کبیر تو تو پورا ہی بدل گیا ہے بھائی یہاں سے کیا بن کر گیا تھا اور بلکل ہی چینج ہو کر آیا ہے۔ ""

"اسکی محبت نے مجھے خود میں اس طرح قید کرلیا کہ اب میں ساری زندگی بس ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں ۔" 

اسکی باتیں سنتے ارحم گہرا مسکرایا البتہ عرش تو ابھی بھی شاکڈ کی سی کیفیت میں تھا ۔ 

اپنی باتوں میں انہیں وقت کا پتہ نہ چلا کبیر گھر کے لیئے نکلا تھا جہاں اسکی بیگم اکیلی تھی ۔

------❤️ حیا خان ❤️------

شام کے سائے ڈھل چکے تھے نرمین نے یہاں آتے وارڈروب سیٹ کرتے فریش ہوتے تھوڑی دیر آرام کیا تھا اور اب وہ وائٹ چکن کی لانگ شرٹ اور اس کے نیچے وائٹ ہی ٹراؤزر پہنے ۔ کھلے بالوں  کو ہاف باندھتے کیچر لگاتے گلابی دوپٹہ پہنے کچن میں کھانے کا سامان تلاش کررہی تھی جو کبیر کچھ دیر پہلے ہی رکھتے دوستوں سے ملنے کا کہتے باہر گیا تھا ۔

جلدی جلدی ہاتھ پیر چلاتے اسنے گوشت کا پلاؤ بناتے رائیتہ تیار کرتے ساتھ شاہی ٹکڑے بنائے تھے جو کبیر کو بے حد پسند تھے ۔ اپنی تیاری کو خوشی سے دیکھتے وہ کمرے میں جاتی کے کبیر اندر داخل ہوتے نظر آیا تھا اسے ۔ 

__اسلام علیکم __"

کبیر نے اسے دیکھتے مسکراتے سلام کیا تھا ۔ "وعلیکم اسلام "۔ ۔ نرمین نے اسے دیکھا جس کی یہاں آکر ڈریسنگ کتنی چینج ہوگئی تھی کیونکہ یہاں اکر موسم قدرے ٹھنڈا تھا جس کے باعث کبیر نے جینس پر وائٹ ہائی نیک پہنا اور اس پر بلیک لانگ کوٹ پہنے وہ کافی زیادہ ہیںڈسم لگ رہا تھا ۔۔

__آپ اتنا تیار ہوکر باہر کیوں گئے تھے؟__

نرمین نے اسے اتنی تیاری میں ایسی ڈریسنگ میں پہلی بار دیکھا تھا تب ہی بے دھیانی میں منہ سے نکلا ۔ 

__کیوں گیا تھا مطلب ؟ دوستوں سے ملنا گیا تھا _

 اور اتنا تیار تو نہیں ہو canım ۔ یہاں ایسی ہی ڈریسنگ کی جاتی ہے ۔ یہاں تو کرتا شلوار نہیں پہن سکتا نا میں ۔ __

کبیر نے مسکراہٹ دباتے اسے دیکھا تھا جو ابھی بھی ماتھے پر بل ڈالے کچھ پریشان سی لگ رہی تھی اسے ۔

"کیا ہوا؟ " کبیر نے اسکے قریب قدم بڑھائے ۔

__آپ ایسے مت جائے گا باہر اب۔۔۔۔ پلیزز__

نرمین نے تشویش سے کہا تو کبیر نے حیران ہو کر اسے دیکھا ۔ 

__کیا ہوا بیگم ؟؟ اتنا برا لگ رہا ہوں ؟ __

__نہیں آپ پلیز ایسے تیار ہو کر باہر مت جائے گا نظر لگ جائیگی آپکو ۔ ___

کبیر نے پہلے حیران ہو کر اسکی بات سنی پھر مسکراہٹ دباتے اسکی بات سنتے جبکہ نرمین کے تاثرات ابھی بھی ویسے ہی تھے۔ 

__تو پھر جس کام کے لیئے میں یہاں آیا ہوں وہ کیسے مکمل ہوگا ۔؟ __

__ن_نہیں ۔ یہاں عجیب عجیب سی لڑکیاں ہیں جو بہت اوور ڈریسنگ کی ہوئی ہیں ۔ آپ چینج کر کے جائے گا بس ___

اسکی باتیں سنتے کبیر ٹھٹکا تھا۔ 

__تو میری canım کو لگتا ہے کے میں ان آدھے ادھورے پہنے گئے کپڑوں والی لڑکیوں پر اپنا دل ہار دوں گا ؟___

کبیر نے اسے اپنے حصار میں لیتے اسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کی تھی جس پر نرمین نے نظریں نیچے کی تھی جیسے کوئی جرم پکڑا گیا ہو ۔

__میں اسی ملک سے پڑھ کر آیا تھا میری جان۔ اور یہاں کے پہناوے سے اگر مجھے اتنی انسیت ہوتی یا یہاں کی لڑکیاں اس طرح کے لباس میں پسند آتی تو میں وہاں شادی کر کے ہی آتا ۔__

کبیر مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا تھا ۔ لیکن نرمین کے تاثرات سے صاف اسے اندازہ ہوگیا تھا کے اسے یہ بات ہر گز پسند نہیں آئی ۔ 

چھوڑیں ہمیں کام ہے_"

نرمین نے منہ بناتے خود کو چھوڑوانا چاہا تھا ۔ جبکہ کبیر کو  اسے اس طرح دیکھ کر اندر ہی اندر مسرور ہوا تھ۔۔

"میں پہلے ہی تمہارا دیوانہ ہوں ۔ اس طرح کروگی تو ہر حد بھول جاؤنگا ۔"

وہ اسے خود کو چھڑوانے کے لیے تگ و دو کرتے دیکھ بولا۔ 

جس پر نرمین بے اختیار جھینپنے لگی۔ 

"ویسے ہو نا ہو تم بھی اس عشق میں مبتلا ہو ۔ "

اسکے چہرے پر گلال بکھرتے دیکھ کبیر اسے تنگ کرنے سے باز نا آیا تھا۔ 

"خان__چھوڑیں ہمیں ۔۔ آپکے لیئے کھانا ریڈی ہے جلدی سے فریش ہوجائیں پھر کھانا کھاتے ہیں۔ "

کبیر مسکراتے اس سے الگ ہوا تو اسنے ڈائیننگ سجائی اور پھر ان دونوں نے خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا ۔ 

-----❤️ حیا خان ❤️------

ضرغام گھر آیا تو اسراء اور اسمارہ بیگم بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔ 

"اسلام علیکم "۔وہ قریب آتے اپنی ماں کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا اسراء سلام کا جواب دیتی اٹھ کر اسکے لیئے پانی لینے گئی تھی۔ 

ملازمہ لے کر آنے لگی تو اسکے ہاتھ سے لیتے اسراء نے ضرغام کے آگے کیا۔ 

اسنے ایک نظر اسراء کو دیکھا پھر گلاس اٹھاتے پیا۔ اسمارہ بیگم نے خوشی سے یہ منظر دیکھا تھا ۔ جب وہ کھڑا ہوتا سیدھا اپنے کمرے میں گیا ۔ 

"جاؤ بیٹا آپ بھی اوپر جاؤ اسے کسی چیز کی ضرورت ہوگی ۔ " 

اسمارہ بیگم کے کہنے پر وہ ہچکچاتی اوپر گئی جہاں ضرغام بیڈ پر بیٹھا موبائل پر مصروف تھا ۔ 

اسراء اسے دیکھتی ادھر ادھر کے کام کرنے لگی ۔ پھر کھٹ پٹ کرتی وہ اسکی توجہ خود کی طرف مبذول کروانا چاہ رہی تھی جو موبائل میں مصروف اسے ایسے اگنور کررہا تھا جیسے وہ یہاں ہے ہی نہیں۔ اسراء کو دکھ ہوا تھا ۔ 

" ہم آپکے لیئے کھانا لگادیں ؟؟"

اسراء نے آخر کار اپنی طرف اسکی توجہ مبذول کروائی تو ضرغام نے اسے دیکھا ۔ 

"تمہیں میں یہاں کام کرنے کے لیئے نہیں لایا جو تم کب سے میرے اردگرد کھٹ پھٹ کررہی ہو ۔ اگر تمہیں لگتا ہے اس طرح تم میری توجہ اپنی طرف کرلوگی تو ایسا نہیں ہے۔ "

اسکی بے دھڑک بات پر اسراء شرمندگی سے ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ جب ضرغام نے اسکا ہاتھ کھینچتے اپنے قریب بٹھایا ۔ 

"بیویوں والے کام کروگی تو تمہارے بارے میں سوچا جا سکتا ہے ۔"ضرغام نے قریب ہوتے اسکی آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ کے اسراء کا دل پسلیاں توڑنے لگا۔ وہ اسے پاگل کرنا چاہتا تھا دیوانہ کرنا چاہتا تھا اپنے پیچھے اور وہ ہو رہی تھی اسکی دیوانی۔ 

اسکے چہرے پر شرم و حیا کے تاثرات دیکھتے ضرغام طنزیہ مسکراتا اسکے بالوں کو کان کے پیچھے اڑسنے لگا۔ 

"جاؤ اچھا سا جوڑا پہنو_ تیار ہو تاکہ مجھے احساس ہو بیوی بیاہ کر لایا ہوں ماسی نہیں۔ "

اسکی بات سے اسراء کا چہرا شرمندگی سے سرخ ہوا تھا ۔ اسنے ایک نظر خود کو دیکھا تھا جو زرد رنگ کا سادہ سا جوڑا پہنے تھی بالوں کو کیچر میں باندھے تھے ۔ روکھی پھیکی سی تیار ہوئی وہ کہی سے بھی نئی نویلی دلہن نہیں لگ رہی تھی ۔ 

ضرغام کھڑا ہوتے کال میں مصروف ہوگیا تھا جب اسراء ایک نارنجی رنگ کا سوٹ نکالتے واشروم میں بند ہوئی تھی ۔ 

بیس منٹ میں تیار ہوتی وہ باہر نکلی تھی۔جب ضرغام نے پلٹتے اسے دیکھا اور دیکھتا رہ گیا جو ائینہ کے سامنے کھڑی ہلکا پھلکا میک اپ کررہی تھی ۔ وہ واقعی میں تیار ہونے لگی تھی ضرغام کے لیئے۔ 

اسکے دل میں جگہ بنانے کے لیئے وہ معصوم ہر ممکن کوشش کررہی تھی ۔ جو ضرغام محسوس کرسکتا تھا ۔ 

اسکے پیچھے کھڑے ہوتے ضرغام نے نظر بھر کر اسے دیکھا تھا ۔ کے اسراء کے ہاتھ اسکی نظروں کی تپش سے کپکپائے تھے ۔

"ہممم__اسکی ضرورت نہیں ہے رکھ دو اسے ۔ "ضرغام نے اسے لپسٹک لگاتے دیکھا تو منع کیا ۔ وہ سادگی میں ہی اتنی پیاری تھی۔

"یہ مصنوعی چیزیں مت لگانا آئیندہ ۔ مجھے نہیں پسند ۔ "

اسکی پشت سینے سے لگاتے وہ اسکے قریب ہوا تھا۔ 

"اگر تم کبیر خانزادہ کی بہن نا ہوتی تو یقیناً تم پر میں اپنا دل ہار دیتا ۔ "

ضرغام نے مسکراتے اسے دیکھا تھا جسکا دل دو ٹکڑوں میں بٹا تھا ۔ 

"ک_کیا آپ بھلا نہیں سکتے جو بھی م_ماضی میں ہوا__ کیا آپ مجھ سے م_محبت ن_نہیں کرسکتے ؟؟"

اسراء نے آنسوؤں کو پیچھے دھکیلتے اس سے کہا تو ضرغام اسکی انکھیں جھلملاتے دیکھ گہرا سانس بھرتا مسکرایا اور اپنا حصار اتنا تنگ کیا کے اسراء کو لگا اسکی پسلیاں ٹوٹ جائینگی کے تکلیف سے اسکے منہ سے کراہ نکلی۔ 

"یہ جس طرح سے تمہیں تکلیف ہوئی ہے نا ابھی اس سے بھی زیادہ میرے دل میں چبھی ہے تمہاری یہ بات ۔ تو آئیندہ ایسا ہر گز مت کہنا ۔ "

"انسان کچھ نہیں بھولتا ۔ بس اداکاری کرتا ہے وہ خوش رہنے کا اسکا مطلب یہ نہیں ہوتا کے وہ ماضی کی تکلیف بھول جاتا ہے ۔ انسان کبھی کچھ نہیں بھولتا سمجھی؟"

اسکی بات سنتے اسراء کی آنکھ میں آنسو آئے تھے ۔ ضرغام جھٹکے سے اسے چھوڑتا پیچھے ہوا تھا ۔

" بھوک لگ رہی ہے مجھے کھانا یہی لے آؤ ۔"

ضرغام اسے بولتا واپس بیڈ پر جا لیٹا تھا ۔ 

اسراء آنکھیں صاف کرتی باہر نکلی تھی۔ کیا ساری زندگی اسکے بھائی کی وجہ سے ضرغام کبھی اس سے محبت کے دو بول نہیں بولے گا ۔ 

لیکن وہ بھی اسراء خانزادہ تھی کبیر خانزادہ کی بہن ۔ اتنی آسانی سے وہ ہار نہیں مان سکتی تھی۔ وہ اسکا دل اپنی طرف مبذول کروا کر ہی چھوڑیگی کے ضرغام خانزادہ کو اس کے بغیر سانس بھی لینا مشکل ہو جائےگا ۔ 

وہ سونے کے لیئے لیٹ چکا تھا لیکن اسراء کمرے میں نا تھی ضرغام نے آنکھوں پر ہاتھ رکھتے سونے کی کوشش کی تھی جب کل رات کے بارے میں سوچتے اسے بے چینی ہونے لگی۔ 

("ہم کبھی آپکو نہیں چھوڑینگے آخری سانس تک آپکے ساتھ رہینگے ہم وعدہ کرتے ہیں"۔)

اسنے انکھوں سے ہاتھ اٹھاتے بے چینی سے کروٹ بدلی تھی ۔ 

("ک_کیا آپ بھلا نہیں سکتے جو بھی م_ماضی میں ہوا__ کیا آپ مجھ سے م_محبت ن_نہیں کرسکتے ؟؟")

ضرغام نے پھر کروٹ بدلتے بے چینی سے خود پر سے بلینکٹ ہٹایا تھا ۔ جب اسراء کمرے میں آئی ۔ 

وہ ضرغام کو بنا دیکھے سائیڈ پر رکھی ایک ٹیبل پر کتابیں رکھتی کرسی کھینچتے بیٹھ چکی تھی روم کی لائٹس آف تھی بس ایک لیمپ کی روشنی تھی اسلیئے وہ سمجھی کے ضرغام سو چکا ہے ۔ وہ اپنی ٹیبل کا سٹدی لیمپ آن کرتے پڑھنے بیٹھی تھی ۔

اسکے چہرے پر پڑتی ہلکی روشنی اسراء کے خوبصورت نقوش کو مزید حسین بنا رہی تھی ۔ 

اسکے کمرے میں آتے ہی ضرغام کو انجانا سا سکون ملا تھا وہ واپس لیٹتے اسے دیکھنے لگا جو اسے دیکھ نہیں سکی تھی۔ 

وہ خاموشی سے لیٹے لیٹے اسراء کو دیکھ رہا تھا جو بہت حسین تھی۔ اگر وہ اسے باربی ڈول کہتا تھا تو وہ واقعی کوئی مصنوعی گڑیا ہی تھی۔ جو ہرے رنگ کی آنکھوں میں کوئی پری لگتی تھی۔ 

ضرغام اسے مسکرا کر دیکھتے آنکھیں بند کرگیا تھا ۔ کچھ ہی لمحیں گزرے تھے جب ضرغام کا دماغ گھوما ۔ اسے کیوں اتنی بے چینی تھی سمجھ سے باہر تھا ۔ شاید وہ اسکے حصار میں نہیں تھی۔ 

جب سے وہ آئی تھی ضرغام اسے خود میں قید کر کے سوتا تھا لیکن آج وہ نہیں تھی تو ضرغام کی نیند نے بھی آنے سے صاف انکار کردیا تھا ۔

جھنجھلاتے ہوئے وہ اٹھ بیٹھا تھا ۔ 

__کیا کررہی ہو تم ؟__

ضرغام نے ماتھے پر بل ڈالے تھے ۔ جب اسکی آواز پر اسراء کی ہلکی سی چیخ نکلی وہ دل پر ہاتھ رکھے چہرا موڑ کر اسے دیکھنے لگی جو سرد نظروں سے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ 

__یہ جو تم بات بات پر چیختی ہو نا ۔ سخت زہر لگتی ہے مجھے یہ عادت__

ضرغام چڑچڑا ہورہا تھا ۔۔

__وہ ہم پڑھ رہے تھے ۔ کل پیپر ہے ہمارا ۔__اسراء اسکے بلاوجہ ڈانٹنے پر منہ بناتی ہوئی بولی تھی۔ 

__بس پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا ۔ یہاں آکر لیٹو ۔۔ __

ضرغام ہنوز سرد لہجہ میں بولا تھا ۔

اسراء انکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔ 

__مگر ہمارا پیپر ہے کل ۔ کچھ چیزیں دوہرانی ہے ہمیں__

__میں نے کہا نا بس پڑھ لیا جتنا پڑھنا تھا آکر لیٹو ۔ میں تمہیں پولیس میں بھرتی نہیں کروا رہا جو تمہیں ٹوپ کرنے کی پڑی ہے ۔ آکر لیٹو مجھے نیند آ رہی ہے __

اسکی بات سنتے پہلے تو اسراء کے ماتھے پر نا سمجھی سے بل پڑے لیکن پھر بات کو سمجھتے اسنے اپنی ہنسی دباتے سنجیدگی سے اسے دیکھا جو اسکے بغیر اب تک نہیں سویا تھا ۔ 

"آپکو نیند آرہی ہے تو آپ سو جائیں ۔ ہم اپکو رات بھر جاگنے کا تھوڑی کہہ رہے ہیں ۔ لیکن ہم رات بھر جاگ کر آج پڑھنے والے ہیں"۔

ضرغام نے انکھیں پھاڑ اسے گھورا تھا مطلب وہ پوری رات بیڈ پر نہیں آنے والی تھی یہ سوچتے ضرغام کے دماغ کا چھوٹا سا میٹر پھٹنے کو تیار ہوا۔

 وہ اٹھ کھڑا ہوا جب کے اسراء کتاب میں جھکی اسے اٹھتا ہوا نا دیکھ سکی ورنہ اسکے زمین پر قدم رکھنے سے پہلے وہ بستر پر ہوتی ۔ 

ضرغام اٹھتا اسکے سر پر پہنچا اور اسکی کتاب بند کرتے لیمپ آف کرتے اسے گود میں اٹھاگیا تھا کے اسراء کی انکھیں ابل کر باہر آنے کو ہوئی اچانک اسکی حرکت پر ۔ اور منہ سے بے ساختہ پھر چیخ نکلی جب ضرغام کی گھوری دیکھتے اسنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر جمائے جب کے آنکھیں اب تک پھٹی تھی۔ 

اسکے ری ایکشن دیکھ ضرغام کے ہونٹوں پر مسکان آنے کو مچلی تھی جسے وہ بڑی مہارت سے چھپا گیا تھا ۔

اسے لیتے وہ بستر کی طرف آیا تھا جبکہ اسراء شرم سے دوہری ہو رہی تھی ۔ ایک تو ضرغام کا ہر وقت شرٹ لیس ہونا اسے خفت میں مبتلا رکھتا تھا ۔ 

اسے بستر پر لٹاتے ضرغام نے کھڑے کھڑے سائیڈ ٹیبل سے گلاس اٹھاتے اس میں پانی بھرا تھا جبکہ نظریں اسراء کی آنکھوں میں گڑی تھی جو سیدھی لیٹی اسے ہی دیکھ رہی تھی پانی پیتے وقت بھی ضرغام نے نظریں اس پر سے نا ہٹائی جبکہ اسراء اسکا یہ انداز دیکھتے نا محسوس انداز میں تھوک نگلتے پرے کھسکی تھی ۔ 

ضرغام نے بائیں ہاتھ سے اپنے ہونٹ صاف کرتے بیڈ پر اپنا گھٹنا جمایا تھا ۔ 

اور ایک ہاتھ اسکے بائیں طرف رکھتے وہ اس پر جھکا تھا ۔ 

___محبت نا صحیح لیکن عادت بن کر بہت غلط کیا ہے تم نے باربی ڈول ۔ اب برداشت تو کرنا پڑہیگا__

 جب میں سونے کے لیئے لیٹوں تو بنا کسی چو چرا کے تمہیں بھی سونا ہوگا ۔ انڈرسٹینڈ ۔۔۔؟ ___

اسکی فضول سی منطق پر اسراء بنا کسی دوسری بات کے جلدی سے سر اثبات میں ہلاگئی جس پر ضرغام ون سائیڈڈ مسکراتا اسکے برابر لیٹ گیا ۔ 

اسے خود میں بھینچ کر ضرغام نے آخری لیمپ بھی بجھا دیا تھا اور اسے لیئے وہ کچھ ہی لمحوں میں گہری نیند سوگیا تھا جبکہ اسراء اسکے سخت ترین حصار میں کروٹ بھی بدل نا سکی ۔ 

-------❤️ حیا خان ❤️--------

فجر کا وقت تھا نرمین نے کبیر کے سنگ فجر کی نماز ادا کی اور اب سورۃ یاسین کی تلاوت کررہی تھی جبکہ کبیر اپنا پسندیدہ مشغلہ  نبھاتے اسکی گود میں سر رکھے انکھیں بند کیئے لیٹا ہوا اسکی خوبصورت آواز میں تلاوت سن رہا تھا جو اسکے رگ و پہ میں سکون کی لہر بن کر اتر رہی تھی ۔ 

تلاوت کرتے وہ قرآن پاک بند کرتے سائیڈ ٹیبل پر رکھ گئی تھی ۔ جب کبیر نے اپنی آنکھیں کھولے لیٹے لیٹے ہی اسے دیکھا۔ 

__تمہاری آواز میں تلاوت سننا میرے لیئے سب سے حسین لمحہ بن گیا ہے ان کچھ دنوں میں۔

 میں بھی تمہاری طرح قرآن پڑھنا چاہتا ہوں  دل کرتا ہے کے جب میں قرآن پڑھوں تو قرآن میرے دل میں اترے جیسے مومنین کے دل میں اترتا ہے ۔ میرا بھی دل کانپے ، میری روح بھی اپنے رب سے ملنے کے لیئے تڑپے ۔ میری بھی آنکھ سے انسو نکلے ۔

میں بھی جب قرآن کی تلاوات کروں تو اسکی حلاوت دلوں کو پگھلائیں ۔ جیسے تمہارے تلاوت کرنے سے میرا دل پگھلتا ہے ۔۔ اور میں بھی چنے ہوئے لوگوں میں سے ہوجاوُں ___

نرمین مسرور ہو کر اسکی باتیں سن رہی تھی اور اسے دیکھ رہی تھی جو بے شک حسین تھا اور اسکی باتیں اس سے بھی زیادہ پیاری ۔ نرمین نے اسکی آنکھوں میں چھپا آنسوں دیکھا تو اپنے انگلی سے اس نمی کو چن گئی ۔ 

__اللّٰہ نے آپکو چن لیا ہے ۔ اور یہ آنسو اس بات کا گواہ ہے جو اپنے رب سے محبت کی تڑپ میں آپکی آنکھوں میں بھرا ہے __

اسکی بات سنتے کبیر نے اسے دیکھا جو مسکرا رہی تھی ۔ 

__رب سے محبت کرنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے ۔ جب وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو ہمارے لیئے سارے راستے کھول دیتا ہے __

کبیر اسکی بات سنتے مسکرایا تھا واقعی اسکے لیئے اپنے رب کی طرف آنا اتنا بھی مشکل نہیں تھا جتنا اس نے سمجھ لیا تھا اور پھر آگے کے راستے اسنے نرمین جیسی ہمسفر اسکے نصیب میں لکھ کر آسان کردیئے تھے۔  

___تمہیں پتہ ہے پہلے مجھے لگتا تھا کے فجر سب سے مشکل ہے ۔ فجر میں کون اٹھتا ہوگا اپنی نیند چھوڑ کر نماز ادا کرتا ہوگا ۔ 

لیکن اب مجھے سمجھ آگیا ہے ۔ فجر کا مطلب محبت ہوتا ہے ۔ جیسے محبت بہت مشکل ہوتی ہے  ایسے ہی فجر کے وقت اٹھنا اور ادا کرنا مشکل ترین کام ہے ۔ محبت کرنا بھی ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے اور فجر پڑھنا بھی کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔ اور تم جب سے میری زندگی میں آئی ہو فجر ادا کرنا  میرے لیئے آسان ہوگئی ہے ۔ تم ایک بہترین ہمسفر ہو میری زندگی "___

اسکی اتنی خوبصورت باتیں سنتی نرمین مسکرائی تھی ۔ اس انسان کے اور کتنے روپ تھے جو اسے دیکھنے تھے ۔ وہ تو ہر روپ کمال رکھتا تھا ۔ وہ اس دیوانہ کی دیوانی ہوتی جا رہی تھی جو سب کچھ بھلائے اسکے رنگ میں رنگ رہا تھا جیسے چاہ رہی تھی ویسا بن رہا تھا ۔ اپنے رب کے قریب ہو رہا تھا اسکے دل کو سکون مل رہا تھا ۔ 

کبیر اٹھ بیٹھا تھا ۔ 

__میں تمہیں تھکا تو نہیں دیتا اس طرح لیٹ کر؟" ___

نرمین کا نرم ہاتھ تھامے وہ اسے سہلاتے ہوئے بول تھا کے وہ نیچے منہ کیئے نفی میں سر ہلا گئی ۔ اسکی تو ہر ادا ہی کمال تھی نظریں اٹھانا بھی اور جھکانا بھی ۔ 

__مجھے سکون ملتا ہے تمہارے ارد گرد رہتے ۔ تم سکون ہو Canım ___

کبیر اسکا ہاتھ چومتے ہوئے بولا تھا کے نرمین نم آنکھوں سے مسکرائی ۔ 

کبیر نے اسکی انکھیں دیکھتے جھٹکے سے اسے قریب کرتے ماتھے سے اپنا ماتھا ٹکایا۔ 

__تمہاری یہ خوبصورت نم آنکھیں اس بات کی گواہ ہیں کے تم بھی میری طرح محبت میں پور پور ڈوبی ہوئی ہو ۔ __

__لیکن میری جان اظہار ضروری ہے ۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کے میری سماعتوں سے جب وہ الفاظ گزرے گے تو کس طرح وہ میری روح میں جذب ہونگے ۔ کیا کیفیت ہوگی میرے دل کی جب تمہارے اظہار سے وہ پاگلوں کی طرح دھڑکے گا۔ میں اس کیفیت سے گزرنا چاہتا ہوں۔ __

کبیر اپنی رو میں بولتے اسے شدت سے خود میں بھینچ گیا تھا جب نرمین نے نم انکھوں سمیت اپنی ہمت باندھی تھی ۔ اگر اسکا محرم چاہتا تھا تو وہ اسے انتظار نہیں کرانا چاہتی تھی ۔ وہ اس سے محبت کرتی تھی ایسی محبت جس کی کہانی سنتے کبیر خانزادہ کے ہوش اڑ سکتے تھے ایسی کہانی جو اسکی روح کو جکڑ لیتی اگر وہ جان جاتا جس شدت سے وہ اسے چاہتا ہے اس سے دگنی شدت نرمین کی محبت میں ہے ۔ اور نرمین نے اب طے کیا تھا کے وہ یہ سکون اسے ضرور دے گی۔ 

انکھیں بند کرتی وہ اسکے سنگ گہری نیند میں چلی گئی تھی ۔۔ 

------❤️ حیا خان ❤️------

وہ کمرے میں بیٹھا کچھ کاغذات دیکھنے میں مصروف تھا۔ جب راحمہ کمرے میں آتی اسے دیکھتی اسکے برابر صوفے پر بیٹھی اور تھوڑی کے نیچے ہاتھ ٹکاتے اسے تکنے لگی۔ 

فردان نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور مسکراتا پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔ 

سنیں____"

راحمہ نے پیار سے کہا تو فردان چونکتے اسے دیکھنے لگا ۔ 

اتنا شیریں لہجہ اور وہ بھی راحمہ کا ؟

ہمم؟؟_" 

فردان نے صرف اتنا کہنے پر ہی اکتفا کیا ۔

آپ آج بہت اچھے لگ رہے ہیں __" 

 فردان نے ایک نظر خود کو دیکھا بلیک پولو شرٹ اور وائٹ ٹراوزر رف حلیہ میں اسنے ایسا تو کچھ نہیں پہنا تھا جو وہ اچھا لگے ۔ 

اور آپ کی شرٹ تو بہت اچھی لگ رہی ہے_"

اسکی بے تکی تعریفیں سن فردان کے دماغ میں گھنٹی بجنے لگی۔ 

بیگم آپ سیدھی سیدھی بات کرینگی تو یقیناً میں زیادہ شاکڈ نہیں ہونگا بلکہ ان جھوٹی تعریفوں کو سن کر میرا دماغ مجھے کوئی غلط سگنل دے رہا ہے ۔__"

فردان نے دل پر ہاتھ رکھتے کہا تو راحمہ کہ ٹون چینج ہوئی ۔ 

دماغ کیوں غلط سگنل دے رہا ہے ؟ ہم کیا  آپکو کوئی خرافاتی دماغ کے مالک لگتے ہیں؟__"

ہنہہ لگتی ہیں؟ نہیں میری جنگلی بلی آپ اسی دماغ کی مالک ہیں ___"

فردان نے مسکراتے ہوئے کہا تو راحمہ کی ہڈی میں آگ لگی ۔

دیکھیں آپ کی انہی باتوں کی وجہ سے ہم آپ سے پھر سے ناراض ہوجائینگے__"

راحمہ نے اسے وارن کیا۔

تو ہم آپکو پھر سے منا لینگے اسی طرح جس طرح کل منایا تھا۔ ___"

فردان نے اپنی مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تو راحمہ کا چہرہ غصہ اور خفت سے سرخ پڑا۔

اب کی بار ہم بلکل نہیں مانے گیں __"

راحمہ غصہ سے بولتی وہاں سے جانے لگی تو فردان نے اسکا ہاتھ پکڑتے واپس بٹھایا ۔ 

اچھا اچھا بولیں نا ہم سن رہے ہیں__"

نہیں اب ہمیں بتانا ہی نہیں ہے ہمارا موڈ خراب کردیا ہے آپ نے۔__"

راحمہ اب نخرے دکھانے لگی تھی فردان نے آنکھیں چھوٹی کرکے اسے دیکھا اور پھر اس کا ہاتھ چھوڑدیا ۔۔

ٹھیک ہے اپکی مرضی__"

وہ مسکراتا واپس اپنے کام میں لگ گیا راحمہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ کیا وہ اسے منانے نہیں والا تھا ۔ کیوں کے اس کے بقول نخرے تو صرف وہی دکھا سکتا ہے۔ 

منائیں ہمیں__" وہ حیرت سے اسے دیکھتی خود ہی بولی ۔۔فردان نے اپنی مسکراہٹ روکنے کی پوری کوشش کی تھی ۔

ہم نے کچھ کیا ہی نہیں جو ہم منائیں آپکو__"

فردان نے کندھے اچکائے تو راحمہ کی اب بس ہوئی وہ پھر اٹھ کر جانے لگی جب فردان نے اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اپنے حصار میں لیا ۔ 

بتائیں نا ہماری جنگلی بلی کو کیا بات کرنی ہے ہم سے ۔ آپکی ساری باتیں سر آنکھوں پہ ___" 

اسکے گالوں کو چومتے ہوئے بولا تو راحمہ سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھنے لگی اسکا موڈ اب واقعی خراب ہوچکا تھا ۔ 

کچھ نہیں__" 

اسنے بجھے دل اور بجھے چہرے سے کہا تو فردان کو برا لگا۔ 

ویسے میں نے اپکے لیئے ایک سرپرائز پلان کیا ہے۔۔ "

اسکی بات سنتے راحمہ کی آنکھیں چمکی ۔

ہم کشمیر جارہے ہیں ۔ ہنی مون پر ___"

وہ اسکے گال پر اپنی ناک ٹریس کرتا بولا تھا جب اسکی بات پر راحمہ اسکے حصار سے نکلتی اکسائیٹڈ ہوئے اسے دیکھنے لگی ۔ 

کیا واقعی ؟ ہم کشمیر جا رہے ہیں کب ؟؟؟__"

اسکے اچانک اٹھنے سے فردان نے منہ بنایا ۔ 

جی جی میری جان ہم جانتے ہیں اپکا بہت دل تھا نا کہیں جانے کا اور شادی کے بعد سے ہم اپکو کہیں لے کر بھی نہیں گئے تھے ____"

فردان نے محبت بھری نظروں سے اسے دیکھا تو راحمہ اپنی سابقہ جگہ بیٹھتی اسکا گال چوم گئی کے فردان ہکا بکا ہوگیا۔ 

آپ بہت اچھے ہیں ۔ بیسٹ ہسبینڈ ان تھ ورلڈ___"

وہ اسکے گلے لگتی اپنی اکسائٹمنٹ پر قابو نہیں پارہی تھی ۔ 

جب فردان نے اسے زور سے خود میں بھینچا۔ 

ہم جانتے ہیں کے ہم بہت اچھے ہسبینڈ ہیں بس ہمیں بیگم کچھ زیادہ ہی___ اہم میرا مطلب ہے خوبصورت ہیں___"

فردان راحمہ کی گھوری دیکھتے دیکھتے اپنا جملہ بدل گیا تھا ۔ کہی وہ پھر سے ناراض نا ہو جائے۔ 

جب وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور واپس اسکے ہاتھوں میں آنے سے پہلے ہی اپنی مورے اور باقی سب پر بم پھوڑنے چلی گئی ۔ پیچھے فردان نفی میں سر ہلاتا مسکراتا رہ گیا۔ 

پوری رات وہ ایسے ہی اسراء کے گرد سخت حصار بنائے سوتا رہا جبکہ وہ بس یونہی لیٹی جاگی سوئی سی کیفیت میں تھی ۔ فجر کی آذانوں کی آواز گونجی تو ضرغام کی آنکھ کھلی اور اپنے اتنے قریب اس نازک گڑیا کو دیکھا جو اسکے حصار میں دبکی سو رہی تھی ۔ چھوٹی سی ناک پر تل جگمگارہا تھا جو ضرغام کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا ۔  وہ بے خودی کے عالم میں جھکتا اسکی چھوٹی سی ناک کا بوسا لے گیا جس پر اسراء نے اسکی چبھتی داڑھی محسوس کرتے منہ بنایا تو ضرغام اسے دیکھ مسکرایا ۔ 

اب اسکے سامنے اسکی بیوٹی بون کا تل تھا جو اسے منہ چڑہا رہا تھا ۔ ضرغام نے ماتھے پر ایک بل ڈالا اور جھکتے اسے سرخ کرگیا تھا۔ جلن سے اسراء کی آنکھ کھلی تو اسے خود پر جھکا پا کر سانس روک گئی۔ 

ضرغام نے پیچھے ہٹتے اسے دیکھا جو سانس روکے پڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ 

_باربی ڈول ایک دن اسی وجہ سے تم اس فانی دنیا سے کوچ کر جاؤگی ۔ سانس لے لو__"

اسکی بات سنتے اسراء دھیمی دھیمی سانس لینے لگی جو ضرغام کو اپنے چہرے پر  محسوس ہورہی تھی ۔ وہ اسکے کان کے قریب جھکتے وہاں اپنے لب رکھتے وہی ٹہر گیا ۔ 

__میری زندگی کی وحشتوں میں واحد سکون ہو تم__

وہ آنکھیں بند کیئے سرگوشی نما آواز میں کہتے اسراء خانزادہ کو ساکت کرگیا تھا ۔ 

جبکہ وہ خود انکھیں بند کیئے بے خود سا ہو رہا تھا ۔ رات کے اس پہر جب باہوں میں نازک وجود ہو اور سب سے بڑھ کر محرم ہو تو ضرغام خانزادہ کیسے ہوش میں رہتا ۔ جبکہ اسراء تو اس جملہ کے بعد سے ساکت و جامد پڑی تھی۔ 

جب ضرغام مزید اس پر جھکتا کے اسراء ہڑبڑاتی ہوئی اسکے سینے پر ہاتھ رکھ گئی ۔ 

__ف_فجر ہوگئی ہے ۔ نماز پڑھ لیں __

اسکی بات اور سینے پر دھرے اسکے ہاتھ دیکھتے ضرغام ہوش میں آتے اٹھ بیٹھا ۔ اور ادھر ادھر دیکھتے خود کو کمپوز کرنے لگا ۔ 

جب اسراء اسکے اٹھتے سینے پر ہاتھ رکھتی لمبے لمبے سانس بھرنے لگی ۔ 

دل پسلیاں توڑتے باہر آنے کو تھا جبکہ ماتھے پر پسینہ جگمگا رہا تھا ۔ 

ضرغام کھڑا ہوتے وضو کرتے مسجد کے لیئے روانہ ہو گیا تھا جبکہ وہ بھی خود کو سمبھالتی اٹھ کھڑی ہوئی نماز پڑھتے ہی اسے دوہرانا بھی تھا جو ضرغام نے اسے کرنے نہیں دیا تھا۔ وہ نماز پڑھتے ہی کمرے سے بھاگ کر دوسرے کمرے میں جا چکی تھی کے ضرغام اب اسے مزید تنگ نا کرسکے۔ وہ دل پر ہاتھ رکھتی مسکراتی شرماتی اب کہاں توجہ دے پاتی کتابوں پر۔  

______❤️ حیا خان ❤️_______

کبیر اٹھتے ہی میٹنگ کے لیئے روانہ ہوچکا تھا ۔ نرمین کو دا جان نازو بیگم اور باقی سب کی یاد آنے لگی تو انہیں کال ملائی ۔۔ 

کیسی ہے ہماری بیٹی__"

داجان اسکی کال دیکھتے خوش ہوگئے تھے ۔ 

ہم ٹھیک ہیں دا جان آپ کیسے ہیں__؟"

نرمین نم آواز میں بولی ۔ پہلی بار ان سب سے دور آئی تھی اس کا دل عجیب ہونے لگا تھا۔ 

ہم بھی ٹھیک ہیں بیٹا بس اپکو اور کبیر کو بہت یاد کررہے ہیں__"

ہم بھی آپکو بہت یاد کررہے ہیں داجان"__

نرمین نے کہا تو دا جان ہولے سے مسکرائے ۔ 

نرمین بیٹا آپ خوش ہیں نا کبیر کے ساتھ ؟__"

داجان نے کسی خدشہ کے تحت پوچھا تھا کے نرمین مسکرائی انکی فکر پر۔ 

جی داجان ہم خوش ہیں بہت،

آپ ہماری فکر مت کیا کریں ۔ ایک شہزادے کے ہاتھ میں دیا ہے آپ نے ہمارا ہاتھ ۔ وہ ہمیں کبھی غم نہیں دیں گے۔___"

نرمین کبیر کا ذکر کرتے رشک سے بولی تھی کے اسکی باتوں سے داجان کے دل کو بے حد خوشی ہوئی وہ سکون میں آگئے تھے اب ۔ کے ان کمرے میں داخل ہوتے شاز اور فاز نے انہیں نرمین سے بات کرتے سنا تو بھاگے ہوئے انکے قریب پہنچے ۔ 

داجان آپ اپو سے بات کررہے ہیں نا ہماری بات بھی کروائیں ۔ ___"

وہ ایکسائیٹڈ ہوتے ہوئے بولے تھے کے نرمین انکی بے صبری پر دور بیٹھی مسکرائی۔ اور دا جان نے انکے ہاتھ میں فون دیا۔ 

اسلام علیکم اپو کیسی ہیں آپ ؟

کبیر لالا کیسے ہیں؟ __"

ہم ٹھیک ہیں اور اپکے لالا بھی بلکل ٹھیک ہیں ۔  آپ دونوں کیسے ہیں؟ ___"

ہم بھی ٹھیک ہیں__ اپو آپ ہمارے لیئے وہ سب لے کر آئینگی نا جسکی ہم نے لسٹ تیار کر کے دی تھی؟؟__" 

جی _جی ہم لے آئینگے سب آپ لوگ فکر نا کریں __"

نرمین نے انہیں تسلی دی۔ 

آپ گھومنے گئی تھی وہاں کیسا ہے وہ ملک؟__"

فاز کچھ زیادہ ہی اکسائیٹڈ تھا۔ 

نہیں ابھی کل تو ہم آئے ہیں یہاں ۔ ابھی خان  آجائیں اسکے بعد ہم جائینگے ۔"

اسکی بات سنتے فاز اور شاز اکسائیٹڈ ہونے لگے۔ 

راحمہ کیسی ہیں ؟ اور آپ لوگوں کی اسراء سے بات ہوئی وہ کیسی ہیں؟__"

_راحمہ آپی تو آج فردان لالا کے ساتھ روانہ ہوگئی ہیں کشمیر کتنے مزے ہیں انکے اور آپکے...  اور اسراء آپی ٹھیک ہونگی ۔ وہ فون ہی نہیں کرتی نا ملنے آتی ہیں ۔ اتنی یاد آتی ہے انکی۔_"

شاز پہلے تو احسرت واور پھر اداسی سے بولا تو نرمین خاموش ہوئی راحمہ کے لیئے وہ خوش تھی جبکہاسراء کے لیئے اسکا دل نہیں مان رہا تھا کے کچھ صحیح ہے۔ 

_چلیں ٹھیک ہیں ہم انہیں کال کرلیں گے آپ لوگ اپنا خیال رکھے گا__"

وہ فون رکھتی اپنی سوچوں میں گم ہوگئی تھی ۔ ذہن کی ساری ڈوریاں اسراء سے جڑی تھی وہ اسکی بہنوں کی طرح تھی بچپن سے اسکے ساتھ رہی تھی اور جانے انجانے میں وہ اسراء کے ساتھ نا انصافی کرگئی تھی۔  اسکا دل اچانک بھر آیا تھا یہ سوچتے ۔ وہ ایک بار تسلی کرنا چاہتی تھی اسراء سے بات کرتے ۔

پورا دن اس متعلق سوچتے پریشانی کے سنگ اسنے گزار دیا تھا۔ 

کے اچانک دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی ۔ 

وہ پلٹی تو کبیر وائٹ شرٹ پہنے اپری دو بٹن کھلے تھے ۔ رائل بلو کلر پینٹ پہنے اور کوٹ ہاتھ میں ڈالے نرمین کو نرم مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتا حسین مردوں میں سے ایک لگا تھا اسے ۔

_کیسی ہیں canım__"

مسکرا کر وہ اسے بانہوں میں لیتا سکون اپنے اندر انڈیلتا محسوس کررہا تھا ۔ 

_ہم ٹھیک ہیں_ اپکا دن کیسا گزرا ؟؟ تھکے ہوئے لگ رہے ہیں کافی _"

نرمین نے اسکے کالر کو ٹھیک کرتے مسکرا کر پوچھا تو کبیر نے جانثار نظروں سے اسے دیکھا ۔ 

_تمہیں دیکھ کر ساری تھکاوٹ اترجاتی ہے میری زندگی ۔ اور تمہیں بانہوں میں لے کر بے حد سکون جسم و جان میں اترتا ہے __"

اچھا آپ جائیں فریش ہوجائیں ہم آپکے لیئے کھانا لگا دیتے ہیں بھوک لگی ہوگی نا__"

وہ اس سے پوچھ کم بتا زیادہ رہی تھی کے کبیر نے اسکی انکھوں میں دیکھتے اثبات میں سر ہلاتے بھاری آواز میں کہا۔ 

بھوک تو بہت زیادہ لگی ہے تم ہی اس بھوک کو مٹا سکتی ہو تو کرلو جلدی سے اہتمام__"

کبیر کی آنکھوں میں عجیب سی تپش تھی اسکے الفاظوں کے پیچھے چھپی معنی خیزی سمجھتے گھبراہٹ کے سنگ نظریں جھکاتے نرمین نے کسمسا کر دور ہونا چاہا ۔ 

جب کبیر اسکا کسمسانا محسوس کرتے آسودہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے اپنے حصار سے آزاد کرتا پلٹ کر اپنے کمرے میں چلا گیا۔

 پیچھے نرمین اسکے رویہ میں عجیب خالی پن محسوس کرتی کچن کی طرف چلی گئی تھی اب اسے جلد سے جلد اپنی نئی زندگی کے بارے میں سوچنا تھا وہ ایسے ہی سب کچھ صحیح اپنی وجہ سے خراب نہیں کرسکتی تھی۔ 

------❤️ حیا خان ❤️-------

ضرغام کمرے میں تھا تھکا ہارا جب وہ لوٹا تو اسے اسراء کہی نظر نا آئی ۔ ماتھے پر تیوری سجاتا وہ فریش ہونے کے خاطر واشروم میں جا بند ہوا۔ 

اسے آئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن وہ وہاں نہیں آئی ۔ ضرغام کا دماغ گھوما تھا وہ نیچے آیا پورا لاونچ دیکھا لیکن وہ کہی نا تھی ۔ اپنی ماں کے روم میں جھانکا تو وہ وہاں بیٹھی کوئی کہانیاں سنا رہی تھی جس پر وہ دونوں مل کر ٹھٹہہ مار رہی تھی ۔ کے ضرغام کو دیکھ خاموش ہوئی ۔ 

__ارے ضر بیٹا آپ آگئے__

اسمارہ بیگم نے بولا لیکن وہ انکھوں میں غصہ کی تپش اور بے صبری لیئے اسراء کو دیکھ رہا تھا جس نے اسے دیکھ تھوک نگلتے با مشکل مسکرانے کی کوشش کی تھی۔ 

__جی مورے ایک گھنٹے سے آیا ہوا ہوں روم میں تھا__

وہ ایک نظر اسمارہ بیگم کو دیکھتا دوبارہ اپنی نظروں کا رخ اسکی طرف کر گیا تھا جو ناسمجھی کے تاثرات لیئے بیٹھی تھی ۔ 

_ارے بیٹا آپ آج اتنی جلدی آگئے تھے تو ملازمہ کو بھیج کر ہمیں بتا دیتے ہم تو ساس بہو کافی دیر سے بیٹھے باتیں کررہے تھے ۔ آج اسراء  کا امتحان تھا نا ۔ تو تب سے آئی سو رہی تھی جیسے پوری رات پڑھ پڑھ کر گزاردی ہو ۔__

اسمارہ بیگم نے ضرغام سے کہا تو وہ ایک آئیبرو اٹھاتا اسراء کی طرف دیکھنے لگا۔ 

__لیکن تم نے تو رات کافی اچھی نیند پوری کی تھی نا پھر اتنی نیند کیوں آرہی تھی__

چہرے پر سنجیدگی جبکہ آنکھوں میں شوخی ناچ رہی تھی۔ 

__و_وہ پھپھو جانی ۔ ہمیشہ امتحان دینے کے بعد ہم ایسے ہی گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں __

جبراً مسکراتی وہ اسمارہ بیگم کو دیکھتی بولی جبکہ خود پر نگاہوں کی تپش با آسانی محسوس کر سکتی تھی ۔ 

__اچھا بیٹا آپ جائیں ضرغام کو کھانے کا پوچھے اور آرام کریں__"

وہ اسکی باتوں پر مسکراتی کہنے لگی تو ضرغام کمرے سے نکلتا اپنے روم میں چلا گیا جبکہ پیچھے اسراء پریشانی کے تاثرات سجائے کھانے کی ٹرے تیار کرنے لگی۔ اسے کل سے ضرغام کی حرکات اور نظریں بہت بدلی بدلی لگ رہی تھی جس کے باعث اسکا دل گھبرا رہا تھا اس کے پاس جانے سے ۔

کھانا گرم کرتی وہ اوپر گئی تو ضرغام ونڈو کے قریب کھڑا کال پر مصروف تھا ۔ 

کھانا رکھتی وہ کتابیں اٹھاتی وہاں سے جانے کی تیاری میں تھی جب ضرغام کی آواز نے اس کے قدم جکڑے ۔ 

یہیں رکو__!!

فون ابھی تک کان سے لگا تھا ۔ لیکن سنجیدہ سپاٹ نظریں اسکی پشت پر ٹکی تھی۔ 

وہ وہی کھڑی رہی لیکن پلٹی نہیں۔ ضرغام الوداعی الفاظ ادا کرتا قریب آیا ایک نظر کھانے کو دیکھتا ۔ وہ اسکے کان کے قریب جھکا ۔

کل رات تمہیں نیند نہیں آئی ؟__"

اسکی سانسوں کی دھیمی تپش آگ کی مانند اسراء کو محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ ساکت و جامد کھڑی رہی ۔ 

ن_نہیں میں سوگئی تھی-بس وہ زیادہ نیند آرہی ہے نا آج کل تو میں پھر سوگئی تھی۔"

وہ خود پر قابو پاتے بنا پلٹے بولی تھی ۔ 

ضرغام نے کمر کے گرد ہاتھ حصار بناتے اسکی پشت کو اپنے سینے سے جوڑا۔ تو اسراء کی دھڑکنوں نے سپیڈ پکڑی۔ 

جلدی سے فری ہوکر آؤ ۔ میں بھی سکون کی نیند چاہتا ہوں__"

اسراء کے دھڑکتا دل اب پسلیاں توڑنے لگا تھا کل رات کا منظر یاد کرتے چہرا سرخ سے سرخ ہوتا جا رہا تھا کے وہ اپنی بڑھتی دھڑکنوں کے زور سے تنگ آتے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ جماتے ہٹانے کی تگ و دو کرنے لگی۔ 

ہم_ہمیں پڑھنا ہے ضر_ کل بھی ہم صحیح سے پڑھ نہیں س_سکے تھے__"

وہ ہانپتی کانپتی آواز کے سنگ اپنا جملا مکمل کرتی ضرغام کے خون کو آگ کی تپش میں جلا رہی تھی۔ 

اسنے اسراء کے گرد حصار مضبوط کرتے جنونی انداز اپناتے  اسکے کان پر لب رکھے تھے ۔ 

__کتنی مرتبہ کہا ہے کے ضرغام خانزادہ کی بات سے انکار نہیں کیا کرو ۔ مجھے مجبور مت کرو کے میں تمہاری پڑھائی چھڑواتے تمہیں یہی اس کمرے میں قید کرلوں__"

اسکی گہری بھاری تپش زدہ آواز اور مہکتی سانسوں کا احساس اسراء کے رونگٹے کھڑے کر گیا تھا ۔ 

وہ گھبراہٹ کے سنگ کسمساتی گہری گہری سانسیں بھرنے لگی جیسے سانس اب بند ہو رہا ہو۔ ضرغام نے ایک جھٹکے میں اسکا رخ بدلتے اپنی طرف کیا تھا ۔ بلا کے خوبرو چہرے پر سنجیدہ تاثرات تھے جبکہ اپنی گہری گفتگو کے سنگ وہ اسراء کی حالت خراب کرگیا تھا ۔ 

__میرے قریب آتے ہی تمہاری سانسیں بند ہونے لگتی ہیں اور دعوے تم اتنے بڑے بڑے کرتی ہو جیسے محبت میں سر میرے قدموں میں رکھ دوگی__"

اسکی گہری سانسوں پر وہ تمسخر اڑاتا اسکے کپکپاتے وجود اور گہری سانسوں پر چوٹ کرگیا تھا ۔

_فلحال تو تمہیں اجازت ہے جتنی مرضی سکون کی سانسیں لینی ہے لے لو ۔ لیکن جس دن ضرغام خانزادہ کا میٹر گھوم گیا اور اس نے  ٹھان لی اس دن نا تمہارے اس کپکپاتے وجود کی فکر کرونگا اور نا ہی ان سانسوں کے بند ہونے کا مجھے ڈر ہوگا جو میری قربت میں آخری گنتی گن نے لگتی ہیں __"

اس کی باتوں کے سبب اسکی گردن میں پہنی باریک سلور  چین پر اسراء کی نظریں ٹکی تھی اور چہرہ اسکی لفظوں کے پیچھے چھپی معنی خیزی کو دیکھتے سرخ ہورہا تھا ۔ ضرغام ایک سائیڈ سے مسکراتا اسے آزاد کرتا کھانے کی طرف متوجہ ہوا تھا۔ 

جبکہ اسراء اسکے چھوڑتے ہی واشروم میں بند ہوتی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی تھی۔ 

_یہ _یہ ڈریگن خانزادہ کو کیا ہوگیا ہے ۔ یہ کیوں میری جان نکالنا چاہ رہے ہیں اس سا اچھا تو یہ پہلے تھے جب منہ سے آگ نکالتے تھے لیکن اب تو یہ میرا سانس لینا بھی مشکل کررہے ہیں__"

روہانسی شکل بناتے اپنے دل کو قابو کرتی وہ خود ہی خود بڑبڑا رہی تھی جس سے ضرغام کا یہ انداز برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔ 

اور ضرغام باہر بیٹھا اطمینان سے ایسے کھانے کی طرف متوجہ ہوا تھا جیسے اسنے کچھ کیا ہی نا ہو۔  اسے اسراء کے نزدیک کچھ یاد نہیں تھا نا ہی یہ کے وہ کبیر کی بہن ہے اور نا ہی یہ کے وہ کسی اور سے محبت کا دعویدار ہے۔ اسے صرف اتنا یاد تھا کے اسراء اسکی محرم تھی اسکے پاس تھی اسکی وحشتوں کو خود میں چھپا لیتی تھی اسے  بانہوں میں لے کر سکون مہیا کرتی تھی اسکے اندر لگی آگ کو اپنے قرب سے بجھا دیتی تھی اور اس سب میں وہ ہر چیز بھولتا خود کو جانے انجانے میں اسکا عادی بنا رہا تھا ۔ جو آگے جاکر اس پر کس حد تک اثر انداز ہوگا اور کس حد تک جان لیوا ہوجائے گا اس سب سے پرے وہ اپنا سکون اس میں تلاش کرتا اس میں مشغول ہو رہا تھا۔

دن تیزی سے گزر رہے تھے پاکستان جانے میں بس دو دن باقی تھے اور کبیر بے انتہا مصروف ہو چکا تھا ڈیل حاصل کرنے کے بعد اسنے پروجیکٹ پر تیاری شروع کردی تھی جس کی وجہ سے وہ اکثر گھر لیٹ آرہا تھا اور نرمین کو یہاں لاکر وہ شرمندہ تھا کے اسے اپنا وقت نہیں دے پارہا تھا ۔ لیکن وہ لڑکی تو اس سے کوئی شکایت نہیں کر رہی تھی الٹا اس کے لیئے دیر تک جاگتی انتظار کرتی اور سارا دن بھوکی رہتی اسکے ساتھ کھاتی اسکا پورا خیال رکھتی کبیر کے دل میں اس لڑکی کے لیئے بے انتہا محبت بڑھتی جارہی تھی ۔ اور اب ان دو دنوں میں وہ سارا وقت اسے دینا چاہتا تھا۔ صبح اٹھتے وہ اسے اپنے ساتھ لے نکلا تھا ۔ 

 پورا دن استنبول جیسے خوبصورت شہر نرمین کو دکھاتے اب رات کے وقت وہ ایک اچھے سے ہوٹل میں اسے ڈنر کے لیئے لایا تھا ۔

کیسا لگا تمہیں میرا شہر__"

کبیر اسکا ہاتھ پکڑتے اپنے انگوٹھے سے اسکے ہاتھ کی پشت کو سہلانے لگا۔ سفید رنگ کے عبائے میں وہ سار تا پیر ڈھکی تھی چہرے پر خوبصورت طریقہ سے حجاب کرتے وہ اسکے سامنے بیٹھی تھی۔

ڈھکی چھپی اپنے حسن کو سات پردوں میں چھپا کر رکھتی وہ کبیر خانزادہ کے دل میں اپنا مقام بلند کر گئی تھی ۔ وہ انکھوں میں دنیا جہاں کی محبت سموئے اسے دیکھ رہا تھا ۔اسے لگتا تھا ساری جہاں کی عزت کی حقدار اس کے سامنے بیٹھی اسکی بیوی تھی۔ 

بہت خوبصورت ہے_ اور اسلیئے زیادہ خوبصورت ہے کیونکہ یہاں آپ ہمارے ساتھ ہیں_"

وہ اسکی محبت کا جواب محبت سے دیتی کبیر کو خود پر رشک کرا گئی تھی ۔ 

نرمین کے ملنے سے پہلے جو اسکی ذات میں غرور تھا لوگوں کو نیچا دکھانا اپنے سے کم تر سمجھنا وہ غرور اور تکبر اب کہی ملنے سے نا ملتا ۔ بلکہ اب تو وہ خود کی ذات پر رشک کرنے لگا تھا کے اسکی زندگی میں نرمین خانزادہ تھی ۔ وہ خود کو اسکے لائق نہیں سمجھتا تھا لیکن اسکے رب نے اسے اتنے حسین بندی سے نوازا تھا کے وہ ساری زندگی شکر میں گزارتا ۔ 

میرا ساتھ تمہیں ہمیشہ میسر رہے گا ۔ اور اپنی آخری سانس تک تم سے بے تہاشہ محبت کرتا رہونگا__"

وہ ایک سرور میں کہتا نرمین کا ہاتھ چوم گیا تھا ۔ اسکی باتوں سے جھینپتی وہ اسکی حرکت پر ارد گرد دیکھتی ہڑبڑا گئی تھی۔۔ اسکی ہڑبڑاہٹ پر مسکراتے کبیر  نے اسکا ہاتھ چھوڑ دیا تھا۔ 

ہیلو ہینڈسم__"

ایک جانی انجانی نسوانی آواز پر ان دونوں نے سر اٹھایا جہاں ایک لڑکی انکی ٹیبل سے لگ کر کھڑی انہی کو دیکھ رہی تھی۔ کبیر اسے غور سے دیکھتا اچھی طرح پہچان گیا تھا کے وہ کون تھی ۔ چہرے پر پہلے جو نرم اور محبت بھرے تاثرات تھے وہ اب سخت ہو چکے تھے ۔ وہ ہر گز بھی نرمین کے سامنے ایسا کوئی سین نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔ لیکن سامنے کھڑی لڑکی ڈھیٹوں کی سردار ثابت ہوئی تھی جو اسکے سخت تاثرات دیکھتی مسکراتی اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

پہچانا مجھے ؟ میں لیلہٰ تمہاری دوست farewell party میں ہماری حسین ملاقات ہوئی تھی؟__"

یہ وہی لڑکی تھیں جو اس پارٹی کی رات کبیر کے قریب آنے کی کوشش کررہی تھی لیکن جس انداز میں کبیر نے اسے جھڑکا تھا وہ بھولی نہیں تھی اور آج کبیر خانزادہ کو سامنے دیکھتی اسے وہی بے عزتی سرے سے محسوس ہوئی تھی ۔ کبیر کے سامنے بیٹھی لڑکی کا ہاتھ وہ جس محبت سے پکڑ کر چوم گیا تھا اس سے اندازا ہوگیا تھا کے وہ لڑکی کبیر کی زندگی میں کیا اہمیت رکھتی ہے ۔ ورنہ کبیر خانزادہ  اور لڑکیوں کو محبت بھری نظر سے دیکھ لے ۔ کوئی نہیں مان سکتا تھا۔ 

نرمین اس لڑکی کو دیکھنے لگی جو گھٹنوں تک آتی فراک پہنے برہنہ سینے اور برہنہ ٹانگوں کے ساتھ یہاں سکون سے کھڑی تھی اسکا لباس دیکھتے نرمین کو اس سے شرم آئی تھی اور وہ اتنے آرام سے کھڑی دس مردانہ نگاہوں کا منظر بنی ہوئی تھی۔ 

پھر اسنے کبیر کی طرف دیکھا جو سخت نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ معاملہ نرمین کی سمجھ سے باہر تھا۔ 

اسکے لفظ حسین ملاقات پر کبیر تمسخرانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسکا مذاق اڑا گیا تھا۔ 

حسین ملاقات ؟ ہمم اچھی طرح یاد ہے مجھے تمہارا مجھ پر جان بوجھ کر پھسلنا اور میرا تمہیں دور جھٹکنا اور تمہیں تمہاری اوقات یاد دلانا__"

کبیر کے الفاظ سنتے سامنے کھڑی لیلہٰ کا اہانت سے چہرا سرخ ہوا تھا ۔ 

ہنہہ اس بہن جی جیسی لڑکی کے لیئے تم نے میرے حسن کو اور میرے جیسے کئی حسین چہروں کو ٹھکرایا ؟ سیریسلی کبیر خانزادہ ۔ مجھے افسوس ہے تمہاری ایسی گری ہوئی چوائس دیکھ____"

وہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لیتے کبیر خانزادہ کی ہڈی میں آگ لگا گئی تھی۔ اسکا جملہ ابھی مکمل بھی نا ہوا تھا جب کبیر نے سامنے پانی سے بھرا گلاس اٹھاتے سارا پانی اسکے منہ پر اچھالا تھا کے آس پاس کے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوگئے تھے ۔ 

نرمین جو خاموش سپاٹ انداز میں بیٹھی اسکی گوہر افشانیاں سن رہی تھی کبیر کی اچانک حرکت سے وہ بھی بوکھلا گئی تھی۔۔ ایک تو اس انسان کا غصہ۔۔۔۔ وہ نفی میں سر ہلاتی اس لڑکی کو دیکھنے لگی جس پر شرمندگی کا گڑھوں پانی آگرا تھا۔

_کیوں ہر بار اپنی اوقات کا پتہ پوچھنے میرے سامنے آ کھڑی ہوتی ہو ؟ تمہیں سمجھ نہیں آتا مجھے تمہارے اس دو کلو کے میک اپ اور تمہاری اس آدھی ادھوری  ڈریسنگ میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے ؟؟ اسلیئے اپنا یہ دھلا ہوا منہ لے کر یہاں سے دفعہ ہو جاؤ اس سے پہلے میں کچھ ایسا کر جاؤں کے تمہیں یہیں شرمندگی سے دفن ہونا پڑھے__"

خود پر سے قابو کھوتا وہ دبی دبی آواز میں دھاڑا تھا کے آس پاس کے کئی لوگ خاموش ساکت ہوگئے تھے اور باقی لوگوں کی دبی دبی مسکراہٹ کی آوازیں لیلہٰ کے کانوں میں پڑتی اسے واقعی زمین میں دفن کر گئی تھی ۔ 

کبیر خانزادہ میں تمہیں چھوڑونگی نہیں____"

لیلہٰ ہلکی آواز میں بولتی نم انکھوں سے اسے دیکھتی بولی تھی کے کبیر پھر طنزیہ مسکراتا گیٹ کی طرف اشارہ کرگیا تھا ۔ 

وہ بھاگتی ہوئی وہاں سے نکلی تھی جبکہ کبیر کا خون کھول چکا تھا نرمین کے سامنے یہ سب ہوتے دیکھ ۔ اسنے آنکھیں بند کر کے کھولی تھی جیسے خود پر بے تہاشہ ضبط کیا ہو ۔ کیونکہ نرمین کے ساتھ وہ غصیلی آواز و انداز میں بات کرنا اپنی محبت کی توہین سمجھتا تھا۔ خود کو کمپوز کرتے وہ بیٹھا تو نرمین آنکھیں پھاڑے اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔ اسکی ساکت آنکھوں کا مطلب سمجھتے کبیر کا دل گھبرایا تھا ۔ 

ن_نرمین ا_ایسا نہیں ہے_کچھ___" 

ٹوٹے الفاظ دھڑکتا دل  عجیب کیفیت تھی ۔ وہ خود سے بد گمان اسے برداشت نہیں کرسکتا تھا ۔ 

ہمیں گھر چلنا چاہیئے__"

آہستہ آواز میں کہتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھتے کبیر بھی اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ 

ٹھیک ہے__" 

سر اثبات میں ہلاتا وہ دونوں گھر کو روانہ ہوگئے تھے ۔۔۔

_____❤️ حیا خان ❤️_______

کبیر گھر میں داخل ہوتے نرمین کی طرف دیکھنے لگا جو خاموشی سے اپنا عبایا اتارنے میں مصروف تھی ۔ پورے راستہ گاڑی میں ان دونوں کے بیچ خاموشی تھی ۔ نا نرمین نے کچھ کہا نا کبیر نے جبکہ کبیر کے دماغ میں بس یہی چل رہا تھا کے نرمین اسکے بارے میں کچھ غلط اخذ نا کرلے۔ 

وہ اپنا عبایا رکھتے فریش ہونے چلی گئی پیچھے کبیر اسکا انتظار کرتے پورے روم میں یہاں سے وہاں واک کرنے لگا۔ کچھ دن پہلے جس کٹہرے میں اس نے نرمین کو کھڑا کیا تھا آج اسی کٹہرے میں وہ خود کھڑا تھا ۔ صحیح ہوتے ہوئے اپنی بات کی وضاحت دینا اپنی بات کا یقین دلانا اس انسان کو جس سے آپ اتنی محبت کرتے ہو کے اسے خود سے ایک منٹ کے لیئے بد گمان نہیں کرسکتے کتنا تکلیف دہ تھا اسے آج پتہ چل رہا تھا ۔

وہ باہر آئی تو کبیر کو ایسے پریشانی میں ٹہلتے دیکھ اسکے ماتھے پر بھی بل پڑے ۔ 

کیا ہوا۔ ؟ آپ پریشان ہیں؟__"

وہ اسکے پاس آتی پریشانی سے پوچھنے لگی ۔

کبیر نے اسکا ہاتھ تھامتے اسے بستر پر بٹھایا جب کے خود وہ اسکے سامنے زمین پر گھنٹے ٹیکتا اس کی آنکھوں میں یکھتے گہرا سانس بھرتے ہوئے بولا۔ 

تمہیں ایسا لگتا ہوگا نا کے میں باہر رہا ہوں تو میری بہت گرل فرینڈز رہی ہونگی میں بہت شوخ مزاج ہونگا یا باہر رہنے والے آوارہ مردوں کی طرح ہونگا ؟___"

وہ اسکی انکھوں میں دیکھتے پوچھ رہا تھا جبکہ نرمین اسکی عجیب و غریب باتوں کو سنتی اسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔ 

لیکن ایسا_ایسا ہرگز بھی نہیں ہے ۔ میں تمہیں اپنے دوستوں سے ملوانگا ۔ تم ان سے پوچھنا وہ پورے نو سال میرے ساتھ رہے ہیں ۔ میں نے کبھی کسی لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا ۔ کیونکہ مجھے نہیں پسند وہ مرد جو نامحرم عورتوں کو سراہتے ہیں ۔ مجھے شروع سے نہیں پسند تھے وہ ناجائز رشتے جن میں گھل کر لوگ اپنی ساری حدیں بھول جاتے ہیں۔ میں کبھی اپنی زندگی میں اس مصنوعی خوبصورتی کی طرف اٹریکٹ نہیں ہوا ۔ تم سمجھ رہی ہو نا میری بات؟__" 

میں کبھی نہیں جانتا تھا کے میری شریک حیات کیسی ہوگی کیسی نہیں۔ لیکن میرا دل کبھی ان چیزوں کی طرف مائل نہیں ہوا ۔ میں نے کبھی محبت بھری نظر بھی کسی کی طرف نہیں ڈالی ۔ لیکن میرا رب جانتا تھا کے اسںے تمہیں لکھنا ہے میرے نصیب میں تبھی تو میں ایسا تھا ۔ تم اس دن قرآن پاک میں پڑھ رہی تھی نا کے جیسا مرد ہوتا ہے اسے ویسی ہی عورت ملتی ہے۔ صرف ایک یہی بات ہے جس پر  میرا دل یقین کرلیتا ہے کے تم میری ہی تھیں میری ہی ہو اور میرے لیئے ہی لکھی گئی ہو___"

وہ اسکے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھامے بے صبری سے اسے ساری حقیقت سے آگاہ کررہا تھا اور وہ بت بنی بیٹھی اسکی باتیں سن رہی تھی ۔ جسے پہلے پہل تو اسکی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھی لیکن آخر تک اسکی باتیں سنتے نرمین کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا تھا ۔ 

_تم کبیر خانزادہ کی ہی تھیں ۔ اور ہمیشہ اسی کی رہوگی__" 

وہ اسکا ہاتھ جذب کے عالم میں چومتا اسے محبت میں اعلیٰ مقام دے گیا تھا ۔ لوگ صرف باتیں کرتے ہیں لیکن اسکا بس نا چلتا تو وہ اسے واقعی سر آنکھوں پر بٹھا لیتا ۔ 

نرمین نم آنکھوں سے مسکراتی پیار بھری نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو ابھی تک نرمین کے ہاتھوں پر بوسا دیتے وہہی ٹہرا ہوا تھا جیسے کوئی بہت قیمتی چیز اسکے ہاتھ میں ہو اور وہ کوئی چھوٹا بچا ہو جسے کھونے کا ڈر ہو۔ 

_پہلے تو آپ یہاں سے اٹھیں__"

 وہ اپنا ہاتھ نرمی سے چھڑواتی اسکے کندھے تھامتے اسے اپنے برابر میں بٹھا گئی تھی ۔ اور خود اسکے قدموں میں بیٹھ گئی تھی کبیر اسے ایسا کرتے دیکھ بوکھلاتے کھڑا ہونے لگا جب نرمین نےمسکراتے سر اور آنکھوں کے اشارے سے اسے منع کیا ۔

سب سے پہلی بات آئیندہ آپ ایسے نہیں بیٹھیں گے ۔ آپکا مقام یہاں نہیں ہے__"

وہ زمین کی طرف اشارہ کرتی نرم انداز میں کہتی اسے بہت پیاری لگی تھی۔ 

اسکا دل تو نرمین کے اتنے حق سے اسے بٹھانے پر اور منع کرنے پر ہی اچھلنے لگا تھا کے وہ سانس کا گہرا گھونٹ بھرتے دلچسپی سے اسے دیکھنے لگا۔ 

آپکا مقام یہاں ہے__"

 وہ اسکا ہاتھ تھامتی اپنے دل کے مقام پر رکھتی کبیر کی سانسوں کی رفتار بڑھا گئی تھی۔البتہ نظریں نیچے تھی اور کبیر ساکت تھا۔ 

پھر وہ اسکا ہاتھ خود سے دور کرتی اپنے دونوں ہاتھوں میں تھامتی اسے دیکھنے لگی ۔

آپکو لگتا ہے کے ہم آپ سے ناراض ہیں کچھ دیر پہلے ہوئی حرکت پر؟___"

کچیر خاموشی سے اثبات میں سر ہلا گیا۔ 

ایسا نہیں ہے ۔ آپکو اتنی صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں آپ پر پورا بھروسا ہے اور اس بھروسے کو مضبوط رکھنے کے لیئے ہمیں کسی قسم کی صفائی کی ضرورت نہیں ہے۔__"

کبیر خاموش تھا اور وہ اسکے اگلے الفاظوں کے انتظار میں بیٹھی تھی ۔

تمہیں برا نہیں لگا؟__"

کبیر اسکا نرم مسکراہٹ سے سجا چہرا دیکھتے کہنے لگا۔۔ 

نہیں ہمیں بلکل برا نہیں لگا۔ لیکن آپکو اس سے اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیئے تھی ۔ اسے برا لگا ہوگا___"

اسکی باتیں سنتا کبیر یک دم ہنس پڑا ۔ 

تمہیں اسکی پڑی ہے اور یہاں میں پریشان ہورہا تھا اتنا___"

تو نرمین اسے پیار بھری نظر سے دیکھنے لگی اور اسکے گھٹنوں پر اپنا ہاتھ رکھتی اس پر تھوڑی ٹکا گئی۔ 

کبیر مسکرا کر اسے دیکھنے لگا وہ واقعی اسکی محبت میں لاڈلی ہوتی جا رہی تھی اسکی اور وہ اسکا اسیر۔ 

اب ہمیں بھوک لگ رہی ہے ۔ وہاں ہم نے کھانا نہیں کھایا تھا__" 

وہ معصوم شکل بناتی کبیر کو کہنے لگی تو وہ اسے جھٹکے سے کھڑا کرتا گود میں اٹھا گیا تھا کے نرمین گھبرا گئی۔ 

وہ اسے اٹھائے چار کرسیوں سے سجی ڈائیننگ ٹیبل پر بٹھاگیا تو وہ شرماتی ہوئی کھلکھلائی ۔ 

کیا کھائینگی محترمہ بتائیں مجھے؟___"

وہ اسکے ارد گرد ہاتھ جماتا اسکے خوبصورت چہرے کے نقوش کو گہری نظروں سے دیکھنے لگا۔ 

وہ حیا کے رنگ چہرے پر سجائے چہرا جھکا گئی۔

"آپ بنائینگے ؟__"

یس میں بناونگا اپنی جان کے لیئے___"

نہیں آپ نہیں_ہم بنا لینگے__"

نرمین پریشانی سے کہتی اٹھنے لگی لیکن وہ پہچھے نا ہٹا۔ 

میں نے کہا نا میں بنا لونگا۔ تم سے پہلے میں اکیلا تھا یہاں ۔ اور خود سب بناتا تھا

وہ کہتا پیچھے ہٹا اور سینڈوچز بنانے کی تیاری کرنے لگا۔ اور وہ مگن ہوتی اس خوبصورت انسان کو دیکھنے لگی ۔ 

وہ اسے کام میں مگن دیکھتی جلدی سے اٹھتی اپنے کمرے میں گئی اور الماری کھولتی اس میں سے خوبصورت سا لال رنگ کا جوڑا نکالا اور جلدی سے چینج کرتی خود کو آئینہ میں دیکھنے لگی۔ 

وہ تو ایسے ہی اتنی پیاری تھی میک اپ کی ضرورت نا تھی لال رنگ کی لپسٹک سے ہونٹ سجاتی پلکوں پر مسکارا لگاتی ۔۔ چوٹی میں بندھے بال کھول گئی تھی جو لہرا کر کمر پر پھیل گئے تھے ۔ 

تم یہاں کیوں

 بولتے بولتے اس پر نظر پڑتے ہی وہ زبان اور سانسیں دونوں روک گیا تھا۔ 

وہ پلٹتی کبیر کو دیکھنے لگی جو سٹل کھڑا تھا نظریں اسی پر جمائے بلیک شرٹ پہنے اسے آستینوں تک موڑے دروازے کے دائیں ہاتھ پر کھڑا تھا ۔ نرمین قدم بڑھاتی دروازے کے نوب پر ہاتھ رکھتی ایک نظر اسے دیکھ گئی اور اس ایک نظر میں کیا کیا نا تھا حیا ٫شرم٫ طلب اور کچھ نا کہنے کی جھجھک۔ وہ دروازہ کھولتی ہلکی سی مسکان کے ساتھ باہر نکل گئی تھی جبکہ وہ وہی جما رہا ۔ 

کیا واقعی ؟__

وہ اس رشتے کو آگے بڑھانا چاہتی تھی ۔۔۔ ؟؟__"

کبیر گہرا سانس بھرتے اپنی شرٹ کے دو بٹن کھولتے کول ہونے کی کوشش کرنے لگا

اور مسکراتا اسکے پیچھے چلا۔جہاں وہ شرم حیا سے لال گلاب بنی سینڈوچ سے انصاف کرنے لگی کبیر بھاری قدم اٹھاتا اس کے پاس آیا اور اسے دیکھنے لگا جو اب نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہیں کررہی تھی اس کے سامنے ۔ اس سے بے گانہ بنتی وہ اپنے کام میں لگی رہی ۔ آخری بائٹ لیتے اسنے کبیر کی طرف دیکھے جو کب سے بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

آپ نے اپنے لیئے نہیں بنایا؟__"

کبیر نے نفی میں سر ہلایا تو پھر وہ کنفیوز ہوتی پانی کا گلاس اٹھا گئی ۔ 

گھونٹ گھونٹ بھرتے اسے ایسا لگ رہا تھا کے کبیر شیر ہو اور وہ ہرنی جو خود اسکا شکار بنتی پلیٹ میں سجنے کو تیار ہو رہی ہو۔ 

وہ اب یونہی بیٹھی تھی جب کبیر کھڑا ہوتے ایک دم اسکا ہاتھ پکڑتے اسے کھڑا کرگیا تھا۔ 

اور دو قدم اسکی طرف بڑھاتا اسے گھبرانے پر مجبور کررہا تھا۔ نرمین پیچھے ٹیبل سے لگ کر کھڑی اسے ہی دیکھ رہی تھی۔اسکا دل اتنی زور سے شور مچا رہا تھا کے سامنے کھڑا شخص باخوبی محسوس کرسکتا تھا۔  

جانم اتنا گھبراؤ گی تو مسئلہ بن جائے گا۔ کیونکہ تمہارے اس ایک اشارے نے اس شیر کو پنجرے سے باہر نکال دیا ہے اب یہ تمہیں خود میں قید کر کے ہی سکون کا سانس بھرے گا__"

کبیر دائیں بائیں ہاتھ جماتا اسکے کان کے قریب جھکتا چاروں طرف سحر بکھیر گیا تھا کے نرمین کو سانس بھی مشکل سے آنے لگا۔ 

وہ اچانک اسے گود میں اٹھاتا اسے کمرے میں لے گیا جہاں ڈم لائیٹس ہوئی کمرے میں فسوں خیز ماحول طاری کرگئی تھی ۔ ساتھ نرمین کی دھڑکنوں کا شور کمرے کی خاموشی میں کبیر کو صاف سنائے دے رہا تھا ۔  لیکن آج وہ اسے کسی بھی چیز سے روکنا نہیں چاہتی تھی۔ 

وہ اسے بیڈ پربٹھاتے پیچھے ہوگیا ۔ اور ایک قدم دور ہوتے جیبوں میں ہاتھ پھسائے اسے دیکھنے لگا۔ 

 اسکی آنکھوں میں بڑھتی بے تابی لیکن پھر بھی پیچھے ہٹ جانا۔؟ نرمین حیرت سے اسے دیکھنے لگی اسکا دور ہونا اسے سمجھ نہیں آیا تھا وہ نا سمجھی سے اسے دیکھتی رہی لیکن کبیر خاموشی سے کھڑا رہا اور جب نرمین کے دماغ میں کلک ہوا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی ۔  

اسکا مقصد کبیر کو اپنے حقوق سے دور رکھنا نہیں تھا لیکن اسکے بیچ کبیر نے جو شرط رکھی تھی اصل پریشانی وہ تھی۔ لیکن آج وہ ہر پردہ گرا دینا چاہتی تھی۔ 

وہ اسکے پاس جاتے اسکے ارد گرد گھیرا بناتی اسکے سینے سے لگ گئی تھی جب کبیر نے سکون سے آنکھیں بند کری ۔ 

_اپکی محبت باعث سکون ہے ہمارے لیئے آپ نے اپنے الفاظوں سے اپنے لہجہ سے اپنے انداز سے ہر طرح سے خوبصورت اظہار کیا ہے ہم سے اور ہم جانتے ہیں آپ ہم سے بہت محبت کرتے ہیں ۔ لیکن ہماری محبت ۔۔۔___"

وہ سانس لینے کے لیئے تھمی جبکہ کبیر انکھیں بند کیئے اسکے الفاظوں کو بہت غور سے اپنے دماغ میں حفظ کررہا تھا کے وہ جانتا تھا اسکی بیوی شاید دوبارہ اتنی ہمت جمع نا کرسکے۔۔۔

_ہمیں آپ سے محبت نہیں ہے عشق ہے۔ 

بچپن سے ہمارے دل نے صرف ایک نام پکارا ہے "کبیر خانزادہ" ۔۔۔ اور آج آپ ہمارے سامنے ہیں ہمارے رب کی وجہ سے۔۔__"

اور کبیر کو یہاں اپنا سانس تھمتا ہوا محسوس ہوا۔۔ وہ اسکے گرد بنا حصار مضبوط کرتے اسے خود میں بھینچ گیا مطلب صاف تھا وہ مزید سننا چاہتا تھا اسے۔۔ 

ہمیں لگتا تھا کے آپ ترکی جا کر وہاں کی رنگینیوں میں گم ہوجائینگے آپکو یاد تک نا ہوگا کے ایک منگ بھی ہے اپکی۔۔ اور ایسا ہی ہوا جب آپ یہاں آئے اپکی نفرت ہم سے برداشت نہیں ہوتی تھی ۔ ہم دن رات روتے تھے یہ سوچتے کے جو سوچا تھا وہ سچ ثابت ہوا ۔ اپکے الفاظ بہت تکلیف دیتے تھے لیکن ہم نہیں جانتے تھے کے وہ تو ہمارے رب کی طرف سے چھوٹی سی آزمائشیں تھیں ۔ اسکے بعد کا سکون آسانیاں محبت سب ہمارا مقدر تھیں۔ ۔لیکن ہم ںے صبر کیا تھا ہر تکلیف پر صبر جس کے بدلہ ہمیں اتنا خوبصورت شریک حیات ملا ___"

ہم آپ سے ہمیشہ سے عشق کرتے تھے اور ہمیشہ کرتے رہینگے شاید لفظوں سے آپ سے اظہار نا کرسکیں لیکن ہمارے انداز سے ہمیشہ محبت چھلکے گی آپکے لیئے۔  __" 

نرمین اسکی دل کے مقام پر لب رکھتے اسکے جسم و جان میں روح پھونک گئی تھی۔ 

۔۔۔

کبیر اس سے دھیرے سے الگ ہوتے اسکی انکھوں کو چومتا اسکا ماتھا چوم گیا تھا۔ 

__میں نہیں جانتا تھا کے میری بیوی مجھ سے اتنی محبت کرتی ہے کے میرا انتظار کرتی رہی ہر لمحہ مجھ سے محبت کرتی رہی ۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا __"

اسکی گال پر اپنی ناک ٹریس کرتا وہ اسکے الفاظوں کے جادو میں کھویا اپنے جسم میں خمار کی لہر اترتی محسوس کررہا تھا ۔ 

_دنیا کی خوبصورت ترین نظم، تمہاری آواز میں بارہا اعترافِ محبت سننا ہوگا میرے لیئے __"

وہ اسکی طرف قدم بڑھاتا اسکے قدم پیچھے کی طرف لے جانے پر مجبور کررہا تھا ۔ 

کبیر سائیڈ ڈرار سے ایک باکس نکالتے اسکے کندھے تھامتے اسے بستر پر بٹھایا تھا ۔ اسکے برابر بیٹھتے اسکے پیروں کو تھامتا وہ اس پر ڈائیمنڈ کی نازک سی پازیب پہناگیا تھا۔ 

نرمین اس خوبصورت پازیب کو چمکتی نگاہوں سے دیکھنے لگی جب کبیر نے نیچے جھکتے پازیب پر بوسا دیا کے نرمین کانپ گئی۔ 

اسے بستر پر لٹاتے وہ اس پر جھکا تھا کے نرمین کی سانسوں میں اسکے کلون کی مہک اترنے لگی ۔

_میری بانہوں میں کوئی مہکتا ہوا گلاب لگ رہی ہو جس کی سرخی تمہارے چہرے پرہے اور اسکی مہک تمہارے وجود میں گھلی ہوئی ہے جو میری سانسوں میں اتر کر ضد کر رہی ہے کے میں اس خوشبو میں رچ بس جاؤں __"

ہمیشہ میری رہنا canım میں نے تم سے بہت محبت کی ہے ۔ تم سے پہلے کبھی کسی پر اعتبار نہیں کیا اور نا ہی کبھی کسی سے ایسے محبت کے دعوے کیئے ہیں _ اور تم سے بھی ہمیشہ اعتبار اور محبت کا طلبگار رہونگا میں ۔ کبھی مجھ سے کچھ مت چھپانا کبھی میرا اعتبار مت توڑنا__"

وہ اسکی نم آنکھوں میں دیکھتا ہوا بول رہا تھا جب کے ایک ہاتھ بستر پر ٹکائے اور دوسرا اسکے گالوں کو سہلا رہا تھا۔ 

_میں اس معاملے میں بہت کمزور ہوں اعتبار اور محبت بہت ڈر ڈر کر کرتا ہو لیکن تم پر دل و جان سے کیا ہے ۔ تم ہمیشہ میرا مان رکھنا اور میں ہمیشہ تمہیں یونہی چاہتا رہونگا۔___"

اسکی باتوں کے پیچھے چھپی گہرائی کو سمجھتے نرمین نے نم انکھوں کے ساتھ سر اثبات میں ہلایا تھا جبکہ کبیر نے اسکے گرتے موتیوں کو اپنے ہونٹوں سے چنا تھا۔ 

میں ہمیشہ آپکا مان رکھونگی ۔ آپکی محبت اور عزت مجھے خود سے بڑھ کر عزیز ہے __"

وہ اسکی گال پر اپنا ہاتھ ٹکاتی محبت سے لبریز نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ 

مجھے اچھا لگتا ہے اپکی انکھوں میں اپنا عکس__"، وہ اسکی بند آنکھوں کو اپنے پوروں سے چھو گئی تھی۔

اپکے ہونٹوں پر میرا نام__"وہ ایک نظر اسکے لبوں کو دیکھتی نظریں جھکا گئی تھی کے کبیر نے جاں نثار نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔ 

آپ کی چاہت کا لمس ۔ آپ ، آپ کا پیار آپکی نرمی اپکا غصہ آپ کی آواز سب مجھے آپ پورے کے پورے عزیز ہیں اور آپکی محبت کو میں ہمیشہ یو نہی سمبھال کر رکھونگی___"

وہ ایک ایک لفظ ٹہر ٹہر کر کہتی کبیر کو خود سے عشق کروا گئی تھی ۔ وہ دیوانہ وار اس پر جھکتا اسکی آواز کو بند کرتے کمرے کی لائیٹس بند کر گیا تھا ۔ 

دھیمی ہلکی چاند کی روشنی نے دونوں پر اپنی چاندنی بکھیر دی تھی جہاں دو خوبصورت جوڑوں کا ملن ہونا تھا۔ جبکہ قسمت انکی آگے آنے والی زندگی کا سوچتی نم انکھوں سے مسکرائی تھی۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_________

فردان______"""

وہ چیخی تھی کے اب بہت ہوا تھا ۔ 

کشمیر میں پورا ایک ہفتہ گزارتے جہاں انہوں نے خوبصورت پہاڑیاں اور دنیاوی جنت کے نظارے کیئے تھے وہی فردان نے اسکی ساری راتیں کالی کری تھیں ۔ اور پھر آدھا دن اسکا سو کر گزرتا رھا جس کے باعث اب وہ پریشان ہونے لگی تھی کے یہاں آئی ہی کیوں ۔

آج اخری دن ہے پلیز ہمیں جانے دیں ورنہ ہم  آپ سے بلکل بات نہیں کرینگے۔___"

وہ اسکی حصار میں کسمساتی خود کو چھڑوانے کی تگ و دو میں تھی ۔ جو شاید نیند کی گولیاں ہی کھا کر سویا تھا جو  اٹھنے کا نام نہیں لے رہا تھا اور نا اسے اٹھنے دے رہا تھا۔

سوجائیں بیگم ۔ بہت نیند آرہی ہے___"

فردان کی بات پر اب راحمہ کا دماغ کا فیوز اڑ چکا تھا اسنے ہاتھ میں آتے پانی سے بھرے گلاس کو اٹھایا اور فردان پر الٹ دیا جس کے باعث فردان ہڑبڑا کر اٹھاب۔ پورا بستر گیلا ہو چکا تھا اور اسکے حصار سے آزاد ہوتے راحمہ بھی جھٹ سے بستر سے اتر گئی تھی۔۔

اپنے لیئے کچھ احتیاطی تدابیر بھی تو باندھنی تھیں۔۔ 

یہ_یہ کیا آپ نے ؟؟__" پہلے پہل تو فردان صدمہ کا شکار ہوگیا تھا اسے کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کے ہوا کیا ہے جبکہ راحمہ اسے بستر پر گیلا بیٹھے دیکھ پیٹ پکڑ کر ہنس نے لگی۔ 

آپ کو نیند آرہی تھی نا تو ہم نے سوچا اپکو نہانے میں مدد دےدیں تاکہ آپکی نیند تو اڑے۔۔ __"

وہ فردان کو آگ لگاگئی تھی اپنی ہنسی سے وہ بلینکٹ پھینکتے اسکی طرف بڑھا تو وہ جھٹ سے باتھروم میں بند ہوئی۔ 

"باہر نکلیں راحمہ__ " وہ دروازے پر ہاتھ مارتا غصہ سے بولا تھا جبکہ اسے غصہ میں دیکھ کر بھی راحمہ کی ہنسی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی۔  اور یہی چیز فردان کی غصہ کی وجہ تھی۔ وہ باہر کھڑا بلبلا رہا تھاجسے باہر تک اسکی ہنسی سنائے دے رہی تھی ۔

جنگلی بلی آپکو کیا لگتا یے آپ ساری زندگی باتھروم میں چھپ کر بیٹھی رہینگی ۔۔۔ ایک منٹ سے پہلے باہر آجائیں تاکے آپکی سزا میں کمی اجائے ورنہ بہت برا انجام ہوگا آپکا کے آپ توبہ کرینگی۔۔ "

وہ اسے دھمکاتا غصہ سے سے دروازہ پیٹ رہا تھا ۔ کے راحمہ دھمکی سنتے گھبرائی۔ 

پہلے آپ ہم سے وعدہ کریں کچھ نہیں کہینگے ہمیں___".

اسکی بات سنتے فردان نے ایک ائیبرو اچکائی کے واقعی وہ اتنا شریف ہے؟ یقیناً اسکی جنگلی بلی معصوم تھی۔۔

جی بیگم ہم اپکو بخش دینگے اب باہر اجائیں___"

اسکی نرم اواز سنتے راحمہ کو کچھ گڑبڑ کا احساس ہوا تھا ۔۔ 

پہلے ہم سے وعدہ کریں___"

وہ بھی ایک ہی تھی اپنے نام کی۔ اسکی بات سنتے فردان نے پانے دانت چبائے ۔ 

آپ باہر اجائیں ورنہ ہمارے پاس سپیئر کی بھی ہے ۔ ہم خود دروازہ کھول لینگے__"

اسکی باتیں سن کر راحمہ کی آنکھیں پھٹی تھی ۔ اور اوپر دیکھتے وہ دل ہی دل میں اپنے رب کو پکارنے لگی۔ 

اللّٰہ تعالیٰ پلیز یہ آخری بار تھا اس کے بعد ہم کبھی اس سوئے ہوئے جن کو نہیں چھیڑے گے پلیز آخری بار ہمیں بچالیں____"

اسکی خاموشی سنتے فردان اب سرخ ہوچکا تھا غصہ سے ۔ 

ہم تین تک گنیں گے اگر آپ باہر نہیں آئی تو ہم اندر آجائیں گے اور پھر آپکی سوچ سے بڑھ کر آپکو سزا ملے گی__"

اسکی بات سنتے راحمہ آلتو جلالتو کا ورد شروع کر چکی تھی کے اب کچھ نہیں ہوسکتا تھا__"

ایک....

دو۔۔۔۔ 

اور اسکے تین گننے سے پہلے ہی راحمہ دروازہ کھولتی انکھیں بند کیئے اور ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ میں دبائے کھڑی تھی ۔ جسے دیکھ فردان کا غصہ کم ہوا تھا وہ کسی بلی کی طرح آنکھیں بند کیئے کھڑی تھی۔ 

وہ باہر کی طرف نا بڑھی تو فردان نے واشروم میں قدم رکھا اسے خاموش دیکھ اسراء نے انکھیں کھولی تو وہ اندر کی طرف کھڑا تھا راحمہ نے آنکھیں پھاڑے سے دیکھ اور فوراً قدم پیچھے ہٹائے ۔ 

فردان نے پیچھے دروازہ بند کیا اور اسے دیکھا جو اسکے آگے بڑھتے خود پیچھے قدم اٹھا رہی تھی۔

فردان نے ہاتھ مارتے شاور آن کیا تو ٹھنڈا یخ پانی اتنی سردی میں راحمہ پر گرتا اسکی کلفی جما گیا تھا ۔ 

وہ ہڑبڑاتی اپنے منہ پر ہاتھ رکھتی گہرے گہرے سانس لینے لگی جسے دیکھ فردان مسکرایا ۔ 

یہ یہ کیا ___ بند_بند کریں اسے___"

ہ ہانپتی ہوئی پیچھے مڑتی ہاتھ مارنے لگی کے فردان نے اسکے دونوں ہاتھ پیچھے سے قید کرلیئے ۔ 

کیسا لگا نہا کر بیگم ۔ ؟ مزا آیا ایسے ہی ہمیں بھی بہت مزہ آیا تھا جب اپنے ہمیں گہری نیند میں ٹھنڈا پانی پھینکتے اٹھایا تھا____"

پلیز پلیز اب___اب نہیں _نہیں کرونگی پلیززز___" وہ ٹھنڈی پڑھتی گہرے سانس لینے لگی تھی کے فردان کو اس پر ترس آیا اور شاور بند کرگیا ۔ 

سوچ سمجھ کر ہم سے پنگے لیا کریں بیگم اللّٰہ پاک نے چن کر شوہر دیا ہے آپکو جو آپکی ساری حرکتوں کے بدلے سود سمیت لے سکتا ہے آپ سے___" 

وہ مسکراتا ہوا کہہ رہا تھا جبکہ راحمہ اب ٹھنڈ سے کانپ رہی تھی۔ 

اسکے نیلے پڑھتے ہونٹ دیکھ فردان نے اسے گود میں اٹھا کر بستر پر بٹھایا تھا اور اسے کپڑے چینج کرواتے وہ اس پر بلینکٹ دیا تھا جو ابھی تک کانپ رہی تھی ۔

فردان کو اب سچ میں پریشانی ہونے لگی تھی ۔ اسے یہ مذاق نہیں کرنا چاہیئے تھا وہ ایک گلاس کا بدلہ اسے پورا گیلا کر کے لے چکا تھا ۔ 

راحمہ آنکھیں بند کیئے کانپ رہی تھی فردان نے جھٹ سے سوپ منگوایا تھا کے گرم سوپ پیتے اسے آرام آجائے گا۔ 

سوپ آیا تو وہ اسکے سر کے پہچھے ہاتھ رکھتے اسے بٹھا گیا تھا جو انکھیں بند کیئے نڈھال سی تھی۔ 

ایک گھنٹہ گزر چکا تھا لیکن وہ ابھی تک ٹھنڈی ہورہی تھی۔ راحمہ اسکی سوچ سے زیادہ نازک نکلی تھی۔۔

اسے زبردستی سوپ پلاتے فردان نے اسے واپس لٹایا تھا اور خود بھی اسکے برابر آکر لیٹا تھا ۔ اسکے گرد حصار بناتا وہ مضبوطی سے اسے خود میں قید کر گیا تھا کے کسی طرح اسکا جود گرمائش حاصل کرلے۔ 

اسے لیتا وہ گہری نیند میں چلاگیا تھا جو پہلے سے ہی نیند میں تھی۔ 

شیشے کے سامنے بال بناتا وہ اسراء کے بارے میں سوچ رہا تھا وہ اسے اپنا عادی کررہی تھی جو محبت سے بھی زیادہ خطرناک تھی ۔ اور وہ جانے انجانے میں اسکی طرف مائل ہوا جا رہا تھا اور وجہ اسکی قربت میں ضرغام خانزادہ کا سکون تھا جو اسکے سینے میں لگی آگ کو کم کرتے ٹھنڈی پھوار کی مانند لگنے لگا تھا ۔ 

یہی وجہ تھی جب وہ باہر سے آتا تو اسے دیکھتے ضرغام کی اندھیرے میں ڈوبی آنکھیں اس پر نظر پڑھتے ہی کسی دیئے کو دیکھتے چمک نے لگتی تھی ۔ رات ہو یا دن جب وہ سوتا تو اس نرم وجود کو اپنی بانہوں کو حصار میں رکھتا ۔ جسکے باعث اسکی اندر چھپی وحشت کی آگ بجھنے لگتی ۔ 

ضرغام خانزادہ کو وہ کسی لت کی طرح لگنے لگی تھی جو لگتی ہی جارہی تھی۔ 

وہ مسکراتا اس کے بارے میں سوچتا کمرے سے باہر نکلا تھا آج اسکا آخری پیپیر تھا اور اس وقت اسکی گھر کی واپسی تھی ۔ہمیشہ اسے ملازم لے آتا تھا لیکن آج وہ خود جانے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ 

اسمارہ بیگم کی اس پر نظر پڑی جو گھڑی میں وقت دیکھتا باہر کی طرف جا رہا تھا۔

ضر بیٹا__"

جی مورے__"

وہ پلٹ کر انکے قریب جاتا انکا ماتھا چوم گیا تھا ۔ جس پر وہ مسکرائی۔ 

بیٹا آج اسراء کا آخری پیپر تھا ۔ شادی کے بعد سے وہ صرف پیپرز میں مصروف ہوگئی ہے آپ اسے آج کہی باہر لے جائے گا ڈنر پر۔۔۔""

انکی بات سنتے ضرغام نے ایک لمحہ سوچا اور پھر سنجیدہ چہرا لیئے اثبات میں سر ہلا گیا۔

اچھا مورے میں اسے لینے جارہا ہوں پھر ڈیرے پر کچھ کام ہے اسکے بعد جیسا آپ کہے ویسا صحیح __" 

اسمارہ بیگم مسکراتی اسکے سر پر ہاتھ رکھتی وہاں سے چلی گئی تو وہ بھی اپنی منزل پر روانہ ہوا۔

_______❤️ حیا خان ❤️________

وہ آدھے گھنٹے سے دھوپ میں گاڑی میں بیٹھا اسکا انتظار کررہا تھا وقت سے پہلے جو پہنچ گیا تھا۔  لڑکیاں باہر آتی نظر آئی تو وہ بھی گاڑی سے قدم باہر نکالتا دیکھنے لگا تاکہ آسانی سے دیکھ سکے۔ 

ادھر آؤ ۔۔ دیکھو وہ تو ضرغام خانزادہ ہے نا ۔۔؟ اس اسراء کا ہزبینڈ۔۔؟""

ایک لڑکی اسراء کی سہیلی کو پکڑتے پوچھنے لگی ۔ جبکہ وہ بھی اب غور سے دیکھ اثبات میں سر ہلاگئی۔ 

"ہاں یہ تو وہی ہی ۔" اسنے تصدیق کی تو دوسری لڑکی ضرغام کو جی بھر کر دیکھ نے لگی ۔ 

ہممم_ کافی ہینڈسم ہے پرسنیلٹی ہے بندے کی ویسے___" وہ لڑکی ضرغام خانزادہ کو دیکھتے اپنی رائے کا اظہار کرنے لگی جب اسراء جو اپنی سہیلی کو ڈھونڈتے باہر آرہی تھی سامنے ضرغام اور دوسری طرف ان لڑکیوں کی باتیں سن وہ ٹہر گئی ۔ اسکی چھوٹی سی ناک پر غصہ چمچمانے لگا۔ جب اسکی سہیلی نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا جہاں اسراء کی بس ہوئی تھی ۔ 

ہاں صحیح کہہ رہی ہو ۔ ضرغام خانزادہ بہت ہوٹ ہے ۔ پتہ نہیں کہاں سے اسراء جیسی بونگی سے شادی ہوگئی اسکی۔___"

اسراء غصہ سے لال ہوتی اسکی طرف قدم بڑھاگئی ۔ جبکہ ضرغام جو اسراء کو دیکھ چکا تھا اور اسی کی طرف بڑھ رہا تھا اسے دوسری طرف جاتے دیکھ تھما ۔

اسراء نے اپنی دوست کا بازو کھینچتے اسے تھپڑ لگایا تھا جبکہ وہ تو دنگ ہوئی تھی لیکن اسکے ساتھ کھڑے آس پاس کے لوگ اور خاص طور پر ضرغام خود بہت شاکڈ ہوا ۔ 

جبکہ اسکی سہیلی آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی کے یہ اسراء تھی جس نے اس پر ہاتھ اٹھایا جبکہ دوسری لڑکی خود با خود دو قدم پیچھے ہوئی۔ 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے شوہر پر نظر جمانے کی میں تمہاری آنکھیں نکال دونگی چڑیل___"

اسراء غصہ پر قابو کھوتی چیخی تھی جبکہ اسکی سہیلی کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئی تھے اس پاگل پٹھانی کی ایسی حرکتیں دیکھ۔ 

اسراء کی آوازیں ضرغام کے کانوں تک پہنچی تو وہ معاملہ سمجھتا ضبط سے انکھیں بند کرتے کھولتا اسکی طرف بڑھا۔ 

اسراء نے دوسری لڑکی کی طرف قدم بڑھائے۔۔ 

"اور تم کیا کہہ رہی تھی ہاں؟ تم نے ہینڈسم لڑکے پہلے کبھی نہیں دیکھے جو میرے شوہر کو دیکھ تمہاری رال ٹپک رپی ہے ہاں؟___"

وہ اب اسکے بھی ایک تھپڑ رسید کرتی جب ضرغام دوڑ کر اسکے پاس پہنچتا اسے قابو کر گیا ۔وہ اسکے حصار سے باہر نکلنے کی تگ ودو کرتی اس لڑکی کی طرف لپکنے لگی۔ 

اس_اسراء کیا کررہی ہو دماغ ٹھیک ہے تمہارا ۔ چلو میرے ساتھ___"

ضرغام اسکے کان کے قریب گرجتا اسے کھینچتے وہاں سے لے گیا جبکے وہاں کھڑی لڑکیاں ہکا بکا سی کھڑی رہ گئی ۔ 

اسکا ہاتھ پکڑتے ضرغام نے دروازہ کھولتے زبردستی گاڑی میں بٹھایا ۔ اور خود بھی آکر بیٹھا۔ اور اسے دیکھا جو ابھی تک گاڑی میں بیٹھی سامنے کھڑی لڑکی کو ایسے گھور رہی تھی جیسے آنکھوں ہی آنکھوں میں نگل لے گی ۔ 

ضرغام کو اسکی شکل دیکھ ہنسی آئی تھی جس پر وہ دوسری طرف منہ کرتا قابو کر گیا تھا ۔ 

"ادھر دیکھو ؟ وہاں کیا دیکھ رہی ہو___" اسکی آواز سنتے اسراء نے اسکی طرف دیکھا جو اسے ہی اسکی حرکت پر گھور رہا تھا ۔ اسراء کے ماتھے کے بل سیدھے ہوتے ہوتے غائب ہوئے۔ 

یہ کیا حرکت تھی ہاں ؟ تم نے اتنا تماشہ کیوں لگایا ۔ ؟ ساری میری عزت کا کچرا کردیا بیوقوف لڑکی__"

اسکی بات پر اسراء کے ماتھے پر پھر ایک بل چڑھا ۔ 

وہ آپ کو ہاٹ اور ہینڈسم کہہ رہی تھی آپ مجھے ایک موقعہ دیں میں اسکی آنکھیں نوچ لوں گی اسکی ہمت کیسے ہوئی آپکی طرف دیکھنے لگی__"

وہ پھر بے قابو سی ہونے لگی تھی اور دروازہ کے لاک پر ہاتھ رکھتی بس کھولنے کو تھی۔  جب ضرغام نے سر سیٹ سے پیچھے ٹکاتے نفی میں سر ہلایا تھا اس دیوانی کی حرکتوں پر ۔ 

میں کوئی صنفِ نازک نہیں ہوں جس کی عزت کا خیال کرتے تم ان لڑکیوں کی آنکھیں نوچنے جا رہی ہو پاگل لڑکی___"

ضرغام بہنویں چڑھاتا بولا تو اسراء تھوڑی ہلکی ہوئی ۔ 

پ_پھر بھی کوئی آپکو ایسے نہیں دیکھ سکتا___" 

وہ سر نیچے کیئے ہلکی آواز میں منمناتی ضرغام کو بے حد پیاری لگی تھی ۔ لیکن چہرے پر وہ کوئی تاثر آنے دے ناممکن ۔ وہ تو تھا ہی سڑو ۔ جو اتنی خوبصورت لڑکی کو دیکھ کر بھی میلٹ نہیں ہوتا تھا۔ یا خود کو روکے رکھتا تھا لیکن آخر کب تک۔۔۔ 

ہاں تو کیا غلط کہا ہے اسنے ۔ ہوٹ اور ہینڈسم تو ہوں میں___"

ضرغام مرر میں دیکھتے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتا مغرور انداز میں بولا تھا جب اسراء اسے دیکھتی رہ گئی ۔ سارہ غصہ ہوا تھا اس انسان پر اسکا۔ 

لیکن میرے ہیں_ صرف میرے ہیں_ میرا بس چلے تو سب سے چھپا کر رکھوں آپکو کسی کی نظر پڑھنے نا دوں___" 

وہ اسکی انکھوں میں دیکھتی جنونی سےانداز میں بولی تھی جب ضرغام اس چھوٹی سی لڑکی کی جنونیت کو دیکھتا رہ گیا ۔ 

وہ لڑکی اسکے اعصابوں پر سوار ہو رہی تھی اور وہ خود کو روک نہیں پارہا تھا۔ 

لیکن فطرت سے مجبور اسکے دل کو کب ٹھیس نا پہچاتا تھا وہ ۔ طنزیہ مسکراتا گاڑی سٹارٹ کرتا وہ اپنے منہ سے زہر اگل گیا تھا۔ 

ہوں تو میں تمہارا بھی نہیں_ تم کیا چھپا کر رکھوگی مجھے جب میں خود تمہیں مجبوری میں اپنے پاس رکھ رہا ہوں___"

وہ گاڑی موڑتے ریورس لیتا اسرا کا دل اسی گاڑی تلے کچل گیا تھا ۔ وہ آنسؤں کا گولہ نگلتے اپنے آنسوؤں پر قابو پانے لگی ۔

"جس دن دور چلی جاؤنگی آپ تڑپینگے اس دن میں بھی اسی طرح آپ پر ہنسوں گی___"

بنا سوچے سمجھے وہ گہری سوچ میں کھوئی تھی جب اسکی زبان سے یہ جملہ پھسلا تھا ۔ اور ضرغام کو لگا تھا وہ آگ جو سینے میں اب کہی بھج سی گئی تھی ۔ دوبارہ شوعلے پکڑتی اسکے دل کو اندر سے مسخ کر گئی ہو۔ وہ جھٹکے سے گاڑی اور سانس دونوں روک گیا تھا۔ اسراء کا سر ڈیش بورڈ پر لگتے لگتے بچا تھا ۔ 

ضرغام کی آنکھوں کے کونے لال ہوگئے تھے جبکہ دانت پر دانت جماتا وہ خود پر قابو کھونے لگا تھا ۔ اسکا بازو کھینچتے ضرغام نے اس پر پکڑ مضبوط کی اتنی کے اسراء کے منہ سے سسکاری نکلی ۔ 

تمہاری ہمت کیسے ہوئی ؟ تم لٹل گرل ؟ تم ضرغام خانزادہ کو تڑپاؤگی ؟ تمہاری اتنی اوقات؟؟__"

وہ بولا نہیں دھاڑا تھا اسراء کے منہ پر جو کپکپانے لگی تھی اسکا اتنا غصہ دیکھ ۔ اپنے الفاظ تو وہ بھول چکی تھی۔  سماعت سے گزرے تھےتو صرف ضرغام کے الفاظ۔

اور ضرغام جسکی اصل جان تو اسکے جانے کا سنتے نکلی تھی لیکن وہ انا کا مارا الفاظوں کو مروڑتے اسکا دل چکنا چور کرگیا تھا ۔ اور اس لڑکی نے اف تک نا کیا تھا ۔ 

آئے_ائے ایم سوری. غلطی سے بول دیا تھا__"

وہ روتی منمناتی ضرغام کو اندر سے سیخ پا کرگئی تھی ۔

ڈونٹٹٹٹٹ__"""

وہ پھر دھاڑا تھا اسکا رونا جاری ہوتے دیکھ۔ 

جس پر وہ آنسوں روکتی ڈبڈبائی نظروں سے اس ظالم کو دیکھنے لگی جو اسے جھٹکے سے چھوڑتا گاڑی سٹارٹ کر گیا تھا ۔ پورے راستے وہ خاموش رہا جبکہ اسراء کی ہچکیوں کی آواز وقفے وقفے سے جاری رہی تھی جس پر وہ مٹھیاں کستے گھر کے باہر گاڑی روک گیا ۔ 

اگر مورے کے سامنے تم روئی تو روم میں جاتے ہی میں تمہاری سانسیں ہمیشہ کے لیئے بند کردونگا ۔ اسلیئے انسانوں کی طرح منہ کو صاف کروں اور سمائل کرو__"

اسکی بات سنتے اسرا نے اپنی نم آنکھیں صاف کی اور با دقت مسکان لاتی اندر داخل ہوئی جہاں اسمارہ بیگم صوفے پر بیٹھی اسی کا انتظار کررہی تھی۔ 

کیسی ہیں بیٹا پیپر کیسا ہوا آپکا ؟___"

اسمارہ بیگم نے اسے پیار سے گلے لگایا تو وہ مسکرائی ۔ 

بہت اچھا ہوا پھوپھو جانی__"

اپکا چہرا لال کیوں ہورہا ہے بیٹا؟__"

وہ اسراء کو غور سے دیکھنے لگی تو اسکی نظر ضرغام پر پڑی جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ لیکن اسراء اسکی مسکراہٹ کے پیچھے چھپی وارننگ سمجھتے پھر مسکرائی اور اسمارہ بیگم کو دیکھا۔ 

پھوپھو جانی بس بہت تھک گئے ہیں پیپرز دے دے کر اسی وجہ سے ۔ اب آرام کریں گے نا تو ساری تھکن اتر جائیگی___"

وہ چہرے پر معصومیت طاری کرتے بولی تو ضرغام مسکراتا ائیبرو اچکاتے اسکو داد دیتی نظروں سے دیکھنے لگا۔ 

چلیں ٹھیک ہے بیٹا آپ فریش ہو کر کچھ کھا لیں اسکے بعد آرام کرے گا__"

جی پھپھو جانی___"

وہ کہتی وہاں سے اٹھتی کمرے کی طرف چلی گئی تھی۔ 

مورے میں بھی کچھ کام سے جا رہا ہوں ۔تھوڑی دیر میں آجاؤنگا__"

ضرغام بولتا باہر چلا گیا تھا جبکہ اسمارہ بیگم اسراء کے لیئے کھانا لگوانے لگی ۔

_______❤️ حیا خان ❤️_______

ڈیرے پر بیٹھا ضرغام کے دماغ کی ساری ڈوریاں اسراء سے بندھی تھی ۔ اسے سوچ سوچ کر غصہ آرہا تھا اج اپنی کی گئی حرکت پر وہ ایسے اسے ڈرانا نہیں چاہتا تھا لیکن پھر بھی کر گیا تھا جس کے باعث اب اسکا دل اس سے افسوس کناں تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا اسنے تو شروع سے ایسا ہی رویہ رکھا ہے اسراء کے ساتھ پھر آج کیوں وہ اسے ایسے تکلیف دے کر اچھا محسوس نہیں کررہا تھا ۔ 

اپنے دل پر لعنت بھیجتے وہ کھڑا ہوا تھا اور ایک کال کرتے مسکرا کر اسے ہدایت دیتا وہ فون رکھ چکا تھا۔ 

اس طرف اسراء کھانا کھاتے کمرے میں آتے روتے روتے سو چکی تھی ۔ دوپہر سے شام ہوچکی تھی جب کسی نے اسکا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ دروازہ کھولتے اسنے سامنے دیکھا تھا جہاں کوئی ملازمہ سامنے بڑا سا باکس لیئے کھڑی تھی ۔ 

"چھوٹی بیگم اپکے لیئے چھوٹے صاحب نے یہ بھجوایا ہے اور کہا ہے کے ٹھیک آٹھ بجے انہیں تیار ملیں ۔ ___"

وہ ملازمہ اسراء کے ہاتھ میں باکس پکڑاتی جا چکی تھی جبکہ وہ ہونکوں کی طرح کھڑی اس باکس کو دیکھ رہی تھی  پھر اندر آتے اسراء نے اس باکس کو بستر پر رکھا اور کھولنا شروع کیا تجسس ہر چیز سے بڑھ کر تھا۔ 

باکس آدھا ادھورا کھولتے اسے ایک چٹ ملی جسے وہ اٹھاتی پڑھنے لگی ۔ 

یہ ڈریس میں نے تمہارے لیئے لیا ہے اسے پہن کر بیویوں کی طرح تیار ہوجانا. ٹھیک آٹھ بجے کیوں کے ڈنر ہم باہر کریں گے۔

"تمہارا شوہر ___"

اس پوری تحریر پر نظر مارتے اسراء کی نگاہ صرف لفظ اسکے شوہر پر اٹکی تھی جسے پڑھتے اسکے چہرے پر بھولی سی مسکان آئی تھی ۔ 

وہ اس لفظ پر لب رکھتی اب باکس کھولنے لگی جس میں ایک خوبصورت سی مہرون رنگ کی ساڑھی تھی ۔ وہ حیران کن نظروں سے اس ڈریس کو دیکھنے لگی جو دکھنے میں بے تحاشہ خوبصورت تھا ۔ 

پھر اسنے گھڑی پر نگاہ دوڑائی جو سوا چھے بجا رہی تھی ۔ وہ خوشی سے مسکراتی فٹافٹ فریش ہونے چلی گئی۔۔

پندرہ منٹ میں وہ باہر نکلتی جلدی سے اپنے بال ڈرائے کرنے لگی ۔ وقت کی سوئی تیزی سے گزرتی جارہی تھی ور اب بس آٹھ بجنے میں بیس منٹ باقی تھے اسرا کو ایک گھنٹہ تو ساڑھی کو باندھنے میں ہی لگ گیا تھا جو اسنے کبھی نہیں پہنی تھی ۔ اور اب وہ بال صحیح کرتی خود کو دیکھنے لگی جو آج واقعی خود کی پہچان میں بھی نہیں آرہی تھی۔ 

مہرون رنگ کی سلک کی ساڑھی اور گولڈن فل سلیوس کا بلاؤز پہنے وہ ساڑھی ہر طرح سے ڈھکی چھپی تھی ۔ اسے ضرغام کی چوائس واقعی پسند آئی تھی ۔ کانوں میں گولڈ کے ٹوپس پہنتی  ہلکے ہلکے سے میک اپ میں صرف اسکے ہونٹ چمک رہے تھے جو مہرون رنگ سے سجے تھے۔ 

وہ خود کو دیکھتی شرماگئی تھی ۔ اور جیسے ہی پلٹی دروازہ کھلا اور ضرغام اندر آیا ۔ 

وہ بنا اسے دیکھے اندر آتے پیچھے دروازہ بند کرگیا تھا جبکہ اسراء جیسی تھی ویسی کھڑی رہ گئی اس میں ہلنے تک کی سکت نہیں تھی۔ جبکے ضرغام نے جیسے ہی پلٹ کر ایک قدم آگے بڑھایا وہ وہی ٹہر گیا ۔ جہاں اسراء کی اسکی طرف پیٹھ تھی لیکن شیشے میں نظر آتے اسکے عکس کو دیکھتے وہ جامد کھڑا رہ گیا تھا۔ 

وہ پور پور اسکے لیئے سجی تھی ۔ سجی تو وہ پہلے بھی کئی دفعہ تھی اسکے لیئے لیکن آج وہ اتنی خوبصورت کیوں لگ رہی تھی؟ ضرغام اپنے قدم ہلا نا سکا جبکہ اسراء میں ہمت نا تھی کے شیشے سے نظر آتے اسکی عکس کو نظر اٹھا کر ہی دیکھ لے۔ 

ہرطرف خواب ناک ماحول چھا گیا تھا ۔ ضرغام قدم اٹھاتا اسکی طرف آیا تھا جو نیچے نظریں کیئے ایسے کھڑی تھی جیسے کسی نے سزا میں کھڑا کیا ہو۔

خمار الودہ انکھیں لیئے وہ اسکے قریب جھکتا اسکے بالوں کی مہک خود میں اتارنے لگا۔ 

وہ اپنے پور پور میں اسکے لیئے سکون رکھتی تھی اس بات کا اقرار ضرغام کے دل نے کیا تھا اس سے ۔ 

اسراء کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے ضرغام کی گہری سانس محسوس کر کے جبکہ ہاتھ میں لرزش واضح تھی اور انکھیں بند ہوتی لرز گئی تھی۔ 

ضرغام کچھ بھی مزید کرتا یا کہتا اس سے پہلے ہی اسکا فون بجا تھا اور ماحول میں چھایا سارا فسوں چھومنتر ہوا تھا ۔ 

وہ آنکھیں کھولتے اسے دیکھے گیا یہ کیسا نشہ تھا جو اسکے سر چڑھ رہا تھا ۔ ضرغام نے اسے بغور آئینہ میں دیکھتے اپنی انکھوں میں قید کیا تھا اور فون اٹھایا ۔ جبکہ اسکے دور ہوتے ہی اسراء کا سانس بحال ہوا تھا۔ 

ہممم؟ کہوں؟___"

ضرغام کی نظریں اسی پر تھیں جو کنفیوز سی کھڑی تھی ۔

اوکے__" 

ضرغام نے ایک نظر گھڑی میں دیکھا اور فون رکھتے بامشکل اسراء سے نظریں ہٹائی۔ اور الماری سے اپنے کپڑے لیتا وہ فریش ہونے چلا گیا تھا ۔ 

پیچھے اسراء کو اسے فیس کرنا اتنا مشکل لگ رہا تھا جیسے کوئی جن بھوت ہو سامنے اور وہ اسے دیکھ نا پا رہی ہو۔

کچھ ہی دیر میں ضرغام چینج کرتا باہر نکلا تو اسراء جو بیڈ پر بیٹھی اسکا انتظار کررہی تھی اسے دیکھنے لگی ۔ جو بلیک شرٹ پہنے جسکا اوپری بٹن کھلا تھا بلیک پینٹ اور اس پر بلیک ہی کوٹ پہنے وہ گھڑی باندھتے اب بال بنانے لگا تھا ۔ 

تم پرفیوم یوز کرتی ہو؟___"

ضرغام اسے دیکھ نہیں رہا تھا کیونکہ اسے دیکھتے وہ بے خود ہورہا تھا اسلیئے کام میں مگن اس سے سوال کیا جو اسی میں مگن تھی ۔ اسکے سوال پر ہوش میں آئی ۔ 

ن_نہیں ہم پرفیوم یوز نہیں کرتے۔ لڑکیاں پرفیوم نہیں لگاتی ۔ بری بات ہوتی ہے ہم جانتے ہیں__"

اسکی اتنی وضاحت پر ضرغام نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ اسکے دیکھتے ہی ہڑبڑاتی نظریں جھکا گئی ۔ وہ مسکرایا ۔

__ہممم جھوٹ کہہ رہی ہو ؟ وہ بھی ضرغام خانزادہ سے؟___" 

وہ پلٹتے اسے دیکھنے لگا جو پھر ہڑبڑاتی نظر اٹھا گئی تھی۔  

ن_نہیں ہم جھٹ نہیں بولتے ۔ آپ نے کبھی ہمیں پرفیوم یوز کرتے دیکھا ؟ ہم نہیں لگاتے ہم سچ کہہ رہے ہیں___"

وہ پھر پریشان سی وضاحت دینے لگی جبکہ اسکی معصومیت اور خوبصورتی دیکھ ضرغام کا تو بس نہیں چل رہا تھا وہ یہ ڈنر کینسل کر کے یہی اسکے ساتھ رہے ۔ 

ضرغام سر جھٹکتے اس پر سے نظریں ہٹا گیا تھا یہ اسے کیا ہورہا تھا وہ اپنے چہرے پر ہاتھ پھرتا پلٹ گیا ۔ 

چلو_ ہمیں دیر ہورہی ہے ۔ اور ہاں چادر ڈال لو خود پر__"

وہ اسراء کو ہدایت دیتا فوری کمرے سے چلا گیا تھا جبکہ اسراء بھی چادر اٹھاتی خود کو ڈھک گئی تھی اور خوشی خوشی باہر کی طرف دوڑی تھی جہاں اسکا شوہر اسے پہلی بار کہی باہر لے کر جا رہا تھا اسکے چہرے پر تو الگ ہی چمک تھی ۔ 

وہ دونوں شہر کے مشہور فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے تھے جہاں ضرغام نے اپنے اور اسراء کے لیئے ایک پرائوٹ کیبن بک کروایا تھا ۔ جہاں کسی کی نظروں میں اسکی بیوی نا آسکے جو آج اسکے چارو شانے چت کیئے بیٹھی تھی ۔ دو صوفے جو کے آمنے سامنے رکھے گئے تھے اور پھر بیچ میں ایک بڑی سی ٹیبل رکھی تھی ٹیبل پر ہر جگہ پھول ہی پھول بکھرے تھے پورے کیبن میں چاروں طرف گلاب کے پھول رکھے تھے جو اس چھوٹی سی پرائیوٹ جگہ کو رومانوی بنا رہے تھے ۔ 

ضرغام اسکے سامنے بیٹھا اس پر سے بامشکل نظریں ہٹاتا موبائل میں مصروف نظر آنے کے بہانے کررہا تھا جبکہ اسراء حیران کن نظروں سے ایک ایک چیز پر سے نظریں گھماتی ضرغام خانزادہ پر ٹکا گئی تھی اور خود اپنی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتی استحقاق سے اپنے شوہر کو دیکھنے لگی ۔ 

جو یہاں موجود ہر چیز کے آگے بلا کا ہینڈسم لگ رہا تھا ۔ فل بلیک ڈریسنگ اور اوپری بٹن کھلے تھے جس میں سے اسکا ہلکا سا سینہ نمایا ہورہا تھا اور گلے میں پہنی باریک سی سلور چین اس پر واقعی سوٹ کرتی تھی ۔ ہاتھ میں پہنی مہنگی بلیک کلر کی گھڑی جو اسکے ہاتھ میں خوب جچ رہی تھی ، گھنے بھورے بال جیل کی مدد سے سیٹ کیئے ہوئے تھے اور بھوری آنکھیں جو ہمیشہ آگ اگلتی تھی آج سکون میں تھی ۔ وجہ اسراء نہیں جانتی تھی لیکن وہ سکون میں تھا یہ دیکھ وہ دیوانی خود بہت سکون میں آگئی تھی ۔ 

نظروں کا ارتکاز محسوس کرتے ضرغام نے موبائل سے نظریں اٹھائی تو اسراء اسی پر نظریں ٹکائے بیٹھی ۔ ضرغام نے ایک آئیبرو اچکاتے اسراء کو سوالیہ نظروں سے دیکھا لیکن پھر بھی اسنے اپنی نظریں ٹس سے مس نا کی ۔ وہ یونہی بے خود ہوتے اسے تکتی رہی ۔ 

_آپ آج بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں ۔ دل کررہا ہے یونہی آپ سامنے بیٹھے رہیں اور میں ایسے ہی آپکو تکتی رہوں___" 

وہ خمار آلودہ نگاہوں سے ضرغام کو تکتے ہوئے بولی تھی ۔ 

ضرغام کے سینے میں بیٹھا دل اسکی نگاہوں کا مطلب اور اسکی بے خودی کو دیکھتے ایک بیٹ مس کر گیا تھا ۔ وہ کیا تھی ۔ اظہار کے معاملے میں بلا جھجھک اسکے سامنے اپنے دل میں آئی ہر بات اس سے کرجاتی تھی۔ اور اسکی یہ بے خودی ضرغام خانزادہ کا دل دھڑکا جاتی تھی۔ 

لیکن وہ تو ضرغام تھا انا کا مارا ۔ اسے کیسے بتاتا کے وہ اس رنگ میں اس لباس میں بیٹھی اتنی بے خودی میں اس سے ایسے الفاظ کہتی کس قدر اسکا دل دھڑکا رہی تھی ۔

 سامنے بیٹھی وہ لڑکی جو اسکے بیوی کے رتبہ پر فائز تھی ۔ اپنے شوہر سے اظہار کرنے کا حق رکھتی تھی اور اتنے ہی استحقاق سے اسے دن رات تکتے اسکی انکھیں دن رات اس بات کا اقرار کرتی تھی کے وہ دیوانی اس سے محبت نہیں عشق کرتی ہے۔ 

وہ کیسے بتاتا کے وہ اسکی نظروں سے بچ رہا ہے ورنہ وہ مرد ذات تھا جو اسکی بے خودی دیکھتے خود بے خود ہو رہا تھا ۔ اور یہ غلطی کرکے اسراء خانزادہ جانے انجانے میں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی ماررہی تھی ۔ 

تو دیکھتی رہو ۔ اسلیئے تو یہاں تمہیں لایا ہوں تاکہ آج سکون سے تم اپنا شوق پورا کرلو۔ کیوں کے تمہیں دیکھنے میں مجھے تو کوئی انٹرسٹ نہیں ہے__"

ضرغام خانزادہ مسکراہٹ دباتا اپنے ازلی  مغرور انداز میں بولا تھا ۔ لیکن یہ تو وہ اور اسکا دل ہی جانتا تھا کے اسراء کا بے خود ہو کر دیکھنا اسے کتنا پسند تھا ۔ 

جبکہ اسراء اسکی بات سنتے مسکرائی تھی ۔ جیسے یقین نا کیا ہو اسکی بات کا۔ کیونکہ کمرے میں اسے دیکھتے ہی ضرغام کا بے خود ہوجانا اسنے اچھے سے پرکھا تھا ۔

کیا واقعی ہم آج اچھے نہیں لگ رہے__"

وہ چہرے پر معصومیت سجاتی بولی تھی ۔ ضرغام جو موبائل میں مصروف تھا اسکی معصومیت میں ڈوبی آواز سنتا نظریں اٹھاتے اسے دیکھنے لگا جو چہرے پر دنیا جہاں کا بھولا پن طاری کیئے بیٹھی تھی ۔ 

ضرغام اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔ وہ اسکا ضبط آزما رہی تھی ۔ 

_میرا صبر مت آزماؤ باربی ڈول ورنہ تمہاری سانسوں سے کھیلنے میں مجھے وقت نہیں لگے گا__"

ضرغام کی آواز قدرے بھاری تھی جبکہ اسکی بھوری نشیلی آنکھیں مزید خمار میں ڈوبی لگ رہی تھی ۔ 

اسکے الفاظ اور آواز سنتے ہی اسراء کے چہرے پر گلابی رنگ بکھر گیا تھا جبکہ نظریں جو کب سے اس پر کسی ضدی بچے کی طرح وہ جمائی ہوئی تھی ایک لمحے میں نیچے ہوئی۔  جس پر ضرغام کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔ 

کچھ ہی وقت میں ایک ویٹریس آئی تھی انکے پاس ۔ کھانا لے کر ٹیبل پر کھانا رکھتے ہی وہ وہاں سے جا چکی تھی جبکہ کھانا دیکھ اسراء کی بھوک جاگی تھی۔ 

دونوں نے رومانوی ماحول میں کھانے کا اختتام کیا تھا جسکے بعد کافی وقت ہو گیا تھا گاڑی میں گھر کے لیئے روانہ ہوئے وہ لوگ جب ضرغام کی نظریں بھٹک بھٹک کر اسراء کی طرف اٹھ رہی تھی جو گاڑی میں ہی پیچھے سیٹ سے ٹیک لگائے سو چکی تھی۔ 

گھر کے باہر گاڑی روکتے اسنے پلٹ کر اسے دیکھا جو اب تک سورہی تھی اور اسے کڑے مراحل سے گزار رہی تھی ضرغام نے نچلا ہونٹ دانتوں تلے دبایا وہ ضبط کھوتا نکلتے اسکی طرف کا دروازہ کھولتا اسے گود میں اٹھا گیا تھا جس پر اسراء ہڑبڑا کر اٹھی تھی۔۔ 

ض_ضر یہ کیا کررہے ہیں آپ ۔ چھوڑیں ہمیں ہم خود چل سکتے ہیں___"

اسکی بات پر بنا کان دھرے ضرغام ناک کی سیدھ میں چلتا گیا ۔ رات ہوگئی تھی وقت کافی گزر گیا تھا اسلیئے گھر میں کوئی نہیں جاگ رہا تھا وہ سیدھا اسے کمرے میں لے کر آیا تھا ۔ 

دروازہ کھولتے وہ اندر آیا تھا اور لات مارتے اسنے پیچھے دروازہ بند کیا تھا ۔ 

اسراء کا دل کانوں میں دھڑک رہا تھا ضرغام کا یہ روپ دیکھ ۔ جسکی آنکھوں میں خماری جنون بے صبری کے سوا کوئی چیز نا تھی۔ 

ضرغام نے اسے بستر پر لٹایا تھا جبکے خود کھڑا ہوتے اسنے اپنا کوٹ اتار کر پھینکا تھا ۔ نظریں اسراء پر تھی جو آج ہر طرح سے ضرغام خانزادہ کے دل و دماغ کی ساری تاریں شارٹ کرچکی تھی ۔ مزید ایک بٹن اور کھولتے اسنے اپنے جلتے بدن کو سکون دینے کی کوشش کی تھی جو اس وقت شاید ناممکن تھا ۔ 

جبکہ اسراء ضرغام کو ایسی حالت میں آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی بستر پر بیٹھے ٹانگیں بھی اوپر کیئے وہ اسے دیکھ رہی تھی جو شرٹ کا ایک بٹن مزید کھول گیا تھا۔ 

ضر_ضر کیا ہوا؟ آ_آپ ٹھیک ہیں ؟__"

کپکپاتی آواز کے سنگ وہ ضرغام کے جلتے دل پر مزید تیل گراگئی تھی۔ 

نہیں ہوں ٹھیک__

 وحشت زدہ انسان ہوں میں آگ لگی ہے میرے دل میں___"

ایک ٹانگ بستر پر ٹکاتے وہ اسکے قریب جھکا تھا آواز میں غراہٹ تھی اسراء جو ڈر سے ہل بھی نہیں پا رہی تھی ضرغام کی آواز سنتے آنکھیں میچ گئی۔ 

سکون چاہیئے مجھے__ بہت سارا سکون__" 

اسکے کان کے قریب جھکتے ضرغام نے بچوں کی طرح فرمائش کی تھی جس پر اسراء کا دل دھڑکتے پاگل ہونے لگا تھا ۔ تھوک نگلتے وہ منہ ٹیڑھا کیئے ضرغام کو دیکھنے لگی جو اسکے بالوں میں منہ دیئے ہوئے تھا ۔ 

تمہیں پتہ ہے تمہارے وجود کی خوشبو کتنی حسین ہے جیسے کوئی قیمتی کلون کی مہک ہو اس میں سکون ہے بے تحاشہ سکون دل کرتا ہے تمہاری زلفوں کی مہک میں ہی ڈوب جاؤں__" 

وہ اسکی زلفوں کا اسکی خوشبو کا اسیر ہونے لگا تھا۔۔

ضرغام اس پر جھکنے لگا تھا جب اسراء ڈر سے اسکی شرٹ کو اپنی مٹھیوں میں بھینچ گئی۔ وہ آج ہر حد توڑ دینا چاہتا تھا ۔ اور اسکے سکون کے لیئے اسراء اپنی جان بھی قربان کردیتی ۔ لیکن اپنے لالا کا سوچتے وہ تھمی تھی ۔ اور ضرغام جو مزید اس پر جھکنے لگا تھا اسے جھکتے دیکھ اسراء اپنا چہرا موڑ چکی تھی جس پر پہلے تو ضرغام چونکا لیکن پھر ناگواری کے سنگ اسراء کی تھوی اپنے ہاتھوں میں دبوچ گیا ۔ 

کیا مسئلہ ہے؟__"

دیکھتے ہی دیکھتے اسراء کی انکھوں میں پانی جمع ہونے لگا تھا ۔ لیکن پھر بھی ہمت کرتے اسکی گردن میں اپنے بازوؤں کا گھیرا بنا گئی ۔ 

آپ کے لیئے ہماری جان بھی حاضر ہے ضر لیکن پلیز ہماری ایک بات مان لیں__"

وہ نم آنکھیں اسکی انکھوں میں گاڑھ کر کہتی ضرغام کو دو پل کے لیئے مبہوت کرگئی تھی ۔اسکی آنکھوں میں خمار تیر رہا تھا اسے یہ دو انچ کی دوری بھی محال لگ رہی تھی۔ 

کیا؟؟__"

وہ اسکی انکھوں میں دیکھتے بے صبرے سے انداز میں بولا تھا جب اسراء نے ہمت کرتے  کہا۔ 

آ_آپ لالا کو معاف کردیں پلیز__" 

اسراء نے ڈوبتی سانسوں کے بیچ کہا تو ضرغام کو ایک لمحہ میں ہوش آیا ۔ 

جھٹکے سے وہ اس سے الگ ہوتا دور ہو گیا تھا ۔ غصہ سے اسکے ماتھے کی رگیں تن گئی تھی جبکہ اسراء اسکے ایسے جھٹکنے سے تذلیل کے مارے سرخ ہوگئی تھی ۔ 

تمہیں پتہ ہے کیا ؟ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ۔ تمہارے لالا اور تمہاری اتنی اوقات ہی نہیں ہے کے تم لوگوں کو منہ لگایا جائے ۔ تمہاری رگوں میں بھی تو آخر اسی کا خون دوڑ رہا ہے نا__" 

وہ اسکا کندھا پکڑتے غراہٹ کے سنگ بولتا دور جھٹک گیا تھا کے وہ بستر پر جا گری تھی۔ 

تم بھی اپنے بھائی جیسی ہو منافق اور جھوٹی ۔  محبت کی لاگ الاپتی ہو لیکن تمہارے اندر اتنی سکت ہی نہیں کے تم ضرغام خانزادہ کو برداشت کرسکوں اپنی محبت کو ثابت کر سکو___"

ضرغام بولتے اٹھ کھڑ ہوا تھا۔

ضر___" 

وہ اسے غلط سمجھ رہا تھا ۔ وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگی اور کچھ کہنا چاہا جب ضرغام کی شیر سی دھاڑ پر وہ خاموش ہوتی ڈر کر پیچھے ہوئی ۔ 

کل_کل ہی تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آؤنگا.. نہیں رہنا چاہتا میں خان حویلی کے کسی بھی منافق فرد کے ساتھ ___"

ضرغام کی آواز پورے کمرے میں گونجی تھی  اسنے پاس رکھے گلاس کو چھناک سے توڑا تھا جبکے اسراء کی آنکھ سے دو آنسو ٹوٹ کر گرے ۔ وہ ایسے کیسے کرسکتا تھا ۔ ضرغام نے باہر جانے کے لیئے قدم اٹھائے تو اسراء بھاگتی ہوئی آئی اور اسکے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ 

"آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو ۔؟ میری پوری بات تو سن لیں پوری بات سمجھ تو لیں پھر اپنا فیصلہ سنائے گا ۔ آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا میں اپکے بغیر رہ لونگی؟ ___"

وہ اسکا کالر پکڑتے روتے روتے چیخی تھی ۔ یہ سوچنا بھی اسکے لیئے محال تھا کے ضرغام اس سے الگ ہوجائے گا۔ 

"میں روبوٹ نہیں ہوں ضرغام خانزادہ میں بھی جزبات اور احساسات رکھتی ہوں ۔ جسے روز آپ اپنی انا کے ہاتھوں کچلتے میری تذلیل کرتے ہیں لیکن برداشت کرتی ہوں تو صرف اسلیئے تاکے آپ خوش رہ سکیں سب بھول سکیں__""

وہ روتی روتی آج ضبط کھو چکی تھی ۔ لیکن ضرغام خانزادہ کی ذات پر کوئی اثر نا پڑا۔ 

تم لوگوں کے صرف اپنے احساسات اور جذبات ہوتے ہیں دوسرے لوگوں سے تمہیں کوئی فرق نہیں پڑھتا ۔ یہ جو تم اتنے بڑے بڑے الفاظ بول رہی ہو نا اس پر تم لوگ کتنی نظر ثانی کرتے ہو بہت اچھے سے جانتا ہوں میں___"

تمسخر اڑاتا لہجہ تھا ۔ اسکے ہاتھوں کو اپنے گریبان سے دور جھٹکتے وہ جانے لگا جب اسراء اسکی پشت سے لگتے روک گئی ۔ 

لالا غلط ہیں میں جانتی ہوں لیکن میں صرف یہ دشمنی ختم کرنا چاہتی ہوں میں چاہتی ہوں آپکو سکون آجائے اور یہ سکون صرف معاف کرنے سے حاصل ہوگا ۔ پلیز لالا کو معاف کردیں ضر__" 

وہ التجا کررہی تھی اس سے جس کے دماغ کا میٹر گھوم گیا تھا ۔ 

واہ اسراء بی بی ۔ لیکن ضرغام خانزادہ اتنے بڑے ظرف کا مالک نہیں ہے جو اتنی آسانی سے اسے معاف کردے جسے اپنی غلطی کا احساس تک نہیں جس نے آج تک میانہ روی اختیار کرتے مجھ سے دو بول  نہیں بولے ۔ اور تم چاہتی ہو میں اسے معاف کردوں__"

ان باتوں سے تم اور تمہارا لالا کسی دوسروں کو بے وقوف بنا سکتے ہیں لیکن ضرغام خانزادہ کو نہیں___"

اسکے ہاتھ بے دردی سے خود سے پرے جھٹکتا وہ دور ہوا تھا ۔ 

ضر__ آپ غلط سمجھ رہے ہیں لالا کو وہ آپ سے خود معافی۔۔۔۔۔__" 

تم ہٹو میرے راستے سے مجھے کسی کو بھی معافی دینے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے___"

اسکی بات بیچ میں کاٹتا وہ بے زاری سے بولا تھا ۔ 

ن_نہیں ہم نہیں ہٹینگے ۔ آخری سانس تک آپکے پاس رہینگے__"

وہ اسکی اردگرد گھیرا بناتی اسکے حصار میں آگئی تھی جیسے اس بھپرے شیر کو قابو کرنے کی کوشش کررہی ہو۔ 

ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ضر_ بہت زیادہ ۔ ہم اپکو خود سے دور کبھی بھی جانے نہیں دینگے___" اسکی دھڑکنوں کو سنتی وہ شدّت پسندی سے گویا ہوئی تھی ۔ 

اب میں تمہارے ان جذباتی ڈھکوسلو میں نہیں آنے والا__" طنزیہ مسکراتے لہجہ میں بولتا وہ اسکے ہاتھ اپنے ارد گرد سے ہٹانے لگا ۔ 

کیا اپکو ہماری محبت پر یقین نہیں ہے؟___"

آنکھوں میں آنسو بھرتی وہ معصوم معصومیت سے پوچھ رہی تھی ۔ 

پہلے آنے لگا تھا یقین لیکن اب نہیں۔ اگر تم مجھ سے محبت کرتی تو میری وحشتوں کو خود میں گم کرتے میرے لیئے سکون کا باعث بنتی لیکن تم نے مجھ سے منہ موڑ کر مجھ سے پہلے اپنے بھائی کو تر جیح دی ہے ۔ جو ضرغام خانزادہ کو برداشت نہیں ۔ تم نے میری توہین کی ہے مجھ سے منہ موڑ کر اور اب میں تمہارے وجود پر نظر ڈالنا بھی ناگوار سمجھونگا___"

وہ ستمگر بنا زہر سے زیادہ زہریلے الفاظ ادا کرتا اسراء کی جسم سے اسکی جان نکال گیا تھا ۔ 

وہ اسے خود سے دور نہیں برداشت کرسکتی تھی وہ اسکے قریب آکر سکون محسوس کرتا تھا اور اگر وہ خود اسے میسر نا آتی تو یہ اسراء خانزادہ کی محبت کی توہین تھی ۔ 

ن_نہیں ضر_ ہم آپ سے ب_بہت محبت کرتے ہیں ۔ آپ کے بغیر نہیں رہ سکتے__"

وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی جسم سے سانسیں کھینچ رہا ہو ۔ 

جبکہ ضرغام اسکی حالت سے نا واقف اسکے ہاتھ خود سے پرے کرنے لگا۔ 

ہر گز نہیں ۔ مجھے تمہاری باتوں پر یقین نہیں__"ضرغام سپاٹ چہرہ لیئے بولا تھا۔

اسراء سے برداشت نا ہوا تو وہ اسکی گردن میں منہ دیتے وہاں بوسہ دے گئی جسے محسوس کرکے ضرغام خانزادہ تھما ۔ اسے  اسراء سے اتنی بے باکی کی امید نا تھی جبکہ اسے تھمتے دیکھ اسراء نے اسکے کندھا بھگوتے اسے کئی بوسے دیئے ۔ جس پر ضرغام سر شار سا مسکراتا اسے سینے میں جکڑ گیا۔ 

ہم_ہمیں معاف کردیں ۔۔ آ_آئیندہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ ہم آپکے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ہماری سانسوں میں بستے ہیں آپ ۔ کاش ہم اپکو اپنا دل چیر کر دکھا سکتے کے کس قدر محبت بسی ہے ہمارے دل میں اپکے لیئے___" 

اسکی گردن اور کندھا بھگوتے وہ ہچکیوں سے کر رونے لگی ۔ ضرغام نے اسکے بال پیچھے سے مٹھی میں جکڑے تو وہ کراہتی پیچھے منہ دیتے آنکھیں میچ گئی ۔ 

اگر__اگر یہ جھوٹ نکلا ۔ تمہاری محبت جھوٹ نکلی یا میرے سامنے تم نے اپنے لالا کی سائیڈ لی تو یاد رکھنا ۔ تمہارے دل کو اپنی مٹھی میں لے کر کچل دونگا ۔ ان چلتی سانسوں کو ہمیشہ کے لیئے بند کردونگا  کیونکہ مزید نفرت دھوکے اور منافقت برداشت نہیں کرونگا میں اب__" 

اسکا چہرا خود کے قریب کرتے سرد ٹہٹرتے لہجہ میں بولا تھا کے اسراء کا دل کانپ گیا تھا ۔ 

اسراء اپنی نم آنکھیں کھولتی اسے دیکھنے لگی جسے دیکھ ضرغام کو اپنا دل ڈوبتا محسوس ہوا ۔

اسراء کی انکھوں میں محبت اور ڈر  دیکھ وہ جھٹکے سے اسے اپنی گود میں اٹھا گیا تھا۔ 

بستر پر لٹاتے اسنے اپنی شرٹ اتار دی تھی جسے دیکھ اسراء کا دل دھڑک دھڑک کر پاگل ہونے لگا ۔ اسکی سانسیں تھمنے لگی تھی ماتھے پر پسینا چمکتے دیکھ ضرغام جھکا تو وہ آنکھیں بند کرگئی ۔ ضرغام نے بے خودی کے عالم میں اسکے کندھے پر پڑے ساڑھی کے پلو کو ہاتھ میں لیا تو اسراء نے تڑپ کر  اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور آنکھیں پھاڑے اسے گھبراتے دیکھنے لگی جس پر ضرغام طنزیہ مسکرایا گہری معنی خیز مسکراہٹ جو اسراء کا ننھا سا دل تھما گئی تھی وہ بامشکل تھوک نگلتے  سانسیں روکتے بے بسی سے اپنے ہاتھ پیچھے کر گئی تھی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر بالوں میں جذب ہوا تھا۔۔ 

اسکے ہاتھ خود با خود پیچھے ہٹتے دیکھ ضرغام مسکرایا فتح کن مسکراہٹ ۔ 

ہمم_ واقف ہونے لگی ہو باربی ڈول مجھ سے __اچھا لگا مجھے____" 

پر اسرار لہجہ تھا جسے محسوس کرتے اسراء نے اپنی انکھیں سختی سے میچ لی تھی اور ضرغام  اسے خود میں قید کرتا چلا گیا تھا ۔ اس ملن کی رات کے بعد اسراء کی زندگی بدلنے والی تھی جسکا احساس کل صبح کے سورج کے بعد ہونا تھا ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️________

پردوں سے چھن کر آتی روشنی اسکے چہرے پر پڑی تو وہ آنکھیں کھول گئی ۔ 

پلٹ کر دیکھا تو کبیر اسکے ارد گرد ہاتھ رکھتا اسے اپنے حصار میں لیئے سو رہا تھا ۔ 

نرمین نے مسکراتے با مشکل اٹھتے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا ۔ جسے محسوس کرتا کبیر نیند میں ہی ہولے سے مسکرایا ۔

اور حصار مزید تنگ کرگیا ۔

خان اٹھیں صبح ہوگئی ہے____" 

نرمین نے کسمساتے اٹھنا چاہا جس پر کبیر برے سے منہ بناتا اسے مزید قریب کرگیا۔

خان اٹھیں ۔ آج ہماری فلائیٹ بھی ہے ۔ بہت کام ہیں___"

نرمین کی مدھم آواز پر کبیر نے اپنی

 آنکھیں کھولی ۔ تو وہ نظریں جھکا گئی ۔ 

کچھ دن اور اس شہر میں قیام نہیں کرسکتے کیا ہم ___"

کبیر بے خودی میں بولتا پھر نرمین کو گھبراہٹ میں مبتلا کررہا تھا کے وہ مزید کسمسانے لگی ۔

ن_نہیں ہمیں سب کی یاد آرہی ہے ۔ آپ پلیز اٹھ جائیں ۔ ہم آج ہی جائینگے واپس___"

نرمین نے کہا تو کبیر نے اپنی مسکراہٹ دبائی ۔ 

لیکن میں تو فلائیٹ مزید دو ہفتوں کے لیئے آگے بڑھوا چکا ہوں___" 

چہرا سنجیدہ جبکہ آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی جسے نرمین دیکھ نا سکی اور شاک سی کیفیت میں گھر گئی ۔ 

واقعی؟ آ_آپ نے دو ہفتوں کے لیئے مزید؟؟___"

وہ جملا پورا بھی نہیں کرسکی تھی کے اسکی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ وہ کہاں سب سے کبھی اتنے دن دور رہی تھی اسے سب کی بہت زیادہ یاد آرہی تھی ۔ 

اسے رونا اسٹارٹ کرتے دیکھ کبیر بوکھلاتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔ 

نہیں نہیں canım میں مذاق کررہا ہوں ۔ آج ہی ہماری فلائیٹ ہے___"

اسے روتے دیکھ کبیر نے فوراً سچ بتایا تھا جس پر نرمین رونا بھولتے غصہ سے اسے دیکھنے لگی ۔ 

چھوڑیں ہمیں__ہم آپ سے بات نہیں کرینگے اب___" 

وہ اٹھ کر جانے لگی جب کبیر نے اسے کھینچتے اپنے سینے سے لگایا ۔ 

سوری میری زندگی__ بس آپکو تنگ کررہا تھا۔ ہم آج ہی جا رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں اپکو سب کی یاد آرہی ہے بہت ۔ آپ فکر نا کریں ۔ رات کی فلائیٹ ہے آپ سب سامان پیک کرلیں ۔ میں بھی کام سے جارہا ہوں بس تھوڑی دیر میں آجاؤنگا___"

اسے پیار سے سمجھاتے کبیر نے اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے پرسکون کیا تھا۔ جس پر نرمین نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

چھوٹی سی جسارت کرتا وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور کپڑے لیتا واشروم میں بند ہوگیا تھا جبکہ نرمین جہاں تھی وہی تھمی رہ گئی تھی ۔ لال ٹماٹر چہرے پر ہاتھ پھیرتی وہ خود کو نارمل کرتی اٹھ بیٹھی ۔ 

_____❤️ حیا خان ❤️_______

رات سے اسکی طبیعت قدرے بہتر تھی ۔ وہ اٹھنے لگی تو فردان پر نظر پڑی جسے دیکھتے اسکا غصہ عود آیا ۔  وہ کل رات والی حرکت بھولی نہیں تھی ۔ فردان جو گہری نیند میں سورہا تھا ۔ راحمہ نے اٹھتے اسکے ہاتھ پر زور سے کاٹا جسکے باعث وہ بلبلا اٹھا ۔

یار یہ کیا حرکت ہے راحمہ؟؟___"

فردان نے اٹھتے ہی اپنے ہاتھ کو دیکھا جہاں راحمہ کے دانت کے نشان جگمگا رہے تھے ۔ 

ہم سے بات نہیں کریگا آپ۔ جو آپ نے کل ہمارے ساتھ کیا ہے وہ بھولے نہیں ہیں ہم۔ اور بخشینگے نہیں آپکو ___"

وہ غراتی ہوئی بولی تھی کے فردان اسے دیکھتا رہ گیا تھا ۔ 

اور جو آپ نے ہمارے ساتھ کل کیا تھا اور آج__۔آج یہ ؟ اسکے بارے میں کیا کہنا ہے اپکا__"

کل بھی ہم نے اپکو سزا دی تھی ہمیں باہر لے کر نا جانے کی اور آج کل کی حرکت پر دی ہے___"

اسکی بات سنتے ضرغام کا پارہ ہائی ہوا۔ 

کیا آفت ہیں آپ __ ہمیں غصہ مت دلایا کریں آپکے حق میں اچھا نہیں ہوگا پھر ___"

وہ اسے وارن کرتا بولا جو اسکے لفظ آفت پر اٹکی۔

کیا کہا ؟ ہم آفت ہیں؟ ہاتھ میں دیا لے کر بھی ڈھونڈینگے نا تو ہماری جیسی لڑکی نہیں ملے گی اپکو ___" 

وہ اسے جتاتے ہوئی بولی تھی جس پر فردان نے اسے داد دیتی نظروں سے دیکھا ۔

دیا لے کر ڈھونڈا ہے تبھی آپ ملی ہیں ٹارچ وغیرہ لے لیتے تو زیادہ اچھی مل جاتی کوئی___"

فردان کی بات سنتے راحمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا تھا ۔ 

وہ غصہ سے اٹھتی اپنے کپڑے لیتی خود کو واشروم میں بند کرگئی تھی جبکہ دروازہ اتنی زور سے بند کیا تھا کے فردان کے کان کے پردے ہل گئے تھے ۔ 

وہ مسکراتا  نفی میں سر ہلاتا اٹھ بیٹھا تھا ۔ اور کبیر کو کال ملائی تھی جسکی آج رات فلائیٹ تھی ۔ اور فردان اور راحمہ بھی آج رات تک حویلی پہنچ جاتے۔۔۔

______❤️ حیا خان ❤️_______

وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے گیلے بال سکھا رہی تھی جبکے دماغ کی ڈوریاں کل رات کے گزرے لمحوں سے الجھی تھیں ۔ وہ خوش تھی اپنی محبت کے ایک قدم مزید قریب ہوگئی تھی ۔ لیکن اس کے دل میں کسک سی تھی جیسے کچھ نا مکمل ہو۔ شاید یہ کے ضرغام اس سے محبت نہیں کرتا یا شاید یہ کے وہ ابھی بھی اسکے لالا سے بدگمان ہے ۔ یا پھر یہ کہ کہی وہ ابھی تک اسکی نرمین اپو کی محبت میں گرفتار تو نہیں ہے۔ 

اسنے خود کو آئینہ میں نظر اٹھا کر دیکھا جو گلابی رنگ پہنے کھلا ہوا گلاب ہی لگ رہی تھی ۔ نکھری نکھری سی وہ بے حد حسین لگ رہی تھی۔ جبکہ پیچھے نظر پڑی جہاں ضرغام بے چین سا ہورہا تھا اسے بیڈ پر نا پاکر ۔ اسے دیکھتی وہ مسکرائی ۔ 

محبت نا صحیح اسکی عادت وہ غضب کی بن گئی تھی ۔ اور کہتے ہیں نا عادت محبت سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ وہ کہہ تو گیا تھا کے وہ اسے چھوڑ دے گا لیکن اسے چھوڑکر وہ خود کیسے رہ پائیگا ۔ یہ سوچتے اسراء مسرور سی ہوئی تھی ۔ 

جب ضرغام آنکھیں کھولتا اٹھ کھڑا ہوا اور اسے دیکھا جو آئینہ کے سامنے کھڑی بال سلجھاتے اب ہلکا ہلکا میک اپ کرنے لگی تھی ۔ پھر گھڑی کی طرف دیکھا جو آٹھ بجا رہی تھی۔ 

یہ تم اتنی جلدی کیوں اٹھ گئی؟؟___"

وہ آنکھیں مسلتا اسے کیوٹ سا بچہ لگا تھا اپنی مسکراہٹ چھپاتی وہ پلٹی جسے دیکھ ایک پل ضرغام خانزادہ ٹھٹک کر ہوش میں آتے آنکھیں پوری کھولتے اسے دیکھنے لگا ۔ وہ کتنی حسین لگ رہی تھی ۔ وہ مسکرایا یہ دیکھتے کے اسکا رنگ اسراء خانزادہ پر خوب چڑھا تھا۔ 

صبح ہوگئی ہے ۔ پھپھو جانی انتظار کررہی ہونگی_ آپکی وجہ سے روز ہم انکے ساتھ ناشتہ نہیں کر پاتے ۔کیا سوچتی ہونگی وہ۔__" 

وہ ہلکی آواز میں اس سے شکوہ کرگئی تھی ۔ جو خود تو لیٹ اٹھتا تھا اور اسے بھی سونے کی ہدایت کرتا تھا کے جب تک وہ نا اٹھے اسراء بھی نا اٹھے۔ 

یہی سوچتی ہونگی کے انکا بیٹا انکی بہو کو نیچے آنے نہیں دے رہا ۔ اور مورے کوئی برا نہیں مناتی تم آؤ واپس ۔ ابھی مجھے اور سونا ہے___" 

وہ اسے پاس بلانے کے بہانے تلاش کررہا تھا جسے سنتے اسراء پھر لال ٹماٹر ہوئی۔ 

ہ_ہم نہیں آرہے __ہمیں بہت بھوک لگ رہی ہے ۔ نیچے جانا ہے___" 

وہ روہانسی ہوتے ہوئے بولی تھی جسے دیکھ ضرغام کا دل بھی پگھلا وہ دو منٹ تک اسے گھورتا رہا جو ڈھیٹ بنی ہوئی تھی پھر خود اٹھتا بڑبڑاتا اپنے کپڑے لیتا واشروم میں بند ہوگیا تھا ۔ 

اسے اپنی بات مانتے دیکھ تو اسراء ہواؤں میں اڑنے لگی تھی ۔ ورنہ ضرغام تو ہمیشہ اپنی ہی کرتا تھا یہ سوچتے اسراء ہنسنے لگی ۔ اور پھر جلدی سے تیار ہوتی اسکا انتظار کرنے لگی۔۔۔

کبیر جا چکا تھا لیکن اسکا دل بہت پریشان تھا اسکے دماغ میں صرف اسراء چل رہی تھی جس سے یہاں آکر اسکی ایک بار بھی بات نہیں ہو سکی تھی اور آتے وقت بھی وہ اس سے ملنے نہیں آئی تھی ۔ اسنے ہاتھ میں فون لیتے وقت دیکھا تھا جو دن کے دو بجا رہا تھا ۔ ساری پیکنگ وہ کر چکی تھی ۔ کل تک وہ پاکستان میں ہوتے لیکن پھر بھی اسکا دل چاہ رہا تھا وہ ابھی ہی کال کرلے اسے یہ سوچتے اسنے فون ملایا تھا ۔ جو پہلی بار میں نہیں اٹھایا گیا تھا ۔ 

دوسری طرف اسراء کھانا کھاتے ابھی کمرے میں ہی آئی تھی جب اسنے دیکھا کے موبائل رنگ کررہا ہے اسنے نام دیکھا تو کشمکش کا شکار ہوگئی تھی ۔ اسے بھی اپنی اپو کی بہت یاد آرہی تھی لیکن پتہ نہیں اسکے دل میں ایسا کیا تھا جو اسے نرمین سے بات کرنے کے لیئے روک رہا تھا ۔ شاید اسکا اور ضرغام کا رشتہ ۔ جو ابھی پر سکون زندگی کی طرف بڑھا تھا۔ 

وہ انہی سوچوں میں گم تھی جب فون بجتے بجتے بند ہوا۔ وہ وہی کھڑی رہی جب فون دوبارہ رنگ ہوا لیکن اس بار ضبط توڑتے اسنے فون ہاتھ میں لیا تھا اور  گہرا سانس بھرتے کال رسیو کی تھی ۔ 

اسلام علیکم۔۔ کیسی ہیں اسراء___"

نرمین نے فوراً ساتھ سوالات کیئے تھے جس پر اسراء ہولے سے مسکراتی سلام کا جواب دے گئی تھی ۔ 

ہم ٹھیک ہیں اپو آپ کیسی ہیں اور لالا کیسے ہیں ___"

آپکی بہت یاد آئی ہمیں اپو۔۔"

نم انکھوں سے کہتے اسراء اپنی آنکھیں صاف کرگئی تھی ۔

جسے سنتے نرمین بھی نم آنکھوں سے مسکرائی۔ 

ہم دونوں ٹھیک ہیں ۔ ہم نے بھی آپکو بہت یاد کیا ۔ اور آپکے لالا بھی اپنی گڑیا کو بہت یاد کرتے ہیں___"

آ.آپ ٹھیک ہہں نا اسراء ۔ ہم_ہمارا مطلب ضرغام لالا کے س_ساتھ خوش__ہیں؟؟___"

نجانے کیوں لیکن نرمین کی آواز میں لڑکھڑاہٹ تھی جو اسراء نے با خوبی محسوس کی تھی اسکا مطلب وہ جانتی تھی سب ۔ یہ سوچتے اسراء نے ضبط سے اپنی انکھیں بند کرتے کھولی تھی ۔ 

ہم خوش ہیں اپو ۔ شاید شادی کے بعد سے آج وہ پہلا دن ہے جس میں ہم خوش ہیں سکون سے ہیں مطمئن ہیں__"

اسراء کی باتیں سنتی نرمین ٹھٹکی تھی ۔ 

ک_کیا مطلب؟  سب ٹھیک ہیں نا اسراء؟___"

نرمین کو پریشانی ہونے لگی تھی ۔ کیونکہ پتہ نہیں کیوں لیکن اسے کوئی خوش فہمی نہیں تھی ضرغام کی طرف سے ۔ 

اسراء سوچوں میں ڈوبی تھی ضرغام کا پچھلا رویہ یاد کرتے لیکن کل رات اسنے جس طرح سے اپنی وحشتیں اسراء کو سونپی تھی اور اسکے ذریعہ سکون حاصل کیا تھا اسکے لمس میں جتنی نرمی تھی وہ سب پرانی خلش مٹا چکی تھی ۔

اپو آپ جانتی تھی نا وہ کسی اور کو پسند کرتے ہیں؟؟___"

اسراء نے سامنے دیکھتے سنجیدہ لہجہ میں کہا تھا جسے سنتے نرمین خاموش ہوئی تھی ۔ اسکا مطلب واقعی وہ لوگ جو ضرغام کو لے کر اتنے سکون میں بیٹھے تھے وہ اتنا بھی سکون پسند انسان نہیں تھا ۔ نرمین نے گہرا سانس بھرا تھا ۔ 

اسراء انہوں نے آپ سے کچھ کہا ہے؟___"

نرمین نے بھی سنجیدہ انداز میں پوچھا تھا۔ 

کچھ نہیں اپو ۔ بہت کچھ۔۔۔ ان کے دل کا سارہ غبار میں نے سنا ہے ۔ وہ ٹوٹے ہوئے تھے انہیں بہت مشکلوں سے جوڑنے کی کوشش کررہی ہوں ۔ میرے حق میں دعا کرے گا ۔ انہیں پرانی یادوں سے نکال کر مکمل اپنا کرلوں۔___"

وہ شاید التجا کررہی تھی جیسے نرمین اسکی کوئی مدد کرسکے ۔ 

جبکہ نرمین اسکی زبان سے یہ جملا سنتے سکتے میں آگئی تھی ۔ اسکی آنکھ سے ایک انسو ٹوٹ کر گرا تھا ۔ ضرغام خانزادہ کی محبت کےلئے نہیں ۔ بلکہ اپنی بہن کے لیئے جو کتنی مشکل سے یہ برداشت کررہی تھی کے اسکا شوہر کسی اور سے محبت میں مبتلا ہے۔ نرمین نے سختی سے انکھیں میچی تھی ۔ 

ہم بے گناہ ہیں اسراء ۔ہ_ہم پاک ہیں___"

نرمین روتے ہوئے بولی تھی ۔ یہ کیسا داغ آیا تھا اسکے سر جو اسے اپنوں کے سامنے ہی شرمندہ کررہا تھا ۔ جبکہ اسکی بات سنتے اسراء جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوئی تھی ۔ 

ک_کیسی باتیں کررہی ہیں اپو؟ ہم اپکی وہی چھوٹی بہن ہیں جو بچپن سے آپکے ساتھ رہی ہیں ۔ مورے سے زیادہ ہم آپکے قریب رہے ہیں ۔ اور آج آپ ہمیں اپنی پاکیزگی کا یقین دلا رہی ہیں ۔؟ ہم آنکھ بند کر کے آپ کا یقین کرینگے ۔ ہم جانتے ہیں اس میں آپکی کوئی غلطی نہیں ہے___"

اسکی باتیں سنتے نرمین مزید روئی تھی ۔ ہم جانتے ہیں انہوں نے ضرور آپکو کوئی تکلیف دی ہوگی ۔ آپ یقین جانیں ہمارا دل سکون میں نہیں تھا ۔ ہمارا دل بار بار یہ کہہ رہا تھا کے ہماری چھوٹی بہن سکون میں نہیں ہے __"

اسکی بات سنتے اسراء کے بھی آنسو بہنے لگے تھے ۔ 

آپ فکر نا کریں اپو ۔ آپکی چھوٹی اب بہت بڑی ہوگئی ہے ۔ہم ضر سے بہت محبت کرتے ہیں اور ایک دن انکا دل ضرور جیت لیں گے ۔۔ یہ سب جو وہ ہمارے ساتھ کررہے ہیں ۔ اس سب کے بدلے وہ ایک دن ہمیں اس سے بڑھ کر خوشیاں دیں گے ہم جانتے ہیں ۔ ہم آپکی بہن ہیں صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے ۔ ہمیں اللّٰہ پر پورا بھروسہ ہے___" 

اسکی باتیں سنتی نرمین مسکرائی تھی ۔ "ہمیں بھی اپنے رب پر بھروسہ ہے ایک دن وہ اپکو اتنی خوشیاں دکھائیگا کے آپ سے سمبھالی نہیں جائینگی ہماری دعائیں ہمیشہ آپکے ساتھ ہیں___" 

اس سے بات کر کے اسراء کی ہمت بندھی تھی۔ 

اپو آپ بس لالا کو کچھ مت بتائے گا ۔ ہم نہیں چاہتے مزید کوئی باتیں ہو ۔ ہم پوری کوشش کرینگے کے ضر سب پرانی باتیں بھول جائیں___"

اسکی بات سنتے نرمین کی مسکراہٹ سمٹی تھی ۔  اسے کبیر کے الفاظ یاد آئے تھے۔

(مجھے سے کچھ مت چھپانا کبھی ۔ میں بہت مشکل سے لوگوں پر بھروسہ کرنے والوں میں سے ہوں ۔ اور تم پر میں نے دل و جان سے بھروسہ کیا ہے۔)

ہم_ہمیں نہیں لگتا اسراء اپکو اپنے لالا سے کچھ چھپانا چاہیے ۔ ہوسکتا ہے اپکے لالا ضرغام لالا سے بات کرکے کوئی حل نکال لیں ___"

نہیں اپو ۔ لالا کو پتہ چلا تو بہت برا ہوجائیگا ۔ ہم نہیں چاہتے انہیں کچھ پتہ چلے پلیز اپو اپکو ہماری قسم___"

اسکی بات سنتے نرمین نے پریشانی سے آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ 

یا اللّٰہ مدد کریں پلیز___"

نرمین نے اپنے دل میں اپنے رب کو پکارا تھا اسے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لیکن پھر بھی اسراء کو الوداعی کلمات ادا کرتے اسنے فون رکھا تھا۔۔۔

بستر پر بیٹھے اسنے پریشان ہوتے اپنے رب سے دعا کی تھی کے کاش یہ معاملا جلد از  جلد سلجھ جائے ۔ اللّٰہ پاک ضرغام کے دل کو نرم کردیں ۔ اسے اسراء کے ساتھ خوش رکھیں ۔ اور ضرغام کے دل سے ہر بری سوچ کو مٹا دیں ۔ لیکن کاش ۔۔۔۔ کیونکہ اگر اسکے برعکس ہوتے یہ سب کبیر کو پتہ چل گیا تو وہ کیسا رد عمل دے گا یہ نرمین اپنے وہم و گمان میں بھی نہیں سوچنا چاہتی تھی ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

یار راحمہ کیا ہوگیا اپکو موڈ تو ٹھیک کریں اپنا ___"

فردان نے راحمہ کو دیکھا جو صبح سے ایک لفظ بھی اس سے نا بولی تھی جب کے کبھی دروازہ غصہ سے بند کرتی کبھی چیزیں پٹخ رہی تھی جس سے فردان تنگ آگیا تھا ۔ 

لیکن راحمہ نے اسے کوئی جواب نا دیا اب وہ لوگ روم سے نکلنے لگے تھے  وہ روم سے باہر نکلی تو پیچھے تاسف سے سر ہلاتا فردان بھی سامان گھسیٹتا اس کے پیچھے آیا ۔ 

فردان ہوٹل سے چیک آؤٹ کروانے لگا تھا جبکے راحمہ اسے اگنور کرتی اگے اگے جانے لگی فردان نے اسے آواز لگائی لیکن وہ سنی ان سنی کرتی باہر گاڑی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی تھی جسے دیکھ فردان کا بھی دماغ پھرا تھا بعد کا سوچتے وہ چیک آؤٹ کرانے لگا۔ ۔ راحمہ کا غصہ اسکی ہر چیز سے بڑھ کر تھا ۔ اسنے تہیہ کرلیا تھا کے اب وہ فردان کے ساتھ اکیلے سٹے کے لیئے کبھی نہیں آئیگی ۔ انہی سب سوچوں میں گم وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑی تھی جب دو اواراہ لڑکے سگریٹ پھونکتے اکیلی لڑکی کو کھڑے دیکھ اسکے پیچھے آ کھڑے ہوئے ۔ 

حالانکہ راحمہ عبایا پہنے نقاب میں کھڑی تھی لیکن آج کل کے کچھ مرد اپنی نفس اور اپنی تربیت کے ہاتھوں مجبور کہاں باز آتے ہیں ۔ اکیلی لڑکی انکے لیئے کھلی تجوری کی طرح ہی ہوتی ہے ۔ پھر چاہے وہ بنا پردے کے ہو یا پردے کے ساتھ ۔ 

ارے مس آپ اکیلی کھڑی ہیں آئیں ہم آپکو چھوڑ آتے ہیں___"

خباست زدہ ہنسی ہنستے سگریٹ پھونکتا وہ واقعی کوئی آوارہ مرد لگا تھا جبکے راحمہ اپنے اتنے قریب انجانی آواز سنتی گھبرا کر جلدی سے دو قدم پیچھے ہوئی تھی ۔ دل گھبرانے لگا تھا جبکے ادھر ادھر دیکھتے اسکی نظروں نے فردان کو ڈھونڈنا چاہا تھا جسے وہ اپنے نخروں میں اسکی آواز کو اگنور کرتی اکیلی آگئی تھی باہر۔ 

وہ جلدی سے ہوٹل کے گیٹ تک جانے کے لیئے پلٹی تو دوسرے لڑکے نے اسکا ہاتھ سختی سے تھام لیا ۔ 

ارے ڈرو نہیں ہم ہیں نا تمہیں بہت پیار سے گھر چھوڑ آئیں گے آؤ ہمارے ساتھ___" 

اسکی باتیں سنتے اور اسکا غلیظ لمس اپنے ہاتھ پر پاتے راحمہ نے دل میں اپنے رب کو اور زبان سے فردان کو آواز لگائی تھی ۔ ۔

جبکے فردان جو باہر ہی آرہا تھا اور اسکی نظر راحمہ پر پڑی جس کا ہاتھ کسی نے تھام رکھا تھا اور اس مرد کے اخری الفاظ جو فردان کے کانوں میں پڑے تھے ۔ فردان نے شرر بار نگاہوں سے اس منظر کو دیکھا اور سامان وہی پھینکتا  اسکے قریب آیا تھا اور راحمہ کی کلائی پکڑے اس غلیظ مرد کے ہاتھ کو پکڑا ۔پکڑ اتنی مضبوط تھی کے اس مرد کو اپنے جسم میں گردش کرتا خون ٹہرتا محسوس ہوا تھا اسنے جھٹکے سے راحمہ کا ہاتھ چھوڑا تھا جو فردان کے آتے ہی اسکے پیچھے جا کھڑی ہوئی تھی ۔ 

فردان نے ایک نظر راحمہ پر ڈالی جو آنکھوں میں آنسو بھرے اسی کو دیکھ رہی تھی اور فردان کی لال آتش فشاں بنی نظروں کو دیکھ راحمہ کا جسم برف ہونے لگا تھا ۔ 

گاڑی میں بیٹھو ___" 

آنکھیں آگ اگل رہی تھی جبکے لہجہ اتنا ہی ٹھنڈا ٹھار تھا کے راحمہ سیکنڈ سے پہلے دروازہ کھولتی گاڑی میں بیٹھی تھی ۔ 

فردان نے پلٹ کر اس انسان کو دیکھا تھا جو اپنے ہاتھ کو دیکھ رہا تھا اور اس سے چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا جو  فردان کی فولادی گرفت سے نکلنا مشکل تھا ۔

اس انسان کا ہاتھ نیلا پڑ چکا تھا جبکے وہ وحشت زدہ سا ہونے لگا تھا ۔ 

ابے چھوڑ میرا ہاتھ کیا کررہا ہے ۔ پاگل آدمی ____" اسنے اپنی طاقت آزمائی جو کام نا آسکی تبھی زبان کے جوہر دکھانے لگا۔ 

تیری تو __چھوڑ اسے ___" 

پیچھے اسکا ساتھی کھڑا آگے پڑھنے لگا جبکے فردان نے ایک سپاٹ نظر اسکے چہرے پر ڈالی جو ڈر کر وہی اپنے قدم روک گیا تھا ۔

چھوڑ مجھے میرا ہاتھ نیلا ہورہا ہے ۔____" 

وہ پاگل ہوتا چھڑوانے لگا جبکے فردان اپنے دوسرے ہاتھ کا استعمال کرتے اسکی انگلیوں کو پکڑتا جھٹکے سے موڑ کر توڑ چکا تھا جس سے ایک ہولناک چیخ اس انسان کے گلے سے نکلی تھی جو راحمہ نے گاڑی میں بیٹھے سنی تو روتے ہوئے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔ اسنے پلٹ کر ان لڑکوں کو نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ جانتی تھی اسکا پاگل پٹھان کتنا پاگل ہے ۔ وہ انکا جو حال کرےگا اسکو دیکھنے کی سکت راحمہ میں نہیں تھی ۔ 

جبکے فردان نے اسکی انگلیاں توڑنے کے بعد اسکی آنکھوں میں دیکھا ۔ جو بری طرح سے روتا اپنا ہاتھ چھڑونا چاہ رہا تھا لیکن فردان نے سکی آنکھ پر اتنی زور کا مکہ مارا تھا کے وہ نیچے جا گرا تھا اسکا سر پکڑ کر فردان نے اتنی زور سے زمین پر مارا تھا کے وہ برداشت نا کر پاتے بے ہوش ہو چکا تھا جبکے آنکھ اور ہاتھ نیلا پڑ چکا تھا جسے دیکھتے دوسرا لڑکا وحشتزدہ ہوگیا تھا ۔ وہ آنکھیں پھاڑے کبھی اسے تو کبھی فردان کو دیکھتا جس کی نظریں اب اسی پر تھی۔  وہ نفی میں سر ہلاتا بھاگنے لگا جب فردان کی آواز گونجی۔ 

وہیں رک جاؤ ورنہ اگر میں نے تمہیں ڈھونڈ کر نکالا تو موت سے بدتر حال کردونگا تمہارا _____" چہرے کے تاثرات سرد سپاٹ تھے جب کے اس لڑکے کی ٹانگیں لرزنے لگی تھی اپنے ساتھی کا یہ حال دیکھ ۔ 

فردان کو تو ویسے ہی نفرت تھی ایسے مردوں سے اوپر سے اسکی بیوی کو ہاتھ لگا کر ان لوگوں نے اچھا نہیں کیا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کے وہ یہیں کھڑے کھڑے ان دونوں کے سینوں میں گولیاں اتار دے ۔ 

وہ لڑکا گھبراتا ہوا آیا اور فردان کے پیروں میں گر گیا ۔ 

بھائی میں نے باجی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا قسم سے میں نے کچھ بھی نہیں کہا تھا میں بس اس کے ساتھ تھا اس سے زیادہ میری کوئی غلطی نہیں ہے ____"

فردان نے سپاٹ تاثرات سے اسے دیکھا اور اسکے منہ پر لات مارتا اسے نیچے گراگیا تھا جبکے پیر اسکے سینے پر رکھ کر اسنے بے دردی سے مسلا تھا ۔ 

فلحال یہ غلطی ہی تمہاری سب سے بڑی ہے کے تم ایسے انسان کے ساتھ تھے____" اسکے سینے پر در پہ در لاتوں کے وار کرتا وہ پاگل ہونے کو تھا جس کے منہ سے اب خون آنے لگا تھا۔ 

آئیندہ اگر غلطی سے بھی مجھے کسی عورت کو تنگ کرتے ہوئے نظر آگئے تو موت دونگا صرف موت____"

اسکی سرد آواز سنتا وہ ہاتھ جوڑتے سر ہلا نے لگا جبکے فردان غصہ قابو کرتے اب گاڑی میں جا بیٹھا تھا جہاں گاڑی میں بیٹھا وجود سر نیچے کیئے آنکھوں کو میچے کانوں پر ہاتھ رکھے بیٹھی تھی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے۔ 

فردان نے دروازہ کھولنے سے پہلے شیشے سے اس منظر کو دیکھا اور خود پر قابو کرنے لگا کیونکہ وہ پہلے ہی مزید رو رہی تھی ۔ اگر وہ کچھ کہتا تو وہ بے ہوش بھی ہوجاتی ۔ 

وہ خاموشی سے گاڑی میں بیٹھا تو راحمہ سب بھولتی اسے دیکھنے لگی ۔ جس کا سنجیدہ چہرا ضبط سے لال تھا آنکھیں آگ اگل رہی تھی لیکن زبان خاموش تھی ۔ 

گاڑی اسٹارٹ کرتے وہ ٹرن لیتا رستہ پر رواں ہوا اس سب میں اسنے ایک نظر بھی راحمہ کو نہیں دیکھا تھا جو مسلسل اسی کو دیکھ رہی تھی نم آنکھوں سے ۔ 

ف_فردان ہم نے کچھ بھی ن_نہیں کیا_"

وہ روتے منمنانے لگی۔ لیکن فردان کچھ نا بولا۔ 

فر_فردان آپ ہم سے ناراض ہیں__؟

وہ اسے خاموش دیکھ دوبارہ بولی تھی جو اب بھی کچھ نا بولا تھا ۔ 

ہمیں معاف کردیں پلیز ___"

وہ نہیں جانتی تھی معافی کس بات کی بس اتنا پتہ تھا سامنے بیٹھے انسان کی خاموشی خطرناک تھی جو اس سے برداشت نہیں ہوتی تھی ۔ 

ہم بس وہاں کھڑے تھے پتہ نہیں وہ لوگ کہاں سے آگئی ___"

وہ رورہی تھی جب فردان کا ضبط جواب دے گیا جھٹکے سے گاڑی روکتا وہ اسکا بازو جکڑ گیا تھا ۔ 

وہاں کیوں کھڑی تھی؟؟؟؟____" وہ چیخا تو راحمہ ڈر کر مزید آواز کے ساتھ رونے لگی ۔۔ 

جب ہم روک رہے تھے تو کیوں نہیں رکی تھی؟؟____" وہ پھر چیخا جب کے اس جنونی کا غصہ کیسے قابو کرنا تھا راحمہ کہاں واقف تھی وہ تو ہمیشہ نخرے دکھاتا تھا اور اسکے نخرے بھی اٹھاتا تھا ۔ راحمہ آنکھیں میچتی پھر رونے لگی ۔

اسے روتا دیکھ فردان نے خود پر قابو کرنا چاہا تھا ۔ جو مشکل ہورہا تھا۔ 

ایک بات یاد رکھیں راحمہ ہم اگر آپ سے محبت کرتے ہیں آپ کے لاڈ اٹھاتے ہیں اسکا ہر گز بھی یہ مطلب نہیں ہے کے آپ اپنی حد بھول جائیں ۔ آئیندہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ابھی جو ہم نے ضبط رکھا ہوا خود پر وہ توڑ دیں گے جو آپ کے لیئے بلکل ٹھیک نہیں ہوگا___"

وہ ٹہرتے سرد لہجہ میں بولا تو راحمہ روتے روتے اثبات میں سر ہلانے لگی کے اس سے زیادہ وہ اسکا غصہ برداشت ہی نہیں کرسکتی تھی ۔ اور فردان خانزادہ دکھا نہیں سکتا تھا ۔ وہ آنکھیں بند کرتے خود پر قابو پانے لگا بازو پر گرفت کب کی نرم ہو چکی تھی ۔ جبکے راحمہ کے رونے کی ہلکی ہلکی آواز گاڑی میں گونجنے لگی ۔ 

فردان کو اس پر ترس آیا وہ اپنی جیب سے رومال نکالتا گاڑی کا دروازہ کھولتے پانی ڈال کر اسے گیلا کر گیا ۔ دروازہ بند کرتے اسنے راحمہ کا وہی ہاتھ پکڑا جو اس لڑکے نے تھاما تھا۔ یہ سوچتے اسکے ماتھے کی رگیں پھر  تن گئی۔ اسکے ہاتھ کو اس جگہ سے اچھی طرح صاف کرتا وہ اسکی کلائی چوم گیا ۔

خاموش ہوجائیں جنگلی بلی ۔ آپ روتے ہوئے اچھی نہیں لگتی ___"

اب اسکا مزاج ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نا ہو۔ 

راحمہ روتی ہوئی اسکے سینے سے لگ گئی۔۔

ہ_ہم بہت ڈر گئے تھے -- بہت زیادہ اگر آپ نا آتے تو کیا ہوتا___"

وہ مزید رونے لگی تھی فردان کے حصار میں آتے ۔ 

ہم کیسے نا ہوتے ۔ ہم آپکے محافظ ہیں ہم ہمیشہ آپکے ساتھ ہونگے لیکن آپکو بھی ہمت کرنی ہوگی ۔  ایسے مرد ہر جگہ پائے جاتے ہیں اسلیئے لڑکیوں کو ڈرنے کے بجائے مضبوط ہونا چاہیئے تاکے وہ خود بھی انکا سامنا کر سکیں ___"

وہ اسے سمجھا رہا تھا جو واقعی سچ تھا ۔ پھر مسکراتے اپنے حصار میں دبکی اس لڑکی کو دیکھنے لگا جو معصومیت سے اسکے سینے سے لگی اثبات میں سر ہلاگئی ۔ 

اور آپ ؟ آپ تو بہت بہادر ہیں ہم سے لڑتے ہوئے تو آپ کبھی نہیں ڈرتی ہمیشہ آپ میں کسی خونخوار چڑیل کی روح آجاتی ہے اور دوسروں کے سامنے آپ بھیگی بلی بن جاتی ہیں یہ تو کوئی بات نا ہوئی__" 

اسکا موڈ بحال کرنے کے غرض سے فردان بولا تو راحمہ ایک منٹ میں اپنی ٹون میں واپس آئی اور اسکے حصار سے نکلتے منہ کھولے اسے دیکھنے لگی ۔ 

کیونکہ آپ خود ایک جن ہیں _ اور جن سے نمٹنے کے لیئے ہمیں بھی چڑیل بن نا پڑتا ہے ___"

طنزیہ مسکراتی وہ اپنا حساب لے گئی تھی ۔ 

آپ نے ہمیں جن کہا___؟ اپنے شوہر کو اس کے منہ پر جن کہہ رہی ہیں آپ شرم نہیں آتی آپکو ___'؟؟

فردان نے اسے گھورتے ہوئے کہا تو راحمہ نے اپنی ہنسی دبائی ۔ 

ہمارا شرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم بے شرم ہیں___" 

راحمہ نے فخر سے کہا تو فردان نے ایک ائیبر داد میں اچکائی ۔ 

اوہ اچھا آپکو شرم نہیں آتی __ ؟ چلیں ٹھیک ہے گھر جاکر اس پر غور و فکر کرتے ہیں_ اپکو اگر شرمانے پر مجبور نا کردیا تو ہمارا نام بھی فردان برہان خانزادہ نہیں ___" 

اول جملے دور جبکے آخر جملے اسکے کان کے قریب جھک کر کہے تو راحمہ اسکے لفظوں کے پیچھے چھپی معنی خیزی کو سمجھتے گلال ہوتی چہرا ونڈو کی طرف موڑ گئی ۔ البتہ مسکراہٹ ابھی بھی چہرے کا حصہ تھی_

______❤️ حیا خان ❤️______

فردان اور راحمہ گھر آگئے تھی جبکے نرمین اور کبیر بھی کل صبح حویلی آجاتے۔ راحمہ گاڑی سے باہر نکلی اور خاموشی سے قدم اندر رکھنے لگی پیچھے فردان کو بھی ہونٹوں پر انگلی رکھتے خاموش رہنے کا اشارہ دیا جس پر وہ مسکراتا نفی میں سر ہلاگیا ۔ اسکی والی واقعی پاگل تھی ۔ 

سامنے دیکھا جہاں سب ایک دوسرے سے باتوں میں مصروف چائے پی رہے تھے۔۔

اسلام علیکم خانزادہ حویلی کے واسیوں ۔ راحمہ خانزادہ تشریف لا چکی ہیں سب اٹھیں اور ہم سے آکر ملیں____"

وہ زور سے اعلان کرتے انداز میں بولتی فردان اور باقی سب کو قہقہہ لگانے پر مجبور کرگئی تھی ۔ سب خوش ہوتے اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور اس سے ملنے لگے ۔ جو واقعی گھر کی رونق تھی۔ 

سب سے ملنے کے بعد وہ اوپر آتی فریش ہونے چلی گئی تھی جبکے اب ٹارگٹ اسراء اور راحمہ کو آگاہ کرنا تھا ۔ نرمین کا تو وہ جانتی تھی وہ صبح آرہی ہے لہکن اسراء جو شادی کے بعد سے واقعی پرائی ہوچکی تھی ملنے ہی نہیں آتی تھی منہ بناتی وہ اسے کال ملا گئی ۔ 

اسلام علیکم ۔۔ اسراء نے کال اٹھاتے مسکراتے سلام کیا ۔

ہاں ہاں وعلیکم اسلام __ کچھ ہوش اور فکر بھی ہے یا نہیں ؟ تمہاری بہنیں واپس آگئی ہیں ان سے آکر مل لوں ۔ جاتے وقت بھی تم نے اپنی یہ دیکھی ہوئی شکل نہیں دکھائی تھی اور ابھی بھی عید کا چاند بنی ہوئی ہو ۔ ؟؟ ___" 

اسکی باتیں سنتی اسراء مسکراتے نفی میں سر ہلانے لگی ۔ 

آپ آگئی ؟ کیسی ہیں اور فردان لالا کیسے ہیں__؟

اسراء سوال کرتی سب کو یاد کرنے لگی جن سے اب تک نا ملی تھی ۔ اسے بہت یاد آرہی تھی سب کی لیکن ضرغام سے کہہ کر وہ اسکا موڈ خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اسلیئے صبر کا گھونٹ پیتے خاموش تھی ۔ 

ہم سب ٹھیک ہیں تمہارے لالا بھی ٹھیک ہیں بس کل نرمین اپو آرہی ہیں کل کا دن ہمارے ساتھ گزاروگی تم اور رکنے آنا ہے تمہیں ۔ اسلیئے جلدی سے آجانا ___"

راحمہ نے حکم جاری کیا تو وہ پریشان ہوئی۔ 

ہ_ہم کوشش کرینگے __" 

کیوں کوشش کروگی؟ لازمی آنا ہے ورنہ ہمیں بھول جانا ___"

راحمہ غصہ سے کہتی فون بند کرگئی تھی جب کے اسراء بے بس سی بستر پر جا بیٹھی ۔۔

ضرغام کمرے میں آیا تو وہ اداس اور پریشان بیٹھی تھی ۔ اسکی اداس شکل ضرغام کو برداشت نا ہوئی کوٹ اتارتے اسنے قمیض کی آستینیں فولڈ کی جب اسراء چونکتی اٹھی ۔ 

آپ آگئے ؟ ہم آپکے لیئے پانی لاتے ہیں___"  

وہ جلدی سے کھڑی ہوتی باہر کی طرف جانے لگی جب ضرغام نے اسکا ہاتھ پکڑ اسے روکا ۔ 

اور سائیڈ ٹیبل پر رکھے جگ کی طرف اشارہ کیا ۔ جو اسکی بات سمجھتے شرمندہ ہوتی پانی نکالتے اسے گلاس تھما گئی ۔ 

ضرغام بستر پر بیٹھا گلاس منہ سے لگا تھا جبکے نظریں اسی کے وجود پر تھی ۔ جو اوف وائٹ کلر کے شرٹ ٹراؤزر پہنے اسکے ساتھ ریڈ دوپٹہ پہنے بال کھلے رکھے بنا میک اپ اسکے سامنے کھڑی تھی ۔۔ جو بہت پیاری لگ رہی تھی کے ضرغام نے گلاس اسے تھماتے اسے پاس آنے کا اشارہ کیا ۔ 

وہ جھجھکتی اسکے حصار میں آبیٹھی ۔ 

کیا ہوا ہے؟ منہ کیوں لٹکا ہوا ہے تمہارا___؟ ""

ضرغام کی اواز سنتے اسراء نم آنکھیں اٹھاتی اسے دیکھنے لگی ۔ جس پر ضرغام کا دل ڈوب کر ابھرا لیکن چہرے سے ظاہر نا ہونے دیا جو کے سنجیدہ سپاٹ تھا ۔ 

اسراء نے نفی میں سر ہلایا اور اسکے سینے سے سر ٹکا گئی ۔ ضرغام نے ماتھے پر بل ڈالے سر جھکاتے اسکے سر کو دیکھا ۔ اسے یوں اداس وہ اچھی نہیں لگ رہی تھی وہ پریشان ہورہا تھا ۔ گہری سانس بھرتے اسنے اپنے سینے سے اسکا سر اٹھایا اور ایک ہاتھ اسکے سیدھے گال پر ٹکایا ۔ اور اسے سہلانے لگا۔ 

بتاؤ کیا ہوا __؟ کیوں اداس ہو اتنی ___"؟؟

گال سہلاتے نظریں بھی اسکے بھرے بھرے سرخ  گال پر جمی تھی جیسے بہت حسین چیز دیکھ رہا ہو ۔ جبکہ لہجہ بے تحاشہ نرم تھا کے اسراء کی ہمت بندھی ۔ 

ہ_ہمیں مورے کی یاد آرہی ہے___"

اسکی بات سنتے ضرغام نے نظر اسکے گال سے اسکی آنکھوں پر جمائی ۔ اور اس ایک نظر سے اسراء گھبراتی پلکیں جھکا گئی تھی ۔ 

آ_اَپکو ن_نہیں پسند تو میں نہیں جاونگی___"

وہ گھبرانے لگی تھی ضرغام کی خاموشی سے ۔ جو کب سے صرف اسے دیکھ رہا تھا کچھ بول نہیں رہا تھا۔

آ_آپکے لیئے کھانا۔۔۔___""""

اسکا جملا ادھورا ہی رہ گیا تھا جب ضرغام نے اسکی بات کاٹی ۔ 

کل چلینگے ۔ میرے ساتھ جاؤگی اور میرے ساتھ ہی گھر واپس آؤگی ___""

اسکی بات سنتے اسراء خاموش ہوگئی تھی ۔ رکنے کا وہ کیا بولتی وہ بس جانے کو ہی راضی ہوگیا تھا اسراء کے لیئے یہی بہت تھا وہ خوشی سے اسکے سینے سے زور سے لگتی اسے ہگ کر گئی تھی ۔۔

آپ بہت اچھے ہیں ضر ۔ شکریہ بہت شکریہ آپکا ___" 

اسکے الفاظ اور اسکا انداز دیکھتے ضرغام نے ضبط سے آنکھیں بند کرتے کھولی تھی ۔

سب سے بڑی غلطی تمہاری مجھے اچھا سمجھنے کی ہے باربی ڈول کیونکہ ضرغام خانزادہ بلکل اچھا نہیں ہے___" 

وہ اسکے کان میں سرگوشی کرتے اسے ایک جھٹکے سے بستر پر گراتا ہڑبڑانے پر مجبور کرگیا تھا ۔ 

وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی ۔ جس پر وہ طنزیہ مسکرایا ۔ 

_اتنا بڑا فیور دیا ہے تمہیں ۔ اسکے بدلے میرا بھی کوئی انعام بنتا ہے___"

لیکن ہم آ_آپکے لیئے کھانا۔۔۔۔____"

مجھے کھانے کی بھوک نہیں ہے__"" 

وہ اسکا جملا مکمل ہونے سے پہلے ہی اپنی بات کرتا لیمپ آف کر گیا تھا ۔ 

کبیر اور نرمین آج صبح ہی حویلی آ گئے تھے سب سے ملنے کے بعد اور فلائیٹ کے بعد وہ کافی تھک چکے تھے۔ اسلیئے آرام کے خاطر روم میں داخل ہوئے تھے فریش ہونے کے بعد کبیر شرٹ لیس بستر پر لیٹ گیا تھا جبکے نرمین الماری میں کپڑے رکھنے لگی ۔ 

ارے canım تھکن ہوگئی ہے اور آپ نے آتے ہی کام شروع کردیا ہے___"

کبیر نے بستر پر لیٹے نرمین کی طرف کروٹ لیتے ایک ہاتھ کی مٹھی بناتے سر کے نیچے ٹکائی ہوئے بولا  تو نرمین نے پلٹ کر اسے دیکھا جو شرٹ لیس تھا ۔ تو لال چہرا واپس الماری کی طرف موڑ گئی جس پر کبیر نے اپنی مسکراہٹ چھپائی ۔ 

ہم بس یہ کپڑے رکھتے ہی فریش ہونے جارہے ہیں__"

وہ بنا پلٹے بولی ۔ 

جاؤ پہلے فریش ہوکر آؤ ___"

کبیر نے کہا نظروں کا مرکز بھی وہی تھی جو اب اسے دیکھ ہی نہیں رہی تھی ۔ 

بس تھوڑے سے کپڑے رہ گئے اسکے بعد___"

وہ بنا پلٹے ہی کپڑے رکھنے لگی جبکے کبیر بے چین ہو رہا تھا فلحال اسے کام کرتے دیکھ اسی لیئے بار بار اسے تنگ کررہا تھا ۔ 

جانم اگر دو سیکنڈ سے پہلے تم فریش ہونے نا گئی تو میں وہاں آجاؤں گا اور میرا وہاں آنا تمہارے لیئے کچھ اچھا ثابت نہیں ہوگا___"

آنکھوں میں شوخی تھی لیکن بظاہر اسنے سنجیدہ لہجہ میں کہا تو نرمین فوراً پلٹی ۔ اور کپڑے چھوڑتے کبیر کو غصہ سے گھورتے واشروم میں جا بند ہوئ ۔ کبیر ہنستا ہوا سیدھا لیٹا۔ 

تھکن تو واقعی ہوگئی تھی اور اپنے گھر کا سکون اور کہاں میسر آتا ہے۔ بلیک شلوار قمیض پہنتے وہ باہر آئی ۔ جبکے دوپٹہ بستر پر ہی تھا ۔ 

نرمین کی نظر کبیر پر پڑی جو اسکا دوپٹہ اپنے چہرے پر ڈالے اسکی خوشبو میں مدہوش آنکھیں بند کیئے لیٹا تھا ۔ جسے دیکھ نرمین مسکرائی ۔ اور اسکے قریب آتے دیکھا جو گہری نیند میں تھا اب شاید ۔ 

وہ مسکراتے دوپٹہ اسکے چہرے سے ہٹانے لگی جو کبیر کی مٹھی میں تھا ۔ وہ اسے ویسے ہی چھوڑتے کبیر کے ماتھے پر سے بال ہٹاتی وہاں لب رکھ گئی تھی جسے محسوس کرتے کبیر نے آنکھیں کھولی ۔ نرمین جھجکتی ہوئے سرعت سے پیچھے ہونے لگی جب کبیر نے اسکے ہاتھ کے پکڑتے اپنی طرف کھینچا ۔ 

ہمم__ میرے جاگنے پر مجھے دیکھتی بھی نہیں ہو۔ اور جب میں سوجاتا ہوں تو___" 

اسکی بھاری آواز جو کچھ نیند کی خماری تھی اور کچھ اسکی محبت کا خمار۔ بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی جب نرمین نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ 

ہ_ہم تو بس وہ آپکے بال آپکو تنگ کررہے تھے تو ہم پیچھے کررہے تھے ___"

وہ منمناتے ہوئے کہنے لگی تو کبیر کی آنکھیں مسکرائی ۔ اپنے ہونٹوں سے اسکا ہاتھ ہٹاتے وہ اسکی ہتھیلی پر اپنے لب رکھ گیا ۔

ہممم__ اور اسکے بعد؟ ____"

وہ مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا تو نرمین نظریں نیچے کیئے کچھ شرمندگی سے تو کچھ شرماتے ہوئے گلابی ہونے لگی ۔ 

میری زندگی اس میں شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے میں تمہارا شوہر ہوں اور یہ تمہارا حق ہے ۔ اور اس حق کو جتانے کے بعد آئیندہ کبھی شرمندہ مت ہونا__" ہاں اگر تم شرمائوگی تو مجھے کوئی پرابلم نہیں ہے الٹا میں تمہیں مزید شرمانے پر مجبور کردونگا___" 

وہ اسے اپنے قریب کھینچتے اسے اپنے حصار میں لے گیا تھا ۔ جبکے نرمین بھی مسکراتی ہوئی شرماتے ہوئے اسکے سینے پر سر رکھ گئی تھی ۔  

وہ اسکے بالوں میں انگلیاں چلاتے اسے سکون دینے لگا جبکے نرم انگلیاں محسوس کرتی اور اتنا آرام دہ حصار نرمین تھوڑی دیر میں ہی نیند کی وادیوں میں اتر گئی تھی کبیر کی مسکراہٹ سمٹی اور سوچوں کا تسلسل اسراء سے جڑا جسے وہاں رہتے ہوئے بھی اسنے کئی بار کال کی تھی لیکن اسنے رسیو نہیں کی تھی ۔

جبکے نرمین سے اسکی خیریت کی خبر وہ لے چکا تھا جس پر اسنے بتایا تھا کے وہ کبیر کے بارے میں پوچھ رہی تھی ۔ لیکن کبیر پھر بھی مطمئین نہیں تھا ۔ 

اور اب کل ہی وہ اسکے گھر جاکر اس سے ملنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس سوچ سے بالاتر کے کل تو اسکی زندگی میں طوفان جیسا سماں ہونے والا ہے ۔ 

________❤️ حیا خان ❤️_________

اسراء شیشے کے سامنے کھڑی بال سلجھاتی کسی گہری سوچ میں گم تھی ۔ کیونکہ ضرغام اس بات سے انجان تھا کے نرمین اور کبیر آچکے ہے ۔ اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کے ان دونوں کی گھر میں غیر موجودگی کا سوچتے ہی ضرغام اسے وہاں لے کر جارہا تھا ورنہ شاید وہ نا خود جاتا نا اسے جانے دیتا لیکن اب وہ اس منظر سے ڈر رہی تھی جب وہ پھر نرمین کو دیکھتا اور اسکی یادیں تازہ ہوتی یا وہ پھر کبیر کو دیکھتا اور اسکا غصہ عود آتا ۔ وہ مزید کوئی بد گمانیاں نہیں چاہتی تھی اور یہ بھی نہیں جانتی تھی کے کیسے یہ سب سلجھائے۔ 

ضرغام نے پیچھے سے آتے اسے حصار میں قید کیا تو وہ اچانک ڈرتی ہوئی آئینہ میں اسے دیکھنے لگی ۔ 

اتنا سہمی ہوئی کیوں ہو  __؟ "

ضرغام نے اسے دیکھتے ہوئے سکون سے پوچھا اور اسکی گردن میں منہ دیتے وہ اسکی مہک خود میں اتارنے لگا جس کا وہ اڈیکٹ ہوچکا تھا اب ۔  اپنے بالوں میں اسکی سرسراہٹ محسوس کرتے اسراء کی پلکیں کپکپائی تھیں۔ 

وہ اسکے حصار میں پلٹی اور اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھنے لگی اور اسکے گرد ہاتھ باندھتی وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپا گئی جبکے ضرغام اسکی خاموشی محسوس کرسکتا تھا ۔ 

اسکی کمر کے گرد ہاتھ باندھتا وہ اسے مزید قریب کرگیا ۔ 

ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ضر۔ بہت زیادہ ۔۔ اتنی کے جب آپ پاس نہیں ہوتے تو یہ سانسیں بھی مشکل سے آتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جینے کے لیئے اب سانسوں سے زیادہ آپ ضروری ہیں__"

وہ آنکھیں بند کیئے اس سے ہر بار کی طرح بلا جھجھک اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی ۔ جس پر ضرغام سرشار ہوتے طنزیہ مسکراہٹ سجاتا مزید اسے خود میں بھینچ گیا ۔ اسراء کا اس سے دل کھول کر اظہار کرنا ضرغام خانزادہ کو شاید سب سے زیادہ پسند تھا ۔

لیکن میں تو تم سے محبت ہی نہیں کرتا باربی ڈول__"

وہ مسکراتے جان بوجھ کر اسکا معصوم دل کچلتا تھا ۔ اسراء پیچھے ہوتی اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی اور دیکھتے دیکھتے آنکھوں میں آنسو جمع ہونے لگے ۔ جب کے باہوں ک حصار یونہی گردن میں سجا تھا ۔ 

کیوں ہمیشہ ہماری جان نکال دیتے ہیں یہ کہہ کر۔ ہم جانتے ہیں کیا یہ کافی نہیں آپ کے لیئے ۔ مت تڑپایا کریں ہمیں__"  

ضرغام نے اسکے چہرے سے لٹیں سنوارتے کان کے پیچھے کی اور اسکی آنسوؤں سے بھری نم آنکھیں دیکھیں۔ 

مجھے پسند ہے تمہارا میرے لیئے تڑپنا اسراء ضرغام خانزادہ ۔ یہ آنسوؤں سے بھری آنکھیں جو میرے لیئے ہیں ۔ یہ تمہاری ننھی سی جان اپنے مٹھی میں قید کرنا ۔ یہ سب پسند ہے مجھے ___"

وہ اسکے ایک ایک نقش کو غور سے دیکھتا مسرور ہوتے بولا اور اسکی ناک پر سجے تل پر لب رکھے تو اسراء کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا۔ 

ک_کیا آپ ہماری محبت کے خاطر سب بھلا نہیں سکتے ہم سے محبت نہیں کرسکتے __

آہہہہ___" 

اسراء کے منہ سے نکلا ہی تھا کے ضرغام نے پیچھے سے اسکے بال مٹھی میں قید کیا سارا سحر آلود ماحول غارت کرتے وہ بے دردی پر اتر آیا تھا۔ 

نہیں بھول سکتا سمجھی تم ۔ تمہارے لیئے بھی نہیں کیوں کے تم کوئی معنی نہیں رکھتی میرے لیئے ۔ یہ سب بول کر تم خود پر ظلم کرتی ہو کبیر خانزادہ کی بہن ہو تم اور اس سے جڑی کسی شے سے میں محبت نہیں کرسکتا۔ "

ضرغام اسکے چہرے پر دبا دبا سا دھاڑا تھا جب اسراء آنکھیں بند کیئے سر میں اٹھتی ٹیسیں برداشت کرنے لگی ۔ اسکا درد محسوس کرتے ضرغام نے اپنی گرفت اسکے بالوں پر ڈھیلی کی تو اسراء نے آنکھیں کھولتے شکوہ کناں نظروں سے اسے دیکھا اسکے الفاظ اسکی پکڑ سے زیادہ تکلیف دہ تھے ۔ 

ایک دن یونہی آپکی نفرت برداشت کرتے کرتے ہم مرجائیں گے یہ سانسیں جس دن بند ہو جائینگی اس دن اپکو پتہ چلے گا کے ہمارا ہونا کیا تھا اور نا ہونا کیا ہوگا__"

اسراء سے مزید اسکی بے رخی برداشت نہیں ہورہی تھی وہ اسکے سینے پر ہاتھ رکھتی اسے پیچھے دھکیل گئی تھی جبکے ضرغام ساکت سا ہوگیا تھا  اسکے الفاظ سنتے جیسے زمین نے اسکے پیر جکڑ لیئے ہو۔ 

ہمیں یقین ہے ایک دن آپ یہ سر جھکا کر ہمارے پاس آئینگے اور کہینگے کے ہم آپکی زندگی میں واپس آجائیں اور پھر اسی طرح__اسی طرح ہم اپکے کان میں سرگوشی کرینگے کے دیکھیں ضرغام خانزادہ دل کی دنیا اس طرح بھی بدلتی ہے__""

وہ اسکے دل کے مقام پر انگلی رکھتی چیخی تھی ۔ آج اسے محسوس ہو رہا تھا کے برداشت کی حد بس اتنی ہی تھی اسکی ۔ 

تم کہی نہیں جا سکتی__" ضرغام اسکا چہرا دیکھتے ہلکی آواز میں بولا تھا ۔ جیسے خود کو سمجھا رہا ہو کے نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا ۔ یہ الفاظ ہی خوفناک تھے اسکے لیئے کجا کے ایسا ہونا ۔ 

اسراء کے آنسو لڑیوں کی صورت میں گررہے تھے وہ پیچھے ہوتی واشروم میں بند ہوگئی تھی جبکے ضرغام پیچھے ساکت سا کھڑا رہ گیا تھا ۔ جیسے دل تھم گیا ہو ۔ جیسے اب منہ میں رکھی زبان کی ساری طاقت مسمار ہوگئی ہو۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

شام ہوچکی تھی اسراء تیار بیٹھی تھی لیکن ضرغام دوپہر سے گیا اب تک واپس نہیں آیا تھا ۔ کیا وہ اب اسے وہاں لے کر نہیں جائے گا یہ سوچتے ہی اسے پریشانی ہونے لگی جب دروازہ کھٹکھٹایا کسی نے ۔ 

چھوٹی بیگم آپکو صاحب نیچے بلا رہے ہیں وہ آپکا انتظار کررہے ہیں ___" 

اسراء فوراً پلٹی اور جلد جلدی عبایا پہنا۔ 

وہ باہر آئی تو ضرغام سنجیدہ چہرا لیئے سامنے دیکھتا اسٹیئرنگ پر ہاتھ جمائے بیٹھا تھا ۔ اسراء خاموشی سے بیٹھ گئی۔

میرے ساتھ جارہی ہو اور میرے ہی ساتھ واپس آؤگی___ یاد رکھنا.___.

اسراء کی  آنکھیں نم تھی لیکن وہ یہ موقعہ بھی سب سے ملنے کا گواہ نہیں سکتی تھی ۔ 

سب اسے بے تحاشہ یاد آرہے تھے۔ 

 گاڑی راستے کو رواں تھی ۔ اسراء بار بار چہرہ موڑ ضرغام کو دیکھ رہی تھی جو سنجیدہ سا ڈرائیو کررہا تھا ۔ اور اسراء کی جان جارہی تھی یہ سوچتے جب اسے پتہ چلے گا کے آج ہی کبیر اور نرمین آئے ہیں اور وہ انہیں سے ملنے آج گھر جا رہی پے ۔ 

خان حویلی پر آتے ہی گاڑی تھمی تھی 

 اسراء نے پلٹ کر ضرغام کو دیکھا جو خاموش سنجیدہ بیٹھا تھا اب بھی ۔ 

آپ اندر نہیں آرہے ___؟" 

کسی کام سے جارہا ہوں تھوڑی دیر میں آؤنگا __" 

اسکی بات پر اسراء نے سکون بھری سانس لی اور اسے اللّٰہ حافظ کہتے وہ اتر گئی ۔ 

______❤️حیا خان ❤️_______

گھر میں داخل ہوتے وہ سب سے ملی تھی جبکے شہانہ بیگم سے ملتے وہ بے تحاشہ روئی تھی ۔ جس پر انہوں نے اسے نم آنکھوں سے خاموش کرواتے سینے سے لگایا تھا۔  

اچھا اچھا چلو بس کیا سارہ گھر بہادوگی تم رو رو کر اب ہم سے بھی مل لو بھئی لائن میں لگے ہیں ہم بھی___"۔ 

راحمہ نے اسے اتنا روتے دیکھ پیچھے سے آواز لگائی جسکی بات سنتے وہ روتے روتے ہنس دی اور اسکے گلے سے لگی ۔ 

کیسی ہیں آپ راحمہ آپی ___"

ہم تمہاری یاد میں آدھے ہوگئے ہیں ۔ اور تم ظالم لڑکی ہمیں پوچھتی بھی نہیں ہو__"

راحمہ نے اسکا ہاتھ پکڑتے اپنے ساتھ بٹھایا تھا جب نرمین اور کبیر بھی ساتھ ہی نیچے آئے ۔ 

کبیر کی تو جان میں جان آئی تھی اپنی بہن کو دیکھ کر جبکہ نرمین بھی اسے دیکھتی مسکرائی تھی ۔ 

کیسے ہیں لالا آپ _ ہمیں آپکی بہت یاد آئی ___"

کبیر کے سینے سے لگتے اسے سکون آیا تھا جبکے کبیر نے بھی اسے گلے لگاتے اسکے سر پر بوسا دیا تھا ۔ 

ہم ٹھیک ہیں گڑیا آپ کیسی ہیں__"

کبیر ںے اسے دور کرتے فکر مندی سے اوپر سے نیچے تک دیکھا تھا جو نم انکھوں سے اسکی فکر پر مسکرائی ۔ 

جی لالا ہم بلکل ٹھیک ہیں_"

نرمین سے ملتے وہ سب کے ساتھ آ بیٹھی تھی ۔ اپنے گھر والوں کے ساتھ وقت گزارتے اسے جیسے ڈھیروں خوشیاں مل گئی تھی اسکے چہرے پر دنیا جہاں کی مسکراہٹ تھی ۔ 

آج تم ہمارے ساتھ ہی رکو گی ۔ ضرغام لالا کو بتادیا تھا نا ؟__"

راحمہ کی بات سنتے اسراء کی مسکراہٹ سمٹی ۔ اسے ضرغام کے جملے یاد ائے تھے۔

(میرے ساتھ جارہی ہو اور میرے ہی ساتھ واپس آؤگی___ یاد رکھنا.)

اسنے اپنے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے خود کو ریلیکس کرنے کی کوشش کی ۔ جسے کبیر بہت گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔ 

ہاں گڑیا راحمہ ٹھیک کہ رہی ہے آج تم یہیں رک جانا ۔ ہمارے ساتھ بھی وقت گزارو شادی کی ہے تمہیں پرایا تھوڑی کیا ہے جو تم ایسے غائب ہوجاتی ہو۔___" 

کبیر نے بھی اس بات پر زور دیا تھا اسے اسراء کا یوں پریشان ہوجانا انگلیاں مروڑنا کسی سے بھی بات نا کرنا ۔ گھر ملنے نا آنا کھٹک رہا تھا ۔ اور اگر اس سب کے پیچھے ضرغام خانزادہ کا ہاتھ ہوا تو وہ اس کے ٹکڑے کردے گا لیکن بخشے گا نہیں۔ 

ن_نہیں لالا وہ پھپھو جانی اکیلی ہوتی ہیں نا تو مجھے اچ_اچھا نہیں لگتا انہیں ایسے چھوڑ کر آنا ۔ ___"

ضرغام کے لیئے وہ اپنے گھر والوں سے جھوٹ بولتی اسے بچا رہی تھی یا خود کو بچا رہی تھی نہیں جانتی تھی ۔ 

کوئی بات نہیں گڑیا میں پھپھو سے بات کرلوں گا لیکن آج آپ یہیں رکینگی __" 

کبیر نے رعب سے کہا تھا جس پر اسراء کچھ بول نا سکی البتہ پریشان نظروں سے نرمین کو دیکھا تھا جو شاید کہی نا کہی اسے سمجھ رہی تھی ۔ نرمین نے آنکھیں جھپکاتے اسے تسلی دی تھی جسے کبیر خانزادہ کی چیل سی نظر نے بڑے غور سے دیکھا تھا ۔ 

کبیر یہ دیکھ فلحال خاموش تھا جبکے اس بارے میں وہ نرمین سے ضرور بات کرنے والا تھا ۔ 

نرمین اور راحمہ اٹھتے کھانے کے معاملات دیکھتی کچن میں چلی گئی تھی کبیر اسراء کے پاس آ بیٹھا تھا ۔ اسے حصار میں لیتا وہ اسکے سر پر لب جما گیا تھا ۔ 

گڑیا آپ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہمیں ۔ کوئی بات ہے تو ہم سے شیئر کریں ___" 

اسراء نے نم آنکھوں سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا جو اسکی بظاہر ہوتی خوشی کے پیچھے کا درد محسوس کررہا تھا ۔ 

لالا ہم ٹھیک ہیں _" 

فقط اتنا کہتی وہ چہرا موڑ گئی تھی ۔ 

آپ ضرغام کے ساتھ خوش ہیں_؟_ آپ گھر بھی نہیں آتی کیا اسکی وجہ ضرغام ہے؟___"

کبیر نے کہا تو اسراء نے فوراً پلٹتے حیران نظروں سے اسے دیکھا ۔

ن_نہیں لالا وہ ہمارے پیپرز تھے نا تو اسلیئے ہم نہیں آسکے تھے ورنہ ضر اور پھپھو تو کہتے ہیں کے ہم خان حویلی چلے جائیں___" 

وہ جھوٹ گھڑتی چہرے پر جھوٹی مسکان سجا گئی تھی ۔ جبکے کبیر ابھی بھی مطمئین نہیں تھا ۔ 

ضرغام سلام کرتے گھر میں داخل ہوا تو اسکی نظر سامنے کبیر پر پڑی جو اسراء کو حصار میں لیئے بیٹھا تھا ۔ وہ وہی رکتا اسے دیکھنے لگا جب کے شہانہ بیگم ضرغام کے پاس آتے اسکا ماتھا چوم گئی جس پر وہ خاموشی سے سر جھکا کر اٹھاتا کبیر اور اسراء پر نظریں جما گیا جو اسے دیکھتے ڈر رہی تھی کے ضرغام غصہ میں کچھ الٹا سیدھا نا کریں ۔ جبکے ضرغام خاموشی سے اسکے سامنے آ بیٹھا تھا ۔ 

کبیر کو اسنے سلام تک کرنا پسند نہیں کیا تھا اور نا ہی کبیر نے اس سے کلام کیا تھا۔   

اسراء نے شدت سے یہ خلش محسوس کی تو کبیر کا ہاتھ ہلاتی وہ اسے متوجہ کرگئی ۔ 

لالا ۔۔ ضر___"

جس پر کبیر آنکھیں گھماتا اٹھ کر اسکے پاس آیا تو ضرغام نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔ 

کیا ہوا ؟ مینرز بھول گئے ہو ۔ یا مغرور ہوگئے ہو جو سسرالیوں سے سلام بھی نہیں کروگے ۔ "

کبیر کے طنز پر ضرغام نے جبڑے بھینچتے ایک خراٹ نظر اسراء پر ڈالی تھی جسکا سانس اپنی لالا کی بات سنتے سینے میں اٹکا تھا ۔ البتہ ضرغام اپنے صبر کو آزماتے اٹھا اور اسکے گلے لگا۔ 

کیسے ہو__" 

کبیر نے سوال کیا جس پر وہ سر اثبات میں ہلاتا واپس بیٹھ گیا ۔ 

اسکی اگنورنس دیکھ کبیر کا دماغ گھوما تھا لیکن اپنی بہن کے لیئے وہ برداشت کرتا واپس جاکر اسراء کے پاس بیٹھ گیا تھا۔ 

میری بہن نے بتایا ہے کے تم کافی سختی کررہے ہو اس پر ۔ اسے یہاں آنے نہیں دیتے ۔ ___" 

کبیر نے شوخ ہوتے جان بوجھ کر جملا پھینکا تھا جس پر اسراء نے اپنے لالا کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے حیران نظروں سے  دیکھا ۔ جبکے آس پاس بیٹھے سب کبیر کی بات کو مذاق میں لیتے مسکرانے لگے ۔ 

ضرغام نے نظر اٹھا کر اسراء کو دیکھا تھا۔ اس ایک نظر میں کیا نا تھا کے اسراء کپکپا گئی تھی ۔ جبکے ٹانگ پر ٹانگ جماتے اب وہ بھی مغرور انداز میں ٹیک لگاتے بیٹھا تھا ۔ 

اور کیا کیا کہا ہے ہماری بیگم نے آپ سے ___؟" 

ضرغام کی نظر اور اسکی چبائے ہوئے الفاظوں کو محسوس کرتے اسراء کی جان نکلی تھی ۔ 

ن_نہیں لالا ہم نے کب کہا آپ سے ایسا ۔ ہم ہم نے ایسا نہیں کہا ضر___"

وہ گھبراتی ہوئی بولی تھی برداشت کے باوجود خوف سے اسکی آنکھیں نم ہوچکی تھی جسے کبیر نے شدت سے محسوس کیا تھا ۔ 

کیا ہوگیا گڑیا ؟ میں تو صرف مذاق کررہا ہوں تم اتنا ڈر کیوں رہی ہو __" 

کبیر کی مشکوک اور فکر مندانہ آواز پر وہ آنسو پیتی پلٹ کر اسے دیکھنے لگی ۔ 

لالا ہم ابھی آتے ہیں اپو کے پاس سے___" 

وہ ضرغام کو اگنور کرتی کبیر کے پاس سے اٹھ کر جا چکی تھی ۔ جبکے ضرغام کی تیز نظروں نے اسراء کی پشت کا دور تک پیچھا کیا تھا جبکے غصہ کی آگ سینے میں جلنا شروع ہوچکی تھی جو آج کتنی بڑھنے والی تھی اور کس طرح پھٹنے والی تھی وہ نہیں جانتا تھا ۔ 

سب نے سکون بھرے ماحول میں کھانا کھایا تھا جبکے نرمین ایک بار بھی ضرغام کی طرف غلطی سے بھی نا گئی تھی ۔ جسے دیکھ کبیر بھی مطمئین تھا ۔ 

اسراء گھبرائی سی بیٹھی تھی جب سے ضرغام یہاں آیا تھا سکون کا سانس اسے مہیا نہیں ہوا تھا ۔ 

اور وہ یہاں رکنے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہتی تھی وہ جانتی تھی کے ضرغام کتنے ضبط سے یہاں بیٹھا ہوا ہے ۔ اور اسکا یہیں رکنے کا سنتے کبھی بھی پھٹ سکتا تھا ۔ 

فردان گھر لیٹ آیا تھا اور آتے خوشی سے اسراء کے سر پر ہاتھ رکتے وہ ضرغام کے گلے لگا تھا جو مسکراتا ہوا اس سے بغلگیر ہوا ۔

ارے یار کہاں غائب ہوگئے تھے تم ہماری گڑیا کو لے کر ہم تو ترس گئے تھے__"

فردان نے مسکراتے اسے چھیڑا۔ 

میں نہیں تم غائب ہوگئے تھے ہم تو ہمیشہ سے یہیں ہیں___"  

کبیر اور فردان میں زمین آسمان کا فرق رکھتا تھا ضرغام خانزادہ کیونکہ حقیقتاً فردان بلکل الگ تھا ۔ وہ کبیر کی طرح مغرور نا تھا بلکہ سب کے ساتھ مل جل کر رہنے والا تھا۔

سب ہی اپس میں ساتھ تھے جبکے اسراء نرمین کے کمرے میں موجود تھی ۔ 

اپو پلیز کچھ کریں ۔ ہم یہاں نہیں رک سکتے ۔ ضر نہیں جانتے تھے آپ لوگ آچکے ہیں ورنہ وہ کبیر لالا کے لیئے مجھے یہاں لے کر کبھی نا آتے میں وہاں جاکر انکا غصہ برداشت کرلونگی لیکن اگر میں یہاں رک گئی تو بہت برا ہوگا۔__" 

اسراء کے چہرے پر خود صاف چھلک رہا تھا جس پر اسراء پریشانی اور حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

کیا ہوگیا ہے اسراء آپکو ؟؟ آپ ایسی تو نہیں تھیں ہماری گڑیا تو بہت بہادر تھی ۔ یہ سب کیا ہورہا ہے__"

نرمین اسے گلے سے لگاتی ہوئی بولی تھی کے اسراء سہارا ملتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ 

اپو ہمارے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا__ہم  ضر سے محبت کرنے لگے ہیں بے حد بے تحاشہ اور انہیں اس درد میں نہیں دیکھ سکتے ۔اگر کبیر لالا سب سلجھا لیں تو شاید کچھ بات بنے لیکن کبیر لالا اپنی انا کے چلتے اور ہماری محبت میں مزید کچھ غلط کردیں گے ہم برداشت نہیں کرسکینگے اپو ہم مر جائینگے۔___" وہ پھوٹ پھوٹ کر روتی اپنا دل ہلکا کرنے لگی جبکے نرمین بھی اسے سہارا دیتی کبیر کے بابت سوچنے لگی ۔ یہ معاملات اسکے کبیر سے بات کرنے پر ہی بہتر ہو سکتے تھے۔ 

ہم آپکے لالا سے بات کرینگے دیکھے گا آپ وہ مان جائینگے بلکل ٹھیک ہوجائیگا سب۔ اپ کیوں پریشان ہو رہی ہیں___" 

نرمین اپنی طرف سے اسے تسلی دینے لگی جبکے اسراء اس سے دور ہوتی۔ نفی میں سر ہلانے لگی۔ 

ن_نہیں اپو ۔ لالا کبھی ان سے معافی نہیں مانگے گے ۔ بلکہ وہ ہمیں ضرغام سے ہمیشہ کے لیئے دور کردینگے ۔ ہم سب برداشت کرلیں گے لیکن ان سے دور نہیں ہونگے۔___"

اسکی باتیں سنتے نرمین نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ 

نہیں اسراء آپ غلط سمجھ رہی ہیں آپکے لالا آپ سے بہت پیار کرتے ہیں اور آپکے لیئے کچھ بھی کرینگے وہ ضرغام لالا سے بات کرتے سب کچھ ٹھیک کردیں گے ہمیں یقین ہے ان پر ___"

نرمین نے اسکے گال پر ہاتھ رکھتے اسے پیار سے سمجھانا چاہا تھا جب اسراء پھر روتی ہوئی اسکے سینے سے جا لگی ۔

نہیں اپو پلیز نہیں آپ کچھ مت بتائے گا لالا کو پلیز نہیں__"

اسکو اس طرح روتے نڈھال دیکھتے نرمین خاموش ہوتی اسے چپ کروانے لگی ۔ 

اسے فریش کرتے منہ ہاتھ دھلاتے نرمین نے اسے سمبھالا تھا ۔ 

"چلیں اب نیچے چلیں ہم آپکے ساتھ ہیں ۔ کچھ نہیں ہوگا کوئی کچھ بھی کہے آپ واپس چلی جائیگا اور ضرغام لالا کو سمجھائے گا ہمیں یقین ہے وہ آپکی بات سن لے گے ۔ ___"

میاں بیوی کے رشتے میں اللّٰہ نے بہت سکون ڈالا ہے بہت محبت ڈالی ہے اسراء ۔ ہم مان ہی نہیں سکتے کے اتنے دنوں میں ضرغام لالا کوئی انسیت نہیں ہوئی ہوگی ۔ اور وہ تو اپکے شوہر ہیں ۔ بس کچھ محبت کی اور کچھ توجہ کی ضرورت ہے انہیں ۔ پھر وہ آپکے ہوجائیگے ۔ بس فلحال کسی بھی چیز کو ان پر فوقیت مت دیں جس کی وجہ سے وہ آپکو غلط سمجھیں_ آپ سمجھ رہی ہیں نا ہم کیا کہہ رہے ہیں ؟ __" 

اسراء نے اثبات میں سر ہلایا تھا جب نرمین اسکا گال چومتی چہرے کو ڈھکتی نیچے آئی تھی اسکے ساتھ ۔ 

وہ دونوں سیڑھیاں اترتی نیچے آنے لگی جن کے بلکل سامنے ضرغام خانزادہ بیٹھا تھا جب کے ایک سائیڈ پر کبیر خانزادہ۔

ضرغام نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہی ٹہر گیا سامنے نرمین سفید سوٹ سفید حجاب میں اسراء کا ہاتھ تھامی نیچے آرہی تھی اسکی آنکھیں ۔ہاں یہ وہی آنکھیں تھی جن کے سحر میں وہ بھٹکا تھا لیکن اسراء کے بعد سے وہ حسین آنکھیں وہ حسین چہرا شاید اسکی زندگی سے کہی غائب ہوگیا تھا ۔ کیونکہ آس پاس اسراء نے اپنی محبت کا ایسا جال پھینک دیا تھا جسنے چاروں طرف سے ضرغام کو قید کرلیا تھا ۔ 

وہ نظریں نیچے کرتا آنکھیں بند کرتا گہرا سانس لینے لگا جبکے کبیر نرمین کو سامنے دیکھتا ماتھے پر بل سجا گیا تھا ۔ 

وہ نیچے کیوں آئی تھی وہ بھی اس غلیظ انسان کے سامنے ۔ کبیر نے نرمین کو گھورا تھا جو اسکی گھوری سے بے نیاز اسراء کا ہاتھ تھامے نیچے آئی تھی ۔ 

چلو اسراء ہمیں دیر ہورہی ہے__"

ضرغام سپاٹ چہرا لیئے کھڑا ہوگیا تھا ۔ جبکے اسراء کا سانس سینے میں اٹکا ۔ 

جی ہم تیار ہیں ۔ چلیں __" 

اسراء نے ہامی بھری تھی جب کبیر نے روکا۔

"اسراء آج یہیں رکے گی ہمارے ساتھ ___"

کبیر نے بھی سنجیدہ لہجے میں جتایا تو نرمین نے بھی اسکی طرف دیکھا ۔ 

ضرغام نے غصہ بھری نگاہوں سے کبیر کو دیکھا تو اس نے بھی آگے سے  جتاتی نظروں سے اسکی انکھوں میں دیکھا۔

اسراء میرے ساتھ گھر جائیگی۔ مورے کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے __"

وہ ہاتھ پیچھے باندھتا کبیر کو دیکھ بولا تھا ۔

کوئی بات نہیں یہ پھوپھو کا بھی گھر ہے انہیں بھی میں صبح یہیں لے آؤنگا تم فکر نہیں کرو__"

کبیر کی بات پر ضرغام نے اسراء کی طرف شعلے بار نگاہوں سے دیکھا تھا جبکے داجان نے بھی ماحول کو گرم ہوتے دیکھا تھا ۔ 

بیٹا ضرغام اسراء کو آپ یہیں چھوڑ دیتے آج رات تو بہتر ہوتا ۔ ہم سب تو صحیح سے اس سے ملے بھی نہیں __"

داجان کی بات پر ضرغام نے ضبط سے آنکھیں بند کی ۔ یہی تو وہ شروع سے کرتے تھے جو کبیر کہتا تھا ۔ 

داجان میں پھر اسے جلد ہی لے آؤنگا آپ فکر مت کریں__" 

بامشکل ادب میں رہتے اسنے جواب دیا تھا ۔ اور پھر اسراء کو دیکھا تھا جو وہی انکھوں میں آنسو بھرے وہی جمی کھڑی تھی ۔

اگر رکنا چاہتی ہو تو بتادوں ___؟ 

ضرغام کا لہجہ سرد تھا جسے محسوس کرتے اسراء نے نفی میں سر ہلایا تھا ۔ 

ن_نہیں ہم تیار ہیں چلیں 

اسراء گھبراتی ہوئی آگے بڑھی تو کبیر نے غصہ کی تپش لیئے ضرغام کو دیکھا جو پلٹ کر سب کو ایک آواز اللّٰہ حافظ کرتا جاچکا تھا ۔ 

پیچھے اسراء بھی بامشکل آنسو روکے سب سے ملتی اسکے پیچھے روانہ ہوئی تھی ۔ 

گاڑی میں بیٹھتے اسراء نے ضرغام کی طرف دیکھا جو دانت پر دانت جمائے بیٹھا تھا بھوری آنکھیں غصہ سے بھری ہوئی تھیں ۔ جیسے اب برداشت کی حد ختم ہوچکی ہو وہ گاڑی اسٹارٹ کرتا تیز ڈرائیو کرنے لگا کے اسراء نے گھبراتے اسے تھاما تھا ۔ 

ضر_آرام سے ضر اتنی تیز گاڑی مت چلائے مجھے ڈر لگ رہا ہے پلیز __" 

وہ اسے جھنجھوڑتے ہوئے بول رہی تھی جو اپنے آپے سے باہر تھا ۔ 

اسراء تیز اواز میں رونے لگی جب ضرغام کا غصہ کا پیمانہ لبریز ہوا تھا اور وہ جھٹکے سے گاڑی روک چکا تھا ۔ 

اسنے پلٹ کر اسراء کو دیکھا جو بھیگا چہرا لیئے اسے دیکھ رہی تھی ۔ 

اسکا بازو دبوچتے ضرغام نے اسے اپنے قریب کیا ۔ 

اپنے لالا سے ملنے گئی تھیں نا تم_؟ اور مجھ سے جھوٹ کہہ رہی تھی کے مورے کی یاد آرہی ہے؟ تم بھی منافق ہو اپنے بھائی کی طرح ۔ میں نے کہا تھا نا میرے قریب رہنے کے لیئے تمہیں اپنے لالا سے دور رہنا پڑہیگا ۔ ؟ اور تم الٹا مجھ سے جھوٹ کہنے کی ہمت کر گئی__؟ "

وہ بولا نہیں دھاڑا تھا اسراء اسکی چیخ سنتے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ گئی ۔ 

پلیز ضر ہم_ہمیں ڈر لگ رہا ہے گھر چلیں __"وہ روتے ہوئے اس سے بولی ۔ 

گھر__ گھر جانا ہے تمہیں؟ کونسے گھر ؟ تمہیں تو وہاں رکنا تھا نا جاؤ وہی رہو تم ۔ تمہاری اوقات نہیں کے تم ضرغام خانزادہ کے ساتھ رہو___" 

وہ گاڑی سے نکلتا اسکی طرف آتا اسکی طرف کا دروازوہ کھول گیا جو آنکھیں پھاڑے خوف سے ضرغام کو دیکھ رہی تھی جسے غصہ میں پتہ ہی نا تھا کے وہ کیا کررہا ہے۔

 وہ نفی میں سر ہلانے لگی جب ضرغام اسکا ہاتھ کھینچتا اسے باہر کھڑا کرگیا ۔ رات کا اندھیرا تھا سامنے ایک سفید بلب روشن تھا جو کچے روڈ پر ہلکی روشنی کرتا اسے خوف زدہ کررہا تھا۔ 

اسراء نے ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی جو ضرغام نے جھٹکے سے چھوڑا تھا ۔ 

تم بھی سب کی طرح کبیر کو مجھ پر فوقیت دیتی ہو۔ کیونکہ کوئی چیز میری ہو ہی نہیں سکتی میرے نصیب میں کچھ میرا نہیں لکھا اور تم؟ تم تو ہو ہی اسکی بہن جسکی مغروریت اسکے چہرے سے ٹپکتی ہے ۔ منافق ہو تم بھی جھوٹی ۔ میں نہیں رہنا چاہتا تمہارے ساتھ جاؤ چلی جاؤ اپنے گھر اور واپس مجھے کبھی اپنی شکل مت دکھانا ورنہ جان سے مار دونگا___"

وہ سفاک بنا اسے نیچے پھینک گیا تھا جب اسراء آنکھیں پھاڑے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ 

ضر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ہم بیوی ہیں آپکی آپ اس طرح کا سلوک نہیں کرسکتے ہمارے ساتھ ۔ہم اکیلے کیسے جائینگے گھر ضر __"

وہ اسکے پیچھے پیچھے بھاگتی چیخی تھی جو اپنی طرف گاڑی میں بیٹھتا گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا اسراء اسکے گاڑی کا شیشہ بجانے لگی جسے اگنور کرتا وہ زن سے گاڑی بھگا لے گیا تھا ۔ 

ضرغام خانزادہ آج سفاکیت کی انتہا کرگیا تھا پیچھے اسراء چیختی رہی چلاتی رہی لیکن وہ نہیں رکا۔ 

سنسان سڑک پر اسراء نے چاروں طرف دیکھا تھا ۔ وہ تو کبھی اکیلی گھر سے دن میں بھی باہر نا نکلی تھی اور آج ضرغام اسے اپنی عزت کو بیچ سڑک اندھیری رات میں چھوڑ گیا تھا ۔ وہ بری طرح سے رونے لگی اسراء گھر سے بھی کافی دور آگئی تھی سمجھ نہیں آیا تھا کیا کرے کیا کہے کس سے مدد لے اسے تو چاروں طرف جھاڑیوں کے علاوہ کوئی نظر نا آیا تھا ۔ 

جب پیچھے جھاڑیوں سے اسے اچانک اواز آئی تھی اور اس سے پہلے وہ پلٹتی کوئی اسکے منہ پر رومال رکھتے اسے بے ہوش کرتا اپنے ساتھ گھسیٹتا ہوا لے جانے لگا اسراء جھٹپٹاتی رہی لیکن کوئی نہیں تھا جو اسے بچا سکتا۔ اسکا تو خود کا رکھوالا اسے اکیلا چھوڑگیا تھا ۔ کسے پکارتی وہ ۔ اسکے سر سے اسکارف اترتا زمین پر گرا تھا۔آنکھیں بند کرتے اسکی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر نکلا تھا ۔ آج اسراء خانزادہ کو پہلی بار اپنی محبت سے نفرت محسوس ہوئی  تھی۔۔

_______❤️ حیا خان ❤️_______

کبیر غصہ سے کمرے میں آیا تھا جب اسکے پیچھے پیچھے نرمین بھی آئی ۔ 

جان سے ماردونگا میں اس انسان کو ۔ جس طرح یہ میری بہن پر حکم چلا رہا ہے ۔ ہم سے دور کررہا ہے سب سمجھ رہا ہوں میں ۔ اسی دن __ اسی دن کے لیئے میں سب کو سمجھا رہا تھا کے میری بہن کے لیئے یہ شخص ٹھیک نہیں ہے ۔ لیکن کسی نے میری نہیں سنی تھی اس وقت ___"

کبیر دھاڑا تھا  ہاتھوں کی پھولی رگیں کسی ہوئی مٹھی یہ بتا رہی تھی کے کبیر خانزادہ کہہ نہیں رہا وہ واقعی نہیں چھوڑے گا ضرغام کو اگر اسے پتہ چلا کے وہ اسکا بدلہ اپنی بہن سے لے رہا ہے۔ گلاس اٹھاتے  کبیر نے زمین پر پٹخا تھا جبکے نرمین اسکا غصہ دیکھ کانوں پر ہاتھ رکھتی آنکھیں میچ گئی تھی ۔ 

خان پلیز ہوش کریں یہ کیا کررہے ہیں آپ ۔ وہ اسراء کے شوہر ہیں ۔ وہ اس پر حکم چلائیں یا کچھ بھی کہیں اس پر فرض ہے وہ مانے آپ کیوں اس بات پر اتنا غصہ کررہے ہیں __"

نرمین نے اسے سمجھا نے کی خاطر ایک قدم اسکی طرف بڑھایا تو وہ اسکا بازو دبوچتے اپنے قریب کرگیا ۔ 

پہلی بات_ تم میرے سامنے اس انسان کی حمایت نہیں کروگی ۔ میں نہیں چاہتا کے وہ انسان تم پر کوئی میلی نظر بھی ڈالے ۔ میں نہیں چاہتا تم اس انسان کے سامنے بھی آؤ ۔تو تم کیوں آئی؟؟ ___"

کبیر نے تپش زدہ انکھوں سے چبا چبا کر کہا تھا وہ خود پر بہت قابو پانے کی کوشش کررہا تھا لیکن آپے سے باہر ہوتا جا رہا تھا ۔ جبکےنرمین اسکی گرفت میں مچلنے لگی ۔ 

اسراء کچھ چھپا رہی ہے نا مجھ سے ؟ تم جانتی ہو نا ؟ ___"

کبیر کی بات پر مچلتی ہوئی وہ اس کے حصار میں ایک دم ٹہری اور نظر اٹھا کر کبیر کو دیکھا ۔ وہ کچھ کہتی کے اسے اسراء کے الفاظ یاد آئے تھے ۔

(لالا کبھی ان سے معافی نہیں مانگے گے ۔ بلکہ وہ ہمیں ضرغام سے ہمیشہ کے لیئے دور کردینگے ۔ ہم سب برداشت کرلیں گے لیکن ان سے دور نہیں ہونگے)"

اور اب کبیر کی حالت اور اسکا غصہ دیکھ نرمین کو بھی یہی لگنے لگا تھا کے اگر کبیر کو پتہ چل گیا تو وہ واقعی جزبات میں آکر کچھ غلط کردے گا ۔ 

کبیر نے پھر اسکے ہاتھ پکڑتے خود کے قریب کرتے جھٹکا دیا تو وہ ہوش میں آئی ۔ کہنے کو کچھ نہیں تھا اور جھوٹ وہ کبھی نا کہتی درد برداشت کرتی وہ خاموش رہی نظریں جھکا لی گئی تھی ۔ 

میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں نرمین جواب دو ڈیممم __" 

وہ پھر چیخا تھا جب نرمین اسکا غصہ دیکھ سختی سے آنکھیں میچ گئی تھی جسم ہولے ہولے کپاکپانے لگا تھا کانچ سی حسین آنکھیں بھیگنے لگی تھی لیکن وہ کچھ نا بولی۔ 

میں برداشت نہیں کرونگا نرمین اگر میری بہن کو کچھ بھی ہوا یا مجھے پتہ چلا کے تم مجھ سے کچھ بھی چھپا رہی ہو__" 

وہ آواز میں نرمی مگر لہجہ کو سرد کرتے بولا تھا ۔ نرمین نے نظر اٹھا کر دیکھا۔  لیکن وہ کچھ نا بولی ۔ آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے ۔ 

اسکو خود سے ڈرتے لرزتے اور اپنی خوبصورت آنکھوں میں آنسو بھرتے دیکھ کبیر خانزادہ ہوش میں آیا تھا اور فوراً سے اپنی گرفت نرم کرتے پیچھے ہوا تھا ۔ 

آئے ایم سوری _ تمہیں درد تو نہیں ہورہا __" وہ انکھیں میچتے خود پر ضبط کرتا اسکا بازو سہلانے لگا ۔ جو نفی میں سر ہلاتی آنکھیں صاف کرتی نرمی سے اپنا بازو چھڑوا گئی۔ 

جبکے کبیر کو اسکا خود سے دور جانا پسند نہیں آیا تھا وہ پہلے تو ٹہرا ہوا اسے گھورتا رہا لیکن پھر خود کو قابو کرتے وہ کمرے سے باہر نکل گیا ۔

نرمین نے پریشان نظروں سے اسے دیکھا تھا اسے نہیں سمجھ آرہا تھا وہ صحیح کررہی ہے یا غلط بس اتنا جانتی تھی کے محبت سے دور رہنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے اور کبیر اپنے غصہ میں کوئی غلط فیصلہ کرتا تو اسکا اثر صرف اسراء پر پڑتا اور وہ اسراء کی زندگی خراب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ وہ کبیر کا غصہ کم ہونے کے بعد اسے سمجھانے کا ارادہ رکھتی تھی۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️ ________

جی صاحب __ موقعہ مل گیا تھا ۔ کبیر خانزادہ کی بہن ہے یہ ۔ ضرغام خانزادہ خود اسے روڈ پر پھینک کر گیا ہے ___" 

ایک آدمی مکروہ مسکراہٹ چہرے پر سجاتا اسراء کو دیکھنے لگا جو بستر پر بے ہوش پڑی تھی ۔ 

کال پر موجود ملک فراز نے خباثت زدہ قہقہہ لگایا تھا ۔ وہ اسی دن کے تو انتظار میں تھا اور کبیر خانزادہ نے اسکے جوان بیٹے کو قید کرتے اس پر تشدد کروایا تھا اور ابھی تک وہ اسکی قید میں تھا ۔ ملک فراز اسے کسی حال میں معاف نہیں کرنے والا تھا ۔ اور اسراء کے ہاتھ لگتے ہی اب وہ کبیر خانزادہ کو بتانا چاہتا تھا جب اپنا کسی تکلیف میں ہوتا ہے تو کیسا محسوس ہوتا ہے ۔ 

نوچ لو اسے ۔ خود بھی مزے لو اور اپنے آدمیوں کو بھی اہتمام سے بلواؤ۔ بس ہاتھ سے نکلنی نہیں چاہئیے کبیر خانزادہ کی بہن___"

وہ سفاک انسان حکم دیتا فون بند کر چکا تھا جبکے اسراء کے سامنے کھڑے شخص  کی آنکھیں چمکی تھی ۔ وہ ہونٹوں کو دانتوں تلے دباتا مسکرایا تھا ۔ 

آج اسکی عید تھی جو اسے اتنا اچھا انعام ملا تھا وہ کسی حال میں نا چھوڑتا۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️ ______

ضرغام خانزادہ نے حویلی آتے گاڑی روکی تھی پورا راستہ وہ رش ڈرائیو کرتا ہوا آیا تھا دماغ کی رگیں غصہ سے پھٹنے کو تھی جب کے گہرے گہرے سانس لیتا وہ آنکھیں بند کرتے پیچھے سیٹ سے سر ٹکا گیا ۔ کئی لمحے گزر گئی وہ یونہی بیٹھا رہا جب اچانک اسکا دماغ جاگا تھا اور آنکھیں کھولتے پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسنے پلٹ کر اپنے برابر خالی جگہ کو دیکھا تھا ۔ 

یہ کیا کردیا تھا اس نے وہ اپنی بیوی اپنی عزت کو بیچ سنسان سڑک پر اکیلا تن تنہا چھوڑ آیا تھا ۔ اپنے غصہ میں ہوش و حواس سے بے گانا ہوتے وہ یہ کر گیا تھا ۔ سیکنڈ سے پہلے اسنے گاڑی کو ریورس لیتے مین گیٹ سے باہر نکالا تھا ۔ 

دماغ خود کو کئی صلاواتوں سے نواز رہا تھا جبکہ دل بیٹھا جا رہا تھا ۔وہ ایسا کرسکتا تھا ۔ وہ نہیں کرسکتا ۔ اگر اسراء کو  کچھ ہوگیا تو وہ کیا کرے گا ۔

اسکے کانوں میں اسراء کی روتی ہوئی التجائیں گونج رہی تھی انکھوں کے سامنے دھند سی چھا رہی تھی آنسوؤں کے باعث۔ہاں ضرغام خانزادہ اسراء ضرغام خانزادہ کے لیئے فکر مند تھا اگر یہ فکر وہ پہلے دکھا لیتا تو وہ آج خوشی سے اسکے قدموں میں بچھی ہوتی ۔ 

 جبکے گاڑی اپنی فل سپیڈ سے چل رہی تھی وہ بس وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا ۔ 

چند ہی لمحوں میں وہ اس جگہ رکا تھا جہاں اسراء کو وہ چھوڑ کر گیا تھا گاڑی کا دروازہ کھولتے اسنے آس پاس دیکھا تھا لیکن وہ کہی نہیں تھی ۔ 

اسراءءءء_____"

وہ چاروں طرف دیکھتے چیخا تھا ۔ لیکن کہی سے کوئی صدا نہیں آئی ۔ وہ پاگلوں کی طرح جھاڑیوں کے پیچھے جگہ جگہ اسے دیکھنے لگا تھا لیکن وہ کہی نہیں تھی ۔ 

اسراءءءء____" 

ضرغام پھر چیخا تھا لیکن کوئی آواز نہیں آئی ۔ وہ آنکھیں پھاڑے ساکت سا کھڑا رہ گیا تھا اس سفاک کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا۔ 

"اسراءء__ وہ منمناتا ہوا پیچھے اپنی گاڑی سے ٹکرایا۔  

وہ جلدی سے اٹھتے فردان کو کال لگانے لگا ۔ جب ضرغام کی نظر سامنے پڑے اسکارف پر پڑی ۔ اسنے کپکپاتا ہوا ہاتھ آگے بڑھاتے اس اسکارف کو اٹھایا تھا ۔ 

اپنی ناک کے قریب کرتے اس اسکارف سے آتی اسراء کی خوشبو محسوس کرتے اسکے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگی تھی ۔ وہ لال سرخ انکھوں سے ہاتھ میں تھمے اسکارف کو دیکھنے لگا ۔ پھر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ 

اسراءءء___کہاں ہو تم____؟؟؟؟؟__"

وہ چیخا تھا ۔

لیکن کہی سے کوئی صدا اسکی طرف نا آئی ضرغام نے آستین سے آنکھیں صاف کرتے فردان کو کال ملائی تھی ۔ 

جو چوتھی بیل پر اٹھا لی گئی تھی ۔۔ 

ہیلو ؟ ہاں ضرغام؟____"

ف_فردان وہ اسراء ___؟ 

ضرغام کو سمجھ نہیں آیا تھا وہ کیا کہے کس سے پوچھے ۔ اسکی آواز کپکپائی تھی ۔ 

کیا ہوا؟ اسراء ٹھیک ہے؟___"

فردان کے سوال پر ضرغام خاموش ہوا۔ 

وہ خان حویلی میں ہ_ہے__؟" 

ضرغام کے پوچھنے پر فردان کے ماتھے پر بل آئے ۔ ۔

وہ تو تمہارے ساتھ گئی تھی نا واپس___ تم ہی اسے لے کر گئے تھے تو یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو_؟""

فردان کا لہجہ سخت ہوا تھا کیونکہ اگر یہ مذاق تھا تو بہت بے ہودہ مذاق تھا۔

جبکے فردان کی بات سنتے ضرغام کا دل و دماغ بند ہوا تھا اگر وہ گھر نہیں آئی تھی حویلی نہیں گئی تھی تو وہ کہاں تھی؟ نظر جھکاتے ضرغام نے اپنے ہاتھ میں پکڑے دوپٹے کو دیکھا تھا ۔ 

ف_فردان و_وہ نہیں مل_مل رہی یار __"

ضرغام نے کپکپاتی آواز سے کہا تھا جبکے فردان کا دماغ بھک سے اڑا تھا وہ کیا کہہ رہا تھا اسکی انکھوں کے سامنے وہ اسکی بہن کو تھوڑی دیر پہلے اپنے ساتھ لے کر نکلا تھا اور اب وہ کہہ رہا تھا کے وہ مل نہیں رہی ۔ 

کیا بکواس کررہے ہو ضرغام کہاں ہے اسراء___ تم لوگ ساتھ نکلے تھے نا ؟ تو یہ سوال مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟____"

فردان دھاڑا تھا کے کمرے میں داخل ہوتی راحمہ اسکی دھاڑ سنتی ڈر کر پیچھے ہوئی تھی ۔ جبکے اسکے الفاظ سنتے وہ سٹل ہوئی تھی اپنی جگہ۔ کیا ہوا تھا اسراء کو ۔۔۔

تم کہاں ہو __؟ مجھے بتاؤ میں آرہا ہوں___"

فردان کی بات پر ضرغام نے اسے بتایا جبکے فون بند کرتے وہ آس پاس سب جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اسکا سایہ تک نا تھا۔ 

ضرغام خانزادہ کے دل نے اسے ملامت کی تھی کوسا تھا لیکن گیا وقت کیسے واپس لاتا وہ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

کبیر غصہ میں کمرے سے باہر آیا تھا جب اسکا فون رنگ ہوا ۔ انجان نمبر اٹھاتے اسنے ہیلو کہا تھا ۔ جب سامنے سے مکروہ قہقہہ سنائے دیا ۔ کبیر کے ماتھے پر ناسمجھی سے بل پڑے تھے ۔ 

کون  ؟__" رعب دار آواز کے سنگ پوچھتے کبیر نے قدم آگے بڑھائے۔ 

تمہاری بہن کی کیا سسرال اور خان حویلی میں کوئی جگہ نہیں ہے جو اسے ایسے روڈ پر پھینک رکھا تھا تم لوگوں  نے کبیر خانزادہ___"؟

فون سے آتی آواز اور الفاظ نے کبیر کے قدم جکڑے تھے ۔ اپنی بہن کا ذکر غیر کے منہ سے سنتے اسکی آنکھوں میں اشتعال پیدا ہوا تھا ۔ 

بکواس بند کرو اپنی کون ہو تم___"

فون پر پکڑ مضبوط کرتے دبی دبی آواز میں چیخا تھا کبیر ۔

ارے ارے سردار صاحب آپ کی بیگم چاہیئے تھی ۔ لیکن خدا کو جو منظور آپکی بہن ہماری جھولی میں ڈال دی ۔ بچاری بیچ سڑک پر کھڑی تھی میرے آدمیوں نے اسے سہارا دیتے اپنے پاس رکھ لیا ہے ___" 

ملک فراز کے الفاظ سنتے کبیر ساکت ہوا تھا کائی سی گہری آنکھیں سرخ ہوئی تھی ۔ جبکے دماغ کی رگیں پھٹنے کو تھی ۔

کون ہے تو ہمت کیسے ہوئی تیری یہ بکواس کرنے کی جان سے ماردونگا میں تجھے___"

کبیر کی شیر سی دھاڑ سنتے ایک لمحے کو ملک فراز بوکھلایا تھا لیکن پھر خباثت سے ہنستے ہوئے بولا۔ 

جان سے مارنا ہے تو ضرغام خانزادہ کو مارو جو تمہاری پیاری بہن کو بیچ راستے پر پھینک کر چلا گیا میرے آدمیوں نے تو اسے سہارا دیا ہے ۔ اب انکا انعام بھی تو بنتا ہے نا آخر میرے جوان بیٹے کو موت کے قریب بھی تو تونے کیا ہے نا اور ابھی بھی تو نے اسے اپنی قید میں رکھا ہوا ہے ۔   تیرا انجام بھی میں طہ کرونگا کبیر خانزادہ ___"

اسکی بات سنتے کبیر ساکت ہوا تھاجبکے ملک فراز کو پہچان نے میں اسے لمحہ لگا تھا ۔  اسکی معصوم بہن ___ ضرغام نے اسے بیچ راستے میں چھوڑ دیا _  یہ سب سوچتے کبیر نے اتنی زور سے موبائل دیوار پر مارا تھا کے وہ کئی ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔ 

ملک فرداز الٹی گنتی شروع کردے کیونکہ اب تجھے نہیں بخشونگا میں____"

کبیر غصہ سے غرایا تھا ۔ 

فردان بھاگا ہوا آیا لیکن کبیر کی حالت دیکھ اسکا غصہ پھولی سانسیں دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کے کبیر سب جان چکا ہے ۔ 

لالا اسراءء___ "

فردان اتنا ہی بولا تھا جب کبیر نے اسکی طرف دیکھا ۔ 

چلو میرے ساتھ___"

اتنا کہتے کبیر گاڑی کی طرف بھاگا تھا جبکے راحمہ انکے پیچھے پیچھے دروازے تک آئی تھی ۔ اسکا دل اور دماغ کچھ غلط ہونے کا اندیشہ دے رہا تھا وہ بھاگی ہوئی نرمین کے پاس گئی تھی ۔ 

جبکے کبیر بے تحاشہ تیز ڈرائیو کرتے راستے میں ضرغام کی گاڑی دیکھتا رکا تھا جو وہی بونٹ سے ٹیک لگائے زمین پر بیٹھا تھا۔ 

اسکے ہاتھ میں اسراء کا اسکارف تھا جب کے ضرغام کی سرخ نظریں اسی پر گڑی تھی ۔ 

گاڑی کا دروازہ بند کرتے کبیر باہر نکلا تھا اور اسکے پاس جاتے اسکا گریبان پکڑ کر زمین سے کھڑا کیا تھا جسے کوئی حوش نہیں تھا ۔ فردان بھی اسکے پیچھے پیچھے گاڑی سے باہر آیا ۔ 

کہاں ہے میری بہن__؟"

کبیر کی سرد آواز سنتے ضرغام نے سر اٹھایا تھا ۔ اور اسکی انجان نظریں دیکھ کبیر نے دانت بھینچتے ضرغام کے منہ پر مکہ مارا تھا جو پیچھے زمین پر جا گرا تھا ناک سے خون بہل بہل نکلا تھا جبکے اسکے منہ سے آہ تک نا نکلی۔ 

اگر__ اگر میری بہن کو کھروچ بھی آئی نا ضرغام تو یاد رکھنا تجھے قبر بھی نصیب نہیں ہونے دونگا __"

کبیر کی دھاڑ سنتے وہ ہوش میں آیا تھا ۔ جبکے فردان بھی آنکھوں میں غصہ کی تپش لیئے اسی کو دیکھ رہا تھا۔ 

میری_میری اسراء ک_کہاں ہے__"

اسکے الفاظ سنتے کبیر نے ایک اور مکہ اسکے پیٹ میں مارا تھا جسکی تکلیف ضرغام کو اسراء کو کھو دینے کے خدشہ سے زیادہ نا تھی ۔ 

تیری نہیں ہے اب وہ___ تیرا سایہ بھی اسکے پاس نہیں آنے دونگا ___" 

کبیر نے سرخ آنکھوں سے اسکی طرف دیکھا تھا ۔

تو جانتا ہے اسراء کہاں ہے__"؟

کبیر کے الفاظ سنتے ضرغام پھر کھڑا ہوا تھا  اور کبیر سے پوچھا۔ جو اسے وحشت میں ڈوبی آنکھوں سے گھورتا بنا جواب دیئے یچھے مڑتے گاڑی میں جا بیٹھا تھا ۔ فردان بھی اسکے پیچھے جاتے گاڑی میں اسکے ساتھ بیٹھا تھا۔ اسکا بس نہیں چل رہا تھا کے ضرغام کو جان سے ماردے لیکن فلحال اسراء کا ملنا زیادہ ضروری تھا۔

اسکی گاڑی اسٹارٹ ہوتے دیکھ ضرغام بھی بھاگا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا ۔ اور اسکی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی بھگائی تھی۔ دل تھا کے دھڑکنا بھول رہا تھا اسکے بغیر ۔ مدھم چلتی سانسوں کے ساتھ وہ اپنے رب سے دعا گو تھا کے اسراء خیریت سے ہو کے اگر اسے کچھ ہوا تو وہ اپنا حال کیا کرے گا وہ نہیں جانتا تھا ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

اسراء کو ہوش آیا تو سر میں درد کی ٹیسیں اٹھتی محسوس ہوئی اپنا سر تھامتی اٹھ بیٹھی ۔ ادھر اُدھر نظریں گھماتے آس پاس کی جگہ کو پہچاننا چاہا لیکن کچھ سمجھ نہیں ایا وہ سر تھامتی انکھیں بند کر کے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی جب کانوں میں ضرغام کے الفاظ گونجے ۔ 

(منافق ہو تم بھی جھوٹی ۔ میں نہیں رہنا چاہتا تمہارے ساتھ جاؤ چلی جاؤ اپنے گھر اور واپس مجھے کبھی اپنی شکل مت دکھانا ورنہ جان سے مار دونگا__)

اسراء نے یکدم اپنی آنکھیں کھولی تھی ۔انکھیں آنسوؤں سے بھری تھی لیکن وہ تو رستہ پر کھڑی تھی پھر اچانک کسی نے اسکے منہ پر کپڑا رکھا اور وہ بے ہوش۔۔۔۔۔۔

یہ سب یاد کرتے اسراء نے فوراً سر گھما کر دیکھا تھا لیکن کوئی نہیں تھا جبکے باہر سے کچھ مردوں کی آوازیں آئی تھی جنہیں سننے کے لیئے وہ اس بوسیدہ سے کمرے میں بنی کھڑکی کے قریب گئی ۔ 

ہاں بھائی ملک فراز نے کہا ہے یہ لڑکی آج رات ہماری ہے اچھے سے اپنی خواہشیں پوری کرینگے آج ورنہ صاحب کا بیٹا وہ ملک شہباز خود تو عیاشی کرتا تھا اور ہمیں چکھنے بھی نہیں دیتا تھا  ___" 

وہاں بیٹھا آدمی اپنے ناپاک ارادوں سے اپنے ساتھ بیٹھے ادمی کو آگاہ کررہا تھا۔ 

لیکن بھائی وہ تو کبیر خانزادہ کی بہن ہے نا ؟ اسے پتہ چلا تو ہماری بوٹیاں بھی کسی کو نہیں ملیں گی ۔ دیکھا نہیں ملک فراز کے بیٹے کی خبر کسی کو نہیں ہے کے وہ زندہ بھی ہے یا مر گیا۔ کبیر خانزادہ نے دوسروں کی بہنوں کی عزت لوٹنے والے کو نہیں بخشا تو اپنی بہن سے کی گئی زیادتی پر وہ ہمیں نوچ کھائے گا ____"

وہ آدمی ابھی تک ڈرا ہوا تھا جب انکے ساتھ بیٹھے تیسرے آدمی نے ہنستے ہوئے سر نفی میں ہلایا۔ 

ارے کچھ نہیں ہوگا اس سے کھیل کر اسکی لاش جنگل میں پھینک دینگے یا جلا دینگے ۔ کسی کو پتہ نہیں چلے گا کے وہ کہاں گئی___" 

اس آدمی نے ڈرے ہوئے آدمی کو سہارا دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اور اسے دیکھتے باقی تین بھی کھڑے ہوئے جبکے پیچھے کھڑی اسراء انکے ناپاک ارادے سنتی ساکت و جامد کھڑی رہ گئی تھی اپنی جگہ ۔ 

ن_نہیں نہیں ۔ یا اللّٰہ نہیں ___" 

پیچھے ہوتی وہ روتی ہوئی اپنے رب کو یاد کرنے لگی ۔ جسکے علاوہ اور کوئی نا تھا جو اسے اس مشکل سے نکال سکتا وہ انکے قدموں کی چاپ سنتے بھاگی ہوئی دروازے کے پاس گئی تھی اور دروازے کو کنڈی لگائی تھی ۔ 

 دروازہ بند ہوتے دیکھ وہ آدمی جان گئے تھے کے اسراء جاگ چکی ہے اسلیئے بھاگے ہوئے آئے اور دروازہ بجانے لگے۔ 

اے لڑکی کھول دروازہ__ ورنہ تیرے ساتھ اس سے بھی بد تر سلوک کرینگے۔ کھول____" وہ دروازے پر ہاتھ مارتا چیخا تھا جبکے اندر وہ کپکپاتی ہوئی بے تحاشہ رورہی تھی ۔ 

یا اللّٰہ بچالیں مجھے ۔ میری آبرو کو بچالیں آپ مجھے بھلے یہی زندہ زمین میں گاڑھ دیں لیکن ایسا نہ ہو میرے رب مجھے بچالے ۔ میں جیتے جی مر جاؤنگی یا رب کوئی معجزہ کردے ___"

وہ معصوم سی جان جو کسی کے ڈرانے سے یوں ڈر جایا کرتی تھی کے سانسیں تھم جاتی تھی ۔ آج جانوروں کے ہاتھ لگ گئی تھی ۔ صرف اپنے محافظ کی وجہ سے ۔ وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی زمین پر گھٹنوں میں سر دیئے اپنے رب سے دعائیں مانگ رہی تھی اسکا جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا سانسیں اسکا ساتھ چھوڑ رہی تھی لیکن وہ اپنی آبرو کو گندہ نہیں ہونے دے سکتی تھی ۔ ادھر ادھر دیکھتی وہ اس کھڑکی طرف دیکھنے لگی ۔

جلدی سے اٹھتے اس طرف بھاگی تو وہاں کوئی نہیں تھا ۔ بوسیدہ سی کرسی اٹھا کر کھڑکی کے پاس رکھی اور اس پر چڑھ کر ایک قدم باہر رکھا ۔ جب دروازہ توڑتے وہ آدمی اندر آئے اور اسراء کو بہاہر کودتے دیکھ اسکی طرف بھاگے ہوئے آئے ۔ لیکن جب تک اسراء دوسرا قدم باہر رکھتی کود چکی تھی ۔ اس میں اتنی ہمت نا جانے کہاں سے آئی تھی لیکن وہ ان دردنوں کا شکار نہیں بن سکتی تھی ۔ 

وہ اٹھتی ہوئی بھاگتی اس سے پہلے ہی ایک آدمی اسکے پیچھے کودا  ۔ اور اسکے بالوں سے پکڑتے اسے کھینچ کر کھڑا کیا ۔ 

تیری اتنی ہمت کے تو ہمیں چکما دے کر بھاگ رہی ہے ۔ تجھے کیا لگا کے ہم ایسے ہی تجھے اپنے ہاتھوں سے جانے دینگے ؟؟؟ چل ہمارے ساتھ آج کی رات تو رنگیں کرنی ہے___"

وہ اسکے بالوں سے گھسیٹتا ہوا اسے کمرے میں لے گیا اور اسے زمین پر پھینکا جو سر میں اٹھتی ٹیسوں کو برداشت کرتی جھٹپٹا رہی تھی۔ 

ہ_ہمیں جانے دیں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے ہم نے کچھ ن_نہیں کیا__"

اسراء روتی ہوئی گڑگڑا رہی تھی کے ان آدمیوں کا مکروہ قہقہہ لگا ۔ 

تو نے کچھ نہیں کیا لیکن جس انسان کی تو بہن ہے نا اس نے بہت غلط کیا ہے ۔ یہ اس کی غلطی کی سزا ہے اور وہ تیرا شوہر اسنے تو ہمارا کام آسان کردیا تجھے روڈ پر پھینک کر۔ کوئی پتھر دل ہی ہوگا ویسے جو اتنی حسین لڑکی کو چھوڑ کر چلا گیا ۔ لیکن چلو ہمارا تو بھلا ہوگیا نا ___"

دردنگی اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی جب وہ اسکے قریب آنے لگا اور اسراء پیچھے کھسکنے لگی۔ 

ارے یار یہ عبایا تو اس پر سے اتار ۔ اس کی خوبصورتی چھپا رہا ہے ___"

دوسرے آدمی نے جب کہا تو باقی دونوں نے بھی سر ہاں میں ہلایا جب کے اسراء روتی ہوئی نفی میں سر ہلاتی دیوار سے جا لگی تھی۔ 

نہیں نہیں ہمیں معاف کردیں جانے دیں___"

وہ روتی معافیاں مانگتی اس سے پہلے ہی وہ آدمی اس پر جھپٹا اور اسکے عبائے کو جارحانہ طریقہ سے کھینچا جو کندھے سے پھٹتا چلا گیا لیکن اسکے جسم سے نا اترا وہ چلاّ رہی تھی لیکن کوئی اسکی سننے والا نہیں تھا ۔ جب دوسرا آدمی ہاتھ میں کٹر لے کر آیا اور اسراء کے جھٹپٹاتے وجود کو پکڑتے عبائے کو کاٹ دیا جس کے باعث وہ سرخ رنگ کے جوڑے میں بنا دوپٹے کے ان کے سامنے آگئی ۔ 

آج پہلی بار شدت سے اپنے مرنے کی دعا کی تھی اس نے ۔ جب وہ آدمی اسکا جھٹپٹاتے وجود کو دیکھ کر چڑتا اسکا سر پکڑتے دیوار پر مار گیا تھا جس کے باعث اسراء کو اپنا سر گھومتا ہوا محسوس ہوا تھا جب کے ماتھے پر کیل لگنے سے خون بہل بہل کر نکلا تھا ایک وحشت زدہ چیخ گوونجی تھی اسراء کی ۔ لیکن کوئی تھا جو اسکو بچاتا_؟؟

اپو__"

راحمہ بھاگی بھاگی اوپر آئی تھی نرمین کے کمرے میں سانس پھولا ہوا تھا جبکے چہرے پر حد درجہ پریشانی کے تاثرات تھے ۔ 

کیا ہوا راحمہ آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہیں؟؟___"

اپو وہ ضرغام لالا کا فون آیا تھا __ اتنا کہتے راحمہ سانس لینے کے لیئے رکی تھی جبکے ضرغام کا نام سنتے نرمین کو کچھ غلط ہونے کا اندیشہ ہوا تھا ۔ 

اسراء نہیں مل رہی کبیر لالا اور فردان بھی انہی کی طرف گئے ہیں ۔___"

یہ سنتے نرمین نے اپنے دل کے مقام پر ہاتھ رکھا تھا ۔ 

یا اللّٰہ ۔۔۔۔""

اپو مجھے بہت ڈر لگ رہا۔ وہ تو ضرغام لالا کے ساتھ ہی گئی تھی نا تو وہ کیوں نہیں مل رہی مجھے سمجھ نہیں آرہا فردان نے بھی کچھ نہیں بتایا بس وہ بھاگے ہوئے گئے ہیں___" 

راحمہ کی آنکھوں میں آنسو تھے کے نرمین نے اسے اپنے گلے سے لگایا ۔ 

کچھ نہیں ہوگا اسراء کو ۔ اللّٰہ ہے نا وہ انکو اپنے حفظ و امان میں رکھیں گے __" 

وہ راحمہ کو سہارا دینے لگی جبکے اسکا دل خود اندیشوں کا شکار تھا آنکھوں میں آنسو تھے لیکن اپنے رب پر بھروسہ رکھتی اس نے راحمہ کو سمبھالا تھا جبکے باقی لوگ فلحال اس بات سے انجان تھے ۔ 

________❤️ حیا خان ❤️________

گاڑی تیزی سے کچے راستوں کی طرف رواں تھی کبیر نے وہی راستہ اپنایا تھا جو ملک فراز کی زمینوں کی طرف جاتا تھا ۔  دل اپنی بہن کی عزت و آبرو کی اپنے رب سے دعا کررہا تھا جبکے ہری آنکھوں سے اس وقت وحشت ٹپک رہی تھی ۔ 

جبکے فردان کا موبائل بار بار رنگ کررہا تھا جس پر راحمہ کی کالز آرہی تھی لیکن وہ اگنور کرتا باہر کے راستوں پر نظریں گھما رہا تھا ۔ کے کہی اسے اپنی گڑیا نظر  آجائے۔ 

جبکے پیچھے ضرغام تیزی سے کبیر کی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی بھگا رہا تھا اسکا دل شدت سے کچھ غلط ہونے کی اشارہ دے رہا تھا ۔ اگر کچھ غلط ہوا تو وہ خود کو کبھی معاف نہیں کرسکے گا ۔

کبیر نے ایک جگہ رکتے کچے گھر کی طرف دوڑ لگائی تھی لات مار کر دروازہ توڑا تھا لیکن وہ خالی تھا آس پاس جگہ جگہ وہ اور فردان دیکھنے لگے لیکن کہی کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ 

ضرغام گاڑی سے نکلتے بھاگتے ہوئے انکے پیچھے آیا تھا جبکے خالی جگہ دیکھ اسکا دل کے مقام میں تکلیف ہوئی تھی۔ لیکن وہ ہمت نا ہارتے آس پاس کی جگہ بھاگ کر تلاش کرنے لگا لیکن جواب ندار تھا ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

اسراء کے ماتھے سے بے تحاشہ خون نکلا تھا جبکے سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھونے کو تھی جب ایک آدمی نے اسے ابھی بھی جھٹپٹاتے دیکھ اسکے منہ پر دو تھپڑ مارے تھے۔  بھاری ہاتھ لگنے سے اسراء ایک طرف ڈھلکی تھی ۔ منہ سے خون نکلا تھا ۔

بڑی ڈھیٹ لڑکی ہے ۔ اتنی مار کھانے کے باوجود ہمت نہیں ہار رہی __" ایک آدمی اپنی قمیض اتار کر پھینکتا اس کے قریب ہوا تھا جب اسراء اسے دیکھتی روتے ہوئے پیچھے ہوئی لیکن وہ بے رحم انسان آگے بڑھتا اسکے کندھے سے آستین کھینچتا ایک جھٹکے میں پھاڑ چکا تھا اسکے ناخن کے نشان اسرا کا بازو چھل گیا تھا کے وہ تکلیف سے کراہتی دلخراش چیختی اپنے رب کو پکار گئی۔ 

یا اللّٰہ ____!!!!

اسکی آواز ضرغام خانزادہ کے کانوں پر پڑی تھی جو اسکے آس پاس ہی موجود تھا ۔ وہ دیوانہ وار ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ 

اسراءءءءء___" 

اسکی چیخ سنتے کبیر اور فردان بھی متوجہ ہوتے اسکے پیچھے بھاگے تھے جو خود اس آواز کی طرف بھاگ رہا تھا ۔ 

اندھیرے میں ضرغام خانزادہ پاگلوں کی طرح اس طرف بھاگ رہا تھا جب سامنے اسے سنسان جگہ ایک کچا مکان نظر آیا ۔ 

جس کے باہر شر+اب کی بوتلیں پڑی تھی وہ تیزی سے اس طرف دوڑا تھا ۔ دروازہ بند تھا جبکے اندر سے کچھ مردوں کی آوازیں آرہی تھی ضرغام کا ایک لمحہ دل گھبرایا تھا لیکن ہمت کرتے اسنے دروازے پر ہاتھ مارا تو وہ ٹوٹا دروازہ کھلتا چلا گیا۔ 

اور سامنے کا منظر دیکھ ضرغام کے دل کانپا تھا آنکھیں پھٹنے کی حد تک کھل گئی تھی جبکے رگ رگ میں لہو امڈ آیا تھا۔  سامنے اسراء نیم بے ہوش پڑی تھی جبکے ایک آدمی اسکا ہاتھ کھینچتا خود پر گرا گیا تھا اور باقی دوسرے مرد اس کو قابو کررہے تھے ۔ لیکن جب انکی نظر سامنے کھڑے ضرغام خانزادہ پر پڑی تو انکا سانس سینے میں اٹکا تھا اور جان تو تب جسم سے نکل تھی جب پیچھے سرخ ہری انکھوں سے دیکھتا کبیر خانزادہ کھڑا نظر آیا تھا۔

ایک آدمی جو پہلے ہی کبیر کی وحشت بتارہا تھا وہ فوراً سے پہلے دور ہوا تھا جبکے باقیوں نے ابھی تک اسراء کو نا چھوڑا تھا ۔ 

ضرغام بھاگا ہوا اندر آیا تھا اور اسراء کی کمر پر رکھے اس ادمی کے ہاتھ کو جھٹکے سے کھینچتے  اپنا بھاری پیر اس پر رکھتے جھٹکے سے موڑا تھا کے چٹخ کی آواز بتا رہی تھی ہاتھ ٹوٹ چکا ہے ۔ جبکے بندوق سے اسکے ہاتھوں اور جسم میں کئی گولیاں ماری تھیں کے وہ آدمی تڑپتے وہی دم توڑ گیا تھا۔ 

کبیر اور فردان کا خون کھول گیا تھا اپنی بہن کو اس حال میں دیکھ ۔ شیر کی دھاڑ کے ساتھ کبیر نے آگے بڑھتے لوہے کی بھاری روڈ اٹھاتے ایک آدمی کے سر پر ماری تھی جو دلخراش چیخ نکالتا اس سے پہلے ہی لوہے کی روڈ کبیر نے اس کے پیٹ میں ڈال دی تھی  جبکے فردان نے  اپنی جیب سے پس+ٹل نکالتے اس آدمی کے دماغ میں فائر کیا تھا جس کے بھیجے سے گولی آر پار ہوئی اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھی ۔

ضرغام بھاگا ہوا اسراء کے پاس گیا تھا جو نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی تھی ۔ اسکا سر اپنی گود میں رکھتے ضرغام نے اسے اپنے سینے سے لگایا تھا ۔ آج ضرغام کی آنکھ سے کئی آنسو بہے تھے اسکی یہ حالت دیکھ۔  جب اسراء نے اپنی آنکھیں کھولی ۔ سر سے بہتا خون سردی کی شدت سے جمنے لگا تھا جبکہ گال سوجا ہوا تھا منہ سے خون بہہ رہا تھا آستینیں پھٹی ہوئی تھی اور کندھوں پر پڑے لال نشان اس بات کے گواہ تھے کے اس معصوم کو بے تحاشہ نوچنے کی کوشش کی گئی تھی۔ 

ضرغام کے سینے سے لگتے ایک آنسو چپکے سے اسکی آنکھ سے نکلا تھا ۔ جب ضرغام نے پیچھے ہوتے اسکے بال سکے منہ سے ہٹاتے اسے دیوانہ وار چوما ۔ 

کچھ نہیں ہونے دونگا میں تمہیں __" 

نڈھال سی اسراء کو پھر سینے سے لگایا تھا ۔ 

ک_کبھی م_م__معاف ن__نہیں کر_رونگی آ__آپکو___"

اسکے ٹوٹی پھوٹی سرگوشی اپنے کان کے پاس سنتے ضرغام ساکت ہوا تھا ۔ 

اپنے سینے سے دور کرتے ضرغام نے اسکا خوبصورت چہرا دیکھا تھا جو اس وقت خون سے لت پت ہورہا تھا اور بے ہوشی سے آنکھیں بند ہو چکی تھی ۔ اسکا دل دھڑکنا بھول گیا تھا اسراء کو اس حال میں دیکھ ۔ اور آج اسکے یہ الفاظ سنتے ضرغام کا دل نوچ لیا تھا اسکے سینے سے ۔ 

ہوش میں آتے ضرغام نے اپنا کوٹ اتار کر اسے پہنایا تھا جبکے اپنے ہاتھ سے اسکے بال سنوارتے وہ اسے گود میں اٹھا گیا تھا ۔

جب پیچھے کبیر کے آدمیوں نے آتے ان لاشوں کو ایک طرف کرتے اٹھایا تھا۔ 

کبیر نے پیچھے پلٹ کر اپنی بہن کو دیکھا جو بے ہوشی کی حالت میں خون میں لت پت تھی ۔ اسکی گڑیا اس حال میں وہ تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ آنکھ نم ہوئی تھی گلے میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا تھا ۔ لیکن جب ضرغام کی بانہوں میں اسے دیکھا تو اسکا دماغ بھک سے اڑا تھا ۔ 

کبیر نے جھٹکے سے اسے کھینچتے اپنی بانہوں میں بھرا تھا آنکھوں میں لہو امڈ رہا تھا اسراء کو لیتے وہ باہر کی طرف بھاگا تھا جبکے فردان نے اپنے آنسو پوچھتے ضرغام کا گریبان پکڑا تھا۔ 

تجھے اسکی قیمت چکانی ہوگی ضرغام خانزادہ__ میری بہن کو تو میں بچا لونگا لیکن تو اپنا کفن تیار کرلے  ___" 

فردان نے ایک جھٹکے میں اسے چھوڑا تھا جو خود اپنے ہوش میں نہیں تھا ساکت سا وہ زمین پر گر گیا تھا ۔ 

فردان گاڑی ڈرائیو کررہا تھا اور کبیر اسے پیچھے اپنی گود میں سر رکھے لٹا کر اسکے گالوں پر پیار کررہا تھا اپنی بہن کی یہ حالت دیکھ آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے جبکے فردان بھی ان دونوں کو اس طرح دیکھتا ہاتھ کی پشت سے اپنے آنسو پوچھ گیا تھا ۔ 

شہر پہنچتے ہسپتال کے سامنے گاڑی روکتے کبیر اسے بانہوں میں بھرتے تیزی سے اندر بھاگا تھا جبکے فردان بھی اسکے پیچھے پیچھے بھاگا تھا ۔ 

ڈاکٹرز اسے دیکھتے تیزی سے اندر لے کر گئے تھے ۔ کبیر کے ہاتھوں اور چہرے پر خون کے نشان تھے جبکے آنکھیں نم تھیں۔ فردان اسکے قریب آتا اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے حوصلہ دینے لگا ۔ 

کچھ نہیں ہوگا لالا ہماری گڑیا کو __ "

فردان کا خود کا دل بھی بیٹھا ہوا تھا لیکن وہ ہمت ہارنا نہیں چاہتا تھا ۔ 

میں بابا کو کال کردیتا ہوں ۔ سب کو اس بارے میں پتہ ہونا ضروری ہے__" 

فردان کی بات پر کبیر نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️______

بکھرا حلیہ سفید کرتے پر خون کے دھبے ماتھے پر بال بکھرے سے تھے ۔ ہوش و حواس سے بے گانہ وہ چلتا ہوا گھر میں آرہا تھا جبکے کانوں میں صرف اسراء کے الفاظ گونج رہے تھے ۔ 

(ک_کبھی م_م__معاف ن__نہیں کر_رونگی آ__آپکو_")

ضرغام کی آنکھ سے ایک موتی بے مول ہوا تھا جب اسمارہ بیگم اسکے انتظار میں گھر میں ٹہلتی اسے اس حال میں دیکھ بھاگی ہوئی اسکے قریب آئی تھی ۔ 

ضر___ضرغام میرا بچہ یہ_یہ کیا حال بنا رکھا ہے آپنے اپنا ۔یہ خون کہاں __ سے آیا ___" 

اسمارہ بیگم کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا اپنے بیٹے کو اس حال میں دیکھ۔ اپنی ماں کی آواز سنتے ضرغام نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا آنکھوں میں تیزی سے آنسو جمع ہوئے تھے ۔ 

م_مورے___ مورےے وہ وہ ا__اسراء ۔ اسراءء کو م_مجھ سے دور کردے گا ۔۔ 

وہ ہم_ہمیشہ میری خش_خوشیاں چھین لیتا ہے__وہ اس بار پھر ایسا کرے گا_"

ا_اسراء اسراء میری وجہ سے وہ_ وہاں___وہ ہاسپٹل میں ۔ میری___میری وجہ سے ۔۔۔"" 

ضرغام پاگل سا ہورہا تھا ۔ آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے حلق میں الفاظ اٹک رہے تھے زبان کانپ رہی تھی لیکن دل__ دل میں ڈر صرف اسراء کے کھونے کا تھا ۔ 

اسمارہ بیگم کا اپنے بیٹے کی ایسی حالت دیکھ دل کانپا تھا وہ روتی ہوئی اسے اپنے گلے سے لگاتی زمین پر بیٹھی تھی جو اپنا وزن ان پر چھوڑ چکا تھا ۔ 

بیٹا کیا___کیا ہوا ہے اسراء بیٹی کو ؟؟ وہ تو اپکے ساتھ گئی تھی نا ضر ؟؟؟ تو کہاں ہے اسراء___؟" 

اسکے دل ہولا دینے والی باتیں سنتے اسمارہ بیگم چیخی تھی ۔ جب انکی چیخ کی پکار سنتے اسماعیل خانزادہ بھاگے ہوئے آئے تھے۔ اور سامنے کا منظر دیکھ وہ پریشانی سے انکی طرف بڑھے ۔ 

بیگم یہ کیا ہوا ضرغام کو ۔ وہ زمین پر اسکے پاس بیٹھتے اسکا سر اٹھا گئے جو شاید ہوش میں رہتے ہوئے بھی ہوش میں نہیں تھا ۔ 

ب_بابا میں نے اس_اسراء کو ___میری وج_وجہ سے وہ ہاسپٹل م_میں ہے ۔ میں نے اسے راس_راستہ پر چھوڑ دیا ۔ میں یہ ک_کیسے کرسکتا ہوں___" 

وہ شاید انہیں بتا نہیں رہا تھا بلکے خود سے یہ سوال پوچھ رہا تھا کے وہ اپنی عزت اپنی بیوی جو اسکی سانسوں سے بھی زیادہ اسکے قریب رہنے لگی تھی وہ کیسے کرسکتا تھا اسکے ساتھ ایسا۔۔ 

م_میں انسان نہیں ہوں__م_میں تو ج_جانور سے بھی بد_بدتر ہوگیا مورے میں ان_انسان نہیں رہا۔___ م_میں کیسے کر سکتا ہوں__ایسا۔___"

وہ اپنی زبان سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ادا کرتا خود سے سوال کررہا تھا جبکے اسماراہ خانزادہ اور اسماعیل خانزادہ سکتے میں بیٹھے اسکے الفاظ سن رہے تھے ۔ 

کیا کیا ہے تم نے اسراء کے ساتھ ضرغام __؟ بتاؤ کیا بکواس کررہے ہو__" اسماعیل خانزادہ خود کو سمبھالتے دھاڑے تھے ضرغام پر جبکے اسمارہ بیگم آنکھیں پھاڑے اپنے بیٹے کے الفاظوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں ۔ وہ نہیں یقین کرنا چاہتی تھی اسکی باتوں پر جو وہ کہہ رہا تھا ۔ 

اسماعیل صاحب کا فون بجا تو وہ جیب سے نکاتے کان سے لگا گئے تھے ۔ کافی دیر خاموشی رہی جبکے وہ 

"ہممم ہم آرہے ہیں__" کہتے کال کاٹ گئے ۔ 

انہوں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جو خود سکتے سی حالت میں بیٹھا تھا ۔ 

خان حویلی کے ملازم کی کال تھی۔ اسراء ہاسپٹل میں ہے بیچ راستے میں ملک فراز کے آدمیوں نے اسکے ساتھ زبردستی___" 

اسماعیل خانزادہ کے الفاظ انکا ساتھ نہیں دے رہے تھے وہ خاموش ہوتے آنکھیں میچ گئے تھے۔ انکا جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا جب پوری بات سمجھتے اسمارہ بیگم ہوش میں آئی تھی ۔ اور ضرغام سے دور ہوتے اسکے گال پر زوردار تھپڑ رسید کیا تھا جو شاید جانتا تھا کے یہی ہونا ہے۔ 

وہ ابھی ایک سے نہیں سنبھلا تھا جب اسمارہ بیگم نے ایک دو اور پھر کئی تھپڑ اسکے منہ پر مارے تھے ۔ جسکا چہرا لال ہو چکا تھا ۔  جبکے اسماعیل صاحب نظریں نیچی کیئے کھڑے تھے جیسے اس سب پر یقین نا کر پارہے ہوں۔

کیوں__کیوں ضرغام کیوں کیا ایسا__ اس معصوم کے ساتھ کیوں کیا___ وہ بیوی تھی آپکی اور آپ اسے بیچ راستے پر چھوڑ آئے ۔ آپکو شرم نہیں آئی ضرغام کیسے مرد ہیں آپ ۔ کہاں گئی آپکی غیرت ؟؟؟ اپ جیسا مرد__ مرد کہلانے کے قابل ہی نہیں ہوتا جو اپنی عزت اپنی بیوی کی رکھوالی نا کرسکے___"

اپنی مورے کے اتنے سخت الفاظ سنتے اسنے اپنی آنکھیں میچی تھی ۔ اسمارہ بیگم اسے خود سے دور کرتی اسماعیل صاحب کے پاس گئی تھی ۔ 

چلیں ہم__ہمیں ہاسپٹل لے کر چلیں ۔ اس بچی کے پاس ۔ ہمیں اسکے پاس جانا ہے___" وہ انکا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی تھی جو سر اثبات میں ہلاتے انہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے جبکے ضرغام وہی بیٹھا رہا ۔ 

آج وہ کبیر خانزادہ کی نفرت میں سب ہار گیا تھا اس سے حسد کرتے سب ختم کرگیا تھا ۔ وہ اپنی خوشیوں کو اپنے ہاتھوں سے آگ لگا گیا تھا ۔ آج اسکی ماں تک اسے اکیلا چھوڑ گئی تھی ۔ اور وہ جو اس سے محبت کے وعدے اور دم بھرا کرتی تھی وہ معصوم آج اسکی وجہ سے ہسپتال کے بستر پر پڑی تھی ۔ 

کیا کرلیا تھا یہ ضرغام نے خود کے ساتھ ۔ پہلے ایک سراب کے پیچھے بھاگتا رہا اسکا بدلہ اپنی ہی بیوی سے لیتا رہا اپنا گنہگار اسے ہی سمجھتا رہا اور آج جب وہ اسکے بنا ٹھیک سے سانس بھی نہیں لے پارہا تو وہ اس سے الگ ہوگئی ۔ 

کیا واقعی اس سب کا زمیدار وہ اکیلا تھا ؟ کیا صرف وہی تھا ایسا جسکا خوشیوں پر کوئی حق نہیں تھا ۔ جو جس چیز کو چاہتا تھا وہ اس سے الگ ہوجایا کرتی تھی ۔اور اسراء خانزادہ سے دور رہنا کے سوچتے بھی اسکی سانسیں تھمنے لگی تھی وہ لڑکھڑاتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور باہر کی طرف بھاگا اسے اسراء کو دیکھنا تھا اسے وہ چاہیئے تھی ہر حال میں صحیح سلامت۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_________

اگلےایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں تمام مرد ہاسپٹل میں جمع ہوگئے تھے ۔ جبکے شہانہ بیگم بھی بیٹی کی ممتا میں خود کو ڈھانپتی ہسپتال میں موجود تھی ۔ فردان نے سب کو تمام بات سے آگاہ کیا تھا جسے سن کر سب کو یقین نہیں ہورہا تھا کے ضرغام اس طرح کی حرکت کیسے کرسکتا ہے ۔ جب اسمارہ بیگم اور اسماعیل صاحب بھی آئے ۔ 

بھابھی___ "وہ شہانہ بیگم کے پاس آئی تو وہ تیزی سے انکے گلے لگ گئی سب بھلائے ۔ انہیں صرف اتنا یاد تھا کے انکی بیٹی اندر برے حال میں ہے ۔ 

جبکے داجان خود سکتے سی کیفیت میں بیٹھے تھے ایک جگہ ۔ برہان خانزادہ بھی نم آنکھوں سے دروازے کے باہر سے اپنی بیٹی کو دیکھ رہے تھے ۔ 

جبکے کبیر ایک طرف دیوار سے ٹیک لگائے کھڑا تھا ۔ 

ڈاکٹر باہر آئی تو سب سے پہلے کبیر انکے پاس پہنچا۔ 

می_میری بہن کیسی ہے ڈاکٹر__" 

ڈاکٹر نے کبیر کا چہرا دیکھ سرد آہ بھری ۔

دیکھیں انکے ساتھ زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اور انکا ذہن یہ سب برداشت نہیں کرپایا ہے اسلیئے انہیں نروس بریک ڈاؤن ہوا ہے ۔ انکی حالت کافی سیریس ہے فلحال جب تک انہیں ہوش نہیں آجاتا ہم کچھ نہیں کہ سکتے باقی آپ لوگ دعا کریں اللّٰہ سے بڑا کوئی مددگار نہیں ___"

وہ کہتی جاچکی تھی جبکے شہانہ بیگم بلند آواز سے روئی تھی اپنی بیٹی کی یہ حالت سنتے ۔  سبکی آنکھوں میں آنسو جمع تھے دل ہی دل میں سب اللّٰہ سے اسکی بہتری کی دعا مانگ رہے تھے جبکے کبیر سکتے سی حالت میں کھڑا تھا۔ 

لیکن اس سے بھی بڑا دھچکا پیچھے کھڑی ذات کو لگا تھا جو ابھی ابھی ہسپتال میں داخل ہوا تھا اور ڈاکٹر کے الفاظ کانوں میں پڑھتے اسے ایسا لگا تھا جیسے اسکے جسم سے کسی نے بے دردی سے روح کھینچ لی ہو ۔ 

وہ وہی سے پلٹتے مردہ پیروں کے ساتھ ہسپتال سے باہر نکلا تھا ۔ اسکی آنکھوں کے سامنے ہر وہ ایک منظر گھومنے لگا جب وہ اسکے ساتھ زیادتی کرجاتا تھا اور وہ اسکی محبت میں سب برداشت کر جاتی تھی۔ 

(ہم آپ سے بہت محبت کرتے ہیں ضر۔ بہت زیادہ ۔۔ اتنی کے جب آپ پاس نہیں ہوتے تو یہ سانسیں بھی مشکل سے آتی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے جینے کے لیئے اب سانسوں سے زیادہ آپ ضروری ہیں__")

(لیکن میں تو تم سے محبت ہی نہیں کرتا باربی ڈول__")

ضرغام کی پلکوں کے باڑ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا تھا ۔ قدم کہاں جا رہے تھے وہ نہیں جانتا تھا لیکن سوچوں کا مرکز صرف وہی لڑکی تھی ۔ وہ اسے محبت کہتا عشق کہتا عادت کہتا کیا کہتا ۔ وہ نہیں تھی تو ایسا لگ رہا تھا جیسے رگوں میں چھپے خون کی ایک ایک بوند کو اسکی ضرورت ہوں ۔۔ 

ضرغام خانزادہ کو جینے کے لیئے تمہاری ضرورت ہے ۔ اور اگر تم نا رہی تو پھر ضرغام جی کر کیا کرے گا___"

وہ خود سے بڑبڑاتا ہوا چلتا چلتا کہاں آگیا تھا نہیں جانتا تھا ۔ سر اٹھا کر دیکھا تو وہ مسجد کے دروازے پر تھا ۔ 

قدم اٹھا کر اسنے مسجد میں رکھا تو ایسا لگا جیسے کوئی ہے جو اسے بھی سہارا دینا چاہتا ہے ۔ جہاں اسے سب بھول گئے تھے اسکی برائیاں دیکھتے اسکی حرکت دیکھتے سب اس سے نفرت کرنے لگے تھے حتیٰ کے اسکی ماں بھی چھوڑ گئی تھی ۔  وہیں ایک ذات ابھی بھی موجود تھی جو  اس سے محبت کرتی تھی اسے سہارا دینا چاہتی تھی اسکی بھی سننا چاہتی تھی ۔ 

اللّٰہ کا نام لیتے اسنے مسجد میں قدم رکھا تھا ۔ فجر کا وقت تھا جہاں باقی نمازوں کے وقت رش ہوتا تھا وہیں فجر کے وقت صرف چند اللّٰہ کے خاص اور محبوب بندے  اپنی نیند سے بیدار ہو کر اپنے رب کو سجدہ کرنے آئے ہوئے تھے۔ 

وضو کرتے اسنے امام کی امامت میں نماز ادا کی اور پھر سلام پھیرتے اسنے اپنے اللّٰہ کی تسبیحات ادا کی ۔ دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتے وہ اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھنے لگا ۔ ان ہاتھوں میں اب کچھ نہیں تھا یہ ہاتھ خالی رہ گئے تھے۔ زبان جو ہر وقت کڑوے الفاظ ادا کرتی تھی اللّٰہ کے سامنے وہ خاموش تھی جیسے گوشت کا لوتھڑا منہ میں موجود ہی نا ہو۔ کئی لمحے گزرگئے وہ یونہی بیٹھا رہا ۔ آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر ہاتھوں میں گرا تو وہ ضبط کھوتے پھوٹ پھوٹ کر رودیا ۔ 

یا اللّٰہ ___"

اس پکار میں جو درد تھا وہ اس رب کے سوا اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا بچپن سے لے کر اب تک ہر چیز چھن جانے کا درد ۔ اور اب مزید چھن جانے کا خوف۔ 

یا اللّٰہ مجھ سے غلطی ہوگئی مجھے معاف کردے ۔اسے بچالینا میرے رب میری غلطیوں کی سزا اسے مت دینا وہ معصوم ہے ۔ وہ محبت ہے وہ عشق ہے وہ میری زندگی کی سب سے معصوم تخلیق ہے تیری ۔  میرے پاس کہنے کے لیئے الفاظ نہیں لیکن تو تو شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ میری دعاؤوں پر کن کہہ دینا میرے رب ۔ تو بھلے اسے مجھے مت دینا ۔ میں اس کے لائق نہیں ہوں مجھ جیسا انسان اسکے لائق نہیں ہوسکتا لیکن تو اسے بچا لے میرے رب ۔ تو اسے زندگی دے دے ۔۔۔ تو مجھے__معاف کردے___"

وہ دعا مانگتے مانگتے پھوٹ پھوٹ کر رودیا تھا جب اسکے کندھے پر کسی نے ہاتھ رکھا ۔ وہ پلٹا تو ایک سفید کپڑوں میں لمبی سفید داڑھی نورانی چہرے کے ساتھ ایک بزرگ کھڑے اسے دیکھ مسکرا رہے تھے ۔ 

جتنی خوبصورتی سے تم دعا مانگ رہے ہو وہ رب تمہاری ضرور سنے گا بیٹا__"

وہ بزرگ اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر مسکرائے تو ضرغام کی نظریں انکے چہرے پر جم گئی ۔ 

آپکو کیسے پتہ وہ میری سنے گا __؟ میری تو کبھی نہیں سنی گئی__" 

وہ نم آنکھوں سے بولا تو بزرگ اسکے پاس ہی بیٹھ گئے ۔ 

پہلے کبھی تم نے اتنی خوبصورتی سے مانگا ہی نہیں ہوگا__" 

وہ مسکرائے تو ضرغام نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا ۔ 

رب العالمین کو ہمارے آنسوؤں سے بہت محبت ہے ۔ ہم ایک آنسو بہادیں سچے دل سے تو وہ پگھل جاتا ہے تو سوچوں تم تو اتنی شدت سے رو رہے ہو اسکے سامنے وہ کیسے تمہیں نظر انداز کردے گا __" 

بزرگ کے چہرے پر شفقت بھری مسکراہٹ دیکھ ضرغام کے لب بھی دھیمی سی مسکراہٹ میں ڈھلے ۔ 

ک_کیا آپکو یقین ہے وہ میری دعا سن لے گا ۔ ؟ وہ میری ا_سراء کو ٹھیک کردے گا نا __"

ضرغام کی باتیں سن بزرگ نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگے ۔ 

اسراء کون ہے بیٹا__؟"

وہ م_میری بیوی ہے ۔ وہ ہاسپٹل میں ہے ۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں انہیں کچھ نہیں پتہ۔ رب سے مدد مانگو___" 

وہ روتا ہوا انہیں بتانے لگا تو بزرگ نے پیار سے اسے دیکھا ۔ 

وہ ٹھیک ہوجائیگی بیٹا ۔ جب اتنی محبت کرنے والا شوہر اسکے لیئے اتنی شدت سے دعا مانگے گا تو وہ کیسے ٹھیک نہیں ہوگی__" 

بزرگ کے لفظ "محبت کرنے والا شوہر"  پر ضرغام کا دل تھما تھا۔ 

محبت__؟ یہ الفاظ کہتا وہ ٹہرا تھا جیسے ماضی میں کچھ ایسا یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جس عمل سے اسکی اسراء کے لیئے محبت چھلکی ہو ۔ لیکن کچھ نہیں دیا تھا اسنے سوائے تکلیف کے۔ 

آنسوؤں کا گولہ سا اٹکا تھا گلے میں ۔ 

محبت تو دی ہی نہیں میں نے کبھی اسے ۔ ہمیشہ ذلت نفرت اور اب ۔ اب رسوائی۔۔۔ 

اور آج جب وہ اس بستر پر پڑی ہے تو اس کی محبت میں یہاں رب سے مدد مانگنے آگیا میں ۔ یہ کیسی محبت ہے میری___" 

وہ شاید خود ہی اپنی محبت کا مذاق اڑا رہا تھا ۔ 

اگر اسے کچھ ہوگیا تو میں زندہ نہیں رہ سکوں گا ۔ خود کو معاف نہیں کرسکوں گا وہ رب کبھی مجھے معاف نہیں کرے گا ___"

وہ پھر نم آنکھوں سے زمین کو گھورنے لگا۔ جیسے رگ رگ میں شرمندگی ہو ۔

بزرگ نے پھر اسکے سر پر ہاتھ رکھا ۔تو وہ سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگا۔ 

ایک خوبصورت بات بتاؤں ___" 

ہمارا رب ان باتوں کو شدت سے معاف کرنے کے لیئے بیٹھا ہوتا ہے جن پر ہم خود کو کبھی معاف نہیں کرپا رہے ہوتے __" 

انکی بات سنتے ضرغام نم انکھوں سے مسکرایا ۔ اسکے دل کے کسی کونے میں ٹھنڈک پہنچ رہی تھی ان سے بات کرتے۔

دعا مانگتے رہو بیٹا ۔ خود سے بد گمانیاں دل میں مت لانا بیٹا ۔ کے تمہارا رب یہ کردے گا وہ کردے گا ۔ اس رب کی رحمت کا تو سوچو ۔ وہ رب تمہیں معاف کردے گا تم نے جو مانگا ہے تمہیں دے دے گا تم سے محبت کرتا ہے اور کرے گا تمہارے ساتھ کوئی نہیں ہے لیکن وہ ہمیشہ رہے گا ۔ یہ باتیں سوچو تو تمہیں پتہ چلے کے تمہارا ہمارا رب کتنا خوبصورت ہے__ اپنے رب کے بارے میں اچھا گمان کرو گے تو تمہارے ساتھ اس سے بھی اچھا ہوگا ___"

میں دعا کرو گا تمہارے حق میں ۔ اللّٰہ تمہاری پریشانیاں دور کردے ۔ آمین ❤️___"

وہ بزرک اسکا کندھا تھپتھپاتے جاچکے تھے جبکے وہ یونہی مسجد میں بیٹھا رہا یہاں تک کے سورج کی کرنیں روئے زمین پر پھیلنے لگی۔ لیکن وہ وہی رہا جیسے اس در کے علاوہ دوسرا کوئی ٹھکانا نا ہو جہاں اسے سکون میسر آجائے۔ 

صبح سے دوپہر ہوچکی تھی سب ہاسپٹل میں جمع تھے جبکے گھر کی عورتیں اللّٰہ کے روبرو ہوکر اسراء کی زندگی کی دعائیں مانگ رہی تھیں۔ نرمین اور راحمہ کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے جب سے انہیں پتہ چلا تھا اسراء کے ساتھ جو ہوا ۔ 

فردان اور کبیر ایک بار بھی کل رات سے گھر نہیں آئے تھے جب ک رضوان خانزادہ اور رحمان خانزادہ دا جان کو لے کر خان حویلی واپس آئے تھے انہیں چھوڑنے انکی طبیعت کی وجہ سے جو رات سے ہسپتال میں رہتے خراب ہونے لگی تھی۔ 

دا جان اپنے کمرے میں تھے جب نرمین انکے لیئے گرم دودھ لے کر آئی ۔ 

دا جان ___آپ جاگ رہے ہیں__"؟

نرمین نے دروازے پر دستک دیتے پوچھا تو دا جان اٹھ بیٹھے ۔ 

جی بیٹا آجائیں__"

ہم آپ کے لیئے دودھ لے کر آئے ہیں کل سے آپ نے کچھ نہیں کھایا ___ 

اگر کچھ کھائینگے نہیں تو آپکو اور آپ سے جڑے باقی سب لوگوں کو ہمت کیسے ملے گی__؟ "

وہ پیار سے نظریں نیچی کیئے انہیں سمجھارہی تھی جب داجان بھی نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگے جو انہیں اور باقی سب کو سمبھالنے میں لگی تھی ۔ 

داجان نے اسکے چہرا اوپر اٹھایا تو اسنے بھیگی نظریں اٹھائیں ۔ 

آپ نے کچھ کھایا یا بس سب کا خیال رکھنے میں سارا وقت گزار دیا ___"

داجان نے پوچھا تو وہ انکے گود میں سر رکھ کر شدت سے رو دی ۔

داجان نے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا جب کے اسے یوں ضبط کھوتے دیکھ انکی آنکھوں میں بھی آنسو اگئے تھے جسے بہت مشکل سے انہوں نے صاف کرتے چھپایا ۔ 

داجان وہ ہماری چھوٹی بہن ہے ۔ ہم برداشت نہیں کر پارہے ۔ اسکی حالت کا سنتے ہم ٹوٹ رہے ہیں ۔ اس__اس معصوم نے کیسے برداشت کیا ہوگا سب___ یہ کیسی اذیت سے دوچار ہوگئی ہے وہ ۔ اسنے تو کبھی کسی کا برا نہیں_نہیں چاہا کسی کے ساتھ کچھ غلط نہیں کیا تو پھر آج اسکے ساتھ ایسا کیسے ہوگیا___" 

وہ شدت سے آنسوؤں کے سنگ کہتی اٹکنے لگی تھی ۔ جب داجان نے اسکا سر اٹھاتے اسکے آنسو پوچھے ۔ 

ہم جانتے ہیں بیٹا ہم سب کی گڑیا سب سے معصوم ہے وہ ۔ اسنے کبھی کسی کے ساتھ برا نہیں کیا ۔ لیکن اللّٰہ آزمائش بھی تو اپنے محبوب بندوں سے لیتا ہے نا ۔ یہ اسکی آزمائش اور اسکی قسمت تھی ۔ آپ سب کو مضبوط ہونا ہے انکے لیئے انہیں سمبھالنا ہے ___"

انہیں سمجھانا ہے کے اگر ایک دن زندگی میں برا آجائے تو اپنی زندگی کو ہی برا نہیں سمجھنے لگتے بلکے  آزمائش سے گزر کر اگر اس پر صبر کر لیا جائے تو باقی آگے کی ساری زندگی ہمارا رب ہمیں اس صبر کے پھل کی صورت انعام میں دے دیتا ہے___"

نرمین نے نم آنکھوں سے سر اثبات میں ہلایا تھا ۔ جب وہ انہیں دودھ کا گلاس تھماتی وہاں سے چلی گئی تھی ۔ 

باہر آئی تو ایک ملازمہ آسکے پاس آئی ۔

سردارنی صاحبہ وہ بڑے سردار حویلی آگئے ہیں اور اپنے کمرے میں گئے ہیں__"

خالص پٹھانی لہجہ میں بولی۔  نرمین سر اثبات میں ہلاتے اسے جانے کا اشارہ کرتے ایک نظر اوپر کی طرف دیکھتے کچن میں گئی۔ 

وہ جانتی تھی کے کبیر جب بھی تھکا ہوا ہوتا تھا بلیک کافی پیتا تھا ۔ جلدی جلدی ہاتھ چلاتی فلحال وہ بلیک کافی لیتے  اوپر گئی تھی ۔

______❤️ حیا خان ❤️ _______

تھوک نگلتے اسنے دروازہ کھولا اندر قدم رکھتے نظر چاروں طرف گھمائی لیکن وہ کہیں نہیں تھا ۔ 

سامنے دیکھا تو اسکا والٹ اور کار کی چابیاں سائیڈ ٹیبل پر موجود تھیں جسکا مطلب تھا وہ یہیں ہے ۔ وہ دروازہ لاک کرتی اسٹڈی روم کا دروازہ کھول گئی ۔ 

اسنے قدم اندر رکھا تو چاروں طرف نیم اندھیرا سا تھا کیونکہ ٹیبل پر رکھا واحد لیمپ جل رہا تھا۔ 

اسٹڈی روم زیادہ بڑا نا تھا تینوں دیواریں بک شیل سے سجی تھی جہاں دنیا جہاں کی کتابیں موجود تھیں جبکے بیچ میں ایک ٹیبل رکھی تھی ،ساتھ ایک سنگل صوفہ رکھا تھا جس پر کبیر خانزادہ بیٹھا ہوا تھا بلیک ٹراؤزر شرٹ لیس  بال بکھرے سے تھے جن سے ظاہر ہورہا تھا کے وہ شاید کچھ دیر پہلے ہی شاور لے کر نکلا ہے چہرا پیچھے کی جانب ڈھلکا ہوا تھا اور آنکھیں بند تھیں ۔ چاروں طرف نیم اندھیرا تھا ۔ نرمین سمجھ نا سکی وہ جاگ رہا ہے یا سو رہا ہے۔ 

ہاتھ میں کافی تھامے وہ پلٹی کیونکہ وہ کبیر کی حالت اچھی طرح سمجھ سکتی تھی اسلیئے اسے تنگ کرنا مناسب نا سمجھا ۔ جب کبیر کی آواز سے اسکے قدم تھمے۔ 

رکو__" 

نرمین نے گردن موڑ کر اسے دیکھا لیکن وہ ویسے ہی بیٹھا تھا اسکے جسم میں کوئی جنبش نا تھی ۔ لیکن اسکی آواز سے اندازا ہوگیا تھا وہ جاگ رہا ہے ۔ وہ پلٹی لیکن سمجھ نا آیا کرے ۔ جب کبیر نے سر اٹھایا اور آنکھیں کھولتے اسے دیکھا۔ 

جو گہرے نیلے رنگ کے سوٹ میں دوپٹہ اچھے سے کندھوں پر پھیلائے آدھے بالوں کو کیچر میں باندھے دھلے منہ کے ساتھ اسکے سامنے کافی کا کپ لیئے کھڑی تھی۔

یہاں آؤ__" 

کبیر نے ٹہرے ہوئے لہجہ میں کہا۔ نرمین خاموشی سے اسکے قریب گئی ۔ اور ٹیبل پر کافی کا کپ رکھا۔ 

وہ ہم آپکے لیئے کافی لے کر آئے تھے ۔ آپ تھک گئے ہونگے ۔ آرام کر__"

بیٹھو__"

نرمین کی بات بیچ میں کاٹتے کبیر نے حکم دیا تھا جب نرمین اسکی سرد آواز اور اجنبی لہجہ سن ٹہری اور پھر اسکی کائی سی گہری آنکھوں پر غور کیا جو حد درجہ تک لال ہورہی تھی ۔ شاید رات بھر جاگنے اور تھکن کے باعث ۔ اسکی آنکھیں دیکھ نرمین کو خوف سا آیا تھا ۔ لیکن اسکے بات پر غور کرتے نرمین یہاں وہاں دیکھنے لگی جیسے بیٹھنے کی جگہ تلاش کررہی ہو۔ 

جبکے اس روم میں صرف ایک ہی صوفہ تھا جس پر کبیر خانزادہ خود بیٹھا تھا ۔ 

نرمین کو یہاں وہاں دیکھتے دیکھ کبیر نے ایک جھٹکے سے اسکا ہاتھ کھینچا تو وہ اسی صوفہ پر کبیر پر گری کبیر نے اسے کمر سے تھاما جس کا دل اچانک اس حرکت پر رک کر دھڑکا تھا۔ وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی جبکے کبیر کے رویہّ سے اسے ایک عجیب سا ڈر لگ رہا تھا۔ 

نیم اندھیرے میں کبیر نے اسکا چہرا دیکھا جو چاند کی طرح چمک رہا تھا جبکے چہرے پر خوف کے ہلکے ہلکے تاثرات دیکھ کر بھی کبیر کے چہرے پر بلا کی سرد مہری ٹہری رہی۔ 

اپنی انگلیوں سے اسکے چہرے پر آتی لٹوں کو پکڑتے کبیر نے اسے مزید قریب کیا ۔ 

تمہیں پتہ ہے کیا ہوا ہے__"

کبیر کی نظریں اپنے  ہاتھ میں تھامی اسکی لٹ پر تھی ۔ جبکے چہرا اور لہجہ دونوں سنجیدہ تھے۔ نرمین نے تھوک نگلا لیکن کوئی جواب نا دیا ۔ 

ضرغام خانزادہ نے میری بہن کو اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔__"

کبیر کے چہرے پر سمجھنے سے بھی کوئی تاثر سمجھ نا آیا نرمین کو جبکے آواز بہت دھیمی سرد سی تھی ۔ 

ہاتھ ابھی تک نرمین کی لٹوں کو سوار رہے تھے۔ 

وہ شروع سے اسکے ساتھ خوش نہیں تھی۔میں اسکا بھائی ہوں نا محسوس کرسکتا تھا اسلیئے ۔ لیکن وہ کبھی اپنی زبان سے مجھ سے نہیں بولی۔ ___"

کبیر نے نظریں اسکی لٹوں سے ہٹا کر اسکی آنکھوں میں دیکھا جو نم تھیں ۔ شاید وہ اسراء کی ہر تکلیف کو جانتی تھی ۔ کبیر نے سپاٹ چہرا لیئے اسکے ہونٹوں کے نیچے چھپے اس تل کو دیکھا تو اسے انگوٹھے سے سہلانے لگا۔ 

میں ہمیںشہ اس سے پوچھتا تھا گڑیا تم خوش ہو ۔؟ اور وہ ہمیشہ کہتی تھی جی لالا ہم بہت خوش ہیں__"

وہ ٹہر ٹہر کر دھیمی آواز میں ہر لفظ کہہ رہا تھا ۔ کبیر کی نظریں اسکے تل پر جمی تھی جب کے نرمین کی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر کبیر کے ہاتھ پر گرا۔ لیکن کبیر نظر انداز کرتے اس تل کو ہی دیکھتا رہا سہلاتا رہا ۔

اور کل اسکے ہر رویہّ سے مجھے لگا کے کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ میں نے اس سے پوچھا کے بتاؤ سب ٹھیک ہے؟ اس نے پھر وہی جملا دوہرایا کے جی لالا سب ٹھیک ہے___" 

کبیر ہلکا سا مسکرایا درد بھری مسکراہٹ تھی لیکن پھر ہونٹ سکڑ گئے۔ نظریں اسی تل پر جمی تھیں۔ 

میں اسے روکنا چاہتا تھا کیونکہ کل میرا دل بہت گھبرا رہا تھا میں نہیں چاہتا تھا کےوہ واپس جائے ۔ اور اسے روکنا چاہا ۔ لیکن ضرغام خانزادہ نے ایسا نہیں ہونے دیا___"

کبیر نے نظر اٹھا کر اسکی نظروں میں دیکھا جو اسکی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھی۔ پھر اسکے چہرے سے بال سنوارتا وہ اسکے بالوں کو کیچر سے آزاد کرگیا ۔ جسے دیکھ نرمین نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔ 

لیکن کبیر اگنور کرتے انہیں ایک ہاتھ سے آہستہ آہستہ سنوارنے لگا ۔ 

وہ اسے اپنے ساتھ لے گیا اسکا محافظ بن کر۔ لیکن پھر نفرت کی آگ میں جلتے اسنے میری معصوم بہن کو بیچ سڑک پر اکیلے تنہا چھوڑ دیا __ جو کوئی کسی دشمن کے ساتھ نہیں کرتا اسنے وہ میری بہن کے ساتھ کردیا ۔ صرف اسلیئے کیونکہ وہ میری کبیر خانزادہ کی بہن ہے___"

کبیر نے پھر اسکی آنکھوں میں دیکھا اور اس بار اسنے پلکیں نہیں جھپکائی وہ اپنی سرخ آنکھوں سے اسے دیکھتا رہا ۔

کے اسکی آنکھوں کو دیکھ نرمین کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔ 

تمہیں پتہ ہے اگر مجھے پتہ ہوتا کل رات کے وہ میری بہن کے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے تو میں زمین آسمان ایک کردیتا لیکن اسے نا جانے دیتا___"

یہ الفاظ کبیر نے نرمین کی آنکھوں میں دیکھ کر کہے تھے جسے دیکھ نرمین نے تھوک نگلتے نم آنکھوں سے اسے دیکھا ۔ کبیر کی رویہّ سے ڈر کے مارے نرمین کی سانسیں رک رہی تھی ۔ 

اور میں اچھی طرح جانتا ہوں کے تم سب جانتی تھیں اسراء اور ضرغام کے تعلقات کے بارے میں  __"

سیدھے ہاتھ سے اسکی کمر کو تھامے وہ الٹے ہاتھ سے اسکے بال سنوارتا سرد نظریں اسکے ہونٹوں پر جمائے بولا ۔ جبکے اسکے الفاظ سن کر نرمین سن رہ گئی تھی ۔ پلکوں کو بنا جنبش دیئے وہ اسے دیکھ رہی تھی جو اسکے ہونٹوں سے نظریں ہٹاتا اب اسکی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ کئی لمحے گزر گئے وہ یونہی سرد نظروں سے اسے دیکھتا رہا جبکے نرمین نم آنکھوں کو جھپکتی الفاظ تلاش کرنے لگی۔ 

خ_خان ہم__ وہ_ اسراء__"

وہ ٹوٹے پھوٹے الفاظوں کو جوڑنے کی کوشش کررہی تھی جب کبیر نے اسکی تھوڑی تھامی۔ 

ششش___" 

میں نے تم سے پوچھا تھا نا؟ اگر تم مجھے بتادیتی تو میں اسے روک لیتا وہ اس ضرغام کے ساتھ نا جاتی ۔ اسکے ساتھ یہ سب نا ہوتا آج وہ اس تکلیف سے نا گزر رہی ہوتی اسکی زندگی میں یہ دن نا آتا  __" 

کبیر نے سرد لہجے دھیمی آواز میں اسکی آنکھوں میں دیکھ ایک ایک الفاظ ادا کیا تو نرمین کی آنکھوں میں تیزی سے آنسو جمع ہوئے ۔ 

وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ 

میں نے کہا تھا نا مجھ سے کبھی کچھ مت چھپانا ۔ میں سب برداشت کرلونگا لیکن یہ حرکت برداشت نہیں کرونگا نرمین کبیر خانزادہ___؟" 

وہ اسکے کان کے قریب جھکتا ابھی بھی سرد لہجے اور دھیمی آواز میں بولا تھا کے نرمین کے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ 

میں نے کہا تھا نا کے میں لوگوں پر اعتبار بہت ڈر ڈر کر کرتا ہوں اور تم پر دل و جان سے کیا ہے ۔ میرا مان کبھی مت توڑنا___؟"

اسکے کان کے قریب دھیمی سرگوشی کرتا وہ سپاٹ لہجہ میں بول رہا تھا جبکے گرفت حد درجہ سخت ہوتی جارہی تھی ۔ 

خ_خان ہم آ_آپکو بتانا___"

وہ اٹکتی کانپتی اپنے الفاظ جوڑنے لگی جب وہ اسکی بات بیچ میں کاٹ گیا۔ 

مجھے نہیں سننا تم مجھے کیا بتانا چاہتی تھی اور کیا نہیں ۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں اگر تم مجھے بتادیتی تو شاید آج وہ نا ہوتا جو ہوگیا __"

اسکی دھیمی سرگوشی نما آواز اور اس پر ظلم اسکے الفاظ نرمین کی سانسیں بند کررہے تھے۔ 

ہم_ہمیں معاف کردیں__"

نرمین کے الفاظ سنتے کبیر نے چہرا اٹھا کر ماتھے پر بل ڈالے اسے دیکھا ۔ 

کس بات کی معافی جانم ۔ تمہیں تو سب معاف ہے__ "

اسکی بات سنتے نرمین نم آنکھیں لیئے ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی ۔ 

لیکن آئیندہ کبھی خود پر بھروسہ کرنے کا مت کہنا ۔ یہ نہیں ہوپائے گا مجھ سے__" وہ پھر اسکے چہرے سے لٹیں سنوارتا اسکی انکھوں میں دیکھتے بولا جو ساکت سی اسے دیکھ رہی تھیں۔

خ_خان ہم نے آپ سے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا___" 

وہ دبی دبی آواز میں احتجاج کرتی ہوئی بولی تھی۔ آنکھوں سے لگاتار موتی ٹوٹ کر گر رہے تھے ۔ 

تم نے کچھ بھی نہیں بولا تھا جانم ۔ میں پوچھتا رہا تم سے ۔ تم نے کچھ نہیں بولا ۔ تم نے یہ نہیں کہا کے خان اسے روک لیں وہ خوش نہیں ہے وہاں ۔ تم نے مجھ پر بھروسہ ہی نہیں کیا ۔ تم نے کہا کے وہ اسکا شوہر ہے وہ اسے کچھ بھی کہہ سکتا ہے اور کرنا اسکا فرض ہے ___

تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں تھا ۔ تمہیں لگا تم خود بہتر سمجھتی ہو اسلیئے مجھے بتانا تک ضروری نہیں سمجھا ۔ "

کبیر نے اسکے ہاتھوں کی انگلیوں کو تھماتے انہیں سہلاتے سخت لہجے میں بولا لیکن انداز میں بے تحاشہ نرمی تھی۔ 

کے نرمین نے شکوہ کناں نگاہوں سے اسے دیکھا ۔ 

ایسی بات نہیں ہے خان ہمیں آپ پر پورا یقین ہے__"

وہ احتجاجاً بولی تو اچانک کبیر نے اسکی گردن میں ہاتھ دیتے اسکا ماتھا اپنے ماتھے سے ٹکایا جس پر وہ سختی سے آنکھیں میچ گئی۔ 

تمہیں لگتا ہے کہنے سے یقین ظاہر ہوتا ہے___"

وہ غرّایا تھا اسکی بند آنکھوں کو دیکھ ۔ 

تم مجھ پر یقین کرتی تو میں مانتا___" 

وہ اپنی ہری آنکھیں اسکے چہرے پر گاڑھتے ہوئے بولا تھا ۔ جبکے گردن پر گرفت سخت تھی لیکن اتنی نہیں کے اسے تکلیف ہوتی ۔ 

خان ایک بار آ_آرام سے ہماری بات سن لیں ہم آپکو سب بتاتے ہیں__" 

وہ اپنی گردن پر رکھے اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتی بولی تو کبیر جھٹکے سے اسکی گردن آزاد کرگیا ۔ 

کچھ نہیں سننا مجھے ۔ مجھے نہیں سننا تم نے کیوں چھپایا تم کیوں خاموش رہی تم کیوں نہیں بولی ۔ کیونکہ یہ سب اب گزر چکا ہے ۔ تم نے نہیں بتایا میں نے نہیں روکا وہ چلی گئی اس ذلیل انسان کے ساتھ اور سب برباد ہوگیا ___" 

وہ دھاڑا تھا کے نرمین اسکی دھاڑ پر کانپتی آنکھیں میچ گئی تھی۔ 

تمہیں پتہ ہے میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں ہے ضرغام کے ساتھ وہ میرے لیئے فردان کی ہی طرح تھا لیکن جس دن جس دن اسنے تم پر نظر رکھی میری بچپن کی منگیتر پر نظر رکھی میرے دل میں اسکے لیئے شدید نفرت بڑھ گئی___" 

وہ سرد آواز میں بولا تھا ۔ 

وہ بے وقوف انسان بچپن سے ہی ایسا ہے ۔ اسے لگتا ہے جو کبیر کو ملتا ہے وہ اسے بھی ملے ۔ وہ میری چیزیں دیکھ کر ہمیشہ حسد کا شکار ہوتا تھا ۔ اسے بچپن سے وہی چاہیئے ہوتا ہے جو میرے پاس ہوتا ہے ۔ اسلیئے نہیں کے وہ اسے پسند آجاتا تھا بلکے اسلیئے کیونکہ وہ میرے پاس ہوتا تھا ۔ وہ بچپن سے اسی غلط فہمی میں رہتا آیا ہے کے کوئی اس سے پیار نہیں کرتا سب مجھ سے پیار کرتے ہیں۔ 

اور آج مجھے اس بات کا احساس ہورہا ہے کے میں غلط تھا یہ جانتے ہوئے کے وہ بچپن سے مجھ سے ان باتوں سے چڑ کھاتا ہے میں اسے مزید چڑاتا تھا ۔ اور یہی آج میری سب سے بڑی غلطی بن گئی جو اسکے دل میں میرے لیئے نفرت کی آگ بڑھا گئی ___"

اتنی نفرت کے اس نے م_میری بہن سے اس بات کا بدلہ لے لیا۔ اسے اتنے مہینوں سے تکلیف میں رکھا جسے وہ اندر ہی اندر برداشت کرتی رہی ہوگی۔ ضرغام خانزادہ ہمیشہ سے ہی ایک بے وقوف انسان تھا ۔ اسلیئے __اسلیئے میں نہیں چاہتا تھا کے میری بہن کی شادی اس ذلیل انسان کے ساتھ ہو لیکن یہ ان سب نے مل کر کیا ہے ۔ اور میں کسی کو نہیں بخشونگا ۔ کسی ایک کو بھی نہیں۔ ___" 

اسکی باتیں سن نرمین نم آنکھوں سے دیکھتی اسکے گال پر ہاتھ رکھنے لگی جب کبیر نے دوسرے ہاتھ سے اسکے ہاتھ کو تھام لیا۔ 

نہیں نرمین__ جو میری بہن کے ساتھ ہوا وہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے وہ زندگی اور موت کے بیچ اٹکی ہے یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ۔ اور میرے دل میں ہمیشہ یہ کسک رہے گے کے تم جانتی تھی اور تم نے مجھے نہیں بتایا ۔ اگر تم مجھے بتادیتی تو میں اسے روک لیتا اور اسکے ساتھ ایسا نا ہوتا ___"

اسکی باتیں سن نرمین گہرے شاک کی صورت میں اسے دیکھنے لگی ۔ کیا واقعی اس نے اتنی بڑی غلطی کردی تھی ۔؟ 

خ_خان وہ ہماری بہن ہے آپ سے زیادہ ہم نے اسکے ساتھ وقت گزارا ہے ہم اسکے قریب رہے ہیں اس سے بے تحاشہ محبت کرتے ہیں اسکے ساتھ کچھ غلط ہوجائے ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے__" 

وہ اسے سمجھانے کے خاطر بولی اس سے برداشت نہیں ہورہی تھی کبیر کی بے رخی اور اسکے الفاظ ۔ 

تم ایسا نہیں چاہتی تھی ۔ لیکن پھر بھی ایسا ہوگیا ۔ کیونکہ تم نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا ۔ لیکن تمہیں کوئی حق نہیں پہنچتا تھا ڈیم اٹ کے تم مجھ سے میری بہن کے متعلق اتنی بڑی بات چھپاؤ ___" 

اس نے نرمین کی دونوں کلائیاں سختی سے اپنے ہاتھ میں تھامی ۔پہلے الفاظ دھیمے لہجے میں اور آخری الفاظ غراتے ہوئے بولے تھے کے نرمین کی جان نکل گئی تھی اسکی چیخنے پر ۔ وہ کانپنے لگی تھی سانس تھم رہی تھی ۔اور اب مزید آواز کے ساتھ رونے لگی تھی اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا کبیر کا یہ انداز۔ 

جسے دیکھتے کبیر سرد تاثرات کے ساتھ اثبات میں سر ہلاتا جھٹکے سے اسے کھڑا کرگیا ۔ 

خ_خان ہماری بات سن لیں ایک بار ہم ایسا ن_نہیں چاہتے تھے ہم آ_آپکو بتانا____"

وہ روتے روتے اسکا ایک ہاتھ  اپنے ہاتھ میں تھام کر بولی تھی جو اب کھڑا ہوتے باہر جانے لگا تھا ۔ لیکن نرمین کی آواز سنتے اسے کھینچتے ہوئے بازوؤں سے تھام گیا۔ 

مجھے نہیں سننا اب کیونکہ اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اور پلیز مجھ سے دور رہو فلحال میں ہر گز بھی نہیں چاہتا کے میں غصہ میں کچھ ایسا کہہ دوں جو تم یا میں کبھی بھلا نا سکیں ___"

کیونکہ اپنی بہن کو اس حال میں دیکھنا میرے لیئے سوہانِ روح ہے ۔ کے دو بھائی اور ایک عدد شوہر کے رہتے ہوئے بھی ہم اسے بچا نہیں سکے۔ میں اس تکلیف میں اتنا ڈوبا ہوا ہوں کے اگر تم سے کچھ غلط کہہ بھی دیا تو محسوس نہیں کرسکوں گا جس سے تمہیں تکلیف ہوگی اور اسکے لیئے میں خود کو کبھی معاف نہیں کرسکوں گا۔  اسلیئے جتنا ہوسکے دور رہو مجھ سے ۔__"

وہ اسکی ناک سے ناک سہلاتا سرد اواز میں بولتا اسے جھٹکے سے چھوڑتا وہاں سے چلا گیا تھا ۔ 

پیچھے نرمین نفی میں سر ہلاتی بے تحاشہ رو دی کے اسکا سانس پھولنے لگا لیکن وہ گھٹنوں میں سر دیتی یونہی زمین پر بیٹھی رہی۔ 

کبیر اسٹڈی روم سے باہر آتے کپڑے چینج کرتے والٹ اور چابیاں اٹھانے لگا جب اسے اسٹڈی روم سے نرمین کے رونے کی آواز آئی آنکھیں میچتے ضبط کے باوجود کبیر کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر گرا ۔ جسے وہ انگوٹھے سے صاف کرتا کمرے سے باہر چلا گیا۔ 

______❤️ حیا خان ❤️________

سب مرد اس وقت ہاسپٹل میں موجود تھے جبکے شہانہ بیگم اور اسمارہ بیگم تو وہاں سے ہلی ہی نا تھی رات سے ۔ 

ڈاکٹر جیسے ہی اسراء کے روم سے باہر آئی تو شہانہ بیگم اٹھتے انکے پاس گئی۔ 

ک_کیسی ہے ہماری بیٹی ___"؟

جی انہیں ہوش آگیا ہے۔ لیکن وہ کچھ بولی نہیں آنکھیں بھی ایک بار کھول کر واپس بند کرلی ہیں ۔مینٹلی انکے دماغ پر کافی اثر ہوا ہے۔ باقی سب نارمل ہے آپ آج انہیں گھر لے جا سکتے ہیں بس کوشش کیجیئے گا کے وہ خوش رہیں اور ٹینشن بلکل نا لیں ___"

ڈاکٹر کی بات سنتے شہانہ بیگم شکریہ ادا کرتی خوشی سے سر ہلاتی اندر جانے لگی جن کے پیچھے پیچھے باقی سب بھی داخل ہوئے البتہ کبیر اور فردان ابھی بھی باہر تھے ۔ 

میں اس حال میں اسے نہیں دیکھ سکتا لالا__ مجھے لگ رہا ہے کے میرا دل بند ہوجائیگا اپنی گڑیا کو ایسے دیکھتے___"

فردان زمین پر نظریں گاڑھتے آنسوؤں کو روکتے کبیر سے مخاطب ہوا ۔

وہ فردان کی کیفیت اچھے سے سمجھ سکتا تھا کیونکہ وہ خود اس کیفیت سے گزر رہا تھا ۔ 

کبیر نے اسے سختی سے گلے لگاتے خود پر قابو پانے کی کوشش کی تھی جبکے فردان بھی اسکے گلے لگتا اپنے آنسو چپکے سے اسکے کندھے سے صاف کرگیا تھا۔

_______❤️ حیا خان ❤️_______

کیسی ہے ہماری گڑیا __"

برہان صاحب نے اسکا ماتھا چومتے ہوئے پوچھا تو وہ آہستہ سے آنکھیں کھول گئی۔ 

اپنے بابا کو اپنے سامنے کھڑے دیکھ تیزی سے اسکے آنسو جمع ہوئے تھے ۔ وہ اٹھتے انکے سینے سے لگ گئی اور زور زور سے رونے لگی یہاں تک باہر کھڑے فردان اور کبیر تک اسکی آواز ان کا دل چیر گئی۔ 

بابا____" آپ ک_کہاں تھے با_با ہم نے سب کو پ_پکارا بابا کو_ئی نہیں آیا آ__آپ بھی نہیں آئے ۔ ہمیں آ__آپ کے پاس رہنا ہے بابا ۔ آ__آپکی چھاؤں میں رہنا ہے__ سب بر_برے ہیں یہ_یہ دنیا ب_بہت بری ہے __ کوئی ا_نسان محافظ ن_نہیں ہے بابا ۔ ہ_ہمیں آپکے پا_پاس رہنا ہے بس۔ آ_آپ سے بہتر کوئی ن_نہیں ہے بابا___" وہ روتی ہوئی بولتی سب کی آنکھیں اشکبار کرگئی تھی کے برہان خانزادہ جیسے مضبوط مرد اپنی بیٹی کی یہ حالت دیکھ ضبط کھوتے بری طرح رو دیئے تھے ۔

اسمارہ بیگم اپنے منہ پر دوپٹے رکھتے آنکھیں میچتی بے تحاشہ رودی تھی انکے بیٹے نے جو کیا تھا وہ اسکے لیئے کبھی اسے معاف نہیں کرسکتی تھی۔ 

جبکے باہر کھڑے فردان اور کبیر اسکے الفاظ اور اسکے رونے کی اواز سن ضبط کے باوجود بھی اپنے آنسو روک نا سکے۔ 

میں اس ضرغام خانزادہ کو نہیں چھوڑونگا لالا آج اسے میرے ہاتھوں کوئی نہیں بچا سکتا ___" فردان لہو رنگ انکھوں سے بولتے پلٹنے لگا جب کبیر نے اسکا ہاتھ تھاما۔ 

صبر کرو۔ اس وقت اسراء کو ہم سب کی زیادہ ضرورت ہے ۔ تم فکر نہیں کرو ۔ ضرغام خانزادہ کو اس بار کوئی نہیں بخشے گا__" 

کبیر عہد کرتے اپنی گڑیا سے ملنے کمرے میں داخل ہوا تھا جو فردان خانزادہ کے سینے سے لگی تھی اسنے کسی کو نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا نا وہ کسی کو دیکھنا چاہتی تھی بس وہ اپنے باپ کی چھاؤں میں رہنا چاہتی تھی کے اس سے زیادہ محفوظ جگہ اسکے لیئے کوئی نا تھی۔ 

دیکھیں میں نے آپ لوگوں کو پہلے بھی کہا تھا کے پیشنٹ کو اسٹریس مت دے گا ۔ پلیز انہیں سمبھالیں انکی صحت کے لیئے یہ سب ٹھیک نہیں___"

اسراء کے رونے کی آواز سنتے ڈاکٹر کبیر سے بولی تھی جو سر اثبات میں ہلاتا برہان خانزادہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتا انہیں سمبھلنے کا اشارہ کرگیا تھا۔ 

ڈاکٹر نے آگے بڑھتے اسراء کو نیند کا انجیکشن دیا جسکے کچھ دیر میں ہی وہ آہستہ آہستہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی۔ 

جبکے اسکی حالت دیکھ سب کی آنکھوں میں آنسو جمع تھے۔ شام ہوتے ہی سب اسے خان حویلی لے کر روانہ ہوئے ۔ 

جو نیم غنودگی میں تھی۔ سر پر پٹی بندھی تھی جبکے نچلا ہونٹ پھٹا ہوا تھا ۔ چہرا پیلا زرد ہورہا تھا ۔ ایک رات میں وہ کھلا ہوا پھول بری طرح مرجھا گیا تھا۔ 

برہان خانزادہ کے سینے سے لگی وہ حویلی میں داخل ہوئی تھی نرمین اور راحمہ بھاگی ہوئی اسکے قریب گئی تھی۔ 

کیسی ہیں اسراء آپ ___"

راحمہ نے پوچھا تو وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی ۔ آنکھیں نم ہونے لگی اسراء نے نظریں واپس جھکا لی اور اثبات میں سر ہلایا جسے دیکھ راحمہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ جنہیں وہ صاف کرتی ایک طرف ہوگئی جبکے نرمین اسکی یہ حالت دیکھ روتے روتے پلٹ گئی ۔ اس سے برداشت نہیں ہوا تھا اس معصوم کو اس حال میں دیکھ ۔ 

اسے بستر پر لٹا کر برہان صاحب اسی کے برابر میں بیٹھ گئے جن کا ہاتھ وہ سختی سے تھامی ہوئی تھی ۔ 

ہماری گڑیا کچھ کھائیگی__؟" 

انہوں نے اس سے سوال کیا جسکا اثبات میں سر ہلاتے اسنے جواب دیا تو راحمہ جلدی سے کچن میں جاتی اسکے لیئے اورنج جوس لے آئی اور نرمین اسکے لیئے سوپ تیار کرنے لگی ۔ 

وہ دونوں اس سے تفصیل سے ملنے کا ارادہ رکھتی تھی لیکن فلحال وہ برہان خانزادہ کے علاوہ ایک بار صرف شہانہ بیگم کے گلے لگی تھی ۔ تیسرا اس نے کوئی شخص نظر اٹھا کر نہیں دیکھا تھا۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_________

فجر سے عشاء ہوگئی تھی وہ بنا کچھ کھائے پیئے وہی بیٹھا رہا ۔ جب اسے اسماعیل خانزادہ کی کال آئی جسے دیکھ اسنے فوراً کال اٹھائی۔ 

کہاں ہو تم__"

سرد اور سخت آواز میں پوچھا گیا تھا ۔ 

م_میں__؟ ب_بابا اسراء کیسی ہے__؟ 

وہ ٹھیک ہے نا___"؟ 

ضرغام نے انکا سوال نظر انداز کرتے اپنا پوچھا تو اسکے سوال کے پیچھے چھپی تڑپ دیکھ اسماعیل خانزادہ نے آنکھیں میچی۔ 

تم نے جو کیا ہے ضرغام اسکے لیئے تمہیں کوئی معاف نہیں کرے گا ۔ وہ بچی زندہ ہے لیکن زندہ لاش بن گئی ہے ۔ میں نے صرف اسلیئے کال کی ہے تاکے تم آؤ اور اسے دیکھو اور ساری زندگی اسی اذیت میں گزارو کے تم نے کیا کیا ہے اسکے ساتھ۔

 کاش تم میرے بیٹے نا ہوتے___" 

اتنا کہتے اسماعیل صاحب نے فون رکھا تھا اور ضرغام خانزادہ اپنے باپ کے آخری الفاظ سنتے خاموش ہوا تھا۔ وہ اسی نفرت کا حقدار تھا ۔ اسے لگا تھا جیسے اسکے دل میں کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو۔ 

ضبط کرتے وہ اٹھا اور اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ 

فردان ہارے ہوئے انسان کی طرح اپنے قدم اپنے کمرے کی طرف بڑھا گیا تھا ۔ 

راحمہ کمرے میں آئی تو وہ بستر سے ٹیک لگائے آنکھیں بند کرتے ہوئے لیٹا تھا۔ 

اسکے برابر میں بیٹھتے راحمہ نے اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔ 

ٹھیک ہیں آپ __؟ "

فردان نے اسکے الفاظ سنتے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا جو آف وائٹ سوٹ پہنے ڈھیلا سا بالوں کا جوڑا بنائے اسکے پاس بیٹھی تھی ۔ ہمیشہ کاجل سے سجی آنکھیں آج اس کے بنا اداس سی لگی تھیں۔

نفی میں سر ہلاتے فردان نے اچانک اسکی گود میں سر رکھا اور اسکے پہلو سے لپٹ گیا ۔ کے راحمہ سانس روکتے اسے دیکھنے لگی جسکا چہرا چھپا ہوا تھا ۔ 

اپنے ہاتھوں کو گیلا محسوس کرتا وہ چونکی ۔ ہاتھوں سے اسکا چہرا اٹھا کر اپنی طرف کیا تو دیکھا اسکی گھنی پلکیں گیلی تھی ۔ وہ رو رہا تھا ۔ فردان خانزادہ آج پہلی بار اسکے سامنے ایسے بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔ 

فردان یہ رو_رو کیوں رہے ہیں آپ ۔ ایسے ن_نہیں روتے دیکھیں سب ٹھیک ہوجائیگا ۔ ہم آپکے ساتھ ہیں نا ہم سب اسراء کے ساتھ ہیں __"

اسے روتے دیکھ بوکھلاتی وہ خود بھی رونے بیٹھ گئی تھی ۔ 

مجھ سے برداشت نہیں ہورہا راحمہ وہ جس طرح ڈر رہی ہے چھپ رہی ہے نظر اٹھا کر اپنے بھائیوں کی طرف نہیں دیکھ رہی مجھ سے نہیں دیکھا جارہا __"

فردان دیکھیں ہماری طرف دیکھیں__"

راحمہ اسکا گال سہلاتی اسے پچکارنے لگی جیسے کسی بچے کو بہلا رہی ہو ۔ 

اسراء کو کچھ نہیں ہوا وہ ٹھیک ہے ہمارے سامنے ہے ہمارے لیئے یہی بہت بڑی بات ہے۔ اور رہی حادثہ کی بات تو ہم سب کو مضبوط ہونا ہوگا اگر ہم ہی ایسا کرینگے تو وہ کیسے پہلے جیسی ہوگی ۔ اسے احساس دلانا ہوگا کے سب ٹھیک ہے سب پہلے کی طرح ہے ___" 

اسکی بات سنتے فردان نے اپنے آنسو پوچھے ۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی ۔ 

اور ہمیں ہمارا پاگل پٹھان ایسے روتا ہوا اچھا نہیں لگتا ۔ ویسے ہی دبنگ اچھا لگتا ہے جیسے آپ ہیں۔ اگر اگلی بار آپ ایسے روئے نا تو ہم آپ سے زیادہ روئینگے کے آپ خود کو بھول کر ہمیں چپ کرانے بیٹھ جائینگے __"

وہ اسکا دھیان بھٹکانے کے خاطر شوخ وہتے بولی تو وہ بھی مسکرادیا ۔ پھیکی سی مسکان جو اسکی اصل مسکان نا تھی ۔ لیکن راحمہ کے لیئے فل وقت وہی غنیمت تھی ۔ 

وہ اسکے بال سہلاتی رہی ۔ یہاں تک کے وہ انکھیں بند کرتے سکون محسوس کرتا نیند کی وادیوں میں گم ہوگیا اسے دیکھتے راحمہ بھی بستر سے ٹیک لگاتی آنکھیں بند کرگئی ۔ اس امید پر کے اگر ایک دن مشکل اور آزمائش میں ڈوبا تھا تو دوسرا دن مسکراہٹ اور کھلکھلاہٹ بھرا بھی ضرور آئیگا ۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️________

رات کے بارہ بج رہے تھے لیکن کبیر کمرے میں نہیں آیا تھا نرمین پریشانی سے ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھی اسکا انتظار کررہی تھی ۔ لیکن پھر وہ اسراء کو دیکھنے کے خاطر کمرے سے باہر نکلی اسکے کمرے کے باہر رکتے اسنے آہستہ سے دروازہ کھول کر دیکھا تو کبیر اسکے برابر میں بیٹھا اسکے بال سہلا رہا تھا جبکے وہ دوایوں کے زیر اثر گہری نیند میں تھی ۔ 

اسراء کے لیئے اسکی فکر دیکھ نرمین مسکرائی ۔ جب وہ بھی اب کھڑا ہوتا پیچھے مڑا تو دروازے پر نرمین کو کھڑا پایا ۔ چہرا سپاٹ تھا جبکے کائی سی گہری آنکھیں تھکن اور نیند سے بوجھل ہورہی تھی جو دو دن کا جاگا ہوا تھا۔ 

کبیر قدم بڑھاتا دروازے تک آیا اور اسے سرعت سے اگنور کرتا وہ اوپر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا۔ اتنے دن سے اسکی محبت بھری نظروں کی وہ اتنی عادی ہوگئی تھی کے اسے اس روپ میں دیکھنا اس سے برداشت نہیں ہورہا تھا ۔ 

ایک نظر اسراء پر ڈالی اور دروازہ احتیاط سے بند کرتی وہ مڑ گئی تھی ۔ کبیر نے کھانا نہیں کھایا ۔ کھایا تو کسی نے بھی صحیح سے کچھ نا تھا لیکن کبیر بلکل بھوکا تھا اور یہ دیکھ نرمین کے حلق سے بھی اناج کا ایک دانہ نہیں اترا تھا جسے راحمہ نے اتنا کہا تھا کے کھانا کھالے لیکن اسنے نہیں کھایا تھا ۔ الٹا خالی پیٹ سب کا دھیان رکھتی کام میں مگن تھی۔ 

جلدی جلدی اسکے لیئے کھانا گرم کرتی وہ کمرے میں لے کر گئی ۔ جہاں نیم اندھیرا ہورہا تھا اور کبیر خانزادہ بستر پر موجود تھا ۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھے وہ سو رہا تھا یا سونے کی اداکاری کررہا تھا نرمین اندازا نا لگا سکی ۔ 

اسکے قریب جاتے اسنے مدھم آواز میں پکارا۔ 

خان__"؟

کبیر نے کوئی جواب نا دیا جب نرمین اسکے ہاتھ پر ہاتھ رکھ گئی ۔ 

لیکن اسکے باوجود کبیر نے کوئی حرکت نا کی ۔ 

وہ سمجھ گئی تھی کے وہ جاگ رہا ہے لیکن اسے مخاطب نہیں کررہا ۔ آنسوؤں کا گولہ حلق میں اٹکا تھا ۔ کیونکہ پہلے تو وہ اسکی آہٹ سنتے بھی جاگ جاتا تھا اور اب اسکے بلانے پر ہلانے پر بھی جواب نہیں دے رہا تھا۔ 

وہ مڑتے کھانا واپس رکھنے چلی گئی تھی ۔ 

واپس آئی تو وہ کروٹیں بدل رہا تھا۔ شاید وہ بے سکون تھا ۔ نرمین فریش ہوتے دوپٹہ اتار کر تکیہ پر رکھتی اسکی طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی جو اب سیدھا لیٹا تھا آنکھیں بند کیئے۔ 

گھنے بال جو ماتھے پر تھے ہری گہری آنکھیں پلکوں کے سائے تلے بند تھی ۔ ہلکی داڑھی میں چھپے عنابی لب ساکت تھے وہ بہت حسین تھا ۔ نرمین پیار بھری نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی جب صبح کا منظر یاد کرتے اسکی آنکھ سے آنسو ٹوٹتا بالوں میں جذب ہوگیا ۔ اور پھر یونہی اسے دیکھتے دیکھتے آنکھیں بند کر گئی۔

اسکی نظروں کی تپش کبیر خود پر باخوبی محسوس کرسکتا تھا ۔ اسے سینے سے لگا کر سونے کی اتنی عادت بن گئی تھی کے کبیر بے چین ہورہا تھا ۔ لیکن نرمین نے جو کیا تھا وہ شاید اتنی آسانی سے بھلا نہیں سکتا تھا۔  کچھ ہی دیر کروٹیں بدلتے اسکی آنکھ بھی لگ گئی تھی ۔ 

______❤️ حیا خان ❤️________

وہ دوائیوں کے زیرِاثر گہری نیند میں سو رہی تھی جب اسے اپنے چہرے پر کسی کے لمس کا احساس ہوا۔ اسکا دل گھبرا اٹھا ۔ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی لیکن چاہ کر بھی کھول نا سکی لیکن دماغ بیدار تھا وہ اٹھنا چاہتی تھی چیخنا چاہتی تھی لیکن کچھ نہیں کر پا رہی تھی ۔ 

کسی کے ہونٹوں کا لمس پہلے ماتھے پر پھر آنکھوں پر اور پھر اپنی ناک پر بیٹھے اس چھوٹے سے تل پر محسوس ہوا تو وہ آہستہ آہستہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ 

ہ_ہمیں چھ_چھوڑدیں ۔ ج_جانے دیں _ جانے دیں___"

وہ منمناتے ہوئے نفی میں سر ہلانے لگی لیکن آنکھیں بیدار نا ہوئی ۔ 

اسکی یہ حالت دیکھ اسکے قریب  سر اس پر جھکائے بیٹھا ضرغام خانزادہ  کا دل اندر سے ٹوٹا تھا ۔ 

ہیئے باربی ڈول___؟" 

میں ہوں تمہارا ضر___آنکھیں کھولو پلیز__"

اسکا پیلا زرد چہرا دیکھ ضرغام نے ایک ہاتھ سے اسکے گال کو سہلایا تھا جب کے 

آنکھیں نم ہونے لگی تھی اسے ایسے دیکھ ۔ 

اسراء کا جسم جو کب سے ہچکولے کھا رہا تھا اب ساکت سا تھا شاید وہ واپس غنودگی میں جاچکی تھی یا شاید اس لمس کو پہچان گئی تھی ۔ 

ضرغام نے اسکے ہاتھوں کو نرمی سے اپنے ہاتھوں میں لے کر سہلایا تھا اور پھر اپنے ہونٹوں کے قریب کرتا  انہیں چوم گیا تھا ۔ پھر اسکی انگلیوں کو سہلاتا سہلاتا انہیں چومتا رہا یہاں تک کے اسکی آنکھوں سے آنسو گرتے رہے۔ 

تم مجھے اپنے لیئے پاگل کرنا چاہتی تھی نا ؟؟ تو دیکھو تم مجھے پاگل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہو___" 

وہ اسکے چہرے پر جھکتا اس کے ماتھے پر ہونٹ رکھ گیا جس سے ایک سکون بھری لہر اسکے سینے میں اتری ۔

تمہیں پتہ ہے مجھے سکون نہیں مل رہا ۔۔ مجھے وہ سکون چاہیئے جب میں تمہیں سینے سے لگاتا تھا اور میری آنکھیں خود با خود نیند کی وادیوں میں اتر جاتی تھی ۔ مجھے وہ سکون چاہیئے جب تمہارے قریب آتے ہی میرے دل میں لگی آگ بجھ جاتی تھی ۔ مجھے وہ سکون چاہیئے جب تم اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی تو میرے اندر چھپی وحشتوں میں سناٹا چھا جاتا تھا  مجھے وہ سکون چاہیئے جب میں تمہارے بالوں کی مہک خود میں اتارتا تھا تو میری روح کو تسکین مل جاتی تھی ___"

وہ سکون مجھ سے کہیں کھو گیا ہے مجھے وہ سکون لوٹا دو اسراء ___" 

وہ روتا اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکا گیا تھا جب اسکی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر اسراء کی آنکھ پر گرا۔  

میرا دل چاہ رہا ہے کے تمہارے بازو میرے گرد حائل ہوں اور میں اپنی ساری اداسی تھکن خاموشی اور تنہائی تمہارے سینے سے لگ کر آنسوؤں کے زریعہ ختم کردوں۔ اور تمہاری قربت کے حصار میں سکون کی نیند سوجاؤں___" 

وہ اپنے آنسو صاف کرتا اسکے پہلؤں کو گرد گھیرا بناتا اس کے پیٹ پر سر ٹکا گیا تھا ۔ 

سب نے دھتکار دیا تھا اسے ۔اپنے رب کے بعد اسراء کے پہلوں میں سکون ملا تھا جو اس سے بے تحاشہ محبت کے دعوے کرتی تھی ۔ ساری تکلیف غم اور درد بھلائے وہ وہی ٹکا گہری نیند میں چلا گیا تھا ۔ جب کے اسراء بھی ہر ڈر تکلیف بھلائے سکون کی نیند میں محو تھی ۔۔

______❤️ حیا خان ❤️_______

صبح کے اجالے ہر جگہ چھا گئے تھے جب فجر کی نماز کے بعد کبیر نے اسراء کے کمرے کی راہ لی ۔ لیکن جیسے ہی دروازہ کھولتے اسنے اندر قدم رکھا تو ضرغام کو اسکے قریب دیکھ کبیر کے جسم میں غصہ کی لہر آگ بن کر دوڑی تھی وہ اسکے قریب جاتا گریبان سے پکڑ کر اسے کھڑا کرگیا تھا ۔ 

جب کے ضرغام بھی اس جھٹکے سے آنکھیں کھولتا اسے دیکھنے لگا ۔ جو اسکا گریبان پکڑے شوعلہ بار نگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ کبیر کھینچتے ہوئے اسے کمرے سے باہر لے گیا تھا جبکے باہر لاؤنج میں آتے اسے جھٹکے سے زمین پر پھینکا تھا ۔ 

وہ بے تحاشہ شرمنگی سے زمین میں دھنسا تھا کیونکہ جو اسنے کیا تھا وہ اسکے لیئے خود کو کبھی معاف نہیں کرسکتا تھا پھر یہاں رہنے والوں کی تو وہ لاڈلی تھی وہ کیسے برداشت کرتے ۔ اسلیئے ضرغام خانزادہ نے اسکے اس رویہ پر افف بھی نہیں کیا تھا ۔ ورنہ کوئی اسکا گریبان پکڑلے اور وہ اسے جانے دے یہ تو ناممکن تھا۔ 

تیری ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں قدم رکھنے کی___""

کبیر کی غرّاہٹ سنتے سب ایک لمحے میں جاگے تھے اور باہر آئے تھے جو ضرغام کے سر پر کھڑا اسے خون خوار نگاہوں سے گھور رہا تھا جبکے فردان نے ضرغام کو دیکھا تو اپنے غصہ پر قابو کھوتا وہ اسکے قریب آتا ایک مکہ اسکے منہ پر مارگیا تھا اور پھر کئی بار مارا۔  جو شاید اس سب کے لیئے تیار تھا ۔ یا پھر وہ چاہتا تھا کے اسے تکلیف دی جائے اسے سزا ملے جو اسنے کیا ہے ۔ 

برہان خانزاہ اور شاہانہ بیگم ، راحمہ نرمین اور گھر کے باقی سب افراد  بھی کمرے سے باہر آچکے تھے جبکے ضرغام کو اس طرح گھر میں موجود دیکھ دا جان سمیت گھر کے باقی سبھی مردوں کا خون کھول گیا تھا ۔ 

آپکی ہمت کیسے ہوئی ہمارے گھر میں قدم رکھنے کی ضرغام خانزادہ ۔ ہماری بیٹی کے ساتھ اتنا غلط کرنے کے باوجود آپ کا دل نہیں بھرا تھا جو آپ یہاں بھی آگئے___"

داجان کی سرد آواز گونجی تھی کے ضرغام نظریں اٹھانے کے قابل نا رہا تھا۔ 

کبیر انہیں کہیں یہاں سے چلے جائیں ورنہ ہم کچھ بہت غلط کر بیٹھیں گے___"

برہان خانزادہ مٹھیاں بھینچتے بولے تھے کبیر سے جو خود ضرغام کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اس کا قتل کردے گا۔ 

کبیر نے اگے بڑھتے اسکا گریبان پکڑ کر اسے کھڑا کیا تھا ۔

جسکا ہونٹ پھٹ چکا تھا فردان کی مار سے ۔ 

تو انسان نہیں ہے تو جانور ہے ایک گھٹیا مرد جو اپنی ہی بیوی کو بھوکے کتوں کے آگے ڈال گیا__"

یہ بولتے کبیر نے پھر اسکے مکہ مارا تھا کے وہ زمین پر گرا تھا لیکن پلٹ کر کوئی وار نا کیا جبکے راحمہ اور نرمین اسکی یہ حالت دیکھ آنسوؤں سے رونے لگی ۔ 

تو میری بہن کے لائق کبھی نہیں تھا ذلیل انسان تو کبھی نہیں تھا لیکن آپ سب ___"

وہ ضرغام کو لاتوں سے مارتا کہتے کہتے رکا تھا اور داجان اور اپنے باپ کیطرف اشارہ کیا تھا۔ 

آپ سب کی وجہ سے اسکی شادی میری بہن سے ہوئی جس کے ذمہ دار آپ سب بھی ہیں ۔ اس انسان کی فطرت سے میں بچپن سے واقف تھا میں لیکن کتنا بڑا بے وقوف تھا جو آپ سب کے کہنے پر اسکی شادی اپنی معصوم بہن سے کردی ___"

وہ غراتے ہوئے کہ رہا تھا جبکے آخری کے الفاظ کہتے کہتے اسکی خود کی آواز نم ہوگئی تھی ۔ 

لیکن اب نہیں میری بہن تیرے ساتھ ہر گز نہیں رہے گی اب ۔ میں تجھے زندہ رہنے ہی نہیں دونگا کے وہ تیرے نکاح میں رہے ۔___"

ضرغام کا گریبان پکڑتے اسنے سامنے پڑی ٹیبل پر اسے پھینک تھا جسکے شیشے ضرغام کے ہاتھ میں گھسے تھے اور ماتھا ٹیبل کے کونے سے لگتے پھٹا تھا لیکن اسنے ابھی بھی اف نا کیا خاموشی سے نظریں نیچے کیئے وہ واقعی کوئی مجرم لگ رہا تھا ایک شرمندگی سے اٹا مجرم ۔

کسی نے اسکے لیئے آواز نہیں اٹھائی تھی جبکے نرمین پلٹ چکی تھی ۔ اس سے یہ سب نہیں دیکھا گیا تھا وہ نیچے اترتے اسراء کے کمرے میں چلی گئی تھی کے ان آوازوں سے وہ اٹھ نا جائے۔ 

داجان نے کبیر کو روکا تھا جو پاگل سا ہوتے اسے مارے جا رہا تھا کے ضرغام کا چہرہ خونم خون ہوچکا تھا ۔ 

فردان اسکو گریبان سے گھسیٹتا ہوا گھر کے باہر پھینک گیا تھا جہاں ساری رات سے تیز بارش ہورہی تھی ۔ 

میری بہن کی شکل بھی دیکھنے نہیں دونگا میں تجھے ۔ تو ساری زندگی ایسے ہی رلتا پھرے گا_لیکن وہ تجھے اب کبھی میسر نہیں آئیگی ضرغام خانزادہ___"

فردان دروازہ بند کرنے لگا تھا جب ضرغام اٹھ کھڑا ہوا۔ 

ن_نہیں نہیں دیکھو تم میرے ساتھ جیسا سلوک کرنا چ_چاہتے ہونا کرلو لیکن اسکو مجھ سے دور ن_نہیں کرو ۔ ساری زندگی میرے پاس ک_کچھ نہی رہا اگر وہ بھی چلی گئی تو م_میں مرجاونگا___"

اسکے الفاظ سنتے فردان اور اسکے پیچھے کھڑا کبیر دونوں ہی آپے سے باہر ہوئے تھے ۔ 

جیسا سلوک تو نے کیا ہے وہ اب تیری شکل کبھی نہیں دیکھے گی ۔ اسکے لیئے تو مرچکا ہے تو پھر جا اور مر جا__"

کبیر غرایا تھا کے ضرغام اسکے پیروں میں گرا ۔

مجھے_مجھے پتہ ہے وہ جاگ جائیگی__وہ میرا انتظار کررہی ہوگی۔مجھ_مجھ سے محبت کرتی ہے وہ۔ مجھے چھوڑ کر نہیں جاسکتی۔ میری آواز سنے گی تو جاگ جائیگی۔ ایک_ایک موقعہ دے دو مجھے پلیز___"

وہ پیروں میں گرے گڑگڑا رہا تھا ضرغام خانزادہ جس کی انا سب سے اونچی تھی وہ آج کبیر خانزادہ کے پیروں میں گرا گڑگڑا رہا تھا کے ایک پل کو صرف ایک پل کو کبیر بھی حیران رہ گیا تھا۔۔

یہ ک_کیا کررہے ہیں آپ لوگ__؟ " 

پیچھے سے آتی اسراء کی آواز سنتے کبیر اور فردان کے ہاتھ تھمے تھے ۔ وہ پلٹے تو سامنے کالے رنگ کے جوڑے میں اسراء پیلی زرد رنگت اور ماتھے پر بندھی پٹی سے وہ حیران تاثرات لیئے کھڑی تھی۔ 

جب نرمین اسکے کمرے میں گئی تھی تو اسراء اتنی تیز آوازوں کو سنتے آنکھیں کھول پریشانی سے سب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ 

نرمین نے دروازہ بند کرتے اسراء کو سمبھالنا چاہا لیکن باہر کی چیخ و پکار سنتے وہ اٹھ کھڑی ہوئی نرمین کے روکنے سے بھی وہ نہیں رکی اور باہر آگئی اور باہر یہ سب دیکھ اسکی آنکھیں کھلی رہ گئ تھی۔ 

جب کبیر اور فردان پلٹے اور حیرت سے اسے دیکھنے لگے جبکے اسکی نظریں سامنے خون میں لت پت کبیر کے پیروں میں بیٹھے ضرغام پر پڑی تو وہ بھاگی ہوئی اسکے پاس آئی ۔ 

سب حیران کن نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے ۔ جبکے ضرغام کی حالت بھی کچھ الگ نا تھی ۔ 

اسکے سر سے بہتا خون ہاتھوں سے بہتا خون پھٹا ہونٹ اتنا خون دیکھ اسراء کی حالت خراب ہوئی تھی وہ زمین پر بیٹھے ضرغام کا چہرا اپنے ہاتھوں میں تھامتی اسکے زخموں کو دیکھنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اسکی آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ 

کیسے ___کیسے کرسکتے ہیں آپ لوگ یہ سب ___؟ ضر آپ __آپ اٹھیں__" 

اسراء اسکو سمبھالتی اسکے قدموں پر کھڑا کرنے لگی تو کبیر نے اسراء کو سمبھالا جو خود لڑکھڑا رہی تھی ۔ 

گڑیا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ آرام کریں اسے میں دیکھ لونگا___"

کبیر کی آواز پر پلٹتے اسراء نے شکوہ کناں نگاہوں سے اپنے بھائی کو دیکھا تھا ۔ 

کیا دیکھ لینگے لالا آپ ___؟ یہ دیکھ لینگے ؟ میرے شوہر ہیں یہ اور آپ نے انکی یہ حالت کردی آپ کو تھوڑا سا بھی ترس نہیں آیا ان پر ___ آپ نے ایک بار بھی نہیں سوچا کے یہ اپکی بہن کے شوہر ہیں___"

اسکے الفاظ سن ضرغام نے آنکھوں میں نمکین پانی لیئے اسے دیکھا تھا جو اپنے بھائی کو شکوہ کن نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ اسکے سامنے آ کر کھڑی ہوگئی تھی دیوار بن کر۔ 

گڑیا___ تم اسکی حمایت لے رہی ہو جس نے میری بہن اپنی عزت کو بیچ راستے میں چھوڑ دیا ان کتوں کے سامنے پھینک دیا ۔ تم اس انسان کو اپنا شوہر کہہ رہی ہو۔ __؟ یہ شوہر کہلانے کے لائق ہے ___"

کبیر دبی دبی آواز میں گرجا تھا اس پر ۔ 

کیوں کیا انہوں نے ایسا___"؟

اسراء نے کبیر سے سوال کیا تو کبیر نے اسے ایسے دیکھا جیسے یہ سوال مجھ سے پوچھنے کا ہے یا اپنے شوہر سے ۔

میں بتاتی ہوں آپکو کے کیوں کیا ایسا___۔۔

آپکی وجہ سے___"

وہ کبیر کے سینے پر انگلی رکھتی چیخی تھی اور پھر سب کی طرف اشارہ کرگئی ۔

آپ سب کی وجہ سے___"

کبیر اور باقی سب ساکت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ 

کیوں دا جان __؟ بولیں کیا آپ نے ہمیشہ سے انصاف کیا ہے__؟ 

پنچایتوں میں انصاف کرتے کرتے آپ اتنے مگن ہوگئے کے اپنے بچوں میں انصاف نا کرسکے ___"

وہ داجان کی طرف منہ کرتے دھیمی آواز میں بولی تو وہ حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔

 آپ سب کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے ۔ کیا ضرغام آپکے کچھ نہیں لگتے تھے جو آپ نے ایسا سلوک کیا ۔ ہمیشہ انہیں ایسے نظر انداز کیا جیسے صرف کبیر لالا ہی اس گھر میں ایک بیٹے ہیں اور دوسرا کوئی نہیں__؟"

بچپن سے ہر چیز میں نا انصافی کی ہے دا جان آپ نے ۔ آپ کو تو یاد بھی نہیں ہوگا کے آپ کب کب نا انصافی کرجاتے ہونگے۔ 

چھوٹی چھوٹی باتوں میں۔  اسی نظر اندازی میں گزری ہے ضرغام کی زندگی ۔۔۔ اسی غرور کو برداشت کرتے گزری ہے ضرغام کی زندگی ____"

آخری جملا وہ پھر کبیر کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تھی جو ساکت و جامد کھڑا تھا۔ 

ہمیشہ یہ اکڑ لالا__؟ ہمیشہ ؟ یہ تو سوچ لیتے اب کے آپکی بہن کا شوہر ہے اب تو اس سے رشتہ ٹھیک کرلوں۔__"

وہ نم آنکھوں سے بولی تو کبیر پلکیں جھپکاتے اسے دیکھنے لگا۔  داجان کی طرف پلٹتے وہ انکے قریب گئی ۔ 

نہیں دا جان ۔__ ایک اولاد کی محبت میں اتنے بھی نہیں ڈوبتے کے باقی سب کو بھول جاؤ ۔ کچھ بچے تو نظر انداز کردیتے ہیں لیکن جو اکیلے ہوتے ہیں وہ نہیں کر پاتے داجان وہ حساس ہوجاتے ہیں بڑوں کے رویوں سے ۔ اور اسی کو برداشت کرتے کرتے وہ ایسے ہو جاتے ہیں جیسے آج ضر ہوگئے ۔ 

جب ایک پیڑ کو پانی دینا آپ بھول گئے تھے تو اسکی جڑیں کمزور ہونے پر قصور اسکا کیوں ہے ۔ آپ سب نے مل کر ایسا ضرغام بنایا ہے تو اب ایسے کیوں دھتکار رہے ہیں انہیں ؟ آپ سب انکے قصور وار ہیں اور الٹا انہی کا یہ حال کردیا آپ نے ۔؟ خود سوچے دا جان کے آپ نے کب کب اور کہاں کہاں انکے ساتھ نا انصافی کی ہے مجھ سے بہتر آپ جانتے ہیں ۔ میری حالت کے ذمہ دار اگر ضر ہیں تو انکا ذمہ دار کون ہوا___؟"

نہیں دا جان آپ سب قصور وار ہے ۔ ایک انسان کو ایسا بنانے میں آپ سب قصور وار ہیں __"

وہ داجان کو دیکھتے کبیر کی طرف پلٹی تھی جو نظریں زمین پر ٹکائے شاید واقعی شرمندگی میں گڑھا تھا ۔

 اور جو میرے ساتھ ہوا وہ میرا اور میرے شوہر کا معاملہ ہے ۔ میں انہیں معاف کروں یا نا کروں یہ ہم دونوں کا ذاتی مسئلہ ہے اسکے بیچ کوئی کچھ نہیں بولے گا___" 

 کبیر کی طرف دیکھتے اسراء نے جتاتے لفظوں میں کہا تھا اور پلٹ کر ضرغام کو دیکھا تھا جو سکتے کی حالت میں کھڑا اسے دیکھ رہا تھا جو آج اس حال میں بھی اتنے مشکل حالاتوں سے گزرنے کے بعد بھی اس کے لیئے کھڑی تھی ۔ جب آج کوئی اسکے ساتھ نہیں تھا لیکن وہ آج بھی اسکے ساتھ کھڑی تھی۔۔ ضرغام کی آنکھ سے آنسو بہتا اسکی داڑھی میں جذب ہوا تھا۔

اسکی محبت تو آسمانوں کو چھوتی تھی اور ضرغام خانزادہ اسکے سامنے کسی چیونٹی کے برابر بھی نا تھا۔ 

اسکو تھامتی اسراء اپنے ساتھ لیئے اندر لائی تھی اور صوفے پر بٹھایا تھا جب سب حیران نظروں سے اسے دیکھنے لگے ۔ 

اسراء جو کچھ بھی ہوا ہم سمجھتے ہیں لیکن یہ انسان اس محبت اور اس فکر کے لائق نہیں ہے جو آپ اسے دے رہی ہیں__"

فردان سے اسکی فکر بھرا انداز ضرغام کے لیئے برداشت نہیں ہورہا تھا۔ 

لالا پلیز ۔ میں آپکی بہن ہوں اسلیئے آپکو صرف میری تکلیف نظر آرہی ہے ۔ لیکن جو ضر کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے اور ساری زندگی جو احساس کمتری انہوں نے برداشت کی ہے وہ آپ سب میں سے کسی نے نہیں دیکھا ۔ اسلیئے پلیز اب میرے شوہر کے بارے میں اس طرح اگر کسی نے بات کری یا ان پر ہاتھ اٹھایا تو پھر آپ سمجھ لے گا کے آپکی بہن اس حادثے میں مرگئی __"

اسکے اتنے سخت الفاظ سنتے سب دہل گئے تھے یہاں تک کے ضرغام کا دل ایسا لگا تھا جیسے کسی نے مٹھی میں دبوچ لیا ہو۔ 

وہ ساکت نظروں سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اسکے سامنے چٹان بن کر کھڑی ہوگئی تھی ۔ اسکے لیئے اپنے گھر والوں تک سے لڑ گئی تھی آج وہ اسے لمحے لمحے میں حیران کررہی تھی  کے ضرغام خانزادہ اسکے عشق کی گہرائیوں میں خود کو ڈھیلا چھوڑ گیا تھا۔ 

راحمہ اپو پلیز فرسٹ ایڈ باکس لائیں___"

وہ اپنے آنسو روکتی راحمہ سے بولی۔ 

تو وہ بھاگی ہوئی اپنے کمرے سے لے آئی۔ اور اسراء ضرغام کو لیئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 

پیچھے کھڑے باقی سب سکتے کی حالت میں تھے خاص طور پر داجان اور کبیر خانزادہ ۔ وہ واقعی مغرور تھا ہر چیز اتنی آسانی سے بہترین جو حاصل ہوجاتی تھی اسے واقعی غرور ہوگیا تھا ۔ لیکن اسکی اس مغروریت نے ضرغام خانزادہ کی شخصیت کو بہت اثر انداز کیا تھا ۔ 

یہ سب سوچتے کبیر خاموشی سے اپنے کمرے کی طرف چلا گیا تھا جبکے داجان وہی صوفے پر ڈھہ گئے تھی۔ 

یہ کیا ہوگیا تھا ان سے وہ واقعی ہمیشہ کبیر کبیر کرتے آئے تھے کبیر کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ انکی زبان پر آتا ہی نہیں تھا۔ انہوں نے تو یہ تک نا سوچا کےضرغام جو ہمیشہ سے پنچایتوں میں انکا سیدھا ہاتھ بنا رہتا تھا اسے سردار کی کرسی تھما دیں ۔ وہ تو اسکے لیئے بھی اتنے سالوں تک کبیر کا انتظار کرتے رہے جو ان سب سے دور بھاگتا تھا۔ 

بچپن کے مناظر انکی آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب وہ اور فردان کوئی غلطی کر جاتے تھے تو دو تھپڑ انکو تو پڑھ جاتے تھے لیکن کبیر کو ہمیشہ پیار سے سمجھایا جاتا تھا ۔ وہ وقت یاد آیا جب اسے اور کبیر کو ایک ہی چیز پسند آتی تھی اور وہ کبیر کے ہاتھ میں تھمادیتے تھے کے وہ بڑا ہے ۔ انہیں وہ وقت بھی یاد آیا جب باہر اسٹڈیز کے لیئے ضرغام نے اپلائے تک کردیا تھا لیکن اسکے مورے نے کہدیا تھا کے داجان اجازت دینگے تو جاسکتے ہیں آپ اور داجان نے صاف منع کردیا تھا کے کبیر بڑا ہے اسے اجازت مل گئی اسکے علاوہ کسی کو یہ اجازت نہیں ملے گی۔ 

دا جان نے کہاں کہاں یہ نا انصافی نا کی تھی جس کے باعث ایک انسان کی شخصیت اتنی متاثر ہوگئی کے وہ اپنے ہی رشتوں سے نفرت کرنے لگ گیا۔ 

دیکھا جاتا تو سارا قصور ہی دا جان کا تھا ۔ کبیر کی شخصیت کو مغرور بنانے میں بھی اور ضرغام کی شخصیت کو زہر بنانے میں بھی ۔

وہ آنسو صاف کرتے برہان خانزادہ اور رضوان خانزادہ کی طرف ہاتھ بڑھاگئے تھے جو انہیں سہارا دیتے انکے کمرے میں لے جانے لگے جب وہ رکے اور پیچھے مڑ کر فردان کو دیکھا ۔ 

وہ اس گھر کے داماد ہیں انکی خاطر تواضع میں کمی نہیں رہنی چاہیئے___"

فردان کو کہتے وہ اپنے کمرے میں چلے گئے۔ 

________❤️ حیا خان ❤️_______

کبیر اپنے کمرے میں آتے اسٹڈی ٹیبل کا دروازہ کھولتا اندر جاتے اسے لاک کرگیا تھا ۔ نرمین اسکے پیچھے آئی لیکن دروازہ لاک دیکھ وہ وہی رک گئی۔ 

وہ کبیر کو سمجھانا چاہتی تھی کے اسراء ٹھیک کہہ رہی ہے وہ واقعی اس قدر مغرور ہوگیا تھا کے اس سب سے ایک انسان کی شخصیت اثر انداز ہوئی ہے۔ 

جبکے اسکے برعکس کبیر کمرے میں بیٹھا واقعی اپنی زندگی کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔ شادی سے پہلے تک تو سب بلاوجہ تھا لیکن شادی کے بعد اسکے دل میں یہ بات اٹکی تھی کے اسنے نرمین پر نظر رکھی تھی اور یہی بات تھی کے کبیر اس سے اپنا رشتہ ٹھیک کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکا۔ اور وہ شخص ان سب محرومیوں میں نفرت کی آگ دل میں پیدا کرگیا ۔ لیکن آج کبیر نے اسکی آنکھوں میں اپنی بہن کے لیئے جو محبت دیکھی تھی وہ چاہ کر بھی اسے نظر انداز نہیں کرسکا تھا ۔ ورنہ ضرغام خانزادہ مغروریت میں اپنی مثال آپ تھا لیکن وہ اسکے سامنے جھک گیا تھا ۔ اپنی نفرت کے سامنے کبیر خانزادہ کے سامنے اور یہ پر بات ہر بات سے اوپر تھی کبیر کے لیئے ۔ 

وہ وہی صوفے سے سر ٹکاتے آنکھیں بند کرگیا ۔ ضرغام خانزادہ کی کہانی میں وہ واقعی غلط تھا۔ 

اسے بستر پر بٹھاتے اسراء نے دروازہ بند کیا تھا ۔ پلٹ کر وہ سائیڈ ٹیبل پر رکھے فرسٹ ایڈ باکس کو اٹھاتے اس میں سے روئی نکالتے وہ اسکے پاس بیٹھی تھی جبکے اس سب میں ضرغام کی نظریں اسراء سے ایک سیکنڈ کے لیئے بھی نہیں ہٹی تھی وہ اسکے پاس بیٹھی تو وہ اسکے ایک نقوش کو اپنے قریب سے دیکھنے لگا اسکی آنکھ سے آنسو ٹوٹ کر نکلا تھا۔ 

اسراء نے اسکے ماتھے کے زخم کو ناک سے بہتے خون کو اور پھٹے ہوئے ہونٹ کو یہاں تک کے ایک ایک نقوش کو بہت غور سے دیکھا لیکن اسکی آنکھوں میں نا دیکھا جسکے لیئے ضرغام تڑپ رہا تھا ۔ ماتھے کے زخم کو دیکھ اسراء نے اس پر روئی رکھی تو ایک لمحہ کے لیئے ضرغام تکلیف سے اپنی آنکھیں میچ گیا ۔ 

اسکی تکلیف محسوس کرتے اسراء کی آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگے ۔ کتنی شدت سے اسکے بھائیوں نے اسے مارا تھا اسے زخم دیئے تھے ۔ کے اپنی تکلیف سے زیادہ اسے ضرغام کے زخم دیکھ کر تکلیف ہورہی تھی ۔ 

ضرغام نے آنکھیں کھول کر اسکے چہرے کو دیکھا جو اسکے بے تحاشہ قریب تھی نظریں ماتھے پر سے بہتے ہوئے خون پر تھی لیکن آنسوں ٹپ ٹپ گال بھگوتے جارہے تھے ۔ 

اپنے اتنے قریب بیٹھی اپنے عشق میں دیوانی ہوئی لڑکی کو ایسے روتے دیکھ ضرغام کی آنکھیں بھی نم ہونے لگی ۔ 

وہ اس سے کہنا چاہتا تھا بہت کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کہنے کو الفاظ نہیں مل رہے تھے وہ کیا کہتا اسکے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں سارے الفاظ سامنے بیٹھی لڑکی نے اس سے چھین لیئے تھے ۔ 

وہ کیوں تھی ایسی اپنی خوبصورتی سے نہیں اپنی عادتوں سے اپنے اخلاق سے وہ ضرغام کو اپنا دیوانہ کرگئی تھی کے اس کے بغیر جینے کا سوچتے ضرغام مرنے کے قریب ہوسکتا تھا ۔ 

ماتھے سے خون صاف کرتے اسنے ناک سے بہتے خون کو دیکھا تو وہاں روئی رکھتی اسے صاف کرنے لگی جبکے ضرغام کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ صدیوں بعد اسے دیکھ رہا ہو۔ جو اسکے ایک ایک نقوش کو محبت سے دیکھتے اسے دل کے راستے اپنے اندر محفوظ کررہا تھا ۔ 

چہرے سے خون صاف کرتے اسنے ضرغام کا ہاتھ تھاما تھا ۔ ہتھیلی پر کافی گہرا کٹ کا نشان تھا جسے دیکھ اسراء کو پھر نئے سرے سے رونا آیا تھا جبکے ضرغام تو کسی روبوٹ کی طرح بیٹھا تھا جو صرف اپنی آنکھوں کی پتلی کو حرکت دیتے اسکی ایک ایک حرکت نوٹ کررہا تھا۔ 

اسکا ہاتھ تھامتے اسراء اسکے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے کانچ کے ٹکڑے نکالنے لگی جبکے ہر ٹکڑے کو نکالتے وہ ایسے سسک رہی تھی جیسے اپنے ہاتھوں سے نکال رہی ہو۔ جسے دیکھ بھولی بھٹکی ہلکی سی مسکان ضرغام کے چہرے پر آئی تھی ۔ 

اسکے ہاتھ سے خون صاف کرتے وہ اچھی طرح اسکے ہاتھ پر پٹی کر گئی تھی جبکے بینڈج نکالتے ماتھے پر لگائی تھی اس دوران اسنے ایک بار بھی نظر اٹھا کر اسکی نظروں میں نہیں دیکھا تھا ۔ 

جو ضرغام نے شدت سے محسوس کیا تھا ۔ 

لیکن فلحال واقعی اسکے پاس کہنے کو کچھ نا تھا ۔ وہ اٹھ کر جانے لگی تو ضرغام ہوش میں آیا ۔ ابھی تو وہ اسکے قریب آئی تھی اب پھر دور ہو رہی تھی وہ گھبراتے مضبوطی سے اسکا ہاتھ پکڑ گیا ۔ 

م_مجھے نیند آرہی ہے ۔ تھو_تھوڑی سی دیر سونا چاہتا ہوں__" 

جو پہلے اسے حکم دیتا تھا آج اس سے منت کر رہا تھا ۔ جسے سن اسراء نے اپنی نم آنکھیں بند کر کے کھولی ۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا ۔ 

جب سے وہ اسکے پاس نہیں تھی تب سے اونگھ تک نا آئی تھی کیونکہ اسکے لیئے تو سکون کا دوسرا نام ہی اسراء تھی ۔ اور وہ نہیں تھی تو سکون کہاں آنا تھا۔ اسلیئے اسکے قریب آتے ہی ضرغام کی ہر طلب جاگ اٹھی تھی ۔ 

پلیز_____ د_دو راتوں سے سویا نہیں ہوں__"

اسکا جواب نا پاتے ضرغام پھر نم آواز سے بولا تھا کے اسراء کو ترس آیا تھا اس پر ۔ 

پلٹ کر اپنا ہاتھ چھڑواتی وہ جاکر دوسری طرف بستر پر لیٹی تھی اور کمرے کی لائٹس آف کی ۔ اسے لیٹتے دیکھ ضرغام بھی پلٹتا پیر اوپر کرتے بستر پر اسکی طرف کروٹ لیتے لیٹا تھا جو سیدھی لیٹی تھی ۔ لیکن اس انسان کو سکون کہاں تھا وہ تو اسے بانہوں میں بھر کر سونے کا عادی تھا ۔ تبھی بے سکون سا ہوتے اسے دیکھنے لگا رحم طلب نگاہوں سے جو اسراء با خوبی محسوس کر سکتی تھی ۔ 

آنکھیں بند کرتے وہ خاموشی سے لیٹی رہی جب ضرغام اس پر سے ہاتھ گزارتا کمر کو تھامتا اسے اپنے قریب کرگیا ۔ اور قریب سے اسکے نقوش کو دیکھنے لگا ۔ 

اسکے کھینچنے سے اسراء بوکھلائی ضرور تھی لیکن اپنی آنکھیں نا کھولی ۔ وہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی ان آنکھوں کو اور ان آنکھوں میں چھپے وہ آنسوں اور ان آنسوؤں میں چھپا وہ درد ۔ 

وہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی اسلیئے خاموشی سے اسکے حصار میں لیٹی رہی جبکے وہ اسکے بالوں میں چہرا چھپاتے سکون بھری سانس اپنے سینے میں اتارتا آنکھیں بند کرگیا تھا۔ 

اسکی سانسوں کی دھیمی دھیمی آواز سنتے اسراء نے اپنی آنکھیں کھولتے چہرا تھوڑا سا موڑتے اسے دیکھا تھا جو اسکے بے انتہا قریب سورہا تھا ۔

اسکے ایک ایک نقوش کو دیکھتے اسے وہ رات یاد آنے لگی جب اسکی ذات کی بے حرمتی کی جارہی تھی جس کی وجہ یہی شخص تھا اسکی آنکھوں میں تیزی سے آنسو جمح ہونے لگے۔ 

نہیں ضرغام خانزادہ اس بار نہیں ___ کبھی نہیں بھولیں گے ہم وہ رات__کبھی معاف نہیں کرینگے آپکو__"

آنسوں ٹوٹ کر بالوں میں جذب ہوئے تھے جب خود سے وعدہ کرتی وہ خود بھی آنکھیں بند کر گئی تھی۔ 

آج تو رحم کھالیا تھا اسراء نے لیکن آگے شاید وہ ایسا کبھی نا کر پاتی. 

______❤️ حیا خان ❤️_________

دوپہر ہوچکی تھی ضرغام اسے بانہوں میں بھرے ایسا سویا تھا کے اٹھنے کا نام نہیں لیا تھا جبکے اسے اتنی سختی سے تھام رکھا تھا جیسے  اسے ڈر ہو کے اسکے سوتے ہی وہ اس سے دور چلی جائیگی ۔ اور اسراء ایسا ہی کرتی لیکن اسکی پکڑ میں وہ ہل بھی نا سکی ۔ دور جانا تو شاید بہت دور کی بات تھی۔ 

دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سنتے ضرغام کسمسایا تھا جبکے اسراء تو جاگ ہی رہی تھی ۔ لیکن اسکو مخاطب نا کرتی کسمسانے لگی تھی اسکے حصار میں۔ 

ضرغام نے نیم وا آنکھیں کھولی جو بے حد سرخ ہورہی تھی کچھ نیند کا خمار تھا کچھ اسکی محبت کا کے وہ آنکھیں بند کرتا نیند میں ہی مسکرانے لگا جسے اسراء نے ہونقوں کی طرح دیکھا۔ 

لیکن نظر انداز کرتی پھر اسکے ہاتھ خود پر سے ہٹانا چاہا جس پر ضرغام نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا جو ماتھے پر بل ڈالے جدوجہد میں لگی ہوئی تھی۔ لیکن منہ سے کچھ نا کہہ رہی تھی ۔ وہ خود با خود اپنی گرفت ڈھیلی کرگیا جسے محسوس کرتے وہ ایک جھٹکے میں اس سے دور ہوئی۔ 

دروازہ پھر ناک ہوا تو اسراء اٹھ کھڑی ہوئی ۔ وقت دیکھا تو دوپہر کے چار بج رہے تھے اسے بے حد غصہ آیا تھا ضرغام سے زیادہ خود پر وہ کیسے اسکی بات مان کر اسکے قریب جا سکتی تھی۔ 

کپڑے نکالتے وہ چینج کرتے باہر آئی جب تک ضرغام بھی بستر پر اٹھ بیٹھا تھا جسم پر موجود کپڑے خون میں ہورہے تھے جسے دیکھ اسراء دروازہ کھولتے باہر گئی اور کچھ ہی دیر میں واپس اتے فردان کا براؤن رنگ کا کرتا شلوار بستر پر رکھا جسے دیکھ ضرغام نے ایک نظر اسے دیکھا وہ بس چاہتا تھا اسراء نظر اٹھا کر ایک بار تو اسے دیکھ لے لیکن وہ یہ کیا ظلم کررہی تھی اس پر۔ 

صبر کا گھونٹ پیتے وہ بستر سے کپڑے اٹھاتا واشروم میں بند ہوا ۔ کچھ دیر میں باہر آیا تو اسراء کو اپنا انتظار کرتا پایا۔ 

اسکے آتے ہی وہ اٹھ کر باہر چلی گئی جسے دیکھ ضرغام بھی اسکے پیچھے باہر آیا ۔ 

اٹھ گئے بیٹا آپ لوگ__میں آپ لوگوں کا ہی انتظار کررہی تھی ۔ بھوک لگ رہی ہوگی نا آپکو بھی ضرغام بیٹا کو بھی ۔ اسلیئے ملازمہ کو کہتے آپ لوگوں کو جگایا__"

شاہانہ بیگم کی بات پر وہ ہلکا سا مسکراتی چیئر پر بیٹھی ۔ جبکے ضرغام یونہی کھڑا اسے دیکھتا رہا ۔ اسے اسراء کا رویہ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔

بیٹا ضرغام آپ بھی بیٹھو نا کچھ کھالو__"

جس پر وہ سر ہلاتے بیٹھا تھا ۔ 

اسکی پلیٹ میں شاہانہ بیگم نے پراٹھا رکھا تو وہ اپنے سیدھے ہاتھ کی طرف دیکھنے لگا جس پر پٹی بندھی تھی ۔ 

وہ الٹے ہاتھ سے پراٹھے کو توڑنے لگا۔ اسراء جو آڑی نظروں سے اسکی ہر حرکت دیکھ رہی تھی اسے الٹے ہاتھ سے پراٹھا توڑتے دیکھ وہ اسکی طرف منہ موڑ گئی ۔ 

اسکے ہاتھ کو تھماتے دور کیا اور اپنے ہاتھ سے نوالہ بناتے اسکے منہ میں ڈالا جبکے نظر اٹھا کر اسکے چہرے کی طرف نا دیکھا تھا ۔ 

ضرغام سے اسکا رویہ دیکھ حلق سے نوالا اتارنا مشکل ہورہا تھا لیکن سب کی موجودگی دیکھتے وہ خاموشی سے کھانے لگا۔ 

راحمہ اور نرمین بھی کچن میں موجود تھی جب نرمین کو چکر سے آنے لگے تو راحمہ نے اسے تھاما ۔ 

اپو کیا ہوگیا __؟ اپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ___؟"

راحمہ نے پریشانی سے اسے دیکھا اور اسکے قریب آئی جو اپنے سر کو تھامے سلیب کا سہارا لیئے کھڑی تھی ۔ 

جی ہم ٹھیک ہیں بس پتہ نہیں چکر کیوں آگئے اچانک___؟"

نرمین کی آواز پر شاہین بیگم بھی انکے قریب آئی ۔ 

نرمین بیٹا آپ اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں__ کبیر بھی ابھی ابھی ڈیرے سے اپنے کمرے میں گئے ہیں جائیں آپ بھی تھوڑا آرام کرلیں__"

کبیر کے آنے کا سنتے نرمین نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا ۔ 

انہوں نے کھانا کھالیا__"؟ 

جی بیٹا بھابھی نے کھلایا تھا ۔ پریشان ہیں نا تھوڑے تو انہوں نے سمجھاتے  ہوئے انہیں اپنے ہاتھ سے کھلایا ہے___ اب آپ بھی جائیں خیال رکھیں اپنا__"

شاہین بیگم نے اسے سمجھاتے اوپر بھیجا جو سکون میں آتی اوپر گئی تھی ۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

وہ اوپر گئی تو کبیر بالکنی میں کھڑا کسی سے فون پر بات کررہا تھا اسے بے تحاشہ کمزوری محسوس ہورہی تھی ۔ جب سے کبیر نے کھانا نہیں کھایا تھا اسکے حلق سے بھی ایک نوالہ نا اترا تھا ۔ لیکن اب اسکے کھانے کی تسلی ہوتے وہ بھی کچھ کھانا چاہتی تھی مگر اب ہمت نا ہوئی ۔ 

کیونکہ اسے اپنے ناراض شوہر کو بھی تو منانا تھا جو اس سے دو دن سے روٹھا بات ہی نہیں کررہا تھا۔ نرمین بالکنی میں جاتی اسکے پیچھے کھڑی ہوگئی ۔ 

خان__"

وہ فون پر مصروف تھا جب پیچھے سے اسکی آواز سنی کبیر نے دو لمحوں کے لیئے آنکھیں بند کری پھر کھولی اور پلٹا۔ 

اسکی گلابی رنگت پیلی زرد تھی جبکے ہونٹ سوکھے ہوئے تھے ۔ میک اپ کا استعمال تو وہ کرتی نا تھی کیونکہ اسے ضرورت ہی نہیں تھی ۔ لیکن آج اسکے چہرے کی رنگت دیکھ کبیر کو تشویش ہوئی تھی لیکن پھر اگلے ہی لمحے خود پر سختی کا خول چڑھاتا وہ اسکے سائیڈ سے گزر گیا تھا۔

جو بھی تھا اس سے یہ بات برداشت نہیں تھی کے نرمین نے اس سے یہ بات چھپائی ۔ اس سب میں اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکی کوئی اہمیت نہیں نرمین کی نظر میں جو اسکے لیئے کافی تکلیف دہ تھا ۔ 

کبیر گزرا تو نرمین نے آگے بڑھتے اسکا ہاتھ تھاما ۔

ہمیں معاف کریں خان___" 

اسکی آواز میں واضح گھلی نمی سن کر کبیر نے اپنا ہاتھ اسکی پکڑ سے چھڑوانا چاہا تو وہ دونوں ہاتھوں سے اسکا ہاتھ تھام گئی جسے دیکھ وہ تھم گیا ۔ 

پلیز خان__ ہم آپکو بتانا چاہتے تھے لیکن ہم نہیں بتا سکے___پلیز ہمیں معاف کردیں ہم آئیندہ کبھی نہیں چھپائینگے آپ سے کچھ___" 

وہ باقاعدہ رونے لگی تھی جب کبیر نے پلٹ کر اسے دیکھا۔ 

میں نے تم سے کہا تھا نا میں ناراض نہیں ہوں_ اسلیئے اس معافی کی کوئی ضرورت نہیں ہے__" وہ اسکے قریب اتا اسکی گرفت سے نرمی سے اپنے ہاتھ آزاد کروتے انجانی سی آواز میں بولا تھا۔ 

کبیر کی بات سنتی وہ نم آنکھوں سے مسکرائی ۔ لیکن پھر ایکدم اسکی مسکراہٹ پھیکی پڑی ۔ 

آپ نے کہا تھا آپ کا م_مان ہم پر سے ٹوٹ گیا__" وہ سرگوشی نما آواز میں بولی تھی کے اگر کبیر اسکے قریب کھڑا نا ہوتا تو شاید وہ سن نا پاتا۔ 

کبیر اسکے قریب آیا اور ایک ہاتھ سے اسکے چہرے کو تھامتا اسے اپنے قریب کرگیا۔ 

وہ تو توڑدیا تھا تم نے اب جڑ نہیں سکتا ۔ اسلیئے اب اسی خان کی عادی ہوجاؤ۔ __"

دھیمی آواز کے سنگ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولا تو وہ بھیگی بھیگی انکھوں سے اسے دیکھنے لگی۔ 

آپ ہر بار ہمیں ایسے تکلیف نہیں پہنچا سکتے___" 

وہ سرگوشی نما آواز میں احتجاجاً بولی تھی کے کبیر نے اسکی آنکھ سے بہتے آنسو کو صاف کیا ۔ 

تکلیف مجھے بھی ہوئی تھی بہت ہوئی تھی یہ سوچ کر کے میری نرمین نے مجھ سے اتنی بڑی بات چھپائی___" 

وہ اسکی کمر میں ہاتھ ڈالتے اسے قریب  کرگیا تھا ۔ جبکے ہری آنکھوں میں طلب واضح تھی اسکی لیکن ضبط کرتے اب ان آنکھوں میں سرخی اترنے لگی۔

نرمین کا سر چکرانے لگا تھا چوبیس گھنٹوں سے زیادہ ہونے لگے تھے اور ایک گلاس جوس کے سوا اسنے کچھ نا کھایا پیا تھا ۔ 

ہم_ہمیں اسراء نے قسم دی تھی خان ہم اسکی قسم نہیں توڑ سکتے تھے___"

اسکی بات سن کبیر کی آنکھوں میں پہلے حیرانی پھر سرد مہری اتری ۔ 

یہ قسمیں رشتوں سے بڑھ کر نہیں ہوتی ۔ اور اس قسم کے چکر میں تم یہ بھول گئی کے میرا تم سے کیا رشتہ ہے اسراء سے کیا رشتہ ہے اور بات کی نوعیت کتنی سنجیدہ ہے ۔ تم اپنی قسم نبھانے چلی __"

کبیر نے اپنی گرفت اس پر سخت کی تھی وہ آنکھیں میچ گئی لیکن اف نا کیا ۔ کیونکہ وہ مانتی تھی وہ غلط تھی ۔ 

سب رشتوں کو خود سے دور رکھ کر اتنا جان رکھو کے تم سب سے پہلے میری ہو ۔میری بیوی ہو ۔ نرمین کبیر خانزادہ ہو ۔ میں ہر گز بھی نہیں چاہونگا کے میری بیوی میرا مان توڑے اور بیوی بھی وہ جو میری محبت میرا جنون ہو۔ جس کے بغیر میں کچھ بھی نہیں ہوں___"

کبیر اس پر گرفت سخت سے سخت تر کرتا جارہا تھا اور جنونی ہوتے اسکے کان کے قریب سرسراتے اپنی بات کہتا وہ نرمین کو واقعی اپنا طلبگار اور اپنا دیوانہ لگ رہا تھا۔

اگر تم نے آئیندہ ایسی حرکت کی تو میں تمہیں کبھی نہیں بخشونگا ۔ بلکے خود سے دور کر کے خود کو بھی سزا دونگا اور تمہیں بھی ۔ تڑپتا رہونگا تم سے دور لیکن رحم نہیں کرونگا نا خود پر نا تم پر۔ یہ یاد رکھنا ___" 

اسکی جنونیت دیکھتے نرمین کی سانسیں تھمنے لگی تھی کمزوری کی وجہ سے جسم نڈھال ہورہا تھا اور اس پر ظلم کبیر کی سختی۔ 

کبیر کچھ لمحے یونہی اسے اپنے قریب کرتے محسوس کرتا رہا کےا چانک اسے محسوس ہوا جیسے نرمین کا وجود ڈھیلا پڑھ گیا ہو۔ چہرا پیچھے کرتے اسنے نرمین کے سر کے پیچھے ہاتھ رکھتے دور کیا تو دیکھا وہ بے ہوش تھی ۔ 

اسے بے ہوش دیکھ صحیح معنوں میں کبیر کے ہاتھ پیر پھولے تھے ۔ 

نرمین__؟"

وہ اسکے گال پر ہاتھ رکھتے بولا لیکن اسکے جسم میں کوئی جنبش نا ہوئی ۔ اسکے وجود کو اٹھاتے بستر پر لٹایا تھا جبکے اسکا چہرا تھپتھپانے لگا لیکن جواب ندار۔ 

اسے بے ہوش دیکھ کبیر کو سمجھ نا آیا تھا کیا کرے جب دروازہ کھولتے اسنے دیکھا راحمہ کو جو اپنے کمرے میں جا رہی تھی۔ 

راحمہ ادھر آؤ پلیز___"

کبیر کو پریشان دیکھ راحمہ تیزی سے اسکی طرف بڑھی ۔ 

جی لالا سب ٹھیک ہے__؟"

اسکے چہرے پر پریشانی کے تاثر دیکھ راحمہ نے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاگیا۔ 

وہ نرمین بے ہوش ہوگئی ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا کیا کروں پلیز تم مورے کو بلاؤں میں نے ڈاکٹر کو کال کی ہے وہ آتی ہی ہونگی۔___"

نرمین کی بے ہوشی کا سن راحمہ نے آنکھیں پھاڑے پیچھے لیٹے وجود کو دیکھا تھا ۔ 

کیا ہوا اپو کو ___ ر_رکیں میں بڑی ماما کو بلا کر لاتی ہوں___" 

راحمہ بھاگی ہوئی نیچے گئی تھی جب کبیر واپس پلٹتا اسکے قریب گیا۔ اسے تو پہلے ہی تشویش ہورہی تھی نرمین کی زرد رنگت دیکھ کر وہ اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھتے حرارت دیکھنے لگا جو ٹھنڈی پڑی تھی ۔ کبیر کا سانس سینے میں اٹکنے لگا تھا۔ 

وہ اپنی ناراضگی میں نرمین کو کیسے بھول سکتا تھا اسنے غور ہی نہیں کیا اس پر اور اب اسکی یہ حالت دیکھ کبیر خود کو قصور وار سمجھنے لگاتھا۔ 

کچھ دیر میں ڈاکٹر آتی چیک اپ کرنے لگی تو کبیر بے صبروں کی طرح ڈاکٹر کا چہرا پڑھنے لگا۔ 

جلدی کریں آپ اتنی دیر کیوں لگا رہی ہیں__"

کبیر کی بات پر ڈاکٹرنی گھبراتی صحیح طرح چیک اپ کرنے لگی جو نرمین کا ہاتھ پکڑے اسکے برابر میں بیٹھا تھا جبکے دوسری طرف ڈاکٹر۔ پیچھے نازو بیگم اور شہانہ بیگم بھی آنکھوں میں آنسو لیئے اپنی بیٹی کے لیئے پریشان تھی ۔ 

دیکھیں یہ شاید کافی ٹائم سے بھوکی ہیں کمزوری سے چکر آگئے ہیں بلڈپریشر بھی بہت لو ہے اسی وجہ سے ۔ آپ سب سے پہلے تو ان کے لیئے جوس لائیں اسکے بعد انہیں کچھ کھلائیں۔ یہ پہلے ہی بہت کمزور ہیں۔ ایسے بھوکی رہینگے تو انکی صحت کے لیئے اچھا نہیں ہے___"

ڈاکٹر کی بات پر کبیر پریشانی سے انہیں دیکھنے لگا جبکے راحمہ ڈاکٹر کے کہتے ہی کچن میں گئی تھی۔ 

ملازمہ ڈاکٹر کو اپنے ساتھ لے گئی تھی جبکے شہانہ بیگم بھی حیران تھی۔ 

سب کے خیال رکھنے کے چکر میں کسی نے اسکی طرف دیکھا ہی نہیں میری بیٹی سے پوچھا ہی نہیں کے اس نے کچھ کھایا یا نہیں۔ __سب کا خیال رکھتی ہے لیکن اپنی طرف دیکھتی ہی نہیں__"

شہانہ بیگم اسکا ماتھا چومتی نم آنکھوں سے بولی تھی گھر کا ماحول جیسا تھا اس میں کسی کو کسی کا ہوش نا تھا ۔ جسکی وجہ سے کوئی نرمین پر بھی دھیان نہیں دے سکا۔ 

نرمین آنکھیں دھیرے دھیرے کھولتی اپنے سر کو تھماتی پھر سے آنکھیں میچ گئی تھی ۔ جسے دیکھ کبیر اسکے مزید قریب ہوا۔ 

راحمہ جوس لے کر ائی تو کبیر نے فوراً تھامتے اسے صحیح سے بٹھا کر اسکے منہ سے گلاس لگایا ۔ جبکے وہ خود اپنے سر کو دبا رہی تھی جو بہت درد کررہا تھا ۔ 

بیٹا آپ نے کچھ کھایا نہیں نرمین ۔ اتنی لاپرواہی کیسے کر سکتی ہیں آپ ___"

نازو بیگم کی بات پر نرمین نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا اور پھر کبیر کو جو ماتھے پر بل سجائے اسی کو دیکھ رہا تھا نرمین نے آنسو پیتے نظریں نیچی کرلی ۔ 

راحمہ آپ کھانا یہیں لادیں پلیز__"

کبیر نے راحمہ سے ریکویسٹ کی تو وہ سر اثبات میں ہلاتی کچن سے کھانا لے آئی ۔ 

نرمین کے سامنے کھانے کی ٹرے رکھتے کبیر بھی اسکے پاس بیٹھا۔ جسے دیکھ باقی سب کمرے سے باہر چلے گئے جبکے شہانہ بیگم بھی دروازہ بند کرتے باہر آگئی ۔ 

کبیر اسپاٹ چہرا لیئے اسکے منہ میں نوالا بناتا ڈالنے لگا جو نظریں نیچی کیئے آرام آرام سے کھا رہی تھی۔ 

کب کھایا تھا لاسٹ ٹائم کھانا__؟"

کبیر نے سرد آواز میں اس سے پوچھا تو وہ نظر اٹھا کر اسے دیکھتی ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ 

ک_کل صبح ناشتہ کیا تھا___" 

اسکی بات سن کبیر جو نوالہ اسکے منہ میں ڈالنے والا تھا وہ تھمتا اسے غصہ سے گھورنے لگا ۔ 

کیوں__؟"

کبیر نے پھر سرد آواز میں پوچھا تو آنکھوں میں آنسو بھرتے معصومیت سے اسے دیکھنے لگی۔ 

آپ نے بھی کھانا نہیں کھایا تھا__" 

اسکی بات سنتے کبیر غصہ سے اسکے قریب ہوا۔ جو ڈر کر پھر آنکھیں میچ گئی تھی جسے دیکھ کبیر بھی تھما تھا ۔ 

وہ اپنی پریشانی میں سارا غصہ اسی پر اتارا جا رہا تھا جو خاموشی سے سب برداشت کرتے اپنی جان پر نقصان کیئے جارہی تھی۔ 

اسکے مزید قریب ہوتے کبیر نے اسکے ماتھے پر ہونٹ رکھے تھے ۔ 

پلیز آئیندہ ایسا مت کرنا ۔ تمہیں کچھ ہو یہ میں برداشت نہیں کرسکتا ۔ مجھے معاف کردو میں تمہارا خیال نہیں رکھ سکا اپنی تکلیف میں تمہیں بھول گیا۔ ___"

کبیر نے اسکا ایک گال اپنے انگوٹھے سے سہلاتے اسکی آنکھوں میں دیکھا تو وہ نم آنکھوں سے مسکرادی۔ 

ہمیں معاف کردیں خان ۔ ہم نے جانے انجانے میں آپکو اتنی تکلیف دی ۔ آئیندہ ہم ایسا کبھی نہیں کرینگے___" 

وہ بھی اسکے قریب ہوتی گھبراتی ہوئی اسکی گردن میں بانہیں ڈال گئی تھی جبکے نظریں اسکے سینے سے اوپر نا اٹھی تھی۔  جسے دیکھ کبیر بھی اسکی معصومانہ حرکت پر مسکرایا ۔ وہ جانتا تھا اسنے یہ حرکت بھی کتنے جتن سے کی ہوگی۔ 

ویسے ایک بات مجھے پتہ چل گئی آج__" 

کبیر اسکے مزید قریب ہوتے مسکرا کر بولا تو وہ بے اختیار نظریں اٹھاتی اسے دیکھنے لگی ۔ جسکے چہرے پر واقعی سکون تھا۔

کیا__ "؟

وہ سرگوشی نما آواز میں بولی تو کبیر مسکراتا اسکا گال چوم گیا ۔ 

کے تمہیں منانا بلکل بھی نہیں آتا __" 

ہونٹ دانتوں تلے دباتے کبیر نے اپنی مسکراہٹ روکی تھی جسے دیکھ نرمین بھی خفیف سا مسکرانے لگی ۔

تو پھر آئیندہ آپ ہم سے ایسے ناراض مت ہوئے گا ___ آپ سچ کہہ رہے ہیں ہمیں منانا نہیں آتا اور آپکی ناراضگی برداشت بھی نہیں ہوتی ہم_ہماری جان جارہی ہوتی ہے ل_لیکن زبان سے الفاظ نہیں نکل پاتے___"

بولتے بولتے اسکی آواز نم ہوگئی تھی کے اسکی معصومیت پر کبیر کو بے تحاشہ پیار آیا تھا مسکراہٹ دباتے وہ اسے سینے سے لگا گیا ۔ 

اچھا جانم کبھی ناراض نہیں ہونگا اب آپ سے___"

وہ اسکا ماتھا چومتے بولا تو نرمین نے تھوڑی اسکے سینے پر ٹکاتے اسکا چہرا دیکھا ۔ 

اور غصّہ بھی کبھی نہیں کرینگے نا__؟"

کیوں اپکو ڈر لگتا ہے میرے غصہ سے__"

وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے پوچھ رہا تھا جس پر پھر سے نرمین نے چہرا اسکے سینے میں چھپایا ۔ 

بہت بہت زیادہ ڈر لگتا ہے___"

آنکھیں میچتے ہوئے وہ بولی تھی کے کبیر دل کھول کر ہنسا تھا۔ 

جانم اب تم اپنی اداؤں سے مجھے بہکا رہی ہو خیال کرو تھوڑا جیسے میں فلحال تمہارا خیال کررہا ہوں__"

بھاری آواز کے ساتھ کبیر نے اسے کہا تو وہ سر اٹھا کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔ 

لیکن ہم نے تو کچھ نہیں کیا__"

اسکی ناراضگی دور ہوتے ہی نرمین کے چہرے پر ایک سکون تھا جسے دیکھ کبیر کو اطمینان ہوا۔ 

ایسا آپ کو لگتا ہے کے آپ نے کچھ نہیں کیا __ لیکن میں آج رات اپکو تفصیل سے بتانے کا ارادہ رکھتا ہوں___"

وہ ایک ہاتھ سے اسکے بال کان کے پیچھے اڑستا ہوا بولا تو وہ سرخیوں میں گھلا چہرا جھکا گئی۔ 

چلیں اب ٹھیک سے کھانا کھائیں تھوڑی جان بنائیں ورنہ اس نازک جان سے میرا کیا بنے گا __" 

وہ مسکراتا ہوا بے باک لہجہ میں بولا تو وہ منہ کھولے اسے دیکھنے لگی۔

خان___"

وہ روتی شکل بناتی بولی تو کبیر ہنستے ہوئے اسے سینے سے لگاگیا۔

_______❤️ حیا خان ❤️________

ضرغام نے دروازہ کھٹکھٹاتے اجازت چاہی تو داجان نے آنے کا اشارہ دیا ۔ 

وہ اندر آیا تو وہ اندھیرا کیئے بستر سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے۔

داجان کیا میں آپ سے بات کرسکتا ہوں__؟"

وہ دھیمی اواز میں کہتے انکے قریب آیا تو وہ سر اثبات میں ہلاتے صحیح سے بیٹھے۔ 

جی بیٹا آئے بیٹھیں __"وہ اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کرگئے۔ جس پر وہ انکے پاس بستر پر آکر بیٹھا۔ 

کیسی طبیعت ہے آپکی __"

ہم ٹھیک ہیں بیٹا آپ ٹھیک ہیں__؟"

داجان کے سوال پر وہ پھینکا سا مسکراتے سر اثبات میں ہلاگیا۔ 

داجان میرے پاس کہنے کے لیئے کوئی الفاظ نہیں لیکن___"

وہ ہاتھ جوڑتا نظریں جھکا گیا۔ 

لیکن مجھے معاف کردیں___میں نے ایسا نہیں چاہا تھا جو مجھ سے ہوگیا جو میں نے کردیا__"

وہ بولا تو داجان نے بھی اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے دوسرے ہاتھ سے اسکے جڑے ہاتھوں کو تھاما ۔ 

نہیں بیٹا __ سب سے بڑی غلطی تو ہم سے ہوئی ہے جو ہم اپنے بچوں میں نا انصافی کرگئے ۔ انصاف نا کرسکیں ہم کیسے بڑے تھے جو ایک پوتے کی محبت میں سب کچھ بھول گئے __ ہوسکے تو ہمیں معاف___" 

داجان کی آواز بھیگی سی تھی وہ ہاتھ جوڑنے لگے کے انہیں یوں جھکتے دیکھ ضرغام سے برداشت نا ہوا وہ انکے ہاتھ تھامتا انکے سینے سے لگ گیا ۔ 

کیسی باتیں کررہے ہیں دا جان آپ میرے بڑے ہیں مجھے دو تھپڑ لگا لیں لیکن ایسا نا کریں __"

داجان نم آنکھیں میچتے ضبط کرنے لگے ۔ 

ہم نے اپکے ساتھ بہت نا انصافی کی ہے بچے آپ ہمیشہ ہمارے ساتھ تھے جب کبیر بھی نہیں تھا تب آپ تھے لیکن ہم نے نظر انداز کیا ہم قصور وار ہیں آپکے ___" 

وہ روتے روتے کھانسنے لگے جسے دیکھ ضرغام کو تشویش ہونے لگی وہ انکی کمر سہلاتا جلدی سے پانی کا گلاس بھرتے انکے سامنے کرگیا ۔ 

داجان سب ٹھیک ہے کچھ نہیں ہوا۔ میں سب ٹھیک کردونگا پلیز آپ اپنا خیال رکھیں اس طرح سے پریشان نا ہوں ۔ ہمارے بڑے آپ ہی ہیں ہم سب کی خوشیاں آپ سے ہیں ۔ آپ ایسے مت جھکیں مجھ سے برداشت نہیں ہورہا__"

وہ انکا ہاتھ تھامتے جھکا تو وہ مسکراتے اسکے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیر گئے۔ 

اور نم آنکھوں سے اسے دیکھنے لگے۔ 

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں اسراء کو ہمیشہ خوش رکھونگا خود سے زیادہ اسکی حفاظت کرونگا ۔ جانتا ہوں بھروسہ کھوچکا ہوں۔ لیکن ایک موقعہ دیں میں اپکو خود کو ثابت کر کے دکھاؤنگا۔___"

ضرغام کی بات سنتے داجان مسکرائے ۔ 

ہمیں یقین ہے بیٹا آپ پر آپ اس موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینگے___"

ضرغام نے مسکراتے انہیں دیکھا اور انکا ہاتھ چومتے وہ انکے گلے لگا۔ 

داجان میں اور اسراء آج گھر جارہے ہیں__"

اسکی بات سنتے داجان اسے دیکھنے لگے۔ 

بیٹا کچھ دن اور رک جائیں آپ اسراء کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں ہے اسکی مورے کا شاید دل نا مانے__"

داجان کی بات سنتے ضرغام نے انہیں تسلی دی ۔ 

آپ فکر مت کریں دا جان میں اپنی جان سے زیادہ اسکا خیال رکھونگا___"

اسکی بات سنتے داجان مسکراتے احبات میں سر ہلا گئے۔

اسراء کمرے میں اپنا سامان سمیٹ رہی تھی جب ضرغام اندر آیا اور بستر پر بیٹھے اسے دیکھنے لگا ۔ کہنے کو وہ اسکا خیال رکھ رہی تھی ہر کام کر رہی تھی ۔ لیکن اس سے ایک الفاظ کلام نہیں کیا تھا ۔ اسے گھنٹوں یونہی تکنے والی آج اسکے چہرے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہی تھی اور یہ بات ضرغام کے دل میں کسی سوئی کی طرح چبھ رہی تھی ۔ 

وہ اس سے تفصیل سے بات کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن یہاں نہیں ۔ یہاں سے وہ اپنی ہر خطا کی معافی مانگ کر جانا چاہتا تھا ۔  زندگی نے اسے ایک موقعہ دیا تھا اور وہ اب اسراء کے ساتھ سچے دل سے اس رشتے کو نبھانا چاہتا تھا ۔ جس میں اسکی سب سے بڑی خطا تھی نرمین کی بے حرمتی کرنا تھی ۔

اس رات وہ نشہ جیسے فتنہ میں چور ہوکر اس کی عزت اس کی حرمت کے ساتھ کھیل گیا تھا جانے انجانے میں ۔ اور آج جب اسکی اپنی بیوی اپنی عزت پر کسی نے نظر اٹھائی تو وہ جانا تھا کے اس رات اسنے واقعی کسی غیر محرم کے کمرے میں گھس کر کتنا بڑا گناہ کیا تھا۔ 

صوفے پر بیٹھے وہ اسراء کو نظروں کے حصار میں لیئے اسی بابت سوچ رہا تھا۔ 

وہ میں_نرمین سے___"

ضرغام کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے اور اس نام پر وہ آکر تھما تھا کے اسراء کے چلتے ہاتھ رکے اور سانس سینے میں اٹکا۔

یہ بھی انکی زندگی کا ایک کڑوا سچ تھا کے ضرغام خانزادہ نرمین سے محبت کرتا تھا ۔ یہ سوچتے اسراء کے حلق میں آنسوؤں کا گولہ اٹکا تھا ۔ لیکن صبر کا گھونٹ پیتے وہ تھمی رہی کے ضرغام نے اپنا جملا مکمل کیا۔ 

میں نرمین سے معافی مانگنا چاہتا ہوں___" 

ضرغام نے نظریں اسی پر گاڑھے ہوئے بولا تھا جو پلٹی تک نا تھی ۔ لیکن اسکے ہاتھوں کی حرکت تھم چکی تھی۔ 

میں چاہتا ہوں کے تمہارے سامنے ہی میں اس سے معافی مانگ لوں کیونکہ کبیر شاید اسے میرے سامنے بھٹکنے بھی نا دے __"

طنزیہ مسکراتے ضرغام نے شاید اپنا ہی مذاق بنایا تھا۔ 

اسکی بات سنتے اسراء نے اپنی آنکھ سے نکلا بھولا بھٹکا آنسو صاف کرتے سامان باندھا تھا اور کمرے سے نکل گئی تھی ۔ 

کے ضرغام نے حیرت سے اسکی پشت کو دیکھا تھا.

_______❤️ حیا خان ❤️_______

نرمین دوپہر سے بستر پر آرام کررہی تھی کیونکہ کبیر نے اسے ہلنے تک نا دیا تھا جس پر اب وہ بھی اکتا چکی تھی۔ لیکن کبیر سامنے صوفے پر بیٹھے ہی اپنے کام نبٹا رہا تھا اور اس پر نظر بھی رکھ رہا تھا جو ہر تھوڑی دیر بعد باہر جانے کے بہانے ڈھونڈ رہی تھی۔ 

اپو___"؟

اسراء دروازے پر کھڑی تھی کے نرمین اور کبیر متوجہ ہوئے۔ 

ارے اسراء آئیں نا آپ دروازے پر کیوں کھڑی ہیں___"

نرمین فوراً کھڑے ہوتے مسکراتے اسکے پاس گئی جبکے کبیر خاموش بیٹھا تھا کیونکہ اسکی بہن نے اسکی طرف دیکھا ہی نا تھا ۔ اور کبیر کے منہ میں شاید الفاظ ہی نا تھے ۔ 

اپو__وہ میں کچھ بات کرنے آئی تھی آپ سے__"

آئیں تو پھر بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں__" 

نرمین اسکا ہاتھ تھامتی ہوئی بولی تھی ۔

جس پر اسراء اسکے ساتھ آتی بستر پر بیٹھی ۔ وہ محسوس کر چکی تھی کبیر کی موجودگی لیکن کوئی اظہار نہیں کیا۔ 

تمہارے لالا__" 

نرمین نے آہستہ سے اسراء سے کہا اور پیچھے دیکھا جہاں کبیر صوفے پر بیٹھا نم آنکھوں سے اپنی بہن کو ہی دیکھ رہا تھا لیکن منہ میں الفاظ نہیں تھے ۔ 

نرمین اسکی خاموشی سمجھ سکتی تھی ۔

اسراء پیچھے پلٹتی ایک نظر کبیر کو دیکھا وہ چاہتی تھی کے اسکے لالا پہل کریں لیکن اسے خاموش دیکھ وہی بولی تھی۔

اسلام علیکم لالا___"

سلام کرتی وہ واپس نرمین کی طرف منہ کرگئی تھی چہرا بلا کا سپاٹ تھا جیسے کسی فضول گوئی کی گنجائش نا ہو۔ 

وعلیکم اسلام__"

کبیر دھیمی آواز میں جواب دیتا نظریں جھکا گیا تھا۔ 

اپو میں اپکی اور لالا کی اجازت لینے آئی تھی کیا آپ میرے ساتھ میرے کمرے میں تھوڑی دیر کے لیئے چل سکتی ہیں___"

اسنے تیز آواز میں کہا تو نرمین نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی البتہ کبیر کی پیشانی پر بل پڑے تھے۔

کیوں___"؟

آواز نرمین کی بجائے کبیر کی تھی جو اسراء اچھی طرح جانتی تھی ۔ 

آپکی اجازت چاہیئے لالا _ آپ فکر نا کریں میں اپو کے ساتھ ہی ہونگی ۔ آپکی بیوی کو کچھ نہیں ہوگا___"

اسراء نے سپاٹ چہرا لیئے کبیر کی طرف دیکھ جواب دیا تھا جسے دیکھ کبیر کو شرمندگی ہوئی تھی ۔

 وہ جانتا تھا ضرغام کردار کا برا نہیں تھا اور محبت تو کسی سے بھی ہوسکتی تھی لیکن رات کے پہر نرمین کے کمرے میں اسکا آنا اور اپنی محبت میں کبیر کی نفرت میں اڑ جانا ۔ ان باتوں نے کبیر کا دل اسکی طرف سے خراب کردیا تھا لیکن اس سب میں بھی اسنے یہ نہیں سوچا تھا کے ضرغام کی نظر گندی ہوگی یا اسکے کردار میں کوئی جھول ہوگا ۔ 

اور کل رات ضرغام کا اسکے قدموں میں گر کر رونا اسے ثابت کرگیا تھا کے وہ اسراء سے واقعی محبت کرتا ہے ۔ 

میں نے ایسا کچھ نہیں کہا گڑیا ۔ تم لے جا سکتی ہو نرمین کو___" 

کبیر نے ایک نظر نرمین کو دیکھ کر جواب دیا جو خاموشی سے اسراء کو دیکھتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی اسراء نے اثبات میں سر ہلایا  جبکے نرمین اچھی طرح سے دوپٹہ اوڑھتے چہرے پر نقاب کرتے اسراء کے ساتھ نیچے کی طرف گئی تھی۔ 

کبیر کی نگاہوں نے دور تک ان دونوں کا پیچھا کیا تھا۔

_______❤️ حیا خان ❤️________

اسراء نے کمرے میں قدم رکھا تو ضرغام فون رکھتے پلٹا ۔سامنے اسراء کھڑی تھی جبکے اسکے پیچھے چھلکتا آنچل دیکھ وہ سمجھ گیا تھا کے کون ہے نظریں جھکاتے وہ ایک طرف ہوگیا تھا۔ 

جب اسراء اور نرمین اندر آئی ۔ 

اسلام علیکم لالا____"

نرمین نے نظریں جھکاتے سلام کیا تو ضرغام نے بھی وعلیکم اسلام کہتے سر اثبات میں ہلایا ۔ 

کیسی ہیں آپ ___"

ہاتھ پیچھے باندھتے ضرغام دھیرے قدم اٹھاتا ونڈو کے پاس جا کھڑا ہوا تھا ۔ 

الحمدللّٰہ ___"

نرمین ایک نظر اسراء کو دیکھتی جواب دے گئی ۔ دل میں عجیب سی ہلچل تھی۔ 

اسے سمجھ سے باہر تھا کے اسراء اسے ضرغام کے پاس کیوں لائی تھی ۔ 

میں___میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا تھا ___"

ضرغام کے منہ سے الفاظ نکلے تو نرمین کی نظریں اسراء کی طرف اٹھی جو اسے تسلی دیتی اسکا ہاتھ تھام گئی۔ 

جو بھی میں نے کیا اس سب کے لیئے ___"

لیکن میرا رب اس بات کا گواہ ہے کے میں نے اس دن آپکو انجانے میں دیکھا تھا ۔ اور آپکو ایک بار دیکھنے کے باوجود ان چار سالوں میں نظر اٹھا کر دوبارہ اپکی طرف نہیں دیکھا نا کبھی میرے دل نے چاہ کی کے میں دوبارہ آپکی طرف نظر اٹھاؤں ___" 

 ضرغام شرمندگی میں اٹا تھا ۔ کے اسکی ہمت نا تھی کے نرمین کی طرف چہرا بھی کرلے جبکے اسراء کو وہ خود گواہ رکھنا چاہتا تھا ہر بات کا ۔ 

لیکن اس رات حرام منہ لگا کر جو میں نے کیا اسکے لیئے میں شاید کبھی دوبارہ آپکے سامنے سر اٹھا نا سکوں___"

اسکے الفاظ سنتے اور وہ دن یاد کرتے نرمین کی آنکھوں میں تیزی سے آنسو جمع ہوئے تھے جبکے اسراء کے ہاتھ پر گرفت مضبوط ہوگئی تھی ۔ 

جبکے اسراء کی حالت بھی نرمین سے کچھ مختلف نا تھی ۔

اس حرام کو منہ لگانے کے باوجود بھی میں کسی ناپاک نیت یا غلط ارادے سے آپکے کمرے میں نہیں آیا تھا ۔  اس بات کا گواہ بھی میرا رب ہے___" 

لیکن جانے انجانے میں جو گناہ مجھ سے ہوا ۔اس کا اندازہ مجھے تب ہوا جب میں نے اپنی بیوی کو اس ح_حال____" 

ضرغام بولتے بولتے تھم گیا تھا اسکی سانسیں تھم گئی تھی منہ میں دبکی زبان  بھی لڑکھڑا گئی تھی اس رات کو یاد کرکے ۔

جبکے اسراء کا رواں رواں کانپ گیا تھا پھر وہ سب سوچتے جب کے انکھوں میں تیزی سے آنسو جمع ہوتے گال بھگو گئے تھے ۔ 

نرمین نے آنکھیں میچتے اپنے آنسو روکنے کی کوشش کی تھی۔

صرف اتنا کہونگا کے ہوسکے تو مجھے معاف کردے گا___ میری طرف سے ہمیشہ مطمئن رہے گا اور خوش رہے گا____" 

یہ کہتے ضرغام نے اپنی آنکھ میں اٹکا آنسو اپنے انگوٹھے سے صاف کیا تھا ۔ نا نظریں موڑی تھی اور نا خود پلٹا تھا۔ 

کئی لمحے گزر گئے لیکن نا نرمین نے کچھ کہا اور نا ضرغام نے جب اسراء نرمین کی طرف پلٹ کر اسے گلے لگا گئی ۔ 

معاف کردے گا اپو ضر کو__"

اسراء نے روتے دھیمی آواز سے اس سے کہا تو نرمین بھی روتی اس کے گلے سے لگ گئی ۔ 

ہم نے آپکو تبھی معاف کردیا تھا لالا جب ہماری بہن آپکے نکاح میں آئی تھی۔ ہم آپ دونوں کے لیئے دعا کرینگے کے اللّٰہ پاک اپکے رشتے میں آسانیاں پیدا کردیں اور آپ دونوں کو ہمیشہ خوش رکھیں __"

نرمین نے سچے دل سے دعا دی تھی کے ضرغام نے بے ساختہ آمین کہا جو اسراء کے کانوں سے مخفی نا رہ سکا تھا۔ 

آپ لوگ بیٹھیں مجھے کچھ کام ہے اسکے بعد ہم گھر جائینگے ___"

ضرغام ان سے کہتا باہر نکل گیا تھا۔ 

اسراء نرمین کو اپنے روم میں بٹھاتے اسکے پاس بیٹھ گئی تھی۔ 

اسراء آپ ٹھیک ہیں نا ___"؟

نرمین نے اسکے گال پر ہاتھ رکھتے پوچھا تو وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی ۔ پھر اسکی گود میں سر رکھتی لیٹ گئی۔ 

اپو ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے ہمارا دل مرگیا ہو___"

وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی بولی تھی کے نرمین نے اسکے منہ پر ہاتھ رکھا ۔ 

کیسی باتیں کررہی ہیں اسراء میری جان__مشکلات تو سب کی زندگی میں آتی ہیں ۔ اور ہم جانتے ہیں ہماری بہن بہت صبر والی ہیں۔ جتنا آپ نے صبر کیا ہے اللّٰہ اپکی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ خوشیاں بھردیں گا مایوس نہیں ہوتے __" 

نرمین نے پیار سے اسے سمجھانے لگی ۔ 

اپو ہم نے بے حد صبر کیا ہے ۔ لیکن اس رات کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے سب بدل گیا ہو ۔__"

وہ کھوئے کھوئے لہجہ میں بولی تھی۔ 

انسان کو کوئی چیز اتنا نہیں بدلتی جتنا اسکے دل پر گزری ہوئی تکلیفیں اسے بدل دیتی ہیں__ اور تکلیفیں بھی وہ جو اس نے تنہا جھیلی ہوں___"

یہ سب برداشت کرنے کے بعد ہم اندر سے مرگئے ہیں ۔ اس رات کے بعد ہمارے اندر سناٹے پھیل گئے ہیں جس کا مداوا کچھ نہیں ہے___"

وہ کھڑے ہوتے خالی خالی نگاہوں سے نرمین کو دیکھتے ہوئے بولی تھی۔ 

نہیں میری جان وقت حالات محبت سب بدل دیتے ہیں __ اور ہمیں یقین ہے ضرغام لالا آپکو اتنی محبت دینگے نا کے آپ اپنی زندگی کا ہر غم بھول جائینگی____" 

وہ مسکراتی اسکا گال چومتی ہوئی بولی تھی کے اسراء اسپاٹ چہرا لیئے اسے دیکھنے لگی۔ 

اور اگر ہمیں اس محبت کی اب طلب نا رہی ہو تو___؟" 

اسکی بات سنتے دو وجود تھمے تھے۔ 

آپکو پتہ ہے اپو کسی ناقدرے انسان سے محبت کرنا ایسا ہے کے اسے سونے کے پیالے میں آبِ حیات پیش کرو اور وہ اسے ہونٹوں سے لگانے کے بجائے پیر دھولے___ او ضرغام نے بھی ہمارے ساتھ یہی کیا ہے کے اب ہمیں کسی محبت کی طلب ہی نہیں رہی___" 

اسراء کی بات سنتے نرمین خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگی جبکے اس سے زیادہ ضرغام کو یہ سنتے جھٹکا لگا تھا جو اندر اپنا موبائل لینے آیا تھا اور اسکی باتیں سنتے وہیں رک گیا تھا۔ 

کیا اب اسکی بھی محبت کی کوئی قدر نہیں کی جائیگی ۔کیا اب وہ اسکے ساتھ بھی وہی کرے گی جو ضرغام نے کیا تھا ۔ کیا وہ اب اسکی محبت کو بھی ٹھکرادے گی۔؟  یہ سوچتے ضرغام کی آنکھیں ضبط سے  لال ہوئی تھیں ۔  آنکھیں ضبط سے میچتے وہ وہیں سے واپس پلٹ گیا تھا ۔ 

نہیں اسراء آپ غلط کہہ رہی ہیں _ ہم انسان ہیں ہمیں زندگی کی ہر عمر میں ہر موڑ پر محبت چاہیئے ہوتی ہے ۔ ہم جانتے ہیں آپکی روح کو بہت گہرے زخم لگے ہیں لیکن یہ اس محبت سے ہی بھرینگے جو ضرغام لالا آپکو دینگے___" 

وہ اسکا ہاتھ تھامتی اسکی بات کی تصیح کر ے لگی تھی۔

انہیں ایک موقعہ ضرور دے گا اپنی زندگی کو ایک موقعہ ضرور دے گا اور اپنی خوشیوں کو ایک موقعہ ضرور دے گا ۔ ۔ اور آپ نے ایک اچھی بیوی ہونے کے ناطہ بہت اچھا کیا تھا اپنے شوہر کا مان رکھ کر ۔ لیکن اپنی ذاتی زندگی میں بھی اس پر عمل کیجیئے گا ۔ اور یہ ہم انکے لیئے نہیں کہہ رہے۔ آپکے لیئے کہہ رہے ہیں۔___"

بے شک اللّٰہ نے انسان کے ہاتھ میں دیا ہے کے وہ چاہے تو معاف کردے یا چاہے تو نا کریں لیکن اللّٰہ نے یہ بھی کہا ہے کے معاف کرنے میں تمہارے لیئے ہی آسانی ہے۔ 

جب تک ہم معاف نہیں کرتے ہماری روح کو اور ہمارے ذہن کو سکون نہیں ملتا ۔ دماغ کے تانے بانے سارے انہیں باتوں سے جڑ جاتے ہیں اور اسکے زریعہ ہم خود کو تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں ۔  لیکن معاف کر کے ہم اپنی ذات پر ہی احسان کرتے ہیں سکون میں آجاتے ہیں مطمئن ہوجاتے ہیں ۔ 

اسلیئے آپ بھی خود پر رحم کیجیئے گا ۔ ___"

نرمین اسکو سمجھاتے اسکے ماتھے کو چومتی اٹھ کر جا چکی تھی جبکے اسراء کتنی ہی دیر اسکی باتوں کے سحر میں جکڑی رہی ۔ آنکھیں بند کرتے گہری سانس لی تھی جب عشاء کی آذانوں کو آواز اسکے کانوں میں پڑی ۔ اٹھتے وضو کرتے وہ اپنے دل کے حال اللّٰہ کو سنانے جا پہنچی تھی کیونکہ دلوں کے حال اللّٰہ سے بہتر اور کون جانتا ہے____؟"

________❤️ حیا خان ❤️_______

وہ کمرے میں آئی تو کبیر خاموشی سے گیلری میں کھڑا تھا ۔ 

خان___"؟

نرمین نے پکارا تو وہ پلٹ کر اسے دھیمے سے مسکرا کر دیکھنے لگا پھر اچانک اسکا ہاتھ کھینچتے اسکی کمر کو گرل سے لگاتے دونوں ہاتھ اسکے ارد گرد رکھ گیا۔ 

جبکے نرمین اس حرکت پر بوکھلاتی اسکے کندھوں سے اسے تھام گئی تھی۔ جس پر کبیر کی مسکراہٹ مزید گہری ہوئی لیکن پھر مسکراہٹ سمیٹ کر وہ خاموش نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔

ضرغام لالا معافی مانگ رہے تھے ہم سے___" 

نظریں اسکی گردن پر جمائے نرمین وہ بولی تھی جو کبیر سننا چاہتا تھا ۔ 

ہمم__پھر___"

کبیر نے اسکے بال چہرے سے سمیٹتے کان کے پیچھے کیئے ۔

وہ اور اسراء بہت تکلیف میں ہیں__ ہم نے انہیں معاف کردیا تھا__" 

کبیر نے اسکے ماتھے پر لب رکھتے آنکھیں بند کی اور کئی لمحے یونہی ٹہرا رہا جبکے نرمین بھی آنکھیں بند کرتی اسکے لمس کو محسوس کرنے لگی..

کیونکہ تم بہت اچھی ہو___" 

کبیر کی بات پر نرمین آنکھیں کھولتے اسے دیکھنے لگی۔ 

ہم سب اچھے ہوسکتے ہیں خان__ کبھی معافی مانگ کر اور کبھی معاف کر کر___"

اسکی گہری بات پر کبیر گہرا سانس بھر کر رہ گیا ۔ 

کبھی کبھی معافی مانگنا اتنا بھی آسان نہیں ہوتا جتنا لگتا ہے__"

کبیر نے اسکی آنکھوں میں دیکھتے بے بس لہجہ میں بولا ۔ 

نہیں خان معافی مانگنا اور معاف کرنا اتنا مشکل بھی نہیں ہوتا ۔ ظرف کی بات ہوتی ہے ۔ ہم اپنی اناؤں کو بیچ میں لے آتے ہیں۔ اگر رشتوں کے معاملے میں اسے دور کر کے میانہ روی اختیار کرلے انسان تو اس سے زیادہ آسان اور کچھ بھی نہیں___" 

اسکی بات سنتے کبیر آسمان کی گہرایوں میں نظروں کو گم کرگیا۔ 

اپکو سب سے آسان حل بات بتاؤں جس سے آپکی ہمت دوگنی ہوجائیگی__؟"

نرمین کی آنکھوں میں چمک دیکھ کبیر نے اثبات میں سر ہلایا ۔ 

ہمارے نبی محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کے اگر معافی مانگنے سے تمہاری عزت میں کوئی کمی آجائے تو قیامت کے دن مجھ سے لے لے نا___" 

نرمین نے اسکی آنکھوں میں دیکھ ٹہر ٹہر کر بولا تو کبیر کے جسم کا ہر حصہ کانپ اٹھا تھا۔۔ 

گہری سانس بھرتے وہ اپنی سفید شرٹ کے اوپری بٹن کھول گیا تھا جیسے ارد گرد فضا میں اکسیجن کی کمی ہوگئی ہو۔ 

اتنی بڑی ذات کا اتنی بڑی بات کہہ دینا کبیر کو واقعی ہمت دے گیا تھا کے وہ دل بڑا کرتے مسکراتا نرمین کو سینے سے لگاتا اس کے سر پر ہونٹ رکھ گیا۔

تم ایک مکمل لڑکی ہو ۔ وہ لڑکی جس کی خواہش سب کو ہوتی ہے ۔ سب سے ہنس کر بات کرنے والی سب کا خیال رکھنے والی تمہیں زندگی کا ہر سلیقہ معلوم ہے ۔ تم میرے لیئے میری زندگی میں کسی نیکی کا صلہ ہو___"

کبیر مسکراتا خود کو اس وقت اس دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان تصور کررہا تھا ۔

تمہاری معصومیت تمہاری آنکھیں تمہارے بال تمہاری مسکان  اور تمہارا یہ خوبصورت دل تم میرے لیئے ایک انعام ہو ۔ اور میں خوش قسمت کے تم میری شریکِ حیات ہو___"

کبیر جزبات کی رو میں بہکتا اسے سختی سے اپنے حصار میں جکڑ گیا تھا کے نرمین کھلکھلا کر ہنسنے لگی ۔ 

بہت شکریہ خان لیکن ہم مر جائینگے ___ چھوڑیں ہمیں___"

نرمین مسلسل کھلکھلاتی چیخی تھی جب کبیر بھی ہنستا ہوا اپنا حصار کمزور کر گیا تھا۔ 

ایسے ہی مرجاؤ گی ابھی تو ہمیں اپنے بچے اس دنیا میں لانے ہیں پھر انکی شادی کرنی ہے اور پھر انکی شادی کر کے انکے بچے دیکھنے ہیں___"

کبیر بولا تو نرمین لال چہرا جھکاتی اسکے حصار میں کسمسانے لگی ۔ 

چھوڑیں خان ہمیں ورنہ ہم پھر بے ہوش ہوجائینگے اپکی اتنی سخت گرفت میں___" 

نرمین جھینپتی ہوئی بولی تو کبیر اسے گھورنے لگا۔ 

خبردار اب تم بے ہوش ہوئی تو ورنہ میرے پاس اور بھی بہت طریقہ ہیں تمہیں ہوش میں لانے کے__ "

کبیر کی گھوری پر اور اسکے الفاظ سنتے وہ ٹہر کر اسکی آنکھوں میں دیکھنے لگی ۔ 

ہمارے خان بہت اچھے ہیں اور ہم جانتے ہیں وہ سب ٹھیک کردینگے __" 

کبیر کی گردن کے گرد گھیرا بناتے وہ اپنی بات مکمل کرتی پیروں کی انگلیاں موڑتی اسکی گردن میں چہرا چھپا گئی تھی۔  

کے اسکی ان معصومانہ حرکتوں پر کبیر کتنی بار دل نا ہارتا ۔ 

ہائے جانم ایسے ہی اپنے خان کی تعریفوں کے پل باندھتی رہو تمہارا خان ایسے انعامات کے لیئے تو موت کے کنویں میں ریس لگانے کو بھی تیار ہوجائے گا پھر___"

کبیر قہقہہ لگاتا اسے بانہوں میں اٹھاگیا تھا جبکے وہ بھی اس میں سمٹتی مسکراتی اسکی گردن میں چہرا چھپا گئی تھی _

________❤️ حیا خان ❤️________

اسراء اپنی مورے کے گلے لگی تو اسکی آنکھوں میں اٹکے آنسو گال بھگونے لگے ۔  

اسراء بیٹا اپنا خیال رکھے گا وہاں ۔ اسمارہ آپکو بہت شدت سے یاد کررہی ہیں اور ہمیں یقین ہے وہ ہماری بیٹی کا پورا خیال رکھینگی ___"

شہانہ بیگم نے مسکرا کر پہلے اسراء اور پھر ضرغام کو دیکھ جملا مکمل کیا تو ضرغام بھی دھیما سا مسکراتے اثبات میں سر ہلاگیا۔ 

ماموں جان میں جانتا ہوں بہت سی غلطیاں ہوگئی ہیں مجھ سے لیکن اسکے باوجود مجھے موقعہ دینے کا شکریہ ۔ میں اس بار آپ لوگوں کو مایوس نہیں کرونگا۔ ___"

وہ برہان صاحب کے گلے لگا تو وہ سنجیدہ تاثرات لیئے اثبات میں سر ہلاگئے ۔ 

باپ تھے اپنی بیٹی کی حالت اس طرح کیسے بھلا دیتے جو اس نے برداشت کی تھی۔  

ہمارا بھروسہ ٹوٹنے مت دے گا ۔ اور نا ہماری بیٹی کا مان ٹوٹنے دے گا جو اس نے آپ پر دکھایا ہے۔__"

وہ اسکا کندھا تھپتپاگئے تھے۔ جس پر وہ اثبات میں سر ہلاگیا ۔ 

فردان نے اپنی بہن کے سر پر ہاتھ رکھتے اسے سینے سے لگایا تھا ۔ 

یہ مت سمجھنا گڑیا کے تم لاوارث ہو ۔ کسی بھی پریشانی میں سب سے پہلے ہمیں یاد کرنا ۔ تمہارے لیئے یہاں سب ہیں بابا چاچا لالا میں ہم سب ہیں ۔ بس ایک پکار دیا کرو اور ہم تمہارے پاس ہونگے___"

فردان اسے سمجھا رہا تھا جو مسکراتی سر اثبات میں ہلاگئی تھی ۔ 

اور تم میری بہن جب چاہیگی یہاں آئیگی اور اگر اب تم اسے لے کر کہیں گم ہوئے تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ___"

فردان کی دھمکی پر ضرغام اسے زبردستی گلے سے لگا گیا۔ 

تو فکر نہیں کر تیری بہن جب چاہے گی وہاں رہے گی جب چاہے گی یہاں رہے گی ___ "

اسکی بات پر فردان نے بھی اسکے گرد بازو حائل کیئے۔ 

خیال رکھنا میری بہن کا اسے ایک کانٹا بھی چبھا نا اس بار تو میں اسے ہمیشہ کے لیئے یہاں لے آؤنگا سمجھا تو___" 

وہ الگ ہوئے تو فردان کی بات پر ضرغام نے اسے گھورا جس پر وہ اسے ڈبل گھوری سے دیکھنے لگا۔ 

راحمہ نرمین اور باقی سب سے ملتی اسراء بار بار پلٹ کر اسکا انتظار کررہی تھی جو اب تک نہیں آیا تھا شاید وہ اس سے ملنے بھی نا آتا وہ دل پر پتھر رکھ کر پلٹ گئی تھی جبکے ضرغام بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کے کبیر اسراء سے ملنے نیچے نہیں آئیگا ۔ جبکے نرمین بھی اسکا انتظار کررہی تھی ۔ 

وہ لوگ دروازے تک پہنچے تو پیچھے سے کبیر کی آواز سنی۔

کیا مجھ سے ملے بغیر چلی جائیگی میری گڑیا___"

اسکی بات پر اسراء کے قدم تھمے ۔ وہ پلٹی تو کبیر اسی کی طرف آرہا تھا۔ 

لالا___" 

وہ اسکے سینے سے لگتے رونے لگی کے کبیر بھی اسے حصار میں لیتا خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا۔ 

آپ نے اتنی دیر کردی مجھے لگا آپ مجھ سے ملنے بھی نہیں آئینگے __" 

وہ روتے روتے اس سے شکایت کرنے لگی تو وہ مسکرایا ۔ 

اپنی گڑیا سے ملنے نا آؤں ایسا کیسے ہو سکتا ہے___" 

کئی لمحے وہ اسکے سینے سے لگی رہی جب کبیر نے نظر اٹھا کر ضرغام کو دیکھا جو اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ 

نرمی سے اس سے الگ ہوتے وہ ضرغام کی طرف قدم بڑھاگیا ۔ جو خاموش سنجیدہ نظروں سے اسی کو دیکھ رہا تھا ۔ 

کبیر بھی سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا جب کے باقی سب بھی حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہے تھے کے کبیر اب کیا کرنے والا ہے ۔ جب اگلے لمحے سب کے چہرو کی ہوائیاں اڑی تھی ۔ 

جب کبیر نے اسے گلے سے لگایا تھا کے ضرغام بھی ساکت سا رہ گیا تھا اسکی حرکت پر ۔ 

ہوسکے تو مجھے ان تمام غلطیوں کے لیئے معاف کردینا جو میں نے آج تک کی ہیں۔__"

کان کے قریب کبیر کے کہے گئے جملے پر ضرغام ابھی بھی ساکت تھا ۔ کیا کبیر خانزادہ اس سے معافی مانگ رہا تھا ۔ 

میرے لیئے تم ہمیشہ سے میرے بھائی کی طرح تھے لیکن ان تمام حرکات کی وجہ سے جو مجھ سے جانے انجانے میں ہوئی اور اس کے بدلے تمہارے دل میں میرے لیئے نفرت پیدا ہوئی اسکے لیئے میں تم سے تہہ دل سے معافی مانگتا ہوں__"

کبیر کی بات پر سب دم سادھے اسے دیکھ رہے تھے جب کے اسراء کے چہرے پر خوبصورت سی مسکان تھی۔ 

ضرغام بھی ہوش میں آتے سنجیدہ تاثرات لیئے اسکے گرد بازو حائل کر گیا تھا۔ شاید وہ ابھی تک شاکڈ میں تھا۔ 

جب اس سے بغلگیر ہوتے کبیر اس سے دور ہوا تو ضرغام بھی نرمی سے مسکراتا سر اثبات میں ہلاگیا ۔

لیکن کل رات کی حرکت پر میں تم سے معافی نہیں مانگونگا بلکے اگر اسراء نا آتی تو شاید میں تیری یہ ناک کی ہڈی بھی توڑ چکا ہوتا __"

کبیر نے تنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ ضرغام کو دیکھا تو وہ بھی اسے گھورنے لگا ۔ 

تو نہیں سدھر سکتا سالے___بتاؤں تیری بہن کو___"

ضرغام بھی طنزیہ مسکراتا بولا تھا جیسے وہ اچھے سے جانتا ہو اسراء خانزادہ ضرغام کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ 

سالے تو مجھے دھمکی دے رہا ہے___"

کبیر کی مسکراہٹ لمحے میں سمٹی تھی جبکے وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔

سالا میں نہیں تو ہے میرا ۔ یاد رکھ بیٹا ___"

ضرغام بظاہر مسکرا کر دھیمی آواز بولا تھا لیکن کون جانتا تھا دھیمی سرگوشیوں میں وہ ایک دوسرے کا دل جلا رہے تھے پھر سے۔ 

بہن ہے وہ میری____"

کبیر نے ایک ائیبرو اچکاتے ہوئے بولا تھا ۔ 

جو بیوی ہے اب میری___"

ضرغام پھر سے طنزیہ مسکرایا تھا جسے دیکھ کبیر نے دانت پیسے ۔ 

ان دونوں کی کھسر پھسر سنتے دا جان نے انکے کندھوں پر ہاتھ رکھا تھا جو چونک کر نرم مسکراہٹ کے ساتھ انہیں دیکھنے لگے۔ 

ہمیں امید ہے اب آپ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیئے کوئی رنجش نہیں ہوگی___" 

دا جان کی بات پر دونوں نے ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر دا جان کو دیکھ اثبات میں سر ہلاگئے ۔ 

داجان مسکراتے ضرغام کو گلے سے لگا گئے۔ 

خیال رکھے گا بیٹا اپنا بھی اور اسراء بیٹی کا بھی___" 

جی دا جان آپ بے فکر رہیں___" 

ضرغام ںے جملا مکمل کرتے اسراء کو دیکھا تھا جو سنجیدہ تاثرات لیئے اسی کو دیکھ رہی تھی ۔ 

یہ تو وقت نے ہی بتانا تھا کے ضرغام کی آگے مزید کونسی آزمائش باقی ہے۔ 

پورے راستے گاڑی میں سناٹا تھا۔ اسراء عبایا پہنے کھڑکی سے باہر نظر آتے نظاروں کو دیکھتی گہری سوچ میں گم تھی جبکے ضرغام ہر تھوڑی دیر میں اسکے چہرے پر نگاہ ڈال لیتا ۔ وہ اس سے بات تو کیا اس کی طرف دیکھ بھی نہیں رہی تھیں اور یہ بات ضرغام خانزادہ سے برداشت نہیں ہورہی تھی ۔ سب کچھ ہوجاتا لیکن اسراء اسکے ساتھ یہ بے اعتنائی نا کرے یہ حرکت اس سے برداشت نہیں ہورہی تھی ۔ 

گھر کے دروازے پر گاڑی آکر رکی تو اسراء باہر نکلتی جا چکی تھی ایک نظر پلٹ کر اسے دیکھنا گوراہ نہیں کیا تھا ۔ ضرغام کڑوا گھونٹ پیتا خود بھی باہر آیا تھا   ۔ 

میری جان میری بچی کیسی ہیں آپ میں نے آپکا بہت انتظار کیا آپکو بہت یاد کیا___" 

اسمارہ بیگم اسے دیکھتے ہی گلے سے لگا گئی تھی اسراء بھی انکے سینے سے لگتی سکون محسوس کرنے لگی ۔ جب اسماعیل صاحب نے بھی اسکے سر پر ہاتھ رکھ کر اس سے اسکی خیریت دریافت کی ۔ 

اسمارہ بیگم اسکا ہاتھ تھامتی اسے کمرے میں لے گئی تھی جب ضرغام پیچھے کھڑا یہ سب دیکھ رہا تھا ۔ اسکی مورے نے بھی اسے دیکھنا گوارہ نہیں کیا تھا ۔ وہ کتنی ہی دیر انکا چہرا دیکھے گیا۔ 

جبکے اسماعیل صاحب بھی اسے دیکھتے باہر جا چکے تھے ۔ 

ضرغام نظریں نیچی کیئے کئی لمحے وہاں کھڑا رہا ۔ پھر وہ اپنے میں کمرے کی طرف قدم بڑھا گیا۔ 

________❤️ حیا خان ❤️_______

بیٹھیں__"

اسمارہ بیگم اسراء کو اپنے قریب بیٹھاتے وہ اسکے معصوم چہرے کو چوم گئی تھی ۔ جس پر اسراء مسکراتی انہیں پیار سے دیکھے گئی ۔

ہمیں معاف کردیں بیٹا ہمارا اپنا سکّہ کھوٹا نکلا ۔ ہم نے سوچا تک نا تھا ضرغام ہماری تربیت کا ہمیں یہ صلہ دینگے ہم انہیں کبھی معاف نہیں کرینگے ___"

اسمارہ بیگم شرمندگی سے سر جھکائے بولی تھی کے اسراء پیشانی پر بل ڈالے انکے کندھے تھامتی انکی تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھتی انکا چہرا اونچا کرگئی۔

نہیں پھوپھو جانی کیسی باتیں کررہی ہیں آپ ۔ آپکی تربیت میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ جو ہوا وہ ہماری قسمت تھی ۔ وہ ایسے نہیں ہیں جیسے وہ ظاہر کرتے ہیں ۔ آپ شرمندہ نا ہوں پلیز ۔ اور انہیں معاف کردیں___"

نہیں بیٹا اس نے جو آپکے ساتھ کیا وہ ہماری تربیت پر طمانچہ تھا ۔ کیسے ہم اپنے بیٹے کو اسکی عزت کی اسکی بیوی کی قدر کرنا سکھا نا سکے___"

اسمارہ بیگم کی شرمندگی بھلائے نہیں بھول رہی تھی ۔ 

پھوپھو جانی وہ ہمیشہ سے ایک اچھے انسان تھے ایک اچھے بیٹے تھے یہ آپکی ہی تربیت کا نتیجہ ہے کے وہ ہمارے ساتھ جیسے بھی تھے یا انہوں ںے ہمارے ساتھ جو بھی کیا اسکے جوابدہ وہ ہمیں ہیں۔  انکی جزا اور سزا کا حق ہمیں حاصل ہے ۔ اپ پلیز انہیں کسی دوسرے امتحان میں مت ڈالیں ۔ انکی زندگی لوگوں کی دھتکار اور نظر اندازی میں ہی گزری ہے ۔ اور آپ تو ان کی ماں ہیں اس وقت انہیں آپ کے پیار کی آپ کے اعتبار کی اور اپکے ساتھ کی بہت ضرورت ہے پلیز انکے ساتھ بےگانوں سا رویہ مت رکھے گا__ پلیز پھپھو جانی___"

اسمارہ بیگم کی آنکھوں میں انسو آگئے تھے اسکی بات سنتے وہ ماں تھی کیسے اسکا درد نا سمجھتی اسے خود سے دور کرنا اسے نظر انداز کرنا ان کے لیئے کتنا مشکل تھا ان سے بہتر اور کون جانتا تھا ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عورت بھی تھی اور وہ ایک عورت کی عزت پر حرف کبھی بھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ 

وہ کسے بتاتی یہ بات کے آج اپنے بیٹے کو اتنے زخموں کے ساتھ  دیکھ انکے دل کو اندر سے کسی نے بری طرح کچل دیا تھا لیکن انہوں نے ایک ترس کی نظر بھی اس پر نا ڈالی تھی جو اپنی ماں کو رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا تھا دروازے پر کھڑا۔ 

پلیز پھپھو جانی انہیں معاف کردیں___" 

اسراء کی بات پر وہ سوچوں کے بھنور سے نکلتی اسے دیکھنے لگی۔ 

اللّٰہ نے ہمیں بہو کی صورت میں بیٹی سے نوازا ہے ۔ آپ جیسی بہو بیوی بیٹی اور بہن اللّٰہ سب کو دیں میری جان۔ ہمارا بیٹا بد قسمت ہے جو اس ہیرے کی قدر نا کرسکا۔___"

وہ اسراء کا ماتھا چومتی پیار بھری نظروں سے دیکھتی بولی تھی ۔ جس پر وہ پھیکا سا مسکراگئی تھی ۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️________

راحمہ رات کمرے میں آئی تو اسکی طبیعت کچھ عجیب سی تھی ۔ جو اسکی سمجھ سے پرے تھی ہر تھوڑی دیر بعد اسے کھڑے ہوتے چکر سے محسوس ہو رہے تھے جسے اگنور کرتی وہ ادھر سے اُدھر کام میں مگن تھی۔ لیکن اب کمرے میں آتے اسے متلی محسوس ہونے لگی تھی۔ 

بستر تک آتے آتے اسے متلی ہوئی تو وہ فوری دوپٹہ بیڈ پر رکھتی واشروم کی طرف بھاگی تھی ۔ 

فردان جس نے ابھی کمرے میں قدم ہی رکھا تھا راحمہ کو یوں باتھروم میں بھاگتے دیکھ وہ پریشانی سے اسکے پیچھے گیا۔ 

کیا ہوا راحمہ آپکی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ___؟"

لیکن وہ جواب دینے کے بجائے مسلسل قہ کررہی تھی ۔ فردان تو بوکھلا گیا تھا اسکی یہ حالت دیکھ ۔ جبکے اسراء قہ کر کر نڈھال ہوچکی تھی ۔ 

فردان اسے تھامتا باہر لے کر آیا تو وہ بستر پر آکر بیٹھی نم آنکھیں کمزوری سے بند تھی وہ فردان کے سینے سے لگتی اچانک رونے لگی۔  

میری جان ہوا کیا ہے __ ہم ڈاکٹر کے چلیں آپکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی ہمیں ___"

فردان اسے کھڑا کرنے لگا لیکن وہ نفی میں سر ہلاتی اسکے سینے سے لگی روتی رہی ۔ فردان پریشانی سے اسکی پشت سہلانے لگا۔ 

جب وہ خاموش ہوئی تو فردان اسے پیچھے کرتا اسے دیکھنے لگا البتہ حصار ابھی بھی قائم تھا ۔ 

کیا ہوا میری جان آپکی طبیعت کو ؟؟___"

 ایک ہاتھ اسکی کمر میں ڈالے دوسرے ہاتھ سے پریشانی سے اسکے بال چہرے سے ہٹاتا انہیں ہاتھ سے سنوارنے لگا۔ 

پتہ__پتہ نہیں ہم نے شاید کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہے ڈنر میں تبھی ہمیں الٹیاں ہورہی ہیں___"

وہ ہچکیوں سے پھر اسے بتانے لگی۔ 

تو میری جان اس میں اتنا زیادہ رونے کی کیا بات ہے ہم ابھی آپکو ڈاکٹر کے لے کر چلتے ہیں ۔ ___"

راحمہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ 

نہیں ہمیں نہیں جانا__ہمیں یونہی آپکے سینے پر سر رکھ کر سونا ہے ہم ٹھیک ہیں اب ___" 

راحمہ منمناتی نیندوں میں بولی تھی ۔ کے فردان اسکی ایسی حرکتیں ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا ابھی وہ الٹیاں کر رہی تھی پھر بلاوجہ رو رہی تھی اور اب وہ نیندوں میں چلی گئی تھی ۔ وہ اسے ٹھیک سے بستر پر لٹاتا خود بھی بغیر چینج کیئے اسے اپنے سینے سے لگاتا روشنی بجھاتے نیند کی وادیوں میں اتر گیا تھا ۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

کافی رات ہوگئی تھی ضرغام یہاں سے وہاں کمرے میں چکر لگا رہا تھا اپنے کمرے میں آتے ہی سب سے پہلے وہ اپنے اصل میں آیا تھا ۔ ڈارک بلو کلر کا ٹراؤزر پہنے وہ شرٹ لیس تھا۔ 

وہ بار بار گھڑی کی طرف دیکھ رہا تھا جو رات کے بارہ بجا رہی تھی اس وقت تک تو سب سو چکے ہوتے ہیں پھر وہ اکیلی ایسا کیا کررہی ہے نیچے۔ وہ ماتھے پر بل ڈالے انہیں سب سوچوں میں مگن تھا جب دروازہ کھلا ۔

اسراء اسپاٹ چہرہ لیئے اندر آئی تو ضرغام ٹہرتے اسے دیکھنے لگا جو کبرڈ سے   اپنے کپڑے نکالتی واشروم میں بند ہوگئی تھی ۔ ضرغام کے منہ میں الفاظ نہیں تھے سمجھ نہیں آرہا تھا اس سے کیا کہے اسکے سامنے آتے ہی سارے الفاظ زبان سے غائب ہوگئے تھے جیسے۔ 

لیکن وہ اب صبر نہیں کرسکتا تھا ۔ اسراء کے آنے کا انتظار کرتے وہ وہی ٹہلتا رہا ۔ 

جب وہ واشروم سے باہر نکلتی سادہ سے سوٹ میں بالوں کی ڈھیلی چوٹی میں بنا رکھا تھا بستر کی طرف جانے لگی تو ضرغام نے اسکا  ہاتھ تھامتے اسے روکا ۔

وہ ٹہری مگر پلٹی نہیں ضرغام کو اب چڑ ہونے لگی تھی اسکے نا بولنے سے اندرہی اندر لاوا پک رہا تھا جو اسکے نا بولنے سے کبھی بھی پھٹ سکتا تھا۔ لیکن وہ صبر کر رہا تھا جتنا ہو سکے اتنا صبر۔ 

تم مجھے یوں اگنور کیوں کررہی ہو___؟"

اسکے سوال پر بھی اسراء نا پلٹی اور اپنا ہاتھ بھی بے جان سے اسکے ہاتھ میں رہنے دیا جیسے وہ چھوڑے تو وہ جائے سونے۔ 

اچانک اسکا ہاتھ کھینچتے ضرغام نے اسکا چہرا اپنی طرف کیا تھا۔ جو سرد اور سنجیدہ تھا نظریں نیچی کیئے اسکے سینے پر دھری تھی ۔ 

کچھ تو بولو __ کچھ کہہ لو __کوئی تو شکایت کرلو __ غصہ کرلو __ چیخو چلاّ لو مجھ پر لیکن یوں خاموش مت رہو یوں مجھ سے نظریں مت چراؤ ___" 

اسے اپنے بے تحاشہ قریب کرتے وہ بے بس لہجہ میں بولا تھا کے اسراء کے تاثرات میں کوئی ردّوبدل نا ہوا۔ 

ضرغام نے نم انکھوں کے ساتھ دانتوں کو بھینچتے اسے کمر سے تھامتے پیچھے دیوار سے جا لگایا تھا کے وہ ضبط سے آنکھیں بند کرتی اسکا چھونا برداشت کرگئی۔ 

ایک ہاتھ کمر میں ڈالے دوسرا ہاتھ اسکے گال سے لگاتے دو انچ کے فاصلے سے اسے  جی بھر کر دیکھنے لگا۔ دیکھتا رہا یہاں تک ضرغام کی آنکھیں نم سی ہوگئی۔ 

اسراء نے نظر اٹھا کر اسے نا دیکھا اور نا وہ دیکھنا چاہتی تھی ۔ لیکن اپنی سانسوں کا کیا کرتی جو اسکے قریب آنے پر ہی پھولنے لگی تھی۔ 

ضرغام نے ہاتھ گال سے ہٹا کر انگوٹھے سے اسکی گھنی پلکوں کو چھوا لیکن اسنے کوئی حرکت نا کری ۔ اسراء کا دل مچل رہا تھا لیکن ہاتھوں کو جھٹکنے کی کوشش نا کی ۔ بس نظریں جھکائے کھڑی رہی۔

آئے ایم سوری۔۔۔۔۔۔۔۔"

اسکی پیشانی سے پیشانی ٹکائے وہ دھیمی آواز میں بولا تو اسراء کی چلتی سانسیں تھمی۔ دل شدّت سے تھم کر دوڑا تھا لیکن اس نے پھر بھی نظریں نا اٹھائی۔ 

معاف کردو مجھے ___"

دھیمی آواز مزید سرگوشیوں میں گھلی تھی لہجہ مزید گہرا ہونے لگا تھا ۔ اسراء نے کچھ نا کہا اسکے گلے میں پہنے باریک چین پر نظر ٹکائی وہ یونہی بے تاثر لہجہ میں خاموش رہی۔ 

معاف کردو تمہارے ہر آنسو کے لیئے ۔ ہر درد کے لیئے ۔ ہر بے سکونی کے لیئے ہر تکلیف کے لیئے___"

ضرغام نے نم لہجہ میں کہتے اسکی پیشانی پر لبوں کو ہلکا سا مس کیا تو اسکے جسم میں سرد لہر دوڑی تھی۔ 

اسراء کا حلق خشک ہونے لگا لیکن وہ کچھ نا بولی ۔ 

میں جانتا ہوں میری معافی تمہارے زخموں کو بھر نہیں سکتی ۔ میرا پچھتاوا تمہارا ٹوٹا یقین نہیں جوڑ سکتا ۔ 

لیکن پھر بھی آئے ایم سوری___مجھے معاف کردو پلیز____"

وہ جذب سے ایک ایک لفظ بولتا اسکی پلکیں اٹھنے کی راہ دیکھتا رہا . اسراء کا دل ان لفظوں سے بھرنے لگا گلے میں سانس پھسنے لگی۔ پر اس نے حرکت نا کی۔ 

ڈیم اٹ کچھ تو کہو____"

ضرغام دبی دبی آواز میں چیختا دیوار پر زور سے اپنا زخمی ہاتھ مار گیا تھا کے اس کے زخم سے خون پھر رسنے لگا تھا ۔ سفید پٹی سرخ ہونے لگی جسے نظرانداز کرتے ضرغام اسکی کپکپاتی پلکیں دیکھنے لگا جو اسکے ڈر سے اب بند ہو چکی تھی ۔ لیکن ابھی بھی اسنے منہ سے الفاظ ادا نہیں کیا تھا ۔ 

ایک بار نظر اٹھا کر دیکھ لو کے میں تمہیں گلے سے لگا کر بتاؤں کے تم سے دور رہنا کتنا تکلیف دہ ہے __"

ضرغام کا نم لہجہ اسراء کے دل کو مٹھی میں دبوچ رہا تھا ۔ وہ اسے خود سے دور دھکیلنا چاہتی تھی لیکن اسنے کوئی حرکت نا کری۔ 

ضرغام نے پیشانی اس سے دور کی ۔ لیکن محصور سے آزاد نا کیا۔ غور سے اسکے خوبصورت چہرے کے ایک ایک نقوش کو دیکھنے لگا جو بے حد سونے سونے لگ رہے تھے وہ آنکھیں جو ہمیشہ اسکی محبت میں چمکتی رہتی تھی اب ویران تھی ۔ وہ رنگت جو اسکے قریب ہمیشہ سرخ رہتی تھی اب وہ زرد تھی۔ وہ جسم جو اسکے چھونے سے لرزتا تھا آج ساکت تھا ۔ ضرغام خانزادہ کیسے برداشت کرتا یہ سب ۔ 

ہاتھ کمر کو چھوڑتے اسکے چہرے کے ارد گرد حصار بنا گئے  ضرغام نے اسکا چہرا اوپر اٹھایا تو وہ اسکی گردن پر نظریں ٹکاگئی ۔ 

پلیز کچھ کہو___

مجھ سے بات کرو مجھ پر غصّہ کرو مجھے سزا دو لیکن ایسے چپ نا رہو __"

اسکے گالوں کو نرمی سے سہلاتے سہلاتے ضرغام نے اسکے تل پر ان چھوا سا بوسا دیا تو اسراء نے آنکھیں بند کر کے کھولی اور گہری سانس بھری۔ 

مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا _____

 دل نہیں مان رہا ____

دم گھٹ جائے گا میرا اب_____"

وہ کان کے قریب جھکتے نم سرگوشی نما آواز میں کہہ رہا تھا ہاتھوں کی جسارت الگ ہی اسراء کی حالات ناساز کررہی تھی کے اسراء کی بس ہوئی تھی ۔

م_مت کریں پلیز ___"

گھٹی ہوئی آواز میں اس کے منہ سے پھسلا تھا لیکن ضرغام پیچھے نا ہوا پہلا وہ اسکی آواز سن نے کو ترس رہا تھا لیکن اب اسے ہوش ہی نا رہا تھا کے وہ بولی ہے__ اسکے کان کے قریب سرسراتے ہوئے وہ اسکے گالوں پر لب مس کرتے اپنے ایک ہاتھ سے اسکے بازو کو سہلاتا خمار میں چور تھا ۔ اسراء کا سانس لینا محال ہوا تھا اب ۔ وہ شروع سے اسی طرح اسکی جان نکالا کرتا تھا اور یہاں اسراء کا سانس بند ہوجایا کرتا تھا۔ 

پ_پیچھے ہوں___"

بے نام سی سرگوشی کرتا اسرا نے اسکے سینے پر ہاتھ رکھتے ایک جھٹکا دیا جس سے وہ ہوش میں آیا ۔ 

اسراء نے اس سے نظریں نا ملانے کا عہد کیا تھا اور اب بے ترتیب سانسوں کے ساتھ وہ اسکی بھوری بولتی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جو اسکے خمار کے سنگ لال ہورہی تھی۔ خود کو بامشکل سمبھالتے نم آنکھوں میں غصّہ بھرتے وہ اسے دیکھنے لگی جو ایک قدم اسکی طرف بڑھاتا پھر اسکے قریب آرہا تھا۔ 

و_وہیں رک جائیں__ مجھے چھونے کی یا منانے کی کوشش مت کریں__ "

اجنبی آنکھیں۔ لہجہ روکھا تھا آواز سرد کے ضرغام اسے بنا پلکیں جھپکائے دیکھے گیا۔  نظروں کا زاویہ بدلتے اسراء نے گہری سانس گلے سے نیچے اتاری۔ 

جانتے ہیں ہم آپکی ضرورت کا سامان ہیں لیکن اب بس کریں ۔ ہم مزید آپکا چھونا برداشت نہیں کرسکتے ۔ کتنا تڑپائینگے ضرغام خانزادہ___؟ دیکھیں __دیکھیں ہمیں ہم مر چکے ہیں اندر سے اب کچھ نہیں بچا ہم میں ۔ اس ہستی کھیلتی لڑکی کو برباد کردیا آپ نے ۔ اور آپکو لگتا ہے ہم آپکو معاف کردینگے __؟"

وہ دبی دبی آواز میں چیخی تھی ۔ کے سانس اب مزید پھولنے لگا تھا۔ جبکے ضرغام سٹل کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ 

آپکو زبانی معافی چاہیئے تو ٹھیک ہے ہم نے آپکو معاف کیا ___ہاں ضرغام خانزادہ ہم نے آپکو معاف کیا لیکن وہ رات ___ وہ رات ہم نہیں بھلا سکتی ۔ ہم وہ رات نہیں بھلا سکتے جب آپ ہمیں کسی بے کار شے کی طرح بیچ راستے پر پھینک آئے تھے۔۔

 ہم نہیں بھول سکتے کے ان آدمیوں نے ہمیں بے کار شے سمجھ کر ہماری عزت کے ساتھ کھیلا تھا ___ 

 ہم نہیں بھول سکتے جب انہوں نے یہ الفاظ کہے تھے کے تو اپنے شوہر کے لیئے بے کار چیز ہے جو تجھے کچرا سمجھ کر سنسان سڑک پر ہمارے لیئے چھوڑ گیا۔___"

 وہ ہذیانی ہوتی چیختی نیچے زمین پر بیٹھ گئی تھی لیکن ضرغام دیوار پر نظریں جمائے وہیں کھڑا رہا ۔ زندگی میں پہلی بار ضرغام خانزادہ کو لگا تھا اس سے اسکا غرور چھین لیا گیا ہو ۔ اسکی عزت کو بھرے بازار میں جاکر برہنہ کردیا گیا ہو ۔ 

وہ ساکت و جامد کھڑا تھا جب دھیرے دھیرے نظریں سرکتی اسراء پر جا ٹہری ۔

جو منہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے آنسوؤں سے رو رہی تھی وہ اپنی اور اسراء کی زندگی سے اس رات کو کیسے مٹاتا وہ اس بات کا ازالہ کیسے کرتا۔ 

ضرغام کی آنکھ سے ایک آنسو ٹوٹ کر داڑھی میں جذب ہوا تھا ۔

ہم اس رات مر کیوں نہیں گئے ہم کیوں زندہ بچ گئے___"

وہ چیخی تھی کے ضرغام خانزادہ اسکے لفظوں کو سنتا ہوش میں آیا تھا۔ 

اور ایک جھٹکے سے اسے بازو سے پکڑتے زمین سے اٹھایا تھا ۔ 

یہ کیا بول رہی ہو تم _ ہاں؟ کیسے کہہ سکتی ہو ایسا ___؟ تم میرے لیئے زندہ ہو کیونکہ میں زندہ ہوں سمجھی___"

وہ دھاڑا تھا کے اسراء سانس روکے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے لگی۔ 

میرے لیئے زندہ ہو تم ___ میں کیسے رہتا تمہارے بغیر __ تمہیں نظر نہیں آتا میں تڑپتا ہوں تمہارے بغیر مجھے سانس نہیں آتا تمہارے بغیر میں مر جاؤنگا تمہارے بغیر یار____"

اسکی آنکھوں میں دیکھتے ضرغام اپنی آواز پر قابو پاتے بے بسی سے کہتے اسے سینے میں بھینچ گیا تھا ۔ جبکے اسراء ساکت سی کھڑی اسکا اظہار سن رہی تھی۔

ضرغام خانزادہ تم سے عشق کرتا ہے___ "

اسکے یہ الفاظ سن اسراء کی سانس جو سینے میں اٹکی تھی وہ بحال ہوئی تھی جبکے آنکھیں جھپکتے وہ آنے والی نمی کو پہچھے دھکیل گئی تھی۔ 

وہ کئی لمحے یونہی لیئے اسے کھڑا رہا جیسے اپنے جلتے دل کو سکون دے رہا ہو۔ جبکے اسراء اسکے الفاظوں میں گم تھی ۔ 

لیکن ہوش میں آتے ایک جھٹکے میں اسے دور دھکیل گئی ۔ 

آپکو پتہ ہے یہ الفاظ کیا اہمیت رکھتے ہمارے لیئے اگر وہ رات ہماری زندگی میں نا آئی ہوتی تو__؟"

ضرغام کو اسکے دور ہوتے اپنا سکون دور ہوتا محسوس ہوا تھا ۔ 

ہم خوشی سے جھوم جاتے ، آپکے سینے سے لگ جاتے آپکی بانہوں میں چھپ جاتے آپکے ماتھے کا بوسہ لیتے اور کہتے کے ،

"آج اس دیوانی کو اسکا عشق مل گیا___"

وہ ہنستی ہوئی بولی تھی جبکے آنسو تیزی سے آنکھوں سے بہہ رہے تھے ۔

ضرغام کا دل میں کسی نے سوئی چبھو دی تھی ۔

لیکن آج ہم آپ کو بتاتے ہیں کے ہماری محبت ہم سمیت آپ اس رات راستے پر پھینک آئے تھے جو اسی رات مر گئی تھی ___"

ہمارے دل میں آپ کے لیئے جو محبت تھی وہ اس رات مرگئی تھی ___ اور آج آپکے سامنے ایک بے جان شے کھڑی ہے جس کے دل میں تمام احساسات مرچکے ہیں___"

اسکی بات سنتے ضرغام ایک قدم پیچھے ہوتے لڑکھڑایا تھا ۔ کانچ کی طرح اسکا دل ٹوٹا تھا کرچی کرچی ہوتے۔ 

اگر بہت طلب ہورہی ہے تو اب بھی تسکین حاصل کر سکتے ہیں آپ ہم سے۔ لیکن یاد رکھے گا ہمارا دل مرچکا ہے__ اور ایک مردہ وجود سے آپ کبھی سکون حاصل نہیں کرپائینگے___" 

اسکی بات سنتے ضرغام نے ٹوٹے مان کے ساتھ اسے دیکھا تھا ۔ کیا وہ واقعی اسے اس طرح سزا دے گی ۔ اپنی محبت سے مکر کر ۔ اسکا دل روند کر ۔ وہ نہیں جانتی تھی کے اپنی عادت لگا کر وہ اسے دور رہنے کی سزا سنا گئی تھی ۔ 

وہ ضرغام خانزادہ کو خود کے لیئے پاگل کر کے آج اسے خود سے دور کررہی تھی وہ کیسے سانس لیتا اس کے بغیر ۔ اسے تو اب آتا ہی نہیں تھا اسکے بغیر جینا ۔ 

ڈریسنگ روم کا دروازہ دھڑ سے بند کرتی وہ اندر جاتے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے رو دی تھی جبکے باہر ضرغام کو لگا تھا آج سب ختم ہوگیا۔ آج وہ واقعی سب ہار گیا ۔ سب کچھ مل کر بھی آج اس سے سب سے قیمتی چیز چھین لی گئی تھی ۔  

________❤️ حیا خان ❤️ ________

صبح کی کرن کسی کے لیئے روشنی کی امید لے کر آئی تھی اور کسی کے لیئے خوشیوں لے کر آئی تھی ۔ 

خان حویلی میں ناشتے کی میز پر بیٹھے سب ناشتے میں مگن تھے جب ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامتے راحمہ کو متلی ہوئی تھی اور وہ سب کے بیچ سے اٹھ کر منہ پر ہاتھ رکھتی بھاگی تھی ۔ سب حیرانی سے اس منظر کو دیکھنے لگے جب سب سے پہلے فردان ہوش میں آتے اسکے پیچھے گیا اور اسکے بعد باقی سب ۔ 

کمرے میں پہنچتے دیکھا تو راحمہ نڈھال ہوتی واشروم سے نکلتی بستر پر آکر بیٹھی۔ 

راحمہ یار کیا ہوگیا ہے آپکو ۔آپکی طبیعت زیادہ خراب ہے چلیں اب ہم آپکی ایک بھی نہیں سنینگے۔___".

فردان غصہ اور پریشانی کے سنگ بولا تو شاہین بیگم بھی اسکے پاس آکر بیٹھی جبکہ شاہانہ بیگم نازو بیگم اور نرمین بھی اسکے پاس کھڑی تھی ۔ 

رات سے طبیعت خراب ہے آپکی راحمہ اور آپ نےبتایا نہیں ۔ ؟ رات کو ہی جانا چاہیئے تھا ڈاکٹر کے___"

نرمین نے پریشانی سے بولا جبکے شاہین بیگم اور شاہانہ بیگم آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے میں سمجھتی مسکرائی تھی۔ 

چلیں ہم بھی چلتے ہیں فردان لالا آپکے ساتھ ___"

نرمین نے کہا تو فردان نے اثبات میں سر ہلایا جبکہ راحمہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔

شاہین بیگم نے اسے عبایا پہناتے سہارا دے کر اٹھایا تھا ۔ 

کچھ نہیں ہوگا ہماری جان ہمت کریں ایسے پریشان نا ہو___"

شاہین بیگم نے پریشانی سے راحمہ کو دیکھا جو نڈھال سی آنکھیں بند کیئے انکے سینے سے لگی تھی۔ 

نرمین بھی کبیر سے اجازت لیتی عبایا پہن کر گاڑی میں اس کے ساتھ آ بیٹھی تھی ۔ 

تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کے کیبن سے نکلتے فردان کے چہرے پر بے تحاشہ خوشی چھلک رہی تھی ۔ جبکے نرمین بھی مسکراتی راحمہ کو سہارا دیئے باہر لے کر آئی جو خود بھی کنفیوز سی تھی ۔ 

مبارک ہو آپکو فردان لالا اور آپکو بھی راحمہ___"

نرمین نے مسکراتی آواز کے سنگ کہا تو راحمہ کا چہرا گلنار ہوا۔ 

بہت شکریہ بھابھی___"

فردان کے تو پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے ۔ 

گاڑی میں بیٹھتے فردان نے والہانہ نظروں سے پیچھے راحمہ کو دیکھا تھا لیکن نرمین کے ہوتے وہ خیال کرتے گھر کی طرف گاڑی لے گیا تھا۔ 

پورے راستے راحمہ خود پر اسکی نظروں کی تپش محسوس کرسکتی تھی ۔  

فردان نے گھر آتے راحمہ کو صوفے پر آرام سے بٹھایا اور مسکراہٹ دباتے باقی سب کی طرف دیکھا جو اسکی شکل ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ سب جانتے ہو کے فردان کوئی خوشخبری سنائے گا۔ 

اہم اہم___ ہم بابا بن نے والے ہی ____"

فردان نے جیسے سینہ چوڑا کر کے فخر سے مسکرا کر بتایا تھا کے باقی سب کے چہروں پر بے تحاشہ خوشی کی چمک دوڑ گئی تھی ۔کے کبیر مسکراتا آگے بڑھتا اسے گلے سے لگا گیا تھا ۔ 

مبارک ہو چھوٹے مجھ سے پہلے بازی مار گئے___"

کبیر نے اسکے کان میں آہستہ آواز میں کہا تو فردان دل کھول کر ہنسا۔ 

دیکھ لیں آپکو تایا کے عہدے پر فائز کرنے جا رہا ہوں ہمیں بھی اب جلدی سے چاچو بنادیں تاکے ڈبل خوشیاں منائیں___"

فردان کی بات پر کبیر نے مسکراتے نرمین کی طرف دیکھا تھا جو راحمہ کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ 

ہمم اللّٰہ جب چاہے__"

پیار بھری نظروں سے نرمین کو دیکھتے کبیر نے جواب دیا۔

سب مل کر فردان کو مبارکباد دینے لگے جبکے ساری عورتیں راحمہ کی نظر اتارتی اسے دعائیں دینے لگی ۔ جنہیں وہ لجاتی نظریں جھکاتے وصول کرنے لگی ۔۔

تھوڑی ہی دیر میں نرمین راحمہ کو کمرے میں لٹاتی احتیاط کرنے کا کہتی باہر آگئی تھی جب اسکے پیچھے فردان کمرے میں آیا ۔ 

یوں تو اسے زمینوں پر جانا تھا لیکن سب پرے کرتے وہ راحمہ کے ساتھ اس خوشی کو منانا چاہتا تھا۔ 

دروازہ بند کرتے فردان اسکے پاس آیا تھا جو شرماتی ادھر اُدھر نظریں جھکاتے بیٹھی تھی۔  اسکے پاس آتے اسے ایسا کے ایسا ہی گود میں اٹھاتے وہ اسے گول گول گھمانے لگا ۔ راحمہ کی چیخ سنتے وہ رکا جو سر پر ہاتھ رکھے آنکھیں بند کیئے ہوئے تھی۔ 

فردان ہمیں چکر آرہے ہیں پلیز نہیں کریں  ____"

راحمہ آنکھیں میچتے اسکی گردن میں چہرہ چھپائے بولی تھی جب فردان کو بے ساختہ اس پر بے تحاشہ پیار آیا۔

میری جان ہم آج بہت خوش ہیں ہمیں ایسا لگ رہا ہے ہم ہواؤں میں ہے ۔ اللّٰہ پاک ہم پر اتنا مہربان ہے کے اسنے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے نوازا ہے ____"

فردان اسکے سر پر بوسہ دیتے بولا۔ وہ ابھی تک اسکی بانہوں میں دبکی چہرہ گردن میں چھپائے ہوئے تھی جب فردان کو اپنی گردن پر نمی کا احساس ہوا۔ 

بستر پر بیٹھتے فردان نے اسے اپنی گود میں ہی بٹھائے اسکا چہرا ہاتھوں میں لیا تھا۔ 

کیا ہوا آپ رو کیوں رہی ہیں_آپکی طبیعت خراب ہو رہی ہے کیا پھر سے __"

اسکی روتی شکل دیکھ فردان کو پریشانی ہوئی تھی کہی اس کی طبیعت پھر تو خراب نہیں ہو رہی لیکن وہ نفی میں سر ہلانے لگی ۔

ہمیں بس رونا آرہا ہے ہمیں سمجھ نہیں آرہا کیوں لیکن بس بہت رونا آرہا ہے__"

اسکی بات پر فردان نے اسے سینے سے لگایا ۔ 

میری جان آپ روئے مت ایسے روتے نہیں ہیں اتنی بڑی خوشی پر بلکہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں ۔ اللّٰہ پاک کو برا لگ سکتا ہے___"

اسکی بات پر راحمہ چہرا اٹھا کر دیکھنے لگی ۔ 

ہمیں ڈر بھی لگ رہا ہے بہت _اگر ہمیں کچھ ہوگیا تو__"

راحمہ کی بات پر فردان کے ماتھے پر بل پڑے۔ 

کیسی باتیں کررہی ہیں آپ ۔ کچھ نہیں ہوگا کیا ہماری ماؤں نے ہمیں پیدا نہیں کیا  جو آپ اس طرح  سوچ رہی ہیں___ اللّٰہ پر بھروسہ رکھتے ہیں یار ایسے نہیں سوچتے___"

فردان واپس اسے سینے سے لگا گیا تھا جب وہ بھی اسکی بات پر اثبات میں سر ہلاتی آنسو پونچھ گئی ۔ 

اللّٰہ تعالٰی ہم سے ناراض تو نہیں ہوئے ہونگے نا ہمارے رونے پر ۔۔۔ ہم خوش ہیں بہت یہ احساس بہت الگ ہے بس ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا نا اسلیئے ہمیں رونا آگیا ___" 

راحمہ اس سے الگ ہوتی اسے سمجھانے لگی جسے دیکھ فردان کو بے ساختہ اس پر پیار آیا تھا ۔ اسکی جنگلی بلی اس وقت بے حد معصوم لگ رہی تھی اسے ۔ 

نہیں بلکل ناراض نہیں ہونگے ۔ اللّٰہ بہت مہربان ہے میری جان ہم پر اسکا شکر ادا کرتے ہیں آجائیں وضو کرلیں___"

فردان نے اسے زمین پر کھڑا کیا اور واشروم کی طرف راہ لی ۔ 

تھوڑی ہی دیر میں وضو کرتے وہ دونوں اللّٰہ پاک کا شکر ادا کرتے شکرانہ کے نفل پڑھنے لگے۔ 

راحمہ نے جائے نماز رکھتے اپنا دوپٹہ کھولا تو پیچھے سے فردان نے آتے اسے بانہوں میں اٹھایا تھا۔ 

رب کا شکر ادا تو ہوگیا اب آجائیں مجازی خدا کا شکر بھی ادا کردیں ____"

فردان لائیٹس بجھاتے اسے اپنی محبت میں ڈوباتے اسی میں کہیں گم ہوگیا تھا۔۔

صبح ضرغام کی آنکھ کھلی تو وہ بستر پر کہیں نہیں تھی بستر پر ایک بھی سلوٹ موجود نہیں تھی جس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کے وہ اسکے پاس آکر بیٹھی تک نا تھی۔ پوری رات اسے نیند نہیں آئی تھی ہر جھپکی کے بعد وہ اسے نظر مار کر کمرے میں تلاش کرتا لیکن وہ نہیں آئی تھی۔  

آنکھوں کو مسلتے وہ وقت دیکھنے لگا جو صبح کے آٹھ بجا رہی تھی۔ مردہ قدموں سے اٹھتے وہ واشروم میں بند ہوا تھا ۔

خود کو آئینہ میں دیکھتے اسے وہ دن یاد آیا تھا جب اسراء اسے ایسے تیار ہوتے وقت گھنٹوں بیٹھ کر دیکھا کرتی تھی لیکن آج وہ نہیں تھی۔ 

نظریں خود پر جماتے ضرغام نے خود سے عہد کیا تھا وہ اسے واپس اپنی طرف مائل کر کے ہی رہے گا اسکے احساسات کو ضرور جگائے گا ۔ وہ محبت جو ان زخموں کے پیچھے کہیں چھپ گئی ہے۔ وہ ان زخموں کو بھرتے اسکی محبت کو ڈھونڈ نکالے گا۔ اور بدلے میں اسے اتنا پیار دے گا کے اسکی اسراء سے سمبھالا بھی نہیں جائے گا۔ 

امید پر ہی دنیا قائم تھی ۔ اسکے رب نے اسے ایک موقعہ دیا تھا اور وہ اس ایک موقعے کو ہاتھ سے کیسے جانے دیتا ۔ وہ اس موقعے کا فائدہ ضرور اٹھائے گا اور اپنی خوشیاں اس کے سنگ واپس اپنی زندگی میں لائے گا۔ 

یہی سوچتے ضرغام نے ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ خود کو آئینہ میں دیکھا تھا ۔ وہ اسے خود سے دور رکھ ہی نہیں سکتا اور نا وہ ایسا ہونے دے گا۔

پلٹ کر نیچے آتے اسنے ڈائیننگ ٹیبل پر دیکھا جہاں اسکے علاوہ باقی تینوں افراد موجود تھے جبکے اسراء یونہی بیٹھی تھی ۔ 

بیٹا اسراء آپ نے ابھی تک ناشتہ کیوں شروع نہیں کیا___"

اسماعیل صاحب نے اسے ٹوکا تو وہ ہوش میں آئی ۔ 

کیونکہ ابھی تک اسکا شوہر نہیں آیا تھا___"

ضرغام نے پیچھے سے آتے اسکے سر پر اپنے ہونٹ ٹکائے اور اپنی کرسی پر اسکے برابر آ بیٹھا۔

سب کے سامنے اسکی بے شرمی پر اسماعیل صاحب نے اسے گھورا تھا اور اسراء کا چہرا اسماعیل صاحب اور اسمارہ بیگم کے سامنے لال قندھاری ہوگیا تھا۔ 

اور اب میں آگیا ہوں تو اب میں اور میری بیگم ناشتہ شروع کرینگے___"

ضرغام نے ابلے ہوئے انڈے کا ایک پیس منہ میں ڈالتے اسماعیل صاحب کو دیکھا جو اسی کو ابھی تک اسکی بے شرمی پر اسے گھور رہے تھے ضرغام نے انہیں آنکھ مارتے سائیڈ سمائیل دی تھی جس پر وہ ہڑبڑاگئے تھے۔ 

ناشتہ کرتے فون بجا تھا جب اسمارہ بیگم کرسی سے اٹھتے فون اٹھانے گئی تھی۔ 

کیا__؟ سچ میں __؟ ما شاء اللّٰہ یہ تو بہت اچھی بات ہے میری طرف سے مبارکباد دے گا راحمہ بیٹی کو ___"

اسمارہ بیگم خوشی سے بولی تو اسراء بھی پلٹ کر انہیں دیکھنے لگی ۔ 

جی جی میں اور اسراء آج چکر لگائینگے__"

اسمارہ بیگم نے الوداعی کلمات ادا کرتے فون رکھا تو اسراء سوالیہ نگاہوں سے انہیں تکنے لگی۔ 

اسمارہ بیگم پاس آتی مسکراتی اسے گلے سے لگاگئی۔ 

آپ پھپھو بن نے والی ہیں__راحمہ نے خوشخبری سنائی ہے___"

اسمارہ بیگم نے خوشی سے بتایا تو اسراء کے اداس چہرے پر دنیا جہاں کی خوشیاں سمٹ آئی ۔

کیا پھپھو جانی آپ سچ کہہ رہی ہیں___"؟

اسراء خوشی سے تیز آواز میں بولی تھی کے ضرغام نے پلٹ کر اسے دیکھا جسکے چہرے پر اتنے دنوں بعد مسکراہٹ آئی تھی ۔ 

پھپھو جانی ہم بھی پھپھو بن نے والے ہیں __ یا اللّٰہ ہم بہت بہت بہت خوش ہیں ہمیں یقین نہیں ہورہا ہم پھپھو بن نے والے ہیں___"اسراء اپنے سارے دکھ بھولتی اس خوشی میں چور ہوتی اسراء بیگم کے شدت سے گلے لگی تھی کے وہ کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔ جبکے اسے خوش دیکھ اسماعیل صاحب بھی مسکرادیئے۔

میری جان ایسے ہی خوش رہیں ___ ہم دونوں آج راحمہ سے ملنے چلینگے ٹھیک ہے___"؟

اسمارہ بیگم نے اسے کہاں تو وہ فوراً اثبات میں سر ہلا گئی۔ 

ضرغام تو جاں نثار نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا جس کے پیر زمین پر ٹک ہی نہیں رہے تھے۔ 

جب اسراء کی نظر اس پر پڑی جو اسی کو تک رہا تھا ۔ بے رخی سے نظریں پھیرتی وہ اوپر کمرے میں چلی گئی تھی جب ضرغام سنجیدہ تاثرات لیئے پلٹتا اپنی مورے کو دیکھنے لگا جو اس سے بات بھی نہیں کررہی تھی ۔

اسمارہ بیگم بھی پلٹتی اپنے روم میں گئی تھی جب ضرغام بھی انکے پیچھے گیا۔ 

مورے___"؟

ضرغام کی آواز پر اسمارہ بیگم پلٹی لیکن پھر سنجیدہ تاثرات لیئے اپنے کام میں لگ گئی ۔ 

میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں پلیز ایک بار میری بات سن لیں___"

ضرغام کی رحم بھری پکار پر وہ پلٹ کر اسے دیکھنے لگی جو آسمانی رنگ کا قمیض شلوار پہنا تھا ۔ ماتھے پر بینڈج لگی تھی جبکے ہاتھ پر بھی سفید پٹی بن تھی ۔ 

وہ اسے چوم کر گلے سے لگانا چاہتی تھی لیکن اپنی مامتا کو خاموش کرائے وہ واپس پلٹی کام میں مگن ہوگئی ۔ 

ضرغام نے پیچھے سے آتے انہیں سخت گھیرے میں لیا تھا جس پر وہ گہری سانس بھرتی سنجیدہ چہرا لیئے آنکھیں بند کرگئی۔ 

بہت غلط کیا ہے آپ نے ضرغام ۔ ہماری تربیت کو شرمندہ کردیا ہم کبھی سر نہیں اٹھا پائینگے اپنے گھر والوں کے سامنے___"

انکی سنجیدہ آواز سنتے ضرغام نے انہیں چھوڑتے بستر پر بٹھایا۔ اور خود زمین پر بیٹھتے انکی گود میں سر رکھ گیا۔ 

مورے ___ گناہ ہوگیا مجھ سے سنگین گناہ ۔ یہ گناہ میں اپنی زندگی سے کبھی مٹا نہیں سکونگا یہ بوجھ مجھ پر ساری زندگی رہے گا ۔ لیکن صرف اس امید پر آپ سب کے سامنے کھڑا ہوں کے ایک بار اپنے بیٹے پر بھروسہ کرلیں ۔ میں سب بدل نہیں سکتا لیکن آپ سب کے اور خاص طور پر اسراء کے ذہن سے اس رات کو مٹادونگا میرا یقین کرلیں ایک بار___"

وہ اسمارہ بیگم کا ہاتھ چومتے اس پر سر ٹکا گیا۔ کے وہ اپنے آنسو صاف کرتی اسکا چہرا اٹھاتے ایک ہاتھ گال پر رکھتی اسکا ماتھا چوم گئی۔

بیٹا ہم آپکو ایک موقعہ دے دینگے کیونکہ ہم ماں ہیں لیکن دعا کریں کے اسراء بھی آپکو ایک موقعہ دے دیں ___"

اسماعہ بیگم کی بات پر ضرغام سنجیدہ چہرہ لیئے سر اثبات میں ہلاتا انکا ہاتھ پھر سے چوم گیا۔ 

آپ ماں ہیں نا دعا کرے گا میرے لیئے کے اللّٰہ اسکا دل میرے لیئے نرم کردے___"

اسمارہ بیگم بھی نم آنکھوں سے مسکراتی اثبات میں سر ہلاگئی۔

اسکا ہاتھ تھماتی وہ اس پر لگی پٹی دیکھنے لگی۔ 

زیادہ گہرا زخم تو نہیں ہے نا ___"

انکے پوچھنے پر ضرغام نے نظریں گھماتے کبیر کو دل ہی دل میں صلاواتوں سے نوازا تھا۔ 

بہت گہرا زخم ہے __ تھوڑا اور گہرا ہوتا تو ہاتھ نکل کر دوسرے ہاتھ میں آجاتا اور یہ سب اپکے اس پیارے کبیر نے کیا ہے___"

اسکی بات پر اسمارہ بیگم نے پریشانی سے اسے دیکھا تھا ۔ 

کیا واقعی بہت گہرا زخم ہے___"؟

اسمارہ بیگم کی فکر پر ضرغام مسکرایا ۔

نہیں مورے۔ یہ اپکی بہو نے کچھ زیادہ ہی گہرا سمجھ کر پٹی کردی ہے اتنا نہیں ہے___".

اسکی شرارت سمجھ کر اسمارہ بیگم نے مسکراتے اثبات میں سر ہلایا اور پھر اسکے ماتھے کی چوٹ پر انگلی پھیری۔ 

ہمارے لیئے سب سے پیارا ہمارا اپنا بیٹا ہے اسکے بعد کوئی اور ___" 

وہ ضرغام کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی تو ضرغام کتنے ہی لمحے انہیں دیکھے گیا ۔ 

میں جانتا ہوں مورے___" 

وہ آنکھوں کو جھپکاتے اٹھ کھڑا ہوا اور پھر انکے ماتھے کا بوسہ لیتے وہ پلٹ گیا ۔ 

آج رات خان حویلی آپ لوگ میرے ساتھ ہی جائینگی ۔ ٹھیک ہے___"؟

ٹھیک ہے___"

اسمارہ بیگم مسکراتی ہوئی بولی تو وہ بھی کمرے سے باہر چلا گیا۔

_______❤️ حیا خان ❤️________

شام کے سائے ڈھل چکے تھے ۔ 

ہمم ٹھیک ہے آج رات ہی یہ کام ہونا ہے ۔ اور انتظار نہیں کرونگا میں___" 

ضرغام نے فون پر بات کرتے سامنے والے کو جواب دیا تھا لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی کے سامنے والا خود اسکی طرح سخت نا ہوتا تو اسکے لہجہ سنتے کپکپا جاتا۔ پھر فون جیب میں ڈالتے اسنے نوب گھما کر اپنے روم کا دروازہ کھولا جب اسی لمحے اسراء بھی واشروم سے نکلی ضرغام نے دروازہ بند کیا اور نظر اس پر پڑی تو سٹل کھڑا رہ گیا۔ 

نازک سے کام والا بلیک کلر کی لانگ شرٹ پہنے جس کی نیک پر بلیک ہی کام ہوا تھا

بلیک ہی ٹراؤزر پہنے وہ گیلے بالوں کو سکھا رہی تھی ۔ شاید خان حویلی جانے کے لیئے ہی تیار ہوا جا رہا تھا۔ ضرغام قدم قدم چلتا بستر تک آیا اور وہی بیٹھ گیا نظریں ایک پل کو اس سے جدا نا کی۔ 

اسراء نے اسے ایک نظر آئینے سے دیکھا اور پھر اگنور کرتے سنجیدہ چہرا لیئے اپنی تیاری میں لگی ۔۔ بال ڈرائیر سے ڈرائے کر کے وہ کمر پر پھیلا گئی تھی اس دوران ضرغام کی نظریں لمحے کے لیئے بھی اس پر سے نا ہٹی تھی ۔ وہ فرصت سے کروٹ کے بل لیٹتے سر کے نیچے ہاتھ ٹکاتے اسے تک رہا تھا جیسے اس سے ضروری کام اور کوئی نا ہو۔ 

اسراء خانزادہ کا پسندیدہ مشغلہ آج ضرغام خانزادہ با خوبی نبھا رہا تھا۔ 

اسکی بولتی نظروں کو محسوس کرتی اسراء گھبرارہی تھی اسکے ہاتھ لرز رہے تھے لیکن وہ نظر انداز کرتی ہلکا پھلکا تیار ہوتے بال بنانے لگی۔ اسکے ہاتھوں کی کپکپاہٹ دیکھتے ضرغام نے ہونٹوں پر مچلتی مسکراہٹ دبائی تھی ۔ 

وہ صرف نظروں سے ہی اسکے وجود میں لرزا طاری کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا یہ سوچتے ضرغام خانزادہ مغروریت سے مسکراتا اٹھ کھڑا ہوا تھا جب اسراء کے بال بناتے ہاتھ تھمے۔ 

وہ نظر اٹھا کر آئینے سے ہی ضرغام کو دیکھنے لگی جو قدم قدم چلتا اسکے قریب آکر رکا تھا ۔ فقط دو انچ کی دوری پر تھمتے ضرغام نے آئینے سے ہی اسے آنکھوں میں تپش لیئے دیکھا تھا کے اسراء کے ماتھے پر ننھی ننھی بوندیں چمکنے لگی ۔ جسے دیکھ ضرغام طنزیہ مسکرایا ۔ 

اپنی زبان سے تو کہہ دیا لیکن اپنے دل کا کیا کروگی اس روح کا کیا کروگی جو میری ضرغام خانزادہ کی فقط ایک نظر کی مار ہے___"

ضرغام کی سرگوشی اپنے کان کے قریب سنتے اسراء کے جسم میں سرد لہریں مچلی تھی۔ 

بہت مہنگا پڑے گا تمہیں جو تم نے کل رات اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے__"

اسکے بالوں میں چہرا چھپائے ضرغام نے گہرا سانس بھرا تھا ۔ جب کے ہاتھ اسکے بازو پر الگ ہی نقش و نگار بنانے میں مگن تھے ۔

پہلے اپنی جان کو منالوں پھر اس جان کی جان اچھی طرح سے نکالونگا___"

ضرغام کی بھاری آواز اور اسکی سانسوں کو اپنے اتنے قریب محسوس کرتے اسراء کھڑی کھڑی پسینے میں شرابور ہوگئی تھی۔ اسراء کی سانسیں بھاری ہونے لگی تھی کے ضرغام اسکی جان بخشتے ایک جھٹکے میں پیچھے ہوا ۔ تو وہ نڈھال سی ہوتی ڈریسنگ ٹیبل کو تھامتی گہرے گہرے سانس بھرنے لگی تھی ۔ 

اسکی حالت دیکھتے ضرغام مسکرایا تھا ۔ 

ویٹ کررہا ہوں جلدی سے نیچے آؤ ____"

اپنے ازلی لہجہ میں حکم سناتا وہ نیچے جاچکا تھا جبکے اسراء حیران ہوتے اپنی حالت اور پھر اسکا جانا دیکھ رہی تھی ۔ وہ کیسے اسے کچھ نا کہہ سکی ۔ وہ اتنی آسانی سے اسے نہیں بخش سکتی تھی ۔ خود کو اندر سے مضبوط بناتے وہ اپنے بال درست کرتی عبایا پہنتی نیچے گئی تھی۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

انہیں خان حویلی پر اتارتے ضرغام نے واپسی گاڑی موڑی تو اسمارہ بیگم اسکے قریب گئی۔ 

آپ اندر نہیں آئینگے بیٹا___"

اسمارہ بیگم نے پوچھا تو اسراء بھی پیچھے مڑتی اسے دیکھنے لگی جو ایک نظر اسے دیکھتا واپس اسمارہ بیگم کی طرف دیکھتے نفی میں سر ہلاگیا تھا۔

نہیں مورے آپ جائیں__ میں آپ لوگوں کو لینے آجاؤں گا کچھ ضروری کام ہے___"

ضرغام نے کہتے گاڑی موڑی تھی۔ اور زن سے لے اڑا تھا جب اسراء اور اسمارہ بیگم اندر داخل ہوتی سب سے ملی تھی ۔ 

مورے ہم راحمہ آپی سے مل کر آتے ہیں___"

اسراء کمرے میں گئی تو نرمین راحمہ کے پاس بیٹھی تھی اور وہ دونوں مسکراتی باتوں میں مگن تھی جب اسراء کو دیکھتے راحمہ خوشی سے اچھلی تھی۔ 

نرمین نے آنکھیں پھاڑے اسکا اچھلنا دیکھا تھا اور پھر اسکا ہاتھ کھینچتے واپس بٹھایا تھا ۔ 

کیا کررہی ہیں راحمہ آپ ۔ فردان لالا نے ہمیں سختی سے کہا ہے آپ کا خیال رکھنے کے لیئے۔ اگر انہیں پتہ چل گیا کے آپ اس طرح سے اچھل کود رہی ہیں تو آپ سے خفا ہوجائینگے وہ___"

نرمین نے اسے سمجھایا تو اسراء بھی ہنستی ہوئی اسکے پاس آکر بیٹھی اور اسے گلے سے لگایا ۔ 

کیسی ہیں آپ راحمہ آپی ___"

راحمہ نے مسکراتے سر اثبات میں ہلایا ۔ 

آپ کیسی ہیں اسراء___"

نرمین نے پوچھا تو وہ بھی مسکرانے لگی۔ 

ہم تو بے حد خوش ہیں راحمہ آپی نے ہمیں ایسی خوشخبری سنا دی ہے کے دل کررہا ہے ہم ایک ایک کو پکڑ کر بتائیں کے ہم پھپھو بن نے والے ہیں___"

اسراء نے کھلکھلاتے بتایا تو راحمہ ذور نرمین نے اسے اس طرح خوش دیکھتے دل ہی دل میں نظر اتاری ۔ 

بس نرمین اپو اب آپ کی باری ہے ۔ آپ بھی ہمیں ڈھیر سارا خوش کردیں کے ہمیں اپنے دونوں بھائیوں کے بچے ساتھ ساتھ کھلانے ہیں___"

اسراء کی بات پر نرمین گلاب چہرا لیئے شرماتی اسے ایک چپت رسید کرگئی تھی۔ 

انکی باتیں شروع ہوئی تو پھر ختم کہاں ہوتی تھی ۔ جبکے اسراء کو دیکھ ان دونوں نے صدق دل سے دعا کی تھی اسکی خوشیوں کی۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

کالے کپڑے سے اسکا منہ ڈھکا ہوا تھا اور دونوں ہاتھ پیچھے رسی سے بندھے تھے جبکے دو مرد اسے گھسیٹتے ہوئے ایک کمرے میں پھینک گئے تھے ۔

کسی نے اسکے پیچھے سے آتے چہرے پر سے کپڑا ہٹایا تو ملک فراز کی آنکھیں چندیا گئی تھی روشنی پڑتے ہی ۔ خود کو نارمل کرتے اسنے نظریں کھول کر سامنے دیکھا جہاں ملک شہباز ادھ مری حالت میں پڑا تھا ۔ پورا جسم خونم خون تھا۔ برہنہ جسم پر کسی نے شدید کوڑے مارے تھے جس سے اسکے جسم کے ہر حصہ سے خون بہہ رہا تھا ۔ 

اپنے جوان جہاں بیٹے کو اپنے سامنے یوں اس حال میں پڑے دیکھ ملک فراز کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے۔ کتنی کوشش نہیں کی تھی انہوں نے اپنے بیٹے کا پتہ لگانے کی لیکن کبیر خانزادہ کی قید میں جانے کے بعد سے ایک بھنک تک اسے اپنے بیٹے کی نا پڑی تھی۔ 

م_میرا بیٹا___ میرا بیٹا__"

وہ ہذیانی انداز میں چیختا اسکے قریب دوڑا تھا جبکے اس تک پہنچتے ملک فراز کتنی بار لڑکھڑا کر نہیں گرا تھا۔ لیکن پھر خود کو سنبھالتا وہ اسکی طرف دوڑا۔ 

ملک _ملک شہباز ___ آنکھیں کھولو بیٹا آنکھیں ___انکھیں کھولو ۔ دیکھو تمہارا باپ آیا ہے___"

انکی آواز سنتے ملک شہباز کو ہوش آیا ۔ اپنے باپ کو سامنے دیکھ وہ بنا آواز کے رونے لگا۔ 

ب_بابا___ب_بابا  مجھے بچ_بچالیں اس سے ۔ وہ مار__دے گا مج__مجھے___"

اسکی بات ختم ہی ہوئی تھی کے فردان خانزادہ نے پیچھے سے ایک فائر اسکے دماغ پر کیا تھا اور ملک شہباز وہی ڈھیر ہوگیا تھا۔ 

خون کی چھینٹے ملک فراز کے چہرے پر پڑی تو وہ کئی لمحوں کے لیئے ساکت رہ گیا تھا اسکا دماغ اس بات کو ماننے کو تیار نا ہوا کے جو بیٹا دو سیکنڈ پہلے ان سے بات کررہا تھا اب اسکی لاش اسکے سامنے تھی۔ 

 جب اسے ہوش آیا تو وہ پاگلوں کی طرح چیخنے لگا چلانے لگا لیکن کوئی اسکی صدا سننے والا نہیں تھا۔

کیا گند جمع کر کے رکھا تھا آپ نے لالا ۔ اسکے بیٹے کو تو تبھی ماردینا چاہئیے تھا___" فردان ایک ہاتھ میں گن گھماتا ہوا بولا تو ملک فراز نے پیچھے پلٹ کر دیکھا جہاں فردان خانزادہ کھڑا اپنی گن اپنے کپڑوں سے صاف کررہا تھا جب کے اسکے پیچھے کرسی پر ایک طرف کبیر خانزادہ اور دوسری طرف ضرغام خانزادہ بیٹھے اسی کو شعلے بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھے کے ملک فراز نے تھوک نگلا تھا اپنی موت سر پر ناچتی نظر آئی تھی اسے۔

ایک اشارہ دیں لالا باقی کی پانچ گولیاں اس گند کو پیدا کرنے والے کے دماغ میں اتار دونگا میں ___"

فردان نے  آنکھوں میں غضب لیئے بولا تھا کے ملک فراز پیچھے کی طرف کھسکا تھا ۔ 

نہیں____کبیر خانزادہ کی بہن کو مہرے کے طور پر استعمال کرنے والے کو اتنی آسان موت نہیں ملے گی___"

کبیر کی سرد آواز سنتے ملک فراز کے جسم میں چیونٹیاں رینگنے لگی تھی اور اپنے سامنے اپنے بیٹے کی اتنی بھیانک موت دیکھ کر وہ سانس لینا بھول گیا تھا۔ بچے بڑوں سے سیکھتے ہیں اور ملک فراز جو خود ہمیشہ شراب و شباب جیسی لت کا شکار تھا اور اسکی اولاد بھی اسی کو دیکھ کر بڑی ہوئی تھی دونوں باپ بیٹوں نے مل کر ناجانے کتنی لڑکیوں کی زندگیاں اجاڑی تھی کے آج انکا یہ انجام انکے سر پر آکھڑا ہوا تھا ۔

د__دیکھو تم نے میرے بیٹے کو ماردیا پلیز مجھے جانے دو ___"

وہ روتا ہوا بولا تو فردان اسکی بات سنتے مسکرایا ۔ 

تیرا بیٹا تو ویسے بھی اس دھرتی پر بوجھ تھا خس کم جہاں پاک___"

فردان کی بات ختم ہوتے ضرغام اپنی جگہ سے کھڑا ہوا تھا تاثرات بلا کے سرد تھے جبکے آنکھیں انگارے اگل رہی تھی ۔ اس درندے نے اسکی بیوی کو نوچنے کا حکم دیا تھا یہ سوچتے اسکے جسم میں غصہ کے شرارے دوڑنے لگے تھے۔ 

ہاتھ میں گہرا بلیڈ نما کٹر تھامتے وہ قدم قدم چلتا اسکے قریب ہوا تو ملک فراز بھی پیچھے کی طرف کھسکا۔ 

گھٹنے کے بل بیٹھتے ضرغام نے اسکی آنکھوں میں دیکھا تو ملک فراز کا سانس بھی سینے میں اٹکا ضرغام خانزادہ کی آنکھوں سے ہی وحشت ٹپک رہی تھی کے ملک فراز کے جسم میں کپکپاہٹ شروع ہوئی تھی۔  

پیچھے کبیر خانزادہ ٹانگ پر ٹانگ جمائے ایسے بیٹھا تھا جیسے سامنے اسکا کوئی فیورٹ شو اسٹارٹ ہونے والا ہو جبکے فردان بھی اسکے برابر ہی کھڑا سرد مسکراہٹ کے ساتھ ضرغام کو دیکھ رہا تھا ۔ 

وہ دونوں جانتے تھے جب ضرغام غصہ میں پاگل ہوتا ہے تو وہ انسان نہیں رہتا پھر سامنے تو خود ایک درندہ تھا جس کو ضرغام ہستے کھیلتے چیر پھاڑ دیتا کے اسنے ضرغام خانزادہ کی بیوی پر وار کیا تھا ۔ 

ہاتھ میں کٹر تھامتے ضرغام نے آگے بڑھایا تو ملک فراز کی اس کٹر نما اٰلہ کو دیکھتے چیخ نکلی لیکن ضرغام کا ہاتھ نا تھمے۔ 

تجھے ایک بار بھی خوف کیسے نہیں آیا میری بیوی پر وہ حملہ کرتے ہوئے ۔ تو کیسے بھول گیا وہ کس بہن اور کس کی بیوی ہے___ اپنے انجام کا تو نے ایک بار بھی نہیں سوچا ___ اور آج تجھے موت دیتے ہوئے میں دوسری سوچ اپنے ذہن میں نہیں لاوُنگا____"

ضرغام نے اسکے جبڑے پر وار کیا تو ملک فراز کی دلدوز چیخ نکلی تھی جسے ضرغام نے اپنی آنکھیں بند کرتے مسرور ہوتے سنا تھا۔ 

پھر اسکے دوسرے جبڑے پر وار کیا تھا جس سے گوشت کا لوتھڑا لٹک گیا تھا ۔ ملک فراز کی چیخوں سے وہ کمرا گونج اٹھا تھا اسکے منہ سے اب عجیب طرح کی آوازیں نکل رہی تھی جبکے پیچھے بیٹھے کبیر اور فردان سرد مسکراہٹ کے ساتھ یہ شو انجوائے کررہے تھے۔ 

اسی منہ سے تو نے حکم دیا تھا نا۔ تو یہی انجام ہونا چاہیئے تھا اس منہ کا __"۔ضرغام کی سفاک آواز کمرے میں گونجی تھی ۔ جب کے سامنے پڑا وجود بلبلا رہا تھا جس پر کسی کو ترس نہیں آرہا تھا ۔

ملک فراز کے دل نے شدت سے دعا کی تھی کے وہ اسے ایک ہی بار گولی ماردے لیکن سامنے ضرغام خانزادہ تھا سفاک انسان ۔

اسکے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں تھامتے ضرغام نے ان پر آلہٰ پھیرا تھا کے انگلیاں ہڈی سمیت لٹک چکی تھی کے ملک فراز کے منہ سے چیخ نما آوازیں نکلی تھی اور درد برداشت نا کرتے وہ وہی بیہوش ہوگیا تھا جب کے اسے بیہوش ہوتے دیکھ پیچھے بیٹھے کبیر نے سر جھٹکا تھا۔ 

انکا یہ شو کافی جلدی ختم ہوگیا تھا ۔ 

جبکے ضرغام خانزدہ اس بے ہوش وجود کی الٹے ہاتھ کی انگلیوں کو بھی ویسے ہی کاٹ چکا تھا اسے سکون نہیں آرہا تھا وہ چاہتا تو اسکے جسم کا ایک ایک حصّہ چیر پھاڑ دیتا لیکن کبیر نے آتے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا جسے محسوس کرتے وہ ہوش میں آیا ۔

اپنے ہاتھ میں پسٹل تھامتے کبیر نے پانچوں کی پانچوں گولیاں ملک فراز کے بھیجے سے آر پار کردی تھی کے اسکے وجود نے جھٹکے کھاتے دم توڑا تو ضرغام خانزادہ کے دل پر کسی نے ٹھنڈی پھوار کی ۔

تم کچھ زیادہ ہی پاگل نہیں ہوجاتے غصّہ میں ___"

فردان نے ضرغام کی طرف جملا اچھالا تو ضرغام سرد سا مسکرایا ۔ 

کیوں تمہیں شو پسند نہیں آیا کیا___"

ارے شو تو بہت انٹرسٹینگ تھا مزا آگیا ___"

فردان نے ہنستے ہوئے کہا تو ضرغام بھی دل کھول کر مسکرایا ۔ جبکے پیچھے کھڑے کبیر نے اپنے آدمیوں کو ہدایت دی جو ملک فراز اور ملک شہباز کی لاش کو اٹھاتے لے جانے لگے تھے ۔ 

پھر انکی زندگی سے آج یہ قصہ بھی تمام ہوا۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

وہ تینوں اپنا حلیہ درست کرتے ایک ساتھ ہی خان حویلی آئے تھے فردان آگے تھا جبکے کبیر اور ضرغام پیچھے ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے آرہے تھے ۔ 

یہ منظر دیکھ سب نے دل میں انکی نظر اتاری تھی جبکے نرمین اور اسراء تو حیران نظروں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔ 

میری بہن آج یہی رکے گی___"

کبیر نے پھر اسے چھیڑا تھا کے ضرغام کا میٹر گھوما ۔ 

اتنے دن اپنے گھر رکھ کر تجھے سکون نہیں آیا جو تو پھر اسے یہیں روکے گا ۔ شادی کیوں کی تھی تو نے اس کی پھر___"

ضرغام نے ماتھے پر بل ڈالے اسے بولا تو کبیر اسے جلا کر مسکرایا ۔ 

رکے گی تو وہ یہیں ۔ بہن ہے میری ___"

کبیر مسکراتا بولا تو ضرغام کی ہڈی میں آگ لگی۔ 

بیوی ہے میری ۔ ابھی اسی وقت میرے ساتھ گھر جائیگی ___" 

ضرغام نے جتا کر بولا تو کبیر طنزیہ ہنسا۔ 

Let's see...."

کبیر مسکراتا آگے اسراء کے قریب بڑھ گیا تھا جو فردان کے حصار میں کھڑی اسے مبارکباد دے رہی تھی۔ 

کیسی ہے میری گڑیا____"

کبیر کی آواز پر اسراء پلٹتی اسے مسکرا کر دیکھنے لگی۔ 

ہم ٹھیک ہیں لالا آپ کیسے ہیں___"

وہ اسکے سینے سے لگتے ہوئے بولی تو کبیر نے اثبات میں سر ہلایا۔ 

لالا آپ بھی ایسی ہی ایک خوشخبری سنا دیں پھر ہم آپ دونوں کے بچوں کو اپنے ساتھ لے جایا کرینگے اور خوب انکے ساتھ کھیلا کرینگے ۔ ___"

اسراء کی بات پر اسکے برابر کھڑی نرمین گڑبڑائی تھی جب کبیر نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا تھا ۔ 

اپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اسے دوسروں کے بچوں کو کھلانا ہے ___"

ضرغام آنکھیں گھماتا دھیمی آواز میں منمنایا ۔ 

گڑیا آپ دعا کریں اللّٰہ پاک ہے نا اپنی رحمت کی برسات کرنے والا ____" 

کبیر کی بات پر سب نے مسکرا کر صدق دل سے انکے لیئے دعا کی۔ 

ہاں تو آج آپ یہیں رک رہی ہیں نا ___"؟

کبیر نے ضرغام کی دم پر پیر رکھا تھا کے وہ جلتا شعلہ بھری نگاہوں سے اسے گھورنے لگا۔ 

اسراء نے گڑبڑا کر ضرغام کی طرف دیکھا جو اسی کو گھور رہا تھا ۔ وہ ہر گز بھی نہیں چاہتا تھا کے اسراء پوری رات کے لیئے اس سے دور ہو  اور وہ بھی تو یہ بات جانتی تھی نا کے ضرغام خانزادہ اس سے دور نہیں رہ سکتا ۔ کاش کے وہ منع کردے جب اسراء نے پلٹ کر کبیر کو دیکھا جس نے آنکھ مارتے اسے اشارہ کیا۔ دل ہی دل میں مسکراتے اسراء نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔ 

جی لالا ہم نے پھپھو جانی سے اجازت لے لی ہے ۔ ہم آج یہیں رکینگے___"

اسراء کی بات پر ضرغام نے تیز نظروں سے اسے گھرتے مٹھیاں بھینچی تھی جب کے منہ سے ایک الفاظ بھی ادا نہیں کیا تھا کے اب وہ مزید اس طرح کی پابندیاں اسراء پر نہیں لگا سکتا تھا کے اسکا دل اور کھٹا ہوتا اسکی طرف سے وہ خاموش ہوتے اسمارہ بیگم پر نظریں ٹکاگیا تھا ۔ 

البتہ سب کے چہروں پر دبی دبی مسکراہٹ تھی اسکا ری ایکشن دیکھ کر۔ 

چلیں مورے کافی وقت ہوگیا ہے__"

ضرغام نے اسمارہ بیگم سے کہا تو سر اثبات میں ہلاتے وہ سب سے الوداعی کلمات کہتے ملنے لگیں۔ اسراء دور سے کھڑی اسکے تاثراث دیکھ رہی تھی وہ جانتی تھی اندر سے ضرغام کے جسم میں لاوا ابل رہا ہوگا لیکن بظاہر وہ خاموش کھڑا تھا ۔ تاکے اسراء اس سے مزید بد گمان نا ہو ۔ 

اسمارہ بیگم اور ضرغام گاڑی میں بیٹھے تو اسراء بھی عبایا پہنتی ہوئی باہر آئی اور گاڑی میں بیٹھی جسے دیکھ ضرغام ایک منٹ کے لیئے حیران ہوا تھا ۔ پھر اسکی مسکراتی آنکھوں کو دیکھتے ضرغام نے سر اثبات میں ہلایا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ اسکے جلتے دل پر اسراء مرہم بن کر آئی تھی مسکراتے ضرغام گاڑی لیتے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگیا تھا۔ 

(_ایک ہفتے بعد_)

بہت شکریہ آپکا سردار صاحب ہم بہت خوش ہیں آپ نے ہم سب کے بارے میں اتنا سوچا ۔ ہمیں یقین نہیں ہورہا اب تعلیمی ادارے ہمارے گاؤں میں بھی ہونگے___"

پنچائیت میں بیٹھے کبیر نے مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا ۔ 

جی کل ہی سارا کام زمینوں پر شروع ہوجائیگا ۔ شہر سے اعلیٰ اساتذہ آئینگے جو اچھی تعلیم ہمارے گاؤں کے مستقبل ستاروں کو فراہم کرینگے___"

برہان خانزادہ اور دا جان نے فخر سے اپنے پوتے کو دیکھا تھا جو واقعی انکا نام روشن کررہا تھا۔ 

جبکے اسکی قابلیت پر ضرغام بھی دل سے مسکرایا تھا ۔ اس مقام کا اصل حقدار  واقعی کبیر خانزادہ ہی تھا۔۔۔

جبکے گاؤں میں امن و سکون دینے والا اور انکا اتنا بڑا مسلۂ حل کرنے والا کبیر خانزادہ گاؤں والوں کے دلوں میں ایک اونچا مقام بنا گیا تھا کے سب دل کھول کر اسکے نارے لگانے لگے تھے ۔ 

کبیر نے فخر سے یہ منظر دیکھا تھا ۔ اپنی تعلیم اور اپنی لگن کا استعمال اسنے یہاں اپنوں کے لیئے کیا تھا جس پر اسے کوئی پچھتاوا نہیں تھا اسکی زندگی کیا سے کیا بن گئی تھی لیکن وہ مطمئین تھا خوش تھا کے یہاں اسکے اپنے موجود تھے اور سب سے بڑی بات اسکی محبت یہاں تھی ۔ جس کے لیئے وہ اپنی قسمت پر دل و جان سے خوش تھا ۔ 

_______❤️ حیا خان ❤️_______

ایک ہفتہ گزرچکا تھا لیکن اسراء کا وہی سرد انداز دیکھتے ضرغام کی بس ہوگئی تھی۔ وہ اس سے کلام ہی نہیں کرتی تھی جبکے ضرغام نے ہر طرح سے کوشش کرلی تھی کے وہ بولے لیکن وہ نہیں بولی تھی ۔ اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے بعد وہ خاموش سی ہوگئی تھی ۔ آج رات جب وہ گھر آیا تو اسراء پہلے سے ہی سونے کے لیئے لیٹ چکی تھی ۔ نیند میں نا ہونے کے باوجود وہ یہی ظاہر کررہی تھی کے وہ نیند میں ہے ۔ ضرغام نے دروازہ بند کرتے اسکے وجود کو دیکھا جو آنکھیں بند کیئے لیٹی تھی۔ 

وہ سب برداشت کر سکتا تھا لیکن اپنے آپ سے لاپرواہی بلکل نہیں ۔ 

ایک ہاتھ سے بلینکٹ کھینچتے ضرغام نے اس پر سے ہٹایا تو وہ اس افتاد پر آنکھیں 

 کھول گئی جس پر اس نے دل ہی دل میں خود کو کوسا۔ 

اٹھو مجھے بھوک لگی ہے ۔ کھانا کون دے گا___"

ضرغام کی سرد آواز پر اسکا دل ڈوب کر ابھرا تھا لیکن وہ ڈھیٹ بنی لیٹی رہی اور پھر آنکھیں بند کرگئی ۔ 

وہ ملازمہ سے کہ آئی تھی کے کھانا تیار رکھے ۔ جب بھی اسکے صاحب گھر آئیں وہ کھانا لگا دیں لیکن وہ پھر بھی جان بوجھ کر اسے تنگ کررہا تھا ۔ 

اسکی اس بے رخی پر ضرغام نے جھٹکے سے اسکا ہاتھ کھینچتے کھڑا کیا تو وہ بوکھلا کر کھڑی ہوتے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی۔ جبکے ضرغام کا میٹر تو ویسے ہی شاٹ تھا اسکےاتنے دنوں کے انداز پر ۔

تمہاری مجھ سے لاپرواہی میں بلکل بھی برداشت نہیں کرونگا سمجھی تم ___"

وہ دبی دبی آواز میں دھاڑا تھا تو اسراء اسکی دھاڑ پر اچھلی تھی۔

ضرغام کے ہاتھ میں اسکی ہتھیلی کسمسانے لگی تو وہ مزید سختی سے اسے تھام گیا۔ 

بس کرو اسراء ضرغام خانزادہ__ کے اگر میری برداشت سے باہر ہوگیا تو میں خود پر رکھے سارے ضبط توڑ دونگا ___"

وہ اسکے ماتھے سے ماتھا ٹکائے بھاری آواز میں بولا تھا ۔ اسراء سے دور رہنے پر ضرغام کے جسم کا ہر حصہ چیخ چیخ کر اسکی طلب کا اظہار کررہا تھا کے اسراء نے اسکی طلب محسوس کرتے خود بھی آنکھیں میچی۔ 

چ_چھوڑیں ہمیں ___" 

اسراء نے دور ہوتے اپنا ہاتھ آزاد کروانا چاہا تو ضرغام نے مزید اسے خود کے قریب کرتے اسے کمر سے تھاما تھا۔

مجھ سے مت بھاگو کے تمہارے سارے راستے یہیں میری پناہوں میں ہیں۔ تمہاری منزل ضرغام خانزادہ کی پناہ ہے___" 

ضرغام کی بات پر آنکھیں کھولتے اسراء نے اسکا چہرا دیکھا جو ضبط سے لال ہورہا تھا ۔ اور آنکھیں اسکے صبر کی گواہی دیتی سرخ تھی ۔ 

بھوری آنکھیں جو اس ضبط کے چکر میں مزید نشیلی لگ رہی تھی کے اسراء ان آنکھوں پر سب ہار سکتی تھی ۔ وہ دیوانی تھی اپنے خان کی وہ کیسے اس سے دور تھی اس بات کا اندازہ شاید ضرغام خانزادہ کو نہیں تھا کیونکہ وہ ظاہر نہیں کرتی تھی۔

ہمارا ہاتھ چھوڑیں ۔ آپکے لیئے کھانا لے کر آتے ہیں__"

اس بار اسکے حصار میں تھم کر نرم لب و لہجہ میں بولی تھی کے ضرغام اسے کئی لمحے دیکھے گیا اور پھر آہستہ سے اسکا ہاتھ چھوڑدیا۔

وہ دوپٹہ اوڑھتی کمرے سے باہر نکلی تو ضرغام نے ماحول میں چھائی اسراء کی خوشبو میں گہرا سانس بھرا۔ 

وہ پاگل ہورہا تھا دن با دن اسراء خانزادہ کے پیچھے کے وہ اگر اسکی دیوانگی کی انتہا دیکھ لیتی تو شاید اسے اپنی محبت کم لگنے لگتی۔ وہ وہی بستر پر بیٹھتے اسکے تکیہ کو باہوں میں دبوچ گیا تھا جس پر اسراء اپنے بال پھیلائے لیٹی تھی کچھ دیر پہلے اور اپنی آنکھیں بند کرگیا تھا ۔ 

اسراء کمرے میں آئی کھانا لیتے تو وہ گہری نیند میں اسکا تکیہ دبوچے سو رہا تھا ۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے وہ اسکے قریب آتی اسکا چہرا دیکھنے لگی جس پر بلا کا سکون تھا کھانا اسکے قریب رکھتی وہ بے خیالی میں بہکتے اسکے ماتھے پر آئے بھورے بالوں کو پیچھے کرگئی جب اسی لمحے ضرغام آنکھیں کھول گیا۔ 

اسراء کا ہاتھ بھی اسکے بالوں میں تھا جبکے نظریں ضرغام کی نظروں پر تھی اسراء سانس روکے اپنی حرکت پر شرمندہ ہوتی اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ گئی ۔ 

کھانا اسکے سامنے رکھتی وہ اٹھ کھڑی ہوئی جب ضرغام خوبصورت مسکراہٹ لیئے اسے دیکھ کم چھیڑ زیادہ رہا تھا ۔ جیسے دیکھ لو میرے بغیر تم بھی سکون میں نہیں ہو___

کھانا کھاتے اسکی نظریں بار بار اسراء کی طرف اٹھ رہی تھی جو صوفے پر بیٹھی کوئی ناول پڑھ رہی تھی۔ 

خاموشی سے کھانا کھاتے ضرغام چینج کرتا باہر آیا تو اسراء وہاں نہیں تھی وہ بستر پر لیٹتے اسکے آنے کا انتظار کرنے لگا ۔ وہ اسکے سینے سے لگ کر نہیں سو رہی تھی لیکن اسکے ساتھ ایک بستر پر سو رہی تھی فلحال یہی ضرغام کے لیئے بہت تھا۔

_______❤️ حیا خان ❤️______

خان ہم نے کتنی بار کہا ہے آپ سے یہ سگریٹ بری شے ہے اسے منہ سے مت لگایا کریں ___"

نرمین نے کمرے میں آتے دیکھا تو کبیر گیلری میں کھڑا سگریٹ پی رہا تھا ۔ 

اسکے سامنے تو وہ نہیں پیتا تھا لیکن اکثر اسکی غیر موجودگی میں کش لگالیا کرتا تھا۔ 

نرمین منہ بناتی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہوتے کانوں سے آویزے اتارنے لگی۔ 

جب کبیر سگریٹ وہی مسلتے بھاری قدم اٹھاتے اسکے قریب آیا ۔ 

ہمم canım  تمہیں سگریٹ نہیں پسند___جانتا ہوں لیکن تمہیں پتہ ہے مجھے تمہاری خوشبو کتنی پسند ہے___"

کبیر اسکی پشت کو اپنے سینے سے لگاتا اسکے بالوں کو ایک طرف کرتے گہری سانس بھرتے اسکی مہک کو خود میں اتار گیا تھا کے نرمین اسکے ہاتھوں کو تھام گئی تھی اسکے جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے تھے کبیر کے اس عمل سے ۔ 

مجھے لگتا ہے ہمیں مزید محنت درکار ہے اپنی زندگی میں ایک پھول کھلانے کے لیئے ۔ کیا کہتی ہو Canım___"

کبیر کے بےباک جملے کو سنتے نرمین کان کی لو تک سرخ پڑی تھی۔ 

خ_خان چھوڑیں ہمیں بہت رات ہوگئی ہے اور ہم آپ سے ناراض بھی ہیں آپ ہم سے چھپ چھپ کر سگریٹ پیتے ہیں___"

نرمین اسکے حصار سے نکلتی دور ہوگئی تھی کے کبیر کے ماتھے پر بل پڑے ۔ 

یہاں آؤ واپس__"

کبیر کی چڑچڑی آواز پر نرمین نے پلٹ کر اسے دیکھا تو مسکراتے واپس پلٹ گئی۔ 

جی نہیں__ جب آپ ہماری بات مانتے یہ سگریٹ چھوڑدینگے تب ہم آپکی مانینگے___"

نرمین کی بات سنتے کبیر کے بل سیدھے ہوئے ۔

میں آؤنگا تو بہت برا ہوگا___سوچ لو__"

کبیر نے دھمکی دی جسے دیکھ پہلے تو نرمین گھبرائی تھی لیکن پھر اگنور کرتی نفی میں سر ہلاگئی ۔ 

اچھا یار میں نہیں پیونگا اب اور میں تم سے چھپ چھپ کر نہیں پیتا آج بس دل چاہا تھا کافی دن بعد اسلیئے میں نے پی لی۔___"

کبیر وضاحت دیتے اسکے قریب آنے لگا تو وہ مزید پیچھے ہوئی۔ 

ہم کیسے مانیں آپکی بات آپ کا پھر دل چاہا اور آپ نے پھر سے پی لی تو__"؟

نرمین پیچھے کی طرف قدم اٹھاتے ہوئے بولی تو کبیر نے ایک ائیبرو اٹھاتے اسے دیکھا اور اسکے مزید قریب ہونے لگا۔ 

نرمین پیچھے قدم اٹھاتی دیوار سے جا لگی تھی اسنے پلٹ کر ایک نظر پیچھے دیکھا اور جب تک وہ آگے مڑی کبیر اسکے قریب آتے رک کر اسکے اردگرد حصار بنا گیاتھا ۔ 

تمہیں پتہ ہے میں جھوٹ نہیں بولتا_اور تم میرے بلانے کے باوجود میرے پاس نہیں آئی__"

پہلا جملہ مغروریت اور دوسرا جملا استہزائیہ بولتے کبیر اسکے مزید قریب ہوا تو نرمین کا سانس لینا محال ہوا ۔ 

ہ_ہم آرہے تھے خان ___"

نرمین کے ماتھے پر پسینہ چمکنے لگا۔ 

تم نہیں آرہی تھیں جانم___مجھے خود آنا پڑا__ میں نے کہا ہے نا کے میرا حکم مت ٹالا کرو___مجھے بلکل نہیں پسند ___"

اسکی انکھوں میں دیکھتے اور پھر اسکے ہونٹوں کو دیکھتے کبیر نے گہرے لہجے میں کہا تو نرمین نے اپنا سانس تک روک لیا ۔ 

ہم_ہمیں معاف کردیں___ "وہ بنا سانس لیئے اپنا جملہ مکمل کرگئی تھی جو کبیر کی گہری نظروں سے مخفی نا رہا تھا ۔ 

تمہارا سانس میں تم سے زیادہ بہتر طریقہ سے روک سکتا ہوں __"

اسے گود میں اٹھاتے کبیر نے بستر کی طرف قدم بڑھائے تھے کے نرمین کی ہتھیلیاں تک نم ہوئی۔ 

بستر کے پاس کبیر نے اسے اتارا تو وہ لڑکھڑا کر چکر کھاتے بستر پر گری ۔ 

نرمین کیا ہوا تم ٹھیک ہو__؟"

کبیر پریشانی سے اسکے پاس بیٹھا لیکن وہ ابھی تک اپنے سر کو تھامے ہوئے تھی ۔

کیا ہوا جانم تمہاری طبیعت پھر خراب ہورہی ہے کیا___؟"

کبیر نے اسکے چہرا تھامتے پوچھا تو وہ نفی میں سر ہلاگئی۔ 

پتہ نہیں بس یونہی چکر سا آگیا تھا___"

کبیر پریشانی سے اسے دیکھنے لگا۔ 

ہر وقت دوسروں کی خدمت میں لگی رہتی ہو اپنا خیال بلکل نہیں رکھنا آتا ہے تمہیں___"

کبیر نے غصے سے کہا تو وہ سر جھکا گئی ۔ 

آرام کرو اب میں بھی چینج کر کے آتا ہوں___"

کبیر بولتے واشروم میں بند ہوا تھا ۔ چند لمحوں میں وہ باہر آیا اور بستر پر لیٹتے اسے کھینچتے اپنے حصار میں لے گیا تھا۔ 

میری جان اپنا خیال رکھو بہت بلکے ہم کل ہی ڈاکٹر کے جا کر تمہارا فل چیک اپ کروا کر آئینگے ___"

کبیر نے پریشانی سے کہا تو نرمین بھی مسکراتی چہرا اٹھا کر اس پر جھکی اسے دیکھنے لگی۔ 

ہم بلکل ٹھیک ہیں خان آپ پریشان مت ہوں__ ڈاکٹر کے جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے_".

نرمین کی بات پر کبیر اسے گھورنے لگا تو وہ ہونٹ دباتے واپس لیٹ گئی ۔ 

________❤️ حیا خان ❤️________

صبح کی کرنیں آسمان کو روشن کرگئی تھی۔ اسراء بستر اور کمرا سمیٹ رہی تھی جب ضرغام بال رگڑتے واشروم سے باہر آیا ۔ 

بلیک کرتا شلوار میں وہ بال سکھاتے کُرتے کے بٹن بند کرنے لگا۔ جب اسراء کی اس پر نظر اٹھی اور وہی ٹہر گئی ۔ جو اب آسنتین فولڈ کر رہا تھا ۔ کالے کرتے میں وہ حددرجہ ہینڈسم لگ رہا تھا کے اسراء ہاتھ میں تکیہ پکڑے ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگی ۔ 

پرفیوم کی بوتل اٹھاتے وہ خود پر چھڑکنے لگا جب اسکے ہاتھ تھمے وہ اسراء کو شیشے سے ہی دیکھنے لگا جس نے اسکے دیکھنے سے بھی نظروں کا زاویہ نہیں بدلا تھا ۔ اسکی مدہوشی دیکھ ضرغام مسکرایا تھا۔ ایک خوبصورت مسکراہٹ۔ 

ہاتھ میں گھڑی باندھتے ضرغام نے ایک نظر خود کو دیکھا۔ اور پلٹ کر قدم قدم چلتے اسکے قریب آکر رکا۔ کے اسکے قریب آکر رکنے پر اسراء ہوش میں آئی اور ادھر اُدھر دیکھتی اپنی شرمندگی زائل کرنے لگی۔ 

اسکے بال کان کے پیچھے کرتے ضرغام نے مسکراتے اسکا حسین چہرہ دیکھا تھا۔ اسراء نا سمجھی سے اسے دیکھنے لگی۔

بند کرو یہ ناراضگی کا ڈھونگ باربی ڈول__میری محبت میں گودے گودے ڈوبی ہو ___ اتنا آسان نہیں ہے اس محبت کو جھٹلانا___ "

ضرغام کے بھاری لہجہ کو سن کر اسراء کی لرزتی پلکیں جھکی تھی۔۔۔

جب ضرغام نے کمر میں ہاتھ ڈالے اسے اپنے قریب کیا تھا.

ابھی بھی وقت ہے__ جس طرح اپنی محبت سے مکر گئی تھی اُس غلطی کی تلافی کرلو کے اگر میں نے اس غلطی پر نظر ثانی کرلی تو پھر اٹھتے بیٹھتے اپنی محبت کا اظہار کرواؤنگا __"

ایک ایک لفظ اسکی آنکھوں میں دیکھ کر بولتے ضرغام نے اسکے چہرے سے ساری رونق اپنی مٹھی میں قید کرلی تھی کے وہ خوف سے اسکا چہرا دیکھنے لگی۔ 

اسکے سینے پر ہاتھ رکھے ہلکے سے جھٹکا دیتی وہ اسے خود سے دور کرتی تھوک نگلتی اسے دیکھنے لگی۔ کے ضرغام اسکے چہرا خوف سے سفید پڑتے دیکھ مسکرایا۔ 

آج رات تک کا وقت دے رہا ہوں بس _ یہ ناراضگی ختم کرو اور مان لو کے تم بھی مجھ سے محبت نہیں عشق کرتی ہو ورنہ یاد رکھنا آج میں تمہارے لیئے بہت نقصان دہ ثابت ہونگا___"

پیچھے کی طرف قدم اٹھاتے ضرغام نے مسکراتے اسکی آنکھوں میں دیکھتے ایک ایک لفظ کہا تھا کے اسراء حیرانی سے اسکی منطق دیکھنے لگی۔ وہ اسکی خاموشی کو اسکی ناراضگی کو سیریس کیوں نہیں لے رہا تھا ۔ اور معافی وہ ڈنکے کی چوٹ پر مانگ رہا تھا ۔ یہ ضرغام خانزادہ کبھی اسکی سمجھ میں نہیں آئے گا غصہ سے تکیہ کو بستر پر پھینکتے اسنے ضرغام خانزادہ کی پشت کو گھورا تھا جو اب کمرے سے جا چکا تھا۔ 

انہیں لگتا ہے میں انکی دھمکیوں سے ڈرتی ہوں___"

میں بھی انہیں ڈھیٹ بن کر دکھاؤں گی ___ اُف اسراء اُف کیسے دیکھ رہی تھی تم انہیں وہ تو یہیں سمجھیں گے نا کے میں شاید واقعی ان کے پیچھے ابھی بھی مرتی ہوں__"

خود کو کوستے اسراء نے اپنا آپ آئینہ میں دیکھا تھا ۔ تو کیا اب وہ ضرغام خانزادہ پر نہیں مرتی__؟"

اسکے دل نے اس سے سوال کیا تھا جس پر وہ سو بار سر اثبات میں ہلاتی جواب دیتی لیکن اب منہ سے اقرار __ کبھی نہیں__.

_______❤️ حیا خان ❤️______

آج کافی دیر ہوگئی تھی لیکن ضرغام ابھی تک گھر نہیں آیا تھا فون کرکے تو وہ کبھی نا پوچھتی اسلیئے بار بار کھڑکی سے دیکھنے لگی لیکن وہ نہیں آیا تھا رات کا ایک بج رہا تھا۔  جب اسراء نیچے آئی اسکا ارداہ اب اسمارہ بیگم کو اٹھانے کا تھا لیکن اس سے پہلے وہ کمرے تک پہنچتی ضرغام کی گاڑی کی آواز پورچ سے آئی تو وہ بھاگی ہوئی مین ڈور تک گئی۔ 

دروازہ کھولتے اسنے دیکھا تو ضرغام وہی صبح کے کالے کرتے میں تھا لیکن ماتھے پر سفید پٹی دیکھ اسراء کے طوطے اب اڑے تھے ۔ 

وہ بھاگی ہوئی اسکے قریب گئی جو دروازہ بند کرتے اب اندر کی طرف ہی آرہا تھا۔ 

یہ __یہ کیا ہوا ضر اپکے ماتھے پر یہ پٹی کیوں ہے___"

اسے اتنے دن بعد  اپنے لیئے یوں فکر مند ہوتے دیکھ ضرغام نے حیرت سے اسے دیکھا تھا ۔ وہ اتنے دنوں بعد اس سے خود سے ہمکلام ہوئی تھی ضرغام کا دل تو ہواؤں میں اڑ رہا تھا لیکن چہرے سے ظاہر ہونے نا دیا ۔ 

جان بوجھ کر ایک قدم چلتے وہ لڑکھڑایا تھا تو اسراء نے قریب آتے اسے اپنے حصار میں لیا ایک ہاتھ اپنے اوپر سے گزارتے اسنے دوسرے کندھے پر ڈالا جبکے دوسرا ہاتھ اسنے ضرغام کی کمر سے گزار کر اسے تھاما جسے دیکھ ضرغام دل ہی دل میں مسکرایا تھا ۔ 

اسراء تھامتی اسے کمرے میں لے کر گئی اور اس نازک جان نے بہت مشکلوں سے ضرغام کو بستر پر بٹھایا۔ 

ضر__یہ کیسے ہوا کیا ہوا یہ آپکو ___" 

اسکے پاس بیٹھتے وہ دو لمحوں میں اپنی آنکھوں میں آنسو لے آئی تھی کے ضرغام نے دل ہی دل میں اس لڑکی کو آنسوؤں کی چلتی پھرتی نہر کا لقب دے دیا تھا۔ لیکن چہرا مظلوم بنائے وہ آنکھیں بند کرگیا۔ 

کچھ نہیں بس وہ چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوگیا تھا ۔ تمہاری سوچ ذہن سے نکلتی ہی نہیں ہے __ کیسے جیوں میں تمہاری اس ناراضگی کے ساتھ بس دن رات ذہن پر یہی بات سوار رہتی ہے___"

ضرغام نے افسوس اور بےبسی سے سر ہلایا تو اسراء آنکھوں میں آنسو لیئے اسے دیکھنے لگی ۔

کاش میں بچتا ہی نا اس ایکسیڈینٹ میں ___ کاش___"

اسکا جملا مکمل بھی نہیں ہو پایا تھا کے اسراء پھوٹ پھوٹ کر اسکے گلے لگتے رونے لگی ۔ 

آپ ایسے ک_کیوں کہہ رہے ہیں__ اللّٰہ نا کرے آپکو کچھ ہوتا__اگر آ_آپکو کچھ ہوتا تو ہم مرجاتے___"

اسراء نے ہچکیوں سمیت اپنا جملا مکمل کیا تو ضرغام نے لب دانتوں میں دباتے اپنی چھوٹی سی بیگم کو دیکھا تھا ۔ واقعی لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے__ ضرغام نے دل میں سوچتے ہی اسکے گرد حصار بنایا۔ 

لیکن تم تو اب مجھ سے محبت ہی نہیں کرتی تو کیا فائیدہ ایسی زندگی کا __"

ضرغام نے اسکے سر پر تھوڑی ٹکاتے پوچھا تو وہ اس سے الگ ہوتی آنسوں بھری آنکھوں سے اسکا چہرا دیکھنے لگی۔

وہ خاموش تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کیا کہے جب ضرغام بھی سنجیدہ ہوتے اسکا چہرا دیکھنے لگا ۔ اور پھر اسے دور کرتے بے رخی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ 

اسراء نے اسکے جانے سے پہلے ہی اسکا ہاتھ تھام لیا تو ضرغام نے رکتے سنجیدہ نظروں سے اسے دیکھا لیکن وہ پھر بھی کچھ نا بولی تو ضرغام کا میٹر گھوما ۔

اسے جھٹکے سے کھینچتے ضرغام نے اسکے دونوں ہاتھوں کو تھامتے موڑ کر پیچھے اپنے ایک ہاتھ میں لیا تو وہ اس درد سے کراہتی اسے دیکھنے لگی۔ 

اگر وہ ضدی تھی تو ضرغام خانزادہ بھی اس ضد کو توڑنے کی صلاحیت رکھتا تھا ۔ 

کہو آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہو اور ہمیشہ کرتی رہوگی ___"

ضرغام نے تپش زدہ سانسوں کو اسکے چہرے پر چھوڑتے بھوری آنکھوں کو اسکی ہری آنکھوں میں گاڑھتے سرد لہجہ میں کہا تو اسراء کے جسم نے جھجھری لی۔

آنکھوں میں آنسو بھرتے وہ اس ستم گر کو دیکھ رہی تھی جو کسی حال میں بھی اس پر رحم نہیں کھاتا تھا لیکن اسی ضرغام خانزادہ سے تو اسے عشق تھا۔ 

ہ_ہم آپ سے محبت کرتے ہیں__اور اپنی آخری سانس تک کرتے رہینگے___" 

آنکھ سے انسو بہہ کر نکلا تو ضرغام نے اس جام کو پیتے اسکے ہاتھ پر پکڑ مزید سخت کی ۔ ضرغام کے دل پر ٹھنڈی پھوار گری تھی جو تب سے کسی اندیکھی آگ میں جل رہا تھا جب سے اسراء نے اس کی محبت کی نفی کی تھی۔ 

کہو کس کی ہو___" 

ضرغام نے پھر اسکی آنکھوں میں جھانکتے خمار زدہ بھوری نگاہوں سے اسے دیکھتے سوال کیا تھا ۔ 

اور اُف اسکا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا ستم تھا۔ 

"آ__آپکی ہوں __صرف آپکی __"

یہ الفاظ سنتے ضرغام نے اسے مزید خود کے قریب کیا تھا کے یہ الفاظ ضرغام خانزادہ میں اسکی محبت کا غرور پھر سے آباد کرگئے تھے وہ سرشار سا ہوتے اپنے الفاظ پھر سے دوہراگیا تھا ۔ 

دوبارہ کہو کس کی ہو تم ___"؟؟؟

اسکا سوال سنتے اسرء نے اپنی مقدس پلکوں کا جال گرایا تو ضرغام خانزادہ اسکی اس ادا پر فدا ہوا تھا۔ 

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہو کس کی ہو تم___"؟

ضرغام نے مزید سختی سے اپنا الفاظ دوہرایا تھا کے اسراء نے آنکھیں میچ کر پلکوں کا باڑ اٹھا کر اسے دیکھا۔ 

اسراء خانزادہ صرف ضرغام خانزادہ کی ہے___"

اسکے الفاظ سنتے ضرغام خانزادہ مسکرایا تھا فتح کن مسکراہٹ ہر جنگ جیت لینے کی مسکراہٹ اپنی قسمت کو پالینے کی مسکراہٹ اپنی محبت حاصل کرلینے کی مسکراہٹ___اسکے اس خوبصورت اظہار پر ضرغام نے اسکے ہاتھ چھوڑتے اسے کمر سے تھامتے اپنے قریب کیا تھا اور اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا کے اسراء سرشار سی ہوتی نم آنکھوں سے مسکرائی تھی۔ 

اور یہ اظہار تو وہ صبح شام کرنے کو تیار تھی کے اسراء صرف ضرغام کی ہے___.

ضرغام خانزادہ تم سے بے تحاشہ محبت کرتا ہے میری زندگی تمہاری عادت تمہاری طلب تمہاری قربت سب میرے لیئے سانس لینے کے متارادف ہے ___ میں ہمیشہ تم سے ایسی ہی محبت کرونگا اگر یہ آنکھیں تمہیں اخری لمحہ بھی نا دیکھ سکے تو یقین رکھنا ان میں آخری عکس ہمیشہ تمہارا ہوگا ___"

ضرغام کے اس خوبصورت اعتراف پر اسراء نے نم آنکھوں سے سر اٹھا کر اسکی بھوری آنکھوں میں دیکھا تھا ۔ 

آپ سچ میں ہم سے اتنی محبت کرتے ہیں یا یہ ہمارا خواب ہے__"

اسراء نے نم لہجہ سے اپنا خدشہ ظاہر کیا تو ضرغام نے مسکراتے اسے اپنی باہوں میں اٹھایا ۔ 

اب ساری زندگی صبح و شام میں تمہیں اس بات کا یقین دلاونگا کے ضرغام خانزادہ اسراء ضرغام خانزادہ سے بے پناہ عشق کرتا ہے___" 

اسے بستر پر لٹاتے وہ اس پر اپنی محبت کی برسات کرتا چلا گیا تھا کے اسراء مسرور ہوتی اسکی بانہوں میں مسکرادی تھی ۔ 

ضروری نہیں محبوب بہترین ہی ہو ۔ محبوب برا بھی ہوسکتا ہے اور گنہگار بھی ۔ محبت کا کام ہوتا ہے بس اپنا لینا اور عیب کو ڈھانپ دینا ۔ اسے سیدھی راہ دکھانا جو اسراء خانزادہ نے ضرغام خانزادہ کو دکھائی تھی۔ 

آج اسراء خانزادہ کو اپنی محبت مل گئی تھی آج وہ دنیا کی خوش قسمت لڑکیوں میں سے بن گئی تھی جنکی قسمت میں انکا رب انکی محبت ڈال دیتا ہے اور محبت بھی وہ جو اپنے محرم س

نرمین اور کبیر کی زندگی میں بھی اللّٰہ نے ایک روشن پھول کھلایا تھا جب سے وہ یسپتال سے آئے تھے نرمین کو سب بڑوں نے گھیر رکھا تھا جبکے وہ کمرے میں بیٹھا کب سے اسکا انتظار کررہا تھا جو اب تک نہیں آئی تھی ۔ 

کبیر نے پلٹ کر گیلری کا منظر کا دیکھا تھا ۔ جہاں اسنے فیری لائیٹس لگاتے سفید پردوں سے پوری گیلری کو ڈھک دیا تھا زمین پر سفید گدے کے ساتھ تکیہ لگاتے اسنے خوبصورت سی بیٹھک بنائی تھی اور سامنے رکھا ایک چھوٹا سا کیک وہ سب ریڈی کر چکا تھا ۔

شام کے سائے ڈھل چکے تھے لیکن وہ اب تک نا آئی تھی کبیر بے تاب تھا اسے اپنی بے چینیاں بتانے کو اپنی خوشی دکھانے کو اپنے بے تابیاں اسکے گوش گزار کرتے وہ اسے اپنے سینے سے لگانا چاہتا تھا ۔ لیکن وہ آئے تب نا وائٹ شرٹ جس کے اوپری دو بٹن کھلے تھے ساتھ بلیک پینٹ پہنے بالوں کو جیل سے سیٹ کیئے وہ ہری کائی سی گہری آنکھوں کے ساتھ بے تحاشہ ہینڈسم لگ رہا تھا سفید سرخ پٹھان اور اس پر سفید ہی شرٹ اسے کسی اور دنیا کا شہزادہ بتا رہی تھی کے نرمین تو پہلے ہی اس کی محبت میں فدا تھی اب وہ اور کس طرح اسکی جان لیتا ۔

 خود کو ایک نظر دیکھتے کبیر مسکرایا تھا اور پھر پیچھا پلٹا جب نرمین کمرے میں داخل ہوئی اور کمرے میں ڈم لائیٹس دیکھ وہ پریشانی سے یہاں وہاں دیکھنے لگی ۔ 

قریب جاتے وہ لائیٹس آن کرتی کے کبیر نے کھینچتے اسے اپنے حصار میں لیا اور اس سے پہلے وہ چیختی کبیر اسکے ہونٹوں پر انگلی رکھتے اسے خاموش کراگیا تھا ۔ اسکے کلون کی مہک نرمین کے لیئے کافی تھی ورنہ اسکا دل اس اندھیرے میں اچھل کر حلق میں آگیا تھا۔ 

کہاں تھیں اتنی دیر سے___"

نرمین کے کان کے قریب سرگوشی کی گئی تھی۔ 

ہم سب کے ساتھ بیٹھے تھے___"

نرمین نے اس سے بھی دھیمی سرگوشی کی تھی۔ 

تو ان سب میں شوہر کا خیال نہیں آیا ___"

کبیر نے پھر اسکے کان میں پہنی بالی کے ساتھ چھیڑ خانی کی تھی۔ 

آیا تھا لیکن ہم ان سب کو ایسے چھوڑ کر نہیں آسکتے تھے نا___"

نرمین نے پھر سرگوشی نما آواز میں بولا ۔

کبیر نے اسکی خوشبو میں گہرا سانس بھرا تو وہ آنکھیں بند کرگئی۔ 

آپ خوش ہیں خان___"؟

دل کی بات زبان پر لائی گئی تھی۔ 

خوشی کا مت پوچھو Canım __ میرے دل میں چھپی وارفتگیاں اگر تم جان جاؤ تو پھر سے بے ہوش ہوجاوگی ___"

کبیر کی خمار بھری سرگوشی سنتے نرمین نے آنکھیں کھولتے اسے دیکھا ۔ 

اور پھر اسکے مزید قریب ہوتے وہ کبیر کی گردن میں چہرہ چھپا گئی۔ 

ہم بہت خوش ہیں خان___ اللّٰہ پاک نے ہمیں بہت بڑی نعمت سے نوازا ہے کے ہم دن رات اسکے لیئے سجدے میں گر کر شکر ادا کریں تو بھی کم ہے___ ہمارا رب بہت رحیم ہے وہ اپنے بندوں کی آزمائش کے بعد اسے اسکے صبر کا صلہ ضرور دیتا ہے ____"

وہ نم لہجہ میں بولی تھی اور کبیر کو مزید سختی سے خود میں سمونے لگی تھی کے کبیر اسکی گرفت اور گردن پر محسوس ہوتی نمی پر مسکرایا ۔ 

وہ واقعی رحیم ہے پتہ ہے کیوں ___؟ کیونکہ اسنے نرمین خانزادہ کو میرے حصّے میں لکھا ہے ۔ میں اس لائق نہیں تھا جو مجھے میسّر آیا ہے وہ واقعی اپکی نیت دیکھ کر نہیں نوازتا اپنی محبت کے مطابق نوازتا ہے اور تمہیں حاصل کرکے میں یہ بات جانا ہوں کے میرا رب واقعی مجھ سے بے حد محبت کرتا ہے___"

کبیر نے اسکی نم آنکھوں پر بوسہ دیا تو نرمین روتے روتے مسکرائی۔ 

ہمارا رب واقعی ہم سے محبت کرتا ہے اور اس کا ثبوت آپکا ہمارے سامنے ہمارا ہونا ہے___ کے جسے ہم نے بچپن سے چاہا وہ آج ہماری زندگی کا حصّہ ہیں۔ اور آپ اس لائق تھے خان آپ اسی لائق تھے ___"

آپ حسین ترین مردوں میں سے ہیں کیونکہ آپکے دل میں وفا دھڑکتی ہے__ اور ہم دنیا کی خوبصورت ترین عورتوں میں سے ہیں کیونکہ جس دل میں وفا دھڑکتی ہے اس دل پر ہماری حکمرانی ہے___"

اسکے اس خوبصورت اظہار پر کبیر سرشار سا ہوتا اسے کمر پر دونوں ہاتھوں سے تھامتا یونہی اپنے حصار میں اوپر اٹھاگیا تھا وہ اسکی گردن میں چہرہ چھپاتی اس کے گرد پکڑ مضبوط کرگئی تھی۔ 

اسے گیلری میں آتے زمین پر اتارتے کبیر نے اسے خود سے دور کیا تو وہ اتنی روشنی کمرے کے اس حصہ میں دیکھ کر چونکی۔ پھر گھوم کر اس سجاوٹ کو خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ دیکھنے لگی۔ 

یہ سب بہت خوبصورت ہے خان___"

کبیر نے اسے پیچھے سے حصار میں لیا تو وہ مسکراتی اسکے ہاتھوں پر ہاتھ رکھ گئی۔ 

تم بے حد خوبصورت ہو خان کی جان___"

کبیر کے جملے پر نرمین شرماتی نظریں جھکا گئی تھی ۔ جب کبیر اسے تھامتا وہاں بٹھاگیا تھا اور پھر خود بھی اسکے برابر آ بیٹھا ۔  اسکے ہاتھ میں چھری تھماتے کبیر اور اسنے مل کر کیک کاٹا تھا ۔ 

بہت شکریہ میری زندگی مجھے یہ خوبصورت احساس بخشنے کے لیئے کے میں ہمیشہ تمہارا شکر گزار رہونگا___" 

وہ نرمین کے سر پر بوسہ دیتے کئی لمحے وہی ٹہرتا خود کو یقین دلانا چاہ رہا تھا کے وہ واقعی خوش نصیب ہے۔ 

_________❤️ حیا خان ❤️________

(_چار سال بعد_) 

اللّٰہ نے فردان کی زندگی میں اسے دو جڑواں بیٹیوں سے نوازا تھا نور العین فردان خانزادہ اور حور العین فردان خانزادہ جو فردان کے ساتھ ملتی ہمیشہ راحمہ کی ناک میں دم کر کے رکھتی تھی ۔ دکھنے میں وہ بلکل فردان جیسی تھی جبکے حرکتیں انکی پوری پوری راحمہ پر گئی تھی ۔ اور اپنی جیسی ہی اولاد ملتے راحمہ کے تو پسینے چھوٹ گئے تھے ۔ 

یہ پاگل پٹھان اور انکی بیٹیاں ہم معصوم کو جنت کے نظارے کروا کر ہی چھوڑینگے___"

وہ جلتی کلستی کمرے میں آئی تھی ۔ پورے ہفتے میں ایک دن فردان نے اپنی بیٹیوں کے لیئے رکھا تھا اس دن وہ زمینوں پر نہیں جاتا تھا بلکہ اپنا ہر کام پرے رکھتے وہ پورا دن اپنی بیٹیوں کے ساتھ گزارتا تھا جبکے وہ دن راحمہ کی جان پر عذاب ہوتا تھا کیونکہ وہ تینوں ہر تھوڑی دیر بعد کچھ کھانے کی فرمائش کرتے تھے اور راحمہ کچن کی ہی ہوکر رہ جاتی تھی۔ 

ابھی ابھی وہ کچن سے بڑبڑاتی ہوئی کمرے میں آئی تھی اور آکر سکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھی ۔ 

سامنے اسکا پاگل پٹھان اور اسکی دونوں چہیتیاں تکیہ سے ایک دوسرے کو مار رہے تھے جبکے تکیہ میں بھری ساری روئی پورے کمرے میں برف باری کا منظر پیش کررہی تھی ۔ راحمہ کو دیکھتے وہ تینوں تھم کر اسے دیکھنے لگے جو خونخوار نظروں سے انہیں دیکھ رہی تھی ۔ 

جب وہ تینوں اس سے ڈر کر زبردستی سا مسکرائے۔ 

ہم صاف کردینگے یہ آپ فکر مت کریں راحمہ___" 

راحمہ کے تاثرات دیکھ فردان فوراً سے پہلے بولا تھا جب دیکھتے ہی دیکھتے راحمہ کی آنکھوں میں آنسو جمع ہوئے اور وہ چل کر صوفے پر آکر بیٹھتی تیز آواز میں رونے لگی۔ 

یا اللّٰہ ہم کام کر کر کے مر جائینگے لیکن یہ باپ بیٹی پھیلا پھیلا کر نہیں تھکتے___"

وہ زور زور سے رونے لگی کے راحمہ کو ایسے روتے دیکھ اسکی دونوں بیٹیاں اور فردان ہونقوں کی طرح اسے دیکھ لگے لیکن پھر معاملے کی سنگینی دیکھتے فردان بستر سے اترتے اسکے پاس آکر بیٹھا اور اسے سینے سے لگانے لگا جب وہ اسے دھکا دیتی پیچھے ہوکر بیٹھی اور پھر رونے لگی۔ 

آپ __ آپ ہمیں ملازمہ سمجھتے ہیں___ آپ ہم سے بلکل پیار نہیں کرتے صرف اپنی بیٹیوں سے پیار کرتے ہیں__ روز یہ ہمیں تھکاتی ہیں اور پھر ہفتے میں ایک دن گھر میں بیٹھ کر آپ ہمیں رلاتے ہیں ___"

اسے ایسے روتے دیکھ فردان کا تو کلیجہ منہ کو آیا تھا ۔

سوری نا میری جان ہم معافی مانگ رہے ہیں نا آپ سے دیکھیں ہم تینوں کان پکڑ کر معافی مانگ رہے ہیں ____"

ضرغام نے نور اور حور کو اشارہ کیا تو وہ بھی بھاگی ہوئی آئی اور فردان کے برابر میں کھڑی ہوتی کان پکڑ گئی۔ 

مولے مولے ہمیں معاف کلدیں___یہ شب ہماری غلطی نہیں ہے بابا جان نے کیا ہے یہ شب___"

انکی اس الزام تراشی پر تو فردان آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھنے لگا جو معصوم شکل بناتی کان پکڑی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ 

انکے اس سفید جھوٹ پر راحمہ اپنی ہنسی روک نا سکی جب کے فردان کی شکل دیکھنے والی تھی۔ 

دیکھا آپ نے۔  یہ آپکی پریاں کسی کی سگی نہیں ہیں__"

راحمہ کی بات پر نور اور حور مسکراتی فردان کو دیکھنے لگی جب راحمہ نے ان دونوں کے کان پکڑتے کھینچے ۔ 

آہہہ__مولے___"

انکی چیخ پر فردان نے راحمہ کا ہاتھ پیچھے کیا۔

کیا کررہی ہیں یار راحمہ ہماری بیٹیوں کے کان خراب کرینگی کیا آپ ___"

فردان کی فضول سی بات پر راحمہ گھور کر اسے دیکھنے لگی جو پیار سے انکے کان سہلارہا تھا۔ 

یہ سب فوراً سے سمیٹیں آپ لوگ اسراء کے گھر بھی جانا ہے عینہ کا برتھ ڈے ہے ہم اب تیاری کریں یا یہ سب سمیٹے__"

راحمہ نے گھور کر تینوں کو دیکھا جو معصومیت کا پیکر لگ رہے تھے ۔

اُف خدایا! کہاں پھنس گئی تھی وہ___

______❤️ حیا خان ❤️_______

بلو کلر کا خوبصورت سا فراک پہنے اسراء تیار کھڑی تھی اور اب وہ عینہ کو بھی بلو کلر کا فراک پہناتی تیار کرتی اسکے بال بنا رہی تھی ۔ اسراء اور ضرغام کی ایک ہی بیٹی تھی جسکا نام عینہ ضرغام خانزادہ تھا ۔جو پوری طرح سے ضرغام پر گئی تھی رنگ بھی اسکا بادامی تھا جبکے بال اور آنکھیں بلکل ضرغام کی طرح بھورے تھے ۔ وہ ضرغام کی کاربن کاپی تھی بس ایک ناک کا تل اسنے اسراء سے چرایا تھا ۔ جو لڑکی پہلے سانولی رنگت کو عام سمجھتی تھی اب اسکو دنیا جہاں کی خوبصورتی اپنے شوہر اور اپنی بیٹی میں ہی نظر آتی تھی ۔ 

وہ اسکے بال بناتی اسے شوز پہناگئی تھی جب ضرغام بھی بیلک شرٹ پہنے اس پر بلو کوٹ پہنتا آئینہ میں کھڑا اپنے بال بنانے لگا جبکے پیچھے اسراء اور عینہ اسے دیکھ کر دیکھتی رہ گئی تھی ۔ جس طرح اسراء ضرغام خانزادہ اپنے شوہر کی دیوانی تھی ویسے ہی عینہ ضرغام خانزادہ بھی اپنے باپ کی دیوانی تھی۔ 

وہ دونوں محویت سے اسے تک رہی تھی سب بھلائے جب ضرغام نے پلٹ کر ان دونوں کو خود کو تکتے دیکھا تو مسکرایا ۔ یہ تو انکا روز کا کام تھا  ۔ سر جھٹکتے وہ مسکراتا انکے قریب آتے وہ عینہ کو اپنی گود میں اٹھا گیا جبکے اسراء کے گال کا وہ شدّت بھرا بوسہ لے گیا جو آج بہت حسین لگ رہی تھی۔ 

بابا ہینشم___"

(عینہ اپنی زبان میں اسے ہینڈسم کہنا چاہ رہی تھی) جب ضرغام قہقہہ لگاتا اسکے بھی دونوں گال چوم گیا ۔ 

"MY beautiful princess ___"

اسکے لقب اور داڑھی کی چبھن پر عینہ کی بھی کھلکھلاہٹ کھلی تھی ۔ 

اسراء نے ان دونوں کو مسکرا کر دیکھا اور پھر دعائیں پڑھتے ان پر اللّٰہ کی حفاظت کا حصار پھونک گئی۔ 

ضرغام نے محبت پاش نظروں سے اسے دیکھا تھا جو اسکی محبت میں دن با دن کھلتی چلی گئی تھی ۔ 

کچھ زیادہ ہی پیاری لگ رہی ہو باربی ڈول___ آج فرصت سے تمہاری تعریف کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں___"

ضرغام نے آنکھ مارتے اسے اپنی سوچوں سے آگاہ کیا تو وہ عینہ کے سامنے اس کی بےباک بات پر اسے گھور بھی نا سکی ۔ 

کیسی باتیں کررہے ہیں ضر عینہ کے سامنے___"

اسکا گلاب چہرہ دیکھتے ضرغام نے عینہ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے اسراء کے دوسرے گال کا بھی بوسہ لیا تو اسراء مزید سرخ ہوئی۔ 

چلو چلو نیچے آجاؤ اس سے پہلے میری نیت مزید خراب ہوجائے___"

وہ اسراء کو حکم سناتا فوراً پلٹا تھا کے وہ بھی مسکراتی نفی میں سر ہلاتی اسکے پیچھے پیچھے چلی۔

________❤️ حیا خان ❤️________

نرمین ریڈی کھڑی تھی گلاب کے کلر کا خوبصورت سا فراک پہنتے بس وہ حجاب پہننے کو تھی جب کبیر اندر آیا اور اسے دیکھتا وہی جامد کھڑا رہ گیا۔ 

فل بلیک کلر کا سوٹ پہنے وہ خود نظر لگ جانے کی حد تک ہینڈسم لگ رہا تھا لیکن سامنے نرمین کبیر خانزادہ تھی جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ رکھتی تھی ۔ 

کبیر کو یوں ہی سٹل کھڑا دیکھ وہ مسکرا کر پلٹی تھی ۔ 

خان آپ بہت ہینڈسم لگ رہے ہیں___"

نرمین نے سچے دل سے تعریف کی تو کبیر قدم قدم چلتے اسکے قریب آیا ۔

لیکن تم سے زیادہ کوئی خوبصورت شے یہاں موجود نہیں ہے ___"

کبیر نے جھکتے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا تھا اور اس سے پہلے وہ اور کوئی جسارت کرتا "ولی کبیر خانزادہ" دھلڑے سے دروازہ کھولتا کمرے میں آیا تھا ۔ 

کے کبیر بوکھلاتے نرمین سے دور ہوا۔ اور ماتھے پر تیوری ڈالتے وہ اس چھوٹے کبیر کو دیکھنے لگا جو جب سے اس دنیا میں آیا تھا اسکی محبت کا دشمن بن گیا تھا ۔ 

ایک تو اسنے ساری خوبصورتی اپنی ماں سے چرائی تھی سوائے آنکھوں کے جو ہو بہو کبیر خانزادہ جیسی تھی ۔ ان دونوں کا مکسچر ولی کبیر خانزادہ بے تحاشہ ہینڈسم تھا کے کوئی ایک بار اسے دیکھ لے تو دوبارہ دیکھنے کی خواہش ضرور کرتا تھا ۔ 

بابا آپ میلی مولے کے اتتے قلیب کیوں کھلے ہیں__"؟

(بابا آپ میری مورے کے اتنے قریب کیوں کھڑے ہیں)

ماتھے پر تیوری سجائے وہ کبیر سے بولا تو کبیر غصہ سے اسے دیکھنے لگا کے وہ اسکا باپ تھا یا یہ چھوٹا پٹاخہ اسکا۔

کیونکہ یہ بیوی ہے میری اور میں باپ ہوں تمہارا ___"

کبیر نے ماتھے پر بل سجاتے کہاں تو وہ اسے اگنور کرتے اندر قدم قدم چلتا اپنی ماں کے پاس آیا ۔ 

مولے لُک آئے ایم ہینڈشم نا___"؟

(مورے look i am handsome نا)

وہ نرمین کے پاس آکر رکا تو نرمین مسکرا کر بستر پر بیٹھتی اسکے کالر پر لگی بؤ ٹھیک کرنے لگی جبکے کبیر حیرانی سے کھڑا اسکی ڈریسنگ اور اس کے تیور دیکھنے لگا۔ ولی کی ڈریسنگ کلر بلکل نرمین جیسا تھا ڈارک پنک کلر کا وہ پینٹ کوٹ پہنا تھا جبکے اندر وائٹ شرٹ پہنی تھی ۔ 

ہمارا بیٹا سب سے ہینڈسم ہے___" نرمین نے اسکا گال چوما تو وہ مسکراتا اسکے گلے لگ گیا ۔ 

میلی مولے بھی موشٹ بیوٹیفل ہیں___"

(میری مورے بھی most beautiful ہیں)

ان دونوں کے اس تبصرے پر کبیر ماتھے پر بل ڈالے اپنے بیٹے کو گھورنے لگا جو نرمین سے چپکتا اسکا گال چوم گیا تھا۔ 

اے اے کیا کررہے ہو یہ __؟ میری بیوی کو ایسے چومنے کی ضرورت نہیں ہے___وہ تمہیں چوم رہی ہے یہی کافی صبر کی بات ہے میرے لیئے ___"

کبیر ہڑبڑاتا اسے نرمین سے دور کرتا ہوا بولا تو وہ رونے کی تیاری کرنےلگا جسے دیکھ نرمین نے فوراً سے اسے اپنی بانہوں میں بھرا۔ 

کیا ہوگیا ہے خان آپ کا بھی بیٹا ہے اتنا جیلس کیوں ہوتے ہیں آپ ولی سے___" 

نرمین غصّہ سے کہنے لگی کبیر کو جو ماتھے پر بل ڈالے ولی کو گھور رہا تھا جبکے وہ مسکراتا اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا جیسے جانتا ہو اسکی ماں اسی کی سائیڈ لے گی ۔ کبیر کا بس نہیں چل رہا تھا اس آفت کی پڑیا کو اٹھا کر کسی کمرے میں بند کردے ۔ 

بس میں نے کہہ دیا تمہارے گال کوئی نہیں چوم سکتا یہ بھی نہیں___" 

کبیر کی بات پر ولی پھر آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیئے اپنی ماں کو دیکھنے لگا جو نفی میں سر ہلاتی اسے چپ کرانے لگی ۔

نہیں ہماری جان بابا آپ کو نہیں کہہ رہے__"

جبکے اسکی بات سنتے کبیر پیر پٹختا کمرے سے چلا گیا تھا ۔ نرمین بھی نفی میں سر ہلاتی ولی کو اپنے سینے سے لگا گئی تھی۔ 

______❤️ حیا خان ❤️_______

خان حویلی کے سبھی افراد اس وقت ضرغام کے گھر میں موجود تھے ۔ کیک کٹ ہونے کے بعد شاز اور فاز عینہ اور باقی سب بچوں کو لیتے مستیوں میں مصروف تھے وہی گھر کے سب بڑے ایک دوسرے سے باتوں میں مشغول تھے نرمین راحمہ اور اسراء ساتھ کھڑی تھی جبکے فردان ضرغام اور کبیر ایک ساتھ ۔ 

تیرا بیٹا تجھے ٹکر کا ملا ہے بیٹا ___ ساری زندگی تو نے مجھے جلایا ہے اب تیرا بیٹا تجھے جلائے گا جسے دیکھ مجھے تو کم سے کم بڑا سکون آئیگا ___"

ضرغام نے کبیر کو دیکھتے ہوئے بولا تو وہ پلٹ کر ولی کو دیکھنے لگا جو چھوٹی سی ٹانگ اپنی دوسری ٹانگ پر رکھے بیٹھا تھا اور دونوں ہاتھوں سے جوس کا گلاس تھاما ہوا تھا ۔ پھر کبیر نے خود پر نظر ڈالی ۔ وہ خود بھی ایک ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا۔ 

ولی خانزادہ ہمیشہ اپنے باپ کو کاپی کرتے اپنی ماں کو امپریس کرتا تھا ۔ اور کون نہیں جانتا تھا وہ پاگلوں کی طرح دیوانہ تھا اپنی ماں کا ۔  کبیر سے زیادہ صبح و شام ولی خان اپنی ماں کی شان میں اسکی خوبصورتی کے قصیدے پڑتا تھا۔ اب ایسے ہی تو جیلس نہیں ہوتا تھا کبیر اس سے ۔ 

واقعی تیری بد دعائیں لگی ہیں مجھے جو میرے بیٹے میں ایسا اٹیٹیوڈ آیا ہے___"

کبیر کی بات پر ضرغام اور فردان کا دلکش قہقہہ گونجا تھا ۔ 

یہ جو مجھے کاپی کر کر کے یہ اپنی ماں کو امپریس کرتا ہے نا کسی دن اچھے سے کلاس لونگا میں اسکی___"

کبیر نے گھور کر ولی کو دیکھا جو اپنے باپ کو دیکھتا سائیڈ سمائیل پاس کرگیا تھا ۔ اسے واقعی اپنے باپ کو جلانے میں بڑا مزہ آتا تھا۔ 

اور پھر یونہی انکی خوشیوں بھری زندگیاں آگے بڑھی تھی جہاں سب ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے پیار کرتے تھے چھوٹی موٹی نوک جھوک کے ساتھ ان سب کی زندگی ہنسی خوشی بسر ہوئی تھی۔ 

یاد رکھے گا زندگی کو فیری ٹیل ہمیشہ ہماری سوچ بناتی ہے۔ پرنس چارمنگ وہ نہیں ہوتا جو نیلی آنکھوں والا ہو کسی سلطنت کا بادشاہ ہو۔ بلکے اصلی پرنس چارمنگ وہ ہوتا ہے جو عزت کرنے والا ہو محبت کرنے والا ہو آپکو خوشیاں دینے والا ہو اپکا ساتھ دینے والا ہو۔ جو اصل میں ایک خوبصورت دل کا مالک ہو ۔ وہ ہوتا ہے اصل ہیرو اور ہماری زندگی کا پرنس چارمنگ 

ختم شدہ

If you want to read More the  Beautiful Complete  novels, go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Complete Novel

 

If you want to read All Madiha Shah Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Madiha Shah Novels

 

If you want to read  Youtube & Web Speccial Novels  , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Web & Youtube Special Novels

 

If you want to read All Madiha Shah And Others Writers Continue Novels , go to this link quickly, and enjoy the All Writers Continue  Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Continue Urdu Novels Link

 

If you want to read Famous Urdu  Beautiful Complete Novels , go to this link quickly, and enjoy the Novels ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Famous Urdu Novels

 

This is Official Webby Madiha Shah Writes۔She started her writing journey in 2019. Madiha Shah is one of those few writers. who keep their readers bound with them, due to their unique writing ✍️ style. She started her writing journey in 2019. She has written many stories and choose a variety of topics to write about


 Tera Khumar Romantic  Novel

 

Madiha Shah presents a new urdu social romantic novel Tera Khumar  written by Haya Khan. Tera Khumar by Haya Khan is a special novel, many social evils have been represented in this novel. She has written many stories and choose a variety of topics to write about Hope you like this Story and to Know More about the story of the novel, you must read it.

 

Not only that, Madiha Shah, provides a platform for new writers to write online and showcase their writing skills and abilities. If you can all write, then send me any novel you have written. I have published it here on my web. If you like the story of this Urdu romantic novel, we are waiting for your kind reply

Thanks for your kind support...

 

 Cousin Based Novel | Romantic Urdu Novels

 

Madiha Shah has written many novels, which her readers always liked. She tries to instill new and positive thoughts in young minds through her novels. She writes best.

۔۔۔۔۔۔۔۔

Mera Jo Sanam Hai Zara Bayreham Hai Complete Novel Link 

If you all like novels posted on this web, please follow my web and if you like the episode of the novel, please leave a nice comment in the comment box.

Thanks............

  

Copyright Disclaimer:

This Madiha Shah Writes Official only shares links to PDF Novels and does not host or upload any file to any server whatsoever including torrent files as we gather links from the internet searched through the world’s famous search engines like Google, Bing, etc. If any publisher or writer finds his / her Novels here should ask the uploader to remove the Novels consequently links here would automatically be deleted.

  

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages